اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت : محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت : سید قاسم محمود رفیع الدین ہاشمی احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت و سیاحت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات ۱ - تاریخِ ہند: چند تصریحات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱ ۲ ۔علامہ اقبال کا ایک نایاب خط محمد جہانگیر عالم ۱۳ ۳۔ اقبال کی تحریروں میں تحریف و تعبیر پروفیسر عبدالحق ۱۶ ۴۔ جاوید نامہ :ایں کتاب از آسمانے دیگر است محمد شفیع بلوچ ۲۶ ۵۔ جاوید نامہ:منظر بہ منظر اسلم کمال ۵۶ ۶۔ بالِ جبریل: چند تصریحات(دوسری قسط) خرم علی شفیق ۷۱ ۷۔ اقبال کا فلسفۂ تقدیر ڈاکٹر سید تقی عابدی ۸۶ ۸۔ عبدالکریم الجیلی اور اقبال ڈاکٹر علی رضا طاہر ۹۳ ۹۔استفسارات؍جوابات احمد جاوید ۱۰۲ ۱۰۔ جگن ناتھ آزاد اور مطالعۂ اقبال سرور الہدیٰ ۱۱۵ ۱۱۔ تبصرہ کتب ۱۲۴ ٭ تعمیر فکر(جگن ناتھ آزاد) مبصر : رفیع الدین ہاشمی ۱۲۴ ٭ Iqbal: A Selection of Urdu Verse (مترجم: ڈیوڈ میتھیوز) مبصر : پروفیسر غلام رسول ملک ۱۲۶ ٭ اقبال کا اردو کلام(ڈاکٹر ایوب صابر) مبصر : عبداللہ شاہ ہاشمی ۱۳۱ ٭ جگن ناتھ آزاد(یاسمین کوثر) مبصر: عبداللہ شاہ ہاشمی ۱۳۳ ۱۲۔ اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف(جولائی ؍دسمبر۲۰۰۴ئ) نبیلہ شیخ ۱۳۴ ۱۳۔ اقبالیاتی ادب ۔۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں شائع ہونے خادم علی جاوید ۱۴۱ والی اقبالیاتی کتابوں کی فہرست قلمی معاونین ۱ - ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۲۸۔ڈی منصورہ ، ملتان روڈ، لاہور ۲ ۔ پروفیسر محمد جہانگیرعالم ۴۴۰۔ بی، پیپلز کالونی ، فیصل آباد ۳ ۔پروفیسر عبدالحق وزیٹنگ پروفیسر، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر ۴۔ محمد شفیع بلوچ موضع درگاہی شاہ، ڈاکخانہ ۱۸ ہزاری ، تحصیل و ضلع جھنگ ۶۔ اسلم کمال ڈائریکٹر پروجیکٹ، ایوان اقبال ، لاہور ۷۔ خرم علی شفیق فلیٹ نمبر ۳۰، بلاک نمبر ۱ے؍۱۳، الاعظم اپارٹمنٹس نزد حسن اسکوائر، گلشن اقبال، کراچی ۸ ۔ سید تقی عابدی ۱۱۱۰۔ سیکرٹریٹ روڈ، نیو مارکیٹ۔ اون ایل ۳ ایکس I ایم۔۴، کینیڈا ۔ ۹ ۔ ڈاکٹر علی رضا طاہر استاد شعبۂ فلسفہ ، جامعہ پنجاب ، لاہور ۱۰۔ احمد جاوید نائب ناظم، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ۱۱۔ پروفیسرمحمد ایوب صابر ۴۷۔ لنک روڈ ، ایبٹ آباد ۱۲۔ محمد ایوب لِلّٰہ متعلم پی ایچ ڈی اردو ، اورینٹل کالج ، لاہور ۱۳۔ عبداللہ شاہ ہاشمی سابق استاد ، گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول ، حسن ابدال اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تاریخِ ہند: چند تصریحات ۱ علّامہ اقبال سے منسوب تاریخِ ہند کے بارے میں سب سے پہلی اطلاع ہمیں روزگارِ فقیر، دوم (نومبر ۱۹۶۴ئ) میں، ان الفاظ میں ملتی ہے: اُردو زبان میں تاریخ کی یہ کتاب ۱۴-۱۹۱۳ء میں مڈل کی جماعتوں میں پڑھائی جاتی تھی۔ اس کتاب کا خلاصہ امرتسر کے ایک پبلشر نے ۱۹۱۴ء میں شائع کیا تھا، وہ محفوظ ہے۔ اصل کتاب نایاب ہے۔۱ حاشیے میں بتایا گیا ہے کہ خلاصہ، جنابِ ممتاز حسن کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ چند ماہ بعد، جنوری ۱۹۶۵ء میں، کے اے وحید (=خواجہ عبدالوحید) نےA Bibliography of Iqbal شائع کی۔ تاریخِ ہند کے بارے اس کے اندراج سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ کتابِ مذکور کی تحریر و تصنیف میں لالہ رام پرشاد، علّامہ اقبال کے شریک مصنّف تھے۔ مذکورہ اندراج حسب ِذیل ہے: Tarikh-i-Hind compiled in collaboration with Lala Ram Parshad.(A summary of this work published at Amritsar in 1914 as Iqbal-i-Hind, pp 162) ۲ اس اطلاع میں: (۱) تاریخِ ہندکو compilation، یعنی ترتیب و تدوین قرار دیا گیا ہے اور اس کا اندراج بھی Works edited by Iqbal کے تحت کیا گیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ تاریخ ہند ایک طبع زاد تصنیف ہے۔ (۲) کتاب کے صفحات کی تعداد ۱۶۲ بتائی گئی ہے۔ معلوم نہیں اس کا ذریعہ کیا ہے؟ قیاس ہے کہ خواجہ عبدالوحید نے مذکورہ خلاصہ(اقبالِ ہند) جناب ممتاز حسن کے ہاں ہی دیکھا ہوگا، کیوں کہ کسی اور جگہ اس کی موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ کچھ عرصے کے بعد، فقیر سیّد وحیدالدین کی مرتبہ البم Iqbal in Pictures (ستمبر ۱۹۶۵ئ) میں تاریخِ ہند کے متذکرہ بالا خلاصے (اقبال ہند) کا عکس شائع ہوا، جس کے ساتھ یہ عبارت درج ہے: Iqbal wrote a school text-book on Indian History in 1913-14. The book is no longer available but a copy of a summary printed in 1914 is in the library of Mr. Mumtaz Hasan.۳ لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ آخر ۱۹۶۵ء سے اوائل ۱۹۶۷ء کے درمیان، کسی وقت تاریخ ہند کے ایک نسخے کاسراغ مل گیا۔ غالباً یہ ممتاز حسن صاحب ہی کی ملکیت تھا اور اقبال اکادمی کے ڈائرکٹر بشیراحمد ڈار نے انھی سے تاریخِ ہند کے سرورق کا عکس حاصل کر کے پہلی بار اُسے اپنی مرتبہ کتاب انوارِاقبال میں شائع کیا (بالمقابل صفحہ ۲۴)۔ اس کے ساتھ ہی کتاب کا حسبِ ذیل مختصر تعارف بھی شامل ہے: درسی کتابوں کے سلسلے میں ایک کتاب تاریخِ ہند ہے جسے اقبالؔ نے لالہ رام پرشاد، پروفیسر تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور کے اشتراک سے مرتّب کیا۔ یہ کتاب ۱۹۱۳ء میں پہلی بار، راے صاحب منشی گلاب سنگھ اینڈ سنز ایجوکیشنل پبلشرز نے شائع کی۔ یہ کتاب لارڈ منٹو پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا آخری فقرہ یوں ہے: ’’یہ وائسراے ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ء کو بمبئی پہنچا‘‘۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل عنوانات قابل ذکر ہیں۔ ہندستان کی گذشتہ اور موجودہ حالت (۳۶۶-۳۷۸)۔ ضمیمۂ حصّۂ اوّل: قدیم اور حال کی ملکی تقسیم اور مشہور تاریخی مقامات (۳۷۹-۴۱۶)۔ ضمیمۂ حصّۂ دوم: ہند کی حالت ۱۹۰۶ء میں (۴۱۷-۴۴۱)۔ تتمّۂ اوّل: سنسکرت کا علمِ ادب (۴۴۱-۴۵۰) تّتمۂ دوم: مسلمانوں کا علمِ ادب (۴۵۱-۴۵۶)۔۴ ڈار صاحب نے انوارِ اقبال کے ’عرضِ حال‘ میں اپنے ماخذ کا ذکر نہیں کیا لیکن یہ اعتراف ضرور کیا ہے کہ انوارِ اقبال کی تیاری میں جناب ممتاز حسن کے ’’نہایت بیش بہا، نادر اور متنوّع‘‘ ذخیرئہ اقبالیات سے استفادہ کیا گیا، اس لیے قریب قریب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس نادر کتاب کا یہ نسخہ جناب ممتاز حسن ہی نے کہیں سے حاصل کیا ہوگا اور یہی انوارِ اقبال کا ماخذ ہے۔ یہ معلوم ہے کہ ممتاز حسن، نیشنل بنک کراچی کے کتب خانے کے لیے جگہ جگہ سے بیش بہا نوادر خرید خرید کر جمع کرتے رہتے تھے۔بہرحال، اس کے بعد سے تاریخِ ہند کو اقبالؔ کی تصانیف میں شمار کیا جانے لگا۔ ۲ انوارِ اقبالکی اشاعت (مارچ ۱۹۶۷ئ) سے پہلے ممتاز حسن کا متذکرہ بالا نسخہ، اقبال اکادمی کو منتقل ہو چکا تھا (یا اسی اشاعت کا کوئی اور نسخہ، اقبال اکادمی کو کہیں سے دستیاب ہو گیا تھا۔) اس پر اقبال اکادمی کی گول مہر لگاکر، نمبرشمار ۸۸۷ درج کیا گیا (دیکھیے: عکس سرورق، مشمولہ: انوارِاقبال، بالمقابل ص ۲۴)۔ تقریباً ساڑھے تین سال بعد اسی سرورق پر، اکادمی کی ایک اور، نسبتاً بڑی مہر لگاکر، اس پر نمبرشمار ۶۳۰ لکھا گیا اور ۱۶اگست ۱۹۷۱ء کی مہر بھی ثبت کی گئی (دیکھیے سرورق: نسخۂ اکادمی، مشمولہ مضمون ہٰذا)۔واضح رہے کہ نسخۂ اکادمی اور نسخۂ ممتاز، درحقیقت ایک ہی کتاب کے مثنّٰی ہیں۔ نسخۂ اکادمی، اکادمی کے کتب خانے (پہلے کراچی، بعدازاں لاہور) میں عرصۂ دراز تک موجود رہا، لیکن تعجب کی بات ہے کہ گیارہ برسوں میں کسی نے اس کتاب کے مشمولات دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ راقم نے ۱۹۸۰ء میں مذکورہ نسخے کا عکس، اس وقت کے ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد معزّالدین کی اجازت سے حاصل کیا اور جب اپنے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں اسے دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ تاریخِ ہند، لالہ رام پرشاد کی تحریر کردہ ہے اور علّامہ اقبال کا، بہ جُز سرورق کے، کتاب کے مباحث و مندرجات سے کچھ علاقہ نہیں۔۵ یہ نتیجہ اس بنا پر اخذ کیا گیا کہ کتابِ مذکورہ میں بعض مسلم اکابر کا ذکر ایسے مخالفانہ بلکہ کہیں کہیں معاندانہ انداز میں کیا گیا ہے، جو ایک متعصّب ہندو ذہن سے تو مطابقت رکھتا ہے مگر اقبال کے بارے میں یہ شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ان بیانات سے متفق ہوں گے، مثلاً:مصنّف نے اورنگ زیب عالمگیر کو: ’بڑا پاک صاف اور متّقی و پرہیزگار اور بڑا پکا مسلمان‘ ۶ تسلیم کرنے کے ساتھ، یہ بھی کہا ہے کہ وہ راجپوتوں پر ’اور نیز اپنی ساری ہندو رعایا پر‘ مذہبی تعصّب سے، بڑی سختی کرتا تھا۔۷یہاں حاشیے میں لکھا ہے کہ: اورنگ زیب نے اپنے مذہبی تعصّب سے،جو جو سختیاں ہندوئوں پر کیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جزیہ، جس کو اکبر نے موقوف کر دیا تھا، پھر لگایا۔ یہ محصول مسلمانوں کے سوا سب پر لگایا جاتا اور فی کس وصول کیا جاتا تھا اور بعض پٹھان بادشاہوں نے اس ذریعے سے بڑے بڑے ظلم کیے تھے۔ غرض یہ محصول ہندوئوں کو سخت ناگوار تھا۔ مصنّف نے شکوے کے انداز میں کہا ہے کہ’مسلمانوں کی تاریخوں میں اس ]اورنگ زیب[ کو بادشاہانِ مغلیہ میں سب سے عمدہ لکھا ہے --- یہاں تک کہ اکبر پر بھی اس کو ترجیح دی ہے‘۔۸ پھر عالمگیر کا اکبر سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے: اصل یہ ہے کہ اورنگ زیب، عام لیاقت اور ہمت و چالاکی میں اکبر کے برابر، اور دادگستری اور جفاکشی میں بھی اس کی مانند تھا، لیکن اور سب خصلتوں میں، بالکل اکبر کے خلاف تھا۔ مصلحتِ ملکی کے اعتبار سے دونوں بڑے کامل تھے، مگر اورنگ زیب حکمت و ریاضت سے اپنا مطلب نکالتا تھا اور ہمیشہ ٹیڑھی تدبیروں کو پسند کرتا تھا۔ اکبر بڑا عالی حوصلہ اور فراخ دل اور صلح کل تھا۔ سب کے ساتھ فیاضی کے ساتھ برتتا اور مغلوب دشمن پر خصوصاً رحم کیا کرتا تھا، مگر اورنگ زیب بڑا متعصّب تھا۔ غیر مذہب کے لوگوں کو اذیت پہنچاتا۔ سب کی طرف سے بدظن رہتا۔ مغلوبوں پر سختی کرتا اور بری ]کذا[ طرح بھی کچھ ہاتھ لگتا توکبھی نہ چوکتا تھا۔ چونکہ اس کو کسی کا اعتبار نہ تھا، اس لیے نہ اس کے دل کو کبھی چین آرام ملا اور نہ کسی مہم میں بالکل کامیابی ہوئی۔ ۹ کیا منقولہ بالا تحریر، اس شخص کے قلم سے نکل سکتی ہے (یا وہ اس سے متفق ہو کر، اس پر اپنا نام دینے کا روادار ہو سکتا ہے) جو اورنگ زیب عالم گیر کو’کارزارِ کفر ودیں‘ میں ’ترکشِ مارا خدنگِ آخریں‘۱۰؎ کہتا ہو؟… علّامہ نے تو عالم گیر پر ’مظالم‘ عدم برداشت،غداری اور سیاسی سازشوں،کا بہتان تراشنے والوں کو Western Interpreters of Indian History کے ترجمان، قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ عالمگیر، ایک مثالی مسلم کردار ہے اور ہمیں بچوں کی تعلیم و تربیت میں اس کردار کو نشوونما دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خطبۂ علی گڑھ میں کہتے ہیں: The charges brought against him are based on a mis-interpretation of contemporary facts and complete misunderstanding of the nature of social and political forces which were then working in the Muslim State. To me, the ideal of character, foreshadowed by Alamgir is essentially the Muslim type of character, and it must be the object of all our education to develop that type.۱۱ یہ خطبہ ۱۹۱۱ء کا ہے۔ تعجب ہے کہ ’ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب‘ نے دو سال بعد تاریخِ ہند (۱۹۱۳ئ) میں ہندستانی تاریخ کے انھی Western interpreters (مغربی شارحین) کا منصب سنبھال لیا اور جس شخص کو وہ ایک مسلم کردار کا نمونہ قرار دے رہے تھے، اسے ظالم، فریبی، تنگ دل اور متعصّب کہنے لگے۔ معلوم ہے کہ اقبال، ٹیپو سلطان سے خاص عقیدت ۱۲ رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک وہ ’ہندستان کا آخری مسلمان سپاہی‘۱۳ اور ’شہیدانِ محبت کا امام‘۱۴ تھا، جس نے: در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو مرداں جاں سپردن زندگیست۱۵ کا مثالی پیکر بن کر اپنی جان، جاں آفریں کے سپرد کی، مگر تاریخِ ہند کے مصنّف نے (بہ الفاظِ اقبالؔ) ’یک دمِ شیری بہ از صدسالِ میش‘۱۶ کے قائل ٹیپو کو کم ہمت اور بزدل بنا کر پیش کیا ہے۔ سلطان کی شکستوں سے بین السطور، لکھنے والے کی دلی مسرت ظاہر ہوتی ہے۔ مصنّف بتاتا ہے کہ لارڈ وُلزلی نے اپنے دو جرنیلوں کو دو طرف سے میسور پر حملہ کرنے کے لیے متعین کیا تھا۔ ان: دونوں ... نے ٹیپو کی خوب خبر لی اور اس کو پے درپے شکست دی… آخر دونوں… بڑھتے بڑھتے میسور کے پایۂ تخت سیرنگ پٹم پر جا پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ اب ٹیپو کے اوسان خطا ہوئے اور خوف و ہراس دل پر چھایا، چنانچہ کہیں تو وہ فال کھلواتا اور پنڈتوں نجومیوں سے پوچھتا تھا اور کہیں مسجدوں میں دعائیں منگواتا اور مندروں میں پوجا کرواتا تھا، اور وہ دن بھول گیا تھا کہ ہندوئوں کو کیسی کیسی تکلیفیں دی تھیں، اور ان کے مندروں کو مسمار کرایا تھا۔ آخر جب کسی طرح کام بنتا نظر نہ آیا تو صلح کا پیغام بھیجا، مگر جرنیل ہیرس نے جو شرطیں پیش کیں، ان کے منظور کرنے میں لیت و لعل کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سارے فنونِ سپاہ گری اور عہدوپیمان کے ڈھنگ بھول گیا تھا، بلکہ اس میں اوسط درجے کی عقل و دانش بھی باقی نہیں رہی تھی۔۱۷ زیربحث تاریخِ ہند کامصنّف، اورنگ زیب کے علاوہ محمود غزنوی اور سراج الدّولہ کے متعلق بھی واضح طور پر مخالفانہ جذبات رکھتا ہے، مثلاً: وہ لکھتا ہے کہ محمود کا ہند کی دولت پر تو دانت تھا ہی،مگر ساتھ ہی یہ بھی آرزو کہ بڑے بڑے بانکے راجپوتوں کو تلوار کے زور سے دین اسلام میں داخل کر لے۔۱۸ آگے چل کر ہندوستان پر محمود کے حملوں کے ضمن میں اس نے بتایا ہے کہ محمود نے متعدد تیرتھوںپر حملے کرکے، بہت سے مندروں کو لوٹا، ہندوئوں کو قیدی بنایا اور بے شمار دولت لے کر غزنی کی طرف مراجعت کی۔۱۹ اسی طرح سراج الدّولہ کو’بڑا ظالم و عیاش‘۲۰ قرار دیتے ہوئے، مصنّف نے ہندوئوں پر اس کے ’مجنونانہ ظلم و تعدی‘۲۱ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ ’اس نے اپنی ہندو رعایا پر نہایت سخت ظلم کیے‘ مثلاً: ’بڑے بڑے شریف خاندانوں کو اپنی اوباشی کے سبب بے حرمت کیا، دولت مندوں کو لوٹ لوٹ کرمفلس بنا دیا اور بے رحمیاں کرکے سب کو ہیبت زدہ کر دیا‘۔۲۲مزیدبرآں اس نے ڈھاکے کے ایک ’متموّل حاکم راج بلب کی دولت پر دندانِ طمع تیز کیے‘۔۲۳ آگے چل کر ’بلیک ہول‘ کا قصہ، ایک حقیقتِ واقعہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔۲۴ ایک جگہ رسولِ اکرمؐ کا ذکر جس انداز و اسلوب میں کیا گیا، وہ علّامہ اقبال کا اسلوب ہو ہی نہیں سکتا۔ مصنّف نے لکھا ہے: عرب میں ایک نیا مذہب پیدا ہوا۔ اس مذہب کے بانی حضرت محمدؐ صاحب ۵۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۴۰ برس کی عمر میں ایک نئے اور فاتح مذہب، یعنی اسلام کی اشاعت کی۔ ۶۳۲ء میں حضرت محمدؐ راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔۲۵ علّامہ اقبال آپؐ کا ذکر اس انداز میں سخت ناپسند کرتے تھے۔ غلام رسول مہر نے ایک طویل عرصے تک علّامہ اقبال کی صحبت اٹھائی۔ ان کا بیان ہے کہ اگر کوئی انگریزی زدہ نوجوان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ’’محمد صاحب‘‘ کہ کر کرتا تو آپ فوراً اسے ٹوک دیتے اور بڑی سختی سے سرزنش فرماتے۔۲۶ پھر بعثتِ نبویؐ کا ذکر، جس انداز میں کیا گیاہے (۴۰ برس کی عمر میں ایک نئے اور فاتحِ مذہب یعنی اسلام کی اشاعت کی) وہ کوئی ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جو منصبِ نبوّت پر آپؐ کے فائز ہونے کے منفرد اور عظیم الشان واقعے کی اہمیت سے ناواقف ہو، بلکہ منصب نبوّت کے شعور ہی سے بے بہرہ ہو۔ان وجوہ سے یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مذکورہ کتاب علّامہ اقبال کی تحریر نہیں ہے۔ لیکن اس پر علّامہ کا نام کیسے درج ہے؟… یہ ایک معمّا ہے، جسے ابھی تک حل نہیں کیا جا سکا۔ ممکن ہے علّامہ نے ازراہِ وضع داری، اپنا نام کتاب پر لکھنے کی اجازت دے دی ہو… لیکن ایسا کرتے ہوئے، انھیں یہ خیال کیوں نہ آیا کہ کتاب کے مسوّدے پر ایک نظر ڈال لیں؟… علّامہ کے اوّلین سوانح نگاروں (محمد طاہر فاروقی، عبدالمجید سالک) نے تاریخِ ہند کا ذکر نہیں کیا۔ خود اقبال کے کسی خط، مضمون یا گفتگو میں اس طرح کی کسی کتاب کا ذکر نہیں ملتا۔ علّامہ اقبال کی مجالس میں حاضرباش کسی شخص نے بھی، کبھی ایسی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔ جیساکہ اوپر ذکر آچکا ہے، بشیراحمد ڈار اور ممتاز حسن جیسے جیّد اقبال شناسوں نے تاریخِ ہند کو متعارف تو کرایا، مگر تعجّب ہے کہ ان کی نظر کتاب کے محتویات پر نہیں گئی، اور انھی کی اطلاع پر اسے اقبال کی تصانیف میں شمار کیا جانے لگا، اور یہ بڑی غلطی اور غلط فہمی تھی۔ پہلی بار راقم الحروف نے اپنے تحقیقی مقالے (تصانیف اقبال... تحریر: ۱۹۸۰ئ، اشاعت: ۱۹۸۲ئ) میں تاریخِ ہند کی اصلیّت سے پردہ اٹھایا۔ ۳ راقم الحروف کو تاریخِ ہند کے کسی دوسرے نسخے کی تلاش بھی رہی۔ کئی سال بعد مالیر کوٹلہ کے ایک کرم فرما محمد کفایت اللہ صاحب تاریخِ ہند کا ایک نسخہ (=نسخۂ کفایت) لے کر آئے۔۲۷؎ میں نے اس کا عکس بنوا لیا، اصل نسخہ وہ واپس لے گئے۔جب دونوں نسخوں کا موازنہ کیا تو یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ دونوں نسخوں کا نام تاریخِ ہند ہے،مصنّفین کے نام بھی وہی ہیں اور سرورق بھی ہوبہو ویسا ہی ہے، دونوں کا دیباچہ بھی بالکل یکساں ہے، بلکہ دیباچے کے دونوں صفحے ایک ہی کتابت سے چھاپے گئے ہیں اور ان کے صفحات نمبر (الف، ب) بھی یکساں ہیں، لیکن دونوں کتابوں کا متن، ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے، یعنی ایک نام کی یہ دو مختلف کتابیں ہیں۔ نسخۂ اکادمی کے صفحات ۴۵۶ ہیں۔ نسخۂ کفایت ناقص الآخر ہے، لیکن اس کا آخری باب، فہرست کے مطابق صفحہ ۳۵۴ سے شروع ہوتا ہے۔ گویا اس کی ضخامت اندازاً ۴۰۰ صفحات تک ہی ہوگی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب دو بار لکھی گئی۔ نسخۂ اکادمی نسبتاً تفصیلی ہے اور نسخۂ کفایت قدرے مختصر۔ ایک کتاب کو دوسری بار، نئے متن کی صورت میں، تحریر و تصنیف کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ایک قیاس یہ ہے کہ نسخۂ اکادمی پہلے لکھا گیا، مگر اس کے بعض بیانات کی وجہ سے اسے ایک نصابی کتاب کے طور پر منظور نہیں کیا گیا۔ (خیال رہے کہ اس زمانے میں کتابیں چھاپ کر، منظوری کے لیے پیش کی جاتی تھیں۔) چنانچہ کتاب کا ایک نیا متن تیار کیا گیا۔ ہمارے اس قیاس کو اورنگ زیب عالمگیر، ٹیپوسلطان اور سراج الدّولہ کے بارے میں نسخۂ کفایت کے تبدیل شدہ اور قدرے بہتر بیانات سے بھی تقویت ملتی ہے۔ نسخۂ کفایت سے چند مثالوں کے ذریعے اس کا اندازہ ہوگا۔ اورنگ زیب کی ایک ’خامی‘ کو تو مصنّف نے بالکل معاف نہیں کیا اور جگہ جگہ بتایا ہے کہ اس نے ہندوئوں پر جزیہ لگا دیا، لیکن بحیثیت مجموعی، یہاں اس کی تعریف کی گئی ہے، مثلاً: اورنگ زیب، شاہ جہاں کے بیٹوں میں ’سب سے زیادہ لائق و فائق تھا‘۲۸ اور ’جفاکش پرلے درجے کا تھا‘۔۲۹ اسی طرح یہ کہ وہ ایک دین دار مسلمان تھا۔ اس نے محصولِ راہداری، چنگی، عرس و چاترہ کے محاصل، وصولیِ قرضہ کے ابواب اور دیگر قسم کے قرضہ جات معاف کر دیے۔۳۰ مصنّف نے ایک انگریز مؤرّخ کے حوالے سے لکھا ہے: میدانِ جنگ اور سیاسی معاملات میں اُس کی ہوشیاری اس پایے کی تھی کہ مشرقی ممالک میں اس کی نظیر کم ملتی ہے۔ اس نے اپنی قلم رو میں سزاے موت موقوف کر دی۔ ترقیِ زراعت کی مختلف تدابیر کیں۔ بے شمار کالج اور اسکول قائم کیے۔ سڑک اورپُل تعمیر کرائے۔ وہ دربارِ عام میں رعایا کے مقدمات بذاتِ خود فیصل کرتا تھا، اور کسی صوبے دار کی، خواہ وہ کتنی دُور ہی کیوں نہ ہو، خفیف سی نازیبا حرکت کو بھی نظر انداز نہیں کرتا تھا۔ غرض اورنگ زیب میں یہ شاہانہ خوبی تھی کہ جفاکش پرلے درجے کا تھا اور جس بات میں اُسے اپنی سلطنت کا بھلا نظر آتا تھا، اس میں دل و جان سے ساعی رہتا تھا۔ اگر مسلمانوں کی خوشامد اور ہندوئوں کی مذّمت سے قطع نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب سخت گیر اور اعلیٰ درجے کی لیاقت کا آدمی تھا۔ اس کے عہد میں سلطنت، ظاہر میں عروج پر تھی، لیکن اس کا زوال شروع ہو گیا تھا اور اس کے جانشینوں کو سخت مصیبتوں کا سامنا ہوا۔ پس کیا تعجب کی بات ہے کہ اس کی وفات کے بعد کچھ عرصہ نہیں لگا کہ طاقتِ مغلیہ، پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ گئی۔لیکن یاد رکھو کہ اورنگ زیب کے عہد میں سلطنتِ مغلیہ میں ایسی عظمت و شوکت تھی کہ تمام دنیا تعجب کرتی تھی۔ سیاح، مغلِ اعظم کا ذکر اسی طرح کیا کرتے تھے جس طرح یونانی شاہِ فارس کا، یعنی دولت بے حد ہے، اختیار لاانتہا ہے اور شان و شوکت بے نظیر ہے۔ ایک نامی انگریزی شاعر نے اپنے ایک نہایت نفیس ناٹک میں اورنگ زیب کو ہیرو بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بادشاہ جیتے جی کہانیوں کا ہیرو مشہور ہو گیا تھا۔۳۱ نسخۂ کفایت میں، محمود غزنوی کے تذکرے میں بھی، مصنّف کا ذہن ویسا مخالفانہ نہیں رہا جیسا نسخۂ اکادمی کے متعلقہ حصے (ص ۷۰-۷۸) میں تھا۔ نسخۂ اکادمی کے مطابق محمود کی لوٹ مار اور حرص و ہوا کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ نسخۂ کفایت میں مصنّف لکھتا ہے: یہ بادشاہ، مسلمان فاتحوں کا نمونہ ہے، یعنی سخت گیر و جنگ جو، لیکن ساتھ ہی کشادہ دل، سپاہیانہ پیچوں میں ہوشیار اور حکمتِ عملی سے کام نکالنے والا۔ اکبر کی طرح ہندوئوں سے بالعموم اچھا سلوک تھا۔ اس نے گجرات کا صوبے دار ہندو ہی مقرر کیا تھا، اور قنوج کے راجا کو اس کی گدّی پر رہنے دیا تھا۔۳۲ نسخۂ اکادمی میں مصنّف نے فردوسی کا قصہ بھی بیان کیا ہے اور اس ضمن میں محمود کی ’دون ہمتی‘ اور وعدہ خلافی کا بھی ذکر کیا ہے،۳۳ لیکن نسخۂ کفایت میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ یہ، فردوسی شاعر کا سرپرست تھا۔۳۴ سراج الدّولہ کے تذکرے ۳۵ میں بھی وہ تفصیل اور شدت نہیں ہے جو نسخۂ اکادمی میں ملتی ہے۔۳۶ بابر کے بارے میں بھی کوئی منفی کلمات نہیںملتے۳۷ بلکہ اس کے حالات میں، اس کی شجاعت و بہادری اور مفتوحین سے اس کے ’شاہانہ سلوک‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔۳۸ نسخۂ کفایت میں مسلمانوں کے بارے میں مصنّف نے بالعموم مثبت راے دی ہے، مثلاً: ایک جگہ کہتے ہیں: ’اس ملک میں شمال مغرب کی جانب سے ایک مہذب قوم آئی ہے‘۔۳۹ بیشتر مسلم بادشاہوں، مثلاً: فیروز شاہ تغلق، شیرشاہ سوری اور ہمایوں۴۰ کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ تاریخِ ہند کے ان دونوں نسخوں میں جلال الدین اکبر کی جی بھر کر تعریف کی گئی ہے۔ مصنّف نے اکبر کے تدبّر، حسنِ انتظام اور اس کی دانائی اور بہادری کو سراہا ہے۔ بتایا ہے کہ: جن بادشاہوں کے سر پر تاجِ سلطنت رکھا گیا، اکبر ان سب میں بڑا ہے۔ اکثر مفتوح دشمنوں کا قصور معاف کر دیا کرتا تھا۔ اعلیٰ درجے کا مدبّرِ ملک تھا۔ فاتح تو بہتیرے ہوئے لیکن ایسے صاحبِ تدبیربادشاہ کم ہوئے ہیں کہ سلطنتِ مفتوحہ کو استحکام دیں اور ایسا انتظام چھوڑ جائیں کہ صدیوں تک چلا جائے۔۴۱ مصنّف کے مطابق ہندو رعایا کے ساتھ اکبر کا سلوک اتنا اچھا تھا کہ اس نے ہندو رعایا کا دل اپنے ہاتھ میں۴۲ لے لیا تھا۔ مصنّف نے اکبرکے مذہبی خیالات کی بھی تعریف کی ہے، اور آخر میں لکھا ہے: غرض اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہے کہ مشرقی بادشاہوں میں اکبر سب سے دانا اور بہادر بادشاہ ہے۔۴۳ مصنّف نے مِن حیث القوم ہندوئوں کی، ہندو مذہب کی اور ہندو فلسفے کی تعریف کی ہے، مثلاً: m اکثر مذاہب، فلسفہ اور شاعر، ویدانت کے رنگ سے رنگے ہوئے ہیں اور دنیا میں یہ سب سے اعلیٰ فلسفہ شمار ہوتا ہے۔۴۴ m نجوم میں ہندوئوں کی تحقیقات اعلیٰ پایے کی ہے۔۴۵ m ہندوئوں کا علم طب، آج کل کے طب کی بنیاد ہے۔۴۶ قدیم زمانے کا ذکر کرتے ہوئے، مصنّف نے شودروں سے برہمنوں کے روایتی سلوک کی تردید کی ہے۔ کہتے ہیں: اکثر مورخین کی راے ہے کہ برہمنوں نے شودروں کا، کبھی سر اونچا نہیں ہونے دیا اور جہاں تک ہو سکا، ان پر ظلم و ستم روا رکھے۔ یہ محض غلط ہے… برہمن، شودروں پر کبھی سختی نہیں کرتے تھے اور ان کی ترقی میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالتے تھے، اور یہ خیال بھی کہ برہمن اور اونچی ذات کے آدمی، شودروں کے ہاتھ کا چھوا ہواکھانا بھی نہیں کھاتے تھے، بالکل بے بنیاد ہے۔۴۷ آگے چل کر مصنّف نے شوا جی کی بہادری، چالاکی اور ہر دل عزیزی کی تعریف کی ہے۔ مرہٹوں کے تذکرے میں لکھا ہے:’اگر احمد شاہ ابدالی سے شکست نہ کھاتے تو مغلوں کی جگہ یہی ہندستان کے بادشاہ بن جاتے‘۔۴۸ ۴ ۱۹۸۴ء میں سیّد شکیل احمد نے آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کی ایک مسل کی بنیاد پر تاریخِ ہند کے بارے میں بعض معلومات و اطلاعات شائع کیں۔ انھوں نے بھی کتابِ مذکور کو ’ڈاکٹر اقبال اور لالہ رام پرشاد کی ایک مشترکہ تصنیف، خیال کرتے ہوئے لکھا کہ اقبال کو ایک بلند مرتبت شاعر کی حیثیت میں تو سبھی جانتے ہیں، لیکن ’انھیں ایک مورخ کی حیثیت سے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے‘۔۴۹ سیّد شکیل احمد کے مطابق حیدرآباد دکن میں،یہ کتاب ۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۷ئ، یا ۱۹۱۶ئ، ۱۹۱۷ء میںامتحاناتِ السنہ شرقیہ کے نصاب Oriental Title Examination Syllabusمیں داخل تھی۔۵۰ اس کی سفارش علما اور نام وَر معلمین کی گیارہ رکنی کمیٹی نے متفقہ طور پر کی تھی، جس کے سربراہ مولانا حمیدالدّین فراہی تھے۔۵۱--- معلوم ہوتا ہے کمیٹی نے کتاب پر صرف اقبال کا نام دیکھ کر اسے داخلِ نصاب کرنے کی سفارش کر دی اور کتاب کا مطالعہ نہیں کیا۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی (نواب صدر یارجنگ) کمیٹی میں شامل نہیں تھے، مگر انھوں نے کتاب دیکھی، پڑھی تو انھیں یقین نہیں آیا کہ تاریخِ ہند، اقبالؔ کی تصنیف ہے۔ انھوں نے لکھا: میں نے تاریخِ ہند دیکھی۔مجھ کو تعجب ہے کہ اس پر ڈاکٹر اقبال کانام ہے، حالانکہ نہ اس کے لٹریچر میں، نہ اس کے مطالب میں، وہ زندہ دلی یا زندگی ہے، جو اقبال کا حصہ ہے… جہاں تک جلد ممکن ہو سکے،جدید عمدہ تاریخ تالیف کرا کر، اس کو خارج کر دینا چاہیے۔ اس تاریخ کو پڑھنے سے طلبہ کے دماغ پر ہرگز وہ اثر نہیں پڑسکتا، جو تاریخ سے فنِ شریف کی تعلیم سے ہونا چاہیے۔۵۲ اس کے چند ماہ بعد تاریخِ ہند پر ایک اوراعتراض اس وقت سامنے آیا جب اسے میٹریکولیشن کے نصاب میں داخل کیا گیا۔ روزنامہ صحیفہ (۲ مئی ۱۹۱۸ئ) کے ایک مضمون نگار نے اعتراض کیا کہ کتاب میں خانوادئہ آصفی کے بعض سابقہ حکمرانوں کے بارے میں مصنّف کا لب و لہجہ نامناسب ہے اور معلومات بھی بے ادبی اور غلط تاویلات پر مبنی ہیں…مصنّف تاریخِ ہند کے الفاظ یہ ہیں: ’اسی زمانے کے قریب ایک بڑا بھاری واقعہ ظہور میں آیا۔ نظام الملک صوبہ دارِ دکن، خودمختار بادشاہ بن بیٹھا‘۔۵۳ گویا کتاب میں ’بادشاہ بن بیٹھا‘ کے الفاظ مضمون نگار کے نزدیک قابل اعتراض تھے کہ اس سے شاید نظام الملک کے سوے ادب کا پہلو نکلتا تھا۔ بہرحال، سیّدشکیل احمد، مذکورہ مسل کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ (غالباً اسی مؤخّرالذکر سبب سے بالآخر) اسے نصاب سے خارج کر دیا گیا۔۵۴ ٭٭٭ حوالے اور حواشی ۱- روزگارِ فقیر، دوم، مرتب: فقیر سیّد وحیدالدین۔ لائن آرٹ پریس کراچی، نومبر ۱۹۶۴ئ، ص ۶۴۔ عبدالغنی اور خواجہ نورالٰہی کی Bibliography of Iqbal ] ۱۹۵۴ئ[ میں تاریخِ ہند کا ذکر نہیں ملتا۔ اسی طرح نذیراحمد کی کلیدِاقبال ]۱۹۶۱ئ[ میں بھی اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ ۲- A Bibliography of Iqbal ، مرتب: کے اے وحید۔ اقبال اکادمی کراچی، جنوری ۱۹۶۵ئ، ص ۲۲۔ ۳- Iqbal in Pictures، مرتب: فقیر سیّد وحید الدین۔ لائن آرٹ پریس لاہو، ستمبر ۱۹۶۵ئ، ص]۵۸[۔ ۴- انوارِاقبال، ص ۲۴۔ ۵- تصانیف اقبال، ص ۴۳۴ ومابعد۔ ۶- تاریخِ ہند : ڈاکٹر شیخ محمد اقبال+ لالہ رام پرشاد۔ راے صاحب منشی گلاب سنگھ لاہور، ۱۹۱۳ئ، ص۱۴۲-۱۴۳۔ ۷- ایضاً، ص ۱۴۱-۱۴۲۔ ۸- ایضاً، ص ۱۴۳۔ ۹- ایضاً، ص ۱۴۳۔ ۱۰- رموزِ بے خودی، ص ۹۸۔ رموزِ بے خودی میں اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں حسب ذیل اشعار ملتے ہیں: شاہِ عالمگیر گردوں آستاں اعتبارِ دودمانِ گورگاں پایۂ اسلامیاں برتر ازو احترامِ شرعِ پیغمبرؐ ازو درمیانِ کارزارِ کفر و دیں ترکشِ ما را خدنگِ آخریں تخم الحادے کہ اکبر پرورید باز اندر فطرتِ دارا دمید شمع دل در سینہ ہا روشن نبود ملتِ ما از فسادِ ایمن نبود حق گزید از ہند عالمگیر را آں فقیرِ صاحبِ شمشیر را از پیٔ احیاے دیں مامور کرد بہرِ تجدیدِ یقیں مامور کرد برقِ تیغش خرمنِ الحاد سوخت شمعِ دیں در محفلِ ما برفروخت کور ذوقاں داستاں ہا ساختند وسعتِ ادراکِ او نشناختند شعلۂ توحید را پروانہ بود چوں براہیم اندریں بت خانہ بود در صفِ شاہنشہاں یکتاستے فقرِ اُو از تربتش پیداستے ۱۱- تصانیفِ اقبال، ص ۴۵۸۔ ۱۲- عبدالواحد بنگلوری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’سلطان شہید سے مجھے ایک خاص عقیدت بھی ہے‘۔ کلیاتِ مکاتیبِ اقبال، دوم، مرتب: مظفر حسین برنی۔ اُردو اکادمی دہلی، ۱۹۹۳ئ، ص ۴۲۵۔ ۱۳- اقبال نامہ، اوّل، ص ۲۴۶۔ ۱۴- جاوید نامہ، ص ۷۶۰۔ ۱۵- اسرار و رموز ،ص ۴۹۔ ۱۶- جاوید نامہ،ص ۷۷۳۔ ۱۷- تاریخِ ہند، ص ۲۷۱، ۲۷۲۔ ۱۸- ایضاً، ص ۷۰۔ ۱۹- ایضاً، ص ۷۱ تا۷۶۔ ۲۰- ایضاً، ص ۲۱۶۔ ۲۱- ایضاً، ص ۲۲۲۔ ۲۲- ایضاً، ص ۲۱۶، ۲۱۷۔ ۲۳- ایضاً، ص ۲۱۷۔ ۲۴- ایضاً، ص ۲۱۹-۲۲۰۔ ۲۵- ایضاً، ص ۶۳۔ ۲۶- اقبال درونِ خانہ ] دوم [ خالد نظیرصوفی۔ اقبال اکادمی لاہور، ۲۰۰۳ئ، ص ۷۰۔ ۲۷- محمد کفایت اللہ (یکم مئی ۱۹۲۳ء - ۲۲ فروری ۱۹۹۹ئ، مالیرکوٹلہ) معلم، ماہر تعلیم اور کتاب دوست شخص تھے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں وہ تقریباً ہر سال، اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لیے، پاکستان آیا کرتے تھے۔ پاکستانی دوستوں کی فرمایش پر، اور خود اپنے شوق سے بھی، وہ اپنے ہمراہ بھارتی مطبوعات، خصوصاً اردو کتابوں کا بڑا ذخیرہ لاتے۔ اقبالیات پر نئی بھارتی مطبوعات اور بعض کتابوں کی قدیم اشاعتوں کے لیے، وہ دوستوں کی فرمایش کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ اقبال کی مرتبہ نصابی کتابیں انھیں بھارتی پنجاب کے پرانے اسکولوں کی لائبریریوں سے دستیاب ہوئی تھیں۔ تاریخِ ہند کا نسخۂ مذکور غالباً گورنمنٹ ہائی اسکول لدھیانہ کی لائبریری سے ملا تھا۔ مرحوم کے تفصیلی حالات کے لیے دیکھیے: کفایت اللّٰہ: شخصیت اور خدمات، مرتبین: ڈاکٹر زینت اللہ جاوید + ظہور احمد ظہور۔ جشن کفایت اللہ کمیٹی، مالیر کوٹلہ (پنجاب) ۱۹۹۷ئ۔ ۲۸- تاریخِ ہند (نسخۂ کفایت)، ص ۱۴۸۔ ۲۹- ایضاً، ص ۱۵۲۔ ۳۰- ایضاً، ص ۱۵۳۔ ۳۱- ایضاً، ص ۱۵۳،۱۵۴۔ ۳۲- ایضاً، ص ۹۶۔ ۳۳- تاریخِ ہند (نسخۂ اکادمی)، ص ۷۷،۷۸۔ ۳۴- تاریخِ ہند (نسخۂ کفایت) ص ۹۶۔ ۳۵- ایضاً، ص ۲۰۹ تا۲۱۱۔ ۳۶- تاریخِ ہند (نسخۂ کفایت) ص ۲۱۶-۲۲۰۔ ۳۷- نسخۂ اکادمی میں ایک جگہ مصنّف نے لکھا ہے:’بابر کے نام پر ایک یہ دھبّا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بڑی بے رحمی سے پیش آتا تھا‘۔ (ص ۱۱۰-۱۱۱) ۳۸- تاریخِ ہند (نسخۂ کفایت) ص ۱۲۴۔ ۳۹- ایضاً، ص ۱۷۔ ۴۰- ایضاً، ص ۱۰۹، ۱۲۶ تا۱۲۹۔ ۴۱- ایضاً، ص ۱۳۷۔ ۴۲- ایضاً، ص ۱۳۷۔ ۴۳- ایضاً، ص ۱۴۰۔ ۴۴- ایضاً، ص ۴۶۔ ۴۵- ایضاً، ص ۴۹۔ ۴۶- ایضاً، ص ۵۱۔ ۴۷- ایضاً، ص ۳۷، ۳۸۔ ۴۸- ایضاً، ص ۱۸۰۔ ۴۹- اقبال ریویو: اقبال اکیڈیمی، حیدر آباد دکن، اپریل تا جون ۱۹۸۴ئ، ص ۱۔ ۵۰- ایضاً، ص ۲، نیز دیکھیے: اقبال اور حیدر آباد، سیّد شکیل احمد۔ الکتاب پبلشرزحیدر آباد، ۱۹۸۶ئ، ص ۱۶-۱۷۔ ۵۱- اقبال ریویو، حوالہ ۴۹، ص ۲۔ ۵۲- ایضاً، حوالہ ۴۹، ص ۳۔ ۵۳- تاریخِ ہند (نسخۂ کفایت) ص ۱۵۸۔ ۵۴- اقبال ریویو،حوالہ ۴۹، ص ۵۔ (بشکریہ شش ماہی بازیافت: ۱، جنوری ۲۰۰۲ئ، شعبہ اردو، یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور)  پروفیسر عبدالحق اقبال کی تحریروں میں تحریف و تعبیر تمام ذرائع ابلاغ میں تحریر کو تقدیس کی عظمت حاصل ہے۔ صحائف سماوی میں لوح و قلم کی برگزیدگی بلاوجہ نہیںہے۔ یہ انسانی افکار کا سب سے موثر وسیلۂ اظہار ہے۔ فرد اور اس کی تہذیب کے تمام تصورات کی محافظ بھی یہی تحریر ہے۔ ہمارے مشاہدے میں یہ بھی کم حیرت ناک نہیں ہے کہ تحریر میں ہی تحریف و تعبیر کی سب سے زیادہ مکروہ مثالیں ملتی ہیں۔ اصل عبارت کا ارادتاً مسخ کیا جانا بھی انسانی مزاج کی عجیب افتاد ہے۔ خواہ وہ نیک نیتی پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ پڑھے لکھے یا باشعور انسانوں کے ہی کرشمے اور کارنامے ہیں۔ رفتہ رفتہ زمانے کے دستبرد سے تحریف و تنسیخ کی زیادتی اصل عبارت کو ہی موہوم بنا دیتی ہے۔ اس سے زیادہ اور کیسا فساد ہو سکتا ہے کہ وحی و تنزیل کی تجلیات سے معمور تحریریں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ انسان ایک مفسدانہ مزاج کا بھی مالک ہے۔ وہ اپنے تصورات یا عمل سے فسادِ خلق کے لیے برسرِ پیکار رہتا ہے ۔ قدیم تاریخ ہو یا تحریر، اس کے فتنے ہمیشہ سرگرم کار رہے ہیں ۔ہمارا زمانہ بھی اس سے خالی نہیں ہے۔ اقبال کی تحریریں بیسویں صدی کی بازیافت ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ہی شعوری اور غیر شعوری تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ۔ ان میں ان کے اقربا اور عقیدت مندوں نے زیادہ گل کھلائے ہیں۔ جب ہمارے سامنے یہ سب کچھ سرزد ہو سکتا ہے تو ماضی بعید کا کیا حال ہوگا۔ اردو کے کلاسیکی سرمایۂ ادب کا ایک حصہ آج بھی مشتبہ ہے کیوں کہ وہ الحاق و انتساب کی کوتاہیوں سے پاک نہیں ہے۔ خواہ وہ شعرِ سودا ہو یا کلام میر۔ ڈاکٹر نسیم احمد نے غزلیاتِ سودا کی تدوین کر کے ایک قابل رشک کارنامہ انجام دیا ہے۔ کلامِ میر بھی ایسے ہی مردِ تحقیق کا منتظر ہے۔ زندگی کے کوائف ، فکر و نظر کی باز آفرینی اور تخلیق کے تناظر؛ اقبالیاتی تحقیق کے یہ تین زاویے متعین کیے جا سکتے ہیں ۔ ان کا اطلاق کم و بیش ہر فنکار پر ہو سکتا ہے۔ اقبال چوں کہ مفکر شاعر ہے اس لیے بھی ان کے افکار و آرا کی باز آفرینی اور ان کے نتائج تک دریابی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس مقام پر متن کی ناگزیر اہمیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یوں بھی ادبی مطالعہ میں متون کی تنصیف و تقدیس کے احترام سے گریز پائی ممکن نہیں کیوں کہ انھیں پر آہنگ و اسالیب کا مدار قائم ہے۔ متن پر توجہ کیے بغیر اسلوب و انشا پر گفتگو نہیں کی جا سکتی اور حقایق کی تمام تر اساس بھی تحریر پر ہی موقوف ہے ۔ برا ہو مغرب کی فتنہ پروری کا جو متن کے مضمرات کی ہی مُنکر ہے۔ اس کا منشا و مقصود صحفِ سماوی کی تنزیل کو بھی مشتبہ بنا دینا ہے۔ کیوں کہ دنیائے تحریر میں محفوظ متن کے معجزات کی حامل صرف ایک کتاب ہے جس میں تحقیق متن کے پانچ ارکان ملزوم قرار دئے گئے ہیں۔ یعنی کلام کس کا ہے ؟ راوی کون ؟ روایت کا مخاطب کون ہے؟ زبان کون سی ہے؟ اور روایت کے استناد کیا ہیں؟ اقبال کے افکار کے منبع و ماخذ کے متعلق تحقیقات کو یہاں زیر بحث نہیں لایا جا رہا ہے ۔ اور نہ زندگی کے متعلقات سے سروکار رکھا گیا ہے ۔ اقبالیاتی تحقیق کا پہلا زاویہ ان کی حیات کے متعلق ہے جس میں ان کے آباو اجداد ، مولد و مسکن ، تعلیم و تربیت ، سفر حضر اور معاملات زندگی سے متعلق حقایق شامل ہیں۔ ان موضوعات پر اقبال کی زندگی میں ہی مباحث شروع ہو چکے تھے اور انھیں کافی حد تک محفوظ بھی کر لیا گیا تھا۔ وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کا اندازہ ڈاکٹر سعید درانی کی مفید کتب اقبال یورپ میں، نوادرات اقبال یا پروفیسر نکلسن کے ترجمہ اسرار خودی پر اقبال کے حواشی کی دریافت اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی زندہ رود جیسی کاوشوں سے ہوتا ہے۔ مولوی احمد دین کی کتاب اقبال ۱۹۲۳ء میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا تحقیقی ایڈیشن اردو کے موقر محقق ڈاکٹر مشفق خواجہ نے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ دوسری جہت ان کے منظوم اور نثری تحریروں کی بازآفرینی ہے جو بڑا کارنامہ ہے۔ یہ تحریف و تنسیخ کی مثالوں سے بھی پُرہے۔ حیرت ہے کہ اس دور میں بھی راویوں کی غیر صحت مند صورتِ حال سے کیسے عبرت ناک نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ اس کا اندازہ ان کے خطوط کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ اقبال کی ہر ہر سطر کو محفوظ کرنے کی کوشش بھی ہماری سعی و تحقیق کی دلچسپ داستان ہے۔ اس ضمن میں ان کے خطوط کی تلاش و ترتیب کا کام سرِ فہرست ہے۔ تقریباً سولہ سو سے زائد خطوط کی اشاعت ہو چکی ہے۔ جو خود ایک حیرت خیز واقعہ ہے۔ اور خطوط میں ہی سب زیادہ غلطیاں در آئی ہیں۔ یہ غلطیاں دو طرح کی ہیں۔ اصل متون کے پڑھنے میں اور نقل کرنے میں مرتبین کی لا پروائی یا کم نظری نے گل کھلائے ہیں۔ یا پھر خطوط میں دانستہ طور پر جعل اور تحریف شامل ہیں۔ خطوط میں تحریف کی دو مثالیں بہت نمایاں ہیں ۔ اقبال کے بھتیجے اعجاز احمد نے اپنے مخصوص مذہبی عقیدے کی پردہ پوشی کے لیے اقبال کے ایک خط میں جو تبدیلی کی ہے یا کرائی ہے وہ بشری کمزوری کے ساتھ کتمانِ حق کی بڑی بھونڈی مثال ہے۔ سر راس مسعود کے نام اقبال کا یہ خط ایک طرح سے وصیت نامہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریوں کے لیے چند افراد کے انتخاب کے لیے مجوزہ نام شامل ہیں۔ اصل عبارت ہے: شیخ اعجاز احمد میرا بڑا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح آدمی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ دینی عقائد کی رو سے قادیانی ہے۔ تم کو معلوم ہے کی ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا Guardian ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ خود بہت عیال دار ہے۔ عقیدے سے متعلق عبارت حذف کر دی گئی ہے۔ یہ ایک عبرت ناک پہلو ہے کہ اقبال کے متون میں تحریف ان کے بھتیجے کی بددیانتی کے سبب وارد ہوئی۔ دوسری طرف شعری متون کی ترتیب و تدوین میں نا مناسب تبدیلیاں خود ان کے صاحب زادے ڈاکٹر جاوید اقبا ل نے کی ہے۔ گویا گھر کے ہی چراغ سے ایوانِ اقبال میں چنگاری لگی ہے۔ اسی طرح ممنون حسن خاں مرحوم کے نام منسوب خطوط بھی تحریف شدہ ہیں۔ جو اصلاً ڈاکٹر راس مسعود کے لیے لکھے گئے ہیں۔ ان خطوط کے اصل متون کی بازآفرینی اور تحقیقی مطالعے نے ایک نئی راہ کی نشاندہی کی ہے۔ اسی طرح ملک اشفاق نے پنڈت نہرو کے نام A Bunch of Letters کے ترجمے میں اقبال کے خط کے ترجمے میں اپنے مخصوص عقیدے کی حمایت میں عبارت ہی بدل دی ہے۔ اقبال نے خط میں لکھا ہے:I have no doubt in my mind that the Ahmadis are traitors both to Islam and India. ’’میرے ذہن میں کوئی شبہ نہیں کہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔‘‘اب ملک اشفاق کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:’’ احمدیوں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلاف نہیں ہیں اور احمدی نہ ہی اسلام اور نہ ہی ہندوستان کے لیے دہشت گرد ہیں۔‘‘ مستزاد یہ ہے کہ اس خط کی اور دیگر اہم عبارتیں بھی حذف کر دی گئی ہیں جو ردِّ قادیانیت میں ہیں۔ اقبال کے خط میں ۱۶ جملے ہیں۔ مترجم نے صرف ۷ جملے ہی نقل کیے ہیںکیوں کہ دوسرے جملے ان کے عقیدے کے خلاف ہیں ۔ یہ پوری کتاب ترجمہ ہے۔ اس کتاب کو اردو میں پہلا ترجمہ کہا گیا ہے جب کہ اس سے پہلے ترجمے شائع ہو چکے ہیں ۔ یہ تحریف کی بدترین مثال ہے۔ دنیائے ادب میں مکتوباتی ادب کی ایک مستقل حیثیت تسلیم شدہ حقیقت ہے ۔ تخلیقی فن میں بہت سی جہتیں ادھوری اور صراحت سے عاری ہوتی ہیں۔ خطوط میں نجی زندگی کے ساتھ جلوت و خلوت کے افکار و اسالیب بہت ہی واشگاف انداز میں بیان ہوتے ہیں۔اور پھر کسی مفکر فن کار کے تمام و کمال تجزیے کے لیے ان کے خطوط ناگزیر بن جاتے ہیں۔ اقبال کے مطالعے میں یہ خطوط ان کی شعری تخلیقات کی تفہیم کے لیے بھی بڑے معاون ہیں۔ ان کی فکر و نظر کے کئی ایسے پہلو ہیں جن کا ذکر اشعار میںنہیں ملتا اور خطوط میں آشکار ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ خطوط کی جمع و تدوین پر خاطر خواہ توجہ دی گئی ہے۔ خطوط میں جعل سازی کی کوششیں بھی قابل مذمت ہے۔ گمراہی پیدا کرنے کی نازیبا بدنیتی بھی خطوطِ اقبال میں راہ پا گئی ہے۔ مکاتیب اقبال میں ڈاکٹر لمعہ حیدر آبادی کے نام منسوب خطوط کا جعل محترم ’ماسٹر اختر‘ کی کوششوں سے طشت ازبام ہو چکا ہے۔ عبدالواحد معینی نے لکھا تھا :’’اتنا بڑا جعل اردو ادب کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی سرزد ہوا ہو گا ۔‘‘ ڈاکٹر تاثیر نے بھی انھیں مشتبہ و مشکوک قرار دیا ہے۔ اقبالیات کے معروف ماہرین بھی ڈاکٹر لمعہ کے جعل کے مغالطے میں آ گئے تھے ۔ اقبال نامہ کی اشاعت کے وقت یعنی ۱۹۴۵ء میں شیخ عطا اللہ نے خطوط کے جو بھی اصل و نقل ملے، سب کو شامل کتاب کر لیا ۔ بھلا ہو ماسٹر اختر صاحب کا جنھوں نے جگر کاوی کی اور اس جعل سازی کا راز فاش کیا۔ ڈاکٹر اکبر رحمانی بھی زد میں آئے جنھوں نے انھیں خطوط کی بنیاد پر پونہ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی تھی اور ڈاکٹر لمعہ کی حمایت میں اتنے من گھڑت جھوٹ جمع کیے کہ ادبی تاریخ میں کذب کی ایسی کریہہ صورت نہ ملے گی ۔ حیرت کی بات ہے کہ ان ٹھوس شہادتوں کے باوجودمظفر حسین برنی نے کلیات مکاتیب اقبال کی ترتیب میں ان خطوط کو شامل متن رکھا اور تحقیق کا مذاق اڑایا ہے ۔ اقبال کے خطوط کی ترتیب و جمع و اشاعت کا یہ سب سے اہم اور مفید کارنامہ ہے۔ مگر تحقیق و تدوین کی اعلیٰ کاوشوں سے عاری اور سہل پسندی کا مظہر بھی ہے۔ برنی صاحب نے جن معاونین کی خدمات حاصل کیں، انھوں نے احتیاط سے کام لے لیا۔ خطوط کے عکسی متون کی نقل و قرأت میں بڑی فاحش غلطیاں راہ پا گئیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض اہلِ قلم نے اسے مستند قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ایک مبسوط تبصرہ شائع کر کے ان غلطیوں کی نشان دہی کی ہے، جس کی روشنی میں مرتب نے آخری جلدمیں سو صفحات کا صحت نامہ تیار کیا اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے شکریے کے بغیر ابتدائی جلدوں کی ان غلط عبارتوں کی تصحیح فرمائی ۔ پھر بھی ڈاکٹر لمعہ کے خود ساختہ خطوط کو شامل ہی رکھا۔ (جیسے بھوپال والی غزل دیوانِ غالب کی زینت بنی رہی) افسوس ہے کہ یہ جتنا بڑا کام تھا، اتنی ہی بڑی غلطیاں راہ پا گئیں ۔ہر صفحے پر ایک دو غلطی کا تناسب ہے۔ پانچ سو سے زائد غلطیاں موجود ہیں۔ عبارت اور جملے ہی بدل گئے ہیں اصل تحریر کو سنجیدگی سے پڑھا ہی نہیں گیا۔ ماہ و سال کی متعدد غلطیاں اضافے کے طور پر شامل ہو گئی ہیں۔ جملوں میں من مانی تحریف کی وجہ سے مفہوم بھی کہیں کہیں خبط ہو گیا ہے۔ فسادِ متن کی ایسی مثالیں شاید ہی کہیں ملیں ۔ جعل و فساد سے معمور متون کی کار فرمائی ہر دور میں دیکھنے میں آتی ہے ۔ دین دھرم کی کتابیں بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اقبال سے منسوب بہت سے ملفوظات بھی استناد کے منتظر ہیں جو بربنائے عقیدت اقبالیات میں شامل ہیں۔ خطوط کے سلسلے میں یہ ایک اچھی سہولت ہے کہ ان کے ایک بڑے حصّے کی عکسی تحریریں دستیاب ہیں۔ جن کی صحیح قرأت کی جا سکتی ہے ۔ اگرچہ اقبال کی تحریروں کو پڑھنا قدرے مشکل بھی ہے ۔ برنی صاحب اور اُن کے مددگار تحریر بھی نہ پڑھ سکے۔ سہل پسندی کے سبب یہ سب کچھ ہوا ہے۔ نثری تحریروں کے علاوہ ان کے شعری متون میں ترمیم و اضافے نے بھی دشواریاں پیدا کی ہیں۔ جن سے کہیں کہیں راہ اعتدال سے ہٹ جانے کا امکان باقی رہتا ہے ۔ اشعار کے متن میں حذف و اضافے کہیں کہیں خود اقبال کے قلم سے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ اقبال کے ایک عقیدت مند مولوی عبدالرزاق حیدر آبادی نے ۱۹۲۴ء میں رسائل و جرائد کی مدد سے مطبوعہ اردو کلام کو یکجا کر کے شائع کر دیا جو اقبال کی ناگواری کا باعث بنا۔ لیکن اس اشاعت نے انھیں آمادہ کیا کہ اردو کا پہلا شعری مجموعۂ کلام شائع کیا جائے۔ اقبال نے ۱۹۰۱ء سے ۱۹۲۴ء تک کی اردو تخلیقات کو مرتب کیا۔ بہت سے اشعار حذف کر دیے اور اضافے بھی کیے ۔ خاص طور پر کئی ابتدائی نظموں کی صورت ہی بدل گئی۔ تحقیق میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مصنف کے قلم سے نکلی ہوئی آخری عبارت ہی مستند اور مرجح ہے۔ گویا پایانِ عمر کی تصحیح شدہ تحریر پر ہی اصل متن کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اساسی متن کے تعین میں اس کلیے سے اتفاق ضروری ہے ۔ لیکن جب فکر و نظر کی شرح و بیاں کا معاملہ ہو تو اس کلیہ پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا ۔ صرف ایک مثال پر توجہ چاہوں گا۔ نظم ’’سید کی لوح تربت‘‘ ،۱۹۰۳ء میںتخلیق کی گئی۔ ۱۹۲۴ء میں بانگ درا کی ترتیب کے وقت بہت سے اشعار حذف کیے گئے اور کئی دوسرے اشعار کا اضافہ کر دیا گیا۔ بندئہ مومن کا دل بیم و رجا سے پاک ہے قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے اس شعر کے اضافے نے کئی نقادوں کو گم راہ کیا ۔ جب اقبال کے فکر و نظر کے منابع و مصادر کی تلاش کا کام پیش نظر ہو اور مشرق و مغرب کی کشاکش بھی درمیان میں حائل ہو تو غلط فہمی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ مردِ مومن سے متعلق تصورات کی ایک نسبت مغرب یعنی نٹشے سے دی جاتی ہے پھر یہ بات بہ سہولت کہی جا سکتی ہے کہ ۱۹۰۴ء تک اقبال نٹشے کے نام سے بھی آشنا نہ تھے۔ گویا مردِ کامل کا تصور مشرق سے ماخوذ ہے۔ دلیل مذکورہ بالا شعر ہے۔ ۱۹۲۴ء کی فکر پر ۱۹۰۳ء کا اطلاق دلیل کم نظری ہی نہیں گمرہی ہے۔ متن کی صحت پر ہی فکر و نظر کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور صحت متن کا تعین جگر کاوی کا سودا ہے، جس میں زیاں کے سوا کچھ نہیں۔ ۱۹۰۳ء میں اس نظم میں ۳۴ ، اشعار تھے۔ بانگِ درا میں صرف ۱۴، اشعار ہی درج ہیں۔جب کہ دو اشعار اضافے کے طور پر شامل کر لیے گئے ہیں۔ مذکورہ شعر بھی اضافے ہی میں شامل ہے۔ اس طرح ۳۴، اشعار میں صرف ۱۲ کا انتخاب کیا گیا ۔ باقی حذف کر دیے گئے۔ کلام اقبال میں ترک و الحاق کی وجہ سے دشواریاں بھی چند در چند ہیں۔ باقیات میںالحاق و اضافے کی ایک اور گمراہ کن مثال ملاحظہ ہو، جس کی نشان دہی پروفیسر سید محمد حنیف نقوی نے کی ہے۔ غزل کے تین شعر: کب ہنسا تھا کہ جو کہتے ہو کہ رونا ہوگا ہو رہے گا مری قسمت میں جو ہونا ہوگا خندئہ گل پہ مجھے آج تو ہنس لینے دو پھر اسی بات پہ رو لوں گا جو رونا ہوگا ہم کو اقبال مصیبت میں مزا ملتا ہے ہم تو اس بات پر ہنستے ہیں کہ رونا ہوگا یہ اشعار باقیات اقبال مرتبہ عبدالواحد معینی مع ترمیم و اضافہ عبداللہ قریشی ،مطبوعہ لاہور ۱۹۷۵ء میں شامل ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ اشعار اقبال کے طبع زاد نہیں ہیں۔ ان کے ایک ہم تخلص خواجہ غلام محمود اقبال بنارسی متوفی ۱۹؍ستمبر ۱۹۴۹ء بہ مقام ڈھاکہ کے اشعار ہیں۔ یہ تینوں اشعار باقیات اقبال کا حصہ بن کر استناد کا درجہ رکھتے تھے لیکن اس انکشاف کے بعد اقبال سے ان اشعار کی نسبت ختم ہو جاتی ہے۔ ان اشعار کے متن میں معمولی سی تبدیلی بھی ہے۔ اقبال بنارسی کے اشعار کی قرأت قدرے مختلف ہے۔ پہلے شعرکے مصرعِ اولیٰ میں ’’کہتے ‘‘ کی جگہ ’’بگڑتے‘‘ ہے۔دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں ’’مجھے‘‘ کی جگہ ’’ہمیں‘‘ درج ہے اور دوسرے مصرع میں ’’پھر‘‘ کی جگہ ’’کل‘‘ اور ’’رو لوں گا ‘‘ کی جگہ ’’رو لیں گے ‘‘ ۔ تیسرے شعر کے دوسرے مصرع میں ’’اس بات پر‘‘ کی جگہ ’’یہ سوچ کے‘‘ ۔ اقبال بنارسی کی غزل کے باقی تین اشعار حسبِ ذیل قرأت رکھتے ہیں: اک طرف دوست کا اصرار کہ آنکھیں کھولو اک طرف موت تھپکتی ہے کہ سونا ہوگا شوق سے آپ نقابِ رُخ زیبا الٹیں ہو رہے گا مری قسمت میں جو ہونا ہوگا ایسے دریا میں سلامت رویِ نوح کہاں پار ہونا ہے تو کشی کو ڈبونا ہوگا حیرت کی بات ہے کہ حال ہی میں ڈاکٹر صابر کلوروی نے اپنے مرتب کردہ کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال میں نقل کردہ ابتدائی تینوں اشعار کو اقبال سے ہی نسبت دی ہے،اگرچہ ان کا یہ مرتب کردہ کلام ان کے تحقیقی مقالے کا ہی جزو ہے۔ انھیں بھی غلط فہمی ہوئی ہے اور شاید پروفیسر سید محمد حنیف نقوی کی تحقیق کی اطلاع ان تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ کلام تازہ ترین باقیات کا حصہ ہے جس کا ہندوستانی اڈیشن ۲۰۰۴ء میں دہلی سے شائع ہوا ہے۔ باقیات کا یہ سب سے گراں قدر مجموعہ ہے، جس میں ان کے بہ قول تقریباً ساڑھے سات سو اشعار کا اضافہ ہوا ہے ۔ جن میں دو تہائی کلام کا حصہ غیر مطبوعہ بھی ہے۔ نوادرات یا باقیات کے تحقیقی یا تنقیدی مطالعہ میں ڈاکٹر صابر کلوروی کا یہ بیش بہا کارنامہ اقبالیات میں ایک ناگزیر حیثیت رکھتا ہے پھر بھی راہِ تحقیق و تدوین کے دروازے بند نہیں ہیں۔ ڈاکٹر فراقی نے دوسرے کئی اشعار مثنوی گلزارِ نسیم اور جوش کے شامل ہونے پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ یقینابڑی غلطی ہے۔ شکر ہے کہ انھوں نے ’’حریف مئے مرد افگنِ تحقیق‘‘ کا دعویٰ نہیںکیا۔ جب کہ سینکڑوں غلطیوں سے معمور کلیات مکاتیب اقبال کے مرتب جناب مظفر حسین برنی نے انتساب میں اپنے بارے میں ’’حریف مئے مرد افگنِ تحقیق‘‘ کی ادعائیت سے تحقیق و تدوین کو شرمسار کیا ہے۔ ڈاکٹر صابر کلوروی نے مذکورہ تینوں اشعار باقیات اقبال سے اخذ کیے ہیں۔اسے دور اوّل کی تخلیقات کے ذیل میں پیش کیا ہے۔ متون کی بحالی یا باز آفرینی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ تحقیق میں حرف آخر نہیں ہوتا اور نہ رعایتی نمبر ہی ہوا کرتا ہے ۔ آج کی دریافت کل غلط ثابت ہو سکتی ہے۔ فکر و نظر کا کارواں ماضی و حال کی دریافت سے گراں بار ہو کر گامزن رہتا ہے۔ محاسبہ بھی ایک ناگزیر عمل ہے جو تحقیق و تنقید کو مہمیز کرتا رہتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بہت دور تک گمراہی پھیلاتی ہے۔ سلسلہ در سلسلہ اندیشے کا امکان بڑھتا جاتا ہے، جس کے بڑے بھیانک نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ ۸۴۔۱۹۸۳ء کے تعلیمی سال کے دوران عائشہ خاتون نے اردو غزل کے معروف اشعار کی تصحیح و تحقیق کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا۔اقبال بنارسی کی غزل کے آخری دو اشعار کا اضافہ بھی کیا۔ اس طرح گمراہی کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک غلط فہمیوں کا سبب بنتا رہے گا، جب کہ ابھی یہ بیسوی صدی کی بات ہے۔ یہ مقالہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔ اردو فارسی میں ہم نام تخلص نے بھی بڑے مغالطے پید ا کیے ہیں ۔ حیرت ہے کہ گیان چند جین نے بھی فریب کھایا اور ان اشعار کو اقبال سے ہی نسبت دی ہے۔ متداول و مروج اردو فارسی کلیات میں بھی کثیر الاشاعتی اسباب سے کہیں کہیں متن متغیر ہو گیا ہے۔ اگرچہ ان کی نوعیت بہت اندوہناک نہیںہے۔ پھر بھی نقطے و شوشے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ان دو زبانوں میں موجود کلیات کی ان غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ تہران سے احمد سروش کا مرتبہ کلیات اقبال فارسی بھی اغلاط سے پُر ہے۔ کلیات فارسی پر رشید حسن خاں کا تبصرہ بھی قابلِ ذکر ہے، جس میں متن کی اشاعتوں میں مرتب کی معانی کی عبرت ناک مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ابھی تقدیم زمانی کا ذکر تھا۔ چار غزلیں میرے قرائن کے مطابق ۱۹۰۵ء کے بعد کی ہیں۔ مگر پروفیسر گیان چند جین نے انھیں ابتدائی کلام میں شامل کیا ہے اور استناد کے حوالے سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی داخلی شہادتوں پر بھی توجہ نہیں دی ہے۔ ان میں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں خودی کے بہت اشارے ہیں۔ ان غزلوں کے علاوہ لفظ خودی ان معنوں میں کلام اقبال میں اسرار کی اشاعت سے پہلے نظر نہیں آتا۔ مجھے حیرت ہے کہ پروفیسر جین نے ناچیز کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں ابتدائی کلام میں شامل کیا ہے۔ ان کا بیان محلِ نظر ہے۔ وہ اشعار یہ ہیں: کر نہ تقدیر کے شکووں سے خودی کو رسوا بہر تدبیر عیاں عالمِ اسباب ہوا خودی نے عطا کی مجھے خود شناسی ترا حسنِ دائم مرے رو برو ہے خودی کی حفاظت کوئی مجھ سے سیکھے غریبی میں انداز ہیں خسروانہ نہ ہو جب تلک دل میں ایمان کامل خودی بھی فسانہ خدا بھی فسانہ سرود ِ رفتہ کے مرتب اور دیدہ ور دانشور غلام رسول مہر نے بھی غلط فہمی پید ا کی ہے۔باقیات میں انھیں جگہ دی مگر ان کی تخلیق یا اشاعت کے حوالے سے محروم رکھا۔ مزیدبراں انھوں نے ان اشعار سے استنباط بھی کیا ہے کہ مردِ مومن خودی و خود داری کے تصورات اس ابتدائی دور کی فکر میں موجود ہیں۔ پروفیسر جین نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں ناچیز کا تذکرہ دوسرے ماخذ یعنی پروفیسر عبدالقوی دسنوی کی کتاب اقبال انیسویں صدی میں کے حوالے سے کیا ہے۔ حالاں کہ میری کتاب بہ سہولت مل سکتی تھی۔ خودِ اقبال اکیڈمی حیدر آباد کے ذخیرے میں موجود ہے اور دوسرے دوستوں کے پاس بھی ہے۔ تحقیق میں ثانوی ماخذ پر کم اعتبار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ثانوی مآخذ پر بھروسہ کر کے زیادہ غلطی کی ہے۔ انھوں نے خود اعتراف کیا ہے: میں اعتراف کرتا ہوں کہ اصل ماخذ بہت کم دیکھ پایا ہوں۔ مجھے متعدد نظموں کی تاریخ اشاعت نہ مل سکی۔ ان کے رنگ کو دیکھ کر تاثراتی طریقے پر ان کے زمانے کا اندازہ کیا ہے۔ راقم نے جن اشعار پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے انھیں ابتدائی دور سے منسوب نہ کرنے کی بات کی تھی انھیں تسلیم نہ کر کے جین صاحب نے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ غزل کی اشاعت اوّل کا علم ہوتا تو کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ ویسے خودی کا لفظ ان کی ایک اور قدیم غزل میں ملتا ہے۔ خودی نے عطا کی مجھے خود شناسی مرا حسن دائم مرے روبرو ہے یہ غزل ۱۹۰۵ء ہی نہیں ۱۹۰۸ء کی بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صابر کلوروی نے اس غزل کو دورِ دوم یعنی ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۴ء کے کلام میں شامل کیا ہے جس سے راقم کے خیال کی تائید ہوتی ہے اور خودی کے لفظ پر مزید گفتگو کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اس تحقیق سے غلام رسول مہر کے دعوے کی بھی تردید ہوتی ہے۔ ناچیز نے ۱۹۶۹ء میں اپنی پہلی اور مبتد یانہ کوشش ’’اقبال کے ابتدائی افکار‘‘ میں علامہ کے بعض ان فکری تصورات کی نشان دہی کی تھی جو یورپ جانے سے پہلے یعنی ۱۹۰۵ء تک وجود میں آ چکے تھے۔اس تجزیہ میں بانگ درا کے حصہ اوّل کے ساتھ باقیات اور نوادرات یا حذف شدہ کلام کو بھی زیر بحث لایا گیا تھا۔ نوادرات میں مجھے کچھ ایسا حصہ بھی مشتبہ لگتا تھا جسے قیاسات کی بنیاد پر راقم نے انھیں ۱۹۰۵ء کے بعد کا ہی قرار دیا تھا۔’’ جن اشعار سے مرتب (غلام رسول مہر) نے بحث کی ہے وہ قرائن اور قیاس سے ۱۹۰۵ء سے پیشتر کے نہیں معلوم ہوتے‘‘۔ کم سے کم یہ چھ غزلیں بعد کی محسوس ہوتی تھیں۔ ان پر غلام رسول مہر نے سرودِ رفتہ کے مقدمے میں تجزیہ کے بعد بعض نتائج اخذ کیے ہیں جو میرے لیے محل نظر تھے۔ میرے شبہات کی بنیاد متون میں موجود بعض وہ فکری رجحانات تھے۔ جن پر اس عہد کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے کہ کلام میں ان الفاظ کا ذکر نہیں ملتا۔ جو بعد میں اصطلاحی صورت گری کی علامت بنے۔ یہ غزلیں کلیات باقیاتِ شعرِ اقبال میں، ایک غزل کے علاوہ باقی، دوسرے دور کی تخلیقات کے ذیل میں شامل ہیں انھیں ابتدائی دور سے منسوب نہیں کرنا چاہیے اور نہ ان پر اس دور کے تصورات کا اطلاق ہو گا۔ یہ چند معروضات ابتدائی دور یا محذوف کلام سے متعلق تھیں۔ اب اقبال کے مرتب کردہ اور متداول کلام میں جو تبدیلیاں راہ پا گئی ہیں، وہ ہر حال میں تشویش ناک ہیں اور انھیں روکنے کے لیے سنجیدہ توجہ درکار ہے۔ کلیات اقبال اردو ، فارسی ایک منصوبے کے تحت سرکاری سرپرستی میں شائع کی گئیں ، جو ڈاکٹر جاوید اقبال کی نگرانی میں مدون ہوئیں۔ الفاظ کی املائی صورتوں کی تبدیلی کے ساتھ ترتیب کلام میں جو اجتہادات ہوئے ہیں، وہ قابل افسوس ہیں۔ ان کی بیشتر خامیوں پر کئی اقبال شناس ماہرین متوجہ ہوئے ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور رشید حسن خاں نے ان اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔ ان تفصیلات کا یہ موقع نہیں ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: بانگِ درا میں ’پڑتی ہو‘ کی جگہ ’پڑتی ہے‘ ۔ مسلماں کی جگہ مسلمان بال جبریل میں غمزہ کی جگہ غمرہ، فقر کی تمامی کی جگہ فقر کی غلامی ۔ ضرب کلیم میں جمال و زیبائی کی جگہ جمالِ زیبائی ، لذتِ تجدید کی جگہ لذتِ تجدیدہ غلط متن ہے۔ اردو کلیات اقبال کی تصحیح کا کام ایک مشاورتی کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا جس میں غلام رسول مہر بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے بھی بعض فروعی تبدیلیاں کیں ۔ جو اقبال کی تیار کردہ ترتیب سے قدرے مختلف تھے۔ ابتدائی اشاعتوں میں اقبال نے بال جبریل کی غزلوں اور نظموں کے بعد قطعات بھی بغیر عنوان درج کیے تھے۔ مشاورتی کمیٹی نے رباعیات کا ایک عنوان قائم کر کے سب قطعات کو یکجا اور انھیں رباعیات کہا گیا جو خلاف اصول ہے۔ ایسے ہی ضرب کلیم کے سرنامے کی عبارت میں بھی تغیر بہت ہی نامناسب فیصلہ تھا۔ کلیاتِ فارسی کا حال تو اس سے بھی خراب صورت کا حامل ہے۔ رومی کی جگہ روی ، خیزد کی جگہ نیز، فزود کی جگہ فرود ، فرسود کی جگہ فرمود ، کہستاں کی جگہ قہستان ، درتنم کی جگہ قدتنم ، جام آمد کی جگہ جام آورد، کا چھپتے رہنا بڑی اندہ ناک صورت ہے۔ بھلا ہو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا جنھوں نے بے مثال محنت کر کے ان اغلاط کی نشان دہی کی ہے اور سب کی تفصیلات جمع کر دی ہیں۔ تدوین کی یہ بڑی گمراہ کن صورت حال ہے۔ جن سے کلام اقبال دو چار ہے۔ منشائے مصنف کے خلاف ترتیب کہاں کی دانائی ہے؟ بال جبریل میں اقبال نے قطعات یا رباعیوں کی جو ترتیب رکھی تھی وہ بدل دی گئی ہے۔ ضرب کلیم کے سرورق پر جو اشعار اور عبارت تھی وہ بھی حذف کر دی گئی ہے۔ میرے پیش نظر ضرب کلیم کا پہلا ایڈیشن ہے،جو کپور آرٹ پرنٹنگ ورکس، لاہور سے پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔ ان اشعار اور عبارت کے حذف کیے جانے کا سبب کسی کو نہیں معلوم۔ ان خوب صورت اور دیدہ زیب مطبوعات کی عکسی اشاعتیں پاک و ہند میں عام ہیں ۔ بیشتر اشاعتوں میں سرنامہ کی اس اہم ترین تحریر کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اقبال کی یہ خاص تکنیک رہی ہے کہ مجموعہ کلام کا آغاز ایک خاص نکتہ سے کرتے ہیںاور قاری سے تشویق و توجہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مرتبین نے تحقیق کے مسلمات سے انحراف کر کے اصول فن کے ساتھ بد مذاقی کی ہے اور سرمایۂ علمیہ کو شرمسار بھی کیا ہے۔ ضرب کلیم کے ابتدائی اشعار و عبارت ملاحظہ ہوں: ضرب کلیم یعنی اعلان جنگ دورِ حاضر کے خلاف: نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد ہوائے سیر مثال نسیم پیدا کر ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر علامہ کے کلام کے ساتھ یہ بدمذاقی بڑے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ راقم نے عرض کیاہے کہ وہ صرف شاعر نہیں ہیں، جہاں اسالیب و اندازِ تحریر پر اکتفا ہی مقصود متن ہے۔ وہ مفکر بھی ہیں ۔ فکر و نظر کے اظہار و ارتباط کے لیے حرف و معنی بڑی معنویت رکھتے ہیں۔ ضرب کلیم کے ان ابتدائی اشعار کو ہی بہ غور دیکھیں تو اقرار کرنا پڑے گا کہ آخری مصرعہ ایک نادرالمثال مفہوم کا حامل ہے، جو پورے شعری سرمایہ میں الگ بھی ہے اور انمول بھی۔ یعنی خودی میں محویت کے بغیر ضرب کلیمی کے معجزات کی نمود ممکن نہیں ہے۔ قاری کو فکر کی اس بلندی اور ارجمندی سے محروم کر دینا کہاں کی علم پروری یا اقبال دوستی ہے؟ ٭٭٭  پروفیسر عبدالحق اقبال کی تحریروں میں تحریف و تعبیر تمام ذرائع ابلاغ میں تحریر کو تقدیس کی عظمت حاصل ہے۔ صحائف سماوی میں لوح و قلم کی برگزیدگی بلاوجہ نہیںہے۔ یہ انسانی افکار کا سب سے موثر وسیلۂ اظہار ہے۔ فرد اور اس کی تہذیب کے تمام تصورات کی محافظ بھی یہی تحریر ہے۔ ہمارے مشاہدے میں یہ بھی کم حیرت ناک نہیں ہے کہ تحریر میں ہی تحریف و تعبیر کی سب سے زیادہ مکروہ مثالیں ملتی ہیں۔ اصل عبارت کا ارادتاً مسخ کیا جانا بھی انسانی مزاج کی عجیب افتاد ہے۔ خواہ وہ نیک نیتی پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ پڑھے لکھے یا باشعور انسانوں کے ہی کرشمے اور کارنامے ہیں۔ رفتہ رفتہ زمانے کے دستبرد سے تحریف و تنسیخ کی زیادتی اصل عبارت کو ہی موہوم بنا دیتی ہے۔ اس سے زیادہ اور کیسا فساد ہو سکتا ہے کہ وحی و تنزیل کی تجلیات سے معمور تحریریں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ انسان ایک مفسدانہ مزاج کا بھی مالک ہے۔ وہ اپنے تصورات یا عمل سے فسادِ خلق کے لیے برسرِ پیکار رہتا ہے ۔ قدیم تاریخ ہو یا تحریر، اس کے فتنے ہمیشہ سرگرم کار رہے ہیں ۔ہمارا زمانہ بھی اس سے خالی نہیں ہے۔ اقبال کی تحریریں بیسویں صدی کی بازیافت ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ہی شعوری اور غیر شعوری تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ۔ ان میں ان کے اقربا اور عقیدت مندوں نے زیادہ گل کھلائے ہیں۔ جب ہمارے سامنے یہ سب کچھ سرزد ہو سکتا ہے تو ماضی بعید کا کیا حال ہوگا۔ اردو کے کلاسیکی سرمایۂ ادب کا ایک حصہ آج بھی مشتبہ ہے کیوں کہ وہ الحاق و انتساب کی کوتاہیوں سے پاک نہیں ہے۔ خواہ وہ شعرِ سودا ہو یا کلام میر۔ ڈاکٹر نسیم احمد نے غزلیاتِ سودا کی تدوین کر کے ایک قابل رشک کارنامہ انجام دیا ہے۔ کلامِ میر بھی ایسے ہی مردِ تحقیق کا منتظر ہے۔ زندگی کے کوائف ، فکر و نظر کی باز آفرینی اور تخلیق کے تناظر؛ اقبالیاتی تحقیق کے یہ تین زاویے متعین کیے جا سکتے ہیں ۔ ان کا اطلاق کم و بیش ہر فنکار پر ہو سکتا ہے۔ اقبال چوں کہ مفکر شاعر ہے اس لیے بھی ان کے افکار و آرا کی باز آفرینی اور ان کے نتائج تک دریابی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس مقام پر متن کی ناگزیر اہمیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یوں بھی ادبی مطالعہ میں متون کی تنصیف و تقدیس کے احترام سے گریز پائی ممکن نہیں کیوں کہ انھیں پر آہنگ و اسالیب کا مدار قائم ہے۔ متن پر توجہ کیے بغیر اسلوب و انشا پر گفتگو نہیں کی جا سکتی اور حقایق کی تمام تر اساس بھی تحریر پر ہی موقوف ہے ۔ برا ہو مغرب کی فتنہ پروری کا جو متن کے مضمرات کی ہی مُنکر ہے۔ اس کا منشا و مقصود صحفِ سماوی کی تنزیل کو بھی مشتبہ بنا دینا ہے۔ کیوں کہ دنیائے تحریر میں محفوظ متن کے معجزات کی حامل صرف ایک کتاب ہے جس میں تحقیق متن کے پانچ ارکان ملزوم قرار دئے گئے ہیں۔ یعنی کلام کس کا ہے ؟ راوی کون ؟ روایت کا مخاطب کون ہے؟ زبان کون سی ہے؟ اور روایت کے استناد کیا ہیں؟ اقبال کے افکار کے منبع و ماخذ کے متعلق تحقیقات کو یہاں زیر بحث نہیں لایا جا رہا ہے ۔ اور نہ زندگی کے متعلقات سے سروکار رکھا گیا ہے ۔ اقبالیاتی تحقیق کا پہلا زاویہ ان کی حیات کے متعلق ہے جس میں ان کے آباو اجداد ، مولد و مسکن ، تعلیم و تربیت ، سفر حضر اور معاملات زندگی سے متعلق حقایق شامل ہیں۔ ان موضوعات پر اقبال کی زندگی میں ہی مباحث شروع ہو چکے تھے اور انھیں کافی حد تک محفوظ بھی کر لیا گیا تھا۔ وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کا اندازہ ڈاکٹر سعید درانی کی مفید کتب اقبال یورپ میں، نوادرات اقبال یا پروفیسر نکلسن کے ترجمہ اسرار خودی پر اقبال کے حواشی کی دریافت اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی زندہ رود جیسی کاوشوں سے ہوتا ہے۔ مولوی احمد دین کی کتاب اقبال ۱۹۲۳ء میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا تحقیقی ایڈیشن اردو کے موقر محقق ڈاکٹر مشفق خواجہ نے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ دوسری جہت ان کے منظوم اور نثری تحریروں کی بازآفرینی ہے جو بڑا کارنامہ ہے۔ یہ تحریف و تنسیخ کی مثالوں سے بھی پُرہے۔ حیرت ہے کہ اس دور میں بھی راویوں کی غیر صحت مند صورتِ حال سے کیسے عبرت ناک نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ اس کا اندازہ ان کے خطوط کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ اقبال کی ہر ہر سطر کو محفوظ کرنے کی کوشش بھی ہماری سعی و تحقیق کی دلچسپ داستان ہے۔ اس ضمن میں ان کے خطوط کی تلاش و ترتیب کا کام سرِ فہرست ہے۔ تقریباً سولہ سو سے زائد خطوط کی اشاعت ہو چکی ہے۔ جو خود ایک حیرت خیز واقعہ ہے۔ اور خطوط میں ہی سب زیادہ غلطیاں در آئی ہیں۔ یہ غلطیاں دو طرح کی ہیں۔ اصل متون کے پڑھنے میں اور نقل کرنے میں مرتبین کی لا پروائی یا کم نظری نے گل کھلائے ہیں۔ یا پھر خطوط میں دانستہ طور پر جعل اور تحریف شامل ہیں۔ خطوط میں تحریف کی دو مثالیں بہت نمایاں ہیں ۔ اقبال کے بھتیجے اعجاز احمد نے اپنے مخصوص مذہبی عقیدے کی پردہ پوشی کے لیے اقبال کے ایک خط میں جو تبدیلی کی ہے یا کرائی ہے وہ بشری کمزوری کے ساتھ کتمانِ حق کی بڑی بھونڈی مثال ہے۔ سر راس مسعود کے نام اقبال کا یہ خط ایک طرح سے وصیت نامہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریوں کے لیے چند افراد کے انتخاب کے لیے مجوزہ نام شامل ہیں۔ اصل عبارت ہے: شیخ اعجاز احمد میرا بڑا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح آدمی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ دینی عقائد کی رو سے قادیانی ہے۔ تم کو معلوم ہے کی ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا Guardian ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ خود بہت عیال دار ہے۔ عقیدے سے متعلق عبارت حذف کر دی گئی ہے۔ یہ ایک عبرت ناک پہلو ہے کہ اقبال کے متون میں تحریف ان کے بھتیجے کی بددیانتی کے سبب وارد ہوئی۔ دوسری طرف شعری متون کی ترتیب و تدوین میں نا مناسب تبدیلیاں خود ان کے صاحب زادے ڈاکٹر جاوید اقبا ل نے کی ہے۔ گویا گھر کے ہی چراغ سے ایوانِ اقبال میں چنگاری لگی ہے۔ اسی طرح ممنون حسن خاں مرحوم کے نام منسوب خطوط بھی تحریف شدہ ہیں۔ جو اصلاً ڈاکٹر راس مسعود کے لیے لکھے گئے ہیں۔ ان خطوط کے اصل متون کی بازآفرینی اور تحقیقی مطالعے نے ایک نئی راہ کی نشاندہی کی ہے۔ اسی طرح ملک اشفاق نے پنڈت نہرو کے نام A Bunch of Letters کے ترجمے میں اقبال کے خط کے ترجمے میں اپنے مخصوص عقیدے کی حمایت میں عبارت ہی بدل دی ہے۔ اقبال نے خط میں لکھا ہے:I have no doubt in my mind that the Ahmadis are traitors both to Islam and India. ’’میرے ذہن میں کوئی شبہ نہیں کہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔‘‘اب ملک اشفاق کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:’’ احمدیوں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلاف نہیں ہیں اور احمدی نہ ہی اسلام اور نہ ہی ہندوستان کے لیے دہشت گرد ہیں۔‘‘ مستزاد یہ ہے کہ اس خط کی اور دیگر اہم عبارتیں بھی حذف کر دی گئی ہیں جو ردِّ قادیانیت میں ہیں۔ اقبال کے خط میں ۱۶ جملے ہیں۔ مترجم نے صرف ۷ جملے ہی نقل کیے ہیںکیوں کہ دوسرے جملے ان کے عقیدے کے خلاف ہیں ۔ یہ پوری کتاب ترجمہ ہے۔ اس کتاب کو اردو میں پہلا ترجمہ کہا گیا ہے جب کہ اس سے پہلے ترجمے شائع ہو چکے ہیں ۔ یہ تحریف کی بدترین مثال ہے۔ دنیائے ادب میں مکتوباتی ادب کی ایک مستقل حیثیت تسلیم شدہ حقیقت ہے ۔ تخلیقی فن میں بہت سی جہتیں ادھوری اور صراحت سے عاری ہوتی ہیں۔ خطوط میں نجی زندگی کے ساتھ جلوت و خلوت کے افکار و اسالیب بہت ہی واشگاف انداز میں بیان ہوتے ہیں۔اور پھر کسی مفکر فن کار کے تمام و کمال تجزیے کے لیے ان کے خطوط ناگزیر بن جاتے ہیں۔ اقبال کے مطالعے میں یہ خطوط ان کی شعری تخلیقات کی تفہیم کے لیے بھی بڑے معاون ہیں۔ ان کی فکر و نظر کے کئی ایسے پہلو ہیں جن کا ذکر اشعار میںنہیں ملتا اور خطوط میں آشکار ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ خطوط کی جمع و تدوین پر خاطر خواہ توجہ دی گئی ہے۔ خطوط میں جعل سازی کی کوششیں بھی قابل مذمت ہے۔ گمراہی پیدا کرنے کی نازیبا بدنیتی بھی خطوطِ اقبال میں راہ پا گئی ہے۔ مکاتیب اقبال میں ڈاکٹر لمعہ حیدر آبادی کے نام منسوب خطوط کا جعل محترم ’ماسٹر اختر‘ کی کوششوں سے طشت ازبام ہو چکا ہے۔ عبدالواحد معینی نے لکھا تھا :’’اتنا بڑا جعل اردو ادب کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی سرزد ہوا ہو گا ۔‘‘ ڈاکٹر تاثیر نے بھی انھیں مشتبہ و مشکوک قرار دیا ہے۔ اقبالیات کے معروف ماہرین بھی ڈاکٹر لمعہ کے جعل کے مغالطے میں آ گئے تھے ۔ اقبال نامہ کی اشاعت کے وقت یعنی ۱۹۴۵ء میں شیخ عطا اللہ نے خطوط کے جو بھی اصل و نقل ملے، سب کو شامل کتاب کر لیا ۔ بھلا ہو ماسٹر اختر صاحب کا جنھوں نے جگر کاوی کی اور اس جعل سازی کا راز فاش کیا۔ ڈاکٹر اکبر رحمانی بھی زد میں آئے جنھوں نے انھیں خطوط کی بنیاد پر پونہ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی تھی اور ڈاکٹر لمعہ کی حمایت میں اتنے من گھڑت جھوٹ جمع کیے کہ ادبی تاریخ میں کذب کی ایسی کریہہ صورت نہ ملے گی ۔ حیرت کی بات ہے کہ ان ٹھوس شہادتوں کے باوجودمظفر حسین برنی نے کلیات مکاتیب اقبال کی ترتیب میں ان خطوط کو شامل متن رکھا اور تحقیق کا مذاق اڑایا ہے ۔ اقبال کے خطوط کی ترتیب و جمع و اشاعت کا یہ سب سے اہم اور مفید کارنامہ ہے۔ مگر تحقیق و تدوین کی اعلیٰ کاوشوں سے عاری اور سہل پسندی کا مظہر بھی ہے۔ برنی صاحب نے جن معاونین کی خدمات حاصل کیں، انھوں نے احتیاط سے کام لے لیا۔ خطوط کے عکسی متون کی نقل و قرأت میں بڑی فاحش غلطیاں راہ پا گئیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض اہلِ قلم نے اسے مستند قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ایک مبسوط تبصرہ شائع کر کے ان غلطیوں کی نشان دہی کی ہے، جس کی روشنی میں مرتب نے آخری جلدمیں سو صفحات کا صحت نامہ تیار کیا اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے شکریے کے بغیر ابتدائی جلدوں کی ان غلط عبارتوں کی تصحیح فرمائی ۔ پھر بھی ڈاکٹر لمعہ کے خود ساختہ خطوط کو شامل ہی رکھا۔ (جیسے بھوپال والی غزل دیوانِ غالب کی زینت بنی رہی) افسوس ہے کہ یہ جتنا بڑا کام تھا، اتنی ہی بڑی غلطیاں راہ پا گئیں ۔ہر صفحے پر ایک دو غلطی کا تناسب ہے۔ پانچ سو سے زائد غلطیاں موجود ہیں۔ عبارت اور جملے ہی بدل گئے ہیں اصل تحریر کو سنجیدگی سے پڑھا ہی نہیں گیا۔ ماہ و سال کی متعدد غلطیاں اضافے کے طور پر شامل ہو گئی ہیں۔ جملوں میں من مانی تحریف کی وجہ سے مفہوم بھی کہیں کہیں خبط ہو گیا ہے۔ فسادِ متن کی ایسی مثالیں شاید ہی کہیں ملیں ۔ جعل و فساد سے معمور متون کی کار فرمائی ہر دور میں دیکھنے میں آتی ہے ۔ دین دھرم کی کتابیں بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اقبال سے منسوب بہت سے ملفوظات بھی استناد کے منتظر ہیں جو بربنائے عقیدت اقبالیات میں شامل ہیں۔ خطوط کے سلسلے میں یہ ایک اچھی سہولت ہے کہ ان کے ایک بڑے حصّے کی عکسی تحریریں دستیاب ہیں۔ جن کی صحیح قرأت کی جا سکتی ہے ۔ اگرچہ اقبال کی تحریروں کو پڑھنا قدرے مشکل بھی ہے ۔ برنی صاحب اور اُن کے مددگار تحریر بھی نہ پڑھ سکے۔ سہل پسندی کے سبب یہ سب کچھ ہوا ہے۔ نثری تحریروں کے علاوہ ان کے شعری متون میں ترمیم و اضافے نے بھی دشواریاں پیدا کی ہیں۔ جن سے کہیں کہیں راہ اعتدال سے ہٹ جانے کا امکان باقی رہتا ہے ۔ اشعار کے متن میں حذف و اضافے کہیں کہیں خود اقبال کے قلم سے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ اقبال کے ایک عقیدت مند مولوی عبدالرزاق حیدر آبادی نے ۱۹۲۴ء میں رسائل و جرائد کی مدد سے مطبوعہ اردو کلام کو یکجا کر کے شائع کر دیا جو اقبال کی ناگواری کا باعث بنا۔ لیکن اس اشاعت نے انھیں آمادہ کیا کہ اردو کا پہلا شعری مجموعۂ کلام شائع کیا جائے۔ اقبال نے ۱۹۰۱ء سے ۱۹۲۴ء تک کی اردو تخلیقات کو مرتب کیا۔ بہت سے اشعار حذف کر دیے اور اضافے بھی کیے ۔ خاص طور پر کئی ابتدائی نظموں کی صورت ہی بدل گئی۔ تحقیق میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مصنف کے قلم سے نکلی ہوئی آخری عبارت ہی مستند اور مرجح ہے۔ گویا پایانِ عمر کی تصحیح شدہ تحریر پر ہی اصل متن کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اساسی متن کے تعین میں اس کلیے سے اتفاق ضروری ہے ۔ لیکن جب فکر و نظر کی شرح و بیاں کا معاملہ ہو تو اس کلیہ پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا ۔ صرف ایک مثال پر توجہ چاہوں گا۔ نظم ’’سید کی لوح تربت‘‘ ،۱۹۰۳ء میںتخلیق کی گئی۔ ۱۹۲۴ء میں بانگ درا کی ترتیب کے وقت بہت سے اشعار حذف کیے گئے اور کئی دوسرے اشعار کا اضافہ کر دیا گیا۔ بندئہ مومن کا دل بیم و رجا سے پاک ہے قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے اس شعر کے اضافے نے کئی نقادوں کو گم راہ کیا ۔ جب اقبال کے فکر و نظر کے منابع و مصادر کی تلاش کا کام پیش نظر ہو اور مشرق و مغرب کی کشاکش بھی درمیان میں حائل ہو تو غلط فہمی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ مردِ مومن سے متعلق تصورات کی ایک نسبت مغرب یعنی نٹشے سے دی جاتی ہے پھر یہ بات بہ سہولت کہی جا سکتی ہے کہ ۱۹۰۴ء تک اقبال نٹشے کے نام سے بھی آشنا نہ تھے۔ گویا مردِ کامل کا تصور مشرق سے ماخوذ ہے۔ دلیل مذکورہ بالا شعر ہے۔ ۱۹۲۴ء کی فکر پر ۱۹۰۳ء کا اطلاق دلیل کم نظری ہی نہیں گمرہی ہے۔ متن کی صحت پر ہی فکر و نظر کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور صحت متن کا تعین جگر کاوی کا سودا ہے، جس میں زیاں کے سوا کچھ نہیں۔ ۱۹۰۳ء میں اس نظم میں ۳۴ ، اشعار تھے۔ بانگِ درا میں صرف ۱۴، اشعار ہی درج ہیں۔جب کہ دو اشعار اضافے کے طور پر شامل کر لیے گئے ہیں۔ مذکورہ شعر بھی اضافے ہی میں شامل ہے۔ اس طرح ۳۴، اشعار میں صرف ۱۲ کا انتخاب کیا گیا ۔ باقی حذف کر دیے گئے۔ کلام اقبال میں ترک و الحاق کی وجہ سے دشواریاں بھی چند در چند ہیں۔ باقیات میںالحاق و اضافے کی ایک اور گمراہ کن مثال ملاحظہ ہو، جس کی نشان دہی پروفیسر سید محمد حنیف نقوی نے کی ہے۔ غزل کے تین شعر: کب ہنسا تھا کہ جو کہتے ہو کہ رونا ہوگا ہو رہے گا مری قسمت میں جو ہونا ہوگا خندئہ گل پہ مجھے آج تو ہنس لینے دو پھر اسی بات پہ رو لوں گا جو رونا ہوگا ہم کو اقبال مصیبت میں مزا ملتا ہے ہم تو اس بات پر ہنستے ہیں کہ رونا ہوگا یہ اشعار باقیات اقبال مرتبہ عبدالواحد معینی مع ترمیم و اضافہ عبداللہ قریشی ،مطبوعہ لاہور ۱۹۷۵ء میں شامل ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ اشعار اقبال کے طبع زاد نہیں ہیں۔ ان کے ایک ہم تخلص خواجہ غلام محمود اقبال بنارسی متوفی ۱۹؍ستمبر ۱۹۴۹ء بہ مقام ڈھاکہ کے اشعار ہیں۔ یہ تینوں اشعار باقیات اقبال کا حصہ بن کر استناد کا درجہ رکھتے تھے لیکن اس انکشاف کے بعد اقبال سے ان اشعار کی نسبت ختم ہو جاتی ہے۔ ان اشعار کے متن میں معمولی سی تبدیلی بھی ہے۔ اقبال بنارسی کے اشعار کی قرأت قدرے مختلف ہے۔ پہلے شعرکے مصرعِ اولیٰ میں ’’کہتے ‘‘ کی جگہ ’’بگڑتے‘‘ ہے۔دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں ’’مجھے‘‘ کی جگہ ’’ہمیں‘‘ درج ہے اور دوسرے مصرع میں ’’پھر‘‘ کی جگہ ’’کل‘‘ اور ’’رو لوں گا ‘‘ کی جگہ ’’رو لیں گے ‘‘ ۔ تیسرے شعر کے دوسرے مصرع میں ’’اس بات پر‘‘ کی جگہ ’’یہ سوچ کے‘‘ ۔ اقبال بنارسی کی غزل کے باقی تین اشعار حسبِ ذیل قرأت رکھتے ہیں: اک طرف دوست کا اصرار کہ آنکھیں کھولو اک طرف موت تھپکتی ہے کہ سونا ہوگا شوق سے آپ نقابِ رُخ زیبا الٹیں ہو رہے گا مری قسمت میں جو ہونا ہوگا ایسے دریا میں سلامت رویِ نوح کہاں پار ہونا ہے تو کشی کو ڈبونا ہوگا حیرت کی بات ہے کہ حال ہی میں ڈاکٹر صابر کلوروی نے اپنے مرتب کردہ کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال میں نقل کردہ ابتدائی تینوں اشعار کو اقبال سے ہی نسبت دی ہے،اگرچہ ان کا یہ مرتب کردہ کلام ان کے تحقیقی مقالے کا ہی جزو ہے۔ انھیں بھی غلط فہمی ہوئی ہے اور شاید پروفیسر سید محمد حنیف نقوی کی تحقیق کی اطلاع ان تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ کلام تازہ ترین باقیات کا حصہ ہے جس کا ہندوستانی اڈیشن ۲۰۰۴ء میں دہلی سے شائع ہوا ہے۔ باقیات کا یہ سب سے گراں قدر مجموعہ ہے، جس میں ان کے بہ قول تقریباً ساڑھے سات سو اشعار کا اضافہ ہوا ہے ۔ جن میں دو تہائی کلام کا حصہ غیر مطبوعہ بھی ہے۔ نوادرات یا باقیات کے تحقیقی یا تنقیدی مطالعہ میں ڈاکٹر صابر کلوروی کا یہ بیش بہا کارنامہ اقبالیات میں ایک ناگزیر حیثیت رکھتا ہے پھر بھی راہِ تحقیق و تدوین کے دروازے بند نہیں ہیں۔ ڈاکٹر فراقی نے دوسرے کئی اشعار مثنوی گلزارِ نسیم اور جوش کے شامل ہونے پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ یقینابڑی غلطی ہے۔ شکر ہے کہ انھوں نے ’’حریف مئے مرد افگنِ تحقیق‘‘ کا دعویٰ نہیںکیا۔ جب کہ سینکڑوں غلطیوں سے معمور کلیات مکاتیب اقبال کے مرتب جناب مظفر حسین برنی نے انتساب میں اپنے بارے میں ’’حریف مئے مرد افگنِ تحقیق‘‘ کی ادعائیت سے تحقیق و تدوین کو شرمسار کیا ہے۔ ڈاکٹر صابر کلوروی نے مذکورہ تینوں اشعار باقیات اقبال سے اخذ کیے ہیں۔اسے دور اوّل کی تخلیقات کے ذیل میں پیش کیا ہے۔ متون کی بحالی یا باز آفرینی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ تحقیق میں حرف آخر نہیں ہوتا اور نہ رعایتی نمبر ہی ہوا کرتا ہے ۔ آج کی دریافت کل غلط ثابت ہو سکتی ہے۔ فکر و نظر کا کارواں ماضی و حال کی دریافت سے گراں بار ہو کر گامزن رہتا ہے۔ محاسبہ بھی ایک ناگزیر عمل ہے جو تحقیق و تنقید کو مہمیز کرتا رہتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بہت دور تک گمراہی پھیلاتی ہے۔ سلسلہ در سلسلہ اندیشے کا امکان بڑھتا جاتا ہے، جس کے بڑے بھیانک نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ ۸۴۔۱۹۸۳ء کے تعلیمی سال کے دوران عائشہ خاتون نے اردو غزل کے معروف اشعار کی تصحیح و تحقیق کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا۔اقبال بنارسی کی غزل کے آخری دو اشعار کا اضافہ بھی کیا۔ اس طرح گمراہی کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک غلط فہمیوں کا سبب بنتا رہے گا، جب کہ ابھی یہ بیسوی صدی کی بات ہے۔ یہ مقالہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔ اردو فارسی میں ہم نام تخلص نے بھی بڑے مغالطے پید ا کیے ہیں ۔ حیرت ہے کہ گیان چند جین نے بھی فریب کھایا اور ان اشعار کو اقبال سے ہی نسبت دی ہے۔ متداول و مروج اردو فارسی کلیات میں بھی کثیر الاشاعتی اسباب سے کہیں کہیں متن متغیر ہو گیا ہے۔ اگرچہ ان کی نوعیت بہت اندوہناک نہیںہے۔ پھر بھی نقطے و شوشے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ان دو زبانوں میں موجود کلیات کی ان غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ تہران سے احمد سروش کا مرتبہ کلیات اقبال فارسی بھی اغلاط سے پُر ہے۔ کلیات فارسی پر رشید حسن خاں کا تبصرہ بھی قابلِ ذکر ہے، جس میں متن کی اشاعتوں میں مرتب کی معانی کی عبرت ناک مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ابھی تقدیم زمانی کا ذکر تھا۔ چار غزلیں میرے قرائن کے مطابق ۱۹۰۵ء کے بعد کی ہیں۔ مگر پروفیسر گیان چند جین نے انھیں ابتدائی کلام میں شامل کیا ہے اور استناد کے حوالے سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی داخلی شہادتوں پر بھی توجہ نہیں دی ہے۔ ان میں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں خودی کے بہت اشارے ہیں۔ ان غزلوں کے علاوہ لفظ خودی ان معنوں میں کلام اقبال میں اسرار کی اشاعت سے پہلے نظر نہیں آتا۔ مجھے حیرت ہے کہ پروفیسر جین نے ناچیز کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں ابتدائی کلام میں شامل کیا ہے۔ ان کا بیان محلِ نظر ہے۔ وہ اشعار یہ ہیں: کر نہ تقدیر کے شکووں سے خودی کو رسوا بہر تدبیر عیاں عالمِ اسباب ہوا خودی نے عطا کی مجھے خود شناسی ترا حسنِ دائم مرے رو برو ہے خودی کی حفاظت کوئی مجھ سے سیکھے غریبی میں انداز ہیں خسروانہ نہ ہو جب تلک دل میں ایمان کامل خودی بھی فسانہ خدا بھی فسانہ سرود ِ رفتہ کے مرتب اور دیدہ ور دانشور غلام رسول مہر نے بھی غلط فہمی پید ا کی ہے۔باقیات میں انھیں جگہ دی مگر ان کی تخلیق یا اشاعت کے حوالے سے محروم رکھا۔ مزیدبراں انھوں نے ان اشعار سے استنباط بھی کیا ہے کہ مردِ مومن خودی و خود داری کے تصورات اس ابتدائی دور کی فکر میں موجود ہیں۔ پروفیسر جین نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں ناچیز کا تذکرہ دوسرے ماخذ یعنی پروفیسر عبدالقوی دسنوی کی کتاب اقبال انیسویں صدی میں کے حوالے سے کیا ہے۔ حالاں کہ میری کتاب بہ سہولت مل سکتی تھی۔ خودِ اقبال اکیڈمی حیدر آباد کے ذخیرے میں موجود ہے اور دوسرے دوستوں کے پاس بھی ہے۔ تحقیق میں ثانوی ماخذ پر کم اعتبار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ثانوی مآخذ پر بھروسہ کر کے زیادہ غلطی کی ہے۔ انھوں نے خود اعتراف کیا ہے: میں اعتراف کرتا ہوں کہ اصل ماخذ بہت کم دیکھ پایا ہوں۔ مجھے متعدد نظموں کی تاریخ اشاعت نہ مل سکی۔ ان کے رنگ کو دیکھ کر تاثراتی طریقے پر ان کے زمانے کا اندازہ کیا ہے۔ راقم نے جن اشعار پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے انھیں ابتدائی دور سے منسوب نہ کرنے کی بات کی تھی انھیں تسلیم نہ کر کے جین صاحب نے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ غزل کی اشاعت اوّل کا علم ہوتا تو کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ ویسے خودی کا لفظ ان کی ایک اور قدیم غزل میں ملتا ہے۔ خودی نے عطا کی مجھے خود شناسی مرا حسن دائم مرے روبرو ہے یہ غزل ۱۹۰۵ء ہی نہیں ۱۹۰۸ء کی بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صابر کلوروی نے اس غزل کو دورِ دوم یعنی ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۴ء کے کلام میں شامل کیا ہے جس سے راقم کے خیال کی تائید ہوتی ہے اور خودی کے لفظ پر مزید گفتگو کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اس تحقیق سے غلام رسول مہر کے دعوے کی بھی تردید ہوتی ہے۔ ناچیز نے ۱۹۶۹ء میں اپنی پہلی اور مبتد یانہ کوشش ’’اقبال کے ابتدائی افکار‘‘ میں علامہ کے بعض ان فکری تصورات کی نشان دہی کی تھی جو یورپ جانے سے پہلے یعنی ۱۹۰۵ء تک وجود میں آ چکے تھے۔اس تجزیہ میں بانگ درا کے حصہ اوّل کے ساتھ باقیات اور نوادرات یا حذف شدہ کلام کو بھی زیر بحث لایا گیا تھا۔ نوادرات میں مجھے کچھ ایسا حصہ بھی مشتبہ لگتا تھا جسے قیاسات کی بنیاد پر راقم نے انھیں ۱۹۰۵ء کے بعد کا ہی قرار دیا تھا۔’’ جن اشعار سے مرتب (غلام رسول مہر) نے بحث کی ہے وہ قرائن اور قیاس سے ۱۹۰۵ء سے پیشتر کے نہیں معلوم ہوتے‘‘۔ کم سے کم یہ چھ غزلیں بعد کی محسوس ہوتی تھیں۔ ان پر غلام رسول مہر نے سرودِ رفتہ کے مقدمے میں تجزیہ کے بعد بعض نتائج اخذ کیے ہیں جو میرے لیے محل نظر تھے۔ میرے شبہات کی بنیاد متون میں موجود بعض وہ فکری رجحانات تھے۔ جن پر اس عہد کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے کہ کلام میں ان الفاظ کا ذکر نہیں ملتا۔ جو بعد میں اصطلاحی صورت گری کی علامت بنے۔ یہ غزلیں کلیات باقیاتِ شعرِ اقبال میں، ایک غزل کے علاوہ باقی، دوسرے دور کی تخلیقات کے ذیل میں شامل ہیں انھیں ابتدائی دور سے منسوب نہیں کرنا چاہیے اور نہ ان پر اس دور کے تصورات کا اطلاق ہو گا۔ یہ چند معروضات ابتدائی دور یا محذوف کلام سے متعلق تھیں۔ اب اقبال کے مرتب کردہ اور متداول کلام میں جو تبدیلیاں راہ پا گئی ہیں، وہ ہر حال میں تشویش ناک ہیں اور انھیں روکنے کے لیے سنجیدہ توجہ درکار ہے۔ کلیات اقبال اردو ، فارسی ایک منصوبے کے تحت سرکاری سرپرستی میں شائع کی گئیں ، جو ڈاکٹر جاوید اقبال کی نگرانی میں مدون ہوئیں۔ الفاظ کی املائی صورتوں کی تبدیلی کے ساتھ ترتیب کلام میں جو اجتہادات ہوئے ہیں، وہ قابل افسوس ہیں۔ ان کی بیشتر خامیوں پر کئی اقبال شناس ماہرین متوجہ ہوئے ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور رشید حسن خاں نے ان اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔ ان تفصیلات کا یہ موقع نہیں ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: بانگِ درا میں ’پڑتی ہو‘ کی جگہ ’پڑتی ہے‘ ۔ مسلماں کی جگہ مسلمان بال جبریل میں غمزہ کی جگہ غمرہ، فقر کی تمامی کی جگہ فقر کی غلامی ۔ ضرب کلیم میں جمال و زیبائی کی جگہ جمالِ زیبائی ، لذتِ تجدید کی جگہ لذتِ تجدیدہ غلط متن ہے۔ اردو کلیات اقبال کی تصحیح کا کام ایک مشاورتی کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا جس میں غلام رسول مہر بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے بھی بعض فروعی تبدیلیاں کیں ۔ جو اقبال کی تیار کردہ ترتیب سے قدرے مختلف تھے۔ ابتدائی اشاعتوں میں اقبال نے بال جبریل کی غزلوں اور نظموں کے بعد قطعات بھی بغیر عنوان درج کیے تھے۔ مشاورتی کمیٹی نے رباعیات کا ایک عنوان قائم کر کے سب قطعات کو یکجا اور انھیں رباعیات کہا گیا جو خلاف اصول ہے۔ ایسے ہی ضرب کلیم کے سرنامے کی عبارت میں بھی تغیر بہت ہی نامناسب فیصلہ تھا۔ کلیاتِ فارسی کا حال تو اس سے بھی خراب صورت کا حامل ہے۔ رومی کی جگہ روی ، خیزد کی جگہ نیز، فزود کی جگہ فرود ، فرسود کی جگہ فرمود ، کہستاں کی جگہ قہستان ، درتنم کی جگہ قدتنم ، جام آمد کی جگہ جام آورد، کا چھپتے رہنا بڑی اندہ ناک صورت ہے۔ بھلا ہو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا جنھوں نے بے مثال محنت کر کے ان اغلاط کی نشان دہی کی ہے اور سب کی تفصیلات جمع کر دی ہیں۔ تدوین کی یہ بڑی گمراہ کن صورت حال ہے۔ جن سے کلام اقبال دو چار ہے۔ منشائے مصنف کے خلاف ترتیب کہاں کی دانائی ہے؟ بال جبریل میں اقبال نے قطعات یا رباعیوں کی جو ترتیب رکھی تھی وہ بدل دی گئی ہے۔ ضرب کلیم کے سرورق پر جو اشعار اور عبارت تھی وہ بھی حذف کر دی گئی ہے۔ میرے پیش نظر ضرب کلیم کا پہلا ایڈیشن ہے،جو کپور آرٹ پرنٹنگ ورکس، لاہور سے پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔ ان اشعار اور عبارت کے حذف کیے جانے کا سبب کسی کو نہیں معلوم۔ ان خوب صورت اور دیدہ زیب مطبوعات کی عکسی اشاعتیں پاک و ہند میں عام ہیں ۔ بیشتر اشاعتوں میں سرنامہ کی اس اہم ترین تحریر کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اقبال کی یہ خاص تکنیک رہی ہے کہ مجموعہ کلام کا آغاز ایک خاص نکتہ سے کرتے ہیںاور قاری سے تشویق و توجہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مرتبین نے تحقیق کے مسلمات سے انحراف کر کے اصول فن کے ساتھ بد مذاقی کی ہے اور سرمایۂ علمیہ کو شرمسار بھی کیا ہے۔ ضرب کلیم کے ابتدائی اشعار و عبارت ملاحظہ ہوں: ضرب کلیم یعنی اعلان جنگ دورِ حاضر کے خلاف: نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد ہوائے سیر مثال نسیم پیدا کر ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر علامہ کے کلام کے ساتھ یہ بدمذاقی بڑے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ راقم نے عرض کیاہے کہ وہ صرف شاعر نہیں ہیں، جہاں اسالیب و اندازِ تحریر پر اکتفا ہی مقصود متن ہے۔ وہ مفکر بھی ہیں ۔ فکر و نظر کے اظہار و ارتباط کے لیے حرف و معنی بڑی معنویت رکھتے ہیں۔ ضرب کلیم کے ان ابتدائی اشعار کو ہی بہ غور دیکھیں تو اقرار کرنا پڑے گا کہ آخری مصرعہ ایک نادرالمثال مفہوم کا حامل ہے، جو پورے شعری سرمایہ میں الگ بھی ہے اور انمول بھی۔ یعنی خودی میں محویت کے بغیر ضرب کلیمی کے معجزات کی نمود ممکن نہیں ہے۔ قاری کو فکر کی اس بلندی اور ارجمندی سے محروم کر دینا کہاں کی علم پروری یا اقبال دوستی ہے؟ ٭٭٭  محمد شفیع بلوچ جاوید نامہ ایں کتاب از آسمانے دیگر است یوں تو علامہ اقبال کی تمام تصنیفات فکری اور فنی اعتبار سے ادبی و علمی اُفق پر مثلِ خورشید ضو فشاں ہیں لیکن ان میںجاوید نامہ کی آب و تاب سب سے منفرد ہے۔ نُدرتِ خیال ، فن کارانہ سحر طرازی کے ساتھ ساتھ حقائق و معارف اور فلسفہ و پیام کے اعتبار سے زندہ جاوید اور نقشِ دوام کی حیثیت رکھنے والی یہ کتاب ایسی تصنیف ہے جس کی تکمیل پر علامہ نے اپنے دل و دماغ کے نُچڑ جانے کا ذکر کیا ہے ۔ ملفوظاتِ اقبالمیں ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے حوالے سے لکھا ہے: ’’جاوید نامہ کو ابھی ابھی ختم کیا ہے اور دل و دماغ نُچڑ گئے ہیں‘‘۔۱ جاوید نامہ ایک ایسا عظیم شعری تجربہ ہے جس میں علامہ کے فن کی پُختہ کاری عروج پر ہے۔ وہ اسے عظیم اطالوی شاعر دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کے برابر کا درجہ دیتے تھے۔ خوابِ بیداری کی کیفیت میں یہ علوی اور روحانی سیّاحت کی روداد اور انکشافی سفر کی داستان پر مشتمل ایک طویل تمثیلی نظم ہے جس میں ہم خیال و حقیقت ، حق و حُسن اور حیات و کائنات کی ابدی حقیقتوں کو محسوس و مرئی شکل میںجلوہ گر پاتے ہیں۔ اسلوب اور پیش کش کے اعتبار سے بھی جاوید نامہ علامہ اقبال کے فکری منہاج کا شاہکار ہے۔ اس میں ہر جگہ رمزو ایما، مجاز و استعارات کی کارفرمائی ہے۔ رجائیت ، عروجِ آدم ، شرف ِ انسانیت ، الٰہیات ، تصوف اورعالمِ بالا کے حقائق و معارف سے معمور یہ ایسی تخلیق ہے جس کی مثال فارسی ادب میں نہیں ملتی۔ مولانا اسلم جیراج پوری، جاوید نامہ کے بارے میں اپنے ایک مضمون مطبوعہ نیرنگ خیال ۱۹۳۲ء میں لکھتے ہیں: ہم سنا کرتے تھے کہ فارسی زبان سمجھنے کے بعد صرف چار کتابیں اچھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔شاہ نامہ فردوسی ، مثنوی مولانا روم،گلستانِ سعدی اوردیوانِ حافظ ۔ مگر اب جاوید نامہ کو بھی پانچویں کتاب سمجھنا چاہیے جو کہ معنویت اور نافعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتی ہے۔۲ مولانا کی یہ رائے قطعاً مبالغہ آمیز نہیں تھی،بعد کی تنقیدات نے اس رائے کو درست قرار دیا۔ فنی اعتبار سے یہ المیہ ہے اور نہ طربیہ ، رزمیہ ہے اور نہ بزمیہ بلکہ ان سب کا حسین امتزاج ہے۔ اس عظیم ادبی، تخلیقی ، الہامی و عرفانی شعری شاہ کار کی حدیں ادبیاتِ عالیہ سے ملی ہوئی ہیں۔ اس لافانی ادبی کاوش میں یوٹوپیائی (Utopian) انداز میں ایک جدید دُنیا ، نئے آدم اورجہانِ دیگر کے خدوخال پیش کیے گئے ہیں۔ خود اس کے مصنف کے بقول : آنچہ گُفتم از جہانے دیگر است ایں کتاب از آسمانِے دیگر است ۱۹۲۹ء میںجاوید نامہ کا آغاز ہوا اور ۱۹۳۲ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچ کر یہ کتاب شائع ہوئی۔ اس کے بنیادی مآخذ قرآن ، احادیث اور مثنوی مولانا روم ہیں۔ اس کے پسِ پشت ایک پوری علمی ، ادبی، مذہبی اور تاریخی روایت موجود ہے۔ انسان اور انسانیت جاوید نامہ کا بنیادی موضوع ہے اور جو فلسفۂ حیات پیش کیا گیا ہے، اس میں انھوں نے عشق کو عقل پر ترجیح دی ہے، حقیقت محمدی ﷺ کی وضاحت کی ہے اور غیریت کا پردہ اُٹھا کر عینیت کا جلوہ دکھایا ہے۔ عالمِ اسلام کے بعض اہم سیاسی اور اجتماعی مسائل و تحریکات ، ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی اور فکری و جسمانی غلامی جیسے موضوعات کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ’’محکما تِ عالمِ قرآنی‘‘ کے عنوان سے اسلام کے سیاسی اور عمرانی نظام کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے جسے حکومتِ الٰہیہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ جاوید نامہ علامہ کے شاعرانہ کمالات کا بہترین نمو نہ، سوز و ساز بلکہ حاصلِ زندگی ہے۔ ان کا مخاطب پیرِ کہن کی بجائے عصرِ موجود کا نوجوان ہے جسے وہ باطنی اور ظاہری انقلاب پر اکساتے ہیں۔ انھوں نے انبیا، شُہدا اور صلحا کی حیاتِ جاوید کو انسانوں کی ذہنی اور فکری تربیت کے لیے بطور تمثیل پیش کیا ہے۔ دُنیا کے عظیم حُکما، صوفیہ اور مشاہیر کے حوالے سے اس کتاب میں حیات وکائنات کا مطالعہ مابعد الطبیعیاتی نقطۂ نظر سے کیا گیا ہے۔ روحانی سفر کی اس روداد میں اقبال نے اپنے لیے زندہ رود (ہمیشہ رواں رہنے والا دریا) کا نام اختیار کیا ہے۔ سیرِ افلاک کے دوران میں ان کی ملاقات ہر اُس انسان سے ہوئی جو انسانیت کی کسی صفت کا ممتاز نمایندہ تھا۔ خواہ وہ صفت عُلوی ہو یا سفلی ۔ ہر کردار کسی نہ کسی اہم مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے، اس طرح ان کرداروں کی ایک اساطیری اور اشاراتی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ اس عظیم تصنیف کو سمجھنے کے لیے ان شخصیات اور مقامات کا فہم ناگزیر ہے جن کا ذکر کتاب میں ہوا ہے۔ جاوید نامہ میں علامہ اقبال کچھ اس اہتمام اور فن کارانہ تفصیل کے ساتھ مختلف افلاک کی سیر کرتے ہیں اور اپنے عارفانہ مدارج کا ہر زینہ، الفاظ کے نقشوں سے اس طرح روشن کر دیتے ہیں کہ ابو ظفر ، عبدالواحد کے الفاظ میں پڑھنے والا بھی ساتھ ہی ساتھ اس دنیا کے دیکھنے کے شوق میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔۳ جاوید نامہکے مآخذ ایسے بھی ہیں جن سے دانتے اور اقبال دونوں مستفید ہوئے ، مثلاً فتوحاتِ مکیہ اور رسالتہ الغفران کے علاوہ ابن سینا کا عربی رسالہ الطیر ۔ علاوہ ازیں حسین بن منصور حلاج(۸۵۸ء ۔ ۹۲۱ئ) کی کتاب الطواسین اور عبدالکریم الجیلی (۷۶۷ء ۔ ۸۱۱ئ) کی معرفت نامہ ۔ بعض اسلامی مآخذ ایسے بھی ہیں جنھیں دانتے کو دیکھنے کا موقع نہ ملا لیکن علامہ اقبال نے ان کا مطالعہ کیا، ان میں شہ زوری کا سفرِ روح کے بارے میں ایک قصیدہ ہے جسے ابن خلکان نے نقل کیا۔ حضرت محمد غوث گوالیاریؒ کی سرّ السماء فخر الدین رازیؒ کی رسالۃ النفس ،ابن سینا کی فارسی تصنیف معراج نامہ، حکیم سنائی کی سیر العباد اور علامہ اشنوی کی رسالہ غایت الامکان فی درایت الزمان و المکان وغیرہم اور یورپی مآخذ میں گوئٹے کی فاؤسٹ، ملٹن کی فردوس گم گشتہ ، شلر کی ٹنٹالس کے علاوہ فشٹے کی کتب بھی شامل ہیں اور ان تمام سے بڑھ کر اقبال کے سامنے قرآن و احادیث اور مثنوی مولانا روم کے علاوہ اُن تمام برگزیدہ پیغمبروں کے قصص موجود تھے جو تجلی ذات کے مشاہدے سے ہم کنار ہوئے اور ان میں بالخصوص حُضور ﷺ کی معراج کی روایات سے انھوں نے جاوید نامہ کی بنیادیں استوار کیں، علاوہ ازیں مختلف صوفیہ خصوصاً بایزید بسطامیؒ ، حسین بن منصور حلاج اور ابن عربیؒ وغیرہ کی متصوفانہ وارداتوں کی تفاصیل کا بھی انھوں نے مطالعہ کر رکھا تھا۔ جاوید نامہکوئی تقلیدی کاوش ہے اور نہ ہی اقصائے عالم کی صدائے بازگشت، بلکہ یہ تو علامہ کے وجدانی و طبعی ہُنر کا وہ سنگم ہے جہاں ہر جانب سے فکری و معنوی دھارے مجتمع ہوتے ہیں ۔ یہ معراج نامہ کی سی صورت گری ہے اور اس میں معراج کے اسرار و رموز بیان ہوئے ہیں ۔ معراج کا مدعا ان کے نزدیک تمام انسانیت کا عروج اور عشق کی انتہا ہے۔ یہ ایک ایسا فعال عنصر ہے جو تسخیرِ کائنات کا ذریعہ ہے۔ اقبال کی یہ کتاب ایک ایسے روحانی سفر کا حال بیان کرتی ہے جو اصلاً پیغمبروں ہی کو نصیب ہوتا ہے اور ویسے بھی اعلیٰ شاعری اور پیغمبری کی سرحدیں کہیں ملتی ضرور ہیں کیونکہ دونوں کا منصب ایک ہی ہے: شعر را مقصود اگر آدم گری است شاعری ہم وارثِ پیغمبری است جاوید نامہ میں روحانی سفر کے متعدد مراحل کا ذکر ہے۔ اقبال ، مرشدِ رومی کی معیت میں قمر، عطارد ، زہرہ ، مریخ ، مشتری اور زحل کے افلاک سے گزرتے ہوئے بالآخر ایک عالمِ بے جہات میں پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ تجلی ذاتِ واجب الوجوب سے مستنیر ہوتے ہیں۔ فلک قمر میں ہندی فلسفے کے بعض مباحث کے ساتھ ساتھ بُدھ مت ، زرتشتیت، مسیحیت اور اسلام کی بعض بنیادی تعلیمات کا بیان ہے۔ فلکِ عطارد نظریۂ وطنیت کی نارسائی ، اشتراکیت و ملوک کے معائب ، قرآن کی بنیادی تعلیمات از قسم خلافتِ انسانی ، اسلامی حُکومت ، مسئلہ ملکیتِ زمین ، سائنسی علوم کی اہمیت ، مذہبی پیشوائیت کی خامیاں اور اجتہادِ اسلامی جیسے موضوعات کو محیط ہے۔ فلکِ زہرہ میں دین مخالف قوتوں کی سرخروئی کا استہزا اور عربوں کی بیداری کاذکر ہے۔ فلکِ مریخ ایک مثالی معاشرے ، تقدیر اور پُرفتن مغرب جدید کے مسائل لیے ہوئے ہے۔ فلکِ مشتری پر بہشت کا اسلامی تصور ، جبر و قدر ، انا و خودی ، عشق ، حقیقت محمد ﷺ، درویشی، زہد اور مقام ابلیس جیسے موضوعات کا تذکرہ ہے۔ فلکِ زحل پر غدارانِ وطن کا انجام مذکور ہے۔ آنسوئے افلاک میں بہشت کے منظر کے علاوہ تقلیدِ مغرب ، فلسفۂ موت و شہادت ، اتحاد ، عدل اور عروج و زوال کے فلسفے کا بیان ہے۔ اس سیر میں پیرِ رومیؒ سے اقبال مختلف نوعیت کے سوالات کرتے ہیں اور انھیں رومی کی طرف سے ہر سوال کا تسلی بخش جواب ملتا ہے۔ جاوید نامہ کو رومیؒ ہی کی مثنوی کی بحر میں قلم بند کیا گیا ہے۔ دیباچے سے پوری کتاب کے مزاج کا اندازہ ہو جاتا ہے جو کچھ یوں ہے: خیالِ من بہ تماشائے آسماں بود است بدوشِ ماہ و بآغوش کہکشاں بود است گماں مبر کہ ہمیں خاکدان نشیمنِ ما است کہ ہر ستارہ جہان است یا جہاں بود است گویا شاعر یہ سمجھتا ہے کہ منزل آخرت میں قدم رکھنے سے پیشتر ممکن ہے حیاتِ انسانی ابھی زمین کی طرح اور ستاروں کو بھی آباد کرے یا ان کے آباد کر چکنے کے بعد دوام ابد کی طرف انتقال سے پہلے اس زمینی ستارے میں بطور آخری منزل کے وارد ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال موجودہ سائنس کے ان انکشافات پر مبنی ہے جن کے مطابق مریخ وغیرہ ستاروں میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ۴ ان دو شعروں میں بقول ڈاکٹر عبدالمغنی ، سائنس اور شاعری ، علم اور فن کی ترقیات کا عطر جس سحر آگیں اور فکر انگیز طریقے سے پیش کیا گیا ہے اس کی ایک مثال بھی دانتے کی ڈیوائن کامیڈی سے نہیں پیش کی جا سکتی ۔۵ اس عظیم تمثیلی نظم کا آغاز مناجات سے ہوتا ہے جس میں احساس تنہائی اورجاودانیت کی آرزو کے ساتھ شکوے کا رنگ غالب ہے۔ جہانِ ہفت رنگ میں آدمی کی ہم نفس سے محرومی سب سے پہلی شکایت ہے۔ علامہ اقبال اس عالم میں ، انسان کی حیثیت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ آیا وہ اس عالم پر حکمران ہے یا یہ عالم اس پر حکمران ہے ۔ جس ہستی کی شان میں آیۂ تسخیر نازل ہوئی ، جسے علم الاسماء سکھایا ، جسے تمام عالم سے برگزیدہ کیا ، جسے محرمِ راز دروں بنایا ، اسی سے خود کو حجاب میں رکھا ۔ مشاہدہ تجلی ذات کی عاشقانہ بے تابی کا اظہار ، عقل و علم کے ساتھ ساتھ عشق کی آرزو لذّت وصال اور جاودانیت کی تمنا کے علاوہ، اپنے اشعار کے بحرِ عمق کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد ’’تمہید آسمانی‘‘ ہے جس میں شرفِ انسانی اور عقل پر عشق کی برتری کا بیان ہے۔ یہاں تخلیقِ کائنات کا راز آشکار کیا گیا ہے کہ اگر زندگی (انائے مطلق) کو غیب و حُضور (بطون و ظہور) میں ایک لذت محسوس نہ ہوتی تو یہ جہان نزد و دور کبھی موجود نہ ہوتا۔ آسمان ، زمین کو یک رنگی و بے نوری کا طعنہ دیتا ہے۔ زمین کو مضمحل و نا اُمید دیکھ کر غیب سے ’’نغمۂ ملائک‘‘ کی صورت میں ندائے اُمید آتی ہے جس میں یہ مژدہ سنایا گیا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب خاکی مخلوق کی روشنی ، نوری مخلوق سے بڑھ جائے گی اور زمین ہماری تقدیر کے ستارے سے آسمان کے ہم پلہ ہو جائے گی۔ تمہید آسمانی کے بعد تمہید زمینی بیان کی گئی ہے جس میں شاعر شام کے وقت دریا کے کنارے اپنے دل سے باتیں کر رہا ہے اور جاودانی ہونے کی آرزو اس کے دل میں چٹکیاں لے رہی ہے۔ بے اختیار اس کے لبوں پر رومیؒ کے اشعار مچلنے لگتے ہیں: بکشائے لب کہ قندِ فراوانم آرزوست بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست اس اثنا میں شام اور گہری ہو جاتی ہے، چاند افق پر نمودار ہو تا ہے کہ اس سر مئی اندھیرے میں پہاڑ کے اس پار سے روحِ رومی پردوں کو چاک کرتی ہوئی ظاہر ہوتی ہے۔ شاعر ، رومیؒ کا درخشندہ اور روشن چہرہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے جو دانش و حکمت کا حسین امتزاج تھا۔ شاعر اس سے موجودو نا موجود اور محمود و نا محمود کی وضاحت کے لیے سوال پوچھتا ہے ۔ یہ سوالات دراصل معراج کے معانی و حقائق بیان کرنے کی خاطر پوچھے جاتے ہیں۔ اپنے جوابات کے دوران میں روحِ رومی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسان اپنی خودی کے نور میں پہلے اپنے رُخِ زیبا کا مشاہدہ کرتا ہے اور پھر اسی نور میں دوسروں کو دیکھتا ہے ۔ اس کے بعد دوسروں کی روشنی میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور سب سے آخر میں ذاتِ حق کے نور میں اپنی ہستی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ معراج کے اسرار و رموز اور اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے رومی کہتے ہیں کہ یہ شعور میں انقلاب کا دوسرا نام ہے، یہ دراصل شاہد عادل کے روبر و انسان کامل کی خودی کے کمالات کی آزمایش ہے۔ جس طرح ذرہ خُورشید کے رو برو اپنی ہستی کا تحقق اور امتحان کرتا ہے، اسی طرح انسانِ کامل کی خُودی ذاتِ واجب کے سامنے اپنے وجود کو کاملِ عیار بناتی ہے۔ معراج گویا خُُودی کی تکمیل کی آخری منزل ہے۔ رومیؒ مزید کہتے ہیں کہ تمھاری زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ تم اپنے مقام کو جو خدا نے تمھارے لیے مقرر کیا ہے، حاصل کر سکو اور وہ مقام ہے ذاتِ حق کو بے پردہ دیکھنا ۔ مرد مومن صرف صفات کی تجلیات سے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ وہ تجلیِ ذات کا آرزو مند ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں: جب میں نے مرشد رومی کی مذکورہ بالا گفتگو سنی تو میرے اندر عالم بالا کی سیر کا اشتیاق پیدا ہوا، اسی اثنا میں میرے سامنے نور کے ایک بادل سے دو چہروں والا فرشتہ نمودار ہوا۔ اُس کا ایک چہرہ تو انگارے کی طرح سرخ یعنی روشن اور دوسرا تاریک تھا۔ روشن چہرے کی آنکھیں کھلی اور تاریک چہرے کی آنکھیں بند تھیں۔ اس فرشتے کے پر مختلف رنگوں کے تھے۔ یہاں روشن چہرہ زندگی اور تاریک چہرہ موت کی علامت ہے اور مختلف رنگوں کے پر زندگی کی بو قلمونی کا استعارہ ہے ۔ علامہ کے استفسار پر اس فرشتے نے کہا:میں ’’زروان‘‘ ہوں اور کائنات پر حکمرانی کرتا ہوں ۔ ہر شخص کی تدبیر میری تقدیر سے وابستہ ہے۔ دانہ درخت میری وجہ سے بنتا ہے۔ خوشی اور غم تشنگی اور سیرانی میری وجہ سے ہے۔ بنی آدم اور ملائکہ سب میرے تصرف میں ہیں۔ میرے طلسم سے وہی شخص نکل سکتا ہے جو ’’لِیْ مَعَ اللّٰہ‘‘ کے رمز سے آگاہ ہو جائے۔ ’’لِیْ مَعَ اللّٰہ‘‘ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ ’’مجھے اللہ کے ساتھ وہ وقت بھی نصیب ہوتا ہے کہ اس قرب میں اس وقت نہ کوئی نبی مرسل بار پا سکتا ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ ۔ علامہ کے نزدیک زروان ، روحِ زمان و مکان اور عالم علوی کا رہنما ہے۔ اس کے بعد علامہ نے ستاروں کی زبان سے انسان کی عظمت واضح کی ہے کہ اسے عقل اور عشق جیسی عظیم دولت سے نوازا گیا اور بنی آدم کو مسلکِ عشق اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ اس کے علاوہ قلندری اور سکندری کا موازنہ کرتے ہیں۔ اب علامہ ، روح رومیؒ کی معیت میں عالم بالا کی سیاحت کا آغاز کرتے ہیں۔ جب انھوں نے پرواز شروع کی تو جو اشیا انھیں اُوپر دکھائی دیتی تھیں، وہ اب نیچے نظر آنے لگیں ۔ رفتہ رفتہ وہ قمر کے اتنے نزدیک پہنچ گئے کہ اس کے کوہستان نظر آنے لگے۔ فلکِ قمر : قمر کی زمین مردہ سی تھی، وہاں انھیں خُشک اور ویران پہاڑ نظر آئے۔ دونوں ایک غار میں جاتے ہیں جہاں انھیں عریاں بدن ایک ہندی عارف ملتا ہے جس کے سر کی چوٹی کے گرد ایک سفید سانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ وہ مست الست عارفِ ہندی ’’جہاں دوست‘‘ تھا ۔ ہندوستان کا یہ قدیم عارف ایک ہزار اور بعض مورخوں کے مطابق پانچ ہزار سال قبل مسیح کا تھا۔ اس کا اصل نام ’’وشوامتر‘‘ تھا اور وہ رام چندر کا اتالیق تھا۔ ’’شکنتلا‘‘ اس کی بیٹی تھی۔ اس کی روحانی اور اخلاقی سر بلندی کی داستانیں اب تک ہندی مذہبی روایات کا حصہ ہیں۔ عارف ہندی ، علامہ اقبال کے بارے میں رومی سے پوچھتا ہے کہ تیرا ساتھی کون ہے، جس کی آنکھوں میں آرزوئے زندگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے؟ رومی کہتے ہیں: یہ ایک طالبِ حق اور جویائے حقیقت ہے اور: حرف با اہلِ زمیں رندانہ گفت حور و جنت را بت و بُت خانہ گفت شعلہ ہا در موجِ دودش دیدہ ام کبریا اندر سجودش دیدہ ام جہاں دوست رومیؒ سے عالم ، آدم اور حق وغیرہ کے حقائق دریافت کرتا ہے۔ روحِ رومیؒ جواباً کہتی ہے: حق، آدم اور عالم تینوں باہم مربوط ہیں، عالم حق کی صفات کا عکس ، آدم اس کی ذات کا عکس اور حق بمنزلہ شمشیر زن ہے۔ آدم بمنزلہ شمشیر اور عالم بمنزلہ سنگ فسن یعنی ایسا پتھر جس پر تلوار تیز کی جاتی ہے۔ مشرق نے حق پر توجہ دی اور عالم کو فتح نہ کر سکا، جب کہ مغرب نے عالم پر اپنی تمام تر توجہ مبذول کی اور انسانیت کی سطح سے بھی گر گیا۔ گویا دونوں اطراف توازن نہ رہا۔ جہاںدوست ان حقائق کو تسلیم کرتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مشرق آج تک وجود اور عدم ہی کے مسائل میںپھنسا رہا ہے مگر وہ اس کے مستقبل سے نا امید نہیں ہے۔ جہاں دوست ، علامہ اقبال کی علمیت کا اندازہ کرنے کے لیے ان سے چند سوالات پوچھتا ہے۔ علامہ ان سوالات کا برجستہ جواب دیتے ہیں: پوچھا گیا کہ عقل کی موت کیا ہے ؟ علامہ نے کہا: ترک فکر۔ ’’دل کی موت کیا ہے؟ ’علامہ کہتے ہیں ترک ذکر۔ تیسرا سوال ہوتا ہے تن کیا ہے؟ جواب ملتا ہے تن وہ شے ہے جو راستے کی گرد سے پیدا ہو گئی یعنی یہ تن (مادہ) کوئی مستقل بالذات شے نہیںبلکہ یہ بھی روح یا جان ہی کی ادنیٰ یا کثیف شکل ہے۔ اسی بات کو انھوں نے ایک اور جگہ یوں بیان کیا ہے: تن چیزیست کہ از گرد رہ زادہ است یعنی وہ شے ہے جو حیات کے جسم پر طویل سفر کی وجہ سے بطور گردراہ جم گئی ہے۔ روح یا جان کیا ہے؟ علامہ نے جواباً فرمایا:روح یا جان لا الہ الا اللہ کی مرکز ی حقیقت ہے۔ آدم اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ جواب دیا گیاکہ جس طرح روح رمزِ لاالہٰ ہے، اسی طرح آدم بھی اس کے اسرار ِمیں سے ایک سِرّ ہے۔ چھٹا سوال تھا : عالم (دنیا) کیا ہے؟ علامہ اقبال نے فرمایا: عالم یعنی دنیا کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ محسوس ہوتا ہے ۔ دیکھو، تو ہے ، غور کرو تو کچھ بھی نہیں۔ ساتواں سوال یہ تھا کہ علم و ہنر کی حقیقت کیا ہے؟ جواباً علامہ کہتے ہیں: یہ بمنزلہ پوست ہے یعنی جس طرح چھلکا کھانے سے مغز کا ذائقہ حاصل نہیں ہو سکتا، اسی طرح کتابی علم سے خدا کا عرفان حاصل نہیں ہو سکتا۔ آٹھواں سوال یہ تھا کہ حصول یقین بالفاظ دیگر خدا کا ایقان و عرفان کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟ جواب میں علامہ کہتے ہیں:دل کی آنکھوں سے۔ نواں سوال یہ تھا کہ عوام الناس کا دین کیا ہے؟ علامہ کہتے ہیں: وہ تقلید پر اکتفا کرتے ہیں۔ دسواں سوال تھا کہ عرفا کا کیا دین ہے؟ علامہ جواب میں فرماتے ہیں: تحقیق یعنی حق الیقین ۔ عارف ہندی ، علامہ کی علمیت سے بہت متاثر ہوتا ہے اور جواباً اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے جو نو نصائح پر مشتمل ہیں جن کا لب ِ لباب یہ ہے: ۱۔ ذات حق کے لیے یہ عالم ، پردہ نہیں ہے۔ جب تم دریا میں غوطہ لگانے کے لیے کنارے پر کھڑے ہوئے تو یہ تمھیں پانی میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔ ۲۔ عالمِ دیگر میں پیدا ہونا مسرت انگیز بات ہے تاکہ تو از سرِ نو جوان ہو سکے۔ ۳۔ خدا کو موت نہیں۔ وہ مرگ سے پاک ہے بلکہ عین حیات ہے۔ بندہ اس لیے مرتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ حق کو موت نہیں بلکہ وہ عین زندگی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص زمان و مکان کی قید میں ہے، وہ یقینا ہلاک ہوجائے گا، اگر حیات جاوداں کی آرزو ہے تو زمان و مکان کی قیود سے باہر نکلنا لازمی ہے۔ موت کے اعتبار سے انسان خدا سے بڑھا ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ ہر انسان نے لازمی طور پر موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ۴۔ وقت شیریں بھی ہے اور تلخ بھی ۔ رحمت بھی ہے اور قہر بھی۔ قہر کے باعث شہر و دشت خالی ہو جاتے ہیں ۔ ۵۔ اے روشن نہاد!کافری موت کا دوسرا نام ہے۔ مرد غازی مردے سے جہاد نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ سے جنگ کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس امارہ پر یوں حملہ آور ہوتا ہے جس طرح چیتا ہرن پر ۔ ۶۔ وہ کافر جو اپنے صنم کی پرستش میں مشغول ہے اس دین دار سے بہتر ہے جو مسجد میں سو رہا ہو۔ ۷۔ اگر تجھے کائنات میں صرف بدی یا برائی نظر آئے تو سمجھ لے کہ تیری بصیرت نور معرفت سے محروم ہے کیونکہ آفتاب کو کسی وقت اور کسی جکہ بھی تاریکی نظر نہیں آتی۔ ۸۔ دانہ اگر مٹی کی صحبت اختیار کرے گا تو بار آور ہو گا۔ لیکن آدمی اگر صحبت گِل اختیار کرے گا تو تیرہ بخت ہو گا۔ دانے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مٹی سے اس قدر طاقت حاصل کر لیتاہے کہ آفتاب کی شعاعوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ ۹۔ میں نے پھول سے پوچھا کہ تو مٹی اور ہوا سے رنگ و بو کیسے حاصل کرتا ہے؟ کہنے لگا تو عقل مند ہو کر بھی ایسی بات کرتا ہے۔ اچھا، تو برق خاموش سے کیسے پیغام وصول کرتا ہے؟ سُن ! ہمارے اندر زندگی ہے اور ہم فائدہ مند عناصر اپنے اندر جذب کرتے ہیں ۔ تیری قوتِ جاذبہ ظاہر ہے اور ہماری پوشیدہ۔ اس کے بعد ’’جلوئہ سروش‘‘ ہے جو زرتشتی مذہب کا گویا جبرئیل ہے۔ اقبال اسے ’’فرشتہ شعرا‘‘ بتاتے ہیں۔ اس کے بعد ’’ نوائے سروش‘‘ ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر کائنات کو سمجھنا چاہتے ہو تو اسے عقل کے بجائے عشق کی نگاہ سے دیکھو۔ اس کے بعد مرشدِ رومیؒ کی معیت میں علامہ ’’وادیِ یرغمید‘‘ کی جانب بڑھتے ہیں۔ اسی دوران رومیؒ ، علامہ کی توجہ شاعری اور پیغمبری کے بارے میں لطیف نکات کی جانب مبذول کراتے ہیں کہ جس شعر میں آگ ہو ، اس کی گرمی ذکرِ خدا سے ہے، اور یہ کہ اگر شاعری انسانیت کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف ہو تو اسے پیغمبری کا وارث اور جانشین کہا جائے گا ۔ پیغمبری کی صفات واضح کرنے کے بعد رومیؒ نے اقبال سے کہا کہ اب تیزی کے ساتھ وادیِ یرغمید کی طرف چلو تا کہ وہاں جا کر تم سنگِ قمر کی دیوار پر کندہ چار طاسینِ نبوت دیکھ سکو۔ اُن کا دیکھنا تمھارے لیے ضروری ہے ۔چنانچہ اسرار کل اور طواسینِ رُسل سے آگہی حاصل کرنے کے لیے علامہ ’’وادیِ طواسین‘‘ میں گوتم بدھ ، زرتشت ، جنابِ مسیحؑ اور سرکارِ دو عالم ﷺ کی تجلیات (تعلیمات) سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ طواسین کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک تو یہ حسین منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے، دوسرا قرآنی حروف مقطعات ’’طٰس‘‘ کی جمع ہے۔ حروفِ مقطعات کا قطعی علم تو خدا کو ہے تاہم عرفا کے نزدیک ’’ط‘‘ سے مراد ’’طور‘‘ اور ’’س‘‘ سے مراد ’’سینا‘‘ہے یعنی ’’طورِ سینا‘‘ اور یہ وہی پہاڑ ہے جہاں حق تعالیٰ نے تجلی فرمائی تھی۔ انبیا اور رسل سے براہ راست ملاقات کے احوال کو علامہ گستاخی پر محمول کرتے ہیں، اس لیے ان کی طواسین (تجلیات) کو ان کے افکار و کردار اور تعلیمات کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ’’طاسین گوتم‘‘ میں علامہ اقبال کی رواداری ملاحظہ ہو کہ انھوں نے گوتم بدھ کو انبیا کے زمرے میں شامل کیا ہے اور ان کی تعلیمات کا صرف اخلاقی پہلو پیش کیا ہے جو ہستی اور نیستی کے بارے میں ہے۔ اس طاسین کا بنیادی خیال یہ ہے کہ گوتم بدھ ایک رقاصۂ عشوہ فروش کو پاکیزہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور وہ ان کے وعظ سن کر اپنے افعال سے توبہ کرلیتی ہے۔ یہاں رقاصہ دراصل انسان کی مادی یا بہیمانہ زندگی (نفسِ امارہ) کی مظہر ہے۔ طاسین زرتشت میں اہرمن (نمایندہِ شر) کی بدولت معروف مجوسی پیغمبر جنابِ زرتشت کی آزمایش بیان ہوتی ہے۔ اہرمن کہتاہے کہ یزداں نے راحت کی بجائے انبیا کو مصائب میں مبتلا کیا ۔ نبوت ایک بے تاثیر شے اور دردِ سر ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ کسی غار میں خلوت اختیار کر کے تزکیۂ نفس کیا جائے۔ (یہ رہبانیت کی طرف اشارہ ہے) ۔ حکیم زرتشت کی رائے میں زندگی نام ہے آزمایش اور امتحان کا ، اس سے خُودی پُختہ تر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ انسان میں خدائی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ خلوت ، درد و سوز ، جستجو و آرزو اور کمالِ عشق کا نام ہے۔ پیغمبری دردِ سر نہیں بلکہ بلند ترین انسانی مقام و منصب ہے۔ یہ کمالِ عشق کی وہ طاقت ہے جو آدم گر ہے اور انسانی زندگی میں عظیم انقلاب برپا کرتی ہے۔ طاسین مسیحؑ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات کا ذکر نہیں بلکہ ان تعلیمات کے فراموش کیے جانے کا ذکر ہے۔ اس طاسین میں مشہور روسی مسیحی مصلح ، ادیب اور مفکر لیوٹا لسٹائی کا خواب بیان کیا گیا ہے۔ ٹالسٹائی (۱۸۲۸ئ۔۱۹۱۰ئ) روس کا ایک بہت بڑا جاگیر دار تھا۔ زندگی کے آخری دور میں اپنی ساری جاگیر اور دولت کاشت کاروں اور مزدورں میں تقسیم کر دی۔ وفات کے وقت تن کے دو کپڑوں کے علاوہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ پاکیزہ زندگی ، روحانیت ، ترک و تجرید ، درویشی و ایثار کے اعتبار سے مسیحیت میں اس جیسی مثال مشکل سے ملے گی ۔ اسی لیے اقبال نے اسے مسیحیت کا نمایندہ بنایا ہے۔ اس کا خواب کچھ یوں تھا: کوہسار ہفت مرگ کی ایک تیرہ و تاروادی میں رواں چاندی کی نہر میں ایک نوجوان کمر تک غرق اپنی تشنگی پہ نالہ و فریاد کر رہا ہے۔ اس نہر کے کنارے افرنگین نام کی ایک عشوہ طراز نازنین کھڑی اس نوجوان سے باتیںکر رہی ہے کہ اسی اثنا میں چاندی کی نہر یخ بستہ ہو جاتی ہے۔ نوجوان کی ہڈیاں چو ر چور ہونے لگتی ہیں اور وہ واویلا شروع کر دیتا ہے۔ (واضح رہے کہ چاندی کی نہر دولت و مادیت ، نوجوان یہودیت اور افرنگین اقوامِ یورپ کی تہذیب و ثقافت کا کنایہ ہیں)۔ یہ نوجوان دراصل جوڈس اسقروطی ہے جو جناب عیسیٰ کا حواری تھا مگر روما کے یہودی حاکم فلاطوس کے کہنے پر حضرت عیسیٰ ؑ کو گرفتار اور مصلوب کروایا۔ یہودیت کی علامت ، اس نوجوان سے نازنین کہتی ہے۔جنابِ مسیحؑ نے تیری قوم پر کتنے احسانات کیے اور تیری قوم نے ان احسانات کا کیا صلہ دیا۔ تذلیل ، توہین ، تکفیر اور تصلیب !!! نازنین [اقوامِ یورپ] کا یہ طعنہ سن کر نوجوان سیخ پا ہو گیا اور کہنے لگا : اے مکار و عیار ! تو نے شیخ وبرہمن دونوں کو ملت فروشی اور غداری کا سبق پڑھایا ، تو نے تمام اقوام کو الحاد کا درس دیا! تیری ابلیسانہ چالبازیوں سے عقل اور مذہب دونوں ذلیل و خوار ہیں ۔ تو نے بنی آدم کو عشق و محبت سے بیگانہ کر کے انھیں خود غرضی اور نفس پرستی سکھا دی۔ تونے [یورپین اقوام نے] اقوام مشرق کو غلام ہی نہیں بنایا بلکہ ان کو مذہب ، اخلاق ، انسانیت اور آدمیت جیسی تمام خوبیوں سے بیگانہ کر دیا۔ تیری موت سے اہل جہاں کی زندگی ہے۔ دیکھنا کہ تیرا انجام بہت بُرا ہوگا: مرگِ تو اہل جہاں را زندگی است باش تا بینی کہ انجام تو چیست! یہاں علامہ اقبال نے عیسائیت کی فاسد معاشرت ، علوم و فنون کی ترقی کے لیے ان کے غیر ہمدردانہ رویے اور مادی نقطۂ نظر کی مذمت کی ہے۔ آخری اور چوتھے طاسین یعنی ’’ طاسین محمدﷺ ‘‘ میں ابوجہل کی روح حرم کعبہ میں نوحہ کناں ہے۔ وہ ہبل اور لات و منات کو دہائی دے کر کہتا ہے:ہمارا سینہ بانیِ اسلام کی تعلیمات سے داغ دار ہے۔ وہ ساحر ہے۔ اس نے لات و منات کو پاش پاش کیا ۔ اس نے حاضر (بت پرستی) کے بجائے غائب (خدا پرستی) کی تعلیم دی۔ اس نے ایسا مذہب پیش کیا جس نے وطنیت اور ذات پات کی جڑیں کاٹ دیں۔ حد ہے کہ اس کا پیغام لانے والا اہل قریش میں سے ہونے کے باوجود ،عرب کی برتری سے منکر ہے۔ وہ غلام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اس نے احمر و ا سود کو شیر و شکر کر دیا اور قیصر و کسریٰ کے خاتمے کی خبر دی۔ ابوجہل کا یہ نوحہ گویا اسلامی انقلاب کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔ فلکِ عطارد: اگلی منزل فلکِ عطارد ہے۔ یہاں صحرا و دریا ، بحرو بر تو ہیں مگر زندگی کے آثار نہیں۔ اس فلک پر علامہ اقبال نے جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح سے ملاقات کا احوال بیان کیا ہے۔ ان سے گفتگو کے دوران دین و وطن کی آویزش ،اشتراکیت و ملوکیت کا سحرِ فرنگ اور قرآن کی محکم تعلیمات جیسے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ سید جمال الدین افغانی ( ۱۸۳۸ء ۔ ۱۸۹۷ء ) بہت بڑے مصلح اور عالمِ اسلام کے اتحاد کے زبر دست داعی تھے ۔ اقبال انھیں مجددِ عصر کہتے تھے جبکہ سعید حلیم پاشا (۱۸۶۳ء ۔ ۱۹۲۱ئ) ترکی کے عظیم راہنما ’’اصلاح دین‘‘ نامی جماعت کے صدر اور وہاں کے وزیر داخلہ اور وزیر اعظم بھی رہے۔ اقبال کی نگاہ میں ان حضرات کا جو مقام ہے، اسے انھوں نے رومیؒ کی زبان سے یوں ادا کیا ہے کہ مشرق میں ان دو بزرگوں سے بہتر عصرِ حاضر کا اور کوئی فرد نہیں۔ علاوہ بریں اقبال ان حضرات کے وحدتِ اسلامی کے افکار و خیالات سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کا فلسفہ اور پیغام انھی حضرات کے مقصد کی تکمیل ہے۔ معراج کی مناسبت سے اقبال نے جمال الدین افغانی کو سورئہ والنجم کی وجد آمیز تلاوت کرتے دکھایا ہے۔ جب اقبال اور رومیؒ ، افغانی کی اقتدا میں نماز پڑھ لیتے ہیں تو اقبال اپنی جگہ سے اُٹھ کر سید السادات جمال الدین افغانی کی دست بوسی کرتے ہیں۔ رومیؒ ، اقبال کو افغانی کی خدمت میں صاحبِ سوز و ساز اور آزاد روش کے علاوہ بطور شوخی ’’زندہ رود‘‘ (دریائے رواں) کے نام سے متعارف کراتے ہیں۔ افغانی ، علامہ سے مسلمانوں کا حال دریافت کرتے ہیں۔ علامہ جواب دیتے ہیں کہ مسلمان وطنیت اور اشتراکیت جیسے عظیم فتنوں سے دو چار ہیں۔ اہل مغرب خُود تو مرکز کی تلاش میں ہیں مگر مسلمانوں کو بے مرکز و منتشر کرنے کے لیے نظریۂ وطنیت پھیلا رہے ہیں۔ علامہ دبے الفاظ میں معروف اشتراکی فلسفی کا رل مارکس کی تعریف کرتے ہوئے اسے ابراہیم خلیل اللہ کی نسل سے ظاہر کرتے ہیں اور اسے فرشتۂ بلا پیغمبر کہتے ہوئے، اس کے دل کو مومن اور دماغ کو کافر قرار دیتے ہیں۔ افغانی، علامہ کو وطنیت کے مفاسد اور اشتراکیت کے محاسن اور معائب سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغرب روحانیات سے محروم ہے اور یہ چیز مادیت سے پیدا نہیں ہوتی۔ اشتراکیت صرف مادیت سے وابستہ ہے، اس لیے وہ انسان کے لیے کیسے مفید ہو سکتی ہے ؟ مارکس کا پیش کردہ نظام تو ’’مساواتِ شکم‘‘ پر مبنی ہے۔محض دولت کی مساویانہ تقسیم سے اخوت و مساوات پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہی حال ملوکیت کا ہے۔ اس کا سینہ بھی دل [توحید] سے خالی ہے۔ جیسے شہد کی مکھی پھولوں کا رس اورجوہر چوس لیتی ہے اور صرف پتے چھوڑ دیتی ہے ایسے ہی ملوک یعنی سلاطین بھی انسانوں کو جوہر انسانیت اور حریتِ فکر سے محروم کر دیتے ہیں۔ اشتراکیت دونوں روح کی دشمن ہیں۔ اشتراکیت کا مقصد خروج اور ملوکیت کا مقصد خراج ہے۔ دونوں علم وفن کی دشمن اور خدا پرستی سے کوسوں دور ہیں۔ آخر میں کہتے ہیں کہ زندگی محض روٹی کا نام نہیں بلکہ اس کا مقصد سوز و ساز ہے اور اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ سعید حلیم پاشا، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے، ترکی کے عظیم مفکر اور مصلح تھے۔ انھوں نے ترکوں کو جمود سے نکال کر شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کی کوشش کی لیکن سلطانی استبداد اور مُلائی جمود نے ان کی کوششوں کو بار آور نہ ہونے دیا۔ وہ مشرق و مغرب کی فکر کا موازنہ کرتے ہیں اور دونوں کی خوبیوں اور کمزوریوں سے خبردار کرتے ہیں اور ان کے عمدہ اور صالح عناصر کو سراہتے بھی ہیں ۔ ترکوں کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہیں اور مسلمانوں کی توجہ ’’عالم قرآنی‘‘ کی طرف مبذول کراتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ افرنگیوں کا شعلہ اب ’’نم خوردہ‘‘ ہو چکا ہے۔ افغانی، زندہ رود کو عالمِ قرآنی کے ’’محکمات‘‘ یعنی قرآن حکیم کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں اور وہ محکماتِ عالمِ قرآنی حسب ذیل ہیں: (الف) خلافتِ آدم (ب)حکومتِ الٰہی (ج) ارض ملکِ خدا ہے (د) حکمت خیر کثیر ہے۔ ۱۔ خلافتِ آدم کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ وہ عشق کے اسرار میں سے ایک سرّ ہے ۔ وہ اللہ کا نائب ہے۔ وہی مرگ ، قبر، حشر، امام ، حرم ، کتاب و قلم ہے۔ مرد و عورت ہر دو خلیفۃ اللہ ہیں لہٰذا ان میں جوہری ذاتی فرق نہیں بلکہ عورت اس لحاظ سے برتر ہے کہ اس کے فرائض میں نسلِ آدم کو جاری رکھنا اور اس کی تربیت اور پرورش کرنا شامل ہے۔ ۲۔ حکومتِ الٰہی کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ بندئہ حق تمام دنیاوی مناصب سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ نہ وہ کسی کو غلام بناتا ہے اور نہ کسی کی غلامی قبول کرتا ہے۔ بندئہ حق آزاد ہوتا ہے ۔ ایک مسلمان کا ملک و آئین خدا داد ہے اور وہ اپنا نظام معاشرت اور قانونِ زندگی سب کچھ اللہ سے ہی حاصل کرتا ہے۔ اس کے ہاں خیر وشر، خوب و نا خوب ، تلخ و شیریں سب کچھ اللہ کا عطا کردہ ہوتا ہے۔انسان کی عقل خود بیں و خود غرض ہے۔ اگر کسی کو دوسرے کے لیے قانون سازی کا حق دے دیا جائے تو سب سے پہلے وہ اپنے ہی فائدے کو مدنظر رکھے گا، اس لیے قانون و حکومت کا اختیار صرف اللہ کو ہی سزاوار ہے۔ تیسرا اصول کہ ’’الارض للہ‘‘ (زمین خدا کی ملکیت ہے) میں یہ نکتہ بتایا جا رہا کہ دراصل اللہ ہی ساری کائنات کا مالک ہے۔ زمیندار زمین سے اپنا رزق تو حاصل کر سکتا ہے اور مرنے کے بعد اس میں دفن تو ہو سکتا ہے مگر اس پر قابض نہیں ہو سکتا ۔ الارض للہ میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے اور جو اس حقیقت سے انکار کرتا ہے تو کفر اس کا شعار ہے۔ محکماتِ قرآنی کا چوتھا اُصول سورئہ بقرہ کی آیت ۲۶۹ کا ترجمان ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جس کسی کو حکمت دی گئی اس کو گویا خیرِ کثیر دیا گیا ‘‘۔ حکمت کو جہاں بھی پائو ،حاصل کرو، حکمت اپنی علمی تاثیر کے اعتبار سے ایک گہری معرفت اور بصیرت بھی ہے۔ یہ پوری دنیا کی روشنی اور سرمایۂ اقوام بھی ہے۔ اس حکمت یا علم کے دورخ ہیں۔ اگر یہ حق کے ساتھ وابستہ ہو تو مقامِ پیغمبری ہے اور اگر حق سے غفلت برتے تو علم محض کافری ہے۔ محکماتِ عالمِ قرآنی کی تفصیل سے آگاہی کے بعد، زندہ رود نے افغانی سے کہا کہ ایسا دل کش عالم ہمارے ضمیر سے باہر کیوں نہیں نکلتا ؟ یعنی دنیا میں کہیں نظر کیوں نہیں آتا؟ ہمارے سامنے تو وہی فرسودہ عالم ہے جس میں ملتِ اسلامیہ آسودہ ہے۔ آخر ہوا کیا کہ کُردوتاتار کے دلوں سے سوز و عشق کہاں چلا گیا ۔ یوں لگتا ہے: یا مسلماں مُرد یا قرآں بمُرد! اس سوال کا جواب سعید حلیم پاشا یوں دیتے ہیں کہ دین اور قرآن کی تشریح کرنے والے ہی دراصل اس کے رسوائی کے ذمہ دار ہیں۔ اُن کے نزدیک ملائیت اور مذہبی پیشوائیت بھی اصل میں ملوکیت ہی کے مہرے ہیں۔ پاشا کی زبانی علامہ اقبال نے ملائیت کے شاخسانوں کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ ملاکی کافری کے ہاتھوں دین حق ، کفر سے بھی زیادہ رسوا ہے۔ افسوس کہ اس کو ر ذہن اور ہرزہ گرد کی تقاریر نے ملت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اہل کفر کا دین تو جدوجہد کی تدبیر و فکر پر مبنی ہے لیکن ملا کا دین اللہ کے نام پر فساد کرنا رہ گیا ہے۔ افغانی کہتے ہیں کہ اسلام ایک ایسا مستقل اور انقلاب آفریں دین ہے جس کی خوبیاں ہر زمانے میں واضح ہوتی رہیں گی۔ آج مشرق و مغرب ’’اسرارِ کتاب‘‘ سے بے خبری کی وجہ سے متذبذب ہے۔ اس کے بعد افغانی ملتِ روسیہ کے نام ایک پیغام دیتے ہیں: تم لوگوں نے دستور کہن یعنی ملوکیت کو اپنے ملک سے ختم کر دیا اور نئے نظام کی بنیاد ڈالی ہے۔ تم نے بھی مسلمانوں کی طرح قیصریت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ہماری داستان سے عبرت حاصل کرو اور ہماری طرح دوبارہ اس لعنت میں گرفتار مت ہونا۔ آیندہ کبھی اس لات و ہبل کا طواف مت کرنا۔ اگر حق و صداقت کے طالب ہو تو لا کی منزل سے باہر نکلو ۔ حقیقی زندگی صرف راہِ ثبات یعنی الا اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ تم ایک عالمگیر نظام قائم کر نے کے آرزو مند ہو ۔ کیا تم نے اس کی کوئی محکم اساس بھی دریافت کی ہے؟ قرآنی ہدایت کے بغیر حکمرانی محض عیاری و مکاری ہے اور قرآنی فقر اصل شہنشاہی ہے۔ تم نے تمام سابقہ نظریات کو باطل قرار دے کر بہت اچھا کیا۔ اب آئو اور اپنی عقل کو اس کتاب سے جو تمام علوم کا سر چشمہ ہے، روشن کر لو ۔ اسی کی ہدایت سے عربوں کو وہ غیر معمولی طاقت ملی جس کی بدولت انھوں نے دنیا سے ملوکیت کا خاتمہ کر دیا۔ مغرب کی سیاست اور طرز حکومت عیاری و مکاری ہے۔ اس کے بجائے مخلصانہ اور ایماندارانہ طرز حکومت اختیار کرو۔ قرآن سرمایہ داروں کے لیے پیام موت اور محتاجوں کے لیے ضامنِ حیات ہے۔ اس نے کاہن اور پاپائیت کے وجود کو مٹا دیا ہے۔ قرآن کے سلسلے میں میرے دل میںجو بات پوشیدہ ہے وہ میں صاف طور سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ محض کتاب نہیں بلکہ چیزے دیگری ہے۔ یعنی دوسری مذہبی کتب کی طرح محض عقائد و رسوم کا مجموعہ نہیںبلکہ کتاب انقلاب ہے۔ رومیؒ ، افغانی اور پاشا کی گفتگوئیں سن کر رو پڑتے ہیںاور زندہ رود سے آتش افگن اشعار پڑھنے کی فرمایش کرتے ہیں۔ زندہ رود ، مرشدِ رومیؒ کو جو غزل سناتے ہیں اس میں تعلیمی درس گاہوں کی مقلدانہ ذہنیت ، صوفیہ کا عدمِ سوز و ساز و تصفیۂ باطن اور مسلمانوں کے افتراق و نفاق کا ذکر ہے۔ فلکِ زہرہ : فلکِ زہرہ کی تمہید میں ظلمت اور تاریکی کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ پیر رومیؒ چو نکہ میرے مسلک سے آگاہ ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ میں ہر وقت گرمِ سفر رہتا ہوں، اس لیے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آگے چلنا چاہتے ہو ؟ تو دیکھو ! سامنے فلکِ زہرہ ہے۔ یہ عالم ، آب و خاک سے مرکب ہے، سیاہ غلاف میں ملفوف اس کی فضا تاریک ہے۔ چاروں طرف کُہر و دُھند چھائی ہوئی ہے ۔ اس خطے میں خدایانِ کہن قیام پذیر ہیں۔ میں ان سب کو پہچانتا ہوں ، بعل ، مردوخ ، یعوق، نسر و فسر وغیرہ ۔ رومی کی معیت میں دریائے قیر(کول تار) کو عبور کرنے کے بعد بمشکل کوہسار تلک پہنچے جہاں کی وادی میں پہلا منظر خدایانِ اقوام کہن کی مجلس ہے جن کے بعض نام حقیقی اور بعض تخیلاتی ہیں۔ ان قدیم خدائوں میں سے ہر ایک اپنے از سرِ نو زندہ ہو جانے کے امکان پر ثبوت لا رہا ہے ۔ دنیا کی قدیم ترین قوم فنیقیوں کا سب سے بڑا معبود ’’بعل‘‘ جو دنیا کا قدیم ترین دیوتا بھی ہے، اسے علامہ اقبال نے سب باطل خدائوں کا نمایندہ بنایا ہے، چنانچہ وہ تمام اقوام کے خدائوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ عہد بے خلیل اور بے بُت شکن ہے ۔ یقین کی جگہ افکار پریشاں اور تشکیک نے لے لی ہے۔ مسلمانوں کی وحدتِ ملی پارہ پارہ ہو چکی ہے ۔ ہمیں اسلام سے اب کوئی اندیشہ نہیں رہا۔ اس موقع پر ضربِ خلیلی سے بہرو ور رومیؒ ایک غزل پڑھتے ہیں تو تمام ’’خدایانِ کہن‘‘ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بعد رومیؒ اور اقبال دنیا کے دو فرعونوں کی روحوں کو زہرہ کے ایک دریا کی تہہ میں دیکھتے ہیں، مصر کارعمیسس ، جس نے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کو نیست و نابود کرنا چاہا لیکن خُود بحرِ قلزم کی طوفانی موجوں کا شکار ہو گیا۔ دوسرا فرعون برطانوی استبداد کا نمائندہ لارڈ کشنر(کچنر) تھا جس نے سوڈانی مسلمانوں پر بے پنا مظالم ڈھائے،ان دونوں کا انجام سمندر میں غرقابی تھا۔ مولانا روم ؒ اور اقبال دونوں سمندر میں قدم رکھتے ہیں تو سمندر اپنا سینہ کھول دیتا ہے۔ فرعون اور کچنر حیرت سے تکتے رہ جاتے ہیں۔ فرعون ان سے پوچھتا ہے کہ ’’آخر سمندر کی تہہ میں یہ جوئے نور ، یہ صبح کیسے پیدا ہوئی؟ رومی اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ وہ نور ہے جس کی بدولت ہر پنہاں شے ظاہر ہو جاتی ہے ۔ اس نور کی اصل یدِ بیضا ہے۔ حضرتِ موسیٰ ؑکی قوتِ نبوت !! فرعون اپنی فرعونیت اور ملوکیت کے انجام پر آنسو بہا رہا ہے اور دل میں یہ حسرت لیے بیٹھا ہے کہ اب اگر میں حضرتِ موسیٰ ؑسے دوبارہ مل سکوں تو بلاشبہ ان پر ایمان لائوں گا۔ سوڈان کی تحریک حُریت کے سالار اور عظیم عرب مجاہد محمد احمد المعروف مہدی (۱۸۴۴ء ۔۱۸۸۵ئ) نے چونکہ انگریزوں کو پے در پے شکستیں دیں اور سوڈان کو آزاد کرایا تھا اس لیے مہدی کی وفات کے بعد برطانیہ نے سوڈان پر دوبارہ قبضے کے لیے لارڈ کچنر (۱۸۵۰ء ۔ ۱۹۱۶ئ)کو جو مصر میں برطانوی افواج کا سپہ سالار تھا، سوڈان پر حملے کا حکم دیا۔ کچنر نے سوڈانی کے جانشین عبداللہ کی افواج کو شکست دی۔ اس نے انتقاماً مہدی سوڈانی کی قبر کھدوا کر اس کی ہڈیاں سمندر میں بہا دیں۔ مکافاتِ عمل یوں ہوا کہ پہلی جنگِ عظیم میں جرمنوں نے کچنر کے بحری جہاز کو بحرِ قلزم میں غرق کر دیا اور اس کی لاش تک نہ ملی۔ رعمیسس ، کچنر سے کہتا ہے کہ افسوس ہے اس قوم پر جس نے لعل و گہر کے لالچ میں فراعنۂ مصر کی قبریں کھود ڈالیں اور ان کی لاشوں کو اپنے عجائب خانوں کی زینت بنا دیا۔ کچنر فرعون سے کہتا ہے کہ مصر میں آثار قدیمہ کی جو کھدائی ہو رہی ہے، اس کا مقصد زر و جواہر سمیٹنا نہیں بلکہ علم و حکمت اور تاریخی انکشافات کے ذریعے قدیم اقوام کے حقائق و حالات کو سامنے لانا ہے۔ فرعون اس کا جواب دیتا ہے: قبر ما را علم و حکمت برکشود لیکن اندر تربتِ مہدی چہ بود؟ (چلو میری قبر تو علم و حکمت کی خاطر کھودی گئی لیکن مہدی سوڈانی کی قبر میں کیا تھا ، تو نے اس کی قبر کو کیوں کھدوایا؟) ظاہر ہے کچنر کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ عین اس لمحے گُلشنِ جنت سے درویش مہدی سوڈانی کی روح اُترتی ہوئی آتی ہے اور کچنر سے مخاطب ہوتی ہے: اے کچنر ! اگر تجھ میں کچھ سمجھ ہے تو دیکھ ! تونے ایک مرد مومن کی نعش کی بے حرمتی کی تھی۔ خدا نے مرنے کے بعد تجھے قبر ہی نصیب نہیں کی۔ فلکِ مریخ: فلکِ زہرہ سے شاعر اپنے مرشد کے ساتھ فلکِ مریخ میں پہنچتے ہیں جہاں کے شب و روز کرئہ ارض سے یکسر مختلف ہیں۔ یہاں زندہ رود کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوتی ہے جس کی داڑھی برف کی مانند سفید تھی۔ اس کی آنکھوں میں فکر جھلکتی تھی۔ چہرے مُہرے سے وہ کوئی مغربی مفکر لگتا تھا ۔ اس نے دونوں مسافروں سے فارسی زبان میں گفتگو کی تو زندہ رود بہت حیران ہوا۔ اس بزرگ نے بتایا کہ وہ نہ صرف انجم شناس ہے بلکہ اسے کرئہ ارض سے پوری واقفیت ہے۔ اس حکیم مریخی نے دونوں کا تعارف چاہا تو رومی نے کہا کہ اُن کا تعلق تو عالمِ علوی سے ہے لیکن ان کا رفیقِ سفر کرئہ ارض کا باشندہ ہے اور اس کے مزاج کی کیفیت یہ ہے کہ بغیر شراب پیے مست ہے یعنی اس کا مسلک قلندرانہ ہے۔ اس کا نام زندہ رود ہے اور تحقیق و جستجو اس کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ یہ جلوہ ہائے نو بہ نو کی تلاش میں ادھر آ نکلا ہے۔ حکیم مریخی اس علاقہ کا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے: یہ مرغدین برخیا کا علاقہ ہے اور برخیا ہمارے مورثِ اعلیٰ (آدم) کا نام ہے۔ فرز مرز جو برائی کا حکم دیتا ہے، برخیا سے ملنے کے لیے بہشت میں گیا اور ابلیس کی طرح برخیا کو بہکانے لگا لیکن برخیا اس کے بہکاوے میں نہ آیا ۔اس کی ثابت قدمی کے انعام کے طور پر خالق نے اس کو اور اس کی نسل کو مرغدین کا خطہ عطا کیا۔ مرغدین کی سیر کے دوران مسافروں نے دیکھا کہ اس شہر کی عمارات بہت بلند ہیں۔ اس کے باشندے خوبرو ، نرم خو ، سادہ پوش اور شیریں مقال ہیں۔ وہ آفتاب کے نور سے کیمیا سازی کے ذریعے حسب ضرورت زر و مال حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کے ہاں علم و فن کا مقصد دولت کا حصول نہیں بلکہ تمام لوگوں کی خدمت ہے۔ وہ درہم و دینار کے پُجاری ہیں نہ مشینوں کے غلام ۔ وہاں کوئی جاگیردار ہے نہ ہی سرمایہ دار ۔ کسان مسرور شاد مان ۔ وہاں پولیس ، افواج ، اسلحہ ، جنگ وجدل ، کذب و دروغ پہ مبنی ادب و صحافت ، بیکاری و عریانی ، سوال و سائل ، حاکم و محکوم ، آقا و غلام ، سب عنقاہیں ۔ غرضیکہ اقتصادی ، سیاسی ، سماجی اعتبار سے مرغدین کا معاشرہ بھی برطانوی ادیب تھامس مور ( ۱۵۳۵ئ) کے سفر نامے ’’یوٹوپیا‘‘ کا سا ایک یوٹوپیائی ، مثالی اور آئیڈیل معاشرہ ہے۔ اقبال کے نزدیک ایک فلاحی اسلامی ریاست کا معاشرہ ایسا ہی ہوتا ہے جس کی تصویر کشی مرغدینی معاشرے کی صورت میں کی گئی ہے۔ وہ اس بات پہ حیران ہیں کہ حاکم و محکوم اور امیری و غریبی کی تفریق تو تقدیر الٰہی ہے۔ یہاں اقبال اور حکیمِ مریخی کے درمیان جبر و قدر (تقدیر اور تدبیر) پر مکالمہ ہوتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں: سائل و محروم تقدیر حق است حاکم و محکوم تقدیر حق است جز خدا کس خالقِ تقدیر نیست چارئہ تقدیر از تدبیر نیست حکیم مریخی کہتا ہے: اے زندہ رود! یہ تیری کوتاہ بینی اور غلط فہمی ہے کہ تدبیر سے تقدیر نہیں بدل سکتی۔ اگر تو غور سے دیکھے تو تجھے معلوم ہوگا کہ تدبیر کرنا بھی تقدیر الٰہی سے ہے یعنی جس خدا نے ہماری تقدیر بنائی ہے۔ اسی خدا نے تدبیر کا بھی حکم دیا ہے۔ اگر ایک تقدیر مناسب حال نہ ہو تو خدا سے دوسری تقدیر طلب کرو کیونکہ خُدا کی تقدیریں لا محدود اور بے انتہا ہیں۔ اگر تم بدل جائو گے تو تقدیر بھی بدل جائے گی۔ تو اگر دیگر شوی او دیگر است ۔ اگر تم مٹی بنو گے تو ہوا میں منتشر ہو گے ۔ پتھر بنو گے تو شیشہ شکن ہو گے۔ شبنم ہو تو ٹپکنا تمھاری تقدیر ہو گی اور سمندر بنو تو پایندگی اور پایداری تمھاری سرنوشت ہو گی۔ جو دین یہ تعلیم دے کہ تقدیر معین ہے اور عمل بے کار ہے، وہ جادو ہوگا یا قرصِ افیون، مگر اسے دین کا نام سزاوارنہ ہو گا۔ اس کے بعد زندہ رود اور رومیؒ ، شہر مرغدین سے گزر کر ایک ایسے وسیع میدان میں پہنچتے ہیںجہاں مردو زن جمع ہیں اور ایک عورت ان سے خطاب کر رہی ہے۔ وہ یوں توبہت حسین و جمیل ہے مگر اس کا دل سوز وگداز سے خالی ہے۔ اس کا سینہ جوش جوانی سے محروم ہے اور وہ عشق اور آئین عشق سے بے خبرہے ۔ یہ عورت مرد کی صحبت سے گریزاں ہے اور ازدواج کے تعلق کو غلط اور ناراست سمجھتی ہے۔ یہ عورتوں کو مردوں سے باغی ہونے کی تبلیغ کر رہی ہے۔ شادی سے بچنے کی ترغیب دے رہی ہے اور ماں بننے کی مصیبتوںپر واویلا کر رہی ہے۔ حکیم مریخی کے مطابق یہ مریخی عورت نہیں بلکہ فرنگ سے تعلق رکھتی ہے ۔ فرز مرز (ابلیس) اسے وہاں سے اٹھالایا ۔ اب یہ عورت خاتمِ نبویہ کی مدعی ہے۔ اس کی تبلیغ صرف مادیت اور جسم تک محدود ہے۔ یہ عورت کہہ رہی ہے کہ اب تو وہ وقت آ چکا ہے کہ رحم مادر میں جنین کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے لہٰذا اب ہم اپنی مرضی کے مطابق لڑکے یا لڑکیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر بچہ ہماری مرضی کے مطابق نہ ہو تو اسے قتل کرنا عین مذہبی فریضہ ہے۔ بلکہ اب تو زمانے نے بہت ترقی کر لی ہے اور ماں کے رحم سے بے نیاز رہتے ہوئے مشینوں کے ذریعے بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ دراصل مغربی عورت کی تمثیل ہے۔ اقبال نے ایک تجرد پسند عورت کی زبان سے جو ’’نبیۂ مریخی‘‘ ہونے کی دعوے دار ہے ، یورپ کی عورتوں کی بے راہروی پر تنقید کی ہے۔ مولانا روم کہتے ہیں کہ یہ عورت اس لادینی تہذیب کا نمونہ ہے جو جذبۂ عشق سے محروم ہے۔ جب تک عشق نہ ہو دین بے اثر ہو جاتا ہے اور جب تک دین کی اساس نہ ہو تہذیب کی تعمیر ناممکن ہے: زندگی را شرع و آئین است عشق اصل تہذیب است دیں ، دین است عشق علامہ اقبال ، دنیا میں جس قسم کے معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے خواہاں تھے مرغدین کا شہر ایک ایسا ہی مثالی شہر ہے۔ فلک مشتری: شاعر اپنے مرشد رومیؒ کے ساتھ فلکِ مشتری پر جاتے ہیں جو ایک نا تمام خاکدان ہے۔ اس کے گرد قمر طواف کرتے ہیں۔ وہاں ان کی ملاقات اسلام کی تین ایسی جلیل القدر ’’ملحدین اور زندیقین ‘‘ ہستیوں سے ہوتی ہے جو اپنے آدرشوں میں سچی اور کھری تھیں ۔ انھوں نے سُرخ عبائیں پہن رکھی تھیں ۔ سوزِ دروں سے ان کے چہرے تابناک تھے اور ان کے سینوں میں فروزاں آگ زندگی کی علامت تھی ۔ شہیدِ صداقت ہو کر عشق کو لازوال روحانیت بخشنے والی یہ عظیم ہستیاں تھیں : حسین بن منصور حلاج ، غالب اور قرۃ العین طاہرہ۔ فلکِ مشتری سعادت کی وجہ سے ’’السعد الاکبر‘‘ کہلاتا ہے ۔ علامہ اقبال نے ان تین عاشقان جلیل کو بود و نبود ، تقدیر ، انبیا اور ابلیس کے عمیق ترین اسرار و رموز کے بارے میں گفتگو کرتے دکھایا ہے جس میں زیادہ تر گفتگو حلاج کی زبانی ہے۔ علامہ کی نظر میں ہر سہ افراد کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا، اس لیے انھوں نے ان کی ارواح کو ’’ارواحِ جلیلہ‘‘ کا لقب دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ان کی ارواح نے جنت میں رہنا پسند نہیں کیا بلکہ ’’گردشِ جاوداں‘‘ اختیار کی۔ فلکِ مشتری پر دو موضوع خصوصی دلچسپی کے حامل ہیں۔ ایک مقام نبوت اور دوسرا ابلیس بحیثیت واحد حقیقی پرستارِ حق۔ حسین بن منصور حلاج کو عشقِ الٰہی کے ناقابل بیان راز فاش کرنے یعنی ’’اناالحق‘‘ کہنے کے جرم میں ۲۶ مارچ ۹۲۲ء کو بغداد میں بڑی بے رحمی سے نذرِ دار کر دیا گیا۔ اس کے نظریہ ’’ ہُوہُو‘‘ کے معنی ہیں کہ انسان ہستی باری کا زندہ ناظر و شاہد ہے۔ اس کے ’’انا الحق‘‘ کے عمیق تر مفہوم کو کوئی صوفی و فقیہ نہ سمجھ سکا۔ کسی زمانے میں اقبال بھی حلاج کے خیالات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر بعد میں اس شہید عشق کے گہرے اسرار کی حقیقت معلوم ہوئی تو انھیں اپنے اور حلاج کے افکار میں کافی مشابہت نظر آئی ۔ اقبال نے حلاج میں زندہ ایمان کا ایک عظیم مظہر پا لیا تھا۔ اُسے وہ ایک ایسی طائر روح قرار دیتے ہیں جو ہمیشہ برسر پرواز رہتی ہے۔ اقبال کے نزدیک حلاج حرکت کا نمایندہ ہے۔ قرۃ العین طاہرہ ایران کے بابی فرقے کی ذہین ترین عالمہ اور شیریں شاعرہ تھی۔ اسے تہران میں ۱۸۵۴ء میں گلا گھونٹ کر ہلاک تو کر دیا گیا مگر اس کی روح ، ارادے اور عشق کا گلا نہ گھونٹا جا سکا۔ طاہرہ کہتی ہے کہ صاحبانِ جذب و جنوں کا ’’گناہ‘‘ نئے انقلابات کو جنم دیتا ہے۔ دار ور سن ہی ان کا مقدر ہے۔ وہ کوئے یار سے زندہ واپس کب آئے۔ پہلے حلاج عالمِ بے خودی میں ایک غزل گاتا ہے۔ یہ پیام مشرق کی غزلوں میں سے ایک غزل ہے اور وجہ انتخاب یہ ہے کہ یہ غزل حلاج کے مسلک کی آئینہ دار ہے۔ حلاج کا مسلک یہ ہے کہ خدا تو خود تمھارے دل میں پوشیدہ ہے، اس لیے تم اسے باہر ڈھونڈنے کے بجائے اپنے اندر تلاش کرو: ز خاکِ خویش طلب آتشی کہ پیدا نیست تجلی دگرے در خورِ تقاضا نیست وہی بات کہ اگر تجلی کی خواہش ہے تو دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے اندر جھانکو۔ غالب کی نغمہ سرائی اس کے جذبات اور نفسیاتی کیفیات کی مظہر ہے۔ کہتے ہیں: ’بیا کہ قاعدئہ آسماں بگردانیم قضا بگردشِ رطلِ گراں بگردانیم‘ کہتے ہیں کہ آئو ،آسمان کا قاعدہ بدل دیں۔ ’’گردشِ رطلِ گراں ‘‘ یعنی مسلکِ عشق کی پیروی کی بدولت قضا کو بدل دیں۔ غالب نے اس غزل میں ہمیں ملوکیت کے خلاف بغاوت پر اکسایا ہے اور انقلاب کی دعوت دی ہے اس لیے اقبال نے اس غزل کو جاوید نامہ میں جگہ دی۔ اس کے بعد ’’نوائے طاہرہ ‘‘ ہے جو عاشق صادق کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ ہر مسلمان طاہرہ کی طرح عشق صادق اختیار کرے جس نے اپنے نصب العین کے لیے جان قربان کر دی۔ طاہرہ کو اپنے مسلک سے عشق تھا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنے مقصدِ حیات سے باز نہ رکھ سکی۔ طاہرہ کی استقامتِ عشق کی یہی روش اقبال کو پسند تھی۔ طاہرہ کہتی ہے: گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ ، رُو برو شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ ، مو بہ مو از پی دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام خانہ بخانہ ، در بدر ، کوچہ بکوچہ ، کوبکو میرود از فراق تو خونِ دل از دو دیدہ ام دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ ، جو بجو مہر ترا دل حزیں بافتہ برقماشِ جان رشتہ برشتہ ، نخ بہ نخ ، تار بہ تار ، پو بہ پو دردِ دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا صفحہ بہ صفحہ ، لا بہ لا ، پردہ بہ پردہ ، تو بتو اے میرے محبوب ! اگر مجھے تیری حضوری نصیب ہو جائے تو میں اس غم کی وضاحت کروں جو تیری جدائی سے مجھے لاحق ہوا۔ میں تیرے دیدار کی خاطر خانہ بخانہ اور کو بہ کو ماری ماری پھر رہی ہوں ۔ تیرے فراق میں میرے دل کا خون میری آنکھوں سے دجلہ کی طرح بہہ رہا ہے۔ تیری محبت اور میری جان میں وہی علاقہ ہے جو تانے بانے میں ہوتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب دل کی خوب سیر کی مگر ہر صفحہ اور ہر سطر میں تیرا ہی نام لکھا دیکھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ ان عشاق باصفا کی گفتگو سن کر میرے دریائے فکر میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔یہ حالت دیکھ کر رومیؒ نے مجھ سے کہا کہ ان مشکلات کے حل کرنے کا یہ زریں موقع ہے۔ اس لیے تو ان ارواحِ بزرگ کے سامنے اپنے سوالات پیش کر۔ چنانچہ زندہ رود حلاج سے پہلا سوال کرتا ہے: از مقامِ مومناں دوری چرا؟ یعنی از فردوس مہجوری چرا؟ (تو مقامِ مومناں سے دور کیوں ہے اور جنت میں تیرا قیام کیوں نہیں؟) حلاج نے اس سوال کے جواب میں ملا اور عاشق کی ذہنیت کا فرق بیان کیا ہے: ’عاشق کسی جگہ خواہ وہ جنت ہی کیوں نہ ہو، مستقل طور سے قیام پذیر نہیں ہو سکتا۔ جس پر اچھائی اور برائی واضح ہو، جو نیکی اور بدی میں تمیز کر سکتا ہو، اسے بھلا کب جنت کی پروا ہوتی ہے۔ مُلا کی جنت حُور و غلماں تک محدود ہوتی ہے اور عاشق کی جنت سیر دوام اور تماشائے وجود ہے‘۔ اس کے بعد علم اور عشق میں موازنہ کیا ہے اور یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ عشق کی بدولت ایک فانی انسان جاودانی صفات کا حامل بن جاتا ہے ۔ زندہ رود دوسرا سوال کرتا ہے: گردشِ تقدیر ، مرگ و زندگی است کس نداند گردشِ تقدیر چیست؟ اس کے جواب میں حلاج تقدیر کا فلسفہ اور جبر کا مفہوم واضح کرتے ہوئے کہتا ہے: ’جو شخص تقدیر پختہ یقین رکھتا ہے، اس میں اس قدر طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ابلیس اور موت سے نہیں ڈرتا ۔ صاحب ہمت ، مجبوری کو بھی مختاری بنا لیتا ہے جبکہ بے ہمت سراپا مجبوری بنا رہتا ہے‘۔ زندہ رود تیسرا سوال یہ کرتا ہے کہ ’’آخر گناہ تو چہ بود؟‘‘ ۔ اس کے جواب میں حلاج خودی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اپنے ’’گناہ‘‘ کی وضاحت یوں کرتا ہے: ’جب میں نے اپنے عہد کے مسلمانوں کو دیکھا تو یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی کہ وہ توحید الٰہی کا اقرار تو کرتے ہیں مگر عملاً کفار میں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ میں نے اپنے اندر کی آگ کو روشن کیا اور مردوں کو اسرار حیات بتاتا رہا ۔ جو شخص خودی کی آگ سے اپنا حصہ نہیں لیتا یعنی اپنی مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر زمان و مکان پر غالب نہیں آتا، وہ اس دنیا میں اپنے سے بے گانہ ہی رہ کر مرتا ہے۔ میں نے انھیں نور (خودی) اور نار (مادیت) کے حقائق بتائے، بس یہی میرا گناہ ہے‘۔ طاہرہ حلاج کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہے: ’عاشق اگر گناہ بھی کرتا ہے تو اس میں خلقِ خدا کے لیے خیر کاپہلو پوشیدہ ہوتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عاشق اپنے عہد کے ضمیر میں پوشیدہ ہو جاتا ہے‘۔ اب زندہ رود ، غالب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: بلاشبہ تجھے قدرت نے ’’درد جستجو‘‘ عطا کیا ہے، تو عمر بھر حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہا، اے جویائے حقیقت ! تو اپنے اس شعر کا مطلب مجھے سمجھا دے۔ قمری کفِ خاکستر و بلبل قفس رنگ ای نالہ نشان جگر سوختہ ئی چیست؟ (قمری نالہ کرتی ہے تو اس کی آگ میں جل کر خاک ہو جاتی ہے اور بلبل بھی نالہ کرتی ہے مگر وہ خاکستر ہونے کے بجائے گلہائے رنگا رنگ پر نغمہ سرائی کرتی ہے۔ اے نالہ !در حقیقت تیری تاثیر کیا ہے اور میں تیرا اثر کہاں کہاں تلاش کروں) غالب جواب دیتا ہے:عاشق کا نالہ متضاد کیفیات کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی مرگ میں حیات پوشیدہ ہوتی ہے۔۔۔ اے زندہ رود ! تو اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ اس جہاں رنگ و بو میں بقدر شدتِ نالہ ، فیض الٰہی سے حصہ ملتا ہے۔ اگر تو نالے کی حقیقت اور تاثیر سے آگاہ ہونا چاہتا ہے تو ان دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کر۔ یا عشق مجازی اختیار کر یا عشق حقیقی ۔ بہر صورت تیرے جگر میں سوز پیدا ہو جائے گااور نالے کی حقیقت تجھ پر منکشف ہو جائے گی: اب زندہ رود غالب سے ایک مشکل سوال دریافت کرتا ہے کہ: صد جہاں پیدا دریں نیلی فضاست ہر جہاں را اولیا و انبیا است یعنی زیر آسماں واقع اس کائنات میں سیکڑوں جہاں ہیں، تو کیا ہر جہاں میں اولیا اور انبیا پائے جاتے ہیں؟ غالب کہتا ہے: نیک بنگر اندریں بود و نبود پی بہ پی آید جہانہا در وجود ’ہر کُجا ہنگامۂ عالم بود رحمتہ للعالمینی ہم بود!‘ ’خوب غور سے دیکھو تو معلوم ہوگا کہ کار آفرینش ختم نہیں ہوا۔ نئے جہاں ہر لحظہ وجود پذیر ہو رہے ہیں اور ہر جہاں میں ایک رحمت للعالمین ہوتا ہے‘۔زندہ رود اس جواب سے مطمئن نہیں ہوتا اور کہتا ہے: فاش تر گو زانکہ فہمم نارسا ست تو غالب کہتا ہے: ایں سخن را فاش تر گفتن خطاست زندہ رود کہتا ہے: گفتگوی اہلِ دل بے حاصل است؟ غالب: نکتہ را برلب رسیدن مشکل است! جب حلاج نے دیکھا کہ زندہ رود اپنے سوال کے جواب پر اصرار کر رہا ہے اور غالب مصلحتاًجواب سے پہلو تہی کر رہا ہے، تو اس سے ضبط نہ ہو سکا، اس لیے وہ مداخلت کرتا ہے اور شاہد معنی کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ یہاں حلاج کی زبان سے اقبال نے جو نعتیہ اشعار کہلوائے ہیں، ان کی نظیر عالمِ اسلام میں شاید ہی ملے: ہر کجا بینی جہان رنگ و بو آنکہ از خاکش بروید آرزو یاز نور مصطفیؐ او را بہاست یا ہنوز اندر تلاش مصطفیؐ است ’یعنی زیر فضائے نیلگوں جس قدر عوالم بھی فرض کیے جائیں سب کے سب اپنی قدر و قیمت کے لیے آپ ﷺ کے محتاج ہیں۔ ہر جہاں رنگ و بو میں جہاں بھی آرزو پنپ رہی ہو، اسے یا تو نور مصطفیﷺ سے رونق و بہار مل رہی ہو گی یا وہ ابھی تلاش مصطفی ﷺ کی منزل میں ہوگا‘۔ حلاج کی کشفِ حقائق پر آمادگی دیکھ کر زندہ رود ایک اہم ترین سوال کرتا ہے: از تو پرسم گرچہ پرسیدن خطاست سِرّ آں جوہر کہ نامش مصطفیؐ است اگرچہ یہ دریافت کرنا ہے تو خطا مگر یہ فرمائیے کہ جس جوہر کا نام مصطفی ﷺ ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ جواباً حلاج نہایت لطیف پیرائے میں نبی کریم ﷺ کی تعریف کرتا ہے اور عبدہٗ کے معنی کا انکشاف کرتا ہے۔ علامہ اقبال کے یہ اشعار بلاشبہ حلاج کی ’’کتاب الطواسین‘‘ کے زیر اثر لکھے گئے ہیں، ان میں ایک طرح کی ’’سرّیت محمدیہ ﷺ‘‘ کی تعلیم دی گئی ہے ۔ حلاج عبدہٗ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے: پیش او گیتی جبیں فرسودہ است خویش را خود عبدہٗ فرمودہ است عبدہٗ از فہمِ تو بالا تر است زانکہ او ہم آدم و ہم جوہر است جوہرِاو نی عرب نی اعجم است آدم است و ہم ز آدم اقدم است عبدہٗ صورت گر تقدیر ہا اندر و ویرانہ ہا تعمیر ہا عبدہٗ ہم جاں فزا ہم جاں ستاں عبدہٗ ہم شیشہ ہم سنگ گراں عبد دیگر عبدہٗ چیزی دگر ما سراپا انتظار او منتظر عبدہٗ دہراست و دہر از عبدہٗ است ماہمہ رنگیم او بی رنگ و بو ست کس ز سر عبدہٗ آگاہ نیست عبدہٗ جز سِرّ الاّاللّٰہ نیست لااِلٰہ تیغ و دم او عبدہٗ فاش تر خواہی بگو ہو عبدہٗ مدّعا پیدا نگردد زیں دوبیت تا نہ بینی از مقام مَارَمَیت اے زندہ رود ! سرکار کی شان یہ ہے کہ زمانہ آپ ﷺ کے سامنے حبیں سائی کرتا ہے۔ لیکن وہ اپنے آپ کو عبدہٗ کہتے ہیں۔ عبدہٗ کے معنی تیری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ وجود مطلق کا تعیّنِ اوّل ہونے کی حیثیت سے آپ ﷺ مخلوق ہیں۔ آپ ﷺ آدم بھی ہیں اور جوہر بھی ہیں۔ یعنی آپ ﷺ میں ناسوتی شان کے ساتھ ساتھ لا ہوتی شان بھی پائی جاتی ہے۔ آپ ﷺ کا جوہر یعنی آپ ﷺ کی حقیقت تمام مادی یا جسمانی علائق سے بالاتر ہے۔ اس کی جلوہ گری نے فرشتوں کو حیرت زدہ کر رکھا تھا۔ اُن کا سینہ اس تجسّس کی آگ سے پُر سوز تھا کہ یہ کس نور کا جلوہ ہے جو آدم کی پیدایش سے بہت پہلے اپنی چمک سے آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔ اور اس وقت آدم کی آفرینش پانی اور مٹی کے مراحل میں تھی ۔ عبدہٗ تقدیر کا صورت گر ہے۔ اس کے اندر ویرانے بھی ہیں اور تعمیرات بھی ہیں۔ عبدہٗ جاں فزا بھی ہے اور جاں فشاں بھی ۔ شیشہ بھی ہے اور سنگ گراں بھی ۔ عبد اور ہے اور عبدہٗ اور۔عبداور عبدہٗ میں فرق یہ ہے کہ عبد، خدا کی توجہ کا منتظر رہتا ہے اور عبدہٗ کی شان یہ ہے کہ خود خدا یہ دیکھتا رہتا ہے کہ میرا بندہ (عبدہٗ) کیا چاہتا ہے؟ عبدہٗ دراصل دہر (زمان) ہے اور دہر، عبدہٗ ہے۔ عبدہٗ زمان و مکان دونوں کی قید سے بالاتر ہے ۔ اگر صاف لفظوں میں سمجھنا چاہو تو سنو! ’’ھو عبدہٗ‘‘ یعنی جسے عبدہٗ کہتے ہو وہ دراصل ھُو ہے گو یا ھُو ہی عبدہٗ ہے۔ اے زندہ رود ! جب تک تو عبدہٗ کو مقام ’’مارمیت‘‘(۔۔۔اور جب آپ ﷺ نے کنکریاں پھینکی تھیں تو آپ ﷺ نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ خود ہم نے پھینکی تھیں۔(۸:۱۷)کی طرف اشارہ ہے) سے نہ دیکھے تو حقیقت حال تجھ پہ منکشف نہیں ہوسکتی ۔ آخر میں حلاج زندہ رود کو نصیحت کرتا ہے کہ ان باتوں کا تعلق قال (گفتگو) سے نہیں ہے۔ اگر تو عبدہٗ کی حقیقت سے آگاہ ہونا چاہتاہے تو وجود میں غرق ہو جا یعنی ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل کر۔ اب زندہ رود ، حلاج سے ’’دیدار رسول ﷺ ‘‘کا سوال کرتا ہے۔ حلاج نے اس کاجواب یہ دیا: ’’نبی آخر الزماں ﷺ کے دیدار کا مطلب ہے آپ ﷺ کی اتباع کامل‘‘۔دیدار الٰہی کے سوال پر حلاج کہتا ہے: دیدار الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ سالک پہلے اپنے اندر خُدا کی صفات پیدا کرے پھر دنیا والوں کے سامنے ان صفات کا مظاہرہ کرے ۔ زندہ رود کا اگلا سوال تھا : نقش حق دنیا میں قائم کرنے کی کیا صورت ہے؟ حلاج نے جواب دیا : یا بزور دلبری یا بز ور قاہری ۔ یعنی یا تو درویشوں (بزرگانِ دین) کا طریقہ اختیار کرو یا بادشاہوں کے طرز عمل کی تقلید کرو۔ زاہد اور عاشق کے فرق کے جواب میں حلاج کہتا ہے :زاہد وہ ہے جو دنیا میں رہے اور علائق دنیا سے بیگانہ ہو جائے جبکہ عاشق کی یہی حالت عقبیٰ میں ہوگی۔ کیا معرفت کی انتہا نیستی ہے؟حلاج نے جواب دیا :’جو لوگ فنا کا مقصد زندگی سمجھتے ہیں وہ معرفت کے مفہوم سے قطعاً بیگانہ ہیں۔ معرفت تو وہ شخص حاصل کر سکتا ہے جو باقی رہے‘۔ زندہ رود و حلاج سے آخری سوال ابلیس کے بارے میں پوچھتا ہے۔ حلاج کہتا ہے :اس کا کیا ذکر کرتے ہو ؟ وہ اہل فراق کا سردار ہے۔ یعنی اس نے خدا سے مستقل طور پر دوری اختیار کر لی ہے۔ وہ تو محروم ازلی ہے۔ ہم سب جاہل اور وہ عارفِ بود نبود ہے ۔ یعنی آشنائے حقیقت ہے اور وجود و عدم کے اسرار سے آگاہ ! اگر عاشقی سیکھنا چاہتے ہوتو اس سے سبق سیکھو۔ اس نے اپنے مسلک سے انحراف نہیں کیا ۔ اس سے توحید کا درس لو۔ غرضیکہ غالب ، حلاج اور طاہرہ سے اقبال کی خوب گفتگو ہوتی ہے کہ اسی دوران ابلیس نمودار ہوتا ہے جسے اقبال نے ’’خواجۂ اہل فراق‘‘ کا نام دیا ہے۔ خواجۂ اہل فراق کوئی طنزی یا تحقیری لقب نہیں ہے بلکہ اقبال کے دل میں اس ’’کافر ثابت قدم اور شائق سوزِ فراق ‘‘ سے بہت ہمدردی ہے۔ انھوں نے اسے فلسفہ فراق کا مبلّغ بنا کر اس لیے پیش کیا ہے کہ خودی کے قیام کے لیے خدا کی ذات سے انسان کا فراق تا ابد ضروری ہے ۔ ابلیس کی گفتگو میں ایسی بہت سی باتیںہیں جو اقبال کے فلسفۂ خودی اور نظریۂ ارتقا کا اہم جزو ہیں۔ ’’نالۂ ابلیس ‘‘ میں ابلیس گلہ کرتا ہے کہ اب ابن آدم میں میرا کوئی شکار ہی نہیں رہا۔ اگر مجھے اتنا بڑا ابلیس بنایا تھا تو میرا منکر بھی ایسا بنایا ہوتا جو میری گردن توڑ سکتا ۔ یہ آج کا انسان کیا ہے کہ میں اسے جس طرف چاہوں، لیے پھرتا ہوں۔ خدا سے ابلیس التجا کرتا ہے: اے خدا یک زندہ مرد حق پرست لذتے شاید کہ یا بم در شکست اے خدا مجھے ایسا حق پرست دے جسے دیکھ کر میں لرزہ براندام ہو جائوں جو مجھے شکست کی لذت سے دوچار کر سکے۔ فلکِ زحل : اگلی منزل فلکِ زحل کی ہے۔ اس فلک کو ستارہ شناس نحسِ اکبر بتاتے ہیں ۔ یہاں غدارانِ وطن کو مبتلائے عذاب دکھایا گیا ہے: ۔ یہ عذاب کیا تھا؟ یوں سمجھیے ایک خون بھرا سمندر ۔ اس کے اندر اور باہر بھی طوفان ۔ اس کی فضا میں سانپ ایسے ہی تھے جیسے سمندر میں مگرمچھ ہوتے ہیں۔ ان پرواز کرتے سانپوں کے بازو سیاہ اور پر سفید تھے۔ اس سمندر کی موجیں چیتوں کی سی درندگی لیے ہوئے تھیں کہ ان کے خوف سے مگر مچھ ساحل پر ہی دم توڑ دیں ۔ ساحل ، سمندر سے مل گیا تھا اور ہر لحظہ چٹانیں سمندر میں جا گرتی تھیں۔ اس خون آلود سمندر کی موجیں متصادم تھیں اور ان کے بیچ ایک کشتی آفت و خیز میں مبتلا تھی۔ اس کشتی میں دو شخص بیٹھے ہوئے تھے ، ان کے چہرے زرد جسم عریاں اور بال پریشان تھے۔ یہ تھے میر جعفر اور میر صادق ۔ ان دو طاغوتوں کی وجہ سے ایک قوم فنا ہو گئی ۔ ان کا وجود آدم ، دین اور وطن کے لیے بلاشبہ باعثِ شرم ہے: جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگِ آدم ، ننگِ دیں ، ننگِ وطن پھر روحِ ہندوستان ایک حسین اور خوش لباس حور کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور اپنی غلامی پر نوحہ و فریاد کرتی ہے کہ اہل ہند جذبۂ حُب الوطنی سے بے بہرہ ہیں۔ وہ رسوم و قیود میں جکڑے ہوئے ہیں اور ملّی غیرت و خودی سے عاری ہیں۔ وہ تمام غداروں کی دہائی دیتی ہے: الاماں از روحِ جعفر الاماں الاماں از جعفرانِ ایں زماں یہ فریاداتنی درد ناک ہے کہ جہنم بھی ان غداروں کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے چنانچہ یہ غدار روحیں مایوسی و نا اُمیدی کے عالم میں کہتی ہیں: ایں جہاں بے ابتدا بے انتہا ست (گرچہ ہے بے ابتدا، بے انتہا اپنا جہاں) بندئہ غدار را مولا کُجا ست (لیکن اس میں بندئہ غدارکا مولا کہاں؟) اس کے بعد یکایک اس قلزم خونی میں ایک ہولناک طوفان برپا ہوتا ہے اور وہ کشتی اس میں غرق ہو جاتی ہے۔ آنسوئے افلاک : جاوید نامہ کی اگلی فصل ’’سوئے افلاک‘‘ ہے جہاں عالم بے جہات ہے۔ یہ مقام لیل و نہار اور قندیلِ ادراک سے آزاد اور حرف کے لبادے سے نا آشنا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ میں نے چھے روز میں کئی سو جہان دیکھ لیے یہاں تک کہ اس جہان کی حدود ختم ہو گئیں اور لا مکاں کی حد شروع ہو گئی۔ ہر جہان میں زندگی کا قانون مختلف ہے۔ وقت، ہر عالم میں دریا کی طرح بہتا چلا جاتا ہے۔ اس جہانِ چون و چند کی سرحد پر پہنچ کر میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مصروفِ نالۂ دردمند تھا۔ اس کی نگاہ عقاب سے بھی زیادہ تیز تھی۔ اس کی پیشانی سوزِ جگر کی گواہی دے رہی تھی ۔ اس کا سوزِ دروں ہر لحظہ بڑھتا جاتا تھا۔ میں نے مرشد رومیؒ سے پوچھا کہ یہ دیوانہ کون ہے؟ انھوں نے کہا یہ فرزانہ المانوی ہے۔ علامہ اقبال نے معروف المانوی فلسفی اور شاعر نیٹشے کو ’’آنسوئے افلاک‘‘ (افلاک سے باہر) یا مکان و لامکان کے درمیان دکھایا ہے۔ علامہ کے نزدیک اس کا قلب مومن اور دل کافر تھا ۔ اقبال نے اسے ’’حلاجِ بے دارورسن‘‘ لکھا ہے کیونکہ وہ بھی حلاج کی طرح خودی کو عین خُدا کہتا ہے اور اس کے لیے ’’فوق البشر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ وہ اس کے ظہور کا آرزو مند تھا مگر خُدا کا منکر تھا اس لیے ’’دماغش کا فراست‘‘ قرار دیا گیا۔ اقبال کے نزدیک منکرِ خُدا ہونے کے باوصف اس کے بعض افکار اسلام سے مطابقت رکھتے تھے اس لیے ’’قلب اُو مومن است‘‘ کہا گیا۔ وہ خُدا کا منکر محض اس لیے ہو گیا کہ اسے کوئی مرد مومن نہ مل سکا جو اسے مقامِ کبریا سے آگاہ کر سکتا ۔ وہ تو مجذوب تھا اور یورپ والوں نے اُسے مجنوں سمجھا ۔ وہ دلبری اور قاہری کے اختلاط کا طالب تھا، وہ زمان و مکان پر غالب آنا چاہتا تھا ، انسان میں خُدائی صفات کا جلوہ دیکھنا چاہتا تھا لیکن عقل کی مدد سے اور عشق کے کوچہ سے وہ آگاہ نہ تھا اس لیے ناکامی سے دو چار ہوا۔ وہ تجلی سے ہم کنار تھا مگراسے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ جس کا وہ خواہش مند ہے، وہ تو خود اس کے اندر پوشیدہ ہے: اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے اس کے بعد علامہ نے لامکاں ، عالمِ ارواح یا بہ الفاظ دیگر جنت الفردوس کا نقشہ کھینچا ہے کہ کائنات کی حدود سے گزر کر میں عالمِ بے جہات میں داخل ہوا ۔ یہ ایسا عالم ہے جس کی جہت ہے نہ سمت ، دائیں بائیں اور دن رات سے آزاد، اس جہان میںجب میں پہنچا تو میری عقل کا چراغ روشن ہو گیا۔ اس جہان میں آخر ہے کیا؟ ’اس عالم کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ اس کی تخلیق کا رنگ جدا ہے ۔ یہ لازوال ہے اور زمان و مکان سے بالاتر ہے۔ ہم اس کی ماہیت کا ادراک نہیں کر سکتے‘۔ علامہ نے جہانِ بے جہات (لامکاں) کی ماہیت جہانِ دل کی مثال سے سمجھائی ہے کہ لا مکاں کو جہانِ دل پر قیاس کر لو۔ جس طرح دل ، زمان و مکان سے بالاتر ہے اسی طرح لامکاں بھی قیدِ زمان و مکان سے آزاد ہے ۔ اسی مقام پر تجلی جلال و جمال کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور حیاتِ جاوداں حاصل کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ وہ بہشت میں، پہاڑوں پر گُلِ لالہ ، باغوں میں نہریں ، عنبر بار فضائیں اور ہوائیں ، زمرد قبوّں والے محل اور خوبصورت حور و غلمان کے جلوے دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں مگر رومی انھیں بتاتے ہیں کہ یہ جلوے حقیقی نہیں بلکہ یہ اعمال کے عکوس ہیں۔ بہشت زاہدوں کا مسکن ہے لہٰذا دیدار اور ذوقِ دید کے مقام کے یہ حسین جلوے اعمال کے ظل اور عکس ہیں۔ اس کے بعد شرف النسا بیگم کی پاکیزہ اسلامی سیرت کا بیان ہے جسے علامہ نے مثالی مسلم خاتون کے طور پہ پیش کیا ہے اور ضمناً مسلمانانِ پنجاب کی غیر اسلامی زندگی کا ماتم کیا ہے۔ شرف النسا ، نواب عبدالصمد خان حاکمِ پنجاب کی بیٹی تھی۔ اس کی ساری زندگی تلاوتِ قرآن مجید میں گزری ۔ اس کی خلوت میں قرآن ، نماز اور شمشیر کے علاوہ اور کسی چیز کو دخل نہ تھا جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس کی وصیّت اور حاصلِ زندگی یہ تھا کہ قرآن اور تلوار دونوں ایک دوسرے کے محافظ ہیں اور محورِ حیات ہیں۔ مومنوں کی زندگی اسی پر موقوف ہے۔ میری تُربت میں بھی یہی دو چیزیں رکھ دی جائیں۔ علامہ کا کشمیر سے ایک قلبی تعلق تھا اور اس لیے وہاں کی دو عظیم شخصیات ، امیر کبیر سید علی ہمدانی اور معروف کشمیری شاعر مُلا طاہر غنی کو جنت الفردوس میں دکھایا ہے۔ امیر کبیر سید علی ہمدانی (پیدائش: پیر ۲۱؍ رجب ۷۱۴ھ؍ ۲۲؍اکتوبر ۱۳۱۴ء بمقام ہمدان ۔ وفات : ۶ ذی الحج ۷۸۶ھ مزار ، ختلان (تاجکستان) نجیب الطرفین سید تھے۔ شیخ علی دوستیؒ سے بیعت ، حافظِ قرآن ، مشرق و مغرب کے سیاح ، ۱۷۰ کتب کے مصنف ، شاہ ہمدان کی دینی و علمی عظمت و فضیلت کا علامہ اقبال اعتراف کرتے ہیں: سید السادات ، سالارِ عجم وستِ اُو معمارِ تقدیرِ اُمم تا غزالی درسِ اللہ ھو گرفت ذکر و فکر از دودمانِ او گرفت زندہ رود ، شاہِ ہمدان سے ان کی تصنیف ’’خواطریہ‘‘ کے حوالے سے جس کا موضوع و ساوسِ شیطانی اور اقسام قلوب ہے ،مختلف سوالات کرتا ہے اور دریافت کرتا ہے کہ خُدا نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟ شاہِ ہمدان کہتے ہیں: ’خُدا نے ابلیس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان اس کا مقابلہ کر کے اپنی خودی کا کو مستحکم کر سکے‘۔ علامہ اقبال کشمیر کی محکومی و مظلومی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: ’کشمیری ایک ذہین ، ہوشیار اور حسین قوم ہے۔ دنیا میں اس کا ہنُر معجزے سے کم نہیں ۔ اس کا پیالہ اپنے ہی لہو سے بھرا ہواہے۔ میری بانسری کے گریہ کا موضوع یہی قوم ہے۔ یہ جب اپنی خودی سے بے نصیب اور محروم ہوا تو وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی ہو کر رہ گیا۔یہ مت سمجھو کہ یہ قوم ہمیشہ سے اسی طرح تھی۔ کسی زمانے میں یہ صف شکن ، جانباز اور بہادر قوم تھی‘۔ اہل کشمیر کی عبرت ناک پستی کے سلسلہ میں شاہ ہمدان نے ایک قیمتی نکتے کی وضاحت کی ہے:’جو قوم مرنے سے ڈرنے لگتی ہے، وہ مر جاتی ہے اور جو قوم موت کو محبوب رکھتی ہے ، وہ زندہ ہو جاتی ہے‘۔ زندہ رود شاہ ہمدان سے سوال کرتا ہے کہ تخت و تاج کی اصلیت کیا ہے؟ شاہ ہمدان فرماتے ہیں:بادشاہت کی اصل یا رضائے اقوام ہے یا جنگ و جدل۔ ’اس کے بعد غنی کشمیری کی زبان سے علامہ نے اپنا محبوب فلسفہ حیات یوں بیان کیا ہے:موج کا ساحل کے اندر رہنا سرا سر خطا ہے اور ساحل سے موافقت مرگ دوام ۔ موج اس وقت ہی طوفان بن کر پہاڑ کاٹ سکتی ہے، جب وہ ساحل سے باہر نکل جائے‘۔ غنی زندہ رود سے ایک نوائے مستانہ کی فرمایش کرتا ہے۔ جواب میں زندہ رود زبورِ عجم کی ایک غزل سناتا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عقل تیرے لیے چراغ راہ گزر ہے اور عشق ایاغ ہے، اس سے تو عناصر کو مسخر کر سکتا ہے ۔ زندہ رود کہتے ہیں کہ میری غزل سن کر حوروں بلکہ تمام ساکنانِ بہشت کے دل میں کشمیریوں کے لیے جذبۂ ہمدردی بیدار ہو گیا۔ ’پیر رومی نے مجھ سے کہا کہ دیکھو: سامنے ہندوستان کا مشہور بیراگی فلسفی بھرتری ہری بیٹھا ہے، اس کی فطرت اس بادل کی طرح ہے جس میں آگ پوشیدہ ہو‘۔ بھرتری آج سے تقریباً دوہزار برس پیشتر پیدا ہوا ۔ا س کا نام ’’ہری‘‘ تھا اور وہ اجین کے راجا بکرماجیت کا بھائی تھا۔ اس نے کچھ عرصہ حکومت کی۔بھرتری کی وجہ تسمیہ اس کی رعایا پروری اور غربا نوازی تھی۔ کہتے ہیں کہ اپنی بیوی کے کردار سے ناخوش ہو کر راج پاٹ ترک کر دیا اور سنیاسی بن گیا ۔ اس قدیم فلسفی کا مقولہ ہے:ادب، موسیقی اور فنون لطیفہ سے بیگانہ شخص بغیر دُم اور سینگ کاجانور ہے۔ بال جبریل میں اقبال کا یہ شعر : پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر دراصل بھرتری ہری کے اس اشلوک سے ماخوذ ہے: ’مست ہاتھی کو کنول کے زیرے سے باندھ سکتے ہیں۔ پھول کی پتی سے ہیرے کو کاٹ سکتے ہیں اور شہد کے ایک قطرے سے کھاری سمندر کو میٹھا بنا سکتے ہیں ۔ جو یہ سب کر سکتے ہیں وہ مردِ ناداں کو اپنے کلام سے متاثر نہیں کر سکتے‘ ۔ (’’اقبال اور بھرتری ہری‘‘ از میرزا محمد بشیر ، مشمولہ نیرنگ خیال ، اقبال نمبر ، ص ۵۵۔۴۵۴) زندہ رود کی بھرتری سے شاعری کے رموز پر گفتگو ہوتی ہے، وہ ہندیوں کو پیغام دیتے ہیں: پیش آئینِ مکافاتِ عمل سجدہ گزار زانکہ خیزد ز عمل دوزخ و اعراف و بہشت یعنی مکافات عمل کا قانون جاری ہے ۔ تجھ پر لازم ہے کہ اس قانون کو ہمیشہ مدِ نظر رکھ کیونکہ دوزخ، اعراف اور بہشت یہ سب تیرے اعمال ہی کے نتائج ہیں۔ درویشوں کی صحبت سے استفادے کے بعد زندہ رود سلاطینِ مشرق کی روحوں سے ملاقات کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے نادر شاہ اہل ایران کے حالات دریافت کرتا ہے۔ زندہ رود جواب میں کہتے ہیں: بعد مدت کے انھوں نے آنکھ کھولی مگر بیدار ہوتے ہی دام وطنیت میں گرفتار ہو گئے ۔ جس قوم نے خود ایک تہذیب پیدا کی، وہ فرنگیوں کی مقلد بن گئی ۔ ملک و نسب پر وار فتگی کا یہ عالم ہے کہ قدیم ایرانی بادشاہوں کو زندہ کر رہے ہیں اور عربوں کی تحقیر میں مشغول ہیں۔ انھوں نے وطن کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور حید رؓ کی بجائے رستم کی داستانیں بیان کر رہے ہیں۔ عین اس موقع پر ناصر خسرو علوی کی روح نمودار ہوتی ہے۔ ناصر خسرو گیارھویں صدی عیسوی کا اسماعیلی مذہب کا داعی کبیر ، علوم عقلیہ اور فنون کا ماہر، خراسان و بدخشاں کا والی بھی تھا ۔ اس کی زبان سے علامہ اقبال نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ دنیا میں سر بلندی اور کامرانی کے لیے رائے (علم) کے ساتھ ساتھ قوت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ احمد شاہ ابدالی ، زندہ رود سے افغانستان کا حال دریافت کرتا ہے ۔ زندہ رود کہتا ہے: از مقاصد جانِ اُو آگاہ نیست اور یہ کہ افغانستان کے باشندے آپس میں برسرِ پیکار ہیں۔ ’’یہ سن کر ابدالی مسلمانانِ عالم کو پیغام دیتا ہے: کہ اگر مسلمان اپنے دین پر قائم ہو جائیں تو دنیا میں سر بلندی حاصل کر سکتے ہیں ۔ اُن کے زوال کا باعث تقلیدِ مغرب ہے۔ مسلمان علوم و فنون میں مہارت حاصل کرکے ہی سر خرو و کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد ٹیپو سلطان شہید ، زندرہ رود سے ہندوستان کا حال دریافت کرتے ہیں۔ زندہ رود جواب دیتا ہے کہ ہندوستان کے باشندے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ سلطان شہید دکن کا حال پوچھتے ہیں، جواب ملتا ہے: وہاں زندگی کے کچھ آثار نظر تو آتے ہیں ۔سلطان شہید اہل دکن کو پیغام دیتے ہیں اور اس ضمن میں حیاتِ مرگ اور شہادت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ افراد کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ زندگی کے دریا میں بمنزلہ امواج ہیں۔ جس طرح موجیں اٹھتی رہتی ہیں اور فنا ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں اور مرتے رہتے ہیں ۔ کسی فرد، شخص یا شے کو ثبات یا دوام نہیں ہے ۔ زندگی دراصل ایک انقلاب مسلسل کا نام ہے اگر دنیا میں آئے ہوتو چنگاری کی طرح زندگی مت بسر کرو بلکہ کسی خرمن کی تلاش کرو تا کہ اُسے جلا کر اپنی چند روزہ زندگی کا مقصد حاصل کر سکو۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو محکم بنانا چاہتا ہے تو اُسے لازم ہے کہ شیوئہ ، تسلیم و رضا اختیار کرے۔ اُس موت سے اجتناب کر جو تجھے قبر میں ہمیشہ کے لیے سُلا دے بلکہ خدا سے وہ موت مانگ جو تجھے دوبارہ زندگی عطا کرے۔ اس دنیا میں ہر ایک کا دین و کیش ہے۔ جس طرح پروانے کا مذہب خاک ہو جانا ہے، اسی طرح زندگی کا بھی ایک چلن اور مذہب ہے کہ جب تک انسان زندہ رہے آزاد رہ کر زندگی بسر کرے۔ غلامی کی زندگی، زندگی نہیں بلکہ موت ہے اور بہت ہی ذلیل قسم کی موت ۔ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جب تک زندہ رہے شیر کی طرح۔ کیوںکہ شیر کی زندگی کا ایک لمحہ بھیڑ بکری کی سو سال کی زندگی سے بہتر اور برتر ہے: زندگی را چیست رسم و دین و کیش؟ یک دمِ شیری بہ از صد سالِ میش! سلطان شہید کی یہ حدیثِ شوق سننے کے بعد زندہ رود فردوس سے رخصت ہوتے ہیں۔ بوقتِ رخصت حوریں کہتی ہیں: ’’یک دو دم با مانشیں با مانشیں‘‘(کچھ دیر ہمارے پاس بھی بیٹھو) زندہ رود انھیں کہتا ہے کہ عاشق کسی ایک جگہ قیام نہیں کر سکتا۔ یہ سُن کر حوریں کہتی ہیں اچھا کوئی غزل ہی سناتے جائو ۔ اقبال غزل سرا ہوتے ہیں جس کا مرکزی خیال یہ ہے:کہ ’عاشق ضمیر کائنات سے واقف ہوتا ہے۔ عاشق سے نگاہ (معرفت) حاصل کر ، کیمیا کی توقع نہ رکھ‘۔ زندہ رود، حورانِ بہشتی سے رخصت ہو کر بارگاہ ایزدی میں پہنچتے ہیں مگر رومی کے بغیر۔ تمہید حضوری میں کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ جنت بھی اس کی ایک تجلّی ہے مگر عاشق کو دیدار کے بغیر تسکین نہیں ہو سکتی ۔ عقلِ سلیم خُدا تک رسائی کا راستہ تو فراہم کر دیتی ہے مگر یہ شوق ہی ہے جو آخری منزل تک جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں:جنت سے تنہا روانہ ہوا اور میں نے اللہ کا نام لے کر اپنی جان کی کشتی نور کے سمندر میں ڈال دی ۔ میں جمال ذات کے تماشہ میں مستغرق ہو گیا ۔ جو ہر زمان در انقلاب اور لایزال ہے۔ کار کناں قضا و قدر نے میری جان کے سامنے ایک آئینہ آویزاں کر دیا۔ اپنا ہی دیدار کرنے کے بعد مجھ پر حیرت و یقین کی کیفیت طاری ہو گئی۔ پیش جاں آئینہ آویختند حیرتے را با یقین آمیختند اور مجھ پہ یہ حقیقت بھی منکشف ہو گئی کہ دراصل حق تمام حجابات کے باوجود ظاہر ہو رہا ہے اور میری نگاہ سے اپنا دیدار کر رہا ہے: حق ہویدا باہمہ اسرارِ خویش با نگاہِ من ، کند دیدار خویش اقبال کہتے ہیں کہ جب میں دیدار سے مشرف ہو چکا تو بارگاہ ایزدی میں عرض کی: اے دو عالم از تو با نور و نظر اندکے آں خاکدانے را نگر بندئہ آزاد را نا سازگار بر دمد از سنبلِ او نیشِ خار کہتے ہیں کہ اے خُدا ! ذرا اس دنیا کے حالِ زار پر بھی ایک نگاہ کر ! تیری یہ دُنیا تیرے بندوں کے لیے قطعاً ناساز گار ہے، حالت یہ کہ : چار مرگ اندر پئے ایں دیر میر سود خوار ، والی و مُلّا وپیر (چار قسم کی اموات اس سخت جاں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں ، سود خوار، حکمران ، جامد ملاّ اور جاہل پیر) ذاتِ حق کی بار گاہ سے جواب ملتا ہے: ہرکہ او را قوتِ تخلیق نیست نزدِ ما جز کافر و زندیق نیست (ہر وہ شخص جس میں نئی دنیا پیدا کرنے کی قوت نہیں ہے، ہمارے نزدیک کافر اور زندیق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔) زندہ رود عرض کرتا ہے کہ مسلمانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی صورت کیا ہے ؟ جواب ملتا ہے کہ اگر مسلمان توحید پر عمل کریں تو احیا ہو سکتا ہے ۔ زندہ رود سوال کرتاہے کہ میں کون ہوں، تو کون ہے؟؟ یہ عالم کہاں ہے ؟ تیرے میرے بیچ دوری کیوں ہے؟ میں پابندِ تقدیر ہوں۔ تو لافانی اور میں فانی ہوں ذرا بتا تو سہی۔ بار گاہ ایزدی سے جواب ملتا ہے:’جو شخص کائنات میں غرق ہو جاتا ہے انجام کار مر جاتا ہے۔ اگر تو حیات ابدی کا آرزو مند ہے تو اپنی خودی کو مستحکم کر لے تو کائنات تجھ میں سما جائے گی اور جب تو زمان و مکاں پر غالب آ جائے گا تو دیکھے گا کہ تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں‘۔ اب زندہ رود خُدا سے آخری التجا کرتا ہے کہ اے خُدا ! مجھے میری اور شرق و غرب کی تقدیر سے آگاہ کر دے ۔ اس التجا کے جواب میں جلالِ ایزدی کی تجلی ہوتی ہے۔ زندہ رود غش کھا کر گر پڑتا ہے اور ضمیرِ عالم سے ایک صدائے سوز ناک بلند ہوتی ہے جس سے اُسے اپنے سوال کاجواب مل جاتا ہے کہ تو اپنے بل بوتے پر سب کے ساتھ وابستہ رہ کے اس طرح زندگی گزار کہ دوسروں کا دستِ نگر نہ بن بلکہ اپنی ضروریات اپنے قوتِ بازو سے حاصل کر۔ یہی گویا تیری تقدیر ہے: زندگی انجمن آرا و نگہدارِ خود است اے کہ در قافلۂ بے ہمہ شو باہمہ رو علامہ کی سیر افلاک کا اختتام اسی شعر پر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ’’خطاب بہ جاوید ‘‘ کے عنوان سے ۱۳ بند (۱۳۶ اشعار) پر مشتمل ایک ضمیمہ شامل ہے جس کا ذیلی عنوان ’سخنے بہ نژادِ نو‘‘ ہے جس میں علامہ اقبال نے جاوید کو نئی نسلوں کی علامت قرار دیتے ہوئے اور اس شہرہ آفاق تصنیف کا نام اپنے صاحبزادے کے نام پر رکھا ۔ نژادِ نو کے نام یہ خطاب ہر دور کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اس میں حقیقتِ توحید کے ادراک ، عبادات و شعائر اسلامی پر غور و فکر کرنے کی اہمیت ، بے حسی اور مذہبی پیشوائیت کی اندھی تقلیدسے اجتناب، علم حقیقی حاصل کرنے ، خودی و آموزی ، صدقِ مقال واکلِ حلال برتنے ، تقویٰ شعاری ، ادب و احترامِ انسانی ، فقر اختیاری سے لگائو ، صدق و اخلاص کی روش اپنانے اور حرص و غم سے دور رہنے جیسے پندو نصائح حکیمانہ زبان میں بیان ہوئے ہیں۔ الغرض : جاوید نامہ فکرِ انسانی کی معراج ہے۔ شعر و سخن ، مطالب و معانی ، فہم و ادراک ، فکر و نظر کی جولانیوں کے اعتبار سے دنیائے ادب کا ایک نادر اور وقیع و عظیم نمونہ ہے۔ ٭٭٭ حوالے ۱۔ ڈاکٹر اسلم انصاری : ’’ادبیاتِ عالم میں سیر افلاک کی روایت‘‘ مکالمہ ، ۷ ۔ کراچی ۔ ۲۔ اردو ، (اقبال نمبر) مطبوعہ ، انجمن ترقی اردو ، دہلی ، طبع جدید ، ۱۹۴۰ء ۳۔ ڈاکٹر عبدالمغنی :اقبال اور عالمی ادب ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، طبع دوم ، ۱۹۹۰ء ۴۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری :اقبال سب کے لیے ، الوقار پبلی کیشنز ، لاہور ، ۲۰۰۲ء ۵۔ ڈاکٹر عبدالشکور احسن :اقبا ل کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۷۷ء ۶۔ شیخ عطاء اللہ :اقبال نامہ ،(دو حصّے) ،شیخ محمد اشرف ، لاہور ، طبع[۱۹۴۴ئ]، ۱۹۵۱ء ۷۔ ڈاکٹر وزیر آغا: تصورات عشق و خرد ، اقبال کی نظر میں ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ طبع ثانی ، ۱۹۸۷ء ۸۔ عابد علی عابد: تلمیحاتِ اقبال ، بزم اقبال ، لاہور ، ۱۹۸۵ء ۹ ۔ علامہ اقبال :جاوید نامہ ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ، لاہور طبع ہفتم ، جون ۱۹۷۸ء ۱۰۔ ڈاکٹر محمد ریاض : جاوید نامہ : تحقیق و توضیح، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، طبع اوّل، ۱۹۸۸ء ۱۱۔ رفیق خاور: جاوید نامہ ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، طبع اوّل ،۱۹۷۶ء ۱۲۔ پروفیسر اشرف حُسینی :’’دانتے کی طربیہ خُداوندی اور ڈاکٹر اقبال کا جاوید نامہ‘‘ ، ماہنامہ اظہار کراچی ، شمارہ اپریل ، ۱۹۸۶ء ۱۳۔ ستار طاہر : دنیا کی سو عظیم کتابیں ، کاروان ادب ، ملتان ، بار سوم، ۱۹۹۳ء ۱۴۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں : روح اقبال ، ادارہ اشاعت اردو حیدر آباد دکن (بھارت ) ، طبع ثانی، ۱۹۴۴ء ۱۵۔ یوسف سلیم چشتی : شرح جاوید نامہ ، عشرت پبلشنگ ہائوس ، لاہور ، سنہ اشاعت ندارد ۱۶۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم : فکرِ اقبال، بزم اقبال ، لاہور ، طبع ششم ،جون ۱۹۸۸ء ۱۷۔ مظفر حسین برنی : کلیات مکاتیب اقبال، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم ، ۱۹۹۳ء ۱۸۔ ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور (اقبال نمبر) اپریل ۱۹۷۷ء ۱۹۔ ماہنامہ ماہ نو لاہور (اقبال نمبر)ستمبر ۱۹۷۷ء ۲۰۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری: مطالعہ اقبال کے چند پہلو ، کاروان ادب ، ملتان ، ۱۹۸۶ء ۲۱۔ محمود نظامی (مرتب): ملفوظاتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، ۱۹۷۷ء ۲۲۔ حکیم یوسف حسن(مرتب ):نیرنگِ خیال ، لاہور (اقبال نمبر) ۱۹۳۲ء (طبع جدید نقوش ۱۹۷۷ئ) ۲۳۔ Asin, Palacios. Islam and The Divine Comedy (Tr), London.1926 ۲۴۔ Arberry, Arthur. Javed Nama (Eng.Tr.) London.1966  اسلم کمال جاوید نامہ۔ منظر بہ منظر جاوید نامہ علامہ کی فارسی زبان میں ایک شہکار کتاب ہے ۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال نے خود فرمایا کہ یہ کتاب مکمل کرکے مجھے یوں لگا جیسے میں نچڑ کر رہ گیا ہوں۔بلاشبہ اس کتاب کو اپنے افکار کا خزانہ اور سخنوری کے فن کا نمونہ بنانے میں آپ نے اپنی تمام فکری بصیرت و اہلیت اور اپنی بہترین تخلیقی قوت و زر خیزی کے جملہ اثاثے صرف کر دیے ہیں۔ کلام اقبال ایک حیران کن دنیا ہے میں اس کا ایک طالب علم سیاح ہوں۔ میرا اب تک کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ یہ دنیا واقعی قابل دید ہے ۔ میں یہ دعوت دینے کے لیے آپ کے دروازے پر آیا ہوں۔ عیسیٰ ابن مریم کا ارشاد ہے۔ میں اُس وقت تک دستک دیتا رہوں گا ، جب تک تم مجھ پر دروازہ نہیں کھولو گے، مجھے اندر نہیں بلائو گے ۔ جاوید نامہ کی تمہیدی مناجات میں علامہ اقبال نے اس کتاب کے تعارف کے طور پر یہ شعر دیا ہے:۔ آنچہ گفتم از جہانے دیگر است ایں کتاب از آسمانے دیگر است علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اس کتاب میں جو کچھ کہا گیا ہے، یہ انھوں نے دوسرے جہان سے کہا ہے اور یہ کتاب آسمان سے اتری ہے لیکن دوسری آسمانی کتب کے تقدس کے احترام میں اس کو ان سے الگ اور علیحدہ رکھنے کی احتیاط کا کیا خوب صورت انداز اپنایا ہے، یہ کہہ کر کہ یہ کسی دوسرے آسمان سے اتری ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ بھی علامہ اقبال نے انوکھے انداز میں نذر قارئین کیا ہے کہ اپنی ہی دوسری کتاب زبور عجم سے مندرجہ ذیل دو شعر ایک دلنشین نقش کی طرح ورق سادہ پر سجا دئیے ہیں: خیال من بہ تماشائے آسماں بود است بدوشِ ماہ بآغوش کہکشاں بود است گمان مبر کہ ہمیں خاکداں نشیمن ماست کہ ہر ستارہ جہاں است یا جہاں بودست یہ دو اشعار دیباچے کے طور پر منتخب کر کے کس خوبی سے یہ اشارہ دے دیا کہ جاوید نامہ ایک سماوی سفر نامہ ہے۔ سماوی سفر ناموں کی اسلامی روایت کا نقطۂ آغاز معراج نبی ﷺہے۔ اس روایت کے زیرِ اثر جس سماوی سفر نامے نے عالمی ادب میں اعلیٰ مقام پایا ہے، وہ اطالوی مصنف الیغیری دانتے کی کتاب کامیڈیاہے۔ اس کتاب کا محرک پھولوں کے شہر فلورنس میں دانتے کا اپنے محلے میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہے۔ لڑکی کا نام بیاترچے (Beatrice) ہے اور وہ بہت معصوم اور خوبصورت تھی۔ شاعر دانتے کو وہ ایک مداح کے طور پر سادگی اور خلوص سے ہاتھ اٹھا کر سلام کرتی تھی۔ اس کی یہ ادا دانتے کے اندر پاکیزہ اور اعلیٰ جذبات کو بیدار کر دیتی تھی۔ دانتے ایک آسمانی فرحت محسوس کیا کرتا تھا ۔ وہ لڑکی طبیعی موت مر گئی۔ جنت میں اس کو دیکھنے اور وہی اس کا معصومانہ سلام وصول کرنے کی تڑپ اور تمنا نے دانتے کی شاعری کو بال و پر دے دئیے۔ عاشق کا عشق محو پرواز ہوا اور فروغِ عشق سے اس کی معشوقہ دانش خداوندی میں ڈھل کر امر ہو گئی۔ یہ زمانہ وہ تھا جب یورپ میں علوم و فنون اپنی نشاتِ ثانیہ کی جانب سفر آغاز کر رہے تھے ۔یورپی روایت عشق میں بوس و کنار سے الفت پروری اور جنسی اختلاط سے تکمیل محبت کرنے کا رجحان زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ دانتے اور بیاترچے کے اس سادہ اور بے لوث عشق کی داستان نے اطالوی فنون لطیفہ بالخصوص ادب و مصوری میں تزکیۂ لفظ اور تزکیۂ نفس کے ایک غیر مانوس بلکہ بالکل اجنبی رویّے نے غیر متوقع طور پر حیرت انگیز سرعت سے وہ پذیرانی پائی کہ شاعر اور مصور اپنے تخلیقی ذوق و شوق کو تیز کرنے کے لیے ڈیوائن کامیڈی کی شاعری کو اس طرح گنگناتے تھے جس طرح پنجاب کے ان پڑھ کسان ہیر رانجھا اور سوہنی مہینوال کے عشق کی شاعری ہل چلاتے اور فصل کاٹتے ہوئے گاتے ہیں۔ فلورنس دریائے آرنو کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔ اس شہر کی عمارات قرونِ وسطیٰ اور نشاۃِ ثانیہ کے اعلیٰ تمدن کا نمونہ ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر ’’ویا دانتے) نام کی ایک گلی کے اندر ایک مکان کے باہر لکھا ہے۔ ’’کاسا دانتے‘‘ اس مکان میں ۱۲۶۵ء میں الیغیری دانتے پیدا ہوا تھا۔ یہاں قریب ہی میدی چی خاندان کا مقبرہ ہے۔ جس میں میکائیل انجیلو کے تراشیدہ رات، صبح اور شام کے مجسمے دیکھنے سیاح جاتے ہیں۔ کچھ فاصلے پر فلورنس کے کلیسائے اعظم میں میکائیل انجیلو کی تخلیق کردہ تصاویر کے ساتھ ایک اور تصویر توجہ کھینچ لیتی ہے جو مصور دومینی کو دی میکے لینو کی بنائی ہوئی ہے۔ اس تصویر کے نیچے نام DIVINA COMMEDIA لکھاہے ۔ ’’ڈیوائنا کامیڈیا‘‘ کے پیش منظر میں الیغیری دانتے کتاب کھولے کھڑا ہے۔ پیچھے اعراف کا پہاڑ ہے اور اوپر جنت کے ستارے چمک رہے ہیں۔ دانتے کے دائیں طرف جہنم کا منظر ہے۔ مصوری (Paintings) کا عظیم مورخ ’’وے ساری ‘‘ لکھتا ہے کہ دانتے خود بھی آرٹ آف ڈیزائننگ میں دسترس رکھتا تھا اور اس نے کم و بیش ایک درجن مصوّروں کے نام گنوائے ہیںجنھوں نے دانتے کی کامیڈیا کو السٹریٹ یا پینٹ کیا اور وہ لکھتا ہے کہ سسٹین چیپل میں میکائیل انجیلو کا تصویری کارنامہ فنِ مصوّری کا گراں قدر اثاثہ ہے، لیکن اتنا ہی بڑا نقصان اُن سکیچیز کا گم ہو جانا ہے جو میکائیل انجیلو نے ’’کامیڈی‘‘ کے حاشیوں پر بنائے تھے۔ میکائیل انجیلو جیسے نابغہ روز گار اور دوسرے اعلیٰ سطح کے مصوّروں نے جو اپنے نقش کا خراج دانتے کی کامیڈی کو پیش کیا تھا، درحقیقت یہی وہ آسمانی جزدان ثابت ہوا جس میں لپٹ کر دانتے کی سادہ ’’کامیڈیا‘‘ عالمی ادب میں ’’ڈیوائنا کامیڈیا‘‘ بن گئی۔ واقعہ معراج اور ڈیوائن کامیڈی میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ عنصر ابنِ عربی کے ذریعے دانتے تک پہنچا یا واقعہ معراج کے عربی سے براہ راست لاطینی زبان میں تراجم کے ذریعے یا پھر ایک اور "Source" پر محققین کو غور کرنا چاہیے کہ اُس زمانے میں داستانیں اور واقعات بھی عرب اور غیر عرب تاجروں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ممالک کو جایا کرتے تھے۔ معراج النبی ﷺ کے پورے چھ سو سال بعد دانتے نے کامیڈی لکھی اور اس کے پورے چھ سو سال بعد علامہ نے جاوید نامہ لکھا ہے۔ جاوید نامہ مناجات سے شروع ہوتا ہے۔ مناجات ایسی دعا کو کہتے ہیں جو دل ہی دل میں چپکے چپکے مانگی جاتی ہے اور بعض اوقات تو یہ الفاظ کی بھی منت کش نہیں ہوتی ۔ خیال کی صورت دل سے پیدا ہو کر دعائیں سننے والے کی جانب روانہ ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال رب کائنات کو جس قرینے اور سلیقے سے مخاطب کرتے ہیں، اس درجہ پُر وقار الفاظ اور انداز شاید بہت سارے اولیاء اللہ کو بھی نصیب نہ ہوتے ہوں گے۔ اس مناجات میں علامہ اقبال نے مختلف دعائیں مانگی ہیں۔ مثلاً وہ عرض کرتے ہیں کہ شاعر کو کائناتی وقت یا زبانِ خالص سے بہرہ ور ہونے کی توفیق ارزانی کی جائے کیونکہ جو بندہ یہ فضلیت حاصل کر لیتا ہے، وہ آوازوں کو رنگوں کی طرح دیکھنے کی اہلیت پا کر کائناتی زبانوں کو سمجھ سکتا ا ور صفات الٰہیہ کی تجلیات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے لگتا ہے۔ اس مناجات میں شاعر عرض کرتا ہے اے کہ تو فروغِ جاوداں ہے اور ہم محض ایک شرار سے زیادہ نہیں ہیں ۔ ؎ آنیم من جاودانی کن مرا از زمینی آسمانی کن مرا مناجات کے آخری بند میں واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو جاوید نامہ کے مشکل اسلوب اور دقیق مباحث کا پورا پورا احساس ہے، لیکن وہ یہ جواز بجا طور پر پیش کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسے سمندر ہیں کہ کم درجے کی طغیانی اور کم سطح کا مدّو جزر جس کی شان کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ پیرانِ کہنہ سے مایوس ہیں اور اس جاوید نامہ سے استفادہ کرنے کی تمام امیدیں وہ نسل نو سے وابستہ کرتے ہیں۔ اور دعا کرتے ہیں: بر جواناں سہل کن حرفِ مرا بہرِ شاں پایاب کن ژرفِ مرا مناجات کے بعد جاوید نامہ باقاعدہ طور پر تمہید آسمانی سے شروع ہوتا ہے، جس میں روز آفرینش کے بیان کے بعد اپنے سورج، چاند ستاروں اور کہکشائوں کی تابانیوں پر نازاں ہو کر آسمان زمین کو طعنہ دیتا ہے کہ وہ صرف ایک خاکداں ہے۔ اس کی حیثیت خاک ہے اور خاک کا ڈھیر پہاڑ بھی بن جائے تو پہاڑ بھی آخر مٹی کا ہے۔یہ طعنہ سن کر زمین اپنی توہین محسوس کرتی ہے اور لا جواب رہتی ہے، لیکن آسمان سے باہر کے کسی غیب سے ستاروں کے ایک گیت کی آواز سنتی ہے کہ اس خاکداں میں ایسے مرد بھی پیدا ہوں گے جو اپنی بیکراں اطاعت الٰہی سے قربِ الٰہی حاصل کر کے کائنات پر حکمران ہو جائیں گے ۔ وہ اس شان سے پرواز کریں گے کہ یہ سارے آسماں اپنے ہاں اُن کی آمد کو اپنی خوش بختی جانتے ہوئے ان پر اپنے سب دروازے کھول دیں گے ۔ یہ آواز ایک خاک زادے شاعر کو نشاط روح سے سرشار کر دیتی ہے۰ وہ بے خود و سرمست ہو کر دریا کے کنارے ٹہلتے ہوئے مولانا روم کی ایک غزل گنگنانے لگتا ہے۔ خواتین و حضرات! یہ غزل وہی ہے جس کا میں نے پچھلے لیکچر بعنوان اسرار خودی۔ رموز بے خودی(جدید تناظر میں) میںذکر کیا تھا کہ علامہ اقبال نے اسرار خودی کے آغاز میں اس کے تین اشعار دئیے ہیں یعنی ایک شیخ کل اپنی ہتھیلی پہ چراغ رکھے شہر میں گھومتا تھا اور کہتا تھا میں درندوں اور چوپائیوں سے بیزار ہوں مجھے ایک انسان کی آرزو ہے: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کز دام و دد ملونم و انسانم آرزوست زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نہ شود جستہ ایم ما گفت آنچہ یافت می نہ شود آنم آرزوست وہ یہ غزل گنگنا رہا ہے اورسامنے غروبِ آفتاب کامنظر ہے۔ یہاں علامہ اقبال الفاظ سے منظر کشی کا ایک بے مثال مظاہرہ کرتے ہیں۔ چند مصرعوں میں جس طرح آفتاب کی ایک کرن سے آسمان پر نقش گری کرتے ہیں، یہ انہی کا حصہ ہے۔ جان کانسٹیبل اور ولیم ٹرنر برطانوی پینٹر ہیں جو لینڈ سکیپ ، سی سکیپ اور سکائی سکیپ پینٹ کرنے میں دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں ۔ جان کانسٹیبل سے کسی نے پوچھا کہ یہ جو تم تین چوتھائی کینوس پر آسمان پینٹ کر کے اہلِ نظر کو حیران کر دیتے ہو، اس مہارت کے پس پردہ کونسا مشاہدہ یا مطالعہ ہے۔ ’’کانسٹیبل نے کہا‘‘ میں نے اپنے والد کی ونڈمل پر چار سال کام کیا ہے میں سمجھتا ہوں میں نے دراصل چار سال آسمان کی ہسٹری پڑھی ہے‘‘۔چونکہ جان کانسٹیبل نے رنگ برش اور کینوس سے اوپر اٹھ کر آسمان کی ہسٹری کی بات کی ہے۔ کاش جان کانسٹیبل فارسی جانتا توخود پڑھتا کہ علامہ اقبال کہتے ہیں ’’شام نے غروب ہوتے ہوئے سورج کی متاع سے ایک پارہ اڑا کر اُسے آسمانِ دنیا کے کنارے پر ستارہ بنا کر یوں روشن کر دیا جیسے کوئی محبوبہ لبِ بام سے جلوہ ارزانی کرتی ہے‘‘۔ جی چاہتا ہے جان کانسٹیبل کی خدمت میں بصد معذرت عرض کریں کہ تونے آسمان کی ہسٹری بے شک پڑھی ہے لیکن۔ تو ضمیرِ آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے نہیں بیقرار کرتا تجھے غمزئہ ستارہ شام نے جو ستارہ آسماں پر روشن کیا ہے ، یہ روحِ رومی کا اشارہ ہے۔ جو پہاڑ کی اوٹ سے نمودار ہو کر دریا کے کنارے چہل قدمی کرتے شاعر کی پاس آ جاتی ہے۔ شاعر اُسے پہچان لیتا ہے ۔ ’’رومی کا چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا ۔ بڑھاپے میںجوانی کی سی تازگی تھی۔ اس کاپیکر نورِ سرمدی سے منوّر تھا اور شخصیت سے سرورِ سرمدی ٹپک رہا تھا‘‘ ۔ بلاشبہ شاعر نے چند مصرعوں میں جس طرح رومی کی شبیہ سازی کی ہے وہ آئیکون نگاری کی اس قدر عمدہ مثال ہے کہ بے اختیار ایل گریکو کے پینٹ کردہ پیغمبر، ولی، شہید، سینٹ اور فادر یاد آ جاتے ہیں۔ معراجِ نبویؐ کی فلسفیانہ سطح پر تفہیم کے لیے علامہ اقبال مولانا روم سے پوچھتے ہیںکہ کیا انسان دوسرے جہانوں میں جا سکتا ہے؟ رومی کہتے ہیں ۔ ہاں جس طرح انسان ماں کے پیٹ سے جنم لے کر رحم مادر کی دنیا سے اس دنیا میں آ جاتا ہے ۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اگر اعلیٰ اور ارفع بنا لے تو وہ اس دنیا کے پیٹ سے ایک دوسرا جنم لے کر دوسرے جہانوں میں جا سکتا ہے۔اطاعتِ الٰہی سے وہ قربِ الٰہی پا کر اس کائنات پر حکمران بن کر زمان و مکان کی قیود توڑ سکتا ہے۔ زر تشت مذہب میں زمان و مکان کی روح کا جو فرشتہ ہے، اقبال اُسے زروان کہتے ہیں۔ وہ ان کے درمیان ظاہر ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں اچانک میں نے دیکھا کہ سارا آسمان مشرق سے لے کر مغرب تک ایک نورانی بادل میںچھپ گیا ہے ۔ اُس بادل میں سے ایک فرشتہ جس کے دو چہرے تھے، نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین پر اترا آیا اس کا ایک چہرہ آگ کی طرح تابناک اور آنکھیں بیدار تھیں ۔ جبکہ دوسرا چہرہ دھویں کی طرح تاریک اور آنکھیں خوابیدہ تھیں۔ اس کے بازو سرخ ،سبز ،زرد، رو پیلے، نیلے اور گہرے سبز تھے۔ زروان کی شبیہ نگاری پڑھ کر ۱۸۹۰ء سے ۱۹۹۰ء تک و نسنٹ وین گاگ ، پال گوگین، ہنری ماتیس، ایڈورڈ منک ، یو آن گرس ، جارج براق ، مارک شیگال ، جان میرو ، پال کلی کے فن پارے اور خاص طور پر سلواڈر ڈالی کے مادام ازابل کے پورٹریٹ سے لے کر پابلوپکاسو کے پورٹریٹ آف اے پینٹر تک جدید مصوری کے ان گنت شہکار ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں جن میں ضدین کی یکجائی اور ان کے مابین مکالمہ آرائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ زروان مولانا روم اور علامہ اقبال کو نظر بھر کر دیکھتا ہے۔ دونوں میں قوت پرواز پیدا ہو جاتی ہے اور دونوں آسمان کی جانب محوِ پرواز ہو جاتے ہیں ۔ زمین کی حد سے نکلتے ہیں تو زمزمۂ انجم سنائی دیتا ہے ، جس میں ان خاک زادوں کو اتنی بلند پروازی پر ستارے مبارکباد دیتے ہیں اور ان کو آسمان پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ فلک قمر کی حدود میں جب یہ حضرات داخل ہوتے ہیں تو اقبال کہتے ہیں ہمارے پیکر سفید براق ہو کر اس قدر تابناک ہو گئے کہ ہمیں ہمارے سایے اپنے سروں کے اوپر دکھائی دینے لگے ۔ چاند کے ایک پہاڑ کی ایک غار میں اقبال مولانا روم کی رہنمائی میں داخل ہوتے ہیں ، غار میں ننگ دھڑنگ ایک سادھو، جس کا نام وشوامتر ہے گیان دھیان میںبیٹھا ہے۔ اُس کے سر پر بالوں کا جوڑا اور جوڑے کے گرد ایک سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ وشوامتر کا مطلب جہاں دوست ہے اور علامہ اقبال اس کو عارف ہندی کہتے ہیں۔ عارف ہندی مولانا روم کو پہچان لیتا ہے اور اقبال کی طرف اشارہ کرکے رومی سے پوچھتا ہے ’’یہ جس کی آنکھوں میں جاودانی چمک ہے یہ کون ہے؟‘‘ رومی بتاتے ہیں کہ آسمان کی سیر کا شوقین ہے۔ وشوامتر مولانا روم سے پوچھتا ہے کہ آدمی، کائنات اور خدا اور ان میں تعلق کے بارے میں کچھ بیان کریں۔ رومی جواب میں کہتے ہیں: آدمی شمشیر و حق شمشیرزن عالم این شمشیر را سنگ فسن ذاتِ باری شمشیر زن ، آدمی شمشیر اور یہ عالم شمشیر تیز کرنے کا پتھر ہے۔ وشوامتر شاعر اقبال کی روحانی بلندی کا اندازہ کرنے کے لیے اُس سے پوچھتا ہے کہ مرگِ عقل کا کیا مطلب ہے۔ شاعر جواب دیتا ہے۔ ترکِ فکر سے عقل کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ وشوامتر پوچھتا ہے۔ مرگ قلب سے کیا مراد ہے۔ شاعر جواب میں کہتا ہے جب دل ذکر سے خالی ہو جاتا ہے تو وہ مر جاتا ہے۔ وشوامتر اقبال کی روحانی رفعتوں سے بہت خوش ہوتا ہے اور حکمت و دانش کے کچھ نکات اسے تحفے میں دیتا ہے۔ اتنے میں رات کے طلسم سے ایک نازنین کا ظہور ہوا جو ستاروں سے خالی اس رات میں جگمگاتے ستارے کی طرح تھی ۔ اس کی زلفیں سنبل کی طرح سیاہ اور خوشبودار تھیں اور دراز اتنی کہ کمر تک آ رہی تھیں ۔ اس کے چہرے کی تابانی سے کوہ وکمرروشن ہو رہے تھے ۔ وہ احساس حسن میں جلوہ افروز اور بن پئے مئے سرمست تھی ۔ اس کے سامنے ایک فانوس جہاں تھا جو گردش کرتا تھا۔ اس فانوس میں رنگ برنگ تمثالیں تھیں جیسے باز چڑیا پر جھپٹتا ہے اور ہرن پر چیتا لپکتا ہے۔ یہ سروش فرشتہ تھا جو زرتشتی مذہب میں جبرئیل کی جگہ ہے۔ علامہ اقبال اس کو فرشتۂ شعرا کا نام دیتے ہیں اور اس فرشتے کی فینٹسی پورٹریٹ پینٹنگ جس درجہ مہارت سے کی گئی ہے۔ مغرب میں میلان کا رہنے والا سولہویں صدی کا آرچیم بولڈی (Archimboldi) جو فینٹسی پورٹریٹ پینٹنگ کے حوالے سے آج بیسویں صدی کے سر رئیلسٹوں کا جد امجد گنا جاتا ہے۔ وہ دیکھتا تو شاعر مشرق کی معجز نگاری کو مو قلم کا خراج پیش کیے بغیر نہ رہتا۔ سروش فرشتے سے ایک نغمہ سننے کے بعد رومی اور اقبال وادی یرغمید میں داخل ہوتے ہیں ۔ وہاں چار سفید چٹانوں پر گوتم ، زرتشت ، مسیحؑ اور محمدؐ کی بنیادی تعلیمات کندہ ہیں۔ ان کو طاسین کہا گیا ہے۔ طواسین ’’طٰس‘‘ جو قرآن مجید کی کچھ سورتوں کے حروف مقطعات کی جمع ہے۔ منصور حلاج کی طرح اقبال نے ان کو اسرار و رموز کے مفہوم میں اپنایا ہے۔ طاسین گوتم میں گوتم بدھ کو ایک نبی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ایک رقاصہ زبور عجم کی غزل گا کر توبہ کا اظہار کرتی ہے۔ طاسین زرتشت میں اہرمن یزداں کو بہکانے کے لیے آسمانی کتب اور صحائف کے حوالے دیتا ہے کہ بعض انبیاء کو خوفناک بیماریوں کا نشانہ بنایا گیا کچھ کو آرے سے چیر دیا گیا اور کسی کو صلیب پر لٹکا کر مار دیا گیا۔ پس یہ نبوت سراسر درد سری ہے، اس سے تو ولایت اچھی اور درجے میں بلند ہے۔ لیکن یزداں اس کے بہکاوے میںنہیں آتااور کہتا ہے کہ ان آزمائشوں سے گذرنے کے بعد انبیاء کے دل عالم انسانیت کے لیے اور زیادہ درد مند ہوجاتے ہیں اور اسی لیے نبوت کا درجہ ولایت سے کہیں زیادہ اعلیٰ ہے۔ طاسین مسیحؑ میں مشہور عیسائی مصلح اورعظیم ادیب لیو نالسٹائی کو ایک خواب میںمحو حالت میں مجسم دکھایا گیا ہے۔ خواب میں کوہِ ہفت مرگ کے پاس ایک جوئے سیماب ہے جس میں کمر تک غرق ایک نوجوان سخت کرب کی حالت میں ہے اس کا نام یہودا اسقروطی ہے اور جوئے سیماب کے کنارے ایک پر شباب حسینہ کھڑی ہے جس کا نام افرنگن ہے۔ جوئے سیماب یکدم منجمد ہو جاتی ہے۔یہودااسقروطی کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ افرنگن کہتی ہے یہ سزا تجھے اس غداری کی ملی ہے جو تونے مسیحؑ کے ساتھ کی تھی ۔ تو نے رومیوں سے کہا کہ تم جس شخص کو بوسہ دو گے وہ مسیحؑ ہو گا اور تمہارے بوسے کی نشان دہی پر رومی حاکم فلاطوس نے مسیحؑ کو گرفتار کر کے مصلوب کر دیا تھا۔ افرنگن کے جواب میںیہودا اسقراطی کہتا ہے کہ یہودیوں نے مسیحؑ کو صلیب پر چڑھا کر اس کے جسم کو قتل کیا۔ تم نے اپنی مدنیت سے اس کی تعلیمات کو نکال کر اس کی تو روح کو مار ڈالا ہے۔ طاسین محمدؐ میں ابوجہل کی روح کو حرم کعبہ میں نوحہ کرتے دکھایا گیا ہے ۔ نبی آخرالزمان ﷺ نے جو حریت، اخوت اور مساوات کا انقلاب برپا کیا ، ابوجہل کی روح اس کا ماتم کرتی ہوئی کہتی ہے۔ محمدؐ نے ہمارے غلاموں کو ہمارا ہم پلہ بنا دیا ہے۔ ہمارے خدمت گذاروں کو ہمارے برابر بٹھا دیا ہے۔ ہمارے شرف چھین لیے ہماری فضیلتیں اور ہماری سرداریاں ختم ہو گئی ہیں۔ محمد ﷺ ہمیں ہمارے ان خدائوں کی عبادت سے روک رہا ہے جن کے جسم ہیں اور انھیں چھوا جا سکتا ہے۔ ان کی جگہ وہ ایک ایسے خدا کی عبادت کے لیے کہتا ہے جسے چھوا نہیں جا سکتا ہے، جسے دیکھا نہیں جا سکتا ۔ وہ ہمیں ہمارے آباواجداد کے مذہب سے بیگانہ کرنا چاہتا ہے۔ محمدﷺ نے کعبہ سے ہمارے خدائوں کو نکال کر اس کو بے رونق کر دیا ہے۔ فلکِ قمر ختم ہوتا ہے۔۔۔ رومی اور اقبال فلک عطارد کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ اس فلک پر پہاڑ ، صحرا او ر بحر و بر تو ہیں لیکن انسانی آبادی کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ لیکن اذان کی آواز آ رہی ہے۔ اقبال اس سلسلے میں رومی سے سوال کرتے ہیں۔ جواب میں رومی کہتے ہیں کہ ہمارے جد امجد آدم علیہ السلام جنت سے زمین کی طرف سفر میں اس سیارے میں چند دن ٹھہرے تھے اور زمین سے بھی جنیدؒ اور بایزیدؒ جیسے برگزیدہ بندے اپنے اللہ کی بے لوث عبادت پوری دلجمعی اور یکسوئی سے کرنے کے لیے اس سیارے میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ وہ دیکھ سامنے نماز با جماعت ہو رہی ہے ۔ چلو جماعت میں شامل ہو جائیں ۔ سید السادات جمال الدین افغانی امامت کر رہے اور سعید حلیم پاشا ان کی اقتدا میں کھڑے ہیں۔ جمال الدین افغانی سورہ والنجم کی تلاوت کر رہے ہیں ۔ ان کی قرأت ایسی مسحور کن ہے کہ رومی کہتے ہیں کہ اگر خلیل اللہ سن لیں تو وجد کریں اور حضرت دائود ؑ جھوم جھوم اٹھیں ۔ نماز کے بعد اقبال آگے بڑھ کر افغانی کے ہاتھ پر بوسہ دیتے ہیں ۔ افغانی رومی کو پہچان لیتے ہیں اور اقبال کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ہیں یہ کون ہے؟ رومی ذرا شوخی سے کہتے ہیں یہ زندہ رود ہے۔ اس سے آگے جاوید نامہ میں اقبال کا نام زندہ رود استعمال ہو تا ہے۔ رومی ، افغانی اور اقبال میںیہاں بہت اہم موضوعات پر گفتگو ہے۔ رومی اور زندہ رود(اقبال) زہرہ میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ وہ خوش نما ستارہ ہے جو طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد آسمان پر خوب روشن نظر آتا ہے۔ یہ ناہید، اناہیداور انا ہیتا وغیرہ بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ناہید سے دو فرشتوں کے عشق کے افسانے بھی عام ہیں۔ اس فلک پر ایک بہت بڑی محفل جمی ہے۔ یہ خدایانِ اقوام کہن ہیں۔ لات ، عزی، منات اور بعل اور دیگر ان جیسے جھوٹے اور فرضی خدا اس محفل میں بہت خوش ہیں، اس بات پر کہ انہیں حیاتِ نو ملنے کے امکانات جا بجا روشن نظر آ رہے ہیں۔ مسلمان اپنے مذہب کی روح گم کر چکے ہیں جبکہ یورپی اقوام نے اتنی مادی ترقی کر لی ہے کہ مسلمان بھی مادہ پرستی کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ ان میں اب کوئی خلیل اللہ بھی نہیں جس سے بتوں کو ڈر خوف محسوس ہو ۔ بعل اس خوشی میں نغمہ گاتا ہے اور کہتا ہے کہ انسان اب خلائوں میں اڑنے لگا ہے۔ مگر افلاک کے اُس پار بھی اُسے خدا نظر نہیں آیا۔ اس لیے انسان کو اب پھر ہماری ضرورت ہے اور ہماری عبادت کرنے کا وقت آگیا ہے۔ رومی زبور عجم کی ایک غزل پڑھتے ہیں جس میں بتوں کو پاش پاش کرنے کا عزم نمایاں ہے اور اقبال کو ایک طرف اشارہ کر کے بتاتے ہیں ۔ وہ سامنے جو پہاڑ ہے، اُس پر برف چاندی کے ڈھیر جیسی ہے۔ اس کوہ کے اس پار الماس رنگ کا ایک شفاف سمندر ہے جو بالکل ساکت و جامد ہے۔ وہاں کوئی لہر، کوئی موج، اُس سکوت میں خلل انداز نہیں ہوتی جو وہاںچھایا ہوا ہے۔ یہ قلزم سرکشوں اور طاقت کے نشے میںچور گمراہ انسانوں کی جگہ ہے ۔ اس میں ایک فرعون حضرت موسیٰ ؑ والا ہے۔ دوسرا لارڈ کچنر ہے۔ ایک فرعون کبیر ہے اور دوسرا فرعون صغیر ہے ۔ دونوں پانی میں ڈوب کر مرے ۔ دونوں کو مٹی کی گود نصیب نہیںہوئی ۔ فرعون کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن کچنر کے بارے میں مختصراً یہ ہے کہ یہ برطانوی فوج کا مصر میں کمانڈر تھا۔ سوڈان میں مہدی سوڈانی جو ایک درویش اور حریت کا علمبردار تھا، اس کے پیروکاروں نے سوڈان کو آزاد کروا لیا۔ کچنر نے وہاں انگریز فوج کی کمان سنبھالی اور لفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہوا۔ اُس نے مہدی کی قبر کو توپ کے گولوں سے اڑا دیا اور نعش کو دریا برد کر دیا۔ لیکن آخر ایک دن اس کے سمندری جہاز کو ایک جرمن آبدوزنے غرق کر دیا۔ اس ظالم اور جابر شخص کو انگریزوں نے پہلے لارڈ، پھر فیلڈ مارشل اور بعد میں آنریری ڈاکٹر آف لا کی سند دے کر اس کی بربریت پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ رومی اس قلزم زہرہ میں اترتے ہیں لیکن زندہ رود (اقبال) جھجکتے ہیں۔ رومی کہتے ہیں ، میرا ہاتھ تھام لو۔ میں موسیٰ ؑ کی طرح سمندر میں راستہ بنانا جانتا ہوں۔ پھر دونوں سمندر کی تہ میں اتر گئے جہاں تاریکی تہ در تہ تھی۔ رومی نے سورہ طٰہ پڑھی تو گویا اس تاریک وادی میں ماہِ تمام طلوع ہو گیا۔ سارا ماحول روشن ہو گیا۔ فرعون نے ظلمت کو اجالے میں بدلنے پر حیرت سے رومی کو دیکھا ۔ رومی نے کہا یہ وہ چاند نہیں جو ضیا کے لیے آفتاب کا منت کش ہے۔ یہ روشنی ید بیضا کی ہے۔ فرعون کو موسیٰ کا ید بیضا کا معجزہ یاد آ جاتا ہے۔ وہ دل میںپچھتاتا ہے اور کچنر سے پوچھتا ہے کہ اہل برطانیہ نے مصر میںہماری قبریں کھود ماریں اور جواز یہ پیش کیا کہ ان قبروں سے ملنے والے آثار سے نابود تہذیبوں کے حالات اور بود و باش کا علم حاصل ہو گا اور یہ علم کی بہت بڑی خدمت ہے۔یہ بتائو کہ تمہیں مہدی سوڈانی کی قبر اکھاڑ کر کونسا علم حاصل ہوا؟ کچنر لا جواب ہو گیا۔ لیکن قلزم زہرہ میں بجلی چمکی اور مہدی سوڈانی کی روح جنت سے پرواز کرتی یہاں آ جاتی ہے اور عالم عرب کو مخاطب کرکے بہت رقت انگیز خطاب کرتی ہے اور عربوں کو نئے خطرات سے باخبر کرتی ہے ۔ ’’مسلمانوں ہمارا سارباں یثرب میں ہے ہم مگر نجد میں ابھی تک بھٹک رہے ہیں۔ جلد از جلد ایسی سعی کرو کہ میرِکارواں سے جاملو اور ان سے رہنمائی لو‘‘۔ سید محمد احمد مہدی (۱۸۳۴ئ۔۱۸۸۵ئ) ایک نڈر دلیر سوڈانی مجاہد تھے ۔ آپ سادات حبشہ میں سے تھے ۔ قرآن کے حافظ اور مشہور عارف سید محمد شریف سمانی کے مرید تھے۔ سید جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ مصری سے بھی آپ متفق تھے۔ مہدی نے سوڈان کو آزاد کرانے کے لیے سوڈانیوں سے بیعت لی ۔ انگریزوں نے اپنی روایتی عیاری میں مشتہر کیا کہ اُس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنے مہدی ہونے پر بیعت لی تھی ۔ رومی اور زندہ ردو فلک مریخ میں داخل ہوتے ہیں اس سیارے میں کچھ کچھ زمین جیسے ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ وہاں شہر اور گلی کوچے ہیں۔ وہاں آباد زیادہ تر مغربی اقوام کے ماہرین علوم ہیں۔ وہاں ایک رصدگاہ نظر آتی ہے اور اس میں سے ایک مریخی حکیم باہر نکلتا ہے جس کی داڑھی برف کی طرح سفید تھی۔ اس نے زندگی کے ماہ و سال تحقیق و جستجو اور تحصیل علم و ہنر میں بسر کیے تھے ۔ چنانچہ وہ بڑا زیرک دکھائی دیتا ہے۔ وہ بوڑھا تھا مگر اس کا قد سرو کی طرح بلند تھا ۔ اُس کا چہرہ ترکستانی تھا ۔ اُس نے عیسائی پادریوں جیسا لباس پہن رکھا تھا ۔ یہاں ایک بار پھر علامہ اقبال نے حقیقت نگاری میں شبیہ سازی کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔ عالم مریخی کا جب زندہ رود اور رومی سے تعارف ہوتا ہے تو وہ عمر خیام اور نصیر الدین طوسی کی زبان فارسی میں بات کرتا ہے ۔ جس پر ان کو حیرت ہوتی ہے تو وہ بتاتا ہے کہ معدنیات کی تحقیق کے سلسلے میں وہ زمین پر ایران، ہندوستان، امریکہ، برطانیہ ، فرانس ، چین اور جاپان میں رہ چکا ہے۔ عالمِ مریخی انہیں مزید بتاتا ہے کہ اس وقت وہ مرغدین شہر کے نواح میں ہیں۔ یہ شہر برخیانے بسایا تھا جو اہل مریخ کا جدِّ امجد تھا اور نیک سرشت تھا ۔ وہ بہشت میں کسی شیطان کے بہکاوے میں نہیں آیا تھا۔ اس کے اجر میں اللہ تعالیٰ نے اُسے یہ اچھا فلک رہائش کے لیے دیا تھا۔ حکیم مریخی پھر ان کو مرغدین شہر دکھاتا ہے اور علامہ اقبال کی چشم تصور اور قوت متخیلہ نے اسلام کی مثالی مدنیت کا کیا عمدہ نمونہ پیش کیا ہے۔ مرغدین شہر کے رہنے والے خوبصورت اور خوب سیرت لوگ ہیں۔ وہ کار آمد اور ہنر مند لوگ ہیں ۔ وہ خوش گفتار، خوش افکار اور خوش اشغال ہیں۔ وہ جنگ وجدل سے متنفر اور فتنہ و فساد سے دور رہتے ہیں وہاں کوئی بیکا رہے نہ کوئی فقیر صدا لگاتا ہے ۔ زمین سب کی ملکیت ہے۔ وہاں کوئی آقا ہے نہ کوئی غلام ۔ کوئی غریب ہے نہ کوئی امیر ۔ چور ہے نہ کوتوال۔وہاں علم و ہنر کا مقصد خدمتِ انسانیت ہے۔ اہل زمین جس طرح آب شور سے نمک لے لیتے ہیں، اہل مریخ نورِ آفتاب سے سیم وزر لے لیتے ہیں۔ وہاں درہم ہیں نہ دینار،الغرض مرغدین کے لوگ باکردار اور با وقار ہیں۔ علامہ اقبال بڑے شاعر ہیں۔ انھوںنے ہر بڑے مفکر، بڑے ادیب، بڑے مصلح اور بڑے عالم کی طرح اپنی فکر میں ایک معاشرہ خلق کیا اور اس معاشرے کے لیے مملکت کی بھی سرحدیں اجاگر کرتا رہا ۔ تعجب ہوتا ہے کہ کلام اقبال میں سے پاکستان کی شکل میں مملکت نکل آئی لیکن معاشرہ ہنوز قید کتاب میں ہے۔ چنانچہ کبھی تو یہ مملکت اپنا معاشرہ تلاش کرتی نظر آتی ہے اور کبھی معاشرہ یہاں کسی مملکت کی تلاش میں بھٹکتا دکھائی دیتا ہے۔ جاوید نامہ پاکستان کے نظریاتی نصاب کی پہلی کتاب ہونا چاہیے تھا۔ ایسا نہ ہوا۔ چنانچہ پاکستان میں جو نہ ہونا چاہیے تھا وہ ہر طرف ہو رہا ہے۔ حکیم مریخی کے ساتھ رومی اور زندہ رود سیر کرتے ایک کھلے میدان میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خوبصورت جوان عورت عورتوں کے ایک مجمع کو خطاب کر رہی ہے۔ اُس کا چہرہ چمکدار تھا مگر روحانی روشنی سے محروم تھا۔ وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی پوری طرح اہل نہ تھی۔ اس کی باتیں بے اثر اور آنکھیں بے رونق تھیں۔ آرزو کی لذت سے بیگانہ تھی اور اس کا سینہ وفور شباب سے خالی تھا۔ وہ غیر شادی شدہ تھی۔ وہ عورتوں کو ازدواج سے دور رہنے کی تلقین کر رہی تھی تاکہ امومت کی تکلیف سے بچ سکیں ۔وہ پیشن گوئی کرتی ہے کہ ایک دن سائنس کی ترقی سے وہ مرد سے وصل کے بغیر اولاد پیدا کر سکیں گی۔ اُس نے نبیہ ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے ۔ دراصل اس کے بچپن میں شیطان اُسے یورپ سے اغوا کر کے یہاں مریخ میں لے آیا تھا ۔و ہ حقیقتاً اہل مریخ میں سے نہیں ہے۔ اقبال کے قلم سے مریخ کی اس جھوٹی نبیّہ کا خاکہ پڑھ کر لیوترک (Leautric) اور کلمت (Klimt) کی پینٹ کردہ طوائفوں کی تصاویر یاد آ جاتی ہیں۔ مریخ کی سیاحت کے بعد رومی اور زندہ رود فلکِ مشتری پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس سیارے کا جداگانہ ماحول دیکھ کر شاعر ایک مشاق مصور کی طرح اپنے کینوس پر ایک خاص ٹیکسچر تیار کر کے اس کی منظر کشی ایک رومانٹک لینڈ سکیپ پینٹر کی طرح کرتا ہے۔وہ کہتا ہے ۔ مشتری ایک ادھورا خاکداں ہے ۔ اس کے خم میں ابھی شرابِ انگور نہیں ہے۔ اس کی خاک سے آرزو ابھی نہیں پھوٹی ۔ اس خاکداں کا طواف قمر کرتے ہیں جن کی روشنی سے اس کی آدھی رات دوپہر جیسی لگتی ہے۔ اس کی ہوا سردی سے اور گرمی سے نا آشنا ہے۔اس انوکھی منظر نگاری سے یہ اندازہ خود بخود ہونے لگتا ہے کہ جن کرداروں سے یہاں ملاقات ہوگی، وہ انوکھے ہوں گے ، بہت منفرد ہوں گے۔ چنانچہ تین افراد کی روحیں آہستہ آہستہ واضح ہوتی ہیں۔ ایک روح قرۃ العین طاہرہ ، دوسری روح منصور حلاج اور تیسری روح مرزا غالب کی ہے۔ ان سب نے سرخ رنگ کی عبائیں زیب تن کر رکھی ہیں۔ ان کا سوزِ دروں ان کے چہروں کی تابانی سے پھوٹ رہا ہے ۔ ان ارواح کو جنّت کی پیشکش کی گئی مگر انھوں نے افلاک کی سیاحت کو ترجیح دی ہے۔ یہ مست الست لوگ شعر خوانی میں لذت پا رہے ہیں۔ قرۃ العین اپنی غزل ایک سرشاری میں پڑھ رہی ہے مطلع: گربتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ روبرو شرح دہم غمِ ترا نکتہ بہ نکتہ مو بمو منصور حلاج پیام مشرق سے اقبال کی وہ معرکۃ آرا غزل پڑھتا ہے جس کے ایک شعر میں نظیری نیشاپوری کا مصرع تضمین کیا گیا ہے: بملک جم نہ دہم مصرعِ نظیری را ’’کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ ما نیست‘‘ اگرچہ عقلِ فسوں پیشہ لشکرے انگیخت تو دل گرفتہ نہ باشی کہ عشق تنہا نیست نظیری زندہ ہوتا ، اقبال کی یہ غزل سن لیتا تو نہ جانے اس کی قیمت کتنی مملکتیں لگا دیتا۔ مرزا اسد اللہ غالب کو اقبال نے ان مست الست لا ابالی رندوں اور درویشوں میں اس لیے شامل کیا ہے کہ اس کی یہ غزل اور بالخصوص اس کا مطلع جس کائناتی شعور کا حامل ہے اس حوالے سے بھی اور اقبال کے اپنے پر شکوہ اور بلند آہنگ کے اعتبار سے بھی یہ شعر غالب سے زیادہ اقبال کی زبان سے نکلا ہوا لگتا ہے: بیاکہ قاعدئہ آسماں بگردانیم قضا بگردشِ رطل گراں بگردانیم رومی اور زندہ رود ان تینوں سے مختلف موضوعات پر تبادلہ ٔ خیال کرتے ہیں۔ جن میں سے نمایاں ترین ’’اناالحق‘‘ اور’’ رحمتہ اللعالمین‘‘کے مباحث ہیں اور یہ ساری گفتگو حلاج کی زبان سے اقبال کے ان نعتیہ اشعار پر اختتام پذیر ہوتی ہے: ہر کجا بینی جہاںِ رنگ و بو آنکہ از خاکش بروید آرزو یا ز نورِ مصطفیؐ او را بہا است یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیؐ است جہاں کہیں بھی کوئی جہان ہے جس میں آرزوئے کمال پھوٹتی ہے، اس کی قدر و قیمت یا تو نورمصطفیﷺسے ہے یا وہ ابھی تلاش مصطفیﷺ میں ہے یہ دونوں نعتیہ اشعار بلاشبہ بلند پایہ ہیں اور اگر ان دونوں اشعار میں جو اسمِ ضمیر کا رشتہ ہے، اُس سے دوسرے شعر کو آزاد کر دیا جائے تو دوسرا شعر تنہا ہو کر کل زبانوں کی نعتیہ شاعری میں لاثانی و بے مثیل ہو جاتا ہے۔ فلک مشتری کی سیاحت کے آخر میں زندہ رود کے ساتھ بات چیت میں ’’خواجہ اہل فراق‘‘ کے لقب سے حلاج ابلیس کو یاد کرتا ہے کہ وہ ہجرو فراق کے مارے ہوئے اہل درد کا سردار ہے۔ اس ذکر پر ابلیس آٹپکتا ہے۔ اس کی آمد پر مشتری سیارہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ دھوئیں کے ایک مرغولے سے ایک بوڑھا برآمد ہوا۔ اُس نے سیاہ کالا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کا وجود دھویں کے پیچ و تاب سے عبارت تھا۔ اقبال ایک ماہر پورٹریٹ پینٹر کی طرح کینوس پر ابلیس کی فل فگر پینٹنگ کے لیے پہلی کلیدی لکیر (Key line) بعنوان ’’خواجۂ اہل فراق‘‘ پھر دوسری کلیدی لکیر بعنوان ’’سراپا سوز ‘‘ اور پھر تیسری کلیدی لکیر بعنوان ’’خون رنگ جام‘‘ لگاتا ہے پھر ان کلیدی لکیروں پر گوشت پوست کی سطح اس طرح مکمل کرتے ہیں، کہ شیطان بوڑھا ، سنجیدہ اور کم سخن دکھائی دیتا ہے اس کی نگاہیں بدن کے اندر اور روح کے پار دیکھ سکتی ہیں۔ وہ حکیم و فلسفی ، ملا و رند ، خرقہ پوش، صوفی اور عمل و عبادت میں زاہد خشک کی طرح ہے۔ اس کی فطرت ذوق جمال سے بیگانہ اور اس کا زہد جلالِ لایزال سے فراق پیشہ تھا۔ اقبال کے معجزہ نگار قلم سے ابلیس کی یہ فل فگر پینٹنگ پڑھ کر روبنز اور ریمبراں کی مہارت کے ساتھ بروگل (Brueghal) باش (Bosch) اور گوا (Goya) کی طبقاتی حوالوں سے انبوہی تصاویر کے کئی چہرے آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں ۔ رومی اور زندہ رود فلکِ زحل میں داخل ہوتے ہیں ۔ رومی اس فلک کے منحوس ہونے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس فلک کے گرد کسی سیارے کی دم زنّار کی صورت دکھاتی دیتی ہے۔ اس کی حرکت جمود جیسی ہے اور اس پر نیکی بھی بدی بن جاتی ہے ۔ اگرچہ یہ ایک خاکی فلک ہے مگر اس پر قدم رکھنا مشکل ہے ۔ یہاں پر فرشتے ازل سے خدائی قہر تقسیم کرتے ہیں۔ یہاں پر وہ ارواح رذیلہ آتی ہیں جنھیں جلا دینے سے آتشِ دوزخ بھی انکار کر دیتی ہے۔ اس فلک پر ایک قلزمِ خون ہے جس کے نظارے سے ہی روح سے جسم بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اس قلزمِ خون کے اندر بھی طوفان ہے اور باہر بھی طوفان ہے۔ اس کی فضا میں اس طرح سانپ ہیں جیسے سمندر میں مگر مچھ ۔ ان سانپوں کے بازو کالے اور پر سفید ہیں۔ اس سمندر کی موجیں درندہ صفت ہیں جن کے خوف سے ساحل پر بھی مگرمچھ دم توڑ دیتے ہیں ۔ ساحل سے سمندر محوِ آویزش ہے اور ہر لمحہ چٹانیں سمندر میں گر رہی ہیں۔ اس قلزم خونین کی موجیں آپس میں متصادم ہیں اور اس سیلِ بلا میں ایک نائو ابھرتی ڈوبتی اور ڈگمگاتی ہے۔ اس میں دو لعنت زدہ زرد رنگ چہرے ہیں۔ ایک بنگال کا جعفر اور دوسرا دکن کا صادق ہے۔ رومی اور زندہ رود روحِ ہندوستان کو ایک حسین و جمیل لباس میں دیکھتے ہیں۔ وہ جنت کی حور دکھائی دیتی ہے اور وہ غداروں کے خلاف نالہ و فریاد کر رہی ہے۔ کشتی میں سوار غداروں میں ایک دوزخی فریاد کرتا ہے کہ اُنہیں نارِ جہنم نے جلانے میں اپنی توہین سمجھی اور دھتکار دیا اور یہاں اس قلزم خون میں موت ان کو نابود کر دینے میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ فلکِ زحل پر یہ قلزمِ خوں میں غیظ و غضب کی لہریں اٹھاتا طیشِ مرگ کا طوفان غدار جعفر اور صادق کے لیے عذابِ الیم کا نقشہ دکھاتا ہے۔جبکہ فلک زہرہ پر قلزم زہرہ سطح سے پاتال تک سکوتِ مرگ سے جامد و ساکت ہے۔ فرعون جسے خدا ہونے کا دعویٰ تھا اور کچنر جسے ظلم و ستم میںخوف خدا نہ تھا، دونوں کے لیے یہ سکوتِ مرگ ابدی عذاب بن کر طاری ہے ۔ عذاب کی یہ دو مختلف لرزہ خیز صورتیں ایک ہی قلم سے علامہ اقبال کے قلم میں موقلم کی معجز نگاری کی مظہر ہیں۔ سیرِا فلاک میں جہاں شاعر کا قلم مصوّر کے مو قلم کی سی کرشمہ کاری کرتا ہے، ان مناظر کے بیان میں بھی مصوری کے عناصر اور محاسن کی طرف اشارہ کر کے شاعر کے تخیل کی فراوانی اور تخلیقی زر خیزی کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ موازنہ یا مقابلہ مدعا نہیں ہے اور نہ یہ ممکن ہے ۔ شاعر ، شاعر ہوتا ہے ۔ اسی طرح مصور، مصور ہوتا ہے۔ شاعر مصوری کرتا ہے لیکن یہ مصوری اس کی شاعری کی ہی ایک اور صورت ہے۔ اسی طرح مصور جو شاعری کرتا ہے، وہ اس کی مصوری کی ایک اور صورت ہوتی ہے۔ شاعر کے پاس الفاظ ہوتے ہیں، الفاظ کے معافی و مفہوم ہوتے ہیں ۔ معنی و مفہوم کے ظلال و عکوس ہوتے ہیں، ظلال و عکوس کی تحیر گری اور افسوں سازی کے تصرفات ہوتے ہیں۔ اسی طرح مصور کے پاس رنگ ہوتے ہیں، رنگوں کے شیڈ ہوتے ہیں، شیڈ کے پرت ، پرتو اور پرچھائیاں ہوتی ہیں اور ان کے امکانات کے لا متناہی سلسلے ہوتے ہیں ۔ جاوید نامہ ایک عظیم الشان طویل تمثیلی نظم ہے۔ اس کا پر شوق مطالعہ قاری کو احساس کی اس اعلیٰ سطح پر لے جاتا ہے جہاں وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے صنعتِ شعر کے رمز و ایما ، اشارہ و کنایہ اور مجاز و استعارہ کے طائروں نے اپنی چونچوں میں مصوری کی پیلٹ کے سارے رنگ بھر لیے ہیں، جن کے ماہرانہ استعمال سے علامہ اقبال جب اور جہاں چاہتے ہیں ورقِ شاعری کو پلاسِ مصوّری (Canvas of Painting) میں جس سہولت سے تبدیل کر لیتے ہیں، اس کی مثال ملنی بہت مشکل ہے۔ قمر ، عطارد ، زہرہ ، مریخ ، مشتری ، اور زحل ناموں سے افلاک کا سفر ختم ہوا ۔ رومی اور زندہ رود آنسوئے افلاک پرواز کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کی پیغمبرانہ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں مصوری کی بات بھی مسلسل چلی آ رہی ہے۔ مثنوی معنوی میں ایک حکایت کے مطابق فن مصوری میں اہل چین اور اہل روم کا مقابلہ ہو گیا۔ ایک بڑے کمرے کی آمنے سامنے کی دو دیواروں میں سے ایک چینیوں کو اور دوسری رومیوں کو دے دی گئی اور کمرے کے درمیان میں ایک پردہ کھینچ دیا گیا۔ چینیوں نے ایک سو رنگ مانگے جو ان کو فراہم کر دئیے گئے ۔ رومیوں نے کچھ نہ مانگا ۔ مقابلہ شروع ہوا ۔ دونوں نے اپنا اپنا ہنر اپنی اپنی دیوار پر دکھایا ۔ بادشاہ آیا ۔ اُس نے چینیوں کا فن پہلے دیکھا اور دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ چینیوں نے اپنی دیوار پر واقعی اعلیٰ پائے کا فن دکھایا تھا۔ بادشاہ رومیوں کے فن کی طرف پلٹا ۔د رمیان میں سے پردہ ہٹایا گیا ۔ رومیوں نے اپنی دیوار کو اس طرح صیقل کر دیا تھا کہ وہ آئینہ بن گئی تھی اور چینیوں کا سارا فن اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ اس میں سے منعکس ہو رہا تھا ۔ بادشاہ یہ دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا کہ چینیوں کا فن اپنی جگہ بہت خوب سہی لیکن ، رومیوں نے نہ رنگ لگایا نہ برش چلایا تھا اور کمال کر دکھایا تھا ۔ حاضرین محترم ! میں مصورِ اقبال ، اسلم کمال تصویریں بنا بنا کر آپ کو دکھاتا جا رہا ہوں۔ آپ سب مجھ سے بڑے ہنر مند ہیں۔ مجھے پورا یقین آپ سب نے اپنے دلوں کو صیقل کر کے آئینہ بنا رکھا ہے۔ آپ جب یہاں سے جائیں گے سب اپنے آئینوں میں میری تصویروں کے عکس اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔ آنسوئے افلاک یعنی افلاک سے آگے رومی اور زندہ رود پرواز کرتے ہیں اور مکان و لا مکاں کے درمیان ایک دیوانہ شخص دیکھتے ہیں۔ جو بار بار یہ شعر گنگناتا ہے : نہ جبریلے نہ فردوسے نہ حورے نے خداوندے کفِ خاکے کہ می سوزد ز جانِ آرزو مندے زندہ رود کے پوچھنے پر رومی بتاتے ہیں کہ وہ ایک جرمن نکتہ داں نطشے ہے جس نے فوق البشر کا تصور دیا ہے۔ عیسائیت پر جس کی سخت تنقید کی تاب نہ لا کر اہل مغرب نے اُسے دیوانہ کہا ہے۔ لیکن وہ ایک ایسا فرزانہ ہے جس کی عقل خود کلامی میں الجھ کر رہ گئی۔ ایک طرح سے اُس نے بھی اناالحق کہا ہے۔ وہ اہل مغرب کا حلاج ہے۔ وہ مقام کبریا کی جستجو میں ہے۔ مگر اُسے کوئی احمد سرہندی نہیں مل سکا ۔ اور وہ لاالہ پر رک گیا ۔ الا اللہ تک نہ جا سکا ۔ یہ اس کی کم نصیبی ہے۔ رومی زندہ رود سے کہتے ہیں اب آگے دیکھو۔ اب ہم ایسے مقام کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کلام حروف و الفاظ میں نہیں ہوتا ۔ رومی اور زندہ رود جنت کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں رومی کہتے ہیں جنت میں زندگی فقط دیدار ، ذوق دیدار اور ذوقِ دیدار سے منوّر شوقِ گفتار سے عبارت ہے۔ اپنے دل کے جہاں میں جھانک تاکہ تیری آنکھ تیرے اپنے نور سے روشن ہو جائے اور اس روشن نظری سے اس نئے جہان کو تو دیکھ سکے گا ۔ یہ دل کیا ہے؟ ایک جہانِ رنگ و بو ہے اور یہ نیا جہان لیکن رنگ و بو اور چار سو کے بغیر ہے۔ اپنے دل کی دنیا سے آگاہی اس جہانِ لاہوت کو سمجھنے میں رہنمائی کرتی ہے۔ علامہ اقبال جنت کو مجسم نہیں بلکہ روح کی طرح مجرد قرار دیتے ہیں۔ اس کا حال بھی روح و دل کا سا ہے۔ اہلِ دنیا جو جنت کا تصور رکھتے ہیں، آرائشی مصوری کے ایک ماہر کی طرح اس کا نقشہ علامہ اقبال نے یوں کھینچا ہے ’’پہاڑوں پر لالے کے پھولوں کی بہار ہے۔ اور نیچے باغات میں نہریں رواں ہیں ۔ سرخ سفید اور سبز غنچے فرشتوں کی سانسوں سے کھِل رہے ہیں۔ رو پہلا پانی، مشکبار فضائیں اور ہوائیں ہیں۔ نیلے رنگ کے گنبدوں والے محل نظر آتے ہیں ۔ شامیانے اور بانا تیں سرخ رنگ کی ہیں۔ آئینے جیسے چہروں والی حوریں اور غلماں ہیں‘‘۔ جنت میں زندہ رود ایک عالیشان محل زمرد کا بنا ہوا دیکھتا ہے ۔ اس کے اندر سے تلاوتِ قرآنِ پاک کی آواز آ رہی ہے ۔ زندہ رود اس محل کے بارے میں مرشد رومی سے پوچھتا ہے۔وہ کہتا ہے۔ یہ محل شرف النساء کا گھر ہے اے زندہ رود! اس محل کی چھت کا پرندہ فرشتوں سے ہمکلام ہوتا ہے۔ ہمارے سمندر میں اس سے بیش قیمت موتی پیدا نہیں ہوا اور ہندی مسلمانوں میں کسی ماں نے ایسی بیٹی کو جنم نہیں دیا۔لاہور میں اُس کے مزار کی وجہ سے اس شہر کی سر زمین عرش کے ہم پلہ ہو گئی ہے۔ وہ سراپا ذوق و شوق تھی۔ وہ پنجاب کے حاکم (عبدالصمد) کی چشم و چراغ تھی ۔ دو دھاری تلوار اس کی کمر میں ، قرآنِ پاک اس کے ہاتھوں میں اور اس کے ہوش و حواس اللہ کے ذکر میں محو رہتے تھے۔ عفت مآب شرف النسا اس عالم فانی میں اپنی قبر پر قرآن اور تلوار چھوڑ کر اپنے اللہ کی جانب واپس لوٹ گئی۔ پھر چشمِ فلک نے وہ وقت بھی دیکھا جب پنجاب کی سر زمین پرقلبِ مسلمان میں ایمان و یقین سیماب صفت نہ رہا اور : خالصہ شمشیر و قرآں را برد صرف چند الفاظ کا یہ ایک مصرع لکھ کر شاعر نے رنجیت سنگھ کی مڑھی والے کونے سے شروع کر کے عالمگیری مسجد کی چار دیواروں کے بیرون پر جیسے پورا سکھ دور اقتدار پینٹ کر دیا ہے۔ مولانا روم زندہ رود کو لے کر جنت میں آگے بڑھتے ہیں اور درویش شاعر ملا محمد طاہر غنی ، حضرت شاہ ہمدان، سنسکرت شاعر بھرتری ہری، اسماعیلی شاعر ناصر خسرو سے مختصراً متعارف کرایا اور تین بادشاہوں یعنی نادر شاہ افشار ، احمد شاہ ابدالی درانی اور فتح علی ٹیپو کے محل کی منظر کشی کے بعد ان سے گفتگو کروائی ہے۔ زندہ رود چونکہ فتح علی ٹیپو سے خاص عقیدت رکھتا ہے اور اس نے سرنگاپٹم میں اُس کے مزار پر بھی حاضری دی تھی ۔ اور چونکہ جب سارا مشرق سو رہا تھا، فتح علی ٹیپو بیدار تھا، چنانچہ اس سے گفتگو زیادہ تفصیل سے ہوتی ہے اور سلطان شہید میسورمیں اپنے محل کے قریب سے بہنے والے دریائے کاویری کے نام پیغام پہنچانے کا فریضہ زندہ رود کو سونپتے ہوئے کہتے ہیں ۔ دریائے کاویری بھی دنیا میں زندہ رود اور تو بھی زندہ رود ہے۔ جنت کی سیاحت ختم ہوئی ۔ رومی وہاں سے روانہ ہو گئے لیکن زندہ رود کو حوریں روک لیتی ہیں۔ مگر زندہ رود وہاں ٹھہرنے سے معذرت خواہ ہے کیوں کہ جنت کے بارے میںاس کا اپنا تصور اُس پر خوب واضح ہے ؎ مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں حوریں اس شرط پر اُسے جانے کی اجازت دینے پر راضی ہو جاتی ہیں کہ وہ پہلے انہیں ایک غزل سنائے۔ چنانچہ زندہ رود انہیں اپنی ایک پسندیدہ غزل سنا کر جمالِ ایزدی کے حضور حاضری کے لیے روانہ ہو جاتا ہے اور وہاں پہنچ کر جمالِ حق کے بحر نور کا ذکر کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ زمانِ خالص یعنی زمانِ ایزدی ابدی ’’اب‘‘ ہے۔ زندہ رود کہتا ہے کہ قوتِ عشق نے جرأتِ کلام دی اور اس نے جمالِ ایزدی سے مخاطب ہو کر متعدد سوالات پوچھے اور اُسے جوابات سے نوازا گیا۔ آخر میں زندہ رود انقلابِ عالم اسلام کے مستقبل کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ تقدیر کا معاملہ ہے۔ جس میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کی جاتی۔ چنانچہ جلال ایزدی کی تجلی سے جس طرح حضرت موسیٰ بے ہوش ہوئے تھے، زندہ رود بھی بے ہوش ہو جاتا ہے اور جاوید نامہکا سفرِسماوی ا ختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭ حلقۂ اقبال ،اقبال اکادمی پاکستان کے زیر اہتمام یہ خطبہ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۴ء کو بینکویٹ ہال ، ایوان اقبال میں دیا گیا۔  خرم علی شفیق بالِ جبریل:چند تصریحات (دوسری قسط) اس مقالے کی پہلی قسط میں جوپچھلے شمارے میں شائع ہوئی تھی، مندرجہ ذیل تصریحات پیش کی گئی تھیں: ۱۔ بالِ جبریل کو اقبال نے خود مرتب کیا تھا چنانچہ کتاب کے شروع میں فہرستِ مضامین کا نہ ہونا، ابتدائی منظومات پر نمبر شمار موجود ہونا(اور سولہ کے بعد نمبروں کا دوبارہ شروع ہونا) قطعات، رباعیات اور نظموں کی ترتیب وغیرہ سب اس کتاب کی اسکیم کا حصہ ہیں۔بالِ جبریل ’’مجموعۂ کلام‘‘ نہیں بلکہ ایک مکمل کتاب ہے جس کے اندراجات کے معانی سمجھنے کے لیے کتاب میں ان کی جگہ اور سیاق و سباق کو سامنے رکھنا چاہئے۔ ۲۔ کتاب کے شروع کی وہ سولہ اور اِکسٹھ منظومات جنھیں عام طور پر ’’غزلیات‘‘ کہا جاتا ہے، ان میں سے کئی غزل کی ہیئت پر پوری نہیں اترتیں اور اقبال نے بھی انھیں غزل کا عنوان نہیں دیا چنانچہ انھیں غزل کہنا زیادتی ہے۔ دراصل یہ منظومات کا سلسلہ ہے۔ پہلا سلسلہ خدا سے خطاب ہے اور دوسرا سلسلہ انسان سے خطاب ہے۔ اقبال نے ان پر نمبر شمار ڈالے ہیں لہٰذا انھیں ترتیب میں سمجھنا ضروری ہے، مثلاً نظم نمبر ۸ کے آخر میں ساقی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کے سینے کی اندھیری رات کو ماہِ تمام سے محروم نہ رکھے جو اُس کے پیمانے میں موجود ہے کیونکہ سینہ روشن نہ ہو تو سوزِ سخن مرگِ دوام بن جاتا ہے۔ ’’نظم نمبر ۹‘‘ کا آغاز ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ ساقی نے مئے لا الٰہ اِلّا ہُو پلا کر عالمِ من و تُو مٹا دیا ہے اور اس میں بتاتے ہیں کہ رنگیں نوا شاعر کی نگاہ کے جادو سے گل و لالہ جمیل تر ہیں۔ یہ ربط اور تسلسل تمام نمبردار منظومات میں موجود ہے۔ ۳۔ اقبال کی شاعری کے کسی بھی حصے کو سمجھنے کے لیے جاویدنامہ سے موازنہ کرنا ضروری ہے کیونکہ جاویدنامہ کو اقبال نے خود اپنی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا تھا اور وہ کائنات کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے جو اقبال کے ذہن میں موجود تھی۔ بالِ جبریل کو جاویدنامہ سے زیادہ نسبت ہے کیونکہ جاویدنامہ کے فوراً بعد مکمل کی گئی۔ ۴۔ پہلی نظم (’’میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں‘‘) میں انسان کی تخلیق کے اشارے موجود ہیں چنانچہ جس طرح جاویدنامہ کے شروع میں کہتے ہیں کہ خودگری کے ذوق و شوق سے ہر چیز ’’من دیگرم تو دیگری‘‘ کا نعرہ لگا رہی تھی، اُسی طرح اس نظم میں وہ خیالات ہیں جو وجود میں آنے پر انسان کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں، مثلاً یہ بات کہ نگاہِ تیز کبھی دلِ وجود چیر گئی، علم الاسمأ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے اور اس نگاہِ تیز کا کبھی اپنے توہمات میں الجھ کر رہ جانا اُن توہمات کی طرف اشارہ ہے جن سے شیطان نے فائدہ اٹھایا تھا یعنی خدا نے جس درخت کے پاس جانے سے منع کیا ہے، اُس کے پھل میں ہمیشہ کی زندگی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ دوسری اور تیسری نظموں میں واضح طور پر جنت سے نکالے جانے پر اپنا ردِ عمل ہے۔ اسی طرح منظومات کا یہ سلسلہ انسانی تاریخ کے دھارے میں آگے بڑھتا ہوا نظم نمبر ۷ تک پہنچتا ہے، جس میں اقبال کہتے ہیں کہ ایران اور تبریز کی آب و گِل وہی ہے مگر عجم کے لالہ زاروں سے کوئی اور رومی نہیں اُٹھا ۔ اقبال اپنی کشتِ ویراں یعنی اپنی شاعری سے ناامید نہیں ہیں کیونکہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بھی بہت زرخیز ہے (عام طور پر اس مشہور شعر میں کشتِ ویراں سے قوم مراد لی جاتی ہے مگر نظم کے سیاق و سباق میں اس کی ہرگز گنجائش نہیں۔ نیز اقبال نے اپنے فارسی کلام میں کشت یا کھیتی کا استعارہ ہمیشہ اپنی شاعری کے لیے ہی استعمال کیا ہے)۔ اس تناظر میں پہلی پندرہ منظومات کا جائزہ مقالے کی پچھلی قسط میں پیش کیا گیا۔ باقی بالِ جبریل کا مطالعہ اب پیش کیا جا رہا ہے۔ بالِ جبریل کی سولھویں نظم خدا سے خطاب کی آخری نظم ہے۔ دنیا کی خرابی کی تفصیل جو پچھلی کچھ نظموں سے شروع ہوئی تھی، وہ اس میں اختتام کو پہنچتی ہے یعنی یہاں ہنرمند اور جفاکیش لوگوں کی قدر نہیں ہے اور حالات ایسے ہیں جیسے دنیا پر خدا کی بجائے فرنگی کی حکومت ہو۔ اس میں کچھ قصور اُن لوگوں کا بھی ہے جو قرآن کی سچائی ظاہر کر سکتے تھے مگر اپنی تاویلوں سے اُسے عجمی رنگ دے دیتے ہیں ۔ اپنے بارے میں اقبال کہتے ہیں: مدّت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظربند مجھے حیرت ہے کہ بالِ جبریل کی شرحوں میں وضاحت نہیں کی گئی کہ چاند کے غار ہی کیوں؟ یہ جاویدنامہ کی طرف اتنا واضح اشارہ ہے کہ شارحین کو اِسے نظرانداز کرنا کسی طرح جائز نہیں تھا۔ جاویدنامہ میں چاند کی سیر کرتے ہوئے اقبال ایک غار میں پہنچتے ہیں جہاں ایک عجیب طرح کی روشنی پھیلی ہوئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ روشنی ایک سادھو کے گیان دھیان کی روشنی ہے جس کا نام رومی جہاں دوست بتاتے ہیں (جو سنسکرت میں وشوامتر ہوگا)۔ وشوامتر سے اقبال خدا اور تخلیق کی حقیقت کے بارے میں بہت دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنی فکر کو چاند کے غاروں میں نظربند کروانے سے یہ مراد ہے کہ جاویدنامہ کی کائنات میں اقبال نے جو مختلف روحوں کے مقامات متعین کیے ہیں،اُس لحاظ سے وہ اپنے لیے چاند کے غار تجویز کرتے ہیں کہ وہاں گیانی دھیانی سادھوؤں کے ساتھ ہمیشہ خوش رہیں گے اور کبھی سیر کو دل چاہے گا تو یرغمید کی وادی میں پیغمبروں کے طواسین دیکھ آیا کریں گے۔ اس سولھویں نظم کا آخری شعر اس بات کی یاددہانی ہے کہ نظموں کا یہ سلسلہ خدا سے خطاب تھا: چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ کرتا کوئی اِس بندۂ گستاخ کا منہ بند بالِ جبریل میں رباعی جیسی چار چار مصرعوں کی بعض چیزیں ہیں جنھیں کئی ناشر اکٹھا کر کے درمیان میں ایک باب بنا دیتے ہیں۔ اقبال کے اپنے ہاتھ سے ترتیب دیئے ہوئے مسودے میں صاف لکھا ہوا ہے، ان میں سے شروع کی رباعیات پہلے سلسلے کے ساتھ رکھی جائیں، اگرچہ جگہ کی تصریح نہیں کی گئی۔ دراصل یہ وہ رباعیات ہیں جن میں خدا سے خطاب ہے اور ان کی تاثیر یہی ہے کہ وہ نکات جو سلسلہ وار نظموں میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں، ان کے کسی نہ کسی پہلو سے متعلق کوئی ایک دلچسپ اور سوچنے پر مجبور کرنے والی بات ہر رباعی میں کہ دی گئی ہے۔ نظموں کا دوسرا سلسلہ جس میں انسان سے خطاب ہے، وہ زیادہ طویل ہے۔ اس کی ابتدا ’’چند افکارِ پریشاں‘‘ سے ہوتی ہے جن میں اقبال نے سنائی کے ایک قصیدے کی پیروی کی ہے۔افغانستان میں وہ سنائی کے مزار پر گئے تھے اور یہ اشعار اُسی دن کی یادگار ہیں، مگر پھر بھی اس پورے سلسلۂ نظم کو سنائی کی پیروی سے شروع کرنا بہت ہی معنی خیز ہے۔ سنائی اُس شعری روایت کے بانی ہیں جسے ان کے بعد عطار نے آگے بڑھایا اور پھر رومی نے اسی تسلسل میں اپنی مثنوی تحریر کی۔ رومی کی پیروی جس طرح اقبال نے کی، وہ ہمیں معلوم ہے۔ چنانچہ اپنے تمہیدی نوٹ کو وہ رومی ہی کے اُس مشہور مصرعہ پر ختم کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے ہم سنائی اور عطار کے پیچھے چلے آ رہے ہیں۔ سنائی کی پیروی سے آغاز کرنے کی شعری معنویت یہ ہے کہ اکسٹھ نظموں کا یہ سلسلہ صرف اقبال ہی کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ مشرق کے ایک خاص شعری سلسلے کے چاروں ستونوں یعنی سنائی، عطار، رومی اور خود اقبال کی یادگار ہے۔ انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ جاویدنامہ کے شروع میں تمہیدِ آسمانی ہے اور ہم نے دیکھا کہ بالِ جبریل کے پہلے سلسلے کے آغاز میں اور تمہیدِ آسمانی کے آغاز میں بڑی مماثلت ہے۔ جاویدنامہ میں تمہیدِ آسمانی کے بعد تمہیدِ زمینی ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بالِ جبریل کے دوسرے سلسلے کا آغاز بھی بالکل اُسی طرح ہو رہا ہے، جس طرح تمہیدِ زمینی کا آغاز ہوا تھا۔ جاویدنامہ کی تمہیدِ زمینی کے آغاز میں اقبال شہروں سے دُور ایک دریا کے کنارے پر پہنچتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جنون میں بستیوں کی نسبت ویرانوں میں زیادہ دل لگتا ہے۔ اب بالِ جبریل کے دوسرے سلسلے کا پہلا شعر دیکھئے: سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا جاویدنامہ میں اقبال جس درد سے بیتاب ہیں وہ فنا کا دُکھ ہے۔ ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش ہے۔ اس حالت میں وہ رومی کی ایک غزل گانا شروع کرتے ہیں اور خود رومی کی رُوح نمودار ہوکر اُنھیں بتاتی ہے کہ اپنے وجود پر تین گواہیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ پہلی گواہی اپنے آپ کو اپنی نظر سے دیکھنا ہے، دوسری اپنے آپ کو دوسرے کی نگاہ کے نُور سے دیکھنا ہے اور تیسری اپنے آپ کو خدا کے نُور سے دیکھنا۔ اگر تیسرے مقام پر باقی رہ گئے تو ہمیشہ باقی رہو گے۔آسمانوں کا پردہ چاک کر کے خدا کے سامنے جانا ممکن ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ معراج کی شب نبی ٔ آخرالزماں بھی گئے تھے۔ دُوسرے سلسلے کی پہلی پانچ منظومات میں اِنھی خیالات کی بازگشت ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جاویدنامہ میں کہانی بیان ہو رہی تھی۔ بالِ جبریل اُن لوگوں کے لیے ہے جو کہانی پڑھ چکے ہیں، مگر اب کچھ اور چاہتے ہیں تو کہانی کے مختلف مقامات پر اس کے مرکزی کردار کے ذہن اور دل میں جو خیالات اور محسوسات وارد ہوئے تھے، وہ یہاں خُردہ کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں: خودی سے اِس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ میں سمجھا نِگہ پیدا کر اے غافل ، تجلّی عینِ فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا جاویدنامہ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ روح اور مادے کے درمیان فرق کرنے کی وجہ سے دنیا میں ساری مصیبتیں ہیں اور اگر اِن دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو مشکلات حل ہو جائیں گی۔ یہی خیال اس دوسرے سلسلے میں انسان سے خطاب کا مرکزی خیال ہے اور کئی طرح سے بیان ہوا ہے: رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی کہ وہ حلّاج کی سُولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا اسی نظم کے تیسرے ٹکڑے میں ’’دانائے سبل، ختم الرسل‘‘ والے مشہور نعتیہ اشعار ہیں جو ویسے تو بہت مشہور ہیں مگر اُن میں جو بات کہی جا رہی ہے اُس کی تاثیر اور بڑھ جاتی ہے، اگر ان اشعار کو سیاق و سباق میں پڑھا جائے۔ تشکیلِ جدید والے لیکچرز میں اقبال نے کہا تھا کہ رسولِ اکرمؐ کی رسالت کی شان یہ ہے کہ وہ تاریخ میں قدیم اور جدید کے دوراہے پر نظر آتی ہے اور اس طرح اُس نئے زمانے کی آمد کا اعلان ہے جس میں انسان اپنی عظمت سے واقف ہو گا، توہمات سے نجات حاصل کر لے گا اور فطرت کے سامنے اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے قسمت کا جو غلط تصور اس کے ذہن میں ہے، اُس سے نجات حاصل کر کے خود اپنی تقدیر بنانے کا اعتماد حاصل کرے گا۔ ختمِ نبوت کا سب سے بڑا پہلو یہی ہے کہ انسان اپنی روحانیت میں کسی دوسرے انسان کے نئے الہام کا پابند نہیں رہا، بلکہ ایک آخری پیغام کا وارث بن کر خدا سے رابطہ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اقبال کے خیال میں اِس دَور کی تکمیل ابھی ہو رہی ہے (یاد رہے کہ وہ مستقبل سے مایوس نہیں تھے بلکہ فلسفیانہ اعتبار سے انھوں نے جس مسلک سے بار بار اپنی وابستگی ظاہر کی، وہ meliorism ہے جو pragmatism کا ایک جزو ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا نہ مکمل طور پر اچھی ہے نہ مکمل طور پر بری ہے مگر آنے والے دَور میں اچھائی کی مقدار آج سے زیادہ ہو گی۔ (یہ مسلک شاید اقبال اور اُس روایتی مشرقی فکر کے درمیان ایک بنیادی اختلاف کی مثال ہے جس روایتی مشرقی فکر سے وہ ویسے پوری طرح منسلک تھے)۔ چنانچہ ابھی اُنہوں نے کہا تھا کہ دنیوی زندگی میں بھی دنیا کی قید سے آزاد ہوا جا سکتا ہے یعنی توحید یہی ہے کہ خودی سے اس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ اگر میں ستاروں کو شکار کرنے کی بات کرتا ہوں تو تعجب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ میں نے اپنے آپ کو آقاؐ کے شکارکے تھیلے سے باندھ لیا ہے (اور اس مضمون کے لیے اقبال مرزا صائب کے ایک فارسی مصرعے کو لفظی تغیر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں)۔ یہ وہ آقا ہے جو نبوت کو ختم کرنے والا ہے، تمام راستوں سے واقف ہے اور جس نے راستے میں بکھری ہوئی مٹی کو خدا کے نُور سے منور کر دیا: عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں ’کہ بر فتراکِ صاحب دولتے بستم سرِ خود را‘ وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کُل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیںؔ، وہی طاہاؔ! نظم نمبر۸ کا یہ شعر دلچسپ اور وضاحت طلب ہے: حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا! جیسا کہ ہم ابھی دیکھیں گے اقبال یہ نہیں کہ رہے کہ اُن کے یہاں عشقیہ شاعری کی گنجائش نہیں بلکہ اسرارِ خودی میں انھوں نے عشقیہ شاعری کے حوالے سے جو بات کی ہے اُسے ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ وہاں انھوں نے کہا ہے کہ عشق تو بے نیازی سکھاتا ہے اور زندگی کی حسیات کو مضبوط کرتا ہے مگر مشرق میں اس جذبے کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ یہاں عشق کو محبوب کے کوچے میں ذلیل ہونے والا ایسا بھکاری بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس میں عزتِ نفس نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ دراصل عشقیہ شاعری میں اقبال کا پیش رَو اکبر کے زمانے کا ایرانی نووارد شاعر عرفیؔ شیرازی تھا جسے انھوں نے اسرارِ خودی کے پہلے اڈیشن میں حافظؔ کے مقابلے پر ہیرو بنا کر پیش بھی کیا (جب حافظؔ والے اشعار خارج کیے تو ساتھ ہی عرفیؔ کا نام بھی خارج ہو گیا مگربانگِ درا میں عرفی پر وہ شاندار نظم موجود ہے جس میں کہتے ہیں کہ عرفی کے تخیل نے جو محل تعمیر کیا ہے اس پر سینا اور فارابی کے حیرت خانے قربان کیے جا سکتے ہیں اور اس نے عشق کی فضا پر ایسی شاعری لکھی ہے جو آج بھی متاثر کرتی ہے)۔ چنانچہ اب دیکھیے کہ اِسی نظم نمبر۸ کا خاتمہ اس اہم سوال پر ہوتا ہے: کہاں سے تُو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا! اگلی پوری نظم کو اس سوال کا جواب سمجھ کر پڑھیے تو لطف بڑھ جاتا ہے: عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دمبدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گُل میں جس طرح بادِ سحرگاہی کا نَم اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جَم! دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟ اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ، مُلّا سے نہ پوچھ ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم؟ اس کا جواب اگلی نظم (نمبر ۱۰) میں ملاحظہ کیجیے: دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے پھر اِس میں عجب کیا کہ تُو بیباک نہیں ہے نظموں کے درمیان یہ ربط اور تسلسل جس کا پہلے سلسلے میں ہم نے تفصیل سے جائزہ لیا تھا دوسرے سلسلے میں بھی موجود ہے۔ تمام نظموں کو ترتیب میں پڑھیے تو زیادہ لطف دیتی ہیں اور اُن کے صحیح معنی بھی سمجھ میں آتے ہیں۔ اب اس سلسلے کی نظموں کے وہ مشہور اشعار جو اپنے سیاق و سباق کے بغیر لوگوں میں بہت مشہور ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ سیاق و سباق میں ان کے معنی کس طرح بدل جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض اشعار سے تو ایسے معانی منسوب کر دئے گئے ہیں جن کی بالکل گنجائش نہیں تھی اور جو اقبال کی سوچ کے خلاف ہیں۔ نظم ۱۲ کا وہ شعر جس میں مومن کے بے تیغ سپاہی ہونے کی بات ہے بہت مشہور ہے۔ اور اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ غیرمسلم تلوار پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ قرونِ اُولیٰ کے مجاہدین بغیر ہتھیاروں کے جنگ میں شرکت فرماتے تھے۔ ہم دیکھیں گے یہ مفہوم بالکل بیکار اور معانی سے تہی ہے ۔ اس سے پچھلی نظم (نمبر ۱۱) کا آخری شعر دیکھیے: اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق! اب نظم ۱۲ کے ابتدائی تین اشعار دیکھیے جن میں سے تیسرا وہ بے تیغ سپاہی والا مشہور شعر ہے: پوچھ اُس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی تُو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی! کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی، نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی یہاں مسلمانوں سے خطاب ہے ۔ فطرت کی گواہی سے مراد یہ ہے کہ محض دوسروں کی ضد میں اپنے مذہب پر ایمان رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ زندگی ایک پیچیدہ چیز ہے۔ خدا کا پیغام تو بیشک سچا ہے مگر اس پیغام کو اپنانے کا آپ نے جو دعویٰ کیا ہے وہ کس حد تک سچا ہے اُس کا اندازہ آپ کے جوش و خروش یا غصے اور گرمی سے نہیں ہو گا بلکہ اس بات سے ہو گا کہ اُس کا اثر آپ کی زندگی پر کیا ہوا ہے؟ کیا اُس کی وجہ سے آپ اس کائنات سے ہم آہنگ ہوئے ہیں یا نہیں؟ کیا زندگی میں کامیابی اور ناکامی جس اصولوں کے تابع ہے اُن اصولوں پر آپ کی گرفت مظبوط ہوئی ہے یا نہیں؟ یہی فطرت کی گواہی ہے۔ جسے عشق نصیب ہوتا ہے وہی مسلمان ہے خواہ ویسے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی مذہب سے ہو۔ جسے یہ عشق نصیب نہیں وہ کافر ہے خواہ کلمہ پڑھتا ہو۔کیا عشق میں سے آپ نے کچھ حصہ پایا ہے؟ اس کے لیے فطرت کی گواہی کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان عشق سے محروم ہے تو نہ اُس کے پاس دنیادی کامیابی دکھائی دے گی نہ وہ فقر دکھائی دے گا جس میں دل دنیاوی اسباب سے بے نیاز ہوتا ہے (ماہرِ نفسیات ماسلو کی اصطلاح میں self-actualization کہ لیجیے ورنہ کوئی اور نام دے لیجیے مگر بہرحال ایک سکون اور اطمینان کی کیفیت ہوتی ہے)۔ ’’کافر ہے تو کرتا ہے شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ‘‘ میں غیرمسلم کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ پچھلے شعر کے ساتھ رکھ کر دیکھیے کہ گرامر کی رُو سے یہاں حذف ہے جسے شعر میں شامل کریں تو شعر کی مکمل نثر یوں بنتی ہے کہ ’’کافر ہے مسلماں تو شمشیر پر بھروسہ کرتا ہے اور اگر سپاہی مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے۔‘‘ اب سوال پیدا ہوا ہے کہ شمشیر کس بات کا اشارہ ہے؟ اقبال کے یہاں تلوار عام طور پر فطرت کی طاقتوں کا اشارہ ہوتا ہے جو انسان کے ہاتھ میں آ گئی ہوں( مثلاً ’’یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں‘‘ وغیرہ)۔ شمشیر کے یہ معانی لیے جائیں تو فطرت کی گواہی والی بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ قدرتی وسائل یعنی تلوار حاصل ہو یا نہ ہو اصل بات یہ سمجھنا ہے کہ جو کچھ قدرت میں ہے وہی ہمارے اندر بھی ہے کہ وہ macrocosm ہے اور ہم microcosm ہیں۔ اگر مادے کے وسائل حاصل نہ ہوں تو انھیں اپنی روح سے پیدا کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کے نزدیک روح اور مادہ مختلف نہیں ہیں: کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیرِ مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی! میں نے تو کیا پردۂ اسرار کو بھی فاش دیرینہ ہے تیرا مرضِ کورنگاہی نظم نمبر ۱۴ میں پھر یہی استعارے اس طرح جمع ہوئے ہیںکہ دلِ بیدار کرو جس کے بغیر ضرب کاری نہیں ہوتی اور صحرا میں مُشک والا ہرن تلاش کرنا ہو تو اس کے لیے سونگھنے کی حس تیز ہونی چاہیے محض حساب کتاب سے وہ ہرن ہاتھ نہیں آتا! نظم نمبر ۱۷ کا وہ شعر بھی بہت مشہور ہے جس میں دین کو سیاست سے الگ کرنے کے نتیجے میں چنگیزیت کی پیشین گوئی کی گئی ہے: زمامِ کار اگر مزدُور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی! جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی! نظم کے بارے میں چونکہ یہ نوٹ شامل ہے کہ یورپ میں لکھے گئے چنانچہ زمامِ کار مزدور کے ہاتھوں میں ہونے سے شاید انگلستان کی لیبر پارٹی کی حکومت مراد ہو گی جس نے گول میز کانفرنسوں کا وہ سلسلہ منعقد کیا تھا جس کی آخری دو کانفرنسوں میں شرکت کرنے اقبال یورپ گئے تھے۔ مغربی تہذیب پر اقبال کا اعتراض یہی تھا کہ اس میں روح اور مادے کو الگ سمجھا جاتا ہے۔ دین اور سیاست کے اکٹھے ہونے کی بات اُنہوں نے خطبۂ الٰہ آباد میں بھی کی ہے اور اُسی کی روشنی میں اس شعر کو سمجھنا چاہیے۔وہاں کہتے ہیں، ’’خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست حیاتیاتی طور پر ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا شہری نہیں ہے جسے کہیں اور واقع روحانی دنیا کی خاطر ترک کرنا ہو۔‘‘ چنانچہ اقبال کے نزدیک دین اور سیاست کا یکجا ہونا اس لیے ضروری ہے کیونکہ انھیں علیحدہ کرنے میں یا تو مذہب اہلِ سیاست کے ہاتھوں میں عوام کے استحصال کے لیے ہتھیار بن جائے گا جس طرح قرونِ اولیٰ کے بعض معاشروں میں ہوتا تھا اور جس کی ایک بہت بری صورت مغرب میں بادشاہت کے خدائی استحقاق یعنی divine right to rule کی صورت میں دکھائی دیتی تھی اور تیسری دنیا میں اب بھی کبھی کبھی نظر آ جاتی ہے۔ دوسری صورت میں قدرتی وسائل چند لوگوں میں محدود ہو جائیں گے جنھیں خدا کا خوف بھی دوسروں کی گردن میں اپنے استعمار کی زنجیر ڈال کر انھیں اپنا غلام بنانے سے باز نہیں رکھے گا جیسا کہ اقبال کے زمانے میں مغربی استعمار کی صورت تھی جہاں خداپرستی اور نسل پرستی ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ اگر اقبال کی شاعری میں دین کسی بات کا استعارہ ہے تو روح اور مادے کو ایک سمجھنے کا استعارہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنی بہترین قوتوں کو پرورش دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اسی کی تشریح اگلی نظم (نمبر۱۸) میں مزید کھل کر ہوئی ہے جہاں ’’جذبِ مسلمانی ‘‘ کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ یہ آسمانوں کے آسمان کا راز ہے جس کے بغیر نہ راہِ عمل دکھائی دیتی ہے نہ یقین پیدا ہوتا ہے۔ یہ جذبِ مسلمانی محبت کی ایک قسم ہے اور محبت کا شکار ہونے والوں کی کہانی بس اِتنی سی ہے کہ تیرکھانے کا لطف محسوس کیا اور اس کے بعد شکاری کے تھیلے میں پہنچ کر آسودہ ہو گئے۔ گستاخی اور بیباکی بھی اسی محبت کی ادائیں ہیں اور محبت کے ساتھ ہوں تو قابلِ معافی ہیں، چنانچہ اسی سیاق و سباق میں وہ مشہور شعر ہے: فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک اس کے بعد اقبال پہلی دفعہ اپنی اُردو شاعری میں ایک ایسے موضوع کو داخل کرتے ہیں جس کی تشریح میں وہ فارسی میں مستقل کتابیں لکھ چکے تھے۔ یہ موضوع ہے خودی۔ اس کا ذکر سنائی والی نظم میں بھی آیا تھا کہ خودی سے طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیںمگر اب زیادہ تفصیل سے بات ہوتی ہے: خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تُو آبجو اِسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں! طلسمِ گنبدِ گردُوں کو توڑ سکتے ہیں زجاج کی یہ عمارت ہے ، سنگِ خارہ نہیں! اس سلسلے میں یہ یاد رکھنا دلچسپ ہو گا کہ اسرارِ خودی میں عشق کی سب سے بڑی فضیلت یہی بیان ہوئی ہے کہ یہ خودی کو مضبوط بناتا ہے۔ خودی کیا ہے؟ اس کی تشریح اقبال نے یوں کی تھی کہ یہ شعور کا وہ روشن نقطہ ہے جو خدا کے نور سے منور ہے۔ عام الفاظ میں اسے اَنا، ’’مَیں‘‘ یا اپنے ہونے کا احساس کہہ سکتے ہیں مگر اقبال کی سوچ میں یہ احساس خدا کی ہستی سے براہِ راست روشنی حاصل کر رہا ہے۔ چنانچہ خودی خدا تک پہنچنے کا راستہ بھی ہے اور اس راستے پر چلیں تو دنیا کی بہت سی منزلیں بیچ میں آتی ہی نہیں اور بڑی جلدی کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں، جیسا کہ اگلی نظم (نمبر۲۲) میں کہتے ہیں: یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبحگاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی! تری زندگی اِسی سے تری آبرو اِسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُو سیاہی! نظم ۲۸ کا وہ شعر بہت مشہور ہے جس میں کہا ہے کہ اس نوائے پریشاں کو شاعری مت سمجھو کیونکہ میں میخانے کے رازِ دروں کا محرم ہوں۔ میخانے کا وہ کیا راز ہے جس کے یہ محرم ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی نظم میں وہ راز بھی بڑی خوبصورتی سے بیان ہوا ہے مگر نظم کو غزل سمجھنے کی غلطی نے عام طور پر پڑھنے والوں کی توجہ اس طرف نہیں جانے دی۔ نظم کا درونِ میخانہ والا حصہ ملاحظہ کیجیے: نہ بادہ ہے نہ صراحی، نہ دَورِ پیمانہ فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ جانانہ! میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ! یوں بات صاف ہو جاتی ہے۔ میخانے کا وہ اہم راز جس سے یہ واقف ہیں وہ یہی ہے کہ محبوب کی بزم میں اصل کیفیت نگاہ سے ہے۔ یہی بات اگلے دو اشعار میں ایک اور طرح بیان ہوئی ہے: کلی کو دیکھ کہ ہے تشنۂ نسیمِ سحر اِسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ! کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور سب آشنا ہیں یہاں، ایک میں ہوں بیگانہ! کلی اپنے زور سے شاخ سے پھوٹی گویا جو کچھ اس کے اختیار میں تھا وہ اس نے کر ڈالا۔ اب اس سے آگے تنہا اس کے بس کا روگ نہیں اور نسیمِ سحر کا انتظار ہے۔ گویا وہی نگاہِ جانانہ کی ضرورت ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ بس اِسی کوشش اور انتظار میں ان کے دل کا تمام افسانہ موجود ہے مگر انھیں یوں لگتا ہے جیسے ان کے سوا باقی سب تو آشنا ہوں۔ نہیں معلوم یہ غیاب ہے یا حضور۔ اِس غیاب اور حضور کے اشارے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اگلی نظم (نمبر ۲۹) اس بارے میں ہے کہ تاریخ میں اس نگاہِ جانانہ یا نسیمِ سحر نے کن کن صورتوں میں ظہور کیا ہے۔ اِسی میں شمشیر و سناں اول والا مشہور شعر ہے جس کے معانی سمجھنے میں لوگ اقبال کے ساتھ بڑی زیادتی کرتے ہیں۔ پچھلی نظم میں جو نگاہ اور نسیمِ سحر کی گفتگو ہوئی تھی اس کی روشنی میں اس پوری نظم کو ایک دفعہ پڑھیے: افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر احوالِ محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا سوز و تب و تاب اوّل، سوزو تب و تاب آخر میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مٔے ناب آخر خلوت کی گھڑی گزری، جلوت کی گھڑی آئی چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر تاریخ وقت کا عمل ہے جس کی نگرانی جاویدنامہ کی رُو سے زُروان کے سپرد کی گئی ہے جو اپنے آپ کو قاہر اور مہربان کہہ کر متعارف کرواتا ہے۔ جو نگاہ سے چھپا ہوا بھی ہے اور ظاہر بھی ہے۔ پیامِ مشرق میں اسی نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ ’’چوں رُوحِ رواں پاکم از چنگ و چگونِ تو‘‘۔ اس نظم میں بھی یہ نہیں کہا جا رہا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو ایسا ہو جائے گا۔ یہاں تو وہ حادثات بیان ہو رہے ہیں جو انسان کی دسترس سے باہر ہیں اور جنھیں ہمارے چنگ و چگون سے قطعِ نظر ہر حال میں رونما ہونا ہے۔ اقبال جب کہتے ہیں کہ تقدیرِ اُمم یہ ہے کہ پہلے شمشیر و سناں اور پھر طاؤس و رباب تو وہ طاؤس و رباب کی تحقیر نہیں کر رہے بلکہ ایک حقیقت بیان کر رہے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اِسی بالِ جبریل میں آگے چل کر نظم ۵۵ میں وہ کہیں گے کہ ایبک و غوری کے معرکے باقی نہیں رہے مگر نغمۂ خسرو ہمیشہ تازہ و شیریں ہے! تقدیر انسانی تدبیر سے ماورا ہے، اس حقیقت کو حافظ نے بھی محسوس کیااور اقبال نے بھی مگر ان دونوں کے ردِ عمل مختلف ہیں۔ اقبال تقدیر کی بے رحمی سے فرار تلاش کرتے ہیں تو اس حقیقت میں کہ وقت کا وہ بے رحم دھارا جو ہمارے چنگ و چگون سے متاثر نہیں ہوتا وہ خود ہمارے اندر بھی تو موجود ہے۔ ہم اس کا رازِ دروں ہیں اور وہ ہمارا رازِ دروں ہے۔ طاقت کا سرچشمہ ذات سے باہر تلاش کرنے میں مایوسی ہے مگر ذات کے اندر اس کی جستجو میں کیف و مستی ہے اور بانسری کے عشق کی آگ ہے۔ اگلی چند نظموں میں یہی کیف و مستی ہے اور کلی کے تشنۂ نسیمِ سحر ہونے کی بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ ہر شے مسافر ہر چیز راہی اور ہر چیز ہے محوِ خود نمائی وغیرہ وغیرہ۔ تقدیر کی برق ہمیشہ بیچارے مسلمانوں ہی پر نہیں گرتی بلکہ : اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ! ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ! یہ نظم نمبر ۳۲ کا پہلا شعر ہے۔ آخری شعر ہے: رازِ حرم سے شاید اقبالؔ باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ! اس سے اگلی نظم میں خودی کو بلند کرنے والا مشہور شعر ہے: خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے! خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے! بات وہی ہے کہ تقدیر کی سفاکی کا مقابلہ اپنے آپ میں ڈوب کر کیا جا سکتا ہے۔ مادے اور روح کو الگ الگ نہ سمجھیں تو یہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ باہر دنیا میں جو کچھ ہے وہ ہمارے اندر ہماری روح میں بھی ہے۔ جاویدنامہ پر مریخی ستارہ شناس نے اقبال سے جو گفتگو کی تھی اسے سامنے رکھے بغیر خودی کو کر بلند والا شعر کچھ زیادہ مزہ نہیں دے سکتا۔ وہ گفتگو مقالے کی پچھلی قسط میں بھی پیش کی جا چکی ہے۔ مختصراً یہ کہ اگر ایک تقدیر نے تمہارا جگر خوں کر دیا ہے تو خدا سے کہو کہ وہ تمہیں کوئی اور تقدیر دے دے کیونکہ اس کے یہاں تقدیروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ خودی کو بلند کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اسرارِ خودی میں اقبال کہ چکے ہیں کہ عشق خودی کو مضبوط بناتا ہے مگر عشق سے اقبال کی مراد خودترسی نہیں ہے، چنانچہ یہاں بھی بالکل اگلی نظم (نمبر ۳۴) کا آغاز ہے: جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خودآگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی! عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی! اسرارِ خودی میں عشق کی فضیلت کے ساتھ ہی کہا ہے کہ کسی سے کچھ مانگنے سے خودی کمزور ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس نظم میں بھی: اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اُولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی! گویا اقبال نے خودی کو کر بلند اتنا کہہ کر بات ختم نہیں کر دی تھی بلکہ خودی کو بلند کرنے کے جو راستے ان کے ذہن میں موجود تھے انھیں اگلی نظموں میں پیش بھی کیا۔ یہاں تک پہنچ کر سلسلۂ کلام اچانک انتہائی ذاتی اور ادبی اعتبار سے رومانوی لے اختیار کرتا ہے یعنی نظم نمبر ۳۵، مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا اور: یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر یہ ناداں گر گئے سجدوں جب وقتِ قیام آیا! چل اے میری غریبی کا تماشا دیکھنے والے وہ محفل اُٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دَورِ جام آیا دیا اقبالؔ نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ اِک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا! ممکن ہے ان اشعار کو خردبین میں رکھا جائے تو اِن میں بھی کوئی پیغام اور کوئی مقصدیت نکل آئے مگر سچ یہ ہے کہ اگر بالِ جبریل کو تسلسل کے ساتھ پڑھا جائے تو یہاں پہنچ کر یہی تاثر ملتا ہے کہ بہت مشکل زندگی کی طرف گزارنے والا حکیم الامت اچانک آہستہ سے اپنی ذاتی زندگی کے دُکھ درد کہنے پر اُتر آیا ہے۔ جنھیں شکایت ہے کہ اقبال کے یہاں رومانوی اور ذاتی رنگ نہیں ملتا اُنہوں نے یقینا اِس قسم کے اشعار کو نظراندا ز کر دیا ہے اور اقبال کو صرف اُن اشعار کی روشنی میں دیکھا ہے جو چمٹی سے اٹھا کر اپنے سیاق و سباق سے جدا کر کے کیلنڈروں میں شائع کر دئے جاتے ہیں یا ایک زمانے میں ٹیلی وژن پر اشتہارات ختم ہونے کے بعد چلا دئے جاتے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی کی گود میں بلّی دیکھ کر نظم لکھنے اور اپنے آپ کو عاشقِ ہرجائی کہ کر ہنسنے والااقبال بانگِ درا حصہ دوم کے بعد فوت نہیں ہو گیا تھا بلکہ اُس سے بالِ جبریل تو کیا ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں بھی ملاقات ہوتی ہے اور جو اُس کے مزاج کو سمجھتے ہوں وہ اسرارورموز اور پس چہ باید کرد میں بھی اُس سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی شکایت کرے کہ بالِ جبریل والا اقبال اپنی ذاتی سطح پر آ کر بھی صرف اپنے فنی کرب کا ذکر کیوں کرتا ہے اور مثال کے طور پر بازار میں چیزوں کے مہنگا ہونے سے پیدا ہونے والی روزمرہ کی پریشانیوں کا ذکر کیوں نہیں کرتا تو یہ شکایت جائز نہیںجب کسی انسان کی شخصیت کی ساخت ہی اس طرح ہوئی ہو کہ فن اور فکر اُس کی ذات کا حصہ بن جائیں اور شالامار میں کسی کے ہاتھ سے پھول کا تحفہ قبول کرتے ہوئے بھی اُسے صرف اپنی ہی نہیں بلکہ اس پھول کی دھڑکن بھی سنائی دے رہی ہو ۔ اگلی نظم (نمبر ۳۶) میں اقبال خود اپنی شخصیت سے کچھ پردے ہٹانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیانِ مشتاقی وغیرہ۔ یہ اور اگلی تین نظمیں (نمبر ۳۷، ۳۸، ۳۹) ایک فنکار کے طور پر اقبال کی انفرادی آواز ہے جس میں وہ دوستانہ سطح پر کچھ اپنی مشکلات بیان کر رہے ہیں اور کچھ اپنے فنی مسلک سے وابستہ نظریات کا انتہائی ذاتی اور موضوعی انداز میں ذکر کر رہے ہیں یعنی بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت، جو اُس سے نہ ہو سکا وہ تُو کر اور عشق بیچارہ عقل کی طرح ملا، زاہد اور حکیم کا بھیس نہیں بنا سکتا۔ نظم نمبر۴۰ وہ مشہور شاہکار ہے جس کے معانی سمجھنے میں بڑی ناانصافیاں کی گئی ہیں۔ ہم سب کو اپنے اسکول اور کالج کے زمانے کے وہ مباحثے یاد ہوں گے جن میں طرار مقرر سائنس اور خلابازی کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کہ دیتے تھے اور ہم نے یومِ اقبال پر بنائی ہوئی ایسی تصویریں بھی دیکھی ہوں گی جن میں کہکشاں کے سامنے ایک راکٹ یا خلائی جہاز کی تصویر بنا کر لکھ دیا جاتا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس نظم میں اس کے بالکل برعکس بات کی جا رہی ہے۔ مادی کائنات کی دریافت تو اقبال کے زمانے میں بھی جاری تھی (اور جاویدنامہ میں بعض سیاروں کاحال پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے خلا کے بارے میں اپنے زمانے کی جدید تحقیق سے کچھ نہ کچھ استفادہ ضرور کیا تھا) اور پلوٹو سیارہ بھی ۱۹۳۰ میں دریافت ہوا تھا (ممکن ہے یہ غزل اسی خبر کے ردِ عمل میں لکھی گئی ہو) مگر اقبال کے نزدیک کائنات کی مادی تسخیر کافی نہیں تھی۔ اصل بات یہ سمجھنا ہے کہ ہم خود کائنات کا حصہ ہیں اور جو کچھ باہر نظر آتا ہے وہی ہماری اپنی روح میں بھی موجود ہے۔ کائنات میں آگے بڑھنے کا راستہ صرف ستاروں سے گزر کر نہیں جاتا بلکہ اپنے اندر سے ہو کر گزرتا ہے: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں کائنات کی مادی تسخیر تک محدود رہ جانے میں ایک بنیادی غلطی ہے جس کا ذکر اگلی نظم (نمبر ۴۱) میں ہے یعنی ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام، وائے تمنائے خام!یہ علم اور عشق کے درمیان توازن کا مسئلہ ہے جیسا کہ نظم نمبر ۴۲ سے معلوم ہوتا ہے یعنی خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل، اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل!اقبال نے چونکہ عشق کے امتحانوں کا ذکر چھیڑا تھا (جن کا بیان اِن نظموں میں ابھی جاری ہے) چنانچہ اس نظم کا اختتام اس شعر پر ہوتا ہے جو بہت مشہور ہو گیا ہے: غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل! اگلی کئی نظموں میں داستانِ حرم کے اس پہلو یعنی عشق کی طرف اشارے ہیں اور موجودہ زمانے میں اہلِ حرم کی عشق سے دُوری کا گلہ ہے کہ مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے، خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اسرار بھی ہے؟ اگلی نظموں کو تسلسل میں پڑھیے تو اہلِ حرم کی محرومیوں کی وجہ وہی حقیقت کے امتحان سے گریز کرنا یعنی reality check کے بغیر اپنے عقائد کو کافی سمجھ لینا ہے جس پر اقبال یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کچھ کام نہیں بنتا بے جرأتِ رندانہ اور قلندری کی بات بھی کرتے ہیں اور جنون کی بھی اور پھر بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ: کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سُوئے کوفہ و بغداد! یہ احساس ہمیشہ اقبال کے ساتھ رہا کہ وہ جس قسم کی بات کر رہے ہیں اُسے اُن کے اپنے زمانے میں پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا اور جس کام کا وہ آغاز کر رہے ہیں وہ ایک نسل کا کام نہیں ہے چنانچہ اسرارِ خودی میں بھی اپنے آپ کو آنے والی کل کا شاعر کہا تھا۔ بالِ جبریل کی نظموں کے پہلے سلسلے میں بھی جہاں خدا سے خطاب کیا تھا اس کا اختتام یوں کیا تھا کہ اقبال خدا کے حضور بھی خاموش نہیں رہا کاش کوئی اس گستاخ بندے کا منہ کرتا۔ اب یہ سلسلہ جس میں انسانوں سے خطاب تھا اُس کے اختتام کے قریب نظم نمبر ۶۰ میں بھی اسی قسم کی بات کرتے ہیں: کمالِ جوشِ جنوں میں رہا میں گرمِ طواف خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف اس میں جس طواف کا ذکر ہے اُس سے مراد یہی نظمیں ہیں جن کا ہم نے ابھی جائزہ لیا۔ویسے تو ان میں اسلام ہی کا پیغام پیش کیا گیا ہے مگر بات اس طرح کھل کر کہی گئی ہے اور کچھ سخن گسترانہ باتیں بھی ہیں کہ کمالِ جوشِ جنوں میںحرم کا طواف کرنے کا استعارہ بھی برمحل ہے اور حرم کے غلاف کواس طواف سے کیا خطرہ تھا یہ بھی سمجھ میں آتا ہے۔ یہ نظم اور اگلی نظم (نمبر۶۱) جو اس سلسلے کی آخری نظمیں ہیں اس گفتگو کو لپیٹتی ہیں۔ حقیقت سے تعلق قائم رکھنا اقبال کی نظر میں اتنا اہم ہے کہ افلاطون پر پھبتی کسنا وہ ایک دفعہ پھر اپنا فرض سمجھتے ہیں (اُس بیچارے کو اسرارِ خودی میں بھی بہت سخت سست کہا تھا) کیونکہ اقبال کے خیال میں افلاطون حواسِ خمسہ اور تجربے کی روشنی میں حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ذہنی جمع خرچ سے کائنات کی تشریح کرتا ہے اور اس روّیے نے مسمانوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے (یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا یہ اعتراض افلاطون پر جائز ہے یا محض اس کے بعض شارحین نے اس کے افکار کو جس طرح پیش کیا اس تک محدود رہنا چاہیے)۔ یہاں اقبال جو بات آخر میں یاد دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ: تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اَعراف ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کُشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف اُس زمانے کی اسلامی دنیا میں ترکی عام طور پر بیداری کا نمونہ سمجھا جاتا تھا اور اقبال نے خطبات میں بھی اجتہاد اور نشأۃ الثانیہ کی بات کو جدید ترکی پر تبصرے پر ختم کیا تھا۔ اس سلسلۂ بیان کے آخری اشعار بھی اِسی مناسبت سے اس گفتگو کو اس کے منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں: سنا ہے میں نے سخن رَس ہے تُرکِ عثمانی سنائے کون اُسے اقبال کا یہ شعرِ غریب! سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب! اس کے بعد ایک قطعہ اور وہ رباعیات ہیں جنھیں اس سلسلے کے موضوع سے مناسبت ہے۔ یہ نظموں کے دو طویل سلسلوں اور آگے آنے والی زیادہ عظیم الشان نظموں کے درمیان ایک حدِ فاصل بھی قائم کرتے ہیں اور اگر قاری دو سلسلوں کے بعد تھک گیا ہو تو اگلی نظموں سے پہلے ذہن کو کسی قدر سکون پہنچا کر تازہ دم ہونے کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے بعددُعا اور مسجدِ قرطبہ کے ساتھ بالِ جبریل کی مستقل نظمیں شروع ہوتی ہیں مگر وہاں بھی ہر نظم پوری کتاب کا ایک حصہ ہے اور ایک خاص ترتیب میں رکھی گئی ہے جس کا ہم اس مقالے کی اگلی قسط میں جائزہ لیں گے۔  ڈاکٹر سید تقی عابدی اقبال کا فلسفۂ تقدیر تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟ علامہ اقبال نے فرمایا : عبث ہے شکوئہ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے جبرو قدر کا مسئلہ جسے مسئلہ تقدیر بھی کہتے ہیں بہت پرانا پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے جس پر ہر زمانے میں ہر مکتب خیال کے لوگوں نے اظہار خیال کیا ہے ۔ دانشوروں فلاسفروں حکیموں اور صاحب نظروں نے گہری باتیں کہی لیکن اس مسئلہ کی گتھیاں سلجھنے کے بجائے الجھتی گئیں اور صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی گفتگو جوں کی توں رہی ۔ علمائے اسلام میں دو انتہا پسند گروہ نظر آتے ہیں جو اسلام کے کسی خاص فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دوسرے اسلامی فلسفوں کی طرح ان افراد کا تعلق بھی تمام فرقوں سے ہے۔ ایک گروہ انسان کو مکمل مختار جانتا ہے جس کو قدری کہتے ہیں دوسرا گروہ انسان کو مکمل مجبور جانتا ہے جس کو جبری کہتے ہیں۔ علامہ اقبال وہ عظیم مفکر اور فیلسوف اسلامی ہیں جنھوں نے اس مسئلے پر بڑے غور و فکر اور سنجیدگی سے مطالعہ کر کے اعتدال اور میانہ روی کی راہ اختیار کی جو قرآن، حدیث، عقل اور منطق کے ساتھ ہے۔ گلشن راز کے خالق محمود شبستری جو آٹھویں صدی ہجری کے عظیم شاعر اور فلاسفر تھے، جن کی مثنوی سے متاثر ہو کر علامہ اقبال نے نئی مثنوی گلشن راز جدید لکھی، جبری تھے یعنی انسان کو مجبور محض جانتے تھے چنانچہ کہتے ہیں جو کوئی جبری عقیدہ کا قائل نہیں وہ گمراہ اور کافر ہے۔ ہراں کس را کہ مذہب غیر جبر است نبیؐ فرمود کاں مانند گبر است لیکن علامہ اقبال نے گلشن راز جدید میں فرمایا کہ سلطان جنگ بدر حضور اکرمؐ نے فرمایا صاحب ایمان یعنی مومن مختاری اور مجبوری کے درمیان ہے۔ چنین فرمودئہ سلطان بدر است کہ ایماں درمیاں جبرو قدر است یعنی تقدیر نہ جبر ہے نہ اختیار کامل بلکہ ایک حالت ہے ان دونوں حدوں کے درمیان ۔ اقبال کہتے ہیں کہ ہم جبر کے قائل ہو کر تقدیر کا لکھا سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں اور سب کچھ قسمت یا مشیت پر چھوڑ دیں یہ خود فریبی ہے اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ ایک اور مقام پر کہتے ہیں : تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی علامہ مشروط طور پر تقدیر کو اور اس کے تحت جبر کو بھی مانتے ہیں۔ ایسے جبر کو وہ محمود کہتے ہیں جس میں مقاصد عالیہ کے لیے تڑپ اتنی شدت اختیار کر جائے کہ محسوس کرنے والا علت و معلول کے سلسلہ کو بالکل نظر انداز کر کے ظاہری نتیجہ سے آزاد ہو جائے ۔ علامہ جس جبر کو مضر مانتے ہیں اس میں سب کچھ مشیّت پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو ایمان کے خلاف ہے۔ علامہ ایمان کو یقین زندہ سے تعبیر کرتے ہیں جو فکر و کوشش کے تجربات اور قلبی واردات کی پیداوار ہے چناں چہ اسی قوت سے مجبوری مختاری میں بدل جاتی ہے ۔ انہی مطالب کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے: چہ میپرُسی چہ گوں است و چہ گوں نیست کہ تقدیر از نہاد او برون نیست تو ہر مخلوق را مجبور گوئی اسیر بند نزد و دور گوئی ز جبر او حدیثی درمیاں نیست کہ جان بی فطرت آزاد جاں نیست شبیخوں بر جہان کیف و کم زد ز مجبوری بہ مختاری قدم زد تقدیر کے لُغوی معنی اندازہ کرنا، اندازہ مقرر کرنا اور آئین فطرت کا اظہار ہونا وغیرہ ہے۔ تقدیر کے اصطلاحی معنی ہمارے معاشرے میںجو مقبول ہیں یعنی جملہ افعال اور اعمال انسانی کا پہلے سے متعین ہونا ہے۔ قرآن مجید میں تقدیر کا لفظ پانچ مقامات پر آیا ہے لیکن کسی بھی مقام پر اُن اصطلاحی معنوں میں نہیں جو ہمارے معاشرے میں مقبول ہیں۔ اسی لیے علامہ نے فرمایا کہ میں نے تقدیر کے رخ سے پردہ اٹھایا ہے اور اس کی حقیقت بتانے کی کوشش کی ہے کیوں کہ زمین والے اپنی خودی کی دولت لٹا چکے تھے اسی لیے وہ نکتہ تقدیر پہچان نہ سکے میرے لفظوں میں اس کا باریک راز چھپا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اگر تو بدل جائے تو تیری تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ ارضیان نقد خودی در باختند نکتۂ تقدیر را نشناختند رمز باریکش بہ حرفی مضمراست تو اگر دیگر شوی او دیگر است علامہ اقبال نے مسلمانوں کی پستی اور زوال کی سب سے بڑی وجہ ’’ذوقِ عمل‘‘ سے محرومی بتائی ہے اور اس ’’ذوقِ عمل‘‘ کی محرومیت کے دو اسباب بتائے ہیں۔ ایک وحدت الوجود کا عقیدہ اور دوسرے تقدیر کا غلط تصور۔ تقدیر کے مسئلہ کے ذیل میں ہم پہلے ذوق عمل پر گفتگو کریں گے جو در حقیقت نُدرتِ فکر و عمل کی جان ہے اور جسے علامہ نے زندگی کے انقلاب کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ نُدرتِ فکر و عمل کیا شے ہے ، ذوق انقلاب نُدرتِ فکر و عمل کیا شے ہے ، ملّت کا شباب نُدرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی نُدرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارا لعل ناب اور یہی ذوق عمل انسانی زندگی کی محبت کی حرارت اور تمنا کی نمود ہے جو زندہ قوموں کی بقا اور ارتقا کا ضامن ہے : جس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی رُوح اُمّم کی حیات کشمکشِ انقلاب علامہ کہتے ہیں کہ تقدیر کی غلط فہمی کی وجہ سے قوم کو بخصوص نسلِ جدید کو جبریّت کا غلط عقیدہ سکھایا جا رہا ہے کہ تمام شعوری ورادات کا مبدا غیر شعوری نفس ہے ہم نہیں جانتے ہمارے غیر شعوری نفس کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اسی لیے اس پر ہمارا تصرف نہیں اور جب ہمارا تصرف نہیں تو ہم اس سے سرذد ہونے والے اعمال کے ذمّہ دار نہیں ۔ چنانچہ اس افیون نے نئی نسل اورعوام کی قوت عمل کو مفلوج کر دیا ہے: صُوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال مُلّا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار شاعر کی نوا مُردہ افسُردہ و بے ذوق افکار میں سرمست ، نہ خوابیدہ نہ بیدار وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستیِ کردار علامہ اس پیچیدہ فلسفہ تقدیر کے بارے میں اپنے پیر مولانا روم سے سوال کرتے ہیں : اے شریک مستیِ خاصانِ بدر میں نہیں سمجھا حدیث جبرو قدر مولانا روم فرماتے ہیں: بال بازاں را سوئے سلطاں برد بال زاغاں را بگورستاں برد یعنی قدرت نے عقاب اور گید دونوں کو طاقت ور شہپر دئیے وہ ان کو جیسے چاہے استعمال کریں۔ عقاب اپنی لیاقت ، محنت اور کوشش سے اڑ کربادشاہ کے ہاتھ پر بیٹھا تو دوسری طرف گید نے اپنی جہالت ، کاہلی اور سستی کی وجہ سے مردار کی تلاش میں قبرستان کا رخ کیا ، اسی لیے تو علامہ نے فرمایا : نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے علامہ نے مسئلہ تقدیر یا جبرو قدر پر بہت کچھ لکھا ہے جو چیدہ چیدہ جاوید نامہ ،زبور عجم ، ضرب کلیم ،پیام مشرق اور گلشن راز جدید میں بکھرا ہوا ہے۔علامہ نے مسئلہ تقدیر کو دوسرے اپنے فلسفوں کی طرح کسی ایک مثنوی یا کتاب میں ترتیب وار نظم نہیںکیا جس کی وجہ سے تمام مطالب سمجھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑااسی لیے بعض لوگ علامہ کو انتہا پسند ’’قدری ‘‘ کہنے لگے یعنی اقبال ہر چیز کو انسان کے اختیار میں سمجھتے ہیں جو صحیح نہیں۔ علامہ کا موقف قرآنی موقف ہے جہاں خدا نے انسان کو آزادی دے رکھّی ہے، چاہے نیکی کرے چاہے بدی کرے۔ اور قرآنی آیات کے مطابق ’’انسان سعی اور کوشش کا نام ہے‘‘ جو کوئی ذرّہ برابر نیکی کرے گا اُسے اس کی جزا ملے گی اور جو کوئی ذرّہ برابر بدی کرے گا اُسے اس کی سزا ملے گی۔ ایسی روشن قرآنی آیات کے موجودگی میں انسان کے جملہ اعمال اور افعال کا تقدیر کو ذمّہ دار ٹھہرنا قرین عقل ہے نہ قرین عدل و انصاف ۔ علامہ کہتے ہیں اگر قرآنی آیت ’’اور تم کچھ چاہ بھی نہیں سکتے جب تک خدا نہ چاہے‘‘ کامطلب یہ لیا جائے کہ انسان ہر کام کے کرنے میں مجبور ہے تو پھر جزا اور سزا کے کیا معنی ہیں۔ یقینا خدا نے خود کو قادر مطلق کہا ہے خود کو خیر و شر کا خالق کہا ہے، اس کی مرضی کے بغیر نہ خارجی دنیا میں کوئی عمل انجام ہو سکتا ہے اور نہ انسان سے کوئی فعل سرزد ہو سکتا ہے، ہاں مگر انسان بعض امور میں مختار اور آزاد ہے اور بعض امور میں مجبور اور پابند ہے چنانچہ ہر مسئلہ میں مجبور سمجھنا نادانی ہے اور ہر امور میں مختار سمجھنا دیوانگی ہے اور صحیح روش درمیانی ہے: کہ ایماں درمیان جبر و قدر است علامہ کہتے ہیں اسی نظریہ تقدیر کی غلط فہمی نے ملت اسلامیہ کو عمل سے غافل کر دیا جس کا بہانہ ’’شراب الست‘‘ بنی: مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست گریز کشمکشِ زندگی سے مُردوں کی اگرشکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست! یہی نہیں بلکہ صحیح تعلیمات قرآنی نہ ہونے کی و جہ سے تقدیر کا بہانہ بنا کر طائر لاہوتی نے اپنے لیے قفس کو حلال اور آزاد آشیانہ کو حرام سمجھ رکھا ہے۔ اسی قُرآں میں ہے اب ترکِ جہان کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر تن بہ تقدیر ہے ، آج اس کے عمل کا انداز تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خُوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر اس تقدیر کے فلسفہ کو بہت کم افراد نے سمجھاہے : پابندیِ تقدیر کہ پابندی احکام! یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خِرد مند اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر ہے اس کا مُقلِّد ابھی ناخوش ابھی خُورسند تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند چونکہ احکام الٰہی کی پابندی کا بہترین نمونہ حضور اکرم ﷺ کی ذات مقدس ہے، اس لیے پیروی سنت حضور اکرم ﷺ ہی تقدیر اور کامیابی کی شمع راہ ہونا چاہیے۔ کشودم پردئہ از روی تقدیر مشو نومید و راہ مصطفیؐ گیر میں نے تقدیر کو بے نقاب کیا ہے، نا امید نہ ہو اور راہ حضور اکرم ﷺ پر گامزن رہو اور اسی پر ہر روز تقدیر اور قسمت کا لکھا بدلتا رہے گا۔ اگر ایک تقدیر کے عمل سے رنج ہو تو خدا سے عزم و عمل کی توفیق مانگ تاکہ دوسری تقدیر تجھے خوشی دے سکے۔ گرزِیک تقدیر خوں گردد جگر خواہ از حق حکم تقدیر دیگر مایوس مت ہو کیوں کہ تو جدید سرنوشت اور تقدیر و قسمت مانگ سکتا ہے کیوں کہ خدا کے حضور میں لاتعداد تقدیریں ہیں جو بدل سکتی ہیں: تو اگر تقدیر نو خواہی رواست ز اینکہ تقدیرات حق لا انتہا است انسان زمین پر خلیفہ بن کر آیا ہے اور حضور اکرمؐ رحمت کی انتہا ہیں جن کے فیض سے تقدیر کُل حاصل ہو سکتی ہے۔ حرف اِنّی جاعِلُٗ تقدیر او از زمین تا آسمان تفسیر او خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست رحمت للعالمینیؐ انتہاست نسخہ او نسخہ تفسیر کل بستہ تدبیر اور تقدیر کل کاش انسان تقدیر کو سمجھ سکتا ۔ اس نے تقدیر کے معنی کو اچھی طرح نہیں سمجھا اور نہ خودی اور نہ خدا کے جلوے کو محسوس کیا : معنی تقدیر کم فہمیدہ ائی نی خودی را نی خدا را دیدہ اے مرد مومن خدا سے دعا کرتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں تو بھی میرے ساتھ رہ :۔ مرد مومن با خدا دارد نیاز با تو ما سازیم و تو با ما بساز مردمومن کا ارادہ ہی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور نئی تقدیر حاصل کر سکتا ہے اور وہ اپنی خودی کو مستحکم اور بلند و عالی کر سکے گا: عزم اُو خلاّق تقدیر حق است اورمزا تو جب ہو گا جب خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے؟ جہاں تک عقیدہ وحدت الوجود کا تعلق ہے اس کا گہرا اثر مسئلہ تقدیر پر ہے۔ علامہ فلسفہ وحدت الوجود جسے فلسفہ ’’ہمہ اوست‘‘ بھی کہتے ہیں مسلمانوں کی پستی اور گمراہی کا باعث جانتے ہیں ۔ یہ فلسفہ اتنا وسیع اور وقت طلب ہے کہ اس مختصر سی تحریر میں صرف اُس کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے ۔ یہ فلسفہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی سے منسوب کیا جاتا ہے جو تقریباً ساڑھ آٹھ سو سال قبل اسپین میں پیدا ہوئے اور پھر دمشق میں قیام پذیر ہو گئے ۔ ابن عربی کی دو تصنیفات فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم مشہور ہیں۔ ابن عربی کے متعلق علمائے اسلام کی رائے میں اختلاف ہے بعض انھیں ملحد اور کافر اور بعض انھیں ولی کامل سمجھتے ہیں۔ ابن عربی کہتے ہیں ۔ ’’ازل کے دن جب خدا کے سوا کوئی موجود نہ تھا تو خدا نے کن فیکون کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے کہا تھا کیوں کہ اگر عدم بھی ہوتا تو اس کا وجود ہوتا اور اس وقت خدا کے سوا کچھ موجود ہی نہیں تھا اور خدا نے کُن کہ کر مخلوق کے اندر خود کو جلوہ آرا کر دیا یعنی ہم مخلوق خدا ہی سے ظہورمیں آئے ہیں اور خدا ہی میں جذب ہو جائیں گے ۔ علامہ واجب الشہود یا فلسفہ ہمہ از اوست کے طرفدار ہیں یعنی خدا اپنے مقام پر اور مخلوق، خدا کی تخلیق کی ہوئی اپنے مقام پر جداگانہ ہے۔ علامہ، ابن عربی کی عظمت کے قائل ضرور ہیں لیکن ان کے فلسفہ کو قبول نہیں کرتے، چنانچہ ابن عربی کی تصنیف فصوص الحکم کے رد میں کتاب لکھنے کا ارادہ سراج الدین پال کے خط میں ظاہر کرتے ہیں ۔ علامہ فرماتے ہیں توحید کا مفہوم مذہبی ہے، وحدت الوجود کا مفہوم فلسفیانہ ہے، توحید کی ضد شرک ہے اور وہ کثرت نہیں جیسے صوفیا کہتے ہیں ۔ علامہ نے تقدیر کے مسئلہ کی طرح اس میں بھی اعتدال کالحاظ رکھا ۔ وہ حالت سُکر نہیں بلکہ حالت صحو کو اسلام سمجھتے ہیں۔ اسی لیے تو فرمایا حضور کے صحابہ میں کوئی حافظ شیرازی نہیں تھا ۔ حافظ کے تصوف پر گہری تنقید کے اشعار جو اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن کے دیباچہ میں لکھے گئے آج بھی خود بیان ہیں۔ ہوشیار از حافظ صہبا گسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار آں فقیہ ملّت مئے خوارگاں آں امام اُمّتِ بے چارگاں محفل او درخورے ابرار نیست ساغر اُو قابل احرار نیست بی نیاز از محفل حافظ گذر الحذر از گوسفنداں الحذر ایسی محفلیں علامہ کی نظر میں بے چارگی اور گوسفندی سکھاتی ہیں ۔ قسمت کے یقین کی افیون پلاتی ہیں اور انسان کو مجبور اور اسیر بنا دیتی ہے ۔ علامہ اس زنجیر کو عزم اور عمل سے توڑ نے کے قائل تھے اور یہی ان کا فلسفہ تقدیر بھی ہے:۔ اے دوست جہاں میں بنتی ہیں انساں کے عمل سے تقدیریں اک عزم و یقین کا ہاتھ پڑا اور ٹوٹ گئیں سب زنجیریں  ڈاکٹر علی رضا طاہر عبدالکریم الجیلی اور اقبال عبدالکریم الجیلی آٹھویں صدی ہجری کے معروف مشاہیر میں شمار کیے جاتے ہیںاردو دائرہ معارف اسلامیہکے مطابق وہ بغداد کے باشندے تھے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے ساتھ والدہ کی طرف سے نسبی تعلق کی وجہ سے الجیلی کہلاتے تھے۔ طریقت میں سلسلۂ قادریہ سے منسلک تھے۔ شیخ شرف الدین اسمعٰیل بن ابراہیم الجبرتی اُن کے مرشد تھے ۔ انھوں نے ہندستان کی سیاحت کی اور اپنے مرشد کی معیت میں کچھ عرصہ یمن میں بھی قیام پذیر رہے۔ اُن کی تصانیف میں سے بیس کے قریب معلوم و موجود ہیں جب کہ بیس کے قریب معدوم ہو چکی ہیں۱۔ الجیلی کے عقائد شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی تعلیمات پر مبنی ہیں۔ اس سلسلے میں ولیم چیٹک (William Chittick) لکھتے ہیں : Coming back to the Central Islamic Lands, a number of names need to be mentioned simply to indicate that they represent some of the most famous figures in the history of Ibn 'Arabi's school. As Morris remarks about 'Abd-Al-Karim Al Jili (832/1428) he is undoubtedly both the most original thinker and the most remarkable and independent mystical writer" among Ibn 'Arabi's well known followers. 2 تصوف میں الجیلی کی معروف تالیف الانسان الکامل ہے۔ انسان کامل کے مباحث عالم اسلام میں سب سے پہلے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے مرتب صورت میں پیش کیے اور ان کے بعد ہی انسان کاملکے مباحث نے اسلامی تصوف میں راہ پائی۔ ابن عربی کے شاگرد اور مرید و مفسر صدرالدین قونوی نے اپنی معروف تالیف مفتاح الغیب میں انسان کامل کے موضوع پر ایک الگ فصل کے تحت سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان کے بعد دو عرفا نے انسان کامل کے موضوع پر مفصل کتابیں تحریر کیں۔ ایک کتاب تو عزیز الدین النسفی کی ہے، جو ساتویں صدی ہجری کے نصف آخر کی معروف شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، دوسری عبدالکریم الجیلی کی الانسان الکامل ۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق: الجیلی کے مسلک کے بنیادی موضوع ہمیشہ مابعد الطبیعیاتی تناقضات پر مبنی ہوتے ہیں۔ گو اس کی تعبیرات اکثر جدلی ہوتی ہیں اور ابن عربی کی تحریروں کے مقابلے میں ان میں زیادہ باقاعدگی ہے۔ اس کی کتاب الانسان الکاملکو جس نے مراکش سے لے کر جاوا تک تصوف پر گہرا اثر ڈالا، ابن عربی کی مابعد الطبیعیات اور عمومی حیثیت سے پورے تصوف کی مابعد الطبیعیات کی پہلی باقاعدہ مرتب صورت کہا جا سکتا ہے۔۳ عبدالکریم الجیلی کی تمام روشِ فکر و تخیّل نے بالعموم اور اُس کی الانسان الکاملنے بالخصوص اقبال کے فکر و تخیّل میں کیسے راہ پائی، اس کا ایک جائزہ زیر نظر سطور میں نذرِ قارئین ہے۔ عبدالکریم الجیلی کے حوالے سے اقبال کا پہلا علمی مضمون ۱۹۰۰ء میں منصہ شہود پر آیا۔ اس مضمون کا اختصاص یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو عبدالکریم الجیلی کے حوالے سے اقبال کی پہلی تحقیقی کاوش ہے، دوسری طرف اب تک کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق، اقبال کے علمی و فکری بلکہ تخلیقی شعور کا (کسی مضمون کی صورت میں) پہلا اظہار ہے۴ اور اسے بجا طور پر اقبال کی تصنیفی ، تالیفی اور ذہنی و فکری سرگرمیوں کا نقطۂ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔۵ ڈاکٹر عبدالسلام خورشیدلکھتے ہیں: ’’عبدالکریم الجیلی کی کتاب میں انسان کامل کا جو تصور پیش ہوا، اقبال نے اس پر مزید تفکر کیا ۔۔۔۔۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے تفکر کا آغاز اسی مقالے سے ہوا۔‘‘۶ یہ مقالہ اقبال نے اُس وقت تحریر کیا جب وہ اورینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے مذکورہ بالا اسامی پر اقبال کی تاریخِ تقرر ۱۳ ؍مئی ۱۸۹۹ء بتائی ہے۷ گویا اقبال نے یہ مقالہ ۲۰،۲۱ سال کی عمر میں تحریر کیا تھا ۔ اس کا عنوان تھا :"The Doctrine of Absolute Unity as Expounded by Abdul Karim Al-Jilani"یہ Indian Antiquary کے ستمبر ۱۹۰۰ء کے شمارے میں پہلی بار شائع ہوا۔ شاہد حسین رزاقی نے اُسے درج ذیل نوٹ کے ساتھ: اپنی کتاب Discourses of Iqbal میں پیش کیا ہے ۔۸ This article was published in The Indian Antiquary of Bombay in its issue for September,1900. It is a comprehensive statement of Islamic metaphysical mysticism as represented by Shaikh Abdul Karim Al-Jili in his famous work Al-Kamil. اقبال کی نظر میں اس مقالے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ۲۹ ستمبر ۱۹۰۵ء کو جب ٹرنٹی کالج کیمبرج میں بحیثیت ریسرچ فیلو داخلے کی درخواست دی تو اُس میں انھوں نے مذکورہ مقالے کا ذکر ایک علمی و تحقیقی مقالے (Dissertation) کے طور پر کیا۔ ۹ مگر اس میں اقبال نے ’’الجیلی ‘‘ کے بجائے ’’الجیلانی‘‘ لکھا ہے۔ بعدازاں اُنھوں نے (کیمبرج کے مقالے میں تو نہیں) ڈاکٹریٹ کے مقالے میں اسے ’’الجیلی‘‘ سے بدل دیا۔ ۱۰ اقبال کو ان کے تحقیقی مقالے The Development of Metaphysics in Persia پر ۷مئی ۱۹۰۷ء کو میونخ یونی ورسٹی جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔ اس کے باب پنجم ’’تصوف‘‘ میں اقبال نے پھر سے عبدالکریم الجیلی کے نظریہ انسان کامل کو مورد بحث قرار دیا ہے۔ یہاں انھوں نے صوفیانہ مابعدالطبیعیات کے مختلف پہلوئوں کا ذکر تین عنوانات کے تحت کیا ہے۔ ان میں سے ایک صوفیہ کے اُس مکتب فکر کی نمایندگی کرتا ہے جو حقیقت کو بطور نور یا فکر لیتے ہیں۔ جو لوگ حقیقت کو بطور نور لیتے ہیں، اُن کو اقبال نے شیخ الاشراق کے حوالے سے اور جو حقیقت کو بطور فکر لیتے ہیں، اُنھیں عبدالکریم الجیلی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔۱۱ یہاں یہ ذکر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ عبدالکریم الجیلی پر اپنے مذکورہ بالا پہلے مقالے کو اقبال نے، چند معمولی نوعیت کی تبدیلیوں کے بعد، من و عن اپنے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے میں شامل کر لیا ۔اس باب کا عنوان ہے: Reality As Thought-Al-Jili, Ibn 'Arabi ۱۲ (اُن تبدیلیوں کا ایک جائزہ ہم اپنی اس تحریر کے آخر میں پیش کریں گے) اب ہم اقبال کے اس مقالے کے تناظر میں، عبدالکریم الجیلی ، ابن عربی اور الانسان الکامل کو ان صفحات پر منعکس کرنے کی کوشش کریں گے۔ اقبال کے اس مقالے کا آغاز ابن العربی سے عبدالکریم الجیلی کے اخذ و اکتساب کے اس بیان سے ہوتا ہے: He was not a prolific writer like Shaikh Muhy al-Din Ibn 'Arabi whose mode of thought seems to have greatly influenced his teaching. He combined in himself poetical imagination and philosophical genius, but his poetry is no more than a vehicle for his mystical and metaphysical doctrines. Among other books he wrote a commentary on Shaikh Muhy al-Din Ibn 'Arabi's al-Futuhat al-Makkiya, a commentary on Bismillah, and famous work Insan al-Kamil (printed in Cairo).13 اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالکریم الجیلی نے اپنی کتاب الانسان الکاملمیں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے نظریۂ انسان کامل ہی کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ ایک وحدت الوجودی صوفی تھے اور الانسان الکامل میں شیخ اکبر کے وحدت الوجودی رنگ کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اقبال کے مقالے کا مندرجہ ذیل اقتباس نہایت خوب صورتی کے ساتھ بیان کرتا ہے: The Essence of God or Pure Thought cannot be understood: no words can express it, for it is beyond all relation and knowledge is relation. The intellect flying through the fathomless empty space pierces through the veil of names and attributes, traverses the vasty sphere of time, enters the domain of the non-existent and finds the Essence of Pure Thought to be an existence which is non-existence _ a sum of contradictions. It has two (accidents): eternal life in all past time and eternal life in all future time. It has two (qualities). God and creation. It has two (definitions), uncreatableness and creatableness. It has two faces, the manifested (this world) and the unmanifested (the next world). It has two effects, necessity and possibility. It has two points of view; from the first it is non-existent for itself but existent for what is not itself; from the second it is existent for itself and non-existent for what is not itself.14 الجیلی کے افکار پر ابن عربی کے وحدت الوجودی رنگ کا اندازہ مذکورہ ، بالا پیراگراف سے لگایا جا سکتا ہے۔ انسان کامل کے نظریے کی اصل و اساس ’’حقیقتِ محمدیہ ﷺ ‘‘ ہے۔ انسان کامل کی صفات کو الجیلی کے حوالے سے اقبال نے نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ ۱۵ انسان کامل کی صفات کے بیان میں ایک مقام پر، اقبال نے ابن عربی سے الجیلی کے تفاوت کو اس طرح بیان کرنے کی کوشش بھی کی ہے: He controverts Shaikh Muhy al-Din ibn 'Arabi's position that the Universe existed before the creation in the knowledge of God. He says, this would imply that God did not create it out of nothing, and holds that the Universe, before its existence as an idea, existed in the self of God. 16 عبدالکریم الجیلی اور شیخ اکبر کے اس اشتراک و اختلاف کی طرف اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں یوں اشارہ ملتا ہے: ’’ان دونوں کے درمیان جو بعض تضاد نظر آتے ہیں، وہ جیسا کہ الجیلی نے بھی لکھا ہے، نقطۂ نظر یا تاویل کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوئے، اس عقیدے کا مرکزی تصور وحدت الوجود ہے‘‘۔۱۷ اقبال کے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے کے بعد کی تحریروں میں، صرف دو مقامات پر الجیلی کا ذکر ملتا ہے۔ ایک تو ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ نامی مقالے میں جس میں اقبال نے وحدت الوجودی تصوف سے اپنے اختلافی نقطۂ نظر کے بیان میں ابن عربی کے ذیل میں الجیلی کا بھی ذکر کیا ہے اور دوسرے اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کے نام اپنے ایک مکتوب میں نظریۂ انسان کامل کے ضمن میں الجیلی سے اپنے تعلق کو بیان کیا ہے۔ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں اقبال نے وحدت الوجود کے مباحث میں الجیلی کا ذکر اس طرح کیا ہے: مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیںکہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیہ کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبّر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے، مثلاًشیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح کملا ۔ مثلاً وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلات ستہ یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم الجیلی نے اپنی کتاب الانسان الکامل میں کیا ہے۔ ۱۸ اقبال کی مذکورہ بالا رائے سے ہمیں عبدالکریم الجیلی کی فکر کے بعض پہلوئوں کے حوالے سے فکر اقبال کے بدلتے ہوئے امکانات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نکلسن کے نام مذکورہ بالامکتوب میں الجیلی، اُس کے نظریۂ انسان کامل اور اُس سے اپنے تعلق کو اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے: بعض انگریز تنقید نگاروں نے اس سطحی تشابہُ اور تماثل سے، جو میرے اور نٹشے کے خیالات میں پایا جاتا ہے، دھوکا کھایا ہے اور غلط راہ پر پڑ گئے ہیں۔ Athenaeum والے مضمون میں جو خیالات ظاہر کیے گئے ہیں، وہ بہت حدتک حقائق کی غلط فہمی پر مبنی ہیں لیکن اس غلطی کی ذمہ داری صاحبِ مضمون پر عائد نہیں ہوتی۔ اُس نے اپنے مضمون میں میری جن نظموں کا ذکر کیا ہے، اگر اُسے ان کی صحیح تاریخ اشاعت کا بھی علم ہوتا، تو مجھے یقین ہے کہ میری ادبی سرگرمیوں کے نشو و ارتقا کے متعلق اُس کا زاویۂ نگاہ بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ وہ انسان کامل کے متعلق میرے تخیل کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے خلطِ مبحث کر کے میرے انسان کامل اورجرمن مفکر کے فوق الانسان کو ایک ہی چیز فرض کر لیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل انسانِ کامل کے متصوفانہ عقیدے پر قلم اُٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے جب نہ تو نیٹشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا اور نہ اُس کی کتابیں میری نظروں سے گزری تھیں ۔ یہ مضمون Indian Antiquary میں شائع ہوا۔ جب ۱۹۰۷ء میں مَیں نے ایرانی الٰہیات پر ایک کتاب لکھی تو اس کتاب میں اس کو شامل کر لیا گیا۔ ۱۹ عبدالکریم الجیلی اور اقبال کے حوالے سے اپنی گفتگو کو سمیٹنے سے پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ الجیلی پر ستمبر ۱۹۰۰ء میں مطبوعہ اپنے سب سے پہلے مضمون کو ۱۹۰۷ء میں جب اقبال نے اپنے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے میں شامل کیا تو اس میں کیا ترامیم یا تبدیلیاں کیں۔ Indian Antiquary میں مطبوعہ مضمون کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا حصہ ایک تمہیدی پیراگراف ہے۔ دوسرے حصے میں الجیلی کے نظریۂ انسان کامل کو بیان کیا گیا ہے اور تیسرے حصے یعنی آخری پیراگراف میں اقبال نے ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ پہلے پیراگراف میں اقبال نے ہندو فلسفے کی طرف مغربی ماہرین کے ہمدردانہ اور مسلم فلسفے کی طرف متعصبانہ رویّے کا تذکرہ کیا ہے۔ ۲۰ بعدازاں اقبال نے ان اسباب و احوال کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے کچھ عرصے تک دنیائے اسلام میں تخلیقی فکر نمو نہ پا سکی۔۲۱ وہ کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد ازاں زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی انتہائی قابل قدر نادر ، تخلیقی اور آزادانہ فکری و عملی کاوشوں کو سرے سے نظر انداز کر دیا جائے۔ ۲۲وہ اپنی اس تحقیق کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: We wish here to illustrate their originality by considering that portion of the Islamic philosophy, which has been generally condemned under the contemptuous name of mysticism.23 اُس کے بعد اقبال نے تصوف کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں کا ذکر کیا ہے جو مذہب کے الفاظ و تراکیب میں مستور ہوتی ہے ۔ اقبال ، روحانی تجربے کا منطق و استدلال سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: Hence mysticism appeals to a standard higher than intellect itself.24 بعدازاں وہ تصوف یا روحانی تجربے کے ذریعے کے طور پر’ قلب‘ کو بیان کرتے ہیں۔۲۵ اور پھر یہ کہتے ہوئے کہ ’’اب میں انسانی مسائل کے حل میں تصوف کی سائنسی اہمیت سے صرف نظر کرتا ہوں‘‘،وہ Islamic Metaphysical Mysticism کے عنوان کے تحت عبدالکریم الجیلی کا بیان شروع کر دیتے ہیں۔۲۶ اقبال کے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں یہ تمہیدی پیراگراف شامل نہیں ہے۔ اس کے بعد مقالے کا دوسرا حصہ ہے جس میں الجیلی کے صوفیانہ نظریے سے بحث کی گئی ہے۔ ابتدائی مقالے کا یہ دوسرا حصہ من و عن ماسوا دو تبدیلیوں کے، ڈاکٹریٹ کے مقالے میں شامل کر دیا گیا ہے۔۲۷ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ الجیلی کے اسم سے مسمّٰی کی طرف جانے کی بحث میں اقبال اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں اس جملے کا اضافہ کرتے ہیں کہ اسم سے مسمّٰی کی طرف جانے کی بحث میں الجیلی فرقہ اسماعیلیہ کے نقطہ نظر کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔۲۸ یہ بات اقبال کے ابتدائی مقالے میں دسمبر ۱۹۰۰ء میں شامل نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اپنے ستمبر ۱۹۰۰ء کے مقالے میں اقبال نے الجیلی کے حوالے سے ’’انسان کامل‘‘ کے خدا کے کائناتی مظہر بن جانے کو Doctrine of the Logos کے نقطۂ نظر کے مشابہ اور پیش بین قرار دیا اور اس نقطۂ نظر کو تمام نامور مسلمان مفکرین کا پسندیدہ نظریہ قرار دیتے ہوئے اس عہد کے متکلمین میں غلام احمد قادیانی کا ذکر برعظیم کے ایک نمایندہ متکلم کے طور پر کیا ہے۔ ڈاکٹریٹ کے مقالے میں اقبال کی یہ رائے شامل نہیں ہے۔ ۲۹ ان دو باتوں کے علاوہ دونوں مقالوں کا دوسرا حصہ بالکل یکساں ہے، ماسوا اس کے کہ ڈاکٹریٹ کے مقالے میں کہیں اختصار سے کام لیا گیا ہے، کہیں تکرار کو حذف کر دیا گیا ہے یا پھر یہ کہ ابتدائی مقالے میں عربی تراکیب و اصطلاحات کو ڈاکٹریٹ کے مقالے میں صرف انگریزی میں بیان کیا گیا ہے۔ الجیلی کے حوالے سے اقبال کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اس دوسرے پیراگراف پر ختم ہو جاتا ہے ۔ (جس میں اقبال نے الجیلی کے نظریۂ انسان کامل کو بیان کیا ہے) اور پہلے مقالے کا تیسرا حصہ یعنی آخری پیراگراف جو مکمل طور پر الجیلی کے انسان کامل کے بارے میں اقبال کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے، وہ ڈاکٹریٹ کے مقالے میں شامل نہیں ہے۔ اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے (جو صرف ابتدائی مقالے کے آخر میں شامل ہے) اقبال الجیلی کے نظریۂ انسان کامل کو قرآن و حدیث کے مستند اور ہر شک و شبہے سے بالا دلائل سے مزین قرار دیتے ہیں۔۳۰ الجیلی نے انسان کامل کے ارتقا کو تین مراحل میں بیان کیاہے۔ اقبال الجیلی کے ان تین مراحل اور مسیحیت کے نظریۂ تثلیث کی ایک نئی فلسفیانہ تعبیر پیش کرتے ہوئے، مقالے کی آخری سطور میں یہ رائے دیتے ہیں: His chief Doctrine however, is sufficiently clear_a doctrine which makes the principal merit of our author and brings him out as the triumphant possessor of the deep metaphysical meaning of the Trinity.31 مزید برآں اقبال کہتے ہیں کہ الجیلی نے جدید جرمن فلسفے ، خاص طور پر جرمن Hegelianism اور انگلستان کے جدید Neo- Hegalian school of thought کے بہت سے نظریات کی پیش بینی کی ہے۔۳۲ الجیلی کے انسان کامل کے حوالے سے اقبال کی آرا کو ہم اس کے اس جملے پر تمام کرتے ہیں: His book is a confused jumble of metaphysics, religion, mysticism and ethics, very often excluding all likelihood of analysis.33 الجیلی کے بارے میں اقبال کی ابتدائی تحریروں سے لے کر تا آخر ، اختیار کیے گئے نقطۂ نظر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ : ۱۔ فکر و ہستی کی عینیت ۳۴ عالم مادی ہستی مطلق کی ایک خارجی صورت ، فطرت خدا ۳۵کے ذہن کا ایک تصور ۳۶ انسان کامل کے ارتقا کے تین مراحل اور ترتیب خودی کے تین مدارج ، روحانی تجربے کے حصول میں قلب کی اہمیت و نوعیت ، روحانی تجربے کی خصوصیت ، صاحب تجربہ اور صرف استدلال پر انحصار کرنے والوں کے مقاصد کا فرق ، عقل اور قلب میں تفاوت ۳۷ اور شرکی اضافیت ۳۸ جیسے تصورات و موضوعات میں الجیلی اور اقبال کے ہاں حیرت انگیز قسم کی مشابہت پائی جاتی ہے جس سے اقبال کی، اپنی فکر کے اہم پہلوئوں کے حوالے سے، الجیلی سے اثر انگیزی کا ثبوت ملتا ہے۔۳۹ ۲۔ ابتدا میں اقبال کا رجحان وحدت الوجود کی طرف تھا، بعد ازاںاُنھوں نے وحد ت الوجود سے الگ راہ اختیار کر لی ۔ (جس کی طرف ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ نامی مقالے میں اشارہ ملتا ہے، جس کا ہم گذشتہ سطور میں ذکر کر چکے ہیں۔) ۳۔ وحدت الوجود کے اسلامی تصور اور جدید مغرب کے Pantheism (ہمہ اوست) کی تفہیم میں اقبال اشتباہ کے شکار نظر آتے ہیں۔ ۴۔ اقبال الجیلی کے نظریۂ انسان کامل کے ہمیشہ مدّاح رہے۔ الجیلی کے تصوّرِ انسانِ کامل کو اقبال کی فکر میں ’’ مرد مومن‘‘ کے روپ میں ایک زندہ حیثیت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اقبال کی تمام فکر کا مدار، آئیڈیل اور مُنتہا مرد مومن (انسان کامل) ہے جو تمام صفات کا جامع ہے۔ اللہ اور انسان کے درمیان واسطہ ہے اور تمام انفرادی اور اجتماعی آنات، انسانیت اور کائنات کا مقصود ہے اور وہ انسانِ کامل ذاتِ محمدیہ ﷺ ہے ۔ اقبال پر الجیلی کے اثرات کا حوالہ خود ڈاکٹر نکلسن کے نام اقبال کے ایک خط سے بھی ملتا ہے ، جس کا گذشتہ صفحات میں ذکر آ چکا ہے۔ ۴۰ اقبالیات کے ذخیرے میں بھی اس طرف کئی حوالے ملتے ہیں، مثلاً عزیز احمد اپنی تصنیف اقبال: نئی تشکیل میں لکھتے ہیں: انسان کامل کے کسی اور واحد نظریے کا اقبال کے درویش اور مومن کے تصور پر اتنا اثر نہیں پڑا جتنا الجیلی کے بعض خیالات کا اثر ہے۔۴۱اسی طرح ڈاکٹر ابواللیث صدیقی رقم طراز ہیں کہ ’’عبدالکریم الجیلی نے بھی انسان کامل کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور خود علامہ اقبال کا انسان کامل کا ایک تصور ہے، یہ انسان کامل اقبال کا مرد مومن ہے۔۴۲ ۵۔ نظریۂ انسان کامل کے علاوہ الجیلی اور اقبال میں ایک اور اہم مشابہت بھی پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ الجیلی کے بارے میں اقبال کی یہ بات کہ اس میں شاعرانہ تخیّل اور فلسفیانہ دقیق النظری گھل مل گئی تھی لیکن اس کی شاعری اس کے صوفیانہ اور مابعد الطبیعیاتی نظریات کے اظہار کا محض ایک آلہ تھی۴۳، خود اقبال پر بھی بعینہٖ صادق آتی ہے۔ فلسفہ اور تخیّل یا فکر اور خیال کا حسین امتزاج ان کی ذات ، ان کی فکر، اُن کی شاعری اور اُن کی نثر میں ملتا ہے اور انھوں نے کئی مقامات پر شاعری کو محض اظہار کا وسیلہ قرار دیا ہے، مثلاً : مولانا سید سلیمان ندوی کے نام اپنے ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۹ء کے ایک مکتوب میں کہتے ہیں: شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی بار یکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں، مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو، اور بس ۔ اس بات کو مدّنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجب کہ آیندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں۔۴۴ اسی بات کو پروفیسر شجاع کے نام ۲۰؍جنوری ۱۹۳۱ء کے خط میں یوں بیان کرتے ہیں :’’ میرے پیش نظر حقائق اخلاقی و ملّی ہیں، زبان میرے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے بلکہ فن شعر سے بھی بحیثیت فن کے نابلد ہوں‘‘۔۴۵ اسی طرح عشرت رحمانی کے نام ایک مکتوب میں بھی ایسا ہی بیان ملتا ہے:’’مجھے شاعری سے سروکار نہیں ، مِیرا مقصد تو ہندوستان میں بیداری پیدا کرنا ہے‘‘۔۳۴۶؍جنوری ۱۹۲۶ء کے ایک مکتوب میں شوکت حسین کے نام خط میں یوں اظہار کرتے ہیں: ’’میراادبی نصب العین ، نقاد کے نصب العین سے مختلف ہے۔ میرے کلام میں شعریت ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور میری ہرگز یہ خواہش نہیں کہ اس زمانہ کے شعرا میں شمار ہو‘‘۔۴۷ اقبال کے شعری و نثری آثار میں اور بھی کئی مقامات پر اس طرف اشارے ملتے ہیں مگر الجیلی اور اقبال میں فکر و تخیّل اور طریقۂ کار کی مشابہت کے بیان میں ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ٭٭٭ حوالے اور حواشی ۱۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ دانش گاہ پنجاب ، لاہور، ج ۱۲، ص ۹۴۳ ۱۳۹۳ھ؍۱۹۷۳ئ۔ ۲۔ ولیم چیٹک کا مضمون"The School of Abn 'Arabi مشمولہ Encyclopaedia of Islamic Philosophy مرتبہ : سید حسین نصر، سہیل اکیڈمی ، لاہور ، ۲۰۰۲، ص ۵۲۱ ۳۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب ، لاہور، ج ۱۲، ص ۹۴۴۔ ۴۔ ڈاکٹر صدیق جاوید، ’’اقبال کا پہلا علمی مضمون ، ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ‘‘ ،اقبال ، بزم اقبال ، لاہور ، اپریل ۱۹۹۴ء ، ص ۱۰۰۔ ۵۔ ایضاً ، ص ۱۱۲۔ ۶۔ عبدالسلام خورشید، سرگزشت اقبال ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، ۱۹۷۷ء ۔ ۷۔ ڈاکٹر وحید قریشی ، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ ، مکتبہ ادب جدید ، لاہور ، ۱۹۶۵ء ، ص ۱۴۔ ۸۔ Discourses of Iqbal ، مرتبہ شاہد حسین رزاقی ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۲۰۰۳ء ، ص ۱۳۵۔ ۹۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی، نوادر اقبال یورپ میں ،اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۹۵ئ، ص ۲۰۰۔ ۱۰۔ دیکھیے ، مذکورہ درخواست کا عکس : ڈاکٹر درانی کی وضاحت ،نوادر اقبال یورپ میں ، ص ۲۰۰۔ ۱۱۔ The Development of Metaphysics in Persia ، بزم اقبال ، لاہور ، س ن ، ص ۱۱۶ ۱۲۔ The Development of Metaphysics in Persia بزم اقبال ، لاہور ، س ن ، ص ۱۱۶ ۱۳۔ ایضاً ، ۱۴۔ ایضاً ، ص ۱۱۷۔ ۱۵۔ ایضاً ، ص ۱۱۹۔ ۱۶۔ ایضاً ، ص ۱۳۲۔ ۱۷۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، ج ۱۲ ، ص ۹۴۴۔ ۱۸۔ علامہ محمد اقبال ، مقالات اقبال ، مرتبہ :سید عبدالواحد معینی ۔ آئینہ ادب ، لاہور ، ۱۹۶۳ء ، ص ۱۶۱۔ ۱۹۔ علامہ محمد اقبال ، اقبال نامہ ، اوّل ، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ۔ شیخ محمد اشرف [۱۹۴۴ئ] ص ۴۵۸۔۴۵۷۔ ۲۰۔ Discourses of Iqbal pp.135 ۲۱۔ ایضاً ، ص ۱۳۵۔ ۲۲۔ ایضاً ۔ ۲۳تا۲۶ ایضاً ، ۱۳۶۔ ۲۷۔ اقبال کے مقالے کا اصل مسودہ ڈاکٹر سعید اختر درانی نے کیمبرج یونیورسٹی لائبریری سے دریافت کیا تھا۔ انھوں نے اصل مسودے کے حذف شدہ حصوں اورمطبوعہ مقالے کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے ۔ دیکھیے ان کا مضمون : ’’فلسفہ عجم کے اصل مسودے کی دریافت (اور اس کے متن کا تقابلی جائزہ)‘‘، مشمولہ : اقبال یورپ میں ، اقبا ل اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۸۵ء ، ص ۱۴۳ ۔ ۱۷۶۔ ۲۸۔ Muhammad Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia, Bazm-i-Iqbal, Lahore.1964, pp 118 ۲۹۔ Discourses of Iqbal, pp.140 ۳۰۔ ایضاً ، ص ۱۵۲۔ ۳۱۔۳۲ ایضاً ، ص ۱۵۴۔ ۳۳۔ ایضاً ، ص ۱۵۳۔ ۳۴۔ The Development of Metaphysics in Persia, pp120-121 ۳۵۔ ایضاً ۔ ص ۱۲۱۔ ۳۶۔ ایضاً ۔ ص ۱۲۸۔ ۳۷۔ ایضاً ۔ ص ۱۳۰۔ ۳۸۔ ایضاً ، ص ۱۳۳۔ ۳۹۔ علامہ محمد اقبال ،اقبال نامہ اوّل ، ص ۴۵۷۔۴۵۸۔ ۴۰۔ عزیز احمد ، اقبال نئی تشکیل، گلوب پبلشرز ، لاہور، س ۔ ن ۔ ص ۲۹۳۔ ۴۱۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ، اقبال اور مسلک تصوف ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ ۱۹۷۷ء ، ص ۳۰۸۔ ۴۲۔ اقبال نامہ اوّل، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ۔ شیخ محمد اشرف ، لاہور ۔ [۱۹۴۴ئ] ، ص ۲۵۴ ۔ ۴۳۔ ایضاً ، ۲۱۔ ۴۴۔ ایضاً ، ص ۴۹۔ ۴۵۔ ایضاً ، ص ۴۲۷۔ ۴۶۔ ایضاً ،دوم ،ص ۴۵۴۔  استفسار میں فلسفہ و شعر کا طالب علم ہوںاور مارٹن ہائڈگر سے شدید متأثر ہوں۔ وقت اور وجود کی حقیقت پر غور کرتا رہتا ہوں، کبھی فلسفیانہ انداز سے اور کبھی شاعرانہ طریقے سے۔ اقبال کی ’’نواے وقت‘‘ بار بار پڑھی ہے اور لطف اُٹھایا ہے۔ آپ اگر اس پر مصرع بہ مصرع مختصر سے تشریحی نکتے لکھ دیں تو میں ممنون ہوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس نظم نے میرے ذہن میں جو خیالات پیدا کیے ہیں ان کی اچھی طرح جانچ پرکھ کر لوں۔ سید کاشف مہدی جواب بہت بہتر ۔ ملاحظہ فرمائیں۔ اس نظم میں وقت اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتاتا ہے: ۱۔ ’’خورشید بہ دامانم، انجم بہ گریبانم‘‘ ۱:۱۔ میں اس سلسلہ ٔ روز و شب کا بانی ہوں۔ یہ دن رات جس حقیقت کے مظاہر ہیں، وہ میں ہی ہوں۔ ۲:۱۔ حرکت اور تغیر جو کائنات کی اساس ہے، میری ہی ایجاد ہے۔ ۲۔ ’’در من نگری ہیچم ، در خود نگری جانم‘‘ میں روح حیات ہوں ، میں اصلِ زندگی ہوں جس کو آثار و مظاہر سے منقطع کر کے دریافت نہیں کیا جا سکتا۔ میں خود موجود نہیں ہوں مگر کائنات کی ہر شے میری ہی بنیاد پر موجود ہے۔ ۳۔ ’’در شہر و بیانم در کاخ و شبستانم‘‘ انسان ہی نہیں بلکہ دنیا بھی موجود ہونے کی اُسی بنیاد پر قائم ہے جو میں نے ڈالی ہے۔ ۴۔ ’’من در دم و در مانم ، من عیش فرا وانم‘‘ زندگی کے تمام احوال و اوصاف مجھی سے نسبت رکھتے ہیں۔ ناکامی ہو یا کامیابی، دونوں ہی میری دین ہیں۔ ۵۔ ’’من تیغ جہاں سوزم ، من چشمۂ حیوانم‘‘ ۱:۵۔ موت میری کنیز ہے اور زندگی میری باندی۔ ۲:۵۔ وجود و عدم کا ہر روزن جس دیوار میں بنا ہے، وہ میں ہوں۔ ۳:۵۔ میں اللہ کی صفات اِماتت و احیاء کا واحد مظہر ہوں۔ ۶۔ ’’چنگیزی و تیموری ، مشتے ز غبار من ہنگامۂ افرنگی ، یک جستہ شرارِ من ‘‘ ۱:۶۔ تاریخ میری ہی تصنیف ہے اور فنا کرنے کی وہ قوت جو تاریخ کو حاصل ہے، میری ہی طاقت کا اظہار ہے۔ ۲:۶۔ میں اصلِ فنا ہوں۔ ۷۔ ’’انسان و جہانِ اُو ، از نقش و نگار من‘‘ انسان اپنے انفس و آفاق سمیت میری کتاب کا ایک ورق ہے۔ ۸۔ ’’خونِ جگر مرداں ، سامانِ بہار من‘‘ ۱:۸۔ انسان کا جذبۂ عمل اور مجاہدۂ‘ تحقیق میری جمالیاتی ، تخلیقی اور تعمیری قوتوں کو حرکت دے کر اظہار تک پہنچاتا ہے۔ ۲:۸۔ عشق، جہاد اور مقصد کوشی مجھے انسان کے لیے ساز گار بنا دیتے ہیں۔ ۹۔ ’’من آتشِ سوزانم ، من روضۂ رضوانم‘‘ ۱:۹۔ انسان کو اپنے جس مستقل انجام تک پہنچنا ہے وہ میں ہی فراہم کرتا ہوں۔ ۲:۹۔ اللہ کا غضب بھی مجھی سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کی رحمت بھی ۔ ۱۰۔ ’’آسودہ و سیّارم ، ایں طرفہ تماشا بیں‘‘ ۱:۱۰۔ میں از روئے حقیقت ساکنِ ہوں اور بہ اعتبارِ فعلیت متحرک ۔ ۲:۱۰۔ مجھے کوئی نہیں بدل سکتا جب کہ میں سب کو بدلتا رہتا ہوں ۔ ۳:۱۰۔ مجھ پر وہ ضوابط وجود نافذ نہیں کیے جا سکتے جن کی تمام موجودات کو پابندی کرنی پڑتی ہے۔ ۱۱۔ ’’دربادئہ اِمروزم ، کیفیت فردا بین‘‘ ۱:۱۱۔ میں خود زمانی نہیں ہوں۔ میں اپنی ہی بنائی ہوئی دیواروں کو گرا سکتا ہوں۔ ۲:۱۱۔ میرا حق ادا کرنے والا میرے اندر تک جھانک سکتا ہے۔ میں اس پر اپنے اظہار کی حقیقت اس طرح کھول دیتا ہوں کہ میری پوشیدگی بھی اُس پر منکشف ہو جاتی ہے۔ ۳:۱۱۔ جاننے والے کے لیے میرا حال اپنے معنی میں مستقبل ہے۔ ۱۲۔ ’’پنہاں بہ ضمیرِمن ، صد عالم رعنا بیں صد کوکب غلطاں بیں ، صد گنبد خضرا بیں‘‘ ۱:۱۲۔ ممکناتِ کائنات میری تحویل میں ہیں۔ ۲:۱۲۔ میں اللہ کے علم اور قدرت کا مظہر ہوں۔ ۱۳۔ ’’من کسوتِ انسانم ، پیراہنِ یزدانم‘‘ ۱:۱۳۔ خُدا کا ہر ظہور میرے ہی اندر ہوتا ہے اور انسان مجھ سے باہر نہیں جا سکتا ۔ ۲:۱۳۔ خالقِ و مخلوق کا فرق میری ہی بنیاد پر ہے۔ ۱۴۔ ’’تقدیر فسونِ من ، تدبیر فسونِ تو‘‘ ۱:۱۴۔ میں تقدیر ہوں جوکائنات پر غالب ہے اور انسان اسی غلبے کا سامنا کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ ۲:۱۴۔ کائنات کا نظام دو طرح کے اصول پر چل رہا ہے ۔ پہلا اصول مستقل ہے جو میں ہوں اور دوسرا اصول عارضی ہے جو انسان ہے۔ ۱۵۔ ’’چوں روحِ رواں پاکم، از چند و چگونِ تو‘‘ ۱:۱۵۔ میں ہستی کے ان حدود و قیود سے ماورا ہوں جن میں انسان جکڑا ہوا ہے۔ ۲:۱۵۔ انسانی شعور ایک زمانی مکانی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اور میری حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتا۔ ۱۶۔ ’’تو رازِ درونِ من، من رازِ درون تو‘‘ ۱:۱۶۔ انسان کی حقیقت میں ہوں اور میری حقیقت انسان سے منعکس ہوتی ہے۔ ۲:۱۶۔ میں انسان کا ’’عین‘‘ ہوں اور انسان میرا ۱۷۔ ’’از جانِ تو پیدایم ، در جانِ تو پنہانم ‘‘ ۱:۱۷۔ انسان بہ اعتبار حقیقت میرا Container ہے ۲:۱۷۔ جیسے جیسے انسان اپنی حقیقت کو دریافت کرتا جائے گا، میری حقیقت اس پر کھلتی جائے گی۔ ۱۸۔ ’’من رہرو و تو منزل ، من مزرع و تو حاصل‘‘ ۱:۱۸۔ میرا وجود انسان کی تکمیل کے لیے ہے۔ انسان نہ ہوتا تو میں بھی نہ ہوتا۔ ۲:۱۸۔ انسانِ کامل کی حقیقت میری دسترس سے باہر ہے یعنی غیر زمانی ہے۔ ۱۹۔ ’’تو سازِ صد آہنگے ، تو گرمیِ ایں محفل‘‘ ۱:۱۹۔ انسان کے حقائق و ممکنات غیر محدود ہیں اور کائنات میں جو بھی معنویت پائی جاتی ہے وہ انسان ہی کی بدولت ہے۔ ۲۰۔ ’’آوارئہ آب و گل! دریاب مقام دل‘‘ ۱:۲۰۔ انسان جب تک اپنی حقیقت سے دور ہے، میرا محکوم ہے۔ ۲:۲۰۔ انسان کو روحانی کمال اس وقت تک میسر نہیں آ سکتا جب تک وہ وجود کی ادنیٰ سطحوں پر پڑا ہوا ہے۔ ۲۱۔ ’’گنجیدہ بہ جامے بیں ، این قلزم بے ساحل ‘‘ ۱:۲۱۔ انسان کی حقیقت یعنی اس کا دل اتنا وسیع ہے کہ میں اپنے لا محدود پھیلائو کے باوجود اس میں سما سکتا ہوں ۔ ۲:۲۱۔ قلبِ انسانی یعنی حقائق کا مسکن زمانیت و مکانیت کی تحدید سے آزاد ہے اس لیے میں اس کا احاطہ کر سکتا ہوںنہ اس پر غالب آنے کی قدرت رکھتا ہوں۔ ۲۲۔ ’’از موج بلندِ تو سر برزدہ طوفانم‘‘ میرا وجود دراصل حقیقت انسانی کا ایک جزوی اظہار ہے۔ اُمید ہے اس مصرع بہ مصرع توضیح سے یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اس نظم کا مرکزی موضوع ’وقت‘ نہیں ہے بلکہ ’انسان‘ ۔ حقیقتِ انسانی کی زمانیت اور غیر زمانیت کی سطحوں کو وقت کے تناظر میں رکھ کر اور خود وقت کی زبان سے بیان کیا گیا ہے۔ ہائڈگر نے ہولڈرلن کی شاعری کی فلسفیانہ معنویت کو جس طرح دریافت اور متعین کیا ہے، آپ اس نظم کو اسی طریقے سے دیکھیں تو ممکن ہے کہ being in time اور Authentic being کے مسئلے کا بھی کوئی نیا رُخ سامنے آ جائے۔ (احمد جاوید) استفسار علامہ اقبال کی مندرجہ ذیل رُباعی میں خدا اور انسان کو ایک دوسرے کا عین قرار دیا گیا ہے ۔ یہ عینیت نظریۂ وحدت الوجود کی بنیاد ہے، تو کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ اس رباعی میں علامہ نے وجودی فکر کی ترجمانی کی ہے؟ کرا جوئی، چرا در پیچ و تابی؟ کہ او پیداست تو زیر نقابی تلاشِ اُو کُن ، جُز خود نہ بینی تلاشِ خود کُن ، جُز او نیابی ابراہیم سہیل ٭٭٭ جواب آپ کا استفسار ایسا ہے کہ اس پر کئی زاویوں سے کلام کیا جا سکتا ہے، تاہم ایک بات شروع ہی میں صاف ہو جانی چاہیے کہ اقبال وجودی نہیں تھے ۔ جو حضرات اس ثابت شدہ حقیقت میںکوئی رخنہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ایک بے جاتکلف میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ کسی فکر کو اس کے کلی تناظر میں دیکھنے کے جتنے بھی معیاری طریقے ہو سکتے ہیں وہ سب اس چیز پر دلالت کرتے ہیں کہ فکر اقبال اپنی تکمیل شدہ صورت میں وجودی نظریات کے مخالف رُخ پر کھڑی ہے۔ اب اگر استدلال کی کوئی نئی قسم اور تحقیق کا کوئی نیا ڈھب نکال کر اس معروف مسلمے کو غلط ثابت کرنے کا ڈول ڈالا جائے تو اس سے سوائے خلط مبحث کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وحدت الوجود کی مخالفت میں علامہ کا لہجہ نرم پڑتا چلا گیا اور بہت سی باتیں جو انھوں نے طبیعت کے جوش کی وجہ سے کہی تھیں، ان پر اصرار باقی نہ رہا، لیکن شروع کی جارحانہ مخالفت میں جو فکری جوہر کار فرما تھا وہ آخر تک برقرار رہا۔ اس بات کے بہت سے شواہد خطبات میں مل جائیں گے ۔ آپ نے جس رباعی کے بارے میں سوال کیا ہے ، اس سے وحدت الوجود کا مضمون نہیں نکلتا ۔ لیکن دلائل پیش کرنے سے پہلے ایک اصولی بات کا بیان ضروری ہے۔ شاعری میں معنی آفرینی کا نظام فلسفے وغیرہ سے مختلف ہوتا ہے ، اس امر کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے شعر اقبال کی تفہیم میں کئی رکاوٹیں اور نقائص پیدا ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے شاعر اقبال ، مفکر اقبال میں زبردستی مُدغم ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کے شعر کا معنوی سانچا اپنے امتیاز کے ساتھ ہماری دسترس سے محض اس وجہ سے باہر نکل چکا ہے کہ ہم نے زور لگا کر اُسے ایک نظریاتی ہیئت دے دی ہے۔ کسی بڑے شاعر کے ساتھ اس سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہو سکتا کہ شاعری کی اصل یعنی معنی آفرینی کو اس کی شعری ساخت سے خارج کر کے اُسے کوئی ایسی صورت دے دی جائے جس کا وجود شاعری کے لیے غیر ضروری ہو۔ معنی کو مفہوم تک محدود رکھنے کا عمل مطالعۂ شعر کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے۔ شعری معانی مفہومی جہت رکھنے کے باوجود کسی ایسے تعین کو قبول نہیں کرتے جس سے ان کی اندرونی لچک اور کثیر الاطراف وسعت متاثر ہو۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ معنی کی ہر نوع اک گونہ نظریاتی قطعیت اور منطقی تیقن رکھتی ہے، لیکن شاعری میں آ کر معنویت کے یہ دونوں اجزا ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور انہیں شعر کی معنوی بناوٹ پر محیط کرنے کی کوشش، شاعری کے انکار کے مترادف ہے۔ ہر بڑے شاعر کی طرح اقبال کے ہاں بھی معنی آفرینی یا معنی خیزی کا بنیادی عمل جمالیاتی ہے، یعنی معنویت کا اختتام کسی نظریے پر نہیںبلکہ ایک ایسے حضور (pressnce) پر ہوتا ہے جو عقل اور ذہن کے بنیادی اقتضا کی بھی تسکین کرتا ہے مگر ان کے قوانین اور اسالیب کو اپنے اوپر حاوی نہیں آنے دیتا۔ اسی لیے اقبال کی شاعری ان کی فکر کا اظہار نہیں بلکہ تکمیل ہے ، شاعری میں وہ اپنے نظریات کو ایک غیر متعین کلیت میں ڈھال دیتے ہیں اور ان کی معنویت کے حدود کو ایک ایسی وسعت سے ہمکنار کرتے ہیں جو مفکرانہ ، نظریاتی اور استدلالی ذہن کی سمائی سے زیادہ ہے۔ معنی کی تخیلی ساخت جو شاعری کا لازمہ ہے ، خیالات کے ساتھ ساتھ الفاظ کو بھی ان کے طے شدہ تناظر میں اپنا جز نہیں بناتی ۔ اس لیے کہ شعر یا نظم میں استعمال ہونے والی ایسی اصطلاحات کو جو اپنا متعین فکری پس منظر رکھتی ہیں، محض شعری روایت کی روشنی میں دیکھنا چاہیے اور اُن کے دیگر سیاق و سباق کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے کہ وہ معنی کے شعری درو بست پر غالب آ جائیں۔ مثال کے طور پر خود اس رباعی میں، جس کے بارے میں آپ نے سوال اُٹھایا ہے، الفاظ جو فوری فضا بناتے ہیں وہ شعور کی نظریاتی استعداد کے آگے رکھ دی جائے تو وہ اس پوری فضا پر یہ حُکم لگا سکتا ہے کہ اس میں وحدت الوجود کے تصور کا ایک زور دار اظہار پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف جمالیاتی شعور کی نظر میں یہ تمام منظر حقیقت کی اس کلّیت کی عکاسی کرتا ہے جس کے اجزا آپس میں اس طرح یکجان ہو گئے ہیں کہ ان کے باہمی امتیازات محو ہونے کی بجائے اور آشکار ہو گئے ہیں۔ اوپر جو بات عرض کی گئی ہے اس سے مطالعۂ شعر کے درست منہاج کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا ورنہ زیر نظر رباعی اپنی معنویت کے کسی بھی رُخ سے وجودی فکر کی ترجمانی نہیں کرتی۔ کیونکہ آپ کے استفسار میں ایک طرح سے یہ قدغن لگا دی گئی ہے کہ اس کا جواب مفہوم اور مضمون کی سطح سے ہٹ کر نہ دیا جائے، اس لیے ہم آپ کے ہی بنائے ہوئے حدود میں رہ کر وہ دلائل بیان کریں گے جن کی رو سے یہ رباعی شاعری سمجھ کرنہ پڑھی جائے تو بھی وجودی فکر یا عقیدے پر دلالت نہیں کرتی۔ طوالت سے بچنے کے لیے وہ دلائل نمبر وار پیش خدمت ہیں: ۱۔ اس رباعی کا مضمون حقیقتِ وجود یا ’’خدا‘‘ نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کی حقیقت کو ایک ایسی انتہا تک پہنچا کر بیان کیا گیا ہے جس سے آگے کا تصور عقلی شعور کے لیے بھی محال ہے اور جمالیاتی شعور کے لیے بھی۔ یہ منتہا بطور خود کوئی نظریاتی یا اعتقادی مصرف نہیں رکھتا ، اس کی حیثیت اس حدِ آخر کی ہے جہاں کسی شے کی تعریف مکمل ہوتی ہے۔ تکمیل اور استقلال کا اثبات کرنے والا یا ان کا احاطہ کر سکنے والا ماحول خواہ مخواہ ایک الو ہی رنگ رکھتا ہے، اس لیے حقیقتِ انسانی کے کمال اور استقلال کو بیان کرنے کے لیے خدا کو مرکزی حوالہ بنایا گیا ہے۔ اس رباعی میں خدا کا کردار بس اتنا ہی ہے کہ اس کی ذات کو ذاتِ انسانی کی حقیقی تعریف کی بنیاد کے طور پر پیش کیا جائے ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان چار مصرعوں کا موضوع صرف اور صرف انسان ہے اور یہ بات وحدت الوجود کے مزاج کے خلاف ہے کہ حقائق کے بیان میں انسان کو مرکزی درجہ دیا جائے ۔ ۲۔ یہ درست ہے کہ اس رُباعی میں خدا اور انسان کی عینیت بیان ہوئی ہے اور چونکہ عینیت کا تصور وحدت الوجود میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو دائرے میں مرکز کی ہوتی ہے ، اس لیے بہت سے اصحابِ علم اس شبہے کا شکار ہو گئے کہ اقبال نے کم از کم حقیقت وجود کی سطح پر اس مسلک کو نظری طور پر قبول کر لیا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر عینیت کے تصور کا تجزیہ کر لیا جاتا تو اس غلط فہمی کا دروازہ نہ کھلتا ۔ وہ عینیت جو اربابِ وحدت الوجود کے ہاں اسم اعظم کا مرتبہ رکھتی ہے اس عینیت سے یکسر مختلف ہے جو اس رباعی میں دکھائی دیتی ہے ۔ کوئی وجودی یہ نہیں کہتا کہ خدا اور انسان عین یک دیگر ہیں۔ ان حضرات کی مفروضہ عینیت میں خدا کے سوا کسی بھی شے کی حیثیت محض سلبی ہے۔ یعنی موجود بس ایک ہے اور پورا عالمِ کثرت محض یہ مصرف رکھتا ہے کہ اس کی وجودی نفی وحدت الوجود کے دعوے کو محکم اور مؤکد کر دیتی ہے ۔ بالفاظ دیگر ، وجودی تصور عینیت اُس کُل کی طرح نہیں ہے جس کے تمام اجزا بلحاظ حقیقت ایک ہوں، اور خود کُل اپنے ہر جز کے ساتھ ایسی نسبت رکھتا ہو کہ جز کو کُل اور کُل کو جز کہنا غلط نہ ہو۔ اس کے برعکس عینیت کا غیر وجودی تصور حقیقت کو قطبین میں دیکھتا ہے جو ایک دوسرے سے مستقلاً ممتاز ہوتے ہوئے بھی آپس میں وہ ناگزیر نسبت رکھتے ہیں کہ ایک کا علم اور وجود دوسرے کے معلوم اور موجود ہونے پر دلالت کرتا ہے ، یعنی خدا اور انسان میں کوئی وجودی عینیت تو نہیں پائی جاتی لیکن دونوں ایک لزومی تعلق میں اسی طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک کو جان لینا لازمی طور پر دوسرے کو جان لینے کے مترادف ہے۔ مذہبی اصطلاح میں اس بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ بندگی کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے معبودیت کی حقیقت تک رسائی ضروری ہے اور معبودیت کی حقیقت پانے کے لیے بندگی کی حقیقت کا حصول شرط ہے ۔ ظاہر ہے یہ عقیدہ وحدت الوجود کی بنیادی منطق سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا ۔ ۳۔ وحدت الوجود میں عینیت کااصول ذاتی اور وجودی ہے جبکہ اس رباعی میں عینیت کو اخلاقی اور جمالیاتی سیاق و سباق میں برتا گیا ہے ۔ یہاں اس کی بنیاد علم اور اثبات پر ہے۔ ظاہر ہے حقیقت کو معلوم کے درجے میں رکھنے کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوگا وہ ان نتائج سے کوئی مناسبت نہیں رکھے گا جو حقیقت کی موجودیت پر نظر کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ حقیقتِ معلوم اور حقیقتِ موجود ایک نہیں ہیں، ان دونوں کی نسبت سے شعور پر مرتب ہونے والے احوال بھی آپس میں مختلف اور ممتاز ہیں۔ ان کے احکام بھی جُدا جُدا ہیں۔ ۴۔ اب ہم اس رُباعی کے بعض کلیدی حصوں کو کھولیں گے۔ اس سے واضح ہو جائے گا کہ اس میں اقبال نے اپنی بنیادی فکر سے کوئی انحراف نہیں کیا۔ ۴:۱۔ ’’اوپیداست تو زیر نقابی‘‘: بظاہر یہ مصرع وحدت الوجودیوں کے امام محی الدین ابن عربی کے ایک مشہور قول کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے:’’ الحق محسوس وا لخلق معقول ‘‘۔ لیکن یہ مناسبت محض لفظی ہے، کیونکہ ابن عربی کے قول میں محسوس کا مطلب موجود فی الخارج ہے اور معقول کا موجود فی الذہن، یعنی خدا موجود ہے اور مخلوق نا موجود۔ ظاہر ہے اقبال یہ نہیں کہ رہے، اُن کا مدعا یہ ہے کہ خدا تو اپنے آثار سے ظاہر ہے مگر انسان ابھی پردے میں چھپا ہوا ہے، یعنی اس کے حقائق و ممکنات اب تک ظہور میںنہیں آئے۔ ۴:۲۔ ’’تلاش او کنی ، جز خود نہ بینی‘‘ : یہ مصرع گویا پکار کرکہ رہا ہے کہ اس کا وجودی فکر کی روایت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ کوئی وجودی یہ نہیں کہ سکتا کہ خدا تک پہنچنے والا دراصل خود تک پہنچتاہے۔مرتبۂ حقائق میں انسانی خودی کا اثبات مذہب وجودیہ میں شرک اکبر ہے۔ اس مصرع کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو پانے کی ہر کوشش خود اپنی دریافت کے عمل کو تیز کرتی ہے اور خدا کو پانے کا حقیقی نتیجہ اپنی خودی کی اصل کا وہ تجربہ ہے جس کے بغیر حقیقت کی actualisation محال ہے۔ ۴:۳۔’’تلاشِ خود کنی ، جز او نیابی‘‘: اس کا مضمون بھی وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ۔ یہ مصرع بھی اس اعتبار سے نظریہ وحدت الوجود سے عدم مناسبت رکھتا ہے کہ ’’تلاش خود‘‘ جادئہ حقیقت کے سالک کا مقصود نہیں ہو سکتی ، وہاں تو قدم اُٹھانے سے بھی پہلے نفی خود درکار ہے۔ ۵۔ آخر میں ایک توضیح ضروری ہے ۔ وحدت الوجود کی روایت ہماری شعری روایات کی ماں ہے۔ اس روایت کے اصول جمال کو نظر انداز کرکے کم از کم اردو اور فارسی میں بڑی شاعری نہیں کی جا سکتی ۔ ہمارے تمام شعری تخیلات ، جذبات اور احساسات وحدت الوجود کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، اس لیے اقبال کے ہاں بھی معنی آفرینی کا عمل جہاں جہاں اپنے منتہا کو چھوتا دکھائی دیتا ہے ، وہاں وہاں وحدت الوجود کی سی شعری اور جمالیاتی تاثیر کا مظہر بن جاتا ہے ۔ اس جبری اثر پذیری کو کوئی نظریاتی رنگ نہیں دینا چاہیے ۔ باقی اتنا ہم بھی کہتے ہیںکہ اقبال کا نظریہ خودی جس منطق پر استوار ہے وہ منطق اوّل سے آخر تک وجودی ہے۔ لیکن یہ موضوع دوسرا ہے، اس لیے اس کی تفصیل میں جانا غیر ضروری ہو گا۔ (احمد جاوید) خ خ خ استفسار پیام مشرق کی ایک رباعی نے میرے اندر شدید خلجان پیدا کررکھا ہے اس خلجان کو دور کرنے کے لیے خود بھی بہت سوچا مگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔آخر میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی شرح پیام مشرق سے رہنمائی لینے کی کوشش کی مگر اس سے بھی کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا۔ پروفیسر صاحب نے بات بنانے کی کوشش کی ہے مگر وہ بہت مصنوعی لگتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ : اس رباعی کے پڑھتے وقت اس حقیقت کو مدِنظر رکھنا چاہیے کہ اقبال نے لفظ ’’انباز‘‘ کو جس کے معنی شریک یا معاون یا رفیق کار کے ہیں، اس کے حقیقی مفہوم میں استعمال نہیں کیا ہے کیونکہ حقیقی معنی میں کوئی ہستی خدا کی شریک نہیں ہو سکتی ۔ نہ وجود میں ، نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں، یہ محض شاعرانہ انداز بیان سے جسے اقبال نے اس لیے اختیار کیا ہے کہ اس سے مصرع میں بلا کی دل کشی پیدا ہو گئی ہے۔ اب آپ کی طرف رجوع کر رہا ہوں ، دیکھیے کیا ہوتا ہے۔میری پریشانی کا سبب بننے والی رباعی یہ ہے : نواے عشق را ساز است آدم کشاید راز و خود راز است آدم جہاں او آفرید، ایں خوب تر ساخت مگر با ایزد انباز است آدم اس کا آخری مصرع خطرناک حد تک اُلجھن میں ڈالنے والا ہے۔ ’’انباز‘‘کے معنی کی تحقیق کے لیے میں نے کئی بڑی فرہنگیں دیکھ ڈالیں، سب میں ’’انباز‘‘ کا واحد مطلب شریک ، مددگار ، ہم کار ہی بتایا گیا ہے۔ اس معنی کی موجودگی میں کوئی علامتی مفہوم اخذ کرنا بھی ممکن نہیں رہا ۔ اب آپ بتائیے کہ اس رباعی کے مضمون کو صریح شرک کی چھاپ سے کیسے پاک کیا جائے ۔ از راہ عنایت اسے میرا اعتراض مت سمجھے گا،میں دل و جان سے چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا طریقہ نکل آئے جو اقبال پر اتنا سنگین الزام نہ لگنے دے۔ احمدسیف الرحمن ٭٭٭ جواب : سب سے پہلے یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ ’’انباز‘‘ کا لفظ واقعی شدید خدشات پیدا کرتا ہے اور اس رباعی کا اوّلین مفہوم یقینا قاری کو خلجان میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ اس لفظ کی کوئی قابلِ قبول تاویل کر دی جائے تو بھی قلب سلیم میں پیدا ہونے والا اضطراب رفع نہیں ہو سکتا ۔اس رباعی میںغلط فہمی کی طرف لے جانے والا راستہ واضح ہے اور غلط فہمی سے نکلنے کی راہ مخفی۔ اور یہ اس طرح کے مضامین کے بیان کا کوئی محفوظ اور مفید طریقہ بہر حال نہیں ہے۔ یہ وضاحت اس لیے کر دی گئی ہے کہ ہمارا جواب پڑھ کر آپ یہ تاثر نہ قائم کر لیں کہ اقبال کی طرف داری کا جذبہ خُدا نخواستہ دینی حدود سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ آپ کا بنیادی اِشکال یہ ہے کہ اس رباعی میں توحید باری تعالیٰ پر ضرب لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور باقاعدہ شرک کا اظہار ہوتا ہے ۔ ہمارے خیال میں بنیادی سبب صحیح ہونے کے باوجود یہ تاثر درست نہیں ہے ۔ دلائل: ۱۔ آخری مصرع میں ’’مگر‘‘ بمعنی شاید ، وہم کا مفہوم دیتا ہے یعنی آدم کے کارنامے دیکھ کر ذہن اس خیال محال میںمبتلا ہو جاتا ہے کہ شاید یہ خالقِ کائنات کا ہم کار ہے، ظاہر ہے کہ یہ کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ اس پر کوئی حکم لگ سکے۔ ۲۔ انسان کے لیے اللہ نے کائنات کو مسخر کر دیا ہے تاکہ وہ اسے مزید با معنی او ر مکمل بنائے ۔ اس ذمہ داری کو انجام دے کر آدمی گویا اللہ ہی کے منصوبۂ تخلیق پر عمل کر رہا ہے۔ یعنی کائنات کی تخلیق تو اللہ نے کی، تزئین انسان نے ۔ اس صورت حال کو ’’ہم کاری ‘‘ سے تعبیر کرنا خلافِ مصلحت تو ہو سکتا ہے، خلافِ توحید نہیں۔ اگر اب بھی خلجان میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ہو تو ہم حاضر ہیں ، بلاتکلف ارشاد فرمائیے۔ (احمد جاوید ) خ خ خ استفسار اگر می آید آں داناے رازے بدہ او را نواے دل گدازے ضمیرِ اُمتاں را میکندپاک کلیمے یا حکیمے نے نوازے (ارمغان حجاز ، حضورِ حق) یہاں ’’حکیمے نے نوازے‘‘ سے کیا مُراد ہے؟ سجاد معین الدین ٭٭٭ جواب: ’’حکیمے نے نوازے‘‘ سے مراد ہے: ۱۔ جس کی عقل دین کے تابع رہ کر اپنے کمال کو پہنچ چکی ہو اور اس کا جمالیاتی شعور بہترین اظہار کے ساتھ روحانی ہو۔ ۲۔ اقبال کی طرح کا فلسفی اور شاعر۔ ۳۔ وہ شخص جس کا نفسِ پیغام دینی و روحانی ہو اور طرز اظہار جمالیاتی۔ ۴۔ دین کے باطن اور ظاہر کی معرفت رکھنے والا یعنی دین کے روحانی ، عقلی اور جمالیاتی حقائق تک رسائی رکھنے والا۔ ۵۔ عقلی اور جمالیاتی سطح پر دین کو پُرتاثیر بنانے والا۔ ۶۔ حق اور جمال کی وحدت کا ادراک اور اظہار کرنے والا۔ مختصر یہ کہ ’حکمت‘ حق کی معرفت ہے اور ’نے نوازی‘ اُس کا عاشقانہ اور جمالیاتی اظہار جو معرفت کو محض ذہنی نہیں رہنے دیتا ۔ (احمد جاوید) خ خ خ استفسار پیام مشرق میں ’’لالۂ طور‘‘ کی رُباعی نمبر ۲۶ کا آغاز اس طرح ہوتاہے جیسے اقبال کوئی ایسی حقیقت بتانے کا دعویٰ کر رہے ہیں جو آج تک مخفی تھی۔ لیکن جو ’’نکتۂ سر بستہ‘‘ اُنھوں نے کھولا ہے وہ تو بچوں کو بھی معلوم ہے کہ روح ، بدن میں ہے تو انسان زندہ ہے اور جب روح، بدن سے نکل جاتی ہے تو اس کا نتیجہ موت ہے ۔ از راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ سعد منیر ٭٭٭ جواب : ترا یک نکتۂ سر بستہ گویم اگر رمزِ حیات از من بگیری بمیری گر بہ تن جانے نداری وگر جانے بہ تن داری نمیری ’’اس رُباعی کی دل کشی اس کے انداز بیان میں مضمر ہے ۔ بظاہر اقبال نے بڑی پیش یا افتادہ بات کہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جب جسم میں جان نہ ہو گی تو آدمی مر جائے گا ؟ لیکن رباعی کا سارا مفہوم لفظِ ’’جان‘‘ کے مفہوم میں پوشیدہ ہے۔ ’’جان‘‘ سے اقبال کی مراد وہ جان نہیں ہے جس کے نکلنے سے آدمی مرجاتا ہے یا حیوان پر مردہ کا اطلاق ہو جاتا ہے، بلکہ یہاں ’’جان‘‘ سے وہ خودی مراد ہے جو پختہ ہو چکی ہو‘‘۔ (یوسف سلیم چشتی شرح پیام مشرق ، ص ۸۹) آپ کا مسئلہ چشتی صاحب کی اس عبارت سے حل ہو جانا چاہیے ۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت تو نہ تھی لیکن اس مسئلے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے چند باتوں کا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ عرض کردوں کہ اس طرح کا اشکال اسی ذہن کو پیش آ سکتا ہے جو شعر فہمی کے تقاضوں سے مانوس نہ ہو ۔ شاعری کا ذوق تو شاید کوشش سے ہاتھ نہ آ سکے تاہم فہم کی صلاحیت کسی حد تک حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ایک ابتدائی اصول ذہن نشین کر لینا چاہیے: اچھے شعر میں کلیدی الفاظ کی حیثیت عموماً استعاروں اور علامتوں کی ہوتی ہے۔ ان کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو ان کے روز مرہ استعمال سے ادا ہوتا ہے ۔ اس اصول پر اس رباعی کا تجزیہ کریں تو کسی مشکل کے بغیر معلوم ہو جائے گا کہ یہاں جان و تن سے کیا مراد ہے؟ ۱۔ بات کا آغاز ہی ایک ’’نکتۂ سر بستہ‘‘ کی خبر سے ہوتا ہے۔ مخاطب شروع ہی میں یکسو اور چوکس ہو جاتا ہے کہ کوئی بڑا راز کھلنے جا رہا ہے۔ ۲ ۔ دوسرا مصرع بتاتا ہے کہ وہ ’’نکتۂ سر بستہ‘‘ کوئی فلسفیانہ تصور نہیں ہے بلکہ ’’رمزِ حیات‘‘ ہے۔ ۳۔ سب جانتے ہیں کہ ’’حیات‘‘،’’ جان و تن ‘‘ کا مجموعہ ہے،’’رمزِ حیات‘‘ کا بیان بھی اس طرح ہونا چاہیے کہ اسے بھی سب اسی یقین کے ساتھ جان لیں جس یقین کے ساتھ ’’حیات‘‘ کو جانتے ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ جن اصطلاحات میں ’’حیات‘‘ کی تعریف کی جاتی ہے ، ’’رمز حیات‘‘ بھی انھی اصطلاحات میں بیان کر دیا جائے۔اس طرح مخاطب ’’رمز حیات ‘‘ کو اسی کلیت اور قطعیت کے ساتھ جان لے گا جو ’’حیات‘‘ کے علم کو بدیہی بناتی ہے۔ ۴۔ ’’حیات‘‘ صورت ہے اور ’’رمز حیات‘‘ معنی ۔ دونوں کا لازمی تعلق واضح ہے۔ صورت سے معنی کا اثبات ہوتا ہے اور معنی سے صورت کا۔ دونوں کا اصولِ تشکیل ایک ہے ، یعنی صورت جس بنیاد پر قائم ہے وہ دراصل اسی بنیاد کا ادھورا عکس ہے جس پر معنی کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’رمز حیات‘‘ کو ’’جان و تن‘‘ کی اسی یکجائی سے مشروط کیا گیا ہے جو ’’حیات‘‘ کی بھی شرط ہے ۔ ’’جان و تن‘‘ صورت میں روح و بدن ہیں اور حقیقت میں خودی اور انسان ۔ یعنی انسان ، بدن ہے اور خودی اس کی روح ۔ ویسے شعری معیارات پر دیکھیں تو یہ رباعی اتنی بلند پایہ نہیں ہے کہ اس کے مضمون کی جمالیاتی بلندیاں چھونے کے لیے خیال کو زیادہ پرواز دی جائے ، تاہم اس طرح کی شاعری کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے ایک چیز پہلے سے سمجھ لینی چاہیے ۔ حقائق کے علم کا منتہا یہ ہے کہ اس میں حسی مسلمات کا رنگ پیدا ہو جائے ۔ محسوسات میں معلوم تو بلاشبہ ناقص ہوتا ہے مگر علم کامل اور یقینی ، جبکہ حقائق کے دائرے میں معلوم تو بہرحال کامل ہوتا ہے لیکن علم ناقص اور خیالی ۔ اس مسئلے کو شاعرانہ سطح پر یوں حل کیا جاتا ہے کہ حقائق کے بیان میں ایسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں جن کے معانی تصدیق کے اُس معیار پر پورے اُترتے ہیں جو حسی اور تجربی علم کا خاصہ ہے۔ اگر آپ شعری تخیل سے واقف ہیں تو یہ بات آپ کو پہلے سے معلوم ہوگی کہ اس تخیل کا خاص الخاص وصف یہ ہے کہ یہ تصدیق کو تصور میں ڈھال دیتا ہے اور تصدیق کی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے پھیلائو میں اضافہ کر دیتا ہے ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شاعری میں لفظ یعنی ادراک و اظہار کو یکجائی کی حالت میں رکھنے والا واحد ظرف ، کئی مدارج کو جامع ہوتا ہے۔ بڑا شاعر دراصل لفظ کی اسی جامعیت کو بروے کار لاتا ہے اور اسے کسی ایک سطح تک محدود کیے بغیر اس کے تمام درجات سمیت استعمال کر کے دکھا دیتا ہے ۔ جیسا کہ اردو کے سب سے بڑے شاعر نے کہا ہے: طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میر کیا کیا کہا کریں ہیں زبانِ قلم سے ہم لفظ کی چار طرفیں یہ ہیں: ظاہری مطلب ، تشبیہ ، استعارہ اور علامت۔ آپ دیکھیے کہ اقبال نے اس رباعی کے کلیدی الفاظ ’’جان ‘‘ اور ’’تن‘‘ میں ان چاروں اطراف کو اس طرح صرف کیا ہے کہ ظاہری مطلب سے لے کر علامتی معنی تک کا احاطہ ہو گیا ہے۔ امید ہے اتنی وضاحت کافی ہو گی ۔ (احمد جاوید) مرتب: محمد اختر مسلم خ خ خ  سرور الہدیٰ جگن ناتھ آزاد اور مطالعۂ اقبال اقبالیات کے تعلق سے جگن ناتھ آزاد کا نام ایک اہم حوالے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ گذشتہ نصف صدی میں اقبالیات کا بڑا حصہ اگر آزاد صاحب کی ذات سے وابستہ ہے تو اسے اقبال سے آزاد کی جذباتی اور نفسیاتی وابستگی کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جگن ناتھ آزاد کے معاصرین میں اقبال پر لکھنے والے نہیں تھے، بعض اعتبار سے تو آزاد صاحب کے دو تین معاصرین کو سبھوں پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے تمام عمر اقبال کو جس طرح اپنی زندگی کا عنوان بنائے رکھا، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ زندگی کے مختلف معاملات کے درمیان اقبال کو کسی نہ کسی حوالے سے یاد کرنا خلوص اور جذبے کی صداقت کا پتا دیتا ہے۔ اقبال پر چھپنے والی تحریروں کو پڑھنا ، انھیں جمع کرنا اور ان پر اظہار خیال کرنا اقبال سے سچی وابستگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ آزاد صاحب جیتے جی اقبال کے خلاف کچھ سننے کے لیے آمادہ نہیں تھے ۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اقبالیات کے کئی موضوع ایسے ہیں ، جن کا ذکر ان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ اقبال سے جذباتی و نفسیاتی وابستگی نے اقبال شناسی میںکیا رول اداکیا ہے ۔ آزاد صاحب نے اقبال پر بہت لکھا ہے جو لوگ آزاد کی اقبالیات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، انھیں آزاد صاحب کی تمام تحریروں کامطالعہ کرنا چاہیے۔ صرف چند تحریروں کو پڑھ کر آزاد اور مطالعہ اقبال جیسے موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا ۔ مطالعے کے بعد اگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر کسی اور شخص نے زیادہ بہتر لکھا ہے تو اس سے آزاد صاحب کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اقبالیات کے حوالے سے کئی دوسرے ناقدین اور محققین ہمیں زیادہ متاثر کرتے ہوں۔ پروفیسر آزاد کی اقبالیات کا مطالعہ در اصل ایک ایسے ناقد اور محقق کا مطالعہ ہے جو اقبال کے ایک ایک حرف کو عاشق اقبال کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ جگن ناتھ آزاد کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ اقبال کو وہ مقبولیت حاصل نہیں جو میر یا غالب کو حاصل ہے اور یہ کہ اقبال کو ایک طبقے نے ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا ۔ اقبال پر اعتراضات کرنے والوں کی تعداد دوسرے اہم اور بڑے شعرا کے مقابلے میں زیادہ رہی۔ آزاد صاحب نے نہایت مشکل حالات میں اقبال کو ایک ہندستانی اور عام انسان کی حیثیت سے سمجھنے اور سمجھانے میں عمر گزار دی۔ اقبالیات کے حوالے سے جگن ناتھ آزاد کی ایک اہم تحقیقی کاوش مرقع اقبالہے۔ اقبال کے بارے میں نہایت اختصار کے ساتھ جتنی معلومات اس میں یکجا کر دی گئی ہیں ، وہ اقبال پر اپنے انداز کی اچھی کاوش ہے۔ یہ البم ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا تھا ۔ اس کے پیش لفظ میں آزاد صاحب لکھتے ہیں: اقبال ہندستان کے بہت بڑے شاعر ہیں اور اقبال صدی تقاریب کے سلسلے میں ان کے فکرو فن پر جو کام شروع ہوا ہے وہ ہندستانی ادبیات کی ترقی کے لیے ایک نیک شکون ہے۔ مرقع اقبالکے عنوان سے آزاد صاحب نے جو البم تیار کیا تھا اس میں اقبال کی تصویروں اور خود اقبال کے ہاتھ کی تحریروں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس البم کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں: ۱۔ اقبال کا شجرۂ نسب ۲۔ توقیت اقبال ۳۔ فہرست تصاویر ۴۔ اقبال اور ان کا خاندان ۵۔ اقبال کے اساتذہ ۶۔ اسکول کالج اور یونیورسٹی کی اسناد ۷۔ تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر ۸۔ اقبال اور مسجد قرطبہ ۹۔ اقبال اصحاب اور احباب کے ساتھ ۱۰۔ مکاتیب اقبال اور مسجد قرطبہ ۱۱۔ اقبال کی پہلی اشاعتوں کے سرورق ۱۲۔ کلام اقبال بخط اقبال ۱۳۔ اقبال کی اردو تحریر ۱۴۔ اقبال کے انگریزی خطوط بخط اقبال ۱۵۔ اقبال کا آخری سفر اقبالیات کے تعلق سے جگن ناتھ آزاد نے جو کام کیا ہے،اس کی فہرست طویل ہے۔ چند اہم کتابوں کے نام درج ذیل ہیں: ۱۔ اقبال اور اس کا عہد ۲۔ اقبال اور مغربی مفکرین ۳۔ اقبال کی کہانی ۴۔ اقبال ۔۔ زندگی شخصیت اور شاعری ۵۔ اقبال اور کشمیر ۶۔ بچوں کا اقبال ۷۔ مرقع اقبال ۸۔ فکر اقبال کے بعض اہم پہلو ۹۔ محمد اقبال ۔۔۔ ایک ادبی سوانح حیات اقبال کی شاعری کو پڑھ کر ہم جن مسائل سے دو چار ہوتے ہیں ان مسائل کا تعلق بڑی حد تک اقبال ہی کی شاعری سے ہے۔ خصوصاً شعری ہئیتوں کے تعلق سے ناقدین نے جو مباحث پیش کیے ہیں اور جن بنیادوں پر ایک صنف کو دوسری صنف سے ممتاز اور مختلف قرار دیا ہے، اقبال کے یہاں ان کی کوئی پاس داری نظر نہیں آتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نظم اور غزل کے سلسلے میں کسی سکّہ بند اصول و قاعدے کو تخلیقی عمل کے منافی سمجھتے تھے۔ کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب اقبال ایک مطالعہ میں اس بات کی شکایت کی ہے کہ اقبال مربوط نظم نہیں کہتے۔ بر خلاف اس کے، ان کی غزلوں میں ایک ربط کا احساس ہوتا ہے۔ اقبال کے معترضین کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اقبال کے یہاں جب خطابت غالب آ جاتی ہے تو شعری حسن زائل ہو جاتا ہے۔ آزاد صاحب اقبال کے حوالے سے ان اعتراضات سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ انھوں نے ان کو سامنے رکھ کر جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک مضمون ’’اقبال، خطابت اور شاعری‘‘ ہے ۔ پروفیسر آزاد نے یہ بتایا ہے کہ ایک اچھی شاعری میں خطابت کا انداز بھی ہو سکتا ہے او ر یہ کہ خطابت کا تعلق فنی ضرورت سے ہے۔ جگن ناتھ آزاد کے اس مضمون کا محرک کلیم الدین احمد کی کتاب اقبال ایک مطالعہ ہے۔ جن لوگوں نے کلیم الدین احمد کی یہ کتاب پڑھی ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کلیم صاحب کے دو ٹوک اور بے باکانہ انداز سے آزاد صاحب کو کتنی تکلیف پہنچی ہو گی۔ اس کا کچھ کچھ اندازہ آزاد کے ان جملوں سے ہو جاتا ہے جو انھوں نے اپنے اس مضمون میں کلیم الدین احمد کے تعلق سے لکھے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کلیم الدین احمد نے اقبال پر جو بھی اعتراض کیا ہو لیکن انھوں نے اقبال کی جس طرح پذیرائی کی ہے اور فنی و شعری محاسن کے سلسلے میں جن پہلوئوں کو صرف اقبال سے وابستہ کر کے دیکھا ہے، وہ اقبال کے تئیں ان کے غیر جانبدارانہ رویّے کو ظاہر کرتا ہے۔ بہرحال آزاد کا یہ مضمون بہت ہی دلچسپ ہے کہ انھوں نے کلیم الدین احمد کے اعتراضات کا جواب بڑے ہی جذباتی انداز میں دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ کہوں گا کہ ادبی تنقید کسی فارمولے کا نام نہیں ہے کہ آپ خار دار تاروں کا ایک فریم ورک بنالیں اور شاعری ایسی نازک اور لطیف تخلیق کو اس فولادی پنجے کے حوالے کر دیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ فولادی پنجہ تو ان نرم و نازک شگوفوں اور کلیوں کو مجروح کر دے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ طے کرکے اپنی بات شروع کرنا کہ خطابت اور شاعری میں بیر ہے اور یہ کہ خطابت شاعری نہیں ہو سکتی ، دنیا بھر کی عظیم شاعری سے اپنی ناواقفیت کا اظہار کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم اس بات کو تسلیم نہ بھی کریں کہ شاعری کے ساتھ ترسیل یا ابلاغ کا مقصد بھی وابستہ ہے، اس بات سے انکار نہ ہو سکے گا کہ اگر شاعر اپنے آپ سے ہی بات کرتا ہے تو بھی ایک طرح کی خطابت ہے اور خطابت جب شاعری میں ڈھل جاتی ہے تو خطابت اور شاعری میں کوئی بیر نہیں رہتا۔ پروفیسر آزاد کے یہ خیالات اقبال کی شاعری میں موجود خطابیہ انداز سے متعلق ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو جگن ناتھ آزاد کی یہ باتیں بہت سر سری معلوم ہوں لیکن آزاد کی نظر میں شاعری کا ایک ایسا پیمانہ اور نمونہ ضرور ہے جس میں شاعری اور خطابت کا فرق مٹ جاتا ہے۔ کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب کے ایک حصے میں اقبال کی پانچ نظموں (۱) خضر راہ (۲) طلوع اسلام (۳) ذوق و شوق (۴) مسجد قرطبہ (۵) ساقی نامہ کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ آزاد صاحب اپنے مضمون میں ’’خضر راہ‘‘ کا سب سے پہلے ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں اقبال کی ایک نظم ’’خضر راہ ‘‘ کا ذکر خاص طور سے کروں گا کیونکہ اس نظم کو کلیم الدین احمد نے بالخصوص اپنی تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ اگر’’ خضر راہ‘‘ ایسی نظم ہے جسے پروفیسر آل احمد سرور نے اردو شاعری کا نیا عہد نامہ کہا ہے، اس سے پہلے اردو شاعری میں موجود نہیں تھی اور یہ اپنے انداز کی پہلی نظم ہے تو ہمیں نظم کی ساخت کو، اس کی بنت کو ، اس کے سیاق و سباق کو، اس کے اسلوب کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ، نہ یہ کہ ہم اس پر پتھر پھینکنا شروع کر دیں۔ بقول آل احمد سرور : سید سلیمان ندوی نے یہ نظم پڑھ کر اقبال کو لکھا تھا کہ اس کے بعض حصوں میں وہ بات نہیں ہے جو ’ شمع اور شاعر ‘ میں ہے۔ اگر مجھے اس کا جواب دینا ہوتا تو میں یہ کہتا کہ اس میں ’شمع اور شاعر ‘ والی بات اس لیے نہیں ہے کہ ’شمع اور شاعر‘ نہیں ہے۔ جگن ناتھ آزاد کے ایسے جذباتی رویّے کا اظہار ان کی اکثر تحریروں سے ہوتا ہے۔ کلیم الدین احمد، نظم ’’خضرراہ ‘‘ کو غیر مربوط کہتے ہیں ۔ آزاد نے کلیم الدین احمد کے ان اعتراضات کے جواب میں اقبال کا ایک اقتباس پیش کیا ہے کہ میں اسے رنگین بنانانہیں چاہتا تھا۔ آزاد صاحب نے اس نظم میں موجود فکری ربط کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ کلیم الدین احمد نے ایسے اعتراضات ’’طلوع اسلام‘‘ اور دوسری نظموں کے سلسلے میں بھی کیے ہیں ۔ اس ربط کو واضح کرنے کے لیے آزاد نے جن سیاسی ، سماجی اور تاریخی حوالوں کو پیش کیا ہے ، وہ اقبال کی شاعری کے تاریخی سیاق کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ، مثلاً: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں: کلیم الدین احمد کو یہ شعر سپاٹ اور غیر شاعرانہ نظر آئے تو آئے، کسی ایسے نقادکو جسے اردو شاعری سے ذرا بھی لگائو ہے، اس شعر میں حسن و معانی نظر آئے گا۔ اسے نثر میں بیان کرنے کے لیے، بیان کرنے والے کو پہلی جنگ عظیم کی ساری تاریخ بیان کرنا ہو گی ۔ مکّہ کے شریف حسین کا کردار بیان کرنا ہو گا اور ترکوں کی جانبازی پر روشنی ڈالنا ہو گی۔ پروفیسر آزاد نے اقبال کی شاعری میں جس طرح ربط قائم کر نے اور اسے تاریخی حوالوں سے سمجھانے کی سعی کی ہے، اس سے انکار ممکن نہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ تاریخی حوالے کلیم الدین احمد کی نظر میں بھی رہے ہوں گے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبال کی نظموں میں اگر ربط کی کمی ہے تو اس کو قبول کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اقبال ہی نے کہا تھا: نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیںمثالِ تیغِ اصیل لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اقبال کو پڑھتے ہوئے جن دقتوں کا سامنا کرتے ہیں،ان کا اظہار نہ کریں۔ اصل میں ربط اور بے ربط کی بحث کو شعری ہئیتوں کے حوالے سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بھی اقبال جیسے شاعر کو ادبی ہئیتوں کے عالمی تصور کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے ۔ اس تعلق سے شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ’’اردو غزل کی روایت اور اقبال‘‘ ، شاید ایسا پہلا مضمون ہے جس میں علمی اور معروضی طریقے سے شعری ہئیتوں کے سلسلے میں اقبال کے تصو ّر کو سمجھنے اور شعری ہئیتوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال کی پوری شاعری کے افکار و موضوعات کو دیکھا جائے تو ان موضوعات کی تہ میں عصرِ حاضر کا شعور کار فرما دکھائی دے گا۔ اگر اقبال نے ماضی کی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے روایات کے تئیں کہیں اپنی ناراض یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے تو اس میں بھی عصرِ حاضر کے مسائل اور میلانات کا دخل ہے۔ لہٰذا اقبال کی شاعری کا ایک اہم مسئلہ عصر حاضر رہا ہے، جگن ناتھ آزاد نے اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’’اقبال اور اس کا عہد‘‘ کے موضوع پر جو مضمون لکھا ہے، اسے پڑھ کر یہ سمجھا جا سکتاہے کہ اقبال کو اپنے دور میں کن مسائل کا سامنا تھا اور وہ ان مسائل کو کس طرح حل کرنا چاہتے تھے۔ دراصل ادب میں ایسے مسائل اور ان کو حل کرنے کی باتیں بہت لوگوں کے نزدیک غیر ادبی ہیں۔ جگن ناتھ آزاد نے ہندستان کی غلامی اور اس کے نتیجے میں ہندستانیوں کی تہذیبی زندگی کے مسائل اور عالمی سطح پر مشرق و مغرب کے تضادات ان سب کو سامنے رکھ کر اقبال کے فکری سروکار کی نشادہی کی ہے۔ آزاد نے تصو ّف کے بارے میں لکھا ہے کہ اقبال نے اس میں کیا نیا پن پیدا کیا ہے ۔ وہ اس سلسلے میں امیر خسرو اور غالب کا ایک ایک شعر پیش کرنے کے بعد اقبال کا شعر درج کرتے ہیں: کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست ہر رگِ من تار گشتہ حاجتِ زنّار نیست (امیر خسرو) ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم ملّتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہو گئیں (غالب) آزاد صاحب لکھتے ہیں: تو وہ اپنی بلند خیالی اور مضمون آفرینی کے باوجود بڑی حد تک تصوف کے اس دائرے میں محدود و محصور رہتے ہیں جو ایک زمانے سے ہماری شاعری کی متاع چلا آ رہا ہے لیکن اقبال جب کہتے ہیں: گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشبند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں تو وہ امیر خسرو اور غالب سے ایک قدم اور آگے جاتے ہیں اور اپنی فغاں سے کعبہ وسومنات میں رستخیز برپا کرتے ہوئے فکر کی انتہائی نازک منزلیں طے کرتے ہیں اور اس انداز فکر کی بدولت وہ تصوف کو محض آرایش سخن ہی نہیں بناتے بلکہ اس کی مدد سے اپنے عہد کے دروازے پر دستک دیتے۔ جگن ناتھ آزاد کی نظر میں اقبال کی شاعری کے اتنے رنگ اور نمونے ہیں کہ انھیں اپنی تحریر و تقریر میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ ایک اور بات جو بے حد اہم ہے وہ یہ کہ آزاد، اقبال کے تعلق سے ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھتے ہیں کہ کسی موضوع، لفظ ، ترکیب کو اقبال سے پہلے کے شعرا نے کس طرح استعمال کیا ہے اور اقبال نے اس کی پیش کش میں کیا خوبی پیدا کی ہے۔ یہ بات ادب کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اقبال کے یہاں زندگی مسلسل سفر کا نام ہے۔ مختلف حوالوں سے اقبال نے زندگی کی حرکت و حرارت کو پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ تصوف بھی اقبال کے نزدیک صرف اپنی ذات کی تطہیر کا نام نہیں بلکہ اس سے بھی کام لیا جانا چاہیے ۔ اس میں شک نہیں کہ آزاد نے اقبال کی انفرادیت کو ایک شعر سے واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ آزاد نے اقبال کی شاعری میں موجود عقل اور عشق کی کشمکش میں عقل کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے: اگر ہم اس وہم میں گرفتار ہیں کہ اقبال نے عقل پر عشق کی برتری تسلیم کی ہے یا اقبال عشق کو عقل کا تضاد سمجھتے ہیں تو یہ کلام اقبال کے، ہمارے بے احتیاط مطالعے کا نتیجہ ہے۔ اول تو اقبال نے عشق اور عقل یعنی دانش نورانی کے درمیان کوئی حد فاصل نہیں کھینچی ۔۔۔۔۔۔ دوسرا عقل کی برتری اور فضیلت کی اہمیت اقبال کی نظر میں کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ ان کا عشق در اصل دانش نورانی کا ایک پہلو ہے۔ پروفیسر آزاد نے اقبال کے حوالے سے عشق اور عقل کے درمیان جس رشتے کی بات کی ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر عشق اور عقل کے اپنے کچھ تقاضے ہیں ۔ خود اقبال کے یہاں عشق جس قوت کا علامیہ بن جاتا ہے ، اس کے لیے فرزانگی سے کہیں زیادہ دیوانگی کی ضرورت ہے۔ ان کے یہاں اگر عقل کی برتری کی مثالیںہیں تو عشق کی عقل پر فوقیت کے نمونے بھی ہیں: بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشا ئے لبِ بام ابھی اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے دراصل اقبال کی دانش مندی کی مثالیں ان کے کلام سے جا بجا مل جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسا شاعر جو مشرق و مغرب کے فلسفے سے پوری طرح آگاہ ہو اور جس کی نظر دنیا کی تاریخ ، تہذیب پر اتنی گہری ہو، اس کی آنکھوں میں مستقبل کا ایک خواب بھی ہے، وہ کیوں کر دیوانگی کی باتیں کر سکتاہے۔ جگن ناتھ آزاد کا یہ جملہ نہایت ہی بامعنی ہے کہ ان کا عشق دانش نورانی کا ایک پہلو ہے۔ جگن ناتھ آزاد کا ایک اور اہم مضمون: ’انسان اقبال کی نظر میں‘ ہے۔ اقبال کو پڑھنے کے بعد زندگی کی حرکت و حرارت کے ساتھ ایک دوسرا احساس جو تیز تر ہوتا جاتا ہے، وہ عظمت آدم ہے۔ اقبال کو ایک مخصوص فرقے اور قوم تک محدود کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود روشن خیال طبقہ اقبال کو ایک بڑے اور اہم شاعر کی حیثیت سے پڑھتاہے۔ آزاد نے اپنے اس مضمون میں اقبال کی پوری شاعری کو سامنے رکھ کر عظمت آدم کے تئیں اقبال کے خیالات کو ایک مرکز کی طرف لانے کی کوشش کی ہے۔اقبال کو پڑھتے ہوئے بعض اوقات ہم جن تضادات کے شکار ہوتے ہیں، وہ ہماری کم علمی کا نتیجہ بھی ہے، لہٰذا آزاد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقبال کی فکر کو پورے سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور عام طور پر لوگ تاریخی حوالے سے بے نیاز ہونے کی وجہ سے اقبال کے بار ے میں غلط قسم کی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ جگن ناتھ آزاد کی نظر اقبال کے تعلق سے ان تمام تضادات پر رہی ہے۔ اس مضمون سے مثالیں ملاحظہ کیجیے: اس ضمن میں ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کا عظمت آدم کا یہ تصور محض خالی خولی ایک جذباتی تصور ہے یا اس میں ایسے عوامل شریک ہیں جن کی بنیاد میں شعوری اور سماجی حقیقتیں کام کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کا یہ کارخانہ اقبال کی نظر میں محض ذاتی یا غیر ذی روح عناصر باہمی کا نتیجہ ہے چنانچہ آغاز کائنات سے لے کر انسان کی ظہور پذیری تک کی منازل محض طبیعیاتی اور کیمیاوی اصطلاح میں بیان کرنا اقبال کے نظام فکر کے ساتھ متصادم ہونے کے مترادف ہے۔ اس لیے اقبال کی شاعری میں اقبال کا نظریہ انسان تلاش کرنے کے لیے اس تصور کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا کہ انسان کی تخلیق اس مادے سے ہوئی ہے جس کا مقدر انجام کار ایک غیر متحرک اور جامد صورت اختیار کرنا ہے۔ جگن ناتھ آزاد نے اس بات پر خاصا زور دیا ہے کہ اقبال مادے کے ذریعے انسان کی عظمت کی بنیادیں تلاش نہیں کر سکتے تھے، ان کے لیے سب سے محفوظ اور اچھا راستہ روحانیت کا تھا اور یہ کہ انسان صرف اور صرف خدا کی تخلیق ہے۔ پروفیسر آزاد نے اقبال کی شاعری سے مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر سمجھایا ہے کہ اقبال انسان کو کس کس نظر سے دیکھتے رہے ہیں ۔ ان تمام نظریات کو الگ الگ کر کے دیکھا جائے تو ہماری الجھن بڑھ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں کہ اس خیال کو مکمل نہ سمجھاجائے بلکہ اقبال کے اس خیال سے وابستہ کر کے دیکھا جائے۔ خدا اور بندے کے رشتے کی نوعیت اقبال کے یہاں جو صورت اختیار کرتی ہے اور اس سے جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں، وہ کسی بھی ذہن اور صاحب علم شاعر کا مقّدر ہے ۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے جگن ناتھ آزاد سامنے لانا چاہتے ہیں: مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا نقش ہوں اپنے مصوّر سے گلہ رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ و لیکن بندگی استغفراللہ یہ درد سر نہیں درد جگر ہے ۔۔۔۔۔ مااز خدائے گم شدہ ایم او بہ جستجوست چوںما نیازمند و گرفتار آرزو است گاہے بہ برگ لالہ نویسد پیام خویش گاہے درونِ سینۂ مرغاں بہ ہائو ہوست ان اشعار کے تعلق سے جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں: لیکن یہ اقبال کی بنائی ہوئی خالق و مخلوق کے رشتے کی مکمل تصویر نہیںبلکہ اس تصویر کے متعدد پہلوئوں میں سے محض ایک پہلو ہے ۔ ایک اور پہلو جو اس تصویر میں شامل ہے ،یہ ہے: متاع بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی ان تمام پہلوئوں میں جو اقبال کے قائم کیے ہوئے خدا اور انسان کے رشتے کی محض ایک جھلک پیش کرتے ہیں کہ خواہ بندگی اقبال کے لیے درد سر ہو یا مقام بندگی دے کر اقبال شانِ خداندی لینے کو بھی تیار نہ ہوں یا خدا انسان کی تلاش میں سر گرداں ہو، ایک نکتہ آئینے کی طرح روشن ہے اور وہ ہے ذات مطلق سے الگ انسان کا اپنا وجود۔ لیکن اقبال ’سوامی رام تیرتھ‘ والی نظم میںیہ کہہ چکے ہیں: ہم بغل دریا سے ہے اے قطرئہ بے تاب تو پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو پروفیسر آزاد اپنے ایک اور مضمون ’اقبال کی شاعری میں تصوف‘ میں رقم طراز ہیں: لیکن بعد میں اپنے اس تصور میں انھوں نے ترمیم کی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ کمالِ انسان ذات مطلق میں گم ہونا نہیں بلکہ اس کا کمال عبادت یہ ہے کہ وہ خدا کی ہستی کے نزدیک اور قریب سے قریب ہوتا جائے لیکن اپنی ہستی کو گرفتار نہ ہونے دے۔ کسی فن پارے کی قدر و قیمت کا تعین افکار و موضوعات سے نہیں بلکہ لسانی نظام سے ہوتاہے۔ آزاد ۳۰؍اپریل ۱۹۸۰ء کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ’اقبال کی اردو شاعری ‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہیں: معزز خواتین و حضرات ! اقبال کی شاعری کا ذکر کر تے ہی بات کا رخ بالعموم سیاسی ، مذہبی اور سماجی نظریات کی جانب مبذول ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال کی شاعری پر کچھ کہنے سننے کے عوض ان کا فلسفۂ حیات اور اس سے وابستہ مسائل موضوع گفتگو بن جاتے ہیں۔ اس گفتگو میں ’خودی‘ سے لے کر ’تصور زمان و مکان ‘ تک سب کچھ زیر بحث آ جاتا ہے، لیکن اقبال کی شاعری پر کم ہی اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ اس تقریر میں پروفیسر آزاد نے اقبال کی اردو شاعری کے لسانی نظم کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ وہ اقبال کے ناقدین سے شکایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اقبال کو ایک شاعر کی حیثیت سے دیکھنے کی بجائے مفکر اور فلسفی کے طور پر دیکھا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال پر جو تنقید لکھی گئی ہے اس کا بڑا حصہ افکار و موضوعات کی تشریح و تعبیر سے مخصوص ہے، اور اس حصے میں خود آزاد صاحب کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ جگن ناتھ آزاد نے اقبال کے تعلق سے افکار و موضوعات کو نظر انداز کر کے صرف ان کی شاعری کو موضوع گفتگو بنانے کی بات کر کے اقبال شناسی کے ایک بنیادی اور اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا تھا۔ کم و بیش بیس سال پہلے انھوں نے یہ بات کہی تھی: ’’اقبال کے فکر و فلسفے اور موضوعات پر اتنا کچھ لکھنے والا ادبی نقاد یہ محسوس کرتا ہے کہ موضوعات سے کوئی شاعر اہم یا بڑا نہیں ہوتا ۔‘‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبال کے کلام پر سردُھننے کی بجائے اقبال کے کلام کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے ۔ اس مطالعے کے دوران اقبالیات پر آزاد کے تحقیقی مضامین ہماری مشکلات کو حل کر سکتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں کیا جا سکتا۔  خ جگن ناتھ آزاد ، تعمیر فکر،کریسنٹ ہائوس پبلی کیشنز۲۶۷ ، جوگی گیٹ، جموں، صفحات۲۹۳، قیمت ۔؍۲۵۰ روپے ۔مبصر : رفیع الدین ہاشمی مصنف نے یہ کتاب تقریباً ایک برس پہلے ارسال کی تھی ، اس کے ساتھ ناظم اکادمی محمد سہیل عمر کے نام ایک مختصر رقعہ تھا: ’’یہ کتاب اوّل سے آخر تک اقبالیات سے متعلق نہیں ہے۔ لیکن پہلے حصے میں سات مقالات کا موضوع اقبالیات ہے۔ ’’۷۵ صفحات پر مشتمل اقبالیات کا حصہ، اگر اسے تبصرے کی چند سطروں کا مستحق بنا سکے تو شروع کے ۷۵ صفحات پر چند الفاظ اقبال ریویو (اردو) میں لکھ کر یا کسی اور تبصرہ نگار سے لکھوا کر مجھے ممنون کریں۔ والسلا م، خیر اندیش جگن ناتھ آزاد ۲۵؍اگست ۲۰۰۳ئ‘‘ افسوس ہے رسالے کی اشاعت میں غیر معمولی تاخیر کے سبب ، اب تک اس پر تبصرہ نہ کیا جا سکا ، اب آزاد صاحب کی خواہش کے مطابق ، ذیل میں اس پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ) آزاد کی اقبالیاتی شخصیت اور اقبالیاتی مصنف کی حیثیت اس قدر نمایاں اور معروف ہے کہ ہم اُن کی دوسری حیثیتوں (مثلاً شاعر، محقق ، نقاد ، سفرنامہ نگار وغیرہ) کو ثانوی سمجھ کر ان سے اعتنا نہیں کرتے حالانکہ ان کی یہ ثانوی حیثیتیں بھی قابلِ لحاظ اور لائق توجہ ہیں۔ تعمیر فکرکا ابتدائی حصہ سات اقبالیاتی مضامین پر مشتمل ہے۔ مابعد حصے میں ’’سازِ جرس‘‘ ، ’’جدید اردو شاعری اور اقبال‘‘ اور ’’مجاز جے پوری کی تضامینِ اشعارِ اقبال‘‘ بھی اقبالیاتی تحریریں ہیں اور یہ دس تحریریں ۸۵ صفحات کو محیط ہیں۔ غیر اقبالیاتی چھوٹے بڑے مضامین کی تعداد تقریباً ۳۰ ہے ۔ ان میں سے کچھ تو شخصیات پر ہیں (حالیؔ، جمیل مظہری ، ساغر خیامی، خمار بارہ بنکوی، اشرف شاد وغیرہ) ایسے مضامین میں متعلقہ حضرات متعلقہ شخصیت کی سوانحی جھلکیاں دکھانے کے ساتھ ساتھ اس کی شعری یانثری تخلیقات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ چند مضامین نثری کتابوں پر بھی ہیں، جیسے کچھ یادیں کچھ باتیں(پروفیسر محمد شمیم جے راج پوری) معاونِ تحقیق (عبداللہ خاور)زیادہ تر شعری مجموعوں پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ بعض موضوعات بہت دلچسپ ہیں، جیسے : ’’اردو شاعری میں گاندھی جی کا ذکر‘‘ یا ’’مشاعرے کی اہمیت‘‘ یا ’’جدید ہندستان کے سکولوں میں اردو کی در س و تدریس ‘‘ وغیرہ ۔ یہ سب مضامین جگن ناتھ آزاد کی تنقیدی نظر اور شعر و ادب کو پرکھنے کی خداداد صلاحیت کے عکّاس ہیں۔ اقبالیاتی مضامین میں ’’اقبال کی غزل کا ابتدائی دور‘‘ ۔ ’’اقبال کے دس اشعار‘‘ ۔ ’’شیخ محمد عبداللہ اور ڈاکٹر محمد اقبال‘‘ ۔سید میر شکر کی کتاب : محمد اقبال ۔ علی شر یعتی کی کتاب مصلح قرنِ آخر اور ہندستان میں اقبالیاتوغیرہ شامل ہیں۔ کوثر صدیقی کے ہاں آزاد نے اقبال کے رنگ سخن اور تقلید کے شواہد دریافت کیے ہیں۔ یہ امر مسلّم ہے کہ آزاد اقبال کی شاعری سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ایک جگہ انھوں نے بتایا ہے کہ ’’مجھے کلام اقبال ، سارے کا سارا از بر تھا ، ان کا متروک کلام بھی ‘‘ (ص ۳۱) چنانچہ اُن کی اقبالیاتی تصانیف میں فقط رسمی اور روایتی باتیں نہیں بلکہ نکتہ آفرینی بھی موجود ہے۔ اس سلسلے میں ’’اقبال کے دس اشعار‘‘ قابل مطالعہ ہے۔ مثلاً بال جبریل کا معروف شعر ہے: محمد بھی ترا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ اس شعر کے حوالے سے ایک مدت سے یہ بحث جاری ہے کہ یہاں ’’حرفِ شیریں‘‘ سے اقبال کی مراد کیا ہے؟مختلف شارحین نے احادیثِ رسولؐ ، آیات قرآنی اور اقبال کی شاعری کو ’’حرف شیریں‘‘ قرار دیا ہے آزاد صاحب اس سے انسانی جذبۂ عشق مراد لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اقبال اس شعر میں عظمتِ آدم کا تصو ّر پیش کر رہے ہیں جو اُن کا محبوب موضوع ہے۔ ایک اور شعر ہے: آیۂ کائنات کا معنی دیریاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو بعض شارحین (جیسے : یوسف سلیم چشتی ، غلام رسول مہر ، عبدالرشیدفاضل) نے اسے نعتیہ قرار دیا ہے لیکن چند حضرات (جیسے ڈاکٹر عبدالمغنی ، ڈاکٹر اسرار احمد) اسے حمدیہ کہتے ہیں ۔ آزاد اوّل الذکر نقطۂ نظر سے اتفاق کرتے ہیں ۔ ’’شیخ محمد عبداللہ اور ڈاکٹر محمد اقبال‘‘ بھی ایک دلچسپ مضمون ہے، جس میں اقبال اور کلام اقبال سے شیخ محمد عبداللہ مرحوم کی دل بستگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ آزاد کا خیال ہے کہ اقبال نے جاوید نامہ میں جن دو کشمیری شخصیات کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک ہمدانی ہیں اور دوسرے شیخ محمد عبداللہ ۔ اسی طرح یہ بات بھی محلِ نظر اور قابلِ تحقیق ہے کہ بقول شیخ محمد عبداللہ : ’’اقبال ہی نے مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔‘‘ (ص ۴۴) سید میر شکر کی کتاب محمد اقبال کا ترجمہ کبیر احمد جائسی نے کیا ہے اور ترجمے کے ساتھ نہایت تفصیلی تعلیقات کا اضافہ بھی ۔ یہاں آزاد نے تعلیقات کے حوالے سے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ جائسی نے یہ تعلیقات کسی انسائیکلوپیڈیا میں اندراج کے انداز پر لکھ ڈالی ہیں ۔ اوّل تو ان تعلیقات کی ضرورت ہی نہیں تھی ، مثلاً جنیندر کمار اور پرویز شاہدی پر تین تین ،چار چار صفحے اس کتاب پر لکھنا جو اقبال کے متعلق ہے، بالکل ایک غیر متعلق سی بات ہے۔ آزاد کی یہ بات ہمارے محققوں اور تدوین کاروں اور تالیفات نگاروں کے لیے راہ نما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ آزاد کی تنقید میں نکتہ آفرینی اور بصیرت ملتی ہے اور ان کی زبان و بیان اور اسلوب میں ایک طرح کی دل کشی ہے جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ شخصی حوالوں اور ذاتی یاد داشتوں کے ذریعے اپنی تحریروں کو دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ شخصی حوالوں کے ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ ان مضامین میں خود ان کی اپنی شخصیت اور سوانح کے بارے میں بڑی قیمتی معلومات ملتی ہیں، مثلاً : ایک جگہ انھوں نے اپنی سگریٹ نوشی کے ترک کا قصہ بیان کیا ہے: ’’جس کے بعد آج تک تمباکو کے دھوئیں سے نفرت ہی نفرت جاری ہے۔‘‘ (ص ۱۲۵) ان کی زندگی کا ایک اور دلچسپ ورق اس طرح ہے: میں ۱۹۳۷ء میں گارڈن کالج ، راولپنڈی سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایم اے میں داخلہ لینے کے لیے لاہور آ گیا تھا۔ لیکن لاہور کی ادبی محفلیں اس طرح زنجیر بن گئیں کہ میں کئی برس تک ایم ، اے میں داخلہ نہ لے سکا ۔ ادبی دنیا ،ہمایوں اورشاہکار کے دفاتر ، نگینہ بیکری، عرب ہوٹل چند ایسی جگہیں تھیں، جہاں زیادہ تر وقت بسر ہونے لگا۔ یہاں لاہور کے اور باہر سے لاہور آنے والے اہل قلم حضرات کے ساتھ ملاقاتیں بھی شروع ہو گئیں۔ مشاعروں کے دعوت نامے بھی موصول ہونے لگے اور میں انھی لمحات کو حاصلِ زندگی سمجھ کر ایم اے میں داخلے کو پانچ سات برس تک زیب طاقِ نسیاں بناتا چلا گیا۔(ص ۱۴۹) تعمیر فکرکے اقبالیاتی مضامین کتاب کے ایک تہائی حصے پر محیط ہیں، اس لیے اس کا شمار اقبالیاتی تصانیف میں نہیں ہو گا، کیونکہ اصول یہ ہے: اقبالیاتی لٹریچر میں و ہی کتاب شمار ہو گی جس کا غالب حصہ اقبالیاتی تحریروں پر مشتمل ہو۔ خ خ خ خ Iqbal: A Selection of Urdu Verse ،(مترجم)ڈیوڈ میتھیوز، سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹیڈیز، یونی ورسٹی آف لندن ، ۱۹۹۳ئ،صفحات۲۸۹،قیمت ۔؍۱۲ پونڈ،مبصر:پروفیسر غلام رسول ملک ، شعبۂ انگریزی ، کشمیر یونی ورسٹی ، سری نگر،(ترجمہ ،محمد ایوب لِلّٰہ) بیسویں صدی کے اوائل میں، اقبال نے جب ایک اہم شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی تو انگریزی میں ان کی شاعری کے متعدد تراجم کیے گئے ۔ آر اے نکلسن پہلا شخص ہے جس نے اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ کر کے اقبال کو انگریزی قارئین میں متعارف کروایا ۔ کچھ عمدہ تراجم اے ۔ جے آربری ، انا ماری شمل ، بی اے ڈار اور ہادی حسین نے بھی کیے، لیکن یہ سب اقبال کے فارسی کلام کے ترجمے ہیں ۔ اقبال کے اردو کلام سے ایک عمدہ انتخاب اور اسے انگریزی میں منتقل کرنے کی مزید ضرورت تھی۔ ڈیوڈ میتھیوز کا موجودہ کام اسی جانب ایک پیش رفت ہے۔ میتھیوز نے یہ انتخاب پورے اردو کلام سے کیا ہے ۔ اگرچہ اس انتخاب میں بہت عمدہ نظمیں شامل کی گئی ہیں لیکن بعض شاہکار فکری منظومات اس میں موجود نہیں ۔ اقبال کے اردو کلام کے کسی انتخاب کو کیسے نمایندہ قرار دیا جا سکتا ہے جب اس میں ’’ہمالہ‘‘ ، ’’جواب شکوہ‘‘ ، ’’لالہ صحرا ‘‘ ، ’’ذوق و شوق‘‘ ، ’’شعاع امید‘‘ اور ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ جیسی نظمیں شامل نہ ہوں ۔ ایک بڑی کمی یہ ہے کہ اقبال کی زندگی کا بہت تشنہ اور مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ مزید براں بعض فوری توجہ طلب مسائل ، جیسے اقبال کی شاعری سے متعلق ایسے اہم واقعات جو ان کے مستقبل پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئے، انتہائی غیر محتاط طریقے سے پیش اور ترجمہ کیے گئے ہیں۔ جناب میتھیوز کے کام کا معیار ظاہر کرتا ہے کہ انھوں نے اس دقّت طلب کام میں بھر پور کوشش صرف نہیں کی ۔ حتیٰ کہ تعارفی حصے میں بعض بیانات غیر متوازن اور غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ وہ اقبال کی زندگی کے اہم نکات کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں: اقبال ۱۹۰۸ء میں ہندوستان واپس آئے اور گورنمنٹ کالج میں لیکچرر ہو گئے ۔ تدریس چونکہ ان کا میدان نہ تھا لہٰذا وکالت اختیار کرنے کے لیے انھوں نے اس سے استعفا دے دیا تھا۔ باقی ماندہ زندگی خوش حالی سے بطور ایک کامیاب وکیل گذاری ۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں اس پیشے سے بھی کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہ تھی ۔ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ اپنی شاعری پر توجہ اور انہماک کے لیے مختص کر دیا۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی میں کوئی خاص قابل ذکر بات نہیں ۔ ص ۱ اقبال جیسے شخص کی زندگی کا یہ کوئی اچھا تجزیہ نہیں، جس نے نہ صرف تاریخ بلکہ برعظیم کے جغرافیے کو بھی بدل دیا۔ کچھ آگے چل کر میتھیوز نے اقبال کی ضرب کلیم سے متعلق ڈاکٹر صادق کی رائے اپنی بات کی تصدیق کے لیے پیش کی ہے کہ ’’اس میں اقبال نے اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے اور اس کے علاوہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں‘‘۔ جواباً یہ بات بطور خاص یاد رہے کہ بلندیِ فکراور متنوع تصورات کے لیے کلام اقبال میں ضرب کلیم کا کوئی ثانی نہیں ۔ اس کے بعد ارمغان حجاز آئی جو بذاتِ خود شاعرانہ اعتبار سے تازگی اور خیالات کی گہرائی کے اعتبار سے اقبال کی مجموعی نمایندگی کرتی ہے۔ صفحہ نمبر ۷ پر میتھیوز نے مشہور نظم ’’ساقی نامہ ‘‘ سے چند اشعارکا انتخاب کیا ہے۔ جس میں اقبال مسلمانوں کے زوال کے پس منظر میں تصوف کی پستی پر افسوس کرتے ہیں۔ اس ضمن میں میتھیوز کے تاثرات ملاحظہ کیجیے : دور جدید کا یہ اذیت ناک تصور ہے ۔ اقبال کا عقیدہ تھا کہ اس سراب سے نکلا جائے اور حقیقت کا رُخ کیا جائے ۔بہرحال انھوں نے ایران کی متصوفانہ فکر کا گہرا مطالعہ کیا اور اپنے لیے راہ نما کے طور پر رومی کو منتخب کیا اور جو قرون وسطیٰ میں فارسی کی صوفیانہ روایت کا سب سے بڑا شخص تھا ۔ یہ عبارت تھوڑی سی مبہم ہے۔ اگرچہ مصنف کا یہ عقیدہ ہے کہ اقبال، رومی کے خیالات سے متاثر ہیں اور زندگی سے متعلق ان کا رویہ وجدانی حقیقت پسندی کا ہے، جس کے لیے رومی ایک علامت ہے۔ درحقیقت اقبال ،رومی کے تصوف کو اپنے مثبت اور متحرک نظریات میں پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ عجمی تصوف زندگی کے منافی تو ہے ہی، اقبال کے نزدیک وہ روح اسلام کے بھی منافی ہے۔ ان تاثرات سے اقبالیات کے اہم علمی گوشوں پر اظہار رائے میں مصنف کی کم علمی کا گمان ہوتا ہے ۔ تعارف کو پیش کرتے ہوئے بھی پوری کتاب میں مدغم کر دیا گیا ہے ۔ مثلاً اقبال کی نظم ’’بالشویک روس‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے میتھیوز کہتے ہیں: ۱۹۱۷ء کے بالشویک انقلاب نے روس کو سرکاری طور پر ملحدانہ ریاست بنا دیا تھا ۔ اقبال مغربی عیسائیت کا سخت مخالف ہے۔ چرچ کے زوال پر بڑا خوش دکھائی دیتا ہے اور غیر منطقی طور پر یوں دکھائی دیتا ہے جیسے وہ اس ملحدانہ انقلاب پر خوش ہے۔( ص ۱۸۳) اقبال کے انقلابی خیالات کی اس تصویر کو قابل ملامت ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اقبال نے پال کی زیر اثر پیدا ہو نے والی راہبانہ عیسائیت (Pauline Christianity) کے اس خوفناک پہلو پر شدید تنقید کی ہے ۔ وہ لادینیت کے پہلو ہی کو نہیں بلکہ ملحدانہ مادہ پر ستی کو بھی برابر ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں روحانی پہلوئوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بینتو مسولینی سے اقبال کی ملاقات کے بارے میں میتھیوز کہتے ہیں کہ اس طرح وہ ’’مغربی امپیریلزم کا تریاق ‘‘ چاہتے تھے ۔( ص ۱۸۳)میتھیوز اقبال کی نظم کو سمجھ ہی نہیں سکے ۔ اقبال اس نظم میں مسولینی کی غلطیوں کی تائید نہیں کرتا بلکہ مغربی امپیریلزم کے تاریک پہلوئوں کونمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ میتھیوز نے ترجمے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اسے شاید لفظی ترجمہ تو کہا جا سکتا ہو، البتہ اس سے شاعری کا تیا پانچا ہو جاتا ہے ۔ اگر ایک طرف فٹنر جیرالڈ کا عمر خیام کا ترجمہ موجود ہو، پھر مجھے کسی ایسے نام نہاد سکالر کا ترجمہ میسر آئے جس کی مادری زبان فارسی اور انگریزی ہو، تو میں فٹنر جیرالڈ کے ترجمے سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ اقبالیات کے ایسے طلبہ کے لیے جو اردو نہیں جانتے اس کے فوائد واضح ہیں۔ اگرچہ لفظی ترجمے کے بھی کچھ فائدے ہیں لیکن میتھیوز نے ترجمہ انتہائی بھدے انداز سے کیا ہے ۔ اس کی وضاحت کے لیے چند مثالیں دیکھیے : ۱۔ صفحہ نمبر ۵ پر اقبال کی مشہور نظم ’’ہمالہ‘‘ کے ایک شعر کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے کہ اس سے شاعرانہ حسن ابھر کر سامنے نہیں آتا: ایک جلوہ تھا کلیم طورِ سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے موسیٰ ؑ اور ہمالہ کے درمیان اس شعر کی خوبی کو غلط معانی دیے گئے ہیں۔ موسیٰ ؑ کو صرف جلوہ دکھایا گیا اور دیکھنے والی آنکھ کے لیے ہمالہ بے شمار جلوے پیش کرتا ہے۔ یہاں اس شعر کی خوبی اس تقابل میں پوشیدہ ہے جو موسیٰ ؑ کو عطا کردہ ایک جلوے اور ہمالیہ میں پوشیدہ تجلی میں کیا گیا ہے۔ میتھیوز کے ترجمے میں یہ نکتہ موجود نہیں بلکہ ان کا ترجمہ خام ہے، وہ اسے اس طرح پیش کرتے ہیں۔ Once Moses saw the face of God upon mount Sinai You are the self - same vision for the true discerning eye. ۲۔ صفحہ نمبر ۲۲ پر مضحکہ خیزی ملاحظہ کریں: لیے ہے پیر فلک دستِ رعشہ دار میں جام اسے یوں ترجمہ کیا گیا ہے: The old man of the sky (The sun), holds the goblet in his trembling hands. یہاں وہ شاعرانہ استعارے کو گرفت میں لینے میں ناکام رہے ہیں۔ آسمان یہاں بوڑھا آدمی ہے اور جو (شراب کا) پیالہ وہ شام کے وقت اپنے لرزتے ہاتھوں میں لیے ہوئے ہے، وہ ’’سورج ‘‘ ہے: ۳۔ صفحہ نمبر ۵۶ پر اقبال نے والدہ مرحومہ کو اس طرح مخاطب کیا ہے: زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر جناب میتھیوز اس مصرع کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: Life was made brighter by your moonlight وہ لفظ ’’سے ‘‘ کا ترجمہ By کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس مصرعے میں اس کے اصل معانی Than یعنی بہ نسبت کے ہیں ۔ ۴۔ اسی طرح مصنف نے ’’طلوع اسلام‘‘ کے ایک شعر کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے کیونکہ اردو الفاظ و تراکیب پر ان کی گرفت کمزور ہے اور وہ اردو شاعری کے پس منظر سے نا واقف ہیں۔ مشرق میں راہب اور جوگی جو عام انسانی آبادیوں سے دور رہتے ہیں اور وہ اپنی جھونپڑیوں کے گرد روشنی جلائے رکھتے ہیں تاکہ بھولے بھٹکے رستہ پا سکیں ۔ اقبال مرد مومن کے یقین کو ایسی ہی ایک روشنی قرار دیتے ہیں: گماں آباد ہستی میں یقیں مردِمسلماں کا بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ راہبانی جناب میتھیوز اس کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں: In the abode of doubts of existence is the certainty of the Muslim hero; in the darkness of the desert night is the candle of the monks. (p.79) ۵۔ اردو زبان کے در و بست کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ’’مسجد قُرطبہ‘‘ کے مطالب کو سمجھنے میں بھی انھوں نے غلطی کی ہے: دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں جناب متیھیوز اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : Your land and heaven are in the eyes of stars.(P.104) ۶۔ ’’ساقی نامہ‘‘ کے ایک شعر میں اقبال خودی سے متعلق کہتے ہیں : یہ عالم یہ بت خانہ شش جہات اسی نے تراشا ہے یہ سومنات جناب میتھیوز نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ This world, this six- dimensional idol - temple. This very world fashioned this shrine of Somnath.(p.117) ۷۔ بال جبریل سے ایک شعر اسی طرح ہے: کرتی ہے ملوکیت آثار جنوں پیدا اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز! قرون وسطی میں دیوانگی کا علاج نشتر کے ذریعے فصد کھول کر خون نکالنے سے کیا جاتا تھا ۔ اقبال کا یہ عقیدہ ہے کہ امپیریلزم کے لیے بھی سکندر، تیمور اور چنگیز جیسے نشتروں کی ضرورت ہے۔جناب میتھیوز بہت بھّدے انداز سے شعر پر تبصرہ کرتے ہیں : Kingship can turn a man's head and make him mad. Traditional medicine prescribed blood-letting with a scalpel as a cure for madness. Timur (Tamberlane) and Chingiz (Gengis Khan), stories of whose massacres are legend, are given as examples of Muslim rulers punished by God for becoming too intoxicated with their own power.(p.170) اقبال کے شعر میں تو بہت واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ تیمور اور چنگیز سزا کے لیے بذاتِ خود خدا کے نشتر ہیں۔ جہاں تک مفرد الفاظ اور تراکیب کے ترجمے کا تعلق ہے، پوری کتاب غلطیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں چند نمایاں غلطیوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔ اصل میتھیوز کا ترجمہ صحیح ترجمہ موجِ مضطر The wave was restless The restless wave فقیری Beggary Contentment and Independence دختر Sister Daughter دوام Running, speed Eternity سبز پوش Verdure decked in verdure شرع Commentary on the Quran Law of Shariah غماز Story teller Indicator-that which reflects مغرب زدہ Struck on the west Westernized کتاب کا تمام ذخیرئہ الفاظ نا قابلِ معافی غلطیوں سے بھرا ہوا ہے اور اسے مکمل طور پر دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسی خامیاں ’’اقبال کی فارسی‘‘ والے حصے میں بھی ہیں۔کتاب میں کتابت کی بے شمار غلطیاں ہیں صفحات کی بے ترتیبی کی الجھن (جو بظاہر جلد ساز کا کام ہے) کو دیکھا جائے تو اس کتاب کے نقائص میں مزید اضافہ ہو جاتاہے۔ جو بھی اسے دیکھے گا، فطری طور پر اس کی تمنا ہو گی کہ ایک تو اس انتخاب میں اقبال کی بعض اہم نظموں کو شامل کیا جائے ، دوسرے موجودہ سرسری کتابیات کی جگہ مفصل کتابیات مرتب کی جائے۔ اسی طرح کتاب کا اشاریہ بھی ہونا چاہیے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پر کسی اقبال شناس سے نظر ثانی کرانا ضروری ہے۔ اگر ان باتوں کا اہتمام کر لیا جائے ، تبھی یہ ایڈیشن، اقبال کے چاہنے والوں کے لیے ایک وقیع تحفہ بنے گا۔ خ خ خ خ ڈاکٹر ایوب صابر،اقبال کا اردو کلام ،مقتدرہ قومی زبان ، پطرس روڈ ، اسلام آباد، صفحات ۱۹۸، قیمت ۔؍۱۲۵ روپے ۔مبصر : عبداللہ شاہ ہاشمی۔ ہماری علمی و فکری اور شعری و ادبی زندگی پر علامہ اقبال کے فکر و فن اور افکار و نظریات کے اثرات حیاتِ اقبال ہی میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے مگر اس کے ساتھ ہی ان کی شاعری پر نقد و اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ اقبال کی شخصیت ، تصورِ اسلامی قومیت ، اتحاد عالمِ اسلام ، تصوف اور ان کے تصور پاکستان پر کئی پہلوئوں سے اعتراضات کیے گئے ۔ اختلافات ، اعتراضات بلکہ بیانات کایہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری ہے ۔ گو علمائے اقبالیات نے وقتاً فوقتاً ان الزامات کی تردید کی اور اعتراضات کے مُسکت جوابات بھی دیے لیکن عرصے سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اعتراضات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر تحقیقی انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے مدلل اور بھرپور جواب دیا جائے۔ پروفیسر ایوب صابر ایک کہنہ مشق اور پختہ کار ادیب اور محقق ہیں۔ انھوں نے اقبال دشمنی ۔ ایک مطالعہ لکھ کر دفاعِ اقبال کا سفر شروع کیا تھا اور پھر اسی موضوع کو آگے بڑھا یا اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیر نگرانی پی ۔ ایچ ۔ ڈی کے لیے اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات کا جائزہ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری لی۔ انھوں نے اس سلسلے میں ہندو پاک کی لائبریریوں ، انڈیا آفس لائبریری لندن اور متعدد ماہرین اقبالیات سے استفادہ کیا موصوف کو تحقیق اور موضوع سے ایسی دلچسپی تھی کہ انھوں نے پروفیسر کا گائون اتار کر، ملازمت سے قبل از وقت سبک دوشی اختیار کی یکسو ہو کر ہمہ وقتی طور پر پورے انہماک سے تحقیقی کام میں مصروف ہو گئے۔ اقبالیات میں اس نوعیت کا کام ، اس قدر مربوط انداز میں کبھی نہیں ہوا ۔ انھوں نے اس کا م کو چھ مستقل تصانیف کی شکل میں پیش کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے زیر نظر کتاب اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔ قبل ازیں اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ کے عنوان سے پہلا حصہ چھپ چکا ہے۔ جو ادبی معرکہ آرائی میر و سودا اور انشاء و مصحفی کے دور میں شروع ہوئی، شاید یہ اُسی روایت کا اثر تھا کہ بیسویں صدی کے شروع میں جب اقبال کی شاعری کا چرچا ہوا تو اہلِ زبان نے لسانی تفاخر کی بنا پر اور کچھ اہل پنجاب سے لسانی تعصب کی بنیاد پر ، اقبال کی شاعری کو نشانۂ اعتراض بنایا۔ ماہرین اقبالیات کے نزدیک اس میں اعتراض کا پہلو کم اور مخالفت برائے مخالفت کا رویہ زیادہ نمایاں تھا ۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کی رائے میں اس رویے کا آغاز ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں لسانی و عروضی معائب تلاش کرنے میںدیکھا جا سکتا ہے۔ جب ہمارے سنجیدہ اور پختہ کار اکابر شعر و ادب بھی اقبال کی لسانی و فنی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ اپنے غیر سنجیدہ اور ناگوار رویے کے اظہار میں بخل یا تکلف سے کام نہ لیا ۔ فاضل محقق نے اس تنقید و تنقیص اور اعتراضات و اتہامات کی وجوہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اگرچہ بعض اعتراضات بظاہر خلوصِ نیت سے کیے گئے لیکن اکثر و بیشتر اعتراضات لسانی تفاخر ، علاقائی تعصب ، ناقدین کی کم فہمی و کم علمی ، احساسِ کہتری یا جذبہ اقابت کا نتیجہ ہیں۔ کچھ اعتراضات کا اقبال نے خود بھی جواب دیا تھا ۔ پروفیسر ایوب صابر نے متعدد عنوانات، اہل زبان اور اقبال، اقبال کے فن کو پرکھنے کا معیار ، زبان و بیان پر اعتراضات کے نمایاں پہلو ، فنی اعترضات کے جدید زاویے وغیرہ کے تحت چھ ابواب میں ان الزامات کی چھان ٹھیک کی ہے ۔ انھوں نے کس قدر باریک بینی اور دیدہ ریزی سے کام کیا ہے اس کا اندازہ کتاب پڑھنے ہی سے کیا جا سکتا ہے ، مثلاً : اقبال پر ہونے والے لسانی اعتراضات کو روز مرہ ، محاورے ، نے سے اور کو کا استعمال ، تذکیر و تانیث ، واحد جمع ، متروکات ، تعقید لفظی سقم ، نامانوس تراکیب ، حشود زواید ، فارمیٹنگ، تخالفِ ضمائر وغیرہ ذیلی عنوانات کے تحت بحث کی ہے۔ انھوں نے یہ جنگ انھی ہتھیاروں سے لڑی ہے جو اہل زبان نے استعمال کیے اور بالعموم اہل زبان ہی سے دلیل اخذ کی ہے۔ جوش ملسیانی، اثر لکھنؤی، یگانہ ، جوش اور کلیم الدین احمد کے اعتراضات کا جواب اکبر حیدری ، خلیفہ عبدالحکیم ، ڈاکٹر منظر اعظمی اور ڈاکٹر عبدالمغنی نے دیا ہے اور ان کی تصانیف سے شواہد یکجا کیے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ : اقبال نے نئے محاورات ، نئے استعارے ، نئی تراکیب اورنئی تلمیحات وضع کیں۔ انھوں نے زبان کا ایک منفرد اور جدید قالب تیار کیا غالب نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ بڑی شاعری کا یہ وصف ہے کہ وہ اپنا قالب خود تیار کرتی ہے۔ اس کی سند اساتذہ ماقبل کے ہاں تلاش کرنا یا اس تلاش پر اصرار کرنا لسانی شعور و آگہی کے منافی ہے پروفیسر ایوب صابر مزید لکھتے ہیں کہ : اقبال کی زبان ان کے جذبہ و تخیل کا ایسا پیکر ہے کہ لفظ و معانی کو الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں ۔ فنی امور اور فکری توانائی کلام اقبال میں کمال کی حدوں کو چھو رہے ہیں ان کا معجزئہ فکر ، معجزئہ فن بن کر نمودار ہوا ہے۔ پروفیسر ایوب صابر نے جس وقت نظر اور غیر جانبداری سے تحقیق کے مسلمہ اصولوں کے تحت اقبال پر ہونے والے اعتراضات اور الزمات کا جائزہ لیا ہے اور مدلل انداز سے ان کے شافی جوابات دیے ہیں ، وہ بلاشبہ ’’مرداں چنیں کند‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ خ یاسمین کوثر ، جگن ناتھ آزاد،اردو فورم ایور گرین کمپوزرز اینڈ پبلیشرز ، جموں توی،صفحات ۲۸۶ ،قیمت ۔؍۲۰۰ روپے۔ مبصر: عبداللہ شاہ ہاشمی جگن ناتھ آزاد ایک حساس گداز طبع شاعر ، ایک درد مند و عالی ظرف انسان اور ایک بلند پایہ ادیب اور صحافی تھے۔توازن اُن کی شخصیت کا اہم جزو رہا ۔ وہ اطلاعات و نشریات کے اداروں سے وابستہ رہے اور جموں یونیورسٹی میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کے طور پر بھی فرائض سر انجام دیے مگر ان کی اصل پہچان ان کی اقبال شناسی ہے۔ خصوصاً بھارت میں فروغِ اقبال کے سلسلے میں ان کی فکری کاوشوں کو سب سے زیادہ دخل ہے۔ یہ بات آزاد کی شخصیت کے لیے باعثِ فخر و امتیاز ہے اور ایک اعزاز بھی۔ زیر نظر کتاب جگن ناتھ آزاد بطور اقبال شناس ان کی اقبال شناسی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے اور ان کی شخصیت کا تعارف بھی ہے۔ یہ دراصل ایم ۔ اے اردو کی سطح کا مقالہ ہے جو جگن ناتھ آزاد کے دوست اور ممتاز اقبال شناس پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیر نگرانی ، یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ یاسمین کوثر نے جس کاوش اور محنت سے اس مقالے کی تکمیل کی ، اس کا اندازہ مقالے کے عمدہ معیار ، ترتیب ، ابواب بندی اور مواد ، آزاد کے مفصل سوانح، شخصیت کے نمایاں پہلوئوں اور ان کے مضامین و کتب کے تعارف و مباحث وغیرہ سے ہوتا ہے۔ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں آزاد کی شخصیت اور ان کے سوانحی کوائف ہیں جو ان کے مختلف مصاحبوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ان کی متنوع علمی ، تعلیمی اور اقبالیاتی مصروفیات سے ان کی شخصیت کے تعمیری عناصر کا پتا چلتا ہے۔ دوسرے باب میں اقبال سے ان کی وابستگی کے اسباب کا سراغ لگایا گیا ہے (اقبال شناسی کے پہلے لوگ ان کے والد تلوک چند محروم تھے جو نہایت اچھے شاعر اور غیر جانبدار شخصیات کے مالک تھے) تیسرے باب میں اقبال پر آزاد کی نصف درجن کتابوں کی تعارف پر مشتمل ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آزاد نے اقبال کی سوانح پر لکھا ، فکر و فن پر قلم اٹھایا ۔ بچوں اور نوجوانوں کے لیے بھی لکھی اور یہ امر بھی قابلِ ستایش ہے کہ آزاد کہ آزاد کی اقبالیاتی کا رشیں بیک وقت اردو اور انگریزی میں جاری رہیں۔ آخری باب میں جگن ناتھ آزاد کی اقبال شناسی کا مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے یہ کتاب آزاد کی احوال و آثار کا عمدہ ریکارڈ ہے۔ خ خ خ  ڈاکٹر ایوب صابر،اقبال کا اردو کلام ،مقتدرہ قومی زبان ، پطرس روڈ ، اسلام آباد،صفحات۱۹۸،قیمت ۔؍۱۲۵ روپے ہماری علمی و فکری اور شعری و ادبی زندگی پر علامہ اقبال کے فکر و فن اور افکار و نظریات کے اثرات حیاتِ اقبال ہی میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے مگر اس کے ساتھ ہی ان کی شاعری پر نقد و اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ اقبال کی شخصیت ، تصورِ اسلامی قومیت ، اتحاد عالمِ اسلام ، تصوف اور ان کے تصور پاکستان پر کئی پہلوئوں سے اعتراضات کیے گئے ۔ اختلافات ، اعتراضات بلکہ بیانات کایہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری ہے ۔ گو علمائے اقبالیات نے وقتاً فوقتاً ان الزامات کی تردید کی اور اعتراضات کے مُسکت جوابات بھی دیے لیکن عرصے سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اعتراضات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر تحقیقی انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے مدلل اور بھرپور جواب دیا جائے۔ پروفیسر ایوب صابر ایک کہنہ مشق اور پختہ کار ادیب اور محقق ہیں۔ انھوں نے اقبال دشمنی ۔ ایک مطالعہ لکھ کر دفاعِ اقبال کا سفر شروع کیا تھا اور پھر اسی موضوع کو آگے بڑھا یا اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیر نگرانی پی ۔ ایچ ۔ ڈی کے لیے اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات کا جائزہ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری لی۔ انھوں نے اس سلسلے میں ہندو پاک کی لائبریریوں ، انڈیا آفس لائبریری لندن اور متعدد ماہرین اقبالیات سے استفادہ کیا موصوف کو تحقیق اور موضوع سے ایسی دلچسپی تھی کہ انھوں نے پروفیسر کا گائون اتار کر، ملازمت سے قبل از وقت سبک دوشی اختیار کی یکسو ہو کر ہمہ وقتی طور پر پورے انہماک سے تحقیقی کام میں مصروف ہو گئے۔ اقبالیات میں اس نوعیت کا کام ، اس قدر مربوط انداز میں کبھی نہیں ہوا ۔ انھوں نے اس کا م کو چھ مستقل تصانیف کی شکل میں پیش کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے زیر نظر کتاب اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔ قبل ازیں اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ کے عنوان سے پہلا حصہ چھپ چکا ہے۔ جو ادبی معرکہ آرائی میر و سودا اور انشاء مصحفی کے دوار میں شروع ہوئی، شاید یہ اُسی روایت کا اثر تھا کہ بیسویں صدی کے شروع میں جب اقبال کی شاعری کا چرچا ہوا تو اہلِ زبان نے لسانی تفاخر کی بنا پر اور کچھ اہل پنجاب سے لسانی تعصب کی بنیاد پر ، اقبال کی شاعری کو نشانۂ اعتراض بنایا۔ ماہرین اقبالیات کے نزدیک اس میں اعتراض کا پہلو کم اور مخالفت برائے مخالفت کا رویہ زیادہ نمایاں تھا ۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کی رائے میں اس رویے کا آغاز ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں لسانی و عروضی حصائب تلاش کرنے میںدیکھا جا سکتا ہے۔ جب ہمارے سنجیدہ اور پختہ کار اکابر شعر و ادب بھی اقبال کی لسانی و فنی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ اپنے غیر سنجیدہ اور ناگوار رویے کے اظہار میں بخل یا تکلف سے کام نہ لیا ۔ فاضل محقق نے اس تنقید و تنقیص اور اعتراضات و اتہامات کی وجوہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اگرچہ بعض اعتراضات بظاہر خلوصِ نیت سے کیے گئے لیکن اکثر و بیشتر اعتراضات لسانی تفاخر ، علاقائی تعصب ، ناقدین کی کم فہمی و کم علمی ، احساسِ کہتری یا جذبہ اقابت کا نتیجہ ہیں۔ کچھ اعتراضات کا اقبال نے خود بھی جواب دیا تھا ۔ پروفیسر ایوب صابر نے متعدد عنوانات، اہل زبان اور اقبال، اقبال کے فن کو پرکھنے کا معیار ، زبان و بیان پر اعتراضات کے نمایاں پہلو ، فنی اعترضات کے جدید زاویے وغیرہ کے تحت چھ ابواب میں ان الزامات کی چھان ٹھیک کی ہے ۔ انھوں نے کس قدر باریک بینی اور دیدہ ریزی سے کام کیا ہے اس کا اندازہ کتاب پڑھنے ہی سے کیا جا سکتا ہے ، مثلاً : اقبال پر ہونے والے لسانی اعتراضات کو روز مرہ ، محاورے ، نے سے اور کو کا استعمال ، تذکیر و تانیث ، واحد جمع ، متروکات ، تعقید لفظی سقم ، نامانوس تراکیب ، حشود زواید ، فارمیٹنگ، تخالفِ ضمائر وغیرہ ذیلی عنوانات کے تحت بحث کی ہے۔ انھوں نے یہ جنگ انھی ہتھیاروں سے لڑی ہے جو اہل زبان نے استعمال کیے اور بالعموم اہل زبان ہی سے دلیل اخذ کی ہے۔ جوش ملسیانی، اثر لکھنؤی، یگانہ ، جوش اور کلیم الدین احمد کے اعتراضات کا جواب اکبر حیدری ، خلیفہ عبدالحکیم ، ڈاکٹر منظر اعظمی اور ڈاکٹر عبدالمغنی نے دیا ہے اور ان کی تصانیف سے شواہد یکجا کیے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ : اقبال نے نئے محاورات ، نئے استعارے ، نئی تراکیب اورنئی تلمیحات وضع کیں۔ انھوں نے زبان کا ایک منفرد اور جدید قالب تیار کیا غالب نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ بڑی شاعری کا یہ وصف ہے کہ وہ اپنا قالب خود تیار کرتی ہے۔ اس کی سند اساتذہ ماقبل کے ہاں تلاش کرنا یا اس تلاش پر اصرار کرنا لسانی شعور و آگہی کے منافی ہے پروفیسر ایوب صابر مزید لکھتے ہیں کہ : اقبال کی زبان ان کے جذبہ و تخیل کا ایسا پیکر ہے کہ لفظ و معانی کو الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں ۔ فنی امور اور فکری توانائی کلام اقبال میں کمال کی حدوں کو چھو رہے ہیں ان کا معجزئہ فکر ، معجزئہ فن بن کر نمودار ہوا ہے۔ پروفیسر ایوب صابر نے جس وقت نظر اور غیر جانبداری سے تحقیق کے مسلمہ اصولوں کے تحت اقبال پر ہونے والے اعتراضات اور الزمات کا جائزہ لیا ہے اور مدلل انداز سے ان کے شافی جوابات دیے ہیں ، وہ بلاشبہ ’’مرداں چنیں کند‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ یاسمین کوثر ، جگن ناتھ آزاد،اردو فورم ایور گرین کمپوزرز اینڈ پبلیشرز ، جموں توی،صفحات ۲۸۶ ،قیمت ۔؍۲۰۰ روپے جگن ناتھ آزاد ایک حساس گداز طبع شاعر ، ایک درد مند و عالی ظرف انسان اور ایک بلند پایہ ادیب اور صحافی تھے۔توازن اُن کی شخصیت کا اہم جزو رہا ۔ وہ اطلاعات و نشریات کے اداروں سے وابستہ رہے اور جموں یونیورسٹی میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کے طور پر بھی فرائض سر انجام دیے مگر ان کی اصل پہچان ان کی اقبال شناسی ہے۔ خصوصاً بھارت میں فروغِ اقبال کے سلسلے میں ان کی فکری کاوشوں کو سب سے زیادہ دخل ہے۔ یہ بات آزاد کی شخصیت کے لیے باعثِ فخر و امتیاز ہے اور ایک اعزاز بھی۔ زیر نظر کتاب جگن ناتھ آزاد بطور اقبال شناس ان کی اقبال شناسی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے اور ان کی شخصیت کا تعارف بھی ہے۔ یہ دراصل ایم ۔ اے اردو کی سطح کا مقالہ ہے جو جگن ناتھ آزاد کے دوست اور ممتاز اقبال شناس پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیر نگرانی ، یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ یاسمین کوثر نے جس کاوش اور محنت سے اس مقالے کی تکمیل کی ، اس کا اندازہ مقالے کے عمدہ معیار ، ترتیب ، ابواب بندی اور مواد ، آزاد کے مفصل سوانح، شخصیت کے نمایاں پہلوئوں اور ان کے مضامین و کتب کے تعارف و مباحث وغیرہ سے ہوتا ہے۔ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں آزاد کی شخصیت اور ان کے سوانحی کوائف ہیں جو ان کے مختلف مصاحبوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ان کی متنوع علمی ، تعلیمی اور اقبالیاتی مصروفیات سے ان کی شخصیت کے تعمیری عناصر کا پتا چلتا ہے۔ دوسرے باب میں اقبال سے ان کی وابستگی کے اسباب کا سراغ لگایا گیا ہے (اقبال شناسی کے پہلے لوگ ان کے والد تلوک چند محروم تھے جو نہایت اچھے شاعر اور غیر جانبدار شخصیات کے مالک تھے) تیسرے باب میں اقبال پر آزاد کی نصف درجن کتابوں کی تعارف پر مشتمل ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آزاد نے اقبال کی سوانح پر لکھا ، فکر و فن پر قلم اٹھایا ۔ بچوں اور نوجوانوں کے لیے بھی لکھی اور یہ امر بھی قابلِ ستایش ہے کہ آزاد کہ آزاد کی اقبالیاتی کا رشیں بیک وقت اردو اور انگریزی میں جاری رہیں۔ آخری باب میں جگن ناتھ آزاد کی اقبال شناسی کا مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے یہ کتاب آزاد کی احوال و آثار کا عمدہ ریکارڈ ہے۔  اقبالیاتی ادب ۲۰۰۳ء ۱۔ اپنا گریباں چاک: خود نوشت سوانح حیات۔ جاوید اقبال۰- لاہور:سنگ میل،۲۰۰۳ء ۲۔ اقبال اور ان کے معاصر شعراء و ادبائ۔ تسکینہ فاضل۰- سری نگر: فاضل پبلی کیشنز، ۲۰۰۳ء ۳۔ اقبال اور انسان دوستی۔ طالب حسین سیال۰- کراچی : آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۰۳ء ۴۔ اقبال اور عظمت سجدہ ۔ محمد رمضان گوہر ۰- لاہور: مکتبہ گوہر ، ۲۰۰۳ء ۵۔ اقبال اور قادیانیت ۔ خالد شبیر احمد ۰- لاہور :حراء فائونڈیشن پاکستان ، ۲۰۰۳ء ۶۔ اقبال درون خانہ: حیات اقبال کا خانگی پہلو[حصّہ دوم]۔ خالد نظیر صوفی۰- لاہور: اقبال اکادمی پاکستان،۲۰۰۳ء ۷۔ اقبال: شخصیت ، افکار و تصورات، مطالعہ کا نیا تناظر۔ سلیم اختر۰- لاہور: سنگ میل، ۲۰۰۳ء ۸۔ اقبال شناسی : تدریس فارسی بحوالہ کلام اقبال (پہلی سہ ماہی) آفتاب اصغر ، معین نظامی، محمد ناصر،(مرتبین )۰- لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، ۲۰۰۳ء ۹۔ اقبال شناسی : تدریس فارسی بحوالہ کلام اقبال (دوسری سہ ماہی)۔ آفتاب اصغر ، معین نظامی، محمد ناصر)،(مرتبین )۰- لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، ۲۰۰۳ء ۱۰۔ اقبال کا اردو کلام : زبان و بیان کے چند مباحث ۔ ایوب صابر ۰- اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان ، ۲۰۰۳ء ۱۱۔ اقبال کا شعری نظام ۔ محمد اسلم ضیاء ۰- لاہور : الوقار پبلی کیشنز ، ۲۰۰۳ء ۱۲۔ اقبال کا فکری نظام اور پاکستان کا تصور: علامہ اقبال اور مولانا مدنی۔ علامہ اقبال اور پنڈت نہرو۔علامہ اقبال اور مولانا آزاد ۔ فتح محمد ملک ۰- لاہور: سنگ میل، ۲۰۰۳ء ۱۳۔ اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ ۔ ایوب صابر ۰- لاہور: انسٹی ٹیوٹ آف اقبال سٹڈیز ، بیت الحکمت، ۲۰۰۳ء ۱۴۔ اقبال کی لغوی اور لسانی بحثیں ۔ لیاقت علی چودھری ۰- وزیر آباد: بشارت پبلی کیشنز ، ۲۰۰۳ء ۱۵۔ اقبال: نئی تفہیم ۔ صدیق جاوید ۰- لاہور: سنگ میل ، ۲۰۰۳ء ۱۶۔ اقبال و اندیشہ ھای دینی غرب معاصر ۔ محمد معروف ، محمد بقائی ماکان (مترجم)۔ تہران: قصیدہ سرا، ۲۰۰۳ء ۱۷۔ اقبالیات شورش : معروف دانشور اور صحافی آغا شورش کاشمیری کی تحریروں کا منفرد مجموعہ۔ آغاشورش کاشمیری، مشتاق احمد (مرتب) ۰- لاہور: مکتبہ احرار ، ۲۰۰۳ء ۱۸۔ برہان اقبال ۔ محمد منور ۰- لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ،(طبع چہارم) ۲۰۰۳ء ۱۹۔ پیام اقبال بنام نوجوان ملت۔ سید قاسم محمود (مرتب) ۰- لاہور: مرکزی انجمن خدا م القرآن، ۲۰۰۳ء ۲۰۔ تعمیر فکر۔ جگن ناتھ آزاد ۰- نئی دہلی : کریسنٹ ہائوس پبلی کیشنز، ۲۰۰۳ء ۲۱۔ تلمیحات اقبال ۔ سید عابد علی عابد ۰- لاہور: سنگ میل،(طبع مکرّر) ۲۰۰۳ء ۲۲۔ دانشور اقبال۔ آل احمد سرور ۰- لاہور: ایجوکیشنل بک ہائوس ، (طبع مکرّر)۲۰۰۳ء ۲۳۔ درشبستان ادب: شرح و بررسی تطبیقی جاوید نامہ اقبال ۔ سر محمد اقبال : محمد بقائی ماکان (مترجم) ۰- تہران : انتشارات اقبال ، ۲۰۰۳ء ۲۴۔ دمادم رواں ہے یم زندگی : حیات اقبال کا پہلا دور ۱۹۰۴ تک ۔ خرم علی شفیق ۰- اسلام آباد : الحمرا پبلی کیشنز، ۲۰۰۳ء ۲۵۔ دیوان اقبال لاہوری : میکدہ لاہور۔ سر محمد اقبال، محمد بقائی ماکان (مدیر) ۰- تہران : انتشارات اقبال، ۲۰۰۳ء ۲۶۔ راز اقبال : اقبالیات پر فکر انگیز تحقیقی مضامین کا مجموعہ ۰- نئی دہلی : خلیل الرحمن راز ، ۲۰۰۳ء ۲۷۔ رہ نورد شوق محمد اقبال : حیات اور کارنامے ۔ اقبال سنگھ : نعیم اللہ ملک (مترجم) ۰- کراچی : آکسفرڈ یونیورسٹی پریس ، ۲۰۰۳ء ۲۸۔ شعر اقبال۔ سید عابد علی عابد۰- لاہور : سنگ میل ،(طبع مکرّر) ۲۰۰۳ء ۲۹۔ علامہ اقبال : نہ دپبنتو شاعرانو پیرزوینی۔ سر محمد اقبال ، عبدالروف رفیقی (مترجم) ۰- کوئٹہ : پبنتو اکیڈمی، ۲۰۰۳ء ۳۰۔ علامہ اقبال : حیات ۔ فکر و فن (۱۰۱ مقالات) سلیم اختر (مرتب) ۰- لاہور: سنگ میل، ۲۰۰۳ء ۳۱۔ اقبال اور طالوت ۔ اسلم عزیز درانی ۰۔ ملتان۔ زکریا پبلیشنگ ہائوس ، ۲۰۰۳ء ۳۲۔ اقبال آثار ۔ راجہ سرفراز ۰۔ فیصل آباد ۔ قرطاس ، ۲۰۰۳ء ۳۳۔ قرطاس اقبال ۔ محمد منور ۰- لاہور : اقبال اکادمی پاکستان، (طبع دوم)۲۰۰۳ء ۳۴۔ قلندر شہر عشق : پازدہ خطابہ و گفتمان دربارہ علامہ اقبال ، محمد بقائی ماکان (مرتب) ۰- تہران : انتشارات اقبال ، ۲۰۰۳ء ۳۵۔ لعل رواں : شرح و برسی تطبیقی غزلھای اقبال۔ سر محمد اقبال ، محمد بقائی ماکان (شارح و مرتب)۰- تہران : انتشارات اقبال، ۲۰۰۳ء ۳۶۔ مطالعہ اقبال کے بعض اہم پہلو ۰- جھاڑ کھنڈ : بھارت۔ ظہیر غازی پوری، ۲۰۰۳ء ۳۷۔ مطالعہ بیدل : فکر برگساں کی روشنی میں ۔ سر محمد اقبال ، تحسین فراقی (مرتب و مترجم) ۰- لاہور: یونیورسل بک ،(طبع سوم) ۲۰۰۳ء ۳۸۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال ۔ آصف جاہ جعفری ۰- ملتان : سوہنی دھرتی پبلی کیشنز آف پاکستان ، (طبع دوم)۲۰۰۳ء ۳۹۔ مے لالہ فام : علامہ اقبال پر مقالات کا مجموعہ ۔ جاوید اقبال ۰- لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، (طبع دوم)۲۰۰۳ء ۴۰۔ نظریہ اجتہاد اور اقبال ۔ مشتاق احمد گنائی۰- سوپور : منیب الحق پبلی کیشنز ، (طبع دوم) ۲۰۰۳ء 41- Asrar-e-Khudi. Sir Muhammad Iqbal; Syed Abdul Mannan(tr)- Dhaka: Allama Iqbal Sangsad,2003. 42- Bibliography of the Works of the Scholar-Hermit Prof. Dr Annemarie Schimmel: from 1943-98.M Ikram Chaghatai (com.); Muhammad Suheyl Umar (ed)- Lahore: Iqbal Academy Pakistan,(2nd ed)2003. 43- Dimensions of Iqbal. Muhammad Munawwar.- Lahore: Iqbal Academy Pakistan,(3rd ed.)2003. 44- Discourses of Iqbal. Sir Muhammad Iqbal; Shahid Hussain Razzaqi (Com.& ed).- Lahore: Iqbal Academy Pakistan,(2nd ed)2003. 45- Gabriel's Neighbour: Selections from Allama Iqbal's Poetry. Sir Muhammad Iqbal; Muhammad Yousuf (com.& tr.).- Larkana: Cadet College Larkana, 2003. 46- Gabriel's Wings: A Study into the Religious Ideas of Sir Muhammad Iqbal- Annemarie Schimmel.- Lahore: Iqbal Academy Pakistan,(4th ed.)2003. 47- Goethe, Iqbal and the Orient. M. Ikram Chaghatai.- Lahore: Iqbal Academy Pakistan,(2nd rev.ed)2003. 48- Hejajer Saogat: Bengali Translation of Allama Iqbal's Armaghani Hijaz. Sir Muhammad Iqbal; Ghulam Samdani Quraishy (tr.).- Dhaka: Allama Iqbal Sangsad, 2003. 48- Hundred Years of Iqbal Studies. Waheed Ishrat (com.).- Islamabad: Pakistan Academy of Letters, 2003. 49- Iqbal and his Contemporary Western Literary Movements. Zafar Iqbal Rao.- Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 2003. 50- Iqbal and Tagore: New Avenues for their Comparative Study. M. Ikram Chaghatai.- Lahore: Sang-e-Meel,2003. 51- Iqbal, New Dimensions: a Collection of Unpublished and Rare Iqbalian Studies. M. Ikram Chaghatai (com. ,ed. & tr.)-Lahore: Sang-e-Meel,2003. 52- Iqbal, the Great Poet of Islam and Sh. Abdul Qadir; Muhammad Hanif Shahid (ed) .- Lahore: Sang-e-Meel,(repr.)2003. 53- Iqbal, the Spiritual Father of Pakistan. Rashida Malik.- Lahore: Sang-e-Meel,2003. 54- Iqbal Today. Nazir Qaiser.- Lahore: Iqbal Academy Pakistan,2003. 55- Iqbal's Philosophy of Religion: A Study in the Cognitive Value of Religious Experience.Muhammad Maruf.- Lahore:Iqbal Academy Pakistan,(2nd ed.)2003. 56- Iqbal's Vision and Pakistan Today: Thought & Facts. V.H. Jeoffrey.- Karachi: Royal Book, 2003. 57- Islamey Dharmiyo Chintar Punargathan. Sir Muhammad Iqbal; Ibrahim Khan (tr.).- Dhaka: Allama Iqbal Sangsad, 2003. 58- Kierkegaard and Iqbal: Startling Resemblances. Ghulam Sabir.- Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 2003. 59- Papers on Iqbal Studies by Scholars from China. Liu Shuxiong (com.).- Bejing: Liu Shuxiong, 2003. 60- Poems from Iqbal. Sir Muhammad Iqbal; V.G. Kiernan (tr.) .- Lahore:Iqbal Academy Pakistan,(3rd ed.)2003. 61- Rumuz-i-Bekhudi. Sir Muhammad Iqbal; A. F. M. Abdul Haq (tr.).- Dhaka: Allama Iqbal Sangsad, 2003. 62- The Gift of Hijaz: English Rendering of Iqbal's Armughan-e-Hijaz. Sir Muhammad Iqbal;Maqbool Elahi(tr.).- Rawalpindi: Maqbool Books, 2003. 63- The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Sir Muhammad Iqbal; Filip Hajny (tr.).-Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 2003. 64- The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Sir Muhammad Iqbal; M Saeed Sheikh (ed.).-Lahore: Institute of Islamic Culture,(repr.)2003. اقبالیاتی ادب ۲۰۰۴ء ۱۔ اعجاز اقبال۔ سید محمد عبداللہ ۰- لاہور : سنگ میل،)طبع مکرّر(، ۲۰۰۴ئ۔ ۲۔ اقبال ۔ ایک تحریک ۔ محمد اکرم اکرام ۰- لاہور : شعبہ اقبالیات، پنجاب یونیورسٹی ،(طبع مکرّر) ۲۰۰۴ء ۔ ۳۔ اقبال کا ادبی نصب العین ۔ سلیم اختر (مرتب)۰- لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، (طبع مکرّر) ۲۰۰۴ء ۔ ۴۔ اقبال: افغان اور افغانستان ۔(اردو ، فارسی ، پشتو اور انگریزی) ۔ محمد اکرام چغتائی (مرتب) ۰- لاہور: سنگ میل، ۲۰۰۴ء ۔ ۵۔ اقبال، جناح اور پاکستان ۔ صفدر محمود ۰- لاہور : خزینہ علم و ادب ، ۲۰۰۴ء ۔ ۶۔ اقبال رژنء شہم۔ سر محمد اقبال ۔ غوث بخش صابر (مترجم) ۰- لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، ۲۰۰۴ء ۔ ۷۔ اقبال: شاعر اور سیاست دان ۔ رفیق زکریا ۔ عبدالستار دلوی (مترجم) ۰- لاہور: بک ہوم ، (طبع مکرّر) ۲۰۰۴ئ۔ ۸۔ اقبال شناسی : تدریس فارسی بحوالہ کلام اقبال ۔ (تیسری سہ ماہی) ۔ آفتاب اصغر ، معین نظامی، محمد ناصر (مرتبین) ۰- لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۴ئ۔ ۹۔ اقبالیات تاجیکستان : ۔ سیف الدین اکرم زادہ (مرتب) ۰- لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۴ء ۔ ۱۰۔ اقبالیات : تفہیم و تجزیہ ۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۔ لاہور ،اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۴ء ۱۱۔ بزم اکبر سے بزم اقبال تک : لسان العصر کے سو منتخب اشعار ، ایک مطالعہ ۔ غلام حسین ذوالفقار ۰- لاہور : بزم اقبال ، ۲۰۰۴ء ۔ ۱۲۔ توحید ، اقبال اور ملت اسلامیہ : خلاصہ مطالب مثنوی رموز بے خودی ، در تفسیر سورہ اخلاص۔ سر محمد اقبال۔ خالد پرویز (مترجم) ۰- ملتان : بیکن بکس ، ۲۰۰۴ء ۔ ۱۳۔ حرف راز : ارمغان حجاز کا منظوم اردو ترجمہ ۔ سر محمد اقبال ۔ محمد زمان مضطر (مترجم) ۰- مانسہرہ : شعر سخن پبلی کیشنز ، ۲۰۰۴ء ۔ ۱۴۔ روح رہان : معہ اضافہ ۔ سر محمد اقبال ۔ ایاز سہروردی (مترجم) ۰- رحیم یار خان : ایاز اکادمی ، ۲۰۰۴ء ۔ ۱۵۔ شرح ارمغان حجاز : فارسی ۔ اردو برائے طلبہ ۔ سر محمد اقبال ۔ خواجہ حمید یزدانی، سلیم اختر (شارحین) ۰- لاہور : سنگ میل ، ۲۰۰۴ء ۔ ۱۶۔ شرح اسرار و رموز : برائے طلبہ ۔ سر محمد اقبال ۔ خواجہ حمید یزدانی (شارح) ۰- لاہور : سنگ میل ، ۲۰۰۴ئ۔ ۱۷۔ علامہ اقبال : چند جہتیں ۔ مختار احمد مکی ۔ نئی دہلی : قاضی پبلشرز ، ۲۰۰۴ء ۔ ۱۸۔ علی شریعتی و اقبال ایک مطالعہ : مع ترجمہ ماو اقبال از جاوید اقبال قزلباش ۔ علی شریعتی ۔ ظہور احمد اعوان (مترجم) ۰- کراچی : اشارات پبلی کیشنز ،(طبع دوم)۲۰۰۴ئ۔ ۱۹۔ فکر و فن اقبال : اہم ناقدین کی نظر میں ۔ شگفتہ زکریا (مرتب) ۰- لاہور : سنگت پبلشرز ، ۲۰۰۴ء ۔ ۲۰۔ قندیل اقبال : کلام اقبال کا موضوع وار انتخاب ۔ سر محمد اقبال ۔ محمد رفیق چودھری (مرتب) ۰- لاہور : مکتبہ قرانیات ، (طبع سوم)۲۰۰۴ء ۔ ۲۱۔ کلیات باقیات شعر اقبال : متروک اردو کلام ۔ سر محمد اقبال ۔ صابر کلوروی (مرتب) ۰- لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، ۲۰۰۴ء ۔ ۲۲۔ مباحث اقبال : مجموعہ مقالات ، خالدہ جمیل ۰- لاہور : اپنا ادارہ ، ۲۰۰۴ء ۔ ۲۳۔ مطالعہ تلمیحات و اشارات اقبال۔ اکبر حسین قریشی ۰- لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، (طبع دوم) ۲۰۰۴ء ۔ ۲۴۔ وارث علامہ ۔ سیف الدین اکرم زادہ ۔ محمد ناصر (مترجم) ۰- لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، ۲۰۰۴ئ۔ 25- Die Wiederbelebung Des Religiosen Im Islam. Sir Muhammad Iqbal' Axel Monte, Thomas Stemmer(tr.) .-Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 2004. 26- Ikbal's in Dusunce Dunyasi. Ahmet Albayrak.- Istanbul: Insan Kuyumcu, 2004. 27- Iqbal and Italy. Vito Salierno.- Lahore: Iqbal Academy Pakistan,2004. 28- Iqbal Ki Kavitayen. Sir Muhammad Iqbal.- Delhi: Markazi Maktaba Islami Publications, 2004. 29- Muhammad Iqbal's Romanticism of Power: a Post-Structural Approach to His Persian Lyrical Poetry. Von Stephan Popp.- Wiesbaden: Reichert Verlag, 2004. 30- Rumi's Impact on Iqbal's Religious Thought. Nazir Qaiser. -Lahore: Iqbal Academy Pakistan,(2nd ed.)2004. 31- The English Translations of Iqbal's Poetry: A Critical and Evaluative Study. Abdul Ghani.- Lahore: Bazm-i-Iqbal. 2004. 32- The Development of Metaphysics in Persia: A Contribution to the History of Muslim Philosophy. Allama Muhammad Iqbal.- Lahore: Sang-e-Meel Publications,(Reprint)2004. 33- A Voice From the East (The Poetry of Iqbal). Zulfiqar Ali Khan.-Lahore: Sang-e-Meel Publications,(Reprint)2004. اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف جولائی۔ دسمبر ۲۰۰۴ء خ خ خ خ ڈاکٹر شجاع ناموس’’اقبال کا پیغام‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص ۵ تا۳۷ یہ خصوصی لیکچر پروفیسر ڈاکٹر شجاع ناموس مرحوم و مغفور نے عباسیہ لٹریری لیگ، بہاولپور کی زیر اہتمام ایک خصوصی اجلاس میں دیا تھا جو ۹ جنوری ۱۹۳۸ء بروز اتوار، ’’اقبال ڈے‘‘ کے طور پر منایا گیا تھا، یعنی علامہ اقبال کی وفات سے تقریباً تین ماہ پہلے۔ ٭٭٭ خ وحید الدین سلیم ’’بزم سرور میں علامہ اقبال اور مودودی ‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص۳۸ تا۴۸ اس مختصر مضمون میں پروفیسر آل احمد سرور کے اُس طویل مقالے پر تنقید کی گئی ہے جو ’’اردو میں دانش وری کی روایت‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ’’منصف‘‘حیدر آباد ، انڈیا کے ہفتہ وار ادبی کالم ’’ایوانِ ادب‘‘ میں بالا قساط شائع ہوا تھا ۔ اس مقالے میں پروفیسر سرور نے اردو کے کئی نامور ادیبوں کے افکار کا جائزہ پیش کیا تھا۔ خاص طور پر علامہ اقبال اور مودودی پر آزادانہ خامہ فرسائی کی تھی، جسے فاضل مقالہ نگار جناب وحید الدین سلیم نے شدت سے محسوس کیا اور اپنے اس مضمون میں انھوں نے بھی خاصی آزادانہ خامہ فرسائی سے سرور صاحب کی آراء پر نکتہ چینی کی ہے۔ ٭٭٭ خ ابوالکلام قاسمی’’ اقبال تنقید اور آل احمد سرور ‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص۴۹ تا ۶۰ اس مقالے کو نفس مضمون کے اعتبار سے وحید الدین سلیم صاحب کے مضمون کا مد مقابل سمجھنا چاہیے، جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ قاسمی صاحب اقبالیات کے شعبۂ تنقید میں آل احمد سرور کو بڑا درجہ دیتے ہیں۔ دیکھتے ہیں: ’’اقبال کے معاملے میں اُن کا تنقیدی امتیازیہ ہے کہ انھوں نے اقبال کی شاعری پر کوئی باقاعدہ کتاب تو نہیں لکھی ، لیکن اپنے معتد یہ مضامین میںکم و بیش اقبال کی فکر اور فن کے تقریباً ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اقبال کی ممتاز ترین نظموں سے لے کر فکر و فلسفہ کی تاریخ میں اقبال کی انفرادیت تک کو سرور صاحب نے بصیرت افروز نقطۂ نظر اور پختہ کار شعور عرفان کے ساتھ دیکھا ہے اور پورے اقبال کی بازیافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پس منظر میں آل احمد سرور کا شمار ممتاز ترین اقبال شناسوں میں عرصے تک ہوتا رہے گا‘‘۔ ٭٭٭ خ مظفر اقبال’’ ایک مردِ حق آگاہ کی بصیرت ‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص۶۱ تا۶۴ اس مردِ حق کے سر چشمہ بصیرت کے بارے میں مقالہ نگار لکھتے ہیں : ’’اگر قرآن حکیم سے عُمر بھر کی رفاقت اور وابستگی نے اقبال کی زندگی اور اُن کے فن کو ایک روحانی سرچشمے سے فیض یاب ہونے کا موقع دیا تو حُبِ رسولؐ نے اُن کے اندر ایسا سوز پیدا کیا کہ بیان ہے کہ آپؐ کا نام دائرہ سماعت میں آتے ہی اُن پر رقت طاری ہو جاتی تھی۔ اسی محبت کا ایک رخ شہر نبی ؐ کو زیارت وہ خواہش تھی جو اقبال صرف عالمِ خیال ہی میں پوری کر سکے ، لیکن چشم تصور سے کئے گئے اس سفر کی اٹھان کیسی ہے کہ آوازِ جرس سے اُن کی جان میں ایسا شور برپا ہو جاتا ہے جیسے وہ ہر لمحے شہرِ محبوب کی طرف جانے والے قافلے کے ہمراہ پابہ رکاب ہوں‘‘۔ ٭٭٭ خ ظفر الاسلام ظفر’’علامہ اقبال کی زندگی میں پہلا یومِ اقبال‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص۶۵ تا۷۰ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی میں حیدر آباد دکن میں ’’یوم اقبال‘‘ ۹ جنوری ۱۹۳۸ء کو ٹائون ہال میں نہایت تزک و اختشام سے منایا گیا ۔ اس خیال کی صحت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء کو ہندوستان بھر میں ’’یوم اقبال‘‘ کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ بقول میاں محمد شفیع ’’اس وقت ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار سے زائد مقامات پر یومِ اقبال کی تقریبات منعقد ہوئیں‘‘ جناب ظفر الاسلام ظفر نے اِس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے یہ مضمون لکھا اور شواہد و دلائل سے ثابت کیا کہ ’’علامہ اقبال کی زندگی میں پہلا ’’یومِ اقبال‘‘ ۶؍مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور میں منایا گیا اور پھر ۹ ؍جنوری ۱۹۳۸ کو ہندوستان بھر میں ’’یومِ اقبال‘‘ کی تقریبات منائی گئیں ۔ چنانچہ یہ کہنا خلافِ حقیقت اور غلط ہو گا کہ پہلا ’’یومِ اقبال‘‘ حیدر آباد دکن میں منایا گیا۔ ٭٭٭ خ اسلم کمال’’ ڈاکٹر شمل کی لوحِ مزار ‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص۷۱ تا ۸۰ ٹھٹھہ کے مشہور مکلی قبرستان میں پیر احسام الدین راشدی کی قبر سے ہٹ کر پیچھے دیوار کے قریب ایک لوح نصب ہے اور اس پر گہرے سبز رنگ کی ویلوٹ کا پردہ پڑا ہے ۔ ۲ فٹ ×۳ فٹ سنگ مر مر کی اِس لوح کی نقاب کشائی کے لیے لاہور اور کراچی سے ڈاکٹر شمل کے چند شیدائی ۷ اپریل ۲۰۰۴ء کی صبح کو ٹھٹھہ پہنچے جن میں ڈاکٹر ناصرہ جاوید اقبال ، مسٹر ہلمنٹ ہول نائر(جرمن قونصل)،مسٹر غلام ربانی آگرو (ڈائریکٹر جنرل سندھی ادبی بورڈ) ، پرنس نواب مُحسن علی خان (لندن) مشہور دانشور جناب ابراہیم جویو ، محمد سہیل عمر (ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان)،جناب اکرام چغتائی ، مصور اقبال اسلم کمال اور جناب طالب محبوب شامل تھے۔ لوح کی پیشانی پر درمیان میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا ہے ۔ اس کے نیچے تین سطروں میں ’’پروفیسر ڈاکٹر این میری شمل‘‘ لکھا ہے ۔ اس کے نیچے اُن کی یہ خواہش رقم ہے کہ ’’اے مکلی قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے‘‘۔ ڈاکٹر شمل کے مزار کی لوح کی نقاب کشائی کی تقریب کا چشم دید احوال اسلم کمال صاحب نے بڑے جذبے سے اس مضمون میں قلم بند کی ہے۔ خ خضر یاسین’’ انسان اور اُس کے وجودی اُصول ‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص۸۱ تا ۱۰۰ اس فلسفیانہ اور خیال افروز مضمون میں اقبال کے فلسفۂ خودی کی تشریح میں فاضل مقالہ نگار نے ایک جگہ لکھا ہے : ’’علامہ نے زندگی کو بنیادی اُصول فرض کیا ہے اور اس لیے زندگی پر ہی زیادہ تفکر فرمایا ہے۔ خودی سے مراد زندگی کے تقاضے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو زندگی اور اُس کے مظاہر کا اِس حد تک پابند بنا لیتے ہیں کہ شعور اُن کے نزدیک کوئی مستقل بالذات مظہر وجود نہیں رہا ہے، اس لیے شعور کو ایک وجودی اصول کے طور پر قبول کرنے پر گریز پا رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے فلسفۂ خودی کا انحصار حیاتیاتی تقاضوں پر رکھا ہے اور شعوری تقاضوں پر نہیں رکھا ۔ ٭٭٭ خ اکبر حیدری کاشمیری’’اقبال اور شاد حیدر آبادی‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص۱۰۱ تا ۱۱۷ مہاراجہ سرکشن پرشاد ، یمین السلطنت اور مدار المہام (۱۸۶۴ء ۔ ۱۹۴۰ئ) اردو کے ایک قادر الکلام شاعر، ممتاز نثر نگار اور اردو زبان و ادب کے مربی تھے ۔ شاد تخلص تھا۔ اُن کی رفاقت اور سر پرستی میں شعراء اور ادباء کی ایک بڑی تعداد پروان چڑھی۔ وہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے اور عربی سے کماحقہٗ واقف تھے۔ وہ حالی، شبلی اور اکبر الٰہ آبادی سے بھی ایک تعلق خاطر رکھتے تھے۔ شاد علامہ اقبال کے بھی دلدادہ تھا۔ اس مضمون میں علامہ اقبال سے شاد کے تعلقِ خاطر اور اُن کی شاعری سے لگائو پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ ٭٭٭ خ احمد جاوید’’ طلو عِ اسلام : ایک نثری بیانیہ‘‘اقبالیات ۔ جولائی۲۰۰۴ئ۔ ص۱۱۸ تا۱۲۴ اقبال کی مشہور و معروف نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کو اگر ایک نثری بیانیہ کی صورت دینا مقصود ہو، اس طرح کہ وہی کیفیت بھی قائم رہے، تو اس کے لیے جناب احمد جاوید کا یہ ’’بیانیہ‘‘ ایک نمونۂ مثل ثابت ہو گا: زندگی سمندر ہے سمندر ہے یہ کائنات بھی مغرب اِس سمندر کا بھنور ہے، ایک چھوٹی طغیانی جس نے سمندر کو دہلا رکھا ہے۔ لیکن مسلمان! مسلمان، موتی ہے اسی سمندر کا جو زندگی ہے اور کائنات ہے ۔۔۔۔ اچھا ہے سمندر اِس گرداب سے اور اس طوفان سے ڈولتا رہے یہاں تک کہ موتی اسے اپنے اندر جذب کر لے ٭٭٭ خ ڈاکٹر شگفتہ بیگم’’ اصول حرکت اور اقبال کا تصور اجتہاد‘‘، اقبال ۔ اکتوبر ۔ دسمبر ۲۰۰۴ء ، ص ۱۷ تا ۴۷ معروف دانشور ، ماہر اقبالیات ڈاکٹر یوسف حسین خان مرحوم نے کہا تھا : ’’اقبال کو پڑھنے سے پہلے بہت کچھ پڑھنا پڑتا ہے، تب اقبال سمجھ میں آتا ہے ‘‘۔ اقبال اپنے علم اور فکر کے حوالے سے ہمہ جہت شخصیت تھی۔ ان کا علم ، ان کی فکر زندہ معاشرہ میں بسنے والے زندہ انسانوں کے لیے تھی ۔ آج قبال کی فکر کے حقیقی ترجمان وہی لوگ ہیں جو اقبال کے زندہ افکار پر قلم اٹھاتے ہیں اور ترجمانی کی کوشش کرتے ہیں ،ڈاکٹر شگفتہ بیگم ان میں سے ایک ہیں۔ اُن کا زیرِ نظر مقالہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پروفیسر پاک و ہند اور مسلم ایشیا میں اقبال واحد مفکر ہیں جنھوں نے اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے اجتہاد کی اہمیت پر زور دیا ۔ سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اسلامی کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے۔ اس مبحث پر مِصر میں ایک چھوٹی سی کتاب ۔ شائع ہوئی تھی جو میری نظر سے گذری ہے مگر افسوس کہ بہت مختصر ہے۔ اور جن مسائل پر بحث کی ضرورت تھی مصنف نے ان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اگرمولانا شبلی زندہ ہوتے تو میں ان سے ایسی کتاب لکھنے کی درخواست کرتا۔ موجودہ صورت حال میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا۔ میں نے ایک رسالہ اجتہاد پر لکھا تھا۔ چونکہ میرا دل بعض امور کے متعلق خود مطمئن نہیں اس واسطے اس کو اب تک شائع نہیں کیا ۔ آپ کو یاد ہو گا میں نے آپ سے بھی کئی امور کے متعلق استفسار کیا تھا‘‘۔ اجتہاد کی ضرورت پر زور رہنے کے ساتھ ساتھ اقبال نے یہ بھی ثابت کیا کہ اسلام کی اساس اصول حرکت پر ہے۔ اسلام کی فکر جامد نہیں اسلام نے صراط مستقیم کا تصور دیا۔ اسلامی تعلیمات آگے بڑھنے کی تحریک پیدا کرتی ہیں۔ چھٹے خطبے کے آغاز میں اقبال لکھتے ہیں ’’تہذیب و ثقافت کی نظر سے دیکھا جائے تو بحیثیت ایک تحریک ، اسلام نے دُنیائے قدیم کا یہ نظریہ تسلیم نہیں کیا کہ کائنات ایک ساکن و جامد وجود ہے۔ برعکس اس کے وہ اسے متحرک قرار دیتا ہے‘‘۔ جہاں تک اقبال کے موقف کا تعلق ہے کہ نئے فقہی فیصلے ضرور ہونے چائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دین اسلام ایک مکمل دین ہے اور فقہی ادب کے ایک بے نظیر ذخیرے کی موجودگی میں نئے فقہی فیصلوں کی آخر کیا ضرورت ہے؟ وہ کیا خلا ہے جس کو اقبال نے محسوس کیا اور اس کو پُر کرنے کی غرض سے فقہ کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے بے چین ہوگئے۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات ، علم کی دُنیا میں نئے دریافت ہونے والے علوم اور مسائل پر کسی ایک خاص دور میں مرتب ہونے والے قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے ۔ جمادات کی دُنیا میں بھی ارتقاء کا عمل ظہور پذیر ہوتا ہے۔ انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے۔ عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا مجموعہ ہے۔ اس پر کوئی چیز مسلط نہیں کی جا سکتی ۔ اجتہاد کا مطلب ہے کہ قرآن نے جن مستقل اقدار کا ذکر کیا ہے ان کے اندر رہتے ہوئے عہد نو میں پیش آمدہ مسائل پر غور کیا جا سکے۔ اس کا مطلب مستقل اقدار کا ارتقا ہے ۔ حرکت ہے جمود نہیں۔ اقبال نے مسلمانوں میں جمود کو محسوس کرتے ہوئے فقہا پر بھی تنقید کی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اقبال کی تحریروں سے مختلف اقتباسات پیش کر کے یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ ٭٭٭ خ مظفر حسین ’’اقبال کا روحانی انسان ‘‘، اقبال۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۴ء ، ص ۵ تا ۳۶ بیسویں صدی میں ہندوستان کے مسلمان مفکرین کو ایسے روحانی انسان کی جستجو تھی جو مسلمانوں کی فرنگی استعمار سے آزادی دلائے ۔ ان کی عظمت رفتہ لوٹائے، تاکہ وہ تاریخ میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے روحانی انسان کے ایسے ایسے تصورات پیش کیے جن میں زندگی سے گریز ، روحانیت سے اجتناب اور سیاسی اقتدار کی بازیافت کا پہلو غالب تھا۔ علامہ اقبال کا روحانی انسان کا تصور دیگر مفکرین سے جُدا منفرد اور ممتاز ہے۔ علامہ اسے انسان کی تلاش میں ہیں جو شورش اقوام کو ختم کر دے۔ اقوام عالم کے لیے صلح و آتشی کا پیغام لائے۔ علامہ نے تصوفِ ابدیت کے خلاف بغاوت کر کے تصوفِ عبدیت کا مطمع نظر اپنایا اور اللہ کے ساتھ وصل کی کیفیت میں گم ہونے کی بجائے اللہ کا بندہ بننے پر زور دیا۔ یعنی فرمایا کہ عمل مراقبے کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔ عشق انسان کی عقلی ، جذباتی اور وجدانی قوتوں کی شیرازہ بندی کر کے اسے ہمہ وقت راہ عمل پر گامزن رکھنے کا ایک طاقتور جذبہ ہے۔ اس لیے علامہ اقبال اس جذبے کو روحانی انسان کی زندگی کا امام مانتے ہیں۔ علامہ کا روحانی انسان آفاقی نقطۂ نظر کا حامل ، جدت آفرین اور صاحبِ ایجاد ہے۔ وہ جلال و جمال کے امتزاج کا حسین مرقع ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال کی امیدوں کا مرکز وہی احسن التقویم انسان ہے جس کی تربیت کے ذریعے اس کی روحانی تجدید کر کے ایک نئی دُنیا تعمیر کی جا سکتی ہے۔ علامہ اقبال سائنس اور مذہب میں ہم آہنگی کے شدید متمنی ہیں۔ علامہ سائنسی انداز فکر اور مذہبی تجربے میں ہم آہنگی پیدا کر کے نہ صرف سائنس کو روحانی بنانا چاہتے تھے بلکہ مشرق و مغرب کی تہذیب کے امتزاج سے ایک آفاقی تمدن و تہذیب کی بنیاد ڈالنا چاہتے تھے۔ علامہ اقبال کے خیال میں جہان نو کی تعمیر ایسے آفاقی روحانی انسان کے ہاتھوں سے ہو گی جو رب العالمین ، رحمتہ للعالمین اور ذکر لعالمین کے تصورات کو بنیاد بنا کر انسانیت کی خدمت کرے۔ دُنیا کو فتنہ و فساد اور ظلم و استحصال سے پاک کرے اور توحید کی بنیاد پر دُنیا میں ملت آدم قائم کرے اس کرئہ ارض کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا۔ ٭٭٭ خ ڈاکٹر سید محمد اکرم اکرام ’’اقبال۔ ایک تحریک‘‘ اقبال ۔ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۴ء ، ص ۵ تا ۱۵ مقالے کی تمہید میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کا کلام انسانی تاریخ کا آئینہ دار ہے۔ مسلمانان ہند کی تاریخ پر اقبال نے خصوصیت کے ساتھ توجہ دی ۔ جن عظیم حکمرانوں کو علامہ اقبال نے خراج تحسین ادا کیا ہے، ان میں محمود غزنوی ، اورنگ زیب عالمگیر ، احمد شاہ ابدالی اور سلطان ٹیپو خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی حکومت کے دو واضح اصول تھے ایک مذہبی آزادی اور دوسرا رواداری اور معاشرتی انصاف ۔ ان دو اہم اصولوں کی بناء پر مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ مغل حکومت کو مستحکم کرنے میں علماء ، صوفیہ و مشائخ کا کردار بھی بہت نمایاں ہے۔ وہ سلاطین وقت کو اسلامی احکام کی تعمیل و تاکید فرما تے تھے ۔ ان میں حضرت نظام الدین اولیاؒ، حضرت بہائو الدین زکریاؒ ، شرف الدینؒ ، بو علی قلندرؒ ، جلال الدین بخاریؒ، شیخ احمد سرہندیؒ اور شاہ ولی اللہؒ شامل ہیں۔ مغلیہ سلطنت کے احوال کے بعد جب باگ دوڑ انگریز ہاتھوں میں چلی گئی تو انگریزوں نے حکومت مستحکم کرنے کے لیے ہندوئوں کی سرپرستی شروع کر دی ۔ ان معاندانہ کار روائیوں نے جہاں ہندو ذہنیت کو بے نقاب کیا، وہاں خود مسلمانوں میں وحدت ملی کا شعور بھی پیدا ہوا۔ یہ شعور اور بیداری پیدا کرنے میں سر سید احمد خان، شبلی نعمانی ، مولانا حالی اکبر الہ آبادی اور سب سے بڑھ کر علامہ اقبال نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ہماری تاریخ ادب میں اقبال آزادی وطن کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ اس حوالے سے ان کے ساز سخن کے نغمات حریت اور استقلال تھے ۔ علامہ نے مسلمانوں پر واضح کر دیا مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ اسلامی قومیت میں ہے ۔ اقبال نے معاشرہ ، فرد ، ریاست ، قومیت ، مذہبیت ، اقتصاد غرض کہ تمام شعبہ ہائے زندگی پر اسلامی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی ۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے تحفظ و بقا کا جو راستہ دکھایا قائد اعظم اس راستے پر اسلامی قافلے کو لے کر چل پڑے اور بہت قلیل عرصے میں منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو علامہ اقبال کا قائد اعظم سے بہتر کسی نے درحقیقت اسلام میں اقبال کا تصور پاکستان ہے اور یہی نظریۂ پاکستان اور تحریک پاکستان ہے۔ ٭٭٭ خ پروفیسر منیبہ خانم ’’علامہ اقبال کی قطعہ نگاری ‘‘ اقبال ۔ اکتوبر ۔ دسمبر ۲۰۰۴ئ، ص ۵۱ تا ۶۱ پروفیسر صاحبہ لکھتی ہیں کہ علامہ اقبال کے اردو کلام میںباقاعدہ قطعہ کے عنوان سے اگر دیکھا جائے تو قطعات کی تعداد برائے نام ہے۔ لیکن ماہرین عروض کے فیصلے کے مطابق اور فن قطعہ نگاری کے نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو اقبال کے قطعات کی ایک طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کی کتاب اوزانِ اقبال کے مطابق بانگ درا ، بال جبریل اور ارمغان حجاز میں کچھ کم ، لیکن ضرب کلیم میں قطعات کی بڑی تعداد موجود ہے۔ بانگ درا کے ظریفانہ قطعات میں اکبر کی ظرافت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ موضوعات بھی کم و بیش وہی ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ اکبر کا میدان ہی طنز و ظرافت ہے جبکہ اقبال اس سے سرسری گذر گئے ہیں۔ بانگ درا کے حصہ سوم میںوطن پرستی کا رنگ غالب ہے ۔ ان قطعات میں مسلمانوں کے عروج زوال کا نقشہ کھینچ کر وہ اپنی سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنا جاہتے ہیں ۔ سرگزشت آدم ، خطاب بہ جوانان اسلام ، جنگ یرموک کا ایک واقعہ ، صدیق ، محامزادرنہ میں علامہ ان نعجب آموز واقعات سے اخلاقی درس دیتے نظر آتے ہیں۔ بال جبریل کے قطعات بھی سیاسی ، تاریخی اور اخلاقی نوعیت کے ہیں۔ اقبال کے نزدیک سے مراد خودی کی پرورش آرزو و جب کافروغ ، عمل و سعی پیہم اور اعلیٰ مقاصد سے اپنے مذہب کی بنیادوں کو مستحکم کرنا ہے۔ان قطعات میں جہاں علامہ کی آرزوئیں اور تمنائیں ایک پر شکوہ ماضی کے دامن میں پناہ لیتی نظر آتی ہیں اور یہیں سے اٹھنے والی روشنی کی رکرنیں انہیں فرار کا راستہ دکھاتی ہیں۔ قید خانے میں معتمد کی فریاد ، ہسپانیہ ، ابوالعلا معری ، پارون کی آخری نعمت ایسے ہی قطعات ہیں ۔ جبکہ ابلیس کی عرضداشت ’’باغی مرید‘‘ جیسے قطعات میں طنز کا پہلو نمایاں ہے۔ ضرب کلیم کے قطعات میں معیار و مقدار کے حوالے سے اقبال کی شاعری کا عروج نظر آتا ہے اس دور میں اقبال کے ’’رباعی نما قطعات‘‘ کی تعداد پچاس ہے۔ ضرب کلیم کے قطعات کو موضوعات کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔ نمایاں موضوعات درج ذیل ہیں: (۱) اسلام اور سلمان (۲) تعلیم و تربیت (۳) عورت (۴) ادبیات ، فنون لطیفہ (۵) سیاسیات مشرق و مغرب۔ روایتی عشقیہ مضامین سے ہٹ کر اقبال کے مخصوص فلسفہ خودی نے موضوعاتی سطح پر انہیں ایک صاحب طرز قطعہ نگار بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اقبال کے اسلوب کے چھوتے پن اور انفرادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ہے کہ اقبال کے مخصوص الفاظ و تراکیب و علامات تلمیحات ، صنائع بدائع اور تشبیہات و استعارات کی وجہ سے شعر اقبال کو الگ کرنا کوئی مشکل کانہیں ہے۔ ٭٭٭ خ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ زکریا ’’اکبر اور اقبال ‘‘ اقبال ۔ جولائی ۔ ستمبر۲۰۰۴ء ، ص۳۷ تا ۵۰ مقالے کی تمہید میں پروفیسر خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ اقبال کا شمار اکبر کے ہم عصر شعراء میں ہوتا ہے۔ اگرچہ دونوں کی عمروں میں تیس سال کا فرق تھا۔ اقبال کو اکبر سے اس قدر عقیدت تھی کہ وہ کئی مرتبہ صرف اکبر سے ملنے الہ آباد گئے۔ اقبال کی تحریروں میں اکبر کے کلام پر اجمالاً اظہار خیال ملتا ہے ۔ اقبال وطن پرستی کے دور سے باہر نکلے تو انہیں احساس ہوا کہ ہندو مسلم اتحاد ممکن نہیں۔ اُس وقت تک اکبر کے دور میں ہونے والی ہندو فرقہ پرستی کھل کر سامنے آئی تھی ، اس لیے انھوں نے اپنے کلام میں ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کو اکٹھا انگریزوں کے مقابل رکھ کر پیش کیا لیکن بعد کے حالات جن میں دیو ناگری رسم الخط کی تحریک اور تقسیم بنگال کے خلاف احتجاجی تحریک نے ہندو عصبیت کو اکبر الہ آبادی پر آشکار کر دیا تو پھر انھوں نے اپنے کلام میں بھی اس کا اظہار کیا۔ اکبر کی وفات کے بعد اقبال نے اپنا تاریخ ساز خطبہ الہ آباد میں پیش کیا ۔ جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ اقبال اکبر کے افکار کی اہمیت سے واقف اور بصیرت سے آگاہ تھے۔ اکبر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاں نفی ہے۔ اثبات نہیںوہ چیزوں کو رد کرتے ہیں ۔ مثبت اقدار کی تلقین نہیں کرتے لیکن اکبر کے ہاں کوشش اور عمل پر زور اقبال سے کم نہیں۔ مغرب کے بارے میں بھی دونوں کے نظریات میں بہت مماثلت ہے اقبال دیکھتے تھے کہ لوگ مشرق کے زوال اور مغرب کے عروج کی عجیب عجیب توجہیات کرتے ہیں کبھی مذہب کو کبھی عورت کے پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔ اکبر کی رائے بھی ہو بہو یہی ہے۔ وہ کسی لباس ، زبان و رسم ، یا مذہب کی ترقی کی راہ میں خارج نہیں سمجھتے ۔ وہ اس بات پر نوحہ کناں ہیں کہ ہم بنگلے ، لباس اور خوراک میں تو انگریزوں کی نقالی کرتے ہیں، صنعت و حرفت میں نہیں کرتے جو اصل چیز ہے۔ مقالے کے اختتام پر فاضل مقالہ نگار نے اقبال اور اکبر کے چند اشعار کے حوالوں سے دونوں بڑے شاعروں کے تقابلی مطالعے کے بعد نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اقبال کے فکر کے بہت سے رشتے اکبر سے ملائے جا سکتے ہیں۔ ٭٭٭ خ پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف اعوان ’’اقبال کا دوسرا خطبہ : تنقیدی و تحقیقی جائزہ‘‘،قومی زبان ۔ نومبر ۲۰۰۴ئ، ص۱۳تا ۲۷۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، مقالہ نگار نے اپنے اس مقالے میں اقبال کے دوسرے خطبے ’’مذہبی واردات کی فلسفیانہ پرکھ‘‘ کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ اس خطبے میں علامہ صاحب نے عیسوی علم الکلام کے تین دلائل پر بحث کی ہے، یعنی کونیاتی دلیل ، غایتی دلیل اور وجودی دلیل ۔ علامہ صاحب نے اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ یہ تینوں مکاتبِ فکراِس بات کے غماز ہیں کہ انسانی عقل نے وجودِ باری تعالیٰ کی جستجو کے لیے بے انتہا کوشش کی ہے۔ تاہم یہ تینوں دلائل نہ صرف انسانی تجربے کی سطحیت کو ظاہر کرتے ہیں ، بلکہ منطقی پرکھ کی میزان پر بھی پورے نہیں اُترتے۔ فاضل مقالہ نگار نے زیر نظر مقالے میں اِن تینوں دلائل کا الگ الگ تجزیہ کیا ہے۔ ٭٭٭ خ ڈاکٹر صابر حسین جلیسری ،’’فکر اقبال کے ارتقاء کے روشن زاویے‘‘،قومی زبان ۔ نومبر ۲۰۰۴ء ، ص ۲۹ تا ۳۷ مقالے کی تمہید میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ، ’’اچھا شاعر معاشرے میں خدمتِ خلق اور اصلاح قوم کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اقبال کا شمار بھی بلاشبہ ایسے شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے قوم کی اصلاح کا بیٹرا اٹھایا‘‘۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں اقبال نے حصول مقصد کو اپنا مطمح نظر بنایا۔ ایسا اسلوب اپنایا جو ان سے شروع ہو کر اُنھی پر ختم ہو گیا۔ اقبال کی حکیمانہ فکر کے کئی اہم زاویوں کا عکس ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ حب الوطنی، اخوت ، حقیقت پسندی ، غم ہستی روزگار اور ماضی کی عظمتوں کا ادراک اقبال کی دور اوّل کی شاعری کے اہم نکات ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں حصول علم کی تلقین کی لیکن اس کے ساتھ مغربی تعلیمات کو مسلمانوں کے لیے ضرر رساں اور غیر مفید قرار دیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر اپنی خودی کو پہچانیں اور کو ربینی اختیار نہ کریں۔ اقبال نے جاہ پرست علما کی سخت مذمت کی ہے۔ اقبال قومیت کی بنیاد وطنیت کو قرار نہیں دیتے بلکہ اپنی شاعری میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے عروج و عظمت کا سبب جغرافیائی یا نسلی برتری کو نہیں بلکہ اخوت کو گردانتے ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں بیداری کا درس دیا تاکہ مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر لیں۔ آخر میں مقالہ نگار اقبال کے افکار کی روشنی میں موجودہ دور کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ افسوس ہم نے اس مرد قلندر کے افکار سے کچھ فیض نہ پایا۔ ٭٭٭ خ ثناء الرحمن ،’’اقبال اور نطشے ‘‘، قومی زبان ، نومبر ۲۰۰۴ئ،ص ۳۸ تا ۴۲ محترمہ ثناء الرحمن مقالے کی تمہید میں لکھتی ہیں : ’’ہر بڑا مفکر ، مدبر، شاعر، ادیب اپنے پیش روئوں اور ہم عصروں سے کسی نہ کسی لحاظ سے ضرور متاثر ہوا کرتا ہے۔ اقبال نے بھی مشرق و مغرب کی بے شمار علمی و ادبی شخصیات سے کسبِ فیض کیا۔ ان شخصیات میں حافظ، سعدی ، رومی ، جامی ، نظیری ، عرفی ، طالب ، بیدل اور غالب شامل ہیں۔مثالی انسان کے حوالے سے لکھتی ہیں ’’ہر دور میں مثالی انسان کی تلاش دانشور طبقے کا خواب رہا ہے ۔ مختلف مفکرین نے ایسی مثالی شخصیت کو مختلف ناموں سے پکارا ہے۔ نطشے ، ایمرسن ، مولانا روم ، افلاطون ، اروبندوگھوش نے مثالی انسان کے لیے مختلف اصطلاحیں استعمال کیں۔ اقبال اور نطشے کے مثالی انسان کے بارے میں ناقدین نے اپنی اپنی آرا کا اظہار کیا‘‘۔ مقالہ نگار نے اقبال اور نطشے کے فلسفے، مماثل اور مخالف پہلوئوں کا مختصر جائزہ ناقدین فن کی آرا کی روشنی میں کیا ہے۔وہ ان پہلوئوں کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ اقبال نے نطشے کے نظریات سے استفادہ ضرور کیا ہے مگر یہ کہنا درست نہیں کہ اقبال کا فلسفہ نطشے کے فلسفے سے ماخوذ ہے۔ بلکہ مقالہ نگار کے نزدیک رومی کا ’’مرد کامل ‘‘ نطشے کے ’’فوق البشر‘‘ سے ہمکنار ہو کر اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ بن گیا۔ ٭٭٭ خ بشریٰ لطیف ،’’عمرانی نقطۂ نظر سے اقبال کا تصور ملت ‘‘، قومی زبان ، نومبر ۲۰۰۴ئ۔ص ۴۳ تا ۴۶ زیر نظر مقالے میں بشریٰ لطیف صاحبہ نے اقبال کے انگریزی خطبے Islam as a Social and Political Ideal کا ذکر کیا ہے۔ اس خطبے میں علامہ نے عمرانی نقطۂ نظر سے تصور ملت کو اُجاگر کیا ہے۔ خطبے کی تمہید میں علامہ کہتے ہیں۔ ’’حیات عمرانی میں افراد کا انفرادی عمل کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ گرو ہی زندگی یا اجتماعی عمل سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ کسی قوم کا اجتماعی عمل اس کی تہذیبی زندگی کی روح اور اس کے تمدن کی اساس ہے۔ عمرانی لحاظ سے اقبال نے ملت اسلامیہ کے تین پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ اوّل، ملتِ اسلامیہ کی ہیئت ترکیبی عقائد پر استوار ہے جس کا تانا بانا توحید سے جا ملتا ہے یعنی ایک عقیدہ رکھنے والے حبشی عجمی ، ترکی ایک ہی ملت کے افراد ہیں، علامہ وطنیت کو قومیت کی بنیاد قرار نہیں دیتے بلکہ ان کی نظر میں قومیت کی بنیاد عقائد پر ہے گویا ایک اعتبار سے نکتہ اوّل آنحضرتؐ کے اس خطبہ مبارک کی عکاسی کرتا ہے جو آپ ؐ نے حجتہ الوداع کے موقع پر انسانیت کو دیا۔ دوم ملت اسلامیہ کی ہیئت ترکیبی کا بنیادی عنصر مذہب ہے۔ نتیجتاً ملت اسلامیہ تمدن کی وحدت اور یک رنگی پر منتج ہوں گی۔ سوم اس سیرت کا نمونہ جو مسلمانوں کی قومی یکجہتی کے تسلسل کے لیے لازمی ہے، اس سلسلے میں علامہ [نے اورنگ زیب عالمگیر کی مثال دی]۔مقالہ نویس آخری نکتہ کے متعلق لکھتی ہیں کہ یقین سے کہا جا سکتا ہے اقبال نے اورنگ زیب کا ذکر دور زوال کے مسلمانوں میں قدآور شخصیت کے طور پر کیا ہے۔ علامہ کے ان خیالات کے پیش نظر اورنگ زیب کو قابل تقلید نمونہ قرار دینا کسی حد تک قابل فہم ہے۔ ٭٭٭ خ تسنیم اختر ’’تو ہم پرست انگریز اور علامہ اقبال ‘‘، تہذیب الاطفال ، نومبر ۲۰۰۴ء ۔ص ۹۳ تا ۹۵ تسنیم اختر صاحبہ نے انگریزوں کی تو ہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کے حوالے سے ’’علامہ اقبال سے آخری ملاقاتیں از صوفی تبسم‘‘ سے اقتباس پیش کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ علامہ کے خیال میں انگریز لوگ جتنے پڑھے لکھے ہیں، اتنے ہی توہم پرستی کے معاملے میں جاہل ہیں۔ ولایت میں قیام کے دوران علامہ کو پیش آنے والے دلچسپ واقعات بھی اس اقتباس میں شامل ہیں جو انگریزوں کی توہم پرستی کے حوالے سے دلچسپ انتخاب ہے۔ ٭٭٭ خ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ’’حیات ِاقبال کا سبق ‘‘،افکار معلم ، نومبر ۲۰۰۴ئ۔ص۱۱ تا ۱۵ مولانا مودودی کا یہ مضمون مجلہ جوہر کے اقبال نمبر کے حوالے سے نقل کر کے ماہنامہ افکار معلم میں شائع کیا گیا ہے۔ مولانالکھتے ہیں : ’’جدید دور میں قوموں کا میلان اکابر پرستی کی طرف زیادہ ہے مگر مسلمانوں کا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے۔ وہ بڑوں کے ساتھ برتائو کرنے کی صرف ایک صورت کو درست قرار دیتے ہیں یعنی ’’اللہ نے ان کو زندگی کا سیدھا راستہ بتایا تھا جس پر چل کر وہ بزرگی کے مراتب تک پہنچے۔ لہٰذا ان کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور اس کے مطابق عمل کرو‘‘۔ مولانا ،اقبال کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے نوجوانوں کو اقبال کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبال کے عشق مصطفی ؐ، قرآن کی تعلیمات ، شریعت پر عمل کرنے کے حوالے سے کچھ واقعات کا تذکرہ بھی اس مقالے میں ملتا ہے۔ حیات اقبال کی ان جھلکیوں سے عام قاری بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اقبال فقط اعتقادی مسلمان نہ تھے، عملاً وہ فقیر منش اور سچے مسلمان تھے۔ ٭٭٭ خ ڈاکٹر عبدالغنی فاروق ’’مغربی تعلیم پر اقبال کی نکتہ چینی ‘‘،افکار معلم ، نومبر ۲۰۰۴ئ۔ص ۱۷ تا ۲۱ ڈاکٹر عبدالغنی مقالے کے تمہید میں لکھتے ہیں کہ جب یورپی استعماری طاقتوں نے عالم اسلام پر تسلط قائم کیا تو ساتھ ہی جدید تعلیم کا نظام مسلمانوں پر مسلط کر دیا جس کا بنیادی مقصد اسلامی مشاہیر کے کردار کو مسخ کر کے پیش کرنا اور ایسا نصاب مرتب کرنا تھا جو خالصتاً سیکولر اور مادیات پر مبنی ہو۔ لارڈ میکالے نے جو رسوائے زمانہ نظام تعلیم نافذ کیا، اس سے اُس کا تعصب کھل کر سامنے آ گیا۔ نتیجتاً مسلمانوں کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں الحاد اور زندقہ کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ یورپی تہذیب منہ زور طوفان کی طرح عالم اسلام پر چھا گئی۔ علامہ اقبال نے ایسے نظام تعلیم کو انسانیت کے لیے زہر قاتل قرار دیا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں جدید تعلیم پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔ علامہ صاحب کی نظر میں اس طرز تعلیم نے معاشری قدروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ نوجوان خودی سے بیگانہ ہو گئے۔ ان کے دل میں خوف اور تذبذب جاگزیں ہو گئے۔ ان کے نزدیک حصول علم کا مقصد محض اعلیٰ ملازمت کا حصول ہو کر رہ گیا۔ ٭٭٭ خ پروفیسر ضیاء ’’فلسفہ تعلیم علامہ اقبال کی نظر میں‘‘،تاج ، اکتوبر؍ نومبر ۲۰۰۴ء کراچی۔ص۸۷ تا ۹۴ پروفیسر صاحب نے اپنے مقالے کی تمہید میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال کو مفکر تعلیمات کہنا مشکل ہو گا، لیکن اگر تعلیم کو عام معنوں میں لیا جائے تو اقبال بلاشبہ مفکر تعلیمات ہیں۔ علامہ کے فلسفے کا بنیادی ماخذ نظریۂ خودی ہے خودی جماعت کی تکمیل کے بغیر ناممکن ہے۔ فرد ماحول کے اس باہمی ربط و کشمکش سے خودی کی تعمیر کرتا ہے اس نظریے سے ماہرین تعلیم بھی متفق ہیں اقبال کا تصور حیات جمود کا قائل نہیں بلکہ سعی و عمل کی تعلیم دیتا ہے علامہ کی نظر میں وہ علم جو زندگی سے دور لے جائے، وہ بے کار ہے۔ علامہ کی فلسفیانہ فکر میں تصوراتی دنیا اور واقعاتی دُنیا کو بہت زیادہ ، اہمیت حاصل ہے۔ علامہ کے نزدیک مادہ اور روح دو مخالف عناصر نہیں بلکہ مادہ ابتدا ہے اور زندگی کا کارواں اس سے اپنا راستہ شروع کرتا ہے اور ترقی کرتا ہوا روح یا تصوراتی دُنیا میں پہنچتا ہے وہ کائنات کی اصل روح کو قرار دیتے ہیں جو اپنا اظہار مادّہ میں کرتی ہے ۔اس کی تسخیرو ترقی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل پر لے جانا ہی حقیقی اور روحانی زندگی ہے۔ ہر نظام تعلیم کا بنیادی مقاصد متعین ہوتا ہے کہ وہ انسان کو کس سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے اقبال کا نظام تعلیم ایک ایسا مثالی شخص پیش کرتا ہے جو سرتاپا باعمل ہو جو خوف کا علاج توحید سے کرتا ہوں آفرین تازہ کار ہو اور ایسے مثالی شخص کے لیے تاریخ مشعل راہ کا کام دیتی ہے۔ ایسے شخص کے لیے کائنات کی وسعتیں لا محدود ہیں۔ علامہ موصوف اسباب تسخیر کائنات کے لیے عقل کی اہمیت مانتے ہیں لیکن اس کو منزل نہیں، بلکہ چراغ راہ قرار دیتے ہیں۔ اقبال کا مثالی انسان فقیر ہے جس کا ذکر جابجا اپنے اشعار میں کرتے ہیں۔ ٭٭٭ خ شفیق عجمی ’’ممتاز جرمن مستشرق اور اقبال شناس ڈاکٹر این میری شمل‘‘،تحقیق نامہ ، گورنمنٹ کالج ،لاہور، سالنامہ۔ص ۱۴۵ تا ۱۵۴ شفیق عجمی صاحب نے ممتاز مستشرق خاتون ماہر اقبالیات ڈاکٹر این میری شمل کے شرح احوال اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا مفصل جائزہ پیش کیا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر شمل کی ان خدمات کے صلے میںاُنھیں اعلیٰ اعزازات اور ڈگریوں سے نوازا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر شمل کے تحقیقی موضوعات کا دائرہ متنوع بھی ہے اور وسیع بھی۔ ان کی تصانیف اور تحقیقی مقالات سے اُن کی وسعت علمی ، وسیع النظری اور مشرق کو مغرب سے قریب لانے کی کوششوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقبالیاتی ادب میں ان کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اقبالیات کے مختلف موضوعات پر اُن کی سات مستقل تصانیف بھی ملتی ہیں اور تحقیقی مقالات کی تعداد چودہ کے قریب ہے جن میں سے بعض کے اردو تراجم مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ مقالے کے اختتام پر وہ لکھتے ہیں کہ اقبال شناسی کی روایت میں ڈاکٹر شمل کی خدمات کو ہمیشہ سراہا جاتا رہے گا۔ لیکن ساتھ ہی اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ ان کے خیالات تنقید و تجزیہ سے ماورا نہیں ہیں ۔ بدقسمتی سے اسلام ، پاکستان، روحانیات اور بالخصوص اقبالیات سے بے پناہ لگائو رکھنے والی اس عظیم المرتبت سکالر کی علمی دریافتوں کو ابھی تک اعلیٰ سطح پر موضوعِ تحقیق نہیں بنایا جا سکا ہے۔ ٭٭٭ خ پروفیسر خالد پرویز ’’علامہ اقبال اور عشق مصطفی ؐ‘‘،مومن ، لاہور ، نومبر ۲۰۰۴ئ۔ص۳۳ تا ۳۴ ثنائے مصطفی ﷺ اور توصیف محبوب ﷺ اس مقالے کا بنیادی موضوع ہے ۔ آپؐ کے اوصاف ِ حمیدہ بیان کرنا ہر قلم کار اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے، مگر علامہ اقبال نے اس فریضے کو اس طرح نبھایا کہ فارسی اور اردو کے اکابر اور نامور شعراء کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ سب کچھ علامہ اقبال کو جذبہ عشق رسول ؐ کی بدولت ودیعت ہوا ہے۔ پروفیسر صاحب نے اس مقالے میں اقبال کے عشق مصطفی ؐ کو دل نشین پیرایے میں قلم بند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال شافع محشرؐ اپنے گناہوں کی معافی کے طلب گار ہیں لیکن انہیں اس بات پر یقین کامل ہے کہ انہیں دربارِ اقدس میں معافی ضرور ملے گی اور وہ روز قیامت غلامان مصطفی ؐ کی صف میں شہیدوں کے ہمسفر ہوں گے۔ ٭٭٭ خ عبدالغنی ’’فکر اقبال: اسلام کا قانونِ معاشرت اور جنسی توازن‘‘،فیض الاسلام ، نومبر ۲۰۰۴ئ۔ص۳۷ تا ۳۹ مقالے کی تمہید میں عبدالغنی صاحب اسلام کی طرز معاشرت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کے نظام معاشرت نے غیر فطری رسم و رواج کی تمام بندشوں کو کاٹ دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے حدود بھی متعین کی ہیں، تاکہ معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔ فلسفۂ زن کسی بھی تہذیب کا بنیادی پتھر ہے، لہٰذا اس کی درستی اشد ضروری ہے۔ضرب کلیم میں عورت کے عنوان کے تحت جتنی بھی منظومات ہیں ، مقالہ نویس نے عصر حاضر کے حوالے سے ان پر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ نمونے کے طور پر اشعار بھی شامل کیے ہیں۔ اس مقالے میں جاوید نامہ کے باب فلک مریخ کے ایک نہایت عبرت خیز مضمون ’’تذکیر نبیّہ مریخ‘‘ سے بھی انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ ٭٭٭ خ شگفتہ نازلی ’’علامہ اقبال کا فلسفۂ فقر‘‘،ادب دوست ، نومبر ۲۰۰۴ئ۔ص۶ تا ۹ شگفتہ نازلی صاحبہ نے مقالے کی تمہید میں مرد مومن کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحوں کا تذکرہ کیا ہے، جن میں ایک روحانی نام ’’درویش‘‘ ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ اقبال کی آخری دور کی شاعری میں فقر، قلندری ، درویشی کا جا بجا ذکر ملتا ہے۔ جاوید نامہ میں فقر مستقل اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا۔ فقر کا مقام ارتقائے خودی کی آخری منزل ہے اور خودی کے حق میں گدائی اور منت کشی زہر قاتل ہے۔حجازی فقر اور رہبانی فقر میں نمایاں فرق بیان کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ اقبال کے نزدیک حجازی فقر افلاس و تنگدستی نہیں بلکہ استغنا اور دولت سے بے نیازی ہے جبکہ رہبانی فقر نذر و نیاز فخر سے قبول کرتا ہے۔ رہبانیت کشمکش حیات سے گریز پا ہونے پر مائل کرتی ہے۔ حجازی فقر سعی و عمل کا درس دیتا ہے۔ حجازی فقر کا حامل درویش ہر حال میں راضی برضا محبوب ہوتا ہے۔ اس کا شیوہ ہے کہ یہ دولت ، متاع عزیز، کائنات اور ہم خود خدا کی ملکیت ہیں اور اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔ مرد فقیر خوف اور غم کا علاج ایمان سے کرتا ہے۔ اس کی شان جلالی کے سامنے تمام قوتیں پسپا ہو جاتی ہیں۔مقالے کے اختتام پر وہ لکھتی ہیں اقبال نے اپنے اشعار میں درویش کے جس پیکر خیال کو تراشا ہے درحقیقت اشعار کے سانچے میں ڈھلی ہوئی اقبال کی اپنی شبیہ معلوم ہوتی ہے۔ ٭٭٭ خ پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر ’’روایتی تنقید پر ایک اور نظر‘‘،قومی زبان ،نومبر ۲۰۰۴ئ۔ص۵ تا ۱۱ پروفیسر ایوب صابر لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آخر میں لاہور میں بھی دہلوی لکھنوی چشمک موجود تھی۔ اعتراض کرنا اہل زبان کی عادت تھی مگر اس ضمن میں دہلی والوں کی نسبت لکھنؤ والے زیادہ تیز تھے۔ دوسرے شعراء کی طرح اقبال کے کلام پر بھی اعتراضات کیے گئے ۔ اقبال کی زبان پر اعتراض کرنے والے اکثر شاعر تھے، لیکن وہ خود بڑے شاعر نہ بن سکے۔ اقبال نے اپنی فکر کی تکمیل کی اور بڑے شاعر بنے۔ انھیں زبان پر عبور حاصل ہوتا گیا اور ان کا فن نکھرتا گیا ۔ پروفیسر صاحب کے نزدیک ہر بڑے شاعر کے ہاں کچھ فرو گذاشتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان پر اعتراضات بجا بھی ہوتے ہیں۔ جو اعتراضات کلام اقبال پر کیے گئے تھے ان میں سے متعدد درست تھے خصوصاً جو ابتدائی کلام پر کیے گئے لیکن یہ فنی عیوب کثیر نہیں، قلیل تھے۔ اقبال نے ان اعتراضات میں اپنی اصلاح کا پہلو تلاش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اور غالب کی زبان کو معیار ، اعتبار اور سند کا درجہ حاصل ہوا اور اقبال کی زبان اس کے جذبے اور تخیل کا ایسا پیکر بن گئی کہ اس کے لفظ و معنی کو الگ الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں۔ اس مقالے میںڈاکٹر ایوب صابر نے اقبال پر کیے جانے والے اعتراضات کا مختصراً جائزہ پیش کیا ہے جس میں معترضین کی متعصب ذہنیت کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ٭٭٭ خ ڈاکٹر وحید قریشی ’’اقبال کا تصور جہاد‘‘،آفاق ، ٹورنٹو (کینیڈا)۔ص۳۲ تا ۳۴ فاضل مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک وہ تمام اعمال و تصورات جو اسلام کے متوازی نصب العین کی حیثیت اختیار کر جائیں اور زندگی کے عروج و زوال کا تعین انھی کے بنائے ہوئے معیار پر ہونے لگے تو ان کی مخالفت کی ہر قسم جہاد ہے یہ جہاد آدمی کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور خارج میں بھی۔اقبال نے اپنے کلام میں حربی جہاد میں جن شخصیات کو نمونہ بنایا، ان میں حضرت علیؓ ، حضرت امام حسینؓ ، حضرت خالد بن ولیدؓ اور بعد کے طبقات میں محمود غزنوی ، اورنگ زیب عالمگیر ، احمد شاہ ابدالی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اقبال ہر دینی مرتبے میں مجاہدانہ معنویت ضرور دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں مومن دراصل طاقت کا مظہر ہے، جنگ میں بھی اور امن میں بھی ۔ ایک پہلو سے وہ قہاری جلال کا حامل ہوتا ہے اور دوسرے رُخ سے غفاری، جمال اور فقر کا۔ فطرت کے یہ دونوں لوازم جس شخص میں جمع ہوں گے، وہ ایک پختہ خودی کا مالک ہو گا۔ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب لکھتے ہیں کہ جہاد کے حوالے سے اقبال پر قوت پرستی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے جو غلط ہے۔ مرد مومن کی قوت اثبات کی ہر جہت کو مستحکم کرتی ہے اور حق کی راہ میں در پیش مزاحمتوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ یہ قوت اعلیٰ مقاصد کی حامل ہوتی ہے۔ نطشے کے سپر مین کی طرح محض تخریب کی صلاحیت سے عبارت نہیں۔ ٭٭٭