اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مدیر : ڈاکٹر وحید عشرت نائب مدیر : احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی - مثلاً اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتہ پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات تحقیق و سوانح ۱ - علامہ اقبال کے ریاست بہاولپور کے امیروں اور مشاہیرسے تعلقات محمد اکبر ملک ۱ خصوصی مطالعہ ۲ - خطبات اقبال کی منہاج - ایک تجزیہ جاوید امیر عثمانی ۴۳ ۳ - اقبال کے خطوط میں تحریف - تازہ مثال ڈاکٹر وحید عشرت ۶۹ گوشۂ مہماناں ۴ - محمد اقبال اور قاضی نذرالاسلام کا تقابلی مطالعہ پروفیسر ام سلمیٰ ۸۷ ۵ - اقبال اور شوقی کی اندلسیات کا تقابلی مطالعہ ڈاکٹر جلال السعیدالحفناوی ۱۱۷ استفسارات و مباحث ۷ - اقبال اور تصور جنت و دوزخ ڈاکٹر وحیدعشرت ۱۵۹ ۸ - استفسارات احمد جاوید ۱۸۵ اخبار اقبالیات مرتبہ : ڈاکٹر وحید عشرت ۱۹۱ ۱ -کلیات اقبال (فارسی) آڈیو- ویڈیو ۱۹۳ ۲ - اسلام میں زمان و مکان ۱۹۴ اسلامی فکری ورثہ فائونڈیشن اور امیر خسرو سوسائٹی کے تحت امریکہ میں عالمی کانفرنس ۳ - شاہ ولی اللہ کا اسلامی فکر میں حصہ - لیکچر ۱۹۷ ۴ - یوم اقبال - اسلام آباد ،نومبر ۲۰۰۰ئ ۱۹۷ ۵ - یوم اقبال علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور رایزنی فرہنگی، ایران ۱۹۸ اسلام آباد ۶ - یوم اقبال -خانہ فرہنگ ایران لاہور ۱۹۸ ۷ - یوم اقبال - مرکزیہ مجلس اقبال ، لاہور ۱۹۹ ۸ - مزار اقبال کی تقریب ۱۹۹ ۹ - نیشنل کالج آف آرٹس میں ڈاکٹر ولیم چیٹک کا لیکچر ۱۹۹ ۱۰ - اقبال میموریل لیکچر شعبہ فلسفہ ، جامعہ پنجاب ۱۹۹ ۱۱ - ترقیاتی مطالعات اور اقدامات کا جائزہ - خصوصی سیمیناروں کا سلسلہ ۲۰۱ ۱۲ - CTNS (مرکز الہٰیات اور علوم طبیعی) کے تحت خودی اور ۲۰۲ شخصیت کے موضوع پر خصوصی مطالعات ۱۳ - خدا ، زندگی اور کائنات کے توحیدی تصور پر کانفرنس ۲۰۳ ۱۴ -ڈاکٹر آغا یمین کو اقبال اکادمی لندن کا خصوصی مشیر منتخب کیا گیا ۲۰۳ ۱۵ - اقبال سوسائٹی بنگلہ دیش کے تحت ڈھاکہ میں یوم اقبال ۲۰۳ ۱۶ - اقبال اکادمی کی مجلس عاملہ کا ۹۱ واں اجلاس ۲۰۵ ۱۷ - اقبال اکادمی کینیڈا - یوم اقبال ۱۶ جولائی ۲۰۰۰ئ ۲۰۵ ۱۸ - اقبال اکادمی پاکستان کی مجلس عاملہ کا ۹۲واں اجلاس ۲۰۶ ۱۹ - علامہ اقبال پر مصوری کی نمائش ۲۰۶ ۲۰ - چیف ایگزیکٹیو معائنہ کمیشن کے چیئرمین کا علمی اداروں کا دورہ ۲۰۶ ۲۱ -اقبال اکادمی پاکستان - مطبوعات کی نمائش ۲۰۹ ۲۲ - مولانا ابوالحسن علی ندوی - تعزیتی جلسہ ۲۱۰ ۲۳ - پروفیسر محمد منور کی یاد میں دو تعزیتی جلسے ۲۱۱ قلمی معاونین ۱ - ڈاکٹر جلال السعید الحفناوی استاد، شعبہ اردو ، قاہرہ یونیورسٹی ،قاہرہ - مصر ۲ - پروفیسر ام سلمیٰ صدر ، شعبہ اردو ، ڈھاکہ یونیورسٹی -ڈھاکہ - بنگلہ دیش ۳ - محمد اکبر ملک استاد، شعبہ سیاسیات ، اسلامیہ یونیورسٹی ، بہاولپور ۴ - جاوید امیر عثمانی احمد نگر نزد بٹ چوک ، کالج روڈ ،لاہور ۵ - ڈاکٹر وحید عشرت نائب ناظم (ادبیات) ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۶- احمد جاوید معاون ناظم (ادبیات) ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور تحقیق و سوانح اقبال کے ریاست بہاولپور کے امیروںاور مشاہیر سے تعلقات محمد اکبر ملک علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء - ۱۹۳۸ئ) کی شاعری اور دیگر ادبی تحریروں سے یہ امر واضح طور پر عیاں ہوتا ہے کہ آپ کی فکری سوچ میں اسلام کو مرکزی حیثیت حاصل تھی یہی نہیں خود آپ کی عملی زندگی بھی اسلام کی حقیقی روح و جذبے سے سر شار نظر آتی ہے جس طرح اسلام میں بے جا خوشامد اور درباری زندگی کو ناپسند کیا گیا ہے - علامہ اقبال بھی اسی فلسفے پر کار بند نظر آتے ہیں - وہ نہ تو کسی شاہی دربار کے کاسہ لیس رہے اور نہ ہی کبھی امراء و روساء کے قصیدہ گو بنے - البتہ برصغیر کے جن امرا و نوابین نے اسلام کی سربلندی اور ملی مفادات کے حصول کی کوشش کی ، علامہ نے نہایت کھلے دل کے ساتھ ان کے اس انداز فکر کو سراہا - یہی وجہ ہے کہ وہ فرماروایان بہاولپور کے معترف نظر آتے ہیں اور ان کی اسلام دوستی کی ہمیشہ تعریف و توصیف کی - علامہ اقبال ریاست بہاولپور کو اس کے اسلامی تشخص کی بنا پر بڑی اہمیت دیتے تھے اور اسے پنجاب کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز سمجھتے تھے - برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کے انحطاط کے سبب جنوبی پنجاب کے علاقے پر مشتمل ایک چھوٹا پاکستان وجود میں آ چکا تھا جہاں اسلامی اقدار پروان چڑھتی رہیں اور انگریز حکومت کے زیر اثر ہونے کے باوجود اسلامی تشخص برقرار رہا اور یہاں کے تاجداروں کی علمی ضیا پاشیوں کے سبب یہ علاقہ علم کی روشنی سے منور ہوتا رہا حالانکہ اس دور میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے حکمران اپنی رعایا کو تعلیم کی سہولتوں سے محروم رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے تھے - اس ریاست کے وجود مسعود ہی کا فیض تھا کہ یہ سکھوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور تسخیر سندھ کے منصوبے میں حائل رہی ورنہ اگر رنجیت سنگھ (۱۷۸۰ء ۱۸۳۹ئ) کے کمانڈر جنرل شام سنگھ اور جنرل ونٹورہ کی فوجیں وادی ستلج کے علاوہ پورے سندھ کو تسخیر کر لیتی تو کیا معلوم ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر بھی سپین کے مسلمانوں کا سا ہوتا (۱)- برصغیر کی تقریباً چھ سو ریاستوں میں سے ریاست بہاول پور کا نمبر بالحاظ مرتبہ بائیسواں تھا اس کے فرماروا سترہ توپوں کی سلامی پاتے تھے - اور خود مختار ہونے کی حیثیت سے اپنا ٹکسال وسکہ بھی رکھتے تھے (۲) -یہ ریاست دولت خداداد کہلاتی تھی جو عباسی حکمرانوں کی اپنی جدوجہد سے معرض وجود میں آئی تھی - اس ریاست کے فرما روائوں سے افغان بادشاہوں اور مغل شہنشاہوں نے ہمیشہ احترام کا سلوک روا رکھا - حکومت برطانیہ ریاست بہاولپور کو کس قدر اہمیت دیتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۹۳۷ء میں جارج ششم (۱۹۳۷ء - ۱۹۵۲ئ) کی تاج پوشی کی تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان کے تقریباً چھ سو والیان ریاست میں سے صرف چھ حکمرانوں کو مدعو کیا گیا جن میںنواب آف بہاولپور بھی شامل تھے (۳) - امیر بہاولپور صادق محمد خاں خامس (۱۹۲۴ء - ۱۹۵۵ئ) کی ذات ہمہ گیر خوبیوں کا مرقع تھی - آپ عدل پسند ، رعایا پرور ، علم دوست اور فیاض حکمران تھے جبکہ آپ کا دل قومی و ملی جذبے سے سرشار تھا - خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے خاص طورپر جب جون ۱۹۳۵ء میں کوئٹہ میں زلزلے نے تباہی مچائی تو نواب بہاولپور نے خود ڈیرہ نواب ریلوے اسٹیشن پر متاثرین زلزلہ کی امداد و اعانت فرمائی - جس کے جواب میں وائسرائے ہند لارڈ ولنگٹن (۱۸۶۶ء - ۱۹۴۱ئ) خود جولائی کے انتہائی گرم مہینے میں شکریے کے لیے بہاولپور پہنچے(۴) - نواب نے اپنی ریاست کو ایسے ماحول میں ڈھالا ، جو خالصتاً اسلامی تھا ، جہاں مسلمانوں کو علمی ، مذہبی ، معاشرتی ترقی کے مواقع میسر تھے اس کے علاوہ بیرون ریاست الیسے تمام علمی ، مذہبی و اصلاحی اداروں کی مالی معاونت اور سرپرستی کی جو مسلمانوں میں قومی شعور بیدار کرنے میں کوشاں تھے - اس قسم کے اداروں میں ندوۃ العلماء ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور انجمن حمایت اسلام لاہور خاص طور پر قابل ذکر ہیں- یہ ادارے نہ صرف لاکھوں روپے کی امداد پاتے تھے بلکہ ان کے سالانہ جلسوں میں فرماروایان بہاولپور شرکت کرکے اپنے دلی جذبات کا اظہار بھی کرتے تھے (۵)- برصغیر میں حکیم الامت کے علمی و سیاسی مرتبے کو بڑی اہمیت حاصل تھی - امیران بہاولپور بھی اس حیثیت سے بجا طور پر آشنا تھے وہ آپ سے ریاست کے علمی و انتظامی امور اور ادارہ شرعیہ کے قیام سے متعلق معاملات پر مشاورت کے لیے رجوع کرتے رہتے تھے- علامہ اقبال کے ریاست بہاولپور کے امیروں سے تعلقات کی ابتداء نواب بہاول خان پنجم (۱۹۰۳ ء - ۱۹۰۷ئ) کے جشن تخت نشینی کی تقریب کے حوالے سے ہوئی تھی - اس پروقار تقریب میں جہاں انگریز حکام ، راجگان ، رئوسا اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا وہاں حکیم الامت کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی تھی اور اس مبارک موقع کی مناسبت سے ایک قصیدہ کی فرمائش بھی کی گئی تھی - علامہ اقبال اپنی ذاتی مصروفیات کی بنا پر اس تقریب میں شریک تو نہ ہو سکے - لیکن نواب بہاول خاں پنجم وہ واحد خوش قسمت انسان تھے جن کی تعریف میں علامہ اقبال نے قصیدہ لکھا جو باقیات اقبال میں ’’ دربار بہاولپور ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا - جیسا کہ ابتداء میں بیان کیا گیا ہے شاعر مشرق امراء ، نوابین کی مداح سرائی میں اپنا قلم کبھی استعمال نہیں کرتے تھے لیکن امیران بہاولپور سے ان کے ایسے دلی تعلقات تھے کہ وہ ان کی بڑائی و عظمت میں اپنا قلم اٹھانے پر مجبور تھے - قصیدہ کے اشعار درج ذیل ہیں (۶) - بزم انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر زمیں آج رفعت میں ثریا سے بھی ہے اوپر زمیں اوج میں بالا فلک سے مہر سے تنویر میں کیا نصیبہ ہے رہی ہر معرکہ میں در زمیں انتہائے نور سے ہر ذرہ اختر خیز ہے مہر و ماہ و مشتری صیغے ہیں اور مصدر زمیں لے کے پیغام طرب جاتی ہے سوئے آسماں اب نہ ٹھہرے گی کبھی اطلس کی شانوں پر زمیں شوق بک جانے کا ہے فیروزئہ گردوں کو بھی مول لیتی ہے لٹانے کے لیے گوہر زمیں بسکہ گلشن ریز ہے ہر قطرہ ابر بہار ہے شگفتہ صورت طبع سخن گستر زمیں برگ گل کی رگ میں ہے جنبش رگ جاں کی طرح ہے امیں اعجاز عیسٰی کی کہ افسوں گر زمیں خاک پر کھینچیں جو نقشہ مرغ بسم اللہ کا قوت پرواز دے دے حرف قم کہہ کر زمیں صاف آتا ہے نظر صحن چمن میں عکس گل بن گئی آپ اپنے آئینے کی روشن گر زمیں اس قدر نظارہ پرور ہے کہ نرگس کے عوض خاک سے کرتی ہے پیدا چشم اسکندر زمیں امتحان ہو اس کی وسعت کا جو مقصود چمن خواب میں سبزے کے آئے آسماں بن کر زمیں چاندنی کے پھول پر ہے ماہ کامل کا سماں دن کو ہے اوڑھے ہوئے مہتاب کی چادر زمیں آسماں کہتا ہے ظلمت کا جو ہو دامن میں داغ دھو دے پانی چشمہء خورشید سے لے کر زمیں چومتی ہے دیکھنا جوش عقیدت کا کمال پائے تخت یاد گار عم پیغمبر زمیں زینت مند ہوا عباسیوں کا آفتاب ہو گئی آزاد احسان شہ خاور زمیں یعنی نواب بہاول خاں - کرے جس پر فدا بحر موتی - آسماں انجم زر د گوہر زمیں جس کے بد خواہوں کی شمع آرزو کے واسطے رکھتی ہے آغوش میں صد موجہ صرصر زمیں جس کی بزم مسند آرائی کے نظارے کو آج دل کے آئینہ سے لائی دیدہ جوہر زمیں فیض نقشِ پا سے جس کے ہے وہ جاں بخشی کا ذوق شمع سے لیتی ہے پروانے کی خاکستر زمیں جس کی راہ آستاں کو حق نے وہ رتبہ دیا کہکشاں اس کو سمجھتا ہے فلک - محور زمیں آستانہ جس کا ہے اس قوم کی امید گاہ تھی کبھی جس قوم کے آگے جبیں گستر زمیں جس کے فیض پا سے شفاف مثل آئینہ چشم اعدا میں چھپا کر خاک کا عنصر زمیں جس کے ثانی کو نہ دیکھے مدتوں ڈھونڈے اگر ہاتھ میں لیکر چراغ لالۂ احمر زمیں وہ سراپا نور اک مطلع خطا بیشہ پڑھوں جس کے ہر مصرع کو سمجھے مطلع خاور زمیں اے کے تیرے آستاں سے آسماں انجم بجیب اے کہ ہے تیرے کرم سے معدن گوہر زمیں لے کے آئی ہے برائے خطبۂ نام سعید چوب نخل طور سے ترشا ہوا منبر زمیں تیری رفعت سے جو یہ حیرت میں ہے ڈوبا ہوا جانتی ہے مہر کو اک مہرہ ششدر زمیں ہے سراپا طور عکس رائے روشن سے تر ورنہ تھی بے نور مثل دیدہ عبہر زمیں مایہ ٔ نازش ہے تو اس خانداں کے واسطے اب تلک رکھتی ہے جس کی داستاں ازبر زمیں ہو ترا عہد مبارک صبح حکمت کی نمود وہ چمک پائے کہ ہو محسود ہر اختر زمیں سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں بغداد کا ہند میں پیدا ہو پھر عباسیوں کی سر زمیں محو کر دے عدل تیرا آسماں کی کجروی کلیات دہر کے حق میں بنے مسطر زمیں صلح ہو ایسی گلے مل جائیں ناقوس و اذاں ساتھ مسجد کے رکھے بت خانہ آزر زمیں نام شاہنشاہ اکبر زندہ جاوید ہے ورنہ دامن میں لیے بیٹھی ہے سو قیصر زمیں بادشاہوں کی عبادت ہے رعیت پروری ہے اسی اخلاص کے سجدے سے قائم ہر زمیں ہے مروت کی صدف میں گوہر تسخیر دل یہ گہر وہ ہے کرے جس پر فدا کشور زمیں حکمران مست شراب عیش و عشرت ہو اگر آسماں کی طرح ہوتی ہے ستم پرور زمیں عدل ہو مالی اگر اس کا یہی فردوس ہے ورنہ ہے مٹی کا ڈہیلا خاک کا پیکر زمیں ہے گل و گلزار محنت کے عرق سے سلطنت ہو نہ یہ پانی تو پھر سر سبز ہو کیونکر زمیں چاہیے پہرا دماغ عاقبت اندیش کا بیدردی میں ہے مثال گنبد خضر زمیں لامکاں تک کیوں نہ جائے گی دعا اقبال کی عرش تک پہنچی ہے جسکے شعراء کی اڑ کر زمیں خاندان تیرا رہے زیبندہ تاج و سریر جب تلک مثل قمر کھاتی رہے چکر زمیں مسند احباب رفعت سے ثریا بوس ہو خاک رخت خواب ہو اعدا کا اور بستر زمیں تیرے دشمن کو اگر شوق گل و گلزار ہو باغ میں سبزے کی جا پیدا کرے نشتر زمیں ہو اگر پنہاں تری ہیبت سے ڈر کر زیر خاک مانگ کر لائے شعاع مہر سے خنجر زمیں پاک ہے گرد غرض سے آئینہ اشعار کا جو فلک رفعت میں ہو ، لایا ہوں وہ چن کر زمیں تھی تو پتھر ہی مگر مدحت سرا کے واسطے ہو گئی ہے گل کی پتی سے بھی نازک تر زمیں علامہ اقبال کی بہاولپور میں پہلی بار آمد کا ذکر قمرالزماں عباسی ۱۹۲۶ء میں(۷) ، جبکہ نذیر علی شاہ (وفات - ۱۹۸۴ئ) اندازاً ۱۹۲۷ ء یا ۱۹۲۸ء بیان کرتے ہیں (۸) جس سے متعلق یہ مشہور ہے کہ آپ نواب صادق خامس کی دعوت پر بہاولپور تشریف لائے اسٹیشن پر نواب کے سیکریٹری نے آپ کا استقبال کیا علامہ صاحب کو سرزمین بہاولپور پر قدم رکھتے ہی ایک سچے اسلامی و عربی تمدن کا نظارہ دیکھنے کو ملا جیسا کہ اسٹیشن کی اسلامی طرز کی گنبد نما عمارت ، لوگوں کی عربوں سے ملتی جلتی طرز بود باش ، سروں پر ترکی ٹوپیاں اور عوام الناس کا خلوص و پیار سے اپنے عزیز و اقارب اور مہمانوں کا استقبال اور بار بار گلے ملنا یہ سب کچھ دیکھ کر علامہ کی زبان سے بے اختیار یہ شعر نکلا - زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روایتیں اے یادگار سطوت اسلام زندہ باد ! (۹) اس طرح علامہ اقبال کی بہاولپور آمد سے تعلقات کی ابتداء ہوتی ہے- قیام بہاولپور کے دوران آپ کے عمائدین ریاست خاص کر مولوی غلام حسین (۱۸۷۴ ئ- ۱۹۴۹ ئ) ہوم منسٹرریاست بہاولپور سے خصوصی مراسم قائم ہوئے - نواب بہاولپور مولوی غلام حسین کا بڑا احترام کرتے تھے اور ریاست کے معاملات میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی - جہاں تک مولوی غلام حسین کی ذات کا تعلق ہے آپ کے آبائو اجداد علم پروری کی وجہ سے بہاولپور میں علمائے دلاور (ڈیراور) کے لقب سے پہچانے جاتے تھے اس خاندان کے افراد محمد بن حنفیہ بن حضرت علی ؓ کی نسل سے ہونے کی وجہ سے علوی کہلاتے تھے - اس خاندان کے پہلے فرد مولانا برہان الدین علوی ، غیاث الدین بلبن (۱۲۶۶ئ-۱۲۸۷ئ) کے زمانے میں دہلی تشریف لائے (۱۰) -علم و فضل میں کمال کی بدولت اس گھرانے کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ یہ برصغیر کے حکمران طبقے کے اتالیق رہے ہیں - جس کی ابتداء مولانا عبدالرزاق علوی سے ہوتی ہے جنہیں اورنگ زیب عالمگیر (۱۶۵۸ء -۱۷۰۷ئ) نے شاہ عالم اول (۱۷۰۷ء - ۱۷۱۲ئ) کا اتالیق مقرر کیا - شاہ عالم کے دور میں اس خاندان کو کہروڑپکا (نزد بہاولپور) میں جاگیر عطا ہوئی (ان دنوں یہ علاقہ ملتان میں شامل تھا ) اور اس طرح یہ لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے(۱۱)- ریاست بہاولپور میں تشریف لانے والے پہلے فرد مولانا عبدالحکیم علوی (وفات ۱۷۶۸ئ) تھے - جنہیں نواب صادق اول (۱۷۲۳ ء - ۱۷۴۶ئ) نے کہروڑپکا سے ڈیراور آنے کی دعوت دی اور مفتی اعظم کے عہدے سے نوازا - ان کے پوتے مولانا عبدالوہاب علوی (وفات ۱۸۲۴ئ) کو ڈیراور کے راجپوت حکمران نے بھی بہت عزت و توقیر دی (۱۲) - ان کے بیٹے مولانا نبی بخش علوی (وفات ۱۸۷۸ئ) نے نواب بہاول خاں رابع (۱۸۵۸ ء ۱۸۶۶ء ) کی فرمائش پر ان کے کمسن ولی عہد نواب صادق محمد خاں رابع (۱۸۷۹ ء ۱۸۹۹ء ) کا اتالیق بننا قبول کیا(۱۳)- اس کے بعد ان کے بیٹے مولوی غلام حسین بھی نواب صادق محمد خامس کے اتالیق اور بعد ازاں ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۰ ء تک ریاست کے ہوم منسٹر رہے آپ کی علمی و انتظامی خدمات کی بدولت انہیں ’’ محسن الملک ‘‘ اور ’’ عزت نشان ‘‘ کے خطابات سے نوازا گیا - نواب صادق خامس ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ہمیشہ ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ملتے تھے - ریاست کی تعلیمی ترقی بالخصوص مختلف علاقوں میں اسکولوں کے قیام میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا جیسا کہ جامعہ عباسیہ (موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی) کی ابتداء بھی انہیں کے ہاتھ سے ہوئی - مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں مولوی غلام حسین کی یہ دلچسپی علامہ اقبال کے ساتھ ان کے تعلقات میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھی اس طرح ان دونوں صاحبان میں مراسلت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا - عید کے مبارک موقع پر مولوی غلام حسین کی طرف سے علامہ اقبال کو ٹیلی گرام ارسال کیا گیا جس کا جواب علامہ کی طرف سے ۲۵ مارچ ۱۹۲۸ء کو موصول ہوا جس میں عید پر مبارک باد کا ٹیلی گرام بھیجنے پر شکریہ ادا کیا گیا اور لاہور میں بادشاہی مسجد میں نماز عید کے موقع پر مسلمانوں کے غیر معمولی اجتماع کا بھی ذکر کیا دیکھئے ضمیمہ نمبر ۱ (۱۴) - حالانکہ اس سے قبل علامہ اقبال مولوی غلام حسین سے اسی ماہ کی ۱۳ تاریخ کو ایک خط کے ذریعے رابطہ کر چکے تھے جس میں آپ نے ریاست و نواب بہاول پور کے لیے قانونی مشاورت کے لیے اپنی آمادگی کا اظہار کیا دیکھئے ضمیمہ نمبر ۲ (۱۵) - جیسا کہ اس خط کی عبارت سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال کو اس بات کی اطلاع بھی ریاست ہی کے ایک اعلٰی عہدیدار میجر شمس الدین (۱۹۲۲ء -۱۹۴۹ء ) کی طرف سے بھجوائی گئی جبکہ میجر شمس الدین ہوم منسٹر کے فرزند تھے اور اس وقت نواب بہاولپور کے پرائیوٹ سیکریٹری تھے - واقعات کے مطابق اس تمام معاملے کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ نواب بہاولپور کی خواہش کے پیش نظر علامہ اقبال کو یہ پیش کش کی گئی ہو گی جسے انہوں نے قبول فرمایا اس طرح غیر سرکاری طور پر علامہ کی خواہش کے مطابق انہیں ریاست کا قانونی مشیر مقرر کیا گیا ہو گا - کیونکہ سرکاری طور پر ان کی تقرری کی تصدیق نہیں ہو سکی - لیکن جیسا کہ پیش آنے والے ایک واقع سے ظاہر ہوتا ہے ، جس میں علامہ نے نواب بہاولپور کے موقف کی وائسرائے سے بھرپور اور کامیاب وکالت کی - اس واقعہ کے مطابق ریاست کے آبپاشی کے منصوبے ’’ ستلج دہلی پروجیکٹ (۱۹۲۲ء - ۱۹۳۳ئ) ‘‘ کی تکمیل پر ۱۴ کروڑ روپے میں سے دو کروڑ کی نقد ادائیگی کے بعد ریاست بارہ کروڑ روپے کی مقروض تھی (۱۶) - لہٰذا انگریز حکومت کی خواہش پر انیس اپریل ۱۹۲۸ء میں سر سکندر حیات (۱۸۹۲ء - ۱۹۴۲ئ) کو ریاست کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا - تاکہ ریاست سے قرض کی وصولی جلد کی جا سکے - لیکن اس ضمن میں وزیر اعظم اور ہوم منسٹر کے درمیان اختلافات کے سبب نواب بہاولپور نے قائد اعظم کے مشورے پر انگریز حکومت کی اجازت کے بغیر بیس اگست ۱۹۲۸ء کو سر سکندر حیات کو وزارت عظمی کے عہدے سے برطرف کر دیا(۱۷)- اب نواب بہاولپور یہ چاہتے تھے کہ علامہ اقبال جن کے وائسرائے سے اچھے تعلقات تھے اس سلسلے میں وائسرائے سے ملاقات کریں اور نواب کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اس کی برہمی کو کم کرنے کی کوشش کریں - جبکہ اس واقع کا ذکر حکیم یوسف حسن مدیر نیرنگ خیال اس طرح کرتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کا قاعدہ تھا کہ ریاستوں کے وزیر اعظم خود نامزد کرتے تھے اور موجودہ وزیر اعظم ( سرسکندر حیات) کی نواب بہاولپور سے نہ بنتی تھی انہوں نے وائسرائے کو بھی وزیر اعظم کے خلاف لکھا تھا مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی آخر کار نواب نے علامہ قبال سے رجوع کیا- علامہ نے اس کیس کے مطالعے کے بعد حامی بھری اور چار ہزار روپے فیس طے کی- علامہ اقبال نے اس سلسلے میں وائسرائے سے ملاقات کا وقت لیے بغیر ملنا چاہا لیکن سیکریٹری وائسرائے نے ملاقات کے لیے ان کے کارڈ کو کوئی اہمیت نہ دی اور رجسٹر میں ان کے نام کا اندراج کرنا چاہا ، جبکہ علامہ کا اصرار تھا کہ وہ رجسٹر میں اپنا نام درج نہیں کروائیں گے ، اگر وائسرائے میرے کارڈ پر مجھ سے ملنا نہیں چاہتے تو میں واپس چلا جائوں گا - مجبوراً سیکریٹری نے وائسرائے کو کارڈ دکھا یا تو وائسرائے نے انہیں ملاقاتیوں کے کمرے میں بٹھانے کا کہا اور ملاقات پر پوچھا آپ کیسے آئے علامہ نے جواباً کہا آپ ریاست بہاولپور کے نئے وزیر اعظم کو تبدیل کردیں جنہیں نواب بہاولپور پسند نہیں کرتے- وائسرائے نے کہا ضابطے کے مطابق نواب صاحب کو اسے قبول کرنا چاہیے - علامہ نے پھر کہا کیا سیاست اسی کا نام ہے کہ آپ ایک فرماروا کے معمولی سے مطالبے کو بھی نہیں مان سکتے جبکہ نواب بہاولپور حکومت برطانیہ کے وفادار دوست ہیں اور مسلمانان ہند ان کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں - اگر چھوٹی سی یہ بات نہ مانی گئی تو بڑا انتشار پھیلے گا- آپ کا اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی دوسرا وزیر اعظم بنا دیں - وائسرائے کو علامہ کے مرتبے کا بخوبی اندازہ تھا علاوہ ازیں جس طریقے سے علامہ نے یہ کیس پیش کیا وائسرائے کے لیے انکار کی گنجائش نہیں تھی (۱۸) - حکیم یوسف حسن کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال ریاست کے وزیر اعظم کی تبدیلی کے لیے وائسرائے کے پاس گئے تھے جبکہ حقیقت کچھ اس طرح تھی کہ نواب بہاولپور نے پہلے ہی قائد اعظم کے مشورے پر اپنے وزیر اعظم کو برطرف کر دیا تھا اور نواب بہاولپور اب یہ چاہتے تھے کہ وائسرائے نواب کے اس اقدام کو تسلیم کرنے اور نواب کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کرے- المختصر علامہ اقبال کا وائسرائے سے ملاقات کا مشن کامیاب رہا - علامہ اقبال کی اس کامیاب وکالت پر نواب بہاولپور نے شکریے کا ایک ٹیلی گرام بھی ارسال کیا اور بہاولپور آنے کی دعوت دی (۱۹) - حکیم یوسف حسن نے علامہ اقبال کی اس وکالت کے عوض چار ہزار روپے فیس کا بھی ذکر کیا ہے(۲۰) - جہاں تک علامہ اقبال کی فیس کا تعلق ہے اس سلسلے کے واحد رابطہ آفسر میجر شمس الدین تھے انہوں نے اس بات کو جھٹلایا ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ علامہ اپنے خرچ پر لاہور سے دہلی کا سفر کرتے رہے (۲۱) ریاست کی کسی سرکاری دستاویز سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ علامہ اقبال کو ریاست بہاولپور سے باقاعدگی کے ساتھ کوئی وظیفہ یا الاونس ملتا تھا - لیکن اس بات کا انکشاف بھی علامہ اقبال کے اس خط سے ہوتا ہے جو پانچ مئی ۱۹۲۹ء کو میجر شمس الدین کو لکھا گیا جس میں حیدر آباد سے متعلق اپنے کسی کام کی یاد دہانی کروائی گئی تھی اور خط کے آخر میں علامہ نے یہ تحریر کیا ہے ’’ شکریہ مجھے آپ کا بھیجا ہوا الاونس برابر مل رہا ہے ‘‘ خط کا عکس دیکھئے ضمیمہ نمبر ۳ (۲۲) - علامہ اقبال کی اس تحریر سے نواب بہاولپور کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ نواب یہ الاونس اپنے شاہی خرچ سے دیتے تھے جسے سرکاری طور پر تحریر میں نہیںلایا جاتا تھا - علامہ اقبال کی بہاول پور آمد اور نواب بہاولپور سے ملاقات کا ذکر یکم مارچ ۱۹۳۰ء کوانجمن حمایت اسلام کا ایک چار رکنی وفد ترتیب دیئے جانے کے حوالے سے بھی ملتا ہے - جس نے بسلسلہ عطیہ نواب بہاولپور سے ملاقات کرنی تھی ، اس وفد میں سردار حبیب اللہ،شیخ امیر علی ، حاجی شمس الدین اور علامہ اقبال شامل تھے (۲۳) - اگرچہ انجمن حمایت اسلام نے یہ وفد ترتیب دیا تھا لیکن بہاولپور کے ذرائع ابلاغ کے حوالے سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ کیا واقعی یہ وفد لاہور سے بہاولپور آیا اور علامہ اقبال بھی اس وفد کے ہمراہ تھے ؟ علامہ اقبال اور نواب صادق محمد کی تیسری ملاقات کا ذکر انجمن حمایت اسلام کے چھیالیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۲۷ تا ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ ء لاہور کی صدارت کے حوالے سے ملتا ہے اس اجلاس میں علامہ اقبال بھی شریک تھے - نواب بہاولپور کی خدمت میں تہنیت نامہ پیش کیا گیا اور نواب کی آمد کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ’’ اعلٰی حضرت ہم عقیدت مندان قدیم کو اس نوازش خسروانہ کے فریضہ سیاسی سے عہدہ برآں ہونے کے لیے الفاظ نہیں ملتے کہ حضور پر نور نے ازراہ علم نوازی و قوم پروری انجمن حمایت اسلام کی التجا کو مشرف پذیرائی بخشا اور قدوم میمنت لزوم سے انجمن کے سالانہ جلسہ کو چار چاند لگا دیے - گویا سلیمان نے مور ناتواں کی مہمانی قبول فرمائی (۲۴) اس تہنیت نامہ میں انجمن کی کارکردگی بھی بیان کی گئی آئندہ کے پروگراموں کا ذکر کیا گیا اور ۱۹۰۸ء سے دی جانے والی ریاست بہاولپور کی امداد کی تفصیل بھی بیان کی ، اخراجات کا ذکر کیا گیا اور نواب کی آمد کا شکریہ بھی ادا کیا گیا - اس موقع پر نواب بہاولپور نے پچیس ہزار روپے کا نقد عطیہ عنایت فرمایا (۲۵) - اس کے بعد علامہ اقبال نے ایک غریب مسلمان کی طرف سے ایک مصلیٰ اور مسلمانان لاہور کی طرف سے قرآن پاک کا تحفہ پیش کیا - نواب نے یہ تحفہ قبول کرتے ہوئے اسے بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا - اس کے بعد نواب صادق نے خطبہ صدارت ارشاد فرمایا - جس میں شمالی ہند کی سب سے بڑی اسلامی مجلس ’’انجمن حمایت اسلام ‘‘ کی دعوت کا شکریہ ادا کیا اور مسلمانوں کے تعلیمی انحطاط کا ذکر کرتے ہوئے انجمن کی تعلیمی سرگرمیوں اور کوششوں کی تعریف کی (۲۶) - نواب بہاولپور نے علامہ اقبال سے بیرون ریاست ملاقات اور رابطے کے لیے اپنے اے- ڈی - سی برگیڈیئر نذیر علی شاہ کو متعین کیا ہوا تھا - نذیر علی شاہ نواب صادق محمد خامس کے مقرب خاص تھے - نواب کی فرمائش پر انڈین آرمی چھوڑ کر ریاست کی فوج میں شامل ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے برگیڈیر کے عہدے تک پہنچے تھے - آپ ریاست کے تعلقات عامہ کے انچارچ تھے جس میں صادق گڑھ پیلس میں آنے والے ملکی وغیر ملکی اخبار نویس اور بڑی بڑی مقتدر شخصیتوں کی نواب سے ملاقات کا اہتمام کرنے کی ذمہ داری بھی انہی کے سپرد تھی- نذیر علی شاہ کو قدرت نے اعلٰی ادبی ذوق سے نوازا تھا - آپ کو مختلف زبانوں میں یکساں مہارت حاصل تھی آپ کی تاریخی ادبی اور سماجی کاوشوں میں صادق نامہ (انگریزی میں)، سپاہی ، آباد کار ، حلیمہ سعدیہ سکول ، سرائیکی ادبی مجلس کا قیام ، وحید لائبریری اور قرآن پاک کے دو سپاروں کا سرائیکی میں ترجمہ (جو آپ کی وفات کی وجہ سے تکمیل تک نہ پہنچ سکا ) جیسے شاہکار شامل ہیں - نذیر علی شاہ نے علامہ اقبال سے نواب بہاولپور کے لیے مختلف اوقات میں چار مرتبہ ملاقات کی جسے وہ احتراماً ’’ باریا بیاں ‘‘ قرار دیتے ہیں - علامہ بھی ان سے خصوصی شفقت و محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے - علامہ اقبال نے جب بھی نواب بہاولپور سے ملاقات کرنا ہوتی یا بہاولپور آنا ہوتا تو اپنے دوست سید بشیر حیدر اے ڈی ایم جو نذیر علی شاہ کے رشتہ دار تھے کی معرفت رابطہ کرتے تھے (۲۷) - ۱۹۳۴ ء میں نواب بہاولپور کا یورپ کے دورے کا ارادہ تھا اور لندن میں بھی قیام کرنا تھا - نواب کی یہ خواہش تھی کہ اس دورے کے دوران لندن کے عمائدین سے ملاقاتیں کی جائیں اور نواب یہ بھی چاہتے تھے کہ انکا تعارف علامہ اقبال کی معرفت ہو - علامہ اقبال نے بھی نواب کی اس خواہش کا احترام کیا اور اس سلسلے میں ایک خط نذیر علی شاہ کی معرفت تین اکتوبر ۱۹۳۳ء کو مس فارقوہرسن کے نام لکھا- جس میں ابتدائی کلمات کے بعد اظہار مدعا اس طرح سے کیا گیا ، ’’ہز ہائی نس ہندوستان کی عظیم ریاستوں میں سے ایک عظیم ریاست کے فرماں روا ہیں اور خلفائے بغداد کے خانوادے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں میں بے حد عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں دیکھئے ضمیمہ نمبر ۴ (۲۸) ‘‘ یہ خط علامہ اقبال نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا لیکن نواب بہاولپور تک پہنچایا گیا یا نہیں اور مس فارقوہرسن کو کیوں نہ بھیجا گیا ؟ اس کی حقیقت بیان کرنے والے دونوں افراد اس وقت دنیا میں موجود نہیں جبکہ یہ خط آج بھی اپنی اصل حالت میں نذیر علی شاہ کی وساطت سے سنٹرل لائبریری بہاول پور کی زینت بنا ہوا ہے - علامہ اقبال کی بہاول پور آمد کا ذکر ۶ ستمبر ۱۹۳۶ء کو بھی ملتا ہے- اس مرتبہ آپ کی بہاولپور آمد انجمن حمایت اسلام کے توسط سے تھی- جس میں سات افراد پر مشتمل ایک وفد تشکیل دیا گیا تھا- جس کے صدر شیخ علی بخش تھے اس وفد کے اراکین میں علامہ اقبال بھی شامل تھے- جبکہ یہ وفد نواب بہاول پور کی خدمت میں برائے عرضداشت ترتیب دیا گیا تھا (۲۹) - ۱۹۳۷ ء کا سال علامہ اقبال اور بہاولپور کے تعلقات کے حوالے سے عروج کا سال دکھائی دیتا ہے- اس سال کے دوران مختلف مواقعوں پر علامہ کا تین مرتبہ عمائدین بہاولپور سے رابطہ ہوا - پہلا رابطہ اس سال کے شروع میں ۲۴ جنوری ۱۹۳۷ء میں ریاست کے وزیر تعلیم میجر شمس الدین سے علامہ کے ایک خط کے ذریعے ہوا - اپنے والد (مولوی غلام حسین) کی طرح میجر شمس الدین کے بھی نواب بہاولپور سے خصوصی مراسم تھے- آپ ۱۹۲۲ء سے مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے- ۱۹۳۶ء میں ریاست کے وزیر صحت اور تعلیم بنائے گئے - جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ خاندان یہاں کے نوابوں کا استاد گھرانہ تھا اب یہ مراسم اتنے زیادہ بڑھ چکے تھے کہ نواب بہاولپور نے اپنے ولی عہد کی شادی میجر شمس الدین کی بیٹی سے کر دی تھی اس طرح یہ تعلق رشتہ داری میںبدل چکا تھا - اپنے آبائو اجداد کی طرح میجر شمس الدین نے بھی ریاست کی علمی و ادبی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا - خاص طور پر جامعہ عباسیہ کی توسیع اور مکتب اسکول کے اجراء کی اسکیم آپ کی کاوش کا نتیجہ تھی - جبکہ بیرون ریاست پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ممبر اور علی گڑھ یونیورسٹی کے ، اپنی ریٹائرمنٹ ۱۹۴۹ء تک ، ’’اکاوٹنٹ‘‘ رہے(۳۰)- ۱۹۳۰ ء میں اپنے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد میجر شمس الدین نے بھی علامہ اقبال سے اپنے خاندانی روابط کو قائم رکھا اور علامہ سے تعلیمی معاملات میں ہمیشہ مشاورت جاری رکھی- علامہ کو بھی اس بات کا بخوبی علم تھا کہ نواب اور اس کے مقرب خاص ریاست میں تعلیم کو عام کرنے اور معیار تعلیم کو بلند کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں - تعلیم کے حوالے سے ایسا ہی ایک موقع ۱۱ ستمبر ۱۹۳۶ء کو مصری علماء کے ایک وفد کی لاہور آمد سے پیدا ہوا - وفد نے مختلف اداروں کے معائنے کے بعد علامہ سے بھی ملاقات کی تو علامہ نے اس سلسلے میں ریاست بہاولپور کے وزیر تعلیم میجر شمس الدین کو ۲۴ جنوری ۱۹۳۷ ء کو خط تحریر کیا- اس خط کے مضمون سے علامہ اقبال کا بہاولپور اور امیر بہاولپور کی علمی دلچسپی سے متعلق اشتیاق کا ذکر ملتا ہے - اس خط کی مختصر تحریر کے مطابق ’’ میرے خیال میں ریاست بہاولپور اور اعلیٰ حضرت کو چاہیے کہ وہ ان کو (علمائے مصر) بہاولپور مدعو کریں تاکہ ریاست کے کالج کا معائنہ کر سکیں ،مصر کے شیوخ نہایت فاضل اور دانشمند ہیں - مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ حضرت اور مسلمانان بہاولپور ان سے مل کر بہت خوش ہوں گے دیکھئے ضمیمہ نمبر ۵ (۳۱) ‘‘ علامہ اقبال کی خواہش پر نواب بہاولپور سے آخری بالمشافہ ملاقات کا اہتمام ستمبر ۱۹۳۷ء میں بہاولپور ہائوس لاہور میں کیا گیا - اس کے راوی بھی نذیر علی شاہ ہیں جنہیں بہاولپور یہ اطلاع ملی کہ علامہ اقبال ڈیرہ نواب صاحب میں امیر بہاولپور سے ملنا چاہتے ہیں- انہیں دنوں نواب جارج ششم کی تاج پوشی کے سلسلے میں لندن جانے کی تیاریوں میں تھے - لیکن وہ بھی علامہ سے ملاقات کے خواہش مند تھے- اس طرح ان دو بڑوں کی خواہش کے پیش نظر نذیر علی شاہ پہلے ہی لاہور تشریف لے آئے اور حکیم الامت سے ان کے گھر پر ملاقات کی گفتگو کے دوران علامہ نے نواب سے متعلق اپنے دلی جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا - ’’ مجھے اس عباسی فرمانروا سے اس لیے قلبی لگائو ہے کہ ایک تو اس کے دل میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا بے پایاں شوق ہے اور دوسرے مجھے اپنی صحت سے اب یہ اندازہ ہو چکا ہے ’’ کیا بھروسہ چراغ سحری کا ‘‘ اور فرمایا میں وفات سے پہلے اس عباسی فرمانروا کے نام تفسیر قرآن کریم جس کے لکھنے کا میرا ارادہ ہے - میری آرزو ہے امیر صادق محمد عباسی کے نام معنون کردوں اور ساتھ ہی بالمشافہ طور پر چند نہایت ہی ضروری باتوں کا ذکر امیر بہاولپور سے کردوں (۳۲) ‘‘- اس طرح نواب کی بہاولپور ہائوس لاہور آمد کے دوسرے دن شام پانچ بجے علامہ بہاولپور ہائوس تشریف لائے - جہاں دونوں نے تخلیہ میں دو گھنٹے تک باتیں کیں (۳۳) - جس کی تفصیل راز ہی رہی ملاقات کے بعد نذیر علی شاہ علامہ اقبال کو گاڑی تک چھوڑ نے کے لیے آئے تو علامہ نے مسرت انگیز انداز میں بار بار یہ فرمایا ’’ اوئے نذیر اج بہت اچھیاں اچھیاں گلاں ہویاں نے ‘‘(۳۴) یہ ملاقات اتنی راز داری میں ہوئی کہ نہ تو حکومت پنجاب کا محکمہ خبر رسانی اور نہ ہی ریاست کا شعبہ اطلاعات اس کی کوئی خبر نشر کر سکا اور نواب بہاولپور بھی اسی رات ٹرین سے واپس بہاولپور چلے گئے- نذیر علی شاہ کی تو پھر علامہ سے کبھی ملاقات نہ ہوئی لیکن نواب بہاولپور نے بھی اس ملاقات کی باتوں کو ہمیشہ راز ہی رکھا - نواب بہاولپور سے ۱۹۲۷ء کا تیسرا اور آخری رابطہ بھی علامہ اقبال کی طرف سے ایک خط کے ذریعے ہوا جس میں ہندوستان کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کا تفصیلاً ذکر کیا، خاص طور پر اسلام اور اسلامی ثقافت کے مستقبل ، نئی آئین سازی ، انڈین نیشنل کانگریس کے اصل روپ و کردار اور تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلباء اور علماء کا ذکر بھی ملتا ہے اور آخر میں نواب بہاولپور سے گزارش کی گئی کہ وہ شمال مغربی ہندوستان میں عوام الناس بالخصوص مسلمانوں کی اصلاح کی کاوشیں جاری رکھیں خط کا اصل متن دیکھئے ضمیمہ نمبر ۶ (۳۵) - نواب بہاولپور کی طرف سے علامہ اقبال کے نام اس خط کا جواب ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو صادق گڑھ پیلس احمد پور سے لکھا گیا- جس میں نواب نے یاد دہانی اور ریاست و نواب کے بارے میں علامہ نے جن خیالات کا اظہار کیا اس کا شکریہ ادا کیا- ہندوستان کی صورت حال کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا یقینا وہ ان لوگوں کی مشترکہ مساعی کی حقدار ہے جو آپ کی طرح ان تمام مسائل کا گہرا ادراک رکھتے ہیں - آخر میں گزشتہ ملاقات کا ذکر بھی کیا اور علامہ اقبال کی صحت کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کیا گیا-دیکھئے ضمیمہ نمبر ۷ (۳۶) - علامہ اقبال اور نواب بہاولپور کے درمیان باہمی احترام کا ایک ایسا رشتہ قائم تھا جو انہیں ہمیشہ ایک دوسرے کے معاملات میں دلچسپی لینے پر آمادہ رکھتا تھا - ایسا ہی موقعہ ۱۹۳۸ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور نے بھی فراہم کیا - اس انجمن نے پہلی بار یوم اقبال علامہ کی زندگی میں منایا تو اس کی صدارت کا اعزاز بھی نواب بہاولپور کو حاصل ہوا - اس موقع پر اپنے خطبہ صدارت میں نواب صاحب نے علامہ کی قومی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا-تصویر ضمیمہ نمبر ۸ پر ملاحظہ فرمائیں (۳۷)- علامہ اقبال کی وفات پر جہاں نواب اور عمائدین بہاولپور نے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا وہاں مولوی غلام حسین نے علامہ سے اپنے دلی جذبات کا اظہار ایک مرثیہ لکھ کر پیش کیا- جو فروری ۱۹۳۹ ء میں بہاولپور کے ایک مقامی ماہنامہ اصلاح میں فارسی زبان میں شائع ہوا- مرثیہ کے اشعار درج ذیل ہیں(۳۸) - از کلک فصاحت سلک حضرت قبلہ عزت نشان محسن الملک بہادر بہاولپور برفت از ما مثیل فخر رازی نظیرش نیست در حکماء ماضی غنی بودہ ولے با فقر راضی ربودہ وز ہمہ شعراء بازی دریغا عرفی و رومی زماں رفت فداء ملک و ملت پاسباں رفت بسوز درد دل اندر جناں رفت جدا گشتہ زدنیادوں بشان بے نیازی ادیب بے بدل آنصاحب حال کہ مشہورست در عالم باقبال خلاصہ قیل و قالش و اقوال کلامش ہست الہام حجازی چنیں فرخندہ فرزند دیگر گیتی نزاید اگر زاید بزاید لیک مثلش کے بیاید ہزار ہا سال مے باید کہ مرد در ظہور آید حقیقت جلوہ گر گردد بشان امتیازی حقانی ہست ایں از سرّ اسرار بمیرد آنکہ آمد اندریں دار بسے رفتد از صلحا و ابرار نماندہ ہم نماند کس دریں کاخ مجازی مولوی غلام حسین کے پوتے اور میجر شمس الدین کے فرزند نور الزمان احمد اوج (پیدائش ۱۹۲۶ئ) سے بھی علامہ اقبال کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے - آپ اپنے آبائو اجداد کی طرح موجودہ بہاولپور کی جانی پہچانی ، علمی و ادبی شخصیت ہیں - بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آپ کو بہاولپور کے جدید مورخ کی حیثیت حاصل ہے آپ کی تاریخی و ادبی موضوعات پر متعدد کتابیں و مضامین شائع ہو چکے ہیں (۳۹) - آپ کے گھر میں وادی سندھ اور تاریخ بہاولپور سے متعلق ایسا نایاب کتب خانہ موجود ہے جو شاہد ہی اب کسی کے ہاں ہو - آپ کی رہائش گاہ ماڈل ٹائون اے بہاولپور میں آپ سے ملاقات کے دوران علامہ اقبال اوربہاولپور کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی - ’’ جس میں آپ نے واضح طور پر فرمایا کہ علامہ صاحب کئی مرتبہ بہاولپور تشریف لائے اور ہمارے غریب خانے اور بزرگوں کو اپنی مہربانی کا شرف بخشا (۴۰) ‘‘ علامہ اقبال کا ایک خط بہاولپور کی ایک اور مشہور شخصیت میر سراج الدین (۱۸۶۸ئ- ۱۹۴۹ئ) چیف جج ریاست بہاولپور کے پاس اکتوبر یا نومبر ۱۹۳۰ء میں آیا - منصب کے حوالے سے اگرچہ آپ قانون کے پیشے سے منسلک تھے مگر ریاست کے عوام کے لیے ان کی سماجی خدمات بالخصوص تعلیمی خدمات کی بدولت ’’ نواب بہاولپور نے انہیں بہاولپور کا سر سید کے خطاب سے نوازا (۴۱) ‘‘ - ان کے انتقال کے سوگ میں بہاولپور شہر میں سرکاری طور پر چھٹی کا اعلان کیا گیا اور ان کی وفات کی خبر صادق گزٹ میں شائع ہوئی (۴۲) ‘‘ آپ ایچیسن کالج لاہور کے تعلیم یافتہ تھے - آپ کے بڑے بھائی خان بہادر شمس العلماء جج سید محمد لطیف (۱۸۴۵ء - ۱۹۰۲ئ) کی زوجہ سر سید احمد خان (۱۸۱۷ء - ۱۸۹۸ئ) کی قریبی عزیزہ تھیں - اس رشتے کی بنیاد پر وہ سر سید احمد خان سے تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے - آپ نے چار کتابیں تصنیف کیں آپ اردو و انگریزی دونوں زبانوں کے انشاء پرداز تھے - اس کے علاوہ انگلستان سے شائع ہونے والے انگریزی اخبارات و رسائل کے ہندوستان میں نامہ نگار تھے علاوہ ازیں اندرون و بیرون ملک کئی ادبی و تاریخی سوسائیٹیوں کے رکن تھے - میر سراج الدین کے والد منشی سید محمد عظیم (۱۸۱۵ئ- ۱۸۸۵ ئ) لاہور میں ۱۸۴۸ء سے مقیم تھے جہاں انہوں نے شراکت کی بنیاد پر لاہور کرانیکل کے نام سے پہلا مطبع قائم کیا (۴۳) - بعد میں سر رابرٹ منٹگمری لیفٹینٹ گورنر پنجاب (۱۸۰۹ء - ۱۸۸۷ء ) کی حمایت سے اپنا ذاتی جدید پریس ’’ پنجابی پریس ‘‘ کے نام سے ۲۴ جولائی ۱۸۵۶ء میں قائم کیا (۴۴) - بعد ازاں اس پریس سے اردو میں پنجابی عربی میں نفع عظیم اور انگریزی میں The Punjabi کے نام سے اخبارات کا اجراء کیا - جس کے مضمون نگاروں میں اعلیٰ یورپین بھی شامل تھے - اس طرح سید محمد عظیم کو پنجاب میں صحافت کا بانی قرار دیا جاتا ہے - اس خاندان کے آبائو اجداد میں مولانا حاجی محمد عرب مغل بادشاہ شاہجہان (۱۶۲۸ء - ۱۶۵۸ئ) کے دور میں دہلی تشریف لائے اور انہیں شاہی خدندان کا معلم مقرر کیا گیا(۴۵) - اس خاندان کے افراد اپنا سلسلہ نصب امام دہم حضرت امام الہادی النقی ابن محمد التقی سے ملاتے ہیں - جامع مسجد دہلی کے ایک حصے میں آنحضورﷺ کے تبرکات ہیں جن کے محافظ اسی خاندان کے افراد ہیں یہاں ان کے مزارعات و سجادہ نشینی کا سلسلہ بھی جاری ہے جامع مسجد کا یہ حصہ اور اس سے متعلق یہ خاندان ’’ آثار شریف والے ‘‘ کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں - غرضیکہ اس خاندان کو مغل شہنشاہوں ، انگریز حکمرانوں ، وائسرائے اور پرنس آف ویلز کے دربار میں فخر کرسی نشینی حاصل تھا (۴۶) - حتیٰ کے مہاراجہ رنجیت کے اہل خانہ اور امراء سے بھی خصوصی مراسم تھے - سید محمد عظیم نے ہی ریاست بہاولپور سے تعلقات کی ابتداء کی- انگریزوں سے تعلقات کی بدولت انہیں یہ معلوم ہوا کہ بہاولپور کے نواب صادق محمد خان ثالث (۱۸۵۲ء - ۱۸۵۳ئ) ریاست میں خانہ جنگی کی بدولت قلعہ لاہور میں نظر بند ہیں - انہوں نے اپنے تعلقات کی وجہ سے نواب بہاولپور سے مراسم پیدا کیے بعد میں یہ روابط اتنے زیادہ بڑھے کہ دونوں پگڑی بدل بھائی بن گئے (۴۷) - سید محمد عظیم نے تو اپنے اخبار کرانیکل کے ذریعے ان کی بریت بھی ثابت کرنا چاہی تاکہ انگریزوں کی معرفت انہیں دوبارہ اقتدار مل سکے- لیکن افسوس کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی - ریاست بہاولپور سے اس خاندان کے جس دوسرے فرد کا عملی رابطہ ہوا وہ خان بہادر میر ابراہیم خان (۱۸۹۲ ء - ۱۸۹۸ئ) تھے جو پہلے بھی ایک سال کے لیے (۱۸۸۹ء - ۱۸۹۰ئ) ریاست میں وزیر رہے- آپ کی تعینانی کی سفارش خود نواب صادق محمد چہارم (۱۸۷۹ء - ۱۸۹۹ء ) نے گورنر پنجاب سر جمیس لائل (۱۸۸۷ء - ۱۸۹۲ئ) سے لاہور میں ملاقات کے دوران کی(۴۸) -میر سراج الدین انہیں کی معرفت لاہور سے بہاولپور تشریف لائے (۴۹) - میر سراج الدین نے ریاست کے عوام کی تعلیم سے بیگانگی دیکھی تو ایک تحریک شروع کی جس میں گھر گھر جا کر لوگوں کو علم کی طرف راغب کیا اور اس طرح اپنے گھر ’’رین بسیرا ‘‘ میں ایک مدرسہ قائم کیا جس میں دینی و انگریزی تعلیم کی ابتداء کی اور ریاست کے صاحب ثروت خاندانوں میں مخدوم ، لغاری ، لالیکا ، اور بہت سے مخیر حضرات کی امداد سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا - بعد میں ان خاندانوں نے اپنے بچوں کو بھی اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیا - میر صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد نواب بہاولپور نے اس مدرسے کو ان کے گھر سے دوسری جگہ منتقل کر کے عباسیہ اسکول کی بنیاد رکھی - لاہور کے علمی و ادبی گھرانے سے تعلق اور ریاست بہاولپور میں تعلیم عام کرنے جیسے مشن کے حامل فرد سے علامہ اقبال کا تعلق کیوں نہ ہو گا اور اسی تعلق اور جستجو علم کی بدولت ہی علامہ اقبال نے میر سراج الدین سے خط کے ذریعے رابطہ کیا - خط کی عبارت کے مطابق علامہ عبدالعزیز نے ایک رسالہ سیر السماء لکھا تھا جس کی علامہ اقبال کو تلاش تھی - ان کا خیال تھا کہ مولوی شمس الدین بہاولپوری جو شاید مولانا عبدالعزیز کے رشتہ دار تھے نے ان کی وفات کے بعد انکا کتب خانہ قبضے میں کر لیا تھا - آخر میں علامہ اقبال نے یہ بھی لکھا کہ اس رسالے کے حصول کا مقصد میری نظر میں قومی ہے انفرادی نہیں- خط کا متن دیکھئے ضمیمہ نمبر ۹(۵۰)- یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسالہ سیر السماء کس موضوع سے متعلق تھا اور علامہ اقبال کو کس اجتماعی مقصد کے لیے مطلوب تھا - علامہ نے جن مولانا عبدالعزیز بلہاروی (۱۷۹۱ئ- ۱۸۲۳ئ) کا ذکر کیا ہے وہ بلہاروی نہیں پرہیاروی تھے جو ضلع مظفر گڑھ کے ایک قصبہ پرہاراں کے رہنے والے تھے - آپ نے متعدد موضوعات جن میں تفسیر،حدیث ، طب ،ریاضی ، فلسفہ ، طبعیات ، لسانیات وغیرہ میں مجتہدانہ کارنامے سر انجام دیے - آپ کی تصانیف میں متعدد فارسی و عربی کی نظمیں بھی نظر آتی ہیں ایمان کامل آپ کا منظوم رسالہ ہے (۵۱) - مولانا عبدالعزیز حضرت حافظ جمال ملتانی (وفات ۱۸۱۱ئ) کے مرید تھے ان کی وفات پر آپ نے فضائل رضیہ اور اسرار جمالیہ کے نام سے دو رسائل بھی تحریر کیے -آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ نواب مظفر خاں (۱۷۷۹ء - ۱۸۱۸ئ) حاکم ملتان نے آپ کو اپنا طبیب خاص مقرر کیا - آپ کی بے شمار تصنیفات میں سے بہت سی نایاب ہو چکی ہیں کچھ غیر مطبوعہ اور بہت سی مطبوعہ ہیں اور وہ بھی مختلف اداروں اور افراد کے پاس مختلف جگہوں پر موجود ہیں - مولوی شمس الدین بہاولپوری (۱۸۳۲ء - ۱۸۸۵ئ) نے ان میں سے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوا تھا جن میں سیرالسماء بھی شامل تھی - مولوی شمس الدین نے بھی مولانا عبدالعزیز کی ایک کتاب الاکسیر کا ترجمہ کیا تھا (۵۲) - مولوی شمس الدین علوی سابقہ ریاست بہاولپور میں چیف جج کے علاوہ مورخ کی حیثیت سے بھی مشہور تھے - آپ خواجہ محمد سلیمان تونسوی (وفات - ۱۸۵۰ئ) کے مرید تھے(۵۳) - آپ کا شمار اپنے وقت کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا - آپ نے بہاولپور کے مشہور عالم حضرت مولانا غلام رسول چنڈ (۱۸۰۵ء - ۱۸۷۳ئ) سے ابتدائی تعلیم حاصل کی - آپ کے خاندان کی ریاست میں مذہبی حیثیت کی بدولت قضا کا منصب مستقل طور پر آپ کے خاندان کے پاس چلا آ رہا ہے تھا - اسی منصب کی بدولت اس محلے کا نام ہی محلہ قاضیاں مشہور ہو گیا تھا - تیمور شاہ ابدالی (۱۷۷۳ء - ۱۷۹۳ئ) حاکم کابل نے جب ۱۷۸۸ء میںشہر بہاولپور پر حملہ کیا اور اسے غارت کیا (۵۴) - تو اس نے محلہ قاضیاں میں علوی خاندان کے قاضی صاحبان سے بھی ملاقات کی (۵۵) - الغرض علامہ اقبال کے اس خط سے تقریباً پنتالیس سال قبل مولوی شمس الدین علوی وفات پا چکے تھے - اس طرح میر سراج الدین نے ۳۰ نومبر ۱۹۳۰ء کو یہ خط ان کے بیٹے مولوی سعیدالدین احمد علوی (وفات ۱۹۳۸ئ) کے پاس بھیج دیا - جس کی تحریر اس خط کے حاشیے پر موجود ہے - میر سراج الدین کے الفاظ کے مطابق ’’مہربان و عنایت گستر جناب مولوی سعید احمد صاحب السلام علیکم - جناب ڈاکٹر اقبال صاحب کا یہ خط جو میرے پاس آیا تھا حسب طلب آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں -۳۰ نومبر ۱۹۳۰ء سراج الدین غفرلہ ، از بہاولپور (۵۶) ‘‘ بہاولپور میں علامہ اقبال کے پرستاروں میں ڈاکٹر خواجہ محمد شجاع ناموس (۱۹۰۰ئ-۱۹۸۱ئ) پروفیسر گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج بہاولپور بھی تھے - آپ ۵ جون ۱۹۲۷ء کو کالج میں پروفیسر اور صدر شعبہ سائنس تعینات ہوئے - اور اپنی ریٹائرمنٹ ۶ ستمبر ۱۹۵۰ء تک اسی عہدے پر معمور رہے آپ شمالی ہندوستان سے فزکس میں پہلے ایم - ایس - سی مسلمان تھے آپ نے حصول علم کے لیے ایران، عراق اور علی گڑھ سے مختلف مضامین میں تعلیم حاصل کی - آپ کی تعلیمی اسناد کی فہرست بڑی طویل ہے (۵۷) آپ نے علامہ اقبال کی رہبری اور مشورے پر ’’سائنس میں مسلمانوں کی خدمات ‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا اور ۱۹۳۸ء میں پی - ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی (۵۸) - سائنس کا استاد ہونے کے باوجود آپ کی وجہ شہرت شاعری بھی تھی آپ کا تخلص ’’ ناموس ‘‘ تھا - اس دور کی علمی ، ادبی اور مذہبی مجلسیں آپ کے بغیر نا مکمل تھیں - آپ نے متعد کتابیں بھی تصنیف کیں(۵۹) - فزکس اور کیمسٹری میں میٹرک کے لیے نصابی کتابیں لکھیں - آپ کی کتاب اسلامی سائنس اور اسلامی میڈیسن کو طبی کانفرنس نے چھاپا آپ رسالہ محقق کے ڈائریکٹر بھی تھے (۶۰) - ڈاکٹر شجاع نے علامہ اقبال کے زندگی پر فلسفیانہ نقطہ نظر کے بارے میں ایک مضمون تحریر کیا ہے - عربی اور فارسی زبان کے سکالر ہونے کے ناطے اور ان زبانوں کے بولنے والے علاقوں میں رہنے کے سبب ڈاکٹر شجاع کے بارے میں یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ شاعر مشرق کی تحریروں کا مقصد اور مفہوم اچھی طرح سمجھتے تھے - اسلامی ادب کے طالب علم کی حیثیت سے وہ علامہ اقبال کی تحریروں میں موجود مسلم تاریخ اور مسلم ادب سے متعلق مندرجات کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے - اپنی تحریروں میں علامہ نے یہ حوالہ جات کثرت سے دئیے ہیں- جیسا کہ ان کی شاعری مسلم تاریخ کے واقعات اور حقائق سے بھری ہوئی ہے - علامہ اقبال کی تحریروں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس نہ صرف فارسی اور عربی کا پورا علم موجود ہو بلکہ مسلمانوں کی تاریخ ثقافت اور ادب کو بھی جاننا ضروری ہے- درج بالا صلاحتیوں کے سبب ڈاکٹر شجاع ، علامہ اقبال کے بارے میں قلم اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتے تھے کیونکہ ان کا علامہ سے ایک ادبی تعلق بھی موجود تھا - ڈاکٹر شجاع نے علامہ کی شاعری اور ادبی تحریروں کے بارے میں بہت سے لیکچر دئیے اور تقاریر بھی کیں - ضمیمہ نمبر ۱۰ میں علامہ اقبال کا ڈاکٹر شجاع کے نام ایک خط بھی پیش کیا جا رہا ہے (۶۱) - سابق ریاست بہاولپور کے ضلع رحیم یار خاں کے ایک مشہور و معروف مذہبی و سیاسی خاندان کے بھی علامہ اقبال سے قریبی روابط رہے ہیں - اس گھرانے کی مشہور