اقبالیات جنوری ۲۰۰۶ء جلد نمبر۴۷ شمارہ نمبر۵ (فہرست مضامین) ۱۔ اقبال اور سیکولرازم ڈاکٹر جاوید اقبال ۷ ۲۔ الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل نو طارق مجاہد جہلمی ۱۱ ۳۔ اقبال اور مغربی فکر ڈاکٹر ایوب صابر ۳۳ ۴۔ اقبال زمان و مکاں احمد جاوید ۸۷ ۵۔ بیاضِ اقبال (شیخ اعجاز احمد) ڈاکٹر سعید اختر درانی ۱۱۱ ۶۔ شرح و فرہنگ احمد جاوید ۱۳۳ ۷۔ تفہیم بال جبریل احمد جاوید ۱۴۵ ۸۔ فلسفہ عجم پر ایک نظر علی رضا طاہر ۱۸۱ ۹۔ تصورِ مردِ کامل عابدہ خاتون ۱۹۵ ۱۰۔ استفسارات احمد جاوید ۲۳۹ ۱۱۔ مقالات کی تلخیص نبیلہ شیخ ۲۴۵ قلمی معاونین ۱۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ۶۱۔ بی مین گلبرگ روڈ ، لاہور ۲۔ طارق مجاہد جہلمی بریڈ فورڈ لندن ۳۔ ڈاکٹر ایوب صابر ۴۷ ۔ لنک روڈ ایبٹ آباد ۴۔ احمد جاوید نائب ناظم اقبال اکادمی پاکستان ۵۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی 3-Seay Clase,Selly Park, Birmingham, B 297J67 ۶۔ علی رضا طاہر شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس ،لاہور ۷۔ عابدہ خاتون معرفت مکتبہ جمال ، تیسری منزل، حسن مارکیٹ ، اردو بازار ، لاہور ۸۔ نبیلہ شیخ شعبہ ادبیات ، اقبال اکادمی پاکستان  اقبال اور سیکولرزم ڈاکٹر جاوید اقبال بقول علامہ اقبال حیات کی بنیاد اصلاً روحانی ہے۔ یہ لافانی اصول اپنے آپ کو تغیر اور مختلف نوع کی نئی صورتِ حالات میں ظاہر کرتا رہتا ہے۔ فرماتے ہیں، ’’ایسے معاشرے کے لیے جس کی بنیاد حقیقت کے اس اصول پر استوار کی گئی ہو، لازم ہے کہ اپنی اجتماعی زندگی کو ثبات اور تغیر کی قدروں سے منسلک کرے۔‘‘ یہاں ثبات کی قدر سے اُن کی مراد ’عبادات‘ ہیں اور تغیر کی قدر سے مراد وہ قرآنی احکام ہیں جن کا تعلق ’معاملات‘ سے ہے۔ باالفاظِ دیگر اقبال اس تفریق کو تسلیم کرتے ہیں کہ شریعت کے اُن قوانین کی تعبیریں، جن کا تعلق ’معاملات‘ سے ہے، اصولِ تغیر کے تحت، بذریعہ اجتہادی عمل، وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تبدیل کی جاسکتی ہیں۔۱؎ اسی پس منظر میں اقبال اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی آج کی ’روشن خیال‘ نسل یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ انھیں اسلام کے بنیادی فقہی اصولوں کی تعبیر اپنے تجربات اور جدید زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق کرنے کی اجازت دی جائے۔ ۲؎ ارشاد ہوتا ہے: روح نیچرل (طبعی)، میٹیریل(مادی) اور سیکولر (دنیاوی) ذرائع سے اپنے آپ کے اظہار کے مواقع تلاش کرتی رہتی ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی سیکولر (دنیاوی) کی صورت میں نظر آتا ہے وہ اپنے وجود کی اصل کے اعتبار سے مقدس ہے۔ علمِ جدید نے جو سب سے اہم خدمت، اسلام ہی نہیں بلکہ درحقیقت تمام ادیان کے لیے انجام دی ہے، وہ اُن حقائق کے بارے میں اُس کا مشاہداتی تبصرہ ہے جنھیں ہم ’مادی‘ یا ’طبعی‘ کہتے ہیں۔ اس تبصرے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بظاہر جو ہمیں ’مادہ‘ کی شکل میں دکھائی دیتا ہے، اس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں جب تک کہ ہم اس کی موجودگی کو ’روح‘ کے اندر دریافت نہ کریں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ دنیا گناہوں کی گندگی سے اٹی پڑی ہے، قطعی غلط ہے۔ ’مادہ‘ کی بیکراں وسعت کا مطلب یہی ہے کہ وہ ’روح‘ کی اپنی نمود اور اظہار کے لیے راہ فراہم کرتی رہے۔ پس اس اعتبار سے تمام سرزمین مقدس اور آلائشوں سے پاک ہے۔ ۳؎ اقبال کے نزدیک مسلمانانِ عالم اُس قسم کے قبل از جدید (پری موڈرن) عہد سے گزر رہے ہیں جس طرح ’پروٹسٹنٹ‘ انقلاب کے دوران یورپ کا مذہبی چہرہ تبدیل ہوا تھا۔ مسیحی یورپ میں مارٹن لوتھر کی اصلاحی تحریک، بقول اقبال، بنیادی طور پر ایک سیاسی تحریک تھی جس کے زیرِ اثر یورپ میں قومی ریاستیں (نیشن اسٹیٹس) نمودار ہوتی چلی گئیں۔ اُس زمانے میں جن یورپی سیاسی مفکروں نے ’سیکولرزم‘ کا فلسفہ پیش کیا اُن میں سے بیشتر یا تو مادہ پرست دہریے تھے یا ’ایگناسٹک‘ (لاادری)۔ انھوں نے رائج مذہبی عدالتوں کے دائرۂ اختیار کو صرف کلیسا سے متعلق مذہبی عناصر تک محدود رکھنے پر اصرار کیا اور عوام الناس کو اُن کے دائرۂ اختیار میں لانے کی مخالفت کی۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ اخلاقیات کے اصولوں پر صرف مسیحیت ہی کی اجارہ داری نہیں کہ اُن کی خلاف ورزی کی صورت میں جو تعزیری شکل میں سزائیں دی جائیں وہ مستقل اور غیر متبدل ہوں بلکہ اخلاقیات کے اصول دراصل انسان ترتیب دیتا ہے اور وہ جامد، مستقل یا غیر متبدل نہیں بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ریاست میں اخلاقیات کی خلاف ورزی کے سلسلے میں خدا یا کلیسا کے بنائے ہوئے مستقل قوانین کی بجائے انسان کے بنائے ہوئے متبدل قوانین کا نفاذ کیا جائے۔ اس بحث کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ یورپ کی نئی قومی ریاستوں میں عالمگیر مسیحی اخلاقیات پر مبنی قوانین کے بجائے ’نیشنل‘ یا رائج قومی تصورِ اخلاقیات کی بنیاد پر انسان کے بنائے ہوئے سول اور فوجداری قوانین نافذ کردیے گئے اور یوں ریاست اور کلیسا الگ ہوگئے۔ بہرحال اگر کلیسا کے پاس ’اجتہاد‘ جیسا کوئی عمل ہوتا تو عین ممکن ہے کہ عالمگیر مسیحی قوانین کی تعبیر انسانی اخلاقیات کی بدلتی ہوئی قدروں کے مطابق کی جاسکتی اور یورپ میں ریاست اور کلیسا کی علاحدگی کی ضرورت نہ پڑتی۔ بہرحال ایک مسئلہ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ ’سیکولر‘ یا انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے زیرِ اثر یورپی قومی ریاستوں کے شہری بحیثیت مجموعی اپنے مذہبی عقائد سے منحرف نہیں ہوئے۔ یعنی یورپ کے مسیحی معاشروں نے صرف ’معاملات‘ کی حد تک قانون سازی کے بارے میں ’سیکولرزم‘ اختیار کیا۔ جہاں تک ’عبادات‘ کا تعلق ہے ریاست نے کوئی مداخلت نہ کی بلکہ مسیحی فرقے اپنی اپنی روایات کے مطابق عبادت کرنے میں آزاد رہے۔ آج بھی جو صلیبی جنگ اسلام کے خلاف لڑی جارہی ہے اس کا پس منظر کسی نہ کسی شکل میں پرانی مذہبی منافرت ہی کا اظہار ہے۔ مگر دنیائے اسلام میں علما نے یورپی ’سیکولر‘ ریاست کو ’لادین‘ یا ’بے دین‘ ریاست قرار دیا جس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ ایسی ریاست کے شہری بھی مذہبی عقائد سے لاتعلق یا مذہب کے مخالف ہوگئے ہیں لہٰذا جب ترکی نے ’سیکولرزم‘ کو بطور قومی نظریہ قبول کیا تو اس کی مذمت کی گئی کہ لادین ریاست کے شہری ہونے کے سبب ترک قوم اسلام سے منحرف یا مرتد ہوگئی ہے۔ حالانکہ ایسا نہ تھا۔ ترکوں نے ’معاملات‘ کی حد تک شریعت کے قوانین کی بجائے ’سیکولر‘ قوانین کا نفاذ قبول کیا۔ جہاں تک ’عبادات‘ کا تعلق ہے ترک تب بھی مسلمان تھے اور اب بھی مسلمان ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو آج کوئی بھی ریاست جو ’سیکولر‘ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے دراصل لادین یا مذہب کی مخالف نہیں (ماسوا سابق سویٹ یونین کے جہاں دہریت کو ریاستی پالیسی کی حیثیت سے عوام پر نافذ کیا جاتا تھا) لیکن یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ آج کی ’سیکولر‘ ریاست سے مراد ایسی نظریاتی ریاست ہے جو مذہب کے معاملے میں غیر جانب دار ہو، ’عبادات‘ کے ضمن میں ہر شہری کو مذہبی آزادی فراہم کرے اور تمام شہریوں میں کسی امتیاز کے بغیر برابری کے اصول کو رائج کرے۔ کیا یہی وہ اصول نہیں جس کی جھلک علامہ اقبال کے اس قول میں دکھائی دیتی ہے کہ اسلام کا اصل مقصد ’روحانی جمہوریت‘ کا قیام ہے؟ ۴؎ جہاں تک پاکستانی مسلمانوں کا تعلق ہے ’سیکولرزم‘ پر بحث کی ایک اور اہم جہت بھی ہے جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا شریعت کے ایسے قوانین جن کا تعلق ’معاملات‘ سے ہے، پر ایمان ایک مسلمان کے عقیدے کا حصّہ ہیں؟ سوال کا جواب اس شکل میں دیا جاسکتا ہے کہ مسلم اکثریتی ریاستوں میں اسلامی اخلاقیات کے نظام کا انعقاد بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اس اعتبار سے شریعت کے سول اور فوجداری قوانین جن کا تعلق ’معاملات‘ سے ہے، وہ مسلمانوں کے ایمان کا حصّہ تصور کیے جائیں گے۔ ترکوں کے ’معاملات‘ کے سلسلے میں شریعت کے قوانین کی بجائے ’سیکولر‘ قوانین کے نفاذ پر علما کا اعتراض اس اعتبار سے درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی اسلامی یا مسلم ریاست کے مسلمان یہ تقاضا کریں کہ شریعت کے قوانین وقت کی جدید ضروریات کے تحت ایک نئی تعبیر کے محتاج ہیں، تو کیا انھیں اسلام سے منحرف، مرتد یا کافر قرار دیا جائے گا؟ اقبال کے نزدیک ’معاملات‘ سے متعلق تمام شرعی احکام کی تعبیر، قانونِ تغیر کے بنیادی اصول کے تحت، اجتہادی عمل کے ذریعے، وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق، پارلیمنٹ میں قانون سازی یا عدلیہ کے فیصلوں سے کی جاسکتی ہے۔ البتہ بقول اُن کے، غیر اسلامی طاقتوں کے تسلط کے دوران اور تنزل کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اگر علما نے مسلم امّہ کے تحفظ کی خاطر شرعی قوانین کی تعبیر کے سلسلے میں جدّت پسندی کے فروغ کو روکا، تو ان حالات کے تحت یہ عمل درست تھا، مگر اب آزاد اسلامی ریاستوں کے مسلمانوں کے لیے پیچھے کی سمت جانا ممکن نہیں۔ پس اگر ہم نے اندھی تقلید کا پرانا رویہ ترک نہ کیا اور معاملات یا اخلاقیات کے بارے میں احکام کی انھی تعبیروں سے چمٹے رہے جو ماضی کے فقہا نے اپنے اپنے ادوار کی ضرورتوں کے مطابق مرتب کی تھیں، تو شریعت کی ایسی تمام تعبیریں مع آئمہ کے آپس میں شدید اختلافات، پیچھے رہ جائیں گی اور مسلمان وقت کی رو میں بہتے ہوئے آگے نکل جائیں گے۔ یعنی علما کی تنگ نظری اور فقہی مدارس کے گہرے اختلافات مبادا اُنھیں مجبوراً ہر مسلم قوم کے اپنے تمدنی اور اخلاقی نقطۂ نگاہ کے مطابق، بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، انسان کے بنائے ہوئے قوانین پر انحصار کرنا پڑے۔ اقبال کے نزدیک فی الحال مسلم ریاستوں کی باگ ڈور اوسط درجے کے قائدین اور سوچنے سمجھنے سے عاری مسلم عوام کے ہاتھوں میں ہے اور ایسی ذی فہم اور بلند پایہ شخصیتیں موجود نہیں جو قیادت فراہم کرسکیں۔ اسی بنا پر وہ متنبہ کرتے ہیں: ۵؎ ہمارے آج کے علما یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی قوم کی تقدیر کا انحصار اس بات پر نہیں کہ اُسے کسی نہ کسی اصول کے تحت مستقل طور پر منظم رکھا جائے، بلکہ اس بات پر ہے کہ قوم کس قسم کی قابل اور طاقتور انفرادی شخصیتیں پیدا کرسکنے کی اہل ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں محض تنظیم ہی پر زور دیا جائے، فرد کی اہمیت کلی طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ فرد اپنے گرد و نواح کے معاشرتی فکر کی دولت تو حاصل کرلیتا ہے، مگر وہ اپنی فطری اجتہادی روح گنوا بیٹھتا ہے۔ پس اپنی گزشتہ تاریخ کا جھوٹا احترام اور اس کا مصنوعی احیا کسی قوم کے زوال کو نہیں روک سکتے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ایسے نظریات جنھیں کسی قوم نے خود متروک قرار دیا ہو، اُس قوم میں کبھی قوت حاصل نہیں کرسکتے۔ کسی قوم کے زوال کو روکنے کے لیے جس قوت کی ضرورت ہے وہ خود شناس افراد کی پیدائش، پرورش اور حوصلہ افزائی ہے۔ ایسی شخصیتیں ہی زندگی کی گہرائیوں کا انکشاف کرتی ہیں اور ایسے نئے معیار دریافت کرتی ہیں جن کی روشنی میں ہم یہ دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ ہمارے گردونواح دائمی نہیں بلکہ بدلے جاسکتے ہیں۔ ٭٭٭ حوالے اور حواشی ۱؎ تشکیلِ جدید، ۱۹۸۲ئ، ایڈیشن، ص۔ ۱۴۷۔ ۲؎ ایضاً، ص۔ ۱۶۸ ۳؎ ایضاً، ص۔ ۱۵۵ ۴؎ ایضاً، ص۔ ۱۸۱ ۵؎ ایضاً، ص۔ ۱۵۱  الہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ نو کا ایک اور مطالعہ طارق مجاہد جہلمی علامہ اقبال کے انگریزی خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islam ’جدید اسلامی علم الکلام‘ کی ایک کڑی ہیں۔ ابتدا میں انگریزی کا لفظ Reconstruction استعمال کیا گیا ہے، جس کی وضاحت اس طرح ہے۔ Reconstruction کا ترجمہ بہ زبان اردو ’تشکیلِ نو‘ ہے جو کہ تعمیرِنو کا ہم معنی ہے۔ علامہ موصوف نے اپنے ان خطبات کے عنوان میں Reformation کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جس کے معنی ’تجدید‘ کے ہیں۔ ان دونوں الفاظ کے فرق کو اہلِ علم نے اس طرح بیان کیا ہے: ’ریفارم‘ یعنی تجدید کے مفہوم میں دو باتیں شامل ہیں: ۱۔ کسی ڈھانچے میں کلی تبدیلی لائے بغیر اس کے ایسے اجزا جو قابلِ مرمت یا تبدیلی کے متقاضی ہوں ان میں تبدیلیاں کرکے نقائص کو دور کردیا جائے۔ ۲۔ اس میں یہ لازمی مفہوم بنتا ہے کہ غلطیوں کی اصلاح کی جارہی ہے۔ تشکیلِ نو کا یہ مطلب بنتا ہے کہ تعمیر کا عمل نئے سرے سے کیا جائے اور اس طرح ’پرانی بنیادوں‘ پر نیا ڈھانچا کھڑا کردیا جائے۔ ’تجدید‘ جزوی عمل ہے اور ’تشکیلِ نو‘ کلی عمل ہے۔ اسلام کی اصل عالمگیر اور Dynamism یعنی حرکیت ہے۔ استعماری ادوار میں اسلامی تعلیمات سکون اور جمود کا شکار ہوگئیں۔ اب ضرورت یہ تھی کہ اس کی ’اصل بنیادوں‘ یعنی پرانی بنیادوں پر نیا فکری ڈھانچا تشکیلِ نو کی صورت میں لایا جائے یعنی اسلامی فکر کی تعبیرِ نو پیش کی جائے۔ چاہے اُسے عصری تاریخ یا فکریات سے انگیخت ملے، اُس سے چشم پوشی نہ کی جائے۔ ۱؎ اب علامہ اقبالؒ کے مشورے سے جو اردو ترجمہ سیّد نذیر نیازی صاحب مرحوم نے کیا ہے اُس میں Religious Thought کا اردو ترجمہ ’الہیات‘ کیا ہے۔ مترجم اس کی وضاحت اپنے قابلِ قدر دیباچے میں یوں کرتے ہیں: ۲؎ خطبات کے انگریزی عنوان ’مذہبی فکر‘ Religious Thought کے لیے اردو میں لفظ ’الہیات‘ کا انتخاب کیا گیا۔ یوں بھی خطبات کا دارومدار بحثِ ہستیِ باری تعالیٰ کا اثبات ہے اور وہی ساری محنت اور کاوش کا حاصل۔ مگر الہیات یا کلام کے ایک مسئلے کی حیثیت سے نہیں، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ حقیقت کی اس مابعد الطبیعی جستجو کے ماتحت جس میں ایک عقلی تقاضے کی تسکین کے ساتھ ساتھ ان مسائل کا حل بھی ضروری ہوجاتا ہے جن کا تعلق انسان اور کائنات سے ہے اور جو ہمارے مابعد الطبیعی غور و فکر کا ویسا ہی جزو ہیں جیسے حقیقتِ مطلقہ کے ادراک اور ماہیت کی بحث۔ حاصلِ کلام یہ کہ خطبات کی نوعیت سر تا سر علمی اور فلسفیانہ ہے۔ آگے جاکر مترجم لکھتے ہیں ’تشکیل‘ ایک نئے فکر (زاویۂ فکر) کی تشکیل ہے۔ ’الہیات‘ عقل اور ایمان کا وہ نقطۂ اتصال ہے جس کی بنا علم پر ہے اور ’اسلام‘ محسوس حقائق کی اس دنیا میں زندگی کا راستہ۔ ۳؎ اب خطبات کے دیباچے میں علامہ اقبالؒ لکھتے ہیں کہ میں نے اسلام کی فکری روایات اور انسانی معلومات کی مختلف اقسام کی فکری یافتوں کی روشنی میں اسلامی تخیل کوازسرِنوتشکیل دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ ابتدائیہ میں ہے: ۴؎ میں نے اسلام کی فلسفیانہ روایات اور انسانی علم کی جدید ترقیات کی روشنی میں اسلام کے مذہبی نظریات کو مرتب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفیانہ فکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جیسے جیسے معلومات میں اضافہ ہوگا اور فکر کی نئی راہیں کھلتی جائیں گی نئی اور زیادہ صحت مند آرا پیدا ہوسکتی ہیں۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ انسانی فکر کے ارتقا پر نظر رکھیں اور اس کی طرف اپنے آزاد تنقیدی رویے کو برقرا رکھیں۔ ۴؎ اس آزادانہ اور ناقدانہ رویے کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی نئے نئے علمی انکشافات ہوں تو ان سے ایسے نظریات اخذ نہ کیے جائیں جو مذہبی مسلّمات کے منافی ہوں۔ آزادی سے ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ علومِ جدیدہ کے نتائج و افکار سے کوئی ایسا نظریہ بھی مرتب کیا جاسکتا ہے جو مذہبی عقائد کی نفی و ابطال کا باعث ہوسکے۔ ۵؎ علامہ اقبال کا کارنامہ دور جدید میں جن مسلمان مفکروں نے اسلامی عقائد و افکار کو موضوعِ سخن بنایا ان میں علامہ محمد اقبال کا نام سرِفہرست ہے۔ انھوں نے جدید علمی و سائنسی رجحانات و انکشافات کی روشنی میں الہیاتِ اسلامیہ کو ازسرِنو مرتب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس کی طرف عملی قدم بھی اُٹھایا۔ انھوں نے جدید فلسفہ و سائنس اور اسلامی عقائد میں تطبیق دینے کی کوشش کی۔ لیکن یاد رہے کہ اقبال کا نقطۂ نظر جدید نہیں قدیم تھا۔ وہ مذہبی افکار کو توڑ مروڑ کر جدید نظریات سے منطبق کرنے کے قائل نہیں تھے۔ انھوں نے جدید سائنس اور مذہبی مسلّمات میں تطبیق کی سعی ضرور کی لیکن ان کے نزدیک فلسفہ ایک متحرک شے ہے، جس کی کوئی دلیل قطعی اور آخری قرار نہیں دی جاسکتی۔ ان کی رائے یہ ہے کہ پہلے جدید علوم کو مسلمان بنانا چاہیے اور پھر ان کو مسلمانوں میں رواج دینا چاہیے۔ ان کے ہاں علم کے ذریعے جس کا دارومدار حواس پر ہے، ایک طبیعی قوت ہاتھ آتی ہے جسے دین کے ماتحت رکھنا چاہیے کیوںکہ اگر یہ قوت دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔ بیسویں صدی میں اقبال نے غالباً مذہبِ اسلام اور فلسفے میں مطابقت اور مفاہمت کرنے کی سب سے زیادہ منظم کوشش کی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلامی الہیات کی تشکیلِ نو کی ہے اور وہی کام کیا ہے جو صدیوں پیشتر ہمارے عظیم متکلمین، نظام اور الاشعری نے انجام دیا تھا، جب یونانی فلسفہ و سائنس کی اشاعت ہوئی تھی۔ ۶؎ علم الکلام کی حقیقت علم الکلام صحیح معنوں میں ایک اسلامی علم ہے۔ اس نے اپنے آپ کو مسلم دینی معاشرے تک محدود رکھا اور وہ عیسائی اور یہودی الہیات سے قطعاً الگ تھلگ رہا، جو بالکل اسی جیسے ثقافتی پس منظر میں منصّۂ شہود پر آئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ Scholasticism کا ترجمہ علم الکلام کرنا صحیح نہیں سمجھا جاتا۔ علم الکلام کو فلسفہ یا حکمت کہنا بھی درست نہیں، کیوںکہ یہ خالص دینی اسلامی علم ہے جب کہ حکمت میں مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی حصّہ لیا۔ اسلامی علم الکلام صرف مسلمانوں نے پیدا کیا۔ عملاً کلام میں وہ تمام مواد بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر شامل ہوتا گیا جو دینی اعتقادات کے اثبات کے لیے ضروری تھا، مثلاً مبدا اور تخلیقِ کائنات کے بارے میں اہم اور مفید عقلی دلائل کو باقاعدہ ایک نظام میں ڈھال دیا اور متاثرین کی اس کوشش کے باوجود کہ علم الکلام کے مسائل کو فلسفہ و تصوف کے مسائل سے ہم آہنگ کردیا جائے، کلام نے اپنی انفرادیت قائم رکھی اور اپنے بنیادی یعنی دینی نقطۂ نظر پر قائم رہا۔ اس نے اپنے آپ کو وحی و الہام (قرآن و سنت) کی حدود کا پابند رکھا اور اس عقیدے پر عمل کیا کہ وحی و الہام کی یہ حدود، حدودِ صدق و راستی کے ہم معنی ہیں۔ مستشرقین نے اس علم میں بیرونی اثرات کے نفوذ کا دعویٰ کیا ہے مگر ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ وہ اس لیے کہ بعض بیرونی اثرات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ علم الکلام نے خالصتاً مسلم معاشرے میں جنم لیا۔ جہاں اس نے اپنی اصلیت کو پوری طرح محفوظ رکھا۔ اب اسلامی عقائد پر بیرونی اثرات کا ذکر مستشرقین کا محبوب مشغلہ ہے لیکن صحیح تنقید و تحقیق سے اس قسم کے خیالات کی تردید ہوتی ہے۔ بعض اتفاقی مماثلتوں کے باوجود اسلامی علم الکلام مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی اور مسیحی فلسفۂ کلام میں فرق متکلمینِ اسلام کے پیشِ نظر تو یہ مسئلہ تھا کہ اسلامی تعلیمات یا یوں کہ لیں کہ دین و مذہب کی عقلی اساسات کیا ہیں؟ مسیحی متکلمین (School Men) کی کوشش اس کے برعکس یہ تھی کہ مسیحی عقائد کو فلسفۂ یونان سے تطبیق دیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ متکلمینِ اسلام بھی اسلامی عقائد اور کسی فلسفے بالخصوص یونانی فلسفے سے تطبیق پیدا کرنا چاہتے تھے، بہرحال متکلمینِ اسلام نے جب یونانی فلسفے پر تحقیق کی نظر ڈالی تو اس تحریک کی ابتدا ہوئی۔ جسے علامہ اقبال نے ردِّیونانیت (Anti Classical) سے تعبیر کیا ہے۔ ۷؎ فلسفی و کلامی میں فرق فلسفہ آزاد تحقیق سے عبارت ہے جب کہ علم الکلام مخصوص عقائد پر قائم ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں میں کیا فرق ہے؟ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ماہر علم کلام مخصوص عقائد کے نقلی و عقلی دلائل کا بھی ماہر اور فلسفے کی آزاد تحقیق کا بھی منتہی ہوتا ہے۔ جب کہ فلسفہ صرف آزاد تحقیق تک اپنے مخصوص فلسفے کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ اس اعتبار سے کلام دونوں فکری دبستانوں کا شناور ہو کر فلسفے سے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فلسفی بشکل شک عقلی دلائل کے ساتھ مذہبی امور پر حملہ آور ہوتا ہے تو کلام فلسفے کے دلائل پر دلائل مہیا کرکے اس کے فلسفے کی عمارت کو گرا کے رکھ دیتا ہے، مذہب کی مدافعت کرکے اس کی عمارت کی بنیاد کو مزید عقلی استحکام بخشتا ہے۔ میں نے اس معنی میں علامہ اقبال کی فکری کاوش ’اسلامی الہیات کی تشکیلِ نو‘ کو ’جدید علم الکلام‘ کہا ہے کیوںکہ اس میں علامہ موصوف نے جدید و قدیم فلسفے کے ان تمام دلائل کو جو کہ مذہب کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کے لیے جدید و قدیم فلسفے نے قائم کیے تھے۔ ان کا بطلان کیا ہے۔ اس اعتبار سے علامہ موصوف جدید و قدیم فلسفے کے نظریات سے آگاہ ہونے کے ساتھ اس کے ماہر تھے اور قدیم اسلامی علم الکلام کی شناسائی بھی ان کو حاصل تھی۔ اس اعتبار سے علامہ موصوف کی شخصیت قدیم و جدید فکری شعور کا حسین امتزاج تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام کو فلسفہ و کلام کامنتہی طالب علم ہی سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی یہ فکری کاوش قابلِ قدر اور لائقِ مطالعہ ہے۔ چناںچہ علامہ موصوف جاوید نامہ میں بعنوان ’خطاب بہ جاوید سخنے بہ نژادِ نو ‘یعنی ’جاوید سے خطاب نئی نسل سے چند باتیں‘ میں ان خطابات کو حرف ’پیچا پیچ‘ کہتے ہوئے لکھتے ہیں: من بطبع عصر خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف (میں نے اپنے دور کے ذہن سے دو باتیں کی ہیں اور ان دو ظروف میں دو سمندر بند کردیے ہیں) حرفِ پیچاپیچ و حرفِ نیش دار تا کنم عقل و دلِ مرداں شکار (میں نے پیچ دار زبان بھی استعمال کی ہے اور نیش دار یعنی واشگاف بھی تاکہ میں اس دور کے لوگوں کے عقل و دل کو شکار کرسکوں) حرفِ تہ دارے باندازِ فرنگ نالۂ مستانۂ از تارِ چنگ (میں نے مغرب کے انداز کے مطابق تہ دار الفاظ بھی کہے ہیں اور اپنے تارِ رباب سے نالۂ مستانۂ یعنی شعروں کی صورت میں بھی بلند کیا ہے) اصل ایں از ذکر و اصل آں ز فکر اے تو بادا وارثِ ایں فکر و ذکر (ایک کی اصل ذکر سے ہے اور دوسرے کی فکر سے۔ خدا کرے کہ تو اس ذکر و فکر کا وارث بنے) آبجویم از دو بحر اصل من است فصل من فصل است وہم وصل من است (میں ندی ہوں، میرا منبع یہ دو بحر ہیں۔ میری جدائی جدائی بھی ہے اور وصل بھی) تا مزاجِ عصرِ من دیگر فتاد طبعِ من ہنگامۂ دیگر نہاد (چوںکہ میرے دور کا مزاج مختلف ہے اس لیے میری طبیعت نے بھی اور طرح کا ہنگامہ پیدا کیا ہے۔) ۸؎ ان عظیم فلسفیانہ خطبات کے عربی، فارسی اور اردو نیز بہت سی مغربی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ’الاجتہاد فی الاسلام‘ کا مختلف مترجمین نے ترجمہ کیا اور دیگر اہلِ علم نے انتہائی محنت کے ساتھ دوسرے خطبات کے بعض اقتباسات پر تبصرہ کیا ہے۔ کانٹ کی دلیل کارد اور مذہبی حقائق کا اثبات جرمنی کا عظیم فلاسفر کانٹ (۱۷۲۴ئ۔ ۱۸۰۴ئ) جو کہ تنقیدی فلسفے کا بانی ہے، اس نے سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا مابعد الطبیعیات ممکن ہے؟ پھر خود ہی اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہوئے مابعدالطبیعیات کو بے معنی قرار دیا کیوںکہ اس کی رائے میں محسوسات کے دائرۂ عمل سے باہر کوئی تجربہ ممکن ہی نہیں چونکہ مابعد الطبیعیات کے مسائل لازمی طور پر محسوسات سے متعلق نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کا وجود قابلِ قبول نہیں۔ کانٹ کی اس دلیل کی زد مذہبی حقائق پر بھی پڑتی ہے کیوںکہ مذہبی حقائق اور باطنی مشاہدات محسوسات کے پابند نہیں چنانچہ علامہ اقبال اپنے خطبات کے ساتویں خطبہ ’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘ میں لکھتے ہیں: پھر جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ کانٹ ہی نے سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا تھا کہ مابعد الطبیعیات کیا ممکن ہے؟ اور کانٹ ہی نے جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے، اس کا جواب نفی میں دیاتھا۔ لیکن مابعدالطبیعیات کی نفی میں اس نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان سے وہ حقائق بھی محفوظ نہیں رہتے جن سے مذہب کو بہت قریب کا تعلق ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ موجوداتِ حواس ہمارے علم میں آئیں، ضروری ہے کہ وہ ضابطے کی کچھ شرائط پوری کریں۔ ہمارا ان کو شے کہنا بھی گویا ان کی تحدید کرنا ہے کیوں کہ ہم ان کو شے کہتے ہیں تو اس لیے کہ ان میں نظم و ربط پیدا کرسکیں، لہٰذا ہمارے کسی خیال کے مقابلے میں اگر سچ مچ کچھ موجود ہے تو یہ جو کچھ ہے ہمارے محسوسات و مدرکات کے حلقے سے باہر رہے گا اور اس لیے ازروئے عقل ہم اس کی موجودگی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے۔ لیکن کانٹ کے اس زورِ استدلال نے جو فیصلہ صادر کیا ہے، ہمیں اس کے صحیح ماننے میں تامل ہے بلکہ اب تو یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ سائنس کے جدید انکشافات کو دیکھیں تو عقلاً بھی الہیات کے ایک مرتب نظام کی تشکیل کچھ زیادہ دشوار نظر نہیں آتی جیسا کہ کانٹ کا کبھی خیال تھا، مثلاً سائنس کا یہی انکشاف کہ مادہ لہروں کی ہی ایک مخفی صورت ہے۔ یا یہ کہ کائنات فکر ہی کا عمل ہے یا یہ کہ زمان و مکان متناہی ہیں۔ علی ہذا ہائیزن برگ Heisenberg کا اصولِ عدم لزوم بایں ہمہ مسئلہ زیر بحث کا تقاضا تھا کہ ہم اس پر زیادہ گہری نظر ڈالیں۔ کانٹ کا یہ کہنا کہ عقلِ محض شے بذاتہ کو اپنی گرفت میںنہیں لاسکتی کیوںکہ اس کا وجود محسوسات و مدرکات کے حلقے سے باہر ہے صرف اس صورت میں تسلیم کیا جاسکتا ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ معمولاً ہم اشیا کا مشاہدہ جس طرح کرتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے محسوسات و مدرکات کا کوئی ذریعہ نہیں۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ محسوسات و مدرکات کی طبیعی سطح کے علاوہ کوئی ایسی سطح بھی ہے جو جہاں ہمارے محسوسات و مدرکات کا سر چشمہ بن سکے؟ کانٹ نے تو اس مسئلے میں کہ کیا مابعد الطبیعیات کا وجود ممکن ہے؟ پر جو فیصلہ صادر کیا ہے اس نظریے کے ماتحت کہ ایک تو شے ہے ’بذاتہٖ‘ اور ایک شے ہے ’بظاہر‘ لیکن فرض کیجیے کہ معاملہ یوں نہ ہو جیسا کہ کانٹ کا خیال تھا بلکہ اس کے برعکس اسلامی اندلس کے مشہور صوفی فلسفی محی الدین ابنِ عربی کا یہ قول کیا خوب ہے کہ وجود مدرک خدا ہے کائنات معنی (یعنی خدا محسوس ہوتا ہے لیکن دنیا ایک عقلی تصور ہے)۔ ایسے ہی ایک دوسرے مسلمان صوفی مفکر اور شاعر عراقی نے کہا ہے کہ زمان و مکاں کے متعدد نظامات ہیں۔ حتیٰ کہ ایک وہ زمان و مکاں بھی ہے جو صرف ذاتِ الہیہ سے مخصوص ہے لہٰذا عین ممکن ہے کہ ہم جسے کائنات یا عالمِ خارجی کہتے ہیں یا ٹھہراتے ہیں وہ عقل ہی کی ایک تاویل ہو۔ ۹؎ مابعد الطبیعات جس کو انگریزی میں Metaphysics کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں، فلسفہ کی وہ شاخ جو اشیا کی حقیقتِ نہائی سے بحث کرتی ہے۔ ۱۰؎ اقبال کے خیالات کی مزید تشریح یہاں اقبال ایک بنیادی سوال اٹھاتے ہیں کہ کانٹ کی بحث کا دارومدار تجربے اور علم کی اس تعریف پر ہے جو اس نے خود فرض کی ہے۔ بے شک علم تجربے ہی سے حاصل ہوتا ہے لیکن تجربہ محض محسوس کائنات میں محدود ہے نہ علم تعقلات ہی کی صورت میں ممکن ہے۔ بے شبہ ہمارا یہی لاشعور محسوس کائنات میں تجربہ کرتا ہے لیکن انسانی شعور کا محض یہی ایک پہلو یا یہی ایک سطح نہیں۔ جیسے جیسے شعور کی سطح بدلتی جاتی ہے اس کے تجربے کا دائرہ اور تجربے کی نوعیت بھی بدلتی ہے اور کائنات کا علم و عرفان بھی بدلتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ محسوس کائنات سے جو علم اخذ ہوتا ہے وہ حقیقت نہیں ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے، وہ حقیقت ہے لیکن جزوی حقیقت یا حقیقت کا ایک پہلو جس تک انسان کے شعور کی رسائی ممکن ہے۔ اور چوںکہ حقیقت ایک کل ہے، اس لیے ان اہم تر پہلوئوں کو نظر انداز کرنے سے جزوی حقیقت کی معنویت بھی یعنی انسانی زندگی کے لیے اس کی اہمیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ وہ ’سمع‘ اور بصر‘ کی تردید یا نفی نہیں کرتے لیکن فواد یا قلب کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اقبال شعور کی بلند تر سطح اور اس سطح پر بدلے ہوئے ادراک پر دو مثالیں دیتے ہیں۔ محی الدین ابن عربی کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقتِ محسوسہ ہے اور کائنات انتزاعِ عقلی ہے۔ شعور کے اس مقام پر محسوس اور معقول کے معنی ہی بدل گئے۔ عراقی نے کہا کہ زمان و مکاں کی حقیقت کثیف اور لطیف اجسام اور غیر مادی ہستیوں اور اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ اس نکتے کی اہمیت کے پیشِ نظر مثالیں سنیے۔ متقدمین حواسِ خمسہ، لامسہ ۱، ذائقہ ۲، شامہ ۳، سامعہ ۴، باصرہ ۵اور پانچ حواس باطنی حس مشترک، خیال، وہم، حافظ اور قوت متصرفہ کی دو قسمیں متخیلہ اور متفکرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ تو شعور کی وہی سطح ہے جس کی بحث کانٹ کرتے ہیں لیکن رومی (م ۶۷۲ھ) ان کے علاوہ ’حسِ نہاں‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ پنج حسے ہست جز ایں پنج حس آں چوں زر سرخ ایں حسہا چوں مس آئینہ دل چوں شود صافی و پاک نقش ہا بیند بروں از آب و خاک پس محل وحی گردو گوش جاں وحی چہ بود گفتن از حسِ نہاں اس ’حسِ نہاں‘ کو عقلِ جزوی کے مقابلہ میں عقلِ کلی کہ لیجیے یا عقلِ برہانی کے مقابلے میں عقل نورانی یا عشق اور وجدان، مگر یہ شعور کا وہ درجہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی حقیقت ایک حقیقتِ محسوسہ بن جاتی ہے اور کائنات ایک انتزاعِ عقلی۔ گویا دینی تجربات کے مسلّمات میں سے ایک یہ حقیقت ہے کہ انسانی شعور کے مختلف مراتب ہیں اور شعور کی سطح اور مرتبہ کے لحاظ سے حس واحد اک اور وقوف و عرفان کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ شعور کی اس منزل پر جو تجربہ حاصل ہوتا ہے وہ انفرادی ہوتا ہے اور ناقابلِ بیان۔ اس سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ تعقلی تصورات میں ظاہر نہیں ہوتا چوںکہ ابلاغ عام تعقلی تصورات کے ذریعے ممکن ہے اس لیے تجربے کا بیان کرنا ممکن نہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ حقیقت کی، خواہ وہ انسان کی ہو یا خدا کی ماہیت ہی یہ ہے کہ اس کا عرفان ایک ذاتی تجربہ ہوتا ہے اور یہ عرفان تعقلی تصورات میں ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ ۱۱؎ یہ عبارت شیخِ اکبر امام محی الدین ابنِ عربی (م ۶۳۸ھ) کی کتاب فصوص الحکمکی ہے۔ چنانچہ فصِ ’ہودیہ‘ میں لکھتے ہیں: ۱۲؎ تحقیق حق تعالیٰ کی ذات ہر چھوٹے اور بڑے کا اصل سرچشمہ ہے اور چونکہ عبد سوائے ان اعضا اور قویٰ کے نہیں ہے لہٰذا عبد خلقِ متوہم میں مشہود ہے۔ پس مومنین اور کھونے اور پانے والوں کے نزدیک ’خلق معقول اور حق محسوس و مشہود‘ ہے اور ان دونوں فریقوں کے سوا جو لوگ ہیں ان کے نزدیک جو چیز منظور اور مشہود ہے وہ خلق ہے اور حق ایک عقلی چیز ہے جس کا خارج میں کوئی ظاہری حسّی وجود نہیں۔ پس وہ لوگ بمنزلہ بھاری پانی کے ہیں اور گروہِ اوّل جو حق کو محسوس و مشہود اور خلق کو معقول جانتے ہیں بمنزلہ اس پانی کے ہیں جسے پیاس بجھانے والا پانی کہا گیا جو پینے والے کے واسطے مزے دار ہے۔ چنانچہ شیخِ اکبر کا یہ عندیہ ہے: ظاہر و باطن ہر دو کا ہونا اللہ ہی سے ہے اس کے سوا نہیں۔ یہ دکھائی دینے والا عالم جو خدا کا غیر محسوس ہوتا ہے جسے ماسوا کہتے ہیں، خدا کے علاوہ اور اس سے الگ نہیں ہے۔ غیریت اور کثرت جو محسوس ہوتی ہے وہ ہماری عقل کا کارنامہ ہے کہ ہم اسے خود مختار اور آزاد وجود کا حامل سمجھ لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ نے فرمایا کہ ’الحق محسوس و الخلق معقول‘ جو کچھ محسوس ہوتا ہے وہ حق ہی ہے خلق تو صرف معقول یعنی ہمارے ذہن کی پیداوار ہے۔ اس کو علامہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے۔ ۱۳؎ بہ بزمِ ماتجلی ہاست بنگر جہاں ناپیدو او پیداست بنگر چنانچہ الہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل نوانگریزی کی اصل عبارت اس طرح ہے: ۱۴؎ For the great Muslim sufi philosopher, Muhyuddin Ibnul Arabi, God is a percept; the world is a concept. خدا مدرک، محسوس ہے اور کائنات معنی معقول اور عقلی تصور ہے۔ (مدرک جس کا ادراک کیا جاسکتا ہے) علامہ اقبال نے یہاں ابنِ عربی کے ان الفاظ کو کہ خدا مجرد خیال، معقول یا عقلی انتزاع یعنی Concept نہیں بلکہ خدا مدرک (Percept) ہے، اس کو قبول کیا ہے اور اس کے بعد اقبال نے خدا کو personalized ہی تصور کیا ہے۔ یعنی شخص علامہ موصوف خدا کی ماورائی اور شخصی حیثیت سے انکار نہیں کرتے۔ لیکن اس کے بعد وہ خدا کو ایک داخلی تخلیقی فعالیت بھی متصور کرتے ہیں۔ اُن کا تصورِ ارتقا دراصل قرآنی تعلیمات اور جدید رجحاناتِ نظریۂ ارتقا کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔ ابنِ عربی ؒ اور اقبال ۔۔۔ مطابقت و مماثلتِ افکار اب یہاں علامہ اقبالؒ نے خدا کو محسوس Percept اور کائنات کو Concept یعنی عقلی انتزاع حضرت ابنِ عربی ؒ کے تتّبع میں تسلیم کرکے کانٹ کی دلیل کو رد کیا۔ چنانچہ خطبات کے خطبہ ’ذاتِ الہیہ اور حقیقتِ دعا‘ میں مذکورہ بالا امر کو دُہراتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ۱۵؎ The answer is that, from the divine point of view, there is no creation in the sense of a specific event having a 'before' and an 'after'. The universe cannot be regarded as an independent reality standing in opposition to him. This view of the matter will reduce both God and the world to two separate entities confronting each other in the empty receptacle of an infinite space. We have seen before that space, time, and matter are interpretations which thought puts on the free creative energy of God. They are not independent realities existing per se, but only intellectual modes of apprehending the life of God. لہٰذا یہاں جو سوال فی الحقیقت غور طلب ہے وہ یہ کہ ذاتِ الہیہ کے لیے کائنات کی حیثیت کیا سچ مچ ایک وجودِ مقابل کی ہے اور اس لیے ان کے درمیان کچھ ُبعدِ مکانی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ذاتِ الہیہ کے لیے کائنات کوئی مخصوص حادثہ نہیں کہ اس کا ایک قبل ہو اور ایک بعد ہو، اور نہ کائنات اپنی ذات سے آپ قائم ہے کہ اس کا غیر ٹھہرے ورنہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خالق و مخلوق دو الگ الگ وجود ہیں اور دونوں مکان کی لامتناہی وسعتوں میں جس کی مثال گویا ایک ظرف کی ہے، ایک دوسرے کے بالمقابل پڑے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں زمان و مکاں اور مادہ بجائے خود ذاتِ الہیہ کی آزادانہ تخلیقی فعالیت کی وہ تعبیریں ہیں جو فکر نے اپنے رنگ میں کی ہیں۔ ان کا کوئی مستقل وجود نہیں کہ اپنے سہارے قائم رہ سکیں وہ محض عقل کے تعینات ہیں جس کے ذریعے ہمیں ذاتِ الہیہ کا ادراک ہوتا ہے۔ ۱۶؎ اصل میں علامہ موصوف یہاں پر کہ رہے ہیں: کہ ہمیں اس سوال کا جواب معلوم کرنا ہے کہ کیا کائنات کی حیثیت اللہ کے مقابل اس کے غیر کی ہے اور اللہ اور کائنات کے بیچ مکان حائل ہے؟ اس کا جواب اس طرح ہے کہ اس نقطۂ نظر سے کوئی تخلیق کسی ایسے مخصوص واقعے کے مفہوم میں نہیں ہے جس کا کوئی ’قبل‘ یا ’مابعد‘ ہو۔ کائنات کا کوئی ایسا آزاد وجود نہیں مانا جاسکتا جو اللہ کے خلاف قائم ہے۔ مادہ کے بارے میں اس طرح کا تصور اللہ اور عالم دونوں کو دو علیحدہ موجودات میں تقسیم کردے گا جو لامتناہی مکان کے خالی ظرف میں ایک دوسرے کے مدِمقابل ہوں گے۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں مکان، زمان اور مادہ اللہ کی آزاد قوتِ تخلیق کی تاثیر و آثار کو سمجھنے کے لیے فکر کے بنائے ہوئے جامۂ تعبیرات ہیں۔ وہ فی نفسہٖ آزاد پیکرِ موجودات نہیں بلکہ الوہی زندگی کے ادراک کے محض عقلی ذرائع ہیں۔ ۱۷؎ چناںچہ علامہ اقبال گلشنِ راز جدید میں کہتے ہیں: زمانش ہم مکانش اعتباری است زمین و آسمانش اعتباری است (اس جہاں کا زمان و مکان اعتباری ہے، اس کے زمین و آسمان بھی اعتباری ہیں) اعتباری کے معنی ہیں وہ چیز جسے عبور کرکے دوسری تک رسائی ہو، جو اپنی جگہ مستقل نہ ہو بلکہ اپنی اصل تک خیال و گمان کو منتقل کردے۔ مراد ہے کہ جہاں اور اس کی جملہ اشیا حقیقی نہیں۔ حقیقی اس لیے نہیں کہ یہ اپنے ہونے میں باری تعالیٰ کے وجود کی محتاج ہیں اور از خود موجود نہیں۔ ۱۸؎ چنانچہ شیخ اکبر ابنِ عربی فتوحاتِ مکیّہ میں فرماتے ہیں: ’’وقد ثبت عند المحققین انہ مافی الوجود الااللہ ونحن و ان کنا موجودین فانما کان وجود نابہ ومن کان وجودہ بغیر فھو فی الحکم العدم۔‘‘ ۱۹؎ (محققین کے نزدیک ثابت ہے کہ اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں اور اگرچہ ہم بھی موجود ہیں لیکن ہمارا وجود اس کی وجہ سے موجود ہے جو کسی کی وجہ سے موجود ہو تو وہ مقامِ عدم پر ہوتا ہے۔ ) یہاں یہ بات نظر میں رہنا چاہیے کہ صوفیۂ کرام بالخصوص وجودی صوفیہ کی عینیت اور فلاسفہ کی عینیت میں فرق ہے۔ ناقدینِ وحدت الوجود کو اس عینیت کی وجہ سے مغالطہ ہوا ہے۔ وجودی صوفیہ کے نزدیک کائنات میں ہر شے متعین ہے اس لیے ہر شے غیر خدا ہے۔ اسی غیریت کی بنا پر من وتویا خدا اور خودی میں امتیاز پیدا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسے انائے مقیّد ظاہر کیا ہے۔ اب یہ انائے مقیّد کیا ہے جو متعین ہو کر مقیّد ہوگئی؟ اس اعتبار سے ثابت ہوا کہ اقبال اور ابنِ عربی عینیت کے ساتھ ساتھ غیریت کے بھی قائل ہیں۔ چنانچہ حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ نے فتوحاتِ مکیّہ کی حسبِ ذیل عبارت پر کیا خوب صورت بات فرمائی ہے کہ: ’’الحمد اللہ الذی او جد الاشیاء وھوعینھا۔‘‘۲۰؎ (سب تعریف سزاوار ہے اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے ایجاد فرمایا اشیا کو اور وہ ان کا عین ہے)۔ آپ نے اس کی تشریح فرماتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو حضرت شیخ ابنِ عربی کی اس عبارت سے وہم ہوا ہے کہ اس سے خالق و مخلوق کا اتحاد لازم آتا ہے مگر حاشا وکلا شیخ کی مراد ہرگز یہ نہیں کیوں کہ لفظ عین کے دو معانی ہوتے ہیں، ایک یہ کہ کہا جائے کہ فلاں چیز اپنا عین ہے۔ مثلاً الانسانُ انسانُٗ اور دوسرے یہ کہ کسی چیز کا قیام اور تحقق اور چیز سے ہو کہ اگر وہ نہ ہوتی تو اس کا وجود نہ ہوتا یعنی ’مابہ الموجودیت‘ اور یہاں شیخ نے یہی معنی لیے ہیں کہ اگر واجب الوجود کا تعلق مخلوقات سے قطع تصور کیا جائے تو مخلوق کافی نفسہٖ کوئی وجود نہ ہوگا۔ ۲۱؎ حق تعالیٰ کے ساتھ ربط کی نوعیت ’’ارباب توحید کے نزدیک حق تعالیٰ کے ساتھ قرب، ربط، اتصال یا رفاقت کی نوعیت اس طرح نہیں جیسے ایک جسم کو دوسرے جسم سے ہوتی ہے کہ جس سے خرابی واقع یا پیدا ہوتی ہے بلکہ اس کی نوعیت تو وجود اور ماہیت جیسی ہے اور ماہیت میں نہ تو آلوودگی کا امکان ہے نہ ہی کثافت کا۔‘‘ ۲۲؎ چناںچہ علائو الدولہ سمنانی ؒ فتوحاتِ مکیّہ کی ایک عبارت پر تائیدی کلمات اس طرح رقم کرتے ہیں۔ ’’حق ہر شے کا عین ظاہراً ہے لیکن ذات کے اعتبار سے وہ کسی شے کا عین نہیں بلکہ ’وہ‘ ’وہ‘ ہے اور اشیا، اشیا ہیں‘‘۔ ۲۳؎ عبارت سے یہ امر اخذ ہوتا ہے کہ خدا عینِ ذاتِ اشیا نہیں مگر اشیا کی زندگی اپنے ہونے میں وجودِ حق کی محتاج ہے اور ان کی قائمیت اس کی جلوہ گری ہے۔ صوفیہ وجودی ہمہ اوست کا لغوی معنی لینے کے بجائے اصطلاحی لیتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ سب اشیا خدا کی صفات کی عین ہیں یعنی اس ذات کی صفات کا مظہر ہیں یا اس کا ظہور لیے ہوئے ہیں نہ کہ وہ خود خدا ہیں اور جب یہ اشیا اپنے وجود میں خدا کے وجود کی محتاج ہیں تو پھر ان کا وجود نہ ہوا، وجودِ حقیقی صرف خدا کا رہا۔ یہ تصور خالصتاً توحیدی ہے۔ خدا کے سوا کسی اور شے کا حقیقی وجود نہ ماننا اور وجود کے بجائے ان کو موجود ماننا ’لاموجود الاللہ‘ کی حقیقی توضیح ہے۔ ۲۴؎ علمِ حق کی حقیقت چنانچہ مراۃ العارفین کے مصنفین لکھتے ہیں: یعنی ذاتِ حق اور ذاتِ انسانؐ کامل میں مشابہت ہے بسبب کلیّت اور اجمال کے اور بسبب ہونے اشیا کے ان دونوں میں بروجہِ کلی اور اجمالی کے اور علمِ حق اور علمِ انسان کاملؐ میں مشابہت ہے بسبب مظہر ہونے علم کے واسطے تفصیل اس چیز کے جو مجمل ہے۔ پس انسانِ کاملؐ ذاتِ حق کا آئینۂ تامّہ بسبب اس مشابہت کے اور ذاتِ حق اُس پر متجلی ہے اور اُس میں ظاہر ہے پس جو کچھ ذاتِ حق میں بروجہِ کلی اور اجمالی مندرج ہے وہی انسانِ کاملؐ میں بروجہِ کلی اور اجمالی مندرج ہے اور جو کچھ علمِ حق میں بروجہِ جزی اور تفصیلی ظاہر ہے وہی علمِِ انسانِ کامل میں بروجہِ جزی اور تفصیلی ظاہر ہے بلکہ علمِ انسان علمِ حق ہے اور ذاتِ انسان ذاتِ حق ہے سوائے اتحاد کے ساتھ اُس کے اور سوائے حلول کے اس میں اور سوائے اُس کے کہ وہ، وہ ہوجائے اس لیے کہ یہ تینوں امر محال ہیں کیوںکہ اتحاد دو وجودوں سے حاصل ہوتا ہے ایسے ہی حلول اور صیرورت بھی دو وجودوں میں پائے جاتے ہیں اور یہاں ایک ہی وجود ہے اور اشیا اُسی کے ساتھ موجود اور بذاتِ خود معدوم ہیں۔ پس کس طرح متحد ہوسکتا ہے وہ جو اُس کے ساتھ موجود اور بذاتِ خود معدوم ہے۔ مثال کے طور پر تمام موجوداتِ کائنات کو ایک کتاب تصور کریں اور تمام اشیا کو اس کتاب کے علاحدہ علاحدہ حروف اور الفاظ تصور کریں جیسا کہ کتاب الفؔسے لے کر یؔ تک یعنی ساری کی ساری ایک ہی روشنائی سے لکھی ہوئی ہے اور تمام حروف اور الفاظ کی صورت پر روشنائی ہی جلوہ نما ہے ایسے ہی کتابِ عالم ذاتِ الٰہی والی روشنائی سے لکھی ہوئی ہے اور تمام اشیا کی صورت پر حضرتِ حق سبحانہ و تعالیٰ متجلی ہے۔ جیسا کہ کسی حرف یا لفظ کا وجود سوائے روشنائی کے محال ہے ایسا ہی کسی موجود کا وجود سوائے ذاتِ حق کے محال ہے اور جیسے حروف عین روشنائی ہیں اور روشنائی عین حروف ایسے ہی حوادثاتِ عالم عینِ حق ہیں اور حق عینِ حوادثات عالم۔ اب غور فرمایئے روشنائی کا حروف کے ساتھ اتحاد حلول یا صیرورت کا تعلق نہیں بلکہ روشنائی حروف کی صورت پر متشکل ہے۔ اتحاد، حلول اور صیرورت کے لیے دو علاحدہ مستقل وجود چاہییں تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو یا ایک دوسرے میں حلول کرے یا ایک بدل کر دوسرا بنے اور یہاں صرف ایک ہی وجود، ہے یعنی روشنائی کا وجود حروف کا روشنائی کے سوا علاحدہ مستقل ذاتی وجود ہے ہی نہیں بلکہ ان کا وجود ساتھ روشنائی کے ہے یعنی حروف کا وجود سوائے روشنائی کے ہو ہی نہیں سکتا۔ حروف اگرچہ موجود ہیں مگر ان کا وجود ساتھ روشنائی کے ہے بذاتِ خود نیست ہیں ایسے ہی اشیا عالم اگرچہ بظاہر موجود ہیں لیکن اُن کا وجود ساتھ باری تعالیٰ کے ہی بذاتِ خود سب نیست اور معدوم ہیں یعنی اُن کا ذاتِ حق کے سوا اپنا علاحدہ ذاتی مستقل وجود کوئی نہیں۔ اب کتاب میں بعض حروف سیدھے اور بعض ٹیڑھے ہیں لیکن یاد رکھیے سیدھے ہیں تو حروف ٹیڑھے ہیں تو حروف، روشنائی سیدھے ٹیڑھے ہونے سے منزّا، مقدس اور معّرا ہے۔ ان تمام اضافات کی نسبت حروف پر عائد ہوتی ہے نہ کہ روشنائی حالانکہ روشنائی ہی تمام حروف کی صورت پر متشکل ہے۔ ۲۵؎ مجدّد الف ثانی ؒ کا نظریہ ماورائیہ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ، شیخ احمد سرہندیؒ (م ۱۰۳۴ھ/ ۱۶۲۴ئ) کے نظریۂ توحید کا اجمال پیشِ خدمت ہے۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کا استکمالِ روحانی تین مراتب سے گزر کر وحدت الوجود کی نفی پر ختم ہوتا ہے۔ سب سے پہلے مرحلے میں انھیں وحدتِ وجود کا شعور حاصل ہوا، دوسرے درجے پر ظلیت کا (یعنی یہ کائنات اظلال ہیں) اور تیسرے درجے پر عبدیت کا۔ حضرت مجدّد الف ثانی کا خیال ہے دوسرے درجے سے ہی وحدت الوجود کا تصور ختم ہو کر خدا اور کائنات کے علیحدہ علیحدہ وجود کا احساس ہونے لگتا ہے لیکن اس منزل سے عبدیت تک پہنچنے کے بعد یہ احساس یقین میں بدل جاتا ہے کہ رب کا وجود الگ ہے اور بندے (مخلوق) کا وجود الگ۔ رب رب ہے اور بندہ بندہ، تعالیٰ شانہ، عمایقولون۔ مجدّدؒ صاحب فرماتے ہیں، ’ان اللہ وراء الوراء ثم وراء الورائ‘ ۲۶؎ جناب ڈاکٹر سیّد عبداللہ مرحوم اس بارے میں لکھتے ہیں، ’’حضرت مجدّدؒ کی رائے میں جو کچھ ہے خدا کا خلق کردہ، خدا کی ذات لامتناہی اور وراء الورا ہے۔ اسی خیال کی بنا پر ان کے نظریہ کو ’ورائیہ‘ کہا گیا ہے‘‘ ۲۷؎ جناب ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اپنی کتاب حضرت مجدّد کا نظریہ توحید میں لکھتے ہیں: ’’جو نظریۂ وجود شیخ مجدّدؒ نے پیش کیا ہے اسے وحدتِ شہود (Apparentism) کہنا غلطی ہے اس کا کوئی نام نہیں لیکن اگر کوئی نام رکھا جائے تو ’تثنیۂ وجود‘ یا ’وحدتِ وجوب‘ کہنا مناسب ہوگا۔‘‘ ۲۸؎ اس بحث کا حاصل یہ نکلا کہ حضرت مجدّد الف ثانی ؒماورائیتِ مطلق کے قائل ہیں۔ اقبال کا تصورِ خدا اب حضرت مجدّد ؒ کے ہاں مطلق ماورائیت پائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے اقبال کے خیالات مجدّد الف ثانی ؒ کے افکار سے ہم آہنگ نظر نہیں آتے کیوںکہ اقبال کے ہاں ماورائیت بھی ہے اور سریانیت بھی جیسا کہ اقبال کے شعری کلام اور خطبات میں ظاہر ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال اپنے خطبات الہیات اسلامیہ کی تشکیل نو میں لکھتے ہیں: ۲۹؎ The Ultimate Self, in the words of the Quran, can afford to dispense with all the worlds. To him the not-self does not present itself as a confronting other, or else in spatial relation with the confronting 'other'. What we call nature or the not-self is only a fleeting moment in the life of God. His I-amness, is independent, elemental, absolute of such a self it is impossible for us to form an adequate conception. As the Quran says, "naught is like Him, yet He hears and sees." Now a self is unthinkable without a character. i.e., a uniform mode of behaviour. Nature as we have seen, is not a mass of pure materiality occupying a void. It is a structure of events, a systematic mode of behaviour, and as such organic to the ultimate self. Nature is to the divine self as character is to the human self. ذات بحت البتہ، جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے، ’غنی عن العلمین‘ ہے، لہٰذا اس کے لیے غیر ذات مقابل کی نہیں ورنہ اسے بھی غیر ذات سے وہی نسبتِ مکانی ہوتی جو ہماری ذاتِ متناہیہ کو اپنے غیر سے ہے، لہٰذا فطرت یا عالمِ طبیعی ایک گزرتا ہوا لمحہ ہے حیاتِ الہیہ میں، اس کا ہونا مستقل بالذات ہے، اس کی اپنی سرشت اور وجود میں داخل، وہ سر تا سر مطلق ہے اور اس لیے ناممکن ہے کہ ہم اس کا کوئی کامل و مکمل تصور کرسکیں۔ قرآن کا ارشاد ہے ’لیس کمثلہ شیئ‘ بایں ہمہ اس نے اسے ’سمیع و بصیر‘ کہا۔ اب ذات یا خودی کے تصور میں سیرت و کردار کا تصور لازم آتا ہے اور عالمِ فطرت جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں مادے کا کوئی ڈھیر نہیں کہ خلا میں پڑا ہو بلکہ حوادث کی ایک ترکیب، ایک باقاعدہ طریقِ کار اور اس لیے ’حقیقی انا‘ سے نامی طور پر وابستہ ہے۔ لہٰذا فطرتِ الہیہ کو ذاتِ الہیہ سے وہی نسبت ہے جو سیرت اور کردار کو ذاتِ انسانی سے۔ ۳۰؎ یہاں علامہ موصوف یہ فرما رہے ہیں کہ فطرت کا خدا سے وہی رشتہ ہے جو سیرتِ انسانی کا انسان سے ہے یعنی سیرت مظہرِ انسان ہے اور فطرت مظہرِ ذاتِ باری ہے۔ ۳۱؎ علامہ اقبالؒ ’اسلامی الہیاتِ کی تشکیلِ نو‘ انگریزی میں لکھتے ہیں: ۳۲؎ I have conceived the Ultimate Reality as an ego; and I must add now that from the ultimate ego only egos proceed. The creative energy of the ultimate ego, in whom deed and thought are identical, functions as ego-unities. The world, in all its details, from the mechanical movement of what we call the atom of matter to the free Movement of thought in the human ego, The self revelation of the "Great I am." Every atom of divine energy, however low in the scale of existence, is an ego. But there are degrees in the expression of egohood. Throughout the entire gamut of being runs the gradually rising note of egohood until it reaches its perfection in man. That is why the Quran declares the ultimate ego to be nearer to man than his own neck-vein. Like pearls do we live and move and have our being in the perpetual flow of divine life. ’ذاتِ الہیہ کا تصور اور حقیقتِ دُعا‘ کی اس عبارت کا ترجمہ یوں ہے: بہرکیف میری رائے میں حقیقتِ مطلقہ کا تصور بطور ایک ’انا‘ ہی کے کرنا چاہیے اور اس لیے میرے نزدیک (اقبال) انیتِ مطلقہ سے انیتوں ہی کا صد ورممکن ہے یا پھر خودی ہی کا صدور ممکن ہے یا پھر دوسرے لفظوںمیں یوں کہیے کہ انیتِ مطلقہ کی تخلیق قدرت کا اظہار جس میں فکر کو عمل کا مترادف سمجھنا چاہیے، ان وحدتوں کی شکل میں ہوتا ہے جس کو ہم ’انا‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا کائنات کا ہر عمل خواہ اس کا تعلق مادی جواہر کی میکانیاتی حرکت سے ہو یا ذاتِ انسانی میں فکر کی آزادانہ کار فرمائی سے سب کی حقیقت بجز ایک عظیم اور برترانا کے انکشافِ ذات کے سوا اور کچھ نہیں، لہٰذا قدرتِ الہیہ کا ہر جوہر خواہ اس کا درجۂ ہستی پست ہو یا بلند، اپنی ماہیت میں ایک ’انا‘ ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس انیت یا خودی کے اظہار کا بھی اپنا اپنا ایک درجہ ہے، بڑا اور چھوٹا۔ سو بزمِ ہستی میں ہر کہیں خودی ہی کا نغمہ لحظہ بہ لحظہ تیز ہورہا ہے اور ذاتِ انسانی میںاپنے معراجِ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی اسی لیے حقیقتِ مطلقہ کو انسان کی رگِ جان سے قریب تر ٹھہرایا کیوںکہ یہ حیاتِ الہیہ ہی کا سیلِ رواں ہے جو ہمارے وجود کا سرچشمہ ہے اور جس میں ہم موتیوں کی طرح پیدا ہوتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ ۳۳؎ یہاں علامہ اقبال اجمالاً کہہ رہے ہیں: یہ عالمِ سالمات مادی کی میکانکی حرکت سے لے کر فکرِ انسانی کی آزاد حرکت تک (یعنی یہ عالم من حیث المجموع) کچھ نہیں مگر انائے کبیر (خدا) کی تجلی کے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم حیاتِ ایزدی (وجودِ حق) کے سمندر میں موتیوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی حیات (وجود حق) سے استفاضۂ وجود کرتے ہیں یعنی حقیقت ایک ہے اور وہ حقیقتِ کبریٰ یا انائے مطلق ہے۔ یہ کائنات انائے مطلق ہی کی جلوہ گری ہے۔ جو ہر آن نئی شان سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ اب یہ کائنات سالمات مادی کی میکانکی حرکت سے لے کر ذہن کی باشعور حرکت تک بذاتِ خود کچھ نہیں مگر انائے مطلق کا جلوہ یا تجلی ہے یعنی ہر تخلیق ایک ’انا‘ ہے ہر ’انا‘ ایک آن اور ایک لمحہ ہے اور ہر آن حقیقت یعنی انائے کبیر کی شان جلوہ گری ہے۔ اب تصوفِ اسلام کی تاریخ میں شیخِ اکبر حضرت محی الدین ابنِ عربی ؒ پہلے محقق ہیں جنھوں نے فتوحاتِ مکیّہ اور فصوص الحکم میں اس حقیقت کو بدلائلِ عقلیہ و نقلیہ مبرہن کیا کہ یہ کائنات حق تعالیٰ کے اسما و صفات کی تجلی کا دوسرا نام ہے۔ مذکورہ بالا بحث کا ماحصل اس طرح ہے جسے علامہ اقبالؒ خطبہ نمبر۳ ’تصورِ الٰہ اور حقیقتِ ذکر و دُعا و نماز‘ میں کہ رہے ہیں کہ میں نے حقیقتِ مطلقہ کا تصور بحیثیت خودیِ مطلق پیش کیا ہے۔ اس کے بعد اس میں اضافہ کرنا ہے کہ خودیِ مطلق سے صرف خودیاںہی نکلتی ہیں۔ خودیِ مطلق کی تخلیقی قدرت جس میں عمل و فکر کی حیثیت یکساں ہے۔ خودی کی اکائیوں کے بطور اپنا فرض انجام دیتی ہے۔ اپنی تمام تفصیلوں کے باوصف ’دنیا‘ اس شے کی مشینی حرکت سے لے کر جسے ہم مادی جوہر کہتے ہیں، انسانی خودی کی فکری تحریک کی آزادی تک، ’انی اناللہ‘ کا ذاتی انکشاف ہے۔ قدرتِ الہیہ کا ہر ذرہ خواہ میزانِ وجود میں کتنا ہی پست حیثیت کا حامل کیوں نہ ہو، ایک خودی ہے، وجود کے تمام سر گم میں اوّل و آخر خودی کی کیفیت کے راگ درجہ بدرجہ الاپے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ انسانی وجود میں پہنچ کر یہ پایۂ کمال کو پالیتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن خودیِ مطلق کے بارے میں آدمی کی شہ رگ سے قریب تر ہونے کااعلان کرتا ہے۔ یہی خودی مطلق ہے جس میں ہم موتیوں کی طرح جیتے اور حرکت پذیر ہوتے ہیں۔ اس میں ہمارا وجود ’واجب الوجود‘ کے دائمی بہائو میں جاگزیں رہتا ہے۔ ۳۴؎ افکارِ اقبال کی وضاحت یوں اقبال اس مقام پر پہنچے کہ وہ حقیقت کو دورانِ محض تصور کریں جس میں زندگی اور اس کے مقاصد باہمی طور پر یوں گھل مل جاتے ہیں کہ ان میں ایک نامی وحدت وجود میں آتی ہے۔ یہ بھی ایک حیاتی تشویق کی مانند ہے جو پیہم تبدیل ہوتی رہتی ہے اور ترقیِ تخلیق کی راہیں تخلیق کرتی ہے مگر وہ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور اس حقیقت کو ذات قرار دیتے ہیں، ایک ایسی ذات جو ہمہ گیر ہے، محسوس و موجود ہے اور ہر انفرادی زندگی اور خیال کا سرچشمہ ہے۔ وہ نابینا نہیں بلکہ عقلی نظام کا ارادہ ہے جس کی تخلیقی فعالیت بے پایاں ہے اور ہر جگہ ایک نئی آن بان سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ اقبال اس کو ایغو یا ’انا‘ قرار دیتے ہیں کیوںکہ وہ ہماری مناجاتوں کو سنتی ہے اور ان کو پورا کرتی ہے۔ ہم اپنے ذہن سے بلاواسطہ اور فوری طور پر آشنا ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے ذہنوں سے ہماری آشنائی استنباطی ہوتی ہے۔ ہم تکلم کرتے ہیں، اشاروں کنایوں سے کام لیتے ہیں تو محض اس لیے کہ اپنے آپ کو ظاہر کر پائیں۔ جب ہم دوسروں کو یوں ہی بات کرتے اور اشارے کرتے دیکھتے ہیں تو یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ بھی اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کہ ان کے بھی ذہن ہیں۔ اس سادہ سی بات کی بنیاد پر اقبال یہ استدلال کرتے ہیں کہ حقیقتِ اولیٰ کو بھی ایغو ہونا چاہیے کہ وہ ہماری پکار سنتی ہے اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ قرآن پاک اس بارے میں بیان کرتا ہے: ’’وقال ربکم ادعونی استجب لکم‘‘ ۳۵؎ حقیقتِ اولیٰ یا حقیقتِ مطلقہ کو ایغو یا ’انا‘ قرار دینے سے یہ مراد نہیں کہ ہم خدا کو انسانی تصویر کے سانچے میں ڈھال دیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ وجدان، زندگی کو مرتکز ایغو کی حیثیت سے منکشف کرتا ہے۔ یہ تو محض زندگی کی سیدھی سادی واقعی شے کو تسلیم کرتا ہے کہ زندگی ایک سیال بے صورت شے نہیں بلکہ وحدت کا اصولِ ناظمہ ہے، ایک تالیفی فعالیت ہے جو عضویاتِ نامی کی مائل بہ انتشار طبائع کو یک جا کردیتی ہے تاکہ اس سے کوئی تعمیری کام لے سکے۔ حقیقت جو کہ معقول طور پر کار فرما ہے، روحانی ہے اور تخلیقی ایغو ہے۔ صرف ماورائے کائنات ہی نہیں بلکہ محیطِ کائنات بھی ہے۔ وہ کائنات اور انسان سے ہم کنار ہونے کے باوصف ان سے بالا ہے۔ وہ خالصتاً ارسطو کے ماورائی خدا کی مانند بھی نہیں جو حیات کے سارے ارتقائی عمل سے باہر ہے اور اس کے نشیب و فراز سے اُسے کوئی تعلق اور دلچسپی نہیں۔ اس کے برعکس قرآن اسے انسان کی شہ رگ سے نزدیک قرار دیتا ہے، اگرچہ قربتِ مکانی نہیں۔ وہ ان سے محبت کرتا ہے جو اُسے چاہتے ہیں اور ان کی صدا سنتا ہے جو اُسے پکارتے ہیں۔ ’’قل ھو اللہ احداللہ الصمد لم یلدولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد‘‘ ان آیات میں قرب اور ُبعد دونوں کو بہ کمالِ حسن و خوبی یک جا کردیا گیا ہے۔ ان میں خدا اور کائنات کے مابین بڑے قریبی رشتے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ خدا ہی ہے جس کی ہر شے محتاج ہے۔ ہر چند کہ ہر شے اُسی کے وسیلے سے لباسِ وجودسے آراستہ ہوتی ہے لیکن کوئی شے اُس کی مثال نہیں اور وہ ہر شے سے ماورا ہے۔ وہ محیطِ کل ہے کیوںکہ ہر شے میں موجود ہے خصوصاً روحِ انسانی میں کہ وہ خدا ہی کی روح تھی جو انسان میں پھونکی گئی۔ وہ اس کائنات کی تخلیق و ترقی کے لیے انسان سے مل جل کر کام کرتا ہے اور اس کا تعاون چاہتا ہے اور یہ کائنات اس کے لیے غیر کا حکم نہیں رکھتی جس چیز کو ہم فطرت یا غیر ذات کہتے ہیں وہ تو اس کی زندگی کا ایک لمحہ اور پیہم تخلیقی فعالیت کا صرف اظہار ہے۔ کہن دیرے کہ بینی مشتِ خاک است دمے از سرگزشتِ ذاتِ پاک است مختصر طور پر حقیقت کے بارے میں اقبال کا نقطۂ نظر قرآن کی ان آیات کے ذریعے بخوبی بیان کیا جاسکتا ہے:۔ ’’ھوالاول والآخرو الظاہر والباطن‘‘ ۳۶؎ سارے کا سارا ارتقا اسی ایک وحدت سے شروع ہوا جس نے اپنے آپ کو کثرت میں ظاہر کیا اور آخر کار ارتقا اسی منزل پر پہنچ جائے گا جہاں سے اس کا آغاز ہواتھا۔ ’’وان الیٰ ربک المنتھیٰ‘‘ ۳۷؎ چنانچہ علامہ اقبال اپنے انگریزی خطبات میں لکھتے ہیں: ۳۸؎ The question of creation once arose among the disciples of the well-known saint Ba Yazid of Bistam. One of the disciples very pointedly put the commonsense view saying; "there was a moment of time when God existed and nothing else existed beside Him. The saint's reply was equally pointed." It is just the same now, said he, "as it was then". The world of matter, therefore, is not stuff coeternal with God. Operated upon by Him from a distance as it were. It is, in its real nature, one continuous act, which thought breaks up into a plurality of mutually. ایک دفعہ بایزید بسطامیؒ کے مرید تخلیقِ کائنات کے موضوع پر بحث کررہے تھے۔ ایک مرید نے کہا کہ ایسا وقت بھی تھا جب خدا کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی یعنی جب اللہ ہی موجود تھا اور کسی اور شے کی نشانی نہ تھی۔ بایزید بسطامیؒ نے جواب دیا، اب بھی وہی ہے جیسا پہلے تھا یعنی خدا کے سوا کوئی حقیقی طور پر موجود نہیں۔ چنانچہ دنیائے مادہ میں خدا کے ساتھ ابدیت بکنار کوئی شے نہیں یعنی اس طرح زمان و مکان اور مادہ خدا کے مقابلے میں بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔ مادی دنیا شروع ہی سے خدا کے مقابل کی حیثیت سے موجود نہیں اور نہ ہی خدا دور بیٹھ کر اس پر اثر انداز ہورہا ہے دراصل فطرت کے لحاظ سے وہ ایک عمل ہے جسے فکر باہمی طور پر مخالف اشیا کی کثرت میں تقسیم کردیتا ہے۔ ۳۹؎ برسرایں باطل حق پیرہن تیغِ ’’لاموجود الاھو‘‘ بزن (اس باطلِ حق نما کے سر پر لاموجود الاھو (توحید) کی تیغ چلا۔) پیامِ مشرق میں علامہ لکھتے ہیں: نم در رگِ ایام زاشک سحرِ ماست ایں زیر و زبر چیست؟ فریبِ نظرِ ماست (رگِ ایام کی نمی ہمارے صبح کے آنسوئوں سے ہے یہ پست و بالا کیا ہے؟ ہماری نظر کا فریب ہے) کائنات فریبِ نظر ہے یعنی اس کا وجود حقیقی نہیں ہے، یہی وحدت الوجود ہے۔ ارمغانِ حجاز کی رباعی پیشِ خدمت ہے: تو اے ناداں! دلِ آگاہ دریاب بخود مثلِ نیا گاں راہ دریاب (اے ناداں! تو دل آگاہ حاصل کر اور اپنے بزرگوں کی مانند اپنے آپ تک رسائی حاصل کر) چساں مومن کند پوشیدہ را فاش ’’ز لا موجود الا اللہ‘‘ دریاب (مومن پوشیدہ رازوں کو کس طرح فاش کرتا ہے یہ نکتہ لا موجود الا اللہ سے سیکھ) ’وحدت الوجود‘ کے مطابق حقیقی معنی میں صرف اللہ ہی موجود ہے (لاموجود الا اللہ) خارج میں یعنی کائنات کا وجود حقیقی نہیں بلکہ ظلی ہے جو بظاہر موجود و مشہود ہے مگر اس پر وجود کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ وجود صرف ذاتِ واجب میں منحصر ہے۔ پیامِ مشرق کی رباعی ملاحظہ کریں: کرا جویی چرا در پیچ و تابی کہ او پیدا است تو زیرِ نقابی (کسے ڈھونڈتے ہو کیوں پیچ و تاب میں ہو؟ (خدا کی طرف اشارہ) وہ تو ظاہر ہے تم خود زیرِ نقاب ہو (انسان سے کہا ہے) تلاشِ اوکنی جز خود نہ بینی تلاشِ خود کنی جز او نیابی (اس کی تلاش کرو گے تو اپنے سوا اور کچھ نہیں دیکھو گے اپنی تلاش کرو گے تو اس کے سوا کسی اور کو نہیں پائو گے) ذاتی رائے رجحان طبع پر موقوف ہے میں چونکہ ’’وحدت الوجود‘‘ کا قائل ہوں، لازمی نہیں کہ دوسرے لوگ بھی میرے ان خیالات سے متفق ہوں۔ ایک فاضل محقق جس نے زندگی کا بیشتر حصّہ مغربی و مشرقی فلسفہ و تصوف کے مطالعے میں گزارا، اس نے نتیجہ خیز حسبِ ذیل بات کہی جو کہ اس کے مطالعے کا نچوڑ ہے۔ تمام مدارسِ فکر میں ’تصوریتِ مطلقہ‘ اقرب الی الصواب ہے۔ مسائلِ حیات و کائنات کا تشفی بخش حل تو کسی مدرسۂ فکر میں موجود نہیں ہے۔ جب ذہن انسانی آخری ’کیوں‘ کی منزل پر پہنچتا ہے تو اس کا جواب کسی ’ازم‘ کے پاس نہیں ہے۔ نہ تصوریت (Idealism) کے پاس ہے اور نہ واقعیت (Realism) کے، نہ اثباتیت (Positivism) کے پاس ہے اور نہ مادیت (Materialism) کے پاس ہے اس لیے لسان الغیب نے ہمیشہ یہ مشورہ دیا: حدیث از مطرب و مے گو و رازِ دہر کمتر جو کہ کس نکشود و نکشاید حکمت ایں معمارا ان تمام مدارسِ فکر میں دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کہ کون سا نظامِ فکر اقرب الی الصواب ہے، یعنی کون سا فلسفہ مسائلِ حیات و کائنات کی مقابلتاً زیادہ تسلی بخش تشریح کرسکتا ہے۔ اب جس شخص کو جو فلسفہ پسندِ خاطر ہوتا ہے وہ اسے دوسرے مدارسِ فکر پر ترجیح دیتا ہے، یعنی اسے قبول کرتا ہے اور اس کا حامی بن جاتا ہے۔ فی الجملہ یہ ذاتی رائے یا رجحانِ طبع پر موقوف ہے، مثلاً ایک شخص تصوریت کو اقرب الی الصواب سمجھتا ہے دوسرا اس کے برعکس خارجیت کو اقرب خیال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اب تک صدہا مدارسِ فکر قائم ہوچکے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ جب تک تمام انسانوں کا زاویۂ نگاہ ایک نہ ہوجائے، بنی آدم کسی ایک کے فلسفے پر متفق نہیں ہوسکتے اور چوںکہ ایسا ہونا فطرتِ انسانی کے خلاف ہے اس لیے یہ اختلاف قیامت تک قائم رہے گا۔ ہر کس بخیالِ خویش خبطے دارد شیخ ابنِ عربی کا نظامِ فلسفہ میں یہ بات علی وجہ البصیرت سپردِ قلم کررہا ہوں کہ خالص ’مابعد الطبیعیاتی زاویۂ نگاہ‘ سے فلسفے کا جو نظام شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ نے مدوّن کیا ہے اس سے بہتر نظام نہ افلاطون پیش کرسکا، نہ شنکر اچاریہ، نہ سپائی نوزا، نہ ہیگل، نہ بریڈ لے۔ یہ اعتراف تو میں پہلے کر چکا ہوں کہ فلسفے کا کوئی نظام بہ ہمہ وجوہ مکمل نہیں ہے۔ آخری ’سوال‘ یا آخری ’کیوں‘ کا جواب کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ شیخِ اکبرؒ کا فلسفۂ حیات و کائنات سب سے زیادہ تسلی بخش ہے۔ خدا، انسان اور کائنات کی اس سے بہتر توجیہ آج تک کسی فلسفی نے نہیں پیش کی ہے۔ شیخِ اکبرؒ بہت بڑے فلسفی بھی ہیں۔ انیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی ہوئے انھوں نے قاضی مبارک پر جو حاشیہ لکھا ہے اگر صرف اسی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہوجائے تو انگلستان کے علما کو یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کا کوئی منطقی اس ہندی عالم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ۴۰؎ نتیجۂ بحث وحدت الوجود کے معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہستی یعنی واجب الوجود حقیقی معنوں میں موجود ہے اور یہ کائنات اس کی ذات و صفات کی مظہر ہے اور اس کا وجود مستقل بالذات اور حقیقی نہیں بلکہ عطائے خداوندی ہے۔ باالفاظِ دیگر کائنات اپنے وجود اور اپنی بقا کے لیے ہر آن خدا کی محتاج ہے۔ ۴۱؎ اب حقِ تعالیٰ کے وجود کے سامنے ہم جیسے دنیا دار اور بے عقل اپنے وجود کو الگ وجود اپنی صفات یا کمال کو الگ اور مستقل صفات یا کمال مان لیں تو مان لیں ورنہ انصاف یہ ہے کہ جب نہ وجود اپنا، نہ کوئی وصف و کمال اپنا اور نہ ان کو اپنے اندر باقی رکھنا اپنے بس میں تو آخر یہ کیا عقل کی موت نہیں ہے کہ پھر بھی اپنے وجود کو الگ اور اپنے کسی وصف و کمال کو اپنا مستقل وصف و کمال سمجھیں۔ ایسی صورت میں صحیح صاحبِ احساس و ایمان اور صاحبِ عقل و عدل اشخاص نے اپنے کو غیر وجود اور حقِ تعالیٰ کو موجود، اپنے کو لاشے محض اور حقِ تعالیٰ کو اصل وجود جانا اور مانا۔ یہی صورت وحدت الوجود کہلاتی ہے کہ وجود ذاتِ حق میں منحصر و محدود رکھا جائے اس کے علاوہ کسی دوسرے کا وجود تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ اسلامی وحدت الوجود مختلف اقوام و مذاہب اورحکما فلاسفہ کی نظر میں وحدت الوجود کے معنی و مفہوم مختلف رہے ہیں اور قدیم حکما و فلاسفہ کا وحدت الوجود جو سراسر مادہ پرستی ہے یا ویدانیت کا رہبانی وحدت الوجود جس کی بنیاد ہمہ اوست، فنائے مطلق، کائنات کی نفی، تعطل اور ترکِ عمل پر ہے۔ یہ نہ صرف اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے بلکہ اس سے دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ لیکن اکابر محققین صوفیہ جس وحدت الوجود کے قائل ہیں وہ تمام خرابیوں سے پاک اور عینِ حق ہے۔ ۴۲؎ چنانچہ شیخِ اکبر امام محی الدین ابنِ عربی ؒ (م ۶۳۸ھ/ ۱۲۴۰ئ) فتوحاتِ مکیّہ میں اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ کمزور، مسکین، اللہ کا فقیر بندہ جو اس کتاب (فتوحاتِ مکیّہ) کا مصنف ہے تم لوگوں کو اپنے نفس پر گواہ بناتا ہے کہ وہ قول و عمل سے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خدائے واحد ہے۔ اس کی الوہیت اورخدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ بیوی بچے سے منزہ و پاک ہے۔ وہ ایسا مالک ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ایسا بادشاہ ہے جس کا کوئی وزیر نہیں۔ ایسا صانع اور بنانے والا ہے جس کے ساتھ کوئی دوسرا انتظام و تدبیر کرنے والا نہیں۔ وہ موجود بذاتہٖ ہے۔ اسے کسی موجد کی ضرورت نہیں جو اسے وجود بخشے بلکہ اس کے ماسوا ہر موجود اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔ پورا عالم اسی کے ذریعے موجود ہے۔ صرف تنہا وہی ہے جس کی یہ صفت ہے کہ وہ موجود لنفسہٖ ہے۔ نہ تو اس کے وجود کی ابتدا ہے اور نہ ہی اس کی بقا کی انتہا۔ وہ وجودِ مطلق اور غیر مقید ہے۔ نیز فتوحاتِ مکیّہ باب دوم میں لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ بذاتہٖ لذاتہٖ موجودِ مطلق اور غیر مقید وجود ہے۔ وہ نہ کسی سے معلول اور نہ وہ کسی چیز کے لیے علت ہے بلکہ معلولات اور علتوں کا وہ خالق ہے۔ وہ ازلی بادشاہ ہے۔ یہ عالم اللہ تعالیٰ کے ساتھ موجود ہے۔ عالم نہ بنفسہٖ اور نہ لنفسہٖ ہے بلکہ وجودِ حق کے ساتھ فی ذاتہٖ مقید الوجود ہے۔ اسی باب میں آگے جا کر آپ لکھتے ہیں: عقل کوئی ایسی چیز دریافت نہیں کرتی جس میں یہ اشیا موجود نہ ہوں اور یہ اشیا اللہ تعالیٰ میں پائی نہیں جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو عقل و نظر و بحث کی وجہ سے ہرگز نہیں پاسکتا۔ عقل خدا کو نظر اور دلیل سے کس طرح جان سکتا ہے جس کی طرف حس، ضرورت اور تجربے کا اسناد ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان اصولوں کے ساتھ جن کی طرف عقل اپنی برہان و دلیل میں رجوع کرتا ہے، دریافت نہیں ہوسکتا۔ اس وقت اس کے لیے برہانِ وجودی درست ہوتی ہے۔ عاقل کس طرح دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو دلیل کی جہت میں جان لیا ہے اور مجھ کو معلوم ہوگیا ہے۔ اگر وہ صناعیت، طبیعت، تکوینیت، انبعاثیہ اور ابداعیہ کی مفعولات کی طرف نظر کرے اور ان میں سے ہر ایک کا اپنے فاعل کے ساتھ جہل ملاحظہ کرے تو اس کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ دلیل کے ساتھ ہرگز کبھی معلوم نہیں ہوسکتا لیکن اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ موجود ہے اور عالم اس کا ذاتی محتاج ہے جس سے اس کے لیے کوئی جائے گریز نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’یایھاالناس انتم الفقراء الی اللہ ط واللہ ھو الغنی الحمید‘‘ یعنی اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور صرف اللہ تعالیٰ ہی بے نیاز و ستودہ صفات ہے پس جو شخص توحید کا مغز چاہتا ہے تو وہ (قرآن کریم کی ان آیات کو ملاحظہ کرے جن میں اس نے اپنی توحید بیان فرمائی ہے۔) نتیجہ ابنِ عربی اور علامہ اقبالؒ نے جو تصورِ خدا پیش کیا ہے وہ تشبیہ (Immanence) اور تنزیہ (Transcedence) دونوں کی آمیزش رکھتا ہے یعنی علامہ موصوف کے ہاں تنزیہ بھی موجود ہے اور تشبیہ بھی، خدا اس کائنات میں جاری و ساری بھی ہے اور اس کائنات سے علاحدہ وہ ایک ذات اور وجود بھی ہے۔ جب ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ خدا علیم و خبیر و بصیر بھی ہے تو لامحالہ اس کا اس کائنات میں سریان کسی نہ کسی حیثیت میں تسلیم کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ جس طرف منہ کرو گے اللہ کے چہرے کو اپنے سامنے پائو گے۔ جہاں دو افراد ہوں وہاں تیسرا خدا ہے جہاں تین افراد ہوں وہاں چوتھا خدا ہوگا۔ خدا کا ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اس نتیجے کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں جاری و ساری ہے۔ اس کے باوجود وہ انسان سے علاحدہ اور اس کائنات سے ماورا ایک علاحدہ وجود رکھتا ہے۔ اب سریان و ماورائیت کی یہ آمیزش عقلِ انسانی سمجھنے سے قاصر ہے۔ اللہ قادر مطلق ہے اُس سے کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔ توحیدی ادیان کا نظریۂ خدا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ ایک ہی وقت میں سریانی بھی ہے اور ماورائی بھی۔ حوالے اور حواشی ۱ خالد مسعود، ڈاکٹر اقبال کا تصورِ اجتہاد، حرمت، راولپنڈی، ۱۹۸۵ء ،ص ۔۱۴۶ ۲ محمد اقبال، ڈاکٹر، علامہ، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ، اردو ترجمہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۵۸ء ۔دیباچہ ۳ ایضاً، ل۔م ۴ آصف جاہ، ڈاکٹر، اقبال کا فلسفۂ خودی، نیازی، نذیر، سیّد اردو ترجمہ، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، ۱۹۷۷ئ۔ ص۔ ۱۱۔ بزمِ اقبال لاہور، ۱۹۵۸ئ، ا۔ح ۵ جلال پوری، علی عباس، سیّد، اقبال کا علم الکلام، اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، جلد نمبر۱۴/ ۱، مکتبۂ فنون لاہور، ص۔ ۱۷، دانش گاہ پنجاب لاہور، ۱۹۸۰ئ، ص۔ ۱۱۰ ۶ ایضاً، ص۔ ۱۰۹۔ ۱۱۰ ۷ ایضاً، ص۔ ۷۴ ۸ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، جاوید نامہ، اردو ترجمہ، میاں عبدالرشید، لاہور، ۱۹۹۲ء ،ص ۔۳۷۸ ۹ محمد اقبال ڈاکٹر، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ ،اردو ترجمہ سیّد نذیر نیازی بزم ِلاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۔ ۲۸۰۔۲۸۱ ۱۰ گلزار احمد صوفی، کشافِ اصطلاحاتِ نفسیات، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۹۳ء ،ص۔ ۲۷۱ ۱۱ فکر و نظر، اقبال نمبر، ’کیا مذہب ممکن ہے؟‘ کرار حسین، ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد،شمارہ ۶۔۵، جلد نمبر۱۵، ذوالحجہ ۱۳۹۷ء ھ، محرم ۱۳۹۸ھ، نومبر، دسمبر ۱۹۷۷ئ۔ ۱۲ ابنِ عربی، محی الدین، شیخِ اکبر، اردو ترجمہ فصوص الحکم، مترجم صوفی عطا محمد، ڈھڈی والا کلاں، لاہور روڈ، فیصل آباد، ۱۳۸۷ھ۔ اسرار القدم من فصوص الحکم، ص۔ ۱۹۶۔ ۲۰۸ ۱۳ نقوش، اقبال نمبر، اقبال، گلشنِ راز قدیم اور جدید، میکش اکبر آبادی ، لاہور، ۱۹۷۷ء ،ص۔ ۳۱۶ ۱۴ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر،دیری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص۔ ۱۸۳ ۱۵ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص۔ ۶۵ ۱۶ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر،تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ، اردو ترجمہ سیّد نذیر نیازی، لاہور، ۱۹۵۸ء ،ص۔ ۱۰۰ ۱۷ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر، اردو ترجمہ، ڈاکٹر محمد سمیع الحق، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۱۹۹۴ئ، ص۔ ۷۴ ۱۸ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، گلشنِ راز جدید، اردو ترجمہ ، ڈاکٹر الف۔ د۔ نسیم، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، ص۔ ۱۵۴ ۱۹ ابنِ عربی، محی الدین، شیخِ اکبر، فتوحاتِ مکیّہ جلد اوّل، باب ۷۳، دارصادر، بیروت، ص۔ ۳۷۰ ۲۰ محولہ بالا، جلد نمبر ۲، ص۔ ۵۵۴ ۲۱ فیض، مولانا، فیض احمد، مہرِ منیر، پاکستان انٹرنیشنل پرنٹر لمیٹڈ، ۱۱۸، جی روڈ،باغبان پورہ، لاہور، ص۔ ۴۶۸ ۲۲ محسن جہانگیری، ڈاکٹر محی الدین ابنِ عربی، حیات و آثار، اردو ترجمہ، مطبوعہ، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۹ئ، ص۔ ۵۲۶ ۲۳ محولہ بالا، ص۔ ۵۳۴ ۲۴ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، گلشنِراز جدید، اردو ترجمہ، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور ، ص۔ ۱۳۷۔۱۳۸ ۲۵ عطاء محمد، صوفی، تفسیر برزخ جامع، فیصل آباد، ۱۳۸۶ئ، ص۔ ۴۴۔۴۵ ۲۶ اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ، جلد نمبر ۱۴/ ۱، دانش گاہ، پنجاب، لاہور، ۱۹۸۰ئ، ص۔ ۱۳۲۔۱۳۳ ۲۷ نقوش، اقبال نمبر جلداوّل، ’’اقبال اور ابنِ عربی‘‘، از، ڈاکٹر سیّد عبداللہ، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص۔ ۱۲۱ ۲۸ برہان احمد، فاروقی، ڈاکٹر، مجدد الف ثانی کا نظریۂ توحید، لاہور، ۱۹۷۴ئ، ص۔ ۱۱۹ ۲۹ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص۔ ۵۶ ۳۰ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۔ ۸۶ ۳۱ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، تفکیرِ دین پر تجدیدِ نظر، اردو ترجمہ، دہلی، ۱۹۹۴ئ، ص۔ ۶۵ ۳۲ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام، لاہور، ۱۹۹۹ء ، ص۔۷۱۔۷۲ ۳۳ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، تشکیلِجدید الہیاتِ اسلامیہ، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۔ ۱۰۹۔۱۱۰ ۳۴ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر، اردو ترجمہ، دہلی، ۱۹۹۴ئ، ص۔ ۷۹ ۳۵ سورۂ مومن، آیت نمبر ۶۰ ۳۶ سورۂ حدید، آیت نمبر ۳ ۳۷ سورۂ نجم آیت نمبر ۴۲ اور فلسفۂ اقبال، مرتبہ، بزمِ اقبال، لاہور، مقالۂ ’اقبال اور برگساں‘ از بشیر احمد ڈار، بزمِ اقبال، کلب روڈ، لاہور، ۱۹۷۰ئ، ص۔ ۱۶۶۔۱۶۷۔۱۶۸ ۳۸ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص۔ ۶۵ ۳۹ محمد اقبال، علامہ، ڈاکٹر، تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر، دہلی، ۱۹۹۴ئ، ص۔ ۷۴ ۴۰ نارنگ، گوپی چند، ڈاکٹر، ارمغانِ مالک جلد اوّل، نئی دہلی ،۱۹۷۱ئ، ص۔ ۸۲۔۸۷۔۳۸۶ ۴۱ رامپوری، عبداسلام، ابنِ عربی کا نظریۂ وحدت الوجود، بحوالہ، نذرِ ذاکر، مجلسِ ذاکر، نئی دہلی، انڈیا، ۱۹۶۸ئ، ص۔ ۱۰۔۱۱، ابنِ عربی محی الدین، فتوحاتِ مکیہ (عربی)، بیروت، ص۔ ۱۱۔۳۱۰ ۴۲ دائرۂ معارف، ۷۲ جلد، معارف پریس، اعظم گڑھ، ۱۹۵۳ئ، ص۔ ۴۷۹  کیا فکرِ اقبال مُستعار ہے؟ پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر ۱ ڈاکٹر آر اے نکلسن (Reynold A. Nicholson) کا اقبالیات میں اہم مقام ہے۔ انھوں نے اسرارِ خودی کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کے ساتھ جو دیباچہ تھا اسے وسعت دے کر، ایک الگ مضمون کی صورت میں، جولائی ۱۹۲۰ء میں The Quest لندن میں شائع کرا دیا۔ ۱؎ ڈاکٹر نکلسن کا انگریزی ترجمہ اور یہ مضمون بعنوان: The Secrets of the Self: A Muslim Poet's Interpretation of Vitalism یورپ اور امریکا میں علامہ اقبال کی شہرت کا باعث بنا۔ اقبال پر لکھنے والے دوسرے مستشرقین نکلسن کے تبصرے سے راہنمائی حاصل کرتے رہے۔ ۱۹۲۰ء اور ۱۹۲۱ء کے دوران میں اسرارِخودی پر جو ریویو شائع ہوئے، ان میں ای ایم فوسٹر (E.M. Foster)، ایل ڈکنسن (L. Dickinson)، ای جی برائون (E.G. Browne) اور ہربرٹ ریڈ (Herbert Read) کے ریویو شامل ہیں۔ ان سب نے پروفیسر نکلسن کی رائے سے استفادہ کیا ہے۔ چنانچہ ہربرٹ ریڈ لکھتے ہیں : آج جب کہ ہمارے مقامی متشاعر اپنے بے تکلف احباب کے حلقے میں بیٹھے، کیٹس کے تتبع میں، کتے بلیوں اور ایسے ہی گھریلو موضوعات پر طبع آزمائی کررہے ہیں تو ایسے میں لاہور میں ایک ایسی نظم تخلیق کی گئی ہے جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی نوجوان نسل میں طوفان برپا کردیا ہے اور ان میں سے ایک کے بقول: اقبال ہمارے لیے مسیحا بن کر آیا ہے اور اس نے مُردوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی ہے۔ ۲؎ یہاں جس بتانے والے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ڈاکٹر نکلسن ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ڈاکٹر نکلسن ہی کی ایک غلطی مسلسل پھیلنے والی ایک غلط فہمی کا سبب بن گئی۔ نکلسن نے لکھا تھا کہ اقبال کا فلسفہ بڑی حد تک نطشے اور برگساں کا مرہونِ منت ہے۔ جس اقتباس میں یہ فقرہ آیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہے: ۳؎ Iqbal has drunk deep of European literature, his philosophy owes much to Neitzche and Bergson, and his poetry often reminds us of Shelley; yet after all he thinks and feels as a Moslem, and just for this reason his influenee on the younger generation of Indian Moslems is likely to be great. "His name", says one of them, "is the synonym for promise and prophecy. He has come amongst us as a Messiah and has stirred the dead with life." نکلسن کا مذکورہ جملہ مغرب میں ایک حد تک لیکن برِعظیم میں بڑی حد تک مخالفینِ اقبال کا تکیۂ کلام بن گیا۔ اقبال شناسی میں اضافے کے ساتھ ساتھ پروفیسر نکلسن اپنے اس موقف سے دستبردار ہوتے گئے لیکن اس جملے کو معترضینِ اقبال نے مضبوطی سے پکڑ لیا اور مختلف انداز سے اسے اب تک دہرا رہے ہیں۔ ڈاکٹر نکلسن نے اپنے دیباچے میں اقبال کا ایک وضاحتی بیان شامل کیا تھا جس میں اقبال نے ’مثالی انسان‘ کے تصور پر روشنی ڈالی ہے۔ اس بیان میں نطشے کا ذکر اس طرح آیا ہے:۴؎ Thus the kingdom of God on earth means a democracy of more or less unique individuals, presided over by the most unique individual possible on this earth. Neitzsche had a glimpse of this ideal race, but his a atheism and his aristocratic prejudices marred his whole conception. اقبال کے نزدیک نطشے کا تصور اس کے الحاد اور اعلیٰ نسبی تعصبات کی نذر ہوگیا۔ اس کے باوجود نکلسن نے وہ فقرہ لکھا جو اوپر درج ہوا ہے۔ یہ جملہ اس مضمون میں بھی موجود ہے جو جولائی ۱۹۲۰ء میں The Quest میں شائع ہوا۔ تاہم اس مضمون میں نکلسن نے آگے چل کر اقبال اور نطشے کا موازنہ کیا ہے اور نطشے سے اقبال کی مشابہت کو سطحی قرار دیا ہے۔ نکلسن لکھتے ہیں: ۵؎ Iqbal, I am told, does not admit that he has been influenced by Neitzsche, and it is easy to see why. Although some times,........ his Perfect Man appears to be closely akin to the Uebermensch of the German philosopher, the points of resemblance only are superficial. Iqbal says: "Be tyrant" but he adds: "Ignore all except God." The exception is all important. Neitzche would not have made it; he would have said: "Ignore all except thy will to power." The Muslem poet acknowledges the authority of law, morality and religion as revealed in the Koran; he feels that his inner strength is derived from love of God and developed by love of man. اس تحریر کے بعد نکلسن نے مثالی انسان کے بارے میں علامہ اقبال کا وضاحتی بیان نقل کیا ہے جس کے آخر میں اقبال نے نطشے کے الحاد اور اشرافی تعصبات پر گرفت کی ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال کے موقف سے پروفیسر نکلسن متفق دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود مذکورہ فقرہ جو نکلسن نے لکھ دیا تھا، برابر گل کھلاتا رہا۔ اسرارِ خودی پر ای ایم فوسٹر کا تبصرہ اتھینیم میں ۱۰؍ دسمبر ۱۹۲۰ء کو شائع ہوا۔ اس تبصرے کے بعض حصّے معترضانہ ہیں۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ اقبال نطشے سے متاثر ہوئے اور نطشے نے سپرمین کا جو ناصاف تخیل پیش کیا، اس کی راہنمائی میں اقبال بھی منازلِ حیات طے کرنا چاہتے ہیں، فوسٹر نے لکھا ہے کہ یورپ میں بحیثیت معلمِ اخلاق نطشے کا کوئی مرتبہ نہیں ہے۔ نیز فوق البشر بننے میں خرابی یہ ہے کہ آپ کے ہمسائے آپ کو دیکھتے ہیں اور وہ بھی سپرمین بننے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ جرمنی کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے۔ اقبال نہ صرف اس تصور کے علم بردار ہیں بلکہ اسے قرآن سے ملا دیا ہے۔ اس کے لیے صرف دو ترمیموں کی ضرورت تھی۔ اشرافی تعصب اور الحاد کی بنیاد پر اقبال نطشے کی مذمت کرتا ہے جب کہ اقبال کا فوق الانسان معاشرے کے کسی بھی طبقے سے ابھر سکتا ہے اور اس کے لیے خدا کو ماننا ضروری ہے۔ اس کے بعد نطشے اور اقبال میں کوئی فرق نہیں۔ ۶؎ اسرارِ خودی پر ڈکنسن کا ریویو ۲۴؍ دسمبر ۱۹۲۰ء کو دی نیشن لندن میں شائع ہوا۔ یہ تبصرہ مخالفانہ ہے۔ اقبال کو پین اسلامسٹ تصور کرتے ہوئے ڈکنسن نے لکھا ہے کہ اگر متحدہ مشرق (یعنی عالمِ اسلام) مسلح ہوگیا تو وہ مغرب کو فتح کرے گا۔ برگساں اور میک ٹیگرٹ کے اقبال پر اثرات کا ذکر کرنے کے بعد ڈکنسن نے نطشے کے اثر کا ذکر اس طرح کیا ہے: ۷؎ But the strongest influence is Neitzsche. The doctrine of hardness of individuality, of the need of conflict and the benefit of an enemy run all through the poem. علامہ اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کے نام اپنے ایک مکتوب (جنوری ۱۹۲۱ئ) میں فوسٹر اور ڈکنسن کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا۔ نکلسن کو اقبال کا موقف صائب محسوس ہوا، چنانچہ کم و بیش چار برس بعد پیامِ مشرق پر اپنے تبصرے میں حسبِ ذیل رائے پیش کی: ۸؎ The affinities with Nietzsche and Bergson need not be emphasised. یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پروفیسر نکلسن آخر کار اپنی ابتدائی رائے سے کلی طور پر دست بردار ہوگئے: ۶؍ نومبر ۱۹۳۱ء کو اقبال لٹریری ایسوسی ایشن نے لندن میں ایک مخصوص اجلاس کا انتظام کیا۔ اس میں کم و بیش چار سو اکابرِ علم شریک تھے۔۔۔۔۔ ابتدائی تقریر ڈاکٹر نکلسن نے کی اور کہا کہ پچیس برس پیشتر کسی طالب علم کے متعلق یہ پیش گوئی کرنا مشکل تھا کہ وہ آگے چل کر عظمت کی بلندیوں پر پہنچے گا لیکن ۱۹۰۵ء میں اقبال کو دیکھ کر سعدیؔ کا یہ شعر ذہن میں تازہ ہوجاتا تھا: بالائے سرش زہوش مندی/ می تافت ستارۂ بلندی۔ اسرارِ خودی شائع ہوئی تو میں ابتدا میں سمجھا کہ اقبال دوسرا نطشے ہے یا اس نے نطشے کے خیالات کا چربہ اتارا ہے لیکن میں عمیق مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ بالکل الگ تعلیم ہے۔ ۹؎ پروفیسر نکلسن کے اس اعتراف اور وضاحت کے باوجود تصورِ خودی کو نطشے کا مرہونِ منت قرار دیا جاتا رہا۔ چنانچہ ۱۹۳۷ء کی گرمیوں میں علامہ اقبال نے سیّد نذیر نیازی کو ایک نوٹ قلم بند کرایا جس میں اپنی اور نطشے کی مشابہت کو سطحی قرار دیتے ہوئے اسرارِ خودی اور نطشے کے فلسفے کو متضاد قرار دیا۔ اقبال نے وضاحت کی کہ ’انسانِ کامل‘ کا فلسفہ یورپ میں نیا ہے لیکن اسلامی دنیا میں نیا نہیں اور عین ممکن ہے کہ نطشے نے اپنا تصور اسلام یا مشرق سے لیا ہو لیکن اسے اس نے اپنی مادّہ پرستی سے مسخ کردیا۔ ۱۰؎ علامہ اقبال کی مذکورہ تینوں تحریروں اور بحیثیتِ مجموعی اقبال کے نائبِ حق اور نطشے کے سپرمین کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مشابہت واقعی سطحی ہے اور اختلاف بنیادی نوعیت کا ہے۔ اس مشابہت اور اختلاف کی مثال حضرت موسیٰؑ اور فرعون کی شخصیات ہیں۔ مغربی فکر سے استفادہ اور مغربی فکر پر تصورِ خودی کا منحصر ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔ اقبال کے مطالعے اور استفادے کی حدود و سیع ہیں لیکن اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی ان کے نزدیک خودی کے منافی ہے۔ یہ تکرار کہ علامہ اقبال نطشے اور برگساں کے مرہونِ منت ہیں، مغرب میں کم اور مشرق میں زیادہ ہوتی گئی۔ جن صاحبانِ علم نے بغیر کسی تعصب کے مغربی فکر، مشرقی فکر اور فکرِ اقبال کا دقتِ نظرسے مطالعہ کیا، انھوں نے اس الزام کو کوتاہ بینی پر مبنی قرار دیا ہے۔ لوس کلوڈ میتخ (Luce-Claude Maitre) اپنی کتاب اقبال کا تعارف میں لکھتی ہیں کہ قرآن مجید نے دو ٹوک الفاظ میں انسان کی انفرادیت کا اثبات کیا ہے۔ قرآن میں انسانِ کامل کے تصور کی تکرار ملتی ہے۔ شاعر اقبال قدم قدم پر قرآن سے استفادہ کرتا ہے۔ اس کے کلام میں آیات کے بار بار حوالے ملتے ہیں اور وہ پیغمبرِ اسلام کی متعین کردہ راہ سے انحراف نہیں کرنا چاہتا۔ بعض ناقدین نے اقبال پر نطشے کے فلسفیانہ اثرات کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے لیکن یہ اندازِ نظر غلط اور کوتاہ بینی پر مبنی ہے۔ اقبال کا تصورِ زمان بھی کتابِ مقدس سے مطابقت رکھتا ہے۔ اقبال نے اپنی راہنمائی کے لیے مولانا رومی کا انتخاب کیا۔ اس لیے کہ رومی اس مشہورِ عالم مثنوی کا خالق ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہست قرآں در زبانِ پہلوی۔ ۱۱؎ اپنے تقابلی مطالعے میں لوس کلوڈ میتخ جس حتمی نتیجے پر پہنچیں اس کا ذکر انھوں نے اس طرح کیا ہے: ۱۲؎ مندرجہ بالا تجزیاتی مطالعے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اقبال نے مغربی فکر سے برائے نام ہی اخذ کیا ہے۔ بعض اوقات وہ اس کے قریب بھی آتا ہے لیکن جلد ہی اپنا راستہ تبدیل کرلیتا ہے۔ ۲ ای ایم فوسٹر کے نزدیک معنی خیز بات یہ ہے کہ اقبال نے نطشے کے فوق البشر کے تصور کو قرآن سے جوڑ دیا ہے۔ فوسٹر کے دائرۂ فہم سے یہ بات باہر ہے کہ توحید اور الحاد کو کیسے جوڑا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نطشے اور اقبال کے تصور کو جوڑنے کی فوسٹر کی اپنی کوشش بے معنی ہے۔ اقبال نے لکھا ہے کہ فوسٹر نے میرے تصور کو درست طور پر نہیں سمجھا اور اسے نطشے سے غلط ملط کرکے خاک میں ملا دیا ہے۔ فوسٹر کا مؤقف ہے کہ صرف دو ترمیموں سے نطشے اور اقبال کے تصورات کا فرق دور ہوجاتا ہے۔ نطشے اشرافی تعصب میں مبتلا ہے جب کہ اقبال کا انسانِ کامل معاشرے کے کسی بھی طبقے سے ابھر سکتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ نطشے ملحد ہے اور اقبال خدا پر یقین رکھتا ہے۔ ۱۳؎ فوسٹر کا استدلال دلچسپ مگر گمراہ کن ہے۔ اس طریقے سے نمرود اور ابراہیمؑ یا فرعون و موسیٰؑ کی شخصیات کا فرق بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ نطشے کو الحاد سے جدا کریں تو نطشے باقی نہیں رہتا اور اقبال توحید کے بغیر اپنی پوری اہمیت و معنویت سے عاری ہوجاتے ہیں۔ یہی فرق دونوں کے انسانِ کامل کے تصور میں ہے۔ اقبال انسانِ کامل میں اللہ کی جلالی اور جمالی دونوں قسم کی صفات کی جھلک دکھاتے ہیں جب کہ نطشے کے نزدیک فوق البشر کے راستے میں خدا ایک رکاوٹ ہے۔ ای ایم فوسٹر نے پچیس برس بعد اپنی کتاب Two Cheers for Democracy میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اقبال کٹر مسلمان تھا اور اس کی ثقافت مشرقیت (اسلام) پر مبنی رہی۔ ۱۴؎ یہ مؤقف منصفانہ ہے لیکن اس بنا پر فوسٹر لکھتا ہے کہ اقبال کو بین الاقوامی ذہن کا حامل نہیں سمجھا جاسکتا۔ حالانکہ اسلامی ثقافتی نقطۂ نظر آفاتی ہوتا ہے۔ ترجمۂ اسرارِ خودی کے دیباچے میں پروفیسر نکلسن نے اقبال کی یہ تحریر درج کی تھی کہ روئے ارضی پر خدا کی بادشاہت کا مفہوم کم و بیش یکتا افراد کی جمہوریت ہے جس کی صدارت یکتا ترین فرد کرے گا۔ اس جملے سے علامہ اقبال کا فکری رجحان واضح ہے۔ اس سے ان کے آفاقی ذہن کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے نیز جمہوریت کے ضمن میں بھی ان کے اندازِ فکر پر روشنی پڑتی ہے۔ یہی روحانی جمہوریت ہے جس کے اقبال علم بردار ہیں۔ اس جملے کے بعد اقبال نے لکھا کہ ’’نطشے نے اس مثالی نسل کی جھلک دیکھی تھی لیکن اس کے اشرافی تعصب اور الحاد نے اس کے تصور کو غارت کردیا۔‘‘ اسرارِ خودی پر ایل ڈکنسن نے اپنے ریویو میں اقبال پر متعدد اعتراضات کیے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اقبال کا فلسفہ زیادہ تر مغربی مصنفین: میک ٹیگرٹ، برگساں اور نطشے پر مبنی ہے۔ نطشے کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ سخت کوشی، انفرادیت، آویزش کی ضرورت اور دشمن کی افادیت از اوّل تا آخر مثنوی میں نمایاں ہے۔ اقبال نے نئی شراب پرانی بوتلوں میں بھر کر پیش کی ہے۔ ڈکنسن کے اعتراضات کا علامہ اقبال نے خاص طور پر نوٹس لیا اور پروفیسر نکلسن کی معرفت اس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ خیر و شر کی آویزش ازل سے جاری ہے۔ عام مسلمان بھی اس بات سے واقف ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں: ۱۵؎ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی یہ بات بھی واضح ہے کہ مردانِ خدا کی قوت کا راز روحانیت میں مضمر تھا نہ کہ سیاست میں۔ ۱۶؎ نمرود کے مقابلے پر حضرت ابراہیمؑ کے پاس لشکر نہیں تھا۔ ان کا بازو توحید کی قوت سے قوی تھا۔ حضرت موسیٰؑ فرعون کے انتقام سے ڈر کر بھاگے تھے لیکن نبوت کے مقام پر فائز کیے جانے کے بعد فرعون کے مدِمقابل آکھڑے ہوئے۔ لشکر ان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اقبال نے ڈکنسن کے جواب میں لکھا کہ (اعلیٰ مقاصد کے لیے) آویزش سمیت ہر طرح کی جدوجہد سے شخصیت مضبوط ہوتی ہے اور انسان بقائے دوام حاصل کرلیتا ہے جب کہ نطشے شخصی بقا پر یقین نہیں رکھتا۔ آویزش سے میری دلچسپی روحانی ہے نہ کہ سیاسی جب کہ نطشے کی صرف سیاسی ہے۔ میں نے اپنے نوٹ میں جو، اب اسرارِ خودی کے انگریزی دیباچے کا حصّہ ہے، اپنا موقف انگریز قارئین کی سہولت کے لیے مغربی مفکرین کے حوالے سے پیش کیا۔ اپنا مدعا میں بخوبی قرآن کی روشنی میں نیز مسلم صوفیہ اور مفکرین کے حوالے سے بیان کرسکتا تھا۔ تصورِ زمان بھی اسلامی فکر میں اجنبی نہیں ہے۔ اسرارِ خودی میں قرآن کے اسرار بیان ہوئے ہیں۔ نئی شراب پرانی بوتلوں میں پیش نہیں ہوئی بلکہ میں نے پرانی شراب نئی بوتلوں میں پیش کی ہے۔ ۱۷؎ علامہ اقبال نے ۱۹۳۷ء میں جو نوٹ سیّد نذیر نیازی کو قلم بند کرایا، اس میں تصورِ خودی کی وضاحت قرآنِ حکیم کی روشنی میں اور تخلقواباخلاق اللہ کے حوالے سے کی۔ نطشے مسیحی اخلاقیات کو شدید تنقید کا ہدف بناتا ہے اور اس اعتبار سے اس کا فوق البشر اسلام سے نسبتاً قریب ہے لیکن نطشے کی طرح اس کا فوق البشر بھی اندھی بہری قوت کا پرستار ہے۔ نطشے کی مادیت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: ۱۸؎ Further Neitzsche`s superman is a biological product. The Islamic perfect man is the product of moral and spiritual forces. Neitzsche recognises no spiritual purpose in the universe. To him, there is no-ethical principle resident in the forces of history. Virtue, Justice, Duty, Love all are meaningless terms to him. The process of history is determined purely by economical forces and the only principle, that governs, is 'Might is Right.' ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ ایسا فلسفہ ہے جسے اقبال قبول نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک نشۂ قوت خطرناک ہے۔ وہ مصر ہیں کہ انسان کو انسان کی بندگی سے آزاد کرایا جائے۔ اس کی واحد صورت یہ ہے کہ انسانوں پر فرمانروائی اللہ کی ہو۔ اقبال کا مردِ خدا روحانی اور اخلاقی قوتوں کا مظہر ہے۔ نطشے کسی روحانی و اخلاقی مقصد کو نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک انسانی تاریخ میں کوئی اخلاقی اصول کار فرما نہیں اور نیکی، انصاف، فرض، محبت بے معنی الفاظ ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ اقدار نہایت اہم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم ان کی بار بار تلقین کرتا ہے۔ اقبال مزید لکھتے ہیں کہ نطشے اور کارل مارکس دونوں نے تاریخ کی مادّی تعبیر کا تصور ہیگل کے ان پیروئوں سے لیا جو سیاست میں بائیں طرف کا رجحان رکھتے تھے اور اسے پرکھے بغیر قبول کرلیا۔ دونوں نے اس سے متضاد نتائج اخذ کیے۔ کارل مارکس کہتا ہے کہ تاریخی اسباب کے زیر اثر اقتدار آخر کار مفلس طبقے کے ہاتھ میں آجائے گا۔ وہ امرا سے اقتدار چھین لیں گے۔اس کے برعکس نطشے کا خیال ہے کہ اقتدار برتر انسان کا حق ہے جو اس سے چھن گیا ہے۔ اسے چاہیے کہ اقتدار پر قابض ہو کر ادنیٰ طبقے کو اس کے مقام پر واپس بھیج دے۔ اقبال کے نزدیک تاریخی عمل کی اس مادّی تعبیر نے، کارل مارکس اور نطشے دونوں کی تعلیمات کو نقصان پہنچایا تاہم مارکس کی نسبت نطشے کی تعلیمات کو زیادہ نقصان پہنچا۔ کارل مارکس کی تعلیم کے بعض پہلو اسلام سے مشابہ ہیں، چنانچہ اقبال نے قل العفو کی قرآنی تعلیم کو اشتراکی روس کی گرمیِ رفتار کے تناظر میں دیکھا: جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ میں مارکس کے لیے ’کلیمِ بے تجلی‘ اور ’مسیحِ بے صلیب‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ اس جزوی مشابہت کے باوجود اقبال، کلی حیثیت سے اشتراکیت کو رد کرتے ہیں اور قرآن میں ہو غوطہ زن، کی تلقین اور ’آئینِ پیغمبر‘ کی حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح نطشے کے بارے میں اقبال نے کہا : قلبِ او مومن دماعش کا فراست۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے، حاشیے میں، اقبال لکھتے ہیں: نیٹشا نے مسیحی فلسفۂ اخلاق پر زبردست حملہ کیا۔ اس کا دماغ اس لیے کافر ہے کہ وہ خدا کا منکر ہے، گو بعض اخلاقی نتائج میں اس کے افکار مذہبِ اسلام کے بہت قریب ہیں۔ ۲۰؎ کارل مارکس اور نطشے کی، اقبال نے ایک حد تک، تحسین کی لیکن دونوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔ دونوں کی ملحدانہ تعلیمات انسانیت کے لیے مہلک ہیں۔ دونوں کے بارے میں اقبال بار بار لکھتے ہیں کہ وہ ’لا‘ کے مرحلے پر رک گئے اور ’الّا‘ کی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ چنانچہ خدا پر یقین نہ ہونے کے باعث طریقِ کوہکن میں پرویزی حیلے اور فوق البشر کا نشۂ قوت اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک ہیں۔ نطشے کے ضمن میں اقبال کہتے ہیں:۲۱؎ زندگی شرحِ اشاراتِ خودی است لا و اِلّا از مقاماتِ خودی است! او بہ لا درماند و تا الّا نہ رفت از مقامِ عبدۂ بیگانہ رفت! کاش بودے در زمانِ احمدے تا رسیدے بر سرورے سرمدے لا اور الّا کو ’از مقاماتِ خودی‘ کہنے کے بعد اقبال وضاحت کرتے ہیں کہ نطشے ’لا‘ کے مقام پر الجھ کر رہ گیا اور ’الّا‘ تک نہ پہنچ سکا۔ نطشے کا یہ الحاد اقبال کو کھٹکتا ہے۔ بالِ جبریل میں کہا: اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے ۲۲؎ اس شعر کے حاشیے میں ’’مجذوبِ فرنگی‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جرمنی کا مشہور مجذوب فلسفی نیٹشا جو اپنے قلبی واردات کا صحیح اندازہ نہ کرسکا اور اس لیے اس کے فلسفیانہ افکار نے اسے غلط راستے پر ڈال دیا۔‘‘ یہ غلط راستہ الحاد کا ہے جسے اقبال بار بار ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ۲۳؎ ای جی برائون نے، ڈاکٹر نکلسن کی رائے سے متاثر ہو کر اپنی تصنیف تاریخِ ادبیاتِ فارسی میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اسرارِ خودی کا فلسفہ مشرقی رنگ میں مشہور جرمن فلسفی نطشے کا چربہ ہے۔ ۲۴؎ تاہم اسرارِ خودی پر اپنے ریویو میں جو رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے مجلے میں شائع ہوا، برائون نے منصفانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس ریویو میں موصوف نے پروفیسر نکلسن کی رائے اور خود اپنی رائے کی تردید کی ہے۔ برائون نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر نکلسن کے مطابق اقبال کا فلسفہ بڑی حد تک نطشے اور برگساں کا مرہونِ منت ہے جب کہ یہ کسی لحاظ سے بھی مغربی فلسفہ نہیں ہے۔ یہ فلسفیانہ انداز میں اخوّتِ اسلام کی تعلیم ہے جو استغراق، انسدادِ خودی اور ہمہ اوست کے امراض کے علاج کے لیے لکھی گئی ہے۔ اقبال کے نقطۂ نظر کے مطابق ان عوارض نے پیغمبرِ عربی کی زندہ و توانا تعلیم کے پیروکاروں کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ ۲۵؎ ایچ اے آرگب نے اپنی کتاب Whither Islam میں حسبِ ذیل رائے کا اظہار کیا ہے: ۲۶؎ What strikes one first in Iqbal is the strength and the fervour of his love for Islam as an ideal which if fully realized should suffice for man's every want in this world and the next. His wide reading and his poetic temperament have created in his mind so attractive and so inspiring a picture of the simplicity, the force and the appeal of early Islam that his main preoccupation centres round a return to that simple creed in order to regain what he beleives Islam to have lost. اس اقتباس سے حسبِ ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں: (۱) اقبال کا نصب العین اسلام ہے۔ (۲) اسلام سے اقبال کی محبت میں سرگرمی اور مضبوطی ہے۔ (۳) اقبال کے نزدیک اسلام پر پوری طرح عمل پیرا ہونے سے انسان کی ہر دنیوی اور اخروی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ (۴) اصل اسلام کی طرف رجوع مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلا سکتا ہے۔ یہ چاروں باتیں درست ہیں۔ گب کی رائے فاضلانہ اور علمی ہے۔ اس سے اقبال کے وجدان (شعور و ایقان) کی تشکیل کا اندازہ بھی ہوتا ہے لیکن گب نے بعد کی بعض تحریروں سے اقبال کی فکری اساس کو مبہم بنانے کی کوشش کی ہے۔ اپنی کتاب Mohammedanism میں گب نے لکھا ہے کہ اقبال علمِ دین کی اسلامی بنیادیں متصوفانہ فلسفے سے اخذ کرتا ہے جن کی تاویلِ نونطشے کے فوق البشر اور برگساں کے نظریۂ ارتقا کے انداز میں ہوئی ہے۔ ۲۷؎ اپنی ایک اور کتاب Modern Trends in Islam میں گب نے ڈین لوو (Dean Lowe) کا یہ قول درج کیا ہے کہ ’’جب آپ متصوفانہ تاویل کے راستے پر چل پڑتے ہیں تو کسی بھی بات کا مطلب کچھ بھی نکل سکتا ہے‘‘۲۸؎ اور اس حوالے سے اقبال کے ماڈرنزم کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کا جو رویہ مغربی مفکرین کے ساتھ ہے، وہی مسلم صوفیہ کے ساتھ بھی ہے۔ تصوف کے غیر قرآنی عناصر کو اقبال نے قبول نہیں کیا اور وحدت الوجود، تنّزلاتِ ستہ اور ایمان وغیرہ پر سخت تنقید کی ہے۔ اس ضمن میں برائون کا اسرارِ خودی پر تبصرہ اور گب کا Whither Islam میں بیان کردہ موقف لائقِ توجہ ہے۔ کانٹ ویل اسمتھ نے اپنی مشہور کتاب Modern Islam in India میں اقبال کو ایک طرف ترقی پسند اور اشتراکی ظاہر کیا ہے اور دوسری طرف نطشے (نیز برگساں) کا خوشہ چین قرار دیا ہے۔ اسمتھ لکھتا ہے: ۲۹؎ Iqbal has been criticised as an unoriginal thinker; it is pointed out that much of his philosophy is but an Islamicization of, particularly, Nietzsche and Bergson. Ofcourse anyone familiar with modern Europeon thought must readily detect in Iqbal's ideas the western sources. اسمتھ کا موقف ہے کہ اقبال کا بیشتر فلسفہ نطشے اور برگساں کے فلسفے کو اسلامی رنگ دینے کے مترادف ہے، اس لیے ان پر یہ تنقید کی گئی کہ وہ اصلی مفکر نہیں ہیں۔ جو شخص جدید یورپی فلسفے سے واقف ہے وہ بلاشبہ اقبال کے مغربی مآخذ کا بہ آسانی پتا لگا سکتا ہے۔ یہ دعویٰ تقلیدی ہوگیا ہے۔ اقبال کا اپنا دعویٰ اس کے برعکس ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے ’’اسرارِ کتاب‘‘ بیان کیے ہیں: تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر کوئی بھی شخص جس کی نظر قرآن پر ہو، کلامِ اقبال سے بلاشک و شبہ یہی نتیجہ اخذ کرے گا۔ا سمتھ کی نظر قرآنِ حکیم اور کلامِ اقبال دونوں پر گہری نہیں ہے۔ اسمتھ نے یہ حقیقت نظر انداز کردی ہے کہ فوق البشر اور زمان کے تصورات نئے نہیںہیں۔ مشرقی اور اسلامی ادب میں یہ پہلے سے موجود تھے۔ اسمتھ نے یہ حقیقت بھی نظر انداز کی ہے کہ اقبال نے مذکورہ تنقید کی دلائل سے تردید کردی تھی، نیز ڈاکٹر آر اے نکلسن نے اس ضمن میں اپنا متنازع تبصرہ واپس لے لیا تھا۔ ممکن ہے کانٹ ویل اسمتھ ان حقائق سے بے خبر رہا ہو۔ ڈاکٹر این میری شمل کی یہ رائے وزن رکھتی ہے کہ نطشے کے سلسلے میں اقبال کا رویہ خزما صفا و دع ماکدر کا رہا ہے۔ ۳۱؎ درحقیقت جملہ مغربی اور مشرقی نیز قدیم و جدید فکر کے ساتھ اقبال کا یہی رویہ رہا ہے۔ اقبال علمی حقائق سے چشم پوشی نہیں کرتے اور ان سے استفادہ کرتے ہیں لیکن کسی تصور کو قرآنِ حکیم کی روشنی میں پرکھے بغیر قبول نہیں کرتے اور چوںکہ انھوں نے اسرارِ کتاب بیان کیے ہیں اس لیے اصلی مفکر ہیں۔ اس ضمن میں جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں: ۳۲؎ اقبال نے اگر مشرقی اور مغربی مفکرین کے خیالات کو اپنایا ہے تو اسی حد تک جس حد تک وہ انھیں قابلِ قبول تھے۔ اس حد کے بعد انھوں نے اپنا راستہ الگ اختیار کیا۔ مغربی خیالات کو جانچنا، پرکھنا اور انھیں اپنانا یا رد کرنا کسی بھی فن کار کی عظمت کی دلیل ہے۔ اس کے علی الرّغم ان سے آنکھیں بند رکھنا یقینا چھوٹے پن کا ثبوت ہے۔ اقبال نے مغربی خیالات کی گہرائی میں اتر کر اور کہیں انھیں قبول کرکے اور کہیں رد کرکے اپنے اوریجنل مفکر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مذکورہ تنقید کے بعد اسمتھ لکھتا ہے کہ ’’اقبال خیال سے خیال مستعار لیتے ہیں، واقعات سے نہیں۔ ان کے خیالات صحیح تھے مگر انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ٹھوس حقائق اور واقعات کیا ہیں جو ان تصورات کی صحت کے ضامن ہیں۔ اقبال کی سوچ قوت آفریں تھی اس لیے کہ وہ جدید فلسفہ جانتے تھے۔ اس قوت آفرینی کی وجہ جدید سائنس یا جدید سوسائٹی نہ تھی۔ اقبال برگساں کی طرح جدید سائنس اور مارکس کی طرح جدید سوسائٹی سے واقف نہ تھے۔ آل احمد سرور اور جگن ناتھ آزاد نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ اقبال جتنا جدید فلسفے سے واقف تھے، اتنا جدید سائنس یا جدید سوسائٹی سے واقف نہ تھے۔ ۳۳؎ جدید سائنس کے علمی حقائق جس قدر ادب و فلسفہ میں منعکس ہوئے، اقبال ان سے بخوبی آگاہ تھے اور یہ آگاہی ان کی فکری ضرورت و تجزیے کے لیے کافی تھی۔ وہ جدید سوسائٹی کی رگ رگ سے واقف تھے، اس لیے کہ ان کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ عمیق تھا۔ ۳۴؎ تاہم اصل سوال یہ نہیں ہے کہ اقبال کیا زیادہ جانتے تھے اور کیا کم جانتے تھے، اصل اور اہم سوال یہ ہے کہ اقبال کے تصورات کی صحت کا انحصار کس پر ہے؟ اقبال کہتے ہیں کہ ’نئے فلسفۂ زندگی سے دور‘ ۳۵؎ اقبال کے نزدیک جدید لازماً صحیح نہیں ہے چنانچہ وہ ملحدانہ تصورات پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ آل احمد سرور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’اقبال کی شاعری میں وہ بڑائی ہے جو ذوقِ یقین کا قطب مینار بنانے سے پیدا ہوتی ہے۔‘ ۳۶؎ اصل بات یہی ہے۔ اقبال کی قوت آفرینی کا راز بھی اسی میں ہے ۳۷؎ اور یہی ذوقِ یقین ہے جس سے نطشے اور برگساں سمیت بیشتر مغربی مفکرین محروم ہیں اور اگرچہ یورپی تمدن کا ذہنی پہلو اسلامی تمدن کے بعض پہلوئوں کی توسیع ہے ۳۸؎ لیکن اقبال کے نزدیک مغربی دانش ذوقِ یقین سے محرومی کے باعث بیمار انسانیت کو بیمار تر کررہی ہے: ۳۹؎ ہربرٹ ریڈ نے لکھا تھا کہ اگرچہ اقبال نے خود پر نطشے کے اثرات کی نفی کی ہے تاہم دونوں کا تقابلی مطالعہ ناگزیر ہے۔ نطشے کے فوق البشر اور اقبال کے انسانِ کامل میں صرف اخلاقی اوصاف کا فرق ہے۔ نطشے کی اساس اشرافیہ کی جھوٹی معاشرت پر استوار ہے اور اقبال کاانسانِ کامل، اپنی اصل کے اعتبار سے جمہوری ہے۔ میری دانست میں اقبال کا تصور زیادہ پایدار بنیادوں پر مستحکم ہے کہ یہ تصور سقراط، حضرتِ مسیحؑ اور حضرت محمدؐ جیسی مثالی شخصیات سے لیا گیا ہے۔ ۴۰؎ ہربرٹ ریڈ کی رائے بڑی حد تک صحیح ہے تاہم سقراط اور حضرت مسیحؑ کی جگہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰؑ کے نام لکھے جاتے تو یہ رائے حقیقت سے قریب تر ہوتی۔ نیز ’اخلاقی اوصاف‘ کے تناظر میں ’صرف‘ کااستعمال فوسٹر کے زیرِ اثر ہوا ہے۔ جسمانی صحت و قوت کے اقبال حامی ہیں اور ’نانِ جویں‘ والوں کے لیے ’بازوئے حیدر‘ عطا کرنے کی دعا کرتے ہیں تاہم سپرمین اور مردِ مومن کا بنیادی فرق اخلاقی ہے۔ ڈاکٹر این میری شمل نے جاوید نامہ کا ترکی نثر میں ترجمہ کیا۔ جاوید نامہ اور پیامِ مشرق کا جرمن میں منظوم ترجمہ کیا۔ اقبال کی نثری تحریروں کا ایک مجموعہ جرمن زبان میں منتقل کیا۔ اقبال پر متعدد مقالات لکھے۔ اقبال پر ان کی انگریزی کتاب Gabriel's Wing ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی جس کے مآخذ کی فہرست میں، اس وقت کا، بیشتر ذخیرۂ اقبالیات شامل ہے۔ شمل کا مطالعۂ اقبال وسیع و عمیق ہے۔ اقبال پر کچھ اعتراضات بھی کیے ہیں جن کا ذکر، بعض صاحبان نے شدومد کے ساتھ کیا ہے۔ ۴۱؎ ان اعتراضات کو بدنیتی پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ یورپ (اور امریکا) میں اقبال شناسی کی روایت کو آگے بڑھانے میں این میری شمل کا نمایاں کردار ہے۔ چند ایک اعتراضات سے برہم ہونے کا کوئی جواز نہیں، البتہ ان کی جانچ پرکھ ضروری ہے۔ اقبال کی فکری اساس پر شمل کی منفی رائے زنی ماہرِ اقبال خلیفہ عبدالحکیم کی تحریروں سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے۔ خلیفہ موصوف نے لکھا ہے کہ پیامِ مشرق میں نطشے کا اثر اس قدر نمایاں نہیں جتنا اسرارِ خودی میں ہے ۔۔۔ خودی کے جو تین مراحل بیان کیے گئے ہیں ان پر نطشے کا کسی قدر اثر ہے ۔۔۔ ریزۂ الماس اور شبنم پر جو اشعار ہیں وہ براہِ راست نطشے کے زیرِ اثر لکھے گئے ہیں ۔۔۔ اسی طرح الماس و زغال والی نظم کا مضمون نطشے سے ماخوذ ہے ۔۔۔ استحکام خودی، سخت کوشی اور سخت پسندی کا فلسفہ نطشے کا ہے ۔۔۔ افسوس ہے کہ اسرارِ خودی میں اقبال نے برگساں کا نام نہیں لیا اور اس کا تمام فلسفۂ وقت امام شافعی کے ایک قول کے تحت نظم کردیا ہے۔ ۴۲؎ یہ جملے خلیفہ عبدالحکیم کے مضمون ’رومی، نطشے اور اقبال‘ کے ہیں اور یہ مضمون شمل کی فہرستِ کتابیات میں شامل ہے۔ این میری شمل کی کتاب میں ایک باب ’فکرِ اقبال پر مغرب و مشرق کے اثر اور صوفیہ و تصوف کے ساتھ ان کے روابط پر ایک اجمالی نظر‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ شمل نے متنِ اقبال کے حوالے سے خاصی متوازن بحث کی ہے۔ کہیں کہیں ان کی عبارت کھٹکتی ہے، مثلاً دیباچے میں لکھتی ہیں کہ اقبال نے مغربی خیالات کو اپنے تصورِ اسلام کے مطابق تبدیل کرلیا۔ مذکورہ باب میں رقم طراز ہیں: ۴۳؎ Iqbal himself has always maintained that the idea of the perfect man was Islamic, not Nietzschean; yet Nietzsche's superman may still have acted as a ferment in the formation of Iqbal's ideals. There are, of course, parables and allusions in the 'Asrar' which are traceable back to Nietzsche, like that of Diamond and Cool, Diamond and Dew-Drop; perphaps one may also count the 'three stages of the ego' among them. Yet it is rather the brave and heroic will to accept life as it is and to master it which has fascinated Iqbal in the German philosopher. He agrees also with him in the positive evaluation of suffering. یہ کم و بیش وہی باتیں ہیں جو خلیفہ عبدالحکیم نے لکھی تھیں (چوکفراز کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی)۔ نطشے سے اقبال کی یہ وہی مشابہت ہے جسے اقبال نے سطحی قرار دیا ہے۔ تربیتِ خودی کے مراحل میں تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اصل اہمیت نوعیتِ تربیت کی ہے۔ اقبال کے نزدیک بنیادی اور اوّلین بات ’اطاعتِ الٰہی‘ ہے۔ نطشے سے اقبال کا راستہ اسی مقام سے جدا ہوجاتا ہے۔ اُشتر کا حوالہ بھی سطحی مشابہت ہے۔ اپنے بنیادی فلسفے کی وضاحت کے لیے مفید سمجھ کر اقبال نے اونٹ کے اوصاف بیان کیے۔ اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ ۴۴؎ دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کہتے کیا ہیں۔ کیا یہ مصرع اسلامی روح کا آئینہ دار نہیں: کم خورو کم خواب و محنت پیشۂ۔ اور یہ شعر: در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار اقبال حاشیے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس شعر میں الہیاتِ اسلامیہ کے مشہور مسئلے جبر و اختیار کی طرف اشارہ ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اعلیٰ اور سچی حریت اطاعت یعنی پابندیِ فرائض سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘ ۴۵؎ مرحلۂ دوم، اقبال کے نزیک، ضبطِ نفس ہے۔ انسان اپنے نصب العین کے حصول کی خاطر جبلّتوں کو قابو میں رکھتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر اقبال کلمۂ طیبہ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی حکمت بیان کرتے ہیں۔ یہ ارکانِ اسلام ہیں۔ این میری شمل کی کتاب کا دوسرا باب انھی ارکانِ اسلام کے حوالے سے اقبال کے مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس سے اقبال کی فکری اساس کا تعین ہوجاتا ہے۔ مرحلۂ سوم نیابتِ الٰہی ہے۔ اقبال نائبِ حق سے امن وصلح، اخوّت اور محبت کی صفات منسوب کرتے ہیں۔ ۴۶؎ جب کہ نطشے کے لیے یہ اوصاف بے معنی ہیں۔ اس کا سپرمین مطلق العنان اور بے لگام ہے۔ نائبِ حق قوت کا استعمال انسانی فلاح کے لیے کرتا ہے جب کہ سپرمین اپنی یا اپنے طبقے کی اغراض کے لیے۔ این میری شمل ان حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انھوں نے خود لکھا ہے کہ ’’نطشے کی نفسیاتی کیفیت اور اضطراب کو اقبال شاید مغربی مصنّفین سے بہتر بھانپ گئے تھے۔‘‘ اپنی اس رائے کی تائید میں Stray Reflections سے ایک اقتباس نقل کیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’نطشے کا فلسفہ کم از کم اخلاقیات کے دائرے میں، یورپ کے طرزِ عمل کو عقلی جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لیکن اشرافیہ کا یہ عظیم پیغمبر یورپ بھر میں مردود قرار دیا گیا ہے۔ بہت کم لوگ اس کے جنون کے رمز آشنا ہیں‘‘۔ ۴۷؎ یہ بات مسلمان معاشرے میں معلوم و معروف ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو تکالیف سے گزارتا ہے تاکہ وہ کندن بن جائیں۔ ان تکالیف اور آزمایشوں سے دوسرے پیغمبروں کے علاوہ پیغمبرِ آخرﷺبھی (مع اپنے صحابہؓ کے) گزرے ہیں۔ صحابۂ کرامؓ کا وصف جفاکشی اور جدوجہد تھا۔ وہ آرام سے نہیں بیٹھتے تھے۔ جفاکشی، جدوجہد اور شجاعت ترک کرکے مسلمان تن آسان اور عیش پرست بنے تو زوال سے دوچار ہوگئے۔ الماس اور زغال نیز الماس اور قطرۂ شبنم کی حکایات حکمت کے وہ موتی ہیں جن کی مدد سے اقبال نے اپنے بنیادی فلسفے کو اجاگر کیا ہے۔ حکمت اور دانائی کی باتیں جہاں کہیں ہوں، اپنی گم شدہ متاع سمجھ کر اقبال لے لیتے ہیں۔ اقبال کا اعتراف و اعلان ہے کہ: ربودم دانہ و دامشِ گسستم۔ یہ رویہ خذما صفا و دع ماکدر کے مطابق ہے۔ اس پر معترض ہونا ناروا ہے۔ شمل نے غلط کہا ہے کہ اقبال نے مغربی خیالات کو اپنے تصورِ اسلام کے مطابق تبدیل کرلیا۔ انسانِ کامل کا تصور ہزاروں برس سے موجود ہے اور ہر ایک نے اپنے نقطۂ نظر سے اس کی تفسیر کی ہے۔ قرآنِ حکیم نے بار بار کامل انسانوںکا ذکر کیا ہے۔ حیرت ہے کہ فرانس کی لوس کلوڈ متیخ نے جس حقیقت کو جان لیا، اس تک جرمنی کی این میری شمل نہ پہنچ سکیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بقول اقبال نطشے نے انسانِ کامل کا تصور اسلامی یا مشرقی ادب سے لیا اور الحاد سے آلودہ کرکے اسے مسخ کردیا۔ ڈاکٹر این میری شمل کی حسبِ ذیل آرا اصل حقیقت کی آئینہ دار ہیں: ۴۸؎ ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کو بھی تعجب ہوا کہ اقبال بعد میں ہیگل کو رد کرگئے۔۔۔۔۔ مثنوی اسرارِ خودی پر نطشے کے اثرات کے بارے میں لوگوں نے مبالغہ کیا۔۔۔۔۔ انیسویں صدی کی مسیحیت میں نطشے کو فعال، خلّاق اور قوی خدا کا تصور نہ ملا، اس لیے وہ الحاد کی طرف مائل ہوگیا۔ اقبال کہتے ہیں کہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی سی شخصیت نطشے کو راہِ ہدایت بتا سکتی تھی۔۔۔۔۔۔ نطشے سے اظہارِ ہمدردی کے باوجود، اقبال ابدی زندگی (آخرت) سے انکار کرنے کی بنا پر اس سے اظہارِ بیزاری کرتے ہیں کیوںکہ زندگی کا رواں دواں ہونا اقبال کا دینی ہی نہیں فلسفیانہ نظریہ بھی ہے۔۔۔۔ بقول اقبال نطشے کا عقیدۂ رجعتِ ابدی اس تقدیر پرستی سے بھی بدتر ہے جس کو لفظ قسمت سے ادا کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس سے رجحاناتِ عمل فنا ہوجاتے ہیں اور خودی اپنا اطناب کھو بیٹھتی ہے۔ ڈاکٹر این میری شمل، بعض لغزشوں سے قطعِ نظر، معتبر اقبال شناس ہیں۔ اقبال کے کتب خانے کا، جس میں مغربی مصنّفین کی کتابیں بھی موجود ہیں، ذکر کرنے کے بعد یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ان کتابوں کو دیکھ کر یہ خیال کرنا غلط ہوگا کہ اقبال فلاں فلاں مفکرین کے سحر میں مبتلا رہے ہوں گے۔ اقبال نے یقینا ان کتابوں کو پڑھا ہوگا لیکن اگر کوئی مفیدِ مطالب خیال قبول کیا توقرآن کی روشنی میں کیا ہوگا۔ دیگر مطالب کو رد کردیا ہوگا، مثلاً سپنگلر کی زوالِ مغرب کی بعض باتوں کو اقبال نے پسند کیا مگر مصنف کے اکثر نظریات کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیے۔ ۴۹؎ اقبال نے مغربی مفکرین سے استفادہ کیا ہے لیکن مغربی فکر کی گمراہیوں سے خود کو محفوظ رکھا ہے۔ درسِ حکیمانِ فرنگ نے ان کے فہم میں اضافہ کیا لیکن ان کی فکری اساس حکمتِ فرنگ نہیں ہے۔ اس ضمن میں کیے گئے اعتراضات کثیر ہیں لیکن ان میں کوئی وزن نہیں ہے۔ بقول ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ’’فکر مستعار لیا ہی نہیں جاسکتا کیوںکہ ہر فکر ایک خاص قسم کے کلچر میں سما سکتا ہے۔‘‘ ۵۰؎ ای ایم فوسٹر کے اعتراف اور قول کے مطابق اقبال پکا مسلمان ہے اور اس کی ثقافت اسلام پر مبنی رہی۔ اقبال کے نظامِ فکر میں طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کے جدید علمی حقائق کا ذکر ہے اور اس میں مغربی حکمت و دانش کے نکات کو بھی اقبال نے سمویا ہے۔ تاہم اقبال کے نظامِ فکر کی بنیاد اسلامی ہے اور اس بنیاد میں غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ممکن نہیں۔ خاص مقاصد یا تعصبات سے ہٹ کر سیدھے سچے انداز میں اقبال کا مطالعہ کرنے والے اس حقیقت کا ادراک بخوبی کرلیتے ہیں۔ وی جی کیرنن (V.G. Kiernan) نے لکھا ہے کہ اقبال نے نئے مغربی خیالات جذب کیے اور متعدد مفکرین خاص طور پر ہیگل، برگساں اور سب سے زیادہ نطشے سے متاثر ہوئے۔ ۵۱؎ (کیرنن کی رائے پر اقبال مخالف تحریروں کا کچھ اثر ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے کوئی مغربی خیال تنقیدی تجزیے سے گزارے بغیر قبول نہیں کیا) تاہم کچھ آگے چل کر کیرنن نے لکھا ہے: ۵۲؎ Iqbal was coming to the conclusion that the bussiness of the Muslims was not to open their ears to the teachings of others, since this modern world had no message of life to give them; but to open their minds and souls to the message of their own faith, their own past, their own genius as a community. حقیقت یہی ہے کہ اقبال کا پیغام حق پرستی کا پیغام ہے۔ وہ توحید کے حوالے سے تصورِ خودی کو اجاگر کرتے ہیں: خودی کا سّرِ نہاں لاالہ الاللہ۔ اور کامل ترین انسان سے حضرت محمدﷺسے نسبت، ان کی پیروی اور ان سے محبت کو اپنے پیغام کی بنیاد بناتے ہیں۔ ڈاکٹر ایل ایس مے (L.S. May ) نے اقبال کی فکری بنیاد (بطورِ خاص توحید و رسالت) کا ذکر کرکے لکھا ہے: ۵۳؎ It is this core of Islamic thought, in which Iqbal passionately believed. He not only reinterpreted afresh the teachings of Islam as found in the Quran, but his genius gave them poetic form of great beauty which swept the emotions. مندرجہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ اقبال کی فکری اساس اسلام ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کی اپنی توضیحات سب سے زیادہ معتبر اور مستند ہیں اور قرآنِ حکیم کے تناظر میں کلامِ اقبال کا مطالعہ اسی نتیجے تک پہنچاتا ہے، تاہم ڈاکٹر اے آر نکلسن کی تبدیل شدہ آخری اور حتمی رئے، لوس کلوڈ متیخ کا تجزیہ، اسرارِ خودی پر برائون اور گب کے تبصرے، این میری شمل اور کیرنن کی آرا اور ڈاکٹر ایل ایس مے کے بیان سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ فکرِ اقبال کی اساس قرآنِ حکیم ہے۔ این میری شمل نے ابوالاعلیٰ مودودی کی رائے بھی قلمبند کی ہے اور اس کی تائید اقبال کے ایک شعر سے کی ہے۔ ۵۴؎ سیّد مودودی کی رائے حسبِ ذیل ہے: ۵۵؎ وہ جو کچھ سوچتا تھا جو دیکھتا تھا، قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امامِ فلسفہ اور اس ایم اے پی ایچ ڈی، بار ایٹ لا سے لگا کھاتا ہو۔ ۳ مخالفینِ اقبال نے اقبال کے کردار پر ناروا حملوں کے علاوہ فکرِ اقبال کے جن پہلوئوں کو خاص طور پر ہدفِ تنقید بنایا ہے، ان میں اقبال کی فکری اساس کا موضوع شامل ہے۔ انھوں نے مستشرقین کی صحیح آرا کو نظرانداز کردیا اور تعصب یا کم علمی پر مبنی آرا کو نہ صرف قبول کیا بلکہ انھیں پروپیگنڈے کی شکل دے دی۔ یہ صورتِ حال اقبال کی زندگی ہی میں سامنے آچکی تھی۔ حفیظ ہوشیار پوری نے لکھا ہے: ۵۶؎ میں بعض لوگوں سے اس قسم کی باتیں سنا کرتا تھا کہ اقبال کے فلسفے میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس کے تمام افکار اصل میں مغربی فلسفیوں کے افکار ہیں۔ ان مغربی فلسفیوں میں نطشے اور برگساں کا نام وہ اکثر لیا کرتے تھے، مثلاً ایک صاحب کہتے تھے کہ اقبال نے انسانیت کی تکمیل یا خودی کی ترفیع کا مسئلہ نطشے کے نظریۂ فوق البشر سے لیا ہے۔ اسی طرح قوتِ عمل یا حرکت اور مکان و زماں کے نظریے جو اقبال کے ہاں پائے جاتے ہیں، وہ برگساں کی کاوشِ طبع کا نتیجہ ہیں۔ ایک صاحب جنھوں نے شو پنہار کے عزم للحیات (Will to be) کا نام سن رکھا تھا اور اس لفظ کے معانی اور شوپنہار کے مایوس کن فلسفۂ حیات سے بے بہرہ معلوم ہوتے تھے، یہاں تک کہہ دیا کہ خودی کی بنیاد (اقبال نے) اسی پر رکھی ہے۔ یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ حفیظ ہوشیار پوری ۱۹۳۶ء کی بات کررہے ہیں۔ پروفیسر وقار عظیم اپنے ایک جائزے بعنوان ’’اقبالیات کے پانچ سال‘‘ (۱۹۳۷ء تا ۱۹۴۱ئ) میں لکھتے ہیں کہ ’’اقبال کو فلسفی شاعر کہنے کے بعد اب تک عام طور پر لوگوں نے یہ ضروری سمجھا کہ جب اس کی شاعری میں فلسفے کا ذکر کریں تو ایک سانس میں جتنے نئے پرانے فلسفیوں اور مفکروں کے نام لیے جاسکتے ہیں لے کر، کسی طرح کھینچا تانی کرکے یہ ثابت کردیں کہ اقبال پر ان سب کا کوئی نہ کوئی اثر ہے۔‘‘ ۵۷؎ وقار عظیم نے خلیفہ عبدالحکیم کے مضمون ’رومی، نطشے اور اقبال‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بات لکھی ہے۔ اس مضمون سے وقار عظیم کے علاوہ ڈاکٹر سیّد عبداللہ، عزیز احمد اور بعض دوسرے ماہرینِ اقبال متاثر یا گمراہ ہوئے۔ ۵۸؎ دلچسپ معاملہ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کا ہے۔ ان کا مقالہ ’اقبال اور سیاسیات‘ مئی ۱۹۳۲ء میں ہمایوں لاہور میں شائع ہوا تھا۔ ایک ذیلی عنوان ’اقبال کے سیاسی فکر کے مآخذ‘ کے تحت انھوں نے لکھا تھا کہ ’’اقبال کو نطشے اور برگساں سے بعض معاملات میں اختلاف ہے جو اصولی حیثیت رکھتے ہیں اور جنھیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ ۵۹؎ لیکن خلیفہ عبدالحکیم کا مذکورہ مضمون پڑھنے کے بعد ڈاکٹر عبداللہ کی رائے بدل گئی۔ ان کا وہی مقالہ ’اقبال کا سیاسی تفکر‘ کے عنوان سے مسائلِ اقبال میں شامل ہے۔ ’اقبال کے سیاسی فکر کے مآخذ‘ کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’فلسفۂ خودی کی ترکیب میں احساسِ خودی کے متعلق خیالات نطشے سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔ جدوجہد اور استحکامِ خودی کا فلسفہ نطشے کا ہے۔ اسی طرح عشق (بطور سر چشمۂ علم) اور زمان کے متعلق بہت کچھ برگساں کے زیرِ اثر لکھا گیا ہے‘‘۔ ۶۰؎ اقبال آشنائی کے اگلے مرحلوں پر سیّد عبداللہ نے اپنی اصل رائے اختیار کرلی جس کا اظہار ان کے مضمون ’کیا اقبال محض خوشہ چین تھے؟‘ مشمولہ مسائلِ اقبال اور ’دمِ گفتگو‘ مشمولہ مطالعۂٔ اقبال کے چند نئے رخ سے ہوتا ہے۔ ’کیا اقبال محض خوشہ چین تھے؟‘ کا آغاز اس طرح ہوا ہے: ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کا ایک خاص حصّہ اس خوف ناک غلط فہمی کو بڑی شدت اور پورے انہماک کے ساتھ پھیلا رہا ہے کہ اقبال کے پاس اپنا کچھ نہیں۔ وہ جو کچھ کہہ گئے ہیں دوسروں کے خیالات و نظریات کی محض نقل ہے۔ درحقیقت مغرب پرست دانش وروں کے علاوہ اس مہم میں اشتراکی، ہندو، ہندی قوم پرست مسلمان، غلط اندیش پیر اور حاسدین وغیرہ ہر طرح کے مخالفینِ اقبال شامل تھے۔ وہ اپنی مہم کو باقاعدہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس موضوع پر بیسیوںمقالات اور متعدد کتب لکھی جاچکی ہیں جن میں سے بعض پر بھارتی یونی ورسٹیوں نے پی ایچ ڈی کی اسناد عطا کی ہیں۔ ان تحقیقی مقالات میں تحقیق تو واجبی سی ہے لیکن اس پر زور زیادہ ہے کہ اقبال نے فلاں فلسفی سے فلاں تصور مستعار لیا ہے۔ پی ایچ ڈی کے لیے ۱۹۵۵ء میں آصف جاہ کاروانی نے اپنا تھیسس الٰہ آباد یونی ورسٹی میں اقبال کا فلسفۂ خودی کے عنوان سے پیش کیا۔ فلسفۂ خودی کے مآخذ میں اگرچہ قرآن کریم، مولانا رومی، ابنِ سینا اور امام غزالی کو شامل کیا گیا ہے لیکن بھگوت گیتا اور بدھ عقائد کے علاوہ نطشے، برگساں، ہیگل اور آئن سٹائن وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اقبال کے تصورِ جنت کا ماخذ، کاروانی کی تحقیق کے مطابق، مادام بال و تسکی ہے جو قدیم تمثیلات کی ماہر تھی۔ ۶۱؎ تارا چرن رستوگی کے تھیسس Western Influence in Iqbal پر ۱۹۶۶ء میں گوہاٹی یونی ورسٹی نے انھیں پی ایچ ڈی کی سند عطا کی۔ رستوگی کے نزدیک جن مغربی مفکرین و شعرا سے اقبال متاثر ہوئے، ان میں کانٹ، لائب نیز، نطشے، ہیگل، شو پنہار، فشٹے، برگساں، مارکس، ولیم جیمز، میک ٹیگرٹ، وائٹ ہیڈ، آئن اسٹائن، جیمز وارڈ، دانتے، ملٹن، گوئٹے، ورڈز ورتھ اور برائوننگ وغیرہ شامل ہیں۔ اختتامیے میں رستوگی نے دوسروں کے خیالات اخذ کرنے (borrowing)کی صلاحیت کی، ٹیگور کے حوالے سے، تعریف اور اس تناظر میں اقبال کی تحسین کی ہے۔ ضمیمے میں رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری کو بھی اقبال کی غیر معمولی تخلیقی ذہانت میں حصّہ دار بتایا ہے۔ رستوگی نے اپنی ایک اور کتاب Iqbal in Final Countdown میں، اقبال شکنی کے لیے کھلم کھلا معاندانہ اور جارحانہ انداز اختیار کیا ہے۔ تصورِ مردِ مومن کے ضمن میں لکھا ہے کہ ان کی حیثیت کم و بیش نطشے کے فوق البشر کے مطابق ہوئی ہے۔ اقبال کی نظم ’’حکیم نطشہ‘‘ کے اشعار (انگریزی ترجمہ) درج کرکے لکھا ہے کہ ان کی حیثیت ناعاقبت اندیشانہ جلد بازی (rash) سے زیادہ نہیں ہے۔ ۶۲؎ فکرِ اقبال کے سر چشمے ایک اور تھیسس ہے جس پر اودھ یونی ورسٹی نے مصنف آفاق فاخری کو پی ایچ ڈی کی سند عطا کی۔ فاخری کو مشرق و مغرب کے جن مفکرین کا انعکاس، بقول خود، کلامِ اقبال میں دکھائی دیا، ان کے افکار کا اجمالی تعارف پیش کیا ہے۔ مغربی مفکرین میں افلاطون، ارسطو، برگساں، نطشے، کانٹ، ہیگل، فشٹے، مارکس اور لینن شامل ہیں۔ تحقیق کا مقصد صداقت کی تلاش ہو تو انسان صحیح نتائج تک پہنچ جاتا ہے۔ آفاق فاخری نے اگرچہ افلاطون سے لے کر لینن تک کو اقبال کے فکری سر چشموں میں شامل کیا ہے لیکن ’حرفِ آخر‘ میں لکھتے ہیں : اقبال اگرچہ مشرق و مغرب کے فکر و نظر کے بے شمار سر چشموں سے فیض یاب ہوئے ہیں لیکن ان کی فکر تمام فکروں اور دانش وروں سے جدا اور منفرد ہے جسے ہم افکار و نظریات کے جنگل میں آسانی کے ساتھ شناخت کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ دیگر تمام مشرقی و مغربی حکما کے افکار و خیالات کے جو اجزا اقبال کے یہاں موجود ہیں، وہ سب گھل مل کر ایک وحدت میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اس میں اگر کوئی رنگ سب سے زیادہ تابناک و نمایاں نظر آتا ہے تو وہ قرآنِ حکیم کا رنگ ہے جس کے چشمۂ معانی پر پہنچنے کے بعد اقبال اپنی تمام ذہنی الجھنوں سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کے ذہن کی تمام گتھیاں حل ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ شاہ کلید ہے جس سے مسائل کا ہر قفل آسانی کے ساتھ کھل جاتا ہے۔ اقبال نے شرق و غرب کی دانش سے استفادہ کیا لیکن ان کی فکری اساس قرآنِ حکیم ہے۔ آفاق فاخری یہی بات کہہ رہے ہیں۔ ۴ علامہ اقبال کی فکری اساس کو مستعار ثابت کرنے کے لیے مخالفینِ اقبال نے فلسفۂ مغرب میں غوطہ زنی کرکے اقبال کے اشعار میں اس کی نشان دہی کی ہے۔ ایسے صاحبان نے قرآنِ حکیم کو عام طور پر نظرانداز کیا ہے۔ جن مطالب کو مغربی فکر میں تلاش کیا گیا، وہ قرآنِ حکیم اور اسلامی فکر میں موجود تھے۔ تفہیمِ اقبال کے لیے دوسرے متعدد علوم و فنون کے علاوہ فلسفہ بھی ممدو کارآمد ہے اور فلسفے کے منتہی بعض صاحبان نے اقبالیات میں قابلِ قدر اضافے کیے ہیں۔ ایسے حضرات میں خلیفہ عبدالحکیم اور بشیر احمد ڈار شامل ہیں۔ افسوس ہے کہ ان دونوں ماہرینِ اقبال نے ٹھوکریں بھی کھائی ہیں اور ان کی آرا سے نہ صرف غلط فہمیاں پھیلی ہیں بلکہ مخالفینِ اقبال نے انھیں اپنی تقویت کے لیے استعمال کیا ہے۔ علی عباس جلال پوری نے اقبال کے تصور خودی کو نطشے اور تصورِ زمان کو برگساں سے ماخوذ ثابت کرنے کے لیے دونوں فاضلین کی آرا کو حرفِ آخر بنا کر پیش کیا ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم ’رومی، نطشے اور اقبال‘ میں لکھتے ہیں:۶۳؎ خودی کے فلسفے کی تاسیس میں صفحہ ۱۲ پر جو اشعار ہیں، وہ نطشے سے ماخوذ ہیں جس کا فلسفہ یہ تھا کہ عینِ ذات یا حقیقتِ وجود ایک ’انائے مساعی‘ ہے۔ عمل اس کی فطرت ہے۔ اخلاقی عمل اور پیکار اور نشوونما کے لیے اس نے اپنا غیر یا ماسوا پیدا کیا تاکہ امکانِ پیکار اور اس کے ذریعے سے امکان ارتقا ممکن ہوجائے۔ اس فلسفے کو جوں کا توں اقبال نے اپنے بلیغ و رنگین انداز میں اس طرح بیان کردیا ہے کہ فلسفے کا خشک صحرا گلزار ہوگیا ہے۔ یہ اقتباس نقل کرکے علی عباس جلال پوری رقم طراز ہیں کہ ’’راقم کے خیال میں اقبال کا نظریۂ خودی بہ تمام و کمال نطشے سے ماخوذ ہے۔‘‘ ۶۴؎ فکرِِ اقبال میں خلیفہ عبدالحکیم نے لکھا ہے کہ ’’اقبال زمان کو ماہیتِ وجود اور عینِ خودی سمجھتا ہے۔ لیکن یہ زمان شب و روز کا زمان نہیں بلکہ تخلیقی ارتقا کا نام ہے۔ یہ نظریۂ زمان وہی ہے جسے برگساں نے بڑے دل نشیں انداز میں اپنے نظریۂ حیات کا اہم جز بنایا۔‘‘۶۵؎ اس اقتباس کو علی عباس جلال پوری نے اپنی تائید میں نقل کیا ہے اور اس کے معاً بعد بشیر احمد ڈار کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ ’’زمان کے بارے میں اقبال کا تصور بہ تمام و کمال برگساں سے ماخوذ ہے۔‘‘ ۶۶؎ ڈاکٹر سچیدانند سنہا نے پروفیسر محمد شریف کے مضمون ’اقبال کا تصورِ باری تعالیٰ‘ کے اقتباسات اور ان سے اخذ کردہ نتائج کو کئی صفحات پر پھیلایا ہے۔ ان نتائج کا ماحصل یہ ہے کہ قیامِ یورپ کے دوران اقبال میک ٹیگرٹ، رومی نطشے، برگساں اور وارڈ کے زیرِ اثر آئے اور ان تاثرات کو اپنے تین شعری مجموعوں کی صورت میں ڈھالا جو ۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۰ء تک شائع ہوئے۔ اس کے بعد اقبال زیادہ سے زیادہ وارڈ کے زیرِ اثر آتے چلے گئے حتیٰ کہ اس کے مرید و شاگرد (disciple) بن گئے۔ ۶۷؎ فراق گورکھ پوری نے اپنے مضمون ’اقبال سے متعلق خوش فہمیاں‘ میں لکھا ہے کہ ’’اقبال کا من گھڑت فلسفۂ خودی یا بے خودی جرمن مفکر نطشے سے مستعار ہے۔‘‘ نیز اقبال نے ’’ایک طرف مشہورِ عالم فلسفی برگساں سے مستعار خیالات کو جزوِ اسلام بنایا ہے، دوسری طرف برگساں کو گمراہ بھی بتایا ہے۔‘‘ ۶۸؎ ایک اور مضمون ’میری گزارش‘ میں فراق رقم طراز ہیں کہ ’’اقبال کے کلام میں جتنی کام کی چیزیں ہیں، وہ دنیا بھر کی تہذیبوں کی جان و ایمان ہیں بلکہ بہت کچھ تو اقبال نے غیر مسلم ادب سے پایا ہے۔۔۔۔۔ ادبیاتِ عالیہ میں جن صفات یا عناصر کا تعلق عمل سے ہے، انھیں اسلام یا کسی اور مذہب سے متعلق کرنا غلطی ہے‘‘۔ ۶۹؎ جوش ملیح آبادی نے فکرِ اقبال کو مستعار ثابت کرنے کے لیے ’پلان چٹ‘ کا سہارا لیا۔ ان کا بیان ہے کہ ’’فانی صاحب نے ایک رات کو میر تقی میر کی روح کو بلا کر پوچھا: اقبال کیسے شاعر ہیں؟ پلان چٹ نے لکھا: میں ان کو آدھا شاعر مانتا ہوں، اس لیے کہ وہ دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی ذاتی پونجی بالکل اوچھی ہے۔‘‘ ۷۰؎ جوش نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اقبال نے نطشے کے ’مافوق البشر‘ کو مشرف بہ اسلام کرکے ’شاہین بچہ‘ بنا دیا۔‘‘ ۷۱؎ اقبال کی فکری اساس پر اعتراضات کا سلسلہ طویل اور متنوع ہے۔ سبطِ حسن نے ۱۹۳۷ء میں لکھا تھا کہ ’اقبال فلسفۂ خودی کا مرید ہے اور خودی کی تکمیل کو ’زندگی کا مقصد‘ سمجھتا ہے۔ یہ اس کا اپنا فلسفہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کئی فلسفیوں نے اسی خودی کی تکمیل کی تعلیم دی ہے۔ ہیگل اس فلسفے کا جدید ترین مرید ہے۔‘‘ ۷۲؎ بعد میں سردار جعفری نے اس موقف کا اظہار کیا کہ ’’خودی کی بنیاد عینیت کے فلسفے اور ہیگل کی جدلیت پر ہے جس کو اقبال نے اسلامی فلسفے اور روایات سے تقویت پہنچائی۔۔۔۔۔۔ اقبال میکالے، برک، کار لائل وغیرہ سے گزر کر ہیگل، نطشے اور برگساں تک پہنچ گئے۔ بعض تصورات اقبال نے ڈارون، مارکس اور لینن سے بھی مستعار لیے اور انھیں اپنے مخصوص تصورات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔‘‘ ۷۳؎ جمیل جالبی رقم طراز ہیں: ۷۴؎ آخری دور میں اقبال نطشے کے بجائے برگساں کی طرف زیادہ مائل تھے۔ برگساں کے فلسفۂ زمان و مکاں، فلسفۂ امکانات اور وجدانیت نے ان پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ برگساں، نطشے کے مقابلے میں کم جلالی اور زیادہ جمالی ہے اور یہ جرمن اور فرانسیسی قوم کے مزاج کا فرق ہے۔ برگساں کی وجدانیت پرستی میں اقبال کو روحانیت نظر آئی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے وہ نطشے سے اخذ کردہ نظریۂ خودی یا نظریۂ شخصیت میں برگساں کے نظریۂ شخصیت و وجدانیت کا پیوند لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور آخر وقت تک اسے ایک دوسرے میں جذب کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ علی عباس جلال پوری کے اعتراضات کا سلسلہ دراز ہے۔ ان میں سے زیادہ اہم حسبِ ذیل ہیں۔ ۷۵؎ مولانا جلال الدین رومی کے جدوجہد، ارتقا اور عشق کے تصورات ان کی نو فلاطونی الٰہیات سے متبادر ہوئے ہیں۔ انھیں معاصر فلاسفہ کے حیاتیاتی اور مابعد الطبیعیاتی افکار سے تطبیق دینا متکلمانہ چیرہ دستی ہے۔ غالباً اقبال برگساں، لائڈ مارگن، جیمز وارڈ وغیرہ کی خوشہ چینی کا اعتراف کرنا شرقی علوم و معارف کے لیے سبکی کا باعث سمجھتے تھے۔ اس لیے ان نظریات کو رومی سے منسوب کرکے انھیں پیرومرشد کا اجتہاد قرار دیا ہے۔۔۔۔۔ انھوں نے برگساں سے بطورِ خاص اخذ و استفادہ کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ برگساں بھی ایک صوفی ہے اور اس کا نظریۂ ارتقائے تخلیقی وحدت وجود ہی کی بدلی ہوئی صورت ہے جس سے اقبال بخوبی مانوس تھے۔۔۔۔۔ اقبال کا عشق برگساں کی ’جوششِ حیات‘ کی صدائے بازگشت ہے۔۔۔۔ اقبال کا نظریۂ خودی بہ تمام و کمال نطشے سے ماخوذ ہے۔۔۔۔۔۔ زمان کے بارے میں اقبال کا تصور بہ تمام و کمال برگساں سے ماخوذ ہے۔ حمید نسیم اپنی تصنیف اقبال: ہمارے عظیم شاعر کے پہلے باب میں لکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنے تعقلِ خودی کی تشکیل میں برگساں کے تخلیقی ارتقا (Creative Evolution) کے نظریے سے اکتساب کیا۔ اس میں Elan Vital کا بھی ایک حصّہ موجود ہے۔ ہیگل سے بھی علامہ متاثر ہوئے کہ اس کا فلسفہ جدلیاتی فکر کا سرچشمہ ہے۔ کانٹ کے Pure Reason کا بھی علامہ پر خاصا اثر ہے۔ برگساں کے تخلیقی ارتقا کا تعقل تو علامہ کی شاعری پر اکثر محیط نظر آتا ہے: یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون اب خودی کے عناصرِ ترکیبی پر غور کیجیے۔ ان میں ارسطو کی True Self اور فرائڈ کی Super Ego اور نطشے کا نظریۂ قوت بہم آمیز ہیں۔ اب رہ گیا اقبال کا مومن یا مردِ کامل کا تعقل، یہ بھی بیشتر مغربی مفکروں کے افکار سے مستعار ہے۔۔۔۔۔ کارلائل کا ہیرو کا تصور، گوئٹے کا Eckerman، نطشے کا فوق البشر، گیتا کایوگی جو مہاراج کرشن کی تربیت کا شاہکار ارجن ہے۔ ان سب کو یکجا کرو اور کلمہ پڑھوادو تو وہ مردِ کامل بن گیا۔ ۷۶؎ یہ اعتراضات نامی گرامی حضرات کے ہیں۔ اقبال کی فکری اساس پر اعتراض دوسرے اہلِ قلم نے بھی کیے ہیں۔ مزید تفصیل غیر ضروری ہے۔ البتہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں روسی مصنفہ سٹیپن یانٹس اور سیّد حسین نصر کے اعتراضات بھی نقل کردیے جائیں۔ سٹیپن یانٹس اپنی کتاب Pakistan, A Philosophy and Sociology میں لکھتی ہیں کہ ’’بعض محققین کے نزدیک اقبال کا فلسفہ نطشے کے فلسفے کی کاربن کاپی ہے۔ برطانیہ کے پروفیسر برائون کے مطابق اقبال نے نطشے کے فلسفے کو مشرقی رنگ دے دیا ہے۔‘‘ ۷۷؎ سیّد حسین نصر لکھتے ہیں: ۷۸؎ ایک طرف تو صوفیانہ یا زیادہ عمومی معنوں میں انسانِ کامل کا اسلامی تصور (اقبال کو) اپنی جانب کھینچتا تھا اور دوسری جانب نطشے کا فوق البشر کا تصور۔ حالانکہ یہ دونوں تصورات ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں، اقبال نے ان دونوں کو مخلوط کرنے کی خاصی بڑی غلطی کر ڈالی۔ ان سے یہ مہلک غلطی اس لیے سرزد ہوئی کہ اسلام کے بعض پہلوئوں کے گہرے ادراک کے باوجود، انھوں نے اپنے وقت کے رائج نظریۂ ارتقا کو بڑی سنجیدگی سے اپنالیا۔ اصل میں ایک زیادہ واضح اور قابلِ فہم سطح پر اقبال ایک ایسے رجحان کا اشاریہ فراہم کرتے ہیں جو کئی جدید مسلمان لکھنے والوں کے یہاں ملتا ہے جو بجائے ’ارتقائیت‘ کی غلطیوں اور نارسائیوں کا جواب دینے کے، معذرت خواہانہ انداز میں چاروں شانے چت ہوکر اسے نہ صرف قبول کرلیتے ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی بھی، اس کے مطابق تاویل کرتے ہیں۔ ۵ خلیفہ عبدالحکیم کا بیان جس نے ڈاکٹر سیّد عبداللہ اور اسلوب احمد انصاری جیسے معتبر اقبال شناسوں کو، وقتی طور پر ہی سہی، غلط فہمی میں مبتلا کردیا۔ ۷۹؎ اور جسے علی عباس جلال پوری نے نقل کرکے یہ دعویٰ کردیا کہ نظریۂ خودی بہ تمام و کمال نطشے سے ماخوذ ہے، گذشتہ اوراق میں نقل ہوا ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ نے لکھا ہے کہ فلسفۂ خودی کی تاسیس میں اسرارِ خودی کے صفحہ ۱۲ پر جو اشعار ہیں، وہ نطشے سے ماخوذ ہیں۔ ان سات اشعار کو علی عباس جلال پوری نے اقبال کا علمِ کلام میں صفحہ ۱۷۴ پر نقل کیا ہے۔ اشعار یہ ہیں: پیکرِ ہستی ز آثارِ خودی است ہرچہ می بینی ز اسرارِ خودی است خویشتن راچوں خودی بیدار کرد آشکارا عالمِ پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذاتِ او غیر او پیداست از اثباتِ او درجہاں تخمِ خشومت کاشت است خویشتن را غیرِ خود پنداشت است سازد از خود پیکرِ اغیار را تا فزاید لذتِ پیکار را می کشداز قوتِ بازوئے خویش تاشود آگاہ از نیروئے خویش خود فریبی ہائے او عینِ حیات ہم چوگل از خوں وضو عینِ حیات ایک ہی موضوع پر دو لکھنے والوں میں حقیقی یا سطحی مشابہت ہوسکتی ہے، تاہم معترضین نے توضیحات سے گریز کیا ہے۔ اقبال نے ان اشعار میں خودی کے معنوں پر روشنی ڈالی ہے جب کہ ایسا دوسرے متعدد مقامات پر بھی کیا ہے۔ اقبال کی اپنی توضیحات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اشکالات دور ہوجاتے ہیں اور ایسے دعوے مشکوک ٹھہرتے ہیں کہ ’’یہ اشعار نطشے سے ماخوذ ہیں‘‘ یا ’’اقبال کا نظریۂ خودی بہ تمام و کمال نطشے سے ماخوذ ہے۔‘‘ اس ضمن میں ڈاکٹر نذیر قیصر کی کتاب Iqbal and Western Philosophers لائقِ مطالعہ ہے۔ اکثر معترضینِ اقبال نے اقبال کے فلسفۂ خودی کو نطشے سے مستعار بتایا ہے۔ یہ تضاد بھی دیدنی ہے۔ ڈاکٹر نذیر قیصر نے ایسے تمام مغربی فلسفیوں کی تحریروں سے فکرِ اقبال کا فرق واضح کیا ہے جنھیں اقبال کا مآخذ ثابت کیا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا اشعار میں سے پہلے شعر کے پہلے مصرعے کی وضاحت اقبال نے ان الفاظ میں کی ہے: ہر شے میں خودی موجود ہے۔ پتھر کو لے لو۔ اگر تم کمزور ہو تو تم سے اٹھائے نہیں اٹھے گا۔ اس میں وزن ہے اور یہی اس کی خودی ہے۔ درخت کو کاٹو تو مشکل سے کٹے گا۔ غرض ہر شے کسی نہ کسی رنگ میں قوتِ مزاحمت (power of resistance) رکھتی ہے اور یہی اس کی خودی ہے اور یہی اس کی ہستی کا ثبوت ہے کہ وہ ہے۔ ۸۰؎ ’’ہر چہ می بینی ز اسرارِ خودی است‘‘ کی وضاحت پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کے اس مصرعے سے ہوتی ہے: ہرچہ می بینی ز انوارِ حق است اسرارِ خودی کے پہلے شعر کا ترجمہ ہے کہ ’’زندگی کا وجود خودی کے آثار میں ہے، تو جو کچھ دیکھتا ہے وہ خودی ہی کے اسرار میں سے ہے۔‘‘ یعنی خودی کائنات کی ہر شے میں موجود ہے۔ ’’ہرچہ می بینی زانوارِ حق است‘‘ سے ظاہر ہے کہ کائنات کی ہر شے پر اللہ کی کسی صفت یا صفات کا پر تو ہے۔ یہ موقف سراسر اسلامی ہے۔ دوسرے شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’جب خودی نے اپنے آپ کو بیدار کیا تو یہ عالمِ پندار آشکار ہوا۔‘‘ اسے کُنْتُ کَنْزاً مَخِْفِیًّا۔۔۔۔ کے تناظر میںدیکھنا چاہیے جس کی رو سے اللہ نے کہا کہ’’ میں ایک مخفی خزانہ تھا، جب میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے تو میں نے دنیا تخلیق کی۔‘‘ تیسرے شعر میں ’’غیراو پیداست از اثباتِ او‘‘ کا مفہوم اقبال نے یہ بیان کیا ہے کہ ’’ایغو کے لیے غیر ایغو (Non- ego) کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک آپ غیر کو ثابت نہ کریںایغو کو ثابت نہیں کرسکتے۔ ایغو کو مشخص کرنے کے لیے اسے اغیار سے ممیز کرنا ضروری ہے اور اس امتیاز کے لیے دوسری اشیا کا وجود ضروری ہے جن کے مقابلے میں یا جن کی موجودگی میں ذہن کسی خاص شے کے وجود کا تصور کرسکتا ہے۔ الغرض انا کے لیے غیر انا کا وجود ضروری ہے۔ ۸۱؎ چوتھے شعر میں ’تخمِ خشومت‘ اور پانچویں میں ’لذتِ پیکار‘ کا ذکر ہے۔ ’’درجہاں تخمِ خشومت کاشت است‘‘ کو سورۂ بقرہ کی آیت ۳۶ کی رو سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے، جس میں انسان اور ابلیس کو ایک دوسرے کا دشمن قرار دیا ہے۔ خیروشر کی پیکار ازل سے جاری ہے۔ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی ان اشعار میں ایک مضمون بقول خلیفہ عبدالحکیم یہ ہے کہ ’’حقیقتِ وجود ایک انائے سعی ہے اور عمل اس کی فطرت ہے۔‘‘ سورہ الحشر کی آیات ۲۳ اور ۲۴ میں یہ مضمون موجود ہے۔ ان آیات میں اللہ کی دوسری صفات کے علاوہ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ نگہبان، سب پر غالب، تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ ۸۲؎ ان اشعار کی بدولت علی عباس جلال پوری نے اقبال کو نطشے کے تتبع میں وحدت الوجودی قرار دیا ہے۔ ’گلشنِ راز جدید‘ میں پانچویں سوال کے جواب میں جو اشعار ہیں ان میں سے بعض نقل کرکے بھی جلال پوری نے اقبال کو وحدت الوجودی قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف اقبال کا کل اردو فارسی کلام نظر انداز کیا ہے جو انسانی انفرادیت پر زور دیتا ہے بلکہ اقبال کے مذکورہ جواب کے ان اشعار سے بھی اغماض برتا ہے جن سے انسانی انفرادیت کی توثیق ہوتی ہے۔ مثلاً اقبال کہتے ہیں: چہ گویم از من و از توش وتابش کند اِنَّا عَرَضْنَا بے نقابش یعنی من، یا خودی اور اس کی تاب و تواں کا بیان کیا کروں، اِنَّا عَرَضْنَا کی آیت اسے بے نقاب کررہی ہے۔ یہ سورۂ احزاب کی آیت نمبر۷۲ ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔‘‘ اب امانت سے جو مفہوم بھی مراد لیں انسانی انفرادیت کا اثبات ہوتا ہے۔ ابوالاعلیٰ مودودی کے نزدیک امانت سے مراد خلافت (نیابتِ الٰہی) ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ یہ کائنات میں بلند ترین عہدہ ہے اور اختیار کا امتحان بھی ہے۔‘‘ ۸۳؎ اقبال کا تصورِ خودی نطشے سے ماخوذ اس لیے نہیں ہے کہ دونوں کا تصور ذرا مختلف ہے۔ اقبال کا تصور خدا اسلام پر مبنی ہے جب کہ نطشے عیسائیت کے شخصی خدا کو نہیں مانتا۔ جلال پوری کا یہ موقف درست ہے کہ نطشے وحدت الوجودی ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کہ علامہ اقبال بھی وحدت الوجودی ہیں۔ اقبال نے خدا کے لیے ’خودیِ مطلق‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ جلال پوری نے اس اصطلاح کے استعمال کو وحدت الوجود پر محمول کیا ہے۔ یہ دلیل کمزور ہے، اس لیے کہ جس طرح قادرِ مطلق ہونے کے باوجود خود اللہ نے انسان کو قدرت و اختیار سے نوازا ہے اسی طرح وَنَفَخْتُ فِیْہٖ ِمنْ رُّوحِیٔ کی رو سے انسان صاحبِ شخصیت ہستی ہے۔ نطشے کا زور خودیِ مطلق ہی پر ہے اور اس خودیِ مطلق سے مراد دینی خدا نہیں ہے۔ علامہ اقبال خودیِ مطلق سے خدا مراد لیتے ہیں اور ان کے نزدیک انسانی شخصیت کے استحکام کا انحصار خدائی صفات کو جذب کرنے پر ہے۔ پروفیسر نکلسن کے نام اپنے وضاحتی نوٹ میں اقبال نے اپنا موقف تَخَلَّقُوْابِاخْلاَقِ اللہ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’اپنے اندر خدائی صفات پیدا کرو۔ انسان منفرد اور انوکھا بن جاتا ہے جب وہ سب سے زیادہ منفرد بننے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ ۸۴؎ ۱۹۳۷ء میں لکھوائے گئے نوٹ (An Exposition of the Self) میں ’’اصل نظامِ عالم از خودی است‘‘ کی وضاحت مذکورہ بالا سورۂ حشر آیات ۲۳ اور ۲۴ اور دوسرے قرآنی حوالوں سے کی ہے۔ ۸۵؎ اقبال کا زور انسانی خودی کے استحکام پر ہے۔ اللہ کی ہستی (خودیِ مطلق) اس کا بنیادی حوالہ ہے، چناںچہ اسرارِ خودی کے پہلے باب کا عنوان ہے: ’در بیان اینکہ اصلِ نظامِ عالم از خودی است و تسلسلِ حیاتِ تعیناتِ وجود بر استحکامِ خودی انحصار دارد‘۔ اس عنوان میں ’خودی‘ کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ خودی کا لفظ خدائی اور دوسری مرتبہ انسانی خودی کے معنوں میں ہے۔ انسان خدائی صفات جذب کرکے نائبِ حق کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ یہ تصور نہ نطشے کا ہے اور نہ کسی اور مغربی فلسفی کا۔ علی عباس جلال پوری علم اور عقل کے علم بردار ہیں لیکن ایسے علم کا کیا فائدہ جو حقائق کے منافی ہو اور ایسی خرد افروزی کا کیا حاصل جو حقائق سے رو گردانی کرتی ہو۔ اقبال وحدت الوجودی نہیںہیں اور زندہ و قادرِ مطلق شخصی خدا کے قائل ہیں، اس لیے ان کا تصورِ خودی نطشے سے ماخوذ نہیں ہے، لیکن جلال پوری لکھتے ہیں: ۸۶؎ راقم کے خیال میں اقبال کا نظریۂ خودی بہ تمام و کمال نطشے سے ماخوذ ہے۔ ہم ’اقبال کا تصورِ ذاتِ باری‘ اور اقبال اور نظریۂ وحدت الوجود، میں مفصل بحث کرچکے ہیں کہ اقبال کا تصورِ ذاتِ باری سریانی ہے جو اسلام کے شخصی اور ماورائی تصور کے منافی ہے۔ اقبال نطشے کے تتبع میں خودیِ مطلق کے قائل ہیں۔ اقبال کو وحدت الوجودی قرار دینا ان پر اتہام ہے۔ اقبال کو شخصی و ماورائی خدا کا منکر قرار دینا علمی بددیانتی ہے۔ ۶ علی عباس جلال پوری لکھتے ہیں: ’’اقبال کا نظریۂ زمان برگساں سے ماخوذ ہے۔ ان کے فلسفی شارحین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ ۸۷؎ فلسفی شارحین سے مراد خلیفہ عبدالحکیم اور بشیر احمد ڈار ہیں جن کے بیانات کا ذکر آچکا ہے۔ جلال پوری نے ڈار کا ایک جملہ نقل کیا ہے یعنی ’’زمان کے بارے میں اقبال کا تصور بہ تمام و کمال برگساں سے ماخوذ ہے۔‘‘ جس عبارت میں یہ جملہ واقع ہے، وہ حسبِ ذیل ہے: ۸۸؎ بے شمار ایسے نتائج بھی جو برگساں نے حاصل کیے فکرِ رومی سے ملتے جلتے تھے اور غالباً یہی وجہ تھی کہ اقبال، برگساں اور رومی سے زیادہ نزدیک ہوگئے۔ برگساں، رومی اور اقبال تینوں حقیقت کو حرکی اور تخلیقی شمار کرتے تھے، فرق یہ تھا کہ رومی اور اقبال کے نزدیک یہ حقیقت روحانی تھی لیکن برگساں مغرب کی روایات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس قسم کا جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے جھجکتا تھا۔ زمان کے بارے میں اقبال کا تصور بہ تمام و کمال برگساں ہی سے ماخوذ ہے اور اختیار کے مسئلے پر یہ تینوں کے تینوں ہم نوا ہیں۔ ڈار کا زیرِ نظر جملہ اپنے ہی سیاقِ کلام میں اجنبی ہے۔ جب رومی اور اقبال کے نزدیک، برگساں کے برخلاف، حقیقت روحانی ہے، نیز رومی، برگساں اور اقبال تینوں حقیقت کو حرکی اور تخلیقی شمار کرتے ہیں تو ’’زمان کے بارے میں اقبال کا تصور بہ تمام و کمال برگساں ہی سے ماخوذ‘‘ کیونکر ہوسکتا ہے۔ اقبال اولاً اپنے تصورِ زماں پر الحاد کا سایہ تک نہیں پڑنے دیتے: خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں، نہ مکاں! لَا اِلٰہ الا اللّٰہ ثانیاً اقبال کا تصورِ زمان غایتی ہے۔ یہ غایت ’’الوقت سیف‘‘ سے بھی واضح ہے۔ امام شافعی کے اس مقولے پر بھی کھٹ راگ پیدا کیا گیا اور اقبال کے ساتھ ان کا استخفاف بھی کیا گیا۔ ۸۹؎ خلیفہ عبدالحکیم کے اعتراض کے ضمن میں جگن ناتھ آزاد نے لکھا ہے: ’’خلیفہ صاحب کے اس بیان سے انکار نہیں کہ اقبال برگساں کا بڑا مداح تھا اور اس فلسفے سے اقبال نے فیض بھی حاصل کیا لیکن ان کا یہ کہنا کہ اقبال کا نظریۂ زماں برگساں کے نظریۂ زماں کا چربہ ہے تحقیق کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔‘‘ ۹۰؎ اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں: ’’ایک نامیاتی حقیقت کی حیثیت سے وقت کا جیسا تصور ہمیں اقبال سمیت بیشتر مسلمان مفکرین کے ہاں ملتا ہے، ویسا اور کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘ ۹۱؎ ڈاکٹر عشرت حسن انور فلسفے کے منتہی ہیں، وہ لکھتے ہیں: ۹۲؎ دونوں کے نزدیک ذاتِ نفس ایک مسلسل انقلاب اور پیہم سلسلۂ تغیر کی حامل ہے: ہستم اگرمی روم گر نروم نیستم۔ لیکن اس مقام پر پہنچ کر اقبال برگساں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور خود آگے بڑھ جاتے ہیں۔۔۔ مسلسل انقلاب ضرور ذاتِ نفس کا آئینہ دار ہے لیکن اصل مقصود کیا ہے؟ برگساں کے نزدیک ان تمام تغیرات، واردات اور احوال کا مقصد نہیں، ہم زورِ زندگی کے تحت بہتے چلے جارہے ہیں مگر کہاں جارہے ہیں، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ اقبال اس سوال پر غور و فکر کرتے ہیں، یہاں تک تو وہ برگساں کے ہم خیال تھے، مثلاً پیامِ مشرق میں کہتے ہیں: زندگیِ رہرواں در تگ و تاز است و بس قافلۂ موج را جادہ و منزل کجا است لیکن برگساں اسی مقام پر ٹھہر جاتا ہے اور آگے بڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس کا خیال ہے کہ آزادیِ نفس اسی وقت باقی رہ سکتی ہے، جب ذاتِ نفس کے لیے کوئی منزل اور مقصود متعین نہ ہو، لیکن اقبال کا خیال ہے کہ مقصود کا ہونا ضروری ہے مگر یہ مقصود خارجی نہ ہو۔ اگر خارجی ہوگا تو ذاتِ نفس لاتغیر، آزاد اور خود مختار نہ رہے گی۔ اس لیے ان کے نزدیک یہ مقصود فی نفسہٖ ذاتِ نفس ہی سے متعلق ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ذاتِ نفس مسلسل تغیر اور انقلابِ احوال کے ذریعے ’خودی‘ کی پرورش اور تکمیل میں مصروف ہے: یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار بشیر احمد ڈار بھی مشرق کے تقدم کو مانتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’اقبال کو برگساں کی جس بات نے اپنا فریفتہ کیا، وہ یہ تھی کہ برگساں شعور کی زیادہ گہری سطحوں کا پرزور حامی تھا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ حیاتِ انسانی کے روحانی پہلو اور وجدان کے اس کام کا بڑا قائل تھا جو حرکی تجربے کو معرضِ وجود میں لاتا ہے۔ دراصل یہ مشرق ہی کی صدائے بازگشت تھی جو مغرب کے کافر دل میں گھر کر رہی تھی۔‘‘ ۹۳؎ ۷ علی عباس جلال پوری نے اقبال کے تصورِ عشق کو برگساں کی جوششِ حیات کی بازگشت بتایا ہے۔ ۹۴؎ ان کے نزدیک ’’اقبال کے ہاں عقل و وجدان کا تقابل کم و بیش اسی صورت میں موجود ہے جو برگساں کے افکار کا مابہ الامتیاز ہے‘‘۔ ۹۵؎ نیز ’’اقبال نے برگساں کے تتبع میں عقل و خرد کی جابجا تنقیص کی ہے۔‘‘ ۹۶؎ اسلامی فکر میں تصورِ عشق صدیوں سے موجود ہے اور اس کا ماخذ قرآنِ حکیم ہے۔ قرآن نے اللہ سے شدید محبت کو بندۂ مومن کا وصف بتایا ہے۔ اقبال کے مرشد رومی بھی عشق کے علم بردار ہیں۔ ان کا قلع قمع جلال پوری نے اس دعوے سے کیا ہے کہ ’’ارتقا کی طرح مولانا روم کا تصورِ عشق بھی سراسر نو افلاطونی ہے۔‘‘ ۹۷؎ اقبال کے تصورِ عشق کا صاف اور سیدھا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اپنے نصب العین سے شدید محبت کرتا ہے۔ یہ نصب العین اللہ ہے۔ اللہ سے محبت اور اللہ کی کتاب نیز رسول ﷺسے محبت لازم و ملزوم ہیں۔ عشق ایسی قوت ہے جو ہر پست کو بالا کرسکتی ہے۔ نصب العین سے محبت عمل کے لیے قوتِ محرکہ ہے۔ یہ قوت کوہِ گراں نیز طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر آگے بڑھتی ہے۔ ۹۸؎ فرد اور ملت کے استحکام کا راز قوتِ عشق میں مضمر ہے۔ ۹۹؎ جلال پوری برگساں اور اقبال دونوں کو خرد دشمن قرار دیتے ہیں۔ اقبال کو خرد دشمن کہنا مغالطہ ہے۔ ان کے نزدیک عقل و عشق کی آمیزش بہترین نتائج کی ضامن ہے۔ اسی لیے کہا ہے کہ ’’عشق را بازیر کی آمیزدہ۔‘‘ ۱۰۰؎ جلال پوری نے اقبال پر خرد دشمنی کا الزام شدومد سے عائد کیا ہے۔ متعدد دوسرے لکھنے والے بھی ان کے ہم نوا ہیں، چنانچہ ’’کیا اقبال خرد دشمن اور مخالفِ علم ہیں؟‘‘ کے عنوان سے اس پر بحث آیندہ کبھی کی جائے گی۔ عقل و خرد کی تنقیص اسلامی دنیا میں پرانی بات ہے۔ اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے میں، عقلیت کے خلاف اشاعرہ کے ردِعمل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے کہ مسلم علما کے ذہنوں پر عقلیت کا جو رُعب طاری تھا، اسے غزالی نے کامل طور پر زائل کردیا اور اس طرح عقلیت شکنی میں انھیں ہیوم پر تقدم حاصل ہے۔ ۱۰۱؎ جلال پوری نے اقبال شکنی کی کوشش اشتراکی مقاصد کے تحت کی ہے۔ اس سے قطعِ نظر مشرق میں ایک مخصوص ذہن ایسا ہے جس پر مغرب کا تہذیبی و علمی رعب طاری ہے۔ وہ اپنی علمی روایت کو بنظرِحقارت دیکھتا ہے یا اسے نظر انداز کردیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق نے لکھا ہے کہ اقبال کے متحرک و موثر رویے (dynamic attitude) کا سراغ یورپی احیائے علوم کی زبردست تحریک میں لگایا جاسکتا ہے، تاہم ان کے فلسفے نے جو خاص شکل اختیار کی، اس کی نشان دہی برگساں کے تخلیقی ارتقا اور نطشے کی تحریروں میں کی جاسکتی ہے۔ ۱۰۲؎ ڈاکٹر محمد صادق کچھ اور پیچھے جاتے اور تحریکِ احیائے علوم کا سراغ بھی لگاتے تو تفہیمِ اقبال کا حق بہتر طور پر ادا ہوتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یورپی احیائے علوم کی بنیاد مسلمانوں کے علمی اکتشافات و ثمرات پر رکھی گئی۔ ۱۰۳؎ خلیفہ عبدالحکیم نے لکھا ہے: ’’استحکامِ خودی، سخت کوشی اور سخت پسندی کا فلسفہ نطشے کا ہے۔‘‘ بے شک ہے لیکن اسلام کے منافی نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے اور نطشے پر اسے تقدم حاصل ہے۔ قرآنِ حکیم کے اس حکم وَجَاھِدُ وْافِی اللہِ حَقًّ جِہَادِہٖ ط میں سخت کوشی کی تعلیم ہے۔ اس حکم کی وضاحت کرتے ہوئے ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے کہ ’’جہاد سے مراد محض قتال (جنگ) نہیں ہے بلکہ یہ لفظ جدوجہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔‘‘۱۰۴؎ نطشے اور اقبال کی بہتر تفہیم کے بعد ڈاکٹر خلیفہ کی رائے بدل گئی تھی۔ ان کا یہ بیان لائقِ توجہ ہے: ۱۰۵؎ اسرارِ خودی میں بعض افکار اور بعض مثالیں نطشے سے ماخوذ ہیں لیکن دوسرے لحاظ سے اقبال اور نطشے میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں میں افکار کے ایک پہلو کی ظاہری مناسبت ہے۔ یہ سرسری اور ظاہری مناسبت تو منصور حلاج اور فرعون میں بھی پائی جاتی ہے۔ منصور نے بھی اناالحق کہا اور فرعون نے بھی انالحق کہا، لیکن دونوں کا انا بھی الگ تھا اور دونوں کا حق کا تصور بھی الگ۔ ویسے تو مولانا روم اور نطشے کے افکار میں بھی ظاہری مماثلت مل سکتی ہے۔ مولانا بھی آرزومند ہیں کہ موجودہ انسان اپنی موجودہ مادّہ پسندی اور حیوانیت سے اوپر اٹھ جائے اور نئی مخلوق بن جائے۔ مولانا کی ایک طویل غزل میں سے اقبال نے تین اشعار اس تصور کے منتخب کرکے ان کو مثنوی کا فاتحہ الکتاب بنایا ہے۔ الفاظ کا ظاہر ایسا ہے کہ نطشے بھی سنتا تو پھڑک اٹھتا اور کہنے لگتا کہ میں بھی تو یہی چاہتا ہوں۔۔۔۔ اقبال کو نطشے میں یہ بات پسند تھی کہ اس سست عناصر انسان کی خودی کو مضبوط کرنا چاہیے، لیکن نطشے کے ہاں خودی کا تصور ہی محدود اور مہمل تھا۔ نطشے قوت اس لیے چاہتا ہے کہ ایک اعلیٰ تر نوعِ حیوان وجود میں آسکے۔ رومی اور اقبال قوتِ تسخیر اس لیے چاہتے ہیں کہ انسان کی خودی مضبوط ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس میں الٰہی صفات کی شان جھلکنے لگے۔ سیّد حسین نصر کی یہ رائے کہ انسانِ کامل کا اسلامی تصور اور نطشے کا فوق البشر کا تصور ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں اور اقبال نے دونوں کو ملانے کی خاصی بڑی غلطی کر ڈالی، قرینِ انصاف نہیں ہے۔ انسانِ کامل کے اسلامی تصور اور نطشے کے فوق البشر میں سخت کوشی اور قوت و جلال کے عناصر مشترک ہیں۔ اس لیے ’مکمل ضد‘ کہنا درست نہ ہوگا۔ یہی عناصر اقبال اور نطشے میں مشترک ہیں۔ اس سے آگے چلیں تو اقبال کا تصور بنیادی طور پر اسلامی اور نطشے کا غیر اسلامی ہے۔ دونوں کو مخلوط کرنے کا الزام بے بنیاد ہے اور محض فوسٹر کی صدائے بازگشت ہے۔ نطشے انسانوں کو آقائوں اور غلاموں میں تقسیم کرتا ہے۔ غلاموں کے لیے اطاعت، بردباری اور مسکینی کی اخلاقی صفات ہیں جب کہ آقائوں کے اخلاق جلالی اور خواہشِ اقتدار کے آئینہ دار ہیں۔ اقبال انسانی مساوات کے علم بردار ہیں اور ان کا ’مردِ مسلمان‘ اللہ تعالیٰ کی جلالی و جمالی صفات کا مظہر ہے۔ نطشے کا فوق البشر صرف اعلیٰ طبقے کا فرد ہوتا ہے جب کہ اقبال کے نزدیک یہ مرتبہ عام آدمی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ ’مسلم جمہوریت‘ کے عنوان سے ۱۹۱۷ء میں علامہ اقبال کا مختصر سا شذرہ شائع ہوا تھا۔ اس میں اقبال کے اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت ہوئی ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ۱۰۶؎ یورپ کی جمہوریت جس کے سر پر اشتراکی شورش کا بھوت سوار ہے، دراصل یورپین سوسائٹی کی اقتصادی اصلاح کی بدولت پیدا ہوئی۔ نطشے چونکہ جمہوری حکومت کو پسند نہیں کرتا اور عوام الناس سے کوئی توقع نہیں رکھتا، اس لیے وہ مجبوراً اعلیٰ تہذیب و تمدن کو طبقۂ امرا کی نشوونما پر منحصر کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عامتہ الناس ترقی کی مطلق صلاحیت نہیں رکھتے؟ اسلامی جمہوریت، یورپین جمہوریت کی طرح اقتصادی مواقع کی وسعت سے پیدا نہیں ہوئی۔ وہ تو ایک روحانی اصول ہے جو اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ہر شخص کو ترقی کرنے کے مواقع بہم پہنچائے جائیں اور اسلام ایسا مذہب ہے جو انسان کی محنتی قوتوں کو بروئے کار لاسکتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے عامتہ الناس اور ادنیٰ طبقے کے لوگوں میں سے بہترین سردار اور لیاقت کے افراد پیدا کیے ہیں۔ پس بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ابتدائی اسلام کی جمہوریت میں نطشے کے فلسفے کی تکذیب کا کافی سامان موجود ہے۔ حمید نسیم کا یہ مؤقف کہ اقبال کا تصورِ خودی صرف ایک آمیزہ ہے: ارسطو کی True Self اور فرائڈ کی Super Ego اور نطشے کے نظریۂ قوت کا، یک رخی سوچ کا مظہر ہے۔ سوال یہ ہے کہ صداقت و قوت کی صفات کیا اللہ کی صفات نہیں ہیں؟ ان کا یہ خیال ایک عجوبے سے کم نہیں کہ اقبال کا مومن یامردِ کامل کا تعقل ملغوبہ ہے کارلائل کے ہیرو، گوئٹے کے ایکرمین، نطشے کے فوق البشر اور گیتا کے ارجن کا۔ حمید نسیم مفسرِ قرآن ہیں لیکن ان کی نگاہ ان پیغمبروں کی طرف نہیں گئی جن کے حوالوں سے کلامِ اقبال مزین ہے۔ ۱۰۷؎ وہ ان اکابر صحابہؓ کو بھی نظر انداز کرتے ہیں جن کا تابندہ کردار اقبال کی نگاہوں کو روشن کرتا ہے۔ ۱۰۸؎ اسلامی تاریخ کے اکابر بھی انھیں دکھائی نہیں دیتے جن کا ذکر کلامِ اقبال میں بکثرت ہوا ہے۔ ۱۰۹؎ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک انسانِ کامل کا حقیقی اور بلند ترین نمونہ جنابِ رسالت مآبﷺ کی شخصیت تھی۔ ۱۱۰؎ اس کی نشان دہی انھوں نے اسرارِ خودی کے پہلے ہی باب میں کردی تھی۔ ۱۱۱؎ حمید نسیم اندیشہ ہائے دور و دراز اور سخن ہائے بے بنیاد کا شکار ہوئے ہیں۔ سیدھی اور مختصر بات یہ ہے کہ بہترین صفات اللہ کی ہیں جن کا سب سے زیادہ پرتو حضورﷺ کی ذات پر پڑا ہے۔ اقبال کا سب سے قریبی تعلق خدا، قرآن اور محمدﷺسے ہے۔ حضورﷺ رحمت اللعالمین ہیں۔ ان کی انسانیت نواز، انقلاب آفریں اور آفاق گیر شخصیت کے مقابلے میں کسی مجہول ہیرو اور کسی نام نہاد فوق البشر کی حیثیت ہی کیاہے۔ ارجن کا اقبال نام تک نہیں لیتے تھے جب کہ محمدﷺ کی زمان و مکاں پر محیط شخصیت اقبال کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ اقبال نے انسانِ کامل کے اوصاف اللہ کی صفات کے حوالے سے بیان کیے ہیں۔ ۱۱۲؎ اقبال مردِ یقین ہیں اور ان کا یقین حدِ کمال کو چھوتا ہے: میرا نشیمن بھی تو خاکِ نشیمن بھی تو اللہ کے بعد جناب رسالت مآبﷺ کا مقام و مرتبہ اقبال کے نزدیک سب سے بلند ہے اور خودی کے امکانات کی حد انھی کے حوالے سے بیان ہوئی ہے۔ حقیقت جاننے کی لگن اور نیک نیتی موجود ہو تو اس پورے مسئلے کی تفہیم کے لیے یہ رباعی کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱۱۳؎ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میںہے ساری خدائی برتر انسان کا تصور زمانۂ قدیم سے موجود ہے۔ ڈاکٹر حاتم رام پوری نے اس موضوع پر کام کیا ہے۔ ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان ہے: تصورِ بشر اور اقبال کا مردِ مومن۔ انھوں نے مثالی انسان کے یونانی تصور، ارتقائے انسانی کے ہندوستانی تصور اور یورپی نشاتِ ثانیہ کے ہیروئی توانائی پسندی کے تصور کی وضاحت پہلے تین ابواب میں کی ہے۔ افلاطون کے اسلاف میں سے ہومر (Homer) پہلا شخص ہے جس نے یونانیوں کو انسانی عظمت کے تصور سے روشناس کرایا۔ اس کا تصورِ بشر یہ ہے کہ آزادی اور تکبر انسان کا پیدایشی حق ہے۔ فیشاغورث کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جو توازن و تناسب کو برقرار رکھے۔ سقراط کا ’حکیمِ خود آگاہ‘ صداقت کو روح کی گہرائیوں میں اتارنا چاہتا ہے۔ افلاطون کا ’حکیمِ حکمراں (Philosopher Ruler) کا تصور یہ ہے کہ ریاست کی باگ ڈور دولت مندوں کے بجائے ہوش مندوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ ارسطو ’فراخ دل انسان‘ (Magananimous Man) کی بات کرتا ہے۔ اس کا تصورِ بشر، افلاطون کی طرح، روحانیت سے زیادہ ہم آہنگ نہیں ہے۔ میکاولی کا مختار مقنن (Omnipotent Legislatar) بے پناہ قوت و صلاحیت کا حامل ہے۔ میکاولی بقول ہابس کھلے طور پر اپنے ہیرو کو بے رحمی، شکست و خون، مکاری اور دوسری قسم کی بدعنوانیوں کی تعلیم دیتا ہے۔ روسو خواہشِ عامہ (General Will) پر زور دیتا ہے اور افراد کی بڑھتی ہوئی انانیت کو کچلتا ہے۔ ہیگل کا ’تاریخی انسان‘ ابدی تدبیروں کا قائل ہے، افراط و تفریط سے گریزاں ہے اور ساری قوت و صلاحیت معاشرے کی اجتماعی بہبود پر خرچ کرتا ہے۔ اضداد کی کش مکش اور ارتقا کے عمل کو ہیگل جدلیاتی عمل (Dialectical Process) کہتا ہے۔ جولیس چیکس روئی (Julues Chaix Ruy) ’مردِ فقیر‘ کا تصور پیش کرتا ہے۔ برنارڈشا کا ’ڈون جون‘ ایک اوباش، کج خلق اور نازیبا کردار ہے۔ نطشے کا ’فوق البشر‘ قاہرانہ سرشت کا ایک سرمست صیّاد ہے۔ وہ حق پرستی کی بجائے عزم للقوۃ (Will to Power) کا قائل ہے۔ اس قوت کو بروئے کار لا کر روایتی قدروں کو بدل کر رکھ دینا چاہتا ہے اور خدا کا منکر ہے۔ گوئٹے کا کردار فائوسٹ ایک متبحر عالم ہے جب کہ ابلیس فائوسٹ کے دامن میں دنیا کی ساری رنگینیاں اور تمام آسایشیں بھر دیتا ہے۔ نطشے گوئٹے سے متاثر ہے لیکن اس کا ’فوق البشر‘ زیادہ بھیانک، بے اصول اور انتہائی ملحد ہے۔ کار لائل کا ’ہیرو‘ بادشاہوں کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ دستو وسکی کا ’خدا نما انسان‘ پوشیدہ طور پر خدا کا باغی ہے۔ حاتم رام پوری نے تیسرے باب میں انسان کے ہندوستانی تصور اور چوتھے باب میں اسلام کے تصورِ انسان کی تفصیل پیش کی ہے۔ پانچویں باب میں اقبال کے مردِ مومن کا تفصیلی مطالعہ ہے اور چھٹے باب میں تصوراتِ بشر کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان دو ابواب میں اقبال کے مردِ مومن کا ماخذ واضح ہوجاتا ہے۔ اقبال کا فلسفۂ خودی اور فکر اقبال کے سرچشمے جیسے تحقیقی مقالوں کے مقابلے میں حاتم رام پوری کا مقالہ بساغنیمت اور ان کی تحقیق قابلِ قدر ہے۔ تفصیلات کے لیے تو اصل کتاب دیکھنی چاہیے تاہم حاتم رام پوری نے تصورِ بشر کا جو تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، اس کے بعض حصّے یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر حاتم لکھتے ہیں:۱۱۴؎ اب تک مردِ آزاد، حکیمِ خود آگاہ، فراخ دل انسان، حکیم حکمران، مختار مقنن اور تاریخی انسان کا جو جائزہ لیا گیا اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے کہ ان تمام نصب العینی انسانوں میں سے کسی کے پاس نہ تو کوئی ٹھوس قانونِ حیات موجود ہے اور نہ ہی ان کے یہاں معیارِ خیر و شر کا تصور واضح ہے۔ سب کے سب عقل کی گم کردہ راہ بھول بھلیوں میں ہیں اور انسانیت کے عروج کا کوئی ٹھوس لائحۂ عمل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ہیروئی توانائی یا قوت پسندی کے دور کے فوق البشری تصورات کے ضمن میں حاتم رام پوری نے لکھا ہے: ’’ہٹلر کے منصہ شہود پر آجانے کے بعد جب دنیا نے ہیروئی توانائی کے تصور کا عملی پیکر دیکھا تو لرزہ بر اندام ہوگئی اور اپنے رومانی خوابوں کا بھیانک، زندہ پیکر دیکھ کر حکما، ادبا اور شعرا چونک گئے اور انھوں نے اس کے بعد سے ’فوق البشر‘ کے تصور کے تادیبی اور نفسیاتی پہلوئوں پر زور دیا۔‘‘ ۱۱۵؎ اقبال کے ’مردِ مومن‘ اور فوق البشر کے دوسرے تصورات کے فرق کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر حاتم رام پوری لکھتے ہیں: ۱۱۶؎ اقبال کا مردِ مومن نہ تو یونان کے مثالی انسان کی طرح محض عقل اور سیاسی بصیرت پر بھروسا کرتا ہے اور نہ نشاتِ ثانیہ کے بعد سپرمین اور قبل کے ڈون جون کی طرح خدا کا باغی ہے۔ وہ سپرمین سے زیادہ توانا ہے، مضبوط تر ہے لیکن اپنی بے پناہ قوتوں کو آئینِ حق یا قرآنی قوانین کا پابند بنا دیتا ہے۔ وہ قدروں کو متبادل کرکے ایک نئی دنیا کے لیے نئے آدم پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن اس ذیل میں وہ حیات کی ان تمام قدروں (values) کی بیخ کنی کرتا ہے جو انسانیت کے عروج و ارتقا کی راہوں میں حائل ہیں۔ صالح قدروں سے اسے پیار ہے۔ وہ ایک معیارِ خیر و شر رکھتا ہے جو اس کا اپنا تیار کردہ نہیں، قرآنی دستورِ حیات تسلیم کرلینے کے نتیجے کے طور پر حاصل ہے۔۔۔۔ نطشے کا سپرمین، کارلائل کا ہیرو، دستووسکی کا خدا نما انسان، گوئٹے کا فائوسٹ اور اس قبیل کے تمام دوسرے افراد اپنی مرضی کو مقدم گردانتے ہیں، خصوصاً میکاولی کا مختار مقنن اور کارلائل کے ہیرو تو اپنی ہوس کا شکار ہیں۔ ان کے پاس کوئی لائحۂ عمل نہیں۔۔۔۔ ان میں سے کوئی قیصر پرست ہے، کوئی توہم پرست اور بت پرست، کوئی عقل پرستی کا شکار ہے تو کوئی طاقت پرستی کا شکار لیکن مردِ مومن محض خدا پرست ہے اور اس کی خدا پرستی اسے تمام مصیبتوں سے نجات دلاتی ہے۔۔۔۔۔ مردِ مومن تو محض خدائے واحد کا نائب ہے اور اس کے بنائے ہوئے قانون اور آئین کو اس دنیا میں اسی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نافذ کرتا ہے لیکن اس سے اس کی خودی اور شخصیت مجروح ہونے کے بجائے اور زیادہ مستحکم اور پایدار ہوجاتی ہے کیوںکہ یہ سب کچھ وہ کسی جبر کے تحت نہیں کرتا بلکہ اسے خدا اور خدا کے رسول سے عشق ہے اور اپنی روحانی بلندیوں کے مقام پر وہ اسلام کو دینِ فطرت پاتا ہے، جو کچھ اس کے دل میں ہے، وہی اس کتاب میں مذکور ہے اور جو کچھ انسانیت کے لیے مفید ہے، وہ تمام باتیں اس کتاب میں ہیں اور کتاب میں جو کچھ ہے، اسے رسولِ عربی نے عملی جامہ پہنا کر دکھا دیا ہے۔ ۸ مندرجہ بالا تصریحات سے ان اعتراضات کی تردید ہوجاتی ہے جو شدومد اور تواتر سے علامہ اقبال کی فکری اساس کے ضمن میں کیے گئے ہیں۔ ان اعتراضات کی رَو اس طرح چلی کہ فکرِ اقبال کا ماخذ مغرب میں تلاش کرنا فیشن بن گیا۔ مخالفینِ اقبال کے علاوہ حامیانِ اقبال بھی اس فیشن کا شکار ہوئے۔ چنانچہ یہ موضوع بہت کچھ لکھنے کے بعد بھی ابھی تشنہ ہے۔ اشفاق علی خاں رقم طراز ہیں کہ تمام سیاسی اور فلسفیانہ تصورات و مقاصد، بصیرت و آرا، اسلامی اتحاد، قومیت، مغرب پر سخت نکتہ چینی حتیٰ کہ خودی کے ضمن میں بھی اقبال اوریجنل نہیں تھے۔ منصوبۂ مسلم ریاست کے ضمن میں بھی ان کے نامور اور ممتاز پیش رو موجود تھے۔ ۱۱۷؎ خودی کا تصور پرانا ہے لیکن جیسا اقبال کا ہے، ویسا کسی اور کا نہیں ہے۔ اقبال کا تصورِ خودی، خدا پر منحصر ہے۔ مسلم ریاست کے تصور کا جہاں تک تعلق ہے، متعدد حضرات اقبال کا رشتہ اس سے جزوی یا کلی طور پر منقطع کرتے ہیں۔ جن معنوں میں اشفاق علی خاں نے اقبال کے اوریجنل مفکر ہونے کاانکار کیا ہے ان معنوں میں مغربی مفکرین میں سے بھی کوئی اوریجنل نہیں ہے۔ دراصل مبدئِ فیض اللہ ہے اگرچہ اعتراض کرنے والوں نے وحی کے اوریجنل ہونے پر بھی اعتراض کیے ہیں۔ اقبال وسیع القلب اور وسیع النظر انسان تھے۔ ان کے مطالعے اور استفادے کا میدان مشرق و مغرب اور ماضی و حال تک وسیع تھا۔ تاہم ان کا حقیقی فکری ماخذ قرآنِ حکیم ہے۔ اس اعتبار سے بھی ان کے اوریجنل مفکر ہونے کا انکار کیا جاسکتا ہے لیکن عصری علمی اکتشافات کے تناظر میں اسرارِ کتاب جس طرح اقبال نے منکشف کیے ہیں، کوئی اور ایسا نہیں کر پایا۔ اس ضمن میں متعدد علماے دین کی آرا قابلِ توجہ ہیں۔ ۱۱۸؎ اقبال انھی معنوں میں اوریجنل مفکر ہیں۔ تصورِ قومیت اس کی ایک مثال ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدا تک وطنی قومیت کے تصور نے دنیا بھر میں تسلط جمالیا تھا۔ کچھ عرصہ اقبال بھی اس کے اسیر رہے۔ بعض جید اور مشہور علما نے اس تصور کو اسلامی بتایا اور اسے تقویت دی۔ یہ اقبال ہی تھے جنھوں نے اسے رد کردیا اور قومیت کا اسلامی تصور پیش کیا۔ اشفاق علی خاں مخالفینِ اقبال میں شامل ہیں لیکن عزیز احمد اقبال کے بڑے قدر دان ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے بھی غلط فہمی پھیلائی ہے۔ اقبال ریویو جنوری ۱۹۶۷ء میں کاظم الہدیٰ کا مضمون ’اقبال اور تحریک پاکستان‘ شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اقبال نے دو قوموں کا تصور ریناں سے اخذ کیا ہے اور اپنے نظریے کی بنیاد ریناں کے اس قول پر رکھی ہے کہ ’انسان نہ نسل کی قید گوارا کرسکتا ہے نہ مذہب کی، نہ دریائوں کا بہائو اس کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے عزیز احمد نے لکھا تھا کہ اقبال نے ’قوم‘ کے تصور کو ریناں سے اخذ کیا ہے۔۔۔۔۔ اقبال نے اپنی بحث کی بنیاد ریناں کے اس قول پر رکھی ہے: انسان نہ نسل کا غلام بن سکتا ہے نہ مذہب کا، نہ دریا کے بہائو کی سمت کا، نہ پہاڑوں کے سلسلوں کے رخ کا، انسانوں کا ایک بہت بڑا عاقل اور گرم دل اجتماع ایک اخلاقی شعور کی تخلیق کرتا ہے جسے قوم کہتے ہیں۔ ۱۱۹؎ ریناں کے تصورِ قوم کے بعض پہلو اقبال کے اسلامی تصورِ قومیت سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اقبال نے خطبۂ علی گڑھ (۱۹۱۱ئ) میں کہا تھا: ’’ہماری قومیت کا اصلِ اصول نہ اشتراکِ زبان ہے نہ اشتراکِ وطن، نہ اشتراکِ اغراضِ اقتصادی۔‘‘ دوسرے مقامات پر اشتراکِ نسل کی نفی بھی کی ہے۔ یہاں تک اقبال ریناں کے ساتھ چلتے ہیں لیکن ریناں کے تصورِ قوم میں مذہب کا دخل نہیں ہے جب کہ اقبال کے نزدیک مسلم قومیت کی واحد بنیاد اسلام ہے۔ اس نکتے کی تفسیر و تلقین وہ تاحینِ حیات کرتے رہے ہیں۔ خطبہ الٰہ آباد میں جہاں ریناں کا قول نقل کیا ہے، وہاں اس کی تردید بھی کی ہے۔ اقبال نے لکھا ہے: ۱۲۰؎ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہند میں ذات پات اور مذہب کی مختلف وحدتوں نے اپنی اپنی انفرادیت کو ایک بڑے کل میں ضم کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ ہر گروہ اپنے مجموعی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بے حد بے قرار ہے۔ ریناں کے خیال کے مطابق ایسے اخلاقی شعور کی تخلیق جسے ایک قوم کا ماحصل قرار دیا جاسکتا ہے، ایسی قیمت کا تقاضا کرتی ہے جو ہند کے لوگ ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اقبال کے ’تصورِ قومیت‘ کی تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں تاہم یہاں ’جواب شکوہ‘ حسبِ ذیل مصرع نقل کیا جاتا ہے جو ان کے تصورِ قومیت کا خلاصہ ہے: قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں مغرب پر سخت نکتہ چینی کے باب میں بھی مخالفینِ اقبال کو آل احمد سرور جیسے ماہرینِ اقبال نے مسالا فراہم کیا ہے۔ سرور لکھتے ہیں: ’’اس بیزاری میں بھی بعض مغرب کے فلسفی (مثلاً نطشے) بول رہے ہیں۔‘‘ ۱۲۱؎ سر سیّد کی تحریک کے ردِعمل میں مغربی تہذیب انیسویں صدی ہی میں کڑی تنقید کا ہدف بن گئی تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کی تہذیبِ مغرب پر طنز و تعریض ان کی شاعری کا نمایاں پہلو ہے۔ مغرب پر نطشے اور اقبال کی تنقید ان کے اپنے اپنے موقف کی آئینہ دار ہے۔ اقبال کی تنقید اخلاقی و روحانی زاویوں سے ہے جس کا ہدف خود نطشے بھی ہے۔ اقبال کی تنقیدِ مغرب میں اکبر الٰہ آبادی کی نسبت زیادہ وسعت اور گہرائی ہے اور برخلاف اکبر کے، اقبال مغرب کے محاسن بھی بیان کرتے ہیں۔ سلیم احمد نے لکھا ہے کہ: ۱۲۲؎ حرکت اور تغیر مادّے کی صفت ہے جو طبیعیات کا شعبہ ہے۔ مابعد الطبیعیات کا تعلق مادّہ سے نہیں، ماورائے مادہ سے ہے۔ ان معنوں میں وہ تمام جدید فلسفے جو حرکت و تغیر پر زور دیتے ہیں اور اس سے ماورا کسی ایسی حقیقت تک نہیں پہنچتے جو بے حرکت اور بے تغیر ہے، اپنی اصل میں مادہ پرست فلسفے ہیں اور قطعی طور پر مابعد الطبیعیات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، مثلاً ایک فلسفہ برگساں کا ہے جس سے اقبال کم از کم حرکت پرستی کی حد تک ضرور متاثر ہیں۔ اس سے پہلے عزیز احمد نے لکھا تھا کہ اسلامی اصولِ حرکت کا اجتہاد اقبال نے زیادہ تر برگساں کے زیرِ اثر کیا ہے۔ ۱۲۳؎ اقبال کے نزدیک ’’اسلام میں اصولِ حرکت‘‘ سے مراد ’’اسلام میں اصولِ اجتہاد‘‘ ہے۔ یہ ’’اسلامی اصولِ حرکت کا اجتہاد‘‘ کیا ہوا؟ اصولِ اجتہاد کو برگساں کے زیرِ اثر بتانا اسی رجحان کا حصّہ ہے جو اقبال کے ہر تصور کو مغرب میں تلاش کرتا ہے جب کہ اجتہاد کا اصول پیغمبرِ اسلام کے عہد سے جاری ہے۔ اقبال جب کہتے ہیں کہ ’’ہر شے مسافر ہر چیز راہی‘‘ یا ’’تڑپتا ہے ہر ذرّۂ کائنات‘‘ تو ایک علمی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ اگر یہ فلسفہ برگساں کا ہے تو وہ لائقِ تحسین ہے۔ اقبال جب کہتے ہیں کہ ’’مسلم تصورِ زماں اور مغربی تصورِ زماں میں کئی مماثلات ہیں۔‘‘ اور ’’ابنِ خلدون کے تصورِ زماں نے، جو مسلسل تخلیقی حرکت کا حامل ہے، ہمارے جدید فلسفۂ تاریخ کی بنیاد رکھی۔‘‘ نیز ’’ابنِ خلدون زمان کے مسئلے کی تخلیقی تفہیم کے حوالے سے برگساں کے پیش رو ہیں۔‘‘ ۱۲۴؎ تو یہ بھی علمی حقائق ہیں اور انھیں قبول کرنا چاہیے۔ اقبال کُلَّ یٰوْمٍ ھُوَفِیٔ شأنٍ کے تناظر میں یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘‘۔ اس سے حرکت کا نہیں لیکن تغیر کا اظہار ضرور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس کارگاہِ عالم میں کار فرمائی کا لامتناہی سلسلہ اور تخلیقی عمل جاری ہے۔ ۱۲۵؎ اس نے قرآن حکیم میں جہد و عمل کی بار بار تلقین کی ہے اور حقیقی اسلامی معاشرے کے افراد جہد و عمل کا پیکر تھے۔ ان کا مطمحِ نظر رہبانیت نہیں تھی ،جہاد تھا۔ سلیم احمد جیسے سکونی اور جمودی تصوف کے علم بردار یہ نکتہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور مغرب کے ساتھ ساتھ اقبال کو بھی غلط ٹھہراتے ہیں۔ تصوف دو قسم کا ہے۔ ایک قسم ہے سکونی اور جمودی تصوف کی جو رہبانیت پر منتج ہوتی ہے اور دوسری قسم جہد و عمل والے تصوف کی ہے جس کی انتہا جہاد ہے۔ اقبال اجتہاد کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں، جہد و عمل کی تلقین کرتے ہیں اور جہاد کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ یہ امور اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے ناگزیر حد تک ضروری ہیں۔ آلِ احمد سرور نے ’اقبال اور ابلیس‘ کے عنوان سے ایک مضمون ۱۹۳۸ء میں بعض اکابر کی موجودگی میں سنایا تھا۔ ۱۲۶؎ مضمون فاضلانہ ہے۔ ایک مقام پر جاوید نامہ کی نظم ’نالۂ ابلیس‘ کے اشعار نقل کرکے لکھا ہے کہ ’’نالۂ ابلیس میں صاف گوئٹے کے شیطان کا عکس ملتا ہے۔‘‘ اسی طرح ’بالِ جبریل‘ کی نظم ’جبریل و ابلیس‘ کی زبردست تحسین کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’آخری اشعار میں گوئٹے اور ملٹن دونوں کے خیالات کا عکس موجود ہے۔‘‘ آلِ احمد سرور نے اقبال کے تصورِ ابلیس کے مآخذ میں گوئٹے اور ملٹن کو شامل کرنے کی ابتدا کی۔ انتہا اس طرح ہوئی کہ سری نگر کے ایک سیمی نار منعقدہ ۱۹۷۸ء میں شمیم حنفی نے کہا کہ ’’اقبال نے فوق البشر کا تصور ملٹن سے لیا ہے۔‘‘ ۱۲۷؎ یہ بے معنی جملہ لکھتے وقت شمیم حنفی کے ذہن میں کیا تھا، اس کی وضاحت نہ ہوئی تاہم چونکہ ملٹن نے ابلیس کو فردوسِ گم شدہ میں ہیرو بنا کر پیش کیا ہے اورفوق البشر بھی ہیرو ہوتا ہے، اس لیے شمیم حنفی کی سوچ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اقبال قوتِ حرکت و عمل کی تحسین کرتے ہیں خواہ وہ ابلیس ہی میں کیوں نہ ہو۔ ابلیس کی اسی قوت کا اظہار ’جبریل و ابلیس‘ کے آخری شعروں میں ہوا ہے۔ اللہ ہو، اللہ ہو کہتے رہنے پر اقبال رسمِ شبیری ادا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس طرح اسرارِ خودی میں اپنا مطمحِ نظر بیان کرنے کے لیے خواجہ حافظ اور افلاطون کی اقبال نے مذمت کی، حالانکہ اصل مقصد ان اکابر کی مذمت کرنا نہیں تھا، اسی طرح قوتِ حرکت و عمل کے تناظر میں جبریل پر ابلیس کی فوقیت بظاہر نمایاں ہے لیکن متعدد مقامات پر علامہ اقبال نے جبریل کے حوالے سے زبردست نکتے بیان کیے ہیں۔ ۱۲۸؎ نظم ’جبریل و ابلیس‘ میں مقصد ابلیس کو ہیرو بنانا نہیں ہے۔ ’نالۂ ابلیس‘ کے تحت اشعار انسانوں کو شرم دلانے، پست ہمتی اور اطاعتِ ابلیس سے نجات دلانے اور زندہ مردِ حق پرست بننے پر آمادہ کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں۔ یہ اشعار مذاہب کے پیروکاروں کے لیے تازیانۂ عبرت ہیں جو جانتے ہیں کہ ابلیس خدا کا باغی ہے لیکن اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ ابلیس خدا سے درخواست گزار ہے کہ مجھے آدم کی صحبت نے خراب کردیا ہے۔ وہ میری کبھی حکم عدولی نہیں کرتا۔ وہ اپنی عظمت سے بے خبر ہے۔ وہ اس بات سے ناآشنا ہے کہ اس میں کبریائی کا شرار موجود ہے۔ وہ میرا مدِمقابل بنتا ہی نہیں۔ اس کی پست ہمتی نے میری ہمتِ بلند کو بھی پست کردیا ہے۔ اس کی فطرت خام اور عزم کمزور ہے اور میری ایک ضرب کی تاب بھی نہیں لاسکتا۔ اے خداوندِ صواب و ناصواب! مجھے پختہ تر حریف چاہیے جو صاحبِ نظر ہو۔ پانی اور مٹی کی گڑیا نہیں چاہیے، تنکوں کی مٹھی نہیں چاہیے۔ تنکوں کے لیے تو میرا ایک شرار کافی ہے، پھر مجھے اس قدر آگ کیوں دی؟ میری درخواست یہ ہے کہ مقابلے کے لیے ایسا مردِ خدا بتا دے جو میرا انکار کرے، میری گردن مروڑے، جس کے سامنے میری حیثیت جو کے برابر بھی نہ ہو اور جو مجھے شکست کی لذت دے سکے۔ ۱۲۹؎ ان اشعار میں اقبال کی اسلامی بصیرت پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان اشعار میں اور ’جبریل و ابلیس‘ کے آخری اشعار میں ملٹن اور گوئٹے کے اثرات کی نشان دہی بجا سہی لیکن اہم بات وہ پیغام ہے جو اقبال دے رہے ہیں اور جو ان کے نظامِ فکر سے ہم آہنگ ہے۔ اثرات کے ضمن میں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ گوئٹے نے بقول ہائنا مشرق کے سینے سے حرارت تلاش کی۔ ۱۳۰؎ جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں کہ اکثر صوفیوں نے ابلیس کو محض علامتِ شعر کے طور پر نہیں بلکہ جہد و عمل کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ ملٹن اور گوئٹے نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ’’ملٹن سے قبل الجیلی اور مانی بھی قریب قریب انھی خطوط پر اپنے خیالات کا اظہار کرچکے تھے اور ملٹن ان خیالات سے خاصا متاثر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ۱۳۱؎ جہاں تک نظم ’جبریل و ابلیس‘ میں ابلیس کے طنطنے کا تعلق ہے تو یہ اس وقت بھی موجود تھا جب آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرکے ابلیس نے خدا کی نافرمانی کی تھی۔ جگن ناتھ آزاد نے ملٹن کے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن میں ابلیس کا جلال اور طنطنہ نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابلیس کا یہ جلال اور کروفر کلامِ اقبال میں بھی قدم قدم پر موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا بیان یہ بھی ہے کہ: بقول اقبال۔۔۔۔۔۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ابلیس کو اپنے عزائم کی تکمیل کے راستے میں اسلام ایک بہت بڑی رکاوٹ نظر آتا ہے لیکن اس وقت جب کہ انسان کی پیدایش ہوئی اور ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اس کا طنطنہ، اس کا جلال اور اس کا کرّوفر اقبال کے یہاں اسی انداز سے موجود ہے۔ ۱۳۲؎ نوریِ ناداں نیم، سجدہ بآدم برم اوبہ نہاد است خاک، من بہ نژاد آذرم تصورِ ابلیس کے ضمن میں اقبال پر بعض صوفیہ اور شعرا کے اثرات کا ذکر این میری شمل نے بھی کیا ہے۔ ۱۳۳؎ تاہم اصل بات یہ ہے کہ اقبال نے قوتِ جہد و عمل کے باعث ابلیس کی تحسین کی ہے اور منصور حلاج کے زیرِ اثر اسے خواجۂ اہلِ فراق بھی کہا ہے۔ ۱۳۴؎ اقبال کے نزدیک درد و سوزِ آرزومندی متاعِ بے بہا ہے جو مردانِ خدا کا بنیادی وصف ہے۔ اسی عشق اور جہد و عمل سے خودی مستحکم ہوتی ہے اور مردِ خدا ابلیس کا مدِمقابل بنتا ہے۔ درحقیقت ابلیس نہ اقبال کا ہیرو ہے نہ ممدوح۔ اقبال کے وجدان میں ابلیس ابلیس ہی ہے یعنی شرکا نمایندہ ہے۔ کلامِ اقبال میں اسی تصور کا بار بار اعادہ ہوتا ہے۔ بالِ جبریل میں نظم ’جبریل و ابلیس‘ سے کچھ آگے ’ابلیس کی عرض داشت‘ ہے، جس کا آخری شعر یہ ہے : جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک! ضربِ کلیم میں ’تقدیر‘ کے عنوان سے جو نظم ہے اس کے بارے میں اقبال نے وضاحت کی ہے کہ ابنِ عربی سے ماخوذ ہے۔ ’سیاستِ فرنگ‘ میں فرنگی سیاست کو ابلیسی کہا ہے۔ خدا سے کہتے ہیں : بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس اس سے ذرا آگے ایک نظم بعنوان ’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘ ہے۔ ابلیس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان اسلام کی خاطر جان کی بازی لگا دیتا ہے، چنانچہ اپنے سیاسی فرزندوں (مغرب کے اہلِ سیاست) کے نام فرمان جاری کرتا ہے کہ: روحِ محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو۔ اسی طرح نظم بعنوان ’جمعیتِ اقوام‘ کے آخری شعر میں کہا ہے کہ شاید: ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے۔ ۱۳۶؎ ارمغانِ حجاز کی طویل نظم ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ میں اقبال کا تصورِ ابلیس واضح تر ہوجاتا ہے۔ ابتدا میں ابلیس نے اپنے جو کارنامے بیان کیے ہیں ان میں فرنگی کو ملوکیت کا خواب دکھانا، مذہب کے افسوں کو توڑنا، ناداروں کو تقدیر پرستی کا سبق سکھانا اور منعموں کو سرمایہ داری کا جنون دینا شامل ہیں۔ مشاورت کے دوران یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ (مغربی سرمایہ دارانہ) جمہوریت ملوکیت کا ایک پردہ ہے۔ فاشیت سے افرنگی سیاست بے حجاب ہوئی ہے اور ابلیسی نظام کے لیے خطرہ اشتراکیت نہیں بلکہ اسلام ہے۔ کلامِ اقبال میں ابلیس کا ذکر عام طور پر جس طرح ہوا ہے، اس کا اندازہ ذیل کے اشعار سے بھی لگایا جاسکتا ہے: ۱۳۷؎ دہریت چوں جامۂ مذہب درید مرسلے از حضرتِ شیطاں رسید آں فلارنساویِ باطل پرست سرمۂ او دیدۂ مردم شکست ابنِ آدم دل بہ ابلیسی نہاد من بہ ابلیسی ندیدم جز فساد! عقل اندر حکمِ دل یزدانی است چوں ز دل آزاد شد شیطانی است پروفیسر وحید الدین حکمتِ گوئٹے اور اقبال میں لکھتے ہیں: بقائے روح گوئٹے کے نزدیک ایسی حقیقت نہیں جس کا ہر شخص دعوے دار ہوسکتا ہو بلکہ وہ صرف اپنے عمل کی قیمت پر منحصر ہوتی ہے۔ یہاں اقبال کے نقطۂ نظر کی گوئٹے سے مماثلت بالکل بیّن ہے کیوںکہ اقبال کے نزدیک بھی آدمی بقا کا صرف امیدوار ہے، وہ دعوے دار نہیں ہوسکتا۔ ظاہر ہے کہ اقبال اپنے خیالات میں یہاں پیرِ مغرب کے افکار سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ ۱۴۰؎ اس ضمن میں خلیفہ عبدالحکیم رومی اور اقبال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’دونوں کے ہاں بقا مشروط ہے سعیِ بقا پر۔‘‘ ۱۴۱؎ گوئٹے جرمنی کی تحریکِ شرقی سے بہت متاثر تھا اور بقول اقبال وہ حافظ، شیخ عطار، سعدی، فردوسی اور عام اسلامی لٹریچر کا ممنونِ احسان ہے۔ ۱۴۲؎ ۹ فکرِ اقبال کو مغرب سے مستعار قرار دینے والے انواع و اقسام کے اہلِ قلم ہیں۔ ان میں زیادہ نمایاں مخالفینِ اقبال ہیں جن میں سے بعض نے سنجیدگی کے ساتھ فکرِ اقبال کو مغربی فکر میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض کی آرا رسمی، تقلیدی یا معاندانہ ہیں۔ یہ آرا اکثر کم علمی پر مبنی ہیں اور کہیں کہیں مضحکہ خیز ہوگئی ہیں۔ جوش ملیح آبادی کو ترقی پسندی کا بڑا زعم تھا لیکن لڑکپن کی توہم پرستی سے کبھی نجات حاصل نہ کرسکے۔ یادوں کی برات اس پر شاہد ہے۔ اسی کتاب میں ’پلان چٹ‘ کے ذریعے غیبی لیکن معتبر معلومات تک پہنچنے کی ترکیب درج ہے۔ اسی ’پلان چٹ‘ نے انکشاف کیا کہ اقبال کی ذاتی پونجی اوچھی ہے اس لیے کہ اقبال نے دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کی ہے۔ اب اگر ’پلان چٹ‘ اتنا ہی کارگر آلہ تھا تو جوش کو چاہیے تھا کہ حیدر آباد جا کر خوار ہونے کے بجائے ’پلان چٹ‘ کا کارخانہ لگاتے اور غیبی معلومات کے اس مستند آلے کو ہندوستان بھر کے ضرورت مندوں کو فراہم کرتے اور لاکھوں کروڑوں کماتے۔ اقبال کے ہاں تو افکار کی اتنی کثرت ہے کہ مثال ملنی مشکل ہے لیکن خود جوش کی ذاتی پونجی واقعی اوچھی ہے۔ ایک الگ مطالعے میں راقم نے علامہ اقبال پر جوش کے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ ۱۴۳؎ اس کا حاصل یہ ہے کہ جوش نے جو اعتراضات اقبال پر کیے ہیں ان میں سے بیشتر کا ہدف وہ خود بنتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے پاکستانی کلچر پر بحث کے ضمن میں اقبال کو نطشے اور برگساں کا مرکب قرار دے کر ’پاکستانی کلچر‘ کے فطری معمار کو رد کردیا۔ وہ نطشے اور برگساں کے چکر میں پڑے بغیر اللہ کی جلالی اور جمالی صفات کو زیرِ بحث لاسکتے تھے جنھیں اقبال نے ’قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت‘ کی صورت میں بیان کیا ہے۔ حسین نصر نے اقبال کے تصورِ ارتقا کو ڈارون کے کھاتے میں ڈالا ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ علی عباس جلال پوری نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ اقبال وحدت الوجودی تھے اور اسی لیے نطشے اور برگساں کی پیروی کی۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اقبال نے وحدت الوجود کا توڑ کیا ہے اور اسلامی فکر سے وابستہ ہو کر اور اس کا علم بردار بن کر توحید کی تفسیر و تلقین کا فریضۂ موثر طور پر ادا کیا ہے۔ ان کے تصورِ خودی کا محور بھی کلمہ طبیہ ہے: خودی کا سرِ نہاں لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ۔ کوئی دانش ور اپنی فلسفہ دانی کی آڑ میں اقبال کو توحید و رسالت کے ایقان سے جدا نہیں کرسکتا۔ حمید نسیم اقبال کے فلسفۂ خودی کو مختلف فلسفوں کا آمیزہ اور تصورِ مرد کامل کو کار لائل کے ہیرو، گوئٹے کے ایکرمین، نطشے کے فوق البشر اور گیتا کے ارجن کا ملغوبہ بتاتے ہیں۔ اُن کے خیال میں ان سب کو کلمہ پڑھا کر مردِ کامل بنایا گیا۔ انھیں اتنا تو معلوم ہی ہونا چاہیے تھا کہ ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کلمہ پڑھ کر مردِ مومن بن سکتا ہے بشرطیکہ کلمۂ طبیہ و اقعتاً اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ ۱۴۴؎ فراق گورکھ پوری نے آنکھیں بند کرکے اقبال کے تصورِ مومن کو نطشے کے فوق البشر سے مستعار قرار دیا ہے۔ اکثر مخالفینِ اقبال نے ایسا ہی کیا ہے۔ ڈاکٹر تاراچرن رستوگی نے اس موضوع پر کام کرکے Western Influence in Iqbal کے عنوان سے تحقیقی مقالہ پیش کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے اپنے نتائجِ تحقیق کو حسبِ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے: ۱۴۵؎ Iqbal's is genius assimilates some impressions, gets stimulated by some thoughts, acquiesces in some view-points, revoltes against some opinions: influence is thus a process that continues making an impact on ones sensibility.... His greatness lies in the fact that he drank deep at both the eastern and western sources: the knowledge of the world of his time is clearly reflected in his writings. اقبال نے علومِ شرق و غرب پڑھ لیے لیکن روح میں درد و کرب باقی رہا۔ ۱۴۶؎ ان علوم سے متاثر بھی ہوئے لیکن یہ اثر پذیری ان کے اسلامی وجدان کے منافی نہیں ہے بکہ اس کی آئینہ دار ہے۔ مغربی مفکرین کا ذکر کرکے پروفیسر جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں: ’’ان تمام فلسفیوں کے نظریات سے اقبال جس حد تک متاثر ہوئے، وہ آئینے کی طرح روشن ہے اور کلامِ اقبال کے ہر دور میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔‘‘ ۱۴۷؎ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اثر پذیری اقبال کو اپنے مرکز و محور، اپنے اسلامی وجدان اور اپنے حقیقی سرچشمۂ افکار سے دور کرنے کا سبب بنتی ہے؟ علامہ اقبال کی فکری اساس کے تعین کے لیے یہ ایک اہم سوال ہے۔ ’اشتراکی جھلک‘ کے حوالے سے جگن ناتھ آزاد نے حسبِ ذیل رائے کا اظہار کیا ہے: ۱۴۸؎ اسلام تو اقبال کا سرچشمۂ افکار ہے اور کسی بھی ناقد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ کسی مفکر کا تعلق اس کے سرچشمۂ افکار سے توڑ سکے۔ اس لیے اگر کانٹ ویل اسمتھ یا سردار جعفری یا عزیز احمد یا ڈاکٹر تاثیر نے فکرِ اقبال میں اشتراکیت کی جھلک کی طرف اشارہ کردیا تو اس سے اقبالیات کی بنیاد کے متزلزل ہونے کا اندیشہ لاحق نہیں ہوتا۔ اقبال اور کسی مغربی مفکر کے ضمن میں الگ سے بھی متعدد مطالعے پیش کیے گئے ہیں۔ ۱۴۹؎ لیکن اقبال اور مغربی فکر پر ڈاکٹر رستوگی کے مذکورہ مقالے (۱۹۸۷ئ) سے پہلے بشیر احمد ڈار کی کتاب Iqbal and Post-Kantian Voluntarism ۱۹۵۶ء میں شائع ہوئی تھی۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی کتاب اقبال اور مغربی مفکرین ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی۔ پروفیسر وحید الدین کا کتابچہ اقبال اور مغربی فکر ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا۔ اسی سال آلِ احمد سرور کی مرتب کردہ کتاب اقبال اور مغرب منظرِ عام پر آئی۔ ڈاکٹر عشرت حسن انور کی تصنیف اقبال اور مشرق و مغرب کے مفکرین ۱۹۸۹ء میں شائع ہوئی۔ دوسرے ماہرینِ اقبال نے بھی اس موضوع پر لکھا۔ ۱۵۰؎ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت واضح تر ہوتی گئی کہ اقبال اگرچہ شرق و غرب کے فکر و فلسفے سے حکمت کے موتی چنتے رہے لیکن ان کا حقیقی سرچشمۂ فکر اسلام ہے۔ ڈاکٹر رستوگی اقبال کے بدترین مخالفوں میں شامل ہیں۔ تحقیقی مقالہ لکھنے کا مقصد فکرِ اقبال میں مغربی اثرات و مآخذ کی نشان دہی کرنا تھا۔ اقبال پر ایسے بعض اثرات جو ماخوذات کا درجہ رکھتے ہیں، ان کے اخلاقی، سیاسی اور انسانی تصورات سے متصادم نہیں ہیں۔ وہ یا تو اقبال کی اسلامی بصیرت سے ہم آہنگ ہیں یا درحقیقت اسلامی فکر ہی کی توسیع ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے ڈاکٹر نذیر قیصر کی تصنیف Iqbal and Western Philosophers لائقِ مطالعہ ہے۔ ۱۵۱؎ ڈاکٹر موصوف نے نطشے اور اقبال، شوپنہار اور اقبال، نطشے اور اقبال، ولیم جیمز اور اقبال، برگساں اور اقبال، میک ٹیگرٹ اور اقبال کے عنوانات سے الگ الگ ابواب قائم کرکے تفصیلی تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے ان تمام فلسفیوں کے ساتھ اقبال کے اختلافات (differences) اور مماثلات (affinities) اور مماثلات کے ضمن میں قرآنی آیات، احادیث، مثنوی رومی اور دوسرے اسلامی مآخذ کی نشان دہی کی ہے۔ ان سے مخالفینِ اقبال کے اعتراضات کے علاوہ ان اِشکالات کا ازالہ بھی ہوا ہے جن سے خلیفہ عبدالحکیم اور بشیر احمد ڈار جیسے ماہرینِ اقبال دوچار رہے ہیں۔ ڈاکٹر رستوگی سمیت اس موضوع پر لکھنے والوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اقبال نے مغربی تصورات کے خلاف بغاوت بھی کی ہے۔ درحقیقت، بحیثیتِ مجموعی، اقبال طلسمِ علمِ حاضر کا توڑ کرتے ہیں۔ زمانۂ حاضر کے انسان نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا لیکن زندگی کی شبِ تاریک کو سحر نہ کرسکا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ سرمایۂ یقین سے محروم ہے۔ اقبال کا سرمایۂ یقین ہی ان کا وجدان ہے اور یہ وجدان خانوں میں بٹا ہوا نہیں ہے بلکہ واحد ہے۔ اقبال ہر اس تصور اور ہر اس فکری نظام کے مخالف ہیں جو الحاد اور مادّہ پرستی کو فروغ دیتا ہے اور ایقان و اخلاق پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اقبال ملوکیت و استعمار کے مخالف اس لیے ہیں کہ ان کے نزدیک: ’’سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے۔‘‘ اقبال سرمایہ داری کے مخالف ہیں اس لیے کہ سرمایہ دار عوام کا استحصال کرتے ہیں جس سے اخوت، عدل اور مساوات کی اسلامی تعلیمات مجروح ہوتی ہیں۔ اقبال ان اخلاقی اصولوں کے تحت ہی سرمائے کی قوت سے کام لینے کے روادار ہیں۔ اشتراکیت اصولاً مساوات کی علم بردار ہے۔ اقبال اس بنا پر اس کی تحسین کرتے ہیں اور اس تناظر میں حرفِ قل العفو کے بروئے کار آنے کی امید رکھتے ہیں لیکن جب طریقِ کوہکن میں پرویزی حیلے دیکھتے ہیں تو اس سے بیزار ہوجاتے ہیں اور چوںکہ اشتراکیت ایک ملحدانہ نظام ہے اس لیے بحیثیت مجموعی اسے رد کردیتے ہیں۔ اقبال سرمایہ دارانہ جمہوریت کے پرخچے اڑاتے ہیں اور روحانی جمہوریت کے متمنی ہیں۔ ۱۵۲؎ وطنی قومیت جسے مغرب نے دنیا بھر میں پھیلا دیا ہے، اقبال کے نزدیک ناقابلِ قبول ہے۔ وہ مسلمانوں کو ایک قوم یا ملت قرار دیتے ہیں جو رنگ، نسل اور وطن پر مبنی نہیں بلکہ مشترکہ اسلامی عقیدے پر استوار ہے۔ قدیم و جدید کی کشمکش اور بنیاد پرستی و آزاد خیالی (Liberalism) کے تناظر میں اقبال کی حمایت و مخالفت کا معیار اسلام ہے۔ ان کا فہمِ اسلام ابلہِ مسجد اور تہذیب کے فرزند دونوں سے مختلف اور بلند ہے۔ وہ عرب ملوکیت کی چھاپ، ازمنۂ وسطیٰ کے عجمی تصوف اور تقدیر پرستی سے مسلمانوں کو نجات دلا کر یقین و ایمان اور اسلامی اقدار کی دولت سے مالا مال کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے اسی حصّے کو انھوں نے بنظرِ استحسان دیکھا جو اسلامی اقدار کے مطابق ہے یا ان کی توسیع ہے۔ الحاد اور مادّہ پرستی کے مظاہر کو سخت تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ اقبال عقل، علم اور سائنس کی حمایت اسلامی اقدار کے تناظر میں کرتے ہیں اور انھیں انسانی فلاح کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ایسے علم سے بیزارہیں جو الحاد کی خدمت گزاری کرتا ہے اور ایسی عقل کا سپاہِ تازہ سے قلع قمع کرتے ہیں جو حرم کے خلاف بغاوت کرکے خطرے کا باعث بنتی ہے۔ ان کی خرد درسِ حکیمانِ فرنگ سے افزایش پاتی ہے اور عشق اسلامی دنیا کے صاحبانِ نظر کی صحبت سے فروغ حاصل کرتا ہے۔ وہ عشق و خرد کو عین اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق بہم آمیز کرتے ہیں اور ’’عقلے بہم رساں کہ ادب خوردہ دل است‘‘ کی تلقین کرتے ہیں۔ گب اور اسمتھ نے عورت کے بارے میں اقبال کے فکری رویے پر اعتراض کیا ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ اقبال عورت کو پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال ہیں کہ اللہ اور رسول ﷺکے احکام کے مقابلے میں دانش ورانِ مغرب کو کوئی اہمیت و حیثیت نہیں دیتے بلکہ عورت کو پاک رکھنے کی خاطر پردے کی حمایت بھی، اسلامی تعلیم کے مطابق کرتے ہیں۔ مغرب کو عقل پر کامل بھروسا ہے۔ اقبال عقل سے بہت کام لیتے ہیں لیکن اس پر کامل بھروسا نہیں کرتے۔ کامل بھروسا انھیں قرآن پر ہے جو تعقّل و تدبر پر بہت زور دیتا ہے لیکن اسلام کی بنیاد ایمان بالغیب پر رکھتا ہے۔ محض عقلی معیار کی وجہ سے اقبال کے نزدیک: ’’دانشِ حاضر حجابِ اکبر است۔‘‘ ۱۵۳؎ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل‘‘ ۱۵۴؎ یہ عذاب اقبال کے تخلیقی وجود کو راستی اور مضبوطی عطا کرتا ہے اور اقبال جس وجدان و ایقان کا اظہار و اعلان متنوع اسالیب کے ساتھ بار بار اور مسلسل کرتے ہیں، اس کا خلاصہ یہ مصرع ہے: در شبِ اندیشہ نوراز لَآ اِلٰہ ۱۵۵؎ یا: بہار ہو کہ خزاں، لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ ۱۵۶؎ پروفیسر اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں: ۱۵۷؎ اقبال نے بلاشبہ نطشے، برگساں، لائب نیز، وائیٹ ہیڈ اور جیمز وارڈ کے افکار و تاثرات سے بھی اثر قبول کیا ہے لیکن اسی طرح رومی، الجیلی، عراقی اور ابنِ خلدون بھی ان کی فکر پر گہرے طور پر اثر انداز ہوئے ہیں۔۔۔ اس میں بہت کچھ فیضان قرآن کی بنیادی تعلیمات کو، ان کی گہرائیوں میں جاکر دیکھنے اور اس سے اثر پذیر ہونے کا بھی ہے لیکن جب اقبال کے ذہن کو انتخابی (elective) کہا جاتا ہے تو اس سے جو تاثر ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ اقبال نے بظاہر متخالف اور متضاد سرچشموں سے مواد جمع کرکے مختلف اجزا کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے، گویا ان کے قلم سے نکلی ہوئی ہر نظم ایک Pasticha ہے جو اپنے عملِ جواز (authentication) کا اصول اپنے اندر نہیں رکھتی۔ یہ دعویٰ انتہائی مغالطہ انگیز ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا ذہن حتمی طور پر خلاقانہ ہے۔ ان کے ہاں جو حیرت انگیز اندرونی وحدت اور کلیت ملتی ہے وہ اسی ذہن کا ایک بھرپور نقش ہے اور ان کی شاعری از اوّل تا آخر اسی ذہن اور وجدان کے منزل بہ منزل بڑھنے اور پھیلنے کی داستان ہے۔ پروفیسر انصاری نے اقبال پر انتخابیت کے الزام کی مؤثر تردید کردی ہے لیکن شرق و غرب کے حکما صوفیا اور قرآن کی بنیادی تعلیمات کے اثرات کا ساتھ ساتھ ذکر کرکے ایک ابہام کو باقی رکھا ہے۔ درحقیقت اقبال مشرقی و مغربی تصورات و افکار کو قرآن کی میزان پر پرکھے بغیر قبول نہیں کرتے۔ یوں قرآن حکیم ان کی فکری اساس قرار پاتا ہے۔ اسلوب احمد انصاری کا حسبِ ذیل بیان حقیقت کا آئینہ دار ہے: ۱۵۸؎ And one might add that the single, fundamental and perennial source of inspiration for Iqbal as poet and thinker is the Quran and the personality of the holy prophet Mohammad. یعنی شاعر و مفکر اقبال کے لیے واحد سچا، بنیادی اور سدا بہار ماخذِ فیضان قرآن حکیم اور شخصیتِ محمدﷺ ہے۔ حوالے اور حواشی ۱ مشمولہ: The Sword and the Sceptre، مرتبہ رفعت حسن، صفحات۔ ۲۶۱ تا ۲۷۸ ۲ حوالے کے لیے دیکھیے: اقبال ممدوح ِعالم ، مرتبہ: ڈاکٹر سلیم اختر، صفحات۔ ۱۱۶۔۱۱۷ ۳ تا ۵ The Sword and the Sceptre، صفحات (بالترتیب) ۲۶۳، ۲۷۶، ۲۷۵ ۶ تا ۸ ایضاً، صفحات (بالترتیب) ۲۸۳، ۲۸۷، ۳۰۲ ۹ اقبالیات: مولانا غلام رسول مہر، مرتبہ امجد سلیم علوی، صفحات ۵۳، ۵۴، نیز دیکھیے: سفرنامۂ اقبال، مرتبہ محمد حمزہ فاروقی، صفحہ۔ ۸۶ ۱۰ Discources of Iqbal مرتبہ شاہد حسین رزاقی، صفحہ۔ ۲۰۰ ۱ا ۔ ۱۲ انگریزی ترجمے کے لیے دیکھیے، Introduction to the Thought of Iqbal از مُلاّ عبدالمجید ڈار، صفحات ۲۷، ۲۸، ۳۵ اردو ترجمے کے لیے دیکھیے: اقبال ممدوحِ عالم، صفحات۔ ۱۹۳ تا ۲۰۸ ۱۳۔ ۱۴ فوسٹر کے بیانات کے لیے دیکھیے: The Sword and the Sceptre، صفحہ ۲۸۳ (ii) اقبال ممدوحِ عالم، صفحات۔ ۱۴۶، ۱۴۷ ۱۵ دیکھیے: بانگِ درا کی نظم ’ارتقا‘۔۔۔۔ نظم کا ایک اور شعر یہاں درج کیا جاتا ہے جو اقبال کے نقطۂ نظر کو مزید واضح کرتا ہے: اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام یہی ہے رازِ تب و تابِ ملتِ عربی ۱۶ اس ضمن میں اقبال کے یہ اشعار قابلِ توجہ ہیں: پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظِ حرم کا اک ثمر کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی! خضرِ راہ: بانگِ درا کلیاتِ اقبال اردو، صفحہ۳۲۷ ۱۷۔۱۸ دیکھیے: Discources of Iqbal، صفحات۔ ۱۸۹ تا ۱۹۶، ۱۹۷ تا ۲۰۳ ۱۹ کلیاتِ اقبال اردو، صفحہ۔ ۵۹۸ ۲۰۔۲۱ دیکھیے: پیامِ مشرق اور جاوید نامہ کی منظومات بعنوان ’’نیٹشا‘‘ اور ’’مقامِ حکیم المانوی نطشہ‘‘۔ کلیاتِ اقبال، فارسی ، صفحات۔ ۳۷۱، ۷۴۱ ۲۲ کلیاتِ اقبال، اردو، صفحات۔ ۳۴۸ ۲۳ ضربِ کلیم میں نظم بعنوان ’’حکیم نیٹشا‘‘ کا یہ شعر لائقِ توجہ ہے: حریفِ نکتۂ توحید ہوسکا نہ حکیم نگاہ چاہیے اسرارِ لَآ اِلٰہ کے لیے ۲۴ دیکھیے: اقبال ممدوحِ عالم، صفحات۔ ۹۲۔۹۳ ۲۵ اصل متن کے لیے دیکھیے: The Sword and the Sceptre، ص ۲۹۱ ۲۶ َWhither Islam? ، صفحہ۔ ۲۰۴ ۲۷ Mohammedanism، صفحہ۔ ۱۸۵ ۲۸ Modern Trends in Islam، صفحہ ۸۴ ۲۹ Modern Islam in India، لندن ایڈیشن، صفحہ ۱۳۴ ۳۰ کلیاتِ اقبال اردو، صفحہ۔ ۳۴۴ ۳۱ Gabriel`s Wing، صفحات۔ ۳۲۵۔۳۲۶، ترجمہ ڈاکٹر محمد ریاض کا اختیار کیا گیا ہے (شہپرِ جبریل، صفحہ ۳۹۹) ہے (شہپرِ جبریل، صفحہ۔ ۳۹۹) ۳۲ اقبال اور مغربی مفکرین، صفحہ۔ ۹۰ ۳۳ دیکھیے: (i) عرفانِ اقبال، صفحہ۔ ۹۴ (ii) اقبال اور مغربی مفکرین، صفحہ۔ ۹۰ ۳۴ جدید سماجیات سے اقبال کو کم واقف قرار دینے کا اسمتھ کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اقبال نے اشتراکیت پر جو تنقید کی، اس کا باعث یہ ادھوری آگاہی تھی۔ ایسی بات نہیں ہے۔ اقبال کی نظر قدیم و جدید سماجیات پر گہری تھی۔ ان کا پسندیدہ معاشرہ وہ ہے جو اسلامی اصولوں پر استوار ہو نہ کہ اشتراکی اصولوں پر۔ (تفصیل کے لیے بشیر ڈار کی کتاب A Study of Iqbal's is Philosophy کا وہ حصّہ دیکھیے جس کا عنوان ہے: Conception of Society۔ پروفیسر جگن ناتھ کا اسمتھ پر یہ تبصرہ بھی لائقِ توجہ ہے: ’’اسمتھ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اقبال کے سامنے مسلمانوں کی بہبود کا ایک اپنا تصور تھا۔ پہلے تو اقبال کو کھینچ تان کر سوشلسٹ ثابت کرنا اور پھر ان کے سوشلزم پر اعتراض کرنا اور یہ کہنا کہ وہ سوشلزم کے بارے میں یہ نہیں جانتے تھے اور وہ نہیں جانتے تھے، ایک مہمل قسم کی تنقید ہے۔ اسمتھ اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ صحیح یا غلط، اقبال مسلمانوں کے مسائل کا علاج سوشلزم کو نہیں بلکہ اسلام کو سمجھتے تھے اور اسلام بھی وہ نہیں جو مولانا ابوالکلام آزاد نے پیش کیا بلکہ وہ جو خود اقبال نے پیش کیا۔‘‘ اقبال اور مغربی مفکرین، ص۔ ۹۱ ۳۵ کلامِ اقبال میں مغربی مفکرین میں سے نطشے کے علاوہ سب سے زیادہ ذکر ہیگل اور برگساں کا ہے۔ ضربِ کلیم کی نظم ’ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام‘ میں دونوں کے ضمن میں نیز (مغربی) فلسفے کے بارے میں اقبال کی رائے کا واضح اظہار ہوا ہے: تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زناریِ برگساں نہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی انجامِ خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری ۳۶ دانش ور اقبال، صفحہ۔ ۹۳ ۳۷ اس قوت آفرینی کا اندازہ کرنے کے لیے مثلاً ضربِ کلیم کی نظم بعنوان لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ ملاحظہ کیجیے۔ ۳۸ دیکھیے: ری کنسٹرکشن۔۔۔۔۔ (انگریزی)، شیخ سعید ایڈیشن، لاہور ۱۹۸۹ء صفحہ۔ ۶ ۳۹ کلیاتِ اقبال فارسی، صفحہ ۳۵۸، اس تناظر میں اس مہم کو دیکھنا چاہیے جو عشق و وجدان کے خلاف اور خرد افروزی کی حمایت میں چلائی گئی۔ ۴۰ اقبال ممدوحِ عالم، صفحہ۔ ۱۱۸ ۴۱ دیکھیے: سیّد عبدالواحد کا مضمون Iqbal and His Critics مشمولہ اقبال ریویو، اپریل ۱۹۶۴ئ، صفحہ ۱۱۔ اقبالیات شمارہ جنوری جولائی ۱۹۹۸ء میں ڈاکٹر این میری شمل کو پہلا بین الاقوامی اقبال اوارڈ دینے کی تقریب کی روداد شائع ہوئی۔ اسے پڑھ کر لندن سے حمید اللہ خاں نے ایک مراسلہ جاری کیا جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’این میری شمل وہ مستشرق ہیں جنھوں نے اپنے باضابطہ منصوبے اور مقصد کے تحت پہلے تو علامہ اقبال کی غیر معمولی مدح و ستایش کی اور اس کے بعد علامہ پر ہرزہ سرائی کی یعنی علامہ پر باطل الزامات لگائے اور علامہ کے علم و منزلت کی تحقیر کی۔‘‘ (یہ مراسلہ راقم کے نام بھی آیا ہے) اس کے بعد حمید اللہ خاں نے وہی اعتراضات دہرائے ہیں جن کا اندراج سیّد عبدالواحد نے کیا ہے۔ (سیّد عبدالواحد نے یک اقتباس کتاب کے صفحہ ۳۸۵ سے نقل کیا ہے اور غلطی سے صفحہ ۵۸۵ لکھ دیا ہے۔ حمید اللہ خاں نے بھی اس غلطی کو دہرایا ہے اس مراسلے پر تبصرہ بھی اسی شمارے میں شامل ہے۔ ۴۲ دیکھیے: مقالاتِ حکیم، جلد دوم، صفحات ۲۴۳ تا ۲۶۵، خلیفہ عبدالحکیم کے برگساں سے متعلق الزام کا جائزہ آگے لیا گیا ہے۔ ۴۳ Gabriel`s Wing صفحہ۔ ۳۲۳ ۴۴ خلیفہ عبدالحکیم نے خود لکھا ہے کہ ’’قرآن کریم نے بھی ہیئتِ اشتری کی طرف توجہ دلائی ہے۔ افلاینظرون الی الابل کیف خلقت (کیا یہ دیکھتے نہیں اونٹ کو کہ وہ کس طرح بنایا گیا ہے)۔ اسلامی تہذیب و تخیل میں اونٹ علامتِ ملی کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔‘‘ (مقالاتِ حکیم، صفحات ۲۶۳۔۲۶۴) اس سے قطعِ نظر اصل اہمیت ان مطالب کی ہے جو اس حوالے سے بیان ہوئے ہیں۔ ۴۵۔۴۶ اسرارِ خودی، صفحات۔ ۴۵۔ ۵۱ ۴۷ دیکھیے: (i)Wing Gabriel's صفحہ ۳۲۴، (ii) Stray Reflections صفحہ ۵۴، (iii) شذراتِ فکرِ اقبال، صفحہ۔ ۹۵ ۴۸ شہپرِ جبریل (ترجمہ از ڈاکٹر محمد ریاض) صفحات۔ ۳۹۵ تا ۴۰۰ ۴۹ تفصیل کے لیے دیکھیے: Gabriel's Wing، صفحہ۔ ۳۲۸ ۵۰ قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل، صفحہ ۲۳۴، ڈاکٹر موصوف مزید لکھتے ہیں کہ ’’اقبال کے فلسفے پر غور کرنے والے جو اس کے فکر کا ماخذ مغربی افکار کو قرار دیتے ہیں، یہ نہیں سمجھتے کہ فلسفیانہ فکر کی تدوین و تشکیل کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ذہنی بوجھ ہی محرک ہوتا ہے جس کو رفع کرنے کے لیے غور کیا جاتا ہے۔ اقبال کے لیے محرکِ فکر ان سب فلاسفہ کے محرک افکار سے جدا ہے جن کے افکار کو اقبال کے فکر کا مبدا اور ماخذ تصور کیا جاتا ہے۔ اقبال کاسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح مسلمانوں کا احیا ہو۔۔۔۔‘‘ ۵۱۔۵۲ Poems from Iqbal، دیباچہ، صفحات۔ XV ، XVII ۵۳ Studies in Iqbal's Thought and Art، مرتبہ ایم سعید شیخ، صفحات۔ ۱۰۔۱۱ ۵۴۔۵۵ Gabriel's Wing، صفحات ۲۲۱، ۲۲۲ (ii) اقبالیات: سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مرتبہ سمیع اللہ و خالد ہمایوں، صفحہ ۲۰، شمل نے جس شعر کا انگریزی ترجمہ درج کیا ہے وہ یہ ہے: گوہرِ دریائے قرآں سفتہ ام/ شرحِ رمز صِبغتہ اللہ گفتہ ام (کلیاتِ اقبال فارسی، ص ۸۸۲) اسی صفحے پر یہ شعر بھی توجہ طلب ہے: دارم اندر سینہ نورِ لَآ اِلٰہ / در شرابِ من سرور ِ لَآ اِلٰہ ۵۶ اقبالیات کی مختلف جہتیں، مرتبہ یونس جاوید، ص ۱۴۹، حفیظ ہوشیار پوری نے ان لوگوں پر منظومات کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو مغربی فلسفے سے آشنا نہیں۔ ہر نظم میں کسی خاص موضوع سے متعلق علامہ اقبال اور ایک مغربی فلسفی کا نظریہ مکالمے کی شکل میں پیش کیا۔ چناں چہ حفیظ ہوشیارپوری نے کل تین نظمیں لکھیں۔ ایک کا موضوع خدا تھا جس میں ذاتِ مطلق کے متعلق نطشے اور اقبال کا مطالعہ تھا۔ باقی دو نظموں عزم للحیات اور عزم للقوّت میں علی الترتیب شوپنہار و اقبال اور نطشے و اقبال کے مکالمے تھے۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ مشکل کام تھا اور جب حفیظ ہوشیارپوری نے یہ نظمیں، اجازت طلب کرنے کی خاطر اقبال کو ارسال کیں تو اس خیال کو سراہنے کے باوجود، اقبال نے بیان کی مشکل اور بہت غورو فکر کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی (اقبال کے خط کے لیے دیکھیے: اقبالیات کی مختلف جہتیں، صفحہ ۱۵۰/ کلیاتِ مکاتیبِ اقبال جلد چہارم، صفحات۔ ۴۰۴۔ ۴۰۵) ۵۷ اقبالیات کا مطالعہ، پروفیسر سیّد وقار عظیم مرتبہ ڈاکٹر سیّد معین الرحمن، ص۔ ۲۳۵ وقار عظیم لکھتے ہیں: ’’اقبال کے کلام کے متعلق جو غلط تصورات عام ہوگئے تھے، وہ سمٹ سمٹ کر کوئی مرکزی شکل اختیار کرتے جاتے ہیں۔ ’رومی، نطشے اور اقبال‘ اس طرح کے مضامین میں ایک وقیع حیثیت رکھتا ہے جو بھٹکے ہوئوں کو راہ پر لگانے میں شمعِ ہدایت کا کام دے سکتا ہے۔‘‘۔۔۔ یہ ’’شمعِ ہدایت‘‘ گمراہیوں کا سبب بنی۔ ڈاکٹر محمد صادق نے اپنی کتاب A History of Urdu Literature میں ڈاکٹر خلیفہ کے حوالے سے فشٹے، نطشے اور برگساں کو فکرِ اقبال کی اساس قرار دیا ہے۔ (صفحات ۴۵۴۔۴۵۵) عزیز احمد نے لکھا ہے: ’’اسرارِ خودی کے دور میں اقبال پر نطشے کے کچھ اور اثرات ایسے ہیں جن کو ’ماخوذات‘ کہا جاسکتا ہے لیکن یہ اثرات کسی طرح اقبالؒ کے معیارِ خیر یا ان کے سیاسی اور انسانی تصورات سے متصادم نہیں ہیں۔ ان ماخوذات کی تفصیل خلیفہ عبدالحکیم صاحب نے اپنے مضمون ’رومی، نطشے اور اقبال‘ میں بڑی اچھی طرح بیان کی ہے۔‘‘ (اقبال: نئی تشکیل، ص ۲۱۳) وقار عظیم اور عزیز احمد کی تحسین اپنی جگہ لیکن ان مبینہ ماخوذات کی نشان دہی جس طرح ہوئی، اس سے غلط فہمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔ ۵۹ اقبالیات کے نقوش، مرتبہ ڈاکٹر سلیم اختر، ص۔ ۴۳ ۶۰ مسائلِ اقبال، صفحہ۔ ۱۴۳ ۶۱ اقبال کا فلسفۂ خودی، ڈاکٹر آصف جاہ کاروانی، ۱۹۴ ۶۲ Iqbal in Final Countdown، صفحات ۱۵۔۱۶، مذکورہ نظم ضربِ کلیم میں ہے جس پر رستوگی کے تبصرے کو ردّی (trash) سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ اقبال نے نطشے کی تنقیص بھی کی ہے اور تحسین بھی۔ اقبال کی یہ قدر پیمانی متوازن ہے ۶۳۔۶۴ (i) مقالاتِ حکیم، جلد دوم، صفحہ ۲۶۰، (ii) اقبال کا علمِ کلام، ص۔ ۱۷۲ ۶۵۔۶۶ (i) فکرِِ اقبال، صفحہ ۴۷۸ (ii) اقبال کا علمِ کلام، ص ۔۱۷۶ ۶۷ Iqbal:The Poet and His Message، ص ۷۶۔۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۰ء تک اقبال کی صرف دو مثنویاں، اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی شائع ہوئیں۔ میاں محمد شریف کی تحریر کو سمجھنے میں سنہانے غلطی کی ہے۔ ’اقبال کے تصورِ باری تعالیٰ‘ کے لیے دیکھیے: مقالاتِ شریف ۶۸۔۶۹ افکار،کراچی، نومبر ۱۹۷۸ئ، ص ۲۰، نیز دیکھیے نقوش لاہور، اکتوبر، نومبر ۱۹۵۳ئ، ص۔ ۲۴۱ ۷۰ یادوں کی برات، ص۔ ۴۹۰ ۷۱ بحوالہ میزانِ اقبال، مرزا محمد منور، ص۔ ۱۴۸ ۷۲ نقدِ اقبال حیاتِ اقبال میں، مرتبہ تحسین فراقی، صفحہ۔ ۲۳۵ ۷۳ ترقی پسند ادب، صفحات۔ ۱۱۳، ۱۱۴ ۷۴ پاکستانی کلچر، صفحات۔ ۱۷۷، ۱۷۸ ۷۵ اقبال کا علمِ کلام، صفحات۔ ۹۹۔۱۰۰، ۱۱۸، ۱۲۱، ۱۷۲، ۱۷۳ ۷۶ اقبال ہمارے عظیم شاعر، صفحات۔ ۲۴ تا ۲۹ ۷۷ ہندوستان میں اقبالیات۔۔۔ جگن ناتھ آزاد، صفحہ۔ ۶۱ ۷۸ ’اسلام اور مغرب کے چیلنج‘ ترجمہ تحسین فراقی، محمد سہیل عمر مشمولہ مجلہ روایت۔۔۔۱۹۸۵ء حسین نصر کی یہ تحریر ناانصافی پر مبنی ہے۔ ’معذرت خواہانہ انداز‘۔۔۔۔ ’مہلک غلطی‘۔۔۔۔۔ ’چاروں شانے چت ہونا‘ بے بنیاد اور لایعنی باتیں ہیں۔ خطبات میں اقبال نے ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو جدید دنیا کے لیے مایوسی اور پریشانی و اضطراب کا باعث قرار دیا ہے اور رومی کے نظریہ ارتقا کی ان کے اشعار درج کرکے حمایت کی ہے۔ (دیکھیے انگریزی خطبات سعید شیخ اڈیشن، ص۔ ۹۷) انسانِ کامل کے اسلامی تصور اور نطشے کے تصورِ فوق البشر میں تضاد کی نشان دہی خود اقبال نے وضاحت و جامعیت کے ساتھ کی ہے۔ ۷۹ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی وقتی غلط فہمی کا ذکر گذشتہ اوراق میں ہوچکا ہے۔ اسلوب احمد انصاری نے لکھا ہے کہ ’’اقبال نے اپنا تصورِ خودی نطشے کے زیرِ اثر مرتب کیا۔‘‘ (دیباچہ Iqbal: Essays and Studies۔ ص xix) یہ جملہ اسی غلط فہمی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جو خلیفہ عبدالحکیم نے پھیلائی۔ جب کہ اسی صفحے پر غیر مبہم انداز میں اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں: ’’بحیثیت شاعر اور مفکر، اقبال کے فیضان کا واحد، بنیادی اور سدا بہار ماخذ قرآنِ حکیم اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی شخصیت ہے۔‘‘ خلیفہ عبدالحکیم کے حوالے سے ڈاکٹر محمد صادق نے اقبال پر نطشے کے اثر کو سب سے زیادہ نفوذ کرنے والا بتایا ہے (A History of Urdu Literature، ص۔ ۴۵۴) ۸۰ دیکھیے: ’اقبال کے بعض ملفوظات‘ از یوسف سلیم چشتی مشمولہ منتخب مقالات: اقبال ریویو، مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی، ص۔ ۴۱۷ ۸۱ کلیاتِ اقبال اردو، ص۔ ۲۲۳ ۸۲ ان آیات کے ترجمے کے لیے دیکھیے: تفہیم القرآن، جلد پنجم، صفحات۔ ۴۱۲ تا ۴۱۵ ۸۳ دیکھیے: تفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحات۔ ۱۳۵، ۱۳۷ ۸۴۔۸۵ دیکھیے: Discources of Iqbal، صفحات ۱۸۴، ۱۹۷۔۱۸۴ ۸۶۔۸۷ اقبال کا علمِ کلام، صفحات۔ ۱۷۲، ۱۷۶ ’اقبال کا تصور ذاتِ باری‘ کے زیرِ عنوان جلال پوری نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اقبال خدا کو سریانی (Immanentist) مانتے ہیں یعنی خدا کائنات میں جاری و ساری ہے اور یہ خدا کے ماورائی (Transcendentalist) تصور کے منافی ہے۔ قرآن اور اقبال دونوں کے نزدیک خدا ماورا بھی ہے اور محیطِ کل (Immanent) بھی۔ اقبال Immanent کو محیطِ کل کے معنوں ہی میں لیتے ہیں۔ خدا کو کائنات میں جاری و ساری ماننے کے اقبال روادار نہیں ہیں کہ اس سے کائنات خدائی مرتبہ حاصل کرلیتی ہے اور یہ وحدت الوجود ہے۔ ۸۸ فلسفۂ اقبال، مرتبہ بزمِ اقبال، صفحہ ۱۰۴۔۔۔ مولانا رومی سے قطعِ نظر ابنِ خلدون کا تخلیقی و ارتقائی تصورِ زمان قابلِ توجہ ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ ’’حقیقتِ زمان کا ایک گہرا شعور اور زمانے میں زندگی کی مسلسل حرکت پذیری کا تصور۔ حیات و زمان کا یہی تصور ہے جو ابنِ خلدون کے نظریۂ تاریخ کی دلچسپی کا مخصوص نکتہ ہے۔۔۔ کہ تاریخ نام ہے تسلسل، اجتماعی حرکت پذیری اور زمانے میں حقیقی اور ناگزیر ارتقائیت کا۔‘‘ (تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر، صفحات ۱۵۰۔۱۵۱) اصل متن کے لیے دیکھیے: انگریزی خطبات، سعید شیخ ایڈیشن، ص۔ ۱۱۲ ۸۹ علی عباس جلال پوری لکھتے ہیں: اسرارِ خودی میں الوقت سیف، کے تحت جو امام شافعی کا قول ہے، اقبال برگساں کا نظریۂ زمان پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسرارِ خودی کے انیس شعر اور جاوید نامہ کے دس اشعار (اس تبصرے کے ساتھ کہ زروان کی زبان سے اقبال برگساں کا نظریۂ زمان پیش کرتے ہیں) نقل کرکے جلال پوری لکھتے ہیں: جہاں تک امام شافعی کے قول کا تعلق ہے اس کے معنی صریحاً ایسے وقت کے ہیں جو بقولِ غالب قاطعِ اعمار ہے۔ صنمیات کی بعض تصاویر میں وقت کو ایک بڈھے کی شکل میں دکھایا گیا ہے جس کے کندھے پر درانتی رکھی ہے۔ اسی طرح سے وہ لوگوں کا رشتۂ عمر قطع کرتا ہے۔ اس قول سے کہ ’وقت تلوار ہے‘ برگساں کے تخلیقی زمان کے تصور کو اخذ کرنا تاویلِ بے جا ہے۔۔۔ اپنے اس موقف کی تائید میں خلیفہ عبدالحکیم کے مضمون ’رومی، نطشے اور اقبال‘ کا ایک طویل اقتباس نقل کیا ہے جو حسبِ ذیل ہے: ’’زمان کی ماہیت اور زندگی کی تغیر پذیری کے متعلق جو خیالات نظم ہوئے ہیں، وہ برگساں سے ماخوذ ہیں۔ اسرارِ خودی کے بعد بھی اقبال برگساں کے زیرِاثر ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اقبال نے اسرارِ خودی میں کہیں برگساں کا نام تک نہیں لیا اور اس کا فلسفۂ حیات ایک قول کے ماتحت بیان کردیا ہے۔ امام شافعی کے الفاظ میں کوئی فلسفہ مخفی نہیں تھا۔ وہ شاید اس فلسفے کو سمجھنے سے قاصر رہتے جو اقبال نے برگساں سے اخذ کرکے ان سے منسوب کردیا ہے۔ امام شافعی کا تقشف اور راست روی اس قسم کے فلسفے کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی تھی۔ برگساں کا فلسفۂ زمان وحدانیت سے زیادہ الحاد کے قرین ہے۔ برگساں ابدیت کو ہی حقیقت قرار دیتا ہے اور ابدیت کو زمان کا مترادف قرار دے کر بڑی دقتِ نگاہ سے تصورِ زمان کی تصریح کرتا ہے جس کا ماحصل یہ ہے: زمان، مکان سے بالکل مختلف ہے۔ اگرچہ ذہن زمان کو بھی مکان پر ہی قیاس کرتا ہے۔ زمان ایک ایسی تخلیقی قوت ہے جس میں مکان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوسکتا اور جس کی ماہیت میں تغیر اور ارتقا موجود ہے۔ زمان سے الگ کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ اپنے نظریے کو حدیثِ نبویؐ لاتسّبوا الدّھر پر مبنی قرار دے کر اقبال نے برگساں کے الحاد اور اسلام کی وحدانیت میں مفاہمت کی کوشش کی ہے۔‘‘ جلال پوری نے مزید لکھا ہے کہ ’’شافعی کے مقولے کی طرح احادیث لاتسّبو الدّھر اور لی مع اللہ وقت سے بھی برگساں کا نظریۂ زمان متبادر نہیں ہوتا۔‘‘ (اقبال کا علمِ کلام، صفحات۔ ۱۷۷ تا ۱۸۰) پہلے یہ دعویٰ کرنا کہ اقبال کا تصورِ زمان برگساں سے ماخوذ ہے اور پھر یہ ردّا جمانا کہ برگساں کا تصورِ زمان امام شافعی کے مقولے اور احادیثِ رسول ﷺ سے متبادر نہیں ہوتا، ستم ظریفی ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم کے طویل اقتباس اور ان کے اسرارِ خودی سے نقل کردہ نو اشعار میں مطابقت برائے نام ہے (موازنے کے لیے دیکھیے: مقالاتِ حکیم، جلد دوم، صفحات ۲۶۵، ۲۶۶) اور ان میں کوئی ایسا شعر نہیں جس سے الحاد کی نشان دہی کی جاسکتی ہو۔ ان اشعار کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے جو میاں عبدالرشید کے ترجمۂ اسرارِ خودی (صفحات۔ ۱۶۹۔۱۷۰) سے نقل کیا گیا ہے: ’’اے دوش و فردا کے اسیر، اپنے دل کے اندر دیکھ، وہاں ایک اور جہان موجود ہے۔ تو نے وقت کو (ان گنت نقطوں سے بنا ہوا) خط سمجھ کر اپنی مٹی کے اندر تاریکی کا بیج بویا ہے۔ پھر تیرے فکر نے زمانے کی طوالت کو رات اور دن کے پیمانے سے ناپا ہے۔ تو نے رات اور دن کے دھاگے کو زنارِ دوش بنالیا ہے اور بتوں کی مانند باطل فروش بن گیا ہے۔ تو وقت کی اصلیت سے آگاہ نہیں، اس لیے تجھے حیاتِ جاوداں کی آگہی بھی حاصل نہیں۔ واقعات وقت کی رفتار سے پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی وقت کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ وقت کی حقیقت سورج کی گردش سے وابستہ نہیں۔ وقت ہمیشہ رہنے والاہے اور سورج ہمیشہ رہنے والا نہیں۔‘‘ ان نو اشعار کے درمیان تین اشعار اور بھی ہیں جنھیں جلال پوری نے اپنے اقتباس میں شامل کیا ہے اور وہ یہ ہیں: کیمیابودی و مثلِ گل شدی سرِ حق زائیدی و باطل شدی مسلمی؟ آزادِ ایں زنار باش شمعِ بزمِ ملتِ احرار باش تاکجا از روز و شب باشی اسیر رمزِ وقت از لی مع اللہ یادگیر یعنی ’’تو کیمیا تھا مگر مٹھی بھر خاک ہوگیا۔ تو سرِ حق پیدا ہوا تھا مگر باطل بن گیا (سرِ حق سے اللہ تعالیٰ کی روح میں سے پھونکی ہوئی روح کی طرف اشارہ ہے)۔ تو مسلم ہے اس زنار سے آزاد ہو۔ ملتِ احرار کی بزم کی شمع بن۔ تو کب تک روز و شب کا غلام رہے گا۔ تو وقت کے راز کو حضور اکرمﷺ کے اس ارشاد سے (کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا وقت میسر ہے جو کسی نبی مرسل یا فرشتۂ مقرب کو حاصل نہیں) سمجھنے کی کوشش کر۔‘‘ اس مضمون کو: اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا/ کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں۔ (کلیاتِ اقبال اردو، صفحہ ۳۵۳) کی صورت میں بھی بیان کیا ہے۔ اقبال نے تصورِ زمان کو مسلم بیداری کا ذریعہ بنایا ہے اور برگساں سے استفادے کو روا رکھا ہے۔ متعدد مقامات پر، برگساں سمیت، مغربی مفکرین کی اقبال نے کھلے دل سے تحسین بھی کی ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم کے نقل کردہ اسرارِ خودی کے اشعار برگساں کے زیرِ اثر لکھے گئے ہیں لیکن ان میں الحاد نہیں ہے اور نہ ان اشعار تک اقبال کے تصورِ زمان کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ اوپر درج شدہ خلیفہ عبدالحکیم کے اقتباس کے فوراً بعد ہمیں اسرارِ خودی کا یہ شعر نظر آتا ہے: زندگی ازدہر و دہر از زندگی است/ لاتسّبوا الدّھر فرمانِ نبیؐ است۔ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خلیفہ نے اسی شعر کے پیشِ نظر لکھا ہے کہ اقبال نے برگساں کے الحاد اور اسلامی توحید میں مفاہمت کی کوشش کی ہے۔ اس مقام پر یہ وضاحت مقصود ہے کہ اقبال پر ڈاکٹر خلیفہ کا الحاد اور توحید کو ہم رنگ بنانے کا الزام غلط ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ اقبال کے باقی کلام کو نظر انداز کرنا ہے۔ اقبال کا شعر: خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری/ نہ ہے زماں نہ مکاں لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ برگساں کے الحاد کا توڑ ہے۔ نیز اس شعر کا اثباتِ مزید موجود ہے: ہم بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے تو خالقِ اعصار و نگارندۂ آفات (کلیاتِ اقبال اردو، صفحات۔ ۴۷۷، ۳۹۸) جلال پوری نے لکھا ہے کہ جاوید نامہ میں زروان کی زبان سے اقبال نے برگساں کا نظریہ زمان پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں جلال پوری نے دو نکات نظر انداز کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ’زروان‘ اقبال کی صراحت کے مطابق ’روحِ زمان و مکان‘ ہے۔ گویا اقبال یہاں آئن اسٹائن کے نظریۂ مکان۔ زمان کی تائید کرتے ہیں جب کہ برگساں کے نزدیک بقول خلیفہ عبدالحکیم مکان کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقبال یہاں بھی زمان کا غایتی نقطۂ نظر پیش کرکے برگساں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔ اقبال کا یہ شعر غایتی تصور کا آئینہ دار ہے: لی مع اللہ ہر کرا در دل نشست آں جواں مردے طلسمِ من شکست خلیفہ عبدالحکیم کے نزدیک امام شافعی اپنے تدیّن اور راست فکری کے باعث ابدیت کو سمجھنے کی استعداد سے محروم تھے جب کہ ابدیت کو وہی صاحبانِ علم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جو آخرت کے قائل ہیں۔ عام مسلمان بھی اس جہان کو عارضی اور اگلے جہان کو دائمی و ابدی تصور کرتا ہے۔ جلال پوری کے خیال میں شافعی کے نزدیک وقت قاطعِ اعمار ہے اور (متدیّن و راست فکر) شافعی نے یہ تصور علمِ اصنام سے اخذ کیا ہے۔ بڑے میاں سو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ یہ سب غیر ذمہ دارانہ باتیں ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے روحِ اقبال میں لکھا ہے: ’’معلوم ہوتا ہے امام شافعیؒ کو زمانے کی حقیقت اور انسانی زندگی میں اس کی تاثیر اور اہمیت کا شدید احساس تھا۔‘‘ ذیل میں ’مسجدِ قرطبہ‘ کے ابتدائی اشعار نقل کیے جاتے ہیں جن میں اقبال استفادۂ برگساں کی حد سے آگے بڑھ کر وقت کے غایتی تصور کو معجزۂ فکر و فن کی شکل میں بیان کرتے ہیں۔ یہ اشعار ’الوقت سیف‘ سمیت اسلامی بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔ خلیفہ عبدالحکیم اور علی عباس نے ان سے صرفِ نظر کیا ہے۔ اقبال کا ارشاد ہے: سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دورنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیرو بمِ ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلۂ روز و شب صیرفیِ کائنات تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات! ۹۰ اقبال اور مغربی مفکرین، صفحہ۔ ۲۱۰ ۹۱ اقبال۔ بعض تنقیدی تسامحات، مشمولہ نقد و نظر جلد ۱، شمارہ ۱، ۱۹۷۹ئ، ص۔ ۳۰ ۹۲ اقبال اور مشرق و مغرب کے مفکرین، صفحات۔ ۲۵، ۲۶ ۹۳ فلسفۂ اقبال، مرتبہ بزمِ اقبال، ص۔ ۱۰۳ ۹۴ تا ۹۷ اقبال کا علمِ کلام، صفحات (بالترتیب) ۱۲۱، ۱۱۷، ۱۴۷، ۹۸۔ علی عباس جلال پوری کا معاملہ ’علم رابرتن زنی مارے بود‘ کا سا ہے۔ موصوف نے ہر اس ستون کو گرانے کی کوشش کی ہے جس سے ملتِ اسلامیہ کا استحکام وابستہ ہے۔ رومی، غزالی اور اقبال کی مخالفت اسی ضمن میں ہے۔ ۹۸ بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر/ طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر! (ساقی نامہ: بالِ جبریل) ۹۹ دیکھیے، بانگِ درا کی نظم ’ارتقا‘ ،دو اشعار حسبِ ذیل ہیں: مقامِ بست و شکست و فشار و سوز و کشید میان قطرۂ نیسان و آتشِ عنبی! اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام یہی ہے رازِ تب و تابِ ملتِ عربی ۱۰۰ پورا شعر یوں ہے: خیزو نقشِ عالم دیگربنہ/ عشق را بازیر کی آمیزدہ (کلیاتِ اقبال، فارسی، ص۔ ۶۵۳) ۱۰۱ فلسفۂ عجم، مترجمہ: میر حسن الدین، ص۔ ۱۰۳ ۱۰۲ دیکھیے: A History of Urdu Literature ص۔ ۴۵۴ ۱۰۳ جلال پوری کے خیال میں ’’اقبال۔۔۔ برگساں، لائٹ مارگن اور جیمز وارڈ وغیرہ کی خوشہ چینی کا اعتراف کرنا مشرقی علوم کے لیے سبکی کا باعث سمجھتے تھے اس لیے ان نظریات کو رومی سے منسوب کرکے انھیں پیرومرشد کا اجتہاد قرار دیا ہے۔‘‘ علمی دنیا میں چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ اقبال نے مغربی دانش پر گہری نگاہ ڈالی۔ اس سے استفادہ کیا اور اس استفادے کا اعتراف بھی کیا تاہم دانشِ ِ حاضر کے مادّہ پرستانہ پہلوئوں کو ہدفِ تنقید بھی بنایا۔ اقبال کا رویہ علمی اور متوازن ہے۔ اس کے برعکس مغرب کے کم صاحبانِ علم نے کھل کر یہ اعتراف کیا کہ علمی دنیا میں مسلمان ان کے پیش رو تھے۔ کھل کر اعتراف کرنے والوں میں بری فالٹ شامل ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ’’مسیحی یورپ کا راجر بیکن اسلامی علوم و قواعد کے ادنیٰ طالب علم سے زیادہ نہ تھا۔ وہ یہ اعلان کرنے سے کبھی نہیں چوکا کہ اس کے ہم عصروں کے لیے عربی اور عربی سائنس ہی حقیقی علم کا واحد راستہ ہے ۔۔۔ مغربی ترقی کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جس پر اسلامی تمدن کے فیصلہ کن اثرات کے آثار نمایاں نہ ہوں۔‘‘ اقبال نے بری فالٹ کے متعدد اقتباسات پیش کیے ہیں۔ (انگریزی خطبات، صفحات ۱۰۳، ۱۰۴) تاہم جلال پوری سمیت مخصوص ذہن کے دانش ور ان حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں۔ ۱۰۴ تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحات۔ ۲۵۳، ۲۵۴ ۱۰۵ فکرِِ اقبال، صفحات ۴۷۵، ۴۷۶، خلیفہ عبدالحکیم نے اقبال کے منتخب و نقل کردہ تین اشعار اقتباس میں شامل کیے ہیں، وہ یہ ہیں: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دد ملو لم و انسانم آرزوست زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست میاں عبدالرشید نے ان اشعار کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’کل شیخ چراغ لے کر شہر میں گھوم رہا تھا (اور کہتا تھا) کہ میں درندوں اور چوپایوں سے سخت تنگ ہوں اور انسان دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ ان نکمّے ساتھیوں سے بیزار ہوچکا ہوں۔ میں ایسے لوگوں کی تلاش میں ہوں جو شیرِ خدا ہوں اور رستم کی سی قوت رکھتے ہوں۔ (روحانی اور بدنی دونوں قوتیں رکھتے ہوں)۔ میں نے کہا: ایسے لوگ نہیں ملتے ہم بہت ڈھونڈ چکے ہیں۔ اس نے کہا: جو نہیں ملتا میں اسی کی تلاش میں ہوں۔‘‘ ۱۰۶ اردو ترجمے کے لیے دیکھیے: مقالاتِ ممتاز۔۔۔ ص۔۴۰۳، اصل انگریزی متن کے لیے: Discources of Iqbal، صفحہ۔ ۱۶۴ ۱۰۷ خودی اور مردِ حق (انسانِ کامل) کے تناظر میں کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں: صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیلؑ یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لَآ اِلٰہ میں ہے! کلیاتِ اقبال اردو، ص۔ ۳۶۰ یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ ایضاً ، ص۔ ۴۷۷ ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر ایضاً ، ص۔۴۶۳ جہاں اگرچہ دگرگوں ہے، قُمْ بِاذْن اللہ وہی زمیں، وہی گردوں ہے، قُمْ بِاذْن اللہ ایضاً ، ص۔ ۵۲۷ تانبوت حکمِ حق جاری کند پشتِ پا بر حکمِ سلطاں می زند کلیاتِ اقبال فارسی، ص۔۸۰۸ ۱۰۸ اس ضمن میں چند اشعار درج کیے جاتے ہیں: تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے! دل مرتضیٰؑ سوزِ صدیقؓ دے کلیاتِ اقبال اردو، ص۔۴۱۶ قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن یا خالدِؓ جانباز ہے یا حیدرِ کرّارؓ! کلیاتِ اقبال اردو، ص۔۴۸۹ دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدار کرّاری مسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری ایضاً ، ص۔۳۲۹ دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اَولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسدؓ اللہی ایضاً ، ص۔ ۳۴۹ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری ایضاً ، ص۔ ۶۸۰ ۱۰۹ کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے: کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات! کلیات ِاقبال، ص۔۴۰۴ شوکتِ سنجرو سلیم، تیرے جلال کی نمود! فقرِ جنید و با یزید، تیرا جمالِ بے نقاب! ایضاً، ص۔ ۴۰۵ اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری ایضاً، ص۔ ۴۱۰ آہ وہ مردانِ حق! وہ عربی شہسوار! حاملِ ’خلقِ عظیم‘، صاحبِ صدق ویقیں کلیاتِ اقبال، ص۔ ۳۹۰ دگر بمدرسۂ ہائے حرم نمی بینم دلِ جنید و نگاہِ غزالیؔ و رازیؔ ایضاً ، ص۔۶۸۵ اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومیؔ، کبھی پیچ و تاب رازیؔ ایضاً ، ص۔ ۳۰۸ ۱۱۰ ملاحظہ کیجیے: بالِ جبریل کی نظم ’ذوق و شوق‘۔۔۔ دو اشعار نقل کیے جاتے ہیں: آیۂ کائنات کا معنیِ دیریاب تو! نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو! لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب! گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب! ’ذوق و شوق‘ کے تیسرے بند میں بیان کردہ صفاتِ محمدﷺ، صفاتِ الٰہی سے اتنی قریب ہیں کہ ڈاکٹر عبدالمغنی نے ان اشعار کو نعتیہ کے بجائے حمدیہ قرار دیا ہے۔ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اقبال تو ’مسلمان‘ میں صفاتِ الٰہی دیکھنے کے متمنی ہیں۔ سرورِ عالمﷺمیں یہ جھلک بدرجۂ اتم موجود تھی۔ ۱۱۱ یہ شعر کس قدر جاذبِ توجہ ہے: شعلہ ہائے او صد ابراہیمؑ سوخت تا چراغِ یک محمدؐ برفروخت ۱۱۲ ملاحظہ کیجیے: ضربِ کلیم کی نظم بعنوان ’مردِ مسلمان‘ جس کا ایک شعر ہے: قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان! اور بالِ جبریل کی نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ کا پانچواں بند جس کے دو اشعار حسبِ ذیل ہیں: ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کارآفریں، کارکشا، کار ساز خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز ۱۱۳ کلیاتِ اقبال اردو، ص ۳۷۵ ۱۱۴ تا ۱۱۶ تصورِ بشر اور اقبال کا مردِ مومن، صفحات (بالترتیب) ۴۹۴، ۵۰۰، ۵۰۳، ۵۰۴ ۱۱۷ Iqbal's Concept of a Separate N.W. Muslim State، ص۔ ۱۹ ۱۱۸ ملاحظہ کیجیے: (i) اقبال اور ہم میں ڈاکٹر اسرار احمد کا مضمون خصوصاً ص ۶۳ (ii) ابو الاعلیٰ مودودی کا مضمون ’حیاتِ اقبال کا سبق‘ مشمولہ اقبالیات خصوصاً ص۲۲ (iii) ابوالحسن علی ندوی کی تصنیف نقوشِ اقبال خصوصاً صفحات۔ ۳۱، ۳۲ ۱۱۹ اقبال: نئی تشکیل، ص۔۴۲۸ ۱۲۰ علامہ اقبال کی تقریریں، تحریریں اور بیانات، مترجم اقبال احمد صدیقی، ص۔۲۴ ۱۲۱ عرفانِ اقبال، ص۔ ۱۸۵ ۱۲۲ اقبال ایک شاعر، ص۔۷۰ ۱۲۳ اقبال: نئی تشکیل، ص۔۱۵۰ ۱۲۴ تفصیل کے لیے دیکھیے: ’مسلم فلسفہ میں زمان کا مسئلہ‘۔ مشمولہ جہاتِ اقبال، ڈاکٹر تحسین فراقی، صفحات۔ ۱۲ تا ۲۹ ۱۲۵ دیکھیے: کُلَّ یَومٍْ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ کی تفسیر، تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص۔۲۶۱ ۱۲۶ دیکھیے: دانش ور اقبال صفحہ ۱۲۷، مذکورہ مضمون عرفانِ اقبال مرتبہ زہرہ معین، میں شامل ہے۔ ۱۲۷ اقبال اور مغرب مرتبہ آل ِاحمد سرور، ص۔۱۹۰ ۱۲۸ اقبال کے نزدیک ’خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل‘ ہے۔ (کلیاتِ اقبال اردو، صفحہ ۳۵۵) خرد فطرتِ روح الامین (ایقانِ وحی) کے ساتھ مل کر وجدان کا مرتبہ حاصل کرتا ہے: ’یا عطا فرما خرد با فطرتِ روح الامین‘ (کلیاتِ اقبال فارسی، صفحہ ۴۱۷) ’مردِ حق‘ کی توضیح اقبال نے اس طرح کی ہے: او کلیمؑ و او مسیحؑ و او خلیلؑ/ او محمدؐ، او کتاب، او جبرئیل! (ایضاً، ص۷۹۵) نیز: معنیِ جبریل و قرآن است او/ فطرۃ اللہ را نگہبان است او۔ (ایضاً، ص۸۰۸) جبریل کے ضمن میں کچھ اور اشعار درجِ ذیل ہیں: بجبریلِ امیں ہم داستانم رقیب و قاصد و درباں ندانم ایضاً، صفحہ۔ ۵۳۸ گہے نارش زبرہان و دلیل است گہے نورش زبانِ جبرئیل است ایضاً، صفحہ۔ ۵۴۰ بیاریہائے او از خود خبر گیر تو جبریلِ امینی بال و پر گیر ایضاً، صفحہ۔ ۵۴۵ خاکسار و بے حضور و شرمگیں بے نصیب از صحبتِ روح الامیں ایضاً، صفحہ۔ ۵۷۹ ایں تماشا خانہ سحر سامری است، علم بے روح القدس افسوں گری است ایضاً، صفحہ۔ ۵۹۸ اقبال کے وجدان میں جبریل جبریل ہے اور ابلیس ابلیس۔ اقبال کا رشتہ جبریل سے استوار ہے اور فرنگ کا ابلیس سے: فرنگی را دلِ زیرِ نگیں نیست متاعِ او ہمہ ملک است، دیں نیست خداوندے کہ در طوفِ حریمش صد ابلیس است ویک روح الامیں نیست ایضاً، صفحہ۔ ۱۰۲۴ ۱۲۹ کلیاتِ اقبال فارسی، صفحات ۷۲۵، ۷۲۶، ترجمے کے لیے دیکھیے: سلیس اردو ترجمہ از میاں عبدالرشید، صفحات۔ ۱۴۳۷، ۱۴۳۹ ۱۳۰ دیکھیے، دیباچہ: پیامِ مشرق ۱۳۱،۱۳۲ اقبال اور مغربی مفکرین، صفحات۔ ۱۶۳ تا ۱۶۷ ۱۳۳ دیکھیے، ’کلامِ اقبال میں شیطان کا کردار‘ مشمولہ نقد و نظر، شمارہ ۲، ۱۹۸۴ء ۱۳۴ کلیاتِ اقبال فارسی، صفحات۔ ۷۲۱، ۷۲۲ ۱۳۵،۱۱۳۶ کلیاتِ اقبال اردو، صفحات۔ ۶۰۵، ۶۱۸ ۱۳۷ تا ۱۳۹ کلیاتِ اقبال فارسی، صفحات۔ (بالترتیب) ۱۱۶، ۶۹۷، ۸۴۰ ۱۴۰ حکمتِ گوئٹے اور فکرِ اقبال، ص۔ ۲۵ ۱۴۱ ’رومی، نطشے اور اقبال‘، مشمولہ مقالاتِ حکیم، جلد دوم، ص۔ ۲۳۰ ۱۴۲ دیکھیے، دبیاچہ، پیامِ مشرق ۱۴۳ یہ جائزہ اقبال دشمنی: ایک مطالعہ کے تیسرے اڈیشن میں شامل ہے۔ ۱۴۴ رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا/ اتر گیا جو ترے دل میں لاَ شَرِیکَ لَہٗ (’محراب گل افغان کے افکار‘/ ضربِ کلیم) ۱۴۵ پیش لفظ: Western Influence in Iqbal ۱۴۶ پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب/ روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب! (’پیرو مرید‘۔ بالِ جبریل) اس درد و کرب کا علاج بقول پیرِ رومی ماں کے پاس ہے جو محبت و خلوص و ایثار کی علامت ہے۔ اقبال اسی جذبے کو قومی و ملی اور عالمی تعمیر نو کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ۱۴۷ اقبال اور مغربی مفکرین، صفحات۔ ۴۰۔۴۱ ۱۴۸ ’اقبال کی شاعری میں اختلافی پہلو‘۔۔۔ مشمولہ اقبال: کچھ مضامین، مرتبہ انجمنِ ترقیِ اردو ہند، ص ۱۰۴ ۱۴۹ خلیفہ عبدالحکیم کے مضمون ’رومی، نطشے اور اقبال‘ کے علاوہ محمد شریف بقا کی تصنیف نطشے: اقبال کی نظر میں اور محمد اکرام چغتائی کی کتاب Goethe, Iqbal and the Orient اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ اکرام چغتائی نے ایک ضخیم کتاب Iqbal and Goethe کے عنوان سے مرتب کی ہے جس میں اس موضوع پر دسیوں ماہرینِ اقبال کے مضامین شامل ہیں۔ ۱۵۰ مثلاً دیکھیے، عزیز احمد کی اقبال: نئی تشکیل۔۔۔ این میری شمل کی Gabriel's Wing اور لوس کلوڈ متیخ کی فکرِ اقبال کا تعارف ۱۵۱ مطبوعہ اقبال اکادمی ۲۰۰۴ء ۱۵۲ حسبِ ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے: طلسمِ علمِ حاضر را شکستم ربودم دانہ و دامش گستم خدا داند کہ مانندِ براہیم بہ نارِ او چہ بے پروا نشستم کلیاتِ اقبال فارسی، ص۔۹۳۴ جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا کلیاتِ اقبال اردو، ص۔ ۵۳۱ سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری کلیاتِ اقبال اردو، ص۔ ۲۶۱ ۱۵۳ دانشِ حاضر حجابِ اکبر است/ بت پرست و بت فروش و بت گر است، کلیاتِ اقبال فارسی، ص۔۶۸ ۱۵۴ عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیلؑ (کلیاتِ اقبالاردو، ص۔۳۵۵) ۱۵۵ لذتِ سوز و سرور از لَآ اِلٰہ در شبِ اندیشہ نور از لَآ اِلٰہ (کلیاتِ اقبال فارسی، ص۸۴۴) ۱۵۶ یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں، لَآاِلٰہ الا اللّٰہ (کلیاتِ اقبال اردو، صفحہ۔ ۴۷۸) ۱۵۷ ’اقبال، بعض تنقیدی تسامحات‘، مشمولہ نقد و نظر، جلد اوّل، شمارہ۱، ۱۹۷۹ء ۱۵۸ دیکھیے، دیباچہ: Iqbal' Essays and Studies  اقبال- تصورِ زمان و مکاں پر ایک گفتگو احمد جاوید ضبط و ترتیب: طارق اقبال مابعد الطبیعی مباحث یا تو کسی دعوے سے پیدا ہوتے ہیں یا پھر کسی دعوے تک پہنچنے کے لیے۔ پہلا طریقۂ کار فکر کی دینی روایتوں میں اختیار کیا جاتا ہے جب کہ دوسرا فلسفۂ مابعد الطبیعیات میں۔ فکر کی دینی روایت میں عقل کا کردار اک گو نہ مرکزیت رکھنے کے باوجود لامحدود ہوتا ہے نہ فیصلہ کن، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ شعور جو ان مباحث کے مقابل ہوتا ہے، اس کی بناوٹ فلسفیانہ معنی میں عقلی نہیں ہوتی، یہ روایت تحقیقِ حقائق کا جو مخصوص اور متعین اسلوب رکھتی ہے اُس میں نتائج کی تشکیل میں ایک اہم عنصر وجدان کا ہوتاہے جو دراصل ایک خاص معنی میں عقل کے منطقی ہوجانے کا ہی نام ہے، تاہم عقل کا منطقی ہوجانا کوئی سادہ عمل نہیں ہے۔ اس کا ایک پیچیدہ پراسس ہے جو شعور کی اُن سطحوں پر کار فرما ہوتا ہے جو ارادی نہیں ہیں، اور اُن کے مشمولات، فکر کے لیے درکار مواد سے مماثلت یا کم از کم ایسی مشابہت نہیں رکھتے جو چیزوں میں ہم نوعی کا رنگ پیدا کرتی ہے۔ اگر clinical اپروچ کا مطالبہ نہ کیا جائے تو یہ بات قابلِ قبول معلوم ہوتی ہے کہ یہ مشمولات اپنی حسی جہت میں بھی حواس کے مُعطیات سے نوعاً مختلف ہیں۔ یہ اختلاف یا امتیاز محض استدلال، ادراک اور نفی و اثبات کے معمولی حدود و شرائط ہی کو تبدیل نہیں کرتا بلکہ چیزوں کو اُن کے فوری تعینات سے منقطع کیے بغیر انھیں اس طرح reconstruct کرتا ہے کہ شے معلوم، علم بالحواس کی عائد کردہ قیود سے تجاوز کرکے بھی اپنی actualization کی وہ وضع بعینہ برقرار رکھتی ہے جو اثباتِ حسی کے عمومی عمل سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چیزوں کی یہ reconstruction جس کے نتیجے میں اُن کی realization، اُن کی actualization پر غالب آجاتی ہے، noumenal نہیں ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ مابعد الطبیعی فکر، صورت و حقیقت کی دوئی کو مستقل مان کر شے کی موجودیت اور معلومیت کے اٹل امتیاز کو قبول کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کیوںکہ حقیقت کو اپنے اثبات کے لیے جو تنزیہ درکار ہے اُس میں صورت ایک سلبی حوالہ ہے نہ کہ متوازی۔ اور دوسرا سبب یہ ہے کہ شیٔ محسوس صرف صورت ہے، حقیقت نہیں۔ یعنی حقیقت کے لیے جو تنزّہ (transcendence) لازمی ہے، وہ دائرۂ محسوسات میں نہیں سما سکتا۔ Thing A چاہے Thing AB بن جائے، حقیقت کا container نہیں بن سکتی، رہے گی صورت ہی۔ حقیقت کا موجود ہونا اُس کی self containment سے عبارت ہے اور اُس کی معلومیت self- disclosure پر مبنی ہے۔ بودن و معلوم گشتن کا یہ امتیاز ناگزیر ہونے کے باوجود حقیقی نہیں ہے بلکہ اعتباری (اور اس کی ناگزیری بھی تمام تر واقعیت رکھنے کے باوجود نفسِ حقیقت کی رو سے اعتباری ہی ہے)۔ اس اصول کی روشنی میں اگر ہم Time-Space کے مسئلے کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حقیقت اور اس کی کثیر المراتب نسبتوں کے تحقّق کی ہر نوع میںادراک کی عنصری بناوٹ اور ذہنی وضع یکسانی کے ساتھ برقرار رہتی ہے مگر مدرکات اور اُن کے سلبی و ایجابی حدود منقلب ہوجاتے ہیں۔ حقیقت اپنے تحقق کے ہر مرحلے پر بہت سے موجود مدرکات اور ان کی ترکیبی ہیئت کی محویت کا تقاضا کرتی ہے یعنی ادراک و اثبات کی اس سطح پر صورت و حقیقت کے وہ مشترکات جن کے بغیر خود علم محال ہے، اپنی اضافیت کو منکشف کرتے ہیں اور ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں پہنچ کر ان میں سے وہ امور ساقط ہوجاتے ہیں جن سے گزشتہ دائرے میں ان کی ماہیت متعین ہوتی تھی، یا باالفاظِ دیگر لوازمِ ادراک اور شرائطِ وجود جس وصفی نہائیت پراستوار ہیں، وہ دوسرے دائرے میں منتقل نہیں ہوتی۔ واقعیت اعتبار بن جاتی ہے اور وصف، موصوف کی تبدیلی سے ایک نئے وجودی pattern میں ڈھل جاتا ہے۔ Time-Space وجود کی ایک خاص حالت اور ادراک کی ایک مخصوص صورت کے لوازم ہیں۔ وجود کی سطح اور ادراک کا معروض بدل جائے تو ان کا لزوم ممکن ہے کہ باقی نہ رہے، یا اس کی نوعیت میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوجائے جو اس کی بنیادی تعریف کو بدل کر رکھ دے۔ قبلیت، بعدیت، ظرفیت اور حرکت ضروری نہیں کہ وجود کے دیگر مراتب میں بھی اسی طرح کار فرما ہوں جس طرح Time-Space کے موجودہ تعین میںہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ Time-Space کی signifying حیثیت حقیقت کے تمام ظہوری مراتب میں لازماً برقرار رہتی ہے تاہم مابعد الطبیعی فکر کے مطابق ان کی دلالت، مدلول کے تابع ہونے کی وجہ سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ وجود کے اصولی طور پر دو مراتب ہیں: حادث و محدود اور قدیم و لامحدود۔ پہلے مرتبے میں Movement-Sequence کی حکومت ہے اور دوسرے میں Change lessnes-Spontenity وجود کی فضا کو تشکیل دیتی ہے۔ چونکہ Time-Space وجود کے پورے ماحول کا نام ہے لہٰذا وجود کی وصفی ماہیت یعنی اُس کی ظہوری حالت اور تعین کی تبدیلی نہ صرف یہ کہ Time-Space پر وارد ہوگی بلکہ اُن کی ذاتی بناوٹ کو بھی تبدیل کرکے اس وجودی امتیاز سے ہم آہنگ کرے گی۔ اندریں صورت مابعد الطبیعی فکر کا مقدمہ وجود کی اصالت، ظہور کا تنوع اور Time-Space کی اضافیت سے ترکیب پاتا ہے۔ اس مقدمے کے تینوں اجزا آپس میں ایک ایسی عینیت کے حامل ہیں جو اپنی actual جہت میں مطلق ہے مگر اضافیت کے ساتھ، اور اضافی ہے مگر مطلقیت کے ساتھ۔ گویا قدیم و لامحدود کے وجودی اور ایجابی سیاق و سباق میں Time-Space ایک واسطے کی حیثیت سے یا بعض علمی اقتضاء ات کی تکمیل کے لیے ایک حوالے کے طور پر تو بہرحال ہوتے ہیں مگر ایک ایسی نسبت کے ساتھ جو انھیں عالمِ حدوث و تحدید میں حاصل نہیں تھی۔ یہاں اُن کا کردار مؤثر نہیں ہوسکتا کیوںکہ اسبابِ تاثیر اِس مرتبے میں منہا ہوجاتے ہیں۔ ماہیت کی تبدیلی سے یہی مراد ہے۔ مسلمانوں کی علمی و عرفانی روایت سادہ لفظوں میں کہا جائے تو توحیدی یا خدا مرکز ہے۔ اپنی اطلاقی اور کونیاتی جہت میں اس روایت کو اپنے مرکز سے جڑے رہنے کے لیے عقلی سطح پر جس مسئلے کا شدت سے سامنا کرنا پڑا وہ یہی Time-Space کا مسئلہ ہے۔ وحدتِ حقیقی اور اُس کے محتویات کے اثبات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ ہے Time-Space کی مطلقیت۔ اسلامی فکر، عقلی ہو یا عرفانی، اِس رکاوٹ کو عبور کرنے کے کچھ اسالیب رکھتی ہے۔ اُن کی تفصیل میں جانے سے پہلے مناسب ہوگا اگر ہم اِس روایت کے بنیادی دھاروں پر کچھ ضروری گفتگو کرلیں تاکہ ابتدا ہی میں یہ واضح ہوجائے کہ یہ مسئلہ اور اس کی مخالفانہ شدت کا احساس و ادراک ہر ڈسپلن میں مشترک ہے، البتہ اِس سے عہدہ برا ہونے کی صورتوں میں تنوع یا اختلاف پایا جاتا ہے۔ حقیقتِ وجود، جس تک پہنچنے کے لیے زمان و مکاں کی ماہیت کا تحقق ضروری ہے، مسلمانوں کے لیے تنزیہی ہے۔ خیال رہے کہ تنزیہی کا مطلب عقلی و ذہنی نہیں ہے کیوں کہ اس میں وجودِ خارجی کی نفی نہیں پائی جاتی۔ مسلم روایت میں تنزیہ اُس موجودیت فی الخارج کو کہتے ہیں جس پر کوئی حد و شرط وارد نہ کی جاسکے، حتیٰ کہ وجود کی بھی ۔۔۔۔۔ تنزیہ اور اُس کے ایجابی تقاضے، یعنی ٔاثباتِ خاص بذریعۂ نفیِ عام، کے تحت متقدمین میں زمان و مکاں کا موضوع کسی مرکزی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ بعد میں جب اثبات کے حدود ذہن تک پھیلنے لگے اور نفی قدرے مبنی براستدلال ہوگئی تو صوفیا، متکلمین اور فلاسفہ نے اپنے اپنے منہاج کے مطابق ذہن و فکر پر ایک نظری اور مابعد الطبیعی پیرائے میں کلام کا آغاز کیا۔ مسلمانوں میں Time-Space کا تصور تین سطحیں رکھتا ہے: طبیعی، عقلی اور الٰہیاتی۔۔۔۔۔ طبیعی سطح پر مکاں مادی ہے اور زمانہ حرکتِ مکاں۔ اِس بات کے دو مطلب ہیں، مکاں ایک متحرک جسم ہے جس کی حرکت اپنی ذہنی اور خارجی صورت میں وقت ہے۔ اس کے جسم اور حرکت کی طرح، وجودی سطح پر زمان و مکاں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جن میں ایک دوسرے سے تقدم کا سوال بے معنی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ زمانہ حرکت ہے اور مکاں اُس حرکت کا ظرف۔ عقلی سطح پر مکاں ظرفِ وجود ہے اور زمان، مقدارِ وجود۔ گو کہ یہ عقلی سطح کا پورا بیان نہیں ہے، وہ ہم آگے کریں گے، تاہم یہ وہ سطح ہے جہاں عقل حسّی معطیات پر حکم لگاتی ہے اور حقیقت کے محسوس ہونے کو اپنا بنیادی مفروضہ بنا کر آگے بڑھتی ہے۔ یہاں عقل کا یہ کردار محسوسات سے تجاوز کرکے بھی اپنی اساس میں حسّی ہی رہتا ہے، مثلاً زمان و مکاں ہی کے مسئلے کو لے لیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ وجود کی ورائے حواس جہت کا اثبات کرنے کے باوجود وہ موجود ہونے کی جس زمانی مکانی تعریف پر کھڑی ہے وہ اوّل سے آخر تک حسّی ہے۔ وجود کی containment اور historisization کا کوئی بھی تصور محسوسات کے دائرے ہی میں ممکن ہے اور عقل اس تصور کو زمان و مکان کے مسلّمے کی مدد سے تصدیق پذیری کے مراحل طے کرتے ہوئے دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ عقلِ محض کی سطح ہے۔ یہاں مکاں، لامحدودیت اور زمان، لامتناہیت کی مختلف نسبتوں کے مظاہر ہیں۔ یعنی مکاں سے لامحدودیت اور زمان سے لامتناہیت کا فوقِ تجربی اثبات عقلاً ممکن ہو جاتا ہے۔ ہم اس بات کو نہیں چھیڑیں گے کہ ایسی لامحدودیت اور لامتناہیت جو زمان و مکاں کی مدلول ہو، ریاضیاتی اور منطقی تو ہوسکتی ہے، واقعی اور خارجی نہیں۔ تیسری سطح یعنی الٰہیاتی سطح پر Time-Space اپنی آخری ممکن الاثبات حیثیت یعنی وجود کی نسبت کے طور پر بھی معدوم ہیں۔ بقولِ اقبال، ’’نہ ہے زمان نہ مکاں لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ۔‘‘ ۱؎ چونکہ وجود کے الٰہیاتی مرتبے میں نسبت بھی ساقط ہے لہٰذا یہاں time-space کا ہونا محال ہے۔ اب ہم اسلامی روایت کے تین بنیادی عناصر یعنی کلام، فلسفے اور تصوف میں دیکھیں گے کہ ان کا منہاج کیا ہے اور اُس منہاج کی روشنی میں time-space کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ بات شروع کرنے سے پہلے یہ تنبیہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی علمی اور عرفانی روایت اپنے ہر جز میں نزولی اور استخراجی ہے۔ حقیقت مقدمہ بھی ہے اور نتیجہ بھی۔ متکلمین کا منہاج یہ ہے کہ حقیقت، وحی یعنی خود اپنے بیان کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے اور عقل کی مدد سے سمجھی جاتی ہے۔ گویا حقیقت، بیانِ حقیقت، فہمِ حقیقت اور استدلال مبنی بر فہم۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس منہاج کا مقدمہ ہے۔ حقیقت خود اپنے بیان کی رو سے قدیم اور لامحدود ہے لہٰذا عقل کی ذمے داری ہے کہ وہ اِس سے کوئی ایسی چیز منسوب نہ کرے جس سے ان دو اوصاف پر ضرب پڑتی ہو۔ زمانہ حقیقت کو قدیم نہیں رہنے دے گا اور مکاں، لامحدود۔ اہلِ کلام جب اللہ کو لازمان و لامکاں کہتے ہیں تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ وہ زمانی یعنی حادث نہیں ہے اور مکانی یعنی محدود نہیں ہے۔ اُن کے نزدیک زمان اصلِ حدوث ہے اور خود حادث ہے اور مکاں اصلِ تحدید ہے اور خود محدود ہے۔ حادث اور محدود کا قیام قدیم اور لامحدود کے ساتھ محال ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ حقیقت کا ذاتی تعین یعنی وحدت اس بات کی متقاضی ہے کہ موجودیت کے اُن قطبینی عوامل کی نفی کردی جائے جو موجودات میں ہم وجودی کی دلیل بنتے ہیں۔ خصوصاً زمان و مکاں چونکہ ایک مطلقیت رکھتے ہیں لہٰذا وجود کے الٰہیاتی مراتب میں جہاں کا اصو ل مطلق وحدت ہے، ان کا اثبات کچھ لاینحل مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ فلاسفہ یعنی مابعد الطبیعیات کو فکر و نظر کا موضوع بنانے والے طبقے میں عقل کا کردار، اہلِ کلام کے برعکس، ایک حتمی اور مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا منہاج حقیقت، تعقلِ حقیقت اور بیانِ حقیقت ہے۔ فلسفے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو عقل پر حکم نہیں بناسکتا، اس لیے مسلمانوں کی فلسفیانہ روایت میں بھی آخری حجّت عقلی ہی ہوتی ہے۔ وحی عقل کا قابلِ اعتماد معروض ہے لیکن اس کا content جس حد تک حقائق سے تعلق رکھتا ہے، فلاسفہ کی نظر میں لفظی نہیں بلکہ عقلی ہوتا ہے یا معقولات ہی کی تصدیق کرتا ہے۔ ان لوگوں کے خیال میں حقیقت اور بیانِ حقیقت میں جزوی عینیت ہے، اور وہ بھی بیان میں نہیں بلکہ عقل میں پائی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ وحی حقیقت کے عموم کو ایک بیان کی صورت میں خاص کرتی ہے، عقل اِس تخصیص کو وسعت اور زیادہ قطعیّت دے کر اُس عموم سے نزدیک تر کردیتی ہے جو بیان اور فہمِ بیان کے مذہبی تلازم میں نہیں سما سکتا۔ فلاسفہ کا مقدمہ یہ ہے کہ حقیقت اصالتاً معقول ہے جس کی تائید وحی سے بھی ہوتی ہے۔ time-space حقیقت کے ذاتی اطوار ہیں لہٰذا وقت اور مادّے کا قدیم ہونا حقیقت کی وحدت کو مجروح نہیں کرتا اور اُسے لائقِ اثبات بناتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ تمام مسلمان فلسفیوں کا یہی مؤقف ہے لیکن اس کے باوجود ہم خود کو ایک محفوظ پوزیشن پر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدوثِ زمان کو جن فلاسفہ نے قبول کیا ہے وہ بھی درحقیقت قدمِ زمان ہی کے قائل ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں، سرِدست ہم اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ حدوثِ ذاتی اور حدوثِ زمانی کا فرق محض ایک ذہنی چیز ہے اس سے نفس الامر کا تحقق نہیں ہوتا۔ اس مبحث میں صوفیہ کے مؤقف کو جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تصوف کی علمی روایت فلسفہ و کلام کے نقطۂ کمال سے اپنا آغاز کرتی ہے۔ وہ بڑے بڑے مسائل اس روایت میں بھی اُٹھائے گئے ہیں جو فلسفہ و کلام میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم صوفیہ حقائق کے تقابل میں شعور کے rational structure پر انحصار کرنے کی بجائے اس کی حسّی تشکیلات پر زور دیتے ہیں۔ reality as Such اور reality as a discource کا باہمی ربط، فلاسفہ و متکلمین کی طرح ان کا بھی موضوع ہے لیکن یہ حضرات اس ربط کو فہم و تعقل نہیں بلکہ ایک انفعالی تجربیت کے ذریعے سے دریافت کرتے ہیں جو حس و محسوس کی اِسی نسبت بین الطرفین پر قائم ہے جس سے ہم مانوس ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ صوفیانہ تجربے میں طرفین کی مغائرت واقعتا ناگزیر اور واجب الاثبات ہونے کے باوجود اعتباری ہے۔ مکمل انفعال جو علم الحقائق کی لازمی شرط ہے، اس کا حصول ایک طرف تو طرفین کی غیریت کا متقاضی ہے اور دوسری طرف عینیت کا۔ غیریت نہ ہو تو انفعال کا بیج ہی نہیں پڑ سکتا، اور عینیت نہ ہو تو اس کی تکمیل محال ہے۔ اس paradox کو حل کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ غیریت اعتباری ہے اور عینیت حقیقی۔ صوفیہ نے اس طریقے کو کام میں لا کر علم الحقائق کے راستے میں آنے والی اُن رکاوٹوں کو گرانے میں خاصی کامیابی حاصل کی جنھوں نے اہلِ فلسفہ و کلام کو بے دست و پا کر رکھا تھا، مثلاً یہی مسئلۂ زمان و مکاں دیکھ لیں۔ فلاسفہ کو ان کی ازلیت و ابدیت کے اقرار پر مجبور ہونا پڑا اور متکلمین کے پاس اس کے سوا کوئی راستا نہیں رہ گیا تھا کہ وہ time-space کو عالمِ خلق سے اوپر کے مراتب میں سرے سے موجود ہی نہ مانیں۔ صوفیہ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ انھیں یہ مجبوریاں لاحق نہیں ہوئیں۔ ان کا موضوع ہے: حقیقت باعتبارِ تعینات، یا بالفاظ ِ دیگر مراتبِ ظہور ۔۔۔۔ اس موضوع میں ایسی وسعت ہے کہ time-space کے دائرے کو جتنا چاہے بڑھا لیا جائے، رہتا اس کے اندر ہی ہے۔ یعنی time-space بلحاظِ ماہیت و فعلیت، ظہور کے ایک خاص درجے سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی کے لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ زمان و مکاں، وجود کی شرط نہیں بلکہ ایک نسبت ہے اور اس حیثیت میں اُس کا حکم بدلتا رہتا ہے۔ اس کا درجہ ایک سلبی حوالے کا سا ہے جو اعتبار کے اصول کو متعین کرتا ہے اور تحققِ حقیقت کی حرکتِ دوری یعنی تشبیہ تنزیہ، تنزیہ میں تشبیہ کا درمیانی وقفہ/ عرصہ اسی پر مدار رکھتا ہے۔ اپنے ان حدود میں صوفیہ کے نزدیک زمان غیر متناہی ہے مگر مظہرِ کثرت ہے، جب کہ مکاں مظہرِوحدت ہے مگر محدود ہے۔ یہ دونوں، ازروئے ماہیت، ایک دوسرے پر over lap کرتے ہیں، یعنی زمان کی غیر متناہیت مکاں کے حوالے بغیر متحقق نہیں ہوسکتی اور اسی طرح مکاں کی محدودیت بھی ایک گہرے معنی میں زمانی ہے۔ یہی حدوث کی حقیقت ہے کہ time space یک اصل اور ہم احتوا ہو کر درجۂ امتیاز اور مرتبۂ فعل میں باہم معرّف بنیں اور ایک دوسرے کے حدود و قیود کو نہ صرف یہ کہ واضح کریں بلکہ انھیں اپنے لیے بھی قبول کریں۔ تصوف جس علم الحقائق کا وارث ہے وہ دو ایسے مراتب کو محیط ہے جن میں سے ایک عالم کی جہت سے اس کے علمی تعین کی ایسی تشکیل کرتا ہے جو مفیدِ اثبات ہو اور بعض پہلوئوں سے قابلیتِ نفی بھی رکھتی ہو۔ اس کا دوسرا مرتبہ معلوم کی جہت سے ہے، جہاں حقیقت معلومہ وجوداً متعین ہوتی ہے۔ اس تعین میں وجود حقیقی ہے اور مابہ التعیین اعتباری۔ صوفیہ کو آغاز ہی میں یہ سہولت میسر آگئی کہ صحت فکر و استدلال کے تمام منطقی لوازم و معیارات کو ملحوظ رکھتے ہوئے حقیقت کے تقابل میں انھوں نے ایک ایسا paradox وضع کیاجس کی درست تفہیم کے بغیر حقیقت کا کوئی تصور قائم نہیں کیا جاسکتا۔ جس سہولت کا ہم نے ابھی ذکر کیا اس کا ایک اظہار time-space کے مسئلے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک صوفی کے لیے یہ سمجھنے اور ماننے میں کوئی منطقی الجھن نہیں ہے کہ زمان و مکاں کا تعلق ’’موثر ہونے یا اثر پذیر ہونے‘‘ کی جہت سے اقلیم تشبیہ ہی سے ہے اور تشبیہ ضرورتِ ادراک ہے، ضرورتِ وجود نہیں۔ یہ خیال رہے کہ تشبیہ محض طبیعیات تک محدود نہیں ہے بلکہ مابعد الطبیعی امور بھی اس میں داخل ہیں۔ تشبیہ کا اصول یہ ہے کہ صورت اپنے امتیاز کو محفوظ رکھتے ہوئے معنی پر ایسی دلالت کرے جو طرفین میں لزومِ عینیت کا شبہ نہ پیدا کرے۔ چونکہ ادراک اپنی ہر نوع میں بامعنی صورت کے حصول ہی کا نام ہے لہٰذا مدرکات حقائق پر دال تو ہیں لیکن نفسِ حقیقت سے ان کی مغائرت مستقل ہے اور حقیقت کے ذاتی مرتبے میں یہ اپنی ہر نسبت کے ساتھ ساقط ہیں۔ اسی لیے جب صوفیہ حقیقت کے ورائے ظہور مراتب میں زمان ومکاں کی نفی کرتے ہیں تو اس سے کوئی منطقی خلل بھی واقع نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود مدارجِ ظہور کی تبدیلی سے بھی شے کا وصف نہائی منقلب ہوجاتا ہے۔ مختصر یہ کہ متقدمین میں حقیقت کا تنزہ مانع تھا زمان و مکاں کی ماہیت متعین کرنے سے۔ وہ حضرات اس امتیاز کو ایمان کے فطری اسلوب میں حل کرچکے تھے اور یہ اسلوب اپنے بیان میں مجروح ہوجاتا۔ متوسطین نے حقیقت کی تنزیہ کو برقرار رکھتے ہوئے تشبیہ کو اس کی طرفِ توازن بنایا تو زمان و مکاں کی ایک اضافی معنویت پر غور کرنے اور اسے تسلیم کرنے کی روایت شروع ہوئی۔ گویا متقدمین کا مسئلہ ایمان تھا تو متوسطین کا اثبات۔ متاخرین نے ضروریاتِ ادراک کو ترجیح دیتے ہوئے تنزیہ کو تشبیہ میں کھپا کر حقیقت کو ایک نیم تجسیمی جہت دے دی، جس کی وجہ سے زمان و مکاں حقیقت اور ناظرِ حقیقت کے درمیان ایک اٹل برزخ بن گئے اور تحقق حقائق کی تمام سرگرمیاں اسی مدار کے گرد گھومنے لگیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ حقیقت کا خارجی تعین اپنی کلیت کے ساتھ جب ذہن میں منتقل کیا جانے لگا، یا ذہن کے خلقی مطالبات کی تکمیل کے لیے صرف ہونے لگا تو زمان و مکاں بطور ایک episteme کے ہر مرحلۂ اثبات پر ناگزیر ہوگئے، اور نتیجتاً تنزیہ غیر حقیقی یا کم از کم غیر متعلق ہو کر رہ گئی۔ اقبال اپنی بنیادی خصوصیات کی وجہ سے متاخرین میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا تصور زمان و مکان جو دراصل ان کے فلسفۂ خودی کا ایک جزو ہے، اس کی تشکیل میں جدید طبیعیات، نفسیات اور حیاتیات سے پھوٹنے والے فلسفے کا کردار بہت مرکزی اور بنیادی ہے۔ اقبال گو کہ اس سے مابعد الطبیعی اور اخلاقی نتائج نکالتے ہیں تاہم خودی کی طرح یہ تصور بھی اپنی نوع میں انسانی اور تشبیہی ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کا شمار ان جدید ترین مفکرین میں ہوتا ہے جو انا اور وقت کے کائناتی تلازم کو نہ صرف یہ کہ حقیقی سمجھتے ہیں بلکہ ذات کے الوہی مراتب میں بھی زمانیت کی کسی نوع کو کارفرما دیکھتے ہیں، اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج پر اہلِ مابعد الطبیعیات کی تشویش کو در خورِ اعتنا نہیں گردانتے۔ اقبال کے کسی خاص تصور کا مطالعہ کرنے چلیں تو آغاز ہی میں ایک مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ یہ کہ اُن کا ہر تصور شاعری میں بھی بیان ہوا ہے، اور ضروری نہیں کہ شاعری میں اُس کی وہی صورت پائی جائے جو خطبات وغیرہ میں ملتی ہے۔ علامہ نے اپنے تمام بنیادی مباحث کی طرح مسئلۂ زمان و مکاں کو بھی اپنی شاعری کا ایک بڑا theme بنایا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں اُن کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطۂ نظر کو اقبال کا حتمی نقطۂ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟ کسی تفصیلی تجزیے میں جانے سے پہلے اگر ہم کوئی ایسا سبب تلاش کرسکیں تو بہتر ہوگا جس نے اقبال کی مجموعی فکر کو چند ناقدین کی رائے میں، جو ہمارے خیال کے مطابق نہ پوری درست ہے نہ پوری غلط، واضح طور پر دو خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ان کو جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کار فرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی رائے پر نظرِثانی کی اور بعض معاملات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دولختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریں گے۔ سرِدست مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورِ زمان و مکاں پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے جس میں تجزیے کے دوران میں پیش آنے والے اختلافات پر پیشگی توجہ نہ کی جائے۔ اقبال بعض فلاسفۂ متوسطین کی طرح زمانے کو قدیم تو نہیں کہتے مگر حرکت کو حقیقت کا جوہرِ ذاتی قرار دینے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ مزید مشکل اُس وقت پیدا ہوجاتی ہے جب وہ اس خیال کا اثبات ذاتِ انسانی کو وقت کی اس جہت سے متعلق کرکے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اسے مراتبِ الہیہ سے نسبت پیدا کرنے کے لیے درکار ہے یعنی دورانِ محض۔ کم از کم خطبات کی حد تک اقبال کے پیشِ نظر یہ بھی تھا کہ حقیقت زمان و مکاں تک پہنچنے کا وہ راستہ کس طرح ڈھونڈا جائے جس پر چل کر زمان و مکاں کی طبیعی تعریف اور مابعد الطبیعی تعبیر کو ایک کیا جاسکے۔ اس انداز نظر کا تجزیہ بہت ضروری ہے جو شے کی تعریف طبیعیات سے اخذ کرتا ہے اور تعبیر مابعد الطبیعیات سے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مرحلے پر اگر شاعر اقبال کی کمک فراہم نہ ہوتی تو ہم بری طرح فلسفی اقبال میں الجھ کر رہ جاتے۔ خطبات میں مختلف علوم کے حاصلات و غایات اور مقدمات و نتائج اکثر مقامات پر اس بری طرح خلط ملط ہیں کہ پڑھنے والا اتنا حیران ہوجاتا ہے کہ وہ متعین کرکے یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ الجھن کہاں واقع ہوئی ہے اور کیا ہے۔ جدید علمیات کی پوری طرح پابندی کرتے ہوئے اقبال زمان و مکاں کو وجود کی لازمی شرائط سمجھتے ہیں لہٰذا ان کی فکر کے سیاق و سباق میں حقیقت کا زمانی مکانی ہونا ناگزیر ہے۔ دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اس ضرورت کا اطلاق دینی اخلاقی اور مابعد الطبیعی disciplines پر بھی کرنے لگتے ہیں۔ دینی فکر کی کوئی بھی قسم ہو اس میں غیب حقیقی اور مطلق ہے۔ یہاں حقیقت بر بنائے معلومیت واجب الاثبات نہیں ہے بلکہ بربنائے موجودیت۔ علاّمہ موجودیت اور معلومیت کے اس انتہائی امتیاز کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا اُسے رفع کرنے کی ایسی کاوش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں حقیقت پر اس کا مظہر بلکہ ذہنی مظہر غالب آجاتا ہے اور حقیقت کے علمی ہی نہیں ذاتی حدود بھی اسی سے متعین ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے غزالی مانیں گے نہ کانٹ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف علوم کی purity کے جو نمائندوں کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غزالی کا ورائے علم، یقین و اثبات ہو یا کانٹ کا یہ دعوا کہ حقیقت موجود ہونے کے باوجود ممتنع العلم ہے، مابعد الطبیعی مباحث میں اقبال کے لیے واضح طور پر بڑی رکاوٹیں ہیں جنھیں وہ کہیں شدت سے اور کہیں احتیاط سے گراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اُن کی شاعری ہے جس نے حقیقت کے معلوم ہونے کی بجائے موجود ہونے پر اصرار کیا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے اصرار کے لیے جو اخلاقی تحکم اور تخلیقی تخیلی درکار ہے وہ شاعری ہی میں فراہم ہوسکتا ہے۔ ہمیں غور سے دیکھنا پڑے گا کہ ایک ہی موضوع پر approach کا ایسا فرق جسے کسی دلیل سے رفع نہیں کیا جاسکتا اقبال کے ہاں کیا معنویت رکھتا ہے۔ اگر زمان و مکاں کے مسئلے پر focus کرکے دیکھیں تو بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ اس موضوع پر مفکر اقبال اور شاعر اقبال ہم رائے ہیں۔ خطبات اور شاعری متفق ہیں کہ زمانہ مختلف مراتب رکھتا ہے اور اس اختلاف کی ہر سطح حقیقی ہے۔ نیز موجودیت کا کوئی بھی درجہ ہو، زمانے کو وہاں سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری رائے میں یہ اتفاق اجمال میں ہے، تفصیل میں نہیں، اور ایسا ہونا فطری ہے۔ فلسفیانہ تفکر اور شعری تخیل اور اخلاقی اذعان میں ایسا اتفاق محال ہے جو انھیں جز بہ جز عینِ یکدیگر بنا دے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ہم خطبات میں اظہارپانے والے تصورِ زمان و مکاں کی تشقیق کریں گے اور پھر یہ کہ شاعری اس جز میں خاموش ہے یا متفق ہے یا مختلف۔ اس کے بعد اگر ضرورت پڑی تو یہ دیکھیں گے کہ خطبات یا شاعری میں اس مسئلے پر کوئی ایسی چیز تو نہیں ملتی جس سے دوسرا خالی ہو۔ ۱۔ زمانہ ایک organic whole ہے (۱) ۲۔ زمانہ اشیا کے جوہرِ نہائی کا صورت گر ہے (۲) ۳۔ زمانہ شانِ خلق کا مظہر ہے: (۳) ۳۔ وجودِ حق کا زمانہ، زمانِ حقیقی ہے، جس میں رہ کر وہ serial time کو جز بجز تخلیق کرتا ہے (۴) کائنات ایک آزاد تخلیقی آن ہے (۵) ۵۔حقیقتِ نہائی= دورانِ محض (۶) ۶۔ زمان بطورِ خط پر تنقید (۷) ۷۔ تغیر کی نوع (۸) مندرجہ بالا اقتباسات اقبال کے تصورِ زمان کے تمام ضروری اجزا کا احاطہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس مسئلے کی حد تک اُن کے خیالات، خواہ شعر میں ظاہر ہوئے ہوں یا نثر میں، کسی قابلِ ذکر تبدیلی یا اختلاف پر دلالت نہیں کرتے۔ اُن کا بنیادی مؤقف شروع سے آخر تک ہر جگہ ایک ہی رہا۔ اُن کے فکر و خیال سے تفصیلی واقفیت رکھنے والوں کے لیے یہ یکرنگی بعض وجوہ سے خوش گوار ہونے کے باوجود قدرے غیر متوقع بھی ہے۔ تکنیکی مہارت اور وقوفی گہرائی میں رفتہ رفتہ ہونے والے ناگزیر اضافے کو نظر انداز کردیا جائے تو خطبات میں اقبال جس تصورِ زمان تک پہنچے ہیں وہ اصولاًـ وہی ہے جو پندرہ سولہ برس پہلے اسرارِ خودی میں بیان ہوچکا تھا۔ گردش گردون کردٰن دیدنی است انقلابِ روز و شب فہمیدنی است ای اسیرِ دوش و فردا در نگر در دلِ خود عالمِ دیگر نگر در گِل خود تخمِ ظلمت کاشتی وقت را مثلِ خطی پنداشتی بازبا پیمانہ ی لیل و نہار فکرِ تو پیمود طولِ روزگار ساختی این رشتہ را زنّار دوش کشتہ نی مثلِ بتان باطل فروش کیمیا بودی و مشتِ گل شدی سرِّ حق زائیدی و باطل شدی مسلمی؟ آزاد این زنار باش شمعِ بزم ملّتِ احرار باش تو کہ از اصلِ زمان آگہ ز نی از حیاتِ جاودان آ گہ ز نی تا کجا در روز و شب باشی اسیر رمزِ وقت ازلی مع اللہ یاد گیر این و آن پیداست از رفتارِ وقت زندگی سرّیست از اسرارِ وقت اصل وقت از گردشِ خورشید نیست وقت جاوید است و خور جاوید نیست عیش و غم عاشور و ہم عید است وقت سرِّ تابِ ماہ و خورشید است وقت وقت را مثلِ مکان گستردہ ئی امتیازِ دوش و فردا کردہ ئی ای چوبودم کردہ از بستان خویش ساختی از دستِ خود زندان خویش وقتِ ماکو اوّل و آخر ندید از خیابانِ ضمیرِ ما دمید زندہ از عرفان اصلش زندہ تر ہستی او از سحر تابندہ تر زندگی از دہر و دہر از زندگی است لاتسبو الدہر فرمانِ نبی است (۹) ان اشعار سے وقت کے بارے میں مندرجہ ذیل تصورات اخذ کیے جاسکتے ہیں: ۱۔ وقت اپنے ابتدائی اور عام تصور میں حرکتِ مکاں کے مترادف ہے۔ ۲۔ وقت تجربی دائرے میں حرکت اور تغیر کا نام ہے۔ ۳۔ دوش و فردا وقت کی مصنوعی تقسیم سے قائم ہونے والے مفروضے ہیں، ان کا وقت کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ۴۔ وقت کی حقیقت کو apprehend اور experience کیا جاسکتا ہے۔ ۵۔ وقت اور خودی لازم و ملزوم ہیں۔ ۶۔ وقت کو subjectivize کرکے ہی اس کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہے۔ ۷۔ وقت کے phenomenal حدود تک محدود رہنے سے انسان کے داخلی اور وجودی امکانات پر بھی روک لگ جاتی ہے۔ ۸۔ وقت serial نہیں ہے ورنہ علم کا کوئی جواز رہے گا نہ وجود کا۔ ۹۔ زمان و مکاں کا پیمانہ فکر کا وضع کردہ ہے جو اُن کی حقیقت تک رہنمائی نہیں کرتا۔ ۱۰۔ وقت اپنی متداول تقسیم میں ایک افقی چیز ہے جو حقیقت کا container تو کیا experience بھی نہیں بن سکتی۔ ۱۱۔ انسانی خودی اپنی ماہیت میں وقت کی حقیقت سے ہم آہنگ ہے۔ وقت کا زمینی تصور اس کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ۱۲۔ آدمی اپنی ذات پر غور کرکے زمان کی مابعد الطبیعی جہت تک پہنچ سکتا ہے۔ ۱۳۔ وقت کی phenomenal حد کو توڑے بغیر اللہ پر ایمان اور اُس کے ہونے کا اثبات بے معنی بلکہ محال ہے۔ ۱۴۔ خود انسانی ارادے، اختیار اور آزادی کا تقاضا ہے کہ وقت حرکت و تغیر کے کسی جبری سسٹم سے عبارت نہ ہو۔ ۱۵۔ وقت اپنی اصل میں حدوث سے نہیں بلکہ قدم سے مناسبت رکھتا ہے۔ ۱۶۔ انسانی خودی اپنی اصل میں زمان کے الٰہیاتی مراتب کو apprehend کرنے کی خلقی استعداد رکھتی ہے۔ ۱۷۔ عالمِ طبیعی میں وجود اور زندگی حقیقتِ وقت کے جزوی مظاہر ہیں۔ ۱۸۔ وقت اپنی اصل میں مکانی نہیں ہے۔ یہ ان تمام مکانی objects سے ماورا ہے جو اس دنیا میں اُس کے محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۹۔ وقت مکان کی نسبت سے مقدارِ حدوث ہے، یہ نسبت رفع ہوجائے تو خود وقت اور اِس کے وجودی متعلقات قدیم ہیں۔ ۲۰۔ جوش و فردا کا امتیاز اُس شعور کا پیدا کردہ ہے جو چیزوں کو مکانی terms میں دیکھتا ہے۔ ۲۱۔ عالمِ صورت میں مکان زمان پر غالب ہے جب کہ عالمِ معنی میں یہ غلبہ زمان کو حاصل ہے۔ اسی لیے حقیقت اپنے مزاج میں مکانی سے زیادہ زمانی ہے۔ ۲۲۔ اصل وقت جس کا کوئی اوّل و آخر نہیں، انسان اُس کا داخلی تجربہ کرسکتا ہے۔ ۲۳۔ حقائق کی سطح پر وقت اور وجود عینِ یک دیگر ہیں۔ ان میں کوئی ایک نکتہ ایسا نہیں ہے جس کی صراحۃً یا کنایتہ خطبات سے تصدیق نہ ہوتی ہو، بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بلکہ خطبات میں زمان کا جو مجموعی تصور ملتا ہے وہ ان نکات پر کوئی اصولی اضافہ نہیں کرتا۔ اس لیے اگر ہم اقبال کے تصورِ زمان و مکاں کے اساسی پہلوئوں کی نشان دہی کے عمل میں خطبات تک محدود نہ رہیں تو بھی یہ اندیشہ نہیں رہتا کہ فلاں بات کہیں خطبات سے متصادم نہ ہو۔ اس مبحث میں علامہ کے حتمی مؤقف کی تعیین اور اس کے تجزیے کے لیے چند سوالوں سے گزرنا ناگزیر ہے، مثلاً وہ کون سی علمی غرض ہے جسے پورا کرنے کیلئے وہ زمان و مکاں کی ایک نئی تعبیر کے متلاشی ہیں؟ اور کیا وہ غرض پچھلی تعبیرات سے پوری نہیں ہوسکتی تھی؟ نیز خود وہ جس تعبیر تک پہنچے کیا اُس سے اُن کی غرض پوری ہوتی ہے؟ ہمارے نقطۂ نظر سے ان کے جوابات یہ ہیں: ۱۔ ذاتِ الٰہیہ سے زمان و مکاں کو جو شرائطِ وجود ہیں، کیا نسبت ہے؟ اس نسبت کو جدید ذہن کے لیے قابلِ قبول استدلال کے ساتھ واضح اور ثابت کرنا۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ علمی غرض جو اس مسئلے پر غور و فکر کا محرک بنی۔ ۲۔ یہ غرض پچھلی تعبیرات سے پوری نہیں ہوسکتی تھی کیوںکہ اُن کی بنیاد جس episteme پر تھی، وہ کلیۃً غیر مؤثر ہوچکا ہے۔ ۳۔ خود اقبال کی وضع کردہ تعبیر بعض essential lackings کی وجہ سے یہ غرض پوری کرنے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئی۔ اب ان کی تفصیل: مابعد الطبیعیات، خواہ بطورِفلسفہ و کلام ہو یا بطور Gnosticism، اپنی تمام سرگرمیاں ایک ہی مسلّمے سے شروع کرکے اُسی پر ختم کرتی ہے۔ وہ مسلّمہ ہے: وجودِ خداوندی جو فلسفے میں معقول، کلام میں مفہوم اور Gnosticism میں محسوس ہے۔ تعقل، فہم اور احساس کا امتیاز ایک ہی object کو کس طرح ایک نہیں رہنے دیتا۔ اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے ہم گفتگو کا آغاز یہیں سے کریں گے کہ مابعد الطبیعیات کے یہ تینوں ڈسپلن جب دین کے تصورِ الٰہ کو تسلیم کرکے اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اُس کی تحقیق کرنے نکلتے ہیں تو اسے اپنے داخلی مطالبات کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ جیسے فلسفہ ایک Ontology تشکیل دینا چاہتا ہے جس سے نظامِ عالم کی اصل عقلاً متحقق ہوجائے۔ وجودِ خداوندی اس کی پوری گنجائش رکھتا ہے کہ ذاتیت کو منہا کرکے بھی نظامِ عالم کی معقول اصل بن سکے۔ کلام چاہتا ہے کہ دین کے discource of the divinity کی تفہیم ممکن ہوجائے اور ذات و صفات اور اس طرح کے دیگر مسائل میں دینی حجیت، منطقی صداقت بھی بن جائے۔ اسی طرح Gnosticism کا مقدمہ ہے کہ وحدتِ ذاتی لازماً وجودی، مطلق اور عام ہوگی اور اسے موجودیت کی کسی سطح پر بھی کسی شرکت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اس وحدت کو اللہ کے لیے ثابت کرکے تمام مظاہرِ کثرت سے مستقل وجود کی نفی کردی جائے۔ عقلی اور وجدانی شعور کے یہ مطالبات، وجود اور اس کی حقیقت و ماہیت پر غور کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتے۔ فلسفے میں وجود، مابہ الموجودیت ہے جس میں چند اوصاف لازمی ہیں: ۱۔ واحد ہو ۲۔ معقول ہو ۳۔ مسبوق بالعدم نہ ہو ۴۔ اسے عالمِ کثرت کا مصدر و منبع بنایا جاسکتا ہو اس میں ذاتیت، علم، اختیار اور ارادہ چنداں ضروری نہیں۔ فلسفے میں وجود کو موجود پر تقدم حاصل ہے۔ اہلِ کلام کے ہاں وجود بمعنی مصدری ہے یعنی بودن۔ اس کی ماہیت موجود سے متعین ہوتی ہے، مثلاً موجود حقیقی اور قدیم ہے تو وجود بھی حقیقی اور قدیم ہوگا۔ Gnostics بھی فلاسفہ کی طرح وجود کو مابہ الموجودیت ہی سمجھتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ ان کے نزدیک وجود و موجود identical ہے اور ان کی عینیتِ محض کا نقطہ جس میں دوئی نظری presence بھی نہیں رکھتی، ذاتِ الٰہیہ ہے۔ چونکہ عینیت کا خاصہ ہے کہ یہ اپنے افراد و مشمولات سے ماورا ہوتی ہے لہٰذا ذاتِ الٰہیہ وجود اور موجود دونوں سے ماورا ہے۔ فلسفہ کسی ایسی صورتِ حال کو تسلیم نہیں کرسکتا جس میں وجود، عدم کے بعد ہو۔ اگر زمان و مکاں کو کسی مرحلے پر ساقط کردیا جائے تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا: عدمِ محض۔ اس لیے عقل زمان و مکاں کو شرطِ وجود قرار دیتی ہے اور وجود کے کسی بھی مرتبے کو اس سے خارج کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ موجودیت خواہ کسی بھی معنی اور مرتبے میں ہو، ماورائے زمان و مکاں نہیں ہوسکتی اور زمان و مکاں بھی واقعیتی فرق کو تو قبول کرسکتے ہیں مگر اپنی بنیادی اور ذاتی تعریف سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل، دینی حقائق کو مان لینے کے باوجود، وقت اور مادّے کی قدامت کا انکار نہیں کرسکتی۔ گو کہ اکثر مسلمان فلاسفہ اس قدامت کو قدمِ ذاتِ الٰہیہ سے ممتاز کرتے ہیں، تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ فلسفے کی سچی نمائندگی کرتے ہیں نہ دین کی۔ دوسری طرف متکلمین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عقل کو فہم و استدلال کے دائرے میں محدود کرکے اُسے اثباتی معنی میں text oriented بناتے ہیں۔ کلام کا مقصود بس اتنا ہے کہ دینی حقائق کو ماننے والی عقل اور اُس کے دلائل، دینی حقائق کو نہ ماننے والی عقل اور اُس کے دلائل پر حتماً غالب آجائیں اور یہ غلبہ ایک متفقہ اور مسلّمہ قانونِ استدلال پر استوار ہو۔ متکلمین کے نزدیک عدم، لاوجود کا نام نہیں ہے بلکہ لاموجود کا۔ اس لیے یہ مطلق نہیں ہے بلکہ اضافی اور انفرادی ہے، لہٰذا کسی چیز کا مسبوق بالعدم ہونا اہلِ کلام کے لیے وہ مشکلات نہیں پیدا کرتا جو فلاسفہ کو پیش آتی ہیں۔ زمان و مکاں کے بارے میں فلسفیانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ زمان ظرفِ وجود ہے اور مکاں ظرفِ موجود۔ اوصافِ وجود میں جو وصف سب سے زیادہ مستقل ہے، وہ زمانیت ہے، اور اوصافِ موجود میں وہ وصف مکانیت ہے۔ ذاتِ باری حقیقتِ وجود کے ساتھ موجود فی الخارج ہے تو ازروئے عقل اُس کا زمانی مکانی ہونا ضروری ہے ورنہ اُس کا کمال غیر متحقق رہ جائے گا۔ کلامی مؤقف یہ ہے کہ وقت وجود کی داخلی حرکت کا پیمانہ ہے اور مکاں اُس کے خارجی حدود کا تعین۔ حرکت اور محدودیت چونکہ ذاتِ الٰہ کے کمال کے منافی ہیں لہٰذا وہ زمانی ہے نہ مکانی۔ Gnosticism وجود و موجود اور زمان و مکاں کی لزومی نسبت کو فلاسفہ کی طرح تسلیم کرکے ذاتِ الٰہیہ کے وجود و موجود سے ماورا ہونے کا جو عقیدہ رکھتا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ اُس ذات سے زمانیت اورمکانیت کی نفی ہوجائے۔ اس کے بغیر ذاتِ باری کی تنزیہ ثابت نہیں ہوسکتی۔ مختصر یہ کہ زمان و مکاں کے مبحث میں اسلامی فکری روایت متوازی یا ایک دوسرے کو قطع کرتے ہوئے خطوط کی صورت میں جتنا سفر طے کرچکی ہے، اقبال نے اُس کے آخری مراحل میں سے بھی چند ہی کو گفتگو کو مستحق گردانا۔ فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل کا ڈول ڈالنے کے لیے گو کہ اس روایت کی صورت گری کرنے والے تمام عناصر کو گرفت میں لینا ضروری تھا تاہم علامہ نے کسی وجہ سے اس کے بڑے حصّے کو نظر انداز کردینا مناسب سمجھا۔ اس موضوع پر انھوں نے جن تصورات کو تائیداً یا تردیداً quote کیا ہے، اُن پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے: اشاعرہ کا تصورِ زمانِ جوہری جو دراصل اُن کی الٰہیات کا ایک بنیادی حصّہ ہے، چند نازک مسائل کے حل کے لیے وضع کیا گیا تھا، مثلاً حیاتِ باری تعالیٰ کی ماہیت کیا ہے، اُس کا علم کس طرح کا ہے، کائنات کیسے خلق ہوئی؟ ربط الحادث بالقدیم کی نوعیت کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ آنات کو جواہر قرار دے کر انھوں نے مابعد الطبیعی ذہن کی کئی مشکلات رفع کیں اور اسے کچھ ایسے دلائل فراہم کیے جو ایک پہلو سے طبیعی بھی ہیں اور منطقی بھی۔ اس نظریے میں یقینا بہترے نقائص ہیں لیکن اس کا امتیاز اور اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مابعد الطبیعی ذہن کو وہ tool فراہم ہوگیا جسے استعمال کرکے زمان و مکاں کے حدود مقرر ہوسکتے ہیں، اور یہ مسئلہ غیر حقیقی ہوجاتا ہے کہ وجودِ باری زمانی مکانی ہے یا نہیں؟ اشاعرہ بلاشبہ اس نکتے پر پہنچ گئے تھے کہ جب تک زمان و مکاں کو ایک ہی وجودی ترکیب پر مشتمل و مبنی ثابت نہیں کیا جائے گا، ان کی قدامت اور مستقل لزو م کی تردید محال ہے۔ ہمیں یقین سے تو نہیں معلوم، لیکن یہ اندازہ بہرحال کیا جاسکتا ہے کہ وقت میں ایک طرح عنصریت کا اثبات اور اس کی ایک منظم ساخت کی عکاسی کرکے اشاعرہ نے نفس زمان میں وہ مکانیت دریافت کی ہے جس سے عاری ہو کر کوئی شے موجود اور مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اور یہی مکانیت ہے جو زمانے کے مخلوق ہونے کی دلیل ہے۔ نیز آن کو جوہرِ سادہ کہہ کر اشعریوں نے ان امور کو قابلِ استدلال بنا دیا: ۱۔ حرکت و تغیر اور تسلسل و توالی، زمانے کے مستقل اور ذاتی اوصاف نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت اعراض کی ہے۔ ۲۔ آن جو مخ الزمان ہے essentially معدوم اور phenomenally موجود ہے۔ اس لیے زمانہ جو مجموعۂ آنات ہے ریاضیاتی پیمانے سے غیر متناہی ہونے کے باوجود قدیم یعنی لااوّل و الآخر نہیں ہوسکتا اور قابلیتِ عدم اس میں بھی پائی جائے گی۔ ۳۔ آن body of time ہے جس کی بنیاد پر وقت معدودیت، تحدید اور تجزیے کو قبول کرتا ہے اور موجودیت فی الخارج کی کونیاتی شرط یعنی مکانی پن کو بھی پورا کرتا ہے۔ ۴۔ وقت noumenally ہی نہیں structurally بھی ساکن ہے۔ اُس کے mechanism کی نسبت اُس کی ماہیت سے نہیں بلکہ خالقِ مطلق کے تخلیقی ارادے اور قدرت سے ہے۔ یہ اُن کا مظہرِ اوّل ہے۔ ۵۔ زمانہ، تابع موجود ہے یعنی Essence یا خودی کو اس پر تقدم حاصل ہے البتہ وہ تقدم principial ہے نہ کہ phenomenal۔ مختصر یہ کہ مکانیت کو زمان اور زمانیت کو مکاں کی ماہیت میں داخل کرکے اشاعرہ نے ان کی عینیت و غیریت کو جس طرح آپس میں گوندھ دیا ہے وہ مسلم فکر کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔ یہ نظریہ تشکیل نہ پاتا تو وجود کی زمانیت اور مکانیت کا قضیہ ایک مطلق حکم کے طور پر برقرار رہتا اور مابعد الطبیعی discource کا امکان ماند پڑ جاتا۔ اقبال atomic time کے تصور کو رد کرتے ہیں۔ اُن کے اعتراضات کی نوعیت ان اقتباسات سے واضح ہے: 1, 'In fact the Ash`arite vaguely anticipated the modern notion of point-instant; but they failed rightly to see the nature of the mutual relation between the point and the instant... The point is not a thing, it is only a sort of looking at the instant.' ۱۰؎ 2- 'Thus a criticism, inspired by the best traditions of Muslim thought, tends to turn the Ash'arite scheme of atomism into a spiritual pluralism..." ۱۱؎ 3- 'Time, according to the Ash‘arite, is a succession of individual ‘nows’. From this view it obviously follows that between every two individual ‘nows’ or moments of time, there is an unoccupied moment of time, that is to say, a void of time. The absurdity of this conclusion is due to the fact that they looked at the subject of their inquiry from a wholly objective point of view. ۱۱۔ ا؎لف 4- '... the constructive endeavour of the Ash ‘arite, as of the moderns, was wholly lacking in psychological analysis, and the result of this shortcoming was that they altogether failed to perceive the subjective aspect of time. It is due to this failure that in their theory the systems of material atoms end time-atoms lie apart, with no organic relation between them. ۱۱۔ ب ؎ 5- 'It is clear that if we look at time from a purely objective point of view serious difficulties arise; for we cannot apply atomic time to God and conceive Him as a life in the making. ۱۱۔ ج ؎ اسی طرح کے اعتراضات ہیں جن کی بنا پر اشاعرہ کے نظریۂ تخلیق کے بعض گوشوں کو سراہنے اور اس کی اہمیت کا اعتراف کرنے کے باوجود ۱۲؎ علامہ Atomic time کے تصور کو سرے سے رد کردیتے ہیں۔۱۳؎ اس معاملے میں ہم نے اپنی رائے نمبروار پہلے ہی عرض کردی ہے لہٰذا اقبال کی تنقیدات پر خاص طور سے تبصرہ کرنا غیر مناسب محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اتنا کہنے میں شاید کوئی حرج نہ ہو کہ اس مسئلے پر اقبال نے اشاعرہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ اشاعرہ کا نظریہ ذات یا خودی اور زمان کی لازمی نسبت پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا کیوںکہ یہ objective بہت ہے، یعنی اشعریوں کا زمان یک سطحی ہے جو مثال کے طور پر زمانِ الٰہیہ کی نوعیت سمجھنے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ ۱۴؎ اشاعرہ کی اس کمی پر خود مسلم روایت سے دلیل لانے کے لیے اقبال، عراقی اور دوّانی کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کے برعکس زمان و مکاں کی اضافیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ۱۵؎ یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ’غایتہ الامکان‘ صوفی شاعر فخر الدین عراقی کی تصنیف نہیں ہے، اس کے مصنف محمود اشنوی ہیں اور ملا جلال الدین دوانی اضافیتِ زمان و مکاں کے قائل نہیں تھے، بلکہ اس معاملے میں اُن کا مؤقف وہی تھا جو اسلامی فلسفے کے بعض ائمہ مثلاً ابنِ رشد وغیرہ کا تھا، یعنی جو وجود متحرک، متغیر اور محدود نہیں ہے، زمان و مکاں اُس کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے ’’زوار‘‘ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ گو کہ نتیجے کے اعتبار سے اشنوی کا مؤقف روایتی ہی ہے لیکن اُس کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ انھیں اس مبحث پر وہ گرفت، مہارت اور بصیرت میسر نہیں تھی جو بڑے لوگوں میں نظر آتی ہے۔ زمان و مکاں کی اضافیت، مسلم فکر و عرفان کے تقریباً مسلمات میں سے ہے مگر لگتا ہے کہ اشنوی نے اس کو پوری طرح سمجھا نہیں اور اس اضافیت کی اندرونی مطلقیت سے تجاوز کرکے اور نفسِ اضافیت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے انفعانی جہت ہی سے سہی، مطلق پر بھی وارد کردیا حالانکہ اضافی کا مطلب ہی یہ ہے کہ مرتبۂ اطلاق میں اس کا عدم ضروری ہے۔ حرکت، تسلسل اور تغیر منہا ہو کر بھی زمانہ اگر لائقِ اثبات، بلکہ وجود کی لازمی نسبت کے طور پر موجود رہتا ہے تو بعض ایسی مشکلات پیدا ہوجائیں گی جو مابعد الطبیعی فکر کے لیے بھی لاینحل ہیں۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو وہ اس نظریے کو قدرے پسندیدگی اور ہم دردی سے دیکھنے کے باوجود من و عن قبول نہیں کرتے۔ اس پر اُن کی جو رائے ہے اُس کے بنیادی اجزا یہ ہیں: 1- '...... a cultured Muslim sufi intellectually interpreted his spiritual experience of time and space in an age which had no idea of the theories and concepts of modern Mathematics and Physics,' (۱۶) 2- Iraqi is really trying to reach the concept of space as a dynamic appearance.' (۱۷) 3- 'His mind seems to be vaguely struggling with the concept of space as an infinite continum; yet he was unable to see the full implications of his thought partly because he was not a mattienatician and party because of his natural prejudice in favour of the traditional Aristotelian idea of a fixed universe.' (۱۸) 4- A keener insight into the nature of time would have led Iraqi to see time is more fundamental of the two....' (۱۹) 5- Iraqi's mind, no doubt, moved in the right direction, but his Aristotelian prejudices, coupled with a lack of psychological analysis, blocked his progress.' (۲۰) 6- With his view that Divine Time is utterly devoid of change.... it was not possible for him to discover the relation between Divine Time and serial time and to reach, through this discovery, the essentially Islamic idea of continuous creation which means a growing universe.' (۲۱) حوالے قدرے طویل تو ہوگئے مگر ہم یہیں ایک ضروری نکتے پر گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں، اور وہ یہ کہ ہماری رائے میں اقبال اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ مسلمان فلاسفہ و متکلمین ہوں یا صوفیہ، اللہ کی نسبت سے زمان و مکاں کے باب میں چند امور پر اس طرح متفق ہیں کہ ان کے داخلی اختلافات بھی یہاں ایک طرف ہوجاتے ہیں: ۱۔ ذاتِ الٰہیہ ماورائے زمان و مکاں ہے ۲۔ قدمِ باری ذاتی ہے نہ کہ زمانی ۳۔ حرکت، تغیر، جہت اور حد، اپنے ہر معنی میں کمالِ ذاتی کے منافی ہیں، لہٰذا ان کا گزر صفات کے دائرے ،میں بھی محال ہے، اور یہ استحالہ عقلی بھی ہے۔ عراقی (اشنوی؟) بھی ان متفقات سے باہر تو نہیں گئے لیکن انھوں نے بات کہنے کا ایک ایسا نیم متصوفانہ نیم فلسفیانہ انداز اختیار کیا جس میں وہ اندرونی لچک موجود ہے جسے استعمال کرکے ایک صحیح المعنی قول کو بھی اُس کی مراد کے مخالف رخ پر موڑا جاسکتا ہے۔ اقبال کے لیے تنوعِ زمان و مکاں کا یہ تصور نہیں بلکہ اس کا بیان باعثِ کشش ہے، ورنہ جس نتیجے تک یہ تصور پہنچتا ہے وہ ان کے لیے قطعاً ناقابلِ قبول ہے، یعنی زمانِ الٰہیہ میں حرکت و تغیر کی نفی۔ اس سے پہلے تک کے تمام مراحل میں اقبال، عراقی کے ساتھ ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر کہیں اشارہ کرچکے ہیں کہ اقبال کی تمام فکری و تخیلی سرگرمیاں اُن کے تصورِ خودی کے گرد گھومتی ہیں اور خودی بھی انسانی خودی، جس کے اکثر تشکیلی عناصر Anthropomorphic ہیں۔ اقبال کا انسان روایتی انسان سے کہیں زیادہ مکمل ہے۔ وہ محض صفاتِ الٰہیہ ہی کا نہیں بلکہ ذاتِ الٰہیہ کا مظہر ہے اور اس وجہ سے اپنی وجودی انفرادیت میں کسی طرح کی شرکت کو قبول نہیں کرتا، حتیٰ کہ خدا کی بھی۔ وحدت الوجود کے مقابلے میں اُن کا نظریۂ اثنینیت، عبد و معبود کے تعلق کے اخلاقی و قانونی حدود کے تحفظ کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا حقیقی مقصود، کم از کم منطقی انتاج کی رُو سے، تألّہِ انسان اور تأنسِ الٰہ ہے۔ یہ وہ منتہا ہے جہاں وحدت الوجود نہیں پہنچ سکتا یا پہنچنا نہیں چاہتا۔ اس تک رسائی کا بس ایک راستہ تھا جو اقبال نے اختیار کیا: وجودی متوازیت۔ خدا اور انسان دو متوازی وجود ہیں جن کی موجودیت کے احوال تقریباً یکساں ہیں یعنی یہ دو مقابل ذاتیں ہیں جن کا وجودی سیاق و سباق فی الاصل مختلف نہیں ہے۔ چونکہ انسان کے موجود ہونے کی ایسی حالت تصور میں نہیں آسکتی جس میں زمان و مکاں مستقل حوالے کی حیثیت نہ رکھتے ہوں لہٰذا خدا کے ساتھ اس کی مبنی بر غیریت مشابہت کے اثبات کے لیے لازم ہے کہ زمان و مکاں کو خود ذاتِ باری کے لیے بھی ثابت کردیا جائے۔ بصورتِ دیگر انسان کا وجودی استقلال، متوازیت، غیریت اور مشابہت میں سے کوئی ایک چیز بھی establish نہیں ہوسکتی۔ زمانی مکانی تنوع اور اضافیت کے نظریے میں فطری طور پر اس بات کا جواز موجود ہے کہ زمانیت اور مکانیت انسانی خودی کے الوہی جوہر سے متصادم نہیں ہیں۔ ہاں خودی کا مسبوق عن الزمان اور محدود فی المکان ہونا اس کے نقص پر دلالت کرسکتا ہے، لیکن خودی اپنے دونوں مراتب میں ازروئے ماہیت اس نقص سے پاک ہے۔ عراقی کے بیان کردہ مراتبِ زمان و مکاں میں علامہ کو یہ امکان نظر آتا ہے کہ اس کی بنیاد پر انسانی خودی کا ربانی خودی سے صادر ہونا زیادہ قابلِ فہم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے وہ عراقی کی سمتِ سفر کو درست کہتے ہیں۔ نزاع تصورِ انسان میں نہیں ہے بلکہ تصورِ خدا میں ہے۔ عراقی جب ذاتِ باری کی نسبت سے زمان کو حرکت و تغیر اور مکاں کو حدود و جہات سے عاری کرکے اُن کی ماہیت بدل دیتے ہیں تو یہ چیز اقبال کی scheme of things میں نہیں کھپتی۔ اس طرح انسانی خودی کا مستقل امتیاز maintain نہیں ہوسکتا اور مطلق خودی کو زمان و مکاں کی ہر جہت سے ماورا مان کر ایک تو مقید خودی اپنے مصدر سے محروم ہو کر وجودی استناد گنوا بیٹھتی ہے ،اور دوسرے اس طرح مقید خودی، مطلق خودی سے تقابلی امتیاز کے ساتھ مربوط ہونے کی بجائے اُس کے ضد میں ڈھل جاتی ہے جس سے خود اس کی موجودیت ہی غیر حقیقی بن کر رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اُس وقت تک عراقی کے ساتھ رہتے ہیں جب تک وہ انسان کے روحانی کمال کی تفصیل بیان کرتے ہیں، لیکن جوں ہی وہ اس کمال کو الوہی کمال کے سمندر میں قطرے کی طرح فنا ہوتے دیکھتے ہیں، اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں۔۔۔۔ وہ راہ جو انھوں نے پہلے سے بنا رکھی ہے۔ ذاتِ خداوندی کا اپنی تمام صفات سمیت لااوّل و لاآخر ہونا، مذہبی فکر کا بنیادی مسلّمہ اور مقدمہ ہے۔ اس کی پہلی دلالت ہی یہ ہے کہ وہ ذات لازمان و لامکاں ہے، یعنی حرکت، تغیر، تجدید وغیرہ اُس کی ماہیت میں متحقق ہیں نہ فعلیت میں۔ اس دعوے کومجروح یا کم زور کرنے والی ہر چیز بکل الوجوہ ایک انحراف ہے نہ صرف یہ کہ مذہبی فکر سے بلکہ خود نفسِ مذہب سے۔ یہی وجہ ہے اسلامی فکر و عرفان کی ساری روایت کم از کم اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ ذرا سی لچک کی بھی روادار نہیں ہے۔ اس پس منظر میں اقبال کی Reconstruction کا منصوبہ اپنی غایت کے اعتبار سے اگر کسی بڑے اعتراض کا ہدف بن سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ انھوں نے پوری اسلامی روایت جس تصورِ الوہیت پر قائم ہے، اُسے بدلنے کی کوشش کی ہے اور انسان کے وجودی اور اخلاقی مرتبے کو ایک شدید شاعرانہ قوت کے ساتھ اتنا بڑھا دیا ہے کہ اس کے مقابلے میں خدا ہونا کچھ ایسا قابلِ فخر نہیں رہتا۔ بہرحال ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ حقائقِ انسانیہ کا صوفیانہ بیان اقبال کے تصورِ انسان کے لیے درکار بلندی اور پھیلائو فراہم کرتا ہے، لہٰذا وہ اس کی نتائجی کلیت کو سختی سے رد کرنے کے باوجود اسے اظہاری پہلو سے اپنے لیے کارآمد بنا لیتے ہیں، یعنی اُس کی معنوی ساخت سے سروکار رکھے بغیر اُس کے لفظی شکوہ کو اپنے مصرف میں لے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر عراقی ہی کا معاملہ لے لیں۔ عرفانی روایت کے درجۂ دوم کے spokesmen کی طرح عراقی نے علم الوجود پر تشریحی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے مسئلۂ زمان و مکاں کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ انھوں نے منطقی اور مکتبی صوفیہ کے اسلوب میں زمان و مکاں کے تین بنیادی مراتب بتائے ہیں: مادّی اشیاء کا زمان و مکاں، روحانی موجودات کا زمان و مکاں اور الوہی زمان و مکاں۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وجودِ اصلی اور اُس کے تعینات کی تفصیلی تحقیق ہوجائے اور اس کے ضمن میں حقیقتِ جامعۂ انسانیہ کا بھی بیان ہوجائے جو Being اور Becoming کا برزخ ہے اور خود متعین ہونے کے باوجود ماورائے تعینات حقیقت سے واصل ہونے کی قابلیت رکھتی ہے۔ یہی قابلیت اُس کی جامعیت کی واحد دلیل ہے۔ تصوف میں فنائے ذاتی اسی قابلیت کی کار فرمائی کا نام ہے۔ اقبال اس فنائے ذاتی کو بھی قبول کرتے ہیں مگر شکستنِ تعین کے معنی میں جو حیرت انگیز طور پر ارادی ہے۔ اقبال نے چونکہ اپنے لیے مفکر کے بجائے Reconstructor کا کردار منتخب کیا ہے، اس لیے زمان و مکاں کے مسئلے پر بھی وہ پہلے سے موجود تصورات کی تراش خراش اور انھیں ایک نئی ترکیب میں ڈھالنے تک محدود رہتے ہیں، اور یہ سارا عمل اُن کے خصوصی طرزِ فکر کے تابع ہے جو اپنی بناوٹ میں رومانوی اور آدرشی ہے۔ برگساں کا حیاتیاتی دورانِ خالص، آئن اسٹائن کی طبیعیاتی مطلق اضافیت یا اضافی مطلقیت، اور ولیم جیمز کا نفسی تجربہ اور اس کے روحانی و مابعد الطبیعی محتویات - علامہ کے تصورِ زمان و مکاں کے بنیادی ترین عناصر ہیں جنھیں آپس میں جوڑنے کے لیے وہ ان کی انتاجی شکل کو محو کردیتے ہیں۔ اس طرح کی مشروط اور censored پیوند کاری ظاہر ہے کہ پہلے سے طے شدہ نتائج کے حصول ہی کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک خاص طرح کا ذہن درکار ہے جس میں تصورات شاعرانہ آمد کی طرح pharse ہوتے ہیں جنھیں اسی ذہن میں خلقی طور پر موجود معنی آفرینی کی غیر و قوفی صلاحیت ایک ایسے discource میں تبدیل کردیتی ہے جس میں جمالیات اور اخلاق یک جان ہو کر اس کی verifyability کا سوال نہیں اُٹھنے دیتے۔ اپنی functional جہت میں یہ ذہن حقیقت کی لازمی اعتباریت میں ’تجربی‘ وثوق پیدا کرنے کے لیے phenomenal کو rearrange کرکے نئی ترکیبی دلالتیں وضع کرتا ہے جو اُس کے ماقبل موضوعہ مدلولات یا بالفاظِ دیگر مفروضاتِ اوّلیہ کو واقعیت اور کلیت کا رنگ دے سکیں۔ اس ذہن سے پیدا ہونے والی فکر کو ہم نے جمالیاتی و اخلاقی اس لیے کہا ہے کہ کلیت و واقعیت کا اجتماع اگر ممکن ہے تو اسی طرح۔ کم از کم برصغیر کی حد تک مسلم روایت میں اس ذہن کا اگر واحد نہیں تو سب سے متحرک اور طاقت ور اظہار اقبال میں ہوا۔ انھیں دوسروں کے مقابلے میں ایک سہولت یہ بھی میسر تھی کہ مغربی علوم اور جدید سائنس کا تفصیلی علم رکھتے تھے اور مغرب کی شعریات سے بھی دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ واقف تھے۔ اس کی وجہ سے اُن کے ذہن کو اپنی فطری functioning، یعنی مظاہر کی نئی ترتیب و ترکیب کے لیے درکار خام مواد بھی کثرت سے دستیاب ہوگیا جس کے لاانتہا تنوع اور نیز قبولیت کی بنا پر انھیں کسی بھی مرحلے پر پانی کے حصول کے لیے کنواں خود نہیں کھودنا پڑا۔ اگر آدمی خود کو کہیں fix کیے بغیر اقبال کے خیالات و تصورات کا حقیقی مفہوم میں غیر جانب دارانہ مطالعہ کرسکے تو کم از کم اس نتیجے پر پہنچنے سے رک نہیں سکتا کہ اُن کا اصولِ استدلال ایک خاص انداز سے تطبیقی ہے۔ اُن کی کائنات اپنے مابعد الطبیعی پھیلائو میں بھی انسان مرکز ہے۔ اس انسان مرکزی کو تقویت پہنچانے والا ہر تصور، اپنی نظریاتی حیثیت سے قطعِ نظر اُن کے لیے باعثِ کشش ہے۔ اُن کی بے پناہ تالیفی صلاحیت متضاد نظریات کو بھی اس مصرف میں لے آتی ہے۔ اُن کے فکر و تخیل کا عمل جہاں جہاں بھی مکمل ہوا، اس کی تکمیل میں بالعموم متضاد عناصر کی کار فرمائی صاف نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایسی شخصیات کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا اقبال پر گہرا اثر ہے تو بڑی دلچسپ صورتِ حال سامنے آئے گی۔۔۔۔ لیکن یہ کام ہماری موجودہ ذمہ داری کے دائرے میں نہیں آتا، اس لیے اس طرف جانے کے بجائے سرِ دست ہم اپنی توجہ اس نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہِ تناقض کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور جہاں تک ’کیوں‘ کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔ جیسے مسئلۂ زمان و مکاں میں اگر ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ مختلف تصورات پر تبصرے کی سطح سے اوپر اُٹھ کر اقبال کا اپنا مستقل مؤقف کیا ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے ذہن کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ نہایت بنیادی مباحث میں بھی یہ گنجائش کبھی ختم نہیں ہوتی کہ اُن پر اختیار کیا جانے والا مؤقف technically عقلی یا تجربی نہ ہو اور اس کی تشکیل کسی عارفانہ، حکیمانہ اور شاعرانہ تخیل سے ہوئی ہو۔ اس کے بعد ہی ہم یہ دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے کہ اقبال کی نظر میں حرکت و تغیر اور وجود ہم معنی ہیں اور عینِ یکدیگر۔ وجود اپنے ہر مرتبے میں فعلیت کے فرق کے ساتھ اصلاً حرکت ہی ہے جس کے من و اِلیٰ کا ظہور بعد میں ہوتا ہے، اور وہ بھی ایسی اضافیت کے ساتھ جو واجب الاثبات ہے۔ اس کی تفصیل مطلوب ہو تو پیچھے گزرنے والے حوالے دیکھ لیے جائیں۔ اقبال کے تصورِ وقت کو ایک مربوط بیان میں ڈھالنا آسان نہیں۔ اُن کا شعر اُن کے فلسفے میں اور فلسفہ شعر میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے کہ اُن کے کسی بھی نظریے کو بیان کرتے ہوئے ایک اندرونی منتقلی کے مسلسل عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو اظہار و استدلال کے ظاہری در و بست کو بھی منقلب کرتا رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اُن کے اس تصور کو نکتہ بہ نکتہ کرکے بیان کرنے کی کوشش کی جائے جس کے ذریعے سے امید ہے کہ اس مسئلے پر اقبال کے فکر و تخیل کے حاصلات کا ایک مجموعی خاکہ سا تیار ہوجائے گا: ۱۔ وجودِ حقیقی، خودی ہے۔ ۲۔ خودی کی دو وجودی جہتیں ہیں: ذاتیت اور فعلیت ۳۔ ذاتیت کے بنیادی اوصاف یہ ہیں: وحدت، قدم، علم، آزاد ارادہ اور متصف بالصفات ہونا ۴۔ فعلیت کا بنیادی عنصر تخلیق ہے۔ ۵۔ ذات اور فعل کے درمیان حرکت متحقق ہے۔ ۶۔ یہ حرکت مکانی نہیں ہے بلکہ تغیرِ محض یا تغیر بلا تواتر ہے۔ یعنی اس سے کوئی وجودی اور اصلی تبدیلی عمل میں نہیں آتی بلکہ ذات کی قوۃ، فعل میں ڈھلتی ہے۔ ۷۔ یہی تغیر، دورانِ محض ہے جو اصلِ زمان ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زمانِ حقیقی ہے جس کے ذریعے سے ذاتِ الٰہیہ میں پوشیدہ امکانات عمل پذیر ہوتے ہیں اور اس کے کمالات unfold ۸۔ خودی سے خودی کے صدور میں یہ پورا setup الوہی سے انسانی ہوجاتا ہے ضروری فرقِ مراتب کے ساتھ ۹۔ انسانی realm میں ہستی کا اصول چونکہ اثنینیت ہے لہٰذا یہاں زمان یا حرکتِ اصلی یاتغیرِ محض کو succession لاحق ہوجاتی ہے جو مرتبۂوحدت میں درکار نہیں تھی کیوںکہ وہاں کوئی دوسرا نہیں تھا۔ ۱۰۔ تاہم انسانی خودی بھی جس حرکت سے عبارت ہے وہ دورانِ محض ہی ہے۔ ۱۱۔ اس لیے انسان زمانِ الٰہیہ کے معانی کو اپنے اندر دریافت کرسکتا ہے۔ ۱۲۔ انسانی خودی کی فعلی تحدیدات کی وجہ سے زمانے کے بہائو پر جب اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے تو اُس کا تصورِ زمان بھی میکانکی اور جبری ہوجاتا ہے۔ ۱۳۔ نتیجتاً انسانی خودی کی طرح انسانی تاریخ بھی یا تو نظر کا دھوکا بن کر رہ جاتی ہے یا تقدیر کے تابع ہوجاتی ہے۔ ۱۴۔ ان تحدیدات کو جو خودی کی حقیقت سے بُعد کے نتائج ہیں، توڑنے کا ایک ہی ذریعہ ہے: حرکت و تغیر کے در تمامی مراتب حقیقی اور عینِ وجود ہونے کا وجدانی ایقان۔ ۱۵۔ اسی سے وہ آزادانہ تخلیقی ارادہ بیدار ہوگا جو غلبہ و تقدمِ خودی بر زمان کے ربانی اصول کا عکاس ہے۔ ۱۶۔ انسانی خودی اپنی اس حالت میں زمانے یعنی حرکت و تغیر کی کائناتی رو پر غالب آسکتی ہے کہ وہ اپنے مصدر یعنی ربانی خودی میں کار فرما از ذات تا بہ صفت یا از قوۃ تا بہ فعل حرکت کا تحقق خود اپنے اندر کرنے لگے۔ ۱۷۔ یہی وہ حال ہے جو انسانی خودی کو بقائے دوام کا مستحق بناتا ہے۔ یہ ہیں علامہ کے تصورِ زمان کے وہ بنیادی نکات جس میں وہ مسلم فکر کی پوری روایت میں منفرد ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک نکتہ بھی اس روایت میں موجود نہ تھا۔ اس انفرادیت کے ظاہر ہے کہ کچھ اسباب ہیں۔ اقبالیات میں ان کی تحقیق پر ابھی کوئی قا بلِ ذکر کام نہیں ہوا، شاید آئندہ کوئی صاحب ہمت فرمائیں۔ مذکورہ بالا نکات کا جو خلاصہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ خدا کے لیے بھی ثابت ہے مگر وہاں اس کا ثبوت عینی نہیں ہے، جب کہ انسانی دنیا میں وقت فاعلی انداز رکھتا ہے اور ایک مؤثر اصول کے طور پر موجود ہے۔ تاہم انسان اپنی خودی کے حقیقی پھیلائو میں زمانے کو subjectivize کرکے اُس کے ماہیتی جوہر یعنی دورانِ محض اور اخلاقی جوہر یعنی بقائے دوام کا تجربہ کرسکتا ہے اور اسے اپنی وجودی و روحانی تکمیل کا وسیلہ بنانے پر قادر ہوسکتا ہے۔ اگلی گفتگو کا موقع آیا تو ہم اقبال کی شاعری اور خطبات سے اُن کے تصورِ وقت کے ضروری اجزا کو اکٹھا کرکے ان کا تنقیدی مطالعہ کریں گے۔ حوالے اور حواشی 1 Pure time, then, as revealed by a deeper analysis of our conscious experience, is not a string of separate, reversible instants; it is anorganic whole in which the past is not left behind, but is moving along with, and operating in, the present. And the future is given to it not as lying before, yet to be traversed; it is given only in the sense that it is present in its nature as an open possibility. (page, 39-40) 2 Time regarded as destiny forms the very essence of things. As the Qur’an says: ‘God created all things and assigned to each its destiny. The destiny of a thing then is not an unrelenting fate working from without like a task master; it is the inward reach of a thing, its realizable possibilities which lie within the depths of its nature, and serially actualize themselves without any feeling of external compulsion. (page, 40) 3 If time is real, and not a mere repetition of homogeneous moments which make conscious experience a delusion, then every moment in the life of Reality is original, giving birth to what is absolutely novel and unforeseeable. ‘Everyday doth some new work employ Him, says the Qur’an. (page, 40) 4 To exist in real time is not to be bound by the fetters of serial time, but to create it from moment to moment and to be absolutely free and original in creation. (page, 40) 5 On the analogy of our conscious experience, then, the universe is a free creative movement. (page, 41) 6 A critical interpretation of the sequence of time as revealed in our selves has led us to a notion of the Ultimate Reality as pure duration in which thought, life, and purpose interpenetrate to form an organic unity. (page, 44) 7 If we regard past, present, and future as essential to time, then we picture time as a straight line, part of which we have travelled and left behind, and part lies yet untravelled before us. This is taking time, not as a living creative moment, but as a static absolute, holding the ordered multiplicity of fully- shaped cosmic events, revealed serially, like the picture of a film, to the outside observer....... Personally, I am inclined to think that time is an essential element in Reality. But real time is not serial time to which the distinction of past, present, and future is essential; it is pure duration, i.e. change without succession. (page, 46) 8 Serial change is obviously a mark of imperfection; and, if we confine ourselves to this view of change, the dificulty of reconciling Divine perfection with Divine life becomes insuperable..... The Absolute Ego, as we have seen, is the whole of Reality. He is not so situated as to take a perspective view of an alien universe; consequently, the phases of His life are wholly determined from within. Change, therefore, in the sense of a movement from an imperfect to a relatively perfect state, or vice versa, is obviously inapplicable to His life. (page, 47) کلیاتِ اقبال، فارسی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۔ ۸۵۔۸۶ ۹ 10 The Reconstruction of Religious Thought in Islam, op.cit., p57 11 Ibid., page, 59-60 12 " " page, 54-60 13 " " page, 58 14 " " page, 60 15 " " page, 60 16 " " page, 109 17 " " page, 109 18 " " page, 109 19 " " page, 109-110 20 " " page, 110 21 " " page, 110  شیخ اعجاز احمد کی جمع کردہ بیاضِ اقبال ڈاکٹر سعید اختر دُرّانی تاریخی اہمیت کی حامل یہ بیاضِ اقبال جو آپ کے پیشِ نظر ہے، اس کے پس منظر کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ اس داستان کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ جب میں اوائل ۱۹۸۷ء میں اقبال اکیڈمی برطانیہ کا صدر منتخب ہوا تو میں نے ایک منصوبہ (یعنی project) یہ شروع کیا کہ ہر ایک ایسے شخص کا انٹرویو ریکارڈ کرلیا جائے جو علامہ سے مل چکا ہو۔ اس لیے کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ دنیا سے اٹھتے جارہے ہیں اور کوئی دن جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہے گا۔ چنانچہ ۱۹۸۷ء سے تا امروز علامہ کے بارے میں جن اشخاص کے انٹرویو میں نے audio cassettes پر ریکارڈ کیے ہیں، ان میں مندرجہ ذیل صاحبان شامل ہیں: م ش (صحافی، محمد شفیع)، سیّد امجد علی، ڈاکٹر حمید اللہ، میر یاسین علی خان، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، جناب مختار مسعود، حکیم غلام نبی، جناب احمد ندیم قاسمی، محترمہ حجاب امتیاز علی، ڈاکٹر جاوید اقبال، محترمہ منیرہ بیگم اور محترمہ بیگم آفتاب اقبال (اگرچہ وہ خود علامہ سے نہ ملی تھیں)۔ برسرِ تذکرہ، میں نے اپنے ایک عراقی طالب علم ڈاکٹر سعدی النجار کو ۱۹۹۰ء کے لگ بھگ، جب وہ برلن کا دورہ کررہے تھے، اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ علامہ کی سابقہ گورنس محترمہ ڈورس احمد کا انٹرویو ریکارڈ کرلیں۔ لیکن مسز احمد نے کہا کہ وہ ایسے تمام حالات پر ایک مکمل انٹرویو ریڈیو پاکستان کے لیے پہلے ہی ریکارڈ کرچکی ہیں۔ اسی طرح میں نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے درخواست کی کہ وہ جناب محمد عبداللہ قریشی کا لاہور میں انٹرویو ریکارڈ کرلیں۔ انھوں نے فرمایا کہ وہ ایسا کرچکے ہیں۔ میرا اب ارادہ یہ ہے کہ یہ تمام انٹرویو transcribe کرکے شائع کرڈالوں اور سارے اصل کیسٹ اقبال اکادمی پاکستان کے ذخیرے (Archives) میں جمع کردوں۔ واللہ المستعان۔ بہرصورت، مذکورہ بالا منصوبے ہی کے تحت میں نے فیصلہ کیا کہ علامہ کے مُسن برادر زادے جناب شیخ اعجاز احمد کے ساتھ ایک مصاحبہ بھی ریکارڈ کرلیا جائے جن کے بارے میں مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وہ تاحال حینِ حیات تھے، اگرچہ اُن کا سن نوّے سال سے تجاوز کرچکا تھا۔ ُحسنِ اتفاق سے ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۲ء کے دوران میں میرا دو مرتبہ پاکستان جانا ہوا۔ اوائلِ جنوری ۱۹۹۲ء میں، میں فزکس کی ایک عالمی کانفرنس گومل یونی ورسٹی میں شرکت کے لیے پاکستان گیا۔ واپسی پر کراچی میں رُکا، اور اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر خالد محمود دُرّانی کے یہاں ٹھہرا جو ڈائو میڈیکل کالج کراچی میں پلاسٹک سرجری کے پروفیسر تھے۔ میرا قیام صرف ایک روز کا تھا یعنی بروز ۲۱؍ جنوری ۱۹۹۲ء اور میرا ایک ہی بڑا مقصد تھا، شیخ اعجاز احمد صاحب کے ساتھ ایک مفصل انٹرویو ریکارڈ کرنا جس کے لیے میں نے اپنے بھائی خالد سے کہہ رکھا تھا۔ شیخ صاحب کے یہاں ہم خالد میاں کی کار میں سہ پہر کے پانچ بجے پہنچے۔ PECHS میں واقع ان کی کوٹھی بڑی خوش وضع اور آراستہ، پیراستہ تھی۔ شیخ صاحب کے ساتھ فون پر بات ہوچکی تھی۔ چنانچہ وہ ہمارے منتظر تھے اور بڑی خوش خلقی کے ساتھ انھوں نے ہمارا استقبال کیا۔ جلد ہی اُن کا ملازم چائے اور پرتکلف لوازمات لے کر آیا۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ باوجود اس قدر کہنہ عمری کے (چند روز پیشتر اُن کی ۹۳ ویں سالگرہ واقع ہوئی تھی) وہ ماشاء اللہ کافی چاق و چوبند تھے۔ چہرے پر رونق، چھوٹی سی سفید ڈاڑھی اور حافظہ بالکل صاف شفاف، صرف چلنے پھرنے میں دقت تھی اور انھیں بیساکھی کے سہارے چلنا پڑتا تھا۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ نماز بھی ادا کرتے تھے۔ میں نے انھیں بتایا کہ مجھے علامہ اقبال کے کلام و پیام کے علاوہ اُن کی زندگی کے واقعات کے ساتھ بہت دلچسپی ہے اور چنانچہ چند سال قبل اقبال اکادمی پاکستان سے میری کتاب اقبال یورپ میں چھپ چکی ہے (۱۹۸۵ئ)۔ اس کا ایک نسخہ بھی (جو دراصل خالد کی ملکیت تھا) میں نے اُن کو پیش کیا۔ شیخ صاحب نے بھی ازراہِ کرم مجھے اپنی کتاب مظلوم اقبال عاریتاً عطا کی۔ (یہ بھی اتفاق سے ۱۹۸۵ء ہی میں چھپی تھی)۔ اُس وقت اُن کے پاس اس کی ایک ہی کاپی تھی۔ خالد نے چند دن بعد اس کی مکمل فوٹو کاپی تیار کرکے مجھے برمنگھم بھیج دی اور اصل نسخہ شیخ صاحب قبلہ کو لوٹا دیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد شیخ صاحب نے کتاب کا ایک اور نسخہ خالد کو عطا کیا جو مؤخر الذکر نے ڈاک سے مجھے بھیج دیا۔ شیخ صاحب نے خالد کو یہ بھی بتایا کہ اس عرصے میں انھوں نے میری مذکورۂ بالا کتاب بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھ لی تھی۔ بات جنوری ۱۹۹۲ء کی ملاقات کی ہورہی تھی۔ میں نے شیخ اعجاز احمد صاحب سے علامہ کی زندگی کے بارے میں بہت سے سوالات کیے جن کے انھوں نے مفصل جوابات دیے اور یہ سب میں نے ریکارڈ کرلیے۔ یہ بالکل عیاں تھا کہ انھیں اپنے مرحوم چچا، علامہ اقبال کے ساتھ بے حد محبت اور عقیدت تھی۔ کئی بار علامہ کے بارے میں کوئی بات کہتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے اور اُن کی آواز بھرا جاتی۔ اُن کو حضرت علامہ کا بہت سا کلام بھی ازبر تھا اور یہ بھی میں نے ان کی زبانی ریکارڈ کرلیا۔ اس مصاحبے کے دوران شیخ صاحب کے کچھ افرادِ خانہ بھی وقتاً فوقتاً شریکِ محفل ہوئے۔ اس مصاحبے کے دوران میں نے شیخ صاحب سے پوچھا، کیا علامہ اقبال کے کلام کی وہ قلمی بیاض اب بھی اُن کے پاس موجود ہے (جس کا ذکر روزگارِ فقیر میں ملتا ہے) اور اگر ہے تو کیا میں اُسے دیکھ سکتا ہوں؟ شیخ صاحب نے فرمایا، ہاں وہ میرے پاس موجود ہے لیکن وہ کاغذات میں تلاش کرنی پڑے گی۔ کسی اور موقعے پر میں وہ آپ کو ضرور دکھائوں گا۔ یہ معاملہ اُس وقت میں نے اسی مرحلے پر چھوڑ دیا۔ یہ تمام گفتگو تقریباً دو گھنٹے جاری رہی۔ اُس وقت شام کے سات بج رہے تھے (میری ۱۹۹۲ء کی ڈائری کے مطابق جس میں، میں نے چند بہت مختصر اندراجات ثبت کیے تھے، وہاں سے ۷؍ بجے رخصت ہو کر خالد اور میں کچھ دیر کے لیے ساحلِ بحر پر چہل قدمی کے لیے گئے)۔ مصاحبے کے دوران میں ہم نے شیخ صاحب کی کچھ تصاویر بھی کھینچیں۔ جب ہم نے اُن سے رخصت ہونے کی اجازت چاہی تو شیخ صاحب ازراہِ کرم بیساکھیوں کا سہارا لیتے ہوئے ہم کو دروازے تک چھوڑنے کے لیے آئے۔ ہم نے اُن سے بہت کہا کہ آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں، ہم خود ہی آسانی سے باہر جاسکتے ہیں لیکن شیخ صاحب نے فرمایا: ’’نہیں، مہمان کی دروازے تک مشایعت سنتِ رسول کریمؐ ہے۔