اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت : محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت : رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:director@iap.gov.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات ۱ - اسلام، سائنس اور مسلمان سیّد حسین نصر؍مظفر اقبال ۷ ۲ - جاوید نامہ سیّد سراج الدین ۳۱ ۳ - کیا فکر اقبال مستعار ہے؟ مزید مباحث ڈاکٹر ایوب صابر ۵۱ ۴ - حسین بن منصور حلاّج ڈاکٹر علی رضا طاہر ۷۷ ۵ - تصورِ ۔ّ عشق (علامہ اقبال اور میاں محمد بخش کا تقابلی مطالعہ) عابدہ خاتون ۸۹ ۶ - کلامِ اقبال(اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۱۳ ۷ - اقبال شناسی یا اقبال تراشی اجمل کمال ۱۲۳ اقبالیاتی ادب ۸ - ماہنامہ معارف میں اقبالیاتی ادب محمد شاہد حنیف ۱۶۱ ۹ - تبصرہ کتب ۱۷۵ ۱۰ - علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ ۱۸۳ قلمی معاونین ۱- پروفیسر سید حسین نصر University Professor of Islamic Studies, Gelman Library 709,R, Washington DC. 20052,USA ۲- سیّد سراج الدین مرحوم حیدرآباد دکن ۳- ڈاکٹر ایوب صابر صدر شعبۂ اقبالیات، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد ۳- ڈاکٹر علی رضا طاہر استاد شعبۂ فلسفہ، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ۴- عابدہ خاتون معرفت مکتبہ جمال، اردو بازار، لاہور ۵- احمد جاوید نائب ناظم، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ۶- اجمل کمال ۲۶۲، این ماڈل ٹائون ایکسٹینشن، لاہور ۷- نبیلہ شیخ شعبۂ ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۹- محمد شاہد حنیف شعبۂ ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور  اسلام، سائنس اور مسلمان سید حسین نصر سے ایک گفتگو انٹرویو: مظفر اقبال ترجمہ: سید قاسم محمود مظفر: دو صدیوں سے زیادہ کی مدت ہوگئی مسلمان ایک ایسی الجھن میں مبتلا ہیں جس کا کوئی سلجھائو نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ مغرب کی پیدا کردہ سائنس اور ٹکنالوجی کی بدولت جو نئی دنیا رونما ہوئی ہے اُس میں مسلمانانِ عالم اپنی تہذیب کی اسلامی خصوصیات کو تباہ کیے بغیر اُن بے شمار مسائل سے کیونکر نمٹ سکتے ہیں جن کو حل کرنے کے لیے سائنس و ٹکنالوجی کی فنی مہارت حاصل کرنا ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب اُنیسویں صدی کے مصلحین نے یہ تجویز کیا تھا کہ مغرب کے نظامِ اقدار اور تصورِ کائنات کو درآمد کیے بغیر مغربی سائنس و ٹکنالوجی کو درآمد کرلیا جائے ان کی یہ تجویز اس تصور پر مبنی تھی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کا اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس آپ نے ہمیشہ ’’اسلام کی انفرادی حیثیت‘‘ کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ’’اسلام کی انفرادی حیثیت‘‘ کا مطلب ہے اسلامی تہذیب کا وہ خاص اور منفرد پہلو جو ذاتِ مطلق سے اس کے تعلق میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہی ہے آپ کے اس فارمولے پر قابل عمل نہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی گئی ہے۔ اس تنقید کے بارے میں آپ کا رد عمل کیا ہے؟ نصر: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جو سوال آپ نے اُٹھایا ہے یہ بڑا وسیع ہے اور اس کی کئی جہات ہیں۔ ایک پہلو اس کا عملی ہے اور ایک پہلو نظری ہے۔ جہاں تک عملی پہلو کا تعلق ہے میں مانتا ہوں کہ اس میں اس حد تک صداقت ہے کہ مثلاً بنگلہ دیش میں کسی کو ملیریا ہوجائے تو ہمیں ملیریا کے علاج کے لیے بہترین دوا حاصل کرنی چاہیے خواہ وہ کہیں سے بھی دستیاب ہو۔ رہ گئی مغربی سائنس کی مختلف صورتوں کی بات…… خواہ وہ دوائوں کی شکل میں ہو یا الیکٹرونکس یا دیگر مصنوعات کی صورت میں جو سائنس کی نہیں بلکہ اطلاقی سائنس یعنی ٹکنالوجی کی پیداوار ہیں…… جو مغرب سے دنیائے اسلام میں آرہی ہیں ان کو روکنا حکومتوں کے لیے کسی حد تک ناممکن ہے۔ کوئی حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم ٹیلی۔فون یا کوئی اور سائنسی ایجاد استعمال نہیں کریں گے۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اس سے بھی بڑا اور زیادہ اہم مسئلہ کچھ اور ہے۔ وہ یہ کہ اکثر مسلم حکومتیں صرف اس ایک نکتے پر زور دیتی ہیں کہ زیادہ سائنس کا مطلب ہے زیادہ طاقت۔ لہٰذا مسلمانانِ عالم کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے زیادہ سے زیادہ ٹکنالوجی میں ترقی کرکے مغربی ٹکنالوجی اور سائنس کا مقابلہ کریں اور مغرب سے آگے نکل جائیں۔ جس طرح کہ جاپانی کارسازی کی صنعت میں امریکیوں سے آگے نکل گئے ہیں۔ یہ ذہنیت جو دنیائے اسلام میں بہت چل رہی ہے، انتہائی خطرناک ہے۔ خاص طور پر آج کے حالات میں جب کہ دنیائے انسانیت کا ایک حصہ یعنی مغرب سائنس کی بنیاد پر ٹکنالوجی کو ترقی دے کر ناقابل حل مسائل و مشکلات میں مبتلا ہوچکا ہے۔ جیسے ماحولیات کی تباہی کا مسئلہ، جیسے انسانی اخلاق و اقدار کی بربادی کا مسئلہ اور ایسے ہی دوسرے ہزاروں مسئلے۔ اگر دنیائے اسلام بھی محض اکیسویں صدی میں شامل ہونے کا تکبر حاصل کرنے کے نام پر ماحولیات کی غارت گری اور معاشرتی انتشار کا شریک ہونا چاہتی ہے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اقدام خودکشی کے مترادف ہوگا۔ پس آپ کے سوال کے عملی پہلو کے حوالے سے اتنا عرض کروں گا کہ اگر دنیائے اسلام جدید سائنس کے اطلاق(ٹکنالوجی) کے لیے اپنا دروازہ کھولتی ہے اور خالص سائنس کو اختیار کرتی ہے تو ضرور کرے لیکن بڑی احتیاط اور توازن کے ساتھ۔ یہ ضروری نہیں کہ مغرب کی ہر ترقی کو اپنانے کے لیے جست لگائی جائے۔ مغرب میں جو کچھ ہورہا ہے اُس کی ہر بات کی تقلید کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک آپ کے سوال کے نظری پہلو کا تعلق ہے مسلمانوں کو مغربی سائنسی علوم پر مہارت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے لیکن اس مہارت پر اسلامی عقلی روایت کی روشنی میں کڑی تنقیدی نگاہ بھی رکھنے چاہیے۔ اچھا آئیے اب اپنے دوسرے نکتے کی طرف۔ میں کئی عشروں سے یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ اسلامی تہذیب، مغربی سائنس و ٹکنالوجی کی، جیسی کہ یہ موجودہ حالت میں ہے، تقلید نہیں کرسکتی اور اگر کرے گی تو خود کو تباہ کرلے گی۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کچھ اور کہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ جدید سائنس کی فلسفیانہ اساس سے بے خبر ہے اور نہیں جانتا کہ دنیا پر اس کے اطلاق کے کیسے کیسے اثرات وارد ہوئے ہیں۔ اگر اسلامی تہذیب کو ایک زندہ تہذیب کی حیثیت سے قائم و دائم رہنا ہے تو انتہائی ضروری ہے کہ نظریاتی سطح پر جدید سائنس کی اساس پر مکرر غور کیا جائے۔ ایک سلسلۂ فکر کا آغاز ہونا چاہیے، جس کے تحت اسلام کے اپنے تصورِ کائنات اور حقیقتِ مطلقہ کی ماہیئت کی مابعد الطبیعی معرفت کی روشنی میںجدید سائنس کے مختلف پہلوئوں کی نئی تعبیر اور نئی تدوین کے مطابق فیصلہ ہو کہ کیا قبول کیا جائے اور کیا مسترد کیا جائے اور عملی سطح پر تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں آزادانہ تنقیدی کسوٹی کی ضرورت ہے، یہ جانچنے کی کہ کیا ترک کیا جائے اور کیا اختیار کیا جائے؟ گویا جدید سائنس کے تعلق سے دو مختلف جہتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ہے عملی جہت۔ مثلاً یہ بات کہ ہمارے پاس ہوائی جہاز یا ایسی اور چیزیں ہیں کہ نہیں ہیں؟ طب اور مواصلات اور اس طرح کے دوسرے شعبوں میں بعض ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، جن سے گریز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود فیصلہ کرتے وقت مغرب میں جو کچھ ہورہا ہے، مسلم دنیا اُس کی اندھا دھند تقلید نہیں کرسکتی۔ اول اس لیے کہ اگر ہم مغرب کی اندھی تقلید کریں گے تو ہمیشہ مغرب سے پیچھے رہیں گے۔ دوم اس لیے کہ اس طرح ہم جدید ٹکنالوجی کی غلطیوں کی نقل کریں گے، جو بڑی حد تک حرص و لالچ پر مبنی ہے اور جو نسلِ انسانی کی بہت سی ناکامیوں کی ذمہ دار ہے اور یوں جدید ٹکنالوجی کی غلطیاں دہرانے سے مسلم دنیا مزید مصیبتوں میں مبتلا ہوجائے گی۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ مغرب کی پیروی کرتے وقت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے تاآں۔کہ مسلم دنیا کو حسبِ ضرورت متبادلات وضع کرنے کے لیے وقت مل جائے۔ نظریاتی سطح پر تو اور بھی زبردست کام کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ مغربی سائنس کا مطالعہ زیادہ گہرائی اور بصیرت کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ مغربی سائنس کو اُس کی اپنی اصطلاحوں میں سمجھنے کے بعد اُس کے تصورِ کائنات کی روشنی میں سمجھنے پرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اُن بڑے اختلافات پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، جو تیرہویں صدی میں پیدا ہونے والی جدید سائنس کی فکری اساس اور اسلامی فکر و دانش کے درمیان پائے جاتے ہیں، جس کے بطن سے اسلامی سائنس نے جنم لیا تھا۔ مظفر: ٹھیک ہے۔ آپ نے جس حل کی طرف اشارہ کیا ہے، مجھے تو وہ بالکل وہی حل نظر آتا ہے جو دو سو سال سے اُس وقت سے ہمارے ساتھ چلا آرہا ہے جب عثمانیوں، محمد علی پاشا اور دوسرے مسلم حکمرانوں نے اُس وقت سوچا تھا، جب مغربی افواج اُن کی دہلیز پر دستک دے رہی تھیں اور انھوں نے کہا تھا، اچھا اگر یوں ہے تو ہم بھی عسکری خطرے کا مقابلہ کرنے کے یے جدید ٹکنالوجی اپنائیں گے۔ انھوں نے پیش آمدہ مسئلے کا حل یہ نکالا کہ بس اتنی سائنس اور اتنی ٹکنالوجی اپنانا کافی ہے، جو بدلی ہوئی صورت کا مقابلہ کرسکے۔ محترم! میرا سوال دوسری نوعیت کا ہے۔ آپ جس احتیاط کی بات کررہے ہیں، کیا اُس کا اختیار کرنا ممکن بھی ہے؟ مثال کے طور یہ دیکھیے کہ جب ہم جدید مواصلاتی آلات درآمد کرتے ہیں۔ مثلاً سیل فون تو وہ پہلے سے موجود ذرائع مواصلات کے نظام کو درہم برہم کردیتے ہیں۔ یہ نو بہ نو آلات آتے ہیں تو جزواً جزواً نہیں آتے بلکہ ’’مکمل پیکیج‘‘ کی شکل میں آتے ہیں۔ تو ایسی صورتِ حال میں آپ جس چیز کو ’’اسلامی مقام‘‘ کہتے ہیں، اُس کا تحفظ کیونکر ممکن ہے؟ نصر: آپ نے بجا فرمایا۔ ممکن نہیں ہے۔ میں آخری شخص ہوں گا ۔جو جدید ٹکنالوجی کو غیر جانب دار یا انسانیت کا خیر خواہ خیال کرے۔ مسئلے کو بہ حیثیت مجموعی دیکھنا ہوگا۔ جدید ٹکنالوجی کا ایک ابلیسی پہلو بھی ہے، جو ابن آدم کے ظاہر و باطن دونوں کی روحانی کیفیت کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس بات میں ذرا شک کی گنجائش نہیں ہے۔ آج کی گفتگو میں اس بات کو واضح کردینا چاہتا ہوں۔ جب میں ’’احتیاط‘‘ کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری مراد یہ ہوتی ہے کہ مسلم دنیا کو جدید ٹکنالوجی کی اندھی تقلیدنہیں کرنی چاہیے! بلکہ جدید ٹکنالوجی پر ویسی ہی کڑی تنقیدی نگاہ رکھنے کی قابلیت پیدا کرنی چاہیے جیسی انگلستان میں ولیم۔میور اور جان۔رسکن اور مغرب کے بہت سے دانشوروں نے بیسویں صدی میں اختیار کی تھی۔ افسوس ہماری مسلم دنیا میں دانشوروں کی بہت کمی ہے۔ ہمیں ان کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں جدید ٹکنالوجی میں مضمر تمام خطرات سے باخبر ہونا چاہیے اور اس کی ہر بات کو بے چوں و چرا قبول نہیں کرلینا چاہیے۔ آپ نے سیل فون کی بہت اچھی مثال دی۔ سیل فون نے واقعی لاکھوں انسانوں کے ماحول کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سیل فون نے ہماری اُس اندرونی پرسکون دنیا کو بھی تباہ کردیا ہے جس میں ہم خدا کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں۔ اس چھوٹے سے آلے نے ہر شخص کو مجبور کردیا ہے کہ وہ ہمہ وقت دنیا کے آفات و آلام سے پُر، ہنگاموں سے اپنی زندگی کا رشتہ جوڑے رکھے۔ اور یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے۔ اگر سوچا جائے تو جہاں تک روحِ انسانی پر اس کے اثرات کا تعلق ہے، اس میں بڑی گہری معنویت ہے۔ آئیے اب مسئلے پر ایک اور جہت سے بات کرتے ہیں۔ فرض کرو ایک فائر سٹیشن یا کسی سرکاری ایجنسی کو اپنے عملے اور متعلقہ حضرات سے فوری رابطے کی ضرورت ہے اور اُن سے کہا جائے کہ وہ اپنے پاس سیل فون نہ رکھا کریں۔ کیونکہ اس سے رُوح کمزور پڑتی ہے تو وہ آپ کی بات سنیں گے بھی نہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ عملی سطح پر کوئی مسلم حکومت اس حل کو قبول نہیں کرے گی۔ ہم مفکر کی حیثیت سے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک تنقیدی کسوٹی فراہم کردیں اور نشان دہی کردیں کہ کہاں کہاں احتیاط کی ضرورت ہے اور ذرا گہرائی میں جاکر جدید سائنس و ٹکنالوجی کے اس پورے کارخانے کی تار و پود، اس کے مجموعی مزاج اور ماحول کے بارے میں بھی بتائیں کہ اس کا ایک ایک جز ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ حصہ تو بہت اچھا اور کارآمد ہے اور باقی حصے برے اور بیکار ہیں۔ یقینا صورتِ حال اس سے مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹکنالوجی اپنے ساتھ ایک خاص تصور کائنات ایک خاص طرزِ زیست، ایک خاص طرزِعمل اور ایک خاص تصورِ وقت بھی لاتی ہے۔ جدید ٹکنالوجی کے ساختہ وقت بچانے والے تمام آلات دراصل وقت کو برباد کرنے والے ہیں۔ ای میل وقت بچاتی ہے لیکن اس کی وصولی اور جواب کی ترسیل آپ کے ذہن و جسم پر دبائو ڈالتی ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ میں سوچ نہیں سکتا کہ اسلامی تہذیب مغربی ٹکنالوجی کا ایک اچھا حصہ اختیار کرے اور کہے کہ یہ اچھا اور کارآمد ہے اور دوسرا حصہ مسترد کرے اور کہے کہ یہ بُرا اور بے۔کار ہے۔ آپ جدید ٹکنالوجی کا جو بھی حصہ اختیار کریں وہ لازماً اپنے ساتھ منفی اثرات بھی لائے گا۔ بہرحال عملی سطح پر مجھے نہیں معلوم کہ تاریخ کے جاریہ حالات میں ٹکنالوجی کی کون کون سی صورتیں ترک کی جاسکتی ہیں لیکن اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم احتیاط اور تنقیدی رویہ اختیار کریں تو حالات بدل سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مغربی ٹکنالوجی کے بعض پہلو مسلم حکومتیں اختیار کررہی ہیں۔ خواہ آپ کچھ بھی کہیں اور میں کچھ بھی کہوں۔ کاش ایسا نہ ہوتا لیکن ہورہا ہے اور روکا نہیں جاسکتا۔ اگر روکا نہیں جاسکتا جدید ٹکنالوجی پر کم از کم ایک تنقیدی کسوٹی تو بٹھائی جاسکتی ہے اور جہاں تک ممکن ہوسکے اس کے منفی اثرات کو گھٹایا جاسکتا ہے۔ کاش ہم مغربی ٹکنالوجی کو الگ رکھ کر اپنی اسلامی ٹکنالوجی کو ترقی دے سکتے جیسی ازمنۂ وسطیٰ میں ہوئی تھی۔ اگر فی الوقت ایسا ممکن نہیں ہے تو کم از کم اتنا تو کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا ذہنی رویہ تبدیل کیا جائے اور اُنھیں آگاہ کیا جائے کہ مشینوں کی حکومت سے کیسے کیسے منفی اثرات وارد ہوتے ہیں۔ جدید اداروں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں اور بالخصوص برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں میں سائنس پرستی کا رحجان مذہبی عقیدے کی سی پختگی کے ساتھ پایا جاتا ہے جسے دور کرنا بہت مشکل ہے۔ ہم میں اتنی جرأت تو ہونی ہی چاہیے کہ جدید سائنس کی خامیوں کی نشان دہی کرسکیں اور سائنس کی تفہیم کے لیے ایک دوسرا عقلی و روحانی فریم ورک دے سکیں۔ اس کے بعد اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی اسلامی سائنس کو ترقی دیں اور رائج کریں۔ یہ وہ بات ہے جو میں چالیس سال سے کہتا آرہا ہوں۔ گویا پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی اسلامی عقلی روایت کی جڑوں سے پیوستہ رہتے ہوئے جدید سائنس پر مکمل دسترس حاصل کریں۔ پھر اگلا قدم اسلامی فریم ورک کے اندر رکھیں جدید سائنس کے فریم ورک کے اندر نہ رکھیں۔ کوئی مسلمان طبیعیات داں یہ ہرگز نہیں کہے گا کہ وہ کوانٹم میکانیات کی دریافتوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ فضول بات ہے۔ ضرورت جس بات کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے کوانٹم میکانیات کو سمجھا جائے۔ پھر اُس کی تشریح اُس طریق سے کی جائے جس طریق سے کوپن ہیگن سکول نے کی تھی۔ یعنی ڈیکارٹ کے فلسفۂ ثنویت کے اُصول پر جس کی بنیاد پر جدید سائنس کا سارا کارخانہ کھڑا کیا گیا ہے۔ اگر ہم ایسا عقلی سطح پر کرسکیں اور عالم خارجی کا مستند اسلامی فلسفہ یا مابعد الطبیعیات تخلیق کرسکیں اور دوسرے یہ کہ ہم اپنی سائنسی روایت اور مغربی سائنس دونوں کے امتزاج سے عالم خارجی کی اسلامی سائنس وضع کرسکیں اور تیسرے یہ کہ مغربی سائنس کو ہم اپنی سائنسی روایت میں جذب کرسکیں تو پھر ایسی سائنس کی بنیاد پر ہمارے لیے اپنی ٹکنالوجی پیدا کرنا ممکن ہوسکے گا۔ لیکن فی زمانہ دنیا کی معاشی، عسکری اور سیاسی طاقتیں اس قدر مضبوط و مستحکم ہیں کہ اگر آپ یہ کہیں کہ ’’ہم جدید سائنس و ٹکنالوجی کو مسترد کرتے ہیں‘‘ تو کوئی آپ کی بات نہیں سُنے گا۔ آپ ذرا موجودہ عالمِ اسلام پر نظر دوڑائیے۔ مسلم حکومتیں مغرب نواز ہوں یا بادشاہتیں یا جمہوریتیں ہوں، اسلامی انقلاب کی پیداوار ہوں یا سیکولر ہوں وہ سب جدید سائنس و ٹکنالوجی کی شان میں قصیدہ خوانی میں متحد و متفق ہیں۔ مسلم حکومتوں کا یہ ہے وہ رویہ جسے تبدیل ہوجانا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ تیس چالیس برسوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ پہلے کی نسبت کافی بہتری نظر آتی ہے۔ جس میں ناچیز کی بھی عاجزانہ کوششوں کا حصہ ہے۔ اب کم از کم اتنا تو ہوا ہے کہ چند آوازیں اُٹھی ہیں جو کہتے ہیں کہ جس راستے پر ہم جارہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔ نیز یہ کہ عقلی روایت کو جدید سائنس و ٹکنالوجی پر تنقید کرنے کے قابل ہونا پڑے گا۔ اگر اس دریا پر ایک کمزور پل تعمیر کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو تو ہمیں کم از کم یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ جدید سائنس کی کیا بات ہے یہ کیسی شاندار چیز ہے۔ ہمیں اپنا یہ رویہ بدلنا پڑے گا۔ اگر جدید طب کو اپنانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو تو ہمیں کم از کم اس کی خامیوں کا احساس ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی روایتی اسلامی طب کی ترقی و ترویج کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ جسے فراموش کردیا گیا ہے اور اب کہ جب چینی آکوپنکچر مغرب میں آرہا ہے تو خوشی کی بات ہے کہ اکثر لوگ طب اسلامی کی تجدید کی باتیں کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں ہمیں اپنی ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ اور دراصل سارے قصے میں سب سے اہم کام کی بات یہی ہے۔ مجھے محمد علی پاشا اور ایسے دوسرے حضرات سے سخت اختلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یورپ جائو وہاں بندوقیں بنانا سیکھو واپس آئو۔ بندوق برادر فوجیں کھڑی کرو اور باقی ہر چیز بھول جائو۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ دراصل تمام چیزیں اکھٹی آتی ہیں۔ بندوق سازی سے لے کر کمپیوٹر اور سیل فون بنانے کی ٹکنالوجی تک فولاد سازی، جہاز سازی یہ سب صنعتیں آتی ہیں۔ کیونکہ ان سب کا ایک دوسرے سے گہراتعلق ہے۔ ٹکنالوجی اپنا ایک تصورِ کائنات رکھتی ہے اور انسان پر عائد کرتی ہے۔ یہ انسان کو بھی ایک مشین بنا دیتی ہے۔ اسلامی تہذیب کو ہر ممکن طریقے سے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ انسان کو مشین نہ بننے دے اور جب میں یہ کہتا ہوںکہ ہماری حکومتوں کے پاس فی الوقت ٹکنالوجی درآمد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ صورتِ حال ہمیشہ قائم رہے گی اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار آئندہ بھی نہ ہوگا۔ میری تجویز یہ ہے کہ فی الحال ہم تاخیری حربے اختیار کرسکتے ہیں۔ یعنی مغربی سائنس و ٹکنالوجی کی اندھا دھند تقلید کرنے کی بجائے ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ جہاں تقلید انتہائی ضروری ہو وہاں کی جائے اور ضروری نہ ہو وہاں نہ کی جائے۔ دریں اثنا اس مہلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم اپنی سائنس کی تخلیق کے لیے وقت نکال لیں اور یوں انشائ۔اللہ ایک دن ہماری اپنی ٹکنالوجی بھی ہوگی۔ آپ دیکھیں گے۔ مظفر: میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی سائنسی روایت کی تجدید کا معاملہ علم کی اسلامی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ نصر: یہ درست ہے۔ مظفر: آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے ایسے علمی ماحول میں تربیت پائی جو روایتی اسلامی فلسفے اور تصوف کے عظیم اساتذہ نے قائم کی تھی۔ جس کا ذکر آپ نے بڑی صراحت سے اپنے فکری سوانح ۔۱؎میں بھی کیا ہے لیکن اب موجودہ صورتِ حال میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے لیے ایک باثروت فکری و روحانی ماحول میں تربیت پانے کے کیا امکانات ہیں؟ میں خاص طور پر اُن مسلمانوں کے بارے میں مشوش رہتاہوں جو مغرب میں رہتے ہیں۔ ہم مغرب میں رہنے والے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو وہ پہلا سا اسلامی علمی ماحول کیونکر فراہم کرسکتے ہیں؟ آج تک تو ہم مغرب میں اپنے نوجوانوں کے لیے ایک بھی ایسا علمی ادارہ قائم نہ کر سکے۔ تو پھر ہماری نوجوان نسل اسلامی روایت کیونکر اپنائے اور اُس میں کیونکر جذب ہو؟ نصر: مغرب کو بعد میں لیں گے۔ پہلے میں عالمِ اسلام کی بات کرتا ہوں۔ ہمیں مغربی تعلیمی اداروں کی پیروی نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ ہم سرسید احمد خان اور ایسے دوسرے مفکروں کے زمانے سے گزشتہ دو سو سال سے پیرویٔ مغرب کرتے آرہے ہیں۔ بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رو ایتی اسلامی تعلیمی ادارے قائم کریں اور انھیں مضبوط و مستحکم بنائیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے یعنی مدرسے بدقسمتی سے گزشتہ چند صدیوں میں کئی مسلم ممالک میں بڑے تنگ نظر ہوچکے ہیں۔ مثلاً انھوں نے اپنے نصاب سے ریاضیات اور فلکیات تو چھوڑئیے، فلسفے اور منطق کو بھی خارج کردیا ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ مدرسوں کی تشکیل نو اور تجدیدِ نو کی جائے تو میرا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انھیں کسی بھی لحاظ سے سیاسی یا معاشی یا کسی اور طرح متعصبانہ علیحدگی پسند بنا دیا جائے بلکہ میرا مطلب مدرسہ سسٹم کے حقیقی اور معتبر احیا سے ہوتا ہے۔ دوسرے، ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام میں حصولِ علم کا اپنا روایتی طریق اختیار و مستحکم کیا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ حصولِ علم کو سیرت سازی، اخلاقی اقدار اور رُوحانی اوصاف اور خوبیوں کے ساتھ منسلک و مربوط کیا جائے۔ کردار سازی کو حصولِ علم کا ضروری حصہ بنانا چاہیے۔ یہ ایسی چیز ہے جو پوری دنیاے اسلام میں ملایشیا سے لے کر مراکش کے مدرسوں تک میں رائج ہونی چاہیے۔ بعض مسلم ملکوں مثلاً ایران میں اچھی اُمیدیں پیدا ہوئی ہیں۔ حال ہی میں وہاں چند نئے معیاری مدرسے قائم ہوئے ہیں جیسے قم میں۔ طلبہ کی کثیر تعداد ہونے کے باعث تعلیمی معیار بہت اونچا تو نہیں ہے لیکن چند ایسے ادارے بھی ہیں، جہاں معیار پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ایسے سلجھے ہوئے، اعلیٰ تعلیم یافتہ، شائستہ دانشور اُبھر رہے ہیں جو صرف قانون و فقہ پر عبور نہیں رکھتے بلکہ اسلام کی فکری و روحانی اقدار کے بھی حامل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام میں اپنے مکمل تعلیمی نظام کے تجربے کو مضبوط بنایا جائے۔ یہ نظام مرا نہیں ہے۔ اس کے احیا و تجدید کی ضرورت ہے۔ اسلامی تہذیب مدرسہ سسٹم کے مثبت اوصاف و اقدار کو نئی جامعات میں منتقل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی جو اُنیسویں صدی کے بعد قائم ہوئی ہیں۔ خواہ وہ پنجاب یونیورسٹی ہو یا کلکتہ یا الٰہ آباد یا استنبول یا تہران یا قاہرہ یونیورسٹی۔ ان جامعات میں مغرب کے یونیورسٹی سسٹم کی محض تقلید کی گئی ہے۔ مدرسہ سسٹم میں جو نصاب پڑھایا جاتا تھا وہ ترک کردیا گیا ہے۔ استاد اور شاگرد میں تحریم و تکریم کا جو گہرا رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جو ایک روحانی فضا برقرار رہتی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک بھی تو مسلم ملک ایسا نہیں ہے جہاں اسلامی مدرسے کی روایت کو اُن جدید تعلیمی اداروں کے ساتھ مربوط کیا گیا ہو جو انجینئرنگ، ریاضیات، طبیعیات یا طب وغیرہ کی تعلیم و تدریس کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ مسلم دنیا کے لیے آج سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ دو تعلیمی نظاموں میں خلیج حائل ہوگئی ہے اُسے بتدریج دور کیا جائے۔ عالمی اسلامی تعلیمی کانگریس (منعقدہ ۱۹۷۷ئ) نے جو میں نے سید علی اشرف مرحوم، ڈاکٹر زبیر اور عبداللہ نصیف کے ساتھ مل کر منعقد کی تھی اور جس کے ایما پر متعدد اسلامی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں جس میں تعلیمی نظاموں کے خلیج پاٹنے کی کوشش کی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ تحریک مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکی۔ کیونکہ اس راہ میں مسالک اور فرقوں کے کئی خرخشے حائل ہوگئے اور یوں اسلام کی فکری و عقلی روایت سے پورا فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ مثلاً ان نئی جامعات میں اسلامی فلسفے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی اور جب اسلامی فلسفے ہی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے علومِ عقلی کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ آپ شریعت الگ پڑھائیں گے اور جدید سائنس اور جدید عمرانیات اور جدید معاشیات الگ پڑھائیں گے اور اس کا نام رکھ دیں گے اسلامی یونیورسٹی۔ صاحب، یہ ہرگز اسلامی یونیورسٹی نہیں ہے۔ ایسی یونیورسٹی کو اسلامی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ اسلامی یونیورسٹی وہ ہوتی ہے، جس میں تمام مضامین اسلام کے تناظر میں پڑھائے جاتے ہوں۔ اس کی بہترین مثال مغرب میں ازمنۂ وسطیٰ کے تعلیمی ادارے ہیں۔ اُس وقت مغربی یونیورسٹیاں اسلام کے مدرسہ سسٹم کی بنیاد پر قائم کی گئی تھیں۔ لیکن یاد رہے وہ یونیورسٹیاں کرسچین تھیں۔ انھوں نے اسلامی نصاب اُٹھایا۔ بہت سی اسلامی تعلیمی روایات و رسوم اور تدریسی طریقے اختیار کیے، اُن کو عیسائی بنا کر اپنی یونیورسٹی میں رائج کردیا۔ انھوں نے اسلامی تعلیمی روایات و طریق کو اپنے دینی و فکری تصورات کے ساتھ مربوط کرلیا اور یوں انھوں نے یونیورسٹیاں قائم کیں جو مکمل طور پر مسیحی تھیں اور جو مکمل طور پر اُن اسلامی اداروں سے بالکل مختلف تھیں جن سے انھوں نے یہ سب کچھ مستعار لیا تھا۔ بدقسمتی سے ہم اُن کے رویے کا عکس اپنے آئینے میں نہ دیکھ سکے۔ ہمیں بھی ویسا ہی کرنا چاہیے تھا، جیسا انھوں نے کیا تھا۔ پس آج دنیائے اسلام میں جو ساری صورتِ۔حال ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے معیاری اور مثالی نہیں ہے۔ اب آئیے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی طرف۔ ضرورت جس چیز کی ہے، وہ یہ ہے کہ مغربی تعلیمی اداروں کا ماحول ہم اپنے تصورات و افکار، اپنے ماخذات اور اپنی روایات کے ذریعے اور نیز انسانی روابط و تعلقات کے ذریعے اپنے تعلیمی اداروں میں منتقل کریں۔ جہاں تک کتابوں کا تعلق ہے، گزشتہ چالیس برسوں کے دوران اس ضمن میں خاصا کام ہوا ہے۔ ہم نے اسلامی عقلی روایت سے ماخوذ کافی کتابوں کے تراجم رائج الوقت زبانوں میں کرالیے ہیں اور مغربی افکار کی تشریح اسلامی نقطۂ نظر سے کی ہے۔ میں نے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اس کارِ خیر میں حصہ لیا ہے اور دوسرے معاصرین نے بھی اس ضمن میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ہم نے مغربی ماحول میں قابل مطالعہ اور قابلِ تفہیم مروجہ مغربی زبانوں میں اسلامی فلسفے، سائنسی علوم، دینیات اور تصورِ کائنات پر بے شمار کتابوں کے تراجم کیے ہیں یا نئی تصانیف لکھی ہیں۔ یہ نصابی کتابیں نایاب نہیں ہیں، جس طرح کہ چالیس سال پہلے تھیں۔ لیکن ہمارے پاس جو چیز نہیں ہے وہ ہے ایک مرکز۔ ایسی جگہ جہاں طلبہ کی تربیت اسلامی طریقے سے کی جائے۔ امریکا میں اب متعدد اسلامی یونیورسٹیاں قائم ہوچکی ہیں لیکن اسلامی تعلیم و تربیت کے نقطۂ نظر سے ابھی اُن میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی۔ آج کل نیویارک سٹیٹ میں ایک اور نئی اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اُسے جارج ٹائون کے نمونے پر بنایا جائے گا جو کیتھولک یونیورسٹی ہے یا جوشوا یونیورسٹی کے طرز پر جو یہودیوں کے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں یا البرٹ آئن سٹائن یونیورسٹی کی طرز پر یا ایسی ہی کسی اور بلند پایہ یونیورسٹی کی طرز پر۔ ایسی بڑی اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے میں کامیابی ہوگی یا نہیں؟ یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ میں اپنی طرف سے اُن کے ساتھ پورا تعاون کررہا ہوں۔ لیکن میرا اپنا نقطۂ نظر کچھ اور ہے۔ یہ کہ بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم کرنے سے پہلے ہمیں کوئی چھوٹا سا علمی مرکز بنانا چاہیے، جہاںیہی کوئی بیس پچیس طلبہ چند ایسے اساتذہ کی رہنمائی میں تعلیم و تربیت حاصل کریں، جو اپنی اسلامی علمی روایت کی حامل ہوں۔دیکھیے! میری عملی زندگی کا خاتمہ قریب ہے…… شاید عمر بھی تمام ہونے والی ہے…… لیکن میں نے طلبہ کی کئی نسلوں کو تربیت دے دی ہے اور گذشتہ چند برسوں میں پندرہ بیس نوجوان دانشور پیدا کردئیے ہیں، جو اگلی نسل کو تربیت دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے توفیق اور ہمت دی کہ اپنی روایت نوجوانوں کے سینے میں منتقل کرسکوں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک چھوٹے علمی مرکز کی ضرورت ہے جہاں ہم خیال نوجوان طلبہ اکھٹے ہوں اور ہر سال چند نوجوان دانشور تربیت پاکر، دوسروں کو تربیت دینے کے لیے تیار ہوں۔ اپنی بات کو میں ایک سادہ سی مثال سے واضح کروں گا۔ اگر آپ کے پاس تھوڑا سا گندم ہو تو آپ اس کے آٹے سے چند روٹیاں پکا لیں گے اور آٹا ختم ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ دانۂ گندم بیج کے طور پر کھیت میں بو دیں تو اگلے موسم بہار میں گندم کی ایک پوری فصل پیدا ہوجائے گی جس سے آپ ہزارہا لوگوں کو خوراک مہیا کرسکیں۔ اس مثال پر عمل کرتے ہوئے، مغرب میں اسلامی تعلیم کا اہتمام بھی پہلے چھوٹے یونٹ سے کیا جائے۔ پھر رفتہ رفتہ بڑے یونٹ کی جانب بڑھا۔ اگر آپ اعلیٰ معیار کا ایک چھوٹا یونٹ قائم کریں جہاں زیادہ سے زیادہ بیس تیس طلبہ کی تربیت کی گنجائش ہو اور وہ طلبہ اعلیٰ ذہانت کے مالک ہوں اور آپ انھیں اسلامی عقل وفکر کی زندگی کی میراث منتقل کریں، جس میں تمام سائنسی علوم، فلسفہ،منطق، ریاضی، روحانی علوم اور سب کچھ شامل ہوں تو یہ تربیت یافتہ نوجوان اپنی باری پر دوسروں کو تربیت دیں گے اور اس طریقے سے بیس برس کے بعد کئی سو نوجوانوں کی ایک کھیپ تیار ہوجائے گی جو کسی بڑی یونیورسٹی کے علمی نظام کی بنیاد ثابت ہوں گے۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ منزل کی طرف قدم بہ قدم بڑھا جائے۔ چنانچہ میں احباب سے کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں اپنی تمام اجتماعی کوششوں سے ایک چھوٹا سا مرکز قائم کرلینا چاہیے، جس کا نام مثلاً ’’مرکز برائے اسلامی سائنس‘‘ ہو یا کچھ اور جو مناسب خیال کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ اس کے نصاب میں فلسفہ، منطق، دنییات اور دیگر متعلقہ مضامین شامل ہوں۔ ضروری نہیں ڈگریاں بھی دی جائیں۔ اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کا ادارہ بنایا جاسکتا ہے، جیسا کہ پرنسٹن کا اعلیٰ مطالعات کا سنٹر ہے۔ اسے دین دار مخلص مسلمانوں کا مرکز بنایا جاسکتا ہے جو ایم اے یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں رکھتے اور اسلامی علوم سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ یہاں آئیں، بیٹھیں، کام کریں باہم کام کی باتیں کریں، تعلیم پائیں، تعلیم دیں، سلسلۂ ابلاغ جاری ہو، جو لوگ اسلام کی تبلیغ کی خدمت بجا لانے کا جذبہ رکھتے ہیں، وہ بھی مرکز میں آکر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دو تین ذہین و فطین ایرانی فلسفی اور مفکر حال ہی میں امریکا آئے ہیں، جن کی انگریزی تو زیادہ اچھی نہیں ہے لیکن اُن کے پاس علم بہت ہے۔ انھوں نے اسلامی سائنسی علوم کے گہرے مطالعے میں پندرہ تا بیس برس گزارے ہیں۔ انھیں مشاہرے پر ملازمت دی جاسکتی ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی لوگ ہوں گے جو شامل ہونا چاہیں گے۔ اور یوں رفتہ رفتہ کارواں بنتا جائے گا اور منزل قریب آتی جائے گی۔ مظفر: آپ کی اس تجویز کو عملاً کیا مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟ مجھے یاد ہے آپ ایک دفعہ حکیم محمدسعید شہیدؒ کے تعاون سے کراچی میں ایسا علمی مرکز قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن آپ کی کوشش اُس وقت کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا مسلم حکومتیں اس قسم کی علمی مہم سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ غالباً انھیں تو اس نوعیت کی احیائی تحریک کی ضرورت کا احساس تک نہیں۔ نصر: آپ کی بات بالکل درست ہے مظفر:یہی وجہ ہے کہ میں اپنی بات کا آغاز مغرب سے کرنا چاہتا تھا لیکن آپ نے رُخ دنیائے اسلام کی طرف موڑ دیا ہے تو یہ بڑی متضاد سی بات بن گئی ہے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ مغرب میں کامیابی کا زیادہ امکان ہے۔ اسی لیے میں گفتگو مغرب کے دائرے میں رکھنا چاہتا تھا کیونکہ…… نصر: بڑی حد تک مجھے آپ سے اتفاق ہے لیکن دنیائے اسلام میں کچھ استثنائی صورتیں بھی ہیں۔ مظفر: جی ہاں، مسلم دنیا میں متمول نجی شعبہ پر تکیہ کیا جاسکتا ہے۔ بڑی اُمید تھی کہ نجی شعبہ کی مدد سے اسلامی علمی روایت کی احیا کے سلسلے میں نئے نئے ادارے قائم ہوں گے لیکن یہ اُمید بھی پوری نہ ہوسکی۔ قومی وسائل جتنے بھی ہیں، وہ سب حکومتوں کی تحویل میں ہیں، جو احیا و تجدید کے مقصد پر قومی وسائل صرف کرنے سے کوئی غرض نہیں رکھتے۔ ایسے حالات میں احیائی تحریک کیونکر اور کہاں سے شروع کی جائے؟ نصر: یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چند کوششیں ہوئی ہیں اور وہ کامیاب بھی ہورہی ہیں، مثلاً ایران، ملائیشیا، مسلم انڈیا اور پاکستان میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ خاص طور پر ایران میں جہاں چند ایسی جامعات قائم ہوئی ہیں، جن کا نظم و نسق حکومت کے پاس نہیں علما کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جامعات حقیقی معنی میں ’’مدرسے‘‘ ہیں جہاں غیر ملکی زبانوں، جدید سائنسی علوم اور مغربی اداروں میں پڑھائے جانے والے دوسرے مضامین کی بھی تدریس ہوتی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ایسی کوششوں کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے انشائ۔اللہ۔ لیکن بہ حیثیت مجموعی آپ کی یہ بات درست ہے کہ مسلم حکومتیں اسلام کی علمی روایت کی تجدید سے کوئی غرض نہیں رکھتیں۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ اگر مسلم دنیا میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے اسلامی تعلیمی مراکز قائم ہوں تو عوام اور حکومتیں جلد یا بدیر اُن میں دلچسپی لینے لگیں گے۔ اس لیے کہ ان اداروں سے بہترین خلاّق لوگ تربیت لے کر سامنے آئیں گے۔ آپ جانتے ہیں، میں برس ہا برس ایران میں یہ جنگ لڑتا رہا ہوں۔ میں نے وہاں اکیڈمی آف فلاسفی یا انجمن شاہی قائم کی تھی۔ جس کا بہت بڑا بجٹ تھا، جو کسی قسم کے سرکاری لال فیتے کے مراحل سے گزرنے کے بجائے ہمیں ملکہ سے براہ راست ملتا تھا۔ چند سال کے اندر اندر اس اکیڈمی نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پوری دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی۔ اکثر ایرانی اور خود حکومت کو بھی ابتدا میں اس کی کامیابی پر شک تھا لیکن جب یہ کامیاب ہوگئی تو سب حیران رہ گئے اور اب تعاون کے لیے آمادہ ہوگئے۔ کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اول درجے کے معیاری مقالات اکادمی کے اپنے مجلے Sophia Perenis (جاوداں خرد) میں نیز بین الاقوامی مقالات تحقیقی جرائد میں چھپتے تھے اور دنیا کے ممتاز اور سربرآوردہ فلسفی ایران آنے اور اپنی آنکھوں سے اکادمی کی کارکردگی کا مشاہدہ کرنے کی آرزو کرتے تھے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ حکومتوں کا ذہن تو نہیں بدلا جاسکتا لیکن نتائج دکھا کر انھیں متوجہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بھی کرنے کا کام ہے۔ بلاشبہ یونیورسٹیاں حکومتیں چلا رہی ہیں لیکن آپ اور میں بڑے اور وسیع پیمانے کے ادارے کی بات نہیں کررہے کوئی ایسی بڑی یونیورسٹی جیسے قاہرہ یونیورسٹی جہاں پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ ہزار طلبہ بیک وقت تعلیم پارہے ہوں۔ ہم بات کررہے ہیں، چھوٹے ادارے کی جہاں تھوڑے ذہین لوگ تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ تاریخ اسلام کے اس موڑ پر ہمیں بہت بڑے ادارے نہیں، جن میں تعداد کو دیکھا جاتا ہے بلکہ چھوٹے بنیادی اہمیت کے منصوبوں کی ضرورت ہے، جہاں معیار کو دیکھا جائے، جو ایک دفعہ کامیاب ہوگئے تو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے۔ مظفر: احیائی تحریک کا ایک تقاضا یہ بھی تو ہے کہ اُن اسباب کی آگاہی حاصل ہو جن کی وجہ سے اسلامی عقلی روایت کو زوال آیا تھا۔ اس ضمن میں بھی اب تک کوئی کام نہیں کیا گیا۔ چند غلط سلط باتیں دہرائی گئی ہیں مثلاً گولٹ تسیہر کا یہ نظریہ کہ اسلامی بنیادپرستی پر غیر ملکی سائنسی علوم نے غلبہ پالیا تھا یا یہ سادہ سا جواب کہ صاحب! اسلامی دنیا میں تو سائنس کا قتل الغزالی نے کیا تھا لیکن یہ مسئلے کے حقیقت پسندانہ اور صحیح جواب نہیں ہیں۔ صحیح جواب کیا ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ اچھا اس مسئلے پر آپ نے بھی زیادہ نہیں لکھا۔ اس مسئلے کے متعدد پہلو ہیں مثلاً یہ سوال کہ زوال آیا تو کب آیا یعنی کب شروع ہوا؟ آپ کا کیا خیال ہے اسلامی عقلی روایت کو زوال کب آیا، کیوں آیا؟ نصر: پہلے تو میں یہ عرض کر دوں کہ میرا نہیں خیال پوری کی پوری اسلامی روایت کو ہر لحاظ سے زوال آیا۔ یہ بات ہی غلط ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی فنون کو دیکھیے جو اسلامی تہذیب کا انتہائی اہم شعبہ ہے۔ فن بافندگی کو آج تک زوال نہیں آیا۔ا یران میں انیسویں صدی میں انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب قالین بنے جارہے تھے۔ آج بھی قالین بافی کے نمونے شاہکار ہیں۔ اسی طرح فن تعمیر کو دیکھیے۔ بیسویں صدی تک بڑی خوبصورت عمارات تعمیر ہورہی تھیں۔ سو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کن شعبوں میں زوال یا ترقی کی بات کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اسلامی فلسفے کو دیکھیے جو اسلامی علمی روایت کا دل ہے۔ وہ ایران میں بیسویں صدی میں احیائی برگ و بار لارہا تھا اور ہندوستان میں بھی انتہائی اہم مفکر اس مدت میں پیدا ہوئے۔ مثلاً لکھنؤ میں فرنگی محل کے دانشور اور فضل حق خیر آبادی کا مکتب اور بے شمار دوسرے ادارے اور نامور اشخاص۔ سو مجموعی زوال کی بات نہ کیجئے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ تمام تہذیبوں کو ایک خاص انداز میں زوال آیا تھا۔ اگر آپ ایک معیار کی بات کریں تو ایک روحانی طور پر زندہ و تابندہ تنظیم جسے تہذیب کہا جاتا ہے تو تمام غیر مغربی تہذیبیں آہستہ آہستہ زوال آمادہ ہوئی ہیں۔ جب کہ مغربی تہذیب بڑی سرگرمی اور تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے۔ پھر آپ یہ بھی دیکھیے کہ پچھلی صدی سے غیر مغربی تہذیبیں زیادہ فعال ہوتی جارہی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُن میں زوال کا عمل بند ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ فعالیت اکثر اوقات اُن کے اپنے روحانی معیار و اقدار کے مطابق نہیں ہوتا۔ یہ بڑا نازک مسئلہ ہے، جس کے متعلق میں اپنے کئی مقالات میں کھل کر بحث کرچکا ہوں۔ اچھا، آئیے اب کچھ گفتگو سائنس اور فلسفے کے باہمی تعلق پر بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم ہیں اور اسلام کی عقلی روایت میں ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھا جاتا۔ مسلم دنیا کی ایک کمزوری یہ ہے کہ اس کی اپنی عقلی روایات کی تفہیم اسلامی فلسفہ و سائنس کے مغربی مطالعات پر مبنی ہے۔ اور مغربی مطالعات ویسے تو زمانۂ قدیم سے چلے آرہے ہیں لیکن جدید مفہوم میں اُنیسویں صدی میں شروع ہوئے۔ ظاہر ہے اسلام کی عقلی روایت پر مغرب میں غور ہوگا تو مغربی نقطۂ نظر سے ہوگا۔ یہ قدرتی بات ہے۔ اہل مغرب کے نزدیک اسلامی فلسفۂ و سائنس اُنیسویں صدی میں یکایک اُس وقت ختم ہوگیا جب مغرب اور مسلم دنیا کے روابط ختم ہوگئے۔ جدید زمانے کے بعض دانشور مثلاً ہنری کوربن، تشیہیکو آئزوٹسو اور میں خود بھی، ایک عرصے سے بار بار اس حقیقت پر زور دے رہے ہیں کہ اسلامی فلسفہ ابن رشد پر ختم نہیں ہوگیا تھا۔ پچھلی چند دہائیوں سے علومِ طبیعی کے میدان میں ایسی فاضلانہ تحقیقات سامنے آئی ہیں جو زیادہ تر مغربی علما کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں، جنھوں نے اس پرانے خیال کو بدل کر رکھ دیا ہے کہ اسلامی سائنس کا زوال سقوطِ بغداد یا ایسے ہی کسی اور حادثے کے ساتھ شروع ہوگیا تھا۔ مراغہ کی رصدگاہ اور اُس کا عظیم مکتب فلکیات تو سقوطِ بغداد کے بہت بعد کی بات ہے۔ اُس کی دریافت کا سہرا ای ایس کینیڈی اور چند دوسرے مغربی علما کے سر ہے۔ بعض عرب علما مثلاً جارج سالبہ کا نام بھی ان میں شامل ہے۔ ہمیں ان سب کا ممنون ہونا چاہیے۔ مملوکیوں کی فلکیات پھر یمنیوں کی فلکیات کی دریافتیں ہوئیں۔ اس ضمن میں ڈیوڈکنگ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انھوں نے اسلامی فلکیات کی تاریخ میں ایک بالکل نیا باب کھول دیا ہے۔ پچھلے کئے برس سے استنبول اور ترکی کے دوسرے شہروں میں عہدِ عثمانیہ کے سائنسی علوم پر تحقیقی کام ہورہے ہیں اور یوں اسلامی سائنس کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ میرا اپنا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر ہم بعد کے تحقیقی کاموں کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں۔ بے شبک مغربی سائنس کی نگاہ ہی سے کریں جیسا کہ لاشعوری طور پر ہم مغربی نگاہ کو حرفِ آخر سمجھ بیٹھے ہیں۔ بالخصوص جب کہ مغربی سائنس نے اتنی اہمیت و مقبولیت حاصل کرلی ہے کہ ہماری نظر میں وہ تہذیب اسلامی کا پیمانہ بن چکی ہے یا یوں سمجھو کہ ہم نے مغربی معیار ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ جب کہ میں ایسا نہیں سمجھتا اگرچہ مسلم۔دنیا کے اہل دانش نے بہ حیثیت مجموعی سمجھ لیا ہے…… خیر اگر مغربی معیار ہی کو سب کچھ مان لیا جائے تب بھی اسلامی زوال کی حد آگے آجائے گی یعنی زوال کا دور تیرھویں صدی نہیں بہت بعد کا مقرر کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر پچھلے دو تین برسوں میں بعض محققین نے جن میں کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جارج سالبہ پیش پیش ہیں، نے ثابت کیا ہے کہ شمس الدین فخری جسے ہمیشہ سے پندرھویں اور سولھویں صدی کا عالم دین یا مفکر خیال کیا جاتا رہا ہے۔ وہ تو بہت بڑا ماہر فلکیات بھی تھا بلکہ وہ بعدکے ماہرینِ فلکیات میں سب سے اہم اور سب سے بڑا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر بعد کی صدیوں میں اسلامی تہذیب کے عرب علاقوں کے علاوہ پوری مسلم دنیا میں بالخصوص مسلم انڈیا، ایران اور عثمانی سلطنت میں تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں بڑی نمایاں اور قابل ذکر سائنسی سرگرمیاں اٹھارویں صدی میں بلکہ خاص شعبوں میں اُنیسویں صدی میں بھی ہوتی رہی ہیں ، حتیٰ کہ مسلم دنیا میں مغربی سائنس کی آمد بتدریج شروع ہوئی اور رفتہ۔رفتہ اُس نے اسلامی فلسفہ وسائنس کی روایت کی جگہ لے لی۔ فلسفے کے میدان میں تو اسلامی فکری روایت کبھی ختم نہ ہوئی۔ بیسویں صدی میں اسلامی فلسفے کے عظیم نمایندے جیسے علامہ طباطبائی اور دوسرے حضرات برابر کام کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ساتھ میں نے تعلیم بھی پائی ہے۔ ہمیں اسلامی سائنس کی واضح، قطعی اور مکمل تاریخ لکھنی پڑے گی۔ خاص طور پر بعد کی صدیوں کی۔ مسلم علما اب تک زیادہ تر مغربی علما کے فرمودات کی پیروی کرتے رہے ہیں، جن کا زورِ تحقیق اسلامی سائنس کے عہدِ اول کی تاریخ پر مرتکز رہا ہے، جس کے بارے میں بلاشبہ کافی نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ لیکن اب ضرورت ہے، اسلامی سائنس کی مکمل تاریخ کی جو ہمارے اپنے نقطۂ نظر سے لکھی جائے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اسلامی سائنس پر زوال کب اور کیوں آیا پہلے ہمارے پاس اس کی مستند تاریخ تو ہو۔ دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنے نقطۂ نظر سے اسلامی سائنس کی تاریخ لے آئیں تو معلوم ہوگا کہ اسلامی سائنس کی روایت سائنس کی اپنی تاریخ کا نقطہ عروج تھی۔ یعنی اگر جارج سارٹن کے طریقِ تحقیق کی پیروی میں آٹھویں تا پندرھویں صدی کی درمیانی مدت کی تاریخ پر غور کیا جائے۔ جس کے بعد یہ عالمی سائنس کی چوٹی پر نہ رہی اور مغربی سائنس زیادہ فعال اور سرگرم ہوگئی۔ تاہم اسلامی سائنسی روایت اپنے مخصوص تخلیقی انداز میں بارھویں، تیرھویں صدی ہجری/ اٹھارویں، اُنیسویں صدی عیسوی میں مسلسل جاری رہی۔ اور اسلامی فلسفہ تو آج تک جاری و ساری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی سائنس کی سرگرمی میں کمی…… مَیں اسے زوال نہیں کہوں گا…… کمی کیوں آئی؟ میرا خیال ہے۔ یہ سوال ہی بے محل ہے کیونکہ اس کی بنیاد اس مفروضے پر قائم کی گئی ہے کہ ہر تہذیب کی عام فعالیت علم الکائنات اور ریاضیات کے شعبوں میں ہوتی ہے۔ یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ جب ہم سائنس کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں مثلاً عراق میں بابلی تہذیب کے ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ، مصری تہذیب کی ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ، یا رومن، چینی اور انڈین تاریخ …… ان طویل تاریخوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر صورتوں میں زیادہ فعال سائنسی سرگرمی فی الحقیقت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب وہ تہذیب مررہی تھی۔ جارج سارٹن بھی یہی کہتا ہے۔ مثال کے طور پر بابلی تہذیب میں جو اپنے عظیم سائنسی شاہکاروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ سائنس نے اُس وقت عروج پایا جب وہ تہذیب ختم ہورہی تھی۔ بعض سائنسی علوم کے حوالے سے مصری تہذیب کی بھی یہی کیفیت ہے۔ یونانی تہذیب کا بھی یہی حال ہے۔ یونانی سائنس کے عظیم شاہکار، مثلاً بطلیموس اور اقلیدس اور اُن کے معاصرین کے کارنامے اُس وقت ظہور میں آئے، جب یونان کے حضے بخرے ہوگئے تھے۔ اُس کا مذہب مررہا تھا۔ اُس کی ثقافت دم توڑ رہی تھی اور اُس کی سیاسی زندگی پر رومیوں کا تسلط قائم ہورہا تھا۔ یہ ناقابل تردید تاریخ حقائق ہیں۔ انڈین، چینی اور دوسری تہذیبوں میں بھی جن کی تاریخ بہت طویل ہے۔ ایک وقت ایسا آیا تھا، جب سائنسی علوم اپنے جوبن پر تھے مثلاً ریاضی، طبیعیات، فلکیات اور کیمیا وغیرہ ایسا وقت بھی آیا جب سائنس سے زیادہ لگائو نہ تھا اور جس وقت سائنس سے لگائو نہ تھا تو اُس وقت فنون سے زیادہ لگائو ہوگیا اور فن تعمیر، ادبیات، سیاستِ مدن اور ایسے دوسرے فنون نے بہت ترقی کی۔ سائنس بابلی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے دورِ اول ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ یعنی اسلامی سائنس اسلامی تہذیب کے آغاز ہی میں اپنے عروج پر تھی۔ مثال کے طور پر جابر بن حیان دوسری صدی ہجری کا آدمی ہے۔ آج تک الکیمیا جابر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ نویں صدی میں تو ایک سے بڑھ کر ایک عظیم علمائے فلکیات اور ریاضی داں کام کررہے تھے۔ دسویں صدی میں البیرونی اور ابن سینا جیسے عظیم لوگ برسر عمل تھے۔ پھر ایک طویل عرصے تک کئی صدیوں تک نشیب وفراز آتے رہے۔ پھر اسلامی تہذیب کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے دھارے نے رفتہ رفتہ اپنا رُخ بدل لیا۔ ۱۵۰۰ء کے آتے آتے مغرب طاقت پکڑ چکا تھا۔ انکشافات اور دریافتوں کا دور شروع ہوچکا تھا۔ یورپیوں نے امریکا دریافت کرلیا۔ پھر وہ افریقہ کے گرد چکر کاٹ کر بحرِ ہند کو عبور کرکے ایشیا کے ساحلوں تک پہنچ گئے لیکن وہ دارالسلام میں داخل نہ ہوسکے۔ اُس زمانے میں دنیائے اسلام اب تک بہت بڑی طاقت تھی۔ اُس وقت دنیا کی طاقتور ترین سلطنتیں عثمانیوں اور صفویوں کی تھی اور امیر ترین ہندوستان کی سلطنتِ مغلیہ تھی۔ یہ تینوں مسلم سلطنتیں معاشی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے اُس وقت بھی بہت مضبوط، مستحکم اور طاقتور تھیں۔ ان کے فنون کو دیکھیے۔ تاریخ انسانیت کے عظیم ترین فن پارے اس دور میں تخلیق ہوئے۔ آگرہ کا تاج محل، اصفہان کی شاہی مسجد، استنبول کی مسجد سلطان احمد۔ یہ فن تعمیر کے ان۔مٹ نقوش ہیں۔ پھر خطاطی، ادبیات اور دوسرے فنون کے شاہکار ہیں جن کے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔ سو کسی تہذیب کو جانچنے کے لیے یہ سوال عائد کرنا کہ ’’اُس میں سائنس کو زوال کیوں آیا؟‘‘ اور پھر سائنس کے زوال کا موازنہ اُس تہذیب کے زوال سے کرنا بالکل غلط ہے۔ اس لیے کسی بھی تہذیب میں…… معلومہ تہذیبوں میں سے بھی …… تمام تخلیقی توانائیوں کو بہ تمام وکمال صرف علم۔الکائنات اور ریاضی پر نہیں جھونک دیا جاتا۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب تہذیب صرف اپنے تصورِ کائنات ہی میں مطمئن ہوجاتی ہے اور بعد ازاں کسی بھی وقت اُس کی تخلیقی فعالت کا رُخ فلسفے، آرٹ، تصوف، ادب، قانون اور دوسرے میدانوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ سوال کی نوعیت ہی غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری معلومہ تہذیبوں کے مقابلے میں جن میں جدید مغربی تہذیب بھی شامل ہے، اسلامی تہذیب کے اندر سائنسی علوم سے بہت زیادہ اور بہت گہرا لگائو رہا ہے۔ مغرب تو یہی کوئی چار سو سال سے گلیلیو کے وقت سے، سائنس سے دلچسپی لینے لگا ہے اور اب آکر سائنس کو اپنی فکری و عقلی دلچسپی کا محور بنایا ہے۔ نہیں معلوم، آئندہ سو سال میں کیا ہونے والا ہے۔ قیاس کے گھوڑے دوڑانے سے کیا فائدہ۔ ہمیں واقعی نہیں معلوم حالات کا دھارا کس رُخ پر بہے گا۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں سائنس کی ترویج و اشاعت کے مسئلے کو ہمیں اسلامی تہذیب ہی کے دائرے میں رکھ کر اسلامی تہذیب کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ رہا تجدید و احیا کا مسئلہ جس پر آپ نے بہت اچھی اور صحیح بات کی ہے۔ یہ مسئلہ بھی ہمیں اپنی اسلامی سائنسی روایت کی روشنی میں حل کرنا چاہیے اور یہ بات میں چالیس سال سے بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے سے برابر کہتا رہا ہوں۔ یہ مسئلہ بھی بڑے مغالطہ انگیز انداز میں اُٹھایا جارہا ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے کہ اسلامی سائنس سات سو سال پہلے مرگئی تھی اور اب سات سو سال کے بعد اس کے احیا کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس مفروضے پر اڑے رہے تو اسلامی سائنس کا احیا کبھی نہ ہوسکے گا۔ اس لیے کہ اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مروجہ اسلامی سائنس پر جدید مغربی سائنس کی کئی تہیں چڑھ چکی ہیں۔ بے شک اسلامی سائنس اور مغربی سائنس میں مطابقت پیدا کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً تقسیم ہند کے بعد حکیم محمد سعید اور حکیم عبدالحمید مرحوم مغفور کے ہاتھوں قائم شدہ ہمدرد انسٹی ٹیوٹ میں دوا سازی کا شعبہ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ میں نے جس سائنسی مطابقت کا ذکر کیا ہے وہ اس مفہوم میں ہے کہ مغربی طب کی ٹکنالوجی کا پیوند مسلم دنیا میں رائج طبی روایت میں لگایا جائے۔ چنانچہ اسی مفہوم میں ہمدرد انسٹی ٹیوٹ نے مغرب کی طبی ٹکنالوجی سے استفادہ کیا۔ اگر دوسرے شعبوں میں مغربی سائنس سے مطابقت پذیری زیادہ کامیاب نہ ہوسکی تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ایک منصوبہ جسے آپ میری زندگی کا خواب یا آرزوے ناتمام کہ لیجیے۔ وہ صرف یہ ہے کہ اللہ مجھے توفیق دے کہ میں اسلامی تہذیب کے تناظر میں اسلامی سائنس کی مکمل تاریخ مرتب کرجائوں۔ اس کام کا آغاز میں نے An Annotated Bibliography of Islamic Sciences کے نام سے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں کیا تھا۔ سات جلدیں اس کام کی ایرانی انقلاب سے پہلے مکمل ہوچکی تھیں۔ ان میں سے تین جلدیں تو میری ذاتی نگرانی میں طبع ہوئی تھیں۔ باقی کی چار جلدیںزیر تدوین ہیں۔ اسلامی سائنس کی جامع کتابیات کی تجمیع و تدوین کے اس کام کو دراصل اسلامی سائنس کی عظمت شناسی اور قدر افزائی کی طرف ایک بڑا قدم سمجھا جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تجدید و احیا کے مسئلے کا تعلق دو باتوں سے ہے۔ ایک تو یہ کہ عہدِ جدید سے پہلے کی اسلامی سائنس کی مرگ یا زوال یا انحطاط جو بھی آپ کہیں، کے اسباب کا جائزہ لیا جائے۔ دوسرے دورِ اول کی اسلامی سائنس کی تاریخ سے بھی اس مسئلے کا تعلق ہے جو محض جزوی علم کی بنیاد پر لکھی ہوئی نہ ہو بلکہ تمام سائنسی علوم پر محیط ہو۔ مظفر: میرے خیال میں یہ مسئلہ اب بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اس لیے کہ مغرب نے اپنی سائنسی دریافتوں کا رُخ جارحیت کی ٹکنالوجیوں کی طرف کردیا ہے اور پھر ان جارحیت کی ٹکنالوجیوں کو مسلم ممالک کو مفتوح کرنے اور اُن کے اداروں کو تباہ کرنے کے لیے وقف کردیا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے مسلمان مصلحین جن کا پہلے ذکر کرچکا ہوں بڑی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اُن پر قبضہ جدید سائنس ہی نے کیا ہے اور اب اُن کی نجات مغربی سائنس ہی کو اختیار کرنے میں ہے۔ لیکن میرا سوال قائم ہے کہ موجودہ صورتِ حال سے بحفاظت نکل آنے کی کیا راہ ہے؟ کیا طریقہ ہے؟ کیا علاج ہے؟ آپ نے صرف طب کی مثال دی ہے لیکن دوسرے علوم بھی ہیں، طبیعات ہے، کیمیا ہے، یہ سب ٹکنالوجیوں کی ترقی میں اور بعدازاں معاشی ترقی میں ممددومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ٹکنالوجیاں اسلحہ سازی میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور یوں باقی دنیا پر غلبہ پانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ ٹکنالوجیاں، یہ اسلحہ، یہ سب کچھ جدید دنیا کے لوازم ہیں۔ کیا مسلم دنیا اپنے علمی و عملی فقدان کے باعث اس صورتِ حال سے نبردآزما ہوسکتی ہے تو کیونکر؟ نصر: آپ کا سوال گہرا ہے۔ مذہبی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر سے آپ کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ میں جدید سائنس کو گوئٹے کی دانش کے حوالے سے، فائوسٹی یعنی شیطانی سائنس کہا کرتا ہوں۔ یعنی جدید سائنس نتیجہ ہے اپنی رُوح کو شیطان کے پاس گروی رکھ دینے کا۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس نے مغرب میں عیسائیت کے تصورِ کائنات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، بلکہ اسے عیسائیت کے لیے بربادی کا پیش خیمہ بنا دیا ہے اور اگرچہ سائنس مذہبی معاملات میں بظاہر غیر جانبدار نظر آتی ہے لیکن درحقیقت یہ غیرجانبدار ہے نہیں بلکہ بجائے خود ایک طرح کا فلسفہ بن کر بیٹھ گئی ہے۔ سائنس پرستی کا فلسفہ مغربی تصورِ کائنات پر چھا گیا ہے اور ٹکنالوجی کی صورت میں اس کا اطلاق (چند کامیابیوں کے باوصف) پوری دنیا کو تباہ کردیا ہے۔ ماحولیات کو اور زندگی کے ہر شعبے کو تباہ کررہا ہے۔ ایسے حالات میں دنیائے اسلام کے سوچنے کی بات ہے کہ کیا وہ مغرب کی طرح شیطان کے پاس اپنی رُوح گروی رکھنے کے سودے کے بغیر ویسی ہی طاقت حاصل کرسکتی ہے جیسی مغرب نے حاصل کی ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ اُس کی خام خیالی ہے۔ میں نہیں مانتا کہ ایسا کبھی ہوسکتا ہے۔ کسی محیّرالعقول قوت کا حصول جیسے ایٹم بم، جو مغرب کے ایٹم بموں کا جواب ثابت ہوسکے یا لیزرگائیڈڈ میزائل جو مغرب کے لیزرگائیڈڈ میزائل کا مقابلہ کرسکیں اور پھر اوپر سے یہ نعرہ لگانا کہ یہ ہے اسلامی بم،ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ محض ہماری خوش فہمی ہے۔ علاوہ ازیں ایسے تباہ کن ہتھیار بنانا رُوحِ اسلام کے بھی خلاف ہے کیونکہ جدید سائنس کا یہ پورا کارخانہ قدرت میں موجود روحانی جہات کو فراموش کردینے کے مترادف ہے۔ یعنی قدرت سے خدا کا انقطاع۔ ایسے میں کوئی سائنس داں انفرادی طور پر وہ خواہ کتنا ہی متقی اور خدا پرست ہو روحانی کیفیت اُس کے کسی بھی حساب کتاب اور مشاہدے میں نہیں آسکتی۔ لہٰذا یہ سوچنا غیر ضروری ہے کہ جدید سائنس داں دنیائے فطرت کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیائے فطرت کا مطالعہ آج ذاتِ باری تعالیٰ سے بے نیاز ہوکر خالص تجرید کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ آج سائنس کے میدان میں اب کسی کو مابعدالطبیعیات سے سروکار نہیں رہا۔ البتہ ایسا یقینا ہوسکتا ہے کہ کچھ سائنس دان ذاتِ باری تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوں اور نجی زندگی میں نیک، سچے اور صالح ہوں۔ مگر یہ بات ہمارے موضوع اور استدلال سے تعلق نہیں رکھتی۔ آپ کسی ایسے ماہر طبیعیات کا نام لے سکتے ہیں جو ملحد ہو اور ایسے بھی کسی ماہر طبیعیات کو جانتے ہوں جو کٹرعیسائی ہو اور وہ دونوں طبیعیات کے نوبل پرائز میں برابر کے شریک ہوں۔ وہ صاحبِ ایمان ہیں یا ملحد ہیں اس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔ سائنس تو صرف اتنا دیکھے گی کہ وہ سائنس کی جدید تفہیم کے مطابق کام کررہے ہیں یا نہیں۔ آپ نے جو نکتہ اُٹھایا ہے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا کیاکرسکتی ہے؟ میرا نہیں خیال کہ طاقت کے تمام ذرائع یعنی ٹکنالوجی پر مکمل دسترس حاصل کرکے ہم مسلمان بھی رہ سکتے ہیں اور مکمل طور پر خودمختار بھی۔ ہم اس طریقے سے خودمختاری حاصل نہیں کرسکتے۔ جاپان دوسری عالمی جنگ میں شکست کھا گیا۔ اگر وہ جنگ میں نہ کودتا تو آج وہ دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہوتا لیکن کس قیمت پر؟ آج پچاس سال بعد جاپان کی صورتِ حال کیا ہے؟ وہاں بدھ مت کو کیا ہوا؟ جاپان کی مذہبی روایات کو کس کی نظر کھا گئی؟ الحاد اور لاادریت بعد کی نسلوں میں جس طرح پھیلے ہیں سب کو معلوم ہے۔ یہی قصہ چین کا ہے جو دنیا کی بڑی طاقت بن سکتا ہے لیکن وہاں قدیم کنفیوشش کا چین برقرار رہے گا یا رخصت ہوجائے گا؟ یہ سوال ہے معاملے کی جڑ۔ مسلم حکومتوں سے یہ نہیں کہا جاسکتا: ’’ہتھیار حاصل نہ کرو‘‘، اس لیے کہ وہ اپنا دفاع کرنا اور مضبوط بننا چاہتی ہیں اور اچھی حکومت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے عوام کا دفاع کرے۔ اس کے باوجود اگر ہم مسلم مفکرین ہوائی قلعے بناتے رہیں۔ جس طرح ہمارے مسلمان مفکرین صدیوں سے بناتے رہے ہیں یا مزید آگے بڑھ کر ہم خیال کریں کہ ہم مغرب کی ٹکنالوجی کی عسکری اور دوسری صورتوں پر مکمل دسترس حاصل کرسکتے ہیں اور ہم مغربی ٹکنالوجی کے منفی اور ضرر رساں اثرات سے بھی محفوظ رہیں اور ٹکنالوجی جو اپنے ساتھ مادہ پرستی کے افکار لاتی ہے، اُن سے بھی بچے رہیں تو ہم اس طرح اپنے پیشے سے انصاف نہ کرسکیں گے اور ہم پر جو اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اُس سے عہدہ بر آ نہ ہوسکیں گے۔جو لوگ ہمارے پچھلے تمام مصلحین کے خوابوں پر اعتبار کرتے ہیں محمد علی پاشا، مفتی محمد عبدہ‘، جمال الدین افغانی اور ترکی کے سعید نورسی، علامہ محمد اقبال اور ایسے دوسرے حضرات کے خواب اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح بیک وقت مغرب کی سی ٹکنالوجی کی طاقت بھی حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے تصورِ کائنات کے بھی وفادار رہ سکتے ہیں یہ لوگ خود بھی ناممکن کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مسلم مفکرین کی حیثیت سے ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ دنیاوی نتائج خواہ کچھ بھی ہوں جہاں تک سائنس اور فطرت کا تعلق ہے ہمیں اسلامی تصورِ کائنات اور تناظر کو بہرصورت قائم رکھنا چاہیے۔ دوم یہ کہ جس طرح مغرب میں بعض لوگ جدید ٹکنالوجی سے اپنے ماحولیات کے تحفظ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ماحولیات کے تحفظ کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ سوم یہ کہ ہمیں مغربی سائنسی علوم کا پورا اور گہرا مطالعہ کرنا چاہیے اور اُن کو اسلامی تناظر میں جذب کرلینا چاہیے اور یہ کام آگے بڑھ کر اگلے مورچے پر سائنسی علوم کی سرحدوں پر جاکر خصوصاً طبیعیات کی سرحدوں پر اور کوانٹم میکانیات کے اندر جاکر۔ کوانٹم میکانیات کی تعبیرِ نو کوپن ہیگن سکول اور ڈیکارٹ کے نظامِ ثنویت کے مطابق نہیں (جو جدید کوانٹم میکانیات کی فکری بنیادوں میں بیٹھے ہیں) بلکہ مابعد الطبیعیات کے تناظر میں کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان معاملات کو فلسفیانہ طور پر سمجھنا بڑا ہی مشکل اور کھٹن کام ہے اور یہیں سے ہمارے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کوانٹم میکانیات کے علاوہ دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔ چہارم یہ کہ ہمیں دنیائے اسلام میں جہاں تک ممکن ہوسکے، ایسے علاقے قائم کرنے چاہئیں جہاں عالم فطرت اور سائنس کے اسلامی تصور پر مبنی متبادل ٹکنالوجی پر تجربے کئے جاسکیں، بالخصوص طب، دواسازی، زراعت اور دوسرے شعبوں مین جہاں تجربے ہوسکتے ہوں۔ اُمید ہے کہ نت نئے، مہلک اور تباہ کن ہتھیار بنانے کا جنون، جس کی وجہ سے دنیا میں تباہی و بربادی آرہی ہے، بتدریج ختم ہوجائے اور انسانیت کی رمق باقی رہ جائے جو مقدس اور روحانی طور پر معتبر سائنس کا بیج بوسکے اور خوش آئند مستقبل کے لیے عالم فطرت سے ہمارا سچا تعلق قائم کرسکے۔ مظفر: اقبال کے نظریے اور کام پر جو تنقید ہوتی رہتی ہے، اُس کے بارے میں ایک مختصر سا سوال اور آخر میں آغازِ تخلیق خصوصاً مبدأ کائنات کے بارے میں ایک سوال- ڈیوڈ کنگ اور چند دوسرے مؤرخین نے آپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے اسلامی سائنس کی تعریف متعین کئے بغیر اس کو ایک ’’آئیڈیل‘‘ بنا دیا ہے حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ نے اپنی متعدد تحریروں میں اسلامی سائنس کو بڑی صراحت سے بیان کیا ہے۔ لیکن آپ نے ریاضیات کی تاریخ کے بارے میں اپنا جو نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ ڈیوڈ کنگ نے اُس پر خاصی نکتہ چینی کی ہے۔ میرا خیال ہے، ’’فسیٹول آف اسلام‘‘ کے موقع پر آپ کی جو کتاب شائع ہوئی تھی ڈیوڈ کنگ کا اشارہ اُس کی طرف ہے ۔۲؎ نصر: جی ہاں۔ اسلامک سائنس۔ ایک باتصویر مطالعہ۳؎ مظفر: مجھے نہیں معلوم، آپ نے کبھی تنقید کا جواب دیا ہو۔ نصر: جی ہاں، میں اپنی کتابوں پر تنقید کا جواب دینے کے خبط میں کبھی مبتلا نہیں ہوا۔ تاہم اسلامی سائنس پر میرے کام کے خلاف ڈیوڈکنگ اور دوسرے حضرات نے جو نکتہ چینی کی ہے، اُس کے جواب میں صرف دوباتیں عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ ڈیوڈکنگ نے دو تصحیحات کی ہیں جو میں اُن کے شکریے کے ساتھ بسروچشم تسلیم کرتا ہوں۔ خاص طور پر ایک آلے کی تشریح کے ضمن میں مطالعے کی غلطی ہے۔ دراصل ہم اس کتاب کی تکمیل و اشاعت کے لیے بہت عجلت میں تھے۔ ۱۹۷۶ء کا ’’فیسٹول آف اسلام‘‘ سرپر کھڑا تھا۔ لکھنے کاکام تو قریب قریب مکمل ہوچکا تھا لیکن نظرثانی باقی تھی۔ عجلت میں یہ غلطی رہ گئی۔ بہرحال جن چند غلطیوں کی نشان۔دہی ڈاکٹر کنگ نے کی ہیں وہ بالکل درست ہیں اور اس میں وہ حق بجانب ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میں نے اسلامی سائنس کی تاریخ کا جائزہ مجموعی تناظر میں لیا ہے جسے ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ اور دوسرے مغربی مورخین سائنس سمجھ نہیں سکے۔ کیونکہ یہ حضرات دراصل ثبوتیت اور تجربیت کے قائل ہیں۔ وہ سائنس کی تاریخ کا مطالعہ ماخ اور جارج سارٹن کی عینک سے کرتے ہیں جنھوں نے پیری ڈوہم (Pierre Duhem) کے نقطۂ نظر کو مسترد کررکھا ہے، جس کے مطابق سائنس کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ثبوتیت کو نہیں، غیر ثبوتیت کو بنیاد بنانا چاہیے۔ چنانچہ جونہی سائنس کی تاریخ مرتب ہونا شروع ہوئی یہ ثبوتیت کی اساس پر اُستوار ہوتی گئی۔ لیکن ثبوتیت کے اسلوبِ تحقیق کو میں نے اپنی علمی زندگی کے آغاز ہی میں مسترد کر دیا تھا۔ میں اُس وقت زیادہ تراِس کوشش میں تھا کہ سائنس کو اسلام کے عقلی تناظر میں سمجھا سمجھایا جائے۔ یعنی جہاں تک میں سمجھا ہوں حالانکہ یہ سمجھنا بھی کوئی آسان کام نہیں کہ سائنس اصل میں ہے کیا۔ پھر بھی میں اپنے طور پر خاصا واضح ہوں۔ اگر آپ کسی مغربی مفکر سے پوچھیں کہ سائنس کیا ہے؟ تو اُس کے لیے اس سوال کا جواب دینا خاصا مشکل ہوگا۔ حالانکہ اس سوال کا جواب وہی ہے جو سائنس کے ایک مورخ نے دیا تھا کہ سائنس وہی کچھ ہے جو سائنس دان کرتے ہیں۔ مظفر: درست نصر: آپ خود بھی سائنس داں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا یہ جواب بہترین جواب نہیں ہے کیونکہ اگر آپ کا جواب یہ ہوگا کہ سائنس فلاں فلاں مخصوص سائنسی طریق پر مبنی ہوتی ہے تو یہ جواب کم۔ازکم کیپلر یا آئن سٹائن کے موافق نہ ہوگا۔ اسی طرح آپ اس کے علاوہ کوئی اور جواب دیں تو اُس کے لیے کچھ اور مستثنیات ہوں گی۔ پس سائنس تو وہی کچھ ہے جو سائنس داں کرتے ہیں۔ تو پھر اسلامی سائنس بھی وہی کچھ ہے جو اسلامی سائنس داں کرتے ہیں۔ مزید برآں میں نے تو اپنی طرف سے اسلام کی عقلی کائنات کے پورے سیاق و سباق میں اسلامی سائنس کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور میرا خیال ہے کہ میں اسلامی سائنس کی تاریخ کے اپنے مطالعے میں بڑی وضاحت سے تحریر کردیا ہے۔ لیکن مغرب کے مورخین نے ایک عرصے تک میرے موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ بہرصورت اب چند سائنس دان سامنے آئے ہیں جنھوں نے میرا یہ نقطۂ نظر تسلیم کرلیا ہے کہ سائنس کی تاریخ کو متعلقہ تہذیب کے اپنے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جوزف نیندھم پر میری تنقید کا تعلق بھی میرے اسی موقف سے تھا۔ انھیں اپنی تصنیف چین میں سائنس اور تہذیب کی مدد کے لیے کیمبرج یونی ورسٹی کے علما کی ایک پوری ٹیم میسر تھی، جبکہ میں اکیلا تھا اور میں نے اورینٹل سائنس کے بارے میں اُن کے خلاف ردِّعمل کے طور پر اسلام میں سائنس اور تہذیب لکھی تھی۔ اُس وقت انھوں نے اپنی یادگار کتاب لکھنی شروع ہی کی تھی اور ایک ایسے مغربی سائنس داں کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی تھی، جو مارکسی اشتراکی خیالات رکھتا تھا۔ ظاہر ہے کہ کنفیوشیسیت اور تائو مت کے تناظر سے چینی سائنس کی تاریخ لکھی جاتی تو وہ بالکل مختلف ہوتی۔ بالکل یہی معاملہ اسلامی سائنس کا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، میں نے اپنے طور پر وہ منہاجِ تحقیق وضع کردیا ہے، جسے اسلامی سائنس کی تاریخ کے مطالعے کے لیے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ میں نے بہت پہلے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اس منہاج کو اپنی تصنیف میں واضح کردیا تھا۔ اور اب تو ہمارے پاس نوجوان مسلم دانشوروں کی ایک پوری نسل تیار ہوچکی ہے بلکہ سائنس کی تاریخ کے ایسے مغربی دانشور پیدا ہوچکے ہیں جو ہمارے نقطۂنظر کے خلاف نہیں ۔ بہت سے ایسے بھی ہیں، جو اس موضوع کے بارے میں میرے ہم خیال ہیں۔ اگرچہ مخالفین کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ میں ہمیشہ اچھے مفکرین کا احترام کرتا ہوں، جیسے ڈیوڈکنگ ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اُس روحانی تناظر سے باہر ہیں، جو صرف مسلمان سائنس دانوں ہی کا حصہ ہے۔ نصیرالدین طوسی یا ابن سینا کا تصورِکائنات مغربی سائنس داں پوری طرح نہیں سمجھ سکتے لیکن اس سے اُن کے احترام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انھوں نے اپنی اپنی جگہ قابلِ قدر خدمات انجام دے رکھی ہیں۔ مسلمان مورخینِ سائنس کے کرنے کاکام یہ ہے کہ وہ اپنے انداز میں اسلامی نقطۂ نظر سے سائنس کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ جارج سارٹن نے جن کا میں ہارورڈ یونیورسٹی میں شاگرد رہاہوںاور جو بلاشبہ بڑے فاضل مورخ تھے یا دوسرے مورخین نے جو کچھ لکھا ہے، اُسے مدِّنظر رکھتے ہوئے خالص اسلامی تناظر میں سائنس کی تاریخ مرتب کریں۔ میں نے زندگی بھر یہی خدمت انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ اچھا آئیے اب اپنے آخری سوال کی طرف=کیا سوال تھا؟ مظفر: جی، میرا آخری سوال آغازِ تخلیق سے متعلق ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ آغاز تخلیق کائنات اور آغاز تخلیق حیات۔ مذہب اور سائنس کے میدان کا یہ بہت بڑا موضوع ہے۔ آپ نے اپنی تصنیف Islamic Cosmological Doctrines میں مسئلہ تخلیق پر تین خاص پہلوئوں سے بحث کی ہے لیکن جدید کونیات جو خالص طبیعی کائنات ہے۔ آپ کے نقطۂنظر کو تسلیم نہیں کرتی۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہبل کی دوربین اور دوسرے جدید آلاتِ رصد کے مشاہدات کے ذریعے جو نئے انکشافات وحقائق سامنے آئے ہیں اُن کی تطبیق ابن سینا، اخوان الصفا اور البیرونی کے نظریات سے کیونکر ہوسکتی ہے؟ مختصر یہ کہ اب جو نئے شواہدو انکشافات سامنے آئے ہیں، اُن کی روشنی میں تخلیق کائنات کے آغاز کے بارے میں اب اسلامی نقطۂنظر کیا ہوگا؟ اور ابن سینا اور البیرونی کے نظریات سے اُن کا موازنہ کن اصولوں کی بنیاد پر ہوگا؟ نصر: بات یہ ہے کہ اسلام نے یا ہندومت یا عیسائیت یا کسی اور مذہب نے آغاز تخلیقِ کائنات کے بارے میں جو بھی تعلیمات دی ہیں۔ جدید کونیات نے انھیں غلط اور منسوخ قرار نہیں دیا ہے۔ جدید کونیات محض طبیعیات ارضی کی توسیع ہے، جو اس مفروضے پر مبنی ہے کہ طبیعیات کے تمام قوانین جو زمین پر لاگو ہوتے ہیں، اُن کااطلاق تمام کائنات پر ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ جدید کونیات توسیع ہے۔ ہر وہ چیز جس کی پیمائش آلات سے نہ ہوسکتی ہو، اس سے خارج ہے۔ پس جدید کونیات کلاسیکی طبیعیات کے علاوہ جدید طبیعیات اور کوانٹم میکانیات کی قابلِ پیمائش دنیا تک محدود ہے۔ جب کہ اس کے برعکس آغازِ تخلیق کائنات کے بارے میں اسلام کے یا کسی دوسرے روایتی مذہب کے عقائد حقیقت کے پورے عرفان پر مبنی ہیں۔ حقیقت میں صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہی نہیں بلکہ تمام ملکوتی یا غیرمادّی جہات بھی شامل ہیں، جن پر کائنات کے طبیعی پہلوئوں کے بارے میں نئی تحقیقات وانکشافات کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میں تمام جدید کونیاتی نظریات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ یہ سب ہر دس سال کے بعد تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان نظریوں کے بارے میں قیاس آرائی بہت ہوتی ہے۔ نامعلوم کی ایک ایسی فضاے بسیط معلوم پر محیط ہے کہ جسے تخلیقِ کائنات کے بارے میں آخری اور حیرت انگیز نظریے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ منصہ۔شہود پر آنے کے بعد متروک ومنسوخ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ کوئی دوسرا سائنس داں اپنی نئی دریافت کے ساتھ آجاتا ہے کہ اُس نے مشاہدۂ افلاک کے لیے نئے صوتی آلات ایجاد کرلیے ہیں، جو نتائج کو یکسر بدل کر رکھ دیں گے یا کوئی محقق نمودار ہوکر دعویٰ کرے گا کہ اُس نے ایک نیا نظامِ پیمائش یا نیا ہندسی فارمولا دریافت کرلیا ہے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے نظریات کی قطار لگ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر زمانہ حال میں متعدد نظریے مشہور ہیں۔ کثیر نوعی کائناتیں (Multiple Universes) سٹرنگ تھیوری(String Theory)، بگ بینگ تھیوری (Big Bang Theory) بلکہ میرے زمانۂ طالبِ علمی سے اب تک کونیات کے پانچ چھ بڑے نظریوں کی صحت کے بارے میں دلائل کا انبار لگ چکا ہے۔ میرا خیال ہے جو لوگ جدید طبیعیات و کیمیا کی اساس پر کائنات کے بارے میںنظریہ سازی کرتے ہیں، انھیں اصطلاح ’’کونیات‘‘ (Cosmology) استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ کونیات کا مطلب ہے کون یعنی کائنات کی سائنس۔ اور کائنات صرف مادی یا قابل پیمائش یا مرئی چیزوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ چیزیں کائنات کا حصہ تو ہیں، لیکن یہی کُل کائنات نہیں ہیں۔ اسی لیے میں خود بھی ایسی نظریہ سازی کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ہمارے لیے جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق پہلے کائنات کے متعلق اسلامی نظریہ قائم کریں۔ پھر یہ دیکھیں کہ جدید ماہرینِ کونیات کیا کہتے ہیں؟ اسلامی نظریے اور جدید نظریوں میں خواہ مخواہ کی ظاہری مماثلتیں ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں، جیسے یہ کہنا کہ ہاں بگ بینگ کے بارے میں تو قرآن نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے’’ کن فیکون‘‘ یا جیسے کہ بعض مسیحی علماے دین کہا کرتے ہیں، امر ربی (Fiat Lux)۔ اس طرح کے مذہبی اقتباسات کو سائنسی نظریات پر منطبق کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ عنقریب کوئی سائنس داں اُٹھے گا اور ثابت کردے گا کہ بگ بینگ نہیں ہوا تھا۔ یہ نظریہ بالکل غلط ہے۔ دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے فلاڈیفیا میں یہودی علماے دین اور یہودی ماہرین کونیات کے مابین بگ بینگ کے مسئلے پر ایک بڑی کانفرنس ہوئی تھی۔ آج بھی ایسے کئی ماہرینِ کونیات موجود ہیں جو بگ بینگ کو یا اس کے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے۔ میرے خیال میں مذہبی کونیات کو جس کی اساس ماورائے طبیعی عرفان یا تصورِ کائنات پر ہے اور جدید کوینات کو ایک دوسرے میں خلط ملط نہیںکرنا چاہیے۔ یہ علم کے دو جداگانہ طریق ہیں اور ان کی اصطلاحیں اور باتیں جداگانہ ہیں۔ جدید کونیات اس نظریے کی بنیاد پر کھڑی ہے کہ کرۂ ارض کی طبیعیات کے مطابق جو قابل مشاہدہ چیز قابل پیمائش ہے، اُس کا اطلاق پوری کائنات پر ہوتا ہے یعنی ستارے حبس مادے سے بنے ہیں، اُسی مادے سے وہ گلیاں بنی ہیں، جن پر آپ اور میں چلتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ادعا ہے جسے سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جدید تجزیہ پسندی، جدید سائنس پرستی کی نظریہ بازی کی تحریک کا ایک حصہ ہے۔ ہمارے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ اسلامی کونیات کا جدید نظریوں اور مفروضات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک بالکل مختلف آرٹ، بالکل مختلف سائنس اور بالکل مختلف اندازِ فکرونظر ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دو بالکل مختلف و متضاد چیزوں، دو بالکل مختلف و متضاد علوم، دو بالکل مختلف و متضاد عقلی مشاغل کے لیے ایک ہی لفظ بولا جاتا ہے۔ روایتی کونیات اور جدید کونیاتی مفروضات میں زمین آسمان کا فرق ہے، جو پچھلی صدی میں وضع ہوئے ہیں اور جو محض ارضی طبیعیات کی توسیع ہیں۔ اور جہاں تک تخلیقِ حیات کے آغاز کا تعلق ہے میرا خیال ہے اور یہ فقط میرا خیال ہی نہیں ہے بلکہ پوری اسلامی عقلی روایت کا فیصلہ ہے جس کی توثیق حکمتِ قدیمہ نے کررکھی ہے کہ ہر چیز کا مبدا ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ ہر چیز جو موجود ہے، اُس کا وجود ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور اگر مغربی فلسفے یا مذہب کی زبان میں بات کریں تو کہا جائے گا کہ تمام مخلوقات کا مصنف خدا کا ہاتھ ہے۔ جو چیز بھی خلق کی گئی ہے وہ اُسی مصنفِ اعظم نے پیدا کی ہے۔ زندگی ایک عجیب اور مختلف نوعیت کی چیز ہے، جو کرۂ۔ارض کی سطح پر پائی جاتی ہے، جہاں ہم اس کا مشاہدہ بے جان مادے کے مقابل کرتے ہیں اور یہ خیال کہ خالق اور اُس کی مخلوقات کا باہمی تعلق صرف مبدائے کائنات کے نقطۂ آغاز سے ہے اور اس کا نقطۂ آغاز بگ بینگ ہے اور بگ بینگ کے فوراً بعد خالق و مخلوق کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ یہ خیال محض ایک خود ساختہ مفروضہ ہے جسے اسلام ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کے نزدیک رضائے الٰہی ہر وقت، ہر دم اپنی مخلوقات کے ساتھ رہتی ہے۔ رضائے الٰہی آپ کے ساتھ بھی ہے، میرے ساتھ بھی ہے، لہٰذا مخلوقات کی ابتدا کا مسئلہ بہت آسان اور قابل فہم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک اور امر ربی ہے، ایک اور خداوندی شانِ نزول، مادی دنیا میں شمولیت، حقیقت مطلقہ کے ایک اور مکانی تانے بانے کا تعارف۔ پس اگرچہ ہم کیمیاوی اور حیاتیاتی عناصر میں زنجیری عمل پیدا کرنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں لیکن ان مادوں میں کوئی مکمل تعامل پیدا نہیں ہوپاتا۔ کہا جاسکتا ہے کہ اگر تسلسل نہیں تو پھر ایک جست سہی، ایک لمبی کوانٹم چھلانگ۔ جدید سائنس میں اگرچہ قدرت کی تخلیق سے ’’خدا کا ہاتھ‘‘ کاٹ دیا گیا ہے۔ یعنی تخلیق سے خدا کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر بھی تخلیق کی قوت کائنات کے اندر الوہیت وحدت الوجودیت اور ماورائیت کی صورت میں جاری و ساری محسوس ہوتی ہے۔ اگرچہ سائنس داں ایسی اصطلاحات استعمال نہیں کرتے۔ یوں لگتا ہے جیسے تخلیق کی قوت خدا کے ہاتھوں سے لے کر قدرت کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے۔ اس خیال کے آتے ہی یکایک کیمیاوی عناصر کا ملغوبہ چھلانگ لگا کر ایک زندہ مخلوق بن جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چھلانگ خود دنیائے فطرت کے اندر سے لگائی گئی ہے۔ اور یہ سوچ کر کہ یہ سب کچھ خودبخود ہوا ہے لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ اس پودے کا عمل ایک ماورائی سبب ہے تو وہ مضطرب ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ اُس فلسفے کی وجہ سے عین ممکن ہے جو آج دنیائے جدید پر مسلط ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی منطق ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں اگر یوں کہا جائے کہ چھلانگ بیرونی عوامل کے سبب سے نہیں بلکہ اندرونی عوامل کے سبب سے لگی ہے تو یہ بڑی اہم، قابل فہم اور قابل ذکر بات ہے۔ یہ بات اُس چھلانگ پر بھی صادق آتی ہے، جو زندگی سے شعور کی طرف لگائی جاتی ہے بلکہ یہ چھلانگ زیادہ بڑی اور لمبی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک پرندے کو اُڑتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس سوچ میں پڑ جانے کی کوئی منطق نہیں ہے کہ پر ایک ایسے عضو سے بتدریج پیدا ہوئے تھے جس کا پرواز سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یا یہ فرض کرنے بیٹھ جائیں کہ آنکھ کسی عجیب عضو سے ارتقا پارہی تھی کہ یکایک اس نے دیکھنا شروع کردیا۔ اس قسم کی سوچ بالکل فضول ہے۔ لیکن ایسی باتوں پر ہم یقین کرلیتے ہیں اور حقیقت کی اُن نشانیوں پر یقین نہیں کرتے جو قدرت میں نظر آرہی ہیں اور جن میں کثرت ہے، تنوع ہے، متنوع حقائق ہیں، متنوع اشکال ہیں، متنوع انواع ہیں، زندگی کی متنوع صورتیں ہیں، متنوع صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں۔ تاہم میرا ایمان ہے کہ اسلام کی وہ تعلیمات جن کا خاکہ چند ماہرین کونیات نے تیار کیا تھا، جن کا تذکرہ میں نے کونیات سے متعلق اپنی کتاب میں کیا تھا۔ آج بھی مستندومعتبر ہیں۔ اگرچہ اسلامی کونیات کی اور بھی صورتیں اہم ہیں۔ اگر آپ کے پاس باصلاحیت مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں کی کھیپ موجود ہو جن کی جڑیں اپنی روایت میں بہت گہری ہوں تو وہ تمام چیزوں کے درمیان کمال درجے کا ارتباط پیدا کرسکتے ہیں۔ یوں سمجھے۰۰ کہ جدید سائنس نے زندگی کے بارے میںجتنی چیزیں بھی دریافت کی ہیں اُن سب میں ایک کامل ہم۔آہنگی پیدا کردیں گے۔ ثابت ہوجائے گا کہ زندگی کی بنیاد محض غیر ثابت شدہ اور قیاسی مفروضات پر نہیں بلکہ حقیقت پر قائم ہے۔ ایسا کرتے وقت نہ تو کسی مذہبی عقیدے کو قربان کیا جائے گا۔ نہ سائنس کی کسی دریافت کو نظر انداز کیا جائے گا۔ سائنس کی ہر دریافت حقیقت کو حقیقت جان کر کی گئی ہے اور محض مفروضات پر مبنی ایسی تشریحات و تعبیرات کو، جو حقیقتِ مطلقہ کے عرفان اور طبیعی کائنات کے ہر مظہر میں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے ہم آہنگ نہ ہوں، سائنس بھی اُن کو تسلیم نہیں کرتی۔ مظفر: آپ کا بہت بہت شکریہ۔ نصر: جزاک اللہ خیراً خ…خ…خ…خ حوالے و حواشی اسلام اور سائنس کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لیے بہت سے بنیادی مسئلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُن کو سمجھنے کے لیے ششماہی جریدہ اسلام اور سائنس (کینیڈا) کے مدیر مظفر اقبال صاحب نے ایک لمبا مکالمہ پروفیسر سید حسین نصر سے کیا۔ سید صاحب کا شمار اسلام اور تاریخ و فلسفۂ سائنس کے صفِ اول کے علما میں ہوتا ہے۔ آپ جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر اور فائونڈیشن برائے مطالعاتِ روایت کے صدر ہیں۔ سائنس، فلسفے، عرفانِ اسلامی، تقابلِ ادیان، علم الکلام اور روایت و جدیدیت کے موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ مظفر اقبال صاحب سے اس مکالمے میں، جو فروری اور مارچ ۲۰۰۳ء میں دو طویل اور سنجیدہ نشستوں میں مکمل ہوا، سید صاحب نے اسلامی نظام کے بارے میں اپنے خیالات، تمنائوں اور توقعات کا کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ بنیادی سوال بہت اہم تھا۔ دنیائے اسلام اپنی تہذیب کے خصائص سے دست کش ہوئے بغیر سائنس اور ٹکنالوجی کے موجودہ عہد کے پیداکردہ تقاضوں سے کیونکر عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟ کیا علم و حکمت کی اسلامی روایت کا احیا ممکن ہے؟ اس احیا کے لیے مغرب میں رہنے والے کیا کرسکتے ہیں؟ (مترجم) ۱۔جان، لیوس ایڈون، دی فلاسفی آف سید حسین نصر،دی لائبریری آف لیونگ فلاسفرز، جلد۲۸، اوپن کورٹ پبلشنگ کمپنی، شکاگو، ۲۰۰۱ئ، ص۔۳ تا ۸۵ ۲۔ ڈیوڈ کنگ نے حسین نصر کی کتاب پر ایک تنقیدی تبصرہ کیا تھا جو تاریخ فلکیات کے جریدے میں چھپا تھا۔ اس تبصرے میں انھوں نے لکھا تھا: نصر کا فلسفہ اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی سائنس اور تہذیب سے بہ حیثیت مجموعی اُن کی نفرت، جس کا اظہار ہر باب میں ہوا ہے، اُن کے کام کو ایک ذاتی تشریح و تعبیر کی چیز بنا دیتی ہے بجاے تاریخی جائزہ لینے کے ۔۔۔۔۔۔۔ ریاضی اور فلکیات کے ابواب میں تو خاص طور پر ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں جو اسلامی فلکیات اور ریاضی کے نقطہ نظر سے بڑے سنجیدہ مباحث کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسلامی فلکیات کے تین بنیادی پہلو ہیں۔ اوّل ہر نئے ماہ نئے چاند کی رئویت کی تعیین، پانچ نمازوں کے اوقات کی تعیین اور قبلے کی صحیح سمت کی تعیین۔ نصر صاحب نے ان پہلووں کو تو بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہے اور دوسرے اور تیسرے پہلو کے بارے میں بھی اپنی طرف سے کوئی حتمی رائے دیے بغیر ــ’’اسلامی شعائر کی کائناتی جہت‘‘ کہہ کر ٹرخا دیا ہے۔ مسلمان ہیئت داں ہزار برس سے رئویتِ ہلال، اوقاتِ نماز اور سمت قبلہ پر خاص زور دیتے رہے ہیں۔ یہ اور اسلامی لٹریچر کے دیگر امور پر چند فقروں سے زیادہ پوری سنجیدہ توجہ کی ضرورت تھی۔ ایک ایسی کتاب میں جس کا نام ہی اسلامی سائنس ہے۔ ۳۔اسلامی سائنس: باتصویر مطالعہ از سید حسین نصر، سہیل اکیڈمی، لاہور، ۲۰۰۴۔ خ…خ…خ…خ  جاویدنامہ فلک مشتری (اردو ترجمہ) حلّاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ کی روحیں جنھوں نے بہشت میں قیام پسند نہیں کیا اور گردشِ جاوداں اختیار کی سیّد سراج الدین میں دلِ دیوانہ پر اپنے فدا بخشتا ہے ہر گھڑی جو مجھ کو ویرانہ نیا جب ٹھہرتا ہوں تو کہتا ہے کہ اُٹھ عاشقوں کے واسطے تو یہ سمندر بھی ہے جھیل چوں کہ آیاتِ خدا ہیں ان گنت، لا انتہا ختم ہوسکتا نہیں تیرا سفر اور راستہ دیکھتی ہے عقل بھی لیکن نتیجہ اُس کا ناآسودگی دیکھنا عرفان کا افزونیِ ذوقِ نظر کارِ حکمت کا ترازو ہے ہنر کارِ عرفاں کا نظر! دسترس حکمت کی آب و خاک پر عرفاں کی جانِ پاک پر ایک کے ہاں ہے تجلی غور کرنے کے لیے دوسرے کے پاس سینے میں اترنے کے لیے نوبہ نو جلووں کی ہے مجھ کو تلاش اور نالاں مثلِ نے کرتا ہوں میں افلاک طے ایک مردِپاک دل کا ہے یہ فیض سوز سے جس کے مجھے بھی سوزِ جاں حاصل ہوا رومی اور میں جو کہ تھے محوِ تماشائے وجود چل کے آپہنچے کنارِ مشتری مشتری، وہ اک جہانِ ناتمام چاند جس کے تیزگام اُس کا شیشہ مے سے خالی تھا ابھی آرزو کوئی ابھی جاگی نہ تھی چاند اُس کے گرد جو گردش میں تھے روشنی سے اُن کی مثلِ نیم روز اُس کی آدھی رات بھی اور ہوا ایسی تھی اُس کی جس میں سردی بھی نہیں تھی اور گرمی بھی نہ تھی جب نظر کی میں نے سوئے آسماں تارے مجھ سے اس قدر نزدیک تھے اُن کی ہیبت سے مرے ہوش اُڑ گئے میں نے دیکھیں تین روحیں پاک باز ایک آتش سے تھے دل اُن کے گداز لالہ گوں اُن کی قبا سوزِ جاں سے اُن کا رخ رخشندہ تھا اُن میں سوزِ گرمی روزِ الست اپنے ہی نغموں سے مست مجھ سے رومی نے کہا: ’’اس قدر بھی ہوش تو اپنا نہ کھو دم سے ان آتش نوائوں کے تو خود بھی زندہ ہو اب تلک جو شوقِ بے پروا نہ دیکھا تھا وہ دیکھ زور جس مے کا نہ دیکھا تھا وہ دیکھ غالب و حلّاج ہیں یہ اور یہ روحِ طاہرہ، وہ عجم کی شاعرہ، شور ہے ان کی نوائوں سے حرم کی روح میں بخشتی ہیں یہ نوائیں روحِ انساں کو ثبات ان کی گرمی گرمی سوزِ درونِ کائنات، نوائے حلّاج تو اپنی خاک سے لے آگ جو ہویدا نہیں کہ شعلہ دوسرے کا لائق تقاضا نہیں نظر جمالی ہے اپنے پہ، ویسے جلوۂ دوست ہے ہر جگہ پہ مجھے فرصتِ تماشا نہیں نہ دوں یہ مصرع نظیری کا ملک جم کے عوض وہ جو کہ کشتہ نہ ہوں وہ مرا قبیلہ نہیں اگرچہ عقل کے ہمراہ ایک لشکر ہے تو دل گرفتہ نہ ہو عشق بھی اکیلا نہیں مقام و راہ سے واقف نہیں ہے تو ورنہ نہفتہ بربطِ دلبر میں کون نغمہ نہیں سنا کے ہم کو حکایت نہنگ و طوفاں کی نہ کہہ کہ نائو مری روشناسِ دریا نہیں ہوں ایسے رہروِ دقت۔ّ پسند کا قائل کہ راہ وہ نہ چلے جس میں کوہ و دریا نہیں شریکِ حلقۂ رنداں ہو پر نہ ہو ہرگز اک ایسے پیر کی بیعت جو مردِ غوغا نہیں نوائے غالب جاوید نامہ میں بعض جگہ اقبال نے دوسرے شعرا کی غزلیں بھی رکھی ہیں۔ ان غزلوں کا میں نے نثر میں ترجمہ کیا ہے کیونکہ ایک تو وہ خود اقبال کی نہیں، جن کا ترجمہ میں کر رہا ہوں۔ دوسرے غزل کا ترجمہ غزل کی ہیئت میں کرنا اپنے آپ اور پڑھنے والوں دونوں پر ظلم ہے۔ البتہ جہاں کہیں اقبال نے خود اپنی غزل بہ زبانِ خود یا بہ زبان زندہ رود لکھی ہے، وہاں میں نے اس کے ترجمے کی جرأت کی ہے۔ (بہ مجبوری) غالب کی یہ معرکہ آرا غزل نثر میں کیا آئے گی لیکن چارہ نہیں۔ ’’آئو کہ آسمان کا محور بدل دیں اور گردش جام سے تقدیر(کی گردش) پلٹ دیں کوتوالِ شہر بھی اگر زبردستی پر اترے تو پروانہ کریں اور اگر شاہِ وقت بھی تحفہ بھیجے تو قبول نہ کریں اگر کلیم بھی ہم کلام ہوں تو کوئی جواب نہ دیں اور خلیل بھی مہمان بننا چاہیں تو ٹال جائیں جنگ پہ آجائیں تو گل چیں کو خالی ہاتھ باغ سے نکال دیں اور اگر صلح کی بات ہو تو پھر پرواز کرتے پرندوں کو شاخساروں سے آشیانوں کو لوٹا دیں ہم تو حیدری ہیں کیا عجب کہ اگر چاہیں تو سورج کا رُخ بھی مشرق کی طرف پھیر دیں‘‘ نوائے طاہرہ قرۃ العین طاہرہ کی اس غزل کا ہر دوسرا مصرعہ ناقابل ترجمہ ہے اور اگر دوسرا مصرعہ جوں کا توں رہے(سوائے ایک آدھ لفظ کے) تو پھر صرف پہلے مصرعے کا ترجمہ ضروری ٹھہرا ’’تجھ کو میں دیکھ لوں اگر چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو غم کا ترے بیاں کروں نکتہ بہ نکتہ مو بہ مو میں تری دید کے لیے مثل صبا بھٹکتی ہوں خانہ بہ خانہ ، در بہ در ، کوچہ بہ کوچہ ، کو بہ کو تیرے فراق میں مری آنکھ سے خونِ دل رواں دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ ، جو بہ جو عشق ترا بنا ہوا میری قماشِ جاں میں ہے رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ، تار بہ تار ، پو بہ پو گھومی جو دل میں طاہرہ پایا تجھی کو ہر جگہ صفحہ بہ صفحہ ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تو بہ تو‘‘ شور کچھ ان عاشقوں کے سوز سے میرے دل میں بھی اُٹھے کچھ پرانی مشکلیں تازہ ہوئیں پھر مرے افکار پر شب خوں پڑا میرے بحر فکر میں طوفاں اُٹھا ’’وقت مت کھو‘‘ مجھ سے رومی نے کہا ’’کھولنا گر چاہتے ہو ہر گرہ کب تلک تم یوں رہو گے اپنے ہی افکار میں آخر اسیر جو قیامت تم میں برپا ہے اُسے لائو بیرونِ ضمیر‘‘ زندہ رود اپنی مشکلات ارواحِ بزرگ کے سامنے پیش کرتا ہے یہ تمھاری جنت الفردوس سے دوری ہے کیا؟ جو مقام مومناں ہے اُس سے مہجوری ہے کیا؟ حلّاج قید جنت کی نہیں ہے ہم سے آزادوں کو راس جنتِ مُلا مے وحور و غلام جنتِ آزادگاں سیرِ دوام! جنتِ مُلا ہے خورد و نوش اور خواب و سرود جنتِ عاشق تماشائے وجود! شق قبر اور صور ہے مُلا کا حشر عشق عاشق کے لیے خود صبح حشر علم کی بیم ورجا پر ہے اساس نے اُمید عاشق کے دل میں نے ہراس علم مرعوب جلالِ کائنات عشق مسحورِ جمال کائنات علم کی وقت اور زمانے پر نظر عشق اس سے بے نیاز علم ہے لاچار اور پابستۂ قانونِ جبر عشق آزاد و غیور و ناصبور ایک پل سوئے تماشائے وجود جو ہمارا عشق ہے یہ شکووں سے بیگانہ ہے گرچہ حاصل اس کو بھی اک گریۂ مستانہ ہے ہم نہیں مجبور اپنے اس دلِ مجبور کے ہم نہیں گھایل نگاہ حور کے آتش دل کو ہے بھڑکاتا فراق ہے ہماری جاں کو راس آتا فراق بے خلش جینا کوئی جینا نہیں زندگی گزرے تو یوں جیسے ہو آتش زیرِ پا اس طرح جینا ہے تقدیرِ خودی اس طرح تعمیر ہوتی ہے خودی انتہائے شوق سے بنتا ہے ذرہ رشکِ مہر اور سما جاتے ہیں اُس میں نوسپہر حملہ اِس عالم پہ جب کرتا ہے شوق فانیوں کو جاوداں کرتا ہے شوق زندہ رود گردشِ تقدیر موت اور زندگی کون جانے کیا حقیقت ہے بھلا تقدیر کی حلّاج ہوگیا خود ساتھ جو تقدیر کے موت بھی، ابلیس بھی اُس سے ڈرے جبر مردوں کے لیے قو۔ّت ہے ان کا دیں ہے، کمزوری نہیں مردِ پختہ جبر سے ہے پختہ تر جبر حق میں خام کے آغوشِ قبر وہ جو خود ہم کو ہلا دے، اپنا جبر وہ جو دنیا کو ہلا کے رکھ دے وہ خالدؓ کا جبر کام مردوں کا ہے تسلیم و رضا کمزور کے بس کا نہیں جانتا ہے تو تو رومی کا مقام کیا نہیں ہے یاد اُن کا یہ کلام؟ ’’عہد بایزید میں ایک گبر تھا جس سے ایک نیک مسلمان نے یہ کہا کہ کیا ہی اچھا ہوا اگر تو ایمان لے آئے تاکہ نجات اور سروری تیرے ہاتھ آئے۔ گبر بولا: اگر ایمان وہ ہے جو شیخ عالم بایزیدؒ نے اختیار کیا ہے تو مجھے معاف کرو کہ وہ میرے بس کا نہیں۔‘‘ ہے ہماری زندگی قائم اُمید و بیم پر ہمت تسلیم ہر اک میں کہاں؟ تو جو کہتا ہے کہ جو ہونا ہے ہوتا ہے وہی تقدیر ٹل سکتی نہیں معنٰی تقدیر کیا ہے تو نے سمجھا ہی نہیں نے خودی ہی تو نے دیکھی نے خدا مردِ مومن کا خدا سے ہے نیاز وہ خدا کے ساتھ اور حق اُس کے ساتھ عزم اُس کا خالقِ تقدیر حق تیر روزِ جنگ اُس کا تیرِ حق زندہ رود کم نگاہوں نے بتا یہ کیا کیا ایک مردِ حق کو دی ایسی سزا تجھ پہ تو ظاہر ہے پنہانِ وجود یہ بتا تیرا گنہہ آخر تھا کیا؟ حلّاج میرے سینے میں تھی پنہاں بانگِ صور ایک ملت جا رہی تھی سوے گور مومنوں میں بھی تھی بوئے کا فری لا الٰہ لب پر مگر خود اپنے منکر آپ ہی روح انسانی جو حکم رب سے ہے اُس کو یہ بے اصل سمجھے چوں کہ رشتہ اس کا آب و گل سے ہے میں نے بھڑکائی خود اپنے آپ میں نارِ حیات وہ جو مردہ تھے بتائے اُن کو اسرارِ حیات ہے خودی پر بس کہ بنیادِ وجود و زندگی ہے خودی وہ جس میں یکجا دلبری اور قاہری ہر کہیں ظاہر خودی، پنہاں خودی اُس میں مخفی نور بھی اور نار بھی اُس کے جلووں ہی سے ہے دنیا بھری ہر زماں در پردہ ہر دل نے اُسی کی بات کی جس کسی نے آگ سے اُس کی نہیں پایا نصیب خود سے بیگانہ رہا واقف اُس کے نور سے ایران بھی اور ہند بھی نار سے لیکن نہیں آگہ کوئی میں نے نور و نار دونوں سے انہیں آگہ کیا بس گنہ میرا یہ تھا جو کیا تھا میں نے تو نے بھی وہی اک حشر سا برپا کیا بس تو بھی ڈر طاہرہ ہے گناہِ بندۂ صاحب جنوں وہ کہ جس سے کائناتِ تازہ آتی ہے بروں سارے پردے چاک کردیتا ہے شوق کہنگی کو دور کردیتا ہے شوق گو بالآخر دار ہے اُس کا نصیب چھوٹتا اُس سے نہیں کوئے حبیب ویسے دنیا سے گزر جاتا ہے وہ نور رہ جاتا ہے باقی اُس کا شہر و دشت میں خود ضمیرِ عصر میں پوشیدہ ہوجاتا ہے وہ جانے کیسے ایسی خلوت میں سما جاتا ہے وہ! زندہ رود اے کہ دردِ جستجو تجھ کو ملا ایک اپنے شعر کے معنی بتا ’’قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ اے نالہ نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے‘‘ غالب نالہ جو اٹھے جگر کے سوز سے ہر جگہ تاثیر اُس کی میں نے دیکھی ہے جدا قمری اُس سے سوختہ بلبل میں رنگ موت کی آغوش میں یاں ہے حیات ایک جایہ زندگی، اک جاممات! اس میں صد رنگی بھی بے رنگی بھی ہے تو نہیں واقف کہ کیا ہے یہ مقامِ رنگ و بو یاں تو ہر اک دل کی قسمت ہے بقدرِ ہائے و ہو رنگ ہو یا کہ ہو بے رنگی تو اس میں ڈوب یا اُس سے گزر تاکہ حاصل ہو تجھے سوزِ جگر زندہ رود سو جہاں ہیں اِس فضا میں، یہ بتا اولیا اور انبیا بھی ہیں ہر اک عالم میں کیا غالب غور سے دیکھو اگر تم تو یہاں ہر گھڑی پیدا ہے اک تازہ جہاں اور ہو ہنگامۂ عالم جہاں رحمۃ للعالمین بھی ہے وہاں! زندہ رود کھول کر مجھ کو بتا، ہے فہم میری نارسا غالب بات یہ ایسی ہے جس کو فاش کہنا ہے خطا زندہ رود گفتگوئے اہل دل کا کیا کوئی حاصل نہیں؟ غالب لب تلک نکتہ یہ آسکتا نہیں زندہ رود تو کہ تجھ میں آتش سوزِ طلب تو نہیں اظہار پر قادر۔ عجب! غالب خلق و تقدیر و ہدایت ابتدا رحمۃ للعالمینی انتہا! زندہ رود میں نے کچھ سمجھا نہیں، ہو تجھ میں گر آتش تو دے مجھ کو جلا! غالب شعر کے اسرار سے واقف ہے تو میری طرح پر یہ باتیں شعر کے بس کی نہیں شاعروں کی بزم ہے آراستہ لیکن یہاں ہیں کلیم ایسے جنہیں حاصل ید بیضا نہیں تو جو مجھ سے چاہتا ہے وہ تو ہے اک کافری کافری جو ہے، ورائے شاعری حلّاج جس جگہ بھی ہے جہانِ رنگ و بو خاک میں جس کی ہے تخمِ آرزو مصطفیٰؐ کے نور سے اُس کی بہا یا ہے اُس کو جستجوے مصطفیٰؐ زندہ رود پوچھتا ہوں تجھ سے میں گو پوچھنا بھی ہے خطا راز اُس جوہر کا کیا ہے نام جس کا مصطفیٰؐ؟ حلّاج اُس کے آگے تو ہے عالم سجدہ ریز عبدہ‘ اپنے کو ہے اُس نے کہا عبدہ‘ ہے فہم سے تیری سوا کیوں کہ آدم بھی ہے وہ، جوہر بھی ہے جوہر اُس کا نے عرب ہے نے عجم آدمی ہے اور آدم سے سوا عبدہ‘ صورت گرِ تقدیر بھی اُس میں ویرانہ بھی اور تعمیر بھی جاں فزا بھی عبدہ‘ اور جاں ستاں ہے وہ شیشہ بھی وہی سنگِ گراں عبد کچھ ہے، عبدہ‘ کچھ اور ہے عبدہ‘ سے دہر ہے اور دہر خود ہے عبدہ‘ ہم سراسر رنگ ، وہ بے رنگ و بو ابتدا رکھتا ہے پر بے انتہا ہے عبدہ‘ عبدہ‘ آزاد صبح و شام سے کوئی کب واقف ہے اس کے راز سے عبدہ‘ بس راز الا اللہ ہے لا الہ گر تیغ ہے تو عبدہ‘ ہے اُس کی دھار فاش کہنا ہو تو ’ھو‘ ہے عبدہ‘ عبدہ‘ چند وچگوں، رازِ درونِ کائنات بات واضح کر نہیں سکتے یہ بیت جب تلک سمجھو نہ رمزِ ’’مارمیت‘‘ چھوڑ اِن باتوں کو اب اے زندہ رود اور ہوجا سربسر غرق وجود زندہ رود عشق کو پہچانتا کم ہوں، بتا یہ ہے ذوق دید کیا دیدار کیا؟ حلّاج چاہیے تجھ کو جو دیدارِ رسولؐ خود کو کرلے تابعِ حکمِ رسولؐ زندگی تیری ہو سنت پر ڈھلی تاکہ انس و جاں میں ہو مقبول تو مثلِ نبیؐ پھر نظر اپنے پہ کر، ہے بس یہی اسرارِ دیدارِ نبیؐ زندہ رود کیا ہے دیدارِ خدائے نہ سپہر جس کے زیرِ حکم چرخ و ماہ و مہر؟ حلّاج نقش حق پہلے تو کرنا حرزِ جاں پھر اُسے لانا سوے بزمِ جہاں نقش جاں عالم میں جب ہوگا تمام دیدِ حق ہوجائے گی دیدارِ عام اے خوشا وہ مرد جس کی ایک ہُو آسمانوں کو کرے زیرِ نگیں وائے وہ درویش جو ھُو تو کرے اور پھر کھولے نہ لب، دم سادھ لے حرفِ حق کو جگ میں پھیلائے نہیں بس رہے گوشہ نشیں مثل حیدرؓ جس میں کراری نہ ہو خانقہ اور راہبی چن لے جو خیبر اور سلطانی کو چھوڑ نقشِ حق رکھتا ہے تو تو یہ جہاں نخچیر ہے ہم عناں تدبیر کی تقدیر ہے دورِ حاضر چاہتا ہے تجھ سے جنگ پھیر دے تو نقشِ حق کا اُس پہ رنگ زندہ رود نقش حق دنیا میں جو رکھا گیا میں نہیں سمجھا کہ یہ کیسے ہوا حلّاج اس کے پیچھے یا ہے زورِ دلبری یا قاہری دلبری ہے قاہری سے خوب تر اس میں حق ہے کچھ زیادہ جلوہ گر زندہ رود اے کہ تو ہے واقف اسرارِ شرق کیا ہے، بتلا زاہد و عاشق میں فرق حلّاج عالمِ دنیا میں زاہد اجنبی عالم عقبیٰ میں عاشق اجنبی زندہ رود ہے فنا گر معرفت کی انتہا تب فنا میں زندگی مضمر ہے کیا؟ حلّاج یار جس پر مست ہیں وہ اک تہی پیمانہ ہے معرفت سے نیستی، بیگانہ ہے نیستی میں ڈھونڈنا، مقصود کو ہے عدم میں ڈھونڈنا، موجود کو! زندہ رود وہ کہ جس نے خود کو اونچا نسلِ آدم سے گنا جام میں اُس کے نہ مے باقی نہ دُرد خاک ہیں پر ہے ہماری خاک گردوں آشنا نار ہے جو، اُس کی آتش ہے کہاں؟ حلّاج وہ، ارے وہ خواجۂ اہل فراق اُس کو تم کچھ مت کہو وہ ازل کا تشنہ لب خونیں ایاق ہم ہیںجاہل، وہ حقیقت آشنا وہ واقفِ رازِ وجود ہے اُسی کا کفر، جس سے ہم پہ یہ عقدہ کھلا لطف اٹھنے کا ہے گرنے سے جڑا اور ہے گھٹنے سے بڑھنے کا مزہ عاشقی جلنا ہے، اُس کی آگ میں سوختن بے سود آتش کے سوا عشق و خدمت میں ہے کیا اُس کا مقام آدمی اس راز کا محرم نہیں چاک کردو پیرہن تقلید کا تا کہ لو اُس سے سبق توحید کا زندہ رود اے کہ قبضے میں ترے اقلیم جاں ٹھہرجا صحبت یہ ملتی ہے کہاں؟ حلّاج ٹھہرنے دیتا نہیں ہے ذوقِ پرواز ایک جا ہر گھڑی دید اور تڑپ ہے اپنا کام اک سدا پروازِ بے پر، بے مقام ابلیس کا نمودار ہونا صحبت ان روشن دلوں کی بس دو دم ہیں یہی دو دم مگر سرمایۂ بود و عدم کرد یا ان اک دو لمحوں نے مرے بھی عشق کو شوریدہ تر اور عقل کو صاحب نظر بند کرلی آنکھ میں نے تاکہ یہ دل میں اتر جائے مرے یک بیک کیا دیکھتا ہوں میں جہاں تاریک ہے سب مکاں تا لامکاں، تاریک ہے ایک شعلہ اس اندھیری رات میں آیا نظر اور اس شعلے سے مرد پیر اک ظاہر ہوا تھی سرمئی اُس کی قبا اک دھویں میں غرق پیکر اُس کا تھا مجھ سے رومی نے کہا ’’دیکھ یہ ہے خواجۂ اہل فراق یہ سراپا سوز اور خونیں ایاق کہنہ اور کم خندہ برلب، کم سخن آنکھ تیز اتنی کہ ہے بینائے جاں اندر بدن! رند بھی، ملا بھی، دانشمند بھی اور خرقہ پوش مثل زاہد کے عمل میں سخت کوش فطرتاً بیگانۂ ذوقِ وصال زہد اُس کا تارکِ قربِ جمال چوں کہ یہ ترک جمال آساں نہ تھا اُس نے ترکِ سجدہ کا حیلہ کیا اک ذرا دیکھو تم اُس کے واردات اُس کی ساری مشکلات، اُس کا ثبات غرقِ رزمِ خیر و شر میں آج تک سو پیمبر اُس نے دیکھے اور کافر آج تک اُس کے غم نے میرا دل تڑپا دیا آہ لب تک اُس کی آئی مجھ کو دیکھا اور کہا: ’’یاں عمل میں کون ہے مجھ سے سوا اس قدر الجھا ہوں کام میں جمعہ کے دن بھی مجھے فرصت نہیں نے فرشتہ کوئی میرا، اور نہ ہے چا کر کوئی وحی کو میری میسر ہے نہ پیغمبر کوئی نے حدیثیں میری نے کوئی کتاب بن گیا ہوں میں فقیہوں کے لیے پھر بھی عذاب ان فقیہوں نے کیا دیں کو خراب کعبے کے ٹکڑے کیے مختلف اس کیش سے ہے میرا دیں مذہبِ ابلیس میں فرقے نہیں پیشِ آدم کرکے سجدے سے حذر میں نے ہی چھیڑا تھا سازِ خیر و شر میں وجودِ حق کا بھی منکر نہیں میرا ظاہر تو ہے یہ، باطن نہیں دیکھ کر انکار کردوں اتنا میں ناداں نہیں! سامنے اہل جہاں کے میرا یہ انکار ہے اس میں پنہاں پر مرا اقرار ہے میرے نا گفتہ سے بہتر ہے مگر میرا کہا قہرِ یزداں دردِ آدم کے سبب میں نے سہا! کشت سے میری ہی ہر شعلہ اُٹھا ہوگیا مختار جو مجبور تھا کرکے خود اپنی برائی آشکار میں نے بخشا تجھ کو لطفِ اختیار تو میری گتھی کو سلجھا جل رہا ہوں، آگ سے مجھ کو بچا اے کہ میرے دام میں ہے تو پھنسا کرکے شیطاں کو گنہ میں مبتلا تجھ کو جینا ہے تو سُن باہمتِ کردار جی اے مرے غم خوار آدم مجھ سے تو بیگانہ جی! اس جہاں میں مجھ سے بیگانہ گزر تانہ ہونا مہ مرا تاریکِ تر یاں کوئی صیاد بے نخچیر ہوسکتا نہیں جب تلک نخچیر ہے تو، میرے ترکش میں ہیں تیر صاحبِ پرواز اگر ہے تو تو گِر سکتا نہیں صید ہو زیرک تو کچھ صیاد کرسکتا نہیں‘‘! میں نے کہا ’’ساری چیزوں سے ہے بڑھ کر نا پسندیدہ طلاق‘‘ بولا ’’سازِ زندگی سوزِ فراق اے خوشا سر مستیِ روزِ فراق! وصل کی میں بات کرسکتا نہیں وصل اگر چاہوں تو وہ باقی نہ میں‘‘ وصل کی باتوں نے اُس کو خود سے بیگانہ کیا اُس کا سوز و درد پھر تازہ ہوا ایک پل اپنے دھویں میں غرق اور غلطاں رہا اور پھر گم ہوگیا ایک نالہ پھر ہوا اس دو دپیچاں سے بلند ہے مبارک جاں کہ ہو جو درد مند نالۂ ابلیس اے خدا، اے تیری قدرت میں صواب و ناصواب صحبتِ اولادِ آدم نے کیا مجھ کو خراب حکم سے میرے نہ کی ظالم نے سرتابی کبھی اُس کی فطرت ہی ہے عاری جرأتِ انکار سے خاک میں اُس کی نہیں ہے کبریائی کا شرر صید ایسا ہے کہ خود صیاد کو دعوت جو دے صید ایسا ہو تو اُس سے الامان والحذر میری پچھلی طاعتوں کو یاد کر مجھ کو ایسے صید سے آزاد کر پست ہمت ہوگیا ہوں، اس سے میں ہائے میں، اے وائے میں! اُس کی فطرت خام، عزم اس کا ضعیف میری تو اک ضرب کی بھی تاب لا سکتا نہیں ایسا حریف چاہیے مجھ کو تو کوئی بندۂ صاحب نظر اک حریفِ پختہ تر یہ تو بچوں کا کھلونا ہے، بھلا کیا کرے گا اس کو لے کر مجھ سا پیر ابن آدم تو ہے بس اک مشتِ خس ایک چنگاری ہے مشتِ خس کو بس کچھ نہیں عالم میں گر خس کے سوا آگ اتنی مجھ کو کیوں بخشی بتا! شیشہ پگھلانا ہے معمولی سا کام ہاں اگر پتھر کو پگھلائیں تو پھر کچھ بات ہے! تنگ اپنی کامیابی سے ہوں میں خود اے خدا اب بدل اس کا مجھے کچھ کر عطا کوئی منکر میرا ہم پلہ کوئی مردِ خدا مجھ کو خاطر میں نہ لائے کانپ اٹھوں جس کی نظر سے ایسا بندہ ہو عطا جو مجھے یہ کہہ سکے’’ بس دور ہو اب یاں سے جا‘‘! مجھ کو اب دے ایسا مردِ حق پرست جس سے میں کھائوں شکست! خ…خ…خ…خ  حسین بن منصور حلّاج ڈاکٹر علی رضا طاہر حلّاج تیسری صدی ہجری کے نامور عرفا میں سے ہیں۔ ان کا اصل وطن بیضا(شیراز) تھا۔ البتہ انھوں نے عراق میں نشوونما پائی۔ حلّاج عرفاے اسلامی میں بڑی پیچیدہ اور الجھی ہوئی شخصیت ہیں۔ ان کے شطحیات کی وجہ سے انھیں کافر و زندیق اور ملحد کہا گیا۔ مقتدر عباسی کے دور میں فقہا نے ان کے قتل و کفر کا فتویٰ جاری کیا اور ۲۵مارچ ۱۹۲۲ء (۲۴ذی قعدہ۳۰۹ھ) کو اس نامور عارف کو دار پر کھینچ دیا گیا۔ ۱؎ عرفا انھیں کفروزندقہ اور الحاد کے تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں اور ان کے اور بایزید کے کلمات(جن کی وجہ سے ہر دو کے کفروقتل کا فتویٰ جاری کیا گیا) کو حالتِ سکر اور بے خودی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہر دور کے نامور عرفا حلّاج کو ’’شہید‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ البتہ عرفا نے حلّاج کے بارے میں یہ ضرور کہا ہے کہ انھوں نے ان اسرارورموز کو سرعام فاش کردیا جن کے برداشت کی قوت عامۃ الناس اور اہل فقہ میں نہیں تھی۔ جیسا کہ حافظ شیراز حلّاج کے بارے میں کہتے ہیں: گفت آں یار کزو گشت سر دار بلند جرمش آں بود کہ اسرار ہویدا می کرد۲؎ حلّاج کی اس کیفیت پر کتاب الطواسین کے انگریزی نسخے کے ’’تعارف‘‘ میں عبدالقادر الصوفی کا خوبصورت تذکرہ یوں ملتا ہے: The inability to conceal the state and thus to reach the final goal of 'Baqa' was the glorious but tragic destiny of Mansur al-Hallaj.3 اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے The Development of Metaphysics in Persia میں صرف ایک مقام پر حلّاج کا تذکرہ کیا ہے۔ مذکورہ مقالے کے باب نمبر۵ بعنوان تصوف میں اقبال نے صوفیانہ مابعدالطبیعیات کے مختلف پہلو تین عنوانات کے تحت بیان کیے ہیں۔ ان تین پہلوئوں میں سے ایک کا عنوان ’’حقیقت بطور جمال‘‘ ہے۔ اس میں اقبال منصور حلّاج کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’اس مکتب کو حسین منصور حلّاج نے بالکل وحدت الوجودی بنا دیا اور وہ ایک سچے ہندو ویدانتی کی طرح ’’اناالحق‘‘ (اہم برہما اسمی) چلا اٹھا۔‘‘ ۴؎ مذکورہ بالا بیان سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ۱- حلّاج کا تعلق صوفیا کے اس مکتب سے بیان کیا گیا ہے جو حقیقت کو ’’بطور جمال‘‘ بیان کرتے ہیں۔ ۲- حلّاج نے صوفیا کے اس مکتب کو وحدت الوجودی بنا دیا۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ تحقیقی مقالے کے بعد اقبال نے حلّاج کے بارے میں کیا نقطۂ نظر اختیار کیا۔ اقبال کے مذکورہ بالا تحقیقی مقالے کا زمانۂ تحریر ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۷ء کے عرصے میں ہے۔ جب کہ اپنی کتاب تاریخِ تصوف ۱۹۱۶ء میں لکھنا شروع کی۔ (جو نامکمل ہے جس کے دو باب تحریر کیے اور بقیہ تین ابواب کے اشارات اور مختصر نوٹس ہی تحریر کرسکے) اس کتاب میں منصور حلّاج کے متعلق اقبال کا درج ذیل نقطۂ نظر ملتا ہے۔ تاریخ تصوف کے باب نمبر۲ کے آخر میں بایزید بسطامی کے مکتب تصوف کے تسلسل میں منصور حلّاج کا یوں ذکر کرتے ہیںـ:اس چمنستان تخیل کا پہلا پھول حسین بن منصور حلّاج ہے جس کے خیالات کی مفصل کیفیت آئندہ باب میں بیان ہوتی ہے۔۵؎ اقبال نے کتاب تاریخ تصوف کا تیسرا باب مکمل منصور حلّاج کے متعلق تحریر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اس باب کو تحریر نہ کرسکے اس باب کے صرف حواشی، اشارات اور مختصر نوٹس ہم تک پہنچے ہیں۔ اقبال نے تیسرے باب کا عنوان ’’ابوالمغیث حسین بن منصور حلّاج البغدادی البیضاوی‘‘ قائم کیا ہے۔ ان حواشی میں اقبال نے جن مؤرخین و مؤلفین اور دانش وروں سے مدد لی ہے۔ ان میں سے اکثروبیشتر حلّاج کے ناقد اور مخالف ہیں، مثلاً ابن ندیم(صاحب الفہرست)، جنید بغدادی، ابوبکر محمد بن یحییٰ۔الصولی (عباسیہ دور کا نامور مؤرخ) ابن مسکویہ، ابوعبداللہ ابوالحسن محمد بن عبدالملک الہمدانی(مؤرخ)، شمس۔الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد ابوالذہبی (۱۳۴۸- ۱۲۷۴ نامور مؤرخ) عبدالرحمن بن علی محمد بن ابوالفرح (حنبلی مذہب کا نامور فقیہ، صاحب تبلیس)، پروفیسر ای جی برائون (نامور مستشرق) اور نامور فرانسیسی مستشرق و محقق ماسی نوں (Massignon) ہیں۔ ان میں زیادہ سے زیادہ ہمدردانہ نقطۂ نظر صرف مسینیون ہی کا ہے۔ اشارات وحواشی میں اقبال نے حلّاج کے حالاتِ زندگی، شخصیت کے بعض پہلو اور افکارونظریات بیان کیے ہیں اور جو نقطۂ نظر اقبال نے حلّاج کے مذہب اور عقیدے کے متعلق قائم کیا، اس کے اثبات کے لیے اقبال نے حلّاج کی معروف تالیف کتاب الطواسین سے بعض حوالے بھی نقل کیے ہیں۔ بہرحال اقبال کی تاریخ تصوف کے باب سوم(متعلق بہ منصور حلّاج) کے حواشی و اشارات سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں: ۰ منصور حلّاج ایک کم علم، جاہل اور غیر سنجیدہ و غیر شائستہ شخصیت کا مالک ہے۔۷؎ ۰ وہ ایک متضاد و متناقض شخصیت تھا جو کبھی خود کو سنی کہتا تھا اور کبھی شیعہ ظاہر کرتا تھا۔۸؎ ۰ اس کا قرامطہ تحریک سے تعلق تھا (یہ ایک تخریب کار باطنی فرقہ تھا اس کا بانی عراق کا ایک باشندہ حمدانی تھا)۔ ۹؎ ۰ منصور ایک سیاسی چال باز تھا۔ خود خدائی کا داعی تھا اور اپنے شاگردوں کو انبیائں کے نام دیتا تھا۔ ۱۰؎ ۰ وہ ایک شعبدہ باز تھا۔۱۱؎ ۰ منصور وجود یعنی ناسوت کے قدم کا قائل تھا اسلامی نقطۂ خیال سے جو الزام زندیقیت مسلمانوں نے لگایا، وہ بالکل بے بنیاد نہ تھا۔ ۱۲؎ ۰ منصور ’’اناالحق‘‘ کا دعویٰ کرتا تھا اور اس کا یہ دعویٰ ضلال و گمراہی تھا اور وہ ایک وحدت الوجودی تھا۔ ۱۳؎ ۰ حلّاج معرفت کو علم پر ترجیح دیتا تھا۔ جب کہ جنید علم کو معرفت پر۔ یہاں اقبال جنید کے ہم نوا نظر آتے ہیں۔ ۱۴؎ معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ تصوف میں اقبال کا منصور کے بارے میں وہی نقطۂ نظر ہے جو تحقیقی مقالے کی تحریر کے وقت تھا۔ لہٰذا یہاں تک حلّاج کے بارے میں اقبال کے نقطہ نظر کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی۔ حافظ محمد اسلم جیراجپوری کے نام ۱۷؍مئی ۱۹۱۹ء کے محررہ ایک خط میں حلّاج کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے: منصور حلّاج کا رسالہ کتاب الطواسین جس کا ذکر ابن حزم کی الفہرست میں ہے۔ فرانس میں شائع ہوگیا ہے۔ مؤلف نے فرنچ زبان میں نہایت مفید حواشی اس پر لکھے ہیں۔ آپ کی نظر سے گزرا ہوگا۔ حسین کے اصلی معتقدات پر اس رسالے سے بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان منصور کی سزا دہی میں بالکل حق بجانب تھے۔ اس کے علاوہ ابن حزم نے کتاب الملل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے، اس کی اس رسالے سے پوری تائید ہوتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ غیر صوفیا قریباً سب کے سب منصور سے بے۔زار تھے معلوم نہیں متاخرین اس کے اس قدر دلدادہ کیوں ہوگئے۔ ۱۵؎ لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کے نام ۲۷؍جنوری ۱۹۱۶ء کے ایک خط میں حلّاج کے بارے میں اقبال کی یہ رائے ملتی ہے: علامہ ابن جوزی نے جو کچھ تصوف پر لکھا ہے، اس کو شائع کردینے کا قصد ہے۔ اس کے ساتھ تصوف کی تاریخ پر ایک مفصل دیباچہ لکھوں گا، ان۔شائاللہ۔ اس کا مسالہ جمع کرلیا ہے۔ منصور حلّاج کا رسالہ کتاب الطواسین فرانس میں مع نہایت مفید حواشی کے شائع ہوگیا ہے۔ دیباچے میں اس کتاب کو استعمال کروں گا۔ فرانسیسی مستشرق نے نہایت عمدہ حواشی دیے ہیں۔ ۱۶؎ اکبر الٰہ آبادی کے نام ہی اپنے ایک اور خط محررہ ۴؍فروری ۱۹۱۶ء میں حلّاج کا ذکر یوں کرتے ہیں: ’’منصور حلّاج کا رسالہ کتاب الطواسین نامی فرانس میں شائع ہوگیا ہے وہ بھی منگوایا ہے۔‘‘ ۱۷؎ انھی کے نام ۱۱؍جون ۱۹۱۸ء کے خط میں پھر حلّاج کا ذکر ہوتا ہے: پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کون سا تصوف میرے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ نئی بات نہیں۔ حضرت علاء الدولہ سمنانی لکھ چکے ہیں، حضرت جنید بغدادی لکھ چکے ہیں۔ میں نے تو محی الدین اور منصور حلّاج کے متعلق وہ الفاظ نہیں لکھے جو حضرت سمنانیؒ اور جنیدؒ نے ان دونوں بزرگوں کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں۔ ہاں ان کے عقائد اور خیالات سے بے زاری ضروری ظاہر کی ہے۔۱۸؎ مذکورہ بالا آرا سے یہ ظاہر ہوتا ہے ابھی تک حلّاج کے متعلق اقبال کا وہی نقطہ نظر ہے جو تحقیقی مقالے اور بعد ازاں تاریخ تصوف کے زمانۂ تحریر کے دوران تھا۔ یعنی وہ حلّاج کے افکاروتصورات کو اُمت مسلمہ کے لیے درست نہیں جانتے، حلّاج سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں اور حلّاج کو دی جانے والی پھانسی کو درست گردانتے ہیں۔ مقالات اقبال میں اقبال کا ایک مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ شامل ہے یہ اقبال نے مثنوی اسرار خودی میں حافظ پر شدید تنقید کی تھی، اس وجہ سے اقبال پر دیگر اعتراضات کے علاوہ یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ وہ تصوف ہی کا مخالف ہے) شامل ہے یہ متذکرہ بالا مضمون میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے حلّاج کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: بہرحال سکر کی حالت میں جن لوگوں نے بعض باتیں خلاف منشا تعلیم اسلام کی ہیں، مسلمانوں نے ان کے متعلق حسنِ ظن سے کام لیا ہے۔ یہاں تک کہ غزالی نے منصور کے صریح الحاد کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے سامنے منصور کا صرف مقولہ ہی تھا اور وہ ذہنی یا مذہبی تحریک نہ تھی جس کا منصور مظہر یا بانی تھا۔ ابنِ حزم نے جو منصور سے شاید ایک صدی بعد ہوا ہے منصوری تحریک اور اس کے حلولی فرقے کا مفصل حال لکھا ہے اور حال میں فرانس میں بھی ایک رسالہ منصوری تحریک پر شائع ہوا ہے۔۱۹؎ ۱۹۱۶ء ہی میں ایک اور مضمون بعنوان ’’سر اسرار خودی‘‘ میں خواجہ سید حسن نظامی کے ان اعتراضات کے جواب دیے گئے جو انھوں نے اقبال کی مثنوی اسرار خودی پر کیے تھے، واضح رہے کہ خواجہ حسن نظامی نے ’’سر اسرار خودی‘‘ کے نام ہی سے اپنا مضمون ۳۰؍جنوری ۱۹۱۶ء کے خطیب میں تحریر کیا تھا اور اقبال نے اسی عنوان کے تحت خواجہ حسن نطامی کے اعتراضات کے جواب دیتے ہوئے ایک مقام پر منصور حلّاج کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: خواجہ صاحب محض اس وجہ سے کہ ان کے نام کے ساتھ بھی خواجہ کا لفظ ہے یا منصور حلّاج کے مذہب حلولی کی پابندی سے جو بحیثیت وحدت الوجودی ہونے کے ان پر لازم ہے، اگر انا الحافظ کا نعرہ لگا کر میرے اشعار کو اپنی طرف منسوب سمجھیں تو ان کا اختیار ہے۔۲۰؎ اسی مضمون میں آگے چل کر مثنوی کی اہمیت کے بیان میں منصور حلّاج پر یوں تنقید کرتے ہیں: یاد رہے کہ یہ مثنوی کسی زمانۂ حال کے منصور کی لکھی ہوئی نہیں جو اپنی نادانی سے یہ سمجھتا تھا کہ میں قرآن جیسی عبارت لکھ سکتا ہوں۔ بلکہ ایک مسلمان کی لکھی ہوئی ہے، جس نے قرآن سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کی تعلیم بنی نوع انسان کی نجات کا باعث تصور کرتا ہے۔ ۲۱؎ منصور حلّاج کے متعلق اقبال کے مذکورہ بالا بیانات، منصور حلّاج کے متعلق اس کے سابق الذکر بیانات سے ملتے جلتے ہیں اور وہی تنقیدی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ اقبال حلّاج کے مذہب کو ’’حلولی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ منصور کی شطحیات پر اعتراض کرتے ہوئے اپنی مثنوی کو منصور حلّاج کے نقطۂ نظر اور روش سے بری قرار دیتے ہیں۔ منصور حلّاج کا بطور وحدت الوجودی ذکر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا بیانات میں بھی وہ منصور حلّاج کی روش، طریق کار اور فکرونظر سے مکمل بے زاری کا اظہار کرتے ہیں اور اس سے اپنی برائ۔ت کو بیان کرتے ہیں۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اپنے تحقیقی مقالے میں اقبال منصور حلّاج کے بارے میں کیا نقطۂ۔نظر اپناتے ہیں۔ مذکورہ بالا کتاب کے خطبۂ چہارم ’’خودی، جبروقدر، حیات بعدالموت، The Human Ego: His Freedom and Immortality میں اقبال حلّاج کے متعلق اپنی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں: یہ تصوف تھا جس نے کوشش کی کہ عبادت اور ریاضت کے ذریعے وارداتِ باطن کی وحدت تک پہنچے۔ قرآن پاک کے نزدیک یہ واردات علم کا ایک سرچشمہ ہیں جن میں ہمیں دو اور عوالم یعنی عالم تاریخ اور عالم فطرت کا اضافہ کرلینا چاہیے۔ اب اگر صرف مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان واردات کا نشوونما حلّاج کے نعرہ ’’اناالحق‘‘ میں اپنے معراج کمال کو پہنچ گیا اور گو حلّاج کے معاصرین علیٰ ہذا متبعین نے اس کی تعبیر وحدت الوجود کے رنگ میں کی لیکن مشہور فرانسیسی مستشرق ماسی نوں (Massignon) نے حلّاج کی تحریروں کے جو اجزا حال ہی میں شائع کیے ہیں، ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہید صوفی نے اناالحق کہا تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسے ذات الٰہیہ کے وراء الورا ہونے سے انکار تھا۔ لہٰذا ہمیں اس کی تعبیر اس طرح کرنی چاہیے جیسے قطرہ دریا میں واصل ہوگیا۔ حالانکہ یہ اس امر کا ادراک، بلکہ علی الاعلان اظہار تھا کہ خودی ایک حقیقت ہے جو اگر ایک عمیق اور پختہ تر شخصیت پیدا کرلی جائے تو ثبات و استحکام حاصل کرسکتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کچھ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حلّاج ان الفاظ میں متکلمین کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا۔ آج کل بھی مذہب کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس میں کچھ ویسی ہی مشکلات پیش آتی ہیں، مثلاً یہی ایک مشکل کہ حلّاج کا گزر جن احوال سے ہوا، ان میں ابتدائ۔ً تو اگرچہ کوئی بات ایسی نظر نہیں آتی جسے غیر طبعی کہا جائے۔ لیکن جب یہی احوال پختگی کو پہنچ جائیں تو خیال ہونے لگتا ہے کہ ہمارے شعور کے بعض مراتب ایسے بھی ہیں جن سے ہم قطعی بے خبر ہیں۔ ابن خلدون نے مدت ہوئی محسوس کرلیا تھا کہ ان مراتب کی تحقیق کے لیے کسی ایسے منہاج علم کی ضرورت ہے جو فی الواقع موثر ہو۔ جدید نفسیات کو بھی اگرچہ اس قسم کے کسی منہاج کی ضرورت کا اعتراف ہے لیکن اس کا قدم ابھی اکتشاف سے آگے نہیں بڑھا کہ صوفیانہ مراتبِ شعور کی خصوصیات کیا ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے اس قسم کے احوال اور مشاہدات کی تحقیق علمی نہج پر کی جائے جیسے مثلاً حلّاج کو پیش آئے اور جو اگر علم کا ایک سرچشمہ ہیں بھی تو ہم ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔۲۲؎ مذکورہ بالا خطبے میں ایک اور مقام پر مباحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: عالم اسلام نے جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق کہ انسان اپنے اندر اخلاقِ الٰہیہ پیدا کرے، مذہبی مشاہدات اور واردات کی طرف قدم بڑھایا تو جیسا کہ مطالعے سے پتا چلتا ہے اس تقرب و اتصال کی ترجمانی کچھ اسی قسم کے اقوال میں ہوتی رہی مثلاً اناالحق(حلّاج) اناالدھر (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہوں قرآن ناطق(علی کرم اللہ وجہ) مااعظم شانی(بایزید رحمتہ اللہ علیہ) لہٰذا اسلامی تصوف کے اعلیٰ مراتب و اتحاد و تقرب سے یہ مقصود نہیں تھا کہ متناہی خودی لامتناہی خودی میں جذب ہوکر اپنی ہستی فنا کردے بلکہ یہ کہ لامتناہی، متناہی کی آغوش میں آجائے۔۲۳؎ خطبات میں اقبال کے مذکورہ بالا بیانات سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یہاں حلّاج کے بارے میں اقبال کا نقطۂ نظر یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ اب وہ حلّاج کو وحدت الوجودی صوفی نہیں سمجھتے خودی کا منکر نہیں بلکہ پیامبر و نقیب سمجھتے ہیں۔ ’’اناالحق‘‘ جس کی وجہ سے اسے گمراہ سمجھتے تھے، اسی نعرے کی وجہ سے اس کی پھانسی کو اب ’’شہادت‘‘ سمجھتے ہیں۔ حلّاج کی اناالحق کی کیفیت و حال اور واردات کو تاریخ اسلام و انسان کی برگزیدہ ترین ہستیوں کے تسلسل میں ذکر کرتے ہیں۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، ۱۹۰۵ء میں یورپ جانے سے قبل تک کی شاعری میں اقبال کے ہاں منصور کا ذکر دو مرتبہ ملتا ہے اور وہ دونوں بار ستائشی انداز میں ہے۔اپنی نظم ’’زہد اور رندی‘‘ میں منصور حلّاج کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف پوچھو جو تصوف کی، تو منصور کا ثانی۲۴؎ بالِ جبریل ہی میں شامل ۱۹۰۵ء سے قبل کی ایک نظم میں منصور کا ذکر یوں ملتا ہے: منصور کو ہوا لب گویا پیام موت اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی۲۵؎ یورپ جانے سے قبل کی شاعری میں اقبال کا جھکائو وحدت الوجود کی جانب بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے اور وہ منصور حلّاج کے مداح بھی نظر آتے ہیں۔ مقالے کی تحریر کے دوران بھی اقبال کا جھکائو وحدت الوجود کی طرف نظر آتا ہے۔ البتہ یورپ سے واپسی کے بعد وہ ایک فکری کش مکش میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس کا اظہار اسرار خودی کی صورت میں ہوتا ہے تو اقبال ’’وحدت۔الوجود‘‘ کے بھی سخت مخالف ہوجاتے ہیں اور ہر اس فکر کے بھی، جس کا نقطۂ نظر انھیں وحدت الوجود کے قریب نظر آتا ہے یا جسے وحدت الوجودی سمجھتے ہیں۔ محی الدین ابن عربی، عبدالکریم الجیلی، حافظ شیرازی اور منصور حلّاج بھی اس دور میں اقبال کی تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ اس دور کی نثری تالیفات میں اقبال، حلّاج کا ذکر جس انداز سے کرتے ہیں وہ گذشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ اس دور کے شعری آثار میں البتہ حلّاج کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ اقبال کی وحدت الوجود اور وحدت الوجودی صوفیا پر تنقید اور اس کے دفاع میں وحدت الوجود کے حامیوں کے اعتراضات و جوابات اور علمی مباحثوں کا سلسلہ ۱۹۲۰ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد یہ ہنگامہ خود ہی سرد پڑ گیا، البتہ منصور حلّاج کے بارے میں اقبال کا تحقیقی مطالعہ بعد ازاں بھی جاری رہا۔ اور رفتہ رفتہ حلّاج کے بارے میں اقبال کا نقطۂ نظر یکسر بدل گیا اور اس بدلے ہوئے نقطہ نظر میں جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، بال جبریل میں شامل ۱۹۳۳ء کی ایک نظم میں حلّاج کا ذکر یوں ملتا ہے: رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی کہ وہ حلّاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا۲۶؎ ضربِ کلیم کے ایک قطعے میں حلّاج کا تذکرہ یوں ملتا ہے: فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ ، وہی آش حلّاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا رازِ خودی تلاش۲۷؎ یہاں دونوں مقامات پر اقبال حلّاج کے حد سے زیادہ معترف نظر آتے ہیں۔ اقبال کا نقطۂ۔نظر یکسر بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ تاریخ تصوف میں اقبال نے علم کو عرفان پر ترجیح دینے کے بعد جنید بغدادی کے نقطۂ۔نظر کے برعکس عرفان کو علم پر ترجیح دینے کے نقطۂ۔نظر کی مذمت کی تھی، لیکن یہاں اقبال بڑی خوبصورتی سے حلّاج کے نقطۂ۔نظر کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حلّاج کو سزا دینے والے اس وقت کے فقہا پر بڑی سنجیدہ تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ ضربِ کلیم کے قطعے میں عالم بالا(فردوس) میں اہل مشرق کے بارے میں رومی اور سنائی کے درمیان ہونے والے مکالمے کو، فیصلہ کن رُخ حلّاج کی زبان سے دلاتے ہیں۔ اس سے جہاں خود اقبال کی یہ حیثیت سامنے آتی ہے کہ وہ ’’راز خودی فاش‘‘ کرنے والے ہیں۔ وہاں ایک تو حلّاج، رومی اور سنائی کے ساتھ جنت نشین نظر آتا ہے اور دوسرا وہ ’’مبلغِ خودی‘‘ کا نقیب دکھائی دیتا ہے اور بلاشبہ اس سے یہ نکتہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ اقبال حلّاج کو اپنا ہم مشرب سمجھتے ہیں یا خود کو حلّاج کا ہم مشرب۔ فارسی شاعری میں اقبال نے تیرہ مقامات پرحلّاج کا تذکرہ کیا ہے اور وہ سب اشعار جاوید نامہ میں شامل ہیں۔ ان اشعار میں اقبال نے حلّاج کے متعلق جو نقطۂ۔نظر اختیار کیا، اس کو ہم انتہائی اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں: ۰اقبال حلّاج کی روح کو ’’روح جلیلہ‘‘ کا نام دیتا ہے۔ اور اس کا ذکرغالب و قرۃ العین طاہرہ کے ساتھ کرتا ہے۔۲۸؎ ۰ نوائے حلّاج روح میں ثبات، کائنات میں حرارت، زندگی اور جان و جوش وخروش پیدا کرنے والی ہے۔ ۲۹؎ ۰ حلّاج کہتا ہے کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنی چاہیے۔ عقل فسوں پیشہ اپنے لیے لشکر مہیا کرلیتی ہے۔ مگر گھبرانا نہیں چاہیے کہ عشق بھی تنہا نہیں ہے اور ایسے پیر کی بیعت سے پرہیز کرنی چاہیے جو جوش و خروش اور جذبہ وولولہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور تن مردہ میں صور پھونکنے کے ہنر سے عاری ہو۔۳۰؎ ۰ فلک مشتری پر جب اقبال کی ملاقات ’’ارواح جلیلہ‘‘ حلّاج و غالب و قرۃ العین طاہرہ سے ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جنت میں ایک جگہ رہنا پسند نہیں کیا بلکہ ہم نے ہمیشہ حرکت میں رہنا پسند کیا ہے۔ تم نے فردوس سے جو کہ مقامِ مومناںہے دور رہنا کیوں پسند کیا؟ اقبال اس نکتے کی وضاحت حلّاجکی زبان سے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’مرد آزاد جو اچھے اور برے کی تمیز کرسکتا ہے، اس کی روح بہشت کے اندر ایک مقام پر نہیں رہ سکتی۔ وہ فقط ملاّ ہے جس کی جنت ’’مے‘‘، ’’حور‘‘ اور ’’غلام‘‘ تک محدود ہے۔ آزاد انسانوں کی جنت سیر دوام ہے۔ ملا کی جنت کھانا، پینا، سونا اور مستی ہے جب کہ ’’عاشق کی جنت تماشائے وجود ہے۔ اس کے بعد اسی نظم میں اقبال حلّاج کی زبان میں علم و عشق کا موازنہ کرتے ہیں۔ عشق ہر میدان میں کامیاب نظر آتا ہے اور حقیقی زندگی وہی ہے جو علم کے بجائے عشق کی راہنمائی میں گزرتی ہے۔ یہی زندگی خودی کی تقدیر ہے اور اسی تقدیر سے خودی کی تعمیر ہوتی ہے۔۳۱؎ ۰ مرد مومن خدا سے راز و نیاز رکھتا ہے۔ اس کے عزم سے حق کی تقدیر بنتی ہے، میدان کارزار میں اس کی جنگ حق کی جنگ اور اس کا وار حق کا وار ہوتا ہے۔ ۳۲؎ ۰ زندہ رود منصور سے سوال کرتا ہے کہ تو بندہ حق تھا، تجھے کوتاہ نظروں نے دار پر کھینچ دیا تھا تو ہی بتا آخر تیرا جرم کیا تھا؟ تو منصور جواب میں کہتا ہے: ملت زندہ لاش تھی زبان سے لا الٰہ کہتے تھے، عمل سے منکر تھے۔ میرے سینے میں ’’بانگ صور‘‘ تھی۔ پس میں نے مردہ قوم کو اسرار حیات بتائے، دلبری میں قاہری پیدا کی، خودی کا پیغام دیا، ان میں خودی بیدار کرنے کی کوشش کی اور خودی کی بیداری سے ایک نیا جہاں پیدا کرنے کی کوشش کی، یہی میرا جرم تھا۔ یہاں پہنچ کر منصور حلّاج اقبال سے کہتا ہے: ’’میرے انجام سے عبرت حاصل کر جو میں نے کیا تھا، اب تو بھی وہی کرنے جارہا ہے، تو بھی میری طرح مردہ دلوں میں محشر بپا کرنے جارہا ہے مگر میرا انجام سامنے رکھ۔‘‘ ۳۳؎ جناب رسالت مآب ا کے متعلق حلّاج کے نقطہ نظر کو اقبال یوں بیان کرتے ہیں : ہر رنگ، ہر وجود اور ہر جہان کی قدروقیمت نورِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور ہر شے مصطفیا کی تلاش، پہچان، عرفان اور پانے کی کوشش میں ہے۔ وہ سب سے افضل، سب سے اعلیٰ اور سب سے اول ہیں، راز درون کائنات ہیں، خدا کے بندے ’’عبدہ‘‘ ہیں اور کوئی بھی ’’سر عبدۃ‘‘ سے آگاہ نہیں۔ عبدۃ ’’سر الا اللہ‘‘ ہیں۔۳۴؎ جب زندہ رود حلّاج سے کہتا ہے کہ کچھ دیر اور ہمارے ساتھ گزاریے تو حلّاج کہتا ہے، ہم سراپا ذوق پرواز ہیں، ایک مقام اور ایک منزل پر قناعت کرنے والے نہیں، ہر زمانے کو دیکھ رہے ہیں اور بال۔وپر کے بغیر پرواز کرنا ہمارا کام ہے۔‘‘ ۳۴؎ ارمغان حجاز میں شامل ’’اناالحق‘‘ کے موضوع پر دو رباعیوں میں اس نقطۂ نظر کا اظہار ملتا ہے: ۳۵؎ اناالحق چونکہ مقام کبریا ہے، اس لیے انسان اگر یہ کلمہ زبان پر لائے تو اس کی سزا وہی ہے، جو حلّاج کو ملی لیکن اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ اگر فرد ایسی بات کہے تو بے شک مستوجب سزا ہے لیکن اگر پوری قوم یہ بات کہنے لگے تو جائز ہے۔ ۳۶؎ اسی طرح ارمغان حجاز کی ہی ایک اور رباعی میں مذکورہ بالا موضوع کی وضاحت یوں کرتے ہیں: اناالحق کہنا اس قوم کے لیے مناسب ہے جس کا ہر فرد اپنی خودی کی تکمیل کرچکا ہو اور جس کے جلال(اقتدار) میں جمال(رحمت) کا رنگ بھی پایا جائے۔ ۳۷؎ منصور حلّاج کے حوالے سے اقبال کی فکر میں اس تدریجی تغیر کے بارے میں ڈاکٹر محمد ریاض یوں اظہارِ نظر کرتے ہیں: البتہ بعد میں ابن الحلّاج کے نعرہ انا الحق کے بارے میں علامہ مرحوم کے خیال میں تغیر رونما ہوا۔ خطبات، مثنوی، گلشن راز جدید اور جاوید نامہ وغیرہ میں انا الحق، خودی ہی کے مترادف بن گیا۔۳۸؎ منصور حلّاج کے متعلق اقبال کے نقطۂ نظر کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے: ۱- ۱۹۰۵ء تک اقبال کے ہاں منصور حلّاج کا ذکر ان کی اُردو شاعری (بال جبریل) میں ملتا ہے۔ اقبال حلّاج کے مداح نظر آتے ہیں اور خود کو اس کی عارفانہ روش کا پیرو قرار دیتے ہیں۔ ۲- ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء کے قیامِ یورپ کے دوران بھی اقبال کا رحجان وحدت الوجود کی طرف رہا۔ ان کے تحقیقی مقالے میں منصور حلّاج کا ذکر صرف ایک بار وحدت الوجودی صوفی کے حوالے سے ملتا ہے۔ اور یہاں اقبال حلّاج کے نعرہ ’’اناالحق‘‘ کو ہندو ویدانتی نعرے ’’اہم برہما اسمی‘‘ سے مربوط کرکے پیش کرتے ہیں۔ ۳- یورپ سے واپسی کے بعد تقریباً ۱۹۲۰ء تک اقبال کی مثنوی اسرار خودی کی تصنیف، مثنوی اور اس کے دیباچہ میں وحدت الوجود اور وحدت الوجود کے حامی صوفیا اور عارف شعرا پر اقبال کی تنقید سے ہند کے علمی حلقوں میں ایک مناظرہ و مناقشہ کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ وحدت الوجود کے حامی بالخصوص خواجہ حسن نظامی، اقبال کی تنقید کے جواب میں اقبال پر اعتراض کرتے ہیں اور وحدت الوجود کا دفاع کرتے ہیں۔ اس دور میں اقبال کی تحریروں میں وحدت الوجود اور اس کے حامیوں بالخصوص ابن عربی، عبدالکریم الجیلی، حافظ شیرازی اور حلّاج پر شدید تنقیدیں ملتی ہیں۔ ۴- ۱۹۲۰ء تک یہ ہنگامہ سرد پڑ جاتا ہے۔ا سی دور میں حلّاج کے متعلق اقبال کے مزید مطالعات سے بتدریج ان کا نقطۂ نظر تبدیل ہوجاتا ہے۔ اور اس کے بعد کی تقریباً تمام شعری و نثری تالیفات میں اقبال حلّاج کے پھر سے مداح بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ مداحی اس کے وحدت الوجودی نقطۂ۔نظر کی وجہ سے نہیں بلکہ اقبال مزید مطالعے کے بعد حلّاج کو وحدت الوجود سے بری اور خودی کا مبلغ و نقیب اور تحفظ خودی کا نمایندہ قرار دیتے ہوئے، منصور حلّاج کی روش، فکرونظر اور طریق کار کی ستائش کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال اقبال کی فکرونظر میں حلّاج کے متعلق اس تغیروتبدل کے سفر کا مطالعہ جہاں اپنی جگہ دلچسپی کا حامل ہے، وہیں اس سے اقبال کے غیر جانبدار محقق، زندہ مفکر، غیر متعصبانہ نقطۂ۔نظر اور دیانتدارانہ موقف و روش سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ تا آخر وحدت الوجودی نقطہ نظر سے اقبال کے فکری اختلاف کو جاننے کے لیے بھی راہنمائی ملتی ہے۔ ژ……ژ……ژ حوالے و حواشی 1- Shorter Encyclopaedia of Islam, Leiden, 1961, P,128. ۲- مرتضیٰ مطہری: خدمات متقابل اسلام و ایران، انتشارات صدرا، تہران، ۱۳۶۲ھ، ص۴۶۹ 3- Mansur Al-Hallaj, The Tawasin, Translated by Aisha Abad-ar-Rahman, Berkley and London, Diwan Press, 1974, P,13. ۴- علامہ محمد اقبال: فلسفہ عجم، ترجمہ، میر حسن الدین، نفیس اکیڈمی، کراچی، ۱۹۶۹، ص۶۴ ۵- علامہ محمد اقبال: تاریخ تصوف، مرتبہ صابر کلوروی، مکتبۂ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۸۷، ص۸۵ ۶- علامہ محمد اقبال: فلسفہ عجم، ص۶۴ ۷- ایضاً، ص۶۵-۶۷ ۸- ایضاً، ص۶۵ ۹- ایضاً، ص۸۰ ۱۰- ایضاً، ص۶۶ ۱۱- ایضاً، ص۶۸ ۱۲- ایضاً، ص۷۱ ۱۳- ایضاً، ص۷۲-۷۳ ۱۴- ایضاً، ص۷۴ ۱۵- علامہ محمد اقبال: اقبال نامہ، مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اول، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۴۴، ص۵۴-۵۵ ۱۶- ایضاً، ص۵۰-۵۱ ۱۷- ایضاً، ص۵۲-۵۴ ۱۸- ایضاً، ص۵۵ ۱۹- علامہ محمد اقبال: مقالاتِ اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۶۳، ص۱۶۶-۱۶۵ ۲۰- ایضاً، ص۱۷۴ ۲۱- ایضاً، ص۱۷۶ ۲۲- علامہ محمد اقبال: تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجم سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۶۳، ص۱۴۴-۱۵۵ ۲۳- ایضاً، ص۱۶۶ ۲۴- علامہ محمد اقبال: کلیات اقبال، اردو، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۶، ص۶۰ ۲۵- ایضاً، ص۱۰۲ ۲۶- ایضاً، ص۳۱۵ ۲۷- ایضاً، ص۸۵۰ ۲۸- علامہ محمد اقبال: کلیات اقبال، فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۵، ص۷۰۳ ۲۹- ایضاً، ص۷۰۴ ۳۰- ایضاً، ص۷۰۵ ۳۱- ایضاً، ص۷۰۷-۷۰۸ ۳۲- ایضاً، ص۷۰۹-۷۱۰ ۳۳- ایضاً، ص۷۱۶-۷۲۰ ۳۴- ایضاً، ص۷۲۲ ۳۵- ایضاً، ص۲۷۱ ۳۶- ایضاً، ص۹۵۲ ۳۷- ایضاً، ص۹۵۲ ۳۸- علامہ محمد اقبال: تاریخ تصوف، ص۱۰ نوٹ: علامہ اقبال سے منسوب تاریخ تصوف کے بارے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اقبال کی کوئی باضابطہ تصنیف نہیں ہے بلکہ بالکل ابتدائی نوعیت کے نوٹس ہیں جن کو وہ ایک کتاب کی صورت میں احاطۂ تحریر میں لانا چاہتے تھے لیکن بوجوہ ایسا نہ کرسکے۔ انھی ابتدائی نوعیت کے منتشر نوٹس کو صابرکلوروی صاحب نے مرتب کرکے تاریخ تصوف کے نام سے شائع کیا۔ ظ……ظ……ظ  کیا فکر اقبال مستعار ہے؟ مزید مباحث پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر حصہ۔ّ اوّل- اقبال اور ہندی فکر فراق گورکھ۔پوری لکھتے ہیں کہ اقبال نے رام نج کے فلسفے کو سراہا ہے اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہی اسلام ہے۔ انھوں نے ہوش سنبھالا تو سوامی رام تیرتھ ،سوامی وویکانند، اربندوگھوش اور ان سے پہلے راجہ رام موہن رائے کی تعلیمات اور مہاتما گاندھی کی عالمگیر شخصیت سے کچھ شعوری اور کچھ غیرشعوری طور پر اثر لیا۔ مغرب کے مستشرقین نے بھی ان کے اندر اس احساس کو جھنجوڑ کر جگا دیا تھا کہ قدیم ہندوستان کی روحانی اور اخلاقی دریافتیں اور تعلیمات نئی انسانیت کی تخلیق وتعمیر کے لیے کوئی معمولی قوتیں نہیں ہیں۔ ۱؎ اس سے دوبرس پہلے جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا کہ اقبال کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں اسلامی تفکر کے ساتھ ہی ساتھ قدیم ہندوستانی فلسفہ، مغربی فلسفہ اور مارکس اور اینگلز کا جدلیاتی مادّی نظامِ فکر بھی شامل ہے۔ ۲؎ ایک اور مقام پر خیال ظاہر کیا ہے کہ اقبال کی اپنشد کے فلسفے کے ساتھ ہم آہنگی پر کام کیا جائے تو شعرِاقبال کے تخلیقی سرچشموں کے بارے میں ایک نیا باب ہمارے سامنے آئے گا۔ ۳؎ پیارے لال رتن کے سو سے زائد صفحات پر مشتمل کتابچے Living Tradition کا مقصد، بقول ان کے، یہ دکھانا ہے کہ اقبال کا ساقی۔نامہ ہندوستان کی بہترین ادبی روایت کی روح کے مطابق ہے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: I have made an attempt to prove that the Saqinama is an interpretative verse translation of the Bhagavadgita, the great ethical product of Indian philosophy, the poem that symbolizes most typically Indian approach and Ideal.4 گویا اقبال کی نظم ساقی نامہ بھگود گیتا کی ایک شاعرانہ ترجمانی ہے۔ ڈاکٹر تاراچرن رستوگی نے لکھا ہے کہ ’’شعراقبال میں ہندو عناصر بڑی نفاست وشائستگی سے سموئے ہوئے ملتے ہیں۔‘‘ ۵؎ اس سے ملتی جلتی آراء دوسرے ہندو اہلِ قلم نے بھی ظاہر کی ہیں۔ آصف جاہ کامرانی نے فلسفہ خودی کے مآخذ میں قرآن کریم سے متصل بھگود گیتا کا ذکر کیا ہے۔ آفاق فاخری نے اقبال کے فکری سرچشموں میں ’’ویدانت‘‘ کا ذکر شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر رفیق زکریا لکھتے ہیں کہ ’’اقبال نے سنسکرت پڑھی تھی اور گیتا میں کرشن کے پیغامِ عمل میں زبردست دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ ویدوں سے بھی اسی قدر متاثر تھے۔‘‘ ۶؎ کچھ آگے چل کر لکھا ہے کہ اقبال نے سوامی رام تیرتھ کی زبردست تعریف کی ہے جن کی تقریروں سے ویدوں کے اسرار منکشف ہوتے ہیں اور ان اسرار سے اقبال کے فلسفۂ خودی کو فروغ ملا۔۷؎ ’’اقبال اور قومی یکجہتی‘‘ میں مظفر حسین برنی نے لکھا تھا کہ ’’اقبال بھگود گیتا کے فلسفۂ عمل سے بہت متاثر تھے۔ گیتا میں آتما (خودی) کو لافانی کہا گیا ہے اور عمل کو جزاوسزا کی لاگ کے بغیر زندگی کا اعلیٰ ترین نصب العین بتایا ہے… اقبال کے فلسفۂ عمل کے کردار کی تشکیل میں بھگود گیتا کا اثر کارفرما نظرآتا ہے۔‘‘ ۸؎ برنی نے ویدوں، اپنشدوں، بدھ مت، گایتری، بھرتری ہری اور سوامی رام تیرتھ کے اثرات کا بھی ذکر ہے۔ محب وطن اقبال میں ان اثرات کو ایک الگ باب میں ’’ہندوستانی فکروفلسفے کا اثر‘‘ کے تحت بیان کیا ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں کہ ’’بال جبریل کھولیے تو پہلا ورق اُلٹتے ہی بھرتری ہری کے اس شعر پر نظر پڑتی ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر اس شعر کے ساتھ دو باتیں یاد آجاتی ہیں۔ ایک ہرمن ہیس کی جس نے کہا تھا کہ اقبال تین اقلیموں کا فرمانروا ہے۔ ایک ہندوستانی فکر، دوسرے یورپی فکر اور پھر اسلامی فکر کا۔ چنانچہ پہلی اقلیم کی فرمانروائی کا یہ ثبوت ہے۔ بھرتری ہری، گوتم بدھ، ویدانت، گایتری اقبال کے ہاں ان سب کا عکس ملتا ہے۔‘‘۹؎ ہرمن ہیس (Herman Hess) نے جاوید نامہ کے جرمن ترجمے کے دیباچے میں اقبال کو تین اقلیموں کا فرماں۔روا لکھا ہے۔ آل احمد سرور نے اس نکتے کو بار بار بیان کیا ہے اور تین فکری دھاروں کی آمیزش سے فکرِ اقبال کی تشکیل کا تاثر ابھارا ہے، اگرچہ وہ اقبال کے ہاں اسلامی فکر کی مرکزی اہمیت کے بھی قائل ہیں۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’اقبال فکر کی تین اقلیموں کا حکمران ہے، ہندی، مغربی اور اسلامی۔ بلاشبہ اسلامی فکر کی مرکزی اہمیت ہے مگر فکر کے اس مینار میں ہندی اور مغربی افکار جس طرح گھل مل گئے ہیں ان کا اعتراف عام نہیں ہے۔‘‘۱۰؎ ۲ جن صاحبانِ علم کی آراء اوپر درج ہوئی ہیں ان میں فراق اور رستوگی کے علاوہ کوئی مخالف اقبال نہیں ہے۔ البتہ اکثریت کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ہے۔ ہندوستان میں اقبال کی مقبولیت کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی خاطر یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ ’’شعرِ اقبال کا ہندوستانی پس منظر‘‘ نمایاں کیا جائے۔ اس کام کا آغاز پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے کیا۔۱۱؎ ان کی کوشش نیک نیتی پر مبنی اور بڑی حد تک متوازن تھی۔ یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ اقبال کا رشتہ تصورِ پاکستان سے منقطع کیا جائے، چنانچہ آل احمد سرور اور مظفر حسین برنی سمیت ہندی قومیت اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے والے حضرات نے اس کام کا بیڑا اُٹھایا۔ افسوس ہے کہ اسلوب احمد انصاری جیسے معتبر اقبال شناس بھی اس رو میں بہ گئے، وہ لکھتے ہیں کہ: اقبال کی شاعری کے سلسلے میں ہندوستانی ادیبوں کا روّیہ یا تو معاندانہ رہا ہے یا سرپرستانہ۔ بعض لوگوں کے نزدیک ان کی شاعری اس لیے درخورِ اعتنا نہیں ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے نہ صرف مؤید بلکہ مؤسس تھے، درآنحالیکہ ان کی شاعری پر اس نظریے کی چھوٹ تک نہیں پڑی ہے۔۱۲؎ پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے ہندوستان کے لیے اقبال کو مفید قرار دینے کے لیے دوسری بنیادوں کی نشاندہی کی۱۳؎ اور مذکورہ بے معنی موقف سے اپنی اقبال شناسی کو آلودہ ہونے نہ دیا۔ اسلوب احمد انصاری نے البتہ دقیقہ رسی اور جرأت سے یہ حقیقت اُجاگر کی کہ اقبال کی فکری اساس قرآنِ حکیم ہے۔ ہندی قوم پرستوں کے لیے ایک مسئلہ اقبال کا تصورِ قومیت تھا۔ اقبال کے تصورِ قومیت سے انکار محال تھا چنانچہ آل احمد سرور، جمیل مظہری اور دوسروں نے اقبال کے غلط ہونے کا اعلان کردیا۔ تفصیل ہم نے اپنی تصانیف میں الگ سے بیان کی ہے۔ فراق گورکھ۔پوری نے اشتراکی ہونے کے باوجود ہندومت کی پاسداری کی ہے اور اسے تقویت دینے کے لیے مستشرقین اور اقبال کا سہارا لیا ہے۔ یہ پاسداری ان کے اشتراکی موقف سے متصادم ہے۔ اپنے اسی مضمون ’’اقبال سے متعلق خوش فہمیاں‘‘ میں فراق لکھتے ہیں کہ ’’ہندو فکریات، عیسائی فکریات، بدھسٹ فکریات یا اسلامی فکریات سے متذکرہ مسائل کے علوم بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔‘‘۱۴؎ فراق نے یہ عجیب بات بھی لکھی ہے کہ ’’انتہائی دماغی ریاضت کے باوجود یہ حقیقت اقبال کے پلے نہیں پڑی کہ ہندو فکریات یا ہندو دھرم کسی حکومت کو قائم کرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔‘‘۱۵؎ ایک اور عجیب بات فراق نے یہ لکھی ہے کہ ’’مہاتما گاندھی نے اچھوتوں کو ان کا جائز مقام دینے کے لیے ہندو شاستروں کا بالکل سہارا نہیں لیا۔‘‘۱۶؎ سوال یہ ہے کہ اچھوتوں کو جائز مقام دینے کے لیے کوئی مہاتما ہندو دھرم کی کسی مذہبی کتاب کا سہارا کیسے لے سکتا ہے؟ رگ وید سے لے کر بھگود گیتا تک میں نسلی امتیاز کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔۱۷؎ چنانچہ اچھوتوں کو ہندو دھرم کی رو سے جائز مقام دلانا محال ہے۔ اس مقصد کے لیے مغر ب کے جمہوری طریقے، ایک حد تک، کارگر ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے فراق لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان نے مغربی جمہوری آدرشوں اور طریقوں کو اپنا لیا۔ یہ آدرش اور طریقے ایسے ہیں جو انسانی مساوات اور وحدتِ انسانیت پر مبنی ہیں۔‘‘۱۸؎ یہ صاف اعتراف ہے اس بات کا کہ ہندو دھرم انسانی مساوات اور وحدتِ انسانی پر مبنی نہیں ہے۔ تو کیا فائدہ ’’قدیم ہندوستان کی روحانی اور اخلاقی دریافتوں اور تعلیمات‘‘ کا جنھیں نئی انسانیت کی تخلیق و تعمیر کے لیے فراق گورکھ۔پوری نے غیر معمولی قوتیں قرار دیا ہے۔ اقبال جہاں بھرتری ہری اور گیتا سے استفادہ کرتے ہیں، وہیں ہندو دھرم کے ذات پات کے عقیدے کو ظلم کا نشان بھی تصور کرتے ہیں اور حقیقی درد مندی سے اچھوتوں کے ساتھ برتی جانے والی ناانصافی اور ان کے غم پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں: آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے۱۹؎ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہندو دھرم زندہ ہے شودروں اور برہمنوں میں معاشرتی مساوات اور اخوت کا قیام ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو دھرم کے فکری دھارے کا علامہ اقبال، غیر مشروط خیر مقدم نہیں کرسکتے۔ بھرتری ہری کا قول ہے کہ ’’یہ اینٹ پتھر سے بنے ہوئے دیوی دیوتا بڑے تنک مایہ ہیں۔‘‘۲۰؎ اقبال جیسے موحد کے نزدیک خدا کے علاوہ ہر خداوند بت ہے جسے توڑنا ضروری ہے۔ انھیں ’’حرم کے سومنات‘‘‘ بھی کھٹکتے ہیں۔۲۱؎ جہاں تک ہندو دھرم کے تحت نظامِ حکومت کے قیام کا تعلق ہے، اقبال کو اس ضمن میں ’’انتہائی دماغی ریاضت‘‘ کی کیا ضرورت تھی۔ انھوں نے خطبۂ الٰہ آباد میں جو نکتہ اُجاگر کیا ہے وہ یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کی ہندی قومی ریاست میں اسلام کا اجتماعی سیاسی نظام بروئے کار نہیں آسکتا جس کا مرکزی نقطہ اللہ کی حکمرانی کا قیام ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان پابند ہیں کہ اللہ کی حکمرانی قائم کریں۔ بصورتِ دیگر انسانوں پر انسان کی حکمرانی ملوکیت کو جنم دیتی ہے۔۲۲؎ جبکہ حریت۔ّ، مساوات اور اخوت جیسی انسانی اقدار کا فروغ نکتۂ توحید اور اسوۂ محمد ا میں مضمر ہے۔ صاحبانِ علم جانتے ہیں کہ ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت پرائیویٹ مذاہب ہیں اور اجتماعی سیاسی نظام سے بیگانہ ہیں۔ ’’قومی ریاست‘‘ (Nation State) اجتماعی سیاسی نظام ہے خواہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی شکل میں ہو یا عوامی آمریت کی صورت میں، لیکن اس کی منزل مادیت ہے۔ جب کہ اسلام مادی وسائل سے کام تو لیتا ہے اسے منزل نہیں بناتا۔ اقبال اسی لیے کہتے ہیں کہ: فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن۲۳؎ چنانچہ جہاں فراق قدیم ہندوستان کی روحانی و اخلاقی دریافتوں اور تعلیمات کی جگہ مغربی جمہوری آدرشوں اور طریقوں کو اپنانے کی بات کرتے ہیں وہاں اقبال اسلامی جمہوریت کے قیام کو مسلمانوں کا مطمع نظر قرار دیتے ہیں۔ رستوگی کا یہ بیان کہ ’’شعرِ اقبال میں ہندو عناصر بڑی نفاست و شائستگی سے سموئے ہوئے ملتے ہیں‘‘ ان کے اپنے بعد کے موقف سے رد ہوجاتا ہے۔ اپنی کتاب (Iqbal in Final Countdown) میں انھوں نے یہ جملہ لکھا ہے:"He has paid no attention to Indian Schools of thought." 24 یہ صریح تضاد بیانی ہے اور علمی کے بجائے متعصبانہ روّیے کی حامل ہے۔ اقبال پر یہ الزام ڈاکٹر سچدانند سنہا نے عائد کیا تھا کہ ’’انھوں نے نہ تو ہندو دانش کو سمجھا اور نہ سمجھنے کی کوشش کی۔‘‘۲۵؎ صحیح بات یہ ہے کہ بقول ڈاکٹر جاوید اقبال ’’انھوں نے ہندو مذہب، فلسفہ اور ادب کو سمجھنے کی خاطر سنسکرت سے شناسائی پیدا کی۔‘‘۲۶؎ اقبال نے انگریزی تراجم کے ذریعے بھی ہندو فکریات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ بھرتری ہری کے کلام کا جو انگریزی ترجمہ اقبال کے مطالعے میں رہا وہ بقول صمد حسین جعفری ’’پروہت گوپی ناتھ کا تھا۔‘‘۲۷؎ اقبال نے مقدور بھرپوری انسانی فکر کی چھان بین کی اور جو نکاتِ دانش ان کے وجدانِ حقیقت کے مطابق تھے یا کم از کم اس سے متصادم نہیں تھے اور اقبال کو کارآمد معلوم ہوئے، انھیں کلامِ اقبال میں جگہ مل گئی۔ یہ بات ہندو فکریات کے ضمن میں بھی درست ہے۔ مظفر حسین برنی کی یہ رائے غلط نہیں کہ اقبال گیتا کے اس موقف سے متاثر ہیں کہ روح لافانی ہے اور عمل اعلیٰ ترین نصب العین ہے۔ چنانچہ اقبال نے اسرارِ خودی کے دیباچے میں سری کرشن کی زبردست تحسین کی ہے۔ اس حد تک ڈاکٹر رفیق زکریا کی رائے بھی غلط نہیں ہے لیکن ان کا یہ موقف کمزور ہے کہ سوامی رام کے بیان کردہ اسرارِ وید سے اقبال کے فلسفۂ خودی کو فروغ ملا۔ سوامی رام تیرتھ کا ’’نفیِ ہستی کا کرشمہ‘‘ اور ’’بتِ ہستی کو توڑنے‘‘ کا رجحان۲۸؎ تصورِ خودی کی تشکیل کے وقت قصہِ ماضی بن چکا تھا۔ جہاں تک روح کی بقا اور جہدوعمل کی تلقین کا تعلق ہے اس ضمن میں گیتا سے متاثر ہونا اور سری کرشن کی تحسین ایک بات ہے اور تصورِ خودی میں بھگود گیتا کی حصہ داری ایک الگ معاملہ ہے۔ قرآنِ حکیم میں انسانی بقا کا ذکر باربار آیا ہے اور جہدوعمل کی تلقین بھی باربار کی گئی ہے۔ اسرارِ خودی کے دیباچے میںبھی اقبال نے اسلامی تحریک کو ’’نہایت زبردست پیغامِ عمل‘‘ کہا ہے۔ اس لیے اقبال نے سری کرشن اور سری رام نوج کی جو تحسین کی ہے اسے ان کے آفاقی ذہن کے تناظر میں دیکھنا چاہیے نہ کہ تصورِ خودی کے ماخذ کے طور پر۔ اسی تناظر میں بھرتری ہری کے پیغامِ عمل اور نکاتِ دانش کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پیارے لال رتن کی توضیحات اپنی جگہ لیکن جہدوعمل کی اسلامی تعلیمات کو بھی نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ گیتا نے رہبانیت کے برعکس عمل اور جدوجہد کی تعلیم دی ہے۔ اقبال نے اس کی قدر کی اور گیتا سے استفادہ بھی کیا لیکن گیتا سے ان کی ’’عقیدت کا رشتہ‘‘ قائم نہیں ہے۔۲۹؎ اقبال کی نظر گیتا کے نقائص اور تضاد پر بھی تھی۔۳۰؎ عزیز احمد نے ’’ساقی نامہ ‘‘ کا رشتہ فکرِ برگساں سے جوڑا ہے۔۳۱؎ انھوں نے بھی کُلّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شأن کو نظر انداز کیا ہے جس کے پیش نظر اقبال نے کہا ہے ’’کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود‘‘۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے صحیح لکھا ہے کہ ’’اقبال نے اگر مشرقی اور مغربی مفکرین کے خیالات کو اپنایا ہے تو اسی حد تک جس حد تک وہ انھیں قابل قبول تھے۔ اس حد کے بعد انھوں نے اپنا راستہ الگ اختیار کیا۔‘‘۳۲؎ گیتا کے تضاد اور برگساں کے تخلیقی ارتقا کی بے مقصدیت پر اقبال کی تنقید سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اقبال کی حقیقی اور گہری عقیدت کا مرکز و محور صرف قرآن حکیم ہے، اسی لیے قرآنی بصیرت ہی سے فکرِ اقبال کی تشکیل ہوئی ہے۔ شعرِ اقبال کا ہندوستانی پس منظر بیان کرنے کے باوجود جگن ناتھ آزاد نے اس نمایاں حقیقت کا اعتراف و اعلان باربار کیا ہے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’اسلام تو اقبال کا سرچشمۂ افکار ہے اور کسی ناقد کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی مفکر کا تعلق اس کے سرچشمۂ افکار سے توڑ سکے۔‘‘۳۳؎ مزید لکھتے ہیں کہ ’’مغربی یا ہندوستانی فلسفے کے ساتھ فکر اقبال کے تعلق پر روشنی ڈالنے سے اس حقیقت پر کوئی حرف نہیں آتا کہ اقبال کا بنیادی سرچشمۂ افکار اسلام ہے۔‘‘۳۴؎ تین فکری اقلیموں سے اقبال کے فکری تعلق پر باربار زور دینے کے باوجود آل احمد سرور نے بھی یہ وضاحت باربار کی ہے کہ ’’اقبال کے افکار کا سرچشمہ قرآن ہے۔‘‘۳۵؎ سرور کے بقول ’’اقبال کی فکر میں وحدت ہے اگرچہ انھوں نے ہندوستانی فلسفے، مغربی افکار اور انیسویں صدی کے اہم نظریات سے واضح اثر قبول کیا مگر ان کی فکر کا سرچشمہ اسلام اور اس کی اساس قرآن ہے۔‘‘۳۶؎ ہندو قوم سمیت، اقبال کے نزدیک، مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اس نتیجے کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی انا محض ایک فریب تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اُتار دینے کا نام نجات ہے۔ انا کے پھندے سے نکلنے کے لیے ایک ہی طریق ہے اور وہ ترکِ عمل ہے۔۳۷؎ ترکِ عمل کے علاوہ ہندو اخلاقیات کا مقصد ذہنی سکون کا حصول ہے جب کہ اقبال اضطراب (نصب العین سے والہانہ لگائو) کے علمبردار ہیں اور نصب العین کے حصول کے لیے جہدوعمل کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر، خشونت سنگھ نے ہندو اخلاقیات پر تنقید اور اقبال کی تحسین کی ہے۔۳۸؎ خ…خ…خ…خ حوالے و حواشی ۱- فراق گورکھ۔پوری، ’’اقبال سے متعلق خوش فہمیاں‘‘ مشمولہ آج کل،دہلی، اقبال نمبر ۱۹۷۷ئ؛ نیز افکار کراچی، نومبر ۱۹۷۸ئ، ص۲۰، ۲۱۔ ۲،۳- جگن ناتھ آزاد،اقبال اور مغربی مفکرین، مکتبۂ عالیہ، لاہور،۱۹۸۷،ص۹، ۱۶۴۔ 4- Pyarelal Rattan, Living Tradition, Raja Publication, Khanna, India. ۵- تارا چرن رستوگی، ’’اقبال کی اُردو نظم و غزل و رباعی‘‘، مشمولہ اقبال اور اُردو نظم، مرتبہ آل احمد سرور، ص۱۱۱۔ ۶،۷- رفیق زکریا، اقبال، شاعر اور سیاست دان، انجمن ترقی اُردو (ہند) نئی دہلی، ۱۹۹۵ئ، ص۶۳،۶۵۔ ۸- سیّد مظفر حسین برنی، اقبال اور قومی یکجہتی، ہریانہ ساہتیہ اکادمی، چندی گڑھ، ۱۹۸۴ئ، ص۲۶-۳۱۔ ۹،۱۰- آل احمد سرور،دانش ور اقبال، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ئ، ص۲۷۸، ۱۹۶۔ ۱۱- جگن ناتھ آزاد، ’’شعر اقبال کا ہندوستانی پس منظر‘‘، مشمولہ اقبال اور اس کا عہد، ادارہ انیس اُردو، الٰہ آباد، بھارت، ۱۹۶۴ء ۱۲- اسلوب احمد انصاری، مطالعۂ اقبال کے چند پہلو، کاروان ادب، ملتان، ۱۹۸۶ئ، ص۱۹۔ ۱۳- جگن ناتھ آزاد ’’اقبال کی شاعری میں اختلافی پہلو‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں کہ ’’میں اقبال کے فن اور نظریے کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھتا، اقبال کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے نظریے کو فن بنا کر پیش کیا ہے اور اس فن کو ہندوستان کی متاعِ بیش بہا سمجھتا ہوں۔‘‘ ۱۴تا۱۶- مجلہ افکار، کراچی، نومبر ۱۹۷۸ئ، ص۱۹،۲۱-۲۲، ۲۲۔ ۱۷- تفصیل کے لیے دیکھیے، فلسفۂ ہند کے بنیادی تصورات، ڈاکٹر آصف اقبال خان، مشمولہ اقبالیات، جولائی ستمبر ۱۹۹۴ئ، ص۲۹،۳۱۔ ۱۸- مجلہ افکار، کراچی، نومبر ۱۹۷۸ئ، ص۲۱۔ ۱۹- کلیاتِ اقبال اُردو، ص۲۳۹۔ ۲۰- صمد حسین رضوی، ’’اقبال اور بھرتری ہری‘‘ ، مشمولہ سہ ماہی اُردو، شمارہ۴، ۱۹۷۷ئ، ص۱۵۲۔ ۲۱- اقبال کہتے ہیں: کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات! [کلیاتِ اقبال، اردو، ص۴۳۹] ۲۲- ملاحظہ کیجیے: ’’خضر راہ‘‘ کا بند جو ’’سلطنت‘‘ کے زیر عنوان ہے۔ نیز حسب ذیل شعر زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو، پھر کیا! طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی! [کلیاتِ اقبال، اردو، ص۳۷۴] ۲۳- کلیاتِ اقبال اُردو، ص۶۹۰۔ 24- Tara Charan Rastogi, Iqbal in Final Countdown, Omson Publication, Guwahati, New Dehli, 1991. p. 56. 25- Sachchidananda Sinha, Iqbal: The Poet and his Message, Ram Narainlal, Allahabad, 1947, p. 60 ۲۶- ڈاکٹر جاوید اقبال، زندہ رود، ص۹۵۔ ۲۷- سہ ماہی اُردو، شمارہ ۴، ۱۹۷۷ئ، ص۱۴۸۔ ۲۸- دیکھیے: بانگِ درا میں اقبال کی نظم ’’سوامی رام تیرتھ‘‘۔ ۲۹- جگن ناتھ آزاد کی حسب ذیل رائے صائب ہے تاہم اگر وہ ’’عقیدت‘‘ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ لکھتے تو غلط فہمی کا امکان نہ رہتا۔ جگن ناتھ لکھتے ہیں: ’’سری کرشن اور گیتا کے ساتھ علامہ اقبال کی عقیدت کا بڑا سبب یہی ہے کہ گیتا نے رہبانیت کے خلاف اور جدوجہد کی تعلیم دی ہے۔ سری کرشن کے بارے میں اگرچہ اقبال نے نظم میں کچھ نہیں کہا لیکن نثر میں جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ صاف نمایاں ہے کہ اقبال سری کرشن کے فلسفۂ جہدوعمل کے پوری طرح قائل ہیں۔‘‘ (اقبال اور مغربی مفکرین، ص۲۴ پاورقی) ۳۰- اقبال نے ایک موقعے پر کہا کہ ’’گیتا میں بڑا تضاد ہے۔ یوں بھی اس کے اکثر حصص ناقص ہیں۔ مثلاً جنگ کی تحریص تو ہے لیکن قانونِ جنگ کہیں مذکور نہیں۔‘‘ (اقبالیاتِ سید نذیر نیازی، مرتبہ عبداللہ شاہ ہاشمی، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۹۶، ص۴۵) ۳۱- عزیز احمد لکھتے ہیں کہ برگساں کے ان تمام تصورات کو اقبال نے قریب قریب بجنسہٖ بالِ جبریل کے ’’ساقی نامہ‘‘ میں دہرایا ہے۔ اقبال نے زندگی اور دورانِ خالص میں وہی رشتہ مقرر کیا ہے جو برگساں کے نظامِ فکر میں ہے اور جوششِ حرکتِ حیات کو ارتقائے تخلیقی کا محرک قرار دیا ہے۔‘‘ (اقبال نئی تشکیل، ص۲۲۲) اس مقام پر رومی اور ابن مسکویہ کے نظریاتِ ارتقا اور ابن خلدون کے تصورِ تاریخ کو نظر میں رکھنا چاہیے۔ ۳۲- جگن ناتھ آزاد، اقبال اور مغربی مفکرین، ص۹۰ ۳۳،۳۴- جگن ناتھ آزاد، اقبال: کچھ مضامین، انجمن ترقی اُردو ہند، ص۱۰۴، ۱۱۱-۱۱۲ ۳۵،۳۶- آل احمد سرور، دانشورِ اقبال، ص۱۴۴، ۱۱۵ ۳۷- دیکھیے، دیباچہ مثنوی اسرارِ خودی، مشمولہ مقالاتِ اقبال، ص۱۹۴، ۱۹۵ ۳۸- اقبال، شاعر اور سیاست دان کے تعارف میں خشونت سنگھ نے ہندو اخلاقیات کے مطابق ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے مراقبے کو فضول عمل قرار دیا ہے اور اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نزدیک کوئی بڑی تخلیق ذہنی سکون سے نہیں ذہنی اضطراب سے وجود میں آتی ہے۔ مخالف اقبال ہونے کے باوجود خوشونت سنگھ لکھتے ہیں کہ: ڈاکٹر رفیق زکریا کو یہ ثابت کرنے کی زیادہ فکر ہے کہ اقبال کو ہندوستان سے اتنی ہی محبت تھی جتنی انھیں اسلام کے ساتھ تھی۔ میرے خیال سے اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ (ہندی قوم پرست مسلمان دانشوروں کے لیے لمحۂ فکریہ!) اصل اہمیت اس پیغام میں ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنے اعلیٰ ترین مقام کے حصول کی خاطر مسلسل جدوجہد کرتا رہے اور عقاب کی طرح دوسرے سے زیادہ بلند پرواز رہے۔ عمل کے نقطۂ نظر سے اقبال کا بیان کردہ یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ ’’اگر مذہب کا مقصود عقلی تقاضوں کو پورا کرنا ہو بھی (جیسا کہ ہنود کے رشیوں اور فلسفیوں نے خیال کیا ہے) تو زمانۂ حال کی خصوصیت کے اعتبار سے اس کو نظر انداز کردینا چاہیے۔‘‘ (مکاتیبِ اقبال بنام خان نیاز الدین خان، ص۲۴) خ…خ…خ…خ حصہ۔ّ دوم- مسلم فکر اور اقبال پیشتر اس سے کہ اقبال کی فکری اساس کا حتمی تعین قرآن حکیم کی روشنی میں کیا جائے بعض غلط بیانیوں، اعتراضات اور خیال آرائیوں کا ذکر اور ان کا مختصر جائزہ ضروری ہے۔ آغاز الہلال کے ناظم اور تذکرہ کے مرتب اوّل مولوی فضل الدین مرزا کی غلط بیانی سے کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ تذکرہ کے مقدمے میں وہ لکھتے ہیں کہ: کلکتہ سے الہلال نکلا اور اِس شان سے نکلا کہ تمام ملک کی نظریں بے اختیار اس کی جانب اُٹھ گئیں… لوگ بے اختیار اپنی راہیں چھوڑ کر اسی کی راہ اختیار کرنے لگے… ڈاکٹر اقبال کا مذہبی عقائد میں پچھلا حال جو کچھ سنا ہے اس کے مقابلے میں اب ان کی فارسی مثنویاں دیکھتے ہیں تو سخت حیرت ہوتی ہے۔ اسرارخودی اور رموز بے خودی فی الحقیقت الہلال ہی کی صدائے بازگشت ہیں۔ ۱؎ الہلال ۱۹۱۲ء میں جاری ہوا تھا۔ علامہ اقبال اپنے مکتوب بنام سیّد سلیمان ندوی مورخہ ۱۰نومبر۱۹۱۹ء میں بطور شکایت لکھتے ہیں: مولانا ابوالکلام کا تذکرہ آپ کی نظر سے گزرا ہوگا۔ بہت دلچسپ کتاب ہے، مگر دیباچہ میں مولوی فضل الدین احمد لکھتے ہیں کہ اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال کی بازگشت ہیں۔ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں ان کو برابر ۱۹۰۷ء سے ظاہر کررہا ہوں، اس کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں، نظم ونثر، انگریزی و اردو موجود ہیں۔ جو غالباً مولوی صاحب کے پیش نظر نہ تھیں… میرے دل میں مولانا ابوالکلام آزاد کی بڑی عزت ہے اور ان کی تحریک سے ہمدردی، مگر کسی تحریک کی وقعت بڑھانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اوروں کی دل آزاری کی جائے۔ ۲؎ ابوالکلام علامہ اقبال کی شکایت سے آگاہ ہوئے تو سلیما ن ندوی کو جواباً لکھا کہ ’’ڈاکٹر اقبال کا شکوہ بے۔جا نہیں۔ یہ نہایت ہی لغو اور سبک بات ہے کہ فلاں نے فلاں بات فلاں کے اثر سے لکھی اور فلاں کے خیال میں یوں تبدیلی ہوئی لیکن لوگوں کا پیمانۂ نظر یہی باتیں ہیں تو کیا کیا جائے۔‘‘ اس طرح ابوالکلام نے مولوی فضل الدین کے بیان کی تردید کردی لیکن اپنے جواب کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’لطف یہ ہے کہ اس مرتبہ جب وہ جلسے کے موقعے پر آئے اور میں نے پوچھا کہ اقبال کی نسبت آپ نے کیونکر تبدیلی معلوم کی تو خود میرے ہی ایک قول کا حوالہ دیا جو کبھی کہا تھا حالانکہ میں نے یہ جو بات کہی تھی وہ صرف یہ تھی کہ اقبال پہلے آج کل کے عامتہ النّاس تصوف میں مبتلا تھے۔ اب ان کے خیالات اس طرف سے ہٹ گئے اور دونوں مثنویوں میں جو بات ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ وہی ہے جو میں ہمیشہ لکھتا رہا ہوں۔ ۳؎ جو ’’لغو‘‘ اور ’’سبک‘‘ بات بقول ابوالکلام مولوی فضل الدین نے لکھی، اس کا ارتکاب، باندازِ دگرخود انھوں نے بھی کیا۔ یورپ جانے سے پہلے اقبال عامتہ النّاس تصوف میں مبتلا تھے۔ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو کیمبرج سے لکھے گئے اقبال کے خط بنام خواجہ حسن نظامی سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال روایتی تصوف اور وحدت الوجود کی چھان پھٹک قرآن کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں۔ ۴؎ یہاں سے ان کے شک کا آغاز ہوگیا۔ اگرچہ اس کے بعد قیامِ یورپ کے دوران اقبال کی بعض منظومات سے ’’وحدتِ حسن وجود‘‘ کا اظہار ہوتا ہے ۵؎ جو بہرحال عامتہ النّاس کی سطح سے بلندتر ہے لیکن اس کے بعد وحدت الوجودی تصوف کی حمایت کلامِ اقبال میں دکھائی نہیں دیتی۔ ۱۹۰۵ء میں ابوالکلام سترہ برس کے تھے اور ان کی کوئی معرکہآرا تحریر یا کتاب سامنے نہیں آئی تھی جو فکراقبال میں تبدیلی کا باعث بن سکتی اور قیامِ یورپ کے دوران وہ ابوالکلام کی تحریروں کی دسترس سے باہر تھے۔ الہلال کے ضمن میں دوسرے اہلِ قلم نے بھی اظہارِخیال کیا ہے اور عتیق صدیقی کو تو مولوی فضل۔الدین ہی کی طرح اقبال کی نظموں میں الہلال کی ’’صدائے بازگشت‘‘ سنائی دی ہے۔ ۶؎ اس معاملے کا جائزہ لیں تو صورتِ حال برعکس دکھائی دیتی ہے۔ جس غزل سے اقبال کی فکری تبدیلی کی توثیق ہوتی ہے وہ مارچ ۱۹۰۷ء میں مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ ۷؎ اس سے پہلے اقبال ہندی قومیت کو ترک کرکے اسلامی قومیت کے نقیب بن چکے تھے۔ ۸؎ ’’طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام‘‘ جون ۱۹۰۷ء ، ’’صقلیّہ‘‘ اگست ۱۹۰۸ء اور ’’پیامِ مشرق‘‘ اکتوبر ۱۹۰۸ء کی نظمیں ہیں۔ ۹؎ ’’عبدالقادر کے نام‘‘ دسمبر ۱۹۰۸ء میں مخزن میں شائع ہوئی۔ ۰ا؎ ’’وطنیت‘‘ اور ’’ترانۂ ملی‘‘ ۱۹۱۰ء کی منظومات ہیں۔ ۱۹۱۱ء کے اوائل میں اقبال نے ’’خطبۂ علی گڑھ‘‘ پیش کیا۔ ’’شمع وشاعر‘‘ کے عنوان کے ساتھ فروری ۱۹۱۲ء کی تاریخ درج ہے۔ اس سے پہلے ’’شکوہ‘‘۔ خطاب بہ جوانانِ اسلام‘‘ اور ’’غرّۂ شوال یا ہلالِ عید‘‘ تخلیق ہوچکی تھیں۔ اسلامی فکر کے اس سرمائے کا کثیر حصہ منظرعام پر آنے کے بعد جون ۱۹۱۲ء میں کلکتے سے الہلال جاری ہوا۔ ۱ا؎ پروفیسر جابر علی سیّد نے اپنے مضمون ’’مثنویاتِ اقبال اور الہلال‘‘ مشمولہ اقبال ایک مطالعہ میں ابوالکلام آزاد، تذکرہ کے مرتب اوّل مولوی فضل الدین اور مرتب دوم مالک رام کی ان غلط بیانیوں کی، خوب خبرلی ہے۔ انھوں نے یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ ’’کیا کوئی مالک رام الہلال کے کسی اداریے کی منظوم فارسی شکل ’’اسرار‘‘ یا ’’رموز‘‘ کے کسی باب کو ٹھہرا سکے گا؟