شخصیت سابق وزیر اعلیٰ ریاست بہاولپور اور نامور پارلیمنٹیرین سید حسن محمود (۱۹۲۲ء - ۱۹۸۶ئ) کے والد سید غلام میراں شاہ (۱۹۰۵ء - ۱۹۸۶ئ) تھے - جن کا سلسلہ نسب حضرت غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی سے جا ملتا ہے - اس خاندان میں اوچ کو اپنا مسکن بنانے والے پہلے بزرگ سید محمد غوث حلبیؒ (۱۴۲۹ء - ۱۵۱۷ئ) تھے - جن سے نہ صرف قادریہ سلسلے کی داغ بیل پڑی بلکہ پورے برصغیر میں تصوف کے اس سلسلے کو فروغ حاصل ہوا - حضرت سید محمد غوث کی اولاد میں سید عبدالقادر ثانی (۱۴۵۷ء - ۱۵۳۳ئ) بڑی با اثر روحانی شخصیت کے مالک تھے - آپ سے فیض حاصل کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں تھے - اکثر سلاطین وقت آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے - چنانچہ حاکم سندھ سلطان حسین مرزا اور سلطان سکندر لودھی (۱۴۸۹ئ- ۱۵۱۷ئ) کو بھی آپ سے نسبت ارادت تھی - انہیں کی نسل میں سید محمد زماں ثانی پہلے بزرگ تھے جنہوں نے صادق آباد (ضلع رحیم یار خان) کے قصبہ جمال الدین والی میں سکونت اختیار کی - ان کی پانچویں پشت میں سید حسن محمود کے والد مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ تھے - جنہیں والیاں ریاست کی جانب سے بہت سی مراعات حاصل تھیں - جیسا کہ ۲۵ جمادی الثانی ۱۳۵۰ھ بمطابق ۱۹۳۱ء میں نواب صادق محمد خامس نے سید غلام میراں شاہ کو درج ذیل القاب سے ملقب کرتے ہوئے اپنی شادی میں شمولیت کی دعوت دی - ’’ خادمان کرامت بیان سیادت و تقامت صفوت و نجابت منزلت سلسلہ خاندان عظام نیز جناب فیض مآب مہر سپہر ولایت قطب فلک صفوت و ہدایت مطلع انوار ربانی منبع اسرار یزدانی حضرت مخدوم الملک (۶۲) ‘‘ علاقے کے بڑے زمیندار ہونے کی وجہ سے غلام میراں شاہ اور حسن محمود نے زمینداروں اور مزارعین کی فلاح و بہبود سے متعلق انجمنیں قائم کیں - جس کے ذریعے کاشتکاروں کو قرضوں کی فراہمی اور دیگر فلاح و بہبود کے معاملات سر انجام دینے کی کوشش کی گئی - مخدوم میراں شاہ اگرچہ ریاست میں عملی سیاست سے دور تھے لیکن سندھ کی سیاست میں حصہ لیتے تھے - لہٰذا تحریک پاکستان کے دوران وہ سندھ مسلم لیگ سے خود کو الگ نہ رکھ سکے - قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح سے روابط کا آغاز بھی یہیں سے ہوا - جب پنجاب میں یونینسٹ حکومت کے خلاف تحریک چلی تو سید حسن محمود نے بھی اپنے والد کے ہمراہ ملیر ہائوس کراچی میں قائد اعظم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور اسی ملاقات کے دوران انہیں اپنے علاقے میں مسلم لیگ کی تنظیم کے لیے کام کرنے کا حکم دیا گیا (۶۳) - برصغیر پاک و ہند کے جن عمائدین سے مخدوم میراں شاہ کے خصوصی تعلقات تھے ان میں علامہ اقبال خاص طور پر قابل ذکر ہیں - علامہ سے مخدوم غلام میراں شاہ کی خط و کتابت بھی تھی جس کے ذریعے وہ مختلف سماجی و قومی امور پر تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے - خطوط درج ذیل ہیں (۶۴) - لاہور ۲۳ جون ۱۹۳۷ء مخدوم و مکرم جناب پیر صاحب آپ کا نوازش نامہ ملا ، جسے پڑھ کر میںبہت متاثر ہوا اور اس ملک اور اس زمانے میںجبکہ اولیائے اسلام کی اولاد نے اپنے اسلاف کے تمام اوصاف کھو دیئے ہیں اور ان کی بزرگی کو اپنی ریاست کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے ، میں آپ کے وجود کو غنیمت تصور کرتا ہوں - مجھ کو یقین ہے کہ آپ کا اخلاص اور وہ محبت جو آپ کو حضور رسالت مآبؐ سے ہے آپ کے خاندان پر بہت بڑی برکات کے نزول کا باعث ہو گی- باقی میری نسبت جو حسن ظن آپ کو ہے وہ بھی محض آپ کے اخلاق کریمانہ کا نتیجہ ہے - محمد اقبال لاہور یکم جولائی ۱۹۳۷ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ پیر صاحب آپ کا خط جو ملا آپ کی صفائی باطن کی دلیل ہے کیونکہ میں بھی ۱۶ جولائی ۱۹۳۷ء کے بعد ہی کشمیر جانے کا عزم کر رہا ہوں -اگرچہ ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا - میرے لڑکے جاوید کا اسکول ۱۶ جولائی کو بند ہو گا - اگر میں نے قطعی فیصلہ کشمیر جانے کا کر لیا تو اس کو چند روز پہلے سکول سے چھٹی دلائی جا سکتی ہے - میں نے اپنے بعض دوستوں کو کشمیر کوٹھی کے لیے خطوط بھی لکھے ہیں جن کے جواب کی توقع آج یا کل تک ہے - میرے ایک دوست سید مراتب علی شاہ آرمی کنٹریکٹر نے پرسوں یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ اگر آپ کشمیر جانے کا عزم کر لیں تو میری سب سے بڑی کار جس میں سات آٹھ آدمی بیٹھ سکتے ہیں آپ کشمیر لے جا سکتے ہیں ، مگر سارے معاملے میں ایک رکاوٹ ہے جو اگر دور نہ ہوئی اور کوئی غیر متوقع رکاوٹ پیش نہ آئی تو میں اس کا آپ سے ذکر بوقت ملاقات زبانی کروں گا - امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا - اگر میں کشمیر جا سکا تو آپ کی معیت باعث برکت ہو گی - والسلام محمد اقبال جاوید منزل ۲۹ مارچ ۱۹۳۸ء مخدوم الملک جناب قبلہ پیر صاحب السلام علیکم - امید ہے کہ میرا خط جو جمال الدین والی میں آپ سے پہلے پہنچ گیا تھا ، آپ کو مل گیا ہو گا - خدا کا شکر ہے کہ سفر میں صاحبزادہ بھی آپ کے شریک حال تھے - اس عمر میں سعادت حج نصیب ہونا ان کی خوش نصیبی کی دلیل ہے - میں نے آپ کے مخلص کا خط پڑھا ہے - مجھے خوشی ہے کہ آپ کے احباب اور مخلصین آپ سے اس روحانیت کی بنا پر جو آپ نے اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں پائی ہے بہت بڑی بڑی امیدیں رکھتے ہیں- ان امیدوں میں میں بھی شریک ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالٰی آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت ، ہمت ، اثر ، رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشر و اشاعت میں صرف کریں - اس تاریک زمانے میں حضور رسالت مآبﷺ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کچھ عجب نہیں کہ جلد آپ کی طبیعت میں ایک بڑا انقلاب پیدا ہو جس کی ابھی تک آپ کو توقع نہیں - افسوس ہے کہ شمال مغربی ہندوستان میں جن بزرگوں نے علم اسلام بلند کیا ان کی اولادیں دنیوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں اور آج ان سے زیادہ جاہل کوئی مسلمان مشکل سے ملے گا- اِلاّ ماشاء اللہ - وقت تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالٰی انہی بزرگوں کی اولاد سے کسی میں روحانیت پیدا کر دے اور کلمہ اسلام کے اعلاء پر مامور کرے باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے ، امید ہے کہ آپ مع الخیر ہوں گے - میں آپ کے جانے سے چند روز بعد بیمار ہو گیا - یہاں تک کہ زندگی سے مایوسی تھی - دمے کے متواتر دورے ہوئے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے گو دمے میں بہت کچھ افاقہ ہو گیا - والسلام مخلص محمد اقبال ان خطوط کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبال سے مخدوم الملک میراں شاہ کا تعلق ۱۹۳۷ء سے شروع ہوا - اس سے قبل اتنے زیادہ مراسم نہ تھے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان روابط کی ابتداء بھی مخدوم الملک کی جانب سے ہوئی - علامہ کی طرف سے پہلا خط مخدوم الملک کے خط کے جواب میں ہے جس میں علامہ نے ان کے اسلاف کے حوالے سے ان کے خاندان کی تعریف کی ہے اور آخر میں علامہ اقبال کی نسبت مخدوم صاحب نے جو کلمات ادا کیے ہوں گے اسے ان کا اخلاق کریمانہ قرار دیا ہے- علامہ کی طرف سے دوسرا خط بھی جوابی خط ہے جس میں علامہ کا کشمیر جانے سے متعلق تیاری کا ذکر ہے - جبکہ تیسرا اور آخری خط مخدوم الملک اور ان کے صاحبزادے کی حج کی سعادت حاصل کرنے کے ذکر سے شروع ہوتا ہے - اس خط میں مخدوم الملک کے کسی چاہنے والے اور ان کے خاندان کی روحانیت سے متاثر فرد کا علامہ اقبال کو خط لکھنے کا بھی تذکرہ ہے - مزید برآں علامہ اقبال مخدوم الملک کے لیے پر امید اور دعا گو ہیں کہ وہ خدا تعالٰی کے فضل و کرم سے اپنی قوت ،ہمت ، اثر و رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشرواشاعت میں صرف کریں گے - اس خط کے آخر میں علامہ نے اپنی بیماری کا بھی ذکر کیا ہے - الغرض حسن محمود نے اپنی خود نوشت میں صرف علامہ اقبال کے ہی خطوط شائع کیے ہیں جو کتابی تحریر کی شکل میں ہیں - بہتر یہ تھا کہ ان خطوط کا اصل عکس شائع کیا جاتا اور اس کے علاوہ اگر مخدوم الملک کی جانب سے علامہ اقبال کو تحریر کیے جانے والے خطوط بھی کتاب میں شامل کئے جاتے تو دونوں شخصیات کے باہمی مراسم کے بارے میں زیادہ آ گہی حاصل ہوتی - حواشی ۱ - شاہ ، سید نذعلی ، صادق نامہ ،مترجم صدیق طاہر ، لاہور ۔ ۱۹۷۳ء ص ۱۶- ۲ - ایضاً ، ص ۴۵- ۳ - ہاشمی ، سعید ، حیات صادق ، لاہور ۱۹۴۹ء ، ص ۲۷- ۴ - ایضاً ، ص ۲۴ - ۲۵- ۵ - تفصیلات کے لیے دیکھئے مختلف تعلیمی و سماجی اداروں کی فہرست جو ریاست بہاولپورسے مالی امداد پاتے تھے - قمرالزماں عباسی ، بہاولپور کا صادق دوست ، لاہور ۱۹۹۲ء ص، ۳۷ ، ۳۸- ۶ - اقبال ، علامہ محمد ، باقیات اقبال، کراچی ۱۹۵۲ء ، اور حکیم محمد یوسف حسن،نیرنگ خیال ، سالنامہ ، اقبال کے دورنگ ، تہنیت نامہ بر تخت نشینی ۱۹۰۳ء ، لاہور ۱۹۳۴ء ص ۲۰- ۷ - عباسی ، قمرالزماں ، بغداد سے بہاولپور تک ، لاہور ، ۱۹۸۶ء ، ص ۱۱۳- ۸ - شاہ ،نذیر علی ، بحوالہ سابقہ ص ۱۴- ۹ - ایضاً ، ص ۱۴- ۱۰ - بریلوی ، سید الطاف علی ، چند محسن چند دوست ، کراچی ، ۱۹۶۹ء ، ص ۱۶۶ - ۱۱ - Khan,Thawar Ali,(ed) Biographical Encyclopedia of Pakistan, Lahore 1984-85, p 445 ۱۲ - والئی جیسلمیر راول رائے سنگھ نے ۱۴ سال بعد ۱۷۴۷ء میں قلعہ ڈیراور دوبارہ فتح کر لیا - بحوالہ عبدالرحمٰن عزیز ، صبح صادق ، طبع ثالث ،لاہور ، ۱۹۸۸ء ص ۸۲ - ۱۳ - دلاوری ، مولانا نبی بخش ابن سید عبدالوہاب علوی ، روضۃ الاتقیافی ذکر الاصفیا ، مرتب و محشی میجر شمس الدین ، کراچی ۱۹۶۸ء ، ص ۶۷ -۶۸- ۱۴- طفیل ، محمد ، نقوش ، اقبال نمبر ، شمارہ ۱۲۱ ، لاہور ستمبر ۱۹۷۷ء ص (viii) - ۱۵ - عباسی ، قمرالزماں ، بہاولپور کا صادق دوست ، لاہور ، ۱۹۹۲ء ، ص ۷۸ - ۷۹ - ۱۶ - ایضاً ، ص ۷۲- ۱۷ - ایضاً ، ص ۷۲- ۱۸ - طفیل ، محمد ، نقوش اقبال نمبر ،بحوالہ سابقہ ، ص ۵۳۱ - ۵۳۲- ۱۹ - یوسف حسن ، حکیم محمد ، اقبال کی شخصیت کے چند پہلو ، نقوش ، اقبال نمبر ۲ ، شمارہ ۱۲۳ ، لاہور، دسمبر ۱۹۷۷ء ص ۴۴۳ - ۲۰ - عباسی ، قمر الزماں ، بحوالہ سابقہ ، ص ۷۳ - ۲۱ - ایضاً ، ص ۷۴- ۲۲ - ایضاً ، ص ۷۶ ، ۷۷ - اردو ترجمہ درج ذیل ہے - لاہور - ۵ مئی ۱۹۲۹ ء مائی ڈیر میجر صاحب میں آپ کو اس پیغام کے سلسلے میں خط لکھ رہا ہوں - جو ابھی مجھ تک نہیں پہنچا- میں شکر گزار اور ممنون ہوں گا - اگر آپ مجھے فوری طور پر بتائیں کہ کیا آپ نے حیدر آباد خط لکھ دیا ہے - آپ مجھے لکھیں کہ میں نے ایسا کر دیا ہے - تاہم میری معلومات یہ ہیں کہ آپ کا خط ابھی تک اپنی منزل تک نہیں پہنچا - جیسا کہ میں بھی حیدر آباد خط لکھ رہا ہوں - کیونکہ مجھے اس معاملہ کے بارے میں کچھ کہنا ہے - اگر میں گیا تو خط میں کچھ نہ لکھوں گا - آپ جانتے ہیں - میں بہت بری صورت حال سے دو چار کر دیا گیا ہوں - براہ کرم ایک سطر میں لکھ بھیجیں یا کوئی پیغام بھجوائیں - آپ کا مخلص محمد اقبال پس تحریر - شکریہ مجھے آپ کا بھیجا ہوا الائونس برابر مل رہا ہے - ۲۳ - شاہد ، محمد حنیف ، اقبال اور انجمن حمایت اسلام ، لاہور ، ۱۹۷۶ ء ، ص ۱۸۰- ۲۴ - عباسی ، قمرالزماں ، بغداد سے بہاولپور تک ، ص ۱۲۳ - ۲۵ - شاہد ، محمد حنیف ، بحوالہ سابقہ ، ص ۱۲۱- ۲۶ - عباسی ، قمر الزماں ، بحوالہ سابقہ ص ۱۲۷ - ۱۲۸- ۲۷ - شاہ ، سید نذیر علی ، اقبال اور نواب بہاولپور ، نقوش ،اقبال نمبر ۲ ،بحوالہ سابقہ ، ص ۶۱۳- ۲۸ - خط ، علامہ محمد اقبال ، موجود سنٹرل لائبریری بہاولپور- ۲۹ - شاہد ، محمد حنیف ، بحوالہ سابقہ ، ص ۱۸۲- ۳۰ - Khan, Thawar Ali, op, cit, p 446 ۳۱ - عباسی ، قمر الزماں ،بحوالہ سابقہ ، ص ۱۵۴ - ۳۲ - شاہ ، سید نذیر علی ، اقبال اور نواب بہاولپور ، بحوالہ سابقہ ، ص ۶۱۵ - ۳۳ - ایضاً ، ص ۶۱۸- ۳۴ - ایضاً ، ص ۶۱۸- ۳۵ - عباسی ، قمر الزماں ، بحوالہ سابقہ ، ص ۱۴۳ ، ۱۴۴ ان خطوط کا اردو ترجمہ ذیل میں پیش ہے - (علامہ سر محمد اقبال کا خط جنرل سرصادق محمد عباسی نواب آف بہاول پور کے نام ) جناب عالیٰ - میںعالیٰ جناب کی خدمت میں خط لکھنے کا ایک عرصہ سے تمنائی تھا مگر بدقسمتی سے میری بیماری نے مجھے ایسا کرنے سے لاچار کر دیا - خط نہ لکھنے کا یہ عرصہ تین سال تک پھیل گیا ہے - تاہم میں محسوس کرتا ہوں کہ اب مجھے پہلے سے قدرے افاقہ ہے چنانچہ میں نے اس امید پر آپ کی خدمت میں خط لکھنے کا ارادہ کیا کہ ریاست کے توجہ طلب پیچیدہ اور مختلف النوع معاملات میں اپنی مصروفیات کے باوجود آپ مجھے اس قدرلمبے خط کا جواب عنایت فرمائیں گے المختصر میں آپ کی توجہ برصغیر ہندوستان میں اسلام اور اسلامی ثقافت کے مستقبل کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں - مجھے ہر طرح سے امید ہے کہ میرا خط آپ کو ان فرائض کو جاننے میں مدد گار ثابت ہو گا جو ایک مسلمان حکمران کی حیثیت سے اور بطور اس سرچشمہ مذہبی شعور نسبی وارث اور معنوی اولاد کے آپ پر لاگو ہوتے ہیں جن سے کہ یہ مذہب اور اس کی ثقافت متلاطم ہو ئی ہے - تاہم میں جانتا ہوں کہ جناب عالی ان معاملات میں برصغیر کے کسی بھی اور شخص سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں مگر میں صرف آپ کے سامنے ہی اپنے فکر اور ذہن کو کھول سکتا ہوں اور برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کو درپیش مسائل بیان کر سکتا ہوں- میرا خیال ہے کہ جناب عالی اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ میں گذشتہ تین سال سے اسلام اور اس کی ثقافت کے اساسی اصولوں کو واضح کرنے میں لگا ہوا ہوں - اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں - میری تو انائیاں جواب دے رہی ہیں مجھے اس بات کا شدت سے دکھ ہے کہ نئی قوتیں ہندوستان کی پراگندہ سیاست میں سرگرم عمل ہیں جن سے ہندوستان میں اسلام اور اس کی ثقافت کے مستقبل پر ایک گہرا اثر پڑے گا- ہندوستان میں نئی آئین سازی اس سرزمین کے لوگوں کے تصورات اور نقطہ نظر میں ایک بہت بڑا اور خاموش انقلاب لا رہی ہے - انڈین نیشنل کانگرس نے اب اپنا اصل روپ دکھانا شروع کر دیا ہے اس کی پالیسیوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا - ان میں اقدار کا فقدان ہے اور وہ وقت اور مفاد کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں - برصغیر کے ان علماء کا رویہ جوسیاست میں حصہ لے رہے ہیں - یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی نظر برصغیر کے مسلمانوں کی صورت حال پر گہری نہیں یقینا ان میں سے بہت علماء حماقتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں اسی کے پیش نظر اخبارات کی ایک اطلاع ہے کہ لکھنو یونیورسٹی کے مسلمان طلبا نے علی الاعلان کہہ دیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں - میرے پاس یہ یقین کرنے کا جوا ز موجود ہے کہ جدید حالات ایسی طرز کے مسلم نوجوان پیدا کر رہے ہیں جو سرعام نہیں تو نجی محفلوں میں ضرور مذہب کی تحقیر کرتے ہیں - سیاسی گیت بندے ماترم کے روپ میں مسلم کانگرسی ، ہند قدیم کے بت کی پرستش کو فروغ دے رہے ہیں سرحد کی کانگرسی وزارت نے ایسے اقدامات شروع کر دیئے ہیں جن سے اسلامیہ کالج پشاور کا خاتمہ ہو جائے گا - یہ وقت کا اعلان ہے اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب عالی کی نظر سے یہ امور اوجھل نہیں ہوں گے - ان حالات میں ہر مسلمان کے لیے ایک فرض ہے جس کو نبھانا چاہیے - ہم تمام خدا اور اس کے رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس ملک میں اسلام کا مقدر کیا ہے کیا یہ وقت نہیں کہ ہم آنے والے واقعات کو اسلام کے بہترین مفاد میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی سی کوشش کریں - ہندوستان اور اسلام کی سادگی اور صفائی کی طرف راغب کرنے کے لیے عربی زبان و ادب کی تدریس کا احیا ہونا چاہیے اور اس منزل کی طرف جانے والے ادب کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے - اس مہم میں عالی جناب کی اپنی ذاتی کوششیں کم از کم شمال مغربی ہندوستان میں راہنما ثابت ہو سکتی ہیں - میں نے مختصر طور پر ان عام مسائل کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروائی ہے جو ہند میں اسلام کو درپیش ہیں - ان کی تفصیلات بعد میں بھی مرتب ہو سکتی ہیں - فی الحال میری غرض و غایت آپ کی توجہ موجودہ تشویش ناک صورت حالات کی طرف دلانا ہے مجھے توقع ہے کہ آپ میرے خط پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے جو موجودہ حالات میں احسن اور اعلٰی ہو گی اور پھر اس بات کو رد کر دیں گے جو سیاست اسلام کے لیے ضرر رساں ہو گی - اگر آپ درست طور پر اس تحریک کا آغاز فرمائیں تو آپ ہند میں مسلمانوں کے عظیم راہنما متصور ہوں گے انسان فانی ہے مگر اس کے کارنامے ہمیشہ زندہ و پائندہ رہتے ہیں - آپ کا مخلص (محمد اقبال ) ۳۶ - ایضاً ص ۱۴۸ ، ۱۴۹ - اردو ترجمہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے - (سر صادق محمد عباسی نواب بہاولپور کا خط علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال کے نام ) صادق گڑھ پیلس ۹ اکتوبر ۱۹۲۷ء میرے عزیز سر اقبال السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاۃ : آپ کا خط پڑھ کر مجھے بے پناہ مسرت ہوئی ہے- میں اس کے لیے آپ کا حد درجہ شکر گزار ہوں - آپ نے یقینی طور پر اس اہم معاملے پر روشنی ڈالی ہے - جو ایک طویل عرصہ سے میرے لیے دلچسپی اور استعجاب کا باعث ہے - آپ نے اس سلسلے میں میری ریاست اور میرے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے - میرے لیے یہ اعزاز کی حیثیت رکھتے ہیں - جس صورت حال کا آپ نے ذکر کیا ہے - یقینا وہ ان لوگوں کی مشترکہ مساعی کی حقدار ہے - جو آپ کی طرح ان تمام مسائل کا گہرا ادراک رکھتے ہیں - جن کا تعلق ہمارے دین اسلام کی صداقت اور شرافت کے اعتقادات سے ہے - اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اور روزانہ جن واقعات سے ہمیں سابقہ پڑتا ہے - وہ ہمارے عقیدے کے مفادات میں اہانت آمیز ہیں - اور باغیرت لوگوں کے لیے باعث شرم ہیں - اور یہ خود اپنی فطرت میں غیر پسندیدہ روایات اور بری مثالوں کو جنم دے رہے ہیں - یقینی طور پر یہ سب کچھ ہمارے مقصد کے لیے نقصان دہ ہے - یہ یقینا دل دوز اور مایوس کن صورت حال ہے - کہ ہم اصلاح کے لیے کچھ کرنے کی بجائے ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے وقت گزار رہے ہیں - ایک نوجوان کی حیثیت سے متذکرہ امور کے بارے میں اور تجربہ کی کمی کی وجہ سے میں اس بارے میں زیادہ جاننے کی خواہش رکھتا ہوں - میں ان امور کے بارے میں اپنی لاعلمی کو محسوس کرتا ہوں اور یہ احساس رکھتا ہوں کہ میں اس ضمن میںکسی با اعتماد معاون کے نہ ہونے کی وجہ سے بے یار و مددگار ہوں - جو مجھے اس امر کی حقیقی معنوں میں تفہیم دے سکے - کہ ہمارے پروردگار اور اس کے بھیجے ہوئے رسولؐ کا ہمارے لیے منشا کیا ہے ؟ میں اپنے ارد گرد کی دنیا میں ایسے افراد کو پاتا ہوں - جو صرف اپنی ہی بہتری کے بھوکے ہیں - میری تمام کوششیں پیچیدہ دقت طلب اور بڑے مسائل کے حل کے لیے وقف ہیں - جو صحیح معنوں میں مجھ سے توجہ اور وقت چاہتے ہیں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کی وجہ سے اپنے آقا اور خالق کی خدمت کے سلسلے میں عائد فرائض کی ادائی سے چوک جاتا ہوں- میں آپ کو یقین دلاتا ہوں - کہ گذشتہ چودہ سالوں میں اپنی ریاست اور عوام کے معاملات کو دیکھ بھال کے دوران میں نے رضائے الہی کو ہر موقع پر پیش نظر رکھا- اور اس کی اپنی جیسی مخلوق کی بہت سی اقسام مختلف اعتقادات اور جماعتوں کو دیکھا - اور ان کے بارے میں جاننا ، میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اب اس حالت میں ہوں کہ اس کے ان مقاصد کی خدمت بجا لائیں جو اس کے منشا اور حکم میں آتے ہیں - یقینا ہم تمام خواہشات کی تکمیل تو نہیں کر سکتے - مگر جہاں تک ہمارے عقیدہ اور ہمارے دلوں کے اخلاص جذبات اور اعتماد کا تعلق ہے - میرے پاس یہ یقین نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں - جو خالق کائنات ہے اور تمام بڑی چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے - وہ ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے کیوں نہ نوازے گا - تاکہ ہم اس کے احکامات کی تکمیل کر سکیں - اپنے عاجزانہ طریقے سے میں نے اس سوال پر کئی بار سوچا ہے - جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے - مگر میرا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال میں جبکہ ہم متحد نہیں بلکہ مختلف فرقوں اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں - ہم کیا کر سکتے ہیں - وہ کیا علاج ہے جو کہ ہم کر سکتے ہیں - یقینا جو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے اسے یقینی طور پر بجا لایا جانا چاہیے - مگر جس طریقے سے مختلف افراد ، ادارے اور مشن دنیا کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے کام کر رہے ہیں- اگر ان کا درست طور پر تجزیہ کیا جائے اور ان کے مفادات کے حوالے سے قدر متعین کی جائے تو اس سے سوائے صدمہ کے اور کچھ حاصل نہ ہو گا - اگرچہ ان کی نیت ٹھیک ہو - اور ان کی نیت اسلام کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ہو- جو وہ اپنے طریق ہائے کار کے لیے انجام دے رہے ہوں یہ ان لوگوں کو سوچنے کی اچھی بھلی دعوت دیتے ہیں - جو اسلام کو بطور مذہب نہیں ، تو کم از کم بطور ایک اصولوں کے نظام اور عقائد کے اپنانا چاہتے ہیں - مختلف مشنوں کی بے شمار سرگرمیاں جو ایک دوسرے پر بالا دستی اور ان کے مقاصد کو متاثر کرنے کے لیے ہیں - یہ ہمارے عقیدہ کو اپنانے والوں کے لیے استعجاب اور ہچکچاہٹ پیدا کرنے کا باعث ہیں - اس سلسلے میں ایک شخص جس حد تک چاہے لکھ سکتا ہے - مگر یہ سب بے سود ہے- صرف مخلصانہ طور پر امید ہی کی جا سکتی ہے - انشاء اللہ مستقبل قریب میں آپ سے ملاقات کی سعادت حاصل کروں گا - میں محسوس کرتا ہوں کہ خط کو بے جا طویل کرنے کی ضرورت نہیں - کیوں کہ میں نے اپنے محسوسات کو پہلے ہی بیاں کر دیا ہے - لہٰذا براہ کرم مجھے معاف فرمائیں - اگر کوئی چیز آپ کے خلاف منشا ہو - میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی صحت اب بہتر ہو گی - یقینا ہماری ملاقات کو کافی عرصہ ہو گیا ہے - بہترین مخلصانہ تمنائوں کے ساتھ میں آپ کی صحت اور مسرت کے لیے دعا گو ہوں - بہترین اور مخلصانہ آرزوئوں کے ساتھ آپ کا مخلص صادق محمد عباسی خامس (نواب آف بہاولپور) مترجم : ڈاکٹر وحید عشرت ۳۷ - شہاب، مسعود حسن ، علامہ اقبال اور بہاولپور ، بحوالہ سابقہ ، ص ۵۳۵- ۳۸ - غلام حسین ، مولوی و علامہ اقبال مرحوم کا ایک لاجواب غیر مطبوعہ مرثیہ، اصلاح ، بہاولپور عزیز المطابع پریس ، فروری ۱۹۳۹ء ، ص ۷- ۳۹ - یہاں نور الزماں اوج کی تصنیف شدہ کتابوں میں Cholistan Land and People Bibliography On Bahawalpur Past and Present, Ancient Bahawalpur کارواں درکارواں ، اوج غزل ، صوفی بزرگ ، اور خواجہ غلام فرید کی کافیاں کا اردو ترجمہ شامل ہے - ۴۰ - انٹرویو ، نور الزماں احمد اوج ، ۸ - ۲ محمد حسین روڈ ، ماڈل ٹائون اے بہاولپور ، مارچ ۱۹۹۷ء ۴۱ - انٹرویو ،میر عبدالرحمٰن ، پوتا میر سراج الدین ، رین بسیرا ،محلہ نواباں بہاولپور ، ۱۳ فروری ۱۹۹۷ء ۴۲ - ایضاً ۴۳ - لطیف ، سید محمد ، آگرہ اکبر اور اس کا دربار ، (مترجم افتخار محمود) ،لاہور ۱۹۹۵ء ص ۱۷- ۴۴ - ایضاً ، ص ۱۸- ۴۵ - ایضاً ، ص ۹- ۴۶ - ایضاً ، ص ۲۲- ۴۷ - ایضاً ، ص ۲۴- ۴۸ - عزیز ، عزیز الرحمٰن ، تاریخ الوزراء ، سن ندارد ، بہاولپور ، ص ۴۵ - ۴۹ - انٹرویو ، میر عبدالرحمٰن - ۵۰ - فاروقی ، محمد کامران ، کتب خانہ ، مولوی فضل محمد سابق ڈسٹرکٹ جج ریاست بہاولپور ، محلہ قاضیاں ، بہاولپور- ۵۱ - بلوچ ، جعفر ، مولانا عبدالعزیز پرہیاروی (۱۶۰۶ - ۱۲۳۹ھ) ، المعارف ، جون ۱۹۸۳ء ، لاہور ص ۲۳ - ۵۲ - ایضاً ، ص ۲۴- ۵۳ - میرانی ، محمد حسن خان ، ’’ بہاولپور کے دو جلیل القدر علماء ‘‘ سہ ماہی الزبیر ، شمارہ ۲ ، بہاولپور ۱۹۹۵ء ، ص ۶۸- ۵۴ - گورگانی ، محمد اشرف ، صادق التواریخ ،بہاولپور ، ۱۸۹۹ ، ص ۱۷۸- ۵۵ - میرانی ، محمد حسن خان ، بحوالہ سابقہ ، ص ۶۷ - ۵۶ - فاروقی ، محمد کامران ، بحوالہ سابقہ ، تحریر میر سراج الدین- ۵۷ - ڈاکٹر شجاع کی ڈگریوں کی تفصیل ذیل ہے - ایم- اے (فارسی ، عربی) ، ایچ پی پشتو ، ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی ، ایم ایچ ایس ، ایس ایم او اور ایس آر شامل ہیں - ۵۸ - خان ،منور علی ، صادق ایجرٹن کالج بہاولپور کے ۱۰۰ سال ، ایس ای کالج کے نامور اساتذہ کرام ، بہاولپور ۱۹۸۶ء ص ۷۷- ۵۹ - ڈاکٹر شجاع کی تصانیف درج ذیل ہیں- بزم فردوس ، حکمت اسلامی کے مغرب پر احسان ، صبح ازل ، آزاد قوم کی تعمیر اور پاکستان ، آزاد قوم کا نظام تعلیم اور پاکستان ، چاروں خلفائے راشدین کی سوانح عمریاں اور اقبال کا فلسفہ زندگی کے عنوان سے انگریزی میں کتاب لکھی - ایضاً ، ص ۷۷- ۶۰ - ایضاً ، ص ۷۷- ۶۱ - Sadiq Egerton College Magazine, The Oasis, Iqbal Number Bahawalpur, April 1941, p (iii) ۶۲ - محمود ، سید حسن ، میرا سیاسی سفر ، لاہور ، ۱۹۸۶ء ، ص ۲۲ - ۲۳- خصوصی مطالعہ خطبات اقبال کی منہاج- ایک تجزیہ جاوید امیر عثمانی وہ فکر جو اپنی ماہیت میں اثباتی ، اطلاقی اور استخراجی ہو ، اپنے اندر ایک کل میں ڈھلنے کا پورا سامان رکھتی ہے - اس کی ترکیب کے تمام بنیادی عناصر کسی ایسی کلیت سے لازماً وابستہ ہوتے ہیں جو فکر کا نتیجہ نہیں بلکہ ماخذ ہوتی ہے - اس اصول کی روشنی میں تمام مذہبی مفکرین کی طرح اقبال کی فکر بھی ایک موجود کل کا ، استدلال و اظہار کی جہت سے ، انعکاس اور اعادہ کرتی ہے - یہ عمل ذہن کے بعض خلقی تقاضوں کی وجہ سے کسی مطلق بیان پر منتج نہیں ہو سکتا بلکہ ایک ترکیبی پھیلائو کی صورت اختیار کر لیتا ہے جو ممکن ہے کہ اپنی تفصیل میں کہیں کہیں غیر متوازن اور ادھورا رہ جائے، لیکن اس کی مجموعی صحت یا غلطی کا حکم اس پروارد نہیں ہو گا بلکہ اس کے مرجع و ماخذ پر لگے گا - البتہ نقص یا کمال کا تعین کرتے وقت ان میں سے کسی ایک کی نسبت ، بعض شرائط کے ساتھ ، اس فکر کی طرف کی جاسکتی ہے - مطالعۂ اقبال میں یہ ضابطہ ملحوظ نہ رہنے کی وجہ سے ان کی فکر پر ہونے والا اکثر کام ، خواہ ستائشی ہو یا تنقیدی ، ناہموار ہے اور چند مستقل مغالطوں کا شکار --- علامہ کی فکر کے نثری اور شعری مظاہر عموماً اسی وجہ سے دولخت نظر آنے لگے کہ ہم نے اس نقطۂ تالیف کو ڈھونڈنے کی کوئی سنجیدہ اور باضابطہ کوشش ہی نہیں کی جو فکر اور تخیل ، یعنی ذہنی اور تخلیقی عمل کے نتائج کو اس طرح عین یکدیگر بناتا ہے کہ دونوں اپنی ماہیت اور فعلیت پر قائم رہتے ہوئے ایک ہی معنی کے حامل ہو جاتے ہیں - شعور مذہبی میں نفی و ایجاب کا عمل اپنی تکمیل سے قبل تک ہی استدلالی ہوتا ہے ، مکمل ہو جانے کے بعد یہ عمل ایک پہلو سے اخلاقی اور دوسرے سے وجدانی بن جاتا ہے ، یعنی حصول ، حضور میں ڈھل جاتا ہے- یہ حضور (presence)ادراک کے تمام مطالبات کی تکمیل کرتا ہے مگر اس میں نفس مدرک کی پوزیشن اور کار کردگی بدل جاتی ہے اور معمول کے قوائے ادراک کی باہمی و خارجی نسبتوں میں ایک اندرونی تبدیلی کا وقوع ہوتا ہے جس کی وجہ سے ذہن اور حس کے درمیان self- transcendence کی بنیاد پر ایک نیا پیوند پیدا ہوتا ہے - یہی شعور کی وہ سطح ہے جہاں علم اور وجود یا معلوم اور موجود ایک ہے - یہ شہود کا مرتبہ ہے ، جہاں عقل کی خوئے احتوا (contentuality) منقلب ہو کر اس کے اسلوب حصول کو مبنی بر استدلال نہیں رہنے دیتی - یہاں عقلی حاصلات اپنی نوع میں معقول نہیں ہیں بلکہ ایک ورائے عقل انکشاف کی طرح ہیں جو عقل کی صلاحیت اثبات کو بڑھاتے ہیں ، اور محض فہم کی بجائے ’دید‘ اور ’ذوق‘ سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں - یہی وہ انکشاف ہے جو علم و معلوم کی نسبت کو ایک زندہ وابستگی میں ڈھال کر ایک ’حال‘ بنا دیتا ہے ، جس کا وفور پورے وجود کو لپیٹ میں لے لیتا ہے - عقل کا عارفانہ کردار یہیں سے ابھرتا ہے جس میں جذبے اور تخیل کی شمولیت بھی ناگزیر ہے تاکہ وہ ’ پورا پن‘ تشکیل پا جائے جو حقائق کے اثبات و اظہار کے ہر مرحلے پر ضروری ہے - اردو کی فکری و شعری روایت کی حد تک اقبال یقینا واحد آدمی ہیں جو ذہن ، جذبے اور خیال کی منتہائی وحدت بلکہ عینیت تک پہنچے - گو کہ یہ رسائی اتنی کامل نہیں ہے جتنی مثال کے طور پر رومی و حافظ یا نسبتہً چھوٹے پیمانے پر سنائی و جامی کے ہاں نظر آتی ہے، لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ آدمی حقیقت تک نہ پہنچ سکنے کے باوجود اس کی طرف پیش قدمی کی اہم ترین شرط پوری کر دے - اقبال اگر اپنے مصلحانہ اور انقلابی کردار پر اتنا زور نہ دیتے، اور عقل و وحی میں مطابقت پیدا کرنے کی نیم فلسفیانہ ، نیم متکلمانہ کوشش نہ کرتے تو شہود حقائق کی سمت میں بہت آگے تک مار کرتے ، مگر پھر وہ اقبال نہ رہتے ، رومی کی مریدی کا حق البتہ ادا کردیتے - اقبال کے بارے میں کم از کم دو باتیں ہم اچھی طرح جانتے ہیں : ۱ - ان کا ذہن اور افتاد طبع ایسی ہے کہ وہ چیزوں کو کسی جزوی تناظر میں دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے - ان کے تصورات اور محسوسات کا ’ حجم‘ بھی بڑا ہے - ۲ - ان کی فکر ، خواہ تحقیقی ہو یا تخلیقی ، انسان مرکز ہے - یہ دونوں باتیں بہت اہم ہیں لیکن انہیں آپس میں مربوط کرنا مشکل ہے ، کیونکہ مابعدالطبیعی مباحث میں وہ مرحلہ فوراً ہی آ جاتا ہے جہاں انسان اور اس کی actuality کے نشانات مدھم پڑنے لگتے ہیں - چیزوں کو کلی تناظر میں دیکھنا ، عین مابعدالطبیعیات ہے ، اور انسان مرکزی اس کی ضد - مثال کے طور پر وجود وہ کلی تناظر ہے جو تمام اشیاء کی صورت و حقیقت کو محیط ہے - یہ احاطہ صورت کے پہلو سے سلبی ہے اور حقیقت کی جہت سے ایجابی- وجود کی ماہیت یعنی تنزیہ ، کلیت اور وحدت متقاضی ہے کہ صورت ،حرکت اور محدودیت وغیرہ اس کا حتمی حوالہ نہ بنیں - اقبال نے ان دشواریوں کا یہ حل نکالا کہ تنزیہ کو تفریق ، کلیت کو عموم اور وحدت کو انفرادیت میں بدل کر اقلیم حقائق کو مابعد الطبیعیات کے قبضے سے نکالنے کی کم وبیش وہی کوشش کی جو فشٹے اور برگساں وغیرہ کے ہاں نظر آتی ہے اور فکر جدید کی تاریخ میں بہرحال ایک موثر حیثیت رکھتی ہے- انسان کی actual reality کے اثبات ، اور اس میں ایک مابعد الطبیعی اور عرفانی شکوہ پیدا کرنے کے لیے بیان کا جو آہنگ اور تخیل کی جیسی خلاقی درکار ہے ، اس کے لیے آدمی کا فلسفی ہونا اتنا ضروری نہیں جتنا کہ بڑا شاعر ہونا - جیسا کہ نٹشے تھا - کم از کم تصور انسان کی حد تک علامہ بھی تمام تر اصولی اور نتائجی فرق کے باوجود ، اسی روایت کے نمائندے ہیں جس کی بنیاد اس حکیم دیوانہ نے ڈالی تھی - نٹشے نہ ہوتا تو گوشت پوست کے آدمی میں خدا بننے کی وہ امنگ نہ بیدار ہوتی جو عظمت آدم کے اقبالی تصور کی آخری حد ہے - بہر حال ، مقصود کلام یہ تھا کہ اقبال کی اس جہت تک پہنچنے کی کوشش کی جائے جو ان کی فکر کا نقطۂ تکمیل ہے - ہماری رائے یہ ہے کہ ان کے تقریباً تمام بنیادی تصورات عقلی و استدلالی نہیں بلکہ اخلاقی و تخلیقی ہیں - ان کا ہر خیال بالآخر جس حتمیت اور تحکم پر اتمام پذیر ہوتا ہے ، وہ محض استدلال کا نتیجہ نہیں بلکہ اس اخلاقی قوت کی کار فرمائی ہے جسے جذبہ و تخیل کی بھی پوری کمک حاصل ہے - اسی لیے تصورات اقبال کی پوری اور درست ٹھیک تفہیم کے لیے ان کی شاعری کی اہمیت اور حیثیت فیصلہ کن ہے- زیر تبصرہ کتاب خطبات اقبال : نئے تناظر میں کا بھی ایک موضوع یہی ہے کہ فکر اقبال کا حتمی اور انتہائی اظہار ان کی شاعری میں ہوا ہے یا خطبات میں ؟ اگر کسی معاملے میں شعر اور خطبات میں دو الگ الگ باتیں کہی گئی ہیں تو اس صورت میں ترجیح کسے دی جائے گی ؟ دوسرے مسئلے کا بظاہر ایک سامنے کا حل موجود ہے کہ اگر شعر بعد میں کہا گیا ہے تو ترجیح اس کو ملے گی ورنہ خطبات ہی کو اقبال کے موقف کا ترجمان سمجھا جائے گا - لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے - شعری تفکر کے مظاہر منطقی اور ریاضیاتی نہیں بلکہ جمالیاتی اور علامتی ہوتے ہیں - اس لیے یہ چیز ان کی بناوٹ میں داخل ہے کہ ان کا content معنی کی اس قبیل سے نہیں ہوتا جو محض دماغ سے نسبت رکھتی ہے - یعنی شاعری جس فکر کی حامل ہوتی ہے ، وہ صحیح اور غلط کے مسلمہ معیارات کی پابند ہونے کے باوجود ، محض ذہنی عمل نہیں ہے ، لہٰذا اظہار فکر کے تکنیکی ذرائع ہمیں جہاں پہنچاتے ہیں ، یہ ان مقامات سے مناسبت نہیں رکھتی ، یا کم از کم وہ مناسبت نہیں رکھتی جو دو چیزوں میں موازنے کے لیے ضروری ہے - یہی وجہ ہے کہ شعر حکمت کی روایت کا مطالعہ کسی نظری یا نظریاتی روایت کی طرح نہ کیا گیا ہے ، نہ ہو سکتا ہے - تاہم جہاں تک اقبال کا تعلق ہے ، وہ اس ضابطے کی زد میں نہیں آتے - بہت گہرائی میں نہ جائیں تو ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بیک وقت حکیم بھی ہیں اور مفکر بھی - ان کی حکمت ، شاعری میں ظاہر ہوئی ہے اور فکر ، خطبات میں - بنابریں شعر اور خطبات میں جہاں جہاں ٹکرائو کی صورت پیدا ہو گئی ہے، وہ دراصل حکمت و فکر کا ٹکرائو ہے ، جس سے بچا نہیں جا سکتا - سہیل عمر صاحب نے کتاب کے حرف آغاز میں تقریباً یہی بات کہی ہے ، اگرچہ اس کے بعض اجزا سے ہمیں اختلاف ہے ، لیکن پہلے ان کی بات سن لیں : ’’----- اگر خطبات اور شاعری میں نقطۂ نظر کا کوئی فرق ہے تو یہ دولخت شخصیت کا شاخسانہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے بڑی شاعری تو کجا،شاعری ہی پایہء اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے - تو پھر کیا یہ فرق شخصیت کی دو سطحوں اور وجود کے قطبین کا نمائندہ ہے ، جن میں سے ایک فاعلی اور مؤثر ہے اور دوسرا انفعالی اور تاثر پذیر ؟ ایک افقی ہے ، اسیر تاریخ ہے ، اس سے متاثر ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے - دوسرا عمودی ہے ، تاریخ سے وراء دیکھتا ہے، جواب دیتا ہے اور آرزو کے سہارے آدرش تک رسائی چاہتا ہے - شاعری فاعلی جہت کا ظہور ہے اور خطبات انفعالی سطح کی تجسیم ! ‘‘ اصولاً یہ تجزیہ ٹھیک ہے مگر اس کے بیان کے لیے جو اصطلاحات چنی گئی ہیں ، وہ برمحل نہیں ہیں- یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اقبال کی شخصیت کی ایک سطح شاعری میں ظاہر ہوئی اور دوسری خطبات میں ، لیکن ان دو سطحوں کو وجود کے قطبین ، فاعلی اور انفعالی، عمودی اور افقی وغیرہ کہنا نہ صرف یہ کہ ضرورت سے زیادہ ہے بلکہ خطرناک بھی - یہ اصطلاحات الہیات ، عرفان اور علم الوجود کی ہیں ، انہیں کسی شخصیت کے تجزیے میں صرف کرنا مناسب نہیں - تاہم الفاظ کے استعمال میں ہونے والی اس بے احتیاطی سے صرف نظر کر لیں تو یہ نکتہ خاصا مضبوط ہے کہ خطبات میں تو علامہ کو بہت سی پابندیاں نبھانی پڑیں ، لیکن شاعری میں انہیں اس تخلیقی قوت سے توڑ دیا جو ذہن کی نارسائیوں اور مجبوریوں کا ازالہ کرتی ہے ، اور شعور کو اس سطح اثبات سے مانوس کرتی ہے جہاں حقیقت معلوم نہیں بلکہ موجود ہے - موجود کا ایسا اثبات جس میں اس کی غیر معلومیت سے سمجھوتا کر لیا جائے ، انسانی استعداد کے ان مراتب سے پوری طرح ہم آہنگ ہے جہاں علم اور اس کا موضوع استدلالی ، تجزیاتی اور تجربی نہیں ہے ، اخلاقی ، کلی اور فطری ہے - یہ ٹھیک ہے کہ وجود خارجی وہ شرط واحد ہے جس پر معلوم کا واقعی اور موجود کا حقیقی ہونا منحصر ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ جس چیز سے ان کی عینیت متحقق اور امتیاز ثابت ہے ، وہ یہی مطلق جزئیت ہے - البتہ وجود اگر اپنی حقیقت میں جزئی ہے تو پھر فی الاصل ایک ہونے کے باوجود اس کی معلومیت اور موجودیت میں فرق نہ صرف یہ کہ ممکن بلکہ واقع ہے - اس طرح حقائق کا علم بھی صحیح اور غلط کی تقسیم کا متحمل ہو سکتا ہے، خواہ یہ صحت یا غلطی اس طرح کا متعین ثبوت نہ رکھتی ہو جس کے بغیر ’ خو گر محسوس ‘ ذہن کی تشفی نہیں ہوتی - بہرحال اقبال کی شاعری اور خطبات میں جہاں جہاں واقعی تصادم کی صورت پیدا ہو گئی ہے ، اس کے بارے میں ہماری رائے وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی ---- خطبات کا ہدف علم ہے اور شاعری کا وجود - یہ الگ بات کہ کہیں کہیں ان کے ضروری امتیاز اور وحدت میں کسی ایک کا دوسرے پر ایسا غلبہ ہو گیا ہو کہ ان کے بطور کل ایجاب کے لیے درکار توازن برقرار نہ رہ سکا ہو ، اور اس میں پڑنے والا خلل بہمہ وجوہ جزوی اور عارضی ہونے کے باوجود مقصود کی طرف ہونے والی ہموار پیش قدمی کو اچانک ایک دوراہے پر لا کر چھوڑ دیتا ہو - تاہم وہ پس منظر جو شاعری اور خطبات ، دونوں میں مشترک ہے ، اس الجھن کو سلجھا دینے یا پھر اس سے متاثر نہ ہونے کی قوت رکھتا ہے - مذہبی فکر ، تخیل اور تجربے کی ایک امتیازی بات یہ بھی ہے کہ اصول و غایت میں واحد ہونے کے باوجود ، ان کی داخلی ترکیب کچھ ایسی ہوتی ہے کہ خارجی اظہار ہی کی سطح پر نہیں ، بلکہ حامل اگر ایک ہے ، تو ماقبل اظہار مراحل میں بھی ان کے درمیان وہ ٹکرائو ممکن ہے جسے کم از کم ذہن کی شرائط پر رفع نہیں کیا جا سکتا - اس ٹکرائو کے اسباب چاہے جو بھی ہوں ، اتنا بہر حال واضح ہے کہ اس کا وقوع اجزا میں ہوتا ہے ، کل میں نہیں---- اور اس کی اثر اندازی کا دائرہ کتنا ہی وسیع ہو جائے ، نتائج اس کی لپیٹ سے باہر رہتے ہیں - یعنی مذہبی فکر ہو یا تخیل ہو یا تجربہ ، اپنی تکمیلی ساخت میں ، خواہ وہ جزوی ہی کیوں نہ ہو ، جہات کا فرق تو قبول کر سکتے ہیں، مگر باہم متصادم نہیں ہو سکتے - تخالف یا تصادم اگر ہو گا تو ان کے وقوفی ، حسی اور بیانیہ تحولات ہی میں ہو گا ، اس کی نوعیت جوہری نہیں ہو گی - اقبال کے ہاں یہ اصول اپنی صحت کے زیادہ واضح شواہد کے ساتھ کارفرما نظر آتا ہے- حقائق کو انسانی صورت حال سے ہم آہنگ اور متعلق رکھنے کی کوشش میں انہوں نے مذہب ، سائنس ، شاعری اور فلسفے کو ملا کر جو ہئیت وحدانی وضع کی ہے ، وہ بڑی حد تک بے جوڑ اور غیر متناسب ہونے کے باوجود ایک کلی موقف بہر حال فراہم کرتی ہے - اپنی نتائجی حالت میں یہ موقف کم از کم اپنے بنیادی جواز یعنی کلیت سے خالی نہیں ہے - اس کلیت کی دریافت کے بعد ہم اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ اس کے تشکیلی عناصر میں کسی واضح طور پر موجود تصادم کو بھی یا توحل کرنے کی کوئی قابل قبول صورت نکالیں ورنہ کچھ نہیں تو اس حد تک نظر انداز ہی کر دیں کہ اس سے وارد ہونے والا نتیجہ پورے کل پر کوئی حکم لگانے کا محرک نہ بنے - اقبال کے مجموعی مطالعے کی کوئی بھی کوشش اس وقت تک بارور نہیں ہو سکتی ، جب تک یہ بات ہر مرحلے پر پیش نظر نہ رہے کہ حقیقت کا ایسا بیان جس میں دلالتیں کثیر ہوں اور مدلول واحد ، اس کے مستند یا غیر مستند اور صحیح یا غلط ہونے کا دارو مدار شروع سے آخر تک مدلول ہی پر ہوتا ہے- دلالتوں میں در آنے والے تضادات ، حصول مدلول کے وسائل کو تو یقینا نا قابل اعتبار بنا دیتے ہیں ، لیکن نفس مدلول ثبوتی اور وضعی ہونے کی بنا پر ایک referential جہت میں محفوظ رہتا ہے - پورا علم کلام اسی ’رعایت‘پر کھڑا ہے ، کیونکہ شعور مذہبی کا بنیادی محتویٰ اگر شعور نظری کے مطالبات و شرائط کی تکمیل و تعمیل میں صرف ہونے لگے تو اس کے لازمی احکام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے - ایسی صورت میں ایک ایسا ادعائی کل ہی باقی رہ جاتا ہے جس کے تقریباً تمام افراد اس کے اسلوب تشکیل سے ہم آہنگ رہنے کی قابلیت سے عاری ہوں - سہیل عمر نے اپنی کتاب کے مقدمے میں عضدالدین ایجی کا ایک قول نقل کیا ہے جو بلاشبہ علم کلام کی ایک جامع و مانع تعریف کہلانے کا مستحق ہے : ’’ علم کلام وہ علم ہے جو عقائد دینی کو مستحکم طور پر ثابت کرنے کے لیے دلائل دینے اور شبہات کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے‘‘ - (ص۲۱) یہ تعریف جو بڑی حد تک ’’تشکیل جدید‘‘ پر بھی صادق آتی ہے ، علم کلام کی دینی حیثیت اور اہمیت تو بخوبی بیان کرتی ہے مگر اس اشکال کا کیا حل کہ عقائد دینی کو مستحکم طور پر ثابت کرنے اور شبہات کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری عقل محض کو سونپ کر ، اسے ایک مستقل دینی سند بنانے کا راستہ تو نہیں کھل جائے گا ؟ اور کیا دین ، عقل کو یہ مرتبہ دینے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ مزید براں ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ عقل ، مابعد الطبیعی امور کا محکم اثبات اور ان پر وارد ہونے والے شبہات کا ازالہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وحی کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ تو ٹھیک ہے کہ علم کلام یا بالفاظ دیگر ، دینی فکر میں عقل کا کردار ایک ماتحت کا سا ہے جو ایمانیات میں درکار تیقن کو انسان کی بدلتی ہوئی ذہنی صورت حال پر پوری طرح حاوی رکھنے کے لیے ، ذہن کی مثبت اور منفی افتاد کو وحی کے تابع رکھنے کا فریضہ انجام دیتی ہے ، تاہم یہ ماننا بہر حال دشوار رہتا ہے کہ عقل اپنے لیے تجویز کردہ اس کردار پر قانع بھی رہ سکتی ہے جو اصلاً اس کی ماہیت اور بناوٹ ہی سے مناسبت نہیں رکھتا- عقل جس چیز کو ثابت کرتی ہے ، اس کی سند بھی خود ہی ہوتی ہے ---- واحد اور بلا شرکت غیرے - اس لیے مابعدالطبیعی احکام کو ان کی لازمی حجیت کے ساتھ ثابت کرنا تو دور کی بات ہے ، اس کے لیے انہیں تسلیم کرنا بھی ایک اجنبی عمل ہے - عقل خواہ محسوس کو معلوم بنانے تک محدود رہے یا معقول کو موجود گرداننے پر اصرار کرے ، دینی عقائد کی اقلیم میں داخل ہو کر ، اپنے ذاتی اقتضا کے بموجب ، تشکیک و تردید کی طرف جائے گی یا لا ادریت کا رویہ اختیار کرے گی یا اپنے سامنے موجود مواد کو recycle کر کے ، بزعم خویش ، ان کی تکمیل کا سامان کرے گی -اس کا مطالبہ کامل فہم ہے - یہ اس سے دست بردار نہیں ہو سکتی - دوسری طرف ہر مابعد الطبیعی بیان ، جس چیز کی سب سے پہلے نفی کرتا ہے ، وہ یہی مطالبہ ہے - اپنی احاطہ خوئی کی وجہ سے عقل اپنے موضوع کے بارے میں جو وثوق اختراع کر لیتی ہے ، وہ فہم کی صحت سے نہیں ، اس کے کمال سے نسبت رکھتا ہے ؛ جبکہ عقیدے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ کمال فہم یعنی حقائق کا من و عن ادراک نہ صرف یہ کہ محال ہے بلکہ انسان کی ضرورت بھی نہیں ہے - پرانا علم کلام کم از کم اس معاملے میں نسبتہً محفوظ بنیاد پر کھڑا تھا کہ اس کا مقصود بس اتنا تھا کہ دین کو ماننے والی عقل اور اس کے دلائل ، دین کو نہ ماننے والی عقل اور اس کے دلائل پر حتماً غالب آ جائیں - اور یہ غلبہ ایک متفقہ اور مسلمہ قانون استدلال پر استوار ہو- گو کہ عقل کو حکم بنانے کا اعتراض اس طرح بھی برقرار رہتا ہے ، تاہم یہ دیکھتے ہوئے کہ اس میںکوئی معذرت خواہانہ اصول تطبیق کار فرما نہیں ہے ، اس اعتراض کی دینی شدت بڑی حد تک کم ہو جاتی ہے ، لیکن کلام کی وہ روایت جو مثال کے طور پر سر سید اور ان کے بعد آنے والے بعض جدید تعلیم یافتہ حضرات کے ہاں نظر آتی ہے، بلا استثنا اسی اصول تطبیق پر قائم ہے جو کہیں عبا کو کوٹ بنا دیتا ہے اور کہیں کوٹ کو عبا - اس روایت کے نمائندے چونکہ اپنی طبعی اور ذہنی افتاد کی بنا پر احکام دین سے وابستگی اور اصول دین کے علم کا وہ معیار نہیں رکھتے جس پر پرانے متکلمین پورے اترتے تھے ، لہٰذا وہ کاٹ چھانٹ جو عمل تطبیق میں لازماً درکار ہے ، اس کا ہدف زیادہ تر دین ہی بنتا ہے ، اور وہ discource جو دینی حقائق اور ان کی مطلقیت کا مظہر ہوتا ہے ، اپنا جواز کھو بیٹھتا ہے - اقبال کے خطبات کا مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کوئی دعویٰ تو بہرحال نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی بنیاد سرے سے اصول تطبیق پر نہیں ہے ، البتہ اتنا ضرور ہے کہ دین کو فلسفہ و سائنس کے لیے قابل قبول بنانے کے نہایت مخدوش عمل میں علامہ نے وہ راہ اختیار نہیں کی جو سر سید ایسے مصلحین کی نکالی ہوئی ہے - اسی لیے وہ ان نتائج تک پہنچنے سے بھی محفوظ رہے جو تطبیقی طرز فکر کا فطری منتہا ہیں - مگر اس کے باوجود ، فکر اسلامی کی تشکیل نو کا کام ہی کچھ ایسا ہے کہ فلسفہ ، سائنس ، نفسیات وغیرہ کو معیار بنائے بغیر اس کا آغاز بھی نہیں کیا جا سکتا ہے - محمد سہیل عمر نے خطبات میں اقبال کو لازمی طور پر درپیش اسی مشکل پر غور کیا ہے- اس میں انہوں نے ڈاکٹر برہان احمد فاروقی سے مقدور بھر استفادہ کیا ہے - ڈاکٹر صاحب بلا شبہ مسلمانوں کی تاریخ فکر میں اپنے استاد ، ڈاکٹر ظفر الحسن کے بعد دوسرے مفکر ہیں جنہوں نے ایک محکم تنقیدی نظام کی نہ صرف یہ کہ طرح ڈالی بلکہ اسے فکریات و علمیات کی پوری روایت پر وارد کر کے اس کی صحت اور جامعیت کے مضبوط عملی شواہد بھی فراہم کیے - سچی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ان کے وضع کردہ منہاج کے سوا کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو انسان کی عقلی و علمی استعداد کے تمام مظاہر کی مستقل نارسائیوں کو بالکل بد یہی انداز میں ثابت کر کے ، دین کو ان کی گرفت سے مطلقاً ماورا رکھنے کی قوت رکھتی ہو - گوکہ اس منہاج میں بھی بعض اضافوں اور ترامیم کی گنجائش پائی جاتی ہے ، لیکن اس کے باوجود نظری اور طبیعی علوم کی معاندانہ یلغار کے سامنے دین کی مدافعت ، اس کے سوا کسی اور انسانی ذریعے سے ممکن نہیں ہے --- کاش دو چار آدمیوں میں بھی یہ صلاحیت ہوتی کہ ڈاکٹر برہان کی پوری بات سمجھ سکتے- خیر ، بات یہ چل رہی تھی کہ اس کتاب میں محمد سہیل عمر صاحب کے پیش نظر چند بنیادی اہمیت کے امور ہیں جنہیں ماہرین اقبالیات نے عموماً ملحوظ نہیں رکھا - فاضل مصنف کا بڑا مقصد یہ ہے کہ تشکیل جدید میں کار فرما منہاج علمی کا تعین ہو جائے ، اس منہاج کے لازمی تقاضے کیا ہیں ؟ اس سوال کا واضح جواب تلاش کیا جائے ، اور اس جواب کی روشنی میں اس کے برتنے کے مضمرات اور اس کے نتائج کی کامیابی؍ نارسائی کا مطالعہ کیا جائے‘‘- ( رک : حرف آغاز ،ص ۱۸) سہیل صاحب کے نزدیک ’ تشکیل ‘ اصلاً تطبیق ہے دین اور فلسفہ و سائنس کے درمیان - اس تطبیق کا ہدف یہ ہے کہ ذہن جدید پر ثابت کر دیا جائے کہ دین اور فلسفہ و سائنس وغیرہ میں کوئی اصولی ٹکرائو نہیں ہے - یہ تصور جن مضمرات کا حامل ہے اور اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں ، وہ ایک خوگر محسوس ذہن کے لیے دین کو کسی قدر قابل فہم تو بنا دیتے ہیں مگر خاصی بدلی ہوئی صورت میں ---- یہ ہے اس کتاب کا خلاصہ ،ہماری گفتگو اسی کے گرد گھوم رہی ہے - کسی دو ٹوک اختلاف یا اتفاق تک پہنچنے سے پہلے ہمیں ذرا رک کر اس موقف پر قدرے تفصیل سے غور کر لینا چاہیے کہ اس میں کہا کیا گیا ہے ؟ اور جو کہا گیا ہے ، وہ ’تشکیل جدید ‘ پر صادق آتا ہے یا نہیں ؟ اصول تطبیق پر کچھ باتیں اوپر ہو چکی ہیں ، مزید گفتگو کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ خود تطبیق اور اس کے حدود و شرائط کیا ہیں ؟ تطبیق کا مطلب ہے دو ایسی چیزوں میں کلیتہً یا جزواً کوئی اصولی اشتراک اور اتفاق دریافت کرنا جو : ۱ - موضوع اور غایت میں باہم متفق ہوں - ۲ - حجیت کے اعتبار سے ایک ہی مرتبے کی ہوں - یعنی دونوں ایک ہی میدان میں اور ایک ہی طرح کے audience کے لیے سند کا درجہ رکھتی ہوں - ۳ - ایک ہی اصل سے صادر ہوں اور اسی پر ان کا قیام ہو - ۴ - تعبیر کی غلطی کی وجہ سے ایک دوسرے سے مختلف نظر آنے لگی ہوں - اگر یہ تعریف اور اس کے تمام اجزا صحیح ہیں تو یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ ’’ تشکیل جدید ‘‘ میں اصول تطبیق کار فرما ہے - ظاہر ہے کہ الوہی امور اور انسانی علم کے درمیان مذکورہ بالا نسبتوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں پائی جاتی - لیکن دوسری طرف خود اقبال ان خطبات کے متعلق جو کچھ کہتے ہیں ، ان سے یہی واضح ہوتا ہے کہ یہ دین اور فلسفہ و سائنس میں تطبیق ہی کی ایک کوشش ہے - گوکہ تطبیق کا نام انہوں نے غالباً کہیں نہیں لیا، مگر ان کا طرز فکر ہمیں اسی فضا میں لے جاتا ہے جو اصول تطبیق کے استعمال سے بنتی ہے اور جہاں اس کے علاوہ کوئی اور اصول پنپ بھی نہیں سکتا - اس مخمصے سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خطبات میں دین اور فلسفہ و سائنس کے تصادم کو رو کنے اور انہیں ایک دوسرے سے قریب لانے کی جو کاوش کی گئی ہے ، اس کا تجزیہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس طرح کی کاوشوں میں بالعموم ’ کچھ دو اور کچھ لو ‘ کا جو ضابطہ فریقین پر نافذ کیا جاتا ہے ، خطبات میں اس کی کارفرمائی کے شواہد ملتے ہیں یا نہیں- گفتگو کی ترتیب قائم کرنے اور اسے ایک باقاعدہ آغاز دینے کے لیے یہ بات دہرا دینے میں شاید کوئی حرج نہ ہو کہ خطبات میں علامہ نے ایک ایسے ماحول میں دینی حقائق کو لائق تسلیم اور قابل فہم بنانے کی ذمہ داری قبول کی ہے جہاں مابعد الطبیعی اور مذہبی امور کی تصدیق یا انکار کے اکثر دلائل اور محرکات وہ نہیں رہے ہیں جن سے دینی فکر آشنا چلی آ رہی تھی - اقبال کے سامنے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جدید فلسفے اور سائنس نے آدمی کی ذہنی اور نفسیاتی ساخت میں ایسی بنیادی تبدیلی پیدا کر دی تھی کہ جس کا پہلا تقاضا ہی یہ تھا کہ تمام مابعد الطبیعی دعاوی کایا تو انکار کر دیا جائے یا ان سے لا تعلقی اختیار کر لی جائے - اس انکار یا بیگانگی کا اظہار کئی طرح سے ہوا ، مثلا ً : ۱ - حسی ادراک سے ماورا کوئی حقیقت موجود نہیں ہے - ۲ - حقیقت موجود تو ہے مگر اس کا علم یعنی حسی ادراک محال ہے - ۳ - حقیقت کا موجود یا غیر موجود ہونا ، انسان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا - اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے ان تمام رویوں کا سامنا کیا اور ان کی اساسیات میں اتر کر وہ unrealized opening تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے حقیقت کے دینی تصور کو ایک ساز گار رخ سے داخل کرنے کی ایسی صورت نکل آئے جو استدلالی سے زیادہ حضوری ہو - اس مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ، جو اقبال نے اختیار کیا ، یہ ہے کہ دینی حقائق کی پیشکش کا ایسا ڈھنگ نکالا جائے جو موجودہ علمی اورنفسیاتی فضا میں کم از کم اسلوب کی سطح پر نامانوس نہ ہو ، اور اس کی استدلالی بناوٹ بھی ایسی ہو کہ اس ذہنی مزاحمت کو ابھرنے کا موقع نہ فراہم کرے جو پہلے ہی بہت طاقتور ہے - یہ طریق کار گو کہ مطلوبہ حد تک کامیاب نہیں رہا ، تاہم اس میں شبہ نہیں کہ اقبال نے اس کے بیشتر تقاضے جس مہارت سے پورے کیے ، اس کی کوئی اور نظیر نہیں ملتی - خاص طور پر اہل فلسفہ و کلام کے بنیادی مباحث کو خطبات میں ایک بالکل نئے تناظر میں دیکھا گیا ہے اور ان کی تصحیح اور تغلیط کا ایک یکسر مختلف اصول وضع کیا گیا ہے - یہ الگ بات ہے کہ یہ اصول پورے کا پورا جدید نظری و طبیعی علوم سے ماخوذ ہے یا انہیں معیار بنا کر تشکیل دیا گیا ہے - اس عمل سے ہمیں اپنی الٰہیاتی روایت پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کا ایک زاویہ تو ضرور ملا ، لیکن اس کے اکثر نتائج ایسے ہیں کہ انہیں قبول کرنے میں کچھ مستقل تحفظات ہیں جن کی نوعیت علمی بھی ہے اور دینی بھی - ہمارا کلامی منہاج اس مفروضے پر قائم ہے کہ عقل محض ، وحی اور اس کے contents کی تصدیق کرنے یا بالفاظ دیگر حقیقت کے دینی بیان کو قطعی استدلال کے ساتھ تسلیم کر کے خود حقیقت تک پہنچنے اور اسے ثابت کرنے کی استعداد رکھتی ہے - یہ مفروضہ ، پہلے قدم پر ہی ، ظاہر ہے کہ وحی کا مطالبہ پورا کرتا ہے نہ علم کا - یعنی اس سے ایمان کے تقاضے کی تعمیل ہوتی ہے نہ ادراک بالحواس کی شرط پوری ہوتی ہے - تاہم یہ بات اتنی بے لچک بھی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر علم کلام پر قطعی حکم لگا دیا جائے - ایک ایسی صورت حال کے اندر جس میں عقل کوحکم مطلق کا درجہ حاصل تھا اور فلسفۂ مابعد الطبیعیات اور اس کی بنائی ہوئی منطق کو انسان کی اس تمنا کی تکمیل کے واسطے کافی مان لیا گیا تھا جو وہ حقیقت کو پوری طرح جاننے کے لیے رکھتا ہے ، کلام کا دینی کردار اور اس کی مدافعانہ کار کردگی ،لائق جرح ہونے کے باوجود ، وہ فوری جواز ضرور رکھتی تھی جسے اب ہم ایک قابل تسلیم عذر کہہ سکتے ہیں - خوش قسمتی سے اقبال کو کانٹ کے بعد کا زمانہ ملا جب عقل کی ثقاہت اور علم کی صحت کے حدود اور معیارات تاریخ فکر میں پہلی مرتبہ پوری معروضیت کے ساتھ متعین ہو چکے تھے - اس لیے انہوں نے اصول دین کی تعبیر و توجیہ میں روایتی کلامی طریق اور خاصکر اس کی جارحانہ خود اکتفائی سے مکمل گریز کرتے ہوئے ، ان کی relevance ثابت کرنے پر زیادہ زور دیا - اس بات کو سہیل عمر نے خاصی اہمیت دی ہے ، اور اپنے قاری کو بار بار اس کی طرف متوجہ کیا ہے - تشکیل کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ عہد جدید کے لیے اس کے معاصر اسلوب میں اسلام کی طرف سے حقائق دین کی قریب الفہم انداز میں تعبیر نو کی جائے اور ایک نئے علم کلام کی بنا رکھتے ہوئے یہ ثابت کیا جائے کہ علوم جدیدہ ، بالخصوص سائنس اور فلسفے کے حاصلات ، اصول دین سے متصادم نہیں ہیں ‘‘- (حرف آغاز ص ۸) ’’ علامہ اپنے مخاطب کو اسی کے مسلمات کے حوالے سے اور اسی کے تسلیم کردہ مقولات سے مشابہت کی طرف توجہ دلا کر اسے حقائق دینی میں سے ایک بنیادی چیز یعنی وحی خداوندی کا قائل کر رہے ہیں - تقریب فہم کے لیے وہ گویا مخالف کے میدان فکر میں خود چل کر جاتے ہیں اور اسی کے اصولوں کے مطابق بیان کرتے ہیں کہ دیکھو!-----‘‘ (مقدمہ: ص۲۸) مشکل یہ ہے کہ سہیل عمر کی اس بات سے احترام کے تقاضے تو پورے ہو جاتے ہیں، جو اقبال ایسے بڑے لوگوں کے معاملے میں ضروری بھی ہے، لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ اس طریق مصلحت کا بنیادی مقصد یعنی اثبات و تفہیم دین ، کہاں تک پورا ہوا ؟ بے رنگی کا مشاہدہ کر وانے کے لیے اسے کوئی خاص رنگ دے دینے سے مشاہدہ تو یقینا ہو جاتا ہے مگر کیا اسے بے رنگی کا مشاہدہ کہا جا سکتا ہے ؟ ایسا نہیں ہے کہ اس کتاب میں ان سوالات کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ، تاہم یہ احساس ہر مرحلے پر برقرار رہتا ہے کہ سہیل عمر درست نتائج تک پہنچنے کے باوجود ’ خطبات ‘ پر ان کا اطلاق کرتے ہوئے بیچ ہی میں رک جاتے ہیں اور گفتگو کو اس کے منطقی انجام تک نہیں لے جاتے - یہ جھجک اچھی چیز ہے - سچائی کو عزیز رکھنے کا یہ مطلب بہرحال نہیں ہے کہ افلاطون کی محبت کو دل سے نکال پھینکا جائے - منہاج تشکیل سے متفق نہ ہونے کے باوجود انہوں نے معروف معنی میں کوئی تنقیدی رویہ اختیار کرنے سے گریز اس لیے نہیں کیا کہ ڈاکٹر عبدالمغنی اور پروفیسر ایوب صابر کی خفگی کا ڈر تھا ، بلکہ اس کے پیچھے وہ تہذیب کار فرما ہے جس میں سانس لینے والا بزرگوں سے اختلاف کرتے ہوئے بھی دست بستہ رہتا ہے- سہیل عمر کو بعض اہل علم کی طرح تشکیل جدید کے تصور سے اتفاق کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ علم بالوحی کے Contents منتقلی کے کسی ایسے عمل کے متحمل نہیں ہو سکتے جس کے نتیجے میں وہ محض کسی مفہومی ترکیب میں ڈھل کر رہ جائیں - ان کی اصلی ساخت ذہن کی تلازماتی فعلیت اور حرکت و حصول کے فکری ضابطے سے مناسبت نہیں رکھتی - اصولی رنگ میں کہا جائے تو حقائق کے باب میں مسلمانوں کی بنیادی علمی روایت ، جس کی نمائندگی فلاسفہ و متکلمین کو نہیں بلکہ صوفیہ کو حاصل ہے ، عالم مرکز نہیں ، معلوم مرکز ہے - علم الحقائق ، ان حضرات کے نزدیک ، انسان کی علمی تگ و دو کا ثمرہ نہیں ہے بلکہ تزکیہ ٔنفس یعنی اس کے اخلاقی وجود کے کمال اور تعلق بالحق میں ترقی سے میسر آتا ہے - اس کی قبولیت کے لیے یقینا ایک استعداد علم درکار ہے مگر وہ استعداد فطری ہے نہ کہ ذہنی- یہ اس صلاحیت سے منفرد اور ممتاز ہے جو ادراک کی حسی عقلی تالیف تک محدود ہے، اور جس کی کارفرمائی انسان کو عالم کی حیثیت سے فاعلی درجے پر رکھتی ہے اور شے کو معلوم کی حیثیت سے انفعالی درجے پر - یہ فعل و انفعال اور اس کے نتائج اگر ماہیت علم کو حتما ً متعین کرنے کے لیے کافی تصور کر لیے جائیں تو ایمان ایک اخلاقی تقاضے کے طور پر بھی قابل تسلیم نہیں رہتا - اور چونکہ عالم مرکز دائرئہ علم میں معلوم مطلقاً اعتباری ہو گا لہٰذا اس دشواری سے نکلنے کا یہی راستہ تھا کہ حقیقت کو ممتنع العلم قرار دے دیا جائے- اس طرح علم کا ذاتی اقتضا یعنی احاطۂ معلوم خواہ مطلق ہو یا من وجہ ، اس حسی واقعیت تک پہنچ کر نظر انداز ہو جاتا ہے جس میں شے کا قیام اس کی مسلمہ حقیقت کے بجائے اس صورت پر ہے جسے عقل مرتب کرتی ہے اور اس پر نافذ کر دیتی ہے - مطلب یہ کہ حسی علم کا معلوم بھی ایک مفروضے ہی کی بنیاد پر حقیقی ہے - اس مفروضے کو علم کے دیگر مدارج اور معلوم کے دوسرے مراتب پر حجت بنانا ، سمجھ میں نہیں آتا - اس سے انکار نہیں کہ حواس ذریعہ نہ بنیں تو منہاج تنقید کی اصطلاح میں اشتراک فی العلم میسر نہیں آ سکتا جو معلوم کے حقیقی یعنی موجود فی الخارج ہونے کی اٹل شرط ہے - تاہم حقیقت شے کو اس کے اثبات کے باوجود منہا کر کے ، شے کی متفقہ تصدیق پذیری، اشتراک فی الحکم تو ہو سکتی ہے ، اشتراک فی العلم نہیں-اور ایسا Object Orientedاشتراک و اتفاق یا تو مفروضے پر ہو سکتا ہے یا عقیدے پر - تصدیق میں عموم اور بداہت ازروئے علم نا ممکن ہے ، اس کا مدار حکم اور اذعان پر ہی ہو گا - یہ ہر طرح سے قابل تسلیم ہے کہ انسان کی استعداد علم اپنی فاعلی جہت میں حواس ظاہری پر انحصار کر نے والی عقل کا محتوا ہے اور بس- اس پہلو سے یہ بات بالکل درست ہے کہ محسوس ہی معلوم ہے ، اور مابعد الطبیعیات دراصل عقل کی دیوانگی ہے جسے علم نہیں کہا جا سکتا - اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ علم دینی حقائق سے کوئی نسبت پیدا کر سکتا ہے تو وہ مغائرت بلکہ مطلق مغائرت کی نسبت ہے - لیکن اگر اس جہت کو انسان کی کل استعداد سمجھ کر ایک پورا نظریۂ علم گھڑ نے کی کوشش کی جائے گی تو چند لاینحل مسائل سر اٹھا سکتے ہیں : مثلاً شعور کے اولیات اور تمام اخلاقی و جمالیاتی تصورات وغیرہ انسان کے اندر اپنی موجودگی کے اتنے ہی یقینی آثار رکھتے ہیں جتنے کہ تجربی امور - عقل انہیں بھی اسی طرح formalize کرتی ہے جس طرح محسوسات کو - ان کی ساخت بھی وہی ہے جو دیگر یقینی معلومات کی ہے ---- تو کیا ان کی معلومیت ، نیز اس میں پوشیدہ علم کی ایک اور سطح کو محض ایک خاص نوع کا اسلوب تصدیق ، جس سے ہم مانوس ہیں، فراہم نہ ہونے کی وجہ سے جھٹلا دینا چاہیے ؟ اور بالکل صاف الفاظ میں پوچھا جائے تو کیا ایمان ، تمام حقائق و احکام سمیت ، چند متعین علمی تشکیلات کا مبنیٰ نہیں ہے؟کیا ایمانیات بھی اسی تیقن کے حامل اور متقاضی نہیں ہیں جو علم کا مقصود اور منتہا ہے ؟ اور کیا امور غیبی ایک رخ سے معلومات بنے بغیر واجب الاثبات ہو سکتے ہیں ؟ --- اس طرح کے تمام سوالات کے جواب میںکہا جا سکتا ہے کہ ایمان بالغیب میں جو یقین کار فرما ہے ، وہ علمی نہیں ، اخلاقی ہے - یہ جواب غلط نہیں ہے مگر ادھورا ضرور ہے - کسی غیر محسوس امر کا اثبات اور ایقان ، اخلاقی ہو ، مذہبی ہو یا کچھ اور ، کسی نہ کسی علمی تعین کا حامل ہوئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے - یہی علم کی انفعالی جہت ہے جس کا اصول حضور ہے نہ کہ حصول ، جس کا مرکز معلوم ہے نہ کہ عالم ، اور جس کا وظیفہ تحقق ہے نہ کہ اعتبار - مسلمانوں کی روایتی مذہبی فکر جو خواہ معقولات یعنی کلام میں ظاہر ہوئی ہو یا عرفانیات یعنی تصوف کے علمی منہاج میں ، اسی انفعالی جہت سے متعلق ہے - خصوصاً تصوف تو اول سے آخر تک اسی پر کھڑا ہے - بعض متکلمین و متصوفین کی شدید بے احتیاطیوں کی مدافعت کا ارادہ کیے بغیر یہ بات خاصے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اہل کلام نے عقل کو اور اصحاب تصوف نے ارادہ و طبیعت کو ان کے تمام مطالبات کی تکمیل کی ضمانت کے ساتھ وحی کے تابع کرنے کی جو کوششیں کیں ، وہ کچھ ناگزیر ناہمواریوں کے باوجود حیرت ناک حد تک کامیاب رہیں - اقبال نے بھی یہی مقصد پیش نظر رکھتے ہوئے بعض عصری مصلحتوںسے مذہبی فکر کی تشکیل نو کا سفر بالکل مخالف سمت سے شروع کیا - وہ مطالعۂ حقیقت میں بھی اپنے انسان مرکزی کے تصور بلکہ عقیدے سے دست بردار ہونے پر راضی نہ ہوئے ، اور اس معاملے میں انہوں نے بعض بڑے خطرات میں گھر جانا قبول کر لیا مگر اپنا موقف چھوڑنا تو کجا ، یوں لگتا ہے کہ اس پر نظر ثانی کی ضرورت بھی محسوس نہ کی - ان کے تصور انسان کی نوعیت ایسی تھی کہ روایتی مذہبی فکر اسے ادنٰی درجے پر بھی قبول کرنے سے قاصر تھی - اس کی تائید اگر کہیں سے فراہم ہو سکتی تھی تو جدید مغربی فلسفے اور نفسیات وغیرہ سے - سو وہ اس طرف چلے گئے اور ان علوم کو ، اور ان سے پیدا ہونے والی ذہنیت کو حوالہ اور معیار بنا کر فکر اسلامی کی اس ٹیڑھ کو درست کرنے کا بیڑا اٹھایا جس کی وجہ سے اس کا رخ انسان یا اقبال کے مطلوبہ انسان کی طرف نہیں رہا تھا - کانٹ کی وجہ سے وہ انسان کی فکری و علمی استعداد کے غیر محدود مظاہر تو نہ دریافت کر سکے، تاہم آئن شٹائن اور ولیم جیمز کی مدد سے کچھ نہیں تو علم حقیقت کے چند ایسے امکانات کی نشان دہی بہر حال کردی جو صورتاً طبیعی اور نفسیاتی تھے اور معنی کے اعتبار سے مابعد الطبیعی اور روحانی - گو کہ یہ اجتماع حیران کن ہے ، لیکن یہاں ان کا شاعر ہونا کام آ گیا - یہ بات ایک اور تناظر میں اس مضمون کی تمہید میں بھی کہی جا چکی ہے - مزید توضیح درکار ہو تو وہاں دیکھ لی جائے - انسان کی علمی قلمرو میں بوجوہ توسیع نہ ہو سکنے کے باوجود علامہ عظمت آدم کا ایک مصداق اور بھی رکھتے تھے : وجود - انسان کے وجودی حدود میں ایک مابعد الطبیعی بلکہ تقریباً الوہی پھیلائو اور زور پیدا کر کے انہوں نے ہیگل وغیرہ کی طرف کانٹ کی کھڑی کی ہوئی رکاوٹوں سے بچ نکلنے کی ایک راہ تو پالی مگر اس پر قدم رکھنے سے پہلے ضروری تھا کہ وجود کے مقابلے میں علم کی پسماندگی کا ازالہ کیا جائے اور ان کے درمیان کوئی ایسا نقطہ ٔ توازن ڈھونڈا جائے جس کی بنیاد پر دونوں ایک دوسرے کی تصدیق کر سکیں- اس کے لیے انہوں نے علم کی Kantian تعریف اور اس سے بننے والے حدود میں رہتے ہوئے ، عقل اور حس کا ایک نیا پیوند دریافت کیا اور شعور کی مجموعی بناوٹ میں کوئی بنیادی ترمیم کیے بغیر ، فکر کو وجدان اور جذبے کو عشق بنا کر ، حقیقت کی طرف پیش رفت کا ایک ایسا اسلوب نکالا جس میں ذہن کا عمل دخل کم سے کم تھا - یہ گویا علم بالحواس کا نعم البدل تھا جو حقیقت بطور وجود خارجی کو حس کی ایک نئی سطح پر محسوس اور ادراک کے ایک نئے سانچے کے ساتھ معلوم کرنے کی اہلیت رکھتا تھا - یہ مقصود ، اور اس کے حصول کی یہ اہلیت ، خطبات اور شاعری ، دونوں میں مشترک ہے - خطبات میں ان کا اظہار بعض بڑے موانع کی وجہ سے ،اس قدر کامیابی سے نہیں ہو سکا جتنا کہ شاعری میںنظر آتا ہے - فی الوقت اس موازنے میں پڑنا مناسب نہیں ، ورنہ اقبال کے منہاج کو سمجھنے کے لیے خطبات اور شاعری کا تقابلی مطالعہ ، علمی سطح پر بھی ، کچھ اہم نتائج تک پہنچا سکتا ہے - دوسری طرف دیکھیں تو وجدان اور عشق کے معاملے میں تصوف کی ایک پوری روایت موجود ہے جو مطلوبہ حد سے بھی کہیں بڑھ کر علامہ کی رہنمائی کر سکتی تھی ، لیکن ایسا نہ ہو سکنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ دینی حقائق کو قابل قبول بنانا چاہتے ہیں ، اور وہ بھی اس ذہن کے لیے جوان سے مناسبت کا بعید ترین امکان بھی نہیں رکھتا- اور دوسرا سبب وہی انسان مرکزی ہے جو تمام جدید مفکرین کی طرح اقبال کی فکر ہی نہیں ، طرز احساس کا بھی مستقل محور اور مبدء و منتہا ہے - خطبات میں مذہب کی علمی صداقت اور اخلاقی ضرورت کو جس Episteme میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اقبال کے زمانے میں اس کے خدو خال آج کی طرح واضح نہیں تھے - مثال کے طور پر اس وقت یہ کہنا مشکل تھا کہ فلسفے اور سائنس سے تشکیل پانے والی تجربیت ، سر سے پائوں تک ، ایمان بالغیب کی ضد ہے - اس سے سازگاری کی ہر کاوش ، جیسا کہ سہیل عمر نے بھی لکھا ہے ، دین کو دین نہیں رہنے دے گی - ’’ (اگر) اس روح اختباریت کو زائد از جواز اہمیت دی جائے کہ حسی تجربے سے باہر اور کچھ ہے ہی نہیں ، تو یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ آسانی سے احتیاج وحی اور ہدایت نبوی سے استغنا کا دعویٰ سامنے آجائے ، اس لیے کہ احتیاج وحی کا اثبات ہی تب ہوتا ہے جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ انسان اپنی خلقی فطرت کے اعتبار ہی سے حقیقت متعالیہ کے صحیح تصور کو گرفت میں لینے سے قاصر ہے --‘‘ (ص ۶۵) اقبال کا بھی یہی موقف ہے جو اس اقتباس میں بیان ہوا ہے - ان کی نظر میں بھی مذہب یا وحی انسان کے سب سے گہرے ، بنیادی اور فطری مطالبات کا حتمی جواب ہے ، لیکن یہ صحیح تصور بھی جب ذہن جدید کے لیے قابل قبول بننے کے عمل سے گزارا جاتا ہے تو خود اتنا بدل جاتا ہے کہ اس کی قبولیت دینی لحاظ سے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے - جس دلیل سے اس تصور کا صحیح ہونا ثابت ہوتا تھا ، اب وہی اس کی تردید کا سبب بن جاتی ہے - یہ ایسی مجبوری ہے جس سے اس طریق تفہیم کا کوئی نمائندہ نکل نہیں سکتا ؛حتیٰ کہ اقبال بھی - تاہم شاعری کی صورت میں انہیں ایک قوت میسر تھی جس کی بدولت یہ مجبوری ان پر غالب نہ آ سکی اور وہ سر سید کے دبستان فکر میں شامل ہونے سے محفوظ رہے - سہیل عمر موضوع کی پابندی کی وجہ سے تفصیل میں تو نہیں گئے ، تاہم انہوں نے اس طرف کچھ بلیغ اشارے ضرور کیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں یا کم از کم اسے قابل غور یقینا سمجھتے ہیں کہ اقبال کا مقصد خطبات میں نہیں ، شاعری میں پورا ہوتا ہے، جیسا کہ ’ حرف آغاز ‘ ہی میں لکھتے ہیں : ’’ اسی بات پر ایک اور پہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے - علامہ کا فکری ارتقا یا مختلف مسائل کے مقابل ان کا موقف کہاں ظاہر ہوا ہے ، شاعری میں یا خطبات میں؟ بالفاظ دیگر ان کی شخصیت اور فکر کا ارتقایاب میڈیم کون سا ہے ؟ کیا وہی زیادہ قابل اعتبار نہ ہوگا ؟ ‘‘ ’’ علامہ کی نثر اور شاعری کو صرف تاریخی ترتیب سے بھی دیکھیے تو یوں لگتا ہے جیسے ان میں باہم سوال و جواب کے ادوار کا تعلق ہے --- ‘‘ (ص۱۴-۱۵) شاعری کے حوالے سے ہونے والی یہ ضمنی گفتگو ہمیں اقبال کے اصل کارنامے سے روشناس کروا سکتی ہے ، اور وہ یہ کہ دنیائے جدید کو مذہب بطور علم سے کوئی سروکار نہیں ، اسے اگر کوئی چیز متاثر کر سکتی ہے تو وہ مذہبی روح سے پھوٹنے والا طرز احساس اور تخیل ہے - اس دعوے کے دونوں اجزا کی تصدیق اقبال ہی سے ہوتی ہے - پہلے جزو پر ان کے خطبات شاہد ہیں ، اور دوسرے پر شاعری - اوپر کے پیرے میں ہم نے اپنی دانست میں یہ کہا ہے کہ اقبال کے خطبات ہوں یا ان کی ہم موضوع شاعری ، مقصود دونوں کا ایک ہے : جدید دنیا میں اظہار اسلام - فرق طریق کار میں ہے - ’خطبات‘ کا مخاطب وہ تعلیم یافتہ مسلمان ہے جو جدید علوم و نظریات سے متاثر ہے ، اور ان سے دست بردار ہوئے بغیر اسلام کو ایک فلسفے یا نظریے کی طرح سمجھنا چاہتا ہے - ان لوگوں کے سامنے یا تو دفاعی انداز اختیار کیا جا سکتا تھا یا تطبیقی - سو علامہ کو ایسا ہی کرنا پڑا - جبکہ شاعری میں ، جہاں جہاں یہ مقصود پیش نظر ہے ، اقبال کا روئے تخاطب عام ہے - یہاں ان کے سامنے پوری ملت اسلامیہ ہے جس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حقیقی اور مثالی مسلمان کیسے بنا جائے ، اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کس طرح گرایا جائے - اس مسئلے کا تعلق علم کی درستی سے زیادہ حال کی اصلاح سے ہے ، لہٰذا اس سے عہدہ برآ ہونے کا جو انداز اپنایا گیا وہ حکیمانہ نہیں ، ’ کلیمانہ ‘ ہے - آج اس بات کو شاید کوئی ثبوت بھی درکار نہیں کہ اقبال کا یہ مقصود،ا ن کی شاعری ہی سے پورا ہوا اور ہو رہا ہے ، خطبات کا اس معاملے میں اتنا مثبت اور مؤثر کردار نہیں رہا ،ا ور نہ ہو سکتا ہے - سہیل عمر نے علامہ کی ضروری مگر متوازن مداحی کے ساتھ ساتھ ’ خطبات ‘ میں صراحت کے ساتھ مندرج چند ایسے خیالات و تصورات کی بھی نہایت دیانت ، مہارت اور ادب کے ساتھ نشان دہی کی ہے ، جو جدید آدمی کے تصور دین پر تو شاید پورے اترتے ہوں مگر نفس دین سے مطابقت نہیں رکھتے-ان کی تفصیل اور ان سے پیدا ہونے والے خطرات کا بیان براہ راست اس کتاب ہی میں دیکھنا چاہیے - {} ’’ خطبات اقبال : نئے تناظر میں ‘‘ کا یہ جائزہ کسی اعتبار سے مکمل نہیں ہے - کئی ضروری چیزیں چھوڑ دی گئی ہیں یا چھوٹ گئی ہیں - تاہم اتنا ضرور ہے کہ مطالعۂ خطبات کا جو نیا تناظر اس کتاب میںبنایا گیا ہے ، اس کا کسی قدر تعارف کروا دیا گیا ہے -اور یہی پیش نظر تھا - البتہ اس کتاب کے بارے میں اپنے تنقیدی تاثر کا اظہار بھی مناسب معلوم ہوتا ہے - طوالت سے بچنے کے لیے بعض ضروری نکات نمبروار عرض ہیں : ۱ - اس کتاب کے بارے میں خود مصنف کا پیدا کردہ یہ تاثر پوری طرح درست نہیں ہے کہ اس میں خطبات کا مطالعہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے منہاج پر کیا گیا ہے - اس میں دو اصول تنقید اختیار کیے گئے ہیں - ایک ڈاکٹر برہان کا ، جس کا دعویٰ ہے کہ علم صرف علم بالحواس ہے ، مابعدالطبیعیات کوئی علم نہیں ہے ، اور دوسرا دبستان روایت کا ، جس کا دعویٰ یہ ہے کہ حقیقی علم مابعد الطبیعیات ہی ہے- ۱ :۱- مذہب اور فلسفہ و سائنس میں تطبیق ، اس کتاب کی رو سے ، خطبات کا مقصود ہے- اور اس مقصود کو حاصل کرنے کے لیے جس استدلال پر تکیہ کیا گیا ہے، اس کی اصل تجربیت ہے - ۲ :۱ - تطبیق کو ڈاکٹر برہان سے اور تجربیت کو شوآن کے ایک مقلد حسین نصر سے رد کروانے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ان دو متضاد نقطہ ہائے نظر سے ایک ہی معاملے میں استفادے کی وجہ بتائی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا - ظاہر ہے کہ ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا - ۳ :۱- ڈاکٹر برہان کا منہاج تنقید اور نظریۂ علم کانٹ سے ماخوذ ہے - کانٹ کے سلسلے میں سہیل عمر کا رویہ ناہموار ہے - ایک طرف تو خطبات کے بارے میں ان کا پورا علمی موقف حرف بحرف اسی کے اصول تنقید پر استوار ہے ، لیکن دوسری طرف ایک جگہ نجانے کس ضرورت سے یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ کانٹ کے نظریۂ علم کی تردید میں شوآن کی ایک کتاب Logic and Transcendence کافی ہے- اس بات سے ایک تو انہوں نے خود اپنی بنیاد کو کمزور کیا ، اور دوسرے ان لوگوں کو بھی حیران کر دیا جو کانٹ اور شوآن دونوں سے واقف ہیں - ۲ - تشکیل جدید کے ہر خطبے کا جو تنقیدی تجزیہ کیا گیا ہے ، مذکورہ بالا دولختی کے باوجود ، خطبات پر لکھی جانے والی کوئی کتاب اس کے نزدیک بھی نہیں پہنچتی- مطالعۂ خطبات کی یہ سطح جس سے اقبالیات کا پورا ادب خالی تھا ، اگر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کچھ حضرات کی رہنمائی نہ کرتے تو اب بھی سامنے نہ آتی - ۱ : ۲- جتنے اشکالات وارد کیے گئے ہیں ، وہ سب کے سب اتنے اہم ہیں کہ ان پر ہونے والی ہر گفتگو اقبال کی اس آرزو کی تکمیل کا سامان بن سکتی ہے جو تشکیل کے دیباچے کے اختتام پر بیان ہوئی ہے - ۳ - ’ حرف آغاز‘ ، ’ مقدمہ‘ اور ’ مدعا مختلف ہے ‘ - یہ وہ حصے ہیں جو بلحاظ معیار بقیہ کتاب سے خاصے فروتر ہیں - ۱ : ۳- ’ سزا یا نا سزا ‘ بالکل غیر متعلق ہے - اسے شامل کرنے کی مصلحت سمجھ میں نہیں آئی - ۴ - ’ اختتامیہ ‘ بہت مضبوط ہے اور پوری کتاب کا احاطہ کرتا ہے - اسے مقدمہ بناناچاہیے تھا - ۵ - کئی مقامات پر وفور معلومات اور جوش گفتگو سے بعض ایسی باتیں بھی سرزد ہو گئی ہیں ، جو درست نہیں : ۱ :۵ - ’’ خطبات اقبال اصول دین کی تشکیل نو سے عبارت ہیں یا انہیں عقل جزوی سے پھوٹنے والی اس ثانوی فکری سرگرمی کے ذیل میں رکھا جانا چاہیے جو مرور زمان اور انسان کے متغیر ذہنی تقاضوں کے جواب میں ابھرتی ہے ؟ ‘‘ (ص ۱۷) اس جملے کا ایک حصہ خطرناک حد تک غلط ہے اور باقی میں گھمائو پھرائو بہت ہے : ۱ :۱:۵- ’اصول دین کی تشکیل نو ‘ ایک بے معنی اور خطرناک فقرہ ہے - بے معنی اس لیے کہ خود ’اصول‘ میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ انہیں Reconstruct نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ یہ الوہی ہیں،مستقل ہیں ،کامل ہیں - اور خطرناک اس لیے کہ ایک عام قاری جو ان باریکیوں کو نہیں جانتا ، خطبات کے بارے میں پہلے ہی قدم پر ایک غلط تصور میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ ان میں اقبال نے اصول دین کی خرابیاں دور کر کے انہیں ایک بہتر شکل عطا فرمائی ہے - ۲:۱:۵ -’ عقل جزوی ‘ --- اول تو یہ کوئی علمی اصطلاح نہیں ہے ، اور اگر صوفیہ کے تصور عقل کو سند بنا کر اس کو استعمال کر بھی لیا جائے تو بھی کوئی فائدہ نہیں - ان حضرات کے ہاں عقل جزوی ، انسانی عقل کو کہتے ہیں اور اس کے مقابل ’ عقل کلی ‘ ہے جو ایک ربانی اصول ہے جسے کبھی صرف ’ عقل ‘ بھی کہہ دیتے ہیں جو انسان کی نسبت سے قابلیت وحی کے معنی رکھتی ہے- ۳:۱:۵ -’ ثانوی فکری سرگرمی ‘ --- یعنی ’عقل جزوی ‘‘ کا فعل - جس طرح ’عقل‘ میں ’جزوی‘ کی قید زائد تھی ، اسی طرح یہاں ’ثانوی ‘ زائد ہے - ’ عقل جزوی سے پھوٹنے والی ثانوی فکری سرگرمی ، کا مطلب گویا یہ ہوا کہ عقل کلی سے بنیادی فکری سرگرمی پھوٹتی ہے - اس کی لایعنیت بدیہی ہے - ۲:۵ - ’’ ان کا [یعنی اقبال کا] کثیر الجہات شعری اور نثری کارنامہ اپنے حدود وسعت کے اعتبار سے تنگنائے کلام کا اسیر نہیں کیا جا سکتا --- ‘‘ (ص ۲۲) - یہ دعویٰ ڈاکٹر رفیع الدین یا سعید احمد اکبرآبادی کے قلم سے نکلتا تو ایک بات بھی تھی- سہیل عمر کے بارے میں یہ گمان رکھنا مشکل ہے کہ وہ علم کلام سے اس درجہ نا واقف ہیں ! ۳:۵ - ’’ مذہب اور علم، دونوں انسانی اقدار ہیں ، اور ان میں اگر تطبیق نہ ہو تو دونوں کو پہلو بہ پہلو قبول کرنا ممکن نہ ہو گا ‘‘ (ص ۴۰) - اس قول پر کئی اعتراض وارد ہوتے ہیں : ۱:۳:۵-یہ استدلال اقبال کی طرف سے کیا جا رہا ہے - وہ اس کو own نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح مذہب اور علم ہم ہدفی کی حد بھی عبور کر کے ہم نوع ہو جاتے ہیں اور ان کا ضروری امتیاز کسی سطح پر باقی نہیں رہتا - ۲:۳:۵-مذہب کو انسانی قدر کہنا بے معنی ہے ، خصوصاً اس سیاق و سباق میں ، جس میں بات چل رہی ہے - ۳:۳:۵- مذہب اور علم میں جو امتیاز ہے ، وہی ان کے قبول کرنے میں بھی ہے - یہاں یہ امتیاز بھی نظر انداز ہو گیا - ۴:۵- [علامہ کی اختیار کردہ] ’’ اس راہ عمل کا مضمر مقدمہ یہ تھا کہ مذہب اور علم جدید (فلسفیانہ اور سائنسی علم ) کا مسئلہ ، مسئلے کا حل اور ہدف و مقصد ایک ہی ہیں ‘‘ (ص۴۲) - اقبال کی کائنات فکر کا ایک ذرہ بھی اس ’ مضمر مقدمے ‘ کو قبول نہیں کر سکتا - اور خود ڈاکٹر ظفر الحسن بھی یہ نہیں کہہ رہے جن سے یہ بات اخذ کی گئی ہے - ۵:۵- ’’ تشکیل جدید کے اس پہلے خطبے کا موضوع ہے ، فلسفے اور مذہب کی وحدت : وحدت باعتبار مقصود اصلی - علامہ کے کہنے کے مطابق فلسفہ اور مذہب دونوں کا مقصود علم ہے ، اور اس دعوے کی دلیل علامہ نے یہ بیان کی ہے کہ دونوں کا مسئلہ مشترک ہے - یہ دلیل مزید یہ بھی کہتی ہے کہ نہ صرف مسئلہ مشترک ہے بلکہ اس کے حل کا منہاج بھی مشترک ہے ، اور وہ ہے وجدان ‘‘ (ص ۵۵) - ان میں ایک کے سوا کوئی بات ٹھیک نہیں - اور وہ ایک بھی جزواً درست ہے اور اپنی موجودہ شکل میں، اقبال کے سلسلے میں، وہ بھی ناقابل تسلیم ہے : ۱:۵:۵ مذہب اور فلسفے میں انسان و کائنات کے بارے میں اگر کچھ سوالات مشترک ہیں تو بھی اس اشتراک کو ان کی وحدت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا - وحدت بہت بھاری لفظ ہے ، اور اس سے نکلنے والا ہلکے سے ہلکا مفہوم بھی اسے یہاں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا - مختصر یہ کہ دو چیزیں اگر کسی امر یا اصول میں مشترک ہوں تو یہ ان کی وحدت کا جواز نہیں ہے - وحدت اپنے ہر مرتبے میں عینیت ذاتی ہے جس کے مظاہر باہم ممتاز ہو سکتے ہیں ، لیکن ظاہر ہے کہ یہ امتیاز محض اعتباری ہو گا - مذہب اور فلسفے کی وحدت کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں- یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا دونوں کی اصل ایک ہے جو ان سے ماورا ہے - رہی یہ بات کہ یہ وحدت ’ باعتبار مقصود اصلی ‘ہے ، تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا - مقصود اصلی سے شے کی ماہیت متعین ہوتی ہے لہٰذا یہ بھی ارادی نہیں ہے بلکہ ذاتیات میں سے ہے - اگر ’مقصود اصلی ‘ سے مراد کوئی خاص ہدف ہے جو مذہب اور فلسفے میں مشترک ہے ، تو اس سے بھی وحدت برآمد نہیں ہوتی کیونکہ ایسا اشتراک تو نقیضین میں بھی پایا جاتا ہے - ۲:۵:۵ مذہب اور فلسفے کا ’ مقصود اصلی ‘ (خواہ کچھ بھی ہو ) اگر ایک ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ مذہب ناقص ہے اور اس نقص کا کوئی علاج نہیں - ۳:۵:۵ ’ فلسفہ اور مذہب ، دونوں کا مقصود علم ہے ‘ - علامہ نے یہ بات اشارتاً بھی نہیں کہی - خطبات میں غلطیاں تو کئی ہو سکتی ہیں ، مگر ان کے بھی کچھ نہ کچھ معنی ضرور ہوں گے- وہاں سے ایسی ایک چیز بھی نہیں نکالی جا سکتی جو سرے سے مہمل اور لایعنی ہو - یقینا کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے جس کا سراغ ، ممکن ہے ،آگے چل کر لگ جائے - ۴:۵:۵ ’اس دعوے کی دلیل علامہ نے یہ بیان کی ہے کہ دونوں کا مسئلہ مشترک ہے‘-- علامہ نے ایسا کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا تو اس پر دلیل کیسے قائم کر دی؟ لگتا ہے یہ نتیجہ خطبات کے پہلے خطبے کی اس عبارت سے نکالا گیا ہے جس میں اقبال کہتے ہیں کہ انسانی دنیا کا character، ترکیب ،اس کی بنیادی ساخت میں کسی غیر متغیر عنصر کی موجودگی،اس دنیا سے ہمارا تعلق،یہاں ہمارا مقام، اور اس مقام کی مناسبت سے ہمارا مطلوبہ طرز عمل --- یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جو سوالات کی شکل میں مذہب، فلسفے اور اعلیٰ شاعری میں مشترک ہیں- سہیل عمر نے اسی عبارت کا حوالہ دیا ہے(ص ۵۶)- اب دیکھیے کہ کیا مذہب انہی سوالوں تک محدود ہے؟ کیا ان کا تعلق پورے مذہب سے ہے یا اس کے ایک پہلو سے جو کائنات اور انسان کے بارے میں اس کے بعض تصورات پر مشتمل ہے؟ اس کا جواب واضح ہے- اندریں صورت اقبال سے یہ دعویٰ کس طرح منسوب کیا جا سکتا ہے کہ مذہب یعنی مذہب من حیث الکل کا مقصود اصلی علم ہے! فلسفے کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ یہ سوالات علم کو اس کا مقصود بناتے ہیں، لیکن مذہب انسانی استعداد کا مظہر نہیں ہے ، وہ اس پوری صورت حال پر قطعی حکم لگاتا ہے جو علم کی قبیل سے نہیں ہے- تاہم سہیل عمر کی اتنی بات صحیح ہے کہ تشکیل کا پہلا خطبہ یعنی ’’Knowledge and Religious Experience‘‘ اس منہاج تطبیق کا ایک ٹھوس نمونہ ہے جو ہمیں اس جگہ تک لے جاتا ہے جہاں مذہب اور فلسفے کا امتیاز برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور مذہبی حقائق مقولات علمی بن جاتے ہیں - یہ اشکال ایک طرح سے خطبات کی روح پر وارد ہوتا ہے ،ا ور ہمارے خیال میں اسے حل کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی - ۵:۵:۵ ’’ نہ صرف [ مذہب اور فلسفے کا ] مسئلہ مشترک ہے بلکہ اس کے حل کا منہاج بھی مشترک ہے ،ا ور وہ ہے وجدان ‘‘- کم از کم اقبال سے اس خلط مبحث کا تصور نہیں کیا جا سکتا - اس سے زیادہ اور کیا کہا جائے ! اگر اس بات کو یوں کہاجاتا تو شاید کوئی معنی نکل آتے کہ ’ مذہب بھی حقائق کا علم فراہم کرتا ہے ‘ اور وہ علم وجدانی ہونے کی وجہ سے باعتبار نوعیت علم بالحواس سے مختلف نہیں ہے -کیونکہ وجدان اور علم بالحواس کی تشکیل کرنے والی فکر میں اصولاً مغائرت نہیں ہے -نیز یہ بات خطبات میں اساسی طور پر کارفرما اصول تطبیق سے مطابقت بھی رکھتی ہے ، اور سہیل عمر جوکہنا چاہ رہے ہیں ، اس کو صحت کے ساتھ بیان بھی کر دیتی ہے - ۶:۵:۵-’’ حقیقت حقہ [ ذات باری ] وہ ہے جو اپنے تعینات اور شئون سے الگ اپنا وجود مستقل نہ رکھتی ہو ، لہٰذا بطور سریانی حقیقت کے تو اس کا وجود ہے مگر بطور تنز یہی حقیقت کے موجود نہیں ہے، --- یہ تعریف وہ ہے جسے علامہ قبول کرتے ہیں ، تاہم اسے Pantheism کا عنوان دینے سے گریز کرتے ہیں (ص ۱۱۹) - ’’اس عبارت میں دو طرح کی غلطیاں ہیں - ایک تو روایتی نقطہ ٔنظر سے الفاظ کا غیر محتاط استعمال ، اور دوسرے اقبال سے Pantheism کا انتساب- ۷:۵:۵’ حقیقت حقہ کا اپنے تعینات و شئون سے الگ وجود مستقل رکھنا ‘ ---- روایتی نقطہ ٔنظر سے اس بیان میں کچھ بنیادی نقائص ہیں ‘ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ خود وہ ’ وجود مستقل ‘ جو ’ حقیقت کے اپنے تعینات اور شئون سے الگ ‘ ہے ، ایک تعین اور شان ہی تو ہے--- ہر وہ معرف ، وصف ، حالت ، مفہوم ، اعتبار اور لفظ جو ماہیت ذات پر دلالت کرتا ہے ، اپنی جگہ ایک تعین ہے جو اگر ذات سے عینیت بھی رکھتا ہو تو بھی اس کا احاطہ نہیں کر سکتا - یعنی عین ذات ہونے کے باوجود اسے ذات نہیں کہا جا سکتا- مذکورہ بالا بیان میں اپنے ’تعینات و شئون ‘ اور ’ وجود مستقل ‘ کے الفاظ غمازی کرتے ہیں کہ بیان کرنے والا ان مباحث پر ضروری گرفت نہیں رکھتا - حقیقت کی ورائیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی شئون سے ماورا ہے - اور پھر ’ وجود مستقل ‘ تو ذات کی ایک بہت ابتدائی نسبت ہے ، ورائیت محض کی سطح پر اس کا اثبات ،کم از کم روایتی متصوفانہ نقطہ ٔنظر سے، تنزیہ ذاتی کے انکار کے مترادف ہے - ۸:۵:۵ Pantheism یعنی سریان کا مطلب ہے کہ حقیقت اور اس کے مظاہر ہر لحاظ سے ایک ہیں اور حقیقت پوری کی پوری ظاہر ہے - بالفاظ دیگر خدا ، کائنات ہے اور کائنات ، خدا - دونوں ایک دوسرے پر اس طرح تقسیم ہو جاتے ہیں کہ باقی کچھ نہیں بچتا - یہ تعریف نظر میں ہو تو یہ خیال وسوسے کے طور پر بھی نہیں آ سکتا کہ علامہ کا Pantheism سے کوئی ادنیٰ سا تعلق بھی ہو سکتا ہے - تاہم سہیل عمر اگر اس محال اندیشی کا شکار ہوئے ہیں تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ ضرور ہو گی - ہم یہ سوچنے کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ فکر اقبال اور اس کی مشکلات پر اتنی گہری نظر رکھنے والا کوئی شخص اس طرح کے مغالطے میں بلا کسی سبب کے مبتلا ہو سکتا ہے - اس کے یقینا متعدد اسباب ہیں جو خود اقبال ہی نے پیدا کیے ہیں - مثلاً ان کا یہ تصور کہ ’ انائے مطلق سے انائوں ہی کا صدور و ظہور ہوتا ہے ‘ ( دیکھیے : تشکیل جدید (انگریزی) ص۵۴) ، قاری کو ایسے نتائج تک دھکیلنے کا پورا سامان رکھتا ہے جنھیں وہ کسی بھی پہلو سے قبول نہیں کر سکتے - بہر حال ہماری رائے میں علامہ کا یہ بیان جو انسانی خودی کے حقیقی استناد تک پہنچنے اور اس کی مابعد الطبیعی اصل کو دریافت کرنے کی شدید خواہش کا آئینہ دار ہے ، انتہائی خطرناک اور غیر متوازن ہونے کے باوجود،کم از کم اتنا حق ضرور رکھتا ہے کہ اس کو اقبال کی مجموعی فکر سے منقطع کر کے نہ دیکھا جائے جو Pantheism وغیرہ کے شائبے سے بھی پاک ہے- یہ ٹھیک ہے کہ ’ انا سے انا کا صدور ‘ ایک ایسا وعویٰ ہے جس سے ، تاویل نہ کی جائے تو، دو باتیں لازم آتی ہیں : ۱- تخلیق کا اضطراری ہونا ،اور ۲ - ذات حق کی منتقلی اور انقسام یعنی Pantheism لیکن چونکہ ہم حتمی طور پر جانتے ہیں کہ اقبال ذات خالق کو مجبور مانتے ہیں نہ انائے مطلق کے تحول اور تجزیے کے قائل ہیں ، لہٰذا ہمارے پاس اس یقین کو برقرار رکھنے کی ہر وجہ بلکہ دلیل موجود ہے کہ اس قول سے برآمد ہونے والا مطلب ، مراد قائل نہیں ہے - ہماری نظر میں ’ انا سے انا کا صدور ‘ اقبال کی پوری فکر کے تناظر میں ، اس عینیت ذاتی پر محمول نہیں کیا جا سکتا جو وجودی منطق کا بنیادی مفروضہ ہے - بلکہ اس میں ایک قرینہ ، ذرا ابہام کے ساتھ سہی ، مگر موجود ہے جس کی بنیاد پر یہ کہنا ممکن ہو جاتا ہے کہ یہ قضیہ خالق و مخلوق کی غیریت پر دلالت کرتا ہے- وہ داخلی قرینہ یہ ہے کہ ’انا‘ ذات نہیں ہے بلکہ ذات کی حد تام ہے- اسی لیے دو انیتوں کا متحد بالذات ہونا محال ہے-ان کی ہر نسبت غیریت کے اصول پر مبنی ہو گی اور یہ واجب ہے-سہیل عمر کو اس پر غورکرنا چاہیے تھا کہ انیت، ذات ہونے کی حالت اور اس کا عنوان ہے جو اپنے content کے منفرد اور حقیقی ہونے پر دلالت کرتا ہے - نیز اس پر وہی حکم جاری ہو گا جو اس کے content کا ہے - ذات مطلق ہے تو ’انا‘ بھی مطلق ہو گی ، اور ذات مقید ہے تو انا بھی مقید ہو گی - ’انائے مطلق سے انائے مقید کے صدور ‘ کا یہی مطلب ہو گا کہ مخلوق کی انیت ،خالق ہی کی انیت سے صادر ہوئی ہے ، لہٰذا اس کا حقیقی اور منفرد ہونا ضروری ہے - تیسرے خطبے ’’ تصورالٰہ اور مفہوم دعا‘‘ کے مطالعے میں لائق اختلاف چیزیں نسبتاً زیادہ ہیں ، طول کلام کے ڈر سے انہیں نظر انداز کرنا پڑ رہا ہے - ۶:۵- States کے لفظ کا ترجمہ ’ احوال ‘ کے بجائے ‘ سیاق و سباق کی رعایت سے ‘ مراتب (وجود) ہونا چاہیے ، بایں معنی کہ جنت ، جہنم ہمارے زمان و مکان کے اسیر مرتبۂ وجود کی جگہیں نہیں ہیں بلکہ مختلف مرتبہ وجود کے حقائق ہیں ‘‘ (ص۱۴۳) - اقبال نے ’States‘کا لفظ ’ Localities‘ کے جواب میں استعمال کیا ہے ، اور ’ سیاق و سباق کی رعایت سے ‘ اس کا ایک ہی ترجمہ درست ہو سکتا ہے : ’احوال ‘ - ورنہ پھر ان فقروں کا کیا مطلب ہو گا : "Heaven is the joy of triumph over the forces of disintegration."(Reconstruction,P 98) "Hell, Therefore, as conceived by the Quran, is not a pit of everlasting torture inflicted by a revengeful God;it is a corrective experience "---( Reconstruction,P 98) سہیل عمر نے ’ states ‘ کا جو ترجمہ تجویز کیا ہے اور اس پر جو دلیل دی ہے ، اسے ماننے میں چند رکاوٹیں ہیں ، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ’ states ‘کو’ مراتب وجود ‘ کے معنی میں لیا جائے تو سیاق و سباق مجروح ہو جائے گا - اقبال نے یہ لفظ ’Localities ‘ کی ضد کے طور پر استعمال کیا ہے - جبکہ جنت اور دوزخ کو مراتب (وجود) کہنے کا مطلب یہی ہوگا کہ وہ Localities ہیں - باقی یہ کہنا کہ ’’ جنت ،جہنم ہمارے زمان و مکان کے اسیر مرتبۂ وجود کی جگہیں نہیں ہیں بلکہ مختلف مرتبہ وجود کے حقائق ہیں ‘‘ ، ایک نوع کی عبارت آرائی ہے جسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے - ٭ مضمون کے اختتام پر یہ عرض کر دینا شاید غیر مناسب نہ ہو کہخطبات اقبال : نئے تناظر میں ایک ایسی کتاب ہے جسے اقبالیات کے موجودہ معیار پر نہیں پرکھا جا سکتا- اس سے اتفاق مشکل ہے ، اور اختلاف مشکل تر - یہی اس کی امتیازی حیثیت اور بلند سطح کا ثبوت ہے- اقبال کے خطوط میں تحریف تازہ مثال ڈاکٹر وحید عشرت لاہور کے ایک اشاعتی ادارے فکشن ہائوس نے جدو جہد آزادی پر ایک نظر کے عنوان سے پنڈت جواہر لعل نہرو کی کتاب A Bunch Of Old Letters شائع کی ہے اور Letters کے ہجے Latters لکھے ہیں - ترجمہ ملک اشفاق کا ہے - اس کتاب کے صفحہ ۱۷۵ پر پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام اقبال کا ایک خط شائع کیا گیا ہے جس کی عبارت یوں ہے - اس سے پیشتر کہ ہم اس خط کا تجزیہ کریں اور بتائیں کہ مترجم نے اس خط میں نہ صرف کہ کتربیونت کی ہے بلکہ خط کا مفہوم ہی الٹ دیا ہے اقبال کہہ رہے ہیں کہ ’’ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میرا مقالہ اسلام اور ہندوستان کے لیے بہترین ارادوں کے ساتھ لکھا گیا تھا - میرے ذہن میں اس بارے میں مطلق کوئی شبہ نہیں کہ احمدی اسلام اور ہند دونوں کے غدار ہیں ‘‘ - جس کو ملک اشفاق نے یوں بدل دیا ہے - ’’احمدیوں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلافات نہیں نہ ہی احمدی اسلام اور نہ ہی ہندوستان کے لیے دہشت گرد ہیں ‘‘ - عبارت کا پورا مفہوم الٹ دینا نہ تو ترجمے کی غلطی ہے ، نہ کمپوزنگ کی اور نہ ہی پروف خوانی کی - اشفاق احمد نے صفحہ ۳۹۲ پر ویسٹ پنجاب کا ترجمہ مشرقی پنجاب کر دیا ہے اور ملک فیروز خان کے حوالے سے یوں ترجمہ کیا ہے ملک فیروز خاں نون نے کہا ’’ کہ دنیا کے کسی ملک نے ایسا عظیم انسان پیدا نہیں کیا جومذہبی حوالے سے مہاتما گاندھی جیسا عظیم ہو ‘‘ جبکہ اصل عبارت میں یہ ہے کہ ’’ سوائے مذہبی رہنمائوں کے ‘‘ اشفاق احمد جاہل مطلق ہے یا بدنیت یا اس کے نام سے کسی اور جاہل نے یہ ترجمہ کیا ہے صرف فکشن ہائوس ہی یہ معمہ حل کر سکتا ہے- یہ واضح طور پر بد دیانتی اور دانستہ کی گئی حرکت ہے - بعد میں جب یہ کتاب لوگوں کے اعتراضات کا باعث بنی تو اس کی اس عبارت پر کہ ’’ احمدیوں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلافات نہیں ہیں پر ایک چیپی تصحیح کے لیے لگا دی گئی اور یہ خط یوں ہو گیا ہے - تاہم پورا خط پھر بھی تبدیل نہیں کیا گیا جس سے مصنف اور ادارے کی بدنیتی اور واضح ہو گئی ہے- جبکہ مرحوم لطیف احمد شیروانی کی مرتبہ کتابSpeeches,Writings And Statements of Iqbal کے ص ۲۰۰ پر علامہ اقبال کے ۲۱ جون ۱۹۳۶ ء کے اسی خط کی انگریزی عبارت اس سے قطعی مختلف ہے - جس کا عکس دیا جا رہا ہے - یہی خط A Bunch of old Letters کے صفحہ۱۸۷-۱۸۸ پر بھی موجود ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اقبال اکادمی کے نئے ایڈیشن میں یہ خط صفحہ ۲۴۰ پر آیا ہے جس میں سے پھر ایک فقرہ ادھورا رہ گیا ہے جو صفحہ ۲۴۰ کے آخری حروف I کے بعد اور صفحہ ۲۴۱ کے لفظ Ahmadies کے درمیان آنا تھا یہ فقرہ یوں ہے جسے انشاء اللہ اگلے ایڈیشن میں درست کر دیا جائے گا - blieved that you had no idea of the political attitude of the تاہم نیچے کے خط کے عکس میں یہ موجود ہے- اس خط کا ترجمہ ممتاز صحافی اقبال احمد صدیقی نے کیا ہے جو دراصل لطیف احمد شیروانی کی کتاب Speeches, Writings and Statements of Iqbal کے اردو ترجمے علامہ اقبال- تقریریں، تحریریں اور بیانات کی صورت میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے ۱۹۹۰ء میں شائع کیا ہے - اس خط کی بھی نقل یہاں دی جا رہی ہے - جو اس کتاب کے ص ۲۶۹ اور ۲۷۰ پر موجود ہے - فکشن ہائوس لاہور سے شائع ہونے والی کتاب A Bunch Of Old Lettersکا ترجمہ ہے جو ملک اشفاق نے کیا ہے اور لطیف احمد شیروانی نے بھی اسی پنڈت جواہر لعل نہرو کی کتاب سے یہ خط لیا ہے تو دونوں میں عبارت کا اس قدر تضاد کیوں ہے اس کا جواب اشفاق ملک اور فکشن ہائوس لاہور کو دینا پڑے گا - ملک اشفاق کون ہے اور فکشن ہائوس لاہور والے کون ہیں - انہوں نے اس خط میں بد دیانتی کی حد تک تحریف کیوں کی ہے ؟جبکہ جدوجہد آزادی پر ایک نظر اور علامہ اقبال - تقریریں ، تحریریں اور بیانات ایک ہی سال میں شائع ہوئی ہیں- تاہم لطیف احمد شیروانی کی کتاب ۱۹۴۴، ۱۹۴۸، ۱۹۷۷ء سے مسلسل شائع ہو رہی ہے اور اقبال اکادمی پاکستان نے اس کا نیا ایڈیشن ۱۹۹۵ء میں شائع کیا ہے - اس لیے فکشن ہائوس والے اور اشفاق ملک یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے یہ کتاب نہیں دیکھی - قرائن کہتے ہیں کہ اشفاق ملک نے اس خط کا ابتدائی حصہ اور آخری حصہ لے لیا ہے اور باقی حصہ چھوڑ کر جان بوجھ کر تحریف کر کے اسے اپنے یا قادیانی مسلک کے مطابق کر دیا ہے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے جبکہ علامہ کی عبارت میں یہ تحریف اخلاقی اور قانونی طور پر جرم ہے - اشفاق احمد ترجمہ کرتے ہیں - ’’ احمدیوں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلافات نہیں ہیں نہ ہی احمدی اسلام اور نہ ہی ہندوستان کے لیے دہشت گرد ہیں ‘‘ جبکہ اقبال اس خط میں لکھتے ہیں ’’ مجھے اس میں تھوڑا سا حصہ اس لیے لینا پڑتا کہ میں احمدیوں سے ان کے اپنے محاذ پر نمٹ سکوں - میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میرا مقالہ اسلام اور ہند کے لیے بہترین ارادوں کے ساتھ لکھا گیا تھا - میرے ذہن میں اس بارے میں مطلق کوئی شبہ نہیں کہ احمدی اسلام اور ہند کے غدار ہیں‘‘ - قادیانی ، اقبال کی تحریروں اور خطوط کو کس بد نیتی اور بددیانتی سے توڑ مروڑ رہے ہیں اس کی مثال اقبال نامے کا ایک اور خط بھی ہے اقبال نامہ کے ایک ہی ایڈیشن میں دو مختلف عبارتوں میں اقبال کا ایک خط شائع کیا گیا ہے - جو علامہ اقبال نے ۱۰ جون ۱۹۳۷ء کو سر راس مسعود کے نام اپنے بچوں کے گارڈین کے حوالے سے لکھا - اس خط کی عبارت میں بھی شرم ناک تحریف کی گئی اور اس خط سے علامہ اقبال کے اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کے قادیانی ہونے کی بنا پر گارڈین شپ سے محرومی کا سبب ہٹا کر اس کی عیال داری اور لاہور سے باہر رہنے کو جواز بنا دیا گیا ہے - ایک ہی ایڈیشن کی دو مختلف عبارتوں کو کس کے ایما پر تبدیل کیا گیا ہے یہ کوئی سربستہ راز نہیں، یہ تفصیل اقبالیات مجلہ اقبال اکادمی پاکستان اور بمبئے کے رسالے شاعر کے اقبال نمبر میں پوری طرح میرے مضمون ’’ قصہ ایک خط کا----‘‘ میں مل جائے گی - پھر یہ کتربیونت بھی اصل خط کے مطابق نہیں اصل خط میں نہ صرف تحریف کی گئی بلکہ اقبال کے قادیانی بھتیجے شیخ اعجاز احمد نے چیلنج کیا کہ یہ خط کہیں موجود نہیں ہم نے سر راس مسعود کے پرائیویٹ سکرٹری مرحوم سید ممنون حسن خان اور ڈاکٹر اخلاق اثر سے بھوپال میں رابطہ کیا تو ڈاکٹر اخلاق اثر کی کتاب اقبال نامہ سے یہ خط مل گیا جو ہم ذیل میں دے رہے ہیں مگر پہلے شیخ عطا اللہ کے اقبال نامے کے خطوط کا عکس ملاحظہ کریں - اقبال نامہ کے ص ۳۸۶ - ۳۸۷ کے ایک ہی ایڈیشن میں یہ دونوں خط موجود ہیں خط نمبر۱ پہلے ایڈیشن میں شائع ہوا - مگر کسی کے توجہ دلانے پر یا گرفت پر اس کو فوری طور پر تبدیل کر دیا گیا مگر چند نسخے فروخت ہو چکے تھے لہٰذا یہ تحریف ایک ثبوت چھوڑ گئی جس طرح فکشن ہائوس کی کتاب جدو جہد آزادی پر ایک نظر کے ایک ہی ایڈیشن کے ابتدائی فروخت ہونے والے نسخوں اور فوری طور پر چیپی والے نسخوں میں فرق ہے - اقبال نامہ کی طرح انہوں نے بھی محض چیپی لگائی ہے پورا خط پھر شائع نہیں کیا - دونوں کا طریقہ واردات ایک جیسا ہے دونوں کی بدنیتی ایک ہی طرز پر ظاہر ہوئی ہے اوپر ملاحظہ کریں - اقبال نامہ حصہ اول میں شائع ہونے والا خط نمبر ۱ اور نمبر ۲ اور دونوں کی عبارت میں تضاد کو نوٹ کریں اور نیچے دیا ہوا اقبال کا اصل خط بھی دیکھئے - جس کے بارے میں اعجاز احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دستیاب نہیں - جب ہم نے یہ خط شائع کیا تو شیخ اعجاز احمد قادیانی کی تو سٹی گم ہو گئی اور انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا مگر بعد میں اقبال اور تحریک احمدیت کے قادیانی مشنری اور مصنف شیخ عبدالماجد نے تحریر کے ایک قادیانی ایکسپرٹ کے ذریعے انکشاف کیا کہ یہ خط اقبال کا نہیں حالانکہ یہ بھوپال سے شائع شدہ کتاب سے لیا گیا تھا جہاں کہ اقبال سر راس مسعود کو خط لکھا کرتے تھے یہ خط اپنے موضوع اور مفہوم کے اعتبار سے بھی اور سیاق و سباق کے حوالے سے بھی درست تھا - اس خط میں شیخ اعجاز احمد قادیانی کو جاوید اقبال اور منیرہ کی گارڈین شپ سے اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ بھتیجہ ، نہایت صالح آدمی ہونے کے باوجود ’’ افسوس کہ دینی عقائد کی رو سے قادیانی ہے ، تم کو معلوم ہے کہ قادیانیوں کے عقیدے کے مطابق تمام مسلمان کافر ہیں اس واسطے یہ امر شرعاً مشتبہ ہے کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا گارڈین ہو سکتا ہے یا نہیں- اقبال نامہ سے یہ عبارت حذف کر دی گئی- ملاحظہ کیجئے یہ خط اور پھر اوپر دیئے گئے اقبال نامہ جلد اول کے دونوں خطوں سے اس کا موازنہ کریں - اقبال کے ان خطوں میں بار بار تحریف کیوں کی جاتی ہے اس لیے کہ ان میں قادیانیوں کے بارے میں اقبال کی آراء بڑی واضح ہیں کہ قادیانی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں لہٰذا ’’ میرے ذہن میں اس بارے میںمطلق کوئی شبہ نہیں کہ احمدی اسلام اور ہند دونوں کے غدار ہیں ‘‘- پنڈت نہرو اور سر راس مسعود کے نام دونوں خطوط سے یہی نتیجہ نکلتا ہے- اسی لیے ان خطوط میں قادیانی یا قادیانیوں کے ایما پر کتربیونت کی جاتی ہے - اقبال نامہ میں تحریف چونکہ چودھری محمد حسین نے کرائی تھی لہٰذا یہ امر اب مشتبہ اور تحقیق طلب ہے کہ چودھری محمد حسین کے اپنے عقائد کیا تھے انہیں قادیانیوں سے اتنی ہمدردی کیوں تھی یا وہ کسی مجبوری کے تحت قادیانیوں کے دبائو میں تھے - عبدالمجید سالک نے ذکر اقبال میں اقبال اور خاندان اقبال کو قادیانی بنایا اسی طرح کا کام چودھری محمد حسین نے کیا - شیخ اعجاز احمد کے بارے میں اقبال کے رد عمل کو چھپایا اور وہ خط ہی بدلوا دیا جس میں اقبال نے قادیانی عقائد کی بنا پر اسے جاوید اقبال کی گارڈین شپ سے محروم کیا تھا - قادیانی دوسری بات یہ مشہور کرتے ہیں کہ علامہ اقبال شروع میں قادیانیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے - بالخصوص اعجاز احمد قادیانی نے اپنی کتاب مظلوم اقبال میں یہی دعویٰ کیا ہے- قادیانیوں کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ علامہ اقبال ۱۹۳۵ء میں احراریوں کی ترغیب پر ان کے خلاف ہوئے جبکہ ان کی تحریریں ثابت کرتی ہیں کہ علامہ اقبال نے ۱۹۰۲ء کے بعد تواتر کے ساتھ قادیانیت کی مخالفت کی - ذیل میں ہم اقبال کے قادیانیت کی مخالفت کے ثبوت سن وار پیش کرتے ہیں - ۱۹۰۲ء - علامہ اقبال نے ۱۹۰۲ء میں سب سے پہلے قادیانیت پروار کیا - ۱۹۰۲ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں انہوں نے مرزا قادیان کے دعویٰ نبوت کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ : اے کہ بعد از تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک بزم را روشن ز نور شمع عرفان کردہ ای مولانا غلام رسول مہر نے اپنی مرتبہ کتاب سرود رفتہ میں ص ۳۰ پر ایک نوٹ لکھا ہے کہ: ’’یہ ۱۹۰۲ ء کا کلام ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لکھنے کی ضرورت مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ بروزیت کی بنا پر ہوئی یعنی کہتے ہیں کہ تیرے بعد نبوت کا دعویٰ ہر لحاظ سے شرک فی النبوت ہے خواہ اس کا مفہوم کوئی بھی ہو یعنی ظلی اور بروزی نبوت بھی اس سے باہر نہیں‘‘ ۱۹۰۲ء مئی میں مخزن لاہور اور ۱۱ جون ۱۹۰۲ء میں محمددین فوق کے رسالہ پنجہ فولاد میں قادیانی مذہب کے نتائج کا تجزیہ یوں کیا یاد رہے کہ یہ قادیانیوں کی طرف سے بیعت کے جواب میں شعر لکھے - تو جدائی پہ جان دیتا ہے وصل کی راہ سوچتا ہوں میں بھائیوں میں بگاڑ ہو جس سے اس عبادت کو کیا سرا ہوں میں مرگ اغیار پر خوشی ہے تجھے اور آنسو بہا رہا ہوں میں (باقیات ص ۱۱۳) یاد رہے کہ مرزا قادیانی اپنے مخالفین کے لیے موت کی پیش گوئیاں کرتا رہتا تھا - ۱۹۰۳ء -- انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ’’ فریاد امت ‘‘ کے نام سے اقبال نے مارچ ۱۹۰۳ ء میں ایک نظم پڑھی جس کا دوسرا عنوان ’’ ابر گہر بار ‘‘ تھا اس میں انہوں نے یہ شعر پڑھا - مجھ کو انکار نہیں آمد مہدی سے مگر غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا ترا اقبال نے اس شعر کے ذریعے مرزا قادیانی کے اس دعویٰ کو رد کر دیا کہ وہ مثیل مسیح یا مثیل محمدؐ ہیں - ۱۹۱۱ء ----اقبال نے اپنے ایک مقالے ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر میں قادیانیوں کو قادیانیوں کی داڑھی اور وضع قطع کے لحاظ سے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ کہنے کے ساتھ ساتھ انہیں ’’ نام نہاد قادیانی فرقہ ‘‘ کہا مولانا ظفر علی خان نے اس مقالے کے ترجمہ میںSO CALLED نام نہاد یا غلط طور پر منسوب کیا گیا کے الفاظ غلطی سے چھوڑ دئیے جس کو قادیانیوں نے اپنے حق میں استعمال کیا کہ اقبال ہمیں ٹھیٹھ اسلامی سیرت والا فرقہ سمجھتے تھے حالانکہ اقبال انہیں غلط طور پر منسوب کیا گیا یا نام نہاد ٹھیٹھ اسلامی سیرت والا فرقہ لکھتے ہیں - جو بظاہر تو اسلامی سیرت و کردار کا ٹھیٹھ نمونہ نظر آتا ہے مگر بباطن کافر اور خارج از اسلام ہے - اگر آپ اصل انگریزی مضمون کو دیکھنے کی زحمت کریں تو آپ پر یہ غلطی واضح ہو جائے گی - ۱۹۱۴ء ---- میں اقبال نے لکھا کہ ’’قادیانی جماعت نبی اکرم کے بعد نبوت کی قائل ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘- ۱۹۱۵ء ---- رموز بے خودی ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی اقبال نے اپنے عقیدہ ختم نبوت کا واشگاف اعلان کیا - پس خدا بر ما شریعت ختم کرد بر رسول ما رسالت ختم کرد لا نبی بعدی ز احسان خدا ست پردئہ ناموس دین مصطفی است حق تعالیٰ نقش ہر دعویٰ شکست تا ابد اسلام را شیرازہ بست ۱۹۱۶ء --- اقبال نے ۱۹۱۶ء میں ایک بیان میں کہا ’’ جو شخص نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی ایسے نبی کا قائل ہو جس کا انکار مستلزم بہ کفر ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گا - اگر قادیانی جماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے ‘‘-(گفتار اقبال ص ۲۲) ۱۹۳۳ء --- اقبال نے کشمیر میں قادیانیوں کی سازشوں کے بارے میں بیان دیا کہ: ’’ آخر میں میں مسلمانان کشمیر سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ان تحریکوںسے خبردار رہیں جو ان کے خلاف کام کر رہی ہیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کریں ‘‘ (اقبالنامہ جلد اول ۶ جون ۱۹۳۳ئ) ۲۰ جون ۱۹۳۳ء میں اقبال نے کشمیر میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں اور کشمیر کو قادیانی ریاست بنانے کی سازش کے پیش نظر کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا - ۲ اکتوبر ۱۹۳۳ء میں اقبال نے قادیانی اہل قلم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کی سازشوں کے خلاف بیان دیا اور کشمیر کمیٹی کے عہدہ صدارت کی پیش کش کو فریب قرار دیا اور کہا کہ : ’’ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حالات کے پیش نظر ایک مسلمان کسی ایسی تحریک میں شامل ہو سکتا ہے جس کا مقصد غیر فرقہ داری کی ہلکی سی آڑ میں کسی مخصوص جماعت کا پراپیگنڈا کرنا ہے ‘‘- (حرف اقبال ص ۲۰۴) ۱۹۳۴ء ---- ۹ فروری ۱۹۳۴ء کو نعیم الحق وکیل پٹنہ کو لکھتے ہیں - ’’ جس مقدمے کی پیروی کے لیے میں نے آپ سے درخواست کی تھی- اس کی پیروی چودھری ظفر اللہ کریں گے --- چودھری ظفر اللہ خان کیونکر اور کس کی دعوت پر وہاں جا رہے ہیں - مجھے معلوم نہیں - شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں ‘‘ (اقبال نامہ جلد اوّل ص۴۳۵) ۱۹۳۵ء ---- اقبال نے اپنی کتاب ’’ ضرب کلیم ‘‘ میں اپنی نظم ’’ جہاد ‘‘ میں قادیانیوں کے جہاد کے بارے میں تصورات پر تنقید کی - فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے مشرق میںجنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات اسلام کا محاسبہ ،یورپ سے درگزر یہاں ’’شیخ کلیسا نواز‘‘ سے مراد مرزا قادیانی ہے ایک دوسری نظم نبوت میں لکھتے ہیں- وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام ایک نظم امامت میں لکھتے ہیں - فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے انگریز کی چاکری پر قادیانیوں کے خلاف لکھتے ہیں : ہو اگر قوت ، فرعون کی در پردہ مرید قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی محکوم کے الہام سے اللہ بچائے غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز ۱۹۳۶ء --- ۷ اگست ۱۹۳۶ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’ الحمد للہ کہ اب قادیانی فتنہ پنچاب میں رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے ---‘‘ پس چہ باید کرد ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی اقبال لکھتے ہیں : عصر من پیغمبرے ہم آفرید آنکہ در قرآن بغیر از خود ندید شیخ او مرد فرنگی را مرید گرچہ گوید از مقام بایزید گفت دیں را رونق ز محکومی است زندگانی از خودی محرومی است دولت اغیار را رحمت شمرد رقص ہا گرد کلیسا کرد و مرد غلام احمد قادیانی انگریز کو اپنے لیے رحمت کہا کرتا تھا اور اس کی غلامی کو اپنے لیے تائید خداوندی شمار کرتا اور برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز کی غلامی قبول کرنے کی ترغیب دیتا تھا - ضرب کلیم میں تو جا بجا اقبال نے قادیانیوں کے خلاف مسلسل لکھا ایسے لگتا ہے جیسے ضرب کلیم پوری کی پوری اس کافر جماعت کے خلاف اقبال کی ضرب مومن ہے - ۱۹۳۷ء --- ۲۷ مئی ۱۹۳۷ء کو پروفیسر الیاس برنی کی کتاب قادیانی مذہب موصول ہونے پر اقبال نے لکھا : ’’قادیانی تحریک یا یوں کہیے کہ بانی تحریک کا دعویٰ مسلہ بروز پرمبنی ہے - مسلہ بروز کی تحقیق تاریخی لحاظ سے از بس ضروری ہے - جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ مسلہ عجمی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے - نبوت کا سامی تخئیل اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے - میری ناقص رائے میں اس مسلہ کی تاریخی تحقیق قادیانیت کا خاتمہ کر دے گی‘‘- ہماری اس تحریر سے واضح ہو گیا ہو گا کہ اقبال نے کسی اضطراری کیفیت میں قادیانیوں کے خلاف مہم جوئی نہیںکی تھی بلکہ ایک پورے تسلسل اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ ۱۹۰۲ ء سے اپنی وفات تک قادیانیت کا تعاقب کیا اور ان کے اصل مقاصد ، دینی حیثیت اور سیاسی عزائم کو واضح کرتے رہے - یہی نہیں اقبال نے قادیانیوں کو خارج از اسلام اقلیت قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا تاکہ وہ مسلم لیگ کی صفوں میں گھس کر پاکستان کی تحریک کو سبوتاژ نہ کر سکیں اور خدا کا شکر ہے کہ اقبال کی تحریک پر ہی پاکستان میں آئینی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا چکا ہے - اقبال سے اسی دکھ کی وجہ سے قادیانی اقبال کے خلاف مہم جوئی کے لیے کمربستہ رہتے ہیں جس کی دو مثالیں اوپر بیان کر دی گئی ہیں - حالانکہ وہ خود اقبال کو قادیانیوں کا دشمن تصور کرتے ہیں - گوشۂ مہماناں محمد اقبال اور قاضی نذرالاسلام ایک تقابلی جائزہ پروفیسر امّ سلمٰی اقبال اور قاضی نذر الاسلام ، دونوں کی شاعری کے بہت سے پہلو مشترکہ ہیں- کچھ اجزا دونوں سے خاص ہیں - لیکن متفقہ پہلو ہی زیادہ نمایاں ہیں ، مختلف عناصر گنے چنے نظر آتے ہیں - ہمیں دونوں کی شاعری کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے دیکھنا پڑے گا کہ ان کے ہاں کون کون سے فکری اور شعری عناصر مشترک ہیں اور کن نظریات میں دونوں کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے- اقبال اور نذر الاسلام دونوں انسانیت کے علم بردار تھے - دونوں کو مظلوم اور کچلی ہوئی انسانیت سے گہری ہمدردی تھی - دونوں نے سماجی اور سیاسی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی ہندوستانی معاشرے کے لوگ اقتصادی طور پر مفلوک الحال تھے دونوں نے غربت انسداد کے لیے اعلان جنگ کیا دونوں نے آنکھ کھول کر دیکھا کہ مزدور ، کسان اور غریب طبقہ سرمایہ داروں اور بورژوا کلاس کے شکنجے میں کراہ رہا ہے - دونوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی - انہوں نے مزدوروں ، کسانوں اور غریبوں میں اپنی حق تلفی کا احساس دلایا - دونوں حسن کے پرستار اور نا انصافیوں کے خلاف انقلابی ہیں - دونوں نے دیکھا کہ اب تک دنیا میں شہریاری چل رہی ہے، یورپ میں برائے نام جمہوریت ہے مگر در پردہ قیصری اور استبداد کا عمل دخل ہے - خاص کر ایشیا کے لوگ کورانہ تقلید میں پھنسے ہوئے ہیں - دونوں نے دنیا کو سکون اور امن و امان بخشنے کی کوشش کی - مگر دونوں میں فرق اس جگہ ہے کہ اقبال کی شاعری کا مرکزی خیال ’’تصور خودی‘‘ اور’’بے خودی‘‘ ہے جس کے معنی انسان کی شخصیت کی بلندی اور استحکام ہے - یہ تصور نذر الاسلام کی شاعری میں وضاحت سے نہیں ملتا - اقبال کی شاعری میں زیادہ گہرائی ہے - اسی طرح اقبال کی شاعری میں اسلامی تہذیب و تمدن کی عکاسی بہ نسبت نذر الاسلام کے زیادہ ملتی ہے - آئیے ہم ، دونوں کی شاعری کے مختلف اجزا کا ، ان کے کلام کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، جائزہ لیں اور ان کے مختلف پہلو اجاگر کریں - اقبال اور نذر الاسلام دونوں انسان دوستی ، محبت اور اخوت کی تعلیم دیتے ہیں- اقبال کی شخصیت اور تعلیمات کا سب سے دلکش اور موثر پہلو ان کی انسان دوستی کا جذبہ ہے اور انسانی وحدت کا تصور ہے ان کا دل عالم گیر محبت کا ایک اتھاہ سمندر تھا جو ان کی تحریروں اور خطوںمیں ہر جگہ موجزن ہے - ڈاکٹر عبدالحق بھی اقبال کے فلسفہ کی اساس انسان کو قرار دیتے ہیں - ان کے خیال میں یہ وہ مرکزی محور ہے جس کے گرد ان کے تمام افکار گھومتے ہیں - اس منارہ نور سے تمام شعاعیں پھوٹتی پھیلتی اور جہاں تاب ہوتی ہیں - ان کے ہاں انسانیت کا تصور یوں جلوہ فرما ہے : آدمیت احترام آدمی باخبر شو از مقام آدمی خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا اقبال کی انسان دوستی کی سب سے بہترین مثال ’’ انسان اور بزم قدرت ‘‘ میں ملتی ہے جو بانگ درا میں شامل ہے- اس نظم میں اقبال نے انسان کو اشرف المخلوقات اور بزم قدرت کی ہر شے سے افضل ثابت کیا ہے - بقول غلام رسول مہر ’’ خوبی یہ ہے کہ انسان اپنی نا فہمی کے باعث بزم قدرت کو اپنے سے بہتر قرار دیتا ہے اور ’’ بزم قدرت ‘‘ انسان کے اشرف ہونے کا اعلان کرتی ہے ‘‘- بانگ درا میں ایک اور نظم ’’شاعر ‘‘ میں اقبال کہتے ہیں : قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم محفل نظم حکومت چہرہ زیبائے قوم شاعر رنگین نوا ہے دیدہ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ اقبال انسان کے اعلیٰ مرتبہ کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں - کہتے ہیں: تیری آگ اسی خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں نہ تو زمین کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے اقبال نے انسان دوستی کا یہ تصور اسلام اور قرآن سے اخذ کیا ہے خود فرماتے ہیں: قرآن سے پہلے کسی ارضی یا سماوی کتاب نے انسان کو اس بلند مقام پر نہیں پہنچایا جس کی قرآن کریم نے اطلاع دی ہے - یہ لفظ قرآن کریم کے سوا کہیں نہ دیکھو گے: ’’سخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض‘‘- اقبال انسان کو اس زمین پر خدا کا خلیفہ تسلیم کر کے انسان دوستی کی ایک مضبوط بنیاد تلاش کرتے ہیں- یعنی ہر انسان ایک آزاد شخصیت کا امین ہے - ہمیں کسی کو حقیر و ذلیل سمجھنے کا حق نہیں ہے- وہ اس زمین پر خدا کے منشا و مرضی کی تکمیل کا ذمہ دار ہے ، اور یہی اس کی تمام مخلوقات پر برتری اور عظمت کی دلیل ہے چنانچہ خدا کے قوانین پر چلنے اور ان کو نافذ کرنے کی اس پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے- ان قوانین کے نفاذ سے ایک صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں تمام انسان اپنی عزت و وقار کا تحفظ کر سکتے ہیں اور باہمی تصادم سے محفوظ رہ سکتے ہیں- اقبال کے نزدیک خالق کائنات کی طرح انسان بھی محفل گیتی کی آرائش و تزئین میں مصروف ہے اور وہ بھی اسی زمین کے وسائل سے کام لے کر نئی نئی چیزیں تخلیق کرتا ہے اور تہذیب و تمدن کے میدان میں مسلسل ارتقا کی شاہراہ پر گامزن ہے : قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا زمیں اور بھی آسماں اور بھی ہیں فرشتے بھی انسان کی فضیلت کا اعتراف یوں کرتے ہیں: سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن تری سر شت میں ہے کوکبی و مہتابی گراں بہا ہے ترا گریۂ سحرگاہی اسی سے ہے تیرے نخل کہن کی شادابی اپنی انسان دوستی کے بارے میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں: ’’میں سراپا محبت ہوں - محبت روشنی کی طرح ہر شے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے میں محبت کی تجلی کے سوا کچھ نہیں- میں سب سے یکساں محبت کرتا ہوں ‘‘ ’’انسانیت ‘‘ نذر الاسلام کی شاعری کا بھی محور ہے - انسانی محبت ہی نذر الاسلام کا مذہب تھا - ان کا خیال ہے کہ انسان خواہ وہ کتنے ہی پرلے درجے کا بدکار ہو پھر بھی انسان ہے - انسان دوستی بہترین عبادت ہے - اس لیے انسان کا دل مندر اور کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے - یہ تمام پاک کتابوں اور عبادت خانوں سے بھی برتر ہے - یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انسانیت کے احترام کو سب کے اوپر جگہ دی ہے- فرماتے ہیں : انسان سے بڑھ کر کچھ نہیں اس سے معزز تر کچھ نہیں (اردو ترجمہ) اس ہمہ گیر احساس نے انہیں فرقہ وارنہ عصبیت سے نجات دلائی ہے جہاں انسانی عظمت کو پامال ہوتے دیکھا وہیں ان کی آواز بلند ہوئی: ہر دور اور ہر ملک کے لوگو آئو تم ایک ہی سنگم میں کھڑے ہو کر اتحاد کا ترانہ سنو ایک آدمی کو دکھ پہنچے تو سب کے سینوں میں وہ مساوی طور پر پہنچتا ہے (اردو ترجمہ) ڈاکٹر قاضی مطاہر حسین ، نذر الاسلام کی انسان دوستی کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ نذر الاسلام نے کبھی طبقاتی نظام کو تسلیم نہیں کیا - انہوں نے ہمیشہ مساوات کے نغمے گائے- انسان کی امید و نا امیدی ، دکھ سکھ ، شباب ومحبت ، شجاعت و دلاوری ہی ان کے موضوعات رہے ہیں - اسی لیے تو انہیں شاعر انسانیت کہا جاتا ہے ‘‘- اقبال اور نذر الاسلام دونوں کو اقتصادی اور معاشی اونچ نیچ پسند نہ تھی- دونوں اس سے سخت بیزار تھے - مساوات کو قائم کرنے کے لیے اقبال نے جس طرح سرمایہ داری کے خلاف آواز اٹھائی نذر الاسلام نے بھی اس کے خلاف اعلان جنگ کیا - اقبال کے نزدیک سرمایہ داری ایک لعنت ہے- انہوں نے اپنے کلام میں بڑے زور شور سے سرمایہ داری کی مخالفت کی ہے - خواجہ از خون دل مزدور سازد لعل ناب از جفائے دہ خدایاں کشت دہقاناں خراب فرشتے جو گیت گاتے ہیں اس کا ایک شعر یوں ہے: تیرے اسیر مال مست ، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی ، خواجہ بلند بام ابھی مزدور اور کسان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اس کی بے گور و کفن لاش پر خون کے آنسو بہاتے ہیں: دہقان ہے کس قبر کا اگلا ہوا مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمین ہے جاں بھی گرو غیر ہے تن بھی گرو غیر افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے اقبال کا خیال ہے کہ دولت تو مزدور اور کسان پیدا کرتے ہیں مگر اس کا اکثر حصہ سرمایہ دار ہی کھا جاتے ہیں- سرمایہ دار غریبوں کو اتنا کم دیتے ہیں جس طرح مال دار غریبوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں - اسی لیے وہ دہقانوں کو اپنی حقیقت سے آگاہ ہونے کو کہتے ہیں: آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ! ذرا دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ،حاصل بھی تو آہ ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو ، رہرو بھی تو ، رہبر بھی تو ،منزل بھی تو دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں میںکبھی قیس تو ، لیلا بھی تو ، صحرا بھی تو ، محمل بھی تو وائے نادانی ! کہ تو محتاج ساقی ہو گیا مے بھی تو ، مینا بھی تو ، ساقی بھی تو ، محفل بھی تو انہوں نے غربا کی فلاح و بہبود کے لیے لینن کی جدو جہد کی حمایت کی تھی اور انہوں نے لینن سے نہیں بلکہ خدا سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ ان پر ہونے والے مظالم اور استحصال کا خاتمہ کر دے - انہوں نے لکھا تھا : کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات اقبال نے ’’ خضر راہ ‘‘ میں خضر کی زبانی مزدوروں کو جو پیام دیا ہے وہ محنت کش طبقہ کے لیے ایک منشور کی حیثیت رکھتا ہے- انہوں نے غریبوں اور کسانوں کو مستقبل کی راہ دکھائی اور اپنی شادمانی کا اظہار یوں کیا : آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں ! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک اقبال کی مانند نذر الاسلام نے بھی اپنے معاشرے میں بورژوا طبقے کی چیرہ دستیاں دیکھیں- گائوں میں کاشتکاروں اور مزدوروں پر زمین داروں اور ساہوکاروں کے مظالم دیکھے- جہاں بھی گئے ، ان کی آنکھوں نے ایک ہی منظر دیکھا - افلاس اور غربت - بنگال کی ۹۰ فیصد آبادی بھوک کے جبڑوں میں تڑپ رہی تھی- کاشتکار کھیتوں میں غلہ اگائیں اور وہی تنگ دست رہیں - مزدور صبح سے شام تک کدال اور ہتھوڑے لے کر پتھر توڑیں مگر ان کی بھوک نہ مٹے - غریبوں کے نونہال تعلیم حاصل کرنا چاہیں اور غربت ان کے شوق کو پامال کر دے ان دل دوز مناظر نے نذر ل کے بیدار ذہن اور حساس طبیعت میں آگ لگا دی وہ معاشرے میں ان بے انصافیوں اور مظالم کا فوراً سد باب چاہتے تھے فرماتے ہیں : عوام کا خون جو نک کی طرح چوس لیتے ہیں ، وہی مہاجن کہلاتے ہیں جو اپنی زمین کو اپنی اولاد کے برابر خیال کرتے ہیں انہیں زمین دار نہیں کہا جاتا ہے زمین پر جن کے قدم نہیں پڑتے وہی زمین کے مالک بنتے ہیں جو جس قدر مکار اور دغاباز ہیں ، وہ اسی قدر طاقتور ہیں نت نئی چھریاں بنا کر یہ قصاب علم و ہنر کا دم بھرتے ہیں (اردو ترجمہ) نذر الاسلام کو پورا حساس تھا کہ ملک کی صنعتی و اقتصادی ترقی مزدوروں اور غریبوں کی عرق ریزی کے بغیر ناممکن ہے- اس حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیں : سڑکوں پر تیری موٹریں چلتی ہیں ، سمندروں میں تیرے جہاز دوڑتے ہیں تیری محنت سے ریل کی پٹریوں پر ریل گاڑیاں چلتی ہیں ، ملک کلوں سے بھر گیا ہے اے سرمایہ دار بتا! یہ احسانات کس کے ہیں ؟ تیری عمارت کس کے خون سے رنگین ہے آنکھیں کھول کر دیکھ - ہر ایک اینٹ میں لکھا ہوا ہے تجھے معلوم نہ ہو تو نہ ہو ، مگر راستے کے ہر ذرّے کو معلوم ہے - (اردو ترجمہ) ان سڑکوں ، جہازوں ، ریل گاڑیوں اور عمارتوں کا راز نذر الاسلام غریبوں کو امیر طبقے کے خلاف یوں اکساتے ہیں : توسہ منزلہ عمارت میں رہ کر مزہ لو ٹتا رہے اور ہم خاک نشیں رہیں گے اس کے بعد بھی ہم تجھے دیوتا مانیں گے ، تیری یہ توقع آج غلط ہے (اردو ترجمہ) اقبال کی مانند نذر الاسلام نے بھی مزدوروں کی آنکھیں کھول دیں اور انہیں مستقبل کی بشارت دی کہ وہ دن جلد ہی آنے والا ہے جب ان کے دکھ درد مٹ جائیں گے فرماتے ہیں : جن کے تن من مٹی کی محبت آمیز تری سے نم ہیں انہی کے قبضے میں اس کشتی جہاں کا پتوار ہو گا (اردو ترجمہ) اقبال اور نذر الاسلام ، دونوں ملوکیت کے خلاف تھے- دونوں کا خیال تھا کہ یورپ میں جمہوریت کے نام پر استبدادیت چل رہی ہے - موجودہ مغربی جمہوریتیں علامہ اقبال کے نزدیک ملوکیت کا ایک پردہ اور شہنشایت کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں - چنانچہ وہ اپنی نظم ’’خضر راہ‘‘ میں بتاتے ہیں کہ موجودہ مغربی جمہوری نظام دور ملوکیت ہی کے تلخ حقائق کا آئینہ دار اور قیصریت کی بدلی ہوئی شکل ہے: ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے ، اثر خواب آوری اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو اقبال کے نزدیک مغربی جمہوریت میں کوئی خیر و فلاح نہیں کیونکہ اس نظام میں افراد کی صلاحیتوں کو نہیں دیکھا جاتا- اس لیے وہ جمہوریت کے مقابلے میں استحقاق پرستی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں : جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے جمہوری نظام میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما ہوتا ہے جو زیادہ ہاتھ اٹھوا سکتا ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے - یہاں عقل و فہم کو بالا دستی حاصل نہیں ہوتی بلکہ جس کی گنتی زیادہ ہو جائے اسی کی جیت ہوتی ہے : گریز از طرز جمہوری ، غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید اس طرح اقتدار جب جابروں کے ہاتھ میں چلا آتا ہے تو وہ کمزوروں اور ناتوانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں: آ بتائوں تجھ کو رمز آیۂ ان الملوک سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری اقبال سامراجیت سے شدید نفرت کرتے تھے کیونکہ یہ نظام نفرت ، تشکیک اور آزادی کی نفسیاتی طاقتوں کو ہوا دیتی ہے جو انسان کی روح کو کمزور کر دیتی ہے اور روحانی توانائی کے پوشیدہ منبع کو کم کر دیتی ہے - ان کی ساری کی ساری شاعری چاہے اس میں مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہو یا غیر مسلموں کو ، غلامی کی زنجیریں توڑ دینے کی جذباتی اپیلوں پر مشتمل تھی : آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات! آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات! آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا ہے بندئہ آزاد خود اک زندہ کرامات! وہ سمجھتے تھے کہ غلامی میں انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے : تھا جو نا خوب ، بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر اسی لیے وہ ہندوستانیوں کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے یوں اظہار افسوس کرتے ہیں : خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام! وہ محبان آزادی سے کہتے ہیں کہ ان کے لیے سکون نہیں ہے : میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو نہیں ہے بندئہ حر کے لیے جہاں میں فراغ! نذر الاسلام نے بھی آنکھ کھولی تو بدیسی سامراج کو اپنے وطن میں براجمان دیکھا- وہ اپنے ملک کو غیر ملکیوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد کرانا چاہتے تھے - آزادی کا نشہ ان کے دل و دماغ میں اتنا شدت اختیار کر گیا تھا کہ وہ غلامی کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت کرنا نہیں چاہتے تھے- یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں اور ان کے انداز فکر میں ایک جارحانہ پن آ گیا تھا- یہ انداز ان کے فکر و نظر میں اس حد تک رچ گیا تھا کہ وہ سراپا باغی بن گئے تھے : کہہ دے ! اے جوان مرد کہہ دے کہ میں سر بلند ہوں اتنا سر بلند ، اتنا سر بلند کہ ہمالیہ کی چوٹی بھی میرے آگے سرنگوں ہے کہہ دے ! اے بہادر کہہ دے کہ اس وسیع آسمان کو چیر کر چاند ، سورج اور ستاروں کو توڑ کر ، جنت و دوزخ کو دہلا کر اور عرش سے ٹکرا کر میں اس دنیا کے لیے مجسمۂ حیرت بن گیا ہوں - (اردو ترجمہ) نذر الاسلام اپنے دیس باسیوں کو سامراجیوں کے خلاف یوں بیدار کرتے ہیں : جس دیس میں سورج ڈوبا کرتا تھا ، آج وہیں آفتاب محشر جگمگا رہا ہے مدتوں تک اپنے خون اور پسینہ سے سینچ سینچ کر جس خاک کو ہے نے کیمیا بنایا تھا ، جس زمین میں ہم نے پھول کھلائے تھے ، جہاں ہم نے پریت کے گیت گائے تھے - آہ ! آج اسی گلستان پر ہمارا کوئی اختیار نہیں آہ ! آج اپنے گھر پر ہمارا کوئی بس نہیں (اردو ترجمہ) وہ بنگال کے انقلابی نوجوانوں کو انگریزوں کے خلاف یوں دیوانہ وار پکارتے ہیں کہ انہیں پھانسی کے تختے کا ڈر تھا نہ آہنی سلاسل کا خوف تھا : تم سب انقلاب کے نعرے بلند کرو ، تم سب بغاوت کے گیت گائو دیکھو ، طوفان اور آندھیوں میں بھی سرنگوں نہ ہو کہ وہ دور جدیدکا پرچم لہرا رہا ہے قیامت کے نشے میں متوالا ہو کر تباہی و بربادی کے اشاروں پر نچاتا ہوا وہ وحشی آپہنچا اور اس نے سمندر کے سوتوں پر نشتر لگا دیے اس کے مہیب اور ڈرائونے چہرے پر موت تبسم بن گئی عزرائیل کا محشر انگیز لبادہ اوڑھے اجل سے زیادہ عمیق ، اندھے کنوئوں سے سر نکال کر مشعل برق روشن کیے وہ قہقہہ لگاتا ہے- تو تم سب کیوں نہ نعرئہ انقلاب بلند کرو ،کیوں نہ بغاوت کے گیت گائو (اردو ترجمہ) ایچ - ایچ - ہنس نے بائرن کے بارے میں کہا تھا :’’ آزادی کے لیے بائرن کا جذبہ بڑا ہی شدید اور حقیقی تھا ‘‘ ، یہی کچھ نذر الاسلام پر بھی صادق آتا ہے - فرماتے ہیں : ظالم کی تلوار آج صداقت کی گردن کاٹ رہی ہے کیا ایسا کوئی پرستار صداقت نہیں کہ آج اس کے خلاف سینہ سپر ہو سکے ؟ جو زنجیروں کو پاش پاش کر کے پائوں تلے روند ڈالے جو بجلیوں کو ہاتھ میں لے کر زنداں کی دیواریں ڈھا دے (اردو ترجمہ) نذر الاسلام پہلے شاعر ہیں جنہوں نے بنگالی شاعروں میں علم بغاوت بلند کیا اور جنگ آزادی کا علم اٹھایا- انہوں نے بنگالی مسلمانوں کی نگاہوں کو افلاک کی بلندیوں کی طرف مائل کیا تاکہ وہ غلامی ، بے شرمی ، ذلت اور بے غیرتی کے غار سے نکل کر اپنا مقام پیدا کر سکیں - اور انسانیت کو ان نعمتوں سے مالا مال کر دیں جو اپنی کم نظری کے باعث اب تک محروم چلی آ رہی ہے - اقبال اور نذر الاسلام دونوں اسلامی اقدار اور بلاد اسلامی کے ترانے سناتے ہیں- خصوصاً اقبال کے تمام تصورات اسلامی ہیں - ان کی نظمیں ہوں یا اشعار اور مضامین ہوں یا مکاتیب ، مقالات ہوں یا خطاب ، ہر تحریر میں اسلامی روح کار فرما ہے وہ اسلامی اصولوں اور تعلیمات پر ہر چیز کو جانچتے اور پرکھتے ہیں ان کی نظر میں یورپ کا تفوق احیائے اسلام کے لیے بڑا سدراہ تھا - انہوں نے اس جذبے کا اظہار اردو کی بعض بہترین نظموں مثلاً ’’ شکوہ ، جواب شکوہ ‘‘ ، ’’نالۂ یتیم ‘‘ ، ’’ ترانۂ ملی ‘‘، ’’ خطاب بہ جوانان اسلام ‘‘ میں کیا ہے یہ ساری نظمیں جذبۂ اسلامی سے مملو ہیں جو مسلمانوں کو ان کے عظیم ورثے کی یاد دلاتی ہیں- اسی طرح زمانۂ حال میں بھی اس تفکر کے باوجود امید و یقین دلاتے ہیں : تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ ! اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ ! مستقبل میں اسلام کی سر بلندی کی بشارت یوں دیتے ہیں سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا اور انہوں نے دنیا میں اسلامی حکومت کے قیام کا خواب دیکھا : کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا ! اقبال کی مانند نذر الاسلام بھی دل و جان سے اسلام کے خواہاں تھے- ان کا بچپن خالص اسلامی ماحول میں گذرا تھا ان کے والد درویش منش انسان تھے جن کی روحانیت کا چرچا سن کر دور دور سے ہندو مسلمان کھچے چلے آتے تھے اپنی ابتدائی عمر میں نذرل خود بھی مؤذن اور امام رہ چکے تھے - اسی لیے اسلامی جذبہ ان کی رگوں میں رچا ہوا تھا - ان کی آخری دور کی شاعری میں یہ جذبات اور بھی والہانہ نظر آتے ہیں - ۱۹۳۰ء کے بعد ان کا روحانی جذبہ اور ایمانی جوش دوبارہ عود کر آیا - اسلامی موضوعات پر ان کی نظمیں ’’صبح امید‘‘،’’ شط العرب ‘‘، ’’ خالد ‘‘، ’’ عمر فاروق ‘‘، ’’ کمال پاشا ‘‘، ’’ انور‘‘، ’’ کھیا یار ترنی ‘‘ وغیرہ بہت مقبول عام ہیں - انہوں نے اسلامی تہواروں پر بھی بے شمار نظمیں لکھیں جن میں ’’ عید الفطر ‘‘ ، ’’ عید قربان ‘‘ ، ’’ محرم ‘‘ ، ’’ فاتحہ ، پارہ عم ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں - ان کے سورہ فاتحہ کے ترجمے سے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں : اے سارے جہاں کے پروردگار ! سب خوبیاں تیری ہیں تیرے رحم و کرم کا کوئی حد اور کنارہ نہیں اے خدا ! تو ہی روز جزا کا مالک ہے اے پروردگار ! ہم تجھی کو پوجتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں اے مالک ! ہم کو سیدھا راستہ دکھا اے خدا ! ہمیں ان کے راستے پر چلا جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کے راستے پر جو کافر ہیں ، مرتد اور بہکے ہوئے ہیں اے پروردگار ! ہم یہی چاہتے ہیں ان کی ’’ نعت ‘‘ کے چند اشعار یوں ہیں : مرحبا سید مکی مدنی العربی جس کی مدح سرائی تمام عالم کے شاعر بھی نہ کر سکے بندھنوں کو توڑنے والا ، خوف و ہراس کو دور کرنے والا وہ فوق البشر آ گیا تباہی کا خوفناک دیو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اندھے کنویں میں بند ہو گیا دجلہ اور فرات کے سینے پر لہریں مچلنے لگیں - (اردو ترجمہ) اپنے زمانے میں دنیائے اسلام کی زبوں حالی اور ابتری دیکھ کر ان کا دل بہت جلتا تھا- انہوں نے خدا سے مسلمانوں کے لیے یوں دعا کی : اے خدا ! تو اسلام کو توفیق دے ! مسلمانوں کی دنیا پھر آباد کر دے انہیں گمشدہ حکومت دوبارہ عطا کر ! قدیم قوت بازو اور دل آزاد عنایت کر ! (اردو ترجمہ) انہوں نے بھی اقبال کی مانند دنیا میں اسلامی حکومت کے قیام کا خواب دیکھا اور کہا : دیکھو آج عید گاہ شہادت میں جماعت بھاری ہو گئی ہے دنیا میں پھر اسلامی حکومت قائم ہو گی (اردو ترجمہ) اقبال اور نذر الاسلام دونوں نے مسلمانوں کی فتح ترکستان پر خوشی کا اظہار کیا- دونوں نے کمال پاشا کو داد دی - اقبال نے یوں فرمایا : ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا! اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا! نذر الاسلام نے اس موقع پر یوں کہا : کمال تو نے کمال کیا بھائی بھائی مرحبا ! صد آفرین ، تیری شمشیر زنی تو نے ایک ہی وار میں سارے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ذرا یہ بھی کہہ دے کون ہے دنیا میں جو ترکوں کی تلوار سے نہیں ڈرتا ؟ خوب کیا بھائی ، خوب کیا بزدل وہ دشمن سب بالکل صاف ہو گیا خوب کیا بھائی ، خوب کیا (اردو ترجمہ) انور پاشا سے خطاب کر کے نذر الاسلام کہتے ہیں : انور ! انور ! سینہ چھید کر ہمارا کلیجہ نکال لو اور پھر جو بزدل اور کمزور ہیں ان کو ہلاک کر ڈالو ! (اردو ترجمہ) نذر الاسلام نے ۱۹۳۳ء میں ’’پارہ عم ‘‘ کا منظوم ترجمہ پیش کیا - اور مفلوج ہونے سے قبل نبی کریم صلعم کی سیرت پر مرو بھا سکر (معمار صحرا) کے نام سے منظوم کتاب لکھنی شروع کی تھی - یہ دونوں کارنامے نذر الاسلام کی اسلام پسندی کی بین دلیل ہیں - نذر الاسلام نے اسلامی سنگیت کے ساتھ ساتھ بھجن اور شیام گیت بھی لکھے- ہندو مذہب کی مذہبی اقدار کو پیش کرنے کا مقصد ان کے نزدیک ہندو مسلم اتحاد کا بیج بونا تھا - اسی لیے انہوں نے دونوں تہذیبوں کی ترجمانی کی - وہ دونوں کے بہی خواہ تھے اور انہوں نے مساوات کا راگ الاپا اس کے برعکس اقبال سرتاپا اسلامی شاعر تھے وہ سمجھتے تھے کہ اسلام ہی دنیا کو سکون بخشنے کا واحد ذریعہ ہے اور اسی سے دنیا میں فلاح حاصل ہو سکتی ہے - اقبال اور نذر الاسلام دونوں نے کٹر اور کورانہ تقلید کے ملائوں کے خلاف آواز بلند کی اور اندھے پروہتوں کے خلاف نعرے لگائے - اقبال فرماتے ہیں : جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی ورنہ ’قوالی‘ سے کچھ کمتر نہیں ’علم الکلام‘ خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا! آہ ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا ، نہ فقیہہ وحدت افکار کی ، بے وحدت کردار ہے خام! قوم کیا چیز ہے ، قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام! لکیر کے فقیر ملائوں اور ربرہمنوںسے تنگ آ کر اقبال انہیں یوں تنبیہ کرتے ہیں : بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب! مشرق سے ہو بیزار ، نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر! اقبال کی مانند نذر الاسلام بھی سماج کے فرسودہ اور کھوکھلے رسم و رواج کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں - انہوں نے مفاد پرست اہل مذہب کی کورانہ تقلید سے بغاوت کی - ان کا فرمان تھا ، کہ مذہب انسان کے لیے ہے ، انسان مذہب کے لیے نہیں - مفاد پرست مذہبی پیشوا بغل میں کتاب دبائے پھرتے ہیں - لیکن انسان کا خون چوستے ہیں - یہ لوگ انسانیت کا احترام نہیں کرتے - اس لیے ان سے مذہبی کتابیں چھین لینی چاہیں - شاعر کے الفاظ میں : واہ ! وہ کون لوگ ہیں جو قران ، وید اور انجیل چوم رہے ہیں ان سے بزور کتابیں چھین لو - انسان ہی کے لیے کتاب نازل ہوئی تھی ، مگر مذہب کا دم بھرنے والی ایک جماعت انسان کو تباہ کرکے پوجا پاٹ کر رہی ہے انسان ہی کتاب کو لایا ہے ، کتاب انسان کو نہیں لائی (اردو ترجمہ) نذر الاسلام مسلمانوں کی بے جان اور نام نہاد عبادت کے خلاف تھے - جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچنے ایسی بندگی بے معنی ہے - وہ مسلمان صحیح مسلمان نہیں جس کا جوش ایمان سرد ہو - انہوں نے بے عمل مسلمانوں کی ریاکاری کا بھانڈا یوں پھوڑا ہے : درخت مسلم کو جتنا بھی ہلائو ، اس سے سوائے داڑھی ، شیروانی ، چغہ ، تسبیح اور ٹوپی کے کچھ نہ گرے گا - (اردو ترجمہ) مندرجہ بالا مماثلتوں کے ساتھ ساتھ اقبال اور نذر الاسلام کی شاعری میں کہیں کہیں کچھ تفاوت بھی ہے- اقبال کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات کی افراط ہے - ان کا تصور خودی و بے خودی ، نظریہ عشق و عقل ، تصور انسان ، کامل و مرد مومن ان کے فلسفے کے خاص محور ہیں اور وہ فلسفی کے نام سے بھی مشہور ہیں کیونکہ اقبال ابتداء ہی سے فلسفہ کے ممتاز طالب علم رہے ہیں جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے طالب علم تھے تو ان کا اختیاری مضمون فلسفہ تھا - یہاں ان کے استاد فلسفہ کے مشہور پروفیسر آرنلڈ تھے - اقبال نے بی - اے اور ایم - اے میں ان ہی سے فلسفہ پڑھا - وہ فلسفہ کے نہ صرف ممتاز اور ذہین طالب علم رہے بلکہ ان کی تمام عمر اس دشت کی سیاحی میں گزری - یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ فلسفہ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا - فلسفہ میں خصوصی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کی نظر اسلامی علوم و حقائق پر بھی بہت گہری تھی وہ خود کہتے ہیں : ’’میں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اسلام ، اس کے قوانین ، فلسفہ ، سیاست ، اس کی ثقافت و تاریخ اور اس کے ادب کے با احتیاط مطالعہ میں صرف کیے‘‘- نذر الاسلام کو اتنی سہولتیں میسر نہ تھیں- تنگدستی ، افلاس اور خانگی ذمہ داریوں نے انہیں باقاعدہ تعلیم کی نعمتوں سے محروم رکھا - گیارہ برس کی عمر میں لیٹوناچ کے طائفے میں شامل ہو گئے اور اس کے لیے گیت اور ناٹک وغیرہ لکھتے اور وقتاً فوقتاً تعلیم حاصل کرتے رہے - اس طرح ان کا عوامی تعلق کم سنی سے ہی پیدا ہو گیا تھا وہ ہمیشہ عوام کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتے تھے اور انہیں ان لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا- غربت کے دکھ جھیلنے کے باعث وہ غریبی کے دکھ کو سمجھتے تھے اور جہالت اور افلاس کی دلدل میں پھنسے ہوئے انسانوں کو اس سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے - اقبال کو نذر الاسلام پر ایک اور لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ اقبال نے استحکام شخصیت اور دنیائے اسلام کو منزل تک پہنچانے کے لیے’’ تصور خودی ‘‘ کا فلسفہ پیش کیا - خودی اقبال کے پیام کا مرکزی نقطہ ہے - خود ان کی بیان کی ہوئی تشریح کے مطابق خودی نام ہے تعین نفس کا - جو شخص اپنی پوشیدہ قوتوں کو جان لے گا اور ان قوتوں کو کام میں لائے گا اس کی خودی بیدار ہو گی اور وہ کائنات پر غالب رہے گا - انسان کے علاوہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ بھی ہے وہ خودی کی بدولت ہے - خودی کائنات کے ذرہ ذرہ میں کار فرما ہے - پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ می بینی ز اسرار خودی است خودی کی بدولت کائنات کا ہر بڑے سے بڑا کام ظہور پذیر ہوتا ہے - یہی قوت ہے جو انسان کو نگہداری ، خودگری ، خود آگاہی ، خود نگری اور نگہداری سکھاتی ہے - اور اس کو لامحدود قوتوں کا مرکز بنا دیتی ہے : سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں! پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں! سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے! کرن چاند میں ہے ، شرر سنگ میں یہ بیرنگ ہے ، ڈوب کر رنگ میں اسے واسطہ کیا کم و بیش سے نشیب و فراز و پس و پیش سے ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے اقبال سمجھتے ہیں کہ خودی کی حفاظت کرنا اور اسے کام میں لانا ہر انسان کا فرض ہے چنانچہ کہتے ہیں ـ: خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بلند فروفال محمود سے در گذر خودی کو نگہ رکھ ، ایازی نہ کر وہی سجدہ ہے لائق اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام اقبال نے خودی کی تربیت کے لیے تین اصول متعین کیے ہیں یعنی اطاعت الہی، ضبط نفس اور نیابت الٰہی- جو مسلمان یہ تینوں منزلیں کامیابی کے ساتھ طے کر لیتا ہے وہی ’’انسان کامل‘‘ بن جاتا ہے- اور اقبال کے نزدیک ’’ انسان کامل ‘‘ یعنی مومن بے پناہ قوتوں کا مالک ہو جاتا ہے : ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان! اس طرح اقبال کی شاعری میں حفظ خودی کے بارے میں بے انتہا اشعار ہیں- نذر الاسلام کی شاعری میں بھی کہیں کہیں ’’خودی اور معرفت نفس کا درس ملتا ہے- مگر اقبال کی مانند اتنا واضح اور کھلم کھلا نہیں - کبھی کبھی وہ بھی خیال کرتے ہیں کہ خودی ’’راز دروں حیات‘‘ اور’’بیداریٔ کائنات‘‘ کا ذریعہ ہے - عرفان نفس ہی کا نام خدا ہے اس لیے انسان کی خودی بیدار ہو تو خدا بھی اس پر راضی ہو جاتا ہے- ان کے الفاظ میں : اپنے میں آزاد اور اسلاف کی روح بیدار کرو خودی بیدار ہو تو خدا بھی اسے چاہنے لگتا ہے خدا کون ہے ؟ معرفت نفس ہے (اردو ترجمہ) خودی کے زور سے نذر الاسلام سب کو منزل پر پہنچنے کی تلقین کرتے ہیں- فرماتے ہیں: بہادر کہہ دے کہہ دے - میں سر بلند ہوں تو خودی کو پہچان! کہہ دے - میں ہوں میری فتح یقینی ہے (اردو ترجمہ) نذر الاسلام نے اپنی شاعری کے ضمن میں کہیں کہیں خودی کا تصور پیش کیا ہے- مگر یہ ان کا باقاعدہ مشن نہ تھا - ’’ عشق‘‘ کا تصور اقبال اور نذر الاسلام دونوں کے ہاں جداگانہ ہے- اقبال کے نزدیک ’’عشق ‘‘ کا مفہوم عمل سے ہے جس کی بدولت انسان کی خودی مستحکم ہوتی ہے - اقبال کے کلام میں عورت سے عشق بہت کم ہے - صرف ’’بانگ درا‘‘ کے دوسرے حصے میں جو یورپ میں لکھا گیا تھا دو نظمیں ایسی ہیں جن میں عورت سے عشق نمایاں ہے ایک ’’حسن و عشق‘‘ اور دوسرے ’’---- کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ دونوں نظمیں انگریزی اور یورپی رومانی شاعری کے روایتی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں - اس کے بعد اقبال کے کلام میں نسوانی حسن سے تاثر کی کچھ جھلک ’’بال جبریل‘‘ کی ان نظموں میں ملتی ہے جو یورپ کے دوسرے سفر میں لکھی گئی تھیں - یہ اقبال کی پیری کا زمانہ تھا - کہیں کہیں بڑی سنجیدہ شوخی ہے - مثلاً ان کی سب سے دقیق اور شاید سب سے اچھی نظم ’’ مسجد قرطبہ ‘‘ میں : آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں ہوائے قرطبہ ہی کے اثر سے اور کچھ شعروں میں عورت کا وہ حسن جھلکتا ہے ، مگر رنگ واعظا نہ ہے : یہ حوریان فرنگی ، دل و نظر کا حجاب بہشت مغربیاں جلوہ ہائے پا برکاب دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب! اقبال نے نسوانی کرداروں کے سلسلے میں زیادہ تر اسلام کی مقتدر ہستیوں مثلاً حضرت فاطمہ ؓ ، فاطمہ بنت عبداللہ ، شرف النساء ، اپنی ماں اور اسی طرح کی دیگر خواتین کا ذکر کیا ہے - اقبال کے ہاں عشق کے معنی روایتی عشق و محبت کے نہیں ہیں ، بلکہ یہ وہ طاقت ہے جس کی بدولت روح انسانی غیر فانی بقا حاصل کرتی ہے ، دنیا کے ہر ذرے میں عشق موجود ہے - یہی جذبہ کشش ہے ، اور اسی سے انسان میں تخلیقی استعداد پیدا ہوتی ہے - لیکن نذر الاسلام کے ہاں عشق کے ایسے فلسفیانہ تصور کا کوئی وجود نہیں ان کے ہاں عشق کا مفہوم رسمی ہی ہے- جہاں انہوں نے انقلاب اور بغاوت کے شعلہ پوش لفظوں سے اپنے ہم وطنوں کے دلوں کو گرمایا ، وہاں خود ان کے دل کے نہاں خانے میں عشق و محبت کی مشعلیں بھی فروزاں تھیں - ان کے ایک ہاتھ میں طبل جنگ تھا تو دوسرے ہاتھ میں محبت کی بانسری - انہوں نے عشق و محبت پر متعدد گیت اور نظمیں لکھیں - کہیں محبوب پر غم و غصہ ہے اور کہیں محبت کی بارش ، کہیں ہجر ہے تو کہیں وصال - ان کے کلام میں سوزو گداز ہے اور شگفتگی اور شادابی - مثلاً فرماتے ہیں - مجھ سے دور رہنے والی تم بجھنے والی شمع کی لو اور روشنی نہیں تم سراب ہو ، ہمیشہ دور سے چمکنے والی روشنی ہر جگہ ،ہر دور میں اور ہر زمانے میں ، میں نے تمہاری ہی پرستش کی ایک ہی جنم میں مختلف طریقوں سے میں نے تمہیں چاہا مجھے جہاں بھی حسن نظر آیا میں نے اس کی پرستش کی مگر تمہیں اپنے خیال کے مندر میں بٹھا کر ہر حسن میں ، ہر حسیں منظر میں ، میں نے تمہیں ہی ڈھونڈا (اردو ترجمہ) مزید ایک نظم میں لکھتے ہیں : میں نے آواز دی اور کہا - قریب آئو اور قریب اور تم رو پڑیں ، بولیں - دیکھو یہ تارے اور چاند اب تک جاگ رہے ہیں - انہیں سو جانے دو ! ساری کائنات کو غرق ہونے دو - اور تب لاج کا گھونگھٹ چہرے سے اتر جائے گا اور تم مجھے پا لو گے اور پھر میں ہونگی اور تم اور ہماری دنیا میں محبت ہو گی صرف محبت ! (اردو ترجمہ) دیگر ایک گیت جس میں ہجر کے تاثرات کی عکاسی یوں ہے : مجھ سنگ دل پر تونے کس کس طرح عشق کے نقش بنائے تھے خود کو جلا کر میرے سیہ خانۂ دل میں محبت کی لو بھڑکائی تھی اپنی پوجا کے پھولوں سے اس بے برگ و ثمر پیڑ کو ہرا بھرا کر دیا تھا زندگی کی صبح و شام میں اور حیات و ممات کی الجھنوں میں، میں نے تجھے دیکھا تھا مگر تو مجھ سے جدا ہو گئی ہے ، ایک اجنبی دیس میں مجھے بے چارگی و تنہائی کے عالم میں چھوڑ کر تو رخصت ہو چکی ہے (اردو ترجمہ) اقبال ایک بڑے شاعر اور فلسفی تو تھے ہی ، عملی سیاست دان کی حیثیت سے بھی کم نہ تھے- اقبال نے مسلم لیگ میں شامل ہو کر مسلمانوں کے لیے سیاسی خدمات انجام دیں - دسمبر ۱۹۳۰ء میں انہوں نے لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد کی صدارت کی تھی اور اپنے خطبہ صدارت میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی - لیگ کے مقاصد کو پورا کرنے میں انہوں نے قائد اعظم کا ہاتھ بٹایا - مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور مفادات سے متعلق قائد اعظم کو ان کے سیاسی آراء و افکار سے پورا اتفاق تھا - ۱۹۳۶ء میں قائد اعظم نے اقبال کو مسلم لیگ کے پنجاب پارلیمانی بورڈ کا صدر مقرر کیا اس لحاظ سے اقبال پکے مسلم لیگی تھے اور اسلامی قومیت کے قائل تھے - ان کے نزدیک دنیا بھر میں دوقومیں ہیں ایک اسلامی قومیت اور دوسری غیر اسلامی قومیت - اس کے برخلاف نذر اسلام متحدہ قومیت کے قائل تھے وہ ہندوستان کے مسلمان، ہندو ، بدھ ، عیسائی سب کے خیر خواہ تھے اور سب کو ایک نظر سے دیکھتے تھے - اور کانگرس کے رکن تھے- ۲۱ نومبر ۱۹۲۱ء کو جب انگلستان کے پرنس آف ویلز پاک و ہند کی سیر کو آئے تو کانگرس کے زیر سرکردگی ملک بھر میں ہڑتال منائی گئی - اس وقت نذر الاسلام کمیلا میں قیام پذیر تھے - کمیلا کی مقامی کانگرس نے نذرالاسلام سے ’’ جاگرنی ‘‘ (نغمہ بیداری) کے عنوان سے قومی بیداری کا ایک گانا لکھوایا - انہوں نے فرمائشی گانا لکھنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہڑتال کے دن جلوس میں شریک ہو کر گلے میں ہارمونیم لٹکائے یہ گانا خود راستے میں گاتے پھرتے - اس نظم میں شاعر نے انسانیت کی بھیک مانگی - اہل اقتدار کے سامنے مفلوک الحال قوم کی نجات کا مسئلہ پیش کیا - اس گانے کی چند سطریں یوں ہیں : اے شہریو! منہ موڑ کر دیکھو تمہاری بھوکی اولادیں دروازے پر ہیں دو -- انسانیت کی بھیک دو جاگو ! جاگو ! خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگو! جاگو جاگو رے ! جاگو ! (اردو ترجمہ) ۲۲ مئی ۱۹۲۶ء کو کرشن نگر میں صوبائی کانگرس کا اجلاس منعقد ہوا - اس موقعے پر شاعر نے اپنا مشہور گیت ’’کانڈاری ہو شیار!‘‘ (ناخدا - ہو شیار!) لکھا جو اس جلسے میں پہلی دفعہ گایا گیا - اس گیت میں انہوں نے ہندو اور مسلمانوں میں باہمی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی اور ان میں جذبۂ آزادی پیدا کیا - چند سطریں ملاحظہ ہوں : بے بس قوم ڈوب کر مر رہی ہے ، اسے تیرنا نہیں آتا اے ناخدا ! آج ہم دیکھ لیں گے کہ اپنے وطن کو آزاد کرنے کا تجھ میں عزم ہے یا نہیں کون بد بخت پوچھتا ہے - وہ ہندو ہیں یا مسلمان اے ناخدا ! کہہ دے - انسان ڈوب رہا ہے - اپنی ماں کی اولادیں ڈوب رہی ہیں- (اردو ترجمہ) مگر کبھی کبھی کانگرس کے لیڈروں کی چالبازیوں پر انہوں نے غصے کا اظہار یوں کیا ہے: پیٹ میں ایک اور منہ میں دو یہی تو تمہاری عیاریاں ہیں اسی وجہ سے عوام تم پر ہنستے ہیں اور دنیا کی نظروں میں بھی اپنی قدر کھو بیٹھے دھوکہ دینے کے افسوس میں اپنا ضمیر بھی ملامت کرتا ہے - آج تم شرک باز ہو بزدل اور فریب باز ہو (اردو ترجمہ) ملک میں آزادی کی تحریکیں تحریک خلافت (۱۹۱۹ئ) اور تحریک ترک موالات (۱۹۲۰ء - ۱۹۲۲ئ) چل رہی تھیں - لیکن اقبال کو ان تحریکوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی انہوں نے تحریک خلافت کو جو مولانا محمد علی کا اصل مقصد تھا حماقت کہنے سے پس و پیش نہیں کیا - انہوں نے کہا کہ خلافت ایک مردہ مسئلہ ہے اس کا ہندوستانی مسلمانوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے - جنہیں ترکستان یا عرب کے مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے قطعی مختلف مسائل در پیش ہیں - اقبال نے اتا ترک کے ذریعے خلافت ختم کرنے پر مولانا محمد علی سے مختلف مؤقف اختیار کیا - اقبال نے اس بات کی وضاحت اس طرح کی کہ تاریخ ماضی کے ساتھ جھوٹی عقیدت اور اس کا مصنوعی احیاء نو ایک ایسی قوم کے مسائل کا کوئی حل نہیں پیش کر سکتا جو ترقی کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے - لیکن بہت کم مسلمانوں نے جو مذہبی جوش سے سرشار تھے ان کی اس بات سے اتفاق کیا - اس وقت مذہبی علماء نے ہندوستانی سیاست میں زبر دست طاقت حاصل کر لی تھی اور اقبال کے لیے یہ بات انتہائی تکلیف دہ تھی - اقبال نے بال جبریل میں ایک نظم ’’ملا و بہشت ‘‘ میں جنت کے اندر خدا کے حضور میں ملا کی حالت زار کا طنزیہ نقشہ یوں کھینچا ہے - میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت! عرض کی میں نے الٰہی میری تقصیر معاف خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت! نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقوال! بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت! ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا اور جنت میں نہ مسجد ، نہ کلیسا ، نہ کنشت! ۱۹۲۰ء میں مولانا محمد علی کی سرکردگی میں تحریک خلافت کا ایک وفد انگلستان گیا اور برٹش گورنمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کیے- لیکن ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی اور ناکام لوٹنا پڑا- اس موقع پر اقبال نے ’’ دریوزہ خلافت‘‘ کے نام سے ایک مختصر نظم لکھی جس کا ایک قطعہ یوں ہے: نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا ؟ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی ! خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی ! اقبال محمد علی کی برطانیہ کے خلاف احتجاجی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن ان کے باغیانہ جذبے اور اسلام کی راہ میں ان کی قربانیوں کی تعریف کرتے تھے اسی لیے ۲۸ دسمبر ۱۹۱۹ء میں جب انہیں کراچی جیل سے رہائی ملی تو اقبال نے ’’ اسیری ‘‘کے عنوان سے نظم لکھی جس میں مولانا محمد علی کو یوں خراج تحسین پیش کیا : ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند قطرئہ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند مشک از فر چیز کیا ہے ، اک لہو کی بوند ہے مشک بن جاتی ہے ہو کر نافۂ آہو میں بند ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام و قفس سے بہرہ مند اقبال کے برخلاف قاضی نذرالاسلام نے ترک موالات اور خلافت کی تحریکوں سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا- انہوں نے اس سلسلے میں سیاسی جذبات سے متاثر ہو کر عوام کو بر ملا فتح و نصرت کی خوشخبری سنائی - ان تحریکوں کا پرچار کرتے ہوئے جب مولانا شوکت علی اور مولانا محمدعلی گرفتار کر لیے گئے تو نذرالاسلام نے حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی - بارے سینے میں سچا خدا جاگتا ہے - آج ہم بھی دیکھ لیں گے کہ اللہ کے گلے میں کون زنجیر ڈال سکتا ہے (اردو ترجمہ) ترک موالات اور خلافت کی تحریکوں میں ہندو مسلم اتحاد ، ملک کے لیے حریت پسندوں کی قربانی اور جان نثاری کی تصویر نذرالاسلام نے ان الفاظ میں کھینچی - ہم روئیں گے نہیں - جائو --- قید خانے میں جائو - جب ہم تو تم بہادروں کی جماعت ہو - وہی زنجیر ہمارے تیس کروڑ لوگوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دے گی نجات اور ملاپ کے لیے جنہوں نے جان کی قربانی دی ہے ہم ہندو و مسلم انھیں کی جیت کے راگ گائے جاتے ہیں جن کی زنجیروں کی آواز سے بہادروں کی شمشیر نجات بے نیام ہو گئی ہے ہم انہیں کے تیس کروڑ بھائی ہیں اور انھیں کی مدح سرائی کئے جاتے ہیں (اردو ترجمہ) تحریک ترک موالات کے پروگرام میں چرخہ سے سوت کا تنا بھی داخل تھا - کپڑے میں ملک کو خود کفیل بنانے کے لیے حریت پسند علماء اور گاندھی جی نے لوگوں کو سوت کاتنے کی ترغیب دی - ان کا کہنا تھا کہ اسی کے توسط سے ملک کو آزادی حاصل ہو گی - نذر الاسلام نے بھی اپنی شاعری میں اس راہ عمل کی پرزور حمایت کی : گھوم --- گھوم رے گھوم ، میرے پیارے چرخے گھوم ! تیرے چرخے کی آواز میں آزادی کی آمد آمد کا غلغلہ سن رہا ہوں ! بھائی ! تیری گردش کی آواز میں گویا ہمیشہ یہی سننے میں آتا ہے کہ آزادی کا عظیم الشان دروازہ کھل رہا ہے - اب دیر نہیں ہند کا طالع مسعود پلٹ آیا ہے - دکھ کی اندھیری رات بیت چکی ہے (اردو ترجمہ) نذر الاسلام کی انقلابی شاعری میں چیخ و پکار ہے ’گرج ہے‘ چمک ہے گویا ایک متلاطم سمندر ہے- انہوں نے کھلم کھلا حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا - ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم یہ زنجیر پہن کر ہی تمہاری زنجیروں کو برباد کر دیں گے ‘‘ انہوں نے نوجوان طلبا ء میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے بے شمار گیت لکھے - ان کی آتش بار تحریروں سے خوف زدہ ہو کر حکومت برطانیہ نے بغاوت کے الزام میں انہیں ۸ جنوری ۱۹۲۳ء میں تقریباً ایک سال قید بامشقت کی سزا دی - ۱۵ دسمبر ۱۹۲۳ء میں انہیں قید سے رہائی حاصل ہوئی ۱۹۳۰ء میں پھر شاعر پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا اور چھ ماہ کی قید بامشقت کا حکم صادر ہوا - باغیانہ یہ جذبات کے حامی ہونے کے الزام میں ان کے کلام کے کئی مجموعے حکومت وقت نے ضبط کر لیے - اس نکتے پر ہم نذر الاسلام کو عملی اور کھلے انقلابی ضرور کہیں گے - اقبال کی تحریریں اردو و فارسی دونوں زبانوں میں ہیں اور ان کی کچھ تصانیف انگریزی زبان میں بھی ہیں- وہ بنگلا زبان سے ایک دم ناواقف تھے - نذر الاسلام بنگلا زبان میں لکھنے والے ہیں لیکن انہیں اردو و فارسی زبان پر اچھی دسترس حاصل تھی- کم عمری میں ہی انہوں نے عربی ، فارسی کی تعلیم اپنے والد قاضی فقیر محمد سے حاصل کی - ان کے چچا قاضی بذل کریم بھی فارسی ادب کے بڑے ماہر تھے- دوران تعلیم فارسی اختیاری زبان کی حیثیت سے لی تھی - پہلی جنگ عظیم کے دوران کراچی میں قیام کے دوران بنگالی پلٹن میں فارسی کے ایک پنجابی ماہر مولوی صاحب سے نذر الاسلام کی ملاقات ہوئی - انہوں نے مولوی صاحب سے دیوان حافظ ، مثنوی مولانا رومؒ اور فارسی کی دوسری کتابیں پڑھیں - اس طرح انہیں اردو ، فارسی اور عربی زبان سے واقفیت حاصل کرنے کا بارہا موقع ملا - نذر الاسلام نے حافظ شیرازی کی تمام رباعیات (۷۵) کا بنگلا منظوم ترجمہ کیا- اور آخر میں مختصر طور پر حافظ کے حالات زندگی بھی تحریر کئے- جو پہلی بار ۱۹۳۰ء میں طبع ہوئی - پھر عمر خیام کی ۱۹۸ رباعیات کا منظوم ترجمہ پیش کیا (طبع اوّل۱۹۶۰ئ) - نذر الاسلام کے عشقیہ سنگیت پر عمر خیام اور حافظ کا کافی اثر نظر آتا ہے - ان دونوں کی طرح نذر الاسلام کی عشقیہ شاعری میں بھی حسن کی نغمہ سرائی ، جوانی کی مستی، جسمانی لذت اور لطف اندوزی کا بیان بکثرت نظر آتا ہے - تینوں کی شاعری میں شباب و بہار ، شراب و ساقی اور کیف و سرور کے نظارے نظر آتے ہیں - اقبال نے بحروں اور قوافی میں حافظ کا تتبع کیا ہے- لیکن وہ حافظ کی بعض تعلیمات کو نا پسند کرتے ہیں - حافظ شیرازی کے متعلق فرماتے ہیں - ’’خواجہ صاحب کے تصوف پر اعتراض ہے- میرے نزدیک تصوف وجودی مذہب اسلام کا کوئی جزو نہیں بلکہ مذہب اسلام کے مخالف ہے اور یہ تعلیم غیر مسلم اقوام سے مسلمانوں میں آئی ہے ‘‘ مزید کہتے ہیں - ’’خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں - میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدا نہیں ہوا - لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پر پیدا کرنا چاہتے ہیں- وہ قوائے حیات کو کمزور اور ناتواں کرنے والی ہے ‘‘- اگر خواجہ حافظ کی شاعری کے موضوعات اقبال کے لیے گوارا نہ تھے تو خیام کا تتبع کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جن کے ہاں کھائو پئیو اور عیش کرو کا درس ملتا ہے- اقبال اردو و فارسی کے قادر الکلام شاعر ہیں- اردو اور انگریزی نثر میں ان کے مقالات کتب خطوط ، بیانات اور تقریریں ہیں - جبکہ نذر الاسلام نے متنوع موضوعات پر قلم اٹھایا - نذر الاسلام بیک وقت شاعر ، ناول نگار ، افسانہ نگار ، ڈرامہ نویس ، گیت نویس، موسیقی دان ، گائیک ،اداکار ، صحافی اور مترجم ہیں - بہرحال دونوں قومی رہبری کے علم بردار اور آفاقی شاعر ہیں - دونوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار کرنے میں اہم حصہ لیا- دونوں کے طرز بیان مختلف ہو سکتے ہیں مگر دونوں کا نصب العین ایک ہی تھا - دونوں کے کلام سے مسلمانوں میں قومی بیداری پیدا ہوئی - دونوں کے آہنگ پر برصغیر کی آزادی کی تحریک آگے بڑھی - دونوں کا مقصد انسانیت کا بول بالا کرنا تھا اور ان کے کلام سے مظلوموں کے حقوق کی ترجمانی ہوئی - قومی تعمیر میں دونوں دوش بدوش نظر آتے ہیں - قوم ان کی مرہون منت ہے اور دل و جان سے انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے - حواشی ۱ - محمد اقبال ، ڈاکٹر ، بانگ درا - لاہور ، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز ۱۹۶۵ء ۲ - محمد اقبال ، ڈاکٹر ، بال جبریل - لاہور ، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز ۱۹۶۶ء ۳ - محمد اقبال ، ڈاکٹر ، پیام مشرق - لاہور ، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز ۱۹۶۸ء ۴ - فاطمہ تنویر ، ڈاکٹر ، اردو شاعری میں انسان دوستی - دہلی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، ۱۹۹۴ء ۵ - آل احمد سرور ، دانشور اقبال ، علی گڑھ ، ایجوکیشنل بک ہائوس ، ۱۹۹۴ء ۶ - عبدالسلام خورشید ، سرگذشت اقبال ، لاہور ، اقبال اکیڈمی ، ۱۹۷۷ء ۷ - رئیس احمد جعفری ، اقبال کی سیاست ملی ، لاہور ، اقبال اکیڈمی ۱۹۵۷ء ۸ - عزیز احمد ،اقبال نئی تشکیل ،لاہور ، اقبال اکیڈمی ، ۱۹۶۸ء ۹ - رفیق زکریا ، ڈاکٹر ، اقبال : شاعر اور سیاست دان ، نئی دلی ، انجمن ترقی اردو (ہند) ۱۹۹۵ء ۱۰ - محمد احمد خان ،اقبال اور مسئلہ تعلیم ، لاہور ، اقبال اکیڈمی ، ۱۹۷۸ء ۱۱ - ابوسعید نورالدین ، ڈاکٹر ، اسلامی تصوف اور اقبال ، لاہور ، اقبال اکیڈمی- ۱۹۹۵ء ۱۲ - محمد طاہر فاروقی ، خیابان اقبال ، پشاور ، یونیورسٹی بک ایجنسی ، ۱۹۶۶ء ۱۳ - قاضی احمد میاں اختر ، اقبالیات کا تنقیدی جائزہ ،کراچی ، اقبال اکیڈمی ، ۱۹۶۵ء ۱۴ - شفیق الرحمن ہاشمی ، اقبال کا تصور دین ، نئی دہلی ، موڈرن پبلشنگ ہائوس ، ۱۹۹۳ء ۱۵ - وحید قریشی ، ڈاکٹر ، مجلہ اقبالیات ، (جولائی - ستمبر ۱۹۹۷ئ) لاہور ، اقبال اکادمی ۱۶ - محمد عبداللہ ، ڈاکٹر ، نذر الاسلام ، ڈھاکہ ، پاکستان اکیڈمی ، ۱۹۷۱ء ۱۷ - اختر حسین رائے پوری ، ڈاکٹر ، پیام شباب ،لاہور ، اردو مرکز ، ۱۹۳۸ء ۱۸ - یونس احمر ، قاضی نذر الاسلام زندگی اورفن ، کراچی ، نذرل اکیڈمی ، ۱۹۶۷ء ۱۹ - انعام الحق، ڈاکٹر ، مسلم شعرائے بنگال ، کراچی ، ادارئہ مطبوعات پاکستان،۱۹۵۴ء ۲۰ - رفیق الاسلام ، ڈاکٹر ، نذر الاسلام ، حیات و کارنامے (بنگلا) ، ڈھاکہ ، بنگلا اکادمی، ۱۹۶۴ء ۲۱ - امیر حسین چودھری ، نذر الاسلام کی شاعری میں سیاست (بنگلا) ڈھاکہ ، بنگلا بازار ، ۱۹۶۱ء ۲۲ - Mizanur Rahman, Nazrul Islam , Dhaka, Purana Paltan, 1978 ۲۳ - Serajul Islam Choudhury, Introducing Nazrul Islam , Dhaka,1968 شوقی اور اقبال کی اندلسیات کا تقابلی مطالعہ ڈاکٹر جلال السعیدالحفناوی احمد شوقی (۱۸۷۰ء - ۱۹۳۲ئ) اور محمد اقبال (۱۸۷۷ء - ۱۹۳۸ئ) مسلمانوں کے مایہ ناز عبقری شعراء میں شمار ہوتے ہیں - احمد شوقی نے مصر میں اور علامہ اقبال نے برصغیر پاک و ہند میں اپنے کلام کے ذریعے دینی اور سیاسی شعور کی تشکیل میںاہم کردار ادا کیا - دونوں کے سیاسی اور شعری شعور میں سقوط غرناطہ موجود ہے - ہر دو نے مسلمانوں کے پر شکوہ ماضی اور عبرت ناک انجام پر خون کے آنسو بہائے ہیں - علامہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق نظمیں ’’مسجد قرطبہ‘‘، ’’ہسپانیہ ‘‘ ، ’’ طارق کی دعا ‘‘ اور ’’عبدالرحمٰن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت‘‘ (سر زمین اندلس میں) لکھ کر مسلمانوں کو ان کے عروج و زوال سے آگاہ کرنے کی سعی کی - ’’ مسجد قرطبہ‘‘ علامہ اقبال ہی کی نہیں ، دنیائے شعر کی چند بڑی نظموں میں شمار ہوتی ہے - اسی طرح شوقی نے بھی اندلس کے سنہرے ماضی کو شعر کے روپ میں بیان کیا - اس نے بھی ’’نونیہ‘‘ کے نام سے ایک منظومہ تصنیف کیا جسے وہ ’’ اندلسیہ‘‘ بھی کہتا ہے اور جو ابن زیدون کے مشہور نونیہ کا معارض ہے - احمد شوقی نے اپنے ایک نثری ڈرامے جس کا نام ’’ امیرۃ الاندلس ‘‘ ہے اور جو اندلس کی بربادی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے اس کے نکل جانے کا نوحہ ہے - اسے ’’ آشوب اندلس ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے - ۱۹۱۲ء میں جب بلغاریہ نے ’’ ادرنہ ‘‘ پر قبضہ کر لیا تو احمد شوقی نے ’’الاندلس الجدیدہ ‘‘ کے نام سے بھی ایک نظم لکھی جس میں اس نے ’’ ادرنہ ‘‘ شہر سے خطاب کیا جو عثمانی حکومت کے دو اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے - ادرنہ اور مقدونیہ میں عثمانی سلاطین کے مقابر ہیں - اقبال نے بھی ’’ادرنہ‘‘ پر ایک نظم اسی حوالے سے لکھی - کلام اقبال کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو شوقی اور اقبال میں بہت سی چیزیں قدرمشترک کے طور پر نظر آتی ہیں ، مثلاً موضوع ، معنی اور ہیئت میں خاصی مشابہت ہے، بالخصوص اسلامی موضوعات جن پر اقبال نے کثرت سے اشعار کہے - اندلس کے حوالے سے یہ بات اقبال کی بال جبریل پڑھتے وقت بالکل واضح ہو جاتی ہے جس کا آغاز انہوں نے قصیدے کے انداز میں دعا کے عنوان سے کیا ہے - اس تمہیدی قصیدے کے بعد اقبال بنیادی موضوع کی طرف منتقل ہوتے ہیں ، اور وہ ہے ’’ مسجد قرطبہ‘‘ اقبال اپنی آواز کو معتمد بن عباد کی آواز کے ساتھ ملا کر زوال اندلس کے اس المناک حادثے کا ذکر کرتے ہیں جو در حقیقت ہر عرب اور ہر مسلمان کے لیے سوہان روح ہے - پھر ’’ قید خانے میں معتمد کی فریاد ‘‘ کو اشعار میں نظم کرتے ہیں - اسی طرح عبدالرحمٰن الداخل کے ایک قصیدے سے متاثر ہو کر اقبال نے ’’ عبدالرحمٰن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت‘‘ کے عنوان سے بھی اشعار نظم کیے ہیں - ہندوستان واپسی پر سر زمین اندلس کو الوداع کہتے ہوئے ، اقبال نے ’’ ہسپانیہ‘‘ کے عنوان سے ایک قصیدہ رقم کیا جس میں اسے مسلمانوں کے خون کا امین گردانا بلکہ ایک محفوظ قلعہ اور حرم کے مانند قرار دیا - اقبال نے اندلس سے متعلق اپنے شعری تاثر کو جس طرح دعا سے شروع کیا ، اسی طرح دعا کے ساتھ انہیں ختم کیا - آغاز اپنی دعا سے اور اختتام طارق بن زیاد کی دعا سے - تاریخی اعتبار سے احمد شوقی اور علامہ اقبال ایک ہی صدی میں ایک دوسرے کے ہمعصر تھے - دونوں ہی اپنے ماضی اور تاریخ سے خاص طور پر متاثر تھے - اہرام مصر آج اپنے تعمیراتی اسلوب میں ایک طلسماتی کیفیت لیے ہوئے ہیں - ابوالہول کا عظیم ہیکل صحرائی ریت کے بیچوں بیچ اپنے معماروں کے فن کی عظمت کا مظہر نظر آتا ہے - شوقی نے اپنا قصیدہ ’’علی سفع الہرم(۱) ‘‘ اور ’’ ابوالہول (۲) ‘‘ نظم کیا ، جبکہ اقبال نے ’’ اہرام مصر(۳) ‘‘ اور ’’ اہل مصر سے(۴) ‘‘ کے نام سے نظمیں لکھیں - یہ دونوں حضرات اسلام اور مسلمانوں کے شاعر کہلائے اور ان کے باطنی جذبات ، مکہ یعنی نبی ﷺ اور خدا کے حضور سر بسجود ہونے کی جگہ اور مقام ابراہیم یعنی مسلمانوں کے کعبے کی طرف متوجہ ہوتا تھا اور آستانۂ نبوی یعنی مدینے کی طرف جو خلافت اسلامیہ کا دارالخلافہ تھا متوجہ رہتے تھے - چنانچہ عرب ، اسلام ، رسول ، قرآن ، مکہ ، وحی وغیرہ ایسے موضوعات تھے جو ان دونوں (شوقی اور اقبال ) کی شعری تخلیقات میں بہت اہم مقام حاصل کر چکے تھے - اور یہ امر شوقی کے قصیدے ’’ الھجرہ النبویہ ‘‘ ، ’’نہج البردہ ‘‘ فی ذکری المولد اور الی عرفات اللہ ‘‘ وغیرہ سے نہایت واضح ہے ، اور اقبال کے یہاں بھی یہ بات ’’طلوع اسلام‘‘، ’’بلاد اسلامیہ ‘‘ ، ’’شکوہ ، جواب شکوہ ‘‘ ، ’’مسلم ‘‘ ، ’’بلال ‘‘، ’’شفاخانۂ حجاز‘‘ اور’’ خطاب بہ نوجوانان اسلام‘‘ وغیرہ موضوعات میں اسی طرح پائی جاتی ہے--- اور ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ ایمانی قوت‘‘ نے ان قصائد کا الہام ان دونوں شاعروں کے دلوں پر یکساں انداز میں کیا - ان دونوں کے وطنی جذبات کا انعکاس اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے عالم اسلام مثلاً ترکی ، فلسطین ، دمشق اور بیروت کے حالات ، اسی طرح خلافت اسلامیہ اور ترکوں کے مسائل اور قومی رہنمائوں کا ذکر کیا ہے جیسا کہ شوقی نے ’’ الی الخدیو اسماعیل (۵) ‘‘ ، ’’محمد علی باشاہ (۶) ‘‘ ، ’’ مصطفی کامل پاشا (۷)‘‘ ، ’’ محمد فرید (۸) الخلدیو اور(۹) ’’سعد زغلول ‘‘ ناموں سے قصائد لکھے اور اقبال نے ’’پیام فاروق(۱۰) ‘‘ ، ’’دریوزہ خلافت (۱۱)‘‘ اور ’’عبدالقادر کے نام (۱۲)‘‘ کے نام سے نظمیں لکھیں - اسی اثناء میں شوقی نے ’’ عثمانیوں اور یونانیوں کی لڑائی سے (۱۳) ’’ رتاء ادرنہ (۱۴) ‘‘ اور ’’ تحیہ للترک ایام حرب الیونان(۱۵) ‘‘ کے نام سے قصائد لکھے جبکہ علامہ اقبال نے تحریک پاکستان کا نظریہ دیا اور ان کا وہ ارادہ متحقق ہوا جسے وہ نظم کرنا چاہتے تھے - ’’ترانہ ملی (۱۶) ‘‘ اور ’’وطنیت (۱۷) ‘‘ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں - احمد شوقی ۱۲۸۵ ھ مطابق ۱۸۶۸ء میں قاہرہ میں پیدا ہوئے - ددھیال کے رشتے سے ان کا تعلق تین نسلوں،کردی ، عربی اور جرکسی سے تھا ، اور ننھیال کی طرف سے ترکی اور یونانی نسلوں سے - ان کے نانا ترک تھے - اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ شاعری کا جوہر انہیں اپنے یونانی اور عرب آباء سے ورثے میں ملا ہو گا - شوقی اگرچہ کسی خاص سیاسی جماعت سے متعلق نہیں تھے، تاہم ان کے پیش نظر ایک سیاسی فلسفہ یقینا تھا - وہ اپنے وطن عزیز کی کامل آزادی کے علمبردار تھے - ان کا دل وطن اور اہل وطن کے مصائب پر کڑہتا تھا - آخر وہ وقت آ پہنچا جب حالات نے انہیں اس کے اظہار پر مجبور کر دیا - جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی ، اس وقت انگریزوں نے خدیو عباس حلمی کو سلطنت عثمانیہ کی طرف رجحان رکھنے کی بنا پر تخت سے معزول کر دیا اور اس کی جگہ سلطان حسین کامل بن اسماعیل کو تخت نشین کر دیا گیا - اس موقع پر حافظ ابراہیم اور دیگر شعرا نے حسین کامل کی خدمت میں ہدیہ تہنیت پیش کیا - شوقی کے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ وہ بھی نئے بادشاہ کی مدح سرائی کریں ، چنانچہ انہوں نے مدحیہ قصیدہ لکھا : الملک فیکم آل اسماعیلا لازال ملککم یظل النیلا (۱۸) (بادشاہت ان میں آل اسماعیل سے چلی آ رہی ہے- نیل ہمیشہ ان کی بادشاہت کے سائے میں ہے -) اس قصیدے کے چند اشعار میں تاویل کی گنجائش تھی لیکن اسے تعریض سمجھا گیا، اور انگریز ان سے ناراض ہو گئے - ۱۹۱۵ء کے اوائل میں انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا - انہوں نے اس مقصد کے لیے سپین کو منتخب کیا اور ’’بارسلونا ‘‘ میں قیام پذیر ہو گئے - اس واقعہ سے شوقی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا- اب تک وہ زندگی میں عیش و مسرت سے شناسا رہے تھے لیکن اس جلاوطنی سے ان کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی ظاہر ہو گیا کہ دنیا پھولوں کی سیج نہیں- جلاوطنی کے باعث ان کا دل گونا گوں غموں کی آماجگاہ بن گیا تھا- صاحب قصیدہ کے لیے یہ غم کتنے ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہوں لیکن فن شاعری پر اس کا بڑا خوشگوار اثر پڑا - فن کی تکمیل کے لیے یہ غم بہت ضروری تھے - اس دوران میں انہوں نے مسلم ہسپانیہ کے اجڑے ہوئے آثار و نقوش اپنی آنکھوں سے دیکھے- الاندلس الجدیدہ کے نام سے اس پر ڈھائے گئے مظالم کے خلاف لکھی- انہوں نے تاریخ اندلس کا گہرا مطالعہ کیا- تاریخ پہلے بھی ان کا پسندیدہ موضوع تھی- اب انہوں نے عام تاریخ سے ہٹ کر زیادہ توجہ تاریخ اسلام کی طرف دینا شروع کر دی - ان کی کتاب دول العرب و عظماء الاسلام اسی تاریخی ذوق کا نتیجہ ہے (۱۹)- ۱۹۱۹ ء میں جنگ ختم ہونے کے بعد شوقی کو مصر واپس بلا لیا گیا جہاں اہل مصر نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا- وہ قصر شاہی سے لاتعلق ہوگئے اور سرکاری ملازم ہونا پسند نہ کیا- اپنی خاندانی جائیداد اور املاک کا انتظام سنبھال لیا اور زیادہ تر وقت شعر و شاعری میں صرف کرنے لگے- لیکن اب وہ سخن آرائی کی عام روش سے ہٹ کر قومی شاعر کی حیثیت سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے - ۱۹۲۴ ء میں جب مصر میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تو شوقی کو ’’مجلس الشیوخ ‘‘ کا رکن چنا گیا - اب شوقی کی شہرت کا حلقہ روز بروز وسیع تر ہوتا جا رہا تھا ، ان کی شاعری کی دھوم عرب دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی تھی اور ہر طرف ان کی عظمت و شان میں اضافہ ہو رہا تھا - اب وہ جہاں جاتے ان کا عظیم الشان اور فقید المثال استقبال کیا جاتا اور مصر آنے والا ہر بڑا آدمی ان کی ملاقات کو ضروری خیال کرتا- اس وقت شوقی اپنے بلند پایہ کلام کی بنا پر سارے عالم عرب میں بڑی عزت و احترام کے مالک تھے - عرب کے ادیب اور شعراء ان کی عبقریت اور عظمت شان کے معترف تھے - ۱۹۲۷ء میں قاہرہ کے ’’اوپیرا ہال ‘‘ میں ان کی عزت و تکریم کی خاطر ایک عظیم الشان جشن منایا گیا جس میں حجاز کے علاوہ تمام عرب ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی - اس میں شوقی کے حضور شاندار مدحیہ قصائد پیش کیے گئے اور علو مرتبت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ’’ امیر الشعرا ‘‘ تسلیم کیا گیا - حافظ ابراہیم تقریب میں شامل تمام شعرا کی طرف سے نمائندہ بن کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے : امیر القوافی قداتیت مبایعا وھذی وفود الشرق قد بایعت معی (اے شاعروں کے امیر میں بیعت کرنے کی غرض سے آیا ہوں، اور مشرق کے شعرا کے یہ سب وفود بھی مجھ سمیت آپ کی بیعت کرتے ہیں) احمد شوقی نے تیرہ اور چودہ اکتوبر ۱۹۳۲ء کی درمیانی رات کو اس دنیائے فانی سے کوچ کیا- ان کی اچانک موت سے سارے مصر میں صف ماتم بچھ گئی، چار بجے شام ان کا جنازہ اٹھایا گیا اور اسماعیلیہ کے میدان میں پہنچایا گیا جہاں عوام کا ایک جم غفیر ان کے آخری دیدار کے لیے موجود تھا - شوقی کو ان کے خاندانی قبرستان السیدہ نفیسہ میں سپرد خاک کیا گیا(۲۰) - جب ہم شوقی کی ذاتی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ان کو عربی زبان و ادب سے غیر معمولی لگائو تھا- وہ قرآن کی عظمت کے معتقد تھے ، اور حضرت محمدﷺ کی ذات سے انہیں الفت اور عشق تھا (۲۱) - ۱۹۱۴ء میں شوقی نے جلاوطنی کے ایام سرزمین اندلس میں گزارے- تاریخی اہمیت کے حامل اس خطہ زمین پر شوقی کا قیام ادبی ، سیاسی نیز فکری پہلوئوں کے لحاظ سے انتہائی مفید رہا- وہ تقریباً ۱۹۱۹ء تک یہاں قیام پذیر رہے- شوقی کی جلاوطنی کا یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ تھا جس میں وہ آزادی فکر و نظر کی لذت سے آشنا ہوئے- وہ اس سے پہلے عام لوگوں کی زندگی کے نشیب و فراز سے بڑی حد تک بے خبر اور ناواقف تھے- اب پہلی بار جب انہوں نے رنج و الم کا مزا چکھا تو انہیں یہ احساس ہوا کہ محرومی و سرفرازی نیز فرحت و نکبت میں فی الواقعی کیا فرق ہے (۲۲) - شوقی ثلقدیرا میں ہر چند کہ ۱۹۱۸ ء تک قیام پذیر رہے تاہم اس دوران انہوں نے سپین کے بڑے بڑے شہروں قرطبہ ، اشبیلیہ اور غرناطہ کی سیر و سیاحت کی- ان تاریخی مقامات میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کی عظیم الشان نشانیاں موجود ہیں جنہیں دیکھ کر شوقی بسا اوقات آبدیدہ ہو گئے اشبیلیہ میں قیام کے دوران شوقی نے اپنے مشہور ڈرامے امیرۃ الاندلس کا خاکہ تیار کیا - اس ڈرامے میں انہوں نے معتمد بن عباد (۲۳) اور اس کی اہلیہ رمیکیہ کا تذکرہ انتہائی دلچسپ انداز میں کیا- اس نثری قصے امیرۃ الاندلس کے بعد شوقی نے ایک طویل قصیدہ لکھا جو ان کی اندلسیات کا مرکزی قصیدہ شمار کیا جاتا ہے - یہ ایک سو دس اشعار پر مشتمل ہے اور یہ سینیہ جس کا نام الرحلہ الی الاندلس ہے اس میں انہوں نے اندلس کی تاریخ کا خلاصہ کیا ہے - وہ قرطبہ کی پہاڑیوں کے اوپر ، اس کی مسجدوں ، غرناطہ ، الحمراء اور طلیطلہ میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں ’’ جب اندلس کی زیارت کا شوق غالب ہوا اور نفس اس کی زیارت کے لیے بیقرار ہونے لگا تو میں نے بارسلونا سے اس کا عزم کیا ، ان دونوں جگہوں کے درمیان ریل گاڑی سے دو دن کے سفر کی مسافت ہے (۲۴) ‘‘ - شوقی کو عرب شعراء کے قصائد کا شعری معارضہ بہت محبوب تھا اس لیے انہوںنے بحتری کے سینیہ کا معارضہ کیا اور بحتری کی تاثیر کا (۲۵) اعتراف کرتے ہوئے لکھا : بحتری میرے اس گردش میں رفیق اور اس سفر میں میرے ساتھی تھے- وہ جنہوں نے آثار قدیمہ کو زیورات سے آراستہ کیا ، سب سے بلیغ ہیں- پتھروں میں جان ڈال دی ، تاریخی واقعات کا ذکر کیا- لوگوں کے لیے عبرتیں چھوڑیں- انہوں نے عظیم سلطنتوں پر ماتم بھی کیا ہے- ان کا مشہور سینیہ جو ’’ایوان کسریٰ ‘‘کی تعریف میں ہے، آثار قدیمہ اور تاریخی آثار پر لکھا گیا اچھا شعری مجموعہ ہے- اور کیسے ٹوٹنے پھوٹنے اور منہدم ہونے کے بعد گھر پھر سے نیا ہو جاتا ہے (۲۶)- اس سینیہ کا مطلع کچھ یوں ہے : صنت نفسی عما یدنس نفسی و ترفعت عن ندی کل جبس (۲۷) پھر اس قول کو کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے جس میں اس کا وزن برقرار رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے قافیے بھی محفوظ رہتے ہیں : اختلاف النہار واللیل ینسی اذکروالی الصبا و ایام أنسی بحتری اور شوقی ، دونوں ہی سلطنتوں کے پاس کھڑے ہوئے ہیں اور روتے ہیں- بحتری ایوان کسریٰ کے آثار کے پاس کھڑے ہوتے ہیں جبکہ شوقی الحمراء اور قرطبہ کی پہاڑیوں کے پاس- بحتری اپنا سینیہ زندگی سے بیزاری ، زمانے سے شکایت اور اپنوں کے ظلم سے شروع کرتے ہیں کیونکہ ان کا رجحان اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی تھا ، لیکن شوقی کا سینیہ قصیدہ جذباتی کلمات سے شروع ہوتا ہے جو مصر کے لیے بیقراری میں ڈوبا ہوا ہے اور اس سے نیل ندی کے لیے شوق اور پیار چھلکتا ہے- یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے متعلق بتا رہے ہیں اور لوگوں سے اپنے غم و اندوہ کی بات کر رہے ہیں ، لیکن در حقیقت وہ اپنے وطن پر ہونے والے ظلم سے پریشان ہیں، اپنے ملک کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور زور و زبردستی سے ان کا دل پھٹا جاتا ہے- وہ اپنے جوانی کے دنوں کے کھیل کے میدانوں اور بچپن کے زمانے پر روتے ہیں : وصفا لی ملاوۃ من شباب صورت من تصورات و مس عصفت کالصبا اللعوب و مرت سنہ حلوہ ولذۃ خلس وسلا مصر:ھل سلا القلب عنہا او اساجرحہ الزمان الموسی؟(۲۸) اور جزیرہ ، نیل و جیزہ ، کھجور کے باغات ، ابوالہول اور اہرام کا بار بار ذکر کرتے ہیں- اور تاریخ کے بیان کے ساتھ نصیحت بھی کرتے ہیں جو گردش زمانہ اور مملکتوں کی تباہی سے متعلق ہے- اس قصیدے کے یہ سارے عناصر دراصل غرناطہ کی تعریف کے لیے بیان ہوئے ہیں- انہوں نے غرناطہ کے قصر الحمراء کی تصویر کشی ایسی باریکی سے کی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے ہم اس کو اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں- پھر عربوں کے اندلس سے نکلنے پر افسوس کرتے ہیں ، ساتھ ہی ان کے اندلس میں داخل ہونے کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ کیسے بڑی کشتیوں میں سوار ہو کر آتے تھے اور کیسے ویسی ہی کشتیوں میں سوار ہو کر لوٹے گویا ان کا جنازہ جا رہا ہو (۲۹) - اس قصیدے کو پڑھنے سے یوں لگتا ہے کہ شوقی کو اندلس کی تاریخ کا گہرا علم تھا اور قرطبہ میں عربوں کے شاندار ماضی ، ان کے تمدن اور نشأۃ ثانیہ کی بھی ان کو اچھی جانکاری تھی جبکہ قرطبہ عہد وسطیٰ کے یورپ کا مینار تھا - شوقی صرف اندلس کی تاریخ عرب تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے اس کے شعراء اور ان کے دو اوین میں بھی دلچسپی لی- ایک طویل مقدمے کے بعد جو پچاس اشعار سے زیادہ پر مشتمل ہے ، شاعر اندلس اور قرطبہ کا ذکر کرتا ہے : این (مروان) فی المشارق عرش اموی و فی المغارب کرسی؟ لم یرعنی سوی ثری قرطبی لمست فیہ عبرت الدھر خمسی قریہ لا تعد فی الارض ، کانت تمسک الارض ان تمید و ترسی فتجلت لی القصور و ما فیہا من العز فی منازل قعس(۳۰) پھر اس کی عمارتوں ، محلوں اور مسجدوں کی تعریف میں کہتے ہیں : اثر من (محمد) ، و تراث صار (للروح) ذی الولاء الامس مرمر تسبح النواظر فیہ و یطول المدی علیہا فترسی وسوار کا نہا فی استوا ألفات الوزیر فی عرض طرس فترۃ الدھر قد کست سطریہا ما اکتسی الہدب من فتور نعس و کان الآیات فی جانبیہ یتنزلن فی معارج قدس منبر تحت (منذر) من جلال لم یزل یکتسیہ أو تحت (قس) صنعت (الداخل) المبارک فی الغرب و آل لہ میامیں شمس(۳۱) شوقی اس کے بعد غرناطہ اور الحمراء کے محل کی تعریف ان اشعار میں کرتے ہیں: من (الحمرائ) جللت بغبار الہ دھر کالجرح بین برء ونکس مشت الحادثات فی غرف (الحمرائ) مشی النعی فی دار عرس و قباب من لا زورد و تبر کالربی الشم بین ظل و شمس مر مر قامت الاسود علیہ کلہ الظفر ، لینات المجس تنثر الماء فی الحیاض جمانا یتتری علی ترائب ملس(۳۲) شوقی ہی ایک واحد شاعر ہیں ، جنہوں نے عربوں کے جنت سے نکلنے کے واقعہ کو شعری جامہ پہنایا ہے- اندلسی شعراء نے اس فردوس کے متعلق بہت سی غزلیں لکھیں ہیں اور وہاں کی اچھی چیزوں کو آخرت کی نعمتوں سے مماثلت دی ہے- اسی وجہ سے جب شوقی ان کے وہاں سے نکلنے کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں ڈبڈباتی ہوئی لگتی ہیں:(۳۳) آخر العہد بالجزیرہ کانت بعد عرک من الزمان و ضرس فتراھا تقول رایتہ جیش باد بالأمس بین أسر و حس و مفاتیحہا مقالید ملک باعہا الوارث المضیع ببخس خرج القوم فی کتائب صم عن حفاظ ، کموکب الدفن خرس رکبوا بالبحار نعشاً و کانت تحت آبائہم ھی العرش امس رب بان لہادم و جموع لمشت و محسن لمخس امرۃ الناس ہمتہ لاثأتی لجبان ولا تسنی لجبس(۳۴) شوقی اپنے قصیدے الرحلہ الی الاندلسکا خاتمہ اس نصیحت سے کرتے ہیں جو ان کو اس سفر کے آخر میں تجربے کے طور پر حاصل ہوئی : حسبہم ھذہ الصٰلول عظات من جدید علی الدھور و درس و اذا فاتک التفات الی الماضی ضی فقدغاب عنک وجہ التأسی(۳۵) اندلس میں قیام کے دوران شوقی ، ابن زیدون کی شاعری سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ ان کے قصیدہ نونیہ کو پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ ابن زیدون ہی کا قصیدہ نونیہ ہے جسے ابن زیدون نے اپنی محبوبہ ولادہ بنت المستکفی کی تعریف و توصیف میں لکھا تھا اور جس میں اس نے اپنی محبت اور وفور شوق کا اظہار انتہائی رقت آمیز اسلوب میں کیا ہے - عہد ملوک الطوائف (گیارہویں صدی عیسوی کے اندلس) کا زعیم الشعراء ابوالولید احمد بن عبداللہ بن احمد بن غالب ابن زیدون تھا ، جس کا تعلق عرب کے قدیم قریشی خانوادے بنو مخزوم سے تھا- وہ ایک ماہر فن ادیب ، صاحب طرز شاعر اور ایک معروف و مقبول سیاسی شخصیت تھا جسے ’’ذوالوزارتین‘‘ کے لقب سے نوازا گیا - اس کے کلام میں محاکات و تخیل اور شعریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے - اس کے تصورات کی دنیا بڑی حسین اور رنگین ہے - اس کے اشعار گنگنا کر حرارت عشق اور رعنائی خیال میں اضافہ محسوس ہونے لگتا ہے اور اس کا حسن تغزل دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے - وہ اپنے عہد کا سب سے بڑا شاعر اور بلند مرتبہ ادیب تھا- ادبیات عرب میں وہ ایک بلند و بالا مقام پر فائز نظر آتا ہے اسے تاریخ ادب میں ’’بحتری الغرب ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے - اس کی شاعری کا بہت سا حصہ ولادہ بنت المستکفی باللہ کی حسین و جمیل شخصیت کے گرد گھومتا ہے جو خود بھی قادر الکلام شاعرہ تھی(۳۶)- ابن زیدون اپنے مشہور قصیدے نونیہ میں کہتے ہیں : اضحی التنائی بدیلاً عن تدانینا و ناب عن طیب لقیانا تجافینا الا و قدحان صبح البین صبحنا حین مقام بنا للحین ناعینا ان الزمان الذی مازال یضحکنا انسا بقربہم ، قد عاد یبکینا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شوقی نے اپنے وطن کے لیے اسی جذبہ محبت کا اظہار کیا ہے جس سے ابن زیدون کا قصیدہ نونیہ معمور ہے(۳۷)- یہاں قصیدہ شوقی نونیہ کے چند اشعار ہم بطور مثال نقل کرتے ہیں : یا نائح الطلح اشباہ عوادینا نشجی لوادیک ام ناسی لوادینا ؟ ماذا تقص علینا غیران یداً قصت جناحک جالت فی حواشینا ؟ رمی بنا البین ایکا غیر سامرنا اخا الغریب و ظلاً غیر نادینا(۳۸) ابن زیدون نے اپنے نونیہ میں فراق ، رقیبوں اور زمانے کی شکایت کی ہے اور اپنی بے پناہ الفت کا ذکر کیا ہے- لیکن یہ عناصر شوقی کے مطلع میں موجود نہیںہیں ، جبکہ وہ اشبیلیہ کی وادی طلح کے غمگین کبوتر کو خطاب کرتے ہیں - انہوں نے غمگین کبوتر کو اپنے آپ سے مشابہ دکھایا ہے- لیکن ابن زیدون فراق ، رقیبوں اور زمانے سے شکایت کو نظر انداز کر کے اندلس پر آنسو بہاتا ہے(۳۹): واھالنا نازحی ایک باندلس وان حللنا رفیقاً من روابینا رسم وقفنا علی رسم الوفاء لہ نجیش بالدمع والاجلال یثنینا لفتیۃ لا تنال الارض ادمعہم ولا مفارقہم الا مصلینا لو لم یسودوا بدین فیہ منبہہ للناس کانت لہم اخلاقہم دینا (۴۰) شوقی کا شغف اور بھی بڑھا اور اندلس کے بارے میں انہوں نے ایک اور قصیدہ لکھا جس کا نام الاندلس الجدیدہ ہے جس میں انہوں نے ادرنہ شہر سے خطاب کیا- اور یہ شہر عثمانی حکومت کے اہم اور بنیادی شہروں میں شمار ہوتا ہے - مقدونیا میں اور اس شہر میں خاندان عثمانی کے بیشتر سلاطین کی قبریں ہیں- یہ قصیدہ اس وقت لکھا گیا جب ۱۹۱۲ء کی لڑائی میں بلغاریہ نے اس شہر پر قبضہ کر لیا- وہ فرماتے ہیں : یا اخت اندلس علیک سلام صوت الخلافتہ عنک والاسلام نزل الھلال عن السماء فلیتہا طویت و عم العالمین ظلام حتی حواک مقابراً و حویتہ جثثاً ، فلاغبن ولا استذمام(۴۱) سپین کے اطراف و نواحی میں شوقی کو گھومنے پھرنے کے بہترین مواقع میسر ہوئے- چنانچہ چند روز گزارنے کے بعد انہوں نے میڈرڈ کا رخ کیا جہاں میوزیم کے علاوہ اسکوریال محل کا مشاہدہ کیا جس کی تعمیر میں ایک خاص طرح کا سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے اور جو فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے- مذکورہ محل میں ایک عظیم لائبریری بھی ہے جس میں عربی فن خطاطی کے قیمتی اور نادر نمونے موجود ہیں(۴۲) اور قرطبہ جسے عہد وسطیٰ میں اندلس کی دلہن کہا جاتا تھا ، اس میں شوقی نے کئی ہفتے گزارے - اس ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ سپین میں مسلمانوں کے دور اقتدار میں ہزاروں مسجدیں اور سینکڑوں مدارس قائم تھے - اس دور کے قرطبہ کو علماء اور فقہا کا کعبہ تسلیم کیا جاتا تھا- جہاں دنیا کے کونے کونے سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے ، لیکن جب سپین سے مسلمانوں کا اقتدار جاتا رہا تو آہستہ آہستہ وہاں کے تمام اسلامی نقوش و آثار کو یا تو مٹا دیا گیا یا پھر گردش زمانہ کا شکار ہو کر وہ خود مٹ گئے سوائے چند تعمیرات کے ، جن میں وہ مسجد بھی شامل ہے ، جسے عبدالرحمٰن الداخل نے تعمیر کروایا تھا(۴۳) -اس موقع کی مناسبت سے شوقی نے ایک اندلسی موشح بعنوان ’’ صقر قریش عبدالرحمٰن الداخل ‘‘ نظم کیا جس میں عبدالرحمٰن الداخل (۱۷۲ ھ ؍ ۷۸۸ ئ) کے تمام مصائب کا ذکر آتا ہے اور یہ موشح اندلس میں اسلامی ممالک کی تاریخ ہے - شاعر فرماتے ہیں: من لنضو یتنزی الما برح الشوق بہ فی الغلس حن للبان و ناجی العلما این شرق الارض من اندلس(۴۴) پھر اپنے شعر میں طارق بن زیاد سے خطاب کرتے ہیں : رحموا العبقری النابہ البعید الہمتہ الصعب القیاد مد فی الفتح و فی اطنابہ لم یقف عند بناء ابن زیاد(۴۵) اس کے بعد ایک بار پھر عبدالرحمٰن الداخل کو مخاطب کرتے ہیں: قصرک (المنیۃ) من قرطبہ فیہ واروک و اللہ المصیر صدف خط علی جوھرہ بید ان الدھر بناش بصیر لم یدع ظلا لقصر (المنیۃ) و کذا عمر الامافی قصیر کنت صقراً قرشیا علماً ما علی الصقر اذا لم یرمس ان تسل این قبور العظما ؟ فعلی الافواہ او فی الانفس(۴۶) شوقی کی اندلسیات کا آخری قصیدہ جس کا عنوان بعد المنفی ہے ، ۱۹۲۰ء میں لکھا ہے ، جس میں انہوں نے اندلس کی تعریف کی ہے اور اس کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے احسانات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو الوداع کہا ہے : انادی الرسم لو ملک الجوابا واجزیہ بدمعی لو اثابا و قل لحقہ العبرات تجری و ان کانت سواد القلب ذابا وداعا ارض اندلس، و ھذا ثنائی ان رضیت بہ ثوابا و ما اثنین الا بعد علم و کم من جاھل اثنی فغابا(۴۷) اقبال اندلس میں تیسری گول میز کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعد علامہ اقبال پیرس پہنچے- اس کے بعد علامہ نے ہسپانیہ کا رخ کیا - میڈرڈ یونیورسٹی کے ارباب اختیار نے آپ سے درخواست کی کہ ’’ہسپانیہ اور عالم اسلام کا ذہنی ارتقاء ‘‘ کے عنوان پر لیکچر دیجیئے- علامہ اپنے سفر ہسپانیہ کے متعلق لکھتے ہیں ’’میں اپنی سیاحت اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا ، وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر بھی لکھی- الحمراء کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہ ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی (۴۸) ‘‘- جب علامہ اندلس پہنچے تو میڈرڈ کے ایک روز نامے الدیبیت EL- DEBATE نے اپنی ۲۵ جون ۱۹۲۲ء کی اشاعت میں لکھا : ’’ڈاکٹر سر محمد اقبال اندلس میں تشریف لائے ہیں - آپ نے سپین کے عربی مدرسے کے فضلا سے بھی رابطہ قائم کیا ہے- کل شام آپ نے ایک خطبہ شعبہ فلسفہ و ادب کی نئی عمارت میں دیا جس کا عنوان ’’ اسلامی دنیا اور سپین ‘‘ ہے- کل پروفیسر آسن مائگل آسین پلینس نے بیان کیا کہ سر اقبال ایک نکتہ رس فلسفی اور شاعر ہیں- وہ اسلامی دنیا کی ان چند سرگرم اور فعال ہستیوں میں سے ہیںجنہوں نے مساویانہ کامیابی سے شاعری جیسے الہامی فن اور الٰہیات کا گہرا مطالعہ کیا ہے- علامہ اقبال نے اپنے لیکچر میں ایرانی صوفیوں کے نظام تصوف کو ابن عربی کے حوالے سے بیان کیا ہے- اقبال نے اپنی مثنوی اسرار خودی میں اپنے فلسفیانہ نظریات کا اظہار بھی کیاہے- نیز آپ نے ابن عربی کے سلسلے میں اپنی تحقیقات کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ ہندوستان اور اندلس ، دنیا کے آخری کناروں پر واقع ہیں مگر ایک مؤرخ کے لیے ان کے تہذیب و تمدن میں بہت سی مشترکہ علامتیں پائی جاتی ہیں- جہاں ہندوستان کی اسلامی ثقافت میں ایرانی اور آرین تہذیب کی ملاوٹ ہے ، وہاں اندلس میں مغربی یونانی اور مسیحی تہذیب ملی ہوئی ہے، اور ابھی تک یہ آمیزش قائم ہے- اور دور افتادہ ملکوں کی چیدہ چیدہ ہستیاں آج بھی سائنس اور ادب کے موضوعات سے دلچسپی رکھتی ہیں (۴۹) - میڈرڈ سے کوئی ۵۸ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ اسکوریل نامی ہے جہاں شاہ فلپ دوم (۱۵۲۷ - ۱۵۹۸ئ) کے زمانے کی ایک محل نما خانقاہ ہے ، جہاں بادشاہ نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے- اس میں ایک بڑی لائبریری واقع ہے- لائبریری میں چالیس ہزار کے لگ بھگ نادر مطبوعات اور دو ہزار کے قریب عربی مخطوطات کا بیش قیمت ذخیرہ ہے جو دور ابتلا کی تباہ کاریوں سے بچ گیا ہے- علامہ اقبال نے یہ لائبریری دیکھی اور اس کے بارے میں ایک موقع پر فرمایا: ’’اسکوریل لائبریری بلاشبہ بڑی عظیم الشان لائبریری ہے- افسوس یہ ہے کہ عربوں کے زمانے کی قلمی تحریروں کا ذخیرہ متعصب عناصر نے غارت کر دیا تھا- اب تھوڑا ذخیرہ رہ گیا ہے، جس میں زیادہ تر مولانا جامی اور حضرت حافظ کی قلمی تحریریں ہیں ‘‘- اس کے بعد اقبال غرناطہ گئے اور وہاں قصر الحمراء کی سیر کی جس کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے انہوں نے ایک موقع پر کہا ’’میں الحمراء کے ایوانوں میں جابجا گھومتا پھرا ، مگر جدھر نظر اٹھتی ، دیوار پر ’’ھوالغالب ‘‘ لکھا نظر آتا تھا- میں نے دل میں کہا یہاں تو ہر طرف خدا غالب ہے ، کہیں انسان نظر آئے تو بات بھی ہو(۵۰) ‘‘ - اس کے بعد اقبال نے قرطبہ کا رخ کیا جہاں انہوں نے جابجا مسلم آثار دیکھے ، اور خاص طور پر مسجد قرطبہ کی زیارت کی- علامہ اقبال نے اس مسجد سے جو اثر لیا وہ ان کی نظم ’’مسجد قرطبہ ‘‘سے عیاں ہے- یہ نظم مکمل طور پر ان کے فکر و فن کا شاہکار خیال کی جاتی ہے- قرطبہ سے اقبال نے اپنے فرزند جاوید اقبال کو تصویری کارڈ بھی ارسال کئے اور انہیں لکھا : ’’میں خدا کا شکرگزار ہوں کہ میں اس مسجد کو دیکھنے کے لیے زندہ رہا- یہ مسجد تمام دنیا کی مساجد سے بہتر ہے- خدا کرے تم جوان ہو کر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو ! ‘‘ علامہ اقبال تقریباً تین ہفتے کی سیاحت کے بعد ۲۶ جنوری ۱۹۳۳ء کو واپس لندن پہنچے، اور وہاں سے ۱۰ فروری کو وینس کے ایک جہاز ’’کانٹے وردی ‘‘ میں سوار ہو کر ہندوستان روانہ ہو گئے- ۲۲ فروری کو بمبئی پہنچے ، اور بمبئی کے اخبار خلافت کے نامہ نگار نے اقبال سے ان کی سیاحت سپین کے بارے میں دریافت کیا تو اقبال نے کہا : ’’مجھے لندن میں سپین جا کر لیکچر دینے کی دعوت ملی تھی- اسلام کے اس مرکز کو دیکھنے کا مجھے پہلے ہی شوق تھا ، اس لیے میں نے دعوت قبول کر لی - مجھے وہاں پہنچنے سے پہلے تقریر کے موضوع کا کوئی علم نہ تھا- البتہ یہ خواہش تھی کہ ایسا مضمون ہو ، جس پر تقریر کرتے ہوئے میں اسلامی ثقافت و تمدن اور اسلامی فلسفہ پر کچھ کہہ سکوں- وہاں پہنچنے پر پروفیسر آسن کو انتخاب مضمون کا اختیار دے دیا - اتفاق سے انہوں نے وہی مضمون تجویز کیا جس کا میں خود خواہش مند تھا ، یعنی ’’سپین اور فلسفہ اسلام‘‘- میرا لیکچر میڈرڈ کی جدید یونیورسٹی میں ایک گھنٹہ جاری رہا ، جس میں میں نے سپین کے مسلمانوں کے تمدن فلسفہ اور ان کی تہذیب و روحانیت کے مختلف پہلوئوں کی تشریح و تفسیر بیان کرتے ہوئے حاضرین سے اپیل کی سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کریں ، نہ عیسائیوں کے غلط پراپیگنڈے سے متاثر ہوں ، بلکہ عربوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں (۵۱) ‘‘ - ۲۶ فروری ۱۹۳۳ء کو اقبال نے سفر یورپ اور سیاحت اندلس کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ’’میں نے قرطبہ ، غرناطہ ، اشبیلیہ ، طلیطلہ اور میڈرڈ کی سیاحت کی اور قرطبہ کی تاریخی مسجد اور غرناطہ کے قصر الحمراء کے علاوہ میں نے مدینۃ الزھرا کے کھنڈر بھی دیکھے- یہ مشہور عالم قصر عبدالرحمٰن اوّل نے اپنی چہیتی بیوی زہرا کے لیے ایک پہاڑ پر تعمیر کروایا تھا- آج کل یہاں کھدائی کا کام جاری ہے‘‘- علامہ نے ایک صحبت میں اسلامی فن تعمیر کی قوت و ہیبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اس خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے، لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قویٰ شل ہوتے گئے ، تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا- وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا ’’ قصر زہرا ‘‘ دیوئوں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے - ’’ مسجد قرطبہ ‘‘ مہذب دیوئوں کا مگر ’’ الحمراء محض مہذب انسانوں کا (۵۲) ‘‘ - اقبال کی اندلسیات علامہ اقبال نے اندلس کے سفر کو مختلف عنوانات کے تحت مختلف نظموں میں بیان فرمایا ہے،جو بال جبریل میں صفحہ ۹۱ سے ۱۰۵ تک موجود ہیں- بعض خاصی طویل اور اکثر مختصر منظومات ہیں ان میںایک دعا ہے جو قرطبہ کی مسجد میں بیٹھ کر لکھی گئی ہے- پھر مسجد قرطبہ کے عنوان سے چند صفحوں کا ایک ترکیب بند ہے پھر ’’قید خانے میں معتمد کی فریاد‘‘، ’’عبدالرحمٰن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت (سر زمین اندلس میں) ہسپانیہ اور طارق کی دعا ‘‘ (۵۳)- ان نظموں کو پڑھ کر علامہ کے جذبات کا صحیح اندازہ ہوتا ہے جو اسلام کے لیے وہ اپنے دل میں رکھتے تھے- اگرچہ تصویر اتروانے سے وہ گھبراتے تھے ، مگر مسجد قرطبہ میں انہوں نے بطور خاص تصاویر بھی اتروائیں- علامہ اقبال کو قرطبہ جانے کا اتفاق ۱۹۳۳ء میں ہوا تھا- تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے جب وہ ۱۹۳۲ء میں لندن گئے تو وہیں سے پیرس ہوتے ہوئے ہسپانیہ بھی پہنچے تھے- اسی سفر کے دوران وہ قرطبہ تشریف لے گئے اور اسلامی دور اقتدار کی زندہ و تابندہ نشانی مسجد قرطبہ دیکھی- مشہور ہے کہ علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ میں اذان دی تھی اور نماز بھی پڑھی تھی- فقیر سید وحیدالدین اپنی کتاب روز گار فقیر میں لکھتے ہیں : ’’حکیم الامت علامہ اقبال تیسری راؤنڈ ٹیبل کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعد سپین بھی گئے اور وہاں اسلامی دور اقتدار ختم ہونے کے تقریباً سات سو سال بعد انہوں نے مسجد قرطبہ میں پہلی بار اذان دی اور نماز پڑھی (۵۴) ‘‘- اردو کے مشہور صحافی، ادیب اور شاعر عبدالمجید سالک اپنی کتاب ذکر اقبال میں اس واقعے کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : ’’علامہ اقبال نے بے اختیار چاہا کہ مسجد قرطبہ میں تحیتہ المسجد کے نفل ادا کریں- انھوں نے اس عمارت کے نگران سے پوچھا- اس نے کہا کہ میں بڑے پادری سے پوچھ آئوں- ادھر وہ پوچھنے گیا ، ادھر علامہ اقبال نے نیت باندھ لی اور اس کے واپس آنے سے پہلے ہی ادائے نماز سے فارغ ہو گئے (۵۵) ‘‘- اقبال کی اندلسیات کی پہلی نظم بعنوان ’’دعا ‘‘ ہے اور اس تمہیدی قصیدے کے بعد شاعر مرکزی موضوع کی طرف منتقل ہوتا ہے ، اور وہ ہے ’’مسجد قرطبہ ‘‘ - اس ’’دعا ‘‘ کے ساتھ یہ اضافی عبارت ملتی ہے کہ یہ ’’ مسجد قرطبہ ‘‘ میں لکھی گئی ‘‘ : ہے یہی میری نماز ، ہے یہی میرا وضو میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو صحبت اہل صفا ، نور و حضور و سرور سرخوش و پرسوز ہے لالہ لب آبجو راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو ! (۵۶) یہ پر سوز ، پر کیف اور پرتاثیر دعا جیسا کہ خود حضرت علامہ نے صراحت کی ہے ، انہوں نے مسجد قرطبہ میں بیٹھ کر لکھی تھی- پہلے تین شعروں میں دعا کا فلسفہ بیان کیا ہے اور اس کے بعد چار شعر حمد و ثنا کے رنگ میں ہیں ، پھر دو شعر میں دعا کی ہے : پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر کہ میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو چشم کرم ساقیا ، دیر سے ہیں منتظر جلوتیوں کے سبو ، خلوتیوں کے کدو ! ایک اور شعر میں فلسفے کی حقیقت بیان کی ہے- چونکہ یہ نظم ایک خاص ماحول میں اور ایک خاص جذبے کے تحت لکھی گئی ہے ، اس لیے اس کا ہر شعر سوز و گداز میں ڈوبا ہوا ہے ، جس کی وجہ سے پڑھنے والے کے دل میں بھی اسی قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے (۵۷)- قرطبہ وہ شہر تھا جہاں مسلمانوں کی عظمت و سطوت کا پرچم سات سو سال تک نہایت آن بان کے ساتھ لہراتا رہا- یہی وہ جگہ تھی جہاں تہذیب و تمدن کے چشمے بہتے تھے - اسی قرطبہ میں ایک ایسی عظیم الشان مسجد تعمیر کی گئی جس کی مثال پورے کرئہ ارض میں کہیں نہیں ملتی (۵۸)- فن تعمیر کا یہ وہ شاہکار ہے جس پر خود انسان حیران نظر آتا ہے- اس مسجد کا نقشہ خود امیر عبدالرحمٰن نے بنایا اور اس کا سنگ بنیاد بھی اپنے ہی دست مبارک سے رکھا- معمر ہونے کی وجہ سے جسمانی ضعف شروع ہو گیا تھا اور ان کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں اس مسجد کی تکمیل نہ دیکھ سکیں گے ، اس لیے انہوں نے تعمیر جلد مکمل ہونے کے لیے کثیر التعداد مزدور لگائے ادھر ادھر عمارت کے مسالے کا ڈھیر تھا- نا مکمل ستون اور ان گھڑ پتھر جابجا پڑے ہوئے تھے- امیر سفید پوشاک پہنے عارضی منبر پر چڑھے اور مسلمانوں کے ایک جم غفیر کو جو شہر کی تمام اطراف سے جمع تھا ، مخاطب کر کے خطبہ پڑھا - اسی جامع مسجد میں ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی- غرض انہوں نے اپنا کام پورا کر لیا اور جب انتقال کیا تو اس حالت میں کہ وہ ایسے عظیم شاہی خاندان کے بانی ہوئے جس کا ثانی اس وقت تک یورپ نے نہیں دیکھا تھا (۵۹) - مسجد قرطبہ سے اثر پذیری کا ذکر اقبال کے کئی مکتوبات اور بیانات میں موجود ہے- اسے امیرعبدالرحمٰن الداخل نے ۷۸۶ء میں تعمیر کروانا شروع کیا - انھوں نے اس کی تعمیر پر اسّی ہزار دینار صرف کیے تھے- اس دور میں اموی خلیفہ کے بیٹے ہشام اوّل نے ۷۹۳ء میں مسجد کو مکمل کروایا مگر بعد کے حکمران بھی اس کی توسیع و تزئین کا کام کرتے رہے- یہ مسجد اور اس سے ملحق دانشگاہ مسلمانوں کی عظمت و شکوہ کا مظہر بن گئی - یہ ایک مستطیل عمارت ہے ، طول ۵۷۰ اور عرض ۴۲۵ فٹ ہے- اس کے اکیس مدخل تھے- اس کا ماذنہ و مینار ، اس کی منقش سقف، بام، اس کے ستون ، فانوس اور منبر و محراب ، اس کا صحن اور دالان ، غرض ہر حصہ جمال و جلال کا مظہر تھا- اس کے ستونوں کی تعداد ۱۴۱۷ بتائی جاتی ہے (۶۰) - مسجد قرطبہ کو اپنی مرمریں ہتھیلیوں پر سہارا دینے والے اجسام خصوصی طور پر اس عمارت کے لیے نہیں تراشے گئے تھے بلکہ مسجد کا نقشہ ان قدیم ستونوں کی ساخت اور بلندی کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا تھا- انہیں تخلیق کرنے والے فنکاروں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کے تراشیدہ شاہکار صدیوں تک افریقہ کے رومی معبدوں اور کار تھیج ایسے شہروں کے کھنڈروں میںدفن رہیں گے اور پھر امیر عبدالرحمٰن کے حکم پر انہیں کھود کر قرطبہ لے جایا جائے گا جہاں ان کے کندھوں پر کسی معبد یا قصر شاہی کے بجائے ایک ایسی عمارت کی محرابیں اٹھیں گی جسے دنیا کی سب سے بڑی مسقف مسجد ہونے کا امتیاز حاصل ہو گا- مسجد قرطبہ کا مسقف رقبہ ۴۴۰x ۶۲۰ فٹ ہے (۶۱)- ’’مسجد قرطبہ ‘‘ اقبال کی ایک عظیم ’’ ترکیب بند ‘‘ نظم ہے ، جس کے بارے میں شاعر نے تصریح کی ہے کہ یہ ’ ہسپانیہ کی سرزمین میں ، بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی ‘‘- یہ ۶۴ اشعار اردو ادب بلکہ عالمی ادب کے شاہکاروں میں شامل کیے جانے کے بھی سزاوار ہیں- یہ اسلامی اندلس کی سرزمین کا ایک بے بدل ارمغان ہیں- اقبال نے لکھا ہے ’’مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی(۶۲) ‘‘- جس طرح یہ مسجد عربوں کے فن تعمیر کا شاہکار ہے ،اسی طرح اقبال کی یہ نظم ’’ مسجد قرطبہ ‘‘ اردو ادب کا شاہکار ہے- اس میں رمزئیت‘‘ روحانیت اور جذبات نگاری ، حقیقت پسندی اور شعریت یعنی فن شاعری کی تمام خوبیاں بیک وقت جمع ہو گئی ہیں - اس نظم میں آٹھ بند ہیں اور ہر بند میں ایک مرکزی خیال پایا جاتا ہے - ۱ - پہلے بند میں زمانے کی حقیقت اور کار جہاں کی بے ثباتی بیان کی ہے - ۲ - دوسرے بند میں عشق کی صفات واضح کی ہیں - ۳ - تیسرے بند میں مسجد قرطبہ سے خطاب کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس مسجد کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہے - ۴ - چوتھے بند میں مسجد کی شان و شوکت کا تذکرہ ہے ، اور ضمناً ملت اسلامیہ کی بقا کا مژدہ بھی سنایا ہے - ۵ - پانچویں بند میں مرد مومن کا تصور پیش کیا - ۶ - چھٹے بند میں عربوں کی فتوحات اور عظمت رفتہ کا بیان ہے - ۷ - ساتویں بند میں یورپ کے بعض اہم انقلابات کی طرف اشارہ کیا ہے - ۸ - آٹھویں بند میں شاعر نے الہامی رنگ میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی پیشگوئی کی ہے، اور آخری شعر میں اپنا فلسفہ پیغام کی صورت میں پیش کیا ہے تاکہ اس نظم کا مقصد واضح ہو سکے(۶۳) - وہ کہتے ہیں : سلسلہ ء روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ ء روز و شب اصل حیات و ممات سلسلہ ء روز و شب تار حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلہ ء روز و شب ساز ازل کی فغان جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات (۶۴) نظم کے پہلے تین بند تمہیدی ہیں - پہلے بند میں شاعر تغیرات زمانہ کا ذکر کرتا ہے - ہر چیز کا مقدر ہے کہ زمانے کے ہاتھوں جام فنا پیے - خصوصاً ناپختہ و کم عیار اشیاء تو نقش ناپائیدار ثابت ہوتی ہیں، البتہ مرد حق کے پر عیار اور پختہ بنیاد نقوش مٹتے نہیں بلکہ انہیں عشق سے تقویت ملتی ہے- عشق پاکیزہ جذبہ عمل ہے- وہ اساس حیات و خلوص پر مبنی ایک سراپا خیر عاطفہ ہے- زندگی کی تب و تاب اس سے منعکس ہوتی ہے : مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خود اک سیل ہے ، سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصررواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق دم جبرئیل ، عشق دل مصطفیؐ عشق خدا کا رسولؐ ، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام عشق فقیہ حرم ، عشق امیر جنود عشق ہے ابن السبیل ، اس کے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات عشق سے نور حیات ، عشق سے نار حیات اے حرم قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود(۶۵) اقبال، عشق کی اصطلاح کی تفسیریوں کرتے ہیں کہ یہ اصل حیات بھی ہے اور اس سے موت کے شہپر بھی جلتے ہیں، عشق اور موت کے درمیان ایک ازلی اور ابدی کشمکش ہے- مسجد قرطبہ میں عشق اور فن ، وقت کے اس تصور کے خارجی مظاہر ہیں جو ابدیت کے مترادف ہے- اقبال، عشق کا ایک ہمہ گیر اور جامع تصور رکھتے ہیں، یعنی ماضی، حال اور مستقبل آپس میں اس طرح خلط ملط ہیں کہ ان کے درمیان تقسیم ، تفریق اور تمیز ممکن نہیں ، اور یہ وقت اپنی ماہیت اصلی میں عشق کی توانائی سے کچھ بہت مختلف نہیں- اقبال کے نزدیک عشق ارتقاء کی قوت ہے جو حیاتیاتی سطح پر حسن اور اکملیت پر منتج ہوتی ہے- یہی حیات کی ابتدا اور اس کا انجام ہے وہ عشق کو ’’صہبائے خام ‘‘ اور کاس الکرام سے ہم رشتہ کرتے ہیں- اقبال کے نزدیک زندگی کا سارا اضطراب سوز، تموج اور سوز و شرر عشق ہے کہ غیر مختتم امکانات کا رہین منت ہے کیونکہ نور اور نار کا واحد سر چشمہ ء زندگی مبداء اور منتہائے عشق ہے- تیسرے بند میں اقبال نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ مسجد قرطبہ کے پیکر سنگ و خشت میں عشق کا جذبہ کار فرما ہے (۶۶)- اقبال نے اس نظم میں فن و زندگی کے بہت سے نظریات و اقدار سے پردے ہٹائے ہیں- وہ فرماتے ہیں کہ یہ زوال پذیر دنیا فانی ہے، اور اس کے ساتھ ہی قوموں کی عظیم یاد گار اور آثار،ا ور انسانی عبقریت کے نقش و نگار اور اس کے شاہکار ، سب منزل فنا اور عالم بے نشانی و گمنامی کی طرف رواں ہیں، لیکن اس رسم عام سے وہ آثار اور تعمیرات مستثنیٰ ہوتی ہیں جنہیں کسی بندئہ خدا ، عبد مخلص ، اور مرد مومن کا دست مسیحا اور پنجۂ اعجاز نما چھو جاتا ہے ، اور وہ اپنے ایمان و اخلاص ، اپنے عمل ، جذبات اور اپنی بقائے دوام کے اثر سے ان میں جان ڈال دیتا ہے اور لافانی بنا دیتا ہے ، اپنے عشق و محبت کی قوت و تاثیر سے انہیں جاوداں زندگی عطا کرتا ہے- اقبال کی نگاہ میں محبت ، اصل حیات ہے جس پر موت حرام ہے ، زمانہ کا سیل رواں بہت تند رو ، سبک خرام اور تیز گام ہے، جس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی ، لیکن عشق و محبت اس کے مقابلے پر آ کھڑے ہوتے ہیں ، اس لیے کہ وہ خود بھی سیلاب ہے اور سیلاب کو تھام سکتا ہے(۶۷) - اقبال کی نظر میں یہ واقع و رفیع مسجد اپنے مجموعی تاثر میں ’’مومن ‘‘ کی تعبیر اور اس کے معنوں کی مادی تفسیر ہے- جلال و جمال ، پختگی اور مضبوطی، وسعت و رفعت اور اپنی دل آویزی و رعنائی میں مسلمان کی ہو بہو شبیہ ! مسجد کے بلند و بالا ستونوں کی ہیبت سے انہیں صحرائے عرب کے وہ نخلستان یاد آتے ہیں جو اپنی کثرت و رفعت میں اس کی مثال ہیں(۶۸) عبدالرحمٰن الداخل نے کہا ہے : ان البناء اذا تعاظم مذرہ اضحی یدل علی عظیم الشان(۶۹) یعنی: جب کوئی عمارت شان و شکوہ والی ہو تو وہ اپنے بانی کی عظمت پر دلالت کرتی ہے - علامہ اقبال بعدکے تین بند مسجد کے جمال و جلال اور مرد مومن کی اعلیٰ صفات کے بیان کے لیے مخصوص کرتے ہیں : تیرا جلال و جمال ، مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل تیری بنا پایدار، تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل !(۷۰) ساتویں بند میں شاعر مسجد کا مرثیہ پیش کرتے ہیں- افسوس کہ ایسی پر عظمت مسجدصدیوں سے بے اذان و صلوٰۃ ہو گئی- اقبال ، لوتھر کی تحریک اصلاح ، انقلاب فرانس اور مسولینی کے ہاتھوں ایطالیہ کی تجدید حیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں- مسلمانوں میں کرب و اضطراب تو ہے مگر نامعلوم ، وہ بھی کوئی انقلاب پیدا کرنے کی اہلیت دکھائیں یا نہیں: دیدئہ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں آہ ! کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں کون سی وادی میں ہے ، کون سی منزل میں ہے عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں! دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دیں جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں ---- چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں آٹھویں اور آخری بند میں اقبال، قرطبہ کے معروف دریا وادی الکبیر (۷۱) کے کنارے کھڑے،مسلمانوں کے ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں اور ہر دور کے اپنے مخاطبین کو انقلاب ، احتساب عمل اور محنت و جگر کاوی کا درس دیتے ہیں : آب رواں کبیر ! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب ---- جس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش انقلاب صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر(۷۲) علامہ اقبال اپنی آواز کو معتمد بن عباد کی آواز سے ملا کر اندلس کے زوال کے حادثے کا ذکر کرتے ہیں جو درحقیقت ہر عرب اور ہر مسلمان کے لیے رنج و غم کا باعث ہے- ان کی چیخ معتمد بن عباد کی چیخ بن جاتی ہے- وہ اپنے قصیدے ’’قید خانے میں معتمد کی فریاد ‘‘ نظم کے مقدمے میں فرماتے ہیں: ’’معتمد اشبیلیہ کا بادشاہ اور عربی شاعر تھا - ہسپانیہ کے ایک حکمران نے اس کو شکست دے کر قید میں ڈال دیا تھا- معتمد کی نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہو کر وزڈم آف دی ایسٹ سیریز میں شائع ہو چکی ہیں(۷۳)- المعتمد باللہ ۴۶۱ ھ (۱۰۷۱ئ) میں تخت نشین ہوا- وہ بہت بہادر بادشاہ تھا لیکن اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مسلمان حکمران آپس میں برسر پیکار رہتے تھے اور عیسائی حکمرانوں سے طالب امداد ہوتے تھے ، چنانچہ معتمد نے بھی ایک عیسائی سردار الفانسو سے دوستی کی اور اسے خراج دینا بھی منظور کر لیا- ۴۷۵ ھ میں معتمد نے الفانسو کے سفیر کو جو خراج لینے آیا تھا، اس بات پر قتل کروا دیا کہ وہ خراج کی رقم سونے کی شکل میں وصول کرنا چاہتا تھا- اس پر الفانسو نے اشبیلیہ پر حملہ کیا تو معتمد نے یوسف بن تاشفین والی مغرب الاقصٰی سے امداد طلب کی، چنانچہ یہ حکمران اس کی امداد کے لیے آیا اور الفانسو کو شکست دے کر واپس چلا گیا- دوسرے سال اس نے اشبیلیہ پر چڑھائی کر دی اور معتمد کو قید کر کے افریقہ لے گیا- بد نصیب بادشاہ چونکہ شاعر بھی تھا اس لیے اشعار کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا کرتا تھا (۷۴) - قید خانے میں معتمد نے جو شاعری کی، وہ فنی اعتبار سے اس کی بلند ترین تخلیقات سے عبارت ہے، کیونکہ ذاتی احساس کی وہ کسک اس کی شاعری کی جان ہے جس کے فقدان کا شکوہ اندلسی شاعری کے بعض ناقدین کو رہا ہے - ماضی کی بہار اور حال کے خار زار کا موازنہ اس کے نازک دل پر کیا کیا قیامت برپا نہ کرتا ہو گا - ایک موقع پر اس نے کہا : تبدلت منی عز ظل البنود بذل الحدید و ثقل القیود و کان حدیدی سنانا ذلیقاً و غضباً رقیقاً صقیل الحدود فقد صار و ذاک و ذا ادھما یعضی بساقی عض لاسود(۷۵) ان اشعار کی ترجمانی اقبال نے ’’قید خانے میں معتمد کی فریاد ‘‘ کے عنوان سے یوں کی ہے : اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی سوز بھی رخصت ہوا ، جاتی رہی تاثیر بھی مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی خود بخود زنجیر کی جانب کھچا جاتا ہے دل تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی جو مری تیغ دوام تھی ، اب مری زنجیر ہے شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی! (۷۶) عبدالرحمن بن معاویہ الداخل جب سر زمین اندلس کا حکمران بن گیا تو ایک دن کھجور کے ایک الگ تھلگ اور تنہا پودے کو حسرت بھری نظر سے دیکھا اور کہا اندلس میں یہ پودا بھی میری طرح اجنبی ہے جو عرب سے یہاں لایا گیا ہے - اس موقع پر عبدالرحمن نے اس پودے کو مخاطب کر کے کچھ شعر کہے تھے- یہ اشعار پہلے عیسٰی الرازی نے اپنی کتاب الحجاب للخلفا بالاندلس میں محفوظ کیے تھے - تبدت لنا وسط الرصافتہ نخلۃ تراء ت بارض الغرب عن بلد النخل فقلت شبیہی بالتغرب والنوی وطول التنائی عن بنی و عن اھل نشات بارضی انت فیہا غریبۃ مثلک فی الاقصاء و المنتای مثلی سقتک عوادی المزن فی المنتای الذی یسبع و یستمری اسماکین بالوبل(۷۷) اقبال نے بال جبریل میں ان اشعار کا آزاد ترجمہ ’’ عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت سرزمین اندلس میں ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے: میری آنکھوں کا نور ہے تو میرے دل کا سرور ہے تو اپنی وادی سے دور ہوں میں میرے لیے نخل طور ہے تو مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا صحرائے عرب کی حور ہے تو پردیس میں ناصبور ہوں میں پردیس میں ناصبور ہے تو غربت کی ہوا میں بارور ہو ساقی تیرا نم سحر ہو (۷۸) اس نظم کا دوسرا بند اقبال کا طبع زاد ہے (۷۹) : عالم کا عجیب ہے نظارہ دامان نگہ ہے پارہ پارہ ہمت کو شناوری مبارک! پیدا نہیں بحر کا کنارہ ہے سوز دروں سے زندگانی اٹھتا نہیں خاک سے شرارہ صبح غربت میں اور چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے اقبال نے ہندوستان واپس آتے ہوئے سرزمین اندلس کو ’’ہسپانیہ‘‘ کے عنوان سے ایک قصیدے کے ذریعہ الوداع کہا ہے- یہ نظم ان جذبات کی آئینہ دار ہے جو سیاحت کے بعد حضرت اقبال کے دل میں موجزن ہوئے - اس کے اشعار اس محبت کے مظہر ہیں جو ان کو مسلمانان اندلس کے ساتھ تھی- یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ہر تصنیف میں قرطبہ اور غرناطہ کے زوال پر آنسو بہائے ہیں ، وہ آنسو جو ملت اسلامیہ کی نظر میں ستاروں سے بھی زیادہ تابناک ہیں : ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی؟ باقی ہے ابھی رنگ مرے خون جگر میں! غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے ولیکن تسکین مسافر ، نہ سفر میں نہ حضر میں(۸۰) علامہ اقبال نے فرمایا: کہ یہ مسجد جو فن تعمیر کے لحاظ سے دنیا کی نادر عمارتوں میںسے ایک ہے ، عیسائی راہبوں کے قبضے میں آئی ، تو انہوں نے وہ آیات قرآنی ، جو نہایت اعلیٰ عربی رسم الخط میں سنہری حروف سے مسجد کی دیواروں اور محرابوں پر لکھی گئی تھیں ، کا پلستر محکمہ آثار قدیمہ کے حکم سے اکھیڑا تو یہ قدیم نقوش اور آیات قرآنی ایک مرتبہ پھر اپنی سابقہ آب و تاب اور آن بان سمیت دنیا کے سامنے جلوہ گر ہو گئیں - اگر پلستر کے ذریعے انہیں محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو شاید آج یہ نقوش مدھم پڑ گئے ہوتے یا ان میں سے بعض محو ہو گئے ہوتے ، مگر قدرت کو یہ نقوش قائم رکھنے تھے لہٰذا انہیں دشمنوں کے ہاتھوں محفوظ کرایا (۸۱) - اقبال نے اندلس سے متعلق اپنے اشعار کو جس طرح دعا سے شروع کیا ، اسی طرح دعا کے ساتھ ہی ان کی تکمیل بھی کی - شروع میں ان کی اپنی دعا تھی ، آخر میں طارق بن زیاد کی ، جسے ’’طارق کی دعا ‘‘ کا نام دیا - موسٰی بن نصیر ( ۹۲ ھ ۷۱۱ ئ) نے طارق بن زیاد کو سات ہزار افراد پر مشتمل بربری فوج کے ساتھ سپین پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا- طارق آبنائے سے گزر کر ساحل سپین کی اس پہاڑی کے نزدیک فروکش ہوا جو جبل الطارق (جبرالڑ) کے نام سے موسوم ہے - اسی یاد گار مقام پر کشتی سوزانی کا معروف واقعہ پیش آیا - طارق نے وادی بکہ میں حاکم سپین رزریق (راڈرک) کی ایک لاکھ فوج کو شکست فاش دی ( ۱۹ جولائی ۷۱۱ ئ) ، اور اس کے بعد کئی دوسرے مقامات بھی فتح کر لیے جیسے قرطبہ اور طلیطلہ- علامہ اقبال نے طارق بن زیاد کی کشتی سوزانی کے واقعے کو ایک سراپا ایجاز قطعہ میں الملک للہ کے عنوان سے قلم بند کیا ہے: طارق چو بر کنارئہ اندلس سفینہ سوخت گفتند کار تو بہ نگاہ خرد خطا ست دوریم از سواد وطن باز چون رسیم ؟ ترک سبب ز روئے شریعت کجا رواست ؟ خندید و دست خویش بہ شمشیر برد و گفت ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست (۸۲) طارق بن زیاد نے وادی بکہ میں راڈرک کے معسکر عظیم پر ٹوٹ پڑنے سے پہلے اپنی مختصر فوج سے خطاب کیا - اس نے ہر مسلمان کی طرح خدائی استعانت اور استمداد کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا بھی مانگی - علامہ اقبال نے اس دعا کو ایک قطعے میں اس طرح مجسم کیا ہے کہ وہ جذبہ ء جہاد کا مرقع بن گئی اور مومن کی نیایش و بندگی کا مظہر بھی - قطعے کے دو بند ہیں جن کا قافیہ و ردیف متفاوت ہے: یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی ٭٭٭ دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرئہ ’’لاتذر‘‘ میں عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے! (۸۳) اقبال نے اس دلکش اور بغایت موثر نظم میں بطل اسلام ، طارق بن زیاد ، فاتح اندلس کے ان جذبات کی عکاسی اپنے الفاظ میں کی ہے جو آغاز جنگ سے پہلے اس مرد مومن کے دل میں موجزن ہوئے ہوں گے ، اور پھر دعا کی صورت میں اس کی زبان تک آئے ہوں گے(۸۴) - ------ علامہ اقبال نے ذہنی طور پر اندلس کی تاریخ اوروہاں کے مغربی عربی ماحول سے غیر معمولی وابستگی دکھائی - ان کی نثر و نظم اسی لیے آئینہ اندلس بن گئی - ۱۹۰۸ء کے لگ بھک انہوں نے نظم ’’ بلاد اسلامیہ‘‘ لکھی جس میں مدینہ منورہ ، قسطنطنیہ ، دلی ، جہاں آباد اور بغداد کے علاوہ سرزمین قرطبہ کو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے : ہے زمین قرطبہ بھی دیدئہ مسلم کا نور ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نمناک ہے (۸۵) ترانہ ٔملی میں بھی اقبال نے اندلس اور سارے عالم مراکش (مغرب) میں اسلامی تعلیمات کے فروغ پذیر ہونے کا اشارہ کیا ہے: مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا اے گلستان اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا(۸۶) شوقی اور اقبال کا موازنہ شوقی اور اقبال ، دونوں نے اندلس کو خاصی حد تک اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے - ان کی اندلسیات چھ (۶) تخلیقات پر مشتمل ہیں - شوقی نے پانچ (۵) قصائد میں اندلس کا ذکر کیا ہے اور وہ ہیں ’’الرحلہ الی الاندلس ،اندلسیہ‘‘، صقر قریش عبدالرحمن الداخل ، الاندلس الجدیدۃ اور بعد المنفی اور ایک نثری تخلیق امیرۃ الاندلس ہیں اقبال کی اندلسیات سے متعلق پانچ(۵) نظمیں ہیں ’’ دعا ‘‘، ’’مسجد قرطبہ‘‘، ’’ قید خانہ میں معتمد کی فریاد ‘‘ ، عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت‘‘ اور’’ہسپانیہ ‘‘- ان دونوں کی شاعری میں بہت سے ایسے عناصر ملتے ہیں جو موازنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں- اقبال اور شوقی ، دونوں کے قصائد میں معانی اور موضوع کا تواردخاصی حد تک ایک جیسا ملتا ہے- اور شوقی کے دیوان الشوقیات اور اقبال کے شعری مجموعے بال جبریل میں اندلسیات سے متعلق قصائد سے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے- الشوقیات اور بال جبریل بالترتیب - ۱۹۲۹ء اور ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئے- ۱ - اقبال اور شوقی کا موازنہ پہلے ان کے اندلسیات کے مرکزی قصیدے سے شروع کرتے ہیں ، شوقی کا الرحلہ الی الاندلس اور اقبال کا ’’ مسجد قرطبہ ‘‘ ان میں ہم معانی اور دونوں قصائد کے مطلعوں میں واضح مشابہت ملاحظہ کرتے ہیں - دونوں انقلاب زمانہ اور وقت کے تیز رفتاری سے گزرنے کا شکوہ کرتے ہیں اور اس بات پر ناخوش ہیں کہ زندگی ہمیشہ یکساں حالت پر نہیں رہتی بلکہ دائمی تغیر سے دو چار ہے ، کبھی ہمارے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی ہمارے مخالف - دونوں ہی اندلس کی اسلامی سلطنت پر حسرت کرتے ہیں - شوقی کہتے ہیں: اختلاف النہار واللیل ینسی اذکروا لی الصبا و ایام أنسی اور اقبال فرماتے ہیں : سلسلۂ روز و شب ، نقش گر حادثات سلسلۂ روز و شب ، اصل حیات و ممات شوقی کا قصیدہ ایک سو دس (۱۱۰) اشعار پر مشتمل ہے - اقبال کی نظموں میں چھیاسٹھ(۶۶) اشعار ہیں جو بلاغت اور فکر و نظر کے اعتبار سے مشابہت رکھتے ہیں- ۲ - اپنے خوبصورت قصائد میں شوقی اور اقبال نے اندلسی شاعر کا معارضہ کیا ہے ابن زیدون کے قصیدے نونیہ جو ولادہ بنت المستکفی پر لکھا گیا تھا ، کا معارضہ شوقی نے کیا ہے جبکہ اقبال نے عبدالرحمن الداخل کی شعری تخلیق کا ، اور دونوں موضوعات ایک ہی نقطۂ نظر پر مرکوز ہیں، یعنی وطن کے لیے شوق اور بے قراری - شوقی اپنے قصیدے ’’اندلسیہ ‘‘ کے مطلع کا آغاز اس طرح کرتے ہیں: یا نائح الطلح اشباہ عوادینا نشجی لوادیک ام ناسی لوادینا ماذا تقص علینا غیر ان یداً قصت جناحک جالت فی حواشینا رمی بنا البین ایکا غیر سامرنا اخا الغریب و ظلاً غیر نادینا آھاً لنا نازحی ایک باندلس و ان حللنا رفیقاً من روابینا ابن زیدون اپنے نونیہ میں فرماتے ہیں: اضحی التنائی بدبلاً عن تدانینا و ناب عن طیب لقیانا تجافینا الا و قدحان صبح البین صبحنا حین فقام بنا للحین ناعینا ان اشعار میں ابن زیدون کا اپنی محبوبہ ولادہ بنت المستکفی اور شوقی کا اپنی عظیم محبوبہ ، مصر سے متعلق شوق ، جذبات اور بے قراری کا اظہار یکساں پایا جاتا ہے- اس قصیدے میں شاعر نے اپنی والہانہ محبت ، شوق اور الفت کا بڑی خوبصورتی سے اظہار کیا ہے ، علاوہ ازیں اس میں دلکش موسیقیت اور حزن و غم پیدا کر دینے والے پر اثر قافیے بھی ہیں- وہ وادی طلح کے کبوتر سے مخاطب ہوتے ہیں جو المعتمد بن عباد کو پسند تھا ، اور زمانے اور اس سے وابستہ پریشانیوں کا ذکر کرتے ہیں- اقبال اپنے قصیدے ’’ بدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت ‘‘ (سرزمین اندلس میں ) میں عبدالرحمن الداخل کے قصیدے سے نقل کرتے ہیں جس کا مطلع اس طرح ہے: میری آنکھوں کا نور ہے تو میرے دل کا سرور ہے تو اپنی وادی سے دور ہوں میں میرے لیے نخل طور ہے تو مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا صحرائے عرب کی حور ہے تو اقبال اپنی اس نظم میں عبدالرحمن الداخل کے اس قصیدے کا تتبع کرتے ہیں جو اس طرح شروع ہوتا ہے: ترأت لنا وسط الرصافتہ نخلتہ تنأت بارض الغرب عن بلدالنخل فقلت شبیہی بالتقرب والنوی و طول التنائی عن بیتی و عن اصل نشأت بارض انت فیہا غریبہ فمثلک فی الاقصاء والمنتای مثل(۸۷) ۳ - شوقی اور اقبال ، دونوں کی اندلسیات میں عبدالرحمن الداخل ، اسلامی سلطنت کے اندلس میں قیام کے بانی ، کا خاصہ ذکر آتا ہے - دونوں نے اس عربی شہزادے کا یکساں ذکر کیا اور بہت حد تک ایک دوسرے کے مشابہ اشعار ملتے ہیں - شوقی نے اندلسی موشحات کے طرز پر ’’صقر قریش عبدالرحمن الداخل ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے: من النضو تیتری الماً برح بہ الشوق فی الغلس حن للبان و ناجی العلما این شرق الارض من اندلس (۸۸) اسی طرح اقبال نے اپنی نظم ’’ عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت‘‘ میں فرماتے ہیں : پردیس میں ناصبور ہوں میں پردیس میں ناصبور ہے تو غربت کی ہوا میں بار ور ہو ساقی تیرا نم سحر ہو ٭٭٭ صبح غربت میں اور چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ (۸۹) ۴ - شوقی نے معتمد بن عباد کے المیہ قصے کو اپنے ایک واحد نثری قصے امیرۃ الاندلس کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے ، جس میں اس نے معتمد بن عباد اور اس کی بیوی رمیکیہ کے دلکش ڈرامائی قصے بیان کیے ہیں - اقبال نے اس قصے کو قلم بند کیا ہے اور معتمد بن عباد کی وہی چیخ اور کراہ ان کی نظم ’’قید خانے میں معتمد کی فریاد ‘‘ میں گونجتی ہے- اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شوقی اور اقبال ، دونوں اس ڈرامائی قصے کو ایک ہی نقطۂ نظر سے بیان کرتے ہیں جو مسلمانوں کی کھوئی جنت ، اندلس سے نکلنے سے پہلے کے واقعے سے متعلق ہے - اقبال کہتے ہیں: اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی سوز بھی رخصت ہوا ، جاتی رہی تاثیر بھی مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی ۵ - شوقی اور اقبال ، دونوں ہی نے اپنے اپنے وطن مصر اور ہندوستان لوٹنے کے بعد اندلس کے فراق میں الوادعی نظمیں لکھیں جن میں اندلس کے مسلمانوں کی یاد محفوظ رکھنے کی نصیحت کی ہے - شوقی اپنے قصیدے بعدالمنفی میں لکھتے ہیں: وداعا ارض اندلس و ھذا ثنائی ان رضیت بہ ثوابا وما اثنیت الا بعد علم و کم من جاھل اثنی فغابا انادی الرسم لو ملک الجوابا و اجزیہ بدمعی لو اثابا و قل لحقہ العبرات تجری و ان کانت سواد القلب ذابا اقبال اپنی نظم ’’ ہسپانیہ ‘‘ میں اس طرح گویا ہوتے ہیں: ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں اس طرح شوقی اور اقبال کی اندلس سے متعلق شاعری ، زبان کے مختلف ہونے کے باوجود باہم خاصی مشابہت رکھتی ہے ، اور جیسا کہ ہم نے ان دونوں شاعروں کے اشعار میں ملاحظہ کیا ہے کہ ان کے قصیدوں کے نام ، مطلع ، موضوعات اور افکار بہت مشابہ ہیں اور ان کے توارد فکری و موضوعی اسلامی ثقافت اور دینی اثر کی وجہ سے بہت حد تک مماثل ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے - خاتمہ اور نتائج شوقی اور اقبال کی زندگیاں ، زمانے ، سیاست اور اجتماعیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے قریب تھیں - چونکہ مصر اور ہندوستان میں اس وقت سیاسی ، فکری اور دینی رجحانات پھیلے ہوئے تھے ، ان کے تحت وہ اپنے مشترک دشمن انگریزوں کے خلاف اور تحریک آزادی کے ہمعصر تھے - دونوں اپنے اپنے ملک کی سیاسی زندگی میں شریک ہوئے اور اپنی شاعری کے ذریعے اس کا دفاع کیا - دونوں ہی یعنی شوقی اور اقبال پارلیمنٹ کے ممبر تھے شوقی کو اندلس سے جلاوطن کیا گیا ، اس لیے کہ اس نے انگریزوں کے خلاف قصیدہ لکھا اور ترکوں اور خدیو اسماعیل کی مدافعت کی - اس دوران میں اقبال نے لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کی - اپنے ملک کی آزادی میں حصہ لیتے ہوئے ، اور قیام پاکستان کے لیے شوقی اور اقبال کے بیچ تشابہ کے عناصر صاف اور ظاہر ہیں - چونکہ شوقی اور اقبال ، دونوں ہی کے اسلامی کھنڈرات پر رکے اور حالت زار پر گریہ کناں ہوئے اور اپنے مقبوضہ اوطان کی بحالی کے لیے فعال ہوئے جو انگریزوں کے زیر تسلط تھے ، دونوں پہلے درجے کے قومی اور ملی شاعر قرار پائے- ہر دو اعلیٰ حسب نسب کے تھے - شوقی عثمانی ترک تھا جبکہ اقبال کشمیری برہمن کے اجداد ہندوستانی معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے متعلق- شوقی اور اقبال اعلیٰ ثقافتی اقدار سے روشناس ہوئے ، اسلامی تہذیب ، عرب تہذیب اور مشرقی تہذیب کیونکہ شوقی نے فرانس ، لندن ، اٹلی اور سپین کا دورہ کیا اور اقبال نے لندن، پیرس، جرمنی اور سپین کا سفر کیا ، دونوں نے ان ممالک کی تہذیب و تمدن کو دیکھا اور پرکھا ، اس کے باوجود نہ تو اس سے متاثر ہوئے اور نہ ہی اس کو اپنایا بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے رموز و اشارات ان کے کلام کی خاص خوبیاں تھیں جو روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر تھیں جیسا کہ طور ، موسیٰ ، فرعون ، سینا اور کلیم وغیرہ کا ذکر اور قدیم تہذیب کے موضوعات ، مصر و ہند ، اسلامی ممالک ، عرب ، مکہ ، وحی ،قرآن ، اسلام ، رسول ، اسلامی رمزو اشارات اور قومی رہنما جن کا اثر شوقی اور اقبال کے ذہن پر پڑا ، اور اگر ہم ان دونوں کے دواوین پر نظر عمیق دوڑائیں تو واضح طور پر یہ بات سامنے آئے گی کہ ان دونوں کے شعری موضوعات میں بہت گہرا تعلق اور مشابہت ہے - شوقی اور اقبال اپنے شعر کے ذریعے ان فکری مسائل میں شریک ہوئے جو اس وقت مصر اور ہندوستان میں چھڑے ہوئے تھے مثلاً خلافت اسلامیہ کا مسئلہ اور عربی اور مصری قومیت کا مسئلہ- گول میز کانفرنس میں ہندوستان کی آزادی کے مسئلے پر بحث میں شرکت کی غرض سے لندن جاتے ہوئے جب سویز(مصر کی بندرگاہ ) پہنچے تو اس کانفرنس میں گاندھی ، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر نے شرکت کی - تو شوقی خوشی سے کھل اٹھے- اس عظیم واقعے کی ، جس کی سخت ضرورت تھی اور ایک اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انگریزوں کو اب مصر بھی چھوڑنا پڑے گا - انگریزوں نے مصر کو اس لیے قبضہ میں لیا تھا کہ ہندوستان کا تجارتی راستہ محفوظ ہو جائے - انگریزوں کے ہندوستان سے کوچ کرنے کے ساتھ مصر کی تقدیر بھی جڑی ہوئی تھی چنانچہ شوقی نے ایک قصیدہ کہا جس میں انہوں نے برصغیر کی سر زمین کو مرحبا کیا اور آزادی کے حصول کے لیے اہل ہند کی جدوجہد کا ذکر کیا- اس قصیدہ کا مطلع کچھ اس طرح ہے : بنی مصر ارفعوا الغار وحیوا بطل الہند سلام النیل یا غاندی وھذا الزھر من عندی سلام حالب الشاہ سلام غازل البرد(۹۰) اور جب ہندوستان کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کی خبر ۳ جنوری ۱۹۳۱ء میں مصر پہنچی اور پھر ۲۱ جنوری میں ان کا تابوت ’’پورٹ سعید ‘‘ پہنچا اور پھر وہاں سے ٹرین کے ذریعہ القدس لے جایا گیا جو ان کی دائمی آرام گاہ بننے والا تھا تو شوقی نے ان کے لیے گہرے رنج و غم کے ساتھ مرثیہ کہا! اور مرثیے کے مقدمے میں یہ بات لکھی کہ ’’ وہ ، یعنی مولانا محمد علی جوہر برصغیر مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما اور قائد تھے جو ۱۹۳۱ء میں انتقال فرما گئے - قاہرہ میں ان کے لیے ایک تعزیتی جلسے کا انتظام کیا گیا جس میں یہ قصیدہ پڑھا گیا : بیت علی ارض الھدی و سماۂ الحق حائطہ و اس بناۂ الفتح مرا علامہ و الطہر من اوصافہ و القدس من اسماۂ (النیل) یذکر فی الحوادث صوۃ والترک لا ینسون صدق بلاۂ(۹۱) اور جیسا کہ شوقی نے ان مسائل میں جو اس وقت چھڑے ہوئے تھے ، اپنی رائے کا اظہار کیا- اس طرح ہم اقبال کو بھی دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بھی مصر میں پھیلے ہوئے اس وقت کے مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کیا بلکہ انہوں نے دو مرتبہ مصر کی زیارت بھی کی ، ایک مرتبہ جب لندن جا رہے تھے تو سویز میں ان کا جہاز رکا ، پھر پورٹ سعید میں ، اور یہ مختصر عبوری زیارت تھی جس میں انہوں نے بعض مصری دوستوں سے ملاقات کی جس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک رسالہ میں کیا - اور دوسری بار وہ رجب ۱۳۵۰ھ میں بمطابق دسمبر ۱۹۳۱ء اسکندریہ سے قاہرہ پہنچے - وہاں پانچ روز ان کا قیام رہا - اس اثنا میں انہوں نے جن علماء ،صحافی اور سیاست دانوں سے ملاقات کی ، ان میں شیخ الازہر ، مفتی ازہر اور سابق وزیر اوقاف محمد علی اورالسیاستہ کے ایڈیٹر ڈاکٹر محمد حسین ہیکل اور المنار کے ایڈیٹر شیخ محمد رشید رضا نمایاں حیثیت رکھتے ہیں - اس کے علاوہ جمعیت الشبان المسلمین سے خطاب فرمایا اور جمعیت کے نائب ڈاکٹر عبدالوہاب نجار نے ڈاکٹر عبدالوہاب عزام سے حاضرین کے سامنے مہمان محترم کے تعارف کے لیے کہا اقبال نے اہرام اور ابوالہول کی زیارت کی اور اپنا قصیدہ ’’ اہرام مصر ‘‘ کے نام سے کہا - دوسرا قصیدہ ’’اہل مصر سے ‘‘ کے عنوان سے - پھر ایک منظوم کھلا خط فاروق مصر کے نام ارسال کیا جس کا عنوان تھا (فاروق اعظم کا پیغام)جس کا مطلع اس طرح ہے: تو اے باد بیاباں از عرب خیز ز نیل مصریاں موجے بر انگیز ٭٭٭ بگو فاروق را پیغام فاروقؓ کہ خود در فقر و سلطانی بیامیز(۹۲) اقبال اپنے ایک قطعے میں قومیت کے حوالے سے کہتے ہیں - کل ایک شوریدہ خوابگاہ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں(۹۳) اس دور میں مصر اور ہندوستان کے رہنما ایک دوسرے کے ملک کی زیارت کرتے اور خطوط و رسائل کا تبادلہ کرتے اور مصری اخبار مثلاً الہلال ، المنار ، المقطم اور المقنظف مصری قائدین کی خبریں ہندوستان پہنچاتے - اس زمانے میں مصر سے دو اخبار جاری ہوئے ایک تو جہان اسلامی جس کو ابو سعید عربی قاہرہ سے نکالتے تھے ، اردو ، ترکی اور عربی زبان میں- لیکن انگریز جلد ہی ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثر کو سمجھ گئے اور اس کو بند کر دیا کہ یہ اخبار انگریزوں کے خلاف جہاد کی آگ بھڑکاتے تھے - ۱۹۲۹ ء میں دوسرا اردو اخبار مصر سے شائع ہونے لگا جس کا نام اسلامی دنیا تھا - اسے نکالنے والے محمود احمد عرفانی تھے- انہوں نے اس کی اشاعت کی وجہ یہ بیان کی کہ اس کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کو اسلامی دنیا سے روشناس کرانا ہے ، خاص طور پر مصر کو - لیکن یہ بھی زیادہ مدت تک نہ نکل سکا اور اس کی وجہ بھی وہی تھی - محمود عرفانی، مولانا محمد علی جوہر کے جنازے میں شریک ہوئے تھے اور انہوں نے مولانا کی تعریف و توصیف پر خاصا مواد اسلامی دنیا میں شائع کیا تھا- مصر میں جو بھی حادثہ یا واقعہ پیش آتا ، ہندوستان میں اس کی خبر پھیل جاتی ، اسی طرح ہندوستان میں جو کچھ ہوتا ، اہل مصر اس پر مطلع ہو جاتے - اس موقعے پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ آیا شوقی اور اقبال کی کبھی ملاقات بھی ہوئی ؟کوئی محقق یقین کے ساتھ نہیںکہہ سکتا کہ ان دونوں کے درمیاں کوئی ملاقات ہوئی ہے ، لیکن ترجیح اسی بات کو دی جاتی ہے کہ ملاقات ہوئی ہے - لیکن یہ بات سمجھ میںنہیں آتی کہ شوقی اور گاندھی ،محمد علی جوہر جیسے آدمی کو جانتے ہوں اور اقبال کی شخصیت سے ناواقف ہوں کیونکہ ادبی اور سیاسی شہرت بھی ان کو حاصل تھی - اقبال نے گاندھی اور محمد علی جوہر کی طرح گول میز کانفرنس میں شرکت بھی کی - اور یہ بات بھی ناقابل قبول ہے کہ اقبال مصر کی زیارت کریں اور ادبی ، فکری ، دینی اور سیاسی ہستیوں سے ملاقات کریں اور امیر الشعراء احمد شوقی سے ان کی ملاقات نہ ہو - اقبال نے جس زمانے میںمصر کی سیاحت کی ، اس وقت شوقی ، ترکی کی سیاحت کے لیے گئے ہوں جو ان کا دوسرا وطن تھا اسی وجہ سے اقبال ان سے ملاقات نہ کر سکے ہوں- بہر حال شوقی اور اقبال کے شعر میں تاثیر اور تاثر کے عناصر تو واضح ہیں - اقبال کا شوقی کے شعر سے تاثر کا خیال ، تو اس باب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے شوقی کا شعر پڑھا ہے، چاہے ان مصری اخباروں میں جو ہندوستان آتے تھے یا مصر میں اقبال کے جو دوست احباب رہے ہوں ، انہوں نے فراہم کیا ہو - یہ ممکن ہے اور بعید بھی نہیں ہے - اور میں خاتمہ اس مشہور عربی مقولہ پر کرتا ہوں کہ : ’’اور اگر میں اپنے اس خیال میں درست اور صحیح ہوں تو معاف کیجیے ، اور اگر یہ خیال صحیح نہیں ہے تو ہزار معافی کی درخواست کروںگا ‘‘- حواشی ۱ - احمد شوقی :الشوقیات - القاہرہ ۱۹۲۹ء ص : ۱؍ ۱۲۹ ۲ - الشوقیات : ۱؍۵۳ ۳ - اقبال : کلیات اقبال (اردو) ایجوکیشنل بک ہائوس - علی گڑھ ۱۹۹۰ء ص : ۵۷۸ -۵۷۹ ۴ - کلیات اقبال (اردو) : ۶۰۶ - ۶۰۷ ۵ - الشوقیات : ۱؍۱۴ ۶ - الشوقیات : ۱؍۱۱۰ ۷ - الشوقیات : ۳؍۱۶۷ ۸ - الشوقیات : ۳؍۶۰ ۹ - الشوقیات : ۳؍۱۴۲ ۱۰ - کلیات اقبال (فارسی) شیخ غلام علی ایڈیشن ، لاہور ص - ۹۶۰ ۱۱ - کلیات اقبال (اردو) : ۲۵۴ ۱۲ - کلیات اقبال (اردو ) : ۱۳۲ ۱۳ - الشوقیات : ۱؍۳۰ ۱۴ - الشوقیات : ۱؍۲۸۷ ۱۵ - الشوقیات : ۱؍۳۵۲ ۱۶ - کلیات اقبال (اردو ) : ۱۵۹ ۱۷ - کلیات اقبال (اردو) : ۱۶۰ - ۱۶۱ ۱۸ - الشوقیات : ۱؍۲۱۴ - ۲۱۸ ۱۹ - شوقی شاعر العصر الحدیث : ۳۸ ۲۰ - شوقی شاعر العصر الحدیث : ۲۹ - ۴۰ ۲۱ - کارواں ادب شمارہ ، اپریل - لکھنؤ ۱۹۹۲ ء ص : ۱۰ ۲۲ - شوقی شاعر العصر الحدیث : ۳۳ ۲۳ - المعتمد بن عباد ۱۰۴ ء میں پیدا ہوا - اس کا نام ابوالقاسم محمد تھا ابھی بارہ سال کی عمر تھی کہ باپ نے اسے مختلف صوبوں کی حکومت تفویص کی - وہ اصحاب علم و ادب کا مربی اور خود بھی عمدہ شعر گو تھا - معتمد وہی حکمران ہے جس نے بنی جہور پر غلبہ پایا اور قرطبہ پر قابض ہوا یہاں تک کہ امیر یوسف بن تاشفین کا ورود اندلس ہوا - اس نے سارے ملک کو اپنے زیر تسلط کر لیا اور المعتمد کو مراکش کے ایک گائوں اغمات میں بھیج دیا یہ واقعہ سن ۴۸۸ ھ کا ہے- اسی مقام پر اس نے بڑی غربت اور کسمپرسی کی حالت میں داعی اجل کو لبیک کہا (اندلس کی اسلامی میراث ۲۳۰ - ۲۳۱ ) ۲۴ - الشوقیات : ۱؍۴۱ ۲۵ - طہ وادی : شعر شوقی الغنائی والمسرحی ، القاہرہ ۱۹۸۰ء ص ۴۴ - ۴۵ ۲۶ - الشوقیات : ۱؍۴۱ - ۴۲ ۲۷ - دیوان البحتری شرح حسن کامل الصیرفی - دوسری بار دارالمعارف القاہرہ ص : ۱۱۰۲ ۲۸ - الشوقیات : ۲؍۴۲ ۲۹ - شوقی شاعر العصر الحدیث : ۳۲ - ۳۳ ۳۰ - الشوقیات : ۲؍۴۵ ۳۱ - الشوقیات : ۲؍۴۶ ۳۲ - الشوقیات : ۲؍۴۶ - ۴۷ ۳۳ - زکی مبارک : الموازنہ بین الشعراء ۰ مطبعہ الجلی الطبعہ الثانیہ القاہرہ ۱۹۳۶ء ص:۱۲۲- ۱۲۳ ۳۴ - الشوقیات : ۲؍۴۷ ۳۵ - الشوقیات : ۲؍۴۸ ۳۶ - اندلس کی اسلامی میراث : ۲۲۳ ۳۷ - فوزی خلیل عطوہ ، احمد شوقی امیر الشعراء ، الطبعہ الثانیہ دار صعب بیروت ۱۹۷۸ء ص: ۴۴ ۳۸ - الشوقیات :۲؍۱۰۴ ۳۹ - الموازنہ بین الشعراء : ۳۵۰ - ۳۵۱ ۴۰ - الشوقیات : ۲؍۱۰۵ ۴۱ - الشوقیات : ۱؍۲۳۰ - ۲۳۹ ۴۲ - محمد یوسف کوکن : اعلام النثر و الشعر فی العصر العربی الحدیث ، جلد اوّل مدراس ۱۹۸۰ء ص - ۲۶۰ ۴۳ - اعلام النثر و الشعر فی العصر العربی الحدیث ۲۶۵ ۴۴ - الشوقیات : ۲؍۱۷۱ ۴۵ - الشوقیات :۲؍۱۷۵ - ۱۷۶ ۴۶ - الشوقیات : ۲؍۱۷۷ - ۱۷۸ ۴۷ - الشوقیات : ۱؍۶۴ - ۶۵ ۴۸ - اقبال : مکاتیب اقبال : ۳۴۳ - ۳۴۴ اور ۳۲۱ ۴۹ - اندلس کی اسلامی میراث : ۲۸۲ - ۲۸۴ ۵۰ - اندلس کی اسلامی میراث : ۴۲۹ ۵۱ - اندلس کی اسلامی میراث : ۴۳۰ - ۴۳۱ ۵۲ - محمود نظامی : ملفوظات اقبال - لاہور ص - ۱۸۵ ۵۳ - اختر راہی : اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ، طبع اوّل ، لاہور ۱۹۷۸ء ص :۷۱ ۵۴ - فقیر سید وحید الدین : روز گار فقیر ، جلد دوم ، ص ۴۱۱ ۵۵ - ذکر اقبال : ۱۸۲ ۵۵ - کلیات اقبال (اردو) : بال جبریل : ۹۱ - ۹۲ ۵۶ - یوسف سلیم چشتی :شرح بال جبریل ، اعتقاد پبلشنگ ہائوس - دوسری بار نئی دہلی ، ۱۹۹۷ء ص:۵۳۷ ۵۷ - محمد عبدالوہاب خلاف : قرطبہ الاسلامین ، الدار التونسیہ اللنشر ۱۹۸۴ء ص: ۸۰ ۵۸ - اس - پ - سکاٹ : اخبار الاندلس ، جلد اوّل ترجمہ محمد عنایت اللہ - حیدر آباد دکن۔۱۹۲۲ء ص ۴۱۹ ۵۹ - بشیر احمد ڈار : انوار اقبال - اقبال اکادمی - لاہور ۱۹۶۸ء ص : ۱۰۳ - ۱۰۶ ۶۰ - مستنصر حسین تارڑ : اندلس میں اجنبی - طبع سوم ، لاہور ۱۹۸۴ء ص ۱۸۴ ۶۱ - عطاء اللہ شیخ : اقبال نامہ ، جلد دوم ، لاہور ۱۹۵۱ ء ص ۳۲۱ - ۳۲۲ ۶۲ - سلیم چشتی :شرح بال جبریل : ۵۵۱ ۶۳ - بال جبریل : ۹۳ ۶۴ - بال جبریل : ۹۴ - ۹۵ ۶۵ - اسلوب احمد انصاری : نقش اقبال ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی ، ۱۹۷۹ء ص ۱۰۰ - ۱۰۱ ۶۶ - مولانا ابوالحسن ندوی : نقوش اقبال ، ترجمہ :شمس تبریزی خان - مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ، پہلی بار لکھنؤ ۱۹۷۶ ص ۱۷۰ - ۱۷۱ ۶۷ - نقوش اقبال : ۱۷۴ ۶۸ - ابن المقری : نفح الطیب ، تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید دار الکتاب العربی بیروت: ۴؍۳۷ ۶۹ - بال جبریل : ۹۶ ۷۰ - آج کل اس کا نام ہے GUADALQOIVER ۷۱ - بال جبریل : ۹۷ - ۹۹ ۷۲ - بال جبریل : ۱۰۱ ۷۳ - یوسف سلیم چشتی : شرح بال جبریل : ۵۷۷ ۷۴ - الفتح بن خاقان : قلائد العقیان ، بولاق ۱۲۸۳ ھ ص ۲۳ ۷۵ - بال جبریل : ۱۰۱ - ۱۰۲ ۷۶ - نفح الطیب : ۴؍۳۷ و ابن الاثر : ۶؍۷۷ ۷۷ - بال جبریل : ۱۰۲ - ۱۰۳ ۷۸ - سید محمد یوسف : اندلس - تاریخ و ادب ، مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی ، ۱۹۶۹ء ص : ۱۹ ایضاً: فرمان فتح پوری : اقبال سب کے لیے ، طبع اوّل کراچی ۱۹۷۸ء ص - ۳۳۹ ۷۹ - بال جبریل : ۱۰۳ - ۱۰۴ ۸۰ - اندلس کی اسلامی میراث : ۲۸۸ ۸۱ - اقبال : کلیات اقبال (فارسی ) : پیام مشرق ، لاہور ، ۱۹۷۳ ص ۱۲۹ ۸۲ - بال جبریل : ۱۰۵ ۸۳ - یوسف سلیم چشتی : شرح بال جبریل : ۵۸۸ اور نقوش اقبال : ۲۱۱ - ۲۱۵ ۸۴ - بانگ درا : ۱۴۶ ۸۵ - بانگ درا : ۱۵۹ ۸۶ - نفح الطیب : ۴؍۳۷ ۸۷ - الشوقیات : ۲؍۱۷۱ - ۱۷۲ ۸۸ - بال جبریل : ۱۰۲ - ۱۰۳ ۸۹ - الشوقیات : ۴؍۵۹ - ۶۰ ۹۰ - الشوقیات : ۳؍۱۲ - ۱۳ ۹۱ - کلیات اقبال (فارسی) : کتب خانہ نذیریہ ،ا ردو بازار ، جامع مسجد دہلی ، دوسری بار ،۱۹۷۱ء ص - ۶۳ ۹۲ - بانگ درا : ۱۶۲ استفسارات و مباحث اقبال اور تصور جنت و دوزخ ڈاکٹر وحید عشرت وحید الدین سلیم - پی او بکس نمبر ۳۶۵ حیدر آباد (بھارت) سوال :- مجی محترم ڈاکٹر وحید عشرت صاحب ’’آپ کے ناظم ادارہ (اقبال اکادمی پاکستان) محمد سہیل عمر صاحب نے اپنی تصنیف خطبات اقبال - نئے تناظر میں اپنی عنایت سے مجھے روانہ کی تھی(۱) - انہوں نے تصور جنت و دوزخ کے سلسلے میں علامہ اقبال کے خیالات کی توضیح ضرور کی ہے اور فلسفیانہ بحث بھی کی ہے ، جنت ، دوزخ اور برزخ کے سلسلے میں علامہ اقبال کے خیالات چوتھے خطبے میں ، جس کا آپ نے اردو میں ترجمہ کیا ہے ،جنت ، دوزخ اور برزخ کے متعلق آپ نے کیا ترجمہ کیا ہے- آپ کے باقی خطبات کے تراجم تو میرے پاس ہیں مگر چوتھا خطبہ موجود نہیں - مجھے کبھی احساس ہوتا ہے کہ اقبال کے بعض ایسے متنازعہ خیالات پر ایک استادانہ تنقیدی کتاب شائع کی جانی چاہیے - علمی سطح پر جب کبھی یہ مسائل زیر بحث آئیں گے ، اسلام کا صحیح تخیل لوگوں کے سامنے آئے گا- آپ نے خطبات اقبال کے ترجمے کا جو کام شروع کیا تھا وہ اب مکمل ہو چکا ہو گا ،جنت اور دوزخ کی طرح اور بھی علمی و فلسفیانہ نکات کی وضاحت کے لیے ضروری حواشی اپنے ترجمہ کے ساتھ شامل کر کے اسے اہتمام کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کر دیجیے تو بہت بہتر ہو گا - شاعری کی طرح اقبال کی نثر بھی بڑی گہرائیاں رکھتی ہے اور بقول خود ان کے ؎ ہزار بادئہ ناخوردہ در رگ تاک است(۲) (پیام مشرق) چنانچہ ان مشکل مقامات کو کھولنے اور تمام افکار کو ربط و تسلسل کے ساتھ نئی نسل کے لیے قابل فہم بنانے کی ضرورت ہے - یقین ہے کہ اس سلسلے میں آپ کی سعی ، سعی مشکور ہو گی - جنت اور دوزخ اور خلود کے بارے میں اقبال کے الفاظ ان کے انگریزی خطبات میں یوں درج ہوئے ہیں - "Heaven and Hell are states not localities.Their descriptions in the Quran are visual representations of an inner fact,i.e.character. Hell,in the words of the Quran,is God's kindled fire which mounts above the heart's-the painful realization of one's failure as a man. Heaven is the joy of triumph over the forces of disintegration."(3) ترجمہ: جنت اور دوزخ احوال و کیفیات ہیں ، مقامات نہیں ہیں ، قرآن مجید میں ان کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے ، اس سے مقصود بھی یہی ہے کہ داخلی حقیقت، یعنی انسان کے اندرونی احوال کا نقشہ اس کی آنکھوں میں پھر جائے - جیسا کہ دوزخ کے بارے میں ارشاد ہے کہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ جو دلوں پر چڑھتی ہے ، بالفاظ دیگر وہ انسان کے اندر بحیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے - اسی طرح جنت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت - اسی طرح حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال نے قرآن حکیم کے الفاظ خلود یا خالدین کی جو تشریح فرمائی ہے اس کے مطابق خلود سے مراد ہمیشگی نہیں صرف ایک خاص زمانی مدت ہے جو بالآخر ختم ہو جائے گی یعنی دوزخ میں گنہگار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں رہیں گے بلکہ کچھ عرصہ گذار کر اور اپنی خودی پر جما ہوا زنگ اترنے کے بعد رحمت خدا وندی سے عذاب دوزخ سے چھوٹ جائیں گے - علامہ کے الفاظ میں The word 'eternity' used in certain verses, relating to Hell,is explained by the Quran itself to mean only a period of time(78:23). Time cannot be wholly irrelevant to the development of personality. Character tends to become permanent;its reshaping must require time. Hell,therefore,as conceived by the Quran, is not a pit of everlasting torture inflicted by a revengeful God;it is a corrective experience which may make a hardened ego once more sensitive to the living breeze of Divine Grace. Nor is Heaven a holiday. Life is one and continuous. Man marches always onward to receive ever fresh illuminations from an Infinite Reality which every moment appears in a new glory. And the recipient of Divine illumination is not merely a passive recipient. Every act of a free ego creates a new situation,and thus offers further opportunities of creative unfolding.(4) ترجمہ: ’’قرآن مجید نے لفظ ’’خلود‘‘ کی تشریح بھی دوسری آیات میں اس طرح کر دی ہے کہ اس سے مراد محض ایک مدت زمانی (۷۸:۲۳) ہے - یوں بھی انسانی سیرت کا تقاضا ہے کہ جوں جوں زمانہ گزرے ، اس میں سختی اور پختگی پیدا ہوتی جائے ، لہٰذا سیرت اور کردار کی تبدیلی کے لیے بھی ’’ وقت ‘‘ کی ضرورت ہو گی - اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جہنم بھی کوئی ’’گڑھا‘‘ نہیں جسے منتقم خدا نے اس لیے تیار کر رکھا ہے کہ گنہگار ہمیشہ اس میں گرفتار عذاب رہیں - وہ در حقیقت تادیب کا ایک عمل ہے تاکہ جو خودی پتھر کی طرح سخت ہوگئی ہے وہ پھر رحمت خداوندی کی نسیم جاں فزا کا اثر قبول کر سکے - لہٰذا جنت بھی لطف و عیش یا آرام و تعطل کی کوئی حالت نہیں - زندگی ایک ہے اور مسلسل ، اور اس لیے انسان بھی اس ذات لا متناہی کی نو بہ نو تجلیات کے لیے ، جس کی ہر لحظہ ایک نئی شان ہے ، ہمیشہ آگے ہی بڑھتا رہے گا - پھر جس کسی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ تجلیات الہٰیہ سے سرفراز ہو وہ صرف ان کے مشاہدے پر قناعت نہیں کرے گا - خودی کی زندگی اختیار کی زندگی ہے جس کا ہر عمل ایک نیا موقف پیدا کر دیتا ہے اور یوں اپنی خلاقی اور ایجاد و طباعی کے لیے نئے نئے مواقع بہم پہنچاتا ہے‘‘ ٭٭٭ جواب : - محترم وحیدالدین سلیم صاحب السلام علیکم - اس سے قبل عرض کر چکا ہوں کہ آپ کا مقالہ اقبالیات جنوری ۲۰۰۰ء کے شمارے میں شائع ہو رہا ہے جو انشاء اللہ اکتوبر کے مہینے میں آپ تک پہنچ جائے گا - رسائل بہت تاخیر سے شائع ہو رہے ہیں جولائی کا شمارہ بھی ساتھ ہو گا- خطبہ چہارم میں علامہ اقبال نے تقریباً آخر میں فرمایا ہے کہ ’’ جنت اور دوزخ اس کے احوال ہیں مقامات یعنی کسی جگہ کے نام نہیںہیں‘‘- (تشکیل ص ۱۸۵) دلیل اس کی یہ دی ہے(۵) کہ قرآن پاک میں ان کی جو کیفیات بیان کی گئی ہیں اس سے مقصود بھی یہی ہے کہ ایک داخلی حقیقت - یعنی انساں کے اندرونی احوال کا نقشہ اس کی آنکھوں میں بھر دیا جائے جیسا کہ دوزخ کے بارے میں ارشاد ہے اللہ کی جلائی ہوئی آگ جو دلوں تک پہنچتی ہے بہ الفاظ دیگر وہ انسان کے اندر بہ حیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے، جیسے بہشت کامطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت - اسلام نے انسان کو ابدی لعنت کا مستحق نہیں ٹھہرایا - اس سے آگے وہ خلود کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ قرآنی آیات سے جو مطلب نکلتا ہے اس سے ہمیشہ مراد نہیں بلکہ ایک مدت زمانی مراد ہے - وہ فرماتے ہیں جہنم بھی ہاویہ نہیں جسے منتقم خدا نے اس لیے تیار کر رکھا ہے کہ گناہ گار ہمیشہ اس میں گرفتار عذاب رہیں - وہ در حقیقت تادیب کا ایک عمل ہے پھر فرماتے ہیں کہ جنت بھی لطف و عیش یا آرام و تعطل کی کوئی حالت نہیں (یعنی یہاں جنت کے احوال ہونے کی خود ہی نفی کر دیتے ہیں-) سید نذیر نیازی نے تشکیل کے ص ۳۴۲ پر علامہ ابن عربی کے دو شعر دئیے ہیں - النار ناران نار کلھا لھیب و نار معنی علی الارواح تطلع فھی التی ما لھا سفع و لا لھب لکن لھا الم فی القلب ینطبع(۶) اور حضرت شاہ ولی اللہ کا ایک ارشاد نقل کیا ہے کہ ایک عالم محسوسات کا ہے ایک اعیان اور ایک امثال کا - عالم امثال میں محسوس عین اور عین محسوس کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے - جنت اور دوزخ کا تعلق بھی عالم امثال سے ہے گویا وہ احوال بھی ہیں اور مقامات بھی(۷)- یعنی شاہ صاحب نے دوزخ اور جنت کی دو حیثیتوں کو قبول کیا ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جنت اور دوزخ کو احوال تصور کرنے کا نظریہ صرف اقبال کا ہی نہیں اس سے قبل بھی یہ تصور موجود ہے کہ جنت اور دوزخ احوال ہیں لگتا ہے شاہ ولی اللہ جنت اور دوزخ کے مسئلے پر خود بھی زیادہ واضح نہیں تھے لہٰذا انہوں نے افلاطونی نظریہ اعیان اور امثال کے زیر اثر عالم امثال میں جنت اور دوزخ کو بھی مثال تصور کیا جہاں کیف و سرور یا تعزیر و تادیب کے احوال میں انسان مبتلا ہو گا - یعنی جنت خوشی کے احوال کا عین ہو گی اور دوزخ غمی اور سزا کا عین ہو گی مگر قرآن میں جنت اور دوزخ کے بارے میں بار بار جو تصریحات و تشریحات بطور ایک مقام کے آئی ہیں ان کا بھی انکار ان سے ممکن نہ ہو سکا کیونکہ وہ اتنی واضح ہیں اور اتنی مفصل ہیں کہ ایک مقام یعنی جگہ کے سوا کوئی اور خیال ان کے بارے میں دل میں آہی نہیں سکتا - چنانچہ انہوں نے احوال اور مقامات کہہ کر دونوں کو مطمئن کر دیا - جب علامہ اقبال ڈاکٹر لوکس کو کہتے ہیں کہ قرآن کا مفہوم نہیں بلکہ قرآن کی عبارت اسی طرح نبی اکرم پر اتری تھی مجھ پر شعر پورا اترتا ہے(۸) تو پیغمبر پر عبارت پوری کیوں نہ اتری ہو گی - ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ میں قرآن کی آیات کو ان کے لغوی مفہوم میں لیتا ہوں تمثیلی یا استعاراتی مفہوم میں نہیں تو پھر وہ جنت اور دوزخ کے تصورات کو عام لغوی مفہوم میں لینے کی بجائے تمثیلی اور استعارائی مفہوم میں لیکر انہیں احوال نہیں کہہ سکتے اس لیے کہ قرآن میں جنت و دوزخ کی تفصیلات احوال کے برخلاف مقامات یعنی جگہوں کو زیادہ واضح طور پر بیان کرتی ہیں - محمد سہیل عمر نے اپنی کتاب خطبات اقبال - نئے تناظر میں کہا ہے کہ ’’ جنت جہنم کو اس بیان میں جو احوال سے تعبیر کیا گیا ہے اور مقامات قرار نہیں دیا گیا تو ہمارا اندازہ ہے کہ یہاں ترجمے کی نارسائی کا دخل ہے- وہ کہتے ہیں کہ States کا ترجمہ احوال کی بجائے سیاق و سباق کی رعایت سے مراتب (وجود) ہونا چاہیے بایں معنی جنت جہنم ہمارے زمان و مکان کے اسیر مرتبہ وجود کی ’’ جگہیں‘‘ نہیں ہیں بلکہ مختلف مرتبہ وجود کے حقائق ہیں(۹) ‘‘ ممتاز سکالر احمد جاوید نے محمد سہیل عمر کے اس نقطہ نظر کو قبول نہیں کیا ان کا کہنا ہے کہ : ’’ سہیل عمر نے States کا جو ترجمہ تجویز کیا ہے اور اس پر جو دلیل دی ہے اسے ماننے میں چند رکاوٹیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ States کو مراتب وجود کے معنی میں لیا جائے تو سیاق و سباق مجروح ہو جائے گا - اقبال نے یہ Localities کی ضد کے طور پر استعمال کیا ہے جبکہ جنت اور دوزخ کو مراتب (وجود) کہنے کا مطلب یہی ہو گا کہ وہ Localities ہیں باقی یہ کہنا کہ جنت جہنم ہمارے زمان و مکان کے اسیر مرتبہ وجود کی جگہیں نہیں ہیں بلکہ مختلف مرتبہ وجود کے حقائق ہیں شوآن وغیرہ کے اثر سے سر زد ہو جانے والی عبارت آرائی ہے جسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے(۱۰) ‘‘- جہاں تک Localities کے مطلب کا تعلق ہے - ڈکشنری میں اس سے مراد مقام، جگہ، موقع محل، وقوع اور مقامات لیے گئے ہیں اورStateکا مفہوم طور ، وضع ، ڈھنگ ، حالت ، کیفیت ، روداد ، درجہ ، رتبہ ، شکوہ ، شان ریاست ، سلطنت،مجلس اور جماعت کے ہیں(۱۱) یعنی Localities سے مراد مقام ہے تو احمد جاوید کے خیال میں اس کی ضد پھر حالت یا کیفیت ہو سکتی ہے جو عام طور پر ترجمہ کئے گئے ہیں یا پھر محمد سہیل عمر کے State کے ترجمہ میں درجہ یا رتبہ یا مرتبہ کا مفہوم ہو سکتا ہے - اس سے اقبال کے خیال میں یہ بات تو واضح ہے کہ وہ جنت و دوزخ کو احوال یا کیفیات کہتے ہیں یا درجہ اور مرتبۂ وجود بہر حال مقامات تسلیم نہیں کرتے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آخرت کی زندگی میں برزخ بھی ایک درجہ ہے دوزخ بھی ایک درجہ ہے اور جنت بھی لیکن ان مختلف درجات کے مفہوم سے یا مرتبۂ وجود کے مطلب سے ان کے مقامات ہونے کا مفہوم کہیں غارت نہیں ہوتا- اسی طرح جنت اور دوزخ ہمارے غمی اور خوشی کے احوال سے بھی عبارت ہیں لیکن غمی اور خوشی کے احوال بھی کسی مقام سے وابستہ ہیں - یا یہ کسی نشے کی طرح ہیں کہ ایک پڑیا سے آپ تصورات و خیالات کی اپنی ہی دنیا میں آباد ہو جاتے ہیں - یقینا اقبال جنت و دوزخ کا ایسا تصور نہیں رکھتے اور نہ درجہ احوال سے یہ صورت حال مراد لی جا سکتی ہے - جنت اور دوزخ کو مقامات تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں پھر وجود بھی مختلف درجات رکھتا ہے ، جمادات ، نباتات ، حیوانات ، انسان اور روح اور پھر اس سے بالا مختلف درجات ہیں جو وجود کے درجات ہیں زندگی بھی ان درجات سے گذرتی ہے ان درجات کو ارتقائی بھی قرار دیا جاتا ہے اور موت کے بعد برزخ ، جنت اور دوزخ بھی درجات ہو سکتے ہیںبلکہ ہیں مگر ان تمام کو درجات کہنے کے باوجود ان کے مقامات ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا- وجود کا جمادی ہونا بھی ایک مقام ہے ، نباتی اور حیوانی اور انسانی مقامات بھی کہے جا سکتے ہیں اور ہر وجود کے زمان اور مکان کی نوعیت اس کے اپنے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہو سکتی ہے - لہٰذا جنت اور دوزخ کو مقام کہنے سے کوئی کنفوژن پیدا نہیں ہوتا - مقام کو ارضی زمان و مکان جیسی کسی کیفیت کے اسیر گرداننے سے جو کنفوژن پیدا ہوتا ہے وہ خدا نے خود حل کر دیا ہے کہ جنت و دوزخ اور موت کے بعد کی زندگی کی نوعیت کا ادراک انسان کو نہیں دیا گیا اور نہ وہ اسے سمجھ سکتا ہے بنابریں ہم جنت و دوزخ کو مقامات سمجھنے سے بھی کسی طور انکار کا جواز نہیں رکھتے - صرف اس کی نوعیت جاننے سے عاجز ہیں - تاہم ہمیں قرآن اور احادیث اور بعض مکاشفات اور معراجوں سے جنت اور دوزخ کی جو تصویر ملتی ہے وہ کیفیات و درجات کے ساتھ ساتھ مقامات کی بھی ہے - کیونکہ اگر جنت اور دوزخ کو صرف نفسیاتی احوال و کیفیات تک محدود کر دیا جائے اور مقامات کی بجائے صرف درجات میں محصور کر دیا جائے تو جنت و دوزخ اپنی کشش کھو دیں گے اور اس کے اثرات فوری طور پر انسانی اعمال کو ضعیف کرنے پر مرتب ہوں گے - اسی طرح کے مبحث معراج کے سلسلے میں بھی آئے ہیں جبکہ لوگوں نے اسے جسمانی معراج کی بجائے روحانی اور نفسیاتی گردانا کیونکہ وہ اس حیرت میں گم ہیں کہ ایک انسان کس طرح جسمانی طور پر معراج کے اعلیٰ مقام پر جا سکتا ہے - اب کیا اسے بھی استعاراتی کہہ دیا جائے - اگر ایسا کہا جائے تو وہ معراج کیا ہو گا - وہاں بھی سوال تھا کہ اگر معراج جسمانی نہیں تو پھر خدا نے اسے اتنے شدو مد سے بیان کیوں کیا کیونکہ نفسیاتی اور روحانی معراج تو کسی کو بھی ہو سکتا ہے - حضورؐ کا معراج خالص جسمانی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے سبحان الذی سے اس واقعہ کو بیان کیا کہ پاک ہے وہ ذات - اس لیے حضرت ابوبکر اس کی تصدیق کر کے صدیق کہلائے اور یہی درست روش ہے - جنت اور دوزخ کے بارے میں جو تصریحات قرآن و حدیث سے ملتی ہیں ان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ’’ کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی ہے (۳۲:۱۷)(۱۲) یعنی ہم جنت اور دوزخ کی نوعیت کو نہیں جان سکتے - غالباً اسی لیے معتزلہ نے افعال خداوندی کو جنہیں اصطلاحوں میں بیان کیا جاتا ہے کے بارے میں کہا کہ یہ محض استعارائی ہیں اور وہ بھی کہتے تھے کہ جنت قیامت کے وقت تخلیق کی جائے گی اس وقت اس کا کوئی وجود نہیں جبکہ اشاعرہ اور متکلمین جنت کو ایک ابدی حقیقت تصور کرتے تھے تاہم وہ یہ سمجھتے تھے کہ دنیاوی لذات سے جنت کی لذات کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی نسبت نہیں - دنیاوی لذات کی اپنی نوعیت ہے اور جنت کی لذات کی اپنی نوعیت ، انہیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ قرار دینا غلط ہو گا- تاہم سورہ بقرہ میں کہا گیا ہے کہ جنت کے پھل دنیا کے پھلوں جیسے ہی ہوں گے ہاں البتہ ان کی کوالٹی عمدہ اور لذت زیادہ ہو گی - وہ انسان کے لیے بالکل اجنبی نہ ہوں گے(۱۳)- زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں سورہ الزاریات(۱۴) میں اور دوسرے بعض مقامات پر اور حضرت ابن عباس نے جنت کے مختلف درجات جو قائم کئے ہیں اس سے بھی یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ جنت کے ہی یہ درجات اور مقامات ہیں - مثلاً مقام محمود جہاں نبی پاکؐ تشریف فرما ہوں گے - جنت الماویٰ جہاں شہید ،خیرات کرنے والے اور تقصیریں معاف کرنے والے ، عدن جسے زمرد سبز سے بنایا گیا ہے وہاں نمازی زہاد اور ائمہ مساجد اور عادل رہیں گے - دارالقرار جسے مروارید روشن سے مزین کیا گیا ہے وہاں عام مومنین رہیں گے - دارالسلام جو یاقوت سرخ سے بنا ہوا ہے وہاں فقیر اور صابر رہیں گے - قرآن حکیم نے فردوس ، روضہ ، دارلخلد ، دارالاقامہ اور دارالسلام کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں- علامہ سید سلیمان ندوی نے یقینا یہ کہا ہے کہ ان کی حقیقت بالکل وہی نہیں جو ان لفظوں سے سمجھنے کے ہم عادی ہیں بلکہ ان اخروی اشیا کو ان دنیاوی الفاظ سے اس لیے ادا کیا گیا ہے کہ وہ ان سے خاص مناسبت رکھتی ہیں ورنہ از روئے حقیقت ان الفاظ کے لغوی مفہوم سے ان کی اخروی حقیقتیں بدر جہابلند واتم ہوں گی - اس عبارت سے یہ بات واضح ہے کہ علامہ ندوی جنت کو ایک مقام ہی تصور کرتے ہیں صرف اس کی حقیقت دنیاوی حقیقتوں سے ارفع ہو گی - پھر قرآن کی آیات میں جنت کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ بھی مقام ہی کا بیان ہے کہ مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ، غلماں شراب پیش کریں گے ساغر ، پھل ، پرندے خوبصورت آنکھوں والی حوریں، پانی، دل نشیں بیویاں- اس کے لیے قرآن کی ۵۶:۱۵ تا ۳۷، ۷۶:۱۲ تا ۲۱ دیکھی جا سکتی ہیں کہ جنت بلند ترین آسمان اور عرش الٰہی کے نیچے ہو گی یعنی جنت کا مقام بھی متعین ہے - پھر یہ کہ حضور جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے عربی ان کی زبان ہو گی - یہ سب اشارے کسی خیالی ، استعارائی ، تمثیلی جنت کی بجائے ایک ایسی جنت کو واضح کرتے ہیں جو مقام ہوگی البتہ اس کی نوعیت ہماری دنیا سے قدرے مختلف اور بہتر ہو گی اور اس کا علم خدا کی ذات کو ہے ہم اس کو قیاس نہیں کر سکتے - جب ہم آپ کو خط لکھ چکے تو ہماری نظر ترجمان القرآن جلد ۱۰ شمارہ ۳ ۷ نومبر ۱۹۸۸ء کے ص ۱۳۰ میں پروفیسر محمد رفیق کے مضمون ’’ اقبال کا تصور جنت و دوزخ‘‘ پر پڑی(۱۵) - جس میں انہوں نے بھی قرآن و حدیث سے اقبال کے اس تصور کو متمیز کیا ہے کہ جنت و دوزخ احوال ہیں مقامات نہیں - انہوں نے خلود پر بھی قرآن و حدیث اور عربی لغت اور بعض مفسرین قرآن کے حوالے سے اس بات کو تقویت دی کہ خالدین یا خلود سے مراد کوئی زمانی مدت نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ مراد ہے - چنانچہ ہم نے اپنے اس خط میں اب اضافہ کیا ہے تاکہ قارئین اقبالیات تک ہمارا موقف مزید واضح ہو سکے - ان کے نزدیک دونوں تصورات - جنت و دوزخ کا مقامات کی بجائے احوال و کیفیات ہونا اور وہاں کی زندگی میں عدم خلود (ہمیشہ ہمیشہ) ہونا - قرآن کی آیات اور اس کے نصوص سے ہم آہنگ نہیں ہیں - اپنے پہلے تصور کے حق میں انہوں نے جو قرآنی دلیل دی ہے ، اس کا اصل حوالہ یہ ہے : نار اللہ الموقدۃ لا الّتی تطلع علی الافئدۃ ط (ھمزہ - آیت - ۶،۷) وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں تک پہنچتی ہے (۱۶)- ان دونوں آیات قرآنی سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ دوزخ کوئی مقام نہیں ہے،بلکہ ناکامی کے درد انگیز احساس کی کیفیت کا نام ہے - اب ذرا ان دونوں آیات مذکورہ کا اصل سیاق کلام ملاحظہ ہو :- ویل لکل ھمزۃ لمزۃ نالّذی جمع مالاًوّ عددہ لا یحسب انّ مالہ اخلدہ ج کلا لینبذن فی الحطمۃ صلے و مآ ادراک ماالحطمۃ ط نار اللہ الموقدۃ لا التی تطلع علی الا فئدۃط انھا علیھم مؤصدۃ لا فی عمد ممددۃ ع (سورہ ھمزہ) ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں پر طعن کرتا اور پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنے کا خوگر ہے جو مال جمع کرتا ہے اور اسے گن گن کر رکھتا ہے - وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا - ہرگز نہیں ، وہ شخص چکنا چور کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا اور تمہیں کیا معلوم وہ چکنا چور کر دینے والی جگہ کیا ہے ؟ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ جو دلوں تک پہنچے گی - وہ ان پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی اس حال میں وہ اونچے ستونوں میں گھرے ہوئے ہوں گے(۱۷) - پوری سورہ کے اس سیاق کلام میں لینبذن فی الحطمۃ ( وہ شخص چکنا چور کر دینے والی) جگہ میں پھینک دیا جائے گا ، اور فی عمدممددہ ( وہ اونچے اونچے ستونوں میں گھرے ہوئے ہوں گے) کے قرآنی الفاظ بول بول کر اس امر کی وضاحت کر رہے ہیں کہ اس میں اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ سے دوزخ مراد ہے جو ایک آتشیں مقام اور جگہ ہے - پھر دوزخ کے مقام ہونے کے بارے میں قرآن مجید میں اتنے واضح دلائل ، نظائر اور نصوص موجود ہیں ، جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور ان شواہد کی موجودگی میں دوزخ کاکوئی ایسا مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا جو دوزخ ہی سے متعلق قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے متصادم یا ان کے منافی ہو - قرآن حکیم میں جگہ جگہ دوزخ کو بئس المصیر (البقرہ ۱۲۶) (۱۸) اور بئس المھاد (آل عمران ۱۲) (۱۹) کہا گیا ہے ، جن کے معنی ہیں ’’ برا ٹھکانا ‘‘ - کہیں اسے دارالفاسقین فاسقوں کا گھر (الا عراف ۱۴۵)قرار دیا ہے - کبھی اسے دار البوار (ہلاکت خانہ - ابراہیم - ۲۸)(۲۰) کا نام دیا گیا ہے - کبھی اسے مثوی الظالمین (ظالموں کے رہنے کی جگہ - آل عمران ۵۱) سے تعبیر کیا گیا ہے ، کبھی اسے بئس القرار(بری جگہ - ابراہیم - ۲۹) بتایا ہے ، اور کہیں اسے ھاویہ (گڑھا - القارعہ ۹) کہا ہے(۲۱) - قرآن مجید کی اس قدر کثیر نصوص اور تعلیمات کے ہوتے ہوئے آخر سورئہ ہمزہ کے مذکورہ حوالے کی بنیاد پر یہ کہنے کی گنجائش کہاں ہے کہ دوزخ کوئی مقام نہیں ہے اور ناکامی کے درد انگیز احساس کی کیفیت کا نام ہے - دوسری جانب جنت کے مقام و مستقر ہونے کے نصوص اور قطعی دلائل بھی خود قرآن مجید میں موجود ہیں - چند مثالیں ملاحظہ ہوں :- ۱ - سورئہ فرقان میں ’’ عباد الرحمن ( اللہ کے نیک بندوں ) کا انجام اس طرح بتایا گیا ہے کہ وہ ایک اچھے مستقر اور مقام میں ہمیشہ رہیں گے - اولٰئک یجزون الغرفۃبما صبروا و یلقون فیھا تحیّۃً و سلاما لا خلٰدین فیھا ط حسنت مستقراًوّ مقاماً ۔ (الفرقان ۹ آیت ۷۵ ۰ ۷۶) (۲۲) ان لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے جنت میں رہنے کو بالا خانے ملیں گے اور وہاں دعا اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا - جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے - وہ کیا ہی اچھی جگہ ہے دیر ٹھہرنے کے لیے ہو یا مستقل طور پر رہنے کے لیے - ۲ - سورئہ نازعات آیت ۴۱ میں بتایا کہ نیک نفس انسان کے لیے جنت کا ٹھکانا ہو گا - فان الجنۃ ھی المادیٰ پھر جنت اس کا ٹھکانا ہے(۲۳) - ۳ - سورئہ دخان میں ہے کہ پرہیز گاروں کے لیے جنت اور چشموں کی جائے امن ہو گی- ان المتقین فی مقام امین لا بے شک پرہیز گار لوگ امن کی جگہ پر ہوں گے ، باغوں میں اور چشموں میں (۲۴)- جہنم کے بھی مختلف مقامات بیان کئے گئے ہیں مثلاً جہنم بیعر ، حطمہ ، نطی ، سقر ،حجیم ، ھاویہ- اقبال نے یہ جو لکھا ہے کہ اسلام نے انسان کو ابدی لعنت کا مستحق نہیں ٹھہرایا اور خلود کی تشریح میں کہا ہے کہ قرآنی آیات سے جو مطلب نکلتا ہے اس سے ہمیشہ مراد نہیں بلکہ ایک مدت زمانی مراد ہے تو اس کی اساس مسلم اور مسند احمد کی احادیث پر ہے جو عبداللہ ابن عمر اور ابن عباس نے بیان کی ہیں کہ جہنم پر ایک وقت ایسا آئے گا جب اس میں کوئی نہ ہو گا اور اس کے خالی دروازے کھڑ کھڑائیں گے - پھر بخاری شریف میں ہے کہ جب دوزخیوں کو گناہوں سے خالص کر دیا جائے گا اور وہ پاک و صاف ہو جائیں گے تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی - مولانا سلیمان ندوی کی بھی یہی رائے ہے کہ انسان گناہوں سے دوزخ کے ذریعے پاک ہو کر اپنی موروثی جنت میں داخل ہو گا - تاہم معتزلہ کی رائے زیادہ قرین قیاس ہے کہ جہنم میں داخل ہونے والے پھر باہر نہیں نکلیں گے اور اس کے ساتھ اشاعرہ کی رائے ملا لی جائے تو صورت حال اور بہتر ہو جاتی ہے کہ صاحب ایمان لوگ جہنم میں تا ابد ہرگز نہ رہیں گے بلکہ یہ بھی کہ جنہیں اللہ چاہیے گا وہ وہاں رہے بغیر ہی نجات پا جائیں گے - مراد یہ ہے کہ کافر اور مشرک اور منافق مستقلاً دوزخ میں رہیںگے اور اہل ، ایمان صرف اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر اپنے ایمان کی وجہ سے جنت میں آ جائیں گے - خلٰدین اور خلود کے سلسلے میں ایک دوست نے قرآن حکیم کے گیارہویں پارہ کی سورہ ہود کی آیت نمبر ۱۰۶ تا ۱۰۹ کی طرف توجہ دلائی کہ ان آیات کے مطالعہ سے خلٰدین کا مفہوم متعین ہونا چاہیے - وہ آیات درج ذیل ہیں - فاما الذین شقوا ففی النار لھم فیھا زفیروشھیق(۱۰۵) خٰلدین فیھا ما دامت السمٰوٰت والاض الا ما شاء ربک ان ربک فعال لمایرید(۱۰۶) و اما الذین سعد وا ففی الجنۃ خلٰدین فیھا ما دامت السمٰوٰت والاض الا ما شآء ربک عطآئً غیر مجذوذ (۱۰۸) ترجمہ : پس جو لوگ بدبخت ہیں وہ آگ میں ہوں گے - ان کو وہاں چیخنا ہے اور دھاڑنا ہے (زفیر گدھے کے بلند آواز میں ہینگنے کو کہتے ہیں اور شھیق گدھے کی اس مدھم آواز کو کہتے ہیں جب وہ چیخ چیخ کر ہلکان ہونے کے بعد کرب ناک انداز میں مدھم ہو جاتی ہے) وہ اس میں رہیں گے- جب تک آسمان و زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہے بے شک ، ترا رب کر ڈالتا ہے جو چاہتا ہے اور جو لوگ نیک بخت ہیں تو وہ جنت میں ہوں گے ، وہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہیے بخشش ہے بے انتہا - (تذکیرالقرآن ص ۶۰۵ وحیدالدین خان)(۲۵) اگرچہ ہم اس پربڑی مفصل بحث کر سکتے ہیں کہ اس سورہ ہود میں سارا بیان ہی عاد اور دوسری قوموں کی بداعمالیوں پر سخت لہجہ میں تنقید سے کیاگیا ہے لہٰذا ان سے کہیں بھی رعایت کا شائبہ نظر نہیںآتا- دوسرے اس تصور کی نفی کی گئی ہے کہ خدا کی گرفت سے کوئی کسی کو بچا سکتا ہے ، تیسرے خلدین اور جسے خدا چاہے کہ الفاظ دوزخیوں اور جنتیوں دونوں کے لیے ایک جیسے ہی استعمال کئے گئے ہیں لہٰذا دونوں سے معاملہ کی ایک ہی نوعیت ہے کہ وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں اور دوسرے جنت میں ہمیشہ رہیں - چوتھے خدا نے اپنا اختیار بالاتر ظاہر کیا ہے کہ وہ مختار کل ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتا ہے - وہ کسی کا پابند نہیں اپنی مرضی اور منشا کا خود مالک ہے - اب خدا کے مختار کل ہونے کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ لازماً یہ اختیار استعمال کرے گا- فرض کیجئے اگر وہ اپنا یہ اختیار از خود استعمال نہیں کرتا تو پھر تو وہ سدا دوزخ میں رہیں گے ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لیے یہ اختیار استعمال کر کے اور کافروں کے لیے استعمال نہ کرے -بہرحال یہ خدا کو ہی سزاوار ہے کہ وہ جو چاہیے کرے لیکن اس سارے سے اس کی تائید پھر بھی نہیں ہوتی کہ وہ محض اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اہل جنت کو دوزخ میں ڈال دے یا اہل دوزخ کو جنت میں بدل دے یہ اس کی مشیت کے خلاف ہے بہرحال اللہ کے اختیار پر کسی ظن و تخمین کا ہم اظہار نہیں کر سکتے - ان آیات سے کیا مفہوم عمومی طور پر اخذ ہوتا ہے اس کے لیے ہم نے مولانا وحید الدین خان کی تذکیر القرآن ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن ، مفتی محمد شفیع کی تفسیر معارف القرآن اور پیر کرم شاہ الازہری کی ضیاء القرآن کا مطالعہ کیا ان کی تفسیروں کے اقتباسات بلا تبصرے کے پیش ہیں جن سے کسی تردد کے بغیر ہی خلود اور خلٰدین کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ خلٰدین سے مراد ہمیشہ ہمیشہ ہے ، صرف خدا کو استشناء حاصل ہے کہ وہ کسی کو جب چاہے معاف کر دے مگر خدا اس استشناء کو ضروری نہیں کہ عمل میں لائے - مولانا سید مودودی قرآن کی سورہ ہود کی تشریح میں لکھتے ہیں ان الفاظ سے یا تو عام آخرت کے زمین و آسمان مراد ہیں یا پھر محض محاورے کے طور پر ان کو ہمیشگی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے - بہرحال موجودہ زمین و آسمان تو مراد نہیں ہو سکتے - کیونکہ قرآن کے بیان کی رو سے یہ قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں جن واقعات کا ذکر ہو رہا ہے وہ قیامت کے بعد پیش آنے والے ہیں - آیت نمبر ۱۰۸ یعنی کوئی اور طاقت تو ایسی ہے ہی نہیں جو ان لوگوں کو اس دائمی عذاب سے بچا سکے - البتہ اگر اللہ تعالیٰ خود ہی کسی کے انجام کو بدلنا چاہے یا کسی کو ہمیشگی کا عذاب دینے کی بجائے ایک مدت تک عذاب دے کر معاف کر دینے کا فیصلہ فرمائے تو اسے ایسا کرنے کا اختیار ہے کیونکہ اپنے قانون کا وہ خود ہی واضع ہے کوئی بالاتر قانون ایسا نہیں جو اس کے اختیارات کو محدود کرتا ہو (۲۶)- ۱ - یعنی خلٰدین کا مطلب زمانی مدت نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ہے خلود سے زمانی مدت مراد لینا درست نہیں - ۲ - خدا کا یہ استثناء اس کی عادت یا سنت اللہ نہیں اور اس کو کلیتہً استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ خدا کسی ایک یا کچھ کو استثنادے سکتا ہے - تاہم خدا کے اس استثنا کو محدود بھی نہیں کیا جا سکتا - خدا کا کسی کو معاف کر دینا یہ عمومی کلیہ نہیں استثنائی رعایت ہے - اس سے خلٰدین کے مفہوم ہمیشہ ہمیشہ کی نفی نہیں ہوتی - مولانا مودودی حاشیہ نمبر ۱۰۹ میں لکھتے ہیں - یعنی ان کا جنت میں ٹھہرنا بھی کسی ایسے بالاتر قانون پر مبنی نہیں ہے جس نے اللہ کو ایسا کرنے پر مجبور کر رکھا ہو - بلکہ یہ سراسر اللہ کی عنایت ہو گی کہ وہ ان کو وہاں رکھے گا اگر وہ ان کی قسمت بدلنا چاہے تو اسے بدلنے کا پورا اختیار ہے(۲۷) (تفہیم القرآن ص ۶۰۵) مفتی محمد شفیع مرحوم اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں -’’ سو جو لوگ شقی ہیں وہ تو دوزخ میں ایسے حال سے ہوں گے کہ اس میں ان کی چیخ و پکار پڑی رہے گی اور ہمیش ہمیش کو اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں (یہ محاورہ ہے) ابدیت کے لیے اور کوئی نکلنے کی سبیل نہ ہو گی ہاں اگر خدا ہی کو (نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے (کیونکہ) آپ کا رب جو کچھ چاہے اس کو پورے طور پر کر سکتا ہے (مگر باوجود قدرت کے یہ یقین ہے کہ خدا یہ بات نہ چاہے گا اس سے نکلنا نصیب نہ ہو گا) اور رہ گئے وہ لوگ جو سعید ہیں سو وہ جنت میں ہوں گے (اور) وہ اس میں داخل ہونے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے - جب تک آسمان زمین قائم ہیں (گو جانے سے قبل کچھ سزا بھگتی ہو) وہ بھی غیر منقطع عطیہ ہو گا(۲۸)-(معارف القرآن سورہ ہود آیت ۱۰۷،۱۰۸) اس سلسلے میں سب سے واضح اور جامع تفسیر (جسٹس) پیر کرم شاہ ازہری مرحوم نے کی ہے - وہ اپنی تفسیر ضیاء القرآن جلد دوم کے صفحہ ۳۹۴ پر لکھتے ہیں - ’’ یعنی دوزخی ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے - آیت میں آسمان اور زمین سے موجودہ آسمان و زمین مراد نہیں کیونکہ یہ تو اس وقت فنا کر دیئے جائیں گے بلکہ عالم آخرت کے آسمان و زمین مراد ہیں جو ابدی ہوں گے اور اگر آیت میں یہی زمین و آسمان مراد ہوں تو پھر کفار کے ابدی عذاب کو ان الفاظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب جب کسی چیز کو ابدیت اور دوام ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو انہی الفاظ سے اس کو تعبیر کرتے ہیں‘‘(۲۹) - ابن قیتبہ ، ابن الانباری و فراء جو لغت کے امام ہیں انہوں نے کہا ہے کہ یہ وہ استثنا ہے جسے عملی جامہ نہیں پہنایا جائے گا - محض اظہار قدرت و اختیار کے لیے ذکر کیا گیا ہے جیسے سنقرئک فلا تنسی الا ماشاء اللہ میں ہے یعنی وہ اتنی مدت دوزخ میں رہیں گے جتنی مدت آسمان و زمین کو بقا نصیب ہے اور اس کے سوا اور بھی اور وہ بھی جتنا اللہ چاہے گا جس کو نہ تم سمجھ سکتے ہو اور نہ اس کا اندازہ ہی کر سکتے ہو اگرچہ بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ کفار کے لیے بھی جہنم کا عذاب کبھی نہ کبھی منقطع ہو جائے گا لیکن جمہور کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ ختم نہیں ہو گا اور احادیث صحیحہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (۳۰)- (ضیاء القرآن جلد دوم ص ۳۹۴) غالباً علامہ اقبال نے بھی ان ہی بعض لوگوں کی رائے سے کفار کے لیے بھی دائمی عذاب سے نجات کی رخصت اور رعایت نکالی ہے مگر یہ جمہور علما اور عام مسلمانوں کا موقف نہیں - اب ایک لفظ ہے کر سکنا اور دوسرا لفظ ہے کرنا - اب کر سکنے کو تو خدا سب کچھ کر سکتا ہے مگر جو خدا کی سنت ہے وہ عام طور پر اس کے خلاف کرتا نہیں مثلاً وہ سب جنتیوں کو بھی دوزخ میں ڈال سکتا ہے مگر وہ اپنی قدرت کا ایسا استعمال نہیں کرتا جو شعور و فہم یا خود اس کی اپنی عادت کے خلاف ہو - یہاں بھی یہی معاملہ ہے اب عربی لغت ، قرآن حکیم اور اس کے مفسرین اور اصول تفسیر کو دیکھیں تو خلود اور خالدین سے مراد مدت دراز نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ مراد ہے - جس طرح جنت میں مومن نت نئی کیفیات سے لطف اندوز ہوں گے وہاں کافر ، مشرک اور منافق اور حضور کی نبوت اور ختم نبوت کے منکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب جہنم کا مزا چکھتے رہیں گے اس لیے کہ انکار ختم نبوت بھی اقبال کے نزدیک شرک فی النبوت ہے (۳۱)، پروفیسر رفیق لکھتے ہیں - ’’اب آئیے اس قرآنی دلیل کی طرف جس کی بنیاد پر اقبال مرحوم نے جنت اور دوزخ میں عدم خلود ہونے کا نظریہ قائم کیا ہے - جس آیت کا حوالہ انہوں نے دیا ہے - وہ سورئہ نباء کی آیت ۲۳ ہے - جہاں اللہ کے باغیوں کو جہنم کی وعید سنانے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ: لٰبثین فیھا احقاباً وہ اس میں رہیں گے قرنوں تک(۳۲) اس آیت کے لفظ احقاب سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ یہ قرنوں تک کی مدت کہیں جا کر ختم ہو جائے گی - لہٰذا دوزخ کے لیے بھی خلود نہ ہو گا- مگر یہ استدلال کئی وجوہ سے مناسب معلوم نہیں ہوتا - ۱ - لغت کی دلیل عربی لغت میں احقاب (واحد حقب اور حقبہ) کے معنی لامتناہی زمانے کے ہیں - عربی زبان کے مشہور و مستند لغت، لسان العرب میں اسی لفظ کے معنی مدۃ لا وقت لھا (جلد ۱ ص ۳۲۶)کے بیان کیے گئے ہیں ، جس کے معنی ہیں ’’ایسی مدت جس کے ختم ہونے کے لیے کوئی وقت نہ ہو ‘‘ (۳۳)- پھر اسی لغت میں مشہور ماہر لغت ’’فراء کا قول درج کیا گیا ہے ، جس کے نزدیک اس آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے : ’’والمعنی انھم یلبثون فیھا احقابا ، کلما مضیٰ حقب تبعہ حقب اخر‘‘ (لسان العرب ، جلد اول - ص ۳۲۶)(۳۴) اور اس کے معنی کہ وہ دوزخ میں احقاب کی مدت رہیں گے ،یہ ہیں کہ جب ایک دور زمانی گذرے گا تو پھر دوسرا دور زمانی شروع ہو جائے گا ‘‘- ایک اور ماہر لغت ’’ الزجاج ‘‘ کا یہ قول بھی اسی لغت میں موجود ہے : المعنی انھم یلبثون فیھا احقابا لا یذوقون فی الاحقاب برداًوّ لا شراباً وھم خالدون فی النار ابداً (لسان العرب - ابن منظورجلد ۱ ص ۳۲۶) اور ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس میں احقاب تک رہیں گے - یہ ہیں کہ احقاب تک ان کو دوزخ میں نہ کوئی ٹھنڈک ملے گی اور نہ کوئی اچھا مشروب ملے گا - اور وہ آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے - عربی زبان کے ایک ماہر مفسر قرآن علامہ زمخشری نے اپنی مشہور تفسیر ’’الکشاف‘‘(۳۵) میں لٰبثین فیھا احقاباً کی اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ : ’’احقابا : حقبا بعد حقب کما مضیٰ حقب تبعہ اخر الی غیر نھایۃ - ولا یکاد یستعمل الحقب والحقبۃ الا حیث یراد تتابع الا زمنۃ و تو الیھا‘‘ (الکشاف، جلد ۴، ص ۲۰۹ ، طبع مصر) مولانا عبدالماجد دریا بادی مرحوم نے قرآن مجید کی اسی آیت (۳۶) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : ’’ احقاب کے بصیغہ جمع آ جانے سے کوئی گنجائش دوزخ کے عدم خلود کے قائلوں کے لیے نہ رہی ‘‘ - (بحوالہ ترجمہ و تفسیر قران مجید - ص ۱۱۷۰ ، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ) مولانا امین احسن اصلاحی نے آیت مذکورہ کا یہ مطلب تحریر کیا ہے - ’’ لٰبثین فیھا احقاباً ، احقاب’‘ کے معنی قرنوں کے ہیں - اس کی وضاحت قرآن میںجگہ جگہ خٰلدین فیھا ابداً کے الفاظ سے ہو گئی ہے - یعنی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے- بعض لوگوں نے اس سے طویل مدت مراد لے کر یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ جہنم بالآخر ایک دن ختم ہو جائے گی - لیکن یہ رائے غلط ہے - زبان کے سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ مجمل کی شرح مفصل کی روشنی میں کرتے ہیں نہ کہ مفصل کی شرح مجمل کی روشنی میں - خٰلدین فیھا ابداً کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ مفصل ہیں اور لفظ احقاب مجمل - اس مجمل کو مفصل کی روشنی میں سمجھیں گے نہ کہ اس کے برعکس - علاوہ ازیں یہاں انجام باغیوں اور سرکشوں کا بیان ہوا ہے ، جس کے لیے قرآن کے دوسرے مقامات میں یہ تصریح ہے کہ ان کو جہنم سے نکلنا کبھی نصیب نہ ہوگا - (تدبر قرآن ، جلد ۹ ، ص ۱۶۳ ، لاہور ، ۱۹۸۳ئ) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں(۳۷) کہ : ’’اصل میں لفظ احقاب ، استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں پے درپے آنے والے طویل زمانے ، ایسے مسلسل ادوار کہ ایک دور ختم ہوتے ہی دوسرا دور شروع ہو جائے - اس لفظ سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنت کی زندگی میں تو ہمیشگی ہو گی اور جہنم میں ہمیشگی نہیں ہو گی - کیونکہ یہ مدتیں خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہوں ، بہر حال جب مدتوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے یہی متصور ہوتا ہے کہ وہ لامتناہی نہ ہوں گی بلکہ کبھی نہ کبھی جا کر ختم ہو جائیںگی - لیکن یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے - ایک یہ کہ عربی لغت کے لحاظ سے ’’حقب‘‘ کے لفظ ہی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک حقب کے پیچھے دوسرا حقب ہو - اس لیے احقاب لازماً ایسے ادوار ہی کے لیے بولا جائے گا جو پے در پے ایک دوسرے کے بعد آتے چلے جائیں اور کوئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے پیچھے دوسرا دور نہ آئے - دوسرے یہ کہ کسی موضوع کے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت سے کوئی ایسا مفہوم لینا اصولاً غلط ہے جو اسی موضوع کے بارے میں قرآن کے دوسرے بیانات سے متصادم ہوتا ہو - قرآن میں ۳۴ مقامات پر اہل جہنم کے لیے خلود ہمیشگی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور ایک جگہ صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ ’’وہ چاہیں گے کہ جہنم سے نکل جائیں ، مگر وہ اس سے ہرگز نکلنے والے نہیں ہیں اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے ‘‘(۳۸) - (المائدہ : آیت ۳۷) ---- ان تصریحات کے بعد لفظ احقاب کی بنیاد پر یہ کہنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ جہنم میں خدا کے باغیوں کا قیام دائمی نہیں ہو گا ، بلکہ کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گا ‘‘(۳۹)؟ (تفہیم القرآن ، جلد ۶ ، ص ۲۲۹ ، ۲۳۰) اب سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۸۰،۸۱،۸۲ ملاحظہ فرمائیں جس کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے کہ جہنم میں تھوڑی مدت گذار کر جنت میں جانے کا دعویٰ غلط ہے اور خلٰدین سے مراد ہمیشہ ہمیشہ ہے کچھ مدت نہیں اللہ نے نہایت تلخ الفاظ میں اس کو واضح کردیا ہے - وقالو الن تمسنا النارا لا ایاماً معدودۃ ط قل اتخذتم عنداللہ عہداً فلن یخلف اللہ عہدہ ام تقولون علی اللہ مالا تعلمون(۸۰) بلٰی من کسب سیئۃً و احاطت بہ خطیئۃ ، فاولئک اصحٰب النارج ھم فیھا خلٰدون (۸۱) والذین امنوا و عملوا الصلحٰت اولٰئک اصحٰب الجنۃ ہم فیھا خلٰدون (۸۲) ترجمہ: وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں الایہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے ان سے پوچھو کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کر سکتا؟ یا یہ بات ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے ، آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی ؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا - وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں ہمیشہ رہے گا اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے (تفہیم القرآن - ۸۹، ۹۵) اب اس آیت نے خلود اور خلٰدین کے معنی متعین کر دیئے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل یہ سمجھتے تھے کہ وہ دوزخ میں تھوڑی مدت کے لیے رہیں گے جس پر اللہ نے کہا کہ کیا تم نے مجھ سے کوئی عہد لیا ہوا ہے اور ساتھ ہی تصریح کر دی کہ نہیں بلکہ وہ ہمیشہ رہیں گے(۴۰) - ۲ - اصول تفسیر کی دلیل قرآن مجید کی تفسیر کا ایک مسلمہ اصول (بلکہ اصل الاصول) تفسیر القرآن بالقرآن ہے - جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن ہی کی روشنی میں کی جائے - کیونکہ قاعدہ ہے کہ القرآن یفسر بعضہ بعضہ (قرآن کا بعض اس کے بعض کی تفسیر کر دیتا ہے )- اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو قرآن مجید نے چالیس سے زیادہ مقامات پر یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ جنت یا دوزخ میں رہنے والے خلدین فیھا ہوں گے یعنی وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے - گویا قرآن مجید نے خلود فی النار (دوزخ میں ہمیشگی) اور خلود فی الجنۃ (جنت میں ہمیشگی) کی تصریحات خود فرما دی ہیں - اور پھر گیارہ مقامات پر اس ضمن میں خلدین فیھا ابداً کے الفاظ آئے ہیں - جس کے معنی ہیں کہ ’’ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہیں گے‘‘- ( ان گیارہ مقامات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورئہ نساء آیت ۵۷،۱۲۲ - سورئہ مائدہ آیت ۱۱۹، سورئہ توبہ ۲۲ ،۱۰۰ - سورئہ احزاب آیت ۶۵ - سورئہ تغابن آیت ۹ - سورئہ طلاق آیت ۱۱ - سورئہ جن آیت ۲۳ - نیز سورئہ بّینہ آیت ۸ ) مزید برآں سورئہ کہف آیت ۳ میں ماکثین فیھا ابداً کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں - جن کا مطلب یہ ہے کہ ’’ وہ اس میں ابد تک رہنے والے ہیں ‘‘- پھر سورئہ مائدہ آیت ۳۷ میں ہے کہ کافر یہ چاہیں گے کہ دوزخ سے نکل جائیں ، مگر وہ اس میں سے نکل نہ سکیں گے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہو گا (۴۱):- یریدون ان یخرجوا من النار و ما ھم بخٰرجین منھا و لھم عذاب مقیم (المائدہ - آیت ۳۷) وہ (کافر) چاہیں گے کہ اس آگ سے نکل بھاگیں ، مگر وہ اس میں سے نکل نہ سکیں گے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہو گا - جب اتنے کثیر نصوص قرآنیہ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ جنت اور دوزخ میں خلود ہے - ہمیشگی ہے ، دوام ہے اور ابدیت ہے ، تو پھر احقاب کے لفظ سے کس طرح جنت و دوزخ میں عدم خلود ہونے کا ثبوت نکالا جا سکتا ہے ؟چنانچہ اس سلسلے میں بعض لوگوں نے جنت و دوزخ کے بارے میں جو نظریات قائم کیے ہیں، وہ درست نہیں ہیں اور قرآن مجید کی واضح تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے - اس تصور میں ایک خاص فلسفیانہ اور صوفیانہ طرز فکر بھی کہیں جھلکتا ہے - یہ بحث بھی اسی کیفیت کے تحت آتی ہے - جنت کے بارے میں ایک تصور تو وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام مجید میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میںبیان فرما دیا ہے - قرآن مجید نے اس جنت کا تعارف کراتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ :- ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم و لکم فیھا ما تدعون ط نزلاً من غفورٍ رحیمٍ ( حم سجدہ - آیت ۳۱ ، ۳۲) اور جس چیز کو تمہارا جی چاہے گا بہشت میں موجود ہو گی اور جو چیز تم طلب کرو گے وہاں حاضر ہو گی - یہ بخشنے والے مہربان خدا کی طرف سے مہمانی ہو گی(۴۲)- گویا جنت وہ مقام ہے جہاں وہ ساری نعمتیں اور آسائشیں میسر ہوں گی ، جن کی تمنا کی جا سکتی ہے - اور نفس انسانی کی ہر طلب پوری ہوگی - جہاں پر ہر پیاس کے لیے سیرابی ، ہر بھوک کے لیے سیری اور ہر آرزو کے لیے تکمیل ہو گی - جہاں پر کوئی جکڑ بندی ، کوئی مجبوری اور کوئی اکتاہٹ نہ ہو گی - بلکہ ہر لمحہ نئی تازگی ، ہر لحظہ دلچسپی اور دل بستگی کا سرو سامان ہو گا - اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت کاہمیں یہی تصور دیا ہے کہ اس میں نت نئے ممکنات موجود ہوں گے - گنجائش ہے کہ نئے نئے مناظر طلب کیے جا سکیں ، خلائوں میں پرواز کی جا سکے ، ستاروں اور کہکشانوں کی سیر ہوتی رہے - لیکن اگر مقصود یہ ہو کہ جنت الٰہی کے بنیادی قرآنی تصور کے بجائے سرے سے کسی من مانی جنت کی حسرت میں پڑے رہیں تو اس سے حقیقت واقعی نہ بدلے گی اور قرآن کے بیان کردہ تصور سے ہم دور رہ جائیں گے ‘‘(۴۳)- ڈاکٹر ولیم سی چیٹک کی کتاب وژن آف اسلام صفحات ۹۲ ، ۹۷ پر Clay یعنی مٹی کے تحت ایک خوبصورت بحث موجود ہے(۴۴) جس کے مطالعے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان مٹی اور روح دونوں کے امتزاج سے بنا ہے - اگر مٹی کو روح سے الگ کر دیا جائے تو روح تو امر ربی ہے جو خدا نے انسان میں پھونکی ہے فرشتے بھی روح ہیں اگر جسد خاکی کو روح سے الگ کر دیا جائے تو وہ روح رہ جائے گی وہ انسان نہیں ہو گا اور اگر روح سے مٹی الگ کر دی جائے تو وہ صرف مٹی رہ جائے گی انسان نہیں ہو گا - لہٰذا روح اور جسم کے باہمی اختلاط سے ہی انسان تشکیل پائے گا یا انسانی وجود متشکل ہو گا روح اور جسم کے ایک دوسرے سے الگ کرنے سے دو مختلف چیزیں سامنے آئیں گی انسان نہیں ہو گا - جسم کے بغیر روح ناقابل محسوس ہے اور نہ قابل دید اور روح کے بغیر انسان کا مادی وجود محض مٹی کا ڈھیر ہے انسانی جسم جو مٹی سے وجود میں آیا ہے اس میں زندگی روح کے ہی باعث ہے - ان دونوں اجزا کو الگ الگ کر دیا جائے تو انساں باقی نہیں رہتا - اب اگر انسان روح اور جسم کا مرکب ہے تو لازمی بات ہے کہ قیامت کے دن انسان، روح اور جسم دونوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا - صرف روحوں کو اٹھانا ہوتا تو یہ صرف کہا جاتا کہ قیامت کے دن انسانی روحوں کو طلب کیا جائے گا مگر اسلام کی تعلیمات میں یہ بات واضح ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا - اگر صرف روحوں کو جمع کرنا ہوتا تو قیامت کے بارے میں اتنا زبردست اور دہلا دینے والا بیان قرآن نہ دیتا کیونکہ انسانی روحوں کو بلانا ایک عام سی بات ہوتی - روح اور جسم کے ساتھ انسان کا اٹھایا جانا واقعی ایک بڑا واقعہ ہے جب سب انسان میدان حشر میں جمع ہوں گے - اب اگر انساں روح اور جسم کے ساتھ اٹھائے جائیں گے تو یہ لازم ٹھہرتا ہے کہ وہ کسی نئے زمان و مکان میں ہی سہی روح اور جسم کے ساتھ موجود ہوں گے اور یہاں حساب و کتاب کے بعد اسی روح و جسم کے ساتھ اپنے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ میں جزا اور سزا کے لیے جائیں گے - انساں کے روح و جسم کو ایک مقام کی حاجت ہو گی اسی لیے قرآن نے جنت اور دوزخ کو مقامات قرار دیا ہے - حشر اجساد (قیامت کے دن جسم کا اٹھایا جانا) پر یہودی مسیحی اور اسلامی علم کلام میں بہت مفصل بحثیں موجود ہیں جو اس خط میں دہرانا ممکن نہیں - تاہم یہ بات ہر بار ذہن میں رہنی چاہیے کہ قیامت کے دن انسان کو دوبارہ زندہ کرنے کی نوعیت اور جنت و دوزخ کے مقام ہونے کی نوعیت کے بارے میں حتمی علم خدا نے کسی کو نہیں دیا بلکہ بار بار کہا ہے کہ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی اس کی نوعیت خدا ہی بہتر جانتا ہے جس طرح میں سمیع بھی ہوں اور بصیر بھی اور خدا بھی سمیع و بصیر ہے مگرمیرے سمیع و بصیر ہونے اور خدا کے سمیع و بصیر ہونے کی نوعیت ایک جیسی نہیں ہو سکتی میری سماعت اور بصارت کو ماپا اور جانچا جا سکتا ہے اس میں ضعف آ سکتا ہے وہ ختم ہو سکتی ہے مگر خدا کا سمیع و بصیر ہونا ان تمام عیوب سے پاک ہے اس کی کوئی حد نہیں - میںچند گز کے فاصلے تک سن اور دیکھ سکتا ہوں مگر خدا کی بصارت اور سماعت تمام عالمین کو محیط ہے انساں اس کی وسعتوں کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا - خدا اپنی صفات اور احوال کا خود ہی جاننے والا ہے اس طرح قیامت کے دن ہمارا اٹھایا جانا اور جنت اور دوزخ کے مقامات کی نوعیت کا جاننے والا بھی وہ خود ہی ہے ہمارے تمام ظن و تخمین محدود اورہمارے اپنے دائروں کے اسیر ہیں نبی پاکؐ نے بھی تو فرمایا ہے کہ جنت و دوزخ کے پھلوں کا ذائقہ کسی زبان نے نہیں چکھا جنت کی وسعتوں کا کوئی اپنے گمان میں بھی اندازہ نہیں کر سکتا، نہ کسی آنکھ نے کبھی اسے دیکھا ہے اور نہ کسی حسن نے محسوس کیا ہے - مقام سے مراد مقام ہی ہے ہماری دنیا کا کوئی اینٹ چونے سے بنا ہوا گھر نہیں اس مقام کو بھی ہمارے موجودہ زمانی تعبیر و تضمن پر قیاس نہیں کیا جانا چاہیے - جس طرح ہمارا دن ، خدا کے دن اورہمارا سال خدا کے سال کے برابر نہیں اسی طرح ہمارے مقامات بھی خدا کے مقامات سے ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے - ان تمام مباحث کی جو بھی نوعیت ہو اللہ ہی کو معلوم ہے مگر ان مباحث سے جنت اور دوزخ کے مقامات ہونے سے انکار ممکن نہیں بلکہ اگر جنت اور دوزخ کو بھی تمثیل،احوال، استعارہ اور خیال سے ملوث کر دیا گیا تو پھر ہر چیز استعارہ اور تمثیل بن کر رہ جائے گی - اصل اس سارے مبحث کی یہ ہے کہ قیامت کے دن خدا ہمیں کیا انہی اجسام کے ساتھ اٹھائے گا یا اس کی نوعیت کوئی اور ہو گی اس کا جواب قرآن پاک میں صاف طور پر دیا گیا ہے کہ جب تم موجود نہیں تھے تو خدا نے تمہیں بنایا اب جب تم موجود ہو تو خدا کے لیے کیا مشکل ہے کہ تم لوگوں کو دوبارہ اٹھا نہ سکے - صرف ہم ہی اس بات کو نہیں سمجھتے- خدا کے دوبارہ اٹھائے جانے پر حشر الاجساد کے نام سے ہمارے ہاں بڑے مباحث ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ اگر خدا ہر چیز پر قادر ہے تو وہ بغیر ماں باپ کے ہمیں پیدا کر سکتا ہے جیسا کہ آدم اور حوا کو پیدا کیا - بغیر باپ کے بھی پیدا کر سکتا ہے جیسے حضرت عیسیٰ کو پیدا کیا تو پھر ایسا قادر خدا ہمیں قیامت کے دن اٹھا بھی سکتا ہے اگر ہم عام زندگی میں بھی مشاہدہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ خدا موت کو زندگی اور زندگی کو موت سے پیدا کرتا ہے - مرغی پرندوں ، گائے اور بکری کو جب ذبح کر کے ان کی زندگی ختم کی جاتی ہے تو وہ ہمارے لیے زندگی کا سبب بنتے ہیں -ہمارا مردہ جسم کیڑے مکوڑوں کی خوراک بنتا ہے اور ان کیڑے مکوڑوں سے اور نباتات سے جانور زندگی پاتے ہیں اور پھر ان کو خوراک بنا کر انسان زندگی کی قوت حاصل کرتا ہے یوں خدا موت سے زندگی اور زندگی سے موت کو پیدا کرتا ہے - اسی سے زندگی اور موت پر اس کی قدرت ہمیں ذہن نشین کر لینی چاہیے جو ہر دم اور روز ہمارے عام مشاہدے میں آتی رہتی ہے- خود علامہ اقبال نے نمود حیات کتاب کے باب ’’غیر مکانی حقیقت‘‘ کا اپنے ایک مضمون ’’حشر اجساد‘‘ میں حوالہ دیا (۴۵) جس کے مصنف نے فلسفیانہ تحقیق پر ریاضی کے طریقے کا اطلاق کرنے کی کوشش کی ہے اور جدید ریاضیاتی تحقیق و تدفیق کی روشنی میں زمان و مکاں اور زندگی کے بارے جن خیالات کا اظہار کیا ہے علامہ اسے مسلم فلسفہ و دانش کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے مفید گردانتے ہیں کہ ۱۸ اور ۱۹ ویں صدی کی سائنس جن معتقدات کو لغو اور ناقابل اعتبار کہتی تھی اب وہ حشر اجساد ، مردوں کے جی اٹھنے کے حق میں استدلال کر رہی ہے اسی مضمون میں خود علامہ نے قرآن سے حشر اجساد کے حق میں آیات بغیر کسی تاویل کے دی ہیں - علامہ کی نظر میں اگر جدید منطق سائنس اور تحقیق حشر اجساد کو قبول کرتی ہیں کہ خدا انسان کو دوبارہ جسمانی طور پر زندہ کر سکتا ہے تو پھر جنت اور دوزخ کے مقامات تسلیم کرنے میں کونسی منطق ، سائنس اور تحقیق حائل ہے - جبکہ سورہ بقرہ میںجنت کے پھلوں کو دنیا کے ثمرات جیسا ہی کہا گیا ہے کہ وہ انساں کے لیے اجنبی نہ ہوں گے صرف لذت اور کوالٹی میں بہت بہتر ہوں گے اور پھر نیک بیبیاں مردوں کے لیے اور پاکباز مرد عورتوں کے لیے (زوج کے مفہوم میں نیک بیبیاں اور پاکباز مرد دونوں شامل ہیں) کیا محض خیالی ہوں گی جبکہ قرآن کے مطابق دنیا میں جو نیک جوڑے ہیں جنت میں بھی ایک ساتھ ہوں گے اور نیک عورتوں کو پاکباز مرد اور صالح مردوں کو نیک بیویاں ملیں گی - اب خدا اگر ہمیں دوبارہ اٹھا سکتا ہے تو پھر یہ جنت و دوزخ بھی برحق مقامات ہیں - ان پر ایمان لازم ہے تاہم ان کی حتمی نوعیتوں کو بقول خود خدا کے وہی جانتا ہے اور ہمیں اس کا علم نہیں دیا گیا صرف ایمان لانے کو کہا گیا ہے - قرآن حکیم میں جنت اور دوزخ کا وجود محکمات میں سے ہے جبکہ جنت اور دوزخ کی نوعیتیں متشبہات ہیں خدائے ذوالجلال نے ان کی حقیقت کا علم کسی اور پر عیاں نہیں کیا جس کا بیان خود قرآن میں بار بار ہوا ہے حواشی ۱ - محمد سہیل عمر ، خطبات اقبال - نئے تناظر میں ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۹۹۶ء خطبہ چہارم ص - ۱۴۰، ۱۴۱ ۲ - اقبال ، علامہ محمد پیام مشرق کلیات اقبال (فارسی) اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ص ۷۶؍۲۵۲ سن ۱۹۹۰ء ۳ - اقبال ، علامہ محمد The Reconstruction of Religious Thought in Islam اقبال اکادمی پاکستان ص ۹۲ ۴ - ایضاً ص ۹۲ ۵ - اقبال ؍ سید نذیر نیازی ، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، بزم اقبال ، ص ۱۸۵ ۶ - ایضاً ص (ط) چوتھا خطبہ عنوان جنت اور دوزخ ۷ - ایضاً ۸ - ایضاً ۹ - محمد سہیل عمر ، خطبات اقبال - نئے تناظر میں - اقبال اکادمی پاکستان لاہور ، ص ۱۴۱ ، ۱۴۰ ۱۰ - احمد جاوید ، اقبالیات مجلہ ، اقبال اکادمی پاکستان ، شمارہ جنوری ۲۰۰۱ء ۱۱ - فیروز سنز (مرتب) English to English and urdu Dictionary نیا ایڈیشن لاہور ۱۲ - قرآن حکیم (۳۲:۷) ۱۳ - قرآن حکیم سورہ بقرہ ۱۴ - زمخشری ، تفسیر کشاف سورہ الزاریات ۱۵ - خورشید احمد ، پروفیسر (مدیر) ترجمان القرآن لاہور جلد ۱۰ شمارہ ۷۳ ، نومبر ۱۹۸۸ء ص ۱۳۰ ۱۶ - قرآن حکیم - سورہ ھمزہ آیت - ۶ ، ۷ ۱۷ - ایضاً ۱۸ - قرآن حکیم سورہ بقرہ آیت ۱۲۶ ۱۹ - قرآن حکیم سورہ آل عمران آیت ۱۲ ۲۰ - قرآن حکیم سورہ ابراہیم آیت ۲۸ ۲۱ - قرآن حکیم سورہ القارعہ آیت ۹ ۲۲ - قرآن حکیم سورہ الفرقان آیت ۷۵،۷۶ ۲۳ - قرآن حکیم سورہ نازعات آیت ۴۱ ۲۴ - قرآن حکیم سورہ ہود آیت ۱۰۶ تا ۱۰۸ ۲۵ - وحیدالدین خان ، مولانا ، تذکیر القرآن ، ص ۶۰۵ ۲۶ - مودودی ، مولانا سید ابوالاعلیٰ ، تفہیم القرآن ، جلد ۲ سورہ ہود پارہ ۱۲ ص ۳۶۹ - مکتبہ تعمیر انسانیت ، لاہور ۱۹۶۴ طبع سوم ۲۷ - ایضاً ص ۶۰۵ ۲۸ - مفتی محمد شفیع ، معارف القرآن ، سورہ ہود آیت ۱۰۷ - ۱۰۸ ۲۹ - الازھری ، پیر کرم شاہ ، ضیاء القرآن ، جلد دوم ص ۳۹۴ ۳۰ - الازھری، پیر کرم شاہ ،ضیا القرآن ، جلد دوم ص ۳۹۴ ۳۱ - ڈار، بشیر احمد ، اقبال اور احمدیت ، آئینہ ادب لاہور ۱۹۸۴ء ص ۱۱ اے کہ بعد از تو نبوت شد بہر مفہوم شرک بزم را روشن ز نور شمع عرفاں کردہ نیز دیکھیے سرود رفتہ ص ۳۷ ، باقیات اقبال (مرتبہ عبداللہ قریشی، ۱۹۷۸ء ص ۱۲۹ ۳۲ - القرآن حکیم سورہ نباء آیت ۲۳ ۳۳ - ابن منظور ، لسان العرب جلد اول ص ۳۲۶ ۳۴ - ایضاً ۳۵ - زمخشری ، الکشاف جلد ۴ ص ۲۰۹ طبع مصر ۳۶ - دریا بادی ، مولانا عبدالماجد ، ترجمہ و تفسیر قرآن مجید ص ۱۱۷۰ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور ۳۷ - اصلاحی،مولانا امین احسن،تدبر القرآن،فاران فائونڈیشن لاہور جلد ۹،ص ۱۶۳-۱۹۸۳ء ۳۸ - القرآن ، المائدہ آیت ۳۷ ۳۹ - مودودی ، سید ابوالاعلیٰ ، تفہیم القرآن ، جلد ۶ ص ۲۲۹ - ۲۳۰ ۴۰ - قرآن حکیم سورہ بقرہ آیت ۸۰،۸۱،۸۲ ۴۱ - القرآن دیکھیے سورہ نسا آیت ۵۷ - ۱۲۲ سورہ مائدہ آیت ۱۱۹ سورہ توبہ ۲۲، ۱۰۰ سورہ احزاب آیت ۶۵ - سورہ تغابن آیت ۹ - سورہ طلاق آیت ۱۱ - سورہ جن آیت ۲۳ - سورہ بینہ آیت ۸ - سورہ کہف آیت ۳ - سورہ مائدہ آیت ۳۷ ۴۲ - قرآن حکیم :- حم سجدہ آیت ۳۱ تا ۳۲ ۴۳ - پروفیسر رفیق کا مقالہ ، اقبال کا تصور جنت و دوزخ ، ترجمان القرآن ، حوالہ مذکور ۴۴ - چیٹک ، ڈاکٹر ولیم ، وژن آف اسلام (انگریزی) ص ۹۲ ، ۹۷ ۴۵ - اقبال ، (لطیف احمد شیروانی مترجم اقبال احمد صدیقی) اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۹۹۹ء ص ۳۱۵ استفسارات احمد جاوید استفسار ۱:- ’ مثنوی اسرار خودی‘ میں اقبال نے حضرت علی ؓ کے مناقب میں لکھا ہے کہ ’حق یداللہ خواند در ام الکتاب‘- از راہ کرم نشان دہی فرمائیں کہ قرآن مجید میں آنجناب کو ’یداللہ‘ کہا ں کہا گیا ہے؟ یوسف الدین خان ، کینٹ ، انگلستان جواب :- قرآن میں ’یداللہ‘ کا کلمہ کئی مقامات پر آیا ہے مگر کسی ایک جگہ بھی سیدنا علی کرم اللہ وجہہ پر دلالت نہیں کرتا - نہ صراحۃً نہ کنایۃً - لہٰذا یہی کہا جا سکتا ہے کہ علامہ سے سہو ہو گیا - اگر قرآن کا حوالہ دیے بغیر حضرت علیؓ کو ’یداللہ‘ کہہ دیا جاتا تو یہ ہر طرح سے درست اور قابل قبول ہوتا، لیکن ’ام الکتاب‘ کا دوٹوک حوالہ آنے سے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ اب سب سے پہلے یہ بتانا ہو گا کہ اللہ نے اپنی کتاب میں انہیں ’یداللہ‘ کہا ہے یا نہیں ، باقی باتیں ثانوی ہیں - اور یہ یقینی بات ہے کہ قرآن میں حضرت علی ؓ کو اس لقب سے کہیں یاد نہیں کیا گیا - ٭٭٭ استفسار ۲ :- ’جاوید نامہ‘ کی ’تمہید زمینی‘ میں ؎ ’چیست معراج آرزوے شاہدے‘ کے بعد والا شعر ہے : شاہد اول کہ بے تصدیق او زندگی مارا چوگل را رنگ وبو مجھے مصرع دوم میں ’گل‘ کے ساتھ ’را‘ چبھتا ہے - یہ ’چو گل بے رنگ و بو‘ ہونا چاہیے - رنگ وبو ، گل کے گل ہونے کا معیار ہیں ، تصدیق ہیں - گل بے تصدیق رنگ و بو ، گل نہیں ، اور ’شاہد عادل‘ کی تصدیق کے بغیر ہماری زندگی، زندگی نہیں --- نیز ’تصدیق‘ کو منطقی اصطلاحات ’ تصور و تصدیق‘ کی روشنی میں لیا جائے یا محض attestation ؟ ارشاد شاکر اعوان، بفہ جواب : جناب نے ’جاوید نامہ‘ کے جس شعر پر اپنا اشکال ذکر فرمایا ہے ، وہ کلیات میں صحیح چھپا ہے - اس کو اس طرح دیکھیں کہ ’ شاہد عادل‘ کی تصدیق کے بغیر زندگی ہمارے لیے ویسی ہی ناپایدار اور غیر حقیقی ہو جائے گی جیسے کہ پھول کے لیے رنگ وبو - ابھی ہے اور ابھی نہیں - یہاں ضروری ہے کہ رنگ و بو کے روایتی معانی کو پیش نظر رکھا جائے - ’تصدیق ‘ دونوں معنی میں ہے - ’شاہد‘ کی نسبت سےattestationہے اور ’رنگ و بو‘ یعنی تصور کے مقابلے میں تصدیق اصطلاحی - ٭٭٭ استفسار ۳:- گذشتہ جمعے کو مدینہ منورہ میں حاضری نصیب ہوئی - مواجہہ عالیہ میں ہدیۂ صلٰواۃ و سلام عرض کر رہا تھا کہ مجھے یہ شعر یاد آیا اور اسی وقت خیال گزرا کہ آپ سے معلوم کروں گا کہ اس شعر کا ذہنی پس منظر شاعر کے نزدیک کیا تھا - کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں طارق محمود ، جدہ سعودی عرب جواب :- پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ شعر نعتیہ نہیں ہے ، گو کہ اس کی تہ میں ایک مخصوص نعتیہ فضا اور جذبہ محسوس ہوتا ہے - اس شعر کو ہم اجمالاً دوزاویوں سے دیکھنے کی کوشش کریں گے - پہلے فلسفیانہ جہت سے اور پھر متصوفانہ رخ سے - فلسفے کی اصطلاح میں ہر تعلق اپنی تکمیل کے لیے کامل علم کا متقاضی ہے - مثلا بندے اور خدا کا تعلق تبھی مکمل ہو گا جب خدا کا کامل علم میسر آ جائے - اس کی لازمی شرط تجربی یا حسی توثیق ہے - اس شعر میں اسی فلسفیانہ تقاضے کو پورا کرنے کی امنگ نظر آتی ہے - یعنی اے حقیقت مطلق ! تیرے مکمل ظہور کا انسان کو انتظار ہے تاکہ اس کی جہت تعلق جو دراصل بندگی ہے ، کمال کو پہنچ جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تو خود انسان کی وجودی سطح یعنی دائرۂ مجاز میں ظہور کرے - مطلب یہ ہوا کہ معبود کے نامعلوم اور نامشہود ہونے سے عبدیت میں نقص رہ جاتا ہے اور اس کے کئی پہلو بروے کار نہیں آتے - یعنی ہزاروں سجدے جبین نیاز میں تڑپتے رہ جاتے ہیں - صوفیانہ تناظر میں دیکھیں تو اس شعر میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اے خدا ! اپنے بارے میں میرے علم الیقین کو عین الیقین میں بدل دے - خیال رہے کہ یہ شعر اقبال کے نمائندہ اشعار میں سے نہیں ہے-اس میں وہ Anthropormorphism پایا جاتا ہے جو ہندوستان کی مذہبی روح میں سمایا ہوا ہے - ہماری مابعدالطبیعیات ،اس کے برعکس، تنزیہ (Transcendence) کے اصول پر قائم ہے - ٭٭٭ استفسار ۴ :- میں اقبالیات کا ایک معمولی طالب علم ہوں - حال ہی میں مولانا وحیدالدین خاں کی کتاب ’’ شتم رسول ﷺ کا مسئلہ ‘‘ میں یہ عبارت نظر سے گزری جس نے خاصی الجھن پیدا کر دی ہے :’’ مثال کے طور پر علامہ اقبال کی ایک نظم نظام الدین اولیاء کے بارے میں ہے - اس کا عنوان ’ التجاے مسافر‘ ہے - اس نظم کے دو مصرعے یہاں نقل کیے جاتے ہیں - اس میں پیغمبر کے اوپر غیر پیغمبر کو بلند مرتبہ بتایا گیا ہے جو ہر تعریف کے مطابق شتم رسول ہے : فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا‘‘ (ص ۱۰۳) از راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ مولانا نے اس شعر سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ درست ہے یا غلط - انس منیر ، لاہور جواب : وحیدالدین خاںصاحب نے مذکورہ بالا دو مصرعے غالباً ایک شعر کے طور پر نقل کیے ہیں - یہ ٹھیک نہیں - اصل شعر یوں ہے : تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا (’’بانگ درا‘‘ ، کلیات اقبال ، اردو ، اقبال اکادمی ، ص ۱۲۲) از راہ کرم کچھ انتظار کر لیں - ہم نے آپ کا سوال چند مستند ماہرین اقبالیات کی خدمت میں ارسال کر دیا ہے - ان کے جوابات موصول ہونے پر یا تو ’اقبالیات‘ میں شائع کر دیے جائیں گے یا پھر براہ راست آپ کو بھیج دیے جائیں گے - اخبار اقبالیات مرتبہ: ڈاکٹر وحید عشرت ۱ - کلیات اقبال (فارسی) - آڈیو -ویڈیو ۲ - اسلام میں زمان و مکان اسلامی فکری ورثہ فاونڈیشن اورامیر خسرو سوسائٹی کے تحت امریکہ میں عالمی کانفرنس - ۳ - شاہ ولی اللہ کا اسلامی فکر میں حصہ - لیکچر- ۴ - یوم اقبال - اسلام آباد- نومبر ۲۰۰۰ء ۵ - یوم اقبال علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور رایزنی فرہنگی ایران، اسلام آباد ۶ - یوم اقبال -خانہ فرہنگ ایران، لاہور ۷ - یوم اقبال -مرکزیہ مجلس اقبال، لاہور ۸ - مزار اقبال کی تقریب - ۹ - نیشنل کالج آف آرٹس میں ڈاکٹر ولیم چیٹک کا لیکچر - ۱۰ - اقبال میموریل لیکچر- شعبہ فلسفہ ، جامعہ پنجاب ، لاہور- ۱۱ - ترقیاتی مطالعات اور اقدامات کا جائزہ خصوصی سیمیناروں کا سلسلہ - ۱۲ - CTNS (مرکز الٰہیات اور علوم طبیعی )کے تحت خودی اور شخصیت کے موضوع پر خصوصی مطالعات- ۱۳ - خدا ، زندگی اور کائنات کے توحیدی تصور پر کانفرنس - ۱۴ - ڈاکٹر آغا یمین کو اقبال اکادمی لندن کا خصوصی مشیر منتخب کیا گیا - ۱۵ - اقبال سوسائٹی بنگلہ دیش کے تحت ڈھاکہ میں یوم اقبال - ۱۶ - اقبال اکادمی کی مجلس عاملہ کا ۹۱ واں اجلاس - ۱۷ - اقبال اکادمی کینیڈا - یوم اقبال ۱۷ جولائی ۲۰۰۰ئ؁ ۱۸ - اقبال اکادمی پاکستان کی مجلس عاملہ کا ۹۲ واں اجلاس - ۱۹ - علامہ اقبال پر مصوری کی نمائش ۲۰ - چیف ایگزیکٹیو معائنہ کمیشن کے چیئرمین کا علمی اداروں کا دورہ - ۲۱ - اقبال اکادمی پاکستان - مطبوعات کی نمائشیں ۲۲ - مولانا ابوالحسن علی ندوی پر تعزیتی جلسہ - ۲۳ - پروفیسر محمد منور کی یاد میں دو تعزیتی جلسے - ۱ - کلیات اقبال (فارسی) آڈیو- ویڈیو علامہ اقبال کے اردو کلام کی آڈیو کیسٹ کی تکمیل کے بعد اس امر کی شدید خواہش تھی کہ کلام اقبال فارسی کا آڈیو اور وڈیو کیسٹ تیار ہو - اس سلسلے میں طویل عرصے سے خانہ فرہنگ ایران اور قونصل گری کے توسط سے صدا وسیما ایران سے رابطہ جاری تھا مگر اکادمی کی نظامتوں کی تبدیلی اور خانہ فرہنگ ایران کے اندرونی معاملات کی وجہ سے اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی- ستمبر ۱۹۹۹ء میں جب تاجکستان کے قومی دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے ڈاکٹر جاوید اقبال اور ناظم اکادمی محمد سہیل عمر تاجکستان گئے تو وہاں متعدد فن کاروں نے کلام اقبال ساز و آہنگ کے ساتھ پیش کیا - ان میں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے کی یونیورسٹی کے پروفیسر سیف الدین اکرم کے تیار کردہ آہنگ اور گائیکی کے نمونے سب پر فائق رہے - موصوف ۱۳ کتب کے مصنف اور فارسی زبان کے استاد ہیں - ڈاکٹر جاوید اقبال نے سیف الدین اکرم کے فن کو پسند کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ کلیات اقبال فارسی ان کی آواز میں آڈیو اور وڈیو کیسٹوں میں تیار کیا جانا چاہیے - اس سلسلے میں محمد سہیل عمر ناظم اکادمی نے میاں اقبال صلاح الدین اور رئوف تا بانی صاحبان سے مالی تعاون کی خواہش ظاہر کی- رئوف تابانی صاحب نے اپنی ایرلائن ایروایشیا کی طرف سے پروفیسر سیف الدین اور ان کے صاحبزادے فرید کو دوشنبہ سے کراچی اور لاہور آنے جانے کی سفری سہولتیں عطیہ کیں - تابانی گروپ کی اس معارف شناسی سے کلام اقبال کے آڈیو وڈیو کی ریکارڈنگ میں بڑی سہولت ہوئی - میاں اقبال صلاح الدین نے دو ماہ تک مہمان گلوکار کے قیام و طعام کی سہولت فراہم کی- میاں اقبال صلاح الدین علامہ اقبال کی بیٹی محترمہ منیرہ صلاح الدین کے صاحبزادے یعنی علامہ اقبال کے نواسے ہیں - اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ فکر اقبال اور کلام اقبال سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور انہوں نے علامہ کا نہ صرف اردو بلکہ فارسی کلام بھی سبقاًسبقاً پڑھا ہے- انہی کے تعاون سے علامہ کے فارسی کلام کی آڈیو وڈیو کی تکمیل ممکن ہوئی - سہیل صدیقی صاحب کے ملٹی میڈیا سٹوڈیو Tele-s-Man واقع ۱۵۷ - کے ماڈل ٹائون لاہور میں آڈیو وڈیو کا جدید ترین نظام موجود ہے جناب سہیل صدیقی نے بڑی فراخ دلی اور مہارت کے ساتھ اقبال اکادمی پاکستان کی کلیات اقبال (فارسی) کی آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگ میں معاونت کی ان کا ادارہ لاہور کے ان چند اداروں میں سے ہے جو جدید ترین فنی سہولتوں کے حامل ہے جناب پروفیسر سیف الدین اور فریدالدین نے ۲۴ مارچ تاجولائی ۲۰۰۰ء سہیل صدیقی صاحب کے سٹوڈیو میں کلام اقبال فارسی کے بڑے حصے کی ریکارڈنگ کراوئی ابھی کچھ حصہ باقی ہے جو ان کی دوسرے مرحلے میں پاکستان آمد پر موقوف ہے - سیف الدین اکرم کا لہجہ ماورالنہری ہے - جو ایران ، وسط ایشیا، افغانستان اور برصغیر میں یکساں مقبول ہے - اس ریکارڈنگ کے بعد کلام اقبال سارے کا سارا آڈیو وڈیو پر لایا جا سکے گا - اسرار و رموز ، پیام مشرق ، زبور عجم اور ارمغان کا پیشتر حصہ ریکارڈ ہو چکا ہے جاوید نامہ کے بھی کئی حصے ریکارڈ ہو چکے ہیں بعض حصوں کی وڈیو بھی تیار کی گئی - سیف الدین اکرم نے پاکستان ٹیلی ویژن ، ریڈیو پاکستان ، جامعہ پنجاب ، خاورستان ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج اور کئی دوسرے مقامات پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا - ۲ - اسلام میں زمان و مکان اسلامی فکری ورثہ فاونڈیشن اور امیر خسرو سوسائٹی کے تحت امریکہ میںعالمی کانفرنس کانفرنس کا آغاز یکم جولائی کو ہوا- افتتاحی اجلاس میں قرآن حکیم کی تلاوت شیخ علائوالدین الباقری نے کی جبکہ صبح کی اس نشست کی چیئرپرسن پروفیسر مارسیا ہر مینسن (لیولا یونیورسٹی شاگاگو) اور شریک چیئرمین پروفیسر جیمز مورس تھے جو انگلستان کی ایگزیٹر یونیورسٹی کے شعبہ عربی اور اسلامیات سے تعلق رکھتے تھے - اسلامی ورثہ فائونڈیشن کے چیئرمین سید وہاج الدین نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا - پروفیسر مارسیا ہرمینسن نے کانفرنس کے مقاصد اور قواعد و ضوابط سے مندوبین کو آگاہ کیا - اس نشست میں کلیدی خطاب پروفیسر ولیم چیٹک کا تھا جو سٹیٹ یونیورسٹی نیویارک سے متعلق ہیں- عنوان تھا’’ اسلام کے عقلی ورثہ کی بازیافت‘‘ پروفیسر مارسیا نے ورائے زمان و مکان یا لا مکان و لا زمان کے موضوع پر لیکچر دیا - اقبال اکادمی حیدر آباد دکن کے جنرل سیکرٹری وہاج الدین احمد نے علامہ کی نظم نوائے وقت پڑھی ڈاکٹر حبیب الدین احمد نے آرکی ٹیکچر آف سپیس اینڈ ٹائم ان اسلام کے موضوع پر اور ڈاکٹر مصطفی آینگر نے Cosmogenesis in the Quran کے موضوع پر مقالہ پڑھا - جس کے بعد بحث کے لیے وقت دیا گیا - دوسرا اجلاس بعد دو پہر ہوا جس کا موضوع - ’’اسلام زمان و مکان اور جوہریت ‘‘ تھا - محمد سہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان اجلاس کے چیئرمین اور اسلامی ورثہ فائونڈیشن کے اعظم نظام الدین شریک چیئرمین تھے - اس اجلاس کا کلیدی خطبہ محمد سہیل عمر کا تھا جس کا موضوع تھا’’ تصور زمان و مکان- اقبال کی نظر میں‘‘ پروفیسر النور دہنانی نے ’’زمان - کلام کی نظر میں ‘‘ مقالہ پیش کیا ڈاکٹر جان میکگنیس نے "Temporal Atomism and the Continuity of Time in Ibn Sina" اور پروفیسر اسلوب احمد نصاری کے ’’اسلامی جوہریت اور اقبال میں زمان و مکان‘‘ اور پروفیسر شیلا مکڈونوگل (کینڈا) نے ’’وقت کی نفسیات اقبال کی نظر میں‘‘ مقالہ پیش کیا ، بحث میں محمد سہیل عمر ، نظام الدین ، اسلوب احمد انصاری اور متعدددوسری دانشوروں نے حصہ لیا - دو جولائی دوسرے دن کے اجلاس کا موضوع ’’زمان و مکان - اسلام میں عرفان ‘‘ تھا - ایران کے ممتاز محقق پروفیسر نصر اللہ پور جوادی چیئرمین اور پروفیسر کا رنل شریک چیئرمین تھے - کلیدی خطبہ نصراللہ پور جوادی کا تھا اس کا موضوع تھا On the Threshold of nowhere زمان فارسی ادبیات میں - ابن سینا کے خصوصی حوالے سے پروفیسر ولیم چیٹک نے ’’ابن عربی کا تصور زمان و مکان ‘‘ پر مقالہ پڑھا - ’’ زمان الٰہی‘‘ پر مقالہ پروفیسر جیمز مارس نے پیش کیا - ڈاکٹر مہدی امین رضوی نے ’’ میرد اماد کے تصور زمان ‘‘ پر مقالہ پڑھا - بعد دوپہر کے اجلاس کا موضوع ’’قرآن کا زمان و مکان سائنسی تناظر میں‘‘ تھا پروفیسر ایم-ایم- تقی خان چیئرمین اور ڈاکٹر شاہد صدیقی شریک چیئرمین تھے - کلیدی خطبہ پروفیسر ایم- ایم- تقی خان کا تھا جس کا عنوان ’’قرآن میں زمان و مکان کی سمتیت اور اضافیت ‘‘ تھا - ڈاکٹر ہمایوں خان ’’ یوم حساب (قیامت) کی طبیعیات ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پڑھا - بعد دوپہر کے اجلاس کا موضوع ’’قرآن کے دیگر سائنسی تناظر ‘‘ تھا شگاگو کے پروفیسر شاہد صدیقی نے جینیات، جئین ، اخلاقیات اسلامی پس منظر میں اور ڈاکٹر مصطفی آلنگر ’’حیاتیاتی جینیات اور قرآن ‘‘ کے موضوع پر مقالے پڑھے - جس پر بعد میں بحث بھی ہوئی - ۳ جولائی سوموار کے صبح کے اجلاس کا موضوع ’’قرآن انساں کے لیے اور انساں ، قرآن کے لیے ’’ تھا اسلامک فائونڈیشن کے پروفیسر ایم ضیا حسین چیئرمین اور ڈاکٹر منیر الدین چغتائی سابق وائس چانسلر جامعہ پنجاب شریک چیئرمین تھے امریکن اسلامک کالج شگاگو کے پروفیسر اسد بوسول نے کلیدی خطبہ عطا کیا جس کا موضوع ’’قرآن نوع انسانی کے لیے اور انساں قرآن کے لیے ‘‘ تھا - ڈاکٹر محمد لازونی نے ’’ انساں ! حقوق و فرائض ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا ، شیخ محمد امین خویلوا دیا - ڈاکٹر دارالقاسم نے ’’عبد الکریم الجیلی کے تصور انسان کامل ‘‘ پر مقالہ پڑھا حجتہ الاسلام محمد اشکواری جو مانٹریال یونیورسٹی کینڈا میں ہیں ’’خود آگہی کی ماہیت اور انسان کی تکمیل میں اس کا کردار ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا - جبکہ پینل بحث میں ڈاکٹر منیر الدین چغتائی ، ڈاکٹر محمد لزونی اور دوسرے حضرات نے حصہ لیا - اسی روز کے دوپہر کے اجلاس کا موضوع ’’اسلامی فکری ورثہ ‘‘ تھا چیئرمین جیمز مورس شریک چیئرمین ڈاکٹر مظفر اقبال ڈائریکٹر اسلامی دنیا سائنسی اور مذہبی پروگرام تھے ڈاکٹر مظفر اقبال کلیدی مقرر تھے انہوں نے سائنس اور فکر کی اسلامی بنیاد ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پڑھا - سٹیٹ یونیورسٹی نیویارک کی ڈاکٹر مورانہ نے ’’اسلامی فلکیات - چینی زبان میں ’’ مقالہ پڑھا - ڈاکٹر احمد عابدی مراکش نے ’’ اسلامی فلکیات اور زمان ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا - علی اکبر کیانی نے ’’ایران میں عقلیات کی روایت ‘‘ اور پروفیسر بہاء الدین احمد نے ملائیشیا کی صوفیانہ کہانیوں میں تصور زمان و مکان ‘‘ پر مقالہ پیش کیا ۴ جولائی کے اجلا س میں ’’اسلام میں تصور شخصیت ‘‘ موضوع بحث تھا - پروفیسر ولیم چیٹک چیئرمین اور شیخ علائو الدین ایسواقی شریک چیئرمین تھے - صبح ۹ بجے کے اجلاس میں محمد ظّہیر الدین نائب صدر اقبال اکادمی حیدر آباد دکن نے ’’ نماز کے ذریعے اسلام میں انسانی شخصیت کا ارتقاء ‘‘ پروفیسر ایم - ایم - تقی خان نے ’’اسلام میں شخصیت کا ارتقاء ‘‘ سید مصلح الدین سعدی نے بھی اسی موضوع پر مقالہ پڑھا - ساڑھے دس بجے کے اجلاس میں اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر صاحب نے بھی ’’اسلام میں شخصیت کے ارتقا ‘‘کے موضوع پر مقالہ پیش کیا - جبکہ اس سیشن کا کلیدی خطبہ شیخ علائوالدین الباقری کا تھا جس کا عنوان ، ’’انسان : زمین پر نائب خدا ‘‘ - پینل بحث میں محمد سہیل عمر ، ولیم چیٹک ، پروفیسر ایم - ایم - تقی خان ، مصلح الدین سعدی اور ظہیر الدین نے شرکت کی - چار جولائی کے بعد دوپہر کے اجلاس کے چیئرمین ڈیوک یونیورسٹی ڈرہم کے پروفیسر وی ، جے کورنل اور شریک چیئرمین ڈاکٹر عبیداللہ غازی تھے جن کا تعلق اقراء فائونڈیشن سے تھا ، امیر حلیم نے ’’قرآن اور معاصر متحرک مسلم معاشرہ ‘‘ ڈاکٹر غلام حیدر آسی نے ہیومن ٹرسٹ شپ کے بنیادی عناصر‘‘ پر مقالہ پڑھا جبکہ پروفیسر کارنل نے کلیدی خطبہ دیا جس کا عنوان ’’اسلام میں نفس باطن کا ارتقاء ‘‘ تھا - اس موقع پر اقبال اکادمی پاکستان نے شام اقبال کے سلسلے میں کتب تصاویر اور اسلم کمال کی اقبال مصوری کی نمائش کا اہتمام کیا رات کو ۹ بجے مولانا ، عبداللہ سلیم اور مصلح الدین سعدی نے انسان ، زمین پر خلیفہ - اللہ کے موضوع پر لیکچر دیا - ۳ - شاہ ولی اللہ کا اسلامی فکر میں حصہ - لیکچر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج شاہراہ قائد اعظم کے ہال میں زیر تربیت سی ایس پی اور پی سی ایس کے افسروں کو لیکچر کے سلسلے میں ناظم اقبال اکادمی محمد سہیل عمر کو خطاب کی دعوت دی گئی ، جس کا موضوع ’’ اسلامی فکر میں شاہ ولی اللہ کا حصہ ‘‘ تھا ، محمد سہیل عمر نے ۳ مئی ۲۰۰۰ئ؁ کو ان افسروں کو لیکچر دیا - ۴ - یوم اقبال - اسلام آباد ، نومبر ۲۰۰۰ء اکادمی ادبیات پاکستان اور اقبال اکادمی پاکستان کے باہمی اشتراک سے ۹ نومبر ۲۰۰۰ء کو ساڑھے پانچ بجے نیشنل لائبریری اسلام آباد میں یوم اقبال کی تقریب منعقد کی گئی - اس تقریب کی صدارت چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے کرنا تھی مگر وہ مصروفیات کی وجہ سے نہ آ سکے جس پر صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ نے صدارت فرمائی -تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا - طلبا اور طالبات نے علامہ کی دعا (لب پہ آتی ہے ----) پڑھی وفاقی وزیر تعلیم محترمہ زبیدہ جلال نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جبکہ اس تقریب کا کلیدی خطبہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے دیا - پروفیسر محسن احسان نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا - محترمہ ڈاکٹر این میری شمل نے اقبال اور اکیسویں صدی پر لیکچر دیا - اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین افتخار عارف نے حرف تشکر ادا کیا- اس موقع پر اقبال اکادمی کی مطبوعات کی نمائش ، اکادمی کے مجلات کی نمائش ، دستاویزات اقبال ، اقبال آرکائیوز ، اقبال کی بیاضوں ، خطوط ، تصاویر اور اسلم کمال کی پینٹنگز کی نمائش کی گئی - ۵ - یوم اقبال علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور رایزنی فرہنگی ،ایران ،اسلام آباد ۱۶ نومبر ۲۰۰۰ء کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد اور رایزنی ایران اسلام آباد کے باہمی اشتراک سے یوم اقبال کی تقریب یونیورسٹی ایڈیٹوریم میں منعقد ہوئی - جس کی صدارت ڈاکٹر جاوید اقبال نے کی - تہران یونیورسٹی کے پروفیسر خلیجی ، ڈاکٹر صدیق شبلی ، وائس چانسلر انوار حسین صدیقی ، ڈاکٹر جاوید اقبال ، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم شاہ اور متعدد ایرانی اور پاکستانی ماہرین اقبالیات نے شرکت کی -صدر شعبہ اردو ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے سٹیج سکریٹری کے فرائض انجام دئیے - لاہور سے محمد سہیل عمر ناظم اقبال اکادمی ، ڈاکٹر وحید عشرت ، گورنمنٹ کالج لاہور کے ایم فل فارسی کے طلبا و طالبات ، فرید اکرم اور پروفیسر ڈاکٹر مظہر سلیم نے بھی شرکت کی - ۶ - یوم اقبال -خانہ فرہنگ ایران ،لاہور یوم اقبال کی ایک خصوصی تقریب خانہ فرہنگ ایران لاہور میں منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈاکٹر وحید قریشی نے کی - مقررین نے اقبال اور فارسی زبان کے موضوع پر مقالات پیش کیے جن میں ڈاکٹر محمد اکرم شاہ ، پروفیسر مشکور حسین یاد ، اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر ، ڈاکٹر آفتاب اصغر ، خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر جنرل سعید معزالدین ، قونصل جنرل ایران نے بھی خطاب کیا - ڈاکٹر وحید قریشی نے صدارتی کلمات کہے - مقررین نے پاکستان میں فارسی زبان کی تدریس اور فکر اقبال کی تفہیم کے لیے اس کی تحصیل ضرورت پر زور دیا - تقریب میں حکومت ایران سے اپیل کی گئی کہ وہ فارسی زبان کی تدریس کے لیے خصوصی اقدامات کرے اور خانہ فرہنگ ایران اقبال اکادمی اور دوسرے اداروں کو مالی تعاون فراہم کرے تاکہ وہ پاکستان میں فارسی کی ترویج کے لیے اقدامات کر سکیں - ۷ - یوم اقبال- مرکزیہ مجلس ، لاہور مرکزیہ مجلس اقبال کا جلسہ یوم اقبال ایوان اقبال کے خوبصورت ہال میں منعقد ہوا - مقررین میں پچھلے کئی سالوں کے مقررین ہی نمایاں تھے - جن میں ڈاکٹر نسیم حسن شاہ ، پروفیسر محمد یحیٰی، عطا الحق قاسمی ، پروفیسر عبدالجبار شاکر اور پروفیسر پریشان خٹک شامل تھے ، جنید غزنوی نے بھی پہلی بار مقالہ پڑھا - جلسے میں جناب مجید نظامی خرابی صحت کی بنا پر شرکت نہ کر سکے- ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس جلسہ کے شروع میں خطاب کیا - ۸ - مزار اقبال کی تقریب گذشتہ کئی سالوں کی طرح مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی ہوئی ، گورنر پنجاب جنرل محمد صفدر نے پھولوں کی چادر چڑھائی سکولوں کے بچوں نے کلام اقبال خوش الحانی سے پیش کیا ، جن دوسرے اداروں نے مزار اقبال پر پھولوں کی چادر چڑھائی ان میں جامعہ پنجاب لاہور ، نظریہ پاکستان فاونڈیشن ، اقبال اکادمی پاکستان ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد زکریا یونیورسٹی ملتان ، انجمن شہریان لاہور ، انجمن حمایت اسلام ، گورنمنٹ کالج لاہور ، اسلامیہ کالج لاہور کے علاوہ متعدد تنظیمیں دعا ، فاتحہ خوانی اور پھولوں کی چادر چڑھانے میں پیش پیش تھیں - ۹ - نیشنل کالج آف آرٹس میں ڈاکٹر ولیم چیٹک کا لیکچر ممتاز امریکی مستشرق پروفیسر ڈاکٹر ولیم چیٹک نے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں ۱۱ اکتوبر کو ’’نفس انسانی کی ماہیت‘‘کے بارے میں لیکچر دیا یہ لیکچر نیشنل کالج کے آڈیٹوریم میں ہوا - ڈاکٹر در ثمین احمد نے ڈاکٹر چیٹک کا تعارف کرایا طلبا اور اساتذہ کی بڑی تعداد کے علاوہ شہر کے دانشوروں نے بھی شرکت کی - ۱۰ - اقبال میموریل لیکچر شعبہ فلسفہ ، جامعہ پنجاب شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب ہر سال اقبال میموریل لیکچر کا اہتمام کرتا ہے جو بعد میں کتابی صورت میں شائع بھی ہوتے ہیں - اس بار ڈاکٹر ابصار احمد چیئرمین شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب کی خواہش پر اور محمد سہیل عمر کے تعاون سے ڈاکٹر ولیم چیٹک کو اقبال لیکچر کی دعوت دی گئی اس لیکچر کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف کیمکل ٹیکنالوجی کے آیٹوریم میں کیا گیا - لیکچر کا موضوع اقبال اور مسلم فکر کی تشکیل نو تھا- ڈاکٹر ابصار نے ڈاکٹر چیٹک کا تعارف کرایا اور صدارت وائس چانسلر جنرل ارشد محمود نے کی- پروفیسر ولیم چیٹک کے مقالے The Rehabilitation of Islamic Thought میں بنیادی مبحث وہی تھا جو علامہ اقبال کے خطبات تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کا ہے کہ عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو درپیش علمی اور فکری مبارزتوں کا سامنا کرتے ہوئے فکر اسلامی کی از سر نو بحالی کا کام کس طرح کیا جانا چاہیے - ڈاکٹر چیٹک نے کہا کہ اقبال نے اسلام کی بنیادی تعلیمات کی اس طرح تعبیرات کیں جو عصر جدید کے تقاضوں کے حوالے سے بڑی موزونیت سے عبارت ہیں- جو سوال میں اپنے آپ سے اکثر کرتا رہتا ہوںوہ یہ ہے کہ کیا کوئی روایتی اسلامی فکر ہے جو تاریخی جستجو سے بڑھ کر ہو کیا مسلمانوں سے الگ نوع انسانی کے لیے یہ واقعی کوئی ٹھوس مسئلہ ہے جو اکیسویں صدی کے انساں کو درپیش ہے - کیا مسلمان اپنے مخصوص روایتی انداز فکر کو نظر انداز کرتے ہوئے انیسویں اور بیسویں صدی کی اس عمومی کوششوں کو جاری رکھیں جن کا تعلق اسلامی تعلیمات کی تشکیل سے تھا - میرا جواب یہ ہے کہ اپنی نوعیت اور انسانی مستقبل کے حوالے سے روایتی اسلامی فکر تاریخی جستجو سے زیادہ اہم ہے - یہ نہ صرف کہ عصری ضرورت ہے بلکہ یہ تمام سائنسوں ، ٹیکنالوجی اور نظریات کے حوالے سے انسانی صورت حال کے لیے بھی موزوں ہے - جو معاصر دانشوروں اور مسلمانوں کے ذہنوں پر چھائی ہوئی ہے - حقیقت یہ ہے کہ اسلامی روایتی فکر مسلمانوں کی موجودہ مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کے لیے زیادہ موزوں ہے - پروفیسر ولیم چیٹک کے مطابق اسلامی اصطلاحات پر غور سے ہی ہم اس ماورا ئی حقیقت کا ادراک کر سکتے ہیں جو اسلام نے اپنے اندر باقی رکھی جس کی رہنمائی ہمیں قرآن اور حدیث سے ملتی ہے جسے عظیم مسلمان مفکرین نے انسانی معاملات میں فکر کے کردار کو ماضی میں قرآن اور حدیث پر غور کرتے ہوئے پیش کیا - انہوں نے کہا کہ روایتی فکر کے مطابق حقیقت تک رسائی کا اصل ماخذ خدا کی ذات ہے کیونکہ یہ کائنات اور تمام دوسری چیزیں درجہ بدرجہ اس کی ذات سے ظاہر ہوئیں جیسے کہ سورج سے درجہ بدرجہ روشنی نکلتی ہے - قرآن کے مطابق انساں اس زمین پر اس کا خلیفہ ہے - مختصراً اپنے افکار ،آگاہی اور شعور سے ہی انسان کی حقیقت اصلی عبارت ہے - افکار سے ہی اس کی فطرت اور مقدر کی صورت گری ہوتی ہے - مسلمانوں کی روایت میں عقل ہی انسانی زندگی اور کائنات کو سمجھنے کا بنیادی ذریعہ ہے - اس روایت کو عقلی کہا جاتا ہے - اسے نقل سے الگ تمیز کیا جاتا ہے یہی عقلی روایت فلسفہ ، ریاضی ، فلکیات اور فطری علوم سے وابستہ ہے - کلام اور تصوف سے بھی اس کا تعلق ہے - فقہ ،لغت زبان ، قرآن و حدیث بھی اسی سے متعلق ہیں - مسلمان مفکرین کے چار میدان فکر ہیں - پہلا مابعدالطبیعیات یا تلاش حقیقت اولیٰ ، دوسرا فلکیات یعنی کائنات کا علم اس کا منبع مبدا اور انتہا - تیسرا نفسیات یا روح انسانی کو جاننے کا علم ، اس کا آغاز اور انجام - چوتھا اخلاقیات - انسانی کردار کا علم - اسلامی علوم اور افکار کی تشکیل میں علامہ اقبال نے تقلید اور تحقیق دونوں کو موضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں اجتہاد کا احیا کیا ہے ایک آزادانہ قیاس جو ایک انسان کو قرآن اور حدیث کی بنیاد پر فقہی یا قانونی مسئلے میں استخراج کی اجازت دیتا ہے - ڈاکٹر ولیم چیٹک نے عصر حاضر میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا - ڈاکٹر چیٹک نے کہا کہ مسلمان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسلامی علوم و دانش کی بحالی کے لیے تصور توحید کا تحقیقی منہاج اور اصولوں کے تحت از سر نو مطالعہ کریں - کیونکہ اسلام کے تصور اجتہاد کی اساس بھی تحقیق پر ہے - ۱۱ - ترقیاتی مطالعات اور اقدامات کا جائزہ - خصوصی سیمناروں کا سلسلہ انسٹی ٹیوٹ آف ، ڈویلپمنٹ سٹڈیز اینڈ پریکٹس کوئٹہ کے زیر اہتمام قومی اور بین الاقوامی اہمیت کے موضوع پر خصوصی لیکچروں اور سیمیناروں کا سلسلہ اکتوبر ۲۰۰۰ء میں شروع کیا گیا - جن میں متعدد دانشوروں کو شرکت کی دعوت دی گئی - جن میں روحانیت اور سماجی تبدیلی، جدیدیت ، بین الاقوامیت اور ترقی، نوع انسانی کو درپیش بحرانوں کی تفہیم - ثقافتی تغیرات ، جدید ترقی اور انسانیت کو درپیش مبارزتیں ، بڑے بڑے موضوعات تھے ، اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر نے بھی ۴ اور ۵ اکتوبر کو دو لیکچر دئیے ، جن میں مذہب کا جوہر اور اس کے ظاہری اعتقادات، ’’تصوف اور اسلام کی روحانی جہت‘‘ کے موضوع شامل تھے ، کوئٹہ میں حکمت ، ترقی اور عمل کے اس ادارے نے حساس علمی و فکری مسائل پر خطبات اور سیمیناروں کا اپنی مدد آپ کے تحت سلسلہ شروع کر کے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے ، ممتاز دانشور قرۃ العین بختیاری صاحبہ اس ادارے کی سرپرست ہیں - یاد رہے کہ اس ادارے کے ان سیمیناروں کا مقصد عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مبارزتوں کی تفہیم اور ان کے بارے میں لائحہ عمل مرتب کرنا ہے جن کا رشتہ مسلم روایت فکر سے منسلک ہے ان سیمیناروں اور ادارے کے علمی پروگراموں کو مرتب کرنے میں اقبال اکادمی کی فکری رہنمائی کا خصوصی عمل دخل ہے - ۱۲ -CTNS (مرکز الٰہیات اور علوم طبیعی) کے تحت خودی اور شخصیت کے موضوع پر خصوصی مطالعات امریکہ کی جان ٹمپلٹن فاونڈیشن نے خودی اور شخصیت کا عصری اور روایتی تناظر میں مطالعہ کے موضوع پر کورسنز مرتب کرنے پر جامعہ پنجاب کے شعبہ نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر نعمانہ امجد کو اس سال کا خصوصی ایوارڈ دیا - سائنس اور مذہب کے مکالمے پر مبنی اس کورس کا مقابلہ ہر سال منعقد ہوتا ہے - اس کا اعلان نومبر ۱۹۹۹ء کو کیا گیا - یہ ایوارڈ جان ٹیمپلٹن فاونڈیشن امریکہ کی طرف سے سپانسر کیا گیا - کورس کے ڈیزائن کے مقابلے میں نعمانہ امجد اور محمد سہیل عمر کا کورس ڈیزائن اول قرار دیا گیا-کورس تین ماہ کے محاضرات کے علاوہ دیگر سرگرمیوں پر مشتمل تھا- تدریس کی بنیادی ذمہ داری نعمانہ امجد اور سہیل عمر نے انجام دی - یہ کورس تعمیر خودی میں اسلامی فکر اور عرفان کے پیچیدہ کردار پر مشتمل تھا - طلبا کو انسانی کردار کے متحرک اور معین رویے کی نوعیت سے متعلقہ امور سے آگاہ کیا گیا - تاکہ وہ مذہب اور سائنس کی اس موضوع پر شہادتوں، نظریات اور معلومات کا تجزیہ کر سکیں اور انفرادی رویے کو سمجھ سکیں- اس کورس کا اصل رخ اسلام کی طرف تھا- جبکہ تائومت ، ہندو مت ، بدھ مت اور عیسائیت بھی زیر مطالعہ تھی - اس کورس کا ایک خصوصی مطالعاتی جزو منہاج کار تھی جو تحقیق اور ریسرچ کے جدید اور سائنسی طریق ہائے کار پر مرکوز کی گئی- طلبا کو اس سلسلے میں مشقیں کرائی گئیں اور اس سلسلے کی ضروری چیزیں فراہم کی گئیں - پروفیسر نعمانہ امجد اور ناظم اقبال اکادمی محمد سہیل عمر کے سلسلہ محاضرات کے علاوہ ، ڈاکٹر ولیم چیٹک، ڈاکٹر درثمین احمد ، جناب سروش عرفانی نے بھی اس سلسلے میں لیکچر دئیے - ان کورس کے دوران جن اہم موضوعات پر لیکچر دئیے گئے وہ کچھ یوں ہیں ’’ مذہب اور سائنس - اسلامی دنیا کے رویے‘‘- آموزش اور یاد داشت ،ماحول اور خودی سے آگہی ، شعور ، تصور شخصیت ، لاشعور ، ایغو اور سپر ایغو، کرداری اور ماحولیاتی نظریہ ہائے شخصیت و نظریہ ہائے محرکات و تنازع ، انتشار ذہنی اور روح کے رجحانات ، ذہن اور روح کے بارے میں مغالطے - خودی کی زبان مرکزیت ، ارتکاز، روح کی ماہیت، پر ڈاکٹر چیٹک کالیکچر - کورس کے اختتام پر طلباء و طالبات نے مقالات تحریر کئے اور کامیاب ہونے والوں کو CTNS کی طرف سے سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے - ۱۳ -خدا ، زندگی اور کائنات کے توحیدی تصور پر عالمی کانفرنس ۶ تا ۹ نومبر ۲۰۰۰ء کو اسلام آباد میں سنٹر برائے الٰہیات اور نیچرل سائنسز کے زیر اہتمام ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جو سنٹر برائے الہٰیات اور نیچرل سائنسز (سی ٹی این ایس) امریکہ اور عالمی ادارہ برائے اسلامی فکر (آئی آئی آئی ٹی) کے باہمی اشتراک سے ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ؍ عالمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ہوا - اس کانفرنس میں ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ، ڈاکٹر ولیم چیٹک کے علاوہ ترکی و امریکہ ، سعودی عرب ، فرانس ، کینیڈا، ایران ، ملایشیا،اور آسٹریلیا کے ممتاز دانشوروں نے اپنے مقالات پیش کئے ، اقبال اکادمی پاکستان کے ڈائریکٹر محمد سہیل عمر نے بھی کانفرنس میں مقالہ پیش کیا - ۱۴ -ڈاکٹر آغا یمین کو اقبال اکادمی لندن کا خصوصی مشیر منتخب کیا گیا ممتاز استاد اور فارسی زبان و ادبیات کے محقق ڈاکٹر آغا یمین کو اقبال اکادمی لندن یو - کے نے اپنا علمی اور ادبی مشیر منتخب کیا ہے - اس بات کا فیصلہ علامہ محمد اقبال اکیڈمی لندن کی مجلس عاملہ نے متفقہ طور پر کیا - ڈاکٹر آغا یمین نے اقبال اور نثراد نو کے علاوہ علامہ پر متعدد مقالات رقم کئے ، علامہ کی فکر پر متعدد لیکچر دیئے - علامہ کی اہم نظموں کا فارسی سے اردو و پنجابی اور انگریزی میں ترجمہ کیا - انٹرنیشنل کانفرنس برائے مکالمات تہذیب و تمدن میں شرکت کی - اسرار و رموز اور انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کے موضوع پر خطبات دئیے - یاد رہے کہ ڈاکٹر آغا یمین اگست ۲۰۰۰ء سے لندن میں اقبال شناسی کے ضمن میں مختلف مقامات پر خطبات دے رہے تھے اور اقبال کی نظموں کے انگریزی تراجم کر رہے تھے - انہوں نے اس سلسلے میں امریکہ میں بھی مقالات پیش کئے - ۱۷ جنوری ۲۰۰۱ء تک آپ وہیں مقیم رہے - اقبال اکادمی یوکے کا صدر دفتر ، برمنگھم برطانیہ میں ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر درانی ہیں - ڈاکٹر آغا یمین کو جس اقبال اکادمی نے اپنا خصوصی مشیر مقرر کیا ہے وہ لندن میں واقع ہے - ۱۵ -علامہ اقبال سوسائٹی بنگلہ دیش کے تحت ڈھاکہ میں یوم اقبال علامہ اقبال سوسائٹی ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں علامہ اقبال کا ۱۲۳ واں یوم ولادت ۹ نومبر ۲۰۰۰ء کو جاتیہ پریس کلب ڈھاکہ میں منایا گیا - سابق وزیر اطلاعات اور دانشور جناب مجیب الرحمن نے صدارت کی انہوں نے علامہ اقبال پر انگریزی اور بنگلہ میں کئی اہم مقالات رقم کئے - جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفیر جناب اقبال احمد خان مہمان خصوصی تھے - ممتاز شاعر ناصر محمود نے اقبال کے فن شعر پر مقالہ پڑھا - مقالے کے بعد جناب المجاہدی، ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر اے - این - ایم عبدالمنان،بنگلہ دیش مسجد مشن کے سکریٹری پروفیسر ایم روہیل امین ، ڈاکٹر ام سلمٰی چیئرپرسن شعبہ اردو ڈھاکہ یونیورسٹی ، کھنڈکر منیر العالم صدر نیشنل پریس کلب ، پروفیسر رخسانہ صابر گورنمنٹ گرلز کالج اسلام آباد پاکستان ، سید تشرف علی مدیر ہفت روزہ رہبر ، جناب احمد حسن اور جناب شاہ عالم نے بحث میںحصہ لیا اور اقبال کے فکر و فن کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی - علامہ اقبال سوسائٹی بنگلہ دیش کے سینئر نائب صدر میر قاسم علی نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا انہوں نے کہا کہ اقبال کو دو مبارزتیں در پیش تھیں ایک اسلامی افکار کی تعبیر نو اور دوسرے مسلمانوں کی سیاسی قوت کا زوال - علامہ ان دو امور پر برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی میں کامیاب ہوئے- میر قاسم علی نے کہا کہ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کو فکر اقبال سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے تاکہ بنگلہ دیش کو ان کے افکار کی روشنی میں ایک جدید اسلامی فلاحی اور جمہوری مملکت بنایا جا سکے اور بنگلہ دیش اتحاد عالم اسلام کا فورم بن سکے اور پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کے لیے اتحاد، محبت اور خیر سگالی کا پیام بر ثابت ہو اور اس طرح پوری دنیا کے انسانوں کی قیادت کرنے والی مسلمان قیادت پیدا ہو سکے - پاکستان کے سفیر اور تقریب کے مہمان خصوصی عزت مآب اقبال احمد خان نے کہا کہ اقبال بیسویں صدی کی ایک ممتاز شخصیت ہیں انہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے آزادی کی راہ ہموار کی انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے - ان کی شاعری اسلام کی جدید اور طاقت ور تعبیرات سے عبارت ہے -انہوں نے کہا زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کے اتحاد سے ہی کشمیر، فلسطین اور دوسرے مسلمانوں کے مسائل حل ہوں گے - انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے میں ناکام ہوگئی ہے انہوں نے کہا کہ کسی بھی اسلامی ملک کے پاس موجود ایٹم بم نوع انسانی کے لیے خطرہ نہیں - جناب اقبال احمد خان نے علامہ اقبال کی ۵۰ تصاویر پر مشتمل نمائش کا افتتاح فرمایا - جسے لوگوں نے بڑے اشتیاق سے دیکھا - اس تقریب کے مقررین نے اس بات پر اقبال کی خصوصی تحسین کی کہ انہوں نے ہندو اکثریت کے چنگل سے مسلمانوں کو آزاد کرایا - وہ کسی ایک ملک یا طبقے کے شاعر نہیں تھے بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے آزادی ، ترقی اور امن کے پیامبر تھے - صدر اجلاس جناب مجیب الرحمن ایڈووکیٹ ، پاکستان میں بھی بنگلہ دیش کی نمائندگی گذشتہ اقبال کانگرس میں کر چکے ہیں انہوں نے کہا کہ تہذیبوں کے بارے میں اقبال کے افکار کا بھی تحقیقی مطالعہ کیا جانا چاہیے - انہوں نے کہا اقبال ہمارے مستقبل کے بھی شاعر ہیں- اور وہ آئندہ دور میں اور اہم ہوتے چلے جائیں گے - تقریب میں خواتین ، طلبا ، صحافیوں ، اہل علم و دانش کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، سیمینار میں میزبانی کے فرائض جناب حفیظ الرحمن سیکرٹری انٹر نیشنل اقبال سنگسد نے ادا کئے - ۱۶ - اقبال اکادمی کی مجلس عاملہ کا ۹۱ واں اجلاس اقبال اکادمی کی مجلس عاملہ کا ۹۰ واں اجلاس ۵ اگست ۱۹۹۹ء اور ۹۱ واں اجلاس ۱۴ جون ۲۰۰۰ء کو منعقد ہوا ، جن میں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نائب صدر ، غفور الحق صاحب خازن ، چیف جسٹس (ر) سردار محمد اقبال صاحب اور ناظم اقبال اکادمی محمد سہیل عمر صاحب نے شرکت کی ان اجلاسوں میں بجٹ ، بیرون ملک فروغ اقبالیات اور ملازمین کی ترقی وغیرہ کے بارے میں فیصلے کئے گئے اور گذشتہ اجلاسوں کی کارروائیوں پر عملدر آمد کا جائزہ لیا گیا - اس کے علاوہ ایوان اقبال اور اقبال اکادمی کے قواعد ، الحاق کے قواعد ، رائلٹی اور دیگر معاوضہ کے نئے شیڈول ، اکادمی کی رکنیت ، فیلوشپ کے قواعد بنانے گئے - مجلس عاملہ کے اجلاس میں قرار دیا گیا کہ اقبال اکادمی پاکستان ایک ریسرچ اور تحقیق و تخلیق کا ادارہ ہے اور اس کا رتبہ کسی بھی ریسرچ آرگنائزیشن سے کم نہیں - اسی اجلاس میں ۱۹۹۰ء میں گورننگ باڈی کے منتخب ارکان ، اس کی تنظیم نو اور اپ گریڈنگ کے بارے میں معاملات کا بھی جائزہ کیا گیا - ۱۷ - اقبال اکادمی کینیڈا - یوم اقبال ۱۶ جولائی ۲۰۰۰ء محمد سہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان نے امریکہ کے بعد کینڈا کابھی دورہ کیا اور سنٹر برائے اسلامی سائنس ، ایڈمنسٹن کینڈا بھی گئے اور جان ٹمپلٹون فائونڈیشن والوں کے ساتھ ان کے تعاون سے منعقد کی جانے والی کانفرنس ’’خدا ، کائنات اور توحید‘‘ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا - اس موقع پر اقبال اکادمی کینڈا کے زیر اہتمام۱۶ جولائی کو محمد سہیل عمر نے ’’حکمت شعر اقبال‘‘ پر لیکچر دیا ، جلسے کی صدارت ممتاز پاکستانی ادیب و شاعر سید مشکور حسین یاد نے کی ۱۸ -اقبال اکادمی کی مجلس عاملہ کا ۹۲ واں اجلاس ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء کو مجلس عاملہ کے ۹۲ ویں اجلاس میں ۹۱ ویں اجلاس کی سفارشات کی منظوری دی گئی اور پچھلی سفارشات پر عملدر آمد کا جائزہ لیا گیا - جن میں اقبال اکادمی کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی رپورٹ اور منظوری بھی شامل تھی ، اقبال اکادمی کے خازن کے استعفیٰ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا گیا اورنئے خازن کے تقرر کی سفارش کی گئی - ایوان اقبال کے بارے میں ایک دستاویز اقبال اکادمی کو موصول ہوئی جو مجلس حاکمہ کے اراکین کو بھجوائی گئی - اس اجلاس میں اقبال اکادمی کی ۱۹۹۷ء تا ۲۰۰۰ء کی رپورٹ کو ملاحظہ کر کے اکادمی کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور ڈائریکٹر کو تاحکم ثانی کام جاری رکھنے ، اقبال فاونڈیشن کے آرڈی ننس پر غور کرنے ، اور ’’ مستقل ناظم برائے تین سال‘‘ کی وضاحت کے لیے معاملہ آئندہ مجلس حاکمہ کے اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ ہوا - ۱۹ - علامہ اقبال پر مصوری کی نمائش ممتاز مصور اسلم کمال کی پینٹنگ کی نمائش ۲ دسمبر ۲۰۰۰ء کو ایوان اقبال میں ہوئی صدر پاکستان نے اس میں شرکت کی ، جبکہ پروفیسر انور علی بخاری نے ان کے فن پر اظہار خیال کیا - اسلم کمال ایوان اقبال میں پراجیکٹس ڈائریکٹر ہیں - نمائش کے افتتاحی جلسے میں سکولوں کے بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی - جلسے کی کمپئرنگ پروفیسر عطیہ سید نے کی- ایوان اقبال میں ان کی تصاویر کی نمائش کوپسند کیا گیا- ۲۰ - چیف ایگزیکٹیو معائنہ کمیشن کے چیئرمین کا علمی اداروں کا دورہ ملک کے انتظامی ،مالیاتی اور قومی شخصیات سے متعلقہ ادارے جس کس مپرسی کا شکار ہیں وہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے - موجودہ حکومت نے ان اداروں کی بحالی کے لیے جو اقدامات کئے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، چنانچہ چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے جہاں دوسرے اداروں کے احوال معلوم ہونے پر ان کی بہتری اور اصلاح کے لیے اقدامات کئے ہیں وہاں انہوں نے قومی یاد گاروں کے تحفظ اور انہیں محفوظ اور کارآمد بنانے کی طرف بھی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے - پہلے مرحلے میں چیف ایگزیکٹو کی معائنہ ٹیم کے سربراہ میجر جنرل محمد جاوید ،معائنہ ٹیم کے رکن فردوس عالم اور ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اصغر اور وفاقی وزارت ثقافت کے ڈپٹی سیکرٹری شہزاد اقبال کے ساتھ ایوان اقبال تشریف لائے تاکہ ایوان اقبال ، اقبال اکادمی پاکستان ، علامہ اقبال کی ۱۱۶ میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ اور جاوید منزل کا معائنہ کر کے ابتدائی اقدامات کے لیے کوئی پیش رفت کر سکیں - اقبال اکادمی پاکستان کے ڈائریکٹر محمد سہیل عمر نے چیف ایگزیکٹو کی اس معائنہ ٹیم کو معاونت فراہم کی جبکہ اقبال اکادمی پاکستان کے نائب صدر ڈاکٹر جاوید اقبال اور ایوان اقبال کے قائم مقام چیئرمین ڈاکٹر نسیم حسن شاہ بھی اس موقع پر تشریف فرما تھے - ایوان اقبال ، ۱۱۶ میکلوڈ روڈ اور جاوید منزل کی موجودہ صورت حال پر معائنہ کمیشن کے سربراہ میجر جنرل محمد جاوید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایوان اقبال کی کروڑوں روپے مالیت کی کرائے کی خالی جگہوں کو فوری طور پر کرایے پر اٹھانے کا حکم دیا اور ایوان اقبال کی کئی سالوں سے پڑی ہوئی خالی جگہوں کو قومی نقصان قرار دیا - علامہ اقبال کی ۱۱۶ میکلوڈ روڈ کی رہائش گاہ کی حالت بہتر بنانے اور تجاوزات ختم کرنے کے لیے فوری اور طویل المیعاد اقدامات کے لیے ہدایات دیں - اسی طرح جاوید منزل کے مسائل بھی حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی - چیف ایگزیکٹو معائنہ ٹیم کے سربراہ میجر جنرل محمد جاوید نے حکیم الامت علامہ اقبال سے متعلقہ ان اداروں سے اور علامہ اقبال سے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا - انہوں نے یہ بات واضح کی کہ وہ جلد چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کو اپنی رپورٹ میں ایوان اقبال سے متعلق مسائل کی نوعیت اور سفارشات پر مشتمل اقدامات تجویز کریں گے اور اقبال اکادمی پاکستان کے علمی مطبوعاتی ، تحقیقی اور اشاعتی کاموں کے متوازی اسی نوعیت کے کام کو ایوان میں دوبارہ شروع کر کے وسائل کو ضائع کرنے کے اقدامات کا نوٹس لیں گے تاکہ ایک ہی نوعیت کے کام پر صرف ایک ہی ادارہ کام کرے اور یوں ایک ہی کام پر دو اداروں کے اخراجات کا اسراف روکا جا سکے - اس موقع پر اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر نے اقبال اکادمی میں میجر جنرل محمد جاوید ، فردوس عالم ، محمد اصغر اور شہزاد اقبال کو اکادمی کی تین سالہ رپورٹ سلائیڈوں اور فلم کے ذریعے پیش کی - میجر جنرل محمد جاوید اور ان کی ٹیم نے اکادمی کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس بات کو سراہا کہ اکادمی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید ترین ذرائع اور وسائل پوری دنیا میں علامہ اقبال کی فکر کے فروغ کے لیے بروئے کار لا رہی ہے جس میں کتب ، رسائل ، آڈیو کیسٹوں اور وڈیو کیسٹوں ، فلم ،فیکس ،انٹرنیٹ اور ویب سائیڈ ٹیکنالوجی بھی شامل ہے - انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ ہمارے علمی اداروں میں سے اقبال اکادمی نے اس سمت میں سب سے پہلے پیش رفت کی ہے- انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اکادمی آئندہ بھی اپنے مقاصد کے لیے سرگرم عمل رہے گی تاکہ پوری دنیا پاکستان کے نظریہ ساز فلسفی علامہ اقبال کی شاعری ، فکر اور ان کے اساسی نظریات سے آگاہی حاصل کر سکے- انہوں نے کہا کہ ایوان اقبال میں صرف اقبال اکادمی کی لائبریری ہوگی ایوان اقبال میں ڈوپلیکشن پر ضائع ہونے والے وسائل اکادمی کی لائبریری اور دوسرے منصوبوں پر خرچ کرکے زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں - اس موقع پر اکادمی کی گرانٹ بڑھانے اور دیگر مسائل حل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی - میجر جنرل محمد جاوید نے کہا کہ اکادمی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے متعلقہ اداروں سے فوری طور پر رابطہ کیا جا رہا ہے ، فوری نوعیت کے اقدامات فوراً اور اکادمی کے آرڈی ننس ، علامہ کی ۱۱۶ میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ اقبال منزل سیالکوٹ اور اقبال میوزیم کے مسائل پر بھی دور رس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں - مقامی نوعیت کے مسائل مقامی سطح پر اور وفاقی اور حکومتی سطح کے مسائل وزارتی سطح پر حل کر دیئے جائیں گے - یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ اقبال اکادمی کے ناظم محمد سہیل عمر کی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان سافٹ ویر ایکسپوٹر بورڈ نے ایوان اقبال کے خالی فلوروں کو کرایہ پر لینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے اور ایوان اور ان کے درمیان معاہدہ مرتب ہو چکا ہے - میجر جنرل محمد جاوید نے ہدایت کی کہ اکادمی کی گرانٹ کے لیے پنجاب کے صوبائی وزیر اطلاعات سے بھی رابطہ کیا جائے جو قومی تعمیر اور اداروں کی بحالی کے کاموں کے لیے بڑے مستعد ہیں - چیف ایگزیکٹو معائنہ کمیشن کے سربراہ محمد جاوید نے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کے قومی اداروں کی بحالی کے سلسلے میں مثبت رویے اور متحرک سوچ کو سراہا اور اس بات کو پسند کیا کہ اقبال فائونڈیشن آرڈیننس کے قیام کے لیے فوری طور پر تجاویز ڈرافٹ کر کے وفاقی وزارت ثقافت کو بھجوائی جائیں تاکہ یہ تمام ادارے ایک ہی نظم کے تحت آکر زیادہ تندہی سے موثر کام کر سکیں اور یوں کام کے دہرے پن سے قومی وسائل کا ضیاع روکا جا سکے- میجر جنرل محمد جاوید نے تجویز کیا کہ اقبال فائونڈیشن کی گورننگ باڈی کے لیے علمی اور انتظامی صلاحیت رکھنے والی درد مند شخصیات کے ناموں کی بھی سفارش کی جائے تاکہ اقبال کے پیغام کو مستعدی سے پوری دنیا میں پھیلانے میں نہایت سرگرمی سے کام کیا جا سکے انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت اس سلسلے میں ہر ضروری قدم اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گی- کیونکہ چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف اور ان کی انتظامیہ ، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے نظریات و افکار سے دلچسپی رکھتے ہیں - ۲۱ - اقبال اکادمی پاکستان -مطبوعات کی نمائشیں اقبال اکادمی پاکستان فکر اقبال کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف اداروں کے تعاون سے نمائشوں کا انعقاد کرتی ہے - یہ سلسلہ اقبال اکادمی کی تنظیم نو کے وقت سے جاری ہے - اقبال اکادمی کی کتب کی نمائش برطانیہ ، امریکہ ، کینیڈا، فرانس ، مارسش ، مصر، ایران ، تاجکستان ، ملائیشیا، بھارت اور بنگلہ دیش میں عالمی سطح پر اور پاکستان کے طول و عرض میں ملکی سطح پر لگائی جاتی ہیں - ان نمائشوں کی ٹیلی ویژن اور قومی اخبارات و جرائد میں کوریج کی جاتی ہے - حال ہی میں اسلام آباد میں ۹ نومبر کو اکادمی ادبیات پاکستان، اور نیشنل لائبریری کے تعاون سے نمائش منعقد کی گئی جس میں صدر پاکستان عزت مآب محمد رفیق تارڑ اور محترمہ زبیدہ جلال وفاقی وزیر تعلیم نے شرکت کی ، نمائش میں ڈاکٹر جاوید اقبال اور ڈاکٹر این میری شمل نے بھی قدم رنجہ فرمایا جبکہ چیف ایگزیکٹو بعض مصروفیات کی بنا پر نہ آ سکے - اس نمائش میں علامہ اقبال کی تصاویر ، ان کی بیاضیں ، خطوط ، قیمتی دستاویزات، مجلات، ان کے کلام کے مختلف زبانوں میں تراجم اور آڈیوکیسٹیں بھی موجود تھیں ، اقبال اکادمی پاکستان اپنی نمائشوں میں مطبوعات پر پچاس فی صد رعایت بھی دیتی ہے جس سے عام قاری بھی آسانی سے کتب خرید لیتا ہے اس نمائش کو قومی اخبارات روز نامہ جنگ ، نوائے وقت ، پاکستان آبزور ، بزنس ٹائمز ، الاخبار، خبریں ، کائنات ، دی نیشن اسلام آباد نے کوریج دی - لاہور میں بھی ۹ نومبر ۲۰۰۰ء کے موقع پر مزار اقبال اور ایوان اقبال پر نمائش منعقد کی گئیں - اقبال اکادمی پاکستان کی طرف سے یونیورسٹی آف لاہور رائیونڈ لاہور میں ، چودہ اگست کے موقع پر ، ایوان اقبال میں ، الحمراء آرٹ سنٹر میں سیرت طیبہ پر کتب کی نمائش ۲۰ جون سے ۲۲ جون تک میں بھی شرکت کی ، یوم آزادی کے موقع پر ایوان اقبال میںمنعقد ہ نمائش میں علامہ اقبال ، قائد اعظم اور تحریک پاکستان پر فلمیں بھی دکھائی گئیں - اکادمی ادبیات پاکستان کی دعوت پر نئی صدی کے موقع پر ۲۱ اپریل تا ۵ مئی اسلام آباد میں کتب کی نمائش کی گئی - ۲۴ جنوری ۲۰۰۰ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کمپیوٹر اور کتب کی نمائش میں شرکت کی گئی - اس کتاب میلہ میں اکادمی کی نمائش کتب کو سراہا گیا - علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سلور جوبلی کانوکیشن کے موقع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں نمائش منعقد ہوئی ، جس میں عام شہریوں نے بھی شرکت کی - اقبال اکادمی کی کتب کی ایک نمائش گورنمنٹ ہائی سکول ننکانہ صاحب میں سکھ یاتریوں کی آمد کے موقع پر لگائی گئی سکھ یاتریوں نے علامہ اقبال کی کتب میں گہری دلچسپی لی اور خریداری بھی کی - ۹ اگست سے ۱۴ اگست ۱۹۹۹ء کو تحریک پاکستان ورکر ٹرسٹ شاہراہ قائد اعظم میں بھی نمائش منعقد ہوئی - اقبال اکادمی کی ان نمائشوں کو جہاں اکادمی کی مطبوعات کی عوام تک سستی فروخت کا ذریعہ گردانا جاتا ہے وہاں اکادمی کی سرگرمیوں سے بھی اقبال شناسوں کو آگاہی ہوتی ہے - ۲۲ - مولانا ابوالحسن علی ندوی - تعزیتی جلسہ ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد میں ممتاز عالم دین ، محقق اور استاد مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی یاد میں ایک خصوصی سیمینار کا انعقاد ہوا - اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر نے ’’تصوف - مولانا ابوالحسن علی ندوی کا نقطہ نظر‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا - یہ تقریب ۲۰ فروری ۲۰۰۰ء کو منعقد ہوئی - ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے تقریب کی صدارت فرمائی - یاد رہے مولانا ندوی مرحوم کی عربی میں علامہ اقبال پر کتاب روائع اقبال بڑی معتبر ہے جس کا اردو ترجمہ نقوش اقبال کے نام سے کیا گیا ہے - ۲۳ -پروفیسر مرزا محمد منور کی یاد میں دو تعزیتی جلسے پروفیسر مرزا محمد منور اقبال اکادمی پاکستان کے ڈائریکٹر اور ممتاز ماہر اقبالیات تھے ۷ فروری ۲۰۰۰ء کو ان کی وفات ہوئی - ملک کے طول و عرض میں ان کی یاد میں تعزیتی جلسے ہوئے اور اخبارات و رسائل نے ان کی زندگی اور افکار پر خصوصی طور پر مقالات شائع کئے - پروفیسر محمد منور کی یاد میں بزم منور کا قیام عمل میں آیا جس کے صدر ڈاکٹر وحید قریشی بنائے گئے بانی حضرات میں چودھری مظفر حسین ، ڈاکٹر امین اللہ وثیر، مرزا صاحب کے داماد صلاح الدین ایوبی اور منہ بولے بیٹے پروفیسر یوسف عرفان کے علاوہ مرزا صاحب کے کئی حلقہ نشین شامل ہیں اور پندرہ روز ہ اجلاس منعقد کر رہے ہیں - پروفیسر مرزا محمد منور کی یاد میں اقبال اکادمی پاکستان نے ایوان اقبال کے بنکیوٹ ہال میں ایک تعزیتی جلسہ کیا جس کی صدارت ڈاکٹر جاوید اقبال نے فرمائی - اس جلسہ میں پروفیسر ڈاکٹر محمد محمد صدیق خان شبلی ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ، پروفیسر عبدالرئوف ، محمد سہیل عمر ، صلاح الدین ایوبی، پروفیسر یوسف عرفان اور پروفیسر مشکور حسین یاد نے مقالات پڑھے - شعبہ عربی گورنمنٹ کالج فیصل آباد نے بھی پروفیسر محمد منور کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ(تعزیتی ریفرنس) منعقد کیا -شعبہ عربی فیصل آباد کے صدر ڈاکٹر آغا محمد سلیم اختر، سکریٹری علمی ریفرنس پروفیسر منظور حسین سیالوی ، مرزا منور کے خاص دوست ساتھی اور نگران علمی ریفرنس پروفیسر غلام حیدر چشتی سابق استاد شعبہ عربی گورنمنٹ کالج فیصل آباد نے اس علمی ریفرنس میں پروفیسر مرزا محمد منور سے محبت کی نئی مثال رقم کی - ان حضرات کے علاوہ اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر ، صلاح الدین ایوبی ، پروفیسر یوسف عرفان، افتخار فیروز اور فیصل آباد میں پروفیسر محمد منور کے پرانے رفقاء نے اس تعزیتی جلسے کو خطاب کیا - اور ان کے لیے دعائے مغفرت مانگی گئی - یاد رہے کہ پروفیسر محمد منور طویل عرصہ تک اس کالج سے وابستہ رہے اور انہی مجلس اقبال کے جلسوں سے ان کی اقبال شناسی کی شہرت کا آغاز ہوا - جس میں مرحوم جسٹس ایم آر کیانی اور دوسرے بڑے بڑے اقبال شناسوں نے شرکت کی -