‘‘ ہم اُن کے اس اسلامی جذبے اور شعائرِ اسلام کی اس درجہ پیروی سے بے حد متاثر ہوئے اور اس کے بعد میں بھی اس سنت پر پہلے سے زیادہ استقامت کے ساتھ کاربند رہا ہوں۔ اگلی صبح ساڑھے چھ بجے کی فلائٹ سے میں واپس لندن روانہ ہوگیا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ چند ہی ماہ بعد شیخ اعجاز احمد صاحب سے میری دوبارہ ملاقات ہوئی، یعنی بروز ۲۴؍ ستمبر ۱۹۹۲ئ۔ ستمبر ۱۹۹۲ء میں پیکنگ میں ’جوہری نقوش‘ (Nuclear Tracks) کی ایک کانفرنس میں ’جوہری نقوش‘ شرکت کے بعد، جاپان سے ہوتا ہوا براہِ منیلا و بنکاک بدھ ۲۳؍ ستمبر ۱۹۹۲ء کو صبح کے ساڑھے تین بجے کراچی پہنچا اور ہالیڈے اِن ہوٹل میں تھوڑی بہت نیند پوری کرنے کے بعد سائنسی اداروں اور تجربہ گاہوں کے معائنے میں مصروف ہوگیا، جہاں سب سے اہم ملاقات پروفیسر سلیم الزماں صدیقی صاحب سے ہوئی جو تقریباً نوے سال کی عمر میں بھی کم و بیش ہر روز اپنے کیمیائی معمل میں تشریف لاتے تھے۔ کراچی میں میرا قیام بس دو دن کا تھا اور یہ دونوں دن بے حد مصروف گزرے۔ اس دوران میری سب سے اہم ملاقات شیخ اعجاز احمد کے ساتھ تھی جس کے لیے جمعرات ۲۴؍ ستمبر ۱۹۹۲ء کو سہ پہر کے ساڑھے تین سے پانچ بجے کا وقت طے ہوا تھا۔ جب میں شیخ صاحب کے دولت خانے پر پہنچا تو وہ دوبارہ بکمالِ شفقت میرے ساتھ پیش آئے اور میرے بھائی کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ خالد نے اُن کی تمام چیزیں بحفاظت مجھے پہنچا دی تھیں، جن میں سے بالخصوص میں نے اُن کی کتاب مظلوم اقبال بڑے شوق اور توجہ سے پڑھی تھی۔ میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ خالد ان دنوں امریکا میں تھے اس لیے وہ میرے ساتھ نہیں آسکتے تھے۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ انھوں نے بھی میری کتاب اقبال یورپ میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھی تھی۔ شیخ صاحب کی صحت اب بھی ماشاء اللہ ان کی عمر کے لحاظ سے بہت اچھی تھی۔ جب میں نے اس امر پر اظہارِ خوشی کیا تو فرمانے لگے (یا ہوسکتا ہے کہ یہ بات انھوں نے ہماری جنوری ۹۲ء کی ملاقات میں کی ہو) کہ چونکہ میری پیدایش (۱۲) جنوری ۱۸۹۹ء کی ہے اس لیے مجھے خوب یاد رہتا ہے کہ میں کس سال کے دوران کس عمر کا ہوں، مثلاً ۱۹۸۰ء کے دوران میں اکیاسی برس کا رہا، بلکہ جب میری سالگرہ آتی ہے تو اُس سے ایک روز پیشتر میں سب نوکروں کو اُس تعداد میں روپے تحفۃً دیتا ہوں جو میں نے پورے کرلیے، مثلاً جنوری ۱۹۹۲ء میں، میں نے ۹۲ سال پورے کیے تو سب ملازموں میں، میں نے بانوے بانوے روپے بانٹ دیے جس سے وہ بہت خوش ہوئے (اُن دنوں یہ رقم خاصی وقیع ہوتی تھی)۔ اب کے میں نے دوبارہ اُن کی گفتگو ٹیپ ریکارڈ پر چڑھا دی اور کچھ اور تصویریں بھی کھینچیں پھر دورانِ گفتگو میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی اُس بیاضِ اقبال کا کیا ہوا، کیا آپ کو مل گئی ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں، بالکل بلکہ آپ کے آنے سے پہلے میں نے اُسے الماری میں سے نکال کر آپ کو دکھانے کے لیے الگ رکھ دیا ہے۔ اس پر میں نے بہت اظہارِ امتنان کیا جس کے بعد شیخ صاحب نے یہ تاریخی کتاب مجھے دکھائی۔ میں نے بڑے شوق سے اس بیاض کی ورق گردانی کی اور کچھ دیر اس کے بارے میں اظہارِ خیالات کیا۔ پھر میں نے شیخ صاحب قبلہ سے پوچھا کہ یہ فرمایئے کہ اس بیاض کے مستقبل کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟ کیا آپ یہ تاریخی کتاب اپنے بچوں کو عطا کریں گے؟ شیخ صاحب نے فرمایا کہ بدقسمتی سے میرے بال بچوں کو علامہ اقبال کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ پھر آپ یہ اقبال اکادمی پاکستان کو عطا کردیجیے، کہنے لگے: نہیں، وہ لوگ متعصب ہیں۔ یہاں شاید کچھ وضاحتی الفاظ مفیدِ مطلب ہوں۔ ظاہر ہے کہ شیخ صاحب کا اشارہ ان کی احمدیت کی طرف تھا، جس کا سب لوگوں کو علم تھا۔ میری معلومات کے مطابق یہ امر تو بدیہی طور سے معلوم ہے کہ علامہ کے برادرِ بزرگ شیخ عطا محمد صاحب، احمدیت کے مسلک پر قائم و دائم تھے (سیالکوٹ میں بیسویں صدی کے آغاز میں احمدیت کا کافی زور تھا اور سنا ہے کہ اقبال کے خاندان کے کچھ اور لوگ بھی اُس زمانے میں اس مسلک کی طرف کچھ رجحان رکھتے تھے)۔ بہرصورت جب میں چند ماہ پیشتر (جنوری ۱۹۹۲ء میں) شیخ اعجاز احمد صاحب سے ملا تھا تو دورانِ گفتگو انھوں نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ وہ خود بھی راسخ العقیدہ احمدی ہیں اور اس بارے میں وہ کسی تلبیس و اِخفا کے قائل نہیں ہیں۔ اس پر میں نے کہا کہ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو سمجھتا ہوں کہ جو شخص جس مذہب کا بھی پیرو ہو، چاہے وہ بدھ مت ہو یا عیسائیت یا دینِ زرتشتی اور اُس پر صدقِ دل سے کاربند ہو اور کسی سے اپنے اعتقاد کو نہ چھپائے تو ایسا شخص قابلِ تحسین ہے اور اس کی جرأت قابلِ داد ہے (قرآن مجید میں بھی ہے کہ لَکُم دِینکمُ ولیَِ دین، اور مرزا غالب بھی فرما گئے ہیں کہ: وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے)۔ میں نے یہ بھی کہا کہ آج پاکستان میں احمدیت پر کافی کڑا وقت آن پڑا ہے، چنانچہ آپ کی جراَتِ اظہار میری نظر میں کافی قابلِ قدر ہے اور میرے یہ جذبات اخلاص پر مبنی تھے۔ ظاہر ہے کہ میرے یہ خیالات سن کر شیخ صاحب کو خوشی ہوئی ہوگی اور غالباً انھیں یہ گفتگو یاد بھی ہوگی۔ تو چنانچہ جب شیخ صاحب نے فرمایا کہ وہ اپنی بیاضِ اکادمی پاکستان کو عطا نہیں کرنا چاہتے کہ ’’وہ لوگ متعصب ہیں‘‘ (اگرچہ مجھے یہ علم نہیں کہ شیخ صاحب کا یہ خیال کیوں تھا) تو میں نے عرض کیا کہ اُس صورت میں یہ بے بہا کتاب آپ اقبال اکیڈیمی (یو کے) کو، جس کا میں صدر نشین ہوں، عطا کردیجیے، ’کہ ہم لوگ تو متعصب نہیں ہیں!‘۔ اس پر شیخ اعجاز احمد نے فی الفور فرمایا: ہاں، یہ بڑا اچھا خیال ہے اور یوں یہ بوجھ بھی میرے شانوں سے اُتر جائے گا۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ ’’شیخ صاحب، اُس صورت میں آپ اپنے ہاتھ سے اس کتاب میں یہ تحریر کردیجیے کہ آپ نے یہ کتاب اپنی خوشی سے مجھے، یعنی سعید اختر دُرّانی کو عطا کی ہے تاکہ ایک روز میں اس کی تہذیب و ترصیع کرکے اس کو شائع کردوں اور یوں یہ دست بردِ زمانہ سے محفوظ ہوجائے اور شائقینِ اقبال تک پہنچ جائے۔ ورنہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اس کتاب کے کہن سال مالک کی آنکھ بچا کر دُرّانی صاحب اسے لے اُڑے ہیں۔‘‘ شیخ صاحب نے مسکرا کر فرمایا کہ اگرآپ ایسا چاہتے ہیں تو میں بخوشی یہ تحریر کتاب میں ثبت کردیتا ہوں۔ چنانچہ قارئین! آپ اس مضمون کے ساتھ شائع ہونے والا عکس دیکھ سکتے ہیں کہ شیخ صاحب نے اپنے دستِ رعشہ دار سے کتاب کے ایک ابتدائی صفحے پر لکھ دیا ہے کہ ’’یہ کتاب ڈاکٹر سعید اختر صاحب دُرّانی کو دے رہا ہوں برائے برائے، شیرازہ بندی و اشاعت‘‘۔ (یہاں اعجاز احمد صاحب نے لفظ ’’برائے‘‘ سہواً دوبارہ لکھ دیا ہے) اس کے نیچے شیخ صاحب کے دستخط ہیں: اعجاز احمد اور ان کے مقابل تاریخِ تحریر: ۹۲؍۹؍۲۴۔ تو قارئین! یہ ہے ماجرا اس کتاب کے مجھ تک پہنچنے کا۔ موضوع کو آگے بڑھانے سے پیشتر میں یہاں دو ایک باتیں درج کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ پہلی بات کا تعلق شیخ اعجاز احمد کی کتاب مظلوم اقبال سے ہے جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ یہ کتاب ابھی ابھی بعد از تلاشِ بسیار میرے ذخیرۂ کتب کے ایک دور دراز گوشے سے برآمد ہوگئی ہے۔ یہ وہ مطبوعہ نسخہ ہے (سنہ اشاعت، ۱۹۸۵ئ، مطبع شیخ شوکت علی پرنٹرز، کراچی) جو شیخ صاحب نے میرے بھائی پروفیسر خالد محمود دُرّانی کے ہاتھ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، مجھے موسمِ بہار ۱۹۹۲ء میں بھجوایا تھا۔ یہ میں نے پچھلے دو روز میں (۲۷، ۲۸؍ مئی ۲۰۰۵ئ) ازسرِنو تمام و کمال پڑھ لیا ہے (اگرچہ اس کتاب کا فوٹو کاپی شدہ نسخہ جو خالد نے مجھے بھجوایا تھا، میں اوائل ۱۹۹۲ء ہی میں پڑھ چکا تھا)۔ پہلی بات جو اس کتاب کے مطالعے سے اُجاگر ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ امر بہت قرینِ قیاس ہے کہ علامہ کے بارے میں میرے کچھ مضامین مظلوم اقبال کی اشاعت سے پیشتر شیخ صاحب موصوف کی نظر سے گزر چکے تھے(اگرچہ انھوں نے اپنی کتاب میں براہِ راست میرے نام کا ذکر نہیں کیا) مثلاً اقبال کی تاریخِ ولادت کے بارے میں میری تحقیقات جو روزنامہ جنگ، لندن میں جنوری و ستمبر ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی تھیں۔ اسی طرح اقبال اور ایما ویگے ناسٹ کے تعلقات اور اقبال کے خطوط بنام مس ویگے ناسٹ جو میں نے ۱۹۸۳ء میں ماہنامہ افکار کراچی میں شائع کیے تھے۔ ان دونوں موضوعات کے حوالے شیخ صاحب کی کتاب میں موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کتاب کے مطالعۂ ثانی کے دوران میں نے دیکھا ہے کہ شیخ صاحب نے اپنے اور اپنے والدِ محترم شیخ عطا محمد صاحب کے احمدیہ عقائد کے بارے میں اس کتاب کے اندر بڑی تفصیل کے ساتھ اور کسی اخفا کے بغیر لکھا ہے اور یہ کتاب میں شیخ صاحب کے ساتھ دوسری ملاقات سے پیشتر ہی پڑھ چکا تھا۔ چنانچہ مجھے گمان گزرتا ہے کہ شاید میں نے اسی مؤخر الذکر ملاقات (یعنی بروز ۲۴؍ ستمبر ۱۹۹۲ئ) کے دوران ہی میں انھیں اس بات پر مبارک باد دی ہو کہ وہ حالاتِ موجودہ میں اپنے عقیدے کا کھلے بندوں اعلان/ اقرار کرکے بڑی جرأت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ چنانچہ ہوسکتا ہے کہ اسی لیے شیخ صاحب نے اس آخری ملاقات میں اپنی عزیز اور بے بہا بیاض مجھے عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ خیر، اُس روز یہ ملاقات سہ پہر کے پانچ بجے کے لگ بھگ اختتام کو پہنچی اور یہ میری شیخ صاحب کے ساتھ آخری ملاقات ثابت ہوئی، چونکہ چند ماہ بعد مجھے اطلاع ملی کہ اُن کا انتقال ہوگیا ہے ( اِنّا اللَّہ و اِنا الیہ راجعون)۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی مشیتِ ایزدی کا ایک حصّہ تھا کہ خدائی تعالیٰ نے انھیں زندہ رکھا تاآنکہ علامہ کی یہ بے مثال یادگار اِس ناچیز کی وساطت سے محفوظ ہاتھوں تک پہنچ جائے۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ میں نے شیخ صاحب کا صدقِ دل سے شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے مجھے اپنی متاعِ عزیز کے تحویل کرنے کے لیے مناسب اور قابلِ اعتماد شخص گردانا ہے اور یہ بھی کہا کہ میری یہ کوشش ہوگی کہ ایک روز میں اپنی اِس ذمہ داری سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوسکوں۔ واللہ المستعان۔ بہرصورت، جب میں شیخ صاحب کے یہاں سے رخصت ہوا (اور دوبارہ وہ میری مشایعت کے لیے دروازے کے باہر تک تشریف لائے) تو اُسی شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب پاکستان آرٹس کونسل کراچی میں مجھے ایک ادبی تقریب میں شامل ہونا تھا، جہاں شفیع عقیل صاحب کی ایک کتاب کی رسمِ اجرا طے پا رہی تھی۔ وہاں جناب جمیل الدین عالی، جناب مشتاق احمد یوسفی اور جناب شان الحق حقی بھی شریکِ محفل تھے۔ جب میں نے ان اصحاب سے علامہ اقبال کی بیاض کا قصّہ بیان کیا تو ایک صاحب (غالباً عالی جی) نے فرمایا کہ حضرت! ہم یہاں کراچی میں چالیس سال سے بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ہمیں یہ بے بہا تحفہ نصیب نہیں ہوا تو آپ کیسے ایک روز کے لیے یہاں تشریف لائے اور ایسی نادرۂ روزگار چیز لے کر چل دیے؟ میں نے عرض کیا: یہ ہے فائدہ ’متعصب نہ ہونے کا‘۔ ان سب نے بیاض کے ورق اُلٹ پلٹ کے دیکھے اور میں نے خدا کا شکر کیا کہ اس کے صفحۂ اوّل پر شیخ اعجاز احمد صاحب نے بقلمِ خود تحریر کردیا تھا کہ وہ یہ کتاب مجھے شیرازہ بندی اور اشاعت کے لیے عطا کررہے ہیں ورنہ ہوسکتا ہے کہ وہ اصحاب بھی یہ خیال کرتے کہ میں نے یہ بیاض نظر بچا کے اُڑا لی ہے (اُسی شام جناب جمیل الدین عالی نے مجھے اپنے دولت خانے پر رات کے کھانے کے لیے مدعو کیا تو جناب مشفق خواجہ مرحوم بھی تشریف لائے اور یہ شہرۂ آفاق مخطوطہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے)۔ اگلی صبح دس بجے (جمعہ ۲۵؍ ستمبر ۱۹۹۲ئ) میں واپس انگلستان روانہ ہوگیا اور یوں یہ دورۂ پاکستان، چین و جاپان جو ایک ماہ پر محیط رہا تھا، ایک نعمتِ غیر مترقبہ کے حصول پر اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد پچھلے بارہ تیرہ سال سے یہ بیاض میرے کتب خانے میں محفوظ تو رہی لیکن مجھے قبلہ شیخ صاحب کے ساتھ کیا ہوا اپنا وعدہ وفا کرنے کا موقع میسر نہیں آسکا۔ چنانچہ میں نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ ’انیسؔ، دم کا بھروسا نہیں‘ یہ چراغ کب تک (تہِ داماں ہی سہی) لیے لیے پھرو گے؟ مجھے اقبال اکادمی پاکستان سے بہتر کوئی ادارہ نظر نہیں آتا، جو اس نادر بیاض کو اپنی حفاظت میں بھی رکھے (کہ ہماری اقبال اکادمی برطانیہ نے اور خود میں نے اپنے جمع کیے ہوئے بہت سے نوادراتِ اقبال، پچھلے چند سال کے دوران انھی کے محافظ (archives) کو تفویض کیے ہیں) اور علاوہ ازیں باقاعدہ شیرازہ بندی اور تنظیم و تہذیب کے بعد اس کو مطبوعہ صورت میں (یعنی بطور facsimile) اور ہوسکے تو میری اس پیش گفتار کے ساتھ، شائع بھی کردے تاکہ مداحین و محققینِ اقبال کی اس تک بآسانی رسائی ہوسکے اور یوں اقبال اکادمی پاکستان کے یہاں سے اس بیاض کی اشاعت اُن کے متعصب نہ ہونے کا بدیہی ثبوت بھی ہوگا، شیخ صاحب کے خوف کے علی الرغم۔ (ہاں، میں نے اُن کی کتاب مظلوم اقبال سے دریافت کیا ہے کہ علامہ کے بیشتر باقیات انھوں نے پاکستان نیشنل میوزیم کراچی کی حفاظت میں رکھوا دیے تھے۔ تو چلیے علامہ کی ایک اور نشانی اقبال اکادمی پاکستان کے لاہور کے ذخیرے میں بھی سہی!) پیشتر اس کے کہ میں اس بیاض کو describe کروں یعنی اس کے احوالِ طبیعی بیان کروں، شاید یہ امر قارئین کے لیے فائدہ مند ہو اگر میں فقیر سیّد وحید الدین کی قابلِ قدر کتاب روزگارِ فقیر جلد دوم (لائن آرٹ پریس کراچی، طبع دوم ۱۹۶۵ء طبعِ اوّل، ۱۹۶۴ئ) میں سے شیخ اعجاز احمد کی اس بیاض کی genesis (تولید) کے بارے میں کچھ پیراگراف نقل کروں۔ صاحبِ روزگار فرماتے ہیں: (صفحات ۲۱۵ تا ۲۱۷) شیخ اعجاز احمد کو لڑکپن ہی سے علامہ اقبال کے کلام سے دلچسپی اور شغف رہا ہے۔ ۱۹۱۱ء میں جب علامہ نے اپنی شہرۂ آفاق نظم ’شکوہ‘ حمایتِ اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی تو شیخ صاحب سیالکوٹ سے علامہ کے والدِ بزرگوار کے ہمراہ لاہور آگئے اور اس اجلاس میں علامہ کی زبان سے اُن کی نظم سنی۔ شیخ صاحب اُن دنوں آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے اور اُن کی عمر بارہ تیرہ سال کی تھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے ایک کاپی میں مختلف رسالوں اور اخباروں سے علامہ کی نظمیں نقل کرنی شروع کیں۔ اُن کا یہ شوق ترقی کرتا گیا۔ ۱۹۱۷ء اور ۱۹۱۸ء میں جب وہ اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو علامہ کا کلام جمع کرنے کے انھیں اور زیادہ مواقع میسر آئے۔ شیخ صاحب نے لاہور میں علامہ کی بہت سی نظمیں خود اُن کے کاغذوں سے نقل کی ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اقبال انارکلی والے بازار میں رہتے تھے۔ شیخ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں خاصا بدخط ہوں۔ اس لیے میری خواہش تھی کہ چچا جان کا سارا کلام ایک خوب صورت بیاض میں خوش خط لکھوا کر رکھوں۔ اس خواہش کی تکمیل کا سامان ۱۹۱۹ء میں یوں ہوا کہ میرے ایک ہم وطن شاہ نواز صاحب نے جو شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے تھے، میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کا امتحان دے کر سیالکوٹ میں مطب شروع کیا۔ میں بی اے کا امتحان دے کر سیالکوٹ آیا تو اُن کے مطب میں چونکہ مریض ابھی زیادہ نہیں آتے تھے، لہٰذا شعر و شاعری کا چرچا رہتا۔ ڈاکٹر شاہ نواز صاحب بڑے خوش خط تھے۔ انھیں میری خواہش کا علم ہوا تو بڑے شوق اور بڑے اصرار سے کتابت کا کام اپنے ذمے لیا۔ چنانچہ موجودہ بیاض بڑے اہتمام سے تیار کرائی گئی اور ڈاکٹر شاہ نواز صاحب نے میری کاپی سے چچا جان کا کلام بیاض میں نقل کرنا شروع کردیا۔ کاپی میں تو یہ سب کلام بے ترتیب لکھا ہوا تھا۔ بیاض کے لیے طے پایا کہ پہلے اُردو غزلیات، اُن کے بعد فارسی کلام جو بہت زیادہ نہ تھا، اُس کے بعد وہ کلام جو اکبرؔ الٰہ آبادی مرحوم کے رنگ میں تھا اور سب سے آخر میں نظمیں درج کی جائیں۔ چنانچہ ہر روز میں اور ڈاکٹر شاہ نواز بہت سا وقت اس کام میں صرف کرتے۔ جب میں لا کالج میں داخلہ لینے کے لیے لاہور جانے لگا، اُس وقت تک غزلیات، فارسی کلام اور اکبریؔ اقبال کا بہت سا حصّہ بیاض میں نقل ہوچکا تھا لیکن ابھی بہت سا کلام باقی تھا جس کو شاہ نواز صاحب نقل نہ کرسکے کیوںکہ جب میں دوبارہ کالج کی چھٹیوں میں سیالکوٹ آیا تو ڈاکٹر صاحب کا کام چل نکلا تھا اور انھیں اتنی فرصت نہیں ملتی تھی کہ وہ اس کام کو جاری رکھ سکیں۔ چنانچہ باقی کلام میں نے خود اپنے قلم سے اس بیاض میں منتقل کیا۔ لا کالج کے زمانے میں بھی گاہے گاہے چچا جان کی میز پر سے اُن کا تازہ کلام نقل کرنے کا موقع مل جاتا۔ تو یہ ہے سیّد وحید الدین اور خود شیخ اعجاز احمد صاحب کے الفاظ میں اس بیاض کی تدوین و تخلیق کا پس منظر۔ اب میں بیاض کی طبیعی description کی طرف آتا ہوں۔ یہ قریب ۷ انچ × ساڑھے چار انچ (یعنی قریب ۱۸× ساڑھے گیارہ سنٹی میٹر) کی تقطیع کی کتاب ہے۔ بیاض کے کل صفحات قریب ۷۳۲ ہیں جن میں سے آخر کے ۳۳۰ اور یہاں وہاں بیچ کے ۴۱ صفحات خالی ہیں (یعنی کل کورے صفحات ۳۷۱ ہیں) جن صفحات پر تحریر موجود ہے وہ کل ملا کر ۳۶۱ ہیں، یعنی کتاب کا قریب نصف حصّہ خالی ہے اور نصف مرقوم ہے۔ بیاض کے تمام صفحات کافی خستہ حالت میں ہیں، کہنگی کی بدولت پیلے پڑ چکے ہیں اور ان کے کنارے جھڑ رہے ہیں۔ بہت سے ورق جلد سے اُکھڑ چکے ہیں اور شیرازہ بندی کے متقاضی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری بیاض کے گرد ایک ایسی جلد مڑھ دی گئی ہے (یعنی یہ بیاض ایسے covers کے درمیان مقبوض یا منضبط کردی گئی ہے) جو ایک کہن سال انجیلِ مقدس کی جلد ہوا کرتی تھی (پشت والے cover پر اب بھی Old Testament یعنی عہد نامہ عتیق کے الفاظ پڑھے جاسکتے ہیں)۔ یہ سیاہ رنگ کی جلد کافی دبیز اور مضبوط ہے اور اسی وجہ سے چنی گئی ہوگی۔ جیسا کہ شیخ اعجاز احمد مرحوم نے روزگارِ فقیر کے محولہ بالا اقتباسات میں فرمایا، بیاض کا حصّہ اوّل بڑی خوش خط تحریر میں ہے۔ پہلے پانچ صفحے جن پر نمبرشمار تحریر نہیں ہیں، ابتدائیہ یا تعارفی اوراق ہیں۔ صفحۂ اوّل بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتا ہے جس کے نیچے (ڈاکٹر شاہ نواز کے خط میں) تحریر ہے: از خدا آغاز کردم، با خدا انجام باد۔ دوسرے صفحے پر ُھوالشعر اور اس کے نیچے لکھا ہے: خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے/ تب نظر آتی ہے اِک مصرعِ تر کی صورت۔ تیسرے صفحے پر تحریر ہے: اِنّ من الشعر لحکمتہ و اِنّ من البیانِ لسَحراً۔ اور اُس کے نیچے: کہہ گئے ہیں شاعری ’جزویست از پیغمبری‘۔ چوتھے صفحے پر ہم اس کتاب کا ’انتساب‘ دیکھتے ہیں جو یوں ہے: اقبال، یعنی مجموعۂ کلامِ بلاغت انضمام، چکیدۂ کلک جواہر سلک، حقیقت طراز، صاحب اعجاز، ناظم مملکتِ سخن وری، پیغمبرِ فنِ شاعری، مایۂ نازشِ قوم، لسان التوحید و الاسلام۔ ترجمانِ حقیقت، فخر الملک علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب، ایم اے، پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا (سیالکوٹی) اور اس کے نیچے: جامع: اعجاز۔ اقبال منزل سیالکوٹ شہر۔ ۱۹۱۹ء مطابق ۱۳۳۷ھ۔ پانچویں صفحے پر صرف ’فہرست‘ کا لفظ نظر آتا ہے (خوش خط) اور اس کے بعد چھٹے صفحے پر صرف ایک صفحے کی فہرستِ مطالب ہے جو بیاض کے صفحات ۱ تا ۱۹ سے متعلق ہے۔ یعنی: صفحہ عنوان مصرعِ اوّل ۱ غزل انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۷ غزل (ناتمام) کل ایک شوریدہ خوابگاہِ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹ غزل جھلک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں یہ فہرست بدخطی کی مظہر ہے، جو ظاہر ہے کہ شیخ صاحب کی تحریر کردہ ہے۔ اس صفحے کے بعد ۱۹ صفحات کورے ہیں اور بغیر نمبر ہائے شمار کے جن پر شیخ صاحب بیاض کے بقیہ مطالب درج کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے مگر بوجوہ ایسا نہ کرسکے۔ بیسویں صفحے پر حصّۂ آغاز کا عنوان ’غزلیات‘ خوش نویسی سے ثبت ہے۔ یہاں سے آگے تمام صفحات پر اردو ہندسوں میں تا آخرِ کتاب صفحوں کے نمبر شمار درج ہیں۔ اردو ہندسوں والے آخری صفحے کا نمبر ۳۵۸ ہے۔ اس کے بعد کے اٹھارہ صفحوں پر انگریزی ہندسے دیے گئے ہیں جن میں آخری نمبر ۳۷۶ ہے۔ حصّہ اوّل میں صفحہ ۱ سے (انوکھی وضع ہے۔۔۔۔ الخ) صفحہ ۷۰ تک اردو غزلیات ہیں۔ (ص ۷۰ کی آخری غزل کا عنوان ہے: برائے مشاعرہ بھوپال منعقدہ ۱۸؍ اگست ۱۹۱۰ء شعر: حلقہ زنجیر کا ہر جوہرِ پنہاں نکلا آئنہ قیس کی تصویر کا زنداں نکلا (لیکن اس کافی پرانے اور رسمیہ انداز کی غزل کے صرف تین شعر یہاں درج ہیں)۔ علامہ کی یہ اردو غزلیات شاہ نواز صاحب کے بڑے خوب صورت خط میں تحریر ہیں پھر اگلے چھ صفحوں پر یعنی ۷۱ تا ۷۷ (ص ۷۶ خالی ہے) شیخ صاحب کی ’بدخط تحریر‘ میں علامہ کا کچھ اور اردو کلام درج ہے۔ پھر اس کے آگے کے ۱۳ صفحات خالی ہیں (۷۸ تا ۹۰)۔ جن کے بعد شاہ نواز صاحب کی خوش خط تحریر میں ص ۹۱ پر ’فارسی کلام‘ کا عنوان ہے (ص ۹۲ پر شیخ صاحب نے معارف سے چار شعر نقل کیے ہیں) مگر اس حصّے میں شاہ نواز صاحب کی خوش نویسی صرف دس صفحات پر محیط ہے (۹۳ تا ۱۰۲۔ اور آخری صفحے پر بھی اُن کی تحریر میں صرف دو شعر درج ہیں) جس کے بعد پھر باقی تمام کتاب شیخ اعجاز احمد کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے یعنی ص ۱۰۲ سے ۱۱۳ (تمام فارسی) ص ۱۱۵ سے ۱۲۵ (اردو) ص ۱۲۶ سے ۱۴۱ (فارسی)۔ ص ۱۴۲ تا ۱۵۰ خالی ہیں۔ اور اس کے بعد ص ۱۵۳ سے تا آخرِ کتاب یعنی تا ص ۳۷۶، سب کا سب مواد شیخ صاحب موصوف کے ہاتھ کا تحریر کیا ہوا ہے اور سب اردو میں ہے۔ سوائے مندرجہ ذیل چار صفحات کے جو شاہ نواز صاحب کی تحریر میں ہیں یعنی ’اوّل‘ ص ۱۱۱ جو صفحہ عنوان ہے اور جس پر لکھا ہے: ’’اکبری اقبال۔ یعنی (اشعار مولیٰنا اکبرؔ الٰہ آبادی کے رنگ میں) و رباعیات‘‘۔ یہ حصّہ (جس میں پہلے اقبال کا اکبری طرز کا کلام ہے اور آخر میں مختلف رباعیات ہیں) صفحات ۱۱۲ تا ۱۲۵ پر محیط ہے۔ ان میں شاہ نواز صاحب کی تحریر میں صرف دو صفحات ہیں یعنی ص ۱۱۳ و ۱۱۴ (جنھیں میں نے اُن کے صفحات ’دوم و سوم‘ شمار کیا ہے) باقی تمام مندرجات مع اکبری اشعار (ص ۱۱۵ تا ۱۲۱) شیخ صاحب کے قلم سے ہیں جن کی کچھ تفصیل مع صفحات نمبر اوپر (یعنی چند سطور قبل) بیان ہوچکی ہے۔ شاہ نواز صاحب کی آخری تحریر ہمیں ص ۱۵۱ پر ملتی ہے (یعنی اُن کے مذکورہ بالا چار صفحات میں کا صفحۂ ’چہارم‘) اور وہ بھی صرف یک لفظی عنوان پر مشتمل ہے: ’منظومات‘۔ اس کے بعد کے تمام صفحات (۱۵۳۔۔۔۔ الخ) شیخ صاحب کی اُردو تحریر میںہیں۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار کا خلاصہ یہ ہے کہ شاہ نواز صاحب مرحوم کی خوش نویسی کل ۹۱ (اکانوے) صفحات پر محیط ہے یعنی بیاض کا ایک چوتھا حصّہ اور بقیہ تمام صفحات (یعنی باقی ۲۶۹ یا ۲۷۰ صفحے) شیخ اعجاز احمد مرحوم کے خط میں ہیں۔ میزان کل قریب ۳۶۱ صفحات۔ ان میں فارسی کلام صرف ۳۵ صفحات پر محیط ہے اور باقی تمام ۳۲۶ صفحات پر اُردو کلام درج ہے۔ ہاں، اس ورق گردانی کے دوران یہ دیکھ کر مجھے افسوس ہوا کہ اس گراں بہا بیاض کے دو ورق غائب ہیں (اندازاً صفحات نمبر ۲۳ تا ۲۶، چونکہ ان اوراق کے گردونواح میں بہت سے صفحات کے نمبرشمار مرورِ زمانہ سے جھڑ چکے ہیں)۔ یہ حصّہ شاہ نواز صاحب کے رسم الخط میں ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ دو ورق کس زمانے میں گم ہوئے۔ خدا کرے کہ جب صاحبِ روزگارِ فقیر نے اس بیاض کے غیر مطبوعہ حصّے اپنی کتاب میں نقل کیے تھے تو اُس وقت یہ اوراق بیاضِ مذکور میں موجود رہے ہوں، ورنہ اِناللہ و اِنا الیہ راجعون کہنے کے سوا چارہ نہیں۔ مذکورہ بالا descriptions اور اعداد و شمار تو ہوئے وہ کوائفِ طبیعی جن کا کچھ صفحات پہلے میں نے ذکر کیا تھا، اب اصل کام اس بیاض کے مندرجات کا تفصیلی جائزہ ہے کہ کون سے شعر کہاں شائع ہوچکے ہیں اور کون سے شعر پہلی مرتبہ روزگارِ فقیر (جلد دوم، ۵؍۱۹۶۴ئ) میں درج ہوئے یا کون سے اتفاقاً چھوٹ گئے (missed out)۔ اور یہ وہ کام ہے جو سراسر بقولِ ذوق ’جگر گدازی ہے، سینہ کاوی ہے، جاں کنی ہے‘۔۔۔ اور جس کے لیے میری نظر میں سب سے زیادہ موزوں شخص میرے دوست اور کرم فرما جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہیں جو کہ ایسے عمیق و ہمہ گیر مطالعات کے لیے مشہور ہیں (مثلاً دیکھیے اُن کی کتاب: تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ۔ اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۸۲ئ) چنانچہ میں بہ کمال مسرت و اطمینان یہ کارِ جگر گداز اُن کے لائق ہاتھوں کے سپرد کرتا ہوں اور خود چند عمومی تاثرات (observations) پر اکتفا کرتا ہوں۔ پہلی قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کا بہت سا ایسا کلام جو اُن کے authorized (یعنی بالاِجازہ) چھپے ہوئے مجموعہ ہائے کلام (یا کلیات) میں شامل نہیں ہوا وہ اُن کی وفات سے پہلے اور زیادہ تر وفات کے بعد شائع ہونے والی کتابوں میں چھپ چکا ہے جن میں سے مندرجہ ذیل سب سے زیادہ اہم ہیں یعنی کلیاتِ اقبال مدوّنہ مولوی محمد عبدالرزاق (مطبوعہ عماد پریس، حیدر آباد دکن۔ ۱۳۴۳ھ) (مطابق ۱۹۲۴ئ) باقیاتِ اقبال مرتبہ سیّد عبدالواحد معینی (مجلسِ اقبال، کراچی۔ ۱۹۵۳ئ) سرودِ رفتہ مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری (کتاب منزل، لاہور۔ ۱۹۵۹ئ) رختِ سفر، مرتبہ محمد انور حارث (تاج کمپنی لاہور۔ ۱۹۵۲ئ) اور آخر میں روزگارِ فقیر (جلد دوم) مصنفہ فقیر سیّد وحید الدین (لائن آرٹ پریس، کراچی۔ بارِ اوّل نومبر۱۹۶۴ئ۔ بارِ دوم اگست ۱۹۶۵ئ) جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ ان تصنیفات و تالیفات میں سے یہاں انگلستان میں میرے پاس صرف دو کتابیں موجود ہیں یعنی کلیات مدوّنہ مولوی عبدالرزاق اور روزگارِ فقیر مصنفہ فقیر وحید الدین (اور یہ کمی بھی ایک مزید وجہ ہے کہ میں اس بیاض کا کوئی عمیق جائزہ لینے سے قاصر ہوں)۔ اس بیاض کا معائنہ کرنے سے فوراً ظاہر ہوجاتا ہے کہ تقریباً ہر صفحے پر شیخ اعجاز احمد صاحب نے اپنے قلم سے اس قسم کے remarks درج کردیے ہیں: ’’سرودِ رفتہ، رختِ سفر (یا) کلیات (عبدالرزاق) میں موجود ہے‘‘ یا یہ کہ ’’بانگِ درا‘‘میں ہے۔ اغلب یہی ہے کہ شیخ صاحب نے یہ ریمارکس یا شذرے اُس انتخاب و تنقیح کی خاطر لکھے ہوں گے جب وہ سیّد وحید الدین کے لیے ایسے اشعار نشان زدہ کررہے تھے جو پیشتر ازیں کسی مجموعے میں شامل نہیں ہوئے تھے بلکہ عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے ہر غزل یا نظم کے اوپر کچھ اس قسم کے اشارے درج کیے ہیں مثلاً بیاض کے ص ۲ پر درج غزل کے اوپر یہ نشان نظر آتے ہیں: ’’aسرودِ رفتہ۔ o رختِ سفر۔ باقی اشعار بانگِ درا میں‘‘ چنانچہ جو شعر بانگِ درا میں نہیںہیں، اُن کے مقابل شیخ صاحب نے o یا a یا ao کے نشانات مرتسم کیے ہیں۔ مثلاً: ao سَو سَو امید بندھتی ہے اک اک نگاہ پر ہم کو (رختِ سفر، سرود مجھ کو) نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی۔‘ جو شعر علامہ کی authorized یعنی منظور کردہ یا اجازت دار کتابوں میں موجود ہیں اُن پر عموماً شیخ صاحب نے × کا نشان لگایا ہے۔ مثلاً ص ۱۲۔۱۱ پر ’پیامِ عشق‘ کے عنوان کے تحت جو غزل ہے (سن اے طلب گارِ دردِ پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہوجا) اُس کے اوپر یہ نشان ہے: ’’× بانگِ درا میں ہے۔‘‘ اور پھر اس غزل کے ہر شعر پر قطع کا نشان (×) لگایا ہے سوائے ذیل کے شعر کے: دیارِ خاموشِ دل میں ایسا ستم کشِ دردِ جستجو ہو کہ اپنے سینے میں آپ پوشیدہ صورتِ حرفِ راز ہوجا اور واقعی یہ شعر بانگِ درا میں نہیں ہے۔ غزل کے نیچے درج ہے: مخزن۔ اکتوبر ۱۹۰۸ئ۔ اس سے اگلی چیز ایک نعمت ہے جس پر o کا نشان ہے اور لکھا ہے: ’’رختِ سفر اور سرودِ رفتہ دونوں میں چھپ گئی ہے۔ ۔۔۔ نشان والا شعر دونوں میں نہیں۔‘‘ یہ شعر نعت کا مطلع ہے: نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اُٹھا کر وہ بزمِ یثرب میں آکے بیٹھیں ہزار منھ کو چھپا چھپا کر بہت سے مندرجات کے اوپر موٹی سرخ پنسل سے a کا نشان ہے اور بعضوں کے اوپر موٹی سرخ پنسل سے × کا نشان ہے جو غالباً re-checking (جائزۂ مکرّر) کے دوران شمار کرنے کا پیرا یہ ہے (اگرچہ سرسری نظر سے یہ عیاں نہیں ہوتا کہ اس نسبتاً نادر (rare) نشان × سے کیا مراد ہے)۔ بعض مندرجات کے اوپر شیخ صاحب نے تفصیلی شذرے لکھے ہیں، مثلاً غزل مندرجہ صفحات ۴ تا ۶ کے اوپر (علاوہ ’’oa رختِ سفر اور سرود میں ہے‘‘ اور ’’a (بانگِ درا)‘‘ جس پر موٹی سرخ پنسل کا نشان ہے) جناب شیخ صاحب نے تحریر کیا ہے: تقریباً آٹھ برس ہوئے (یہاں غالباً ’بارہ برس‘ ہونا چاہیے) اقبالؔ نے یہ نظم یورپ کی مادّہ پرستی کے خراب اثرات دیکھ کر یورپ کے قیام ہی میں لکھی تھی۔ یہ سچ ہے کہ حقیقی شاعر تلمیذ الرحمن ہوتا ہے۔ جو کچھ ۸ برس پیشتر شاعر کے دماغ میں تھا، وہ آج ہو بہو پیش ہورہا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ روحانیت کو مادّیت پر فتح ہوگی۔ اس کے نیچے وہ مشہور غزل شاہ نواز صاحب کے خط میں درج ہے یعنی ’زمانہ آیا ہے بے حاجی کا عام دیدارِ یار ہوگا۔۔۔۔الخ‘ جس کے تحت شیخ صاحب نے لکھا ہے: ’’مخزن مارچ ۱۹۰۷ئ‘‘۔ اس غزل کے صرف ایک شعر پر یہ نشان لگایا گیا ہے (a o) یعنی : oa جنھوں نے میری زبانِ گویا کو محشر ستاں صدا کا جانا، مرا وہ دل چیر کر جو دیکھیں تو واں سکوتِ مزار ہوگا۔ (یہاں ’مرا‘ کو ’میرا‘ لکھا گیا ہے اور اولاً اس میں ’ہزار‘ لکھا گیا تھا جس کو شیخ صاحب نے کاٹ کر اُس کے اوپر ’مزار‘ لکھ دیا ہے۔) یہاں میں اس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ صاحبِ روزگارِ فقیر نے اس قسم کے شذرات جو مطبوعہ کتاب میں حذف کردیے ہیں تو یہ بات کس قدر قابلِ تاسُّف ہے کیوںکہ ایسے بعض شذروں میں کافی دلچسپ یا کارآمد باتیں موجود ہیں۔ مثلاً مشہور نظم ’کوہستانِ ہمالہ‘ (ص ۲۱۵۔۔۔ الخ) کی پیشانی پر شیخ صاحب فرماتے ہیں: ’’حضرتِ اقبال انگریزی خیالات کو شاعری کا جامہ پہنا کر ملک الشعرائے انگلستان ورڈس ورتھ کے رنگ میں کوہِ ہمالہ کو یوں مخاطب کرتے ہیں‘‘ (اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں ۔۔۔۔الخ) برسرِ تذکرہ، صفحہ ۲۲۹ پر شیخ صاحب نے یہ عنوانات قائم کیے ہیں (اگرچہ یہ نظم روزگارِ فقیر میں مطبوعہ کلام کے ذیل میں نہیں آتی): ہائیڈل برگ۔ ستمبر ۱۹۰۷ء دریائے نیکر کے کنارے ایک شام۔ خاموشی اور نظم (خاموش ہے چاندنی قمر کی۔۔۔۔ الخ) کے نیچے بائیں جانب درج ہے: ’’(ہمایوں مارچ ۲۲)‘‘ اور دائیں جانب (بانگِ درا) یہ معلوم نہیں کہ ہمایوں میں نظم کے لکھے جانے کی تاریخ (یعنی ستمبر ۱۹۰۷ئ) درج تھی یا نہیں؟ کم از کم بانگِ درا میں یہ تاریخ موجود نہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک کارآمد اضافہ ہے کیوںکہ اب کے علامہ کے خطوط بنام ایما ویگے ناست چھپ چکے ہیں (دیکھیے میری کتاب اقبال یورپ میں، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۸۵ئ) ہمیں اس تاریخ کے اُن خطوط کے مندرجات کے ساتھ تطابق کا ثبوت میسر آتا ہے کیوںکہ جنابِ اقبال ستمبر ۱۹۰۷ء میں واقعی ہائیڈل برگ میں موجود تھے۔ اسی طرح ص ۳۰۲ پر دی گئی نظم ’شعاعِ آفتاب‘ کے اوپر شیخ صاحب نے یہ شذرہ تحریر کیا ہے (یہ نظم بھی روزگارِ فقیر میں شامل نہیں ہے): یہ نظم ڈاکٹر صاحب نے ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۸ء کے عظیم الشان مشاعرے (متعلق بہ خاتمۂ جنگِ عظیم اوّل) منعقدہ بریڈ لا ہال میں زیرِ صدارت آنریبل نواب ذوالفقار علی خاں پڑھی جس وقت ہز آنر سر مائیکل اوڈ و ایر لیفٹننٹ گورنر پنجاب بھی موجود تھے۔ کئی ہزار کا مجمع تھا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ نوٹ اور مطبوعات میں بھی موجود ہو۔ بہرحال، اس نظم کی پیشانی پر بھی شیخ صاحب نے اضافہ کیا ہے کہ ’’P سرودِ رفتہ میں ہیں۔ باقی بانگِ درا۔‘‘ یہ نظم اسی عنوان (شعاعِ آفتاب) کے تحت بانگِ درا میں موجود ہے (صبح جب میری نگہ سودائیِ نظارہ تھی۔۔۔۔ الخ) اس نظم کے دوسرے بند کا شعر سوم شیخ صاحب نے دو صورتوں میں دیا ہے یعنی اولاً بیاضمیں یوں تحریر کیا ہے: میں کوئی بجلی نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں مہرِ عالم تاب کا پیغامِ بیداری ہوں میں پھر پہلے الفاظ کے اوپر وہ version دیا ہے جو بانگِ درا میں ہے یعنی ’’برقِ آتش خو نہیں‘‘ (فطرت میں گو ناری ہوںمیں)۔ علاوہ ازیں بیاض میں اس نظم کا آخری شعر اولاً یوں تھا، جو بانگِ درا میں حذف کردیا گیا ہے۔ (شیخ صاحب نے اس کے پہلو میں a کا نشان لگایا ہے): کند تلواریں ہوئیں عہدِ زرہ پوشی گیا جاگ اُٹھ تو بھی کہ وقتِ خود فراموشی گیا اور پھر اس کے بائیں ہاتھ اُس شعر کا اضافہ کردیا ہے جو مندرجہ بالا شعر کے بجائے اب بانگِ درا میں اس نظم کا مقطع ہے یعنی: تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے سونے والوں میں کسی کو ذوقِ بیداری بھی ہے پھر بیاض کے ص ۲۳۴۔ ۲۳۵ پر جو نظم ’ترانہ‘ کے عنوان سے درج ہے (اور بانگِ درا میں ’میں اور تو‘ کے عنوان سے) یعنی: نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا۔۔۔۔ الخ۔ اس کے آخر میں شیخ صاحب نے تحریر کیا ہے: ’’(مارچ ۱۹۱۸ئ) انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے جلسہ منعقدہ ۱۹۱۸ء میں ایک کثیر مجمع کے سامنے زیرِ صدارت نواب صاحب کرنال پڑھی گئی۔ حاضرین تڑپ اُٹھے۔‘‘ نظم میں شیخ صاحب نے چار عدد پاورقی حاشیے بھی دیے ہیں یعنی: (پلاس۱؎): ۱؎ بوریا۔ (ابوذری ۲؎): ۲؎ حضرت ابوذر غفاری، صحابیِ رسولﷺ۔ (نوٹ: یہ شعر بانگِ درا میں نہیں ہے یعنی: جو ترے غرورِ بلند پر ہے نوا کا بولہبی اثر ترے ہر بیاں سے عزیز تر ہے مجھے پلاسِ۱؎ ابو ذری۲؎ اس شعر کے پہلو میں شیخ صاحب نے (?) کا نشان لگایا ہے۔ پھر (مرحبی ۳؎): یہودی (غزوۂ خیبر) (عنتری): ۴؎ عنتر۔ بانگِ درا میں یہ حاشیے نہیں ہیں۔ اسی طرح بیاض کے ص ۲۲۰ پر ’چاند‘ نامی نظم درج ہے جس کے بارے میں دو ایک باتوں کا بیان شاید خالی از دلچسپی نہ ہو۔ یہاں پہلا شعر بیاضمیں یوں ہے: اے چاند ُحسن تیرا گردوں کی آبرو ہے تو پھول ہے کنول کا مہتاب تیری بو ہے پھر شیخ صاحب نے ’گردوں‘ کا لفظ کاٹ کر اس کے اوپر ’فطرت‘ لکھ دیا ہے اور مصرعِ ثانی کو کاٹ کر اس کے اوپر لکھا ہے: ’طوفِ حریمِ خاکی تیری قدیم خو ہے۔‘ اور یوں انھوں نے یہ شعر بانگِ درا میں اسی عنوان کے تحت مطبوعہ نظم کے مطابق کردیا ہے لیکن بیاضمیں اس نظم کے نیچے انھوں نے جو الفاظ تحریر کیے ہیں وہ بانگِ درا میں موجود نہیں ہیں یعنی: ’’شاہدرہ لاہور۔ ۱۳؍ اپریل ۱۹۱۱ء ۱۱بجے شب۔‘‘ یہ ایک دلچسپ انکشاف ہے۔ صفحہ ۲۹۷ پر شیخ صاحب نے عنوان دیا ہے نانک رحمتہ اللہ علیہ (میری معلومات کے مطابق احمدیت میں سکھوں کے گورووں اور بالخصوص گورونانک جی کی تعظیم پر زور دیا جاتا ہے۔ فقیر سیّد وحید الدین صاحب نے اپنی کتاب میں رحمتہ اللہ علیہ کے الفاظ حذف کردیے ہیں۔ اسی طرح میں نے دیکھا ہے کہ بچوں کے لیے بہت سی نظموں کے آخر میں (مثلاً محنت، ماں کا خواب، ایک مکڑا اور مکھی، بچوں کے لیے چند نصیحتیں، گھوڑوں کی مجلس، ہمدردی، شہد کی مکھی) نظموں کے نیچے شیخ صاحب نے لکھا ہے: ’’(از ففتھ اردو ریڈر)‘‘ اور ایک مرتبہ یعنی ’شہد کی مکھی‘ کے تحت: ’’(از اردو ففتھ ریڈر)۔‘‘ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماخذ ایک نئی دریافت ہے کیوں کہ رفیع الدین ہاشمی صاحب نے بڑی دقتِ نظر سے اقبال (اور حکیم احمد شجاع) کی مرتبہ بچوں کی درسی کتابوں کی جو تفصیل اپنی کتاب تصانیفِ اقبال کا تحقیقی توضیحی مطالعہ میںدی ہے، اُس میں یہ حوالہ بظاہر موجود نہیں ہے۔ کتاب مذکور کے صفحات ۴۲۴ تا ۴۳۰ (اور ضمیمہ ۱، ص ۴۰ تا ۴۲) میں ہاشمی صاحب نے پانچویں، چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے لیے اُردو کورس کی درسی کتابوں کی تفصیلات درج کی ہیں۔ وہاں انھوں نے ’سلسلۂ ادبیہ۔۔۔ اردو کورس پانچویں جماعت کے لیے‘ کے صفحۂ عنوان یا سرورق کی عکسی نقل بھی شامل کی ہے لیکن ص ۴۲۹ پر وہ فرماتے ہیں کہ ’’علامہ اقبال کی کوئی نظم (اس کتاب میں) شامل نہیں۔ چنانچہ لازم ہے کہ شیخ صاحب نے جس کتاب (ففتھ اردو ریڈر) سے بچوں کی یہ نظمیں اخذ کی ہیں وہ درسی کتابوں کے کسی اور سلسلے سے تعلق رکھتا ہے۔ برسرِ تذکرہ، ’محنت‘ نامی نظم (ص ۳۲۷۔۳۲۶) میں ایک پاورقی نوٹ بھی ہے (جو روزگارِ فقیر میں حذف کردیا گیا ہے) یعنی: Columbus, the founder of the new world ۱؎ اور یہ حوالہ اس شعر کی طرف ہے: گڈریوں کو شاہنشہی اُس نے دی ہے کولمبس کو دنیا نئی اُس نے دی ہے اگرچہ discoverer of the new world ہونا چاہیے تھا۔ یہ مضمون یا دیباچہ کافی طویل ہوگیا ہے لیکن اس کے خاتمے سے قبل میں چند ایک متفرق موضوعات پر مختصر باتیں کہنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ ۱۔ اوّل بات یہ ہے کہ شیخ صاحب قبلہ نے اس بیاض میں علامہ کا جو کلام جمع اور قلم بند کیا ہے وہ کسی خاص تاریخی ترتیب (chronological order) سے درج نہیں کیا گیا بلکہ اس میں بے پناہ تاریخی بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔ بہت سا ابتدائی کلام آخر میں ہے اور پختہ کلام شروع میں اور وہ بھی بری طرح گڈمڈ ہے۔ مزید برآں اگرچہ یہ تو صاحبِ روزگار فقیر سے لیے گئے اقتباس سے معلوم ہے (جو اُوپر نقل کیا جاچکا ہے) کہ شیخ صاحب نے علامہ کا کلام ۱۹۱۱ء کے لگ بھگ جمع کرنا شروع کردیا تھا (جب ان کی عمر بارہ سال کی تھی) اور اس بیاض میں اُس کی تحریر کا آغاز ۱۹۱۹ء میں ہوا تھا لیکن ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ اندراجات جاری کب تک رہے؟ اس سلسلے میں بیاض میں درج چند تواریخ مدد دیتی ہیں، مثلاً ص ۱۴۱ پر فارسی نظم ’دعا‘ کے عنوان کے نیچے ہمیں یہ نوٹ نظر آتا ہے: ’’۱۹۲۸ء میں دردِ گردہ میں مبتلا ہونے پر۔‘‘ جس کے بعد وہ نظم ہے: دِہ مرا فرصتِ ہو حق دوسہ روزے دگرے۔۔۔۔الخ)۔ نظم کے نیچے (حوالۂ اشاعت کے طور سے) درج ہے: (انقلاب)۔ اس سے دو صفحے پیشتر یعنی ص ۱۳۹ پر ہمیں ایک نظم ملتی ہے جس کا عنوان ’نوائے بے نوا‘ اور زیریں عنوان ’شبیرؓ و جمال آفرینی‘ ہے: بیاتا ازیں انجمن بگذریم ازیں کاخ و کوئے کہن بگذریم اس نظم کے پانچویں اور آخری شعر: اگر بندۂ ایں نوائے زند چو یزداں جمال آفرینی کند کے پہلو میں درج ہے: ’’روزنامہ انقلاب۔ شبیرؓ نمبر۔‘‘ پھر نظم کے نیچے ایک اور شعر تحریر ہے: ریگِ عراق منتظر، خاکِ حجاز تشنہ کام خونِ حسین باز دِہ کوفہ و شامِ خویش را (زبورِ عجم کی غزل نمبر۸ میں یہ شعر چوتھے نمبر پر موجود ہے)۔اس شعر کے بازو میں شیخ صاحب نے لکھا ہے: ’’سرورق‘‘ جس سے غالباً مراد ہے انقلاب کے شبیر نمبر کاسرورق۔ یہاں جس بات کی نشاندہی میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ چونکہ زیورِ عجم اولاً جون ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی تھی اس لیے یہ اندراج لازماً اُس تاریخ کے بعد کا ہے۔ اسی صفحے (۱۳۹) پر ہمیں شیخ صاحب کا دیا ہوا یہ عنوان نظر آتا ہے: ’’(مولانا محمد علی مرحوم کی وفات پر)‘‘ اور ساتھ ہی یہ اشارہ بھی درج ہے کہ ’’سرودِ رفتہ میں چھپ گئی ہے۔‘‘ یہ وہ قطعہ ہے جس میں وہ یادگار شعر بھی آتا ہے کہ: خاکِ قدس اُورا بہ آغوشِ تمنا درگرفت سُوئے گردوں رفت زآں را ہے کہ پیغمبر گذشت چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ مولانا محمد علی جوہر لندن میں پہلی گول میز کانفرنس کے خاتمے سے چند روز پیشتر یعنی ۴؍ جنوری ۱۹۳۱ء کو اُسی شہر میں جاں بحق ہوگئے تھے اس لیے ظاہر ہے کہ شیخ صاحب مرحوم ومغفور نے بیاض میں یہ اندراج جنوری ۱۹۳۱ء کے بعد کیا ہوگا (انھوں نے یہ بحوالہ انقلاب نقل کیا ہے)۔ سو، سرسری تلاش کے بعد مجھے اس بیاض میں کلامِ اقبال کا یہی معتدبہ اندراج (یعنی بعد از ۱۹۳۱ئ) سب سے آخری (most recent) معلوم ہوا ہے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ ۱۹۲۰ء کے عشرے کے بعد تادیر یہ بیاض شیخ صاحب کے پیشِ نظر رہی اور وہ وقتاً فوقتاً اس میں نئے شذرات اور کلام کے تکملات وغیرہ شامل کرتے رہے مثلاً بیاض کے ص ۳۷۵ پر وہ لکھتے ہیں اور نوٹ کیجیے کہ بیاض کے مرکزی حصّے کے نمبرہائے شمار کے برخلاف وہ یہ نئے نمبر یعنی 359 تا 376 انگریزی ہندسوں میں درج کرتے ہیں۔ ’’متعلق صفحہ ۱۷۸۔۱۷۹ ’بلادِ اسلامیہ‘ حسبِ ذیل بند جو سرودِ رفتہ میں شائع ہوا ہے اس بیاض میں نہیں۔‘‘ (یہ وہ بند ہے جو یوں شروع ہوتا ہے: گو مٹانابستیوں کا ہے شعارِ روزگار۔۔۔۔الخ) اور چونکہ سرودِ رفتہ ۱۹۵۹ء میں شائع ہوئی تھی اس لیے ظاہر ہے کہ مندرجۂ بالا اضافہ اُس تاریخ کے بعد کا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فقیر سیّد وحید الدین نے اپنی کتاب میں شیخ اعجاز احمد صاحب کی بیاض سے جو پیش ازیں غیر مطبوعہ کلام نقل کیا ہے، اُس میں کئی مقامات پر انھوں نے وہ ترتیب باقی نہیں رکھی جو شیخ صاحب کی بیاض میں نظر آتی ہے (گو خود اس کی ترتیب بھی محلِ نظر ہے) لیکن ان تمام تغیرات (variations) کی نشان دہی کے لیے جس جزرسی اور تفحص کی ضرورت ہے اس کے برۂ وافر سے میرے دوست جناب رفیع الدین ہاشمی بخوبی مستفیض ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کے مشکل کام میں بخوشی اُن کے سپرد کرتا ہوں۔ ہاں، اس قسم کی تحقیق و پژو ہش کے لیے سب سے پہلے جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ بیاض کے مندرجات کی ایک مکمل اور صفحہ وار فہرستِ مطالب تیار کی جائے۔ (کیوںکہ جیسا کہ اس مضمون میں اوپر ذکر ہوا، جناب شیخ صاحب کی تیار کی ہوئی فہرست صرف صفحہ ۱۹ تک جاتی ہے) اور اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ ہر نظم یا غزل کے سامنے بانگِ درا، روزگارِِ فقیر، سرودِ رفتہ اور رختِ سفر وغیرہ میں مطبوعہ کلام کے صفحات نمبر درج کیے جائیں تاکہ ایسے تقابلی جائزے میں سہولت پیدا ہو ورنہ یہ کام بہت گنجلک اور الجھا ہوا ہے۔ مثلاً جیسا کہ ابھی بیان ہوا فقیر صاحب نے بھی روزگار میں اس بیاض سے جو کلام نقل کیا ہے اُس میں مؤخر الذکر کے مندرجات کی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور بہت سی چیزیں مقدم و مؤخر کردی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں صرف ایک دو اضافے شاید باعثِ دلچسپی ہوں۔ وہ یہ کہ صاحبِ روزگارِ فقیر نے بیاض میں جہاں کوئی لفظ غائب (missing) یا غلط (مثلاً خارج از وزن پایا، انھوں نے وہاں اپنی تالیف میں نقطے (۔۔۔۔۔) لگا دیے ہیں۔ مثال کے طور سے روزگار میں ص ۳۳۹ تا ۳۴۲ پر بیاض سے جو نظم نقل کی گئی ہے (اگرچہ سیّد صاحب نے کسی وجہ سے اس کا عنوان ’فراق‘ حذف کردیا ہے جو بیاض میں موجود ہے۔ دیکھیے مؤخر الذکر کا ص ۲۵۵)۔ اُس میں ’روزگار‘ کے ص ۳۴۰ پر تیسرا مصرع فقیر سیّد وحید الدین صاحب نے یوں تحریر کیا ہے: ’’نجاتِ سنگ ہے سرگشتگی۔۔۔۔ کی‘‘ چونکہ بیاض کے ص ۲۵۶ پر یہ درمیان کا لفظ غائب ہے۔ (برسرِ تذکرہ، اس سے قبل کے شعر میں کاتب نے غلطی سے روزگار میں ’’اگرچہ سب سے برا ہوں میں جانثاروں میں‘‘ لکھ دیا ہے جب کہ بیاض میں ’’جاں نثاروں میں‘‘ صحیح طور سے تحریر ہے) لیکن اس بند کا آخری شعر سیّد صاحب نے یوں تحریر کیا ہے: بہ لب ز دردِ تو آہے کہ داشتم دارم ۔۔۔ سرِ راہے کہ داشتم دارم جب کہ بیاض میں شیخ صاحب نے مصرعِ دوم یوں درج کیا تھا: تشتنے سرِ راہے کہ داشتم دارم لیکن یہاں اس مصرعے کا پہلا لفظ یا تو بے معنی یا خارج از وزن نظر آتا ہے۔ برسرِ تذکرہ، اس نظم کے اوپر شیخ صاحب نے موٹی سرخ پنسل سے یہ نشان ثبت کیا ہے: دوسرا اضافہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ بیاض کے ص ۲۹۱ سے متعلق ہے یعنی نظم معنونہ ’پیش کش بہ۔۔۔۔۔‘ جو یوں شروع ہوتی ہے: نغمۂ رنگیں سمجھ یا نالۂ پیہم سمجھ اس نوا کو یا نوائے بربطِ عالم سمجھ (اس نظم پر بھی موٹی سرخ پنسل والا نشان ثبت ہے۔) قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہاں چوتھے شعر کے مصرعِ اوّل کا آخری لفظ غائب تھا یعنی یہ شعر بیاض میں یوں مرقوم تھا: خندہ ہے بہرِ طلسم غنچۂ تمہید تو تبسم سے مری کلیوں کو نا محرم سمجھ لیکن سیّد صاحب نے بجائے اس کے کہ خالی جگہ میں وہ نقطے (۔۔۔۔۔) لگاتے انھوں نے روزگار میں (ص ۳۴۴۔۳۴۵ پر) یہ سارا شعر ہی حذف کردیا ہے اور اسی نظم میں آگے چل کر (مقطعے سے دو شعر قبل) جہاں بیاض میں اس شعر کا مصرعِ ثانی غائب تھا یعنی: ’’آہ! خود پیدا کیا ناداں نے سامانِ فراق ]مصرعِ ثانی ناموجود[‘‘ روزگار میں ص ۳۴۶ پر یہ سارا شعر ہی حذف کردیا ہے جس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ تیسری بات جو متفرقات کے تحت میں کہنے کی اجازت چاہتا ہوں، وہ دو ایک تسامحات کے بارے میں ہے۔ پہلا تسامح علامہ کی مشہور نظم ’فلسفۂ غم‘ (میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لا لاہور کے نام) مطبوعہ بانگِ درا (اقبال اکادمی پاکستان کی کلیات (۱۹۹۰ئ) ص ۱۸۲) سے متعلق ہے۔ معاملہ یوں ہے کہ بیاض کے ص ۲۰۸ پر شیخ صاحب نے تحریر کیا ہے: فلسفۂ غم (آنریبل خان بہادر میاں فضل حسین صاحب ایم اے بیرسٹر ایٹ لا) (کے والدِ بزرگوار کی وفاتِ حسرت آیات) (پر لکھی گئی)۔ (تشریح۔ شیخ صاحب کا یہ ذیلی عنوان تین سطور پر محیط ہے اور ہر لائن پر الگ بریکٹ لگائی گئی ہے۔ نظم کے نیچے شیخ صاحب نے لکھا ہے: ’’مخزن (جولائی ۱۹۱۰ئ‘‘ پھر مولوی عبدالرزاق کی کلیات میں صفحہ ۱۰۳ پر ’غم‘ کے ماتحت ہمیں یہ مفصل نوٹ نظر آتا ہے: ’’شاعر نے یہ فلسفیانہ رنگ کی نظم اپنے قدیم اور ہم جماعت دوست میاں فضل حسین صاحب ایم اے ایل ایل بی بیرسٹر ایٹ لا کو (جو ۱۹۲۱ئ) میں صوبہ پنجاب کی جدید کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تھے اور آج کل اسی کونسل میں وزیرِ تعلیم ہیں) اُن کی والدہ (پھر کتاب کے صحت نامے میں ص ۳ پر اس کی یوں تصحیح کی گئی: ان کے والد) کی رحلت کے المناک موقع پر غم غلط کرنے کے لیے لکھ کر بھیجی تھی۔ اس میں جس خوبی سے بقا و فنا اور فلسفۂ غم کے نازک مسئلہ کو حل کیا گیا ہے، اربابِ ذوقِ سلیم ہی بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔‘‘ میں نے کلیات کے اُس نسخے پر، جو میرے کرم فرمائے مرحوم جناب میر یٰسین علی خاں صاحب نے مجھے عطا کیا تھا، مورخہ ۲۱؍ مئی ۱۹۹۸ء کو ص ۱۰۳ پر والد (ہ) کے بالمقابل حاشیے میں یوں تحریر کیا ہے: ’’بیٹے! میاں عظیم حسین، فرزندِ میاں فضل حسین نے تصدیق کی (ہے) کہ یہ اُن کے بڑے بھائی کی وفات سے متعلق ہے۔‘‘ راقم کو یہ معلوم نہیں کہ مخزن کے شمارے بابت جولائی ۱۹۱۰ء میں کیا لکھا گیا ہے اور کس وجہ سے یہ خلطِ مبحث (confusion) پیدا ہوگیا ہے۔ برسرِ تذکرہ میں یہ اضافہ کردوں کہ لندن میں مقیم جناب عظیم حسین صاحب نے جن سے راقم الحروف کو شرفِ نیاز حاصل ہے، بروز ۱۵؍ دسمبر ۱۹۹۲ء مجھے علامہ کی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islam (مطبوعہ لندن ۱۹۳۴ئ) کا ایک بے بہا نسخہ عطا کیا تھا، جو علامہ نے اُن کے والدِ مرحوم کو ان انتسابی الفاظ کے ساتھ پیش کیا تھا: With complements from Muhammad Iqbal 16th May 1934 Lahore. (نوٹ: compliments کے ہجوں میں تسامح، ایسے معاملوں میں علامہ کی معروف بے پروائی کا نتیجہ ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ علامہ کی کتاب کا یہ نسخہ بھی میں اقبال اکادمی پاکستان کے ذخیرۂ محفوظ Archivesمیں داخل کردوں جہاں پچھلے دو تین برس میں، میں نے کئی ایک اور ایسی نادر اشیا جمع کی ہیں۔ دوسرا تسامح یاتضادِ رائے (controversy) جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے، وہ ’’سرودِ رفتہ‘‘ کی ترکیب (phrase or expression) سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے کرنل فقیر سیّد وحید الدین صاحب نے روزگارِ فقیر (جلد دوم، مطبوعہ نومبر۱۹۶۴ء و اگست ۱۹۶۵ئ) میں صفحات ۱۷ ، ۱۸ پر ایک بہت بڑے شاخسانے یا مناقشے کے طور سے اجاگر کیا ہے۔ پہلے تو فقیر صاحب نے ص ۱۷ پر ایک جلی عنوان جمایا ہے سرودِ رفتہ اور اس کے نیچے علامہ کا مشہور فارسی قطعہ درج کیا ہے جو انھوں نے یوں تحریر کیا ہے: سرورِ رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگارے ایں فقیرے دگرد دانائے راز آید کہ ناید (میرے خیال میں یہاں ’’روزگارِ ایں فقیرے‘‘ ہونا چاہیے) بہرحال اس کے نیچے انھوں نے بڑی تفصیل سے یہ بیان کیا ہے کہ کس طرح علامہ کے جنازے کے جلوس میں کسی شخص نے یہ قطعہ چھپوا کر تقسیم کیا ’’جس میں سرودِ رفتہ‘‘ املا کیا گیا تھا۔۔۔۔۔ ’’اس غلطی پر ارمغانِ حجاز کی اشاعت نے مہرِ تصدیق ثبت کردی۔۔۔۔۔‘‘ روزگارِ فقیر کے نقشِ ثانی کے منظرِ عام پر آنے سے کچھ پہلے حکیم الامت کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس غلط فہمی کی وضاحت کی۔ انھوں نے کہا کہ ارمغانِ حجاز کا ساتواں ایڈیشن جو ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا ہے، اُس کے صفحہ ۱۴ پر اس افسوس ناک غلطی کی تصحیح کردی گئی ہے، لہٰذا روزگارِ فقیر میں بھی اس قطعے کو ’’سرورِ رفتہ‘‘ کے ساتھ ہی چھپنا چاہیے۔‘‘ میں نے اپنے ذاتی نسخۂ روزگار میں بروز ۲؍ دسمبر ۱۹۸۵ء ایک پاورقی حاشیہ لکھا ہے کہ: ’’مگر جناب غلام رسول مہرؔ نے اپنے ایک مضمون میں مدلّل اصرار کیا ہے کہ ’سرودِ رفتہ‘ ہی صحیح ہے۔‘‘ میں نے یہاں یہ تمام قضیہ اس لیے بیان کیا ہے کہ جب میں شیخ اعجاز احمد صاحب کی بیاض کی ورق گردانی کررہا تھا تو وہاں ص۱۸۰ پر (نظم معنونۂ مسلم، کا) تیسرا شعریہ نظر آیا: گوش آوازِ سرودِ رفتہ کا جویا ترا اور دل ہنگامۂ حاضر سے بے پروا ترا بلکہ یہی شعر بانگِ درا (مطبوعہ اقبال اکادمی کلیات ص ۲۲۳) پر ’مسلم‘ (جون ۱۹۱۲ئ) کے تحت بعینہٖ اسی صورت میں درج ہے۔ (میرے خیال میںعلامہ نے شاید ورڈز ورتھ وغیرہ کے الفاظA bygone melodey سے متاثر ہوکر یہ ترکیب وضع کی ہو) بلکہ اب تو اقبال اکادمی پاکستان کی مطبوعہ کلیاتِ اقبال، فارسی( لاہور۔ ۱۹۹۰ء میں ص ۷۷۵پر بھی (ارمغان میں) اس قطعے میں یہی ترکیب، یعنی ’’سرودِرفتہ‘‘ موجود ہے۔ اور اسی پر بس نہیں، خود ڈاکٹر جاوید اقبال کی نشر کردہ کلیاتِ اقبال، فارسی (شیخ غلام علی لاہور ۱۹۷۳ئ) میں ص ۸۹۴پر ’ سرودِ رفتہ ‘ ہی کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ چناچہ، بقول غالبـؔ: پھر یہ ہنگامہ اے خدا، کیا ہے ؟ اِس طویل تمہید کے بعد میں آپ کے اور اس بے بدل مجموعۂ کلام یعنی بیاضِ اقبال جمع آوردۂ جناب شیخ اعجاز احمد مرحوم، کے درمیان مزید حائل نہیں ہونا چاہتا۔ اس بیاض کی تنظیم و تہذیب و اشاعت کے بعد آپ علامہ کا بہت سا ایسا کلام جو اُن کی منظور شدہ (authorized) تصانیف میں موجود نہیں، ایک ہی کتاب میں یک جا ملاحظہ کرسکیں گے، بجائے اس کے کہ اُسے باقیات، اور کُلیات عبدالرزاق، اور رختِ سفر اور سرودِ رفتہ، اور روز گارِ فقیر میں ڈھونڈیں اور الگ الگ کڑیاں آپس میں جوڑیں، کہ اِس وقت، بقولِ اقبال حالت یہ ہے کہ : اُٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری تو تمنّا، چمنستانِ اقبال کے اِ س حقیر رکھوالے کی یہ ہے کہ گلشنِ اقبال کے یہ تمام پھول بوٹے، کہ ایک سرمایۂ بہارِ بے خزاں ہیں، مداحینِ اقبال کے لیے بہ یک جا نظر نواز ہوسکیں۔ بندۂ فانی۔ سعید اختر دُرّانی برمنگھم، ۴؍ جون ۲۰۰۵ء پسِ تحریر بدھ ۸؍ جون ۲۰۰۵ء کے روز ہماری اقبال اکیڈیمی (برطانیہ) کا سالانہ اقبال لیکچر بہ عنوان Iqbal as a Bridge Between Civilizations (اقبال: تہذیبوں کے درمیان ایک پل) برمنگھم کی تاریخی عمارت Birmingham & Midland Institute میں جس کا سنگِ بنیاد ملکہ وکٹوریہ کے شوہر پرنس البرٹ نے ۱۸۵۴ء میں رکھا تھا، منعقد ہوا۔ یہ لیکچر اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم جنابِ محمد سہیل عمر نے صادر فرمایا۔ لیکچر کے خاتمے پر، اس بے مثل بیاضِ اقبال کا تاریخی پس منظر مختصراً بیان کرنے کے بعد، راقم الحروف نے یہ بیاض جناب سہیل عمر کو اس استدعا کے ساتھ پیش کی کہ وہ اس کی تنظیم و تہذیب اور شیرازہ بندی کے بعد اسے اپنی اکادمی کے یہاں سے شایانِ شان طریقے سے شائع فرمائیں اور بعد ازاں اسے اقبال اکادمی پاکستان کے حفاظت خانے میں محفوظ کرلیں۔ جہاں میں پچھلے سال میں اپنی اور اقبال اکیڈیمی برطانیہ کی جانب سے چند اور کتابیں اور نوادراتِ اقبال جمع کرچکا ہوں۔ اس طرح شیخ اعجاز احمد مرحوم کی خواہش اور وصیت پوری ہوسکے گی۔ جنابِ سہیل عمر نے برسرِ عام راقم الحروف کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ وہ بہ صمیمِ قلب وعدہ کرتے ہیں کہ حسبِ استدعا وہ بڑی مسرت اور امتنان کے ساتھ اس تاریخی بیاض کو اقبال اکادمی پاکستان کی جانب سے شائع بھی کریں گے اور اس کے بعد اسے اکادمی کے محافظ خانے میں محفوظ بھی کردیں گے۔ اس پر بڑے جوش و خروش سے تالیاں بجیں اور اس عملِ پیشکش و تحویل (presentation) کو ٹیلی وژن اور اخبارات کے رپورٹروں نے تصویری coverage (احاطگی) بھی دی۔ اس مضمون میں ایک آخری اضافہ کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ مذکورہ لیکچر سے ایک روز پہلے جب میں نے سہیل عمر صاحب کو یہ بیاضِ اقبال دکھائی تو وہ بہت متعجب ہوئے کہ یہ نادر چیز یہاں برمنگھم کیسے پہنچ گئی؟ جس پر میں نے اس کے حصول کا پس منظر بتایا جو اوپر بالتفصیل بیان ہوچکا ہے۔ دورانِ گفتگو سہیل عمر صاحب نے دو اور باتوں کا بھی ذکر کیا۔ اوّل یہ کہ جہاں تک اُن کی تحقیقات کا تعلق ہے، وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اقبال کے برادرِ بزرگ جناب شیخ عطا محمد صاحب احمدیت سے بیعت نہیں تھے۔ دوسری بات جو سہیل صاحب نے بتائی، وہ یہ تھی کہ معروف محققِ اقبالیات جناب پروفیسر صابر کلوروی نے ماضیِ قریب میں ایک کتاب معنونہ کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال شائع کردی ہے۔ اس اطلاع سے نہ صرف میری معلومات میں اضافہ ہوا بلکہ اس پیش رفت پر خوشی بھی ہوئی کیوںکہ یہ کام واقعی کرنے کا تھا اور اس کے لیے کلوروی صاحب بہت موزوں شخص ہیں۔ بہ ہرحال میری دانست میں شیخ اعجاز احمد صاحب کی بیاض کی facsimile (عکسی نقل) اشاعت کی اہمیت مذکورہ کلیات کی اشاعت سے کم نہیںہوتی چونکہ ایک بنیادی ماخذ (primary source) کے لحاظ سے اس کا اپنا مقام اور تاریخی افادیت بہرکیف موجود رہے گی۔ چنانچہ مجھے خوشی ہوئی کہ جنابِ سہیل عمر نے برسرِ عام اس بیاض کی اشاعت کی ہامی بھرلی ہے اور میری تمنا ہے کہ میرا یہ دیباچہ بھی اس مطبوعہ کتاب میں شامل ہو تاکہ قارئین اس بیاض کے تاریخی پس منظر سے آگاہ ہوسکیں۔ دُرّانی برمنگھم ۳۰؍ جون ۲۰۰۵ء  کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔ حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ الف:۔ اعلام اور تلمیحات: یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات، مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ ب:۔ مشکلات.۔.... یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح، توضیح اور تفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہلِ علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہوسکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جاسکتا، مجروح نہ ہو۔ ج:۔ تکنیکی اور فنی محاسن: یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص مقام پر اقبال کے پیشِ نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آجائیں گے۔ m صفحات ذیل میں فرہنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جارہے ہیں۔ کلیاتِ اقبال (اُردو) ص کلیات۔ ۶۰۰ جوہر: ۱۔ فطرت ۲۔شخصیت کی اصل ص کلیات۔ ۶۰۲ بندۂ عمل مست: ۱۔ عمل کا متوالا بندہ ۲۔ پوری استقامت اور جوش کے ساتھ دین پر چلنے والا، اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکام کی والہانہ انداز سے تعمیل کرنے والا ۳۔ دین کو محض مفہوم کی بجائے مراد بنا لینے والا۔ بندگی کا کمال یہ ہے کہ ارادہ، ذہن پر غالب آجائے، ’’بندۂ عمل مست‘‘، اسی کمال کا مظہر ہے ص کلیات۔۶۰۵ خلوت نشیں: ۱۔ سب سے کٹ کر کسی گوشے میں پڑ رہنے والا ۲۔ اکیلا، تنہائی کا شکار ۳۔ پردہ نشیں، چھپا ہوا ۴۔ جو خود سے بھی پوشیدہ ہو، جس کے امکانات خود اُس سے اوجھل ہوں ۵۔ جس کا جوہر ظاہر نہ ہوا ہو، جس کی حقیقت پوشیدہ اور خوابیدہ ہو ص کلیات۔ ۶۱۲ کتاب و دین و ہنر: ۱۔ ’کتاب‘: تصّورِ علم، نظامِ تعلیم+ دین: ایمان و عمل کے بارے میں بنیادی تصّور، مذہبی علم و عمل+ ’ہنر‘: آرٹ، فن کاری ۲۔ عقل، اخلاق اور جمالیات ص کلیات۔ ۶۱۲ سرود و شعر و سیاست: ۱۔ موسیقی، شاعری اور سیاسیات ۲۔ فنونِ لطیفہ اور سیاسی نظام ۳۔ تخیل، طرزِ احساس اور اجتماعی ارادہ ۴۔ روح کی کیفیت، دل کی حکمت اور ارادے کی قوت ۵۔ انسان کی روحانی، نفسیاتی اور عملی سطحوں کے ترجمان ص کلیات۔ ۶۱۳ جہانِ تازہ: ۱۔ نئی دنیا جہاں خیر شر پر، آدمی فطرت پر اور معنی صورت پر غالب ہو ص کلیات۔ ۶۱۴ سینۂ پُرسوز: ۱۔ حرارت سے بھرا ہوا سینہ ۲۔ عشق کی گرمی سے معمور چھاتی ۳۔ گداز دل رکھنے والا سینہ ۴۔ صاحبِ حال قاری اور سامع کا سینہ جو شعر کی حقیقی کیفیت اور معنی کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کے مقصود کو جذبے، ذہن اور ارادے میں قوت کے ساتھ حاضر رکھتا ہے ۵۔ انسان کا باطنی مرکز جو عشق، زندگی، آزادی، معرفت، روحانیت وغیرہ کا سرچشمہ ہے ص کلیات۔ ۶۱۴ لذّتِ پیدائی: ۱۔ اظہار کا مزہ ۲۔ تخلیقی عمل کے تقاضائے اظہار کی تکمیل سے حاصل ہونے والی کیفیت ص کلیات۔ ۶۱۶ شباب و مستی و ذوق و سرور و رعنائی: ُحسن خواہ ظاہری ہی کیوں نہ ہو، انسان کا مقصود ہے۔ یہ مقصود اس کے وجود کی تمام سطحوں سے ایک زندہ نسبت رکھتا ہے۔ یہاں اسی کی تفصیل بتائی گئی ہے: ۱۔ شباب: ’حسن‘ کو اپنا مطلوب بنانے اور اس کے اثرات کو قبول کرنے والی قوتِ حیات ۲۔ مستی: حسن کے تصوّر یا مشاہدے سے پیدا ہونے والی کیفیت جو ’شباب‘ سے مشروط ہے ۳۔ ’ذوق‘: حُسن سے متاثر ہونے والی روحانی صلاحیت ۴۔ ’سرور‘: حُسن سے پیدا ہونے والا روحانی حال ۵۔ ’رعنائی‘: حُسن سے نسبت کا آخری درجہ جہاں پہنچ کر آدمی خود اس کا مظہر بن جاتا ہے ص کلیات۔ ۶۱۶ فطرت: ۱۔ کائنات کی روحِ جمال ۲۔ اصولِ تخلیق جو کائنات میں وجودی اور جمالیاتی توازن پیدا کرتا ہے اور اسے برقرار بھی رکھتا ہے ص کلیات۔ ۶۱۶ جمال و زیبائی: ۱۔ حسن اور دل کشی ۲۔ ’جمال‘ اصل ہے اور ’زیبائی‘ اُس کا اظہار ص کلیات۔ ۶۱۸ سازِ حیات: ۱۔ زندگی کا پورا تانا بانا ۲۔ زندگی کی تخلیقی روح اور اس کے انسانی و کائناتی مظاہر، حیات کا بنیادی سانچا اور اس میں ڈھلنے والی صورتیں ۳۔ زندگی، کائنات اور انسان ۴۔ زندگی کا وہ وصف جس کے ادراک سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ چیزیں ایک پہلو سے واحد الاصل ہیں ۵۔ نظامِ حیات جو روحِ تغیر سے ہم آہنگ ہو کر اُس پر غالب آنے سے تشکیل پاتا ہے۔ نیز دیکھیے: ’سوزو سازِ حیات‘، ’سوزِ خودی‘ ص کلیات۔ ۶۱۸ حریمِ وجود: ۱۔ وجود کی چار دیواری ۲۔ وہ مقام جہاں وجود کی حقیقت محفوظ ہے ۳۔ وجود کے ذاتی حدود ۴۔ موجودیت کا حقیقی content ۵۔ انسان کے وجودی مراتب میں آخری مرتبہ یعنی حجرۂ ذات جہاں غیرِ ذات کا گزر نہیں ص کلیات۔ ۶۱۸ سوزِ خودی: ۱۔ خودی کی حرارت ۲۔ خودی کی آنچ جس کی بدولت انسان اپنا ہونا محسوس کرتا ہے، احساسِ ذات جس کے بغیر آدمی موجود ہونے کے قابل نہیں ۳۔ وجودِ انسانی کی حقیقت جو فرد میں قائم ہے ۴۔ ذاتِ انسانی کا جوہر جو اپنے امتیاز کا تحفظ کرتا ہے اور غیر کا اثبات تو کرتا ہے مگر اسے اپنے حدود میں داخل نہیں ہونے دیتا ۵۔ انسانی خودی اپنی ماہیت میں بندگی اور عشق کا مجموعہ ہے۔ اس کا ادراک عقلی نہیں بلکہ حسّی ہوتا ہے۔ ’سوز‘ کے لفظ میں یہ تمام دلالتیں موجود ہیں۔ نیز دیکھیے: ’سوزو سازِ حیات‘، ’سازِ حیات‘، ’خودی‘ ص کلیات۔ ۶۱۸ سرور و سوز و ثبات: ۱۔ اپنے مقصود کے ساتھ وابستگی کے تین احوال: ۱:۱ ’سرور‘: مقصود کے اصولی قرب کی کیفیت ۲:۱ ’سوز‘: مقصود جو کہ لامتناہی ہے، اسے پانے کی تڑپ ۳:۱ ’ثبات‘: مقصود کی نسبت کا اساسِ وجود بن جانا ۲۔ اپنی اصل اور حقیقت پر مبنی ہونے کی تین حالتیں: ۱:۲ ’سرور‘: میں حقیقی ہوں!۔۔۔۔ یہ ادراک اور اس سے پیدا ہونے والا حال ۲:۲ ’سوز‘: میں حقیقی ہوں اور میرا حقیقی ہونا عشق، مقصدیت، حرکت، حرارت اور مسلسل پیش قدمی سے مشروط ہے! ۔۔۔۔۔۔۔ یہ یقین اور اس سے پھوٹنے والی کیفیت ۳:۲ ’ثبات‘: ’سرور‘ اور ’سوز‘ کی تکمیل سے برآمد ہونے والا نتیجہ جو ان احوال کو واقعیت میں بدل دیتا ہے۔۔۔۔ یعنی میں حقیقی ہوں اور میرا حقیقی ہونا مستقل بھی ہے اور واجب الاثبات بھی ص کلیات۔ ۶۲۰ رخصتِ تنویر: روشنی پھیلانے کی اجازت اور مہلت ص کلیات۔ ۶۲۸ ابدیت کی یہ تصویر: یعنی اہرامِ مصر جن پر وقت اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ یہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فطرت کی تمام تخلیقات زمانی ہیں، یعنی زمانہ انھیں متاثر کرتا ہے، لیکن انسان کی تخلیقی قوت زمانے کی گرفت توڑ دیتی ہے۔ ص کلیات۔ ۶۲۸ فطرت: کائنات میں کار فرما قانون جو چیزوں کو بناتا اور مٹاتا ہے، کائنات کی تخلیقی قوت جو میکانکی ہے ص کلیات۔ ۶۲۹ چشمِ تماشا: ۱۔ دیکھنے والی آنکھ ۲۔ وہ آنکھ جو کسی صورت کو معنی کے مظہر کی حیثیت سے دیکھ سکتی ہے ۳۔ حسن کی پہچان رکھنے والی نگاہ ص کلیات۔ ۶۲۹ نہاں خانہ ٔ ذات: یہاں یہ ترکیب طنز اور تحقیر کے ساتھ استعمال ہوئی ہے۔ اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ذیل کے معنی دیکھیں: ۱۔ ذاتِ باری تعالیٰ کا مقام جو وہم، عقل اور حواس سے اوجھل ہے ۲۔ وہ مقام جو وجود، زمان و مکاں، حرکت و تغیر، خودی اور اُن امتیازات سے جو خودی کو پیدا کرتے ہیں اور اسی سے پیدا ہوتے ہیں، پاک ہے ۳۔ مابعد الطبیعی علوم کا مقصودِ اعظم جس کا تصوّر انسان کو زندگی اور کائنات کے مسائل اور ضروریات سے بیگانہ رکھتا ہے ص کلیات۔ ۶۳۰ دلِ دریا: یعنی: ۱۔ زندگی کی روح، حیات کا جوہر، ہستی کا اصول ۲۔ فطرت کی انتہائی گہرائیاں، انسان اور کائنات کا باطن ۳۔ زمان و مکاں ص کلیات۔ ۶۳۰ سوزِ حیاتِ ابدی: ۱۔ فنا اور زوال سے محفوظ زندگی کی حرارت، وہ باطنی حالت جو ہمیشہ کی زندگی کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے، حیاتِ جاوداں کے شعلے کی آنچ ۲۔ انسانی بقا کی کیفیت جو حرکت و انقلاب سے تشکیل پاتی ہے ۳۔ ہمیشگی کا وجودی تجربہ ص کلیات۔ ۶۳۰ صدف: ۱۔ تخلیقی فن کار ۲۔ تخلیقی واردات کو قبول کرکے انھیں ایک جمالیاتی تشکیل دینے والی قوت، فن کار کا سینہ جہاں تخلیقی عمل مکمل ہوتا ہے ۳۔ تخلیقی وجدان ص کلیات۔ ۶۳۰ ذوقِ نظر: ۱۔ دیکھنے کی لپک ۲۔ مشاہدے کا فطری سلیقہ ۳۔ نظارۂ جمال کا فطری تقاضا اور صلاحیت ۴۔ ُحسنِ صورت سے لطف اندوز ہونے کی حس ص کلیات۔ ۶۳۰ گہر: ۱۔ فن پارہ، فنونِ لطیفہ میں سے کسی فن کی تکمیل یافتہ صورت ص کلیات۔ ۶۳۰ قطرۂ نیساں: تخلیقی inspiration، آمد، تخلیقی واردات ص کلیات۔ ۶۳۱ قاصدِ افلاک: یعنی ’شبنم‘ جو زمین کے حُسن کی آسمانی اصل ہے، آسمان سے زمین کے لیے پیغامِ بہار لانے والی نیز دیکھیے: ’شبنم‘، ’گوہرِ شبنم‘، ’دامنِ افلاک‘، ’پھول‘ ص کلیات۔ ۶۳۱ شبنم: حسن و کمال کا آسمانی عنصر جو چیزوں کی جمالیاتی تکمیل اور تزئین کرتا ہے لیکن خود متاثر نہیں ہوتا، یعنی رنگینی کو ابھارتا ہے مگر خود بے رنگ رہتا ہے ص کلیات۔ ۶۳۱ ضربِ کلیمی: ۱۔ زمانے کا رُخ موڑ دینے والی خداداد قوت ۲۔ ترقی اور بقا کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو گرانے کی طاقت جو فرد کو حاصل ہوتی ہے اور قوم کے کام آتی ہے۔ ۳۔ تخلیقی قوت جو زندگی اور تاریخ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ نیز دیکھیے: ’ضربِ کلیم‘، ’ضرب کلیمی‘ [تمام اندراجات] ص کلیات۔ ۶۳۱ پھول: حسن و کمال کا زمینی اصول اور اس کا اظہار ص کلیات۔ ۶۳۱ محنتِ پرواز: ۱۔ اُڑان کی مشقت، پرواز میں جان مارنا اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ۲۔ مجاہدہ جس کے بغیر حقیقت ہاتھ نہیں آتی ۳۔ خود کو بنانے کے لیے خود کو مٹا دینا ۴۔ اپنے مادّی وجود میں پوشیدہ روحانیت کو زندہ رکھنا ۵۔ اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی تکمیل کی مسلسل کوشش ص کلیات۔ ۶۳۲ دامنِ افلاک: یعنی ۱۔ اللہ سے تعلق ۲۔ دین ۳۔ اپنی اصل سے نسبت ۴۔ روحانی مقصود سے وابستگی نیز دیکھیے: کوہ و بیاباں، ’شبنم‘، ’صبح‘ ص کلیات۔ ۶۳۲ کوہ و بیاباں: یعنی ۱۔ دنیا اپنی تمام بلندیوں اور وسعتوں سمیت ۲۔ دنیا اور اُس میں پوشیدہ امکانات ۳۔ دنیا کی کشش کے اسباب جو جمال کے روحانی تصوّر سے بھی مناسبت رکھتے ہیں نیز دیکھیے: ’دامنِ افلاک‘، ’شبنم‘ ص کلیات۔ ۶۳۲ صبح: ۱۔ آسمان سے اُترنے والا نور جو زمین کو بھی روشن کردیتا ہے ۲۔ ظہورِ جمال جس میں معنی اور صورت ایک ہوجاتے ہیں یا صورت معنی کو منعکس کرنے کے قابل ہوجاتی ہے ۳۔ روشنی جو حُسن اور خیر کی آسمانی اور زمینی جہت کو ایک کرکے ظاہر کرتی ہے ۴۔ فیضانِ الٰہی جو چیزوں کو اُن کی حقیقت کا مظہر بنا کر موجود کرتا ہے ص کلیات۔ ۶۳۲ اربابِ نظر کا قرۃ العین: ۱۔ دیدہ وروں کی آنکھ کی ٹھنڈک ۲۔ حقائق کا مشاہدہ کرنے والوں کا محبوب ۳۔ عقل و حکمت میں اضافہ کرنے والا ۴۔ ’نظر‘ اور ’عین‘ کی مناسبت واضح ہے ص کلیات۔ ۶۳۲ اربابِ نظر: حقیقت کا ذوق اور فہم رکھنے والے، صورت و معنی کا ادراک رکھنے والے ص کلیات۔ ۶۳۳ چشمِ نیم باز: ۱۔ ادھ کھلی آنکھ ۲۔ وہ آنکھ جس کا مشاہدہ ادھورا ہو ۳۔ سوئی ہوئی آنکھ، وہ آنکھ جو پوری طرح بیدار نہ ہو ۴۔ وہ آنکھ جو صرف دنیا کو دیکھتی ہے اور اس سے اوپر کا عالم اسے سجھائی نہیں دیتا ص کلیات۔ ۶۳۳ آشنائے ناز: ۱۔ ناز سے واقف ۲۔ یہاں ’ناز‘ سے مراد ہے: ۱:۲۔ بندگی پر فخر ۲:۲۔ اللہ کے آگے سر جھکانے کی وہ کیفیت جو سر اُٹھانے کی طاقت بخشتی ہے ۳:۲۔ محبوب سے قرب کی انتہا میں بھی اپنی خودی برقرار رکھنا نیز دیکھیے: ’نیاز‘ ص کلیات۔ ۶۳۳ نیاز: ۱۔ بندگی ۲۔ عبادت ۳۔ محتاجی نیز دیکھیے: ’آشنائے ناز‘ ص کلیات۔ ۶۳۴ اعجازِ ہنر: ۱۔ فن کا معجزہ ۲۔ جمالیاتی تخیل اور اظہار کی وہ قوت جو خودی کے جمالی پہلو کو کمال تک پہنچاتی ہے ۳۔ خودی کے جمالیاتی اور تخلیقی جوہر کا اظہار ۴۔ چیزوں کو اُن کی حقیقت کے نور سے روشن کردینے والے تخیل کی انقلابی قوت کا اظہار ص کلیات۔ ۶۳۴ فطرت: کائنات صورت و معنی سمیت ص کلیات۔ ۶۳۵ سربسجدہ: ۱۔ سجدے میں پڑا ہوا، سجدہ گزار ۲۔ بندہ، غلام، اطاعت گزار ۳۔ امان مانگنے والا ص کلیات۔ ۶۳۵ زورِ حیدری: یعنی زندگی اور دنیا کو بدل دینے والی قوتِ عمل ص کلیات۔ ۶۳۵ فلاطوں کی تیزیِ ادراک: ۱۔ افلاطون کی بے پناہ ذہنی صلاحیت جس نے تخیل اور منطق کو انتہا پر پہنچا کر ایک کردیا تھا۔ اس بے مثل عقلی قوت نے ابدیت تو تراش کر دکھا دی لیکن زندگی اور اُس کے سب سے بڑے مظہر یعنی تاریخ کو غیر حقیقی کہ کر نظرانداز کردیا ۲۔ ادراک کی وہ قسم جو محض معقولات سے متعلق ہے اور محسوسات سے سروکار نہیں رکھتی، ادراکِ ذہنی جو ادراکِ حسّی کی ضد ہے ۳۔ عقلِ محض جو عمل اور اُس کے مقاصد کی تحقیر کرکے آدمی کو بے عملی کی طرف راغب کرتی ہے ۴۔ براّق ذہن ص کلیات۔ ۶۳۵ مرگِ تخیل: ۱۔ اُس تخلیقی قوت کی موت جو محسوسات کو نئی نئی صورتوں میں ڈھالتی ہے اور فطرت کے بالمقابل ایک ایسا نگار خانہ ترتیب دیتی ہے جو کائنات کے صوری در وبست اور اس سے تشکیل پانے والے معنوی اسٹرکچر کا ادھوراپن دور کرتی ہے ۲۔ تخلیقی اُپج کا خاتمہ، فکر و خیال کی جدّت اور ندرت کا فقدان ۳۔ صورت گری کی صلاحیت کا مکمل زوال نیز دیکھیے: ’تخیل‘ [تمام اندراجات] ص کلیات۔ ۶۳۵ جمال و زیبائی: ۱۔ ُحسن اور خوبی، خوب صورتی اور سج دھج ۲۔ باطنی ُحسن اور ظاہری خوبی ص کلیات۔ ۶۳۵ جلال و جمال: ۱۔ قوت اور ُحسن ۲۔ رُعب اور کشش ۳۔ روحِ رزم اور جانِ بزم ۴۔ فاتحانہ عمل اور شاعرانہ تخیل ص کلیات۔ ۶۳۶ سرورِ ازلی: ۱۔ حقیقت کے عرفان کی روحانی کیفیت۔ اقبال نے یہاں اسے روایتی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا منفی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرورِ ازلی بھی، اس مصرعے میں ’بھی‘ کا استعمال یہی بتاتا ہے کہ جدید مصور اپنی خودی کو تو کیا تصویر کرتا، مغرب کی اندھی تقلید نے اُسے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ بے خودی ہی کا سلیقے سے اظہار کرلیتا۔ ۲۔ زندگی سے کٹ کر تصورات و خیالات کی غیر حقیقی دنیا میں کھوئے رہنا، واقعات کی دنیا سے منھ موڑ کر خیالی حقائق کے عالم کی سیر کرنا، فرضی محبوب کے وصال میں گم ہوجانا۔ ۳۔ بے خودی کا نشہ ص کلیات۔ ۶۳۶ سرودِ حلال: ۱۔ وہ موسیقی جو جائز ہے ۲۔ وہ راگ جو آدمی کو خود سے بیگانہ نہیں کرتا بلکہ اُس کی خودی کے احوال کو بیدار کرتا ہے ۳۔ وہ نغمۂ انقلاب جو ابھی فطرت کے ضمیر میں گونج رہا ہے اور اُس مغنّی کے انتظار میں ہے جو اسے گا سکے۔ یہ نغمہ: ۱:۳ دل کو زندہ کرتا ہے ۲:۳ الوہی ہے ۳:۳ عظمتِ آدم کا ترانہ ہے ۴:۳ آدمی میں تسخیرِ کائنات کی قوت پیدا کرتا ہے ۵:۳ خودی کو موجود ہونے کا معیار بناتا ہے ص کلیات۔ ۶۳۶ صنعت: ۱۔ آرٹ، فن ۲۔ اسلوب ۳۔ تکنیک ص کلیات۔ ۶۳۸ نَفَس: ۱۔ سانس، پھونک ۲۔ زندگی، قوتِ حیات ۳۔ زندگی کی لہر، بیداری کا پیغام ۴۔ خودی کے جمالیاتی اظہار کی قوت ص کلیات۔ ۶۳۸ مشرق کے نیستاں میں ہے محتاجِ نفس نے مطلب یہ ہے کہ مشرق کو زندگی اور بیداری کی ضرورت ہے۔ حُسنِ اظہار نے اس عام سی بات میں وہ تہ داری اور گہرائی پیدا کردی جو جمالیاتی بھی اور فکری بھی۔ اس کی کچھ تفصیل یہ ہے: ۱۔ مشرق کو نیستاں کہنے کی معنویت: ۱:۱۔ بانسوں کے جنگل زیادہ تر مشرق میں ہیں ۲:۱۔ بانسری کا تعلق بھی یہیں سے ہے ۳:۱۔ بانس کا پودا تیزی سے بڑھنے کے لیے مشہور ہے۔ یہ صفت ایک تو سورج چڑھنے کے عمل سے مناسبت رکھتی ہے اور دوسرے اُبھرتا ہوا سورج، بلند ہوتے ہوئے بانسوں کے جنگل کا ایک مکمل تصویری پس منظر بھی بناتا ہے ۴:۱۔ جس طرح بانس اندر سے خالی ہوتا ہے، اہلِ مشرق بھی ایک باطنی خلا میں گرفتار ہیں ۵:۱۔ بانس کا اندرونی خلا اُس کی ظاہری تکمیل یعنی بانسری بن جانے پر بھی برقرار رہتا ہے۔ یہی حال اہلِ مشرق کا ہے کہ قومی وجود کی پختگی کو پہنچنے کے باوجود اُن کا باطن خالی ہے ۶:۱ ’نے‘ کا خلا ہو یا مشرق کا، دونوں کا علاج نفس ہے [دیکھیے: ’نفس‘] ص کلیات۔ ۶۴۰ اندیشۂ تاریک: ۱۔ اندھی سوچ، ظلمت زدہ فکر ۲۔ تاریک تصوّرات، شیطانی تخیل ۳۔ موت اور بدی کے اندھیروں میں گھرا ہوا تخلیقی فکر کا سوتا ۴۔ فن برائے فن کے تصوّر سے بننے والی ذہنیت اور اس کی تخلیقی سرگرمی ص کلیات۔ ۶۴۳ شررِ تیشہ: ۱۔ پتھر سے ٹکراتے وقت تیشے سے نکلنے والی چنگاریاں ۲۔ مقصود کے حصول کی خاطر کی جانے والی سخت جدوجہد، محنت و ریاضت ص کلیات۔ ۶۴۳ خانہ ٔ فرہاد: ۱۔ فرہاد کا گھر ۲۔ فرہاد کی شخصیت اور اُس میں پوشیدہ امکانات اور صلاحیتیں ۳۔ فرہاد کا مقام ۴۔ فرہاد کا نام اور اس سے چلنے والی روایت ۵۔ عشق اور تخلیقی وفور کا مرکز  تفہیمِ بالِ جبریل ابتدائی تین غزلوں کی شرح کا ایک جائزہ احمد جاوید شرحِ کلام اقبال کی روایت اگرچہ ابھی پختگی سے دور ہے تاہم یوسف سلیم چشتی کا دم تاحال غنیمت ہے۔ وہ اس طرف متوجہ نہ ہوتے تو شاید اقبال کی شاعری فہم اور ذوق کی اعلیٰ سطحوں سے لاتعلق رہ جاتی اور ایک عام قاری ان کی شعری عظمت کے اسباب تک پہنچنے سے قاصر ہی رہتا۔ باقی شار حین نے ا لّاماشاء اﷲ کلامِ اقبال کو ایک عام فہم پیغام بنانے سے زیادہ کچھ نہیںکیا۔ ان کی شرحیں دیکھ کر کئی غیر ضروری معلومات تو حاصل ہو جاتی ہیں لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ اقبال ایک بڑے شاعر اور تاریخ ساز مفکر تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کی تفہیمِ بالِ جبریل کا ماقبل اشاعت تذکرہ بہت سن رکھا تھا، جب چھپ کر سامنے آئی تو اس خیال سے دیکھنا شروع کیا کہ خواجہ صاحب نے شارحین اقبال کی کوتاہیوں کا کچھ نہ کچھ ازالہ ضرور کیا ہوگا۔ لیکن یہ کتاب بھی اسی روایت کا ایک تسلسل ہے۔ بالِ جبریل اقبال کی شاعری کا منتہا ہے، اس کی شرح کے مطلوبہ تقاضے اس کتاب کی اشاعت سے بھی پورے نہیں ہو سکے۔ تفہیمِ بالِ جبریلکو اگر دو حصوں میں منقسم تصور کر لیا جائے تو اس میں اغلاط اور نقائص دونوں نظر آتے ہیں اور بہت سے مشمولات مطلوبہ معیارِ شرح وتفسیر تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر محسوس ہوتے ہیں۔ اغلاط ونقائص متعدد ہیں۔ اس لیے یہ تبصرہ زیرِ نظر کتاب کے ایک جز تک محدود رہے گا اور اُس کی صورت یہ ہوگی کہ بالِ جبریل کے پہلے حصے کی غزلیات کی تفہیم شعر بہ شعر اس طرح دیکھی جائے گی کہ پہلے خواجہ کی عبارت یا اس کا خلاصہ انھی کے لفظوں میں نقل کیا جائے گا پھر تجزیہ کی ذیلی سرخی لگا کراس کی بنیادی نارسائی اور اس کے اسباب کی فہرست دی جائے گی او رپھر اس کے بعد تبصرہ کے عنوان سے اس فہرست کے مشمولات کو کھولا جائے گا۔ اس کے بعد فرہنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن پیشتراس کے کہ اس عمل کاباقاعدہ آغاز کیاجائے، مناسب ہوگا کہ ایک آدھ بات شعر کی تشریح وتفہیم کے اصول وآداب کے حوالے سے عرض کر دی جائے۔ تفہیمِ شعر کا ایک بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ شعر میں کارفرما معنوی اور فنی تشکیل کے عمل کو سامنے لایا جائے۔ اس میں موجود معنوی تنوع کا احاطہ کیا جائے اور معانی کی درجہ بندی کرکے ان میں ایک ترجیح قائم کی جائے جو مرادات کی کثرت کو انتشار میں نہ بدلنے دے۔ مختلف الدرجات معانی کا تعین اور ان کے درمیان ایک فنی اور تخلیقی ربط کی دریافت، شارح کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لفظوں کی حیثیت، یعنی ان کا علامت وغیرہ ہونا طے کیا جائے تاکہ شعر کی معنویت کا جمالیاتی جوہر گرفت میں آجائے، جو یوں تو ہر طرح کے پڑھنے والے کودرکار ہے مگر شارح کے لیے تو لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ شرح بھی بے فائدہ اور بے جواز ہے جو شعر کے فنی دروبست کا تجزیہ نہیں کرتی۔ جمالیاتی مرتبہ متعین نہ ہو تو شعر کاایک سطحی سا مطلب جان لینا کوئی چیز نہیں ہے۔ تفہیمِ بالِ جبریل میں شرح وتعبیر کی یہ ذمہ داریاں بڑی حد تک نظر انداز ہوگئی ہیںاو رمعنوی تہ داری اور فنی محاسن کی طرف مطلوبہ اشارہ کرنے کی جانب توجہ نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ ان شعروں میں بھی جو معانی کے تنوع اور الفاظ کی مناسبتوں سے گویا چھلکے پڑ رہے ہیں۔ ۱ اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں نفسِ سوختۂ شام و سحر تازہ کریں ’’اس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان قوم اس دور میں تھکی تھکی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی سانس پھولی ہوئی ہو۔ اب اسے تازہ دم ہو کر جدوجہد کے لیے نکلنا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں: اے ملتِ اسلامیہ کے فرزندو! اٹھو اور خورشید تک پہنچنے کی تیاری کرو۔ تمھاری منزل ستاروں سے بھی بلند ہے۔ دنیا ہی میں تھک ہار کر نہ بیٹھ جائو۔بلندیوں کے سفر کے لیے تیار ہوجائو۔‘‘ ص۔ ۱ تجزیہ: اجنبی اسلوب، اکہری تفہیم، شعر فہمی کے اصول سے بے توجہی۔ تبصرہ: اس شعر کا شمار اقبال کے بڑے شعروں میں ہوتا ہے ۔ بڑا شعر فن اور معنی دونوں اعتبار سے بڑا ہوتا ہے۔ شرح میں فن کا تذکرہ نہیں،معنی البتہ بتائے گئے ہیں۔ مگر ان کی سطح اتنی عام ہے کہ یہ شعر اقبال کے کمزور ترین اشعار کے برابر آگیا ہے۔ اور پھریہ ناقابلِ التفات مطلب جس طرح بیان ہوا ہے، رہی سہی کسر اس سے پوری ہوگئی ہے۔ اس شعر میں ’خورشید‘، ’خورشید کاسامان سفر‘، ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘کی معنوی حیثیت اور علامتی پیچیدگی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر یہ شعر ادنیٰ درجے پربھی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ صرف یہی نہیں، ’سامانِ سفر تازہ کرنا‘ اور ’نفسِ سوختہ تازہ کرنا‘ ابھی احساس، تخیل اور معنی کی کئی سطحوں کو محیط ہیں اور ایک بالکل نیا لسانیاتی اور جمالیاتی تناظر وضع کرتے ہیں۔ فعل کو علامت کے قریب قریب پہنچا دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سے آفاقیت اور شکوہ پیداہوتا ہے، جس کے زور سے بڑے معانی بھی احساس اور جذبے کی پکڑ سے باہرنہیں رہتے۔ اسی طرح ’اُٹھ‘ کا مخاطب غیر متعین ہونے کی وجہ سے ایک مرتکز پھیلائو پیدا ہوگیا ہے جواقبال کے تصورِانسان او رتصورِ مسلمان کوپوری طرح سموئے ہوئے ہے۔ پھیلائو، انسان کا احاطہ کرتا ہے اور ارتکاز، مسلمان کا۔ یعنی کہ مسلمانی جوہر ہے اور انسانیت اس کا عرض۔ اس ایک فنّی کمال نے دیکھیے فکرومعنی کی بلند تر سطح پربھی کیسا دقیق تصرف کر دکھایا۔ ہم آسانی سے سمجھ لیتے ہیں یاسمجھ سکتے ہیں کہ اس تقدیری آہنگ رکھنے والے امر کا سامع انسان ہے اور مخاطب،مسلمان۔ اِس طرح شعر ایک دوسرے مطلب کا بھی واضح امکان،احتمال اور گنجائش رکھتا ہے۔ ’خورشید کا سامانِ سفر‘ خورشید کا اپنا سامانِ سفر بھی ہو سکتاہے۔ دریں معنی کہ خورشید کو اس راستے پر اور اس سمت میں چلائیں جس پر چلنے کی فی الحال اس میں سکت نہیں ہے یا جس پر چلنا اسے یاد نہیں رہا یا اس کے پاس اس سفر کا سامان نہیں ہے۔ خورشید کاسامانِ سفر تازہ ہوگیا تو صبح وشام کی درماندگی،مردنی اور یکسانی کا خاتمہ خود بخود ہو جائے گا اور کائنات ہماری مراد کے تابع ہو کر خود اپنی غایتِ تخلیق کو پہنچ جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب کا نکالا ہوا مطلب غلط نہیں ہے لیکن اِس مطلب تک پہنچنے کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو قاری کو اتنے بلند پایہ شعر کی تحسین کے قابل بنا دیتا۔ تفہیم کا کام بس اتنا نہیں ہے کہ کسی شعر کو یک سطری بیان بنا کر پیش کردیا جائے یا اس کی نثر کرکے طالب علموں کو فراہم کر دی جائے۔ شارح کی ذمہ داری ہے کہ شعر میں کھلنے اور پھیلنے کی جتنی گنجائش پوشیدہ ہے اسے عمل میں لاکر دکھائے تاکہ پڑھنے والا شعری مفاہیم کی جمالیاتی بناوٹ سے واقف ہو جائے اور اس شعر کا تخلیقی مرتبہ بھی پہچان لے۔ خواجہ صاحب اگر ’اُٹھ‘ ہی کو کھول دیتے تو شعر کی بلندیوں کا کچھ نہیں تو ایک عکس ہی میسر آجاتا۔ مگر یہاں بھی وہ اثر لکھنوی کے ایک سطحی دعوے تک مار کرکے مطمئن ہوگئے۔ اقبال نے یہ عام سا کلمہ جس آہنگ کے ساتھ اور جس فضا میں کہا ہے، اس سے مخاطب کے باطن میں وہ قدیم گونج بیدار ہو جاتی ہے جو حرفِ کُن کی سماعت سے یا عیسیٰ علیہ السلام کی زبانِ مسیحائی سے ’قم‘ کا امر سن کر پیدا ہوئی ہوگی۔ کم سطحی کے اس نقص کے علاوہ اس شعر کی شرح میں ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘ کو مسلمانوں کی پھولی ہوئی سانس سمجھا گیاہے۔ ’’مسلمان قوم اس دور میں تھکی تھکی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی سانس پھولی ہوئی ہو۔‘‘ اسلوب کی سخت ناہمواری سے قطعِ نظر یہ پوری بات غلط ہے۔ شعر میں اس کاکوئی قرینہ نہیں پایا جاتا۔ ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘ سے ایک عمومی سطح پر یہ مراد ہے کہ وقت میں سے وہ جوہرِ حرکت سلب ہوچلاہے جسے انسان تخلیق کرتا ہے، یعنی تاریخ کی ارتقائی پیش قدمی کا فقدان۔ باقی اس شعر کی جمالیاتی معنویت اتنی کثیرالاطراف ہے کہ اس کا احاطہ تو بہرحال ناممکن ہے البتہ کچھ اشارات قائم کیے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے یہ انتہائی پیچیدہ مگر معنی خیز شعر کسی حد تک گرفت میں آسکتاہے۔ ۱۔ ’اُٹھ‘ ۱:۱ تو لیٹا ہوا ہے، اٹھ جا! ۲ : ۱ تو پائوں توڑکربیٹھ رہاہے، کھڑاہو جا! ۳ : ۱ تو مایوس ہو چکا ہے، ہمت کر اور نئے سرے سے گرمِ عمل ہو جا! ۴ : ۱ تو سو گیاہے، جاگ جا! ۵ : ۱ تو اپنے آپ کوبھولا ہوا ہے، ہوش میں آ! ۶ : ۱ توزندگی کی پست سطحوں میں مبتلا ہے، ان گراوٹوں سے بلندہوجا! ۷ : ۱ تو بہت بلندی سے گرا ہے، ماتم میں وقت ضائع مت کر، اٹھ جا! ۸ : ۱ تو مر چکاہے، پھر سے جی اٹھ! ۹ : ۱ تو خلیفۃ اﷲ ہے/ مقصودِ کائنات ہے/ خلاصۂ ہستی ہے/ مظہرِ خداہے! یوں بے کار مت بیٹھ، جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے اسے شروع کردے۔ ۱۰ : ۱ کائنات اپنی تکمیل اور بقا کے لیے تیری منتظرہے۔اٹھ اور اسے مکمل اورزندہ کردے! ۱۱ : ۱ تیرے بیٹھے رہنے سے کارخانۂ ہستی ویران پڑاہے، اٹھ اور اس کی ویرانی کو ختم کر دے! ۲۔ ’خورشید‘ ۱ : ۲ نظامِ کائنات کامرکز ۲ : ۲ وقت کی اصل اور مکان کا منتہا ۳ : ۲ لوحِ تقدیر ۴ : ۲ حقیقتِ حیات، سرچشمۂ زندگی ۵ : ۲ عروج کی آخری حد، رسائی کا انتہائی درجہ ۶ : ۲ ناممکن الحصول بلندی ۳۔ ’خورشید کا سامانِ سفر‘ ۱ : ۳ وہ سامان جو انسان/ مسلمان کوخورشیدتک پہنچنے کے لیے درکار ہے۔ ۲ : ۳ وہ سامان جو خورشید کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے درکارہے۔ ۴۔ ’سامان … تازہ کریں‘ ۱ : ۴ سامان ہماری تحویل میں ہے، اسے ٹھیک سے یک جا کرکے کام میں لائیں۔ ۲ : ۴ سامانِ سفر موجودہے۔ سفرکرناباقی ہے۔ ۳ : ۴ پہلے اسی سفر کے لیے جو زادِ راہ تیارکیا تھا، وہی اس بار بھی فراہم کرلیں۔ ۴ : ۴ اس سفر کی روایت کو دوبارہ زندہ کریں اور اس کے اصول وآداب کونئے سرے سے وضع کریں۔ ۵۔ ’نَفَسِ سوختۂ شام وسحر‘ ۱ : ۵ صبح وشام کی پژمردگی/ بے حرکتی/ تھکن ۲ : ۵ زندگی کی مُردنی / مایوسی /ناکامی ۳ : ۵ وقت کاٹھہر جانا ۴ : ۵ تاریخ کا نقطۂ زوال پر جامد ہو جانا ۵ : ۵ ایک لگے بندھے معمول پرچل چل کر کائنات کانڈھال ہو جانا ۶ : ۵ دنیا کا اپنے مقصود اور کمال تک پہنچنے سے قاصر اور مایوس ہو جانا ۷ : ۵ عالم گیر ناامیدی / تھکن / بے مقصدی / لایعنیت / جبر ۶۔’ نَفَس … تازہ کریں‘ ۱ : ۶ احیائے ملت کریں۔ ۲ : ۶ نظامِ ہستی کو اُس کی اصل پر استوار کرکے از سرِ نو چلائیں۔ ۳ : ۶ کائنات کو تسخیر کرکے اسے اس کی مراد کو پہنچا دیں۔ ۴ : ۶ کائنات میں انسان کی مرکزیت عملاً بحال کریں۔ ۵ : ۶ وقت کواپنی مراد پر چلائیں۔ ۶ : ۶ انسان اور کائنات کی مشترکہ افسردگی کاازالہ کریں۔ اس شعر کی تشریح وتفہیم اگر ان اشارات کو پوری طرح جامع نہیں ہے توناقص ہے۔ ۲ پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ’’اقبال کے شعر کا مطلب یہ ہے کہ پھول کی پتی سے ہیرے کو اندر تک کاٹ ڈالنا اگرچہ ناممکن کام ہے، یہ ناممکن بھی ممکن ہو سکتاہے البتہ کسی بے وقوف شخص پر نرم و نازک یعنی لطیف بات کسی صورت اثر نہیں کرسکتی۔‘‘ ص۔ ۱، ۲ تجزیہ: مطلب نامکمل، اسلوب ناتراشیدہ تبصرہ : دوسرے مصرعے میں مگر کو محذوف مان کریہ مطلب نکالنا غلط نہیں ہے لیکن بھرتری ہری کے متعلقہ اشلوک کی روشنی میں اس مطلب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شعر کی مراد کو پہنچنے کے لیے پہلے مصرعے میں ’پھول کی پتی سے‘ کے بعد ’کبھی‘ یا ’کہیں‘ کو محذوف قرار دینا پڑے گا۔ یعنی پھول کی پتی سے بھی کہیں ہیرے کا جگر کاٹا جاسکتاہے۔ اس شعر کی مفہومی ترتیب مصرعوں کی ترتیب کے برعکس ہے۔ مردِناداں پر نرم ونازک کلام بے اثر رہتاہے کیوں کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر نہیں کٹ سکتا۔ آگے چل کر اس شعر کا خلاصہ کیا گیاہے: ’’مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ میری شاعری کلامِ نرم ونازک پر مشتمل ہے ’لیکن بے سمجھ لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔‘‘ اِس اسلوب میں بیان ہونے والا یہ خلاصہ ناقص ہے۔ اس شعر کا دوسرا مفہوم بھی نسبتاً زیادہ قطعیت کے ساتھ متعین کیا جا سکتا ہے۔ میری شاعری کلامِ نرم ونازک نہیں ہے کیوں کہ میرے مخاطب وہ نادان لوگ ہیں جن پر ایسا کلام اثر نہیںکرتا۔ یہ خلاصہ اقبال کے تصورِ شعر سے بھی مناسبت رکھتا ہے جو اقبال نے گویا عرفی کی اس ہدایت کی اتباع میںتشکیل دیا تھا: حدی را تیز ترمی خواں چومحمل را گراں بینی نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی ۳ میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں ’’اقبال کہتے ہیں کہ میں اﷲ تعالیٰ کا دیدار براہِ راست کرنا چاہتا ہوں مگر چونکہ مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنا ممکن نہیں اس لیے میںدیدارِ خداوندی سے محروم رہتا ہوں اورعالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے فریاد کرنے لگ جاتا ہوں۔ یہ فریاد بلند ہو کر خدا کے حریم یعنی عرش تک جاپہنچتی ہے۔ عرش تک جاتے ہوئے اس فریاد کے راستے میں صفات کے بنائے ہوئے بت آتے ہیں جو فریاد کو عرش تک نہیں جانے دینا چاہتے (یعنی ہم نے خدا کی صفات کے بُت اپنے ذہنوں میں بنا رکھے ہیں یہ صفات کے بُت خدا کی راہِ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں) مگر میری خواہش کے نتیجے میں بلند کی جانے والی فریاد میں اتنی شدت ہے کہ وہ صفات کے ان بتوں کو روندتی ہوئی عرش تک پہنچ جاتی ہے، چنانچہ صفات کے بت پریشان ہو کر شور مچانے لگ جاتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں کہ اس شخص سے خدا کی پناہ جو ہمیں راستے سے ہٹا کربراہِ راست عرش تک جاپہنچاہے۔ انسانوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ ذاتِ خداوندی کو براہِ راست دیکھ سکیں۔ حضرت موسیٰؑ کا کوہِ طور پر رب اَرنی کہنا بھی اسی خواہش کا اظہار تھا مگر آواز آئی، لن ترانی (تو مجھے نہیں دیکھ سکتا)۔ جب خدا کی تجلّی کا پر تونازل ہوا تو موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے۔ گویا مادّی آنکھوں سے خدا کودیکھنا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار کیا گیاہے۔ مگر اشارۃً یہ بھی کہ دیا گیا ہے کہ اس خواہش میں کامیابی ممکن نہیں۔میں خواہ کتنا ہی شور مچائوں دیدارِ خداوندی میری قسمت میں نہیں، البتہ جن لوگوں نے صفات کے ان بتوں کو خدا سمجھ رکھاہے، ان کے بتکدے میری خواہش کی شدت سے مسمار ہو رہے ہیں، اس لیے وہ خدا سے پناہ مانگنے لگ گئے ہیں۔ اس شعر میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جو اقبال اپنے اس مشہور شعر میںبہت پہلے کہ چکے تھے: کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں فرق یہ ہے کہ زیرِ نظر شعر میں اتنا اضافہ کیا گیا ہے کہ میری اس خواہش سے اپنے ذہنوں میں صفات کے بتکدے بنانے والے لوگ خواہ مخواہ پریشان ہوگئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۵،۶ تجزیہ: غیر معیاری اسلوب، تفہیم عامیانہ اور یک سطحی تبصرہ: یہ شرح غلط اور سطحی ہے۔ فاضل شارح نے اس انتہائی کامل المعانی شعر کی بنیادی اصطلاحات سے کیا مفاہیم اخذ کیے ہیں! شوق: خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش نوائے شوق: اس خواہش کا اظہار، عالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے بلند کی جانے والی فریاد۔ حریمِ ذات: خدا کا عرش، خدا کے رہنے کی جگہ بت کدۂ صفات: انسانوں کے ذہن میں بنے ہوئے صفاتِ خداوندی کے بت جو خدا کی براہ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ تمام مطالب ڈاکٹر صاحب ہی کے الفاظ میں نقل کیے گئے ہیں۔ ان کی درست شرح یہ ہے: ’نوائے شوق‘ ۱: عاشق کی پکار جس سے ہجرکا اٹل دکھ اور وصل کی نہ پوری ہونے والی آرزو یک جا ہوگئی ہو۔ ۲: اس عاشق کی فریاد جو: ۱ : ۲ غلبۂ حال کی وجہ سے وصل کا ناممکن ہونا فراموش کردے۔ ۲ : ۲ صفات کا پردہ اٹھا کر ذات تک پہنچنے کا آرزومند ہو۔ ۳ : ۲ عشق کے ان لامتناہی مطالبات کی تکمیل کے درپے ہو، جن کا ہدف ذاتِ الہیہ ہے، ماورائے صفات ذات۔ ۴ : ۲ ذاتِ عبد کو ذاتِ معبود سے واصل کرنے کا متمنی ہو کہ دونوں کا امتیاز باقی اوربرقرار رہے۔ ۳: عاشق کے پورے وجود کا اظہار محبوب کے حضور میں۔ ۴: صدائے عشق جس کی رسائی حریمِ ذات تک ہے۔ حریمِ ذات: لامکاں، ذاتِ الہیہ کا مکان جوجہات سے پاک ہے اور صفات سے ماورا۔ بت کدۂ صفات: بت کدہ وہ عالم ہے جہاں کثرت نے وحدت، اعتبار نے حقیقت، باطن نے ظاہر، او رصورت نے معنی کی جگہ لے رکھی ہو۔ یعنی جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہے وہ خود مقصود بن گیا ہو۔ بت کدۂ صفات کامطلب یہ ہے کہ صفات، ذات کی ضروری معرفت اور اس سے عملی وابستگی کا لازمی ذریعہ ہیں مگر مقصودِ حقیقی ذات ہی ہے جو تعین اور ظہورکو قبول نہیں کرتی۔ اس لیے صفات کو ذات کا مظہر یا عین سمجھنا گویا بت پرستی ہی کی ایک قسم ہے جس سے یہ لازم ہوتا ہے کہ چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ قادر ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، لہٰذا قدرت، سمع اور بصر بھی معبود ہیں۔ ۴ حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں ’’میرے تخیلات اتنے بلند ہیں کہ وہ حوروں اور فرشتوں کو قید کر لیتے ہیں یعنی میں جب چاہتا ہوں اپنے زورِ تخیل سے حوروں اور فرشتوں کو اپنے سامنے کھینچ لاتا ہوں۔ دوسرے مصرعے میں تخیل کی بلندی کی مزید شان یہ دکھائی ہے کہ میرا تخیل خدا کے جلووں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ گویا خدا کی تجلیات میں داخل اندازی کر ڈالتا ہے۔ خدا کی تجلّی کو برداشت کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ خواہ میں مادی آنکھوں سے خدا کی تجلّی کو نہ دیکھ پائوں، تاہم زورِ تخیل سے اس کے جلوے ضرور دیکھ لیتاہوں۔ اقبال کی یہ احتیاط قابلِ داد ہے کہ انھوں نے مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ تجزیہ: غیر موزوں اسلوب، عامیانہ تفہیم، بعض ضروری علوم سے بے توجہی تبصرہ: اس شعر کو گرفت میں لینے کی کوئی کوشش بارور نہیں ہو سکتی جب تک ’تخیلات‘، ’نگاہ‘ اور ’تجلیات‘ کی اصطلاحات کے معانی پر نظر نہ ہو۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ دو مصرعوں کو دو فقروں میں ڈھال کر شارح فارغ ہو جائے۔ ان اصطلاحات پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے نگاہ کو بھی تخیل کے معنی میں لیا گیاہے۔ ذیل میں ان اصطلاحوں کے معانی درج کیے جا رہے ہیں۔ تخیلات: تخیل کی جمع، غیر محسوس کو محسوس بنانے کا ذہنی عمل۔ نگاہ: وہ نظر جو: ۱۔ حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔ ۲۔ ظاہر سے گزر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے۔ ۳۔ غیب کو شہود بنا لیتی ہے، یعنی جو چیزیں مشاہدے کی گرفت سے باہر ہیں انھیں بھی دیکھتی ہے اور دیکھنے کا یہ عمل تخیٔلی نہیں ہوتا بلکہ واقعی۔ ۴۔ کائنات سے خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے۔ صفات کا پردہ اٹھا کر مشاہدہ ٔذات کی طالب ہے۔ تجلیات: ۱۔ تجلّی کی جمع۔ جلوہ فرمائی، رونمائی ۲۔ صفاتِ الہیہ کے انوار کا ظہور جو وحدتِ ذاتی کی طرف اشارہ کرے۔ ۳۔ شانِ ربوبیت کا اظہار ۴۔ ظہورِ صفات جو بلاواسطۂ مظاہر ہے اور لامتناہی۔ ان معانی تک پہنچنے کے بعد شعر کاضروری مطلب یہ ہوگاکہ عالمِ ملکوت میرے تخیل کی زد میں ہے اور عالمِ الوہیت اپنے مرتبۂ صفات میں میری نگاہ کی رسائی سے بالکل باہر نہیںہے۔ دونوں عالم چونکہ انسان کے لیے غیب ہیں اس لیے ان پر میرا تخیل ہو یا نگاہ، گراں ہے۔ اس سے ان کاغیاب پوری طرح محفوظ نہیں رہتا۔ خواجہ صاحب نے اقبال کو ان کی اس احتیاط پر داددی ہے کہ ’’انھوں نے مادی آنکھوں سے خدا کودیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ اقبال نے خدا کی تجلیات کو دیکھنے کا دعویٰ زورِ تخیل کی بنیادپر نہیں بلکہ چشمِ دل کے حوالے سے کیا ہے اور اس میں بھی یہ نزاکت ملحوظ رکھی ہے کہ یہ دید تجلیات کے کسی جزو کا بھی احاطہ نہیں کرسکتی۔ ’خلل‘ کا کلمہ یہ دلالت بھی رکھتا ہے۔ ۵ گرچہ ہے میری جستجو دیر وحرم کی نقش بند میری فغاں سے رست خیز کعبہ و سومنات میں ’’انسان ہمیشہ خدا کی تلاش میں رہا اور اس تلاش کے باوجود خدا نہ مل سکا تو اس نے اپنے اپنے مسلک کے مطابق مختلف عبادت گاہیں (دیر وحرم) بنائیں کہ شاید ان میں خدا مل جائے لیکن وہاں بھی جب خدا کی تجلّی نظر نہ آئی تو نامطمئن ہو کر انسان نے خدا کے حضور فریاد کی اور اسے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن عبادت گاہوں کے متولی (یعنی کعبہ وسومنات کے اربابِ اختیار) انسانوں کی اس خواہش کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوںنے انسانوں کو عبادت گاہوںتک محدود کرنا چاہا اور خداتک براہِ راست رسائی چاہنے والوں کے خلاف ہنگامہ کھڑاکر دیا۔‘‘ ص۔ ۶،۷ تجزیہ: غیرموزوں اسلوب، غلط اور عامیانہ تشریح، تصوف کی علمیات سے بے توجہی تبصرہ: اس شرح سے مندرجہ ذیل نکات برآمد ہوتے ہیں۔ خواجہ صاحب غور فرما لیں کہ کیا وہ ان نتائج کو قبول کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ۱۔ انسان خدا کی تلاش میں ناکام ہوگیا تو مذاہب اختراع کیے گئے۔ ۲۔ وہ مذاہب بھی خدا تک پہنچانے میں ناکام رہے۔ ۳۔ انبیا کے لائے ہوئے دین سے مایوس ہو کر انسان نے براہِ راست اﷲ سے فریاد کی کہ وہ خود کو اس کی آنکھوں پرمنکشف کردے۔ ۴۔ عبادت گاہوں کے متولی اس خواہش کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوں نے انسانوں کو جبراً اپنے اپنے دین کے نظامِ عبادات میں محدود رکھنا چاہا اور خدا تک براہِ راست رسائی چاہنے والوں یعنی (دین، کتاب اور نبی کا انکار کرنے والوں) کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اس میں بھی وہی قصہ ہے۔ شعر کے کلیدی کلمات کو موردِ توجہ نہیں سمجھاگیا۔ ’دیر وحرم‘ اصطلاح میں ظہورِحق کے دو اصول ہیں جو کثرت ووحدت اور تشبیہ وتنزیہ پر دلالت کرتے ہیں۔ ’دیر‘ کا تعلق صفات سے ہے اور ’حرم‘ کا ذات سے۔ دیر وحرم، کعبہ وسومنات یوں تو ایک ہیں مگر اس شعر کی حد تک ان کے درمیان اصل وفرع کی نسبت کار فرما ہے۔ ’دیروحرم‘ اصل ہیں اور ’کعبہ وسومنات‘ ان کی فرع۔ اسی طرح ’نقش بند‘ خالق وصانع کے مفہوم میں نہیں استعمال ہوا، بلکہ اس سے مراد ہے اپنی سہولت کے لیے حقیقتِ محض کے تعینات کا تصور باندھنے والا اور حقیقت کو ازروئے اعتبار صورت میں ڈھالنے والا۔بالفاظِ دیگر وحدت وکثرت اور تنزیہ وتشبیہ کے تصورات کو عمل میں لانے والا۔ ’نقش بند‘ کو خالق وصانع سمجھنے سے یہ لازم آئے گا کہ خانہ کعبہ اﷲ کے حکم پر نہیں بلکہ خدا جوئی کے فطری داعیے کے دبائو پر تعمیر کیاگیا تھا۔ اسی طرح ’فغاں‘ کا لفظ بھی اس شعر میں اہم ہے۔ یہ ہجر اور ناکامی کے درد وغم کاوہ اظہار ہے جووصل سے مایوس ہو کر محبوب کو سنانے کے لیے کیا جائے۔ ’رست خیز‘ بھی شعر کی معنویت کے تعین میں ایک ضروری کردار رکھتا ہے۔ یہ ہنگامۂ قیامت ہے جہاں حقیقت، صورت کے تعینات کو فنا کرکے اپنا اظہار کرے گی۔ ظاہری کعبہ وسومنات چونکہ حقیقت کے لیے صوری تعینات کادرجہ رکھتے ہیں لہٰذا حقیقت سے براہِ راست نسبت کاقیام یا اس کاامکان ان میں تنزل کا سبب بن سکتاہے، یعنی صورت کی گرفت کمزور پڑنے لگتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ یہاں صورت کوئی منفی مفہوم نہیں رکھتی، لہٰذا کعبہ وسومنات میں کوئی منفی پن دیکھنا درست نہ ہوگا۔ جوامر حقیقت کی صحیح اور محکم نسبت پر استوار ہو اور حقیقت تک رسائی کا قطعی وسیلہ ہو اس میں منفیت کا اثبات غلطی ہے۔ ۶ گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں ’’میں اپنی زندگی میں ہمیشہ دو متضاد کیفیات سے دوچاررہتاہوں۔کبھی تو میری نگاہیں اتنی تیز ہو جاتی ہیں کہ وہ کائنات کے تمام اسرار ورموز منکشف کر دیتی ہیں او رکبھی یہی نگاہیں اپنی ہی ذات کے پیدا کردہ شکوک وشبہات میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ یعنی میرے معمولی وہم وگمان بھی مجھے پریشان کر دیتے ہیں۔ اقبال کائنات وحیات کے مسائل کے بارے میں بصیرت سے بہرہ ور تھے۔ اس لیے انھوں نے کہا ہے کہ انسان کتنا ہی صاحب نظر ہو، بلند وپست سے گزرتا رہتا ہے۔ کبھی بلندی خیال کے عروج پر ہوتاہے اور کبھی معمولی سا وسوسہ اور خوف بھی اس پر غلبہ پالیتاہے۔ شاعری کی تشریح میں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ’میں‘ یا ’میرے‘ کے الفاظ کے ذریعے جوکچھ کہا گیا ہے وہ لازماً شاعر اپنے بارے میں کہتاہے۔ بعض اوقات ’میں‘ انسانوں کی ایک علامت ہوتا ہے۔ اس صورت میں شعر کامطلب یہ ہوگا کہ بڑے بڑے صاحبِ بصیرت لوگ کبھی تو پیچیدہ مسائل کی گتھیاں فوراً سلجھا لیتے ہیں اور کبھی معمولی مسائل کی تفہیم سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ اس بات کو سعدی نے گلستان میں ایک درویش کی زبان سے یوں بیان کیاہے: گہے برطارمِ اعلیٰ نشینم گہے بر پُشت پائے خود نہ بینم (ترجمہ: کبھی میں بلند مقام پرفائز ہوتا ہوں اورکبھی اپنے پائوں کی ایڑی کے پیچھے بھی نہیں دیکھ سکتا)۔‘‘ تجزیہ: عامیانہ تفہیم، نامکمل تشریح تبصرہ: شرح کا مدار غلط بنایا گیا ہے۔ اس شعر میں انسان کاکوئی نفسیاتی تجزیہ نہیں کیا گیا بلکہ اس کی حقیقت کے قطبین بیان ہوئے ہیں۔ اور ’توہمات‘، ’معمولی معمولی وہم وگمان‘ نہیں ہیں۔ امام العارفین شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی نے وہم کو سلطان العارفین کہا ہے، یعنی توہم (وہم میں آنایا لانا) مابعد الطبیعی امور میں منتہائے معرفت ہے۔ اس کی بنیاد پر غیب کے موجود ہونے کا یقین فراہم ہوتا ہے۔اقبال نے گو کہ ’توہمات‘ کو اپنی کمزوری کے معنی میں اور ایک منفی مفہوم میں برتا ہے، تاہم اس کے باوجود انھیں وساوس کی سطح تک لے آنے کا کوئی جواز اور کوئی قرینہ شعر میں موجود نہیں ہے۔ انسان کی حقیقی استعدادِ معرفت جن دوسروں سے عبارت ہے وہ یہاں بیان ہوئے ہیں، یعنی تحقق (Realisation) اور اعتبار علم ومعرفت ان دونوں سے مرکب ہے۔ان میں سے کوئی ایک جز بھی منہا نہیں کیا جاسکتا۔ کیا اس شعر کا مرکزی خیال یہ نہیں ہے کہ انسان کبھی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی اعتبار میں الجھ کر رہ جاتا ہے؟ اعتبار یعنی حقیقت کا واجب الاثبات تصور! یہ تصور حقیقت کو محیط نہیں ہے مگر اسی پر قائم ہے۔بالکل اسی نسبت کے ساتھ جوشخص وعکس اور اصل وظل میں کارفرما ہے۔ خواجہ صاحب چاہتے تو علامہ کے فکری مرتبے کی رعایت سے اس شعر سے ان کا تصورِ علم بھی برآمد کرسکتے تھے۔ ۷ تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں ’’کائنات انسان سے بہت قدیم ہے بلکہ ہمارے عقیدے کے مطابق جن، فرشتے اور شیطان بھی انسان سے قدیم تر ہیں۔ علمِ حیاتیات کے مطابق نباتاتی اور حیوانی زندگی انسان سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ گویا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان دنیا میں سب کے بعد پیدا ہوا۔ تاہم انسان سے پہلے جتنی مخلوقات تھیں وہ انسان جیسی ذہین اور ذی شعور نہیں تھیں۔ خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو اسے علم سکھایا جس سے دوسری مخلوقات محروم تھیں اور اس کی فطرت میں یہ مادّہ رکھا کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ذریعے کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ گویا کائنات کے اسرار کو منکشف کرنے والی شخصیت کو پیدا کرنے کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کے جملہ رازوں کو سب پر ظاہر کر دیا جائے۔ ’میں ہی تو ایک راز تھا‘ کا ٹکڑا ظاہر کرتا ہے کہ سارے رازوں کا راز داں ایک ہی تھا یعنی انسان، گویاانسان کو وجود میں لا کر اﷲ تعالیٰ نے کائنات کے تمام سربستہ رازوں کو ظاہر کرنے کا سامان خود ہی مہیا کر دیا۔‘‘ ص۔ ۷،۸ تجزیہ: نامکمل اور عامیانہ تبصرہ: بات انسان کے شعور اور ذہانت کی نہیںہورہی بلکہ اس کی حقیقت اور وجودی مرتبے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ’راز‘ کا کوئی تعلق ’کائنات کے اسرار ورموز‘ سے نہیںہے۔ یہ بالکل سامنے کا نکتہ نظر انداز ہو جانے سے تفہیم کا رُخ غلط سمت میں ہو گیا اور سطح بھی گر گئی۔ اس شعر میں انسان اپنے علم اور شعور کے ذریعے سے کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا نہیں بلکہ خود حقیقتِ کائنات ہے۔ تفہیم بالِ جبریلکا ایک بڑا نقص یہ بھی ہے کہ اقبال کے بہت بنیادی تصورات کو ایک معمولی دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات بنا کر رکھ دیاگیا ہے۔ اس شعر کے ساتھ بھی یہی ستم ظریفی ہوئی ہے۔ اقبال حقیقتِ انسان کا بیان کر رہے ہیں جو سرِّو جود اور غایت ہستی ہے، خواجہ صاحب اس سے کوئی سائنس دان وغیرہ مراد لے رہے ہیں۔ اقبال انسان کو مقصودِ کائنات کہ رہے ہیں اور خواجہ صاحب کائنات کو مقصودِ انسان بتاتے ہیں۔ ۸ اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا ’’اے خدا! اگر ستارے ٹیڑھی چال چل رہے ہیں اور ان کی کج روی کے باعث دنیا پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار میں نہیں بلکہ تو ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اچھا ہے یا برا اس کی فکر کرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا تیری تخلیق کی ہوئی ہے اس لیے دنیا کے افعال کا ذمہ دار تو ہے میں نہیں ہوں۔‘‘ ص۔۸ واضح رہے کہ اس شعر میں(بلکہ پوری غزل میں) تیرا کا اشارہ خدا کی طرف ہے اور میرا کا اشارہ انسان کی طرف۔ اقبال اس شعر میں یہ کہتے ہیں کہ خدا کائنات اور جہان کا خالق ہے اور مالکِ تقدیر ہے اس لیے اگر دنیا میں خرابیاں ہیں تو مجھے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیںہے۔ اس کی فکر مالکِ کائنات کو خود ہی ہونی چاہیے۔ اقبال اپنے کلام میں بعض جگہ انسانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خاصے بے باک ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ان کا لہجہ اعتراضات کی زد میں آجاتا ہے۔ اس لہجے کی ایک نمایاں مثال نظم ’شکوہ‘ ہے جب کہ یہ غزل بھی تقریباً اسی انداز کی ہے۔‘‘ ص۔ ۸ تجزیہ: غلط اور نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب تبصرہ: اس غزل کی تفہیم کا آغاز ہی اس پس منظر میں ہونا چاہیے تھا کہ یہاں اقبال نے ایک اونچی سطح پر انسان کو اﷲ سے ہم کلام کر دکھایا ہے جس میں تمام بڑے موضوعات اور حقائق کا احاطہ ہوگیا ہے۔ یہ غزل ایک بہت بڑے منظر کی طرح ہے۔ اس کے ایک سرے پر انسان ہے اور دوسرے پر خدا اور درمیان میں وجود، تقدیر اور کائنات کا پورا پھیلائو۔ وجود کے قطبین یعنی خدا اور انسان اور وجود کی تثلیث یعنی خدا، انسان اور کائنات کی ایسی ڈرامائی صورت گری اپنی تفہیم میں معنی کی بلند ترین سطحوں سے اتارا جانا روا نہیں رکھتی۔ الفاظ کے عامیانہ درجے پر مستعمل اور متعین مفاہیم سے ضمناً بھی کوئی سروکار رکھنا، انسانی تخیل میں صورت پکڑنے والی اس عظیم ترین معنویت کو جو اس فضا میں گندھی ہوئی ہے، غارت کر سکتی ہے۔ اس شعر میں جو الم ناکی، بے بسی اور فکر مندی پائی جاتی ہے، تشریح میں اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک بے حس اور لاپروا آدمی مقصدِ تخلیق کا انکار کرکے اپنے خالق سے کٹ حجتی اور گستاخی پر اتر آیا ہے۔ ۹ اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا ’’خدا عرشِ معلی کا مکیں ہے اور عرشِ معلی کو لامکاں بھی کہا جاتاہے۔ اگرچہ وہ لامحدود ہے مگر اُس میں ہُو کا عالم طاری رہتا ہے اور وہاں کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔ جب کہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں محبت کرنے والے اور اس میں ناکام ہو کر فریاد کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ دنیا میں لوگوں کو اپنی تمنائوں کے حصول کی شدید خواہش رہتی ہے مگر ان کا حصول ممکن نہیں ہوتا، اس لیے عشق انھیں مصروفِ ہنگامہ رکھتا ہے۔ گویا دنیا اگرچہ پریشان کن جگہ ہے مگر اس کے ہنگامہ خیز اور دلچسپ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب کہ لامکاں پر سکون ہے مگر غیر دلچسپ۔ بقول اقبال اگر لامکاں کی عافیت کوشی دلکش ہنگاموں سے تہی ہے تو اس کا ذمہ دار اﷲ ہی ہے جس نے اپنے لیے لامکاں کی تنہائی پسند کی ہے۔‘‘ ص۔ ۸،۹ تجزیہ: نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب، عارفانہ روایت سے ناواقفیت تبصرہ: اس شرح میں غلطی بھی ایسی ہے گویا ابھی ایجاد کی گئی ہے۔ گو کہ یہ کوئی اچھا شعر نہیں ہے اور اعتراض کی بھی خاصی گنجائش پائی جاتی ہے تاہم اقبال کی کمزوری بھی کسی معمولی ذہن کی کمزوری نہیں ہے، جیسی کہ خواجہ صاحب کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔ نہ خدا عرشِ معلی کا مکین ہے نہ عرش معلی لامکاں ہے نہ لامکاں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سناٹا چھایا رہتا ہے اور کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ نہ لامکاں کا اس روز مرہ کی دنیا سے کوئی تقابل کیا جا رہا ہے۔ غرض ہر پہلو سے کوئی نہ کوئی غلطی برآمد ہوتی ہے، مثال کے طور پر : ۱۔ لامکاں پر سکوں ہے مگر غیر دلچسپ، ۲۔ لامکاں کی عافیت کوشی دلکش ہنگاموں سے تہی ہے، ۳۔ اﷲ نے اپنے لیے لامکاں کی تنہائی پسند کی ہے۔ ذرا خیال تو فرمائیے کہ ان باتوں سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں: ۱۔ اﷲ کے لیے کوئی چیز دلچسپ یا غیر دلچسپ ہو سکتی ہے، یعنی اس کے ہاں بھی انسانوں جیسی طبیعت اور میلانات پائے جاتے ہیں۔ ۲۔ خدا، نعوذ باﷲ، عافیت کوش ہے۔ ۳۔ لامکاں کوئی ایسی جگہ ہے جو خدا سے پہلے موجود تھی وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ شارحِ محترم ان نتائج کا وسوسہ بھی نہیں رکھتے ہوں گے لیکن عجزِ بیان اور ان موضوعات کے نامانوس ہونے کی وجہ سے یہ بے احتیاطیاں ان کے ذہن سے نہیں بلکہ ان کے قلم سے سرزد ہوئی ہیں۔ میں خود اس شعر کی شرح اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے یہ شعری اعتبار سے معمولی اور فکری اعتبار سے غلط اور قابلِ اعتراض لگتا ہے۔ تاہم اتنی بات ضرور عرض کروں گا اس معمولی اور جذباتی شعر میں حقیقتِعشق کو اس کے انتہائی تناظر میں برسرِ عمل دکھایا گیا ہے۔ انسان عاشق ہے اور اﷲ محبوب۔ انسان تو اپنے عشق کے تجربے سے بہرہ مند ہے لیکن اﷲ جس ’ماحول‘ میں رہتا ہے وہاں محبوبیت کے احوال کا قیام اور اصول ممکن نہیں۔ خدا کی وحدت اور اکملیت نے اسے بالکل تنہا کر دیا ہے اور یہ تنہائی بھی ایسی ہے کہ اس میں کسی طرح کے تغیر کاکوئی امکان نہیں۔ اس شعر میں بنیادی طور پر یہی کہا گیا ہے کہ جو میںنے نعوذ باﷲ پڑھ کر لکھا۔ ایک اور مطلب بھی نکلتا ہے کہ خدا کے سامنے کوئی مقصود نہیں ہے جسے حاصل کرنے کی کوشش خود اس کے ارتقا اور اکمال کا سبب بنے۔ یہ مضمون بھی شعر میں اپنا قرینہ رکھتا ہے۔ ۱۰ اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر مجھے معلوم کیا، وہ رازداں تیرا ہے یا میرا ’’اُسے، کا اشارہ ابلیس کی طرف ہے۔ صبحِ ازل جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں نے خدا کے حکم پرآدم کو سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کر دیا۔ اس پر وہ راندۂ درگاہ ہوگیا اور اس وقت سے اس کا کام انسانوں کو بہکانا ہے۔ بعض صوفیہ نے ابلیس کے انکار کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ابلیس کٹر توحید پرست تھا اس لیے وہ خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اقبال کا خیال ہے کہ دنیا میں خیر کا وجود شر کی وجہ سے قائم ہے۔ اگر خیر ہی خیر ہو تو کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہو سکتا کہ خیر اچھی چیز ہے۔ چیزیں اپنے تضاد سے پہچانی جاتی ہیں۔ ابلیس نے خدا کے فرمان کے باوجود آدم کو سجدہ کرنے سے انکار اس لیے کیا تھا کہ وہ انسان کے لیے دنیا میں خیر اور شر کا تصادم پیدا کرکے خیر کی قوتوں کو مہمیز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ابلیس کا یہ انکار درحقیقتِ انسان کی بہتری کے لیے تھا۔ پیامِ مشرق کی نظم ’تسخیرِ فطرت‘ کے پانچویں حصے ’صبحِ قیامت‘ میں اقبال نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ابلیس قیامت کے دن اپنا دفاع اسی انداز میں کرے گا۔ تاہم اس شعر میں اقبال نے قدرے مختلف بات کہی ہے۔ یہاں ان کا یہ کہنا ہے کہ ابلیس کو خدا کے حکم کے آگے انکار کی جرأت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ غالباً یہ انکار خدا کے ایما پر کیا گیا تھا۔ چونکہ ابلیس خدا کے مقرب ترین فرشتوں میں شامل تھا، اس لیے امکان یہ ہے کہ اس انکار میں رضائے خداوندی شامل تھی۔‘‘ ص۔ ۹ تجزیہ: نامکمل اور سطحی تفہیم تبصرہ: یہ تشریح بھی ایسی ہے کہ قاری ایک خاص سطح پر اُترے بغیر اس سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ ۱۔ ’’اقبال کا خیال ہے دنیا میں خیر کا وجود شر کی وجہ سے قائم ہے۔‘‘ یہ خیال اس شعر میں تو نہیںپایا جاتا، علامہ نے کہیں اور بیان کیا ہو تو اس کا حوالہ دینا چاہیے تھا۔ شر کا مقوّمِ خیر ہونا خواہ اس دنیا میں سہی، ایک بالکل غلط تصور ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ شر سے خیر کی پہچان میسر آتی ہے لیکن اس سے تجاوز کرکے خیر کے قیام ہی کو شر پر منحصر کر دینا سخت غلطی ہے۔ خواجہ صاحب اتنی ہی بات کہنا چاہتے ہیں اور یہی کہی بھی ہے لیکن موضوع اور اسلوب کی اجنبیت کی وجہ سے اس طرح کی لغزشیں ان سے بار بار سرزد ہوتی ہیں۔ ۲۔ ’’ابلیس نے خدا کے فرمان کے باوجود آدم کو سجدہ کرنے سے انکار اس لیے کیا تھا کہ وہ انسان کے لیے دنیامیں خیر اور شر کا تصادم پیدا کرکے خیر کی قوتوں کو مہمیز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ابلیس کا یہ انکار درحقیقت انسان کی بہتری کے لیے تھا۔‘‘ یہ پوری بات اس شعر کی فضا سے لگّا نہیں کھاتی۔ مانا کہ پیامِ مشرق میں اقبال نے ابلیس سے اپنا دفاع اسی پوچ اور بے اصل دعوے اور استدلال پر کروایا ہے، مگر اِس کا اس شعر سے کیاتعلق۔ اس شعر میں تو گویا خدا کی شیطان سے نفرت کو فوکس (focus) کیا گیا ہے اور شیطان سے نقصان اٹھانے والے انسان کی زبان سے خدا کو اسی مصلحت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو تخلیقِ ابلیس میں اس کے پیشِ نظر رہی ہوگی۔ نیز خدا اور شیطان کے اس قدیم تعلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ابلیس کے انکار سے پہلے تک خود فرشتوں کے لیے موجبِ رشک تھا۔ اقبال اس تقرب کو حوالہ بنا کر انکارِ ابلیس کو ایمائے خداوندی پر مبنی قرار دے رہے ہیں جس کا علم ان دونوں کے سوا کسی کو نہیں۔ وہ مقربِ خاص جو رضا اور ایما کو اپنی قیمت پر پورا کر دکھائے، وہ بھلا واضح حکم سے سرتابی کر سکتا تھا؟ خواجہ صاحب نے بھی یہی بات کہی ہے مگر جس سطح پر لے جا کر کہی ہے اس سے بہتر تھا کہ کاش نہ کہتے۔ اس شعر میں محض ’رازداں‘ ہی کو کھول دیا جاتا تو اس کے شایانِ شان مفاہیم خود بخود ذہن کی گرفت میں آتے چلے جاتے۔ ۱۱ محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا ’’یہ شعر بالِ جبریل کے انتہائی مشکل اور مبہم اشعار میں سے ہے۔ اس پر بڑی بحث ہو چکی ہے اور ہر شارح اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتا ہے۔ اس شعر کی بنیادی الجھن ’حرفِ شیریں‘ کی ترکیب ہے۔ یوسف سلیم چشتی کے بقول اس سے مراد ’جذبۂ عشق‘ ہے۔ مگر شعر میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیںجس سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے۔ بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد قرآنِ پاک ہے مگر یہ اس لیے درست نہیں کہ ’قرآن‘ پہلے مصرعے میں موجود ہے اور دوسرے مصرعے میں حرفِ جزا ’مگر‘ کے بعد ’قرآن‘ کا لفظ دوبارہ لانا موزوں نہیں۔ ’مگر‘ کے بعد دوسرے مصرعے میں پہلے مصرعے کے کسی بنیادی لفظ کی تکرار نہیں ہونی چاہیے۔ میرے خیال میں اس شعر کی اصل الجھن اس کی ردیف ہے، ’تیرا ہے یا میرا‘ جو پوری غزل میں دہرائی گئی ہے۔ اس غزل کے باقی تمام اشعار میں ’تیرا ہے یا میرا؟‘ کے سوال کا جواب ہے ’تیرا‘ مگر زیرِ نظر شعر میں اس کا جواب ہے ’میرا‘ … یہ کوئی فنی خامی نہیں ہے۔ شاعر ردیف کو کسی طرح بھی بلوانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اب شعر پر غور۔ اقبال خدا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ آنحضورؐ بھی تیرے، جبریل بھی تیرے حکم کا پابند اور قرآن بھی تیرے ہی الفاظ…گویا خدا آنحضورؐ کو جبریل کے ذریعے اپنے احکامات قرآن کے الفاظ میں پہنچاتا ہے تو اس میں دم مارنے کی مجال نہیں ہو سکتی، گویا سب کچھ تیرا ہی تیرا ہے۔ کائنات بھی تیری، کائنات کا افضل ترین بشر بھی تیرا اور اس تک پہنچنے والے احکامات بھی تیرے۔ اب سوال یہ ہے کہ میرے پاس یعنی انسان کے پاس کیارہ جاتا ہے؟ اقبال کہتے ہیں کہ انسان کے پاس ’شیریں الفاظ‘ ہیں یعنی اس کی گفتگو … انسان جب زندگی کے متنوع تجربات سے گزرتا ہے تو ان تجربات کو شیریں الفاظ کا روپ دے کر امر کر دیتا ہے اور انھیں خوب صورت انداز میںدوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان اپنے شیریں اور مترنم کلمات کی بدولت ایک تخلیق کار کا درجہ رکھتا ہے اور اس کے الفاظ اس کے جذبات وتجربات کی ترجمانی عمدہ انداز میں کرتے ہیں۔ اقبال نے اپنے آپ کو تخلیق کاروں کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہوئے لفظ ’میرا‘ سے تمام تخلیق کاروں کی اعلیٰ درجے کی تخلیقات مراد لے رہے ہیں۔ گویا سب کچھ خدا کا ہے مگر انسان کے شیریں الفاظ (فنونِ لطیفہ) صرف اسی کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے پیامِ مشرق کی نظم ’محاورۂ مابین خدا وانسان‘ ملاحظہ کیجیے جس میں انسان کو کائنات کے اندر ایک تخلیق کار کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہی بات اقبال نے ایک فارسی شعر میں یوں کہی ہے: جہاں او ساخت ایں او خوبتر ساخت مگر با ایزد انباز است آدم (ترجمہ: اس نے جہان کو بنایا، اس نے اسے بہتر بنایا، شایدانسان خدا کے ساتھ تخلیق میں حصہ دار ہے۔)‘‘ ص۔ ۹،۱۰ تجزیہ: نامکمل تشریح، غیر موزوں اسلوب تبصرہ: تشریح کا نقص واضح کرنے کے لیے اس شعر کے معنوی نکات کو الگ سے بیان کردینا شاید کافی رہے گا۔ ۱۔ اے اﷲ تیری ترجمانی کے لیے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہیں، جبریل بھی ہیں اور قرآن بھی۔ آخر میرا بھی تو کوئی ترجمان ہونا چاہیے۔ سو یہ ’حرفِ شیریں‘ یعنی یہ نوائے شوق اور جذبۂ عشق کا اظہار ہی وہ چیزہے جو تیری جناب میں میری ترجمانی کرتی ہے۔ ۲۔ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم، جبریل اور قرآن سے تو ’ظاہر ہے او ریہ نغمۂ محبت جو میرے سینے سے بلندہو کرزبان سے جاری ہو رہاہے، میرا اظہار ہے۔ ۳۔ وحی تیرا پیغام ہے میری طرف اور یہ ’حرفِ شیریں‘ میرا جوابی پیغام ہے تیرے حضور میں۔ ۴۔ مانا کہ پورا عالمِ وجود تیرا ہی مظہر ہے، مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جذبۂ عشق میںجو میرے حرف حرف کے اندر سمایا ہواہے، کس کا ظہور ہے؟ تیرا یا میرا یا دونوں کا؟ کہیں ایسا تو نہیںکہ محبت ہی نے تجھے بھی ظاہرکیا اور مجھے بھی مراد تک پہنچایا۔ ’حرفِ شیریں‘ کی مراد تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے راستا صحیح چنا لیکن ظاہر ہے وہاں تک نہیں پہنچ سکے جہاں تک پہنچنا چاہیے تھا۔ انھوں نے ’حرفِ شیریں‘ کو تجربات کے خوب صورت اظہار تک محدود کردیا۔حالانکہ یہ عاشق کا وہ خطاب ہے جو محبوب کے لیے ہو اور اسے خوش کردے۔ ۱۲ اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا ’’اے خدا تیری دنیا کی چمک دمک جس ستارے کی روشنی سے قائم ہے وہ ستارہ انسان ہی ہے۔ دنیا تو انسان سے پہلے بھی موجود تھی مگر سنسان اور ویران تھی۔انسان نے دنیا میں آکر اسے خوب صورت بنایا اور آباد کیا۔ اگر انسان مٹ گیا یااس کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں جاتی رہیں تو یہ دنیاپھر سے ویران ہو کر تاریک سیّارے میں بدل جائے گی۔گویا انسان کا زوال دنیا کا زوال ثابت ہوگا اور یہ دراصل خدا کا نقصان ہوگا کیوں کہ اس کی بنائی ہوئی دنیاانحطاط پذیر ہو جائے گی۔‘‘ ص۔ ۱۱ تجزیہ: نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب تبصرہ: اتنا خوب صورت شعر اس سطحِ تفہیم پر اتر کر ایک عام سی بات بن کر رہ گیاہے۔ معمولی الفاظ کسی بڑے معنی کو سکیڑ کر ایک ناقابلِ التفات مفہوم سے بدل دیتے ہیں۔ یہ مفہوم خواہ درست ہی کیوں نہ ہو، اس معنویت سے نسبت او رمطابقت سے محروم ہو جاتا ہے جو گویا معنی کا اصل پیکر ہے۔ شعر کی معنویت کو اس کے فکری اور جمالیاتی درو بست سے منقطع کرکے محض ایک سیدھی سی بات بنا دینے کا یہ عمل شاعری کے نظامِ فہم اور آدابِ ذوق سے بری طرح متصادم ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر سمجھائے جانے سے زیادہ دکھائے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کی شرح کوکب= ستارہ اور زیاں= نقصان کی نہج پرنہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ شعر خوب صورتی کی جیسی وسعت اور پیچیدگی رکھتا ہے اسے کھولا جائے۔ ’کوکب‘ اور ’آدمِ خاکی‘ میں کئی نسبتیں ہیں انھیں دریافت کیے بغیراس شعر پر کسی بامعنی گفتگو کا ڈول نہیںڈالا جا سکتا۔ ۱۔ اسی طرح ’زوال‘ کوکب اور آدمِ خاکی کے ساتھ ایک دُہری مگر پیچیدہ نسبت رکھتا ہے۔ اس کا ادراک بھی ضروری ہے ورنہ یہ شعر لغات کھنگالنے کے باوجو دبند دروازے کی طرح رہے گا۔ مثال کے طورپر: ۱۔ ’کوکب‘ یعنی ستارئہ بزرگ ستاروں کی دنیامیں وہی مرکزی حیثیت رکھتا ہے جو موجودات کے عالم میں ’آدم خاکی‘ کوحاصل ہے۔ ۲۔ آدمِ خاکی کو ’کوکب‘ کہنے کے بعد ’کوکب‘کا نوری/ سماوی ہونا محذوف کرکے اور ’آدم‘ کے ’خاکی‘ ہونے کی تصریح کرکے کئی نکتے پیدا کیے گئے ہیں۔ ۱:۲۔ ’کوکب‘ صرف آسمانی ہے جب کہ ’آدم‘ محض ’خاکی‘ نہیں ہے۔ ۲:۲۔ انسان صورتاً خاکی اور حقیقتاً سماوی ہے۔ ۳:۲۔ ’خاکی‘ ہونا انسان کی جہتِ ادنیٰ ہے اور اس کا بھی یہ مرتبہ ہے کہ سماویات اس سے کمتر ہیں۔ یعنی اس کا ’خاکی‘ ہونا بھی دوسروں کے آسمانی ہونے سے افضل ہے۔ ۴:۲۔ یہاں ایک اصول برت کر دکھایا گیا ہے۔ کسی چیزکا شرف اس وقت کلّی، مطلق اور حقیقی مانا جائے گا جب اس کی تعریف (definition) کا ادنیٰ جز بھی مقابل کی اعلیٰ جہت سے برتر ثابت ہو جائے گا۔ ۵:۲۔ انسان، معنی کے ارضی سیاق وسباق میںبھی کائنات کے آخری حدود تک رسائی رکھتا ہے، کیوں کہ وہ ’خاکی‘ ہونے کی حالت میں ’کوکب‘ بھی ہے۔ ۶:۲۔ آسماں، تقدیر کا محل ہے اور ’کوکب‘ اس کا ترجمان، اسی طرح زمین، تاریخ کی کارگاہ ہے اور ’آدم‘ اس کا مظہر۔ ’آدم‘ کو ’کوکب‘ کہ کر یہ دکھایا گیا ہے کہ انسان نے تقدیر اور تاریخ کو ایک کردیا ہے۔ ۱۳ گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر ’’اے محبت اپنے خوب صورت گیسوئوں کو اور زیادہ خوب صورت بنا تاکہ میں ان گیسوئوں کے جال سے کبھی باہر نہ نکل سکوں۔ اس طرح تو میری ہوش، عقل، دل اور نظر کو شکار کر لے تاکہ میں ہمیشہ کے لیے تیرا اسیرہو جائوں۔ صوفیانہ شاعری میں خدا کو عموماًدنیوی محبوب کے روپ میں ظاہر کیاجاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام خصوصیات وابستہ کر دی جاتی ہے جو محبوبِ مجازی کے لوازم میں ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ لوگ عشقِ حقیقی کو پہچان کر عشقِ مجازی کے تجربات کی روشنی میں بہتر طور پرسمجھ سکتے ہیں۔‘‘ اقبال کا تخاطب یہاں اﷲ سے ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا کے ساتھ اس کا تعلق ہمیشہ مضبوط رہے اور اﷲ کی ذات میں ہمیشہ اسے اتنی کشش محسوس ہو کہ وہ اسی کا ہو کر رہ جائے۔‘‘ ص۔ ۱۱ تجزیہ: نامکمل اور سطحی شرح، غیر موزوں اسلوب، عرفانی دائرے کی مصطلحات سے بے توجہی تبصرہ: ’گیسو‘ اور ان کی ’تابداری‘، ’ہوش‘، ’خرد‘، ’قلب‘، ’نظر‘ یہ سب بہت بنیادی اصطلاحات ہیں۔ ان اصطلاحات کے فہم پر شعر کی معنویت کا حصول موقوف ہے۔ ’گیسو‘ وہ شانِ اخفا ہے جو جمال کے معنی کو اس کی صورت پر غالب رکھتی ہے تاکہ محدودیت کا نقص نہ پیدا ہو۔ ’گیسوئے تابدار‘ سے مراد ہے: ۱۔ تجلیِ جمال جو شانِ تنریہ کے منافی نہ ہو۔ ۲۔ مخفی کو مخفی تر اور ظاہر کو ظاہر تر کرنے والی تجلی۔ ۳۔ کششِ الہیہ کا وہ درجہ جہاں حصول بھی یقینی ہے اور بے حصولی بھی۔ یہاں قرب کا نشاط اور اٹل دوری کا قلق ایک کیفیت میں ڈھل جاتاہے۔ ۴۔ وہ تجلی جس سے ظہور وخفا اور جمال وجلال کی عینیت کا انکشاف ہوتا ہے۔ ۵۔ ذات کا پردۂ جمال ایک گیسوئے تابدار میں عرفانی عشقیہ شاعری کے تناظر میں اتنی معنوی جہتیں پائی جاتی ہیں اور یہ سب کی سب اس شعر میں کار فرما ہیں۔ اسی طرح دیگر کلمات کو دیکھ لیناچاہیے۔ ۱۔ ہوش وخرد ہوش سے مراد ہے شعور جو حواسِ خمسہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس شعور کی ترقی یافتہ صورت کو عقل (یعنی خرد) سے تعبیر کرتے ہیں۔ (شرحِ بالِ جبریل، یوسف سلیم چشتی، ص ۔۹۷) ۲:۱۔ اپنا احساس اور دوسرے کی خبر۔ ’ہوش‘ سے مراد ہے یہ احساس کہ میں ہوںاور ’خرد‘ سے مراد ہے یہ شعور کہ کائنات ہے۔ ۳:۲۔ ہوش کا تعلق حس اور حال سے ہے اور ’خرد‘ کا ذہن اور استدلال سے۔ ۴:۲۔ ’ہوش وخرد شکار کر‘ کا مطلب ہے حبِ عقلی عطا فرما۔ ۲۔ قلب ونظر ۱:۲، دل جو محبوب کی معرفت کے لیے ہے او رچشمِ دل جو محبوب کے دیدار کے لیے ہے۔ ۲:۲، ’نظر‘ اگر فکر کے ساتھ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوں گے استدلال اور خیال، اور اگر قلب کے ساتھ ہو تو اس سے مراد یا تو صرف آنکھ ہوگی یا ’چشمِ دل‘۔ اہلِ منطق نے ’فکر‘ کو جنس اور ’نظر‘ کو اس کا فصل قرار دیا ہے، یہی اصول قلب ونظر پر بھی وارد ہوتا ہے۔ نظر کو قلب کی ایک استعداد سمجھنا چاہیے۔ ۳:۲، ’قلب ونظر شکار کر‘یعنی حبِ عشقی عطا فرما۔ ان تشریحات کی روشنی میں اب شعر کے مرکزی مضمون کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ اے اﷲ مجھے حبِ عقلی عطافرما تاکہ تیری معرفت نصیب ہو جائے اور حبِ عشقی نصیب فرما تاکہ تیری محبت میسر آجائے۔ لیکن شعر کا بنیادی مضمون متعین کرنے کا چلن ابتدائی سطح پر ہی کارآمد ہے۔ شعر کو اس کی تمام تفصیلات میں دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور سب سے پہلے اس کے جمالیاتی مرکز تک پہنچنے کا سامان کرنا چاہیے، مثلاً تابدار ایک عام سا محدود المفاہیم لفظ ہے۔ اقبال نے اس لفظ کو محض مروّجہ مفاہیم میںرکھتے ہوئے ایک ایسی فضا بنا کر استعمال کیا ہے کہ اس میںتنوعِ معنی سمٹ آیاہے۔ ’گیسوئے تابدار‘ گھنگریالے بالوں کوکہتے ہیں جن میں ایک قدرتی چمک بھی ہو۔ ان کا حلقہ در حلقہ اور چمک دار ہونا اس دلالت تک لے جاتا ہے کہ ہر تجلیِ جمال اپنے ناظر کو بندگی کا ایک نیا طوق بھی پہنا دیتی ہے، یعنی مشاہدۂ جمال بندگی میں تسلسل، تنوع اور ترقی کا موجب ہے۔ ۱۴ عشق بھی ہو، حجاب بھی، حسن بھی ہو حجاب بھی یاتو خود آشکار ہو، یامجھے آشکار کر ’’پہلا مصرع استعجابیہ ہے۔ یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ عشق بھی پردے میں ہو اور حسن بھی چھپا ہوا ہو۔ اگر حسن اور عشق دونوںپردے میں ہوں گے تو عشق میں شدت کس طرح پیدا ہوگی؟ اگر زیادہ عرصے تک حسن وعشق ایک دوسرے سے مخفی رہیں گے تو عشق زوال پذیر ہو جائے گا۔ اس لیے اے محبوب! یا تو خود پردے سے باہر آکر اپنا جلوہ مجھے دکھا دے یا مجھے پردے سے باہر نکال اور میرے عشق میں شدت پیدا کردے، تاکہ میرا اور تیرا تعلق دائمی حیثیت اختیار کر لے۔ اس شعر میںاقبال نے اﷲ سے دائمی محبت رکھنے کی خواہش کی ہے۔ ‘‘ ص۔ ۱۱، ۱۲ تجزیہ: نامکمل اور سطحی تفہیم، ناپختہ اسلوب تبصرہ: اس شعر کی کوئی تفہیم اس نکتے کو نظرانداز کرکے ممکن نہیں ہے کہ: دونوں میں سے کوئی آشکار ہو جائے نتیجہ ایک ہی ہے۔ حسن ظاہر ہوگیا تو گویا عشق پردے سے نکل آیا اور عشق آشکار ہو گیا تو گویا حسن کا ظہور ہوگیا۔ مطالبہ یہ ہے کہ خدا یا! خود کو ظاہر کر دے تاکہ مجھے پورا اظہار مل جائے یا میری حقیقت کو آشکار کر دے تاکہ تو پوشیدہ نہ رہے۔ دوسرا لائقِ اعتبار مفہوم یہ ہے کہ بارِ الہٰ! یا تو خود کوظاہر کر دے اور مجھے چھپا رہنے دے یا مجھے ظاہر کر دے اور خود کو چھپا رہنے دے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور ہونی چاہیے ورنہ کارخانۂ وجود بے معنی ہے اور بے اصل۔ اس شعر میں اقبال نے عشق کووحدت الوجود کی گرفت سے نکالا ہے اور بقا، امتیاز اور غیریت کی اساس بنایا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی تو اس شرح میں نہیں۔ جو کچھ ہے بھی وہ بھی بے احتیاطی سے بیان ہوئی ہے۔ ۱۵ تو ہے محیطِ بے کراں میںہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہم کنار کر، یا مجھے بے کنار کر ’’اے خدا تیری ہستی ایک ایسے وسیع سمندر کی طرح ہے جس کا کنارہ نہ ہو، جب کہ میں تیرے سامنے ایک حقیر ندی کی طرح ہوں۔ وسیع سمندر کے سامنے چھوٹی سی ندی کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے! اس لیے میں تجھ سے گزارش کرتا ہوں کہ یا تو مجھے اپنے ساتھ ملالے، ورنہ مجھے بے حد وسیع کردے تاکہ میں تجھ سے جاملوں۔ غرض دونوں صورتوں میںمقصد یہ ہے کہ میری ذات کی ندی خدا کی ذات کے محیطِ بے کراں میںمل جائے۔ ان اشعار میں اقبال ایک صوفی دکھائی دیتا ہے اور خدا کی ذات سے مل جانے کو اپنا مطمحِ نظرقراردے رہا ہے۔‘‘ ص۔ ۱۲ تجزیہ: نامکمل تفہیم، تصوف کی علمیات سے بے توجہی تبصرہ: یہاں خواجہ صاحب نے ایک نکتہ نکالا ہے جس سے شعر میں معنویت کی ایک تازہ پرت کا انکشاف ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ بڑی باتوں کو بہت گرا کربیان کرنا اور خود اپنی ہی کہی ہوئی بات کو درست نتیجے تک نہ پہنچنے دینا! یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ ہم کناری ہو یا بے کناری، ’’دونوں صورتوں میں مقصد یہ ہے کہ میری ذات کی ندی خدا کی ذات کے محیطِ بے کراں میں مل جائے‘‘ لیکن اس بات کو کہنے کا معیاری طریقہ یہ تھا کہ دو ذاتیں ایک دوسرے کے تقابل میںلامحدود نہیں ہو سکتیں۔ تقابل کیا ویسے ہی دو وجود لا محدود نہیں ہو سکتے۔ لامحدود ہمیشہ ایک ہوگا۔ اس شعر میں سے یہ قرینہ ضرور نکلتا ہے کہ لا محدودیت کی آرزو دراصل حقیقی لامحدود میں گم ہو جانے کی تمنا سے ظاہر ہے۔ محدود، لامحدودیت کے اقتضا کامتحمل نہیں ہو سکتا، اور وہ شعور جوان دونوں کے فرق کو جانتا ہے اس کے لیے یہ تقاضا اس لیے محال اور لایعنی ہے کہ اس اقتضا کی تکمیل ہستی کے کسی نظام میںممکن نہیں۔ محدود کبھی لامحدودیت کو نہیں پا سکتا۔ کیوں کہ یہ شعور انسان کا خاصہ ہے، لہٰذا اس شعر میں بے کناری کی طلب کو عمومی نہج سے الگ کرکے دیکھا جائے گا اور اس مطالبے سے نکلنے والے فوری مفہوم کو شعر کی مراد نہیں بنایا جائے گا۔ یوں بھی اس شعر میں جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں معانی کی ساخت محض لفظی اور محض ذہنی نہیں رہتی بلکہ جمالیاتی ہو جاتی ہے۔ حقائق کی معنوی تشکیل کا یہی انداز ہے جس سے ورائے عقل امور میں ایک رنگِ حضور پیدا ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد ’’ان اشعار میں اقبال ایک صوفی دکھائی دیتا ہے اور خدا کی ذات سے مل جانے کو اپنا مطمعِ نظر قراردے رہاہے‘‘ اس لیے ناقابلِ قبول ہے کہ ہم کناری ہو یا بے کناری، دونوں حالتیں عام مفہوم میں خدا میں ضم ہو جانے کی ہیں۔ انسان خدا سے ہم کنار ہو جائے یا اس کی طرح بے کنار بن جائے، نتیجہ ایک ہی ہے۔ زیرِ نظر شعر میں ’یا‘ کے ذریعے سے دونوں میں مکمل امتیاز قائم کیا گیا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اقبال کہ یہ رہے ہیں کہ اے اﷲ! یا تو مجھے اپنی ذات میں سمولے یا پھر مجھے بھی وہ وجود عطافرما جو غیر متناہی امکانات کا حامل ہو اور تیرے ہی وجود کی طرح حقیقی ہو۔ اس خواہش کا پہلا ٹکڑا دراصل خواہش میں شامل نہیں ہے۔ ’یا‘ کا حرف بیچ میں آکر انتہائی نامطلوب اور انتہائی مطلوب کو ایک فقرے میں جمع کر دیتا ہے۔ خدا سے ہم کنار ہونا ’نامطلوب‘ ہے او ربے کنار ہونا ’مطلوب‘۔ یہاں یہ اشکال پید اہوسکتا ہے کہ ’بے کناری‘ کی آرزو اگر خدا میں مدغم ہو جانے پر دلالت نہیں کرتی تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرا خدا بننے کی تمنا کی جا رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شے کی تعریف اس کے ثابت شدہ وجود کے مرتبے کی رعایت سے کی جاتی ہے۔ خدا کی واقعی ’بے کرانی‘ کا مفہوم وہ نہیں ہو سکتا جو انسان کی متصورہ ’بے کناری‘ میں پایا جاتا ہے۔ انسان میں ’بے کناری‘ کی خواہش کا مطلب اس سے زیادہ نہیں کہ میں اپنے موجودہ حدودِ ہستی کو توڑنا چاہتا ہوں اور اپنے تمام امکاناتِ وجود کو عمل میں لانے کا طالب ہوں۔ اقبال ان شاعروں میں سے نہیں ہیں جوبات سوجھنے کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ ایک باقاعدہ فکر کے حامل ہیں اور ان کے شعر میںبھی مضمون ان کے شعور اور ذہن کی چھلنی سے گزر کر سامنے آتا ہے۔ وہ بھلا ’خدا کی ذات سے مل جانے‘ کو اپنا مطمحِ نظر بنا سکتے ہیں؟ امید ہے اب یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ اِس شعر کے بارے میں یوں کہنا چاہیے کہ: اس شعر میں اقبال نے وجودِ انسانی کی غیرمحدود توسیع اور اس کی actualisation کا تصور پیش کیا ہے، یعنی انسان موجود کی حیثیت سے حقیقی ہے نہ کہ ’اعتباری‘، اور استعدادِ وجود کی جہت سے غیر محدود ہے نہ کہ محدود۔ ۱۶ میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو میں ہوں خذف تو، تو مجھے گوہرِ شاہوار کر ’’اے خدا میں ایک سیپی کی طرح ہوں اور اس سیپی کے موتی کی حفاظت اور پرورش کا تو ہی ذمہ دار ہے اور تو ہی اسے لٹنے سے بچا سکتا ہے ورنہ کوئی بھی اس موتی کو لوٹ کر صدف کو بے آبرو کرسکتاہے۔ لیکن اگر میں کم قیمت مٹی کا ٹھیکرا ہوں تو بھی تو اسے ایسے قیمتی موتی میں تبدیل کر سکتا ہے جو بادشاہوں کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہو۔ دوسرے لفظوں میں اگر میری کوئی قیمت ہے تو یہ تیری مہربانی سے ہے اور اگر میری کوئی حیثیت نہیںہے تو میں تیری ہی توجہ سے صاحبِ حیثیت بن سکتاہوں۔‘‘ ص۔ ۱۲ تجزیہ: سطحی تشریح، غیر موزوں اسلوب تبصرہ: کیوں کہ اس شعر کی تفہیم میں غلطی کا سرے سے امکان ہی نہیں تھا، لہٰذا شرح میں غلطی تو نہیں ہے مگر اس کی زبان عجیب سی ہے جس سے وہ نقائص پیداہوگئے ہیں جن سے بچنا صحتِ فہم کے حصول سے زیادہ ضروری ہے۔ ۱۔ ’’سیپی کے موتی کی حفاظت اور پرورش کا تو ہی ذمہ دار ہے۔‘‘ خیال رہے کہ یہ اﷲ تبارک وتعالیٰ سے کہا جارہا ہے۔ ۲۔ ’’توہی اسے لٹنے سے بچا سکتا ہے ورنہ کوئی بھی اس موتی کو لوٹ کر صدف کو بے آبرو کرسکتا ہے۔‘‘ اپنے گہر کی آبرو کے سلسلے میں اقبال کی فکر مندی اگر اس سطح تک گرسکتی تو وہ اقبال ہرگز نہ ہوتے۔ ’بے آبرو‘ کا لفظ بتا رہا ہے کہ محترم شارح کے ذہن میں ’آبرو‘ کا کیاتصور ہے! ۱۷ نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو اِس دمِ نیم سوز کو طائرکِ بہار کر ’’اس شعر میں نوبہار سے مراد اسلام کی نشاۃ الثانیہ یا عروجِ نوہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام دنیا میں پھر زندہ ہوگا اور اس کے اُجڑے ہوئے باغ میں دوبارہ بہار آئے گی لیکن مجھے اس کا یقین نہیں ہے کہ میں اس بہارکو دیکھنے اور اس کے نغمے سننے تک زندہ رہوں گا۔ اگرچہ میں آدھی زندگی گزار چکا ہوں لیکن خدا سے التجا کرتاہوں کہ میرے کلام کو اتنا اثر عطا ہو کہ یہ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کا ذریعہ بن جائے۔ اگر میری شاعری سے مسلمانوں کو اسلام کے باغ میں آنے والی نوبہار کا پیغام ہی مل جائے تو میں سمجھوں گا کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔‘‘ ص۔ ۱۳ تجزیہ: سطحی تشریح، سطحی اسلوب تبصرہ: یہاں بھی مضمون واحد ہے، بات کو نیچے لانے کا عمل اسی طرح جاری ہے۔ شعر صاف اور سیدھا ہے لیکن پھربھی ایک بڑے شاعر کا کہا ہوا ہے، اس کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔ ’نغمۂ نوبہار، دمِ نیم سوز‘ اور ’طائرکِ بہار‘ میں ایک واضح معنی کو تہ دار اور خوب صورت بنانے کی جو قوت پوشیدہ ہے اس کی طرف اشارہ کرنا ضروری تھا جو حسبِ معمول نہیں کیاگیا۔ ۱۸ باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظارکر ’’یہ شعر غزل کے مزاج سے ہٹا ہوا ہے۔ بہرحال یہ غزل کا عیب نہیں ہے کیوں کہ ابتدا ہی سے صنفِغزل میں ریزہ خیالی عام ہے۔ اس شعر میں اقبال خدا سے گلہ گزار ہیں کہ خدا نے انسان کو بہشت کے باغ سے نکال کر دنیامیں پھینک دیا۔ دنیا میں بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ لاتعداد الجھنوں میں مبتلا ہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس کی مصروفیات اسے دنیا کے کاموں سے اتنی فرصت دیں کہ وہ خدا کی طرف متوجہ ہو سکے۔ دراصل انسان مرکر ہی دنیا کے دھندوں سے فارغ ہوتا ہے اس لیے اب خدا کو اس بات کا طویل انتظار کرنا پڑے گا کہ کب انسان فارغ ہو اور کب اس کی طرف رجوع کرے۔ شعر میں اشارہ یہ ہے کہ یہ انتظار ہر انسان کی موت تک رہے گا۔‘‘ ص۔۱۳ تجزیہ: تفہیم نامکمل اور غلط تبصرہ: ۱۔ یہ شعر غزل کے مزاج سے ہٹا ہوا نہیں ہے۔ اﷲ کے سامنے انسان اپنی حقیقت، تقدیر، غایت اور وجود پر کلام کر رہاہے۔ دنیا کا مذکور ہونا ضروری تھا ورنہ یہ دائرہ، یعنی انسان کی مجموعیت کا دائرہ مکمل نہ ہوتا۔ ۲۔ اس غزل میں کوئی ریزہ خیالی نہیں ہے۔ایک theme مسلسل اور مربوط طریقے سے تکمیل دیا گیاہے۔ ۳۔ ’کارِ جہاں کی درازی‘ کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو چاند رات کو خیاطوں کے ذہن پر چھایاہوتا ہے۔ ’کارِ جہاں‘ سے مراد ’دنیاکے دھندے‘ نہیں ہیں بلکہ کائنات کی تسخیر، تعمیر، تدبیر وغیرہ جو انسان کے ذمے ہے۔ ۴۔ ’’خدا کو طویل انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ شعر میں خدا کو اتنے ان گھڑ طریقے سے انتظار میںنہیں ڈالا گیا۔ تفہیم میں یا تو خدا کو انتظار کروانے کی تعلّی پر ڈھنگ سے گرفت کی جانی چاہیے تھی یا اس کی کوئی ایسی تاویل ہونی چاہیے تھی کہ پڑھنے والا گستاخی کے تاثر سے نکل آتا، اس تشریح نے تو اس تاثر کو اور ہوا دے دی۔ ۵۔ ’’یہ انتظار ہر انسا ن کی موت تک رہے گا‘‘گویا معاذ اﷲ موت خدا کے اختیار سے باہر ہے! ۱۹ روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر ’’شعر کامطلب یہ ہے کہ اکثر انسانوں کا اعمال نامہ اتناسیاہ ہوگا کہ وہ اسے دیکھ کر خودہی شرم سے پانی پانی ہو جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ خدا کیوں شرمندہ ہوگا؟ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ خدا اپنی تخلیق یعنی حضرتِ انسان کے سیاہ کارناموں پر ندامت محسوس کرے گا… دراصل اس شعر کے اندازِ بیاں سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ مطلب فقط یہ بتانا ہے کہ عموماً انسان بہت گناہ گار ہوتے ہیں لیکن اپنے گناہوں کا احساس قیامت کے دن اعمال نامہ دیکھ کر ہی ہوگا۔‘‘ ص۔ ۱۴ تجزیہ: نامکمل اور عامیانہ تفہیم، نامناسب اسلوب تبصرہ: تفہیمِ بالِ جبریل میں شرح کا معیار اتنی مستقل مزاجی اور استقامت سے برقرار رکھا گیاہے کہ تنقید اور اعتراض کی یکسانی سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ ایک ہی طرح کی غلطیوں پر تنقید کرنے والا ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی مشکل میںپھنس جاتاہے۔ بہرحال اس شعر کی شرح کا نقص بھی وہی ہے جو ساری کتاب میںکارفرما ہے۔ شعر کو بری نثر میں ترجمہ کر دینا اور اس کے الفاظ کو سب سے نچلی سطح کے مفہوم میں صرف کردکھانا! ۱۔ ’’(مرے اعمال نامے میں) اتنے گناہ درج ہوں گے…‘‘ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اعمال نامہ بالکل کورا ہو۔ ۲۔ ’’شاعری میں عموماً ’میں‘ اور ’میرا‘ سے مراد کسی ایک شخص کی ذات نہیں ہوتی بلکہ بحیثیتِ مجموعی انسان مرادہوتے ہیں‘‘۔ اس انتہائی اہم نکتے کی بار بار نشاندہی کا شکریہ! پوری شرح میں زیادہ سے زیادہ ایسے ہی دقائق کھولے گئے ہیں۔ ۳۔ ’’اب سوال یہ ہے کہ خدا کیوں شرمندہ ہوگا؟ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خدا اپنی تخلیق حضرتِ انسان کے سیاہ کارناموں پر ندامت محسوس کرے گا‘‘۔ اﷲ کا ندامت محسوس کرنا اﷲ کو نہ ماننے والے کے دماغ میں بھی نہیں آسکتا۔ اس انتہائی فضول غلطی میںکچھ دخل اس شعر کا بھی ہے لیکن باقی کارنامہ شارح کا ہے۔ شرمساری، خصوصاً خدا کے حوالے سے، ندامت محسوس کرنا ہرگز نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی کی غلطی پر اسے ذلیل کرنے کے بجائے اسے دیکھنے سے بھی اس لیے گریز کرنا کہ وہ شرمندہ نہ ہو۔ خدا کا شرمسار ہونا اس کی شفقت ورحمت کامظہر ہے جیسا کہ خود خواجہ صاحب نے سعدی کے شعر سے اخذ کیا ہے: کرم بین و لطف خداوند گار گناہ بندہ کردہ است و او شرمسار ۴۔ دفترِ عمل پر شرمساری کو محض کثرتِ گناہ سے مشروط کر دینا ٹھیک نہیں ہے۔ زیادہ قوی قرینہ یہ ہے کہ بے عملی موجبِ شرمندگی بنے گی۔ فرہنگ کی سطح بھی یہی ہے۔ لفظ کو اس کے معمولی ترین مفہوم تک محدود کر دینے کا عمل وہاں بھی جاری ہے۔ تمام اندراجات کا تو جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ سرِدست چند ایک پر ہی گفتگو کیے لیتے ہیں۔ نوائے شوق ’’وہ آرزو جو جذبۂ عشق کی وجہ سے بلند کی جائے۔‘‘ ص۔ ۵ اقبال کے ہاں بالخصوص، اور عرفانی روایت میں بالعموم، عشق انسانی جذبات میں سے کوئی خاص جذبہ نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی اصل ہے جس سے انسانیت کے تمام حقائق متعین ہوکر علم اور عمل میں آتے ہیں۔ ’نوائے شوق‘ اس کا اظہار ہے۔ باقی تفصیل اوپرآچکی ہے۔ حریمِ ذات ’’خدا کے رہنے کی جگہ، عرش‘‘ ص۔ ۵ اس کی تصحیح بھی اوپر ہو گزری ہے۔ ’خدا کے رہنے کی جگہ‘ سخت قابلِ اعتراض فقرہ ہے۔ روز مرہ کلام کی سطح پر تو شاید اس طرح کی باتیں چل جائیں لیکن ایک اصطلاح کی تفہیم میں ایسے کلمات گمراہ کن ہیں۔ ’لامکاں‘ تو ظاہر میں بھی ’جگہ‘ کاضد ہے، کم از کم اتنا ہی دیکھ لیاجاتا، اس طرح ’عرش‘ بھی لامکاں نہیں ہے بلکہ مقامِ استوا ہے اور اس کی نسبت صفات کے ساتھ ہے نہ کہ ذات کے ساتھ۔ بت کدۂ صفات ’’چونکہ خداکسی بھی چیزسے مشابہت نہیں رکھتا، اس لیے ہم اسے مادی آنکھوں سے نہیںدیکھ سکتے۔ فقط صفاتی ناموں مثلاً رحیم،کریم، ستّار، غفّار کی مدد سے اس کا تصور قائم کر لیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ تصورات ہمارے ذہن میں بتوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور خدا کی حقیقی پہچان میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۵ سراسر غلط ہے۔ اس اصطلاح کی درست شرح تبصرے میں بیان ہوچکی ہے، وہیں دیکھ لی جائے۔ ذات وصفات کی عینیت اور غیریت کا مبحث مشہورہے۔ خواجہ صاحب نے اُس طرف توجہ ہی نہیں کی۔ (دیر وحرم کی) نقش بند ’’خالق، بنانے والا، صانع، یہاں مراد ہے کعبہ وسومنات کے ماننے والے یعنی عبادت گاہوں کے متولّی۔‘‘ ص۔۶ گویا میری جستجو دیر وحرم کی متولّی ہے! اس بات کی غلطی اتنی ظاہر ہے کہ تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیںہوتی۔ بہرحال ’نقش بند‘ خیال کو مجسم کرنے والے کے معنی میں آیا ہے۔ دلِ وجود ’’کائنات کا باطن، مراد ہے کائنات کے چھپے ہوئے اسرار۔‘‘ ص۔۷ یہ مطلب بالکل غلط تو نہیں ہے لیکن ناقص ہے۔ شبہ ہے کہ ’کائنات‘ سے محض فزکس کی کائنات مرادلی گئی ہے۔لہٰذا یہ تصریح ضروری ہے کہ ’دلِ وجود‘ حقیقتِ ہستی تک رسائی کے آخری نقطے کو کہا گیا ہے جس میں اسرارِ کائنات وغیرہ خود بخود شامل ہیں۔ ہنگامہ ہائے شوق ’’وہ ہنگامے ہیں جو عشاق عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر برپا کرتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۸ یہاں ’ہنگامہ ہائے شوق‘ سے مراد ہے عشق اوراس کا سلسلۂ اظہار۔ لامکاں چونکہ ظہور اور دوئی سے ماورا ہے اس لیے وہاں عشق کا وجود محال ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، باقی شعر جس مضمون پرمبنی ہے، وہ نرا شاعرانہ ہے اور عرفانی روایت سے باہر کی چیز ہے۔ لذتِ ایجاد ’’کسی نئی چیزکی دریافت یا ساخت کا لطف، یہاں مطلب یہ ہے کہ انسان جب کوئی نئی چیز بناتا یا دریافت کرتا ہے تو اس سے بہت لطف اندوز ہوتا ہے، یعنی ایجاد باعثِ لذت ہوتی ہے۔‘‘ ص۔ ۱۵ اس طرح کی غلطیاں صاحبانِ علم سے سرزد ہونے لگیں تو آدمی علم وادب کے مستقبل ہی نہیں بلکہ حال سے بھی مایوس ہو جاتاہے۔بہرحال ’لذتِ ایجاد‘ کا مطلب ہے اﷲ کا ذوقِ تخلیق۔ خدا جانے خواجہ صاحب نے اس عجیب وغریب غلط فہمی تک پہنچنے کا راستہ کیسے ایجاد کیا! مقامِ شوق ’’وہ مقام جو بڑی لگن سے حاصل کیا جائے۔‘‘ ص۔ ۱۷ خواجہ صاحب کی لذتِ ایجاد، یہاں بھی اسی زور شور سے جاری ہے۔ ’مقامِ شوق‘ یعنی مرتبۂ عشق کا یہ مطلب زبان کے کسی معلوم قاعدے سے تو نکالا نہیں جاسکتا، ہاں اپنی طرف سے کوئی طریقہ گھڑ لیاجائے تو الگ بات ہے۔ خود نگہداری ’’مراد ہے ذاتی مفادات کی حفاظت۔‘‘ ص۔ ۲۰ صحیح مطلب: اپنے آپ میں مگن رہنا۔ خود میں مبتلاہو جانا، خود کو عشق میںلازماً آنے والی آزمائشوں سے محفوظ رکھنا، خودی کی نچلی سطح تک محدود ہو جانا، خودی کی حقیقت یعنی خدا سے غافل اور لاتعلق رہنا، انفرادی خودی کواجتماعی خودی میںضم نہ ہونے دینا۔ صوفی وملاّ ’’تاریخِ اسلام میں صوفیہ ظاہری عبادات کے مخالف اور روحانی واردات کے علم بردار تھے، جب کہ ملاّ روحانی واردات سے دامن کش اورظاہری عبادات پرزور دیتے رہے۔ دونوں گروہوں کے پیروکار اپنے بزرگوں کے راستوں سے سرِمو تجاوز نہیں کرتے اور تقلیدی ذہنیت کی وجہ سے اپنے اپنے مسلک پرآنکھیں بند کرکے چلتے رہتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۲۶ اگر ’تحقیقی ذہنیت‘ کے ساتھ آنکھیںکھول کر چلنے کا یہ نتیجہ ہے تو تقلیدی ذہنیت ہی بھلی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ صوفی وملاّ کب پائے جاتے تھے، کہاں پائے جاتے تھے! (تیغِ) جگردار ’’جگررکھنے والی، مضبوط۔‘‘ ص۔ ۲۶ ’جگر رکھنے والی تلوار‘ ایک مہمل بیان ہے، درست مطلب: تیزاور چمکتی تلوار جس کی کاٹ کبھی کم نہ ہو۔ ماہِ تمام ’’مراد روحانی روشنی ۔‘‘ ص۔ ۲۷ صحیح مراد: اصلِ جمال، منبعِ کمالات، ہدایت ورحمت عالمِ من وتو ’’زندگی کی عام کیفیت جس میں انسان اپنی ذات اور دوسروں کی ذات کو الگ الگ تصور کرتاہے۔‘‘ ص۔ ۲۸ اس سطحِ فہم تک اُتر آنے کی وجہ سے شعر کی تشریح میں ڈاکٹر صاحب کو بے معنی بات لکھنی پڑی کہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مجھے اپنی تجلیات اس طرح دکھائیں کہ میری اور اس کی ذات ایک ہوگئی‘‘ ص۔ ۲۸ استغفر اﷲ، دینی نقصان تو جو ہواسو ہوا، شعر غارت ہو کر رہ گیا۔ بہرکیف صحیح اورنسبتاً مکمل مطالب درجِ ذیل ہیں: ۱۔ ’میں‘ اور ’تو‘ کی دنیا ۲۔ کثرت اور امتیاز کا عالم، ماسویٰ اﷲ کا جہان ۳۔ عقل کی دنیا جہاں چیزیں انفرادی تعین اور تشخص میں محصور ہیں اور اس ہمہ گیر وحدت سے محروم ہیں جوشرطِ وجود ہے، بلکہ خود وجود۔ ۴۔ عالمِ فراق ۵۔ خیال، اعتبار اور وہم کا ایجادکردہ عالم ۶۔ ذہنی اور علمی تعینات اور تحدیدات کرشمہ سازی ’’حیرت کامقام، معجزاتی کیفیت۔‘‘ ص۔ ۳۹ حیرت ہے کہ فعل کو مقام اور کیفیت کے مفہوم میں لیا گیا ہے۔ کرشمہ سازی یہاں طلسم بندی کے معنی میںہے، یعنی ظاہر بہت کچھ ہے مگر حقیقت کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ ظہورِ جمال کا مطلب بھی نکلتا ہے جومحبوب کی طرف اشارہ تو کرتا ہے لیکن اُس تک پہنچنے نہیں دیتا، یعنی ایسا اظہار جو اخفا کو برقرار رکھے۔ علم ’’مراد حواس کا علم جو دیکھنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے عقلی علم کہا جاتاہے۔‘‘ ص۔ ۵۷ حواس کاعلم، عقلی علم ہے؟ یعنی محسوسات اور تصوراتِ محض ایک ہیں! نہایت حیرت انگیز۔ یہاں علم سے مراد ہے علمِ شریعت یاعلمِ ظاہر۔ استغنا ’’لفظی مطلب: فارغ ہونا۔ مراد کم از کم ضروریات رکھنا، قناعت ۔‘‘ ص۔ ۵۸ استغنا کا مطلب ہے، دنیا ومافیہا یعنی ماسویٰ اﷲ سے بے نیازی، فقر۔ جذب ومستی ’’جذبۂ عشق جوانسان کا جوہر ہے اور جس سے جبریل (اور فرشتے) محروم ہیں۔‘‘ ص۔ ۵۸ سخت عامیانہ مفہوم ہے۔ جذب، عشق کی وہ حالت ہے جو مقصود کو پانے کی لگن سے پیدا ہوتی ہے، اور مستی وہ کیفیت ہے جو مقصود کو پاکر حاصل ہوتی ہے۔ حصول کا دائرہ خواہ کتنا ہی وسیع ہو جائے مقصود اس سے ماورا رہتا ہے۔ اس لیے جذب بھی مستقل ہے اور مستی بھی۔ طواف ’’اس (خدا) کے اردگرد پھرنا۔‘‘ ص۔ ۵۸ اﷲ کی ذات کوئی وجودِ محدود نہیں ہے۔ اس لیے اس کے اردگرد کا تصور خطرناک غلطی ہے۔ یہاں مراد ہے عرش کا طواف۔ قیصر ’’سیزر کی بگڑی ہوئی شکل۔‘‘ ص۔ ۵۹ سیزر کا معرب نہ کہ بگڑی ہوئی شکل۔ گوہرِ فردا ’’وہ موتی جو مستقبل میں بیش قیمت ثابت ہوگا۔‘‘ ص۔۶۳ صحیح مطلب: مستقبل کا موتی یعنی گوہرِ مراد۔ خس وخاشاک ’’تنکے۔‘‘ ص۔ ۶۴ صحیح مطلب : ۱۔ کوڑا کرکٹ،۲۔ بے حقیقت لوگ جو دنیاکے گھورے پر پلتے ہیں، گرے پڑے بے وقعت دشمن، ۳۔ پست فطرتی کے مظاہر سنائی کے ادب ’’ادب کے یہاں دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ۱۔ سنائی کاکلام اور ۲۔سنائی کا احترام، چنانچہ اس سے شعر میں بھی دو مفہوم پیدا ہوگئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۶۷ جہاں واقعی دو مفہوم ہوتے ہیں وہاں تو خواجہ صاحب ایک بلکہ آدھے پر اکتفا کر لیتے ہیں اور جہاں کسی دوسرے مفہوم کا شائبہ تک نہیں ہوتا وہاں دومفہوم برآمد کر لیتے ہیں۔ ’سنائی کاکلام‘ ایک زبردستی کا مطلب ہے۔ اس شعر میں اس کا کوئی قرینہ موجودنہیں۔ حرفِ راز ’’راز کی باتیں، حیات وکائنات کے راز۔‘‘ ص۔ ۷۰ حرفِ راز، خدائی راز ہے، یہ فقط حیات وکائنات کے راز نہیں ہے بلکہ اس میں الوہیت کے اسرار بھی داخل ہیں۔نفسِ جبریل کی آرزو اسی لیے کی گئی ہے۔ نفسِ جبریل ’’جبریل جتنی طویل زندگی۔‘‘ ص۔ ۷۰ فقرہ بھی غلط اور مطلب بھی نادرست۔ صحیح مفہوم ہے جبریل کی قوتِ اظہار۔ یہاں ان کا روحِ الامین یعنی امینِ حقائق ہونا محذوف ہے۔ نفس سے زندگی مراد لے کر ایسی ہی تعبیر تک پہنچا جا سکتا ہے کہ: ’’اس شعر میں اقبال بتا رہے ہیں کہ ملت سے عشق کی وجہ سے انھوں نے حیات وکائنات کے لیے ایسے بے شمار اسرار سیکھ لیے ہیں جنھیں مختصر عمر میں بتانا ممکن نہیں۔‘‘ ص۔ ۷۰ سرِعیاں ’’وہ راز جو چھپایا گیا ہو مگر اسے ظاہر کرنا مقصود ہو۔‘‘ ص۔ ۷۴ صحیح مطلب: کھلا ہوا بھید، وہ شے جس کی صور ت معلوم ہو اور حقیقت نامعلوم، وہ حقیقت جس کا مخفی ہونا ظاہر ہو۔ بے نیشی ’’یہاں مراد ہے تیزی وتندی سے محرومی۔‘‘ ص۔ ۷۹ صحیح مطلب: کھٹک/ تڑپ / بے قراری کا نہ ہونا۔ نیش ’’زہر۔‘‘ ص۔ ۷۹ صحیح مطلب: چبھن۔ جذب وشوق ’’عشق اور اس میں جذب ہو جانے والی کیفیت۔ ‘‘ ص۔ ۸۲ صحیح مطلب: ۱۔ کشش اور لگن، ۲۔ جذب، یعنی کششِ محبوب کا فعل ہے اور شوق اس کے نتیجے میں عاشق کے اندر پیدا ہونے والا حال۔ لطیفۂ ازلی ’’نفیس اشیا جو ہمیشہ سے ہیں۔ ‘‘ ص۔ ۹۷ خدا جانے یہ مطلب کیسے نکالا گیا ہے۔ بہرکیف لطیفۂ ازلی سے مراد ہے عشق کا ملکۂ اظہار جو ازلی ہے۔ نیاز ’’انکسار۔‘‘ ص۔ ۱۰۱ صحیح مطلب: بندگی / محتاجی جذبِ مسلمانی ’’اسلام سے والہانہ لگائو۔‘‘ ص۔ ۱۱۰ صحیح مطلب: ۱۔ حقیقتِ اسلام اور اس کی کشش جو بندے کی عقل، ارادے اور طبیعت کو اﷲ کی طرف کھینچ لے جاتی ہے، ۲۔ اسلام کا مستقل حال بن جانا۔ ۳۔ حق الیقین رہروِ فرزانہ ’’دنیا کی زندگی گزارنے والا دانا شخص۔‘‘ ص۔ ۱۱۰ صحیح مطلب: ۱۔ عقل مند اور ہوشیار مسافر، ۲۔ حقیقت تک پہنچنے کے لیے عقل پر انحصار کرنے والا۔ آستاں ’’عرشِ خداوندی میں داخلے کا مقام۔‘‘ ص۔ ۱۱۵ یہ مطلب کس طرح اخذ کیا گیا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نوائے پریشاں ’’منتشر خیالات، رنجیدہ جذبات ۔‘‘ ص۔ ۱۳۹ صحیح مطلب: بے ربط کلام، نامربوط گفتگو جو نشے میں سرزد ہوتی ہے۔ فریب خوردۂ منزل ’’یہ غلط فہمی کہ منزل آگئی ہے۔‘‘ ص۔ ۱۷۲ صحیح مطلب: منزل کے فریب میں مبتلا،منزل کے تصور پر فریفتہ۔ موجود ’’جو کچھ حاضر ہے۔ وجود میں آئی ہوئی اشیا، کائنات۔‘‘ ص۔۲۰۶ سب غلط، صحیح مطلب: وجودِ حقیقی، اصل وجود، موجودِ مطلق شعور وہوش وخرد ’’تینوں الفاظ یہاں تقریباً مترادفات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۲۱۰ صحیح صورتِ حال یہ ہے کہ یہ تینوں ’انا‘ کی تعمیر اور حفاظت کرتے ہیں۔ شعور ’میں‘ کو ’وہ‘ پر غالب رکھتا ہے۔ ’ہوش‘ اس کو اپنے مقصود پر نثار نہیں ہونے دیتا اور ’خرد‘ اسے ایسے امتحان میں پڑنے سے روکتی ہے جس میں اس کے تصور کردہ نقصان کا اندیشہ ہو۔ دمِ عارف ’’عارف کی زندگی۔‘‘ ص۔ ۲۳۷ صحیح مطلب: عارف کا کلام / تصرف نور وحضور وسرور ’’اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اس قرب سے حاصل ہونے والا دل کا نور اور لطف۔‘‘ ص۔ ۲۴۵ صحیح مطالب: ۱۔ عشق کے تین مرحلے۔ دل کی روشنی، محبوب کا سامنا، عشق کا نقطۂ کمال اور اس کاحال ۲۔ معرفت کے تین مرحلے: حق کی نشانیوں کا مشاہدہ، حسن کا مشاہدہ، تکمیلِ معرفت اور اس سے پیدا ہونے والا اطمینان۔ ۳۔ قلب کے تین مرحلے: ہدایت، معرفت، عشق۔ ۴۔ خیر، حق، اور جمال کی نسبت کاظہور ۵۔ ’نور‘ = نفس کے تزکیے کا پھل + ’حضور‘ = قلب کی صفائی کا نتیجہ+ ’سرور‘ = نفس کی نورانیت اور دل کی حضوری سے پیدا ہونے والا حال۔ سرخوش ’’بے انتہا خوش۔‘‘ ص۔ ۲۴۵ پوری ترکیب درج کرنی چاہیے تھی۔ سرخوش وپرسوز۔ اس کا مطلب ہوگا: ۱۔ عشق کی مستی اور حرارت سے معمور۔ ۲۔ عاشقِ کامل، جس کی خوشی بھی عشق کی دین ہے اور دردبھی۔ جسے عشق ہی سیراب کرتا ہے اور عشق ہی پیاسا رکھتا ہے۔ سوز وتب ’’جلن اور تپش۔ ‘‘ ص۔ ۲۴۵ یہاں بھی پوری ترکیب کو کھولنا چاہیے تھا۔سوز وتب ودرد وداغ۔ ’سوز‘ = آرزو + ’تب‘ = جستجو + ’درد‘ = آرزو کا منتہیٰ + ’داغ‘ = جستجو کا منتہا۔ یعنی شدید آرزو اور اس کے ساتھ یہ یقین بھی کہ اس آرزو کا پورا ہونا محال ہے، اور سخت جستجو اور اس کے ساتھ یہ یقین بھی کہ اس جستجو کا بارور ہونا ممکن نہیں۔ ممکنات ’’انسانی صلاحیتوں کے امکانات۔‘‘ ص۔ ۲۵۲ مفہوم اتنا غلط ہے کہ جس فقرے میں بیان ہواہے وہ فقرہ بے معنی ہو کررہ گیا ہے۔ انسانی صلاحیتوں کے امکانات! یعنی چہ! صحیح مطلب: مخلوقات، موجودات جن کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور نہ ہونا بھی۔ اقبال کے ہاں عام طور سے ممکنات سے وہ موجودات مراد ہوتے ہیں جن کا وجود بھی حقیقی ہے اور عدم بھی۔ دمِ جبریل ’’جبریل کی زندگی۔‘‘ ص۔ ۲۵۵ صحیح مطلب: ۱۔ خدائی فیضان (Divine Effusion) ۲۔ عشق کا مبدا دلِ مصطفی (صلی اﷲ علیہ وسلم) ’’آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا جذبہ۔‘‘ ص۔ ۲۵۵ صحیح مطلب: ۱۔ خدائی فیضان کی قبولیت کا کامل ملکہ ۲۔ عشق کامنتہا نقطۂ پرکارِ حق ’’سچائی کا مرکز جس کے اردگرد پرکار گھومتی ہے۔‘‘ ص۔ ۲۶۴ عجیب وغریب فقرہ ہے۔ سیدھا سا مطلب تھا، حق کے دائرے کا مرکز! وہم وطلسم ومجاز ’’حقیقت سے دور، خیالی اور توہماتی۔‘‘ ص۔ ۲۶۴ دیکھے ایک اہل شارح ان اصطلاحات کو کس طرح کھولتا ہے: ’’وہم سے یہاں وہ شے مراد ہے جس کی کوئی اصلیت (قیمت) نہ ہو۔ طلسم سے وہ شے مراد ہے جس کاظاہر کچھ ہو باطن کچھ ہو، یعنی دھوکا۔ مجاز سے وہ شے مراد ہے جس کی کوئی حقیقت (بنیاد) نہ ہو۔ وہم یقین کی ضد ہے۔ طلسم، صداقت کی ضد ہے اور مجاز، حقیقت کی ضد ہے۔‘‘ (شرحِ بالِ جبریل، یوسف سلیم چشتی، ص ۵۰۳، ۵۰۴) بات یہ ہے کہ کسی چیز کے غیر حقیقی ہونے کے بھی کچھ درجات ہوتے ہیں، یہ الفاظ ان درجات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ۱۔ ’وہم‘ یعنی موہوم وہ شے ہے جو صورت کے اعتبار سے غیر حقیقی ہے۔ ۲۔ ’طلسم‘ وہ شے ہے جو صورت کے اعتبار سے بھی غیر حقیقی ہے اور معنی کے اعتبار سے بھی۔ ۳۔ ’مجاز‘ وہ شے ہے جو معنی کے اعتبار سے غیر حقیقی ہے۔ تب وتاب ’’چمک دمک، اضطراب ۔ ‘‘ ص۔ ۲۷۸ صحیح مطلب: حرارت اور روشنی، گرمی اور طاقت انفس ’’نفس کی جمع، سانسیں، مراد زندگی۔ ‘‘ ص۔ ۲۸۴ یہ ایسی غلطی ہے جو بھولے سے سرزد ہو جائے تو بھی آدمی کو بے اعتبار بنا سکتی ہے۔ ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ کوئی صاحب ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ’انفس‘ کا مطلب ’سانسیں‘ اور ’زندگی‘ سمجھتے ہیں!! فتوحات ’’مراد کامیابیاں (طنزیہ استعمال کیاگیا ہے)۔‘‘ ص۔ ۲۸۸ صحیح مطلب: ۱۔ نتائج، حاصلات، ۲۔ تحفے۔ بے رنگ ’’رنگ کے بغیر، ہر حال میں ایک ہی رنگ رکھنے والی، بے تعصب۔‘‘ ص۔ ۳۴۷ صحیح مطلب: غیرمحدود، بے تعین حرفِ محرمانہ ’’واضح بات، سمجھ میں آنے والی بات۔‘‘ ص۔ ۳۵۳ صحیح مطلب: اندر کی بات، عارفانہ بات سیمابی ’’پارے کی طرح مضطرب۔‘‘ ص۔ ۳۵۷ صحیح مطلب: پارے کابنا ہوا۔ مسحورِ غرب ’’مغرب کے طور طریقوں کے سحر میں آنا۔‘‘ ص۔ ۳۶۶ صحیح مطلب: جس پر مغرب کا جاود چل گیاہو۔ مصلحت ’’نیک تجویز، اچھا مشورہ۔‘‘ ص۔ ۳۷۲ صحیح مطلب: خوبی، خیر گیاہِ بام ’’چمکتی ہوئی گھاس، صاف نظر آنے والی گھاس۔‘‘ ص۔ ۳۷۵ صحیح مطلب: اونچی اور گھنی گھاس دیارِ عشق ’’عشق کی زمین، عشق کی حدود میں واقع علاقہ۔ عشق کا علاقہ لامحدود ہے کیوں کہ اس میں رنگ، نسل اور قومیت کی حدود نہیں ہوتیں، مراد پوری دنیا۔‘‘ ص۔ ۳۸۷ صحیح مطلب: عشق کی اقلیم، عاشقوں کا جہان۔ مشتِ نمونہ کے طورپر اتنے اندراجات کافی ہیں۔ میری رائے میں یہ کتاب خواجہ محمد ذکریا صاحب کی اقبال شناسی کی صحیح ترجمانی نہیں کرتی۔ کاش اگلی اشاعت سے پہلے اس پر اچھی طرح سے نظرِ ثانی ہوجائے۔  فلسفۂ عجم پرایک نظر علی رضا طاہر افراد واقوام کے فکری سفر کا تجزیاتی وتحلیلی مطالعہ جہاں ان افراد واقوام کی فکر کی تفہیم میں مددگارو معاون ہوتا ہے وہیں نوعِ انسانی کی آئندہ پیش رفت کے لیے راہ بھی ہموار کرتاہے۔ لیکن یہ مطالعہ اسی صورت میں خاطر خواہ نتائج کا حامل ہوتاہے جب فکری ارتقا کے تناظر میںہو۔ جہاں تک فکر کی حقیقت وماہیت کا تعلق ہے، نہ تو کوئی فکر اچانک اپنی نہائی منزل پرپہنچ جاتی ہے اور نہ ہی کوئی انسان پلک جھپکنے میں فکری بلوغت کے مراحل طے کر لیتا ہے بلکہ فکرِ انسانی کا ارتقا اور بلوغت ایک تدریجی عمل ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مرحلہ وارآگے بڑھتا ہے۔ فکر کی ماہیت اور طبائعِ انسانی کا باہمی تعلق اقبال کے ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے، تشکیلِ جدید میں فکر کی ماہیت کو وہ یوں بیان کرتے ہیں: ۱؎ فکر اپنی ماہیت میںمتحرک ہے ساکن نہیں ہے اور باعتبارِ زمانہ دیکھا جائے تو وہ اپنی اندرونی لامتناہیت کااظہار اس بیج کی طرح کرتی ہے جس میں پورے درخت کی نمو پذیر وحدت ایک حقیقتِ حاضرہ کے طور پر شروع ہی سے موجود رہتی ہے۔ طبائعِ انسانی کی ارتقا پذیر نوعیت کو وہ ایک اور جگہ یوں واضح کرتے ہیں۔ ’’زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتاہے۔ انسانوں کے طبائع، ان کے افکار اور ان کے نقطۂ ہائے نگاہ بھی زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ ۲؎ اگرچہ عام افراد کی زندگی میں بھی یہ بات اہم ہوتی ہے لیکن نابغہ کے ہاں تو یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اقبال کی نظر میں اس ارتقا کی اہمیت خلیفہ عبدالحکیم کے اس بیان سے مزید واضح ہوتی ہے: میرے طالب علمی کے زمانے میں ایک مرتبہ علامہ اقبال نے مجھ سے فرمایا کہ میں بتائوں کہ انسان کس وقت مرتاہے، کسی آدمی کو اس وقت مردہ شمار کرنا چاہیے جب اس میںنئے افکار کی قبولیت کی صلاحیت جاتی رہے اور اس کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی ممکن نہ رہے، ایسی حالت میں زندگی، زندگی نہیں بلکہ مادے کی طرح محض تکرارِ عمل بن جاتی ہے۔۳؎ اپنی فکر میں ارتقا کی موجودگی، اور شخصیت وفکر کی تفہیم میں مطالعے کی اہمیت کی طرف اقبال ان الفاظ میں اظہار نظرکرتے ہیں ۔ مولانا سیّد سلیمان ندوی کے نام ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۱۶ء کے ایک مکتوب میں کہتے ہیں: ۴؎ اس کے علاوہ میں اپنے دل ودماغ کے سرگزشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتا ہوں اور یہ سرگزشت کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہایت ضروری ہے مجھے یقین ہے کہ جو خیالات اس وقت میرے کلام اور افکار کے متعلق لوگوں کے دلوں میں ہیں اس تحریر سے ان میں بہت انقلاب پیدا ہوگا۔ اسی طرح عشرت رحمانی کے نام ۲۷؍ نومبر ۱۹۱۹ء کے ایک مکتوب میں اسی بات کو یوں بیان کرتے ہیں: ۵؎ میری زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں جو اوروں کے لیے سبق آموز ہو سکے ہاں خیالات کا تدریجی انقلاب البتہ سبق آموز ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی فرصت ہوگی تو لکھوں گا فی الحال اس کا وجود محض عزائم کی فہرست میں ہے۔ فلسفیانہ افکار ونظریات میں ارتقا اور تغیر وتبدل کی گنجائش اور موجودگی کی طرف اپنے خطبات، تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ کے دیباچے میں کچھ اس طرح اظہار نظر کرتے ہیں: ۶؎ بایں ہمہ یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفیانہ غور وتفکر میں قطعیت کوئی چیزنہیں۔ جیسے جیسے جہانِ علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے لیے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیں۔ کتنے ہی نئے، اور شاید ان نظریوں سے جو ان خطبات میں پیش کیے گئے ہیں زیادہ بہتر نظریے، ہمارے سامنے آتے جائیں گے۔ ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکرِ انسانی کے نشوونما پر باحتیاط نظر رکھیں اور اس باب میں آزادی کے ساتھ نقد وتنقید سے کام لیتے رہیں۔ اقبال کی فکر کا ایک ایسا مطالعہ دراصل بیسویں صدی عیسوی میں اسلامی فکری روایت کے ارتقا، تسلسل اور روحِ عصر کے مطابق ڈھلنے کا مطالعہ ہے۔ جہاں تک فکرِ اقبال کا تعلق ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسن انور نے کیفیات کے اعتبار سے اقبال کی فکر کو دو ادوار، ماقبل وجدانی اور وجدانی میں تقسیم کیا ہے۔ ۷؎ جب کہ اقبال کے دیگر ثقہ محققین نے ماہ وسال کے اعتبار سے فکرِ اقبال کے تین ادوار بیان کیے ہیں: ۸؎ ۱۔ ابتدائی دور- ۱۹۰۱ء تا ۱۹۰۵ء ۲۔ تشکیلی دور- ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء ۳۔ نہائی دور- ۱۹۰۸ء تا آخر (۱۹۳۸ئ) اگرچہ فکر کا ہر دور اپنی جگہ پر خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن عبوری دور تمام فکر میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فکر میں جہاں ایک طرف گذشتہ فکری دور کے آثار موجودہوتے ہیں، وہیں نہائی فکر کے دریچے وا ہوتے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ دور ابتدائی اور نہائی فکر کا سنگم ہوتا ہے۔ اس دور میں ایک طرف فکرِ ماضی فراموش ہوتا نظرآتا ہے اور دوسری طرف فکرِ فردا جھانکتا نظر آتا ہے۔ اس فکری دور سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ جو روشِ فکر ماضی میں تھی آئندہ نہیں ہوگی اور جو آئندہ ہوگی وہ بستہ دہن شگوفوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اس دورِ فکر میں کچھ ایسی جہاتِ فکر کی نشاندہی بھی ہوتی ہے جو اگرچہ ماضی میں بھی موجود ہوتی ہیں اور نہائی فکر میں بھی موجود ہوتی ہیں مگر نہائی فکر میںنئی آب وتاب کے ساتھ نئے پیرہن میں ہوتی ہیں۔ بہرحال یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور فکری منظر پرگزرتی ہوئی شب اور طلوعِ سحر کے درمیان کافیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے، جہاں کچھ فراموش ہو رہاہوتا ہے، کچھ امانتیں، بہ کمال دیانت نئی آب وتاب اور نئے آہنگ کے ساتھ نئی دنیائوں میں منتقل ہو رہی ہوتی ہیں، اور کچھ بالکل نئے آفاق اور نئی منزلیں دریافت ہو رہی ہوتی ہیں۔ اقبال کی فکر کا عبوری دور ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء قیامِ یورپ کا دور ہے۔ اس دور میں اقبال کا اہم ترین فکری کام ان کاڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا ہے۔ اس عبوری دورِ فکر کی اہمیت کو خود اقبال نے بھی بیان کیاہے اور اس کی فکر کے ملکی وغیر ملکی مفسرین، شارحین، محققین اور مصنفین نے بھی اس کا ذکر کیاہے۔ ۲۷؍ نومبر ۱۹۱۹ء کے ایک خط بنام وحید احمد مدیر نقیب میں اقبال خود اس بات کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں: ۹؎ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب وہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگزشت قلم بند کروں گا، جس سے مجھے یقین ہے کہ بہت لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ جہاں تک محققینِ اقبال کا تعلق ہے، تمام نامور مفکرین اور ثقہ افراد نے اس دور کی فکر اور اس دورکے نمایاں فکری کام بالخصوص اقبال کے تحقیقی مقالے ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کی اہمیت کے متعلق اظہارِ رائے کیا ہے، اختصار کے پیشِ نظر ہم یہاں چندایک آرا پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم منہاج الدین، افکارو تصوراتِ اقبال میں کہتے ہیں: ۱۰؎ بلاشک وشبہ یورپ کا یہ تین سالہ قیام اقبال کے روحانی ارتقا کی اہم ترین منزل ہے۔ اس قیام کے دوران آپ نے اسلام اور مسلمانوں کی نشاۃالثانیہ کے لیے جدوجہد کو اپنا نصب العین بنایا اور اپنی ساری تاب وتوانائی اس عظیم مقصد کے لیے وقف کر دی۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، عروجِ اقبال میں یوں اظہار رائے کرتے ہیں: ۱۱؎ اقبال نے اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں انگلستان اور جرمنی کے کتب خانوں میں جب مسلم علما ومفکرین کے علمی جواہر پارے، نادر مطبوعات ومخطوطات کی صورت میں محفوظ دیکھے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ اس مشاہدے سے جہاں اسلاف کے علمی کارناموں سے اخلاف کی غفلت اور اس دولتِ بے بہا سے اپنی قومی محرومی پر انھیں افسوس ہوا (جس کا اظہار انھوںنے اپنی ایک نظم ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘ میں بھی کیا ہے) وہاں اس باثروت علمی وفکری ورثے کے سرسری جائزے سے ان کے دل میں اسلام اور ملتِ اسلامیہ کی ثقافتی عظمت کاصحیح شعور بھی پیدا ہوا۔ یہ شعور واحساس انھیں مزید تحقیقی کام پر اکساتا رہا، اوروہ دیگر مسلم علما ومحققین کو بھی حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت دیتے رہے۔ ایک اور مقام پر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی یوں گویا ہیں: ۱۲؎ اقبال کے فکری ارتقا کے سلسلے میں جس طرح ان کے سہ سالہ قیامِ یورپ (۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ئ) کو خاص اہمیت حاصل ہے، اسی طرح اس دور کے علمی وذہنی اکتسابات میں ان کے اس تحقیقی کام کی مرکزی حیثیت بھی مسلم ہے جس کی تکمیل میں وہ کم وبیش دو سال تک منہمک رہے۔ ڈاکٹرغلام مصطفی خان اپنی تالیف اقبال اور قرآن میں اقبال کے تحقیقی مقالے اور اس دور ِفکر کی اہمیت یوں بیان کرتے ہیں: ۱۳؎ یہ مقالہ گو کہ شروع میں لکھا گیا تھا لیکن اس کا ذکر ضروری تھا، کیوں کہ علامہ اقبال کے ذہنی ارتقا کی بنیاد یہیں قائم ہوئی تھی۔ ڈاکٹر این میری شمل معروف جرمن مستشرق اور اسکالر اپنی معروف کتاب Gabriel's Wing میں رقم طراز ہیں: ۱۴؎ تاریخِ مذہب میں اس مقالے کی اہمیت مسلّم ہے۔ یہ مقالہ ایران کے سلسلے میں مستشرقین کی دلچسپی کا ہی مظہر نہیں، اقبال شناسوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے، کیوں کہ یہ کتاب فلسفۂ اقبال کا نقطۂ آغاز کہی جا سکتی ہے۔ جب کہ ایک اور مقام پر مذکورہ بالا کتاب میں ہی ڈاکٹر این میری شمل زیرِ بحث موضوع کے بارے میں اس نقطۂ نظر کا اظہار کرتی ہیں: ۱۵؎ اقبال اس وقت اردو اور فارسی کے روایتی اثرات سے مسحور تھے۔ یورپ کے تین سالہ قیام نے اقبال کے لیے نئے افق کھولے۔ جہاں تک ایرانی محققین ومفکرین کا تعلق ہے عبا س مہدوی اشرف، ۱۶؎ فضل اﷲ رضا، ۱۷؎ اور حبیب یغمائی ۱۸؎ نے تو اپنی تالیفات ومقالات میں اقبال کے قیامِ یورپ اور تحقیقی مقالے کا ذکر سرسری انداز میں کیا ہے لیکن سید غلام رضا سعیدی، ۱۹؎ احمد احمدی، ۲۰؎ محمد تقی مقتدری، ۲۱؎ عبدالرفیع حقیقت، ۲۲؎ ڈاکٹر مہدی محقق، ۲۳؎ سید محمد محیط طباطبائی، ۲۴؎ احمد سروش، ۲۵؎ محمد حسین مشائخ فریدنی، ۲۶؎ اور ڈاکٹر شھین دخت مقدم، ۲۷؎نے اپنی تالیفات ونگارشات میں اقبال کے قیامِ یورپ میں ان کے تحقیقی مقالے ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کی اہمیت کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ اختصار کے پیشِ نظر ہم ان کی آرا کا خلاصہ بیان کرتے ہیں: ۲۷؎ الف ۱۔ اقبال کا یہ مقالہ اپنے اندر ایک اجتہادی شان رکھتا ہے۔ ۲۔ ۱۹۰۸ء میں انگلستان میں اس مقالے کی اشاعت سے اقبال یورپ میں سرزمینِ مشرق کے ایک عظیم فلسفی کے طور پر متعارف ہوئے۔ ۳۔ اقبال نے اس مقالے میں سرزمینِ ایران کی مختلف مذہبی، دینی اور فلسفیانہ تحریکوں اور گروہوں کے ظہور کے اسباب و علل کے متعلق نہایت گہرائی اور دقت کے ساتھ بحث کی ہے۔ ۴۔ اقبال کے ایران سے تعلق ووابستگی اور طبعی میلان کا ثبوت صرف ان کی فارسی شاعری ہی نہیں بلکہ یہ بات ان کے تحقیقی مقالے سے بھی ظاہر ہے۔ ۵۔ یورپ میں اقبال کا قیام اور اس دور کے مطالعات وتحقیقات ان کی ذہنی وفکری زندگی میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں۔ اس دوران میں جہاں ایک طرف ان کا فکری افق بہت وسیع ہوا وہیں ان کی فکر میں انقلاب آفریں تبدیلیاں واقع ہوئیں، مثلاً مقالے کی تحقیق کے دوران مختلف مستشرقین اور مغربی فلاسفہ سے مباحث، مغربی فلسفے کے مطالعے اور اسلام میں فلسفہ، عرفان، کلام، اخلاق، تاریخ اور ادبی موضوعات پر نایاب فارسی کتب کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ: (i)۔ آئندہ اپنے افکار کو پہنچانے اور پھیلانے کے لیے فارسی زبان کاقالب اختیا رکرنا چاہیے۔ (ii)۔ وہ نیشنلزم، وطنیت اور نسل پرستی کے انسانیت کش اور بھیانک عواقب سے آگاہ ہوگئے۔ (iii)۔ پان اسلام ازم کے داعی ومبلغ اور وحدتِ اسلامی کے پرچم بردار بن گئے۔ (iv)۔ فکری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ عملی زندگی اور فعالیت وکوشش کی طرف ان کا میلان اور رغبت بڑھی۔ (v)۔ وہ اس کشمکش سے دور چار ہوئے کہ انھیں آئندہ شاعری کرنی بھی چاہیے یا نہیں۔ (vi)۔ مغربی افکار، تہذیب وتمدن اور نظامِ حیات کا قریب سے مطالعہ ومشاہدہ کرنے کے بعد، ان کی فریب کاریوں اور عیاریوں سے آگاہ ہوئے اور بالعموم نوعِ انسانی اور بالخصوص اسلامی دنیا کو اس سے بچانے کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ (vii)۔ اس قیام اورمطالعے کے دوران وہ اس بات سے آگاہ ہوئے کہ بالخصوص امتِ مسلمہ اور بالعموم تمام اقوامِ مشرق کے زوال اور پس ماندگی کا سبب افلاطونی فلسفے کی پیروی، درویشی کا مفہوم= بے چارگی وتن آسانی، کوشش وجہد سے گریز، حقائق سے فرار، طبیعی دنیا کی طرف توجہ نہ دینا، اپنے آپ کو فنا کر دینا، ترکِ دنیا اور اپنے اندر موجود عظیم قوت (خودی) سے بے خبر رہنا ہے۔ (viii)۔ اس تحقیقی مطالعے کے دوران ہی اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ ترقی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے دینی، فکری، ادبی، اخلاقی، فقہی، عرفانی، انفرادی، اجتماعی غرض ہر شعبۂ حیات کی جدید تشکیل کریں۔ - اقبال کے تحقیقی مقالے کے ترجمے کے دیباچے میں مترجمِ مقالہ میر حسن الدین نے تحقیقی مقالے کی اہمیت کے بارے میں اپنا یہ تبصرہ تحریر کیا ہے: ۲۸؎ علمی دنیا میں تحقیقات کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ جو نظریہ آج رائج ہوتا ہے وہ کل متغیر ہو جاتا ہے۔ افلاطون اور ارسطو کے نظریات آج رائج نہیں تاہم ان کی تصانیف کو جو تاریخی اہمیت حاصل ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ علامہ اقبال کے خیالات میں گو بہت سا انقلاب آچکا ہے تاہم پیشِ نظر کتاب کی تاریخی اہمیت قابلِ لحاظ ہے، عصرِ جدید کے مستشرقین اس کے حوالے اور اقتباسات پیش کرتے ہیں، جس سے اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب کی چند خصوصیات ایسی ہیں جو متعلمینِ فلسفہ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں۔ فرد کی طرح ہر قوم کے قالب میں بھی ایک مخصوص روح موجود رہتی ہے۔ اس کی ایک خاص سیرت اور خاص طبیعت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے ایرانی قوم کی مخصوص روح اور اس کی خاص سیرت کو اس کتاب میں منکشف کیا ہے۔ بلاشبہ مقالے کی تحریر کے بعد اقبال کے فکری رجحانات میں بعض جہات سے بعض سنجیدہ تبدیلیاں واقع ہونے کے باوجود اقبال کے اس مقالے The Development of Metaphysics in Persia کے کچھ اوصاف وامتیازات ایسے ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ فکرِ اقبال، فکرِ ایران، اسلامی فکری روایت، اور ارتقائے فکرِ انسانی میں اس مقالے کی اہمیت آشکار ہوتی ہے بلکہ اس موضوع پر ہر دور میں اقبال کے ہی انداز میں مزید کام کرنے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اور مقالے کی یہی وہ جہت ہے جس کی وجہ سے اقبال کے فکر ونظر میں بعض جہات میں تبدیلی کے باوجود خود ان کی نظر میں بھی اس مقالے کی اہمیت مسلّم تھی اور تاریخِ علم وفکر میںبھی ہمیشہ مسلم رہے گی۔ اقبال کی فکر ارتقائے انسانی، احترام ووقارِ آدمیت اور تحفظِ شرفِ انسانیت کی فکر ہے۔ ہر دور کا انسان جب اپنے زمان ومکاں میں اپنے عصری تقاضوں کے تناظر میں فکرِ اقبال کا مطالعہ کرے گا تو اس پر فکرِاقبال کے نئے امکانات و مضمرات آشکار ہوں گے اور ہر دور کے انسان پر ایک نیا اقبال منکشف ہوتا چلا جائے گا۔ لیکن ہر دور کے انسان کے لیے فکرِ اقبال کی کما حقہ تفہیم، فکر کی بتدریج تشکیل وتکمیل اور فکرِ اقبال کے حقیقی مآخذ ومنابع اور اساسات تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر اقبال کے اس مقالے کامطالعہ ناگریز ہوگا، اس لیے کہ اقبال نے یہ مقالہ اپنی فکر کے عبوری دور میں تحریر کیا اور اقبال کی فکر میں یہ مقالہ ایک اہم ترین موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال نے بیسویں صدی عیسوی کی پہلی دہائی (۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۷ئ) میںاس موضوع یعنی ایرانی مابعدالطبیعیات پرتحقیقی کام یورپ کی یونی ورسٹیوں میں پیش کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اہلِ مغرب ایران کے فکروفلسفہ کے متعلق بالکل ابتدائی اور سطحی سی معلومات رکھتے تھے۔ اس وقت تک ایران کے بارے میں جتنی کتابیں بھی تحریر کی گئی تھیں وہ یا تو تاریخِ ایران کے بارے میں تھی اور یا کسی ابتدائی مفکر کے بارے میں تھیں۔ اس وقت اہلِ مغرب کو ایران سے اگر کوئی تعلق تھا یا آگاہی حاصل تھیں تو وہ صرف اس وقت کی استعمار گری کی فضا میں سیاسی مفادات کے حصول تک محدود تھی۔اقبال نے پہلی بار تاریخِ فکرِ ایران پر اتنی گہرائی، گیرائی اور جامعیت کے ساتھ قلم اٹھایا اور یورپ کی لائبریریوں میں ایک نادر تحقیق کااضافہ کیا۔ اس سے جہاں اہلِ مغرب کو فکرِ ایران کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں وہیں فکرِ ایران کے کئی اہم گوشے پہلی بار دنیائے غرب پر آشکار ہوئے۔ اس بات کواس وقت سے لے کر آج تک تمام نامور مفکرین نے تسلیم کیاہے، مثلاً اہلِ مغرب کا خیال تھا کہ ایران میں ابنِ سینا کے بعد فلسفیانہ پیش رفت ختم ہوگئی یا جمود کاشکار ہوگئی لیکن اقبال نے زرتشت سے لے کر مزدک تک (قبلِ اسلام) اور الکندی سے لے کر ملاّ ہادی سبزواری تک (بعد از اسلام) فکرِایران کے اہم افراد سے اہلِ غرب کو متعارف کرایا جن میں سہروردی بانیِ فلسفۂ اشراق اور ملا صدر اخاص طور پر قابلِ ذکرہیں اور یوں مغربی ذہن کے لیے اقبال نے کمال مہارت کے ساتھ اس بات کا بیان واثبات کیا کہ ایرانی تاریخِ فکر استقلال، تسلسل اور ربط ونظم جیسی خصوصیات سے مالامال ہے اور اقبال کے اس تحقیقی کام کے بعد ہی محققین تاریخِ فکرِ ایران کے اس پہلو کے مطالعے کی طرف مائل ہوئے جن میں Henry Corbin خاص طور پر قابلِ ذکرہے۔ جدید یورپ نے اپنے تمام تر افکار کی بنا سترھویں صدی عیسوی میں ماورائے حواس کے انکار پررکھی اور اس طرح ان کا اصل مقصد ہر قسم کے مذہب اور بالخصوص الہام ووحی کا عملاً انکار تھا جوکہ قرونِ وسطیٰ کی پاپائیت وکلیسا اور جامد مسیحیت کے خلاف اس وقت کی مسیحی دنیاکا فطری ردِ عمل تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اہلِ مغرب کو اس بات کا گہرا شعور اور ادراک تھا کہ انھیں ان کی تہذیب اور نظامِ فکرکو جب بھی جس نظامِ فکراور تہذیب وتمدن کا سامنا کرنا پڑے گا وہ ’اسلام‘ ہے اور یہ بات وہ نشاۃ الثانیہ کی منزل تک پہنچنے کے دوران مسلمان فلاسفہ کے نادر افکار، محیر العقول نظام ہائے فکر، اور عظیم اسلامی تہذیب وتمدن کے گہرے مطالعے کے دوران بخوبی جان چکے تھے۔ اس لیے کہ مسیحیت سے انھیں کوئی خطرہ نہ تھا۔ کلیسا کااستبداد ہمیشہ کے لیے دم توڑ چکا تھا، لہٰذا انھوں نے ایک طرف تو : (ا)۔ اپنے تہذیب وتمدن، افکار اور علوم کی عظمت وبرتری کے گن گانے شروع کیے اور اسے نوعِ انسانی کی منزل اور آئیڈیل قرار دیا (جس میں ظاہر بین افراد کے لیے بہت کشش تھی)۔ (ب)۔ اپنے تہذیب وتمدن اور علوم وافکار کے مقابلے میں ہر دوسری تہذیب وتمدن اور علوم وافکار کی نفی کی، ان کی بے مایگی کو ثابت کرنے کی ہر جائز وناجائز کوشش کی اور نئے ذہن میں اس کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کیے۔ جیسا کہ قبلاً بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ انھیں صرف اورصرف اس جنگ میں اسلامی تہذیب وتمدن اور علوم وافکار سے سابقہ پڑے گا لہٰذا انھوں نے اس سلسلے میں یہ روش اپنائی: (i) اسلام کی تاریخِ فکر کو توڑ موڑ کرپیش کیا۔ (ii) اسلام کی فکری روایت کو غیر مربوط، غیرمسلسل، مبہم اور منقطع روایت کے طور پر متعارف کروایا۔ (iii) اسلام میں تمام علمی وفکری پیش رفت کو ابنِ سینا اور ابنِ رشد پر تمام کردیااور پراپیگنڈہ کیا کہ ان کے بعد مشرقی زمین پرفلسفے کے سوتے خشک ہوگئے۔ (iv) تمام فلسفیانہ علوم کلام، فلسفہ اور تصوف کو باہمی طورپر غیر مربوط اور غیر متعلق کے طور پر پیش کیا اور یہ ظاہر کیاکہ ان تینوں علوم کاآپس میں بالکل کوئی تعلق نہیں، یہ تین الگ الگ خانے ہیں۔ (v) تمام مسلمان متکلمین، فلاسفہ اور متصوفین کا غیر تحقیقی صلاحیتوں کے حامل اور چربہ ساز کے طور پر ذکر کیا اور اسلام میں کلام، فلسفہ اور تصوف کو یونانیت، عیسائیت، مجوسیت، بدھ مت، یہودیت اور ہندو ویدانت کے زیرِ اثر قرار دیا۔ (vi) اسلامی فکری روایت نامی کسی چیز کے ماننے سے صاف انکار کردیا۔ (vii) اسلامی دنیا میں رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کی اساس پر وحدتِ اسلامی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے عربی فلسفہ، ترکی فلسفہ، ایرانی فلسفہ اور مصری فلسفہ جیسے متعصبانہ نظریے کو عام کیاتاکہ مسلمانوں کی کوئی فکر، کوئی سوچ، کوئی روایت اورکوئی باہمی تعلق باقی نہ رہے۔ (viii) مذہب، ماورائے حواس، الہام، کشف، شہود اور تصوف جیسے موضوعات کودائرۂ علم سے خارج کردیا۔ اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے کے باب اوّل ۲۹؎ اور باب پنجم ۳۰؎ کے ابتدائیہ میں اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس ۱۹۱۱ء ۳۱؎ کے ایک خطبے میں اس بات کی نشاندہی کی اور یورپ میں ایران میں مابعد العطبیعیات کا ارتقا کے عنوان کے تحت تحقیقی کام کرکے حتی المقدور ان کے مذکورہ بالا پراپیگنڈہ کا نہایت عمدگی سے عالمانہ طور پر رد پیش کیا اور نئے آنے والے ذہن کے سامنے تحقیق کی ایک نئی اور دیانت دارانہ طرح ڈالی۔ (i) اقبال نے اسلامی فکری روایت کو ایک تسلسل، ربط، تبیین اور نظم کی حامل روایت کے طور پرپیش کرنے کی نہایت کامیاب کوشش کی۔ (ii) کلام، فلسفہ اور تصوف کے میدان میں مسلمان دانشوروں کی کاوشوں کو ممکنہ حد تک نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ (iii) مذہب اور ماورائے حواس (کشف، شہود، الہام) کا نہ صرف یہ کہ اثبات کیا بلکہ تصوف کو اسی اساس پرثابت کیا۔ (iv) کسی زبان، علاقے، یانسل وقوم کے تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلامی فکری روایت کوبیان کیا۔ (v) اسلامی فکری روایت میں ایرانیوں کے حصے کو مشخّص و ممیّز کیا۔ جیساکہ قبلاً ذکرکیاجاچکاہے کہ اقبال کو ایران میں مابعد الطبیعیات کے ارتقا سے خصوصی دلچسپی تھی، اس لیے کہ اسلام کی فکری، تہذیبی اورتمدنی تشکیل میں ایران کاحصہ نمایاں اور ممتاز ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان اورایران کی علمی، فکری، تہذیبی، اور تمدنی روایت مشترک ہے، خود اقبال مصور ومفکرِ پاکستان انیسویں صدی عیسوی میں بالخصوص برصغیر اور بالعموم پوری اسلامی دنیا میں اسلامی فکری روایت کونئے سرے سے متشّکل ومشخّص کرنے والا ہے، لہٰذا ہر دور میں فکرِ اقبال، فکرِ ایران، برصغیر میں اسلامی فکر اور اسلامی فکری روایت کے حوالے سے جب بھی کام آگے بڑھایا جائے گا اقبال کا یہ تحقیقی مقالہ ضرو رپیشِ نظررکھا جائے گا۔ اقبال کی نہائی منزلِ فکر پراصولِ اجتہاد کو خاص اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ اقبال کی فکر میں اس روش ونہج کی ابتدا واضح طور پر اس مقالے میںنمایاں ہوتی نظر آتی ہے۔ اس مقالے میں اقبال جب اپنے اس وقت کے فکر ونظرکے تناظر میںفکرِ یونان اور مسلمان فلاسفہ پربے لاگ تنقید کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ جب وہ مسلمان فلاسفہ کو دورِ حاضر کے جدید فلسفوں اورنظریات کا پیش رو قرار دیتے ہیں تو اس سے ان کی فطرت کی اجتہادی روش ومیلان کی نشاندہی ہوتی ہے جس نے آگے چل کر ان کی فکری عمارت کی تشکیل میں ایک اہم بنیاد کی حیثیت اختیار کر لی مگر اس اجتہادی میلان کی نشاندہی اس مقالے میں واضح طور پرہو جاتی ہے۔ اقبال اگرچہ اوائلِ عمر میں ہی فارسی زبان کے نامور شعرا، عرفا اور حکما سے آگاہ تھے مگر ان کے شعر ونثر میں ان کا تذکرہ باقاعدہ طور پر اور دقیق انداز میں اولاً ان کے اس تحقیقی مقالے میں ملتا ہے، اور ثانیاً اس مقالے کی تحریر کے بعد کے تمام نثری وشعری آثار میں موقع ومحل کی مناسبت سے ان حکما، عرفا اور شعرا کا ذکر ملتا ہے۔ اگرچہ مقالے سے قبل کی تحریروں میں بھی اقبال کی توجہ فارسی زبان کے ان نمایاں لوگوں کی طرف رہی ہے (مثلاًیورپ جانے سے قبل انھوں نے عبدالکریم الجیلی کے نظریہ ’انسانِ کامل‘ پرایک نہایت عمدہ مضمون تحریر کیا جو انڈین انٹی کیوری میں شائع ہوا مگر ایساشاذ ہے لیکن مقالے کے بعد کی شعری ونثری تحریروں میں سعدی، جامی،انوری، سنائی، عرفی شیرازی، صائب، عطار، فردوسی، فیضی، قاآنی، حافظ (باوجود حافظ سے تمام تر اختلاف کے)، شبستری، منصور حلاج، فارابی، سہروردی، ابنِ عربی، عراقی، غزالی، مسکویہ، سینا، رازی، ہادی سبزواری، ملّادوانی، میر باقر، میر داماد اور بالخصوص رومی کا ذکر ملتا ہے متکلمین میں سے معتزلہ اور بالخصوص اشعری مکتب کا خاص طور پرذکر کرتے ہیں۔ اس سے جہاں فکرِ اقبال کی تشکیل میں مسلمان حکما، عرفا، اور شعرا کے حصے کی نشاندہی ہوتی ہے وہیں فکرِ اقبال کی تشکیل میں اقبال کے تحقیقی مقالے اور اس ضمن میں ان کے مطالعات کی اہمیت بھی آشکار ہوتی ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر حسین مجیب المصری کہتے ہیں جو شخص فکرِ اقبال کی تشکیل کا کما حقہ، ادراک چاہتا ہے وہ اقبال کے اس مقالے سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ ۳۲؎ تاریخِ فکر میں مدتوں کے بعد انھوں نے مشرق ومغرب کی ان دو مختلف الاساس روایت ہائے فکر میں ربط وتعلق اور قرب وبعد تلاش کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ساتھ مختلف اوقات میںمختلف نظام ہائے فکر کے پیروافراد کے اذہان میں باوجود بعدِ زمانی کے ایک ہی جیسے افکار کی رستخیزی کی نشاندہی کی۔ اقوام کی فکری تاریخ میں مختلف نظام ہائے فکر کا اپنی فکری اساس کے تناظرمیں مطالعہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے ان رویوں اوررجحانات کی بنیاد پڑتی ہے جن پر کام کرکے آئندہ پیش رفت کے لیے لائحۂ عمل مرتب ہوتا ہے اور قوموں کی زندگی میں یہی وہ نازک مگر اہم ترین مقام ہوتا ہے جب انھوں نے اپنی اساس پرقائم رہتے ہوئے جدید زمان ومکاں کے مقتضیات کے ساتھ خود کوہم آہنگ کرناہوتا ہے۔ تاریخِ فکرِ اسلام میںبالخصوص اور تاریخِ فکر میںبالعموم صدیوں کے بعد اقبال نے یہ ایک انتہائی مرتب ومدوّن اور منظم کوشش نہایت عقلی سطح پرکی جوایک ہی وقت میں مشرق ومغرب ہر دو کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہے اوراپنے زمان ومکاں میں جدید ومتنوع بھی ہے۔ تاریخِ فکر میں اہم مسئلہ سوالات کا جواب دینا نہیں ہوتا بلکہ سوال اٹھانا ہوتا ہے۔ تاریخِ فلسفہ میں طالیس اوّلین یونانی فلسفی کی اس لیے اہمیت نہیں کہ اس نے نظامِ کائنات کابہت عمدہ حل پیش کیاتھا بلکہ اس لیے ہے کہ اس نے اس سوال کو پیش کیا کہ کائنات کی اصل کیا ہے اور یہ کیسے معرضِ وجود میں آئی؟ بعد ازاں اسی سوال کے جواب میں فکر یونان میں ایسی ایسی فکری کہکشائیں جگمگائیں اور ایسے عظیم نظام ہائے فکر معرضِ ظہور میں آئے جن کی عظمت سے آج بھی کسی کو انکار نہیں۔ لیکن جہاں تک اقبال کاتعلق ہے، اس تناظر میں وہ دہری اہمیت کا حامل ہے، ایک تو یہ کہ اس نے اپنے اس مقالے میں تاریخِ فکرِ ایران واسلام کے بارے میں جوسوال اٹھائے وہ تاریخی اور دائمی حیثیت کے حامل ہیں اورتاریخِ فکر کے ہر طالب علم کو آگے بڑھنے کے لیے اپنے اپنے محیط میں ان کے متعلق لازماً سوچنا ہوگا اور ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہوگی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اقبال نے جو جواب پیش کیے وہ بھی اپنی جگہ (باوجود بعض مقامات پراختلافِ نظر کے) نہ صرف اس وقت اہمیت کے حامل تھے بلکہ آج بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لیے تاریخِ فکرِ ایران اور تاریخِ اسلام کے طالب علم کو اقبال کے مشخص کردہ خطوط پر آگے بڑھ کر ہی اسلامی فکری روایت کی تفہیم و بازیافت ہوسکتی ہے بصورتِ دیگر اسے مستشرقین کی غیر منصفانہ تحقیقات کی بھول بھلیوں کا شکار ہو کر حقیقت کے صدف سے پیش رفت وارتقا کے موتیوں کے حصول سے دست کش ہوناپڑے گا۔ اقبال کے مقالے کے عربی مترجم ڈاکٹر حسین مجیب المصری نے ترجمے کے مقدمے میںاقبال کے مقالے کی روشِ تحریر کو مضبوط علمی منہاج واساس پر استوار ذکر کرتے ہوئے مقالے کی صرف اسی خوبی کو اس قابل گردانا ہے کہ اس کو دیگر زبانوں میں شائع ہونا چاہیے تاکہ دوسری اقوام وافراد اس سے استفادہ کرسکیں۔ ۳۳؎ جب کہ اقبال کے تحقیقی مقالے کے فارسی مترجم ۱۔ ح۔ آریان پورنے مقالے کے بعض اسقام کا ذکرکرنے کے باوجود اس بات کابرملا اظہار کیاہے کہ اقبال کی ایرانی تاریخِ فلسفہ پر یہ تحقیق اور اس کی روش تاحال بے مثال وبے نظیر ہے اور اس کا ایرانی فرہنگ میںنادراضافے کے طور پر ذکر کیاہے۔۳۴؎ اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے کے دیباچے میں اس کی تحریر کادوسرا مقصد بیان کیاتھا: ۳۵؎ تصوف کے موضوع پر میںنے زیادہ سائنٹفک طریقے سے بحث کی ہے اور ان ذہنی حالات وشرائط کو منظرِ عام پر لانے کی کوشش کی ہے جو اس قسم کے واقعے کو معرضِ ظہور میں لے آتے ہیں لہٰذا اس خیال کے برخلاف جو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، میں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تصوف ان مختلف عقلی واخلاقی قوتوں کے باہمی عمل واثر کا لازمی نتیجہ ہے جوایک خوابیدہ روح کو بیدار کرکے زندگی کے اعلیٰ ترین نصب العین کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء مقالے کی تحریرکے دوران اقبال کے مقالے کا یہ ایک بنیادی ہدف اقبال کی نہائی فکر میں کس طرح جاری وساری رہتاہے اور اس کا کیا مقام ہے اس کے بیان واثبات کے لیے ہم بغیر کسی تبصرہ کے اقبال کی تشکیلِ جدید کے ساتویں خطبے کی ابتدائی سطور کا یہاں ذکرکرکے اس موضوع پر گفتگو کو ختم کرتے ہیں۔ اجمالاً پوچھیے تو مذہبی زندگی کی تقسیم تین ادوار میں ہو جاتی جن میں ہر دور کوایمان، فکر اور معرفت کے ادوار سے تعبیر کیاجاسکتا ہے پہلا دور ایمان کاہے،دوسرا فکر، تیسرا عرفانِ حقیقت کا۔ ۳۶؎ اسی تسلسل میں پہلے دو ادوار کی وضاحت کرنے کے بعد تیسرے دور کے بارے میں کہتے ہیں: مذہب کا یہی آخری مرحلہ ہے جس کے پیشِ نظر میں اس بحث میں جواس وقت ہمارے سامنے ہے، لفظ مذہب استعمال کر رہا ہوں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس صورت میںتصوف کی اصطلاح اختیار کی جائے تو اسے کوئی اچھی چیز نہیں سمجھاجاتا۔ ۳۷؎ اقبال کی نہائی فکر کے متعلق سعید احمد اکبر آبادی کہتے ہیں: ۳۸؎ علامہ اقبال کے خطبات عصرِ حاضر کا جدید علم الکلام ہیں جس کی ضرورت ارباب فکر وبصیرت عرصے سے محسوس کر رہے تھے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ علم الکلام ہمارے قدیم علم الکلام سے بدرجہا فائق، مستحکم اور ایمان وبصیرت کو جلابخشنے والاہے۔ جب کہ سید علی عباس جلال پوری یوں گویا ہیں: ۳۹؎ جہاں تک ان کے فکراور نظر کا تعلق ہے وہ ایک متکلم ہیں کیوں کہ انھوں نے مشاہیر متکلمین اشعری،غزالی، رازی وغیرہ کی طرح مذہب کی تطبیق معاصر علمی انکشافات سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال نے جب علی گڑھ میں اپنے ’خطبات‘ پیش کیے تو صدر ِجلسہ ڈاکٹر سید ظفرالحسن نے خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ’’اقبال نے ایک علم الکلام تشکیل دینے کا کارنامہ سرانجام دیاہے۔‘‘ ۴۰؎ اور یہ بات بدونِ تردیدکہی جاسکتی ہے کہ اقبال نے نئے علم الکلام کی تشکیل کے لیے : (i) ابتدائی مواد ومسالہ اور خام مال اپنے تحقیقی مقالے کے مطالعات کے دوران حاصل کیا (بعد ازاں خودانھوں نے اس وقت کے نقطۂ نظر سے اتفاق کیا ہو یا اختلاف،بنیاد بہرحال وہیں پڑی)۔ (ii) قدیم علم الکلام کو جدیدبنیادوں پراستوار کرنے کے لیے بھی اقبال کواساسات یہیںسے مہیاہوئیں اس لیے کہ جن پہلوئوں سے اس نے اختلاف کیا وہ بھی اس مطالعے کے دوران اقبال کے سامنے آئے اور جن کو اس نے ایک بالکل نئے رنگ میں اپنی فکر میںسمونا تھااور جنھیں آگے بڑھانا تھا وہ بھی اسی دوران اقبال کے سامنے آئے جوبعد ازاں مزید مطالعات اور غوروفکر سے نہائی شکل میں سامنے آئے۔ تمام نامور ایرانی مفکرین اور رہنمائوں نے انقلابِ اسلامی ایران میں اقبال کی فکر کے حصے کو تسلیم کیاہے اور انھوںنے انقلاب کی تشکیل میں فکرِ اقبال کے نفوذ وتاثر کا ذریعہ اقبال کی شاعری کو قرار دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اقبال کا یہ تحقیقی مقالہ بلاواسطہ فکرِ ایران پر خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں کر سکا لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اقبال کی نہائی شاعرانہ فکر کی تشکیل میں اقبال کا یہ تحقیقی مطالعہ ایک نہایت اہم عنصر اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ رومی کی طرف رجحان، نظریۂ عشق، حرکت، مردِ مومن، انفرادی خودی کی یافت ونمو اور اس سے اجتماعی خودی کی تعمیر جیسے اساسی تصورات سے کما حقہ، آگاہی اور اپنی اصل کی عظمت وپرمایگی کا شدید احساس یاتو اس تحقیقی مقالے کے دوران اقبال کوہوا اور یاپھر اس تحقیق کے بعد۔ تحقیق کے زیرِ اثر ان میں بعض بالکل نئی فکری جہات پیدا ہوئیں اوران کے ذہن پرنئے افق وا ہوئے، لہٰذا اقبال کے اس تحقیقی مقالے کو کاملاً نہ سہی بعض نہایت اہم جہات میں اقبال کی مابعد فکر کی اساس ضرور قرار دیاجاسکتا ہے۔ آخر میں ہمیں اسی بات پر اپنی گزارشات کو تمام کرنا ہے کہ اقبال نے اپنے اس مقالے میں جوطرزِ تحقیق اپنائی ہے وہ اس وقت بھی منفرد وممتاز تھی اور خاص اہمیت کی حامل تھی اور آج بھی اس کی انفرادیت و امتیاز اور اہمیت مسلّم ہے۔ مسلمان فلاسفہ کوبالعموم اورپاکستانی اور ایرانی دانشوروں کوبالخصوص اقبال کی اس تطبیقی ووضاحتی روش کو اپنا کراسلامی فکری روایت کو آگے بڑھانا ہوگا تاکہ انتہائی سرعت کے ساتھ ہر لمحہ بدلتے ہوئے عالمی فکری منظرپراپنی مضبوط اساسات پرانتہائی اعتماد کے ساتھ بین الاقوامی چیلنجوں کا علمی، فکری اور عملی ہر سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے نہ صرف خود تیارہوں بلکہ آنے والی نسلوں کو مضبوط اساس فراہم کرسکیں۔ حوالے اور حواشی ۱ محمداقبال، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ (مترجم نذیرنیازی)، بزمِ اقبال، لاہور ،۱۹۸۶ئ، ص۔۹ ۲ محمداقبال، مقالاتِ اقبال (مرتب سید عبدالواحد معینی)، شیخ محمد اشرف، ۱۹۶۳ئ، ص۔۱۹۰ ۳ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، مقالاتِ حکیم(ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ)، لاہور، ۱۹۶۹ئ، ص۔۱۲۸ ۴ محمداقبال، اقبال نامہ حصہ اوّل مرتبہ شیخ عطااﷲ، شیخ محمد اشرف، ۱۹۴۵ء ،ص۔ ۱۰۹ ۵ محمد اقبال، اقبال نامہ حصہ اوّل، مرتبہ شیخ عطا اﷲ، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۴۵ئ، ص۔ ۴۲۶ ۶ محمد اقبال، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ (مترجم نذیرنیازی)، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۶ئ، ص۔۴۰ ۷ ڈاکٹر عشرت حسن انور، اقبال کی مابعد الطبیعیات، اقبال اکادمی، ۱۹۷۷ئ، دیباچہ ۸ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، فکرِاقبال، ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، ۱۹۶۸ئ، ص۔۱۰، ڈاکٹر قاضی عبدالمجید، اقبال کی شخصیت اور اس کاپیغام، دانائے راز، مرتبہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو، کراچی، ۱۹۷۷ئ، ص۔۱۹۲ ، ابو ظفر عبدالواحد ایم اے علیگ، اقبال کا ذہنی ارتقا، دانائے راز، مرتبہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق ، انجمن ترقیِ اردو، کراچی، ۱۹۷۷ئ، ص ۔۲۲۱، محمد اقبال کلیاتِ اقبال دیباچہ بانگِ درا، از شیخ عبدالقادر، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۸۴ء ، ص۔ ۱۳ ۹ مرتبہ بی اے ڈار، انوارِِ اقبال، اقبال اکیڈمی، لاہور، ۱۹۸۷ء ، ص۔ ۱۷۶ ۱۰ ڈاکٹر ایس ایم۔ منہاج الدین، افکاروتصوراتِ اقبال، کاروانِ ادب، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص۔۱۳۔۱۴ ۱۱ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، عروجِ اقبال، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۶ئ، ص۔ ۳۴۱ ۱۲ مرتبہ یونس جاوید، صحیفہ اقبال، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۶ئ، ص۔ ۲۶۲ ۱۳ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، اقبال اور قرآن، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص۔ ۳۶ ۱۴ ڈاکٹر این میری شمل، شہپرِِ جبریل، مترجم ڈاکٹرمحمد ریاض، گلوب پبلشرز ،لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص۔۵۹ ۱۵ ڈاکٹر این میری شمل، شہپرِ جبریل، مترجم ڈاکٹر محمدریاض، گلوب پبلشرز ،لاہور ،۱۹۸۵ئ، ص۔ ۵۹ ۱۶ عباس مہدوی اشرف، علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال، ادارہ کل فرھنگ وہنر استانِ مازندان، ص۔ ۳،۴ ۱۷ فضل اﷲرضا، محمد اقبال، انجمن روابط فرھنگی ایران وپاکستان، تہران، ص۔ ۷،۸ ۱۸ حبیب یغمائی، اقبال وشعر، گذارش کنگرہ بزرگذاشت اقبال، موسٔسہ حسینیہ ارشاد، تہران ،۱۳۵۲ ص۔۱۷۳ ۱۹ سید غلام رضا سعیدی، اقبال شناسی، انتشارات بعثت،تہران، ص۔ ۲۰۲ ۲۰ احمداحمدی، دانائی راز،چانچانہ زوار، تہران، ص۔ ۵،۷ ۲۱ محمد تقی مقتدری، اقبال، متفکر وشاعرِ اسلام، تہران چاپخانہ دولتی، ۱۳۲۶، ص۔۲۱،۲۲ ۲۲ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو عبدالرفیع حقیقت کی، اقبالِ شرق، تہران، انتشارات بنیاد نکوکاری ،۱۳۵۷، ص۔۳۲، ۴۳ ۲۳ ڈاکٹرمہدی محقق، ’اقبال وفلسفۂ اسلامی‘، گذارش کنگرہ بزرگداشت اقبال۔ موسٔسہ حسینیہ ارشاد، تہران، ۱۳۵۲، ص۔۸۴ ۲۴ سیّدمحمدمحیط طباطبائی، ’شناسائیِ اقبال‘ ،گذارش کنگرہ بزرگداشت اقبال۔ موسٔسہ حسینیہ ارشاد تہران، ۳۵۲، ص۔ ۱۴۰ ۲۵ محمد اقبال، کلیاتِ اشعارِ فارسی مولانا اقبال لاہوری، مقدمہ از احمد سروش، انتشارات کتابخانہ سنائی، ۱۳۶۸، ص۔۳۲ ۲۶ محمد حسین مشائخ فریدنی، نوائے شاعرِ فردا یا اسرارِِ خودی ورموزِ بے خودی، موسٔسہ مطالعات فرھنگی، ۱۳۶۸، مقدمہ ۲۷ ڈاکٹر شھین دخت مقدم صفیاری، نگاہی بہ اقبال، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۸۹ء ،ص۔ ۳۷ ۲۷۔ الف ان تمام آراء میں بیان حقیقت سے زیادہ حسن عقیدت اور مبالغے کو دخل ہے۔ علامہ کی سوانح اور فکری ارتقاء پر مجموعی نظر اور اس مقالے کے خصوصی تجزیے سے ان تبصروں کی تائید نہیں ہوتی (مدیر) ۲۸ ڈاکٹر محمد اقبال، فلسفۂ عجم، مترجم میرحسن الدین، نفیس اکیڈمی، کراچی، ۱۹۶۹ئ، ص۔ ۹، ۱۰ ۲۹ Allama Muhammad Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia ص۔ ۳۳، ۳۴ ۳۰ Allama Muhammad Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia ص۔ ۷۷، ۷۶،۲۳ ۳۱ علامہ محمد اقبال، مقالاتِ اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی۔ شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۶۳ئ، ص۔ ۱۵۳ ۳۲ محمد اقبال، ماوراء الطبیعہ فی ایران (مترجم ڈاکٹر حسین مجیب المصری) مقدمۂ مترجم قاہرہ مکتبہ الانحلو مصریہ، ۱۹۸۶ء ، ص۔۲۳۰، ۲۴۰ ۳۳ محمد اقبال، ماوراء الطبیعہ فی ایران (مترجم ڈاکٹر حسین مجیب المصری) مقدمۂ مترجم قاہرہ مکتبہ الانحلو مصریہ، ۱۹۸۶ء ، ص۔ ۵ ۳۴ محمد اقبال، سیر فلسفہ در ایران، (مترجم ا۔ ح۔آریان پور) مقدمۂ مترجم ط۔ ی تہران، نشریہ، شمارہ۔ ۸ ۳۵ محمد اقبال، فلسفۂ عجم (مترجم میرحسن الدین) نفیس اکیڈمی ،کراچی، ص ۔۱۶ ۳۶ محمد اقبال، تشکیلِ جدیدالہیاتِ اسلامیہ (مترجم نذیرنیازی)، بزمِ اقبال، لاہور، ص۔۲۷۸ ۳۷ محمد اقبال، تشکیلِ جدیدالہیاتِ اسلامیہ (مترجم نذیرنیازی) بزمِ اقبال، لاہور، ص۔ ۲۷۹ ۳۸ سعید احمد اکبر آبادی، خطباتِ اقبال پرایک نظر، اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی، سرینگر، ۱۹۸۳ئ، ص۔ ۱۰ ۳۹ سیدعلی عباس جلال پوری، اقبال کاعلمِ کلام، مکتبہ ،فنون، ۱۹۷۳ء ،پیش لفظ ۴۰ ڈاکٹر سید ظفر الحسن، خطبۂ صدارت، المعارف شمارہ ۳، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور، ۱۹۸۸ئ، ص۔ ۱۸  تصورِ مردِ کامل عابدہ خاتون علامہ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ کی شاعری کی اساس اور تمام تر فلسفے کا نچوڑ انسانِ کامل کا تصور ہے۔ اس کائناتِ عالم میں ان کی متجسّس نگاہیں انسانِ کامل کی تلاش میں ہیں کیوںکہ یہ دنیا انھیں آدمیوں کا ایک جنگل نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومیؒ کے ان اشعار کو علامہ اقبالؒ ’اسرارِ خودی‘ کا سرنامہ بناتے ہیں: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستم دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جُستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست میاں محمد ؒ بھی اپنے عہد اور اس کے انسان سے مطمئن نہ تھے ان کو بھی رومی کی طرح انسان کی آرزو اور انسان کی تلاش تھی۔۲؎ میاں محمد بخش ؒ فرماتے ہیں: کدھرے نظر نہ آوے کوئی بھرے پیالے والا جے دِسّے تاں ورتے ناہیں ناں ہک گُھٹ نوالا میاں محمد بخشؒ کا عہد اخلاقی پستی کا بدترین دور تھا۔ غلامی کے اس عہد میں سب کے پیالے آدھے تھے۔ اعمال و اخلاق کے اعتبار سے انھیں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس سے دوسروں کو فیض پہنچے۔ غلامی کے بدترین عہد میں جب کفر اور تاریکی کا غلبہ بڑھ جاتا ہے تو ایک روشنی کی صورت انسانِ کامل کا ظہور ہوتا ہے۔ اِسی مردِ کامل کا بھرپور تصور اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ ’اس انسانِ کامل کی بعثت پر تمام اہلِ کتاب کا اتفاق ہے اور اسی انسانِ کامل کا راستہ صاف کرنے کے لیے مجدّد اور عالم آتے رہتے ہیں تاکہ قوم کا معیارِ حیات پستی سے رفعت کی طرف لایا جائے اور اسے آنے والے ’نائبِ الٰہی‘ کی تعلیم کے قابل بنایا جائے۔ علامہ اقبال اسی نائبِ حق کا ایک پیش رو ہیں، جس کی آمد کا سب کو انتظار ہے جس کے لیے ایک عالم ہمیشہ ہمیشہ چشم براہ رہتا ہے۔ ۴؎ اسی مردِ کامل کی تلاش میں نوعِ انسانی ہزار ہا سال سے سرگرمِ عمل ہے اور کائنات اسی کے انتظار میں بے قرار ہے جو شجرِ انسانیت کا آخری ثمر ہے، انسانیت کا حقیقی حاکم اورکاروانِ زندگی کی منزل ہے ۔ میاں محمد بخشؒ اسی انسانِ کامل کے انتظار کو یوں بیان کرتے ہیں: سرو آزاد حیران کھلوتا پیر زمیں وچہ گڈّے! اُچّا ہو ہو رستا ویکھے مت سوہنا سر کڈھے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا اے فروغِ دیدۂ امکاں بیا رونقِ ہنگامۂ ایجاد شو در سوادِ دیدہ ہا آباد شو نوعِ انساں مزرع و تو حاصلی کاروانِ زندگی را منزلی یہ وہ مثالی انسان ہے جو دنیا میں سب سے بلند مرتبت ہے اور اقبالؒ کے نظریۂ خودی کی آخری منزل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مردِ مومن کے مقام کی کوئی حد نہیں اور پورا جہاں اس کے زیرِنگیں ہے کیوںکہ وہ نہ صرف اشرف المخلوقات اور مسجودِ ملائک ہے بلکہ زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ہے۔ مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے قرآنی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین اندازپر تخلیق فرمایا، اسے تمام اشیا کے نام سکھائے اور فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا پھر تمام کائنات کو اس کے لیے مسخر کر دیا۔ احادیثِ مبارکہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا عکس انسان کوودیعت فرمایا اور اسی اطاعتِ خداوندی کی بدولت انسان لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتاہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا جاتا ہے۔ گویا اطاعتِ الٰہی مومن کے لیے اوّلین شرط ہے اور یہی علامہ اقبالؒ کے نزدیک خودی کی منزل کا پہلا زینہ ہے۔ ’’اقبال نے تربیتِ خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی خود سری نہیں ہے۔ حکمرانی کے لیے پہلے حکم برداری کی مشق مسلّم ہے۔ جس نے خود اطاعت کی مشق نہ کی ہو وہ دوسروں سے اطاعت طلب کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا ۔ انسان کو خدا اختیار ورزی کی مشق کرانا چاہتا ہے تا کہ وہ فطرت کے جبر سے نکل کر اپنے اختیار سے فضیلت کوش اور خدا طلب بن سکے۔ اصل مقصد اطاعت کو اختیار بنانا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جبر کو اختیار میں بدلنا ہے۔ ۱۰؎ در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت انفرادی خودی کی تربیت کا پہلا مرحلہ ہے۔ خدا نے نفس کی مختلف قوتوں کی تگ و دو کے لیے کچھ حدود مقرر کی ہیں، ان حدود کو شریعت یا قانونِ الٰہی کہتے ہیں۔ شریعت کی پابندی خدا کا قرب حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس سے خودی کو اپنی آزادی کی حد کا پتا چلتا ہے اور وہ افراط و تفریط سے بچ کر صراطِ مستقیم پر چلتی ہے جو اس کی انفرادیت کے ارتقا کی لازمی شرط ہے۔‘‘ ۱۲؎ علامہ اقبال ؒفرماتے ہیں: یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبحگاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُو سیاہی خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا مقامِ رنگ و بو کا راز پا جا ’’اقبال کے نقطۂ نظر سے ’خودی‘ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد اور ملت کی ترقی و پستی، خودی کی ترقی وزوال پر مبنی ہے۔ خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام زندگی کا استحکام ہے، ازل سے ابد تک خودی ہی کی کار فرمائی ہے۔اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔‘‘۱۵؎ خودی کیا ہے؟ رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے؟ بیداریِ کائنات ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے نہ حد ، اس کے پیچھے نہ حد سامنے! ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے ’’الغرض عرفانِ ذات، خود آگاہی، ایمان و یقین کی گہرائی، جرأت و شجاعت، عزم و استقلال، ذوقِ تسخیر اور کائنات کو مسخر کر کے توحید کا راز آشکارا کرنے والی قوت کا نام خودی ہے۔‘‘ ۱۹؎ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی خودی ایک تلوار کی مانند ہے جو توحیدکی محافظ ہے۔ یہ انسان کو تمام سجدوں اور غیر اللہ کے خوف سے نجات دلا کر نہ صرف ایک مؤحد بناتی ہے بلکہ صحیح معنوں میں اطاعت گزار بناتی ہے جس کی بدولت وہ قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے اور تمام دنیا سے الگ ہو کر صرف اﷲ کا عبادت گزار بندہ بن جاتا ہے۔ خودی کا سرِ نہاں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ خودی ہے تیغ، فساں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ علامہ اقبال ؒنے خود شناسی کو خودی سے تعبیر کیا ہے اور اپنی تحریروں میں جا بجا لفظ خودی کی تشریح فرمائی۔ انھوں نے غرور و تکبر کی بجائے اس لفظ سے مراد احساسِ نفس اور تعیّنِ ذات کے مفہوم کا احاطہ کیا۔ فرماتے ہیں: خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں جو ناز ہو بھی، تو بے لذّتِ نیاز نہیں ’’اقبال کے ہاں خودی کا تصور درحقیقت قرآن کریم کے نیابتِ الٰہی کے تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتناہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک، ذرہ و خورشید، سب سربسجود ہیں۔ قرآنِ کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ بھی مسجودِ ملائک ہے۔ اس ظاہری تضاد سے توحید میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح سے اس کی سیاست کو سمجھنے والا اور تہِ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اگرچہ سرچشمۂ اقتدار بادشاہ ہوتا ہے لیکن رعایا کو نائب کی اطاعت اس طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی۔ انسان کا نصب العین یہ ہے کہ شمس و قمر، شجر و حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنھیں ملائکہ کہتے ہیں، سب کے سب اس کے لیے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مشیتِ ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے۔ اس کی قوتِ تسخیر کی کوئی حد نہ ہوگی۔ نباتات و حیوانات اور اجرا مِ فلکیہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ، انبیا اور آخر میں خدا کے ساتھ ہم کنار ہو سکے گا۔‘‘۲۳؎ یہی وہ مقام ہے جس کے لیے علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے انسان نائبِ خدا ہے اور اطاعتِ الٰہی مومن کی سرشت میں شامل ہے۔ توحید کا راز اُس پر عیاں کرنے والی بے پناہ قوت کا نام خودی ہے جس کانوری جوہر اللہ تعالیٰ نے اُس کی ذات میں ودیعت فرمایا ہے جو شخص اس جوہرِ ملکوتی کو پا لیتا ہے دنیا کی تمام قوتیں اس کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے ُتو فروغِ دیدۂ افلاک ہے ُتو ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حور کہ شاہینِ شہِ لولاکؐ ہے ُتو مردِ کامل توحید اور رسالت کی معرفت سے سرشار ہو کر عرفانِ ذات اور عرفانِ خدا کی حقیقی منزل پر اُسی وقت فائز ہو سکتا ہے جب وہ اپنی خودی کو مکمل طور پر مستحکم کر لیتا ہے۔ علامہ اقبالؒ انسان کو اُس کے حقیقی مرتبے سے آگاہی کا احساس دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خودی کی معراج حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے تاکہ خدا کا ترجمان بناجا سکے۔ تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا رازداں ہوجا، خدا کا ترجماں ہوجا گزر جا بن کے سیلِ تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا علامہ اقبالؒ نے اسرارِ خودی میں تربیتِ خودی کے تینوں مراحل اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور مردِ مومن کے لیے اطاعتِ الٰہی کو خودی کا پہلا درجہ قرار دیا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: خوشیاں کان نہ ہویا بندہ کرن عبادت آیا وقت پچھاتا چاہیے بیٹا لبھسی نیئں کھڑایا اطاعت کی ماہیت جذبۂ عشق ہے اور عشق کا سر چشمہ ذاتِ خداوندی ہے۔ گویا آدم ’سرِذات‘ ہے اور خدا کا راز ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر انسان کو اُس کی عظمت کا احساس دلا کر اُسے اپنے اندر خدائی صفات پیدا کرنے اور گمراہی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ طلسمِ بود و عدم جس کا نام ہے آدم خدا کا راز ہے، قادر نہیں ہے جس پہ سخن در دو عالم ہر کجا آثارِ عشق ابنِ آدم سرے از اسرارِ عشق میاں محمد بخشؒ بھی انسان کے لیے اسی عشق کو ضروری سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں اصل انسان وہ ہیں جو مردانِ حق شناس ہیں اور محرمِ اسرارِ الٰہی ہیں۔ خاص انسان انہاں نوں کہیئے جنھاں عشق کمایا دھڑ سر نال نہ آدم بندا جاں جاں سرّ نہ پایا اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی قربت عطا کر کے بیش بہا دولت سے نوازا ہے اور اس کے اندر عبدیتِ کاملہ کے مرتبے پر پہنچنے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی، اُس کو اپنی صفات بھی بخشیں۔ یہی وجہ ہے کہ مردِ کامل مظہرِ ذات و صفات ہے۔ اس میں سے اللہ تعالیٰ کی صفات منعکس ہو رہی ہیں گویا مردِ مومن اللہ تعالیٰ کے روپ اور تجلّی کا ایک آئینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کی آب و تاب اور شانِ ربّانی انسان ہی کے ذریعے نمایاں کی ہے۔ تخلیقِ کائنات کا سبب دراصل تخلیقِ آدم ہی ہے۔۳۳؎ بقول اقبالؒ: مردِ مومن از کمالاتِ وجود او وجود و غیرِ او ہر شے نمود میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: بوہت نوازیا آدمی نوں دتا سب خلق تھیں قرب نیارا شیشہ اپنے روپ دا ایہہ کیتا، ثانی اوس دا نہیں کوئی چن تارا شاہ آدمی کل پیدائشاں دا، شاہ اوس دا پاک حبیب پیارا ایسے واسطے لوح تے قلم سرجے، سرگ نرک تے ہور سنسار سارا یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پیدا کی اور اُسے ایسی قوتوں سے نوازا کہ وہ اس کائنات کو مسخر کر سکے۔عقل و عشق وہ قوتیں ہیں جن سے کام لے کر وہ پوری کائنات پر غالب آسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ہیں تیرے تصّرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دور سے گرُدوں کے ستارے ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے تعمیر خودی کر، اثرِ آہِ رسا دیکھ! مردِ کامل اس زمین پر سنتِ رسولﷺ کا وارث اور سیرت رسولﷺ کا نمونہ ہے۔ اس لیے کائنات کی تمام وسعتیں اُس کے سامنے سمٹ جاتی ہیں اور وہ اُس مقام پر فائز ہو جاتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ لیکن اس کے لیے ہمت ِمردانہ اور جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔ میاں محمد بخش ؒفرماتے ہیں کہ انسان کو لگاتار جدوجہد پر آمادہ کرنے کے لیے میں نے قصّہ سیف الملوک لکھا تاکہ انسان کبھی بھی ہمت نہ ہارے اور تھک کر نہ بیٹھ جائے بلکہ سیف الملوک کے ہیرو کی طرح مسلسل ہمت کے ساتھ جدوجہد کا سفر جاری رکھے ۔ قصّہ سیف ملوکے والا اس کارن کہناں طالب ہمت کر کے چلے روا نہ رکھے بہناں اقبال ؒکے نزدیک وہی طالب صاحبِ امروز ہے: وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا یہ مردِ کامل اپنی ہمت و عظمت سے زندگی کی تاریک شبوں کو سحر عطا کرنے والا ہے۔ گردشِ دوراںاس کی ہم رکاب ہے اور یہ جبریل کو صیدِزبوں سمجھ کر شکار کرنے والا ہے۔ در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے یزداں بہ کمند آور اے ہمتِ مردانہ افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن! جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن! ’’انسان کے متعلق علامہ اقبال کا تصور اصولی طور سے قرآنی ہے۔ انھوں نے یہ تصور خودی کے نظریے سے مربوط کر کے پیش کیا ہے۔ اس میں صاحبِ ایمان انسان کو نائبِ حق اور مردِ مومن سے مخاطب کیا گیا ہے۔‘‘۴۱؎ اس مردِ کامل کے وجود میں وہ ہمہ گیر صلاحیتیں پوشیدہ ہیں جو کائنات کی ہیئت کو تبدیل کر کے رکھ سکتی ہیں کیوںکہ یہ صاحبِ عقل ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ نظر اور قوت کا سرچشمہ ہے اور صفاتِ خداوندی کا مظہربھی ہے۔ چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی یہ ہستیِ دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے اطاعتِ الٰہی کے ذریعے جب مومن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو پھر رضائے بندہ اور مرضیِ حق میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا ۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: در رضایش مرضیِ حق گم شود ایں سخن کے باورِ مردم شود خودی کی تربیت کے دوسرے مرحلے پر مردِ کامل ضبطِ نفس پر عمل پیرا ہوتا ہے یعنی اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اور تمام بُری خواہشات پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔ اطاعت سے ہی ضبطِ نفس کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ ’’ضبطِ نفس کے بغیر اطاعت کا عمل مکمل نہیں ہوتا ۔ ضبطِ نفس ہی سے انسان اطاعتِ الٰہی کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے اور نیابت کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہو کر خلیفۃ اللہ فی الارض قرار پاتا ہے۔‘‘۴۴؎ مردِ کامل اپنے نفس کو احکامِ الٰہی کے تابع کر دیتا ہے اور ہر طرح کی بُری خواہشات سے دامن بچا کر چلتا ہے۔اس کا دامن دنیاوی آلائشوں اور کثافتوں سے پاک ہوتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: آتشیں پہاڑ غصّے دا شہوت دریا جوشاں حرص ہوا گلیم گوشاں تھیں لنگھے کر کے ہوشاں علامہ اقبالؒ کے نزدیک موجِ نفس تلوار کی مانند ہے اور خودی اس کی دھار ہے۔ یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے! خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے! خودی کے اس مرتبے کو بھی وہی انسان پہچانتے ہیں جو اپنے نفس کا عرفان حاصل کر لیتے ہیں پھر اُن پر محبوبِ حقیقی کا خاص کرم ہو جاتا ہے۔ جب وہ راہِ طلب پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنا شروع کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی انھیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں پھر عفریت جیسا باغی نفس بھی مطیع و فرمانبردار گھوڑے کی مانند ہو جاتا ہے۔ جدوں پیارا مہریں آوے آپ آپے ول چِھکّے وَیری بھی تد گولے بندے ہَر اِک دا دل وِکّے نفس عفریت کند ہاڑے چائے بَن بے عُذرا گہوڑا فرماںدار چلے ہودر دی پنّدھ نہ کردا تھوڑا! ’’جب اطاعت و ضبطِ نفس کی منزلوں سے کسی فرد کی خودی، کامیاب گزر جاتی ہے تو وہ نیابتِ الٰہی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے جو تخلیقِ انسانی کا مقصدِ خاص ہے اور جس کے حصول کے لیے انسان روزِ اوّل سے سرگرمِ عمل اور مزاحمتوں سے برسرِپیکار ہے۔‘‘ ۴۸؎ نائبِ حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است نائبِ حق ہمچو جانِ عالم است ہستیِ او ظلِ اسمِ اعظم است مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایاّم کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی عظمت کا بار بار ذکر کیا اور اسے زمین پر خلیفۃ اللہ کے منصب سے نوازا۔ شمس و قمر اور جنّ و ملائک کو اس کے تابع قرار دیا۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ محبوبِ حقیقی کی محبت میں ہر چیز سے بے نیاز ہو جائے اور خالص اﷲ کا بندہ بن جائے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: اپنا آپ چھڈیں اُس کارن ساجن تاں گھٹ آون سَبّھ جگ اُتّے شاہی تیری پریاں تخت اُڈاون ’’نیابت اللہ (خودی کا تیسرا مرحلہ) اور روئے زمین پر انسانی معراج ہے۔ نائبِ حق روئے ارضی پر خلیفہ فی الارض ہے اور مکمل ترین خودی کا مظہر ہے۔ وہ خودی کی تکمیل یافتہ تجسیم، معراجِ انسانیت اور جسم و دماغ کے لحاظ سے زندگی کا نقطۂ عروج ہے۔‘‘ ۵۲؎ علامہ اقبال ؒنے جس مردِ مومن اور انسانِ کامل کا تصور پیش کیا وہ حقیقی معنوں میں نائبِ خدا ہے۔ اُس میں جملہ صفاتِ الٰہی کا پرتو پایا جاتا ہے۔ وہ ان تمام صفات و کمالات کا مظہر ہے جو اس میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کیے ہیں۔ اس میں صفتِ جمالی بھی ہے اور صفتِ جلالی بھی۔ جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں ، وہ طوفان ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی بُرہان قہّاری و غفّاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان مردِ کامل کی زندگی کے دو رُخ ہوتے ہیں ظاہری طور پر تو وہ دنیا میں رہتا ہے لیکن باطنی طور پر خدا سے واصل ہوتا ہے یعنی اپنا رشتہ ہمیشہ خدا کے ساتھ استوار رکھتا ہے۔ اس کے دل میں محبوبِ حقیقی کے سوا کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔جلوت ہو یا خلوت وہ ہر دم اپنے خدا کی یاد میںمست اور مگن رہتا ہے۔ اُسے دنیا کی کوئی پروا نہیں ہوتی کیوںکہ اُس کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہوتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: جنھاں دلبر پایا اونہاں ناں پروا کسے دی وچہ گوشے توحید انہاندے ناہیں جا کسے دی فارغ ہیں اوہ عقلوں ہوشوں ٹردے اپنی ٹورے اوراں دی پند مت نہ سندے کن انہاندے ڈورے سُکّے پیر ندی تھیں لنگھن وچہ سمندر چلدلے ہرگز مثل سمندر کیڑے آتش وچہ نہ جلدے یہ مردِ کامل پانی کے طوفانوں میں بھی محفوظ رہتے ہیں بلکہ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں کہ آگ بھی انھیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی کیوںکہ وہ اپنی خودی استوار کر چکے ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال ’شکوہ‘ میں ایسے ہی مردوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے یہ مردِ کامل جب حضوری کی منزل پا لیتے ہیں تو غیر اللہ کے طلسم سے بھی آزادی حاصل کر لیتے ہیں کیوںکہ جب تک مردِ مومن پر یہ حقیقت منکشف نہ ہو کہ اللہ کے سوا اس کائنات میں کوئی ہستی حقیقی معنوں میں موجود نہیں، غیر اللہ کی غلامی سے رہائی پانا ممکن ہی نہیں ہو سکتا کیوںکہ اللہ تعالیٰ سے منھ موڑ کر غیر اللہ سے اُمید رکھنا انسان کو ایمان کی حدوں سے نکال کر کفر کے نزدیک لے جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: اے مسلماں جُز براہ حق مرو نااُمید از رحمتِ عامے مشو بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نواُمیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے! بیاں میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے ’’خودی کا اصل جوہر توحید ہے۔ تمام دنیا سے کٹ کر صرف ایک خدا کا ہو کر رہ جانا، اسی کو اپنا مالک، فرماں روا، حاکم اور معبود سمجھنا اور اس کے سوا کسی کے آگے نہ جھکنے کا نام خودی ہے۔‘‘ ۶۰؎ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: جس بندۂ حق بیں کی خودی ہو گئی بیدار شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق اُس مردِ خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو تو بندۂ آفاق ہے ، وہ صاحبِ آفاق! اسی توحید کی بدولت مردِ کامل دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے بھی مرعوب نہیں ہوتا اور اللہ کے سوا کسی کے سامنے سرِتسلیم خم نہیں کرتا یعنی وہ ساری دنیا کو ہیچ سمجھتا ہے۔ وہ کائنات میں گم نہیں ہوتا بلکہ پوری کائنات اس میں گم ہو جاتی ہے۔ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق ’’جب کوئی بندہ خالص اللہ کا ہو کر رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کا بن جاتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک ہے اس لیے کائنات کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرماں بردار بندے کے تابع فرمان ہو جاتی ہیں۔‘‘۶۴؎ گویا مردِ مومن اﷲ تعالیٰ کا تابعِ فرماں ہے اور کائنات کی تمام قوتیں اور طاقتیں اس کی تابع ہیں۔ دنیا کے لوگ اس کے مقا م اور مرتبے کو نہیں پہچان سکتے کیوںکہ اُس کی کم زوری میں طاقت اور دیوانگی میں بھی فرزانگی ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: یار کرے جد اپنا تینوں چُھٹسن ہور اشنائیاں ماں پیئو سجن یاد نہ رہسن حرص نہ بھنیاں بھایاں جدوں جمال کمال دَسے گا سوہناں لعل پیارا ویکھن نال حلال ہوئیں گا چھوڑ جنجال پسارا خلقت تھیں گم ہویا چاہسیں گم ہویا تد پاسیں برّاں وچہ درندیاں وانگوں چَھپ چَھپ جھٹ لنگہاسیں نالے لاغر لِسّا تھیسیں نالے زور تواناں نالے عاقل دانا ہوسیں نالے مست دیواناں میاں محمد بخشؒ کے کلام کی اساس معرفتِ نفس پر ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ اگر خلقت سے الگ تھلگ ہو کر چشمِ بصیرت سے دیکھے گا تو وہ محبوب مل جائے گا جس کی تجھے تلاش ہے۔ اسی محبوب کی بدولت تُو زمان و مکاں پر غالب آ سکتا ہے۔ بقول اقبا لؒ: ہست معشوقے نہاں اندر دلت چشم اگر داری، بیا، بنمایمت عاشقانِ او ز خوباں خوب تر خوشتر و زیبا تر و محبوب تر میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: دلبر جس دا کوئی نہ ثانی جوبن دا متوالا! ہار نہ نیت پریت اوہدی دی نیہوں کمائیں لالہ جس بن ہکدم جال نہ تھیندی اس بن کیونکر رہسیں دے جواب کھدیڑے توڑے فیر اوسے ول ڈھسیں مردِ کامل کی نگاہ ہمیشہ اپنے مقصد پر ہوتی ہے۔ دنیا کی دلکشی اسے متاثر نہیں کرتی کیوںکہ ہر دم محبوبِ حقیقی کا خیال ہی اُس کے پیشِ نظر رہتا ہے۔ وہ ہر وقت ذکر و فکر میں مگن رہتا ہے۔میاں محمد بخشؒ ایسے ہی مومن مردوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ہر دم ذکر سجن دے اندر کل جہان بھلاون دل جانی دے عشقے کولوں اپنی جان رلاون محبوبِ حقیقی کا ذکر دل کو دنیا و مافیہا سے بیگانہ کر دیتا ہے اور ذوق و شوق یعنی جذبۂ محبت کو صحیح راستہ دکھاتا ہے۔ اقبال ؒاور میاں محمد بخشؒ کے نزدیک مردِکامل کا عشق محبوبِ حقیقی کے ساتھ اپنی جان ملانے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردِ کامل دل کی گہرائیوں سے ذکر میں مصروف رہتا ہے۔ ذکر؟ ذوق و شوق را دادن ادب کارِ جان است ایں نہ کارِ کام و لب ذکرِ الٰہی کا تعلق عمل سے ہے جس کے لیے دل و نگاہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ذکر کے بغیر فکر ناقص رہتی ہے۔علامہ اقبالؒ ذکر و فکر کو عبادت کی روح قرار دیتے ہیں: مقامِ ذکر کمالاتِ رومی و عطار مقامِ فکر مقالاتِ بو علی سینا مقامِ فکر ہے پیمائشِ زمان و مکاں مقامِ ذکر ہے سبحانِ ربیّ الاعلیٰ خرد نے کہہ بھی دیا لااِلٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآں زیستن فقرِ قرآں اختلاطِ ذکر و فکر فکر را کامل ندیدم جُز بذکر محبوبِ حقیقی سے عشق کا تقاضا یہ ہے کہ ذکرِ الٰہی کی بدولت سالک کے اندر تجلّی پیدا ہو۔ ایسی تجلّی جو خودی کی نگہبانی کرے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کے نور کی یہ تجلّی پیدا نہ ہو جو نفس کو عشق کی آگ میں جلانے سے پیدا ہوتی ہے یعنی اگرسالک کا دل روشن نہ ہو تو فقیر کی جُلّی بے سود اور مکرو فریب ہے۔ اوپر جُلّی مونہوں جَلّی اندر نہیں تجلّی جب لگ عشقوں جاں نہ جَلّی بھٹھ جُلی کیا جَلّی بقول اقبالؒ: یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے انسان کو تمام دنیا سے الگ ہو کر اکیلا ہونا پڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مردِ مومن دنیا تیاگ کر رہبانیت اختیار کرتا ہے۔ وہ دنیا میں رہتا تو ہے لیکن اُس سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اُس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے انسان دنیا میں جب سوتا ہے تو بظاہر وہ دنیا میں موجود ہوتا ہے لیکن دنیا کی طرف سے اُس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور گویا وہ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اپنے اردگرد کی رنگینیوں سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اُس پر ایک نئی دنیا منکشف ہوتی ہے اِسی طرح جب وہ دنیا کے تمام دھندوں سے علاحدہ ہوکر الف کی مانند تنہا ہو جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ اُسے ولایت کا اعلیٰ رتبہ عطا فرماتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: اوّل الف اکلا ہونویں نقطے چھوڑ جنجالی ہکو صورت ہکو ہندسہ بہت حسابوں خالی کڈہیں ول کھلونویں سدھا کر کے ہمت عالی اندر الفت ہوئی الف دی تاں الفی گل ڈالی ہک دلبر نوں دل وچہ رکھن سبھ خلقت تھیں نسّن ویدن وید نہ جانن مُولے کہو کی دارو دسّن کن آواز پوے ہر ویلے پہلے قول الستوں قالُوْا بَلیٰ کو کیندے بھائی اوسے ذوقوں مستوں مردِ مومن جب تربیتِ خودی کی تمام منازل بطورِ احسن طے کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنے محبوب بندوں میں شمار کر لیتا ہے۔ جاں توں سر دے پیر بنا کے مگر سجن دے چلیٔوں تاں فر پرت دلاسا دیسی جانی سنگت رلئیوں کہسی ہور نہ کوئی تیرا توڑے سیں توں مندا پئی قبول محبت تیری میں صاحب توں بندا اللہ تعالیٰ زمان و مکاں کو اپنے محبوب بندے کے لیے مطیع و فرماں بردار بنا دیتا ہے اور پوری کائنات کو اُس کے لیے مسخر کر دیتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لَولاک! ’’مردِ مومن چونکہ خدا کا نائب ہے اس لیے وہ گردشِ ایام کا اسیر نہیں بلکہ گردشِ ایام کا مالک ہے۔ وہ کسی کے احکام کا پابند نہیں۔ وہ صرف احکامِ الٰہی کا پابند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زندانیِ تقدیر نہیں بلکہ خالقِ تقدیر ہے۔‘‘ ۸۲؎ تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند مردِ کامل کی زندگی کا ہر لمحہ محبوبِ حقیقی کی خوشنودی کے لیے وقف ہوتا ہے اور اس کی زندگی کا نصب العین اپنی جان کی قربانی پیش کرنا ہے کیوںکہ مومن کی منزلِ مقصود شہادت ہے جو ابدی زندگی کی ضامن ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیںکہ مردِ کامل ہر وقت جذبۂ شہادت کا آرزو مند ہوتا ہے۔ جے اوہ جان پیاری منگے ترت تلی پر دھر دے سر لوڑے تاں سہل پچھانن رتی عذر نہ کر دے جے توں عاشق بنیاں لوڑیں پلا پکڑ سجن دا جان منگے تاں دیہہ شتابی صرفہ کریں نہ تن دا تن بھی تاہییںجنت جاسی خلعت لیے مرن دا دوزخ موت محمد جھاگے رکھ کے چاہ ملن دا علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں رضائے حق کی خاطر تلوار اٹھانا مومن پر فرض ہے اور یہ موت شہادت ہے جو مردِ مومن کی زندگی کا اصل نصب العین ہے۔ دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی مردِ کامل شہادت کو راہِ شوق کی آخری منزل سمجھتا ہے کیوںکہ یہ شہادت اسے کوئے دوست میں پہنچاتی ہے۔ اُس کی قوت اور ہمت راستے کی دشواریوں سے نہیں گھبراتی کیوںکہ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہوتی ہے جس سے کائنات کے اسرار و رموز اُس پر منکشف ہوجاتے ہیں۔ وہ ہمت سے تجدیدِ حیات کرتا ہے اور اپنے آپ کو نیابتِ الٰہی کا اہل ثابت کرتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں کہ انسان کی ہمت اور عظمت کے سامنے دنیا کی تمام قوتیں ہیچ ہیں۔ وہ بطنِ گیتی اور سینۂ افلاک کو چیر کر سربستہ راز حل کرتا ہے۔ اس کا ایک قدم زمین پر ہوتا ہے تو دوسرا ماورائے افلاک، وہ سلطانِ بحر وبر ہے۔ پاک خداوند سر جیا آدم ڈاہڈی شئے ہمت دا لک بنھ کے جدھر لگ پئے پٹ پہاڑاں سٹدا دریا سادھ لیئے کرے حساب آسمان دا غیبی خبر لیئے کردا چھیک زمین نوں جاں پڑ مل لیئے سخت مصیبت عشق دی اوہ بھی سر سہئے علامہ اقبال فرماتے ہیں: کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ’’اقبال کے مردِ مومن کی قوت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے اس لیے اس میں جسمانی قوت ہی نہیں روحانی قوت بھی پائی جاتی ہے۔‘‘ ۸۹؎ جے اوہ نظر کرے ول انبر چمک نہ جھلّن تارے تارے جس ول مہریں آوے کردا پار اوتارے یہ مردِ کامل قوت کا پیکر ہے اور دنیاوی جاہ و جلال عظمت و حشمت میں بے نظیر ہے۔ جب وہ شمشیر بکف نکلتا ہے تو کائنات کی کوئی چیز اس کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ سیف اللہ بن جاتا ہے۔ اسے وہ عظمت و شوکت نصیب ہوتی ہے جس سے وہ کائنات پر غلبہ اور تصرف حاصل کر لیتا ہے۔ پہاڑ اس کی ہیبت سے رائی بن جاتے ہیں۔ یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی دو نیم اِن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی مردِ کامل کے باطن میں عشق کی آگ پوشیدہ ہے۔ وہ عشق کا پتلا ہے محبوبِ حقیقی اس کے حریمِ دل میں جلوہ گر ہے جو اس کی روحانی قوت کا سر چشمہ ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: وچوں آتش باہروں خاکی دسدے حالوں خستوں جے ہک نعرہ کرن محمد ڈھین پہاڑ شکستوں ’’فقر اور عشق کے امتزاج سے جو ہیئتِ ترکیبی بنتی ہے، وہی بندۂ مومن ہے۔ اس کا وجود توحید و رسالت کی معرفت اور شریعت و طریقت کے علم وادراک سے قائم ہے۔ اس کا ایک قدم زمین پر ہوتا ہے تو دوسرا عرشِ آسمانی پر۔ تدبیر و تقدیر اس کے اشاروں پر عمل کرتی ہیں۔ وہ عبدیت کے درجے پر فائز ہو کر نیابتِ خداوندی اور صفاتِ ملکوتی بیک وقت حاصل کر لیتا ہے۔ رازِ کُنْ فَکَانَ بھی وہی ہے اور اِنّی جاعِل’‘ فِی الْاَرْضِ خَلِیفۃً کا مصداق بھی اسی کی ذات ہے۔‘‘۹۳؎ مردِ حق از کس نگیرد رنگ و بو مردِ حق از حق پذیرد رنگ و بو ہر زماں اندر تپش جانے دگر ہر زماں او را چو حق شانے دگر بندۂ حق بے نیاز از ہر مقام نے غلام او را نہ او کس را غلام بندۂ حق مردِ آزاد است و بس ملک و آئینش خداداد است و بس رسم و راہ و دین و آئینش ز حق زشت و خوب و تلخ و نوشینش ز حق مردِ کامل اللہ کے سوا ہر شے سے بے نیاز ہوتا ہے۔ گویا وہ اپنی ذات میں درویش ہوتا ہے۔ کیوںکہ دنیاوی مال و دولت اس کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہی بے نیازی وہ اعلیٰ و ارفع خصوصیت ہے جس سے وہ پوری کائنات کو مسخر کر سکتا ہے۔فقر و استغنا ہی مردِ مومن کی اصل شان ہے ۔ میاں محمد بخشؒ ایسے درویش صفت مردوں کے بارے میں فرماتے ہیں: وچوں نور الٰہی رنگے باہروں کالی کلفی! ناں اوہ میرے وانگوں یارو دل جنجوں گل اَلفی ’’اسی فقر سے مردِ مومن میں فطرت کی تمام قوتوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کے ارتقا کے لیے تسخیرِ کائنات ایک ضروری شرط ہے اور یہ شرط ’فقر‘ کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ یہی فقر ہے جس سے مردِ مومن میں عزم اور توکل باللہ پیدا ہوتا ہے جو اس کی قوتِ قہاری و جبروت کا سرچشمہ ہے۔‘‘ ۹۷؎ مومن از عزم و توکّل قاہر است گر ندارد ایں دو جوہر کافر است مردِ کامل اﷲ تعالیٰ پر بھروسا کرتا ہے۔ یہی عزمِ صمیم اور توکل باﷲ اُسے ہر قسم کے خوف سے محفوظ رکھتا ہے۔ اُس کے دل میں صرف خوفِ خدا ہوتا ہے۔ ہک اللہ دا خوف ہمیشہ دہشت ہور نہ کائی دشمن سبھ تہ تیغ کیتے سن عالم وچہ دوہائی اللہ تعالیٰ پر توکل اور ہر حال میں صبرشکر مردِ کامل کی زندگی کا جزو لاینفک ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کو مصیبتوں اور تکلیفوں سے بھی آزماتا ہے اس لیے ہر قسم کی مشکلات پر مردِ کامل صبروتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: کیتے رب سچے دے اُتے صابر شاکر رہناں اس بن ہور نہیں کوئی والی ونج کس دے در ڈھناں ایسا فقر جس سے شجاعت اور بہادری کا بھرپور اظہار ہو علامہ اقبال ؒکے نزدیک فقرِ عریاں ہے اِسی فقرِ عریاں نے میدانِ کار زار میں طاغوتی طاقتوں کو للکارا اور یہی فقر مردِ کامل کی میراث ہے۔ اک فقر ہے شبّیری اس فقر میں ہے میری میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبیّری ’’یہی ’فقرِ عریاں‘ ہے جس کے لیے اقبال نے ’عشق‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ عشق ایک ایسی اندرونی کیفیت اور ولولہ انگیز متحرک قوت ہے جو مردِ مومن کو حوصلہ شکن حالات میں بھی پُر عزم رکھتی ہے اور جدوجہد جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے اور اُس مسرت و شادمانی کا تصور پیش کرتی ہے جو صرف جدوجہد جاری رکھ کر منزلِ مقصود تک پہنچنے والوں کے حصّے میں آتی ہے۔‘‘ ۱۰۲؎ ’’فلسفۂ اقبال میں عشق ہی ارتقا کی قوتِ محرّکہ ہے، یہی زندگی کے تخلیقی عمل کی اساس ہے، ہر قسم کی مادی ترقی اور اخلاقی رفعت کا سرچشمہ ہے۔ عشق زندگی کا باطنی ہیجان ہے جس کا تقاضا خودی کی تعمیر اور استحکام ہے۔ خودی کی کامل ترین صورت ذاتِ باری تعالیٰ ہے اور انسانی خودی ارتقا کی منزلیں طے کرتے ہوئے خدا سے قریب تر ہو جاتی ہے اس طرح خودی کی منزل تکریمِ آدم ٹھہرتی ہے۔ بر تر از گردوں مقامِ آدم است اصلِ تہذیب احترامِ آدم است‘‘ اقبالؒ انسان کی عظمت کو بڑی محبت سے بیان کرتے ہیں۔ فلسفۂ خودی کے حوالے سے ان کے سامنے ایک ہی نصب العین ہے کہ وہ انسان کو دنیا میں عظیم المرتبہ ، خلّاق اور پاکیزہ دیکھ سکیں۔ ’’انھوں نے انسان کو تعمیر خودی کا پیغام دیا اور ایک مربوط فلسفۂ خودی پیش کیا جو انسان کو اخلاقی اور روحانی طو پر آگے بڑھنے کا درس دیتا ہے اور اسے روشن مستقبل اور نیابتِ الٰہی کا مژدہ سناتا ہے۔ پھر انھوں نے تعمیر خودی کی آخری منزل انسانِ کامل کو قرا ر دے کر جریدۂ عالم پر انسان کی عظمت و توقیر کی مہرثبت کی۔‘‘ ۱۰۵؎ آدمیّت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی! مردِ کامل اقبالؒ کی خودی کی معراج ہے۔ دل کی بیداری اور عرفانِ نفس سے اس میں غیر فانی قوتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اقبال ؒنے انسانِ کامل کا یہ تصور قرآنِ کریم اور مولانا رومیؒسے اخذ کیا ہے لیکن اقبالؒ سے قبل میاں محمد بخشؒ نے مردِ کامل کا جو نظریہ دیا، اقبالؒ کا تصور نہ صرف اُس سے ہم آہنگ ہے بلکہ اُسی کا پرتو نظر آتاہے۔ میاں محمد بخشؒ مردِ کامل کے بارے میں فرماتے ہیں: جے ہک آہ درد دی مارن ہوندا ملک ویرانی کوہ قافاں دے سبزے سڑدے ندئیں رہے نہ پانی بقول اقبالؒ: جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی الٰہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں مردِ کامل اُمید اور یقین کے ساتھ اپنے نصب العین کی جانب سفر طے کرتا ہے۔ مقصد کی یہ سچائی ہی اُسے جدوجہد اور عمل پر اُبھارتی ہے ۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ سرگرمِ عمل ہے پھر بھلا مردِ مومن کیونکر بے عمل ہو سکتا ہے۔ عمل کا دوسرا نام ہی جہاد ہے۔ ’’عمل رازِ حیات اور سرِ کائنات ہے۔ عمل سے ہی افراد بنتے اور قومیں سنورتی ہیں۔ مردِ مومن امن کا پتلا ہوتا ہے۔ اس کی قوت، ہمت، حوصلہ،شجاعت،عزم، استقلال، ثبات، جوش، ولولہ، علّوِ ظرف اور بلند نظری کی مثال اور نظیر نہیں مل سکتی اس کی بلند ہمتی اور جوشِ عمل پہاڑوں کو فنا کر سکتی ہے اور سدِسکندری کو ملیامیٹ کر سکتی ہے۔‘‘ ۱۰۹؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں اُمید، یقین اور سعیِ پیہم زندگی کی مشکلات کو آسان بنا کر خودی کو مستحکم کرتی ہیں۔ نااُمیدی، یاسیت اور خوف زندگی کے زوال کا سبب بنتا ہے اس لیے اقبال ؒاور میاں محمد بخشؒ خوف اور نااُمیدی سے بچنے کی بار بار تلقین کرتے ہیں۔ ’’نومیدی اور ’ توحید‘ باہم سازگار نہیں۔ ’توحید‘کا تقاضا ہے کہ مومن واقعی خوف و حزن سے محفوظ اور ذاتِ مطلق کے حضور ہی سجدہ ریز ہو۔‘‘ ۱۱۲؎ یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات جب مردِ کامل دل سے تمام خوف و ہراس اور نااُمیدی نکال کر یقین کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اُس کے راستے کی تمام مشکلات خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ اور اس کی پرواز بھی جبریلِ امیں کی طرح بلندیوں کی طرف ہو جاتی ہے اور آخرکار وہ اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ گویا یقینِ محکم ہی وہ پہلی سیڑھی ہے جو اُسے نصب العین تک پہنچاتی ہے۔یقین ہی انسان کو حوصلہ، ہمت اور بلند پروازی عطا کرتا ہے۔ جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا نقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفُوری خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو ، زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے میاں محمد بخش ؒفرماتے ہیں،یقین کی بدولت ہی کامیابی قدم چومتی ہے اور مشکلات کی تاریکی دور ہوتی ہے۔ انسان جب یقینِ محکم کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتا ہے تو وہ ضرور منزل کو پا لیتا ہے۔ علم یقینوں حاصل ہویا رتبہ عین یقینوں غفلت ہوئی دُور محمد عالم زمن زمینوں رستہ دور نہ اوڑک جس دا گھنے قضیئے دَسدے پر جو نال یقینے ٹُردے ونج سجن سنگ وَسدے یقینِ محکم ہی مردِ کامل کے دل میں حوصلہ اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ روحانی قوت بھی مردِ مومن کو منزل کا راستہ دکھاتی ہے۔ اگر انسان کا دل مردہ ہو جائے تو ایمان کی حرارت باقی نہیں رہتی اور شوقِ شہادت بھی ماند پڑ جاتا ہے۔ جب کہ قوتِ ایمانی مردِ کامل کو فولاد بنا دیتی ہے۔ اس قوتِ ایمانی کی طاقت عشقِ الٰہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم خو ہوتا ہے لیکن جب وہ راہِ عشق پر چلتا ہے تو کوہ قاف جیسے پہاڑوں اور سمندروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کی ہیبت سے دشت و جبل کانپ اُٹھتے ہیں۔ بقول اقبالؒ: ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن! میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: راہ عشق دے چلن والے سچے مرد سپاہی جانن نہ کوہ قاف سمندر جتول ہوون راہی خودی کے استحکام، دل کی بیداری اور عرفانِ نفس سے مردِ مومن میں غیرفانی قوتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ فنا و زوال کی حدود سے ماورا ہو جاتا ہے۔ موت کا فرشتہ بھی مومن کی خودی تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ مومن حُبِ رسول ﷺاور عشقِ الٰہی سے سرشار ہوتا ہے۔ اس کا ہر قدم اور فعل سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ہوتا ہے اور اس کا دل انوارِ الٰہی اور مشاہدۂ حق سے روشن ہوتا ہے۔ اس کے دل میں خوفِ خدا ہوتا ہے اور اللہ کے خوف کے سوا کوئی خوف اس کے دل میں جاگزیں نہیں ہوتااسی لیے مردِ کامل زندہ جاوید رہتا ہے۔میاں محمد بخشؒ کہتے ہیں کہ مردِ مومن کو موت کا بھی کوئی خوف نہیں ہوتا۔ جے اج خوف خدا دیوں سڑسیں اس دن ہوسیں ہریا موتے دا کجھ خوف نہ اس نوں جیوندڑا جو مَریا علامہ اقبالؒ مومن کو اسی ابدی زندگی کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں: شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو مردِ کامل خیر البشر ہے وہ سراپا رحمت و شفقت ہوتا ہے۔ اس کے قہر و غصہ میں بھی ایک جمالی کیفیت اور جلالی شان کا اظہار ہوتا ہے۔ کیوںکہ اس کا یہ لطف و قہر کسی نفسانی جذبے کے تحت نہیں ہوتا بلکہ اُس کا ہر عمل دین حق کو غالب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ تمام دنیا میں اللہ کی حکمرانی دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی نفرت بھی عمیق اس کی محبت بھی عمیق قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق ’’اقبال کا مردِ مومن احکام و قوانینِ اسلام کا پابند ہوتا ہے وہ ہمہ وقت معرفتِ الٰہی اور مشاہداتِ اسرارِ الٰہی میں سرشار ہوتا ہے۔ اس کی ذات ربِ ذوالجلال کی ذات میں فنا ہوتی ہے۔ اس کی گفتار، افعال و کردار مقصد و ارادہ منجانب اللہ سرزد ہوتے ہیں طاقتِ خداوندی کی وہ مکمل تصویر ہوتاہے۔‘‘ ۱۲۵؎ ایک حدیثِ قدسی کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا کوئی بندہ میرے راستے پر چلتا ہے اور میری طرف رجوع کرتا ہے اور میرے رنگ میں خود کو رنگ لیتا ہے تو پھر میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ کام کرتا ہے میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ جب مردِ کامل قربِ الٰہی کی اس منزل پر پہنچتا ہے تو اس کے تمام اعمال و افعال احکامِ الٰہی کے تابع ہو جاتے ہیں۔ ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز جب بندہ احکامِ شریعت پر خلوصِ نیت کے ساتھ عمل پیرا ہوتا ہے تو اس کی مرضی اللہ کی مرضی ہو جاتی ہے اور وہ بندہ قضائے حق بن جاتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: سچے مرد صفائی والے جے کجھ کہن زبانوں مولا پاک منیندا اوہو پکی خبر اسانوں بقول اقبالؒ: چوں فنا اندر رضائے حق شود بندۂ مومن قضائے حق شود اﷲ تعالیٰ مردِ کامل کو وہ قوت عطا کرتا ہے کہ تقدیر بھی اُس کے تابع ہو جاتی ہے۔ قلم ربانی ہتھ ولی دے لکھے جو من بھاوے مردے نوں رب قوت بخشی لکھے لیکھ ہٹاوے علامہ اقبالؒ ایسے ہی کامل مردوں کے بارے میں فرماتے ہیں: نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں مردِ کامل دل میں نورِ ایمان کی دولت کا سوز پوشیدہ رکھتے ہیں ۔ان کی زندگی کا ہر معاملہ احکامِ الٰہی کا پابند ہوتا ہے وہ عاجزی پسند ہوتے ہیں اور ان کے چہرے شمع کی مانند نورانی ہوتے ہیں لیکن عام لوگوں کی نظریں ان کے حال کا ادراک نہیں کر سکتیں۔ بقول اقبالؒ: صورتِ شمع نور کی ملتی نہیں قبا اسے جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جانگداز دے میاں محمد بخش ؒفرماتے ہیں: حال اونہاں دا کس نوں معلم پھردے آپ چھپایا دل وچہ سوز پتنگاں والا چہرہ شمع بنایا باہروں دِسن میلے کالے اندر آب حیاتی ہوٹھ سُکّے ترہایاں وانگر جان ندی وچہ نہاتی شہر اُجاڑ ڈھونڈیندے وتدے دلبر یار بغل وچہ گُنگے ڈورے کن زبانوں معنی سب عقل وچہ حالاں اندر کرو نہ حُجتّ بھلی نصیحت بھائی حال محباں دا رب معلم ہور کی جانے کائی مردِ کامل کی زندگی کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ظاہری طور پر وہ دنیا میں رہتے ہیں لیکن اس دنیا سے دل نہیں لگاتے۔ ان کا دل ہر وقت یادِ الٰہی میں منہمک رہتا ہے۔وہ کستوری کی مانند خاموش ہوتے ہیں لیکن اپنی خوش بو پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ وہ اہلِ دنیا کو اپنی ذات سے فیض اور نفع پہنچاتے ہیں مگر خود اس دنیا کو مقصودِ حیات نہیں بناتے کیوںکہ وہ معرفت کی راہ کے مسافرہیں اور دنیا اُن کے لیے ایک سرائے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: واؤ وانگ پھرن سبھ مُلکیں ہر گز نظر نہ آون چپ رہن کستوری وانگوں فر خوش بو دُھماون دنیا میں خوش بو کی طرح زندگی بسر کرنے کا یہی مشورہ رومیؒ اقبالؒ کو دیتے ہیں۔ خوش بو جو اپنی ذات کے لحاظ سے پوشیدہ و مستور ہے مگر اپنی تاثیر کے اعتبار سے فاش ہے گویا رومیؒ، میاں محمد بخشؒ اور اقبالؒ کا پیغام ایک ہی ہے کہ مسلکِ تصوف اختیار کرو ۔ اقبال اس شعر میں تصوف کی روح اس طرح بیان کرتے ہیں: درچمن زی مثلِ بو مستور و فاش درمیان رنگ، پاک از رنگ باش یہ مردِ کامل دن رات عبادتِ الٰہی میں مگن رہتے ہیں اور ان کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔ اُن کی زندگی کا مقصد محبوبِ حقیقی کو راضی رکھنا ہوتا ہے اس لیے اُن کا دل عشق کے سوز سے معمور ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اسی یاد کی قید میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ انھیں دنیا داروں کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اُن کی منزل صرف خدا ہے۔ میاں محمد بخشؒ ایسے مست دیوانے اور عاجز لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں: کر کر یاد سجن نوں کھاندے بُھن بُھن جگر نوالے شربت وانگ پیا دے ہتھوں پیون زہر پیالے فیر خلاصی منگدے ناہیں جو قیدی دلبر دے پھاہی تھیں گل کڈھ دے ناہیں ہوئے شکار اس گھر دے جھلن بھار ملامت والے عشقے دے متوارے بُھکّھا اُوٹھ ہووے مستانہ بھار اٹھاوے بھارے راتیں زاری کر کر رونون نیند اکھیں دی دھوندے فجرے او گنہار کہاون ہر تھیں نیوے ہوندے علامہ اقبال ؒ کے نزدیک مردِ کامل کا وجود انسانی بھی ہے اور ایمانی بھی۔ وہ رات کو یادِ الٰہی میں غرق رہتا ہے اور دن کو عاجزی و انکساری اختیار کرتا ہے کیوںکہ وہ ایک سچا مسلمان ہے۔ وہ کسی نمودونمائش کا خواہاں نہیں ہوتا۔ اُس کا دل ریاکاری سے پاک ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یاد میں وہ اپنی آنکھوں سے نیند کو بھی اشکوں سے دھو دیتا ہے اس لیے کہ اسے صرف رضائے الٰہی مطلوب ہوتی ہے۔ میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحرگاہی میں جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش عطارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنا مردِ کامل کے لیے شیوۂ تسلیم و رضا سے عبارت ہے۔ خدا تعالیٰ کے مقررہ قوانین اور اصولوں کے سامنے خلوص اور رضا و رغبت کے ساتھ سرِتسلیم خم کرنا حُبِّالٰہی کا صحیح معیار ہے، اس لیے مردِ کامل خضوع و خشوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔میاںمحمد بخشؒ کے نزدیک وہ زاہدِ شب بیدار ہے۔ زاہد شب بیدار نمازی ادب ہدایت والا ایس زمانے ثانی اس دا ناں کوئی مرد اُجالا میاں محمد بخشؒ کی کتاب سفرالعشق کا ہیرو سیف الملوک مردِ کامل کے تمام اوصاف سے متصف ہے۔ وہ اﷲ کا عبادت گزار بندہ ہے۔ غم ہو یا کوئی خوشی کا موقع ، وہ اپنے خدا کو ہر لمحے یاد رکھتا ہے۔ کیتا وضو شہزادے اُٹھ کے آکھی بانگ فجر دی پڑھی نماز عبادت کیتی اپنے زور قدر دی ذکر وظیفے وِرد کریندا بیٹھا مل مصلّٰی شکر گزارے رب چتارے تیری ذات معلّٰی زندگی کی شبِ تاریک کو سحر کرنے والا یہی مردِ کامل اپنے ایمان کی حرارت سے زندہ جاوید ہے۔ بقول اقبالؒ: مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں ، کہ ہے اس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیمؑ و خلیلؑ وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا مردِ کامل عیش و عشرت اور آرام طلبی کی زندگی پسند نہیں کرتا ۔ وہ سخت کوش ہے، اپنے اندر بے پناہ قوتیں رکھتا ہے لیکن یہ قوتیں وحشیانہ نہیں۔اقبالؒ کا مردِ مومن بندۂ مولا صفات ہے جس کا تصور نطشے کا فوق البشر نہیں بلکہ خالصتاً قرآنی ہے جو انسانی صفات کی اعلیٰ اقدار سے ممیز ہے۔ نطشے کے فوق البشر اور اقبال کے مردِ کامل میں کوئی ایسی مماثلت نہیں پائی جاتی جس سے یہ تاثر ابھرے کہ انسانِ کامل کا تصور اقبال نے نطشے سے مستعار لیا ہے۔ اقبالؒ کا مردِ کامل عجز و نیاز کا پیکر اور انسانیت کا ہمدرد و غم خوار ہے۔ لیکن اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں وہ قہرِ خداوندی کا مظہر ہے، وہ اپنے قوتِ بازو پر بھروسا کرتا ہے۔ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: تینوں مان دلے وچہ بھارا کرساں خرچ خزانہ مینوں قوت باہاں اندر لڑساں وانگ جواناں یہ دنیا کارزارِ حیات ہے اور مردِ کامل اس میں شہ زور انسان ہے۔ وہ بے بسی و مجبوری کی زندگی بسر نہیں کرتا بلکہ اس کی ساری زندگی سخت کوشی سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ ہمت اور قوت سے کام لیتا ہے اور دشمنوں پر غالب آتا ہے۔ خودی کو مستحکم کرلینے کے بعد وہ شمشیرِ بے زنہار ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: خام ہے جب تک تو ہے مٹّی کا اک انبار تو پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تو جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ یہ زورِ دست و ضربتِ کاری کا ہے مقام میدانِ جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ خونِ دل و جگر سے ہے سرمایۂ حیات فطرت ’لہو ترنگ‘ ہے غافل ! نہ ’جل ترنگ‘ حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی یہ سخت کوشی اور سخت گیری مردِ کامل کے لیے زندگی کی آبرو ہے۔ زندگی کی سختیاں انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو مزید جلا بخشتی ہیں اس طرح انسان کو اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع ملتا ہے گویا یہی سخت کوشی کی قوت مردِ کامل کی زندگی کا حاصل ہے۔ زندگی کشت است و حاصلِ قوّت است شرحِ رمزِ حق و باطل قوت است سنگِ رہ آب است اگر ہمت قوی است سیل را پست و بلندِ جادہ چیست ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے علامہ اقبالؒ نے انسان کو خطرات و مشکلات پر ہمت کے ساتھ غالب آنے کا جو درس دیا ہے وہی درس میاں محمد بخشؒ کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے۔ میاں محمد بخش ؒکی تصانیف میں ہیرو مشکل مہمات کو ہمت اور بہادری کے ساتھ سر کرنے والا ہے۔ وہ روحانیت کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی طاقتور ہے کیوںکہ زندگی کاراز کم زوری اور ضعف میں نہیں بلکہ زور ِبازو اور قوت و ہمت میں مخفی ہے۔ سوہنے صاف ہنگاسن قوت نال بھرے ڈوہلے ویکھ جوان دے شیر پلنگ ڈرے مردِ کامل کی ہیبت سے بڑی سے بڑی طاقت بھی لرزہ براندام ہو جاتی ہے۔ وہ حق گو، بے باک اور نڈر ہے۔ علامہ اقبالؒ ایسے ہی مردانِ حق کو اللہ کے شیر کہتے ہیں: آئینِ جوانمرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی یہ مردِ مجاہد میدانِ جنگ میں بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑتے ہیں۔ اِن کی شجاعت اور بہادری کے سامنے بڑے بڑے دشمن بھی کانپنے لگتے ہیں۔ میاں محمد بخش ؒفرماتے ہیں کہ ان کے دل میں موت کا کوئی خوف نہیں ہوتا اسی لیے میدانِ جنگ میں اﷲ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے اور انھیں دشمنوں پر غالب کر دیتا ہے۔ تھکن نہیں لڑائی کر دے دم دم ہون سوائے حملہ ویکھ اونہاں دا باروں شیر ببر نس جائے سبھ قواعد جنگ کرن دے جانن ہر ہتھیاروں ذرہ خود فولادی لاون کاہنوں ڈر تلواروں موتوں خوف نہ کھاون ذرہ بہت دلیر دلاں دے وچہ میدان لڑائی والے پاؤں سیر ہو جاندے اقبالؒ اس مردِ کامل کو مردِ حُر کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں جس کی ضرب کاری ہے، وہ اپنے دشمن کے لیے سراپا قہر ہے۔ اُس کے مدِمقابل کائنات کی کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت اُس کے قدموں میں ڈھیر ہو جاتی ہے۔ میاں محمد بخش ؒ کی کتاب سفر العشق کا ہیرو سیف الملوک ایسی ہی قوت، طاقت اور بہادری کا نمونہ ہے۔ سیف بہادر َسیف ملوکے ایسی نال صفائی سر شیرے دے آوندیاں ہی اِکّو وار چلائی نعرہ مار لگایا کاری پَھّٹ ایسا تلواروں متھے تھیں لے دُنبے توڑی دَل سٹیا وچکاروں شیر مریلا آدم کھایا لشکر جس ڈرایا اِکسے ہتھوں سیف ملوکے خاکو نال رَلایا نَچدا ٹپدا گجدا آیا کردا شور ککارا !! سَیف ملوک بہادر اگے ڈَھٹھّا ہو بیچارا بقولِ اقبالؒ : وہی ہے بندۂ حُر جس کی ضرب ہے کاری نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیّاری! مردِ کامل کی زندگی تمام آلائشوں سے پاک ہوتی ہے۔ اُس کا کردار بے داغ ہوتا ہے۔ وہ پاک دامن اور پاک نفس ہے اور اس کی نگاہ میں پاکیزگی و حیا پائی جاتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے تمام معاملات کو صرف رضائے الٰہی کے تابع کر دیتاہے یہی وجہ ہے کہ اُس کی ساری زندگی پاکیزگی اور طہارت کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہے۔ وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری میاں محمد بخش ؒ کا ہیرو سیف الملوک بھی عفتِ نگاہ اور بلند کرداری کا نمونہ ہے۔ یہی پاکیزگیِ فکر اور پاکیزگیِ عمل مردِ کامل کی اہم صفت ہے جس کی بدولت وہ کسی پر غلط نگاہ نہیں ڈالتا۔ خواہش نال نہ ویکھاں کوئی باہجھ بدیع جمالوں دوئے جہان نہ بھاون مینوں اس دی طلب کمالوں مردِکامل کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آتی ۔ اُس کے ارادے پہاڑ کی مانند مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ خطرات اور مشکلات سے گھبرا کر کبھی اپنے مقصد سے نہیں ہٹتا، تلاش و جستجو کے سفر میں اُس کی آنکھیں چراغ بن جاتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سراغ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ میاں محمد بخشؒ کے نزدیک بھی سالک ِ حق اپنی راہ کا خود چراغ ہوتا ہے۔ اُس کی آنکھیں اس کے لیے اندھیری راہ میں وہ روشنی مہیا کرتی ہیں جو منزل تک اس کی رہنما بنتی ہے۔ اَکّھیں بلن چراغاں وانگر پھردا مست دیوانہ جُھلّی واء سجن دے پاروں آدیتوس پروانہ تلاشِ حق اور جستجو کے سفر میں مردِ کامل کی زبان پر اللہ کے نام کا ہی وِرد ہوتا ہے۔ یہی نام اُس کے جسم میں طاقت اور قوت پیدا کرتا ہے اور اسی ذکرِ الٰہی کو وہ اپنا دوست رکھتا ہے جو ہر مشکل میں اُس کی مدد کرتا ہے۔ اسم اعظم پکاندا جاندا برکت اس دی بھاری قوت زور عشق دا تن وچہ ہور اسم دی یاری مردِ کامل کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عمل سے تجدیدِ حیات کرتا ہے۔ اُس کی زندگی اور موت صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے اس لیے دنیا کی آفات اور بلائیں اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ اپنے عشق کی بدولت ہر چیز پر غالب آتا ہے۔ اس لیے اس کو کسی چیز کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ رات ہنیری خوف چوفیرے بولن دیو بلائیں عاشق باہجھ نہ قدر کسے دا بچے اجہیں جائیں اللہ کا عاشق بے خوف اور نڈر ہے۔ موت اُس کی حفاظت اور نگہبانی کرتی ہے۔ وہ آپ اپنی تقدیر ہوتا ہے کیوںکہ تدبیر سے اپنی تقدیر کے رخ کو موڑ دیتا ہے۔ ’’اس مومن کی شخصیت آفاقی اور ہمہ گیر ہوتی ہے اور اس کی ایک نگاہ ِغلط انداز تاریخ اور حالاتِ زمانہ کا رخ موڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اس میں اتنی قوتِ ارادی ہوتی ہے کہ وہ محض زندانیِ تقدیربن کرنہیں رہ جاتا بلکہ خود تقدیرِ یزداں ہو کر اپنی زمامِ تقدیر کا رخ اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکتا ہے۔‘‘ ۱۶۴؎ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟ کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی ماسویٰ اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری میاں محمد بخش ؒ کے نزدیک بھی انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا سراغ لگائے۔ اسے اپنے ارادے اور عمل میں آزادی حاصل ہے گویا انسان تخلیقی عمل میں حصّہ لے کر خدا کی پیدا کردہ کائنات کو مسخر کر سکتا ہے کیوںکہ انسان کی تقدیر میں مسلسل ارتقا اور عروج لکھ دیا گیا ہے۔ اب یہ اُس کا فرض ہے کہ وہ ذوقِ سفر اور تلاش و تحقیق کی صلاحیت پیدا کرے۔ عاشق قید محمد بخشاؒ پیر نہ بدّھے تیرے کر کجھ آہر چھڈاون والا کریں ایتھے کی جھیڑے علامہ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ دونوں حضرات تقدیر کے مسئلے پر ہمیں متفق نظر آتے ہیں۔ ۱۶۹؎ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ارادے اورعمل میں ایک خاص حد تک اختیار دیا ہے۔ ایک متحرک اور زندہ قوت ہونے کی حیثیت سے انسان اپنے اعمال و افعال میں آزاد ہے، اسی آزادی کی بنا پر اُس کی خودی کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ روحانی ارتقا کے مدارج طے کرتا جاتا ہے۔ ناچیز جہانِ مہ و پرویں ترے آگے وہ عالمِ مجبور ہے، تو عالمِ آزاد علامہ اقبالؒ اور میاں محمد بخش ؒ اوہام پرستی کے سخت خلاف ہیں۔ کیوںکہ یہ مایوسی اور یاسیت کی پیداوار ہیں اور مغلوب ذہن و دل کی علامت ہیں جب کہ مردِ کامل تو بندۂ حُر ہے۔ وہ تقدیر کا حال ستاروں سے معلوم نہیں کرتا بلکہ تدبیر کے دستِ زریں پر یقین رکھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں میاں محمد بخشؒ بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے اور تقدیر کو ستاروں کے تابع بنانے کی بجائے ہمت، جرأت اور مردانگی سے کام لینے کا درس دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ستارے تو خود گردش کے لیے پابندِ حکم ہیں ۔ وہ انسان کی تقدیر کی خبر بھلا کیونکر دے سکتے ہیں۔ دل وچہ کرے دلیل شہزادہ کی کم کرسن تارے آپ تخت توں ڈھیندے جاندے ہو غریب بیچارے ایہ آپوں وچہ قید حکم دے ٹُردے اُٹھ نکیلے رات دنے آرام نہ کر دے سرگرداں ہرویلے مردِ کامل کا وسیلہ تدبیر ہے جس سے کام لے کر وہ تقدیر کو بدل سکتا ہے۔وہ تقدیر کا راکب ہے۔ بقول اقبالؒ: جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سرِّ آدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی انسان کو اللہ تعالیٰ نے لامحدود اختیارات سے نوازا ہے اس لیے اُسے یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ تقدیر کے روایتی تصور کے مطابق ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ جدوجہد اور سعیِ پیہم سے وہ اپنی خودی میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔یہی مردِ کامل کی شان ہے کہ وہ تابعِ تقدیر نہیں۔ تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا عجب نہیں ہے کہ یہ چار سُو بدل جائے میاں محمدبخشؒ بھی یہ درس دیتے ہیںکہ انسان اپنی طرف سے پوری کوشش کرے اور کسی قیمت پر بھی بے عمل ہو کر نہ بیٹھے بلکہ ہمت کے ساتھ لگاتار جدوجہد کرے اور پھر اپنے اللہ پر توکل کے ساتھ کامیابی کی اُمید رکھے۔ یار تینوں رب پاک ملاناں جے تدھ قسمت ہوئی حیلہ وس میرا جو لگسی فرق نہ رکھساں کوئی مولانا عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں: ’’سلسلۂ کائنات میں ایک ذرے سے لے کر آفتاب و ماہتاب تک ایک خاص قانون کے پابند ہیں اور اس محدود دائرے سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے لیکن ان کے مقابل میں انسان کی قدرت، اختیار و ایجاد و اختراع کی کوئی حد ہی نہیں۔‘‘۱۷۸؎ خاک شو نذرِ ہوا سازد ترا سنگ شو بر شیشہ اندازد ترا اقبالؒ کے فلسفۂ خودی کا مقصد ہی انسان کی شخصیت کے تمام مخفی پہلوؤں اور پوشیدہ صلاحیتوں کو اُبھار کر اسے عمل اور جدوجہد کی راہ پر گامزن کرنا ہے تاکہ وہ صرف تقدیر کا شاکی ہو کر نہ بیٹھ رہے بلکہ نصب العین کے حصول کے لیے لگاتار کوشش کرے کیوںکہ کم زوری و ناتوانی سستی و کاہلی عظمتِ انسانی کے خلاف عمل ہیں جو مردِ مومن کو کسی طور زیب نہیں دیتے۔ بقول اقبالؒ : تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات زندگی عمل اور حرکت کا مجموعہ ہے۔ تقدیر کو موردِ الزام ٹھہرانے والے دراصل اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ اس لیے کشمکشِ حیات سے گریز بھی مردِ مومن کا شیوہ نہیں۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: گریز کشمکشِ زندگی سے مردوں کی اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست مردِ بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ بندۂ حُر کے لیے نشترِ تقدیر ہے نوش خبر نہیں کیا ہے نام اس کا ، خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ تقدیر کا گلہ کرنے کی بجائے مردِ کامل جسے اقبالؒ مردِ حُر بھی کہتے ہیں وہ دیدۂ بینا حاصل کر لیتا ہے جس سے وہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا عکس اپنے آئینۂ ادراک میں دیکھ سکتا ہے۔ بقول اقبالؒ: حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے جو ہے پردوں میں پنہاں ، چشمِ بینا دیکھ لیتی ہے زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا علامہ اقبالؒ کے نزدیک زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے ارتقا کی جانب مسلسل گامزن رہے۔ اس لیے انسان کا مقصدِ حیات اس دنیا میں ہی ختم نہیں ہو جاتا بلکہ موت کی دہلیز پر پہنچ کر وہ ایک نئی زندگی کے سفر کی جانب قدم اُٹھاتا ہے۔ موت وہ دروازہ ہے جس سے گزر کر انسان ابدی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ موت دراصل ایک دائمی زندگی کا نام ہے۔ موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے انسان اشرف المخلوقات ہے۔ قدرت نے اسے تمام کائنات پر فضیلت بخشی ہے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اس کے دائمی تحفظ و بقا کی ضامن نہ ہو۔ اس لیے حیاتِ انسانی موت کے بعد بھی اپنا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے ارتقا پذیر رہتی ہے۔ زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں ٹوٹنا جس کا مقدر ہو، یہ وہ گوہر نہیں مردِ کامل کی زندگی خودی کے استحکام سے وہ بقا حاصل کر لیتی ہے جو موت کے مادی تصور سے ماورا ہے۔ فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوشِ لحد مردِ کامل کی نظر میں موت کی حیثیت ایک صید کی سی ہے جس کی تاک میں وہ ہر لمحہ انتظار کرتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: مینوں خواہش موت دی ہر فجرے ہر شام معلم نائیں قبر دا کیہڑا ہوگ مقام موت کے بعد جسم فانی ہو جاتا ہے لیکن روح زندہ رہتی ہے اورصرف فنا کی آگ سے گزر کر ہی ابدی زندگی حاصل کرتی ہے جس کی تہ میں روحِ حقیقی ہمیشہ کے لیے موجزن رہتی ہے جو عشق کی بدولت ہے اور اسے ہرگز زوال نہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ: مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں روح میں غم بن کے رہتا ہے مگر جاتا نہیں میاں محمد بخشؒ اسی بات کو یوں بیان کرتے ہیں: اپنی موت حیاتی اندر جب لگ تیرا ڈیرا اس منزل وچہ کد محمد پیر پوے گا تیرا علامہ اقبالؒکے نزدیک موت کے بعد وہی لوگ بقا حاصل کریں گے جنھوں نے اپنی خودی کو عشق سے مستحکم کیا ہوگا۔ یہ وہ مردِمومن ہوں گے جو دیدارِ الٰہی سے فیض یاب ہوں گے اور یہی زندگی کی معراج ہے کیوںکہ مردِ کامل کی مثال ایک روشن خورشید کی سی ہے جس کے لیے کبھی غروب نہیں ہے۔ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے ، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے ، اِدھر نکلے ’’دنیا میں انسانِ کامل آنحضرت صلی اللہ علیہ والٰہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی تھی۔ دوسروں کو یہ درجہ صرف آپ کے فیض او رکامل اطاعت سے حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘۱۹۷؎ انسانِ کامل کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ معراجِ نبوی دنیا میں انسان کی عظمت اور روحانی رفعتوں کی ایک روشن دلیل ہے۔ اقبال ؒاور میاں محمد بخشؒدونوں ہی اس واقعے کو بہت دلچسپی، محبت اور عظمتِ آدم کے اعتراف کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: رہِ یک گام ہے ہمت کے لیے عرشِ بریں کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات علامہ اقبالؒکے نزدیک ثریا کی بلندیاں انسان کے عزم و حوصلے کے سامنے ہیچ ہیں کیوںکہ اس کی ترقیوں کا راز معراجِ مصطفوی ﷺ میں مضمرہے۔ سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیؐ سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں! ناوک ہے مسلماں! ہدف اس کا ہے ثریا ہے سرِ سرا پردۂ جاں نکتۂ معراج ’’اسرا اور معراج کا واقعہ عالمِ انسانیت کا بے نظیر واقعہ ہے۔ روحانی اور جسمانی معراج کی بحثوں سے قطعِ نظر، یہ عظیم واقعہ اس بات کا مظہر ہے کہ اشرف البشر نے عالمِ ملکوت ماورائے افلاک اور لامکاں تک کا سفر فرمایا اور انسانوں کو اَن دیکھی حقیقتوں سے آگاہی بخشتی ہے۔‘‘ ۲۰۱؎ میاں محمد بخش ؒفرماتے ہیں: بھیج بُراق بہشت دا کھڑیا شب معراج دے شاہی مخلوق دی سر پر دھریا تاج لوح قلم آسماناں زمیاں دوزخ جنت تائیں کرسی عرش معلّٰی ویکھیں سیر کریں سبّھ جائیں عزت قُرب تُساڈا ویکھن حوراں مَلک پیارے نالے رُوح نبیاں سندے ہون سلامی سارے دوزخ جنت وچہ اَسماناں جو خلق اللہ وَسدی پاک جمال تساڈے کارن ہَردی جان تَرسدی چھوڑ آسماناں زمیاں تائیں سرورؐ گیا اگیرے جتھے وحی نہیں ونج سکدا ہٹ بیٹھا کر ڈیرے علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں: چیست معراج آرزوے شاہدے امتحانے روبروے شاہدے علامہ اقبالؒاور میاں محمد بخشؒ کے کلام میں معراجِ نبوی ﷺ کا واقعہ انسانی عظمت و تکریم کی واضح دلیل کے طور پر بیان ہوا ہے۔ میاں محمدبخش ؒفرماتے ہیں: جانی نال ملے دل جانی وِتھ نہ رہیّا ذرّہ خلعت تحفے ہدئیے لے کے آئے فیر مقرہ مردِ کامل بھی صفات کی تجلیات سے مطمئن نہیں ہوتا، وہ تجلیِ ذات کا آرزو مند ہوتا ہے۔ مردِ مومن درنسازد با صفات مصطفی راضی نشد اِلّا بذات گرچہ اندر خلوت و جلوت خداست خلوت آغاز ست و جلوت انتہاست انسان کے اندر وہ مخفی تب و تاب موجود ہے جسے وہ شررِ عشق سے پختہ کر کے انسانِ کامل کے مرتبے پر پہنچ سکتا ہے۔ اقبال ؒاور میاں محمد بخشؒ دونوں ارتقا پسند اور بقا پرست ہیں۔ زندگی کا میلان خدا کی طرف رجعت ہے کیوںکہ ہر وجود اپنے اصل کی طرف عود کرتا ہے۔ میاں محمد بخش ؒ فرماتے ہیں: عاشق دا جو دارو دسے باہجہ ملاپ سجن دے اوہ سیانا جان ایاناں روگ نہ جانے من دے انسان کی منزلِ مقصود خدا ہے اس لیے زندگی کا سارا لطف اسی جدوجہد اورسفر میں مضمر ہے کہ عشق اسے ہر وقت معشوق تک رسائی کے لیے سرگرمِ عمل رکھے۔ انسان کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو تااس لیے راہِ طلب کا مسافر کبھی فنا نہیں ہوسکتا۔ خدا کی ذات لامتناہی ہے اس لیے اس مرحلے کا طے ہونا ناممکن ہے۔ شعلۂ درگیرزد بر خس و خاشاکِ من مرشدِ رومیؔ کہ گفت ’’منزل ماکبریا است‘‘ الغرض اقبال ؒ اور میاں محمد بخش ؒکے مردِ کامل کی تمام خصوصیات مشترک ہیں۔ اُن کا مردِ مومن توحید کا رازدار اور گنجِ مصطفویﷺ کا امین ہے۔ تمام کائنات اس کی دسترس میں ہے۔ وہ عشق کی بے پناہ قوت کے سبب شرفِ کامل تک رسائی حاصل کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں خدا کا محبوب بندہ بن کر عبدیت کے مرتبۂ کمال پر فائز ہونے کے بعد نیابتِ الٰہی اور خلیفۃ اللہ کے اعلیٰ و ارفع مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ حوالے اور حواشی ۱ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی) ص۔ ۴ ۲ صابر، ڈاکٹر ، پروفیسر، آفاقی، میاں محمد بخش-ایک مطالعہ، مرتب جواد حسین جعفری، کشمیر اکیڈمی، مظفرآباد، طبع اوّل،۱۹۹۴ئ، ص۔ ۹۷ ۳ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔۶ ۴ تاثیر، ایم ، ڈی، اقبال کا فکر و فن ، مرتب افضل حق قریشی، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۹۴ئ،ص،۷۴۔ ۵ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۷۵ ۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال(فارسی)، ص۔ ۴۶ ۷ ………ایضاً……… ص۔۴۶ ۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال( اردو) ص۔ ۳۹۵ ۹ ………ایضاً……… ص۔۳۰۲ ۱۰ عبدالحکیم، ڈاکٹر، خلیفہ، فکرِ اقبال، ص۔۳۵۰ ۱۱ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال(فارسی) ص۔۴۱ ۱۲ بختیار حسین، صدیقی، اقبال بحیثیت مفکرِ تعلیم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبعِ اوّل، ۱۹۸۳ئ، ص۔۱۸ ۱۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال(اردو)، ص۔ ۳۳۷ ۱۴ ………ایضاً……… ص۔ ۳۷۷ ۱۵ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، اقبال سب کے لیے،ص۔ ۶۹ ۱۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال( اردو) ، ص۔ ۴۱۹ ۱۷ ………ایضاً……… ص۔ ۴۱۹ ۱۸ ………ایضاً………ص۔ ۴۲۰ ۱۹ شفیق الرحمن، پروفیسر، ہاشمی، اقبال کا تصور ِدین، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۸۷ئ، ص۔ ۱۰۱ ۲۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال(اردو) ص۔ ۳۷۵ ۲۱ ………ایضاً……… ص۔ ۴۷۷ ۲۲ ………ایضاً……… ص۔ ۳۳۰ ۲۳ عبدالحکیم، ڈاکٹر، خلیفہ، فکرِ اقبال، ص ۔۳۵۱ ۲۴ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال(اردو) ، ص۔ ۳۴۷ ۲۵ ………ایضاً……… ص۔ ۲۶۹ ۲۶ ………ایضاً……… ص۔ ۳۷۶ ۲۷ ………ایضاً……… ص۔ ۲۷۳ ۲۸ ………ایضاً……… ص۔ ۲۷۴ ۲۹ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۷۵ ۳۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال( اردو)، ص۔ ۵۱۹ ۳۱ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال( فارسی)، ص۔ ۶۵۶ ۳۲ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۵ ۳۳ منیر احمد، پروفیسر، یزدانی، شعورِ اقبال، ص۔ ۱۵۰ ۳۴ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال( فارسی) ، ص۔ ۸۱۰ ۳۵ محمد بخش، میاں، قصہ شاہ منصور ، چوہدری برادرز، جہلم، ۱۹۹۹ء ، ص۔ ۸ ۳۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال،(اردو)، ص۔ ۴۲۴، ۴۲۵ ۳۷ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۴۳ ۳۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال(اردو)، ص۔ ۳۱۶ ۳۹ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( فارسی) ، ص۔ ۳۳۶ ۴۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو)، ص۔ ۵۰۷ ۴۱ عبداﷲ، ڈاکٹر، سید، مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ، بزمِ اقبال لاہور، طبع اوّل، ۱۹۸۴ئ، ص۔۱۰۶، ۱۰۷ ۴۲ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو)، ص۔ ۱۷۹ ۴۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، فارسی، ص۔ ۶۲ ۴۴ منیر احمد، پروفیسر، یزدانی، شعورِ اقبال، ص۔ ۱۵۶ ۴۵ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۲۸ ۴۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال( اردو) ، ص۔ ۴۱۹ ۴۷ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۲۷ ۴۸ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، اقبال سب کے لیے، ص۔ ۷۹ ۴۹ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی) ، ص۔ ۴۴ ۵۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو)، ص۔ ۵۰۳ ۵۱ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۴۳ ۵۲ حق نواز، اقبال اور لذتِ پیکار، اقبال اکادمی لاہور، طبع اوّل ۱۹۸۴ئ، ص۔ ۱۸۴ ۵۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال( اردو) ، ص۔ ۵۲۲ ۵۴ ………ایضاً……… ص۔ ۵۲۲ ۵۵ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۵ ۵۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۱۶۶ ۵۷ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( فارسی) ، ص۔ ۸۶۵ ۵۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔۳۴۰ ۵۹ ………ایضاً……… ص۔ ۵۱۵ ۶۰ شفیق الرحمن، پروفیسر، ہاشمی، اقبال کا تصورِ دین، ص۔ ۱۰۲ ۶۱ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال ( اردو) ص۔ ۵۳۶ ۶۲ ………ایضاً……… ص۔ ۵۳۶ ۶۳ ………ایضاً……… ص ۔ ۵۰۶ ۶۴ شفیق الرحمن، پروفیسر، ہاشمی، اقبال کا تصورِ دین، ص۔ ۱۰۲ ۶۵ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۵ ۶۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( فارسی) ص۔ ۱۹ ۶۷ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۷ ۶۸ ………ایضاً……… ص۔ ۳۲ ۶۹ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال ( فارسی) ، ص۔۶۶۸ ۷۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۴۸۵ ۷۱ ………ایضاً……… ص۔ ۴۹۷ ۷۲ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال ( فارسی) ، ص۔ ۱۲۳ ۷۳ ………ایضاً……… ص۔ ۶۶۸ ۷۴ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۵ ۷۵ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو)، ص۔ ۴۹۶ ۷۶ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۵ ۷۷ ………ایضاً………ص۔ ۳۲ ۷۸ ………ایضاً………ص۔ ۳۷ ۷۹ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال (اردو ) ص۔ ۳۴۱ ۸۰ ………ایضاً……… ص۔ ۳۲۶ ۸۱ ………ایضاً……… ص۔ ۳۵۹ ۸۲ منہاج الدین، ایس، ایم، ڈاکٹر، افکار وتصوراتِ اقبال، ص۔ ۱۶۳ ۸۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو) ص۔ ۵۲۶ ۸۴ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔ ۳۲ ۸۵ ………ایضاً………ص۔ ۳۶، ۳۷ ۸۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، اردو، ص۔ ۳۹۷ ۸۷ محمد بخش، میاں، شیریں فرہاد، میرپور، آزاد کشمیر، طبعِ اوّل ۱۹۷۸ئ،ص۔ ۳۶ ۸۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ص۔ ۲۷۱۔ ۸۹ حسن اختر، ملک، اطرافِ اقبال، مکتبہ میری لائبریری، لاہور، ۱۹۷۲ئ،ص۔ ۱۹۹ ۹۰ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۵۴ ۹۱ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ص۔ ۳۹۷ ۹۲ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۲ ۹۳ محمد طاہر، فاروقی، سیرتِ اقبال، ص۔ ۳۳۷ ۹۴ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال (فارسی) ، ص۔ ۶۶۵ ۹۵ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( فارسی)، ص۔۶۵۹ ۹۶ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔۳۵ ۹۷ منہاج الدین، ایس، ایم، ڈاکٹر، افکارو تصوراتِ اقبال، ص۔ ۱۶۴ ۹۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( فارسی)، ص۔ ۸۰۴ ۹۹ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۴۴ ۱۰۰ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۷ ۱۰۱ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۴۵۲ ۱۰۲ منہاج الدین، ایس، ایم، ڈاکٹر، افکارو تصوراتِ اقبال، ص۔ ۱۶۵ ۱۰۳ ثاقب رزمی، اقبال کی انقلابیت، مقبول اکیڈمی، لاہور۱۹۹۰ئ،ص۔ ۱۵۱ ۱۰۴ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ص۔ ۶۵۷ ۱۰۵ ثاقب رزمی، اقبال کی انقلابیت،ص۔ ۱۵۳ ۱۰۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( فارسی)، ص۔ ۷۹۳ ۱۰۷ محمد بخش، میاں،سیف الملوک، ص۔ ۳۳ ۱۰۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال(اردو) ، ص۔ ۱۰۴ ۱۰۹ محمد طاہر، فاروقی، سیرتِ اقبال، ص ۳۰۷ ۱۱۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۲۷۴ ۱۱۱ ………ایضاً……… ص۔ ۲۷۲ ۱۱۲ محمدریاض ، برکاتِ اقبال، مقبول اکیڈمی، لاہور۱۹۸۲ئ،ص۔ ۷۶ ۱۱۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو) ، ص۔ ۴۹۹ ۱۱۴ ………ایضاً……… ص۔ ۲۷۱ ۱۱۵ ………ایضاً……… ص۔ ۳۹۰ ۱۱۶ ………ایضاً……… ص۔ ۳۵۱ ۱۱۷ ………ایضاً……… ص۔ ۲۶۹ ۱۱۸ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔ ۲۸۵ ۱۱۹ محمد بخش، میاں، سیف الملوک،ص۔ ۴۲ ۱۲۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو)، ص۔ ۵۰۷ ۱۲۱ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔ ۲۱۹ ۱۲۲ ………ایضاً……… ص۔ ۷۶ ۱۲۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو) ، ص۔ ۱۹۲ ۱۲۴ ………ایضاً……… ص۔ ۵۹۱ ۱۲۵ اسعد، گیلانی، سید، تصوراتِ اقبال، فیروز سنز لمیٹیڈ، لاہور، ۱۹۹۱ئ،ص۔ ۱۳۶ ۱۲۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو) ص۔ ۳۸۹ ۱۲۷ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۱۷۰ ۱۲۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی) ، ص۔ ۸۰۹ ۱۲۹ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۱۷۰ ۱۳۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو) ، ص۔ ۱۰۴ ۱۳۱ ………ایضاً……… ص۔ ۱۱۳ ۱۳۲ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۲ ۱۳۳ ………ایضاً……… ص۔ ۳۲ ۱۳۴ ………ایضاً………ص۔ ۳۳ ۱۳۵ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال (فارسی) ، ص۔ ۸۰۴ ۱۳۶ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۲ ۱۳۷ ………ایضاً……… ص۔ ۳۳ ۱۳۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو)، ص۔ ۳۶۷ ۱۳۹ ………ایضاً……… ص۔ ۳۴۸ ۱۴۰ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۹۹ ۱۴۱ ………ایضاً………ص۔ ۴۱۹ ۱۴۲ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو)، ص:۳۸۸ ۱۴۳ ………ایضاً……… ص۔ ۴۷۶ ۱۴۴ ………ایضاً……… ص۔ ۳۲۷ ۱۴۵ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۸۳ ۱۴۶ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال ( اردو) ص۔ ۲۵۹ ۱۴۷ ………ایضاً……… ص۔ ۴۷۲ ۱۴۸ ………ایضاً……… ص۔ ۲۲۳ ۱۴۹ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ص۔ ۵۰ ۱۵۰ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال ( فارسی)، ص۔ ۵۳ ۱۵۱ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۲۵۹ ۱۵۲ محمد بخش، میاں، شیریں فرہاد، ص۔ ۲۴ ۱۵۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۳۴۹ ۱۵۴ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۶۹ ۱۵۵ ………ایضاً……… ص۔ ۷۰ ۱۵۶ ………ایضاً……… ص۔ ۴۱۴ ۱۵۷ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۵۰۵ ۱۵۸ ………ایضاً……… ص۔ ۶۳۳ ۱۵۹ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔ ۷۴ ۱۶۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۵۴۷ ۱۶۱ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔۲۸۴ ۱۶۲ ………ایضاً……… ص۔ ۱۳۳ ۱۶۳ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۱۳۳ ۱۶۴ منور رؤف، پروفیسر، دیدہ ور، ادارہ ٔتحقیق و تصنیف، پشاور، طبع دوم، ۱۹۸۰ئ،ص۔ ۸۵ ۱۶۵ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۶۷۴ ۱۶۶ ………ایضاً………ص۔ ۳۲۷ ۱۶۷ ………ایضاً………ص۔ ۲۰۸ ۱۶۸ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔ ۳۶۰ ۱۶۹ محمد خلیل، ثاقب، میاں محمد بخش ایک آفاقی شاعر، ص۔ ۳۰۴ ۱۷۰ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۵۳۴ ۱۷۱ ………ایضاً……… ص۔ ۳۱۹ ۱۷۲ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۳۵۹ ۱۷۳ ………ایضاً……… ص۔ ۳۵۹ ۱۷۴ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال ( فارسی)، ص۔ ۱۴۳ ۱۷۵ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال (اردو) ، ص۔ ۲۵۹ ۱۷۶ ………ایضاً……… ص۔ ۶۲۷ ۱۷۷ محمد بخش، میاں، قصہ سیف الملوک، ص۔ ۶۳ ۱۷۸ عبدالسلام، ندوی، مولانا، اقبالِ کامل، آتش فشاں پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۲ئ،ص۔ ۲۵۸ ۱۷۹ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( فارسی) ، ص۔ ۶۹۵ ۱۸۰ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال (اردو)، ص۔ ۴۴۹ ۱۸۱ ………ایضاً……… ص۔ ۵۰۱ ۱۸۲ ………ایضاً……… ص۔ ۶۳۴ ۱۸۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو) ، ص۔ ۶۸۷ ۱۸۴ ………ایضاً……… ص۔ ۳۵۶ ۱۸۵ ………ایضاً……… ص۔ ۷۲ ۱۸۶ ………ایضاً……… ص۔ ۳۱۶ ۱۸۷ ………ایضاً……… ص۔ ۲۵۴ ۱۸۸ ………ایضاً……… ص۔ ۲۳۳ ۱۸۹ ………ایضاً……… ص۔ ۲۳۱ ۱۹۰ ………ایضاً……… ص۔ ۵۲۷ ۱۹۱ ………ایضاً……… ص۔ ۶۶۲ ۱۹۲ محمد بخش، میاں، شیریں فرہاد، ص۔ ۶۴ ۱۹۳ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال(اردو) ، ص۔ ۱۵۷ ۱۹۴ ………ایضاً……… ص۔ ۱۵۶ ۱۹۵ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔ ۴۲ ۱۹۶ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ص۔ ۲۷۳ ۱۹۷ نورالدین، ڈاکٹر، ابوسعید، اسلامی تصوف اور اقبال،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع سوم ، ۱۹۹۵ئ، ص۔ ۳۲۴ ۱۹۸ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال ( اردو) ، ص۔ ۲۴۹ ۱۹۹ ………ایضاً……… ص۔ ۳۱۹ ۲۰۰ ………ایضاً……… ص۔ ۴۷۹ ۲۰۱ محمد ریاض، برکاتِ اقبال، مقبول اکیڈمی، لاہور،۱۹۸۲ئ،ص۔ ۱۲،۱۳ ۲۰۲ محمد بخش، میاں، شیریں فرہاد، ص۔ ۱۹ ۲۰۳ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔ ۱۱ ۲۰۴ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۱۱ ۲۰۵ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال( فارسی) ، ص۔ ۶۰۸ ۲۰۶ محمد بخش، میاں، سیف الملوک ، ص۔ ۱۲ ۲۰۷ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ص۔ ۶۰۷ ۲۰۸ ………ایضاً……… ص۔ ۶۳۹ ۲۰۹ محمد بخش، میاں، سیف الملوک، ص۔ ۶۱ ۲۱۰ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (فارسی ) ، ص۔ ۳۴۱  استفسارات ۱۔ استفسار: نسیم امروہوی صاحب نے فرہنگِ اقبال اردو میں ’حقیقتِ منتظر‘ کا یہ مطلب بتایا ہے کہ اس سے اقبال کی مراد امام مہدی کی ذات ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق انھوں نے یہ بات خود اقبال سے سنی تھی۔ مجھے یہ مطلب صحیح نہیں لگتا لیکن میرے پاس وہ دلائل نہیں ہیں جن سے اس کا غلط ہونا ثابت ہوجائے۔ مہربانی فرما کر میری یہ مشکل حل کریں۔ طارق اقبال۔ لاہور جواب: کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں اس شعر میں حقیقتِ منتظر سے امام مہدی یا کسی بھی غیر اللہ کی طرف اشارہ نکالنا یکسر غلط ہوگا، اس بات کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ حقیقت کا لفظ اس شعر میں ایک الوہی پس منظر رکھتا ہے، اور اللہ کے سوائے اس سے کچھ اور مراد لیا نہیں جا سکتا۔ ۲۔ اگر حقیقتِ منتظر امام مہدی ہوں تو اس سے ان کا مسجود اور معبود ہونا لازم آئے گا۔ ظاہر ہے یہ نتیجہ کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ ویسے اس سے ملتا جلتا استفسار پہلے بھی ہوچکا ہے شاید آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔ ۲۔ استفسار: ’مسجدِ قرطبہ‘ میں ایک جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں: کافرِ ہندی ہوں میں، دیکھ مرا ذوق و شوق دل میں صلوۃ و درود لب پہ صلوۃ و درود جواب: یہ سوال اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اس کے ذریعے سے شعر فہمی کے بعض ضروری قاعدے سامنے آجائیں گے۔ کچھ باتیں نمبروار عرض کی جارہی ہیں، ان پر غور فرمالیں، تو یہ مسئلہ بلکہ اس طرح کے دیگر مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔ ۱۔ ’کافر‘ اردو اور فارسی کی شعری روایت میں ایک معروف اصطلاح ہے۔ جب کوئی لفظ اصطلاح بن جاتا ہے تو اس کا پہلا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لفظ اپنے لغوی حدود کا پابند نہیں رہا اور اس کے معنی کی تحقیق میں اس کے رائج الاعام مفہوم کو بنیادی حوالے کی حیثیت حاصل نہیں رہے گی۔ شاعری کا ایک بڑا کام یہ ہے کہ وہ لفظ کو اس کی عمومی سطح سے اٹھا کر ایسے معنی کے اظہار کا ذریعہ بنا دیتی ہے جن کے لیے وہ لفظ وضع نہیں ہوا تھا۔ حقیقی شاعر لفظ میں سے نئے معنوی امکانات برآمد کرتا ہے بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ لفظ کو ایک بالکل تازہ معنوی دروبست بھی دیتا ہے۔ یہ عمل شاعری میں رواج پکڑ جائے یعنی کسی لفظ کی نئی معنوی تشکیل شاعروں میں عام ہوجائے تو وہ لفظ اصطلاح بن جاتا ہے، جس کی تفہیم کا ہر عمل اسی دائرے میں مستند سمجھا جائے گا جو اس روایت کا بنایا ہوا ہے۔ کوئی شعری اصطلاح اگر کسی دوسرے علم میں بھی مستعمل ہو تو اس کے مرکز تک رسائی پیدا کرنے کے لیے اس علم سے مدد تو لی جاسکتی ہے مگر سند نہیں۔ کافر ہی کی اصطلاح کو لے لیجیے، شریعت میں اس کا ایک متعین مفہوم ہے، جس کی اصل انکار اور اِخفا ہے، یعنی حق کا انکار اور حق کا اِخفا۔ شاعری میں اصل کو محفوظ رکھتے ہوئے اس لفظ کی دلالت حق سے پھیر کر ماسویٰ الحق کی طرف کردی گئی ہے یعنی غیرِ حق کا انکار اور غیرِ حق کا اِخفا۔ شاعری میں کافر کا صیغہ عام طور پر اس صاحبِ حال عاشق و عارف کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے محبوب اور مقصود کی طرف اتنی شدت سے یکسو ہے کہ ہر چیز حتیٰ کہ اپنی ذات کا بھی ایسا انکار کردیتا ہے کہ مقصود کے علاوہ سب کچھ گویا محو، معدوم یا کم از کم اوجھل ہوجاتا ہے۔ یہ ہماری عارفانہ اور عشقیہ شاعری کا وہ کردار ہے جو خود کو چھپا کر اپنے مقصود کو ظاہر کرتا ہے اور مطلوب کا اثبات کرنے کے لیے اپنا بھی انکار کردیتا ہے۔ ۲۔ اقبال کا خود کو کافرِ ہندی کہنا اس اعتبار سے بھی پُرلطف ہے کہ ان کے آبائو اجداد برہمن تھے اور برہمن عرفانی بلندی اور عاشقانہ یکسوئی کا نمونہ ہوا کرتے تھے۔ اقبال نے اس شعر میں دونوں باتوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ۳۔ کافر اور خاص طور پر کافرِ ہندی بندۂ محسوس ہے، اس کے لیے الوہیت مجسم ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے احساسات، جذبات اور خیالات میں ایک ایسا جوہر اور ایسی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ صورت کے ساتھ وابستگی کے بعض ایسے تقاضے بھی پورے کرسکتا ہے جو بلند ترین ایمانی اصطلاح کا موضوع ہیں۔ اس کا تخیل اور طرزِ احساس صورت اور حقیقت کے درمیان موجود فاصلہ ختم کردیتا ہے اور ان کی دوئی کو اعتبار کی سطح پر باقی نہیں رہنے دیتا۔ خیال اپنی تمام تر قوت کے ساتھ حقیقت اور صورت کے جس پیراڈوکس سے سمجھوتے کو اپنے منتہی کے طور پر قبول کرلیتا ہے، یہ ’کافرِ ہندی‘ اسے حس اور جذبے کی سطح پر حل کر دکھاتا ہے۔ ۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ اقبال کے تعلق کی ماہیت تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو بالآخر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺکے ساتھ ان کی محبت اور وابستگی کا کلیاتی مزاج وہ ہی ہے جو برہمنی ذہن اور طبیعت کا مایۂ امتیاز ہے۔ ۵۔ ایک قدر Anthropomorthic شدتِ یکسوئی جو حقیقت و صورت کے ادغام پر مبنی ہے۔ یہ ادغام معرفت اور عشق کو ان کے منتہیٰ پر لے جا کر ایک کرتا ہے۔ ۶۔ خود کو کافر ہندی کہہ کر اقبال گویا رسول اللہ صلی اللہ وآلہٖ وسلم سے عرض کررہے ہیں کہ آپﷺ میری معرفت کا مرکز اور میری محبت کا مدار ہیں۔ میں آپﷺ کی جناب میں وہ جذبات و احساسات رکھتا ہوں جو شدتِ بندگی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ۷۔ انسان کا سب سے بڑا شرف اس کی سب سے پست سطح سے ظاہر ہوتا ہے۔ کافرِ ہندی کے صیغے میں اس اصول کی کار فرمائی بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ یعنی میں ایمان کے اس منتہیٰ پر ہوں جس نے کفر کو بھی اپنا ذریعۂ اظہار بنالیا۔ اس اصول کا دوسرا مظاہرہ ہندی میں بھی ہوتا ہے۔ آپ ﷺکی وجہ سے عربی ہونا اپنی نوع کا سب سے بڑا نسبی شرف ہے اور بت پرستی کی روایت کی وجہ سے ہندی ہونا سب سے بڑی ذلت۔ اقبال نے اس ذلت کو مظہر بنالیا ہے، اس کمال کا جو عربیت کو حاصل ہے۔ ۸۔ کافرِ ہندی کے حوالے سے جو باتیں ان پر ہوئی ہیں انھیں ملحوظ رکھ کر ذوق و شوق کے مطلوبہ معنی اور دوسرے مصرعے کی ایک نادر معنویت تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ذوق انتہائے معرفت ہے یعنی حق الیقین یہاں علم، تجربہ اور حال بن جاتا ہے اسی طرح شوق حقیقتِ عشق ہے۔ جو ایک جہت سے علم کے حال بن جانے کے عمل کو کسی مرحلے پر رکنے نہیں دیتا، یہی اصل متاع ہے کافرِ ہندی کی۔ علم اور عشق کی اس یکجائی کا محل دل ہے جس کے احوال کا اظہار کہیں معطل یا منقطع نہیں ہوتا جس طرح اس کے احوال و معارف مستقلاً رُو بہ کمال ہیں اسی طرح ان کا اظہار بھی مسلسل جاری ہے۔ کافرِ ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق دل میں صلوۃ و درود لب پہ صلوۃ و درود ۳۔ استفسار: ’ارمغانِ حجاز‘ (فارسی) کی ورق گردانی کرتے ہوئے کئی ایسی رُباعیات مطالعے میں آئیں جو محسوس ہوتا ہے کہ آج ہی لکھی گئی ہیں۔ علامہ اقبال کی دور اندیشی پر حیرت ہوتی ہے کہ ہم پر بیتنے والے حالات کو وہ ہم سے زیادہ دیکھ رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل مقامات پر ذہن کم علمی کی وجہ سے شاعر کی مراد تک پہنچنے سے قاصر ہے، براہِ کرم رہنمائی فرمائیں: ۱۔ مسلمانی کہ در بندِ فرنگ است دلش در دردستِ او آسان نیاید زسیمائی کہ سو دم بر درِ غیر سجودِ بوذر و سلمان بناید یہاں حضرت ابو ذر غفاریؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کا ذکر کسی خاص مفہوم میں آیا ہے یا ان سے مراد محض دو مثالی مسلمان ہیں؟ ۲۔نگاہِ تو عتاب آلود تا چند بتانِ حاضر و موجود تا چند درین بتخانہ اولادِ براہیم نمک پروردۂ نمرود تاچند اس رباعی میں کئی چیزیں دریافت طلب ہیں: ۱۔ کیا یہ اللہ سے شکوہ کیا جارہا ہے؟ ۲۔ ’تبخانہ‘ سے کیا مراد ہے؟ دنیا! ۳۔ ’اولادِ براہیم‘ سے مراد مسلمان، یہودی اور مسیحی تینوں ہیں، یا صرف مسلمان؟ ۴۔ ’نمک پروردہ‘ صرف معاشی اعتبار سے ہے یا تمام پہلوئوں سے؟ ۵۔ ’نمرود‘ سے کون مراد ہے؟ ۳۔ زمحکومی مسلمان خود فروش است گرفتارِ طلسم چشم و گوش است زمحکمومی زگاں درتن چنان سست کہ مارا شرع و آئین بارِ دوش است یہ رباعی سمجھ میں نہیں آرہی۔ تھوڑی سی شرح کردیں تو بہت ممنون ہوں گا۔ افتخار حسین نقوی (کراچی) جواب: آپ نے بجا فرمایا۔ اقبال کی شاعری پڑھتے وقت رہ رہ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اُن کی دوربینی نے مستقبل کو بھی حال بنا رکھا ہے۔ علامہ حد درجہ منکسر المزاج تھے مگر اس وصف میں ایسا وفور تھا کہ انھیں بھی اظہار پر مجبور کردیتا تھا، مثلاً: حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے آپ نے یقینا محسوس کیا ہوگا کہ برصغیر کی مسلم شعری روایت میں کم از کم دو شاعر ایسے ہو گزرے ہیں جنھوں نے گویا مستقبل کو تصویر کر دکھایا ہے: غالبؔ اور اقبالؔ۔ ایک کے ہاں مستقبل کے آدمی کی صورت گری ملتی ہے اور دوسرے کے ہاں دنیا کی۔ غالبؔ بھی اپنے اس کمال سے بے خبر نہ تھا: ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں خیر یہ تو اپنی روایت پر فخر کرنے کا ایک بہانہ ہاتھ آگیا تھا، آیئے آپ کے اشکالات کی طرف چلتے ہیں۔ ۱۔ ’’مسلمانی کہ دربندِ فرنگ۔۔۔۔۔۔‘‘ اس قطعے میں بوذرؓ و مسلمانؓ کا ذکر نہایت معنی خیز ہے اور یہ معنی خیزی بھی اتفاقی نہیں ہے بلکہ صاف نظر آتا ہے کہ ان حضرات کو کردار بنا کر اقبال، مسلمانی کا وہ جوہر بتانا چاہ رہے ہیں جس کے گم ہوجانے سے آج کا مسلمان مغرب کے چنگل میں گرفتار ہے بلکہ بندۂ فرنگ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ جوہر ہے، دنیا کی طرف سے فاتحانہ بے رغبتی جو بندے کو اپنے حقیقی مالک و معبود کی جانب یکسو رکھتی ہے۔ یہی وہ فقر ہے جو اقبال کے تصورِ اسلام میں بہت بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت ابو ذرؓ اور حضرت سلمانؓ دونوں اس فقر کا مجسمہ تھے اور اُس ابراہیمی یکسوئی کے وارث جس پر اسلام کی اساس ہے۔ ۲۔ ’نگاہِ تو عتاب آلود۔۔۔۔۔‘ ۲:۱۔ جی ہاں، اس میں ایک پہلو شکوے کا بھی ہے، مگر اصل میں یہ خود کلامی ہے جو اللہ کو سنانے کے لیے کی جارہی ہے۔ اس میں شکوہ اور اقبالِ جرم اور التجا ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔ ۲:۲۔ ’بتانِ حاضر و موجود‘ کی رعایت سے ’بتخانہ‘ دنیا ہی کو کہا گیا ہے۔ ۲:۳۔ ’اولاد‘ یہاں وارث کے معنی میں ہے لہٰذا ’اولادِ براہیم‘ سے مراد صرف مسلمان ہی ہوسکتے ہیں۔ قرآن صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ یہ وراثت یہود و نصاریٰ کو نہیں ملی۔ ۲:۴۔ ’نمک پروردہ‘ کا مطلب ہے: خانہ زاد غلام جو ہر اعتبار سے اپنے مالک کا دست نگر ہے۔ یہ دست نگری جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، معاشی بھی ہے، تہذیبی بھی ہے، ذہنی بھی ہے، سیاسی بھی ہے اور نفیساتی و روحانی بھی۔ بلکہ دست نگری بھی چھوٹا لفظ ہے، اقبال کی مراد اس سے زیادہ ہے۔ ’نمک پروردہ‘ وہ غلام ہے جسے گویا اُس کے آقا نے تخلیق کیا ہے۔ اپنے مالک کے آگے اس کا رویہ وہی ہوتا ہے جو بندے کا خدا کے حضور میں ہونا چاہیے۔ ۲:۵۔ ’نمرود‘ مغرب ہے جو دنیا کا خداوند بن بیٹھا ہے۔ ۳۔ ’زمحکومی مسلمان۔۔۔۔۔‘ اس قطعے کی نکتہ بہ نکتہ توضیح کچھ یوں ہوگی: ۳:۱، مسلمان مغرب کی مکمل غلامی میںمبتلا ہے، اور اس پر پوری طرح راضی بھی ہے۔ ۳:۲، دنیا کی چکاچوند نے اسے ایسا مسحور کر رکھا ہے کہ اُسے حاصل کرنے کے لیے یہ اپنے آپ کو بیچنے پر بھی آمادہ ہے۔ ۳:۳، غلامی کی لت نے اسے اتنا بے دم کر رکھا ہے کہ یہ دین کی عائد کردہ ذمہ داریاں اُٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ ۳:۴، اسلام چونکہ دنیا پرستی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اس لیے موجودہ نام نہاد مسلمان اس سے پیچھا چھڑا لینا چاہتا ہے۔ یہ دین کو زندگی کے تمام دائروں سے بے دخل کردینے پر کمربستہ ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ مغرب کی غلامی اور دنیا پرستی، ایک ہی چیز ہے۔ اس نے ہمیں دین کا مخاطب بننے کی اہلیت سے محروم کردیا ہے۔ انفرادی زندگی کا دائرہ ہو یا ریاست و معاشرہ، ہم کہیں بھی یہ میلان نہیں رکھتے کہ اسلام کے ساتھ وابستگی کے ضروری تقاضے ابتدائی سطح پر ہی نبھا دیے جائیں۔ یہ جو حالات کی تبدیلی کو دین پر وارد کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ان کا اصل محرک وہی دنیا پرستی ہے جو مغرب کی غلامی کا سبب بھی ہے اور نتیجہ بھی۔ جوابات: احمد جاوید  اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ محمد ظہیر: اقبال کی غزل، ماہنامہ الحمرا، لاہور، شمارہ مئی ۲۰۰۵ئ، ص ۲۴ تا ۲۷ مقالہ نگار کا خیال ہے کہ اقبال بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر ہے، اس لیے اس کی طویل نظموں میں بھی تغزل کار فرما ہے۔ ’مسجد قرطبہ‘، ’ذوق وشوق ‘اور ’خضرِ راہ‘ اس کی نمایندہ مثالیں ہیں۔ اردو کے اساتذہ غالب ومومن نے اپنی مثنویوں اور اپنے قصائد کے درمیان غزلیں کہی ہیں۔ اقبال کی طویل نظموں میں بھی تغزل موجود ہے۔ اقبال کی غزل کی خصوصیت بقول ڈاکٹر یوسف حسین خاں اس کا جوشِ بیان اور رمزیت ہے جس کی مثال حافظ اور غالب کو چھوڑ کر دوسرے شعرا کے ہاں مشکل سے ملے گی۔ اس کے الفاظ میں بلا کی ایمانی قوت پوشیدہ ہے۔ وہ حسنِ ادا کے جادو سے انسانی ذہن کو مسحور کر دیتا ہے۔ اس کی تمام غزلوں میں غنائی عنصر موجود ہے۔ وہ ایسی بحریں اور زمین منتخب کرتا ہے جو تغزل کے لیے خاص طور پر موزوں ہوتی ہے۔ شگفتہ زمین اور مضمون کے مناسب وزن منتخب کرنے سے شاعر اپنے کلام میں بے پایاں دل فریبی اور دل کشی پیدا کرتا ہے۔ شاہد اقبال کامران: اقبال کے تصورِ ملت کی انفرادیت وجامعیت، ماہنامہ قومی زبان، کراچی، جون ۲۰۰۵ئ، ص ۳۳ تا ۴۴ اقبال کے تصورِ ملت کے بارے میں مقالہ نگار لکھتے ہیں: ’’اقبال کے استدلال کا خاص منہاج یہ ہے کہ وہ جُز سے کُل کی طرف جاتے ہیں، مثلاً ’خودی مطلق‘ کا ادراک حاصل کرنے کا آغاز ’انسانی خودی‘ سے کرتے ہیں اور اسی سے آگے بڑھتے ہیں۔ اس طرح اقبال ملت سازی کے اصول بیان کرنے سے پہلے یعنی اقبال کی اصطلاح میں یوں کہیے کہ ’رموزِ بے خودی‘ بیان کرنے سے پہلے وہ ’اسرارِ خودی‘ عیاں کرتے ہیں۔ گویا پہلے ایسے افراد تیار کیے جائیں جو ایک اچھی جماعت کے فعال رکن بن سکیں۔ افراد سے جماعت کی تشکیل کی طرف اور اسی اصول کو اقبال مسلمانوں کے نظریۂ ملت کی توضیح میں اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ پہلے مسلم قومیت کے اصول کی انفرادیت وجامعیت بیان ہو، اور پھر اس تصورِ قومیت پر مشتمل اقوام کے اجتماع یعنی ملتِ اسلامیہ کی انفرادیت وجامعیت کے نکات پر بحث کی جائے۔ یہ منہاج اقبال کے استدلال کا ایک عمومی انداز ہے۔‘‘ اس منہاجِ استدلال کی روشنی میں مقالہ نگار نے مسلمانوں کے تصورِ ملت کی انفرادیت وجامعیت کے متعلق اقبال کے نقطۂ نظر کا خلاصہ اپنے مقالے کے آخر میں پیش کر دیا ہے جو آٹھ نکات پر مشتمل ہے۔ رفعت سروش: اقبال کی نظموں میں طنزیہ پہلو :شکوہ ،جوابِ شکوہ، ماہنامہ کتاب نما ،دہلی، شمارہ جون ۲۰۰۵ئ، ۲۰ تا ۲۵ اس مقالے کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ میں جگہ جگہ جذبات کو ابھارنے اور اپنے قارئین کے دلوں کو چھونے کے لیے اقبال نے تیکھے اندازِ بیان کا سہارا لیا ہے او رہر شکایت کا جواب بھی فراہم کر دیا ہے۔ اقبال نے ’شکوہ‘ میں مسلمانوں کی علوم وفنون سے بے توجہی، اسلاف کے کارناموں سے بے زاری، ضعیف الاعتقادی اور بُت پرستی سے قریب کر دینے والی قبرپرستی کا برملا اظہار کیا ہے، اور ایسے تیکھے اور طنزیہ انداز میں کہ ایک ایک لفظ خنجر بن کر دل میں اُتر جائے اور غیرت دلائے۔ ’شکوہ‘ میں تیکھا پن ہے، لیکن جب اقبال ’جوابِ شکوہ‘ رقم کرتے ہیں تو بال کی کھال نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ وہ بنیادی مسائل کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں لیکن ناصحانہ انداز میں نہیں، نہایت شاعرانہ، شگفتہ او رطنز کی چاشنی لیے ہوئے الفاظ اور ڈرامائی انداز میں۔ مکالموں کی صورت میں جو تیکھے اور طنزیہ انداز کے شعر کہے ہیں وہ ان نظموں کو اور چمکاتے ہیں اور جو اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں، وہ بیشتر وہی ہیں جن میں طنزیہ لہجہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مہر نور محمد خان: علامہ اقبال کے فارسی متون پر تحقیق کے مسائل، سہ ماہی پیغام آشنا، اسلام آباد، اپریل، جون ۲۰۰۵ئ، ص ۱۵۲ تا ۱۵۸ مقالے کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ چونکہ علامہ اقبال کے بیشتر آثار فارسی میں ہیں، لہٰذا اقبالیات میں تحقیقی کام کرنے والوں کو جن مآخذ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے، اُن میں سے بیشتر فارسی زبان میں ہیں۔ یہ ایسے مآخذ ہیں جن کی طرف رجوع کیے بغیر اقبالیات سے انصاف نہیں کیا جا سکتا اور ان مآخذ سے استفادے کے لیے فارسی زبان سے کما حقہ، واقفیت نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال کے کلام میں عربی اور قرانی آیات کا بہت استعمال ہوا ہے۔ اشعار میں سیکڑوں مقامات پر کسی نہ کسی آیت یا حدیث کا کوئی جزو موجود ہے۔ اقبالیات پر تحقیق کرنے والے اگر واقعی اقبال کے نقطۂ نظر کو بخوبی سمجھنا چاہتے ہیں تو انھیں فارسی اور عربی پر دسترس حاصل ہونی چاہیے۔ نیز یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث کو معلوم کرنے کے لیے کن مآخذ سے رجوع کیا جائے اور اُن سے کس طرح استفادہ کیا جائے۔ آفتاب احمد: اقبال کے بارے میں فیض کی رائے: ایک غلط فہمی کا ازالہ، ماہنامہ شب خون، الٰہ آباد، مئی ۲۰۰۵ئ، ص ۲۱ تا ۲۴ فاضل مقالہ نگار ، اسلوب احمد انصاری کے مجموعے تنقیدی تبصرے میں اقبال ایک شاعر از سلیم احمد کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’اسلوب صاحب اپنے تبصرے میں کہتے ہیں، اقبال ایک شاعر میں سب سے اچھا مضمون’ موچی دروازے کی شاعری‘ ہے جس میں ’شکوہ‘ ، ’جوابِ شکوہ‘ کا محاکمہ ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ ٹکڑا ’موچی دروازے کی شاعری‘، فیض احمد فیض نے اقبال کے بارے میں استعمال کیا ہے اور اس سے فیض نے اپنی بدتہذیبی اور دریدہ دہنی اور تنگ نظری کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ‘‘ فاضل مقالہ نگار لکھتے ہیں: ’’اسلوب صاحب جیسے تبصرہ نگار سے اس قسم کے الفاظ کی توقع نہیں کی جا سکتی جس سے انھوں نے فیض جیسے بے ضرر شخص کو نوازا جس نے اپنے بدترین دشمنوں کے خلاف بھی کبھی زبان نہیںکھولی تھی۔ حیرت ہے، اسلوب صاحب نے سلیم احمد کے ایسے بیان پرتکیہ کرتے ہوئے جس کا انھوں نے کوئی حوالہ بھی نہیں دیا تھا، ایک دم برانگیختہ ہو کر فیض کے خلاف ایسے نازیبا انداز میں اپنے تعصب کا اظہار کر دیا۔‘‘ فیض کی اقبال سے عقیدت کا اظہار ان کی اس بات سے ہوتا ہے کہ ’’اقبال برصغیر کے مسلمانوں کی سماجی، مذہبی اور سیاسی فکر کے میدان میں اپنے ہم عصروں اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے غیر تسلیم شدہ نہیں بلکہ ایک تسلیم شدہ قانون ساز کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ فیض کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فیض اقبال کو قومی زندگی میں بہت بلند اور اعلیٰ مقام پر فائز سمجھتے تھے۔ اقبال کی ذہنی کاوش کی وضاحت کرتے ہوئے فیض لکھتے ہیں: ’’اقبال نے مغرب کی فلسفیانہ اور سائنسی فکر کے بہت سے عناصر کو موافقانہ نقطۂ نظر سے دیکھا اور انھیں ذہنی طور پر قبول کیا۔ جہاں تک موچی دروازے کی شاعری کی بات ہے تو اقبال موچی دروازے کے ہر مُوڈ کے ترجمان تھے۔‘‘ یہاں فیض نے یہ نام علامت کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اقبال کا لاہور برعظیم کا ایک بڑا شہر تھا اور سیاسی ، سماجی تحریکوں کا مرکز تھا۔ سلیم احمد اس سے پوری طرح آگاہ تھے کیوں کہ آگے چل کر وہ خود اعتراف کرتے ہیں: ’’موچی دروازہ صرف لاہور کا ایک محلہ نہیں، اس کے معنی ہیں برصغیر کے مسلمان عوام۔‘‘ عین ممکن ہے اقبال پر جو کچھ فیض نے نثر میں خصوصاً انگریزی میں لکھا، وہ سلیم احمد کی نظر سے نہ گزرا ہو، مگر انھوںنے نقش فریادیمیں فیض کا مرثیۂ اقبال تو یقینا دیکھا ہوگا۔ اس نظم میں فیض نے اقبال کو جس طرح خراجِ تحسین پیش کیا ہے اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اقبال کے بارے میں کس قسم کے جذبات رکھتے تھے۔ علامہ اقبال پر منتخب مقالات :انتخاب کنندہ: محمد موسیٰ بھٹو، ماہنامہ بیداری، حیدرآباد سندھ، جون ۲۰۰۵ئ، ص ۵ تا ۲۲ علامہ اقبال، اُن کی شخصیت اور نظریات پر جو مضامین صدق اور صدقِ جدید میں شائع ہوئے تھے، اُن کا انتخاب محمد موسیٰ بھٹو نے کیا ہے۔ ان مضامین کے موضوعات اور مقالہ نگاروں کے نام درجِ ذیل ہے: اقبال کی حالتِ عشق رسولؐ مولانا عبدالماجد دریا بادی اقبال اور پردہ ً ً ً اقبال کی درویشانہ زندگی ً ً ً ماتمِ اقبال مولانا سیّد سلیمان ندوی شاعرِ اسلام مولانا امین احسن اصلاحی ماتمِ اقبال (منظوم) مولانا مناظر احسن گیلانی فکرِ اقبال جوش ملیح آبادی اقبال اور نیٹشے اقبال اور ملٹن قارئینِ صدق کے مضامین اقبال اور برگساں اور ان پر مدیرِ صدق کا تبصرہ اقبال اور رومی آفاق عالم صدیقی: فراق جس نے اقبال کو اپنا حریف جانا، سہ ماہی جہانِ اردو دربھنگا، اپریل، جون ۲۰۰۵ئ، ص ۵۰ تا ۵۷ مقالہ نگار فراق کی شخصیت کے بارے میںلکھتے ہیں: ’’فراق ایسی شخصیت کا نام ہے جو ابتدا سے لے کر آج تک موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ فراق ایک خود سر، ضدی اور بے حد خود پسند بلکہ خود پرست انسان تھے۔ انھوں نے اپنے ہم عصروں میں سے کبھی کسی شاعر کی دل سے تعریف نہیں کی۔ ان کے اندر گرہ لگ گئی تھی کہ یہ صدی فراق کی صدی ہوگی لیکن افسوس کہ اس صدی میں اقبال جیسا عظیم شاعر پیدا ہوگیا۔ فراق اقبال سے کافی متاثر رہے، اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی تخلیقی صلاحیت بڑھانے کی بھی کوشش کی۔ فراق نے بھی اقبال کی آواز میں آواز ملا کر جبریل اور ایاز وغزنوی کی باتیں کیں لیکن اب وہ اچھی طرح جان چکے تھے ان کی یہ آواز اقبال کی بازگشت سے زیادہ اہمیت نہیں اختیار کر سکے گی۔ اس لیے وہ اقبال کے ساتھ ساتھ پوری اردو تہذیب پر خطِ تنسیخ کھینچ دینا چاہتے تھے تاکہ ان کی زبردستی کی ہندی الفاظ ٹھونسی شاعری کا جواز قائم ہو سکے۔ لیکن فراق کی ہندی آمیز شاعری کو تمام اربابِ فن اور ناقدین نے غیر موثر اور بے روح قرار دیا ہے۔ اس طرح فراق اپنی ہندی آمیز شاعری کے حوالے سے بھی منفرد وممتاز مقام حاصل نہ کر سکے۔ مقالہ نگار فراق کی شاعری کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں، ’’فراق کی شاعری کا ڈکشن، لہجہ اور کیفیاتی احساسات کا ادراک اردو کے تمام شاعروں سے منفرد اور ممتاز ہے۔ ان کے ہاں الفاظ کی دروبست کا اپنا نظام ہے۔ ان کی انفرادی پہچان یہ ہے کہ انھوں نے کیفیتوں کو اپنے اشعار میں روشن کر دیا۔ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فراق اپنے شخصیت کی کمزوریوں کے باوجود ایک اچھا اور معتبر شاعر ہے اور اس بات کو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ فراق کی تخلیقیت خیزی کی ضیا نئے تخلیق کار کے راستے کو منور کرتی رہے گی۔‘‘ کرنل (ر) غلام سرور: اُمتِ مسلمہ کا مستقبل، اقبال کی نظر میں، ماہنامہ فیض الاسلام، راولپنڈی، مئی ۲۰۰۵ئ، ص ۴۰ تا ۴۲ مقالہ نگار نے اس مضمون میں زیادہ تر مسلمانانِ عالم کی موجودہ حالتِ زار پر تبصرہ کیا ہے۔ اقبال اپنی شاعری میں ملتِ اسلامیہ کے زوال کے اسباب بیان کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دل میں احساسِ زیاں کو زندہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے دل میں احساسِ زیاں کو زندہ رکھنا، اقبال کی شاعری اور ان کے پیغام کا ایک حصہ ہے۔ اقبال کا دور بڑا پُرآشوب تھا۔ استعمار نے ساری دنیا میں مسلمانوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ امتِ مسلمہ کے لیے یہ بڑی آزمایشوں کا دور تھا۔ خلافتِ عثمانیہ دم توڑ چکی تھی۔ اقبال نے اس پُرآشوب دور میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ انھوں نے احساسِ زیاں بیدار کرکے مسلمانوں کو امید کی کرن دکھائی تھی۔ یاس وحزن کی بجائے امید کا درس دیا تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ ابلیس بتاتا ہے کہ آج ابلیسی نظام کو زبردست خطرے کا سامنا ہے اور اسے خدشہ ہے کہ لوگوں پر پیغمبرِ اسلام ﷺ کی شریعت کہیں عیاں نہ ہو جائے۔ جب عیاں ہو جائے گی تو اس اس کی کشش اتنی زبردست ہوگی کہ وہ ابلیسی نظام کے لیے خطرے کا موجب بن جائے گی۔ سہینہ اویس اعوان:اقبال کا مردِ ومومن، ماہنامہ طلو عِ اسلام، لاہور، مئی ۲۰۰۵ئ، ص ۴۱ تا ۴۵ فاضل مقالہ نگار کے خیال میں اقبال نے جس مردِ کامل کا تصور پیش کیا ہے، وہ قرآن مجید سے ماخوذ ہے، جو تخلیقِ کائنات کا مقصودِ حقیقی اور انسانِ کامل ہے۔ اقبال انسانِ کامل کے لیے مردِ خدا، مردِ قلندر، مردِ بزرگ، بندئہ آفاقی، نائبِ حق، جانباز مسلمان، مردِ مسلماں، درویش اور فقیر کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ ان سب اصطلاحوں کا خلاصہ مردِ مومن ہے جو خودی سے سرفراز ہوتا ہے۔ اﷲ کی ذات پر مکمل ایمان کی بدولت عزم واستقلال اور ناقابلِ شکست جرأت وہمت کا حامل ہوتا ہے اور حق کے لیے بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے وہ ایک چٹان بن جاتا ہے۔ اقبال کا مردِ مومن ہمہ وقت خطرات میں گھرے رہنے ہی کو اصل زندگی سمجھتا ہے۔ اقبال کا مردِ مومن زندۂ جاوید ہے، اس لیے کہ وہ اپنے پاس زندۂ جاوید پیام (قرآن کریم) رکھتا ہے۔ اس کی زندگی ایک زندۂ جاوید مقصد کے لیے گزرتی ہے۔ مٹ نہیں سکتا کبھی، مردِ مسلماں کہ ہے اس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم و خلیل ڈاکٹر شیلا میکڈونو، علامہ اقبال اور نیٹشے، ریاض احمد، شش ماہی مخزن، لاہور ، شمارہ ۸، ص ۵۰ تا ۵۷ حال ہی میں اقبال اکادمی پاکستان نے کینیڈا کی دانشور خاتون ڈاکٹر شیلا میکڈونو کی ایک کتاب شائع کی ہے جس کا عنوان ہے The Flame of Senai (شعلۂ طور)۔ اس کتاب کے تیسرے اور چھٹے باب میں مصنفہ نے نیٹشے اور اقبال کے افکار وتصورات کا دلچسپ مطالعہ پیش کیا ہے جو اقبال شناسی کے مثبت رویے کا مظہر ہے۔ مخزن میں جومضمون شائع ہوا ہے ، وہ دراصل متعلقہ مباحث کا اردو ترجمہ ہے جو ریاض احمد صاحب نے کیا ہے۔ انھوں نے مصنفہ کے مباحث پر تعلیقات بھی تحریر کیے ہیں۔ مصنفہ نے اپنے مضمون میں بتایا ہے کہ اقبال نیٹشے کے مقلد نہ تھے، بلکہ بہت سے امور میں اس کے نقاد بھی تھے۔ مقالے میں نیٹشے کے ان افکار کی نشان دہی کی گئی ہے جن سے اقبال کو اختلاف تھا۔ شمس الرحمن فاروقی: How to Read Iqbal (اقبال کا مطالعہ کس طرح کرنا چاہیے)، The Annual of Urdu Studies (U.S.A)، شمارہ ۲۰، ۲۰۰۵ئ، ص ۱ تا ۳۳ یہ فکر انگیز مقالہ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے اقبال اکادمی پاکستان کی دعوت پر اپریل ۲۰۰۴ء میں لاہور میں پیش کیا تھا۔ بعد ازاں یہ کتابچے کی صورت میں اقبال اکادمی کے زیرِ اہتمام شائع بھی ہوا۔ مصنف نے خود اس کا اردو اور فارسی میں بھی ترجمہ کیا۔ سوال بظاہر بڑا سادہ اور طلبہ کے مطلب کا نظر آتا ہے کہ اقبال کا کلام کیونکر پڑھنا چاہیے یا جیسا کہ خود فاروقی صاحب نے استہزائیہ لہجے میں کہا: ’’اقبال کا کلام کیونکرپڑھا جا سکتا ہے‘‘؟ لیکن بباطن یہ سوال بڑا گہرا تھا اور اقبال کی شاعری کو سمجھنے کے لیے شعور کی اس قدر گہرائی میں جانا پڑتا ہے کہ خود فاروقی صاحب کو اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے مغرب ومشرق کے جیّداساتذہ، عظیم شاعروں اور ادب کے مشہور نقادوں کی تحریروں کو کھنگالنا پڑا، جن سے چند، جن کا انھوں نے اپنے مقالے میں بار بار حوالہ دیا، یہ حضرات ہیں: شاعروں میں میرزا بیدل،غنی کاشمیری، امیر خسرو، میر انیس، عرفی شیرازی، کولرج، ٹی ایس ایلیٹ۔ نقادوں میں مولانا شبلی نعمانی، مجنوں گورکھ پوری، ڈاکٹر سید محمد عبداﷲ، آلِ احمد سرور، اسلوب احمد انصاری، سلیم احمد، سید مظفر حسین برنی، شیخ عطاء اﷲ، حامدی کاشمیری، آئی اے رچرڈز، ٹی ایس ایلیٹ، فرانسس پر یچٹ، فرانسس سکارف، اے جی برائون وغیرہ۔ اکبرعلی شاہ: The Rod of Moses، (ضربِ کلیم کا منظوم، انگریزی ترجمہ)، روفیسر ڈاکٹر عبدالغنی، سہ ماہی اقبال، لاہور، ص ۳ تا ۱۳ اس کا انگریزی میں پہلا مکمل منظوم ترجمہ 1983ء میں جناب اکبر علی شاہ (اے اے شاہ) نے پیش کیا تھا۔ اس سے پہلے شاہ صاحب 1979ء میں بالِِ جبریل کی کچھ منظومات کا ترجمہ پیش کر چکے تھے۔ گویا ضربِِ کلیم کا ترجمہ کرتے وقت انھیں خاصی مشق ہو چکی تھی اور فنِ ترجمہ کا خاصا تجربہ حاصل ہوچکا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالغنی نے انگریزی ترجمے کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہوئے بہ حیثیت مجموعی ترجمے کے تعریف وتحسین کی ہے اور بعض اشعار کے تراجم کا نقص بھی، اپنے خیال کے مطابق، بیان کیا ہے۔ نیز ایسے الفاظ کی بھی نشان دہی کی ہے جن کاانگریزی ترجمہ اُن کی رائے میں شاہ صاحب نے درست نہیںکیا۔ مثال کے طور پر یہ الفاظ : احوال worldly affairs غیور jealous نہنگ shark مہدی guide حرم shrine دریا sea لاموجود (الا اﷲ) god is great مچھلی kettle چھاج pot - قدوس جاوید:اقبال: قاری اور قراء ت، سہ ماہی فکر وتحقیق، دہلی جولائی تا ستمبر ۲۰۰۵ئ، ص ۵۱ تا ۶۶ اس مقالے کا مرکزی موضوع انھی کے الفاط میں یہ ہے کہ شعرِ اقبال کی تفہیم کا عمل، قاری کی مخصوص افتادِ طبع اور قراء ت کے منفرد آداب کا مطالبہ کرتا ہے۔ سبب یہ ہے کہ شعرِ اقبال اس غیر معمولی تاریخی، عمرانی، ثقافتی اور جمالیاتی شعور کا زائیدہ ہے جو اقبال کے یہاں اسلامی، ہندوستانی او ریورپی فکریات، حیات اور اقدار وروایات فن کے بصیرت مندانہ تجزیہ وتحلیل کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ شعرِ اقبال کے شعری ولسانی نظام ہی نہیں فنی وفکری اجتہادات کی بھی ہمہ جہت تفہیم وتعبیر کے باب میں تنقید کے سابقہ رویے، اصول اور سانچے عام طور پر ناکافی ہی ثابت ہورہے ہیں اور اقبالیات پر ہزاروں لاکھوں صفحات سیاہ کیے جانے کے باوجود اکثر یہ محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال شناسی کے باب میں ’’کہیں کچھ کم ہے‘‘۔ وہ ’’کچھ کم‘‘ کیا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں یہ مقالہ تصنیف ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم انصاری: اقبال ، زُروان اور زُروانیت، سہ ماہی اقبال، لاہور، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۵ئ، ص۷ تا ۱۹ ’زُروان‘ کا لفظ علامہ اقبال نے جاوید نامہ کے اس حصے میں کیا ہے جس کا عنوان ہے : زُرواں کہ روحِ زمان و مکاں است مسافر را بہ سیاحتِ عالمِ علوی مے برُد مسافر سے مراد خود شاعر ہے جس کے لیے اس روحانی سیاحت کے ایک مرحلے پر ’زندہ رود‘ کا نام یا لقب استعمال کیا گیا ہے۔ ’زروان‘ کو علامہ اقبال نے روحِ زمان ومکاں قرار دیا ہے جو بہت حد تک زرتشتی عقائد سے مطابقت رکھتا ہے۔ مقالہ نگار کا خیال ہے کہ اقبال زروان کو صرف روحِ زمان قرار نہیں دیتے بلکہ اسے روحِ زمان ومکاں قرار دیتے ہیں جس کا بڑا سبب شاید یہ ہے کہ اقبال جدید سائنسی تصورات کے زیرِ اثر زمان اور مکان کو الگ تصور نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے کہ چونکہ زرتشتی روایات میں زمان کے مقابلے میں مکان (کائنات) کی تخلیق کا الگ سے تذکرہ نہیں ملتا، اس لیے اقبال کی دانش اس نتیجے پر پہنچی کہ روحِ زروان (The Supreme Being) ، زمان کے ساتھ مکان کو بھی شامل ہونی چاہیے۔ فاضل مقالہ نگار نے زروان اور زروانیت کی تشریح زرتشتیت اور اس کے شارحین کی تحریروں کی روشنی میں متعدد لغات کے استفادے کے ساتھ کی ہے۔ ڈاکٹر عابد رپلی: مذاکرہ۔ اقبال اور عصرِ حاضر، سہ ماہی الاقربا، اسلام آباد، ص ۹۹ تا ۱۱۳ ۲۱؍ اپریل ۲۰۰۵ء کو وائس آف امریکا، واشنگٹن کی جانب سے ’اقبال اور عصرِ حاضر‘ کے موضوع پر ایک مذاکرہ ہوا جس کی یہ رپورٹ عابد رپلی نے تیار کی۔ مذاکرے میں محمد سہیل، عمر، اویس جعفری، ناصر شمسی، ڈاکٹر تقی عابدی، ڈاکٹر دل نواز صدیقی، فرزانہ حسن شاہد اور ڈاکٹر ٹیپو صدیق شریک ہوئے۔ آغاز محمد سہیل عمر نے کیا۔ انھوں نے عصرِ حاضر یا عہدِ جدید کی تعریف متعیّن کرتے ہوئے کہا: ’’عہدِ جدید بالعموم احیائے علوم کے بعد کے زمانے سے لے کر بیسویں صدی کے نصف کو کہا جاتا ہے۔ یہ عہد اپنے ساتھ کچھ ایسے فکری سوالات لے کر آیا ہے جو جدیدیت نے پیدا کیے تھے اور جو عہدِ جدید سے فکری تصادم کے نتیجے میں آپ کے سامنے آئے تھے۔ ان کا سب سے اچھا نپاتلا جواب آپ کو بیسویں صدی میں اقبال کے ہاں ملتا ہے اور تین طریقوں سے ملتاہے۔ ایک ان کے شعر سے جسے حکیمانہ شاعری کہتے ہیں۔ بڑی شاعری میں فکرکا ایک عنصر ہوتا ہے جو کسی بھی ایجنڈے سے ماورا ہوتا ہے۔ دوسرے طریقے کے تحت علامہ اپنی نثری اور فلسفیانہ کتابوں کے ذریعے اپنا فکری مسلک واضح کرتے ہیں اور تیسرا طریقہ انھوں نے ایک مصلح کے طور پر اختیار کیا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں وہ تمام سوالات جو عصرِ حاضر نے مسلمانوں کے سامنے رکھے ہیں، ان کے جوابات ہمیں اقبال کے یہاں ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے اقبال کی معنویت قائم ودائم رہی ہے۔‘‘ ریڈیائی مذاکرے میں شریک دوسرے حضرات نے محمد سہیل عمر کی گفتگو کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی: سر اقبال بنام حسین احمد: ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب کی روشنی میں، ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ، ص ۱۷ تا ۲۵ کلیاتِ اقبال (اردو) کی آخری نظموں میں ایک نظم کا عنوان ’حسین احمد‘ ہے جو علامہ کی وفات سے کوئی دو ماہ قبل، فروری 1938ء میں کہی گئی تھی: یہ نظم مولانا حسین احمد مدنی کے اس نظریے کی تردید میں سپردِ قلم کی تھی کہ ہندوستان کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان وطنی رشتۂ اتحاد کی بنا پر سیاسی نوعیت کی متحدہ قومیت کا رشتہ نہ صرف قائم ہو سکتا ہے بلکہ ملک میں تحریکِ آزادی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ رشتہ قائم ہو۔ جب سے یہ اشعار شائع ہوئے ہیں اب تک علامہ اقبال کے نظریے کی تائید اور مخالفت میں بے شمار مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ زیرِ نظر مقالہ مولانا عتیق الرحمن صاحب نے علامہ صاحب کے خلاف اور اپنے ممدوح مولانا حسین احمد مدنی کی حمایت میں لکھا ہے، زیادہ لطف کی اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مقالہ نگار نے ثبوت اور شواہد ڈاکٹر جاوید اقبال کی تصنیف زندہ رودسے اخذ کیے ہیں۔