حرف بہ حرف (ترجمے کے روزنِ دید سے’’عذاب ِ دانشِ حاضر‘‘ کا ایک مطالعہ) محمد سہیل عمر اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416-436-6 طبع اوّل : ۲۰۱۰ء تعداد : ۱۰۰۰ قیمت : ۳۵۰ روپے مطبع : شرکت پرنٹنگ پریس لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۳۷۳۵۷۲۱۴ فہرست دیباچہ ۵ آدمی اندر جہان ہفت رنگ برنگ دگر ۱۳ جعلی بستیاں ۴۳ اپنا آپ ۷۱ عرفانِ ذات ۷۹ انفرادیت پرستی ۹۳ عصر ما وارفتہء آب و گل است جدیدیت ۱۱۳ زوال، انحراف اور نشاۃ الثانیہ ۱۲۵ اسلام اور مغرب کے چیلنج ۱۳۹ مذہب اور سائنس ۱۷۵ کونیات اور جدید نفسیات ۱۸۹ قدیم اقوام کے درمیان روابط ۲۲۵ صحبت اہل صفا بیسویں صدی کا ایک ولی اللہ: شیخ احمد العلویؒ ۲۳۷ شیخ عیسیٰ نورالدین احمدؒ ۲۶۵ شیخ ابنِ تیمیہؒ: قادریہ سلسلہ کے ایک صوفی ۲۷۹ شیخ عبدالواحد یحییٰ ؒ(رینے گینوں): حیات و خدمات ۳۰۱ امام غزالی ؒ:فلسفے کا مخالف فلسفی ۳۳۳ امام غزالی ؒکے فلسفے میں تشکیک کی معنویت اورا ہمیت ۳۴۹ احمد غزالی ؒ اور محمد غزالی ؒ کے ایک دوسرے پر اثرات ۳۷۱ _______ دیباچہ علامہ اقبال نے تصور ِحقیقت کے حوالے سے ایک سوال کیا تھا: ’’چیست عالم، چیست آدم، چیست حق‘‘؟۱؎ ساری انسانی تاریخ میں، تمام تہذیبوں میں تصورِ خدا، تصورِ انسان اور تصورِ کائنات سے متعلق اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ایک ہی روزنِ دید تھا، حقیقت پر نظر کرنے کا ایک ہی دریچہ تھا: پیغامِ خدا وندی ۔ پھرایک انحراف ہوا۔ مغربِ جدید کی تہذیب کے فکری سفر کا رخ کسی اور جانب ہوگیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایک فکری انقلاب واقع ہوا۔ جدیدیت کا روزنِ دید کچھ اور تھا ، حقیقی اور غیر حقیقی کا تعین ایک اورزاویے، کسی اور دریچے سے کیا گیا تھا: تصورِ خداتبدیل ہوا، تصورِ انسان میں تغیر آیا اور تصورِ کائنات بدل گیا۔ ان کے جلو میں انسان، کائنات اورانسانی معاشرے کی ہر چیز کے معنی بدل گئے اور رفتہ رفتہ حیات وکائنات کی معنویت، جوازِوجوداور منتہا و مقصود کا سارا سوال بے معنویت کی نذر ہوگیا۔ انسان کی وہ مشترکہ میراثِ فکر جس کی ’’جلوہ گاہ تہ نقاب‘‘ پنہاں تھی رد کر دی گئی کہ ’’محفل نو‘‘ کی نگاہ ظاہر پرستی کی اسیر ہو چکی تھی۔۲؎ چمن ہست و بود ایک نئی ہوا کی زد میں تھا۔ ’’کچھ اورآج کل کے کلیموں کا طور‘‘ تھا۔۳؎ تاریخ فکرِ انسانی پر وحیِ خدا وندی کے بعد اگر کوئی چیز اس گہرائی و گیرائی سے اثر انداز ہوئی تھی تو وہ جدیدیت کا لایا ہوا یہ فکری انقلاب تھا! اس فکری انقلاب نے صحنِ مغرب سے نکل کر باقی دنیا اور عالم اسلام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ’’عہد نو‘‘ کی اس برقِ خرمن سوز سے کوئی صحرا، کوئی گلشن ایمن نہ رہا۔۴؎ ’’اس نئی آگ کا اقوام کہن‘‘ بھی ایندھن بنیں اور’’ملت رختم رسل ؐ بھی ’’شعلہ بہ پیراہن ‘‘ہو گئی۔۵؎ ’’دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش‘‘۔۶؎ اس مجموعے کے تینوں حصوں میں چند تحریریں قارئین کے سامنے پیش کی جارہی ہیں جو ترجمے کے روزن سے ’’عذابِ دانشِ حاضر‘‘ ۷؎ کے اس منظر نامے کا مطالعہ کرتی ہیں جو علامہ اقبال کی نظم و نثر کا محوری، مرکزی سوال رہاہے۔ عہد جدید کا ، دانشِ حاضر کا فکری مزاج کیا ہے اور یہ ’’مئے مغرب‘‘ دل کے ہنگامے کیوں خاموش کر دیتی ہے؟ فرنگ ’’دل کی خرابی ، خرد کی معموری ‘‘ ۸؎کیوں ہے ؟یہ کیسا فکری انقلاب ہے جس نے تصورِ خدا ، تصورِ انسان اور تصورِ کائنات (اوران کے باہمی ربط ) سبھی کو تلپٹ کردیا ہے! یہ ان تراجم کا مشترکہ ہدفِ تحقیق بھی ہے اور موضوعِ تنقید بھی۔ پہلا حصہ ’’آدمی اندر جہانِ ہفت رنگ‘‘ ۹؎ تصورِ خدا اور تصورِ انسان کو موضوع بناتا ہے اور ا س میں در آنے والے فساد کا تجزیہ کرتا ہے۔ دوسرا حصہ ’’عصرِما وا رفتۂ آب و گل است‘‘۱۰؎ تصورِ کائنات پر مرکوز ہے اور مختلف زاویوں سے اس پر تنقید کرتا ہے۔ تیسرا حصہ ’’صحبتِ اہل صفا‘‘ خدا اور بندے کے تعلق کی مختلف جہات سامنے لاتاہے اور چند تاریخی شخصیات کے حوالے سے ان پر نظر کرتا ہے۔ یہ سب تراجم مل کر ’’چیست عالم، چیست آدم، چیست حق‘‘ کے مرکزی سوال کو سمجھنے کا اشاریہ ترتیب دیتے ہیں۔ ’’اس نئی آگ‘‘ کے بارے میں جو چند باتیں ان تراجم کے وسیلے سے سیکھ پایا وہ دوسروں کے استفادے کے لیے ان اوراق میں محفوظ کر دیں۔ بقول علامہ اقبال ’’آج کا زمانہ ہندوستان میں اور طرح کا ہے۔ اس کی نبض شناسی ضروری ہے ۔‘‘ ۱۱؎ یہ مجموعہ، تراجم کے وسیلے سے ، اسی نبض شناسی کی ایک کوشش سے عبارت ہے۔ محمد سہیل عمر لاہور ، دسمبر ۲۰۰۹ء حوالے و حواشی ۱- اقبال، کلیاتِ اقبال، فارسی، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، ۱۹۹۴ء ،ص ۵۱۰۔ عالم از رنگست و بی رنگی است حق چیست عالم ، چیست آدم ، چیست حق؟ ۲- اقبال، کلیاتِ اقبال، اردو، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، ۲۰۰۹ئ، ص ۸۲۔ پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے ظاہر پرست محفلِ نَو کی نگاہ ہے آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں اے دردِ عشق! اب نہیں لذّت نمود میں ۳- حوالۂ بالا ، ص ۸۳۔ یہ انجمن ہے کُشتۂ نظّارۂ مجاز مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز ہر دل میٔ خیال کی مستی سے چُور ہے کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طُور ہے ۴- حوالۂ بالا ، ص ۲۳۴۔ عہدِ نَو برق ہے ، آتشِ زنِ ہر خرمن ہے ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گُلشن ہے ۵- ایضاً۔ اس نئی آگ کا اقوامِ کُہن ایندھن ہے ملّتِ ختمِ رُسُلؐ شُعلہ بہ پیراہن ہے ۶- حوالۂ بالا ، ص ۲۱۶۔ پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شرابِ خانہ ساز دل کے ہنگامے میٔ مغرب نے کر ڈالے خموش ۷- حوالۂ بالا ، ص ۳۹۱۔ عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ۸- حوالۂ بالا ، ص ۳۷۵۔ ۹- اقبال، کلیاتِ اقبال، فارسی، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، ۱۹۹۴ء ،ص ۴۸۱۔ آدمی اندر جہان ہفت رنگ ہر زمان گرم فغان مانند چنگ ۱۰- حوالۂ بالا ، ص ۷۳۶۔ عصر ما وارفتۂ آب و گل است اہل حق را مشکل اندر مشکل است ۱۱- اقبال نامہ ، شیخ عطا ء اللہ (مرتب )، اقبا ل اکادمی پاکستان، لاہور ، ۲۰۰۵، ص ۳۰۳۔ ظ ظ ظ آدمی اندر جہانِ ہفت رنگ m برنگ ِدگر m جعلی بستیاں m اپنا آپ m عرفانِ ذات m انفرادیت پرستی برنگِ دگر مضمون کا بیشتر حصہ انگریزی سے ماخوذ ہے۔ مصنف حسن عبدالحکیم Gai Eaton نے اسے اپنی کتاب King of the Castle کے مقدمے طور پر لکھا تھا۔ کتاب مغربی تہذیب کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ ہم نے ان مباحث کا اطلاق اپنے ہاں کی صورتِ حال پر کرنے کی سعی کی ہے کیونکہ ہمارے ہاں بھی اکثر مقامات پر متماثل صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے۔ بعض اعتراضات کا اطلاق اگر چہ بظاہر ہماری صورتِ حال پر ممکن نظر نہیں آتا تاہم ہمارے خیال میں وہ بالفعل نہ سہی تو بالقوہ ضرور موجود ہیں۔ وہ لوگ جن کوکسی متمدن شہر کی یونیورسٹی یا کالج کے شعبہ انگریزی، فلسفہ، نفسیات یا سماجیات کے آتش کدے سے گزرنے کا اتفاق ہواہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مغربی امداد اور مغربی ایجاد کے جلو میں نظریات کس طرح آئے ہیں اور ان کی چوٹ کہاں کہاں پڑتی ہے۔ ہمارا سارا معاشرہ نہ سہی مگر اس کا ایک اہم حصہ ضرور مغرب کی تقلید میں ’’روحانی ریگ زار‘‘ بن چکا ہے۔اس ریگ زار سے گزرنے والے ’’ماننے والوں‘‘کی پیاس اور کرب کا ایک اظہار یہ مضمون ہے۔ King of the Castle by Gai Eaton. ایک منظم اور صالح انسانی معاشرہ ان لوگوں سے کبھی تعمیر نہیں ہو سکتا جو ایسے معاشرے کی تخلیق کو اپنا بنیادی مقصد بنا لیتے ہیں۔۔۔۔ ایک اچھا معاشرہ صرف ان افعال، افکار اور محسوسات کی ضمنی پیداوار by product کے طور پر اُبھر سکتا ہے جن کا ہدف انسانی زندگی کے حوادث contingencies سے ورا ہو اور جن کا مقصود دارالخلد ہو۔۱؎ والذین جاھدوا فینا لنھدینّھم سبلنا ۲؎ کا تعلق جتنا تقویٰ و پارسائی سے ہے اتنا ہی سیاسی عمل سے بھی لہٰذا نرے عملی اقدامات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں بلکہ اعمال و افعال کی بڑی سے بڑی تعداد بھی ہمارے مسائل اس وقت تک حل نہیں کر سکتی جب تک اس میں یہ بنیادی شرط مفقود رہے گی۔ مگر ہم منافقت میں اپنی ترجیحات اور عقائد کا کھل کر اعلان نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ ہم ایک ذہنی دھندلکے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک زمانے میں یہ منافقت۳؎ کم ہو گئی تھی۔ اب مکالمہ پھر بند ہو گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو جس چیز کا قائل ہے وہ کھل کر اس کا ساتھ دے اور اعلان کرے۔ مسلمان صدیوں تک کفار، ہندوئوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ساتھ رہے ہیں اور پُر امن بقائے باہمی کے تحت رہے ہیں۔ اب بھی رہ سکتے ہیں۔ نظریاتی اختلاف کے یہ معنی کبھی نہیں رہے کہ مخالف کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ لہٰذا وہ لوگ جن کو بوجوہ اسلام کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کرنا منظور نہیں، یا کسی خارجی مجبوری یا داخلی کمزوری کی وجہ سے اسلام کے عقائد پر یقین نہیں رکھتے اتنی ہمت فراہم کریں کہ اس چیز کو کھلم کھلا قبول نہیں کر سکیں۔ ان کا کچھ نہیں بگڑے گا، ہاں ہمارا ضرور بھلا ہو جائے گا۔ مگر یہاں ایک سخن گسترانہ بات آ پڑتی ہے۔ ہم نے ابھی عقیدے کا لفظ استعمال کیا ہے اور عقائد کے اختلاف کا بھی (اس لیے کہ عمل عقیدے کا تابع ہے) اس لفظ سے ایک دشواری پیدا ہوتی ہے۔ مغرب کے اثر+ داخلی زوال سے عقیدے کا لفظ ایک جذبۂ جامدہ یا ’’منجمد جذبات‘‘ کا ہم معنی ہو کر رہ گیا ہے۔اس کے انگریزی مترادف beliefs کے بارے میں جاننے والے جانتے ہیںکہ اس میں جذبات کا عنصر کیسا غالب ہے۔۴؎ ہمارے ہاں عقیدے کا تعلق عقل سے ہے۔ عقیدے کے لفظی معنی اس چیز کے ہیں جو باندھنے والی ہو۔۵؎ دوسری بات اس سلسلے میں اہم یہ ہے کہ انسان کبھی بھی عقیدے کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ جہاں صحیح عقیدے غائب ہو جائیں وہاں ان کی بگڑی ہوئی شکل ضرور موجود ہوتی ہے خواہ ارتقائیت evolutionism یا ترقی progress کا بھوت ہی کیوں نہ ہو۔ ٹھیٹھ عقائد کی عدم موجودگی میں ماورا الطبیعیاتی اساس سے محروم، احمقانہ سائنسی نظریات ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ خانۂ خالی را دیو می گیرد۔۶؎ ہندوستان میں بھی سرسیّد تحریک اور لارڈ میکالے کے تازیا نے کا پہلا شکار عقائد ہی ہوئے تھے۔۷؎ علی گڑھ کی پہلی نسل نے عقائد سنے توتھے مگر ان کی بنیاد ’’جذبات‘‘ پر رکھی گئی تھی۔ دوسری نسل نے عقائد کا خانہ ہی خالی کر دیا۔نری ترقی رہ گئی۔اب وہ دونوں نسلیں ختم ہو رہی ہیں یا کم ازکم عملی زندگی میں اپنے اپنے اثرات کا زور دکھا کر مرجھا چلی ہیں۔ ان کے جانشین دین کے بارے میں وہی اور ویسا ہی جانتے ہیں، جوان کو مغربی مستشرقین نے بتا رکھا ہے۔۸؎ دنیاکی ہر مذہبی اور غیر مذہبی روایت میں تین عقائد بنیادی ہیں جو ظاہری سی چند تبدیلیوں کے علاوہ ایک ہی ہیں : ۱- حقیقت مطلقہ کا اثبات، جو ماورا الطبیعیاتی ہے، یعنی وجود کے دائرے سے باہر۔ ۲- مبدا۹؎ ۳- معاد۱۰؎ سبھی روایتیں اس پر متفق ہیں کہ حیاتِ ارضی عرضیaccident ہے جو حقیقت مطلقہ کے جوہر سے قائم ہے۔ جس مرتبۂ وجود میں اس عالم شہود کی انسانیت اس وقت ہے نہ وہ پہلے ایسا تھا نہ آئندہ ایک خاص وقت کے بعد ایسا رہے گا۔ ہم جہاں سے آئے تھے واپس لوٹ جائیں گے۔ اسی بات کو برنگِ دگر کہیں تو یوں ہو گا کہ ہمارے لیے موت کے بعد ایک اور قسم کی حیات ہے جس کی نوعیت و آثار و شرائط modalities فی الوقت ہمارے قیاس کی زد میں نہیں آ سکتے۔ اس آنے والے دور میں ہمارے استمرار کی کیفیت اور نوعیت کا فیصلہ حیاتِ ارضی (یا عرضی) میںہمارے کردار و عمل کو پرکھ کر ہونا ہے۔ اسی چیز کو ہم حشر، آخرت اور جزا و سزا کہتے ہیں۔ اب ذرا اپنے دل سے پوچھ کر بتائیے اور پھر گردو پیش کا جائزہ لیجیے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس کا حضوری یا شعوری علم رکھتے ہیں اور جن کا عمل اس کی گواہی دیتا ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم میں سے اکثریت کے لیے آخرت کا عقیدہ یا تو ایک من گھڑت افسانہ ہے یا پھر ایک ازکار رفتہ مفروضہ۔ جو لوگ زبان سے اقرار نہیں کرتے ان کا بھی عمل اس پر چغلی کھاتا ہے کہ وہ موت کو اٹل جانتے ہوئے ۱۲؎ بھی اسی دور حیات کو اوّل و آخر سمجھتے ہیں اور حیات بعد الموت کا تصور ان کے لیے بھی کوئی معنویت نہیں رکھتا، یا وہ کم از کم تشکیک میں ضرور مبتلا ہیں۔ مگر یہاں تو نہ عقیدے سے انکار کرتے ہیں نہ اس کے متوافق عمل کرتے ہیں۔ نہ صاف چھپتے ہیں نہ سامنے آتے ہیں۔ جبھی تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ اگر آج کا کوئی آدمی کسی طرح گزرے ہوئے وقت میں کسی بعید زمانے میں پہنچ جائے اور اس عہد کے لوگوں سے گھل مل جائے تو بہت سی باتوں میں یا تو اس کو اپنے اوپر جنون کا گمان ہو گا یا اس دور کے لوگوں کے پاگل ہونے کا احساس ہوگا۔ پہاڑ، دریا، اور نیلگوں آسمان تو اس کے جانے پہچانے ہوں گے مگر ان کو اس دور کے لوگ اس انداز سے قطعاً نہیں دیکھتے ہوں گے جس نقطۂ نظر سے وہ دیکھ رہا ہوگا۔ اسے یہ تو پتا ہوگا کہ حسِ سلیم common senseکیا چیز ہے اور نارمل انسان کسے کہتے ہیں؟ ___ یہی بات اس دور کے لوگوں کو بھی معلوم ہو گی ___ مگر اس کی حس سلیم ان سے مختلف ہوگی اور اس کا عام اور معیاری، ان کے لیے غیر معمولی اور منحرف ہوگا۔ ان کے مسلمات اس کے لیے سوالیہ نشان ہوں گے، اور وہ پریشان ہوگا کہ انھوں نے ان کو بے چون و چراں کیونکر مان رکھا ہے؟ اسی طرح وہ تمام باتیں جن کو وہ مسلم اور بدیہی سمجھتا ہو گا، ان کے سوالوں کی زد پر ہوں گی۔ اس کے ’’کیوں‘‘ کا سامنا اُن کے ’’کیوں‘‘ سے ہوگا اور جواب کا اسے کچھ پتا نہ ہوگا۔ اپنے موجودہ مقام پر کھڑے ہو کر ہم یہ سوچنے میں شاید حق بجانب ہوں کہ پچھلے زمانے اور دوسری ثقافتوں کے لوگوں کے اعتقادات اور خیالات کتنے محدود تھے، کتنی ہی راہوں کاکسی نے کھوج نہ لگایا تھا اور کتنے ہی امکانات ضائع کر دیے جاتے تھے اور اب ہم ’’ترقی‘‘ کرکے ’’کامل درجے کی سویلیزیشن‘‘ بن گئے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی فرض کر لینا بڑا آسان ہے کہ ہم اپنے تناظر کی تبدیلی کی وجہ سے بصارت انسانی اور فکرِ انسانی کی خلقی قیود سے آزاد ہو گئے ہیں جب کہ ہماری تمام حسیات اور ہمارے سارے قویٰ اور صلاحیتیں وہی ہیں جو پہلے تھیں، ہم کوئی نئی نوع species نہیں بن گئے۔ دریں صورت اپنے نقطۂ نظر یا اپنی دیدِ دنیا world view کا کسی دوسرے سے موازنہ کرنا فقط دو مختلف قسم کی قیود کا موازنہ ہے اور بس! ___ بندشیں دونوں ہی ہیں۔ اس کی مثال بالکل وہی ہے کہ گویا جیل کا کوئی قیدی فرار ہونے کے لیے سرنگ کھودتا ہوا جیل کے احاطے میں ہی نکل آئے یا اسی جیل کی کسی اور کوٹھڑی میں جا نکلے۔ اس طرح قید خانہ تو وہی رہے گا، ہاں مقام بدل جائے گا، اور یہ حالت برقرار رہے گی تا آنکہ قیدی کو یہ احساس نہ ہو جائے کہ آزادی کسی اور ہی جہت میںواقع ہے ___ وقت میں سرنگ کھودنے سے بھی کبھی آزادی میسر نہیں آئی۔ اس کی جہت بھی بالکل الگ ہے۔ پچھلے لوگوں کی طرح ہم نے بھی انبوہِ ممکناتِ انسانی میں سے چند مخصوص مقاصد چن لیے ہیں اور ان ہی کی طرح ہر اس چیز کو پس پشت ڈال رکھا ہے جو ان مقاصد سے لگانہ کھاتی ہو۔ ان مقاصد کا تعین ان مفروضوں سے ہوتا ہے جن کو ہم مسلمہ سمجھتے ہیں یا ان بدیہیات سے جن کو بلادلیل مانتے ہیں یا ان اخلاقی لوازم moral imperitives سے جن کو ہم اپنا ثبوت آپ سمجھتے ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے خیال میں بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ___ ہم مخلوقِ مفکر rational creature تو یقینا ہیں مگر فکرِ انسانی خلا میں کام نہیں کرتی، نہ ہی وہ استدلال کے مقدمات اپنے جوہر سے پیدا کر سکتی ہے۔ اسے بہرحال کہیں سے اپنا آغاز کرنا ہے لہٰذا چندبنیادی قضیوں propositions کو بدیہی ماننے کے بعد ہی انسانی دماغ کام کرنا شروع کر سکتا ہے اور …… فکر کا آغاز جس طرح صحیح مقدمات سے ہو سکتا ہے اسی طرح بالکل غلط مقدمات پر بھی اس کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً: کسی تاریک جگہ میں کوئی آدمی رسی کے لچھے کو سانپ سمجھ لیتا ہے، اس کے بعد اس کی منطق بالکل درست اور اس کا رویہ قطعاً معقول ہوگا مگر رہے گا وہ غلطی پر۔ بنیادی قضایا اور مسلمات سے ہی بعد میں آنے والی تمام باتوں کا تعین ہوا کرتا ہے۔ موجودہ دور کی بدیہیات اور مسلمات کا ناقدانہ جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ایک بالکل مختلف تناظر کے خدوخال واضح کر دیے جائیں جس کے حوالے سے ہم آج کی بلا ثبوت مانی ہوئی مسلمہ باتوں کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی خود کو اپنے دور اور اپنے ماحول کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہیں کروا سکتا۔ شعوراً یا غیر شعوری طور پر ہم سب کسی نہ کسی حد تک اپنے اپنے جنگل کی بیلوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور بڑے مزے میں ہیں یوں کہ گویا وہ بھی ہمارے نفوس کو توسیع ہیں اور ان کا ہمارے طرز احساس اور طرز فکر سے گہرا ربط ہے۔ ان علائق سے اپنے آپ کو بالکل توڑ لینا مشکل تو ضرور ہے مگر چونکہ ہم انسان ہیں اس لیے ناممکن بھی نہیں۔ زمین و آسمان کے درمیان تمام جاندار مخلوقات اور ہر زیبائشِ ارضی میں سے صرف انسان ہی میں یہ صلاحیت ہے کہ خود کو اپنے زمانی سانچے سے کسی حد تک علیحدہ کر سکے۔ مگر آزاد ہونے کا مطلب خلا میں تیرنا نہیں ہے۔ ایک اخلاقی اور فکری ارضِ لا وارث… no man's land میں تو کوئی بھی نہیں جی سکتا۔ اپنے زمانے کے لوگوں کے پائے استدلال پر ناقدانہ اور معروضی نگاہ ڈالنے کے لیے خود اپنے پیروں تلے پختہ زمین ہونی چاہیے۔ اسی طرح اپنے زمانے کے روگ کی تشخیص کے لیے پہلے ہمارے پاس صحت کا ایک معیار بھی ہونا ضروری ہے۔ ہمیں جو کچھ کہنا ہے وہ معیاری۱۳؎ normal انسان کے اس تصور کے حوالے سے ہے جو اس کے بارے میں ہمیشہ ہر زمانے اور ہر ثقافت میں رکھا گیا۔ ہر ثقافت میں انسان کی فطرت اور اس کے مرتبہ کا تصور ایک ہی رہا ہے، سوائے موجودہ مغربی تہذیب کے، اور وہ تصور تھا ایک دو پایہ مخلوق کا جواپنی نیلی سبز دنیا میں اپنے رب کے روبرو ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ صرف ایک ناقابل تغیر معیار کے حوالے سے اس تلاش کا آغاز ہو سکتا ہے کہ انسانوں کو زندگی میں کون کون سے اختیارات حاصل ہیں اور ان کے ذمے کیا فرائض ہیں؟ معاصر مغربی تہذیب کی خواہ تحسین کی جائے یا تنقیص، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ تہذیب انسان کے ماضی قریب تک کے افکار وا عمال کے حوالے سے نہ صرف مختلف اور انوکھی ہے بلکہ غیر معمولی بھی ہے یعنی abnormal ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہ غیر معمولی ہونا تاریکیوں سے نکل کر عقل کی روشنی میں آنے کی علامت ہے۔دوسری طرف کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ایک مہلک مرض کا اختتامی درجہ ہے تاہم اس سے کسی کو انکار نہیں کہ یہ مختلف اور اجنبی ہے۔ گویا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہو جو سطح ارضی پر اُتر کر قابض ہوگئی ہو۔ آج کے انسان کو ہم خواہ دیوتاکہیں، خواہ عفریت، مگر یہ حقیقت ہے کہ آج سے پہلے کبھی بھی اور کہیں بھی ایسی چیز موجود نہیں رہی۔ اگرہم غیر معمولیabnormalکی جگہ ’’مسخ شدہ‘‘ کا لفظ رکھ دیں تو معاملے کو سمجھنے میں غالباً کچھ اور آسانی ہو گی۔ مسخ شدہ deformed کے معنی یہاں ہوں گے ’’اس کا مغضوب جو جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے‘‘ (واللّٰہ جمیل و یحب الجمال) اس پر طرہ کہ یہ مسخ شدہ مخلوق اس گمان میں ہے کہ انسان سے مراد ہمیشہ سے صرف وہی کچھ رہی ہے جو وہ خود ہے اور یہ انسانی فطرت کی تعریف اپنی فطرت، اپنی کمزوریوں اور اپنے سیئات کے حوالے سے متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر کبھی اسے یہ احساس ہو بھی کہ انسانی حالات اور رفتارِ زمانہ میں بہت ابتری ہے تو بھی اس کا تجزیہ وہ موجودہ ارتقائی آدرش کی روشنی میں کرتی ہے اس مخلوق کو یہ سمجھانامحال ہے کہ یہی آدرش اور مقاصد ہی سرے سے غلط ہیں اور ہماری دشواریاں اور دکھ راہ منزل میں حائل رکاوٹوں کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ ہمارا ابتدائی انتخابِ منزل ہی غلط ہواہے۔ نظریۂ ارتقا کے غبارے کی ہوا تو کب کی نکل چکی مگر اس پر ایک توہم پرستانہ اعتقاد اب بھی باقی ہے بلکہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تو ابھی تک اس احمقانہ اور فکری فتور کی پیداوار نظر یے کو صحیح سمجھا جاتا ہے۔ اس وہم نے اپنی جڑیں اس طرح پھیلائی ہیں کہ لوگوں کو اس کے خلاف کوئی بات سمجھانا کارِ عبث بن گیا ہے۔یہی نہیں بلکہ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ اس سراسر غلط، بے بنیاد اور پُر فریب نظریے کے خلاف کوئی چیز نہ چھپنے دی جائے۔ امریکہ کا وہ سائنس دان جس نے اس کی تردید میں ایک مدلل کتاب The Transformist Illusion لکھی تھی۱۴؎ اس حد تک دبائو کا شکار ہوا کہ اسے مجبوراً ریاست ٹینی سی کے ایک دور افتادہ قصبے سے جا کر اسے چھپوانا پڑا۔ شیخ عبدالواحد یحییٰ کی فرانسیسی، انگریزی کتابیں جس طرح دبائی گئیں اور ان کے خلاف جس طرح کی سازشِ سکوت کی گئی وہ ہم پہلے ایک مضمون میں بیان کر چکے ہیں۔ بہرکیف آمدم برسر مطلب، اگر کسی طرح اس مخلوق کو کچھ سمجھا بھی دیا جائے تو پھر اس کا رد عمل بغیر سوچے سمجھے کے تباہ کن اقدامات میں ظاہر ہوتا ہے۔شاید لوگوں کا خیال ہے کہ مسائل کو پلک جھپکتے، جھٹ پٹ حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات ان کی عقل میں نہیں آتی کہ اس قسم کے حل ___ انقلاب اصلاح، نئی قانون سازی، مزید تکنیکی ترقی اور زمین کے ذخائر کے وسیع تر استحصال___ سے زیادہ تر صرف مزید شرِ بے لگام ہی کی پرورش ہوتی ہے۔ اگر یہ تسلیم کرلیں تو شاید ذرا سکون سے سوچنے دیکھنے، سننے پر آمادہ ہو سکیں بلکہ شاید پر چھائیوں کے ساتھ رہنا سیکھ لیں۔ پر چھائیاں، جن کا دن کی روشنی سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مختصر یہ کہ نسل انسانی کے مستقبل کے بارے میں غیر معمولی تشویش جو آج کل کے لوگوں کے دماغ میں بھری ہوئی ہے وہ ایک بالکل جدید شے ہے۔ رجائیت کے بغیر بھی زندگی ممکن ہے، اور بھلی چنگی ممکن ہے۔ اسی طرح ہم تشائم پرستوں pessimists کی قنوطیت کے بغیر بھی گزر کر سکتے ہیں جن میں سے بیشتر اصل میں صرف مایوس رجائی optimists ہوتے ہیں۔ ان جذباتی بلبلوںکی ہمیں موجودہ حالات میں کوئی ضرورت نہیں نہ ہی اسلامی نقطۂ نگاہ سے ان میں کوئی معنی ہیں۔ مسلمان یہ بات آسانی سے نہیں بھولتے کہ بحیثیت مرد و زن ہم سب کو ایک دن یقینا مرنا ہے اور معاشرے، تہذیبیں اور دنیائیں بھی ہماری طرح فانی ہیں: کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۱۵؎ ابدیت الاحد ہے اورصرف الاحد ہی سرمدی ہے۱۶؎ ایک اعتبار سے ہمیں اتنا جاننا بہت ہے اور باشعور آدمی کا رویہ ایسا ہی ہواکرتا ہے جیسا ایک ڈرامے کے اداکار کا جسے ذرا پرواہ نہ ہو کہ اس کے ڈرامے کے ختم ہونے کے بعد تھیٹر کا کیا ہو گا خواہ کبھی کبھی وہ بطور فیشن کے انسانی مستقبل کے بارے میں تشویش کا دکھاوا ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ مسلمانوں کا تو خیر ہے ہی، قدیم عیسائیوں کا بھی عقیدہ یہی تھا کہ دنیا اور اہلِ دنیا خدا کے دستِ قدرت میں ہیں جس کی مشیت بدل نہیں سکتی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ہمیں ایک ہزار برس تک جینے کی مہلت دیں، سو برس کی مہلت دیں یا کل کا دن ہمارے لیے آخری ہو کیونکہ تقدیر سے کسی کو مفر نہیں اور بالآخر سب ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ہمارا کام یہ ہے کہ ابھی اور یہاں وہ فرض منصبی پورا کریں جس کے لیے ہم پیدا کیے گئے ہیں۔ فی الوقت ہماری تحریر کا تعلق ا س سے ہے کہ انسانی فطرت کے روایتی تصور کے حوالے سے انسان ہونے کے معنی کیا ہیں؟ انسانی فطرت کے روایتی تصور اور معاصر تصور میں، جو موجودہ انسان کے آئینہ خیال میں اس کا اپنا عکس ہے،کوئی قدرِ مشترک نہیں۔ موجودہ تصورِ انسان میں انسان کو ایک ایسا چالاک جانور سمجھا گیا ہے جو زمین کی دولت سمیٹنے کے لیے پیدا ہوا ہے خواہ اس سے ذاتی لذت اندوزی مقصود ہو یا معاشرے کی خدمت اور اسی کا رِعبث میں اس کے شرارۂ حیات کی چمک ختم ہو جاتی ہے اور وہ قبر کی تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔ روایتی تصور کے مطابق انسان کا مقصد یہ ہے کہ ایک ’’علامت‘‘ بن کر رہے۔ النور کی ایک علامت۔ نہ کہ ایک بے ثبات اور ناپائیدار انفرادیت کی طرح۔___ سورج کی شعاع کے راستے میں چند لمحوں کے لیے آنے والے خاکی ذرات میں سے ایک۔___ بطور علامت زندہ رہنا ہی ایک لحاظ سے انسان کی (کَمَاھُوَ) as such نمائندگی کرنا ہے۔ اس طرح انسان کے منصب کی رفعت ایک طرف تو آسمان کو چھو نے لگتی ہے اور دوسری طرف اس کی وسعت بعید ترین اُفق تک پھیل جاتی ہے۔ مگر چونکہ انسان ایک ناتمام اورکسری fragmentry مخلوق ہے۔ اسے کمال کی تلاش رہتی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو فی الحقیقت حاصل کر سکے۔ مسلمانوں کے لیے یہ تکمیل اُسوہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے متوازی عیسائیوں کا نظریۂ اتباع مسیح Imitation of the Christ ہے۔ اس کے متبادلات دوسرے مذاہب میں بھی ہیں لیکن کسی جگہ بھی صرف انسان کی شخصی صلاحیتوں کو کافی نہیں سمجھا گیا۔ ہر روایت میں اس ناتمام مخلوق کو جو صرف اپنے ہی آلات پر اور اپنی ہی تدابیر پر بھروسہ رکھتی ہو، جس کے سامنے کوئی قابلِ تقلید نمونہ نہ ہو ___ اپنے آقا سے محروم آدمی کو ___ ایک آوارہ کتا سمجھا گیا ہے جو انسانی آبادیوں کے باہر اپنی غذا کے لیے مارا مارا پھر رہا ہو۔ ناول، ڈرامے اور فلم کی شکل میں ہم اپنے آپ کو جو آئینے دکھا رہے ہیں ان میں انسان کا یہی کردار جھلک رہا ہے۔ ایک آوارہ کتے کا کردار ___ اور یہ کردار ایک دور افتادہ، روشنی سے محروم ویرانے میں ادا کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ہمارا موجودہ ماحول اس دنیا سے جس میں پچھلے زمانوں کے لوگ بستے تھے، اتنا دور ہو چکاہے کہ اس فاصلے کو ناپنے کا ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں رہا۔ اس کا بُعد ہم صرف چند تمثیلوں کے ذریعے بیان کر سکتے ہیں جو شاید آپ کو نری خیال آرائی معلوم ہوں۔ موسمِ بہار کے ایک منظر کا تصور کیجیے جو اگرچہ ہماری محدود نظر کی وجہ سے محدود لگتا ہے مگر حقیقتاً غیر محدود ہے۔ جہاں تک ہماری نظر کام کر رہی ہے پہاڑ، وادیاں، جنگل اور دریا پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے اختراع پسند دماغ میں جو کچھ آ سکے اس میں فرض کر لیجیے۔ اب فرض کیجیے کہ ان لامحدود وسعتوں میں کسی جگہ ایک بچہ ہوا میں بلبلے اُڑا رہا ہے جو سورج کی روشنی میںچمکتے زمین و آسمان کے بیچ تیر رہے ہیں۔ اب اپنی کائنات کو ایسا ہی ایک بلبلہ فرض کر لیجیے جس میں ہماری دنیا یعنی زمین اپنے تمام مشمولات سمیت اور چاند ستارے اور سورج سب شامل ہوں ___ ایک حبابِ تنہا ___ اس بچے کے بلبلوں کی طرح، یہ بھی ہمارے مفروضہ منظر کا حصہ ہے۔یہ موجود تو بہرحال ہے مگر ہے بہت ہی چھوٹا سا اور چند لمحوں میں اسے ختم ہو جانا ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے اس تعلق کو بیان کرنے کا جو ہماری دنیا کو اس عالم سے ہے جو اس سے ورا ہے۔ یہی روایتی تصورِ کائنات ہے۔ چلیے اسی تمثیل کو آگے برھائیں: بلبلے کی سطح باہر کے منظر کو منعکس کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ شفاف بھی ہے کہ اس کے آرپار نظر آتا ہے۔ جو لوگ اس بلبلے کے اندر رہتے ہیں وہ باہر کے منظر سے کئی مختلف انداز میں آگاہ ہو سکتے ہیں۔ وہ جن کی نظر کمزور یا غیر تربیت یافتہ ہو گی بیرونی منظر کے وجود کا قیاس کریں گے اور تیز نظر والوں کے بتائے کو مان کر اس پر ایمان لے آئیں گے۔ دوسرے چند لوگ جو بلبلے پر خارجی منظر کے انعکاس کا ادراک کر لیں گے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ اس کے اندر جو کچھ ہے عکس سے زیادہ کچھ نہیں اور اس کی اپنی بالذات ہستی کچھ نہیں۔ تیسری قسم کے تھوڑے سے لوگ وہ ہوں گے جو ایک معجزۂ نظر کے طور پر اس بلبلے کی شفاف دیوار کی حقیقت پہچان لیں گے۔ ان کی نگاہ اس باریک جھلی کے پار بھی دیکھ سکے گی جو دوسروں کے لیے دھندلی ہے اور وہ ایمان کے علاوہ مشاہدہ بھی کررہے ہوں گے۔ یہ تینوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہوتے ہیں مگر ان کاباہمی اختلاف اس اختلاف کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ان تینوں کو ان لوگوں سے جدا کرتا ہے جو بلبلے ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ اس ننھے سے دائرے کے باہر بھی کوئی حقیقت ہے۔ اہلِ ایمان اور اہلِ نظر (یا اہلِ کشف) کے لیے جو حق ہے وہ ان کے نزدیک فریب ___ ان دونوں کے درمیان کوئی مشترک زبان موجود نہیں۔ تجربات میں آنے والی اشیا تک کو دونوں نے جو نام دے رکھے ہیں، ان سے ایک کی مراد کچھ ہے دوسرے کی کچھ۔ جو آدمی نابینا ہو وہ تو پھر بھی دوسروں کی بتائی ہوئی دنیا پر یقین رکھتا ہے،خواہ اس کا تصور کر سکے یا نہ کر سکے مگر یہ دل کے اندھے تو نظر کے وجود ہی سے منکر ہیں۔ اسلام کے حوالے سے یہ ماننے اور نہ ماننے والوں کا فرق وہ سب سے بنیادی فرق ہے جو انسانوں کے درمیان کیا جا سکتا ہے۔ اس کے سامنے طبقاتی یا نسلی اختلاف بلکہ مزاجوں اور کردار کے اختلاف کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ یہ نہ ماننے والے، صرف وہ نہیں ہیں جو کسی خاص عقیدے میں شریک ہونے سے گریز کرتے ہیں بلکہ یہ ’’کافرون‘‘ ہیں جو حق کو چھپاتے ہیں۔ جنھیں پردئہ فریب نے ڈھانپ رکھا ہے اور جن پر یہ فریب ایسا مسلط ہے کہ انھیں حقیقت کے حلقۂ اثر میں آنے نہیں دیتا۔ جو نورِحق سے اس طرح کٹے ہوئے ہیں کہ گویا وجوھہم مسودۃ. ہندومت میں بھی اسی طرح، ’جاہل ‘اور ’عارف‘ میںواضح تمیز کی گئی ہے۔ زمانۂ جدید میں اپنا ایمان برباد کر لینے سے پہلے تک عیسائی بھی ’’نہ ماننے والوں‘‘ اور مبتدعین کو مار ڈالنا زیادہ مناسب سمجھتے تھے بہ نسبت اس کے کہ ان کے اندھے پن کی چھوت دوسروں تک پہنچے۔ یہ سخت گیری خواہ آج کے لوگوں کو کتنی ہی نفرت انگیز کیوں نہ معلوم ہوتی ہو (کیونکہ ان کے لیے اس بلبلے کے باہر کی ہر چیز یا تو نری من گھڑت ہے یا نیک تمنا) اس سے یہ نتیجہ نکالنا بالکل غلط ہو گا کہ قدیم عیسائی انسانی ہمدردی سے عاری تھے۔ ہاں انھیں ایسے لوگوں کی جاں بخشی میںکوئی بھلائی یا نیکی نظر نہیں آتی تھی جو سر چشمۂ خیر ہی میں زہر گھول رہے ہوں اور اپنے ہمسایوں اور اقربا کے نفوس خطرے میں ڈال رہے ہوں۔ موجودہ صدی میں انسانوں کی جتنی کثیر تعداد محض سیاسی آرا اور لا دین نظریات کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دی گئی ہے اس کے بعد کسی کا اپنے آپ کو راست باز سمجھنے یا ’’مذہبی تشدد‘‘ fanaticism اور اختراع فی الدین اور کفر کے استیصال کے لیے ہونے والی مذہبی جنگوں پر نظرِ حقارت ڈالنے کا کیا منہ رہ جاتا ہے؟ سیّدنا محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی ایک حدیث مبارکہ ہے جو ہماری معلومہ دنیا اور اس سے سوا اور ورا عالم میں اختلاف نسبت کو ظاہر کرتی ہے۔ آپ ؐنے فرمایا: مجھے قسم ہے اپنے رب کی کہ یہ دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں اپنی ایک انگلی ڈبو کر نکالے اور اس پر جو پانی لگا ہو اس کا مقابلہ سمندر سے کیا جائے۔ ایک چھوٹے سے قطرے اور سمندر کے درمیان کوئی مشترک پیمانہ ممکن نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پچھلے زمانے کا ہر ماننے والا ہندو مسلم یا عیسائی اپنے تجربے میں آنے والی روز مرہ کی دنیا اور اس پر محیط بحرِ حقیقت کے درمیان عدمِ تناسب سے واقف تھا۔ پارسائی کے لیے ایسی آگاہی کی ضرورت بھی نہیں۔ کسی مذہبی عقیدے کی اساسی صداقت کا فیصلہ اس کے ماننے والوں کے درمیان رائے شماری سے نہیں ہوا کرتا۔ جس لمحے ہم ایک وحی پر مبنی دین کی بات کرتے ہیں، جو نہی ہم اللہ یا ماوراء الطبعی (یا قرآن کے الفاظ میں عالمِ غیب) کا ذکر کرتے ہیں تو یہ عدمِ تناسب مابین عالمین اس میں مضمر اور محذوف ہوتا ہے اور ہر قول و فکر میں اس کا رنگ جھلکتا ہے۔ اسے خارج کر دیجیے اور وہ کمانی ہی غائب ہو جائے گی جس پر سارا مذہبی ڈھانچہ حرکت کرتا ہے۔ اس کے بغیر دین لے دے کے بس ایک جذباتی مثالیت پرستی Idealism بن کر رہ جاتا ہے یا پھر خیالی پلائو۔ ایک دنیا زدہ یا دنیا تک محدود دین جس کی سطح وہی ہوتی ہے جو کسی بھی لا دین نظریے کی۔ تاریخ کے ایک ایسے دور میں جب ’’معلومات‘‘ کا بُت بنا کر پوجا جاتا ہو اور لوگ باگ گزشتہ زمانوں کی ’’جہالت‘‘کی تضحیک و استہزا کرتے نہ تھکتے ہوں، ایک ایسے موضوع کے بارے میں حیران کن جہالت پائی جاتی ہے جو چند نسلیں پہلے تک سب سے اہم موضوع سمجھا جاتا تھا اور دنیا کی کم از کم نصف سے زیادہ آبادی اسے آج بھی اتنا ہی اہم سمجھتی ہے۔ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ مغربی تہذیب سے متاثر طبقہ کیسی محدود زندگی گزارتا ہے۔ ’’تعلیم یافتہ‘‘(مراد ہے صرف مغربی تعلیم یافتہ) لوگوں میں بحیثیت مجموعی دین اور اس کی ماوراء الطبیعیاتی اساس کے بارے میں ہی نہیں بلکہ (اگر وہ کسی دین سے وابستہ ہونا گوارا کریں تو) ان کے اپنے دین کی ابتدائی باتوں کے بارے میں ایسی گہری اور اس مقدار میں جہالت پائی جاتی ہے کہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ دین کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا افریقہ کے بونے جوہری طبیعیات nuclear physics کے بارے میں۔ اس پر مستزاد یہ کہ تعلیم یافتہ لوگ اپنے زورِ جہالت کے بل بوتے پر دین کے بارے میں ٹھکی بندھی، قطعی اور ادعائی رائے زنی میں ذرا ہچکچاہٹ نہیںمحسوس کرتے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے سکولوں میں عموماً جو دینیات پڑھائی جاتی ہے اس میں عقائد نام کی کوئی چیز شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ نہ ہی لا دین اور دینی فکر میں تمیز کرائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی چند سورتیں بعض اوقات تبرکاً شامل کر دی جاتی ہیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ہوجانا چاہیے۔ مضامین کے اس سلسلے میں آئندہ بھی جو کچھ ہم پیش کریںگے اس میں ’’فکرِ جدید‘‘ کے بہت سے حصے کو ہم نے درخور اعتناہی نہیں سمجھا۔ ہمارے خیال میں وہ اس قابل ہی نہیں کہ اس کے بارے میں رائے ظاہر کرنے میں وقت ضائع کیا جائے لہٰذا اس فکر کے حاملین کے بلند بانگ دعووں کے باوجود ہم نے ان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ ان ’’مفکرین‘‘ نے بھی اس ساری فکر کو یونہی خارج از بحث کر دیا تھا جسے ابھی کچھ عرصہ پہلے تک، صدیوں سے دنیا بھر کے اشرف و عقل مند اور زیرک ترین معلومہ شخصیات نے فکرِ انسانی کا جواز اور اس کا وقار قرار دیا تھا۔ جدید مفکرین کے خیال میں اگر انسان دورِ جدید کے آغاز سے پہلے تک یعنی انسانیتِ ارضی کے سینکڑوں گزرے ہوئے سالوں میں لایعنی، احمقانہ اور جاہلانہ اندازمیں سوچتا آیا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اب بھی اس کے حمق و جہل کے امکانات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ آج بھی کسی لایعنی سوچ پر جان دے سکتا ہے بلکہ دے رہا ہے۔ دورِجدید کے مشہور نظریۂ موجودیت یا زیست پرستی existentialism ہی کو لے لیجیے جس کے بارے میں ہم نے اپنے شیخ سیّدنا عیسیٰ نور الدین احمدکو کہتے سنا ہے کہ : Existentialism is the esoterism of stupidity ’’وجودیت، حماقت کی با طینت ہے‘‘۔۱۷؎ اس مقام پر نظریۂ ارتقا کو بھی اپنی مدد کے لیے پکار نے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ ہم اسے دیوانے کی بڑ زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ انسان کے ماضی کی ساری داستان ایک عروج سے زوال کی داستان ہے۔ روحانیتِ خالص سے بڑھتی ہوئی مادیت کی طرف پیش قدمی کا رزمیہ ہے۔ اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ میں تنزل ہی واقع ہوا ہے ارتقا نہیں۔ لہٰذا اگر وہ صدیوں سے احمق مانا جائے تو اب بھی احمق رہے گا اور اگر اس کے پاس آج کچھ سرمایۂ دانش ہے تو گزرے ہوئے کل میں اس سے بہتر تھا، ماضی کے افکار کو رد کرنے کے منطقی نتائج بڑے سنگین ہیں۔ چونکہ جدید مفکرین نے اپنی ذہنی ابتری کو چھپانے کے لیے تمام قدیم اہلِ دانش کی بات سننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے ہم ان مفکرین کی بات سننے پر تیار نہیں، جو دوسروں کی سُنی ان سنی کرتے رہے۔ ان کی بھی نہیں سُنی جائے گی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ علم نظری theoretical knowledge ایمان لانے کے لیے لازمی ہے اور انسان اللہ تعالیٰ سے اس وقت تک محبت نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ فیلسوف نہ ہو۔ قطعاً نہیں۔ مگر پچھلے وقتوں کے سیدھے سادے ایمان والے جو بہت تھوڑی معلومات مگر بہت راسخ ایمان رکھتے تھے آج کی دنیا میں نہیں جی سکتے جہاں ہر لمحہ ان پر بے اعتقادی اور کفر کے دلائل کی چاند ماری ہوتی رہتی ہو۔ آج سیلابِ زمانہ کے سامنے اپنے عقائد پر جمے رہنے کے لیے اعتقادات کا نظری علم لازم ہو گیا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا عقائد اور فقہ کا علم ادھر ادھر کی چند سنی سنائی غیر مستند باتوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اکثر گھرانوں میں بچوں کو نہ تو عقائد کا علم دیا جاتا ہے نہ فقہ سکھائی جاتی ہے صرف ایک جذباتی فضا کا اہتمام ہوتا ہے۔ علماء یا صالحین کی صحبت میں بھجوانے کا ذکرہی کیا۔ نتیجہ یہ کہ جب اسی قلیل سرمایۂ علم کو لے کروہ دنیائے جدید میں نکلتے ہیں تو مخالفت درپیش ہونے پر صرف ایک ہیجان اپنے اندر پاتے ہیں۔اس سے گھٹن پیدا ہوتی ہے یا تلخی، جو اکثر تشکیک میں ڈھل جاتی ہے۔ اگر ان کو ضرورت بھر علم ِنظری حاصل ہو تو یہ ساری چاند ماری ان کے لیے بے اثر ہو جائے۔ جدید فکر میں تمام شور و غوغا کے باوجود اتنا بھی دم نہیں کہ قدیم علمِ کلام کا ایک بھی وار سَہ سکے۔ جن لوگوں کو ان دونوں کے موازنہ کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ قدیم علمِ کلام و فلسفہ میں جدید فکر کی اصلاح کے لیے کتنی ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔ آج سے دو سو برس پیشتر ایک آدمی اچھا مسلمان ہو سکتا تھا اور رہ سکتا تھا خواہ اس نے کبھی امام غزالی اور ابن عربی کا نام بھی نہ سنا ہوتا۔ اس وقت نرا ایمان کافی تھا کیونکہ اس کی حفاظت ہوتی رہتی تھی۔ آج کا مسلمان اگر ان عقائد کے بارے میں تفصیلی اور نظری علم نہیں رکھتا جن پر اس کا ایمان ہے تو اس کے ایمان کی سلامتی ہر دم خطرے میں ہے۔ ہاں کسی شخص کو فطرتاً سادگی کا ایک ناقابلِ تسخیر حصار میسر ہو تو اور بات ہے۔ بات صرف مخالفانہ دلائل کی دھمکیوں اور ان کے جواب تک ہی محدود نہیں ہے۔ ایک اور چیز، جس کی تعریف اور جس کا تعین گو مشکل ہے، زیادہ قوی ہے اور چھائی ہوئی ہے۔ وہ ہے ایک عمومی خیال، ایک رائے عامہ بلکہ ایک خاموش اتفاقِ رائے۔ جیسا کہ شیخ عیسیٰ نور الدین احمد نے کہا ہے کہ: جب لوگ خدایا عالمِ قدس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو اس کا منطقی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ایسی فضا اور ماحول پیدا کرنا شروع کر دیا جاتا ہے جس میں روحانی چیزیں اوپری اور انمل معلوم ہونے لگتی ہیں۔ خدا کے غیر حقیقی ہونے کے اعلان میں کامیاب ہونے کے لیے انھیں انسان کے گرد ایک جعلی حقیقت تعمیر کرنا ہوتی ہے ایسی حقیقت جو لازماً غیر انسانی ہوتی ہے کیونکہ صرف غیر انسانی حقیقت ہی خدا کو خارج کر سکتی ہے۔ اس کام میں تخیل کی جعل سازی اور نتیجتاً اس کی تباہی کا بھی عمل دخل ہے۔۱۸؎ جس طرح ہر عہد میں اس کے مفروضوں کے اپنے مخصوص سانچے اور نمونے ہوتے ہیں اسی طرح ہر عہد میں کچھ نظریات اپنی ماہیت کے اعتبار سے ہی اس عہد والوں کے لیے بظاہر مستبعد ہو جاتے ہیں۔ ان کے استبعاد Improbability کو کسی دلیل سے ثابت نہیں کیا جاتا۔ پھر چونکہ ہرعہد کی پیداوار___ اس کا ادب اور فن تعمیر، انسانی ماحول یعنی انسانوں کے اعمال اور مصنوعات ___ دونوں معاصر مفروضوں کے پرتو بھی ہوتے ہیں اور ان کو تقویت بھی دیتے ہیں لہٰذا یہ مستبعد جلد ہی ناممکن الخیال بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد ماضی کی چند یادگاروں اور طبعی ماحول nature کے علاوہ ہر چیز ان مفروضوں کی تائید کرنے لگتی ہے اور تشکیک تو دور کی بات ہے ان مفروضوں کے بارے میں ناقدانہ اندازِ فکر اختیار کرنے کے لیے بھی جبری شعوری کاوش کرناپڑتی ہے۔ گویا کہ انسانوں اور ان کے ماحول immediate surroundings کے مابین ایک باہمی عمل نفوذ ___ osmosis واقع ہو گیا ہو جس میں خارج اپنے داخل (انسان) کو منعکس کرے اور اس کے زیر اثر متشکل ہو جب کہ داخل اپنے خارج (ماحول) کے قالب میں ڈھل جائے۔ مذہبی نقطۂ نظر اپنے تمام متلازمات اور اطلاقات سمیت، جس میں احترام و رعبِ ماورا اور شعورِ قدس sense of the sacred بھی شامل ہے، ایک عام آدمی کے لیے طبعاً صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ ایک ایسے ماحول میں رہتا ہو جس میں نورِ قدسی، برا بھلا ہی سہی مگر منعکس ضرور ہوتا ہو اور اس کے نور کی ایک آدھ کرن اس کے حواس کو بھی میسر ہوتی ہے۔ ایک مکمل طور پر دھندلے ماحول میں عام آدمی کے لیے ہمارے بلبلے کے باہر کے منظر کا تصور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور وجودِ باری خود استبعادِ عظیم Great Improbability بن جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کے وہ نیک مسلمان جن کو ابھی جدیدیت کی ہوا نہیں لگی، ان کو ’’نہ ماننے والوں‘‘ (کفارِ زمانہ حاضر) کو سمجھنے اور ان کو اپنے جیسی فطرت رکھنے والا گرداننے میںجو دشواری خاص طور پر درپیش رہتی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان مسلمانوں کے لیے اپنے دین کی صداقت (توحید الٰہی اور اس کے تمام اطلاقات و مضمرات) ایسے حاوی انداز میں بدیہی اور اپنا ثبوت آپ ہے کہ ان کے نزدیک اس کا انکار ایسا ہی ہے جیسا کوئی شخص تپتے صحرا میں سورج کے وجود سے اس کی تمازت میں کھڑا ہو کر انکار کر دے۔ ان ’’نہ ماننے والوں‘‘ کے خیالات کے کسی طرح کے احترام کا خیال ان کو احمقانہ بلکہ فاسقانہ معلوم ہوگا۔ دوسری طرف دنیائے جدید میں اکثر لوگوں کو اس ’’ایمانِ قاہر‘‘ (شیخ عیسیٰ نور الدین احمد کے الفاظ میں Terrifying faithکو سمجھنے میں جس دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی کی حاوی اور بلا شرکت غیر حقیقت ان کو اتنی ہی بدیہی اور ناقابل اعتراض لگتی ہے جتنی مسلمانوں کو توحید۔ دونوں جگہ ہی ایسی سامنے کی بات میں شک و شبہ تقریباً ناممکن ہے۔ اس سے آپ ایک خاص رائے سے پیدا شدہ فضا اور ماحول کی تاثیر اور قوت کا اندازہ کر لیجیے۔ شاید کسی کو یہ اعتراض سوجھے کہ مغربی یورپ اور امریکہ تو اب بھی عمومی طور پر (عیسائی) کہلاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قدیم عیسائی یعنی عیسوی سنِ تاریخ کی پہلی پندرہ صدیوں کے لوگ اگر آج ہوتے، تو کیا ان کو عیسائی مان لیتے؟ اس لیے کہ پرانے عیسائیوں اور روایتی مسلمانوں اور کسی حد تک آج کے بدھوں اور ہندوئوں کے لیے بھی انسانی زندگی میں بعض چیزیں ایسی ہیں جو اور ہر چیز پر ترجیح رکھتی ہیں اور مقدم ہیں۔ پھر ان ترجیحات میں سے ایک سب سے افضل ہے۔ ایک طرف ’’المطلق‘‘ Absolute ہے اور دوسری طرف انسانی اور اعتباری Relative۔ بلحاظِ اہمیت اعتباری کو مطلق سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس قسم کا کوئی شعورِ ترجیحات ہمارے زمانے کی اناسیت پرست اخلاقیات Humanistic Morality کے پاس رہنمائی کے لیے موجود نہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے ان معاصرین کی فکرِ عالی بھی اس خیال سے کبھی متصادم نہیں ہوتی جو ایک مبہم سا اعتقاد ایک آرام دہ حیاتِ بعد الموت میں رکھتے ہیں جو ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو شائستگیِ آداب کا حامل ہو۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا آج کل دو متبائن اور منافی رویوں یعنی کفر و ایمان کے درمیان حدفاصل دھندلی ہوگئی ہے۔ ارتیاب اور ایمان یا کفر اور ایمان دونوں کو ان کے منطقی نتائج تک لے جانے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں ایک اعتقادی جھٹ پٹے کا سماں ہے۔ لوگ بس زمانے کی رو میں بہے چلے جا رہے ہیں۔ انھیں یہ تو خیال ہے کہ اس صورتِ حال کے بعد بھی ’’کچھ‘‘ ہے ضرور مگر انھیں شک ہے کہ کسی کو بھی اس ’’کچھ‘‘ کافی الحقیقت علم نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ان عظیم آوازوں سے بھی بے خبر ہیں جن کا سننا آج بھی ممکن ہے اور جو ان کو اس ’’کچھ‘‘ کا ہُو بہُو حال بتا رہی ہیں اور ان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ ان کی بات اس طرح سنیں جس طرح ایک مہلک خطرے کاشکار، موت کے پنجے میں گرفتار آدمی اپنے نجات دہندہ کی سنتا ہے۔ یہ نیمے دروں نیمے بروں لوگ ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس کی ماہیت ظلمت ہے اور جس میں ان کے چھوٹے سے نور کے ہالے کے سوا سب کچھ غیر حقیقی لگتا ہے اگر یہ کبھی حقیقتِ الٰہیہ کے بارے میں سوچتے بھی ہیں تو وہ ان کو خیالی، وحشت انگیز اور گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے۔ آفتاب ِ صحرائی کا جھلسانا اور چندھیاناختم ہو چکا ہے۔ اس صورت ِحال کے پیش نظر ہمارے لیے یہ بات ذرا بھی حیران کن نہیں کہ مذہب اس دشمن ماحول میں باقی نہ رہ سکے اور جو بچا کھچا رہ بھی جائے وہ بھی اپنی عمودی جہت سے محروم و منقطع، دنیاویت میں گھرا ہوا۔ یہاں دنیاویت کا مطلب وہ نہیں جو عموماً سننے میں آتا ہے یعنی عورت، شراب اور موسیقی، (یا ان کے مترادفات اور متبادلات)کیونکہ یقینِ مذہبی کے سامنے ان تینوں چیزوں کی کبھی کوئی خاص قوت نہیں رہی۔ دنیاویت سے ہماری مراد اس دنیا کی چیزوں سے ایسا لگائو اور تعلق ہے جو کسی اور شے کی گنجائش نہ رہنے دے۔ چیست دنیا از خدا غافل بدن نے قماش و نقرہ و فرزند و زن یہ تعلق اس لیے بھی زیادہ مرغوب ہوگیا ہے کہ اسے مقصدِ حیات اور شایانِ حصول بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سرچشمۂ خیر حبِ الٰہی ہے مگر ان کا یہ مطلب تو نہیں کہ ایک ’’سماجی شعور‘‘ یا ’’سماج کا ضمیر‘‘ اس محبت کا مناسب متبادل ہو سکتا ہے۔ جدیدیت کا شکار ہونے والوں کی جدید اخلاقیات جو معاشی (اقتصادی) اور معاشرتی (سماجی)فوائد کو ہر دوسری چیز پر فوقیت دیتی ہے ایمان والوں کی نظر میں بالکل مردود ہے اور اس تردید کی وجہ یہی ہے کہ اس اخلاقیات نے نہ ماننے والوں (کفار) کا پیمانۂ ترجیح و تفصیل اپنا رکھا ہے اور ایک عمل تغیر کی کارفرمائی سے مغلوب و مطیع ہو کر ان غیر متغیر اُصولوں کو چھوڑ چکی ہے جن کے نگران مذہب اور اس کے ادارے (علوم و فنون و رجال) ہیں۔ مخالفانِ دین کو یہ صورتِ حال بہت موافق نظر آتی ہے۔ جب تک عقائد کی بات نہ ہو وہ خاموش رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کا سابقہ کسی صحیح اور ٹھیٹھ عالم دین سے پڑتا ہے تو گھبرا جاتے ہیں۔ ہاں عالم دین کے بھیس میں کسی بھی سماجی کارکن کا ہاتھ بٹانے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں جب کہ حقیقی لوگ جو جھینپتے ہوئے ایمان، امید اور حقیقی محبت کا مطالبہ کرتے ہیں انھیں اپنے ہی جیسے ڈرے، دبکے اور بے یقین لوگوں سے کوئی تسلی نہیں ملی سکتی۔ سر سیّد کے بعد سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیاتھا کہ عقائد ہیں تو درست مگر چونکہ لوگ سننا پسند نہیں کرتے اس لیے ان پر زور نہ دیا جائے۔ پھر مغرب سے نظریات درآمد ہونے لگے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے دامن میں ایک ’’نرم و خوش گوار‘‘ عقائد سے عاری دین رہ گیا جو اپنے آپ کو معاصر مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھال چکا تھا۔ وہ تہذیب جس کے تمام مفروضوں، ساری اقدار اور منطق کے سارے مآخذ سرے سے غیر قدسی اور دینوی Profane تھے، ان مآخذ میں سر فہرست اناسیت پرستی Humanism فکر پرستی Rationalism نشاۃ ثانیہ کے دور کا تطاول Self-assertion اور جعلی بلند بانگ خود اعتمادی تھی۔ یا اگر اور پیچھے جائیے تو دو قدیم تہذیبوں یونان وروم کے وہ گھٹیا ترین اوصاف جو انھوں نے کلاسیکی ورثے کی شکل میں اس وقت مغرب کے حوالے کیے جب وہ دونوں انسانیت کے معیار Norm اور دوسری تہذیبوں کے حوالے سے خود ہی زوال پذیر اور انحطاط کا شکار ہو چکی تھیں۔ اس کلاسیکی ورثہ پر عیسائیت بھی صرف عارضی طور پر ہی غالب آ سکی تھی۔ کتنے ہی خرابے آج ان نیک نیتوں کی شہادت دے رہے ہیں جو بھٹک گئیں۔ ایسے ارادوں کی شہادت جن کو نورِ دانش کی کرن میسر نہ ہوئی۔ لوگوں کو دین سکھانا اچھی بات سہی، ضروری بھی سہی مگر آج کی صورتِ حال ایسی نہیں کہ مجوزہ مقصد کو کسی بھی منہاجِ وصول کاجواز قرر دے لیا جائے۔ دین کے بارے میں End justifies the means کا کلیہ نہیں چل سکتا کیونکہ جوںجوں لوگ حق سے دور ہٹتے جا رہے ہیں یہ خواہش زور پکڑتی جا رہی ہے کہ دین میں مناسب قطع و برید کی جائے اور اس کے وہ پہلو یا وہ عناصر جو لوگوں کے حلق سے آسانی سے نہیں اُترتے ان پر بے ضرر سا ملمع کر دیا جائے یا ان کی تاویل کر دی جائے یا مختصراً یہ کہ مصالحت کے لائحہ عمل کو ملاوٹ کی پالیسی بنا دیا جائے۔ اس طرح یہ توقع کی جاتی ہے کہ عام آدمی مذہب کو اپنی مصروف زندگی کے ایک گوشے میں جگہ دے دے گا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی بھی نہیں لانی پڑے گی نہ ہی پریشان کن خیالات (آخرت، جزا و سزا) سے اُلجھنا پڑے گا۔ یہ بالکل بیہودہ اور موہوم امید ہے۔ اس طریقہ کار کا انجام یہی ہوگا بلکہ بہت سے مقامات پر ہو چلا ہے کہ دین کی بات سکھا نے والا اس خوانچہ فروش کی طرح ہو جائے گا جو بھرے بازار میں سڑک کے کنارے کھڑا اپنے مال کی قیمت گھٹاتے گھٹاتے اب اسے مفت بانٹنے پر آمادہ ہو چکا ہو___ آخرت اور حساب و جزا ایک دیومالا ہے، جہنم ایک خبیث و اہمہ ہے،عبادت اور دعا شائستہ رویے سے بھی فروتر اور بے اہمیت ہے اور آخرمیں خود وجود الٰہی لا یعنی اور غیر ضروری ہے ___ مگر اس کے باوجود لوگ اس بھلے مانس خوانچے والے کو نظر انداز کرنے پر رسمی سا افسوس کرتے ہوئے اپنے دوسرے اہم کاموں کی طرف متوجہ ہو جائیں گے جو ان کی راہ تک رہے ہیں۔ لطف کی بات یہ کہ لوگوں کے یہ اہم کام جن کے لیے وہ ہر چیز نظر انداز کیے ہوئے ہیں خود ان کے نزدیک ریگِ رواں بلکہ دلدل ہیں جس میں وہ دھنستے جا رہے ہیں۔ اگر ان کو اس کا حقیقی متبادل (یعنی دین اپنی اصلی شکل میں نہ کہ حیلۂ پرویزی کا شکار) پیش کیا جائے جو ابتدائے زمان سے ایک پائیدار چٹان کی طرح مستحکم ہے تو شاید وہ اس کے لیے بھاری قیمت ادا کرنے اور قربانی دینے پرتیار ہو جائیں۔ اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ اگر متذکرہ دین سکھانے والا ان سے منہ موڑ کر صرف اور صرف آفتاب الٰہی کی طرف متوجہ ہو جائے، اسی سے لولگائے، اسی پر اپنی نگاہ مرکوز رکھے تو لوگ از خود اس کی پیروی کرنے لگیں اور ہاتھ باندھے، اپنی فکروں اور مشکلات کو فراموش کیے ہوئے اسی رُخ دیکھنے لگیںجدھر وہ دیکھ رہا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب کا بنیادی حکم یہ نہیں ہے کہ ’’یہ کرو، وہ نہ کرو‘‘ بلکہ محض ’’دیکھو‘‘ باقی سب کچھ خود بخود ہو جاتا ہے کہ وہ اس کا تابع ہے۔ موجودہ زمانے میں چونکہ تقریباً ہر قول و فکر کی تَہ میں عدمِ ایمان کام کر رہا ہے لہٰذا دنیائے جدید پر ایک ایمان والے کی تنقید لازماً انتہائی ہوگی۔کوڑھی کی آرائشِ حسن کوئی نہیں کیا کرتا۔ مگر انتہا پسند تنقید کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے اور چونکہ دنیا کی تقدیر ہمارے کسی بھی اقدام سے نہیں بدل سکتی اور نہ ہی دورِ ایمان وقت کے اختتام سے قبل واپس آ سکتا ہے(وقت ان معنوں میں جو ہم اس سے سمجھتے ہیں) یہ سوال خاصا معقول ہوتا ہے کہ اس صورتِ حال میں اس کارِعبث کا فائدہ؟ سیلاب سے مقاومت کیوں کی جائے؟ پچھلے زمانوں کے عظیم لوگ اور اہلِ دانش ایک غافل دنیا یا واصل بہ جہنم معاشرے سے فوراً کنارہ کش ہو جاتے تھے۔ اس سے منہ موڑ کر وہ ان چند نفوس کے لیے مثال قائم کر دیتے تھے جو ان کے اتباع کے لیے تیار ہوں۔ یہ گمان انھوں نے کبھی نہیں کیا تھا کہ لوگوں کی اکثریت کو کسی دوسرے راستے پر گامزن ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی اگر ان لوگوں کے لیے کوئی راہِ سکون ہوتی جو ان نظریات اور رائے عامہ کے ڈھانچے کو قبول کرنے پر تیار نہیں۷؎ جس پر موجود ہ معاشروں کی بنیاد رکھی ہوئی ہے تو وہ یقینا اسی کو اختیار کرتے اور نہ ماننے والوں کو راہِ سقر میں پا کوبی کرتا چھوڑ کر خود علیٰحدہ ہو جاتے۔ ہمارے پاس آج اگر اس کے برعکس منہاج اپنانے اور مناظرہ و مباحثہ کی گرد اڑانے کو کوئی جواز ہے تو وہ ہمارے موجودہ دور کی صورتِ حال ہے جس کی کوئی اور مثال ملنی نا ممکن ہے۔ اس دور کی خاص بات وہ کوششیں ہیں جو لادین معاشروں نے اپنے افراد کو مکمل طور پر، جسم و روح سمیت، اپنے عمل میں جذب کرنے کے لیے شروع کر رکھی ہیں۔ پرانے لوگوں کے برعکس ہمارے پاس ان معاشروں کو ترک کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں جوابی جنگ پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ہم میں سے جو اس زمانے کے مفروضوں، اس کی ترجیحات، مقدم چیزوں اور اس کے اخلاقی لوازم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ان کو واقعی یلغار کر کے ایک کونے میں گھسنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بعض تہذیبیں اور معاشرے دوسرے معاشروں سے بدرجہا افضل و برتر ہیں مگر ہم مجبور ہو چکے ہیں کہ تہذیبوں کے اعتباری یا نسبتی کمال اور موازنے کو چھوڑ کر یہ دیکھیں کہ انھوں نے اپنے باشندوں کو کس حد تک جکڑ کر محبوس و مغلوب کر رکھا ہے۔ افریقہ اور دوسرے مقامات پر بڑھتی ہوئی آبادی نے جنگلی جانوروں کے مساکن اور گزرگاہوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے اور کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب جنگلی جانور(آلڈس ہکسلے Aldous Huxley کی کتاب Brave New World کے وحشیوں کی طرح) صرف مخصوص پناہ گاہوں میں پائے جائیں گے، اسی طرح وہ لوگ جو موجودہ زمانے سے علیٰحدہ سوچ رکھتے ہیں اور صرف اس ’’بلبلے کی دنیا‘‘ ہی کو حقیقی اور واحد دنیا نہیں سمجھتے، جلد ہی کسی راہِ فرار سے محروم ہو جائیں گے اور اس معاشرے کے چنگل سے بچ نہ سکیں گے جو اپنے باشندوں کے بچپن ہی سے ان کے ذہن پر مختلف ذرائع سے قابو پانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ برین واشنگ ایمان والوں کی موجودہ نسل کے ایمان کو اگر کرسکی تو غارت کرے گی ہی، ان کی آنے والے والی نسلیں اس حق و ایمان کا قیاس تک کرنے کے قابل نہ ہوں گی۔ ذہن میں یہ تصور ہی نہ آسکے گا کہ انسانوں کا سماجی اور اقتصادی طور پر کار آمد بننے کے سوا کوئی اور بھی منصب ہے۔ چند دوردراز اور تنہا مقامات کو چھوڑ کر اب دنیا میں غالباً کہیں سماج قدسی sacred societies نہیں پائے جاتے۔ اس لیے ہمارے سامنے یہ سوال نہیں ہے کہ فلاں فلاں سماجی نظام بڑا منظم، مربوط، فائدہ رساں یا کار آمد ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میںہر الوہی عنصر کا دم تو نہیں گھونٹ دیا جاتا اور کیا وہ فکراً اجنبی، مختلف المرکز لوگوں اور ایسی شخصیات کو برداشت کرتا ہے جو اس کے اجتماعی مزاج میں ضم ہو جانے کی مزاحمت کرتے ہوں۔ جدید لادین معاشروں کا واضح رجحان یہ ہے کہ انسان پر راہِ خروج بند کر دی جائے اور اس کی ساری رفعتیں ہموار کرکے اسے صرف اس کی ارضی جہت و منہاج تک محدود کر دیا جائے۔ اس انسان کو جو صورتِ الٰہی پر تخلیق ہوا اور عظمت کے تمام امکانات کا حامل ہے، صرف سماجی حیوان اور فاعلِ اقتصادی بنا دیا جائے۔ اس رجحان کا مقابلہ اس کی اپنی سطح پر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سطح پر اس قبیل کے رجحانات میں کچھ ایسی ناگزیر قوت ہوتی ہے جیسی فطرت کی قوتوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ صرف مذہبی نقطۂ نظر ہی میں اس رجحان کی مزاحمت و مقاومت کی پختہ بنیاد کی تلاش کی جا سکتی ہے مگر یہ واضح رہے کہ مذہب وہ ہونا چاہیے جس کی جڑیں ماورا میں پیوست ہوں نہ کہ انفعالی مذہبیت اور فرسودہ اقوال۔ صرف اسی بنیاد پر ان لوگوں کی مدد کرنا ممکن ہے جنھوں نے دبائو میں آ کر اس دور کی اجتماعی اخلاقیات کے خلاف سپر تو ڈال دی ہے مگر تشکیک اور بے یقینی سے۔صرف اسی نقطۂ استدلال سے انھیں یہ یقین دلانا ممکن ہے کہ ان کے شکوک ایک صحیح اور صحت مند وجدان سے پھوٹے ہیں اور ان کو انسانی روایت کی پوری تائید حاصل ہے۔ اس سیاق و سباق میں ’’الدین‘‘ کا نام لینا کہاں تک بجا ہے جب کہ ہمارے سامنے بہت سے مذاہب ہیں جو کتنے ہی مقامات پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟ اس کے جواب میں بات بہت سخن گسترانہ آپڑی ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اتنا تو سب جانتے ہیں کہ دین کا منبع واحد ہے جو ماورا الطبیعیاتی ہے۔ حق ایک ہے مگر یہ بِلا تحییز Infinite بھی ہے اس لیے صورت سے ورا بھی (چونکہ ماہیت اشیا یہی ہے کہ ایک صورت دوسری صورت کا استثنا کرتی ہے:ایک ہی چیز بیک وقت گول اور چوکور نہیں ہو سکتی) انسانی سطح پر حق خود کو لازماً انسانی ذہن کے نقشہ کے مطابق ڈھال دیتا ہے وگرنہ انسانی ذہن کے لیے اس کا ادراک محال ہو جاتا۔ اس کی تشکیل اس ماحول سے بھی ہوتی ہے جس میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور ان لوگوں کی نوعیت سے بھی جن کے درمیان یہ تصورات، تشبیہات اور اخلاقی قواعد کا لباس اختیار کرتا ہے۔ ایسے ہی جیسے روشنی رنگوں میں اس وقت بٹتی ہے جب اس کا گزر کسی واسطے سے ہوتا ہے۔ ایک اعتبار سے تنوع کا یہ مظاہرہ ہستی کا جوازِ وجود ہے۔ مذاہب جن کے ذریعے انسانوں نے حقیقت کو سمجھا بوجھاہے اگر اس تنوع کے سب سے زیادہ حامل نہ ہوتے تو یہ امر باعثِ حیرت ہوتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک اور تمثیل دیکھیے۔ اب کی دفعہ ایک ایسے مقام کا تصور کیجیے جو بذاتِ خود تو ہمارے پرانے منظر کی طرح زرخیز ہے مگر اس کو چاروں طرف سے ایک صحرا نے گھیر رکھا ہے جس کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی۔ اس جگہ ایک بہت بڑے پہاڑ کے گرد ایک دائرے کی شکل میں بہت سی اقوام اور بہت سے قبائل آباد ہیں۔ یہ پہاڑ اس سارے منظر پر چھایا ہواہے۔ اس پہاڑ کی شان و شکوہ اس کے گرد رہنے والے مختلف انداز میں جان سکتے ہیں۔ معدودے چند لوگ وہ ہوں گے جو اس پہاڑ کو بحیثیت کل اور من کل الوجوہ جانتے ہوں گے۔چاہے انھوں نے اس پر چڑھ کر دیکھ رکھاہو یا ان کو نگاہِ دور بین عطا ہوئی ہو جس سے وہ پہاڑ کے مختلف پہلوئوں کو ایک کُل میں ضم دیکھتے ہوں گے۔ کچھ دوسرے لوگ ایسے ہوں گے جو اس پہاڑ کو صرف ایک خاص اور محدود نقطۂ نظرسے دیکھتے ہوں گے۔ انھیں اس کے بعض حصے تو صاف نظر آرہے ہوں گے اور وہ جہاں تک ان کا تناظر اجازت دیتا ہے، صحیح دیکھ رہے ہوں گے۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کی نگاہ میں خرابی ہے یا جو زیادہ فاصلے پر ہیں۔ ان کے مشاہدے کی راہ میں دھند حائل ہو گئی ہے اور ان میں پہاڑ کے بارے میں باہمی اختلاف اور عدم یقین پایا جاتا ہے۔ آخری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کے آلاتِ حس تو شاید درست ہیں مگر وہ پہاڑ کی طرف پشت کیے کھڑے ہیں اور اپنے سامنے پھیلے ہوئے بھورے رنگ کے یکساں اور بیزار کن میدان کی حالت بیان کر رہے ہیں اور ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا دیکھنا بے نتیجہ ہے اور جب تک وہ اس رخ پر کھڑے رہیں گے پہاڑ اور اس کے کسی پہلو کے بارے میں کوئی مفید رائے ظاہر نہیں کر سکیں گے۔ یہ لوگ اس بحث و تمحیص اور اختلاف سے بارہ پتھر باہر سمجھے جائیں گے جو صحیح سمت میں دیکھنے والوںکے درمیان ہو رہا ہے۔ ہاں خواہ بزعم خود وہ سمجھے بیٹھے ہوں کہ اور کسی فرد کو بھی اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آ رہا جو وہ صحرا کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کے لیے کچھ نہیں۔ نہ کوئی قوت، نہ جلال، کچھ بھی نہیں! پہاڑ حق کی علامت ہے ___ صداقت کا نشان ہے ___ یہ الوجود کی علامت ہے ___ پہاڑ ’’الحقیقہ‘‘ Reality ہے جس کے علاوہ مکمل طور پر کوئی چیز حقیقی نہیں۔ پہاڑ دائرے کے مرکز پر واقع ہے اور وہ تمام راستے جو اس کی طرف نہیں جاتے صحرا میں لے جاتے ہیں جہاں انسان سراب کا شکار ہو کر پیاس سے مر جاتے ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے اسے بحیثیتِ کل دیکھا ہے اور من کل الوجوہ دیکھا ہے یا کم از کم اس کی کلیت کا تصور کر سکتے ہیں ان کے مابین اختلاف کی کوئی وجہ نہیں۔ ہاں علامات کا اختلاف ممکن ہے۔ دوسرے تمام لوگوں میں تناظر کے اختلاف کی وجہ سے اختلاف ہونا ناگزیر ہے۔ صرف اور صرف اسی سیاق و سباق میں دونوں متحارب گروہ درست ہو سکتے ہیں (اور ٹھیک دعویٰ کر رہے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے) کیونکہ دونوں کے پاس حقیقت ہے۔ ہاں جزوی حقیقت ہے اور یہ فطرتِ اشیا میں شامل ہے کہ ٹوٹی پھوٹی یا ادھوری حقیقت باعث نزاع ہوتی ہے۔ حقیقت کی ان کرچیوں یا پارہ ہائے حقیقت میں بھی اتنی قوت اور تنویر ہے کہ جب یہ متحارب لوگوں کے قلب و ذہن میں رچ بس جاتی ہیں تو زندگی کی اہمیت کچھ نہیں رہتی اور موت تو کھیل معلوم ہوتی ہے۔ جنھیں دقتِ نظر اور وضاحت عطا ہوئی ہے ان کا بیان ہے کہ ’’حق‘‘ خیرہ کن حد تک سادہ ہے البتہ اس کے ادراک، فہم اور اظہار کے طریقے اتنے ہیں اور اس سے دل تھوڑا کرنے کی کسی طرح بھی کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ انسانی اذہان کے تنوع اور ترکّب complexity کے مطابق ہے جن کے لیے حق مطلوب ہے۔ مگر ان لوگوں کی اس سے برأت نہیںہو سکتی جو سیدھے سادے غیر مسئول ایمان کو اپنے ذوق کے لیے بچگانہ اور احمقانہ کَہ کر رد کرتے ہوئے سوالات تو کر دیتے ہیں مگر جواب کا انتظار نہیں کرتے۔ اس قبیل کے لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو عمر بھر کسی ادنیٰ سے وقتی دلچسپی کے موضوع پر کاوش و مطالعہ کرتے رہتے ہیں مگر اس علم اعظم کے حصول کے لیے جو کبھی زرو جواہرِ دنیا میں سے عظیم ترین خزانہ سمجھا جاتا تھا، ذرا مشقت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اسے شایانِ حصول نہیں سمجھتے جب تک وہ بآسانی قابلِ حصول نہ ہو۔ اس طرح وہ اپنے انسانی ورثے کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اپنے قویٰ کا زیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ زمانہ جس میں ہم زندہ ہیں ازلی انسانی معیار یا نموذجِ انسانی کے حوالے سے ملزم قرار پاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ انسانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی خوابِ غفلت میں گزار دیں۔ اپنے ورثہ سے غفلت میں اور ان چند چیزوں سے غفلت میں جنھیں جاننافی الحقیقت ضروری ہے۔ یہی اس کے مرض کی جڑ ہے۔ اسی ورثے میں وہ حبل متین ہے، وہ چٹان ہے جسے ہر اس شخص کو مضبوطی سے تھا منا ہوگا جسے زمانے کی رَو میں بَہ جانے سے انکار ہو۔ ء ء ء حوالے و حواشی 1- Gai Eaton The Richest Vein, Faber, England, p.13. ۲- سورہ ۲۹، آیت ۶۹۔ ۳- منافقت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو تقریباً ہر نفس کا کم و بیش جزو ہے یعنی ایقان اور رویہ و عمل میں عدمِ تناسب جس میں لوگ جن حقائق کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے متوافق صرف ڈھلمل انداز میں عمل کرتے ہیں۔ دوسری قسم معروف ہے یعنی وہ ہونے کا دعویٰ کرنا جو آپ نہ ہوں یعنی نفاق۔ تفصیل کے لیے دیکھیے شیخ عیسیٰ نورالدین احمد F. Schuon کا مقالہ Understanding and Beleiving جو مندرجہ ذیل کتاب میں شامل ہے:Logic and Transcendence, Harper and Row, New York, 1975, p. 198۔ ۴- جذبات کے لفظ کے متعلق یہ عرض کردیں کہ انگریزی میں اس کے لیے قریب قریب چار الفاظ مستعمل ہیں Feelings, Emotions, Sentiments, Passions,… موخر الذکر کو تو چلیے ہم محسوسات کے لفظ سے بھگتا لیں گے باقی کا کیا ہوگا؟ اوّل الذکر کا ایک خاص سیاق و سباق میں شہوات ترجمہ ہو جائے گامگر شہوت کا لفظ فن زمانہ اُردو میں صرف جنسی خواہش کے لیے مستعمل ہے اگرچہ اس کے معنی کسی بھی چیز کے لیے رغبت یا خواہش کے ہیں۔ اُردو میں ’’متذکرہ تینوں الفاظ کا ترجمہ جذبات یا جذبہ سے ہوتا ہے۔ پرانے مفکرین مثلاً مولانا اشرف علی تھانوی کی تحریر میں جذبہ یا جاذبہ خدا کی طرف سے قوتِ کشش کے معنوں میں مستعمل تھا۔ اسی سے مجذوب کی ترکیب بنی۔ ان مفاہیم کو، جن پر مذکورہ بالا انگریزی الفاظ دال ہیں، داعیہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا۔پھر اس لفظ کی طبعی اور عقلی داعیوں میں تقسیم کی گئی تھی اور طبعی داعیات کو رفع مضرت اور جلبِ منفعت کے دو محرکات کے تحت رکھا گیا تھا۔ ان دونوں کے نمائندہ غضب اور شہوت کے داعیے ہیں۔ پھر ہر داعیے کو اس کے محرک کی نسبت سے نام دیا گیا تھا اور اس کے تحت نفس کی تمام حرکات آ جاتی ہیں جن کو Emotions, Passion, Sentiments, کا نام دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے جذبہ ایک انفرادی انسانی قوت میں رہتی سی ہے، اس کا استعمال بھی ان مدلولات کے لیے نہیں ہوا۔ قدیم تحریروں میں جہاں یہ لفظ وارد ہوا ہے اس کے قدیم معانی پیش نظر رہنے چاہییں۔ آج کل جذبہ کا لفظ اس داعیے کے معنی میں مروج ہے جو نفس کی چیز ہے۔ اس رُخ سے بھی عقائد جذبہ پر مبنی نہیں ہو سکتے کیونکہ جذبہ ہر اعتبار سے ریگ رواں سے مشابہ ہے اور عقائد غیر متغیر۔ عقائد تو بڑی چیز ہیں حبِ الٰہی، خوفِ خدا جیسے الفاظ کے صحیح اور روایتی مدلولات بھی انفعالات سے یکسر آزاد ہیں، مثلاً سیّدنا شیخ عیسیٰ نور الدین احمد کی تحریر سے ایک اقتباس دیکھیے : No more than the love of God is the fear of God in any way a matter of the feelings. Like love which is the tendency of our whole being towards transcendent Reality, fear is an attitude of the intelligence and the will. It consists in taking account at every moment of a reality which infinitely surpasses us, against which we can do nothing, in despite of which we can not live and from the teeth of which we can not escape. F. Schuon, Spiritual Perspectives and Human Facts, London, p. 207. حضرت تھانوی کے مواعظ اور تحریریں پڑھنے والے عقلی اور طبعی کی تقسیم سے بخوبی واقف ہیں جن پر حضرت اکثر زور دیتے تھے اور عقلی اور طبعی (یاد دوسرے الفاظ میں اختیاری اور اضطراری) کے امتیاز سے سالکین کی بہت سی اُلجھنیں حل فرماتے تھے۔ ۵- عقیدے اور عقل کے معنی میں ارتباط دیکھیے۔ عقل کے لفظ کی تشریح میں سدی ابوبکر سراج الدین Martin Lings, نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب بیسویں صدی کے ایک ولی اللّہ A Sufi Saint of the Twentieth Century, میں لکھا ہے: The word 'aql means above all 'intellect'; but intellectus coincides only with the purely transcendent aspect of 'aql, whereas the Arabic word comprises in its meaning the whole range of the intelligence including even the reason, in virtue of what the reason was primordially and what it still remains virtually, that is, a concious projections of the intellect, whose light it distributes to the other faculties, knitting them together while remaining itself tethered by the intellect to its Divine root. This brings, us to the other basic meaning of the Arabic letters "Ain-Qaf-Lam" which denots ‘binding’ as well as ‘perception’. Thus the Sheikh says the intelligence (‘aql) which percieveth (ya‘qil) is the bond (‘iqal) which bindeth (ya‘qil). A Sufi Saint of the 20th Century, Allen and Unwin p. 214 اس ضمن میں ہندو روایت میں پائی جانے والی عقل کی تعریف بھی دیکھ لیجیے۔ اقتباس ہم نے لیا ہے حسن عبدالحکیم الشاذلی Gai Eaton کی کتاب The Richest Vein سے In the modern vie, man apprehends the objective world through his senses and he understands it or makes sense of it by means of a mental facuity which may be called either reason or intellect; he is not admitted to have any other means of obtaining knowledge. This view is completely opposed to the traditional doctrines of the East, as it is to those of the mediaveal Europe. The Sansikrit terms for ‘mind’ and ‘intellect’ are ‘manas’ and ‘Buddhi’ respectively, and the two are considered to belong to different levels of reality and to operate in different fields. It is through ‘manas’ that human reason and discursive thought operate; It is a purely individual faculty, subject to all the limitations of the individual, and the material upon it works is derived from the senses. ‘Buddhi’ on the other hand, may be likened to a direct ray of light which strikes the human mind from without; in which the individual particpates to a greater or lesser extant, according to his degree of awareness. Gai Eaton, The Richest Vein, Faber, England p. 33. ۶- یہ قصہ مغرب میں بھی ہو چکا ہے جہاں غلط سلط سائنسی نظریات نے عقائد کی جگہ پالی ہے: The age of belief is always with us, only its object changes. تفصیل کے لیے دیکھیے: Gai Eaton, The Richest Vein, p. 10۔ ۷- حوالہ کے لیے دیکھیے تصفیہ العقائد، مکاتیب مابین سر سیّد اور مولانا قاسم نانوتوی۔ کراچی۔ دارالاشاعت، ۱۹۷۶ئ۔ ۸- اس سلسلے میں ایک دلچسپ اقتباس دیکھیے جو اگرچہ ایک ہندو کے قلم سے اور ہندومت کے بارے میں ہے مگر اس کا اطلاق اس متوازی صورتِ حال پر بھی ہوتا ہے جس کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں: …‘‘ it would be hardly an exaggeration to say that a faithful account of Hinduism might well be given in the form of a categorical denial of most of the statements that have been made about it, alike by the Europeans and the Hindus trained in western sceptical moulds of education’’. A. K.Coomaraswamy Hinduism and Budhism, Philosophical Library, New York, introduction. اس اقتباس سے ہمارے معاصرین وزیر آغا اور رشید ملک کے مباحثہ و مجادلہ کی ثقاہت اور استناد کا پول بھی کھل جاتا ہے جو اپنی معلومات کے لیے مذکورہ بالا دو طبقۂ مصنّفین کے محتاج ہیں اور بایں ہمہ قولِ مستند فرمانے کا زعم رکھتے ہیں۔ ۹- انسان کو اگر عالم صغیر Microcosm کہیں اور دنیا کو Macrocosm, عالم کبیر تو یہ حقیقت Metacosm کہلائے گی۔ ۱۰- مبدا کا انگریزی مترادف ہے Origin وہ جہاں سے کسی چیز کی ابتدا ہو۔ اسی کو اصل (یعنی جڑ) بھی کہتے ہیں جس کی جمع اُصول ہے۔ اس کے لیے انگریزی میں Principle کا لفظ مستعمل ہے۔ معاد کے معنی ہیں لوٹنے کی جگہ۔ اس طرح یہ آخرت کا ہم معنی ہوا۔ قرآن مجید میں ہے’’اللّٰہ یبدؤ الخلق ثم یعیدہ‘‘ The God to whom all things return is not different form the God from whome they come; the beginning and the end is the same; the journey between them is therefore a cycle and not a progress. Lord Northbourne, Looking Back on Progress, Perennial Books, England, p. 67. ۱۱- اس ضمن میں دیکھیے: عمران یحییٰ: Willam Stoddart , Sufism, p. 23. J.M. Dent London . اور شیخ عیسیٰ نور الدین F. Schoun, In the Tracks of Buddhism, Perennial Books, England. A. K. Coomaraswamy, Hinduism and Buddhism. ۱۲- سیّدنا شیخ عیسیٰ نور الدین احمد العلوی کا قول ہے کہ: Death is the greatest certainty and yet the greatest uncertainty. ۱۳- آج کل نارمل یا معیاری اور فطرت کے الفاظ کے معنی پر کوئی اتفاق نہیں پایا جاتا۔ عام طور پر عمومی ہی کو معیار سمجھا جاتا ہے۔ا ور ’’انسانی فطرت‘‘ کی تعریف کسی خاص عہد یا دور کے طرز ہائے فکر و احساس و عمل سے کی جاتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ اس ’’انسانی فطرت‘‘ کے حوالے سے کیا چیز نارمل یا معیار ہے ہمارے پاس صرف ایک طریقہ رہ جاتا ہے۔ شماریات۔ یعنی کسی دور کے لوگوں کے مخصوص طرزِ فکر، طرزِ عمل اور طرز احساس کے مشترک عناصر کی حاصل جمع۔ لہٰذا کہا جاتا ہے کہ فطرتِ انسانی مترادف ہے ’’عام انسان‘‘ Average man کی فطرت کے۔ وہ ’’عام انسان‘‘ جو خود سوائے شماریاتی اکثریت کی ایک تجرید کے کچھ نہیں۔ فطرت یا نموذج انسانی کا روایتی تصور اس سے بالکل الگ ہے۔ مثلاً ایک تائومت کا پیرو کاریوں کَہ سکتا ہے کہ جس طرح چاقو کی ماہیت میں تراشنے کی قابلیت شامل ہے اور کشتی کی ماہیت میں تیرنے کی صلاحیت مضمر ہے اسی طرح انسان کی فطرت اس فرض منصبی کی تکمیل میں مضمر ہے جس کے لیے نوعِ انسانی مکلف ہے۔ چاقو کند ہو سکتے ہیں، کشتیاں غرق ہوا کرتی ہیں مگر چاقو کا دھار دار ہونا اور کشتی کا تیرنا بایں ہمہ ان کی ماہیت اساسی میں شامل ہے۔ اسی طرح فطرت انسانی وہ سب کچھ نہیں ہے جو اپنے آپ کو کھلی چھٹی دے دینے سے ہوا کرتا ہے بلکہ ایک ضابطہ اور معیار ہے خواہ ہم اس سے مطابقت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ فطرت انسانی وہ صورت الٰہیہ ہے، صفاتِ الٰہیہ کا وہ پرتو ہے، وہ کمال ہے جو انسان کے شایانِ شان ہے فطرۃ اللّٰہ التی فطر الناس علیھا۔ جس حد تک انسان اس مقام سے دور رہے گا اسی حد تک اس کی انسانیت نا مکمل ہو گی۔ نوع انسانی کے افراد پر اس تصور کو (صورتِ الٰہیہ کی) چھاپ عہد بہ عہد مدھم ہوتی چلی آئی ہے۔ کہتے ہیں کہ عہدِ عتیق میں انسان کو فطرتِ انسانی بتمام حاصل تھی مگر اب ایسا نہیں رہا اور فرد کے لیے اس کی بازیافت تقریباً : اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق کا مصداق بن چکی ہے۔ ۱۴- حوالے کے لیے دیکھیے : Douglas Dewar, The Transformist Illusion. Murfreesboro, Tenn. Dehoff Publications, 1957. اور Evan Shute, Flaws in the Theory of Evolution, Nutley. N. J.: Craig Press, 1961. ۱۵- سورہ ۵۵، آیت ۲۶۔ ۱۶- ہمارے بزرگ سدّی نوح العلوی الشاذلی Lord Northbourne کا قول ہے کہ: "… Eternity is usually confused with perpetuity, which is simply an indefinite period of time, whereas eternity transcends time" Looking Back on Progress, London, Perennial Books, 1970, p.109. انھی کا دوسرا قول ہے جس کا محل وقوع ہمیں مستحضر نہیں، عبارت یوں ہے کہ: "Infinity is not an all capacious place and eternity is not a very long period of time". ۱۷- حوالہ کے لیے دیکھیے: "Consequences Flowing from the Phenomenon of Subjectivity", Studies in Comparative Religion, Autumn, 1997. شیخ کا اسی سے ملتا جلتا فقرہ ہمیں اخی فی الطریق الی اللّہ سدّی سراج منیر الشاذلی نے سنایا تھا جو ان سے بعض انگریز فقرا نے نقل کیا تھا کہ: Existentialism is the smartest way of being unintelligent. زیست پرستی پر شیخ کے تفصیلی خیالات کے لیے دیکھیے مذکور بالا مجلہ کا شمارہ Spring 1975۔ ۱۸- شیخ عیسیٰ نورالدین Understanding Islam, F. Schuon p. 37., ۔ ۱۹- خلق اللّہ الآدم علیٰ صورتہٖ یہاں صورت سے مراد شکل نہیں ہے بلکہ وہ چیز جس میں کسی شے کی حقیقت ظہور کرتی ہے۔ بایں معنی انسان مظہر الٰہی ہے۔ بقول سیّدنا شیخ عیسیٰ نورالدین Man is the best manifestation of God صورت کے لفظ کے مختلف استعمال کی وضاحت کے لیے دیکھیے: اسلام اور عقلیت از مولانا اشرف علی تھانوی، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، لاہور، ص۱۱۸۔ ظ ظ ظ جعلی بستیاں گذشتہ مضمون حسن عبدالحکیمGai Eaton کی فکر افروز کتاب King of the Castle کے ابتدائیے پرمبنی تھا (برنگ دگر)۔ صفحاتِ آیندہ میں اسی کتاب کا باب دوم Unreal Cities پیش کیا جارہا ہے جو جدید تمدن اور اس میں بسنے والے انسانوں کی حالتِ زار پر شاید اس زمانے کی سب سے مضبوط تنقید ہے۔ King of the Castle by Gai Eaton. ہمیں بنانے میں بڑی حد تک ہمارے فیصلوں اور ہمارے چناؤ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہمارے ہر چناؤ کے ساتھ اس تصویر میں کچھ نقوش کا مزید اضافہ ہوجاتا ہے جو مکمل ہونے پر یہ دکھائے گی کہ یکتا اور ناقابلِ تکرار طور پر ہم کیا ہیں۔ اس چناؤ کے نتائج اس طرح پھیلیں گے جیسے تالاب کے کھڑے پانی میں پھینکے ہوئے کنکر سے دائرہ در دائرہ لہریں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ ہمارے گردوپیش کے لوگوں میں بھی کچھ تبدیلی واقع ہوگی خواہ تھوڑی سی ہی کیوں نہ ہو، لیکن یہ نتائج اس قرب و جوار کے علاوہ اس سے ورا ایسے ساحلوں تک پہنچتے ہیں جن کا ہمیں گمان بھی نہیں گزرتا۔ جو انتخاب ہم کرتے ہیں وہ ہمارا ہوتا ہے کسی اور کا نہیں اور اس کے بے شمار اثرات و نتائج بھی ہم ہی کو بھگتنا ہوں گے۔ یہاں یا کسی اور جگہ، اب یا تب، جلد یا بدیر، ہم بہرحال ہر اس فیصلے کے لیے جوابدہ اور ذمہ دار ہیں جس پر ہماری مہر ثبت ہے۔ اس بات کو عملاً اور بلاواسطہ طور پر سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ انسان کے پاس نقل و حرکت کی اتنی آزادی اور گنجائش ہو جہاں وہ اپنے امکانات کو بروئے کار لاسکے۔ صرف آزادیِ انتخاب ہی کافی نہیں! اسے اپنی مرضی کے مطابق نیک یا بد مصرف کے لیے استعمال کرنے کا موقع بھی میسر ہونا چاہیے۔ اس موقع کے بغیر شخصی آزادی کے تصور میں کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ انسانی انتخاب کی اپنی کچھ لاینفک قیود اور بندشیں ہیں جو مرتبۂ انسانی کی قیود کا عکس ہیں۔ بشرطیکہ مرتبہ ٔ انسانی کو اس سے بالا ترمرتبے کے حوالے سے اور اُس ارادۂ مطلقہ (الٰہیہ) کے اعتبار سے دیکھا جائے جس کی ایک شبیہ ہماری تمام قوتیں ہیں۔ لیکن یہ دوسرا معاملہ ہے۔ فی الحال ہم انسانی تجربے اور انسانی سطح کی بات کررہے ہیں۔ اس سطح پر اور اس تجربے کے حوالے سے انسانوں کو انتخاب کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے اور اس اعتبار سے وہ ایسی ذمہ دارہستیاں ہیں جو اپنی چھوٹی سی دنیا میں ہونے والے افعال کے لیے جوابدہ ہیں لیکن انسان کی ذمہ داری صرف اس چھوٹی سی دنیا تک محدود نہیں کیونکہ ہم ازروئے فطرت اپنے اس خول کے مکمل طور پر اسیر نہیں ہیں جسے ایک دن فنا ہوجانا ہے۔ ہم ان سب باتوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور رہیں گے جب تک ہماری عقلِ سلیم پر دروغ وفریب اور سوفسطائیت کے پردے نہیں پڑ جاتے۔ بچہ جونہی بولنے کے قابل ہوتا ہے کچھ اس قسم کے سوالات پوچھنے لگتا ہے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنا چاہتا ہے۔ ٹوٹا ہوا برتن، آنکھ پھوٹی گڑیا اور زمین پر پھیلے دودھ کو دیکھ کر وہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ کس نے کیا ہے؟ ___ سادگی کے اس زمانے سے بہت آگے نکل آنے کے بعد بھی ہم یہ باتیں پھر سے پوچھنا چاہتے ہیں گو ہمارا یقین ڈگمگا چکا ہوتا ہے کہ ان سوالوں کا جواب دیا بھی جاسکتا ہے یا نہیں؟ افعال و واقعات کو ان کے ذمہ دار افراد کے حوالے سے پہچاننا ایک عالمگیر انسانی ضرورت ہے۔ پچھلی ایک صدی کے دوران انسانی صورتِ حال میں جتنی بھی تبدیلیاں آئی ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ اب افعال و حرکات سے ان کے فاعل اور محرک کا سراغ لگانا دشوار ہوتا جارہا ہے۔ پچھلے زمانوں میں یا سادہ معاشروں میں ہر فعل پر اس کے فاعل کی چھاپ ہوتی تھی۔ آج کے پیچیدہ معاشروں میں اگر کسی خاص فعل کے لیے کسی ایک شخص کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی جائے تو اس کے لیے ایک فلسفۂ اخلاق کے مفکر اور ایک جاسوس کی مشترکہ خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ آج حکومت، سماج یا ادارہ عمل کرتا ہے۔ فعل ’’اُن‘‘ سے سرزد ہوتے ہیں لیکن اس صیغۂ جمع ’’ان‘‘ سے نہ تو محبت کی جاسکتی ہے نہ ان پر الزام لگاکر ان پر گرفت کی جاسکتی ہے چنانچہ اپنے جیسے انسانوں سے افعال کو منسوب کرنے کی ضرورت کی تسکین نہیں ہوپاتی۔ آج کے دور میں انسانی فرض مسؤلیت کی تعریف نئے سرے سے متعین کرنی پڑے گی کیونکہ ہمارا موجودہ معاشرہ ملازمت پیشہ اور حکومتی اہلکاروں کا معاشرہ ہے جس میںلوگ اجتماعی نظام کا ایک پرزہ بن چکے ہیں اور اپنے افعال و اعمال میں ان کا اسی قدر ہاتھ ہوتا ہے جتنا پرانے وقتوں کے حلقہ بگوش زرخرید غلاموں کا ہوا کرتا تھا۔ یہ نظرثانی اس لیے بھی ضروری ہے کہ مستقبل کے بارے میں جس حد تک پیش گوئی ممکن ہے اس کے حساب سے نظر یہی آرہا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک ایسی پیچیدہ تر تنظیم کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں کسی بھی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی جو بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر حکومتی اہلکار یا ملازمت پیشہ نہیں ہوگا۔ اسے اچھوت نہیں تو خبطی ضرور سمجھا جائے گا۔ اشتراکی معاشروں میں یہ ایک تسلیم شدہ نصب العین ہے۔ سرمایہ دار ممالک میں بھی یہ ایک ایسی چیز ہے جو قصداً تو نہیں مگر ناگزیر طور پر سامنے آرہی ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج امریکہ میں جسے ’’آزاد تجارت‘‘ کا گھر کہا جاتا ہے، ننانوے فی صد ملازمت کرنے والے کسی نہ کسی ادارے سے وابستہ ہیں جب کہ اس صدی کے آغاز میں وہ اپنا کاروبار کرتے تھے۔ تکنیکی ترقی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی جو دنیا ہم نے اپنے لیے تخلیق کی ہے اس کی بقا کے لیے زیادہ سے زیادہ اجتماعیت اور تنظیم کی ضرورت ہے چاہے یہ کسی بھی نظریاتی نعرے کے تحت کام کرے۔ جب تک ممکن ہوا یہ دنیا باقی رہنے کی کوشش کرے گی چاہے اسے اپنی بقا کی قیمت اپنی آزادی کی قربانی اور اقدار کی بربادی کی صورت میں ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ وہ لوگ جو خلافِ واقع انداز میں یہ سمجھتے ہیں کہ انسان خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے انھیں اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ موجودہ دور جس میں زیادہ تر ذمہ داری فرد کے کندھوں سے اُٹھاکر ریاست کی غیر شخصی مشینری کو منتقل کردی گئی ہے، ایسی شدید تشویش اور احساسِ عدمِ تحفظ کا دور کیوں ہے؟ وہ نہیں جانتے کہ بیشتر لوگ اسی صورت میں اعتماد اور توازن سے قدم اُٹھاسکتے ہیں جب ان کے کندھوں پر ان کی سکت کے مطابق وزن بھی موجود ہو۔ اس بوجھ کے بغیر ان کے پاؤں دھرتی پر نہیں جمتے۔ بوجھ اتار کر وہ اُڑنے کے قابل تو ہو نہیں پاتے، ہاں چلنے کی قوت ضرور کھوبیٹھتے ہیں۔ یہ ایک اور بنیادی ضرورت ہے، دنیا کو سمجھنے کے لیے ہمیں نہ صرف افعال کے فاعل کا علم ہونا چاہیے بلکہ ہمارے لیے اپنی ذمہ داری کی ماہیت سے آگہی اور اپنے فطری فرائض کا ادراک بھی ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر ہم ناآسودہ حالت میں مکمل غیر ذمہ داری (جس میں احساسِ جرم ہمیشہ ستاتا رہتا ہے) اور مبالغہ آمیز تصورِ فرائض و واجبات کے درمیان ڈولتے رہتے ہیں۔ خدائی فوجدار اور آوارہ نکھٹو دونوں ایسی سرزمین کی پیداوار ہیں جس سے سرحدوں کے نشانات غائب ہوچکے ہیں۔ حد بندیاں اور راستے کے نشانات سے اگر ہمارے اندر پابندی یا روک ٹوک کا احساس اُبھرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم انھیں مصنوعی طور پر ٹھونسی ہوئی ایسی چیز سمجھتے ہیں جو ہمارے منظر نامے کا حلیہ بگاڑ دیتی ہیں __مرغزارِ حیات میں پھیلے ہوئے اجلے سفید کھمبے اور باڑیں __جب کہ حقیقتاً موثر جنگلے اور رکاوٹیں یا تو منظر کے اندر خلقی طور پر موجود ہوتی ہیں یا اتنی مانوس اور پرکھوں پرانی ہوتی ہیں کہ ان پر نگاہ ہی نہیں جاتی۔ انسانوںکو ایک نہ ایک قالبِ عمل درکار ہوتا ہے مگر انھیں یہ پتہ نہیں چلنا چاہیے__ یا کم از کم ہروقت یہ یاد نہیں آنا چاہیے کہ وہ ایک لائحہ عمل کے اسیر ہیں۔ شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو اپنے جسم کی طرف سے عائد کردہ قیود اور مجبوریوں __ نیند کی ضرورت، بھوک پیاس کے دائمی تقاضے__سے مضطرب ہوتا ہو لیکن اگر کہیں ہمارے بدن، اپنی ہیئت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے ہفتہ وار تبدیل ہوا کرتے تو زندگی ایک بھیانک خواب بن کر رہ جاتی۔ قالبِ عمل پر اس انداز سے گفتگو کرنا اور سوچنا کہ انھیں حسبِ سہولت ایجاد اور تعمیر کیا جاسکتا ہے خود اس بات کی نشانی ہے کہ انسانی زندگی کی صورتِ حال میں ایک انقلاب واقع ہوچکا ہے۔ اس انقلاب کی جڑیں اگرچہ ان تبدیلیوں میں تلاش کی جاسکتی ہیں جو کئی سو سال پہلے شروع ہوئی تھیں تاہم اس کے نتائج نے اب جاکر کہیں نوع انسان کی اکثریت کو اپنی گرفت میں لیا ہے بلکہ مغربی دنیا کے مردوزن کو بھی کہیں گذشتہ صدی میں آکر اس کے پورے اثرات کا احساس ہوا ہے۔ معاصر ’’اساطیر (Myths)___ارتقائیت، مادیت پرستی، مساوات پرستی __نے جدید ٹکنالوجی کی بھرپور امداد سے فرد کو دھرتی، ہنروحرفت اور خاندان جیسی کائناتی اور سماجی اشیائِ مسلسل و پیہم سے توڑ کر انسانی زندگی کو اس کے نارمل سانچے سے محروم کردیا ہے۔ انسانی قالب عمل (Framework) میں ایسی اساسی اور دوررس تبدیلی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ قبل ازیں زندگی کے احوال و ظروف میں آنے والی تبدیلیاں ہمیشہ ایک ایسے نقشے سانچے کے مطابق ہوا کرتی تھیں جو اپنی حدود کے اندر کم ازکم انسانوں کو مستقل معلوم ہوتا تھا خواہ مؤرخ کی طائرانہ نگاہوں میں اس کی حیثیت کچھ بھی رہی ہو۔ حالیہ صدی کے آغاز سے لے کر اب تک جو کچھ وقوع پذیر ہوا ہے اسے جذب کرنے اور جانچنے پرکھنے کے لیے درجن بھر نسلوں کی مدت بھی شاید ہی کافی ہوسکے۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ اپنی بقا کی جدوجہد میں پھنسی ہوئی ہر مخلوق کی طرح ہم بھی حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور ہمارے ارد گرد جو کچھ ہورہا ہے اس کا بیشتر حصہ ہماری گرفتِ توجہ سے پھسل جاتا ہے۔ رفتارِ سفر اگر ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو ہر شے دھندلا جاتی ہے۔ دور کی چیزوں کے خدوخال گو پھر بھی قدرے واضح نظر آتے ہیں تاہم پیش منظر کی دھندلاہٹ ان پر دھیان دینا ناممکن بنا دیتی ہے اور منظر بے اصل پاکر ایکسپریس ٹرین کے مسافر اپنی اپنی کتابوں یا خیالات کی دنیا میں کھوجاتے ہیں۔ ہمارے عہد کی موضوعیت (Subjectivism) میں بڑا حصہ اس ایک طرح سے کسی تیزرفتار سواری میں قید ہوجانے کے احساس کا ہے اور یہ امر کہ یہ سواری ہم نے خود بنائی ہے (جیسے بچے اَن تھک محنت سے کاٹھ یا تار کا کھلونا بناتے ہیں) ہمیں اس احساس سے نجات نہیں دلارہا کہ ہم ایسے پھندے میں پھنس گئے ہیں جس سے فرار کی کوئی امید نہیں۔ اس قسم کی شتابی رفتار کا ایک اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حسّیات جن کے ذریعہ ہم ماحول سے رابطہ قائم کرتے ہیں سُن ہوکر رہ جاتی ہیں۔ جب ان حسّیات کا عمل ہی معطل ہوجائے تو یہ ہونا بالکل طبعی چیز ہے۔ اگر واقعات کو جذب کرنے کی گنجائش ہی میسر نہ ہو تو ہماری قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں اور ایک طرح کی بے حسی اور سکتہ شروع ہوجاتا ہے۔ پھر کسی بھی چیز کا نہ تو بھرپور ذائقہ نصیب ہوتا ہے نہ صحیح ادراک __حتیٰ کہ خوف بھی جو خطرے کی گھنٹی ہوتا ہے، معطل ہوجاتا ہے۔ تبدیلی کی موجودہ رفتار ازخود بھی مذکورہ نتائج پیدا کرنے کے لیے کافی تھی چہ جائیکہ ماحول بھی ان اثرات میں شدت پیدا کرنے کا موجب بن گیا ہے۔ وہ ماحول جس میں انسانوں کی اکثریت آج زندگی بسر کررہی ہے، وہ ماحول جو فوری اور قلیل المیعاد ضرورتوں کو پورا کرنے والی ’خادمہ‘ ٹکنالوجی نے پیدا کررکھا ہے۔ سوائے فنی تخلیقات کے جو ہماری جسمانی ضروریات سے ورا ہیں، ہمیں اپنی تیار کردہ ہر شے سے بیزاری ہوتی ہے۔ وہ لوگ خاصے حق بجانب ہیں جو ایک چیز تعمیر کرتے ہیں، چند آسودہ لمحات میں اسے سراہتے ہیں اور پھر اسے ڈھاکر کوئی اور نئی چیز بنانے کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ ایک مکمل طور پر انسان ساختہ ماحول میں، اپنی ہی مصنوعات کے شور شرابے میں گھِر کر زندگی گزارنے سے ہم ایک تنگ دنیا میں تنہا رہ جاتے ہیں۔ اس تنگنائے میں ان چیزوں تک پہنچنے کی ہر استعداد گھٹ کر رہ جاتی ہے جو عالمِ بشری سے ورا واقع ہیں۔ اپنی بدنمائی اور عالمِ فطرت سے بُعد کے اعتبار سے یہ ماحول منکرین کے نفس کا خارجی پر تو ہے۔ ساتھ ہی یہ ان کے فلسفے کا عکس بھی ہے۔ یہ ماحول کوئی روحانی غذا فراہم کرنے کی سعی نہیں کرتا۔ کرے بھی کیوں! جب کہ اس کا کل مقصد تو چند عملی تقاضوں کی تسکین ہے۔ حسّیات میں یہ ماحول ہیجان تو برپا کرتا ہے مگر انھیں کوئی سکون نہیں دے پاتا۔ اس کی پیش کش صرف ایک ایسا سیاق و سباق ہے جس میں لگاتار اور اکثر بے مقصد سرگرمی جاری رہ سکے۔ ایک بنجرماحول کے کارن حسّیات پر جو سکتہ طاری ہوتا ہے اس میں اور ’’خوابیدگی۔ِ حسّیات‘‘ میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ یہ ’’خوابیدگی حسّیات‘‘ یا حسّیات کا سکونی ٹھہراؤ اس احساسِ جمال سے پیدا ہوتا ہے جس میں دو دنیاؤں کے درمیان کی رکاوٹیں تحلیل ہوجاتی ہیں یا پھر فوری محسوسات سے ورا کی چیزوں پر ایسے ارتکازِ توجہ سے عمل میں آتا ہے جس سے حقیقتِ مدرکہ دھندلی نہیں بلکہ شفاف ہوجاتی ہے۔ نفوذِ جمال اور استحکامِ ارتکاز کے لیے وقت اور ٹھہراؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید سیاق و سباق میں واقعات جس رفتار سے پے در پے جنم لیتے ہیں اور ان واقعات کے قالب جس سرعت سے شکل بدلتے رہتے ہیں ان کی بدولت مہلت اور ٹھہرائو دونوں ہی ہماری اقلیمِ حیات سے ملک بدر ہوچکے ہیں __ دھندلائے ہوئے اس منظر، اس تیرہ وتار مکان میں واضح اور کڑے متبادلات کا چناؤ اور اس چناؤ کی ذمہ داری قبول کرنا دو گنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس کے لیے وقت اور ٹھہراؤ درکار ہے۔ ہردم بدلنے والا ماحول صرف ایسے انسانوں کو جنم دے سکتا ہے جن کی چناؤ کی استعداد شکستہ و متزلزل ہوچکی ہو __سمندر کی موجوں میں کیونکر انتخاب کیا جاسکتا ہے؟ پھر انسان بھی وہ جو خود روحانی غذا اور مکانی استقرار سے محروم ہوکر اس بدلتے ہوئے منظر نامے میں کسی مستقل نکتے پر نہیں رہ گیا۔ اس کا متغیر ماحول اسے ہر آتی جاتی رو اور ہر رخ بدلتی ہوا کے مطابق ڈھلنے پر مجبور کرتے کرتے اس کے اندر ایسا عدم استحکام پیدا کردیتا ہے جو اس کی قوتِ فیصلہ کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس کے ہم جنسوں نے جو دنیا اپنے گرد تعمیر کررکھی ہے اس کا معیارِ حرکت اگر برقرار رہنا ہے تو انسان کو اس کے مطابق ڈھلنا، اس سے قدم ملاکر چلنا ہوگا ورنہ وہ عدمِ حقیقت کی ارضِ لاوارث پر جانکلے گا۔ حقیقی دنیا یہ ہے۔ اس سے کوئی مفر نہیں ہے۔ باقی سب کچھ بے اصل ہے۔ اسی میں جو ہوسکے کرو جو فائدہ اُٹھاسکو اُٹھاؤ__ یہی آج آدمی کے ذہن میں ٹھونسا جارہا ہے۔ اس کو، عام آدمی کو، انبوہِ انسانی کے فرد کو، مضبوط اور محسوس اشیا کے اس ماحول میں سے اکھاڑ لیا گیا ہے جو انسانی نسلوں کے حوالے سے مستقل رہا ہے اور اکھاڑ کر ایک قابلِ تبادلہ آلۂ کار بنادیا گیا ہے۔ وہ کاشت کار جو دھرتی کی دیکھ بھال نہیں کرتا یا اپنی فصلوں کی سینچائی سے غفلت کرتا ہے بہت جلد اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگت لیتا ہے اور چونکہ ایک قسم کی حقیقت اس پر ایسا سخت دباؤ ڈال چکی ہوتی ہے کہ وہ اسے جھٹلانے یا نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا لہٰذا دوسرے میدانوں میں بھی وہ حقیقی اور خیالی ،لازمی اور غیر ضروری کے درمیان امتیاز کرنے کا قرینہ سیکھ جاتا ہے۔ جب کہ ملازمت پیشہ یا سرکاری اہل کار بیکار نظریات اور فاش اغلاط کے جلو میں طویل عرصہ تک گزر بسر کرتے رہتے ہیں تاوقتیکہ ان پر کسی حقیقت کا دروا نہ ہوجائے۔ تھیبوںؔ خود بھی کسان گھرانے سے ہے، اس نے لکھا ہے کہ: کاشت کاروں میں خواہ خرابیاں دوسرے لوگوں جتنی ہوں مگر کجروی اور انحراف کمتر ہوتا ہے۔ ان کی نیکی سے زیادہ مَیں ان کی صحت مندی سے متاثر ہوں۔ کج روی سے اس کی مراد وہ قطعاً نہیں ہے جو اخلاق پرستوں کے ہاں پائی جاتی ہے بلکہ کجروی حقیقت سے کسی بھی سطح پر منہ موڑنے کا نام ہے۔ چاہے پیروں تلے کی زمین سے ہو یا سرپر پھیلے ہوئے آسمان سے۔ روشنی سے منہ موڑ کر اپنے اپنے اندھیروں میں سمٹ جانے کا نام۔ دہقان، جس پر مہذب افراد ناک بھوں چڑھاتے ہیں، ایک ایسی کھری زندگی کا نمائندہ ہے جس کے مقابلے پر جدید زندگی کا بوداپن اور کھوکھلی بنیادیں مزید نمایاں ہوجاتی ہیں۔ انسانوں کو اپنے مقاصد کے لیے آلۂ کار بناکر استحصال کرنے کا فن کمیونسٹوں سے زیادہ کون جانتا ہے مگر وہ بھی دہقانوں کو ترنوالہ نہیں بناسکے۔ چھوٹا تاجر اور بیوپاری جس طرح مستقل اپنے افعال کے نتائج کا سامنا کرتا رہتا ہے وہ ایک بڑے ادارے کے ارکان کو نہیں کرنا پڑتا۔ مؤخرالذکر کو اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی غیر یقینی اور زیادہ ترغیر حقیقی آرا سے لگانا پڑتا ہے۔ نجی اور معاشرتی زندگی میں پہلے ہی سے وہ ان آرا کا محتاج ہوچکا ہے۔ اس کے برعکس وہ فطری قوتیں ہیں جو اس کے افعال کا نتیجہ ایسی ناقابلِ خطا باضابطگی سے اس کی طرف لوٹاتی ہیں جو انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ ملازمت پیشہ کی طرف اس کے افعال کا نتیجہ انسانی واسطوں کی چھلنی سے گزر کر لوٹتا ہے چنانچہ وہ ان کو آسانی سے اپنے اعمال کا انجام سمجھنے کے بجائے اپنے افسرانِ بالا کی خیر خواہی یا بدنیتی سے تعبیر کرسکتا ہے۔ پہلے جو فعل اور اس کے نتیجے کے درمیان ایک کھرا صاف رشتہ تھا وہ اب طرح طرح کی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا ہے اور اس کی مختلف تشریحات کی جاسکتی ہیں۔ موضوعیت ہر سطح پر درآئی ہے اور فرد کے لیے یہ جاننا مشکل ہوگیا ہے کہ صداقت کا کیا مطلب ہے صداقت یا جھوٹ اور بناوٹ میں کیا فرق ہے۔ غیر مستحکم اور مصنوعی ماحول نیز ایسے پیشوں کے اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں جن میں سبب اور اس کے نتائج کا آپس میں کوئی براہِ راست تعلق نہ ہو لیکن اس کے علاوہ جدید معاشروں میں ایک چیز اور بھی ہے جو آزاد چناؤ اور اس کی ذمہ داری اُٹھانے کی صلاحیت تباہ کردیتی ہے۔ وہ ہے فرد کی حفاظت جو آجکل معاشرے کی ذمہ داری سمجھی جانے لگی ہے۔ یہ حفاظت صرف حادثات یا ناگہانی آفتوں سے نہیں ہے بلکہ ہر اس مشکل سے بھی جو فرد اپنے لیے پیدا کرسکتا ہے۔ یہاں آکر ہم ایک اخلاقی ابہام کا شکار ہوجاتے ہیں۔ طوفان سے بچ کر کہیں پناہ لینا اور اس پناہ گاہ میں اپنے ہمسائے کو جگہ دینا فطری سی بات ہے۔ جانتے بوجھتے چوٹ یا نقصان اُٹھانا حماقت ہے اور اپنے جیسے دوسرے شخص کی افتاد کو نظر انداز کرنا خباثت۔ مگر دوسرے لوگوں کو ان کی اپنی حماقتوں یا خباثتوں کے نتائج سے بچانا صرف ایک خاص حد تک ہمارے لیے ضروری ہے۔ اس سے آگے نہ ہماری ذمہ داری ہے نہ ہمیں اس کا حق پہنچتا ہے۔ جس طرح درد کا احساس ہمارے جسم میں ہونے والی گڑبڑ سے ہمیں خبردار کرتا ہے اسی طرح کچھ نہ کچھ مصیبت یا مشکل بھی انسانی زندگی میں خاص کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے بغیر انسان کبھی پختگی حاصل نہیں کرسکتا نہ اپنی دنیا کی ماہیت جان سکتا ہے۔ جب یہ فرض کرلیا جائے کہ موقع ملتے ہی بالغ افراد غیرذمہ دار بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگیں گے اس لیے بہتر ہے کہ انھیں موقع ہی نہ دیا جائے، تو ایک تنگ نظر، دم گھونٹنے والی سرپرستی جنم لیتی ہے۔ یہ زبردستی کی سرپرستی انھیں بچانے کی کوشش میں اپنے مقصد کا خود ہی گلاگھونٹ دیتی ہے، ہمیں دوسرے انسانوں سے پہنچنے والے ہر ممکنہ ضرر سے بچانے کا تقاضا یہ ہے کہ دوسروں کو مضبوطی سے باندھ کر رکھا جائے اور ہمیں بھی پابہ زنجیر کردیا جائے کہ ہم دوسرے لوگوں کے اعتبار سے اور ان کے لیے ’’دوسرے‘‘ ہیں۔ یہ وہ اخلاقیات ہے جو بضد ہے کہ انسانوں کی کلائیاں باندھ دی جائیں، مبادا وہ اپنے گھونسے استعمال نہ کرنے لگیں اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی جائیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ غلط راستوں پر چل نکلیں۔ ہماری بہبود کے لیے اس بے پناہ فکرمندی کا ایک ہی منطقی نتیجہ نظرآتا ہے کہ ہم سب کو پابندِ سلاسل کردیا جائے اس طرح کہ ہم خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں نہ دوسروں کو۔ آگے چل کر ہم اس ضمن میں مزید گفتگو کریں گے کہ کس طرح ایک نام نہاد مفاد عامہ کی خاطر شخصی آزادی کم سے کمتر کی جارہی ہے۔ اس وقت ہم اس فقرے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جو اخبارات، رسائل، ٹیلی وژن اور عام گفتگو میں بار بار سننے میں آتا ہے۔ اس فقرے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر شخصی آزادی کی تھوڑی سی قربانی سے انسانی جانوں کا بھلا ہوتا ہو تو ہمیں یہ قربانی دے دینی چاہیے۔ کچھ عرصہ بعد یہی فقرہ ہماری آزادی کی قبر پر لوحِ مزار کے طور پر درج ہوگا کیونکہ اس کے استعمال کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ تھوڑا تھوڑا خسارہ بھی بڑا نقصان بن جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایسے لاکھوں نہیں تو ہزاروں خسارے دیکھنے میں آئے ہیں۔ ان کو اس لیے برداشت کیا جاتا رہا ہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اس حد کا علم ہے جہاں تک وہ اپنی آزادی کا استحصال برداشت کرسکتے ہیں۔ عام مفروضہ ہے کہ ایک ایسا فطری، انضباطی نظام موجود ہے جو غلامی اور پابندی کو ناقابلِ برداشت اور مہمل مقدار تک پہنچنے سے قبل روک دینے کی ضمانت دے سکتا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ جو حالات ایک نسل کو ناقابلِ برداشت اور مہمل لگتے ہیں اگلی نسل ان کو بے چون وچرا تسلیم کرلیتی ہے کیونکہ اس نے پچھلی نسل سے ایک سطح نیچے سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے خسارے اکٹھے ہوتے جانے کی کوئی طے شدہ حد نہیں ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ نہیں ہے کہ کسی نئے قانون یا ضابطے کی کیا اہمیت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ضابطہ بذاتِ خود خفیف اور معمولی ہو۔ یاد یہ رکھنا ہے کہ یہ قانون کس سمت میں اشارہ کرتا ہے، کس رجحان کی غمازی کرتا ہے اور سابقہ اور آنے والے قوانین و ضوابط کے سیاق و سباق میں اس کا کیا مقام ہے؟ یہ بات ذہن میں رکھ کر اگر دیکھا جائے تو ہمارے تحفظ کے نام پر کیے جانے والے بہت سے اقدامات ایک ایسے گراف کو تشکیل دینے والے نقطے نظر آنے لگتے ہیں جو نافرجام بھی ہے اور اپنے مضمرات کے اعتبار سے خطرناک بھی۔ دریں اثنا ہم اپنے آرام دہ قید خانے میں احساسِ فضیلت سے سرشار (آخر ہم ہی تو ہیں جنھوں نے پہلی مرتبہ صحیح معنوں میں اپنے ساتھیوں کی خبرگیری کی ہے!) دن بدن پدری معاشرے (بلکہ مادری معاشرے) کے دست نگر بنتے جارہے ہیں اور اس معاشرے کی فراہم کردہ آسائشوں اور فائدوں کو بغیر یہ سوچے سمجھے قبول کرتے رہتے ہیں کہ اس کی ہمیں کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی؟ اس قسم کے محافظانہ ماحول کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کی طبعی آگہی ختم ہوجاتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ شخصی ذمہ داری کا احساس جسم کے اس پٹھے کی طرح مرجھا کر رہ جاتا ہے جو استعمال میں نہ رہا ہو۔ ہمیں کسی ضعیف شخص یا کسی بے سہارا بچے کی مدد کے لیے ہاتھ پاؤں ہلانے کی کیا ضرورت ہے جب یہ فریضہ دوسروں کے حوالے کیا جاسکتا ہے! جب ہمیں ناانصافی یا کسی کی تکلیف نظر آتی ہے تو ہم ’’ان‘‘ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کا مداوا کریں اور اگر خود کوئی عملی قدم اُٹھائیں بھی تو وہ، زیادہ سے زیادہ صورت حال سے نپٹنے کے لیے نئے قوانین اور ضابطوں کے مطالبے تک محدود ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس قسم کی قوانین سازی عمومی تابکاری معالجات کی طرح ہے جو سرطانی خلیوں کے ساتھ ساتھ صحت مند خلیوں کو بھی تباہ کردیتی ہے۔ جن افراد کو اپنے افعال کا نتیجہ دن رات بھگتنا پڑتا ہو انھیں ذمہ داری کا مفہوم سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ مفہوم کہ ہر عمل کا ایک صاحبِ عمل ہوتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ ان کے وجود پر نقش ہوتا ہے۔ پدرانہ معاشرے کی پیداوار افراد __ سرکاری اہل کار، ملازمت پیشہ لوگ __کوایسا کوئی سبق میسر نہیں ہوتا اور نتیجتاً وہ حقیقت کی تمیز کھوبیٹھتے ہیں __کھری اور حقیقی دنیا میں رہنے کا احساس جب جاتا رہے تو انسان کا وہ تصورِ ذات بھی کمزور پڑجاتا ہے جس کے تحت وہ خود کو ایک ایسے ماحول پر کارفرما ہونے کے قابل سمجھتا ہے جو اس کی روزمرہ کی درمیانی دنیا کے علاوہ جنت اور جہنم کی جہات پر بھی مشتمل ہے۔ دورِ حاضر میں انسان کا جو تصور پیش کیا جاتا ہے اس کے حوالے سے تو ذمہ داری کا نظریہ ہی مضحکہ خیز لگنے لگتا ہے۔ یہ حقیر اور لاچار بالشتیہ ایسے افعال کا مالک اور خالق کیسے ہوسکتا ہے جن کی بازگشت تمام عوالم میں سنائی دیتی ہے۔ انسان بحیثیت ایک مجر۔ّد تصور کے ہمیں خواہ کتنا ہی بااختیار معلوم ہوتا ہو، وہ انسان جس نے مبینہ طور پر عالمِ طبعی کو مسخر کیا (اور پہلی بار اسی دھرتی کے سینے پر دائمی ناسور پیدا کیے جو اسے اُٹھائے ہوئے ہے)۔ ہمارے دور کے عام آدمی کو قوت کا کوئی خاص احساس نہیں ہوتا۔ وہ تسخیر کے عمل پر کوئی اختیار نہیں رکھتا بلکہ خود اس کا اسیر ہے او رکبھی کبھی تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی بے ڈھنگے حادثے کے نتیجہ میں اس عمل میں ملوث ہوگیا ہو۔ شاید ہی کچھ لوگ ایسے ہوں جو یہ سمجھتے ہوں کہ ان کے کسی فعل یا خواہش سے تکنیکی اور سائنسی ترقی کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ بات البتہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ خود اس ترقی میں اس کی تلپٹ ہونے اور تباہی کے امکانات مضمر ہیں __اگر ہم ایک ایسے عمل کے خاموش تماشائی ہیں جو ہماری ذہنی، قلبی اور جسمانی قوتوں کا خراج لے کر بھی ہمارے ارادوں اور خواہشات سے بے نیاز اپنے انجام __ سربلندی یا تباہی __کی طرف بڑھتا رہے گا تو اس میں قابلِ فخر بات کونسی ہے؟ پچھلے وقتوں کے لوگوں کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ حقارت سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ حالات کو اٹل اور تقدیر کا لکھا سمجھ کر مصائب اور نقصانات کو خاموشی سے قبول کرلیتے تھے۔ غور کیا جائے تو ہمارے دور کے بیشتر لوگ بھی اسی ’’جبریت‘‘ کے انداز میں اس عمل کو قبول کیے ہوئے ہیں جس میں وہ بلا ارادہ اُلجھ گئے ہیں۔ ترقی اور تقدم اپنے تکلیف دہ ضمنی اثرات سمیت ناگزیر ہیں۔ اگر عہدِ حاضر کے سارے ایٹمی اور حیاتیاتی وسائل استعمال کرنے کی ضرورت آن پڑی تو ہمارا دور اِن حربوں کو برتنے سے باز نہیں رہے گا اور جس انفعالی جبریت سے آج کا انسان ان ’ناگزیر‘ واقعات کو قبول کررہا ہے اس سے ان جانوروں کا خیال آتا ہے جنھیں مذبح کی طرف لے جایا جارہا ہو بلکہ شاید وہ وقت یاد آتا ہے جب نازی کیمپوں میں انسانوں کے انبوہ گھسٹتے قدموں سے چل کر خاموشی سے گیس چیمبروں میں موت کے گھاٹ اُتر جاتے تھے۔ جب حالات بگڑ جائیں یا یوں کہیے کہ بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوجائیں تو فوراً یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ یہ ایک عارضی انحراف ہے جسے جلد ہی ٹھیک کرلیا جائے گا کیونکہ فطرت کا قانون ہی یہ ہے کہ ارتقا بہتر کی طرف ہوا کرے۔ اب قوانینِ فطرت کے ساتھ ایک حتمیت اور اٹل ہونے کا احساس چمٹا ہوا ہے۔ سورج ایک بہت طویل مدت سے ایک مقررہ وقت پر باقاعدگی سے طلوع و غروب ہوتا چلا آرہا ہے اور اس کے بارے میں آپ صحیح تخمینہ لگا سکتے ہیں۔ ہماری موجودہ صورت حال کے بعض مخصوص پہلوؤں پر سخت تنقید بھی ہوتی رہی ہے اور اکثر کہا گیا ہے کہ انسان نے طبعی کائنات پر جتنی ’’ملکیت‘‘ اور دسترس بہم پہنچائی ہے اس کے مقابلے میں اس کی ’’اخلاقی ترقی‘‘ کہیں پیچھے رہ گئی ہے تاہم لوگوں کی اکثریت نے یہ بات بلاسوچے اور پرکھنے کی زحمت کیے بغیر تسلیم کرلی ہے کہ ہم جس سمت میں سفر کررہے ہیں اس سمت کا تعین کچھ ایسے قوانین سے ہورہا ہے جو اتنے ہی اٹل ہیں جتنے گرتے ہوئے اجسام پر لاگو ہونے والے کششِ ثقل کے قوانین (البتہ اس معاملے میں وہ جسدِ انسانیت کو گرتا ہوا نہیں بلکہ اوپر اُٹھتا ہوا جسم تصور کیے ہوئے ہیں)۔ وہ لوگ جو عام طور پر فطری قوانین کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کو اپنی مرضی سے ڈھالا جاسکتا ہے وہ اس قانون کو اتنی سعادت مندی سے قبول کرلیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قانون فطرت کا نہیں بلکہ ان کا اپنا اختراع کردہ ہے۔ وہ لوگ جو مشیتِ ایزدی اور اس کے سامنے جھکنے کے تصور کو بہ نظرِ حقارت دیکھتے ہیں اور ایسے خدا کے تصور ہی سے چراغ پا ہوجاتے ہیں جو تسلیم و تفویض کا تقاضا کرے وہی لوگ اس عمل کو بلاچون و چرا تسلیم کرلینے میں پیش پیش ہوتے ہیں جس میں ہم آج گرفتار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ اس میں رضامندی سے شریک ہونے کو اخلاقی فریضہ گردانتے ہیں۔ ہر دوسرا رویہ ان کے خیال میں فراری، رجعت پرست اور سماج دشمن مزاجی رویہ ہے۔ شاید انھیں پرستش کے لیے آخر کار ایک معبود فراہم ہوگیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ہم اس کے سوا اور کیا کہ سکتے ہیں کہ ’اللہ ان پر رحم کرے‘۔ مذہبی عقائد سے اخذکردہ مطلق اُصولوں کے ’نام نہاد‘ استبداد سے فرار ہوکر ہم صحیح اور غلط اور اوامرونواہی کے معاملے میں اکثریت کی رائے یا رائے عامہ کی حقیقی اور واقعی آمریت میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ مطلق مذہبی اُصول چونکہ صرف اسی دنیا سے متعلق نہیں تھے لہٰذا عملاً اطلاق کے لیے ان میں ایک مخصوص لچک پائی جاتی تھی اور عملی زندگی میں ان کی مختلف تعبیرات و تفسیرات کی گنجائش تھی جب کہ آج کی رائے عامہ کی آمریت واقعی آمریت ہے جو کوئی لچک اور گنجائش فراہم کرنے کی روادار نہیں۔ پرانی اخلاقیات دیرپا اور مستحکم تھی پھر بھی اس میں حرکت کی گنجائش تھی۔ جدید اخلاقیات بے لوچ اور بے خرد ہے اور اس خشونت اورصلابت کی تلافی کے طور پر مقبولِ عام آرا کے فیشنوں کی صورت میں اور پروپیگنڈے کے زیرِ اثر سال بہ سال بدلتی رہتی ہے۔ صحیح اور غلط کا ہر نیا نظریہ سابقہ نظریے کو دھکیل کراس کی جگہ لے لیتا ہے۔ کچھ عرصہ لوگوں کے ذہن پر مسلط رہتا ہے پھر اس کی جگہ کوئی دوسرا نظریہ لے لیتا ہے۔ آج جو شخص رائے عامہ کے اعتبار سے راست باز ہے کہ وہ آج اور اب ہجوم کی رائے کے مطابق عمل کررہا ہے، گزر ے ہوئے کل میں گناہگار سمجھا جاتا تھا اور آنے والے کل میں بدمعاش کہلائے گا۔ اس اخلاقی بلیک میلنگ کو سمجھنے کے لیے مغربی ممالک اور اشتراکی بلاک کے لیڈروں کی تقاریر سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ ان کی اپیل ہمیشہ ان راست فکر، مہذب افراد سے ہوتی ہے جو سب کی بہتری چاہتے ہوں۔ یہی وہ تکنیک ہے جس سے لوگوں کو اس طرح بے وقوف بنالیا جاتا ہے کہ وہ طغیانِ شرکی حمایت نہ بھی کریں تب بھی اس کی مخالفت سے باز رہتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا حق تو نہیں پہنچتا کہ دوسرے انسانوں کو بحیثیتِ انسان حقیر سمجھیں کیونکہ کہ ہم ان کے دروں ترین ’راز‘ سے واقف نہیں۔ مگر ہمیں اس ’’حیوانِ کبیر‘‘ (یہ وہ اصطلاح ہے جس سے سیموں ویل نے معاشرے کو موسوم کیا ہے) سے نفرت کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور اس کی ان آرا سے بھی، جنھیں وہ اپنے غیر شخصی سفلہ پن کے ذریعہ ہم پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ ایک ایسے دور میں جو کلبیت شعار فرض کیا جاتا ہے، مروّجہ اخلاقیات کے علمبردار جو ’مساوات‘ اور’ سماجی انصاف‘ کی باتیں کرتے ہیں بزعمِ خویش اتنے ہی پارسا ہیں جتنے سترہویں صدی کا کوئی (Puritan) یا اُنیسویں صدی کا کوئی مشنری۔ ان میں خود پر تنقید کرنے کی زیادہ ہمت ہونا چاہیے۔ اس پر طرّہ یہ کہ اس جدید (Puritanism) نے پرانے رویّے کابے معنی روزمرّہ اور محاورہ بھی فوراً اپنا لیا ہے۔ مثلاً انسانوں میں دولت کا فرق ’’نازیبا‘‘ ہے اور یہ تصور ’’ناشائستہ‘‘ ہے کہ کچھ لوگ وہبی طور پر دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں۔ یہ اور اس قسم کی اور بہت سی اصطلاحات کے پیچھے کسی مذہبی تحریک یا عقیدے کا ہاتھ نہیں۔ یہ تو ایک تاریخی رجحان ہے جو بہت سے خول چڑھا کر اور کئی ناموں کی آڑ لے کر کام کرتا رہا ہے۔ اس کا اصلی روپ شاید ہی کبھی بے نقاب ہوا ہو۔ جو لوگ اس کے آلۂ کار بنتے ہیں انھیں خود اس کی خبر نہیں اور ان کی بے خبری اس کے لیے مفید ہے۔ ایک ایسا شخص جو شعوری طور پر لوگوں کو دھوکا دیتا ہے اور قصداً انھیں گمراہ کرتا ہے سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایک شخص اگر خود یقین نہیں رکھتا تو دوسروں کو یقین کیونکر دلاسکتا ہے اور اگر خود ہی کسی بات کا قائل نہیں تو دوسروں کو کیا قائل کرے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس مبہم لیکن قوی رائے عامہ میں پوری طرح شریک ہے یا نہیں جس نے لوگوں کے قلب و ذہن پر تسلط جما رکھا ہے۔ ازمنۂ ایمان میں تمام آرا ایک مطلق اور غیر متغیر اُصول کی روشنی میں ترتیب پاتی تھیں۔ اب اس اُصول پر سے ایمان اُٹھ جانے کے بعد لوگوں کے قلب و ذہن رائے عامہ کے دھارے میں بہنے لگے ہیں۔ جو بے معنی معتقدات آجکل زور پکڑتے جارہے ہیں وہ کبھی اتنے مقبول نہ ہوتے اگر انسانوں کے اندر ایک خلا کا احساس نہ ہوتا جسے بھرنا ضروری ہے، ایک لاعلمی جو تیقنات کا مطالبہ کرتی ہے خواہ جعلی اور مہمل ہی کیوں نہ ہوں۔ انسان جاننا چاہتا ہے۔ اگر اسے حقیقی علم میسر نہ ہو تو وہ باطل ہی کو نگل لیتا ہے اور اسی کو علم بنالیتا ہے۔ لیکن یہ صرف ان کے ساتھ ہوتا ہے جو خاک و باد کی عمومی اور روز مرہ سطح پر حق سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس سے برتر کسی سطح پر بھی حق سے آشنا ہونے کی امید کھوبیٹھتے ہوں __ وہ پردے جن کے پیچھے حیاتِ انسانی کے نارمل حقائق ان سے اوجھل ہیں، بعض دیگر چیزیں بھی ان سے چھپائے رکھتے ہیں۔ اس قسم کے پردے صرف حفاظت ہی نہیں کرتے بلکہ بہت کچھ زندگی سے خارج بھی کردیتے ہیں۔ یہ ہمیں ایک خوابوں کی دنیا میں محبوس کردیتے ہیں جہاں حماقت کو حکمت اور حق کو باطل دیکھنا آسان ہوتا ہے اور ان کا فرق کوئی بتانے والا نہیںہوتا۔ اس لیے کہ اس فرق کو دیکھنے کے لیے جو چمکدار روشنی درکار تھی وہ تو کب کی بند ہوچکی۔ ایسی کمزور مخلوق سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے اگر اسے کھلے میدانِ عمل میں لاپھینکا جائے، ان پالتو جانوروں کی طرح جنھیں اپنا دفاع خود کرنے کے لیے جنگل میں تنہا دھکیل دیا گیا ہو۔ وہ کسی بھی صورت میں حق کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دریں حالیکہ جو پناہ گاہ انھیں ان کو اپنی حماقتوں اورفطرت کی اَن دیکھی قوتوں سے بچانے کا کام کررہی ہے وہ اس قدر کمزور ہے کہ کسی وقت بھی ڈھے سکتی ہے۔ اس کا وجود ہی نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی فراوانی اور خوشحالی کی ضمنی پیداوار ہے۔ وقت آنے پر پتہ چلے گا کہ یہ مہربان معاشرہ جب دولت سے محروم ہوگا تو فرد کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ اس معاشرے کا علانیہ مقصود تھا زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مسرت کا حصول! آج کل کی صورت حال، جو افسوس ناک تو ضرور ہے مگر غیر متوقع نہیں، یہ ہے کہ اس معاشرے کو اپنے اس مقصد میں جو اس کا جوازِ وجود ہے کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انسانوں میں شاید تشویش کی ایک غیر متغیر صلاحیت کارفرما ہے۔ جتنا یہ معاشرہ اپنے شہریوں کو ان تمام ذمہ داریوں اور پریشانیوں سے بے فکر کرتا جاتا ہے جو عام طور پر انسانی معاملات سے لگی رہتی ہیں، اتنا ہی لوگ اپنی مذکورہ صلاحیتِ تشویش کو غیر اہم گھٹیا اشیا پر پریشان ہونے کے لیے صرف کرنے لگتے ہیں، وسیع پیمانہ پر رائی کو پہاڑ بنانے لگتے ہیں اور انھیں ایسے مسائل پر ’’اعصاب زدگی‘‘ کے دورے پڑنے لگتے ہیں جن کو آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ کٹھن حالات میں زندگی بسر کرنے والوں نے بھی کبھی درخورِ اعتنانہ جانا تھا۔ برطانیہ اور امریکہ کے وہ لوگ جو دوسری عالمی جنگ کا زمانہ دیکھے ہوئے ہیں ان کی یادداشت میں آزمائش اور خطرات کا وہ دور اُن کی زندگی کا سب سے پُر مسرت دور تھا۔ یہ چیز کس بات کو ظاہر کرتی ہے؟ خوشی ایک گریزاں کیفیت ہے جسے قانونی ضابطوں کے ذریعہ نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملے میں انسان اس بچے کی طرح ہے جو دنیا جہاں کے تحائف پاکر بھی ضد کرے کہ جس چیز کو اس کا جی چاہ رہا ہے وہ اس ڈھیر میں موجود نہیں۔ یہ امر ان لوگوں کو دل برداشتہ کرنے کے لیے کافی ہے جو سب کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ آسانی سے ہار نہیں مانتے۔ دورِ ملوکیت میں اینگلوسیکسن لوگ سب سے زیادہ ہٹ دھرم مشنری ثابت ہوئے تھے اور یہ جذبہ اب بھی باقی ہے (خصوصاً بائیں بازو کے حلقوں میں) مگر اب اس کا رخ اندر کی طرف، اپنے معاشروں کی سمت ہوگیا ہے۔ نئی اخلاقیات یا نئے تصور و معیارِ انسانی کا اس شدومداور برخود غلط انداز سے پرچار کیا جاتا ہے جو عیسوی کلیسا کے قدرے بدعتی ذیلی فرقوں کے علمبرداروں کا خاصا تھا جب وہ ننگ دھڑنگ غیر عیسائی ’کافروں‘ کو یہ سمجھانے نکلتے تھے کہ ان کے حق میں بہتر کیا ہے۔ صرف جگہ اور لباس بدل گئے ہیں۔ جو شخص اس تمام کے باوجود ان چیزوں کو ماننے میں دشواری محسوس کرتا ہو جو جدید اخلاقیات کے علمبرداروں کے لیے بدیہی ہیں اور آج کے فیشن کے مطابق ’نارمل‘ بننے سے قاصر ہو اسے نفسیاتی علاج کا محتاج سمجھا جاتا ہے۔ ہم روسی حکام کو اس بات پر ہدفِ تنقید بناتے ہیں کہ وہ اپنے باغیوں کو ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں قید کردیتے ہیں کہ ان کے لیے ہر وہ شخص تھوڑا سا پاگل ہے جو ’’اشتراکی اخلاقیات‘‘ کا مقلد نہیں۔ سیموں ویل کا حیوانِ اکبر، ایسا خدا بن چکا ہے جس کا منکردیوانہ ہے اور اس معنی میں ’غیر سماجی‘ (anti-social) ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ حقیقت سے کٹ چکے ہیں۔ مغرب میں انقلاب کی جگہ ’’تدریج‘‘ رائج ہے لہٰذا وہاں معاملات اتنے تیکھے اور واضح نہیں ہیں وگرنہ سمتِ سفر ہماری بھی وہی ہے اور طبِ نفسی (Psychiatry) سماجی مطابقت کا پرچار کرنے میں بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ اُصولاً توطبیب نفسی اپنا منصب صرف یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کو اس ماحول میں ہرممکنہ حد تک خوشگوار زندگی گزارنے میں مدد دے جس میں وہ موجود ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کوئی اخلاقی فیصلہ نہیں دیتا کہ اچھا کیا اور برا کیا ہے۔ اسی طرح جیسے موٹرگاڑیوں کے مستری کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ مرمت ہوجانے کے بعد موٹرگاڑی کس رخ میں چلائی جائے گی۔ خرابی یہ ہے کہ انسانی صورت حال ہمیں اس قسم کی غیرجانبداری کی اجازت نہیں دیتی۔ طبیب نفسی انسان ہوتے ہیں اور ان میں بھی انسانی افعال کو اخلاقی سیاق و سباق میں دیکھنے کا وہی رجحان پایا جاتا ہے جسے دور کرنا ممکن نہیں، نیز ان کے مریض بھی انسان ہوتے ہیں موٹر کاریں نہیں۔ ان دونوں کا فرق نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ موٹرگاڑیاں اپنی سمت کا چناؤ نہیں کرتیں جب کہ انسان کرتے ہیں خواہ جزوی اور محدود معنی ہی میں ہو۔ انسان کو ایک بگڑے ہوئے معاشرے یا واصل بہ تباہی معاشرے سے سازگاری کی ترغیب دینا درست ہے یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس سے طبیبِ نفسی حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سوال کے جواب کے لیے قدری فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور بیشتر طبیبِ نفسی ایسے فیصلوں کو اپنے دائرہ۔کار سے بارہ پتھر باہر رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ مگر یہ تصور رکھنا ہی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ لوگ انسانی فطرت سے نرے نابلد ہیں۔ ہمارے نزدیک قابلِ تعریف کون ہے؟ وہ غلام جو حالات سے سمجھوتا کرکے غلامی کی زنجیروں میں مست رہتا ہے یا وہ غلام جو فرار ہوکر آزاد انسان بن جاتا ہے؟ زیادہ تر لوگ فرار ہونے والے کی حمایت کریں گے مگر طبیبِ نفسی نے خود کو اس کام کے لیے وقف کررکھا ہے کہ ’فراریت‘ کے ہر رجحان کے خلاف جدوجہد کرے خواہ یہ رجحان کوئی بھی شکل اختیار کرے اور لوگوں کو اپنے دور کے حالات سے مطابقت پیدا کرنے کا مشورہ دے، محض اس لیے کہ یہ حالات موجود ہیں، جیسے ایک مہیب برفانی تودے (Avalanche) کے راستے میں کھڑے ہوئے آدمی کو اپنی صورت حال سے سمجھوتے کا مشورہ دیا جائے کیونکہ یہ صورت حال بھی یقینا موجود ہے اور کہا جائے کہ اس برفانی تودے سے مطابقت پیدا کرکے اِسے خود کو کچلنے کی اجازت دے دو کیونکہ اس کی زد سے نکلنے کی ہر کوشش ’فراریت‘ کا عمل ہوگا۔ جو لوگ تغیرِ مسلسل کی اقلیم سے باہر کسی اُصول پر ایمان نہیں رکھتے ان کے نزدیک حقیقت صرف اتنی ہی ہے جو کسی خاص لمحہ میں واقعتاً موجود ہے اور جو اس لمحہ میں موجود ہے وہی سب کچھ ہے۔ مراتبِ حقیقت کا خیال ہی اس ذہنیت کے لیے اجنبی ہے۔ حالانکہ وہ مانتے ہیں کہ حالتِ بیداری نیند سے زیادہ حقیقی ہے اور واہمہ (Hallucination) اشیا کی واضح دید سے مختلف ہے۔ لوگ جس چیز کو حقیقت پسندی اور جرأت سمجھتے ہیں وہ درحقیقت بزدلی اور بے بسی کا احساس ہے۔ جب کسی ناگہانی مصیبت کا تدارک نہ ہوسکے تو اسے مفید قرار دے کر اپنی معذوری کو خوبی ثابت کرنے لگتے ہیں۔ حقیقت پسندی کا رویہ تو امتیاز اور جانچ پرکھ کا متقاضی ہوتا ہے۔ عام سادہ سطح پر ہر ایک کو معلوم ہے کہ خوش گوار اور ناگوار میں کیا فرق ہے اور ناگوار اور تکلیف دہ کو اگر برداشت کرنا پڑے تو کیا اس سے ہم اسے اس کے علاوہ کچھ اور سمجھنے لگیں گے۔ اسی طرح اگر ہم جدید دنیا کے باطل، بدنما اور شرفِ انسانی کے لیے تباہ کن پہلوؤں سے صرف اس لیے روگردانی کریں گے کہ یہ موجود ہیں اور ہم ان کا کوئی حل نہیں سوچ پائے تو اس رویے کا مطلب یہ ہوگا کہ تکالیف تو موجود تھیں ہی اب تکلیف کو بطور تکلیف شناخت کرنے کی خلقی صلاحیت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ مصنوعی دنیا گھڑنے والے اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کی خود ساختہ دنیا میں سچائی کی کوئی رمق داخل نہ ہونے پائے اور اس کوشش میں انھیں سب سے زیادہ خطرہ جذباتی اضطراب سے محسوس ہوتا ہے۔ تیز رفتار تبدیلی انسان کو بے چین اور مضطرب کردیتی ہے اور جب ہر چند سال بعد اپنے ماحول میں نت نئی تبدیلیوں سے سمجھوتہ کرنا پڑے تو بہت سے لوگ مضمحل ہوجاتے ہیں اور مسکرانا تک بھول جاتے ہیں دوسرے یہ کہ ہم میں سے ہرکسی کو رنج والم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پیارے مرجاتے ہیں اور ایک دن وقت آنے پر ہمیں بھی مرجانا ہے۔ توقعات پوری نہیں ہوتیں، عزائم اور منصوبے حالات کے ہاتھوں ناکامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض لوگ دوسروں کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد یا اپنے نفوس کی قباحتوں کو دیکھ کر خود کو ملامت کرناچاہتے ہیں۔ اس کا ایک حل مسکّن یا دافع اضمحلال ادویہ کی شکل میں تلاش کیا گیا ہے۔ چنانچہ بہت سے انسانی تجربات جو پہلے انسانی زندگی کا لابدی جز سمجھے جاتے تھے اب طبی مسائل بن گئے ہیں اور ان کا ’علاج‘ کیا جانے لگا ہے۔ محبوب شوہر کی یاد میں تڑپنے والی بیوہ یا شہری آبادیوں پر نیپام بم گراکے متاسف ہونے والا ہوا باز دونوں ہی ذہنی مریض شمار ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ احساسِ جرم بھی بالواسطہ سہی، مگر حقیقت اور تجرباتِ انسانی پر لاگو ہونے والے قوانین کو سمجھنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ مگر اب یہ ایک مرض گردانا جاتا ہے جس کا علاج ہونا چاہیے۔ موت بہرحال ناقابلِ علاج ہے اور رہے گی۔ وکٹورین دور میں بسترِ مرگ کے گرد ہونے والے جذباتی مناظر یا نسبتاً کم شائستہ لوگوں میں پائی جانے والی سوگ کی رسومات ہمیں سراسیمہ ضرور کردیتی ہیں لیکن موت بذاتہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کی حیثیت اور اصلیت کے بارے میں بہت سے انکشافات کرتی ہے۔ ایسے انکشافات کہ انھیں نظرانداز کرنا یا فراموش کرنے کی کوشش کرنا اس اہم ترین بات سے بے خبری کے مترادف ہے جو بحیثیت ایک جیتی جاگتی مخلوق کے، ہمیں اپنے بارے میں معلوم ہونی چاہیے۔ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو موت سے ہمکنار ہوتے دیکھنا اور اس موقع پر موجود ہونے سے انسان اپنے بارے میں یہ جان لیتا ہے کہ وہ خود کیا ہے اور اگر اس میں ذرا بھی سمجھ بوجھ ہو تو وہ اس سے ایسے نتائج اخذ کرسکتا ہے جو اس کے ہر خیال اور ہر عمل کو کسی نہ کسی طرح ضرور متاثر کریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اموی خلیفہ ولید اوّل جو انگشتری پہنے رہتا تھا اس پر مندرجہ ذیل الفاظ کندہ تھے:’’ولید، تجھے ایک دن مرنا ہے۔‘‘ ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے، یہ بات ہم اس وقت تک نہیں سمجھ پائیں گے جب تک ہم اپنے جسم و جان اور قلب و ذہن میں یہ نہ جان لیں کہ ہم فانی ہیں اور موت اس دن سے ہمارے ساتھ قدم ملاکر چل رہی ہے، جس دن ہم نے دنیا میں پہلا سانس لیا تھا۔ یہ صرف اسلام ہی میں نہیں ہے کہ مرد دانشمند یہ سوچ کر سونے لیٹتا ہے کہ شاید اسے صبح دیکھنی نصیب نہ ہو اور ہر صبح کا خیر مقدم اس علم کے ساتھ کرتا ہے کہ ممکن ہے وہ اس کی شام نہ کرپائے۔ وہ لوگ جو اس آگہی میں زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب و روز میں ایک ذائقہ اور لطف ہوتا ہے جو ان تمام لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا جو اس حقیقت سے نظر چراتے ہیں۔ایسے لوگ جانتے ہیں کہ انسان ہونے کا مطلب کیا ہے؟ دوسرے لوگ اس سے ناآشنا ہیں۔ آج کل حیاتِ انسانی کے تکلیف دہ اور تاریک پہلوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش دیکھنے میں آتی ہے جس میں ان پہلوؤں سے اوپر اُٹھ جانے کی بجائے سارا زور اس پر ہے کہ یا تو ان کا خاتمہ کردیا جائے __ جو کہ ناممکن ہے اس لیے کہ یہ ماہیتِ اشیا میں شامل ہیں __ یا پھر تجاہلِ عارفانہ کے طور پر یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ موجود ہی نہیں۔ اگلے وقتوں کے لوگوں کے لیے ان حالات کو قبول کرنا ممکن تھا کیونکہ ان کے لیے زندگی ایک وسیع تر سیاق میں واقع تھی۔ وہ جانتے تھے کہ وہ رنج و محن اور خساروں کے منظر نامے میں کتنے ہی مبتلا کیوں نہ ہوں، وہ ازروئے فطرت اس میں پوری طرح غرق نہیں ہیں۔ ان کا تجربہ ان کو یہ سبق دیتا تھا کہ سکون اور کمال کی راہیں کسی اور سمت میں واقع ہیں اور ایمان سے انھیں یہ تسلی ملتی رہتی تھی کہ ان جہات کے علاوہ جو انھیں محصور کیے ہوئے ہیں اور بھی جہات ہیں اور بھی عالم ہیں۔ اس کے برعکس فی زمانہ اکثر لوگ ایسے مقام پر پھنسے ہوئے ہیں جس کا کوئی عالمِ دگر نہیں، ایسے جنگلی درندوں کے ساتھ مقید ہیں جو انھیں نوچے ڈال رہے ہیں اور جہاں سے فرار کی کوئی راہ موجود نہیں۔ اس صورت حال میں زندہ رہنے کے لیے اگر انھیں نشہ پلانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے! یوں ہم ایک دَوری استدلال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ جس قدر ہم حالتِ انسانی کی تلخ حقیقتوں سے خود کو خول بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے یہ خول کتنا ہی عارضی کیوں نہ ہو، اسی قدر ہماری دنیا غیر حقیقی بنتی چلی جاتی ہے اور حق سے مزید دور ہوتی جاتی ہے۔ دیگر جہات کی آگہی جس کے ذریعے ہم آزادی حاصل کرسکتے ہیں، ہماری دسترس سے باہر ہوجاتی ہے۔ ایک مصنوعی دنیا میں خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی، کیونکہ خدا کے وجود کی طرف اشارہ کرنا اور اس کی یاد دلانا حقیقتوں کا کام ہوتا ہے افسانوں کا نہیں اور ایسی دنیا میں یہ خیال ہی ناقابلِ تصور ہے کہ کوئی خیر __ کوئی مسرت یا جزا __ یا کوئی روشنی اس حباب سے باہر بھی مل سکتی ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ اس بلبلے کے بعد ہم صرف تاریکی اور ایک خوف ناک خلا کا تصور کرسکتے ہیں جو سیاروں کی درمیانی فضائے بسیط کے مانند سیاہ ہے: ہم اس کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں اور اس سے منہ چھپا کر موت کا انتظار کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص دیوانہ ہوجاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کا ’’حقیقت سے رابطہ کٹ گیا ہے‘‘۔ یہ ایک مناسب تعریف ہے گو کہ اس میں اس اختلاف رائے کی گنجائش موجود ہے کہ حقیقت سے کیا مراد ہے؟ ضروری نہیں کہ ہر ماہر نفسیات ایک مقررہ اور بلااعتراض تسلیم شدہ صورت حال سے سمجھوتے کو فرزانگی کا نام دیتا ہو۔ برونوبیٹل ہائم نے (جو خود بھی نازی کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والوں میں شامل ہے) نازی مشقت کیمپوں میں انسانی رویوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے وہ اپنی کتاب ’’قلبِ آگاہ‘‘ The Informed Heart میں اس عام رجحان کا ذکر کرتا ہے جو اس حقیقت کی تردید کی شکل میں سامنے آیا ہے کہ انسانی حالات کی بڑھتی ہوئی میکانکیّت نے کسی بنیادی مسئلے کو جنم دیا ہے۔ وہ لکھتا ہے: منشیات کے دھتی کی طرح ہمارا معاشرہ بلاسوچے سمجھے زندگی کو زیادہ سے زیادہ میکانکی اور مشینی بنانے میں تیزی سے مصروف ہے، اس توقع کے ساتھ کہ موجودہ ٹکنالوجی سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ وہ ٹکنالوجی میں اضافہ اور توسیع سے حل ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں ہمارا طرزِ عمل اس شرابی جیسا ہے جو پچھلے خمار کی متلی سے نجات پانے کے لیے شراب کا ایک نیا دور چلالیتا ہے۔ برونو مزید لکھتا ہے: جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے سے قاصر ہے __اپنی آزادی اور انفرادیت کی قربانی یا ٹیکنالوجی کی مادی آسائشوں سے دست برداری __میری نظر میں یہی ہمارے دور کی سب سے بڑی کش مکش ہے۔ مندرجہ بالا بیان کا مقتضیٰ یہ ٹھہرا کہ انسان انتخاب کے امکان سے آگاہ ہے۔ لیکن وہ طوفانی رفتار جس سے ہم اپنی ایکسپریس ٹرین میں آگے بڑھ رہے ہیں، گردوپیش کے بدلتے ہوئے ماحول کے خدوخال جس طرح دھندلکے میں گم ہورہے ہیں اور جس جبریت پسند انداز میں ان حالات کو قبول کرلینے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، یہ سب عوامل مل کر اس بات کا ادراک ہی مشکل کیے دے رہے ہیں کہ انتخاب کرنا ممکن ہے یا کبھی رہا تھا۔ بہرصورت، ہمارے عہد میں ایک عام انسانی رجحان پایا جاتا ہے جو آج سے پہلے کبھی اتنا عیاں نہیں تھا۔ اسے ہم چت بھی میری پٹ بھی میری سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی یہ ایقان کہ انسان بلاکچھ قربانی دیے جدید آسائشوں سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ نظریۂ ارتقا اور خوش فہمی کے ملاپ سے تصورِ ترقی یا تقدم نام کی جو حرامی اولاد جنم لیتی ہے وہ اس قسم کے یقین کو پروان چڑھانے میں مدد گار بنتی ہے۔ یہ فوراً فرض کرلیا جاتا ہے کہ جدید دنیا کے تمام فوائد __ آرام و آسائش، مادی خوشحالی، بہت سی طبعی آفات سے بچاؤ، انسانی تجربے کی بھرپور نوعیت وغیرہ __ ہمارا پیدائشی حق ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بالغ ہونے پر ہر مرد و زن کو چند حقوق خود بخود حاصل ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں معاصر سائنس کے فرضیے اس طرح پیش کیے جاتے ہیں گویا وہ مفروضے نہیں بلکہ مسلمہ حقائق ہیں۔ بچوں پر اس ضمن میں بہت سے گمراہ کن سبق ٹھونسے جاتے ہیں۔ ان میں سے بدترین مفروضہ یہ فسانۂ مداہنت ہے کہ عہدِ حاضر بنی نوع انسان کے ’سن بلوغت‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔ تصویری کتب میں ہمارے بالدار آباء و اجداد کو آگ دریافت کرتے دکھایا جاتا ہے۔ ہمارے بچگانہ مگر ہونہار مورث ابتدائی مشینیں اور آلات ایجاد کرتے نظر آتے ہیں اور ہم جود انا بھی ہیں اور زیرک بھی، طوفانی رفتار سے سفر کرتے ہوئے اور ایک فردوسِ ارضی کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔ اس میں محذوف ہے مغرب کے انسان کا وہ تصور جو خلافِ مصلحت ہونے کی وجہ سے صاف بیان نہیں ہوتا مگر جس کی طرف کنایتاً اشارہ ہوجاتا ہے __مغرب کا انسان، علم اور تمدن کے تحائف ان کم نصیب اقوام تک پہنچاتا ہوا جنھیں یہ دولت میسر نہ ہوسکی۔ ایجادی صلاحیت کو ذہانت اور فضیلت دونوں کی کسوٹی سمجھ لیا گیا ہے اور تاریخ کے ایک خاص لمحے میںموجود اور ایک خاص انبوہ انسانی کی خصوصیات کو پوری بنی نوع انسان کی ’’ارتقا یافتہ‘‘ حالات سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہ بات بھلادی گئی ہے کہ ایک رُخے پن کو اپنانے کا ہرجانہ بہت بڑا ہے اور اسے صرف ان بہت سے اوصاف کی بھینٹ دے کر حاصل کیا جاسکتا ہے جنھیں کبھی انسان اور حیوان کے درمیان حدِ امتیاز سمجھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود انسان کی حقیقت نہیں بدلتی۔ انسان بہرحال انسان رہتا ہے۔ اسے دو اچھی چیزوں میں سے ایک کا چناؤ کرنا پڑتا ہے اور بیک وقت دونوں سے لطف اندوز ہونا اس کے بس سے باہر ہے۔ ایک کے حصول کے لیے اسے آخر کار دوسری کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اسے ایک حقیر، بے وقعت شے کے لیے اپنے قیمتی ورثے سے دستبردار ہونے کو کہا جائے، حقیقت کے بدلے خواب اور اشرفیوں کے مول کباڑ کا سودا کرنے کی دعوت دی جائے۔ دنیا جو کچھ ہمیں دے سکتی ہے ازروئے فطرت ہی محدود ہے اور ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے کوئی آثار نہیں جن سے یہ پتہ چلے کہ آج کا انسان مکافات کے قوانین سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ چنانچہ اب ہمیں کائیاں اور گھاگ تاجر بننا ہے۔ اپنی خرید و فروخت کے مال کا چناؤ احتیاط سے کرنا ہے، ان لوگوں سے خبردار رہنا ہے جو بلامعاوضہ ہمیں کچھ پیش کرنے پر تیار ہوں اور اپنا مال تب نکالنا ہے جب رقم ہاتھ میں آجائے۔ بیٹل ہائم جیسے شخص کو جو قید و بند کے تجربات سے گزر چکا ہے آزادی کی وقعت کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی آزادی کے ذرہ برابر حصہ سے بھی اس وقت تک دستبردار ہونے پر قطعاً تیار نہیں ہوتے جب تک اس کے بدلے میں پیش کی جانے والی شے کی قدروقیمت کا بے شک و شبہ تعین نہ ہوجائے نہ ہی وہ اپنا حقِ انتخاب آسانی سے چھوڑنے پر آمادہ ہوں گے، خواہ چھوٹے چھوٹے معاملے ہی میں کیوں نہ ہو۔ معاصر معاشرے اس نظریے کے تحت کام کرتے ہیں کہ انسان کو صحیح انتخاب کی مکمل آزادی ہونا چاہیے البتہ غلط انتخاب سے اسے ہر قیمت پر باز رکھنا ہوگا کیونکہ یہ نہ صرف اس کے اپنے لیے بلکہ دوسرے افراد کے لیے بھی مضر ثابت ہوسکتا ہے۔ اب اسے کیا کہیے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اکثرغلط انتخاب کرنے پر مصر رہتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے بہی خواہ مفادِ عامہ کے پیش نظر انتخاب کا حلقۂ عمل تنگ اور غلطی کرنے کے مواقع محدود کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس طرح یہ دامِ ہمرنگ زمین افراد کو اپنی گرفت میں لیتا چلا جاتا ہے۔ ایک دم سے نہیں کہ اس طرح شکار آزاد ہونے کے لیے بے تحاشا ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے بلکہ رفتہ رفتہ، قدم بقدم، سال بہ سال۔ یہ کہنا دلیل کم نظری ہوگی کہ اس پھندے میں گرفتار ہونے سے گریز کی کوئی خوش گوار یا کم از کم گوارا صورت موجود ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں ہمارے پاس صرف دو بلاؤں میں سے ایک کا چناؤ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ سفید اور سیاہ کے درمیان انتخاب کی نہیں۔ عہدِ جدید پر اساسی تنقید کے لیے جن معتقدات پر یا نظریات پر اعتراض کرنا ضروری ہے انھی نظریات کی بدولت دیگر چیزوں کے علاوہ، طب کے میدان میں پیش رفت ہوئی، بہت سے کاموں اور انسانی سرگرمیوں میں سہولت فراہم ہوگئی اور باعتبار کمیت و مقدار ایسی بھرپور زندگی حاصل ہوئی جو پہلے کبھی ممکن نہ تھی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی صدی میں جس پیمانے پر قتلِ عام اور بربریت کی مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں ان کی نظیر ملنا محال ہے۔ لیکن اس حقیقت کو غیر متعلق قرار دے دیا جاتا ہے اور ایسے واقعات کو محض حادثات گردانا جاتا ہے کہ جن سے اگر قسمت نے ساتھ دیا تو ہم مستقبل میں محفوظ رہیں گے۔ اسی طرح دورِ جدید پر تنقید کرنے والے کا منہ یہ کہ کر بند کیا جاسکتا ہے کہ کیا اسے پرانے زمانے کی طرح دنیا میں جنم لینے والے نصف بچوں کا شیرخوارگی ہی میں لقمۂ اجل بننا منظور ہے؟ اور جو اس سے بچ نکلیں انھیں وہ زندگی کی زیادہ تر مسرتوں سے محروم دیکھنا چاہتا ہے۔ ہم کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں چاہتے، مسئلہ زیرِ بحث سے اس سوال کا کوئی تعلق نہیں۔ ہماری خواہش ہی پر موقوف ہو تو ہم دنیا کے ہر ممکنہ بلکہ سچ پوچھیے تو ناممکن تحفے اور خوبی سے لطف اندوز ہونا چاہیں گے مگر ہم حقیقت کے دائرے میں محصور ہیں اور موجودِ واقعی اور قابلِ عمل صورتوں تک محدود۔ جو لوگ ناممکنات کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے ہیں وہ آخر الامر اپنا تھوڑا بہت ٹھوس اور مفید سرمایہ بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ شام ڈھلے ان کی جھولی میں صرف خواب اور واہمے رہ جاتے ہیں جو آکاش بیل کی طرح اپنے پالنے والے کا خاتمہ کردیتے ہیں۔ نقاد سے اکثر یہ استفسار کیا جاتا ہے کہ آیا وہ گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹانا چاہتا ہے، جیسے وقت کا دھارا پلٹ دینا یا بوڑھے کو جوان کردینا اس کے اختیار میں ہو۔ ہم ماضی سے سبق تو سیکھ سکتے ہیں، اس میں لوٹ کر جانہیں سکتے۔ جو سماجی نظام یا رہن سہن کے سانچے اپنا وقت پورا کرچکے، متروک ہوچکے، انھیں نئے سرے سے واپس نہیں لایا جاسکتا لیکن وہ ایک کسوٹی ضرورثابت ہوسکتے ہیں، انسان کے لیے نشانِ راہ بن سکتے ہیں اور ایسے نشان، ایسی کسوٹیوں کے بغیر ہماری حالت ان بچوں سے کسی طور بہتر نہیں جو تنہا جنگل بیابان میں کھوگئے ہوں۔ بہرکیف وقت کو واپس لوٹانے والا اعتراض موجودہ دور کے اس رجحان کی سب سے بڑی مثال ہے جو کہتا ہے کہ جس تنقید میں کوئی فوری تدارک یا حل نہ پیش کیا جائے اسے بے معنی قرار دے کر رد کردیا جائے۔ بایں ہمہ مخدوش بنیادوں پر اُٹھائی جانے والی عمارت ہر حال میں ڈھے جائے گی۔ خواہ معمار اس کی جگہ نئی عمارت بنانے پر تیار ہوں یا نہ ہوں اور نجی زندگی میں تو انسان کو اب بھی اپنے غلط فیصلوں کو پہچان کر ان پر پچھتانے کا حق حاصل ہے، خواہ پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اس سے پہلے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے ہم اپنے ماضی سے بہت سی ضروری باتیں سیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ ہماری خود پسندی کی مقدار میں قدرے تخفیف ہوجائے۔ اس ماضی میں نسل در نسل مدتوں تک اپنی ذات اور اپنی دنیا کی جس تصویر کے ساتھ لوگ جیتے تھے اور جسے لے کر کوچ کرتے تھے وہ اتنی حقیقی اور اتنی ہی غیر متغیر تھی جتنا ارد گرد کا طبعی ماحول۔اس تصویر کا رنگ روپ ہر مقام کے حوالے سے مختلف تھا جس طرح ہر قوم کی زبان اور اُسلوب جدا ہوتے ہیں مگر اپنے اساسی جو ہر کے اعتبار سے یہ ایک واحد عالمگیر تصور تھا اور اگر اسے ہمارے معاصر تصورِ اشیا سے موازنے میں دیکھا جائے تو اس تصور کے فروعی اختلافات سرے سے درخورِ اعتنا ہی نہیں ہوتے۔ آج مغرب کے بیشتر لوگوں اور دنیا کے دیگر علاقوں میں انسانوں کی ایک روز افزوں نفری کو یہ تصور باطل نظر آتا ہے صرف اس لیے کہ یہ طبعی، مادی معائنہ اور تجربہ پر مبنی معلوم نہیںہوتا۔ ہم راستی پر ہیں اور ہمارے علاوہ تمام گزرے ہوئے لوگ غلطی پر تھے۔ آئیے اس مفروضے کے مدلولات اور کنایات کا جائزہ لیں۔ اگر ابتدائے آفرینش سے لے کر کل تک دنیا کی تمام نسلوں کے افراد کی غالب اکثریت اپنے انتہائی بنیادی عقائد کے بارے میں غلط فہمی کا شکار تھی اور اگر ان لوگوںنے اپنی زندگیاں فریب اور مغالطوں کی نذر کردیں تو ہمارے پاس یہ فرض کرنے کا قطعاً کوئی معقول جواز نہیں رہ جاتا کہ بنی نوع انسان اب یا آئندہ کبھی صحیح سوچ سکے گی۔ یہ خیال بعید ترین از امکان بلکہ محال ہے کہ قرنہاقرن کی توہم پرستی اور جہالت کے بعد یہ احمق مخلوق یک لخت دانا ہوگئی کیونکہ فرتھجوف شواں کے بقول ’’وہ ہستی جو فطرتاً ہی مہمل ہو اپنا مہمل پن دور کرنے کا امکان کہاں سے پیدا کرے گی۔‘‘ بنی نوع انسان کے روایتی عقائد کے خلاف صادر ہونے والا ہر حرفِ استہزا خود ہمارے پائے استدلال کو مجروح کرتا ہے اور ہم کسی بھی میدان میں صحیح فیصلہ کرنے کی اہلیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز بہت غور کرنے کی ہے کہ ہم گزرے وقتوں کے لوگوں کی طرح کے انسان ہیں۔ ہمارے پاس کوئی چھٹی حس یا کوئی ایسی عقلی قوت موجود نہیں جو ان کو بھی حاصل نہ رہی ہو۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس نکتے کو تسلیم کرکے جواباً یہ طرزِ فکر اختیار کرتے ہیں کہ اوّلاً تو حق ہے ہی کہاں کہ اس کے جاننے کی جستجو کی جائے اور اگر ہے بھی تو انسان کی پہنچ سے باہر تھا اور رہے گا لہٰذا اسے صرف ایک چیز پر قناعت کرنا چاہیے جسے وہ یقینی طور پر جانتا ہے __ اس کا اپنا داخلی تجربہ__ عقلِ انسانی سے جبراً استعفا دلواکر اسے معزول کرنے کی اس سے بھرپور صورت اور کیا ہوگی! ان فلسفیوں نے اپنے لیے پاتال کا وہ نہاں خانہ تلاش کیا ہے جہاں نہ رعد کی گرج تھراسکتی ہے نہ بجلی کی چمک نگاہ کو خیرہ کرپاتی ہے بلکہ سنا ہے کہ خود خدا بھی ان کی مہیب تنہائی کا احترام کرتے ہوئے انھیں ہمیشہ کے لیے تنہا چھوڑ دے گا۔ تاہم، بحیثیت انسان، ہمیں پیدائشی طور پر یہ یقین حاصل ہے کہ ہم سچے عمل کے قابل ہیں اور معروضی طور پر برحق ہونے کا امکان موجود ہے۔ دراصل ہمارے اندر المطلق کا شعور موجود ہے۔ اس استعداد کا انکار کردیں تو یہ انکار ہمیں ڈگمگا دیتا ہے، جڑ سے اکھاڑ ڈالتا ہے اور یہ خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم بے وزن تخیلات کی ایک مہمل دنیا میں تن تنہا محبوس ہوجائیں گے۔ ان سے نپٹنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ حقیقت میں جن چیزوں کی ہستی ہی نہ ہو ان سے نپٹنا معلوم! اس طرزِ فکر، اپنے گرد تعمیر کیے ہوئے ماحول اور زندہ رہنے کے لیے ہمیں جو کام کرنا پڑتا ہے اس کی بنا پر ہم بے دست و پا ہوکر غلامی کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے۔ ہمارا شکاری بھی کہیں قریب ہی گھات میں نہ ہو۔ ذرا دیکھ لیجیے! ء ء ء اپنا آپ یہ مضمون اور اس کے بعد کے دو تراجم تصورانسان سے متعلق ہیں۔ دور جدید میں انسان کے تصور کا بگاڑ تصورکائنات میں فساد اور تصور خدا میںتبدیلی کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہواہے۔’’اپنا آپ‘‘ سلیس زبان میں حقیقت انسانیہ کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے۔ اس مضمون میں قاری کو بذاتہ مخاطب کیا جا رہا ہے، اس لیے کہ زیر بحث موضوع کا تعلق صرف فرد سے ہے ، فرد اور اس کی ذات کے باہمی رشتے سے، یعنی اس بات سے کہ فرد کا اپنے آپ سے کیا رشتہ ہے، یہ الفاظ بظاہر ذرا مبہم لگتے ہیں لیکن در حقیقت بڑے گہرے معانی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ پھر یہ سوال صرف مجرد، نظری اور دور ازکار نہیں بلکہ شخصی اور بلاواسطہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس تبصرے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ آج کل ہر ہما شما کو بڑی فیاضی سے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ منافقت اور تصنع قابلِ نفرت ہیں، اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان وہی رہے جو وہ ہے! یہ مشورہ لگتا تو بڑا سیدھا ہے جب تک انسان اس سوچ میں نہ پڑے کہ خود اُس پر اس کا اطلاق کیسے ہوگا۔۔ اور جب ذاتی عمل کا مسئلہ آ جائے تو بات اپنی ذات پر آ کر رکتی ہے۔ کسی دوسرے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فی الواقعہ آپ کیا ہیں؟ بالعرض (Accidentally) نہیں بلکہ فی الاصل(Essentially) !۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ’’اپنے آپ‘‘ میں نہ کہ شاعر، ڈاکٹر یا دکاندار کی حیثیت سے! ظاہر ہے کہ جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ آپ کی اپنے آپ میں رہنے یا اپنا آپ بننے کی کوشش مفید نہیں ہو سکتی۔ کیا درحقیقت آپ وہ مخلوق ہیں جو صورت الٰہی پر تخلیق ہوئی، جسے باری تعالیٰ نے کرہ ارض پر اپنا نمائندہ مقرر کرکے اسے یہاں کی سرداری سونپی اور اس منصب کی ادائیگی کے لیے اسے اضافی آزادی انتخابِ فکر و عمل سے آراستہ کیا۔ ایسی آزادی جو ایک طرف سراسر قادرِ مطلق کی ذات سے وابستہ قدرتِ کاملہ کا پرتو ہے تو دوسری طرف انسان کو خطا کا پتلا بھی بنادیتی ہے؟ کیا آپ اپنی اصل میں یہ ہیں اور صرف بالعرض Accidentallyکچھ اوریا پھر آپ فی الاصل مسلسل اور تقدمی (Progressive) ارتقا کا ترقی یافتہ ترین نمونہ ہیں،جو دنیا کے دورِ اوّلین میں لحمیاتی خلیوں کے کسی گرم کیچڑ میں کم و بیش حادثاتی طور پر مل جانے کی وجہ سے وجود میں آیا۔یہ کیچڑ خود بھی کہکشائوں کے ارتقا کی ایک نایاب اور کم و بیش اتفاقی پیداوار ہے۔ یہ ارتقا کیسے ہوا؟ اس کے بارے میں طبیعیات کے ماہرین فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کر پائے۔ اگر آپ پہلا، سرّی یا مذہبی متبادل چنتے ہیں تو ضروری نہیں کہ آپ نتیجتاً کائنات میں اپنی مادی صورت حال کا معقول بیان خارج کر دیں۔ یہ بیان وہ بھی ہو سکتا ہے جو دوسرے متبادل میں پیش کیا گیا ہے اور کوئی تیسرا بھی۔ ہاں البتہ اس طرح آپ مکمل طور پہ کسی بھی ایسے بیان کی اولیت اور ممکنہ قطعیت کو مطلقاً خارج از امکان قرار دے دیتے ہیں۔ آپ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایسا کوئی بھی بیان زیادہ سے زیادہ منظر کشی کر سکتا ہے۔ وضاحت پیش نہیں کر سکتا، چاہے اس بیان کو انسان اپنی بساط برابر صحیح اور مکمل کیوں نہ بنالے چنانچہ اگر آپ سری ( Mystical) متبادل کو قبول کرتے ہیں تو آپ کو اسے مکمل طور پر قبول کرنا پڑے گااور ہر ایسے نرے پُرے بیان کو قبول کرنے سے انکار کرنا ہوگا جو تشریحی بننے کی کوشش کر رہا ہو۔ خاص طور پہ اپنی ’’اصل‘‘کے بارے میں تو کسی بیان کی توجیح ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر آپ دوسرے یعنی طبیعیاتی متبادل کا انتخاب کرتے ہیں (طبیعیاتی کا لفظ یہاں کم وبیش فطری کے مترادف ہے اس لیے اس میں ذہن اور جسم دونوں کو شامل سمجھیے) کو پہلا متبادل خود بخود خارج ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں آپ خود کو صرف اپنے جسم، خیالات اور احساسات پر مشتمل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ جو کچھ بھی مذہبی یا سری کہلاتا ہے وہ لازما ان میں سے ایک یا سب کی پیداوار قرار پائے گا۔ اس صورت میں ’’اپنا آپ بننے‘‘ کا تو صرف یہ مطلب ہوا کہ آپ اپنی جسمانی خواہشات، خیالات اور احساسات کو کھلی چھٹی دے دیں۔ عملاً یہی کچھ ان مشوروں کا نتیجہ ہے جو ہم آپ اور خصوصاً ہمارے بچوں کو دئیے جا رہے ہیں اور پھر اس طرح جو بے راہ روی پھیلتی ہے اس پہ ہم متحیر اور ناراض ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ ان تین چیزوں کو کھلی چھٹی دے دیتے ہیں تو ہر وہ شخص آپ کو اپنی انگلیوں پہ نچا سکتا ہے جو ان چیزوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال بلکہ استحصال کرنا جانتا ہو۔ جدید نفسیات کی مدد سے تو یہ استحصال بھی اب ایک سائنس بن چکا ہے۔ اس کے باوجود سوچا جائے تو یہ مشورہ کتنا صحیح ہے۔ اگر ہم واقعی صورت الٰہی پہ بنائے گئے ہیں تو ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ اپنا آپ بن جائیں۔ تاہم جب آپ یہ مقصد ذہن میںرکھ کر اپنا جائزہ لیتے ہیں یہ جاننے کی کوشش میں کہ آپ کیا ہیں تو آپ خود کو وہی نظر آتے ہیں جو آپ بالعرض ہیں، وہ نہیں جو اصل میں ہیں۔ جب آپ خود کو دیکھتے ہیں یا اپنے خیال میں آپ خود کو دیکھ رہے ہوتے ہیںتو ایک وہ ہے جو دیکھتا ہے اور دوسری وہ چیز ہے جسے وہ دیکھ رہا ہے۔ یہ دونوں ایک نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ ایک ہوتے تودو کیسے رہ سکتے تھے! اور اس طرح ان دونوں کے درمیان دیکھنے یا کسی بھی اور طرح کا رشتہ قائم ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا! یہی وجہ ہے کہ جب آپ خود پہ نظر ڈالتے ہیں تو اصل ’’آپ‘‘ عرضی ’’آپ‘‘ پر نظر ڈال رہا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں آپ اس چیز کو دیکھ رہے ہیں جسے آج کل آپ کی شخصیت کہا جاتا ہے اور اگر آپ اپنی شخصیت کی نشو و نما کرنے پہ غو کررہے ہیں، اس امید میں کہ نشو و نما میں کامیاب ہو کر آپ پہلے سے زیادہ صحیح معنوں میں اپنا آپ بن جائیں گے تو آپ محض ایک فیشن زدہ حرکت کر رہے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک ہیں دو نہیں اور آپ ہمیشہ یہی ایک شخص رہیں گے چاہے آپ کے ساتھ کچھ پیش آ جائے یعنی ہر قسم کی تبدیلیوں کے نتیجے میں جو آپ کے جسم یا ذہن کو متاثر کرتی ہیں، آپ وہی کے وہی رہتے ہیں، کم از کم اس وقت تک جب تک آپ صحیح الدماغ ہیں۔ آپ کا ذہن اورجسم مل کر وہ مجموعہ بناتے ہیں جسے کبھی کبھی نفسی۔ جسدی مرکب(Psycho-physical complex) کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ نفسی جسدی مرکب کبھی دومنٹ کے لیے بھی یکساں نہیں رہتا۔ نہ مادی طور پہ نہ نفسی طور پر لیکن آپ کا تشخص ہمیشہ یکساں رہتا ہے چاہے آپ جو ان ہوں یا بوڑھے، موٹے ہوں یا دُبلے، خوش ہوں یا افسردہ، سوتے ہوںیا جاگتے! اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ کی ہستی میںکوئی تسلسل نہ ہوتا، کوئی انفرادیت نہ ہوتی اور تبدیلی کا کوئی ادراک نہ ہوتا! ایک ’’آپ‘‘ ہیں جو حوالے کا مستقل نقطہ یا مرکز ہیں، دوسرا وہ بدلتی ہوئی اشیا ہیں جن کا اس مرکز کو شعور ہے اور اوّل الذکر کو مؤخر الذکر کے متماثل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ان متغیر اشیا میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کا آپ ممیز طور پر ادراک کر سکتے ہیں یا جان سکتے ہیں اور یہ اشیا اس مرکز شعور کے مقابلے میںجو اصل ’’آپ‘‘ ہے، خارجی ماحولی اور ضمنی ہیں۔ آپ کا سارا نفسی۔ جسدی مرکب جس حد تک آپ اس کا ممیز طور پر ادراک اور علم رکھ سکتے ہیں،صراحتاً انھیں خارجی اور بدلتی ہوئی اشیا میں سے ہے۔ یہ آپ کی ملکیت تو ہیں مگر یہ چیزیں خود وہ ’’آپ‘‘ نہیں ہیںجو ان کا مالک ہے۔ یہ وہ شخصیت ہیں جس کی نشو و نما شاید آپ کرنا چاہیں لیکن یہ وہ ’’آپ‘‘ نہیں ہیں جو اس کی نشو و نما کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ فی الحقیقت کیا ہیں تاکہ ’’اپنا آپ بننے‘ کا مطلب جان سکیں،تو ضروری ہے کہ اپنی توجہ کا رُخ باہر کی بجائے اندر کی طرف کریں یعنی اشیائے محسوس بشمول جسم، ذہن اور احساسات سے ہٹا کر اپنے وجود کے ناقابل امتیاز مرکزی نقطے پر مرتکز کریں۔ اس اندرونی سمت میں مرتکز توجہ کا رُخ بدیہی طور پر خارجی توجہ کے بالکل مخالف سمت میں ہونا چاہیے۔ یہ خارجی توجہ بعینہٖ وہی چیز ہے جسے ہم معائنہ یا مشاہدہ کہتے ہیں۔ ہم سب کو آج کل یہ سکھایا جاتا ہے کہ حق کی تصدیق کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ معائنے میں مزید باریکی اور شدت پیدا کی جائے اس لیے ہم میں سے اکثر کے لیے اندرونی توجہ میںکوئی ایسی چیز کام آتی ہے جو ہم نے شعوری طور پر پہلے نہیں آزمائی نہ ہی آزمانے پر غور کیا۔ یہ صحیح ہے کہ ہم جائزے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔کیونکہ ہمارے حواس کا اس کے علاوہ اور کوئی مصرف نہیں ہے تاہم اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اگر وہ بھی سچ ہے تو حقیقت تک پہنچنے کا ہر وہ راستہ جو سوائے جائزے کے اور کسی چیز پہ انحصار نہ کرتا ہو یقینی طور پر ایک اہم ترین حقیقت کو نظر انداز کر جاتا ہے۔وہ حقیقت جس سے باقی سب حقیقتیں وابستہ ہیں یعنی ہماری اصلیت کی حقیقت! اگر ہم اس معاملے میں گمراہ ہو جائیں کہ ہم خود کیا ہیں؟ اور اس کی وجہ سے باقی معاملوں میں بھی یعنی دنیا کی باقی اشیاکیا ہیں؟ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اورہماری منزل کیا ہے تو پھر کچھ اور جاننا بے فائدہ ہی ہو گا کیونکہ غالب امکان یہی ہے کہ ہم اپنے علم کا غلط استعمال کریں گے اور وہ بھی اغلباً خود کو نقصان پہنچانے کے لیے! کیا یہی کچھ نہیں جو آج کی دنیا میںہو رہاہے؟ کیا اوپر کی گفتگو ہماری آج کی صورتحال کی طرف واضح تنبیہی اشارہ نہیں کر رہی۔ بلاشبہ اب تک آپ پہچان چکے ہوں گے کہ حقیقت کا یہ دوسرا راستہ، یہ اندرونی توجہ یا ’’ارتکاز توجہ‘‘ جو معائنے کے راستے کا گویا اُلٹ ہے یا اس کی تکمیل بھی کر سکتا ہے وہی راستہ ہے جو راہِ عرفان کہلاتا رہا ہے اور جس پر ہر زمانے اور ہر قوم کے دانشمند اور مقدس لوگ گامزن رہے ہیں۔ چونکہ اس راہ کی منزل کا ممیز طور پر ادراک نہیں ہو سکتا، اس لیے اس کا مکمل خاکہ نہیں بنایا جا سکتا صرف اور صرف وہی لوگ اس کی تعلیم دے سکتے ہیں جو اس راہ سے گزرے ہیں۔ اگر آپ ان میں سے نہیں ہیں جن کے لیے صرف سائنسی نقطۂ نظر ہی قابل عمل ہے تو پھر یہ الفاظ آپ کو نری لفاظی یا سو فسطائیت نہیں لگیں گے۔ بہتر ہوگا اگر ہم بات کو تھوڑا اور آگے لے چلیں! کیونکہ شاید آپ نے غور کیا ہو کہ جب ہم ’’آپ کے اصل وجود‘‘ کی بات کرتے ہیں تو اس سے یہ خیال آ سکتا ہے کہ یہ وجود آپ کا ہے، بلکہ یہ بھی کہ آپ کے زیر اثر ہے اور کسی حد تک آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں گویا یہ آپ کی ملکیت ہو۔ یقینا ایسا نہیں ہے، کیونکہ آپ کچھ بھی کر لیں اس حقیقت کو بدلنا آپ کی بساط سے باہر ہے کہ آپ جو ہیں سو ہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا آپ کا اصل وجود وہی کا وہی رہتا ہے جب کہ بے ثبات اور فنا پذیر صورتوں کا دھارا اس کے پاس سے گزر جاتا ہے۔ اس لیے یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں کہ یہ وجود فانی ہے۔ مزید برآں ایک خدا کو ماننے والے کے لیے یہ فرض کر لینے کا مکمل جواز موجود ہے کہ یہ وجود فانی نہیں ہے۔ لیکن خیال رہے کہ آپ کے اصل وجود میں غلط فہمی سے ان عرضی اجزائے زائدہ کو شامل نہ سمجھاجائے جو اُس کے زمین پر عارضی قیام کے دوران اس سے قریبی طور پر وابستہ ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ مشاہدے میں آنے والا آپ کا نفسی جسدی مرکب خود بھی انھیں اجزائے زائدہ میں شامل ہے یہی وہ مقام ہے جہاں آ کے بہت سے اللہ کو ماننے والے بھی جنت، دوزخ اور برزخ پہ غور کرتے ہوئے اُلجھن میں پڑ جاتے ہیں جو اصل وجود کے بعد الموت مراتب اور حالتیں ہیں۔ ایک بات اور___ اگر آپ کا عَرَض ہونا قابل امتیاز ہے اور اصلیت قابل امتیاز نہیں ہے تو یہی بات دوسرے انسانوں پر بھی صادق آتی ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ اور باقی انسان اصل میں ایک ہیں بالعرض دو ہیں۔ بنی آدم اعضائے یک دیگر اند! کہ در آفرینش زیک جوہر اند اگر آپ صورت حال کو اس روشنی میں دیکھیں گے تو ظاہر ہے کہ دوسرے انسان کو ’’اپنا آپ‘‘ سمجھ کے اس سے محبت کریں گے لیکن آپ صورت حال کو اس روشنی میں صرف اس حدتک دیکھ سکتے ہیں جہاں تک آپ اپنا آپ بن چکے ہیں۔ اس تحقق کا تقاضا ہے کہ آپ کو اپنے ارضی حدوث کی ہمیشہ بدلتے رہنے والی کثرت سے گذر کر دل و دماغ کی تمام تر یکسوئی اور اپنی تمام تر قوت کے ساتھ اس ثابت وحدث کو تلاش کرنا ہوگا جو آپ کی آپ کے ساتھی کی اور باقی تمام مخلوقات کی مرکزی اور اصل حقیقت ہے۔ اس کے صرف ایک ہی جگہ ملنے کی امید ہے اور وہ جگہ ہے آپ کے اندر___ سیّدنا عیسیٰ علی نبیّنا و علیہ السلام کا قول ہے: Kingdom of Heaven in within, you seek and yee shall find اب سمجھے آپ کہ ’’اپنا آپ بننا‘‘ کے الفاظ کو دو انتہائی مختلف معنوں میں لیا جا سکتا ہے! ء ء ء عرفانِ ذات جس مقالے کا اُردو ترجمہ سطورِ مابعد میں پیش کیا جا رہا ہے وہ Melanges کے پہلے حصے میں شامل ہے (صفحہ ۴۸-۵۷) اس کا فرانسیسی عنوان ہے: Connais toi toi memجس کا موزوں انگریزی ترجمہ Know Thyself اور اُردو ترجمہ، عرفانِ ذات یا اپنے آپ کو پہچان ہو سکتا ہے۔ ’’میلانژے‘‘ میں اس مقالے کے شروع میں جو تحتی نوٹ درج ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون بعنوان ’’اَعْرِفْ نَفسَکَ بِنَفْسِک‘‘ عربی میں لکھا گیا اور المعرفۃ نام کے ایک رسالے کے پہلے شمارے (بابت مئی ۱۹۳۱ئ) میں شائع ہوا اور وہیں سے اس کو فرانسیسی میں منتقل کیا گیا۔ اگر گینوں نے یہ مضمون عربی میںلکھا، تو یہ ان کی اس زبان میں واحد تحریر ہے۔گینوں کس قدر عربی جانتے تھے؟ یہ فی الحال تحقیق طلب مسئلہ ہے۔ البتہ یہ امر مسلمہ ہے ہے کہ انھوں نے اپنی آخری عمرکا بیشتر حصہ (تقریباً سترہ سال) قاہرہ میں گزار ے شاید انھوں نے اس دوران میں عربی زبان سیکھ لی تھی اور کبھی کبھار اس میں مضمون بھی لکھتے ہوں گے۔ بہر حال زیر نظر اُردو ترجمہ مندرجہ بالا عربی اور فرانسیسی متون کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں بعض ایسے مباحث بھی ہیں جن کا گینوں نے اپنی دیگر تصنیفات میںذکر کیا ہے۔ اس ترجمے کے آخر میںان مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ وہ قارئین جو ان موضوعات کے بارے میں تفصیلی طور جاننا چاہتے ہوں، ان کی راہنمائی ہو سکے۔ Know Thyself by Rene Guenon. Know Thyself (اَعْرِفْ نَفسَکَ بِنَفْسِک)کا جملہ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کے صحیح مفہوم سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اس جملے کے بارے میں جو اس قدراختلاف پایاجاتاہے ٗاس کو سامنے رکھتے ہوئے دوسوال پیدا ہوتے ہیں۔پہلے سوال کا تعلق اس جملے کے آغاز سے ہے اور دوسرا سوال یہ کہ اس جملے کااصل مفہوم اور جوازِوجود کیا ہے؟ متعدوقارئین اس بات کو تسلیم کریں گے کہ یہ دونوں سولات بالکل مختلف نوعیت کے ہیں اور ان کاآپس میں کوئی ربط نہیں تاہم عمیق غوروفکر اور محتاط تجزیے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان الفاظ میں کوئی ارتباط ضرورموجودہے۔ اگر ان اصحابِ علم سے جنھوں نے یونانی فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا ہویہ سوال پوچھاجائے کہ وہ کون سا شخص ہے جس نے سب سے پہلے یہ حکمت آمیز الفاظ استعمال کیے، توان میں بیشتر لوگ بلاجھجک جواب دیں گے کہ اس کہ حکیما نہ قول کو پہلے پہل سقر اط نے ا ستعمال کیا ِ۔ جب کہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کریں گے کہ اس اوّلیت کا شرف افلاطون کو حاصل ہے اور کچھ لوگ اسے فیثاغورث سے منسوب کریں گے۔ ان متضاد آرا اور متخالف تصورات کی روشنی میں ہم بہ آسانی یہ استنباط کر سکتے ہیں کہ اس جملہ کو سب سے پہلے استعمال کرنے والا ان میں سے کوئی شخص نہیں اور یہ ضروری بھی نہیں کہ اس جملے کی ابتداکا کھوج لگانے کے لیے ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہم یہ رائے قائم کرنے میں حق بجانب ہیںاور اس ضمن میں ایک عام قاری بھی ہمارا ہم خیال ہوگا، جب اسے یہ معلوم ہوگا کہ فلسفیوں میں سے فیثا غورث اور سقراط دونوں نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی۔ افلاطون کی فلسفیانہ استعداد کچھ بھی ہو، اس سے منسوب کردہ مکالمات کے متعلق یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ ان میں سے کون سے اس کے اپنے ہیں اور کون سے اس کے استاد سقراط کے۔ مؤخر الذکر کے اُصولوں کا ایک معتدبہ حصہ افلاطون کی وساطت ہی سے پہچانا جاتا ہے، اس کے برعکس یہ بھی امر مسلم ہے کہ افلاطون نے اپنے ’’مکالمات‘‘ میں جو خاص علم جمع کیا ہے، وہ بھی فیثاغورث ہی کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تینوں فلسفیوں کی تحریروں کی تعین حدود کا کام کافی مشکل ہے اور وثوق سے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ ان میں سے کونسی تحریر کس کی ہے۔ افلاطون سے منسوبہ باتیں بالعموم سقراط سے بھی منسوب کی جاتی ہیں اور محولہ نظریات میں سے کچھ تو ان دونوں سے قدیم ہیں اور وہ فیثا غورث کے دبستان یا فیثاغورث کی اپنی ذات ہی کے حوالے سے سب سے پہلے سامنے آئے۔ درحقیقت زیر بحث جملے کا مبدا متذکرہ بالا تینوں فلسفیوں سے بھی بہت پہلے کا ہے مزید برآں یہ جملہ تاریخ فلسفہ سے بھی قدیم ہے اور یہ فلسفہ کی قلمرو سے بھی بالکل باہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عبارت ڈیلفی (Delphes)۱؎ کے مقام پر واقع اپالو کے باب ہیکل پر کندہ تھی۔ بعدازاں اس عبارت کو سقراط اور دیگرفلسفیوںنے اپنے نظریات کے ایک بنیادی اُصول کے طورپراختیارکیا،باوجوداس اختلاف کے جوان کی متنوع تعلیمات اور مخصوص مقاصد میں پیدا ہو سکتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ ممکن ہے کہ سقراط سے بہت پہلے فیثا غورث نے بھی ان الفاظ کو استعمال کیا ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ان فلاسفہ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی بلکہ بالفعل یہ ظاہر کر دیا کہ ان کی تعلیمات ان کی اپنی من گھڑت نہیں تھیں بلکہ وہ تعلیمات ایک بلند منبع اور ارفع مرتبے سے صادر ہو رہی تھیں جو مصدر وحی اور منزلتِ الہام سے مناسبت رکھتا تھا۔ ہمارے خیال میں یہ فلسفی ان جدید فلسفیوں سے بہت مختلف تھے جنھوں نے کسی نئی بات کے اظہار کے لیے اپنی اعلیٰ صلاحیتیں وقف کر دیں تاکہ وہ اپنی فکر کو ایک اچھوتا اُسلوب بیان دے سکیں یا یہ ثابت کر سکیں کہ وہی ان نظریات کے خالق ہیں، گویا کہ حقیقت ایک ہی شخص کی ملکیت ہو سکتی تھی۔ اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قدیم فلسفیوں نے کیوں اپنی تعلیمات کو متذکرہ بالا عبارت یا اس سے مماثل عبارات کے پیرائے میں بیان کیا اور یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ اس عبارت کا درجہ ہر قسم کے فلسفے سے ارفع ہے۔ اس سوال کے دوسرے حصے کے متعلق ہم یہ صراحت کریں گے کہ اس کا جواب لفظ ’’فلسفہ‘‘ کے اصلی اور لغوی مفہوم میں پوشیدہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ پہلی بار فیثا غورث نے استعمال کیا ہوگا۔ لفظ ’’فلسفہ‘‘ بطریق احسن ’’سوفیہ‘‘(Sophia) ۲؎ یعنی حکمت سے محبت رکھنے اور اس کے حاصل کرنے کے میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ لفظ ہمیشہ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا گیا کہ حصول حکمت کے لیے ریاضت کی جائے اور بالخصوص ایسے مطالعات کے لیے بھی استعمال کیا گیا جو فلسفیوں کو مدد دے سکیں یا ایسے لوگوں کے لیے معاون ثابت ہو سکے جو ’’سوفوس‘‘ (Sophos) یا حکیم بننے کا رجحان رکھتے ہوں۔ تاہم جیسا کہ وسیلے کو کسی چیز کا مقصود نہیں سمجھا جا سکتا، اسی طرح حکمت سے محبت، اپنی ذات میں حکمت نہیںہو سکتی۔ اگر اس بات پر غور کریں کہ حکمت بذات خود حقیقی باطنی معرفت سے مماثل معلوم ہوتی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسفیانہ علم صرف ایک خارجی اور ظاہری معرفت ہے۔ اس کی ذات میں یا اس کی ذات سے کوئی مخصوص قدر و قیمت وابستہ نہیں۔ یہ صرف ارفع اور حقیقی معرفت،جو دراصل حکمت ہی کا دوسرا نام ہے، کے راستے کی پہلی منزل ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے قدیم فلسفیوں کا وسیع مطالعہ کیا ہے، اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان فلسفیوں کی تعلیم دو طرح کی ہوتی تھی۔ ان میں سے ایک ظاہری تعلیم تھی اور دوسری باطنی۔ وہ تمام تر تعلیم جو حیطۂ تحریر میں لائی جاتی تھی، اس کا تعلق اوّل الذکر سے تھا۔ ثانی الذکر تعلیم کی نوعیت کو صحیح طور پر جاننا ہمارے لیے ناممکن ہے، کیونکہ ایک تویہ چیدہ چیدہ افراد کے لیے مختص کر دی گئی اور دوسرے یہ کاملاً مخفی نوعیت کی حامل تھی۔ اگر عام فلسفہ سے کوئی اور چیز ارفع و اعلیٰ نہ ہوتی تو ان دو تخصیصات کاکوئی جواز نہ ہوتا۔ کم از کم یہ سوچا جا سکتا ہے کہ اس باطنی تعلیم کا حکمت سے قریبی اور براہ راست تعلق تھا اور اسے محض عقل جزوی یا منطق کانام نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ جہاں تک فلسفے کا تعلق ہے اسے ذہنی علم کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ دور قدیم کے فلسفیوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ذہنی علم یا بالفاظ دیگر فلسفہ، بلند اور اصلی معرفت نہیںہے یا یوں کہیے کہ فی ذاتہٖ حکمت نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ حکمت کی تعلیم بھی ظاہری علم کی مانند تقریر یا تحریر کے ذریعے دی جا سکے؟حقیقتاً یہ ناقابل عمل ہے اور ہمارے پاس اس کے دلائل بھی موجود ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم اس سے قبل ثابت کر چکے ہیں کہ فلسفیانہ ریاضت، بحیثیت ریاضت بھی نا کافی تھی۔ اس کا تعلق صرف محدود استعداد سے ہے جو محض عقلِ جزوی ہے،جب کہ حکمت کا تعلق مکمل طور پر حقیقت وجود سے ہے۔ تاہم فلسفے کے مقابلے میں ارفع تر ایک ایسی ریاضت بھی ہے جو عقل جزوی کے ذریعہ ممکن نہیں، بلکہ یہ روح اور رُواں (نفس) کی وساطت سے ممکن ہے اور اسے ہم باطنی ریاضت کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ دبستانِ فیثا غورث کا ایک بلند ترین خاصہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کا اثر دبستانِ افلاطون کے ذریعہ دبستانِ اسکندریہ کی نو افلاطونیت نے بھی قبول کیا اور یوں اس نے اپنی ہمعصر نو فیثاغورثیت کو بھی واضح طور پر متاثر کیا۔ اگر اس باطنی تیاری کے لیے الفاظ استعمال کیے جائیں، تو انھیں ایسی رمزی صور ہی سمجھا جائے گا جو باطنی تامل کو متعین کرنے میں ممد ثابت ہوتی ہیں۔ اس ریاضت کی بدولت انسان پر ایسی نفسی اور روحانی کیفیات طاری ہوتی ہیں جو اسے پہلے سے حاصل کردہ ذہنی علم سے آگے لے جاتی ہیں۔ چونکہ یہ سب کچھ عقل جزوی کی سطح سے بلند ہوتا ہے، اس لیے اس کا مقام فلسفہ سے بھی اونچا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ درحقیقت فلسفہ کی اصطلاح سے مراد ہمیشہ وہی چیز ہوتی ہے جس کا تعلق محض عقلِ جزوی سے ہوتا ہے۔ تاہم یہ حیرت افزا بات ہے کہ دورِ حاضر کے فلسفیوں نے فلسفے کی تعبیر کرتے ہوئے اسے یوں سمجھاہے جیسے یہ فی نفسہ کامل ہے اور یہ خیال کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کو فراموش کر دیا ہے کہ اس میں اعلیٰ اور ارفع کیا ہے۔ یونان میں باطنی تعلیم کا بڑا چرچا تھا، لیکن اس سے قبل یہ ممالک ِشرقیہ میں ہی رواج پذیر تھی اور ان ممالک میں اسے ’’اسرار‘‘ Mysteries)) کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔قدیم فلسفی بالخصوص فیثاغورث اپنی تعلیمات کا رشتہ اسی سے قائم کرتے تھے،کیونکہ یہ قدیم تصورات کا صرف ایک نیا پیرایہ اظہار تھا۔اس وقت یونان میں مختلف النوع اسرار پائے جاتے تھے اوران سب کی ابتدا بھی مختلف تھی۔وہ اسرار جنھوں نے فیثاغورث اور افلاطون کو متاثر کیا،اپالو کے مسلک سے مشابہ تھے۔’’اسرار‘‘ میں بالعموم اپنے آپ کو الگ تھلگ اورپردئہ اخفا میں رکھنے کی صفت پائی جاتی ہے، کیونکہ لغوی اعتبار سے لفظ Mystery۳؎ کے معنی مکمل خاموشی (total silence) کے ہیں۔ ان اسرار سے متعلق چیزوں کی صراحت الفاظ کے ذریعہ نہیں کی جا سکتی، گو خاموشی سے ان اسرار کو سکھا یا جا سکتا ہے۔ لیکن جدید فلاسفہ میں سے اکثر ان تمام طریقوں کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے، جن میںلفظوں کو استعمال میں نہ لایا گیا ہو اور ان طریقوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، جن میں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے اور جنھیں ہم تعلیم خارجی کاطریقہ کہتے ہیں۔ ہم اس بات کی توثیق کر سکتے ہیں کہ اس خاموش تعلیم میں ایسی اشکال، علامات اور دیگر ذرائع استعمال میں لائے جاتے تھے، جن کا مقصد انسان کو باطنی حالات کی جانب لے جانا تھا اور جو اسے رفتہ رفتہ حقیقی معرفت یا حکمت کے حصول میں مدد دیتے تھے۔ ’’اسرار‘‘ اور اس سے مماثل دیگر چیزوں کا یہی بنیادی اور آخری مقصدتھا۔ اپالو اور اس کے مسلک سے خصوصی تعلق رکھنے والے ’’اسرار‘‘ کے متعلق یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اپالو سورج اور نور کا دیوتا تھا اور نور کے روحانی معنی مبدا المشرق کے ہیں، جس سے تمام علوم و فنون کے معارف کا صدور ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رسوم اپالوکا ورود شمال سے ہوا تھا اور ان کا تعلق ایک قدیم ترین روایت سے ہے، جو ہندوئوں کے وید اور ایرانیوں کے اوستا جیسی مقدس کتابوں میں موجود ہے۔ شمال سے آغاز کی یہ روایت بالخصوص ڈیلفی کے متعلق ہے جسے ایک آفاقی روحانی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اس کے ہیکل میں Omphalos ۵؎ نام کا ایک پتھر پڑا ہوا تھا، جو مرکز کائنات کی علامت کا درجہ رکھتا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فیثاغورث کی تاریخ اور اس کا نام بھی رسومِ اپالو سے واضح تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی Pythios کا نام دیا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہPytho دراصل ڈیلفی ہی کا اصل نام تھا۔ایسی عورت جو ہیکل کے دیوتائوں سے الہام جیسی نعمت حاصل کر لیتی تھی اسے Pythie کہا جاتا تھا۔ یوں فیثا غورث کے نام کا مفہوم Pythia کا رہنما ہے اور اس کا اطلاق اپالو پر ہوتا ہے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک Pythie ہی تھی جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ سقراط ایک عقل مند ترین شخص تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فیثا غورث ہی کی طرح سقراط بھی ڈیلفی کے روحانی مرکز سے گہرا تعلق رکھتا تھا۔ ہم یہاں اتنا اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر تمام علوم اپالو سے منسوب کیے جاتے ہیں تو خاص طور پر علمِ ہندسہ اور طب کو بھی اسی سے منسوب کیا جانا چاہیے۔ فیثا غورث کے مدرسہ فکر میں علم ہندسہ اور ریاضی کی تمام شاخوں کو اعلیٰ معرفت کی ریاضیت میں اوّلیت حاصل ہے۔ اس معرفت کے حوالے سے ان تمام علوم کو مسترد نہیںکیا گیا،بلکہ اس کے برعکس روحانی صداقت کی علامات کے طور پر ان کا استعمال جاری رہا۔ افلاطون بھی علم ہندسہ کو تمام دیگر تعلیمات کے لیے اساسی ریاضت خیال کرتا تھا اور اس کے مدرسہ کے دروازے پر یہ الفاظ کندہ تھے: علم ہندسہ (geometry) کے عالم کے علاوہ کوئی اور یہاں داخل نہیںہو سکتا۔ اگر ان الفاظ کا افلاطون کے ایک قول ’’خدا دائمی طور پر علم ہندسہ کی تشکیل کر رہا ہے‘‘ سے موازنہ کریں تو ان کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ الٰہِ مہندس کے حوالے سے ہم اتنی صراحت کرتے ہیں کہ یہاں بھی افلاطون کا اشارہ اپالو ہی کی جانب ہے۔ یہ امر باعث حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ قدیم زمانے کے فلسفیوں نے ہیکل ڈیلفی کے دروازے پر کندہ عبارت کو استعمال کیا، کیونکہ اب ہم ان روابط سے بخوبی آگاہ ہیں جن کا تعلق اپالو کی رسوم اور رموز سے ہے۔ ان تصریحات کی روشنی میں ہم زیر بحث جملے کی حقیقی معنویت اور اس کے متعلق جدید فلسفیوں کی فروگزاشت کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ غلطی اس حقیقت کی مظہر ہے کہ ان جدید فلسفیوں نے اس عبارت کو ایک ایسے فلسفی کی سیدھی سادی بات تصور کیا جس کی فکر کو وہ اپنے جیسی فکرسمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں قدیم فکر اور جدید فکر میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اس عبارت سے ایک نفسیاتی مفہوم منسوب کر دیتے ہیں۔ مگر جس کو وہ نفسیات کا نام دیتے ہیں،وہ صرف ذہنی مظاہر کے مطالعے تک ہی محدود ہے اور یہ مظاہر جوہر نہیں بلکہ وجود کے صرف خارجی تغیرات ہیں۔ بالخصوص وہ فلسفی جو اس جملے کو سقراط سے منسوب کرتے ہیں، اس میں ایک اخلاقی مفہوم کی جھلک دیکھتے ہیں اور اس میں ایک ایسے داخلی قانون کے متلاشی ہیں، جسے عملی زندگی میں استعمال کیا جا سکے۔ اور یہ تمام ظاہری تفسیریں جو بعض اوقات صحیح بھی ہو سکتی ہیں، اس کے معنی بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں اور اس جملے کی اوّلین مقدس خاصیت کا تحقق نہیں کر سکتیں۔ یہ جملہ ابتدا ہی میں اس بات پر زور دیتاہے کہ کوئی ظاہری تعلیم اس قابل نہیں کہ حقیقی معرفت عطا کر سکے اور یہ حقیقی معرفت انسان کو اپنی ذات ہی میں مل سکتی ہے، کیونکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ علم شخصی ادراک ہی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتاہے۔ اس شخصی ادراک کے بغیر کسی تعلیم کا مؤثر نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا اور اس تعلیم سے ایسا علم حاصل نہیں ہو سکتا جو اس کے طالب کے اندر ذاتی بازگشت کو بیدار نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ افلاطون کہتا ہے کہ ’’وہ سب کچھ جو انسان سیکھتا ہے، وہ پہلے ہی سے اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔‘‘انسان کے تمام تجربات اور وہ سبھی چیزیں جو اس کے گردو پیش میں موجود ہوتی ہیں، اس کے اندر ایک ایسے ایمان کو بیدار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، جو اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اس آگاہی کو وہ anamnesis کا نام دیتا ہے اور یہ لفظ reminiscence کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ تمام تر علم کے لیے درست ہے، تو پھر یہ ہر طرح کے اعلیٰ اور عمیق علم کے لیے بھی صحیح ہے، اور جب انسان اس علم کے حصول کے لیے سعی کرتا ہے تو پھر سب ظاہری اور محسوس ذرائع ناکافی ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ بالآخر ہر قسم کی افادیت کھو دیتے ہیں۔ اگر وہ کسی حد تک حکمت تک رسائی کے لیے مدد دے سکتے ہیں تو وہ حقیقتاً اس کو حاصل کرنے میں بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔ ہندوستان میںعموماً یہ کہا جاتا ہے کہ حقیقی گُرو یا شیخ خارجی دنیا میںنہیں بلکہ انسان کی اپنی ذات ہی میں موجود ہوتا ہے، اگرچہ شروع شروع میںخارجی اعانت مفید ثابت ہو سکتی ہے اور اس اعانت سے انسان اپنی ذات میںیا اپنی ذات سے اس چیز کو پانے کی کوشش کرتا ہے، جو اسے کہیں اور نہیں ملتی اور بالخصوص اس چیز کو پانے کے لیے سرگرداں رہتا ہے جو ذہنی علم کی سطح سے بلند ہوتی ہے۔بعض احوال کو محسوس کرنے کے لیے ان تک رسائی ضروری ہے۔ یہ احوال ہمیشہ وجود کی گہرائیوں تک چلے جاتے ہیں اور ان کا رخ ایک مرکزکی جانب ہوتا ہے، جس کے لیے قلب کی علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مرکز تک احساسِ انسانی کو منتقل ہونا چاہیے تاکہ وہ حقیقی معرفت کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ قدیم اسرار انہی ذہنی احوال کو قلب میں منتقل کرنے کے مختلف درجات تھے۔ جیساکہ سطورِ بالا میں ذکر ہوا ہے کہ ڈیلفی کے ہیکل میں ایک پتھر تھا جس کو Omphalos کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ پتھر انسانی وجود اور اس کے ساتھ ساتھ کائنات کا بھی مرکز سمجھا جاتاتھا۔ یہی عالم اکبر (Macrocosm) ۷؎ اور عالم اصغر(Microcosm) یعنی انسان کے درمیان مقامِ توافق ہے، تاکہ جو وہ انسانوں میں ہے، اس کا آپس میں براہ راست تعلق پیدا ہو جائے۔ ابن سینا کا قول ہے: وتحسب انک جرم صغیر وفیک انطوی العالم الاکبر تمھارا خیال ہے کہ تم چھوٹا سا بدن ہو، حالانکہ یہ تم ہی ہو، جس میں عالم اکبر پوشیدہ ہے۔ دورِقدیم میں اکثر لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہOmphalos نامی پتھر آسمان سے زمین پر گرا تھا اور یونانیوں نے بھی اس پتھر کے متعلق اسی قسم کے خیال کا اظہار کیا ہے۔ مسلمان کعبہ کے حجرِ اسود کے بارے میں جو اعتقاد رکھتے ہیں، اس کی اس قدیم تصور سے کچھ نہ کچھ مشابہت ضرور ہے۔ عالم اکبر اور عالم اصغر (انسان) کے درمیان مشابہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی مثل ہیں۔جن عناصر نے ان کو ترکیب دی ہے، ان کے توافق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے پہلے انسان کو اپنے بارے میںجاننا چاہیے اور اس کے بعد وہ اشیائے دیگر کوبھی جان سکتا ہے، کیونکہ یہ سچ ہے کہ وہ اپنی ذات ہی میں تمام چیزوں کو تلاش کر سکتا ہے۔ اسی بنا پر بعض علوم میں ذو معنویت پائی جاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر علوم قدیم حکمت کا حصہ تھے اور ان سے تقریباً ہمارے تمام معاصرین نا واقف ہیں۔ اپنے خارجی پہلو کے اعتبار سے یہ علوم عالم اکبر کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس جہت سے اس کی تعبیر صحیح ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ان میں اس سے گہرے معنی بھی پنہاں ہیں، جو انسان اور طریق باطنی کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جس پر عمل پیرا ہو کر وہ اپنی ذات میں حقیقی معرفت کا ادراک کر سکتے ہیں یعنی خاص اپنے وجود کا ادراک۔ اس کے متعلق ارسطوکا قول ہے۔ ’’عالم اپنے علم کا عین ہے۔‘‘ جہاںمعرفت اپنے ظواہر اور عکس کے بجائے حقیقی طور پر موجود ہو گی وہاں معرفت اور وجود ایک دوسرے میں مندرج ہو کر ایک ہی چیز بن جاتے ہیں۔ بحوالہ افلاطون یہ عکس حقیقت میں ایک حسی ادراک ہے، حتیٰ کے ذہنی علم، جو درجے میں اس سے برتر ہے، اس کا ماخذ بھی یہی حسیات ہیں، حقیقی معرفت عقل جزوی کی سطح سے بلند ہے اور اس کا یا اس کی ماہیت وجود کا تحقق تکوین عالم سے مماثلت رکھتا ہے، جس کے متعلق ہم نے سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض علوم اس کو اس تکوین کے ظواہر کے تحت بیان کرتے ہیں۔ یہ ذومعنویت قدیم اسرار میں شامل کی گئی تھی اور تعلیم کی تمام اقسام میں بھی اس کا پتہ چلتا ہے اور مشرقی اقوام میں بھی اس کا یہی مقصد تھا۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ قرون وسطیٰ میںمغرب میں بھی یہ تعلیم موجود تھی، اگرچہ ان دنوں یہ اس حدتک منظرِ عام سے ہٹ گئی ہے کہ اہل مغرب کی اکثریت اس کی ماہیت حتیٰ کہ اس کے وجود سے ناواقف ہیں۔ محولہ بالا تصریحات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقی معرفت کی راہ عقلِ جزوی نہیں بلکہ نفس اور روح ہے اور اس میںہم وجود کلی کا بھی اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ حقیقی معرفت اس وجودکے (اس کے تمام احوال سمیت) ادراک کلی کے سوا کچھ نہیں اور یہی معرفت کی نہایت اور کمال ہے اور حکمت متعالیہ کا حصول اور جو کچھ نفس اور روح سے مخصوص ہے، اس کی حقیقت اس راستے کی مختلف منازل ہیں جو جوہر باطنی یا ذاتِ حقیقی کی طرف جاتا ہے۔ اس کا ادراک صرف اسی صورت میں ہو سکتاہے، جب وجود اپنے مرکز خاص تک پہنچ گیا ہو، اس کے قلب اور مرکز کے تمام اجزا ایک نقطے میں مرتکز ہو چکے ہوں، اور اس نقطے میں اس پر تمام اشیا ظاہر ہوتی ہوں اور وہ نقطہ ان سب پر اسی طرح محتوی ہو جیسا کہ مبدا اوّل میں تھا۔ یوں یہ تمام چیزوں کو فی نفسہٖ اور من نفسہٖ جان سکتا ہے جیسے وجود کی کلیت اپنے جوہر فرد کی وحدت میںظاہر ہوتی ہے۔ یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ یہ علم نفس کے جدید مفہوم سے کس قدر مختلف ہے اور اوّل الذکر ثانی الذکر سے نفس کی سچی اور عمیق معرفت کی وجہ سے اعلیٰ ہے۔ رہا مؤخر الذکر تو وہ اس راستے کا اولین قدم ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ لفظ ’’نفس‘‘ کو عربی میں مستعمل معنی تک محدود نہیں کرنا چاہے، کیونکہ یہ لفظ زیرِ نظر عبارت کے عربی ترجمے میں بھی موجود ہے، جب کہ اس کا یونانی مترادف لفظ Psyche اصل جملہ میں نظر نہیں آتا۔ اسی وجہ اس لفظ کو صرف مروجہ مفہوم تک محدود نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ ضروری ہے کہ اس میں اس سے بلند معنی پائے جائیں اور یہ معنی (ذات) یا ذاتِ حقیقی کے مترادف ہوں گے اور اسی سے اس مفہوم کی تصدیق ہوتی ہے جو حدیث شریف میں موجود ہے اور یونانی جملہ سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ حدیث یہ ہے: ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّْہُ‘‘جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ جب انسان اپنی ذات کو اپنے جوہر باطنی یا اپنے وجود کے مرکز میں پہچان لیتا ہے، تب اسے اپنے رب کی معرفت نصیب ہو جاتی ہے اور جب وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے، تو اس کے ساتھ ہی ان تمام چیزوں کو بھی پہچان جاتا ہے، جو اس کے رب کی طرف سے آتی ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جاتی ہیں۔ وہ اس مبدا الٰہی کی ارفع و اعلیٰ وحدت میں تمام اشیا کی معرفت حاصل کر لیتا ہے جس سے علی الاطلاق کوئی شے خارج نہیں۔ یہی مفہوم حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے اس قول میں پنہاں ہے کہ لا محدود سے کوئی شے باہر نہیں ہے۔ ء ء ء حوالے و حواشی (مترجمین) ۱- دیلفس کے لیے ر ک: Le Roi du Monde (=RM) Paris: Gallimard, 1958. pp.76,90; Forms traditionnelles et cycles cosmiques (=FTCC) Paris: Gallimard, 1970,p.75; ۲- سوفیہ کے لیے ر ک: RM, p; 52; Ape'rcus Sur I'e'sote'risme chre'tien (=AEC), Paris: Editions traditionnelles, 1954, P.40; Etudes sur Ia Franc-Maconnerie et Ie Compagnonnage (=EFMC), Paris: Editions traditionnelles, 1971, vol. II, p. 217; Etudes sur I'Hindouisme (=EH), Paris: Editions traditionnelles, 1968, p. 102. ۳- مسیّر کے لیے ر ک: L'Erreur spirite (=ES), Paris: Editions traditionnelles, 1952, p.211; Orient et Occident (=00), Paris: Vega, 1964, p.15; Autorite spirituelle et pouvoir temporal (=ASPT) Paris: Vega, 1964, M,34-6,65,98, 102; Le symbolisme de la croix.(=SC), Paris: Union generale d'editions coll. "10-18", 1970, pp. 91-3; Les etats multiples de I'etre (=EME), Paris: Vega, 1957, pp. 29, 94; Le regne de Ia quantite et les signes des sur temps (=RQST), Paris: Gallimard, coll. "Idees", 1970, p.354; Apercus I'initiation, Paris: Editions traditonnelles, (=AI) 1964, pp. 112,120-28. 248-53;Initiation et Realisation spirituelle, (=IRS), Pairs: Editions traditionnelles, 1967, pp. 146, 196; AEC, pp.18, 19, 47, 87; Symboles fondamentaux de la Science sacree (=SFSS) Pairs: Gallimard, 1962, pp.150, 231, 236,243,252,81,303.344,346,392; EFMC vol. I,p.60,vol.II, pp. 33,36,141; EH, p. 231; FTCC, pp. 79, 109, 137. ۴- SILENCE کے لیے ر۔ ک : Al, pp. 94, 123, 124, 126; SFSS, pp. 370, 415; EFMC, vol. I, p. 299;EH, pp. 170, 184, 231. ۵- او مفالوس کے لیے ر ک : RM, pp. 72-81; SC, p.264; AEC, p.32; SRSS, pp.99, 107, 188, 203, 227, 229, 265, 294. EH, p.37. ۶- پتھی کے لیے ر ک : SFSS, p. 193. ۷- میکرو کوزم، مائیکرو کوزم کے لیے ر ک : SC, pp. 78,175, 255, 263, 289; SFSS, pp. 97, 218, 304, 431, 433. EH, pp. 30, 31; Comptes rendus, (=CR) Paris: Editions traditionnelles, 1973, p. 21. ظ ظ ظ انفرادیت پرستی دنیائے جدید کا بحران Crisis of the Mordern World شیخ عبدالواحد یحییٰ کی ان اہم کتابوں میں سے ایک ہے جن میں انھوں نے جدید دنیا کے بنیادی رویوں کی شکل واضح کی ہے اور روایتی کائنات سے دور ہو تی جاتی اس دنیا کی سمتِ سفر کے بارے میں بلیغ اشارے کیے ہیں۔۱۹۲۷ ء میں یہ کتاب پہلی بار سامنے آئی تھی اور اس میں دنیائے جدید کی ذہنی کیفیت کے بارے میں جو باتیں کہی گئی تھیں ان کا فہم آج آسان تر ہو گیا ہے کیونکہ حالات و واقعات نے کم و بیش وہی صورت اختیار کی ہے جس کی نشاندہی اس کتاب میں کی گئی ہے۔ اردو میں شیخ عبدالواحد کی تحریروں کا ترجمہ ایک نہایت مشکل امر ہے اس لیے کہ معانی کے صحیح ابلاغ کے لیے اصطلاحات کے متعینہ تلازمات سے لے کر جملے کی ساخت تک ہر سطح پر بڑی احتیاط محلوظ رکھنی پڑتی ہے۔ ہم نے ہر ممکن احتیاط اور محنت کے ساتھ شیخ ؒکی اس کتاب کے ایک باب کا ترجمہ کیا ہے اوراس بات کی کوشش کی ہے کہ اسلوبِ بیان شیخ کے اپنے اسلوب کے قریب تر رہے۔ انگریزی میں اس کتاب کاسب سے پہلے ترجمہ ۱۹۴۲ء میں ہوا اور دوسرا ۱۹۷۵ء میں۔اردومیں ترجمہ کرتے ہوئے یہ دونوں تراجم پیش نظر رہے ہیں۔ یہ باب عہدِجدید کے تصورِانسان کی سب سے بڑی کجروی کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ Crisis of the Modern World by Rene Guenon. انفرادیت پرستی سے ہماری مراد وہ رویہ ہے جو انفرادیت سے بالا ہر اُصول کی نفی کرے، جس کے نتیجے میں تہذیب اپنے تمام شعبوں میں فقط انسانی عناصر تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ بنیادی طور پر انفرادیت پرستی اس رویے کے متماثل ہے جو نشاۃ ثانیہ کے دور میں انسانیت پرستی Humanism کہلایا۔ نیز یہ دنیوی profane نقطۂ نظر کی امتیازی خصوصیت ہے۔ درحقیقت یہ ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں اور یہ دنیوی نقطۂ نظر دراصل وہی غیر روایتی نقطۂ نظر ہے جو تمام جدید رجحانات کی بنیاد ہے۔ اس سے مراد قطعاً یہ نہیں کہ یہ نقطۂ نظر یکسر نیا ہے بلکہ یہ کم و بیش ہر دور میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس کے مظاہر ہمیشہ مرکزی رجحان سے علیٰحدہ اور محدود رہے ہیںاور ایسا کبھی نہیں ہواتھا کہ انھیں کسی ایک تہذیب پر مکمل غلبہ حاصل ہو جائے جیسا کہ حالیہ صدیوں میں مغرب میں ہوا۔ جو چیز آج تک دیکھنے میںنہ آئی تھی وہ یہ ہے کہ تہذیب کی بنیاد کسی خالصتاً منفی رحجان پر استوار ہوا! اسے ہم اُصول کی عدم موجودگی سے تعبیر کرتے ہیں جو دنیائے جدید کے غیر معمولی abnormal اور انسانیت سوز کردار کا تعین کرتا ہے۔ اسے اس وقت صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے جب اسے ایک دور کا نقطۂ اختتام قرار دیا جائے۔ انفرادیت پرستی اپنی اس تعریف کے مطابق مغرب کے موجودہ زوال کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ یہ ہمیشہ کی طرح بنی نوع انسان کے گھٹیا ترین امکانات کے عروج کا محرک ثابت ہوتی ہے، وہ امکانات جن کے لیے کسی ورائے انسانی عنصر کی مداخلت کی ضرورت نہیںبلکہ جو اس کے برعکس ان عناصر کی عدم موجودگی میں ہی پروان چڑھتے ہیں کیونکہ فی الحقیقت یہ رجحانات روحانیت اور تعقل حقیقی کی عین ضد ہیں۔ اس انفرادیت پرستی میں بنیادی طور پر عقلی و جدان intellectual intuition کی نفی مضمر ہے۔ یعنی عقلی وجدان بحیثیت ایک فوق الفردی super individual استعداد کے اور اس علم کی بھی جو اس وجدان کے اصل دائرہ کار کی تشکیل کرتا ہے یعنی ماوراء الطبیعیات جب اسے اس کی اصلی مفہوم میں استعمال کیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام جدید فلسفی اس اصطلاح سے جو مراد لیتے ہیں وہ حقیقی ماوراء الطبیعیات کے لیے قطعاً اجنبی ہے بشرطیکہ وہ کبھی اس چیز کا وجود تسلیم کریں جس پر اس لفظ کا اطلاق کیا جا سکے۔ جدید فلاسفہ کی مابعد الطبیعیات کی حقیقت عقلی ڈھانچوں اور ان خیالی مفروضوں کے سوا کچھ نہیں جو خالصتاً انفرادی تصورات ہیں اور جن کا اطلاق صرف طبیعیات کی قلمرو یا دوسرے الفاظ میں فطرت۲؎ پر ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی کوئی ایسا سوال کیا بھی جاتا ہے جو ماوراء الطبیعیات کے محیط سے تعلق رکھتا ہو تو اس پر اس انداز سے غور کیا جاتا ہے اور اسے یوں پیش کیا جاتا ہے جو اسے کھوٹی ماوراء الطبیعیات psuedo-metaphysics بنا کر رکھ دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کسی حقیقی اور درست حل کو بھی خارج از امکان بنا دیتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کے فلاسفہ خود ساختہ اور موہوم مسائل پیش کرنے کا تو بہت شوق رکھتے ہیں مگر انھیں حل کرنے سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ ان کے تحقیق برائے تحقیق کے پراگندہ نظریے کا صرف ایک پہلو ہے جو ذہنی اور مادی دونوں دائروں میں لا حاصل ترین تحرک کے سوا اور کچھ نہیں۔ پھر ان فلاسفہ کی توجہ کا اہم مرکز یہ بھی ہے کہ کسی طرح اپنے نام سے ایک عدد نظام ِفلسفہ منسوب کیا جائے یعنی ایک محدود اور محصور مجموعۂ نظریات جو صرف ان کا اور خالصتاً ان کی تخلیق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک ابتکاریت originality ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا ہے خواہ اس کے لیے حقیقت کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے چنانچہ فی زمانہ ایک فلسفی کو شہرت نئی غلطی اختراع کرنے پر ملتی ہے نہ کہ ان حقائق کی تذکیر و بیان پر جن کا اظہار اس سے قبل دوسرے بھی کر چکے ہوں۔ اسی قسم کی انفرادیت پرستی سے وہ موجودہ نظام ہائے فکر پرورش پاتے ہیں جن کے اندر ممکن ہے کوئی داخلی تضاد نہ ہو مگر جو بہر حال باہمی تضاد اور تصادم کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ چیز جدید علمااورفنکاروں میں بھی ملتی ہے۔تاہم فلسفے کے میدان میں یہ فکری نزاع جو انفرادیت پرستی کالازمی نتیجہ ہے واضح ترین شکل میںنظر آتا ہے۔ ایک روایتی تہذیب میں یہ ناقابل تصور ہے کہ کوئی شخص کسی نظریے کی ملکیت کا دعویٰ کرے اور کہیں اگر وہ ایسا کر دے تو وہ نظریہ تمام وقعت اور اعتماد کھو بیٹھے گا اور لے دے کر ایک لایعنی واہمہ رہ جائے گا۔ اگر ایک نظر یہ مبنی بر صداقت ہے تو وہ ان سب کا ہے جو اس کے ادراک کے قابل ہیں اور اگروہ غلط ہے تو پھر اس کی اختراع کوئی قابل تعریف حرکت نہیں۔ ایک سچا نظریہ کبھی ’’نیا‘‘ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ صداقت انسانی دماغ کی پیدا وار نہیں ہے۔ یہ ہم سے جدا وجود رکھتی ہے اور ہمارا کام صرف اس کا ادراک ہے۔ اس کے علم کے علاوہ سوائے غلطی کے کچھ ممکن نہیں۔ لیکن جدید لوگوں کو بحیثیت مجموعی صداقت کی پرواہ ہی کتنی ہے! وہ جانتے ہی کب ہیں کہ یہ ہے کیا؟ یہاں آ کر الفاظ پھر اپنے صحیح معانی کھو بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ کچھ لوگوں نے جن میں معاصر نظریۂ تجربیتpragmatism کے پیروکار پیش پیش ہیں لفظ ’’صداقت‘‘ میں اتنانا جائز تصرف کیا کہ اسے ’’عملی افادیت‘‘ کا ہم معنی بنا ڈالا جو فکری دائرہ عمل سے بارہ پتھر باہر کی چیز ہے۔ یہ انکارِ صداقت، انکارِ عقل کو مستلزم ہے کیونکہ صداقت، عقل intellect ہی کا موضوع اور مدرک ہے۔یہ سب کچھ جدید رویۂ انحراف کا منطقی نتیجہ ہے۔ مزید قیاس کیے بغیر اس مقام پر صرف اتنا اضافہ اور کر دیں کہ یہی انفرادیت پرستی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے نام نہاد ’’عظیم آدمیوں‘‘اور ’’نابغہ‘‘Genius کی خواہ مخواہ اہمیت کا فریب پیدا ہوا (جب ان الفاظ کو ان کے دنیوی profane معنی میں استعمال کیا جائے)یہ انفرادیت پرستی اتنی بو دی اور بے حقیقت ہے کہ یہ حقیقی علم کی کمی پوری کرنے کے قطعا ًقابل نہیں۔ چونکہ فلسفے کا ذکر آگیاہے۔لہٰذا ہم تمام تفاصیل میں جائے بغیر اس میدان میں انفرادیت پرستی کے چند نتائج کی طرف اشارہ کریں گے۔پہلا تو ہے عقلی وجدان intellectual intuition کی تردید اور انسانی سوچ reasonکی ہر دوسری چیز پر ترجیح، سوچ جو خالصتاً انسانی اور اضافی استعداد ہے ۔اسے گویا عقل کے برترین حصے کا مقام دے دیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے ہی عقلِ کل سمجھا جانے لگا۔ اسی سے عقلیت پرستی rationalism کی تشکیل ہوئی جس کا بانی ڈیکارٹ تھا۔ تاہم عقلintelligenceکی یہ تحدید فقط پہلا مرحلہ تھا۔ کیونکہ reasonکو جلد ہی اس درجے سے گر کر فقط عملی مناصب تک محدود ہو جانا پڑا۔ جوں جوں عملی اطلاقات نے ان علوم پر حاوی ہونا شروع کیا جن میں نظری پہلو برقرار رکھنے کی کچھ صلاحیت تھی۔ اور تو اور خود ڈیکارٹ ہی کو خالص سائنس سے زیادہ اس کے عملی اطلاقات کی فکر تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ انفرادیت پرستی لازماً فطرتیت یا فطرت پرستی۳؎ naturalismکی متقاضی ہے کیونکہ وہ چیز جوفطرت سے ورا ہے وہ بایں وجہ فردکی گرفت سے باہر ہے۔ فطرت پرستی اور ماوراء الطبیعیات کا انکار ایک ہی رویے کے دو نام ہیںکیونکہ جب ایک مرتبہ عقلی وجدان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے تو پھر ماوراء الطبیعیات کا امکان بھی باقی نہیں رہتا۔ اب بعض لوگ تو کسی نہ کسی طرح ایک کھوٹی ماوراء الطبیعیات اختراع کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور کچھ لوگ زیادہ کشادہ ظرفی سے اس کا عدمِ امکان تسلیم کر لیتے ہیں۔ اسی سے اضافیت Relativismاپنی تمام صورتوں میں نمودار ہوتی ہے خواہ کانٹ Kantکی ’’تنقید‘‘ہو یا آگست کامتے کی اثباتیت۔ چونکہ سوچReasonخود اضافی ہے اور صرف اسی دائرہ کار سے بخوبی عہدہ برآہو سکتی ہے جو خود بھی اتنا ہی اضافی ہولہٰذایہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اضافیت،عقلیت پرستی کا واحد منطقی نتیجہ ہے۔ مگر اسی تعمیر میں ایک صورت عقلیت پرستی کی خرابی کی بھی مضمر تھی۔اضافیت کے ذریعے عقلیت پرستی نے اپنی تباہی کا سامان خود ہی کر دیا۔فطرت natureاور becoming تکوین،جیسا کہ اس سے قبل ذکر ہوا ایک ہی چیز کے دو نام ہیںلہٰذا ایک مضبوط ومربوط فطرتیت یا فطرت پرستی صرف تکوینی نظام ہائے فلسفہ کا مجموعہ ہی ہو سکتی ہے۔جس کی جدید مثال ہم ارتقائیت evolutionismمیں پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔مگر یہی وہ تحریک ہے جسے آخر کار عقلیت پرستی کے خلاف میدان میں اُترنا تھا۔چناچہ اس نے سوچ Reasonکو ایک طرف تو اس بات کے ناقابل قرار دیا کہ وہ اس شے کو گرفت میں لا سکے جو تغیر وتعدد سے عبارت ہے۔اور دوسری طرف اسے اشیائے محسوسہ کی لا محدود پیچیدگیوں کو سلجھانے سے معذور بنا دیا۔ یہ وہ استدلال ہے جو ارتقایئت کی ایک قسم یعنی برگسانی وجدانیت intuitionism نے عقلیت پرستی کے خلاف اختیار کیا۔ اگرچہ و ہ خود بھی عقلیت پرستی سے کچھ کم انفرادیت پرست اور غیر ماوراء الطبیعیاتی نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موخرالذکر پر اس کی تنقید بالکل بجا ہے لیکن اس نے عقلیت پرستی کے بجائے جس کا استعداد کا سہارا لیا وہ تو بذات خود عقلیت سے بھی گھٹیا نکلی یعنی ایک مبہم ساحسی وجدان جو زیادہ تر تخیل، جبلت اور جذبے سے خلط ملط ہوا رہتا ہے۔ یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل اور قابل توجہ ہے کہ اس نظام میں صداقت کا کوئی سوال باقی نہیں رہا۔ ان کے ہاںصرف ایک حقیقت کی تلاش لے دے کر رہ گئی ہے اور حقیقت بھی وہ جس کی محض دائرہ محسوسات تک تحدید کر دی گئی ہے اور جو خود ان کے خیال میں ایک بے ثبات اور ہر دم رواں چیز ہے۔ اس قسم کے نظریات میں عقل درحقیقت اپنے اسفل ترین مقام تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور سوچ Reason کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی سوائے یہ کہ اس سے صنعتی ضروریات کے لیے مواد تیار کرنے کا کام لیا جائے۔ اس کے بعد بس ایک قدم کی کسررہ جاتی ہے۔یعنی عقل اور علم کاکلی استرداد اور صداقت کی جگہ افادیت پر یقین۔ تجربیت اسی قدم کی مصداق ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے ہمارا ناطہ انسانی قلمرو سے بھی ٹوٹ جاتا ہے جو عقلیت پرستی میں برقرار تھا۔ تحت الشعور پر توجہ مرکوز کرنا جو عمومی درجۂ مراتب کی مکمل تقلیب سے عبارت ہے ہمیں درحقیقت تحت الانسانی سطح پر لے آتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر دنیوی profane فلسفہ کو گامزن ہونا تھااور وہ ہوا جب اسے اس دعوے کے ساتھ بے لگام چھوڑ دیا گیا کہ تمام علم اسی کے حلقہ تک محدود ہے۔ جب تک ایک برتر علم کا وجود تھا اس قسم کی حرکت ناممکن تھی کیونکہ فلسفہ کم از کم اس چیز کا احترام کرنے کا پابند تھاجو اس کو معلوم تو نہیں تھی مگر اس کے وجود سے فلسفے کا انکار محال تھا، مگر جب یہ علم برتر جاتا رہا تو اس کے انکار کو ایک باقاعدہ نظریے کی شکل دے دی گئی۔ جدید فلسفہ سارے کا سارا اسی کامرہونِ منت ہے۔ فلسفے کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت عطا کرنا غلط ہو گاکیونکہ جدید دنیا میں اس کا بظاہر کتنا ہی اہم مقام کیوں نہ ہو ہمارے نقطۂ نظر سے اس میں دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر دور کا فلسفہ اس دور کے رجحانات کا خالق کم اور مظہر زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ ایک خاص حد تک ان رجحانات کی راہ متعین کرتا ہے تو بھی ہم کہیں گے کہ ایسا صرف تب ہوتا ہے جب وہ متشکل ہو چکے ہوتے ہیں۔مثلاً یہ مسلم ہے کہ تمام جدید فلسفہ کا آغاز ڈیکارٹ سے ہوتا ہے مگر اس کے جو اثرات اس کے اپنے اور بعد کے زمانے پر اور اس زمانے کے فلاسفہ پرپڑے وہ اس وقت تک ممکن نہ ہوتے اگر ڈیکارٹ کے تصورات پہلے سے موجود ان رجحانات سے ہم آہنگ نہ ہوتے جو اُس کے ہم عصروں میں عام تھے۔ جدید نقطۂنظر کارتیسنیزم cartesianismمیں منعکس ہوتاہے اور اسی سے اپنا منشور واضح طور پر اخذ کرتا ہے۔ مزید برآں اگر ایک تحریک کسی بھی میدان کار میں اتنی ہی نمایاں ہو جتنی کہ کارتیسنیزم فلسفہ میں رہی ہے تو یہ ہمیشہ ایک نتیجہ ہوتی ہے نہ کہ نقطۂ آغاز۔ ایسی تحریک یک دم خود بخود نمودار بھی نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کے برعکس طویل منتشر محنتوں کے سلسلے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اب اگر ایک آدمی مثلاً ڈیکارٹ اس جدید انحراف کا نمائندہ ہے اور وہ بھی اس طرح کہ کسی حد تک اور ایک خاص نقطۂ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ گویا اس کی تجسیم ہے، جب بھی یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ اس کا بانی اور آغاز کنندہ نہیں ہے بلکہ اس کے مبدا کی تلاش میں ہمیں اس سے کہیں پیچھے جانا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے نشاۃ ثانیہ اور دور اصلاح reformation پر، جسے عام طور پر جدید رویہ کا سب سے بڑا مظہر گنا جاتا ہے،روایت سے انقطاع کا عمل مکمل ہو جاتا ہے، اس کا آغاز نہیں ہوتا۔ ہمارے نزدیک اس انقطاع کی ابتدا چودھویں صدی میں تلاش کی جانی چاہیے اور جدید دور کا آغاز ایک یا دو صدی بعد مقرر کرنا چاہیے۔ روایت سے انقطاع مزید تبصرے کا متقاضی ہے کیونکہ یہی تو ہے جس نے جدید دنیا کو جنم دیا۔اس کے تمام خصائص کو ایک فقرے میں سمیٹا جا سکتا ہے۔ یعنی روایتی نقطۂ نظر کی مخالفت اور روایت کی نفی کا مطلب ہے انفرادیت پرستی۔ یہ چیز محولہ بالا عقائد سے پوری طرح ہم آہنگ ہے، کیونکہ عقلی وجدان اور ماوراء الطبیعیاتی عقائد ہی ہر روایتی تہذیب کو اس کے اُصول سے وابستہ رکھتے ہیں۔ اس لیے جب اُصول ہی کا انکار کر دیا جائے تو اس کے تمام فروع اور عواقب کا بھی لامحالہ انکار کرنا ہوگا، کم از کم مضمر طور پر۔ اس طرح ہر وہ چیز جو روایت کہلانے کی مستحق ہوتی ہے فوری طور پر برباد ہو جاتی ہے۔ علوم کے ضمن میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ عمل کسی طرح وقوع پذیر ہوا۔ چنانچہ اب ہم ایک اور قلمرو کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جہاں غیر روایتی نقطۂ نظر کے مظاہر اور بھی نمایاں ہیں کیونکہ اس کی پیدا کردہ تبدیلیاں یورپ میں عوام پر براہ راست اثر انداز ہوئی ہیں۔ دراصل قرون وسطی میں علومِ طبعی sciences ایک قلیل تعدادپر مشتمل منتخب گروہ تک محدود تھے اور ان میں سے بعض پر تو چند مکاتب کی سختی سے اجارہ داری تھی جس سے esoterism باطنیت (اپنے صحیح مفہوم میں) پیدا ہوتی۔ مگر روایت کا ایک حصہ ایسا بھی تھا جو سب کے لیے عام تھا اور اس مقام پر ہم اس خارجی حصے کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ اس زمانے میں مغرب کی روایت اپنے ظاہر میں ایک صریح مذہبی صورت کی حامل تھی جس کا نمائندہ کیتھولک ازم تھا۔ چنانچہ اب ہم مذہب کی قلمرو میں روایتی نقطۂ نظر کے خلاف بغاوت کا مطالعہ کریں گے جو ایک مخصوص و متعین شکل اختیار کرنے کے بعد پروٹسٹنٹ ازم کے نام سے معروف ہو گئی۔ یہ محسوس کرنا بہت آسان ہے کہ یہ بھی انفرادیت پرستی ہی کا مظہر ہے اور اس قدر صریحاً ہے کہ اسے مذہب پر انفرادیت پرستی کے اطلاق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دُنیائے جدید کی طرح پروٹسٹنٹ ازم کی بنیاد بھی تردید محض پر ہے اُصولوں کی تردید جو انفرادیت پرستی کا بنیادی وصف اورجوہر ہے چنانچہ اس میں ہمیں نراج اور زوال کی اس صورت حال کی ایک اور نمایاں مثال نظر آتی ہے جو ایسی تردید سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ انفرادیت پرستی لازمی طور پر فرد سے بلند کسی اور ہیئت حاکمہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے نہ ہی اس کے نزدیک انفرادی سوچ (individual reason) کے سوا حصول علم کا کوئی اور ذریعہ موجود ہے۔ یہ دو رویے جدا نہیں کیے جا سکتے۔ چنانچہ جدید نقطۂ نظر پر لازم تھا کہ وہ صحیح معنوں میں روحانی اقتدار کی نفی کرے، وہ اقتدار جس کی اساس فوق الانسانی درجہ کی ہو اور ہر روایتی تنظیم کی بھی جو اپنی بنیاد لازماً اس اقتدار پر رکھتی ہو خواہ اس تنظیم نے صورت کوئی بھی اختیار کر رکھی ہو کیونکہ ہر تہذیب کے ساتھ (روایتی تنظیموں) کی صورت قدرتاً بدل جاتی ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ پروٹسٹنٹ ازم نے اس تنظیم کے اقتدار کی تردید کی جو مغرب کی مذہبی روایت کی ترجمانی کی جائز حقدار تھی اور اس کی جگہ آزاد تنقید کا نعرہ بلند کیا، یعنی ذاتی فیصلے کی بنیاد پر کی جانے والی ترجمانی بالفاظ دیگر انفرادی رائے، خواہ وہ جہلا اور نا اہلوں ہی کی ہو جو خالصتاً انسانی سوچ کی کوششوں پر مشتمل تھی۔ مذہبی دائرے میںجو کچھ ہو ا اس میں اور جو عقلیت پرستی نے فلسفے کے ساتھ کیا بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ پروٹسٹنٹ ازم کے اس رویے سے ہر طرح کی بحثا بحثی، انحراف اور کج فکری کو صلائے عام مل گئی اور نتیجہ ہوا وہی جو ہونا تھا۔ فرقوں کی روز افزوں کثرت جن میں سے ہر ایک چند افراد کی ذاتی رائے کی نمائندگی سے زیادہ حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اندریں حالات چونکہ عقیدے پر کسی کا اتفاق ممکن نہ تھا۔ لہٰذا اسے پس منظر میں دھکیل دیا گیااور مذہب کی ثانوی جہت یعنی اخلاقیات سامنے آ گئی۔ اس زوال کا نتیجہ اخلاقیات پرستی moralism تھا جو آج کی پروٹسٹنٹ ازم کا امتیازی نشان ہے۔ سو اس طرح مذہب میں بھی فلسفے کے متوازی وہ صورت حال پید اہوئی جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں یعنی نسخ عقائد جو مذہب کے تعقلاتی intellectual عناصر کے غائب ہو جانے کا ناگزیر نتیجہ تھی۔ عقلیت پرستی کے بعد مذہب کا جذبات پرستی sentimentalism میں غرق ہو جانا لازم تھا اور اس کی بڑی واضح مثالیں اینگلوسیکسن ممالک میں دکھائی دیتی ہیں۔ جب ایک بار یہ نوبت پہنچ جائے تو مسخ شدہ اور کھوکھلے مذہب کابھی سوال باقی نہیں رہ جاتا۔ لے دے کہ مذہبیت رہ جاتی ہے یعنی مبہم جذباتی آرزوئیں جن کا کوئی جواز کسی حقیقی علم میںموجود نہ ہو۔ اس انتہائی مرحلے سے ولیم جیمز کے ’’مذہبی تجربے‘‘ کی قبیل کے نظریات مطابقت رکھتے ہیںجو الوہیت کے ساتھ انسان کے رابطے کی ذرائع کی تلاش میں تحت الشعور کی حد تک جاپہنچتے ہیں اس نقطے پر مذہبی انحطاط اور فلسفیانہ زوال کے آخری نتائج ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں اور ’’مذہبی تجربہ‘‘ بالآخر تجربیت pragmatism میں گم ہو جاتا ہے جس کے نام پر ایک محدود تصورِ الٰہ limited God، الٰہِ لا محدود Infinite God (ذات لاتعین) سے مفید ٹھہرتا ہے کیونکہ اس کے لیے ان جذبات سے مشابہ جذبات کاپیدا ہونا ممکن ہے جو کوئی شخص اپنے سے برتر آدمی کے لیے محسوس کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ’’تحت الشعور‘‘ کا سہارا لینے کی کوشش جدید روحانیت اور کھوٹے مذاہب‘‘ psuedo religions کی مددگار ثابت ہو رہی ہے جو ہمارے زمانے کا امتیازی نشان بن گئے ہیں اور جن کا جائزہ ہم اپنی دوسری تحریروں میں لے چکے ہیں۔ ۴؎ دوسری طرف پروٹسٹنٹ اخلاقیات پرستی رفتہ رفتہ تمام عقیدوں کو جو بنیادی حیثیت رکھتے ہیں منہا کر دینے کی وجہ سے تنزل پذیر ہو کر ’’اتائی اخلاقیات‘‘ lay morality بن کر رہ گئی جس کے ماننے والوں میں ہر کینڈے کے لبرل پروٹسٹنٹ لوگوں کے ساتھ ساتھ ہر مذہبی فکرکے کھلے دشمن تک شامل ہیں، اس لیے کہ دونوں گروپوں پر ایک ہی طرح کے رجحانات کا غلبہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہر شخص ان کے منطقی مضمرات میںیکساں حد تک آگے نہیں بڑھتا۔ فی الاصل، چونکہ مذہب اپنے جوہر میں روایت ہی کی ایک صورت ہے لہٰذا روایت دشمن نقطۂ نظر لازمی طور پر مذہب دشمن ہوتا ہے یہ مذہب میں تحریف سے آغاز کرتا ہے اور جب بھی ممکن ہو اس کا کتمان کرکے دم لیتا ہے۔ صرف یہی حقیقت پروٹسٹنٹ ازم کو غیر منطقی بنا دیتی ہے کہ مذہب کو محض انسانی سطح تک محدود کر دینے کے باوجود وہ بہرحال، کم از کم نظری حد تک، ایک ماوراء الانسانی عنصر وحی کو برقرار رکھتا ہے۔ پروٹسٹنٹ ازم نفی کے عمل کو اس کے منطقی نتائج تک لے جانے سے جھجکتا ہے لیکن وحی کو خالص انسانی تعبیر سے پھوٹنے والے مباحث کا شکار بنا کر فی الاصل اسے تقریباً بے وقعت کر دیتا ہے اور جب یہ معلوم ہو کر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو عیسائی کہلانے کے باوجود مسیح کی الوہیت کا انکار کرتے ہیں تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہوتا کہ وہ عیسائیت کے بجائے نفی کامل سے قریب تر ہیں اگرچہ ان کوحقیقت کا علم نہیں ہے۔ بہرحال اس طرح کے تضادات بہت زیادہ باعث حیرت نہ ہونے چاہییں کیونکہ وہ ہمارے زمانے کی پراگندگی اور بدنظمی کی علامتیں ہیں جیسے کہ پروٹسٹنٹ ازم کی نا مختتم کسریت sub division جو جدید سائنس اور جدید زندگی کے انتشار اور تقسیم در تقسیم کے بہت سے مظاہر میں سے ایک ہے جن سے ہر جگہ سابقہ پڑتا ہے۔ مزید برآں یہ ایک فطری اَمر تھاکہ پروٹسٹنٹ ازم نے جس کا روح و رواں نفی کا اُصول تھا اس تباہ کن ’’تنقید‘‘ کو جنم دیا جو نام نہاد مورخینِ مذہب کے ہاتھوں میں تمام مذاہب کے خلاف ایک ہتھیار کی حیثیت اختیار کر گئی۔ اس طرح کتاب مقدس کے سوا کسی اور چیز کو حجت نہ مانتے ہوئے خود بھی پروٹسٹنٹ ازم ہی نے اس حجیت کو مجروح کرنے کا راستہ ہموارکیا، یعنی روایت کا وہ قلیل ترین حصہ جو پروٹسٹنٹ ازم نے اس صورت میںباقی رکھا تھا اس کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ ایک بار جو ابتدا ہو گئی تو پھر روایتی نقطۂ نظر کے خلاف بغاوت کا عمل بیچ راہ روکا نہ جا سکا۔ اب یہاں ایک اعتراض کی گنجائش ہو سکتی ہے! یعنی یہ کہ اگرچہ پروٹسٹنٹ ازم کیتھولک نظام سے الگ ہو گیا، لیکن بہرحال کتاب مقدس کو معتبر تسلیم کرنے کی وجہ سے روایتی عقیدہ ان کے ہاں محفوظ رہا ہو، لیکن ’’آزاد تنقید‘‘ کی ابتدا اس طرح کے کسی بھی مفروضے کی تردید کر دیتی ہے اس لیے کہ یہ ہر قسم کے انفرادی ظن و تخمین کا درباز کر دیتی ہے۔ مزید برآں عقیدے کا تحفظ ایک منظم روایتی تعلیم و تربیت سے مشروط ہے تاکہ مستند تفسیر کو برقرار رکھا جا سکے۔ فی الاصل مغرب میں اس نظام تعلیم و تربیت کا سرچشمہ کیتھولک ازم رہا ہے۔ بلاشبہ دوسری تہذیبوں میں بھی اس مقصد کے لیے مختلف النوع ہئیتوں میں اس طرح کے نظام موجود رہے ہیں۔ لیکن ہم یہاں مغربی تہذیب اور اس کی مخصوص صورت حال سے بحث کر رہے ہیںلہٰذا یہ اعتراض بے جا ہوگا کہ ہندوستان میں پاپائیت جیسا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ یہاں معاملہ بالکل الگ ہے، اس لیے کہ اولاً تو روایت وہاں مغربی معنوں میں مذہب کی ہیئت اختیار نہیں کرتی چنانچہ وہ ذرائع جن سے روایت کی ترسیل اور تحفظ ہوتا ہے ،ایک سے نہیں ہو سکتے۔ ثانیاً یہ کہ ہندو افتادِ ذہن چونکہ مغربی ذہن سے یکسر مختلف ہے لہٰذا ہندو روایت ایک ایسی داخلی قوت رکھتی ہے جس سے یورپی روایت استفادہ نہیں کر سکتی تھی جب تک اسے ایک ایسی تنظیم کا سہارا نہ میسر ہوتا جو اپنی ظاہری تشکیل میں باقاعدہ طور پر مدون ہوتی۔ ہم پہلے بھی کَہ چکے ہیں کہ یورپ میں روایت کے لیے ضروری تھا کہ وہ عیسائیت کی آمد کے بعد ایک مذہبی پیرائے میںظاہر ہوتی۔ اس کی تمام وجوہات کی وضاحت بہت تفصیل طلب ہے اور ان وجوہات کو پیچیدہ مسائل میں اُلجھے بغیر قابل فہم نہیں بنایا جا سکتا۔ بہرحال یہ ایک حقیقت امری ہے جس سے انکار ممکن نہیں۵؎ اور ایک بار اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو وہ تمام نتائج جو اس سے ظاہر ہوتے ہیں انھیں تسلیم کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے جہاں تک کہ اس قسم کی روایتی ہیئت کے لیے موزوں تنظیم کا تعلق ہے۔ مزید برآں، جیسے کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں، یہ بھی خاصا یقینی ہے کہ مغرب میں روایت کے اُصول میں سے جو کچھ بھی باقی ہے وہ کیتھولک ازم کی شکل میں محفوظ ہے۔ مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ کیتھولک ازم کی شکل میں روایت، جدید نقطۂ نظر کی رنگ آمیزی سے مبرّا پوری طرح محفوظ رہی ہے؟ بدقسمتی سے ایسا لگتا نہیں، بلکہ صحیح معنوں میں اگر خرمنِ روایت ثابت و سالم رہا ہے، جو بذاتہ بہت کچھ ہے، تو بھی یہ بات مشکوک ہے کہ روایت کے عمیق تر معانی موثر طور پر ایک محدود طبقہ خاص کے لیے بھی قابلِ فہم رہ گئے ہیں جس کے وجود کے شواہد یقینا اس کے کسی عمل یا اثر کے ذریعے مل جاتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ آثار کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اغلب یہ ہے کہ روایت صرف بالقوہ ہی محفوظ رہ گئی ہے اور اس طرح اہلِ استعداد کے لیے روایت کے پورے معانی کی از سر نو دریافت کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اگرچہ فی الوقت کوئی بھی اس کا کامل شعور نہیں رکھتا۔ علاوہ ازیں مذہبی قلمرو کے باہر بہت ساری علامتیں اور نشانات مغربی دنیا میں ادھر اُدھر بکھرے ہوئے ملتے ہیں جو قدیم روایتی نظام عقائد سے چلے آ رہے ہیں اور بلا سمجھے بوجھے محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ اس طرح کی صورتِ حال میںمکمل طور پر زندہ روایتی مزاج سے رابطہ ضروری ہے تاکہ جو چیزیں خوابیدہ ہو گئی ہیں وہ دوبارہ بیدار کی جائیں اور اس طرح فہمِ گم گشتہ کو واپس لایا جا سکے۔ یہاں اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ مغرب کو اپنی روایت کا از سرِ نو شعور حاصل کرنے کے لیے مشرق سے اس سلسلے میں سب سے زیادہ مدد درکار ہے۔ جو کچھ ہم نے ابھی کہا ہے وہ خاص طور پر کیتھولک ازم کے امکانات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کیتھولک ازم اپنی اُصولی حیثیت میں، مستقل اور غیر متغیر شکل میں محفوظ رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس دائرے میں جدید نقطۂ نظر کا اثر اس سے زیادہ نہیں ہوا کہ اس نے ایک طویل یا مختصر عرصے کے لیے بعض باتوں کے فہم کو ممکن نہیں رہنے دیا۔ اگر کیتھولک ازم کی موجودہ صورت حال کا اندازہ اس کے متبعین کی غالب اکثریت کے انداز فہم سے لگایا جائے تو کیتھولک ازم پر جدید نقطۂ نظر کے زیادہ بین اثرات تسلیم کرنے پڑیں گے۔ یہ بین اثر ایک درجے میں فی الحقیقت ایک منفی اثر ہے یہ کہتے ہوئے ہمارے ذہن میں صرف کم و بیش معروف تحریکیں ہی نہیں ہیں مثلاً وہ جن میں سے ایک جدیدیت کے نام سے موسوم ہوئی جو بس ایک کوشش تھی پروٹسٹنٹ رویہ کیتھولک کلیسا کے اندر سمگل کرنے کی جو خوش قسمتی سے کامیاب نہ ہو سکی، بلکہ ہم یہاں خصوصیت کے ساتھ ایک ذہنی کیفیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو کہیں زیادہ عام اور پھیلی ہوئی ہے، اس کا تعین مشکل تر ہے اور وہ اسی لیے زیادہ خطرناک بھی ہے۔ اس کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ جو لوگ اس سے متاثر ہیں وہ اکثر و بیشتر مکمل طور پر اس سے بے خبر ہیں، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص خلوص کے ساتھ خود کو مذہبی سمجھتا ہو اور فی الاصل قطعاً مذہبی نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص خود کو مذہبی سمجھتا ہو اور روایت کی روح سے کاملاً بے بہرہ ہو۔ یہ ہمارے زمانے کی ذہنیپراگندگی کی ایک اورعلامت ہے۔ جس ذہنیکیفیت کا ہم ذکر کر رہے ہیں ،وہ بنیادی طور پر مذہب کی تقلیل سے عبارت ہے گویا اسے ایسی چیز میں ڈھال لینے سے جسے ایک طرف ڈال دیا جائے اور جس کے لیے ہر ممکنہ حد تک محدود اور تنگ دائرہ کار مختص کر دیا جائے تاکہ اسے باقی زندگی سے اس طرح علیحدہ کر دیا جائے کہ اس کا کوئی اثر زندگی پر باقی نہ رہے۔ آج کتنے کیتھولک رہے ہوں گے کہ عام زندگی میں جن کا طرز فکر و عمل اپنے لا مذہب معاصرین سے واضح طور پر الگ ہو، یہاں ہم عقیدہ اور ہر اس چیز سے جس کا تعلق عقیدے کے ساتھ ہو، مکمل لا علمی اور بے نیازی کی طرف بھی توجہ دلائیں گے۔ بہت سے لوگوں کے لیے مذہب صرف چند اعمالِ ظاہرہ اور رواج کا معاملہ ہے اور اس کے بارے میں کوئی بات سمجھنے سے ایک ارادی انکار پایا جاتا ہے، بلکہ اس انکار کی حدود اس خیال کو چھونے لگتی ہیں کہ مذہب کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا یا شاید اس میں سمجھنے سمجھانے کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ علاوہ ازیں وہ شخص جو مذہب کو حقیقتاً سمجھتا ہو اسے اپنی مصروفیات میں ایسا غیر اہم مقام دے بھی کیسے سکتا ہے؟ دریں صورت عقیدہ یا تو فراموش کر دیا جاتا ہے یا اسے لاشئے محض بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ اس رویے کے حاملین پروٹسٹنٹ ازم سے غیر معمولی طور پر قریب ہو جاتے ہیں، کیونکہ دونوں ایک سے جدید رجحانات کا نتیجہ ہیں جو کسی بھی قسم کی دانش کے یکسر مخالف ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوناک بات یہ ہے کہ جس قسم کی تعلیم عموماً دی جاتی ہے وہ اس ذہنیکیفیت سے مقاومت کرنے کی بجائے، اس کے برعکس، اپنے آپ کو جھٹ اس کے مطابق ڈھال لینے پر راضی ہو جاتی ہے۔ اخلاقیات کے بارے میں مسلسل بات ہوتی رہتی ہے جب کہ عقائد کا شاذو نادر ہی ذکر ہوتا ہے۔ بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ ان کو کوئی سمجھے گا ہی نہیں۔ فی زمانہ مذہب بس لے دے کر ’’اخلاقیت پرستی‘‘ کے برابر رہ گیا ہے، یا کم از کم اتنا ضرور ہے کہ کسی کو یہ شناخت کرنے کی خواہش باقی نہیں رہی کہ مذہب حقیقتاً ہے کیا۔ کیونکہ وہ یقینی طو رپر اخلاقیت پرستی سے مختلف چیز ہے۔ تاہم اگر عقیدے کا ذکر آ ہی جائے تو اس کے بارے میں اس کے مخالفوں کی دنیوی سطح پر بحث کرکے اسے بے قدر بنا دیا جاتا ہے جس کا لامحالہ انجام یہ ہوتا ہے کہ ان مخالفین کو بالکل بلاجواز مراعات دینی پڑجاتی ہیں اور اسی وجہ سے خاص طور پر لوگ اپنے آپ کو جدید ’’تنقید‘‘ سے برآمدہ مفروضہ دریافتوں کا کم و بیش محتاج سمجھنے لگتے ہیں جب کہ اگر انھوں نے ایک دوسرا مختلف نقطۂ نظر اختیار کیا ہوتا تو ان کے لیے ان دریافتوں کی لغویت اور اتھلا پن واضح کرنا چنداں دشوار نہ ہوتا۔ ان حالات میں حقیقی روایتی روح کتنی کچھ برقرار رہ سکتی ہے؟ مذہبی دائرے میںانفرادیت پرستی کے مظاہر پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے موضوع سے جو انحراف کیا ہے وہ بلا جواز اور بے فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس دائرے میں فتنہ اُس سے کہیں زیادہ خطرناک اور پھیلا ہوا ہے جتنا کہ بادی النظر میں قیاس کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہمارے مسئلہ زیر بحث سے لاتعلق بھی نہیں کیونکہ جیسا کہ ہم نے اُوپر کہا ہے، یہ انفرادیت پرستی ہی تو ہے جس نے ہر جگہ اس رائے زنی کو جنم دیا ہے۔ ہمارے معاصرین کو یہ بات سمجھانا بہت دشوار ہے کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی فطرت کے اعتبار سے ہی بحث کی زد سے باہر ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی مشکل معاصرین کو یہ سمجھانا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو بالفطرت حرف و بیان سے ماورا ہیں۔ جدید آدمی اپنے آپ کو حق کی سطح تک بلند کرنے کی بجائے حق کو اپنی سطح تک کھینچ لانے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ اسی امر سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی کیوں ہے کہ جب ان سے روایتی علوم یا خالص ماوراء الطبیعیات کی بات کی جائے تو انھیں گمان ہوتا ہے کہ اشارہ ’’دنیوی سائنس‘‘ یا فلسفے کی طرف ہے۔ انفرادی رائے کے دائرے میں رہتے ہوئے بحث ہمیشہ ممکن ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ عام سوچ کے نظام سے ورا نہیں جاتی، کیونکہ ایک اُصول ِبرتر کے حوالے کے بغیر ایک مسئلے کے حق یا اس کی مخالفت دونوں میں معتبر دلائل بآسانی مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اکثر اوقات مباحثے کو غیر متعین حد تک کسی بھی نتیجے پر پہنچے بغیر طول دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً سارا جدید فلسفہ ابہام، لفظی ہیر پھیر اور غلط طور پر مرتب شدہ مقدمات سے تعبیر ہو اہے۔ مباحثہ عموماً، عام توقع کے برعکس، ان مسائل کی وضاحت کرنے کی بجائے محض ایک گورکھ دھندا پیدا کر دیتا ہے، مسائل کو مبہم تر بنا دیتا ہے اور ہر فریق کے لیے اس کا نتیجہ بالعموم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے فریق مخالف کو قائل کرنے کی کوشش میں اپنی رائے پر پکا ہوتا چلا جاتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر اپنی رائے کے حصار میں بند ہو جاتا ہے۔ مقصود حقیقت کے علم تک پہنچنے کی خواہش، نہیں بلکہ مخالفت کے باوجود خود کو حق پر ثابت کرنا یا اگر دوسرے قائل نہ بھی ہوں تو کم ازکم خود کو اپنی راستی کا قائل کرنا ہے۔ دوسرے کو قائل کرنے میں ناکامی اگرچہ ملال پیدا کرتی ہے جو نتیجہ ہے ’’نواعتقادیت‘‘ کی آرزو کا، جو جدید مغربی ذہنیت کا ایک اور امتیازی نشان ہے۔ کبھی کبھی انفرادیت پرستی اپنے اسفل اور عامیانہ معنی میں اس سے بھی زیادہ بین طریقے پر لوگوں کی اس خواہش میں بار بار ظاہر ہوتی ہے کہ کسی آدمی کے کام کے معیار کا تعین اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں ان کی معلومات کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے گویا کہ ان دونوں چیزوں میں کسی قسم کا کوئی تعلق ممکن ہے۔ یہی رجحان تفصیل کے خبط سے مخلوط ہو کر اس دلچسپی کا موجب بنتا ہے جو ’’عظیم لوگوں کی‘‘زندگیوں کے غیر اہم انوکھے واقعات میں ظاہر کی جاتی ہے اور یہی چیز اس وہم کا بھی باعث ہے کہ ان ’’عظیم آدمیوں‘‘ کے کیے ہوئے ہر کام کی توضیح و تشریح ایک طرح کے ’’نفسی و جسدی‘‘ psycho-physiological تجزیے سے کی جا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ ہر اس شخص کے لیے بہت اہم ہے جو معاصر ذہنیت کی اصل نوعیت کو سمجھنا چاہتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے ہم واپس آئیں ان قلمروں میں مباحثے کے داخلے کی طرف جہاں مباحثے کے لیے کوئی جائز مقام نہیں ہے۔ یہ بات وضاحت سے کَہ دینی چاہیے کہ ’’معذرت خواہانہ‘‘ apologetic رویہ محض وفاعی (اپنے قانونی معانی میں) ہونے کی وجہ سے فی نفسہٖ انتہائی کمزور واقع ہوا ہے۔ یہ بات بے سبب نہیں ہے کہ یہ لفظ apology (عذر) سے مشتق ہے جس کی اصلی معنی وکیل کے اعتذار کے ہیں اور جو انگریزی میں فی زمانہ ’’بہانہ‘‘ excuse کے معنی میں مستعمل ہے۔ معذرتیات apologeticsکو دی جانے والی غیر معمولی اہمیت مذہبی روح کے انحطاط کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ یہ کمزوری اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب معذرتیات زوال پذیر ہو جائیں، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، اور اپنے نقطۂ نظر اور طریقۂ کار میں مکمل طور پر دنیوی بن جائیں جس میں مذہب کو سب سے زیادہ ذیلی اور مفروضاتی فلسفیانہ، سائنسی یا کھوٹے سائنسی نظریات کی سطح پر کھینچ لایا جاتا ہے تاکہ خود کو ’’مصالحتی‘‘ ظاہر کیا جا سکے اور جس میں معذرت خواہ حضرات ایسے نظریات کو بھی قبول کرنے سے نہیں جھجکتے جن کی اختراع کا مقصودِ وحید مذہب کی بیخ کنی کرنا تھا۔ ایسے معذرت خواہ حضرات اس عقیدے کے بارے میں جس کا وہ خود کو کم و بیش مستند نمائندہ جانتے ہیں، اپنی جہالت کا ثبوت بہم پہنچاد یتے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں کسی روایتی عقیدے کی طرف سے بولنے کا حق حاصل ہے انھیں محض دنیوی profane لوگوں سے بحث میں اُلجھتے اور مناظرہ بازی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کا کام فقط اتنا ہے کہ وہ عقیدے کی تفسیر اس کی صحیح نوعیت کے مطابق کر دیں، اُن کے لیے جو اسے سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں، اور ساتھ ہی ساتھ غلطیوں اور کج فکری پر نکیرکریں، جہاں کہیں وہ جنم لے اور علم صحیح کی روشنی سے اس کی قلعی کھول کر رکھ دیں، ان کا منصب کسی نزاع میں حصہ لے کر عقیدے کے بارے میں مصالحتی راہ اختیار کرنا نہیں ہے کہ بلکہ وہ فیصلہ دینے کے مجاز ہیں،اگر وہ ایسے اُصولوں کے حامل ہوں جن کے تحت بے خطا تعبیر کی جا سکتی ہو۔ محلِ عمل محلِ نزاع ہے یعنی انفرادی اور دنیاوی قلمرو۔ ’’محرکِ غیر متحرک‘‘ حرکت میں شامل ہوئے بغیر اسے جنم دیتا ہے اور اس کی جہت مقرر کرتا ہے علم عمل کے تغیرات میں حصہ لیے بغیر اسے منور کرتا ہے۔روحانی دنیاوی کی راہنمائی کرتا ہے، اس کے ساتھ مخلوط ہوئے بغیر، اور اس طرح تمام اشیا کائناتی نظام مراتب heirarchy میں اپنی صحیح ترتیب اور اپنے صحیح محل پر برقرار رہتی ہیں۔ لیکن جدید دنیا میں صحیح نظامِ مراتب کا تصور کہاں پایا جاتا ہے؟ کوئی شے اور کوئی شخص بھی اپنے صحیح مقام پر باقی نہیں رہا۔ لوگ اب نہ تو مرتبہ روحانیہ spiritual orderکی کسی مؤثر حاکمیت کے قائل رہے ہیں نہ دنیاوی مرتبہ temporal orderکی کسی جائز قوت کو تسلیم کرتے ہیں۔ دنیوی لوگ القدس sacred پر بحث کرنے بلکہ اس کی نوعیت اور اس کے وجود میں کلام کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے! کہ اسفل اعلیٰ پر فیصلہ دے رہا ہے۔ دانش کی تحدید جہالت سے ہو رہی ہے، باطل حق پر غالب ہے۔ بشری الوہی پر فائق ہے، زمین آسمان کے سر چڑھی جا رہی ہے، فرد اپنے آپ کو معیاراشیا بنائے بیٹھا ہے اور کائنات کے لیے قوانین کی تخلیق کر رہا ہے۔ ایسے قوانین جو سراسر اس کی اضافی، محدود اور پر خطا سوچ کی پیدا وار ہیں’’وائے ہو تم پر، اے نابینا راہبرو woe unto you, ye blind' guidesکتاب مقدس کا فرمان ہے اور لاریب آج ہر جگہ اندھے اندھوں کی راہنمائی کر رہے ہیں جنھیں اگر صحیح وقت پر روکا نہ گیا تو وہ لازماً انھیں پاتال میں گرا دیں گے اور ان کے ساتھ خود بھی ہلاک ہوں گے۔ ء ء ء حوالے و حواشی ۱- دنیوی profane شیخ کی بنیادی اصطلاحات میں سے ہے اور س سے مراد وہ رویہ ہے جو اسی دنیا کی اصطلاح میں سوچتا ہے اور قبل و بعد یا تحت و فوق کے کسی اور نظام سے اسے منسلک کر کے نہیں دیکھ سکتا۔ ۲،۳- فطرت کا لفظ یہاں اپنے محدود مغربی معنوں میں مظاہر طبعی کو بیان کرتا ہے اور فطرت کی اصطلاح جو روایتی تہذیبوں میں بہت وسیع معنی میں استعمال ہوتی ہے، اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اصطلاح کا ترجمہ انگریزی میں primordial nature یا primordial norm سے ہوتا ہے۔ ۴- اس جگہ اشارہ ہے شیخ کی مشہور تصنیف تھیوسوفی، (کھوٹے مذاہب) کی طرف Theosophism historie dune psuedo religions۔ ۵- ’’مزید براں کتاب مقدس کے مطابق اس صورت حال کو اس وقت تک قائم رہنا ہے جب تک دنیا کا خاتمہ نہیں ہو جاتا یعنی کہ موجودہ دور کے اختتام تک۔‘‘(حاشیۂ مصنف) ظ ظ ظ عصر ما وارفتہء آب و گل است m جدیدیت m زوال، انحراف اور نشاۃ الثانیہ m اسلام اور مغرب کے چیلنج m مذہب اور سائنس m کونیات اور جدید نفسیات m قدیم اقوام کے درمیان روابط جدیدیت دین اور دنیائے جدید Lord Northbourne (سدّی نوح مرحوم) کی پہلی کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے عالمِ جدید میں دین کی حیثیت و معنویت پر مختلف پہلوئوں سے گفتگو کی ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ دین سے حالیہ بُعد کوئی الگ تھلگ چیز نہیں ہے جس کا دوسرے معاصر مظاہر اور رویوں سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ اس سے اس حالیہ تبدیلی کا سراغ ملتا ہے جو انسانی زندگی اور انسان کی مسکونہ کائنات کے بارے میں انسانی نقطۂ نظر میں واقع ہورہی ہے۔ موضوع کو آگے بڑھانے کے لیے انھوں نے روایتی مذہبی معاشرے اور موجودہ معاشرے میں معروف نظریات وتصورات کا تقابل کیا ہے اور اس ضمن میں جدید سائنس، فنون اور خود دین کے بارے میں تصورات کا تضاد واضح کیا ہے۔ اس سلسلے میں جدیدیت اور اس کے پیداکردہ رویے پر بھی ایک باب باندھا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ اس مسئلہ پر عرصے سے تُکا فضیحتی ہورہی ہے اس لیے مسئلے کے بعض پہلو واضح کرنے کے لیے ہم مذکورہ بالا باب کا ترجمہ مجموعے میں شامل کررہے ہیں۔ Religion in the Modern World by Lord Northbourne. مذہب کا حالیہ زوال، دنیاوی دائرے سے الگ کٹی ہوئی اور اپنے آپ میںمحدود کوئی صورتِ حال نہیں ہے۔یہ انسانی فطرت اور کائنات کے بارے میں نقطۂ نظر کی بنیادی تبدیلی کا ہی ایک حصہ ہے۔جب کبھی کوئی قوم مذہبی حدود میںاور مذہب پر مدار رکھ کر زندگی گزارتی ہے بلکہ ایک وسیع تر معنی میں روایت پر انحصار کرتی ہے تو اس میں توہمات بھی ہو سکتے ہیں، بعض ناروا عناصربھی پیدا ہوجاتے ہیں، کہیں کم فہمی بھی پیدا ہو سکتی ہے، اختلافات کا امکان بھی رہتا ہے، گناہ بھی موجود ہوتے ہیں، لیکن بایں ہمہ جزا اور سزا کی حقیقتیں غیر مسئول صورت میں قائم رہتی ہیں، خدا کی حیثیت محض ایک ایسے مفروضے کی نہیں ہوتی جس کے بغیر دنیا کا جوازنہ ہو اور شیطان محض ایک متروک قسم کا لفظی ہوا نہیں ہوتا۔ ارضی مراتبِ وجود ملکوتی مراتب کا ایک عکس ہوتے ہیں جس سے وہ اپنی ہیئت اور اپنا جواز دونوں مستعار لیتے ہیں۔ سوالات پیدا ہوں تو ان کے جوابات کا تقاضا روایتی استناد سے ہوتا ہے نہ کہ انسانی اُپج سے ___ ادھر کچھ عرصے سے ایک متقابل نقطۂ نظر نے بالادستی حاصل کی ہے۔ اس کا سب سے سیدھا نام دنیویت (یا سطحیت) Profane outlook ہے۔ یہ روایت دشمن، ارتقا پسند، اناسیت پرست، عقلیت پسند، مادی، تجربی، انفرادیت پرست، مساواتی، آزاد خیال اور شدید جذباتی ہے۔ اس طرح کا نقطۂ نظر ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔ اس کے بارے میں نئی بات اس کے بالادستی ہے جو عملاً عالمگیر ہو چکی ہے اور انسانی زندگی اور فکر کے تمام شعبوں پر محیط اور متصرف ہے۔ یہ بہت پیچیدہ اور جامع صورت حال ہے لہٰذا اس کی واضح تصویر سامنے رکھنے کے لیے اس کے بہت سے دوسرے پہلوئوں کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا۔ مثلاً یہ دیکھنا ہوگا کہ سائنسی رویہ کس طرح انسان کو اپنی تقدیر کے مالک ہونے کا یقین دلاتا ہے اور کس طرح، صنعت کا سرچشمہ ہونے کی حیثیت میںیہ ان تمام اعمال کو برباد کر دیتا ہے جو انسان کے لیے فطری اور ضروری ہیں۔۱؎ یا کس طرح ایک دنیوی profane فلسفہ جو اس سائنسی رویے کے نقطۂ نظر سے مستفاد ہے، تمام سوالوں میں سے سب سے نازک سوال ،میں کون ہوں؟، کا جواب، ایک ایسے دائرے میں دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں یہ جواب موجود نہیں ہے۔ یہ دائرہ انسانی ذہن ہے(اور آنکھ خود کو دیکھنے سے قاصر ہے)۔۲؎ اس سے وہ انتشار اور پراگندگی پھیلی ہے کہ اس کے اُلجھائو سے نکلنا دشوار ہو گیا، اور کس طرح فن اپنے زمانے کا آئینہ دار ہو جاتا ہے اور خالصتاً علامتی ہونے کے درجے سے گر کر خالصتاً جمالیاتی۳؎ ہو جاتا ہے۔ یا ادب، تفریح اور اشتہار نے انسانی فطرت کو تبدیل کرنے میں کیا رول ادا کیا ہے۔ ۴؎ ؟ یہ تمام چیزیں اور ان کے علاوہ بہت ساری اور باتیں، ایک ہی تصویر کے لاینفک جز ہیں اور اس طور کسی طرح بھی اس کے مذہبی پہلو سے غیر وابستہ نہیں رہ سکتے۔ لیکن فی الوقت ہماری بات ان اشیا کے متعلق نہیں ہے جو مختلف قسموں کی دنیویت اور مادیت کے ذریعے مذہب کی مخالفت کر رہی ہیں، یا وہ اشیا جو محض مذہب کی طرف سے توجہ بٹا دیتی ہیں بلکہ پیش نظر وہ اشیا ہیں جو مذہب کو اس کے قوت کے سرچشموں سے کاٹ دینے کے لیے اپنا سارا زور صرف کر رہی ہیں یا پھر ثانوی مرحلے میں اس کے خلاف بظاہر دلفریب تلبیسات کو لا کھڑا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دنیویت کے اس نقطۂ نظر کے مذہب پر اطلاق کا پہلا اثر تو یہ ہوا ہے کہ وہ تمام چیزیں جن کے حسیات پر مبنی بین ثبوت نہ ہوں مشکوک ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف بہت ساری ایسی چیزوں کو جو فطرتاً عوام کے فہم سے بالاہیں، متروک کر دیا گیا ہے۔ موخرالذکر چیزیں عقلی یا روحانی ہیں اور اپنی اعلیٰ نوعیت کی وجہ سے ان کی حیثیت اساسیات کی ہے۔ اس کا نتیجہ کم و بیش ایک ایسے مذہب کی صورت میںنکلا ہے جو اپنے ایک تہائی حصے یعنی اخلاقیات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور روحانی عقلی عناصر کی رہنمائی کے کمزور ہو تے جانے کی وجہ سے ہر شے روز افزوں طور پر محض ایک جذباتی اناسیت پرستی کا رجحان پکڑتی جا رہی ہے۔ یہ اناسیت پرستی خود اپنے دائرہ نگاہ میں محض اس دنیا کی اشیا تک محدود ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مذہب اپنے دشمنوں کے حملوں کے خلاف کسی مدافعت کے قابل نہیں رہ گیا۔ اسرار سے تہی اور بہت حد تک اپنے جوہر سے محروم مذہب، جس میں انسان سے ارفع کوئی شے باقی نہیں رہی۔ اسی وجہ سے بہت جلد نجات کے بجائے حصولِ مسرت اس کے لیے خیر اکبر اور غایت الغایات کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے اور خلوو فی النار کے بجائے دکھ اور تکلیف سب سے بڑی برائی اور حتمی سببِ دہشت بن جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میںیہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں ہے کہ خدا پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اب حقیقتاً یہ مذہب کی حیثیت میں باقی نہیں رہا۔ یہ امر حیرت انگیز نہیں ہے کہ اس تقلیلِ عناصر کے بعد کوئی مذہب جبلی طور پر محسوس کیے جانے والے عوامی تقاضوں کو پورا نہ کر سکے یا ان لوگوں کے ذہنوں کو مطمئن نہ کر سکے جو کسی کمزوری کو سمجھ تو سکتے ہیں لیکن یہ دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ انسانی کوتاہیاں سچائی کو کسی طور پر متاثر نہیں کر سکتیں جو بلاشرطِ ماضی و استقبال ایک ہے۔ حق اپنی کیفیت کے لحاظ سے ہم تک صرف وحی کے فوق البشری ذریعے سے ہی پہنچتا ہے نہ کہ ایجاد و دریافت کے خالصتاً انسانی طریقہ کار سے۔ بے شک ہم مبدا وحی کی قوت اور پاکیزگی سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ روایت کا وہ تسلسل جو ہمیں اس سے مربوط کرتا ہے کافی چوٹ کھا چکا ہے لیکن اس کے مکمل طور پر شکست ہونے سے پہلے تجدید کا امکان بہرحال باقی رہتا ہے۔مذہب کو بہت حد تک جذباتیت کی شکل دی جا چکی ہے اور اناسیت پرستی میںڈھالا جا چکا ہے۔ اسے مسخ اور منحرف کیا گیا ہے اور کبھی اسے ایک طرح کی مثالیت پرستی یا نظریے سے ذرا ہی برتر حیثیت دی گئی ہے جو دنیویت سے پیدا ہونے والے نظریات سے انھیں کے مقاصد کے لیے مسابقت کر رہی ہو اوردنیوی فلاح کا ایک متبادل راستہ ہو۔ پھر اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اکثر اطاعتِ خداوندی فلاحی مملکت کے مثالیے کے حصول سے ذرا ہی بہتر معلوم ہوتی ہے۔بہرحال یہ تو ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کی فطری وفاداری اس طرح کے کسی مثالیے سے زیادہ دیر تک وابستہ نہیں رہ سکتی جس کا رُخ ان سے برتر و ارفع کے بجائے اس کی طرف ہو جو ان کی برابر کی سطح پر واقع ہو، یعنی عملی طور پر لوگوں کا رُخ انسانی تہذیب میں اس چیز کی طرف ہوگا جو عالم غیب (فوق الفطرت) کی قریب ترین اور قابلِ رسائی نمائندگی کرتی ہو۔ یا یوں کہیے کہ عمومی طو رپر روایت کے جانب اور خصوصاً مرتبہ میں کسی اعلیٰ (فرد) کی جانب۔ انسان کی خفیہ آرزو جو بعض اوقات خود اس سے بھی پوشیدہ ہوتی ہے یہ ہے کہ وہ خدا کی بندگی کرے لہٰذا اگر اسے اپنے ماحول سے کوئی ایسا اطمینان بخش موقع (خواہ بالواسطہ ہی سہی) خود بخود میسر نہ آئے اور کوئی اسے یہ نہ بتائے کہ اس آرزو کی تکمیل کیونکر ہو گی بلکہ اس کے بجائے تمام اثرات اس کو کسی اور شے کی تلاش پر مجبور کریں تو اس کی وہ دلی خواہش غیر مطمئن رہ جاتی ہے اور وہ اپنی وفا اور مقصد کا شعور کھو بیٹھتا ہے۔ کیمونزم یا دوسری تحزیبی تحریکیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ ایک ایسا مذہب جو صرف فلاحی آدرش بن کر رہ گیا ہو اپنا جوازِ وجود کھو بیٹھتا ہے اور ان کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ جب اس بات کی نشاندہی کرنا ضروری ہو جائے کہ دین کا مقصود فلاح و بہبود نہیں بلکہ نجاتِ اخروی ہے، یا یہ کہ ’’فطرت انسانی‘‘ پر ایمان اور ’’مستقبل پر ایمان‘‘ کا ایمان باللہ سے کوئی تعلق نہیں، تو سمجھ لیجیے کہ معاملہ بہت بگڑ چکا ہے۔۔۔ اب اگر حصولِ نجات ہی انسانی زندگی کا حقیقی مقصد ہے تو پھر ایمان باللہ کی بھینٹ دے کر معیارِ حیات بلند کر لینے سے اس میں کیا مدد مل سکتی ہے؟ یہ دنیا گویا ایک ایسا منظر نامہ ہے کہ جس میں سازش کی جا رہی ہے کہ کسی طور انسان کو خدا کے راستے سے ہٹا دیا جائے۔ اوّلاً روایت کو مٹا کر جو مذہب کا مَرْکب ہے اس لیے کہ وحی کا ابلاغ و ترسیل اسی سے ہے۔ یہ سازش فی الوقع اتنی ہی حقیقی ہے جتنا کہ خود شیطان۵؎ ___ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ترقی progress کے نظریے کا پرچار یا تقدمی ارتقا progressive evolutionکی ترویج کو اب تک بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسی نظریے کو جب مذہب پر لاگو کیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذہب خود بخود ترقی کرتا رہتا ہے اس لیے کہ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ مذہب بھی بہتر اور خالص ہوتا جاتا ہے۔ ۔۔۔۔ لہٰذا آج کا مذہب گزرے ہوئے کل کے مذہب کی بہتر شکل ہے۔ یہ تصور ہر اس تصور کی نفی کرتا ہے جس پر وحی کے کامل اور کافی ہونے کا نظریہ دلالت کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسی سے اس بات کی بھی تردید ہو جاتی ہے کہ انسان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تکمیل کا کم ازکم حصہ ضائع کرے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دین پر سچا عمل اور دنیوی یا سطحی نقطۂ نظر یا بالفاظ دیگر جدیدیت زدہ رویہ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ جب کبھی جدیدیت (خواہ اپنے سائنسی لبادے میں ہو یا اس کے علاوہ ) مذہب کو ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ لامحالہ مذہب کی مسخ شدہ شکل میںنکلتا ہے۔ ایسی شکل جس میں الہامی کتابوں کی تعلیمات میں سے ہر اس چیز کی نفی کرنا یا نظر انداز کرنا بھی شامل ہوتا ہے جو نئے رویے میں کھپ نہیں سکتی۔۶؎ نیز ان الہامی کتابوں کے متبادل ایک صحیفۂ بہبود رکھ دیا جاتا ہے جس میں ارضی مستقبل کو جنت کی حیثیت دے دی جاتی ہے اور جہنم کو بالکل منسوخ کر دیا جاتا ہے۔زندگی کے ہر معاملے میں روایتی طرزِعمل اپنانا اگر تقریباً ناممکن بھی ہو تب بھی جدیدیت کے نظریے کو صرف اس بنا پر قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہم آج کے دور میں زندہ ہیں۔زندگی کے ہر معاملے میں خواہ ممکن نہ ہومگر مذہب میں نہ صرف ممکن ہے بلکہ بے انتہا ضروری ہے کہ روایتی نقطٔہ نظر اپنایا جائے۔خواہ اس کے لیے فی زمانہ مذہب کو لادینی قلمرو سے الگ اور ممتاز رکھنا پڑے اور خواہ اس علیٰحدگی کے لیے کچھ دشواریاں برداشت کرنا پڑیں۔ان دشواریوں کا منبع یہ ہے کہ صحیح معنوں میں کوئی چیز حتیٰ کہ دنیوی یا سطحی نقطۂ نظر کے ٹھیٹھ مظاہر جیسی چیزیں بھی مذہب سے غیر متعلق نہیں ہیں۔اس لیے کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا خدا سے تعلق نہ ہو ___ ہر چیز یا تو خدا کا اثبات ہے یا انکار ___ سو کسی ایسی بات کے بارے میں سوچنا جو مذہب سے بالکل غیر متعلق ہو اس کے انتہائی اساسی رشتوں کو نظر انداز کر دینے کے متراف ہو گا اور ان رشتوں کو فراموش کر کے آپ اسے نظامِ اشیا میںاس کا صحیح مقام کبھی نہیں دے سکتے۔ تاہم مذہب کی ماہیت کو باطل کر دینے کی نسبت یہ چھوٹا جرم ہو گا،خصوصاً موجودہ حالات میں جب دونوں میں سے ایک ناگزیر ہو۔ تقدمی ارتقا کے نظریے کا پرچار ان چند حملوں میں سے صرف ایک ہے جسے وسیع پیمانے پر مادیت پرستی کے زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے لیکن دشمنانِ خدا کے نقطۂ نظرسے یہ کافی نہیں ہے کہ ایمان کو مادیت پرستی کے پرچار کی کسی نہ کسی شکل سے برباد کر دیا جائے اور توجہ ایمان سے ہٹا کر دنیا کی دوسری حقیقی یا امکانی دلچسپیوں کی طرف مبذول کر دی جائے۔ اس لیے کہ مادی دلچسپیاں جلد ہی پھیکی پڑ جاتی ہیں۔ شیطان کو بخوبی علم ہے کہ یہ دلچسپیاں زیادہ دیر تک سکون نہیں دے سکتیں لہٰذا وہ انسانوں کو پھانسنے کے لیے اپنا چارہ روز افزوں رفتار سے بدلتا رہتا ہے۔ جب مادیت پرستی اپنا بیشتر کام کر چکتی ہے اور اس کے بڑھتے ہوئے غیر تسلی بخش نتائج کی وجہ سے سوالات اُٹھنے لگتے ہیں تو لوگوں کے دماغ دوبارہ مذہب کی طرف لوٹنے لگتے ہیں۔ لیکن اس وقت تک اکثر یہ بھی بھول چکے ہوتے ہیں کہ مذہب ہے کیا اور ان کو اپنے ماحول سے بھی کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ لوگ دین حنیف یا دین مستقیم orthodoxy کی طرف لوٹ جاتے ہیں لیکن ان گنت لوگ کھوٹے مذہب کی تحریکوں، باطل فرقوں اور طریقوں میں سے کسی ایک کا شکار ہو جاتے ہیں ___ یہ فرقے اور جماعتیں تیزی سے اصلی اور کھرے مذہب کی جگہ لیتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ میں تو مذہب کی کوئی نہ کوئی خارجی خصوصیت محفوظ ہوتی ہے اور بعض معاملات میں وہ مذہب کی داخلی یا باطنی خصوصیات کی نقل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔بعض فرقے ایسے بھی ہیں جنھیں باطل کہنا ممکن نہیں کیونکہ انھوں نے خود کو اپنے پدری مذہب سے الگ نہیں کیا۔ عملی طور پر ان کے تمام پیروکار مخلص اور صاف دل ہوتے ہیں(اور یہی اس صورت حال کا المیہ ہے) مگر یہی بات ان کے رہنمائوں اور بانیوں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی ___ بہر طور دغا فریب کی نسبت پُرخلوص غلطیوں سے معاملہ کرنا کہیں مشکل ہوتا ہے۔ ان تحریکوں کی تعداد اور اقسام خود اس بات کے اشارے کے لیے کافی ہے کہ ان کے پاس کوئی رہنما اُصول موجود نہیں۔ کھوٹے مذہب کی تحریکیں، فرقے اور رجحانات، دین کے عیار ترین دشمن ہیں۔ اس لیے کہ یہ اس خلا کو جو دین کے نہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے دین کا حقیقی مقصد پورا کیے بغیر بھر دیتے ہیں۔ چونکہ ان کی حیثیت روایت کے بجائے اختراعات کی ہے لہٰذا استناد و الہام کے ہر دعوے کے باوجود یہ کبھی وسیلۂ فیض نہیں بن سکتے بلکہ اس کے برعکس، اپنی بہترین شکل میں بھی، یہ مکمل طور پر بے اثر ہوتے ہیں اور اپنی بدترین شکل میں یہ جتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں اس کا اندازہ مشکل ہے۔ یہ نقصان جسمانی یا دماغی نہیں ہوتا بلکہ اس سے کہیں زیادہ نقصان غیر فانی روح کو پہنچ سکتا ہے۔۷؎ دین سے بے توجہی یاد ین سے انکار ایک چیز ہے اور اس کی شکل کو مسخ کرنا یا اس میں تحریف کرنا دوسری۔ اوّل الذکر کم از کم بے لاگ اور غیر مبہم تو ہوتی ہے اور نفس کو خالی چھوڑ دیتی ہے جب کہ مؤخرالذکر پراگندہ ومکار ہوتی ہے اور نفس کو مسموم کر دیتی ہے۔ اس کا دفاع یہی ہے کہ آپ نیک نیتی اور مضبوطی سے دین حنیف پر قائم رہیں۔ لہٰذا سب سے اہم بات یہ ہے کہ کم از کم اُصولی طور پر جانا جائے کہ دین حنیف یا استقامت علی الدین ہے کیا؟ یہ جان لینے کے بعد باطل فرقوں کے دعاوی کی چھان پھٹک بے معنی اور بے مصرف ہو جاتی ہے۔یوں بھی ان کھوٹے مذاہب کی استنادی حیثیت پر شبہ ان کے لاتعداد فرقوں میں بٹنے اور انوکھے انداز اپنانے کی وجہ سے ہی پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کا پیدا کردہ خطرہ اتنا شدید ہے کہ اس سے جتنا متنبہ کیا جائے کم ہے۔ دنیا خوف کا شکار ہے لیکن یہ خوف دراصل ان اشیا کا خوف ہے جو صرف جسم کو برباد کر سکتی ہیں۔ ان چیزوں کی اسے کوئی فکر نہیں جو پہلے روح کو مسخ کر دیتی ہیں اور پھر اسے تباہ کر دیتی ہیں۔ خوف ان دونوں چیزوں سے ہو سکتا ہے مگر ان دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں۔ اس لیے کہ جنت و جہنم اس مٹ جانے والی بے دوام ،ظواہر اور فریب کی دنیا سے زیادہ حقیقی اور سچی ہیں اور کوئی شخص اپنی روح کے سوا کسی اور کی نجات کا باعث نہیں بن سکتا۔ مذہبی لوگ اور خاص طور پر ان لوگوں پر جو کسی قسم کا زہد و تقویٰ اختیار کرتے ہیںیہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ صرف اپنی نجات کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور دوسروں کی بہتری کے واسطے کچھ نہیں کرتے۔ گویا وہ کوئی خود غرضی یا مذہب کے نظریۂ خیر کے متضاد کچھ کر رہے ہیں۔ اس سے زیادہ لغو بات نہیں ہو سکتی۔ کیا مذہب دنیاوی فلاح کو نجات پر ترجیح دیتا ہے؟اور پھر ایسا شخص جس کو خود راہ نجات کا کوئی تجربہ نہ ہو دوسروں کو کیسے راہ دِکھا سکتا ہے یا انھیں گمراہ ہونے سے کیسے باز رکھ سکتا ہے۔ مختصراً یہ کہ بھلا آدمی ہر کام بھلا ہی کرے گا اور برا شخص جو کچھ کرے گا اس میں نیکی کی امید کم ہو گی۔ عمل کے اثر کا دارو مدار کرنے والے کی نیت پر ہوتا ہے۔ فاعل کو عمل کے کارِ خیر ہونے کا شعور ہو یا نہ ہو اس کے نفس کا رخ جس سمت، جس طرف ہو گا وہی عمل کا اثر متعین کرے گا۔ اگر نیت نیک ہے تو ایک فطری اور غیراہم عمل (ٹھنڈے پانی کا پیالہ بھر دینا) میں بھی اچھائی ہو گی اور اگر نیت بد ہے تو انسان کا بظاہر نیک عمل بھی بدی کا رُخ اختیار کرے گا۔ لہٰذا سب سے اچھا نیک عمل، وہ عمل جس کے بغیر کوئی دوسرا عمل کا رِ خیر نہیں بن سکتا وہ ہے جس کا رُخ انسان کے اپنے نفس کے حصول نجات کی طرف ہو کیونکہ انسان صرف اسی کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک اور بات اس سے بھی اہم ہے۔ وہ یہ کہ ہر روحانی کام کو بہ خاطر انسانیت کیا جاتا ہے۔ اس واسطے کہ یہ اس عظیم منصب و مقصد کی تکمیل ہے جس کی خاطر انسان کی تخلیق کی گئی کہ وہ کائنات اور خدا کے درمیان رشتے کو زندہ رکھے اور ہر چیز کو اس کی جانب واپس لائے۔ سوصرف روحانی عمل ہی انسان کو مکمل انسان بناتا ہے اور اس کے بغیر ہر عمل بے سود ہے۔ زندگی اپنا مقصد آپ یا مقصود بالذات نہیں ہے۔ اس کا جواز اس کے پُر لطف یا طویل ہونے سے نہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ یہ کس حد تک نفس و روح کو پاک و صاف کرنے کے کام آتی ہے اور کس حد تک اسے کامل بنا کر اپنے خالقِ حقیقی سے اس ملاقات کے لیے تیار کرتی ہے جو اٹل اور ناگزیر ہے۔ زندگی میں واحد ایقان موت ہے بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں واحد حقیقت موت ہے اس لیے کہ ظواہر کی اس دنیا کی حقیقت اس کے اندر سے نہیں پھوٹتی۔ موت اس لمحہ کا نام ہے جب جسم کا پردہ چاک ہو جاتا ہے اور ہم اس حقیقت کو دیکھتے ہیں جو اس سے پرے موجود ہے۔ یہ دیکھنا پہلے کے دیکھنے سے قطعاً مختلف ہوتا ہے اس لیے کہ یہ آئینے کے عکس کے مانند دھندلا نہیں بلکہ چہرہ بہ چہرہ روبرو ہوتا ہے۔ موت کی بے پناہ معنویت اور اس کی حقیقت اس نسل نے کھو دی ہے جو یہ بات بھول گئی ہے کہ موت کا وقوع اور وقتِ مرگ باعثِ تشویش نہیں ہیں بلکہ فکر کرنے کی چیز نفس کی وہ استعداد ہے جو اسے موت کا استقبال کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اب اگر ہر وہ چیز جو بیان کی جا چکی ہے مان لی جائے تو یہ شبہ پھر بھی باقی رہتا ہے کہ ان سب کا کسی خاص معاملے پر اطلاق کیونکر ہو اور خاص طور پر اپنی ہی ذات پر منطبق کس طرح کیا جائے وہ رہنمائی‘‘ جو ان ذرائع سے ملتی ہے جو متدین اور اہل استقامت ہونے کا ڈھنڈو رہ پیٹتے ہیں کسی نہ کسی وجہ سے اکثر ایک دوسرے سے متصادم، غیر واضح اور مطمئن کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ دوسرے ذرائع کی پیش کردہ رہنمائی اوربھی زیادہ ملغوبۂ تضادات ہوتی ہے اور اکثر اوقات اس میں دینی استناد سے مشابہت تک مفقود ہوتی ہے۔ کیسا اچھا ہوتااگر ہم ایک ایسا ہمہ گیر نسخہ تجویز کر دیتے جو سب کو مطمئن کرکے شکوک اور ہچکچاہٹ کا خاتمہ کر دیتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص کے لیے اس کے حالات اور استعداد دیکھ کر معاملہ کر نا ہوتاہے۔اس کے بغیر شخصی معاملات ممکن نہیں ہیں۔لہٰذا جو کچھ کہا جائے گا وہ عمومی نوعیت کا ہوگا۔کسی بیان کے بارے میں اہم چیز یہ نہیں ہوتی کہ وہ عمومی ہے یا کسی خاص فریاد صورتحال سے مخصوص ہے۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بیان درست ہے یانہیں۔جب تک حق کے مبادیات پر گرفت نہ حاصل کریں گے کسی بھی خاص عمل کے درست ہونے کا امکان مشکوک رہے گا۔انجام کا ر توہر کسی کو اپنے لیے حقیقت کے موزوں اطلاق کی تلاش اور چنائو خود ہی کرنا ہے۔ہاں اگر آپ کو مقصد اور مطلوب کا صحیح اندازہ ہو تو یہ تلاش کہیں زیادہ مفید اور سود مند ہو سکتی ہے۔اگر آپ کو کسی نئی چیز کی تلاش ہے تو سب سے پہلے آپ ایک بات کا فیصلہ کر لیں۔کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ مطلوبہ نئی چیز وہی نہیں ہے جو آپ کے پاس پہلے موجود ہے؟یا اگر آپ کے پاس موجود چیز یقینی طور پر ہو بہو ویسی نہیں جیسی آپ چاہتے ہیں توکیا یہ اس مطلوب کے لیے قریب ترین قابل عمل راہ بھی نہیں ہے؟اگر یہ راہِ عمل ہے تو پھر اسے لاپرواہی سے برباد کر دینا درست نہیں ہوگا۔ اور آخرمیں یہ کہ کیا آپ کے مطلوب کو کہیں اور کھوجنے کے بجائے آپ کے پاس موجود متاعِ حاضرمیں سے دریافت نہیں کیا جاسکتا؟ اللہ تعالیٰ کبھی اس شحص کو ہدایت سے محروم نہیں رکھتا جو اس کے لیے انکسار،صبر،اعتماد اور استقلال سے کوشش کرتا ہے۔ وہ ہمیں بھٹک جانے کی ڈھیل بھی اسی لیے دیتا ہے کہ ہم گمراہی سے اور اچھی طرح واقف ہو سکیں یا تذبذب اور پر اگندگی میں پڑکر ازسرِنو اپنی نیّتوں کا امتحان دے سکیں۔ہو سکتا ہے کہ کا میابی دمِ آخر تک حاصل نہ ہو یا ایسی صورت اور اس موقع پر نصیب ہو جس کا وہم وگمان بھی نہ تھا۔۔ اللہ کو خوب معلوم ہے آج کے دور میں کتنی مشکلات ہیں اور ……لایکلّف اللّہ نفساََ الاّوسعھا [قرآن :۲:۲۸۶] ء ء ء حوالے و حواشی ۱- ر۔ک : باب پنجم، ص۴۵ ۲- ر۔ک : باب ہفتم، ص۷۵ ۳- ر۔ک : باب ششم، ص۴۵ ۴- ر۔ک : باب ہشتم، ص ۸۳-۸۴ ۵- ر۔ک : باب سوم، ص۲۹-۳۱ ۶- عیسائیت میں یوں تو اس کی مثالیں کئی سو سال سے سامنے آ رہی تھیں لیکن تازہ ترین مثال جو کیتھولک اہل کلیسا کی طرف سے سامنے آئی ہے سب سے عبرت ناک اور مصنف کے الفاظ کی پوری تصویر ہے۔حوالے کے لیے دیکھیے: Destruction of the Christian Tradition کی روئداد اور اس پر ر۔ پ۔ کمار سوامی کا تبصرہ۔ خود اپنے ہاں ڈیڑھ سو برس سے یہ دھند جاری ہے۔ (حاشیہ مترجم) ۷- ر۔ ک : باب نہم، ص۱۰۴۔ ظ ظ ظ زوال، انحراف اور نشاۃ الثانیہ ورافتہء آب و گل، اس عہد میں زوال، انحراف اور نشاۃ الثانیہ کاعمل کیوں کر جاری ہے۔ یہ مقالہ ایک بلیغ تبصرہ اور مفید تجزیہ ہے۔ یہ اصطلاحات اپنے درست مفہوم میں کیا ہیں اور ان کا غلط اطلاق کیسے کیا جاتا ہے۔ معاصر اسلامی فکر اور مغربی افکار میں ان کو کیسے برتا گیا ہے اور ان کی اوٹ میں عہدجدید کے کون سے رویے کام کر رہے ہیں۔ مضمون اس کا مختصر بیان ہے۔ Traditional Islam in the Modern World by Seyyed Hossein Nasr. جدیدیت کی نمو کے بعد سے مختلف اسلامی ممالک کے ان جدیدیت زدہ مسلمانوں کے ذہنوں میں چند مخصوص مسائل پیدا ہوئے ہیں جو جدید بن جانے کے باوجود اسلام اور اس کی تاریخ سے سروکاررکھے ہوئے ہیں۔روایتی اسلامی علوم میں تمام شعبہ ہائے فن کی تعریف واضح اور متعین رہی ہے اور ان کو ذہن میں ایک مخصوص معنی رکھ کر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اس کے برعکس گزشتہ ایک صدی میں جدید مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میں اپنی روایت کی متعلق بات کرتے ہوئے کئی اہم اصطلاحات کو لا پرواہ ہو کر مبہم انداز میں برتنے کا رجحان اُبھرا ہے۔ اس رجحان سے اور کچھ نہ بھی ہو تو ذہنی پراگندگی Confusion ضرور جھلکتی ہے۔ان میں سے بہتیرے لوگوں نے الفاظ و تراکیب کچھ اس طرح سے استعمال کیے ہیں کہ ثقافتی تصادم اور مغرب کے مقابلے میں احساس کمتری کی جو کیفیت وہ جھیل رہے ہیں وہ آشکار ہو گئی ہے۔ ان کی تحریروں میں سب سے زیادہ عیاں چیز مغربی تہذیب کے معیارات اور آرا کی ایک ذہنی غلامی ہے۔ مزید براں، یہ معیارات بالعموم ایک ایسے ’’اسلام‘‘ کے لبادے میں پنہاں ہوتے ہیں جس میں صرف نام اور چند جذباتی بندھن باقی رہ گئے ہوتے ہیں؛ وہ اسلام جو اس عقلی اور روحانی حقیقت سے محروم ہو چکا ہوتا ہے جو وحیِ اسلام کے قلب میں واقع ہے۔ زیر نظر تجزیے میں ہمارا ارادہ ہے کی تین بکثرت مستعمل الفاظ’’زوال و انحطاط‘‘، ’’انحراف‘‘ اور ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ (نہضۃ) Renaissance پر بحث کی جائے جو اسلامی تاریخ اور آج کی اسلامی دنیا کے حوالے سے اکثر برتے جاتے ہیںاور جو ایک قسم کے جدیدیت زدہ مسلمانوں کے اس رویے کی دور رس عکاسی کرتے ہیں جو انھوں نے پورے اسلام کو بحیثیت ایک دین اور بحیثیت ایک تاریخی حقیقت کے دیکھتے ہوئے اختیار کیا ہے۔ چلیے ’’زوال‘‘ کی اصطلاح سے شروع کرتے ہیں۔ جدید مسلمان مصنّفین کی تحریروں میں یہ اصطلاح اکثر ملتی ہے جو جدیدیت کے آغاز سے قبل اسلامی دنیا کے حالت کی طرف بار بار ’’زوال پذیر‘‘ کے لفظ سے اشارہ کرتے ہیں، اس قدری فیصلے Value Judgement سے فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’زوال کس لحاظ سے یا کس معیار کے حوالے سے؟‘‘ ہر چیز کے لیے ایک معیار ضروری ہے جس سے اسے جانچا جائے یا جس کے حوالے سے اس کے زوال پذیر ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ اس مقام پر گو بعض لوگوں نے اسلام کے قرونِ اولیٰ کو معیار قرار دیا ہے مگر اکثر و بیشترمغرب جدید سے شعوراً یا غیر شعوری طور پر اپنا یا ہوا نظام اقدار ہی حالتِ زوال و انحطاط کے تعین کے لیے ڈھکے چھپے انداز میں معیار اور کسوٹی فراہم کرتا ہے۔ اس کی سب سے اچھی تشریح سائنس کے مسئلے سے ہو سکتی ہے اگر سائنس کو اس کے موجودہ مغربی معانی میں لیا جائے۔ دوسرے مشرقی لوگوں کی طرح بہت سے جدید مسلمان بھی سائنس اور تہذیب کو ایک برابر سمجھتے ہیں اور کسی بھی انسانی معاشرے اور اس کی ثقافت کی قدر و قیمت کا فیصلہ یہ دیکھ کر کرتے ہیں کہ اس کے ہاں سائنس کی پیداوار ہے یا نہیں اور ایسا کرتے ہوئے خود تاریخ سائنس کے دئیے ہوئے سبق فراموش کردیتے ہیں۔۱؎ چنانچہ اسلامی تہذیب کے زوال کا نقطۂ آغاز اس وقت کو فرض کر لیا جاتا ہے جب سے اس نے ممتاز سائنسدان پیدا کرنے بند کر دئیے (سائنسدان کے منصب کا تصور بھی وہی ہوتا ہے جو آج مغرب میں ہے) اکثر مسلمان مصنّفین تو اس عمل کے منقطع ہو جانے کی تاریخ تک مغربی مآخذ سے لیتے ہیں جن میں، حالیہ زمانے تک، اسلام کی عقلی زندگی سے ساری دلچسپی اس دور تک محدود تھی جب اسلام نے مغرب کو متاثر کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسفے سے لے کر ریاضی تک، اسلام میں ہر چیز ساتویں؍ تیرھویں صدی کے لگ بھگ اچانک پر اسرار طور پر ’’زوال‘‘ کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ عین وہی زمانہ ہے جب مغرب اور اسلام کے عقلی روابط عملاً ختم ہو گئے تھے۔۲؎ جدیدمسلمان مصنّفین نے جو اس رائے کے حامل ہیں، نہ تو کبھی ذاتی تحقیق کی زحمت کی ہے نہ ہی مغربی ماہرین کی حالیہ اور کم معروف تحقیقات پر غور کیا ہے جنھوں نے دکھایا ہے کہ نویں ؍پندرھویں صدی میں اسلامی علم فلکیات کتنا اہم رہا ہے یا یہ کہ طبِ اسلامی ایران اور ہندوستان میں ۱۲ویں ؍۱۸ویں صدی تک کتنی فعال رہی ہے۔۳؎ زوال کا یہ تصور، جو ’تہذیب‘ کے دنیاوی۴؎ پہلو کے بارے میں جدید مغربی معیارات پر مبنی ہے،روایتی اسلامی تناظر سے بالکل جدا ہے جو اہل مدینہ کو کامل ترین انسانی معاشرہ گردانتا ہے ___ ایسا معاشرہ جس کے معیار پر باقی تمام اسلامی، معاشروں‘‘ کو پرکھا جاتا ہے ___ اور اسی غلط تصورِ زوال کا نتیجہ ہے کہ مسلمان نوجوانوں کے ذہن سکڑ کر مضمحل ہوگئے ہیں اور ان کا اپنے اوپر اور اپنی ثقافت پر اعتماد جاتا رہاہے۔ اسلامی دنیا پر زوال آیا ہے مگر یہ ’’بڑھاپے‘‘ کے تدریجی اور طبعی عمل اور وحی کے مبدا سماوی سے باعتبار زمانہ دور سے دور تر ہو نے کی وجہ سے ہوا ہے۔ مذکورہ مصنّفین زوال کی اس طرح تصویرکشی کرنے کی بجائے اور یہ بتانے کی بجائے کہ اس زوال کی نوعیت بالکل حالیہ ہے، اسلامی دنیا کے ساتویں؍ تیرھویں صدی تک زوال پذیر ہونے کا موہوم اور گھنائونا نظریہ فرض کرلیتے ہیں۔وہ اس چیز سے بالکل غافل رہتے ہیں کہ اگر یہی بات رہی ہوتی تو اسلام کا تا امروز ایک وسیع تہذیب کی پرورش کرنا اور ایک زندہ قوت کے طور پر باقی رہنا ناممکن تھا۔ تصوف میں موجود اسلام کی زندئہ جاوید روحانی روایت کو تو ذکر ہی کیا ہے، جو آج تک عظیم اولیا اور حکما کو جنم دیتی رہی ہے، یہ لوگ تو اصفہان کی مسجد شاہ، استانبول کی نیلی مسجد یا تاج محل جیسے فن تعمیر کے شاہکاروں، صائب تبریزی اور جامی کے ادبی شاہپاروں اور شیخ احمد سرہندی اور ملاصدرا کی ماوراء الطبیعیات اور علم کلام تک کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ جدیدیت زدہ مسلمان مصنّفین، جنھوں نے مغربی معیاراتِ تنقید پورے پورے اپنا رکھے ہیں، جس نقطۂ نظر سے زوال کو دیکھ رہے ہیں اگر زوال وہی ہوتا اور اگر اسلامی دنیا کو زوال نے اسی تاریخ سے گرفت میں لے لیا ہوتا جو اس گروہ نے فرض کر رکھی ہے تو آج اسلامی تہذیب کے نام کی کوئی چیز یقیناباقی نہ ہوتی جس میں یہ لوگ حالیہ صدی میں جان ڈالنے کی کوشش کرتے۔ اسلامی تہذیب بہت پہلے کی مَرکر آثارِ قدیمہ والوں کی دلچسپی کا موضوع بن چکی ہوتی جیسا کہ بعض مستشرقین اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک ’’انحراف‘‘ کے لفظ کا تعلق ہے تو اس کو جدیدیین (جدیدیت پرست) شاذو نادر ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح زیادہ صاحب ِاستقامت مسلمان مصنّفین کی تحریروں میںنظر آتی ہے جو اس روحانی اور مذہبی معیار کی موجودگی سے اب بھی آگاہ ہیں جس پر ان کے اپنے معاشرے سمیت کسی بھی انسانی معاشرے کو جانچا پر کھا جا سکتا ہے کیونکہ’’ الدین‘‘ کے لفظ کے وسیع ترین معانی میں ’’روایت‘‘ کا ذکر امکانِ انحراف کے ذکر کے مترادف ہے۔ فی الحقیقت اس اصطلاح کا اگر کوئی بر محل استعمال ہے تو وہ مغربی تہذیب کے حوالے سے ہو سکتا ہے جو شیخ عبدالواحد یحییٰ (رینے گینوں) کے الفظ میں۵؎، بذاتہٖ ایک مہمل عجوبہ نہ بھی ہو تو بھی ایک بڑا انحراف اور بے قاعدگی ہے۔ مگر ہمارے پیش نظر جدید مصنّفین کا جو گروہ ہے وہ اسی حوالے سے اس لفظ کو برتتے ہوئے شرماتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے معروضی معیار سے محروم ہیں جس کے ذریعے کسی بھی مخصوص ’’دنیا‘‘ کے خاص زمانی و مکانی حالات و آثار کے تعین کرنے والے زمانی تغیر Temporal Flux پر حکم لگایا جا سکے، ایسا معیار جو اس تغیر سے لازماً منزہ ہو۔یہ بات اوربھی ششدر کر دینے والی ہے،اس لیے کہ روایتی اسلامی مصادر میں وہ سارا مواد فراہم ہے جو ایسے معیار کی دریافت اور معاصرین کے لیے قابل فہم زبان میں ایسی تنقید وضع کرنے کے لیے ضروری ہے۔ نشاۃ ثانیہ (نھضۃ) Renaissance کے لفظ کی طرف آئیے تو ادب اور آرٹ سے لے کر سیاست تک تقریباً ہر سیاق و سباق میں اس اصطلاح کے اندھا دھند بے لگام استعمال کی افراط پائی جاتی ہے۔جدیدیت پرست لوگ اسلامی دنیا میں واقع ہونے والے کم و بیش ہر نوع کے عمل کو نشاۃ ثانیہ کانام دیتے نہیں تھکتے۔ اس لفظ کا عربی ترجمہ ’’النہضۃ‘‘ تو معاصر عربی ادب میں ایسا پھیل گیا ہے کہ کیا کہیے۔ اس لفظ کے اس بے فکری سے استعمال میں بھی کچھ فریب کاری ہے کیونکہ اس سے فوراً مغرب میں ہونے والی نشاۃ ثانیہ کا خیال آتا ہے جب یونان و روما کی وثنیت Paganism کے وہ عناصر دوبارہ زندہ ہو گئے جو روحانی نقطۂ نظر سے مہلک تھے (نہ کہ اس قدیم روایت کے مثبت عناصر جو قبل ازیں قسیسین کلیسا Church-Fathers خصوصاً سینٹ آگسٹائن نے عیسائیت میں شامل کر لیے تھے)اور ان عناصر سے عیسوی تہذیب کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ عیسوی تہذیب کی حیثیت سے پھلنے پھولنے کے طبعی دور تک پہنچ ہی نہ سکی۔ اسی طرح نشاۃ ثانیہ کے ضمن میں اس تطاول Promethean اور استکبار Titanesque کی روح کا دوبارہ اُبھرنا بھی یاد آئے بغیر نہیں رہ سکتا جو اسلام کے بالکل متضاد ہے۔۶؎ آج کل مسلمان اکثر اوقات جس چیز کو نشاۃ ثانیہ سمجھ لیتے ہیں وہ عموماً ایک نہ ایک شکل میں صرف انھی قوتوں کی حیاتِ نو سے عبارت ہوتی ہے جن کی بیخ کنی کے لیے اسلام آیا تھا، وہ قوتیں جن کو روایتی اسلامی تصورات میں عہدِ جاہلیت سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی خاص جزئی میدان میں’’احیا‘‘ کا امکان نہیں رہا بلکہ مثال کے طور پر کسی بڑے ولی کا اُبھرنا اسلامی دنیا کے کسی خاص حصے میں روحانیت کے ’’احیا‘‘ کا باعث ہو سکتا ہے،۷؎ اسلامی فنون کاکوئی عظیم ماہر کسی خاص فنی ہیئت کو حیات نو دے سکتا ہے، کوئی قوی دانشور اسلامی فکری زندگی کے کچھ پہلوئوں کو جلادینے کا باعث بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ خود اسلام کی عقلی روایت میں سچا رسوخ رکھتا ہو۔۸؎ مگر آج کل ’’احیائ‘‘ کے نام پر جو کچھ دکھاوا ہو رہا ہے وہ احیاء نہیں ہے۔ بارہا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کھلی ہوئی خلافِ اسلام طرزِ فکر کا استقبال اسلامی فکر کی’’نشاۃثانیہ‘‘ کَہ کر کیا جاتا ہے اور شریعت کی تعلیمات کے صریحاً مخالف طرزِ عمل کو اسلام کی سماجی نشاۃِ ثانیہ قرار دے دیا جاتا ہے! فکری دیانت کا تقاضا اتنا تو ہونا چاہیے کہ اگر ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کی اصطلاح کو کسی نہ کسی وجہ سے استعمال کرنا ضروری ہی ہو تو کم از کم ’’اسلامی‘‘ کا اسمِ صفت چپکانے سے تو گریز کیا جائے۔ یہاں بھی وہی معروضی اسلامی معیاروں کی بصیرت سے محرومی ہے جس کی وجہ سے جدید دنیا کی گمراہیوں کے شکار لوگ اسلامی دنیا میںہونے والے کسی بھی عمل یا کسی بھی تبدیلی کو نشاۃ ثانیہ سمجھنے لگتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے کہ لا دین مغربی دنیااور دوسرے براعظموں میں اس کے تابعین میں ہر تبدیلی کو ’’تقدم‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کے مساوی سمجھا جاتا ہے خواہ وہ تبدیلی ہر طرح سے انسانی زندگی کے جوہر کی تذلیل اور تقلیل ہی کیوںنہ ہو۔ ان تمام مثالوں میں جو مشترکہ غلطی ہے وہ معروضی، غیر متغیر اور متعال Transcendent اسلامی اُصولوں کی بصیرت ضائع ہو جانے سے پیدا ہوئی ہے۔ صرف یہی ایک ایسی چیز تھی جس کی مدد سے ہم اسلامی نقطۂ نظر سے کسی خاص ہیئت ،عمل یا انسانی معاشرے کے کسی دور کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکتے تھے کہ زوال پذیر ہے منحرف ہے یا اس کی نہضۃ Renaissanceسچی اسلامی نشاۃ و احیاء کے اوصاف لیے ہوئے ہے۔ ذات مطلق (یعنی الاحد) کے بغیر مقید یا اضافی کو کبھی بھی پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا اور غیر متغیر کے بغیر اس چیز کے بہائو کا رُخ جانچنا محال ہے جو بدلتی رہتی ہو۔ مگر ایک ’’ماوراء الطبیعیاتی ضعفِ بصر‘‘ Metaphysical Myopia اور اس مغرب کی حماقتوں کی اندھی فرمانبرداری نے جو خود بھی القیوم The Immutable کی بصیرت سے عاری ہو چکا ہے،مل جل کر جدیدیت زدہ مسلمانوں کے اس زیر بحث گروہ کے پاس نہ تو وہ عقلی بصیرت رہنے دی ہے جس سے وہ اشیا کے غیر متغیر جواہر (اعیان ثانیہ) کا ادراک کر سکیں (قرآن کی اصطلاح میں ان کا ملکوت) نہ وہ راسخ ایمان جس کے ذریعے وہ روایت نبویہ (سنت اور حدیث) سے قائم ہونے والی مثال یا معیار پرثابت قدم رہ سکیں۔ اشیا کے غیر متغیر اُصولوں تک رسائی کے طریقوں میں سے پہلا طریقہ چونکہ عقلی اور روحانی نوعیت کا ہے لہٰذ اسے پس پشت ڈالنے میںمذکورہ قسم کے جدیدیت پرستوں کو عوام الناس کی طرف سے کسی خاص مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور ان کی توانائی روایتی اسلام کی غیر متغیر ساخت پر پائے جانے والے عام ایمان کی تخریب پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ چونکہ اس مہم کا انداز صاف مذہبی ہوتا ہے اس لیے صاحبِ ایمان مسلمانوں کی طرف سے اس کی کہیں زیادہ مخالفت ہونا لازمی ہے۔تاہم دونوں صورتوں میں ان کا حتمی مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ان معروضی اسلامی معیارات یا اُصول ہائے تنقید کو برطرف کر دیاجائے جن کے مطابق آج کے اسلامی معاشرے اور دنیائے جدید پر بحیثیت عمومی محاکمہ کیا جا سکتا ہو۔ ان خداداد اور معروضی اُصولوں کو برطرف کر دینے کی انھیں جو خواہش ہے وہ اُن کی ان کوششوں میں مجتمع ہو جاتی ہے جو وہ ایمان دار مسلمانوں کی نگاہ میںسنت نبویہ اور حدیث نبوی کی عبر التاریخی Trans-historical معنویت کو کمزور کرنے کے لیے کرتے ہیں۔اس کے لیے وہ ان پر ’’تاریخی تنقید‘‘ Historical Criticism کا طریقہ عائد کرتے ہیں جس کے مطابق کسی چیز کا تحریری اندراج نہ ہونا عموماً خود اس چیز کے نہ ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح مسلمانوں کو ان کی شخصی اور اجتماعی زندگیوں کے لیے کامل نمونہ دیا ہے(قرآن مجید کا اسوۃ حسنہ) جب تک آپؐ کی سنت کا احترام ہوتا ہے اور اسے محفوظ رکھا جاتا ہے تب تک ملت اسلامیہ میں ایک خدا کا مقرر کردہ معیار باقی رہتا ہے جس کے حوالے سے انسانی رویہّ پرکھا جاتا ہے اور جو کتاب اللہ کے ساتھ مل کر انسانی معاشرے کی اجتماعی زندگی کے ساتھ اس کے افراد کی داخلی مذہبی زندگی کی نیو رکھنے کے وسائل فراہم کرتا ہے۔۹؎ ذخیرئہ حدیث کی صحت پر کیے جانے والے حملے کا ایک بڑا مقصد جس کا خواہ شعوری احساس نہ رہا ہو یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو پرکھنے کے لیے خدا کی نافذ کردہ کسوٹی کوہٹا دیا جائے اور لوگوں کے لیے جدیدیت کی نقالی میں سہولت اور اپنی خواہشات یا زمانے کے آتے جاتے فیشنوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا دروازہ کھل جائے خواہ وہ کیسے ہی ابلیسی کیوںنہ ہوں اور پھر یہ سب کچھ ایک ’’اسلامی نشاۃ ثانیہ‘‘ کے نام پر کیا جاتا ہے اور ہر اس گروہ پر رجعت پرست اور زوال پذیر کَہ کر تنقید کی جاتی ہے جو مغربی تہذیب کی گھٹیا ترین پیداواروں کی اندھی تقلید کرنے سے انکار کرتا ہو۔ جدیدیت پرست لوگ اسلام کے ماضی و حال کے بارے میں جو مبہم اور بالعموم رکیک فیصلے دیتے ہیں ان کا اور انسانی زندگی کے لیے قرآن و سنت کی فراہم کردہ واضح مثال اور معیار کو دھندلا دینے کی کوشش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس کے برعکس بہت سے متدین اور اہل استقامت Orthodox مسلمانوں کو اسلام کی سالمیت کے دفاع کے لیے حدیث اور سنت میںپائے جانے والے معیار نبوی کی معنویت پر بار بار زور دینا ضروری محسوس ہوا ہے کہ اس کے بغیر خود قرآن کے پیغام کے کئی حصے لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ’’زوال، انحراف اورنشاۃ ثانیہ جیسی اصطلاحات کے رائج الوقت استعمال پر تنقید بجا لیکن اگر ہم قرآن و سنت کو سندمان کر اور روایت کے آج تک تدریجی، مرحلہ وار ظہور Unfoldingکو تسلیم کرکے چلیںتو ان اصطلاحات کی حقیقی معنویت کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ اس سوال کا ہم صحیح جواب دے سکتے ہیں تاہم یہ جواب اپنے مقدمات اور مقام آغاز کے اختلاف کی وجہ سے زیر نظر جدیدیت پرست طائفے کے پیش کردہ جواب سے بہت مختلف ہو گا۔ اسلام کے حوالے سے نشاۃ ثانیہ کے معنی صرف اسلامی اُصولوں اورمعیارات کے از سرِنو پیدا ہونے (لفظی معنی میںنشاۃ ثانیہ) کے ہیں نہ کہ کسی بھی اوٹ پٹانگ چیز کی حیاتِ نو کے۔ ہر جنبشِ حیات ،حیاتِ روحانی کے آثار میں سے نہیں ہوتی اور ہر وہ عمل جو مسلمان اقوام میں واقع ہو لازماً اسلامی عمل نہیں ہوتا خصوصاً آج کے دور میں جب الحق کے کتنے ہی پہلو دھندلا چلے ہیں۔ اسلامی معنی میں نشاۃ ثانیہ تجدید یا کایا پلٹ کرنے کے متوافق ہے جو اپنے روایتی سیاق و سباق میں مجدد کے منصب سے متعلق ہے۔ تاریخ اسلام سے عالم اسلام کے کتنے ہی حصوں میں ایک مجدد کے کارِتجدید سے صحیح معنوں میں ہونے والی کئی نشاۃ ہائے ثانیہ کی شہادت ملتی ہے۔ مگر ایسا مجدد ہمیشہ ان اسلامی اُصولوں کی کامل تجسیم ہوتا ہے جن کو وہ بحال کرکے کسی خاص صورت حال پر عائد کرنا چاہتا ہے اس میں اور جدید معنی میں ’مصلح‘‘er Re-form میں بڑا گہرا فرق ہے کیونکہ یہ مصلح اکثر مصلح نہیں بلکہ مفسدer De-form ہوا کرتے ہیںجو اسلامی روایت کے کسی نہ کسی پہلو کو فلاں یا فلاں عارضی مصلحت پر قربان کرنے کو تیار رہتے ہیںا ور اس مصلحت کے عنصر کو ناقابل مزاحمت بنا کر دکھا نے کے لیے کہا جاتا ہے کہ ’’یہ زمانے کی وہ ناگزیر ضرورت ہے جس سے مفر نہیں۔‘‘اگر ایسے ’’مصلحین‘‘ تاتاریوں کی یلغار کے دور میں اور اس کے بعد اُبھرتے تو نہ جانے اسلام پر کیا گزرتی ؟ وہ مصلحین جو اسلام کو اس وقت کی واقعی سب سے زیادہ ناگزیر ’’ضرورتِ زمانہ‘‘ یعنی منگول فاتحین اور ان کی زندگی کے طور طریقوں کی تعمیل اور پابندی کا مشورہ دیتے۔ چنانچہ ایک سچی اسلامی نشاۃ ثانیہ ہر اس چیز کی پیدائش یا حیاتِ نو کا نام نہیں ہے جو انسانی تاریخ کے کسی مخصوص لمحے میں رائج اور فیشن کے مطابق ہو بلکہ اس کا مطلب ہے کھری اسلامی نوعیت کے اُصولوں کا ازسر نو اطلاق۔ یہاں آ کر اصلی اسلامی فلسفہ کے لیے ابتدائی شرط واضح ہو جاتی ہے۔ ہمارے زمانے کے لیے یہ شرط مغرب کے اثر سے آزاد ہونے میں اور اس سب کچھ سے آزاد ہونے میں مضمر ہے جو مغرب کا خاصہ ہے۔ جدیدیت کے اثرات سے دور پرے رہنے والے ایک مسلمان کو شاید روحانی تجدید کا تجربہ ہو سکتا ہے خواہ وہ دنیائے جدید میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بے خبر ہو مگر ایک مسلمان دانشور یا مذہبی رہنما کے لیے جو اسلامی دنیا کی فکری اور سماجی زندگی کی تجدید کرنا چاہتا ہو، جدیدیت اور جدید دنیا پر دور رس تنقید کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر وہ مغرب اور جدیدیت کے عمومی اور ایسے بھاری دبائو کی شکار اسلامی دنیا کی عقلی یا سماجی سطح پر نشاۃ ثانیہ کی امید نہیں کر سکتا۔ اسلامی نشاۃ ثانیہ کی بات کرنا اور ساتھ ہی وہ سب کچھ بلا امتیاز و احتیاط قبول کر لینا جس کی نمائندگی جدید دنیا کرتی ہے نرا وہم ہے اور خواب پریشان۔ ایسا خواب جو آخر کار کا بوس بن کر رہے گا۔ جدید دنیا کے لیے دور رس تنقیدی رویے اور اس دنیا کے گہرے فہم کے امتزاج ہی سے آج خالص اسلامی عمل، خصوصاً فکری سطح پر، وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فقہ اسلامی کے میدان میں بھی اجتہاد اور فتویٰ اس ذہن کے لیے ناممکن ہے جو عقائدِ جدیدیت کے ہاتھوں قلبِ ماہیت کروا چکا ہو۔ گزشتہ ایک صدی سے مسلمان جدیدیت پرست ایک اسلامی نشاۃ ثانیہ کے بارے میں بڑیں ہانک رہے ہیں مگر ابھی تک ایسی کوئی چیز عمل میں نہیں آئی، کم از کم جدید یوں کے ہاں سے تو بالکل نہیں آئی۔ اس کی وجہ بالصراحت یہ ہے کہ وہ اس مذکورہ تنقیدی نظر سے جدید دنیا کے گہرے علم سے اور ان وسائل سے بے بہرہ ہیں جو دنیائے جدید کی آنی جانی، روز بدلتی اقدار کو اسلام کے ابدی اُصولوں کی روشنی میں جانچنے پرکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اسلام کے اہل دانش کی طرف سے خطاب کرنے والے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ بروئے کار لانے کے متمنی لوگ مغرب کے مقابلے میں احساس کمتری کے نقطۂ نظر سے بات کرنا چھوڑ دیں اور خود آگے بڑھ کر جدید دنیا پر اس ماوراء الطبیعیاتی فرقان کی تلوارلگائیں جو اپنی خالص ترین شکل میں کلمۂ شہادت میں موجود رہے۔ اس تناظر میں زوال اور انحراف کے معنی بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ زوال ہمیشہ ایک کامل معیار سے گر جانے سے عبارت ہوتا ہے بشرطیکہ آپ ہنوز اسی معیار سے متعلق راستے پر گامزن ہوں، جب کہ انحراف کا مطلب ہے کہ آپ اس معیار کو بالکل ہی ترک کر دیں۔مزید براں زوال کی دو قسمیں ہیں۔ ۱- زوال فعالActive Decadence ۲- زوال منفعل Passive Decadence ایک وہ جو گزشتہ چند صدیوں میں مشرق کی تہذیبوں پر طاری ہوا ہے(یعنی زوال منفعل) اور دوسرا وہ جس کی پیروی اسی دور۱۰؎ میں مغرب نے کی ہے اور جو مغرب کی حرکی اور فعال خاصیت کی وجہ سے صحیح معنوں میں انحراف بن گیا ہے۔ بہت سے مسلمانوں اور دوسرے مشرقیوں نے اس فعالیت کو غلطی سے سچی زندگی سمجھا ہے صرف اس لیے کہ انھوں نے اسے مشرق کی روایتی دنیا کی نسبتاً کم فعالیت اور عمل کے متضاد پایا ہے۔ تعجب یہ ہے کہ آج بہت سے جدیدیت زدہ مشرقیوں کی چشمِ حیراں کے سامنے مغرب کا یہ انحراف زوال کی ایسی شکل اختیار کر رہا ہے جس کی شناخت خود ان کے لیے بھی آسان ہے۔ بلکہ فی الحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید مغربی تہذیب کی زندگی کی قوس جس کا آغاز قرونِ وسطی میں مغرب کی روحانی Normalcy فسخ کرنے سے ہوا تھا، ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ سے ہو کر انحراف اور زوال کو پہنچ رہی ہے اور یہ آخری مرحلہ گزشتہ دو دہائیوں میں پہلے سے کہیں زیادہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ جدید یت پرستوں کے مذکورہ گروہ نے اسلام کی جو تعبیر کر رکھی ہے اگر اس کی قوس بنائی جائے تو وہ زوال سے نشاۃ ثانیہ اور وہاں سے انحراف تک جائے گی اور اس انحراف کے بعد زوال کا ایک اورمرحلہ بھی یقینا ہوگا مگر یہ زوال اس قسم کے زوال سے مختلف ہوگا جس کے علاج سے جدیدیت پرستوں نے آغاز کیا تھا تاہم اسلامی روایت کی کلیت خوش قسمتی سے اس عمل سے بلند ہی رہی ہے۔ زوال تک پہنچانے والے اس پر فریب سلسلۂ انحراف سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ اسلام کے ابدی اورغیر متغیر اُصولوں کا وفادار رہا جائے جو تمام رفت وبود سے بالاتر ہیں اور پھر ان اُصولوں کا اطلاق ہر اس صورتحال پرکیا جائے جس کا مسلمانوں کو سامنا ہو اور ہر اس ’’دنیا‘‘ پر کیا جائے جو ان کے سامنے آئے۔ کسی فانی ’دنیا‘ یا زمان و مکان کے آتے جاتے مجموعہ حالات کو اسلام کی تعلیمات اور اُصولوں کی حقانیت کی کسوٹی بنا لینا اشیا کی فطری ترتیب کو اُلٹ دینے کے مترادف ہے۔ جیسے گاڑی گھوڑے کے آگے جوت دی گئی ہو۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے وقتی اور حادث کو قدیم کے لیے معیارِ نقد بنا لیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس مہلک راہ کے لیے دَر وا ہوجائے گا جس پر مغرب روانہ ہوا تھا اور جس کا انجام وہ ناقابل حل پیچیدہ صورت حال ہے جس کا آج مغربی تہذیب کو سامنا ہے اور جو کرئہ ارض پر انسان کی ہستی کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ مسلمان دانشوروں کے لیے اس سے بہتر کرنے کا کام اورکیا ہو گا کہ وہ جدید مغرب کی تاریخ کے ان مراحل کے عمیق تر مطالعہ سے حاصل ہونے والے سبق سے فائدہ اُٹھائیں جو اسے اس کے موجودہ بحران تک لے آئے ہیں۔ اگر وہ اسلام کی وکالت کرنا چاہتے ہیں اور اس کی زندگی کی تجدید چاہتے ہیں تو انھیں سوچ لینا چاہیے کہ ان کے لیے یہ انتہائی کٹھن ذمہ داری ہو گی۔ انھیں یاد ہونا چاہیے کہ باطل کی زندگی سے حق کی موت بہتر ہے، اور اگر کوئی ملتِ اسلامیہ کی تجدیدِ حیات چاہتا ہو تو یہ تجدید ایسی زندگی کی ہونی چاہیے جس کی جڑیں عالمِ قدس میں گہری پیوست ہوں۔ زوال و انحراف سے بچنے اور ایک سچی نشاۃ ثانیہ تک رسائی کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں کہ وحی اسلام میں پائے جانے والے ان اُصولوں اور حقائق کا از سر نو اطلاق کیا جائے جو ہمیشہ سے مستند اور صحیح ہیں اور ہمیشہ صحیح رہیں گے۔ ان اُصولوں کا خارج کی دنیا پر اطلاق کرنے کے لیے پہلے ان کا اپنے اوپر اطلاق کرنا لازمی ہے۔ انسان اپنے گردو پیش کی دنیا کو پھر سے زندہ کرنے کے قابل تب ہوتا ہے جب وہ خود روحانی طور پر حیاتِ نو حاصل کر چکا ہو۔ آج کے تمام سچے مصلحین جدیددنیا کے ناکام مصلحین (جن میں نیک نیت بھی تھے) کی ناکامیوں سے جو سبق حاصل کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ دنیا کی حقیقی اصلاح کا آغاز اپنی اصلاح سے ہوتا ہے۔ جس نے اپنا آپ فتح کر لیا اس نے دنیا کو فتح کر لیا اور جس کے اندر اسلام کے اُصولوں کو پوری وسعت کے ساتھ تجدید ہوگئی اس نے اسلام کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کے لیے سب سے بنیادی قدم اُٹھا لیا کیونکہ صرف وہی شخص اپنے گردو پیش کی دنیا کے تنِ مردہ میںجان ڈال کر اسے حیاتِ نو بخش سکتا ہے جو خود الحق تعالیٰ میں پھر سے زندہ ہو چکا ہو۔ اس ’’دنیا‘‘ کی حدود کیا ہوں گی، یہ مشیت الٰہی پر منحصر ہے۔ ء ء ء حوالے و حواشی ۱- دیکھیے : سیّد حسین نصر، اسلام میں سائنس اور تمدن، جہاں ہم نے اس مسئلے پر تفصیلی محاکمہ کیا ہے، خصوصاً تعارف صفحہ ۲۱۔ Science and Civilisation in Islam۔ ۲- گو عثمانی ترکوں اور پورپ کے مابین گاہے ماہے کے روابط تھے مگر ان کی نوعیت اس تبادلۂ عقلی سے کاملاً مختلف تھی جس نے قرونِ وسطی کے یورپ کی تاریخ بدل کر رکھ دی تھی۔ ۳- فلسفۂ اسلام کی صورتحال اور بھی حیران کن ہے اس لیے کہ فلسفہ اسلام اور اسلامی ماوراء الطبیعیات کا فی الحقیقت کبھی زوال ہوا ہی نہیں۔ دیکھیے : سیّد حسین نصر Islamic Studies، نصر،ایران میں اسلامی فلسفے کی روایت اور جدید دنیا کے لیے اس کی معنویت‘‘ نیز نصر، ایران اور اسلام فلسفے کا مستقبل۔ Studies in Comparative Religion, Winter 1972, pp. 31-42. (برصغیر پاک و ہند میں اس مثال کے لیے دیکھیے اسلام اور عقلیات از مولانا اشرف علی تھانوی مقالات ایوبی از ایوب دہلوی، خدا شناسی کے میلوں میں حضرت قاسم نانوتوی کی تقاریر اور درس نظامی کی متداول کتاب شمس بازغہ) (مترجم)۔ ۴- مغرب کے آدمی کے لیے، سترھویں صدی کے بعد سے خصوصاً، ’’تہذیب‘‘ خالصتاً انسانی (عناصر) بلکہ فی الاصل انسان خاکی خود افزائی کے مترادف ہو چکی ہے۔ لوئی چہار دہم کے ساتھ یہ رویہ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے دیکھیے: َؑF. Schuon, Remarks on Some Kings of France, Studies in Comparative Religion, Winter, 1972, p. 200. ۵- دیکھیے: دنیائے جدید پر گینوں کی دو بنیادی تصانیف : Crisis of the Modern World, Reign of Quantity and the Signs of Times. نیز دیکھیے F. Schuon کا ماہرانہ تجزیہ Light on the Ancient Worlds. ۶- ہر وہ مسلمان جس کا ذوق فن پوری طرح نہیں تباہ ہو چکا، نشاۃ ثانیہ کے اور ۱۷ویں اٹھارویں صدی کے بے ڈھنگے آرٹ اور فن تعمیر کی دنیاوی نوعیت سے گھن کھائے گا، خواہ یہ فن مذہبی قسم کا ہی کیوں نہ رہا ہو۔ یہ آرٹ پر جو مسلمان نظارہ کنندہ کو اتنا غیر روحانی اور دنیاوی لگتا ہے، صرف رب السمٰوات کے خلاف اس بغاوت کا عکس ہے جو نشاۃ ثانیہ کی انسان پرستی میں رچی ہوئی تھی اور جو مغرب میں انسان کو مظہر الٰہی (Imago Die) سمجھنے والے روایتی تصور انسان کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ۷- اس قسم کے ’’احیا‘‘ کی مثال کے طور پر اس صدی کے آغاز پر شمالی افریقہ میںعظیم الجزائری صوفی مرشد شیخ العلوی کے منظر عام پر آنے کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ دیکھیے ابوبکر سراج الدین کی: Martin Lings, A Sufi Saint of the Twentieth Century. (برصغیر پاک و ہند میں اس کے متوافق مثال سلسلہ چشتیہ کے شیوخ کے اُبھرنے کی ہے)مترجم ۸- دیکھیے: H. Corbin, The Force of Traditional Philosophy in Iran Today. ۹- حدیث نبوی کی معنویت اور اس کے جدید ناقدین کے روکے لیے دیکھیے۔ S. H. Nasr, Ideals and Realities of Islam, pp.79 ff. F. Schuon, Understanding Islam, Ch3. S. M. Yusuf, An Essay on the Sunnah, Lahore, 1966. ۱۰- زوال سب تہذیبوں پر آتا ہے مگر اس زوال کے انداز الگ الگ رہے ہیں، مشرق کا زوال انفعالی ہے اور مغرب کا حرکی۔ مشرق کا زوال اس کی لغزش سے ہوا کہ اس نے سوچنا چھوڑ دیا ہے : مغرب کا زوال زیادہ سوچنے اور غلط سوچنے سے ہے۔ ’’مشرق حقائق پر محوِ خواب؛ مغرب گمراہیوں میں زندہ ہے۔‘‘ ظ ظ ظ اسلام اور مغرب کے چیلنج ’’اسلام اور مغرب کے چیلنج‘‘ سیّد حسین نصر کی کتاب Islam and the Plight of Modern Man کے آخری اور اہم ترین باب کا ترجمہ ہے جس میں مصنف نے نہ صرف کتاب کے تمام مباحث کو سمیٹ کر ایک جائزہ مرتب کیا ہے بلکہ فکری سطح پر عالمِ اسلام کو مغرب کی طرف سے جن مسائل اور خطرات کا سامنا ہورہا ہے یا ہوسکتا ہے ان سب کو نقد و تجزیہ اسلام کی فکری میراث کی روشنی میں کرنے کے ساتھ ساتھ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے رہنما اُصول بھی فراہم کیے ہیں۔ (ترجمہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ مل کر کیا گیا ۔) Islam and the Plight of Modern Man by Seyyed Hossein Nasr. آخری بات یہ ہے کہ ہمیں ان فکری اور روحانی چیلنجوں پرضرور توجہ دینا چاہیے جو جدید مغرب کی جانب سے معاصر مسلمانوں کو دیے گئے ہیں اور اس کردار کے بارے میں سوچنا چاہیے جو اسلامی روایت ان چیلنجوں کا جواب دینے کے ذرائع کی صورت میں ادا کر سکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ آج کی صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اگر کوئی شخص مغرب کی جانب سے اسلام کو دیے گئے چیلنجوں پر اور عمومی طور پر تہذیب جدید پر گفتگو کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے کام کا آغاز شمشیرِ فرقان کو ہاتھ میں لے کر ایک طرح کی فکری بت شکنی سے کرنا ہوگا اور ان تمام بتوں سے زمین کو پاک کرنا ہوگا جنھوں نے معاصر منظرنامے کو گدلا دیا ہے۔جدید تہذیب، مغرب میں ہو یا مشرق میں اس کے طغیان کی صورت میں، اس بات پر نازاں ہے کہ اس سے تنقیدی ذہن اور معروضی تنقید کی قوت کا ارتقا ہوا ہے حالانکہ بنیادی طور پر یہ معلوم تہذیبوں میں سب سے کم تنقید مائل تہذیب ہے۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو سچے شعورِ امتیاز سے کوسوں ہٹی ہوئی ہے کیونکہ اس کے پاس وہ معروضی پیمانے نہیں ہیں جن سے یہ اپنی سرگرمیوں کا محاکمہ کر سکے۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو بنیادی اصلاح کی ہر سعی میںناکام ہے کیونکہ یہ اپنی ہی اصلاح سے کام کا آغاز نہیں کر سکتی۔ ایک روایتی اسلامی ضرب المثل ہے کہ شیطان تیز دھار سے متنفر ہے۔ اس قدیم مقولے میں ایک گہری صداقت پوشیدہ ہے جو آج کی صورت حال پر براہ راست منطبق ہوتی ہے۔ چونکہ شیطان ہر جگہ موجود ہے سو وہ ہر جگہ تیکھے کناروں اور نوک کو کند کرکے، جن تک اس کی رسائی ہو سکتی ہے، اپنے اثرات ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ اس ماحول میں جس پر اس کے واضح اثرات موجود ہوں، حق و باطل کی واضح تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ اُصولوں کی تیز دھاریں گھس جاتی ہیں اور ان کا نکھرا سراپا بتدریج مدھم ہوتا چلا جاتا ہے۔ خیر و شر کا امتیاز پہلے سے زیادہ مبہم ہو جاتا ہے حتیٰ کہ مقدس رسوم، عبادات اور عقائد جو انسان پر خدا کی نہایت قیمتی عنایات میں شمار ہوتی ہیں، اس فرسودہ کار اثر کی صورت میں جو ہر شے کو غیر واضح اور مبہم بنا ڈالتا ہے، بے ہیئت اور غیر معین ہو جاتی ہیں۔ پس جدید دنیا کی جانب سے اسلام کو پیش کیے گئے چیلنجوں پر گفتگو کرتے وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ فکری تنقیح وا متیاز کے اُن کڑے اور سخت گیر اُصولوں کو جن کی بنیاد ’’شہادۃ‘‘ پر ہو، کام میں لاتے ہوئے اس دھند کاپردہ چاک کیاجائے۔ اس شمشیر شہادت کا استعمال ضروری ہے تا کہ جاہلیت جدیدہ کے ان جھوٹے بتوں کو توڑا جا سکے جن کے سامنے ہمارے اکثر مسلمان، بغیر ان کی نوعیت کا اندازہ لگائے گھٹنے ٹیکتے چلے جا رہے ہیں۔ اس شمشیر کا استعمال ضروری ہے تاکہ ان تمام باطل افکار اور خود ساختہ نظاموں کا قلع قمع کیا جا سکے جن کی جدیدیت زدہ مسلمانوں کے ذہنوں پر پھپھوندی جم چکی ہے۔ یہ شمشیر معاصر مسلمان کی روح کی تراش خراش میں معاون ہوگی اور اسے ایک غیر متشکل ڈھیر سے ایک دمکتے بلور میں بدل دے گی جو نورِ ربانی سے مستنیر ہوتا ہے کیونکہ بلور اصل میں اپنے تیز اور واضح ترشے ہوئے کناروں کی بدولت ہی چمکتا ہے اور روشنی بانٹتا ہے۔ یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ آج کی صورت حال میں جدید دنیا پر، مابعد الطبیعیاتی اور مذہبی اُصولوں کے حوالے سے کی جانے والی تنقید اپنی عمیق ترین سطح پر ایک طرح کا کارِ خیر ہے اور اسلام کی سب سے مرکزی نیکیوں کے عین مطابق ہے۔ روایتی اسلامی زبانوں میں ’’ادب‘‘ کے مفہوم میں بیک وقت، خوش اخلاقی، خوش اطواری، تمدن اور ادبیات سب شامل ہیں۔ چند مسلمان وہ بھی ہیں جو نقد و تنقیح سے اس لیے باز رہتے ہیں کہ مبادا انھیں غیر شائستہ اور ادب سے عاری نہ سمجھا جائے۔ ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پیغمبر اسلام نہ صرف یہ کہ’’ادب‘‘ پر اس کی کلیت میں حاوی تھے بلکہ وہ حق و صداقت کو بغیر لگی لپٹی کے پیش فرماتے تھے۔ ان کی زندگی میں ایسے لمحے بھی آئے جب انھوں نے انتہائی قطعی رویے کا اظہار فرمایا اور انھوں نے ادب پر صداقت کو کبھی قربان نہ فرمایا۔ اسلام نے کبھی اس بات کی تعلیم نہیں دی کہ انسان اتنا مودب ہوکہ دو جمع دو کو پانچ تسلیم کرلے۔حقیقت یہ ہے کہ ’’ادب‘‘ حق کے ہر حالت اور ماحول میں، ادراک و ادعا کی تکمیل کرتا ہے۔ ایک دفعہ شمالی افریقہ کی ایک ممتاز روحانی شخصیت نے کہا تھا: کیا تم جانتے ہو کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے؟ اس کا مفہوم ہے اپنی تلوار کو دھار دینا تاکہ جب تمھیں کوئی عضو کا ٹنا ہو تو زیادہ اذیت کے بغیر تراشا جا سکے۔ مسلمانوںکو مغرب کے بارے میں اور اسلام کے لیے اس کی دعوتِ مبارزت پر گفتگو کرتے ہوئے اسی قسم کے زاویہ نگاہ کی ضرورت ہے۔حق و صداقت کانہ صرف یہ کہ ہماری جانوںاورجسموںپرحق ہے بلکہ اسے ہمیں یہ حکم دینے کا حق بھی حاصل ہے کہ ہم دوسروں کو دعوت خیردیں اور جب اور جہاں بھی ممکن ہو اس کی تشریح و توضیح کریں۔ آج ہمیں ناقد بننے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ خواہ سخت گیری کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔کیونکہ اب اس قسم کا رویہّ شاذ کے حکم میں داخل ہوگیا اور اس کی شدید ضرورت ہے۔ آج دنیائے اسلام میں جس چیز کی کمی ہے وہ جدیددنیا میں ہونے والے واقعات کا بھرپور معائنہ اور محتاط تنقید۔ اس قسم کی تنقید کے بغیر مغرب کا مقابلہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں ہو سکتی۔جدیدیت زدہ مسلمانوں کے تمام ایسے بیانات جو اس پیش کش اور ادعائیت سے شروع ہوتے ہیںکہ :’’اسلام اور فلاں فلاں شے میں تطبیق کا طریقہ‘‘۔ ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔ خواہ یہ فلاں کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ ورنہ اسلام اور مغربی سوشلزم یا مارکسنرم یا موجودیت یا ارتقائیت یا اسی قسم کی کسی بھی دوسری شے سے اسے تطبیق دینے کی تمام کوششیں اپنی تعمیر ہی میں صورت تخریب لیے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کی کوششیں کرنے والے زیر نظر ازم یا نظام نامے کو اسلامی اُصولوں کی روشنی میں کلی طور پر پرکھے بغیر ہی اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ اس ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اسلام کو بجائے خود ایک مکمل ضابطۂ حیات اور تناظر نہیں سمجھتے۔ ایسا تناظر جو اپنی جگہ مکمل ہے اور بنابریں اسے کسی اور چیز کی نسبت اضافی یا نسبت توصیفی بنانے کا کوئی امکان نہیں خواہ اس چیز کو اسلام کی جگہ غیر شعوری طور پر مرکزی حیثیت دے دی گئی ہو۔ یہ لوگ اسلام کو ایک ایسے نظامِ حیات کے طور پر دیکھتے ہیں جو اشیا کے بارے میں صرف جزوی زاویۂ نگاہ رکھتا ہے اور اسے کسی جدید نظریے سے مکمل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے آج کے رائج الوقت فیشنوں میں ہونے والی تیز تبدیلی، جس کے ذریعے ایک دن تو اسلامی سوشلزم قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور اگلے ہی روز لبرل ازم یا کوئی دوسرا مغربی ’’ازم‘‘بجائے خود اس قسم کے زاویۂ نگاہ کی موجودگی اور سطحیت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ جو شخص بھی اسلام کے ڈھانچے کو اس کی کلیت میں سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اسلام کبھی خود کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ کسی ایسے نظام فکر کے مقابلے میں جو اس سے الگ اپنی حیثیت رکھتا ہو یا اس سے متصادم ہو، اس کی اپنی حیثیت محض ایک ترمیم کنندہ یا معاون کی ہوکر رہ جائے۔ مغرب کے کوکھ سے مختلف فیشن زدہ طرزہائے فکر کم و بیش ایسی تیزی سے برآمد ہوتے رہتے ہیں جس تیزی سے موسموں میں تبدیلی آتی ہے۔ ان کے مقابلے میں جدیدیت زدہ مسلمانوں نے جو دفاعی اور معذرت خواہانہ زاویۂ نگاہ اپنا رکھا ہے وہ ان کی تنقیدی حس اور فرقانی روح کی کمی ہی کا شاخسانہ ہے۔عام طور پرواضح کوتاہیوں پر یا ایسی کوتاہی جس پر تنقید کرنا آسان ہو، تنقید کی جاتی ہے لیکن کسی شخص میں یہ ہمت نہیں کہ وہ کھڑے ہو کر ہمارے عہد کے بنیادی مغالطوں کو ہدف بنا سکے۔اس بات کی نشاندہی کرنا بڑا آسان ہے کہ روایتی مدارس میں طالب علموں کی زندگی حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق نہیں ہوتی لیکن اس بات پر ڈٹ جانا اور یہ کَہ گزرنا نہایت مشکل کام ہے کہ آج کے جدید تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس کا بیشتر حصہ طالب علموں کے نفوس کے لیے بے حد مہلک ہے، بمقابلہ بعض قدیم مدارس کی حفظان صحت کے اُصولوں سے عدم مطابقت رکھنے والی عمارات کے خطرات کے۔ اسلامی دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد شاذ ہے جو مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال سکیں اور عقل کلی اور روح کی شمشیر کے ذریعے اس کے اس چیلنج کی اصل و بنیاد کا جواب دے سکیں جو اسلام کومغرب کی طرف سے درپیش ہے۔ آج ایسی ہی حالت ہے لیکن ایسی صورت حال کو باقی نہیں رہنا جاہیے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی دنیا میں ایک نئے فکری طائفے کی بنیاد نہ ڈالی جا سکے ___ ایک ایسے طبقے کی جو اسلامی وحی کے پیغام سے میسر ابدی اقدار کی روشنی میں جدید دنیا پر ایک معروضی تنقید کرسکے اور جدید انسان کی قابل رحم حالت پر (اور اس کی ہر لحظہ بڑھتی ہوئی قابل رحم حالت پر جس کا اسے سامنا ہے) خدا کے عطا کردہ اسلامی خزانوں کو لٹا سکے۔ جیسا کہ پچھلے ابواب میںکہا جا چکا ہے۔ اسلامی دنیا میں آج اصلاً افراد کے دو ہی طبقے موجود ہیں جن کا تعلق مذہبی، عقلی اور فلسفیانہ مسائل سے ہے یعنی طبقہ علما جن میں عام طور پر دیگر مذہبی اور روایتی مستند لوگ (مثلاً صوفیا) شامل ہیں اور متجددین کا وہ طبقہ جسے اب بھی مذہبیات سے دلچسپی ہے۔ لیکن اب ایک تیسرا طبقہ بھی بتدریج وجو دمیں آ رہا ہے جو علما کی طرح روایتی بھی ہے مگر جدید دنیا سے بھی آگاہ ہے۔ جہاں تک علما اور دیگر روایتی روحانی شخصیات کا تعلق ہے بتایا جاچکا ہے کہ وہ جدید دنیا اور اس کی پیچیدگی کا گہرا علم نہیں رکھتے۔ لیکن وہ اسلامی روایت کے امین اور محافظ ہیں اور ان کے بغیر روایت کا تسلسل ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔جدیدیت زدہ لوگ ان پر معترض رہتے ہیں کہ وہ مغربی فلسفہ، سائنس اور جدید معاشیات اور اس قبیل کے دیگر علوم کی باریکیوں سے واقف نہیں لیکن یہ تنقید جو عموماً بڑی سہولت سے کر دی جاتی ہے اکثر وبیشتر غلط سمت میں ہوتی ہے۔ گزشتہ صدی میں اسلامی دنیا میںسیاسی اور معاشی قوت پر جو لوگ حاوی تھے انھوں نے مدارس کو اس سمت میں پیش قدمی کرنے کا شاذہی موقع فراہم کیا کہ ان کے علمائِ جدید دنیا سے غلط اثرات قبول کیے بغیر اس سے بہتر طور پر واقف ہو سکیں۔چند مقامات پر جہاں مدرسے کے نصابات میں ترمیم کی کوششیں کی گئیں ان کی تَہ میں بیشتر یہ مقصد پوشیدہ ہوتا تھا کہ کسی طرح روایتی نظام تعلیم کا حلیہ اس حد تک بگاڑ دیا جائے کہ اس کا خاتمہ ہو سکے۔ نہ یہ کہ ان مدارس کے نصابات میں ایسے کورس شامل کیے جائیں جن کے باعث اسلامی تعلیمات کی روشنی میںطلبہ جدید دنیا سے متعارف ہو سکیں۔ علاوہ ازیں اس قسم کے ادارے بنانے کی کوشش نہ ہونے کے برابر کی گئیں جو روایتی مدارس اور جدید تعلیمی درس گاہوں کے درمیان پل کا کام دے سکیں۔ بہرحال جدیدیت پرستوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ علما کو ایسی چیزوں سے بے علمی کا طعنہ دے سکیں جن پر حاوی ہونے کا انھیں سرے سے کوئی موقع ہی فراہم نہ کیا گیا۔ جہاں تک دوسرے طبقے کا تعلق ہے، جن کے رویوں کا پچھلے ابواب میں تجزیہ کیا جا چکا ہے وہ یا تو مغربی یونی ورسٹیوں کی پیداوار ہیں یا اسلامی دنیا کی ان یونی ورسٹیوں کی جو کم و بیش مغرب کی نقالی کرتی ہیں۔ اب قصہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا کی یونی ورسٹیاں بجائے خود بحرانی حالت میں ہیں اور یہ بحران تشخص کے سوال سے اُبھررہا ہے کیونکہ ایک نظام تعلیم کا تعلق نامیاتی طور پر اس کلچر سے ہوتا ہے جس کی آغوش میں یہ برسرِ عمل ہوتا ہے۔ایک جیٹ طیارے کو آپ ایشیا یا افریقہ کے کسی بھی ملک کے ہوائی اڈے پر اتار سکتے ہیں اور اسے اس ملک کا حصہ گردانا جا سکتا ہے لیکن ایک نظام تعلیم کو آپ محض درآمد نہیں کر سکتے۔ یہ حقیقت کہ اسلامی دنیا میں جدید جامعات ایک ایسے بحران سے دوچار ہیں جو مغرب میں موجود جامعات کے بحران سے مختلف ہے، بذات خود اس دعوے کا ثبوت ہے۔ اس بحران کا ہونا فطری تھا کیونکہ مقامی اسلامی کلچر ابھی زندہ ہے۔ مزید یہ کہ بحران زیادہ تر ان لوگوں کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے جو ان جامعات میں تعلیم پاتے ہیں اور جنھیں عام طور پر ’’طبقۂ دانشوراں‘‘ Intellegensia کا نام دیا جاتا ہے۔ ’’انٹلکچوئل‘‘ کی طرح یہ اصطلاح بھی نہایت بد قسمت رہی ہے کیونکہ یہ جن لوگوں سے خاص ہے انھیں اکثر و بیشتر ’’دانش‘‘ کی ہوا بھی نہیں لگی لیکن بہرحال انھیں جس نام سے بھی پکارا جائے ان میں سے اکثر میں جو مغربی طرز کی جامعات کی پیداوار ہوتے ہیں ایک بات مشترک ہوتی ہے: ہر مغربی چیز کی شدید للک اور ان چیزوں کے سلسلے میں احساسِ کمتری جن کا تعلق اسلام سے ہو۔ متعدد جدید ذہن کے مسلمانوں کا مغرب کے مقابلے میں یہ احساس کمتری، جو مسلمانوں کے علاوہ ان جدیدیت زدہ ہندوئوں، بدھوں اور ان دیگر مشرقیوں کے یہاں بھی عموماً پایا جاتا ہے جو بت پرستی کی جدید شکلوں کی آشفتہ مغزی Psychosis کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ مرض عظیم ہے جو اسلامی دنیا کو درپیش ہے اور وہ اسی گروہ کو سب سے زیادہ دق کر رہا ہے جس کے بارے میں توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ مغرب کے چیلنج کا مقابلہ کر سکے گا۔ چنانچہ اسلام کی مغرب کے ساتھ مبارزت کا مسئلہ اس وقت تک زیر بحث نہیں آ سکتا جب تک اس ذہنیت کو نگاہ میں نہیں رکھا جاتا جو بیشتر صورتوں میں جدید یونی ورسٹی تعلیم کی پیدا وار ہے۱؎ ___ ایک ایسی ذہنیت جو پچھلی صدی میں اکثر و بیشتر ان معذرت خواہانہ اسلامی ’’تصانیف‘‘ کی ذمہ دار ہے جو اسلام اور مغرب کے تصادم سے متعلق ہیں۔۲؎ اسلام اور مغرب کے تصادم سے پیدا شدہ بحران کے سلسلے میں اس معذرت خواہانہ، جدیدیت زدہ رویے میں کوشش یہ ملتی ہے کہ مغرب کے چیلنج کے جواب میں کھینچ تان کر کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کر دیا جائے کہ اسلام کا یہ اور وہ عنصر مغرب میں اس وقت رائج فلاں فلاں صورت سے مطابقت رکھتا ہے جب کہ اسلام میں موجود بعض دیگر عناصر کے سلسلے میں، جن کے لیے تخیل کی طویل اُڑان کے باوجود مغرب سے کوئی مثال دستیاب نہ ہو سکی ہو، صرف یہ کَہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ یہ غیر اہم ہیں یا پھر مابعد کے غیر متعلق الحاقات۔۳؎ اسلامی عبادات کی صحت بخش نوعیت اور پیغام اسلام کے مساویانہ کردار کو ثابت کرنے کے لیے لاطائل مباحث پیش کیے گئے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ چیزیں خود اسلام کے کلی پیغام کے وسیع تناظر میں دیکھے جانے پر درست ہیں بلکہ اس لیے کہ ’’حفظانِ صحت‘‘ اور’’مساوات‘‘ کے خیالات اس وقت مغرب کے مسلمہ افکار و معیار مانے جاتے ہیں یا کم از کم یہ کہ ہپی تحریک سے قبل مانے جاتے تھے۔ اس قسم کی واضح اور آسانی سے قابل دفاع خصوصیات کی توثیق کرکے، ان معذرت خواہوں نے مغرب کے کلی چیلنج سے صرفِ نظر کرنے کی کوشش کی ہے جس کے باعث اسلام کا قلب خطرے میں پڑ گیا ہے اور دشمن کے غصے کو کم کرکے اس خطرے کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ جب سرجری کی ضرورت ہو تو ایک نشتر ناگزیز ہو جاتا ہے جس کی مدد سے فرسودہ حصے کو الگ کیا جا سکے۔ اسی طرح جب باطل مذہبی صداقت کی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہا ہو تو اس صورت میں کوئی شے تنقید اور تنقیح کی تلوار کا بدل نہیں ہو سکتی۔ کوئی شخص بھی باطل سے صلح کرکے اور اسے اپنا دوست بتاکر اس کے منفی اثر کو زائل نہیں کر سکتا۔ یہ معذرت خواہانہ طرز فکر اس صورت میں اور زیادہ افسوسناک ہو جاتا ہے جب یہ اپنا رشتہ فلسفیانہ اور فکری سوالات سے جوڑتا ہے۔ جب ہم اس قسم کا معذرت خواہانہ لٹریچر پڑھتے ہیں جو اس صدی کے آغاز میںزیادہ تر مصر اور برصغیر ہندوستان میں پیدا ہوا اور جس میں مذہب اور سائنس کے سلسلے کے انتہائی فرسودہ اور مردہ مباحث کی جگالی کی جاتی تھی جو وکٹورین انگلستان اور اسی دور کے فرانس میں ہوتے تھے اور اب اہمیت کھو چکے تھے تو اس قسم کے لٹریچر کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے جو اصل میں مغرب کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا بلکہ اس وقت سے لے کر اب تک کے گزرنے والے دسیوں سالوں کے تناظر میں تو ایسا لٹریچر اور بھی فرسودہ لگنے لگا ہے۔بہرحال اُس زمانے میں روایتی علما کی ٹھوس آواز سننے میں ضرور آ جاتی تھی جنھوں نے اپنے استدلال کو وحی الٰہی کے غیر مبدل اُصولوں پر ڈھال کر مذہبی سطح پر ان چیلنجوں کا جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ بے شک وہ ان مباحث میں کارفرما مشہور فلسفیانہ اور مجرد افکار سے زیادہ واقفیت بھی نہ رکھتے تھے۔ یہ آواز نابود تو نہیں ہوئی لیکن رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور اس کے مقابلے میں جدید یت پرستوں کی آواز بلند سے بلند تر اور جاری ہوتی چلی گئی۔ اس واقعہ نے آج یہ افسوسناک صورت حال پیدا کر دی ہے کہ پڑھے لکھے طبقوں میں جدیدتہذیبِ مغرب کے انتہائی گرم جوش وفاع کرنے والے عملاً وہ لوگ ہیں جو مغرب زدہ مشرقی ہیں۔ آکسفورڈ اور ہار ورڈ میں پڑھنے والے انتہائی ذہین طالب علم بھی تہذیب مغرب اور اس کے مستقبل کے معاملے میں اتنے پُر اعتماد نہیں جتنے یہ ہمارے مغرب زدہ مشرقی جنھوں نے کچھ عرصے سے اپنا سب کچھ جدیدیت کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اب انھیں اپنے بت کی مکمل شکست و ریخت کے امکان کا اچانک سامنا ہے۔ چنانچہ وہ اب اس بت سے چمٹنے کے لیے ہر طرح ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ جدیدیت زدہ مسلمانوں کے لیے خصوصاً ان مسلمانوں کے لیے جو ان میں زیادہ انتہا پسند ہیں اسلام کا ’’حقیقی مفہوم‘‘ ادھر کچھ عرصہ سے وہ ہو چلا ہے جو انھیں مغرب نے پڑھایا ہے۔ اگر ’’نظریۂ ارتقا‘‘ کا چلن ہے تو سچا اسلام ارتقائی ہے۔ اگر سوشلزم کاکوس بج رہا ہے تو پھر اسلام کی ’’حقیقی تعلیمات‘‘ سوشلزم ہی پر مبنی ہیں۔ اس ذہنیت اور اُس ذہنیت کے نتیجے میں پیدا شدہ تصنیفات کا شعور رکھنے والے لوگ اس کی ممیاتی ہوئی، غلامانہ اور جامد فطرت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اور تو اور قانون کے میدان میں بھی بارہا ایسا ہوا کہ قطعی غیر اسلامی بلکہ دشمن اسلام قوانین کو آغاز میں بسم اللہ اور آخر میں بہ نستعین کا اضافہ کرکے اپنا لیا گیا جب کہ ان دونوں مقدس کلمات کے درمیان پایا جانے والا مواد کسی نہ کسی مغربی ضابطۂ فوجداری و دیوانی سے ماخوذ بلکہ نقل شدہ تھا۔ اب اچانک اس گروہ کی آنکھوں کے سامنے جو مغرب کی پیروی میں اپنی روح کا سودا کرنے کی سوچ رہا تھا،خود اسی مغربی تہذیب کی لڑ کھڑاہٹ کا ناقابل یقین منظر گھوم رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ کتنا درد ناک منظر ہو گا؟ چنانچہ وہ تمام حقائق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مغربی نظامِ اقدار کے دفاع کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور ان مغربی مفکرین پر غضب ناک ہو جاتے ہیں جنھوں نے خود جدید مغرب کو ہدف تنقیدبنانا شروع کر دیا ہے۔ اگر جدید تہذیب کی یہ واضح ٹوٹ پھوٹ جو جنگ عظیم دوم کے بعد زیادہ کھل کر سامنے آنے لگی تھی، پہلی عالمی جنگ کے بعد ہی واضح ہو کر سامنے آ جاتی جب ابھی ایشیا کی روایتیں کہیں زیادہ محفوظ تھیں تو امکان غالب ہے کہ ان روایتی تہذیبوں کا کہیں زیادہ حصہ بچا یا جا سکتا تھا لیکن تقدیر کے ہاتھوں نے انسان کے لیے ایک اور رستے کی نقش گری کرنا تھی۔ بہر حال آج کی صورت حال میں بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایک فارسی ضرب المثل کا مفہوم ہے کہ جب تک درخت کی جڑ میں پانی موجود ہے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ روایتی اُصولوں کے مطابق سچی سرگرمی کے منہاج پر کسی مثبت کام کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے اور اسی میں اعلائے کلمۃ الحق اور اس کے مطابق عمل کا انتہائی مرکزی اور واضح کام شامل ہے۔۴؎ جہاں ایمان ہے وہاں مایوسی کی کوئی جگہ نہیں۔ آج بھی اگر دنیائے اسلام میں سچے دانشوروں کا ایک گروہ تشکیل دیا جا سکے جو بیک وقت روایتی بھی ہو اور جدید دنیا سے کاملاً آگاہ بھی تو مغرب کی دعوت مبارزت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور اسلامی روایت کی روح کواس فالج سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے جس کے باعث اس کے دست و بازو خطرے میں ہیں۔ اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ اسلامی دنیا میں اب بھی کیا کچھ بچایا جا سکتا ہے یہ بات یاد رکھنا کافی ہوگا کہ مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت اب بھی اسلامی تہذیب کو ایک زندہ حقیقت سمجھتی ہے جس میں وہ جیتی ہے سانس لیتی ہے اور دم دیتی ہے۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اسلامی تہذیب حال کا حوالہ ہے، ماضی کا واقعہ نہیں۔ وہ لوگ جو اس تہذیب کو صرف ماضی کا حوالہ سمجھتے ہیں اس مختصر مگر غلغلہ خیز اقلیت کا جزو ہیں جو دنیائے روایت میں زندہ نہیں ہیں اور جو اپنے لامرکز ہونے پر تمام مسلم معاشرے کو لا مرکز قیاس کیے بیٹھے ہیں۔ اس صورت حال میں المیہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں من و عن یہ نقطۂ نظر کہ یہ تو ماضی کا حوالہ ہے اکثر و بیشتر ان لوگوں کا ہے جو دنیائے اسلام کے متعدد ملکوں میں ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں اور لوگوں کے ذہنوں اور نفوس بڑا گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔ ایسا اثر جو ان کی قلیل تعداد کے مقابلے میں ناروا حد تک بڑھا ہوا ہے کئی اسلامی ممالک میں یہ لوگ جو ریڈیو، ٹیلی وژن اور رسائل جرائد کے ذرائع پر قابض ہیں، ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں اسلامی تہذیب انھیں صرف ماضی کی ایک شے نظر آتی ہے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ مغرب کے سحر کے اس قدر اسیر ہو چکے ہیں کہ مغربی نقطۂ نگاہ کے علاوہ کسی اور زاویۂ نگاہ سے چیزوں کو دیکھنا ان کے لیے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا، خواہ یہ دوسرا زاویۂ نگاہ عین ان کے دروازے پر زندہ حقیقت کی صورت ہی میں کیوں نہ موجود ہو۔ تعجب اس امر پر ہے کہ اسلامی دنیا کی اس مغرب زدہ اقلیت نے یہ مقام سیادت اس وقت حاصل کیا ہے جب مغرب مکمل طور پر اپنے لنگر کھو چکا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ اگر کسی سادہ عرب یا ایرانی کاشت کار کو مشرقِ وسطی کے کسی بڑے ائیر رپورٹ پر لا کھڑا کیا جائے اور اسے کہا جائے کہ وہ یورپینوں کوملک میں داخل ہوتے ہوئے مشاہدہ کرے تو اور کچھ نہیں تو صرف لباس کا فرق جو ایک راہبہ اور ایک عملاً عریاں مغربی عورت میں پایا جاتا ہے اس کے سادہ ذہن پر مغربی تہذیب کے مظاہر کی عدم یکسانیت کا احساس مرتسم کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ لیکن یہ سادہ سا منظر بھی ایک مکمل طور پر مغرب زدہ مشرقی کی نگاہ سے چوک جاتا ہے جو اور کچھ نہ بھی ہو بہر حال ایک خوش ارادہ شخص ہوتا ہے لیکن نہیں چاہتا کہ وہ اس تہذیب کی واضح تضادات ہی کا سامنا کر سکے جس کی وہ بڑے چائو سے نقالی کر رہا ہے۔ کئی حلقوں میں اس طرز فکر کے غلبے اور تسلسل کے باوجود پچھلے تیس سالوں میں صورتحال کس قدر بدل کئی ہے۔ دو عالمی جنگوں کے دوران جو مسلمان یورپ گئے وہاں دریائے سین Seine یا ٹیمز کے گنارے اُگے ہوئے درختوں کو عملاً شجر طوبیٰ اور ان دریائوں کو انہار جنت سمجھتے تھے۔شعوری طور پر یا غیر شعور ی طور پر، بہرحال جدیدیت زدہ مسلمانوں کی اس نسل کے اکثر افراد نے اپناتصور بہشت مغرب کو اور کمالات جنت، مغربی تہذیب کو قرار دے رکھا ہے۔ لیکن آج مغرب پر بطور ایک دیوتا کے اندھا دھند اعتقاد اور اس کا یکساں نتیجہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ اب ایسے زاویۂ نگاہ کا امکان اس لیے نہیں رہا کہ پچھلے تیس سالوں میں مغرب کے اندرونی تضادات واضح سے واضح تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ جدیدیت زدہ مسلمانوں کی نئی نسل تہذیب مغرب کے اقدار کی مطلقیت کے بارے میں اتنی پُر اعتماد نہیں رہی جتنے ان کے باپ اور چچا تھے جو ان سے پہلے یورپ ہو آئے تھے۔ یہ بات بجائے خود ایک مثبت رجحان کہلا سکتی ہے۔ اگر یہ جدیدیت کے معروضی اور مثبت جائز ے کا ابتدائیہ بن سکے۔ لیکن اب تک اس صورت حال نے جدیدیت زدہ مسلمانوں کی صفوں میں صرف انتشار کا اضافہ ہی کیا ہے اور صرف یہاں وہاں چند مٹھی بھر ایسے مسلمان علما کو جنم دیا ہے جو اس صورت حال کی نزاکت سے واقف ہیں اور انھوں نے مغرب کی کورانہ تقلید سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اصل مسئلہ ابھی جوں کا توں ہے اور وہ ہے جدید دنیا کی صحیح نوعیت کے بارے میں اس گہرے علم کی کمی جس کی بنیاد اسلامی تہذیب کی میزان پر ہوتی۔ آج اسلامی دنیا میں بہت کم ایسے مستغربین Occidentalists ہیں جو اسلام کے لیے وہ کام انجام دے سکتے جو مستشرقین نے اٹھارویں صدی سے اب تک یورپ کے لیے انجام دیا البتہ دریں صورت انھیں صرف اس کام کے مثبت پہلو سر انجام دنیا ہوں گے۔۵؎ جدیدیت زدہ مسلمانوں کی تہذیب مغرب پر ایمان مجروح ہو چکا لیکن اس کے باوجود مسلمان اب تک افکار اور مادی اشیا کے معاملے میں مغرب کے دست نگر ہیں۔ چونکہ جدیدیت زدہ مسلمانوں کو اپنی فکری روایت پر اعتماد نہیں اسی لیے وہ ایک سادہ تختی کی طرح مغرب سے کسی نقش کی آمد کے انتظار میں ہیں۔ مزید یہ کہ اسلامی دنیا کا جو حصہ مغرب کے جس جس حصے سے فکری طور پر متصل رہ چکا ہے وہاں وہاں سے اسے افکار کی رنگا رنگ گٹھڑیاں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر عمرانیات کے میدان یا جیسا کہ پہلے کہا گیا فلسفہ کے میدان میں، برعظیم ہندوستان نے پچھلی صدی سے انگریزی دبستانوں کی پیروی کی ہے اور ایران نے فرانسیسی مکاتبِ فکر کی۶؎ لیکن جدیدیت زدہ طبقے اس امید میں بیٹھے ہیں کہ کہیں سے کوئی بھی چیز چہرہ نما ہو، تاکہ یہ اسے اختیار کر سکیں۔ ایک دن یہ شے ’’اثباتیت‘‘ ہو سکتی ہے اور اگلے ہی روز سڑکچرل ازم (ساختیات) کوئی شخص بھی اس بات کی زحمت نہیں اُٹھاتا کہ وہ صحیح اسلامی طرز فکر کو اپنا سکے جو ایک غیر متبدل مرکز سے آغاز کار کرے اور ایک معروضی طریقہ کار کو کام میں لاتے ہوئے ہر اس شے کی تحقیق و تفتیش کرے جو مغرب کی آندھی ہمارے رستے میں لا ڈالتی ہے۔ ہماری فکری فضا اتنی ہی مایوس کن ہے جتنی عورتوں کے فیشن کی فضا۔جہاں اکثر اسلامی ممالک کی عورتیں بحیثیت سعادت مندگاہکوں کے مکمل طور پر منفعل رہتی ہیں اور ہر اس شے کی اندھا دھند تقلید کرتی ہیں جو مٹھی بھر مغربی فیشن سازان کے لیے فیصلہ کرکے بنا ڈالتے ہیں۔ لباس کے فیشن اور فلسفیانہ اور فنی فیشن طرازی کے مسئلے دونوں میں جدیدیت زدہ مسلمانوں کا اس مرکز میں کوئی عمل دخل نہیں جہاں فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ خود اہل مغرب ان تحریکوں کی گہری جڑوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں جو مغرب میں یکے بعد دیگرے چلتی رہتی ہیں مثلاً آج سے بیس سال پہلے خود یورپ میں کسی شخص کو یہ احساس نہیں تھا کہ ہپیوں کی ایک ایسی زبردست تحریک اُٹھے گی جو مغرب میں دور دور تک پھیل جائے گی۔ لیکن بیچارے جدیدیت زدہ مسلمان تو اس دھارے سے اور بھی دور ہیں کیونکہ وہ نہ صرف یہ کہ اس کی اصل وبنیاد سے ناواقف ہوتے ہیں بلکہ ایسی تحریکوں کے آغاز و ارتقا کے مراحل سے بھی نابلد ہوتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں حتیٰ کہ یہ تحریکیں صدر نشین ہو جاتی ہیںاور پھر یا تو وہ حیرت سے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں یا پھر دوبارہ اسی کورانہ تقلید کے دھارے میں بَہ نکلتے ہیں۔ اس صورت حال کی ایک موزوں ترین مثال ماحولیاتی بحران کی ہے۔ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر بیٹھے رہے حتیٰ کہ مغربیوں کی ایک کثیر تعداد کے لیے یہ بحران ایک مرکزی تشویش کا باعث بن گیا اور ہمیں اس مسئلے کی موجودگی کی خبر بھی نہ تھی بلکہ اب بھی عالم اسلام کے کتنے لوگ اس اہم مسئلے پر فطرت سے متعلق اسلام کی انتہائی عظیم روایت کی روشنی میں غور کر رہے ہیں؟ حالانکہ اگر ایسا کیا جاتا تو اس عظیم بحران کے ممکنہ حل کے لیے کلید دستیاب ہو سکتی ہے۔۷؎ مغرب کی جانب سے اسلام کو دیے گئے چیلنجوں پر زیادہ ٹھوس گفتگو کرنے کے لیے ان چند ازموں کی مثالیں پیش کرنا ضروری ہیں جو آج کی دنیا میں فیشن کے طور پر چل رہے ہیں اور جنھوں نے اسلامی دنیا کی تہذیبی اور دینی زندگی کو بھی شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ آئیے مارکسزم یا زیادہ عمومی لفظوں میں ’’سوشلزم‘‘ سے بات کا آغاز کریں۔۸؎ آج دنیائے اسلام کے متعدد حصوں میں مارکسزم پر خاصی گفتگوچل رہی ہے۔ یہ گفتگو اگرچہ براہ راست اسلام پر حملہ آور نہیں ہوتی لیکن معاشی اور سماجی سرگرمی تو ایک طرف خود مذہبی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ دنیائے اسلام میں جو لوگ عموماً مارکسزم یا سوشلزم کی بات کرتے ہیں وہ معاشرے کے بعض موجودمسائل کو ذہن میں رکھ کر گفتگو کرتے ہیں جن کے حل وہ تلاش کرنا چاہتے ہیں لیکن شاذ ہی ان میں ایسے لوگ ہوں گے جو واقعتا مارکسزم یا نظری سوشلزم سے سنجیدگی سے واقف بھی ہوں گے۔ یونی ورسٹی کے حلقوں میں نوجوانوں کی مارکسزم کے باب میں ساری گفتگو کے باوجود حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ان میں کتنے ہیں جنھوں نے واقعتا ’’داس کیپٹیال‘‘کا مطالعہ کیا ہو گا یا چند اہم ثانوی منابع ہی تک جن کی رسائی ہوئی ہوگی یا وہ خالص فکری سطح پر مارکسزم کا دفاع کرنے کے قابل ہوں گے؟ اس مارکسی فیشن کی وجہ سے کئی نوجوان مسلمانوں کے ہاتھ ایک بہانہ آگیا ہے۔ چنانچہ وہ اسلامی معاشرے کے مسائل پر خاص اپنے سماجی تناظر میں اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق سنجیدگی سے سوچنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس صندوق سیاہ کو یہ جانے بغیر کہ اس کے اندر کیا ہے محض اس کی لیبل کی بنیاد پر قبول کر کے اپنی انا کے غبارے میں تو ہوا بھری جا سکتی ہے اوراپنے ذہن کو اس فریب نظر کا اسیر تو کیا جا سکتا ہے کہ ہم ’’دانشور‘‘ بن گئے ہیں اور آزاد خیال دانشوروں کے حلقے کی رکن ہوگئے ہیں لیکن ان دانشوروں نے جو ہر قسم کے مسائل کے حل کے لیے پہلے سے متعینہ مارکسی اُصولوں کی، جو اصل میں دوسرے ملکوں کے خصوصی سماجی و تہذیبی تناظر میں وضع کیے گئے تھے، پیروی کرتے نہیں تھکتے، کبھی یہ ذمہ داری قبول نہیں کہ وہ ایک اسلامی معاشرے کے مسائل پر بحیثیت ایک اسلامی معاشرے کے مسائل کے، نئے طریقے سے غور کریں۔ مارکسزم گٹھڑی کی یہی کورانہ تقلید ہے جو یہ جاننے ہی نہیں دیتی کہ اس کے اندر کیا ہے۔ یہ اسپرین کی ٹکیہ سمجھ لی گئی ہے جو ہر درد کا مداوا ہے چنانچہ اس کورانہ تقلید ہی نے بدترین قسم کی بازاری لیڈری کو جنم دیا ہے۔ مسائل کو معنی خیز اور معقول انداز میں سمجھنے کے بجائے، مارکسزم کا اسیر ہو جانے والوں کے یہاں ایک ایسی اندھی ٹھس اور گھامڑ قسم کی اطاعت پیدا ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ ایک بے ہودہ محاذ آرائی کی شکل میں نکلتا ہے اور بالآخر یہ اس ذہنی فالج پر منتج ہوتی ہے جس سے اسلامی سوسائٹی کے نوجوان کو ناقابل بیان نقصان پہنچتا ہے۔ ایمان کو پہنچنے والے صریح نقصان کا تو کیا مذکور! بدقسمتی سے مسلمان علما کی طرف سے جدلیاتی مادیت کا جو جواب اب تک دیا گیا ہے وہ کم و بیش ان دلائل پرمشتمل ہے جو نقلی علوم یا مذہبی علوم سے ماخوذ تھے اور اس بات میں اسلام کی اس ثروت مند فکری روایت سے اخذ و استفادہ نہیں کیا گیا جو اسلام کے روایتی عقلی علوم میں موجود تھی۔۹؎ اب یہ بات تو واضح ہے کہ مذہبی دلائل تو صرف ان لوگوں کے سامنے پیش کیے جا سکتے ہیں جو پہلے سے ایمان والے ہوں۔ اس کا کیا فائدہ کہ کسی ایسے شخص کے کسی خیال کو رد کرنے کے لیے قرآن کا کوئی خاص حصہ پڑھ دیا جائے جو قرآن سے سند لینے کا قائل ہی نہ ہو؟ اس باب میں علما کی لکھی ہوئی اکثر کتابیں تنقید کی زد میں آتی ہیں کیونکہ یہ بہرے کانوں سے خطاب کرتی ہیں اور ایسے دلائل پیش کرتی ہیں جو اس خاص تناظر میں کوئی تاثیر نہیں رکھتے۔ یہ امر اس لیے اور بھی زیادہ افسوسناک ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلامی روایت میں ایسا عمق اور وسعت موجود ہے کہ یہ جدید مغربی فلسفے کی اُٹھائی ہوئی کسی بھی دلیل کا فکری سطح پر جواب دینے کی مکمل طور پر اہل ہے۔ آخر کیا یہ حقیقت نہیں کہ روایتی دانش کے سامنے یہ تمام جدید فلسفہ سوائے ایک شور و غوغا کے کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس کے بل پر خود فریبی میں مبتلا ہو کر یہ آسمانوں کو فتح کرنے چلا ہے؟ آج کے بہت سے نام نہاد مسائل اصل میں غلط سمت میں کیے گئے سوالوں اور صداقتوں سے لا علمی کے باعث وجود میں آئے ہیں اور ان کی نوعیت ایسی ہے کہ انھیں صرف روایتی دانش ہی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ ایسی روایتی دانش جو قدیم بابل سے عہد وسطیٰ کے چین تک موجود ہے اور جو اپنی بے حد آفاقی اور متنوع شکل میں اسلام میں ملتی ہے۔ اس وسیع و عریض فکری روایت میں جو اسلام ان چودہ صدیوں میں وجود میں لایا ہے۔ حال ہی میں اسلام کے لیے مارکسزم کا خطرہ پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے خصوصاً عرب دنیا میں ایک ایسے مارکسزم کی وجہ سے جس پر اسلام کا ملمع چڑھایا گیا ہے اور جو بعض سادہ نفسوں کے لیے خاص کشش کا باعث ہے۔ مذہب کا یہ عیارانہ استعمال، جو اکثر براہ راست سیاسی مقاصد کے لیے ہوتا ہے درحقیقت مذہب دشمن یا کم از کم واضح اور ’’کھرے‘‘ مارکسزم کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے اور یہ رویہ اس طبقے کے فکر و عمل سے ملتا جلتا ہے جسے قرآن نے ’’منافقون‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس صورت میں بھی اس کے سوا اسلام کاکوئی جواب نہیں ہو سکتا کہ اس قسم کے جعلی امتزاجات کا فکری سطح پر توڑ کیا جا سکے اور یہ بات واضح کر دی جائے کہ ہر وہ چیز جس کے آغاز میں بسم اللہ لکھ دی جائے اسلام نہیںبن جاتی بلکہ اسلام نام ہے حقیقت کے ایک مکمل تناظر کا جو کسی قسم کی نیم صداقت سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ اسلام کے لیے ایک اور ازم جو بڑے خطرے کا باعث ہے وہ ہے جس کی اسلام میں مداخلت کی مارکسزم کے مقابلے میں نسبتاً لمبی تاریخ ہے۔ یہ ڈارون ازم یا ’’ارتقائیت‘‘ جس کے اثرات خصوصاً برعظیم ہندوستان کے مسلمانوں میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اور اس کا سبب واضح طور پر وہاں کے نظامِ تعلیم پر برطانوی اثرات کی ہمہ گیری ہے۔ ہم اس سے پہلے ایک موقع پرنظریۂ ارتقا کے خلاف ممتاز عربی ماہرین حیاتیات کے کارناموں کا ذکر کر چکے ہیں۱۰؎ اور یہ ثابت کرنے کے لیے معاصر ماہرینِ بشریات کے ثبوت پیش کرچکے ہیں۱۱؎ کہ انسان، اس وقت سے لے کر جب اس نے ارضی تاریخ کے سٹیج پر پہلا قدم رکھا، آج تک ایک ذرہ برابر بھی ’’ارتقا پذیر‘‘ نہیںہوا لیکن افسوس ہے کہ کم و بیش کسی بھی معاصر مسلمان مفکر نے ان منابع کی طرف متوجہ ہونے اور اسلام کے روایتی تصور انسان کی تقویت کے لیے ان دلائل سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کی۔جدیدیت زدہ مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ ’’ارتقائیت‘‘ کو ایمان کا رکن تصور کرتا ہے اور قرآنی تعلیمات سے اس کے واضح ’’ٹکرائو‘‘ کو محسوس کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقا جو مابعد الطبیعیاتی اعتبار سے نا ممکن اور منطقی طور پر بیہودہ ہے بعض ممالک میں اسلام کے بعض پہلوئوں سے اس نزاکت کے ساتھ گوندھ دیا گیا ہے کہ اس سے نہایت افسوسناک اور بعض صورتوں میں خطرناک امتزاج سامنے آ گیا ہے۔ ہماری مراد صرف اس صدی کے آغاز پر نظر آنے والی قرآن کی سطحی تفسیروں سے نہیں بلکہ اقبال کے سے قد کاٹھ کے مفکر سے ہے جو وکٹورین عہد کے نظریۂ ارتقا اور نٹشے کے ’’مافوق البشر‘‘ دونوں سے متاثر تھے۔ اقبال اسلام کی ایک صاحبِ تاثیر معاصر شخصیت ہیں لیکن بحیثیت ایک شاعر کے ان کا تمام احترام ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کے افکار کا ’’اجتہاد‘‘ کی روشنی میںمطالعہ کرنے کی ضرورت ہے وہی ’’اجتہاد‘‘ جس کی اقبال خود تبلیغ کرتے تھے۔ انھیں ایک اونچے سنگھا سن پر بٹھانے کی یقینا ضرورت نہیں۔ اگر ان کے افکار کا احتیاط سے تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں بعض اشیا کے معاملے میں بیک وقت محبت و نفرت کی کشا کش تھی، بشمول تصوف کے ساتھ ان کے محبت و نفرت کے رویے کے۔ وہ رومی کی تعریف کرتے تھے لیکن حافظ جیسی شخصیت کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک طرف تو صوفیانہ یا زیادہ عمومی معنوں میں، انسان کامل کا اسلامی تصور اپنی جانب کھینچتا تھا اور دوسری جانب نیٹشے کا فوق البشر کا تصور حالانکہ یہ دونوں تصورات ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں۔ اقبال نے شاید ان دونوں کو مخلوط کردیا۔ ان سے یہ غلطی اس لیے سرزد ہوئی کہ اسلام کے بعض پہلوئوں کے گہرے ادراک کے باوجود انھوں نے اپنے وقت کے رائج نظریہ ارتقا کو بڑی سنجیدگی سے اپنا لیا۔ اصل میں ایک زیادہ واضح اور قابل فہم سطح پر اقبال ایک ایسے رجحان کا اشاریہ فراہم کرتے ہیں جو کئی جدید مسلمان لکھنے والوں کے یہاں ملتا ہے جو بجائے ’’ارتقائیت‘‘ کی غلطیوں اور نارسائیوں کا جواب دینے کے معذرت خواہانہ انداز میں چاروں شانے چت ہو کر اسے نہ صرف قبول کر لیتے ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی بھی اس کے مطابق تاویل کرتے ہیں۔۱۲؎ ارتقائی ذہنیت سے متاثر ہونے والے مسلمانوں کا عام رجحان یہ ہے کہ وہ اسلام کا تصور مرور ِ زمان بھول جاتے ہیں۔ ۱۳؎ قرآن حکیم کے آخری پارے جن میں مابعدا لموت اور معاد اور اسی قبیل کے دیگر مباحث اور بنی نوع انسان کے آخری ایام کی تفصیل ملتی ہے یا بھلا دیے جاتے ہیں یا ان کے بارے میں سکوت اختیار کر لیا جاتا ہے۔ وہ تمام احادیث جو آخری دور اور مہدی کے ظہور سے متعلق ہیں یا تو پس پشت ڈال دی جاتی ہیں یا ان کی غلط تاویل کی جاتی ہے۔ صرف حضور اکرمؐ کی ایک حدیث ہی لے لیجیے جس میںیہ ارشاد ہوا ہے کہ مسلمانوں کی بہترین نسل وہ لوگ ہیںجو میرے معاصر ہیں۔ پھر بعد کی نسل کے پھر اس کے بعد کی نسل کے الیٰ آخر الزمان۔ یہ حدیث اسلامی نقطۂ نگاہ کے مطابق سیدھی لکیر کے ارتقا اور تاریخی ارتقا کو رد کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ لوگ جو یہ سمجھنے بیٹھے ہیں کہ ارتقائی نظریات کو جو عہد موجود میں جس طرح سمجھے جاتے ہیں اسی طرح اسلام کی فکریات میں شامل کرکے اسلام کی کوئی خدمت بجا لا رہے ہیں وہ حقیقتاً ایک انتہائی مہلک گڑھے میں گر رہے ہیں اور اسلام کی جدید انسان کے ایک انتہائی مکارانہ خود ساختہ عقیدے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ وہ نظریہ جو اٹھارویں اور اُنیسویں صدی میں انسان کو خدا فراموشی کا بہانہ فراہم کرنے کے لیے گھڑا گیا تھا۔ مزید برآں ارتقا کے نظریے کو قبول کرنے سے ہماری روز مرہ زندگی کو ایسے کھلے متضاد خیالات کا سامنا کرنا پڑے گا جنھیں حل کرنا آسان نہ ہوگا۔ اگراشیا خود بخود بہتر کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں تو پھر اصلاح و فلاح میں اپنی کوششیں کیوں کھپائی جائیں؟ کیونکہ اشیا توبہرحال خود بخود بہتر ہوتی چلی جائیں گی اور تو اور تحرک و فعالیت Dynamismکا وہ فلسفہ جس کا جدیدیت پرست پرچار کرتے رہتے ہیں وہ ارتقا کے عمومی طور پر مقبول نظریے کے متضاد ٹھہرتا ہے۔ پھر اگر ایک اور نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ اگر کوشش محنت، حرکت اور اسی قبیل کے دوسرے افعال جن کی عہد جدید میں تبلیغ کی جاتی ہے، موثر ہیں تو اس صورت میں تو انسان اپنے مستقبل اور اپنی تقدیر کو بھی متاثر کر سکتا ہے اور اگر وہ اپنے مستقبل کو متاثر کر سکتا ہے تو پھر وہ اسے بدتر بنانے میں بھی موثر ہو سکتا ہے اور اس صورت میں مختصر یہ کہ خود بخود ہونے والے ارتقا اور ترقی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یہ اور اسی قبیل کے دیگر تنا قضات سے ان کمزور فکری رویوں کے باعث صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے جو ابھی تک اسلام کی طرف سے کوئی ایسا ماورا الطبیعیاتی اور عقلی نوعیت کا جواب فرضیہ ارتقا کے سامنے نہیں لا سکے جو معقول بھی ہو اور معروف بھی۔ ارتقائی فکر کے چیلنج کا معاصر اسلام نے اسی طرح جواب دیا ہے جس طرح مارکسزم کا۔ ان میں سے بعض مذہبی جوابات تو قرآن حکیم کی تعلیمات پر مبنی ہیں لیکن یہ فکری اور عقلی جواب نہیں جن سے ان نوجوان مسلمانوں کی بھی تشفی ہو سکے جن کا قرآن پر اپنا ایمان اس ارتقائی دبستان کے دلائل کے باعث کمزور پڑ گیا ہے۔ دریں اثنا ان ارتقائی مصنّفین کی کتب، جن میں اُنیسویں صدی کے سپنسر جیسے مصنّفین بھی شامل ہیں، اپنے مادرِ وطن میں تو اپنے فلسفیانہ افکار کے مردہ ہو جانے کے باعث نہیں پڑھائی جاتیں لیکن دنیائے اسلام کی دور ونزدیک کی جامعات میں خصوصاً برصغیر ہندوستان میں اب تک پڑھائی جا رہی ہیں۔گویا کہ وہ مغرب کے کسی دبستان کا تازہ ترین، مسلم اور ثابت شدہ سائنسی علم یا انکشاف ہوں۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو حیاتیات میں ہونے والے تازہ ترین ارتقا دشمن انکشافات کے مطالعے یا قبل از ارتقا کے تصور انسان کو تیقن سے پیش کرنے کی زحمت اُٹھا سکیں۔ حالانکہ یہ تازہ ترین خیالات خود مغرب میں بڑی تیزی سے بعض حلقوں میںاپنی جگہ بناتے جا رہے ہیں۔ زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلمان دانشوروں نے کوئی ایسی کوشش نہیں کہ وہ اسلامی مصادر کی مدد سے انسان اور کائنات سے اس کے تعلق کے سلسلے میں اعلیٰ اُصول و نظریات مدون کر سکیں جو مستقبل میں روپذیر ہونے والے انسان اور کائنات سے متعلق کسی بھی نظریے کی پرکھ کے لیے کسوٹی کا کام دے سکیں خواہ وہ ارتقائی ہو یا غیر ارتقائی اور جن اُصولوں کی مدد سے وہ شعور و نور بھی مہیا ہو سکے جس کے سہارے سائنسی حقائق اور محض مفروضات Hypothesis میں اور سائنسی ثبوت اور اس ھدی فلسفیانہ مادیت میں امتیاز کیا جاسکے جو سائنسی حقائق بلکہ مذہبی اعتقاد کا بھیس بدلے پھرتی ہے۔۱۴؎ اسلامی دنیاکو مغرب کے ایک ’’فلسفیانہ چیلنج‘‘ کا سامنا فرائڈ اور ژنگ کے ہاں سائیکی یعنی نفس انسانی کی تعبیر و تشریح کی صورت میں بھی ہے۔جدید نفسیات اورتحلیلِ نفسی کا نقطۂ نظر یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ انسانی شخصیت کے تمام ارفع عناصر کو نفس کی سطح تک محدود کر دے بلکہ اس پر مزید ستم یہ ہے کہ وہ سائیکی کی بھی اس حد تک تخفیف و تحدید کر دیتا ہے کہ اس کا مطالعہ بھی جدید نفسیاتی اور تحلیل کے طریقہ ہائے کار ہی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ابھی تک اس قسم کے طرز فکر نے اپنی سائنسی شکل میں اسلامی دنیا کو اس قدر براہ راست متاثر نہیں کیا جتنا کہ نظریۂ ارتقاے اور ہم کسی بھی ایسے اثر آفریں اور اہم مسلمان لکھنے والے سے واقف نہیں جسے پیروِ فرائڈ یا تابعِ ژنگ کہا جا سکے۔ لیکن بہرحال جلد ہی اس کے اثرات کے بڑھ جانے کا امکان ہے اس لیے اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ مکتبہ فرائڈ اور مغرب کے نفسیاتی اور علاج نفسی کے مکاتبِ فکر اس مخصوص معاشرے کی پیداوار ہیں جو مسلم معاشرے سے بے حد مختلف ہے۔ اس بات کا اعادہ کر لینا بھی ضروری ہو گا کہ فرائڈ وی آنا کا یہودی تھا جو اصلی یہودیت سے برگشتہ ہو گیاتھا۔ کم ہی لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ وہ ایک ایسی تحریک سے منسلک تھا جس کی وسطی یورپ کی راسخ العقیدہ یہودی جماعت خاصی مخالف تھی، اسی لیے وہ یہودی طرز زندگی کے سوادِ اعظم کا مخالف تھا۔ عیسائیت کا تو خیر کیا مذکور! فرائڈ کی طرزِ فکر کا تو مطالعہ بہتیرے لوگ کرتے ہیں لیکن شاذ ہی ایسے لوگ ہیںجو اس کے صحیح منابع تک پہنچتے ہیں جن سے اس کی اصل نوعیت کا انکشاف ہوتا ہے۔۱۵؎ حال ہی میں مشرق کے ایک ممتاز صوفی نے فرانسیسی زبان میں تصوف اور تحلیل نفسی پر مضامین کا ایک سلسلہ رقم کیا ہے اور ان میں دونوں کا موازنہ کیا ہے۔ ان کے تمام وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ بات و ثوق سے کہی جانی جاہیے کہ تحلیل نفسی کی جانب ان کا رویہ حد سے زیادہ نرم اور مشفقانہ ہے حالانکہ تحلیل نفسی اصلاً تصوف کے طریقۂ سلوک و بیعت کی تحریف ہے۔ مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے یہاں ابھی تحلیل نفسی کے اثرات گہرے نہیں ہوئے اور نہ ہی انھوں نے اس کی ضرورت محسوس کی ہے۔ اس کا سبب سب سے بڑھ کر اصل میں روزانہ نمازوں اور حج جیسی مذہبی عبادات کے تسلسل کے باعث ہے۔ دعا، مواعظ اور مذہبی مجالس میں مناجات و عبادات کے بر سر عمل آنے والے معمولات عورتوں، بچوں اور مردوں کی روح کے دروازوں کو وا کر دیتے ہیں تاکہ ان میں الوہی رحمتوں کا دھارا داخل ہو سکے اور یہ معمولات نفس کی بیماریوں کے علاج اور اس کے عقدوں کے حل کا نہایت موثر ذریعہ ہیں۔ عبادات کی یہ صورتیں وہ مقصد حاصل کر لیتی ہیں جو ماہرِ تحلیلِ نفسی حاصل کرنے میں نہ صرف ناکام رہتا ہے بلکہ زیادہ تر صورتوں میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں کیونکہ اس میں اس قوت کی کمی ہوتی ہے جس کا اصل منبع روح ہے کہ یہی روح تنہا نفس انسانی پر حاوی اور متصرف ہو سکتی ہے۔ لیکن تحلیلِ نفسی کی فکر جو تشکک پر مبنی ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں تو ابلیسیت تک پہنچ جاتی ہے، زیادہ تر مغربی ادبیات کے عربی، فارسی، ترکی، اُردو اور دوسری اسلامی زبانوں میں تراجم کے باعث یقینا بتدریج اسلامی دنیا میں نفوذ کر جائے گی۔ ان تراجم کا مقصد اصلاً اس نام نہاد نفسیاتی ادب کو وجود میں لانا ہوگا بلکہ، ’’نفسیاتی ادب‘‘ واقعتا وجود میںلایا بھی جا رہاہے جو اسلام کی فطرت اور مزاج سے مکمل طور پر متصادم ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انفرادی موضوعیت کو رد کرتا ہے۔ اسلام کی نہایت درجہ واضح علامت مسجد ہے جو ایک ایسی عمارت ہے جس کی وسعت میں موضوعیت کے تمام عناصر دم توڑ جاتے ہیں۔ یہ الحق کا ایک معروضی تعین ہے۔ ایک ایسا بلور جس کے اندر رُوح کا نور جھلکتا ہے۔ خود اسلام کا روحانی نصب العین مسلمان کے نفس کو مسجد ہی کی طرح ایک ایسے بلور میں تبدیل کرنا ہے جس میں الوہی نور منعکس ہو سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ ادبِ اسلامی اس موضوعیت زدہ ادب سے نہایت مختلف ہے جو ہمیں فرانزکافکا یا اپنی موثر ترین شکل میں دستوفسکی کی تحریروں میں ملتا ہے۔ یہ اور ان کی قبیل کے دیگر لکھنے والے مغربی ادبیات میں بے حد اہمیت کے مالک ہیں لیکن یہ بشمول بعض دیگر جدید مغربی ادبی شخصیات کے ایک ایسا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں جو اسلامی نقطۂ نظر سے نہ صرف بے حد مختلف ہے بلکہ مکمل طور پر اس کا نقیض بھی ہے۔ قدیم مغربی ادبی شخصیات میں سے جو اسلامی تناظر سے قریب نظر آتی ہیں، ہم سب سے پہلے دانتے اور گوئٹے کا ذکر کر سکتے ہیں جو اگرچہ پکے عیسائی ہیں لیکن بہت سے جہتوں میں مسلمان ادیبوں کے مماثل ہیں۔ دور جدید میں ایک دوسری سطح پرٹی-ایس-ایلیٹ کی مثال دی جا سکتی ہے جو اکثر وہ بیشتر لکھنے والوں کے برعکس ایک پکا عیسائی تھا اور اسی وجہ سے کائنات کا ایک ایسا تصور رکھتا تھا جو اسلام کے نقطۂ نظر سے کا ملاًمختلف نہیں ہے۔ ان لوگوں کے علمی کارناموں کے برعکس، نفسیاتی ناول، اپنی ہیئت کے حوالے سے اور اس کوشش کے ناتے جس کے ذریعے یہ، بغیر کسی کسوٹی کے جس کے ذریعے ’’حق‘‘ کا کھوج بحیثیت ایک معروضی سچائی کے لگایا جا سکے، انسانی نفس میں اُترنے کی کوشش کر رہاہے، ایک ایسا عنصر ہے جو اسلام کے لیے قطعی اجنبی ہے۔ مارسل پروست بے شک فرانسیسی زبان پر استادانہ قدرت رکھتا تھا اور اس کی تخلیق، گزرے وقتوں کی تلاش ان لوگوں کے لیے جو جدید فرانسیسی ادب کے شیدائی ہیں، بہت دلچسپی کا سامان رکھتی ہے لیکن اس قسم کی تحریر کسی بھی صورتِ حالات میں ایک سچے مسلم ادب کے لیے نظیر نہیں بن سکتی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ عین اسی نوعیت کا نفسیاتی ادب اب عربی اور فارسی کے متعدد ادبا کے لیے منبع تلقین و تحریک بن رہا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ ایران کے نہایت معروف جدید ادیب صادق ہدایت نے، جو فرانزکافکا سے شدید طور پر متاثر تھا نفسیاتی مایوسی کے باعث خود کشی کر لی اور اگرچہ وہ واقعتا بڑی ادبی ذکاوت کا مالک تھا لیکن اسلام کے فکری دھارے سے الگ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ایرانی معاشرے میں موجود اسلامی فکریات کے حامل افراد اس کے افکار کے مخالف ہیں۔ دراصل ایسے ادیب، جو مغرب میں پائے جانے والے ایسے نفسیاتی مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے اکثر کو شاں رہتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے ابھی تک تجربہ ہی نہیں بن پائے، مسلم نوجوانوں میں مقبول ہو رہے ہیں جو نتیجتاً ان نئے امراض سے نہ صرف واقف ہو جاتے ہیں بلکہ ان کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ دنیائے اسلام کابدترین موجودہ المیہ یہ ہے کہ حال ہی میں اس میں ایسے افراد نمودار ہو رہے ہیںجو مغرب کے نمایاں امراض و علل کے شعوری نقال ہیں۔ مثال کے طور پر یہ لوگ کسی بددلی اورافسردگی کا شکار نہیں ہوتے لیکن جدید نظر آنے کے لیے کسی نہ کسی طرح خود کو خوارو زبوں فرض کر لیتے ہیں۔ وہ ایسی شاعری کرتے ہیںجو کسی اذیت زدہ اور افسردہ روح کی پکار لگتی ہے حالانکہ وہ اصل میں سرے سے کسی رنج و الم کا شکار ہی نہیں ہوتے۔۔۔۔nihilism سے کیفیت میںبدتر صرف ایک شے ہے اور وہ یہ کہ کوئی شخص نفی وا نکار کے اس رجحان میں مبتلا نہ ہونے کے باوجود اس کی نقالی صرف اس لیے کرے کہ ادب و فن میں مغربی آرٹ کے زوال کا اتباع کیا جا سکے۔ ملحدانہ اور منفی اباحیت زدہ زاویۂ نگاہ سے مل کر اور ادب و فن کے ذریعے اسلامی دنیا میں پھیل کر نفسیات اور تحلیل نفسی کا اثر اسلام کے لیے ایک بڑا چیلنج لے کر آیا ہے جس کا جواب روایتی اسلامی نفسیات اور علاج النفس کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے جو بیشتر تصوف میںموجود ہیں یا پھر اسلامی ادبی تنقید کو معرض تخلیق میں لا کر ممکن ہے جو اس شے کا ایک معروضی جائزہ مرتب کرنے کے قابل ہو گی جسے آج کل ادب سمجھا جانے لگا ہے۔ ادب کے ذریعے اسلامی دنیا میں نفوذ کرنے والے اسلام دشمن نفسیاتی اور فلسفیانہ مغربی افکار کے درجہ اثر کا اندازہ مشرق وسطیٰ کے مختلف شہروں کی جامعات کے نزدیک کے بازاروں میں سے گزر کر بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔زمین یا سٹینڈ پر ہر جگہ پھیلی ہوئی کتابوں کے درمیان اگرچہ اب بھی روایتی مذہبی کتب مل جا تی ہیں خصوصیت سے قرآن حکیم۔ لیکن دیکھنے والے کی نگاہ اسلامی زبانوں میں موجود نسبتاً زیادہ تعداد میںان کتابوں کی طرف بھی جاتی ہے جن کے موضوعات کا دائرہ اشتراکیت وموجودیت سے لے کر ان فحش تحریروں تک پھیلا ملتا ہے جنھیں عموماً ’’ادب‘‘ کا نام دے کر پیش کیاجاتاہے۔ چونکہ اسلام اور اس کی روحانیت ابھی زندہ ہے اس لیے ایسی تحریروں کی تردید یقینا ہوتی رہتی ہے لیکن اس قسم کی تحریروں کا موجود ہونافی نفسہٖ اسلام کے پیش نظر چیلنج کی سنگینی کی وضاحت کرتا ہے۔ جہاں تک nihilismکا تعلق ہے، اس باب میں اسلام کا جواب خصوصیت سے بڑا مضبوط ہے اور ریا کاروں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے خواہ جدیدیت زدہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، nihilismکا اس انداز میں تجربہ کیا ہی نہیں جیسا کہ اہل مغرب نے کیا ہے جس کے نزدیک یہ ایک مرکزی نوعیت کی واردات بن چکا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت میں روح کو کم و بیش ہمیشہ ایک مثبت شکل میں پیش کیا گیا ہے۔… جیسا کہ عیسائیت کا مقدس آرٹ صاف طور پر وضاحت کرتا ہے۔ خلا یا عدم کو عیسوی دینیات اور آرٹ میں ایک روحانی مرتبہ نہیں دیا گیا جیسا کہ مثلاً اسلام یا پھر مشرق بعید میں دیا گیا ہے،۱۶؎ سلبی کی بجائے ایجابی طور پر، چنانچہ عیسائیت کے خلاف بغاوت کے نتیجے میںجدید انسان نے ’’عدم‘‘ کا تجربہ محض اس کے منفی اور خوفناک پہلو سے کیا ہے جب کہ بعض لوگوں کا مشرقی اُصول و عقائد کی طرف میلان اسی وجہ سے ہے کہ یہ عقائد عدم کے اُصول پر زور دیتے ہیں۔ عیسائیت کے برعکس جہاں روح کا ظہور ہمیشہ ایجابی اور مثبت اشکال وصور میں ہوتا ہے اسلامی آرٹ خود ’’نفی‘‘ یا ’’عدم‘‘ کو ایک اثباتی اور روحانی انداز میں استعمال کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مابعد الطبیعیاتی طورپر کلمہ شہادت کا پہلا حصہ نفی سے شروع ہوتا ہے تاکہ وہ اللہ کے مقابلے میں اشیا کی لاشیئیت کی توثیق کر سکے۔ مسلم فن تعمیر میںمکان بنیادی طور پر ایک ’’منفی مکان‘‘ ہے۔ اسلامی فن تعمیر اور شہری منصوبہ بندی میں مکان Space کسی شے کے اردگرد کی جگہ یا خود اس شے کے ذریعے متعین کردہ جگہ سے عبارت نہیں بلکہ یہ وہ جگہ ہے جو مادی صورتوں میں سے قطع کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر روایتی بازاروں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم ایسے کسی بازار سے گزرتے ہیں تو گویا ہم اس مکانِ مسلسل کے درمیان سے گزرتے ہیں جو اس بازار کوگھیرنے والی دیوار کی اندرونی سطح سے متعین ہوتا ہے نہ کہ کسی ایسی شے کے ذریعے جو بازار کے وسط میں ہو۔ یہی وجہ سے کہ فن تعمیر کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کے متعدد شہروں میںجو حادثہ رونما ہو رہا ہے۔ ___ مثلاً کسی چوک کے وسط میں، مغرب کی نقالی کرتے ہوئے، کسی یاد گار کی تعمیر خود اسلامی آرٹ کے اُصولوں کی صریح نفی ہے اور یہ صورت حال اسلامی فن تعمیر میں منفی مکان یا خلا کے مثبت رول کی ناقص تفہیم پر مبنی ہے۔ نفسیات اور تحلیل نفسی کے مسئلے کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہوئے اس بات کا اضافہ ضروری ہے کہ مغرب کی بیشتر تنقید فن میں موجود اس پس منظر نے آرٹ اور ادب کے ذریعے اسلامی سوسائٹی کے بظاہر ایک چھوٹے سے مگر بہرحال اہم حصے میں اس قسم کے طرز فکر کو درآنے پر مجبور کر دیا ہے ___ اسلامی سوسائٹی کا یہ حصہ اہم ان معنوں میں ہے کہ یہ روایتی مسلمانوں کے منفعل گروہوں اور جتھوں کو متاثر اور ان کے میلانات کو متعین کرتا ہے ___ روایتی، اسلامی ادبی ذوق، کلیتہً غیر روایتی افکار کے ذریعے جو ژنگ اور فرائڈ کے دائروں کی پیداوار ہیں، متاثر ہو رہا ہے اور اسلامی اُصول واقدار کی ایک بے حد مرکزی اورسہل الحصول منہاج کے لیے خطرے کا باعث بن گیا ہے۔ مزید برآں اس بات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ فرائڈی نفسیات کی نسبت ژنگی نفسیات اس وجہ سے زیادہ خطرناک ہے کہ بظاہر تو یہ ظواہر کی دنیا سے ورا اور عالم قدس سے متعلق لگتی ہے جب کہ درحقیقت یہ اقلیمِ روح اور میدانِ نفس کو گڈمڈ کر کے عالمِ قدس کے تصور کو دھندلا رہی ہے اور اعیانِ ثابتہ Archetypes کے منور اور ماورائی منبع کی تخریب کرتے ہوئے اسے اجتماعی لاشعور کی پیدا وار بتاتا ہے جس کی حیثیت مختلف اقوام اور تہذیبوں کے اجتماعی نفس کے گھورے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اسلامی مابعد الطبیعیات، دیگر تمام سچی مابعد الطبیعیات کی طرح، اس قسم کی کافرانہ تخریب کاری کی شدید مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ اس ناسوتی تحلیل نفسی کے طریقہ ہائے کار کی بھی کلیتہً مخالف ہے جو جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہے، صوفیانہ طریقوں کی تحریف کے سوا کچھ نہیں، لیکن آج کے معاصر مسلمانوں میں کتنے مائی کے لال اس بات پر آمادہ ہیں کہ وہ کھڑے ہو کر اپنے بنیادی اختلافات سامنے لا سکیں، بجائے اس کے کہ ان اختلافات سے صرف نظر کی کوشش کریں تاکہ دنیائے جدید اس کی بنیادی کجرو یوں اور ان کے نتیجہ میںپیدا ہونے والی برائیوں سے مصالحت کی جا سکے۔ اسلام کو درپیش ایک اور چیلنج جو دوسری جنگ عظیم کے بعد منظر عام پر آیا ہے، وہ فکر اور رویوں کی تحریکات کے اس تمامتر سلسلے کی صورت میں ہے جسے سہولت کی خاطر موجودیت Existentialism کے تحت رکھا جا سکتا ہے۔ یہ مسلمانوں تک پہنچنے والی مغربی فکریات کی جدید ترین رَو ہے جس نے بعد میں مختلف قسم کی اثباتیت Positivism کو جنم دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودیت کی کئی شاخیں ہیں جس کا سلسلہ جرمن فلسفیوں کی Existinz Philosophie سے جبریل مارسل کے موحدانہ فلسفے تک اور وہاں سے سارتر اور اس کے متبعین کے تشکیکی اور ملحدانہ افکار پر منتہی ہوتا ہے۔ فلسفے کی یہ قسم جو اس صدی کے آغاز میں براعظم یورپ میںشروع ہوئی اب تک کئی یورپی ممالک میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس نے مسلمان ممالک کو شدت سے اپنی لپیٹ میں نہیں لیا لیکن ادھر پچھلے چند سالوں کے دوران یہ فلسفہ، جو صریحاً ایک منفی اثر ہے، آرٹ اور زیادہ بلا واسطہ طور پر فلسفیانہ تحریروں کے ذریعے ان چند مسلمانوں کو متاثر کر رہاہے اور یوں اپنے وجود کا اعلان کر رہاہے جو فلسفے یا تفکر کی زندگی سے متعلق ہیں۔ اس مدرسۂ فکر میں پڑھائے جانے والے فلسفے کا بیشتر حصہ چونکہ مابعد الطبیعیات دشمنی پر مبنی ہے اور مزید یہ امر کہ یہ وجود کے روایتی فکریات میں پائے جانے والے مفہوم کو بھول چکا ہے جو اصل میں تمام فلسفہ اسلامی میں مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، سو ایسی صورت میں موجودیت کا پھیلائو خصوصاً اپنے تشکیکی کردار کے حوالے سے،اسلام کی فکریاتی زندگی کے مستقبل کے لیے ایک بے حد مہلک خطرہ ہے۔ مزید یہ کہ بعض حلقوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ خود اسلامی فلسفے کی مغربی طریقہ ہائے تفکر کی روشنی میں توجیہ و تعبیر کی جائے اور اس ذیل میں جدید ترین طریقِ توجیہ یہی موجودیت ہے۔ مسلمان ’’دانشور‘‘ اس خطرناک صورتِ حال کے لیے براہ راست مورد الزام ہیں۔ عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ بدعت تقلید کی بھی انتہائی احمقانہ اور نہایت اندھی صورت ہے۔۱۷؎ اگر اس قسم کی توجیہ و تعبیر کا سلسلہ جاری رہا تو مسلمانوں کی نئی نسل کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔ آج مسلم ممالک میںہر جگہ یہ صورت نظر آ رہی ہے کہ لوگ اپنے ماضی کے فلسفہ و فرہنگ کو مغربی ذرائع سے سیکھ اور جان رہے ہیں۔ ان ذرائع میں سے یقینا کافی ایسے ہوںگے جن میں مفید معلومات پائی جاتی ہوں گی اور وہ طلب علم کے نقطۂ نظر سے مفید ہو سکتے ہیں لیکن ایسی کم و بیش تمامتر تحریریں ایک غیر مسلم کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہیں۔ اپنے وسیع تر معنوں میں فکر و فلسفہ کے میدان میں جن ممالک نے خاص طور پر نقصان اُٹھایا ہے، وہ ایسے ممالک ہیں جو اپنی جامعات میں انگریزی یا فرانسیسی کو بطور ذریعہ تعلیم استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان، ہندوستان کے مسلم علاقے، ملائشیا، نائجیریا، یا پھر اسلامی مغرب یعنی مراکش اور تیونس۔ سامراجیت دشمنی کی تمام تقریریں ایک طرف لیکن حقیقت یہی ہے کہ ذہنی استعمار پر جو اصل میں سامراجیت کی بدترین صورت ہے،قابو پانے اور اپنے کلچر کی تلاش اور تفتیش، خصوصاً اپنے نقطۂ نظر سے اس کے روحانی اور فکری مرکز کے مطالعہ و تحقیق کے باب میں مسلمانوں نے بے حد تاخیر کر دی ہے۔ اگر خدانخواستہ کہیں ایسے مسلمان بھی پائے جاتے ہوں جو اپنے فکری ورثے کے بعض پہلوئوں کو رد کرنا چاہتے ہوںتو انھیں بھی پہلے اس ورثے کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ لیکن کسی بھی شے کا ردو قبول علم پر مبنی ہونا چاہیے اور لا علمی کوئی بہانہ نہیں خواہ کوئی شخص کوئی سی بھی سمت اختیار کرنا چاہیے۔ جس چیز کا کسی شخص کو علم ہی نہیں وہ اسے رد نہیں کر سکتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے بغیر گہرے علم کے کسی چیز کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ آخر جو شے آپ کے قبضے ہی میں نہیں آپ اسے کیسے کہیں پھینک ماریں گے؟ یہ ایک بالکل سادہ سی سچائی ہے مگر اسے آج کل اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ چند برس گزرے دھیان بدھ مت کے ایک معروف گرو ایک ممتاز مغربی یونی ورسٹی میں گئے۔ ان کے لیکچر کے بعد ایک گریجویٹ طالب علم نے سوال کیا کہ : کیا یہ درست ہے کہ بدھ مت کے گرو یہ سمجھتے ہیں کہ بدھ مت کی پستکیں جلا ڈالنا چاہییں اور بدھ کے مجسمے اُٹھا کر پھینک دینا چاہییں؟ گرو مسکرائے اور جواب دیا:ہاں بھئی درست ہے مگر کاغذ صرف وہ جلایا جا سکتا ہے جو آپ کی ملکیت ہو اور مجسمہ وہی اُٹھا کر پھینکا جا سکتا ہے جو آپ کے پاس ہو۔ جواب بہت گہرا تھا۔ گرو کی مراد یہ تھی کہ دین کی نری ظاہری جہت سے صرف اسی صورت میں اوپر اُٹھنا ممکن ہے جب آپ ظاہرِ دین پر عامل ہوں اور بعدازاں اس کے داخلی معانی تک رسوخ حاصل کریں اور اس کی ظاہری صورتوں سے اوپر اُٹھ جائیں۔ جو شریعت کا پابند نہ ہو اس کے لیے اس سے آگے دیکھنے کی کوئی امید نہیں۔ ورنہ صرف شریعت سے بھی محروم رہ جاتا ہے بلکہ اس حرماں نصیبی کو تمام رسوم وقیود سے ماورا ہونے کے مترادف جانتا ہے۔ اس کا اطلاق ایک اور سطح پر انسان کی روایتی عقلی میراث پر بھی ہوتا ہے۔گزرے وقتوں کے حکما اور اہل دانش کی تعبیرات سے ’’آگے‘‘ بڑھنے کا کوئی امکان نہیں، اگر ان کا فہم ہی موجود نہ ہو۔ جو شخص یہ کرنے کے لیے کوشاں ہو وہ بے چارہ اپنی قابل رحم جہالت، ’’وسعت نظر‘‘ اور روایتی انداز و معیار ہائے فکر سے اپنی بظاہر ’’آزادی‘‘ کو ایسی حقیقی آزادی سمجھ رہا ہے جو صرف عالم روح کے لامحدود آفاق سے حاصل ہوتی ہے اور اس تک رسائی صرف ان ذرائع سے ممکن ہے جو دین اور اس کے اُصول ہائے دانش سے میسر ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا جہالت در حقیقت آزادی کے بجائے بدترین قسم کی اسیری ہے جو انسان کو اس کی طبیعت کے زندان میں پابجولاں کر دیتی ہے۔ معاصر مسلمانوں کو اتنا حقیقت پسند ضرور ہونا چاہیے کہ ان کو خواہ کسی سمت میں جانا ہو سفر کا آغاز اسی جگہ سے کرنا ہوگا جہاں اس وقت وہ موجود ہیں۔ ایک معروف چینی کہاوت ہے کہ ’’ہزار میل کے سفر کا آغاز بھی ایک قدم سے ہوتا ہے‘‘۔ یہ پہلا قدم لازماً اسی مقام سے اُٹھے گا جہاں وہ اس وقت جاگزیں ہیں۔یہ بات جسمانی طور پر جتنی درست ہے ثقافتی اور روحانی طور پر بھی اتنی ہی صحیح ہے۔ اسلامی دنیا جہاں کہیں کے لیے بھی روانہ ہوتا چاہتی ہے اسے اپنا آغاز اسلامی روایت کی حقیقت اور اپنی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقی صورتحال سے کرنا ہوگا۔ جن لوگوں کی نگاہ سے یہ امراو جھل ہو جاتا ہے وہ کسی سمت میں بھی ڈھنگ سے سفر نہیں کر پاتے۔ ایک پاکستانی، ایرانی یا عرب دانشور جو مسلمانوں کے لیے فکری قیادت کی تمنا رکھتا ہو، اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کون ہے وگرنہ اسے بااثر ہونے کے بجائے باقی کے اسلامی معاشرے سے کٹ کر رہ جانا ہوگا۔ وہ لاہور، تہران یا قاہرہ کے ایک گوشے کو آکسفورڈ یا سوربون کا ٹکڑا بنانے کی کیسی ہی کوشش کیوں نہ کرے اسے کامیابی نہیں ہو سکتی۔ وہ مغرب زدہ نام نہاد دانشور جو یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں انھیں کوئی سمجھتا ہی نہیں اور ان کی قدر نہیں کی جا تی، یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے خود اپنے معاشرے اور اپنی ثقافت کی قدر نہیں پہچانی اور اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی لہٰذا ان کے معاشرے نے ان کو رد کر دیا۔ معاشرے کایہ رد کرنا بجائے خود معاشرے کی زندگی کی نشانی ہے کہ اسلامی ثقافت میں ابھی قوتِ حیات موجود ہے۔ جہاں تک فلسفے کا تعلق ہے تو اس معاملے میں وہ ممالک بہتر حالت میں ہیں جہاں یونی ورسٹی میں ذریعہ تعلیم اسلامی زبانیں ہیں۔ ایران میں تو بالخصوص چونکہ اسلامی فلسفہ ایک زندہ روایت کی شکل میں موجود ہے لہٰذا وہاں آپ فلسفہ کا نام لے کر ادھر ادھر کی کوئی بات نہیں ہانک سکتے اس لیے کہ اہل دانش کا روایتی طبقہ اس کا سنجیدگی سے جواب دیتا ہے۔تاہم یہ علاقہ بھی پوری طرح معذرت خواہانہ اور مغربی افکار سے مرعوب شدہ مطالعات کی زد سے محفوظ نہیں رہا جو اسلام اور اسلامی فکر کا مغربی فلسفہ کے نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگرچہ یہاں مغربی فلسفہ کے اثرات نسبتاً کم ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہم نے سطور بالا میں ذکر کی ہیں یعنی اسلامی فلسفے کی زندہ روایت اور زبان کی رکاوٹ۔ اس کی ایک دلچسپ مثال وہ رد عمل ہے جو علامہ اقبال کی دو کتب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ اور ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کی پاکستان میں اشاعت اور ایران میں فارسی ترجمہ کے بعد مختلف انداز میں سامنے آیا۔ بایں ہمہ ان علاقوں میں جہاں اسلامی زبانیں استعمال ہوتی ہیں ایسی کتابیں اسلامی زبانوں مثلاً فارسی اور خاص طور پر عربی میں سامنے آتی رہتی ہیں جن میں فلسفے پر ایک ایسے تناظر سے گفتگو کی جاتی ہے جو اسلام کے لیے بالکل اجنبی ہے ان کتابوں کے عنوان کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں ’’فلسفتنا (ہمارا فلسفہ) گویا فلسفہ جو الحق کا ایک مشاہدہ ہے یا حکمت اور دانش کی ایک تلاش سے عبارت ہے کسی صورت بھی ’’میرا‘‘ یا ’’ہمارا‘‘ ہو سکتا ہے۔ کسی روایتی عرب یا ایرانی فلسفی نے کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ مسلمانوں نے اسلامی فلسفے کی پرورش وپرداخت کی مگر ان کے ہاں فلسفے کو ہمیشہ الفلسفۃ یا الحکمۃ ہی سمجھا گیا اور اس سے مرادالحق کی وہ دید ہے جو انفرادی اور انفرادیت پسند اقلیم فکر سے ماورا بھی ہو اور خود الحق ہی سے اس کا استخراج بھی ہوا ہو۔’’ہمارا فلسفہ‘‘ یا ’’میری فکر‘‘ جیسے تصورات اور اصطلاحات کا اسلامی زبانوں میں نمودار ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ زبانیں اسلامی معیار سے کس درجہ دور ہٹ چکی ہیں۔ اسلامی فکریات کے خزانے میں روایتی اُصول و عقائد کے جو ہتھیار موجود ہیں انھیں ایسے ہی باطل افکار کے خلاف استعمال کرنا ضروری ہے اور اس قسم کے دعوئوں کا جواب اپنے اسلامی مآخذ میں تلاش کیا جانا چاہیے اس سے پہلے کہ اسلامی عقلی علوم اور فکری زندگی مزید زنگ آلود ہو کے رہ جاتے۔ اب ہم فلسفۂ وجودیت اور ایران میں موجود روایتی اسلامی فلسفے کے بارے میں کچھ عرض کریں گے کیونکہ ایران میں روایتی نوعیت کا فلسفہ موجود ہے اور اس کی اساس اصالتِ وجود پر استوار ہے اور اس کا نام بھی فلسفۃ الوجود ہے (جسے بعض لوگوں نے غلطی سے وجودیت کے لفظ سے ترجمہ کر دیا ہے) لہٰذا یورپین قماش کا وجودی فلسفہ روایتی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل کا نشانہ بنا ہے۔ جس شخص نے بھی ابن سینا اور سہروردی سے لے کر صدر الدین شیرازی (ملا صدرا) تک روایتی اسلامی فلسفے کامطالعہ کیا ہے وہ فوراً یہ چیز بھانپ لے گا کہ روایتی اسلامی فلسفۂ وجود اور جدید فلسفۂ وجودیت میں ایک گہری خلیج حائل ہے جو دونوں کے نقطۂ نظر کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ مذکورہ مغربی فلسفے کے وہ پہلو جو بظاہر بہت گہرے نظر آئے ہیں وہ بھی صرف جزوی طور پر ان ابتدائی تعلیمات تک پہنچتے ہیں جو روایتی مابعد الطبیعیات میںبھرپور اورمکمل طور پر موجود ہیں۔آں ری کوربین وہ واحد مغربی محقق ہے جس نے اسلامی فلسفے کے اس دور متاخر کا کسی حد تک مغرب میں تعارف کروایا ہے۔ اس نے وضاحت سے یہ چیز پیش کی ہے کہ اسلامی فلسفہ اوروجودیت کے نظریات بہت مختلف ہیں اور اسلامی فلسفے کے ذریعے وجودیت کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ ان کے یہ مباحث اس طویل فرانسیسی مقدمے میں ہیں جو انھوں نے صدرالدین شیرازی کی کتاب المشاعر کے فرانسیسی ترجمے پر لکھا۔ دلچسپی کی ایک بات یہ ہے کہ سارتر پہلی مرتبہ وجودیت کی طرف جس ترجمے کی وجہ سے راغب ہوا تھا وہ کوربین کا کیا ہوا ترجمہ ہائیدیگر تھا۔ Sein Und seit اور خود کوربین اس قسم کی فکر سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو گیا اور سہروردی کی حکمت الاشراق اور صدرا لدین شیرازی کے فلسفۂ نور و اشراق کی طرف متوجہ ہو گیا۔ آخر میں ایک بنیادی مسئلے کا ذکر بھی مقصود ہے جو اس وقت بہت ضروری ہے۔ ہماری مراد ہے ماحولیاتی بحران سے جو جدید تہذیب کا پیدا کردہ ہے اور جس سے ہرجگہ انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہو چلا ہے۔ اسلامی دنیا میں مسلمان بھی اس خطرے کی زد میں ہیں۔ ہر وہ آدمی جسے جدید دنیا کی صورت حال سے آگاہی ہے یہ جانتا ہے کہ کم از کم مادی سطح پر سب سے پہلا مسئلہ جو آج کی دنیا کو درپیش ہے ماحولیاتی بحران ہے کیوں کہ انسان اور ان کے طبعی ماحول کے درمیان توازن تباہ ہو چکا ہے۔ اسلام اور اس کے علوم کے پاس خاص طور پر وہ فوری اور بروقت پیغام ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ممکنہ حد تک دنیا کو درپیش اس گھمبیر مسئلے کو حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے افسوس ہے کہ یہ پیغام خود جدیدیت زدہ مسلمانوں کی نگاہ توجہ سے روپوش ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ مسلمان نے طبعی علوم کو بہت شوق سے پروان چڑھایا۔ ان میں فلکیات طبیعیات اور طب شامل تھی اور ان علوم میںانھوں نے بڑے بڑے اضافے کیے لیکن اس کے باوجود عالم طبعی سے ان کا توازن کبھی ضائع نہیں ہوا۔ ان کے علوم طبیعی ہمیشہ اس فلسفہ طبیعی کے سیاق و سباق میں پروان چڑھے جو کائنات کے کلی نظام اور اسلامی تناظر سے ہم آہنگ تھا۔ اسلامی سائنس کے پس منظر میں عالم طبعی کا ایک ایسا سچا فلسفہ موجود ہے کہ جسے اگر سامنے لا کر آج کی زبان میںپیش کیا جائے تو اسے موجودہ جعلی طبعی فلسفے کی جگہ رکھا جا سکتا ہے اس لیے کہ یہ مؤخر الذکر فلسفہ اُصول اولیہ کے سچے مابعد الطبیعیاتی فہم کی کمی سے مل کر اس بحران کا بڑی حد تک ذمہ دار ہے جو آج انسان اور عالم طبعی کے درمیان واقع ہو رہا ہے۔ افسوس ہے ک مسلمانوں نے خود بھی اسلام کی سائنسی میراث کا شاذ ہی مطالعہ کیا ہے اور جب کبھی کیا بھی ہے تو عموماً اس کی بنیاد ایک احساس کمتری پر رکھی گئی جس سے اس موضوع پر لکھنے والے مصنّفین یہ ثابت کرنے پر مجبور ہوتے رہے کہ مسلمانوں نے اہل مغرب سے پہلے ہی سائنسی اکتشافات کر لیے تھے لہٰذا وہ مغرب والوں سے باعتبار تمدن پیچھے نہیں ہیں۔ ایسا کبھی کم ہی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اس قیمتی سائنسی ورثے پر بطور ایک متبادل راہ کے غور کیا جائے۔ اسے عالم طبعی کی ایسی سائنس سمجھا جائے جو اس خوفناک انجام سے بچ سکتی ہے اوربچ چکی ہے جسے جدید سائنس اور اس کے تکنیکی اطلاقات نے انسانوں کے لیے پیدا کر دیا ہے، صاحب بصیرت مسلمانوں کو اس بات پر ناز کرناچاہیے کہ انھوں نے سترھویں صدی کا وہ سائنسی انقلاب برپا نہیں کیا جس کا منطقی خمیازہ آج ہمارے سامنے ہے۔ مسلمان مفکرین اور اہل علم کو اس بات کی تربیت حاصل کرنا چاہیے کہ اسلامی علوم میں موجود طبعی فلسفے کو پھر سے تازہ کر سکیں اور ان علوم کا از خود مطالعہ کر سکیں۔ سطورِ بالا میں جو مطمع نظر پیش کیا گیا ہے وہ جدیدیت زدہ مسلمانوں کے عزائم سے بہت مختلف ہے جو اس بات کو اپنے لیے باعث افتخار جانتے ہیںکہ اسلام نے نشاۃ ثانیہ کے لیے راہ ہموار کی۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ چوں کہ نشاۃ ثانیہ تاریخ کا عظیم الشان واقعہ ہے اور چوں کہ اسلامی تمدن و ثقافت نے اس کی تشکیل میں مدد کی لہٰذا اسلامی تمدن بھی کوئی قابل قدر چیز ٹھہرے گا۔ استدلال کا یہ طریقہ لغو طریقہ ہے کہ اس میں یہ بات سرے سے فراموش کر دی جاتی ہے کہ آج جدید دنیا جن مصائب کا شکار ہے وہ انھی اقدامات کا نتیجہ ہیں جو مغرب نے زیادہ تر نشاۃ ثانیہ ہی کے دور میں کیے تھے جب مغرب کا انسان بڑی حد تک اپنے خداداد دین سے بغاوت کر رہا تھا۔ مسلمانوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے خدا سے بغاوت نہیں کی اور اس روحانیت دشمن انسان پرستی میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا جو آج زیر انسانی دنیا کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اسلام نے تو کیا ہی یہی ہے کہ انفرادیت پرستی پر مبنی بغاوت کی بیج کنی کر دی، انکار و استکبار کی روح کے اس مظہر کی جو نشاۃ ثانیہ کے بیشتر آرٹ میں صاف ظاہر ہے اور جو اسلام کی روح سے قطبین کا بعد رکھتا ہے کہ اسلام کی بنیاد ہی خدا کے سامنے سپر اندازی پر استوار ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسلامی سائنس اور ثقافت مغرب میں آغازِ نشاۃ ثانیہ کے اسباب میں سے ایک تھی مگر اسلام عناصر اس میں صرف اس وقت استعمال ہوئے جب ان کے اسلامی تشخص سے انھیں جدا کر دیا گیا اور اس کلی نظام سے توڑ لیاگیا جہاں ان کی پوری معنویت اور اہمیت ممکن تھی۔ مسلمانوں کو اسلامی علوم کے مطالعہ کو پھر سے جلا دینا چاہیے اولاً نئی نسل پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ مسلمانوں نے صدیوں تک علوم طبعی کی پرورش کی ہے بشمول اس ریاضی کے جو آج ثانوی سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے اور اس کے باوجود پکے مسلمان رہے جب کہ آج کے نوجوانوں میں عام رجحان ہے کہ الجبرا کاپہلا قاعدہ یاد کرتے ہی نما ز پڑھنا ترک کر دیتے ہیں۔ ثانیاً اس لیے کہ اسلامی سائنس اور اسلامی فلسفہ و کلام و مابعد الطبیعیات میں جو داخلی ربط و توافق ہے اسے سامنے لایا جا سکے۔ مذکورہ بالا علوم طبعی سے بھی اس ربط و توافق کا قریبی تعلق ہے۔ اسلامی سائنس پر ابن سینا، خیام اور البیرونی جیسے مشاہیر کی تصانیف کا مطالعہ انھی دونوں مقاصد کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں ہم ایک مرتبہ اسی بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ اسلام اور اسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے اسلام کی روایت کا شعوری اور عقلی دفاع کرنا ہوگا۔ مزید برآں جدید دنیا اور اس کی کوتاہیوں پر بھرپور فکری تنقید کرنا ہوگی۔ مسلمان اگر وہ راستہ اختیار کریں گے جو مغرب نے کیا تو اسی جکڑ بند میں گرفتار ہو جائیں بلکہ اس سے بدتر صورت حال کاشکار ہوں گے کہ آج تغیر کی رفتار پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ مسلمانوں کے دانشور طبقے کو اس مضمون میںمذکور اور دیگر بہت سے خطرات کا مقابلہ خود اعتماد ی سے کرنا چاہیے۔ نفسیاتی اور ثقافتی احساس کمتری کی جس کیفیت میں وہ زندہ ہیں اسے اب ختم ہو جانا چاہیے۔ انھیں نہ صرف اپنی صف بندی کرنا چاہیے بلکہ ایشیا کی دیگر عظیم روایتوں سے مل کر اپنی طاقت میں اتنا اضافہ کرنا چاہیے کہ وہ نہ صرف دفاعی حیثیت سے نکل آئیں بلکہ آگے بڑھ کر حملہ بھی کر سکیں اور اپنی دانش کے اس خداداد خزینے سے وہ دوا فراہم کریں جو جدید دنیا کو اس کے خطرناک ترین مرض سے شفا دے سکے اور اس کے موجودہ بحران سے ان کے لیے نجات کا باعث ہو۔ مگر اس کام کا انحصار اس بات پر ہے کہ مریض کو شفایاب ہونے کی کتنی خواہش ہے۔ اگر ہم موجودہ صورت حال کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یاسیت زدہ نقطۂ نظر بھی اختیار کریں اور یہ مان لیں کہ اب کسی چیز کو بچانا ممکن نہیں تب بھی حق کا اظہار سب سے بڑا کار خیر ہے اور اس کے اثرات عام طور پر سمجھی جانے والی حدود سے کہیں دور تک پہنچتے ہیں۔ لہٰذا حق کو پوری قوت سے واضح کرنا لازم ہے اور اسلام کا عقلی دفاع ہر اس محاذ پر کرنا ہوگا جہاں اسے خطرہ درپیش ہے۔ نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ قرآن میںفرمایا گیا: جاء الحق و ذہق الباطل O ان الباطل کان ذ ہوقا۔ واللہ اعلم ء ء ء حوالے و حواشی ۱- اس بات کا اظہار بہرحال ہونا چاہیے کہ چونکہ مغربی معاشرہ گذشتہ دو دہائیوں میں بہت تیزی سے زوال پذیر ہوا ہے اس لیے مسلمان نوجوانوں میں سے جن لوگوں نے مغربی دنیا کا ’’فکری‘‘ سطح پر تجربہ کیا ہے وہ اس سے پہلے کی نسبت کم متاثر ہیں، بلکہ اس پرتنقید کا آغاز کر چکے ہیں، مگر ان ناقدین میں سے اسلام کے حوالے سے سوچنے والے بہت کم ہیں۔ مریم جمیلہ کی متعدد تصانیف میں اس موضوع پر اور مغربی تہذیب کے عمومی تصادم کے مسئلے پر خیال افروز چیز البتہ ملتی ہیں۔ خاص طور پر دیکھیے ان کی اسلام بمقابلہ مغربی دنیا (انگریزی) لاہور، ۱۹۶۸۔ ۲- چند جدیدیت زدہ ’’علما‘‘ کو بھی اسی قبیل میں شامل کرنا چاہیے۔ دیکھیے ڈبلیو۔ سی۔ سمتھ، اسلام تاریخ جدید میں (انگریزی)جہاں اس قسم کے معذرت خواہ رویئے کہ انداز و منہاج کا تجزیہ کیا گیا ہے، خصوصاً مصر میں۔ ۳- یہ وہ مقام ہے جہاں آکر جدیدیت اور سلفی تطہیری رویے مل جاتے ہیں۔ Studies in Comparative Religion, Winter, 1972, pp. 31-42. ۴- دیکھیے: ایف شوان، نوایکٹیوٹی و د آئوٹ ٹرتھ‘‘ مجلہ مطالعہ تقابلی ادیان، خزاں، ۱۹۶۹ئ، ص ۱۹۳-۲۳۰ علاوہ ازیں سیفِ عرفان (انگریزی) صفحہ ۲۷۔ ۵- ہمارایہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ مسلمان ’’مغرب شناس‘‘ حضرات مستشرقین کے تعصبات اور مجبوریوں کی نقالی شروع کر دیں۔ مراد یہ ہے کہ انھیں مغرب سے ممکنہ حد تک آگاہ ہونا چاہیے اور اس کا مطالعہ اسلام کے نقطۂ نظر سے کرنا چاہیے۔ ایسے ہی جیسے اچھے مستشرقین مغرب کے حوالے سے مشرق کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مغرب جدید کی روایت دشمن نوعیت کی وجہ سے مشرقی روایتوں کی مابعد الطبیعیاتی اور دینی تعلیمات کا مطالعہ مغرب کے سیاق و سباق میںکرنا ناموزوں تھا مگر یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس سے مذکورہ موازنہ غیر متعلق ہے۔ ۶- دیکھیے: سیّد حسین نصر، اسلامک سٹڈیز، باب ہشتم۔ ۷- دیکھیے: سیّد حسین نصر، اسلامک سٹڈیز، باب ہشتم۔، انسان اور عالم طبعی، ص ۹۳۔ ۸- اسلامی سوشلزم اور عرب سوشلزم کے نعروں تلے اشتراکیت اپنی غیر مارکسی شکل میں مقبول ہو رہی ہے۔ اس قسم کی اشتراکیت کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ سماجی معاشی انصاف کے لیے ایک غلط عنوان سے زیادہ کچھ نہیں جسے بعض حلقوں میں اس کے معانی پر دھیان دیے بغیر بلا تحلیل و تجربہ اختیار کر لیا گیا ہے۔ اس کا محرک کبھی تو سیاسی ضرورت رہی ہے اور کبھی صرف ماڈرن اور ترقی پسند کہلانے کی خواہش دیکھیے، اے کے بروہی اسلام دنیائے جدید میں کراچی، ۱۹۶۸ئ، ص ۹۱۔ ۹- اس کا ایک اہم استثنا علامہ سیّد محمد حسین طباطبائی کی پانچ جلدوں میں تصنیف اُصول فلسفہ ہے۔ علامہ موصوف کا شمار ایران کے ان قابل احترام ماہرین فلسفۂ اسلام میںہوتا ہے جو روایتی فلسفے کے وارث قرار دیے گئے ہیں۔ کتاب مرتضیٰ مطہری کے حاشیے کے ساتھ قم سے ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی۔ ہمارے علم میں یہ واحد کتاب ہے جو اسلامی نوعیت کی بھی ہے اور جدلیاتی مادیت کا جواب فلسفے کے نقطۂ نظر سے دیتی ہے۔ اس نے اپنا مواد روایتی اسلامی فلسفہ خصوصاً ملا صدرا کے مکتب سے اخذ کیا ہے۔ ۱۰- دیکھیے: اسی کتاب کے باب اوّل کے حواشی (نمبر ۷) جہاں فرضیۂ ارتقا کے خلاف لکھے جانے والی کتب اور سائنسی دستاویزات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ۱۱- مثلاً دیکھیے لے روا آگور ہاں کی کتاب (اشارات اور گفتگو)۔ ۲ جلدیں۔ پیرس ۱۹۶۴ئ۔ ۱۹۶۵ء جان سروئیے ’’انسان اور غیر مرئی‘‘ بھی۔ ویودنڈ روایتی مغربی انسان کا اصل چہرہ اور فلسفہ میں اس مسخ شدہ صحت حتیٰ کہ لیوی سٹراس جیسے مستند عالم نے جو بشریات کا بانی ہے کہا ہے کہ ’’بنی نوع انسان ہمیشہ سے اتنی ہی اعلیٰ سوچ کے مالک رہے ہیں۔ سروئیے نے انسان کے ارتقا کے نظریئے کے خلاف وسیع سائنسی شواہد پیش کیے ہیں۔ وہ جدید ارتقا پسندوں کو ان الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتا ہے‘‘ یہ مان لینا بہتر ہو گا کہ مادی ارتقائیت ایک ایسا مذہب ہے جو عقل سے زیادہ ایمان پر قائم ہے۔ ڈارون نے بھی ماہرین علم الٰہیات کی اندھی عینکوں کا ذکر کیا ہے اور یہ فقرہ بہت مقبول ہوا۔ لیکن ذرا دیکھیے آج ارتقائیوں کی ناک پر اندھے پن کی کیسی عینکیں رکھی ہیں‘‘! ۱۲- ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلام میں ابھی ایسے لوگ پیدا نہیں ہوئے جو ’’ارتقائی مذہب‘‘ پیش کرتے اور ان کا اثر بھی اس درجے کا ہوتا جو ہندومت اور عیسائیت میں پیداہونے والی ان شخصیات کو حاصل تھا جنھوں نے ارتقائیت زدہ دین پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر تائی آرد اشاردیں اور آروبندوگھوش کا نام لیا جا سکتا ہے جنھوں نے اپنے گرد بہت سے معتقد اکٹھے کر لیے تھے۔ ذات ربانی کے غیر متغیر ہونے کے اُصول پر قائم اسلامی تعلیمات اب تک اتنی قوی رہی ہیں کہ ان کے سامنے مذکورہ بالا قسم کے انحراف کے پھیلنے کی گنجائش نہیں رہی۔ ۱۳- دیکھیے: ابوبکر سراج الدین ’’مرور زمان کا اسلامی اور عیسوی تصور‘‘ اسلامک کواٹرلی، ۱۹۵۴ء جلد ۱، ص ۲۲۹-۲۳۵ ۱۴- دیکھیے: لارڈ نارتھ بورن، لکنگ بیک آن پروگرس لندن ۱۹۷۱ئ، مارٹن لنگز، قدیم اعتقادات جدید توہمات (انگریزی) لندن، ۱۹۶۵ء اور شوان کی نظرے بہ دنیائے قدیم۔ ۱۵- دیکھیے: ڈبلیو- این پیری ’’موسیٰ سے بغاوت‘‘(انگریزی) مجلہ مطالعہ تقابل ادیان، بہار، ۱۹۶۶ئ، صفحہ ۱۰۳-۱۱۹، ایف۔ شوان، ’’نفسیاتی بہروپیا‘‘ (انگریزی) محولہ بالا ص۹۸-۱۱۲) اور رینے گینوں کمیت کا راج اور زمانے کی نشانیاں (انگریزی) ابواب ۲۴ اور مابعد۔ جہاں تک ژنگ کا تعلق ہے تو اس کا اثر فرائیڈ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اس لیے کہ وہ روایتی علامتوں کے بارے میں زیادہ گفتگو کرتا ہے مگر روحانی نقطۂ نظر کے بجائے صرف نفسیاتی نقطۂ نظر سے۔ دیکھیے ٹیٹس برکہارٹ کی ’’کوسمولوجی اینڈ ماڈرن سائنس‘‘(انگریزی) سیف عرفان، ص ۱۲۲۔ ۱۶- اسلامی آرٹ میں خلا کی معنویت پر دیکھیے، ٹیٹس برکہارٹ، ’’فنون اسلامی میں خلا کا تصور‘‘ (انگریزی) مجلہ مطالعہ تقابلی ادیان، بہار، ۱۹۷۰ئ، ص ۹۶-۹۹ اور سیّد حسین نصر، مسلم ایران کے فن تعمیر اور فنون میں خلا کی معنویت (انگریزی) مجلہ ادارئہ علاقائی ثقافت، تہران، جلد ۵، شمارہ ۲ اور ۳،۱۹۷۲ئ، ص ۱۲۱-۱۲۸ یہی مقالہ اسلامک کواٹرلی، جلد ۱۶، شمارہ ۳ اور ۱۴، ص ۱۱۵-۱۲۰۔ ۱۷- دیکھیے: سیّد حسین نصر، اسلامک سٹڈیز، ابواب،۸ اور ۹۔ ۱۸- دیکھیے: ملا صدرا کتاب المشاعر مقدمہ کا باب چہارم۔ علاوہ ازیں دیکھیے، ٹی۔ ایسوٹزو، حقیقت اور ہستی کا تصور (انگریزی) ٹوکیو،۱۹۷۱ئ، جس میں اسلامی علم وجود کا گہرا تجزیہ کیا گیا ہے۔ باب دوم میں البتہ مغربی وجودیت پر ستوں سے بعض ایسے موازنے کیے گئے ہیں جو ہمارے لیے قبول کرنا مشکل ہیں۔ اس موضوع پر ہم نے اپنی کتاب ملاصدرا کی حکمت متعالیہ میںبحث کی ہے۔ ۱۹- دیکھیے: سیّد حسین نصر، اسلام میں سائنس اور تمدن، اسلام کے کونیاتی تصورات کا تعارف اور انسان اور عالم طبعی باب دوم،(انگریزی) ظ ظ ظ مذہب اورسائنس یہ ایک گفتگو کا متن ہے جو جدید تعلیم یافتہ اصحاب کے ایک گروہ سے ماڈل ٹائون لائبریری میں کی گئی ہے۔بات ان حدود کے بارے میں ہے جنھیںآج سائنس اپنی ہی زبان سے تسلیم کرنے پر مجبور ہے، اپنے تجربے کی روشنی میں ،کہScience does not deal all of reality, it deals with part of reality۔ اور اس کے باہر، اس سے بالاتر جو درجۂ حقیقت ہے، حقیقت کی جو نوع ہے، اس کے وسائل علم، اس کے علم اور حصولِ علم کے وسائل بھی اسی کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ سائنس اُن سارے وسائل کو نہ فراہم کرسکتی ہے اور نہ سائنس کو اس معاملے میں حرفِ آخر کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ مذہب اور سائنس کے موضوع پر ہم لگ بھگ دو ڈھائی سو سال سے بحث کررہے ہیں۔ کبھی نام لے کر اور کبھی بلاعنوان۔ اگر آپ مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب اور اپنے خطے پر نظر کیجیے اور برصغیر پاک وہند کا مغربی استعمار سے فکری تصادم دیکھیے، چاہے وہ عالم اسلام کی وسیع تر سطح پر ہو یا برصغیر پاک و ہند کی محدود سطح پر، تو یہ نظر آئے گا کہ جس لمحۂ تاریخ سے بھی یہ تصادم، یہ آمنا سامنا، یہ فکری چیلنج اور اس کا ردِعمل موجود ہے اس کا ایک ہی بڑا سوال ہے۔ اگر آپ بڑے مفکرین، بڑے مباحث اور سب سے پائیدار گفتگو کو ذرا کرید کے دیکھیں، تو میرا تاثر یہ ہے کہ، اس سارے عرصے میں ہم نے طرح طرح کے عنوانات سے جو مختلف بحثیں کی ہیں، اُن کی تَہ میں ایک ہی بنیادی سوال کار فرما ہے۔ چاہے وہ ترکی میں اُٹھنے والی بحثیں ہوں، چاہے مصر میں ہوں، چاہے برصغیر میں، سرسیّد سے ذرا پہلے اور سرسیّد سے لے کر آج تک، جتنی بحثیں ہیں ان سب کی تَہ میں ایک ہی سوال کارفرما ہے۔ بلکہ میں اس سے بڑھ کر یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ علامہ اقبال کی ساری نظم ونثر کو اگر آپ ایک بنیادی سوال کے حوالے سے دیکھیں تو وہ بھی یہی ایک بنیادی سوال ہے۔ چاہے وہ اسے عنوان عشق کا دے رہے ہوں، یا براہِ راست سائنس اور مذہب کے تصادم کا یا ایک فکری بحران و خلفشار کے حوالے سے Reconstruction میں نام لے کے بات کر رہے ہوں، تَہ میں ایک ہی سوال ہوگا۔ یہ سوال اگر سمجھ کر ایک سادہ، عام فہم فقرے میں بند کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ کچھ یوں کہا جائے گا کہ Does science deal with all of reality or part of reality?۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے، سادہ آسان الفاظ میں جو ہمیں اتنے عرصے سے ستا رہا ہے۔ اور ظاہر ہے جہاں سے یہ سوال منتقل ہوا ہے، جس فکری تصادم کے نتیجے میں یہ ہم تک آیا ہے اور اس نے یہ اپنی موجودہ شکل اختیار کی ہے، اس میں جو کچھ خلجان کا پہلو ہے وہ وہاں، جہاں سے یہ آیا ہے، وہاں اس سے قدیم تر تاریخ رکھتا ہوگا۔ اس کے ساتھ ایک چیز اور پہلے ہی عرض کردینا مناسب ہے۔ بات سائنس کی یا Generic سائنس کی اور دین کی نہیں ہورہی۔ یہ واضح رہنا چاہیے ہماری گفتگو کے لیے کہ جنرک سائنس (Science as such) تو تب سے ہے جب سے انسان ہے۔ مسئلہ سائنس اور مذہب کے تصادم کا ہے۔ یہ جھگڑا کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ کیونکہ جب سے انسان ہے تب سے جنرک سائنس بھی ہے۔ یہ ایک خاص عہد میں آکر ایک مسئلے کی شکل اختیار کرتا ہے، خلجان پیدا کرتا ہے، فکری تصادم کی شکل اختیار کرتا ہے اور اتفاق سے یہ دونوں ہی چیزیں مغرب جدید ہی سے اپنا نقطۂ آغاز پارہی ہیں۔ چاہے وہ اہل دین کا تعصب، اہل دین کا تشدد اور اہل دین کا جبر ہو یا اُس کا دوسرا ردِعمل، دونوں وہیں سے ہیں۔ ورنہ آپ نے یہ کہانی تو بچپن سے سنی ہوگی کہ گلیلیو کے ساتھ کلیسا نے کیا کیا تھا، یہ ٹیکسٹ بک کی چیز ہے، چاہے یہ سچی ہو یا نہ ہو۔ چاہے گلیلیو کو کلیسا نے اس وجہ سے سزا دی ہو کہ وہ کہتا تھا کہ زمین یوں ہوتی ہے، علم الہئیت کا بطلیموس کا، یہ کسی نظریے کا انکار کرنے کے جرم میں سزا دی جو کلیسا نے قبول کرلیا تھا۔ چاہے وہ بات درست نہ بھی ہو۔ لیکن کبھی آپ نے یہ بھی سنا کہ کسی ہندو سائنسدان کو پنڈتوں نے اس لیے سزا دی ہو کہ وہ سائنس کی ترویج کیوں کرتا ہے یا فلاں شعبہ علم میں یا سائنس کے شعبے میں یہ نقطۂ نظر، یہ خیال، یہ نظریہ کیوں پیش کیا ہے؟ یا کسی یہودی سائنسدان کو اس لیے سزا دی گئی ہو یا مسلمانوں نے اپنے اُس دور میں بھی جب یہ مباحث بہت عام تھے، جب فلسفیوں پر غزالی شدید تنقید کررہے تھے، اُس وقت بھی کبھی یہ رویہ اختیار کیا ہو؟ یہ مثال بھی صرف یہیں ملتی ہے۔ لہٰذا جنرک سائنس ہمیشہ انسان کے ساتھ ساتھ رہی ہے۔ اور اس میں مسئلہ بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ اگر تاریخ میں کبھی اعتراض نظر آتا ہے تو وہ کچھ تنگ نظر یا کچھ مصلحت سامنے رکھنے والے فقہا یہ اعتراض تو کررہے ہوں گے ابن سینا پر یا اُن کے بعد جو فلسفی سائنسدانوں کی ایک پوری رِیت روایت ہے، ان پر کہ ان کا فلاں نقطۂ نظر، فلاں چیز سے ٹکرا رہا ہے۔ لیکن as such سائنس کو cultivateکرنے، سائنسی تحقیق کرنے، کائنات کو سمجھنے کے لیے، اس عالمِ طبعی کو سمجھنے کے لیے تجرباتی سائنس کی جو شکل انھوں نے آپ کے ہاتھ میں دی، اُس کے آگے بڑھانے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اس کو اگر لوٹ کے دیکھیں کہ یہ مسئلہ کس طرح بنتا ہے ؟اور وہی موضوع بحث بھی بنتا ہے، تو پس منظر کے طور پر دوباتیں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سائنس کا موضوع اگر آپ ایک تعریف کے طور پر گفتگو کے لیے متعین کرنا چاہیں تو وہ ہوگا حواس کی دنیا کا، عالم طبعی کا تجزیہ، مطالعہ اور دین کا موضوع یہ پوری جو Scheme of thing ہے، اس میں انسان کی حیثیت بتانا کہ میں کون، کیوں، کہاں، کیسے اور مستقبل میں کیا۔ اس پورے خاکے میں اس کی ساری سمتوں، جہات dimensions کے ساتھ آپ کی حیثیت۔ جب تک یہ دونوں حیثیات طرفین ملحوظ رکھتے ہیں اور اپنی اپنی حد اور اپنی اپنی حیثیت سے تجاوز نہیں کرتے تب تک مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے میں نے عرض کیا، ایک خاص لمحۂ تاریخ میں ایک تمدن میں یہ تجاوزات دوطرفہ ہورہے ہیں۔ پہلے جب اُن کازور چلتا تھا تو اہل کلیسا نے تجاوز کیا کہ سائنس کا جو جائز domain، جوجائزدائرہ کار تھا، اُس میں وہ جو کررہی تھی، اُس پر بھی قدغن۔ جب اس کے بعد سائنس کا دور آیا تو پھر تجاوز دوسری طرف سے۔ اب موجود دور میں بیشتر تجاوزات دوسری جانب سے یعنی سائنس کی طرف سے ہورہے ہیں اور کسی کے قول کے مطابق اس وقت تو یہ کیفیت ہے کہ مذہب کی مثال دریا کی اس لہر کی سی ہے جو سائنس کے ساحل کی ریت پر خشک ہوتی جارہی ہے۔ مسئلہ کس طرح اُبھرتا ہے؟ اگر آپ اپنی انسانی فکر کے سفر کو تین بڑے بڑے ادوار میں تقسیم کرکے دیکھیں اور اس میں کچھ دیر کے لیے اس تقسیم سے نظر ہٹا لیں جو ادیان کی یا تہذیبوں کی تقسیم ہے، فکرانسانی پر بحیثیتِ مجموعی نظر ڈالیں تو تین بڑے ادوار متعین ہوتے ہیں جو نقطہ ہائے نظر، زاویۂ نگاہ کی بڑی تبدیلیوں کے حوالے سے فکرانسانی کے سفر میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پہلا دور وہ ہوگا جس کو روایت کا یا عہد قدیم کا نام دیا جاتا ہے ۔ حقیقی کیا ہے اور غیرحقیقی کیا ہے؟ حقیقت کے معنی کیا ہیں؟ حقیقت کا پورا خاکہ اپنے درجات کے ساتھ کیسے متعین ہوتا ہے؟ اس دور میںاس سوال کا جواب آپ کو کلامِ خداوندی، صحیفۂ خداوندی دیتا ہے اور تمام ادیان، حتیٰ کہ قبائلی Myths بھی اس بنیادی سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے اپنے بنیادی صحیفے یا اسطورہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور طبعی کائنات کے مطالعے کا عمل اپنے جائزہ دائرہ کار کے اندر رہتا ہے، اس سے ٹکرائو نہیں پیدا کرتا۔ اس لیے کہ وہ جو ایک فقرہ میں نے آپ سے عرض کیا، وہ اس mindset کی بنیاد میں موجود ہے کہ Science does not deal with all of reality۔ یعنی حقیقت کے کچھ درجات، کچھ اقالیم، کچھ سطحیں ،کچھ عالم ایسے ہیں جو سائنس کا موضوع اور سائنس کا محمول دونوں ہی نہیں بنتے۔ وہ اس دائرہ کار کے اندر آتے ہیں نہ فیصلہ دیتے ہیں۔ دوسرا فکری دور جو ہے اسے آپ Modernity، عہد جدید، جدیدت کوئی نام دے دیجیے۔ فکری اعتبار سے مغرب میں قریب قریب چودھویں صدی بلکہ اس سے کچھ پہلے شروع ہوجاتا ہے کہ اس دور میں مغرب جدید نے Scientific method دریافت کیا۔ Scientific method ایک ترکیب میں یا ایک عبارتمیں define اس طرح ہوگا کہ یہ عبارت ہے controlled experimentسے۔ عالم طبعی کا وہ تجزیاتی تجربہ جس پر آپ قابو یافتہ ہوں، یہ ہے سائنٹیفک میتھڈ کی بنیاد۔ اس نے اس عہد کے آدمی کو سابقہ ادوار کے مقابلے میں نہ صرف طبعی کائنات کو سمجھنے، تجزیہ کرنے بلکہ اس پر قابو پانے کی غیرمعمولی، صلاحیت دے دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک چیز جو پیدا ہوگئی وہ logical نہیں بلکہ psychological تھی منطقی نہیںنفسیاتی جھول تھا اور وہ فکری طور پراس نئی دریافت کا کوئی لازمہ نہیں تھا ۔ وہ یہ تھی کہ آہستہ آہستہ وہ چیز جو controlled experiment scientific method کے دائرہ کے اندر نہیں آتی تھی، پہلے وہ پس منظر میں گئی، اس کے بعد وہ نظرانداز ہوئی اور اس کے بعد وہ رد ہوگئی۔ اور یہ بات پیش منظر میں آکر غالب آگئی کہ جو چیز controlled experiment/ scientific method کے ذریعے آپ کے دائرۂ علم میں آتی ہے صرف وہی حقیقی ہے۔ یعنی یوں کہیے کہ جو چیز محسوس ہے وہی موجود ہے۔ یہ دعویٰ تبدیل ہوگیا۔ عہدقدیم کا فکری مؤقف اس چیز پر بنیاد رکھتاتھا کہ Science does not deal with all of reality بلکہ it deals with part of reality۔ سائنس کا موضوع حقیقت بحیثیتِ کلی نہیں ہے، جزوی ہے۔ اس عہد، اس زمانے میں اور اس scientific method اور controlled experiment کے آغاز کے ساتھ یہ دعویٰ دوسری شکل اختیار کرلیتا ہے کہ Science deals with all of reality۔ اس تبدیلی کے اتنے گہرے مضمرات ہیں کہ اس نے نہ صرف مغربی فکر کو اس عہد میں پوری طرح متاثر کیا، بلکہ اس کے علاوہ سماجی علوم اور دین کے ساتھ براہِ راست تصادم کی صورت پیدا ہوگئی۔ کیونکہ جس وقت آپ یہ کہیں گے کہ Science deals with all of reality تو اس کا نتیجہ بہت واضح طور پر دین کے لیے بھی نکلے گا اور سماجی علوم کے لیے بھی پیدا ہوجائے گا۔ یہ وہ دوسرا دور ہے جسے ہم Modernity یا Modernism کہتے ہیں اور یہ لگ بھگ بیسویں صدی کے آغاز تک پھیلا ہوا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک اور تبدیلی تاریخ فکر انسانی میں واقع ہوتی ہے۔ جسے ہم Post Modernism کہتے ہیں، مابعد جدیدیت۔ مابعد جدیدیت کے اور بہت سے امتیازات ہوں گے کئی طرح سے تعریف کی جاسکے گی لیکن ایک بنیادی چیز جس میں وہ عہد قدیم سے بھی الگ ہے اور modernism سے بھی الگ ہے اور modernism پر اس نے تنقید بھی کی ہے۔ Post Modernism نے اس دعوے کو جو scientific method سے پیدا ہوا تھا، قبول کرنے سے انکار کردیا، اس پر تنقید کی اور اس کا تجزیہ کرکے یہ واضح کیا کہ نہیں، اگر آپ سائنس کو عدالتِ عظمیٰ کی حیثیت دے چکے ہیں کہ حقیقی اور غیرحقیقی ہونے کا فیصلہ سائنس کرے گی اور سائنس کا مطلب ہے سائنٹفک میتھڈ اور سائنٹفک میتھڈ کا مطلب کنٹرولڈ ایکسپیرمنٹ۔ اس کے ذریعے جو چیز حقیقی قرار پائے گی وہ حقیقی، باقی ہر چیز غیرحقیقی ہوجائے گی۔ لہٰذا حقیقی اور غیر حقیقی کا فیصلہ کرنے کے لیے آخری کورٹ آف اپیل ماڈرن سائنس ہے۔ پوسٹ ماڈرنزم نے اس بنیادی قاعدے، کلیے اور دعوے پر ضرب لگادی۔ اُن کا نقطۂ نظر اگرچہ مختلف تھا تو کچھ اس لیے نہیں تھا کہ کوئی نئے سائنسی انکشافات اُن کے ہاتھ لگے تھے، اُن کا نقطۂ نظر بنیادی طور Relativism پر مبنی تھا۔ اس سے ایک نقطۂ نظر پیدا ہوتا ہے جو ہر چیز کی تعمیر کرتا ہے۔ آپ یہ کَہ رہے تھے کہ Science deals with all of reality۔ مابعد جدیدیت آکر یہ کَہ دیتی ہے کہ، نہیں یہ حق، آخری کورٹ آف اپیل، حکم دینے کی حیثیت، حرفِ آخر کی حیثیت جو آپ نے Scientific method کو دی ہے، یہ اس کو نہیں دی جاسکتی۔ بنابریں جب وہ بنیاد ڈھے گئی کہ اس سے اب حقیقی اور غیرحقیقی کا فیصلہ ہوگا تو پھر اس بنیاد کے ڈھے جانے سے اُس چیز کی سائنسی حیثیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ پوسٹ ماڈرنزم کا سب سے بنیادی اختلاف ہے جو وہ ماڈرنزم سے کررہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور قباحت ہے جو ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے کہ پوسٹ ماڈرنزم نے اس کا کوئی متبادل حل پیش نہیں کیا۔ اگر عہد قدیم کے پاس ایک کلیہ تھا اور عہد جدید کے پاس جو ایک کلیہ تھا وہ ردّ کر دیا گیا کہ سائنس حرفِ آخر ہے اور یہ اعلان کیا کہ سائنس ہر چیز کے حقیقی اور غیرحقیقی ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔ تو پھر اس کا متبادل کیا ہے؟ اس پر کچھ نہیں کہا۔ یہ مابعد جدیدیت کی ایک نارسائی ہے۔ یہ مسئلہ جہاں سے اُٹھا اس کے کئی پہلو ہیں۔ کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی چلی آرہی تھی۔ سائنس کا اطلاق یا عملی پہلو ٹیکنالوجی کی شکل میں سامنے آرہا تھا۔ اس نے انسان کو کچھ ایسی آسائشیں دیں، کچھ ایسی قوت بہم پہنچائی اور اس کے مسائل میں اتنی کمی کردی کہ وہ خودبخود ایسی مرعوبیت کا شکار ہوا کہ اس نے ایک بہت بنیادی چیز نظرانداز کردی۔ کیا بنیادی چیز اس میں نظرانداز ہوگئی؟ کہ جس طرح مچھیرے کے جال میں سے پانی نکل جاتا ہے، اسی طرح سائنس کے تجرباتی جال میں سے بھی کم ازکم چھ چیزیں ایسی ہیں جو نکل جاتی ہیں۔ یہ جال کبھی اُن کو گرفت میں نہیں لے سکتا۔ یہ بڑی تفصیل طلب بات ہے۔ لیکن اس کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا عرض کروں گا کہ ذرا سوچیے سائنس آپ کو Normative values کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتی۔ یہ نہیں بتا سکتی کہ ’’میں کیوں ہوں؟‘‘ یہ ایک ایسی چیز ہے جو اس کی گرفت سے باہر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح مفکرین نے گن کر چھ ایسی چیزیں بتائی ہیں جو سائنس کے اس ماہی گیری کے جال میں سے باہر رہ جاتی ہیں۔ دوسری بات! غور کیجیے کہ سائنس نے اپنی جملہ کامیابیوں کے باوجود اُن انسانی سوالوں کا جواب دینے کی کیاصلاحیت بہم پہنچائی ہے جو انسان کے بہت بنیادی سوال ہیں؟ کچھ بھی نہیں یعنی صفر۔ اس پر جسٹس ہیوم نے ایک اچھا فقرہ کسا تھا کہ Science has made major contributions to minor needs۔ اب ہمارے لیے جب یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اسی بنیادی قضیے سے پیدا ہوتا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں ایک اجنبی تہذیب آپ کو سیاسی طور پر مغلوب کرکے ہر طرح غالب آجاتی ہے۔ اس مرتبہ یہ غلبہ صرف سیاسی اور فوجی غلبہ نہیں ہے اس کے ساتھ وہ ایک پورا تصورِ کائنات لے کر آتی ہے۔ اس تصورِ کائنات کی بنیاد میں یہ چیز موجود ہے۔ کیونکہ یہ سائنس ساتھ لارہی ہے۔ وکٹورین سائنس کس بنیاد پر کھڑی ہے؟ وہ اسی بنیاد پہ کھڑی ہے جو میں نے آپ سے عرض کی کہ Science deals with all of reality تو پھر جن چیزوں کو میں حقیقت سمجھتا ہوں، وہ اس پیمانے پر حقیقی نہیں قرار پاتیں۔ وہ ساری نامحسوس چیزیں، غیرمادی چیزیں، جو میرے لیے محسوس اور مشہود نہیں ہیں، وہ ناموجود ہوجاتی ہیں۔ اب اس کے بعد ہمارے پاس ردِ عمل کی ایک طویل قطار ہے۔ ہم نے اس پر کیا کیا ردعمل کیا ہے۔ اس ردِ عمل نے طرح طرح کی شکلیں اختیار کی ہیں اور غلامانہ مرعوبیت سے لے کر اپنی جدید ترین شکل اسلامائزیشن آف نالج کے پروگرام تک، اس نے طرح طرح کے رنگ روپ اختیار کیے ہیں۔ تَہ میں وہی بنیادی سوال مغرب میں بھی موجود ہے، یہاں بھی موجود ہے۔ میں یہ سب کچھ پیش کرنے سے پہلے علامہ اقبال کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، Reconstructionمیں سے۔ اُس بیدار مغز آدمی نے یہ عبارت ۱۹۲۴ء میں لکھی تھی۔ شاید آپ کو یاد ہو ۱۹۲۴ء کے آس پاس آئن سٹائن نظریۂ اضافیت پیش کرچکا تھا اور ۱۹۲۴ء کے آس پاس کوانٹم کی ابتدائی باتیں بھی موجود تھیں۔ اقبال کو اس وقت نہ صرف اپنے زمانے کی جدید ترین سائنس کا علم تھا بلکہ کوانٹم کے جو مضمرات ہوسکتے تھے، دینی فکر کے لیے، الٰہیات کے لیے وہ ان کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ لیکن یہ ایک بات Does science deal with all of reality or part of reality اس کو اقبال نے ۱۹۲۴ء میں کس طرح بیان کیا ہے اسے ذرا دیکھ لیجیے: In his second lecture, "the Philosophical Test of the Revelations of Religious Experience", in the Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal has made a very perceptive remark: "There is no doubt that the theories of science constitute trustworthy knowledge, because they are verifiable and enable us to predict and control the events of Nature. But we must not forget that what is called science is not a single systematic view of Reality. It is mass of sectional views of Reality- fragments of a total experience which do not seem to fit together. Natural Science deals with matter; with life, and with mind; but the moment you ask the question how matter, life, and mind are mutually related, you begin to see the sectional character of the various sciences that deal with them and the inability of these sciences, taken singly, to furnish a complete answer to your question. In fact, the various natural sciences are like so many vultures falling on the dead body of Nature, and each running away with a piece of its flesh. Nature as the subject of which demands the whole of reality and for this reason must occupy a central place in any synthesis of all the data of human experience, has no reason to be afraid of any sectional views of Reality. Natural Science is by nature sectional; it cannot, if it is true to its own nature and function, set up its theory as a complete view of Reality. یہ بات ہے جو مَیں نے آپ سے عرض کی۔ علامہ نے اسے اِس اُسلوب میں پیش کیا ہے۔ بات سرسیّد کی ہورہی تھی۔ وہاں چونکہ مرعوبیت کا ایک ذہنی رویہ واضح تھا اور وہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ آج ہم دلیر ہو کر شاید یہ کَہ سکتے ہیں اُن میں مرعوبیت تھی۔ میں بعض اوقات اپنے طلبا سے کہا کرتا ہوں کہ آج فکری شجاعت کا مظاہرہ شاید آسان ہے۔ اگر میں سرسیّد کی جگہ اُس فکری چیلنج کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا تو گھٹنوں کے بل گرا ہوا نظرآتا۔ وہ کم ازکم کھڑے تو تھے خواہ سرخم کرکے۔ اس بنیادی چیلنج کے روبرو ہمارے جو ردعمل تھے ان کے بارے میں سردست چند اشارے ہی ہوسکتے ہیں۔ پہلا ردعمل تو وہ تھا جس کے ایک پہلو کا میں نے ذکر کیا کہ آپ اس مقدمے کو قبول کرکے اپنی بنیادی فکری اقدار میں تبدیلی اور تغیر کرنے کے قائل ہوجائیں۔ جو چیز اس سائنس کے جال میں نہیں آتی، ہم بھی اسے غیر موجود قرار دے کے اس کی تاویل کرلیں۔ اس کا ایک اور پہلو ہے جو جمال الدین افغانی اور مصر کے کچھ اور مفکرین کے ہاں زیادہ نمایاں نظرآتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ سائنس جو مغرب سے ہمارے ہاں آرہی ہے یہ نیوٹرل اور غیرجانبدار چیز ہے۔ اس نے ہمیں جو مادی قوت فراہم کی ہے، اردگرد کی دنیا کو تسخیر کرنے کے جو راستے سجھائے ہیں، کچھ آسائشیں فراہم کی ہیں، ٹیکنالوجی کے ذریعے، اسے حاصل کرلو تو تمھاری کمی دور ہوجائے گی۔ یہ رویہ آج بھی آپ کو نظر آئے گا۔ ہماری مسلمان حکومتوں میں یہ رویہ آج بھی بہت عام ہے۔ گویا مسئلہ ٹیکنالوجی کی اندھا دُھند درآمد سے حل ہوسکتا ہے۔ ایک رویہ، ایک Response ایک ردِعمل یہ ہے جو اس چیز سے ایک بالکل بے نیازانہ غفلت یا بے خبری پر مشتمل تھا کہ یہ ٹیکنالوجی ایک فکری کائنات سے پیدا ہورہی ہے ایک تصور کائنات اس کے پیچھے ہے۔ یہ Value neutral نہیں ہے۔ یہ جس وقت بھی آئے گی اپنے ساتھ کچھ مسائل لے کر آئے گی اور وہ مسائل کچھ اور مسائل کو جنم دیں گے۔ ان مسائل کا حل کرنے کے لیے آپ مزید ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے۔ وہ مزید مسائل پیدا کریں گے۔ اور پھر یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ سو اپنے اندر ترمیم، مرعوب ہوکر تسلیم کرکے اپنی اقدار میں تبدیلی ایک ردِعمل ہوا، سائنس کو غیرجانبدارانہ سمجھ کر دوسرا ردعمل۔ اس سے زیادہ Sophisticated ردِعمل بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اقبال کی آپ ایک مثال لیتے ہیں کہ وہ سرسیّد کے جتنے زمانہ بعد آتے ہیں اور جس طرح مغرب کے فکری مراکز سے براہِ راست آشنائی رکھتے ہیں اُن کا ردِعمل اس طرح کا نہیں ہے۔ وہ اس کو سمجھ کر بات کرتے ہیں کہ عہدِ جدید کے اس خلفشار کی تَہ میں کیا سوال کام کررہا ہے۔ اور سائنس کو واپس اس حد کے اندر لانے کی بات کرتے ہیں جو اس کا جائز Domain ہے اور مختلف عنوانات سے اس کی طرف شعر اور نثر میں اشارہ کرتے ہیں۔ اب مسئلے کے دوسرے پہلو کی طرف آئے۔ یہ جو دو حدود ہم کَہ رہے ہیں کہ مذہب کی حدود یہ ہیں اور سائنس کی جائز حدود یہ ہیں۔ تجاوز ہمیشہ ایک تصادم کو جنم دیتا ہے۔ ماضی میں ہمیں، چاہے مغرب کی طرف آئیں چاہے اسی تہذیبی حدود سے خود اُٹھنے کے نتیجے کو لیں، ہمیں یہ تجاوازت نظر آتے ہیں۔ کبھی ایک جانب سے کبھی دوسری جانب سے اور اب ایک طویل عرصے سے ایک ہی جانب سے تجاوز ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں جو Response ہے، جسے آپ اب قریب ترین زمانے کا response کہیں گے، وہ دولخت ہے یا دو چہرے ہیں اس کے۔ ایک وہ ہے جس کا آغاز قرآن کی سائنسی تفسیر سے ہوتا ہے اور وہ آج آکر اسلامائزیشن آف نالج کے نعرے پر ختم ہوتا ہے۔ کہ آپ سائنس کے دیے ہوئے کلیوں کو تسلیم کرکے دو طرح کے Response دے دیں۔ ایک یہ کہ سارے انکشافات جو سائنس نے کیے ہیں، یہ تو قرآن میں پہلے سے موجود ہیں۔ اسے ہم کہتے ہیں Precurserism کہ ہر چیز ہمارے ہاں پہلے سے موجود ہے۔ جو سائنسی نظریہ آپ کے سامنے آئے، قرآن کی ٹوکری میں سے نکال کر کَہ دیں ’’ارتقا‘‘ ہمارے پاس بھی تھا۔ ’’ایٹم‘‘ ہمارے پاس بھی تھا۔ ایک قطار ہے ایسی باتوں کی۔ قرآن مجید سے توڑ مروڑ کر آپ کچھ بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا اہم ہے کہ اپنی ساری سائنسی روایت میں، سائنسی تحریروں میں جو مسلمانوں کے سائنسی عروج سے لے کر پندرھویں صدی تک ہمارے سامنے آتی ہیں۔ کہیں آپ کو اِس صنفِ تحریر کی کوئی مثال نہیں ملتی جسے سائنسی تفسیر کہتے ہیں یا سائنس کو قرآن سے ثابت کرنے کا عمل کہتے ہیں۔ ہمارے بڑے سے بڑے سائنسدان بھی بسم اللہ کہتے تھے الحمدللہ کہتے تھے، درود پڑھتے تھے اور اس کے بعد اپنی سائنس کی کتاب کا آغاز کردیتے تھے۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہوئی تھی کہ مجھے اس میں قرآن کی آیات ٹانک کر اس کو اسلامی بنانا ہے۔ یہ کیوں ہوا؟ یہ بڑی فکر والی بات ہے کہ آپ اپنے دورِ عروج کے بارے میں کہتے ہیں کہ مغرب کو جو کچھ دیا ہے یہ ہماری ہی دین ہے۔ مغرب آج جس سائنسی ترقی کی معراج پر اور ترقی کے زینے پر کھڑا ہوا ہے، یہ مسلمانوں نے فراہم کیا تھا۔ اُن مسلمانوں نے اس کو فراہم کیا تھا۔ آج یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید سے کچھ توڑ مروڑ کے سائنسی مسائل کو ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ اس کا مطلب ہے یہ کہ یہاں ذہن میں کوئی ایک گرہ ہے۔ یہ تو ہوا وہ رویہ جو Precurserism کہلاتا ہے کہ ہر چیز، ہاں ہمارے پاس بھی تھی، یہ سائنسی نظریہ ہمارے پاس بھی تھا وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا رویہ جو اس سے ملا ہوا ہے، اُسے آپ کَہ لیجیےReductionism۔ وہ اگر Precurserism ہے کہ ہر چیز کو پیشگی کَہ دینا کہ یہ ہمارے ہاں بھی ہوتی تھی۔ Reductionsim یہ ہے کہ جو سائنسی نظریہ بھی ہوگا اس کو reduce کردیں گے اپنے ہاں کے کسی کلیے کی طرف۔ یہ تو ہمارے ہاں جو ہورہا ہے Islamisation۔ اسلامی سائنسز اُٹھائیں، اُن کے اوپر ایک پوشش کچھ قرآنی آیات کی چڑھائی، شروع میں بسم اللہ، آخر میں الحمدللہ لگائی اور وہ مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ مغرب میں بھی یہ رویہ خاص طور پر بیسویں صدی کے وسط میں جب عیسوی Fundamentalism کا ظہور ہوتا ہے، وہاں بھی یہ رویہ پیدا ہوتا ہے قدرے اختلاف کے ساتھ۔ جدید سائنسی نظریات مذہب کی بنیاد کے لیے کیا معنویت رکھتے ہیں اور وہ ان کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ میں اس کی صرف ایک مثال آپ سے بیان کروں گا۔ کوانٹم تھیوری، کوانٹم علوم ۱۹۲۴ء کے زمانے سے آغاز کرکے آج جہاں وہ اپنی تحقیقات کی جدید ترین صورت میں کھڑا ہے اس کے لیے ایک عنوان ہے Theory of nonlocality۔ نان لوکیلیٹی مختصراً یوں بیان کی جاتی ہے کہ دو ذرات جو مکانی طور پر ایک دوسرے سے اتنے دور ہیں کہ ان میں عمل اور ردِعمل کا وہ فزیکل (جسمانی) تعلق نہیں ہوسکتا جس سے ایک دوسرے کومتاثر کرے یا ایک دوسرے کو گھما دے، یا ایک اگر کسی جگہ گھوم رہا ہے تو اِس کے اثر سے دوسرا بھی گھومنے لگے۔ دو ذرات اتنے فاصلے پر ہیں، بیک وقت دو مقامات پر میں، دو لیبارٹریز میں اُن کو ایک خاص تجربے سے گزارا جاتا ہے اور وہ بیک آن ایک ہی چیز سے متاثر ہوتے ہیں اُن میں کوئی جسمانی رابطہ نہیں ہے۔ یہ فرنٹیئر فزکس کررہی ہے اور فزکس کے وہ لوگ کررہے ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ آئن سٹائن کے شاگرد ہیں۔ اب اس سے ایک بہت بڑا مخمصہ سائنس کے لیے پیدا ہوجاتا ہے، خاص طور پر فرنٹیئر فزکس کے لیے۔ اگر جسمانی رابطہ ہوئے بغیر مادے کے چاہے سب سے چھوٹے اجزا کیوں نہ ہو، باہمی اثر و تاثیر یا اثر اور تاثرپذیری ظاہر کرتے ہیں تو اس کامطلب یہ ہوا کہ Non local (وہ لوکل نہیں ہیں، فزیکل لوکیلیٹی نہیں ہے ان کے درمیان) لیکن اس کا مطلب یہ ہے مادے کی تَہ میں ایک غیرمادی حقیقت کام کررہی ہے جس میں یہ دونوں موجود ہیں اور ایک دوسرے سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ Non locality ہے۔ اب اس بنیادی تجربے نے بہت سارے سنگین سوالات پیدا کردیے مزید۔ خاص طور پر کوانٹم فزکس کے لیے۔ جن لوگوں کو اس طرح کا شوق ہے، غالب کا سائنسی شعور اور اقبال کا سائنسی شعور وہ فوراً: ’’لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں‘‘ کا استعمال کردیتے ہیں۔ لیکن سنجیدہ سائنس دانوں کے ہاں بھی اس نے اس سنجیدہ سوال کو ان کے روبرو کردیا، چاہے اس کا اُن کے پاس حل نہ بھی ہو، اور میں نے فزکس والوں کی زبان سے خود سنا There is an obstinate finger pointing to something beyond the material۔ اب وہ Beyond کیا ہے؟ اس پر تو بحث ہورہی ہے لیکن آپ کا Laboratory experiment آپ کو یہاں تک لے آیا کہ There is an obstinate finger in frontier physics which points towards something beyond the material اب اس کے کچھ معنی ہوں گے الٰہیات کے لیے۔ بنیادی طور پر بھی سوال لوٹ کر وہاں آجاتا ہے جہاں سے مَیں نے آغاز کلام کیا تھا کہ آپ اپنے لیبارٹری تجربات کا فرنٹیئر فزکس کی جملہ معلومات کی بنیاد پرِ اُسی جگہ لوٹ کرآرہے ہیں کہ Science does not deal with all of reality, it deals with a part of reality۔ اگر اس Net سے کوئی چیز باہر رہ گئی تھی جس کو اس کے جملہ وسائل تحقیق نہیں پکڑ سکتے تو موقف وہی واپس آگیا جس سے جدید سائنس نے اپنا آغاز کیا تھا، اپنا اعتراف کیا تھا اور پھر اس کے ہی تجربات اسے واپس لے آئے۔ یہ تو مسئلہ ہے فرنٹیئر فزکس کا یا اس وقت اس میں جو کچھ لوگ اس سطح کی تحقیق کررہے ہیں۔ لیکن ہمارے عمومی رویے اُس مسئلے کے حوالے سے ابھی بہت مختلف ہیں اور خود سائنس دانوں میں بھی، مجھے جہاں اتفاق ہوا اس مباحثے میں شریک ہونے کا، کہ یہاں تک تو ان کے لیبارٹری تجربے لے آئے ہیں، انھیں یہ تسلیم کرنا بہرحال ایک مجبوری بن گیا ہے کہ There is an obstinate finger but where does it point to?۔ اس کے لیے ایک بہت بڑی جرأت اور ایک بہت بڑا قدم اُٹھانے کا مرحلہ ان کے سامنے آجاتا ہے جو ہر سائنس دان نہیں کر سکتا۔ یہاں تک تو تسلیم کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد پھر کیا ہوتا ہے؟ متبادل کیا ہے؟ اگر مادے کا سب سے بنیادی، سب سے چھوٹا ذرۂ تعمیر جو ہے، وہ نہ لہر اور نہ ذرہ ہے۔ تو پھر وہ کیا ہے۔ درمیان میں تھیلی ہے؟ Packet ہے؟ Energy packet ہے؟ Energy wave ہے، Energy particle ہے یا اُن کا مرکب؟ مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ فرنٹیئر فزکس آپ کو یہ کَہ رہی ہے۔ اس کی بہت سے Implications ہیں جس پر دینیات والے بھی غور کرتے رہتے ہیں اور سائنس والے بھی۔ لیکن وہ بنیادی بات بہرحال اب سائنس کے اپنے سرفہرست مسائل میں آگئی ہے کہ Science does not deal with all of reality, it deals with part of reality۔ اور یہ شعور عہد قدیم کی ساری فکری میراثِ انسانی کو عہدِ جدید کی جدید ترین تحقیق سے لاکر ایک حد تک ملا دیتی ہے۔ یہی ہماری گفتگو کا اختتام اور حاصل بھی ہے کہ یہ دو حدود جسے آج سائنس اپنی ہی زبان سے تسلیم کرنے پر مجبور ہے اپنے تجربے کی روشنی میں کہ Science does not deal all of reality, it deals with part of reality۔ اور اس کے باہر، اس سے بالاتر جو درجہ حقیقت ہے، حقیقت کی جو نوع ہے، اس کے وسائل علم، اس کے علم اور حصولِ علم کے وسائل بھی اسی کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ سائنس اُن سارے وسائل کو نہ فراہم کرسکتی ہے اور نہ سائنس کو اس معاملے میں حرفِ آخر کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ ء ء ء کونیات اور جدید نفسیات ابراہم عزالدین کا یہ مقالہ انگریزی میں پہلی مرتبہ ۱۹۶۴ء میں چھپا۔ اپنے مواد، موضوع پر گرفت اور قدیم و جدید علوم پر عبور کی بنا پر اس کی علمی و تحقیقی حیثیت اتنی اہم ثابت ہوئی کہ ہم بلامبالغہ اسے جدید سائنس پر روایتی مکتبِ فکر کی طرف آج تک کی لکھی جانے والی تحریروں میں ممتاز ترین جگہ دے سکتے ہیں۔ مصنف نے اس میں جدید سائنس کے چند نقائص اور رخنوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان کی تنقید کا بنیادی حوالہ کونیات (اپنے روایتی معانی میں) رہا ہے۔ یونانی کے لفظ cosmos کا مطلب تھا order نظام، ترتیب، جو توحید اور کلیت کے تصورات پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لیے کونیات cosmology کائنات کا وہ علم ہے جو اس کے وجود کی علتِ فریدہ کو منعکس کرتا ہے۔ غیر مخلوق کا مخلوق میں یہ انعکاس یا قدیم کا حادث میں عکس خود کو مختلف پہلوئوں کے تحت ظاہر کرتا ہے۔ اس سے کائنات کے متعدد تصورات جنم لیتے اور چونکہ یہ سب مشترک کائناتی اور غیر متغیر اُصولوں سے پھوٹتے ہیں، اس لیے ان میں سے ہر ایک کا جواز موجود ہے۔ ہر صحیح نظامِ کونیات کسی نہ کسی وحی سے منسلک ہوتا ہے خواہ اس کونیات کا مبحث اور اُسلوبِ بیان اس وحی کے لائے ہوئے پیغام سے بظاہر علیٰحدہ نظر آتا ہو۔ ان کا غیرمتغیر محور ہمیشہ روح spirit یا intellect کا ایک منزل من اللہ عقیدہ ہوا کرتا ہے اس لیے کہ ہمارے اپنے نفس میں سب کچھ موجود ہے اس طرح کہ اس کی زیریں حدود حسیات کی سطح پر واقع ہیں اور اس کی اصل اور جڑ وجودِ محض Pure Being اور ذاتِ اعلیٰ تک پہنچی ہوئی ہے۔ انسان اپنے اندر کائنات کے محور کا ادراک کرتا ہے۔ کونیات آج کے انسان کے لیے بچگانہ نظریات کے مجموعے کے مترادف ہے۔ یہ رائے کم فہمی اور قلتِ معلومات پر مبنی ہے۔ قدیم علوم کو سمجھنے کے لیے ان کی اصطلاح اور اُسلوب سے واقف ہونا ضروری ہے اور علامتی طرزِ اظہار کی رمزیت سے باخبر ہوئے بغیر ان کے گہرے معانی تک رسائی دشوار ہوتی ہے۔ مصنف نے قدیم کونیات کو آج کے کسی آدمی کی زبان میں ڈھال کر پھر اس کے سہارے جدید سائنس پر تنقید کی ہے اور یہ دکھایا ہے کہ کہاں کہاں اس نے فلسفہ بگھارتے ہوئے ٹھوکر کھائی ہے۔ ہم مضمون کے حصہ پنجم متعلق بہ نفسیات کا ترجمہ پیش کررہے ہیں۔ Cosmology and Modern Science by Titus Burckhardt ہمارے زمانے کے ایک مشہور نفسیات دان (روانشناس) کا قول ہے ’’نفسیات کا معروض نفسی psychic ہے؛ بدقسمتی یہ ہے کہ یہی اس کا موضوع بھی ہے۔۱؎ اس رائے کے مطابق ہرنفسیاتی محاکمہ لامحالہ اپنے معروض کی اصلاً موضوعی، بلکہ انفعالی اور مرجح ۲؎ tendentious، نوعیت میں شریک ہوگا کیونکہ اس منطق کے مطابق کوئی شخص اپنے نفس کے وسیلے کے بغیر نفس کو نہیں سمجھ سکتا اورر وانشناس کے لیے مؤخر الذکر کا تعلق صریحاً نفسی اور صرف نفسی سے ہے۔ کوئی بھی روانشناس (نفسیات داں) خواہ اسے معروضیت کا کتنا ہی دعویٰ کیوں نہ ہو اس مخمصے (مذبوبیت)۳؎ dilemma سے نہیں بچ سکتا اور اس قلمرو میں اس کی تصدیقات جتنی قطعی اور عمومیت لیے ہوئے ہوں گی اتنی ہی مشکوک ہوتی جائیں گی۔ اگر اپنے آپ سے دیانت برتے تو یہ ہے وہ فیصلہ جو جدید نفسیات خود اپنے مقدمے پر دیتی ہے۔ ایسا ہو یا نہ ہو یہ ضرور ہے کہ مذکورہ بالا فقرے میں بیان کردہ اضافیت relativism نفیسات کی نہاد میں موجود ہے۔ یہ اضافیت ایک قسم کی تطاولیت Prometheism بھی ہے جو نفسی کو انسان کی حقیقتِ نہائیہ Ultimate Reality بنا کر رکھ دیتی ہے۔ یہ اس شعبۂ علم کے اندر اُٹھنے والے متعدد اختلافات کی جڑ ہے اور اس پر اس کا تسلّط اس حد تک ہے کہ یہ شعبۂ علم جس چیز کو بھی مس کرتا ہے اسے اضافیت کی چھوت لگ جاتی ہے۔ اس سے قریب آتے ہی تاریخ فلسفہ، آرٹ اور مذہب سب باری باری نفسیاتی اور اسی نسبت سے موضوعی بنتے جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ معروضی اور غیر متغیر تیقنات Certainties سے محروم ہوجاتے ہیں۔۴؎ مگر اس طرح کی بے بنیاد، استقرائً۔ a priori پیش کی ہوئی ہر اضافیت متناقض بالذات ہوتی ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کے پُرخطر اور غیراختیاری ہونے کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی جدید نفسیات کا رویہ کسی بھی دوسری سائنس سے مختلف نہیں۔ یہ فیصلے دیتی ہے، ان کو صحیح اور معتبر مانتی ہے اور اس اعتبار سے یا تو بے خبری میں یا اعتراف کیے بغیر ایک خلقی ایقان کا سہارا لیتی ہے۔ فی الواقع، اگر ہم اس ادراک کے قابل ہیں کہ نفسی ’’موضوعی‘‘ ہے یعنی یہ کہ اس پر ایک خاص انا مرکز egocentric تعصب یا میلان کا غلبہ ہے جس نے اس پر چند قیود یا ایک مخصوص ’’رنگ‘‘ لاگو کر دیا ہے، تو ہمارا یہ ادراک اسی وجہ سے ہے کہ ہم میں کوئی چیز ایسی ہے جو ان قیود اور میلانات کی محکوم نہیں ہے بلکہ اُصولاًتو ان پر فائق اور غالب ہے یہ ’’کوئی چیز‘‘ العقل ہے اور صرف اسی سے ہمیں بالعموم وہ معیارات مہیا ہوتے ہیں جن سے نفس کی گھٹتی بڑھتی، غیر یقینی دنیا کو منور کیا جا سکتا ہے۔ یہ خود اپنامنہ بولتا ثبوت ہے تاہم جدید سائنسی اور فلسفیانہ فکر سے یہ بارہ پتھر باہر ہی رہی ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ فکر یا سوچ Reason اور العقل Intellect میں التباس نہ کیا جائے۵؎ اوّل الذکر عقلِ متعال Transcendent Intellect کا ذہنی عکس تو بلاشبہ ہے مگر عملاً یہ وہی کچھ ہوتی ہے جو کوئی اسے بنالے۔ مراد یہ ہے کہ جدید علوم کے معاملے میں اس کا وظیفہ functioning تجربی طریقہ ہے:جدید سائنس کی سطح پر سوچ یا فکر حقیقت کا منبع کم اور اُصولِ ارتباط زیادہ ہوتی ہے۔ جدید نفسیات کے لیے تو یہ اس سے بھی کمتر ہے اس لیے کہ سائنسی فکر پرستی ہمارے مشاہدئہ کائنات مادی کو تو ایک نسبتاً پائیدار قالبِ عمل دے دیتی ہے مگر عالمِ نفس کے بیان کے لیے بالکل ہی ناکافی ثابت ہوتی ہے؛ بمشکل تمام، صرف سطح پر کی نفسی حرکات کو جن کے اسباب و مقاصد جاری تجربہ کی سطح پر واقع ہوں، فکری اصطلاحات میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اسفل درجے کے نفسی امکانات (جو زیادہ تر غیر شعوری ہوتے ہیں) کی ساری افراتفری فکر کی پہنچ سے باہر ہے۔ اور جو کچھ فکریات سے بالاتر ہے اس کے لیے یہ بیان اور بھی درست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ سوچ کے اس پیمانے کے مطابق ایک طرف عالمِ رُوانی psychic world کا بیشتر حصہ اور دوسری طرف اقلیمِ ماورا الطبیعیات (یا الٰہیات) دونوں ’’نامعقول‘‘ معلوم ہوں گی۔بنابریں جدید نفسیات میں خود فکر کو اضافی قرار دینے کا ایک مضمر رجحان پایا جاتا ہے۔ جو ایک متناقض بالذات رجحان ہے کیونکہ نفسیات فکری طریقِ عمل سے مستغنی نہیں ہو سکتی۔ نفسیات کاسامنا ایک ایسی قلمرو سے ہے جو تجربیت اور کارتیسی Cartesian نقطۂ نظر پر تعمیر شدہ سائنس کے علمی اُفق سے ہرسمت میں باہر چھلک رہی ہے۔ اس وجہ سے جدید نفسیات دانوں (روانشناسوں) کی اکثریت نے ایک قسم کی نتائجیت Pragmatism کی پناہ لے لی ہے۔ ایک خاص تجربے کے لیے سپردگی میں سر د مہر سریری Clinical رویے کا جوڑ لگانے ہی میں انہیں ’’معروضیت‘‘ کی کچھ ضمانت نظر آتی ہے۔ فی الواقع نفس کی حرکات کا مطالعہ خارج سے کیا ہی نہیں جا سکتا جیسا کہ وقوعات جسدی کے سلسلے میںہوتا ہے۔ ان کی معنویت جاننے کے لیے انہیں ایک اعتبار سے بیتانا۶؎ پڑتا ہے اور یہیں سے نفس مشاہد observer کا قضیہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے جس کی طرف اس روا نشناس(نفسیات دان) نے صحیح اشارہ کیا ہے جس کا ہم نے شروع میں حوالہ دیا تھا۔ رہا وہ ذہنی ملکہ جو تجربے کو ’’منضبط‘‘ controlکرتا ہے تو یہ ایک کم و بیش بے قاعدہ قسم کے ’’فہم عمومی‘‘common sense کے سوا اور کیا ہے جس میں لامحالہ پہلے سے جانے بوجھے خیالات کی رنگ آمیزی ہوتی ہے؟ اس طرح ’’معروضیت پسندی‘‘ کے دعویٰ دار نفسی رویے میں اس کے تجربے کی غیر یقینی نوعیت کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں ہو پاتی۔ چنانچہ ایک ایسا اُصول نہ پا کر، جو بیک وقت اندرونی بھی اور غیر متغیر بھی، ہم اسی مذبوبیت میں واپس آ جاتے ہیںجہاں رُوانی psychic خود روانی psychic ہی کو گرفت میں لانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ نفس کو بھی حقیقت کے کسی بھی دوسرے شعبے کی طرح صحیح طور پر اسی کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے جو اس سے فائق ہو۔ یہ چیز بے ساختہ اور کنایتاً اس وقت تسلیم کر لی جاتی ہے جب لوگ عدل کے اخلاقی اُصول کا اقرار کرتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ انسان کو انفرادی موضوعیت پر غالب آنا چاہیے۔ عقل انسان کے ارادے کی رہنما ہے۔ اگر عقل بھی ایک نفسی حقیقت کے سوا کچھ نہ ہوتی تو انسان کے لیے اس (انفرادی موضوعیت) پر قابو پانا محال ہو جاتا اور عقل نفس پر فائق نہیں ہوسکتی اگر وہ اپنے جوہر میں اندرونی اور بیرونی دونوں مظاہر سے ارفع و منزہ نہ ہو۔ یہ تبصرہ ایک ایسی نفسیات کی ضرورت اور اس کے وجود کے ثبوت کے لیے کافی ہے جو ایک اعتبار سے ’’اوپر‘‘ سے ماخوذ ہو اور اساسی طور پر (یعنی استقرائً a priori )ایک تجربی کردار کا دعویٰ نہ کرے۔ لیکن اشیا کی یہ ترتیب گو ہماری فطرت میں نقش ہے، جدید نفسیات اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔ فکر پرستیِ دیروز کے خلاف اپنے رد عمل کے باوجود یہ کسی بھی دوسری سائنس کی طرح ماورا الطبیعیات سے ذرا بھی قریب نہیں آ سکتی بلکہ اس کے برعکس اس کا تناظر ایسا ہے جو فوق الفکری supra-rational کو مجہول الفکر۸؎ ۔irrational قرار دینے کی وجہ سے نفسیا ت کے لیے بدترین مغالطوں میںمبتلا ہونے کے میلانات پیدا کرتا ہے۔ جدید نفسیات میں جس چیز کاکلیتاً فقدان ہے وہ ہیں معیارات ؛ جن کی سند سے یہ نفس کے پہلوئوں یا رجحانات کو کائناتی سیاق و سباق میں ان کے مقام پر رکھ سکے۔ روایتی علم النفس میں یہ معیارات دو بنیادی ’’ابعاد‘‘ dimensions سے ملتے ہیں۔ ایک تو علم کائنات یا کونیات Cosmology کے حوالے سے جو سلسلۂ مراتبِ ہستی میں نفس اور اس کی جہات کا محلِ وقوع بتاتی ہے اور دوسرے اخلاقیات Morality سے جس کا ایک روحانی مقصد ہوتا ہے۔ مؤخرالذکر اگرچہ عبوری طور پر انفرادی اُفق کو اپنا سکتی ہے تاہم یہ ان کا ئناتی اُصولوں کو پیش نظر رکھتی ہے جو نفس کو اس سے کہیں وسیع مرتبے سے وابستہ رکھتے ہیں۔ علمِ کائنات کئی اعتبار سے نفس کو گھیر کرمحدود کرتا ہے؛ روحانی اخلاقیات اس کی تھاہ کا سراغ لگاتی ہے جیسے پانی کا دھارا اپنی قوت اور سمت کا انکشاف صرف اس وقت کرتا ہے جب اس کا ٹکرائو کسی مزاحم چیز سے ہوتا ہے۔ اس طرح نفس اپنے میلانات اور اتار چڑھائو صرف ایک غیر متغیر اُصول کے حوالے سے ہی ظاہر کر سکتا ہے۔ جو شخص بھی نفس کی ماہیت جاننا چاہتا ہے اسے نفس کی مزاحمت کرنا ہوگی اور نفس کی مزاحمت صحیح معنوں میں تبھی ہو سکتی ہے جب وہ اپنے آپ کو، بالفعل نہیںتو کم از کم بالقوہ یا علامتی طور پر، اس نقطے پر لے آئے جو ذاتِ الٰہی کے متوافق ہو یا العقل کے متوافق جو (اوّل الذکر) کی شعاعوں سے متشابہ ہے۔ لہٰذا روایتی علم النفس کی ایک غیر شخصی اور ’’سکونی‘‘ جہت ہے یعنی علم کائنات اور ایک شخصی اور’’عملی‘‘ جہت یعنی اخلاقیات یا علم الاخلاق اور یہ لوازم میں سے ہیں کیونکہ نفس کا سچا، کھرا علم اپنی ذات کے علم کا نتیجہ ہے۔ وہ جو اپنے جوہر کی آنکھ سے خود اپنی نفسی صورت کو ’’معروضیت دینے‘‘ کے قابل ہے اسی امر سے عالمِ رُوانی یا عالمِ لطیف کے ممکنات کو جانتا ہے۔ یہی تجلیِ عقل ہے جو نفس کے ہر مقدس علم کی پیداوار بھی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو ضامن بھی۔ جدید رُوانشناسوں کی اکثریت کے لیے روایتی اخلاقیات، جسے وہ فوراً ایک خالصتاً سماجی اور رواجی اخلاقیات سمجھ بیٹھتے ہیں ایک قسم کے رُوانی بند psychic dam (یا نفس کی ناکا بندی) کے سوا کچھ نہیں جو کسی موقع پر مفید بھی ہے مگر جو بیشتر اوقات فرد کی ’’نارمل‘‘ نشوو نما میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے بلکہ اس کے لیے مضر ہوتا ہے۔ یہ خیال خاص طور پر فرائڈکی تحلیلِ نفسی نے پھیلایا ہے جس کا استعمال بعض ممالک میں بہت عام ہو چلا ہے، جہاں اس نے عملاً وہ منصب غصب کر لیا ہے جو دوسرے مقامات پر اعتراف گناہ،۹؎ کی رسم کو حاصل ہے۔۱۰؎ نفسیاتی معالج نے مذہبی پیشوا کی جگہ سنبھال لی ہے اور وہ اُلجھنیں جو پہلے دبا دی جاتی تھیں ان کے پھوٹ پڑنے نے اعلانِ نجات یا مغفرت کی جگہ لے لی ہے۔ وہ اعتراف جو بطور عبادت کیا جاتا ہے اس میں مذہبی پیشوا الحق کاغیر شخصی (اور لازماً محتاط) نمائندہ ہوتا تھا جو فیصلہ دیتا تھا اور معاف کرتا تھا۔ نادم گناہ گار اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے ایک اعتبار سے ان نفسی رجحانات کو ایک معروضی نوعیت دے دیتا تھا جن کے وہ گناہ مظہر تھے۔ ندامت اور توبہ سے وہ خود کو ان سے علیٰحدہ کرلیتا تھا اور رسمی اعلانِ نجات حاصل کرنے کے بعد اس کا نفس پھر سے اپنے قدیم توازن سے بالقوہ مربوط اور اپنے الوہی جوہر پر مرکوز ہوجاتا تھا۔ دوسری طرف فرائڈی تحلیلِ نفسی۱۱؎ کے ضمن میں انسان کو اپنا نفسی انجر پنجر خدا کے سامنے نہیں بلکہ اپنے جیسے ایک انسان کے سامنے ننگا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے نفس کی ان گڈمڈ اور مخفی گہرائیوں سے دور نہیں ہٹتا جن کو تحلیل کرنے والابے نقاب کرتا ہے یا ان میں ہلچل مچاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ انھیں خود پر منطبق کرتا ہے کیونکہ اسے خود سے کہنا پڑتا ہے کہ ’’فی الحقیقت میں ایسا ہوں‘‘ اور اگر وہ کسی صحت بخش اور مفید جبلت کی مدد سے اس طرح کے نیچے سے آنے والے التباس یا فریب پر غالب نہ آ سکے تو یہ اس کے اندر ایک ڈھکا چھپا احساسِ آلودگی چھوڑ جاتا ہے۔ بیشتر صورتوں میں ایک اجتماعی متوسطیت mediocrity کے لیے اپنا آپ ترک کرنا ہی اس کے لیے اعلانِ نجات کے مترادف ہوگا اس لیے کہ اپنی ذلت سَہ جانا اس وقت آسان تر ہوتا ہے جب دوسرے بھی اس میںشریک ہوں۔ بعض معمولوں میں اس قسم کی تحلیلِ نفسی کی جو بھی وقتی اور جزوی افادیت ہو مذکورہ بالا صورت حال ہی اس کا عمومی نتیجہ ہوتی ہے بشرطیکہ اس کے مقدمات وہی ہوں جو اس وقت ہیں۔۱۲؎ اگر روایتی تہذیبوںکے علم طب میں جدیدمعالجۂ روانی(یانفسیاتی علاج) Psychotherapy سے مشابہ کوئی چیز معروف نہیں تھی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نفسی Psychic کا علاج نفسیPsychic ہی کے ذریعے سے نہیں ہو سکتا۔ نفس لا تعداد اعمال و ردِ اعمال کی اقلیم ہے۔ یہ اپنی مخصوص فطرت کی اعتبار سے اصلاً متلون اور پُر فریب ہے اس لیے اس کی اصلاح صرف کسی ایسی چیز کے سہارے ہو سکتی ہے جو اس سے ’’بیرون‘‘ اور ’’بالاتر‘‘واقع ہو۔۱۳؎ بعض صورتوں میںجسم میں توازنِ اخلاط بحال کر دینے سے بھی رُوانی روگ (نفسیاتی مرض) پر مفید اثر ہوتا ہے کیونکہ ایسے امراض میںیہ توازن بالعموم بگڑ جاتا ہے۔ ۱۴؎ بصورتِ دیگر صرف روحانی ذرائع مثلاً عبادت، دفع آسیب ۱۵؎ یا مقدس مقامات کی زیارت ہی سے نفس کی صحت بحال ہو سکتی ہے۔ ہمیں اس امر کا بخوبی علم ہے کہ جدید رُوانشناسی (نفسیات) مذکورہ بالا روحانی ذرائع کی نفسیاتی توجیہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی نگاہ میں رسم یا عبادت الگ چیز ہے اور اس کی دینی یا سّری تفسیر شے دگر۔اس نے من مانی کر کے ایسی رسموں کے اثرات کو صرف نفسی اور داخلی قلمرو تک محدود سمجھ لیا ہے اور ان اثرات کا سبب ان موروثی رُوانی رغبات یا میلانات psychic dispositions سے منسوب کر دیا ہے جو ان کے مفروضے کے مطابق اس رسم کی صورت سے عمل پذیر ہوتی ہیں۔ اس عبادت یا علامت میں کسی لازمانی اور فوق الانسانی معنی مخفی ہونے کا تو کوئی سوال ہی نہیں رہا۔ گویا نفس اپنے انفرادی یا اجتماعی استغراقات preoccupationsکے موہوم اظلالprojection کو مان کر اپنا علاج خود کر سکتا ہے۔ مفروضۂ بالا میں کچھ بھی جدید نفسیات پر شاق نہیں گزرتا کیونکہ وہ تو اس سے کہیں آگے نکل جاتی ہے۔ جب وہ یہ مان لیتی ہے کہ فکر کی بنیادی اوضاع، قواعد و قوانینِ منطق صرف موروثی (پُرکھوں کی)عادات کی تلچھٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔۱۶؎ یہ راستہ سیدھا عقل کی تردید اورمہلک حیاتیاتی جبریتوں fatalities کی طرف لے جاتا ہے بشرطیکہ نفسیات خود اپنی بربادی کا سامان کیے بغیر وہاں تک پہنچ سکے۔ نفس کامقام دوسری کائناتی حقیقتوں یا اقلیم کے حوالے سے معین کرنے کے لیے اس کونیاتی نظام کا ذکر کرنا ضروری ہے جس میں مراتب وجود کو دائروں یا ہم مرکز کروں کی شکل میںظاہر کیا گیا ہے۔ یہ نظام عالمِ مرئی کے زمین مرکز تصور کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ اس میں مادی دنیا کو علامتی طور پر ہمارے ارضی ماحول کے مماثل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے گرد عالمِ لطیف یا عالمِ رُوانی کا psychic world کا کرہ یا کرے پھیلے ہوئے ہیں۔ جنھیں عالمِ روحِ مطلق نے گھیر رکھا ہے۔ طبعاً یہ نقشہ اپنی مکانی نوعیت کا اسیر ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ ان مختلف مراتب کے درمیان موجود رشتے کا بھی بخوبی اظہار کرتا ہے۔ ان میں سے ہرکرہ ذاتی اعتبار سے ایک پورا اور کاملاً متجانس homogeneousکُل ظاہر کیا گیا ہے جب کہ اس سے ملحقہ اور برتر کرے کے ’’نقطۂ نظر‘‘ سے یہ اس (برترکرہ) contentsمیںسے ہے۔ چنانچہ عالمِ جسدیcorporeal world اپنی سطح پر اور اس سطح کے نقطۂ نظر سے عالم لطیف subtle world کو نہیں جانتا جس طرح مؤخر الذکر عالمِ فوق الصور Supra-formal کا ادراک نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ (عالمِ لطیف) صرف ان چیزوں پر مشتمل ہے جو شکل رکھتی ہوں۔مزید برآں ان عوالم میں سے ہر ایک پر اس سے فائق اور اسے محصور کرنے والے عالم کا تسلط ہے اور وہی اسے جانتا ہے۔ روح کی غیر متغیر اور بلاصورت formless اساس سے حقائقِ لطیفہِ صورت ۱۷؎ کے ذریعے علیحدہ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف نفس ہے جو اپنے حسی قویٰ کے ذریعے عالم جسمی کا ادراک کرتا ہے۔ اشیا کا یہ دوہرا رشتہ جوہماری بینشِ انفرادی سے apriori قیاساً مخفی ہے، اس وقت ’’زندہ‘‘ گرفت میں آسکتا ہے جب کوئی ادراکِ حسی کی ماہیت پر غور کرے۔ ایک طرف تو اس کی پہنچ عالم جسدی corporealتک ہے اور کوئی بھی فلسفیانہ کرتب ہمیں اس کے خلاف ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا، دوسری طرف اس میںبھی کوئی شک نہیں کہ ہمیں دنیا کا جتنا بھی ادراک ہوتا ہے وہ صرف دنیا کے وہ عکوس یا شبیہاتimages ہوتے ہیں جو ہمارا ملکۂ ذہنی یا قویٰ ذہنی سنبھالے رکھتے ہیں، اس لحاظ سے ارتسامات،تاثرات، یادوں اور امیدوں کا سارا تانابانا، مختصر یہ کہ وہ سب کچھ جس سے دنیا کا محسوس ہونے والا استمرار continuityاور منطقی ارتباط coherence عبارت ہے، سب رُوانی یا لطیف نوعیت ہی کا ہوتا ہے۔ یہ جاننے کی کوشش کہ اس لطیف استمرار کے ’’باہر‘‘ کیا ہے ایک کارِعبث ہے کیونکہ عالمِ جسدی یا جسمانیات تو صرف اس کے محتویات میں سے ہیں خواہ اپنے مرتبہ کے آئینے میں دیکھنے پر بظاہر ایک مادی طور پر خود مختار یا مستقل بالذات autonomous نظام نظر آتا ہو۔۱۸؎ یہ بدیہی ہے کہ صرف انفرادی نفس نہیں بلکہ سارا مرتبۂ لطیف ہے جو عالمِ طبیعیات پر محتوی۱۹؎ ہے۔ مؤخر الذکر کا منطقی ربط و تلافق اوّل الذکر کی وحدت پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس امر سے بالواسطہ طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ عالمِ محسوس کے متعدد انفرادی تناظر visions بکھرے ہوئے ہونے کے باوجود اپنے جوہر میں ایک دوسرے سے منطبق ہوتے ہیں اور ایک مسلسل کل میںcontinuous whole مربوط ہیں۔ انفرادی نفس اس وحدت میںدونوں طرف شریک ہوتا ہے، اپنے قواے آگہی کی ساخت کے ذریعے کائناتی نظام کی توثیق و اثبات کرتے ہوئے اور اپنی ماہیت سے بھی، بطور ایک عامل کے جو اپنے انداز میں عالم طبیعی پر محتوی ہے۔ وگرنہ باعتبار دگر عالم طبیعی صرف فاعل انفرادی کے حوالے سے ’’ایک عالم‘‘ ہے شعور کے موضوع و معروض (عامل و معمول) میں بٹ جانے کی وجہ سے اور یہ انشقاق دراصل نفس کی انائی egoic تقطیب کانتیجہ ہے۔ اسی تقطیب کی وجہ سے۔ نفس مرتبۂ لطیف کی کلیت سے متمیز کیا جاتا ہے ___ فلاطینوس کا نفسِ کلی یا نفسِ کائناتیUniversal or Total Soul ___ گومن حیث الجوہر وہ اس مرتبہ سے علیحدہ نہیں ہوتا کیونکہ اگر یہ اس طرح جدا ہوتا تو ہمارا دنیا کا مشاہدہ حقیقت کے مطابق نہ ہوتا جب کہ یہ مشاہدہ ادراک کی تمام قیود اور اضافیت کے باوجود مطلوبہ مطابقت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بالعموم ہمیں عالمِ لطیف کے صرف ایک منفصلisolatedٹکڑے ہی کا ادراک ہوتا ہے ___ وہ ٹکڑا جو ہم ’’ہیں‘‘اور جو ہماری ’’ہم‘‘ (یا انا) کی تشکیل کرتا ہے ___ جب کہ عالمِ محسوس ہم پر اپنے عالمِ کبیری macrocosmic استمرار میں ظاہر ہوتا ہے گویا ایک کل ہو جس میں ہم بھی شامل ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ عالمِ لطیف تفرد کا میدان ہے؛ فی الحقیقت ہم عالم لطیف کے سمندر میں اس طرح ڈوبے ہوئے ہیں جیسے مچھلیاں پانی میںاور انھی کی طرح ہم وہ نہیں دیکھ سکتے جس سے ہمارا عنصر مرکب ہے۔ رہا عالمِ لطیف کے ’’داخلی‘‘ اور عالمِ جسدی کے ’’خارجی‘‘ ہونے کے درمیان تخالف opposition تو اس کا وقوع صرف مؤخرالذکر کے حوالے سے اور اس کے تفعل function میںہوتا ہے۔ اپنے آپ میں عالمِ لطیف نہ ’’خارجی‘‘ ہے نہ ’’داخلی‘‘ زیادہ سے زیادہ یہ ’’غیر خارجی‘‘ ہے جب کہ عالمِ جسدی بحیثیتِ عرفی خارجی ہے جس سے یہ مزید ثابت ہوتا ہے کہ اسے مستقل بالذات موجودیت (یا کونیت) Existence حاصل نہیں۔ مرتبۂ رُوانی اور مرتبۂ جسدی دونوں کونِ صوری formal existence کے جزو ہیں؛ مرتبۂ لطیف اپنی تمام وسعت سمیت کونِ صوری سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسے لطیف ہم اس لیے کہتے ہیں کہ یہ جسدیت یا جسمیت کے قوانین سے آزاد ہے۔ قدیم ترین اور فطری میں سے ایک کے رموزو علائم مطابق مرتبۂ لطیف کا موازنہ زمین کے گرد پھیلے ہوئے کرہ ہوا سے کیا جا سکتا ہے جو تمام مسام دار اجسام میں سرایت کیے ہوئے ہے اور ایک مرکبِ حیات کا کام دیتی ہے۔ کوئی سی قسم کے کسی بھی مظہرphenomenon کو صرف اسی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ حقیقتِ کاملہ سے اس کے ’’افقی‘‘ اور ’’عمومی‘‘ تعلقات سے آگہی حاصل کی جائے۔ اس صداقت کا اطلاق ایک خاص طور پر بلکہ ایک اعتبار سے عملی طور پر رُوانی مظاہر پر ہوتا ہے۔ ایک ہی نفسی ’’واقعہ‘‘ بیک وقت ایک حسی محرک یا انگیختimpulsion کے جواب میں بھی پیدا ہو سکتا ہے، کسی خواہش کے ظہور کے طور پر بھی، کسی داخلی عمل کے نتیجے کے طور پر بھی نیز فرد کی موروثی (پُرکھوں کی) اور مثالی typical ہیئت کے آثار اور اس کے عبقریت یا فطانتgenius کے اظہار کے طورپر بھی نمودار ہو سکتا ہے۔ یا پھر ایک فوق الانفرادی حقیقت کے عکس کے طور پر۔ زیر بحث نفسی مظہر کا ان میں سے کسی بھی ایک پہلو سے جائزہ لینا تو روا ہے لیکن نفس کے خیالات اور محرکات کی ان پہلوئوں میں سے صرف ایک یا کئی ایک سے تشریح کرنے کی کوشش قطعاً ناسزاوار ہے۔ اس ضمن میں ہم ایک ایسے طبیب نفسیpsychiatristکے الفاظ سے اقتباس پیش کرنا چاہتے ہیں جو معاصر نفسیات کی حدود سے بخوبی واقف معلوم ہوتا ہے: ہندوئوں کی ایک قدیم کہاوت ہے جس کی نفسیاتی صداقت سے انکار کرنا مشکل ہے ___ انسان جو سوچتا ہے وہ بن جاتا ہے ___ اگر کوئی شخص مستقل اعمالِ حسنہ پر سوچتا رہے تو آخر کار بھلا مانس بن کر رہے گا: اگر کوئی ہر دم ضعف و ناتوانی کے بارے میں ہی سوچے تو کمزور ہوگا؛ اگراپنی (جسمانی یا ذہنی) قوت بڑھانے کے بارے میں سوچا کرے تو قوی ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص برسوں تک تقریباً روزانہ جہنم بھڑکانے میںجُتا رہے،۲۰؎ منظم طور پر ہر اعلیٰ چیز کی تشریح اسفل کی اصطلاحات میں کرے اور ساتھ ہی وہ سب کچھ فراموش کر دے جو بنی نوع انسان کی تاریخ میں(اس کی افسوسناک غلطیوں اور بداعمالیوں کے باوجود) قابل قدر اور سرمایۂ وقار سمجھا گیاہے تو اس خطرے سے بچنا شائد ہی ممکن ہو کہ قوتِ امتیاز جاتی رہے، تخیل (جو ایک سرچشمۂ حیات ہے) ملیامیٹ ہو جائے اور ذہنی اُفق سکڑ کر رہ جائے۔۲۱؎ عمومی شعور انفرادی نفس کے صرف ایک محدود حصے کو روشن کرنے کا کام آتا ہے اور مؤخرالذکر عالمِ رُوانی کا صرف ایک جزوِ اصغر ہے۔ تاہم نفس اس عالم کے باقی حصے سے جدا نہیں ہے۔ نہ ہی اس کی صورت حال اس جسم کی سی ہے جو اپنی مخصوص حدد وسعت میں سختی سے قید اور دوسرے اجسام سے جدا ہو۔ وہ چیز جو نفس کو اس وسیع عالمِ لطیف کے حاصل جمع سے ممیز کرتی ہے وہ فقط اس کے اپنے رجحانات ہیں جس سے اس کی تعریف (ایک سہل کردہ تشبیہ کے ذریعے ) یوں کی گئی ہے جیسے ایک دی ہوئی مکانی جہت اپنے عقب میں آنے والی شعاع نور کی تحدید کرتی ہے۔ انھی رجحانات کے ذریعے نفس کا ان تمام کائناتی امکانات سے رابطہ قائم ہے جو متشابہ رجحانات یا صفات سے متعلق ہیں۔ نفس ان کو جذب کرتا ہے اور ان میںجذب ہوتاہے اسی وجہ سے کائناتی امکانات کا علم (ہندو کونیات میںگُن۲۲؎ ) نفس کی معرفت کے لیے بنیادی ہے۔ تصورات کی اس سطح پر جوہری اہمیت نفسی مظہرpsychic phenomenon کے خارجی سیاق و سباق، اس کے عرضی موقعہ ظہور کی نہیں ہوتی بلکہ ستوا، رجاس اور تماس سے اس کے ربط کی ہوتی ہے جو بالترتیب ’’صعودی‘‘upward ؛ منبسطexpansive اور سافلdownward میلانات ہیں۔ ربط اسے داخلی اقدار کی درجہ وار ترتیب میں اس کا رتبہ عطا کرتا ہے۔ نفس کے محرکات کا ادراک چونکہ صرف ان صورتوں کے پار سے (ذریعے) ہوتا ہے جن میں یہ محرکات ظاہر ہوتے ہیں اس لیے ہر ایک نفسیاتی تخمینے کا ان ہی صورتوں یا مظاہر پر مبنی ہونا ناگزیر ہے۔ صورت خواہ کوئی بھی ہو اس میںجو کردار ’’گُن‘‘ ادا کرتے ہیں اس کو صرف خالصتاً کیفیتی qualitative انداز میں جانچا جا سکتا ہے یعنی ان معیارات کے حوالے سے جو صریح اور فیصلہ کن ہونے کے باوجود کسی طرح بھی مقداری؍ کمیتی qualitativeنہیں ہیں۔ ان جیسے معیارات ہمارے زمانے کی ناسوتی profane نفسیات میں سرے سے مفقود ہیں۔ کچھ نفسی ’’واقعات‘‘ایسے ہوتے ہیں جن کے نتائج و عواقب عالم لطیف کے تمام درجات کو ’’عموداً‘‘طے کر لیتے ہیں کیونکہ ن کا مس اعیان essences سے ہوتا ہے۔ دوسری سادہ، عام قسم کی حرکات رُوانی ہیں جو نفس کی ’’افقی‘‘ آمد و رفت کی تابع ہیں اور آخری وہ ہیں جو تحت الانسانی گہرائیوں سے صادر ہوتے ہیں۔ اوّل الذکر پوری طرح بیان و ابلاغ کی گرفت میں نہیں آتے۔ ان میں ایک ’’اسرار‘‘ کاعنصر شامل ہوتا ہے۔ پھر بھی یہ تخیل میںجن صورتوں کو کبھی کبھار ابھارتے ہیں وہ صاف، واضح اور بین ہوتی ہیں مثلاً وہ جن سے صحیح فنون مقدسہ عبارت ہیں۔تیسری قسم یعنی ابلیسی ’’القا‘‘ کی صورتیں ہی سرے سے ناقابل فہم ہوتی ہیں۔ یہ (القائ) اپنے ظہور صوری کی مبہم، تیرہ و مجہول نوعیت کے ذریعے حقیقی اسرار کی ’’نقل‘‘۲۳؎ اتارتے ہیں جس کی مثالیں معاصر آرٹ میں بآسانی تلاش کی جا سکتی ہیں۔ تاہم نفس کے ہئیتی (صوری)مظاہر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات نہیںبھولنی چاہیے کہ انسان کا نفسی۔ جسدی نظام عجیب حیران کن انقطاعاتcaesuras یا توقفات discontinuities کامظاہرہ کر سکتا ہے، چنانچہ، مثال کے طور پر، نفس کے بعض احوال کے سلسلے میںجو مجذوبوں fools in God کے نام سے معروف قدرے ’’نراجی‘‘ طبقہ عارفین contemplatives میں پائے جاتے ہیں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث روحانی مراتب کا ظہور باقاعدہ اور بالانسجام نہیں ہور ہا اور فکر کو کام میں نہیں لایا جارہا۔ اس کے بالعکس ایک اصلاًامراضیاتی pathological حالت جس پر تحت الانسانی اور گڈمڈ میلانات کا غلبہ ہو، اتفاقاً اور ضمنی طور پر فوق الارضی حقیقتوں کی جانب درواکر دیتی ہے۔اس سارے بیان کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ نفسِ انسانی اتھاہ پیچیدگی کا حامل ہے۔ بحیثیت کُل، عالم لطیف جسمانی دنیا سے بدرجہاد وسیع اور متنوع ہے۔دانتے نے اس کا بیان یوں کیا ہے کہ کرہ ہائے سیارات کے سارے درجات کو عالم لطیف کے اور صرف ارضی ماحول کو جسمانی عالم کے متوافق قراردیا ہے۔اس کے نظام میں جہنم کا تحت الثرائی مقام صرف اس بات کا اشارہ ہے کہ مذکورہ طبقات نارمل انسانی مرتبے سے نیچے واقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے بعض ماہرینِ کونیات نے علامتی طور پر جہنموں کو زمین و آسمان کے درمیان رکھا ہے۔۲۴؎ عالم لطیف کا تجربہ داخلی ہوتا ہے سوائے ان چند علوم کے ضمن میں جن سے جدید لوگ تقریباً ناواقف ہیں۔ داخلی اس لیے ہے کہ شعور لطیف صورتوں سے متحد ہونے میں ان کے میلانات سے متاثرہو جاتا ہے جیسے کہ روشنی راہ میں پڑنے والی کسی لہر کی ہیئت کی وجہ سے اسے عبور کرتے ہوئے اپنے راستے سے ہٹ جاتی ہے۔ عالم لطیف صورتوں پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تنوع اور تضادcontrastسے عبارت ہے۔ مگر تخیل محسوس ۲۵؎ sensible imagination میں اپنے اظلال سے باہر ان صورتوں کو فی نفسہا In themselves معین(محدود) اور مکان spatialنقش و خط حاصل نہیںہیں جیسے مادی صورتوں میں ہوا کرتا ہے۔ یہ (صورتیں) سراسر عمل ہیں بلکہ یوں کہیے کہ حرکی ہیں اس لیے کہ عمل خالص صرف ’’صورِ اصلیہ‘‘ یا اعیان ثابتہ Archetypes کا خاصہ ہے جو روح محض کے عالم میں پائے جاتے ہیں۔ انا Ego یا انفرادی نفس جو عالم لطیف کی صورتوں میں سے ایک ہے لہٰذا اس صورت کا ساتھی شعور بھی لازمی طور پر حرکی اور بلاشرکت غیرے کام کرنے والا ہوگا۔ یہ دوسری لطیف صورتوں کا تحقق صرف اتنا ہی کرتا ہے جہاں تک وہ اس کی اپنی صورت انائیEgoic form کی شرائط و جہات modalities میں ڈھل جائیں۔ چنانچہ عالم خواب میں انفرادی شعور گو عالم لطیف میں دوبارہ واپس جذب ہو جاتا ہے مگر پھر بھی اس کا رُخ اپنے آپ کی طرف ہی رہتا ہے۔ اس حالت میں جتنی بھی صورتیں یہ بسر کرتا ہے وہ خود کو عامل انفرادی (موضوع) کی تمدیداتِ محض prolongations کی صورت میں پیش کرتی ہیں یا کم از کم ظاہراً یہی معلوم ہوتی ہیں۔جب گزرے ہوئے خوابوں پر غور کیا جائے، خصوصاً ان پر جوبیداری کی حالت کے قریب ہوتے ہیں۔ اس داخلیت (موضوعیت) کے باوجود خواب دیکھنے والے کا شعور فی نفسہٖ عالم لطیف کے بالکل مختلف ’’علاقوں‘‘ سے صادر ہونے والے اثرات کے لیے بدایتاً غیر قابل نفوذ نہیں۔ اس کا ثبوت دوسری چیزوں کے علاوہ مستقبل کے واقعات کے اور مواحاتی۲۶؎ telepathic خوابوں سے بھی ملتا ہے جن کا بہت سے لوگوں کو تجربہ ہوا ہے۔۲۷؎ فی الحقیقت اگر خواب کی تمثالوںimageryکی بُنت فاعل (موضوع) کے اپنے ’’جوہر‘‘ سے ہوتی ہے،وہ جوہر جو اس کی اپنی صورتِ رُوانی کا تقدمی و قوع بالفعل progressive actualization ہوتا ہے ___ تو بھی ان میں ضمناً اور مختلف درجوں میں کائناتی سطح کی حقیقتوں کا ظہور ہوا کرتا ہے۔ خواب کے محتویات کا جائزہ اس کے مختلف رشتوں کے تحت لیا جا سکتا ہے۔ اگر اس کے مواد ترکیبی کی تحلیل کی جائے تو یہ پتہ چلے گا کہ یہ ہر طرح کی یادوں پر مشتمل ہے اور اس لحاظ سے موجودہ نفسیاتی توضیح جو خواب کو تحت الشعوری تلچھٹوںکا اظہار کہتی ہے،بڑی حد تک درست ہے تاہم اس سے اس بات کا انکار لازم نہیں آتا کہ خواب ایسے ’’مواد‘‘ پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے جو کسی طرح بھی خواب دیکھنے والے کے ذاتی تجربے سے منسوب نہیں ہوتے اور جن کی مثال ایک فرد سے دوسرے کی طرف انتقال رُوانیpsychic transfusion کی سی ہے۔ پھر ایک سوال خواب کی گنجائشeconomy کا بھی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمس۔ گ، ژنگ کی وضاحت کا اقتباس دے سکتے ہیں جو اس کے نظریہ کے صریحاً غلط ہونے کے باوصف اپنی جگہ درست ہے۔ خواب لاشعور کی عمل سے ماخوذ ہوتاہے اس میں خوابیدہ مخنویاتcontents کی نمائندگی کرتا ہے؛ اس میں درج تمام محتویات کی نہیں بلکہ صرف ان میں سے ان چند کی جو تلازم کے ذریعے، انتخاب، تعلیم و تشکیلcrystalization اور بالفعل وقوع پاتے ہیں اور یہ شعور کی لمحاتی حالت کی مطابق ہوتا ہے۔۲۸؎ جہاں تک علم تعبیر الرویا۲۹؎ کا تعلق ہے یہ نفسیات جدیدہ کے بس سے باہر ہے اگرچہ اس نفسیات نے اس سمت میں کوششیں بھی کی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ نفس میں منعکس ہونے والی شکلوں کی درست تفسیر یہ جانے بغیر ممکن نہیں کہ یہ (شبیہیں) حقیقت کی کس سطح سے منسوب ہیں۔ خواب میں ہم جس چیز کی صورت رُوانیpsychic formکو بسر کرتے ہیں وہ فی نفسہٖ جیسی ہوتی ہیں خواب سے بیدار ہونے پر ذہن میں باقی ماندہ شبیہیں صرف ان کی پرچھائیاں ہوتی ہیں۔ بیداری کی حالت کی طرف لوٹتے ہوئے ایک طرح کا عمل ریختنdecantation واقع ہوتا ہے جس کا احساس اس سے کیا جا سکتا ہے کہ خواب میں جو ایک حقیقت کا خلقی عنصر ہوتا ہے وہ کم و بیش جلد زائل ہو جاتا ہے تاہم خوابوں کی ایک نوع ایسی بھی ہوتی ہے جس کی یاد اپنی کاٹ دار وضاحت سمیت باقی رہتی ہے خواہ ان باتوں کے عمیق محتویات چھپ کیوں نہ گئے ہوں، قدیم علمِ رویا oneirocritic اس کے وجود سے خوب واقف تھا۔ ایسے خواب اکثر اوقات بوقت سحر آتے ہیں اور بالآخر بیداری کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ہمیشہ معروضیت کا ناقابل انکار احساس ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان میں بڑے ذہنی تیقن کے علاوہ بھی کچھ شامل ہوتا ہے مگر بالا ازیں اور خواب دیکھنے والے پر ان کے اخلاقی اثرات سے بھی علیحدہ ان خوابوں کا سرمایہ امتیاز ان کی ہیئتوں کا اعلیٰ معیار ہے جو ہر طرح کے گدلے گڈمڈ تلچھٹ سے آزاد ہوتی ہیں۔ یہ وہ خواب ہیں جو فرشتہ غیب کی طرف سے آتے ہیں یعنی اس عین (جوہرEssence) کی طرف سے جو نفس کو وجود کے فوق الصوری supra-formal مراتب سے منسلک کرتا ہے۔ اب ربانی یا ملائکی القا کے خواب ہوئے تو ان کے اُلٹ کا وجود بھی ہونا ضروری ہے یعنی شیطانی محرکات کے خواب جو مقدس صورتوں کی کھلی ہوئی تحریفاتِ مضحک کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے ہمراہ خنک و پُرسکون وضوح و انشراح کا احساس نہیں ہوتا بلکہ غلبۂ و ساوس اور دورانِ سر کا احساس ہوتا ہے۔ پاتال کی کشش ایسی ہی ہوتی ہے۔ جحیمی اثراتinfernal influences بعض اوقات کسی طبعی داعیہnatural passion کی لہر پر سوار ہو کر اُبھر آتے ہیں جو ان کے لیے ایک راستہ کھول دیتی ہے تاہم ان کو ان کے منفی، متکبرانہ میلان کی وجہ سے اس داعیہ کے ابتدائی کردار سے متمیز کیا جا سکتا ہے۔ یہ اثرات یا توتلخی ورنہ افسردگی کو اپنے جلو میں لاتے ہیں۔ پاسکل نے کہا تھا: He who tries to play the angel will play the beast اور فی الواقع خواب میں یا اس کے علاوہ کہیں بھی تحریفِ مضحک پر اکسانے کے لیے اس آدمی کے لاشعوری رویۂ خود نمائی سے زیادہ معاون کوئی چیز نہیں جو خدا کو اپنی انائے مخصصہ particularised ego سے مخلوط کر دیتا ہے۔ یہ بیشتر مطالعہ ہائے اختلال ذہنی کا کلاسیکی محرک رہا ہے اور اس کا فرائڈ کی بعد کی نفسیات Psychologism نے خوب استحصالexploit کیا ہے۔۳۰؎ س۔ گ۔ ژنگ نے خوابوں ہی کی تحلیل سے آغاز کرکے اپنے مشہور نظریۂ اجتماعی لاشعور کی تکمیل کی تھی۔ ژنگ نے جب یہ دیکھا کہ خوابوں میںکی شبیہوں کی ایک خاص قسم ایسی ہے جس کی توجیہ صرف انفرادی تجربوں کی تلچھٹ کی اصطلاحات میں نہیں ہو سکتی تو اس نے کشورِ ’’لاشعور‘‘ میں، جس سے خواب غذا پاتے ہیں، دو منطقوں کی تمیز شروع کر دی۔ ایک ’’نجی یا شخصی منطقہ‘‘جس کے محتویات آخر کار انفرادی نفسی زندگی کے دوسرے رخ کی نمائندگی کرتے ہیں اور دوسرا ’’اجتماعی‘‘ منطقہ جو غیرشخصی نوعیت کے مخفی یا ناپیدا latent نفسی میلانات سے مرکب ہے۔ وہ میلانات جو کبھی بھی شعور کی بلا واسطہ گرفت میں نہیں آتے مگر’’علامتی‘‘ خوابوں اور ’’نامعقول‘‘ irrational محرکات کے ذریعے بالواسطہ اپنا اظہار کرتے ہیں۔ بادی النظر میں اس نظریہ میں کوئی افراط یا غلو نہیں معلوم ہوتا سوائے یہ کہ اس نے علامت کی ضمن میں ’’نا معقول‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ سمجھنا تو آسان ہے کہ انائے اختباری empirical ego پر مرکوز انفرادی شعور وہ سب کچھ اپنے جوانب میں یا باہر چھوڑ دیتا ہے جو مؤثر طور پر اس مرکز سے وابستہ نہ ہو، اسی طرح جیسے ایک مخصوص سمت میں ڈالی جانیوالی روشنی گردو پیش کی تاریکی کی جانب گھٹتی چلی جاتی ہے۔ مگر ژنگ معاملے کو اس طرح نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک نفس کا غیر شخصی منطقہ علی الاطلاقas such یا اپنی تعریف کی رو سے لاشعوری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے محتویات کبھی بھی براہ راست عقل کا موضوع نہیں بن سکتے خواہ اس کی کوئی جہت ہو اور خواہ اس کی کتنی ہی وسعت کیوں نہ ہو؛ ۔۔۔۔جس طرح نسلی اختلافات سے قطع نظر جسِد انسانی ایک مشترک عضوی ساخت کا حامل ہے اسی طرح (سائیکی)نفس بھی تمام تمدّنی اور ذہنی اختلافات سے ماورا ایک مشترک بنیاد substratum کامالک ہے جس کا نام میں نے اجتماعی لاشعور رکھا۔ یہ لاشعوری نفس (سائیکی) جو تمام انسانوں میں مشترک ہے ان محتویات میںسے نہیں جو شعوری بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں بلکہ صرف ان مخفی یا ناپیدا میلانات سے بنا ہے جوایسے تفاعل یا ردِ عمل کا باعث بنتے ہیں جو ہمیشہ یکساں ہوتے ہیں۔۳۱؎ اس کے بعد مصنف نے اپنی دسیسہ کاری کے ذریعے یہ باور کروایا ہے کہ یہاں معاملہ بالآخر موروثی ساختوںancestral structures کا ہے جن کی جڑیں جسمانی نظام میں پیوست ہیں۔ یہ امر کہ اجتماعی لاشعور کا وجود ہے، تمام نسلی اختلافات سے ماورا دماغی ساختوںcerebral structures کی وحدت کا سیدھا سادہ اظہار ہے۔ نفسی ارتقا کے تمام خطوط ایک ہی تنے سے پھوٹے ہیںجس کی جڑیں تمام زمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی مقام پر جانور سے رُوانی متوازیتpsyhic paralellism واقع ہوئی ہے۔۳۲؎ یہاں اس نظریے کا صاف صاف ڈارونی رنگ روپ یکھیے جس کے عقلی اور روحانی سطح پر تباہ کن نتائج اگلی سطروں میں خود پھوٹ پڑے ہیں۔ ’’اور اسی سے اساطیری محرکات mythological motives اور علامات کی، بطور عمومی انسانی ذرائع ابلاغ، مشابہت بلکہ وحدت کی وضاحت ہوتی ہے‘‘۔۳۳؎ اس طرح اساطیر اور علامت ایک موروثی روانی ذخیرہ یا سرمایہ کا اظہار ٹھہرے اور انسان حیوان کے قریب آ گیا۔ ان کی کوئی عقلی یا روحانی بنیاد تو ہے نہیں کیونکہ ایک خالصتاً نفسیاتی نقطۂ نظر سے، یہ خیال و عمل کی مشترک جبلتوں کا معاملہ ہے۔ تمام شعوری تخیل اور عمل کا ارتقا انھی لاشعوری ’’نماذج اصلیہ‘‘ prototypes سے ہوتا ہے اور ان سے مستقل وابستہ رہتا ہے خصوصاً جب تک شعور ایک بہت اعلیٰ مرتبہ وضاحت کو نہیں پہنچ جاتا۔ مطلب یہ کہ جب تک یہ اپنی تمام کارکردگی میں شعوری ارادے کی جگہ جبلت پر زیادہ انحصار کرتا ہے، جب تک یہ تحسیسی affective زیادہ اور فکری کم ہوتا ہے۔۳۴؎ اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ ژنگ کے لیے ’’اجتماعی لاشعور‘‘ ’’نیچے‘‘ یعنی عضویاتی جبلتوں کی سطح پر واقع ہے۔ یہ بات اہم ہے اور اسے ذہن میں رہنا چاہیے اس لیے کہ ’’اجتماعی لاشعور‘‘ کی اصطلاح فی نفسہٖ وسیع تر اور ایک اعتبار سے روحانی معانی پر بھی دلالت کر سکتی ہے اور اس بات کا سراغ خود ژنگ کے بعض تشبیہات دینے سے ملتا ہے خصوصاً جہاں اس نے ’’اعیان ثابتہ‘‘ Archetypes کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے بلکہ فی الحقیقت یوں کہیے کہ غصب کیا ہے تاکہ ’’اجتماعی لاشعور‘‘ کے ناپیدا latent اور من حیثہas such ناقابلِ رسائی محتویات کی طرف اشارہ کر سکے۔ اعیان ثابتہ۳۵؎ اگرچہ قلمرو رُوانی کی چیز نہیں ہیں اور ان کا تعلق عالم روح محض سے ہے تاہم وہ سطح رُوانی پر منعکس ہوتے ہیں۔۔۔ اوّلا بالقوہ شبیہوں میں۔۔۔ موقع کے مطابق واقعی شبیہوں میں ڈھل جانے سے قبل، اس لیے کسی نازک موقع پر اعیاں ثابتہ کی اصطلاح کے نفسیاتی اطلاق کا جواز ہو سکتا ہے۔ مگر ژنگ نے تو یہاں اعیان ثابتہ کی تعریف ایک ’’خلقی اُلجھن‘‘ innate complex ۳۶؎ کے الفاظ سے کی ہے اور نفس پر اس کے عمل کو یوں بیان کیا ہے ’’آدمی پر عین ثابتہ کا تسلط اسے خالصتاً اجتماعی شخصیت بنا دیتا ہے۔ ایک طرح کا نقاب (بہروپ) جس کے تلے انسانی فطرت کی ترقی رک جاتی ہے اور تدریجاً انحطاط ہونے لگتا ہے۔۳۷؎ گویا کہ عین ثابتہ ___ جو وجود کا بلاواسطہimmediateاور فوق الصوری supra-formal تعین ہے اور اسی وجہ سے غیر مقید ہے ___ کسی بھی لحاظ سے نفس پر ’’منتر پھونک‘‘ سکتا ہے اور اس کا خون چوس سکتا ہے! ژنگ کے پیش نظر امراضیاتی (سقیمی) pathological کیس میں حقیقتاً زیر بحث کیا ہے؟ یہاں سوال سیدھا سادہ انسان کی صورت لطیف میں مخفی امکانات کے افتراق کا ہے وہ صورت جو متعدد پہلوئوں پرمشتمل ہے اور ان میں سے ہر پہلو میں کچھ نہ کچھ چیز منفرد اور بے بدل ہے۔ ہر اس انسانی فرد میں جو انحطاط کا شکار نہ ہوا ہو بالقوہ ایک عورت اور مرد، ماں اور باپ، بچہ اور معمر آدمی پائے جاتے ہیں۔ اس طرح ہر انسانی فرد میں کئی مختلف صفات یا شانیں dignities ہوتی ہیں جو انسان کے اصلی original اور وجودی مقام سے جدا نہیں کی جا سکتیں۔ مثلاً ملوکیroyal اور امامتpriestlyکی صفات، یا ایک تخلیقی صناع کی صفات، عبد servantکی صفات وغیرہ ۔ عام طور پر یہ امکانات ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہاں نفس کے نامعقول ذخیرے irrational fund کا بھی کوئی سوال نہیں کیونکہ انسانی ’’صورت‘‘ کے ان متغایر امکانات یا پہلوئوں کی موجودیت باہمی co-existance فی نفسہٖ بالکل قابل فہم ہے اور صرف اسی ذہنیت یا تہذیب کی نظروں سے اوجھل ہو سکتی ہے جو باطل اور یک رُخی ہو۔ نیز نفس انسانی میں مخفی ان متعدد امکانات یا میلانات میں سے کسی ایک کی ’’خوش گوار‘‘ نشو و نما کا تقاضا ہے کہ دوسرے تکمیلی امکانات کا اتمام (تکامل)integration بھی ساتھ ساتھ ہو۔ سچا انسانی نابغہ ایک متوازن وجود ہوتا ہے۔ جہاں توازن نہ ہو وہاںکوئی عظمت نہیں ہو سکتی۔ اس نشوونما کے برعکس نفس کے امکانات میں سے ایک کی مریضانہ اور بنجر افراط ہے جو دوسرے امکانات کو کھوکر اور ان سے اعراض کرکے عمل میںآتی ہے اور جس کا نتیجہ وہ اخلاقی تحریف مضحک یا ہزلیت ہے جس کا موازنہ ژنگ نے نقاب سے کیا ہے۔ یہاں ہم اس بات کا اضافہ کردیں کہ یہاں مراد تہوارانہ Carnivalesque نقاب ہے نہ کہ مقدس نقاب یا بہروپ سے جو اپنے طور پر صراحتاً ایک حقیقی عین ثابتہ کااظہار کرتا ہے اور بنابریں ایک امکان کا جو نفس پر سحر نہیںکرتا بلکہ اس کے برعکس اسے آزاد کرتا ہے۔۳۸؎ رُوانی یا نفسی افتراق dissociation سے ہمیشہ ایک انجماد اور مخالف قطبین کے درمیان انشقاق پیدا ہوتا ہے اور یہ صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب نفس کی وہ چیز غبار آلود کر دی جائے جو عین ثابتہ کے متوافق ہے۔ یہ عدم توازن جس سے نموِ بیشhypertrophiesکی پیدائش ہوتی ہے۔ اس عدمِ توازن کے متخالف نقطوں پر کی دو مثالیں لیجیے تو رجولیت کاملہ perfect virility کسی طرح بھی انسانیت سے مستثنیٰ نہیں بلکہ اس کے برعکس اس میں شامل ہے اور اس میں تصرف کرتی ہے اور یہی معاملہ نسائیت کا بھی ہے۔اسی طرح حقیقی اعیان ثابتہ جو نفسی سطح پر واقع نہیں ہوتے ایک دوسرے کااستثنا exclusion نہیں کرتے بلکہ تضمین compriseکرتے ہیں اور ایک دوسرے میں مضمر ہوتے ہیں۔ اس اصطلاح کے افلاطونی اور مقدس معانی کے مطابق اعیان ثابتہ وجود اور علم کا منبع ہیں نہ کہ خیال و عمل کی جانب لاشعوری میلانات جیسا کہ ژنگ سمجھتا ہے۔ اگر فکر استدلالی کے ذریعے اعیان ثابتہ کو گرفت میں نہیں لایا جا سکتا تو اس کا ژنگ کے فرض کردہ ’’اجتماعی لاشعور‘‘ کے مبہم اور نامعقول کردار سے کوئی تعلق نہیں جن کے محتویات کا بالواسطہ علم ان کے سطح پر ’’پھوٹ پڑنے‘‘eruptions سے ہو سکتا ہے۔ فکر استدلالی کے سوا ایک چیز عقلی وجدان بھی ہوتی ہے اور یہی مؤخر الذکر چیز اعیان ثابتہ کی علامتوں سے شروع کرکے خود اعیان ثابتہ تک پہنچتی ہے۔ یہ نظریہ جس کے مطابق موروثی ساختیں’’اجتماعی لاشعور‘‘ کی تعمیر کرتی ہیں اگراتنی آسانی سے بیشتر فکرِ جدید پر مسلط ہو چلا ہے تو بلاشبہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حیوانات کی جبلتوں کی ارتقائی evolutionist توجیہ سے متفق معلوم ہوتا ہے۔اس نظریے کے مطابق جبلت ایک نوع speciesکی وراثت (میراث) کا اظہار ہوگی ___ صدیوں کے ملتے جلتے تجربات کا ذخیرہ ___ چنانچہ مثال کے طور پر بھیڑوں کے گلے کا کسی شکاری پرندے کی پرچھائیں پڑتے ہی میمنوں کے گرد اکٹھا ہو جانا یا بلی کے بچے کا کھیل ہی کھیل میں ایک شکاری کے سارے گربرتنا یا یہ کہ پرندے از خود جانتے ہیں کہ گھونسلہ کیونکر بنے گا۔ ان سب باتوں کی تشریح اسی مذکورہ بالا نظریے سے کی جائے گی۔ فی الحقیقت جانوروں کی حرکات کا جائزہ ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان جبلتوں میں ذرا بھی خود کاریت autumatism نہیں پائی جاتی۔ مزید براں یہ فرض کرنا کہ جبلتوں کے نظام کی تشکیل ایک خالصتاً اجماعی cumulative دھندلے اور اتفاقی عمل سے ہوئی ہے نہایت ہی مستبعد اور دوراز کار چیز ہے۔ جبلت عقل کی ایک غیر تفکیری non-relective جہت ہے۔ اس کا تعین خود کار انعکاسات (یاردِ اعمال)automatic reflexes کے ایک سلسلے سے نہیںبلکہ ہرنوعspeciesکی ’’صورت‘‘___ یعنی کیفیتی (صفاتی) تعینqualitative determintion سے ہوتا ہے۔ یہ صورت ایک طرح کی چھلنی یا فلٹرہے جس میں سے کائناتی عقل کا ظہور ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ کسی بھی مخلوق کی صورت لطیف اس کی جسمانی صورت سے بدرجہا زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔ انسان کامعاملہ بھی یہی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی عقل کا تعین بھی اس کی نوع speciesکی صورت لطیف سے ہوتا ہے۔ تاہم اس صورت میں ملکۂ تفکر reflective faculty بھی شامل ہے جس سے فرد کی تفرید singularizationکی گنجائش ہو جاتی ہے جب کہ جانوروں میں ایسی کسی چیز کا وجود نہیں ہوتا۔ صرف انسان ہی اپنے آپ کو معروضی نوعیت دینے کا قابل ہے۔ وہ کَہ سکتا ہے ’’میں یہ ہوں یا وہ ہوں۔‘‘ یہ دو دھاری ملکہ صرف اسی کو حاصل ہے۔ انسان کائنات میں مرکزی مقام رکھنے کی بدولت اپنی مخصوص نوعی فطرت سے بڑھ جانے کے قابل ہے نیز یہ اس سے خیانت کرکے مقام اسفل پر بھی گر سکتا ہے۔ corruptio optimi pessima ’’اعلیٰ ترین میں فساد بدترین کو جنم دیتا ہے۔‘‘ایک نارمل حیوان اپنی نوع کی صورت اور استعداد کا وفادار رہتا ہے،اگرچہ اس کی عقل تفکیری reflective اور معروضی بنانے والی objectifying نہیں بلکہ ایک لحاظ سے موجودی ہے۔ تاہم بے ساختہ ضرور ہے۔ یہ بالیقین کائناتی عقل کی ایک صورت ہے خواہ وہ لوگ اس کی یہ حیثیت ماننے پر تیار ہوں یا نہ ہوں جو جہالت یا تعصب کی وجہ سے عقل کو بلااستثنا صرف استدلالی فکر کے متماثل سمجھتے ہیں۔ ژنگ نے جو نظریہ قائم کیا ہے کہ بعض خواب جن کی تشریح نجی یادوں کی باقیات سے نہیں کی جا سکتی وہ تمام انسانوں میں مشترک ایک لاشعوری سرمائے سے اُبھرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور ان خوابوں میں چند محرکات اور صورتیں ایسی ہیں جو اساطیر اور روایتی رمزیتsymbolism میںبھی پائی جاتی ہے ___ تو یہ چیز اُصولاً ممکن ہے ___ مگر اس لیے نہیں کہ نفس میں ایک گنجینہ نماذج repertory of types ہے جو دور کے پُرکھوں سے وراثت میں چلا آ رہا ہے اور دنیا کے ایک ان گھڑprimitive تصور کی گواہی دیتا ہے بلکہ اس لیے کہ حقیقی علامات ہمیشہ ’’واقعی‘‘ actual ہوتی ہیں کیوں کہ وہ غیر وقتی یا لازماتی non temporal حقیقتوں کا اظہار کرتی ہیں۔ فی الواقع بعض حالات میں نفس ایک ایسے آئینے کا منصب اختیار کر سکتا ہے جو خالصتاً انفعال passive اور تخییلی انداز میں عقل میں مضمر کائناتی حقائق کو منعکس کرتا ہے۔ تاہم اس نوع کے ’’القا‘‘ یا الہامات خاصے نادر الوقوع ہوتے ہیں جن کا دارومدار ان حالات پر ہوتا ہے جو یوں سمجھیے کہ من اللہ ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ خواب جو حقائق منکشف کرتے ہیں یا مستقبل کے واقعات کی خبر دیتے ہیں۔ جن کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں۔ مزیدبرآں علامتی خواب کوئی سے بھی روایتی ’’سٹائل‘‘ یا طرز میں ملبوس نہیں ہو سکتے۔ ان کی لسانی ماہیت یا زبان ابلاغ بالعموم اسی روایت یا مذہب سے ہوتا ہے جس سے متعلقہ فرد حکماً یا فعلاً منسلک ہو کیونکہ اس میدان میں کوئی من گھڑت چیز نہیں پائی جاتی۔ ژنگ اور اس کے مکتب فکر کے رُوانشناسوں نے مفروضہ علامتی خوابوں کی جو مثالیں دی ہیں ان کا اگرتجزیہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ بیشتر اوقات ان کا تعلق اس قسم کی جھوٹی رمزیت سے ہوتا ہے جو عموماً کھوٹی روحانیتpsuedo-spiritualism کے حلقوں میں پائی جاتی ہے۔ نفس صرف ایک مقدس آئینہ ہی نہیں سے؛ زیادہ تر یہ جادو کا آئینہ ہوتا ہے جس میں اپنا آپ دیکھنے والے کو دھوکا ہوتا ہے۔ ژنگ کو اس کا پتہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس نے خود اینیماAnima کی چالوں کا ذکر کیا ہے (اس اصطلاح سے اس کااشارہ نفس کے نسوانی پہلو کی طرف ہے) جیسا کہ اس کی یادداشتوں میں بیان ہوا ہے۔۳۹؎ اس کے بعض تجربات نے اسے ضرور بتایا ہوگا کہ نفس کی لاشعوری گہرائیوں کی چھان بین کرنے والے کو فقط نفسِ انا مرکزegocentric کے مکائد (دھوکے) ہی کا خطرہ نہیں ہوتا بلکہ کہیں اور سے، نامعلوم مخلوقات اور ہستیوں کی طرف سے آنے والے اثرات کا بھی دھڑکا رہتا ہے اور خصوصاً جب تحلیل و تجزیہ کے زیر استعمال طریقے عمل تنویم hypnosis یا عامل معمول کے طریقے mediumship سے مستعار ہوں۔ ژنگ زیر نگرانی مریضوں کے ترتیب دیے ہوئے بعض ڈیزائن جن کو ژنگ نے چکمہ دے کر اصلی منڈالا (سہ جہاتی صلیب) Mandala قرار دینے کی کوشش کی ہے، اسی سیاق و سباق میں رکھے جائیں گے۔۴۰؎ دوسری طرف عمومی نوعیت کی ایک اور رمزیت بھی پائی جاتی ہے جو خود زبان کی تَہ میںکار فرما ہوتی ہے مثلاً جب ہم حق کا موازنہ نور سے اور باطل کا تاریکی سے کرتے ہیں یا ترقی کا اوپر اُٹھنے سے اور اخلاقی خطرے کا کھائی سے یا جب کوئی شخص وفاداری کی نمائندگی کتے سے کرتا ہے یا مکاری کی لومڑی سے ___ اسی طرح کے رموز خوابوں میںبھی آتے ہیں اور ان کی زبان طبعی طور پر استدلالی نہیں بلکہ تمثالی ہوتی ہے۔ ان کے وقوع کی توضیح کے لیے ایک ’’اجتماعی لاشعور‘‘ کا حوالہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اتنا جان لینا کافی ہے کہ تفکیری سوچ ہی ساری سوچ نہیں ہے اور حالت بیداری میںکا شعور سارے ذہنی افعال پر محیط نہیں ہے۔ اگر خواب کی تمثالی زبان استدلالی نہیں ہوتی تو اس سے اس کا نامعقول irrational ہونا لازم نہیں آتا بلکہ یہ ممکن ہے کہ ژنگ کا جائزہ درست ہے کہ ایک خواب دیکھنے والا حالت بیداری کی نسبت اپنے خوابوں میں زیادہ ذہین ثابت ہوتا ہے۔ بلکہ اس معاملے میں تو یوں لگتا ہے کہ ان دو حالتوں کے درمیان سطح کا اختلاف ہمارے زمانے کے لوگوں میں کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے اور یہ بلاشبہ اس وجہ سے ہے کہ جدید زندگی عمل کے جو سانچے لوگوں پر مسلط کرتی ہے وہ خاص طور پر غیر عقلی unintelligent ہیں اور باقاعدہ انداز میں انسانی زندگی کے اساسی محتویات کے ابلاغ سے قاصر ہیں۔ یہ سب کچھ بدیہی طور پر رموزی اور الہامی خوابوں کے تفعلfunction سے غیر متعلق چیزیں ہیں خواہ یہ خواب بے ساختہ ہوں خواہ ان کو عبادات و رسومات کے ذریعے ابھار ا گیا ہو۔ اس موقع پر ہمیں مثال کے طور پر شمالی امریکہ کے ہنودِ احمر (ریڈ انڈینز)Indiansکا خیال آتا ہے جن کی ساری روایت اور زندگی کا ماحول ایک طرح کی خواب پروردہ الہامیت کے حق میں معلوم ہوتا ہے۔ اس بیان پر ہم مندرجہ ذیل اضافہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی پہلو رہ نہ جائے؛ ہر وہ انسانی اجتماع جو اپنی روایتی صورت سے منحرف ہو چکا ہو، اپنی زندگی کے ربانی قالب کا وفادار نہ رہا ہو، اس کو دی گئی علامتوں میں ایک سقوط و انہدامcollapse یا ایک طرح کا عمل حنوط mummification جاری ہو جاتا ہے اور یہ عمل اس اجتماع collectivity سے وابستہ اور اس بے وفائی میں شریک ہر فرد کی نفسی زندگی میں منعکس ہوتا ہے۔ ہر حقیقت کے متوافق ایک صوری چربہ ہوتا ہے اور ہر روحانی صورت ایک نفسی پر چھائیں ڈالتی ہے۔ جب لے دے کر صرف یہ پرچھائیاں باقی رہ جائیں تو یہ واقعی ان موروثی کا بوسوں کا روپ دھار لیتی ہیں جو آسیب بن کر لاشعور پر چھا جاتے ہیں۔ رمزیت کے معانی کو کاٹ چھانٹ کر صرف ان کا بوسوںphantoms تک محدود کر دینا مہلک ترین نفسیاتی مغالطہ ہے۔ ’’لاشعور‘‘کی تعریف میں یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ یہ نمایاں طور پر اضافی اورموقتی ہے روشنی کی طرح شعور بھی درجہ بندیgradationکی استعداد رکھتا ہے اور اسی کی طرح راہ میں دو چار ہونے والے واسطوںmedia کے اثر سے منعطف ہو جاتا ہے۔ انا انفرادی شعور کی صورت ہے۔ یہ اس کا درخشندہ منبع نہیں ہو سکتی۔مؤخر الذکر کا انطباق خودعقل کے منبع پر ہوتا ہے۔ اپنی کائناتی فطرت میں شعور ایک اعتبار سے عقل کا ایک کونی existential پہلو ہے اور اس کا مطلب یہ نکلا کہ بنیادی طور پر کوئی چیز بھی اس سے باہر واقع نہیں۴۱؎ اسی سے یہ ثابت ہوا کہ رُوانشناسوں کا ’’لاشعور‘‘ فقط نفس میں کا وہ سب کچھ ہے جو عام شعور سے باہر واقع ہے یعنی عالم جسمانی کی طرف بہ شعوری fentation رکھنے والی تجربی انا کا ___ مطلب یہ کہ ’’لاشعور‘‘ کے جو معنی ان کے ہاں ہیں اس میں بیک وقت سفلی اضطراب choas اور اعلیٰ مراتب دونوں شامل کر دیے گئے ہیں۔ مؤخر الذکر (جن کو گہری نیند کی نعمت سے تشبیہ دیتے ہیں؛حالت پر اجنا) کائناتی روح کے منبع نور سے منور ہوتا ہے لہٰذا ’’لاشعور‘‘ کی مذکورہ تعریف کی رو سے نفس کی ایک واقعی جہت کی کسی طرح حد بندی نہیں ہو سکتی۔ اعماقی نفسیات depth psychology (ژنگ اس کے سربرآوردہ لوگوں میں سے ہے) کی بہت سی غلطیاں اس چیز سے پھوٹتی ہیں کہ یہ لاشعور سے اس طرح معاملہ کرتی ہے جیسے ایک متعین ہستی سے کیا جاتا ہے۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ ژنگ کی نفسیات نے ’’نفس کی خود مختار حیثیت دوبارہ بحال کر دی ہے‘‘۔فی الحقیقت، اس نفسیات کے خلقی تناظر کے مطابق نفس نہ تو آزاد ہے نہ لافانی، صرف ایک طرح کی غیرمعقول جبریت جو ہر قابل فہم کائناتی نظام سے باہر واقع ہے۔ اگر انسان کاذہنی اور اخلاقی رویہ موروثی (اقسام) types کے اس مجموعے میں سے خفیہ طور پر متعین ہوتا ہے جو ایک تماماً لاشعوری سرمائے سے جاری ہوتے ہیں اور جن تک عقل کی بالکل رسائی نہیںہو سکتی تو انسان تو گویا دو متبائین اور متفارق divergent حقیقتوں یعنی اشیا کی اور نفس کی حقیقتوں کے درمیان معلق ہو گیا۔ ساری جدید نفسیات کے نزدیک نفس کا تاباں نقطۂ عروج یا اس کی کونی یا موجودیاتی Existentialچوٹی اس کا ’’انا‘‘ (میں) کاشعور ہے اور یہ اتنا ہی ارتقا یافتہ ہوگا جس حد تک اس نے ’’لاشعور‘‘کی تیرگی سے اپنا دامن چھڑا لیا ہوگا۔ اب ژنگ کے کہنے کے مطابق یہ تاریکی انفرادیت کی حیاتی جڑوں کی حامل ہے۔ اس طرح ’’اجتماعی لاشعور‘‘ ایک منتظمانہ جبلت regulatory instinct کا مالک قرار دپائے گا، ایک قسم کی خواب خرامی دانش somnambulant جس کی نوعیت حیاتیاتی ہوگی۔ بلاشبہ اس امر سے تو یہ متبادر ہوگا کہ نفس کی نجات کی شعوری کوشش میں اس کی حیاتی جڑوں کے اکھڑنے کا خطرہ بھی چھپا ہوا ہے۔ ژنگ کے کہنے کے مطابق شعوری اور لاشعوری کے دو قطبین کے درمیان توازن ہی مثالی حالت ہے اور اس توازن کا تحقق صرف ایک تیسری اصطلاح کی مددسے ہو سکتا ہے جو ایک طرح کا مرکز تقلیم یا تشکیل ہے centre of crystalization اسے وہ ’’ذات‘‘(The Self)کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ یہ اصطلاح اس نے ہندوستان کے اُصول و عقائد سے مستعار لی سے اس موضوع پر اس کے الفاظ یہ ہیں: جب ذات Self کاتجسّس sensation بطور ایک نامعقول اور ناقابل تحدید indefinable ہستی کے ہونے لگے ___ وہ ہستی کہ ’’انا‘‘ I نہ تو اس کی مخالفت کرے نہ اس کے ماتحت ہو بلکہ اس سے وابستہ ہو اور ایک طرح سے اس کے گرد ارتقا پائے جیسے زمین سورج کے گرد گھومتی ہے: تو پھر انفرادIndividuationکا مقصد حل ہو چکا ہے۔ میں نے اس اصطلاح تحسس کا استعمال اس کے ذریعے I (انا) اور ذات Self کے مابین رشتے کی تجربی نوعیت کا اظہار کرنے کے لیے کیا ہے۔ اس رشتے میں کوئی چیز قابل فہم نہیں ہے کیونکہ ذات Self کے محتویات کے بارے میں کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ ہم ذات کے محتویات ___ میں سے صرف (انا) ’میں‘ Iکو جانتے ہیں۔ انفراد یافتہindividualized انا I خود کو ایک اور نامعلوم، برتر اور موزوں عامل کامعمول محسوس کرتی ہے۔مجھے یوں لگتا ہے کہ نفسیاتی آئینہ اس مقام پر اپنی آخری حدود کو چھونے لگتا ہے جس کا یقینا نفسیاتی طور پر جوازتو دیا جا سکتا ہے مگر تسلی بخش ثبوت نہیں مہیا کیا جا سکتا سائنس سے آگے کا یہ قدم متذکرہ نفسیاتی ارتقا کا لابدی تقاضا ہے کیونکہ اس زیر بحث قضیہ استدلالی کے بغیر میں تجربے میں آنے والے رُوانی عوامل کو بکفایت فارمولے کی شکل میں نہیں پیش کر سکتا تھا۔ اس امر سے ذاتSelf کے تصور کو کم ازکم ایک مفروضے Hypothesis کا رتبہ تو حاصل ہو جائے گا جیسا کہ ایٹم کی ساخت کے بارے میںنظریات کو حاصل ہے۔ اگر یہ سچ بھی ہو کہ ہم یہاں بھی ایک شبیہ کے اسیر ہو گئے ہیں تو بھی یہ بہر کیف ایک نمایاں طور پر ایک جیتی جاگتی شبیہ ہے جس کی تفسیر میرے بس سے باہر ہے۔ مجھے اس میں شک کا شائبہ بھی نہیں کہ یہ ایک شبیہ کا معاملہ ہے بلکہ ایسی شبیہ کا جو ہم سب پر محیط ہے۔۴۲؎ متداول سائنسیت زدہ اصطلاحات کے باوجود مذکورہ بالا تحریر میںجو تمنائیں ظاہر کی گئی ہیں ان کا ہم اعتبار کرنے پر مائل ہوجاتے اور ان میں روایتی ماورا الطبیعیاتی عقائد کی جانب ایک راہ کے آثار تلاش کرتے اگر ژنگ نے ایک دوسرے مقام پر ذات کے تصور کو اضافی نہ بنا دیا ہوتا۔ اس مرتبہ اس نے اس سے ایک ماورائی اُصول کی بجائے نفسیاتی عمل کی پیداوار والا برتائو کیا ہے۔ داخلی اور خارجی کے تضاد کے حوالے سے ذاتSelfکی تعریف ایک طرح کے عوض یا تلافی سے کی جا سکتی ہے۔ ایسی تعریف کا اطلاق ذات پر اس حد تک ہوتا ہے جہاں تک کہ اس کی نوعیت ایک نتیجے کی ہے، یا ایک قابل وصول مقصد کی یا ایک ایسی چیز کی جو تھوڑا تھوڑا کرکے اور جانکاہ تجربوں کی بھینٹ لے کر پیدا ہوئی۔ چنانچہ ذات زندگی کا مقصد بھی ہے کیونکہ یہ قسمت کے اس آمیزے کا سب سے مکمل اظہار ہے جسے ہم ایک ’’فرد‘‘ کہتے ہیں اور صرف ایک انسان کا ہی نہیں بلکہ ایک پورے گروہ کا جس میں فرد ایک کامل شبیہ کے لیے دوسرے کا تکملہ ہوتا ہے۔۴۳؎ بعض اقالیم میں اتائی پن کا اظہار ناقابل معافی ہوتا ہے۔ شعور اور لاشعور کے درمیان توازن یا یوں کہیے کہ ’’تجربی شخصیت‘‘ میں لاشعور سے پھوٹنے والی بعض قوتوں یا چند محرکات کے اتمامintegration پر ژنگ نے انفراد individuation کا ٹھپہ لگا دیا ہے۔ یہ متناقص بالذات بیان ہے اور ژنگ نے یہاں ایک ایسی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا روایتی مدلول ایک یا دوسرا نفسیاتی عمل نہیں بلکہ افراد کا اپنی نوع سے متمیز ہونا تھا۔ ژنگ نے اس سے جو کچھ سمجھا ہے وہ انفرادیت کی ایک قسم کا قطعی اعلان ہے جسے فی نفسہٖ مقصود بنا لیا گیا ہے۔ ایسے کسی بھی تناظر میں ذاتSelf کا تصور تمام ماوراالطبیعیاتی معانی کھو بیٹھتا ہے مگر صرف یہی ایک روایتی تصور نہیں ہے جسے ژنگ نے ہتھیا کر خالصتاً سریریclinical (ہسپتالی) سطح تک ذلیل کر دیا ہو۔ مثال کے طور پر اس نے اپنے طریقہ تحلیل نفسی کا جسے وہ صراحتاً اسی انفراد کی اعانت کے لیے استعمال کرتا ہے ایک بیعت initiation سے موازنہ کیا ہے(بیعت اپنے مقدس اور ٹھیٹھ معنی میں) اور یہاں تک اعلان کیا ہے کہ تحلیل نفسی ہی ’’جدید زمانے میں بیعت یا (سلوک) کی واحد قابل عمل شکل ہے۔۴۴؎ اس کے بعد جھوٹی مماثلتوں اور مداخلت بیجا کا پورا سلسلہ نظر آتا ہے، اس قلمرو میں جہاں نفسیات کام کرنے کی اہلیت سے معذور ہے۔۴۵؎ یہاں معاملہ ایک یکا و تنہا متلاشی کی غیر ارادی جہالت کا نہیں ہے کیونکہ ژنگ نے زندہ روایت کے نمائندوں سے ہر رابطے سے عمداً گریز کیا ہے مثلاً اپنے سفرِ ہندوستان کے دوران اس نے شری رامنا مہارشی سے ملنا نہیں چاہا(ایک توہین آمیز بیہودہ عذر گھڑ کر)۴۶؎ بے شک اس لیے کہ وہ طبعاً اور ’’لاشعوری‘‘ طور پر (یہاں اس لفظ کا جواز ہے) ایک ایسی حقیقت کا سامنا کرنے سے ڈرتا تھا جو اس کے نظریا ت کا رد کر دیتی۔ اس کے لیے ماورا الطبیعیات خلا میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف تھی بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ نفس کی اپنے آپ سے ورا ہونے کی ایک موہوم کوشش جس کی مشابہت اس شخص کی بے معنی حرکات و سکنات میں تلاش کی جا سکتی ہے جو اپنے ہی سر کے بالوں پر زور لگا لگا کر خود کو دلدل سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ یہ جدید نفسیات کا مخصوص تصور ہے اسی لیے ہم نے یہاں اس کی مثال دی ہے۔ ماوراالطبیعیات کے پیداوارِ نفس ہونے کی لغو دلیل کے جواب میں ہم بآسانی اعتراض کر سکتے ہیں کہ مذکورہ بالا فیصلہ بھی اسی طرح کی ایک اور پیداوار ہے۔ انسان حق سے زندہ رہتا ہے۔ کسی بھی حقیقت کا اثبات خواہ کتنی ہی اضافی کیوں نہ ہو اس بات کا اعتراف ہے کہ عالم اپنے علم کا عین ہے۔ ’’یہ‘‘ اور ’’وہ‘‘ کہنا ساتھ ہی ساتھ خود اُصولِ موزونیتadequationکی تصدیق ہے لہٰذا اضافی میں مطلق کے موجود ہونے کی بھی تصدیق ہے۔ ژنگ نے جدید سائنس کے چند کٹرمادیت پرست سانچوں کو توڑ دیا مگر اس پر ہماراانرم ترین تبصرہ یہ ہے کہ اس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں اس لیے کہ اس شگاف میں سے درآنے والے اثرات اسفل روانیت inferior psychism سے آر ہے ہیں نہ کہ روح سے اور صرف روح ہی حق ہے اور یہی ہماری نجات کی ضامن ہے۔ ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی ’’جن حواشی پر مترجم کی وضاحت نہیں کی گئی۔ وہ مصنف کی تحریر ہیں۔‘‘ 1- C. G. Jung: Psychology and Religion (Zurich 1962) P. 61. ’’مراد یہ کہ نفسیات میں نفس کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور مطالعہ یا تجزیہ کرنے والا خود ایک نفس ہے۔ ایک نفس دوسرے نفس کا تجزیہ و مطالعہ کر رہا ہے۔ موضوعsubject اور معروضobject کی جگہ بالترتیب عامل و معمول بھی درست ہے مگر یہ الفاظ ایک خاص چیز سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ترک کر دیے۔ یہاں چند اور اصطلاحات کے ترجمے کے بارے میں کچھ وضاحت مناسب ہوگی۔ متن میں psyche ___ اور soul کے دو ہم معنی الفاظ اور ان کے مشتقات بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے ترجمے کے لیے ہم نے بالترتیب رُواں اور نفس کے الفاظ اور ان کے مشتقات استعمال کیے ہیں ___ روح و رُواںاُردو کی عام مروجہ ترکیب ہے۔ فارسی میں نفسیات کو روانشناسی اور نفسیات دان کو رُوانشناس کہتے ہیں۔ اسی طرح نفس اور روح کے الفاظ بھی اُردو میں عام مستعمل ہیں۔حسب موقع ہم نے ان تمام اصطلاحات کو استعمال کیا ہے۔ دیگر الفاظ و مصطلحات کے انگریزی مترادفات متن میں اپنے محل پر دیکھے جا سکتے ہیں۔‘‘ (مترجم) ۲- مرَجحِّ : ترجیح دینے والا۔ رجحان کے تابع ___ tendentious کا ایک ترجمہ رجحان بھی ہو سکتا ہے مگر یہ مذکورہ انگریزی کے معانی کے ترجمے کے لیے موزوں نہیں۔(مترجم) ۳- Dilemma کے ترجمے کے لیے اکثر کئی کئی الفاظ کی تراکیب برتی جاتی ہیں۔ اصطلاحات نفسیات میں اس کا ترجمہ مخمصہ کے لفظ سے کیا گیا ہے۔ ہم نے ترجیحاً مذبوبیت کو اختیار کیا ہے جو اُردو کے عام لفظ تذبذب کی ایک صرفی شکل ہے اور مذکورہ لفظ کے ترجمے کے لیے زیادہ مناسب ہے۔(مترجم) ۴- ’’میں نہیں سمجھتا کہ نفسیات اور فلسفے کے میل جول میں اچنبھے کی کوئی وجہ ہے اس لیے کہ کیا ہر فلسفے کی بنیاد یعنی سوچنے کا عمل نفسی عمل نہیں ہے جس کا اس لحاظ سے نفسیات سے براہ راست تعلق ہے؟کیا نفسیات نفس کو اس کی مکمل توسیع سمیت اپنی آغوش میںنہیں لے سکتی؟ وہ توسیع جس میں فلسفہ، الٰہیات اور ان گنت دوسری چیزیں شامل ہیں۔ بھرپور تنوع کے حامل تمام مذاہب کے روبرو، حق یا باطل کی عظیم مثال کے طور پر نفس انسانی کے غیر متغیر مظاہر یا معطیاتdata اُبھر آتے ہیں‘‘۔ C. G. Jung, L Homme a la Decouverte de son Ame (Paris 1962) P. 238. (انسان اپنے نفس کی تلاش میں) ژنگ، پیرس ۱۹۶۲ئ، صفحہ ۲۳۸۔ یہ بیان نفسیات کو حق کا متبادل قرار دینے کے مترادف ہے۔ یہ بات تقریباً فراموش کی جا رہی ہے کہ عقل کے علاوہ، جو اپنی فطرت ہی سے غیر متغیر ہے، کوئی غیر متغیر معطیات نہیں پائے جاتے۔ علاوہ ازیں اگر ’’سوچنے کا عمل‘‘ صرف ایک ’’روانی‘‘psyshic عمل ہے تو نفسیات کس استحقاق کی بنا پر خود کو شاہد اعظم قرار دیتی ہے۔ نفسیات جو دوسرے بہت سوں میں سے صرف ایک ’’نفسی عمل‘‘ ہے۔ ۵- ان دونوں کی مختصر تشریح کے لیے اسی مجموعے کے دوسرے مضمون ’’برنگ دگر‘‘ کے حواشی دیکھیے۔ (مترجم) ۶- یعنی یہ کیفیات و مظاہر ہم پر بیت جائیں۔(مترجم) ۷- مصنف نے یہاں common sense کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کے عام تراجم عقل سلیم، فہم عمومی وغیرہ ہیں۔ روایتی علوم میں اس کا صحیح مترادف، حس مشترک، ہے تفصیل کے لیے دیکھیے، محمد حسن عسکری :وقت کی راگنی،لاہور، ۱۹۸۰ء (مترجم) ۸- اس کے وضاحت اس طرح ہو سکتی ہے کہ اگر انسانی درجہ وجود کے علاوہ جو درجات ہیں ان سب کو غیر انسانی کہیے اور پھر یہ فرض کرلیجیے کہ تمام غیر انسانی مراتب وجود یعنی وہ جو انسانی نہیں ہیں، لازماً تحت الانسان مثلاً جمادات یا حیوانات ہیں۔ جب کہ غیر انسانی تحت الانسانی اور فوق الانسانی مثلاً ملائکہ وغیرہ سب کو محتوی ہے۔ اسی طرح کارجحان جدید نفسیات سے خاص ہے کہ جو کچھ عام فکر کے علاوہ ہے وہ لامحالہ تحت الشعوری، غیر معقول ہے جب کہ محولہ بالا کی طرح غیر فکری non-rational میں تحت الفکری اور فوق الفکریsupra-rational دونوں شامل ہیں مگر جدید نفسیات کو اس بدیہی چیز سے باضابطہ انکار ہے۔ (مترجم) ۹- کیتھولک عیسائیوں کی رسم جس میں دینی پیشوا کو نمائندہ الٰہی سمجھ کر اس کے سامنے اعتراف گناہ کیا جاتا ہے اور وہ خدا کی طرف سے نادم گناہ گار کو بخشش اور درگذر کی خوشخبری دیتا ہے۔ (مترجم) ۱۰- یہ تحلیل نفسی زیادہ تر پروٹسٹنٹ ممالک میں پھل پھول رہی ہے۔ ۱۱- اس مقام پر یہ تصریح کر دی جائے کہ یہاں صرف فرائیڈ کے طریق کار پر انگلی اُٹھائی جا رہی ہے وگرنہ تحلیلِ نفسی کی ہمارے زمانے میں ایسی شکلیں بھی ہیں جو زیادہ غیر جانب دار اور کم تباہ کن ہیں تاہم یہ واقعہ ایسا نہیں جو ہمارے موجودہ نقطۂ استدلال کے حوالے سے اس کے لیے کسی طرح بھی وجہ جواز بن سکے۔ ۱۲- رینے گینوں (شیخ عبدالواحد یحییٰ) کا تبصرہ ہے کہ اس اُصول سے، جس کے تحت ہر ماہر تحلیل نفسی کی تحلیل نفسی ہونی چاہیے اس سے قبل کہ اسے دوسروں کی تحلیل نفسی کرنے کی اجازت تفویض کی جائے، یہ تکلیف وہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قطار میں پہلا کون ہے؟ ۱۳- متن میں جا بجا کئی الفاظ ’’‘‘ کے نشانات میں آئے ہیں۔ ان کو اس طرح لکھنے کی تین وجوہات ہیں۔ اوّلاً جب یہ اشارہ مقصود ہو کہ یہ اقتباساً درج ہوئے ہیں اور فریق مخالف کے نقطۂ نظر یا تحریر کے نمائندہ ہیں۔ ثانیاً ان سے اپنا اختلاف ظاہر کرنے کے لیے یا بطور طنز اور ثالثاً ان کے مجازی استعمال کے اظہار کے لیے جیسا کہ اس مقام پر ’’بیرون‘‘ اور ’’بالا‘‘ کے الفاظ مجازاً استعمال ہوئے ہیں وگرنہ نفس کے سیاق و سباق میں مکانیت سے مستعار دو الفاظ کا استعمال روانہ ہوگا۔ (مترجم) ۱۴- عموماً ایک دائرہ السو vicious circle پیدا ہو جاتا ہے جس میں نفسی عدم توازن سے بدنی سُکر پیدا ہوتا ہے اور اس (بدنی سُکر) کے نتیجہ میں نفسی عدم توازن مزید بگڑتا ہے۔ ۱۵- آسیب ہونے کے واقعات جن میں دفع آسیب کے ذرائع کی ضرورت بین محسوس ہو آج کل کمیاب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ بلاشبہ یہی ہے کہ ابلیسی اثرات اب روایت کے بندھنوں سے زیادہ دیر تک نہیں رو کے جا سکتے بلکہ ان شکلوں میں کہیں بھی بھلے چنگے پھیل سکتے ہیں جو کسی حد تک ’’پھیکی‘‘ پڑ چکی ہیں۔ ۱۶- مثلاً وہ یہ کہیں گے کہ منطق تو صرف ہمارے دماغ کی فعلیاتی یا عضویاتیphysiological ساخت کا اظہار ہے اور یہ بھول جائیں گے کہ دریں صورت بیان بالا بھی اسی عضویاتی یا فعلیاتی جبریت کے اظہار سے کم نہ ہوگا۔ ۱۷- صورت اور مادہ کے الفاظ کے کئی استعمال اور مدلولات ہیں۔ علم کلام میں ان الفاظ سے جو مراد ہے یا قدیم فلاسفۂ یونان و عیسوی متکلمین نے ان سے جو مراد لیا ہے وہ ان مفاہیم سے الگ ہے جو آج کل متداول زبان میں یا سائنسدانوں میں اس کے رائج ہیں۔ قدیم اصلاح میں مادہ کے معنی وجود بالقوہ کے ہیں اور صورت سے مراد ایک حالت ہے۔ ان دونوں کی وضاحت آگے آنے والے اقتباس سے ہو جائے گی۔ جدید علوم اور زبانوں میں مادہ ہر شے محسوس کو کہتے ہیں اور صورت شکل کے ہم معنی ہے۔ مضمون کے متن میں صورت کا لفظ دونوں معانی میں استعمال ہوا ہے کہیں شکل اور کہیں حالت کے معنی میں۔ اس بحث کی تفصیل کے لیے دیکھیے: Rene Guenon: Reign of Quantity۔ مندرجہ ذیل اقتباس ہم حضرت تھانوی کی کتاب الانتباہات المفیدہ کی شرح اسلام اور عقلیت سے ملخصاً پیش کر رہے ہیں۔ (مترجم) ہم اگر ایک کٹورہ بھر پانی لیں تو ہر شخص جانتا ہے کہ یہ پانی ایک چیز ہے اور اس کو اس وقت ایک صورتِ خاص حاصل ہے کہ نیچے سے گول ہے اور اوپر سے مسطح ہے جس کا قطر۶۔ انچ کا ہے حتیٰ کہ اگر ہم کسی صورت سے اس کو جما کر برف کر لیں تو اس کی جسامت اس طرح کی قائم ہو جائے گی… اب فرض کرو کہ ہم اس ایک کٹورے پانی کو دو جگہ کر لیں تو ظاہر بات ہے کہ اب اس کی جسامت اور صورت بدل جائے گی اور ایک پیمائش دو پر تقسیم جو جائے گی۔ اب یہ بہت موٹی بات ہے کہ کوئی چیز تو اس میں کی بدل گئی۔ جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ شکل نہیں رہی اور کوئی چیز اس میں بحالِ خود باقی ہے جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ پانی ہے کہ ایک بڑی شکل چھوڑ کر دو چھوٹی شکلوں میں آگیا ہے۔ اس پہلی بڑی شکل کو اور دو چھوٹی شکلوں کو صورت شخصیہ کہتے ہیں یعنی وہ صورت جس سے ایک معین شکل پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی طرف الگ اشارہ کر سکتے ہیں اور دوسری چیز کی طر ف الگ۔ اب فرض کرو کہ ہم کسی طرح سے پانی کی نوع ہی بدل دیں مثلاً بخارات میں تبدیل کردیں اور بخارات سے ہوا بن جائے تو اب بھی ہم کَہ سکتے ہیں کہ اس میں ایسا تغیر ہوا ہے کہ کوئی چیز تو اس میں کی بدل گئی اور کوئی چیز باقی ہے یعنی پانی کی نوعیت جاتی رہی اور بجائے اس کے ہوا کی نوعیت آگئی اور کوئی ایسی چیز ہنوز باقی ہے جس کی طرف اس تبدیلی کی نسبت کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ اس چیز نے پانی کی نوعیت چھوڑ کر ہو اکی نوعیت اختیار کر لی۔ جس بات کو اس نے چھوڑا اسے صورتِ نوعیہ کہتے ہیں اور جو باوجود اس نوعیت کو چھوڑنے کے باقی رہی اس کو صورت جسمیہ کہتے ہیں تو ہر چیز میں یہ چار چیزیں ہوتی ہیں۔ مادہ، صورتِ جسمیہ، صورتِ نوعیہ، صورتِ شخصیہ ___ مثلاً زید منجملہ موجودات کے ایک چیز ہے ظاہر کہ اس میں مادہ موجود ہے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ مادہ میں بہت سے تغیرات ہو کر زید بنا ہے… مگر کوئی بات اس مادہ میں ایسی موجود رہی جس کے ذریعہ سے اس کو موجود مانا گیا اور یوں کہا کہ تغیر سے اس کی شکل بدلتی ہے۔ اس بات کو صورتِ جسمیہ کہتے ہیں یعنی وہ بات جو باوجود تغیرات کے محفوظ رہتی ہے… پھر اس نے انسان کی صورتِ نوعیہ پہن لی جس کے ذریعہ اسے گائے بیل سے امتیاز کرنے لگے… اور ظاہر ہے کہ زید مطلق نوع انسان نہیں بلکہ نوع انسان کا ایک فرد ہے جیسے عمر بکر وغیرہ تو زید میں نیز ہر دیگر فرد میں صورت نوعیہ کے علاوہ کوئی بات اوربھی شامل ہے جس کے ذریعہ سے افراد کا باہم امتیاز ہوتا ہے۔ اس کا نام صورتِ شخصیہ ہے…… یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ ان تینوں چیزوں سے نا آشنائی کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ناموں میں صورت کا لفظ لگا ہوا ہے۔ صورتِ جسمیہ، صورتِ نوعیہ، صورتِ شخصیہ، نئے سے الفاظ معلوم ہوتے ہیں۔ عجب نہیں کہ آج کل کے نوجوان ان ناموں کو سن کر کہنے لگیں کہ یہ کیا فضول بات ہے کہ ہر چیز میں تین صورتیں ہیں… ہر شخص جانتا ہے کہ صورت (شکل) تو زید کی ایک ہی ہے پھر زید کے لیے تین صورتیں کہنا خیالی بندش نہیں تو اور کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ تینوں کے ساتھ صورت کا لفظ بمعنی شکل نہیں ہے جس کے یہ لازم آئے کہ زید کی تین شکلیں خلاف واقع مانی گئی ہیں بلکہ صورت کے معنی ہیں ایک خاص حالت تو صورتِ جسمیہ سے مراد وہ حالت ہے جو مادہ کو موجودہ ہوتے وقت حاصل ہے… اس تحریر سے ان الفاظ سے اجنبیت جاتی رہی اور اگر ان لفظوں کا ترجمہ آج کل کی اُردو میں جسامت، نوعیت اور شخصیت سے کر دیا جائے تو نوجوانوں کی سمجھ سے اور زیادہ قریب ہو جائیں گے اور اس تقریر سے یہ بھی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ تینوں چیزیں چاہے باعتبار اپنی ماہیت کے الگ الگ ہوں لیکن کائنات کے ہر فرد میں تینوں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں۔ ۱۸- مادی دنیا کے ادر اک کی مادی اصطلاحات میں تشریح سے زیادہ لغو اور مہمل بات ہو نہیں سکتی۔ ۱۹- ترجمہ میں محتوی اور محتویات contents کے الفاظ بار بار آئے ہیں۔ محتوی بالکسر الوائو (وائو کے نیچے زیر) containing, contains کے معنی میں ہے جب کہ محتوی (بالفتح الوائو) content یعنی مظروف کے معنی میں ہے اور معقول ہے۔ (مترجم) ۲۰- یہاں ور جل کے اس اقتباس کا حوالہ دیا گیا ہے:Flectere si nequeo (اگر میں دیوتائوں سے اپنی نہیں منوا سکتا تو میں جہنم میں ہلچل مچادوں گا:superos Acheronta movebo جو فرائڈ نے اپنی کتاب خوابوں کی تعبیر interpretation کے سرنامے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ۲۱- یعقوب ہانسJacob Hans, Western Psychology and Hindu Sadhna, London, Allen and Unwin مغربی نفسیات اور ہندو سادھنا ۔ اس کتاب کا مصنف یونگ کا ایک سابق شاگرد ہے جس نے بعد میںہندوسادھنا کے بدر جہا افضل اُصول ومنہاج دریافت کر لیے جنھوں نے اسے اس قابل بنایا کہ مغربی معالجۂ نفسی Psychotherapy پر ٹھیک اوربجا تنقید کر سکے۔ ۲۲- ہندو روایت میںجو مفہوم ’’گُن‘‘Cosmic Tendencies کا ہے وہ ہمارے ہاں صفاتِ الٰہیہ کے مترادف ہے۔دونوں جگہ انھیں غیر مخلوق اور قدیم مانا گیا ہے، عالم کبیر اور عالم صغیر دونوں کی سطح پر، تمام مکونات اور مخلوقات، صفات الٰہیہ کے عکس یا پرتو سے عبارت ہیں ___ نفس انسانی میںجو مثبت رجحانات اور اوصاف ہیں وہ ان صفات کا عکس ہیں گویہ عکس مماثلت مقلوب کے اُصول کے تحت عالم انسانی میں آ کر مقلوب ہو گیا ہے۔مثلاً انسان کی سب سے پُرسکون کیفیت گہری نیند کی حالت ہے جس میں وہ قریباً بے خبر اور غافل ہوتا ہے جب کہ السلام Peace (اسماء الٰہی میں سے ایک) وہ ہے کہ جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ ___ جو حاضرو ناظر اور علیم و خبیر ہے۔ نفس انسانی کے حوالے سے ’’گن‘‘ کے جو معنی ہیں وہ ہمارے ہاں اخلاقِ رذیلہ یا سیئہ اور اخلاقِ حسنہ کی اصطلاحات سے سمجھے جا سکتے ہیں۔ خارج کی دنیا میں بھی ان کے مظاہر اسی طرح کار فرما ہیں جیسے داخل میں۔ہندو ذہن ان گُنوں کو مجازاً ذی حیات ہستیوں کے طور پر دیکھتا ہے جو انسان کو طاعات اور نیکیوں کی ترغیب دیتے ہیںاور اس کے برعکس وہ ہستیاں ہیں جو برائی پر مائل کرتی ہیں۔ عالم کبیر یا خارجی دنیا کے حوالے سے اسلامی روایت میں فرشتوں اور شیاطین کا بالترتیب طاعات اور سیئات کی ترغیب دینا معروف ہے۔(مترجم) ۲۳- Satan is the Ape of God ایک حدیث مبارکہ میں تشبیہی انداز میں آتا ہے کہ شیطان خدا کی نقل کرتا ہے اور سمندر پر اپنا تخت بچھاتا ہے کہ قرآن کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے عرش کا پانی پر ہونا مذکور ہے۔ (وکان عرشہ علی المائ) (مترجم) ۲۴- اسلام میں بھی کہا گیا ہے کہ شیطان کا تخت زمین آسمان کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس بیان سے ان وساوس (اغوائے شیطانی) کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے جن کا سامنا ’’عمودی طریق‘‘ کے سالکین کو کرنا پڑتا ہے۔ ۲۵- بعض مرشدوں نے جو عالم لطیف کا موازنہ تخیل سے کیا ہے تو ان کے ذہن میں عمل تخیل تھا imaginative activity نہ کہ تخیل کی پیدا کردہ تشبیہیں۔ ۲۶- ٹیلی پیتھی کا ترجمہ مولوی عبدالحق نے ’’اشراق‘‘ دیا ہے یا پھر پورا جملہ لکھا ہے۔ یہی ترجمہ اصطلاحات نفسیات ادارہ تالیف (ترجمہ) پنجاب یونی ورسٹی نے اختیار کیا ہے۔ اسے ہم فلاسفہ کے مکتب اشراق سے وابستہ ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کر سکتے۔ خلطِ مبحث ہوگا۔ ایرانی مصنف اس کو ارتباط دل بدل فرماتے ہیں۔ ناچار عربی کی اصطلاح ’’مواحاۃ‘‘ کا سہارا لیا گیا ہے۔(مترجم) ۲۷- اب تو تجربی نفسیات بھی اس کے وقوع کے انکار کی ہمت نہیں کرتی۔ 28- L, Homme a la Decouyerte de son Ame, P. 205. (انسان اپنے نفس کی تلاش ہیں) ۲۹- یہاں مراد اس روایتی علم تعبیر سے ہے جو متعلقہ روایت کے مقدس علوم اور ان کی علامتوں پر مبنی ہوتا ہے اور انھی کے حوالے سے کام کرتا ہے۔ (مترجم) ۳۰- عام طور پر معاصر نفسیات امراضیاتی یا سقیمی pathological معاملات پر غور کرتی ہے اور نفس کو زیادہ تر اس ی سریری clinical تناظر میں دیکھتی ہے۔ 31- C. G. Jung, Das Geheimnis der Goldenen Blute (Munich 1929) Introduction. (سنہری پھول کا راز۔ س۔ گ۔ ژنگ۔ دیباچہ) ۳۲- حوالۂ سابقہ۔ ۳۳- حوالۂ سابقہ۔ ۳۴- حوالۂ سبابقہ۔ ۳۵- اس اصطلاح کی تفصیل کے لیے دیکھیے مصنف کی کتاب Introduction to the Sufi Doctrine, Suhail Academy, Lahore (مترجم)۔ 36- L, Homme a la Decouyerte de son Ame, P. 311. (انسان اپنے نفس کی تلاش ہیں) 37- Die Bezeienungen Zwischen dem Ich und dem Unbewusstan (Zurich 1963) PP. 130.۔ (انا اور شعور کا رشتہ ) ۳۸- دیکھیے میرا مضمون"Du Masque Sacre" Etudes Traditionelles نومبر، دسمبر ۱۹۶۳ئ۔ ۳۹- اس کی یاد داشتوں میں مذکور تفتیش نفسی Introspection جس کو ژنگ نفسیاتی کھوج کرید کے لیے برتتا تھا، نیز بعض ماورائی نفسیات Para psychology کے مظاہر جو اس کے طریق کار میں اُبھر آتے ہیں ہمیں صاف صاف روحانیت پرستی کی فضا میں لے آتے ہیں۔ فی الواقع ان مظاہر کا اس کے نظریہ ’’اعیان‘‘archetypes پر جو اثرپڑا ہے اس میں اس امر سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ژنگ نے ان مظاہر کی علمی scientific مطالعہ کرنے کی تجویز کر رکھی تھی۔ ۴۰- دیکھیے دیباچہ ’’سنہری پھول کا راز‘‘۔ Introduction to Das Geheimnis der goldenen Blute. ۴۱- یہاں ہمیں ویدانت کی تثلیث (ست، چت، آنند) یا وجود، شعور اور رحمت یاد آتی ہے۔ (اس اقتباس کی وضاحت کے لیے سیّدنا شیخ عیسیٰ نور الدین احمد کے الفاظ دیکھیے۔مترجم) "This is the vedantic ternary Sat, Chit, Ananda. By Being' we mean here not the sole ontological Principle, which is Ishwara not Sat, but the pre ontological Reality which is the complementary opposite of the pole 'knowing' (Chit). For Chit the Sufis, say Ilm or shuhud (perception)---- for Sat they would say wujud and for Ananda Hayat (life) or Iradah (will)." See "Servant and Union", in Logic and Transcendence, pp. 210 ۴۲- ’’لاشعور اور انا I کا رشتہ‘‘، صفحہ ۱۳۷۔ Die Bezicnung Zwischen dem Ich und der Unbewussten. ۴۳- ایضاً۔ 44- Cf. Psychological Commentary on the Tibetin Book of the Dead. ۴۵- ژنگ نے الکیمیا Alchemy کی جو نفسیاتی تعبیر کی ہے اس کی مدلل تردید راقم الحروف کی کتاب Alchemy Science of the Cosmos, Science of the Soul, Penguin Books 1977. میںکی جا چکی ہے۔ شیخ عیسیٰ نور الدین احمدنے اس مضمون کو پڑھ کر مجھے تحریراً مندرجہ ذیل خیالات سے آگاہ کیا: لوگ عموماً فرائیڈیت کے مقابلے میں ژنگیت میں روایتی روحانیت سے مصالحت کا ایک قدم اُٹھتا محسوس کرتے ہیں مگر معاملہ یہ نہیں ہے۔ اس نقطۂ نظر میں فرق صرف یہ ہے کہ جہاں فرائیڈ نے مذہب کا ناقابل مصالحت دشمن ہونے کی شیخی بگھاری تھی وہاں ژنگ نے دین سے ہمدردی کے بہانے اس کے محتویات سے اسے خالی کر دیا اور ان کی جگہ ایک اجتماعی روانیت Psychism یا یوں کہیے کہ ایک تحت العقلی اور اسی لیے غیر روحانی چیز ٹھونس دی۔ اس میں قدیم روحانیتوں کے لیے شدید خطرہ مضمر ہے جن کے نمائندے، خاص طور پر مشرقی نمائندے، اکثر جدید دور رکی سرشت کے بارے میں تنقیدی حس سے عاری ہیںاور اس کا سبب بحالیrehabilitation کے لیے ایک اُلجھنcomplex بھی ہے۔ نیز ہمیں اس پر زیادہ تعجب نہیں گو یہ چیز ہمارے لیے سنگین تشویش کا باعث ہے کہ اس طرح کی بازگشت جاپان میں سامنے آئی ہے جہاں تحلیل نفسی کے ذریعے توازن پیدا کرنے کا موازنہ دھیان بدھ مت Zen کے طریقہ Sattori سے کیا گیا ہے اور اس میں شبہ کی گنجائش کم ہی ہے کہ اس طرح کے اقتباسات برصغیر اور دوسرے مقامات پر بھی آسانی سے مل جائیں گے۔ تاہم زیر بحث التباسات کی بڑی وجہ لوگوں کا شیطان کو سمجھنے اور اسے شیطان کہنے سے گریز ہے یا بالفاظ دیگر اس قسم کا بن کہے کا رواج جو رجائیت نے تشکیل دیا ہے؛ ایک روا داری جو فی الحقیقت حق سے نفرت کرتی ہے، نیز سائنسیت اور سرکاری ذوق میں جبری صف بندی۔۔۔ پھر ہمیں ’’کلچر‘‘ کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ جو سب کچھ نگل کر انسان کو لے دے کر صرف ’’غیر جانبداری‘‘ کی ساز باز میں اُلجھا دیتا ہے، اور اس سب پر مستزاد اتنی عالم گیر اورنیم سرکاری نفرت ہر اس چیز کے لیے جو ’’عقل پرست‘‘ نہیں بلکہ صحیح معنوں میں عقلی (روحانی)ہو، اور اسی لیے لوگوں کے ذہنوں میں اس کو ’تعصب‘، ’مذہبی تشدد‘، ’غطریسیت‘ dogmatism’ملائیت‘ کا رنگ دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے زمانے کی نفسیاتیت سے پوری طرح متفق ہے اور بڑی حد تک اس کا نتیجہ ہے۔ ۴۶- دیکھیے ہینرک زمرHenrich Zimmer کی شری رامنا مہارشی پر کتاب کا دیباچہ۔ ظ ظ ظ قدیم اقوام کے درمیان روابط ہمارے بزرگوں میں ایک صاحب ہیں عبدالواحد۔ انھوں نے قدیم تاریخ کے بارے میں بہت کام کی باتیں کی ہیں مگر ان کی بات سمجھنے کے لیے پہلے مقدمات کے طور پر چند ابتدائی باتیں سن لیجیے: مغربی مؤرخین و مصنّفین، ان کے مشرقی مقلدین اور مستغربین اور ہمارے فلسفے و تاریخ کے پروفیسر حضرات کے نزدیک ایک بات تو گویا طے ہے کہ ہر تہذیبی ادارے، ہر مفید علم، ہر بابرکت عمل اور ہر اچھی بات کا کمال نہیں تو کم از کم آغاز تو ضرور ہی یونان و روم کی تہذیب میں ہوا تھا۔ اس سے آگے جانے میں ان کے طائرِفکر کے پر جلتے ہیں۔ ہمارے شیخ عبدالواحد کا کہنا ہے اس معاملے میں بھی سارا مغرب اپنے مستشرقین سمیت عقلی چندھے پن intellectual myopia کا شکار ہے۔ اس رویے کو انہوں نے ’’کلاسیکی تعصب‘‘ Classical Prejudice کا نام دیا ہے۔ کلاسیکی تعصب سے مراد بنیادی طور پر وہ رجحان ہے جو تمام تہذیب کا منبع یونانیوں اور رومیوں کو قرار دینے پر تلا رہتا ہے۔ اس رویے کا سوائے اس توجیہ کے اور کوئی جواز نہیں کہ چونکہ مغرب والوں کی اپنی تہذیب یونان و روم کے دور سے ماقبل میں تلاش نہیں کی جاسکتی اور زیادہ تر انہی دو سے ماخوذ ہے لہٰذا مغربی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسری ہر تہذیب کی بھی یہی حالت ہوگی۔ اسی لیے انھیں مکمل طور پر اپنے سے مختلف اور قدیم تر تہذیبوں کا وجود متصور کرنے میں دشواری پیش آتی ہے بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ مغرب والے ذہنی طور پر بحیرہ روم عبور کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ غیر جانبدار مبصر کے لیے تو یہ کھلی اور بدیہی بات ہے کہ یونانیوں نے کم از کم، عقلی نقطۂ نظر سے، دراصل مشرق والوں ہی سے زیادہ تر مستعار لیا اور اس بات کا وہ اکثر اعتراف بھی کرتے تھے۔ مگر وہ طبقہ جس کا ہم پہلے ذکر کیا اور جس میں فلسفے، انگریزی ادب، سیاسیات اور سماجیات کے پروفیسر حضرات سب سے نمایاں ہیں اپنے زورِ جہالت کے بل بوتے پر اس بات کی تردید کرنے میں آگے آگے ہے یعنی مدعی سست گواہ چست۔ اور باتیں تو بعد میں ہوتی رہیں گی اس وقت آپ صرف قدیم اقوام کے روابط کے ضمن میں اس رویے کی کارفرمائی دیکھیے: ہندوستان کی تہذیب یونان کی تہذیب سے کہیں زیادہ پرانی ہے اور یہ کڑوی گولی ہمارے مذکورہ طبقہ والے بھی نگل ہی لیتے ہیں مگر ان دونوں تہذیبوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں جس قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ یونان و ہند کے تعلقات کے بارے میں یہ خیال خاصا عام ہوچکا ہے کہ سکندر مقدونی کی فتوحات سے قبل یونان اور ہندوستان کے روابط شروع ہی نہ ہوئے تھے یا اگر تھے تو ان کی کوئی نمایاں اہمیت نہیں تھی۔ چنانچہ ہر اس چیز کو جو ناقابلِ تردید شواہد کی بنا پر اس سے پہلے کی ہو، دو تہذیبوں کے درمیان محض مشابہت قرار دے دیا جاتا ہے اور ہر وہ چیز جو واقعتا یا قیاساً اس کے بعد ظاہر ہوئی وہ تو ظاہر ہے ’فطری‘ طور پر یونانی اثرات کا نتیجہ قرار پاتی ہے تاکہ ’’کلاسیکی تعصب‘‘ میں مضمر اس اوندھی منطق کی تسکین کا سامان ہوسکے۔ یہ رائے سراسر بے بنیاد ہے۔ اس لیے کہ قدیم اقوام میں میل جول اور تعلقات، ان کے مناطق رہائش میں حائل طویل فاصلوں کے باوجود، اس سے کہیں زیادہ اور عام تھے جتنا کہ عموماً گمان کیا جاتا ہے۔ بحیثیت مجموعی، اس زمانے میں ذرائع نقل و حمل اتنے ہی دشوار تھے جتنے آج سے ایک یا دوصدی قبل، یا اگر تعین کیا جائے تو ریل اور دخانی جہاز کی ایجاد سے قبل تک۔ یہ درست ہے کہ از منہ قدیمہ میں سفر کم ہوتے تھے اور رفتارِ سفر بھی ہمارے زمانے کے مقابلے میں سست ہوتی تھی تاہم لوگ ان سے فائدہ زیادہ اُٹھایا کرتے تھے کیونکہ انھیں اتنا وقت مل جاتا تھا کہ ان ممالک کا مطالعہ بھی کرسکیں جن میں وہ سفر کررہے ہوں۔ اکثر سفر تو اس قسم کے مطالعے یا مشاہدے ہی کے لیے کیے جاتے تھے یا پھر حصولِ علم کے لیے۔ اس طرح کوئی قابلِ یقین وجہ باقی نہیں رہتی کہ یونانی فلاسفہ کے اسفار کو محض قصہ کہانی سمجھا جائے۔ یہی نہیں بلکہ ان اسفار سے بہت سی اور باتوں کی وضاحت ہوتی ہے جو ان کے بغیر ناقابلِ فہم رہ جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسفۂ یونان کے ابتدائی دور سے بھی بہت پہلے ذرائع اطلاعات کی یہ نوعیت ان لوگوں کے لیے بالکل حسب معمول اور متواتر تھی۔ قوموں کی ہجرتیں اس کے علاوہ ہیں جو وقفوں کے بعد اور استثنائی حالات میں عمل میں آتی رہیں۔ موضوعِ بحث کے بارے میں دیگر شواہد و دلائل سے قطع نظر ہم صرف ایک ثبوت یہاں پیش کرتے ہیں جس کا تعلق خاص طور پر بحیرۂ روم کے پاس بسنے والی اقوام کے تعلقات سے ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اس ثبوت میں ایک ایسے واقعے کا حوالہ ملتا ہے جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں یا کم از کم بہت تھوڑے اس پر دھیان دیتے ہیں اور اس پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا وہ مستحق ہے۔ نیز اس کی ہمیشہ غلط توجیہ کی جاتی رہی ہے۔ وہ امرِ واقعہ یہ ہے کہ بحیرۂ روم کے سارے طاس Mediterranean Basin میں بنیادی طور پر ایک ہی مشترک قسم کی سکہ سازی اختیار کی گئی تھی۔ اس میں ثانوی نوعیت کے تغیرات بھی ملتے ہیں جو مقامی امتیازی نشانات کا کام کرتے ہیں۔ اس مشترکہ مالیاتی نظام کے اختیار کیے جانے کی قطعی تاریخ متعین کرنا تو ممکن نہیں ہاں اگر اس زمانے کے حوالے سے جسے عام طور پر قدیم سمجھا جاتا ہے اس نظام کو دیکھیں تو یہ بہت ہی قدیم دور سے وابستہ ثابت ہوتا ہے، یونان کی تہذیب سے کہیں پہلے کا۔ لوگ اس کی توجیہ یوں کرتے رہے ہیں کہ یہ یونانی سکہ سازی کا چربہ ہے جو اتفاقاً ان دور دراز ممالک میں پہنچ گئی تھی۔ یہ اس مبالغہ آمیز اہمیت کی ایک اور مثال ہے جو وہ ہمیشہ یونانیوں کو عطا کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ اس مثال سے اس افسوسناک رجحان کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو ہر ناقابلِ توجیہ چیز کو ’’محض اتفاقیہ‘‘ کَہ کر ٹالنا چاہتا ہے۔ گویا اس لفظ میں سوائے اصل وجوہات سے ہمارے جہل کو چھپانے کے مقصد کے علاوہ کوئی اور بھی معنی ہیں۔ بہرحال ایک بات تو یہ یقینی ہے کہ یہ مشترکہ نظامِ زر جس کا امتیازی نشان سکّے کے ایک طرف انسانی سر اور دوسری طرف گھوڑا یا رتھ ہے، اتنا ہی یونانی ہے جتنا کہ اطالوی یا قرطجنی بلکہ قدیم فرانسیسی Gallic یا آئبیرین Iberean اور اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اس نظام کو اختیار کرنے کے لیے بحیرۂ روم کی مختلف اقوام کے مابین کم و بیش واضح معاہدہ ہونا لازمی ٹھہرتا ہے گو اس معاہدے کی نہج اور طریقہ کار آج ہماری پہنچ سے باہر ہو۔ اچھا! پھر جو بات اس مالیاتی نظام کے بارے میں درست ہے وہ ان روایات اور علائم و رموز symbols کے بارے میں بھی لامحالہ درست ہے جو بار بار اور غیر متغیر صورت میں اس سے وسیع تر علاقوں میں پھیلے ہوئے ملتے ہیں۔ مزید براں جب اس بات سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ یونانی نوآبادیات اور ان کے قرائے مورثہ Parent Cities کے درمیان مسلسل روابط برقرار رکھے جاتے تھے تو پھر یونانیوں اور دوسری اقوام کے درمیان روابط اور تبادلہ پر کیوں شبہ ظاہر کیا جاتا ہے؟۱؎ علاوہ ازیں اگر مذکورہ بالا سلسلہ نہ بھی رہا ہو جس کی وجوہات متعدد ہوسکتی ہیں اور جن سے ہم یہاں اُلجھنا نہیں چاہتے، نہ ان کا یقینی تعین ممکن ہے، تو بھی اس سے یہ کسی طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف اقوام کے درمیان کم و بیش متواتر اور باقاعدہ تبادلے کا ہونا ناممکن ہے، ہاں اس کے ذرائع حالات کے تقاضے کے تحت مختلف ضرور رہے ہوں گے۔ یہ سب کچھ اگرچہ ہم نے محض نمونے کے طور پر پیش کیا ہے تاہم ان بیان کردہ حقائق کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے ہم اس بات کا اضافہ کیے دیتے ہیں کہ تجارتی تعلقات اور تبادلے کبھی بھی مسلسل جاری نہیں رہ سکتے۔ جلد یا بدیر ان کے ساتھ ساتھ بالکل دوسری نوعیت کے تبادلے بھی ہونے لگتے ہیں خصوصاً تبادلۂ علمی یا تبادلۂ افکار۔ یہی نہیں بلکہ کچھ واقعات ایسے بھی ہوں گے جن میں اقتصادی تعلقات کی نوعیت کم و بیش ثانوی درجہ کی ہوگی، چہ جائیکہ انھیں اوّلیت دی جاتی جیسا کہ آج کی جدید اقوام میں دی جاتی ہے۔ ہر چیز کو خالص اقتصادی نقطۂ نظر سے منسوب کرنا، خواہ اس کا تعلق ملک کی داخلی زندگی سے ہو یا بین الاقوامی تعلقات سے، دراصل ایک حالیہ رجحان ہے۔ مشرق والے آج بھی اور مغرب کی اقوام پرانے زمانے میں اشیا کو اقتصادیات کی روشنی میں نہیں دیکھتے تھے۔ ہاں فونیکی Phoneceans ایک استثنا ہیں۔ اس مقام پر ہم اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیں کہ وہ انسان جو زمان و مکان میں ہم سے مختلف ہوں اور جن کے حالات اور ذہنیت اور طرح کی ہو، ان کے بارے میں ہمیشہ صرف اپنے ہی نقطۂ نظر کی روشنی میں اندازہ لگانا کیسا خطرناک ہوتا ہے خصوصاً جب وہ اپنے زمانی اور مکانی بعد کے باعث اور اپنی ذہنیت اور حالات کے تحت آپ کا نقطۂ نظر اختیار کرہی نہ سکتے ہوں۔ یہی وہ غلطی ہے جو ازمنہ قدیمہ کے طالب علم بار بار کرتے ہیں اور جیسے کہ پہلے بیان ہوچکا ہے، مستشرقین نے تو اس پر شاید قسم کھا رکھی ہے۔ یہاں سے ہم پھر اپنی بحث کے نقطۂ آغاز کی طرف لوٹتے ہیں کہ یہ امرِ واقعہ کہ ابتدائی یونانی فلاسفہ سکندر مقدونی سے کئی صدیاں پہلے ہوگزرے ہیں، ہمیں کس طرح یہ اختیار نہیں دیتا کہ ہم یہ فیصلہ کردیں کہ وہ ہندو تصورات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ ایک مثال سے بات واضح ہوجائے گی۔ جو ہریت Atomism یونان میں ظاہر ہونے سے کہیں پہلے ہندوستان کے کانادا Kanada مکتبِ فکر میں اور بعدازاں جین اور بدھوں میں پایا جاتا تھا۔ ایک امکان یہ ہے کہ فونیکی لوگوں نے اسے مغرب تک پہنچایا ہو جیسا کہ بعض روایات سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ دوسری طرف کئی مصنّفین کا دعویٰ ہے کہ دیموقراطیس Democritus جو اس نظریے کے اوّلین حاملین میں سے تھا اور جس نے اسے وضاحت سے منضبط کیا، خود مصر، پارس Persia اور ہندوستان کے سفر کرچکا تھا۔ قدیم یونانی فلاسفہ صرف ہندو تصورات ہی سے نہیں بلکہ بدھوں کے عقائد سے بھی واقف ہوں گے کیونکہ ان کا زمانہ یقینی طور پر بدھ مت کے بعد کا ہے۔ مزیدبراں بدھ مت جلد ہی ہندوستان کے علاوہ ان ایشیائی علاقوں میں پھیل گیا تھا جو یونان سے قریب واقع تھے اور نتیجتاً یونانیوں کی نسبتاً زیادہ پہنچ میں تھے۔ اس واقعہ سے اس قرین عقل دلیل کو بھی تقویت ملتی ہے کہ یونانیوں نے کلیتاً تو نہیں ہاں بیشتر فکری گداگری یا نظریاتی زلہ ربائی بدھ تہذیب ہی سے کی تھی۔ بہرصورت اس سلسلے میں سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ ہندوستان کے نظریات سے یونانی نظریات کی مشابہت جیسی نمایاں اور متعدد سقراط سے پہلے کے زمانے میں پائی جاتی ہے ویسی اس کے بعد کے دور میں نظر نہیں آتی۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سکندر مقدونی کے حملوں کا دونوں اقوام کے عقلی یا فکری روابط میں جو کردار اور ان پر جو اثر بیان کیا جاتا ہے وہ کدھر گیا؟ فی الحقیقت سوائے ان اثرات کے جو ارسطو کی منطق میں نظرآتے ہیں اور جو اس فلسفی کے مابعدالطبیعات سے متعلق افکار پر پائے جاتے ہیں سکندر کے حملے یونان پر کوئی ہندو اثرات مرتب کرتے نظر نہیں آتے۔ ارسطو کی مابعدالطبیعات میں بعض جگہ ہندوستان کے تصورات سے ایسی قریبی فکری مشابہت پائی جاتی ہے کہ اس کو کسی طرح بھی محض اتفاقی نہیں قراردیا جاسکتا۔۲؎ وہ لوگ جنھیں یونانی فلاسفہ کی ابتکاریت Originality کا ہر قیمت پر دفاع مقصود ہے اگر یہ اعتراض پیش کریں کہ انسانیت کا ایک مشترکہ فکری سرمایہ بھی تو ہے، تو انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس فکری سرمایہ کا وجود کچھ ایسا غیر معین اور مبہم ہے کہ اس سے ایسی قریبی اور بالوضاحت متعین مشابہتوں کی کوئی تسلی بخش توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ علاوہ ازیں ذہنیتوں کا اختلاف اکثر حالات میں اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جتنا وہ لوگ گمان کرتے ہیں جنھوں نے صرف ایک ہی قسم کے انسان دیکھے ہیں (مغربی انسان)۳؎ ہندوؤں اور یونانیوں کے مابین تو یہ اختلاف بالخصوص بہت کافی اور قابلِ لحاظ تھا۔ یوں بھی اس قسم کی توجیہ صرف وہاں چل سکتی ہے جہاں دو ملتی جلتی اور قابل موازنہ تہذیبوں کا ذکر ہو اور جن کی نشوونما ایک دوسرے سے الگ الگ مگر ایک ہی نہج پر ہوئی ہو اور پھر وہ ایسے نظریات کو جنم دیں جو بنیادی طور پر ایک ہوں خواہ ان میں صورتاً کوئی مشابہت نہ بھی ہو۔ اس کی سامنے کی مثال ہندوستان اور چین کے ماورا الطبیعاتی اُصول و عقائد ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان حدود کے اندر بھی غالباً یہ بات زیادہ قابلِ یقین ہوگی کہ اس توافق کو دو قدیمی روایتوں کی مماثلت پر محمول کیا جائے جیسا کہ ہمیں ان حالات میں کرنا پڑتا ہے جہاں ایک سی علامات کا مشترکہ استعمال مشاہد ہو۔ البتہ اس صورت میں دونوں میں ایک ایسا تعلق ضروری ٹھہرتا ہے جس کا آغاز نام نہاد ’’زمانۂ تاریخ‘‘ Historical Period سے کہیں پہلے کے ادوار سے ہوتا ہے۔۴؎ ارسطو کے بعد کے یونانی فلسفے پر ہندو اثرات کمیاب ہوتے ہوتے تقریباً غائب ہوجاتے ہیں کیونکہ اس فلسفے نے اپنے آپ کو ایک سمٹتے اور محدود تر ہوتے ہوئے عارضی دائرۂ کار میں مقید کرلیا تھا۔ حقیقی دانش سے اس کا بُعد اس لیے بھی بڑھ گیا کہ اس دائرۂ کار کا بیشتر حصہ اخلاقیات سے متعلق تھا جو ایسے سوالات سے اُلجھی رہتی تھی جو مشرق والوں کے لیے تقریباً اجنبی ہیں۔ اس کے بعد صرف نوفلاطونی ہیں جن کے ہاں مشرقی تصورات پھر ظاہر ہوتے ہیں اور انھیں کے ہاں بعض ماورا الطبیعاتی تصورات فلسفۂ یونان کی تاریخ میں پہلی بار ملتے ہیں، مثلاً ’’لاتعین‘‘ Infinite کا تصور۔ اس سے قبل یونانیوں کے پاس صرف لامتناہیت Indefinite کا تصور تھا اور تکمیل یافتہ Finished اور کامل Perfect ان کے لیے ہم معنی الفاظ تھے۔ اور یہ ان کی ذہنیت کا خاص امتیازی وصف تھا۔ اس کے برعکس مشرق والوں کے نزدیک صرف لاتعین Infinite ہی کمال سے متصف ہے۔ یہ ہے وہ خلیج جو ایک فلسفیانہ (مغربی معنی میں فلسفیانہ) نظریے کو ایک ماورا الطبیعاتی اُصول سے جدا کرتی ہے۔ یہاں تک ہم نے اپنے بزرگ شیخ عبدالواحد کے خیالات اُردو میں پیش کردیے ہیں۔ ان میں کوئی خیال ہمارا اپنا نہیں۔ مضمون پر ان کا نام صرف اس لیے نہیں دیا کہ پیرایۂ اظہار کے ذمہ دار ہم خود ہیں وہ نہیں۔ ء ء ء حوالے و حواشی ۱- اس سلسلے میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ بعض مقامات پر مذکورہ یونانی نوآبادیات اور قریہ مورثہ کا درمیانی فاصلہ متذکرہ اقوام کے درمیانی فاصلوں سے زیادہ رہا ہے۔ ۲- فلسفے کے پروفیسر یہ کَہ کر نہیں بچ سکتے کہ ارسطو کے فکری اثرات سکندر کے ہاتھیوں پر لدکر ہندوستان گئے تھے اور وہاں ہندوستان کے مفکرین نے ان کو سرآنکھوں پر رکھا، تاکہ یونان کی تہذیب کا بول بالا ہو اور بچارے پروفیسروں کو خواہ مخواہ سوچنے کی زحمت نہ کرنا پڑے۔ ۳- اس فہرست میں وہ تمام مغربی نفسیات دان اور ماہر سماجیات بھی آجاتے ہیں جو مغرب کے ٹوٹے پھوٹے آدمی کے مشاہدے پر مبنی نظریات کو دنیا بھر پر منطبق کرنے کی دھن میں رہتے ہیں۔ ظ ظ ظ صحبتِ اہل صفا m بیسویں صدی کا ایک ولی اللہ: شیخ احمد العلوی ؒ m شیخ عیسیٰ نور الدین احمدؒ m شیخ ابنِ تیمیہ ؒ: قادریہ سلسلہ کے ایک صوفی m شیخ عبدالواحد یحییٰ ؒ(رینے گینوں) : حیات و خدمات m امام غزالیؒ: فلسفے کا مخالف فلسفی m امام غزالی ؒکے فلسفے میں تشکیک کی معنویت اور اہمیت m احمد غزالی ؒ اور محمد غزالی ؒکے ایک دوسرے پر اثرات بیسویں صدی کا ایک ولی اللہ شیخ احمدالعلوی ؒ صفحات مابعد میں پیش کردہ ترجمہ ’’بہ نظرِ دیگر ے‘‘ شیخ ابو بکر سراج کی کتابA Sufi Saint of the Twentieth Centuryکا پہلا باب ہے۔ کتاب کے بارے میں سیّد حسین نصر کا خیال ہے کہ ’’اسلام کے بارے میں مطالعہ کرنے والوں ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے جو روحانی اُمور میں کشش محسوس کرتا ہے، یہ کتاب ایک قیمتی دستاویز ہے۔ اگر تصوف کا مطالعہ کسی مغربی زبان میں کرنا ہو تو اس کا مطالعہ لابدی ہے‘‘۔ مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی سوانحی کتب میں یہ کتاب سب سے اہم، مفصل اور پرکشش ہے۔ کہیں بھی کتاب میں ثانوی مآخذ استعمال نہیں کیے گئے اور تصوف اور صوفیا کو اپنی وکالت خود کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ متن کا بیشتر حصہ عربی سے ترجمہ کیا گیا ہے اور اپنی غیرمعمولی قوتِ جاذبہ کی وجہ سے قاری کو کھینچ کر اس فضا اور منظر نامے میں لے جاتا ہے جہاں شمالی افریقہ کے ایک سلسلۂ تصوف کی زندگی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ اسی پس منظر و پیش منظر میں شیخ العلوی کی ناقابلِ فراموش شخصیت جلوہ گر ہوتی ہے۔ جو اپنے مرشد کی وفات کے بعد ۱۹۰۹ء سے لے کر اپنی وفات (۱۹۳۴ئ) تک اس سلسلے کے سربراہ رہے۔ آخری چند ابواب کا بیشتر حصہ شیخ کی تعلیمات اور تحریروں پر مشتمل ہے۔ شیخ کا روحانی مقام اور تقدس اس درجہ کا ہے کہ کتاب پڑھ کر عہدِ اولیٰ کے سنہری دور متصوفین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ مصنف نے جہاں جہاں بطور حاشیہ یا تبصرہ کچھ اضافہ کیا ہے وہ بہت ہی اہم ہے اور اس سے، بحیثیتِ مجموعی، اسلام کے عمیق تر فہم کے دروا ہوتے ہیں۔ A Sufi Saint of the Twentieth Century by Martin Lings (Abu Bakr Siraj ud-Din). بہ نظرِ دیگرے میں نے اس کتاب کی ابتدا ڈاکٹر مارسل کیرے کے بیان سے کی ہے۔ اس کا مفہوم بالکل واضح ہونے کی وجہ سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کے مطالعے کرنے سے قاری کی سمجھ میں آجائے گا کہ میں نے کسی اور چیز کے بجائے اس سے کتاب کا آغاز کیوں کیا حالانکہ اس بیان کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب شیخ کی عمر پچاس برس ہوچکی تھی۔ شیخ العلوی سے میری پہلی ملاقات ۱۹۲۰ء کے موسمِ بہار میں ہوئی۔ چونکہ مجھے بطور معالج طلب کیا گیا تھا اس لیے اسے اتفاقیہ ملاقات بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ان دنوں مجھے مستغانم میں مطب کا آغاز کیے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ شیخ جسمانی اذیتوں کو ذرا اہمیت نہیں دیتے تھے۔ انھیں اس بات پر کس چیز نے آمادہ کیا کہ مجھے طلب کیا جائے؟ آخر انھوں نے مجھ جیسے نووارد کا انتخاب کیوں کیا جب کہ کئی اور معالج بھی موجود تھے۔ ان سوالات کے جواب آخر کار مجھے خود شیخ کی زبانی معلوم ہوئے۔ مستغانم میں آمد کے بعد جلد ہی میں نے شہر کے عرب حصے تیجیت ۱؎ میں ایک مطب قائم کیا تھا جو صرف مسلمانوں کے لیے وقف تھا جہاں میں ہفتے میں تین بار، نہایت قلیل فیس کے عوض طبی مشورے دیا کرتا تھا۔ مسلمان جبلی طور پر سرکاری شفاخانوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ میرا مطب جو اِن کی آبادی کے عین وسط میں قائم کیا گیا تھا اور ان کے ذوق اور رسم و رواج کے مطابق تھا، کامیاب ثابت ہوا۔ اس مطب کی کامیابی کی صدائے بازگشت شیخ کے کانوں تک بھی پہنچی۔ ان کی توجہ ایک نووارد فرانسیسی ڈاکٹر کی اس پیش رفت کی طرف مبذول ہوئی جو عام یورپیوں کے برعکس، بظاہر، مسلمانوں کو تکبر کی بلندیوں سے بہ نظرِ حقارت نہیں دیکھتا تھا۔ میرے علم میں لائے بغیر اور خود ان کی طرف سے کسی تفتیش کے بغیر انھیں ان کے مریدوں نے بتارکھا تھا کہ میرا حلیہ کیا ہے، میری مصروفیات کیا ہیں، مریضوں کا علاج کس طرح کرتا ہوں اور مسلمانوں سے میرا رویہ کس قدر ہمدردانہ ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ میں تو ابھی شیخ کے وجود تک سے بے خبر تھا اور وہ میرے بارے میں بخوبی باخبر ہوچکے تھے۔ ۱۹۲۰ء کے موسمِ بہار میں ان پر انفلوئنزا کا کسی قدر سخت حملہ ہوا تھا اور اس کی بنا پر انھوں نے مجھے مشورے کے لیے بلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے ساتھ پہلے رابطے کے وقت سے میرا تاثر یہ تھا کہ میں ایک غیرمعمولی شخصیت کی خدمت میں حاضر ہوں۔ جس کمرے میں مجھے لے جایا گیا وہ مسلمان گھرانوں کے رواج کے مطابق فرنیچر سے خالی تھا۔ ایک طرف دو صندوق دھرے تھے بعد کو معلوم ہوا کہ ان میں مسودات بھرے ہوئے تھے۔ فرش پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک چٹائیاں اور قالین بچھے تھے۔ ایک کونے میں گدے پر ایک غالیچہ تھا۔ اس کے اوپر شیخ چند تکیوں کے سہارے آلتی پالتی مارے، پشت سیدھی کیے، گھٹنوں پر ہاتھ رکھے بیٹھے تھے۔ پُرسکون قدسی انداز جو بالکل فطری معلوم ہوتا تھا۔ شیخ ؒکی جس چیز نے سب سے پہلے مجھے متاثر کیا وہ مسیح علیہ السلام کی مروجہ تصاویر سے ان کی مشابہت تھی۔ ان کا لباس اگر بعینہٖ نہیں تو تقریباً ویسا ہی تھا جیسا سیّدنا مسیح علیہ السلام نے پہنا ہوگا۔ باریک ململ کا نفیس سرپوش جس نے ان کا چہرہ بھی گھیررکھا تھا، ان کا انداز، غرضیکہ ہر چیز سے اس مجموعی تاثر کو تقویت ملتی تھی کہ شیخ مسیح علیہ السلام سے مشابہ ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ جب مسیح علیہ السلام مارتھا اور مریم کے ہاں مقیم تھے اور اپنے حواریوں کا وہاں استقبال کرتے تھے تو وہ اسی طرح دکھائی دیتے ہوں گے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے میں تعجب کی وجہ سے ایک لمحے کے لیے دہلیز پر ٹھٹکا۔ شیخ نے اپنی نظریں میرے چہرے پر گاڑ دیں لیکن لگتا تھا کہ وہ دور کہیں اور دیکھ رہے ہیں پھر انھوں نے خاموشی کو توڑا اور خوش آمدید کے مروّجہ الفاظ میں مجھے اندر آنے کے لیے فرمایا۔ ان کے بھانجے سیّدی محمد ان کے ترجمان تھے۔ شیخ ؒ اگرچہ فرانسیسی خوب سمجھتے تھے لیکن بولنے میں انھیں قدرے دقت ہوتی تھی اور کسی اجنبی کی موجودگی میں وہ ظاہر یہی کرتے تھے کہ گویا فرانسیسی سے نابلد ہوں۔ میں نے اپنے یورپی جوتوں کو ڈھانپنے کے لیے سینڈل کی فرمائش کی تاکہ قالین اور چٹائیاں نجاست سے محفوظ رہیں۔ شیخ نے فرمایا کہ جوتے ڈھانپنا ضروری نہ تھا۔ میرے لیے کرسی لائی گئی لیکن اس ماحول میں وہ کرسی ایسی اوپری اور مضحکہ خیز لگ رہی تھی کہ میں نے اس پر بیٹھنے سے یہ کَہ کر انکار کردیا کہ میں تکیے کے سہارے بیٹھنے کو ترجیح دوں گا۔ اس پر شیخ مسکرائے۔ ان کی مسکراہٹ تقریباً غیرمرئی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس معمولی سی بات سے میں نے ان کا دل موہ لیا ہے۔ ان کی آواز نرم اور کسی قدر پست تھی۔ بہت کم بولتے تھے اور وہ بھی چھوٹے چھوٹے فقروں میں۔ خدمت میں حاضر لوگ خاموشی سے ان کی اطاعت کرتے تھے اور چھوٹے سے لفظ یا اشارے کی بھی پیروی کرتے تھے۔ یوں محسوس ہوتاتھا کہ ان کے چاروں طرف گہری عقیدت نے احاطہ کیا ہوا تھا۔ مجھے چونکہ پہلے ہی سے مسلمانوں کے طور طریقوں کا کچھ علم تھا اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ میں کسی معمولی انسان کی خدمت میں حاضر نہ تھا، میں نے اندھا دھند یہ پوچھنا مناسب نہ سمجھا کہ مجھے کیوں بلایا گیا ہے؟ مناسب یہی معلوم ہوا کہ شیخ سدّی محمد کے توسط سے مجھ سے قیامِ مستغانم کے بارے میں سوالات کریں کہ مجھے کیا چیز وہاں لے آئی؟ کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ اور یہ کہ میں کہاں تک وہاں کے حالات سے مطمئن ہوں۔ اس گفتگو کے دوران ایک نوجوان مرید پیتل کے بڑے طشت میں پودینہ کی چائے اور کیک لے آیا۔ شیخ نے کچھ تناول نہیں کیا لیکن جب مجھے چائے پیش کی گئی تو مجھے پینے کی دعوت دی اور جب میں نے چائے پینے کے لیے پیالہ ہونٹوں سے لگایا تو میری جانب سے شیخ نے بسم اللہ پڑھی۔ میری خاطر مدارت کے بعد شیخ ؒ نے مجھ سے اپنی صحت کے بارے میں گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے مجھے دوائیں تجویز کرنے کے لیے طلب نہیں کیا۔ دوا اگر میرے نزدیک بالکل ناگزیر ہوئی تو وہ استعمال کرنے پر آمادہ تو تھے لیکن دواکھانے سے انھیں کوئی رغبت نہیں تھی۔ وہ دراصل صرف اتنا جاننا چاہتے تھے کہ چند روز پیشتر انھیں جو بیماری لاحق ہوئی تھی آیا وہ سنگین تھی۔ انھوں نے مجھ پر پورے اعتماد کا اظہار کیا کہ میں انھیں پوری صاف گوئی سے بتادوں اور ان کی حالت کے بارے میں جو بھی میری رائے ہو اسے ذرا بھی مخفی نہ رکھوں۔ باقی سب کچھ غیراہم تھا۔ میری دل چسپی اور استعجاب بڑھتا گیا۔ ایک بیمار آدمی جو دواؤں کا پرستار نہ ہو بجائے خود نادِر روزگار چیز ہے لیکن ایسا بیمار آدمی جسے شفایاب ہونے کی کوئی خاص تمنا نہ ہو اور جو محض اپنی حالت کے بارے میں صحیح معلومات چاہتا ہو کہیں زیادہ نادِر روزگار ہے۔ میں نے تفصیلی طبی معائنہ شروع کیا۔ مریض بے چون و چرا تعاون کرتا رہا۔ اس معائنے کے دوران میں میں نے جتنی توجہ اور احتیاط سے کام لیا اتنے ہی اعتماد سے انھوں نے اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا۔ وہ حیرت ناک حد تک دبلے تھے۔ یہاں تک کہ ان پر ایک ایسے بدن کا گمان ہوتا تھا جس کی رفتارِ حیات بہت مدھم ہوچکی ہو۔ تاہم ان کی صحت میں کوئی شدید خرابی نہ تھی۔ اس معائنے کے دوران ہمارے علاوہ صرف سدّی محمد موجود تھے جن کی پشت ہماری طرف تھی اور نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ کمرے کے وسط میں غمگین و مؤدب کھڑے تھے اور ہماری طرف نگاہ کیے بغیر دھیمی آواز میں سوالات و جوابات کا ترجمہ کررہے تھے۔ میں اپنا کام کرچکا تو شیخ نے تکیوں کی ٹیک لے کر ازسرِ نو اپنی عمودی نشست اختیار کرلی۔ سدّی محمد نے تالی بجائی اور نوجوان مرید اور چائے لے آیا۔ اس کے بعد میں نے شیخ ؒسے عرض کیا کہ ان پر ہونے والا، انفلوئنزا کا حملہ خاصا شدید تھا تاہم انھیں اس سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ ان کے اعضائے رئیسہ ٹھیک کام کررہے ہیں اور ان کی تمام تکالیف چند روز میں خودبخود رفع ہوجائیں گی۔ ان کی حالت میں کسی پیچیدگی کے پیدا ہونے کا خطرہ تو نہیں تھا لیکن چونکہ ایسے امراض میں ان پیچیدگیوں کا ایک حد تک ہمیشہ احتمال ہوتا ہے لہٰذا مجھے احتیاطاً دوبارہ آکر ان کا معائنہ کرنا ہوگا۔ میں نے مزید عرض کیا کہ آپ کا دبلاپن میرے لیے قدرے پریشان کن ہے ___ آپ اپنی غذا میں قدرے اضافہ کیجیے دراصل میرے سوالات کے جواب میں مجھے معلوم ہوا تھا کہ ان کی یومیہ غذا ایک لیٹر دودھ، چند خشک کھجوروں، ایک آدھ کیلے اور کسی قدر چائے سے متجاوز نہ تھی۔ شیخ ؒمیرے معائنے سے بہت مطمئن نظرآتے تھے۔ انھوں نے اپنے پروقار انداز میں میرا شکریہ ادا کیا، مجھے زحمت دینے پر معذرت کا اظہار کیا اور اس بات کی اجازت دی کہ میں جب بھی دوبارہ ان کو دیکھنا ضروری سمجھوں ان کے پاس آسکتا ہوں ___ جہاں تک غذا کا سوال تھا تو ان کا نقطۂ نظر مجھ سے مختلف تھا۔ ان کے لیے کھانا محض جینے کے لیے ضروری تھا لیکن وہ اپنی غذا میں زیادہ سے زیادہ تخفیف کرتے رہنے کے عادی تھے۔۲؎ میں نے انھیں آگاہ کیا کہ اگر ان کی غذا ناکافی رہی تو ان کی نقاہت میں اضافہ ہوتا رہے گا اور آیندہ بیماری کے مقابلے میں ان کی قوتِ مدافعت گھٹ جائے گی۔ میں خوب سمجھ رہا تھا کہ ان کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں لیکن دوسری جانب اگر انھیں اس امر کا ذرا بھی احساس تھا کہ ان کی زندگی طویل ہو یا وہ محض زندہ رہیں تو ان کے لیے فطرت کے تقاضوں کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا ضروری تھا خواہ اس کے لیے انھیں کتنی ہی کوفت کیوں نہ ہو۔ اس دلیل نے انھیں واضح طور پر متاثر کیا کیونکہ وہ کافی دیر تک خاموش رہے پھر ہاتھ کے ایک گریزاں اشارے اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انھوں نے آہستہ سے کہا: ’’ربُّنَا یُسھِل۔‘‘ شیخ ؒاب ویسے ہی بیٹھے تھے جیسے میری آمد کے وقت تھے۔ ان کی آنکھیں پھر دور کہیں تک رہی تھیں۔ میں ادب سے رخصت ہوا اور اپنے ساتھ ایک ایسا تاثر لیے ہوئے جو آج بیس برس گزرنے کے بعد بھی میرے حافظے میں اس قدر واضح طور پر مرتسم ہے گویا کہ یہ سب کچھ کل ہی واقع ہوا ہو۔ میں نے شیخ ؒکی خدمت میں اپنی اس پہلی حاضری کو پوری تفصیل سے بیان کیا ہے کیونکہ میرے خیال میں ان کی شخصیت کا بیان شروع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے اس تاثر کو منتقل کردوں جو ان سے پہلی ملاقات نے مجھ پر مرتب کیا تھا۔ یہ تاثر اس لیے بھی زیادہ قابلِ اعتماد ہے کہ ان پر پہلی نگاہ ڈالنے سے قبل مجھے ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ میں نے اس غیر معمولی انسان کے بارے میں مزید معلوم کرنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی مجھے ان کے بارے میں کوئی خاص بات نہ بتاسکا۔ شمالی افریقہ میں بسنے والے یورپی لوگ بالعموم اسلام کے اندرونی حالات سے اس قدر نابلد ہوتے ہیں کہ ان کے لیے ایک شیخ یا مرابط کوئی جادوگر قسم کی چیز ہے جس کی اگر کوئی اہمیت ہے تو اس کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے۔ چونکہ شیخ کسی سیاسی اثر و رسوخ کے حامل نہ تھے اس لیے ان کے بارے میں ان مغربی لوگوں کو کچھ معلوم نہ تھا۔ مزید غور کیاتوشک ہونے لگاکہ میں نے جو کچھ دیکھا تھااس میں کہیں میں اپنی قوتِ واہمہ کا شکار تو نہیں ہوگیا تھا، ممکن ہے وہ مسیح آساچہرہ، وہ سکون سے بھرپور دھیمی آواز، ادب و جمیل آداب کا وہ قرینہ مجھے اس قدر متاثر کرگئے ہوں کہ میں نے ایک ایسی روحانیت کا وجود فرض کرلیا جو فی الحقیقت موجود نہ تھی۔ ہوسکتا ہے کہ شیخ کا سارا رویہ ایک ڈھونگ ہو اور اس امید افزا سطح کے نیچے کچھ بھی نہ ہو۔ بایں ہمہ یہ سب کچھ شیخ کے ہاں اتنا فطری اور سادہ دکھائی دیتا تھا کہ پہلا تاثر برقرار رہا اور بعد کو جو کچھ ہوا اس سے اس تاثر کی برابر توثیق ہوتی گئی۔ اگلے روز میں شیخ کو دوبارہ دیکھنے گیا اور بعدازاں متواتر کئی روز تک جاتا رہا تاآنکہ وہ کاملاً شفایاب ہوگئے۔ ہر بار میں نے ان کو یکساں پایا، اسی بے حس و حرکت عمودی انداز میں، اسی جگہ، اسی طرح، دور کہیں تکتے ہوئے، لبوں پر وہی لطیف مسکراہٹ لیے ہوئے ___ گویا کہ وہ گزشتہ دن سے وہیں بیٹھے ہوں اور اپنی جگہ سے بالشت بھر بھی نہ سرکے ہوں ___ وقت سے بالاتر مجسمے کی طرح۔ ہر نئی ملاقات میں وہ پہلے سے زیادہ خلیق ہوتے تھے اور زیادہ اعتماد ظاہر کرتے تھے۔ ہماری گفتگو گو اگرچہ خاصی محدود اور طبی سوالات کو چھوڑ کر قطعی طور پر عمومی موضوعات پر ہوتی تھی تاہم میرا یہ تاثر قوی سے قوی تر ہوتا گیا کہ میرے سامنے جو شخص بیٹھا ہوا ہے وہ بہروپیا نہیں ہے۔ ہمارے تعلقات جلد ہی دوستانہ ہوگئے اور جب میں نے انھیں بتایا کہ بطور طبیب کے میری حاضری کی اب ضرورت باقی نہیں رہی تو انھوں نے کہا کہ اگر میں گاہے گاہے بوقتِ فرصت ان سے ملاقات کو آتا رہوں تو ان کو خوشی ہوگی۔ یہ اس دوستی کا آغاز تھا جو ۱۹۳۴ء میں شیخ کے انتقال تک برقرار رہی۔ ان چودہ برسوں کے دوران میں شیخ ؒسے ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور ملتا تھا۔ بعض اوقات میں صرف ان کی گفتگو کا لطف اُٹھانے کے لیے چلاجاتا تھا، کبھی شیخ کے خاندان کے کسی فرد کی علالت کے باعث میری طلبی ہوتی اور اکثر تو اس لیے بھی جاتا کہ شیخ کی صحت کی نزاکت میری توجہ کی متقاضی تھی۔ آہستہ آہستہ مجھے اور میری اہلیہ کو گھر کے مقربین کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد انھوں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ گویا ہم اپنے ہی گھر میں موجود ہیں اور بالآخر انھوں نے ہمیں افرادِ خاندان سمجھنا شروع کردیا۔ لیکن یہ سب کچھ بتدریج اور غیر محسوس طور پر واقع ہوا۔ شیخ ؒنے میری پہلی ملاقات کے وقت تک موجودہ زاویہ ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا۔ فقرا کے ایک گروہ نے اس کے لیے زمین خرید کر شیخ کی خدمت میں ہدیتاً پیش کردی تھی۔ عمارت کی نیو رکھی جاچکی تھی۔ مگر ۱۹۱۴ء کے آشوب کی وجہ سے کام معطل ہوگیا تھا جسے ۱۹۲۰ء سے قبل دوبارہ شروع نہ کیا جاسکا۔ جس انداز میں زاویہ تعمیر ہوا وہ بلیغ بھی ہے اور مثالی بھی۔ اس کی تعمیر کے لیے نہ تو کوئی مہندس تھا نہ ماہرِ تعمیرات اور سبھی کارکن رضاکار تھے۔ ماہرِ تعمیرات شیخ خود تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خود نقشہ بناتے تھے یا خود گُنیا سنبھال کر کام کرتے تھے۔ وہ محض اپنا عندیہ ظاہر کردیتے کہ وہ کیا تعمیر کرانا چاہتے ہیں اور ان کا تصور معماروں کی سمجھ میں آجاتا۔ یہ سب لوگ مستغانم کے مقامی باشندے بھی نہیں تھے۔ بہت سے مراکش سے آئے تھے، خصوصاً ریف سے، بعض تیونس سے تھے اور سب کے سب کسی باقاعدہ بھرتی کے بغیر اس کام میں شریک تھے۔ لوگوں کو بلانے کے لیے صرف یہ خبرکافی تھی کہ زاویہ کا کام دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔ شیخ کے شمالی افریقہ کے مرید جوق در جوق آنے لگے۔ ان میں بعض معمار تھے، کچھ بڑھئی یا پتھر کاٹنے والے تھے اور باقی سڑکوں پر کام کرنے والے یا عام محنت مشقت کرنے والے مزدور۔ یہ لوگ معمولی زادِراہ رومال میں باندھ کر مستغانم کے دور افتادہ قصبے کے سفر پر نکل کھڑے ہوتے تاکہ مرشد کے پاس پہنچ کر اپنے دست ہائے ہنرمند ان کی خدمت میں پیش کرسکیں۔ انھیں کوئی اجرت نہیں ملتی تھی۔ ان کو خوراک ملتی تھی اور ان کے رہنے کے لیے خیمے نصب تھے۔ ہرروز، مغرب سے ایک گھنٹہ قبل، شیخ ان کو یک جا کرتے اور روحانی تعلیم دیتے۔ یہی ان کا معاوضہ تھا۔ یہ لوگ اس انداز میں دو دو تین تین ماہ کام کرتے اور اپنے علاقے کو لوٹ جاتے، کام میں شرکت پر شاداں اور روحانی طمانیت سے سرشار۔ دوسرے لوگ ان کی جگہ لے لیتے اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ بھی اپنی باری پر واپس چلے جاتے۔ نئے رضاکار بلاتاخیر ان کی جگہ لے لیتے اور کام شروع کرنے کو بے تاب ہوتے۔ نئے لوگ ہمیشہ آتے رہتے اور رضاکاروں کی کمی کبھی محسوس نہ ہوئی۔ یہ سلسلہ دو برس تک جاری رہا۔ دوسرے سال کے خاتمے تک عمارت مکمل ہوچکی تھی۔ سادہ اور کھری عقیدت کے اس مظہر نے مجھے باطنی مسرت کا ایک عمیق احساس عطا کیا۔ بدیہی طور پر دنیا میں ابھی ایسے بے لوث افراد موجود تھے جو خود کو کسی آدرش کی خدمت کے لیے بلامعاوضہ وقف کرسکتے تھے۔ ہمارے سامنے بیسویں صدی کے وسط میں وہی جوش اور ولولہ کارفرما تھا جس کے طفیل ازمنۂ وسطیٰ میں کیتھیڈرل تعمیر ہوئے تھے۔ بلاشبہ تعمیر کا یہ کام بھی انہی خطوط پر عمل میں آیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس سارے واقعے کا ایک حیرت زدہ عینی شاہد تھا۔ زاویے کی تکمیل کے ساتھ ہی فقرا نے کہا کہ وہ افتتاحی تقریب کے طور پر ایک بڑا جشن منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا، اس کی منظوری دے دی۔ اس وقت تک میں شیخ ؒکو اتنی اچھی طرح جان چکا تھا کہ ان سے اپنے دل کی بات صاف صاف کَہ سکتا تھا چنانچہ میں نے اس بات پر اپنے تعجب کا اظہار کیا کہ انھوں نے ایک ایسے مظاہرے کے لیے منظوری دے دی جو ان کی عادات سے مطابقت نہیں رکھتا اور ان کے عزلت و فنائیت کے ذوق کے اس قدر منافی ہے۔ باہمی گفتگو کے لیے اپنے بھانجے سدّی محمد کی خدمات سے بطور ترجمان استفادہ شیخ پہلے ہی ترک کرچکے تھے اس کے باوجود سدی محمد ہماری ملاقات کے وقت ہمیشہ موجود رہتے۔ ہماری بات چیت بالعموم فرانسیسی میں ہوتی تھی اور سدّی محمد صرف اس وقت مداخلت کرتے جب شیخ یہ محسوس کرتے کہ وہ فرانسیسی میں کسی مخصوص خیال کے صحیح اظہار پر قادر نہیں ہیں۔ میرے اظہارِ تعجب پر شیخ ؒنے بڑے لطیف انداز میں کندھے اچکائے۔ مجھے ان کے صحیح الفاظ تو یاد نہیں ہیں مگر جو کہا وہ کم و بیش یہ تھا: ’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ یہ چیزیں غیرضروری ہیں لیکن انسانوں کو اسی طرح قبول کرنا چاہیے جیسے کہ وہ ہیں۔ ہر شخص اس پر قادر نہیں کہ خالص روحانیت یا فکر و تدبر میں کامل مسرت پاسکے۔ یہ لوگ آئے دن ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر بیٹھیں اور یہ ادراک حاصل کریں کہ ان کے خیالات میں بہت سے دوسرے لوگ بھی شریک ہیں۔ اس وقت بھی ان کا مطالبہ صرف اتنا سا ہے۔ دوسری اسلامی زیارت گاہوں میں آپ نے جس قسم کی تقریبات، بندوق بازی، گھڑ دوڑ کے مقابلوں، کھیل کود اور پُرخوری سمیت دیکھی ہیں ان کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرے مریدوں کے لیے اجتماع یا جشن کا مطلب ہے روحانی مسرت کا اظہار۔ یہ صرف بچھڑے ہوؤں کا ملاپ ہوتا ہے جس میں تبادلۂ افکار اور اجتماعی دعا اور عبادت کی جاتی ہے۔‘‘ شیخ ؒکے ان ارشادات کی روشنی میں غور کرنے کے بعد اجتماع کا تصور طبیعت پر بالکل گراں نہ رہا۔ شرکا کی تعداد کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ جشن کامیاب رہا۔ آنے والے لوگ تمام اطراف سے آئے تھے اور معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخ نے مجھ سے جو کچھ فرمایا تھا اس کے مطابق مجھے یہ توقع تھی کہ یہ ایک ایسا اکٹھ ہوگا جہاں علم دوست فقرا نظری عقدے حل کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے اور مناظرانہ موشگافی اور مسائل میں نکتہ آفرینی کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔ افتتاحی تقریر کا جو چلتا ہوا سا ترجمہ سدّی محمد نے میری سہولت کے لیے کیا اس سے تو یہی اندازہ ہوا کہ اجتماع مذکورہ نوعیت ہی کا تھا، بالخصوص نوجوان مریدین کے لیے ___ تاہم ہماری اصل دلچسپی یہاں نہیں بلکہ ان پرانے مریدوں سے تھی جو بولتے نہیں تھے اور عمیق مراقبے میں مستغرق رہتے تھے۔ ان میں سے سب سے متواضع فقرا جن سے میں خاص طور پر متاثر ہوا ریف کے کوہستانی باشندے تھے۔ یہ لوگ مسلسل ایک ماہ تک قریہ بہ قریہ پیدل چل کر آئے تھے اور یہ صعوبت انھوں نے اپنے سادہ نفوس میں فروزاں نورِ باطن کے سہارے جھیلی تھی۔ سونے کی تلاش میں نکلنے والے اوّلین لوگوں کی طرح۳؎ سفر پر روانہ ہوتے ہوئے فقرا جوش و خروش سے بھرپور تھے لیکن یہ لوگ کسی دنیاوی دولت کی تلاش میں نہیں نکلے تھے۔ ان کی جستجو خالصتاً روحانی تھی اور وہ جانتے تھے کہ ان کی جستجو ناکام نہیں رہے گی۔ میں انھیں دیکھتا رہا۔ وہ ساکن و صامت فضا کی روحانیت کو اپنے اندر جذب کررہے تھے گویا صرف اس جگہ موجود ہونے کی وجہ سے تجلیِ الٰہی میں مستغرق تھے۔ مقام کا تقدس ان کے رگ و پے میں سرایت کرچکا تھا۔ ان کی سب سے بڑی آرزو کی تکمیل ہوچکی تھی۔ اپنے آپ سے کاملاً ہم آہنگ، حضور خدا وندی میں شادکام۔ بعض اوقات یوں ہوتا کہ کئی گھنٹوں تک مسلسل ساکن و صامت رہنے کے بعد مریدین آہستگی سے ایک نرم آہنگ مناجات۴؎ چھیڑدیتے۔ اس کے بعد وہ گروہوں میں بٹ کر دائرے بنالیتے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے پیچھے جھومنے لگتے۔ ہر حرکت کے ساتھ دھیمے اور موزوں انداز میں اللہ کا نام واضح طور پر ادا کرتے۔ اس کا آغاز ہلکے سے ترنم سے ہوتا جسے ہر گروہ کا رہنما اپنے دائرے کے وسط سے صادر کرتا۔ اس کی آواز دوسروں سے بلند سنائی دیتی۔ دریں اثنا ان میں سے بعض آہنگ جاری رکھتے جو بتدریج بلند تر اور قوی تر ہوتا جاتا۔ ترنم کی رفتار بڑھنے لگتی۔ آہستہ آہستہ آگے پیچھے جھومنے کے بجائے گھٹنوں کو خم دے کر دفعتاً سیدھا کرنے کا آغاز ہوجاتا۔ جلد ہی ہر دائرہ آہنگ میں فقرا دمِ واپسیں۵؎ کے انداز میں سانس لینے لگتے (پاؤں غیرمتحرک رہتے) اور آوازیں بھراجاتیں۔ وقت تیز سے تیز تر ہونے لگتا اور جھکنے اُٹھنے کی حرکات شدید سے شدید تر۔ ان میں جھٹکے آنے لگتے اور وہ تشنج کی حدود کو چھونے لگتیں۔ اسم اللہ اب سانس کی آمدو رفت بن جاتا اور یہ کیفیت جاری رہتی، تیز سے تیز تر تاآنکہ خود تنفس بھی سنائی دینا بند ہوجاتا۔ ان میں سے بعض تھکن سے چور ہوکر زمین پر گرپڑتے۔ گھومتے درویشوں کے رقص سے ملتی جلتی اس مشق کا مقصد بدیہی طور پر نفس کے اندر ایک خاص کیفیت پیدا کرنا ہے لیکن میں سوچ میں پڑگیا کہ ایسے سخت کرخت اعمال اور شیخ کی نیک نفسی و نفاست میں کیا روحانی رابطہ ہوسکتا ہے۔ شیخ ؒ کی شہرت دور دراز تک کیسے پہنچ گئی؟ اس مقصد کے لیے کبھی کوئی منظم پراپیگنڈا نہیں کیا گیا۔ شیخ کے مریدین تشہیر و تبلیغ کے لیے ادنیٰ سے ادنیٰ کوشش بھی نہیں کرتے تھے۔ ہر اس گاؤں یا قصبہ میں جہاں فقرا کی کچھ تعداد ہوتی ان کے اپنے الگ تھلگ زاویے ہوتے تھے اور آج بھی ہوتے ہیں۔ ہر زاویہ ایک مقدم کی زیرنگرانی ہوتا۔ مقدم سے مراد وہ فقیر ہے جسے شیخ کا اعتماد و اختیار حاصل ہو۔ یہ مختصر سلاسل اُصولی طور پر ہر قسم کے خارجی عمل سے احتراز کرتے ہیں اور اجنبیوں سے اپنی روحانی سرگرمیاں مخفی رکھتے ہیں۔ اس اخفا کے باوجود ان کا اثر پھیلتا رہتا ہے اور بیعت کے خواہش مند، ہونے والے فقرا درخواستِ بیعت لے کر ہمیشہ آتے رہتے ہیں۔ ان کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہوتا ہے۔ ایک روز میں نے اس بات پر اپنے تعجب کا اظہار شیخ ؒسے کیا۔ انھوں نے فرمایا۔ ’’یہاں آنے والے سب لوگوں پر اللہ کا خیال ہمہ وقت چھایا رہتا ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے ان الفاظ کا اضافہ کیا جو الہامی کتب سے کے اقتباس سے مشابہ تھے۔ ’’یہ لوگ داخلی سکون کی جستجو میں آتے ہیں۔‘‘ مزید استفسار کی مجھے اس روز جرأت نہ ہوئی مبادا کہ وہ مجھ پر ناروا تجسس کا گمان کریں۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ شیخ ؒ کے اس ارشاد اور ان نداؤں کے درمیان کوئی تعلق ضرور تھا جو میں نے کبھی کبھار سنی تھیں اور جنھوں نے میری آتشِ شوق کو ہوا دی تھی۔ ہوا یوں کہ بارہا جب میں شیخ ؒکے ساتھ اطمینان سے محوِ گفتگو ہوتا تو زاویے کے کسی بعید گوشے سے اللہ کے نام کی طویل ارتعاش آساصدا بلند ہوتی… اَل…لآ…آ آہ۔ ایک ایسے آدمی کی پکار کی طرح جو ہر جگہ سے مایوس ہوچکا ہو، کسی مبتلائے غم کی التجا۔ یہ آواز زاویے کے کسی حجرے میں عزلت گزیں مراقبے میں کوشاں کسی مرید کی ہوا کرتی تھی۔ چند مرتبہ یہ پکار بلند ہوتی اور پھر دوبارہ خاموشی چھا جاتی۔ "Out of the depths have I cried unto thee, O Lord" "From the end of the earth will I cry unto Thee, when my heart is overwhelmed: lead me to the rock that is higher than I." الٰہی میںنے گہرائیوں سے تجھے پکارا ہے۔۶؎ الٰہی جب میرا دل وفورِ کرب کی تاب نہ لاسکے گا تو میں انتہائے زمیں سے تجھے پکاروں گا۔ مجھے ایسی محفوظ چٹان پر پہنچا دے جو مجھ سے ارفع ہو۔۷؎ زبور کی یہ آیات میرے ذہن میں آئیں کہ مذکورہ پکار بھی اسی طرح کی تھی۔ اسیرِ الم روح کی اپنے مولا کی مدد کے لیے پکار۔ میرا یہ اندازہ غلط نہیں تھا کیونکہ بعد کو جب میں نے شیخ سے دریافت کیا کہ ہم نے جو آواز سنی اس کا مطلب کیا تھا تو انھوں نے فرمایا: ’’ایک فقیر اپنے مراقبے میں اللہ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔‘‘ ’’کیا میں استفسار کرسکتا ہوں کہ اس مراقبے کا مقصد کیا ہے؟‘‘ ’’ذاتِ باری میں اپنا تحقق۔‘‘ ’’کیا تمام فقرا اسے حاصل کرلیتے ہیں۔‘‘ ’’نہیں! یہ تو شاذ ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ اس کا امکان صرف چند لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔‘‘ ’’تو پھر وہ فقرا جو ناکام رہتے ہیں ان کا کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ مایوسی کا شکار نہیں ہوتے۔‘‘ ’’نہیں…! وہ کم از کم اس مقام تک ضرور پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو سکونِ قلب میسر آجاتا ہے۔‘‘ سکونِ قلب… ان کی گفتگو کا محور اکثر اوقات یہی سکونِ قلب ہوتا تھا اور اس میں کلام نہیں کہ یہی ان کے اثر و رسوخ کا سبب بھی تھا۔ آخر وہ کونسا انسان ہے جس کا مطمح نظر کسی نہ کسی طرح سکونِ قلب کا حصول نہ ہو؟ صحت نسبتاً اچھی ہونے کے بعد موسمِ سرما کے سوا شیخ ؒ ایک برآمدے سے میں میرے ساتھ نشست جماتے تھے جو اونچی دیواروں سے گھِرے ہوئے ایک چھوٹے سے باغ کے زیریں حصے میں تھا۔ باغ کو دیکھ کر فارسی مخطوطات کی مصوری کی یادتازہ ہوتی تھی۔ دنیا کے شوروشغب سے دور، پتوں کی سرسراہٹ اور چہچہاتے پرندوں کے بیچ اس پُرسکون ماحول میں ہمارے سوال و جواب ہوا کرتے۔ درمیان میں خاموشی کے طویل وقفے بھی آجاتے۔ ان لوگوں کی مانند جو ایک دوسرے کو سمجھتے ہوں اور ایک حد تک ایک دوسرے سے انس رکھتے ہوں ہمیں بھی طویل خاموشی سے اُلجھن نہیں ہوتی تھی۔ بعض اوقات کسی تفکر طلب ارشاد کے باعث خاموشی کا تسلط لابدی ہوجاتا۔ مزیدبراں شیخ کبھی بلاضرورت کلام نہیں کرتے تھے جب تک ہمارے پاس واقعی کچھ کہنے کو نہ ہوتا، ہمیں گفتگو کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ابتدا میں شیخ ؒکو یہ معلوم کرکے تعجب ہوا کہ میں مسلمانوں کے دین کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھتا ہوں۔ کم از کم اس کے بنیادی عقیدے اور اُصولوں سے واقف ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق، اہم نکات کی حد تک ہی سہی، کچھ جانتا ہوں اور مجھے خلفائے راشدین کی تاریخ کا بھی کسی حد تک علم ہے۔ پھر یہ کہ میں کعبۃ اللہ، چاہ زمزم اور اپنی والدہ ہاجرہ کے ساتھ سیّدنا اسماعیلؑ کی صحرا میں ہجرت سے بھی بالکل بے خبر نہ تھا۔ میرا یہ تمام علم تھا تو بہت قلیل مگر ایک اوسط یورپی شخص ان اُمور کے بارے میں بالعموم اتنا جاہل ہوتا ہے کہ شیخ میری محدود معلومات پر اپنے تعجب کو مخفی نہ رکھ سکے۔ دوسری طرف، میرے لیے ان کی وسیع القلبی اور رواداری باعثِ حیرت تھی۔ میں نے تو ہمیشہ یہ سنا تھا کہ ہر مسلمان کٹر جنونی ہوتا ہے اور غیرمسلموں کے لیے سوائے شدید حقارت کے اور کوئی جذبہ نہیں رکھتا۔ شیخ ؒفرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تین۸؎ پیغمبروں پر وحی نازل فرمائی۔ پہلے موسیٰ، پھر عیسی اور پھر محمدؐ پر۔ اسلام ان معنوں میں بہترین دین ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے تازہ ترین پیغام ہے۔ تاہم یہودیت اور عیسائیت بھی منزل من اللہ ادیان ہیں۔ ان کا اسلام کے بارے میں تصور بھی اتنا ہی وسیع تھا۔ وہ صرف اساسیات پر زور دیتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے: ’’ایک متدیّن مسلمان ہونے کے لیے پانچ باتوں کی پابندی ضروری ہے۔ اللہ پر ایمان لانا سیّدنا محمدؐ کو آخری نبی ماننا، پنج وقتہ نماز ادا کرنا، غربا کو مقررہ زکوٰۃ ادا کرنا، روزہ رکھنا اور حج بیت اللہ کرنا۔‘‘ مجھے جو چیز ان میں سب سے زیادہ قابلِ قدر نظر آئی وہ یہ تھی کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کے تشہیر و تبلیغ سے کاملاً بے نیاز تھے۔ جب بھی میں ان سے استفسار کرتا وہ اپنے رائے کا اظہار کردیتے۔ لیکن انھیں اس بات کی چنداں پروانہ تھی کہ آیا مجھے ان آرا سے کوئی فائدہ پہنچایا نہیں۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ مجھے مسلمان بنانے کی ذرہ برابر کوشش نہیں کی بلکہ ایک مدت تک انھیں اس سے بھی کوئی سروکار نہ تھا کہ میں کون سے عقائد کا حامل ہوں۔ یہ ان کا خاصہ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: جن کو میری ضرورت ہوتی ہے وہ میرے پاس آجاتے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسروں کو کھینچنے کی کیا ضرورت ہے؟ زندگی کی اہم ترین چیزوں کی انھیں پروا نہیں تو اپنی راہ لیں۔ چنانچہ ہماری گفتگو ان دو ہمسایوں کی گفتگو سے مختلف نہ تھی جن کے باہمی تعلقات اچھے ہوں اور جوگاہے گاہے اپنے باغ کی باڑ کے اس پار سے تبادلۂ خیالات کرلیتے ہوں۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میرے اپنے خیالات زیرِبحث آگئے جس کی وجہ سے انھوں نے مجھ سے کچھ استفسار کیا۔ غالباً انھوں نے اس کا پہلے سے ارادہ کررکھا تھا مگر یہ نہ جانتے تھے کہ ایسا نازک موضوع کیونکر چھیڑیں اور اس کے لیے مناسب موقع کے انتظار میں تھے۔ یہ موقع ان حبشی مسلمانوں کے سلسلے میں میسر آگیا جنھوں نے بعض سوڈانی عادات و اطوار اسلام میں دخیل کیے تھے۔ وہ مخصوص اوقات میں گلی کوچوں سے بیل نکالتے جسے ہار اور پٹیاں پہنائی جاتیں۔ ڈھول اور طنبورہ کی آواز پر رقص ہوتا، ہاؤہوبپا کرتے، گیت گاتے اور دھات کے مجیرے بجائے جاتے۔ آج ایسی ہی کسی تقریب کا موقع تھا۔ ہمارے پُرسکون باغ کے سرے پر برامدے کے نیچے اس قسم کے ایک جلوس کی دبی دبی آوازیں دور سے ہمارے کانوں میں آرہی تھیں۔ نہ جانے کیوں میں نے ایسے مظاہروں کا موازنہ بعض کیتھولک جلوسوں سے کردیا جن کے بارے میں میراخیال تھا کہ وہ محض بت پرستی ہے۔ بعینہٖ عشائے ربانی بھی میرے نزدیک سراسر شعبدہ بازی ہے الّایہ کہ اسے علامتی معنوں میں لیا جائے۔ شیخ ؒنے فرمایا: ’’کچھ بھی ہو یہ بہرحال آپ کا مذہب ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا: ’’جی ہاں، ایک طرح سے یہ میرا مذہب ہے کیونکہ مجھے اس وقت بپتسمہ دیا گیا تھا جب میں ابھی آغوشِ مادر میں تھا ورنہ اس کے سوا میرا اس سے کوئی ناطہ نہیں۔‘‘ ’’تو پھر آپ کا مذہب کیا ہے۔‘‘ ’’میرا کوئی مذہب نہیں۔‘‘ یہ سن کر شیخ نے کچھ دیر تک سکوت فرمایا پھر گویا ہوئے۔ ’’عجیب بات ہے۔‘‘ ’’عجیب کیوں۔‘‘ ’’کیونکہ بالعموم وہ لوگ جو آپ کی طرح لامذہب ہوتے ہیں مذہب کے لیے معاندانہ رویہ رکھتے ہیں، لیکن آپ ایسے نہیں معلوم ہوتے۔‘‘ ’’آپ کا ارشاد درست ہے لیکن آپ نے جن لوگوں کا ذکر کیا ہے انھوں نے بنیادی طور پر عدم روا داری کی مذہبی ذہنیت ترک نہیں کی۔ وہ بے چین ہیں۔ اپنے عقائد کھوکر انھیں وہ سکون نہیں نصیب ہوا جس کا تذکرہ آپ نے فرمایا ہے۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘‘ ’’جی ہاں۔ اس لیے کہ میں نے اشیا کا تجزیہ ان کے انتہائی نتائج تک کیا ہے۔ میں ہر چیز کو اس کی صحیح قدر و قیمت کے مطابق دیکھتا ہوں اور اسے اس کی مناسب جگہ پر رکھتا ہوں۔‘‘ ’’شیخ کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر فرمایا: ’’یہ بھی عجیب بات ہے۔‘‘ ’’کیا؟‘‘ ’’یہی کہ آپ اس تصور تک عقیدے کے بجائے دوسرے وسائل سے پہنچ گئے۔‘‘ ’’کون سا عقیدہ؟‘‘ شیخ ؒنے ایک مبہم سا اشارہ کیا اور پھر مراقبے میں ڈوب گئے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ اس موضوع پر مزید کچھ کہنے پر آمادہ نہیں ہیں لہٰذا میں واپس چلا آیا۔ میرا تاثر یہ تھا کہ اس روز کے بعد سے شیخ ؒمجھ میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں… اب تک ہمارا تعلق دوستانہ تھا جس سے بے تکلفی ٹپکتی تھی۔ پھر بھی یہ ایک اتفاقی دوستی کی حدود سے متجاوز نہ تھا۔ میں ان کے لیے ایک خاصا خوش گوار ملاقاتی تھا۔ وہ مجھے پسند کرتے تھے۔ اس کے باوجود میں اجنبی تھا اور ان سے دُور۔ گزرے ہوئے کئی برسوں میں ان کے لیے ایک عارضی تفریح سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ غالباً ان کی نگاہوں میں میری کوئی خاص اہمیت بھی نہ تھی۔ میں ایک ایسا راہروتھا جس سے زندگی کے سفر میں مڈبھیڑ ہوجاتی ہے۔ ایک لمحاتی رفیق جسے انسان راستے کے کچھ حصے کے لیے اس کی خوش خلقی اور بارخاطر نہ ہونے کی وجہ سے قبول کرلیتا ہے اور پھر بھُلا دیتا ہے۔ اس کے بعد ہم جب بھی تنہا ہوتے، ہماری گفتگو تجریدی رنگ اختیار کرلیتی۔ مجھے اس بات کا دلی رنج ہے کہ میں نے اسی وقت، انھی ایام میں وہ عجیب و غریب گفتگو سپردِ قلم کیوں نہ کرلی۔ اس گفتگو کے مضمرات اور دلالات اس کے الفاظ سے کہیں زیادہ تھے۔ اگر یہ محفوظ رہ گئی ہوتی تو اس کی حیثیت نہ صرف میرے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک قیمتی دستاویز کی ہوتی۔ لیکن ان دنوں میں ان باتوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتا تھا جتنی کہ انھیں مرورایام کے ساتھ میرے حافظے میں حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ میں ان ملاقاتوں کی ایک عمومی جھلک ہی دکھاسکوں گا۔ اس طرح کہ ان کے چند اہم نکات بیان کروں گا جو میرے ذہن میں باقی رہ گئے ہیں۔ بعض اوقات ہمارا مکالمہ چند فقروں تک ہی محدود رہتا اور درمیان میں خاموشی کے طویل وقفے آجاتے۔ کبھی میں شیخ ؒکے کسی سوال کے جواب میں اپنے نقطۂ نظر کی تشریح کرتا کیونکہ اب سوالات شیخ ؒکی جانب سے پوچھے جاتے تھے۔ ہم نے کبھی آپس میں تکرار نہیں کی۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے درمیان کبھی اس طرز کا بحث مباحثہ نہیں ہوا جس میں ہر فریق دوسرے کو اپنے برحق ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ محض تبادلۂ خیال تھا اور بس۔ یوں میں نے شیخ ؒکے سامنے مذہب کے بارے میں اپنا رویّہ بیان کیا۔ میں نے کہا کہ چونکہ ہر شخص اپنے وجود اور اپنے مستقبل کی گتھی سے پریشان ہوتا ہے اس لیے ہر ایک کو کسی ایسی توجیہ کی تلاش ہوتی ہے جو ہمیں مطمئن کرسکے اور جس سے ہمارے ذہنوں کی خلش دُور ہوسکے۔ مذاہب ایک حل پیش کرتے ہیں جس سے اکثر لوگوں کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ مجھے ان لوگوں کو پریشان کرنے کا کیا حق حاصل ہے جنھوں نے اپنا روحانی اطمینان مذہب میں پالیا ہے۔ مزیدبراں ہر وہ شخص جو ذہنی سکون کے حصول پر کمربستہ ہے، خواہ کوئی ذریعہ استعمال کرے اور جو بھی راستہ اختیار کرے اسے کسی نہ کسی عقیدے کو نقطۂ آغاز کے طور پر اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ خود میرا اختیار کردہ سائنس کا راستہ بھی متعدد مفروضوں پر مبنی ہے۔ ان مفروضوں سے مراد ایسے مسلمات ہیں جنھیں بدیہی صداقتوں کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کوئی راہ بھی اختیار کرے اس میں عقیدے کا چھوٹا بڑا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور پایا جاتا ہے۔ انسان کے لیے واحد سچائی وہی ہے جسے وہ سچائی تسلیم کرے۔ ہر شخص وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو اس کے موافق ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے مطلوب تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کے لیے یہی راستہ صحیح ہے۔ تمام راستے مساوی ہیں۔‘‘ یہاں پہنچ کر شیخ ؒنے میری بات کاٹ دی اور کہا: ’’نہیں تمام راستے برابر نہیں ہیں۔‘‘ میں شیخ ؒکی توجیہ کے انتظار میں خاموش رہا۔ انھوں نے فرمایا: ’’اگر آپ صرف خلش کے ازالہ کو نگاہ میں رکھیں تو بے شک تمام راستے ایک جیسے ہیں لیکن یہ معاملہ مدارج کے اختلاف کا ہے۔ بعض لوگوں کی خلش تھوڑے سے رفع ہوجاتی ہے۔ کچھ مذہب میں اپنی طمانیت پالیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی ضرورت اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے لیے صرف ذہنی سکون کافی نہیں ہوتا بلکہ وہ سلامِ اعظم جس سے روح کو درجہ کمال عطا ہوتا ہے۔‘‘ ’’مذہب کے بارے میں آپ کا خیال ہے۔‘‘ ’’اس آخری گروہ کے لیے مذہب صرف نقطۂ آغاز ہے۔ عقیدہ مذہب سے بالاتر ہے۔‘‘ میں نے یہ لفظ پہلے بھی کئی بار ان سے سنا تھا لیکن جب میں ان سے پوچھتا کہ اس سے ان کی کیا مراد ہے تو وہ جواب دینے پر آمادہ نہ ہوتے۔ ڈرتے ڈرتے ایک بار پھر پوچھنے کی جسارت کی: ’’کیسا عقیدہ۔‘‘ ’’خود حضور الٰہی تک پہنچنے کا وسیلہ۔‘‘ اس مرتبہ انھوں نے جواب دیا۔ ’’یہ وسیلہ کیا ہے۔‘‘ جو اباً شیخ ؒمسکرادیے۔ ان کی مسکراہٹ میں ترحم کی آمیزش تھی۔ ’’میں آپ کو کیوں بتلاؤں جب کہ آپ ان وسائل کو برتنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔ اگر آپ میرے مرید کی حیثیت سے میرے پاس آتے تو میں آپ کے سوال کا جواب دیتا لیکن محض ایک تجسس بیکار کی تسکین سے کیا حاصل؟‘‘ ایک اور موقع پر یوں ہوا کہ ہم دعا کے موضوع پر بات کررہے تھے۔ میرے نزدیک دعا ان لوگوں کے لیے غیرضروری تھی جو باری تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ پر یقین رکھتے ہوں۔ ’’دعا کا فائدہ کیا ہے؟‘‘ میرا سوال تھا۔ ’’میں آپ کی مراد سمجھتا ہوں۔‘‘ انھوں نے جواباً کہا۔‘‘ اُصولاً آپ کی بات صحیح ہے۔ جب اللہ سے براہِ راست رابطہ ہو تو دعا غیرضروری ہے کیونکہ اس صورت میں براہِ راست معرفت حاصل ہوتی ہے لیکن دعا سے ان لوگوں کو مدد ملتی ہے جنھیں یہ رابطہ حاصل نہیں اور جو اس کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم اس صورت میں بھی دعا ناگزیر نہیں۔ اللہ تک پہنچنے کے دوسرے طریقے بھی ہیں۔‘‘ ’’کون سے طریقے؟‘‘ ’’عقائد کا مطالعہ، مراقبہ اور ذکروفکر سب سے بہتر اور مؤثر ترین طریقوں میں شامل ہیں لیکن یہ ہر شخص کے بس میں نہیں۔‘‘ شیخ ؒکو سب سے زیادہ تعجب اس بات پر تھا کہ میں اس یقین کے باوجود پورے سکون سے زندگی بسر کررہا تھا کہ بالآخر فنائے محض میرا انجام ہوگا۔ تعجب اس لیے بھی تھا کہ انھیں میرے اخلاص میں ذرا بھی کلام نہ تھا۔ وہ وقفوں وقفوں سے اسی مسئلے کی طرف پلٹ آتے تھے۔ میں نے آہستہ آہستہ انھیں یہ بات سمجھائی کہ میرا سکون بربنائے تکبر نہیں بلکہ ازراہِ تواضع ہے۔ انسان کی تشویش کا سرچشمہ یہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر موت کے بعد باقی رہنا چاہتا ہے۔ چین تب ملتا ہے جب انسان لافانی ہونے کی اس تمنا سے بالکل چھٹکارا حاصل کرلے۔ دنیا مجھ سے پہلے موجود تھی اور میرے بعد بھی موجود رہے گی۔ اس کی حیثیت ایک تفریح سے زیادہ نہیں ہے جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا ہے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ کیوں اور کیسے؟ اگر اس میں کوئی معنی ہیں بھی تو میں اس کے فہم سے قاصر ہوں۔ تاہم یہ تفریح دل چسپی سے عاری نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اپنے مشاہدے کا رخ تجریدی خیالات کے بجائے فطرت کی طرف موڑدیا ہے۔ جب تفریح ختم ہوگی تو مجھے اس چھوڑنے کا افسوس ضرور ہوگا کیونکہ اس کی اپنی دلچسپی تھی۔ لیکن اگر یہ جاری رہے تو ایک روز مجھے اکتادے گی۔ پھر میرا اس پر اختیار بھی کچھ نہیں۔ میرے نہ ہونے سے فرق بھی کیا پڑے گا۔ ایک چیونٹی کے پاؤں تلے روندے جانے سے دنیا کا کاروبار رُک نہیں جاتا۔ شیخ ؒنے فرمایا: ’’آپ جو کچھ کَہ رہے ہیں وہ بدن کے بارے میں تو درست ہے مگر اس میں روح بھی تو ہے۔‘‘ ’’بجا ارشاد ہوا۔ روح بھی ہے۔ یہ ہمارا اپنے آپ کا شعور ہے لیکن پیدائش کے وقت ہمارے اندر روح نہیں تھی۔ اسے ہم نے رفتہ رفتہ اپنی جسمانی حسیات کے ہمراہ حاصل کیا ہے۔ جوں جوں ہمارا علم تھوڑا تھوڑا کرکے بڑھا اور روح بھی بڑھی۔ روح نے بدن کے ساتھ نشو و نما پائی ہے، اس کے ساتھ بالغ ہوئی ہے، اس کے ساتھ پوری قوت کو پہنچی ہے…اکتسابی نظریات کے ایک مجموعے کی طرح… میں یہ یقین نہیں کرسکتا کہ روح جو اپنے وجود کے لیے اس بدن کی رہینِ منت ہے بدن کے فنا ہونے کے بعد باقی رہ سکتی ہے۔‘‘ کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر شیخ اپنے مراقبہ سے باہر آئے اور فرمایا: ’’کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ میں کس چیز کی کمی ہے؟‘‘ ’’جی! کیا کمی ہے؟‘‘ ’’ہم میں کا ایک فقیر بننے کے لیے اور الحق کا مشاہدہ کرنے کے لیے آپ میں کمی یہ ہے کہ آپ اپنی روح کو اپنے نفس سے بالاتر کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۹؎ اور یہ لاعلاج ہے۔‘‘ ایک دن شیخ نے مجھ سے دوٹوک سوال کردیا: ’’کیا آپ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔ اگر اس سے آپ کی مراد ایک ناقابلِ تعریف اُصول ہے جس پر ہر شے کا انحصار ہے اور جس کی بدولت کائنات میں معنی ہیں۔‘‘ شیخ ؒاس جواب سے مطمئن نظر آتے تھے۔ میں نے مزید عرض کیا: ’’لیکن میرے خیال میں یہ اُصول ہماری دسترس اور ہمارے فہم سے باہر ہے۔ مجھے جس چیز سے حیرت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو مذہبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ خود کو مذہبی سمجھتے بھی ہیں وہ ذاتِ الٰہی میں ابدیت پانے پر یقین رکھتے ہوئے بھی اپنی ارضی زندگی کو ایسی اہمیت دیتے چلے جاتے ہیں۔ یہ رویہ غیر منطقی بھی ہے اور اپنے آپ سے بددیانتی بھی… میں تو یوں سمجھتا ہوں کہ اگر حیات بعدالموت میرے لیے یقینی ہوئی تو حیاتِ ارضی کا سارا منظرنامہ میرے لیے کوئی دل چسپی نہ رکھتا اور میں اس سے بالکل بے پرواہوکر موت کے بعد کی سچی زندگی کے انتظار میں زندگی بسر کرتا۔ آپ کے فقرا کی طرح اپنے آپ کو تفکر و تدبر کے لیے پوری طرح وقف کردیتا۔‘‘ شیخ ؒنے مجھے یوں دیکھا گویا میرے ذہن میں جھانک رہے ہوں۔ ان سے آنکھیں چار ہوتے ہی یوں لگا کہ ان کی نگاہ آنکھوں سے گزر کر دل میں اُتر گئی۔ وہ دھیرے سے گویا ہوئے: ’’مقامِ افسوس ہے کہ آپ اپنی روح کو اپنے نفس سے اوپر اُبھرنے نہیں دیتے لیکن آپ جو چاہے کہیں اور جو چاہے سوچیں آپ اللہ تعالیٰ سے اپنے گمان سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ ’’آپ جو گمان کررہے ہیں اس سے زیادہ اللہ سے قریب ہیں۔‘‘ شیخ العلوی یہ الفاظ کہنے کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے۔ حج بیت اللہ اور فلسطین و شام کے سفر نے انھیں بالکل خستہ کردیا تھا۔ جسمانی ضعف بہت ہوگیا تھا مگر ذہن اب بھی چوکس تھا۔ اندریں اثنا ان کے بھانجے سدی محمد۱۰؎ کا بھی انتقال ہوچکا تھا۔ سدی محمد شیخ کے مقدم کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ ان کی جگہ شیخ کے ایک اور بھانجے سدی عدّہ بن تیونس۱۱؎ نے لے لی تھی۔ شیخ ان سے خصوصی محبت کرتے تھے۔ سدی عدہ نے اپنے تشویش مجھ سے بیان کی۔ ان کی باتوں سے مجھے معلوم ہوا کہ شیخ ؒکا استغراق اور مراقبہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور وہ بادلِ ناخواستہ ہی اس سے باہر آتے ہیں۔ کھانے کا بس نام ہی رہ گیا تھا میں نے ان سے سختی سے بھی کہا اور التجا بھی کی۔ جواب میں وہ مسکرادیتے اور نرمی فرماتے۔ ’’اب اس کا کیا فائدہ ہے۔ میرا وقت قریب آرہا ہے۔‘‘ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ فقرا کا اندازِ نظر میرے بارے میں بدل رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب وہ یہ بھانپنے کی کوشش کررہے ہیں کہ شیخ ؒکی صحت کے بارے میں میری کیا رائے ہے؟ وہ جانتے تھے کہ میں کون ہوں۔ شیخ ؒکی دوستی فقرا کو مجھ پر مہربان کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس کے باوجود وہ بالعموم کم آمیز ہی ثابت ہوتے تھے۔ یہ احساس کہ ان کے مرشد خطرے میں تھے، انھیں میرے قریب تر لے آیا۔ میں مسکرا کر انھیں مطمئن کردیتا۔ دراصل مجھے یقین تھا کہ شیخ اپنی قوتِ حیات کی آخری رمق تک زندہ رہیں گے۔ اس لیے نہیں کہ وہ زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کریں گے بلکہ اس لیے کہ انھوں نے اپنے بدن کو قلیل غذائیت کا اس قدر عادی بنالیا تھا کہ ان کا نظام انتہائی سست رفتار پر بھی کام کرتا رہتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ قلیل ترین قوتِ حیات جو کسی بھی دوسرے انسان کے لیے ناکافی ہوتی شیخ کا تارِحیات جوڑے رکھے گی۔ اپنے چراغِ حیات میں وہ تیل کا آخری قطرہ تک استعمال کریں گے۔ چراغ کی لو پہلے ہی انھوں نے مدھم کررکھی تھی اور اب تو چراغ ٹمٹمانے لگا تھا۔ اس بات کا خود انھیں بھی اتنا ہی علم تھا جتنا کہ مجھے۔ ان فقرا کے سوا جو اصلاً مغربی تھے، شیخ شاذونادر ہی فقرا سے میرا تعارف کراتے تھے۔ اہلِ غرب گاہے گاہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے لیکن میرا تعلق ان سے قدرے محدود ہی رہتا میں چونکہ خود بیعت نہیں تھا، ان کی زبان نہیں بولتا تھا اس لیے میرا ان سے یہ پوچھنا کہ وہ طریقت کی طرف کیوں مائل ہوئے شاید تجسس میں شمار ہوتا۔ ان میں سے بعض واقعی معروف شخصیات تھیں مثلاً ایک معروف فنکار (عبدالکریم جو سو) تھے۔ ان کے بارے میں مجھے کبھی گمان بھی نہیں تھا کہ ان سے تعارف ان حالات میں ہوگا۔ بیعت کے بعد اس فنکار نے اسلامی لباس پہننا شروع کردیا تھا۔ یہ لباس ان پر اس قدر پھبتا تھا کہ وہ خود کوئی شیخِ طریقت معلوم ہوتے تھے۔ زاویے میں انھوں نے آٹھ دن گزارے۔ ان کے ساتھ تیونس کے ٹریبیونل کے ایک رکن اور ایک خاتون بھی تھیں۔ دونوں متصوف اور انتہائی مقبول تھے۔ امریکہ کے ایک صاحب بھی وہاں آئے ہوئے تھے جو تقریباً نادار تھے۔ کسی کو علم نہ تھا کہ وہ وہاں پہنچ کیسے گئے؟ چند روز بعد وہ بیمار پڑگئے۔ انھیں ہسپتال بھیجنا پڑا جہاں سے انھیں بالآخر وطن لوٹا دیا گیا۔ روزافزوں نقاہت کے باوجود شیخ ؒاپنے مریدوں سے بدستور ہم کلام ہوتے رہتے تھے لیکن اب ان کی نشستیں مجبوراً مختصر ہوجاتی تھیں۔ ان کا دل کمزور ہوتا جارہا تھا اور اس کی دھڑکن میں بے قاعدگی آچلی تھی۔ شیخ ؒکو وہ مفرحات کھلانے میں مجھے بہت دقت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا جو ان کے دل کی دھڑکن کی رفتار بحال کرنے کے ضروری تھیں۔ خوش قسمتی یہ رہی کہ دوا کی خفیف ترین مقدار بھی ان کے جسمانی نظام پر تیزی سے اثر کرلیتی تھی کیونکہ ان کا جسم کبھی ادویات کے فعل سے آلودہ ہی نہیں ہوا تھا۔ ۱۹۳۲ء میں شیخ ؒپر دل کا جزوی دورہ پڑا۔ جس نے ہمیں ہلاکر رکھ دیا۔ مجھے انتہائی عجلت میں طلب کیا گیا جب میں وہاں پہنچا تو شیخ ؒکی نبض تقریباً ڈوب چکی تھی اور وہ بالکل بے ہوش معلوم ہوتے تھے۔ شریان میں انجکشن دینے سے شیخ کی طبیعت سنبھل گئی۔ انھوں نے آنکھیں کھول کر مجھے ملامت بھری نظروں سے دیکھا: ’’یہ کیا کیا آپ نے؟‘‘ شیخ ؒنے مجھ سے پوچھا۔‘‘ مجھے جانے دیا ہوتا۔ مجھے روکے رکھنا بے معنی ہے۔ اب اس سے کیا حاصل؟‘‘ ’’اگر میں آپ کے سرہانے موجود ہوں تو یہ اسی لیے ہے کہ مشیتِ ایزدی یہی ہے اور اگر اللہ کی مرضی یہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کے معالج کی حیثیت سے اپنا فرض بجالاؤں۔‘‘ ’’بہت خوب۔‘‘ شیخ ؒنے فرمایا۔ ’’ان شاء اللہ۔‘‘ میں کچھ دیر ان کے پاس ٹھہرا رہا تاکہ ان کی نبض پر نگاہ رکھ سکوں۔ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں مرض کا دوبارہ حملہ نہ ہو۔ میں ان کے ہاں سے تب رخصت ہوا جب ان کی حالت خطرے سے باہر محسوس ہوئی۔ یہ صرف ایک موقع تھا۔ اس کے بعد کئی مرتبہ اسی طرح کے کٹھن مراحل آئے تاہم شیخ ؒان نشیب و فراز کے باوجود تقریباً دو سال زندہ رہے۔ جب بھی ان کی صحت نسبتاً بہتر ہوتی وہ اپنی معمول کی زندگی یوں اختیار کرلیتے گویا کبھی بیمار ہی نہ ہوئے ہوں۔ پھر بھی اب یوں محسوس ہورہا تھا کہ گویا وہ صبر و اشتیاق سے اپنے انجام کے منتظر ہوں۔ ان کی بھرپور باطنی زندگی محض ان کے چہرے سے منکشف ہوتی تھی ورنہ ان کا بدن ایک ایسے خستہ سہارے کی طرح ہوچکا تھا جو کسی بھی لمحے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوسکتا تھا۔ ایک صبح شیخ ؒنے مجھے بلابھیجا۔ بادی النظر میں ان کی حالت ایک دن پہلے کے مقابلے میں یا اس سے بھی ایک روز پہلے کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے فرمایا: ’’آج میری رحلت ہوگی۔ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ آپ مداخلت نہیں کریں گے اور حالات کو ان کی فطری نہج پر چھوڑ دیں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ آپ کی حالت میں کوئی غیر معمولی خرابی نہیں ہے لیکن شیخ ؒمصر رہے۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ آج کا دن میرا آخری دن ہے۔ مجھے اپنے رب کی طرف لوٹ جانے دو۔‘‘ میں ان سے رخصت ہوا تو متاثر بہت تھا لیکن میرا شک اپنی جگہ موجود تھا۔ بارہا دیکھ چکا تھا کہ ان کی زندگی بس ایک دھاگے سے بندھی رہ جاتی لیکن وہ دھاگا ٹوٹنے سے بچ جاتا۔ میرا خیال تھا کہ آج بھی ایسا ہی ہوگا لیکن جب میں سہ پہر میں واپس آیا تو منظر بدل چکا تھا۔ ان کی سانس بمشکل چل رہی تھی، نبض ڈوب چکی تھی۔ اپنی کلائی پر میری انگلیاں محسوس کرکے انھوں نے آنکھیں کھولیں اور مجھے پہچان لیا۔ ان کے ہونٹ ہلے اور انھوں نے بہت دھیمی آواز میں فرمایا: ’’بالآخر میں اللہ کے حضورپیش ہونے کے لیے جارہا ہوں۔‘‘ شیخ ؒنے بڑی نقاہت سے میرا ہاتھ بھینچا اور پھر آنکھیں موند لیں۔ یہ آخری الوداع تھا۔ میری جگہ اب وہاں نہیں رہی تھی۔ اب وہ فقرا کی ملکیت تھے جو پسِ منظر میں منتظر کھڑے تھے۔ میں نے سدی عدہ کو بتادیا کہ میں نے شیخ ؒکو آخری بار دیکھ لیا ہے اور پھر وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اسی شام مجھے معلوم ہوا کہ میری روانگی کے دوگھنٹے بعد شیخ نے اتنے پُرسکون انداز میں جان جان آفریں کے سپرد کردی کہ دیکھنے والے باور بھی نہ کرسکے۔ اس وقت ان کے گرد زاویے میں مقیم یا زائر فقرا کا مؤدب حلقہ تھا۔ تیل کا آخری قطرہ بھی جل چکا تھا۔ میں نے شیخ العلوی کی شخصیت کی تصویر کشی کی کوشش کی ہے۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ اس تصویر میں ابھی بہت کچھ رنگ بھرنا باقی ہے تاہم میرا مصمم ارادہ تھا کہ وہی کچھ بیان کروں جس کے بارے میں مجھے مطلق یقین ہو۔ میرے بعض بیانات لفظ بہ لفظ وہی ہیں جو شیخ نے ادا کیے تھے۔ بعض تراکیب اور بیان ہوبہو وہی نہ تھیں جو شیخ نے استعمال فرمائیں تاہم میں اس بات کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ ان کا عمومی مفہوم وہی ہے جو شیخ کے پیشِ نظر تھا۔ یہ موضوع ایسا ہے جس میں زیبِ داستاں کے لیے اضافہ بہت آسان تھا لیکن میں نے ان یادداشتوں کی خشک سنجیدگی برقرار رکھنے کو ترجیح دی ہے جن کی صحت کے بارے میں مجھے پورا وثوق ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس طرح شیخ ؒکی شخصیت زیادہ وضاحت اور صداقت کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔ میری پیش کردہ تصویرِ شیخ کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے غیرجانبدارانہ اور معروضی انداز میں بنایا گیا ہے اور غیر ضروری مدح سرائی اور عقیدت سے کام نہیں لیا گیا۔ اگر کوئی مرید یہ سب لکھتا تو یہ عناصر ضرور دخیل ہوتے۔ میری تصویر کشی بجائے خود کافی ہے اور شاید ایک غیرمرید دنیاوی آدمی کے ہاتھ سے تخلیق پانے کی بنا پر بہتر بھی۔ میں نے شیخ ؒکے عقیدے کے ذاتی تجزیے سے گریز کیا ہے۔ ایسے مسائل کے بارے میں میری رائے غیر متعلق ہے۔ میرا مقصد شیخ کو اس طرح پیش کرنا ہے جیسا کہ میں ان کو جانتا تھا نہ کہ ان کے خیالات پر تبصرہ کرنا۔ میں جانتا ہوں کہ ان کی تعلیم مخصوص و مخفی تھی اور چونکہ میں داخلِ سلسلہ نہیں لہٰذا میرے افکار اس کے بارے میں لامحالہ مبہم ہوں گے۔ عجب نہیں کہ شیخ ؒکے متبعین میرے تاثرات پڑھ کر مسکرادیں تاہم وہ میرے خلوص کی داد ضرور دیں گے اور اس بات کو بھی سراہیں گے کہ مجھ سے جہاں تک ہوسکا میں نے یہ تاثرات سادہ اور سیدھے انداز میں پیش کیے ہیں۔ وہ یہ بھی نوٹ کریں گے کہ میں نے کہیں بھی لفظ ’’ایمان‘‘ استعمال نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے شیخ ؒسے کہا تھا کہ ’’روح کو نفس سے بالاتر کرنے‘‘، سے جس چیز نے مجھے روک رکھا ہے وہ ایمان کا فقدان ہے۔ اس پر انھوں نے فرمایا: ایمان مذاہب کے لیے ضروری ہے لیکن وہ لوگ جو اس سے آگے بڑھ جائیں، جن کو ذاتِ الٰہی میں تحقق ذات نصیب ہوجائے وہ رسمی ایمان سے مستغنی ہوجاتے ہیں۔ اس وقت ایمان لانا کیا معنی رکھتا ہے جب انسان خود دیکھ رہا ہو۔ الحق کا جلوہ سامنے ہو تو ایمان کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ء ء ء حوالے و حواشی ۱- مستغانم، الجزائر کے ان چند مقامات میں سے ہے جہاں یورپی اور عرب سکونتی علاقے تقریباً علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مراکش میں تو یہ علیحدگی اُصولی طور پر اختیار کی گئی ہے کیونکہ وہاں Lyautey نے الجزائر میں سرزد ہونے والی غلطیوں سے عبرت حاصل کرلی تھی۔ مستغانم میں زمین کی نوعیت نے اس کی آبادی کو یہ شکل دی ہے جو آج نظرآتی ہے۔ آبادی کے دونوں حصوں کو ایک گہری گھاٹی علیحدہ کیے ہوئے ہے۔ دونوں حصوں کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔ مسلمان آبادی والا حصہ تیجیت کہلاتا ہے اور بارہ سے پندرہ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ شیخ العلوی یہیں رہتے تھے اور یہیں سمندر کے رخ پر وہ زاویہ تعمیر ہوا تھا جو ان کے نام سے اتنا مشہور ہوا اور جس میں آج وہ مدفون ہیں۔ (یہ نوٹ ڈاکٹر کیرے کا ہے۔ باقی تمام حواشی میرے قلم سے ہیں۔ مصنف) زاویہ کے لفظی معنی ’کونہ‘ یا ’نکڑ‘ کے ہیں۔ اس سے مراد کسی صوفی سلسلے کے ارکان کی باقاعدہ جائے ملاقات ہے۔ زاویہ ایک کمرہ بھی ہوسکتا ہے اور علوی زاویے کی طرح ایک مسجد مع ملحقہ عمارت بھی۔ ۲- شیخ کے ایک مرید ابن عبدالباری نے ایک مرتبہ شیخ سے دریافت کیا کہ آپ اس قدر کم غذا کیوں تناول کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا اس لیے کہ مجھے کھانے کی رغبت ہی اتنی کم محسوس ہوتی ہے۔ یہ زہد و ریاضت نہیں ہے جیسا کہ بعض فقرا کا خیال ہے۔ البتہ اپنے مریدوں کے لیے پیٹو پن اور لذت کوشی مجھے پسند نہیں۔ (شہائد،ص۱۱۴) فقرا جمع ہے فقیر کی (انگریزی لفظ Fakir اسی سے ہے) یعنی ’مفلس‘۔ اسلامی اصطلاح میں جب یہ روحانی افلاس کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد کسی صوفی سلسلہ کے ارکان ہوتے ہیں۔ ۳- سونے کی تلاش سے امریکی تاریخ کے مشہور دور کی طرف اشارہ مقصود ہے جب خاندانوں کے خاندان دریاؤں اور کانوں سے سونا نکالنے کے لیے سارے یورپ سے نکل نکل کر امریکہ کے مختلف علاقوں میں پھیل رہے تھے۔[مترجم] ۴- ڈاکٹر کیرے نے جس چیز کو آہنگ اور ترنم کہا ہے وہ فقرا کا ورد، وظیفہ یا کسی عبارت یا اسم کی تکرار ہے جس میں بالعموم وزن اور آہنگ ہوتا ہے مگر اسے مروجہ معنی میں ترنم یا غنا نہیں کہا جاسکتا۔ ۵- سانس لینے کا یہ انداز جسم کو اس ایقاع اور حرکت میں شامل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ۶- زبور، ۱۱۰-۱ ۷- ایضاً، ۶۱-۲ ۸- اس سے ان کی مراد تحدید نہیں تھی کیونکہ خود قرآن میں اٹھائیس کا ذکر ہے۔ مزید براں مبتدیوں کے لیے اپنی ایک کتاب میں (القول المقبول، ص۷) میں انھوں نے اس آیتِ قرآنیہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں سیّدنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب فرمایا گیا ہے (ولقد ارسلنا رسلاً من قبلک منھم من قصصنا علیک ومنھم من لم نقصص علیک) اور مریدوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ خدا کے رسولوں اور نبیوں کی لاتعداد یا الہامی کتابوں کی تعداد محدود کرنے کی غلطی نہ کریں۔ ۹- اپنے ایک قصیدے میں شیخ نے لکھا ہے۔ ترانا بین الانام لسنا کما تری تاللّٰہ لفوق الفوق أرواحنا تجلی (الدیوان، الطبعہ الثانیہ،ص۵) ۱۰- شیخ کی ایک بہن کے دو بچے تھے، سدی محمد اور ایک صاحبزادی خیرہ۔ شیخ نے دونوں کو گود لے لیا تھا۔ اس سلسلے میں میں نے سدی محمد الہاشمی سے خط و کتابت کی۔ سدی الہاشمی شیخ کے معمر ترین مرید تھے۔ شیخ کی وفات سے کئی برس پہلے تلمسان سے ہجرت کرکے شام چلے گئے تھے۔ دمشق کے علوی زاویہ کے نگران تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا شیخ کی کوئی اولاد تھی؟ انھوں نے جواب دیا: ’’میرے علم کے مطابق ان کی پہلی اور دوسری اہلیہ سے کوئی اولاد نہ تھی۔ جب وہ حج کے سفر کے دوران دمشق تشریف لائے تھے تو میں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ ’’کیا جناب کی کوئی اولاد ہے۔‘‘ جس پر انھوں نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر دوبارہ کہا کہ: ’’ہاں تم سب میری اولاد ہو۔‘‘ اس پر سب موجود حاضرین بہت مسرور ہوئے۔ (شیخ الہاشمی کا انتقال ۱۹۶۱ء میں ہوا) ۱۱- سدی عَدہ (بلکہ عدہ) بن تیونس شیخ کے رشتے کے بھانجے تھے۔ (ان کا نکاح سدی محمد کی ہمشیرہ سے ہوا تھا)۔ ان کا انتقال ۱۹۵۲ء میں ہوا۔ ظ ظ ظ شیخ عیسیٰ نور الدین احمدؒ The Essential Writings of Frithjof Schuon by Seyyed Hossein Nasr. شیخ عیسیٰ نورالدین احمد (فریدھوف شوآن) مغرب میں اس حکمتِ جاوداں اور معرفتِ ازلی کے سب سے بڑے ترجمان ہیں جو تمام آسمانی مذاہب اور ادیان کے قلب میں جاگزیں ہے۔ وہ نسلاً جرمن ہیں، فرانس میں پلے بڑھے اور ایک عرصے تک سوئزرلینڈ میں مقیم رہنے کے بعد امریکہ تشریف لے گئے ۔ شمالی افریقہ، خصوصاً مراکش اور الجزائر میں عرفان و حکمت کے سرچشموں سے ایک مدت سے ان کا بہت قریبی ربط اور گہرا تعلق رہا ۔ شیخ چالیس سال سے بھی زیادہ عرصے سے مغرب میں عرفان اور حکمت و دانش کی تبلیغ میں مصروف ہے۔ ان کے ایک سو سے زائد مقالات اور بیس کے قریب کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کی ابتدائی تحریروں میں شاعری کی دو جلدیں جرمن میں موجود ہیں۔ فرانسیسی میں ان کی پہلی کتاب ادیان کی وحدتِ متعالیہ تھی جو ۱۹۴۸ء میں شائع ہوئی۔ چونکہ یہ کتاب تاریخِ ادیان کے موضوع پر گہرے اثرات کی حامل تھی اس لیے اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا اور کچھ ہی عرصہ پہلے اس کا دوسرا انگریزی ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ شیخ نے چشمِ دل، الوہی تناظرات اور بشری واقعات، مقاماتِ حکمت، طریقِ معرفت، جہانِ قدیم پر ایک نظر جیسی بے نظیر کتابیں فرانسیسی میں اور لسانِ ذات ہندوستان میں شائع کرائی۔ انھوں نے فہم اسلام کے نام سے وہ کتاب بھی لکھی جس سے مغرب میں اسلام شناسی کا ایک نیا باب وا ہوا اور جس سے اسلام کا ایک نیا الوہی فہم انگریزی دان دنیا میں شروع ہوا۔ اسلام کے بارے میں خصوصی طور پر شیخ نے دو اور کتابیں اسلام کی جہتیں اور اسلام اور حکمتِ جاوداں کے نام سے لکھی ہیں۔ مؤخرالذکر کتاب جشنِ اسلامی لندن کے موقع پر شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بدھ مت اور شینٹومت کے بارے میں بدھ مت کی تلاش میں کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا بدھسٹ ممالک میں گرم جوشی اور حیرت سے استقبال کیا گیا۔ حقائق کا عرفان، ادیان کی تطبیق، تمدن اور فکرِ انسانی کی تنقید، فنون کی تعریف اور روایت کی معنویت پر ان کے خاص موضوعات تھے۔ انھوں نے اس خیرہ کن نور کو جو صبح گاہِ ازل کے آفاق سے پھوٹتا ہے، اپنا سرچشمہ بنایا اور اسی کے ذریعے آج کے گم شدہ انسان کے مسائل و مشکلات کا حل تلاش کرتے رہے۔ شیخ کی اکثر کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے اور پچھلے برسوں میں ان کے مقالات جو Etudes Traditionalles میں فرانسیسی میں شائع ہوتے رہے ہیں Studies میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکے ہیں۔ اس بے بدل حکیم و دانش مند کے مقالات روایت میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ فرانسیسی میں شیخ کے مضامین کے علاوہ اُردو، فارسی میں ان کی تحریروں کا ترجمہ بہت ضروری ہے اس لیے کہ اس زمانے میں کسی مفکر نے ان کی طرح انسانِ جدید کے شبہات اور گمراہیوں کو لازوال حقائق اور معرفت کی روشنی میں دیکھ کر، دانشِ جاوداں کو معاصر لباسِ فکر میں اس طرح نہیں پیش کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کی گرفت میں آجائے جو عرفان و حکمت کے روایتی سرچشموں پر دسترس نہیں رکھتے۔ حکمتِ الٰہیہ کے نقطۂ نظر سے شیخ کی ایک بہت برجستہ تحریر جدید مغربی فلسفہ کی وہ تنقید ہے جو منطق و تعالیٰ کے نام سے فرانسیسی میں فرانس سے ہی شائع ہوئی اور پیپربیک کی صورت میں انگلستان اور امریکہ میں چھپ چکی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے حیرت ہوتی ہے کہ شیخ کو مغربی مکاتبِ فکر اور دنیا کے بڑے بڑے ادیان مثلاً اسلام، ہندومت، بدھ مت اور مسیحیت کے مشاربِ معنوی و عرفانی اور قدیم یونانی فلسفہ سے کیسی آگاہی حاصل ہے اور انھوں نے زمانہ حاضر کے ادعائی مگر خالی خولی فلسفوں کے گنجلک محوری گتھیاں کس طرح حل کردی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ شیخ کی نگارشات تدریجاً اُردو میں ترجمہ ہوجائیں گی اس لیے کہ آج ہمارے ہاں مغربی فکر سے ہماری اپنی عقلی اور معنوی میراث کے تقابل اور تصادم کی جو صورت حال برپا ہورہی ہے اس میں شیخ عیسیٰ وہ رہنمائے بے ہمتا ہیں جس کی ہر اس شخص کو ضرورت ہے جسے اپنی اصالتِ فکری اور میراثِ معنوی کی حفاظت سے ذرا سا بھی تعلق ہے۔ مصنف کی کتابوں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے: The Transcendent Unity of Religions, Faber and Faber, 1953 Revised edition, Harper & Row, 1974 , Suhail Academy. Spiritual Perspectives and Human Facts. Faber and Faber, 1954, Suhail Academy. Perennial Book, 1969, Suhail Academy. Gnosis: Divine Wisdom, John Murray, 1959, Suhail Academy. Stations of Wisdom, John Murray, 1961, Suhail Academy. Understanding Islam, Allen and Unwin, 1963, Suhail Academy. Light on the Ancient Worlds, Perennial Books, 1966, Suhail Academy. World Wisdom Books, 1984, Suhail Academy. In the Tracks of Buddhism, Allen and Unwin, 1968, Suhail Academy. Dimensions of Islam, Allen and Unwin, 1969, Suhail Academy. Logic and Transcendence, Harper and Row, 1975, Suhail Academy. Islam and the Perennial Philosophy, World of Islam, , Suhail Academy. Esoterism as Principle and as Way, Perennial Books, 1981, Suhail Academy. Castes and Races, Perennial Books, 1981, Suhail Academy. Sufism: Veil and Quintessence, World Wisdom Books, 1982, Suhail Academy. Christianity/Islam: Essays on Esoteric Ecumencisim, World Wisdom Books, 1985 The Essential Writings of Frithjof Schuon (S.H. Nasr, Ed.) Amity House, 1986, Suhail Academy. Survey of Metaphysics and Estoerism, World Wisdom Books, 1986, Suhail Academy. شیخ عیسیٰ نورالدین کے کام کا کیسا ہی تعارف کیوں نہ ہو، اس کا آغاز اس بیانِ واقعہ سے ہوگا کہ مصنف کا انداز جدید سائنسی اور فلسفیانہ منہاج سے قطعاً جدا ہے۔ گوئٹے نے کہا تھا کہ ’’شاعر کو سمجھنا ہو تو شاعر کی سرزمین کا رخ کیجیے۔‘‘ اس مشورے میں ہم یوں بھی ترمیم کرسکتے ہیں کہ کسی مفکر کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی فکری سرزمین پر جانا چاہیے۔ فکری سرزمین کا یہ سفر ہمیشہ ہی سہل نہیں ہوا کرتا تاہم کسی بھی تفہیم کے لیے اس کی حیثیت لابدی ہے۔ مختلف ممالک اور خطوں سے گزرتے ہوئے شیخ عیسیٰ کے علمی کام نے عوام الناس کی کثیر تعداد تک تو شاذ ہی نفوذ کیا ہو مگر اہم اور وقیع افراد کے حلقوں تک اس کے اثرات بار بار پہنچتے رہے ہیں۔ ان حلقوں تک ان علمی اثرات کا نفوذ عوامی نفوذ سے کہیں زیادہ وزن رکھتا ہے۔ متعدد کتابوں اور وسیع خط و کتابت کی وساطت سے شیخ ہمارے زمانے کے لیے ایسی سچی کسوٹی کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں جس کی پرکھ سے ذہنوں کی تقسیم و شناخت ہوتی ہے۔ یا پھر یوں کہے کہ ان کی ذات ایک مرکزِ مکتوم ہے کہ اس کے انوار، عوامی غوغا سے دور، رفتہ رفتہ مگر مسلسل، روزافزوں حلقوں میں پھیل رہے ہیں۔ اپنے ٹھہراؤ اور سکون کے باوجود یہ نمو زمانے سے کٹ کر سمٹ کرکہیں علیحدہ واقع نہیں ہوئی بلکہ واضح ’دَوری‘ تنازعات کی کشاکش کے درمیان ظاہر ہوئی ہے۔ ایلیٹ کے تبصرے سے اسی کی شہادت ملتی ہے۔ شیخ عیسیٰ کی جرمن اور فرانسیسی تحریروں کا اگر موازنہ کیا جائے تو ہم بآسانی اس بات سے آگاہ ہوسکتے ہیں کہ یہ دونوں زبانیں ان کی شخصیت کے دوپہلوؤں کے اظہار کا، ان کے روحانی ادراک کی دوجہات کے بیان کا متلازم وسیلہ ہیں۔ اسے آسان انداز میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان کی جرمن تحریر کا اُسلوب زیادہ تر ان کی ذات کے اس حصہ کو ظاہر کرتا ہے جو متصوّفانہ، سّری، شاعرانہ اور بیانیہ ہے۔ ہم ’زیادہ تر‘ کی قید پر اس لیے زور دے رہے ہیں کہ کسی بھی زبان کی گیرائی کو صرف ایک امکان تک محدود نہیں کیا جاسکتا… دوسری طرف ان کی فرانسیسی تحریر ان کی ماورا الطبیعاتی تعلیمات کے بیان کا وسیلہ بنتی ہے کیونکہ اسے لاطینی کا وضاحتِ بیان کا وصف حاصل ہے۔ شیخ کے تعارف کا یہ ’لسانیاتی‘ آغاز بظاہر موضوع سے انحراف معلوم ہوگا مگر دراصل اس سے ہم سیدھے ان کے ذہن کے مرکز میں پہنچ جاتے ہیں کہ اس کا ان کی داستانِ نفس سے قریبی تعلق ہے۔ آج کل کے مروجہ خیال کے مطابق زبان صرف سماجی ابلاغ کا آلہ ہوتی ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زبانیں تو داخل سے اُبھرنے والے باطنی انکشافات ہیں جن کا تخاطب بنی نوع انسانی کے بڑے بڑے منطقوں سے ہوتا ہے (شیخ کے الفاظ میں انسانیتوں سے) اور جو حیرت انگیز لچک سے خود کو ان کے حسن، وضوح اور احساس کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیتی ہیں۔ ان کی مابعدالطبیعاتی گہرائی اسی امر سے روشن ہے کہ عظیم الہامی مذاہب سے ان کا گہرا تعلق ہے: اس ضمن میں سنسکرت، عربی اور عبرانی کا اپنی اپنی منسوبہ روحانی روایتوں میں جو فیصلہ کن کردار ہے اس کا تذکرہ کافی ہوگا۔ بایں ہمہ قدرت نے شیخ عیسیٰ کو جو منصب و دیعت کیا ہے وہ یہ ہے کہ پیامِ الٰہی کو ایک دین کے روحانی استعارے سے دوسرے کے روحانی استعارے میں منتقل کریں ’’ترجمان‘‘ یا ’’شارح‘‘ کے اس منصب کا اندازہ ان کی تصنیفات کے جائزہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ شیخ عیسیٰ منزل من اللہ مستند ادیان کو ایک ستارے سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی کرنیں ایک ربانی مرکز پر یکجا ہوجاتی ہیں۔ اس تشبیہ کو اگر آگے بڑھایا جائے تو ہم یوں کَہ سکتے ہیں کہ تقابلِ ادیان کرنے والے ان کرنوں کو گویا محدب عدسے تلے رکھ کر دیکھتے ہیں اور یہ دریافت کرتے ہیں کہ یہ صرف کرنیں ہیں اور بس۔ دوسری طرف دین کا ماننے والا اپنی کرن کے ساتھ ساتھ مرکز کی سمت سفر کرتا رہتا ہے اور اس کی نگاہ خدا پر جمی رہتی ہے۔ ان دو کے علاوہ ایک تیسرا نقطۂ نظر بھی ممکن ہے اور وہ ہے اس صاحبِ مشاہدہ کا جو خود کو مرکز میں پاتا ہے اور وہاں سے کرنوں کے اس سمندر کو دیکھتا ہے جو ہر سمت سے سمٹ کر العلی العظیم کی جانب غائب ہورہی ہیں۔ یہ شیخ عیسیٰ کی نظر ہے۔ ہر کرن میں، ہر ماورا الطبیعاتی ’تناظر‘ میں، بلکہ ہر کرن کے ہر نکتے پر ان کی نگاہ ایک طرف تو مرکزِ ربانی کی تنویر کی شناخت کرتی ہے (خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہو) اور دوسری طرف مرکز سے دوری کے باعث بڑھتی ہوئی تاریکی کا احساس۔ اس کائنات کا ہر مظہر انکشاف بھی ہے اور حجاب بھی۔ شیخ کے قدیمی نظریہ کی اہمیت کو نمایاں کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان کے مشن سے ہے۔ مغربی لوگ حکمتِ جاوداں سے بہت دور ہوکر، ہزار طرح کی جعلی تعلیمات اور عقائد میں دھنس چکے ہیں۔ ان کے مقابلے پر تمام مستند اور صحیح ادیان کے قلب میں جاگزیں، یقینی مسلمہ اور غیر متغیر حقائق کو پورے زور سے لانا ضروری ہے ___ روایتی ماورا الطبیعات کی صحت ثابت کرنے کا ہر اعتبار و معیار سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ یہ دکھایا جائے کہ تمام عظیم ادیان کی وحی سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ شیخ عیسیٰ سے قبل ان کے پیشرو رینے گینوں (عبدالواحد یحییٰ ) نے بھی مختلف ادیان کے مابین ہم آہنگی، خصوصاً کرۂ ارض پر بکھری ہوئی قرن ہا قرن کی قدیم علامتوں کی ہم آہنگی کی طرف باربار اشارے کیے ہیں ___ علامتوں کی تشریح اور ترجمانی کے پہلو سے گینوں لاثانی قرار دیے جاسکتے ہیں تاہم ان کی فکر میں ایک خامی یہ رہ گئی کہ قدیمی روایت کے تصور نے انھیں مغالطے میں ڈال دیا اور وہ مختلف ادیان کو براہ راست منزل من اللہ خودمختار تناظرات قرار دے کر انھیں ان کی صحیح قدر و قیمت دینے کی بجائے انھیں بدلتے ہوئے احوال و ظروف کے مطابق روایت کے تغیرات سمجھنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نبوت اور تقدس یا بالفاظِ دیگر انسان سے خدا کے بلاواسطہ رابطے کا شاذونادر ہی ذکر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس شیخ عیسیٰ کو بچپن ہی سے خدا نے چشمِ دل عنایت کی ہے۔ انھیں مختلف ادیان کی گہرائی میں جاگزیں ان مذاہب کے مخصوص تصورات کا ابتدا ہی سے شعور رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ان کو اللہ تک لے جانے والے راستوں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جن کو آپس میں مخلوط نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ عیسیٰ، رینے گینوں اور ان کے ساتھی پیرس سے نکلنے والے رسالہ مطالعاتِ روایت کو اپنے وسیلۂ اظہار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ رسالہ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ تک نکلتا رہا۔ اس مجلے کے وجود نے شیخ عیسیٰ کو اس بات پر مجبور کیا کہ اپنی تعبیرات اور تعلیمات کے لیے فرانسیسی زبان استعمال کریں۔ ان کے غیرمطبوعہ شذرات کے مطابق قدرت کا یہ فیصلہ ان کے لیے اس اعتبار سے بہت سود مند رہا کہ فرانسیسی کے استعمال سے وہ ایک بڑی روایت کے رکن بن گئے: فرانسیسی اور لاطینی کا ربط: فرانسیسی زبان کے فلسفیانہ ذخیرۂ الفاظ کی غیرمبہم سلاست اور صفائی کی وجہ سے ان کی تحریروں کے لیے ایک تیکھا اور تیز ہتھیار فراہم ہوگیا۔ مگر فرانسیسی زبان کے کلاسیکی فوائد پر نظر کرنے سے ہم شیخ عیسیٰ کے اُسلوب کے دیگر ذاتی اوصاف سے صرفِ نظر نہیں کررہے۔ ان کی ہر تحریر میں ان کے روحانی مقام کا ارتعاش گونجتا ہے۔ اور پڑھنے والے کو اس سے ایک داخلی آزادی نصیب ہوتی ہے: حکمت کا ’’سکون‘‘، ماہیت اشیا پر وسعتِ نظر، جو شاید ان کی گفتار کے آہنگ کا اثر ہے: ان کے برمحل اور محکم دلائل اور مربوط اور مستقل تفکیر جو ہر قسم کے گھٹیا پن سے آزاد ہے۔ ہم نے آغازِ تحریر میں لکھا تھا کہ شیخ عیسیٰ کا انداز جدید سائنسی اور فلسفیانہ منہاج سے قطعاً جدا ہے… اس کی مختصراً وجہ یہ ہے کہ وہ انسانی خرد کو بیان کردہ علم کا آلۂ تشریح و تبیین سمجھتے ہیں مگر اس کا منبع تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک تبیین کی نعمت بلاواسطہ مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ مشاہدہ ایک فوق الفکری روحانی فیضان کا ثمرہ ہوتا ہے جس کی برکت سے موضوع و معروض کی ثنویت سے بلند ہونا نصیب ہوتا ہے۔ یہ ثنویت ہی تمام بے یقینیوں کی جڑ ہے۔ یہاں شاید یہ کہا جائے کہ یہ ’’نوفلاطونیت‘‘ ہے: بے شک ہے۔ لیکن اگر اس بیان کا مطلب صرف ایک تاریخی صنف کی درجہ بندی میں دھکیل کر فارغ ہوجانا ہے تو اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور جدید فکر کا بنددائرہ کھلے گا نہیں ___ اس کے لیے ہمیں مذکورہ دعویٰ کے مقدمات اور نتائج دونوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ شیخ کی تصانیف کے مطالعہ سے جو پہلا تاثر اُبھرتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ مصنف اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں اُسلوب کی بھرپور توانائی کا اور ایک دوسرے کا رد کرتے ہوئے مختلف نقطۂ ہائے نظر کو پوری احتیاط سے ان کا حق دینے کا نادر اور غیرمعمولی امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان تناقضات کو وہ جس حکمتِ سلیمانی سے حل کرتے ہیں اس کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ ہر نقطۂ نظر کو اس کی صحیح سطح پر رکھ دیا جائے۔ اس قیامِ مراتب سے کتنے ہی معمے ازخود حل ہوجاتے ہیں اور زیرِ بحث مسائل کا رُخ ایک غیرمتغیر مرکز کی طرف ہوجاتا ہے۔ حوالے کا یہ نقطہ اٹل، غیر متحرک اور مستقل ہے اس لیے کہ یہ ان مقیّدات سے آزاد ہے جو اپنی اپنی حدود کو پہنچ کر ساقط ہوجاتی ہے اور نتیجتاً تبدیلی کو جنم دیتی ہیں۔ یہ مرکز ’’لاتعین‘‘ یا ’’المطلق‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں جسے ہندوؤں کی اصطلاح میں ’’ادوئیتا‘‘ چینیوں کے ہاں ’’تاؤ‘‘ بدھوں کی زبان میں ’’نروان‘‘، اہلِ قبالہ کا ’’عین‘‘ جیکب بوھم کا ’’ان گرنٹ‘‘ اور قدیم عرفانیوں کا ’’نوکس پروفنڈا‘‘ کہتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ آخری اور مطلق حقیقتِ الٰہیہ جس کا کسی طرح بیان نہیں ہوسکتا، جس تک صرف براہِ نفی، رسائی ممکن ہے۔ ’’براہِ نفی‘‘ سے ہماری مراد وہ طریقہ ہے جس میں تمام تحدیدی تعینات، درجہ بدرجہ، ہٹا دیے جاتے ہیں اور اس طرح یہ طریقہ انسان کے ملکۂ ادراک کے بلند ترین امکانات تک لے جاتا ہے۔ یہ آزاد ترین اور سب سے گہرا باطنی امکان اسی مذکورہ ’’نقطہ‘‘ پر واقع ہے جہاں مختلف مستند ادیانِ حنیف ان شعاعوں کی طرح یکجا ہوجاتے ہیں جو کسی دائرے کے محیط سے سمٹتی ہوئی اس کے مرکز پر اکٹھی ہورہی ہوں۔ اوپر کی طرف اس حرکت اور لاتعین کی جانب اس کشود کا موازنہ داخل کی آواز پر کان دھرنے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ لمن کان لہ قلب اولقی السمع وھو شھید، …الکلمۃ کی سماعت سے جو رویہ جنم لے گا وہ روحانی ایقان کی اطاعت و اتباع ہوگا۔ اگر ہم اس داخلی اطاعت کو عقائد و فقہ کی خارجی پابندی کے مقابل رکھ کر دیکھیں تو ہماری رسائی ظاہر و باطن یا شریعت و طریقت کے اس امتیاز تک ہوجائے گی جو شیخ عیسیٰ کی تحریروں میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے ہاں طریقت کا مطلب کسی خاص علم کے بارے میں کسی قسم کا ارادی اخفا قطعاً نہیں ہے ___ بلکہ ان کے ہاں اس کا مفہوم اس بنیادی لوازمہ کو باندازِ دیگر دیکھنا ہے جس سے دین اور روایت متعلق ہیں اور جس سے یہ اپنا نقطۂ آغاز حاصل کرتے ہیں۔ طریقت صرف ان لوگوں کے لیے خفیہ ہوتی ہے جن کی ذہنی استعداد اس کے فہم سے قاصر ہوتی ہے۔ مگر ایک بات واضح ہونا چاہیے کہ شریعت یا ظاہر جو ہے وہ باطن یا تصوف کی کمتریا گھٹیا شکل نہیں ہے۔ یہ فضلِ ایزدی کا عطیہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان لوگوں کے لیے نازل فرمایا ہے جو اس کے لیے بنے ہیں۔ تاہم تصوف یا طریقت جب کسی دین کے داخل سے ظہور کرتا ہے تو اسے اس دین کی شرعی تعلیمات کو زیادہ تنگی سے آزاد کرنا پڑتا ہے: اس عمل کے دوران تصوف پر روحانی بہار کا دور آتا ہے جس میں اس کے اثرات نرمی، تازگی اور تجدید کے ہوتے ہیں اور یہ لوگوں کو صرف ’’سننے‘‘ سے بڑھ کر ’’غور سے، توجہ سے سننے‘‘ اور ’’شنید‘‘ سے بڑھ کر ’’سماعت‘‘ کرنا سکھاتا ہے، زرخرید غلام جیسی ماتحتی کے بجائے آزاد روحانی انسان کی اطاعت کا درس دیتا ہے۔ تاہم، اس عمل کے دوران، اس کے لیے اہلِ ظاہر اہلِ قشر میں رسوا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ عام طور پر کسی دین کا بڑا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا راستہ پوری طرح قابلِ عمل اور مستند ہے یا کم از کم دوسرے ادیان سے افضل ہے۔ اس بات کی بنیاد اس چیز پر ہے کہ کسی بھی مستند دین میں اس کے پیروکاروں کے لیے ان تمام اعلیٰ ترین روحانی مقاصد کے حصول کے لیے پوری ضمانت اور کفایت ہوتی ہے جس کی آرزو ان پیروکاروں کو ہوسکتی ہے۔ اُصولی طور پر اس کو باہر سے کسی ادھار کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس قسم کے مانگے تانگے کے عناصر اس دین کے احکاماتِ نجات دھندگی کو ’’اضافی‘‘ بنادیتے ہیں بلکہ مذکورہ روحانی مقاصد کی راہ میں بھی کھنڈت ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان تمام تنزیلات سے بلند و بالا ہے جو اس کے مبدء فیاض سے صادر ہوتی ہیں۔ خدا نہ تو ہندو ہے نہ یہودی نہ عیسائی نہ مسلم۔ متعدد ادیان کو دیکھ کر جو آپس میں نقطۂ نظر اور اندازِ گفتار کا فرق رکھتے ہیں، بلاشبہ یہ ماننا زیادہ قرینِ صواب ہے کہ اللہ اپنے ظہور کی مختلف صورتوں سے مستغنی ہے بہ نسبت اس کے کہ اپنی روایت کے علاوہ ہر روایت کو فسادِ عقیدہ اور توہم پرستی سے متہم کرنا___ یہ ایسا ہی ہے کہ ہم تمام اقوام کی زبانوں میں سے صرف اس زبان یا لہجے کو قبول کرلیں جو، ہم نے ایام طفولیت سے سیکھا ہو اور اس کے علاوہ ہر دوسری زبان یا لہجے کو محض ہکلاہٹ یا بکواس قراردیں۔ ادیان کے تعدد کو دو طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اولاً رحمتِ ایزدی کی علامت کے طور پر کہ اس نے نوعِ انسان کے ہر خطے کو اس کی مخصوص روحانی راہِ نجات عطا کی۔ دوسری طرف یہ تعدد اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ کسی ایک خاص خارجی ہیئت ہی کو خدا نہیں سمجھ لینا چاہیے ___ اپنے دین کے سوا ہر دین کو دین ہی نہ ماننے والے لوگوں میں جو حسد اور افہام و تفہیم سے انکارِ عمد کا جو رویہ پایا جاتا ہے وہ مذکورہ بالا نقطۂ نظر کے اُلٹ ہے۔ شیخ عیسیٰ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دوسرے ادیان کی وحی اور مقدس شعائر پر افترا پردازی بنیادی طور پر ایک انتقامی ردِ عمل ہے جو ایسی سطحی، غیرروحانی سوچ سے پیدا ہوتا ہے جس کی کوئی گنجائش اپنے دین کے دائرہ میں نہیں ہوتی۔ اپنے ہاں اس کے اظہار کی گنجائش نہ پاکر اس زہر کا رخ دوسری تنزیلات کی طرف ہوجاتا ہے جن کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ عیسوی مفکرین کی طرف سے جو اعتراضات دوسرے ادیان پر ’’جاہلیت کے ادیان‘‘ کے عنوان سے کیے جاتے رہے تھے اور عیسائیت کو استثنا قرار دیا جاتا تھا، وہ سب اعتراضات لادینیت کا دور دورہ شروع ہوتے ہی برابر شدت سے خود عیسائیت پر وارد ہوگئے۔تقابلِ ادیان والوں اور نفسیاتِ مذاہب نے وحی کا تجزیہ مکمل اضافیت کی روشنی میں شروع کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ ہر جگہ یکساں طور پر موجود نفسیاتی ضرورتوں کی وجہ سے خوف اور رغبت کی جبلتوں کے تحت اقوام کے ’’بچپن‘‘ میں ایک ہی طرح کے اساطیر کیونکر جنم لیتے ہیں (یا تخلیق و آفرینش کے بارے میںیکساں کہانیاں کیونکر وجود پاتی ہیں)۔ اس قسم کی منطق کے مقابلے میں ’’قشری‘‘ حضرات سوائے اپنے عقیدے کے ان محتویات کے سوا اور کیا پیش کرسکتے ہیں جن کا ثبوت ممکن نہیں؟ اس منطق کی تردید صرف ’’متصوفانہ‘‘ بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے اور اہلِ مغرب کو مخاطب کرکے ہمارے زمانے میں یہ کام دو اصحاب شیخ عیسیٰ اور شیخ عبدالواحد نے انجام دیا ہے البتہ یہ کام اپنے محتویات کی ’’متصوفانہ‘‘ نوعیت کی وجہ سے عوامی شور و غوغا سے دور ضرور رہا ہے۔ ان دونوں حضرات کے نقطہ ہائے نظر مختلف ضرور ہیں مگر متضاد نہیں۔ شیخ عبدالواحد نے مشرقی ماورا الطبیعات کو اپنا نقطۂ استدلال بنایا۔ اس علم کی عمدہ مثال ’’ویدانت‘‘ ہے جو ویدوں کی سرتاج ہے اور جس میں یہ علم خالص شکل میں موجود ہے۔ انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مختلف مستند روایتوں (ادیان) کی علامتی زبان میں ایک مشترک قدیمی علم موجود ہے اسے بھلاکر ’جدید‘، مغرب ساختہ دنیا زوال اور فکری دھندلاہٹ میں غرق ہوتی جارہی ہے۔ شیخ عبدالواحد کے خیال میں مختلف روایتوں کے اختلافات اور بظاہر متناقض چیزوں کی اہمیت کوئی خاص نہیں۔ شیخ عیسیٰ کا نقطۂ نظر ان سے خاصا علیحدہ ہے۔ ان کے ہاں مختلف مستند ادیان کے خدوخال بنی نوع انسان کے ایک قدیمی روایت میں مدغم نہیں ہوجاتے بلکہ حقیقت الٰہیہ کے ایک بے بدل پہلو کی حیثیت سے اپنی منفرد اہمیت ظاہر کرتے ہیں۔ ان جیسے کسی اور دیانتدار اور دوررس ’’قیافہ شناسِ‘‘ مذاہب کا نام لینا مشکل ہے۔ ان کی فکر کی پہلی سطح پر خدا کی طرف لے جانے والے مختلف راستوں کے اختلافات اپنے پورے تیکھے پن کے ساتھ سامنے آتے ہیں مگر یہاں سے وہ ایک دوسری اور ارفع سطح تک جست لیتے ہیں تاکہ براہ راست مشاہدہ حق کے سکون میں متحارب نقطہ ہائے نظر سے اوپر اُٹھ سکیں۔ شیخ کی تصانیف کو پڑھتے ہوئے قاری خود کو گویا یک لخت ایک ایسے زائر کی طرح محسوس کرنے لگتا ہے جو مشاہدۂ عظیمہ کی جانب سفر کررہا ہو۔ اس کے اندر اس بات کا شعور آنکھ کھولتا ہے کہ مصنف صرف اس کی علمی پیاس ہی دور نہیں کررہے بلکہ اسے اس کے خدا آثار ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی احساس دلارہے ہیں کہ اس کے وجود کا رشتہ ذات ’’لاتعین‘‘ سے پیوست ہے۔ یہ سب کچھ قاری پر ٹھونسا نہیں گیا بلکہ مصنف کے نقطۂ نظر میں خلقی طور پر جو کشش ہے اور جس انداز میں وہ اسے بیان کرتے ہیں وہ از خود یہی تاثر پیدا کرتے ہیں۔ اس سے بلاشبہ یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی تعلیم محض نظریاتی یا تصوراتی نہیں بلکہ تصوراتی فکر سے کہیں بڑھ کر یہ تعلیم سارے انسانی وجود کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ اسی سے شیخ عیسیٰ کا کام ان تمام تحریروں سے بہت واضح طور پر ممیز ہوتا ہے جو محض عقل جزوی (خرد) کو خطاب کرتی ہیں یا صرف سائنسی احتمالات کا دعویٰ پیش کرتی ہیں۔ شیخ کے نقطۂ نظر کی وسعت اور گہرائی اس بات سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ان کی پہلی کتاب میں ہی ان کے باقی تمام کام کے جملہ کلیدی نکات گویا نادمیدہ صورت میں موجود ہیں۔ اس لیے کہ جہاں الکلمۃ سے کسب فیض کا معاملہ ہووہاں ’’فکری ارتقا‘‘ کی گنجائش نہیں ہوا کرتی کیونکہ ارتقا کا مقتضیٰ یہ ہے کہ انسانی دماغ نئے سے نئے تصوراتِ عالم بناتا بگاڑتا رہے۔ ایسے تصورات کی صداقت بھی لازمی نہیں لہٰذا انھیں زیادہ اہم اور اشد ضروریات بلکہ صرف نئے فیشن کے تحت کسی وقت بھی بدلا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس ماہیتِ اشیا پر جو نگاہ شیخ کی جس طرح کئی دہائیاں پہلے تھی وہی آج بھی ہے اس لیے کہ ان کے نقطہ ہائے نظر کا بے حساب سرمایہ تغیر و تبدل سے پیدا نہیں ہوا بلکہ نگاہ ہائے بصیرت کی اس فراوانی کا نتیجہ ہے جو ابتداہی سے ربانی ’’لاتعین‘‘ میں شامل ہے۔ اس کی مثال ایک پھوار کی سی ہے جس کے ہزاروں ہزار قطروں میں سورج کا عکس بھی جھملا رہا ہو اور قطرے ایک دوسرے کو بھی منعکس کررہے ہوں۔ شیخ کی اولین تصنیف ہی سے ان کے ہاں مقید اور غیر مقید (یا مطلق اور اضافی) کے درمیان ربط کی کیفیت کا شعور محوری حیثیت میں نظر آتا ہے۔ اس ربط کو دیگر علامتوں کے علاوہ چینی ین یانگ کے ذریعہ بھی ظاہر کیا گیا ہے جس میں سیاہ حصہ میں ایک سفید نقطہ ہے اور سفید میں سیاہ نقطہ۔ خدا اور کائنات کا سارا تعلق اپنی نہایت میں اس کیفیتِ وابستگی سے منسوب ہے شیخ نے اس مسئلہ کی طرف بار بار اشارے کیے ہیں اور اس موضوع پر ان کی تحریروں میں اس معماتی باہمی تعلق کے بارے میں گہری بصیرت جھلکتی ہے۔ ایک بدلا ہوا انسان بننے کے لیے کسی وعظ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ علم جس کی قسمت میں آتا ہے اسے خود بدل لیتا ہے۔ لیکن اسی حد تک جہاں تک وہ شخص اس میں جذب ہوسکے۔ روحانی علم میں یہ انجذاب اور اس کا ہمارے وجود کی تَہ تک اُترجانا اس لیے بھی سہل ہوجاتا ہے کہ شیخ اپنی تحریروں میں انسانی وجود کی تمام پرتوں اور تمام جہات کو سمیٹ لیتے ہیں اور ان کے گھنے اور شفاف اُسلوب کی مہک اور اس کا آہنگ بھی معاون ثابت ہوتے ہیں ___ مختصراً یہ کہ ان اوصاف سے اس ارتعاش کی ترجمانی ہوتی ہے جو روحانی علم بیدار کردیتا ہے۔ ایسا ارتعاش جو خود کو عالمِ نفس سے بڑھ کر عمل کی سطح تک اُٹھائے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کی حیثیت دنیا کی تعمیرِ نو کے لیے ہدایات کی قبیل کی چیزوں کی نہیں ہے جو آج کل خاصی مقبول ہیں، جن کی نگاہ سامنے کی چیزوں کو بھی ٹھیک سے نہیں دیکھ پاتی۔ شیخ عیسیٰ کے ہاں اس طرح کی کوئی شے نہیں پائی جاتی، ان کے ہاں تو ہر عمل کا مقصود وہی ایک واحد، حقیقی مبدء ربانی ہے۔ ہمارے بیمار عہد کی صحت کے لیے اس سے بہتر اور کیا خدمت ہوگی کہ وہ تمام لوگ جو اس مقصد کو اپنانے کی قابلیت رکھتے ہوں اس کے مؤثر حصول کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ ء ء ء شیخ ابنِ تیمیہؒ قادریہ سلسلہ کے ایک صوفی عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلامی فقہ کا حنبلی مکتبِ فکر، اسلامی طریقت و سلوک، معروف بہ تصوف، کا مخالف تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی عام ہے کہ اس مکتبِ فکر کے ممتاز فقیہ ابنِ تیمیہ بھی تصوف کے جانی دشمن تھے۔ بنابریں اس مقالہ کا عنوان بظاہر دل لگی معلوم ہوگا مگر ہم نے اس کا انتخاب پوری سنجیدگی سے کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس کی تائید میں وافر شواہد پیش کریں گے تاکہ نہ صرف اس عنوان کا جواز ہوسکے بلکہ اس حنبلی فقیہ اور فکرِ اسلامی کی تاریخ کے اہم ترین مفکرین میں سے ایک مفکر کی مسخ شدہ تصویر کی بھی تصحیح ہوجائے۔ George Maqdisi, "Ibn Taymiyya, A Sufi of the Qadiriyya Order". ابن تیمیہ کی جو شبیہ اب ہمارے پاس ہے اس میں رنگ بھرنے کا آغاز لگ بھگ ایک صدی قبل ہوگیا تھا۔ مغربی مستشرقین کی تصانیف میں ان سے ہماری ملاقات ایسے شخص کی حیثیت سے ہوتی ہے جس کا ’’ایک پیچ ڈھیلا تھا‘‘۔ یہ فقرہ ان کے قرونِ وسطیٰ کے ایک معترض کا تھا۱؎ جسے یہ لوگ لے اُڑے اور بلاتامل دہراتے چلے گئے۔ اِگناز گولٹ تسیھر پہلا بڑا مصنف تھا جس نے مغرب میں اس بیان کی اشاعت کی۔ ڈی-بی-میکڈ انلڈ نے اس کے ہاں سے یہ فقرہ لے کر۲؎ اس پر ان الفاظ میں حاشیہ آرائی کی ’’ابن تیمیہ کے ہاں صوفیا، فلاسفہ، اشعری متکلمین بلکہ فی الواقع اپنے سوا کسی کی بھی ضرورت اور گنجائش نہ تھی‘‘۔۳؎ ان دونوں مصنّفین تک آتے آتے ہم بڑی حد تک اس راہ پر لگ جاتے ہیں جو ابن تیمیہ کے اس تصور کی نشوونما تک لے جاتی ہے جو آج پایا جاتا ہے۔ وہ تصور جو ہماری کتابوں، حتیٰ کہ بعض انتہائی عالمانہ اور منصفانہ تصانیف سے بھی، مضبوطی سے چمٹا ہوا ہے۔ ہمارے تناظر کے بگاڑنے اور اسلام کی مذہبی تاریخ کے جائزے کو دھندلانے میں بھی اسی تصور کا ہاتھ ہے۔ یہ تصور کچھ ایسا خیر خواہی کا تھا بھی نہیں۔ ہوتا بھی کیونکر! ایک ایسے شخص کا بھلا کون چاہتا جس نے اپنی وسیع مناظرانہ سرگرمیوں میں اسلامی بدعات کے رد کے علاوہ اتنا وقت نکال لیا کہ یہود و نصاریٰ کی تردید میں تصانیف مرتب کرسکے۔۴؎ ابن تیمیہ کی شخصیت کے اس خاکے میں موقلم نے جتنے رنگ لگائے ہیں وہ سب مختصر سی مدت میں مکمل ہوگئے تھے۔ گولٹ تسیھر کی الظاہریون ۱۸۸۴ء میں چھپی اور مارٹن شرائنر کی اسلامی علمِ کلام کی تحریکوں کا مطالعہ۵؎ ۹۹-۱۸۹۸ء میں۔ بعد ازاں گولٹ تسھیر کی ایک اور تاریخِ تحریک حنابلہ (بزبان جرمن) ۱۹۰۸ء میں سامنے آئی۔ اس وقت تک اس خاکے کے بنیادی نقش و نگار اجاگر ہوچکے تھے۔ چنانچہ ایک مکمل شبیہ اُبھر کر سامنے آگئی جس کی نقول اس وقت سے آج تک تفاصیل کی کمی بیشی کے ساتھ تیار کرکے پھیلائی جاتی رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ابن تیمیہ اور حنبلی مکتبِ فکر، جس سے وہ وابستہ تھے، دونوں کے مسلم فکر کے مرکزی دھارے سے باہر ہونے کا فیصلہ دے دیا گیا اور اسی بنا پر دونوں کو نظرانداز کردیا گیا۔۶؎ اس کلیے سے ایک قابلِ توجہ استثنا ہنری لاؤس کی تصنیف تھی۔ یہ مستند کتاب ایک طویل عرصے تک تقریباً مکمل غفلت کا شکار اور صدا بہ صحرا بنی رہی مگر اس نے وقت کے ساتھ ساتھ ابن تیمیہ کے خلاف ہونے والے مناظرے کو بہت حد تک دھیما کردیا۔ تاہم وہ قدیم تصور بھی ابھی تک گھسٹتا ہوا ساتھ چلتا معلوم ہوتا ہے۔ انسانی کاوش میں محنت اور وقت کی کفایت شعاری کا جو فطری پہلو ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ دست بدست آنے والی چیز کی حفاظت کرتی ہے۔ چنانچہ ابن تیمیہ کو ایک بہتر تناظر میں دیکھنے اور اسلامی فکر میں ان کا مقام جانچنے کے لیے میں لاؤس کی تصنیف کے مطالعہ کی سفارش کروں گا جسے چھپے ہوئے ۳۰ برس سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اس مقالے میں میرا واحد مقصد یہ ہے کہ تصوف سے ابن تیمیہ کی جو مخاصمت بیان کی جاتی ہے اس کی صداقت کی پڑتال کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ اپنے انداز میں وہ بھی غزالی سے کم صوفی نہیں تھے۔ بلکہ معاملہ یوں ہے کہ انھیں تصوف کی وہ رسمی اسناد بھی حاصل ہیں جو ابھی تک غزالی کے لیے دریافت نہیں ہوسکیں۔ دراساتِ اسلامیہ سے متعلق حالات کے ایک مخصوص ڈھب کے اجتماع کے باعث وہ فضا پیدا ہوئی جو ہمارے آج کے خیالات کی پیداوار کی ذمہ دار ہے۔ آج بھی عربی۔ اسلامی مآخذ دنیا بھر کے نجی اور عوامی کتب خانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور ان میں سے بیشتر مخطوطوں کی شکل میں ہیں۔ جب اُنیسویں صدی کے نصف آخر میں ان میں سے بعض کی طباعت کی اہم کوشش ہوئی بھی تو ان میں حنبلی مکتبِ فکر کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بلکہ اس سے بدتر یہ تھا کہ منظرِعام پر آنے والی کلامی اور تاریخی تصانیف کی خاصی تعداد ایسی تھی جس میں حنبلیت کے خلاف تعصب بھرا ہوا تھا۔ ایسی صورتِ حال میں جب مآخذ بمشکل دستیاب ہوتے تھے ان دوسرے مآخذ سے اخذ کردہ خیالات کو مورچہ بندی کی خوب مہلت مل گئی اور انھوں نے افکار کی منڈی میں ایک نسل سے دوسری نسل تک بازار پر قبضہ جمائے رکھا۔ چنانچہ جب بتدریج متنوع مآخذ بکثرت دستیاب ہونے لگے اور بعض ایسے حقائق اُبھرے جو عام تصورات سے لگا نہیں کھاتے تھے تو ان کی بلاتامل اور بلادلیل یوں تاویل کردی گئی کہ وہ بھی اشیا کے باقی عمومی پہلوؤں میں گھل مل جائیں۔ اس وقت جب غزالی کو تصوف کے لیے ’’درجۂ استناد مہیا‘‘ کرنے والا بناکر پیش کیا جارہا تھا اور بیان یہ تھا کہ غزالی کو یہ کام غلبۂ مخالفین میں انجام دینا پڑا جن میں سے اکثریت کی نسبت حنبلیت کی طرف کی جاتی تھی؛ اس وقت ایک صریحاً صوفی اور یقینی طور پر حنبلی مفکر یعنی خواجہ انصاری ہروی اس منظرنامے میں اُبھرے۔ ان کے لیے فوراً گنجائش نکال لی گئی مبادا کہ طے شدہ حالاتِ سابقہ میں بگاڑ پیدا ہوجائے۔ یہ خواجہ ہروی حنبلی تھے اور حنبلی بھی ایسے کہ انھوں نے اعلان کررکھا تھا کہ ان کی آخری خواہش اور وصیّت یہ ہوگی کہ تمام مسلمانوں کو حنبلی ہوجانے کے کارِخیر پر آمادہ کیا جائے۔ خواجہ ہروی غزالی کے بغداد آنے سے قبل۷؎ اپنی ساری زندگی تصوف میں بسر کرکے حنبلی۸؎ رہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ فی الواقع، غزالی تو اس وقت تک ابھی تصوف کی طرف سنجیدگی سے مائل بھی نہ ہوئے تھے۔۹؎ اسی قبیل کے شواہد میں سے ایک حنبلی صوفی، عبدالقادر الجیلی کا پیش منظر میں ظہور تھا۔ ان کے نام سے تصوف کا سلسلۂ قادریہ منسوب ہے جو آج بھی فعال ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ کا پہلا معلومہ سلسلۂ تصوف ہے اور آج بھی اس کے پیروکار تعداد میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ خواجہ انصاری ہروی مشہور کتاب منازل السائرین کے مصنف ہیں۔ اس کتاب کی بہت سی شرحیں لکھی گئیں۔ ان کا ترجمہ اور مطالعہ حال ہی میں لوژئیے بور کوئی نے کیا ہے۔۱۰؎ عبدالقادر الجیلی فتوح الغیب کے مصنف ہیں۔ اس کا مطالعہ اور ترجمہ پروفیسر والٹر براؤ نے کیا ہے۔۱۱؎ عرصۂ دراز تک ان دونوں حنبلی فقہا کو صرف صوفی کی حیثیت سے جانا جاتا رہا اور یہ حقیقت کہ یہ دونوں حنبلی تھے کچھ زیادہ معروف نہ تھی بلکہ دراساتِ اسلامیہ کے میدان میں یہ امر آج بھی ہر کسی کو معلوم نہیں۔ ان دو اُمور سے ہی یہ سوچا جاسکتا تھا کہ بعض خیالات میں تبدیلی واقع ہوگی۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ اس کے بجائے یہ توجیہ کی گئی کہ یہ دونوں حنبلی اس لیے تھے کہ دونوں نے علم الکلام سے بھاگ کر جائے پناہ تلاش کی تھی۔ یہ توجیہ آج بھی مانی جاتی ہے کہ حنبلی مکتبِ فکر ان کو اس لیے پسند تھا کہ یہ مکتبِ فکر بھی ان دونوں کی طرح علم الکلام کا مخالف تھا۔ بطورِ دلیل یہ بھی کہا گیا کہ صوفی ابن عربی فقہ کے ظاہریہ مکتبِ فکر سے وابستہ تھے کیونکہ یہ مکتبِ فکر بھی حنابلہ کی طرح علم الکلام کا مخالف تھا اور حنابلہ سے اس کی ایسی مشابہت ہے جس کے بارے میں غلطی کرنے کا امکان نہیں۔۱۲؎ کسی کو بھی اس دلیل کے بودے پن کا خیال نہ گزرا جب کہ فی الواقع یہ کمزور دلیل تھی، اس اعتبار سے کہ ایسے بھی صوفیا گزرے ہیں جو اشعری مکتبِ فکر سے وابستہ تھے جو کلام کا مخالف نہ تھا بلکہ اس کے برعکس اس نے معتزلہ کے بعد اس کی حمایت کی اور اس کی نشوونما میں حصہ لیا۔ مگر کسی نے اس جانب توجہ نہ کی شاید اس لیے کہ حنبلی مکتبِ فکر کے بارے میں کمتر اور غیر اہم ہونے کی ہوائی بھی کسی نے اُڑا رکھی تھی۔ اس سے بظاہر اہم تر میدان ہائے تگ و تاز جو موجود تھے! ابن تیمیہ اور حنابلہ کے بارے میں پچھلوں سے لیے ہوئے خیالات سے ہٹنے کا مرحلہ ایم لاؤس کی تصنیف کے ساتھ شروع ہوا۔ اس نے ابن تیمیہ کی کثیر تصانیف کا گہرا مطالعہ کیا جو خوش قسمتی سے ۱۸۹۰ء سے ۱۹۳۰ء تک یکساں رفتار سے چھپتی رہیں۔ ۱۹۳۰ء کی دہائی کے خاتمے پر ایم لاؤس نے اپنا مطالعہ مکمل کرلیا۔۱۳؎ ابن تیمیہ کی کتابوں کی اس یکساں رفتارِ اشاعت کی بڑی وجہ سلفیہ اور وہابیہ تحریکیں تھیں جو ابن تیمیہ کی تحریروں سے متاثر تھیں ___ ابن تیمیہ کے سماجی اور سیاسی افکار کے مطالعہ کے دوران ایم لاؤس یہ دیکھ کر متحیر رہ گیا کہ ابن تیمیہ کی فکر، افکارِ صوفیا سے بھرپور تھی۔ دوسری طرف وہ ابن تیمیہ کے تصوف سے تعلق کے بارے میں مروجہ خیالات سے بھی بخوبی واقف تھا کہ وہ تصوف کے دشمن تھے۔ تاہم اس کے لیے ان حقائق سے آنکھیں چار کرنا ضروری تھا جو اس کے سامنے موجود تھے۔ اس موضوع پر مستشرقین کے اتفاق رائے کے باوجود ایم لاؤس پہلا آدمی ہے جس نے یہ نکتہ واضح کیا کہ ابن تیمیہ کی تعلیمات بڑی حد تک تصوف سے متاثر ہیں، مزیدبراں یہ کہ ان کی تصانیف میں تصوف کی تردید کا شائبہ تک نہیں اور ان میں تصوف کے خلاف مطاعن کی تلاش بے سود ہوگی۔ ہاں البتہ ابن تیمیہ نے اتحادیہ کے تصوفِ حلولی پر ضرور پکڑ کی۔۱۴؎ لاؤس اپنے محاکمے میں مستحکم اور محتاط تھا۔ اس نے لکھا ’’ان کی تعلیم و تربیت پر اسلامی تصوف کے ممکنہ اثرات کا تسلیم کرنا اس لیے بھی مشکل معلوم ہوگا کہ ابن تیمیہ کو عموماً تصوف کے سب سے کٹر مخالفوں میں سے سمجھا جاتا ہے اور تصوف کے بارے میں ان کے مکتبِ فکر کی طرف سے کھلے بندوں شکوک کا اظہار ہوتا رہا ہے۔۱۵؎ اس کے کچھ عرصہ بعد اس نہج پر دوسروں کے اظہار خیال کا آغاز ہوتا ہے اور ابن تیمیہ کو صرف ابن عربی کے وحدت الوجود پر گرفت کرنے والا سمجھا جانے لگتا ہے۔۱۶؎ ساتھ ہی یہ بھی کہا جانے لگا کہ وہ ’’تصوف کو رد کرنے کے‘‘ باوجود اسلام کے دائرۂ کار میں روحانی اقدار کے مؤید تھے۔۱۷؎ تاہم اس وقت تک ان کو تصوف کا جانی دشمن ہی سمجھا جاتا رہا تھا۔ گو بعض لوگ انھیں یقینی طور پر نو صوفی قرار دے رہے تھے۔۱۸؎ حنابلہ کی تصوف دشمنی کا تصور ذہنوں میں ایسا گہرا گڑا ہوا ہے کہ اس سے چھٹکارا مشکل ہے۔ حتیٰ کہ جب ہمیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ عبدالقادر الجیلی حنبلی تھے تو ہم جھٹ اس ظاہری انحراف کے لیے توجیہ ڈھونڈلیتے ہیں، یہ فرض کرلیتے ہیں کہ تصوف سے وابستہ ہونے کے بعد وہ حنبلی نہ رہے تھے اور انھوں نے جو سلسلۂ تصوف کی بنا ڈالی تو اس میں وہ غزالی سے متاثر تھے۱۹؎ (لیجیے غزالی حسبِ معمول حاضر و ناظر) چند برس ادھر میں نے دراسات العربیہ والاسلامیہ کی چوتھی کانگرس پر پرتگال میں ایک مقالہ پڑھا تھا۔ یہ مقالہ ابھی زیرِ طبع ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’تصوف اور حنبلی مکتبِ فکر‘‘۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ حنابلہ اور تصوف کی مخاصمت کا کلیہ اب قرین قیاس نہیں رہا۔ اس میں پیش کردہ شواہد ان مآخذ سے لیے گئے تھے جو مجھے یورپ اور مشرقی عالمِ اسلام کے کتب خانوں میں دستیاب ہوئے تھے، بالخصوص وہ دستاویزات جن میں بعض حنبلی فقہا کے روحانی سلسلۂ نسبت کا بیان تھا۔ بالفاظِ دیگر وہ سلاسِل بیعتِ طریقت جن میں ان حنابلہ کے نام تھے جنھیں ممتاز حنبلی صوفی عبدالقادر الجیلانی نے خرقۂ خلافت عطا کیا تھا۔ ان کی تاریخ ہائے وفات ۵۶۱ھ سے لے کر ۷۹۵ھ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ چنانچہ عبدالقادر الجیلانی۲۰؎ نے جن سے قادریہ سلسلہ منسوب ہے، ابو عمر بن قدامہ (وفات ۶۰۷/۱۲۱۰) ۲۱؎ اور ان کے بھائی موفق الدین بن قدامہ (وفات ۱۲۲۳/۲۲۰)۲۲؎ دونوں کو خرقۂ خلافت عطا کیا۔ اوّل الذکر کے فرزند اور مؤخرالذکر کے بھتیجے ابن عربی عمر بن قدامہ (وفات۶۸۲ھ)۲۳؎ کو اپنے والد اور چچا دونوں سے براہِ راست خرقہ ملا۔ اور یہ ابن قدامہ ہیں جنھوں نے ابن تیمیہ کو خرقۂ خلافت عطا کیا۔ یہ شجرۂ روحانی ابن تیمیہ کے واسطے سے ابن قیم الجوزیہ۲۴؎ (۱۳۵۰/۷۵۱) مصنف مدارج السالکین۲۵؎ تک پہنچا ہے۔ یہ کتاب مشہور حنبلی صوفی خواجہ انصاری ہروی کی کتاب منازل السائرین کی شرح ہے۔۲۶؎ ابن قیم الجوزیہ کے بعد اس سلسلہ بیعت کا آخری نام ابنِ رجب (وفات ۱۳۹۳/۷۹۵)۲۷؎ کا ہے جو حنابلہ کے سوانح نگار بھی ہیں۔ اس شجرۂ تصوف کی ساتوں کڑیوں میں جو نام آئے ہیں تمام حنبلی مکتبِ فکر کے لوگ ہیں۔ ان کا عرصۂ حیات تین صدیوں پر محیط ہے۔ چھٹی/بارھویں صدی سے لے کر ۸/۱۴ ویں صدی تک۔ یہ شجرہ ایک حنبلی عالم یوسف بن عبدالھادی کی تصنیف میں محفوظ ہے جس کا عنوان ہے بداء العلقہ بلبس الخرقہ۔ اس کا مخطوطہ پرنسٹن یونی ورسٹی کی فائرسٹون لائبریری میں موجود ہے جہاں دوسرے مخطوطات کے ساتھ اسے بھی ابھی فہرست سازی کے عمل سے گزارا جارہا ہے۔ چسٹربیٹی لائبریری ڈبلن میں موجود ایک اور مخطوطے سے ابن تیمیہ کے اس شجرۂ تصوف کی ایک اور شہادت اہم ہوتی ہے۔ مذکورہ تصنیف کا عنوان ہے ترغیب المتحآبین فی لبس خرقہ المتمیّزین۲۸؎ مصنف ہیں جمال الدین الطیلیانی۔ اس میں ابن تیمیہ کے اپنے فقرے کا حوالہ ہے کہ ’’مجھے سیّدنا عبدالقادر (الجیلانی) کا بابرکت خرقۂ تصوف نصیب ہوا اور میرے اور ان کے مابین دو (صوفی مرشد) تھے۔‘‘ مزید تائید ناصرالدین کی اطفاء الحرقات الحوبۃ بالباس خرقۃ التوبۃ سے ہوتی ہے۔ یہ کتاب گو مفقود ہوچکی ہے لیکن اس کے بعض حصے یوسف بن عبدالھادی کی بداء العلقۃ… میں محفوظ ہیں۔ اس میں ابن تیمیہ کا ایک بیان درج ہے جس میں انھوں نے اپنی ایک سے زیادہ سلاسل تصوف میں نسبتوں کا اثبات کیا ہے اور قادریہ سلسلے کی سب پر عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی عبارت یوں ہے: ’’میں نے متعدد شیوخ کا خرقۂ خلافت حاصل کیا جو مختلف طریقوں (سلاسل) سے متعلق تھے۔ ان میں شیخ عبدالقادر الجیلی بھی ہیں جن کا طریقہ معروف طریقوں میں عظیم ترین ہے۔‘‘ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ابن تیمیہ کو انتقال کے بعد دمشق کے گورستانِ صوفیا میں دفن کیا گیا جہاں ان کے خاندان کے دوسرے افراد مدفون تھے اور ان افراد میں صوفیا بھی ہوگزرے تھے۔ بعض مصنّفین نے اس غلط فہمی کے تحت کہ ابن تیمیہ تصوف کے کٹر دشمن تھے، اس واقعہ میں تقدیر کا ایک مذاق دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر اس میں ایسا کوئی پہلو نہیں۔ کیونکہ صوفی ابن تیمیہ کے لیے صوفیا کے قرب و جوار میں دفن ہونے سے زیادہ فطری چیز اور کیا ہوسکتی تھی؟ مذکورہ بالاشجرۂ بیعت تصوف سارے کا سارا حنابلہ پر مشتمل ہے اور عظیم حنبلی صوفی عبدالقادر الجیلانی تک پہنچا ہے جن کا مدفن آج بھی بغداد میں مرجع زائرین ہے۔ شیخ عبدالقادر سے جو واسطے اوپر کی طرف سیّدنا جنید بغدادی تک پہنچتے ہیں ان کے ناموں کا علم تو ہمیں کافی عرصے سے ہے مگر یہ بات عام طور پر معلوم نہیں کہ اس شجرے میں چوتھی/دسویں صدی کے حنابلہ کے نام بھی شامل ہیں، یعنی عبدالقادر سے دو صدیاں اور خواجہ انصاری ہروی سے ایک صدی قبل کے نام… اس شجرہ کا تفصیلی مطالعہ ایک مضمون میں کیا گیا ہے جو عنقریب کائیے دلیرنے پیرس کے شمارۂ خصوصی دربارۂ ماسینون میں شائع ہورہا ہے۔۲۹؎ لہٰذا میں اس وقت صرف اس تصنیف اور اس کے محتویات کے مختصر بیان تک محدود ہوں گا۔ یہ دستاویز دمشق کے کتب خانہ ظاہریہ میں متفرقات کی جلد میں محفوظ ہے۔ اس کا صرف ایک صفحہ ہے جس پر شمس الدین الدنیسری کا شجرۂ طریقت دیا گیا ہے۔ دنیسری کی وفات ۱۳۵۶/۷۵۷ میں ہوئی۔ یہ شجرہ اصل میں دنیسری نے خود لکھا تھا۔ کتب خانہ ظاہریہ کا نسخہ اس کی نقل ہے جو مصنف کی زندگی میں ہی، ۱۳۴۳/۷۴۴ میں یعنی اس کی وفات سے ۱۳ سال قبل کی گئی تھی۔ مصنف اور نقل نویس جس کا نام حمزہ… الحکاری ہے، دونوں حنبلی نہ تھے۔ اس شجرہ میں بائیس کڑیاں یا واسطے ہیں۔ اس کی انتہا سیّدنا علیؓ خلیفۂ رابع (نمبر۱۸) کے واسطے سے سیّدنا رسول اللہ ا، جبرئیل علیہ السلام کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ہوتی ہے۔ نمبر۱۳ سے ۱۷ تک کا تعلق صوفیا کے معروف اشخاص سے ہے: سری سقطی، معروف الکرخی، داؤد الطائی، حبیب عجمی اور آخر میں حنابلہ کے ممدوح حسن البصری۔ نمبر۱۱ اور بارہ بالترتیب شبلی اور جنید ہیں۔ ہمارے لیے خاص دل چسپی کی چیز اس شجرہ کی وہ کڑیاں ہیں جو نیچے سے اوپر چلیں تو نمبر۱۰ تک آتی ہیں۔ ان دس صوفیا میں سے ۷ حنبلی ہیں۔ پیڑھیاں حسب ذیل ہیں: ۱- دنیسری ۲- معدنی (حنبلی) ۳- شمس الدین بن قدامہ (حنبلی) ۴- موفق الدین بن قدامہ (حنبلی) ۵- عبدالقادر الجیلی (حنبلی) ۶- مخرّمی (حنبلی) ۷- حکاّری ۸- طرسوسی ۹- عبدالواحد التمیمی (حنبلی) ۱۰- عبدالعزیز التمیمی (حنبلی)… جن کو خرقہ شبلی سے ملا اور شبلی نے خرقہ جنید سے حاصل کیا۔۳۰؎ قادریہ سلسلے کے بانی سیّدنا عبدالقادر کے ایک صوفی مرشد حمادالدباس۳۱؎ کے نام کے بھی تھے۔ ان کا انتقال ۵۲۵/۱۱۳۰ میں ہوا۔ مگر عبدالقادر نے خرقہ ان سے حاصل نہیں کیا تھا بلکہ خرقہ ان کو ان کے حنبلی استاد ابوسعیدالمخرمی۳۲؎ سے عطا ہوا تھا۔ جو ہمارے مذکورہ حنبلی ابن عقیل کے ہم عصر تھے۔ دونوں کا انتقال ۱۱۱۹/۵۱۳ میں ہوا اور دونوں سے عبدالقادر الجیلانی نے فقہ حنبلی کی تعلیم پائی۔ پھر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عبدالقادر کا مدرسہ وہی مدرسہ تھا جو ان سے قبل ان کے استاد المخرمی کا تھا جن سے عبدالقادر کو خرقۂ تصوف حاصل ہوا تھا عبدالقادر الجیلانی نے اس مدرسہ کو وسعت دی اور سوانحی ادب میں ’’مدرسۂ عبدالقادر‘‘ اور ’’رباطِ عبدالقادر‘‘ کے جو حوالے ملتے ہیں ان سے خیال ہوتا ہے کہ مدرسہ اور باط دونوں ایک ہی مجموعۂ تعمیرات کا حصہ تھے۔ المخرمی اور ان سے پہلے کے دوحنبلی صوفیا کے درمیان دو غیر حنبلی صوفیا ہیں۔ دونوں حنبلی تمیمی خاندان سے ہیں اور دونوں میں باپ بیٹے کا رشتہ ہے۔ مذکورہ بالا مختصر شواہد میں ہم ابن تیمیہ کی ایک تصنیف کا اضافہ کیے دیتے ہیں۔ ان کی یہ تصنیف عبدالقادر الجیلانی کی معروف صوفیانہ کتاب کی شرح ہے۔ الجیلانی کی کتاب کا جرمن زبان میں ترجمہ اور مطالعہ والٹر براؤ نے ۱۹۳۳ء میں کیا تھا۔ اپنے سلسلۂ تصوف کے بانی کی کتاب کی شرح میں ابن تیمیہ نے الجیلانی کے متعدد اہم اور بنیادی عنوانات لے کر ان پر تفصیلی تبصرہ کیا ہے۔ اپنے حنبلی صوفی مرشد عبدالقادر الجیلانی کے تصوف ہی کے لیے نہیں بلکہ عبدالقادر کے صوفی مرشد، غیر حنبلی حماد الدباس کے لیے بھی ان کا میلان تحسین یہاں جیسے کھل کر سامنے آیا ہے اس سے کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ یہ چیز اس امر کی روشنی میں بہت اہم ہے کہ حماد الدباس کے مشہور حنبلی معاصر ابن عقیل نے ان کا رد کیا تھا ان باتوں کی وجہ سے جن کو وہ بدعت سمجھتا تھا۔ اس کے برعکس ابن تیمیہ، حمادالدباس کے لیے سراپا تحسین ہیں اور ان کو مستند مشائخ صوفیا میں سے سمجھتے ہیں۔ مزید براں عبدالقادر الحنبلی الصوفی اور حمادالدباس غیر حنبلی صوفی کی تعریف کے مقابلے میں وہ اپنے حنبلی ساتھی اور عظیم صوفی الانصاری ہروی پر تنقید کرتے ہیں اور ان پر دوغلے پن کا شبہ کرتے ہیں۔۳۳؎ مگر الانصاری الھروی کے بارے میں ان کا رویہ خود ان کے شاگرد ابن القیم الجوزیہ کے رویہ سے ٹکراتا ہے جو الانصاری کے مداح تھے اور انھوں نے مؤخرالذکر کی کتاب منازل السائرین کی اہم ترین شروح میں سے ایک شرح بھی لکھی جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ میں خود کو ابن تیمیہ کی اس تصنیف کے مختصر سے جائزے تک محدود رکھوں گا اور اس کے محتویات پر کچھ تبصرہ کروں گا۔ مجھے یہ کتاب پرنسٹن کے غیرمدوّن مخطوطات کے مجموعہ میں دستیاب ہوئی۔۳۴؎ یہ ابن تیمیہ کی بہت سی کتابوں میں سے ایک تھی جن کو متفرقات کے تحت ایک ہی جلد میں باندھا گیا تھا۔ اس شرح کے سرورق پر مصنف کا نام صرف ’’شیخ الاسلام‘‘ درج ہے مگر پہلا صفحہ اس بارے میں زیادہ واضح ہے جہاں ان کا تفصیلی نام ابوالعباس احمد بن تیمیہ دیا گیا ہے۔ پھر متن میں خود مصنف نے ابوالبرکات کو اپنا دادا ظاہر کیا ہے (جَدُّناابوالبرکات) جو یقینا ابوالبرکات مجدالدین بن تیمیہ (متوفی ۱۲۵۵/۶۵۲) کے سوا کوئی نہیں۔ مزید براں اس کتاب کے محتویات کی داخلی شہادت بھی اپنی تعلیمات اور اُسلوبِ بیان کی وجہ سے اسے ابن تیمیہ ہی کی تحریر ثابت کرتی ہے۔ ان کی تحریروں سے مانوس کوئی بھی شخص اس تحریر کو فوراً اس سلسلے کی کتاب کے طور پر شناخت کرلے گا جن کے عنوانات مراتب الارادہ ،۳۵؎ القضاو القدر۳۶؎ اور الاحتجاج بالقدر۳۷؎ ہیں۔ بنابریں اس کتاب کے مصنف کے بارے میں شک کا کوئی سوال ہی نہیں رہ جاتا۔ مذکورہ بالا تصانیف میں ابن تیمیہ نے الانصاری الھروی اور الحلاج پر جرح کی ہے اور عبدالقادر اور حمادالدباس کی مدح کی ہے۔ یہی مدح و قدح اس شرح میں بھی موجود ہے جس پر ہم اس وقت گفتگو کررہے ہیں۔ ابن تیمیہ نے اس میں عبدالقادرالجیلی اور حمادالدباس کے علاوہ بھی متقدمین اور متاخرین میں سے بہت سے صوفیا کی سچے باشرع صوفی شیوخ کَہ کر تحسین و تعریف کی ہے اور ان کو المشائخ، اہل الاستقامہ، المستقیمون من السالکین اور اہل الاستقامہ من اہل العبادۃ کے القابات سے یاد کیا ہے… ابن تیمیہ کے ممدوحین میں فضیل ابن فیاض، ابراہیم بن ادھم، ابوسلیمان الدرانی، معروف کرخی، سری سقطی اور الجنید شامل ہیں اور ان کو دومتقدمینِ صوفیائے کاملین کی صف میں شمار کرتے ہیں (جمہور مشائخ السلف) متاخرینِ صوفیا میں وہ عبدالقادر جیلانی، حمادالدباس اور ابوالبیان (متوفی۱۱۵۶/۵۵۱) کا ذکر کرتے ہیں۔ ان نو ناموں میں سے چار نام خود ابن تیمیہ کی مذکورہ کتب کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کتابوں میں اور اس زیرِ مطالعہ شرح میں بھی ان کے ذخیرۂ الفاظ میں صوفیانہ اصطلاحات: الہام، ذوق، وجد، محبت، کشف، حقیقت، خشیت، کمال النفس اور اسی طرح کی دوسری مصطلحات شامل ہیں۔ وہ ضعیف روایات، کمزور نظائر اور خلاف اور اُصول فقہ میں مشغول فقہا کے بیان کردہ استصحاب کے مقابلے میں الہام کو قوی تردلیل قرار دیتے ہیں۔ یہ اس ابن تیمیہ کی ایک شرح سے اقتباس ہے جسے عموماً ایک ایسا فقیہ سمجھا جاتا ہے جو تصوف کا دشمن تھا۔ اس کے برعکس وہ ہمیں غزالی اور حنبلی فقیہ موفق الدین ابن قدامہ کے خلاف الہام کی مدافعت کرتے ہوئے ملتے ہیں اور ان دونوں پر نرے فقیہوں جیسے طرزِ عمل کا گمان کرتے ہیں کیونکہ وہ دونوں کہا کرتے تھے کہ (مالایعبر عنہ فھوھوس)۔۳۸؎ ابن تیمیہ کا تصوف مسلک اعتدال کا پیرو اور اباحیت کا مخالف تھا۔ ان کی ساری شرح کا زور اس بات پر ہے کہ تصوف جب مستند اور صحیح ہو تو کتاب اللہ اور اجماعِ اُمت کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ تصوف جو شریعت پر مبنی نہ ہو، بدعت ہے۔ ان کا باشرع تصوف ہی انھیں اس طرف لایا ہے کہ وہ الہام کو قانوناً مؤثر دلیل کی سطح پر رکھتے ہیں جس پر ایک عمل پر دوسرے کی ترجیح کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے جب کہ دوسرے تمام مآخذ ناکام ہوجائیں۔ ایک فقہی مآخذ کے طور پر الہام کو نہ تو مطلقاً رد کیا جاسکتا ہے نہ ہی علی الاطلاق قبول کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اسے فقہی مآخذ کے طور اس وقت استعمال کیا جاسکتا ہے جب دوسرے مآخذ مدد نہ دے سکیں۔ مگر وہ لوگ جو اہل حقائق ہونے کا دعویٰ کریں اور شرعی اوامر و نواہی کے پابند نہ ہوں وہ گمراہ ہیں۔ سچی معرفت۳۹؎ وحی الٰہی کے ذریعے آنے والے علم کے مطابق ہوتی ہے اور صحیح ارادہ، یعنی صوفیا کی تلاشِ حق، حب الٰہی اور رضائے الٰہی یا بالفاظِ دیگر منزل من اللہ احکامات کے ماتحت ہوتا ہے۔ توکل علی اللہ صرف اس وقت درست ہے جب خدا کا حکم مانا جائے۔ دوسری طرف اس کے احکام ماننا اور اس پر بھروسہ نہ کرنا اپنے فرائض کی ادایگی سے فرار ہے۔ خالص توحید کا مطلب عبادت کا خالصتاً اللہ کے لیے ہونا ہے اور عبادت کا تقاضا کمالِ محبت، کمالِ عظمت اور کمالِ خوف و رجا ہے۔ (کمال الحب، کمال التعظیم، کمال الرجاء والخشیہ والالجلال والاکرام) ابن تیمیہ کے حملوں کا ہدف فلاسفہ اور ان سے متاثر صوفیا ہیں۔ فیلسوف صوفیا کے خیال میں کمالِ نفس صرف علم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور علم سے ان کی مراد وہ علم ہے جس کے وہ مالک ہیں یعنی علم ماورا الطبیعیات مگر ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ کمالِ نفس صرف علم پر مشتمل نہیں بلکہ اس کے بالعکس معرفت الٰہیہ کے ساتھ حب الٰہی، عبودیت، استغفار و انابت بھی لازماً ہونا چاہیے۔۴۰؎ فلاسفہ اور ان کے متبعین اس علم سے غافل ہیں جو انبیا کے ذریعے بھیجا گیا۔ یہ علم کی اعلیٰ ترین شکل ہے اور نفس اوامرِ الٰہی کو جاننے سے کمالِ علم کو پہنچتا ہے۔ پھر فیلسوف صوفیا یہ رائے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ایک بار اس مطلوبہ علم کو حاصل کرلینے سے وہ احکامِ تکلیفیہ سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ اور ممنوعاتِ شرعیہ ان کے لیے جائز ہوجاتی ہیں۔ مگر اس خیال کے ماننے والے جہالت و گمراہی میں غرق ہیں۔ مذکورہ بالا اقتباس ابن تیمیہ کی اس شرح میں سے مشتے نمونہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں یہ شرح چھپ جائے گی۔ یہ شرح اور ماقبلہ مذکورہ سلسلۂ بیعت اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ حنبلی مکتبِ فکر اور ابن تیمیہ دونوں تصوف کے دشمن نہیں تھے بلکہ ان کو ایسا بتانے یا بنانے میں ان مطالعات اور تحریرون کا دخل ہے جو ان کے مخالفین کی تحریروں پر مبنی تھے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم تصوف کو شجرِ اسلام پر لگائی ہوئی قلم یا دساور سے درآمد کی ہوئی ایسی چیز سمجھنا چھوڑ دیں جس پر پابند شریعت مستند لوگوں کی صفوں میں سے، مثلاً حنابلہ کی طرف سے، اعتراضات ہوئے تھے اور اسے اسلام کی روحانیت کے بھرپور سرمائے کے باطن سے اُبھرنے والی بے ساختہ نموشمار کریں جس میں بعدازاں فلسفہ (نوفلاطونیت) کی طرف سے بعض اجزائے زائدہ شامل ہوگئے اور ان کے لانیوالے محرفین اور اہلِ بدعت پر باشرع صوفیا کی طرف سے لگاتار حملے ہوتے رہے کیونکہ یہ مؤخرالذکر لوگ اپنے تصوف کی بنیاد کتاب اللہ اور شریعت الٰہیہ پر رکھتے تھے اور اس صوفیانہ اباحیت کے مخالف تھے جو بعد کی صدیوں میں پیدا ہوا۔ ء ء ء حوالے و حواشی جرمن اور انگریزی حوالے پورے دیے گئے ہیں، برابر کے صفحات پر ملاحظہ کیجیے۔ اُردو میں صرف بقدر ضرورت حصہ کا ترجمہ ہے۔ ۱- آئی-گولٹ تسیھر- ظاہریون: ان کا عقیدہ اور ان کی تاریخ، اسلامی علم کلام کی تاریخ میں ایک اضافہ ___ بزبان جرمن (لائپتسک: اوشُولتسے۱۸۸۴) بزبان انگریزی (لائیڈن: ای-جے-بِرِل، ۱۹۷۱)، ص۱۷۳ ’’…مگر تھا کچھ خبطی سا…‘‘، ایچ-اے-آر گِب، سفرنامہ ابن بطوطہ، جلد اوّل، انگریزی ترجمہ (کیمبرج: ہیکلویت سوسائٹی،۱۹۵۸)، ص۱۳۵ ’’… لوگ اس کی بڑی توقیر کرتے تھے اور وہ مختلف علوم پر عبور رکھتا تھا مگر اس کے دماغ میں کچھ خلل تھا‘‘، عربی عبارت یوں ہے ’’…الّا انْ فی عقلہ شیئاً‘‘ ___عربی عبارت کے لیے دیکھیے: ابن بطوطہ، رحلۃ (بیروت: دارصادر)، ۱۹۶۴، ص۹۵،۱-۶۔ ۲- ڈی-بی-میکڈانلڈ، اسلامی علم کلام، فقہ اور دستوری نظریات کا ارتقا (نیویارک، ۱۹۰۳) صفحہ ۲۷۳ ’’…وہ ایک ایسا ذی استعداد اور صاحب علم شخص تھا جس کا ایک پیچ ڈھیلا تھا۔‘‘ ۳- محولہ بالا، مرقومۃ الذیل۔ ۴- مثلاً: تخجیل اھل الانجیل، یا تخجیل من حرف الانجیل، الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح، مسئلۃ الکنآئس وغیرہ، تفصیل کے لیے ر-ک، بروکلمان، تاریخ ادب عربی۔ ۵- ایم شرائز، اسلامی علم کلام کی تحریکوں کا مطالعہ، مجلہ جرمن اورینٹل سوسائٹی، جلد۵۲، ۱۸۹۸ء اور جلد۵۳،۱۸۹۹ئ۔ ۶- ایضاً (۱۹۰۸ئ)، ج۶۲،ص۱-۲۸۔ ۷- غزالی فقہ شافعی کے استاد کے طور پر بغداد میں ۴۸۴ھ میں وارد ہوئے۔ ۸- ۴۸۱ھ میں۔ ۹- کہا جاتا ہے کہ یہ چیز ان کے بغداد چھوڑنے (۴۸۸ئ) کے بعد پیش آئی۔ ۱۰- ایس-د- لوژئیے بور کوئی، انصاریات I، محمود الفرکاوی، شرح کتاب المنازل، فرانسیسی ادارہ برائے مشرقی آثار قدیمہ، قاہرہ (۱۹۵۳ئ)، نیز وہی مصنف، خواجہ عبداللّٰہ انصاری، حنبلی صوفی (بیروت، مطبعہ کاثولیکیۃ ۱۹۵۶ئ) اور مجموعہ مجلۃ المعھد الدراسات الشرقیہ للآباء الدومینیکین بالقاھرہ (دارالمعارف:۱۹۵۴ء ببعد)‘‘ میں چھپنے والے بہت سے مطالعات۔ ۱۱- والٹر براؤنے، فتوح الغیب، لعبدالقادر، برلن ۱۹۳۳ئ۔ ۱۲- آئی-گولٹ-تسیھر، حول التاریخ الحرکات الحنبلیۃ، در مجلہ جرمن اورینٹل سوسائٹی (۱۹۰۸ئ)، ج۶۲،ص۱۰-۱۱۔ ۱۳- ہنری لاؤس، تقی الدین ابن تیمیہ کے سماجی اور سیاسی افکار کا مطالعہ (قاہرہ:معہد الفرانسوی برائے مشرقی آثار قدیمہ، ۱۹۳۹ئ)۔ ۱۴- ہنری لاؤس، محولہ بالا نیز اسی مصنف کا مقالہ ’’ابن تیمیہ‘‘ در انسائی کلوپیڈیا اسلام، دوسری طباعت، ص۹۵۳ب۔ (ہنری لاؤس نے اپنے محولہ مقالات میں ابن عربی کو اتحادیہ یا حلول کے قائل صوفیا میں سے قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی ان کے بیانِ وحدت الوجود کو Pantheism کہا ہے اور ابن تیمیہ کو صرف اس حلولی فلسفے کا مخالف بتایا ہے۔ یہ صریحاً غلط ہے۔ وحدت الوجود اور مذکورہ فلسفے میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ پرانے مستشرقین کے ہاں ان دونوں کو ایک ہی چیز سمجھنے کا مغالطہ عام ملتا ہے جب کہ جدید مسلمان مستشرقین نے اس غلط فہمی کا بخوبی ازالہ کردیا ہے۔ وحدت الوجود ہرزمانے اور ہر دین کی اساس میں موجود اور اس کی طریقت کا حصہ رہا ہے جب کہ مذکورہ بالافلسفیانہ سفسطہ مغرب جدید کی تہذیب کی ایک کج فہمی کا شاخسانہ ہے۔ رہی ابن تیمیہ کی ابن عربی سے مخاصمت تو اس کی اوّلین اور بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ ان کے سامنے ابن عربی کی تحریروں کے تحریف شدہ متن پیش کیے گئے تھے یا ایسی تحریریں جن میں اشتباہ اور ابہام تھا اور اس کی وضاحت کرنے والی دیگر تحریروں پر ابن تیمیہ کی نظرنہ تھی، یا پھر وہ اپنی طبیعت کے تشدد کی وجہ سے تاویل نہ کرسکے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنے استاذ کے بارے میں ان آرا سے تائب ہوجانے کی بھی شہادت دی ہے…تفصیل کے لیے اسی مجلہ کا مضمون ’’عسکری بنام فاروقی‘‘ دیکھیے ___ صوفیہ اور مستند صوفیا کے بارے میں ابنِ تیمیہ کی رائے دیکھنے کے لیے فتاویٰ ابن تیمیہ (۳۶جلد) کی جلد۱۱، اور۱۲ سے رجوع کرنا چاہیے جو تمام تر سلوک و طریقت اور تصوف کے بارے میں ہیں۔ اسی جلد میں ابن عربی کے بارے میں ان کی رائے بھی درج ہے کہ ہم بچپن میں ان کی تصانیف شوق سے پڑھا کیا کرتے تھے۔ نیز یہ کہ ان کے تخیل کی پرواز کس قدر رفیع ہے مگر کبھی کبھی غلطی بھی کرتے ہیں وغیرہ ___ مترجم) ۱۵- ہنری لاؤس، محولہ بالا،ص۸۹۔ ۱۶- جی-سی- قنواتی اور لوئی گاردے، تصوفِ اسلام (پیرس، ثے ورین،۱۹۶۲ئ)،ص۸۲ اور ۱۶۲۔ ۱۷- فضل الرحمن، دیکھیے انگریزی حوالہ۔ ۱۸- ایضاً، اسلام۔ ۱۹- منٹگمری واٹ، دیکھیے انگریزی حوالہ۔ ۲۰- دیکھیے: انسائی کلوپیڈیا اسلام، انگریزی: مقالہ: عبدالقادر الجیلی، از والٹر براؤنے اور اس کی کتابیات، نیز ہنری لاؤس، ’’حنابلہ خلافتِ بغداد کے دور میں‘‘، مجلہ دراساتِ اسلامیہ، پیرس: ۱۹۵۹ئ)، ص۱۱۰-۱۱۲۔ ۲۱- دیکھیے ان پر ابن رجب کا سوانحی نوٹ، در ذیل علیٰ طبقات الحنابلہ، ۲جلد، تحقیق، حامد الفقی (قاہرہ: السنۃ المحمدیہ پیرس،۱۳۷۲/۵۳-۱۹۵۲) جلد دوم،ص۵۲-۶۱۔ ۲۲- دیکھیے انسائی کلوپیڈیا اسلام، انگریزی، مقالہ ’’ابن قدامہ المقدیسی‘‘ (از ج-مقدیسی) اور کتابیات۔ ۲۳- دیکھیے: بروکلمان، تاریخ ادب عربی، ص۳۹۹، تکملہ اوّل، ص۶۹۱، نیز ابن رجب محولہ بالا جلد دوم،ص۳۰۴-۳۱۰۔ ۲۴- دیکھیے: بروکلمان، محولہ بالا، ج دوم،ص۱۰۵ و بعد، تکملہ دوم،ص۱۲۶ ببعد، ہنری لاؤس، ’’حنابلہ، بحری مملوکوں کے دور میں‘‘، در مجلہ دراساتِ اسلامیہ، پیرس (۱۹۶۰ئ)،ص۶۶۰-۶۸۔ ۲۵- دیکھیے: بروکلمان، تکملہ اوّل،ص۷۷۴،نوٹ۶۴۔ ۲۶- دیکھیے: انسائیکلوپیڈیا اسلام: بذیل مادہ، از لوژئیے بور کوئی۔ ۲۷- ایضاً، از ج-مقدیسی۔ ۲۸- چسٹرز بیٹی عربی مخطوطہ نمبر (۸) ۳۲۹۶، ورق ۴۹،الف تا۷۰ب۔ ۲۹- دیکھیے: ج-مقدیسی، ’’موفق الدین ابن قدامہ کی اسنادِ بیعت‘‘، در ماسینون (کائیے دلیرنے ۱۹۷۰ئ)، ص۸۸-۹۶۔ ۳۰- اس سلسلۂ بیعت کی ہر کڑی یا واسطے کی شناخت کے لیے دیکھیے: ج-مقدیسی، محولہ بالا، ص۹۰-۹۲۔ ۳۱- ابن عقیل کے ہدفِ تشنیع، اس صوفی کے لیے دیکھیے:ج-مقدیسی، ’’ابن عقیل اور گیارھویں صدی میں روایتی اسلام ‘‘(معھد الفرانسی فی الدمشق، ۱۹۶۳ئ)،ص۳۷۶۔ نوٹ اور ص۳۸۳ نوٹ۱ (نیز سوانحی نوٹ)۔ ۳۲- دیکھیے: ج-مقدیسی، محولہ بالا، اشاریہ، بذیل مادہ ’’المخرمی‘‘ (خصوصاً ص۲۵۶ اور نوٹ۳)۔ ۳۳- دیکھیے: ابن تیمیہ، مجموعہ رسائل کبریٰ، جلد دوم،ص۱۱۶-۱۱۷۔ ۳۴- اسی تصنیف کا ایک اور مخطوطہ لائپتسک لائبریری میں محفوظ ہے۔ عربی مخطوطہ نمبر ۲۲۳۔ ۳۵- دیکھیے: ابن تیمیہ، مجموعہ رسائل کبریٰ، ۲جلد (قاہرہ: مطبعہ الشرفیہ، ۱۳۲۳/۱۹۰۵ئ) جلد دوم،ص۶۴-۷۹۔ ۳۶- محولہ بالا،ص۸۰-۸۶۔ ۳۷- ایضاً،ص۸۷-۱۴۵۔ ۳۸- مخطوطۂ پرنسٹن کے ورق ۱۲۲ ب (سطور ۱۷-۱۸) وافکارُ ابی حامد الغزالی وابی محمد المقدیسی [ابن قدامہ]… طریقۃ الفقہا۔ غور کیجیے کہ یہاں ابن تیمیہ اپنے حنبلی ساتھی ابن قدامہ اور غزالی دونوں پرنرے فقیہ ہونے کا اعتراض کررہے ہیں۔ یہی اعتراض غزالی نے بھی فقہا پر کیا تھا۔ ۳۹،۴۰- اس عبارت میں خلط مبحث ہے جو یا تو مقالہ نگار کی ناسمجھی سے پیدا ہوا ہے یا ابن تیمیہ نے حسبِ عادت تشدد کیا ہے۔ ہم اس بیان کو صرف اس صورت میں تسلیم کرتے ہیں کہ اگر علم یا معرفت کو صرف معلومات کے مترادف سمجھا جائے اور انھیں ان کے لفظی یا منطقی معانی تک محدود کیا جائے اور ان کے اصطلاحی مدلولات سے آنکھیں بند کرلی جائیں۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لیے اولاً دو باتیں دیکھیے: عرفان یا معرفتِ الٰہی انسانی دائرۂ اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ انسان اپنی سعی و کاوش سے عرفان حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ خالصتاً عطائے الٰہی اور فضلِ ربانی ہے۔ اس صورت میں یہ تصور کہا تک بجا ہے کہ وہ شخص جو صاحبِ معرفت ہے اس میں نفس کے دوسرے پہلو یا دوسری جہات یعنی مخافہ محبۃ وغیرہ ناقص ہوں گی۔ کیا حق تعالیٰ نے اس شخص کو اپنی معرفت دینے سے پہلے اس کی استعداد نہیں دیکھی؟ دوسرے یہ کہ خود عارف باللہ کے الفاظ اس پر دلیل ہیں۔ وہ شخص جو اللہ کے واسطے سے حقائق اشیا کی شناخت کرے کیا وہ اتنا ہی کورا ہوگا کہ حبِ الٰہی، خوفِ خدا (رأس الحکمۃ مخافۃ اللہ بھی یاد رکھیے) اور عبودیت سے غفلت کرے؟ عارف باللہ کی اصطلاح میں یہ تمام باتیں شامل ہیں لہٰذا مذکورہ اعتراض بے جا اور ناسمجھی کی پیداوار ہے۔ یہ اعتراض کچھ پچھلوں ہی سے مخصوص نہیں ہے۔ ہمارے زمانے کے مشہور انگریز نو مسلم عبدالقادر الصوفی نے بھی اپنے دو بزرگ وحدت الوجودی شیوخ پر ایسے ہی بے سروپا اعتراض کیے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ اعتراض کرنے کے لیے پوری کتاب چھپوائی، اس پر دیباچہ لکھا اور اس دیباچۂ اعتراضات میں دل کی بھڑاس نکالی۔ اعتراضات کا لبِ لباب یہ ہے کہ شیخ عبدالواحد یحییٰ اور شیخ عیسیٰ نورالدین احمد العلوی دونوں کے خیال میں روحانی تجربہ ’’ایک طرح کے ذہنی خلا‘‘ میں حاصل کیا جاسکتا ہے جس کے لیے ’’طرزِ عمل اور طرزِ حیات میں کسی وجودی انقلاب کی کوئی ضرورت نہیں‘‘… زبان و بیان کے اُسلوب کے فرق کے علاوہ یہ اعتراض اور ابن تیمیہ کے اعتراضات کے ایک ہی ہیں۔ دونوں کا جواب بھی ایک ہی ہے کہ مذکورہ شیوخ اور ابن تیمیہ کے ہدف شیخ اکبر ابن عربی سب کے نزدیک انسانی وجود کی تمام سطحوں پر تبدیلی آنا لابدی ہے۔ صرف عمل اور طرزِ حیات ہی کی تبدیلی کافی نہیں۔ ان حضرات کی نظر اس سے آگے تک پہنچی ہے۔ ان کی تعلیمات میں اصرار ہے کہ عقل، فکر، فکری عمل، تخیل، جذبات، طبعی داعیے حتیٰ کہ تحت الشعوری انعکاسات یاردِ عمل کی بھی قلب ماہیت ہونی چاہیے۔ یہ چیز صرف خارجی تبدیلیوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ داڑھی بڑھالینے یا عربی چوغہ زیب تن کرنے سے تزکیہ نفس نہیں ہوجاتا۔ اس کے لیے شیخ کی مسلسل نگرانی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ایک اخبار نویس صحافی اپنے طرزِ حیات میں تبدیلی لاتا ہے مگر اس کے اندر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے، تحریف کرنے کا میلان اور end justifies the means کا رویہ باقی ہے جو اس پیشے سے منسلک لوگوں کی کم و بیش فطرتِ ثانیہ بن جاتا ہے تو اس کی ظواہر کی تبدیلی مددگار تو یقینا ہوگی (فی الحقیقت یہ تبدیلیاں بھی ناگزیر ہیں گو ان کو بروئے کار لانے کے طریقے متنوع ہیں) مگر مطلوبہ باطنی یا داخلی تطہیر، تزکیہ، صفائی یا تبدیلی کے لیے ایک سچے مرشد کی طویل عرصہ تک نگرانی اور دوررس توجہ کی ضرورت ہوگی۔ ان وضاحتی کلمات کے بعد ہم شیخ عیسیٰ نورالدین احمد کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جو اس مسئلے پر قولِ فیصل ہوگا: Knowledge only saves us on the condition that it enlists all that we are, only when it is a way, and when it works and transforms and wounds our nature even as the plough wounds the soil…… Metaphysical knowledge is sacred. It is the right of sacred things to require of man all that he is. (Spiritual Perspectives and Human Fact, Faber, England, 1954, p,138) ظ ظ ظ Notes 1- I. Goldziher, Die Zahiriten: Ihr Lehrsystem und ihre Geschichte. Being zur Geschichte der muhammedanischen Theologie. (Leipzig: O. Schulze, 1884), p.189, lines 7-8: "er war ein bedeutenden Mann, Konnte er uber die verschiedensten Wissengebiete sprechen nur hatte er einen Sparren im Kopfe," recently translated into English by Wolfgang Behn, The Zahiris: Their Doctrine and Their History. A Contribution to the History of Islamic Theology (Leiden: E.J. Brill, 1971), p.173: " but he had a bee in his bonnet." H.A.R. Gibb, The Travels of Ibn Battuta, vol. I (Cambridge: Hakluyt Society, 1958), p.135: "a man greatly esteemed and able to discourse on various sciences, but with some kink in his brain," cf. next note. The Arabic has " illa anna fi'aqlihi shai'an," see Ibn Battuta, Rihla (Beirut: Dar Sadir, 1964), p.95,1.6. 2- D.B. MacDonald, Development of Muslim Theology Jurisprudence, and Constitutional Theory (New York, 1903), p.273: "a man most able and learned in many sciences, but with a screw loose." 3- op. cit., loc. cit. 4- E.g., Takhjil ahl al-Injil; or Takhjil man harrafa 'I-Injil; Jawab as-sahih li-man baddala din al-Masih; Mas'alat al-kana'is; etc. For a list of such works and bibliographical details, see C. Brockelmann, Geschichte der arabischen Literatur (GAL), Supplement II )Leiden: E.J. Brill, 1938), p:123, under "Polemik gegen die Dimmiya." 5- M. Schreiner, "Beitrage zur Geschichte der theologischen Bewegungen im Islam," in Zeitschrift der Deutschen Moregenlandischen Gesellschaft (ZDMG), vols. 52 (1898) and 53 (1899). 6- Ibid., vol. 62 (1908), pp.1-28. 7- Ghazzali came to Baghdad as professor of Shafi 'i law in 484 H. 8- This is said to have taken place after he left Baghdad in 488 H. 10- S. de Laugier de Beaurecueil, O.P., Ansariyat I: Mahmud al-Firkawi, Commentair du Livre des Etapes (Cairo: Institute Francais d' Archeologle orientale, 1953); idem, Khwadja 'Abdullah Ansari: Mystique hanbalite (Beyrouth: Imprimerie Catholique. 1965); and several of the studies published in Melanges (de Institute Dominicain d' Etudes Orientales) (Cairo: Dar al-Ma'arif, 1954 ff). 11- Walther Braune, Die Futuh al-Gaib des 'Abd al-Qadir (Berlin- Leipzig: Walther de Gruyter, 1933). 12- I. Goldziher, "Zur Geschichte der hanbalitischen Bewguiegen," in ZDMC vol. 62 (1908), pp.10-11; idem. Le Dogme, pp.144-145. 13- Henri Laoust, Essai sur les doctrines sociales et politiques de Taki-d-Din Ahmad b. Taimiya (Cairo: Institute Francais d'Archeologie Orientale, 1939). 14- H. Laoust, Essai, pp.91 f.; idem, article "Ibn Taymiyya," Encyclopedia of Islam (EI) (2nd ed.), p.953b. 15- H. Laoust, Essai, p.89. 16- G.C. Anawati and Louis Gardet, Mystique musulmane (Paris: j. Varin, 1961), p..82,162. 17- F. Rahman, Prophecy in Islam: Philosophy and Orthodoxy (London: G. Allen and Unwin, 1958), p.92. 18- F. Rahman, Islam (New York: Holt, Reinhart and Winston, 1966), p.195; Ibn Taimiya's disciple Ibn Qaiyim al-Jauziya is cast in the same role. 19- W.M. Watt, Islam and the Integration of Society (London: Routledge and Kegan Paul, 1961), p.246. 20- See EI, article "Abd al-Kadir al-Djili," by W. Braune, and the bibliography cited there; also H. Laoust, "Le Hanbalisme sous le califat de Bagdad", in Revue des Etudes Islamiques (REI) (1959), p..110-12 21- See the biographical notice on him in Ibn Rajab, Dhail 'ala Tabuqat al-hanabila, 2 vols., ed., M. Hamid al-Fiqi (Cairo: as-Sunna al-Muhammadiya Press, 1372/1952-53), vol.II, pp.52-61. 22- See EI, article "Ibn Kudama al-Makdisi" (by G. Makdisi) and the bibliography cited there. 23- See GAL, vol. I, p.399, Suppl. 1. p.691; also Ibn Rajab, op. cit., vol. II, pp.304-10. 24- See GAL, vol. II, pp. 105f., Suppl. II, pp. 12ff.; H. Laoust, "Le Hanbalisme sous les Mamlouks Bahrides", in REI (1960), 66-68. 25- See GAL, Suppl. I, p. 774 (no.6). 26- See EI, s.v., by S. De Laugier de Beaurecueil. 27- See EI, s.v., by G. Makdisi. 28- Chester Beatty Arabic Ms. 3296 (8), folios 49a 70b. 29- See now G. Makdisi, "L'lsnad initiatique soufi de Muwaffaq ad-Din ibn Qudama", in Massignon (Cahier de l'Herne, 1970), pp.88-96. 30- For the identification of each link in this chain, see G. Mekdist, op. cit.,pp.90-92. 31- On this Sufi, who was severely criticized by Ibn 'Aqil. see G. Makdisi, ibn Aqil et la resurgence de l'Islam traditionaliste au Xle siccle (Damas, Institut Francais de Damas, 1963), p.376, n. I and p. 383. n. I (including biographical notices). 32- See G. Makdisi, op. cit., index, s.v. "al-Muharrimi" (esp. p.256 and n.3). 33- See also Ibn Taimiya, Ihtijaj, in MRK, vol. II, pp.116-117. 34- Another manuscript of the same work is preserved in the Leipzig University Library, Arabic Ms. 223. 35- See Ibn Tainniya, Majmu'at ar-rasail al-kubra (MRK), 2 vols. (Cairo: ash-Sharafiya Press, 1323/1905), vol.II,pp.64-79. 36- Op. cit., pp.80-86. 37- Op. cit., pp.87-145. 38- Fol. 122b (lines 17-18) of the Princeton Ms: wa-inkaru Abi-Hamid al-Ghazzali wa-Abi Muhammad al-Maqdisi [Ibn Qudamal] tariqatu 'I-fuqaha. Note that it Ibn Taimiya here who is criticizing his fellow Hanbali Ibn Qudama as well as Ghazzali as being too legalistic__a criticism Ghazzali has also leveled against the jurists. ظ ظ ظ شیخ عبدالواحد یحییٰ ؒ(رینے گینوں) حیات و خدمات شیخ عبدالحلیم محمود جامعہ ازہر کے چانسلر تھے۔ موصوف نے سوربون سے ڈاکٹریٹ کی تھی۔ تصوف اور اسلام سے خصوصی دلچسپی تھی اوران موضوعات پر درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔ خود بھی صوفی تھے اور سلسلہ شاذلیہ میں بیعت تھے۔یہ مضامین ان کی یادداشتوں کے عربی سے اردو ترجمے پرمشتمل ہیں۔ اضافی مواد انگریزی اور فرانسیسی مآخذ سے لیا گیا ہے۔ میں عبدالواحد یحییٰ سے کیسے متعارف ہوا جون۱۹۴۰ء کا وہ خوب صورت اور روشن دن مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اس روز میں جلدی جاگ گیا تھا اور اپنے کو اس معرکۂ علمی کے ہنگامے کے لیے تیار کررہا تھا جو سوربون یونی ورسٹی میں میری ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے انٹرویو کی صورت میں ہونے والا تھا۔ یونی ورسٹی کی روشوں پر سے گزرتے ہوئے جدھر نگاہ دوڑاتا تھا گھبرائے ہوئے چہروں اور دہشت زدہ لوگوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ جرمن پیرس کے سر پر آپہنچے تھے اور ان کی راہ میں حائل ہونے والے قلعے اور حفاظتی اقدامات حملے کی تندی کا سامنا کرنے سے معذور تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود میں اپنی ہی دھن میں مگن تھا۔ میرے ذہن میں صرف وہ سوالات گردش کررہے تھے جن سے مجھے دوچار ہونا تھا اور وہ تنقید گھوم رہی تھی جس کا مجھے سامنا کرنا تھا۔ یونی ورسٹی کے احاطے میں پہنچا تو پال ریوولیٹی کو اپنی تلاش میں پایا۔ پال سفید روس کے مہاجرین میں سے تھا وہ ایک کتاب ہاتھ میں لیے میرا انتظار کررہا تھا۔ کتاب کا عنوان تھا دانتے کا تصوف۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں وہ کتاب مصر میں عبدالواحد یحییٰ کو پہنچادوں اس کو معلوم تھا کہ انٹرویو کے بعد میں وطن لوٹ جاؤں گا۔ میں نے پوچھنے کی کوشش کی کہ عبدالواحد یحییٰ کون ہیں مگر وہ چپ سادھے رہا۔ انٹرویو ختم ہوگیا۔ فرانس میں میرا دورِ قیام اپنے خیرو شر اور تلخ و شیریں سمیت گزر گیا اور انجام کار میں قاہرہ چلا آیا۔ اپنے مستقر پر پہنچتے ساتھ ہی میں شیخ عبدالواحد یحییٰ کے گھر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ پوچھتا پاچھتا شارع نوال پر محلہ الدقی کے ایک مکان پر جاکر دستک دی۔ ایک نوکر نے باہر جھانکا میں نے کتاب اس کے حوالے کردی اور اس سے کہا کہ میں شیخ سے ملنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ نوکر اندر چلا گیا۔ میں اجازت کا منتظر کھڑا تھا کہ وہی نوکر ہاتھ میں لکڑی کی ایک سٹول نماکرسی لیے باہر نکلا اور اس پر گدی جماکر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’آپ یہاں بیٹھ کر کچھ دیر انتظار فرمائیے۔‘‘ میں دروازے کے باہر سڑک پر بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ وقت گزرتا رہا۔ انتظار طویل ہوتا گیا وہی نوکر پھر نظر آیا۔ میں بے تاب ہوکر اندر داخل ہونے کو تھا کہ اس نے مجھ سے درخواست کی ’’آپ آج تو لوٹ جائیے کل گیارہ بجے صبح آجائیے گا۔‘‘ میں تلملاتا ہوا منہ لٹکائے لوٹ آیا۔ میرے دل پر ایک رعب سا طاری تھا اور چہرے پر خجالت کی چھاپ، تاہم اس واقعہ نے میری آتش شوق کو اور بھڑکادیا کہ ان صاحب کو دیکھوں تو سہی جو اپنے ملاقاتیوں کے لیے سڑک پر کرسی بچھوا دیتے ہیں اور پھر ان کو نامراد لوٹاکر اگلے روز آنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگلے دن میں وقت مقررہ پر پہنچ گیا پھر بھی دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے مجھے کھٹکا لگا ہوا تھا، نہ جانے آج بھی داخلہ ہوتا ہے یا نہیں مگر آج بھی میری قسمت میں کل سے کچھ زیادہ کامیابی نہ تھی چنانچہ مجھے لوٹا دیا گیا اور کسی وعدۂ امید پرور کے بغیر۔ اس نوکر نے آج جو پیغام لاکر دیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ جو چاہتے ہیں شیخ کے نام لکھ دیجیے وہ جب پسند کریں گے اس کا جواب دے دیں گے۔ یوں میں دو دن ان سے ملاقات کرنے کی کوشش میں برباد کرکے لوٹ آیا کوئی تحریر چھوڑے بغیر، اس لیے کہ میرے لیے ان سے ملاقات اس مراسلت اور جواب سے زیادہ اہم تھی اور پھر میں لکھتا بھی کیا؟ دن گزرتے گئے مگر میرے ذہن میں یہ سوال باقی رہا… یہ شیخ عبدالواحد یحییٰ ہیں کون؟ پھر ایک روز میں موسیوڈی کومینن کو ملنے گیا۔ وہ مصر میں فرانس کے ثقافتی اور علمی روابط کے مدیر تھے۔ گفتگو حسبِ معمول ان کے مشاغل اور علوم کی طرف نکل گئی وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم رینے گینوں کو جانتے ہو جب میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ مجھے ان کے اور ان کے اسلامی نام کے بارے میں بتانے لگے… عبدالواحد یحییٰ… میں نے خود پر جو گزری تھی کَہ سنائی۔ انھوں نے مجھے ہمت دلائی کہ میں پھر ملاقات کی کوشش کروں مگر مجھے اپنے اندر عزیمت کی کوئی رمق محسوس نہ ہوتی تھی جو مجھے اس کوشش پر دوبارہ آمادہ کرسکے۔ لکڑی کا وہ سٹول میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا تھا… چند روز اور گزر گئے۔ پھر ایک روز ڈاک سے مجھے موسیوکومینن کا خط ملا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ مصر میں ارجنٹائن کے سفیر موسیوہیکٹورمادپرو ان سے ملنے آئے تھے اور متمنی تھے کہ ان کی راہنمائی کسی ایسے شخص تک کردی جائے جو ان سے فلسفۂ اسلام اور تصوفِ اسلامی کے باب میں گفتگو کرسکے۔ موسیو کومنین کے خیال میں میں اس کام کے لیے مناسب ترین شخص تھا لہٰذا انھوں نے مجھے سفیر صاحب سے ملنے کی ہدایت کی تھی۔ میں سفیر صاحب سے جاکر ملا۔ انھوں نے چھوٹتے ہی مجھ سے سوال کیا ’’تم رینے گینوں کو جانتے ہو؟‘‘ ایک بار پھر میرے ذہن میں وہ کتاب لکڑی کا سٹول اور موسیوکومینن کی گفتگو چکر لگانے لگی۔ میں نے سفیر صاحب کو سب کچھ کَہ سنایا وہ کہنے لگے کہ بھئی آپ نے تو بڑا معرکہ سرکیا کہ ان کے گھر کا پتہ لگالیا۔ یہی بڑی بات ہے۔ کیونکہ فرانسیسی سوئس اور دوسرے ممالک کے صحافی جب مصر آتے ہیں تو ان کے پیشِ نظر ایک مہم رہنے گینوں کی تلاش کی بھی ہوتی ہے وہ کبھی ازہر کے محلے کا رخ کرتے ہیں۔ کبھی سیّدنا حسین کے محلے کا، کبھی سیّدہ زینب کا مگر ان کو کھوج نہیں نکال پاتے اور دل میں حسرت لیے لوٹ جاتے ہیں کہ ان کا مصر کا سفر بار آور نہ ہوسکا۔ چنانچہ اس روز میرے اور موسیوماویرو کے درمیان طے پایا کہ ہم شیخ عبدالواحد اور اپنے مابین اس حجاب کو دور کرکے دم لیں گے۔ وہ دن مجھے کبھی نہ بھولے گا۔ اتوار کا دن تھا جب ہم نے دروازہ کے سامنے پہنچ کر گھنٹی بجائی اور شیخ نے خود آکر دروازہ کھولا۔ طویل القامت، نور سے دمکتا رعب دار چہرہ، پروقار و پرجلال، آنکھوں میں ذہانت کی چمک اور صلاح و تقویٰ کی شہادت، شیخ ہمارے روبرو کھڑے تھے ہم نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے ہمارے سلام کا جواب دیا اور ہمارے آنے کا مقصد پوچھا۔ سفیر صاحب نے ان کے ایک دوست کا سلام ان کو پہنچایا۔ اپنے دوست کا نام سن کر شیخ نے ہمیں اندر آنے کو کہا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ شیخ بالکل خاموش تھے۔ ممکن تھا کہ ہماری ملاقات ایک زحمت بن جاتی مگر سفیر صاحب کی ڈپلومیسی کام آگئی۔ انھوں نے شیخ عبدالواحد کے آرا و افکار کی بات چھیڑ دی اور ان کی تعریف شروع کردی۔ ان کی دقتِ نظر کی تعریف کی، یہ ہوتا رہا اور شیخ عبدالواحد خاموش۔ ان کے لبوں کو جنبش تک نہ ہوئی حتیٰ کہ محفل ختم ہوگئی ہم نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں دوبارہ ملاقات کے لیے حاضر ہونے کی اجازت دی جائے جو انھوں نے ازراہ تلطف قبول کرلی۔ ملاقات سے فارغ ہوکر جب ہم سفارت خانہ پہنچے تو سفیر صاحب نے اپنی بیگم سے کہا ’’ہم نے ایک بہت اہم شخصیت سے ملاقات کی۔ جانتی ہو کون؟ کوئی وزیر! اس سے بھی بڑا۔ رئیس الوزرائ! اس سے بھی بڑا! بادشاہ! اس سے بھی بڑا! ارے تو اور کیا خدا! بس ایک اللہ والا تھا اس کا نام رینے گینوں ہے وہ مرعوب اور متعجب ہوکر کہنے لگی، واقعی آپ دونوں تو خوش نصیب ہیں۔ ہماری ملاقاتیں بڑھتی گئیں۔ شیخ عبدالواحد باتیں کرنے لگے ہم ان سے باتوں باتوں میں بہت کچھ سیکھتے رہے انھوں نے ہمیں بتایا کہ ان کی عزلت گزینی صرف ان ناسمجھوں کے لیے تھی جو سوائے شخصی باتوں اور ذاتی احوال کی کُرید میں وقت ضائع کرنے کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتے۔ ہم میں چونکہ ان کو معرفت کی طلب صادق نظر آئی تھی لہٰذا ان کے اور ہمارے درمیان کوئی حجاب نہیں رہا۔ اس کے بعد ہماری ہمت بڑھی تو ہم انھیں ان کے حجرے سے نکال کر اپنے ساتھ مسجد سلطان ابولعلیٰ لے جاتے کبھی کسی حلقۂ ذکر میں جابیٹھتے اور منہ ہی منہ میں کچھ دہرانے اور جھومنے لگتے۔ آہستہ آہستہ ان کے الفاظ واضح اور جنبش تیز ہوجاتی۔ کبھی وہ دوسرے ذاکرین کے ساتھ مل کر اونچی آواز میں ہل ہل کر ذکر کرنے لگتے کبھی ان کی آواز ڈوب جاتی اور وہ ذکر میں مستغرق ہوجاتے۔ کچھ دیر بعد میں انھیں ٹہوکہ دے کر متوجہ کرتا تو وہ اس طرح زور سے جھرجھری لیتے گویا میں انھیں دوسرے عالم سے کھینچ لایا ہوں۔ دن پر دن گزرتے رہے سفیر صاحب واپس چلے گئے۔ شیخ عبدالواحد وفات پاگئے اور میرے دل میں حسین یادیں باقی رہ گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے امام غزالی کی کتاب المنقذمن الضلال شائع کرنے کی توفیق دی اس کے مقدمے میں مَیں نے تصوف کے بارے میں شیخ عبدالواحد کے بعض مقالات کا خلاصہ بھی شامل کردیا۔ پڑھنے والوں نے اس حصے کو بہت پسند کیا اس سے مجھے جرأت ہوئی کہ شیخ کے تحریروں سے استفادہ کروں اور دوسروں تک پہنچاؤں۔ (۲) شیخ عبدالواحد (رینے گینوں) ۱۵نومبر۱۸۸۶ء میں بلوا۱؎ (Blois)کے ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ خاندان کھاتا پیتا خوش حال تھا۔ ان کے والد ایک معزز انجینئر تھے۔ شیخ کا بچپن بہت پرسکون اور محفوظ گزرا۔ طفولیت ہی سے غیر معمولی ذہانت کی علامات نمایاں تھیں۔ تعلیم کا آغاز آبائی وطن سے ہی کیا اور اپنے ساتھیوں میں ہمیشہ ممتاز اور فائق رہے۔ ۱۹۰۴ء میں بکالوریا (Bachelor) کی ڈگری حاصل کی جس کے ساتھ ان کو خاص امتیازی اسناد بھی دی گئیں اسی سال وہ ریاضی میں (لیسانس) کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے عازم پیرس ہوئے۔ دو برس یونی ورسٹی کی تعلیم میں گزارے۔ پیرس میں ان کا حصول علم صرف رسمی درسیاتی تعلیم تک محدود نہ رہا۔ وہاں ان کے لیے اور بہت سے دروا ہوئے، لذت بخش اور نعمتوں سے بھرپور۔ اس سے ہماری مراد نہ تو حسیاتی لذت ہے نہ مادی انعام۔ بے شک پیرس یہ چیزیں بھی مادیین اور حسیات میں محصور لوگوں کے لیے فراہم کرتا رہا ہے مگر ساتھ ہی پیرس میں لذاتِ روحانی اور انعاماتِ وجدانی کا سامان بھی تھا، صرف ان کے لیے جو دنیا اور اس کی زینت سے دھوکا نہیں کھاتے۔ گینوں بھی اس دوسری قسم کے لوگوں میں سے تھے۔ انھیں معرفت کی دھن تھی۔ ان کی توجہ کا مرکز زمین نہیں آسمان تھا وہ چاہتے تھے کہ حجابات دور کرکے، تمام پردے چاک کرکے واصل الی اللہ ہوجائیں۔ ان کی حالت امام غزالی جیسی تھی جو ہمیں ان کی تحریروں سے معلوم ہوئی ہے۔ ’’اپنے عنفوان شباب سے لے کر… بیس برس کی عمر سے آج تک کہ عمر کے پچاس برس پورے ہوتے ہیں میں اس بحرِ عمیق (بحر معرفت) میں غوطہ زن ہوں اور اس کی گہرائی میں اُترنے کی جسارت کررہا ہوں بے دریغ، ڈرتے بچتے نہیں۔ ہر اندھیرے میں گھستا ہوں، ہر مسئلہ کا سامنا کرتا ہوں۔ ہر گرہ کھولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہر فرقہ کے عقیدے کی چھان پھٹک کرتا ہوں، ہر گروہ کے مسلک کا انکشاف کرتا ہوں تاکہ حق و باطل اور مسنون اور بدعت میں تمیز کرسکوں۔ کسی باطنی کو نہیں چھوڑتا کہ اس کی باطنیت سے آگاہ نہ ہوں۔ کسی ظاہری کو نہیں جانے دیتا حتیٰ کہ اس کی ظاہریت کا حاصل نہ معلوم کرلوں، نہ کسی فلسفی کو جب تک کہ اس کے فلسفے کی کنہ سے واقف نہ ہوجاؤں اور نہ کسی متکلم کو جب تک کہ اس کے کلام اور مجادلہ سے مطلع نہ ہوجاؤں، نہ صوفیا کو کہ ان کا راز جان نہ لوں، نہ کسی عابد کو کہ جب تک اس کی عبادت کا حاصل نہ جانچ لوں، نہ ہی کسی زندیق کو نظر انداز کرتا ہوں جب تک اس کے زندقہ اور فسق کے اسباب نہ معلوم ہوجائیں…‘‘ بالکل یہی کیفیت گینوں کی تھی۔ پیرس میں رہ کر وہ رسمی درسیات سے دور ہوتے گئے وہاں طرح طرح کی ثقافتیں موجود تھیں۔ ہر رنگ کی جماعتیں اور مکاتب فکر تھے۔ فری میسن تھے، وہ مکاتب فکر تھے جو اپنی نسبت ہندوستان، تبت یا چین سے کرتے تھے۔ یہیں گوناگوں روحانیت کے لوگ اپنے مختلف مشارب اور نزاعات سمیت پائے جاتے تھے وہ لوگ بھی تھے جو جادو کے دعوے دار تھے، منجم تھے یا عناصر میں تصرف اور حاضرات روح کرتے تھے۔ گینوں نے یونی ورسٹی کی تعلیم کو بلاتاسف خیرباد کہا اور ان مختلف ماخذ سے اپنی پیاس کی تسکین کا سامان کرنے لگے۔ ان سے منسوب ہوکر ان کو قریب سے دیکھنا شروع کیا۔ ان کے مدعا اور مقصود سے آگاہ ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ ان میں اس طرح شامل ہوئے کہ ان مکاتب فکر نے ان کو اپنے ہاں کے کاہنوں میں اونچے درجے پر فائز کردیا… مگر ان کا یہی قرب و اختلاط ان فرقوں اور تنظیموں سے ان کی علیحدگی کا باعث بھی بن گیا اس لیے کہ اس میل جول سے ان پر کھل گیا کہ ان میں سے کون طیب اور کون خبیث ہیں۔ ان کی تنقیدی بصیرت نے ان کی رہبری کی۔ اپنی متوازن سوچ کی رہنمائی میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان تنظیموں میں سے زیادہ تر محض کھوکھلی اور سطحی ہیں اور انسان کو حقیقتاً ماورالطبیعات کی معرفت حاصل کرنے میں کوئی مدد نہیں دے سکتیں۔ نہ ہی انھیں رفع حجابات پر کوئی قدرت ہے۔ آہستہ آہستہ وہ ان سے دور ہونے لگے۔ پھر بھی ان جھنجھٹوں سے نکلتے نکلتے انھیں ۵برس لگ گئے۔ ۱۹۰۹ء میں انھوں نے ایک رسالہ جاری کیا المعرفۃ۔ یہ رسالہ بھی اسی نہج پر گامزن ہوا جو اس کے پیشرو رسالہ الطریق نے قائم کی تھی۔ دونوں رسالوں کا مزاج اور مواد متصوفانہ تھا۔ الطریق کے نکالنے میں ایک فرانسیسی عالم شمیرینو مدد کرتے تھے۔ وہی اس کی پالیسی کے بھی ذمہ دار تھے شمیرینو نے اسلام قبول کرلیا ان کا نام عبدالحق رکھا گیا۔ ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۹ء تک وہ اس مجلہ کی اشاعت میں مدد کرتے رہے پھر متعدد اسباب کی بنا پر یہ رسالہ بند ہوگیا۔ اسی اثنا میں گینوں کا تعارف عبدالحق سے ہوا اور عبدالحق المعرفۃ کی تحریر و تربیت میں گینوں کی مدد پر آمادہ ہوگئے اس رسالہ میں اسلام، ہندومت، بدھ مت سے متعلق مباحث شائع ہوتے تھے۔ کبھی ان گمراہ فرقوں پر تنقید بھی ہوتی تھی جو روحانیت کے مدعی بنے ہوئے تھے۔ یہ مجلہ ۱۹۱۲ء تک جاری رہا۔ اسی سال گینوں مسلمان ہوگئے۔ ان کا نام الشیخ عبدالواحد یحییٰ رکھا گیا۔ گینوں کا قول ہے کہ وہ مشرقی ادیان تک ان کے نمائندوں سے ملاقات کے ذریعے پہنچے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ ان میں سے کن کن سے وہ ملے؟ پھر گینوں نے ایک کتاب شیخ عبدالرحمن علیش کو معنون کی تھی۔ یہ شیخ عبدالرحمن علیش کون تھے؟ گینوں ان کو کیسے جانتے تھے؟ کیا وہی تھے جنھوں نے گینوں کو اسلام کی راہ دکھائی؟ اگر ہاں تو کیسے؟ یہ سب سوالات اس وقت تک ناقابل حال اور اُلجھے ہوئے تھے جب تک میثل والساں (Michel Valsan) نے اپنے مضمون مشمولہ، ایتود ترادسیونل، جنوری ۱۹۵۳ء میں ان پر روشنی نہیں ڈالی۔ شیل والساں (مصطفی عبدالعزیز) نے گینوں کے بعد اسلام قبول کیا اور عربی میں مہارت حاصل کی۔ اس مضمون کا خلاصہ ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔ (۳) الشیخ عبدالرحمن علیش کا خاندان المغرب کا رہنے والا تھا۔ اس کے مشہور افراد میں سے شیخ محمد علیش الکبیر ہیں (۱۲۱۸-۱۲۹۹ھ) انھوں نے ازہر سے تعلیم مکمل کی اور وہیں پر ۱۲۴۵ھ میں مسند تدریس پر فائز ہوئے۔ ان کے درس میں تقریباً دو سو طلبہ شریک ہوئے تھے مصر میں فقہ مالکی کے مطابق فتویٰ بھی ان کے ذمہ تھا۔ ایک معاصر شہادت کے مطابق ’’زندگی کا بیش تر حصہ تصنیف و تالیف، تدریس اور عبادت میں دنیا کے جھمیلوں سے الگ تھلگ بسر کیا۔ اللہ کی راہ میں کسی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ بہت سی کتابیں ازہر میں پڑھانے جانے والے مختلف فنون میں تالیف کیں۔ خدیو توفیق کے دور میں آوازِ حق بلند کرنے پر ان کی مخالفت بھی کی گئی مگر وہ اس آزمایش میں کامیاب ہوئے اور خُدیو مصر کے ہتھکنڈے ان پر کاگر نہ ہوسکے۔ انھی کی اولاد عبدالرحمن علیش تھے۔ گینوں اور محی الدین ابن عربی کا رشتہ تو سامنے کی بات ہے۔ گینوں نے اسلام بھی ایک ایسے شیخ کے واسطے سے قبول کیا جس کی روحانی نسبت شیخ اکبر ہی سے تھی یعنی شیخ علیش الکبیر۔ انھی کے نام گینوں نے اس عنوان سے ایک کتاب کا انتساب بھی کیا۔ ’’ان مقدس یادوں کے لیے …شیخ عبدالرحمن علیش الکبیر، المالکی، المغربی کی یاد کے نام، جنھوں نے مجھے اس کتاب کا اولین خیال سجھایا، مصر۱۳۲۹-۱۳۴۷ھ‘‘ شیخ عبدالرحمن علیش الکبیر کی شخصیت ایک اور پہلو سے بھی اہم ہے۔ تصوف میں تو وہ صاحبِ عظمت تھے ہی ان کے دوسری صفت کی طرف گینوں نے ایک خط میں اشارہ کیا ہے ’’شیخ علیش طریقہ شاذلیہ کی ایک شاخ کے مرشد بھی تھے اور ساتھ ہی ازہر میں فقۂ مالکی کے مفتیِ اعظم بھی۔‘‘ طریقہ شاذلیہ وہ سلسلہ تصوف ہے جس کی بنا ساتویں صدی ہجری میں شیخ ابوالحسن الشاذلی نے رکھی تھی۔ جو مسلمانوں کی بہت بڑی روحانی شخصیت تھے۔ تو گینوں کی نسبت جس شیخ کی طرف کی جاتی ہے اس میں دو صفات مجتمع تھیں۔ شریعت اور شریعت کی حقیقت۔ وہ شیخ طریقت بھی تھے اور فقیہ مالکی بھی۔ گینوں کی اسلام کے بارے میں آرا یا بحیثیت مجموعی ان کی فکر کے حوالے سے شیخ علیش کی اہمیت ہمارے لیے دوچند ہوجاتی ہے کیونکہ وہی تھے جنھوں نے گینوں کو ’’رمزیتِ صلیب‘‘ کا خیال دیا، وہی تھے جنھوں نے گینوں کے لیے راہ نکالی اور انھیں راستہ دکھایا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ پڑھنے والے ان کے اور گینوں کے تعلق سے آگاہ ہوجائیں۔ ان کے بارے میں جو باتیں ہم بیان کریں گے ان کا مآخذ وہ عربی، اطالوی مجلہ ہے جو قاہرہ سے ۱۹۰۷ء میں النادیکے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس رسالہ کے روحِ رواں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے افکار تھے یہ رسالہ بعد میں جاری ہونے والے تمام فرانسیسی رسالوں کا پیش رو اور ہراول تھا۔ گینوں اس رسالے میں لکھا کرتے تھے۔ اس رسالے کے دونوں حصوں یعنی عربی اور اطالوی میں جو مصنف سب سے نمایاں تھا وہ تھے عبدالہادی۔ عبدالہادی اصل میں فن لینڈ کے عیسائی تھے۔ نام ان کا آئیوان گسٹاف تھا۔ پھر وہ اسلام لے آئے، عربی زبان سیکھی اور اس مجلہ میں مقالات لکھنے لگے۔ اس میں انھوں نے صوفیا نے اسلام کے بعض رسائل چھپوائے جو شیخ اکبر کے مؤلفات میں سے تھے اور بعض متون کا ترجمہ بھی کیا۔ اس رسالے میں شیخ عبدالرحمٰن علیش کا بہت تذکرہ رہتا تھا۔ اس رسالے میں خود شیخ علیش نے ایک خاص مقالہ محی الدین ابن عربی پر لکھا تھا۔ عبدالہادی کے شیخ عبدالرحمن علیش سے ذاتی تعلقات تھے۔ ان کی تحریر سے ہمیں شیخ کے بارے میں بہت سی نفیس معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کی رائے میں شیخ مشہور اسلامی شخصیات میں سے تھے۔ شیخ کے والد فقہ مالکی کے بہت بڑے عالم تھے۔ خود شیخ بڑی گہری فکر کے مالک تھے۔ ہر کوئی ان کا احترام کرتا تھا عوام بھی اور امرا و سلاطین بھی عالم اسلام میں پھیلی ہوئی بہت سی دینی جماعتوں کے شیخ تھے اور زعماء اسلام میں سے تھے۔ اسی طرح تصوف ہیں، فقہ میں اور سیاست کے حوالے سے بھی ان کا مقام بہت بلند تھا۔ باایں ہمہ وہ اور ان کے والد سیاست کی تمام آلودگیوں سے بہت دور تھے۔ ان کے خلاف ایک بے بنیاد تعصب پھیلایا گیا جس کا آغاز ان کے اس فتویٰ سے ہوا تھا جس کے باعث اعرابی پاشا کی بغاوت (۱۸۸۲ئ) میں ظہور میں آئی۔ اسی سال ان دونوں کو قید کردیا گیا۔ انھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کے والد کا توقید خانے میں ہی انتقال ہوگیا۔ البتہ شیخ کی عمر قید جلاوطنی میں تبدیل کردی گئی مگر ان کی تکالیف نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ان کی شہرت اور خاندانی اثر و رسوخ سے خوف کھاکر ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ خلافتِ اسلامیہ قائم کرنا چاہتے ہیں، اپنے لیے یا سلطان مراکش کے نام پر۔ اس طرح انھیں پھر قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ دوبرس انھوں نے ایک متعفن اور بدبودار کوٹھڑی میں گزارے جہاں ان کے اور بھی سامانِ اذیت کیا گیا تھا۔ انھیں دھمکانے خوفزدہ کرنے کے لیے ان کے سامنے بعض عمرقید کے قیدیوں کو قتل کیا جاتا رہا۔ آخر انھیں جیل سے نکال کر رودس میں جلاوطن کردیا گیا۔ دمشق میں ان دنوں امیرعبدالقادر الجزائری کا بھی قیام تھا۔ شیخ اور امیر عبدالقادر میں گہری دوستی کا رشتہ استوار ہوگیا۔ دونوں میں اس پرخلوص محبت کی بنیاد شیخ اکبر تھے جن کے مطالعہ کے لیے امیر نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وقت لگایا اور جن کی تعلیمات امیر کے دل کو کچھ ایسی لگیں کہ انھوں نے فتوحات مکیہ کی پہلی طباعت کا خرچ بھی برداشت کیا۔ کتاب کی ضخامت ۲۵۰۰ صفحات کے قریب تھی۔ جب امیر کا انتقال ہوا تو شیخ نے ان کو کفن دیا، ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور ان کو صالحیہ میں شیخ اکبر کے مقبرہ کے قریب دفن کردیا۔ ملکہ وکٹوریہ نے شیخ کے لیے معافی کا اعلان کردیا تو وہ مصر لوٹ آئے اور قاہرہ میں مقیم ہوگئے۔ ان کا نور قاہرہ سے عالم اسلامی کی تمام اقالیم میں پہنچنے لگا۔ وہ خود بھی صغائر الاثم سے دور رہتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی دور رکھتے تھے۔ جب بھی آپ کسی مشرقی آدمی سے ملیں اور آپ کو اس میں اخلاق کی بلندی اور وسعت معرفت نظر آئے تو جان لیجیے کہ وہ لازماً شاذلی ہوگا۔۲؎ النادی نے شیخ علیش کا مقالہ شائع کیا جو محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ کے بارے میں تھا۔ اس مقالے کے اختتام پر شیخ نے عبدالہادی کا شکریہ ادا کیا ہے ان کی خدمات کے لیے جو انھوں نے لوگوں کو ابنِ عربی سے متعارف کروانے کے سلسلے میں انجام دیں پھر یہ کَہ کر مقالہ ختم کردیا کہ عبدالہادی کو چاہیے کہ وہ تصوف میں اپنے مطالعات کو جاری رکھیں اور ان لوگوں کے بھڑکنے اور بدکنے کی پرواہ نہ کریں جو اسلام کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ اس مقالے کے چھپنے کے بعد رسالے میں ایک اعلان کیا گیا کہ اٹلی اور مشرق میں ابن عربی کی تدریس اور مطالعہ کے لیے ایک جمعیت تشکیل دی گئی ہے جس کا نام الاکبریۃ ہوگا۔ اس کا منہاج مندرجہ ذیل تھا۔ ۱- ابن عربی کی تعلیمات کی اشاعت اور تدریس خواہ ان کا تعلق شریعت سے ہو یا اس کی حقیقت سے۔ ان کی اور ان کی تلامذہ کی تصانیف کی طباعت کا انتظام اور ان کی شرح۔ ان کے بارے میں تقاریر، محاضرات اور ان کی آرا کی تشریح کے لیے مذاکرات۔ ۲- شیخ اکبر کے متبعین کو زیادہ سے زیادہ اکٹھا کرنا اور انھیں ایک مضبوط رشتے میں منسلک کرنا۔ مشرق و مغرب کے چنے ہوئے خواص (Elite) میں فکری روابط کو فروغ دینا۔ ۳- ان لوگوں کی مادی مدد اور تحریری ہمت افزائی کرنا جو ابنِ عربی کے چھوڑے ہوئے نقوش کی پیروی کررہے ہیں خصوصاً وہ لوگ جو ان کی کسی دعوت کو اپنے قول و عمل سے پھیلا رہے ہوں۔ ۴- جمعیت کا کام صرف اسی تک محدود نہ ہوگا بلکہ وہ دوسرے مشرقی صوفیا مثلاً مولانا جلال الدین رومی وغیرہ کی تدریس اور اشاعت کا بھی اہتمام کرے گا۔ ہاں اس کی کاوشوں کا مرکز ابن عربی ہی رہیں گے۔ ۵- جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اور یہ دین و دانش کے دائرہ سے باہر نہ نکلے گی۔ چنانچہ عبدالہادی نے تعلیمات ِ تصوف کی اشاعت کا آغاز کردیا۔ قسمت نے یاوری کی اور انھوں نے ابن عربی علیہ الرحمۃ کے تقریباً ۲۰ رسائل محظوطات کی شکل میں دریافت کرلیے جو بالکل نادر الوجود اور بیش قیمت تھے اور ان کی تحلیل میں معروف ہوگئے۔ لیکن افسوس کہ ان کا رسالہ بھی تصوف کے دشمنوں کے شر سے محفوظ نہ رہ سکا اور آخر کار بند ہوگیا۔ عبدالہادی نے شیخ علیش کے اشارے پر مشرق و مغرب کے درمیان روحانی روابط استوار کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور گینوں سے ملنے کے لیے فرانس روانہ ہوگئے۔ اس زمانے میں گینوں مجلہ المعرفۃ نکالتے تھے۔ ۱۹۱۰ء سے عبدالہادی نے اس رسالے میں گینوں کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ اس رسالہ میں ان کی بہت سی تحقیقات شایع ہوتی رہیں بالخصوص صوفی متون کے فرانسیسی تراجم۔ گینون اور ان کی رفاقت اس طرح بارآور ہوئی کہ ان کے ذریعے گینوں کا تعلق شیخ علیش سے پکا ہوگیا۔ ان دونوں کے درمیان خط و کتابت جاری رہی۔ گینوں اپنی آرا سے انھیں آگاہ کرتے رہے۔ اس سوال کے جواب کے نتیجے میں ۱۹۱۲ء میں گینوں نے ایک طویل تحقیق اور مطالعہ کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ ۱۹۱۴ء میں جنگ چھڑگئی۔ دین، روح اور فکر سے متعلق تمام سرگرمیاں معطل ہوگئیں۔ عبدالہادی ہسپانیہ چلے گئے اور وہاں برشلونہ کے شہر میں ۱۹۱۷ء میں اپنے رب سے جاملے۔ گینوں ان کے نقشِ قدم پر اکبریۃ کے لیے کوشش کرتے رہے۔ فی الواقع گینوں کو جو کچھ بنایا شیخ علیش ہی نے بنایا۔ وہ ایک ایسا آئینہ تھے جس میں ابنِ عربی شیخ اکبر کا عکس جھلکتا تھا۔ ایک طرف وہ عقائد اسلام اور تصوف اسلامی کے مظہر تھے دوسری طرف چونکہ وہ ٹھیٹھ مالکی تھے لہٰذا ان کا تصوف بھی اسلامی تعلیمات سے خارج نہیں تھا۔ یہی صورت ان کے شاگرد گینوں کی تھی۔ (۴) جس سال گینوں نے اسلام قبول کیا اور ان کا نام عبدالواحد یحییٰ رکھا گیا اسی سال انھوں نے اپنے علاقے کی ایک خاتون سے شادی کی تھی یعنی ۱۹۱۲ء میں۔ اسی سال ان کا رسالہ المعرفۃ بند ہوگیا اور انھوں نے دوسرے مختلف مجلات میں لکھنا شروع کردیا۔پہلے انھوں نے فری میسن والوں کے جعل کا پول کھولا جس سے وہ بھڑک اُٹھے۔ پھر پرونسٹنٹ فرقے کے انحراف پر روشنی ڈالی جس سے وہ ان کے خلاف ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے کھوٹی روحانیت (Psuedo Spiritualism) پر تنقید کی جس سے وہ تمام لوگ جو جدید روحانیت کے علمبردار تھے غصے میں آگئے۔ ستمبر ۱۹۱۷ء میں شیخ عبدالواحد کوالجزائر میں فلسفے کا استاد مقرر کیا گیا مگر وہ صرف ایک سال بعد فرانس واپس چلے آئے اور شہر کے مدرسہ میں متعین ہوئے۔ اس کے ایک سال بعد انھوں نے استعفا دے دیا تاکہ تحقیق کے لیے فراغت میسر آجائے۔ اس فراغت کا ثمرہ ۱۹۲۱ء میں دوکتابوں کی صورت میں نمودار ہوا۔ ۱- ہندو عقائد تعلیمات کے مطالعے کے مبادی Introduction to the Study of Hindu Doctrines ۔ ۲- تھیوسوفی۔ کھوٹے دین کی تاریخTheosophy ۔ اس کے بعد ان کی کتابیں پے درپے شایع ہوتی گئیں اور مختلف جرائد میں ان کے مقالات دھڑا دھڑ چھپنے لگے۔ ۱۹۲۵ء میں مجلہ قناع ایزلیس نے ان کو اپنے ہاں لکھنے کی دعوت دی۔ گینوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور ۱۹۲۹ء تک وہ اس رسالے کے اہم ترین لکھنے والوں میں شمار ہونے لگے اس رسالے میں ان کے ساتھ دوسرے لکھنے والوں میں عالم متبحرشواں Schuon بھی تھے جنھوں نے عین القلب کے نام سے فرانسیسی میں کتاب لکھی۔ انھوں نے بھی اسلام قبول کیا اور گینوں کی عبقریت اور پختگی کے باوجود بہت سی دلچسپیوں میں گینوں کو مشورہ دیتے رہے۔ پیرس کے اشاعتی اداروں میں سے ایک نے شیخ عبدالواحد کو پیشکش کی کہ وہ اس کے خرچ پر قاہرہ جائیں اور وہاں تصوف کا مطالعہ کریں اور صوفیا کی تصانیف اور ان کے تراجم ارسال کریں۔ شیخ نے یہ پیشکش قبول کرلی۔ فروری۱۹۳۰ء میں وہ اس غرض سے مصر کے لیے روانہ ہوئے۔ مصر میں ان کا مفروض قیام چند ماہ کے لیے تھا لیکن ان کے کام کا تقاضا ہوا کہ وہ طویل مدت قیام کریں۔ اشاعتی ادارے والے اس پر رضامند نہ ہوئے اور معاہدہ منسوخ ہوگیا۔ شیخ عبدالواحد یحییٰ قاہرہ میں محلہ ازہر میں رہ پڑے۔ وہاں ان کی زندگی بڑی متواضع اور عام زندگی سے الگ تھلگ تھی۔ یورپی لوگوں سے تو وہ بالخصوص چھپ کر رہتے تھے۔ ان کے والد، والدہ اور اہلیہ تینوں ان کے قاہرہ آنے سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ قاہرہ وہ تن تنہا آئے تھے، اکیلے گزر بسر مشکل ہوئی تو انھوں نے ۱۹۳۷ء میں کریمہ بنت شیخ ابراہیم سے بیاہ کرلیا۔ اس نیک بی بی نے ان کی زندگی سکون و اطمینان سے بھردی۔ محلہ ازہر سے وہ محلہ الدقی میں منتقل ہوگئے۔ فرانس مقالات بھیجنے کا کام جاری رہا۔ کتابوں کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ اللہ نے ان کو دوبیٹیاں عطا کیں۔ پہلی کا نام خدیجہ اور دوسری کا لیلیٰ رکھا گیا۔ پھر ایک بیٹا ہوا۔ اس کا نام احمد رکھا ان کی وفات کے چار ماہ بعد ان کی اہلیہ نے ایک نے اور بیٹے کو جنم دیا جس کا نام ان کی بیگم کی خواہش پر عبدالواحد رکھا گیا۔ قاہرہ سے انھوں نے پھر اپنے رسالہ المعرفۃ کی اشاعت شروع کی مگر اب رسالہ کی کوئی خاص پذیرائی نہ ہوسکی کہ یہ خاص تصوف کا رسالہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے اس میں تھوڑا ادبی مواد بھی شامل کردیا۔ یہ رسالہ ان کی وفات کے تین سال بعد بند ہوگیا۔ شیخ عبدالواحد قاہرہ میں کتابیں تالیف کرتے رہے، اور مقالات و خطوط دنیا میں ہر فرف بھجواتے رہے وہ ہر وقت حرکت میں رہتے تھے فکری اور روحانی حرکت، ہر طالبِ ہدایت کے لیے ان کے ہاں سامان رشد و ہدایت تھا۔ دن اسی طرح بیت گئے اور ۷؍جنوری ۱۹۵۱ء کو ان کے لیے ان کے رب کا بلاوا آگیا۔ ان کی وفات کے وقت محترمہ فلنیٹس دی سان بوان ان کے پاس موجود تھیں۔ یہ خاتون ۱۹۲۴ء سے قاہرہ میں مقیم تھیں اور شیخ کے قاہرہ آنے پر ان کا استقبال اسی خاتون نے کیا تھا۔ شیخ کے قیام قاہرہ کے ایام میں بھی وہ ان سے ملتی رہیں اور ان کے انتقال کے وقت بھی موجود تھیں مشہور ادیبہ اور صحافی تھیں بعد کو مسلمان ہوگئیں۔ آندرے روسو نے جو شیخ کے انتقال کے وقت قاہرہ میں تھے ان کے جنازے کا آنکھوں دیکھا حال اپنے رسالہ ایفجارو میں اس طرح لکھا: وفات کے اگلے روز جنازہ اُٹھایا گیا۔ رواج کے مطابق ان کی نعش کے نیچے مینڈھا ذبح کیا گیا اور مکان کی دہلیز پر اس کا خون بہایا گیا۔ جنازہ میں ان کی زوجہ اور تینوں بچے شامل تھے پہلے مسجد حسین میں ان پر نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور پھر جنازہ دراستہ کے قبرستان میں لے جایا گیا۔ جنازہ صرف چند دوستوں اور ان کے خاندان پر مشتمل تھا ازہر کے شیوخ میں سے کوئی جنازہ کے ہمراہ نہ تھا۔ شیخ عبدالواحد کو شیخ ابراہیم کے مقبرہ میں دفن کیا گیا۔‘‘ اپنی اہلیہ سے ان کے آخری الفاظ یہ تھے، مطمئن رہو، میں تمھیں بالکل چھوڑ نہیں دوں گا، درحقیقت تم مجھے دیکھ نہ سکوگی مگر میں یہیں ہوں گا اور تمھیں دیکھتا رہوں گا۔ روسو نے اس پر اضافہ کیا ہے کہ ’’آج بھی جب ان کا کوئی بچہ خاموش ہونے میں نہ آئے تو دن کی بیوی اس سے کہتی ہے ’’ارے تمھارے ابوتمھیں دیکھ رہے ہیں اور تم خاموش ہی نہیں ہورہے۔ بچہ اپنے غیرمرئی والد کے حوالے پر ایک دم چپ ہوجاتا ہے۔‘‘ ۹ جنوری کو پیرس میں تارموصول ہوا۔‘‘ فرانسیسی فلسفی اور مستشرق رینے گینوں کا انتقال ہوگیا‘‘ تار کا پہنچنا تھا کہ مختلف اخبارات، مجلات و رسائل میں طرح طرح کے مضامین مختلف عنوانات کے تحت شایع ہونے لگے مثلاً ’’اہرام کے سائے میں مقیم دانشور۔‘‘ ’’فیلسوفِ قاہرہ۔‘‘ دور جدید کی سب سے بڑی روحانی شخصیت‘‘ ان کی تعریف و توصیف میں بہت کچھ لکھا گیا۔ (اس کی تفصیل ہمارے دوسرے مضمون میں دیکھیے: مترجم) لیکن ان پر صرف تحسین و آفرین کی تحریریں ہی نچھاور نہیں کی گئیں۔ وہاں ان کے دشمن بھی تھے۔ مثلاً فری میسن والے، منحرف شدہ عیسائی اور مادی تہذیب کے علمبردار جن پر گینوں نے بلاکسی رورعایت یا رخم کے کڑی تنقید کی تھی۔ ان سب نے گینوں کے خلاف لکھا۔ ان کے دشمنوں اور مددگاروں کے درمیان ایک مباحثہ چل پڑا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگ ان کی تصانیف کے مطالعہ کی طرف مائل اور متوجہ ہوئے اور چونکہ گینوں کی کتابوں کا مطالعہ خیرمحض اور باعث ہدایت ہے، بہت سوں کی اصلاح ہوئی۔ اس مباحثے سے اسلام کے بارے میں عیسائی مبلغین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں اور یورپ کے سنجیدہ طبقے میں سے بعض افراد نے اسلام قبول کیا اور فرانس، سوئٹزلینڈ میں کچھ جماعتیں وجود میں آگئیں جو شیخ عبدالواحد کے طریقہ کار اور منہاج کی پیروی پر کمربستہ تھیں۔‘‘ ئ…ئئ…ء حواشی ۱- فرانس کا یہ شہر دریائے لوار کے کنارے پر پیرس سے ۱۷۲ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے مکان کی تعداد ۸۶۸۰۰ کے لگ بھگ ہے بسکٹ اور چاکولیٹ بنانے کے لیے مشہور ہے بہت سے مشاہیر یہاں پیدا ہوئے۔ ۲- یہ عبدالہادی صاحب کی رائے ہے۔ ورنہ حقیقی اصحابِ صوفیا تو سبھی خیر ہیں اور سبھی برکت والے۔ ظ…ظظ…ظ شیخ کی تصانیف اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں جب مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی پیدا کردہ سائنس پرستی، عقلیت پرستی اور حیات پرستی کا زور شور دھیما پڑا اور دانشِ غرب کے بدن کے زخم ٹھنڈے ہوکر ٹیسیں مارنے لگے تو مغرب کے اہل نظر اپنے مسائل کے حل کی خاطر دوسری تہذیبوں کی طرف نگاہ دوڑانے پر مجبور ہوگئے۔ کچھ تو اپنی ذہنی کم مائیگی اور چار سو برس میں پیدا شدہ فکری مغالطوں کے باعث اور کچھ تعصب اور خالی خولی احساس برتری کے مارے مغرب کے بہت ہی کم لوگ تھے جنھیں مشرقی ادیان کی صحیح تفہیم کا موقع مل سکا۔ اسی دور میں ایک اور رجحان بھی مغرب کے دانشوروں میں زور پکڑ گیا۔ اپنے معاشرے کی اقدار سے غیر مطمئن اور روحانی جہت کے شاکی لوگوں نے مشرق کے نظریات اندھا دھند، کچے پکے جیسے سمجھ میں آئے اختیار کرنے شروع کردیے۔ اپنی تہذیب سے اکتائے تو ہندو مت یا بدھ کی تعلیمات میں پناہ ڈھونڈنے لگے یہ نہ ہوا تو کنفیوشس تو کہیں گیا ہی نہیں۔۱؎ اسلام کی طرف ان میں سے بہت کم نے توجہ کی۔ صلیبی جنگوں کے بعد سے مغرب کے ذہن میں اسلام کا جو تصور جم چکا تھا وہ ہمیشہ ان کی پیش قدمی میں مانع رہا۔ بایں ہمہ گزشتہ سوپچاس برس میں بہت سے مغربیوں نے اسلام قبول کیا۔ ہمارے ہاں کے سادہ دل مسلمان ایسی خبروں سے بہت خوش ہوا کرتے ہیں۔ انھیں کون بتائے کہ ان میں سے اکثر لوگوں کا قبول اسلام ایسا ہی ہے جیسا ایک جوڑا اتار کر دوسرا پہننا۔ یہ بات مغرب کے لیے بالعموم درست ہے مگر استثنا ہر جگہ ہوا کرتی ہے اور قدرت الٰہی جسے چاہے اپنا آلہ کار بنالیتی ہے۔ چنانچہ مغرب میں بھی ماضی قریب میں ایک شخص ایسا ہوگذرا ہے جس نے اسلام کی قدمے، سخنے، قلمے امداد پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ کی ہے اس کے قبول اسلام کے اثرات مشرق و مغرب میں بہت گہرے اور دوررس ہوئے۔ مغرب کے لیے وہ ایسا انقلاب ثابت ہوا جس سے مغرب کے اہلِ نظر میں کھلبلی مچ گئی۔ بہت سے لوگ اس کی تقلید میں اسلام لائے۔ ان نومسلموں میں فرانس اور سوٹزرلینڈ کے مخلص کیتھولک پیش پیش تھے۔ یہ شخص تھا رینے گینون، عالم، فیلسوف، دانشور، صوفی اور نہ جانے کیا کیا۔ اس کے انتقال کو آج ۵۶ برس ہونے کو آتے ہیں مگر اس کا نام آج بھی یورپ اور امریکہ میں گونج رہا ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں فلسفہ، دین سے حقیقی دلچسپی رکھنے والا کوئی شخص ان کے نام سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں پر ان کے احسان کے پیشِ نظر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ان کا تعارف کروایا جائے تاکہ مسلمان مفکرین کیے کرائے کام کو دوبارہ کرنے میں اپنی توانائی اور وقت برباد نہ کریں۔ یہ مختصر مضمون اس کوشش کا آغاز ہے۔ رینے گینوں کا کام جتنا عظیم الشان ہے ان کے ذاتی کوائف اتنے ہی غیرمعروف ہیں مشرقی زبانوں میں ان پر ایک چھوٹی سی کتاب کے علاوہ کچھ لکھا ہی نہیں گیا۔۲؎ فرانسیسی میں ضرور کتابیں تصنیف ہوئی ہیں۳؎ مگر وہ فی الوقت ہماری دسترس سے باہر ہیں لہٰذا ان کے حالاتِ زندگی کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود ہیں۔ ہاں اتنا معلوم ہے کہ وہ ۱۸۸۶ء میں فرانس میں پیدا ہوئے۔۴؎ ان کا خاندان فرانس کے ٹھیٹھ کیتھولک گھرانوں میں سے ایک خوشحال خاندان تھا۔ وہ شروع ہی سے ذکی الحس، ذی شعور، صاحبِ وجدان اور طبعاً دقیق ابحاث اور تفکرِ عمیق کی طرف مائل تھے۔ پختگی فکر کی منزل کو پہنچے تو ان کو اپنی قوم کی ضلالت اور گمراہی مضطرب کرنے لگی انھیں حق کی تلاش ہوئی اور انھوں نے ادراکِ حقیقت کی جدوجہد شروع کردی۔ لیکن حقیقت ہے کہاں مشرق میں یا مغرب میں؟ زمین پر یا آسمان میں؟ ’’حقیقت کیا ہے؟ یہ رینے گینوں کا اپنے آپ سے سوال تھا، وہی سوال جو ان سے قبل امام محاسبی، امام غزالی، محی الدین ابن عربی اور اندھی تقلید سے نفور بیسیوں دوسرے مفکرین اپنے آپ سے دریافت کرچکے تھے۔ اس کے بعد رینے گینوں پر تشکیک اور حیرت کا المناک دور گزرا اور آخر کار انھیں خدا کی مدد نصیب ہوگئی۔ ان کے حق میں امداد حق یہ تھی کہ اسلام کے وہ سپاہی ثابت ہوئے جو اسلام کی دعوت بھی دیتا ہو اور اس کی مدافعت بھی کرتا ہو۔ طریقت میں وہ شاذلی تھے اور شیخ عبدالرحمن العیلش سے بیعت تھے۔۵؎ ۱۹۳۷ء میں پہلے مصر گئے اور ۱۹۵۱ء میں اپنے انتقال تک وہیں رہے۔۶؎ اپنے کام میں کیسے مگن اور نام و نمود کی خواہش سے کیسے آزاد تھے اس کا اندازہ ایک چھوٹے سے واقعہ ہوتا ہے جو W.N.Perry نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بیان کیا ہے۔۷؎ ان کا بیان ہے کہ قاہرہ میں رینے گینوں جس محلہ میں رہتے تھے وہاں ان کے برابر کے گھر میں ایک خاتون رہتی تھیں جو رینے گینوں کی تحریروں کی بہت مداح تھیں۔ دروازے سے دروازہ ملا ہوا تھا۔ جب رینے گینوں کا انتقال ہوگیا اور خبریں شایع ہوئیں تو وہ خاتون یہ جان کر بھونچکی رہ گئی کہ برابر والے گھر میں رہنے والے بڑے میاں جن کو وہ برسوں سے عبدالواحد یحییٰ کے نام سے جانتی تھیں، وہی رینے گینوں تھے۔ شیخ عبدالواحد کا قبول اسلام بھی بہت سیدھی سادھی منطقی وجہ سے ہوا تھا انھوں نے قرآن مجید کی اس نص مقدس کو آزمانا چاہا۔ لایایتہ الباطل من بین یدیہٖ ولامن خلفہٖ (حم سجدۂ ۴۱:۴۲) گہرے مطالعہ کے بعد قرآن کے سوا اور کوئی ایسی مقدس کتاب نہ پائی جو تحریف یا تبدیلی سے محفوظ ہو۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے رکھا ہے۔ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ الحافظون (الحجر۱۵:۸) چنانچہ وہ اس پر مضبوطی سے جم گئے اور اسلام کے علم تلے ان کو اطمینان قلب نصیب ہوگیا۔ اس واقعہ کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کی تلاش کا آغاز حق کی تلاش سے ہوا تھا۔ تمام ادیان قدیمی روایت کے ظہور کی مختلف شکلیں ہیں اور اپنے زمانے میں اور اپنے مقام پر سب درست اور برحق تھے۔ روایت حق کا آخری اصلی اور مکمل ظہور اسلام کی شکل میں ہوا ہے اس روایت کو قیامت تک رہنا ہے قدیم اور منسوخ شدہ روایتوں کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ خود ایک زندہ روایت میں شامل ہوں۔ قبول اسلام کے بعد شیخ عبدالواحد نے مشرقی تصورات کی شرح اور مغرب کو ان سے روشناس کروانے کا بیڑا اُٹھایا اور اس کام کو پورا کردکھایا۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مشرقی فکر کی روشنی میں مغرب کے کارناموں پر تبصرہ بھی کیا، عمر بھر لکھا اور بہت کچھ لکھا۔ ۲۵ سے زیادہ تو ان کی مستقل تصانیف ہیں۔ ان میں سے جو زیادہ اہم اور معروف ہیں ان کا تذکرہ ہم کیے دیتے ہیں۔ East and West (شرق و غرب) ان کی وہ کتاب جو دائمی اہمیت کی حامل ہے اس کی وجہ سے مشرقی اپنے مشرقی ہونے پر فخر کرسکتا ہے۔ اس کتاب نے مشرق کو اس کا کھویا ہوا اعتبار اور اعتماد لوٹا دیا۔ اس کی تہذیبی برتری بیان کی اور فکر مشرقی کی عظمت و رفعت کی وضاحت کی۔ مشرق کی انسانیت جس کا اندازہ مادہ پرست اور خونریزی کی عادی مغربی تہذیب نہیں کرسکتی کیونکہ اس کی بنیاد ظلم وعدوان اور مادی استحصال پر رکھی گئی ہے۔ کتاب کے ہر صفحہ سے مشرق والوں کی عظمت، گہرائی، فہم اُمور، اور انسانی مبادیات میں برتری کی شہادت ملتی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے مغرب کے تین بڑے خداؤں ،ترقی Progress تہذیب Civilization اور سائنس Scienceکی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ان کے پیچھے کارفرما اغراض و مقاصد کی جھلک دکھائی ہے اور ان کے بودے پن کو واضح کیا ہے۔ پھر انھوں نے مغربی فلسفے کی بنیادی خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ بات بغیر لگی لپٹی کے کَہ ڈالی ہے کہ اگر مغرب کی مادی قوت کو نظرانداز کردیا جائے تو اس کی حیثیت ایشیا اور افریقہ کے مقابلے میں جسد ارضی پر ایک بے وقعت بدگوشت کی رہ جاتی ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ مغرب کی وہی حیثیت رہی ہے جو ایک غلط رخ میں بڑھی ہوئی شاخ کی تنے کے سامنے ہوتی ہے۔ اس موضوع پر ان کی دوسری کتاب Crisis of the Modern World میں مزید خیالات کا اظہار کیا گیا ہے یہاں انھوں نے تاریخ کے قدیم اور روایتی دوری تصور کے حوالے سے تہذیب مغرب کا مقام انسانی تاریخ میں متعین کیا ہے۔ ساتھ ہی اس مہلک راہ انحراف کی نشاندہی بھی کی ہے جس پر مغرب گامزن ہے، جو کھلی گمراہی ہے اور جس نے مغرب کو سیدھی راہ دیکھنے سے اندھا بنا رکھا ہے۔ شیخ عبدالواحد کا کہنا ہے کہ ظاہری اختلافات کے باوجود تمام مشرقی ادیان میں مابعدالطبیعیات موجود تھی گو مغرب نے کبھی بھی اس کو پوری طرح نہیں سمجھا۔ فی زمانہ تو مغرب والے مابعدالطبیعیات کے لفظی معنی سے بھی غافل ہوچکے ہیں۔ مغرب کو یہ بات سمجھانے کے لیے انھوں نے ہندو روایت کو استعمال کیا ہے کیونکہ مغرب والے اسلام کے حوالے سے کوئی بات سنجیدگی سے اور تعصب کے بغیر سننے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہندو تصور حقیقت کو سمجھانے کے لیے انھوں نے تمہیدی مقدمات کے طور پر جو کچھ لکھا ہے وہ ان کی تصانیف کو سمجھنے کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ مشرق و مغرب کی تاریخ قدیم تاریخ کے متعلق مغرب کے مغالطے اور کذب عمد، ازمنۂ قدیمہ میں بین الاقوامی علمی روابط، لسانیات، ترجمہ، مستشرقین کی حماقتیں اور بدیانتی، روایت، روایت اور مذہب، مابعد الطبیعیات، مابعد الطبیعیات اور فلسفے میں فرق اور دونوں کا موازنہ اور مقارنہ، غرض بیسیوں موضوعات ہیں جن پر انھوں نے اپنی کتاب Introduction to the Study of Hindu Doctrines میں قلم اُٹھایا ہے۔ کتاب چار حصوں میں منقسم ہے۔ حصہ اول میں ان تعصبات کو دور کرنے کی سعی کی گئی ہے جو مغرب کے ذہن میں نشاۃ ثانیہ کے بعد سے راسخ ہوچکے ہیں مثلاً یونان و روم کی تہذیبوں کی بے جاتحسین اور اس کی خاطر دوسری تمام تہذیبوں کی عمداً یا غیرشعوری تحقیر۔ اس ضمن میں تمام متعلقہ تاریخی مسائل سے بھی بحث کی گئی ہے دوسرا حصہ کتاب کا سب سے اہم حصہ ہے اس میں اولاً تو مختلف انداز ہائے تفکر کو ایک دوسرے سے ممیز کیا گیا ہے اور پھر مابعد الطبیعیات یا حکمت خالدہ کی امتیازی اور حقیقی نوعیت کو واضح کیا ہے جو ہر روایت کی روحِ رواں ہے، جس کا عرفان فوزعظیم ہے اور صرف اسی پرعلم کے لفظ کا حقیقی معنوں میں اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ اسی سلسلے میں مذہب Religion علامت Symbols تصوف Esoterism اور توہمات Superstitions جیسے الفاظ کی بھی تشریح کی گئی ہے۔ لوگ عموماً ان الفاظ کو مبہم اور گمراہ کن انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ شیخ عبدالواحد نے ان کی اصل اور ان کی تحریف دونوں کی تحقیق و تفتیش کے بعد ان کو متعین اور باقاعدہ معانی عطا کیے۔ علاوہ ازیں مابعدالطبیعیات اور اس کے موزوں ترین ذریعہ نقل و ابلاغ ’’روایت‘‘ کی کائناتی حیثیت کو بحال کیا ہے! مابعد الطبیعیات جو اصل اُصول یا حقیقت مطلقہ کا علم ہے جو مبدا و معاد اور منتہا مقصود ہے۔۸؎ حصہ سوم میں ہندو روایت اور مختلف مراتب وجود پر اس کا اطلاق موضوع بحث ہے۔ حصہ چہارم میں پھر مروجہ فکری مغالطوں کی تصحیح کی سعی کی گئی ہے۔ اس مرتبہ یہ صرف مغرب ہی سے متعلق نہیں بلکہ ہندوؤں کے تصور حقیقت میں جو تحریف کی گئی اور ان میں سے مغربی خیالات برآمد کرنے یا ان پر مغربی خیالات کا پیوند لگانے کی جو کوششیں مختلف اغراض کے تحت کی گئی تھیں ان کا پول کھولا ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد انھوں نے خاتمہ الکتاب کے عنوان سے باب لکھا ہے جس میں مشرق و مغرب کے مابین تبادلۂ افکار کی بنیادی شرائط پیش کی گئی ہیں۔ Man and his Becoming... ایک طرح سے Introduction کا ضمیمہ ہے۔ یہاں شیخ نے ہندو روایت کے حوالے سے انسان کی فطرت و ماہیت سے بحث کی ہے اور مابعد الطبیعیاتی اُصولوں کے موقتی اطلاع کی وضاحت کی ہے۔ ان تمام افکار میں ان کے ہاں عام یورپی یا مغربی فلاسفہ کی طرح من گھڑت آرا کا کوئی وجود نہیں۔ انھوں نے تو صرف مشرق کی روایتی فکر کے مستند نمائندوں سے ان کی تعلیمات سیکھ کر ان کی روشنی میں مغرب پر تنقید کی اور مغرب کو مشرق سے روشناس کروایا۔ یوں بھی مابعد الطبیعیات کے میدان میں انفرادی شخصیت کی اہمیت ثانوی اور علم کی حیثیت بنیادی اور مقدم ہوتی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ہاں کی تاریخ میں ایک سے زیادہ نوح اور ابراہیم علیہ السلام کا نام ملتا ہے۔ یہی حالت زرتشت اور بدھ کی ہے کہ یہ اسما ایک فرد متعین کی ہی نہیں بلکہ ایک ادارے کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔ خود شیخ نے بھی لکھا ہے کہ: In a traditional civilization the highest insult which could be offered to a thinker was to praise him for his novelty. مغرب والے چونکہ روایت Tradition کے لفظ کو صرف رسم و رواج یا عادت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے دانشور بھی اس کے برتنے میں جابجا ٹھوکر کھاتے ہیں۔۹؎ لہٰذا شیخ عبدالواحد نے اپنی تصنیف (دنیا کا بادشاہ) Le Roi Du Monde میں قدیمی روایت کے تصورکو اس لفظ کے مختلف اطلاقات کی وضاحت کی ہے اور اس کے صحیح معانی کا تعین کردیا ہے ضمناً الزبتھ اوّل (Elizabeth 1st) کے دور کا عالمگیر شہنشاہیت کا تصور بھی زیربحث آیا ہے۔ا س تصور کی روایتی معنویت کیا تھی، اس کی توضیح کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ الزبتھ اوّل کے نظریہ شہنشاہت کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ حکمران میں ظاہری اور باطنی اور غیر مسئول اقتدار حاصل ہو۔ اس معاملے میں جو خلفشار یورپ میں پیدا ہوا اس کا حال انھوں نے کتاب L'Autorite Srirituelle et Pouvoir Temporal میں بیان کردیا ہے۔ مضمون کے آغاز میں ہم نے اس فکری صورتِ حال کی طرف مختصر اشارہ کیا ہے جس سے مغرب اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں دوچار تھا۔ شیخ نے اسی دور میں کام شروع کیا چنانچہ وہ اس دور سے کماحقہ آگاہ تھے۔ اس زمانے میں جو لوگ واقعی اپنی تلاش میں مخلص تھے ان میں سے بھی بہت کم مشرقی ادیان کے مستند نمائندوں سے رابطہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے بیشتر لوگ جعلی مذاہب ایجاد کرنے والوں کے ہتھے چڑھ گئے۔۱۰؎ مغرب میں تحریف روایت اور جعلی مذاہب و کلیسا ایجاد کرنے کی وبا اس سرعت سے پھیلی کہ شیخ کو اس کی تردید کے لیے Theosophisme; Historie D'une Pseudo-Religion Le کے نام سے پوری کتاب لکھنی پڑی۔ اسی صورت حال میں وہ لوگ بھی سامنے آئے جو جعلی باطنیت اور روحانیت کی ترویج کے لیے کوشاں تھے۔ تحریف فی الروایت اور انکار روایت کے بعد تیسرا مرحلہ جعلی روایت ایجاد کرنے کا ہوتا ہے۔ اسی سے مغرب اس وقت گزررہا ہے۔ اس مرحلہ میں جعلی روحانیت کے علمبردار اصلی روحانیت کے انکشاف کا اعلان کررہے ہیں اور مخفی علوم (Occult) کے نام پر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ شیخ نے بتایا کہ مخفی علوم تو ہر دور اور ہر تہذیب میں رہے ہیں مگر ان کو Occultism کے نام سے کبھی نہیں یاد کیا گیا۔ Ism کے لاحقے سے مراد ہے کہ ان کی بنیاد کسی ایک اُصول واحد پر ہے۔ روایتی تہذیبوں میں ان کا درجہ بہت پست تھا اور ان کی طرف توجہ کرنے والے بھی گھٹیا سمجھے جاتے تھے۔ ان سب باتوں کی وضاحت انھوں نے ایک اور کتاب L'erruer Spririte میں کی ہے اور ان جعلی مدعیان مذہب کے بے بنیاد دعوؤں کی تردید کی ہے۔ مغربی سائنس کا مزاج خالصتاً مقداری اور نتیجتاً مادی واقع ہوا ہے اور یہ کچھ اس سے خاص نہیں بلکہ مغربی تہذیب کے ایک غالب رجحان کا بس ایک مظاہرہ۔ یہ وہی رجحان ہے جو ہر معیار اور اُصول کو فقط مقدار اور تعداد تک محدود کرکے رکھنا چاہتا ہے۔ شیخ عبدالواحد نے اپنی کتاب Reing of Quantity جس میں ہر شعبہ حیات میں اس رجحان اور ذہنیت کی کارفرمائی پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے مغربی سائنس اور صنعت کے مختلف ہولناک پہلوؤں پر خاص طور پر تبصرہ کیا ہے۔ آخر میں تحلیل نفسی Psycho-analysis اور اس کے نظریات اور خطرات پر تبصرہ کیا ہے ۔اور اس کے نقصانات اور کوتاہی پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ ان کی کئی کتابیں اور بھی ہیں جن کے ہم صرف نام ہی جانتے ہیں اور فی الوقت ان کا تعارف کروانے کے قابل نہیں۔ ان کے نام فہرست میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ کتابوں کے علاوہ شیخ عبدالواحد نے متعدد رسائل و جرائد میں کثیر تعداد میں مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ ان رسائل میں مصطفی عبدالعزیز (میثل والساں) کا رسالہ Etudes Traditionelles سرفہرست ہے۔ اس میں شیخ کے مضامین عرصہ دراز تک شائع ہوتے رہے۔ اُردو میں ان کی کسی کتاب کا باقاعدہ ترجمہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔ سنا جاتا ہے کہ مشکور حسین یاد صاحب نے… Crisis کا ترجمہ کردیا ہے مگر تادم تحریر یہ منظر عام تو کیا منظر خواص پر بھی نہیں آسکا۔ شیخ کی ایک اور کتاب رمز صلیب کے ایک باب کا ترجمہ جمال پانی پتی صاحب نے کیا ہے جو سیپ شمارہ نمبر ۳۷ کے ایک باب میں جنگ کی رمزیت کے عنوان سے چھپ چکا ہے۔ انھوں نے کچھ اور کام بھی اس سلسلے میں کررکھا ہے اور بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحتِ کاملہ عطا کریں اور اس موجودہ ترجمہ کی تکمیل کی توفیق دیں۔ اُردو میں شیخ عبدالواحد یحییٰ کی حیات و تصانیف پر یہ پہلا مضمون ہے اور اسے بھی میں نے اسلیے لکھ دیا کہ وہ لوگ جو ہر طرح مجھ سے بہتر اور اس کام کے زیادہ اہل ہیں، ہچکچا رہے ہیں۔ ان کے عدم تعاون کے باعث یہ بار مجھ کو اُٹھانا پڑرہا ہے کہ ہم لاکھ غافل سہی اپنے محسنین کو پہچاننا تو چاہیے۔ ان کے حلقۂ اثر میں آنے والوں کا ذکر آہی گیا ہے تو یہ بیان کرنا بے جا نہ ہوگا کہ آج مغرب کے صفِ اوّل کے دانشوروں میں ان لوگوں کی کثرت ہے جو کسی نہ کسی طرح شیخ سے وابستہ رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ آیندہ دس برس میں یہ گروہ مغرب کا سب سے بااثر اور فکر ساز طائفہ علمی ثابت ہوگا۔ اس کے ارکان کی بات اسی توجہ سے سنی جائے گی جس توجہ سے آج سارتر اور اس کے قبیل کے لوگوں کی سنی جاتی ہے۔ ان لوگوں میں سرفہرست شیخ عیسیٰ نورالدین ہیں جن کو فلسفے کے پروفیسر پاکستان میں Frithjof Schuon کے نام سے جانتے ہیں۔ موصوف سلسلۂ شاذلیہ علویہ میں صاحب اجازت ہیں تقابل ادیان اور فلسفہ دین پر ان کو مغرب میں سند مانا جاتا ہے۔ انگریزی میں ان کی نو دس کتابوں کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ دوسرے صاحب ابوبکر سراج الدین ہیں۔ ہمارے ہاں یہ Martin Lings کے نام سے معروف ہیں۔ انگریزی اور عربی میں لکھتے ہیں۔ تصوف ان کا خاص موضوع ہے اور مغرب میں اس پر سند کا درجہ رکھتے ہیں، اعلیٰ پائے کے شاعر اور مترجم ہیں۔ ان کی پانچ چھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مصطفی عبدالعزیز Michal Walsan کا گزشتہ برس انتقال ہوگیا۔ مرحوم مجلہ ایتودیس تراد یسونلکے مدیر اور متبحر عالم تھے۔ ان کا مجلہ مغرب میں تصوف اور روایتی علوم کی توضیح اور اشاعت کرنے والا معتبر ترین جریدہ ہے۔ Titus Burchadot نے خصوصیت سے قدیم تہذیبوں کے تصورات فن اور ان کے نمونوں پر توجہ مرکوز کی ہے، صوفی تصورات پر ایک معرکۃ الآرا کتاب لکھی اور اس صدی میں کیمیا Alchemy پر لکھی جانے والی سب سے اچھی کتاب کے مصنف بھی یہی ہیں۔ شیخ اکبر ابنِ عربی کی فصوص الحکم، الجیلی کی انسان کامل اور شیخ درقادی کی رقعات درقادیہ کا ترجمہ فرانسیسی اور انگریزی میں انھوں نے کیا ہے۔ موصوف جرمن، انگریزی، فرانسیسی، سوئس عربی اور فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔ دیگر اہم شخصیات Leo Schaya, Gia Eaton, Marco Pallis, W.N., Perry, اور Lord Northbourne کی ہیں۔ ان تمام حضرات کا اور شیخ عبدالواحد کا بارہ سے بیس برس تک ساتھ رہا۔ ان کی وفات کے بعد سے یہ لوگ مغرب کے مختلف حصوں میں پھیل کر مشرق و مغرب کے درمیان واسطۂ تفہیم کا کام دے رہے ہیں۔ شیخ عبدالواحد یحییٰ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے عبدالحلیم محمود مرحوم رئیس الجامعہ ازہر نے ایک عبارت نقل کی ہے جو ایک مصری جامعہ میں شیخ کے تعارف کے طور پر پیش کی گئی تھی کہ رینے گینوں ان شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے تاریخ میں ایک مقام پیدا کرلیا ہے مسلمان انھیں امام غزالی جیسے لوگوں کا ہم پلہ سمجھتے ہیں اور غیر مسلم ان کو نوافلاطونیت کے بانی افلوطین Plotinus اور ان جیسے بڑے لوگوں سے مشابہ گردانتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں عموماً ایسی نابغہ شخصیات کی قدر ان کی زندگی میں نہیں ہوا کرتی مگر شیخ عبدالواحد کچھ ایسے نصیبہ ور واقع ہوئے تھے کہ ان کی قدرو منزلت ان کی زندگی میں بھی ہوئی اور موت کے بعد بھی۔ گو کلیسا نے ان کی کتابوں کا مطالعہ ممنوع قرار دیا تھا۔ تاہم اس سے ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ کلیسا ایسا سلوک صرف ان عباقرۂ فکر سے کیا کرتا ہے جس سے اسے شدید قسم کا اندیشہ ہو۔ رینے گینوں کی ذات میں اسے گزشتہ تمام خطرات سے بڑا خطرہ نظرآرہا تھا۔ اس کے باوجود شیخ عبدالواحد کی دعوت پر لوگوں نے لبیک کہا اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر اسلام قبول کرلیا۔ تزکیہ، اخلاص اور اطاعت الٰہی کو اپنا شعار بنایا۔ ان میں سے بعض اصحاب کے نام مندرج ہوچکے ہیں ان کے زہد و تقویٰ اور اطاعتِ الٰہی کی شہادت ان کے دشمن بھی دینے پر مجبور ہیں۔۱۱؎ ہمہ گیر مادیت، ہوا و ہوس کے غلبے اور مغربی تہذیب کی ظاہری چکاچوند میں گھرے ہوئے لوگ آج بھی اطمینان قلب اور پاکیزگی کے لیے ان کی پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ کلیسا کی ممانعت کے باوجود شیخ عبدالواحد کی تصانیف دنیا میں پھیل گئیں۔ ان کے یکے بعد دیگرے کئی ایڈیشن شائع ہونے اور مغرب کی بہت سی زبانوں میں ان کے تراجم کیے گئے۔ ان کی ایک کتاب کا ترجمہ ہند چینی کی زبان میں ہوا تو اسے دلائی لامہ کے آخری وصایا کی شرح کا درجہ حاصل ہوگیا۔ آج مغرب میں تاریخ ادیان کا کوئی متخصص ایسا نہیں پایا جاتا جو ان کے نام سے ناآشنا ہو یہ تو تھی ان کی زندگی میں ان کی قدرومنزلت، موت کے بعد ان کی قدرشناسی میں اور اضافہ ہوگیا۔ دنیا کے بیش تر جرائد میں ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور شائع ہوا مثلاً مصر کا عربی مجلہ مصور دوسرا رسالہ مصرِ جدید Egypt Novelle نہ صرف کئی ہفتے تک ان پر مواد شایع کرتا رہا بلکہ بعدازاں ہر سال ان کی تاریخ وفات پر ضرور کچھ شایع کرتا ہے۔ فرنسا آسیا Francios Asie نے ان کے متعلق ایک ضخیم خاص شمارہ شایع کیا۔ (۱۹۵۱ئ) اس میں مشرق و مغرب کے بڑے بڑے مصنّفین نے حصہ لیا۔ اس کا افتتاح فرانس کے ایک بڑے شاعر آندرے ژید کی تحریر سے ہوا تھا جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ رینے گینوں کی تحریریں مٹنے والی نہیں۔ اسی طرح معروف مجلہ ایتود ترادیشونل (Etudes Traditionelles) نے جو سارے مغرب میں تصوف کی صحیح نمائندگی کرتا رہا ہے، ایک ضخیم خاص نمبر ان کے بارے میں شائع کیا۔ (۱۹۵۱ئ) مشہور صحافی پول سیران (Pual Siron) نے ان کی حیات و افکار پر ایک ضخیم کتاب لکھی اور ان پر لکھنے والے تمام لوگوں کی طرح انھیں وہی مقام دیا جس کے وہ مستحق ہیں یعنی امام غزالی یا افلوطین کے برابر۔ شیخ عبدالواحد کے بارے میں ہم نے اپنی معلومات کا خلاصہ پیش کردیا ہے اب ہمیں مضمون کے اختتام سے قبل صرف ایک سوال کا جواب دینا ہے۔ بعض افادیت پرستوں کے ذہن میں ممکن ہے یہ اشکال پیدا ہوا ہو کہ اگر شیخ مشرق کے ایسے مداح، مفسر اور مبلغ تھے کہ مغرب والے پہلی بار ان کے ذریعے صحیح طور پر مشرق سے واقف ہوئے اگر انھوں نے سب کچھ مشرق ہی سے اخذ کیا ہے (وہ اس کے معترف ہیں) تو پھر مغرب کے لیے ان کی اہمیت سے قطع نظر ہمارے لیے ان کی تصانیف یا افکار کی کیا معنویت ہے؟ (محذوف یہ ہے کہ ہم تو خود مشرقی اور اپنی روایات سے واقف ہیں) اس کا ایک جواب تویہ ہے کہ وہ ایک مسلمان عالم ہیں اور انھوں نے عصری تاریخ کے مہمات مسائل پر ٹھیٹھ روایتی نقطہ نظر سے تبصرہ کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خود عالم اسلام میں بھی گزشتہ سوڈیڑھ سوسال کے عہدِ غلامی اور دور استعمار کے دوران ایک ایسا طبقہ بڑی تعداد میں پیدا ہوچکا ہے جو نہ صرف مغربی تہذیب کی برتری کا دل سے قائل ہے بلکہ مغرب کے انسان کو بھی اعلیٰ قسم کا انسان بلکہ فوق الانسان تصور کرتا ہے۔ دوم وہ لوگ جن کی تعلیم و تربیت خالصاً مغربی انداز ہائے فکر و عمل کے تحت ہوئی ہے اپنی روایت کو سمجھنے کی صلاحیت کھوبیٹھے ہیں۔ شیخ عیسیٰ نورالدین کے الفاظ میں ’’جن کی نگاہ سے خدا اور دین پر یقین کی ٹھوس بنیاد شاید اوجھل ہوچکی ہے۔ جو یہ بھول چکے ہیں کہ روایت کوئی بچگانہ یا ازکار رفتہ دیومالا نہیں بلکہ وہ علم ہے جو بے حد حقیقی ہے۔۱۲؎ روایت کے مستند نمائندوں اور ان کے مابین مغرب کی خلیج حائل ہوچکی ہے۔ ثالثاً وہ مخلص مسلمان جو اپنی روایت کی ہر قیمت پر مدافعت کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو معلوم نہیں کہ دشمن کے لشکر کی تعداد اور نوعیت کیا ہے؟ اس کے کمزور مقامات کون سے ہیں اور اس پر حملہ کرنے کا کون سا طریقہ موزوں ترین ہے؟ شیخ عبدالواحد کی تحریریں ان تینوں طبقات کے لیے مفید ہیں گو ان کی اہمیت مختلف الحیثیات اور اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پہلے طبقے کے غلط خیالات کا تریاق ہیں، دوسرے کی راہ تفہیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتی ہیں اور تیسرے کو مطلوبہ امداد بہم پہنچاتی ہیں۔ مغرب روز بروز ہمارے ہاں نفوذ پذیر ہے۔ ہم آپ کسی طرح اسے اپنے ہاں سے یک لخت اکھاڑ کر نہیں پھینک سکتے۔ تو پھر جب ہمیں اس سے نبرد آزما ہونا ہی ہے تو ایک نئی چیز کو مجبوراً ہی سہی اپنے ہاں جگہ دینے سے قبل اس کی نوعیت اور قدروقیمت تو سمجھ لینی چاہیے۔ دوسری طرف یہ بات مسلّم ہے کہ مغربی تہذیب کا عمومی مزاج تو دور کی بات ہے اس کا کوئی پہلو بھی شیخ عبدالواحد کی تحریروں کے بغیر ڈھنگ سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ مشرق و مغرب کی جانچ پڑتال میں بھی ان کی کتابیں بہت مساعد ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم جس زمانے میں زندہ ہیں اس کے مسائل کا ادراک تاریخ عالم میں موجود دور کے مقام کا تعین اور اس کے بارے میں ہمارے رویے کی تشکیل ان کی تحریروں کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ہمیں اپنی نجات مقصود ہے، اگر ہمیں اپنی روایت کی حفاظت اور غلبۂ اعدا سے اس کی مدافعت کرنا ہے۔ اگر ہمیں سلامتی فکر عزیز ہے اور ہم فکری و علمی مغالطوں سے بچ کر حق و باطل میں تمیز کرنا چاہتے ہیں تو … ہمیں شیخ عبدالواحد یحییٰ کو پڑھنا اور سمجھنا ہوگا خواہ اس کے لیے ہمیں چین کے علاوہ فرانس جانا پڑے۔ واللّہ الموفق والمعین ھو یقول الحق ویھدی السبیل ئ…ئئ…ء حوالے و حواشی ۱- جدید انگریزی شاعری میں ایذراپاونڈ yzra Pound اور Yeats اس کی مثالیں ہیں۔ ایک صاحب نے اپنا نظام اقدار کنفیوشس سے مستعار لیا مگر اس کی مابعدالطبیعاتی اساس کو رد کردیا۔ دوسرے نے ہندوؤں کی طرف توجہ کی۔ Eliot ایلیٹ آدھی راہ سے بھاگ نکلے۔ چند برس ہندو مابعدالطبیعاتی فکر کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے رہے مگر پھر یہ بہانہ بناکر چل دیے کہ اگر اس کو پوری طرح حاصل کرلیا تو اپنا سب کچھ چھوڑنا پڑے گا کہ اس کی کوئی وقعت نگاہ میں باقی نہ رہے گی۔ رہ گئے فرانسیسی اور دیگر یورپین اقوام تو ان کے بارے میں ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ حسبِ معمول اس معاملے میں بھی انگریزوں سے آگے رہے ہیں اور انگریزوں نے حسبِ سابق نقالی پر اکتفاکیا۔ ۲-۳ مضمون کے آخر میں فہرست مراجعات دیکھیے۔ 4- Paul Chacornac, Lavie De Rene Guenon, Paris:1958, p.2. ۵- شاذلیہ سلسلۂ تصوف کے چند بڑے سلاسل میں سے ابوالحسن الشاذلی، کے نام سے منسوب ہے، المغرب افریقہ اور شرق اوسط کے ممالک میں اس سلسلے کے لوگوں کی کثرت ہے۔ ۶- دیکھیے: محمد حسن عسکری کا خط مدیر الحق کے نام (الحق، اکوڑہ خٹک، اپریل۱۸۷۰ئ)۔ 7- W.N. Perry, "Coomaraswamy-The Man, Myth And History" (Studies in Comparative Religion) Summer, 1977, England. ۸- مضمون میں مابعد الطبیعیات کا لفظ بار بار آرہا ہے اس لیے یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ اس کے معنی یہاں پر نہ تو وہ ہیں جو ارسطو کے ہاں تھے یا ان کے جاہل مترجمین نے سمجھے۔ نہ ہی اس سے مراد موجودہ مغربی فلسفۂ کی ایک شاخ ہے جو اس نام سے غلط طور پر موسوم ہے برعکس نہندنام زندگی کافور۔ اس کے صحیح معانی کے لیے شیخ کی مذکورہ بالاکتاب کے حصہ دوم سے رجوع کیجیے۔ ۹- مثال کے طور پر دیکھیے (T.S. Eliot)کی روایت کے تصور پر بحث جو انھوں نے اپنے مضمون Tradition and theIndividual Talent اور کتاب After Strange Gods میں فرمائی ہے۔ ۱۰- جعلی مذہب سازی کی مثال کے طور پر دیکھیے Gurdgieff گردجیف اور اس کے شاگرد آسپنسکی Ospensky کی تصانیف، گردجیف نے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا لے کر بھان متی کا کنبہ بنارکھا تھا اور ان نظریات کو کسی بھی روایت سے وابستہ ہوئے بغیر استعمال کرتا تھا۔ درحقیقت یہ شخص اپنے قریب آنے والے ہر شخص پر تنویمی اثرات سے قابو پایا کرتا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: Gurdgieff in the Light of Tradition: by W.N. Perry (سدّی عبدالقیوم)۔ ۱۱- سجاد سلیم ہوتیانہ مدیر راوی کے سامنے ایک انٹرویو کے دوران، مس این میری شیمل نے ان کے قول و فعل کی یکسانیت اور ان کے طرزِ حیات کی للہٰیت کا اعتراف کیا ہے۔ (ریڈیو پاکستان) 12- Isa Nuruddin (Schuon) Understanding Islam, Foreword, (Allan Unwin, London), 1963. ظ…ظظ…ظ المراجع (فرانسیسی) 1- PAUL CHACORENAC- LA VIE SIMPLE DE RENE'` GUENONN, PARIS, 1958. (اس کتاب کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع ہوچکا ہے) 2- LUCIEN MEROZ- RENE GUENON- ON LA SAGESSE INITIATIQUE, PARIS, 1962. 3- PAUL SIRON- RENE GUENON. (عربی) ۴- عبدالحلیم محمود، الفیلسوف المسلم، مکتبہ انجلو مصریہ، قاہرہ، ۱۹۵۴ئ۔ ۵- عبدالحلیم محمود، اروبا و الاسلام، المکتبہ الغنی النشر، قاہرہ، ۱۹۵۹ئ۔ (اس کتاب میں شیخ پر ایک مختصر تعارفی مضمون شامل ہے۔) ظ…ظظ…ظ تعارف رینے گینوں یا شیخ عبدالواحد یحییٰ(وفات ۱۹۸۱ئ) کے نام کو اُردوداں طبقے سے پہلی بار محمد حسن عسکری مرحوم نے متعارف کروایا۔ ابتدا میں یہ نام ان کی تحریروں میں حوالے کے طور پر آتا ہے اور یہ وہ دور ہے جسے عسکری مرحوم کے ذہنی سفر کا درمیانی یا عبوری دور کہا جاسکتا ہے۔ اس دور میں’’نقدِ ادب‘‘، فرانس کی ادبی تحریکوں اورنمایاں رجحانات سے اثر پذیری کے ساتھ ایک ایسی زیریں رَو بھی چل رہی تھی، جس سے ان کے مذہبی اور مابعد الطبیعیاتی میلانات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جوںجوں یہ رو تیزی اختیار کرتی جاتی ہے ان کی تحریروں میں رینے گینوں کے افکار کا اثر نمایاں ہوتا جاتا ہے اور جب انھیں ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ گینوں کی اصل فرانسیسی کتابیں یا ان کی بعض کتابوں کے انگریزی تراجم کے بالا ستیعاب مطالعے کا موقعہ ملتا ہے تو پھر وہ اپنے ذہنی سفر کے ایسے دور میںمکمل طور پر داخل ہو جاتے ہیں جسے ان کی منزل کہا جا سکتا ہے۔ اس دور میں انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس پر گینوں کے مختلف النوع افکار کی گہری چھاپ موجود ہے، چنانچہ وہ نام، جو ۱۹۴۴ء کے قریب ایک حوالے کے طور پر ان کی تحریروں میں آتا ہے اور پھر وہ دس بارہ سال ثانوی مآخذ کی بنیاد پر اس کے متعلق لکھتے رہے، اس دور میں ان کی فکری کائنات پر مکمل طور پر چھا جاتا ہے۔ اس عمیق فکری تعلق کا ثبوت ان کی کتاب جدیدیت کے روپ میں سامنے آتا ہے،جس کی ایک ایک سطر میں گینوں کی فکر سرایت کیے ہوئے ہے۔ حسن عسکری مرحوم نے گینوں کے افکار کے متعلق یا ان کو بنیاد بنا کر تفصیلاً یا اجمالاً بہت کچھ لکھا ہے اور علمی حلقوں پر ان کی تحریروں کا خاصا اثر ہوا ہے۔ ان دِنوں (۱۹۸۳ئ) ہماری علمی اور ادبی نشستوں میں اس فرانسیسی شخصیت کے حوالے سے جو مباحث موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں یا اس شخصیت کی موافقت یا مخالفت (بحوالہ عسکری) میں بعض مجلوںمیں اکا دکا مضامین شائع ہو رہے ہیں، وہ سب عسکری کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ عسکری کے انتقادی مطالعات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ اب وہ اُردو تنقید نگاری کی تاریخ کا جزوِ لاینفک ہے، لیکن ان کی اہم ترین فکری دین یہ ہے کہ انھوں نے یہاں کے مفکرین، اہل دانش اور علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے عام اصحاب کو اس نو مسلم فرانسیسی عالم اور بیسویں صدی کے اس عظیم مفکر کے نظریات سے روشناس کرایا۔ عسکری مرحوم گینوں کے مختلف نظریات و افکار کے بعض پہلوزیر بحث لاتے ہیں اور انھوں نے بڑے دقیق موضوعات کو اتنے خوبصورت اور سہل انداز میںبیان کیا ہے کہ ایک عام قاری کو بھی ان کی تفہیم میں دشواری نہیں ہوتی لیکن یہ امر باعث تعجب ہے کہ وہ اس فرانسیسی عالم کے سوانح حیات پر تفصیلی طور پر کچھ نہ لکھ سکے۔ اپنے بعض مقالات اورمکاتیب میں انھوں نے اس جانب بھی مختصراً اشارے کیے ہیں، لیکن گینوں کی فکر کے ساتھ ساتھ ان کے مفصل حالاتِ زندگی جاننے کے خواہش مند قارئین کے لیے ان میں تشنگی پائی جاتی ہے۔ اگر وہ چاہتے تو خود اس پہلو پر بھی مفصل طور لکھ سکتے تھے، کیونکہ ایک تو وہ فرانسیسی زبان سے بخوبی واقف تھے، دوسرے گینوں کے دبستان فکر سے متعلق بڑے بڑے لوگ مثلاً مثل والساں وغیرہ سے ان کے ذاتی اور علمی روابط تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ گینوں کی وفات کے بعد پول شکارنکPaul Chacornac) مطبوعہ پیرس ۱۹۵۸ئ)پول سیراں (Paul Serant مطبوعہ پیرس ۱۹۵۳ئ) عبدالحلیم محمود(مطبوعہ قاہرہ ۱۹۵۴ئ)اور لوسین میروز( Lucien Meroz مطبوعہ پیرس ۱۹۶۲ئ) نے ان کے سوانح زندگی پر جو اہم کتابیں لکھیں، وہ بیشتر عسکری کے ذاتی کتاب خانے میں موجود تھیںاور وہ ان کی بنیاد پر یہ کام بخوبی سر انجام دے سکتے تھے۔ ممکن ہے اس سلسلے میں ان کی افتادِ طبع، مزاج، عدیم۔الفرصتی یا اس نوعیت کے دیگر موانع حائل ہوں۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی ایسا موضوع تھا جس پر اگر عسکری مرحوم کچھ کام کر جاتے تو اہل علم کے لیے گینوں کوسمجھنے میں مزید آسانیاں پیدا ہو جاتیں اور یہ موضوع تھا گینوں کی چیدہ چیدہ کتابوں کا اُردو ترجمہ۔ وہ ترجمے کے اس کام کو براہ راست فرانسیسی سے بھی کر سکتے تھے۔ کیونکہ وہ اس زبان کو اپنے زمانۂ طالب علمی سے جانتے تھے اور ایک روایت کے مطابق وہ فرانسیسی دانشوروں سے اسی زبان میں مراسلت کرتے تھے اور کبھی کبھار اس زبان میںمقالات بھی لکھتے تھے۔ اگر براہ راست ترجمہ کی راہ میںکوئی رکاوٹ حائل تھی تو وہ گینوں کی ایسی کتابوں کو منتخب کر سکتے تھے جن کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ عسکری نے انگریزی سے جو تراجم کیے ہیں وہ اپنی سلاست، روانی اور مفہوم کی ادئیگی کے اعتبار سے قابل مثال بھی ہیں اور قابل اتباع بھی۔ مزید برآں وہ گینوں کی استعمال کردہ اصطلاحات کے مخصوص مفاہیم پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ اس لیے اگر وہ گینوں کی کسی تحریر کو بالواسطہ یا بلا واسطہ اُردو میں منتقل کرتے، تو وہ یقینا ایک معرکے کی چیز ہوتا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ کیوں؟ بظاہر اس کا کوئی واضح سبب تو نظر نہیں آتا، ممکن ہے ان کے قریبی ساتھیوں میں سے کوئی اس پر روشنی ڈال سکے اور اس سلسلے میں ذہن رسا رکھنے والا کوئی اہل قلم دور کی کوڑی بھی لا سکے۔ اور کوئی سطحی نظر رکھنے والا مضمون نگار کوئی اعتراض بھی جڑ دے مگر میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ عسکری مرحوم محولہ بالا دونوں موضوعات کو اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں اور اگر ان کی وفات کے بعد گینوں کی روز افزوں مقبولیت ان کی فکرکے عمیق مطالعے اور ان کے تراجم کی روشنی میں اس مفروضے کو جانچا جائے تو یہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ حسن عسکری کی وفات کے بعد ابھی تک گینوں کے حالات زندگی پرکوئی ڈھب کا کام نہیں ہوا۔ممکن ہے ہمارے علمی حلقوں میں فرانسیسی زبان سے عدم واقفیت اور اہم مصادر کی نایابی اس راہ میں حائل ہو۔ اس کے برعکس گزشتہ دو تین سالوں میں گینوں کی تحریروں کو اُردو میںمنتقل کرنے کے سلسلہ میں جو کام ہوا ہے، وہ بے حد امید افزا اور خوش آئند ہے۔ زیر نظر ترجمہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں پیرس کے معروف ناشر گالیمار نے ’’میلانژسے‘‘(Melanges) کے عنوان سے رینے گینوں کے انیس ایسے مضامین کو یکجا کرکے شائع کیا جو وقتاً فوقتاً مختلف فرانسیسی رسائل میں چھپتے رہے تھے۔ اس مجموعہ کے شروع میں روژ ماری د و(Roger Maridot)کا ایک معلوماتی اور فکر انگیز پیش لفظ ہے۔ اس کے بعد اس مجموعے کو مرتب نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: پہلے حصے (صفحہ ۹-۶۸) میں سات مضامین ہیں اور یہ تمام مابعد الطبیعیات اور علم کائنات کے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ دوسرے حصے (صفحہ ۷۱-۱۳۱) کے چاروں مضامین علوم اور روایتی فنون کے موضوع پر ہیں۔ تیسرا حصہ (صفحہ ۱۳۵- ۲۳۱) آٹھ مقالات پر مبنی ہے اور ان میں کچھ جدید گمراہیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ عسکری مرحوم کی کتاب جدیدیت انھی مقالات کو سامنے رکھ کر مرتب کی گئی ہے۔ ء ء ء امام غزالی ؒ فلسفے کا مخالف فلسفی یہ بات بھی قبول کرنا ہوگی کہ غزالی ابن سینا اور ملا صدرا کی طرح اسلامی فلسفی نہ تھے۔ تاہم فلسفے کا یہ مخالف اپنے طور پر ایک ایسا حکیم تھا جس کا اثر فلسفۂ اسلامی میں پھیلا ہوا ہے۔ آسمانِ معارفِ اسلامی کے اس درخشندہ ستارے کی اہمیت کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے جس میںکلام، فقہ، تفسیر، تصوفِ عملی اور اخلاقیات کے لیے ان کی خدمات کے علاوہ ان کی فلسفیانہ اہمیت پر بھی توجہ دی جائے تاکہ افراط و تفریط سے الگ ہو کر غیر جانبداری سے ان کی علمی صورت سب کے لیے روشن ہو سکے۔ آثارِ غزالی کی فلسفیانہ جہات اور بعد کے زمانے میں ان کے اثرات پر غور و تفحص سے واضح ہو جائے گا کہ مغرب والوں نے ان کی کتاب مقاصد الفلاسفہ کے لاطینی ترجمے سے ان کو جس معنی میں فلسفی سمجھا تھا اس معنی میں اگرچہ وہ فلسفی نہیں تھے تاہم عالم اسلام کے مشرقی علاقوں، خاص طور پر ایران میں، بعد کے زمانے میں جس طرح فلسفہ پروان چڑھا اس میں ان کا قابل توجہ حصہ ہے۔ ایران کے اس عظیم مفکر کے اثرات ملائیشیا سے لے کر اندلس و مغرب اسلامی تک غالب رہے ہیں۔ ایران میں ان کے بعد جو مکاتبِ فلسفہ اُبھرے وہ قرونِ اخیر میں ایران کی اسلامی ثقافت کا درخشاں ترین پہلو میں اب تک ان مکاتب پر غزالی کے اثرات کاجو جائزہ لیا گیا ہے وہ نامکمل ہے۔ غزالی کے اثرات اس سے زیادہ ہیں۔ ان کے اپنے زمانے میں فلسفے کے جو معنی رہے ہوں اس کے لحاظ سے وہ فلسفے کے دشمن تھے لیکن فلسفے کے کلی اور متداول معانی کے اعتبار سے انھیں حکیم اور فیلسوف ہی کہنا چاہیے۔ فکر اسلامی کی اشاعت اور اس کے تاریخی انقلابات سے تھوڑی بہت آگاہی رکھنے والا ہر شخص ابن سینا کے فلسفے پر ابوحامد محمد الغزالی کی تنقید اور اسلامی و یونانی مشائی فلسفے کی مخالفت سے واقف ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ غزالی نے اپنی کتاب مقاصد۱؎؎ میں ابن سینا اور مشائی مکتبِ فکر کے فلسفے کی تلخیص کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر تنقید بھی کی اور تہافۃ الفلاسفۃ میں یہ کوشش کی کہ بوعلی سینا اور فارابی کے فلسفے کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ انھوں نے اپنے خودنوشت احوال حیات المنقذ من الضلال۲؎ میں بھی اس فلسفے کے نقائص اور اس پر اعتراضات بیان کیے۔ ان تینوں مقامات پر غزالی نے ان مکاتب فکر کے پیروکاروں پر کفر آمیز افکار کی تنقید کا الزام تک لگایا ہے۔۳؎ لہٰذا غزالی اور فلسفے کی بحث میں اس پہلو کی تکرار بے معنی ہوگی۔ یوں بھی فلسفے کے دشمن اور مخالف کے طور پر غزالی کا ایک ایسا تصور بن چکا ہے جس کے بارے میں مزید کچھ کہنا بے مصرف ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ایران میں فکر و فلسفہ کی روایت کے دامن میںپروان چڑھے اور جنھوں نے غزالی کو زیادہ تر فلاسفہ خلف کے نقطہ نظر سے دیکھا۔ بایں ہمہ غزالی کی تصانیف کا اگر دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے اور فکر اسلامی کے مابعد کے ادوار میں ان کے نفوذ اور اہمیت کو سامنے رکھا جائے تو یہ پتا چلے گا کہ اگرچہ غزالی ایک معنی میں فلسفہ دشمن تھے بلکہ شاید پانچویں صدی میں فلسفہ مشائی کا زور توڑنے اور اشعری علم کلام کو قوت دینے والی سب سے اہم شخصیت تھے؛تاہم اس کے باوجود وہ خود بھی فلسفی اور حکیم تھے۔ اپنی فلسفیانہ نظر اور تصانیف سے انھوں نے نہ صرف فلسفہ مشائی کی عمارت منہدم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ بعد کے صدیوں میں فلسفیانہ سوچ کے سفر پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ ہماری تحریر کا مقصد غزالی کی فکر کے اسی فلسفیانہ اور حکیمانہ تناظر کو نمایاں کرنا ہے کیونکہ بوعلی سینا اور فارابی کے فلسفے کی مخالفت تو پہلے ہی معروف خاص و عام ہے۔ غزالی کی کتب پر غور کرنے سے ایک بنیادی چیز آشکار ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انھوں نے عقل و خرد پر توجہ دی ہے، ان کی اہمیت کی تائید کی ہے اور انسان کی فکری، دینی اور روحانی زندگی میں عقل کے مثبت کردار کا اقرار کیا ہے۔ اس معاملے میں غزالی فلاسفہ کے ساتھ ہیں اور اس کے لیے انھوں نے فقہائے حنابلہ، صوفیاکے ایک خاص طبقے حتیٰ کہ متکلمین تک کے برعکس نقطۂ نظر اپنایا ہے۔ یہ مکاتب فکر عقل اور منطق کے مخالف تھے۔ یہ درست ہے کہ غزالی کے ہاں عقل صرف منطقی اور ارسطاطالیسی معانی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اسے حقائق الٰہیہ کے ادراک کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود انسان کے حصول کمال کے لیے عقل کی اہمیت پر زور دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس معاملے میں حکما کے ہم خیال ہیں اور اپنے مخالف فلاسفہ سے عقل کی اہمیت اور عقلی و منطقی مقولات پر انحصار کرنے کی ضرورت پر متفق الرائے ہیں۔ اسلامی فکریات کے تمام مختلف مکاتب فکر کو سامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ فلسفۂ مشائی کی شدید مخالفت کے باوجود غزالی حیاتِ انسانی میں عقل و خرد کے کردار اور کسب کمال میں اس کے حصے کے مسئلے پر فلاسفہ ہی کے پہلو میں کھڑے ہوئے ہیں۴؎ اور ان فلاسفہ اور بہت سے دیگر صوفیا کی طرح معرفت کو کلید سعادت گردانتے ہیں، نیزانسان کے لیے معرفت حق تک دسترس کے امکان اور ایک علم برتر کے قائل ہیں۔ غزالی کی فکر کا یہ پہلو ان کے علم منطق سے اعتنا سے بھی ظاہر ہے۔ ان کی منطق پر یہ توجہ علمائے دین کے اس طبقے (جس کی مثال ابن تیمیہ ہیں) کے برعکس ہے جنھوں نے منطق کی مخالفت کی،۵؎ ساتھ ہی ان کا یہ رویہ ان صوفیا کے نقطہ نظر سے بھی لگا نہیں کھاتا جنھوں نے انسان کو اپنے نفس سے رہائی دلانے اور شہوات و عالم نفسانی کی ماری ہوئی عقل تک محدود سوچ سے آزاد کرنے کے لیے صرف پائے استدلالیاںکو چوبیں بتانے ہی پر تکیہ کیا‘‘۔۶؎ غزالی نے نہ صرف یہ کہ منطق کو رد نہیں کیا بلکہ اس کو بہت اہمیت دی ہے اور اس موضوع پر اہم تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں۔ مقاصد کے علاوہ غزالی نے معیار العلم ارسطو کی منطق پر لکھی اور اس کے بعد محک النظر فی المنطق کے نام سے ایک مختصر کتاب بھی تالیف کی۔ اسی طرح غزالی کی ایک نادر تصنیف القسطاس المستقیم ہے۔ اس کا موضوع بھی منطق ہے البتہ اس کی بنیاد اس زمانے میں متداول ارسطو کی منطق کی بجائے قرآن کریم کی منطقی میزانوں پر رکھی گئی ہے۔ ابتکاری حیثیت رکھنے والی یہ کتاب ’’درحقیقت منطق قرآن کا بیان ہے۔ اس کے پانچ میزان یوں ہیں تعادل اکبر، تعادل اوسط، تعادل اصغر، تلازم، تخالف۔‘‘۷؎ اس کتاب کی اہمیت اور مابعد کی صدیوں میں اس کے نفوذ کا اندازہ ملا ہادی سبزواری کی شرح منظومہمیں مذکورہ پنج میزان ماخوذ از القسطاس المستقیم کا حوالہ دیکھ کر ہوتا ہے۔۸؎ یوں فلسفے کے دشمن امام غزالی خود منطق کے عالم ٹھہرتے ہیں، ایسا عالم جس نے منطق کی اشاعت میں حصہ لیا اور اس علم میں گراں قدر تصانیف چھوڑیں جو بلاشبہ فلسفہ مشائی اور دیگر علوم نظری اور حکمت ہائے استدلال کی بنیاد ہیں۔ غزالی ان مفکرین کے زمرے میں آتے ہیں جنھوں نے فلسفے پر فقط عقائد یا احساسات کے اعتبار سے ہی تنقید نہیں کہ بلکہ ان کے فلسفے پر تنقید ہے۔۹؎ تہافت میں ان کی کوشش ہے کہ مشائی فلاسفہ کی آرا کا تجزیہ فلسفیانہ انداز اور فلسفیانہ تجزیہ کاری کے ساتھ کیا جائے۔ یہ چیز حدوث و قدم کی بحث سے بالخصوص نمایاں ہے جو تہافت کا سب سے اہم فلسفیانہ مبحث ہے، اسی لیے ابن رشد نے تہافت التہافت میں ہر موضوع سے بڑھ کو اس موضوع پر غزالی کے نظریات کا تجزیہ کیا ہے اور جواب دیا ہے۔۱۰؎ غزالی کی کوشش تھی کہ زمان و مکان، علیت اور دیگر مقولات پر، جو مسئلہ حدوث و قدم میں لازماً درپیش آتے ہیں، فلسفیانہ طریقے سے بحث کی جائے۔ البتہ یہ نکتہ واضح ہونا چاہیے کہ غزالی نے کس حد تک شیخ الرئیس کے نظریات کو سمجھا اور فلسفیانہ نقطہ نظر سے ان آرا کو پرکھا؟مکتب مشائی کے پیروکاروں نے غزالی کو فلسفیانہ فہم و ادراک سے عاری جانا ہے اور اس میں شک نہیں کہ غزالی فلسفے میں اپنے استاد خود تھے اور صدیوں سے بوعلی سینا کے فلسفے کے استادوں اور صاحب نظر لوگوں نے جس طرح ان کی آرا کو سمجھا غزالی اس طرح نہیں سمجھ پائے تھے اور اسی لیے ان کی نظر اس فلسفے کے اُصولوں تک نہیں پہنچی۔ اس کے باوجود فلسفے پر غزالی کی تنقید کو نری کلامی یا عقائدی تنقید نہیں جاننا چاہیے بلکہ ایک فلسفی کی فلسفے پر فلسفیانہ تنقید سمجھنا چاہیے۔ جو شخص بھی غزالی کی فکر کے فلسفیانہ پہلوئوں پر نظر ڈالنا چاہتا ہو اسے فلسفے پر غزالی کی تنقیدات کا فلسفے کے نقطۂ نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ غزالی نے اسما عیلیہ فرقے پر جو تنقید کی اس میں اگرچہ فلسفے سے زیادہ سیاسی پہلو غالب تھا تاہم اسے بھی فلسفیانہ رنگ سے خالی نہیں کہا جا سکتا۔ المنقذمن الضلال کی تالیف سے قبل غزالی نے اسمٰعیلی نظریات کامطالعہ کیا تھا اور چونکہ ابو حاتم رازی، حمید الدین کرمانی اور ناصر خسرو وغیرہ اسمٰعیلی مفکرین اپنے زمانے کے نمایاں فلسفیوں میں شمار ہوتے تھے لہٰذا ان کی فکر کا مطالعہ غزالی کو بلاشبہ فلسفیانہ سوچ بچار کے میدان میں لے گیا ہو گا۔ پھر غزالی نے فضائح الباطنیہ کے نام سے ایک مبسوط کتاب اور حجۃ الحق، تواہم الباطنیہ کی طرح کے چھوٹے چھوٹے رسائل بھی لکھے جن میں ان کی کوشش تھی کہ حقائقِ عالم روحانی تک دسترس اور معرفت خداوندی کے حصول کے لیے امام معصوم سے تعلیم پانے کی ضرورت کے جو دعاوی اسمٰعیلیہ نے کیے تھے ان کو رد کیا جائے۔‘‘۱۱؎ اگرچہ ان تالیفات میں فلسفیانہ استدلال و برہان سے زیادہ جدل و مناظرہ کا رنگ ہے تاہم فلسفیانہ اعتبار سے بھی غزالی کا ردِ اسمٰعیلیہ اہم ہے۔ اسی لیے اسمٰعیلیہ کے پانچویں مستعلوی۱۲؎ داعی علی بن محمد الولید (یمن) نے فضائح الباطنیہ کا جو مفصل جواب دیا اس میں صرف اسمٰعیلیوں کے بعض آرا و افکار پر غزالی کے شبہات ہی پر بحث نہیں کی بلکہ عقل اور وحی کے رابطے اور تعلیمِ (لدنی) کے بارے میں غزالی کے نقطۂ نظر پر بھی فلسفیانہ اعتبار سے گفتگو کی ہے۔۱۳؎ غزالی کی فکر کا اہم ترین فلسفیانہ تناظر علم و معرفت کا مسئلہ ہے۔ صوفیائے سلف میں سے کچھ لوگوں نے اپنی تحریروں میں علم و شناخت کے مسئلے پر قطعاً توجہ نہیں دی۔ متکلمینِ سلف نے بھی عقل کو عالم بالا کے حقائق کی معرفت سے لاچار قرار دیا تھا۔ ان دونوں کے برعکس غزالی اس بات کے معتقد ہیں کہ انسان حق تعالیٰ کو پہچاننے اور یقین و معرفت تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ان کی ساری زندگی حصولِ معرفت اور یقین تک رسائی کی کوشش میں گزری ۱۴؎ اور ان کی اہم ترین تحریروں میں عقلِ ماورائی، ذہن کی قوتِ استدلال اورعالمِ قدس سے رابطہ جیسے اُمور پر توجہ ہر جگہ ہویدا ہے۔ ان کی پیش کردہ علمِ لدنی کی تعریف، عقل کی گونا گوں مراحل میں درجہ بندی، جس کا بلند ترین درجہ عقل انبیا ہے، عقل اور وحی کا تعلق، حقائق ازلی کی شناخت کا امکان، علم الٰہی کا حصول، عقل استدلالی اور اشراق کا جوڑ جیسے مباحث کے اثرات ان کے زمانے کے بعد سہروردی سے لے کر ملاصدرا اور شاہ ولی اللہ تک بہت سے مسلمان مفکرین اور فلاسفہ کی فکر میں وافر نظر آتے ہیں۔ جہاں تک فلسفے کے اصل مسائل کے فہم کا تعلق ہے یہ صراحت سے کہا جا سکتا ہے کہ غزالی ان مباحث پر غور و پرداخت اور ان کی چھان بین کرنے والے اہم ترین مفکر ہیں۔ اسلام کی فکری تاریخ میں کم لوگ ہوں گے جن کی فکر کے اثرات ان فلسفیانہ مباحث میں اتنے دور رس ہوئے ہوں۔ علوم کی قسم بندی کا مسئلہ علم اور منہاج شناسی سے گہرا تعلق رکھتا ہے اورمسلمان فلسفی اسے فلسفے کے بنیادی مباحث میں سے جانتے تھے۔کندی سے لے کر ملاصدرا اور شاہ ولی اللہ تک اکثر مسلمان مفکرین نے اس پر توجہ دی ہے۔ فلاسفہ تو خاص طور پر اس کی اہمیت کے قائل رہے ہیں اور اس کے بارے میں غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے علوم اور معرفت کی گونا گوں شاخوں کے مابین وحدت پیدا کرنے میں چونکہ اس مبحث کو پورا دخل حاصل تھا لہٰذا غزالی نے متکلمین کی بجائے اپنے زمانے سے پہلے کے صوفیا و فلاسفہ کی پیروی میں اس موضوع سے خاص اعتنا برتا ہے اور احیاء العلوم الدین میں اس کو خوب واضح کیا ہے۔ البتہ غزالی کے ہاں علوم کی بنیادی تقسیم فرض عین اور فرض کفایہ کے تحت ہے۔ یہ فلسفیانہ نہیں بلکہ فقہی رنگ ہے۔تاہم ان دو کلی مقولات کے اندر غزالی نے ان تمام گونا گوں علوم پر گفتگو کی ہے جن پر فلاسفہ کی توجہ رہی ہے اور بعض فلسفیوں مثلاً فارابی نے احصاء العلوم کے نام سے ان پر تحریریں بھی چھوڑی ہیں۔ غزالی کے ہاں پائی جانے والی قسم بندی کے اُصول اولیہ اگرچہ سابقہ فلاسفہ کی نگارشات سے مختلف ہیں لیکن علوم کی شاخوں مثلاً علومِ عقلی، علومِ عقلی و نقلی کا تعلق، وحی اور تکلیفِ شرعی وغیرہ پربحث میں بھی نفس توجہ فلسفیانہ ہی رہی ہے اور فلسفۂ مشائی پر حملوں کے باوجودعلوم کی قسم بندی کے معاملے میں ان کے نظریات ابن سینا، فارابی اور کندی کی تحریروں سے کاملاً ہم آہنگ ہیں اور اسلامی فکریات میں علوم کی قسم بندی پر ہر مکمل تحقیق میں غزالی کے افکار کا جائزہ لینا ضروری ٹھہرتا ہے۔ یہ جائزہ فقط فقہی یا تاریخی اہمیت کے اعتبار سے نہیں بلکہ فلسفیانہ حیثیت کے لحاظ سے ہوگا۔ غزالی نے علوم کی جو تقسیم کی ہے اس میں اپنے معاصرین کے کلام اور فقہائے اہل دنیا کی مذمت کی ہے اور دانش محض یا معرفت کی تعریف کی ہے جو تصوف کے مترادف ہے اور چونکہ ان کے لیے تصوف اور معرفت توأم تھے اور ایک عقلانی جہت کے حامل لہٰذا ان کی علوم کی تقسیم بندی بھی فلسفیانہ رنگ میں ہے بشرطیکہ فلسفے کو اس کے کلی معنی میںسمجھا جائے اور صرف مشائی فلسفے تک محدود نہ قرار دیا جائے۔ علوم دینی میں غزالی نے جو تصانیف چھوڑی ہیں ان میں بھی فلسفیانہ پہلو پر پوری توجہ دی گئی ہے۔ان سے پہلے کے فلاسفہ بالخصوص ابن سینا نے قرآن کریم کی چند فلسفیانہ تفسیریں لکھی تھیں۔ شیخ الرئیس نے آیۂ نور کی تفسیر پر خاص توجہ دی اور اس آیت مبارکہ پر پہلی حکیمانہ اور فلسفیانہ تفسیر سپرد قلم کی جس سے اس روایت کا آغاز ہوا جو ہمیں بعد میں غزالی، ملاصدرا اور بہت سے دوسرے مسلمان مفکرین میں جاری نظر آتی ہے۔ البتہ آیۂ مذکورہ کی جو تفسیر غزالی نے مشکوۃ الانوار میں کی ہے وہ اگرچہ ابن سینا کی اشارات میں بیان کردہ تفسیر سے بہت مختلف ہے مگر اس سے بے تعلق نہیں۔اپنی کتب مثلاً جواہر القرآن میں غزالی نے جس تفسیری روش کو اختیار کیا اور کتاب آسمانی کی تاویل اور تفسیر کے مسئلے کو جس انداز میں بیان کیا وہ بعد کے دور میں فلاسفہ کی توجہ کا مرکز رہاہے اور اس کی فلسفیانہ جہت ملاصدرا کی اسرار الآیات اور خاص طور پر آیۂ نور پر ان کی تفسیر میں نمایاں ہے۔ فلسفہ اسلامی میں مابعد کی تبدیلیوں اور سہروردی کے ہاں تفسیر قرآن کو فلسفیانہ فکر سے مربوط کرنے (کی کوشش)کو سامنے رکھیے تو علوم قرآنی کے ضمن میں غزالی کی تحریروں کی فلسفیانہ اہمیت واضح ہو جائے گی۔ علم کلام میں اگرچہ غزالی ابوالحسن اشعری کے پیرو اور مشائی فلاسفہ کے سخت مخالف تھے تاہم علم کلام میں فلسفیانہ مباحث کی بنا انھی کے ہاتھوں پڑی اور وہ واقعی فلسفیانہ علم کلام کے مؤسس ٹھہرتے ہیں جو بعد کو فخرالدین رازی، میر سیّد شریف جرجانی اور عضدالدین ایجی جیسے متکلمین کے ہاں کمال کو پہنچا۔ آٹھویں اور نویں صدی ہجری کے مورخین مثلاً ابن خلدون وغیرہ نے جس چیز کو ’’کلامِ متاخرین‘‘کا نام دیا ہے اس کا آغاز اگرچہ غزالی کے استاد امام الحرمین جوپنی سے ہوتا ہے لیکن اس فلسفیانہ علمِ کلام کی بنا ڈالنے میں اساسی کردار غزالی کی الاقتصاد فی الاعتقاد جیسی تصنیفات نے ادا کیا۔ غزالی کا علم کلام فلسفے کا مخالف ہے مگر خود ایک فلسفیانہ جہت رکھتا ہے اور اگر لفظ فلسفہ کو اس کے متداول معنی میں استعمال کریں تو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ غزالی کی تصانیف فلسفیانہ فکر کے اہم منابع میں سے ہیں، گو مشائی فلسفہ کے اعتبار سے فلسفہ نہ کہلائیں۔ حادث اور قدیم کا ربط، علت و معلول، جسم کی جوہریت، جزولایتجزی، علم اشیاوغیرہ جیسے مباحث ان کی کتب میں منطق و استدلال کے سہارے بیان ہوئے ہیں اور ایسے انداز میں ان کی تفصیل دی گئی ہے جو ان کی تحریر کو اشاعرہ اور دیگر متکلمین سابقہ کے مکتب فکر سے جدا کرتا ہے باوجویکہ انھوں نے اشاعرہ کے علمِ کلام کی بنیاد کا دفاع کیا اور وہ خود اس مکتب فکر کے اہم ترین مفکرین میں شمار ہوتے ہیں۔ فلسفہ اسلامی کے مابعد کے مکاتبِ فکر سے غزالی کا رابطہ دیکھنے کے لیے سب سے پہلے مکتبِ اشراق کی پیدائش میں ان کی تصانیف کی اہمیت کا جائزہ لینا چاہیے۔ ابتدا میں شاید یوں معلوم ہوگا کہ غزالی کا نقطۂ نظر سہروردی کے افکار سے سرے سے لگا نہیں کھاتا اور یہ دونوں مشہور مفکرین فکر اسلامی کے دو متقابل نقطوں سے عبارت ہیں۔ لیکن مزید غور کرنے پر دونوں کے درمیان ایک گہرا ربط آشکار ہو سکتا ہے۔ اولاً یہ کہ فلسفہ مشائی پر غزالی کی تنقید نے سہروردی کی مشائی کے لیے زمین ہموار کی۔ ثانیاً، عقل اور تعلق عقل و وحی کے بارے میں حکمۃ الاشراق اور سہروردی کی دوسری تصانیف میں جو کچھ موجود ہے وہ غزالی کے نقطۂ نظر سے چنداں دور نہیں بلکہ بہت سی جگہوں پر ایک ہی ہے۔ تیسری چیز یہ کہ عرفا اور حکما میں غزالی پہلے شخص ہیں جنھوں نے نور اور تفسیر آیۂ نور کے باب میں اس اُسلوب میں گفتگو کی جو بعد کو اشراقی کہلایا۔ غزالی سے پہلے کے مفسرین نے قرآن میں اللہ کے بارے میں استعمال ہونے والے لفظ نور کو مجاز پر محمول کیا تھا اور عام نورِ محسوس ہی کو حقیقی نور سمجھا تھا۔۱۵؎ جب کہ غزالی مشکوۃ الانوار میں واضح طور پر لکھتے ہیں کہ فقط نورِ الٰہی نورِ حقیقی ہے اور اس کے سوا جس چیز کو بھی نور کہیے وہ مجاز کے حکم میں ہوگی۔ یہی نادر نظریہ دراصل حکمت اشراق کی فلسفیانہ بنیاد ہے۔ اشراقیت میں نور وہ حقیقت اور وہ وجود ہے جسے مطلق معنی اور کامل صورت میں صرف ذاتِ احدیث کے لیے برتا جا سکتا ہے۔ نور اسم الٰہی ہے اور ماسوی اللہ کے لیے جب بھی نورکہیں گے تو یہ صرف مجازاً نور ہوگا۔ مشکوۃ الانوار میں بیان کردہ بحث دربارۂ نور کا اثر سہروردی پر اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ اب تک جانچا گیا ہے۔تاریخ فکر اسلامی میں غزالی کے ظہور کو فلسفۂ استدلالی پر تنقید، عقل و وحی کے ربط کی بحث اور نور کے عرفانی اور حکیمانہ معنی میں توضیح، تینوں اعتبار سے مکتب اشراق کی پیدائش میں مؤثر جاننا چاہیے۔ شہاب الدین سہروردی یقینا ان کی کتب سے براہ راست یا عین القضاۃ ہمدانی جیسے عارفوں کے ذریعے آشنا رہے ہوں گے۔ غزالی کا اثر بعد کی صدیوں میں فلسفیانہ عرفان پر بھی نمایاں ہے۔ عین القضاۃ سے لے کر ابن عربی، صدر الدین قونوی، جیلی، عبدالرزاق کاشانی تک وہ تمام متصوفین کا جو عرفان نظری یا فلسفیانہ عرفان پر بحث کرتے رہے، آثارِ غزالی سے واقف تھے۔ خود غزالی کو بھی الرسالۃ اللدنیہ، مشکوۃ الانوار، رسالہ الطیر، معارج القدس فی معرفہ النفس، المعارف العقلیہ اور لباب الاحکمۃ الالٰھیہ جیسی تصانیف میں عرفانِ نظری کے مذکور مکتب فکر کا پیش رو کہا جا سکتا ہے۔ غزالی کی اس نوع کی تصانیف ایک بہت اہم فلسفیانہ پہلو کی حامل ہیں جس سے ابن ترکہ اور بعد کے ایرانی فلاسفۂ متاخرین نے بہرۂ وافر پایا۔ ان فلاسفہ کی عرفانِ نظری پر خاص توجہ رہی ہے۔ ان رسائل میں عرفانِ نظری کے بہت سے اساسی مباحث بیان ہو گئے ہیں مثلاً ’’علم لدنی‘‘، جس کا امکان غزالی تسلیم کرتے ہیں اور اسے طریق سیر و سلوک اور راہ حق کا مقصود اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ یہ علم تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور راہِ معرفت کے رہبر کے سامنے سرجھکا دینے سے حاصل ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ علمی اور عقلی جہت پر بھی محتوی ہے۔ یہ مبحث غیرمعمولی فلسفیانہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس کاثبوت مابعدکے فلاسفہ مثلاً ملا صدرا میں نظر آتا ہے۔ معاد کے بارے میں بھی غزالی کے مباحث فلسفیانہ اور عرفانی اعتبار سے غایت اہمیت کے حامل ہیں۔ جن لوگوں نے اسلام میں فکر و فلسفہ کی تاریخ پر غور کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگرچہ شیخ الرئیس اور بعض دوسرے فلاسفۂ سلف نے مسئلہ معاد پر کتابیں لکھی تھیں لیکن اس موضوع کی تفصیل بعد کی صدیوں کے فلاسفہ کے ہاتھوں انجام پائی۔ ملاصدرا کا نام خاص طور پر لیا جا سکتا ہے جن کی اسفار میں اسلامی فلسفیوں کے مقابلے میں اس موضوع پر سب سے زیادہ مفصل بحث شامل ہے۔ ان کی پیروی میں قرون اخیر کے دیگر حکمائے بزرگ مثلاً ملا عبداللہ زنوری، ملاعلی زنوری اور حاجی ملا ہادی سبزواری وغیرہ نے معاد کے موضوع پر بہت سے رسائل سپرد قلم کیے۔۱۶؎ خود ملا صدرا نے اسفار میںجہاں معاد کی بحث کی ہے وہاں غزالی کی تعریف کی ہے۔ ان کے مکتب فکر کے پیرو بھی اس فلسفیانہ بحث میں خود کو آثار غزالی کا مرہون منت سمجھتے تھے۔۱۷؎ سہروردی کی حکمۃ الاشراق پر ملاصدرا کا حاشیہ ان کا فلسفیانہ شاہکار ہے۔ اس میں بھی معاد کی بحث میں غزالی کا ذکر موجود ہے اور صدرالمتالہین نے کوشش کی ہے کہ حکمت متعالیہ کے اُصول خاص طور پر وحدت واصالتِ وجود، تشکیک وجود،۱۸؎ حرکت جوہریہ وغیرہ کے حوالے سے اور فلسفیانہ بیان کے سہارے اس موضوع پر غزالی اور ابن سینا کی آرا کا تضاد حل کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ چیز بھی عیاں ہے کہ معاد کے بارے میں ملاصدرا نے غزالی کی آرا سے بلاشبہ بہرہ ورفرمایا تھا۔۱۹؎ مذکورہ بالا اجمالی بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اکثر لوگوں کے ذہنوں میں فلسفے سے غزالی کے ربط کا جو تصور ہے وہ خلاف واقع ہے۔ ایران میں اسلامی مکتب فلسفہ کے پیرو ان کو عام طور پر صرف فلسفے کے دشمن اور مخالف کے طور پر جانتے ہیں۔ عرب دنیا میںبیشتر یورپی مستشرقین کا مؤقف مانا جاتا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی غزالی کو علوم عقلی کا مخالف اور اسلامی تہذیب میں ان علوم کے انحطاط کا اصلی سبب بتایا جاتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں ایک طبقہ ان کو دیکارت اور اس کی تشکیک کا پیش رو سمجھتا ہے اور دوسرا گروہ، ان کی مخالفتِ فلسفہ کو نظر انداز کرتے ہوئے نجات دہندہ فلسفہ کے عنوان سے ان کی تعریف کرتا ہے۔ ان تمام نظریات میں صداقت کا ایک نہ ایک پہلو تو موجود ہے مگر کوئی بھی پوری حقیقت بیان نہیں کرتا۔ غزالی فلسفہ مشائی کے مخالف ضرور تھے مگر منطق اور استدلال سے انھیں کوئی عناد نہ تھا۔ علوم عقلیہ میں سے ہر ایک کی تعریف میں اس علم کی حدود و ثغور واضح ہیں۔ جب یہ علوم اپنی حدود سے تجاوز کرکے دعویٰ کرتے تو غزالی ان کی مخالف کرتے وگرنہ خود ان علوم سے انھیں عداوت نہ تھی۔ دیکارت اور سترھویں صدی کے فلاسفہ کے پیش رو وہ یقینا نہ تھے۔اگر ان فلاسفہ کی کتابیں غزالی تک پہنچ گئی ہوتیں تو وہ یقینا ایک اور ’’تہافت‘‘رقم کرتے جو شیخ الرئیس اور فارابی کے خلاف لکھی جانے والی ’’تہافت‘‘ سے کہیں زیادہ تند و تیز ہوتی۔ وحی کی مدد سے علم لدنی تک عقل کی رسائی کا امکان دیکھتے ہوئے وہ ان فلسفیوں کے افکار پر یقینا تعجب کرتے۔ آخر میں یہ بات بھی قبول کرنا ہوگی کہ غزالی ابن سینا اور ملا صدرا کی طرح اسلامی فلسفی نہ تھے۔ تاہم فلسفے کا یہ مخالف اپنے طور پر ایک ایسا حکیم تھا جس کا اثر فلسفۂ اسلامی میں پھیلا ہوا ہے۔ آسمانِ معارفِ اسلامی کے اس درخشندہ ستارے کی اہمیت کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے جس میںکلام، فقہ، تفسیر، تصوفِ عملی اور اخلاقیات کے لیے ان کی خدمات کے علاوہ ان کی فلسفیانہ اہمیت پر بھی توجہ دی جائے تاکہ افراط و تفریط سے الگ ہو کر غیر جانبداری سے ان کی علمی صورت سب کے لیے روشن ہو سکے۔ آثارِ غزالی کی فلسفیانہ جہات اور بعد کے زمانے میں ان کے اثرات پر غور و تفحص سے واضح ہو جائے گا کہ مغرب والوں نے ان کی کتاب مقاصد الفلاسفہ کے لاطینی ترجمے سے ان کو جس معنی میں فلسفی سمجھا تھا اس معنی میں اگرچہ وہ فلسفی نہیں تھے تاہم عالم اسلام کے مشرقی علاقوں، خاص طور پر ایران میں، بعد کے زمانے میں جس طرح فلسفہ پروان چڑھا اس میں ان کا قابل توجہ حصہ ہے۔ ایران کے اس عظیم مفکر کے اثرات ملائیشیا سے لے کر اندلس و مغرب اسلامی تک غالب رہے ہیں۔ ایران میں ان کے بعد جو مکاتبِ فلسفہ اُبھرے وہ قرونِ اخیر میں ایران کی اسلامی ثقافت کا درخشاں ترین پہلو میں اب تک ان مکاتب پر غزالی کے اثرات کاجو جائزہ لیا گیا ہے وہ نامکمل ہے۔ غزالی کے اثرات اس سے زیادہ ہیں۔ ان کے اپنے زمانے میں فلسفے کے جو معنی رہے ہوں اس کے لحاظ سے وہ فلسفے کے دشمن تھے لیکن فلسفے کے کلی اور متداول معانی کے اعتبار سے انھیں حکیم اور فیلسوف ہی کہنا چاہیے۔ ء ء ء حوالے و حواشی ۱- مقاصد الفلاسفۃ فلسفہ مشائی کی سہل اور واضح ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کا لاطینی ترجمہ ہو چکا ہے جس کا مغرب میں بہت شہرہ ہوا۔ دراصل یہ کتاب ابن سینا کے دانش نامۂ علائی کا عربی ترجمہ ہے جس میں ریاضیات کا حصہ شامل نہیں۔ غزالی کی فلسفیانہ مباحث کو آسان کرکے لکھنے کی روش اس کتاب میں پوری طرح نمایاں ہے۔یہاں تک کہ بہت سے فارسی اہل زبان کے لیے جو کسی حد تک عربی جانتے ہیں مقاصد کوسمجھنا فارسی میں دانشنامہ پڑھنے سے آسان ہے۔ مقاصد، دانشنامہ علائی کا سیدھا ترجمہ ہے۔ یہ بات پہلی مرتبہ سیّد احمد خراسانی مرحوم کے توسط سے منظرعام پر آئی۔ رجوع کیجیے: ’’فلسفے و منطق کے بارے میں غزالی کا موقف‘‘، دکتر محمد خوانساری، مجلہ معارف مجلد اوّل، شمارہ۳، آذر، اسفند، ۱۳۶۳، ص ۱۴۔ اس کے علاوہ دیکھیے مقاصد، فارسی ترجمہ از دکتر محمد خزانلی، طہران، ۱۳۳۸۔ ۲- المنقذ کا کئی بار فارسی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں، اعترافات غزالی، ترجمہ از زین الدین کیانی نثراد، طہران، ۱۳۳۵: راھنمائے گمراھان، ترجمہ، محمد مہدی فولاد وند،طہران، ۱۳۴۸: شک و شناخت، ترجمہ، صادق آئینہ وند، طہران، ۱۳۶۰۔ ۳- فارسی میں دو مستند کتب غزالی کے بارے میں ایسی ہیں جن میں غزالی اور فلسفہ کی مخالفت پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ غزالی نامہ از مرحوم جلال ھمائی اور فرار از مدرسہ، دکتر زریں کو ب۔ ھمائی مرحوم کی کتاب شاید سب سے قابل قدر کتاب ہے جو اب تک غزالی اور ان کی فکریات پر لکھی گئی ہے اور اس میں فلسفہ مشائی کے مقابلے میں غزالی کا موقف اور اشعری علم کلام کا دفاع نہایت وضاحت اور امعان نظر سے بیان ہوا ہے۔ ۴- چھٹے باب، نصیحۃ الملوک میں غزالی کہتے ہیں: ہر صاحب خرد کو علم تک رہنمائی کرتی ہے اور جو صاحب دانش ہو مگر صاحب خرد نہ ہو اس کے کام اُلٹے ہوتے ہیں۔ جس کے پاس خرد اور دانش دونوں کامل ہوں وہ دنیا میں یا تو پیامبر ہوگا یا حکیم یا امام (لوگوں کے لیے ساری خیر اور عزو شرف اور دو جہاں کی صلاح خرد ہی سے ہے۔ نصیحۃ الملوک، بہ تصحیح جلال الدین ھمائی، طہران، ۱۳۵۱، ص ۲۴۷۔ نیز رجوع کیجیے ’’ارزش عقلی از نظر غزالی‘‘، زین الدین کیانی نژاد، معارف اسلامی، دورہ اوّل، شمارہ ۳، ص ۱۹۹-۲۰۸۔ ۵- ر۔ ک الرد علی المنطقیین، بمبئی، ۱۹۴۹ء دکتر زریاب خوئی نے اپنے مقالے بعنوان ’’غزالی و ابن تیمیہ‘‘ معارف اسلامی، دورہ اوّل شمارہ ۳، ص ۶۸-۷۹ میں منطق کے مسئلے پر غزالی اور ابن تیمیہ کے اختلاف پر عالمانہ بحث کی ہے۔ ۶- یاد رہے کہ مولانا روم نے جو ’’پائے استدلالیان چوبیں بود کہا تو اس میں نہ صرف عقل قدسی کی مخالفت موجود نہیں بلکہ عشق کی اہمیت کی تاکید کرنے کے ساتھ معرفت کی اہمیت اور عشق الٰہی کے معرفت حق اور حقائق عالم قدس سے توام ہونے پر بھی برابر توجہ دی ہے۔جیسا کہ فرمایا ’’عقل جزئی عقل را بدنام کرد‘‘۔ نیز مولانا راہ حق می علم کی اہمیت کے مؤید ہیں البتہ اس علم کو عقل الٰہی کے مہبط یعنی قلب کی راہ سے اور چشم دل باز کرنے کے ذریعے حاصل کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔جیسا کہ فرمایا: علم راہ حق و علم منزلش صاحب دل داندآں را یادلش ۷- ر۔ ک دکتر خوانساری کا مقالہ، مذکورہ بالا، ص ۳۰۔ ۸- سبزواری کی شرح منظومہ کاشعر۔ ’’تلازمٍ تعاندٍ تعادلٍ من اصغر اوسطٍ اکبرٍ‘‘ غزالی کے میزان ہائے مذکورہ کی طرف واضح اشارہ ہے۔ ۹- ر۔ ک دکتر زریں کوب فرار از مدرسہ۔ ۱۰- فلسفہ اسلامی کے بارے میں مغربی کتب میں بھی غزالی کے حوالے سے اس موضوع پر توجہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے ؛ او۔ لی مین۔ قرون وسطیٰ کے اسلامی فلسفہ کا تعارف، (انگریزی) نیو یارک، ۱۹۸۵ء ۱۱- ر۔ ک غزالی اور اسمٰعیلیہ از فربا ددفتری، معارف، دورہ اوّل، شمارہ ۳، ص ۱۹۱۔ ۱۲- اسمٰعیلیوں کا وہ گروہ، ’’مستعلوی‘‘کہلاتا ہے جو المستنصرباللہ کی وفات کے بعد المستعلی باللہ کا پیروکار ہوا۔ (حاشیہ مترجم) ۱۳- ر۔ ک دامغ الباطل، تصحیح مصطفی غالب، ۲ جلد، بیروت ۱۹۸۲ء ہنری کوربن نے غزالی کے حملوں کے جواب میں اس اسماعیلی تحریر پر ایک مقالہ لکھا ہے۔ دیکھیے: ’’غزالی کے مناظرے کا اسماعیلی جواب‘‘(انگریزی) در، سیّد حسین نصر(مرتب) اسلامی ثقافت میں اسمٰعیلی حصہ، (انگریزی) تہران، ۱۹۷۷ئ، ص ۶۸-۹۸۔ ۱۴- ر۔ ک فرید جبر کی کتاب، غزالی کے تصور ایقان کا نفسیاتی اور تاریخی جائزہ (فرانسیسی) پیرس، ۱۹۵۸ئ۔ یہ کتاب آثار غزالی میں معرفت اور یقین کے بارے میں تفصیلی بحث کوئی ہے۔ ۱۵- نور کو مجاز پر محمول کرنا اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ تمام متقدمین نورِ محسوس ہی کو نورِ حقیقی سمجھتے تھے۔ کسی شتے کو مجاز پر محمول کرنے سے مجاز ہی کو حقیقی سمجھنا متبا در نہیں ہوتا۔ تفسیری روش کا یہ فرق متقدمین اور متاخرین کے اسالیب بیان کا فرق ہے۔ متقدمین بالعموم متشابہات کے سلسلے میں لفظ کے ترجمہ یا نقل پر اکتفا کرتے تھے لہٰذا اس ضمن میں ان کا سکوت مصنف کے پیش کردہ مفہوم پر دال قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (حاشیہ مترجم) ۱۶- مثال کے طور پر :المعارف الٰہیہ و انوار حلبیہ، اسرار الحکم کا آخری حصہ اور شرح منظومہ۔ ۱۷- ’’اخوند ملا صدرا اس بات کے قائل ہیں کہ اعاظم حکما میں سے صرف ابن سینا اور فارابی نے معقول انداز میں معاد جسمانی کی صحت کے سبب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شیخ اعظم،شیخ کامل امام غزالی نے بھی معاد جسمانی کی توجیہ اور اس کے حق میں ہونے کے بارے میں شیخ الرئیس کے فرمودات سے کامل تر اور قابل توجہ مباحث بیان کیے ہیں۔ لہٰذا شیخ فلاسفۂ اسلام (سینا) کی عبارت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: ویقرب منہ اذکرہ الشیخ الغزالی فی بعض منشور اتہ بقولہ: ان اللذّات المحسوسۃ الموعودہ فی الجنۃ من اکل و نکاح یجب التصدیق بامکانھا، واللذات کما تقدم حسیۃ و خیالیۃ و عقلیہ…)۔ شرح برزاد المسافر ملاصدرا در معاد جسمانی، تالیف سیّد جلال الدین آشتیانی، طہران، ۱۳۵۹، ص ۲۴۲ عبدالرزاق لاہیجی نے بھی گوہر مراد میں معاد کے بارے میں غزالی کے نظریات سے بحث کی ہے۔ ۱۸- تشکیک وجود’’ملاصدرا کی قائم کردہ اصطلاح ہے۔ تشکیک کے لغوی معنی تو شک اور تردید کے ہیں۔ صدرا کے ہاں کا مفہوم اس اُصول کا ہے جو علت و معلول میں تقدم و تاخر کے مسئلے سے متعلق ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’لان التشکیک ھو ان یکون اللفظ واحدالمفہوم لکن الاُمور التی یتناو لہاذ لک المفہوم المختلف بالتقدم والتاخر‘‘۔اسفار، ج ۱، ص ۴۲۔ (اگر کوئی لفظ ایک ہی معنی رکھتا ہو لیکن جن امو ر پر اس معنی کا اطلاق ہو وہ باعتبار تقدم و (تاخر متفاوت ہوں تو اسے تشکیک کہیں گے)مزید تفصیل کے لیے دیکھیے اسفار، ج ۲، ص۱۔ (حاشیہ مترجم) ۱۹- ر۔ ک۔ ہنری کوربن، ’’ملا صدرا شیرازی (۱۶۴۰ھ؍۱۰۵۰ھ) کے ہاں معاد جسمانی کی بحث‘‘ در مطالعات دین و تصوف اھداء بہ گرشوم جی شولم، یروشلم، ۱۹۶۷ئ، ص ۷۱-۱۱۵۔ معاد کے بارے میں ملا صدرا کے نظریات اور غزالی کی آرا سے ان کے ربط کے لیے دیکھیے، جلال الدین آشتیانی کا مقدمہ بر المبدا و المعاد، ملا صدرا، طہران، ۱۳۵۴ اور قم السطور کا پیش لفظ نیز متن کتاب۔ ظ ظ ظ امام غزالی ؒکے فلسفے میں تشکیک کی معنویت اوراہمیت مغربی محققین اور مستشرقین کی تصانیف میں ابوحامد الغزالی کے بارے میں یہ خیال بالعموم ظاہر کیا جاتا رہا کہ وہ نہ صرف تشکیک کو ایک منہاجِ حصولِ علم سمجھتے تھے بلکہ اس ضمن میں ان کے افکار ڈیکارٹ کی فلسفیانہ ارتیابیت کے پیش رَو بھی ہیں۔ بعض مسلمان مفکرین بھی اس رائے کے قائل ہوئے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ ایک سطحی مشابہت ہے اور دونوں مفکرین کے تصورِ کائنات کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے سے ان دونوں کا اساسی فرق واضح ہوسکتا ہے۔ نیز یہ اسلامی تمدن کے ان مظاہر اور ان افکار کی بھی ایک مثال ہے جو اپنے اسلامی تناظر سے اُکھاڑ کر ایک اجنبی تمدن میں پیوند کیے گئے اور ان کی مابعد کی منفی نشوونما کو اسلامی تہذیب کا فیض قرار دے کر اس پر فخر کیا گیا۔ اس سلسلے کی دوسری اہم مثال ’’سائنسی طریقہ کار‘‘ ہے۔ آیندہ صفحات میں عثمان بکر صاحب کے مضمون کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے، جس میں انھوں نے اس اہم مسئلے پر قلم اُٹھایا ہے۔ ابوحامد محمد غزالی (۹۴؍۱۰۵۸۔ ۵۰۵؍۱۱۱۱) کی وہ کتابیں جنھیں واقعی ان کی تصانیف میں شمار کیا جاتا ہے بہت سی ہیں، اور موضوعات کے ایک وسیع سلسلے سے بحث کرتی ہیں۔ تاہم ان کی وہ خاص تصنیف جس کے حوالے سے بہت سے اہل علم ان کے فلسفیانہ نظام میں تشکیک کے مسئلے پر اظہار کرتے رہے ہیں، المنقذ من الضلال (گمراہی سے نجات) ہے۔۱؎ یہ سوانحی تصنیف غزالی نے اپنی وفات سے تقریباً پانچ برس پہلے مرتب کی۔ گمان غالب ہے کہ اس وقت وہ میمونہ نظامیہ کالج نیشاپور کی مسند تدریس پر واپس آ چکے تھے اور یہ ذوالقعدہ ۴۹۹ھ؍جولائی ۱۱۰۱ء کا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے کا تمام طویل زمانہ انھوں نے عزلت میں تہذیب نفس اور ریاضت میں گذارا۔ ان کی اس کتاب کا موازنہ بہت سے معاصر اہل علم نے سینٹ آگسٹائن کے اعترافات، نیو مین کی Grammar of Assent اور بنین کے Grace Abounding سے کیا ہے۔۲؎ موخرالذکر دونوں کتابوں میں سے پہلی کے ساتھ موزانہ فکری لطافت اورسوانحی بیان کے طور پر اور دوسری سے پابندی شرع میں غایت احتیاط کے پہلو سے۔ہمارے اس وقت کے نقطۂ نظر سے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ غزالی کی اس تصنیف کے حوالے سے یہ بات اکثر کہی جاتی رہی ہے کہ منہاج تشکیک غزالی کے نظامِ فکر اور نظریۂ علم کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے نیزیہ کہ اس مسئلے پر غزالی نے وہی خیال پیش کیا ہے جو بعد میں ڈیکارٹ (۱۶۵۰-۱۵۹۶ئ) نے پیش کرنا تھا۔۳؎ بلکہ دونوں مفکرین کے نظامِ فکر میں تشکیک کے مقام ومنصب کے بارے میں متعددتقابلی مطالعے کیے بھی جاچکے ہیں۔ راقم الحروف کا مقصود اپنی تحریرسے یہ ہے کہ غزالی کی زندگی اور فکر میں تشکیک کی اہمیت اور معانی پر گفتگو کی جائے اس اعتبار سے نہیں کہ وہ جدید مغربی فلسفے کے ارتیابی روّیے یا منہاج تشکیک کے پیش روتھے بلکہ یہ دکھانے کے لیے کہ یہ اسلام کی عقلی روایت کی علمیات کا ایک اہم تکمیلی جز ہے اور غزالی اس عقلی روایت سے پوری طرح وابستہ ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ غزالی کی تشکیک کی نوعیت، طریقۂ کار اور اس کی روح کا تجزیہ کریں۔ اس سوال پر بحث کرتے ہوئے ہم دو اہم باتوں کو ذہن میں رکھیں گے۔ ایک تو وہ مخصوص عقلی، مذہبی اور روحانی فضا جو غزالی کے زمانے میں عالم اسلام میں عام تھی اور جو بلاشبہ غزالی کی زندگی کے ابتدائی دور میں تشکیک کو جنم دینے والے سب سے بڑے خارجی عنصرکی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری کا تعلق ایسے تمام مجموعہ امکانات سے ہے جو اسلام کی جانب سے انسان کے سامنے یقین کی تلاش کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ الغزالی کی زندگی کا جتنا بھی ہمیں علم ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے لیے ان امکانات تک پہنچنے کی راہیں کھلی ہوئی تھیں۔ مزید برآں غزالی کی تشکیک کا جوہر صحیح طور پر تبھی سمجھا جا سکتا ہے جب اسے اس مقصد کے صحیح سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے جس کے لیے المنقذ لکھی گئی اور ایسا کرتے ہوئے غزالی کی بعد کی تصانیف بھی نگاہ میں رہیں۔ الغزالی المنقذ من الضلال میں بتاتے ہیں کہ ان کی زندگی کے عنفوان کے زمانے میں کس طرح ان کے نفس کو ایک پُر اسرار مرض نے آ لیا۔دو ماہ تک یہ مرض ان پر طاری رہا اس عرصے میں وہ ’’فی الواقع ایک متشکک مگر قول و فکر کے اعتبار سے معمول کے مطابق رہے۔‘‘۴؎ ان کی عمر اس وقت بیس پچیس سال کی رہی ہوگی جب نظامیہ کالج نیشاپور میں دوران تعلیم انھیں تشکیک کی اس بیماری نے آ لیا۔سوال یہ ہے کہ غزالی کے اس شک کی نوعیت کیا ہے؟غزالی بتاتے ہیں کہ ان کی تشکیک کا آغاز ان کی تلاش ایقان کے دوران ہوا جب وہ حقائق الاُمور کی جستجو کر رہے تھے یا دوسرے لفظوں میں اشیا کی حقیقت ’’جیسی کہ وہ ہیں۔‘‘۵؎ حقیقت اشیا کا علم ’’جیسی کہ وہ ہیں‘‘ کو الغزالی علم یقین کہتے ہیں۔ ایسا یقینی اور مسلم علم جس میں ان کی تعریف کے مطابق ’’معلومہ شے اتنی بیّن اور ظاہر ہو جاتی کہ اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا نہ کوئی امکان فریب و خطا رہ جاتا ہے بلکہ ذہن ایسے کسی امکان کو فرض بھی نہیں کر سکتا‘‘۔۶؎ مناسب ہوگا کہ یہاں ہم غزالی کی اس داخلی تلاش و جستجو کے بارے میں کچھ گفتگو کریں کیونکہ ہماری موجودہ بحث سے اس کا خاص تعلق ہے۔ فی الحقیقت اگر ہمیں غزالی کی تشکیک کی نوعیت اور اہمیت کا صحیح فہم حاصل کرنا ہے تو اس تلاش کے معنی ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئیں۔ اسلام میں حقائق الاُمور کی اس جستجو کا منبع حضورؐ کی وہ مشہور دعا ہے جس میں انھوں نے اللہ سے حقیقتِ اشیا دکھانے کی طلب کی ہے (اللھم ارنی حقیقۃ الاشیاء کماھی)۔ آنحضرتؐ کی یہ دعا اساسی طور پر ایک عارف کی دعا ہے اس لیے اس کا تعلق اشیا کی مستور اور فوق الفکری حقیقت سے ہے۔ اسی وجہ سے صوفیا کی جماعت ہی وہ طبقہ ہے جس میں آنحضرتؐ کی اس دعا کی بازگشت سب سے زیادہ اخلاص اور دیانت سے گونجتی سنائی دیتی ہے۔ معروف صوفی جامی (م ۱۴۹۲ئ) نے اس دعا کو ایک حسین انداز میں اس طرح پھیلا کر لکھا ہے کہ صاحب عرفان کی اس جستجو کی روح ان کے بلیغ بیان میں کھنچ آتی ہے۔ الٰہی الٰہی خلصنا عن الاشتغال بالملا ہی و ارنا حقائق الاشیاء کما ہی غشاوہ غفلت از بصر بصیرت ما بگشای، وہر چیز را چنانکہ ہست بما بنمائی، نیستی را بر مادر صورت ہستی جلوہ بدہ، از نیستی بر جمال ہستی پردہ منہ این صور خیال را آئینہ تجلیات جمال خود گردان نہ علت حجاب و دوری واین نقوش وہمی راسرمایہ دانائی و بینائی ماگردان، نہ آلت جہالت و کوری، و محرومی و مہجوری ما، ہمہ از ماست، مارا بما مگذارما را از ما رہائی کرامت کن، و با خود آشنائی ارزانی دار۔۷؎ الغزالی کی تلاشِ ایقان جیساکہ انہوں نے خود بیان کیا ہے ایک صاحب عرفان کی اس مذکورہ جستجو سے مختلف نہیں ہے ابتدا میں البتہ یہ ایک خالص عقلی جستجو تھی۔خارجی اور داخلی دونوں قسم کے محرکات نے اس جستجو کو مہمیز کر نے میں حصہ لیا۔اس حد تک کہ غزالی کی جوانی میں ہی ان پر وہ دور آگیا جب وہ شدید تشکیک میں مبتلا ہوگئے۔ ان کے اپنے اعتراف کے مطابق، داخلی طور پر، ان کا قدرتی رجحان فکر ہمیشہ سے اشیا کی اصل حقیقت کو گرفت میں لانے کا تھا۔ جہاں تک خارجی قوتوں کا تعلق ہے تو ہم ان میں سے اہم ترین کی جانب پہلے ہی اشارہ کر چکے ہیں۔ ہماری مراد غزالی کے زمانے کے ان مختلف عقلی، دینی اور روحانی دھاروں سے ہے جو یقیناان جیسے مشاہدہ اور سوچ بچار کرنے والے ذہن کو متاثر کرتے ہوں گے۔ المنقذ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہ مختلف دھارے ان کی توجہ کا مرکز تھے۔ فی الحقیقت وہ اپنی معروف تشکیک کا نقطہ آغاز انھی فکری دھاروںمیں تلاش کرتے ہیں۔ مذاہب اور عقائد کا تعدد ان کو عجیب لگتا تھا اور اس بات پر بھی تعجب ہوتا تھا کہ ہر مذہب کے متبعین اپنے موروثی معتقدات پر پوری ہٹ دھرمی سے جمے رہتے تھے۔ اس سوال پر تنقیدی غور و فکر کا ایک تو نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر تقلیدات (وہ موروثی معتقدات جنھیں بے چوں و چرا قبول کر لیا گیا ہو)کی گرفت باقی نہ رہی۔ مگر غزالی ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے تھے جب ماورا کا تصور نفوس انسانیہ میں ایک جیتی جاگتی حقیقت تھی۔ چنانچہ تعددِ ادیان کا مسئلہ غزالی کو اضافیت کی اس راہ پر نہیں ڈالتا جو آج کی جدید دنیا میں اس مسئلے کے جواب میں پیدا ہوئی ہے۔۸؎ اس کے برعکس اس مسئلے سے ان میں انسانی فطرت کی داخلی حقیقت کی تلاش کا داعیہ پیدا ہوا۔ انسان کی فطرت قدیمہ جو اس دنیا میں آ کر وہ ظرف فراہم کرتی ہے جو دینی ہیتوںاور دینی اظہار کے تنوع کو قبول کر سکے۔ تاہم مذکورہ بالا سطور سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ غزالی فی نفسہٖ تقلید کے خلاف تھے۔ انھوں نے کبھی بھی تقلید کو سرے سے ترک کر دینے کا مشورہ نہیں دیا۔ فی الحقیقت وہ اسے ان اہل ایمان کے لیے ضروری سمجھتے تھے جن کے سادہ ذہن اس قسم کے عقلی تجسس سے آزاد تھے جو اللہ نے دوسری قسم کے لوگوں میں رکھی ہے اور اسی لیے یہ سادہ لوگ اشیا کو دوسروں کی سند پر مان کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ تقلید پر غزالی کے جو اعتراض ہیں اسے بلند ترین درجہ یقین کے لیے غزالی کے تجسس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جانا چاہیے۔ عملی اعتبار سے یہ جستجو عوام کے لیے ہے ہی نہیں بلکہ غزالی جیسے گنے چنے افراد سے متعلق ہے۔ ایسی جستجو کے نقطۂ نظر سے تقلید یقینا ایک بڑی رکاوٹ ہے جو اس کے تحقق کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے چنانچہ وہ خود کو تقلید کے بندھن (رابطۃ التقلید) سے آزادکر لیتے ہیں۔ یہاں ہمیں دوباتوں میں فرق واضح کرنا ہوگا ایک تو تقلید جس کا مطلب ہے اکتسابِ تصورات کا ایک خاص طریقہ اور دوسری ہے تقلیدات جس سے مراد خودوہ تصورات ہیں۔ مگر غزالی کا فکری مطالعہ کرنے والے بہت کم لوگ یہ امتیاز قائم کر پاتے ہیں۔ غزالی جب اول الذکر کو اپنی ذات کے حوالے سے رد کرتے ہیں تو اس کی بنیاد اس طریقے کی خلقی محدودیت کی منہاجی تنقید ہوتی ہے جب کہ عوام الناس کے لیے اسے قبول کرتے ہوئے وہ محض عالم انسانی کی حقیقت کے ایک پہلو کا اثبات کرتے ہیں۔ تقلید پر اعتماد نہ کرنے کی بنیاد یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ صحیح اور غلط دونوں قسم کی تقلیدات قبول کر سکتے ہیں اور غلط تقلیدات کا مسئلہ صرف اس چیز سے بھی حل نہیں ہو سکتا کہ تقلید کو یکسر ترک کر دیا جائے جو عملاً ناممکن ہے۔ بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ خود ان تقلیدات ہی کے حق و باطل ہونے کے سوال پر غور کیا جائے۔ چنانچہ المنقذ میں غزالی ہمیں بتاتے ہیں کہتقلید کے مسئلے پر غور کرنے کے بعد انھوں نے کس طرح ان تقلیدات کی چھان پھٹک شروع کی تاکہ ان میں سے صحیح کو غلط سے جدا کر سکیں۔۹؎ ان کی فکری کاوشوں کا بہت سا حصہ اسی کام کے لیے وقف رہا۔ غزالی کے خیال میں تقلید کامثبت منصب یعنی کسی سند کی بنیاد پر حقائق کو تسلیم کرنا ایسی چیز ہے جس کی حفاظت سچا علم رکھنے والوں کو کرنا چاہیے۔ یہی لوگ ہیںجنھیں جائز طور پر یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ دینی اور روحانی اُمور کے سلسلے میں علم کی تشریح اور تعبیر کریں۔ جہاں تک علم کا معاملہ ہے تو غزالی نے اقلیم انسانی کی اس حقیقت کی توثیق کی ہے کہ علم کے درجات یا مراتب ہوتے ہیں اور نتیجتاً اہل علم کے بھی۔ ان کے اس خیال کی بنیاد قرآن کی وہ آیت ہے جو غزالی نے درج کی ہے، ’’تم میں سے جو ایمان رکھتے ہیں اور علم والے ہیں اللہ ان کے درجات اونچے کرتا ہے‘‘۔۱۰؎ اسلام میں مراتب اسناد کا ایک نظام ہے جس میں سب سے اونچی حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور جو بالآخر خود اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ غزالی کہتے ہیں کہ ایمان علم کا ایک درجہ ہے اور اس کا مطلب ہے دوسروں کا تجربہ اور دوسروں کی بات پر مبنی علم کو سن کر مان لیتا حسن ظنی۔۱۱؎ اس طرح جن کی بات مانی جاتی ہے ان میںبلند ترین مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ جدیدیت پرستوں کے بعض حلقوں سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ تقلید کو لوگوں کے ایک طبقہ کے لیے تسلیم کرنا اور دوسرے گروہ کے لیے ناقابل قبول ٹھہرانا ایک خطرناک تصور ہے اس لیے کہ اس سے ایک طرح کی ذات پات کے نظام کو تشکیل دینے کی راہ کھلتی ہے جو اسلام کی روح کے خلاف ہے۔سطور بالا میں اس مسئلے پر جو کچھ کہا گیا ہے وہ فی الواقع اس اعتراض کی تردید کے لیے کافی ہے تاہم ایک ایسے صاحب علم کی رائے اس ضمن میں نقل کرتے ہیں جسے اس بات کا افسوس ہے کہ جدیدیت پرستوں کے ہاتھوں اسلام کا تصور مراتبِ علم اور مراتب ِاسناد برباد ہو گیا۔ ’’جہاں تک معاشرے میں انسانی درجہ بندی کا تعلق ہے تو ہم ’مراتب‘ سے قطعاً اس کی وہ ملتی جلتی صورت مراد نہیں لیتے جس کے تحت استحصال، جبر اور استیلا کو سند جواز عطا کی جاتی ہے گویا یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے اُصول ہوں۔۔۔ یہ اَمر درست ہے کہ انسانی معاشرے میں نظام مراتب اتھل پتھل ہوتا رہا ہے مگر اس چیز کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اقلیم انسانی میں مراتب کا کوئی جواز نہیں کیونکہ فی الحقیقت نظام تخلیق میں ایک ’’جائز‘‘ درجہ بندی پائی جاتی ہے۔ یہ امر اللہ ہے جو تمام مخلوقات پر جاری ہے اور عدل الٰہی کا مظہر۔۱۲؎ مراتب ِعلم اور مراتب ِوجود کا یہی تصور ہے جو غزالی کے نظریۂ علم اور نظامِ فکرمیں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور انھیں کبھی یہ خیال بھی نہ گزرا ہوگا کہ اس تصور میں ذات پات کے معاشرتی نظام کو اسلام کی طرف سے سندِ جواز عطا کرنے کا شائبہ بھی ہو سکتا ہے۔ تقلید پر غزالی کی منہاجیاتی تنقید پر اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کَہ سکتے ہیںکہ وہ تقلید سے اس لیے مطمئن نہ تھے کہ وہ ان کی شدید عقلی تشنگی کو سیراب کرنے سے قاصر تھی۔ ان کی اپنی نوعمری کے باوجود یہ ایک بین چیز تھی کہ تقلید حق اور باطل دونوں تک لے جا سکتی ہے۔ لیکن حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ اس کے بارے میں ان کے گردو پیش بحث کا ایک سمندر تھا جو انھیں بُری طرح بے چین رکھتا تھا۔ فلسفے کے سب سے مرکزی سوال پر ان کے غور و فکر کا دراسی سے وا ہوتا ہے۔ یہ سچا علم کیا ہے یہی سوال ان کے ارتیابِ فکر ی کی شدت کا نقطۂ آغاز ہے۔ تعدد ادیان اور اختلاف ِعقائد اور ان کا مرکزی مسئلہ یعنی تقلید تو خیر تھی ہی، اس کے علاوہ ایک اہم ترمذہبی اور روحانی لہر نے بھی ان کے اس شک کے آغاز میں حصہ لیا اور ان کے ذہن کو شدت سے متاثر کیا۔ ان کے بیان کے مطابق یہ چیز مکاتب فکر (مسالک) اور فرقوں کی کثرت کا خود اسلامی معاشرے میں وجود تھاان میں سے ہر ایک حق کی تفہیم اور اثبات کا اپنا اپنا طریقہ رکھتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ یہی فرقہ نجات یافتہ ہو گا۔ الغزالی نے المنقذ میں لکھا ہے کہ اُمت کے ان حالات کی مثال ’’اس گہرے سمندر کی ہے جس میں بیشتر لوگ غرق ہو جاتے ہیں اور صرف چند نفوس بچ کر نکل سکتے ہیں‘‘ اور اس میں نبی علیہ السلام کی مشہور و عید پوری ہوتی دکھاتی دیتی ہے، ’’میری اُمت ستر فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے ایک ناجی ہوگا۔‘‘ یہ مذہبی فضا کوئی غزالی کے زمانہ ہی سے خاص نہیں تھی۔ چند صدیاں ادھر حارث بن اسد المحاسبی (۸۳۷ھ؍۲۴۳-۷۸۱؍۱۶۵ھ) نے بھی اُمتِ اسلامیہ کی ایسی ہی افسوسناک صورتحال کا نوحہ کیا تھا۔ المحاسبی اپنے دور کے مشہور صوفی تھے۔۱۳؎ اور ان کی تحریروں نے غزالی کو بہت متاثر کیا تھا بلکہ المنقذ کا سوانحی انداز تحریر بھی شاید المحاسبی کی تصنیف کتاب الوصایا کے دیباچے (النصائح) کے سوانحی انداز کا مرہون منت ہے۔۱۴؎ کتاب الوصایا کا مندرجہ ذیل اقتباس المنقذ کی بعض عبارتوں سے حیران کن مشابہت رکھتا ہے اور المحاسبی کے زمانے کی مذہبی فضا کی نوعیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے: ہمارے زمانے میں یہ بات عام ہو گئی ہے کہ یہ اُمت ستر سے زیادہ فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ ان فرقوں میں سے صرف ایک راہ نجات پر گامزن ہے اور باقی سب کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ میں اپنے لیے کَہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی زندگی کے ایک لمحے کو بھی ان اختلافات پر سوچ بچار ترک نہیں کیا جن میں اُمت مبتلاہے اور واضح راستہ اور طریق حق کی کھوج لگاتا رہا۔ اس کے لیے میں نے نظریہ اور عمل دونوں کی جستجو کی اور راہ آخرت کی ہدایت کے لیے علم کلام کے ماہرین کی ہدایت حاصل کی۔ علاوہ ازیں میں نے تعلیمات الٰہیہ کا مطالعہ فقہا کی تعبیرات کی مدد سے بھی کیا اور اُمت کے مختلف حالات پر سوچتا رہا۔ اس کی متنوع تعلیمات اور اقوال کو جانچتا رہا۔ ان میں سے میں نے مقدور بھر علم حاصل کیا اور میں نے دیکھا کہ ان کا اختلاف گویا ایک گہرا سمندر ہے جہاں بہت سے ڈوب چکے اور صرف ایک چھوٹا ساگروہ اس سے بچ کر نکل پایا اور میں نے ان میں سے ہر جتھے کو یہی دعویٰ کرتے دیکھا کہ نجات ان کی پیروی میں ہے اور یہ کہ وہ شخص جو ان سے اختلاف کرے گا مٹ جائے گا… ۱۵؎ دلچسپ چیز یہ ہے کہ گو غزالی کی سوانحی تصنیف محاسبی کی تصنیف سے زیادہ ڈرامائی اور زور بیان میں بڑھی ہوئی ہے تاہم دونوں آدمیوں پر ایک ہی سا ذاتی بحران گزرا تھا جو ملتے جلتے خارجی حالات کا پیدا کردہ تھا۔دونوں ہی کو نور یقین کی اور ایسے علم کی تلاش تھی جو نجات کا ضامن ہو اور دونوں ہی نے تصوف میں یہ روشنی حاصل کی۔ اپنی اس تلاش میں دونوں ہی نے علم کا سماجی اور فلسفیانہ تجزیہ کیا۔ اس تجربے کی تفاصیل ہنوز مطالعے کی محتاج ہیں تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شک اور یقین کی فلسفیانہ بحث خالصتاً غزالی کا اپنا اضافہ ہے۔ اس سے قبل ہم یہ بحث کر چکے ہیں کہ وہ کون سے عناصر تھے جنھوں نے غزالی کی تشکیک کو جنم دیا اور جس سے ان کا بنیادی سوال پیدا ہوا کہ علم کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ ہم نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ ان کاشک اس وقت اور زور پکڑ جاتاہے جب وہ پوری سنجیدگی سے مندرجہ بالا سوال پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب ہم غزالی کی تشکیک کے فلسفیانہ معنی پر گفتگو کریں گے۔ یقینی اور ناقابلِ خطا علم (علم الیقین) کی جو تعریف غزالی نے کی ہے وہ ہم درج کر چکے ہیں۔ یہ ایسا علم ہے جوہر غلطی اور شک سے کاملاً مبرا ہے اور جس سے دل کو مکمل اطمینان ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا ایقان یا ایسا یقین ممکن ہے؟ یہ چیز اہم ہے کہ غزالی نے کبھی یہ سوال نہیں پوچھا بلکہ سطور بالا میں درج معیار یقین کی کسوٹی پر فوراً اپنے علم کی حالت کو پرکھنا شروع کر دیا۔ ان پر یہ واضح ہو اکہ ان کے پاس ’’کوئی ایسا علم نہیں ہے جو مذکورہ معیار پر پورا اُترتا ہو سوائے حواس سے آنے والے علم (حسیات) اور بدیہی حقائق کے (ضروریات)‘‘۔۱۶؎ پھر وہ اپنے علمِ حواس پرشک پیدا کرنا شروع کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ علم نا قابلِ خطا اور شک شبہ سے بالا ہے یا نہیں۔ ان کی اس کاوش کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علمِ حواس کو یقین بہم پہنچانے کا جو دعویٰ ہے وہ باطل ٹھہرتا ہے۔ اس کاوش میں عقل حکم کا کردار ادا کرتی ہے۔ عقل کی جانب سے ادراک بالحواس پر غلط ہونے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے، حواس اس کی تردید نہیں کر سکتے۔ حسی ادراکات پر سے غزالی کا اعتبار اُٹھ گیا تو انھوں نے عقل کے فراہم کردہ یقین میں پناہ ڈھونڈی جس کے مطابق ’’حقائق اوّلیہ موجود ہیں مثلاً، دس تین سے زیادہ ہے اور ایک ہی چیز کی تائید اور تردیدبیک وقت نہیں کی جا سکتی(اجتماع النقیضین) اور ایک ہی چیز بیک وقت حادث اور قدیم، موجود اور معدوم، واجب اور محال نہیں ہو سکتی۔‘‘۱۷؎ تاہم عقل کے فراہم کردہ مواد (عقلیات) کی پناہ گاہ بھی تشکیک کے عناصر سے محفوظ نہیں۔ اس مرتبہ شک اس اعتراض سے پھوٹتا ہے جو حسی مدرکات کی طرف سے عقل کے دعویٰ ایقان پر کیا جا سکتا ہے۔ عقل کے یہ دعاوی اس طرح رد نہیں ہوتے جیسے اس قبل نے حواس کے دعاوی رد کیے تھے۔ ان میں شک صرف ایک مشابہ دلیل کے ذریعے پیدا ہوتا ہے اور یہ شک ایسا ہے جسے عقل مکمل طور پر رفع نہیں کر سکتی۔ عقل کے سامنے صرف یہ امکان پیش کیا جاتا ہے کہ ایک فیصلہ کرنے والا اس سے بھی برتر ہے جو اگر ظاہر ہو تو ’’عقل کے فیصلوں کو باطل قرار دے دے گا ایسے ہی جیسے عقل کے حَکم نے حواس کے فیصلوں کو جھوٹا قرار دیا تھا۔‘‘۱۸؎ اگر یہ تیسرا جج نمودار نہیں ہو ا تو یہ چیزاس کے وجود کے امکان کو محال نہیں بناسکتی۔غزالی کے اندریہ داخلی مباحثہ اس وقت اور زور پکڑ جاتا ہے جب عقل جزئی سے ورا ایک اور نوع کے ادراک کا امکان مختلف قسم کے دلائل اور شواہد سے مستحکم ہونے لگتا ہے۔ سب سے پہلے عقل جزئی سے یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ خواب کے مظاہر پر اُصول مشابہت کا اطلاق کرے؛ مذکورہ فوق الفکری درجے کا تعلق ہماری بیداری کی حالت سے جس میںحواس اور عقل جزئی پوری طرح کام کر رہے ہوتے ہیں ایسا ہی ہے جیسا کہ اس موخر الذکر حالت کا تعلق نیند سے ہے۔ اگر ہماری حالت بیداری ہمارے عالم خواب کے تخیلات اور افکار کے لیے بنیاد ہونے کا فیصلہ کرتی ہے تو فوق الفکری مرتبہ ہمارے فکریااعتقادات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ غزالی خود بھی ان فقہا میں تھے جن کی سب سے زیادہ عزت کی جاتی تھی۔ یہاں یوں لگتا ہے جیسے ان کی دلیل کے مخاطب فقہا اور دوسرے لوگ ہیں جو عقل جزئی کے حامی اور قیاس و اُصول مشابہت میں ماہر تھے۔ہمارا اشارہ اس جانب نہیں ہے کہ یہ خیال غزالی کو اس وقت آیا جب وہ واقعی اپنے داخلی مباحثے کے تجربے سے گذر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ خیال اس وقت اُبھرا ہو جب انھوں نے المنقذ کے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ہماری رائے میں المنقذ لکھی ہی اس لیے گئی تھی کہ عقلیت پرستوں پر یہ چیز واضح کی جائے کہ اسلامی علمیات فوق الفکری ادراکات کے وجود کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ اسے علم کی حقیقی کلید سمجھتی ہے۔ چنانچہ المنقذ میں غزالی نے عقلیت پرستوں کو بایں الفاظ ہدوف ملامت بنایا ہے۔ ’’چنانچہ وہ شخص جو کشفِ حقائق کو دلائل موضوعہ پر منحصر جانتا ہے، اللہ کی رحمت واسعہ کو یقینا محدود کر رہا ہے‘‘۔۱۹؎ فوق الفکری مرتبہ کے امکان کی تائید میں عقل جزئی کے سامنے جو دوسری چیز پیش کی جاتی ہے وہ لوگوں کے ایک گروہ یعنی صوفیا کا وجود ہے جو اس مرتبے کا واقعی تجربہ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان احوال کے تجربے سے گزرتے ہوئے جو مظاہر وہ دیکھتے ہیں وہ عقل جزئی کے عام ادراکات سے لگانہیں کھاتے۔ آخری چیز جس پر بطور شہادت عقل جزئی کی توجہ دلائی جاتی ہے حدیث نبویؐ ہے۔ ’’الناس نیام اذا ماتوا استیقظوا‘‘ا ور قرآن کی یہ آیت ’’لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غفلۃٍ مِنْ ھَذا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَائَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدً‘‘۔ ۲۰؎ حدیث اورقرآن کی آیت دونوں میں انسان کی حالت مابعدالموت کا حوالہ ہے اور عقل جزئی کے سامنے یہ بات رکھی جاتی ہے کہ یہی حالت ہے جس پر ہم بات کر رہے ہیں۔ حق کے بارے میں عقل جزئی کے فیصلہ کن ہونے پر تمام اعتراضات ایسے ہیں جن کا اطمینان بخش رد عقل جزئی کے بس میں نہیں۔ الغزالی کے نفس کا پر اسرار روگ جو تقریباً دو ماہ جاری رہا عقل جزئی اور ایک دوسرے ملکہ کے درمیان اسی داخلی کھینچ تان اور تنائو سے عبارت تھا۔ یہ دوسرا ملکہ یا یہ دوسری استعداد حواس کے ذریعہ عقل جزئی تک یہ مطالبہ پہنچاتی ہے کہ اس کا وجود اور ان تجربات کا امکان تسلیم کیا جائے جو اس ملکہ کی مختلف قوتوں سے متعلق ہیں اور جن کا دعویٰ صوفیا کو اپنے لیے ہے۔ یہ قوت یا یہ ملکہ فوق الفکری اور ماورا ئے منطق ہے اور اسے ملکہ وجدان یا کشف کہتے ہیں۔ اس وقت تک غزالی کی جس قدر فکری نشو و نما ہوئی تھی اس کے مطابق وہ صرف ان تجربات کے امکان کو تسلیم کر سکتے تھے۔ بعد میں اپنی زندگی کے بھرپور روحانی دور میں البتہ انھوں نے اس ملکہ کی اعلیٰ قوتوں کا حامل ہونے کا اعلان کیا ہے جن سے ان پر علم روحانی کے لاتعداد اسرار کھلے۔۲۱؎ الغزالی کی اصطلاح میںیہ قوتیں کشف (بلا واسطہ دید) اور ذوق ہیں۔ موخر الذکر کو میکار تھی نے ’’تجربہ ثمر آور‘‘ اور واٹ نے ’’تجربۂ مباشر‘‘ کے الفاظ سے ترجمہ کیا ہے۔۲۲؎ حسی ادراکات سے فکری مدرکات تک درجہ بدرجہ پہنچنے میں غزالی کو کوئی ایسی دشواری نہیں ہوتی مگر فکری تجربہ جب پہلی بار وجدانی کشفی تجربے سے براہ راست دو چار ہوتا ہے تو یہ غزالی کے لیے ایک تکلیف دہ چیز ثابت ہوتی ہے۔ دو ماہ کے عرصے کے لیے جو وہ ’’قول و عقائد میں تو نہیں مگر فی الواقع متشکک‘‘ ہو گئے تھے تو اس عرصے میں انہیں اپنے عقل جزئی کے ملکہ پر اعتماد کرنے میں شدید تشکیک کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ملکۂ وجدان کی طرف سے بعض ایسی چیزوں کا ظہور ہو رہا تھا جو اوّل الذکر سے ٹکراتی تھیں۔ ان کا مسئلہ یہ تھا کہ علم کے پورے نظام میں انسان کے قوائے علمیہ کا صحیح مقام دریافت کریں اور بالخصوص عقل جزئی، کشف اور وجدان کے مابین صحیح تعلق استوار کیا جائے(موخرالذکر اصطلاح کو اس کے روایتی معنوں میں سمجھنا چاہیے)پس جب انھوں نے اپنے مرض سے شفا پائی تو یہ منطقی ثبوت یا عقلی دلائل کی بنا پر نہیں بلکہ اس نور کے اثر سے تھا جو اللہ نے ان کے سینے میں اتارا۔ ان کا فکری توازن بحال ہو گیا اور وہ پھر سے ضروریات (بدیہیات) کے ذیل میں عقلی مدرکات کو قابل اعتماد سمجھنے لگے۔ تاہم اس نئے عقلی توازن میں اب فکر یا عقل جزئی کو پہلے کی طرح مقام غالب حاصل نہیں تھا کیونکہ غزالی کا کہنا ہے کہ اللہ نے ان کے سینے کو جو روشنی عطا کی وہی بیشتر علم کی کلید ہے۔۲۳؎ ہم اس رائے سے جو بعض اہل علم نے ظاہر کی ہے اتفاق نہیں رکھتے کہ منہاج تشکیک غزالی کی علمیات اور نظام فکر میںمرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ المنقذ کی تمام روح اس نظریے کی تائید نہیں کرتی کہ غزالی حقائق کی تلاش کے لیے تشکیک کو ایک ذریعہ بنانے کی وکالت کرتے ہیں۲۴؎ اور المنقذ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا ڈیکارٹ کے اس قول سے موازنہ کیا جا سکے کہ ’’زندگی میں ایک بار یہ لازمی ہے کہ ممکنہ حد تک ہر شے پر شک کیا جائے۔‘‘۲۵؎ یہاں سے ہمارا سوال پیدا ہوتا ہے کہ الغزالی کے پہلے ذاتی بحران کی صحیح نوعیت کیا تھی؟ میکارتھی نے تشکیک کے اس بحران کو ایک علمیاتی بحران قرار دیا ہے جو صرف عقل سے متعلق ہے جب کہ اس کے برعکس الغزالی کا دوسرا ذاتی بحران اس کے بیان کے مطابق ضمیر کا بحران ہے اور روح سے متعلق ہے۔۲۶؎ فادر پوگی جس کی کتاب مسلمانوں کی کلاسیکی روحانی تالیف کو میکار تھی نے الغزالی اور المنقذ کے نفیس ترین مطالعات میں سے ایک قرار دیا ہے، اس کے خیال میں الغزالی کی نوعمری کی یہ تشکیک غیر حقیقی اور محض ایک طریقہ کار ہے۔۲۷؎ اٹلی کے ایک اور ممتاز مستشرق گیوسیپ فرلائی کو بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ الغزالی کی تشکیک ایک متشکک کی نہیں بلکہ علم کے ناقد کی تشکیک ہے۔۲۸؎ ہم ان ماہرین کی رائے سے متفق ہیں کہ اس بحران کے زمانے میں الغزالی نہ تو مذہبی متشکک تھے نہ فلسفیانہ تشکیک میں مبتلا اور ان کا بحران علمیاتی یا طریقۂ حصول علم سے متعلق تھا۔ اس نقطۂ نظر کی تائید کے لیے المنقذ ہی سے وافر شہادت فراہم ہو جاتی ہے۔ غزالی متشکک فلسفی تھے ہی نہیں کیونکہ انھوں نے کبھی مابعد الطبیعیاتی ایقان کی قدروقیمت پر شبہ نہیں کیا۔ وہ حقیقت کے بالقوہ ایقان کے ہمیشہ معترف رہے۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے تذکرہ ہوا وہ کبھی یہ سوال نہیں اُٹھاتے کہ حقائق الاُمور کا علم ممکن ہے یا نہیں۔ بلکہ اس علم کے حصول کے لیے ان کا طبعی میلان فکر ایک طرح سے تائید اور ثبوت ہے کہ انھیں بالقوۃ ایقان حق کا یقین تھا۔ شیخ عیسیٰ نورالدین نے لکھا ہے کہ’’ یہ صرف لا ادریے اور اضافیت پرست لوگ ہیں جو یہ دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ حق کا ایقان حاصل کرنا اُصولاً ایک فریب ہے۔ اس کے لیے وہ اس کے مقابل یہ بات لاتے ہیں کہ خطا کا امکان فی الواقع یقینی ہے گویا جھوٹے ایقانات کے نفسیاتی مظاہر سے سچے ایقانات اپنی حیثیت بدل کر کچھ اور ہو جائیں گے اور ان کی افادیت ختم ہو جائے گی اور گویا خود ان جھوٹے ایقانات کا وجود اپنے انداز میں سچے ایقانات کا ثبوت نہیں فراہم کرتا۔‘‘۲۹؎ جہاں تک الغزالی کا تعلق ہے تو وہ اضافیت پرستوں اور لاادر یوں کی مذکورہ بالا فلسفیانہ ترغیب کا کبھی شکار نہیں ہوئے۔ ان کی تشکیک خود حقیقت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ حق کو تسلیم کرنے اور معلوم کرنے کے انداز سے متعلق ہے۔ مگر چونکہ حقیقت سے ان کی مراد یہاں حقیقۃالاشیا ہے لہٰذا اس حقیقت کی جستجو میں اس کا علم حاصل کرنے کے ایسے طریقے کی تلاش بھی شامل ہے جو حقیقت کے متوافق ہو۔ علم حاصل کرنے کے جتنے انداز ان کے عملی تحقیق کی مد میں آتے تھے ان سب پر ان کی تنقید کا محرک ایک اور طریقِ حصولِ علم کے امکان کی نظری آ گہی ہے جو صوفیا اپنے سے خاص جانتے تھے۔ الغزالی کے ذہن کو اس امکان نے اس وقت مضطرب کیا ہو گا جب وہ ذاتی طور پر طریق صوفیا سے دوچار ہوئے۔ یہاں ہم قارئین کو الغزالی کا ابتدائی تعلیمی پس منظر یاد دلائیں گے۔ ان کی یہ تعلیم تصوف کے قوی اثرات سے مملو تھی۔ سبکی کے بیان کے مطابق ان کے والد ایک درویش خدا ترس تھے جو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت صوفیا کی صحبت میں گذارتے تے۔۳۰؎ الغزالی کو ابتدائی تعلیم کے لیے جس استاد کے سپرد کیا گیا تھا وہ ان کے والد کے ایک متقی صوفی دوست تھے۔ غزالی کے چھوٹے بھائی احمد الغزالی (م۔ ۱۱۲۶) بھی ان کے ہم درس تھے جو اگرچہ ان جیسے مشہور تو نہیں ہوئے مگر بعد کو عظیم صوفی بنے۔ ان کے مریدین میں عبدالقاہر ابو نجیب السہروردی (م۔۱۱۶۸) بانی سہروردیہ سلسلہ شامل ہیں۔ بہت سے اہل علم کا خیال ہے کہ خود الغزالی بھی انہی کے مرید تھے۔نیشاپور میں اپنے زمانے طالب علمی کے قیام کے دوران انھوں نے تصوف کا نہ صرف بطور ایک موضوع مطالعہ کیا تھا بلکہ صوفی ابوعلی الفضل بن محمد ابن علی الفارمدی الطوسی سے بیعت بھی ہوئے جو القشیری (م:۴۶۵ھ؍۱۰۷۴ئ) کے شاگرد تھے۔ الفارمدی (م۴۷۷ھ؍۱۰۸۴ئ) سے الغزالی نے تصوف کے نظری اور عملی حصے سیکھے اور انھی کی نگرانی میں چند روحانی اشغال اور ریاضتیں بھی انجام دیں۔ صوفیا جو خداکا ایک ذاتی بلا واسطہ تجربہ حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں اس میں غزالی کے لیے کشش بڑھتی جا رہی تھی تاہم اس چیز سے ان کی قدرے دل شکنی ہوتی تھی کہ وہ اس مرحلے تک نہیں پہنچ سکے جہاں آکر صوفیا کو ’اوپر کی رفعتوں‘۳۱؎ سے خالص الہام نصیب ہونے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ باور کرنے میں حق بجانب ہیں کہ الغزالی کو ان کے علمیاتی بحران تک لے جانے میں تصوف نے مرکزی کردار ادا کیا۔ الغزالی کی تشکیک جو عقل پر بھروسہ کرنے نہ کرنے سے متعلق ہے اس کا آغاز ’’نیچے‘‘ سے یا خود عقل جزئی کے اپنے اور تفکر سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا خیال انہیں ’’اوپر‘‘ سے وارد ہوتا ہے کیونکہ وہ صوفیا کے منہاج علم سے آگاہ تھے جو فوق الفکری ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا اور اپنے طور پر عقل جزئی کا ناقد تھا۔ اسی طرح یہ شک دور بھی عقل جزئی کے عمل سے نہیں ہوا بلکہ انعام الٰہی کی روشنی کے نتیجے کے طور پر چھٹ گیا جو تمام قوای علمیہ کو ان کے حقیقی مقام پر لے جاتی ہے اور اپنی اپنی سطح پر ان کا جواز اور اعتماد بحال کر دیتی ہے۔ الغزالی کبھی ’’مذہبی متشکک بھی نہیں رہے۔ المنقذمیں وہ ہمیں بتاتے ہیںکہ یقین کی اس جستجو کے دوران اسلام کے تین اساسی عقائد پر ان کا ایمان غیر متزلزل تھا۔ میں نے جو علوم حاصل کیے تھے اور علوم نقلی و عقلی کی دونوں اقسام کی تفتیش کے لیے میں نے جو طریقے برتے تھے ان سے مجھے اللہ تعالیٰ، نبیؐ کے ذریعے تنزیل وحی اور یوم آخرت پر حتمی اور یقینی ایمان حاصل ہو چکا تھا۔ ہمارے عقائد کے یہ تین اساسیات میرے نفس کی گہرائی میں جاگزیں ہو چکے تھے اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ کوئی خاص دلائل و براہین مل گئے تھے بلکہ اس کا سبب وہ تجربات ، واقعات اور اسباب تھے جن کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں۔۳۲؎ مندرجہ بالا اقتباس المنقذ سے فراہم ہونے والی ایک اور شہادت ہے اس بات کی کہ الغزالی کی نام نہاد تشکیک کا موازنہ جدید مغربی فلسفے میں پائے جانے والی کسی تشکیک سے نہیں کیا جا سکتا۔ الغزالی کا ذہن مبتلائے تشکیک ہو کر بھی وحی اور ایمان سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس وہ ایک ’’حتمی اور یقینی‘‘ ایمان پر اپنی بنیاد رکھتا ہے۔ جدید متشکک کا ذہن عمل تشکیک میں وحی اور عقل دونوں سے کٹ جاتا ہے اور اپنی بے سمت حرکات کی پیروی کرتے کرتے ایمان سے بھی منہ موڑ لیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’حتمی اور یقینی‘‘ ایمان جو الغزالی کے پاس ہمیشہ تھا اور اس ایقان کے درمیان کیا فرق ہے جس کے وہ متلاشی تھے؟ ہم اس سوال سے مختصراً تعرض کریں گے کیونکہ اسی کے جواب میں الغزالی کی تشکیک کی معنویت پنہاں ہے اور اس لیے بھی کہ جے۔ اوبرنان ۳۳؎ جیسے ماہرین نے الغزالی پر الزام لگایا ہے کہ معروضی حقیقت پر ان کو جو بھیانک شکوک تھے، اس سے گھبرا کر انھوں نے مذہبی موضوعیت میں ایک پناہ گاہ تلاش کر لی۔ مذکورہ بالا سوال کا جواب اسلامی عرفان کے تصور یقین میں ملے گا۔ یقین کے کچھ درجات ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں ان کو علم الیقین (یقین کا علم) عین الیقین(یقین کی دید) اور حق الیقین (یقین کی حقیقت) کہتے ہیں، ان کو بالترتیب آگ کے بارے میں سننے، آگ کو دیکھنے اور آگ میں جل جانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔۳۴؎ اس کا اطلاق غزالی کی تلاش ایقان پر کیجیے تو وہ ’’حتمی اور یقینی‘‘ ایمان جو ان کے بقول انھوں نے مختلف علوم میں تفحص سے حاصل کیا علم الیقین کا مصداق ہے کیونکہ حق کو قبول کرنا باعتبار نوعیت استنباطی ہے کہ اس کی بنیاد ان چیزوں پر ہے جو وحی اور نبی علیہ السلام کی سند پر میسر آئی ہیں۔ بالفاظ دیگر ایمان کی سطح پر وہ حقیقت جسے آپ مان رہے ہیں وہ بلا واسطہ یا براہ راست آپ کے علم میںنہیں آئی۔ تاہم ایمان لانے کے فعل سے جس حد تک کسی کا قلب اور عقل جزئی (ذہن) حق میں مشارکت کرتے ہیں اسی قدر ایمان بھی گویاایک مخصوص سطح تک علم اور یقین کا مترادف بن جاتا ہے چنانچہ الغزالی کو الحق کے سچے علم کی جو تلاش تھی اس میں ابتدا ہی سے یقین کا ایک عنصر موجود رہا ہے۔ احیاء العلوم الدین کی کتاب العلم میں الغزالی نے یقین کے لفظ کے استعمال پر بحث کی ہے اور اسلام کے بڑے مکاتب فکر میں اپنے زمانے تک اس کا استعمال دکھایا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق اس اصطلاح کا استعمال دو واضح معانی پر ہوتا ہے۔ ایک گروہ فلاسفہ اور متکلمین پر مشتمل ہے جو اس اصطلاح کو شک کی نفی یا شک کی غیر موجودگی پر دلالت کے لیے برتتے ہیں بایں معنی کہ مذکورہ علم یا حقیقت ایسے شواہد سے ثابت ہو چکی ہے جن میں شک کی گنجائش یا شک کا امکان باقی نہیں رہا۔۳۵؎ یقین کی اصطلاح کا دوسرا اطلاق وہ ہے جو فقہا، صوفیا اور بیشتر اہل علم کرتے ہیں۔ ان کے ہاں یقین کے معنی ایمان باللہ کی شدت یا جذبہ ایمانی کی شدت کے ہیں جس میں نفس کا اس شے کو قبول کرنا شامل ہے جو قلب پر چھا جاتی ہے اور اسے گرفت میں لے لیتی ہے اور نفس شے مذکور کو برضا تسلیم بھی کر لیتا ہے۔ الغزالی کے خیال میں دونوں قسم کے یقین کو قوی کرنا ضروری ہے تاہم دوسرا یقین زیادہ قابل قد رہے کیونکہ اسی سے پہلے یقین کی زندگی اور حیثیت عبارت ہے۔ نیز اسی یقین سے دینی اور روحانی اطاعت اور عادات محمودہ پر وان چڑھتی ہیں۔ بالفاظ دیگر فلسفیانہ یقین کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتا اگر اس کے ساتھ حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق اپنی ہستی کی قلب ماہیت کا عمل بھی شامل نہ ہو۔ صوفیا اور فقہا دونوں کی شناخت اگرچہ دوسرے یقین سے ہوتی ہے تاہم وہ مرکزی طور پر یقین کے مختلف مراتب سے علاقہ رکھتے ہیں۔ صوفیا بنیادی طور پر الحق کے براہ راست اور بلاواسطہ تجربے میں خود کو مشغول رکھتے ہیں اور صرف شریعت کے ظاہری معانی (فقہ) کی سطح کی تسلیم و بجاآوری پر قناعت نہیں کرتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نفس کی تمام قوتوں کو روح خالص کے سامنے سرنگوں کر دیا جائے۔ بنابریں یقین کے جن درجات کا تذکرہ ہم نے پہلے کیا ہے ان کا تعلق فقہ سے نہیں بلکہ معرفت (عرفان اسلامی)سے ہے بلکہ الغزالی کی مقبول اصطلاحات میں کہیے تو ان کا تعلق علم المعاملہ سے نہیں علم المکاشفہ سے ہے۔ یہ اصطلاحات انھوں نے احیاء العلوم میں بیان کی ہیں۔ اب ہم غزالی کے ’’حتمی اور یقینی ایمان‘‘ کی بحث کی طرف لوٹتے ہیں۔ ان کی منزل مقصود یا آدرش کے حوالے سے ان میں حصول علم کے انداز اور اسے پوری ہستی کے ساتھ تسلیم کرنے، ہر دو اعتبار سے کوتاہیاں موجود تھیں۔ اول الذکر کی کوتاہی ان کے پہلے شخصی بحران کی جڑ تھی اور اس کا تعلق جیسا کہ ملاحظہ کیا گیا، علمیات سے تھا۔ موخر الذکر میں کوتاہی ان کے دوسرے شخصی بحران کا مرکزی نکتہ ہے جو روحانی تھا، البتہ یہ دونوں بحران ایک دوسرے سے غیر متعلق نہیں تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ الغزالی کے اس اول الذکر ایمان کو علم الیقین کی سطح کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے جو الحق میں مشارکت کا ایک خاص انداز ہے۔ معروضی طور پر اگر علم الیقین کے بلند ترین درجۂ یقین ہونے کے بارے میں شبہات پیدا ہو سکتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے بلند تر ایک درجۂ یقین کا امکان موجود ہے۔ شیخ عیسیٰ نور الدین(فرتھجوف شواں) نے اس سلسلے میں بڑی گہری بات کہی ہے کہ اگر انسان شک کرنے کے قابل ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایقان کا وجود ہے۔۳۶؎ الغزالی صوفیا کے منہاج سے آشنا تھے۔اس سے انہیں ایقان حقیقت کی ایک برتر سطح سے بالقوہ آگاہی ہوئی۔جب ان پرعلمی بحران گذررہا تھا تو وہ اس ایقان کے بارے میں صرف علم الیقین رکھتے تھے۔ اس بحران کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عقلی وجدان کا جونور عطا ہو اس کے طور پریہ یقین عین الیقین کے درجے تک بلندہو جاتا ہے۔یہ نودریافت شدہ یقین الغزالی کی روحانی اور عقلی جستجو کا اختتام نہیں ہے۔وہ صوفیا کے باطنی واردات کے دعویٰ سے بخوبی آگاہ تھے جو وہ ابھی حاصل نہیں کر پائے تھے۔ یہ چیزان کے لیے داخلی خلش کا ایک متواتر سبب تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ انھوں نے کس طرح صوفیا کے بعض اشغالِ روحانی میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہے۔ ان کی غلطی کا مرکز کہاں واقع تھا۔ یہ انھیں بعد میں احساس ہوا۔ وہ دنیاوی خواہشات اور امنگوں مثلاً شہرت اور حب جاہ ۳۷؎ میں بری طرح مبتلا تھے۔ جب کہ روحانی ریاضتوں کی افادیت ظاہر ہی اسی وقت ہوتی ہے جب خلوص نیت وغیرہ کے احوال پہلے سے موجود ہوں۔ المنقذ میں الغزالی لکھتے ہیں کہ ان کے پہلے بحران کے اختتام کے فوراً بعد انھوں نے مختلف متلاشیانِ حق کی آرا اور طریقوں کا پہلے کے مقابلے میں زیادہ بالاستیعاب مطالعہ شروع کر دیا۔ حق کے جویا ان لوگوں کو وہ چار طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اوّلاً متکلمین جن کا دعویٰ ہے کہ وہ خود مختار فیصلوں اور استدلال کے حامل ہیں۔ دوم باطنیین جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’التعلیم‘‘ کے یکتا حامل ہیں اور انھیں امامِ معصوم سے علم حاصل کرنے کا خاص اعزاز ملا ہے۔ سوم فلاسفہ جویہ کہتے ہیں کہ وہ اہل منطق ہیں اور حق کو بدیہی طور پر ثابت کر سکتے ہیں اور آخر میں صوفیا جو ’’حضور حق‘‘ کے راز دار اور اہل مشاہدہ و انوار ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔۳۸؎ اس میں شبہ نہیں کہ الغزالی نے حق کے تلاش کرنے والے ان تمام لوگوں کا تقابلی مطالعہ اس لیے کیا کہ ان کے سامنے یقین کے بلند ترین درجہ تک پہنچنے کے جتنے بھی امکانات اور مواقع کھلے ہوئے تھے ان سب کو اس راہ پر گامزن ہونے کے لیے آزما لیا جائے تاہم یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اصل ہمدردی اور میلان طبع تصوف ہی کی جانب تھا۔ اس بالا ستیعاب مطالعے کے اختتام پر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’صوفیا ارباب الاحوال ہیں نہ کہ اصحاب الاقوال۔‘‘۳۹؎ ان کو یہ بھی احساس ہوا کہ علمِ نظری اور علمِ حضوری یا متحقق شدہ علم میں کتنا بڑا فرا ہوتا ہے۔ مثلاً صحت کی تعریف، اسباب اور احوال اور شکم سیری کی تعریف معلوم ہونا اور صحت مند ہونے یا شکم سیر ہونے میں بڑا فرق ہے، نشے کی تعریف جاننے اور خودنشہ میں ہونے میں بڑا فرق ہے اسی طرح زہد و ورع کی نوعیت اور شرائط معلوم ہونااور بات ہے اور خود فی الواقع ریاضت کرنا چیزے دگر۔علم کے متحقق ہونے سے جو ایقان حاصل ہوتا ہے وہی حق الیقین ہے۔ یہ علم ارتیاب و خطا سے اگر مبرا ہے تو اس لیے کہ اس کی بنیاد ظن و تخمین اور ذہنی تصورات پر نہیں۔ یہ قلب میں جاگزیں ہو کر انسان کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔۴۰؎ علم تب متحقق ہوتا ہے جب علم پانے والے کے وجود کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے۔ الغزالی کا بیان ہے کہ صوفیا کے منہاج علم کا امتیازی وصف یہ ہے کہ نفس کی کجی کی مختلف شکلوں مثلاً تکبر، دنیا سے غیر معمولی جذباتی لگائو اور بے شمار دوسری عاداتِ مذمومہ اور اخلاق ِسیۂ کو اس لیے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ اس علم کے تحقق کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ان کے دور ہونے سے ہی دل اللہ کے لیے خالی ہوتا ہے اور اسے اللہ کے ذکر مسلسل سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔۴۱؎ اس سے الغزالی اپنے وجود کی حالت پر غور کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اپنے نفس کی قابل رحم حالت کا احساس ہوتے ہی انھیں یقین ہو گیا کہ وہ ’’دریا کے ایک ڈھے جانے والے کنارے پر کھڑے ہیں اور آگ میں گرنے کو ہیں۴۲؎ الا یہ کہ وہ اپنے اطوار بدل ڈالیں۔ ان کے سامنے اب ان کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ تھا۔ چھ ماہ تک وہ دنیاوی خواہشات کی کشش اور آخرت کے تقاضوں کے درمیان کھینچ تان کا مسلسل سامنا کرتے رہے۔ یہ الغزالی کا دوسرا شخصی بحران تھا جو روحانی نوعیت کا ہے اور پہلے بحران سے کہیں زیادہ سنگین۔ کیونکہ اس میں ایک شیوئہ حیات کو ترک کرکے دوسرے اندازِ زیست کو اختیار کرنے کا فیصلہ شامل ہے جب کہ دوسرا شیوئہ حیات اپنے جوہر میں پہلے سے متضاد ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جب وہ اس انتخاب کی صلاحیت مکمل طور پر کھوچکے تو کس طرح آخرکار اللہ تعالیٰ نے انھیں اس بحران سے نجات دی اور ان کے قلب کو اس دنیا کی ترغیبات سے بآسانی منہ موڑ نے کی ہمت عطا کی۔ صوفیا کے روحانی راستے پر الغزالی کو وہ نور یقین میسر آیا جس کی جستجو وہ اس وقت سے ان تھک انداز میں کر رہے تھے جب سے ان کو اس یقین کی ذہنی آگاہی حاصل ہوئی تھی۔ بنابریں الغزالی کے ارتیاب و تشکیک کا مطالعہ اور تفہیم اسلامی علمیات اور عرفان اسلامی کے تصور مراتب یقین کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ جب نور یقین کی تلاش میں الغزالی اپنے وجود کے داخل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو یہ مذہبی موضوعیت نہیں ہوتی یا معروضی حقیقت سے بد دلی کا شاخسانہ نہیں ہوتا جیسا کہ بعض اہل قلم مثلاً اوبرمان اور فرلانی کا خیال ہے۔ اس کے برعکس الغزالی بلند ترین معروضی حقیقت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جس عقلی اور روحانی روایت میں وہ زندگی بسر کر رہے تھے اور جس میں ان کے افکار جنم لے رہے تھے وہ انھیں اس امر سے بخوبی آگاہ کر دیتی ہے کہ اس حقیقت سے انسان کو جو چیز محجوب کرتی ہے وہ اس کے اپنے قلب کی تیرگی ہے۔ مزید براں اسلام کی زندہ روحانی روایت ایک مکمل عملی سلسلہ بھی فراہم کرتی ہے جو اللہ کی رحمت سے اس حجاب کو دور کرنے کا کام انجام دیتا ہے، ہر اس جویائے حق کے لیے جو مخلص ہو۔ اور غزالی اس کی نمایاں مثال ہیں۔ واللہ اعلم۔ ء ء ء حوالے و حواشی ۱- اس کتاب کا عنوان دو طرح سے لکھا گیا ہے۔ایک تو المنقذ من الضلال والمفصح عن الاحوال (غلطی سے بچانے والی اور نفس کی حالتوں کو ظاہر کرنے والی) اور دوسرا المنقذ من الضلال و الموصل (یا الموصّل) الی ذی العزۃ والجلال (جو بچاتی ہے غلطی سے اور ملاتی ہے صاحب عزت و جلال سے) اس تالیف کے ترجمے مع تعلیقات کے لیے دیکھیے۔ آر۔ جوزف میکارتھی۔ آزادی اور تکمیل : غزالی کی المنقذ من الضلال اور دیگر متعلقہ کتب کا ترجمہ و شرح (انگریزی) اس ترجمے کے لیے المنقذ کا اولین دستیاب مخطوطہ سامنے رکھا گیا ہے اور غزالی کی دیگر بہت سی تالیفات کے ترجمے پیش نظر رہے ہیں جن کا تذکرہ خاص طور پر المنقذ میں آیا ہے۔ مختلف زبانوں میں المنقذ کے تراجم کے لیے دیکھیے میکارتھی کی اس کتاب کا صفحہ ۲۵۔ ۲- دیکھیے محمد عمر الدین، غزالی کا فلسفہ اخلاق (انگریزی)، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص ۲۸۶۔ حاشیہ دوم باب ۴؛ علاوہ ازیں، وینسک، افکار غزالی (فرانسیسی) ص ۱۱۱۔ ۳- ر۔ ک محمد سعید شیخ، ’’الغزالی : ماورا الطبیعیات‘‘ در ایم۔ ایم۔ شریف تاریخ فلسفہ مسلمین (انگریزی) ویزہاون (۱۹۶۳ئ)، جلد ۱، ص۸-۵۰۷) سامی۔ ایم نجم، ’’غزالی اور ڈیکارٹ کے فلسفوں میںا رتیابیت کا مقام اور عمل‘‘ ؛ مزید براں، منٹگمری واٹ، غزالی کا عقیدہ وعمل (انگریزی) شکاگو(۱۹۸۲ئ)، ص ۱۲۔ ۴- میکارتھی ر۔ ک۔ محولہ بالا۔ ص ۶۶۔ ۵- الغزالی، المنقذ من الضلال، ص ۱۱۔ مضمون میں جس متن کا حوالہ ہے وہ کتاب کے فرانسیسی ترجمے کے ساتھ بیروت سے ۱۹۶۹ء میں چھپا ہے۔ دیکھیے، فرید جابر، نجات عن الخطا (فرانسیسی)۔ ۶- میکارتھی ر، ک محولہ، ص ۶۳۔ ۷- جامی، لوائح،تصوف پر ایک تالیف (انگریزی) ترجمہ،ازای۔ایچ۔ونفیلڈاور ایم۔ایم۔ قزوینی،شاہی ایشیائی انجمن، لندن، (۱۹۱۴ئ)، ص ۲۔ ۸- تعدد ادیان کی جدید تفسیرپر گہری تنقید کے لیے رجوع کیجیے، ایف شواں، عرفان: حکمت ربانی، (انگریزی) کتب جاوداں مڈل سیکس، (۱۹۷۸ئ) باب اوّل۔ ۹- الغزالی، المنقذ، ص ۱۱۔ ۱۰- قرآن (۵۸:۱۱) دیکھیے میکارتھی، محولہ بالا، ص ۹۶۔ ۱۱- الغزالی، المنقذ، ص ۴۰۔ ۱۲- المعطاس۔ س۔ م۔ ن، اسلام اور سیکولر ازم (انگریزی) کو الالامپور(۱۹۷۸ئ)، ص ۱۰۱۔ ۱۳- تصوف کی اس ابتدائی شخصیت کی زندگی اور تعلیمات کے لیے دیکھیے، سمتھ۔ مارگریٹ، بغداد کا ایک صوفی :حارث ابن اسد المحاسبی کی حیات و تعلیمات کا مطالعہ، لندن (۱۹۳۵ئ)۔ ۱۴- دیکھیے آربری۔ اے۔ جے، تصوف :اسلام کے اہل باطن کا بیان، ان ون پیپر بیک، لندن(۱۹۷۹ئ) ص ۴۷۔ ۱۵- آربری، ایضاً ص۴۷-۴۸، حروف متمیزہ میری طرف سے ہیں۔ امتیاز دا وہ عبارت کا موازنہ میکارتھی سے کیجیے، محولہ بالا، ص ۶۲-۶۳۔ ۱۶- میکارتھی، ایضاً، ص ۶۴۔ ۱۷- ایضاً، ص ۶۵۔ ۱۸- ایضاً، ص ۶۵۔ ۱۹- ایضاً، ص ۶۶۔ ۲۰- قرآن (۵۰:۲۲)۔ ۲۱- میکارتھی، محولہ بالا، ص ۹۴۔ ۲۲- میکارتھی، ایضا، ص۹۵، واٹ، محولہ بالا، ص ۶۲۔ وجدان یا کشف کے لیے اسلامی فکریات میں جو مختلف اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں ان کے لیے اور اسلامی تناظر میں عقل اور وجدان کے تعلق کے مسئلے پر رجوع کیجیے، سیّد حسین نصر، ’’عقل اور وجدان : اسلامی تناظر میں ان کا تعلق باہم‘‘ در اسلام اور معاصر سماج، مرتبہ سالم عزام،اسلامک کونسل آف یورپ، (۱۹۸۲ئ)ص ۳۶-۴۶۔ ۲۳- الغزالی، المنقذ، ص ۱۳۔ ۲۴- اس رائے پر بحث کے لیے دیکھیے سامی۔ ایم۔ نجم، محولہ بالا۔ ۲۵- دیکارٹس، اُصول، حصہ۱،۱، در، دیکارٹس کی فلسفیانہ تالیفات (انگریزی) دو جلد، ترجمہ ازای۔ ایس۔ ہالڈین اور جی آر۔ ٹی۔ راس۔ نیویارک(۱۹۵۵ئ)۔ ۲۶- میکارتھی، محولا بالا، ص ۳۹۔ ۲۷- پوگی۔ونیسینزو۔ ایم، مسلمانوں کی کلاسیکی روحانی تالیف (اطالوی)، گریگور یانہ یونی ورسٹی لائبریری روم(۱۹۶۷ئ)، ص ۱۷۱۔ ۲۸- فرلانی گیوسپ،(ڈاکٹر جے۔ اوبرمان، ’’غزالی کی فلسفیانہ اورمذہبی موضوعیت‘‘(خلاصہ) در رسالہ تثلیثی برائے مطالعہ فلسفہ ادیان، (اطالوی) جلد سوم، شمارہ ۳، ص ۳۴۰-۳۵۲، پیروگیا (۱۹۲۲ئ) میکارتھی نے اپنی محولہ بالا تالیف میں فرلانی کے مذکورہ بالا تبصرہ کے بعض حصوں کا ترجمہ دیا ہے۔ دیکھیے ص۳۸۸-۳۹۰۔ ۲۹- ایف شواں، منطق و تعالیٰ (انگریزی) ہارپر اینڈ رائو، نیویارک(۱۹۷۵ئ) ص ۴۳-۴۴۔ ۳۰- تاج الدین السبکی، طبقات الشافعیہ الکبریٰ (عربی)، جلد ۴، قاہرہ (۱۳۲۴ھ؍۱۹۰۶ئ) ص ۱۰۲ بحوالہ ایم سعید شیخ، محولہ بالا، ص ۳-۵۸۲۔ ۳۱- ابن خلکان،وفیات الاعیان، انگریزی ترجمہ از ڈی سلین، پیرس، (۱۸۷۱-۱۸۴۲)جلد دوم ص ۱۲۲ بحوالہ ایم سعید شیخ، محولہ بالا، ص ۵۸۳۔ ۳۲- میکارتھی، المنقذ، ص ۹۱-۹۰۔ ۳۳- جے۔ اوبرمان، غزالی کی فلسفیانہ اور مذہبی موضوعیت۔۔۔ ویانا اور لاپزگ (۱۹۲۱ئ)، ص۲۰۔ ۳۴- ر۔ ک سیّد حسین نصر، علم اور القدس (انگریزی)، کراس روڈ، نیویارک(۱۹۸۱ئ) ص ۳۲۵، مزید براں، ابوبکر سراج الدین۔ ۳۵- کتاب الیقین(انگریزی) نیویارک، (۱۹۷۴ئ)۔ ۳۶- الغزالی، کتاب العلم، (انگریزی ترجمہ از نبیہ امین فارس، لاہور، (۱۹۷۴ئ) ص ۱۹۳-۱۹۴۔ ۳۷- ایف شواں،محولہ بالا، ص ۱۳۔ ۳۸- میکارتھی، ایضاً، ص ۶۷۔ ۳۹- الغزالی، المنقذ، ص ۳۵۔ ۴۰- نصر، محولہ بالا، ص ۳۲۵۔ ۴۱- میکارتھی، محولہ بالا، ص ۹۰۔ ۴۲- میکارتھی، ایضاً، ص ۹۱۔ ظ ظ ظ احمد غزالی ؒاور محمد غزالی ؒ کے ایک دوسرے پر اثرات نصر اللہ پور جوادی کا یہ مقالہ فارسی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ ابوحامد غزالی کے روحانی بحران کی مزید وضاحت کے لیے اس مجموعے میں شامل مقالہ دیکھیے :عثمان بکر، ’’غزالی کے فلسفے میں تشکیک کی معنویت‘‘، (انگریزی) اقبال ریویو، اپریل، ۱۹۸۵ئ، ص ۲۹۱۔ عثمان بکر بھی نصر اللہ پور جوادی کی اس رائے سے متفق ہیں کہ محمد غزالی کے مرشد احمد غزالی ہی تھے۔ (مترجم) امام ابو احمدغزالی کی زندگی پر ظاہری اور معنوی، دونوں اعتبار سے جن لوگوں کا بھرپور اثر پڑا، اُن میں سے ایک بلاشبہ ان کے بھائی احمد غزالی ہیں۔ دونوں میں ایسا قریبی ربط ہے کہ کسی ایک کی زندگی اور آثار پر تحقیق کرنے چلیے تو دوسرے کے حالات پر لازماً نظر ڈالنا پڑتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ احمد غزالی کے جو اثرات بڑے بھائی پر رہے، اُن کی جانب محققین اور ابو حامد غزالی پر لکھنے والوں نے قرار واقعی توجہ نہیں کی۔ ہماری کوشش ہو گی کہ دونوں بھائیوں کے مابین جو تعلق رہا تھا، اس مقالے میں اس کی طرف اشارہ کیا جائے۔ دونوں بھائیوں کے باہمی تعلقات کا ہم دو اعتبار سے جائزہ لیں گے۔ اوّلا ان کے خاندانی اور شخصی روابط کے اعتبار سے، اور ثانیاً اس لحاظ سے کہ دونوں نے اپنے خیالات ، عقائد اور احوال میں ایک دوسرے سے کیا اثرات قبول کیے۔ اس مقالے میں ہم نے اوّل الذکر کو پہلوہی کو زیادہ تر موردِ بحث قرار دیا ہے اور مؤخر الذکر پہلو کی طرف صرف اشارات پر اکتفا کیا ہے۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ احمد غزالی، محمد غزالی کے چھوٹے بھائی تھے اور ان کی عمر میں دو سے چار سال کا فرق تھا۔ باوجود ان حوادث کے جو انھیں پیش آئے، اُن کا بچپن اور نوجوانی اکٹھے گزری۔ اپنے والد کے بعد دونوں نے ایک ہی شخص ’ابوعلی راذ کانی‘ سے تحصیل علم کی، بعد ازاںطُوس حتیٰ کہ نیشاپور میں بھی دونوں اکٹھے مدرسے جاتے اور کم و بیش ایک ہی سے علوم حاصل کرتے رہے۔ بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ محمد غزالی بڑا بھائی ہونے کے ناتے کسی حد تک احمد کے مربی کی حیثیت رکھتے تھے۔ دونوں میں جدائی بیس اور پچیس سال کی عمر کے مابین واقع ہوئی اور اس جدائی کا باعث بھی تصوف ہوا۔ احمد غزالی اسی زمانے میںابو علی فارمدی اور ابوبکر نسّاج کے مرید ہو چکے تھے اور تیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے، ان کے جانشین بن گئے۔ محمد غزالی نے علوم ظاہری سے اشتغال رکھا، خواجہ نظام الملک کے دربار میں تقرب حاصل کیا اور اس کے بعد نظامیہ بغداد میں مدرس ہو گئے۔ بغداد کے قیام کے دوران ان میں جو روحانی انقلاب آیا اور درد دل کی جو طلب پیدا ہوئی، اُس کی وجہ سے انھوں نے اپنی زندگی بالکل بدل لی اور تصوف کی طرف آگئے۔ ابو حامد المنقذ، میں لکھتے ہیںکہ ان کی اس روحانی کیفیت کے اثرات ان کے بدن پر بھی پڑے اور وہ مجبور ہو کر اس کے علاج کے لیے اطبا کے پاس گئے۔ اطبا کی تشخیص کے مطابق انھیں کوئی جسمانی مرض نہ تھا۔ ان کے درد معنوی کا درماں کسی طبیبِ روحانی کا محتاج تھا۔ بہرکیف، ابوحامد نے بغداد چھوڑ کر دمشق کا رُخ کیا، لیکن عازم سفر ہونے سے پہلے چھوٹے بھائی سے کہا کہ وہ نظامیہ میں ان کی طرف سے نیا بتاً درس دیا کریں اور ساتھ ہی ان کے گھر کی دیکھ بھال بھی کرتے رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس بحرانی حالت میں احمد غزالی نے بھائی کی جو مدد کی، وہ صرف مذکورہ ظاہری پہلو تک ہی محدود تھی یا معنوی اعتبار سے بھی وہ بھائی کے یارو مددگار بنے۔ یہ درست ہے کہ احمد غزالی چھوٹا بھائی اور قریبی لوگوں میں سے ہونے کی بنا پر مناسب ترین شخص تھے جو ابو حامد کی سماجی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتے، لیکن ساتھ ہی احمد غزالی اپنے زمانے کے بزرگ ترین مرشد اور شیخ بھی تھے، صرف خراسان ہی کی حد تک نہیں بلکہ تمام ایران میں۔ لہٰذا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ابو حامد کے مرشد اور طبیب رُوحانی بھی احمد ہی رہے ہوں گے۔۱؎ ابو حامد نے اس بحران سے اپنی خلاصی کو لطف و عنایت ایزدی کانتیجہ قرار دیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا کوئی مرشد نہ تھا۔ ایسے اُمور کا انتساب ذات باری تعالیٰ سے کرنا دراصل اسلام کے عقیدئہ توحید کا لازمہ ہے اور مشائخ و بزرگان نے اسی انداز میں (مشکلات سے ) نجات کو ذات ایزد تعالیٰ اور اس کے لطف و کرم سے نسبت دی ہے لیکن اس کے باوجود ایک واسطے یعنی شیخ وجود بھی رہا ہے۔ اس کی مثال غزالی برادران ہی کے ایک شاگرد صوفی کے سلسلے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ صوفی عین القضاۃ ہمدانی تھے۔ عین القضاۃ کی حالت بڑی حد تک ابو حامد سے مشابہ تھی۔ غزالی کے روحانی انقلاب کے لگ بھگ تیس سال بعد وہ بھی ایک معنوی بحران سے دو چار ہوئے، محمد غزالی کی کتابیں خصوصاً احیاء العلوم پڑھنا شروع کیںلیکن پھر ان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے انھیں ایک شیخ اور طبیب روحانی کا محتاج بنا دیا۔ عین القضاۃ کی مدد کو آنے والی ہستی جس نے ان کی دستگیری اور اُن کی مشکل حل کی، احمد غزالی تھے۔ احمد غزالی سے اپنی ملاقات کی تفصیل خود عین القضاۃ نے بیان کی ہے۔ لیکن ابوحامد اس معاملے میںخاموش ہیں؛ البتہ اس بحران سے نجات کو انھوں نے بھی عین القضاۃ کی طرح لطف و عنایت ربانی پر محمول کیا ہے۔ لیکن بہرحال کوئی تو رہا ہوگا جس نے محمد غزالی کی دستگیری کی اور انھیں تلقین ذکر کی جس میں وہ مشغول رہے۔ چونکہ اس ضمن میں کوئی تاریخی سند موجود نہیں، لہٰذا ہم فقط قیاس اور اندازے ہی کا سہارا لے سکتے ہیں؛ یہ مفروضہ کہ محمد غزالی کے شیخ اور مرشد احمد غزالی ہی تھے، ایک قوی مفروضہ ہے اور شاید اس معاملے میں ان کا سکوت کرنا بھی اسی لیے تھا کہ دونوں میں بھائی بھائی کا رشتہ تھا۔ کیا عجب ہے کہ خود چھوٹے بھائی احمد غزالی نے بڑے بھائی سے اس راز کو افشا نہ کرنے کو کہا ہو اور اسی میںمصلحت اجتماعی دیکھی ہو۔ بہرحال، اس واقعے کے بعد محمد غزالی نے دس برس، اپنے ملک سے دور، بلاد عربیہ میں بسر کیے لیکن اس تمام عرصے میں بھائی سے اپنا معنوی رابطہ برقرار رکھا۔ ان کے خراسان لوٹ آنے کے بعد دونوں بھائیوں کے ظاہری روابط پہلے کی طرح پھر استوار ہو گئے، اور ابو حامد کی زندگی کے آخر تک باقی رہے۔ محمد غزالی ۴جمادی الآخر۵۰۵ھ کو دو شنبے کے دن طوس میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے بھائی احمد غزالی ان کے سرہانے موجود تھے اور محمد غزالی کو انھوں نے اپنے ہاتھ سے کفن دیا۔ محمد اور احمد غزالی کے باہمی تعلقات محمد غزالی کی موت کے بعد بہ ظاہر ختم ہو گئے لیکن معنوی اور فکری اعتبار سے ان میں دوام پیدا ہو گیا۔احمد غزالی کا مقام تصوف میں محمد غزالی سے بہت بالاتر تھا اور احتمال ہے کہ وہ محمد کے شیخ اور مرشد بھی تھے؛ تاہم علوم ظاہری، فقہ، کلام اور فلسفے میںمحمد بڑھے ہوئے تھے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں احمد غزالی محمد سے متاثر تھے۔ عین القضاۃ ’وسع کرسیہ السموات والارض‘ کی تفسیر میں ’وسع‘ کے لفظ کی تعبیر ’احاطہ‘ سے کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ان کے شیخ احمد اور ان کے بھائی محمد غزالی، دونوں اس بات کے قائل تھے کہ کرسی پر احاطۂ ایزدی، احاطۂ جسمانی ہے(خطوط، جلد دوم، ص ۳۸۰) اس مشترک عقیدے کے تذکرے سے دونوں بھائیوں کے کلامی عقائد میں کسی حد تک قرب کا اشارہ ملتا ہے۔ لیکن ان دونوںکا تعلق اس سے زیادہ ہے۔ اس بات کا اندازہ ان دونوں کی تصانیف کے جائزے سے ہوتا ہے۔ دونوں بھائیوں کے باہمی روابط کا یہ دوسرا پہلو ہے، یعنی آرا ، عقائد اور تصانیف میں ایک پر دوسرے کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نقطۂ نظر سے ان دونوں بھائیوں کی تصانیف کا جائزہ ابھی تک نہیں لیا گیا۔محمد اور احمد غزالی کی تمام تصانیف کو جاننا اور ان کا آپس میں موازنہ کرنا، ان دونوں بھائیوں کے روابط کی تفہیم کے لیے ا ز بس ضروری ہے۔ یہاں ہم صرف چند نکات کی طرف اجمالاً اشارہ کر سکتے ہیں۔ ابوحامد کی سب سے بڑی تصنیف، احیا العلوم الدین ہے جسے لکھنے کے ساتھ ہی بے نظیر مقبولیت حاصل ہوئی اور بطور ایک درسی کتاب اس سے استفادہ کیا جاتا رہا۔ اس کتاب کا درس دینے والے اوّلین لوگوں میں سے ایک احمد غزالی تھے۔ علاوہ ازیں احمد پہلے آدمی ہیں جنھوں نے احیا کی تلخیص کی اور اس کا نام لباب الاحیا رکھا۔ ابو حامد کے رسالۃ الطیر کا ترجمہ بھی احمدنے فارسی میںکیا۔ مسائل تربیت میں بھی احمدنے ابو حامد کے عقائد سے استفادہ کیا ہے، اور اس کا اندازہ رسالہ عینیہ(یا موعظہ، یا تازیانہ سلوک) اور فرزند نامہ کے تقابلی مطالعے اور ان کی مشابہ عبارتوں اور فقروں کے موازنے سے ہوتا ہے۔ دونوں بھائیوں کی کلامی تصانیف کا بھی اس اعتبار سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ بایں ہمہ ایک موضوع ایسا ہے جس میں احمدغزالی کی فکر اپنی ایک جداگانہ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے اور باعتبار ایک صوفی مفکر اور مصنف ان کی عظمت بھی اسی موضوع میں پنہاں ہے۔ یہ موضوع عشق ہے۔ احمد غزالی کو بلاشبہ دنیا بھر میں موضوع عشق کے سب سے بڑے نظریہ پردازوں میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس باب میںان کی آرا ان کے فارسی شاہکار سوانح میں موجود ہیں۔ ابوحامد نے بھی اپنی کتب میں عشق کے بارے میں صوفیانہ مباحث کیے ہیں؛ تاہم ان کی تحریر اور سوانح میں مندرج احمد غزالی کی آرا ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔اگر احمد نے سوانح نہ لکھی ہوتی تو آج معارف اسلامی کی تاریخ میں ان کا نام دوسرے درجے کے ایک مصنف اور اپنے بھائی محمد کے پیرو اور شارح کے طورپر درج ہوتا لیکن اس کتاب نے انھیں تاریخ ادبیات تصوف کے سب سے بڑے اور خلاق ایرانی مصنّفین کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہ کتاب غالباً محمدغزالی کی وفات کے تیس برس بعد تصنیف ہوئی، لہٰذا عشق الٰہی کے بارے میں ابوحامد کی آرا کا اس کے زیر اثر ہونے کا امکان نہیں رہ جاتا۔ خلاصہ یہ کہ احمد اور محمد غزالی کے آثار کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں بھائی ایک پہلو سے جداگانہ اور مستقل آرا و افکار کے مالک تھے۔ احمد اپنے بھائی کی عرفانی، کلامی اور فقہی تصانیف سے واقف تھے اور ان سے متاثر بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود تصوف کے ایک موضوع یعنی عشق پر ان کی مستقل رائے تھی اور اس پر انھوں نے الگ سے ایک کتاب بھی لکھی۔تاہم محمد غزالی کو اس کے اثرات سے متاثر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نیز احمد غزالی کی آرا (جو غالباً ان کو ازرو ے کشف القا ہوتی ہوں گی) بھی محمد غزالی کے آثار میں نظر نہیں آئیں۔ احمد غزالی کا جو اثر محمد غزالی پر تھا، وہ بظاہر ایک مرشد اورشیخ طریقت کی حیثیت سے نفوذ شخصی تک محدود تھا۔ ء ء ء حوالے و حواشی ۱- ابوحامد غزالی کی روحانی بحران کی مزید وضاحت کے لیے اس مجموعے میں شامل مقالہ دیکھیے :عثمان بکر، ’’غزالی کے فلسفے میں تشکیک کی معنویت‘‘، (انگریزی) اقبال ریویو، اپریل، ۱۹۸۵ئ، ص ۲۹۱۔ عثمان بکر بھی نصر اللہ پور جوادی کی رائے سے متفق ہیں کہ محمد غزالی کے مرشد احمد غزالی ہی تھے۔(مترجم) ظ ظ ظ