اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مدیر : ڈاکٹر وحید عشرت نائب مدیر : احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی - مثلاً اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰؍ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰؍ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات مباحث ۱ - حکیم الامّت علامہ محمد اقبال کے نام دوسرا خط ڈاکٹر جاوید اقبال ۱ ۲ - علامہ اقبال : مولانا مدنی ، مولانا آزاد اور پنڈت نہرو پروفیسر فتح محمد ملک ۱۳ تسہیل و تشریح ۳ ۔ کلام اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۴۳ فکریات ۴ ۔ترکوں سے اقبال کی ارادت مندی اور خلافت کے معاملے میں اقبال کا اختلاف حلیمہ سعدیہ ۵۷ ۵ ۔ افکارِ اقبال اور مسلم اُمّہ کا تصور محمد انور صوفی ۶۹ اخبار اقبالیات ۷۷ ۶۔ سالِ اقبال ۔اقبال اکادمی پاکستان کے منصوبے ۹۹ (عبوری رپورٹ: جولائی ۲۰۰۲ء تا دسمبر ۲۰۰۲ئ) وفیات ۱۱۹ عبداللّطیف اعظمی ۱۰ مئی ۲۰۰۲ئ ۱۲۱ ڈاکٹر عصمت جاوید ۱۹ اگست ۲۰۰۲ئ ۱۲۲ ڈاکٹر اکبر رحمانی ۱۷ ستمبر ۲۰۰۲ئ ۱۲۴ نعیم صدیقی ۲۵ ستمبر ۲۰۰۲ئ ۱۲۶ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ۸ دسمبر ۲۰۰۲ئ ۱۲۷ ڈاکٹرشہین دُخت مقدم صفیاری ۱۲۹ قلمی معاونین ۱ - ڈاکٹر جاوید اقبال ۶۱۔ مین گلبرگ روڈ ،لاہور۔ ۲ ۔پروفیسر فتح محمد ملک صدر نشین، مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد۔ ۳ ۔حلیمہ سعدیہ ۱۰۴۔ P.G.E.C.H.S ٹائون شپ ،لاہور ۔ ۴ - محمد انور صوفی Schous Plass 3A, 0552 OSLO,Norway ۵ ۔ احمد جاوید معاون ناظم، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور ۔ ۶۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی وزٹنگ پروفیسر اردو، یونی ورسٹی، اورینٹل کالج،لاہور  حکیم الامّت علامہ محمدؐ اقبال کے نام دوسرا خط ڈاکٹر جاوید اقبال محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت ’’اپنا گریبان چاک‘‘ کئی اعتبار سے ایک اہم کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے والد گرامی علامہ اقبال کو دوسرا خط تحریر کیا ہے۔ علامہ اقبال کو ڈاکٹر جاوید اقبال نے بچپن میں خط لکھا تھا۔ جس میں انھوں نے باجا لانے کی فرمایش کی تھی۔ دوسرے خط میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے پاکستان اور مسلم قومیت (دو قومی نظریے) کے مباحث پر اظہار خیال کیا ہے۔ محترم پروفیسر فتح محمد ملک نے بھی اپنے مقالات میں اسی صورت حال کا تجزیہ کیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا خط اور پروفیسر فتح محمد ملک کا اس دور کی صورت حال کا تجزیہ دونوں قارئین کی نذر ہیں۔ (مدیر) میں نے تقریباً سات برس کی عمر میں اپنے والد کو پہلا خط لکھا تھا جب اُنھیں انگلستان سے گراموفون باجا لانے کی فرمایش کی تھی۔ اتنی مدت گزر جانے کے بعد اب انھیں دوسرا خط تحریر کر رہا ہوں۔ اس مرتبہ وہ اگلے جہان میں ہیں اور مجھے اپنے قومی تشخص اور ’’اسلامی‘‘ ریاست کے بارے میں ان سے رہبری لینا مقصود ہے۔ والد مکرم۔ السلام علیکم! نئی نسل کے نمایندے کی حیثیت سے میں آپ کی اجازت کے ساتھ چند سوال کرنا چاہتا ہوں۔ ہم مسلمانوں کے قومی تشخص کے بارے میں آپ کی جو بحث مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوئی تھی اس میں مولانا مدنیؒ کا موقف تھا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں، لہٰذا برصغیر کے مسلمانوں کی قومیت تو ہندی ہے البتہ ملت کے اعتبار سے وہ مسلم ہیں۔ آپ نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’قوم‘‘ اور ’’ملت‘‘ کے ایک ہی معانی ہیں۔ مسلم قوم وطن سے نہیں بلکہ اشتراک ایمان سے بنی ہے۔ اس اعتبار سے اسلام ہی مسلمانوں کی ’’قومیت‘‘ ہے اور ’’وطنیت‘‘ بھی۔ اپنے نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے چند اہم مثالیں بھی دی تھیں: یہ کہ رسول اکرمﷺ اگر اپنے وطن سے ہجرت نہ کرتے اور کفار مکہ کے ساتھ تصفیہ کر لیتے کہ نسل، زبان اور علاقے کے اشتراک کی بنا پر ایک ہوتے ہوئے وہ اپنے خدائوں کی پرستش جاری رکھیںا ور مسلمان اپنے خدا کی پرستش کرتے رہیں گے، تو آنحضورﷺ سب سے پہلے عرب نیشنلسٹ قرار پاتے، پیغمبر اسلامﷺنہ ہوتے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مدینہ ہجرت کر نے کے بعد آنحضورﷺ نے ’’مہاجرین‘‘ اور ’’انصار‘‘ کو اشتراکِ ایمان کی بنیاد پر ایک ’’امت‘‘ ، ’’ملت‘‘ یا ’’قوم‘‘ بنا دیا۔ پس ملت اسلامیہ وطن سے نہیں بلکہ اشتراک ایمان سے وجود میں آئی ہے۔ آپ نے مولانا مدنیؒ سے اختلاف کے دوران، بالخصوص اپنے اشعار میں ، نہایت تلخ لہجہ اختیار کیا ؎ عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقام محمدؐ عربی است آپ کی تحریروں سے واضح ہے کہ آپ علاقائی ’’قومیت‘‘ اور ’’وطنیت‘‘ کے مخالف تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے فرما رکھا ہے کہ مسلم اکثریتی ملکوں میں اسلام اور نیشنلزم ایک ہی سمجھے جاتے ہیں۔ مشکل وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور نیشنلزم کا تقاضا ہے کہ وہ اکثریتی جماعت میں مکمل طور پر مدغم ہو جائیں۔ پھر آپ نے دنیائے اسلام میں متفرق قومی ریاستوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بھی فرما رکھا ہے کہ اُن قومی ریاستوں کو چاہیے کہ پہلے اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑی ہوں اور بعد ازاں اشتراکِ ایمان اور تمدنی ہم آہنگی کی بنیاد پر جمہوریتوں کے ایک زندہ خاندان کی طرح اکٹھی ہو جائیں۔ آپ کے مغربی نقادوں میں سے معروف مستشرق ایچ اے آر گب آپ کے سیاسی فکر پر تبصرہ کے دوران تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حیرت کی بات ہے کہ اقبال علاقائی قومیت کے شدید مخالف ہوتے ہوئے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ بلکہ ان کے حامی تو برملا کہتے ہیں کہ قومیت یا وطنیت کے بارے میں جو کچھ اقبال کہتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ اسے تسلیم بھی کرتے ہوں۔ آپ نے اپنے سیاسی فلسفے کے ذریعے اشتراکِ ایمان کی بنیاد پر مسلم قومیت کا تصور پیش کر کے برصغیر میں ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی حقیقت کو تقویت بخشی۔ چنانچہ پہلے مسلم قوم وجود میں آئی او رپھر اس قوم کے لیے وطن بصورت پاکستان حاصل کر لیا گیا۔ ظاہر ہے اگر اشتراکِ ایمان کی بنیاد پر مسلم قوم وجود میں نہ لائی جاتی یا اسلام سے ایک قومیت ساز قوت کے طور پر کام نہ لیا جاتا تو ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی حقیقت کو کوئی تسلیم نہ کرتا اور اس کی بنیاد پر پاکستان نہ بن سکتا۔ بلکہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھنے میں بھی یہی جذبہ کام کر رہا ہے۔ پاکستان نے ایک ’’مقتدر‘‘، ’’قومی‘‘ اور ’’علاقائی‘‘ ریاست کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی نظریاتی اساس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان نے اقوام متحدہ میں مسلم امّہ کی کوکھ سے نکلی ہوئی کئی قومی ریاستوں کی نو آبادیاتی طاقتوں سے آزادی کی خاطر تگ و دو میں حصہ لیا۔ فلسطین کی آزادی اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ نیز او آئی سی میں ہمیشہ بڑا فعال کردار ادا کیا۔ جب کبھی دو مسلم قومی ریاستوں میں لڑائی ہوئی تو پاکستان نے ہمیشہ ’’نیوٹرل‘‘ پوزیشن اختیار کی۔ افغانستان سے غیر مسلم حملہ آوروں کی فوجوں کو نکالنے کی خاطر پاکستان نے افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیا۔ بعدازاں پاکستان ہی کی مدد سے وہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی اور اسے تسلیم کیا گیا۔ پھر وہ مرحلہ آیا جب افغانستان پر ایک بار پھر غیر مسلم حملہ آور ہوئے۔ مگر اس مرتبہ پاکستان نے نہ صرف غیر مسلم حملہ آوروں کے ساتھ اتحاد کیا بلکہ مسلم افغانستان کے خلاف غیر مسلموں کی امداد کی اور افغان مسلمانوں کی تباہی کو ہم ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرتے خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اے پدر محترم! اگر اب ہماری اجتماعی شناخت کے لیے وہ علاقہ مختص ہو گیا جسے ’’پاکستان‘‘ کہتے ہیں اور جس کا مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے تو پھر مولانا حسین احمد مدنی کا قول کس اعتبار سے غلط ہوا؟ کیا ہمارے عمل سے یہ ثابت نہیں ہو گیا کہ قومی یا وطنی اعتبار سے تو ہم پاکستانی ہیں اور ’’ملی‘‘ اعتبار سے مسلم؟ گویا ہمارے نزدیک اگر قومی مفاد یا مصلحت عامہ کے تحت ضروری ہو تو ہم کسی مسلم قومی ریاست کے خلاف غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد بھی کر سکتے ہیں؟ اس مسئلے پر ذہن میں الجھائو ہے۔ کیسے دور کیا جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آیا اور جب تک بھارت اور پاکستان جغرافیائی طور پر علیحدہ مملکتوں کی صورت میں قائم رہتے ہیں، ’’دو قومی نظریہ‘‘ ان کے درمیان حدِ فاصل رہے گا۔ مگر کیا پاکستان کے اندر بھی ’’دوقومی نظریہ‘‘ کو ایک حقیقت کے طور پر زندہ رکھنا ضروری ہے؟ کیا پاکستان میں ایک قوم آباد ہے یا دو قومیں؟ کیا پاکستان میں مسلم اکثریت کو اپنے تحفظ کی خاطر غیر مسلم اقلیت سے امتیاز روا رکھنا چاہیے؟ اے پدر محترم! آپ نے فرما رکھا ہے کہ ’’علیحدہ نیابت‘‘ کا اصول برصغیر میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر نافذ کیا گیا۔ لیکن اگر صوبوں کی تقسیم جماعتوں کے مذہبی اور تمدنی رجحانات کو مدِنظر رکھ کر کی جائے تو مسلمانوں کو خالصتاً ’’مخلوط‘‘ انتخابات پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ پس اگر وقت کے بدلتے تقاضوں کے تحت قومی ہم آہنگی برقرار رکھنے کی خاطر مخلوط انتخابات کا نظام رائج کر دیا جائے یا پاکستانی قومیت اور وطنیت کے جذبات کو فروغ دینے کی خاطر مثبت اقدام اٹھائے جائیں تو کیا پاکستان ’’اسلامی‘‘ مملکت سے ’’سیکولر‘‘ ریاست میں منتقل ہو جائے گا؟ اے میرے والد مکرم! آپ کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح نے ارشاد فرمایا تھا کہ علامہ اقبال ان چند ہسیتوں میں سے ایک تھے جو مسلمانان برصغیر کے قدیم اوطان میں ’’اسلامی ریاست‘‘ قائم کرنا چاہتے تھے۔ ’’اسلامی‘‘ یا ’’مسلم‘‘ ریاست کے کئی نمونے (ماڈل) آج کے زمانہ میں موجود ہیں۔ مثلا ترکی ماڈل، سعودی ماڈل، ایرانی ماڈل یا سابقہ طالبان ماڈل۔ اسی طرح تاریخ اسلام میں خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر ترکی میں خلافت کے خاتمہ تک (۶۳۲ء تا۱۹۲۴ئ) کئی ماڈل نظر آتے ہیں۔ ان مختلف نمونوں کودیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ دراصل اسلامی ریاست کی کوئی حتمی شکل نہیں ہے بلکہ مختلف شکلوں میں مسلسل وجود میں آتے رہنے کے عمل کا نام ہے۔ اس اعتبار سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلامی ریاست کبھی مکمل صورت میں وجود میں آئی تھی۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی ریاست ایک ’’آئیڈیل‘‘ ہے جس کے حصول کے لیے ہر مسلم ریاست کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ کیا یہ سوچ درست ہے؟ ایک اور قابل ذکر بات جو تاریخ اسلام کے مطالعے سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا ’’سیاسی ڈھانچہ‘‘ خواہ کسی نوعیت کا ہو، وہ وجود میں تبھی آتی ہے جب اس میں قوانین اسلام (شریعت) کا نفاذ ہو۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس مسئلے کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے اسلامی ریاست کے ’’سیاسی ڈھانچے‘‘ اور اس کے ’’قانونی ڈھانچے‘‘ کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیا جائے؟ رسول اللہ ﷺ کے عہد نبوت و امامت میں اسلامی ریاست کے سیاسی ڈھانچے یا دستور کی ایک تحریری مثال جو ہمیں ملتی ہے وہ ’’میثاق مدینہ‘‘ ہے اور کیا ’’میثاق مدینہ‘‘ بنیادی طور پر ایک ’’معاشرتی معاہدہ‘‘ نہ تھا؟ بعدازاں خلفائے راشدین کے عہد میں ہمیں کم از کم چار سیاسی ڈھانچوں کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ یعنی انتخاب (الیکشن)، نامزدگی (نامینیشن) ، انتخاب بذریعہ انتخابی ادارہ (ایلیکٹورل کالج) اور بذریعہ استصواب رائے (ریفرنڈم)۔ بعد کے سیاسی ڈھانچوں کی شکل یا تو مختلف نوع کی مطلق العنان مورثی حکمرانی ہے یا غصب اقتدار کے ذریعے وجود میں آنے والے امراء یا سلاطین۔ اے والد محترم! اس پس منظر میں آپ کی تحریروں سے میں نے اسلامی ریاست سے متعلق آپ کا ’’ماڈل‘‘ اخذ کرنے کی سعی کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ بعض مسلم ممالک میں منتخب قانون ساز اسمبلیوں کا قیام اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف رجوع ہے۔ آپ نے اپنے اشعار میں جمہوریت یا خصوصی طور پر مغربی جمہوریت (جو عوام کی حاکمیت، حقوق انسانی کے تحفظ اور قانون کی بالادستی پر قائم ہونے کی دعویدار ہے) پر سخت اعتراضات کیے ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ جمہوریت کی موجودہ شکل کو ، اس کی خامیوں پر اعتراضات کرنے کے باوجود، کیوں قبول کرتے ہیں؟ تو آپ کا جواب تھا کہ اس کا نعم البدل آمریت یا مطلق العنانیت ہے جو اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ اگر اسلامی جمہوریت کا تصور ہم ’’شوریٰ‘‘ والی آیت (سورۃ ۴۲ آیت ۳۸) سے اخذ کرتے ہیں تو اسلامی تاریخ میں شوریٰ کا رول ہمیشہ امام (خواہ وہ کسی قسم کے انتخابی طریقہ یا غیر انتخابی طریقہ سے سربراہ بنا ہو) کو صرف مشورہ ’’دینا‘‘ ہے اور امام اس مشورے کا پابند نہیں۔ اس کی مرضی ہے مشورہ قبول کرے یا رد کر دے۔ اس آیت کی صحیح معنوں میں ’’جمہوری‘‘ تفسیر ہمیں صرف خوارج کے ہاں ملتی ہے جن کا نظریہ تھا کہ شوریٰ کا اصل کام ’’آپس میں‘‘ مشورہ کرکے اُمّہ کے مسائل حل کرنا ہے اور شاید یہی اس آیت کا صحیح مفہوم بھی ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک خلیفہ کا تقرر بطور سربراہ صرف فرض کفایہ ہے۔ ضرورت پڑے تو شوریٰ اسے منتخب کر سکتی ہے اور مزید یہ کہ ضروری نہیں کہ خلیفہ یا امام اہل بیت یا قریش میں سے ہی ہو، بلکہ اس منصب کے لیے ایک سیاہ حبشی غلام یا عورت بھی موزوں ہیں بشرطیکہ وہ اہلیت رکھتے ہوں۔ سو اس اعتبار سے تاریخ اسلام میں اصل ’’سوشل ڈیموکریٹس‘‘ تو خوارج ہی تھے جنھیں ابتدائی دور ہی میں اسلام سے خارج کر دیا گیا اور اس لیے ’’خارجی‘‘ کہلائے۔ مسلمانوں کی جدید تاریخ میں سید جمال الدین افغانی پہلی شخصیت تھے جنہوں نے ترکی میں سلطان (خلیفہ) عبدالحمید کو شوریٰ یا اسمبلی کے مشورے کا پابند کرنے کی کوشش کی۔ یعنی ’’آئینی یا دستوری خلافت‘‘ کا تصور پیش کیا جو وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق نیا اجتہاد تھا۔ مگر سلطان عبدالحمید نے اُن کے خلاف شیخ الاسلام سے کفر کا فتویٰ جاری کروا دیا۔ شیخ الاسلام کا استدلال مختصراً یہ تھا کہ اسلام کی صدیوں پرانی سیاسی روایت کے مطابق، سورۃ ۴ آیت ۵۹ کے تحت مسلمانوں پر بلاشرط اطاعت ’’اُولیِ اْلاَمْرِ‘‘ فرض ہے۔ نیز اسی روایت کے مطابق شوریٰ امام کو صرف مشورہ ’’دے‘‘ سکتی ہے۔ لیکن شوریٰ کے ’’آپس میں‘‘ مشورے کا امام کو پابند کرنے والے سب کے سب سرکش اور کافر ہیں۔ اے والد محترم! آپ سید جمال الدین کو موجودہ عہد کا مجدد سمجھتے تھے اس لیے جب ۱۹۲۴ء میں ترکی میں خلافت منسوخ کر دی گئی تو آپ نے ترکوں کے اجتہاد، کہ خلیفہ کے تمام اختیارات منتخب مسلم اسمبلی کو منتقل ہو گئے ہیں، کی تائید کی۔ پس کیا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ آپ کی جدید اسلامی ریاست عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب نمایندوں کی مجلسِ قانون ساز کے قیام، حقوق انسانی کے تحفظ ا ور قانون کی بالادستی کے اصولوں پر ہی قائم ہو سکتی ہے؟ آپ کے نزدیک ’’توحید‘‘ کا مطلب انسانی اتحاد، مساوات اور آزادی کی بنیادوں پر زمان و مکان کے اندر ایک مثالی معاشرہ وجود میں لانا ہے۔ اسی بنا پر خطبہ الہ آباد (۱۹۳۰ئ) میں آپ نے سورۃ ۲۰ آیت۴۰ کے حوالے سے اعلان کیا تھا کہ مجھ پر اقلیتوں کی عبادت گاہوں، قوانین اور تمدن کے تحفظ کا فرض عائد کیا گیا ہے۔ اسی ضمن میں آپ نے مزید فرما رکھا ہے کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ اے پدر محترم! آپ نے وضاحت نہیں کی کہ ’’روحانی جمہوریت‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا اس تصور کی بنیاد آپ ’’میثاق مدینہ‘‘ پر رکھتے ہیں یا سورۃ ۵ آیت ۵۸ پر جس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو تلقین کی گئی ہے کہ ایک دوسرے سے نیک کام انجام دینے میں سبقت حاصل کرو اور یہ کہ جب تم سب اللہ تعالیٰ کے رو برو لائے جائو گے تو وہ بتائیں گے کہ تمھارے آپس میں اختلافات کیا تھے؟ آپ کی طرف سے وضاحت کی عدمِ موجودگی کے سبب بعض اقبال شناس آپ کے تصورِ ’’روحانی جمہوریت‘‘ کو صرف مختلف مسلم فرقوں میں رواداری تک محدود رکھتے ہیں اور اس میں غیر مسلموں کو شریک نہیں کرتے۔ حالانکہ جب یہ اصطلاح استعمال کی گئی، آپ مقتدر مسلم ریاست، جس کے اندر ’’روحانی جمہوریت‘‘ قائم ہونی تھی، کا ذکر اپنے خطبے میں فرما چکے تھے۔ بلکہ سید نذیر نیازی کو اپنے خط میں تحریر بھی کر دیا تھا کہ میری مجوزہ مسلم ریاست میں جو برصغیر کے شمال مغرب میں قائم ہو گی آبادیوں کے تبادلے کی ضرورت نہیں یعنی اس ریاست میں غیر مسلم بھی موجود ہوں گے۔ اس لیے کیا آپ کی ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ مجوزہ ’’اسلامی‘‘ ریاست میں بلاتفریق مذہب، ذات پات، رنگ، نسل، زبان سب برابر کے شہری تصور کیے جائیں گے؟ غالباً اسی پس منظر میں آپ نے پنجاب کونسل کی ممبری کے زمانے میں ’’توہین بانیانِ ادیان‘‘ کا قانون پاس کرانے کی کوشش کی تھی؟ آپ کی مجوزہ ’’اسلامی‘‘ ریاست میں اسلام کیسے نافذ کیا جائے گا؟ ایک جگہ کہتے ہیں: جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی کسی اور مقام پر فرمایا ہے : دین ملاّ فی سبیل اللہ فساد اے میرے پدر محترم! دین کی وہ کونسی تعبیر ہے جو ریاست کو معاشی نا انصافی اور ظلم سے محفوظ رکھتی ہے؟ اور وہ کون سی تعبیر ہے جو شر اور فساد کا سبب بنتی ہے؟ نیز جو تعبیر شر اور فساد کا باعث بنتی ہے اس کے تدارک کے لیے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے؟ اس ضمن میں آپ اس تجویز کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ریاست کے مختلف شعبوں سے دینیات کا شعبہ الگ کر دیا جائے۔ اس شعبے کا کام مساجد او رمدرسوں کو کنٹرول کرنا ہو، مدرسوں کے لیے جدید نصاب کا تعین کرنا اور انھیں یونیورسٹیوں سے منسلک کرنا ہو۔ اسی طرح صرف حکومت کے سند یافتہ آئمہ مساجد کا تقرر اس شعبے کی ذمہ دار ی ہو۔ جب ترکی میں اس طرز کی اصلاحات نافذ کی گئیں تو آپ نے بڑے جوش و خروش سے ان کا خیر مقدم کیا او رفرمایا تھا کہ اگر مجھے ایسا اختیار حاصل ہو تو میں فوراً یہ اصلاح مسلم انڈیا میں نافذ کر دوں۔ کیا آپ کی نگاہ میں دینیات کے شعبے کی ریاست کے دوسرے شعبوں سے علیحدگی محض ’’فنکشنل‘‘ ہے، اس کا مطلب ’’چرچ‘‘ اور ’’سٹیٹ‘‘ کی علیحدگی نہیں ہے؟ اسی طرح دین کو کیسے ملکی سیاست کے ساتھ پیوست کیا جائے کہ ریاست ظلم اور معاشرتی نا انصافی کرنے سے باز رہے؟ اس بارے میں آپ منتخب مسلم قانون ساز اداروں یا اسمبلیوں کو ’’اجتہاد‘‘ کا اختیار دیتے ہیں۔ چونکہ آج کی مسلم اسمبلیوں کے ارکان میں سے بیشتر علمی یا تعلیمی اعتبار سے نا اہل ہیں، اس لیے آپ کی رائے میں فی الحال حکومت وقت علما کے ایسے بورڈ نامزد کرے جو اسلامی قانون سازی کے معاملوں میں پارلیمنٹ کے ارکان کے ساتھ بحث میں حصہ لیں اور ان کی رہبری کریں، لیکن کسی ایسے اسلامی بل پر اُنہیں ووٹ ڈالنے کا حق نہ ہو۔ آپ کے خیال میں یہ طریقِ کار صرف عارضی طور پر اپنایا جانا چاہیے۔ صحیح طریقہ یہی ہو گا کہ قانون کی تعلیم دینے والے اداروں، لا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قانونی نصاب میں اصلاح کی جائے اور اس میں اسلامی فقہ کے ساتھ جدید جورس پروڈنس کا تقابلی مطالعے کا موضوع شامل ہو۔ اس موضوع میں مہارت حاصل کرنے والے وکلا ٹیکنو کریٹس کی حیثیت سے مختلف جدید علوم (مثلاً اقتصادیات، بینکنگ وغیرہ) کے غیر علما ماہرین کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں لائے جائیں۔ تبھی مسلم اسمبلی صحیح معنوں میں ’’اجماع‘‘ کی صور ت میں اسلامی قانون سازی کے معاملے میں ’’اجتہاد‘‘ کے قابل ہو سکے گی۔ اے میرے پدر محترم! اس مرحلے پر دو ایک باتیں قابلِ غور ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں برصغیر کے صرف چند علما کے علاوہ باقیوں کے علم کے متعلق کچھ اچھے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ اگرچہ ہماری اسمبلیوں کے منتخب رکن نا اہل ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خطہ پاکستان میں ایسے جیّد علما موجود ہیں جو اسلامی قانون سازی کے موقعوں پر ارکان اسمبلی کی مثبت رہبری کر سکیں؟ میری اپنی چیف ججی کے زمانے میں بادشاہی مسجد میں ایک مناظرہ غالباً دیوبندی اور بریلوی فرقوں کے علما کے درمیان ہو اتھا۔ اس موقع پر کسی نا معلوم شخص نے کوئی نا مناسب نعرہ لگا دیا جس پر دونوں گروہوں میں مسجد کے اندر اور باہر خاصی مارکٹائی ہوئی اور بعض علما زخمی بھی ہوئے۔ نتیجہ میں صوبائی حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کرنے کی خاطر مجھے ہائی کورٹ کے جج کا تقرر کرنے کی سفارش کی۔ میں نے جسٹس شیخ ریاض احمد (موجودہ چیف جسٹس پاکستان) کو یہ ذمہ داری سونپی۔ انھوں نے اس معاملے کے بارے میں اپنی رپورٹ حکومتِ پنجاب کو دی جو آج تک شائع نہیں ہوئی۔ لیکن ایک بات جو ان کی وساطت سے میرے علم میں آئی وہ یہی تھی کہ واقعے کے متعلق علما حضرات کے بیانات میں اتنا تضاد تھا کہ کسی نتیجے پر پہنچ سکنا ممکن نہ تھا۔ چیف جسٹس محمد منیر بھی اپنی معروف ’’منیر کمیٹی رپورٹ‘‘ میں کچھ ایسے ہی نتیجے پر پہنچے تھے۔ ان حالات میں نئی اسلامی قانون سازی کے لیے ’’اجتہاد‘‘ کے بارے میں ان کی رہبری پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ایک ’’قومی ریاست ہے۔ اگر اس کی منتخب اسمبلیاں اسلامی قانون سازی کے لیے اجتہاد کا طریقہ اختیار کرتی ہیں تو کیا ایسے نئے اسلامی قوانین کا اطلاّق صرف پاکستان کی سرحدوں تک محدود نہ ہو گا؟ اور کیا یوں فقہ کا ایک نیا ’’نیشنل‘‘ مدرسہ وجود میں نہ آ جائے گا؟ آپ کے ہاں اسلام کے نفاذ کے لیے سب سے زیادہ زور تعلیمی اداروں میں اسلامی اخلاقیات کی تربیت دینے پر ہے۔ اس کے لیے صرف صوم و صلوٰۃ کی مکینیکل پابندی ہی کافی نہیں۔ بلکہ انسان دوستی، رواداری، حلم، عجز، سادگی ایسی خصوصیات کی ترغیب کے ساتھ طلبہ اور طالبات میں تجسس کا جذبہ پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے علوم کے ذریعے اختراع اور ایجاد کا منقطع سلسلہ از سر نو جاری رکھ سکیں۔ آپ کی نگاہ میں طبعیات، ریاضیات یا سائنس کے دیگر موضوعات میں دلچسپی لینا بھی ایک طرح کی عبادت ہے کیونکہ مشاہداتی علوم کا مطالعہ دراصل فطرت یا قدرت کا مطالعہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے قربت کا سبب بنتا ہے۔ آپ نے تفصیل سے نہیں بتایا کہ کن اسلامی قوانین کے بارے میں اجتہاد کی ضرورت ہے بلکہ آپ نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لی کہ ہماری قوم بڑی قدامت پسند اور حسّاس ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتے ہیں اور یہ کہ ’’اس وقت‘‘ متنازع امور پر بحث کرنے کی بجائے مسلمانوں کو آزادی حاصل کرنے کی خاطر ’’اتحاد‘‘ کی ضرورت ہے نہ کہ ’’اجتہاد‘‘ کی۔ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ محکومی کے دور میں اجتہاد کی بجائے ’’تقلید‘‘ کا راستہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ مگر اے پدر محترم! کیا ہم اب بھی صحیح معنوں میں آزاد ہیں یا ابھی تک محکومی کے دور ہی سے گزر رہے ہیں؟ ان حقائق کے باوجود آپ کی تحریروں میں بعض اشارے ایسے ملتے ہیں جن سے اجتہاد کے بارے میں بحیثیت مجموعی آپ کے رجحانات کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً آپ کی رائے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون سازی کے حق میں ہے۔ آپ ایک سے زائد از دواج کے امتناع کو شرعاً جائز قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معاشرتی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی ریاست کا سربراہ کسی بھی قرآنی حکم یا اجازت کی تعویق، تجدید یا توسیع کر سکتا ہے۔ مولانا شبلی کی طرح آپ مسلمانوں میں فری مارکیٹ اکانومی کے فروغ کی خاطر بینکوں کے منافع کو ربوٰ کے زمرے میں نہیں لاتے۔ آپ چونکہ جاگیرداری کو مناسب حدود میں رکھنے کے قائل ہیں، اس لیے پنجاب کونسل کی رکنیت کے زمانے میں آپ نے سرکاری اراضی بے زمین مزارعین یا کسانوں کو آسان اقساط میںبیچنے کے ساتھ، جاگیرداروں پر اگریکلچرل انکم ٹیکس لگانے کی تجاویز پیش کیں۔ آپ کے خیال میں زمیندار صرف اتنی زمین کی ملکیت کا حقدار ہے جتنی وہ بذاتِ خود کاشت کر سکے۔ اسی طرح قرآنی حکم ’’قُل العفو‘‘ (سورۃ ۲ آیت ۲۱۹) کے تحت آپ حکومت کو ٹیکس لگانے کے ایسے اختیارات دینا چاہتے ہیں کہ جو صاحب ثروت ہر سرمایہ دار یا کارخانہ دار سے اس کی انفرادی ضرورت سے زائد دولت حاصل کر کے مزدوروں اور ان کے بچوں کی فلاح و بہبود پر صرف کی جا سکے۔ چونکہ آپ ’’کیپیٹلزم‘‘ اور ’’کمیونزم‘‘ دونوں معاشی نظاموں کے خلاف ہیں اس لیے آپ ’’کیپیٹلزم‘‘ اور ’’فیوڈلزم‘‘ کو مناسب حدود میں رکھتے ہوئے اپنی مجوزہ اسلامی ریاست میں زکوٰۃ صدقات اور عشر کی تنظیم نیز اسلامی قانونِ وراثت کے سختی سے اطلاق کے علاوہ ایسی تمام سوشل اصلاحات نافذ کرنے کے حق میں ہیں جن کے ذریعے متوسط طبقے کی فلاحی ریاست وجود میں لائی جا سکے۔ جہاں تک اسلامی کریمینل لا (حدود) کا تعلق ہے آپ مولانا شبلی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ چونکہ ان ’’سزائوں‘‘ کا اصل مقصد محض سزائیں دینا نہیں، بلکہ معاشرے میں جہاں تک ممکن ہو جرائم کی بیخ کنی کرنا ہے۔ اس لیے آیندہ نسلوں پر ضروری نہیں کہ ایسے قوانین کا سختی سے اطلاق کیا جائے۔ اس مرحلے پر کیا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ اپنی مجوزہ ’’اسلامی‘‘ ریاست میں آپ اسلامی معاشی ’’برکات‘‘ سے متعلق قانون سازی کو اسلامی ’’تعزیرات‘‘ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟ اے پدر محترم! اگرچہ آپ کی مجوزہ ’’اسلامی‘‘ ریاست کا خاکہ ہر اعتبار سے مکمل نہیں، مگر اس حقیقت سے انکار کر سکنا مشکل ہے کہ اس کا نمونہ ماضی یا حال کے تمام ایسے نمونوں سے مختلف ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ماڈل قابل عمل ہے تو اسے کون وجو دمیں لائے گا؟ آپ ہمیشہ جوانوں سے مخاطب ہوتے تھے۔ انھیں پیروں کا استاد دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ خداوند تعالیٰ آپ کا عشق اور آپ کی نظر انھیں عطا کر دے۔اسی سبب آپ اپنے آپ کو آنے والے کل کا شاعر و مفکر سمجھتے تھے۔ اے کاش! میں اُن نوجوانوں میں سے ہوتا جو آپ کی مجوزہ ’’اسلامی‘‘ ریاست کو عملی طور پر وجود میں لا سکنے کے قابل تھے۔ مگر میری نسل، جس نے پاکستان بنتے، ٹوٹتے اور پے در پے مشکل ادوار میں سے گزرتے دیکھا، ایک مایوس نسل ہے۔ میں اپنی کوتاہیوں سے بخوبی آگاہ ہوں۔ میں نہ اچھا مصور بن سکا، نہ اچھا ادیب، نہ اچھا سیاستدان، نہ اچھا وکیل، نہ اچھا جج، نہ اچھا شوہر ، نہ اچھا باپ۔ میری زندگی میں آسودگی میری اپنی محنت کا ثمر نہیں بلکہ میری رفیقۂ حیات کی مشقت کا نتیجہ ہے۔ میں تو اپنے بچوں کو بھی وہ شفقت و محبت نہ دے سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ آپ کو یاد ہو گا جب اس دنیا میں آپ کی آخری شب تھی۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو آپ مجھے پہچان نہ سکے پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’جاوید۔‘‘ فرمایا: ’’جاوید بن کر دکھائو تو جانیں!‘‘ افسوس ہے، میں آپ کی خواہش کے مطابق ’’جاوید‘‘ نہ بن سکا۔ اور بنتا بھی کیسے؟ آپ نے خود ہی ’’جاوید نامہ‘‘ (خطاب بہ جاوید) میں میرے ذریعے میری نسل کے مایوس جوانوں کو ارشاد فرمایا تھا: ترسم ایں عصرے کہ تو زادی دراں دربدن غرق است و کم داند زجاں! چوبدن از قحطِ جاں ارزاں شود مردِ حق در خویشتن پنہاں شود! در نیابد جستجو آں مرد را گرچہ بیند روبرو آں مرد را! تو مگر ذوقِ طلب از کف مدہ گرچہ در کارِ تو افتد صد گرہ! میں اُس زمانے سے ڈرتا ہوں جس میں تم پیدا ہوئے۔ کیونکہ یہ زمانہ جسم میں غرق ہے اور روح کو نہیں پہچانتا۔ جب روح کے قحط کے سبب جسم ارزاں ہو جائیں تو مردِ حق اپنے اندر چھپ جایا کرتا ہے۔ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرو تو دکھائی نہیں دیتا حالانکہ تمھارے سامنے ہوتا ہے۔ مگر تم اس کی تلاش کے لیے اپنی تگ و دو جاری رکھو خواہ تمھیں کتنی ہی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اے پدر محترم! ایک ’’مردِ حق‘‘ جسے آپ ہی نے ہمارے لیے منتخب کیا تھا، کی قیادت میں ہم نے پاکستان حاصل کر لیا۔ بعدازاں جو بھی ’’مردان وزنانِ حق‘‘ ہمیں میسر آئے، آپ خود ہی بتایئے، کیا وہ آپ کے قائم کردہ معیار پر پورے اترتے تھے؟ پھر بھی آپ کے فرمان کے مطابق، ہم شجر سے پیوستہ ہیں، امید بہار رکھتے ہیں۔ اے پدرِ محترم! منیب، ولید اور اُن کی نسل کے آزردہ نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اگر تلاش کے باوجود کوئی ’’مردِ حق‘‘ نہ ملے، اگر کسی با خبر مرد کی صحبت ہمیں میسر نہ آئے، اگر صحیح قیادت ہمارے نصیب میں نہ ہو، تو ہم کیا کریں؟ میں انھیں وہی پیغام دے سکتا ہوں جو آپ نے مجھے ’’جاوید نامہ‘‘ کے آخری حصہ ’’خطاب بہ جاوید‘‘ میں دے رکھا ہے۔ غم اور دلگیری ایمان کی کمزوری ہے۔ غم نصف پیری ہے۔ نوجوانو! جب تک تم غیر اللہ سے لالچ رکھتے ہو اور جب تک اس سے کچھ نہ ملنے کے غم سے تم آزاد نہیں ہو جاتے تمھارے مسائل حل نہ ہوں گے۔ تم جاوید نہ بن سکو گے۔ یاد رکھو! حرص ہمیشہ کی محتاجی ہے پس اپنے اوپر ضبط رکھو۔ خیر اندیش یکے از فرزندانِ اقبال خ خ خ  علامہ اقبال مولانا مدنی، مولانا آزاد اور پنڈت نہرو پروفیسر فتح محمد ملک علامہ اقبالؒ اور مولانا مدنی ؒ (۱) ہمارے ایک قابلِ صد احترام دانشور ۱ نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں یہ کہہ کر ایک نئی غلط فکری کو جنم دے ڈالا ہے کہ قومیت کے مسئلے پر علامہ اقبالؒ ا ور مولانا حسین احمد مدنی ؒ ہر دو کا موقف درست تھا۔ گویا علامہ اقبالؒ کا جداگانہ مسلمان قومیت کا تصور بھی برحق ہے مگر مولانا مدنیؒ کی متحدہ ہندستانی قومیت کی حمایت بھی غلط نہ تھی۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے ایشیا میں مغربی استعمار کی تازہ ترین ریشہ دوانیوں کے پیشِ نظر اس سراسر غلط طرزِ فکر کے انتہائی خطرناک مضمرات پر غور و فکر لازم ہے۔ انڈین نیشنل کانگرس متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور کی رُو سے پورے برٹش انڈیا کو ایک ملک کی شکل میں متحد رکھنے میں کوشاں تھی۔ انگریز ایک آل انڈیا فیڈریشن کی صورت میں ایک متحدہ ہندستان کو اپنی جانشین ریاست بنانا چاہتے تھے۔ برطانوی استعمار کی اس حکمتِ عملی کو امریکی تائید و حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ ریاست برطانوی ہند کی تمام قوموں کی جداگانہ شناخت کو مٹا کر ایک متحدہ ہندستانی قوم کے تصور کی بنیاد پر ہی قائم کی جا سکتی تھی۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اسلامیانِ ہند کی تاریخ کے ایک انتہائی نازک موڑ پر متحدہ ہندستانی قوم کے تصور کو از روئے اسلام جائز قرار دے کر ہندستان کو متحد رکھنے کا اسلامی جواز مہیا کیا تھا۔ مولانا مدنیؒ کے اس فتویٰ سے آٹھ سال پہلے علامہ اقبالؒ جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر برصغیر میں جداگانہ، آزاد اور خود مختار مسلمان مملکتوں کے قیام کا تصور پیش کر چکے تھے۔ وہ اسلامیانِ ہند پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح کر چکے تھے کہ متحدہ ہندستانی قومیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی اجتماعی زندگی کو دین کی قلمرو سے نکال باہر کریں اور دین کو فقط ایک نجی معاملہ قرار دیں۔ متحدہ قومیت کا یہ تصور مسلمانوں سے اُن کی منفرد اور جداگانہ دینی شناخت سے دستبردار ہو جانے کا متقاضی ہے مگر اسلامیانِ ہند یہ راہ ہرگز نہ اختیار کریں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلامیانِ ہند نے کانگرسی علما کے فتووں کو ٹھکرا کر جداگانہ مسلمان قومیت کا تصور دل و جان سے اپنا لیا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ تصور ایک عوامی جمہوری تحریک کا سرچشمہ بن گیا۔ اس تحریکِ پاکستان نے فقط چند برس کی عوامی جدوجہد کے بعد ہندستان کی سامراجی وحدت کو توڑ کر پاکستان قائم کر لیا۔ آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فکرو خیال جس کی قوت نے برطانوی ہند کو توڑ کر پاکستان قائم کیا وہ بھی درست ہے اور وہ فکر وخیال بھی درست ہے جو برطانوی ہند کو بھارتی ہند کی شکل میں متحد رکھنے اور یوں قیامِ پاکستان کو روکنے میں ناکام رہا تو دل ڈرنے لگتا ہے، یہ کیسے مان لیا جائے کہ اقبالؒ کا تصورِ پاکستان بھی ٹھیک ہے اور اس تصورِ پاکستان کی اسلام کے نام پر تردید بھی کچھ ایسی غلط نہیں؟ یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ مغرب کی استعماری حکومتیں آخر دم تک ہندستان کی سامراجی وحدت کا دم بھرتی رہیں۔ پاکستان کا قیام صرف انڈین نیشنل کانگرس اور انتہا پسند ہندو سیاسی جماعتوں ہی کی ناکامی نہیں بلکہ برطانوی اور امریکی حکمتِ عملی کی ناکامی بھی ہے۔ چنانچہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مغربی طاقتیں ہندستان اور پاکستان کو اگر فیڈریشن نہیں تو کنفیڈریشن کی شکل میں متحد کر دینے میں کوشاں ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ایک خارجہ پالیسی اور متحدہ دفاع کی صورت میں یہ مجوزہ کنفیڈریشن (بعد ازاں فیڈریشن) ایشیا میں مغرب کے نو استعماری مفادات کی یکسوئی کے ساتھ حفاظت کا ’’فریضہ‘‘ سرانجام دے سکتی ہے۔ ان نو استعماری عزائم کی پیشِ نظر جب کوئی پاکستانی دانشور یہ کہتا ہے کہ اقبالؒ تو خیر تھے ہی ٹھیک مگر مولانا مدنیؒ بھی درست تھے تو لگتا ہے کہ ہم نے نظریاتی پسپائی کی راہ اختیار کر لی ہے۔ آج تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اقبالؒ اور مدنیؒ دونوں ٹھیک کہتے تھے۔ مگر اندیشہ یہ ہے کہ ہم جلد یا بدیر کہیں اُس مقام پر نہ آپہنچیں جہاں ہمیں یہ محسوس ہونے لگے کہ علامہ اقبالؒ بے شک ہمارے بزرگ ہیں مگر بات مولانا مدنیؒ ہی کی سچی تھی۔ گویا اسلامیانِ ہند نے پاکستان قائم کر کے ہندستان کو توڑ ڈالنے کی غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔ پھر کسی کوہِ ندا سے یہ آواز آنے لگے کہ لوگو! توبہ کا دروازہ ابھی تک کھلا ہے۔ تائب ہو کر عظیم تر ہندستان کی منزل کی جانب لوٹ آئو۔ پیشتر اس کے کہ یہ نیا فکری مغالطہ ہمیں پسپائی کے اس مقام پر لا پھینکے ہمیں قومیت کے موضوع پر اقبالؒ اور مدنیؒ کے متضاد خیالات کو ایک بار پھر تاریخی تناظر میں پرکھ لینا چاہیے۔ (۲) اپنی وفات سے فقط چند ہفتے پیشتر اقبالؒ مولانا مدنیؒ کا یہ بیان سن کر سناٹے میں آ گئے تھے کہ ’’اقوام اوطان سے بنتی ہیں‘‘۔ یہاں میں نے ’’سن‘‘ کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبالؒ کی بینائی جواب دے چکی تھی۔ ایک نوجوان طالب علم میاں محمد شفیع ہر روز علی الصبح آ کر اُن کے ساتھ ناشتہ کرتا تھا اور اخبارات پڑھ کر سُناتا تھا۔ ایک روز اخبارات کی سُرخیاں سُناتے وقت وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اقبالؒ بار بار ایک ہی خبر سُنانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اُس نے یہ خبر متعدد مرتبہ سُنائی مگر علامہ ہر مرتبہ اس خبر کو پھر سے پڑھنے کا تقاضا کر دیتے تھے۔ اس نوجوان طالب علم نے جب یہ دیکھا کہ یہ جملہ سُن کر کہ ’’اقوام اوطان سے بنتی ہیں‘‘ علامہ کا ہاتھ وہیں کا وہیں رُک گیا۔ ابھی انھوں نے ایک ہی لقمہ توڑا تھا کہ یہ فقرہ کان پڑا تو انھوں نے استفسار فرمایا کہ کیا واقعی یہ مولانا حسین احمد مدنیؒ کا قول ہے۔ جب اُس نوجوان نے اثبات میں جواب دیا تو انھوں نے لقمہ واپس پلیٹ میں رکھ دیا اور چاہا کہ وہ اس پوری خبر کو بار بار پڑھے۔ اقبالؒ سُنتے رہے اور وہ اُن کے چہرے پر در دو کرب کے آثار کو نمایاں سے نمایاں تر ہوتے دیکھتا رہا۔ اُس صبح انھوں نے نہ کسی اور خبر کی طرف دھیان دیا اور نہ ہی ناشتہ کیا۔ اُٹھ کر اپنے بستر پر لیٹ گئے اور نوجوان سے فرمایا کہ تم اب کالج چلے جائو۔ یہ نوجوان کالج سے جلد از جلد فارغ ہو کر دوبارہ علامہ اقبالؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تا کہ باقی ماندہ اخبارات بھی سنا دے مگر اُس نے انھیں انتہائی تکلیف دہ کیفیت میں پایا۔ علی بخش نے بتایا کہ اُس وقت سے لے کر اب تک نہ کچھ کھایا پیا ہے اور نہ ہی کوئی بات کی ہے۔ بیماری کی شدت کے باعث بس ایسے ہی لیٹے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی آہ یا کراہ سُنائی دے جاتی ہے۔ نوجوان گھر چلا گیا۔ شام کو پھر آیا مگر اُنھیں ویسا ہی چُپ چاپ اور گردوپیش سے لا تعلق پایا۔ حسبِ معمول شام کو ملاقاتی آتے رہے جاتے رہے علامہ دوسروں کی بات سنتے رہے مگر خود کوئی بات نہیں کی۔ دوسری صبح وہ حسب معمول اخبار سُنانے حاضر ہوا تو دیکھا کہ علامہ سو رہے ہیں اور چہرے پر اطمینان و سکون کے آثار نمایاں ہیں۔ علی بخش نے بتایا کہ علامہ نے سحر دم کاغذ اور پنسل طلب فرمائی مگر پھر سو گئے اب انھیں جگانا مناسب نہیں۔ تم سیدھے کالج چلے جائو۔ اس پر میاں محمد شفیع نے علی بخش سے کہا کہ چپکے چپکے جائو اور دیکھو کہ علامہ نے اُس کاغذ پر کچھ لکھا بھی ہے یا نہیں؟ علی بخش کاغذ لایا تو کُھلا کہ اُس پر اقبالؒ نے ’’حسین احمد‘‘ کے عنوان سے چند مصرعوں پر مشتمل ایک نظم قلم بند کر دی ہے۔ کالج سے واپسی پر اُس نے علامہ کو ہشاش بشاش پایا۔ یہ مختصر نظم دوسرے روز اُسی اخبار (روزنامہ ’’احسان‘‘ لاہور) میں شائع ہو گئی جس میں ایک روز پہلے مولانا مدنیؒ کا بیان شائع ہوا تھا۔ نوجوان محمد شفیع بعد میں ایک نامور صحافی بن گئے۔ ۳۵ برس بعد انھوں نے م۔ ش کے قلمی نام سے اپنے یہ مشاہدات ہفت روزہ Viewpoint میںThe Birth of a Stanza کے عنوان سے لکھ ڈالے۔ اپنے مشاہدات میں انھوں نے نظم ’’حسین احمد‘‘ کے اثر و نفوذ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس مختصر نظم کی اشاعت نے اسلامیانِ ہند میں عجب اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی۔ نتیجہ یہ کہ مولانا مدنیؒ کو اپنے دفاع میں نِت نئے جواز تلاش کرنا پڑے۔ مولانا کی تاویلات پر مشتمل ایک مدلل جواز نامہ ’’احسان‘‘ اخبار میں بھی شائع ہوا تھا جس میں مذکورہ بالا نظم کی لفظیات، محاکات اور استعارات پر تاویلات کے پھندے ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس نظم کو ایک مرتبہ پھر پڑھ لیا جائے:۔ عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ ز دیوبند، حسین احمد، ایں چہ بوالعجبی است سرود برسرِ ممبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر زمقامِ محمدؐ عربی است بمصطفیٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است! اقبالؒ کے کرب و اضطراب کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دارالعلوم دیوبند کی دینی خدمات کی دِل سے قدر کرتے تھے۔ وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ مولانا مدنیؒ جیسا برگزیدہ عالمِ دین اور دیوبند جیسا عظیم دارالعلوم اسلام کے سیاسی نصب العین سے اس خوفناک حد تک ناآشنا ہو گا۔ اقبالؒ کے صدمہ کی شدت کا اندازہ اُن کے اس خیال سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر مولانا مدنیؒ رموزِ دیں سے اس حد تک نابلد ہیں تو پھر پورے عجم میں اسلام کے سیاسی نصب العین سے عدم واقفیت کا ماتم کرنا چاہیے۔ یہ گویا اقبالؒ کی طرف سے دارالعلوم دیوبند اور مولانا مدنیؒ کو ایک طرح کا خراجِ تحسین ہے۔ تاہم تمام تر احترام کے باوجود اقبالؒ نے دُنیائے عجم کو مولانا کے ارشاد میں پنہاں خطرات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ ، دیوبند کے عظیم الشان دارالعلوم کے سربراہ تھے اور ایک زمانے کو اُن کی دینی خدمات کا اعتراف ہے، مگر اُن کی سیاسی لغزشیں بھی ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہیں۔ دلی عقیدت و احترام کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ مولانا حسین احمدؒ تحریکِ پاکستان کے مخالف تھے۔ ایم ۔اے ۔ ایچ اصفہانی، کل ہند مسلم لیگ کے ۱۹۳۶ء کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس منعقدہ لاہور کی یادیں قلم بند کرتے وقت مولانا کا تذکرہ درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں: مجھے یاد ہے کہ پہلے روز مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ نے مسٹر جناح کی حمایت کرتے ہوئے مسلم لیگ کو عملی سیاست کے اکھاڑے میں زیادہ فعال حصہ لینے کی تجویز کا خیر مقدم کیا مگر آخری روز ان دو علمائے دین میں سے ایک نے تجویز پیش کی کہ آیندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کو یقینی بنانے کی خاطر انتھک او رمؤثر پروپیگنڈے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر دیوبند کی مشینری مسلم لیگ کے لیے وقف کی جا سکتی ہے،بشرطیکہ لیگ اس پروپیگنڈہ مہم کے اخراجات برداشت کرے۔ ابتدائی اخراجات کے لیے پچاس ہزار روپے طلب کیے گئے۔ جناح نے صاف بتا دیا کہ نہ تو اس وقت لیگ اتنے پیسے دے سکتی ہے اور نہ آیندہ اس کی توقع ہے۔ اس پر ہر دو علمائے دین مایوس ہو کر ہندو کانگرس کی طرف راغب ہو گئے۔ ہندو کانگرس چونکہ مالی اعانت کا مطالبہ پورا کر سکتی تھی اس لیے اس کا خوب پروپیگنڈا کیا گیا۔ (قائد اعظم جناح، ایز آئی نیو ہیم، صفحات ۲۰۔۱۲) اور نوبت یہاں آ پہنچی کہ: جن کے علم و تقویٰ پر مدینے کی مہر ثبت تھی، اُن کی بابت جواہر لال کا ایک خط شائع ہو گیا کہ حسین احمد کو اتنے روپے دے چکا ہوں، اب وہ اور مانگتے ہیں۔ نہرو نے ان کے نام کے ساتھ نہ مولانا لکھا نہ جناب نہ صاحب۔ (ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: اقبالؒ اور ’ملا، صفحات ۱۷۔۱۸) اب آیئے اقبالؒ کی اس مختصر نظم کے جواب میں مولانا کے بیانات کی جانب۔ اسلام اور قومیت کے موضوع پر مولانا کے سیاسی بیانات کا دقتِ نظر کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد اقبالؒ نے روزنامہ ’’احسان‘‘ کے ۹۔ مارچ ۱۹۳۸ء کے شمارے میں مولانا کے کانگرسی اندازِ نظر میں پنہاں تباہ کن مضمرات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی تھی۔ اس بیان کی اشاعت کے بعد دونوں طرف خاموشی طاری ہو گئی تھی اور یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ مولانا نے اپنے سیاسی موقف کی وکالت ترک کر دی ہے۔ مگر ہوا یوں کہ سنہ ۱۹۴۰ء کی قرار دادِ پاکستان کے بعد مولانا حسین احمد مدنیؒ نے ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر سی کتاب تصنیف کر ڈالی۔اس کتاب میں انھوں نے متحدہ ہندستانی قومیت کی بنیاد پر اکھنڈ بھارت کے کانگرسی موقف کے اسلامی جواز پیش کر رکھے ہیں۔ مولانا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کا تصور اور پاکستان کی تحریک ہر دو اسلام کے منافی ہیں اس لیے اسلامیانِ ہند کو مسلم لیگ کی بجائے انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہو کر اپنے وطن ہندستان کو متحد رکھنا چاہیے۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ علامہ اقبالؒ اپنے بستر مرگ سے ہی علمائے ہند کے ساتھ اسلام اور قومیت کے موضوع پر اپنا آخری فکری معرکہ سر کر گئے تھے۔ اس موضوع پر مولانا مدنیؒ کے جواب میں علامہ اقبالؒ کا بیان اُن کا آخری سیاسی بیان ہے۔ اس بیان میں اقبالؒ کا استدلال بے مثال سیاسی بصیرت اور نادر و نایاب دینی شعور کی یکجائی سے پھوٹا ہے۔ اقبالؒ کا کہنا یہ ہے کہ اگر وطن اتحادِ انسانی کی بنیاد ہوتا تو آنحضورﷺ اسلام کی سر بلندی کی خاطر اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت نہ کرتے۔ آنحضورﷺ کی ہجرت میں یہ دینی و سیاسی رمز بھی پوشیدہ ہے کہ اسلام میں قومیت کا بنیادی اور اٹل اصول روحانی یگانگت ہے نہ کہ وطنی اشتراک۔ ہر چند قوم وطن سے نہیں بنتی مگر قوم کو ایک وطن کی ضرورت ہوتی ہے اسی ضرورت کے پیش نظر اقبالؒ نے جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر پہلے پاکستان کا تصور دیا اور پھر اس تصور کو ایک عوامی جمہوری تحریک میں بدلنے کا سامان کیا۔ اس تحریک نے بالآخر متحدہ قومیت اور متحدہ ہندستان کے تصور کو رد کر کے ہماری روحانی یگانگت کو برگ و بار لانے اور پھلنے پھولنے کے لیے یہ خطۂ پاک عطا کیا جس میں بیٹھے آج ہم اس چیستان کو حل کرنے میں کوشاں ہیں کہ قومیت کے مسئلے پر اگر اقبالؒ کا موقف بھی درست تھا او رمولانا مدنیؒ کا فتویٰ بھی ٹھیک تھا تو کیونکر؟ نہیں صاحب! اقبالؒ ٹھیک تھے اور مولانا مدنیؒ غلط تھے۔ بات یہ ہے کہ مولانا مدنیؒ بھی ان ہی علمائے کرام میں سے ایک ہیں جو تحریکِ خلافت کی ناکامی اور ترکی میں نظامِ خلافت کی تنسیخ کے بعد اسلام کے اجتماعی مقدر سے مایوس ہو کر انڈین نیشنل کانگرس کی سر پرستی میں چلے گئے تھے۔ انھی برگزیدہ علمائے دین اور ان کی سیاسی جماعتوں کی جانب زیر لب اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنے خطبۂ الہ آباد میں یہ کہنا ضروری سمجھا تھا کہ: To address this session of the All-India Muslim League you have selected a man who is not despaired of Islam as a living force for freeing the outlook of man from its geographical limitations, who believes that religion is a power of the utmost importance in the life of indivduals as well as States, and finally who believes that Islam is itself a Destiny and will not suffer a destiny. Such a man cannot but look at matters from his own point of view". یہاں اقبال کا زیرِ لب اشارہ قابل غور ہے۔ یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ ۱۹۳۰ء میں ایک اقبالؒ کو چھوڑ کر باقی تمام مسلمان قائدین اسلام کے اجتماعی مقدر سے عملاً مایوس تھے۔ بیشتر مذہبی سیاسی جماعتیں براہِ راست یا بالواسطہ متحدہ ہندستان کا دم بھرنے میں مصروف تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے مولانا مدنیؒ کے سیاسی موقف کی تردید کرتے ہوئے اپنی آخری نثری تحریر میں یہ کہنا ضروری سمجھا تھا کہ: یورپ کی ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریۂ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگِ عظیم میں کامیاب بھی ہو گئی اور اس کی انتہا یہ ہے کہ ہندستان میں اب مسلمانوں کے بعض دینی پیشوا بھی اس کے حامی نظر آتے ہیں۔ زمانے کا اُلٹ پھیر بھی عجیب ہے ایک وقت تھا کہ ہم مغرب زدہ پڑھے لکھے مسلمان تفرنج میں گرفتار تھے اب علما اس لعنت میں گرفتار ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دینی پیشوائوں میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سے جدیدیت پسند علما بھی شامل ہیں۔ ہر دونے قرار داد پاکستان کے بعد اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کا ڈول ڈالا۔ مولانا سندھیؒ نے ترکی میں اپنی جلاوطنی کے زمانے میں ہی اسلامی اتحاد کے خوابوں سے دستبرداری کا کھلم کھلا اعلان کر دیا تھا۔ استنبول سے انہوں نے ریاست ہائے متحدہ ہندستان کا جو خاکہ شائع کیا تھا اُس میں انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ اُن کی جلاوطن سوراجیہ ہند پارٹی، انڈین نیشنل کانگرس ہی کا ایک ذیلی گروہ ہے جو مذہب کو فقط ذاتی زندگی کے دائرے تک محدود رکھتے ہوئے لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر ہندستان کو دس ریاستوں کے ایک وفاق کی صورت میں متحد رکھنے کا خواہاں ہے۔ اسلامیانِ ہند میں قرار دادِ پاکستان کی روز افزوں مقبولیت کے زمانے میں جب انہوں نے ’’جمنا، نربدا، سندھ، ساگر پارٹی‘‘ قائم کی تب بھی ایک متحدہ ہندستان کی بقا ہی کو اپنا سیاسی مسلک قرار دیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ’’مسئلہ قومیت‘‘ کے عنوان سے اپنے کتابچے میں جداگانہ مسلمان قومیت سمیت ہر نوع کی قومیت کو اسلام سے متصادم ٹھہرایا اور تحریکِ پاکستان کے حامیوں اور رہنمائوں کو بھی کانگرسی مسلمانوں ہی کی مانند گردن زدنی ٹھیرایا۔ مودودی صاحب کے خیال میں اسلام اور قومیت میں بنیادی تضاد ہے۔ اپنی کتاب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کی جلد سوم میں انھوں نے ’’جداگانہ مسلم قومیت (یعنی پاکستان) کے تصور کو ایک غیر اسلامی بلکہ اسلام دشمن تصور‘‘ قرار دیا ہے۔ یہاں مجھے بے ساختہ اقبالؒ کا وہ تلخ سوال یاد آگیا ہے جو انہوں نے درج ذیل شعر میں اُٹھایا تھا:۔ مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دور کے مُلا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی؟ مولانا حسین احمد مدنیؒ کے جواب میں علامہ اقبالؒ نے اس تلخ حقیقت کا واشگاف اعلان کیا ہے کہ ’’اب علما اس لعنت میں گرفتار ہیں‘‘۔ چونکہ اقبالؒ کا ہم عصر مُلا اسلام کے لیے باعثِ ننگ و عار بن کر رہ گیا ہے اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اقبالؒ اُس پر اسلام کی حقیقی روح کو منکشف کریں۔ فرماتے ہیں:۔ جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے اُس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نگاہ کو یکسر بدل کر اُس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے… مولانا حسین احمد عالمِ دین ہیں اور جو نظریہ انھوں نے قوم کے سامنے پیش کیا ہے اُمتِ محمدیہ کے لیے اُس کے خطرناک عواقب سے وہ بے خبر نہیں ہو سکتے… آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اس توضیح سے دو غلط اور خطرناک نظریے مسلمانوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان بحیثیت قوم اور ہو سکتے ہیں اوربحیثیت ملت اور، دوسرا یہ کہ ازروئے قوم چونکہ وہ ہندستانی ہیں اس لیے مذہب کو علیحدہ چھوڑ کر انھیں باقی اقوامِ ہند کی قومیت یا ہندستانیت میں جذب ہو جانا چاہیے… یعنی یہ کہ مذہب اور سیاست جدا جدا چیزیں ہیں۔ اس ملک میں رہنا ہے تو مذہب کو محض انفرادی اور پرائیویٹ چیز سمجھو اور اس کو افراد تک ہی محدود رکھو سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو کوئی دوسری علیحدہ قوم تصور نہ کرو اور اکثریت میں مدغم ہو جائو۔ ہندستان میں دین و وطن کی اس کشمکش پر اسلام کی انقلابی تعلیمات کی روشنی ڈالتے ہوئے اقبالؒ، مولانا مدنیؒ کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ:۔ حضور رسالت مآبؐ کے لیے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابولہب یا ابوجہل یا کفارِ مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بُت پرستی پر قائم رہو، ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے ہیں مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر جو ہمارے اور تمھارے درمیان موجود ہے ایک وحدت عربیہ قائم کی جا سکتی ہے۔ اگر حضورؐ نعوذ باللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبی آخر الزماں کی راہ نہ ہوتی۔ نبوت محمدیہ کی غایت الغایات یہ ہے کہ ایک ہئیتِ اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانونِ الہٰی کے تابع ہو جو نبوت محمدیہ کو بارگاہِ الہٰی سے عطا ہوا تھا… یقین جانیے کہ دینِ اسلام ایک پوشیدہ اور غیر محسوس حیاتی اور نفسیاتی عمل ہے جو بغیر کسی تبلیغی کوششوں کے بھی عالمِ انسانی کے فکر و عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے عمل کو حال کے سیاسی مفکرین کی جدت طرازیوں سے مسخ کرنا ظلم عظیم ہے، بنی نوع انسان پر اور اس نبوت کی ہمہ گیری پر جس کے قلب و ضمیر سے اس کا آغاز ہوا۔ اس بیان میں اقبالؒ نے یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر واضح کر دی ہے کہ حبِ وطن اور چیز ہے اور وطنیت اور چیز۔ وطن ایک خطۂ خاک ہے جس پر انسان اپنی عارضی زندگی بسر کرتا ہے۔ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ اسلام حبِ وطن کو برحق قرار دیتا ہے مگر وطنیت کے جدید فرنگی نظریے کو رد کر دیتا ہے۔ وطنیت کے اس سیاسی تصور کا حبِ وطن کے فطری جذبے سے کوئی تعلق نہیں:۔ زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں ’’وطن‘‘ کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے چونکہ اسلام بھی ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے جب لفظ ’’وطن‘‘ کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہو رہا ہے۔ مولانا حسین احمد صاحب سے بہتر اس بات کو کون جانتا ہے کہ اسلام ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ وطنیت ایک جدید فرنگی نظریہ ہے جس کے انسان دشمن مضمرات کو اقبالؒ نے اپنے اس آخری سیاسی بیان سے ربع صدی پیشتر اپنی نظم ’’وطنیت‘‘ میں بے نقاب کیا تھا۔ حب وطن اور وطنیت کے تضادات کو نمایاں کرنے کے لیے اقبالؒ نے اپنی اس نظم کو ایک ذیلی عنوان بھی دیا ہے جو یوں ہے: ’’یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘‘۔ آیئے آگے بڑھنے سے پہلے اس نظم پر بھی ایک نظر ڈال لیں:۔ اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور ساقی نے بِنا کی روشِ لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے غارت گر کاشانۂ دینِ نبوی ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے! ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزادِ وطن صورتِ ماہی ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبؐ الہٰی دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے اقبالؒ نے اپنی اس نظم میں جغرافیائی قومیت کی استعماری بنیادوں کو بڑے سادہ، سلیس اور مؤثر انداز میں بے نقاب کیا ہے۔ جغرافیائی قومیت (وطنیت) کی سیاسی آئیڈیالوجی کی بنیاد حبِ وطن نہیں بلکہ تجارتی لوٹ کھسوٹ اور سیاسی جبرو استبداد ہے۔ تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے، کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے۔ مزید برآں خلقِ خدا کو یہ آئیڈیالوجی متحارب اقوام میں بانٹ کر اسلامی قومیت کی آفاقی جڑ کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اقبالؒ اس نظریاتی وطنیت کو ایک ایسا بُت قرار دیتے ہیں جسے مغربی سامراج نے تراشا ہے۔ اسلام اس بُت کی پرستش کی اجازت نہیں دیتا۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ محبوبِ خداؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس سیاسی وطنیت کے تصور کو ٹھکرا دیں۔ دینِ اسلام ہی مسلمانوں کا حقیقی وطن ہے۔ وطن اور وطنیت کے فرق کو نمایاں کرتے ہوئے اقبالؒ بڑی قطعیت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ:۔ گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے اقبالؒ وطنیت کے سیاسی تصور پر مبنی ہندستانیت کو رد کرتے وقت ارضی اشتراک کی بجائے روحانی یگانگت کو اپنی قومیت کی بنیاد ٹھہراتے ہیں۔ اقبالؒ نے اپنی فارسی اور اردو شاعری میں جداگانہ مسلمان قومیت کا یہ تصورپیش کرتے وقت ہمیشہ آنحضورؐ کے طرزِ فکر و عمل کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے۔ ’’اسرار و رموز‘‘ سے لے کر ارمغانِ حجاز تک انھوں نے محمدﷺ سے وفاداری بشرطِ استواری ہی کو حقیقی اسلام قرار دیا ہے۔ اپنی اردو نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں انہوں نے خُدا کی زبان سے یہ نوید سنائی ہے کہ: کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں اپنے آخری سیاسی بیان میں بھی اقبالؒ نے قومیت کے مسئلے پر مولانا حسین احمد مدنیؒ کے موقف کی ’’نبوتِ محمدیہ کی غایت الغایات‘‘ کے حوالے سے ہی تردید کی ہے۔ یہ غایت ایک ایسے آفاقی انسانی معاشرے کا قیام ہے ’’جس کی تشکیل اس قانونِ الہٰی کے تابع ہو جو نبوت محمدیہ کو بارگاہِ الہٰی سے عطا ہوا تھا‘‘۔ متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور کو اپنا کر ہندو اکثریت کے متحدہ ہندستان میں اسلام کی بنیاد پر کسی ایسے آفاقی انسانی معاشرے کا قیام ہرگز ہرگز دائرہ امکان میں نہیں۔ ایسے میں مسلمانوں پر دو ہی راستے کھلے ہیں۔ یا تو وہ ترکِ اسلام کی راہ اپنا کر ہندو تہذیب میں جذب ہو جائیں اور یا پھر ہندستانی وطنیت کے بُت کو توڑ کر جُدا گانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر اپنے لیے ایک الگ خطۂ زمین کے حصول کی تحریک چلائیں۔ اگر خدانخواستہ ، ہندی مسلمان فکرِ اقبال سے روشنی لینے کی بجائے مولانا حسین احمد مدنیؒ اور اُن کے ہمعصر کانگرسی علماکے فتوئوں کے جال میں اسیر ہو جاتے تو یہ بلاشبہ ترکِ اسلام کی راہ ہوتی۔ پہلے اسلام کا سیاسی نصب العین ترک کر کے ہندستانیت کا سیکولر سیاسی نصب العین اپناتے اور پھر رفتہ رفتہ اسلام کا اخلاقی نصب العین بھی ترک کرکے، حضرت مجدد الف ثانیؒ کے لفظوں میں ’’مسلمانانِ ہندومزاج‘‘ بن کر رہ جاتے۔ سرکردہ علمائے دین کا متحدہ ہندستانی قومیت پر ایمان لے آنا یا دوسرے لفظوں میں ’سب سے پہلے ہندستان‘ اور ’آخر میں اسلام‘ کا سیاسی مسلک اپنا لینا ایک ایسی دلخراش حقیقت تھی جو پایانِ عمر، اقبالؒ کے لیے سوہانِ روح بن کر رہ گئی تھی۔ جداگانہ مسلمان قومیت اور متحدہ ہندستانی قومیت کے مابین نظریاتی آویزش کو اقبالؒ نے دین و وطن کی کشمکش یا روح و بدن کی معرکہ آرائی کا نام ہے۔ دین کے اجتماعی مسلک سے بیشتر علمائے دین کی کنارہ کشی کے ہولناک نتائج کا خیال کر کے اقبال کا دِل کانپ اٹھتا تھا۔ ایسے میں وہ تڑپ کر یہ سوال اُٹھایا کرتے تھے کہ: بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن اس زمانے میں کوئی حیدرِ کرار بھی ہے؟ یہ اقبال کی شاعری اور اقبال کی فکر کا فیضان ہے کہ جب متحدہ ہندستانی قومیت یا جداگانہ مسلمان قومیت یعنی متحدہ ہندستان یا قیامِ پاکستان میں سے کسی ایک راہِ فکر و عمل کے انتخاب کا وقت آیا تو سوادِ اعظم نے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی قیادت میں قیامِ پاکستان کی حمایت کی۔ یوں بالآخر اسلامیانِ ہند کی اجتماعی رائے نے کانگرسی علماء کے تصورِ اسلام کو رد کرتے ہوئے اقبال کے تصورِ اسلام کو اسلام کی حقیقی تعبیر مان لیا۔ اس حقیقی اسلام کی سر بلندی کی خاطر ۱۹۴۷ء میں پاکستان قائم تو ہو گیا مگر آج تک پاکستان میں اسلام کی اس انقلابی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کا سامان نہ ہو سکا۔ یہ اسی غفلت کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے ہاں پھر سے اُسی شکست خوردہ ذہنیت کے مظاہر سامنے آ رہے ہیں جن کا مشاہدہ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی متذکرہ بالا علما کی ذہنیت میں کر چکی ہے۔ تب اور اب میں فرق صرف اتنا ہے کہ کل اگر چند علما فرنگی نظریات کو مشرف بہ اسلام کرنے میں سرگرداں تھے تو آج یہ کام علما کی بجائے جدیدیت پسند دانشور کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں زمانے کا اُلٹ پھیر! علامہ اقبال اور مولانا آزاد (۲) علامہ محمد اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد عہدِ حاضر کے دو عظیم اسلام شناس ہیں۔ دین کی تفہیم و تعبیر میں ہر دو شخصیات کے ہاں گہری مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور شدید اختلاف بھی۔ اقبال نے جہاں اپنے سیاسی فکر و عمل میں ہندستانیت سے اسلامیت کی جانب پیش قدمی کی وہاں مولانا آزاد نے اسلامیت سے ہندوستانیت کی جانب مراجعت کا راستہ اختیار کیا۔اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے مولانا آزاد کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے سے انکار کر دیا اور اقبال کی جدید دینی تعبیر کو اپنا کر قائداعظم کی قیادت میں پاکستان قائم کر لیا۔ اجمالی کے اس سیاسی ردو قبول سے قطع نظر اقبال اور ابوالکلام آزاد ہر دو برصغیر کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ دونوں کو عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ محترمہ سیدین حمید نے اپنی حالیہ کتاب Islamic Seal on India's Independence, آکسفورڈ ۱۹۹۸ء میں مولانا آزاد کی حیات و خدمات پر ایک تازہ نظر ڈالتے وقت اُن کی شخصیت کو اقبال کے درج ذیل شعر سے اجاگر کیا ہے:۔ نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے! لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اقبال کا یہی شعر قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت وکردار کا جلی عنوان ٹھہرا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہر دو شخصیات کے پاس ’’نگہ بلند ، سخن دل نواز، جاں پر سوز‘ کا رختِ سفر موجود تھا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اسلامیانِ ہند نے اپنی قومی زندگی کے ایک انتہائی نازک مرحلے پر مولانا آزاد کی سیاسی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر جناح کی سیاسی قیادت پر بھر پور اعتماد کا ثبوت دیا تھا۔ اور یوں مولانا آزاد اپنی تمام تر عظمت کے باوجود یوسف بے کارواں ہو کر رہ گئے تھے۔ مولانا، خود اپنے کارواں سے بے نیاز ہو کر ایک مختصر مدت کے لیے متحدہ ہندستانی قومیت کے کارواں کا ہر اول تو ضرور بن گئے تھے مگر بالآخر یہ حقیقت اُن پر روشن ہو گئی تھی کہ ہندستانی قومیت کا کارواں بھی انہیں پیچھے چھوڑ کر کہیں دور، بہت دور، چلا گیا ہے اور وہ فقط ایک درماندہ راہ رَو کی صدائے درد ناک بن کر رہ گئے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی فکری اور سیاسی جدوجہد بڑے واضح، متعین اور قطعی انداز میں تین الگ الگ ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلا دور آغازِ کار سے لے کر ۱۹۲۰ء تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسرا دور ۱۹۲۰ء سے لے کر قیام پاکستان تک اور تیسرا دور قیام پاکستان سے دمِ واپسیں تک۔ مولانا کی زندگی کے پہلے دور میں اقبال کا شمار اُن کے مداحوں میں ہوتا تھا۔ جبکہ دوسرے دور میں دونوں کے سیاسی فکر و عمل کے راستے الگ الگ ہو گئے تھے۔ شدید فکری اور سیاسی اختلاف کے اِس دور میں بھی ہر دو شخصیات میں سے کسی ایک نے بھی دوسرے کے خلاف کبھی لب کشائی نہیں کی۔ دونوں کے مابین عزت و احترام کی خاموش فضا ہمیشہ قائم رہی۔ مولانا آزاد نے جب ۱۹۱۲ء میں کلکتہ سے اپنے اخبار ’’الہلال‘‘ کی ابتدا کی تو اقبال اِس قدر خوش ہوئے کہ انھوں نے ’’الہلال‘‘ کے دس خریدار بنائے۔ پھر جب ’’الہلال‘‘ برطانوی حکومت کے احتساب کی زد میں آ کر ۱۹۱۴ء میں بند ہو گیااور مولانا نے اُس کی جگہ ’’البلاغ‘‘ جاری کیا تو اس کے پہلے شمارے کے سرورق پر انھوں نے اقبال کی نظم شائع کی۔ مولانا غلام رسول مہر کے بقول ’’اِس نظم کے اعتراف عظمت کے لیے یہی شہادت کافی ہے کہ’’الہلال‘‘ کے اڑھائی برس یا ’’البلاغ‘‘ کے چند مہینوں اور ’’الہلال‘‘ دورِ دوم کے چھ ماہ میں علامہ کی اس نظم کے سوا نہ تو کبھی کوئی نظم پہلے صفحے پر شائع ہوئی اور نہ ہی کبھی کسی نظم کے لیے پورا صفحہ وقف کیا گیا۔‘‘ اقبال کی یہ نظم عرفی کے اِس شعر پر تمام ہوتی ہے:۔ نوا را تلخ ترمی زن، چو ذوقِ نغمہ کمیابی حدی را تیز ترمی خواں، چو محمل را گراں بینی اقبال کی یہ نظم اس بات کی شاہد ہے کہ دورِ اول کے ابوالکلام آزاد کے فکر وعمل کو اقبال تحسین کی نظر سے دیکھتے تھے۔ دین کی تفہیم و تعبیر میں ہر دو شخصیات کی فکری مماثلت کا اندازہ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ میں شائع ہونے والے مولانا کے مضامین اور اقبال کی شاعری سے کیا جا سکتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے مضمون ’’حقیقت اسلام‘‘ میں بڑے دو ٹوک انداز میں اسلام کی حقیقت کو ان الفاظ میں منکشف فرمایا ہے:۔ یہی وہ اصل اسلام ہے جس کو قرآن جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اسلام کی جگہ جہاد اورکبھی جہاد کی جگہ اسلام، کبھی مسلم کی جگہ مجاہد اور کبھی مجاہد کی جگہ مسلم بولتا ہے۔ اس لیے کہ حقیقت جہاد، اپنا سب کچھ اس کے لیے قربان کر دینا ہے۔ ہر وہ کوشش و سعی جو اس کی خاطر ہو وہ جہاد ہے۔ خواہ ایثار ہو، جاں کی سعی ہو یا قربانی مال و اولاد کی جدوجہد او ریہی حقیقت اسلام ہے کہ اپنا سب کچھ اس کے سپرد کر دیا جائے۔ پس جہاد اور اسلام ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں اور ایک ہی معنی کے لیے دو مترادف الفاظ ہیں۔ یعنی اسلام کے معنی جہاد ہیں اور جہاد کے معنی اسلام ہیں۔ پس کوئی ہستی مسلم ہو نہیں سکتی جب تک مجاہد نہ ہو اور کوئی مجاہد ہو نہیں سکتا جب تک مسلم نہ ہو۔ اسلام کی لذت اس بدبخت کے لیے حرام ہے جس کا ذوق ایمانی لذت جہاد سے محروم ہو اور زمین پر گو اس نے اپنا نام مسلم رکھا ہو لیکن اس کو کہہ دو کہ آسمانوں میں اس کا شمار کفر کے زمرے میں ہے۔ آج جب ایک دنیا لفظ جہاد کی دہشت سے کانپ رہی ہے جبکہ عالم مسیحی کی نظروں میں یہ لفظ عفریت مہیب یا ایک حربۂ بے امان ہے، جبکہ اسلام کے مدعیان نبوت نصف صدی سے کوشش کر رہے ہیں کہ کفر کی رضا کے لیے اہل اسلام کو مجبور کریں کہ وہ اس لفظ کو لغت سے نکال دیں جبکہ بظاہر انھوں نے کفر واسلام کے درمیان ایک راضی نامہ لکھ دیا کہ اسلام لفظ جہاد کو بھلا چکا ہے۔ لہٰذا کفر اپنے تو حش کو بھول جائے تاہم آج کل کے ملحد مسلمین اور مفسدین کا ایک حزب الشیطان بے چین ہے کہ بس چلے تو یورپ سے درجہ تقرب و عبودیت حاصل کرنے کے لیے تحریف الکلم عن مواضعہ کے بعد سرے سے اس لفظ کو قرآن سے نکال دے تو پھر یہ کہا ہے کہ میں جہاد کو صرف ایک رکن اسلامی، ایک فرض دینی، ایک حکم شریعت بتلاتا ہوں حالانکہ میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام سے اگر جہاد کو الگ کر لیا جائے تو وہ ایک ایسا لفظ ہو گا جس میں معنی نہ ہوں۔ ایک اسم ہو گا جس کا مسمی نہ ہو۔ گویا ترک جہاد کی تلقین ترک اسلام کی تعلیم کے مترادف ہے۔ اس مضمون کو پڑھتے وقت مجھے اقبال کی آخری طویل نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ بے ساختہ یاد آئی۔ اس ڈرامائی نظم کے ایک منظر میں شیطان دنیائے اسلام کے خلاف اپنی سازشوں کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے: اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج صوفی و ملاّ ملوکیت کے بندے ہیں تمام کس کی نومیدی پہ حجّت ہے یہ فرمانِ جدید ’’ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پر حرام‘‘ جب برطانوی استعمار نے جہاد کے خلاف یہ فتویٰ خوب خوب مشتہر کیا تو اس کی تردید میں اقبال نے اپنی نظم ’’جہاد‘‘ لکھی: فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟ مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود وبے اثر تیغ و تفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر! یہ تو تھا اسلام کی حقیقت کا بیاں، اب آیئے اسلام میں قومیت کے تصور کی جانب۔ مولانا اپنے مضمون بعنوان ’’امتِ مسلمہ: تاسیس اور نشات ثانیہ‘‘ میں فرماتے ہیں :۔ حضرت ابراہیمؑ جس عظیم الشان قوم کا خاکہ تیار کر رہے تھے اس کا مایۂ خمیر صرف مذہب تھا اور اس کی روحانی ترکیب عنصر آب و ہوا کی آمیزش سے بالکل بے نیاز تھی… انھوں نے جو قوم پیدا کر دی تھی اُسی کے اندر سے ایک پیغمبر اُٹھا اُس نے اس گھر میں سب سے پہلے خدا کو ڈھونڈھنا شروع کیا لیکن وہ اینٹ پتھر کے ڈھیر میں بالکل چھپ گیا تھا۔ فتح مکہ نے اس انبا رکو ہٹا دیا تو خدا کے نور سے قندیل حرم پھر روشن ہو گئی۔ وہ قوم جس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعا فرمائی اس پیغمبر کے فیض صحبت سے بالکل مزدکی و تربیت یافتہ ہو گئی تھی… جب اسلام نے اس جدید النشاۃ قوم کے وجود کی تکمیل کر دی اور خانہ کعبہ کی ان مقدس یادگاروں کی روحانیت نے اس کی قومیت کے شیرازہ کو مستحکم کر دیا تو پھر ملت ابراہیم کو فراموش کردہ روشنی دکھا دی گئی۔ اپنے ایک اور مضمون ’’وحدت اجتماعیہ‘‘ میں ’’مسلمانوں کی قومیت‘‘ کو ایک جسم سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایک عضو میں درد ہو تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے اور اس کی بے چینی اور تکلیف میں اس طرح حصہ لیتا ہے جیسے خود اس کے اندر درد اُٹھ رہا ہے۔‘‘ اسی زمانے کے ایک اور مضمون بعنوان ’’ملتِ ابراہیمی : تجدید و تاسیس‘‘ میں مولانا نے یورپی تصور قومیت کی تردید کی، جغرافیائی اور وطنی قومیت کے علمبرداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسلامیان ہند کو وطنیت کے خطرات سے آگاہ کیا: حضرات! غور سے سنو کہ قوم افراد سے مرکب ہے کہ ایک جماعتی مسلک میں تمام افراد منسلک ہو جائیں اور وحدت و اتحاد پر افراد کی شیرازہ بندی کی جائے۔ ہم یورپ کے اجتماعی طریقوں کی نقالی کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے بھی آخر حیات اجتماعی کے لیے کوئی نظم ہمیں دیا تھا یا نہیں۔ اگر دیا تھا اور ہم نے اسے ضائع کر دیا ہے تو یورپ کی دریوزہ گری سے پہلے خود اپنی کھوئی چیز کیوں نہ واپس لے لیں اور سب سے پہلے اسلام کا قرار دادہ نظام جماعتی کیوں نہ قائم کریں… ہمارا طریقِ عمل تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم تمام طرف سے آنکھیں بند کر کے حکمتِ اجتماعیہ نبویہ کو اپنا دستور العمل بنا لیں، شریعت کے کھوئے ہوئے نظام کو از سرِ نو قائم و استوار کریں۔ تاکہ اس طرح سے اسلام کی مٹی ہوئی سنتیں زندہ ہو جائیں… ہمارے سامنے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے قرآن کی راہ ہم تو صرف ملتِ ابراہیمی کی اطاعت کریں گے اور دوسری کوئی راہ نہیں جس کی ہم اطاعت کر سکیں۔ اپنے اسی مضمون کے آخر میں مولانا کہتے ہیں کہ ’’ہمارے عقیدے میں ہر وہ خیال جو قرآن کے سوا کسی تعلیم گاہ سے حاصل کیا گیا ہو کفر صریح ہے۔ افسوس کہ لوگوں نے اسلام کو کبھی بھی اُس کی اصلی عظمت میں نہیں دیکھا ورنہ پولیٹیکل پالیسی کے لیے نہ تو گورنمنٹ کے دروازے پر جھکنا پڑتا اور نہ ہندوئوں کی اقتدا کرنے کی ضرورت پیش آتی، بلکہ اُسی سے سب کچھ سیکھتے جس کی بدولت تمام دُنیا کو آپﷺ نے سب کچھ سکھلایا تھا۔‘‘ مضمون کی ان آخری سطروں تک پہنچا تو مجھے اس ستم ظریفی کا شدت سے احساس ہوا کہ ۱۹۲۰ء کے بعد رفتہ رفتہ خود مولانا نے تو قرآنِ حکیم سے اخذ کردہ اپنی ان تعلیمات سے روگردانی کرتے ہوئے اپنی ’’پولیٹیکل پالیسی‘‘ میں ہندوئوں کی پیروی کا راستہ اپنا لیا تھا مگر اقبال اپنے دمِ واپسیں تک اس حکمتِ قرآنی کی روشنی میں سرگرمِ عمل رہے۔ اس کی ایک مثال اقبال کا وہ آخری سیاسی بیان ہے جو انھوں نے وطنی قومیت کے حق میں مولانا حسین احمد مدنی کے فتویٰ کی تردید میں دیا تھا اور جس کا بنیادی استدلال مولانا ابوالکلام آزاد کے متذکرہ بالا مضمون میں پیش کیے گئے استدلال سے گہری مماثلت ہی نہیں رکھتا بلکہ ایک گونہ یکسانیت کا حامل ہے۔ اسلامی قومیت کے موضوع پر مولانا کے متذکرہ بالا خیالات کی اشاعت سے برسوں پہلے اقبال نے اپنی شاعری اور اپنی نثر میں برصغیر میں جغرافیائی اور وطنی قومیت کی بڑی مؤثر تردید کر رکھی تھی۔ ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے سے اجتہادی مضامین کے ساتھ ساتھ اگر ’’وطنیت‘‘ کی سی نظموں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اقبال اور ابوالکلام کی گہری فکری مماثلت سامنے کی بات معلوم ہو گی۔ اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ وہ قرآنِ حکیم میں پیش کردہ لافانی حکمتوں اور ابدی صداقتوں کی عصری معنویت منکشف کرنے کے ساتھ ساتھ عہد حاضر کے سیاسی عمرانی نظریات کی سامراجی اساس کو بھی منہدم کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ مولانا کا استدلال سراسر دینیاتی ہے۔ آزاد عہدِ ملوکیت کے مجتہدین کی من مانی مذہبی تاویلات کی روایت میں اسیر ہیں، جبکہ اقبال ایک جدید تنقیدی اندازِ نظر کے ساتھ اس فقہی روایت کو پرکھنے کے خوگر ہیں۔ آزاد کی فکر پر ملوکیت کی گہری چھاپ ہے۔ اپنے مضمون ’’وحدت اجتماعیہ‘‘ میں وہ ’’جماعت‘‘ کو ’’اسلام کا دوسرا نام‘‘ قرار دیتے ہیں اور ’’جماعت سے علیحدگی کو جاہلیت اور حیاتِ جاہلی سے تعبیر‘‘ کرتے ہیں۔ وہ جماعت کو ایک امیر کے تابع رکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں احادیث سے سند لاتے ہیں:۔ بکثرت وہ احادیث و آثار موجود ہیں جن میں نہایت شدت کے ساتھ ہر مسلمان کو ہر حال میں التزام جماعت اور اطاعت امیر کا حکم دیا گیا ہے۔ اگرچہ امیر غیر مستحق ہو، نااہل ہو، فاسق ہو، ظالم ہو، کوئی ہو۔ بشرطیکہ مسلمان ہو اور نماز قائم رکھے۔ اسی بات کو وہ اپنے مضمون ’’مرکزیت قومیہ‘‘ میں مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ حکمران اور امام کی آمریت کو برحق ثابت کرنے کی خاطر مولانا قرونِ وسطیٰ کی مذہبی تاویلات کو عہدِ جدید پر منطبق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’نہایت قوی اور روشن دلائل موجود ہیں کہ اُولیِ اْلاَمْرِ سے مقصود مسلمانوں کا خلیفہ و امام ہے جو کتاب و سنت کے احکام نافذ کرنے والا، نظامِ امت قائم رکھنے والا اور تمام اجتہادی امور میں صاحب حکم و سلطان ہے۔‘‘ اس فکرِ ملوکانہ کے برعکس اقبال سلطانی جمہور کے قائل ہیں۔ وہ اسلام کو ملوکیت کی چھاپ سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنے عہد کے مسلمانوں کو سلاطین و ملوک کی چاکری میں مصروف امامانِ وقت سے خبردار رہنے کا درس دیتے ہیں: فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اُس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے مولانا ابوالکلام آزاد ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے دور میں جس سیاسی نظریہ سازی میں مصروف تھے اُس کی رو سے ہندی مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا دینی فریضہ تھا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر ایک قوم بن جائیں اور فقط ایک امیر کی اطاعت میں سرگرمِ عمل رہیں۔ اس نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر انھوں نے اپنے ایک ہم قفس اور ہم نفس مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کو سرگرمِ عمل بھی کر دیا تھا۔ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی دو کتابوں ’’آزادی کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘‘ اور ’’ذکرِ آزاد‘‘ میں بتایا ہے کہ اُس زمانے میں مولانا آزاد خود امام الہند بننے میں کوشاں تھے۔ آزاد کی شدید تمنا اور ملیح آبادی کی انتھک دوڑ دھوپ کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تھی۔ جب ترکی میں خلافت کو بچانے کے لیے ہندی مسلمانوں نے برطانوی حکومت کے خلاف ایک زبردست عوامی تحریک کا آغاز کیا تو مولانا آزاد نے اِس تحریک میں بڑا مؤثر قائدانہ کردار ادا کیا۔ بنگال خلافت کانفرنس کے اجلاس (منعقدہ ۲۸، ۲۹ فروری ۱۹۲۰ئ) کے صدارتی خطبے میں مولانا آزاد نے ترکی خلیفہ کو مسلمانوں کا روحانی پیشوا قرار دیا، اُس کی نافرمانی کو شریعت کے منافی ثابت کیا اور اُس کی حمایت کو مسلمانوں کا دینی فرض ٹھہرایا، اِس خطبے میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد اپنا ایک امام مقرر کریں اور اُس کی قیادت میں نظامِ خلافت کو بچانے کا اسلامی فرض سرانجام دیں۔ اقبال اس نقطۂ نظر کو دین اسلام کی حقیقی روح سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک مروجہ نظام خلافت ملوکیت کا ایک پردہ ہے اور بس۔ چنانچہ انھوں نے اپنی نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں ترکی خلافت کی تنسیخ کا خیر مقدم کیا اور اس خلافت کے اختتام میں حقیقی اسلام کے طلوع کے آثار دیکھے۔ اقبال مسلمان ممالک کو ملوکیت کے جبرواستبداد سے آزاد اور روحانی جمہوریت کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نہ تو کسی ایک امام کو سند مانتے ہیں اور نہ ہی کسی خلیفہ کی آمریت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کو دینی فرض شمار کرتے ہیں۔ خلافت اور کانگرس کے اشتراکِ عمل کے زمانے میں مولانا آزاد کے جن نظریات میں کایا کلپ ہوئی اُن میں سرِفہرست اسلام کا سیاسی مقدر ہے۔ اُن کے ایک سوانح نگاروی۔ این۔ دتہ کے لفظوں میں: Before 1920 Azad had defined the collective identity of the Muslim community in terms of Islam. But so far his had been an individual stand. Now with the emergence of Khilafat Movement he received institutional support for his own thinking. The die was cast and there was no turning black! It was cast and there was no turning black! It was during the Non-Cooperation Movement that he began to think of Hindus and Muslims forming `Ummat-I-Wahida' (one nation).Thereafter he became a grand agitator and an ardent spokesman of the nationalist cause.2 کہاں تو ’’الہلال‘‘ میں پوری دُنیائے اسلام کو ایک اُمت اور ترکی کی ’’خلافتِ عظمیٰ‘‘ کو اس کا مرکز قرار دیا جا رہا تھا اور ثابت کیا جا رہا تھا کہ قومیت کا ’’خمیر صرف مذہب‘‘ ہے اور کہاں اب مسلمانوں اور ہندوئوں کو ’’اُمت واحدہ‘‘ ثابت کرنے کے لیے اسلامی دلائل مہیا کیے جا رہے ہیں۔ مولانا آزاد نے ہندوئوں اور مسلمانوں کی متحدہ قومیت کے حق میں میثاق مدینہ کی ایک نئی تعبیر پیش کی ہے۔ اپنے اس نئے استدلال میں وہ موحدین اور مشرکین کی حد فاصل کو بھی پھلانگ گئے ہیں۔ میثاق مدینہ میں سب اہل کتاب شامل تھے۔ توحید کا بنیادی تصور میثاق مدینہ کی مشترکہ اساس تھا مگر برطانوی ہند میں تو ایک خدا کے ماننے والوں کا بہت سے خدائوں کے پرستاروں سے واسطہ تھا۔ ذات پات اور چھوت چھات کی خدائی تقسیم اس پر مستزاد۔ عقل حیران ہے کہ مولانا آزاد نے متحدہ ہندستانی قومیت کے سیکولر تصور کو منوانے کے لیے اسلام کو درمیان میں لانا کیوں ضروری سمجھا؟ تحریکِ خلافت سے قیام پاکستان تک مولانا آزاد ہندو مسلم اتحاد ہی نہیں بلکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی ’’امت واحدہ‘‘ یعنی متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور کا پرچار کرتے رہے۔ وہ مسلمانوں کے الگ قومی وجود کو ہندوئوں کے قومی وجود میں جذب کر دینے کے لیے مذہبی دلائل اور شرعی حیلے تراشتے رہے۔ اگر آپ سیدہ سیدین حمید کی کتاب Islamic Seal on India's Independence (آکسفورڈ ۱۹۹۸ئ) کی ورق گردانی کریں تو ان تمام دلائل اور حیل کی تفصیلات آپ کے سامنے آ جائیں گی۔ ایسے میں اگر آپ کو اقبال کا درج ذیل شعر یاد آ جائے تو کچھ تعجب نہیں: قلندر جز دو حرفِ لاالہ، کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا اقبال مرتے دم تک ’اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے‘ اور ’اگر بہ اونہ رسیدی تمام بولہبی است‘ کا ورد ہی کرتے رہے۔ اُن کے خیال میں اسلامیانِ ہند کی بقا اور ارتقا کا راز ہندوستانی قومیت کی نفی اور جداگانہ مسلمان قومیت کے اثبات میں پوشیدہ ہے۔ اس کے برعکس مولانا آزاد ، مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو اور سردار پٹیل سے بھی زیادہ راسخ العقیدہ ہندوستانی قوم پرست ثابت ہوئے۔ اپنی کتاب India Wins Freedom (پہلی اشاعت ۱۹۸۸ئ) میں انکشاف کرتے ہیں کہ جب انہوں نے پہلی مرتبہ پٹیل، نہرو اور گاندھی کی زبانی دو قومی نظریہ کی صداقت کی وکالت سُنی تو اُن کے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ لکھتے ہیں:۔ I was surprised and pained when Patel in reply said that whether we liked it or not, there were two nations in India. He was now convinced that Muslims and Hindus could not be united into one nation. There was no alternative except to recognise this fact. After a few days Jawaharlal came to see me again. He began with a long preamble in which he emphasised that we should not indulge in wishful thinking but face reality. Ultimately he came to the point and asked me to give up my opposition to partition....But when I met Gandhiji again, I received the greatest shock of my life to find that he had changed. What surprised and shocked me even more was that he began to repeat the arguments which Sardar Patel had already used. ۳ گویا جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے اور یوں مولانا آزاد کی سیاسی تصوریت حقیقی زندگی کے تلخ حقائق کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی۔ اب انھیں رہ رہ کر وہ زمانے یاد آنے لگے جب اُن کے نزدیک اُمتِ واحدہ‘ کا مطلب تھا: ملتِ اسلامیہ اور قوم کا مطلب تھا ’اسلامیان ہند‘۔ یہ وہ زمانے تھے جب اقبال اور آزاد میں فکری ہم آہنگی تھی۔ ہر دو اپنی قوم یعنی اسلامیانِ ہند کے مقدر کو سنوارنے کی دُھن میں سرگرم عمل تھے۔ اگر آزاد میر کا رواں یا امام الہند بن کر مسلمان قوم کو صراط مستقیم پر لا ڈالنے میں کوشاں تھے تو اقبال ’حدی راتیز ترمی خواں چو محمل را گراں بینی کے ساز پر نغمہ زن تھے: میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا سفینۂ برگِ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا کے پار ہو گا یہ تاریخ کی بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ مولانا آزاد جس وفاداری بشرطِ استواری کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کے نصب العین پر قائم رہے وہ مہاتما گاندھی کے سے انسان دوست اور جواہر لال نہرو کے سے روشن خیال ہندوئوں میں بھی مفقود تھی۔ خود مہاتما گاندھی نے بارہا مولانا کی نیت پر شبہ کیا۔ کیبنٹ مشن کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہندو لیڈروں کا مولانا آزاد پر عدم اعتماد کُھل کر سامنے آ گیا تھا۔ وی۔ این۔ دتہ اپنی کتاب ’’مولانا آزاد‘‘ (ص ۷۶ ۱ اور ۱۷۷) میں لکھتے ہیں:۔ Gandhi mistrusted Azad because he had been carrying on negotiations with the Cabinet Mission without the knowledge of his colleagues. Azad was replaced by Nehru as President of the Congress.... A man of moderate disposition, Azad was not influential enough to change the attitude of his colleagues towards the Cabinet Mission Plan....... Azad's advice to Congress leadership was disregarded and his hopes for the preservation of the unity of India were shattered. The Montatten Plan of Partition was accepted by the Congress working Committee on 2 June, 1947. The atmosphere in the Committee was tense. Abdul Ghaffar Khan voted against the Partition Plan. Azad whispred to him with bitter irony, 'You should now join the League.' For the rest, sitting in a corner he uttered not a word and was puffing away at his endless cigarettes. سیدہ سیدین نے مولانا آزاد کے ایک دیرینہ رفیق، انصر ہروانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد آزاد ایک ایسے دل شکستہ شخص کی سی زندگی بسر کرنے لگے تھے جسے کسی چیز میں بھی کوئی خاص دلچسپی باقی نہیں رہی تھی۔ (ص ۲۸۲)۔ یہ بات صرف اس حد تک ٹھیک ہے کہ اب انھیں کانگرسی سیاست سے کوئی گہرا لگائو نہ رہا تھا۔ اب اُن کی ساری توجہ بھارتی مسلمانوں پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھی۔ یہاں سے اُن کی فکری اور سیاسی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ ۲۴۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کا خطبہ گویا اُن کی سیاسی زندگی کے تیسرے اور آخری دور کا منشور ہے۔ نمازِ جمعہ کا یہ خطبہ جامع مسجد دہلی میں دیا گیا تھا۔ یہاںا نہوں نے جس ’’قوم‘‘ سے خطاب کیا وہ صرف بھارتی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ سیدین حمید نے عبارت، اشارت اور ادا میں اس خطبے کو ’’الہلال‘‘ کے زمانے کے خطبات سے مماثل قرار دیا ہے۔ (ص ۲۸۳)۔ میرے خیال میں یہ مماثلت فقط زبان و بیان اور خطابت تک محدود نہیں ہے۔ ’’الہلال‘‘ کے دور میں مولانا کے ہاں ’’قوم‘‘ سے مراد تھی اسلامیانِ ہند ۔ تقسیم ہند کے بعد مولانا کا یہ پہلا خطاب اپنی قوم یعنی بھارتی مسلمانوں کی اجتماعی ہستی کی بقا اور ارتقا کے موضوع پر مولانا کے اندیشہ ہائے دور و دراز پر مشتمل ہے۔ یہ عہد آفریں خطبہ ’’واسوخت‘‘ سے شروع ہو کر تجدیدِ عہد پر تمام ہوتا ہے۔ اپنے آتش زدہ گھروں کی راکھ سے اٹے ہوئے چہروں پر فسادات کی دہشت کی تحریریں سجائے دِلی کے مسلمان جوق در جوق مرکزی جامع مسجد میں آ بیٹھے تھے۔ تحفظ اور امن کی تلاش میں سرگرداں مسلمانوں کے اس ہجوم سے مولانا نے اپنا خطاب اس ہجوم کی غفلت اور انکار سے شروع کیا۔ مولانا کو سب سے بڑا گِلا اس بات کا تھا کہ اسلامیانِ ہند نے اُن کی سیاسی پیروی سے انکار کر دیا تھا۔ یہ اسی انکار کا نتیجہ ہے کہ:۔ سچ پوچھو تو میں ایک جمود ہوں، یا ایک دور افتادہ صدا جس نے وطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گزاری ہے۔ مولانا وطن میں رہتے ہوئے اس لیے غریب الوطن ہو کر نہیں رہ گئے کہ خود اُن سے اپنی سیاسی راہ عمل کے انتخاب میں کوئی غلطی سرزد ہو گئی تھی، اُن کے ایک ’’دور افتادہ صدا‘‘ بن کر رہ جانے کا سبب یہ ہے کہ اسلامیانِ ہند نے اُن کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ اسی انکار کا نتیجہ ہے کہ آج اُن کی زندگی ہندو اور سکھ غارت گروں کے رحم و کرم پر موقوف ہو کر رہ گئی ہے۔ اس طرح کے گلوں شکووں کو مختصر کرتے ہوئے مولانا اس سوال پر آ کر رُک گئے: پس چہ باید کرد…… اب کیا کیا جائے؟ اس سوال کا جواب ’’الہلال‘‘ کے پیغام کی باز گشت ہے۔ اپنے دلوں سے خوف کو نکال دو، اپنے چہروں کو دہشت کی راکھ سے صاف کر دو، سچے مسلمان بن جائو، تاکہ دوبارہ سربلند ہو سکو۔ تم اُن مسلمانوں کی اولاد ہو جو فاتحین بن کر برصغیر میں داخل ہوئے تھے اور جنہوں نے یہاں جمنا کے پانیوں میں آ کر وضو کیا تھا… چالیس برس پہلے ’’الہلال‘‘ اسی پیغام کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ اس تیسرے دورِ عمل میں مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاست ایک زخمی شیر کی زندگی سے عبارت ہے۔ جب بھی کبھی کسی نے بھارتی مسلمانوں کی تہذیبی ہستی کو مجروح کرنے کی کوشش کی تو مولانا آزاد ایک بپھرے ہوئے شیر کی مانند اُس پر جھپٹ پڑے۔ اس کی ایک مثال پارلیمنٹ میں پرشوتم ڈاس ٹنڈن کی تقریر پر مولانا کا جذباتی رد عمل ہے۔ ٹنڈن صاحب نے وزارتِ تعلیم کی جانب سے شبلی اکیڈمی کی گرانٹ پر اعتراض کیا تھا۔ مولانا آزاد نے اپنی جوابی تقریر میں تنگ نظر اور متعصب ہندوئوں کی ذہنیت کی شدید مذمت کی اور ایوان کو یاد دلایا کہ ہندوئوں کی اسی ذہنیت نے قیامِ پاکستان کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اپنی آخری تقریر میں مولانا آزاد نے جواہر لال نہرو سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اُردو کو ایک قومی زبان کا مقام دینے کا آئینی تقاضا پورا کرنے میں مزید تاخیر سے کام نہ لیں۔ مولانا کے تعلیمی اور تہذیبی فکرو عمل سے فرقہ پرست ٹنڈن ہی نہیں، قوم پرست گاندھی بھی اختلاف رکھتے تھے۔ مہاتما گاندھی نہیں چاہتے تھے کہ وزارتِ تعلیم کا قلمدان مولانا کے سپرد کیا جائے (دتہ: ص ۲۲۴)۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مولاا آزاد نے بھارتی سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی بے مثال جرأت کے ساتھ کی اور اس سلسلے میں بڑی سے بڑی کانگرسی شخصیت کو بھی کبھی خاطر میں نہ لائے۔ لاتے بھی کیوں؟ انہوں نے سامراج دشمن سیاسی کارواں کی قیادت کا بارِامانت اُس وقت سنبھالا تھا جب مہاتما گاندھی کی سی شخصیات بھی انگریزوں کے لیے فوجی بھرتی کے پروپیگنڈے میں مصروف تھیں۔ جو شخص ہمیشہ برطانوی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق ادا کرتا رہا وہ بھارتی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر چھوٹے بڑے نظریاتی حریفوں کو اگر گھاس کے ایک تنکے سے بھی کم اہمیت دے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ اپنے اپنے جداگانہ سیاسی فکر و عمل کے باوجود، علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد، ہر دو عہد آفریں شخصیات ہماری اپنی ہیں۔ دونوں کی جہدِ حیات برصغیر کے مسلمانوں کا سرمایۂ افتخار ہے۔ اگر اقبال نے پورے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم قرار دیا تو آزاد نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک متحدہ قوم کی صورت دینے میں ناکام ہو کر بالآخر بھارتی مسلمانوں ہی کو اپنی قوم سمجھا۔ یہاں پہنچ کر دونوں کی سیاسی فکر میں پھر سے وہی گہری مماثلت پیدا ہو گئی تھی جو ’’الہلال‘‘ کے اجرا کے وقت موجو د تھی۔ علامہ اقبالؒ اور پنڈت نہرو (۳) یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ تصورِ پاکستان کی تردید اور تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں جو سوالات ۱۹۴۰ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک اٹھائے گئے تھے اور تحریکِ پاکستان کے دوران جن کی بڑی مؤثر اور محکم تردید کر دی گئی تھی، وہی سوالات آج پاکستان میں پھر سے اُٹھائے جا رہے ہیں۔ یومِ اقبال کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریبات میں پنڈت نہرو کے اس الزام کی گونج ایک دفعہ پھر سنائی دی کہ اقبال اپنی زندگی کے دورِ آخر میں سوشلزم کے زیرِ اثر تصورِ پاکستان سے دستبردار ہو گئے تھے۔ روزنامہ ’’ڈان‘‘ (۸ ۔مئی ۲۰۰۲ئ) کے ایک مراسلہ نگار، جناب نثار حسین نے مجھ سے یہ تقاضا کیا ہے کہ میں اس اُلجھن کو سلجھائوں۔ تعمیلِ ارشاد کے طور پر یہ چند سطور پیش خدمت ہیں۔ پنڈت نہرو کا یہ الزام سر اسر غلط ہے۔ اُن کا یہ الزام لا علمی پر نہیں بلکہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ پنڈت جی نے یہ بات اپنی کتاب The Discovery of India میں لکھی تھی۔ یہ کتاب انھوں نے ۱۹۴۴ء میں قلعہ احمد نگر کے زنداں میں بیٹھ کر رقم فرمائی تھی۔ اس کتاب میں انھوں نے بطور شاعر اور مفکر اقبال کے فیضان کی تحسین فرمائی ہے۔ مگر اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرتے وقت وہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ اقبال ’’ایک شاعر، عالم اور فلسفی تھے اور پُرانے جاگیرداری نظام سے وابستہ تھے‘‘۴۔ جن لوگوں نے اقبال کی شاعری، فلسفہ اور سیاست کا سرسری نظر سے بھی کم مطالعہ کیا ہے وہ بھی اس صداقت کی گواہی دیں گے کہ اقبال کے عہد میں جاگیرداری نظام کا اقبال سے بڑا دشمن ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :۔ اقبال پاکستان کے اولین حامیوں میں سے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس تجویز کی لغویت اور اُن خطرات کو محسوس کر لیا تھا جو اس تجویز میں مضمر ہیں۔ ایڈورڈ ٹامسن نے لکھا ہے کہ ایک ملاقات کے دوران میں اقبال نے ان سے یہ کہا کہ انھوں نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں صدر کی حیثیت سے پاکستان کی حمایت کی تھی مگر ان کو یقین تھا کہ یہ تجویز مجموعی طور پر ہندستان اور خصوصاً مسلمانوں کے لیے مضر ہے۔ شاید انھوں نے اپنا خیال بدل دیا تھا یا پہلے اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت تک اس نے کوئی اہمیت نہیں حاصل کی تھی۔ ان کا عام نظریہ زندگی پاکستان یا تقسیم ہند کے اس تصور کے ساتھ جو بعد میں پیدا ہوا، ہم آہنگ نہیں تھا۔ آخر عمر میں اقبال کا رجحان اشتراکیت کی طرف بڑھتا گیا۔ سوویٹ روس کی زبردست کامیابی نے ان کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعری کا رُخ بدل گیا۵۔ جب پنڈت جی نے اپنی کتاب میں درج بالا عبارت لکھی اُس سے تین برس پہلے قائداعظم کے دیباچہ کے ساتھ قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط شائع ہو چکے تھے۔ یہ انگریزی کتاب یقینا پنڈت جی کی نظر سے گزر چکی ہو گی۔ اس کتاب میں شامل ۲۸۔ مئی ۱۹۳۷ء کا وہ طویل خط بھی شامل ہے جس میں پنڈت جی کی ’’بے خُدا سوشلزم‘‘ کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمان تو رہے ایک طرف، خود ہندو معاشرہ بھی اس بے خدا سوشلزم کو ہرگز قبول نہ کرے گا۔ پنڈت جی کی سوشلزم کو رد کرتے وقت اقبال نے قائداعظم کو بتایا ہے کہ اگر اسلامی شریعت کو دورِ حاضر کے معاشی نظریات کی روشنی میں از سرِ نو تفسیر کیا جائے تو مسلمان عوام کی روٹی روزگارکا مسئلہ بہتر طور پر حل ہو سکتا ہے۔ مسلمان عوام کو غربت کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی الگ قانون ساز اسمبلی ہو اور یہ اسمبلی متحدہ ہندستان کی بجائے ایک الگ خود مختار مملکت میں قائم ہو سکتی ہے۔ اس خط کے مندرجات زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ:۔ اول: اقبال جواہر لعل کی بے خُدا سوشلزم پر اسلام کے اقتصادی نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوم: اسلام کے اقتصادی نظام کو عہدِ جدید کے سیاق و سباق میں نافذ کرنے کے لیے جداگانہ مسلمان مملکت کا قیام ضروری ہے۔ سوم: اپنی وفات سے فقط چند ماہ پہلے قائداعظم کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ قیامِ پاکستان کو کل ہند مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنا لیں۔ چہارم : اس خط کے آخر میں قائداعظم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ وقت نہیں آ پہنچا جب ہمیں کھل کر قیامِ پاکستان کو اپنی منزل قرار دے دینا چاہیے؟ اقبال کی وفات سے تین ماہ پیشتر پنڈت نہرو نے میاں افتخار الدین کے ہمراہ جاوید منزل میں علامہ اقبال سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کی خوشگوار یادیںبھی اس کتاب میں موجود ہیں۔ پنڈت جی نے جو واقعہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا اُسے ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ میں بیان کر دیا ہے۔ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:۔ پنڈت نہرو اُس زمانے میں زور شور سے سوشلزم کا پراپیگنڈا کرنے میں مصروف تھے۔ انڈین نیشنل کانگرس کے دو اجلاسوں کے وہ صدر رہ چکے تھے اور دونوں مرتبہ اپنے خطبات صدارت میں انھوں نے کہا تھا کہ ہندستان کے تمام مصائب کا علاج سوشلزم ہے لیکن کانگرس کے بڑے بڑے لیڈروں میں کوئی شخص بھی اس بارے میں پنڈت نہرو کا معاون یا ہم خیال نہیں تھا بلکہ سردار پٹیل ، راج گوپال اچاری اور ستیہ مورتی نے تو علی الاعلان پنڈت نہرو کے اس عقیدے سے اختلاف کا اظہار کیا تھا۔ دورانِ ملاقات ڈاکٹر صاحب نے پنڈت نہرو سے پوچھا کہ ’سوشلزم کے بارے میں کانگرس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں؟‘ پنڈت جی نے جواب دیا کہ ’نصف درجن کے قریب‘۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ ’تعجب ہے۔ خود آپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیالوں کی تعداد صرف نصف درجن ہے۔ ادھر آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہو جانے کا مشورہ دوں تو کیا میں دس کروڑ مسلمانوں کو چھ آدمیوں کی خاطر آگ میں جھونک دوں۔‘ اس پر پنڈت جی خاموش ہو گئے۶۔ اسی ملاقات میں ایک ناگوار واقعہ بھی پیش آیا تھا جو پنڈت جی نے تو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ہاں، البتہ، بٹالوی صاحب نے بیان کر دیا ہے:۔ ابھی ان دو عظیم المرتبت انسانوں کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ یکایک میاں افتخار الدین بیچ میں بول اُٹھے کہ ’ڈاکٹر صاحب! آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے؟ مسلمان، مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔‘ ڈاکٹر صاحب لیٹے ہوئے تھے۔ یہ سنتے ہی غصے میں آ گئے اور اُٹھ کر بیٹھ گئے اور انگریزی میں کہنے لگے: ’اچھا‘ تو چال یہ ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں اور میں تو اُن کا ایک معمولی سپاہی ہوں‘۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہو گئے اور کمرے میں تکدر آمیز سکوت طاری ہو گیا۔ پنڈت نہرو نے فوراً محسوس کر لیا کہ میاں افتخار الدین کے دخل در معقولات نے ڈاکٹر صاحب کو ناراض کر دیا ہے اور اب مزید گفتگوجاری رکھنا بے سود ہے۔ چنانچہ وہ اجازت لے کر رخصت ہو گئے۷۔ نہ معلوم یہ باتیں پنڈت جی کے ذہن سے محو ہو گئی تھیں یا انھوں نے ان باتوں کو ناخوشگوار اور اپنی سیاسی آئیڈیالوجی کی تردید سمجھ کر اپنی کتاب میں درج کرنا مناسب نہ سمجھا۔ حیرت یہ ہے کہ انھوں نے ان ناقابلِ فراموش یادوں کو تو آسانی کے ساتھ فراموش کر دیا مگر ایڈورڈ تھامسن کی گپ شپ کو ناقابلِ تردید تاریخی صداقت کا درجہ دیا۔ ایڈورڈ تھامسن آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے اُستاد تھے اور تاریخِ ہند سے بھی علمی شغف رکھتے تھے۔ وہ دو مرتبہ انگلستان کے اخبار مانچسٹرگارڈین کے نامہ نگار کے روپ میں بھی برٹش انڈیا تشریف لائے تھے۔ مہاتما گاندھی، رابندر ناتھ ٹیگور، راج گوپال اچاری، سردار پٹیل اور جواہر لعل نہرو کے ساتھ اُن کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ جہاں وہ ہمیشہ مسلم لیگ کی مخالفت میں سرگرم رہتے تھے وہاں کانگرس کی پُرجوش وکالت کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ جس روایت کا سہارا لے کر پنڈت جی نے اقبالؒ پر الزام تراشی کی ہے وہ ایڈورڈ تھامسن اور علامہ اقبالؒ کی زبانی گفتگو پر مبنی ہے۔ تھامسن صاحب موصوف کا یہ بیان قائداعظم کے نام اقبال کے متذکرہ بالا خطوط کی دستاویزی شہادت کے ساتھ ساتھ اقبال نہرو ملاقات کے مندرجہ بالا احوال و مقامات کی بنیاد پر جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ اقبال آخر دم تک اپنے تصورِ پاکستان کو قیامِ پاکستان کی صورت میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں سرشار رہے۔ قائداعظم کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت میں سرگرمِ عمل رہے اور اسلامیانِ ہند کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ میری زندگی کی دُعائیں مانگنے کی بجائے محمد علی جناح کی زندگی کی دُعائیں مانگو۔ صرف جناح ہی قوم کی کشتی کو ساحلِ مُراد تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں: نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے (۲) نظریاتی اختلاف کے باوجود علامہ اقبالؒ اور پنڈت نہرو کے درمیان ہمیشہ باہمی احترام کے تعلقات قائم رہے۔ ہر دو شخصیات ایک دوسرے کی قدر دان تھیں۔ پنڈت نہرو نے ۳۳۔۱۹۳۲ء کی گول میز کانفرنس لندن میں شریک نہ ہو سکے مگر انھوںنے مسلمان مندوبین کے طرزِ فکروعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ کانگرس کی نمایندگی مہاتما گاندھی نے کی تھی۔ مہاتما جی نے واپسی پر کہا کہ انھوں نے تو ذاتی طور پر مسلمانوں کے تمام مطالبات کو قبول کر لیا تھا مگر سیاسی رجعت پسندی کی وجہ سے مسلمانوں نے کانفرنس کو ناکام بنا دیا۔ نہرو نے گاندھی جی کی باتوں میں آ کر مسلمان مندوبین کے خلاف ایک سیاسی بیان داغ دیا۔ اقبال نے گاندھی جی کے اس الزام کی تردید میں جواہر لعل نہرو کے بیان کا جواب دیا۔ اقبال نے اپنا بیان ان الفاظ کے ساتھ شروع کیا تھا:۔ میں پنڈت جواہر لعل نہرو کے خلوص اور صاف گوئی کی ہمیشہ سے قدر کرتا رہا ہوں۔ مہاسبھائی معترضین کے جواب میں جو تازہ ترین بیان انھوں نے دیا ہے، اس سے خلوص ٹپکتا ہے اور یہ چیز آج کل کے ہندستانی سیاستدانوں میں کمیاب ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں جو گول میز کانفرنسیں لندن میں منعقد ہوئی ہیں اُن میں شریک ہونے والے مندوبین کے رویے کے متعلق انھیں پورے حالات معلوم نہیں۸۔ اس خوش گمانی کے اظہار کے فوراً بعد اقبال نے اصل حالات کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ مہاتما جی نے مسلمانوں کے مطالبات کو ذاتی طور پر ماننے کا عندیہ تو دیا تھا مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ وہ ا س بات کی کوئی حتمی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کانگرس کی مجلسِ انتظامیہ بھی ان مطالبات کو تسلیم کر لے گی۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ کانگرس انھیں ان مطالبات کے سلسلے میں مکمل اختیار دینے کے لیے کبھی تیار نہ ہو گی۔ گویا عملاً گاندھی جی نے مسلمانوں کے تمام مطالبات کو رد کر دیا تھا۔ مسٹر گاندھی کی دوسری غیر منصفانہ شرط یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے مخصوص مطالبات کی حمایت ترک کر دیں مگر مسلمانوں نے اچھوتوں کی حمایت سے دستبر داری سے انکار کر کے گاندھی جی کو ناراض کر دیا تھا۔ گاندھی جی کے اس رویے کی حمایت میں پنڈت جی کی لب کشائی پر اقبال حیرت زدہ رہ گئے۔ چنانچہ اپنے اس بیان میں انھوںنے یہ سوال اُٹھایا :۔ اپنے زبان زدِ عام سوشلسٹ خیالات کے پیش نظر پنڈت جواہر لعل نہرو اس انسانیت کش شرط کی کیسے حمایت کریں گے؟… کم از کم انھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کو سیاسی معاملات میں رجعت پسندی کا الزام دیں۔ اس صورت میں وہ لوگ جو ہندوئوں کے فرقہ پرستانہ مقاصد کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس نتیجے پر پہنچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پنڈت جی فرقہ وارانہ فیصلے کے خلاف ہندومہا سبھا کی جاری کردہ مہم میں ایک سرگرم رُکن ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف پنڈت جواہر لعل نہرو کا دوسرا الزام یہ تھا کہ مسلمان ہندستانی قومیت کے مخالف ہیں۔ اس کے جواب میں اقبال نے کہا:۔ اگر قومیت سے اُن کی مراد یہ ہے کہ مختلف مذہبی جماعتوں کو حیاتیاتی معنوں میں ملا جُلا کر ایک کر دیا جائے تو پھر خود میں ہی اس نظریۂ قومیت سے انکار کا مجرم ہوں… میں پنڈت جواہر لعل نہرو سے ایک سیدھا سا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ جب تک اکثریت والی قوم دس کروڑ کی اقلیت کے کم سے کم تحفظات کو جنھیں وہ اپنی بقا کے لیے ضروری سمجھتی ہے، نہ مان لے اور نہ ہی ثالث کا فیصلہ تسلیم کرے بلکہ واحد قومیت کی ایسی رٹ لگاتی رہے جس میں صرف اس کا اپنا ہی فائدہ ہے ہندستان کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ اس سے صرف دو صورتیں نکلتی ہیں۔ یا تو اکثریت والی ہندستانی قوم کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مشرق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برطانوی سامراج کی ایجنٹ بنی رہے گی۔ یا پھر ملک کو مذہبی، تاریخی اور تمدنی حالات کے پیش نظر اس طرح تقسیم کرنا ہو گا کہ موجودہ شکل میں انتخابات اور فرقہ وارانہ مسئلے کا سوال ہی نہ رہے۹۔ پنڈت نہرو کے بیان کے جواب میں دیا گیا اقبال کا یہ بیان یقینی طور پر پنڈت جی کی نظر سے گزرا ہو گا۔ اس بیان میں از اول تا آخر اقبال کا ترقی پسند، وسیع النظر اور انسان دوست مسلک نمایاں ہے۔ سارے کا سارا استدلال برٹش انڈیا کی خود مختار ممالک میں تقسیم کی حمایت میں ہے۔ یہ بیان تصورِ پاکستان کی نفی سے نہیں بلکہ اثبات سے عبارت ہے۔ ایسے میں پنڈت جی کا یہ کہنا کہ سنہ ۳۰ کے بعد اقبال اپنے تصور پاکستان سے دستبردار ہو گئے تھے، دیانت داری پر مبنی نظر نہیں آتا۔ جب پنڈت نہرو نے ’’ماڈرن ریویو‘‘ (کلکتہ) میں دُنیائے اسلام کی صورتِ حال پر تین مضامین میں وطنیت اور لادینیت کے فروغ کا خیر مقدم کیا تو اس کے جواب میں اقبال نے بھی ماڈرن ریویوہی میں پنڈت جی کی فکری گمراہی کو راست فکری میں بدلنے کا سامان کیا۔ اپنے طویل مضمون کے آغاز میں اقبال نے برملا اعلان کیا :۔ میں اس بات کو پنڈت جی اور قارئین سے پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتا کہ پنڈت جی کے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کا ایک دردناک ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ جس انداز میں انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اُس سے ایک ایسی ذہنیت کا پتا چلتا ہے جس کو پنڈت جی سے منسوب کرنا میرے لیے دشوار ہے۔ وہ اپنے دل میں مسلمانانِ ہند کے مذہبی اور سیاسی استحکام کو پسند نہیں کرتے۔ ہندستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کو کچل ڈالا ہے اس بات کو گوارا نہیں کرتے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں میں احساسِ خودمختاری پیدا ہو۱۰۔ اقبال کا یہ تجزیہ کہ پنڈت جی کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کو کچل ڈالا ہے، وقت نے بہت جلد سچ ثابت کر دکھایا۔ جب پنڈت جی کے دل میں برصغیر کی زندگی کے ٹھوس حقائق کا احساس جاگ اُٹھا تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں بھی ٹھوس حقائق یعنی قیامِ پاکستان کی حقیقت کو قبول کرنے کا مشورہ دینے لگے۔ مولانا آزادؒ نے اپنی تصنیف India Wins Freedom میں اس بات کا ذکر یوں فرمایا ہے:۔ After a few days Jawaharlal came to see me again. He began with a long preamble in which he emphasized that we should not indulge into wishful thinking, but face reality. Ultimately he came to the point and asked me to give up opposition to partition.۱۱ اسلامیانِ ہند نے ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی کے سے سیاسی خواب پرستوں کو زندگی کے جن حقائق کا احساس دلا دیا تھا، اقبال نے برسوں پہلے پنڈت جی کو اُن حقائق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی تدبر کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے حقائق سے فرار کرنے کی بجائے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن سے پنجہ آزما ہوا جائے۔ اپنے زیر نظر مضمون میں بھی علامہ اقبال نے جداگانہ مسلمان قومیت کے سوال پر دوٹوک انداز میں اظہارِ خیال کیا تھا۔ اقبال نے اسلامیان ہند کے سیاسی مسلک پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی تھی:۔ اگر قومیت کے معنی حب الوطنی اور ناموس وطن کے لیے جان تک قربان کرنے کے ہیں تو ایسی قومیت مسلمانوں کے ایمان کا ایک جزو ہے۔ اس قومیت کا اسلام سے اس وقت تصادم ہوتاہے جب کہ وہ ایک سیاسی تصور بن جاتی ہے اور اتحاد انسانی کا بنیادی اصول ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام شخصی عقیدے کے پسِ منظر میں چلا جائے اور قومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصر کی حیثیت سے باقی نہ رہے… جداگانہ مسلمان قومیت کا سوال صرف ان ممالک میں پیدا ہوتا ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور جہاں قومیت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا دیں۔ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں، اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیدا کر لیتا ہے کیونکہ یہاں اسلام اور قومیت عملاً ایک ہی چیز ہے… میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامیانِ ہند کسی ایسی سیاسی تصوریت کا شکار نہیں بنیں گے جو اُن کی تہذیبی وحدت کا خاتمہ کر دے گی۔ اگر اُن کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو جائے تو ہم اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ مذہب اور حب الوطنی میں ہم آہنگی پیدا کر لیں گے۱۲۔ اقبال کا یقین کامل بالکل درست نکلا۔ اسلامیانِ ہند نے، بالآخر، متحدہ ہندستانی قومیت کی سیاسی تصوریت کو پا در ہوا ثابت کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان قائم کر لیا۔ اُن کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو گئی اور یوں پاکستان میں اسلام سے عشق اور وطن سے محبت میں کوئی تضاد باقی نہ رہا۔ اب ہمارا دین اسلام ہے اور ہمارا وطن دارالاسلام ہے۔ خ خ خ حوالے ۱۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، بحوالہ اقبال میموریل لیکچر، ۲۰۰۲ئ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد۔ ۲۔ مولانا آزاد (انگریزی)، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص ۱۰۷۔ ۳۔ ص ۲۰۲، ۲۰۳، ۲۰۵۔ ۴۔ تلاش ہند (اردو ترجمہ)، لاہور، ۱۹۹۲ء ، ص ۴۹۹۔ ۵۔ ایضاً۔ ص ۴۵۱ ۶۔ ’’اقبال کے آخری دو سال ‘‘پہلا ایڈیشن، ۱۹۶۱ء ، صفحات ۵۴۸۔۵۴۹۔ ۷۔ ایضاً ۔ ص ۵۴۹۔۵۵۰۔ ۸۔ لطیف احمد خان شروانی، حرفِ اقبال، اسلام آباد، ۱۹۸۴ء ، ص ۲۰۵۔ ۹۔ ایضاً، ص ۱۲۰۔ ۱۰۔ ایضاً، ص ۲۰۷ اور ۲۰۸۔ ۱۱۔ India Wins Freedomص ۱۸۵ ۱۲۔ حرف اقبال، ص ۱۴۵، ۱۴۶ اور ۱۴۷۔  کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔کلام اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ (الف) اعلام اور تلمیحات : یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات، مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ (ب) مشکلات… یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح ، توضیح اورتفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہل علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہو سکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جا سکتا، مجروح نہ ہو۔ تکنیکی اور فنی محاسن یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص جگہ پر اقبال کے پیش نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آ جائیں گے۔ o ذیل میں فرہنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جا رہے ہیں۔ ص نمبر۲۸۶ کلیات وہ سکوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب جس سے روشن تر ہوئی چشمِ جہاں بینِ خلیلؑ ۱۔ اشارہ ہے ابراہیم علیہ السلام کے اس مشہور واقعے کی طرف جو سورۂ انعام کی آیات ۷۶۔۷۹ میں بیان ہوا ہے۔ پھر جب اندھیرا کر لیا اس (ابراہیمؑ) پر رات نے، دیکھا اُس نے ایک ستارہ۔ بولا : ’’یہ ہے رب میرا!‘‘ ۔ پھر جب وہ غائب ہو گیا تو بولا: ’’میں پسند نہیں کرتا غائب ہو جانے والوں کو‘‘… پھر جب دیکھا چاند چمکتا ہوا، بولا: ’’یہ ہے رب میرا!‘‘ … پھر جب وہ غائب ہو گیا، بولا: اگر نہ ہدایت کرے گا مجھ کو رب میرا تو بے شک میں رہوں گا گمراہ لوگوں میں‘‘۔پھر جب دیکھا سورج جھلکتا ہوا، بولا: ’’یہ ہے رب میرا، یہ سب سے بڑا ہے‘‘۔ پھر جب وہ غائب ہو گیا، بولا: ’’اے میری قوم! میں بیزار ہوں ان سے جن کو تم (خدائی میں) شریک کرتے ہو۔ میں نے متوجہ کر لیا اپنے منہ کو اسی کی طرف، جس نے بنائے آسمان اور زمین، سب سے یکسو ہو کر… اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والا۔ (ترجمہ شیخ الہند مولانامحمودحسنؒ) ۲۔ اس شعر میں بعض لفظی و معنوی رعایتیں اور مناسبتیں بھی ہیں: (الف) ’سکوت‘ اور ’غروب‘ میں ایک معنوی مشابہت یہ ہے کہ سکوت بھی آواز کا چھُپ جانا ہی ہے۔ (ب) ’سکوت‘ اور ’غروب‘ میں ایک تضاد بھی ہے۔ سکوت ٹھہرائو ہے اور غروب ، حرکت۔ (ج) غروب آفتاب سے آنکھوں کا روشن تر ہونا، خلاف عادت ہے اور اسی سے پتا چلتا ہے کہ وہ آنکھیں عام آنکھیں نہیں تھیں۔ (د) ’چشم جہاں میں‘ یعنی ’دنیا دیکھنے والی آنکھ‘ غروب آفتاب سے روشن تر ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو دنیا اس آنکھ کے پیش نظر تھی، وہ یہ دنیا نہیں تھی۔ (ر) اس شعر میں مشاہدہ حق کا ایک ضابطہ بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حق اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب دنیا اوجھل ہو جائے۔ صوفیہ میں ایک اصطلاح مروج ہے: جمع بین التشبیہ و التنزیہہ… یعنی کائنات کو اللہ کی صفات کا مظہرجاننا مگر خود اللہ کو ہر شے سے ماورا ماننا۔ تشبیہہ، مجاز ہے اور تنزیہہ، حقیقت۔ مجاز کا پردہ نہ اُٹھے تو حقیقت کا عرفان محال ہے۔ ’غروب آفتاب‘ سے ’چشم جہاں بین خلیلؑ‘ کا روشن تر ہو جانا، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مشاہدہ حق کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر تشبیہہ کا روزن بھی کھلا تھا اورتنزیہہ کا بھی۔ تشبیہہ سے آنکھ روشن ہوتی ہے اور تنزیہہ سے روشن تر۔ ص نمبر ۳۶۲ کلیات وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا اس شعر میں آدمی اور وقت کے تعلق سے انسانی بقا اور ترقی کا اٹل اصول بتایا گیا ہے۔ اس اصول کی کئی جہتیں ہیں، مثلاً: ۱۔ زمانہ ایک تقدیری دوران ہے جو انسانی اختیار کی نفی کرتا ہے۔ اس جبر سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ ہستی کے مکانی اصول کو… جو انسان کو پائوں جمانے کی جگہ فراہم کرتا ہے… وقت پروارد کیا جائے اور اس کی قاہرانہ حرکت میں ایک تخلیقی عنصر داخل کر کے اس تقدیری دوران کو تاریخی ٹھہرائو، میں بدل دیا جائے۔ یہی وہ غرض تھی جس نے زمانے کے جوہر یعنی حرکت کو مکان سے جوڑا اور اس کا تجزیہ و تقسیم کر کے انسان کو اس قابل بنایا کہ اسے اپنی گرفت میں لا کر زندگی کے ارتقائی تقاضوں کی تکمیل کرے اور اس روح تغیر کے ساتھ ایک فاتحانہ نسبت پیدا کرے جو وجود فی الزمان کی ماہیت میں داخل ہے۔ ’امروز‘ زمانے کا سمندر اور ’گوہر فردا‘ زمانے میں ’مکانیت‘ کی رَو دوڑانے کے اس عمل کے آئینہ دار ہیں جس نے آگے چل کر وقت کو مکان ہی کی ایک غیر مستقل جہت ثابت کر دیا۔ ۲۔ ’تاریخ‘ یا ’تاریخ کی جدلیاتی مطلقیت‘ اور ’ابدیت‘ وہ ڈھال ہے جس پر انسان وقت کی تلوار کو روکتا ہے۔ تاریخ انسانی فاعلیت … جسے اس شعر میں ’ہمت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے… کا اصول ہے جو زمانے کی حرکت کو ان غایات کے تابع رکھتا ہے جو انسان کے توسط سے ہستی کا ایک پورا نظام تشکیل دیتی ہیں اور پھر اسے روبہ ترقی رکھتے ہوئے قائم بھی رکھتی ہیں۔ ’ابدیت‘ انسانی انفعال کا اصول ہے جو فی الحقیقت وقت کا انکار ہے تاکہ ہستی کی آخری قید اور آخری شرط بھی اُٹھ جائے اور وجود کی حقیقی آزادی کی کوئی لہر آدمی کو بہا کر ان ساحلوں تک لے جائے جنھوں نے زمانے کے سمندر کو باندھ رکھا ہے۔ ’ابدیت‘ انسان کا محفوظ مستقبل ہے مگر یہاں اس کا حوالہ محض بات مکمل کرنے کے لیے آیا ہے، اس شعر کا موضوع ابدیت نہیں بلکہ وقت اور تاریخ کی تقابلی نسبت ہے جس کا خالق انسان ہے۔ ۳۔ ’ریاضیاتی وقت‘ یعنی ماضی و حال و مستقبل میں منقسم وقت کا کوئی تصور دو چیزوں سے خالی نہیں ہو سکتا: ’ابھی پن‘ (Now-Ness) اور ’کبھی پن‘ (When- Ness) ’ابھی پن‘ زمانے کا جوہر ہے اور ’کبھی پن‘ اس جوہر کی حرکی نمود، جو اگر ہو چکی ہو تو ماضی ہے اور ہونی ہو تو مستقبل ۔ گویا زمانہ اصل میں ’حال‘ ہے اور ماضی و مستقبل اس کی دو اطراف ہیں۔ ماضی حال گذشتہ ہے اور مستقبل حال آیندہ۔ زمانہ دونوں کا Container ہے، یہ اس کے اجزائے وجود ہیں جن کی دوئی ذہن انسانی کے اسلوب ادراک کی پیدا کردہ ہے اور اعتباری ہے، حقیقتاً ماضی و مستقبل ایک ہیں۔ تاریخ یعنی کمال انسانی کا مظہر، نام ہے وقت کے ’ابھی پن‘ پر حاوی ہونے کا۔ اقبال نے ’صاحب امروز‘ اس تاریخ ساز مردِ کامل کو کہا ہے جو وقت کے جوہر یعنی ’ابھی پن‘ کے انتہائی حدود کا…… جن میں ’کبھی پن‘ بھی داخل ہے… احاطہ کر لے یا بہ الفاظ دگر ’حال مطلق‘ اور اس کی ساری وسعت کو… جس میں مستقبل بھی شامل ہے… اپنی گرفت میں لے کر واقعات و حوادث کی باہمی نسبت، زمانے کی بجائے، خود متعین کرے۔ ۴۔ ’گوہر فردا‘ کا حصول ذہن پر نہیں بلکہ ارادہ و اختیار کی پوری طاقت یعنی ’ہمت‘ پر موقوف ہے۔ ذہن تو زمانیت کی شدت اور بڑھا دیتا ہے جبکہ ہستی اور اسکی فطری پیش رفت سے ہم قدم ہونے کے لیے زمانے کی حد رفتار توڑنی پڑتی ہے اور سکون و حرکت کا ایک غیر زمانی سانچا دریافت کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ہمت درکار ہے جس کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ قوت جو محال کو ممکن بنا دے۔ یعنی وقت میں محصور ذہن جس ہدف کے حصول کو نا ممکن سمجھتا ہے، ارادہ اسے حاصل کر کے دکھا دیتا ہے۔ ص نمبر۳۶۳ کلیات یہ کون غزل خواں ہے پرُ سوز و نشاط انگیز اندیشۂ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز ٌٌ’’اس شعر میں اقبال نے اپنی شاعری کی حقیقت بیان کی ہے… انھوں نے ہماری واقفیت کے لیے اپنی شاعری کی تین خصوصیات بیان کر دی ہیں: ۱۔ پرُسوز ہے، یعنی واردات عاشقی کی سچی تصور ہے ۲۔ نشاط انگیز ہے، یعنی عشق و مستی کے جذبات کو بیدار کرتی ہے ۳۔ اندیشے (عقل) میں جنوں (عشق) کا رنگ پیدا کر دیتی ہے (’’شرح بال جبریل‘‘، یوسف سلیم چشتی، ص ۲۲۶) چشتی صاحب نے ایک عمومی سطح سے کلام کیا ہے جو بالکل درست ہے، تاہم ۲۔ ان اوصاف کی کچھ سطحیں اور بھی ہیں …اقبال کی شاعری ۱۔ پرُسوز ہے، یعنی ماہیت عشق کا بیان ہے/ماجراے فراق ہے/ نہایت ادب اور شدت طلب کا اجتماع ہے/ کیفیات قلب کا مکمل اظہار ہے/ محبوب کے لیے تڑپنے میں جو ایک اطمینان پوشیدہ ہوتا ہے، اُس کی آینہ دار ہے/ دلوں میں عشق کی آگ بھڑکا دیتی ہے/ رومی کی مثنوی سے حرارت اخذ کرتی ہے ۲۔ نشاط انگیز ہے‘ یعنی دل کے غم کو روح کی مستی بنا دیتی ہے/جہاں محبوب کا بیان ہے/ حکایت وصال ہے/ کیفیات روح کا مکمل اظہار ہے / روح کو متحرک کرتی ہے/ احوال جذب کی حامل اور خالق ہے/ رومی کی غزلوں کا رنگ رکھتی ہے۔ ۳۔ عقل اور عشق کو ایک کر دیتی ہے/ علم کو مشاہدہ بنا دیتی ہے/ اس حقیقی وحدت کو آشکار کر دیتی ہے جس کی رو سے عقل کا مقصود بھی وہی ہے جو عشق کا مقصود ہے/ عقل کو اُس نقطۂ کمال تک پہنچا دیتی ہے جہاں عشق کے ساتھ اس کی مغائرت ختم ہو جاتی ہے/ پرسوزی و نشاط انگیزی جمع ہو نا محال عقلی ہے/ اس محال کو ممکن بنا کر عقل کو جنوں کا مزا چکھا دیتی ہے جو دوسرا محال عقلی ہے مگر اب خود عقل امر کے امکان پر دلیل بن جاتی ہے۔ یہ تینوں خصوصیات ’’مثنوی مولانا روم‘‘ اور ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘ (غزلیات مولانا روم) کا فیضان ہیں۔ ص ۳۶۷ کلیات من کی دُنیا! من کی دُنیا سوزومستی، جذب و شوق تن کی دُنیا! تن کی دُنیا سود و سودا، مکر وفن یہ شعر متعدد فنی کمالات کا مجموعہ ہے، مثلاً ۱۔ پہلے مصرع میں ’من کی دنیا!‘ استفہام ہے تعظیم کے ساتھ، دوسرے مصرع میں ’تن کی دنیا!‘ بھی استفہام ہے مگر تحقیر کے ساتھ۔ ۲۔ ’من کی دنیا‘ اور ’تن کی دنیا‘ کی تکرار کے بعد ان کے اوصاف بھی دو دو بتائے گئے ہیں۔ اس سے مزید حسن پیدا ہو گیا۔ من کی دنیا سوز و مستی من کی دنیا جذب و شوق/ تن کی دنیا سود و سودا، تن کی دُنیا مکروفن… ۳۔جس طرح ’من‘ اور ’تن‘ ایک دوسرے کی ضد ہیں، اسی طرح ان کے احوال یعنی سوز و مستی +’سود و سودا‘ اور ’جذب و شوق‘ ’مکرو فن‘ کے تقابل سے بعض دقیق تضادات سامنے آتے ہیں۔ ۱:۳۔ ’سوز‘ اور ’سود‘ ۱:۱:۳۔ ’سوز‘ = روشنی و گرمی/ ’سود‘= سیاہی اور ٹھنڈک ۲:۱:۳۔ ’سوز‘ = لطافت، مادیت کا گھٹنا/ ’سود‘ = کثافت، مادیت کا بڑھنا ۳:۱:۳۔ ’سوز‘ = حب مولیٰ/ ’سود‘ = حب دنیا ۴:۱:۳۔ ’سوز‘= تقاضا ئے دل / ’سود‘= تقاضائے بدن ۲:۳۔ ’مستی‘ اور ’سود‘ ۱:۲:۳۔ ’مستی‘ = قلب و روح کا حال/’سودا‘ ۔ نفس و جسم کا حال ۲:۲:۳۔ ’مستی‘=اخلاص اور ایثار/ ’سودا‘ = خود غرضی اور بیوپار ۳:۲:۳۔ ’مستی‘=شعور کی اعلیٰ سطح/ ’سودا‘= دیوانگی کا پست درجہ ۴:۲:۳۔ ’مستی‘=روح کا اجالا/ ’سودا‘ = نفس کا اندھیرا ۳:۳ ۔ ’جذب‘ اور ’مکر‘ ۱:۳:۳۔ ’جذب‘= اللہ کی کشش/ ’مکر‘= دنیا کی کشش ۲:۳:۳۔ ’جذب‘= نفس کی مغلوبیت/ ’مکر‘=نفس کا غلبہ ۳:۳:۳۔ ’جذب‘= سرمستی/’مکر‘ = چالاکی ۴:۳:۳: ’جذب‘ = حق کی طرف لپکنا/’مکر‘= حق سے بھاگنا ۵:۳:۳۔ ’جذب‘= پسندیدہ بے اختیاری اور بے ہوشی/’مکر‘= ناپسندیدہ اختیار اور ہوشیاری ۶:۳:۳۔ ’جذب‘= سچائی/ ’مکر‘= جھوٹ ۴:۳۔ ’شوق‘ اور ’فن‘ میں تضاد کے وہی پہلو کار فرما ہیں جو ’جذب‘ اور ’مکر‘ میں ہیں۔ ایک چیز یہاں زائد ہے۔ ’شوق‘ ’جذب‘ کا نتیجہ ہے اور ’فن‘ مکر‘ کا، ’شوق‘ مجذوب کا وصف ہے اور ’فن‘ مکاّر کا ۔ ص ۳۸۳ کلیات ہر چیز ہے محوِ خود نمائی ہر ذرّہ شہیدِ کبریائی زندگی اور اُس کے مظاہر میں اظہار اور تکمیل کا جو کائناتی اصول کار فرما ہے۔ یہ شعر اس کی ہر سطح کا احاطہ کرتا ہے۔ ۱۔ اظہار خودی اور تکمیل ذات، ہر شے کا فطری اقتضا ہے جس سے روگردانی کر کے وہ شے، موجود ہونے کی شرط پوری نہ کر سکے گی۔ ۲۔ دائرہ خلق میں ہستی کا ایک اصول ہے اور دو احوال۔ اصول، خودی ہے اور احوال، زمان و مکان۔ ۳۔ خودی کا وظیفہ ہے: ہستی کے احوال یعنی زمان و مکاں کے ہم آہنگ رہ کر ان پر اس طرح غالب آنا کہ اس کا اقتضائے ذاتی یعنی اظہار اور تکمیل، کسی مزاحمت کے بغیر پورا ہو جائے۔ ۴۔ زمان، حرکت ہے او رمکان، سکون۔ خودی، زمان= حرکت کو اپنی تکمیل میں صرف کرتی ہے او رمکان= سکون کو اپنے اظہار میں۔ یہ ضابطہ خودی کے ہر انسانی و کائناتی تغیر میں جاری ہے۔ کہیں شعور کے ساتھ اور کہیں شعور کے بغیر ۵۔ ’محوِ خود نمائی‘ میں ’محو‘ کا لفظ اپنے ہر مفہوم میں اظہار خودی کے مکانی= سکونی اصول پر دلالت کرتا ہے اور ’شہید کبریائی‘ میں ’شہید‘ اپنے معروف معنی میں تکمیل ذات کے زمانی= حرکی اصول کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ۶۔’ محوِ خود نمائی‘ میں دلالت کامل ہے اور ’شہید کبریائی‘ میں ادھوری۔ یہ بیان کا نقص ہے مگر مضمون کی قوت نے اس نقص کو کمال بنا دیا۔ ۷۔ مدلول اگر مکانی= سکونی ہو تو دلالت بھی کامل ہو گی اور اگر زمانی= حرکی ہو تو دلالت بھی ادھوری اور جزوی ہو گی۔ ۸۔ پہلے مصرع میں بیان کا ہر جُز اپنی جگہ ایک پورا پن رکھتا ہے۔ ’چیز‘ = وہ اکائی جس کی وجودی ترکیب مکمل ہو چکی ہے، ’محو‘ = مکمل غیاب، مکمل نفی، مکمل حیرت اور مکمل خبری کے اُس انتہائی حال کے مغلوب جو مکمل حضور، مکمل اثبات، مکمل معرفت اور مکمل ہوش کا نتیجہ ہے… اور ’خود نمائی‘ = پورے خود کا پورا اظہار۔ ۹۔دوسرے مصرعے میں ہر جز سے ایک ادھورا پن منعکس ہوتا ہے۔ ’ذرہ‘= وہ موجود جو ابھی وجود کے ابتدائی مراحل میں ہے، ’شہید‘= یہ لفظ اپنے تمام معانی سے کٹ کر صرف معروف معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی مقتول اور عاشق… اور ’کبریائی‘= یہ لفظ بھی اپنے حقیقی اور معروف معنی یعنی اللہ کی عظمت و بزرگی کی بجائے محض لغوی اور غیر مروج مفہوم میں صرف ہوا ہے، یعنی بڑائی۔ ۱۰۔ ’شہید کبریائی‘ کی ترکیب کے دونوں اجزا میں ایک کو قریب کے اور دوسرے کو دور کے معنی میں برتنے سے یہ نکتہ پیدا ہوا کہ ذرہ چونکہ وجودِ ناقص ہے لہٰذا طلب کمال تو رکھتا ہے مگر مطلوب سے دور ہے۔ نیز یہ بات بھی نکلتی ہے کہ تکمیل کا تعلق وقت اور حرکت سے ہے، اور وقت کا یہ خاصہ ہے کہ مطلوب ہمیشہ مستقبل میں ہوتا ہے، حال محض طلب ہے۔ ۱۱۔ خودی اپنی ماہیت میں اس شانِ جامعیت اور قوت تالیف کی حامل ہے جو زندگی کے اصول و مظاہر میں پائے جانے والے اختلافات اور تضادات کو صورتاً برقرار رکھتی ہے اور حقیقتاً رفع کر دیتی ہے۔ اس شعر میں خودی کا یہ وصف فنی اور تکنیکی سطح پر بھی ظاہر ہواہے۔ ۱۲۔ ’محو‘ اور ’خودنمائی‘ دونوں کے کئی معنی ہیں۔ اپنے ہر معنی میں یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں یا کم از کم مختلف ضرور ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’محو‘ اپنے ہر مفہوم میں انفعالی ہے جبکہ ’خود نمائی‘ کا خواہ کوئی بھی مطلب لے لیں، اس میں فاعلی جہت لازماً موجود ہو گی… گویا اس ایک ترکیب میں زندگی کا پورا اصول بیان ہو گیا… فعل و انفعال ۔ ۱۵۔ اگر ’کبریائی‘ کو مطلق خودی کی صفت سمجھا جائے تو ’خود نمائی‘ کی نسبت بھی اسی کی طرف ہو گی۔ اس صورت میں شعر کا مطلب یہ ہو گا کہ خودی کے کائناتی ظہور کا حصہ بننے کے لیے ہر چیز نے خود کو مٹا ڈالا ہے۔ ۱۶۔ ’محو‘ اور’ شہید‘ میں ایک معنوی مشابہت ہے۔ دونوں میں فنا اور اس کے بعد بقا کا حصول مشترک ہے۔ محو میں فنا و بقا باطنی ہے اور ’شہید‘ میں ظاہری۔ اس کے علاوہ بھی ان میں کئی چیزیں مشترک ہیں، مثلاً : حقیقت کا حسّی تجربہ، زندگی کے ادنیٰ مراتب سے اعلیٰ مراتب کی طرف سفر جس کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے: خودی …بے خودی… خودی، عشق، دیدار محبوب، ایثار نفس، حیرت وغیرہ۔ ۱۷۔ ’خودنمائی‘ اور کبریائی ایک پہلو کے ہم معنی ہیں اقبال نے ’خودنمائی‘ کو اقتضائے فطرت بنا کر ایسی بلندی اور وسعت پیدا کر دی کہ اس کی منفی جہت زائل ہو کر کبریائی کے ساتھ کا معنوی اتحاد بالکل مثبت اساس پر استوار ہو گیا۔ ۱۸۔ ’چیز‘ اور ’محو‘ میں اک گو نہ تضاد کی نسبت ہے۔ ’چیز‘ واجب الاثبات ہے جبکہ ’محو‘ اثبات کی ضد۔ ۱۹۔ ’ذرہ‘ اور ’کبریائی‘ کا ایک دوسرے کی ضد ہونا ظاہر ہے۔ ص ۱۲۵ کلیات غزل۳ وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے یہ شعر انتہائی بلند خیال کو نہایت سادگی سے کہہ دینے کی ایک نادر مثال ہے۔ مختصراً مضمون یہ ہے کہ کاروبار کائنات ایک طرح کی ثنویت یا تضاد پر چل رہا ہے۔ یہاں ہر شے اپنی نفی یا اثبات کے لیے اپنے غیر کی محتاج ہے۔ کوئی چیز اپنی ضد کے حوالے کے بغیر موجود نہیں ہے۔ یہی نظام آگے چل کر ایک دوسرے درجے میں موجودات کے درمیان مراتب کا ایک عالم گیر ڈھانچہ ترتیب دیتاہے جس کی بنیاد وجود کی بجائے وصف پر ہے۔ کائنات کی تنظیم و بقا کے لیے ناگزیر ہونے کے باوجود یہ ڈھانچا حقائق کی محض ایک افقی تفہیم (یعنی شے کو اسی مرتبے میں دیکھنا اور جاننا جس میں وہ موجود ہے) پر کھڑا ہے لہٰذا اس کے اندر رہتے ہوئے اس حقیقت کا ادراک ممکن نہیں جو اصل کثرت ہے اور واحد ہے،بنائے تغیر ہے اور غیر معتبر ہے، خالقِ اضداد ہے اور یکتا ہے۔ اس ادراک کے حصول کے لیے جو ایک جہت سے خدا کا ادراک ہے اور دوسری جہت سے خود کائنات کی حقیقی ماہیت کا، ضروری ہے کہ تضاد و کثرت کے دائرے سے اوپر اٹھا جائے۔ اس شعر میں یہی کہا گیا ہے۔ ظلمت ، رات کا اور چمک، تارے کا وصفی تعین بھی آ گیا ہے۔ اقبال نے رات اور تارے کے ان دوہرے تعینات کو تقابل و تضاد کی حالت سے نکال کر عینیت و ہم اصلی کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ اس شعر کی ایک مزید تعبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہماری روایتی اصطلاح میں عدم، تاریکی ہے اور وجود، نور۔ ممکن کے حوالے سے دیکھیں تو اس کا وجود، عدم کے سمندر میں جزیرے کی طرح ہے یارات کے پھیلائو میں ستارے کی طرح۔ تو مطلب یہ ہوا کہ عدم اور وجود ایک دوسرے کی قطعی ضد ہونے کے باوجود پھوٹے ایک ہی سوتے سے ہیں۔ اسی طرح خیر و شر بلکہ تمام اضداد کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ غرض اپنے علامتی پھیلائو کے اعتبار سے بھی یہ ایک عجیب شعر ہے۔ ص ۳۸۶ کلیات یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا اس شعر کے مضمون کی دوپرتیں ہیں۔ پہلی پرت سادہ ہے کہ جب اللہ کے نام پر کھڑے ہونے کا وقت آیا تو نادان مسلمان اللہ ہی کی آڑ لے کر سجدوں میں گر گئے۔ نتیجتاً مسجدیں تو آباد رہیں مگر دنیا اللہ کے دشمنوں کے قبضے میں چلی گئی۔ دوسری پرت نسبۃً گہری ہے۔ مسلمان کی زندگی کے دو اصول ہیں: اللہ کی اطاعت اور نیابت۔ فی الاصل اطاعت و نیابت عین یک دیگر ہیں، دونوں کی غایت ایک ہے: عبادت۔ دونوں کا قیام ایک ہی اقرار و اعلان پر ہے: اللہ ایک ہے سب کا معبود ہے ، سب سے بڑا اور سب پر غالب ۔ ان کی مشترک غایت یعنی عبادت کے دو بڑے مظاہر ہیں: نماز اور جہاد۔ نماز، اطاعت کا سب سے بڑا مظہر ہے اور جہاد، نیابت کا۔ ان دونوں میں بھی کوئی حقیقی دوئی نہیں بلکہ وہ امتیاز ہے جو ایک ہی کل کے اجزا میں ہوتا ہے۔ اسی امتیاز کے حوالے سے نماز کا دائرہ عمل مسجد ہے اور جہاد کا، ساری دنیا۔ گویا اسلامی زندگی کی تشکیل اس طرح ہوئی ہے کہ اس کی دو قوسیں ہیں جن سے بندگی کا دائرہ مکمل ہوتا ہے: پہلی قوس مسجد کے اندر اور دوسری مسجد سے باہر…… مسجد کے اندر مغلوبیت مطلوب ہے اور مسجد سے باہر، غلبہ… یہ غلبہ و مغلوبیت لازم و ملزوم ہیں۔ غلبہ، مغلوبیت کے بغیر بے معنی ہے اور مغلوبیت ، غلبے کے بغیر۔ مسلمانوں کے زوال کا بڑا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی بقا و ترقی کا یہ اصول فراموش کر دیا اور جہاد کے ساتھ ساتھ نماز کی حقیقت سے بھی محروم ہو گئے۔ ’قیام‘ کو اگر نماز کے ایک فرض کے معنی میں لیا جائے تو دوسرے مصرعے کا یہی مطلب بنتا ہے کہ ان بے خبروں کی نماز بھی ٹھیک نہیں ہے۔ قیام کے وقت سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس شعر میں متعدد لفظی و معنوی رعایتیں بھی پائی جاتی ہیں، مثلاً: ۱۔ محراب مسجد پر مصرع اس لیے لکھا گیا کہ ۱:۱۔ وہ تقدیری وجدان اور تخلیقی تخیل جو حقیقت بندگی کی کنہ تک پہنچنے کے لیے درکار ہے، نثر کے مقابلے میں شعر سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ ۱:۲۔ اتنی نازک اور سفاک بات، شعر ہی میں کہی جا سکتی ہے کیونکہ عام لوگ یعنی یہ ’ناداں‘ شاعری کو حقیقت کا اظہار نہیں سمجھتے۔ ۱:۳۔ کسی شوخ کے اظہار شوخی کا مناسب ذریعہ مصرع ہے نہ کہ فقرہ۔ شوخی میں جو ایک جمالیاتی رو اور محبوبانہ لہر پائی جاتی ہے وہ مصرعے ہی میں سما سکتی ہے۔ ۱:۴۔ یہ حرکت کوئی شوخ ہی کر سکتا تھا۔ ۱:۵۔ ’شوخ‘ وہ شخص ہے جو من چلا، شرارتی، ظریف، اور گستاخ ہی نہیں بلکہ قلندر مزاج، تقلید سے پاک، بے باک، سچا اور صاحب نظر بھی ہے۔ ۲۔ یہ مصرع محراب مسجد پر لکھا گیا ہے جسے پڑھنے کے لیے آدمی کا قیام میں ہونا یعنی کھڑا ہونا ضروری ہے، سجدوں میں گرے ہوئے لوگ اسے نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے نادان ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ایک تصویر بھی بنتی ہے کہ بہت سارے لوگ سجدے میں پڑے ہیںا ور پیچھے کھڑا ہوا ایک شخص جو ان نادانوں میں شامل نہیں ہے، محراب پر لکھا ہوا یہ مصرع پڑھ رہا ہے۔ یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا ۳۔ روزمرہ ’سجدے میں گرنا‘ ہے نہ کہ ’سجدوں میں گرنا‘۔ اس کی خلاف ورزی دانستہ کی گئی ہے۔ گر گئے سجدے میں، کہنے سے نماز کی توہین ہوتی کیونکہ سجدے میں گرنا نماز کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کی حالت کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے، جبکہ ’سجدوں میں گرنا‘ نماز سے خاص نہیں ہے اور اگر ایک ظاہری نسبت رکھتا بھی ہے تو اس عمل سے نماز کی خرابی ہی منعکس ہوتی ہے، خوبی نہیں۔ ۴۔یہ پہلے مصرعے کی جان ’شوخ‘ ہے اور دوسرے کی ’ناداں‘۔ ’ناداں‘ بھولپن، بے عقلی، نکمّے پن، جہالت، بچگانہ، چالاکی اور بہانے بازی، بھیڑ چال، ہٹ دھرمی وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ اس لفظ میں غصہ، مایوسی، اپنائیت اور پیار اس طرح گتھے ہوئے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ۵۔ ’سجدے‘ کی بجائے ’سجدوں‘ میں گر جانا نادانی کی دلیل تو ہے ہی، انتشار و افتراق کا ثبوت بھی ہے۔ ۶۔ ’شوخ‘ اور ’نادان‘ ’سجدوں‘ اور ’قیام‘ کا تضاد ظاہر ہے۔ ۷۔ ’شوخ‘ کی جرات، ذہانت اور اکڑ قیام کے ساتھ اور ’ناداں‘ کی کم ہمتی، حماقت اور سرافگندگی ’سجدوں‘ کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے۔  ترکوں سے اقبال کی ارادت مندی اور خلافت کے معاملے میں اقبال کا اختلاف حلیمہ سعدیہ یورپی اقوام جو صنعتی و سائنسی اعتبار سے نسبتاً ترقی یافتہ تھیں سترھویں صدی کے آغاز میں اپنے ممالک سے نکل کر ان ممالک پر جو کم ترقی یافتہ اور پسماندگی اور افلاس کا شکار تھے غاصبانہ قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہو گئیں چنانچہ مغربی استعماری قوتیں جلد ہی پسماندہ مشرقی ممالک کو اپنا محکوم بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔ خاص طور پر وہ خطے جہاں پر مسلمان آباد تھے وہاں مغربی استعمار نے اپنے پنجے گاڑ لیے۔ اٹھارویں صدی کے آخر تک صورت حال کچھ یوں ہو چکی تھی کہ برصغیر پاک و ہند پر تو برطانوی حکومت نے اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی اور سلطنت عثمانیہ جو تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی وہ بھی یورپی اقوام کی ہوس ملک گیری کا شکار ہو رہی تھی چنانچہ ُانیسویں صدی تک ترکی اور ایران جیسے ممالک بظاہر تو آزاد تھے لیکن مغربی قوتوں کی سازشوں کے تحت آزادانہ قوتِ عمل کھو چکے تھے۔ ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک تو انیسویں صدی تک اپنی آزادی ہی سے محروم ہو چکے تھے ایسے میں ان عظیم مسلم ممالک کا یوں سازشوں کا شکار ہو جانا تمام سوچنے سمجھنے والے ذہنوں کو شدت سے متاثر کر رہا تھا چونکہ مشرق کے مختلف ممالک سیاسی و تہذیبی حوالوں سے ایک طرح کی صورت حال سے دو چار تھے اور مشکل دور سے گزر رہے تھے۔ اس لیے وہاں کے عوام خصوصاً اہل فہم و دانش کے افکار و نظریات میں مماثلت اور اشتراک ملتا ہے۔ چنانچہ اہل ترکی کے احساسات بھی وہی تھے جو ہندستان کے مسلمانوں کے تھے کہ اہل فرنگ کی راہزنی نے تمام مشرق کو جکڑ رکھا ہے اہل ترکی اور ہندستانی مسلمانوں کے درمیان تہذیبی اور فکری روابط کا سلسلہ ہمیشہ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں شیخ احمد سرہندیؒ کے نظریات اور طریقہ نقش بندیہ مجددیہ سے ترک مسلمانوں نے بہت اثرات قبول کیے وہاں ہندستان کے مسلمان بھی مولانا جلال الدین رومی کے افکار و نظریات سے متاثر ہوئے اور علامہ محمد اقبال اس سلسلے میںایک اہم نام ہے۔ علامہ محمد اقبال روحانی طور پر رومی کو اپنا پیرومرشد مانتے ہیں اور ان کی تعلیمات سے متاثر ہونے کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ تو بھی ہے اِسی قافلۂ شوق میں اقبال جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی اِس عصر کو بھی اُس نے دیا ہے کوئی پیغام؟ کہتے ہیں چراغ رہِ احرار ہے رومی۱ اقبال جو کسی نہ کسی طور تہذیب مغرب کے فکری سیلاب کا مقابلہ کرتے رہے اس دور کی خامیوں کی نشاندہی اور ان خامیوں کو ختم کر کے خوبیوں میں تبدیل کرنے کے خواہاں تھے۔ اپنی نظم ’’پیرومرشد‘‘۲ میں بھی مولانا ’’جلال الدین رومی کے حوالے سے مکالمے کے انداز میں یہ بیان کرتے ہیں کہ اس عہد کی خامیوں کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے اور کس طرح مسلمان اپنے اسلاف اعلیٰ مرتبت سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔اسلامی ممالک میں جہاں بھی آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں اقبال ان میں گہری دل چسپی رکھتے تھے اور اُنھوں نے جو پیغام عالمِ اسلام کو دیا تھا وہ یہ تھا کہ بحیثیت ’’مسلم قوم‘‘ کے تمام مسلمانوں کو آزادی کی تحاریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے پورے عالم اسلام نے اقبال کے پیام اور افکار سے گہرے اثرات قبول کیے اور اس کے نتیجے میں اسلامی خطوں میں زندگی اور تحریک کی لہر دوڑ گئی۔ چنانچہ اقبال کے کلام میں مسلمانوں کو بحیثیت اُمت مخاطب کیا گیا ہے۔ مسلمان ممالک میں سے ترکی کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ خلافت عثمانیہ تمام مسلمانوں کی نظر میں عالمِ اسلام کی دینی روایت کا مرکز اور مسلم اتحاد و افتخار کی علامت تھی۔ ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ۱۳ ویں صدی عیسویں میں رکھی گئی اور اس کا بانی عثمان اول (۱۲۸۸ئ…۱۳۲۶ئ) تسلیم کیا جاتا ہے۔ مختلف یورپی علاقوں کی تسخیر کے بعد سلطان محمد فاتح (۱۴۵۱ئ…۱۴۸۱ئ) کے ہاتھوں ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو قسطنطنیہ فتح ہوا اور اس تاریخی شہر کی فتح سلطنت عثمانیہ اور تمام اسلامی تاریخ میں ایک غیر معمولی اور یادگار واقعہ ہے۔ اس فتح سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشین گوئی پوری ہو گئی کہ:۔ ’’خدا نے مجھے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کی کنجیاں دے دی ہیں‘‘ سلطان سلیم اول کے آٹھ سالہ مختصر دورِ حکومت میں عثمانی فتوحات کا دائرہ وسیع ہو گیا اور مصر شام اور حجاز بھی ترکوں کی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ اس کے بیٹے سلیمان اعظم نے بھی ترکوں کی سلطنت کو عروج بخشا اور اس کی وفات پر سلطنت عثمانیہ کی حدیں ایک طرف دریائے ڈینیوب سے خلیج فارس تک اور دوسری طرف وسط ایشیا کے یوکرینی علاقے سے طرابلس اور الجزائر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ۱۶۸۳ء میں دی آنا کی تسخیر میں ناکامی عثمانی زوال کا نقطۂ آغاز تھا۔ اور ۱۶۹۹ء میں معاہدہ کا رلوئز کی رو سے ہنگری ان کے ہاتھ سے نکل گیا اس کے بعد ان کی حکومت بتدریج کمزور ہوتی چلی گئی۳۔ اقبال کے دور میںیہ مسلم سلطنت نہایت مشکل دور سے گزر رہی تھی۔چنانچہ اقبال جو عالمی سیاست پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے ترکی جیسی عظیم مسلم سلطنت کا دورِ انحطاط بھی اُن کی نظروں سے اوجھل نہ تھا یہی وجہ تھی کہ اس دور میں ترکی اقبال کی توجہ کا مرکز اور ان کے افکار کا محور بن گیا سلطنت عثمانیہ جس طرح اقوام مغرب کی سازشوں کا شکار ہو رہی تھی اقبال نے ان تمام مراحل و مسائل پر گہری اور عالمانہ نظر رکھی اور اس مشکل مرحلے پر بہت سی نظمیں لکھ کر اہل ترکی کی جرأت و شجاعت کو داد تحسین دی۔ اٹلی نے دوسری یورپی طاقتوں سے عدم مداخلت اور غیر جانبداری کی یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد ۲۸ ستمبر ۱۹۱۱ء کو ترکیہ کو چوبیس گھنٹے کا الٹی میٹم دے کر طرابلس اور سرے نائیکہ پر قبضہ کر لیا۔ ترکی کے پاس ایک مضبوط جنگی بیڑا نہیں تھا اس لیے وہ طرابلس کا دفاع نہ کر سکا۔ لیکن اس نے مقامی آبادی کو منظم کر کے اطالوی فوج کے خلاف برسرپیکار کر دیا اور کچھ علاقے واپس بھی لے لیے۴۔ سلطنت عثمانیہ کے یورپی اور افریقی حصوں پر ان یکبارگی یلغاروں نے استعمار میں جکڑی اسلامی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ۹ نومبر ۱۹۱۱ء کو اکبرالہ آبادی کے نام خط میں اقبال لکھتے ہیں:۔ ترکوں کی فتح کا مژدہ جاں فزا پہنچا، مسرت ہوئی مگر اس کا کیا علاج کہ دل کو پھر بھی اطمینان نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں روح کیا چاہتی ہے اور آنکھوں کو کس نظارے کی ہوس ہے۔ میں ایک زبردست تمنا کا احساس اپنے دل میں کرتا گو اس تمنا کا موضوع مجھے اچھی طرح سے معلوم نہیں ایسی حالت میں مجھے مسرت بھی ہو تو اس میں اضطراب کا عنصر غالب رہتا ہے۵۔ جنگ طرابلس کے دنوں میں ہندستانی مسلمانوں میں ترکی کے حق میں عظیم جوش و خروش موجود تھا۔ مولانا ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ مولانا ابو الکلام آزاد کا ہفت روزہ’’الہلال‘‘ محمد علی کا انگریزی ہفت روزہ ’’کامریڈ‘‘ اور روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ اور بہت سے دوسرے مسلم اخبارات اس بے چینی کے عکاس تھے۔ انگریزوں نے غلام ہندستان کے مسلمانوں کے ان جذبات کو پسند نہ کیا۔ چنانچہ ترکوں سے ہمدردی رکھنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن مسلمان پھر بھی اپنے ترک بھائیوں کے ساتھ ہمدردی و یگانگت کے جذبات سے دستبردار نہ ہوئے۔ اقبال نے بھی عوام کے جذبات کو محسوس کیا۔ اور اپنے اشعار میں ان جذبات کی ترجمانی کی۔ بلقانی جارحیت کے حوالے سے ’’جواب شکوہ‘‘ میں کہتے ہیں: ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا تو سمجھتا ہے ، یہ ساماں ہے دل آزاری کا امتحاں ہے ترے ایثار کا ، خود داری کا کیوں ہراساں ہے صہیل فرسِ اعدا سے نور حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے۶ غم و الم کی اس فضا میں اقبال نے کئی یادگار نظمیں لکھیں اور طرابلس و بلقان کے حادثات کے حوالے سے بھی اظہار تشویش کیا ’’شکوہ‘‘ ’’جواب شکوہ‘‘ اور شمع و شاعر اسی پس منظر میں لکھی گئی طویل نظمیں ہیں۔ ان کے ہاں طرابلس کی جنگ کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور ’’فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ جیسی بہادر مجاہدہ کو خراج تحسین بھی: فاطمہ تو آبروے امتِ مرحوم ہے ذرّہ ذرّہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے۷ یہاں ’’امت مرحوم‘‘ کہہ کر اقبال نے نہایت اختصار کے ساتھ لیکن بہت پر اثر انداز میں اُمت مسلمہ کی زوال پذیری کی طرف اشارہ کیا ہے اسی طرح جب ۱۹۱۲ء میں طرابلس کے عوام نے آگ اور خون کا دریا پار کر کے اطالوی فوجوں کو صرف ساحلی مقامات تک محدود کر دیا تو اقبال نے اپنی نظم ’’حضور رسالت مآبؐ‘‘ میں لکھا: حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں۸ اِسی زمانے میں اکتوبر ۱۹۱۲ء کو چار بلقانی ریاستوں یونان، سربیا، مانٹی نیگرو اور بلغاریہ نے ترکی کو اصلاحات نافذ کرنے اور بلقانی ریاستوں میں ترکی کی فوجی لام بندی واپس لینے کا الٹی میٹم دیا اور جب ترکی نے ایسا نہ کیا تو جنگ شروع ہو گئی اور یہ جنگ ترکوں کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ترک فوج سیاسی اختلافات کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ جب ترک فوج ادرنہ میں محصور ہو گئی تو محاصرے کے دوران میں جنگ کے اخلاقی پہلو سے تعلق رکھنے والے ایک واقعہ کو اقبال نے اس طرح اشعار میں بیان کیا اور ’’محاصرہ ادرنہ‘‘ میں کہتے ہیں: یورپ میں جس گھڑی حق و باطل کی چھڑ گئی حق خنجر آزمائی پہ مجبور ہو گیا گردِ صلیب‘ گِردِ قمر حلقہ زن ہوئی شکری حصار درنہ میں محصور ہو گیا مسلم سپاہیوں کے ذخیرے ہوئے تمام روئے اُمید آنکھ سے مستور ہو گیا آخر امیر عسکر ترکی کے حکم سے ’’آئینِ جنگ‘‘ شہر کا دستور ہو گیا ہر شے ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل شاہیں گدائے دانہ ُعصفور ہو گیا لیکن فقیہہ شہر نے جس دم سنی یہ بات گرما کے مثل صاعقہ طور ہو گیا ’’ذمّی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام‘‘ فتویٰ تمام شہر میں مشہور ہو گیا چھوتی نہ تھی یہود و نصاریٰ کا مال فوج مسلم خُدا کے حکم سے مجبو رہو گیا۹ گویا اقبال کا دل اپنے مظلوم و مجبور ترک بھائیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اور وہ ہر قدم پر ان کے لیے عقیدت و تحسین کے جذبات رکھتے ہیں۔ اقبال نے قسطنطنیہ سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی کا ’’بلاد اسلامیہ‘‘ میں یوں اظہار کیا ہے: خطہ قسطنطنیّہ یعنی قیصر کا دیار مہدی اُمت کی سطوت کا نشان پایدار اے مسلماں ملّتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر سیکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر۱۰ ادرنہ کے علاوہ اور بہت سے یورپی علاقوں سے ترکی کو محروم ہونا پڑا البتہ قسطنطنیہ بچ گیا۔ ابھی ترکی حالات کی ان کروٹوں کا سامنا کر ہی رہا تھا کہ اسے جنگ عظیم اول (۱۹۱۴ئ۔۱۹۱۸ئ) میں کو دنا پڑا۔ جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے سیاسی چالبازی کے ذریعے عربوں کو آزادی کا جھانسا دے کر ترکوں کے خلاف اُبھارا گورنر حجاز، شریف حسین انگریزوں کی سازشوں کا شکار ہو گیا اور عثمانیہ سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی۔ علامہ اقبال نے شریف مکہ کے اس عمل کو پسند نہ کیا اور خفگی کا اظہار یوں کیا ’’خضر راہ‘‘ میں کہتے ہیں:۔ بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش۱۱ برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک خلافت شروع کر دی اور ادارہ خلافت کی بحالی اور ترکوں کی آزادی کے حق میں بھر پور طریقے سے مہم چلائی۔ اقبال بعض وجوہ کی بنا پر اس تحریک کے حق میں نہ تھے ان کے نزدیک تحریک نے حصول مقصد کے لیے مناسب راہ اختیار نہیں کی تھی نیز تحریک کے انداز فکر و عمل سے غلامانہ تصور اخلاق اور دریوزہ گری کا انداز متر شح ہوتا تھا۱۲۔ چنانچہ اقبال نے اسے ناپسند کیا اور اس حوالے سے کہا: اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے ، جائے تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی ’’مرا از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی‘‘۱۳ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں کہ اقبال کے لفظوں میں تحریکِ خلافت کیا تھی اہل مغرب سے خلافت کی بھیک مانگی جا رہی تھی۔ ان کے نزدیک ایسی خلافت جو مسلمانوں کے زورِ بازو کا نتیجہ نہ ہو بے معنی و مہمل تھی۱۴۔ اقبال ترکی میں ہونے والی تبدیلیوں کا بغور مشاہدہ کرتے تھے چنانچہ جب مصطفیٰ کمال نے خلافت کو ختم کر کے جمہوریت کا اعلان کیا تو اقبال نے اس عمل کو خلافت کے سلسلے میں اجتہادی عمل قرار دیا اور کہا کہ مصطفی کمال نے حق خلافت امت مسلمہ کو واپس دلوا دیا۔ گویا خلافت جو شوریٰ کا حق ہے اس کو لوٹا دیا۱۵۔ نہ صرف اقبال کی شاعری میں بلکہ اگر اقبال کے انگریزی نثری مقالات بھی پیش نظر رکھے جائیں تو خلافت کا مسئلہ ایک اہم موضوع کی حیثیت سے اُبھرتا محسوس ہوتا ہے۔ ’’طلوع اسلام‘‘ میں بھی انگریزوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی فتح و کامرانی کا جشن منظوم ہے۔ اس دور میں اقبال نے بہت سی ایسی نظمیں لکھیں جن کا موضوع یہی ہے۔ ۱۹۲۲ء میں مصطفی کمال پاشا نے ترکی کو انگریزوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرا لیا۔ ’’طلوع اسلام‘‘ کا چھٹا بند اس دور کے واقعاتی حوالوں سے لبریز ہے۔ اقبال ترکان عثمانی کو ’’اپنا قافلہ‘‘ قرار دیتے ہیں اقبال جہاں اہل ترکی کی آزادی کی جدوجہد کو سراہتے ہیں وہیں بعض نظموں میں انہوں نے مصطفی کمال پاشا کی تجدد پسندی اور اصطلاحات جدیدہ کے روپ میں تقلید فرنگ پر تنقید بھی کی ہے اور ’’جاوید نامہ‘‘ میں ’’فلک عطارد‘‘ پر سعید حلیم پاشا کی زبان سے اقبال نے اپنے ان افکار کا اظہار کیا ہے:۔ مصطفی کو از تجّدد می سرود گفت نقش کہنہ را باید ز دود نو نگردد کعبہ را رخت حیات گر ز افرنگ آیدش لات و منات ترک را آہنگ نو درچنگ نیست تازہ اش جزکہنۂ افرنگ نیست۱۶ اقبال کے عہد میں ترکی ایک مشکل دور سے گزر رہا تھا بحیثیت مجموعی اس دور کی سیاسی صورتحال کچھ یوں تھی کہ سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقے براہ راست برطانوی تسلط میں تھے۔ ایران پر عملاً روسی، برطانوی اور کچھ حد تک جرمن اثرات کی حکمرانی تھی۔ ادھر عرب نیشنلزم کے اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے۔ عرب ترکوں کے خلاف آمادۂ بغاوت تھے۔ نوجوان ترکوں کی تحریک کے زیر اثر ترکی میں لادینیت او رتورانی قوم پرستی فروغ پا رہی تھی۔ اندرونی خلفشار کے علاوہ بیرونی طاقتیں عثمانی سلطنت کے لیے نت نئے مسائل کھڑے کر رہی تھیں۔ صہیونی بھی سلطنت عثمانیہ کی بربادی اور خاتمے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے۔ ہندی مسلمان یا تو کانگریس کے حاشیہ بردار تھے یا ایسے رہنما پائے جاتے تھے جو تہذیبی اور ثقافتی سطح پر مغرب سے بے حد مرعوب تھے۔ ملک پر انگریزوں کی سیاسی گرفت خاصی مضبوط تھی۱۷۔ اقبال کی اس دور کی شاعری میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر معترف ہے کہ مایوسی اور تاریکی کے اس دور میں بھی مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی حرارت کی دبی دبی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور وہ اسلامی نشاۃِ ثانیہ کے لیے بے چین و مضطرب ہیں۔ علامہ اقبال کی ترکوں سے گہری وابستگی کا اظہار اُن کی شاعری میں بھرپور انداز میں ملتا ہے۔ اس حوالے سے حکیم نیر واسطی لکھتے ہیں:۔ دوسری چیز جس کی بنا پر اقبال ترکی کا ممدوح اور مقبول شاعر ہے، قومی شاعری میں ترک شعرا کے ساتھ اس کے ملی و قومی جذبات و احساسات کی وہ ہم آہنگی ہے جو ترکی کے قادر الکلام اور آتش بیاں شعرا کے کلام میں پائی جاتی ہے۱۸ اقبال نے تحریک خلافت یا تحریک ترکِ موالات میں عملی حصہ تو نہ لیا لیکن شاعری پر ان واقعات نے اثرات مرتب کیے اور اسیری، خضر راہ، اور طلوعِ اسلام وغیرہ نظمیں اور ’’پیام مشرق‘‘ کی بعض نظمیں ان واقعات سے اثر پذیری کی غمّاز ہیں۔ ’’پیام مشرق‘‘ کی ایک اہم نظم خطاب بہ مصطفی کمال پاشا اَیَّدَہ اللہ‘‘ ہے جو جولائی ۱۹۲۲ء میں لکھی گئی ترکوں کے حوالے سے اقبال کی دلچسپی کی مظہر ہے۔ جہاں تک مصطفی کمال کی تجدد پسندی پر اقبال کی تنقید کا تعلق ہے تو اس حوالے سے این میری شمل کا موقف کچھ اور ہی ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ کی مترجم این میری شمل اس کے مقدمے میں لکھتی ہیں: اقبال کو ترکی کو قریب سے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع نہ مل سکا چنانچہ وہ نہیں جان سکے کہ اتاترک کے انقلابات محض ملک میں پائے جانے والے انتہا پسند رویوں کے خلاف ایک جدوجہد ہے، نہ کہ اندھا دھند مغرب کی تقلید۱۹۔ بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ اس دور میں امت مسلمہ کو جن مسائل اور مشکلات کا سامنا تھا، اقبال ہمیشہ اُن کے حل کے لیے دعا گو رہے۔ اُنہوں نے ترکوں کی جدوجہد آزادی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور مسلمانوں کی حالتِ زبوں پر اظہار افسوس بھی کیا۔ اہل ترکی کے ساتھ اقبال کی گہری وابستگی ہی کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے ترکی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھی اور ترکوں کی جہد آزادی کے ہر ہر مرحلے سے قلبی تعلق اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ اقبال نے مختلف تخلیقات میں ان عصری حالات پر اپنے تاثرات کا اظہار کیاا ور یہ تخلیقات اس بات کی مظہر ہیں کہ اقبال کا دل اپنے مظلوم و مجبور ترک بھائیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اور وہ ہر قدم پر ان کے لیے عقیدت و تحسین کے جذبات رکھتے ہیں۔ ترکوں کے ساتھ اقبال کی وابستگی خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں ان کے اس مقالے سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو قیام یورپ کے دوران اُنھوں نے لکھا اور ۱۹۰۸ء میں انگلستان میں شائع ہوا۔ خلافت عثمانیہ کے خلاف ردِّ عمل جو بلقان ریاستوں اور عرب ممالک نے شروع کر رکھا تھا، ۱۹۲۴ء میں اس وقت ختم ہو اجب اہل ترکی نے خلافت چھوڑ کر نئے جمہوری نظام کا آغاز کیا۔ اقبال نے اپنے انگریزی خطبے میں ترکوں کے اس اقدام کی تائید کی ہے جنگ کے دوران حکومت برطانیہ مسلمانوں کو یہ یقین دلاتی رہی کہ ترکی کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔ برطانیہ کے وزیراعظم لایڈ جارج نے ۵ جنوری ۱۹۱۸ء کو سامراجی عزائم سے انکار کیا اور کہا کہ حکومت کا ایشیائے کوچک اور تھریسہ کے زرخیز ترک علاقوں پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ قسطنطنیہ بدستور ترکیہ کا دارالحکومت رہے گا ۔ گویا اس بیان سے یہ واضح ہوتا تھا کہ عرب علاقے تو چھین لیے جائیں گے لیکن ترک علاقوں پر قبضہ نہیں کیا جائے گا لیکن جب ۳ نومبر ۱۹۱۸ء کو ترکی نے متار کے کے سمجھوتے پر دستخط کر دیے تو برطانیہ نے اپنے سارے وعدوں کو بھُلا دیا اور اُس نے اپنی فوجیں موصل میں داخل کر دیں۔ چنانچہ قسطنطنیہ میں بظاہر تو اتحادیوں کا ، لیکن درحقیقت برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۲۰۔ برطانیہ کے اس جارحانہ اقدام کے بعد یونان بھی ۱۵ مئی ۱۹۱۹ء کو ترک علاقے سمرنا میں داخل ہو گیا اور پھر تو سارے یورپ میں ہی ترکوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہو گیا۔ چنانچہ اس دور میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کی تمام تر توجہ ترکی اور خلافت پر مرتکز ہو گئی اور آل انڈیا خلافت کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اقبال بھی اس سلسلے میں وہی نقطہ نگاہ رکھتے تھے جو ہندستان کے مسلمانوں کا تھا۔ ۱۵ دسمبر ۱۹۱۸ء کو لاہور میں سرمائیکل اوڈ وائر کی صدارت میں منعقد ہونے والے جلسہ فتح میں اقبال کو بھی شریک ہونا پڑا اس حوالے سے ایک دوست کے نام خط میں اقبال نے لکھا کہ:۔ پولیٹیکل جلسوں میں کبھی شریک نہیں ہوا کرتا۔ اس جلسے میں اس واسطے شریک ہوا کہ ایک بہت بڑا مذہبی مسئلہ زیر بحث تھا ۲۱۔ اقبال نے ۳۰ دسمبر ۱۹۱۹ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے ایک جلسۂ عام میں (جس کی صدارت میاں فضل حسین نے کی) نمایاں حصہ لیا اور یہ قرار داد پیش کی۔ مسلمانان لاہور اس جلسے میں اس عظیم پریشانی اور بے چینی کا اظہار کرتے ہیں جو پیرس کی صلح کانفرنس میں اب تک سلطنت عثمانیہ اور خلیفتہ المسلمین کے متعلق قابل اطمینان فیصلہ نہ ہونے سے لاحق ہوئی ہے اور حکومت کو وہ وعدے یاد دلاتے ہیں جو مسٹر لائیڈ جارج وزیراعظم برطانیہ نے جنوری ۱۹۱۸ء میں تمام اسلامی دنیا سے سلطنت ترکی کے متعلق کیے تھے اور پیرس کی صلح کانفرنس کو ان اصولوں کی توجہ دلاتے ہیں جو (امریکی) پریذیڈنٹ ولسن نے اپنے اعلانوں میں قائم کئے تھے اور جن کی بنا پر اس عظیم الشان جنگ کا خاتمہ کیا گیا اور بہ اصرار تمام درخواست کرتے ہیں کہ جن اصولوں پر اتحادیوں نے اپنی عیسائی دشمن سلطنتوں سے قرار داد کی ہے انھی اصولوں پر مسلمان سلطنتوںسے بھی صلح سرانجام پانی چاہیے اور سلطنت عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارتاً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۲۲۔ اقبال نے اس قرار داد کے حق میں پرجوش تقریر بھی کی۔ گویا اقبال کی شعری تخلیقات ان کے خطوط اُن کے مقالے اور ان کی تقاریر میں جہاں بھی سلطنت عثمانیہ یا ترکوں کا ذکر ہے، وہاں بحیثیت مسلمان سلطنت عثمانیہ اور ترکوں کے لیے اقبال کے دل میں موجود ہمدردانہ جذبات کا بھر پور اظہار ملتا ہے۔ خخخ حوالے اور حواشی ۱۔ محمد اقبال ڈاکٹر: ’’بال جبریل‘‘ ،شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۸۴ئ، ص، ۱۴۹ ۲۔ محمد اقبال: ’’بال جبریل‘‘، ص ۱۳۴ ۳۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر: ’’اقبال کی طویل نظمیں‘‘، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۱۲ ۴۔ عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر: ’’سرگزشت اقبال‘‘، اقبال اکادمی لاہور، طبع دوم ۱۹۹۶ء ،ص ۹۴ ۵۔ مظہر حسین برنی سید : ’’کلیات مکاتیب اقبال‘‘، پبلشرز ،لاہور، جلد اول، ص ۲۱۹ ۶۔ محمد اقبال ڈاکٹر: ’’بانگ درا‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۸۲ئ، ص ۲۰۶ ۷۔ محمد اقبال: ’’بانگ درا‘‘ ، ص ۲۱۴ ۸۔ محمد اقبال: ’’بانگ درا‘‘، ص ۱۹۷ ۹۔ محمد اقبال: ’’بانگ درا‘‘، ص ۲۱۶، ۲۱۷ ۱۰۔ محمد اقبال: ’’بانگ درا‘‘، ص ۱۴۶ ۱۱۔ محمد اقبال: ’’بانگ درا‘‘، ص ۲۵۷ ۱۲۔ شفیق احمد، ڈاکٹر: ’’اقبال اور ترکی‘‘، ص ۹۴ ۱۳۔ محمد اقبال: ’’بانگ درا‘‘، ص ۲۵۴ ۱۴۔ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر: ’’اقبال سب کے لیے‘‘، ص ۱۳۲۔۱۳۳ ۱۵۔ محمد یعقوب مغل، ڈاکٹر: ’’اقبال اور ترکی‘‘، ’’اقبال ریویو‘‘، حیدر آباد جنوری ۱۹۸۳ء ص ۲۱ ۱۶۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر: ’’اقبال کی طویل نظمیں‘‘ ۱۷۔ رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر: ’’اقبال کی طویل نظمیں‘‘ ۱۸۔ حکیم نیرواسطی: ’’اقبال کی مقبولیت تورکیہ میں‘‘ ،’’سیارہ‘‘ اقبال نمبر، فروری مارچ ۱۹۷۸ئ، ص ۱۵۰ ۱۹۔ این میری شمل، Cavidname (’’جاوید نامہ‘‘ کا ترکی ترجمہ) مقدمہ، ص xxxiv جلال سوئیدان ’’ترکی میں مطالعۂ اقبال‘‘ تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو‘ سیشن ۱۹۹۱…۱۹۹۳ئ، اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی ۔ ۲۰۔ عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر: ’’سرگزشت اقبال‘‘ ۲۱۔ شیخ عطا اللہ، ’’اقبال نامہ‘‘ ، جلد دوم ،شیخ محمد اشرف لاہور، ۱۹۵۱ئ، ص ۷۶۔۷۷ ۔ نیز: ’’سرگذشت اقبال‘‘، ص ۱۱۹ ۲۲۔ عبدالسلام خورشید: ’’سرگذشت اقبال‘‘، ص ۱۱۹۔۱۲۰  افکارِ اقبال اور مسلم اُمّہ کا تصوّر محمدانور صوفی مسلم امّہ کا تصور اقبالؒ کو ہمارے قومی تشخص میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ہماری معاشرتی زندگی کی تشکیل میں ان کے افکار اساسی حوالے ہیں۔ ہمارے نظریہ وطن یعنی دو قوی نظریے کی پہچان ہیں۔ اگر پاکستان سے اقبال اور فکر اقبال کا حوالہ نکال دیں، باقی صرف جغرافیائی سرحدیں رہ جائیں گی۔ اگر کسی ملک یا معاشرے کی نظریاتی سرحدیں باقی نہ رہیں تو جغرافیائی سرحدیں بھی بے معنی ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض نادان دوست، ہمارے ملک اور معاشرے کو اقبالؒ سے بے بہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان نادان دوستوں کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ ایک پاکستان کیا، دنیا بھر کے مسلمان ممالک، بلکہ غیر مسلم ممالک میں بسنے سے مسلمان بھی فی الوقت شدید دبائو کا شکار ہیں۔ انھیں کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی شناخت اپنی اپنی جغرافیائی سرحدوں کی چار دیواری تک محدود رکھیں۔ اور اپنے ذہن سے مسلم امّہ کے تصور کو جھٹک دیں۔ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘‘ کے تصور کی بجائے قوموں کی تشکیل کے وطنی نظریے کو اپنا لیں۔ گویا تسلیم کر لیں کہ ’’قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘، اور ادیان یا اعتقادات یا نظریات کی بنیاد پر نہیں۔ یہ وہی نعرہ ہے، جو تحریک آزادی ہند کے دوران، ایک عالم دین نے لگایا تھا تو علامہ نے ان کے تمام تر احترام کے باوجود، سخت ترین الفاظ میں اس نظریے کو رد کر دیا تھا۔ قوموں کی تشکیل کے بارے میں، مسلمانوں کو، اُن کے اسلامی نظریات سے ہٹانے کے کام کی ابتدا ترکی سے ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے ایک بڑی طاقت کا رول ادا کیا۔ سلطنت عثمانیہ، خلافت کے اسلامی تصور پر قائم تھی۔ اور دنیا بھر کے مسلمان، اس خلافت کو اپنے روحانی اور سیاسی مرکز کے طور پر، نہ صرف تسلیم کرتے تھے، بلکہ اس کا احترام بھی کرتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ اگر قائم رہتی تو آنے والے زمانے میں، دنیا بھر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے کسی بھی انتظام میں اسے نمایندہ حیثیت حاصل ہوتی اور اس کو برطانیہ اور فرانس جیسے نسبتاً چھوٹے ممالک سے کہیں بڑا مقام ملتا۔ لیکن مغرب کو مستقبل کے کسی نقشے میں اسلام اور مسلمانوں کا وجود گوارا نہیں۔ اس لیے ایک طرف اگر مشرقی یورپ کی اسلامی ریاستوں پر روسی تسلط کو قبول کر لیا گیا، تو دوسری طرف یونان کوبھڑکا کر قبرص کا مسئلہ پیدا کیا گیا۔ اسی طرح بلقان میں یوگو سلاویہ کو آگے بڑھایا گیا اور سب سے بڑھ کر عربوں کو عربیت کے نام پر بے وقوف بنایا گیا۔ جب ترکی دبائو میں آگیا، یعنی اسے محدود کر دیا گیا، تو وہاں ایک سیکولر انقلاب کے ذریعے ترک معاشرے کا اسلامی تشخص ختم کرا دیا گیا۔ مگر اب اکیسویں صدی میں وہ پھر اپنے اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے سرگرداں ہے۔ بیسویں صدی کے شروع میں ترکی کو ایک بڑی طاقت کا درجہ حاصل تھا مگر اب یورپی برادری میں بھی اس کی شمولیت بہ حیثیت ایک دست نگر ملک کی ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ موجودہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنی نمایندگی اور مستقل نشست سے وہ محروم ہے، اور نہ جانے کب تک محروم رہے گا۔ برصغیر جنوبی ایشیا (یعنی متحدہ ہندستان) میں تحریک آزادی، اس تحریک میں مسلمانوں کے اہم اور نتیجہ خیز کردار، مسلمانان ہند کے اسلامی تشخص پر اصرار، مطالبہ پاکستان اور تحریکِ حصول پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد ترکی سے پاکستان کے دوستانہ تعلقات وغیرہ کے بارے میں ہماری نئی نسل اور خاص طور پر ناروے میں پروان چڑھنے والی ہماری نژادنو، کس حد تک باخبر ہے؟ نہیں معلوم۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اپنی نسل بھی شاید اس بارے میں کچھ معلومات تو رکھتی ہے، مگر ان کی اہمیت کے ادراک سے عاری ہے۔ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر آپ کو پاکستانیوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والے ایسے بہت سے رہنما اور دانشور، بہ آسانی مل جائیں گے جو پوری دیانتداری کے ساتھ، اَب بھی، یہ یقین رکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کا مطالبہ درست نہ تھا۔ اس کے باوجود لوگ، اُن کو اپنا راہ نما تسلیم کرتے ہیں، بلکہ پاکستان کی تقدیر اُن کو سونپنے کو تیار ہیں۔ علامہ اقبال ترکی میں خلافت کی بحالی کو ممکن نہیں سمجھتے تھے، لیکن عالمِ اسلام کے لیے ایک مرکز کے قیام کے پرُجوش حامی بلکہ داعی تھے۔ علامہ، اپنے وقت کے دیگر راہنمائوں اور عام لوگوں کی طرح سلطنت عثمانیہ کے زوال اور مسلمانوں کی پے در پے شکستوں پر دل گرفتہ رہتے تھے۔ آپ نے سقوطِ طرابلس پر جو انتہائی پرُ سوز نظم لکھی اور بادشاہی مسجد میں منعقدہ ایک احتجاجی جلسۂ عام میں پڑھی، اُسے سُن کر، مجمع جذبات کی شدت میں بے چین و مضطرب ہو گیا تھا اور اس نظم میں علامہ نے بیان کیا ہے کہ فرشتے جب اُن کو بزم رسالت میں لے گئے تو حضورﷺ نے، اُن سے پوچھا: نکل کے باغِ جہاں سے بہ رنگِ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا تو جواباً علامہ نے فرمایا: حضورؐ، دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بوُ، وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے، جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں ہر وہ شخص جو علامہ سے عقیدت کا دم بھرتا ہے اور علامہ کے کلام و پیام سے معمولی سی بھی آشنائی رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اقبال مسلمانوں کے باہمی اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ مزید یہ کہ شاعر انسانیت بھی تھے۔ آپ اس عالم کے ایک ایک فرد کے لیے باعزت زندگی کے تمنائی تھے۔ افراد کی شخصی اور اقتصادی آزادی اور یکساں ذرائع روزگار کی فراہمی کے زبردست حامی تھے۔ آپ اتحاد اقوام سے کہیں زیادہ وحدت آدم پر یقین رکھتے تھے۔ ضرب کلیم میں شامل ایک نظم کا عنوان ہے ’’مکہ اور جنیوا‘‘۔ اس میں علامہ فرماتے ہیں: اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم تفریق مِلل، حکمتِ افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود، فقط ملتِ آدم مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم؟ اس نظم میں نہ صرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک فرد کی حیثیت کو متعین کر دیا گیا ہے، بلکہ یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ جمعیت اقوام (Leage of Nations) اصل میں انسانوں کو انسانوں سے جُدا کرنے، اور اُن کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے اور مرنے مارنے پر آمادہ کرنے کا ایک طریقۂ واردات ہے۔ یہ حکمت فرنگیوں کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ایک ہی برعظیم یورپ میں رہنے والے، ایک ہی دین کے ماننے والے، تقریباً ایک جیسا معاشرتی نظام رکھنے والے عوام کو قومیت کے جغرافیائی اور وطنی نظریے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ لڑایا اور ایک دوسرے کے ہاتھوں مروایا گیا۔ علامہ اسی باعث دیار مغرب کے اس تہذیبی نظام کی کامیابی سے مایوس تھے۔ اور اپنے اس احساس کا اظہار، آپ نے، اپنے قیام یورپ (۱۹۰۵۔۱۹۰۸ئ) کے دوران ہی، اپنی ایک غزل (مارچ ۱۹۰۷) میں کر دیا تھا: تمھاری تہذیب، اپنے خنجر سے، آپ ہی خود کشی کرے گی اس کے برعکس علامہ کا پختہ ایمان تھا کہ آنے والا زمانہ اسلام کا زمانہ ہے۔ بنی نوع انسان کے تمام تر مسائل کا حل اسلامی تعلیمات میں مضمر ہے۔ دنیا میں اسلام کو اپنی اصل روح کے ساتھ پیش کرنا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے اسی لیے علامہ نے اپنی نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں فرمایا ہے: سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا اور اپنی اسی بات کو سیاسی رنگ میں ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’جمعیت اقوام مشرق‘‘ میں دہرایا ہے۔ طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے علامہ چاہتے تھے کہ ہندستان میں بسنے والے مسلمان، دنیا بھرکے مسلمانوں کو متحد اور متحرک کرنے کی ذمہ داری کو قبول کریں اور اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ علامہ ہوا میں تیر چلانے کے قائل نہیں تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ اس کام کی تیاری کے لیے جس قسم کے وسائل درکار ہوتے ہیں، وہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور آزاد ممالک کی خود مختار اور نمایندہ حکومتیں ہی فراہم کر سکتی ہیں۔ علامہ کو معلوم تھا کہ حکومتی اقدامات کو قانونی جوا زفراہم کرنے کا تسلیم شدہ طریقہ جمہوریت میں پوشیدہ ہے۔ اسی لیے علامہ، جمہوری حکومت میں پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وہ کام تھا جس کے لیے ایک تجربہ گاہ، پاکستان کی صورت میں فراہم کرنا ضروری تھی علامہ کے اس خیال اور تصور سے، نہ صرف پاکستان کے نظریے کی ابدیت عیاں ہوتی ہے بلکہ یہ بھی سمجھا جا سکتا کہ کشمیری مسلمانوں کو اُن کے سوادِ اعظم سے کاٹ کر رکھنے، فلسطین میںمسلمانوں کی اپنی ریاست کی مخالفت میں اور چیچنیا میں، عوام کی اپنی ایک آزاد اور جمہوری حکومت کے قیام کی مخالفت میں کون سی مشترکہ حکمت عملی کار فرما ہے۔ خود مسلمانوں کو شاید اس میں کوئی شک ہو، مگر ہمارے’’ کرم فرما‘‘ اس امر سے غافل نہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں سے روح محمدﷺ کو نکالنا کیوں ضروری ہے، علامہ کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ علامہ کی آخری کتاب ’’ارمغان حجاز‘‘ کے حصہ اردو کی پہلی نظم ہے۔ اسے پڑھ لیں، معاملہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا۔ یہ نظم بھی بہ اندازِ تمثیل لکھی گئی ہے۔ منظر یہ ہے کہ ابلیس نے اپنے مشیروں کا ایک اجلاس بلا رکھا ہے، اجلاس کا ایجنڈا ہے ابلیسی نظام کو درپیش خطرات کی نشاندہی اور اُن کی روک تھام۔ ابلیس کے مشیر، ملوکیت سے جمہوریت تک کے انسانی سفر کو خطرہ قرار دیتے ہیں، اور سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کو ابلیسی نظام کا توڑ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ابلیس اُن سب سے اختلاف کرتا ہے اور اُن کو سمجھاتا ہے کہ یہ سب قدیم و جدید نظام، میرے اپنے ہی بنائے ہوئے ہیں۔ مقصود ان سے یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ اب وہ میرے چنگل سے نکل رہے ہیں، جبکہ اصل میں میری گرفت ان پر مزید سخت ہو رہی ہے۔ میںنے تو مسلمانوں کو بھی بے عملی کی ترغیب دے کر اور ان میں، فرقہ واریت کو ہوا دے کر، ان کے ایمان کی تیغ جگر دار کو کند کر دیا ہے۔ اس کے باوجود اگر مستقبل میں کسی نظریے کسی اصول اور کسی نظام سے مجھے حقیقی خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو وہ آرزو کی اس چنگاری سے ہے جو اب بھی بے عمل اور بے یقین مسلم امہ کی بجھی ہوئی راکھ میں پوشیدہ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ عصر حاضر کے تقاضے مسلمانوں پر پیغمبرﷺ کی وہ شرع آشکار نہ کر دیں جسے میں نے اپنی حکمتِ عملی اور تدابیر سے ان سے پوشیدہ کر رکھا ہے۔ وہ آئین پیغمبرﷺ جس سے کہ ابلیس بھی پناہ مانگتا ہے اور نہیں چاہتا کہ مسلمانوں پر آشکار ہو جائے، وہ آئین یہ ہے: الحذر! آئین پیغمبرؐ سے سو بار الحذر حافظِ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں اسی پر بس نہیں، ابلیس اپنے وہ طریقے، حربے اور وہ نسخے بھی اپنے مشیروں کو بتاتا ہے، اُن کے سامنے اپنی اس حکمت عملی کے نکات بیان کرتا ہے، جن کو اپنا کر مسلم امہ کو بے یقینی میں مبتلا رکھا جا سکتا ہے۔ حکیم الامت نے تو اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ہمیں ابلیسی ارادوں او رمنصوبوں سے آگاہ کر دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ جس منبر سے یہ صدا بلند ہو کہ ملت وطن سے ہے، وہ منبر مقام محمد عربیﷺ سے بے خبر ہے۔ اس کے برعکس ہمارا کردار و عمل یہ ہے کہ مسلمان یا مسلمان حکومتیں، اسلام اور مسلمانوں کے کھلے یا چھپے دشمنوں کے لیے محض ایک ترانوالہ بن چکی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان ملک قومیت کا زمینی نظریہ اپنا چکے ہیں۔ عرب ممالک نے تو اسی بنیاد پر اپنی ایک علیحدہ تنظیم عرب لیگ بھی قائم کر رکھی ہے۔ ہمارے اپنے ملک سے مشرقی پاکستان کو اسی نظریے کے تحت علیحدہ کرایا گیا۔ اور اب پاکستان میں اسی نظریے کی اشاعت اور تبلیغ کی عیارانہ کوششیں، انتہائی مکارانہ طور پر ہو رہی ہیں۔ اس لیے حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اس صورت حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اس کا ایک آسان اور سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اقبالؒ کے مزید قریب کریں۔ اقبالؒ کو سمجھنے کے لیے پڑھیں، اور جو سمجھ میں آئے اسے دل سے قبول کریں اور جسے دل سے قبول کیا جائے اس پر عمل بھی کیا جائے۔ اس موقع پر مجھے ایک وہ تاجک پروفیسر اکبر ترسون زادہ یاد آ رہے ہیں جن کے ساتھ میری ملاقات ۱۹۹۱ء میں قرطبہ، سپین میں منعقد ہونے والی اقبال کانفرنس کے دوران ہوئی تھی۔ اپنا مقالہ پیش کرنے سے پہلے انھوں نے سامعین و حاضرین کو بتایا تھا کہ اقبالؒ ہماری روزمرہ معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی زندگی کے بہت قریب ہے۔ ہم اسے ایک زندہ مقامی شاعر محسوس کرتے ہیں۔ ہم اس کی نظمیں اپنے قومی نغموں کی طرح گاتے ہیں۔ ایک وقت میں ہماری مذہبی اور سماجی اقدار کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ ہمارے لیے معلومات کا خلا پیدا کر دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی اقبالؒ ہمارے لیے حوصلہ اور امید کا سرچشمہ تھا۔ آج ہم آزاد ہیں، تو اقبالؒ کی ضرورت اور زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں، اور یہ اچھا ہے کہ وہ اپنے کلام کی صورت میں ہماری رہنمائی کے لیے ہمارے پاس موجود ہیں۔ میرے نزدیک سوال یہ نہیں کہ فکر اقبال عصر حاضر میں با معنی ہے یا نہیں؟ سوال یہ بھی نہیں کہ اقبالؒ کتنا بڑا شاعر ہے سوال یہ بھی نہیں کہ اقبال کن کن شعرا سے بڑا ہے اور کون کون اقبال کے بعد بڑے شاعر ہیں یہ سب، اور ان سے ملتے جلتے سوالات تو صرف ہمیں الجھانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اقبالؒ کا جو بھی مرتبہ و مقام ہے، وہ ہماری وجہ سے نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارے ماننے یا نہ ماننے، یا اسے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے اقبالؒ کی عظمت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ میرے نزدیک اہم سوال صرف یہ ہے کہ کیا تاجکی پروفیسر اکبرکے اشارات سمجھ سکتے ہیں؟ میرا جواب، اس ضمن میں مثبت ہے۔ کیونکہ میرا ایمان یہ ہے کہ ہم، اقبالؒ کی سرزمین کے ویران کھیت تو ہو سکتے ہیں، مگر بنجر اور بانجھ نہیں ہیں۔ اقبالؒ ہی کے بقول: نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ……… (یہ مضمون ۱۰ نومبر ۲۰۰۲ء کو بزم احباب پاکستان، ناروے کے زیر اہتمام یوم ولادت اقبالؒ کے سلسلے میں، اوسلو ناروے میں منعقدہ ایک تقریب میں پڑھا گیا۔)  اخبار اقبالیات ٭ ناروے میں یوم ولادت اقبال ٭ ٹورانٹو میں ذکر و فکرِ اقبال کی محفل ٭ ڈیرہ غازی خان میں ذکرِ اقبال ٭ صوبہ بلوچستان میں تقاریب سالِ اقبال ٭ گورنمنٹ پاک گرلز ہائی سکول کوئٹہ میں سال اقبال ٭ گورنمنٹ گرلز کالج سیٹلائٹ ٹائون کوئٹہ میں ہفتہ اقبال ٭ گورنمنٹ گرلز کالج جناح ٹائون میں تقریب اقبال ٭ مرکزیہ مجلس اقبال کا جلسہ ٭ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں یومِ اقبال ٭ نظریۂ پاکستان فائونڈیشن اور پاکستان ورکرز ٹرسٹ میں ہفتہ اقبال ٭ چلڈرن کمپلیکس لاہور میں یوم اقبال ناروے میں یوم ولادتِ اقبال ناروے میں سردیوں کے دِن بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ اِس لیے سردیوں میں دن کی نمازوں کے دوران وقت بہت کم ملتا ہے۔ اگر رمضان کی آمد بھی سردیوں میں ہو جائے تو مسلمانوں کی دینی مصروفیات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وقت مزید کم پڑ جاتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہاں دینی اداروں کی بھر پور تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں کے باعث ہم وطنوں میں دین کی طرف رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے دوران تو چھوٹے، بڑے، بوڑھے، بچیاں اور بیبیاں سبھی انتہائی ذوق و شوق سے نماز، روزہ ، افطار اور تراویح کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی کے باعث سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے لیے وقت نکالنا تقریباً نا ممکن ہو جاتاہے۔ اس کے باوجود ۱۰ نومبر ۲۰۰۲ء بروز اتوار عصر اور مغرب کے درمیان بزم احباب پاکستان نے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے ۱۲۵ ویں یوم ولادت کے سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب ایک طرح سے افطار پارٹی کی صورت بھی اختیار کر گئی۔ تقریب کے اختتام پر سب احباب نے افطار کیا اور نمازِ مغرب وہیں ادا کی۔ تقریب کے منتظم جناب طلعت محمود بٹ نے خود ہی تلاوت کلام پاک سے اس تقریب کی ابتدا فرمائی۔ تلاوت کے بعد آپ نے پنجابی میں اپنے نعتیہ اشعار پیش کیے۔ محمد صفدر صوفی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا علامہ مصلح قوم کے ساتھ اپنے وقت کے مجدد بھی تھے۔ آپ نے اپنی شاعری میں قرآن اور رسولﷺ کی باتیں آسان انداز میں بیان کی ہیں۔ آپ نے وہ اصول بتائے ہیں جو قوموں کو سرفراز اور سربلند کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے آپ کے کلام کو انتہائی غور کے ساتھ پڑھا جائے۔ جناب فیض الحسن شاہ نے ایک آیت تلاوت کی اور اس کا مفہوم واضح کیا۔ آپ نے فرمایا کہ مومن موت سے نہیں ڈرتا۔ پھر سوال کیا کہ اقبالؒ کے نزدیک مومن کو ن ہے؟ آپ نے اقبالؒ کے اس شعر پر بات ختم کی: ہو صداقت کے لیے جس دِل میں مرنے کی تڑپ پہلے، اپنے پیکرِ خاکی میں، جاں پیدا کرے راقم الحروف نے ایک مضمون پیش کیا جس کا عنوان تھا: ’’افکارِ اقبال اور مسلم امہ کا تصور‘‘ مضمون کا مرکزی خیال اِن الفاظ میں پیش کیا گیا۔ علامہ مسلمانوں کے عالمی اتحاد کے داعی تھے۔ آپ کا پختہ ایمان تھا کہ آنے والا زمانہ اسلام کا زمانہ ہے۔ بنی نوع انسان کے تمام تر مسائل کا حل اسلامی تعلیمات میںمضمر ہے۔ عنقریب دنیا کے سامنے اسلام کو اس کی اصل روح کے مطابق پیش کرنے کی ذمہ داری امت مسلمہ کے کندھوں پر آنے والی ہے۔ اس لیے علامہ چاہتے تھے کہ ہندستان کے مسلمان دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد اور متحرک کرنے کی ذمہ داری قبول کریں۔ اس کام کے لیے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک آزاد ملک اور اس ملک میں عوام کی رائے سے قائم شدہ ایک جمہوری اور خود مختار حکومت قائم ہو۔ یہی وہ کام تھا جس کے لیے پاکستان کی صورت میں ایک تجربہ گاہ فراہم کرنا لازمی تھی۔ سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا جناب راجا منصور احمد، جناب بلال امتیاز شاہ اور جناب امتیاز حسین شاہ نے کلام اقبالؒ کو حسن صوت کے ساتھ پیش کیا۔ دعا کے ساتھ یہ روح پرور تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ (رپورٹ: محمد انور صوفی، اوسلو، ناروے) ……٭…… ٹورانٹو میں ذِکر و فکرِ اقبال کی محفل ٹورانٹو میں ۲۶ اپریل بروز جمعہ منائی جانے والی شام اقبال ایک بے مثال محفل اقبال کہلانے کی مستحق ہے۔ شرکائے محفل نے ذکر و فکر اقبال سے اپنی وابستگی کو ابتدا سے انتہا تک پورے جذب و خلوص کے ساتھ برقرار رکھا۔ مہمان مقرر، پروفیسر نعمان الحق کی پیام اقبال سے فکری و جذباتی وابستگی کا مظہر سحر انگیز خطاب، مولانا وصی مظہر ندوی کا فکر انگیز خطبہ صدارت، ڈاکٹر تقی عابدی کا منفرد انداز نظامت، حیات اقبال کے حوالے سے تصویری نمایش، اشعار اقبال کے حوالے سے مصور اقبال، اسلم کمال کی پینٹنگز ، پرتکلف ڈنر اور آخر میں کلام اقبال پر مبنی قوالی نے شروع سے لے کر آخر تک شرکا کی دلچسپی کو برقرار رکھا۔ یوں اس تقریب نے اقبال اکیڈمی کینیڈا کی ’’شام اقبال‘‘ کی تقریبات کی خوب سے خوب تر روایت کو ایک نئی بلندی عطا کی۔ اعلان کے مطابق پروگرام کا آغاز، حیات اقبال کے تصویری سفر اور اشعار اقبال پر مبنی اسلم کمال کی پینٹنگز کی نمایش سے ساڑھے سات بجے ہونا تھا لیکن حاضرین کی آمد سات بجے سے ہی شروع ہو گئی۔ ساڑھے آٹھ بجے نماز مغرب کے وقفے تک حاضرین نے پورے ذوق و شوق سے تصاویر کے ذریعے جہاں حیات اقبال کے کئی گوشوں سے آشنائی حاصل کی وہاں مصور اقبال، اسلم کمال کے موئے قلم کی شاہکار پینٹنگز سے کلامِ اقبال کے ایسے گوشوں تک رسائی حاصل کی جہاں تحریر و تقریر کے ذریعے پہنچنا نا ممکن سا ہوتا ہے۔ نمایش کے ہال میں نمایش کے دوران شرکا ایک دوسرے سے گھل مل کر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ ہلکے پھلکے استقبالیہ کھانے سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔ اسی ہال میں نمازِ مغرب کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ نماز مغرب کے بعد نمایش کے ہال سے ملحقہ بڑے ہال کے دروازے کھول دیئے گئے اور پروگرام کے دوسرے حصے کا آغاز ہوا۔ پروگرام کا یہ حصہ تقاریر، ڈنر اور منتخب کلام اقبال کی قوالی پر مشتمل تھا۔ حاضرین کے نشستیں سنبھالنے کے بعد اقبال اکیڈمی کینیڈا کی جانب سے اکیڈمی کے ممتاز رکن جناب ابرار خان نے حاضرین کی آمد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد تقریب کے ناظم جناب تقی عابدی صاحب کا مختصر تعارف پیش کیا۔ انھیں پروگرام کی نظامت کے لیے مدعو کیا۔ ڈاکٹر تقی عابدی پیشے کے لحاظ سے طب کے شعبہ سے وابستہ ہیں، لیکن جدید اور کلاسیکی ادب میں تحقیقی اور تخلیقی طور پر ۹ کتابوں کے مصنف کی حیثیت سے شمالی امریکہ میں اہم ادبی مقام کے حامل ہیں۔ ان کی فکرِ اقبال سے وا بستگی کی مظہر، حال ہی میں لکھی گئی کتاب ’’اقبال کے عرفانی جائزے‘‘ اقبالیات کے ذخیرے میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ڈاکٹر عابدی صاحب نے نظامت سنبھالنے کے بعد پروگرام کی باقاعدہ ابتدا کے لیے حافظ اشتیاق طالب صاحب کو تلاوتِ کلام پاک کی دعوت دی۔ حافظ صاحب نے تلاوت کے بعد ان آیات کا انگریزی ترجمہ بھی بیان کیا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد ڈاکٹر عابدی صاحب نے نظامت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ فکرِ اقبال سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے مختصراً علامہ اقبال کے فارسی اور اردو اشعار کے حوالے سے علامہ اقبال کے فلسفہ عشق اور عشق محمدؐ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’لفظ عشق اگرچہ عربی لفظ ہے اور نزول قرآن سے پہلے عربی کے قصیدوں میں بھی اس کا عمومی استعمال نظر آتا ہے لیکن قرآن میں یہ لفظ موجود نہ ہونے کی وجہ سے عربی ادب میں یہ لفظ قریباً متروک سا ہو چکا تھا۔ اس لفظ کی اوّلین بازیافت کا اعزازجہاں مولانا روم کے حصے میں آیا ہے وہاں ان کے مرید ہندی علامہ اقبال نے اس لفظ میں مخفی قوت، خوبصورتی اور تاثر کو مختلف مقامات پر بڑے ہی موثر انداز میں پیش کر کے اس لفظ کو فارسی اور اردو ادب میں ایک جاودانی مقام عطا کر دیا ہے۔ انھوں نے عشق کے مضمون پر اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اشعار اور ان کا ترجمہ و تشریح پیش کر کے حاضرین کو علامہ اقبال کے فارسی کلام کے مقام سے بھی آگاہی بخشی۔ عشق دم جبریل، عشق دلِ مصطفی عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام …… طرح عشق انداز اندر جانِ خویش تازہ کُن با مصطفی پیمانِ خویش یعنی عشق کی بنیاد اپنی جان میں قائم کر اور حضورؐ سے باندھا ہوا پیمان پھر سے تازہ کر، کیوں کہ ہر کہ عشقِ مصطفی سامانِ اوست بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست …… قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے اگر عشق محمدؐ نہیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا، کیوں کہ مغز قرآں، روحِ ایماں، جان دیں ہست حُبِّ رحمت للعالمینؐ ڈاکٹر عابدی صاحب نے کہا کہ اقبال کے نزدیک عشق صرف عقیدت بھری محبت اور تعلق نہیں بلکہ ایک ایسی قوت سے جس نے عشق با نانِ جویں خیبر کشاد عشق در اندام مہ چاکی نہاد! جوکی روٹی کھانے والے نے اسی عشق کی قوت سے در خیبر وا کیا اور اسی قوت سے چاند کے ٹکڑے یعنی معجزۂ شق القمر رونما ہوا۔ ڈاکٹر عابدی نے علامہ کی فکر کے بنیادی عنصر یعنی ’’نظریہ خودی‘‘ کے عملی حاصل یعنی تعمیر خودی اور بیداری کے حوالے سے بھی بڑے موثر انداز میں اقبال کے اشعار کو حاضرین کی نذر کیا، خصوصاً یہ شعر ؎ کافرے بیدار دل پیشِ صنم بہ زدیندارے کہ خفت اندر حرم! یعنی ایک کافر، بیدار دل کے ساتھ اپنے بت کے سامنے، اس مسلمان سے بہتر ہے جو کعبے میں غفلت کی نیند سو رہا ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے دور حاضر میں مادی وسائل سے محرومی اور نتائج سے مایوسی کے پس منظر میں مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے مقابلے کے لیے بلائی گئی ’’فلسطین کانفرنس‘‘ میں علامہ اقبال کے وہ اشعار پیش کیے جو انھوں نے وسائل اور جذبے کے فرق کو نمایاں کر کے سامعین پر سحر ساطاری کر دیا تھا ۔ ؎ طارق چوں برکنارۂ اندلس سفینہ سوخت گفتند کارِ تو بہ نگاہ خرد خطاست دوریم از سواد وطن باز چوں رسیم؟ ترک سبب ز روئے شریعت کجا رواست خندیدو دست خویش بہ شمشیر برد و گفت ہر مُلک مُلکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست (یعنی جب طارق نے جبل الطارق پر اپنی کشتیوں کو جلا دیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ کام عقل کے خلاف ہے، اب ہم اپنے وطن سے دور ہیں واپس کیسے جائیں گے۔ شریعت کی رو سے ترکِ سبب ، جائز نہیں ہے۔ اس وقت طارق نے ہاتھ میں تلوار لے کر مسکراتے ہوئے کہا کہ ہر مُلک ہمارا ہی مُلک ہے کیوں کہ وہ ہمارے خدا کی ملکیت ہے۔) پروفیسر ڈاکٹر نعمان الحق پنسلوینیا یونیورسٹی میں History of Science and Artکے پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی ’’اسلامی فلسفے کے مطالعے‘‘ پر مبنی کتابوں کی سیریز کے جنرل ایڈیٹر اور کئی عالمی ادارتی و مشاورتی کمیٹیوں کے رکن بھی ہیں۔ پنسلوینیا یونیورسٹی کی حالیہ ذمہ داریوں سے پہلے وہ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے ہارورڈ یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ سٹڈیز کی فیلوشپ کے علاوہ لندن اور ہارورڈیونیورسٹی سے اسلام کی فلسفیانہ تاریخ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ تدریسی، ادارتی و مشاورتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں سائنس اور فلسفے کی تاریخ کے موضوع پرلکھی ہوئی دو جلدوں پر مشتمل کتاب Names, Natures, and Things کی اشاعت ہالینڈ سے ہوئی ہے۔ Encyclopaedia of Islam اور آکسفورڈ کی Encyclopaedia of Modern Islamic World, کی تدوین کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تخلیقات اور Journal of the American Oriental Socitety, Nature, Isis جیسے معتبر علمی جرائد میں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اقبالیات کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی تحریری تخلیقات عالمی سطح کی کانفرنسوں میں خطابات کے علاوہ بھی ہیں۔ ان دنوں اردو زبان میں جو کتاب مکمل کر رہے ہیں وہ مشہور صوفی حلاج اور اقبال کے موضوع پر ہے۔ ڈاکٹر نعمان الحق علمی اعتبار سے متاثر کن پس منظر کے ساتھ ساتھ کئی سال تک بی بی سی لندن اور پاکستان ٹی وی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ علمی، فکری اور فنی دنیا کے بھاری بھرکم پس منظر میں روایتی پروفیسروں کے برعکس ڈاکٹر نعمان الحق صاحب پر شباب، متحرک اور جاذب شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے اقبال اکیڈمی کینیڈا اور ٹورانٹو کے اہل ذوق کے شکریے کے ساتھ اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ عام طور پر ثقافتی نوعیت کی سرگرمیوں سے گریزاں رہ کر اپنی محدود سی علمی و تدریسی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ لیکن اس تقریب کی غرض و غایت یعنی اقبال شناسی انھیں اس محفل میں کھینچ لائی ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال کے کلام سے اپنی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اقبال میری رگوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے تو یہ بے جا اس لیے نہیں ہو گا کہ ہائی سکول کے زمانے سے اقبال سے متعارف ہونے کے بعد آج آئیوی لیگ میں پروفیسری پانے تک کوئی مقام، کوئی مرحلہ ایسا نہیں گزرا جس میں انھیں اقبال سے ہمکلامی، اقبال کی غم گساری اور اقبال سے راہنمائی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ انھوں نے اقبال کے حوالے سے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہا کہ میرے پیش نظر ہمیشہ نوجوان طبقہ رہتا ہے۔ یہاں مغرب میں مقیم والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو اقبال کے پیغام سے متعارف کروا کے ان کو اقبال کے ایسے ’’شاہین‘‘ بنا دیں جن کے شانہ بشانہ چلنا ہی ہمارے لیے باعث نجات ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری نسل کے بیشتر لوگوں نے اقبال کے نہایت سنجیدہ، متحرک اور فعال پیغام کو تنگ و تاریک، حبس زدہ دیواروں میں محدود کر دیا ہے۔ میں باور کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کے لیے اقبال ایسا فکری اور عملی راہنما ہے جس کے پیغام کی روشنی میں ہماری نئی نسل اسلام کے آفاقی اصولوں کی بنیاد پر متحرک و فعال ہو کر اسلام کے پیغام کا حق ادا کر سکتی ہے۔ جس کے لیے ہمیں رسولؐ ، قرآن اور اقبال ایسا مفسر قرآن بخشا گیا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ دور میں اقبال کی ضرورت،اہمیت اور ان سے تعلق جتلانے کے لیے عمومی طور پر انھیں ’’شاعر مشرق‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ اقبال کے ساتھ نا انصافی ہے اور ان پر مشفقانہ انداز میں چسپاں کی ہوئی علاقائیت کی نازیبا تہمت ہے۔ میرا آج کا موضوع اقبال کو موجودہ دور کے تناظر میں تین سطحات پر پرکھنا ہے۔ فکری، ادبی اور عالمی تناظر میں علمی مقام۔ میں نوجوانوں کی توجہ اس امر کی جانب دلانا چاہتا ہوں کہ جرمنی کے قابل احترام اور شہرہ آفاق ادیب ہرمن ہیسے نے لکھا ہے کہ اقبال تین جہانوں میں بستے ہیں۔ جہان مغرب، جہان اسلام اور جنوبی ایشیا کا جہان۔ لیکن ہمیں کلام اقبال کی آفاقی جہات کی تصدیق کے لیے ہر من ہلیسے یا کسی اور مغربی حوالے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ علامہ کی فارسی اور اردو کلیات کی فرہنگ کا سرسری جائزہ لیں تو جہاں اس میں مغربی دنیا کے حوالے سے ہیگل، مارکس، نطشے، شیکسپیئر جیسے جید نام ملتے ہیں، وہاں رومی، عطار اور حلاج جیسے اسلامی ناموں کا طویل سلسلہ بھی موجود ہے، پھر: ؎ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ایسے شعر کا خالق بھرتری ہری، سوامی رام تیرتھ اور گورونانک ایسے نام سامنے آنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے مفکر سے واسطہ درپیش ہے جس کا فکری افق عالمی تہذیب کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ پروفیسر نعمان الحق صاحب نے فکر اقبال کو مقامی نوعیت سے آزاد ثابت کرنے کے بعد اقبال کی فکر کو زمانی لحاظ سے ماورا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کی وسعتِ نظر اور مستقبل شناسی کی سچائی کا عالم یہ ہے کہ ان کا کلام پڑھتے ہوئے بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم سی این این کو دیکھ یا سن رہے ہوں۔ وہ کوئی نجومی یا پیشین گوئی کے دعوے دار نہ تھے لیکن یہ فراست اور دور بینی ادراک کی گہرائی و گیرائی اور زود حسی کا نتیجہ تھی۔ اس بارے میں انھوں نے کلام اقبال سے ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے چند اشعار حوالے کے لیے پیش کیے: میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک روزِ ازل سے ہے تو منزلِ شاہین و چرغ لالہ و گل سے تہی، نغمۂ بلبل سے پاک اے مرے فقرِ غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا خلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک! ’’خوشحال خان کی وصیت‘‘ قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند مغل سے کسی طرح کمتر نہیں قہستاں کا یہ بچۂ ارجمند کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند اڑا کر نہ لائے جہاں بادِ کوہ مغل شہسواروں کی گردِ سمند! پروفیسر صاحب نے کہا کہ میں اکثر تنہائی میں جب یہ نظم پڑھتا ہوں تو مجھ پر ایک تشنج کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور خود فراموشی کے ایسے عالم میں پہنچ جاتا ہوں کہ اس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ لا کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج مُلا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو پروفیسر نعمان الحق صاحب جس جذب و شوق اور کیف و مستی کے عالم میں ایک کے بعد ایک شعر پڑھے جا رہے تھے اس نے پوری محفل پر ایسا سحر طاری کر دیا تھا کہ فکرِ اقبال کی اس محفل کو شعر اقبال کی محفل میں بدل جانے کا اندیشہ انھیں دوبارہ فکرِاقبال کی طرف لے آیا اور انھوں نے کہا کہ کلام اقبال کو آج کے حالات کی روشنی میں دیکھیے تو اس کا کثیر حصہ بالکل آج اور ابھی کی بات معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے فکرِاقبال کی جانب رجوع کرتے ہوئے کہا کہ کانٹ جو ایک جانا پہچانا فلسفی ہے، اس کے نظریے کے مطابق ہم اپنی حسیات سے ارد گرد کی دنیا کا جس طرح ادراک کرتے ہیں وہ ہماری اپنی اختراع ہوتی ہے، مثلاً ہم کسی شے پر نظر کرتے ہیں تو وہ شے موجود تو ہوتی ہے لیکن اس کی ہیئت کو نام دے کر اس کا تعین ہم اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ جیسے چار پایوں پر ایستادہ لکڑی کے تختے کو ’’میز‘‘ کا نام دے کر ہم اپنے تخیل کی تجسیم کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے تخیل اور تجسیم کی مدد سے اس مادی دنیا کو تخلیق کرتے ہیں۔ زمان و مکان کی اس مادی دنیاکا اخلاقی یا غیر مرئی اقدار سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہاں عقلی ادراک کی حد مقرر ہو جاتی ہے اور کانٹ کا کہنا یہ تھا زمان و مکان کی اسیر مادی دنیا کا اخلاقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ اس کے بالمقابل اقبال نے اس فلسفیانہ گرہ کو جس طرح کھولا ہے، وہ نہایت ہی احسن اور جامع ہے۔ ان کا موقف اور استدلال یہ ہے کہ زمان و مکان اور عالم اخلاق میں نہ صرف یہ کہ کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور یہ کہ اس جدلیاتی تعلق میں ہی حضرت انسان کی تخلیق کا مقصد اور ترقی کا جوہر مضمر ہے۔ انسان کا اس دنیا میں وجود زمان و مکان کی تاریخی حیثیت سے وابستہ ہے۔ دنیا میں خیر و شر کا معرکہ دراصل اس زمان و مکان کی حسرت سامانیوں سے نبرد آزما ہونے ہی کا نام ہے۔ اس حوالے سے ابلیس کا تصور اسلامی فلسفے کی رو سے غیر اللہ یا اللہ تعالیٰ کے مخالف یا مقابل کی بجائے انسان دشمن کا ہے۔ اسی فلسفے کی بنیاد پر زمان ومکان کی دنیا کا خیر و شر کی دنیا سے نبرد آزما ہونا نہ صرف ضروری ہے بلکہ حقیقتاً ایک دوسرے کے بغیر ان کی ماہیت اور غایت بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہاں پروفیسر صاحب نے ایک بار پھر کلامِ اقبال سے مثالیں دیتے ہوئے واضح کیا کہ آدم اپنی فردوس خود تخلیق کرتا ہے۔ اور عمل تخلیق میں زمان و مکان کی بندشوں اور صعوبتوں سے ٹکرائے بغیر چارہ نہیں۔ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے مظہر اہرام مصر کو اقبال نے کچھ اس طرح اجاگر کیا ہے۔ اس دشت جگر تاب کی خاموش فضائوں میں فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک کس ہاتھ سے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر؟ فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو صیاد ہیں مردانِ ہنر مند کہ نخچیر؟ یا ’’پیام مشرق‘‘ میں انسان اور خدا کے درمیان معروف مکالمہ تو شب آفریدی، چراغ آفریدم سفال آفریدی، ایاغ آفریدم بیابان و کوہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم کلام اقبال سے مسلسل مثالیں، پیام اقبال کی رفعتیں اور پروفیسر نعمان الحق صاحب کے جذب و شوق نے مقرر اور سامعین کو جس ہم آہنگی سے دوچار کر کے فضا پر جو سحر طاری کیا ہوا تھا، اس کی اگلی منزل کلامِ اقبال کا ادبی نظام تھا۔ پروفیسر صاحب نے حاضرین کو کلامِ اقبال کے ایک دلچسپ پہلو کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ کلامِ اقبال کی تمثیلی جہت اس قدر نمایاں ہے کہ جرمن ماہر اقبالیات پروفیسر این میری شمل نے کسی محفل میں بتایا کہ ایک فرانسیسی ڈائریکٹر کلامِ اقبال کو مغربی اُپیرا کی طرز پر پیش کرنے کا خواہش مند ہے۔ اقبال کے کلام کا یہ پہلو بھی قرآنی وصف کی پیروی میں ہے۔ اس بارے میں انھوں نے قرآنی آیات کے حوالے سے تخلیقِ آدم اور ابلیس کے تمثیلی اور مکالماتی انداز کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اقبال نے بھی اسی انداز میں انسان کی تخلیق، اس کی تخلیق کا مقصد، جنت سے زمین کا سفر، فرشتوں کا الوداعی گیت اور روح ارضی کے استقبال کو مکالماتی اور ڈرامائی انداز میں پیش کر کے فکر اور فن کے امتزاج کو جو معراج بخشی ہے اس کی مثال اردو یا فارسی تو کیا دنیا بھر کے لٹریچر میں بھی مشکل ہی سے ملے گی۔ پروفیسر صاحب کے مطابق اقبال کے یہاں دنیائے علم و ادب کی تقریباً تمام اہم اور ہمہ گیر شخصیات جمع ہیں۔ ان کے کلام میں جہاں حلاج و ابلیس اور رومی و گوئٹے کا مکالمہ ہے وہاں رومی اور غالب کا مباحثہ بھی ہے۔ جرمن شاعر گوئٹے کے مجموعہ دیوان مغرب کا جواب اقبال کے پیام مشرق میں موجود ہے۔ گویا زمان و مکان کی حدود سے آزاد فکر اقبال اور روایتی فن اسلوب کی تمام ترقیود و حدود سے ماورا فنی محاسن اقبال کے کلام کو جن بلندیوں پر پہنچاتی ہیں ان کا حد درجہ تقاضا یہی ہے کہ ہم اقبال کو علاقائیت، فرقہ واریت یا نسلی و لسانی حدود میں قید کرنے کی بجائے فکرِاقبال کی ترویج و تشہیر کو ان گوشوں تک پہنچانے کی سعی کریں کہ جہاں تک ہماری موجودہ نسل کی رسائی ممکن نہیں۔ اقبال کا پیام پوری انسانیت کے لیے ہے اور اقبال کا مقام دنیا کے عظیم ترین مفکروں کی صف میں ہے۔ پیام اقبال کی آفاقیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم اس دولت گراں مایہ کو محدود مقید حبس زدہ محفلوں میں زنگ آلود کرنے کی بجائے مغرب و مشرق کی وسعتوں میں عام کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری وہ نسل جو مغرب میں پروان چڑھ رہی ہے اس نسل سے اس کے لہجے اور محاورے میں بات کرکے اسے اقبال کی عظمت سے روشناس کیا جائے۔ پروفیسر نعمان الحق کا انگریزی زبان میں خطاب لب و لہجے کی فنکارانہ پختگی، کلام اقبال کے فنی محاسن سے آگہی اور فکرِاقبال سے جذباتی وابستگی کے تحت والہانہ انداز تقریر اور بروقت و برجستہ شعری حوالوں نے حاضرین محفل کو جس کیفیت سے دوچار کیا ہوا تھا اس کا اظہار ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے اختتام پر حاضرین کا والہانہ انداز میں کھڑے ہو کر پیش کیا جانے والا خراج تحسین تھا۔ پروفیسر نعمان الحق کی تقریر کے بعد ناظم تقریب ڈاکٹر تقی عابدی نے شام اقبال کے انعقاد کے سلسلے میں تصویری نمایش اور تنظیمی تعاون پر اقبال اکیڈمی کینیڈا کی جانب سے جناب سلیم خان اور ارشاد احمد صاحب کو تعریفی ایوارڈ دینے کے لیے اکیڈمی کے صدر جناب سجاد حیدر کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ سجاد حیدر صاحب نے حاضرین کی پرستایش تالیوں کی گونج میں جناب سلیم خان اور ارشاد احمد کو ان کے پر خلوص تعاون کے اعتراف میں تعریفی ایوارڈ پیش کیے۔ اس مختصر سی تقریب کے بعد صدر تقریب، پاکستان کے سابق وفاقی وزیر مولانا سید وصی مظہر ندوی کو صدارتی کلمات کے لیے دعوت دی گئی۔ مولانا ندوی نے اپنے صدارتی خطبے کے آغاز میں مہمان مقرر پروفیسر نعمان الحق کے خطاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس محفل میں محترم مہمان مقرر نے جس خوبصورت اور جامع طریقے سے اقبال کی ادبی عظمت اور فکری جامعیت کو بیان کیا ہے اس کے بعد ان موضوعات پر مزید گفتگو کی بجائے میں ایک ایسی بات کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا کہ جس بات کو کہنے کے لیے اس سے اچھی محفل ملنا مشکل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے شیدائیوں کے نزدیک علامہ اقبال صرف شاعر ہی نہیں بلکہ عملی راہنما کا مقام رکھتے ہیں، اس لیے میں ان کے سامنے اقبال کا ایک ایسا شعر پیش کرنا چاہوں گا جس میں نہ صرف آج کی ملتِ اسلامیہ کی حالت زار بلکہ اس کا سبب اور اس سے نجات کا راستہ بھی بتایا گیا ہے۔ مولانا ندوی صاحب نے فرمایا کہ میں حاضرین کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بلاشبہ اقبال کی شہرت عام ایک فلسفی اور عظیم شاعر کی حیثیت سے مسلم ہے لیکن اقبال نے صرف کلامی پیامبری کی بجائے عملی طور پر بھی ملتِ اسلامیہ کے مصلح کا کردار اداکیا ہے۔ عالم اسلام اور خصوصاً مسلمانانِ ہند کی حالت پر ان کی گہری نظر تھی۔ علامہ اقبال نے الہ آباد کے خطبے میں پاکستان کا جو تصور پیش کیا تھا اس تصور کو عملی روپ دینے کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کو انگلستان سے واپس ہندستان آ کر، اس نازک دور میں ہندستان کے مسلمانوں کی قیادت پر قائل کیا، جس دور کی تصویر انھوں نے ایک شعر میں اس طرح کھینچ کر رکھ دی ہے کہ اتنے اختصار سے اتنی خوبصورتی کے ساتھ اتنی جامع بات آج تک میری نظر سے نہیں گزری۔ حیرت ہوتی ہے کہ آج سے تقریباً ستر سال پہلے علامہ نے اس شعر میں جس صورت حال کی عکّاسی کی تھی ہم آج بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں: میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف آہ وہ تیر نیم کش، جس کا نہ ہو کوئی ہدف اس شعر میں علامہ نے انتہائی خوبصورت انداز میں بتایا ہے کہ ملّت میں انتشار بپا ہے۔ لشکری شکستہ صف ہو گئے ہیں اور ہر طرح کے اختلافات نے ان کو گھیر کر مسلمانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ اس حالت سے نکلنے کا ایک حل یہ تھا کہ اس قوم کو اچھے قائد مل جاتے لیکن بد قسمتی سے اس سپاہ کے سالار نااہل یا بدکردار ہونے کے باعث اس قوم کی راہنمائی کی بجائے راہ کھوٹی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ شعر کے دوسرے مصرعے میں تیر نیم کش سے مراد ملت کے پاس ہر قسم کی قوت اور وسائل موجود ہونے کے باوجود اپنے وسائل کو صحیح طرح استعمال نہ کرنے کا اشارہ ہے۔ مصرعے کے آخری حصے میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس ملت کے پاس کوئی ہدف نہیں، اس کی کوئی منزل نہیں، کوئی نصب العین نہیں۔ اس کے جتنے وسائل ہیں وہ نیم دلی کے ساتھ خرچ ہوتے ہیں۔ ان وسائل کا استعمال اس تیر نیم کش کی طرح ہے جس کی کمان کو اچھی طرح کھینچا نہیں گیا کہ وہ تیر پوری قوّت سے ہدف کی طرف جا سکے۔ بدقسمتی سے کوئی ہدف نہ ہونے کی وجہ سے یہ شکستہ صف بھی ہیںا ور وسائل و قوت کو بھی ضائع کر رہے ہیں۔ مولانا وصی مظہر ندوی صاحب نے حاضرین محفل سے اپیل کی کہ وہ اقبال کی اس محفل سے صرف اس ایک شعر ہی کو اپنے ساتھ لے جائیں اور اس کی روشنی میں اصلاحِ ملت پر کمر باندھ لیں تو اس محفل کا اصل مقصد بھی پورا ہو سکتا ہے اور اقبال اکیڈمی کے ذمہ داروں کی محنت بھی وصول ہو جائے گی۔ مولانا ندوی کے فکر انگیز خطبہ صدارت کے بعد تقریب کا دوسرا سیشن اپنے اختتام کو پہنچا۔ تیسرے سیشن یعنی ڈنر کے انتظام کی ذمہ داری کو بہ احسن نبھانے کے لیے اقبال اکیڈمی کینیڈا کے بانی رکن اور صدائے پاکستان کے پروڈیوسر جناب ایوب قریشی دوپہر سے ہی مغل بنکوئٹ ہال میں موجود تھے۔ ان کے زیر نگرانی تیار شدہ کھانوں اور حسن انتظام میں حاجی آفتاب ملک صاحب کی معاونت کو تمام حاضرین چٹخاروں کے ساتھ سراہتے رہے۔پرتکلف ڈنر کے بعد کلام اقبال پر مبنی قوالی کا آغاز ہوا۔ ٹورانٹو کی معروف ادبی شخصیت اور اقبال اکیڈمی کینیڈا کے رکن جناب اشفاق حسین نے اس سیشن کے آغاز میں فنِ قوالی کے آغاز، ہندستان کی اسلامی ثقافت میں اس کی اہمیت اور قوالی اورکلام اقبال کی طویل روایت کو تفصیل سے بتاتے ہوئے اس محفل کے فنکاروں کا تعارف پیش کیا۔ استاد نصرت فتح علی خان کے شاگرد شاہد علی خان اور ان کے ساتھیوں ندیم شاہ، مبشر جعفری اور ہم نوائوں نے رات گئے تک منتخب کلام اقبال کو قوالی کے روایتی انداز میں پیش کیا۔ جناب شاہد علی خان نے حاضرین کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ قوالی کی تاریخ میں شاید پہلی بار پوری محفل قوالی کو صرف کلام اقبال تک ہی محدود رکھا گیا ہے اور ان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ اعزاز ان کے گروپ کے حصے میں آیا ہے۔ شام ِ اقبال کے حاضرین کی تعریف و تحسین کے کلمات اور اقبال اکیڈمی کینیڈا کے صدر جناب سجاد حیدر کی جانب سے مقررین، ناظمین و حاضرین کے علاوہ معاون اداروں اور شخصیات کے شکریے کے ساتھ یہ محفل اپنے انجام کو پہنچی۔ سجاد حیدر صاحب نے خصوصی طور پر دل دل پاکستان ٹی وی کے جناب ارشد عثمانی، ویژن آف پاکستان ٹی وی کے جناب بشیر خان، وائس آف پاکستان کے جناب عادل تیموری، کاروان ریڈیو کی میزبان محترمہ عشرت نسیم، نور اسلام کے میزبان جناب اظہر طیبی اور اظہر بھٹی، ہفت روزہ ’’پاکیزہ‘‘ کے پبلشر جناب صبیح الدین منصور، ’’اردو ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر جناب اعظم گوندل، ’’پاکستان پوسٹ‘‘ کے پبلشر جناب آفاق خیالی، پندرہ روزہ ’’آواز‘‘ کے پبلشر جناب حمید الدین، ماہنامہ ’’ترجمان‘‘ کے پبلشر جناب سعادت علی خان اور ماہنامہ’’ ایشین نیوز‘‘ کے پبلشر جناب لطافت صدیقی کا شکریہ ادا کیا جن کے ٹی وی، ریڈیو اور جرائد کے ذریعے علامہ اقبال علیہ الرحمتہ کے نام و پیام کی خوشبو ہفتوں تک دل و دماغ کو معطر کرتی رہی۔ پروگرام کی وڈیو گرافی ٹورانٹو کے معروف وڈیوگراف جناب صابر گابا اور فوٹو گرافی کی ذمہ داری معروف و معتبر فوٹو گرافر جناب احمد حسین نے انجام دی۔ شامِ اقبال کی وڈیوحاصل کرنے کے لیے اقبال اکیڈمی کے جناب سجاد حیدر سے 416-467-1517 یاگابا ویڈیو کے صابر گابا صاحب سے 905-275-0911 پر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ (رپورٹ: سجاد حیدر) ……٭…… ڈیرہ غازی خان میں ذکرِ اقبالؒ گذشتہ کئی برس سے بزم اقبال ڈیرہ غازی خان، فروغ اقبالیات کے لیے یوم اقبال کی تقریب کا اہتمام کرتی ہے۔ اس سال یہ تقریب۱۶ نومبر ۲۰۰۲ء کو ’’یونیورسٹی آف ایجوکشن کالج برائے ایلیمنٹری ٹیچرز ٹریننگ ڈیرہ غازی خان کے اقبال ہال میں انعقاد پذیر ہوئی۔ تقریب میں طلبہ و طالبات ، اساتذہ اور معززین شہر نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت پرنسپل محمد ظفر یاب قریشی نے کی۔ مہمان خصوصی آخوند ساجد مجید ایڈووکیٹ تھے جبکہ مہمان خصوصی محترمہ شاہدہ قریشی ایڈووکیٹ تھیں۔ نظامت کے فرائض غلام قاسم مجاہد بلوچ (صدر بزم اقبال ڈیرہ غازی خان) نے انجام دیے۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام الٰہی سے ہوا جس کی سعادت بی ایڈ کی طالبہ قاریہ حُسنیتہ الزہرہ نے حاصل کی۔ آنحضرتؐ کے حضور گل ہائے عقیدت جمیلہ بیگم نے پیش کیے۔ خودی کا سرنہاں لاالہ الا اللہ نظم گل مانی اور حانی گل قیصرانی نے مترنم انداز میں پڑھی ۔ طلبہ میں سے سب سے پہلے عزیز احمد گلیانی بلوچ متعلم بی ایڈ نے ’’اقبال کا تصور توحید‘‘ پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اقبال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ’’اکبر‘‘ جانتے ہیں۔ ملت اسلامیہ کا جب تک یہی یقین پختہ رہا مسلمان غالب رہے۔ جب یہ گمان میں بدلا تو مغلوب ہو گئے۔ بی ایڈ کی طالبہ شاہدہ بلوچ نے ’’اقبال کا نظریہ خودی‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خودی اقبال کا مرکزی خیال ہے۔ یہ شعور ذات و معرفت الہٰی کا نام ہے۔ خود شناسی اور خدا شناسی لازم و ملزوم ہیں۔ خودی اس سعی کا نام ہے جو انسان کو حالت جبر سے مرتبہ اختیار پر فائز کرتی ہے۔ یہ جہد مسلسل کا نام ہے۔ خودی گداگر کو شہنشاہی کے مرتبے پر فائز کرتی ہے۔ انسان کی تکمیل بیداری خودی سے ہے۔ وسیم حسن راجا متعلم بی ایڈ نے کہا کہ آنحضرتؐ اقبال کے آئیڈیل ہیں۔ اقبال نے قرآنی آیت اشدا علی الکفار و رحمابینھم (۴۸:۲۹) کو کس خوب صورتی سے شعری قالب میں ڈھالا ہے۔ ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن مردمومن کے مرتبے پر فائز ہونے کا راز انھوں نے اتباع رسولؐ کو قرار دیا۔ بی ایڈ کی طالبہ عظمیٰ رشید نے ’’اقبال کا تصور تعلیم‘‘ پر روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق اقبال پہلے اسلامی تعلیمات اور پھر دنیاوی و سائنسی تعلیمات کے حصول کی تلقین کرتے ہیں۔ طاہرہ یاسمین طالبہ بی ایڈ نے اقبال کے منتخب اشعار سنائے۔ فرخندہ بی بی نے کہا اقبال نے ۱۹۳۰ء کے خطبے میں دو قومی نظریہ پیش کیا اور مسلمانوں کو آزاد ، باوقار اور خود مختار بننے کے لیے عملی اقدام اٹھانے کا اشارہ کیا۔ گل حانی اور حانی گل قیصرانی نے اقبال کی نظم ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ مترنم انداز میں پیش کی۔ ملٹن کی Paradise Lostکے اسلوب کے برعکس اس نظم میں اقبال نے اولاد آدم کو ارضی و سماوی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کا درس دیا ہے۔ منیر احمد حمید بزدار نے کارل مارکس کے اشتراکی فلسفہ، سرمایہ دارانہ نظام اور اسلامی ملکیت پر ’’اقبال کا تصور معیشت‘‘ کے حوالے سے تقریر کی۔ انھوں نے اقبال کو مزدور اور غریب کا ہمدرد شاعر قرار دیا کہ: اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو نازک شہزاد نے ’’سرائیکی میں اقبال شناسی کی روایت‘‘ کے حوالے سے مقالہ پیش کیا۔ مہمان خصوصی شاہدہ قریشی ایڈووکیٹ نے اقبال کو ’’کردار ساز‘‘ قرار دیا۔ صدر تقریب محمد ظفریاب قریشی پرنسپل نے اپنی تقریر کا آغاز اقبال کے اس شعر سے کیا خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کر دے انھوں نے کہا ہم ایسی ملی تقریبات کا انعقاد جاری رکھیں گے۔ ’’یوم اقبالؒ‘‘ کی اس تقریب کے بعد ان شاء اللہ ’’یوم قائداعظم‘‘ کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ ایسی تقریبات سے طلبہ کی تربیب ہوتی رہے۔ چراغ سے چراغ جلے یوں روشنی نئی نسل تک پہنچتی رہے۔ انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ اقبال کا مطالعہ کریں۔ افکار اقبال وسعت نظر پیدا کرتے ہیں۔ فکر اقبال مختلف الجہت ہے۔ وہ قدیم و جدید کو فلسفیانہ نظر سے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اقبال اپنے قاری کو کبھی مایوس نہیں کرتے۔ انھوں نے کالج کے ہال کو علامہ اقبال کے نام سے موسوم کرتے ہوئے اسے اقبال ہال قرار دیا۔ یہاں اقبال کی پورٹریٹ آویزاں کی گئی۔ اس موقع پر پہلی بار اقبال اکیڈمی لاہور، بزم اقبال لاہور اور دیگر اشاعتی اداروں کی ۴۴ اہم اقبالیاتی کتب کی نمایش کا اہتمام کیا گیا۔ (رپورٹ: غلام قاسم مجاہد بلوچ) ……٭…… صوبہ بلوچستان میں تقاریب سالِ اقبال ۲۰۰۲ سالِ اقبال کی مناسبت سے تعلیمی اداروں میں متعدد تقاریب منعقد ہوئیں۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے بھر پور تعاون کیا اور کتابوں کی صورت میں بہت سے انعامات مہیا کیے جنھیں درج ذیل مختلف تقاریب میں اکادمی کے ڈائریکٹر جناب محمد سہیل عمر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقسیم کیا گیا۔ ان کتابوں سے پاکستانی کلچر کے فروغ کی تحریک کو بھی بڑی تقویت پہنچی۔ اس موقع پر ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی کتابیں بلوچستان میں فروغ اقبالیات اور بچوں کے لیے ایک جیبی کتاب …اقبال اور قائداعظم پاکستان شائع ہو کر مقبول عام ہوئیں۔ سال اقبال کی تقاریب مندرجہ ذیل اداروں میں ہوئیں: ۱۔ گورنمنٹ پاک گرلز ہائی سکول کوئٹہ میں اقبال کی تقریب، ۱۹۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء ۲۔ گورنمنٹ گرلز کالج سیٹلائٹ ٹائون کوئٹہ میں ہفتہ اقبال کا آخری پروگرام ۳۱ ۔اکتوبر ۲۰۰۲ء ۳۔ گورنمنٹ گرلز کالج جناح ٹائون، کوئٹہ میں ہفتہ اقبال کا آخری پروگرام ۲ نومبر ۲۰۰۲ء ان تقاریب کا مختصر حال درج ذیل ہے: ……٭…… گورنمنٹ پاک گرلز ہائی سکول کوئٹہ میں سال اقبال پاک گرلز ہائی سکول کوئٹہ میں بھی سال اقبال کی تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے کی جو بلوچستان میں اقبالیات کے ممتاز محقق ہیں۔ تقریب میں بچیوں نے کلام اقبال کے حوالے سے بیت بازی کے مقابلے میں حصہ لیا اور بچوں کی نظموں پر ٹیبلوپیش کیے گئے۔میزبان شفق گل تھیں جب کہ تقریب میں حرا اسد فاطمہ ، اسما خالد، طاہرہ ارشد، عافیہ، شمائلہ حسین اور حبیبہ نے حصہ لیا۔ اقبال اکادمی پاکستان کی طرف سے انعامات تقسیم کیے گئے۔ ……٭…… گورنمنٹ گرلز کالج سیٹلائٹ ٹائون کوئٹہ میں ہفتہ اقبال سال اقبال کے حوالے سے گورنمنٹ گرلز انٹر کالج سیٹلائٹ ٹائون میں ہفتہ اقبال کا انعقاد کیا گیا۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر انعام الحق کوثر تھے۔ میزبان کے فرائض افشاں سلیم نے انجام دیے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت عارفہ نے حاصل کی۔ نعت رسول مقبول کا شرف سحرش چودھری نے حاصل کیا۔ اس تقریب میں سردار حسین موسیٰ گرلز انٹر کالج (سردار نثار کالج) کی پرنسپل مسرت نجمی اور بروری روڈ گرلز کالج کی پرنسپل کشور رضا نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے کہا کہ میں کالج اور طالبات کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سیرت اکیڈمی کے ساتھ ساتھ اقبال اکیڈمی لاہور نے بھی اپنی جانب سے تحائف بھیجے ہیں اور یہ تیسری تقریب ہو گی جس میں اقبال اکیڈمی لاہور کی جانب سے بھی تحائف دیئے جائیں گے۔ تحفے اور انعام کی اپنی ایک قدرومنزلت ہوتی ہے اور کتاب تو ہمارے ساتھ ساتھ چلتی ہے کبھی ضائع نہیں ہوتی ہمیشہ کام آتی ہے۔ پڑھی جاتی ہے۔ ہم پڑھتے ہیں اور ہمارے ساتھ دوسرے بھی پڑھتے ہیں۔ انھوں نے پرنسپل صاحبہ کی بات کی تائید کرتے ہوے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ سال اقبال صرف اس ایک سال کے حوالے سے نہیں منانا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال کو عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کا کام اور افکار عوام پر واضح ہو سکیں۔ مہمان خصوصی سے قبل کالج کی پرنسپل کوثر یاسمین آغا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا اقبال قومی روح کی بیداری اور تصور پاکستان کے خالق تھے۔ ان کے لیے صرف ایک سال کام کرنا انتہائی ناکافی ہے ان کی علمی، ادبی ، ملی و بین الاقوامی شخصیت کی تعلیمات عام کرنا بہت ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں کے علاوہ مختلف اداروں کو بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شاعر مشرق کی ذات ہمہ گیر ہے ان کی آواز برصغیر کے ادب میں سب سے موثر ہے لیکن اقبال کو سمجھنے کے لیے ذہن کو مخصوص سطح پر لانا ضروری ہے یہ اقبال کی آواز و افکار کی تاثیر ہی تھی جس نے ہر خاص و عام کو متوجہ کیا لوگوں میں تڑپ پیدا کی انھیں نیا جوش و ولولہ دیا۔ اللہ ہمیں اقبال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اقبالیاتی خدمات کے سلسلے میں انھوں نے ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ان جیسی شخصیت نے ہمارے کالج میں قدم رکھا۔ مس مسرت نجمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک کامیاب سلسلہ ہے اور میں دعا گو ہوں کہ یہ کالج اسی طرح دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ پروگرام میں ٹیبلوز، تقاریر کے علاوہ کلام اقبال پیش کیا گیا۔ کالج کی لیکچرار کوثر بٹ نے علامہ اقبال کی زندگی پر روشنی ڈالی۔ اور ان کی شاعری و افکار کے حوالے سے بھی بات کی۔ سحرش چودھری نے اظہار خیال کرتے ہوئے مسلمانوں کی غلامی کا حوالہ دیتے ہوئے علامہ اقبال کو آزادی کی امید کی کرن ثابت کیا۔ نازیہ بانیہ نے مضمون ’’اقبال کی فریاد‘‘ سے اقتباسات پیش کیے۔ فاطمہ کاکڑ نے انگریزی میں بہت خوبصورت انداز میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ محض شاعر اور فلسفی نہیں تھے بلکہ اللہ کے قریبی دوست بھی تھے، انھوں نے شاعر، فلسفی اور سیاست دان کا کردار بہت اچھی طرح سے نبھایا وہ صحیح معنوں میں عملی مفکر تھے سیاسی خدمات، سیاسی رجحانات اور سیاسی افکار کے حوالے سے ان کی کاوشیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ متعدد طالبات نے نہایت عمدہ انداز میں کلام اقبال پیش کیا۔ طالبات کے مختلف گروہوں نے اقبال کی بعض منظومات (جگنو۔ لب پہ آتی ہے دعا۔ ماں کا خواب) کے ٹیبلو پیش کیے۔ اس کے بعد ’’اقبال اور سیاست‘‘ کے موضوع پر ایک تقریری مقابلہ اور ایک اقبال کوئز منعقد ہوا۔ آخر میں انعامات دیے گئے اور یہ پر وقار تقریب اختتام کو پہنچی۔ تقریری مقابلہ جس کا موضوع ’’اقبال اور سیاست‘‘ تھا اس میں فاطمہ کاکڑ فرسٹ، نازیہ بانیہ سیکنڈ اور زرین شوکت تھرڈ رہیں۔ اقبال کوئز میں فاطمہ کاکڑ، غزل یوسف اور نازیہ بانیہ بالترتیب فرسٹ، سکینڈ اور تھرڈ رہیں۔ اقبال کی نظموں پر ٹیبلو پیش کیے گئے جس میں فرسٹ ایئر کے ٹیبلو نے فرسٹ اور سیکنڈ پوزیشن حاصل کی جبکہ سکینڈایئر کا ٹیبلو تھرڈ رہا۔ فرسٹ ایئر کی طالبات زاہدہ بلوچ، نوشین کنول، ثنا علی‘ رومانہ عالم، سبین رفیق، غزالہ انور، رابعہ شبیر، عاصمہ اعوان، شکیلہ فردوس، سعدیہ اشتیاق اور مریم بشیر محمد اور سکینڈ ایئر کی طالبات محمودہ، ماریہ، سارہ خلجی، پری گل، آمنہ، مہوش، نوشین، صائمہ موسیٰ، زرافشاں اور عترت کو انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ ان کے علاوہ سائرہ عباس، مریم بشیر احمد، ریحانہ شریف، حمیرا عبدالرزاق، فائزہ نذیر اور انیتا کماری، سکینڈ ایئر میں عارفہ بی بی، عائشہ ارشد، عمارہ اشرف اور نیلوفر کو انعام دیا گیا۔ قاریہ کے لیے عارفہ بہترین نعت خواں کے لیے سحرش چودھری، بیسٹ کمپیئر کے لیے نازیہ بانیہ، بیسٹ ڈیبیٹر کے لیے سحرش چودھری سنگر کے لیے عمارہ اور بیسٹ پلیئر کے لیے عائشہ ارشد کو انعام دیا گیا۔ فرسٹ ایئر کی طالبات میں قاریہ کے لیے مریم شیر محمد، نعت خواں کے لیے عاصمہ اعوان، کمپیئر کے لیے افشاں سلیم اور ڈیبیٹر کے لیے فاطمہ کاکڑ کو ہی انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ ……٭…… گورنمنٹ گرلز انٹر کالج جناح ٹائون میں تقریب اقبال یوم اقبال کے حوالے سے انٹر کالج جناح ٹائون میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس پر وقار تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر انعام الحق کوثر تھے تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس تقریب کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ کلام اقبال تحت اللفظ پیش کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں مقالے پیش کیے گئے۔ منتظمین میں حمیرا واحد ، گلنار رشید اور مسز رضوانہ شامل تھیں۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: علامہ اقبال کے افکار کو عام کیا جائے، جب کوئی ایک قدم بڑھاتا ہے تو آہستہ آہستہ کئی لوگ شامل ہو جاتے ہیں گویا سفر کے آغاز میں ایک فرد سے سفر شروع ہوتا ہے لیکن کچھ راستہ طے ہونے تک یہ فرد اکیلا نہیں رہتا بلکہ کاروان کی صورت میں آگے بڑھتا ہے۔ حسب ذیل طالبات نے کلام اقبال ، تحت اللفظ پیش کیا: صائمہ نوشین، فہمیدہ، صائمہ حسن، اسماء شبیر، فرحانہ نسیم اور طاہرہ یاسمین نازش اور عاصمہ یاسمین نے ترنم سے کلام اقبال پیش کیا۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ ، نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر دوسرا مرحلہ مقالات کا تھا۔ پرنسپل انٹر کالج جناح ٹائون مسز آفتاب مسرور نے اپنے مقالے میں کہا کہ اسلام وہ زندہ مذہب ہے جس نے لوگوں کی دنیا بدل دی، جب تک مسلمان تعلیم حاصل نہ کرتے ترقی نا ممکن تھی۔ علامہ اقبال نے ان کی علمی حالت سدھارنے کے لیے کام کیا، انھوں نے سرسید احمد خان کے کام کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے کہا ہمارا مذہب ہمدردی، محبت، خلوص اور یگانگت کا درس دیتا ہے۔ وہ ملت کبھی باقی نہیں رہتی جس میں اتحاد نہ ہو۔ انھوں نے اقبال کے حوالے سے کہا کہ اقبال عورت کی عظمت کے قائل تھے۔ مس زکیہ نذیر نے اقبال اور شاعری کے عنوان کے تحت اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کے اصلاحی اور اخلاقی پہلوئوں سے سب واقف ہیں۔ انھوں نے ہندستان کے مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کوبدل کر رکھ دیا، انھوں نے خود اعتمادی اور خود داری کا درس دیا، انھوں نے حضور اکرمؐ کی تقلید کی ترغیب دی، ان کا بصیرت افروز پیغام آج بھی دنیا کے لیے مشعل راہ ہے انھوںنے فلسفہ جمال پیش کیا، ان کی برجستگی اور روانی دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ وہ ایسے فنکار تھے، جن کی نگاہ بلند اور سخن دلنواز تھا۔ اقبال کے مطابق ارواح محفوظ رہتی ہیں، شعور زندہ رہتا ہے یعنی مادی طور پر موت ہو جاتی ہے روحانی طور پر نہیں۔ مسز عصمت جمال نے اقبال اور تصور شاہین کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ انھوں نے کہا کہ اقبال آفاقی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری گل و بلبل کی داستان نہیں، ایک پیغام ہے۔ انھوں نے اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے اور روحانی تربیت کے لیے کئی تصورات پیش کئے۔ تصور مومن، زندگی، خودی، خون جگر، جبرو اختیار اور بھی کئی تصورات ان میں شامل ہیں۔ انھوں نے جو تصور نوجوانوں کے لیے منتخب کیا وہ تصور شاہین تھا۔ شاہین کی خوبیاں اقبال کی طرز تعلیم سے معمور ہیں اس لیے کہ یہ اقبال کا محبوب ترین پرندہ ہے۔ اقبال نوجوانوں میں خود داری، بے نیازی، دوراندیشی، بلند ہمتی جیسی صفات دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو جستجو، جرأت فکر، اور مسلسل جدوجہد کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک متحرک رہنا اور مسلسل عمل بہت اہم ہے، ان کے مطابق اگر ہمارا نوجوان شاہین کی صفات اپنا لے تو ناکام ہونے کے بجائے کامیاب زندگی کا مالک ہو گا۔ مسز امینہ رسول نے علامہ اقبال اور عشق رسولؐ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے کہا کہ اقبال فلسفی بھی تھے اور شاعر بھی۔ ان کے کلام نے انھیں امر کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عظیم آفاقی رہنما بھی تھے۔ آپ کی غزلوں کا ایک ایک شعر ایسا ہے کہ اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ (رپورٹ: شاہین اسماعیل) ……٭…… مرکز یہ مجلس اقبال کا جلسہ حسب روایت اس سال بھی مرکز یہ مجلس اقبال کا جلسہ ۹ نومبر۲۰۰۲ کو منعقد ہوا جس میں مقررین نے علامہ اقبال اور قائداعظم کے افکار کی روشنی میں پاکستان کی سیاسی، عمرانی اور معاشی تشکیل کے موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ تقریب میں جناب مجید نظامی ، ڈاکٹر جاوید اقبال ، قاضی حسین احمد ، عارف نظامی مدیر ’’نیشن‘‘، منیب اقبال اور پروفیسر عبدالجبار شاکر نے خطاب کیا۔ ……٭…… گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں یوم اقبال گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اسلامیات نے ۱۰ نومبر ۲۰۰۲ء کو ’’اقبال لیکچر‘‘ کا اہتمام کیا۔ اس کا موضوع تھا: ’’اقبال کا تصور اسلام‘‘ ڈاکٹر وحید عشرت نے خطاب کرتے ہوئے کہا: اقبال نے اسلام کو ایک نظام حیات کے طورپر پیش کیا اور اسلام کے حرکی پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ ……٭…… نظریہ پاکستان فائونڈیشن اور پاکستان ورکر ٹرسٹ میں ہفتہ اقبال ایوان کارکنان تحریک پاکستان ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے تحت ہفتہ اقبال منایا گیا جس میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے فکر اقبال پر لیکچر دیا۔ علاوہ ازیں سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان متعدد مقابلے اور سیمینار منعقد ہوئے۔ جن میں جناب مجید نظامی نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رفیق احمد اور ڈاکٹر منیر الدین چغتائی اور بہت سے دیگر سکالر حضرات نے علامہ کے فن اور افکار پر اظہار خیال کیا۔ ……٭…… چلڈرن کمپلیکس لاہور میں یوم اقبال بچوں کی ایک تنظیم چلڈرن ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام یوم اقبال کی تقریب منعقد ہوئی ، شعیب بخاری (چیئرمین) اس کے روح رواں تھے۔ بچوں نے علامہ اقبال پر تقاریر کے ساتھ کلام اقبال پڑھا اور ٹیبلو پیش کیے۔ تقریب میں مہمان خصوصی ڈاکٹر وحید عشرت ، مہمان مقررین میں محترمہ بشریٰ رحمن ، راشد صاحب (قطر)، امجد اسلام امجد اور سوشل ویلفیئر کے ڈائریکٹر نے خطاب کیا۔ آخر میں مہمانوں نے بچوں میں انعامات تقسیم کیے۔ ……٭…… سالِ اقبال اقبال اکادمی پاکستان کے منصوبے (عبوری رپورٹ: جولائی ۲۰۰۲ تا دسمبر ۲۰۰۲ئ) وفاقی حکومت نے ۲۰۰۲ء کو سال اقبال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر پاکستان /چیف ایگزیکٹو سیکرٹریٹ کی ہدایت پر اقبال اکادمی پاکستان کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ اس موقع کی مناسبت سے تجاویز مرتب کرے۔ اقبال اکادمی نے یہ تجاویز مرتب کر کے اپنی مجلس عاملہ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت کو پیش کیں۔ وفاقی وزارت ثقافت ، چیف ایگزیکٹو سیکرٹریٹ اور فنانس ڈویژن نے ان تجاویز کا جائزہ لیا اور اقبال اکادمی کو ہدایت کی کہ وہ قومی سطح پر علمی اور ادبی نوعیت کے پروگرام بروئے عمل لائے۔ اقبال اکادمی پاکستان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ، ملکی اور غیر ملکی سطح پر اقبالیات کے فروغ کی مختلف سرگرمیوں، لائبریری خدمات کی فراہمی اور علمی تحقیق کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں اقبال ریویو اور اقبالیات جیسے علمی جرائد اور اقبالیات پر متعدد کتب شائع کیں۔ سی ڈیز اور ملٹی میڈیا سی ڈیز تیار کرنے کے سلسلے میں کچھ اہم پیش رفت ہوئی۔ اس اکادمی نے ’’علامہ اقبال کو م‘‘ کے نام سے ایک اعلیٰ اور معیاری ویب سائٹ تیار کی ہے جو شاید سرکاری اداروں کی طرف سے تیار کی گئی ویب سائٹ سے بہت زیادہ نفیس، عمدہ اور شاندار ہے۔ اقبال اکادمی نے ’’ٹرو ملٹی لینگول لائبریری ڈیٹا بیس مینجمنٹ سافٹ ویر‘‘ بھی ڈیزائن کیا ہے جو سافٹ ویر کے شعبے میں ایک نمایاں اور قابل فخر کامیابی ہے۔ سالِ اقبال کے پہلے چھے ماہ کے دوران اقبال اکادمی نے جو نمایاں کامیابیاں حاصل کیں یہ ان کی عبوری قرارداد ذیل میں پیش کی جا رہی ہے: ۲۰۰۲ء علامہ اقبال کا ۱۲۵ واں سال پیدایش ہے۔ حکومت پاکستان نے اس مناسبت سے اسے سرکاری سطح پر ’’سال اقبال‘‘ کی حیثیت سے منانے کا فیصلہ کیا۔ قومی پریس، ویب سائٹ اور ای میل کے ذیعے ’’سال اقبال‘‘ کا پروگرام مشتہر کیا گیا اور عوام سے اس سال کو بہتر سے بہتر طور پر منانے کے بارے میں تجاویز بھجوانے کی درخواست کی گئی۔ یہ بات اطمینان بخش رہی کہ مختلف اداروں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے اکادمی کی درخواست کے جواب میں تجاویز بھجوائیں۔ ان میں سے بعض تجاویز اکادمی کے پروگرام میں شامل نہیں تھیں، انھیں بھی پروگرام کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ مجوزہ پروگرام وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے بھیجا گیا۔ اس پورے منصوبے پر عمل درآمد کے سلسلے میں ۳۰ ملین روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔ فنانس ڈویژن نے صرف ۸ ملین روپے کی منظوری دی‘ چار ملین روپے سال گذشتہ ۲۰۰۱۔۲۰۰۲ء کی ضمنی گرانٹ کے اور چار ملین روپے سال دوران کے مالی سال ۲۰۰۲ء ۔۲۰۰۳ء کے لیے۔ اقبال اکادمی نے اس سال جولائی ۲۰۰۲ء میں چار ملین روپے بطور گرانٹ وصول کیے۔ سال اقبال کے پہلے چھے ماہ جولائی ۲۰۰۲ء تا دسمبر ۲۰۰۲ء تک کے عرصے میں اقبال اکادمی نے جو نمایاں کام کیے وہ حسب ذیل ہیں: عالمی کانفرنس عالمی اقبال کانفرنس کا انعقاد ۹ نومبر ۲۰۰۲ء کو ہونا قرار پایا تھا اور اس کا افتتاح صدر پاکستان کو کرنا تھا مگر اکتوبر میں عام انتخابات اور نومبر میں رمضان المبارک کی وجہ سے کانفرنس اپریل ۲۰۰۳ء تک ملتوی کرائی گئی۔ وفاقی وزارت ثقافت کے ذریعے صدارتی سیکرٹریٹ کو تجاویز بھجوائی گئیں۔ جن کی منظوری حال ہی میں موصول ہوئی ہے۔ لہٰذا اقبال عالمی کانفرنس ۲۱ اپریل ۲۰۰۳ء کو منعقد ہوئی۔ بیرون ملک اقبال سیمینار: مختلف ممالک میں قائم پاکستانی سفارت خانوں نے اپنے اپنے ملک کے مقامی ماہرین اقبالیات کے تعاون سے یوم اقبال کے خصوصی پروگرام اور سیمینار منعقد کیے۔ پاکستانی سفارت خانہ ملالیشیا نے اسلامی یونیورسٹی ملالیشیا کے اشتراک سے علامہ اقبال پر ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اکادمی نے اس کانفرنس کے انعقاد میں ہر سطح پر معاونت کی۔ اس کے علاوہ کینیڈا ، ناروے ، تاجکستان اور برطانیہ میں بھی اقبال تقاریب منعقد ہوئیں۔ اندرون ملک سیمینار: چاروں صوبوں (بہ شمول آزاد کشمیر) میں صدر مقامات پر بعض دوسرے شہروں میں بھی مختلف اداروں نے بہ سلسلہ سالِ اقبال متعدد پروگرام منعقد کیے جن کا اہتمام یونیورسٹیوں ، کالجوں اور سکولوں نے کیا تھا۔ یوں ہر ادارے نے اپنی اپنی سطح پر اقبال کے فکروفن کے حوالے سے سیمینار، مذاکرے اور ٹیبلو کے پروگرام پیش کیے۔ مختلف النوع اقبالیاتی پروگرام حکومت آزاد کشمیر کی اور پاکستان کی چاروں صوبائی حکومتوں اور ان کے محکمہ ہائے تعلیم نے سکول اور کالج کی سطح پر اقبال کی شخصیت اور فکروفن کے حوالے سے سیمینار اور خصوصی کوئز پروگرام کروائے۔ اس کے علاوہ اقبال کی شاعری پڑھنے ، بیت بازی، مباحثے، اقبال کے موضوعات پر تقریری مقابلے اور مقالات نویسی کے مقابلے بھی کروائے گئے۔ یاد گاری ٹکٹوں کا اجرا محکمہ ڈاک حکومت پاکستان نے سالِ اقبال کے موقع پر یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ اقبال اکادمی پاکستان نے ان ٹکٹوں کے لیے موزوں تصاویر کا انتخاب کیا اور علامہ کی زندگی اور فن پر مختصر تحریریں بھجوائیں۔ قومی صدارتی اور بین الاقوامی اقبال ایوارڈ ’’صدارتی اقبال ایوارڈ‘‘ فکر اقبال کے مطالعات اور تنقید و تحقیق کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ مذکورہ ایوارڈ کے ذریعے حکومت علامہ اقبال پر مطالعے اور تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اقبال اکادمی پاکستان حکومت پاکستان کی طرف سے قومی اور بین الاقوامی صدارتی اقبال ایوارڈ کا اہتمام کرتی ہے جن کا سلسلہ ۱۹۸۱ء سے شروع ہے اور ہر تین سال بعد یہ ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ گذشتہ چھے سال کے دوران اقبال اکادمی نے علامہ اقبال پر چھپنے والی کتب کا جائزہ لیا اور ماہرین کی کمیٹی نے ایوارڈ کا فیصلہ کیا جو اپریل میں بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر دیے جائیں گے۔ اقبال پر سیریل فنانس ڈویژن حکومت پاکستان کی ہدایت پر اقبال پر سیریل کے منصوبے کو ترک کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کے لیے ضروری مالی وسائل دستیاب نہیں۔ اب یہ معاملہ ایوان اقبال ، لاہور کی مجلس انتظامیہ کو پیش کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کے لیے وسائل مہیا کرنے کا بندوبست کرے۔ یاد رہے کہ اقبال اکادمی پاکستان نے علامہ اقبال پر سیریل کے لیے بنیادی مواد بڑی محنت سے تیار کر دیا ہے۔ جو حیات اقبال کے مستند حوالوں پر مبنی ہے۔ یہ تمام مسالہ یا مواد تحریری صورت میں ۴۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ سال اقبال کا یہ ایک اہم منصوبہ ہے۔ نمایشیں سال اقبال کے دوران ۱۹ نمایشیں منعقد کی گئیں جن میں علامہ اقبال کی تصاویر، کتب، رسائل، آڈیو وڈیو ،سی ڈیز اور پینٹنگز بھی شامل تھیں۔ ( دیکھیے ضمیمہ1 ) متحرک تعلیمی؍ تصویری نمایش اور اقبال پر خطبات ایک نیا خیال فکر اقبال کے فروغ کے لیے پیش کیا گیا ہے کہ ایک متحرک یا گشتی نمایش سکولوں و کالجوں کی سطح پر منعقد کی جائے۔ تاکہ دور دراز کے طلبہ بھی فکر اقبال سے آگاہ ہوں۔ اس نمایش میں علامہ کی تصاویر پر سال کے حوالے سے کتب کی نمایش، رسائل کی نمایش کے ساتھ ساتھ آڈیوکیسٹ، سی ڈیز، پینٹنگز، نوادرات اور خطبات کا سلسلہ ہو گا اور اقبال پر ورکشاپ بھی ہوگی۔ یہ گشتی نمایش تیاری کے مراحل میں ہے۔ اس کا افتتاح اپریل میں ہو گا۔ عطیات مختلف اداروں، لائبیریوں، سفارتی مشنوں اور بعض سرکاری محکموں کو اقبال پر کتب یا رسائل ، بروشر اور آڈیو وڈیو کیسٹوں کی بڑی تعداد عطیہ کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ فروغ اقبالیات بذریعہ ذرائع ابلاغ اس دوران اقبال اکادمی پاکستان کی توجہ اور تعاون سے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع سے فروغ اقبالیات کے ضمن میں حسب ذیل کام انجام دیے گئے۔ ۱۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن دونوں پر گذشتہ پچاس سالوں کے بہترین اقبالیاتی پروگرام براڈ کاسٹ اور ٹیلی کاسٹ ہوئے اور اب بھی نشر ہو رہے ہیں۔ ۲۔ اقبال اکادمی پاکستان نے ٹیلی ویژن کے تعاون سے ’’آئینہ اقبال‘‘ کے نام سے علامہ کی تصانیف، شاعری اور تحریروں کے مختلف النوع بارہ پروگرام پیش کیے۔ ۳۔ ’’ذوق آگاہی‘‘ کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک اقبال کوئز پروگرام پیش کیا۔ جس کے لیے اقبال اکادمی پاکستان نے تعاون کیا۔ یہ پروگرام قومی سطح پر ٹیلی کاسٹ ہوا۔ ۴۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے اقبال اکادمی کے تعاون سے علامہ اقبال ریڈیو کوئز قومی سطح پر پیش کیا۔ یہ پروگرام لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور، مظفر آباد کے بعد اسلام آباد سے بھی براڈ کاسٹ ہو گا۔ (دیکھیے ضمیمہ۲) انفرمیشن ٹیکنالوجی ویب سائٹ: اقبال اکادمی دوسرے مرحلے میں اپنی ویب سائٹ میں توسیع کر رہی ہے۔ جس میں متعدد اندراجات کا اضافہ ہو گا۔ ساونڈ فائل۔ اقبال کے اردو اور فارسی کے متون شامل ہوں گے۔ آڈیو وڈیو مواد شامل ہو گا۔ جس کا معیار عالمی سطح کا ہو گا۔ اس پر کام جاری ہے۔ اس کا افتتاح اپریل ۲۰۰۳ء کو عالمی اقبال کانفرنس کے موقع پر ہو گا۔ انٹر نیشنل ویب پیج مقابلہ : اس امر کے انتظامات کیے گئے ہیں کہ علامہ اقبال پر بہترین ویب پیج کا مقابلہ منعقد کیا جائے۔ اس کے لیے معقول رقم بطور انعام مختص کی گئی ہے۔ جو تین مقابلے جیتنے والوں کے لیے ہو گی۔ اس کا افتتاح بھی اپریل ۲۰۰۳ء میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے موقع پر کیا جائے گا۔ (دیکھیے ضمیمہ۳) پہلا کثیر اللسانی لائبریری سافٹ ویر اقبال اکادمی پاکستان نے اپنا ایک نہایت اہم اور مفید منصوبہ مکمل کر لیا ہے۔ اس کا تعلق لائبریری سروس سے ہے جو نہایت اہم اور بنیادی نوعیت کی تحقیق میں معاون ہو گا۔ اس سے دنیا بھر کے محققین استفادہ کریں گے۔ موجودہ سافٹ ویر کے جملہ پروگراموں میں بہترین ہے۔ اس کا افتتاح بھی اپریل ۲۰۰۳ء میں عالمی کانفرنس کے موقع پر کیا جائے گا۔ (دیکھیے ضمیمہ۴) اقبال سائبرلائبریری سال اقبال کے منصوبوں میں سے ایک قابل فخر منصوبہ اقبال سائبر لائبریری کا قیام ہے جو اردو کا اپنی طرز کا پہلا کتب خانہ ہے۔ مطالعہ اقبال کے ضمن میں یہ محققین کو بہترین سہولت فراہم کرے گی۔ (دیکھیے ضمیمہ۵) اقبال البم اپریل ۲۰۰۳ء میں علامہ اقبال پر،البم پیش کی جائے گی جس پر کام تیزی سے ہو رہا ہے۔ آڈیو وڈیو منصوبے اس عرصے میں ۱۲ آڈیو وڈیو سی ڈیز تیار کی گئیں یہ سی ڈیز دستاویزات ڈاکو منٹری، ملٹی میڈیا اور موسیقی اور اقبال کی شاعری کی گائیکی پر مشتمل ہیں۔ (دیکھیے ضمیمہ۶) مطبوعات؍کتب؍بروشرز کتب نئی اور طبع مکرر چھے ماہ کے اس عرصے میں اقبال اکادمی نے متعدد نئی اور بعض پرانی مگر اہم کتابوں کے تازہ ایڈیشن شائع کیے۔ مگر بعض کتابیں پرانی ، بعض نئی تفصیل کے لیے دیکھیے ضمیمہ۷۔ اقبال پاکستانی زبانوں میں: پاکستانی زبانوں میں اقبال پر کام کا ایک مفصل سروے کرایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کام جاری ہے تاکہ کلام اقبال کے تازہ ترجمے شائع کرائے جائیں۔ اور جہاں نئے تراجم کی ضرورت ہو وہاں ان کا اہتمام کیا جائے۔ سندھی، پشتو میں تراجم اور تدوین کا کام جاری ہے۔ پشتو کا کام تکمیل کے مرحلے میں ہے۔ بچوں کا اقبال: بچوں کے لیے اقبالیات کا کام تیاری کے مراحل میں ہے۔ اس بات کی توقع ہے کہ اگلے کچھ عرصے میں بچوں کے لیے اقبالیات کی پانچ کتب شائع ہوں گی۔ رسائل و جرائد اس عرصے میں ’’اقبالیات‘‘ اردو کے دو اور Iqbal Review کے پانچ شمارے شائع ہوئے۔ ایک فارسی شمارہ بھی شائع کیا گیا۔ ’’اقبالیات‘‘ (عربی) تیاری کے مرحلے میں ہے۔ توقع ہے وہ جلد شائع ہو جائے گا۔ تحقیقی منصوبے دستاویزات قائداعظم میں ذکر اقبال: قائداعظم محمد علی جناح کے کاغذات اور دستاویزات میں جہاں جہاں کسی نہ کسی صورت میں علامہ اقبال کا ذکر ملتا ہے اسے جمع کر لیا گیا ہے۔ اسے مناسب ترتیب و تدوین کے بعد عنقریب پیش کیا جائے گا۔ ’’زندہ ردو‘‘ (سوانح اقبال): اس کا نظرثانی شدہ اردو نسخہ عنقریب شائع کیا جا رہا ہے۔ ’’زندہ رود‘‘ کا عربی؍ انگریزی ترجمہ اکادمی نے ڈاکٹر جاوید اقبال کی ’’زندہ رود‘‘ کا عربی ترجمہ کرا لیا ہے۔ اس پر ایک ممتاز عربی محقق نے نظرثانی کی۔ مگر مالی وسائل کی کمی اس کی اشاعت میں آڑے آ رہی ہے۔ اسی طرح ’’زندہ رود‘‘ کے انگریزی ترجمے کا منصوبہ التوا میں چلا آ رہا ہے۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ مناسب مترجم دستیاب نہیں دوسرے سال اقبال میں اس کے لیے رقم بھی مختص نہیں کی گئی۔ سوائے فارسی کے، ابھی تک کسی اور عالمی زبان میں یہ کتاب دستیاب نہیں۔ اب ایوان اقبال کی انتظامیہ سے اس سلسلے پر تعاون حاصل کیا جا رہا ہے۔ اقبال کے انگریزی خطبات کے نئے تراجم دنیا کی چھے بڑی زبانوں عربی، ہسپانوی، سپین کی ہی ایک دوسری زبان کیٹا لونین، جرمن، روسی اور چیک میں علامہ کے انگریزی خطبات تراجم ہو چکے ہیں۔ روسی اور جرمن تراجم اسی سال چھپ جائیں گے۔ ہسپانوی اور کیٹا لونین تراجم چھپ چکے ہیں۔ چیک ترجمہ بھی اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔ کلیات نثر اقبال نوجلدوں پر مشتمل کلیات نثر ، خطوط ، مقالات، تقاریر، بیانات اور متفرق موضوعات پر محیط ہے۔ منصوبہ تدوین کے آخری مرحلے میں ہے۔ کلیات شعر اقبال (انگریزی تراجم) دو جلدوں پر مشتمل متن تدوین کے آخری مرحلے میں ہے۔ اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ کلیات شعر اقبال (اردو؍ فارسی کے تراجم) عالمی سطح کے محققین اس منصوبے کے لیے کام کر رہے ہیں جو تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ کتابیات اقبال علامہ اقبال پر لکھی گئی کتب کی کتابیات کا یہ منصوبہ پروف خوانی کے مرحلے میں ہے جو جلد شائع ہو سکے گا۔ اقبال تھیسارس اقبال اکادمی پاکستان شعبہ لائبریری سائنس جامعہ پنجاب لاہور کے تعاون سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ کلید الفاظ کے انتخاب تک کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ کلیات باقیات شعر اقبال علامہ اقبال کے متروک اردو کلام کو، ڈاکٹر صابر کلوروی نے برس ہا برس کی محنت سے مرتب کیا ہے۔ اس میں علامہ کی اپنے ہی کلام پر اصلاحات بھی شامل ہیں۔ ایسا سارا کلام کلیات باقیات شعر اقبال کے نام سے عنقریب شائع ہو جائے گا۔ اقبال آرکائیوز ؍اقبال پیپرز اقبال اکادمی کی لائبریری میں اقبال آرکائیوز کا شعبہ تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔ اس میں اقبال کی زندگی اور فکر کے حوالے سے علامہ کے خطوط، ان کی دست نوشت تحریریں اور دیگر اہم دستاویزات جمع کی جا رہی ہیں۔ نوجوانوں کے پروگرام سال اقبال میں نوجوانوں کے لیے تصاویر اقبال اور پینٹنگ کے متعدد مقابلے منعقد کرائے گئے۔ مثلاً: ۱۔ علامہ اقبال کی پورٹریٹ بنانے کا مقابلہ ۔ ۲۔ فکر اقبال کے کسی موضوع پر پینٹنگ کا عمومی مقابلہ۔ ۳۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کے لیے فکر اقبال کے کسی موضوع پر پینٹنگ کا مقابلہ۔ ۴۔ ثانوی سکولوں کے طلبہ کے لیے فکر اقبال کے کسی موضوع پر پینٹنگ کا مقابلہ۔ علامہ اقبال پر عالمی کانفرنس کے موقع پر انعامات دیے جائیں گے۔ (دیکھیے ضمیمہ۷) فارسی زبان کی کلاسیں سال اقبال کے منصوبوں میں اقبال اکادمی نے فارسی زبان بذریعہ کلام اقبال پڑھانے کا ایک منفرد پروگرام تشکیل دیا ہے تاکہ فارسی زبان کی تدریس جواب ختم ہوتی جا رہی ہے، دوبارہ رواج پا سکے۔ فارسی ہمارے علم و ادب، تصوف اور ثقافت کی زبان ہے اور اقبال فہمی فارسی کے بغیر ممکن نہیں۔اس نصاب کے ذریعے طالب علم فارسی گرامر ، لسانیاتی قواعد، فارسی زبان بذریعہ اردو زبان سیکھ سکتا ہے اور اردو اور فارسی زبان کی روایات اور حکمت و دانش سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ اقبال کے افکار جن کا ایک بڑا حصہ فارسی میں ہے، کو اس کے ذریعے طالب علم فارسی زبان کے ساتھ فکر اقبال حاصل کر سکے گا۔ یہ پروگرام چار سہ ماہیوں پر مشتمل ہے، جو ایک سال کے عرصے پر محیط ہیں۔ پہلی سہ ماہی کی کلاس کورس مکمل کرچکی ہے۔ جون ۲۰۰۳ء سے دوسری سہ ماہی کلاس شروع ہو رہی ہے۔ (دیکھیے ضمیمہ۸) …٭… وفیات عبداللّطیف اعظمی ۱۰ مئی ۲۰۰۲ء ڈاکٹر عصمت جاوید ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء ڈاکٹر اکبر رحمانی ۱۷ ستمبر ۲۰۰۲ء نعیم صدیقی ۲۵ ستمبر ۲۰۰۲ء ڈاکٹر محمد حمید اللہ ۸ دسمبر ۲۰۰۲ء ڈاکٹرشہین دُخت مقدم صفیاری عبداللّطیف اعظمی بھارت کے نامور محقق ادیب اور اقبال شناس جناب عبداللطیف اعظمی ۱۰ مئی ۲۰۰۲ء کو دہلی میں انتقال کر گئے… اعظمی صاحب متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ سے متعلق موضوعات و شخصیات سے انھیں خاص لگائو تھا۔ انھوں نے سرسید، شبلی، مولوی عبدالحق، گاندھی، نہرو، ذاکر حسین، محمد علی جوہر، اور راجندر پرشاد پر چھوٹی بڑی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ علامہ اقبال اور ان کی شخصیت اور افکار سے بھی دلچسپی تھی۔ اقبال صدی کے زمانے میں انھوں نے ’’اقبال: دانائے راز‘‘ کے نام سے ایک نہایت عمدہ کتاب تصنیف کی تھی جس پر اترپردیش اردو اکادمی نے ۱۹۷۹ء میں، اور آل انڈیا میراکادمی لکھنؤ نے ۱۹۸۵ء میں اعظمی صاحب کو انعامات سے نوازا ۔ بعد ازاں انھوں نے رسالہ ’’جامعہ‘‘ کا ایک وقیع اقبال نمبر بھی شائع کیا تھا۔ وہ مدتوں اس رسالے کے مدیر رہے۔ اعظمی صاحب یکم مارچ ۱۹۱۷ء کو بندی کلاں ضلع اعظم گڑھ (یو پی) کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم مدرستہ الاصلاح ، ندوۃ العلماء اور جامعہ ملیہ میں ہوئی۔ انھوں نے اردو میں ایم اے کیا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایم اے عربی کلاس میں داخلہ لیا مگر تکمیل نہ کر سکے۔ پی ایچ ڈی کرنے کا عزم بھی رکھتے تھے مگر گوناگوں مصروفیات کے سبب سے یہ عزم بروئے کار نہ آ سکا۔ راقم کے نام ایک خط (۴ اکتوبر ۱۹۷۸ئ) میں بتایا تھا کہ شیخ الجامعہ پروفیسر مسعود حسین نے ان کے ڈاکٹریٹ کے لیے ’’اردو کی خدمات میں جامعہ کا حصہ ‘‘ کا عنوان تجویز کیا تھا۔ عبداللطیف اعظمی، مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کے قریبی شاگردوں میں شامل تھے اور مولانا بھی انھیں عزیز رکھتے تھے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر بہت کچھ لکھا۔ وہ ایک کہنہ مشق صحافی بھی تھے۔ رسالہ ’’جوہر‘‘ کے علاوہ ہفتہ وار’’ نئی روشنی‘‘ اور انجمن ترقی اردو کے رسالے ’’صبح‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ رسالوں اور اخباروں میں بکثرت مراسلے لکھا کرتے تھے۔ لکھنے پڑھنے کا کام بہت باریک بینی اور انہماک سے کرتے تھے۔ اعظمی مرحوم ایک سادہ مزاج ملنسار شخص تھے۔ راقم ۱۹۸۶ء میں دہلی گیا تو بڑی محبت سے اپنے گھر لے گئے پھر جامعہ میں کئی لوگوں سے مِلوایا۔ آخری روز رات کے وقت دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر رخصت کرنے کے لیے آئے حالانکہ ان کا گھر وہاں سے بہت دور تھا۔ انھوں نے صبر و قناعت کے ساتھ فقیرانہ اور استغنا کی زندگی گزاری۔ ہر کام کو نہایت توجہ اور دلچسپی سے انجام دینا ان کی افتاد طبع تھی۔ ان کی تصانیف و تالیفات اور تراجم کی تعداد سترہ ہے۔ وہ آخری زمانے میں مشاہیر علم و ادب کے حالات خصوصاً ولادت و وفات کی تاریخوں اور سنین کی چھان بین میں لگے رہتے تھے اور جزئیات کی تحقیق سے انھیں بہت دلچسپی تھی۔ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے گوپی چند نارنگ کے اشتراک سے ’’ہندستان کے اردو مصنفین اور شعرائ‘‘ کے نام سے بھارتی ادیبوں کی ڈائریکٹری مرتب کی تھی (مطبوعہ اردو اکادمی، دہلی ۱۹۹۶ئ) جس میں ہزاروں بھارتی ادیبوں، شاعروں اور نام ور اہل قلم کے کوائف حیات فہارس تصانیف وغیرہ شامل ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی) ……٭…… ڈاکٹر عصمت جاوید اردو زبان و ادب کے معروف محقق ، نقاد ، ادیب ، شاعر، مترجم، ماہر لسانیات اور بزرگ معلم ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء کو اورنگ آباد میں وفات پا گئے۔ ان کی زندگی کے آخری ۳۵ سال دکن کے اسی تاریخی شہر میں بسر ہوئے۔ عصمت جاوید ایک اقبال شناس اور کلام اقبال کے ایک ماہر مترجم بھی تھے۔ امراوتی میں قیام (۱۹۵۸۔۱۹۶۳ئ) کے زمانے میں انھوں نے متعدد انگریزی شعراء کے کلام کا اردو ترجمہ کرنے کے ساتھ ’’پیام مشرق‘‘ کے ایک حصے ’’لالۂ طور‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا، جو رسالہ ’’دورحیات‘‘ بمبئی میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ عصمت جاوید نے ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘کے منظوم اردو تراجم علی الترتیب ’’عکس اسرار خودی‘‘ (دہلی ۱۹۹۱ئ) اور ’’عکس رموز بے خودی‘‘ (دہلی ۱۹۹۸ئ)کے نام سے شائع کیے۔ اقبال کی فارسی رباعیات کا ترجمہ بھی ’’عکس لالہ طور‘‘ کے نام سے دہلی سے چھپ گیا تھا۔ البتہ ’’ارمغان حجاز‘‘ کے ایک حصے‘‘ بہ حضور رسالت مآب ؐ‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ ابھی تک شائع نہیں ہو سکا۔ عصمت جاوید ۲ اگست ۱۹۲۳ء کو جو ناکوٹ ضلع پونا (مہاراشٹر) میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدایشی نام عصمت اللہ تھا۔ تعلیم بمبئی کے انجمن اسلام ہائی اسکول میں ہوئی۔ سید اسعد گیلانی (جو ایک معروف ادیب اور بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے اور آخری زمانے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ۔ وفات :۳؍اپریل ۱۹۹۲ء ،محسن انصاری، عصمت جاوید کے ہم جماعت بلکہ بہت قریبی اور گہرے دوستوں میں شامل تھے۔ ان کی ابتدائی ادبی تربیت میں ان کے اردو اور فارسی کے ایک استاد عبدالسمیع نکہت شاہ جہان پوری کا بہت دخل ہے جو فارسی اور اردو زبانوں کے ماہراور شاعر تھے۔اسی تربیب کے نتیجے میں عصمت جاوید نے شاعری اور افسانہ نویسی کا آغاز کیا۔ عصمت جاوید کی خوش قسمتی تھی کہ کالج کی تعلیم کے زمانے میں انھیں اسماعیل یوسف کالج بمبئی کے صدر شعبہ اردو و فارسی پروفیسر اشرف ندوی جیسے استاد کی صحبت مل گئی۔ انھوں نے بھی عصمت جاوید کی ادبی تربیت پر خاص توجہ دی۔ بی اے کے بعد عصمت جاوید نے فلمی دنیا میں بھی کچھ وقت گزارا اور علی سردار جعفری کے ساتھ بھی ان کے رسالے ’’نیا ادب‘‘ کے منتظم کے طور پر کام کیا لیکن پھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ بعض لوگوں کے تضادات فکر و عمل کی وجہ سے ان سے برگشتہ ہو گئے۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ لیکچرر ہو گئے۔ مختلف اوقات میں امراوتی کالج، اسماعیل یوسف کالج بمبئی اور شولا پور کالج میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۶۷ء میں ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج اورنگ آباد ہوا تو وہ بہت پریشان ہوئے کیونکہ بمبئی کو چھوڑ کر اورنگ آباد نہیں جانا چاہتے تھے۔ لیکن جب اورنگ آباد پہنچے تو وہاں کا ماحول اور اس تاریخی شہر کی فضا انھیں اس قدر پسند آئی کہ پھر وہ وہیں کے ہو رہے۔ خیال رہے کہ اورنگ آباد مولانا مودودی کی جائے پیدایش ہے اور اورنگ زیب عالمگیر (ترکش مارا خدنگ آخریں) اورنگ آباد ہی میں آسودۂ خاک ہیں۔ عصمت جاوید کی باقی عمر اسی شہر میں بسر ہوئی۔ انھوں نے اپنی پہلی تصنیف ’’فکرپیما‘‘ کو اورنگ آباد کے نام معنون کیا۔ ’’دکن کی پرانی دلی اورنگ آباد کے نام، جہاں میرے قلم نے تیز چلنا سیکھا‘‘۔ عصمت جاوید کی شخصیت خاصی ہمہ جہت تھی۔ وہ شعر بھی کہتے تھے۔ ڈراما نویسی سے بھی دلچسپی تھی۔ تحقیق و تنقید میں بھی ان کا ایک خاص مقام تھا۔ ’’اردو پر فارسی کے لسانی اثرات‘‘ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع تھا۔ ’’لسانی جائزے‘‘ اور ’’نئی اردو قواعد‘‘ بھی لسانیات کے موضوع سے بحث کرتی ہیں۔ ترجمہ کرنے میں بھی انھیں خوب مہارت تھی۔ ان کے تراجم کلام اقبال کا اوپر ذکر آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے فارسی سے اردو، انگریزی سے اردو، عربی سے اردو اور مرہٹی سے اردو ترجمے کیے۔ ان کے تراجم میں خاص تنوع ہے۔ وہ اردو اور فارسی کے ایک کامیاب معلم تھے۔ درس و تدریس کے علاوہ انھوںنے متعدد درسی کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ وہ مہاراشٹر اردو ٹیکسٹ بک بورڈ کے ممبر بھی رہے۔ ان کی مرتبہ انٹرمیڈیٹ کے لیے اردو کی کتاب کے بارے میں اس وقت کے بھارتی صدر ڈاکٹر ذاکر حسین نے یہ رائے دی:’’اتنی جامع اور مکمل اردو کتاب میں نے ملک کے طول و عرض میں اس سے قبل نہیں دیکھی تھی‘‘۔ وہ پی ایچ ڈی کے طلبہ کے نگران (سپر وائزر) بھی رہے۔ عصمت جاوید کا علمی و ادبی ذخیرہ خاصا متنوع ہے۔ ان کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد سترہ ہے۔ لیکن ان کے ایک دوست رشید انصاری کا بیان ہے کہ اس سے دوگنی تعداد میں ان کے مسودے ہنوزتشنۂ طباعت ہیں۔ وہ ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’اکیلا درخت‘‘ اور نظموں کا مجموعہ ’’قفس رنگ‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ بظاہر ان کی شاعرانہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے نہ آ سکیں۔ لیکن فی الحقیقت انھوں نے شعوری طو رپر علمی کاموں کو شعر گوئی پر ترجیح دی، ان کا ایک شعر ہے: جو مجھ پر نثر کا ہوتا نہ قرض اے جاوید میں شاعری میں بڑا نام کر گیا ہوتا عصمت جاوید کا قلم تقریباً نصف صدی تک رواں رہا۔ انھوں نے مختلف اصناف نظم و نثر میں قابل قدر ادبی و علمی ذخیرہ یادگار چھوڑا۔ لیکن ان کی خاطر خواہ قدر اور عزت افزائی نہیں ہوئی نہ ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ شاید اس لیے کہ وہ کسی ادبی گروپ سے وابستہ نہ تھے۔ طبعاً وہ درویش منش، وضع دار اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔ ان کے قریبی دوستوں کا تاثر ہے کہ عصمت جاوید کی شخصیت ، مولاناحالی کی یاد دلاتی تھی۔ آخری عمر میں وہ خود نوشت لکھ رہے تھے جو ناتمام رہی۔ خدا اُن کی مغفرت کرے۔ (رفیع الدین ہاشمی) ……٭…… ڈاکٹر اکبر رحمانی بھارت کے ممتاز ماہر تعلیم، اردو زبان و ادب کے محقق، نقاد اور تعلیمی ماہنامے ’’آموزگار‘‘ کے مدیر اکبر رحمانی ۱۷ ستمبر ۲۰۰۲ء کو جل گائوں ، مہاراشٹر میں انتقال کر گئے۔ جلگائوں کے ایم جے کالج میں درس و تدریس کے ساتھ وہاں سے ’’آموزگار‘‘ نکالتے تھے۔ متعدد تعلیمی اور علمی اور صحافتی انجمنوں اور نصابی کمیٹیوں کے رکن تھے۔ ماہنامہ ’’آموزگار‘‘ انھوں نے جلگائوں سے ۱۹۷۴ء میں جاری کیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد جریدہ تھا۔ جس میں تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف درجوں اور مضامین کے نصابات بھی زیر بحث آتے تھے۔ اسی طرح اردو زبان و ادب کے بارے میں حکومتی پالیسیوں کا جائزہ بھی لیا جاتا تھا۔ اس لیے اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ مگر اس کی اشاعت میں بعض وجوہ سے تسلسل نہ رہ سکا۔ لیکن چند سال بعد دوبارہ جاری ہوا اور اکبر رحمانی نے نامساعد حالات کے باوجود اسے بڑی ہمت اور حوصلے سے اپنی وفات تک جاری رکھا۔ اکبر رحمانی اقبالیات سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اسی حوالے سے راقم کا ان سے تعارف ہوا۔ غالباً یہ۱۹۸۷ء کی بات ہے۔ وہ عباس علی خان لمعہ پر، خصوصاً ان کے نام اقبال کے خطوں پر تحقیق کر رہے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے اسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۹ء میں وہ پاکستان آئے اور کراچی سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔ یہاں سے انھوں نے علمی کتابوں، بطور خاص اقبالیاتی رسائل و کتب کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا اور جلگائوں پہنچ کر اپنے رسالے میں ذخیرہ اقبالیات پاکستان کا تعارف کرانا شروع کیا۔ اس ضمن میں ’’آموزگار‘‘ کے پانچ اقبال نمبر شائع ہوئے۔ بعدازاں ان نمبروں کو یکجا کر کے ’’آموزگار اقبال‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا۔ جب وہ پاکستان آئے تو انھوں نے لمعہ کے نام خطوط اقبال کا ایک مجموعہ بزم اقبال لاہور کے اس وقت کے اعزازی سیکرٹری ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کو اشاعت کے لیے پیش کیا۔ مجھ سے انھوں نے اس مجموعے پر دیباچہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن مذکورہ مجموعہ شائع نہیں ہو سکا۔ اس موضوع پر ان کی تحقیق پر بھوپال کے ماسٹر اختر صاحب نے شدید اعتراض کیے مگر اس مناقشے کے باوجود، رحمانی صاحب بڑے استقلال سے اپنا کام کرتے رہے۔ اس موضوع پر انھوں نے اس کے بعد بھی متعدد مفید مضامین لکھے۔ زندگی کے آخری چار پانچ برسوں میں انھوں نے اتنا تحقیقی و تنقیدی اور علمی کام کیا جو ابتدائی دور کے ۱۰۔۲۰ برسوں میں کبھی نہ کیا ہو گا۔ چونکہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے اور گوشہ نشین تھے۔ اس لیے انھوں نے اس وقت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اکبر رحمانی ایک ہوش مند معلم ہونے کے ساتھ قلم کے دھنی بھی تھے۔ تعلیم و تعلم سے ان کی دلچسپی کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ’’ آموزگار‘‘ میں وہ مختلف مضامین کی نصابی کتابوں کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ضیارالدین اصلاحی کے بقول: ’’فرقہ وارانہ اور تنگ نظر ذہن کے لوگ درسی اور غیر درسی خصوصاً تاریخ اور نصابی کتابوں میں جوزہر بھرتے رہتے تھے یا اردو یا اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کی زیادتیاں اور ناانصافیاں ہو رہی تھیں، ان کا تدارک کرنا انھوں نے اپنا فرض بنا لیا تھا‘‘۔ ڈاکٹر سید عبدالباری کے بقول : ’’اکبر رحمانی کی شخصیت ہمہ گیر تھی ادب، صحافت، تاریخ، عمرانیات، انسانیات کہاں کہاں ان کے قدم کے نقوش نہیں۔ وہ مہاراشٹر کے ایک چھوٹے مقام پر تھے مگر روشنی کا مینار بن گئے جس سے ملک کے مختلف حصوں میں لوگ اپنی منزل کا پتا حاصل کرتے رہے۔ تحریک اسلامی سے بھی انھیں خاص تعلق تھا۔ مقامی اور ملک گیر سطح پر ان کے روابط اسکے قائدین سے بے حد پرخلوص اور گہرے تھے۔ اردو زبان اور مسلمانوں کی تعلیم کے فروغ کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔ زندگی نہایت سادہ اور مجاہدانہ تھی۔ اخلاص بے کراں تھا۔ افسوس ہوتا ہے کہ خاک میں کیسی کیسی صورتیں مل جاتی ہیں لیکن ان کی نیکیاں، اخلاص اور کارنامے ان کی یاد تازہ کرتی رہتی ہیں‘‘۔ خدا ان کی مغفرت کرے ۔ ان کی وفات ہماری (خصوصاً بھارت کی) علمی اور تعلیمی اور اقبالیاتی دنیا کے لیے ایک بڑا حادثہ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی) ……٭…… نعیم صدیقی معروف شاعر ، ادیب ، دینی مصنف اور رسالہ ’’سیارہ‘‘ کے بانی مدیر جناب نعیم صدیقی ۲۵ ستمبر ۲۰۰۲ء کو دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ جناب فضل الرحمان نعیم صدیقی کا شمار بزرگ اہل قلم میں ہوتا ہے۔ وہ گو ناگوں علمی اور ادبی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انھوں نے تقریباً ہر صنف ادب میں لکھا۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے افسانے‘ تمثیلیں اور انشایئے لکھے۔ سیرت نگاری کی اور دینی ادب پر بھی ان سے بہت سی کتابیں یادگار ہیں۔ وہ علامہ اقبال کے افکار و نظریات سے بھی غیر معمولی دلچسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے ۱۹۶۳ء میں علامہ اقبال پر اپنی پہلی کتاب ’’علامہ اقبال اور نظریہ پاکستان‘‘ شائع کی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اقبالیات کے مختلف پہلوئوں پر لکھتے رہے۔ ان کے نزدیک علامہ اقبال ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ بیسویں صدی میں اسلامی نشات ثانیہ کے بہت بڑے داعی بھی تھے اور اس حیثیت میں انھوں نے دور حاضر کی اسلامی تحریکوں پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ جناب نعیم صدیقی اقبال مخالف تحریروں کا تعاقب کرنے میں ہمیشہ مستعد رہتے تھے۔ اقبال پر ان کے مضامین کا ایک وقیع مجموعہ ’’اقبال ایک شعلہ نوا‘‘ کے نام سے دو مرتبہ چھپ چکا ہے۔ان کی شاعری اور نثری تحریروں پر فکر اقبال کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ ان کے جاری کردہ ادبی رسالے ’’سیارہ‘‘ نے اقبالیات اور فکر اقبال کے فروغ کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں تفصیل کے لیے دیکھیں: پروفیسر جعفر بلوچ صاحب کا مرتبہ مجموعہ ’’اقبال شناسی اور سیارہ‘‘ بزم اقبال ، لاہور ۔ جناب نعیم صدیقی ۴ جون ۱۹۱۶ء کو خان پور ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔منشی فاضل کرنے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے مگر جلد لاہور آ کر ملک نصر اللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘ کے عملہ ادارت میں شامل ہو گئے۔ اس اثنا میں وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور ہمہ وقتی طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہو گئے۔ انھیں دارالاسلام پٹھان کوٹ اور بعدازاں لاہور میںمولانا مودودی کی قربت حاصل رہی۔ مختلف اوقات میں وہ ماہنامہ ’’چراغ راہ‘‘ کراچی، ’’شہاب‘‘ لاہور، ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور اور ’’سیارہ‘‘ لاہور کے مدیر رہے۔ نعیم صدیقی کلاسیکی روایت کے شاعر تھے۔انھوں نے بعض ملی موضوعات اور حادثات (کشمیر، فلسطین، سقوط مشرقی پاکستان، بوسنیا وغیرہ) پر یادگار نظمیں لکھیں۔ ان کے متعدد شعری مجموعے (’’شعلہ خیال‘‘، ’’بارود اور ایمان‘‘، ’’خوں آہنگ‘‘، ’’پھراک کارواں لٹا‘‘، ’’نور کی ندیاں رواں‘‘ اور ’’وہ سورج بن کے ابھرے گا‘‘) چھپ چکے ہیں۔ سیرت النبیؐ پر ان کی تصنیف ’’محسن انسانیت‘‘ اپنی نوعیت کی ایک منفر دکتاب ہے۔ مولانا مودودی کی سیرت اور شخصیت پر ’’المودودی‘‘ اور علمی و دینی موضوعات پر انھوں نے متعدد کتابیں (تحریکی شعور، معرکہ دین و سیاست، انسان کا معاشی مسئلہ، انوار وآثار، بنیاد پرستی وغیرہ) تصنیف کیں۔ ’’ذہنی زلزلے‘‘ اور ’’ٹھنڈی آگ‘‘ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔ مولانا مودودی کی ’’سیرت سرور عالمؐ‘‘ کی ترتیب بھی (بہ اشتراک : عبدالوکیل علوی) ان کا ایک اہم تالیفی کام ہے۔ بقول محمود عالم: ’’فکر و خیال اور اسلوب نگارش کے اعتبار سے وہ مولانا مودودی کے مثنیٰ تھے‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی) ……٭…… ڈاکٹر محمد حمید اللہ عالم اسلام کے ممتاز محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا ۱۸ دسمبر ۲۰۰۲ء کو امریکی ریاست فلوریڈا میں انتقال ہو گیا۔ انّا للّٰہ انّا الیہ راجعون۔ آپ نے ۹۶ برس عمر پائی۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت علمی حلقوں کے لیے محتاج تعارف نہیں۔ وہ تحقیق و تخلیق کی اعلیٰ روایات کے مالک ایک عظیم اور افضل انسان تھے۔ انھیں ۹ مختلف زبانوں پر قدرت حاصل تھی جن میں اردو، فارسی، عربی، ترکی، جرمن، فرانسیسی اور انگریزی زبانیں شامل ہیں۔ اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب و تمدن کا مطالعہ ان کا خصوصی شعبہ تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ ۱۹ فروری ۱۹۰۸ء (۱۶ محرم الحرام ۱۳۳۶ھ) دکن کے تاریخی شہر حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق حیدر آباد کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ، روشن خیال متوسط خاندان سے تھا۔ آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد سے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ کچھ عرصہ جامعہ عثمانیہ میں پڑھاتے رہے۔پھر آپ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی چلے گئے۔ جرمنی میں انھوں نے بون یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس مقالے میں ترمیم و اضافہ کے بعد اسے Muslim Conduct of State کے نام سے کتاب شائع کرائی۔ ڈاکٹر حمید اللہ جرمنی سے فرانس چلے گئے کیونکہ وہاں کی علمی فضا انھیں زیادہ ساز گار محسوس ہوئی۔ فرانس کی سوربون یونیورسٹی میں انھوں نے عہد نبویؐ اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی۔ لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا اور فرانسیسی میں دو جلدوں میں سیرۃ النبیؐ پر کتاب تصنیف کی۔ ڈاکٹر مرحوم نے جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں ۱۲ خطبات دیے جو عہد نبوی اور نظام تشریع و عدلیہ کے نام سے شائع ہوئے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اس امر کی تردید کی کہ امریکی آئین دنیا کا پہلا آئین ہے۔ اس کے برعکس انھوں نے میثاق مدینہ کو دنیا کا پہلا تحریری آئین قرار دیا۔ انھوں نے یہ بھی تحقیق کی کہ تدوین حدیث کا آغاز صحاحہ ستہ سے بھی پہلے شروع ہو چکا تھا جس کی شہادت ’’صحیفہ ہمام ابن منبہ‘‘ ہے۔ اس نایاب کتاب کے دنیا میں صرف دو نسخے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں مرتب کر کے شائع کیا۔ بلکہ ان دونوں کی مدد سے ایک مستند نسخہ تیار کیا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کا خصوصی موضوع مطالعہ عہد نبویؐ اور خلافت راشدہ تھا۔ جس کا مقصد اس عہد کے تقابلی مطالعے سے اسلام کی حقانیت اور صداقت ثابت کرنا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی کتابیں دنیا کی بہت سی زبانوں میں شائع ہوئیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ سقوط حیدر آباد کے بعد فرانس میں مقیم ہو گئے۔ تاہم انھوں نے کسی بھی ملک کی شہریت حاصل نہ کی۔ بھارت کی شہریت وہ لینا نہیں چاہتے تھے اور پاکستان میں آئے بھی مگر بوجوہ یہاں قیام نہ کیا۔ انھوںنے دنیا کی ممتاز جامعات میں لیکچر دیے۔ جامعہ استنبول سے بھی وہ دیر تک وابستہ رہے۔ ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ثابت کیا کہ حدیث کی کتابت عہد نبویؐ میں شروع ہو چکی تھی اور خلافت راشدہ کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ انھیں صحیفہ ہمام ابن منبہ کا نسخہ جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا۔ انھوں نے ثابت کیا کہ جو احادیث اس میں ہیں وہ بعد کے مجموعہ ہائے احادیث میں بھی ہیں۔ حدیث کی صحت اور حجیت منوانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر حمید اللہ ایک معتدل مزاج ، جدید رجحانات کے مالک ایک عالم دین تھے۔ عہد جدید سے مطابقت میں بھی انھیں اہم مقام حاصل ہے۔ دین اور فقہی امور میں شدت پسند نہ تھے مثلاً رفع یدین کو بھی سنت قرار دیتے تھے اور نہ کرنے کو بھی درست تصور کرتے تھے۔ عورتوں کے رقص کے بھی خلاف نہ تھے بشرطیکہ وہ محرموں کے سامنے ہو۔ اسلام کی عہد جدید سے ہم آہنگی اور تواقف کے رجحان کو پسند کرتے تھے بشرطیکہ وہ اسلام کی بنیادی روح کے منافی نہ ہو۔ وہ جہاد کو بھی دفاعی ضرورت قرار دیتے تھے۔ وہ قانون سازی میں علامہ اقبال کے پارلیمان کے حق اجتہاد کے خلاف تھے۔ وہ حکومت کو قانون سازی میں اجارہ داری دینے کے خلاف تھے، وہ اسے حضرت امام ابوحنیفہ کی طرح مسلمانوں کا نجی معاملہ قرار دیتے تھے۔ ڈاکٹر حمید اللہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ انھوں نے ایک درویشانہ زندگی بسر کی۔ اپنی ضروریات زندگی سوربورن یونیورسٹی کی پنشن سے پوری کرتے تھے۔ انھیں پاکستان میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے بورڈ کا رکن مقرر کیا گیا مگر انھوں نے اسے جلد خیر باد کہہ دیا کیونکہ وہ اسے بے مصرف تصور کرتے تھے۔ اسی طرح بہاولپور یونیورسٹی میں سیرت چیئر بھی قبول نہ کی۔ ان کے دست حق پرست پر تیس ہزار فرانسیسی مسلمان ہوئے۔ جن میں موریس بوکاٹی بھی شامل ہیں جس نے ’’بائبل ‘ قرآن اور سائنس‘‘ کے نام سے اہم کتاب لکھی۔ آپ نے حلال و حرام کے شبہ کی بنا پر پیرس میں قیام کے دوران تیس برس تک گوشت نہیں کھایا۔ آپ اپنی آمدنی جو انھیں کتابوں کی رائلٹی اور لیکچرز سے حاصل ہوتی تھی‘ تبلیغ اسلام اور ناداروں کی مدد میں صرف کر دیتے تھے۔ انھوں نے تمام زندگی شادی نہیں کی۔ انھیں فیصل ایوارڈ ملا تو انھوں نے اس کی ساری رقم ادارہ تحقیقات اسلامی کی لائبریری کو دے دی۔ یہ لائبریری ان کے نام سے موسوم ہے۔پبلشرز جو رائلٹی دیتے وہ ساری ڈاک خانہ جا کر خو دمختلف مستحقین کو منی آرڈر کر دیتے۔ ان کی وفات کا المیہ بھی افسوسناک ہے۔ چند برس پہلے وہ بنک گئے۔ جہاں ان کی پنشن کی رقم جمع تھی معلوم ہوا کہ کسی نے ان کے اکائونٹ سے ساری رقم نکلوا لی۔ انھوں نے کسی سے اس کا تذکرہ نہ کیا۔ کئی دن بعد جب جمع پونجی بالکل ختم ہو گئی تو فاقے کرنے لگے اور فاقوں سے نڈھال ہو کر گر پڑے۔ انھیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا۔ علم و دانش کا یہ آفتاب امریکہ کی سرزمین پر غروب ہوا۔ ان کی زندگی کا یہ واقعہ بھی حیرت انگیز ہے کہ وہ زندگی میں صرف ایک بار کلاس میں تاخیر سے پہنچے۔ اس دن ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ والدہ کی تدفین کے بعد وہ کلاس میں چلے گئے۔ ڈاکٹر حمید اللہ اسلامی سیرت و کردار کا مکمل نمونہ تھا۔ فقر و درویشی ان کا سرمایہ حیات تھا۔ پوری دنیا میں ان کی وفات پر اظہار تعزیت کیا گیا اور ان پر خصوصی مقالات لکھے گئے اور ان کی خدمات جلیلہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ (ڈاکٹر وحید عشرت) ڈاکٹر شہین دخت مقدم صفیاری ممتاز ماہر اقبالیات اور پاکستان دوست ایرانی سکالر ڈاکٹر شہین دخت مقدم صفیاری گذشتہ دنوں امریکہ میں انتقال کر گئیں۔ آپ کچھ عرصہ سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھیں۔ محترمہ شہین دخت تہران میں ۱۱ فروری ۱۹۳۸ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کے شوہر ڈاکٹر کامران مقدم صفیاری ایک ممتاز استاد اور انجینئر ہیں جو ایران کے ایک ممتاز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر شہین دخت نے ترکی اور ایران سے الہٰیات اور تاریخ کے موضوعات پر مقالات رقم کیے۔ اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آپ نے معلمی کا سلسلہ پرائمری سکول اور مڈل سکول کی سطح سے شروع کیا کچھ عرصہ ٹیچرز ٹریننگ کالج کے شعبہ تاریخ میں لیکچرر رہیں۔ پھر آفیسرز کالج تہران میں تدریسی فرائض انجام دیتی رہیں۔ ڈاکٹر شہین دخت کو تاریخ ادیان و عرفان سے گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے تاریخ ایران اور ایران کے ہمسایہ ممالک کی تاریخ کا اختصاری مطالعہ کیا۔ اسی دوران ان کی دلچسپی پاکستان، قائد اعظم اور حضرت علامہ محمد اقبال سے ہوئی۔ آپ کی تصانیف و تراجم میں ’’تاریخ ایران و کشو رہای ہمجوار آن‘‘ (دوجلدیں) ’’اصول مبانی تاریخ‘‘، ’’خرمدینان‘‘، ’’نگاہی بہ پاکستان‘‘، ’’جناح (قائداعظم) حماسئہ ای درتاریخ‘‘، ’’تاریخ مختصر گسترش اسلام‘‘، ’’فرہنگ اردو بہ فارسی‘‘ شامل ہیں۔ ان کے تراجم میں علامہ اقبال کی سوانح ’’زندہ رود‘‘ از ڈاکٹر جاوید اقبال کا چار جلدی ترجمہ (’’جاویدان اقبال‘‘) پروفیسر محمد منور کی تصانیف: ’’غزل فارسی اقبال‘‘، ’’میزان اقبال‘‘،’’برہان اقبال‘‘ اور’’ ایقان اقبال‘‘ کے تراجم شامل ہیں۔ ’’شرق و غرب در کلام اقبال‘‘ اور ’’نگاہی بہ اقبال‘‘ آپ کے مقالات کے مجموعے ہیں۔ آپ نے ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب افکار اقبال کا بھی فارسی میں ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر شہین دخت مقدم اقبال اکادمی کے مجلے’’اقبالیات فارسی‘‘کی سردبیر (ایڈیٹر) بھی رہیں۔ آپ نے پاکستان اور ایران میں قدیمی روابط کو مستحکم تر کرنے میں قابل قدر کوششیں کیں۔ انھیں ایران و پاکستان کا ثقافتی سفیر کہنا بجا ہو گا۔ خدا انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین! (ادارہ)