‘‘ لیکن جابر علی کلامِ اقبال کی زمانی ترتیب اور اقبالیات پر اچھی نظر نہ ہونے کے باعث خود بھی غلط فہمی اور غلط بیانی کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اسرارخودی کا خمیر نطشے اور زرتشت [کی فکر] سے اُٹھایا گیا ہے۔ ۲ا؎ ان کی رائے ہے کہ ’’خضر راہ غالباً ۱۹۱۴ء کی چیز ہے۔ اس کے فوراً بعد مثنوی اسرارخودی کا ڈول ڈالا گیا۔ ۳ا؎ اقبال پر قلم اُٹھانے والوں کی یہ بے خبری افسوس ناک ہے۔ پروفیسر جابرعلی سیّد نے ای ایم فاسٹر کی یاد تازہ کردی ہے۔ ۴ا؎ ۲ اقبال کے فکری مآخذ کے ضمن میں الطاف حسین حالی، اکبر الٰہ آبادی، سیّد احمد خان اور مرزاغالب کے نام بھی اکثر لیے گئے ہیں۔ آل احمد سرور لکھتے ہیں کہ ’’اقبال دراصل سرسیّد تحریک کی پیداوار ہیں‘‘۔ نیز ’’سرسیّد اور حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔ ۵ا؎ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ ’’اقبال سرسیّد کے مکتبۂفکرسے تعلق رکھتے تھے۔‘‘ ۶ا؎ محیالدین قادری زور نے لکھا ہے کہ ’’ وہ حالی سے مسلمانوں کے موجودہ مصائب کو بیان کرنا سیکھتا ہے اور اکبر سے قدیم روایاتِ اسلامی کو نہ چھوڑنے اور نئی تہذیب کو مضر سمجھنے کے خیالات اخذکرتا ہے۔ اکبر تہذیبِ نو کے مخالف تھے،حالی اس کے مخالف نہیں۔ اقبال نے ایک حالی سے لی اور ایک اکبر سے۔‘‘ ۷ا؎ جمیلمظہری لکھتے ہیں ’’سچ پوچھیے تو اقبال کے ذہن کا پہلا معمار غالب تھا نہ نیٹشے اور رومی۔‘‘ ۸ا؎ یہ آراء معترضانہ نہیں ہیں۔ صداقت کے عنصر سے خالی بھی نہیں ہیں۔ ان سے ملتی جلتی آراء دوسرے اہلِ قلم نے بھی پیش کی ہیں۔ ۹ا؎ لیکنیہ پوری حقیقت کی آئینہ دار نہیں ہیں اور نہ اقبال کے حقیقی وجدان تک پہنچنے میں پوری راہنمائی کرتی ہیں۔ اقبال کے مطالعہ واستفادہ اور اثرپذیری کی حدود سرسیّد کے مکتبۂ فکر تک محدودبھی نہیں ہیں۔ اقبال نے اسلامی تاریخ کے بیشتر علما، حکما، شعرا اور صوفیا کے اثرات قبول کیے ہیں۔ جمال الدین افغانی کی رائے سرسیّد کے بارے میں اچھی نہیں تھی۔ وہ سرسیّد کو مادّہ پرست سمجھتے تھے۔ ۲۰؎ تاہم اقبال افغانی سے بھی متاثر ہوئے اور جاوید نامہ میں سیّد احمد خان کی بجائے جمال الدین افغانی کو جگہ دی ___ اس سے قطع نظر افغانی کے بارے میں اقبال کی رائے یہ تھی کہ ’’زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصروایران وترکی وہندکے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبدالوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔‘‘۲۱؎ جاوید نامہ میں سیّدحلیم پاشا، حلّاج، غالب، سیّدعلی ہمدانی، ملاطاہر غنی کشمیری، ابدالی اور سلطان شہید کی موجودگی اقبال کے تاثرات و تناظرات کی مظہر ہے۔ سلطان شہید کو شہیدانِ محبت کا امام کہا ہے اور ٹیپو کے کردار سے اپنی شمعِ فکر کو جلا دی ہے۔۲۲؎ اقبال شاہ ولی اللہ اور شیخ احمد سرہندی کے سرمایۂ فکر کے وارث ہیں۔ ابن خلدون، ابن تیمیہ، البیرونی، الغزالی، ابن سینا، ابن مسکویہ اور دوسرے متعدد علما وحکما سے بھی استفادہ کیا۔ حافظ، سنائی، عطار، امیرخسرو، عرفی، نظیری، بابا طاہر عریاں، سعدی، عراقی، جامی اور بیدل سے بھی اقبال متاثر ہوئے۔ ۲۳؎ مولانا رومی کے علامہ اقبال پکے مرید ہیں۔ ۲۴؎ سرسیّد جدید کی اور رومی قدیم کی علامت ہیں لیکن اقبال کا تصورِزمان انھیں ماضی، حال اور مستقبل کے خانوں میں بٹنے نہیں دیتا اور وہ کسی ایک فکری تحریک تک خود کو محدود نہیں کرتے۔ اقبال کی فکری تشکیل کے وقت جدید اور قدیم کی آویزش عروج پرتھی۔ یہ آویزش ابھی جاری ہے۔ سرسیّدنے مغرب کے نظامِ تعلیم کو فروغ دیا۔ وہ مغربی تہذیب کے غیرمشروط حامی بھی تھے۔ اقبال نے خطبۂ علی گڑھ [۱۹۱۱ئ] میں دونوں رویوںپر تنقید کی اور اس ضمن میں اکبر الٰہ آبادی کی تحسین کی۔ ۲۵؎ سرسیّد جدید کے جبکہ اکبر قدیم کے حامی تھے۔ اقبال نے قصہ جدیدوقدیم کو تنگ نظری قرار دیا۔ انھوں نے توازن کی راہ اختیار کی۔ وہ نہ سرسیّد کی طرح مغربی تہذیب سے مسحور ہوئے اور نہ اکبر کی طرح مغرب کی ہرچیز کو ہدفِ تنقید بنایا۔ اقبال مغرب کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ تاہم اس کی خوبیوں کی تحسین بھی کی ہے۔ یہ کہنا کہ سرسیّد اور حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے، سلسلۂ اسباب کے تناظرات کا جزوی اور سطحی اظہارہے۔ وجدان ویقین کا جو سرچشمہ رومی، ابن خلدون، شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، اور جمال الدین افغانی کو منصہ شہود پر لاتا ہے وہی علامہ اقبال کی وجدانی وفکری سربلندیوں کا ضامن ہے۔ اقبال کی فکری اساس کا حتمی تعین کرنے کے لیے ان ذرائع اور مواقع پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے جو قدرت کا عطیہ ہیں اور جنھوں نے اقبال کو اقبال بننے میں مدد دی۔ اقبال جس جس ماحول سے گذرے اور جوجو حالات و واقعات ان کی فکری تشکیل کے دوران رونما ہوئے، انھیں بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اقبال کے شعوروایقان یعنی وجدان کا سراغ لگایاجائے۔ یہ وجدان ایک وحدت اور کلیّت کی شکل میں ہے۔ اسی وجدان کی روشنی میں اقبال مغرب ومشرق کے فکری رجحانات اور قدیم وجدید فکری نظاموں کو پرکھتے ہیں۔ اسی وجدان میں یہ راز مضمر ہے کہ اقبال نے وطنی قومیّت اور وحدت۔الوجود کے تصورات کیوں ترک کردیے۔ حافظ اور ابن عربی سے استفادے کے باوجود ان کی مخالفت کیوں کی؟ اسی طرح مغربی دانش سے مستفید ہونے کے باوجود اسے عذاب کیوں قرار دیا؟ مغرب، تصوف، جمہوریت اور اشتراکیت کے ضمن میں ان کا رویہ کشش وگریز کا حامل کیوں ہے؟ جب ہم اقبال کے حقیقی وجدان تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں تو نہ صرف ان مسائل کا واضح حل ہمارے سامنے آجاتا ہے بلکہ علامہ اقبال کی فکری اساس کا تعین واضح حقائق وشواہد کی روشنی میں ممکن ہوجاتا ہے۔ ۳ اقبال ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور روایتی مسلمان معاشرے میں پروان چڑھے۔ والدین دیندار تھے۔ والد صوفی منش بھی تھے۔ سیالکوٹ میں انھیں سیّد میرحسن جیسے جید اور وسیع النظر عالم اور عربی وفارسی ادبیات پر دسترس رکھنے والے استاد سے ایک عرصے تک استفادے کا موقع ملا۔ لاہور کے مشاعروں نے اقبال کی شاعری کو چمکایا۔ ان کی ضرورت پوری ہونے کے بعد مشاعرے بند ہوگئے اور مخزن جاری ہوگیا جس میں کلامِ اقبال شائع ہوتا تھا۔ اس سے انھیں ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی۔ زبان وبیان پر اعتراضات ومباحث کے سلسلے نے انھیں فن کے اسرار سمجھنے میں مدد دی۔ پروفیسر آرنلڈ سے فلسفے کی تحصیل نے اقبال پر مغربی فکر کا در وا کیا اور یورپ کے سہ۔سالہ قیام کے دوران انھوں نے مغربی دانش اور تہذیب سے گہری واقفیت حاصل کی۔ اسی دوران اقبال فکری انقلاب سے دوچار ہوئے جس کی صحیح تفہیم اقبال کے وجدان تک پہنچنے تک مدد دے سکتی ہے۔ ۱۹۰۵ء تک، چند برسوں کے دوران، اقبال نے اسلام سے وابستگی رکھنے کے باوجود ایسی نطمیں کہی تھیں جو ہندی قومیت کی آئینہ دار اور اس کے فروغ کا باعث تھیں۔ وطنی قومیت (Nationalism) کا تصور مغرب میں پروان چڑھا اور اب سکّہ رائج الوقت تھا۔ ۱۹۰۵ء میں لارڈ کرزن نے انتظامی بنیاد پر بنگال کی تقسیم کرکے مشرقی بنگال اور آسام کا ایک صوبہ بنادیا جہاں مسلمان اکثریت میں تھے۔ بنگالی ہندووں نے مسلمانوں کو اپنے اقتصادی، سیاسی اور تمدنی غلبے سے نکلتے ہوئے دیکھا تو احتجاجاً بڑے بڑے جلوسوں کے ذریعے تقسیم بنگال کے خلاف تحریک شروع کردی۔ دہشت گردی کا لاوا پھوٹ پڑا اور اسے کل ہند مسئلہ بنا دیا۔ ۲۶؎ ’’ترانۂ ہندی‘‘ اور ’’نیا شوالہ‘‘ لکھنے والے اقبال کی آنکھیں کھل گئیں۔ دوسری طرف یورپی لٹریچر کے مطالعے سے اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ یورپی اقوام، دنیائے اسلام میں وطنی قومیت کو فروغ دے کر اُمتِ مسلمہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں۔ اقبال میں اسلامی حس موجود تھی۔ وہ شرر سے شعلہ بن گئی۔ ہندوئوں اورفرنگیوں کی مسلم دشمنی نے اقبال کے اندر کے مسلمان کو بیدار کردیا۔ ملی وعالمی تناظرات میں اسلامی حقائق نے اقبال کی آنکھیں کھول دیں اور سینے کو منور کردیا۔ پہلا بت جس پر اقبال نے ضرب لگانی شروع کی وہ وطنی قومیت کا تھا جس کا ایک مظہر ہندی قومیت تھی۔ انھوں نے ۱۹۰۶ء کے اواخر یا ۱۹۰۷ء کے اوائل میں کہا: نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیںہے۲۷؎ اور جلد ہی وہ غزل کہی جس پر ’’مارچ ۱۹۰۷ئ‘‘ درج ہے۔ ہندی قوم پرست اور مغربی تصورِ قومیت کا علم۔بردار اقبال اب اسلامی نشاۃِ ثانیہ کا مفکر شاعر بن چکا تھا۔ اقبال کا ردِّعمل بیک وقت ہندووں اور فرنگیوں کے خلاف تھا۔ ملتِ اسلامیہ کی بیداری ان کا مطمحِ نظر بن گئی تھی۔ اسرارورموز سے پہلے ’’شمع اور شاعر‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ جیسی نظموں سے اقبال نے نہ صرف مسلمانوں کو ذلّت وخواری کا احساس دلایا بلکہ اس حالت سے نکلنے کی تدابیر بھی واضح کیں۔ ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے صرف ایک شعر سے اقبال کے وجدان تک رسائی ممکن ہے۔ اقبال اللہ کی زبان سے اسلام کی عزت اور موجودہ مسلمانوں کی خواری کی داستان دو مصرعوں میں اس طرح بیان کرتے ہیں: وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر یہ مسلمان ہونا ہی تصورِ خودی ہے۔ ’’جوابِ شکوہ‘‘ ___ ’’شمع اور شاعر‘‘___ اور ’’طلوع اسلام‘‘کا ہر شعر اقبال کے شعور و ایقان کی نشان۔دہی کرتا ہے: آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے حنا بند عروس لالہ ہے خونِ جگر تیرا تری نسبت براہیمی ہے معمارِ جہاں تو ہے جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا ۴ قرآن حکیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اقبال کا لگائو واجبی نوعیت کا نہیں تھا خصوصی اور قلبی نوعیت کا تھا۔ اقبال کے والدین دیندار تھے۔ سیّدمیر حسن ان کے استاد دیندار بھی تھے اور عالم دین بھی۔ یہ بھی ایک بڑا سبب ہے اقبال کے اعتقاد اور یقین کا۔ علامہ اقبال نے سیّد سلیمان ندوی کو اپنی ابتدائی زندگی کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہاکہ ’’جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اُٹھ کر روزانہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ والد مرحوم اپنے اوراد ووظائف سے فرصت پاکر آتے اور مجھ کو دیکھ کر گزر جاتے۔ ایک دن صبح وہ میرے پاس سے گذرے تو مسکرا کر فرمایا کہ کبھی فرصت ملے تو میں تم کو ایک بات بتائوں گا۔ میں دوچار بار بتانے کا تقاضا کیا تو فرمایا، جب امتحان دے لو گے تب۔ جب امتحان دے چکا اور لاہور سے گھر آیا تو فرمایا، جب پاس ہوجائو گے تب۔ جب پاس ہوگیا اور پوچھا تو فرمایا بتائوں گا۔ ایک دن صبح حسبِ معمول قرآن کی تلاوت کررہا تھا تو میرے پاس آگئے اور فرمایا ’’بیٹا کہنا یہ تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم ہی پر اُترا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم ہی سے ہم کلام ہے۔‘‘ ان کا یہ فقرہ میرے دل میں اُتر گیا۔ اس کی لذّت دل میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔‘‘ اقبال نے سلیمان ندوی کو یہ بھی بتایا کہ والد نے ایک اور موقعے پر مجھ سے کہا کہ ’’بیٹا اسلام کی خدمت کرنا‘‘۔ یہ واقعات بیان کرکے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ ’’علامہ اقبال نے ہمیشہ قرآن حکیم کی جانب اسی ذوق و شوق اور انہماک و استغراق کے ساتھ رجوع کیا، جیسے یہ صحیفہ خود ان پر نازل ہوا ہو۔ اس خیال کو انھوں نے اپنے اشعار میں بھی پیش کیا ہے۔ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف ۲۸؎ عربی پر اقبال کی دسترس تھی، اس لیے رازی اور صاحبکشّاف سے استفادے کے باوجود اقبال قرآن حکیم کو بلاواسطہ سمجھتے تھے اور اس پر غور کرتے تھے۔ ۱۹۲۹ء میں علی گڑھ کالج کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے اقبال نے کہا کہ ’’گذشتہ بیس برس سے قرآن شریف کا بغور مطالعہ کرتا ہوں، ہرروز تلاوت کرتا ہوں، مگر میں ابھی یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ اس کے کچھ حصوں کو سمجھ گیا ہوں۔ ۲۹؎ اگلے برس خطبۂ الٰہ۔آباد کے دوران کہا کہ ’’میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام، اس کے قوانین، اس کے نظامِ سیاست، اس کی ثقافت، اس کی تاریخ اور اس کے ادب کے محتاط مطالعے میں صرف کیا ہے۔ روحِ اسلام کے ساتھ اس پیہم رابطے نے جیسا کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے پرت پلٹتا رہتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ایک عالمی حقیقت کے طور پر اس کی اہمیت کے بارے میں مجھے ایک طرح کی بصیرت عطا کردی ہے۔‘‘ ۳۰؎ پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اقبال کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ’’میری زندگی کا بیشتر حصہ مغربی فلسفے کا مطالے میں صرف ہوا اور یہ نقطۂ نگاہ میری فطرتِ ثانیہ بن گیا ہے۔ شعوری یا غیرشعوری طور پر میں اسلام کے حقائق اور صداقتوں کا مطالعہ اسی نقطۂ نگاہ سے کرتا ہوں۔‘‘ اور اس پر زور دیا ہے کہ مغربی فلسفے کے مطالعے سے اقبال کا جو زاویۂ نگاہ اسلام کے حقائق اور صداقتوں کی توثیق کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عصرحاضر کی ذہنی وفکری رسائی جہاں تک ہوئی ہے، اس حوالے سے اسلام کے حقائق اور صداقتوں کا انکشاف خود اقبال نے کیا۔ یہی بات ڈاکٹر اسرار احمد نے اس طرح بیان کی ہے: میں نے ہمیشہ کہا اور علی وجہ البصیرت کہا اور آج پھر کہ رہا ہوں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہ رہا ہوں کہ عہدِحاضر کے ذہنی۔وفکری ظروف واحوال میں قرآنِ حکیم کی عظمت کا جس قدر انکشاف اقبال پر ہوا اور کسی پر نہیں ہوا ___ اور موجودہ دور کی اعلیٰ ترین علمی وفکری سطح پر قرآن کے علم وحکمت اور ہدایت ومعرفت کی تعبیروتعین اور تشریح وتوضیح کی ہے، صرف اور صرف اقبال نے۔ ۳۲؎ اقبال عاشق رسول ہیں۔ وجدانِ اقبال کا یہ پہلو نہایت تابناک ہے۔ اسرارخودی میں اس عنوان کے تحت کہ خودی عشق و محبت سے مستحکم ہوتی ہے، اقبال کہتے ہیں: در دلِ مسلم مقامِ مصطفی۔ؐ است آبروئے ما ز نامِ مصطفی۔ؐ است یعنی مصطفی ا کا مقام مسلمان کے دل میں ہے اور انھی کے نام سے ہماری آبرو ہے۔ پیام مشرق میں ’’پیش کش‘‘ کے زیر عنوان کہا ہے: ہر کہ عشقِ مصطفی۔ؐ سامانِ اوست بحر و بر گوشۂ دامانِ اوست مطلب یہ کہ جس کے پاس جناب رسالت مآب ا کی محبت کا سامان ہے بحروبر اس کے دامن کے گوشے میں ہیں۔ رموز بے خودی میں ’’عرض حالِ مصنف بحضور رحمۃ للعٰلمین‘‘ کے تحت اس ذکر کے بعد کہ حضورا آپ مجھے میرے ماں باپ سے زیادہ محبوب ہیں، اقبال کہتے ہیں: گفت برما بندد افسون فرنگ ہست غوغایش ز قانونِ فرنگ ذوق حق دہ ایں خطا اندیش را اینکہ نشناسد متاعِ خویش را گردلم آئینہِ بے جوہر است ور بحرفم غیرِ قرآں مضمر است روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پاکن مرا گر دُرِ اسرار قرآں سفتہ ام با مسلماناں اگر حق گفتہ ام اے کہ از احسانِ تو ناکس کس است یک دعایت مزدِ گفتارم بس است یعنی ’’اُس شخص نے کہا کہ اقبال ہم پر فرنگیوں کا افسوں پھونک رہا ہے۔ اس کا سارا غوغا سازِ فرنگ کا مرہونِ منت ہے۔ ایسے غلط اندیش کو جو اپنی متاع کو بھی نہیں پہچانتا سچائی کا ذوق عطا کیجیے۔ اگر میرے دل کا آئینہ بے جوہر ہے اور میرے کلام میں قرآن کے علاوہ کچھ اور مضمر ہے تو مجھے قیامت کے روز رسوا کیجیے اور اپنے بوسۂ پا سے محروم کر دیجیے۔ لیکن اگر میں نے اپنی شاعری میں قرآن کے موتی پروئے ہیں اور مسلمانوں کے سامنے حق بیان کیا ہے تو اے وہ ذاتِ گرامی جس کے احسان سے ذرّہ آفتاب بن جاتا ہے، میرے لیے دعا فرمایے۔ آپ کی ایک دعا میرے پورے کام کا اجر ہوگا۔‘‘ گہری عقیدت کے پیکر عاشق رسول اقبال کا اپنی محبوب ترین ہستی کے سامنے یہ اظہار کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ ۵ قرآن کی صداقت کا گہرا شعور اقبال کے ایقان کا مرکزی نقطہ ہے۔ قرآن کی عملی شکل اُسوۂ رسول ہے۔ جس ہستی پر قرآن نازل ہوا وہی ہستی خدا کو متعارف کرانے کا اعزاز رکھتی ہے۔ چنانچہ صداقت ومحبتِ رسول بھی وجدانِ اقبال کے اعماق میں ناگزیر طور پر موجود ہے اور اس کا اظہار بے مثل اشعار کی صورت میں ہوا ہے۔ ۳۳؎ اقبال نے قرآن کی خاطر اپنے آبائی رجحانات کے خلاف جہاد کیا۔ ۳۴؎ اقبال نے اعتراضات اور مخالفت کے باوجود ان تصورات کو فروغ دیا جو قرآنی تعلیمات کا جز تھے۔ جہاد اور پردے کے تصورات ان میں شامل ہیں۔ ۳۵؎ غلبۂ مغرب کے باعث اسلامی اصطلاحات حقیر ہوچکی تھیں، اقبال نے انھیں وقار عطا کیا۔ ۳۶؎ سچ یہ ہے کہ اکثر غیرمسلم معترضین کا اصل اعتراض ہی یہ ہے کہ اقبال کی شاعری پر اسلام کا غلبہ ہے۔ ۳۷؎ اقبال فی الواقع جمال وجلالِ قرآنی کا مشاہدہ اپنے قلب کی گہرائیوں سے کرتے ہیں اور بقول ڈاکٹر اسرار احمد ان کی حیثیت فی الواقع ترجمان القرآن کی ہے۔ ۳۸؎ قرآن و حدیث کے نقوش اور اسلامی تناظرات کلامِ اقبال میں قدم قدم پر نمایاں ہیں۔ ۳۹؎ اقبال اکثر قرآنی مضمون یا کسی آیت کے ترجمے کو شعری پیکر میں پیش کردیتے ہیں۔ ۴۰؎ اقبال نے سب سے زیادہ قرآن کو پڑھا ہے اور سب سے زیادہ استفادہ قرآن سے کیا ہے۔ ملت کے عناصر توحید ورسالت بتائے ہیں اور خودی کی بنیاد قرآنی آیات پر رکھی ہے۔ ۴۱؎ مومن کے تصور کو اللہ کی صفات اور شخصیتِ رسول ا کی روشنی میں اُجاگر کیا ہے۔ ۴۲؎ اس ضمن میں ممتاز رسولوں، حضورا کے نامور صحابیوں اور اکابرین اُمت کے تناظرات سے بھی کام لیا ہے۔ ۴۳؎ موسیٰ ں اور فرعون میں مشابہت تلاش کی جاسکتی ہے کہ دونوں انسان تھے۔ تاہم فرعون نیٹشے کا فوق البشر ہے جبکہ حضرت موسیٰ ں اقبال کے مردِ مومن اور دونوں کے اخلاق، اوصاف، کردار اور مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اقبال نے اس فرق کو ’’حکمتِ کلیمی‘‘ اور ’’حکمتِ فرعونی‘‘ کے تحت واضح کیا ہے۔ ۴۴؎ چنانچہ مسلمان اقبال شناسوں کے علاوہ غیرمسلم صاحبانِ علم نے اس حقیقت کی تصدیق و توثیق کی ہے کہ اقبال کی فکری اساس قرآن ہے۔ ۴۶؎ اقبال کا اپنا دعویٰ بھی یہی ہے۔ ۴۷؎ مخصوص مقاصد کے تحت فکراقبال کو مستعار قرار دیا گیا۔ غلط فہمی کا شکار اور کم علم اسے ہوا دیتے رہے اور اقبال دشمنوں نے اسے تکیۂ کلام بنالیا۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے بقول ’’یہ لوگ اس بات کو نظرانداز کرجاتے ہیں کہ تمام حکیمانہ افکار کسی نہ کسی تصورِ حقیقت کے اجزاوعناصر ہوتے ہیں، اس کی تشریح اور تفسیر کرتے ہیں اور اس کے اردگرد ایک نظامِ حکمت بناتے ہیں۔ اقبال کا تصورِ حقیقت اسلام کا خدا ہے جس کے لیے وہ خودی عالم کی فلسفیانہ اصطلاح کام میں لاتا ہے اور مغرب میں ایک بھی فلسفی ایسا نہیں جس کا تصورِ حقیقت اسلام کا خدا ہو، لہٰذا ممکن ہی نہیں کہ کسی مغربی حکیم کا کوئی تصور اپنی اصلی حالت میں اقبال کے کام آسکے۔۴۸؎ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے، اس تناظر میں، اقبال کی فکری اساس پر عمیق نگاہ ڈالی ہے اور اسے فلسفیانہ ہنرمندی سے پیش کیا ہے۔ ان سے استفادہ کرتے ہوئے ذیل کی سطور میں اقبال کے حقیقی وجدان اور تصورِ حقیقت کا سراغ لگانے کی سعی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو جبلتیں عطا کی ہیں وہ کم وبیش حیوانات میں بھی ہیں۔ جبلتّوں کی تسکین سے بالاتر حیوانات کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ انسان کامقصد بھی جبلت کی تسکین ہوتو وہ حیوانات کی سطح پر رہتا ہے اور بسااوقات اس سطح سے نیچے گرجاتا ہے۔ تاہم انسان کا مقصد یا نصب العین جبلتّوں کی تسکین سے بالاتر بھی ہوتا ہے اور انسان کو اپنے نصب العین سے محبت ہوتی ہے۔ نصب العین سے محبت اور اس کی آرزو انسان کا امتیاز ہے۔ وہ اپنے نصب العین کی خاطر جبلتّوں کی تسکین کو مؤخر یا ترک کرسکتا ہے۔ حیوانات ایسا نہیں کرسکتے۔ انسان کا اصل مقصد یا صحیح نصب العین تو ایک ہی ہے لیکن غلط نصب العین بے۔شمار ہیں۔ انسان لاتعداد پرستشوں میںمبتلا ہیں۔ زرپرستی، نسل پرستی، وطن پرستی، جاہ پرستی، جنس پرستی اور مادّہ پرستی کی دوسری تمام شکلیں ماسوا کی پرستش میں آتی ہیں۔ انسانوںنے قسم قسم کے ’’خداوند‘‘ یا بت بنائے ہوئے ہیں بلکہ بت خانے قائم کررکھے ہیں لیکن یہ اصنام خاکی لہٰذا فانی ہیں: تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی۴۹؎ انسان ’’کفِ خاک‘‘ ہے لیکن خودنگر ہے، مادّی دنیا بھی ’’کفِ خاک‘‘ ہے لیکن بے بصر ہے۔ ۵۰؎ چنانچہ ’’مادّہ‘‘ انسان کا نصب العین نہیں ہوسکتا۔ انسان کا صحیح نصب العین انسان سے بلندتر ہونا چاہیے۔ انسان کا صحیح نصب العین وہی ہوسکتا ہے جو کائنات کا اور خود انسان کا خالق ومالک ہو، جو قادرِ مطلق ہو، غالب و مددگار ہو، ہمہ دان اور لامحدود ہو، ازلی اور ابدی طور پر زندہ ہو، زمان ومکان پر محیط ہو اور ہر لحاظ سے یکتا ہو۔ یہ صفات صرف اللہ کی ہیں، اس لیے اللہ ہی انسان کا صحیح نصب العین ہے۔ صحیح نصب العین انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ انسانی خودی کا مرکزی وصف خدا کی محبت ہے۔ اس محبت کے بغیر انسان مردہ ہے۔ ارتقا کا دارومدار اسی محبت پر ہے۔ ۵۱؎ اللہ یکتا ترین ہستی ہے۔ اس کی صفات بہترین صفات ہیں۔ ان صفات کو جذب کرکے انسان اپنی خودی کو مستحکم بناتا ہے اور نائب حق کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ یکتا ترین ہستی کا رنگ اختیار کرکے وہ خود بھی یکتا ہوجاتا ہے۔ ۵۲؎ یہ ہے اقبال کا شعور و ایقان یا وجدان۔ مولانا رومی کا وجدان بھی کم وبیش یہی تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح فتنۂ عصر کہن کامقابلہ رومی نے کیا تھا، اسی طرح فتنۂ عصر رواں سے میں نبرد آزما ہوں: چوں رومی در حرم دادم اذان من ازو آموختم اسرارِ جان من بہ۔دور فتنۂ عصرِ کہن او بہ۔دور فتنۂ عصر روان من ۵۳؎ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اقبال بقول پروفیسر نکلسن وحدت الوجود کے نظریے کی اُڑانوں میں رومی کا ساتھ نہیں دیتے۔ ۵۴؎ نیز اقبال کے عہد تک طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات میں علمی حقائق نے حیرت۔ناک ترقی کرلی تھی۔ ان معلوم حقائق کو اقبال اپنے تصورِ حقیقت کی وضاحت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اقبال عصرحاضرکے مادّہ پرستانہ اور ملحدانہ فکر کا توڑ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین لکھتے ہیں کہ ’’حکماے مغرب کے تصورات سے متاثر اور مرعوب ہونا تو درکنار اقبال ان تصورات کو اپنے وجدانِ حقیقت کی روشنی میں پرکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کہاں تک درست ہے اور کہاں تک غلط، جس حد تک کوئی تصور درست ہوتا ہے وہ اسے اپنے حکیمانہ موقف کی تشریح اور تفسیر کے لیے کام میں لاتا ہے اور جس حد تک وہ غلط ہوتا ہے وہ اسے نظرانداز کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف تنبیہ کرتا ہے۔ حکمتِ مغرب کا طلسم اس پر کام نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ حکمتِ مغرب میں دانہ بھی ہے اور دام بھی ہے اور وہ دانہ کو لے لیتا ہے اور دام کو توڑ ڈالتا ہے، اس طرح سے حکمتِ مغرب کی آگ اس کے لیے گلزارِ ابراہیم بن جاتی ہے: طلسمِ عصرِ حاضر را شکستم ربودم دانہ و دامش گستسم خدا داند کہ مانندِ براہیم بہ نارِ او چہ بے پروا نشستم ۵۵؎ پروفیسر اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں کہ اقبال کے بنیادی معتقدات اور زندگی و اشیا کے بارے میں ان کے ایقانات (intuitions) اور ان کا منبع اور مخزن اسلامی وجدانِ حیات تھے اور ان کی فطانت میں اس کی جڑیں اتنی دور تک پیوست تھیں کہ انھیں اس فطانت سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔۵۶؎ مختصر یہ کہ فکراقبال کی اساس قرآنِ حکیم ہے۔ خ…خ…خ…خ حوالے ۱- جابر علی سیّد، اقبال ایک مطالعہ، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص۱۴۲،۱۴۳۔ ۲- مظفر برنی،کلیاتِ مکاتیب اقبال، اُردو اکادمی، دہلی، ۱۹۹۸ئ، جلد دوم، ص۱۴۸۔ ۳- جابر علی سیّد، محولہ ما قبل، ص۱۴۶۔ ۴- مظفر برنی، محولہ ما قبل جلد اوّل، ص۱۰۸۔ ۵- بانگ درا میں نظم بعنوان ’’سلمیٰ‘‘ اور صفحہ۱۴۷ پر غزل کا پہلا مصرع ہے: ’’چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں‘‘۔اس سے پہلے اقبال نے ’’سوامی رام تیرتھ‘‘ کے زیرعنوان وحدت الوجودی اثر کے تحت ایک نظم لکھی تھی۔ ۶- عتیق صدیقی، اقبال جادوگر،ہندی نژاد، مکتبۂ جامعہ، دہلی، ۱۹۸۰ئ، ص۶۴۔عتیق صدیقی نے لکھا ہے کہ فاطمہ بنتِ عبداللہ کی شہادت اور طرابلس کے قتلِ عام کی رپورٹیں الہلال میں شائع ہوئی تھیں جو اقبال کی دو نظموں بعنوان ’’فاطمہ بنتِ عبداللہ‘‘ اور ’’حضور رسالت مآب میں‘‘ کی تخلیق کا باعث بنیں۔ اس پر تبصرے کا صحیح انداز یہ ہوتا کہ اقبال نے الہلال کی رپورٹوں سے استفادہ کیا یا ان کو ان واقعات کا علم الہلال کے مطالعے سے ہوا۔ ۷تا۱۰- گیان چند جین، ابتدائی کلام اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۴ئ، ص۲۹۷،۳۱۱،۳۱۲،۳۳۰،۳۳۱،۳۳۴۔ ۱۱- شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۲۰۰۵، ص۲۵۵۔ ۱۲- نطشے کے ضمن میں دیکھیے، زیرنظر کتاب کا پہلا حصہ نیز ڈاکٹر نذیر قیصر کی کتاب Iqbal and Westeran Philosophers کا پہلا باب۔ ’’اسرار خودی‘‘ کے ابتدائی اشعار میں نطشے کے وحدت الوجودی رنگ کی جھلک موجود ہے۔ اقبال اس سے بچتے تو بہتر ہوتا اس لیے کہ ’’اسرار خودی‘‘، ’’وحدت الوجود‘‘ کے ایک شدید ردِّعمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱۳- ’’خضر راہ‘‘ ۱۹۱۴ء کی ’’چیز‘‘ نہیں ہے۔ یہ نظم ۱۹۲۲ء کی ہے۔ [کلام اقبال کی اشاعت کی زمانی ترتیب ’’مشمولہ‘‘ اقبال جنوری/اپریل ۱۹۹۰ئ، ص۱۲۹] اور ’’اسرار خودی‘‘ کا ڈول ۱۹۱۱ء میں [الہلال کے اجرا سے ایک سال پہلے] ڈالا جاچکا تھا۔ [رفیع الدین ہاشمی، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، صفحہ۷۷] ۱۴- فاسٹر نے منظوماتِ اقبال کی ترتیب غلط بیان کی ہے۔ مثلاً ’’نیا شوالہ‘‘ مارچ ۱۹۰۵ء میں مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ [ابتدائی۔کلامِ اقبال، ص۲۷۵] جبکہ فاسٹر نے اسے ۱۹۱۶ء کی نظم بتایا ہے۔ [The Sword and the Sceptre- ص۲۸۱] اقبال نے لکھا ہے کہ اگر میری منظومات کی صحیح زمانی ترتیب فاسٹر کے پیش نظر ہوتی تو میرے ادبی [اور فکری] ارتقا کے بارے میں اس کا موقف مکمل طور پر مختلف ہوتا۔ [Discources of Iqbal-ص۱۸۹] ۱۵- آل احمد سرور، دانشور اقبال، ص۱۹۔ ۱۶- ڈاکٹر جاوید اقبال، زندہ رود، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۰ئ، ص۵۸۴- جاوید اقبال کی یہ رائے حقیقت سے قریب تر ہے کہ ’’اقبال ایک لحاظ سے سرسیّد کے مکتبۂ فکر سے وابستہ تھے۔‘‘ ص۵۷۴،۵۷۵۔اور یہ رائے بھی کہ ’’اقبال کا تعلق سرسیّد کے سیاسی مکتبۂ فکر سے تھا۔‘‘ [ص۳۹۹] تاہم اقبال اسلام کے نظامِ سیاست کو سرسیّد سے بہتر سمجھتے تھے۔ ۱۷- محی الدین قادری زور، ’’اردو کا پیغام گو شاعر‘‘ مشمولہ نقد اقبال حیاتِ اقبال میں ، ص۱۱۵۔ ۱۸- جمیل مظہری، ’’دو اقبال‘‘ مشمولہ مطالعۂ اقبال، اقبال سیمی نار منعقدہ لکھنؤ، ص۱۲۲۔ ۱۹- شائشتہ اکرام اللہ کا مضمون ’’حالی کا اثر اقبال پر‘‘ - مشمولہ اقبال ریویو ،جولائی۱۹۷۳ئ۔ ڈاکٹر وزیرآغا نے بھی ڈاکٹر زور کا موقف دہرایا ہے جس کی تردید شمیم حنفی نے عمدگی سے کی ہے۔ [اقبال کا حرفِ تمنا، ص۷۰] ۲۰- زندہ رود، محولہ ماقبل، ص۳۸۸۔ ۲۱- کلیاتِ مکاتیب اقبال، محولہ ماقبل، جلد سوم،ص۲۷۶۔ ۲۲- کلیاتِ اقبال،فارسی، ص۷۶۸تا ۷۷۴، نیز دیکھے، ضرب کلیم کی نظم ’’سلطان ٹیپو کی نصیحت‘‘۔ ۲۳- ڈاکٹر عبدالشکور احسن، اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۰ئ، اور مطالعہ بیدل فکرِ برگساں کی روشنی میں، مرتبہ ڈاکٹر تحسین فراقی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۳ئ۔ ۲۴- بال جبریل کی نظم ’’پیر و مرید‘‘ میں مرید علامہ اقبال ہیں اور پیر مولانا رومی۔ جاوید نامہ میں اقبال یا زندہ۔رود مولانا رومی کی راہنمائی میں افلاک کا سفر کرتے ہیں۔ اقبال نے متعدد مقامات پر رومی کو زبردست خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا۔ مثلاً اسرار خودی کی تمہیدمیں کہتے ہیں کہ : پیر رومی خاک را اکسیر کرد از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کی تمہید ان اشعار سے شروع ہوتی ہے۔ پیر رومی مرشدِ روشن ضمیر کاروانِ عشق و مستی را امیر نورِ قرآں درمیانِ سینہ اش جامِ جم شرمندہ از آئینہ اش ۲۵- خطبۂ علی گڑھ میں اقبال نے وضاحت کی کہ گذشتہ پچاس برس کے دوران مسئلہ تعلیم ہماری ہمتوں اور سرگرمیوں کا نصب العین رہا ہے لیکن موجودہ نسل کا مسلمان نوجوان صرف نیم مسلمان بلکہ اس سے بھی کچھ کم ہے۔ اپنی قومی روایات سے عاری ہوکر اور مغربی لٹریچر کے نشہ میں ہروقت سرشار رہ کر اس نے اپنی قومی زندگی کے ستون کو اسلامی مرکزِ ثقل سے بہت پرے ہٹا دیا ہے۔ ہم نے اپنی تعلیمی جدوجہد میں اس حقیقت پر نظر نہیں ڈالی کہ اغیار کے تمدن کو بلاشرکتِ احدے اپنا ہر وقت کا رفیق بنائے رکھا گویا اپنے تئیں اس تمدن کا حلقہ بگوش بنا لینا ہے۔ کسی اسلامی مصنف نے اس حقیقت کو مولانا اکبر الٰہ آبادی سے زیادہ واضح طور پر بیان نہیں کیا: شیخِ مرحوم کا یہ قول مجھے یاد آتا ہے دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے [مقالاتِ اقبال، اردو، ص۱۷۱-۱۷۳] ۲۶- چودھری محمد علی، The Emergence of Pakistan ، کولمبیا یونی ورسٹی پریس، نیویارک، ۱۹۶۷ئ، ص۱۴۔ ۲۷- کلیاتِ اقبال، اردو،ص۱۳۶ ۲۸- افتخار احمد صدیقی، فروغِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۶ئ، ص۶۴،۶۵ ۲۹- محمد رفیق افضل،گفتارِ اقبال، ادارہ تحقیقات پاکستان، جامعہ پنجاب، ۱۹۶۹ئ، ص۱۰۴ ۳۰- اقبال احمد صدیقی، علامہ اقبال: تقریریں، تحریریں اور بیانات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص۱۹۔ ۳۱- جگن ناتھ آزاد، اقبال اور مغربی مفکرین، ص۱۷۔ ۳۲- اسرار احمد، علامہ اقبال اور ہم، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، ۱۹۹۵ئ، ص۶۳ ۳۳- چند اشعار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: آیۂ کائنات کا معنی دیریاب تو! نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو! عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرّۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب! شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب! میرا سجود بھی حجاب [’’ذوق شوق‘‘ بال جبریل] ۳۴- خواجہ حسن نظامی کے نام اپنے مکتوب مورخہ ۳۰؍دسمبر ۱۹۱۵ء میں اقبال لکھتے ہیں: ’’مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ کو اسلام اور پیغمبر اسلام ا سے عشق ہے۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ آپ کو ایک حقیقتِ اسلامی معلوم ہوجائے اور آپ اس سے انکار کریں… میری نسبت بھی آپ کو معلوم ہے۔ میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہوگیا تھا۔ کیونکہ فلسفۂ یورپ بحیثیتِ مجموعی وحدت الوجود کا رخ کرتا ہے، مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے کانتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کردیا اور اس مقصد کے لیے مجھے فطری اور آبائی رجحانات کے ساتھ ایک خوفناک دماغی اور قلبی جہاد کرنا پڑا۔‘‘ [کلیاتِ مکاتیب اقبال، جلداوّل،ص۴۴۸،۴۴۹] ۳۵- اسرار خودی ڈکنسن کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اقبال جنگ کی حمایت کرتے ہیں۔ اس اعتراض کے باوجود اقبال نے جذبۂ جہاد کو اُبھارا ہے اور اس ضمن میں بے شمار اشعار کہے ہیں۔ ۳۶- اس ضمن میں ڈاکٹر سیّدعبداللہ لکھتے ہیں کہ ’’ان اصطلاحوں کے ساتھ لازمی طور سے ہمیں وہ مسلمان شخصیتیں بھی عظیم نظر آنے لگیں جو ان اصطلاحوں کی واضع تھیں۔ ہم ان کے کارناموں پر فخر کرنے لگے اور ان کے درخشاں واقعاتِ زندگی پر ہمیں جستجو ہونے لگی۔ ہماری نظر میں ہیوم اورمل، سپنسر اور ڈارون کے سوا کوئی بھی نہ جچتا تھا۔ اب ہم ابن خلدون، غزالی، فارابی، شبستری، شیخ مجدد، شاہ ولی اللہ اور ابن تیمیہ کا نام عزت واحترام سے لینے لگے ہیں اور ہمیں محسوس ہوا ہے کہ یہ بھی بڑے لوگ تھے اور فکرانسانی کی تاریخ میں ان کا رتبہ بھی بلند ہے اور کسی مغربی مفکر سے کم نہیں۔‘‘ [مسائل اقبال، ص۳۵۲،۳۵۳] ۳۷- سچد انند سنہا لکھتے ہیں کہ ’’اقبال عظیم شاعر اس لیے نہ بن سکے کہ ان شاعری پر اسلام نے غلبہ پالیا۔‘‘ [اقبال: شاعر اور اس کا پیغام،ص۲۴۴ ]۔ خشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ ’’شاعر مفکر پر اسلام اس درجہ مسلط تھا کہ غیرمسلموں کے جذبات کو وہ کم ہی اپیل کرتا ہے۔‘‘ [بحوالہ ہماری زبان ،نئی دہلی، ۱۵؍جولائی ۱۹۹۳ئ]۔ کائونٹ ڈائون میں رستوگی کی تان اس پر ٹوٹی ہے کہ اقبال ایک استعارہ ہیں مسلم اور غیرمسلم کی تقسیم کا اور یہ کہ وہ محض اسلامی روایت کے شاعر ہیں۔ راج بہادر گوڑ کے نزدیک ’’ان کی فکرونظر کی یہ نارسائی (منزلِ اشتراکیت تک نہ پہنچ سکنے کی) دراصل مذہبی تصورات اور اندازِ فکر تک اپنے آپ کو محدود رکھنے کا نتیجہ ہے۔‘‘ [فکر اقبال، سیمی۔نار، مقالات حیدرآباد، ص۱۵۳] ۳۸- ملاحظہ کیجیے، ’’اقبال اور قرآن‘‘،مشمولہ اقبال اور ہم ۔ ۳۹- قرآن حکیم، احادیث اور اسلامی تاریخ کے ساتھ کلامِ اقبال پر نظر ہوتو اس کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ اس موضوع پر کتب ومقالات کی صورت میں خاصا لٹریچر شائع ہوچکا ہے۔ اقبال اور قرآن کے نام سے غلام احمد پرویز، عارف بٹالوی اور ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی کتب لائق توجہ ہیں۔ قاضی محمد ظریف کی کتاب اقبال قرآن کی روشنی میں لائق مطالعہ ہے۔ محمد منظور عالم کی کتاب کلامِ اقبال میں قرآنی آیات و احادیث اور مذہبی اصطلاحات کا جائزہ بھی شائع ہوئی ہے۔ سیّد نذیر نیازی کا مضمون ’’قرآن اور اقبال‘‘ مشمولہ اقبال، اپریل ۱۹۸۹ء ،( مترجمہ ڈاکٹر عبدالحمید یزدانی) بھی حقائق کے آئینہ دار ہیں۔ ۴۰- مثال کے طور پر اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ کو حسبِ ذیل پیرائوں میں پیش کیا ہے: ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن [کلیات اقبال، اردو، ص۵۰۷] جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دل دہل جائیں وہ طوفان [کلیات اقبال، اردو، ص۵۲۲] مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا [کلیات اقبال، اردو، ص۲۷۳] ۴۱- ڈاکٹر نکلسن کے نام نوٹ میں تخلقوا باخلاق اللّہ سے خودی کی وضاحت کی ہے۔ [Discourses of Iqbal, p.184] یہ مسلم اکابر کا قول ہے جسے اقبال نے حدیث تصور کیا تاہم اسی مفہوم کی قرآنی آیات: صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً[۲:۱۳۸] موجود ہے اور اسرارخودی میں اسی کے حوالے سے بات کی ہے: قلب را از صبغۃ اللہ رنگ دہ عشق را ناموس و نام و ننگ دہ ایک مقام پر خودی کی توضیح سورہ حشر کی آیات اور متعدد دوسری آیات کے ٹکڑوں سے کی ہے۔ [دیکھے: ایضا، ص۱۹۷۔۱۹۸] سورہ الحجر کی ۲۹ویں اور سورہ السجدہ کی ۹ویں آیات میں اللہ نے انسان میں ’’اپنی روح میں سے کچھ پھونکنے‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تصور خودی کا اشاریہ واعلامیہ ہے… تفسیر میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ ’’انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی وہ دراصل صفاتِ الٰہی کا ایک عکس یا پرتو ہے۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں۔ جن کے مجموعے ہی کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے جو اس کے جسدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے اور اسی پر تو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجوداتِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔‘‘ [تفہیم القرآن،جلددوم، ص۵۰۵ ] یہی بات اقبال نے کہی ہے: It is born of his own creative freedom whereby he has chosen finite egos to be participators of his life, power, and freedom. [Reconstruction......p.64] چوتھے خطبے کی ابتدا میں اقبال نے قرآنی آیات کے حوالے سے انسان کی تین خصوصیات کی نشان دہی کی ہے۔ (۱)انسان خدا کا برگزیدہ بندہ ہے۔ (۲)اپنی خامیوں کے باوجود انسان کی تخلیق زمین پر خدا کے نمایندہ کے طور پر ہوئی ہے۔ (۳)وہ ایک آزاد شخصیت کا امین ہے۔ ۴۲- ’’مسجد قرطبہ کے یہ اشعار قابل توجہ ہیں‘‘ ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز ضربِ کلیم کی نظم ’’مردِ مسلمان‘‘ کے مطالعے سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے۔ اس کا پہلا مصرع: ’’ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘‘۔ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ[۵۵:۲۹]یعنی ’’اللہ ہر آن نئی شان میں ہے‘‘۔ سے ماخوذ ہے۔ دوسرا مصرع: ’’گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان‘‘۔ کسی شک کی گنجایش باقی نہیں چھوڑتا۔ دوسرے شعر میں اللہ کی جلالی و جمالی صفات کا ذکر کرکے کہا ہے کہ مسلمان ان سے بنتا ہے۔ اگلے تین اشعار کا مآخذ جناب رسالت مآب کا اسوۂ حسنہ ہے۔ اس کے بعد یہ شعر ہے: جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان یہ شعر قرآن حکیم کی ایک آیت سے ماخوذ ہے [دیکھیے: حاشیہ۴۰] ۴۳- سیّد وحیدالدین، اقبال اور مغربی فکر، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونی ورسٹی، سری نگر، ۱۹۸۱ئ، حاشیہ ۱۱۱،۱۱۲، ۱۱۳۔ ۴۴- کلیاتِ اقبال،فارسی، ص۸۰۸تا ۸۱۲ ۴۵- اقبال کہتے ہیں: خودی کا سرنہاں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّہ/ خودی ہے تیغ، فساں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّہ [کلیاتِ اقبال،فارسی، ص۴۴۷] ۴۶- پروفیسرنکلسن نے ۱۹۲۰ء میں کہا کہ قرآن کے منکشف کردہ مذہب، اخلاق اور قانون کی حکمرانی کو اقبال قبول کرتا ہے۔ ۱۹۳۱ء میں انھوں نے اعتراف کیا کہ ’’میں ابتدا میں سمجھا کہ اقبال دوسرا نٹشے ہے یا اس نے نٹشے کے خیالات کا چربہ اُتارا ہے لیکن میں عمیق مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ تعلیم بالکل الگ ہے۔‘‘ ڈکنسن نے اقبال کو پین اسلامسٹ قرار دیا۔ برائون نے لکھا کہ اقبال کا فلسفہ کسی لحاظ سے بھی مغربی فلسفہ نہیں ہے۔ یہ فلسفیانہ انداز میں اخوتِ اسلام کی تعلیم ہے۔ گب نے لکھا کہ اقبال کا نصب العین اسلام ہے۔ لوس کلوڈ میخ نے اس موقف کا اظہار کیا کہ ’’اقبال نے مغربی فکر سے برائے نام ہی اخذ کیا ہے۔ بعض اوقات وہ اس کے قریب بھی آتا ہے لیکن جلد ہی اپنا راستہ تبدیل کرلیتا ہے۔‘‘ شمل کی رائے ہے کہ اقبال خلافِ قرآن مطالب کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ کئیرنان کے نزدیک اقبال کے نزدیک، مسلمانوں کے لیے، جدید دنیا کے پاس کوئی پیغامِ حیات نہیں ہے۔ اقبال نے ان کی توجہ اسلام ہی کی طرف مبذول کرائی۔ ایل ایس مے کے نزدیک اقبال نے نہ صرف قرآنی پیغام۔عمل کی ازسرِنو تفسیر کی بلکہ ان کی فکر نے انھیں ایسا خوبصورت شعری پیکر عطا کیا جو جذبات کو بہالے گیا۔ [دیکھیے: اقبال اور مغربی مفکر] پروفیسر جگن آزاد کی رائے ہے کہ ’’اسلام تو اقبال کا سرچشمۂ افکار ہے‘‘۔ مسلمان صاحبانِ علم میں سے جو اقبال شناس ہیں وہ اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ ’’جس طرح قرآنِ پاک کا معجزہ سیرتِ رسول ا ہے اسی طرح عشق رسول اکا معجزہ کلامِ اقبال ہے۔‘‘[اقبال، شخصیت اور شاعری، ص۱۱۳]ڈاکٹر سیّد عبداللہ لکھتے ہیں کہ ’’اقبال کی حکمت بڑی توانا اور اس کی قوت بے کراں ہے، کیونکہ اس کا محور قرآن مجید ہے۔‘‘ [مسائل اقبال، ص۳۵۳] احتشام حسین نے لکھا ہے کہ ’’مذہب ہی اقبال کی شاعری کا بنیادی پتھر ہے۔ وہ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرسکتے۔‘‘ [روایت اور بغاوت، ص۹۴] اسی طرح ڈاکٹر عبدالمغنی، اسلوب احمد انصاری اور ڈاکٹر محمد رفیع الدین سمیت جملہ معتبر اقبال شناسوں کا اس بات پر اتفاقِ رائے (Consensus) ہے کہ اقبال کی فکری اساس قرآن حکیم ہے۔ ۴۷- اقبال کا یہ شعر پہلے بھی کہیں نقل ہوا ہے: تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا کہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر [کلیات اقبال، اردو، ص۳۴۴] مثنوی ’’مسافر‘‘ میں اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ : گوہرِ دریائے قرآں سفتہ ام شرحِ رمزِ صبغۃ اللہ گفتہ ام دارم اندر سینہ نور لَآ اِلٰہَ در شرابِ من سرورِ لَآ اِلٰہَ [کلیات اقبال، فارسی، ص۸۸۲] اقبال کا یہ دعویٰ حقیقت اور صداقت پر مبنی ہے۔ ۴۸- غلام دستگیر رشید، حکمتِ اقبال، نفیس اکیڈمی، حیدرآباد دکن، ۱۹۴۵، ص۴۹۔ ۴۹- کلیاتِ اقبال، اردو، ص۳۱۱۔ ۵۰- ’’عالم آب و خاک و باد‘‘ سے خطاب کرتے اقبال کہتے ہیں: تو کفِ خاک و بے بصر! میں کفِ خاک و خود نگر! کشتِ وجود کے لیے آبِ رواں ہے تو کہ میں؟ [کلیات اقبال، اردو، ص۳۲۰] ۵۱- تفصیل کے لیے دیکھیے: حکمتِ اقبال، محولہ ماقبل، ص۹۹تا ۱۱۷ ۵۲- اقبال کا کہنا ہے کہ : رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو ترے دل میں لَا شَرِیْکَ لَہ‘ [کلیات اقبال، اردو، ص۶۲۷] ۵۳- کلیاتِ اقبال، فارسی، ص۹۳۸ ۵۴- اردو ترجمے کے لیے دیکھیے: اقبال ممدوحِ عالم،مرتبہ ڈاکٹر سلیم اختر، ص۷۹۔ واضح رہے کہ علامہ اقبال مولانا رومی کو وحدت الوجودی تسلیم نہیں کرتے۔ [تفصیل کے لیے دیکھیے: کیا اقبال وحدت الوجودی ہیں؟] چنانچہ دونوں میں جو فرق ہے وہ اپنے اپنے ادوار کے تناظرات میں ہے۔ ۵۵- کلیاتِ اقبال، فارسی، ص۹۳۴ ۵۶- ’’حرفے چند‘‘، مشمولہ،فکرونظر، ۱۹۸۴ئ، شمارہ۲۰، ص۱۱۷۔ خ…خ…خ…خ  تصو۔ّرِ عشق علامہ محمد اقبال اور میاں محمد بخش کا تقابلی مطالعہ عابدہ خاتون علامہ اقبال ؒکے نظامِ فکر میں عشق کو ایک بنیادی مقام حاصل ہے۔ وہ عشق کو مقصد سے بے پایاں لگن کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک ایسی لگن جو راستے میں آنے تمام والی مشکلات اور تکالیف کو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ پوری قوت اور جدوجہد کے ساتھ منزل کی جانب اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: اقبال نے عشق کے مفہوم میں بڑی گہرائی اور بڑی وسعت پیدا کر دی ہے اور اس بارے میں وہ خاص طور پر عارفِ رومی کا شاگرد رشید ہے۔ اقبال نے حکمت و عرفان کے بیش بہا جواہر اسی مرشد سے حاصل کیے ہیں لیکن عشق کے بارے میں وہ خاص طور پر رومی کا ہم آہنگ ہے۔۱؎ رومیؒ عشق کے علم بردار ہیں کیونکہ عشق ہی وہ قوت محرکہ ہے جو کائنات کے سربستہ رازوں تک انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ بھی رومی ؒکے ہم نوا ہیں ان کے نزدیک عشق کی بدولت ایک نئی دنیا انسان کی نگاہوں پرمنکشف ہوتی ہے۔ پروفیسر منور رئوف لکھتے ہیں:’’وہ سمجھتے ہیں کہ عشق کے ذریعے سے انسان کو وہ دانش نورانی اور بصیرت یزدانی حاصل ہوتی ہے جس سے کائنات کے راز ہائے سربستہ اس پر منکشف ہو جاتے ہیں اور وہ حقائق اشیا پر مکمل عبور حاصل کر لیتا ہے۔۲؎ عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نورِ حیات، عشق سے نار حیات ۳؎ عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نَم ۴؎ علامہ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ کے فلسفۂ عشق میں گہری مطابقت پائی جاتی ہے۔ دونوں دل کے سوز کے طلب۔گار ہیں اور عشق کو مقصد حیات سمجھتے ہیں۔جب تک دل میں منزل کے حصول کی لگن نہ ہو انسان بلند نصب العین کو نہیں پا سکتا اور یہ تڑپ صرف عشق کی بدولت ہی حاصل ہوتی ہے۔ عشق ہی انسان کو اوج ِ کمال تک پہنچاتا ہے اور حیاتِ ابدی سے ہم۔کنار کرتا ہے۔ عشق نورِ حیات ہے اور نور کا منبع اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جب تک دل اصل سرچشمے کی روشنی سے منور نہ ہو، حقائق کا ادراک ممکن نہیں، اس لیے اپنے دل میں عشق کا روشن چراغ جلانے کے لیے میاں محمد بخشؒ اﷲ تعالیٰ سے یوں دعا کرتے ہیں: ؎ بال چراغ عشق دا میرا روشن کر دے سیناں دل دے دیوے دی روشنائی جاوے وچہ زمیناں ۵؎ علامہ اقبالؒ بھی عشق کی لازوال کسک کے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعا گو ہوتے ہیں کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو ۶؎ عشق مجازی تصوف میں عشق حقیقی تک رسائی کے لیے ایک زینے کا کام دیتا ہے۔ اسی طرح مادی حُسن ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں صوفی کو حُسنِ ازل کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو اسے بے قرار کرتی ہے۔ وزیر آغا لکھتے ہیں: حسنِ ازل کے بارے میں دو باتیں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ حسنِ ازل روشنی کا ایک کوندا اور تجلّی کی ایک لپک ہے گویا یہ حُسن، آواز اور صورت کی بجائے روشنی سے عبارت ہے۔ …… دوسرا یہ کہ دنیا میں جہاں کہیں حسن ہے چاہے وہ اشیا، پرندوں، سبزہ زاروں اور ندیوں ہی کا حُسن کیوں نہ ہو، دراصل حُسنِ ازل کا عطیہ ہے۔۷؎ تصوف میں پہلا درجہ حُسن کے ظہور کا ہے جو محبوب کے سراپا کو دیکھ کر عاشق کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور پھر اسے اتنا بے قرار کرتا ہے کہ وہ بے بس اور مجبور ہو جاتا ہے۔ اگر یہ کشش محض جسم کی سطح تک رہے تو جنسی کشش کہلائے گی لیکن جب اس جذبے کی تہذیب ہو جاتی ہے تو یہ محبت کا عنوان پاتا ہے اور دلوں کی ہم آہنگی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن جب اس جذبے میں اتنی شدت پیدا ہو جائے کہ محبوب کی ذات کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے تو عشق کہلاتا ہے اور پاکیزگی کی لطافت میں تبدیل ہو کر حیاتِ دوام حاصل کرتا ہے۔ تصوف کے باب میں عشق کسی مادی محبوب کے سراپا سے مربوط نہیں کیونکہ صوفی کی نظر مادی حُسن کے پردے سے گزر کر حُسن ِ ازل کی تجلی تک پہنچتی ہے۔ لیکن اپنے مزاج اور کارکردگی کے حوالے سے یہ جذبہ عام انسان کو مادی عشق ہی سے مشابہ نظر آتا ہے اور صرف صاحبِ نظر ہی اس کی حقیقت کا ادراک کر سکتے ہیں۔ اسی عشق کی بدولت صوفی روحانی ارتقا کا سفر طے کرتا ہے اور پھر اپنے فن ِسخن گوئی کی بدولت اسے دوسرے انسانوں تک پہنچانے کا فریضہ بھی بخوبی سرانجام دیتا ہے۔ یہ فن ہی ہے جو معرفت کے نازک اور لطیف اسرار و رموز کو اپنے دامن میں سمو لیتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے الفاظ میں: صوفی خدا اور کائنات کے بارے میں جو علم حاصل کرتا ہے اسے وہ بآسانی دوسروں تک منتقل کر سکتا ہے اور تصوف کا فلسفیانہ پہلو اس انتقالِ علم ہی کا مظہر ہے لیکن جب صوفی حُسنِ ازل کی تجلیات سے آشنا ہوتا ہے تو اس کے شخصی نوعیت کے انتہائی لطیف اور پُراسرار تجربے کو صرف فن ہی گرفت میں لے سکتا ہے۔۸؎ فن کی آبیاری کے لیے خون ِ جگر کی ضرورت ہے۔ خلوص نیت اور جذبۂ پیہم کے بغیر فن بے روح جسد کی مانند ہے۔ مسلسل محنت اور لگن ہی فن کو لازوال بناتی ہے: رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود ۹؎ نقش ہیں سب ناتمام ، خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر ۱۰؎ علامہ اقبالؒ کے نزدیک فن وہی ہے جو حیات بخش اور زندگی کا ترجمان ہو، اس کے لیے خون جگر کی آمیزش ضروری ہے۔ میاں محمد بخشؒ بھی کمالِ فن کو عشق ہی کا معجزہ قرار دیتے ہیں۔ فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن پارے میں تاثیر، گداز اور ابدیت کا رنگ بھرنے کے لیے سعیِ پیہم سے کام لے کیونکہ وارداتِ قلبی کا بیان صرف اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب سوزِ عشق عروج پر ہو۔ لہٰذا دردِ دل اور سوزِ جگر ہی عاشق کی پہچان ہیں۔شعلۂ عشق کی روشنی میں ہی عاشق معرفت کا سفر طے کرتا ہے: زندگی کے دکھ درد شاعر کے دل میں انسانیت کے لیے ہمدردی ، خلوص اورمحبت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ جب تک شاعر کے دل میں انسانیت کے درد کا سوز نہ ہو وہ زندگی کے اندھیروں میں اُجالا نہیں کر سکتا۔ محبت اور ہمدردی کی یہی تڑپ خود جل کر دوسروں کے لیے روشنی مہیا کرتی ہے۔ شاعر کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے وہ سوزِ قلب کا کرشمہ ہوتا ہے کیونکہ عشق ہی کی بدولت تخیلات و افکار کی دنیا میں آگ بھڑکتی ہے۔ میاں محمد بخش ؒ کے نزدیک درد مندی ہی شاعر کی پہچان ہے: ؎ جس وچہ کجھی رمز نہ ہووے درد منداں دے حالوں بہتر چپ محمد بخشاؒ سخن اجیہے نالوں جو شاعر بے پیڑا ہووے سخن اوہدے بھی رُکّھے بے پیڑے تھیں شعر نہ ہوندا اگ بن تہوں نہ تُکّھے ۱۱؎ شاعری کے لیے سوز و مستی بے حد ضروری ہے کیونکہ شاعر اپنے کلام سے دلوں میں پاکیزہ خیالات پیدا کرتا ہے اور قوموں کونہ صرف زندہ کرتا ہے بلکہ ان کے اندر عمل کا ولولہ پیدا کرتا ہے ۔ ایسی شاعری ہی زندگی کی ترجمان ہو سکتی ہے جو مایوسی اور قنوطیت کے پردوں کو چاک کر کے زندگی کو امید کی روشنی سے ہم۔کنار کرے اور انسان کے باطن میں انقلاب پیدا کر دے۔ شاعری کا اصل مقصد زندگی کی اعلیٰ قدروں کا حصول اور حقائق تک رسائی ہے جو شاعری اس معیار پر پوری نہیں اترتی وہ مذموم ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ؎ اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا! ۱۲؎ علامہ اقبالؒ کے نزدیک شاعر قوم کا درد شناس ہوتا ہے وہ اپنی ہمدردی اور محبت سے ان کا مسیحا بن کر انھیں پستی سے بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور ہردم سرگرم عمل رہنے پر آمادہ کرتا ہے: ؎ شاعر اندر سینۂ ملت چو دل ملتے بے شاعرے انبارِ گل! ۱۳؎ میاں محمد بخشؒ بھی اپنے اشعار میں پوشیدہ فقر کے لطیف رموز کے بارے میں کہتے ہیں: ہر بیتے وچہ رمز فقر دی جے تدھ سمجھ اندر دی گل سُنا محمد بخشا عاشق تے دلبر دی ۱۴؎ عشق ہی وہ حرکی قوت ہے جو عاشق صادق کو زمان و مکاں کی قیود سے آزاد کرکے قربِ الٰہی نصیب کرتی ہے۔ عشق کا باطنی پہلو نورانی ہے اور نو رمیں جمال ہے۔ عشق کی اصل نورِ رب العالمین ہے۔ میاں محمد بخش ؒ کی مثنوی سفرالعشقکا ہیرو سیف الملوک، پری بدیع الجمال پر عاشق ہوتا ہے جو نوری مخلوق ہے ۔ گویا مجاز کے پردے میں میاں محمد بخش ؒ نورِ حقیقی کے طلب۔گار ہیں اور یہی انسان کی اصل منزل ہے۔ لیکن اس منزل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عشق اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور عاشق بننا میاں محمد بخشؒ کے نزدیک آسان کام نہیں: عاشق بنن سکھالا ناہیں ویکھاں نہیوں پتنگ دے خوشیاں نال جلن وچہ آتش موتوں ذرا نہ سنگدے ۱۵؎ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: تصوف میں عشق کا سفر پروانے کے سفر کے مماثل ہے جو شمع کی روشنی کی ایک جھلک پانے پر شروع ہوتا اور اُس لمحے انجام کو پہنچتا ہے جب پروانہ خود کو شمع کی آگ میں جلا کر روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ درمیانی مدارج میں سے ایک طواف ہے جس سے مراد یہ ہے کہ پروانے کا سفر دائرے میں طے ہوتا ہے اور جیسے جیسے طواف کی رفتار تیز ہوتی ہے عاشق اپنے وجود کے فاضل بوجھ سے دست کش ہوتا جاتا ہے۔۱۶؎ طواف دراصل ایک مخصوص دائرے میں دیوانہ وار مرکز کے گرد گردش ہے جسے خود فراموشی کی کیفیت کا رقص بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہی طواف عشق کی پہلی منزل ہے اور ارتکاز کی طرف پہلا قدم ہے: تصوف کے بہت سے مسالک میں رقص کو اس لیے اہمیت ملی ہے کہ رقص جب اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو انسان عقل و خرد کی قربانی پیش کرتا ہے۔ تاکہ اسے باریابی یا حضوری کی سعادت حاصل ہو سکے۔ ہندو دیومالا کے مطابق رقص ہی سے کائنات کی تخلیق ہوئی ہے، اس لیے کہ رقص سے خود فراموشی کا تسلط قائم ہوتا ہے اور خود فراموشی سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ چونکہ یہ کائنات ایک عظیم تخلیقِ مُسلسل ہے، لہذا کچھ عجب نہیں کہ ایک بے پایا ںخود فراموشی ہی اس تخلیق کا منبع ہو اور اس بے پایاں خود فراموشی کو قائم رکھنے کے لیے پوری کائنات رقص کر رہی ہو اقبال نے جس تغیرکے ثبات کا اقرار کیا ہے وہ کائنات کی مسلسل گردش ہی کا دوسرا نام ہے۔۱۷؎ سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز اُلجھ کر سلجھنے میں لذّت اسے! تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے ۱۸؎ ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں: عشق دائرے میں گھومتا ہے اور ’’محبوب‘‘ کے گرد پروانہ وار طواف کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے ہاں ایک طرف تو پوری کائنات ’’مرکزِ عظمٰی‘‘ کے گرد بے پناہ رفتار کے ساتھ طواف کرتی ہوئی نظر آتی ہے، دوسری طرف مردِ مومن کائنات کی اس رفتار سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ تو پوری کائنات کا اعلامیہ بن گیا ہے۔۱۹؎ میاںمحمد بخشؒرقص کے اس سفر کو عشق سے منسوب کرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی گردش اُس وقت تک بے معنی ہے جب تک کسی مرکز و محور کے گرد نہ ہو۔ چنانچہ فرماتے ہیں: عشق نچاوے تھیّا تھیّا چھنکن پیریں سنگل قید چُھٹے تاں اُس لکھ لُٹی ڈھونڈاں ندیاں جنگل ۲۰؎ عشق کی قید سے رہائی پانا نا ممکن ہوتا ہے کیونکہ عاشق کی حیثیت ایک جذباتی گردباد کی صورت میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس کا مقدر مسلسل سفر اور تڑپ سے عبارت ہوتا ہے۔ یہ رقص جاں نہیں بلکہ روح کا رقص ہے۔جو عاشق کا مقدر بن جاتا ہے اور وہ اس رقص کے ذریعے زمان و مکاں پر غالب آنے کی قوت حاصل کرلیتاہے۔ بقول اقبالؒ: رقصِ تن در گردش آرد خاک را رقصِ جاں برہم زند افلاک را ۲۱؎ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: اقبال نے اپنی شاعری میں کائنات کے رقص کا بار بار ذکر کیا ہے۔ ان کے نزدیک ہر ذرہ کائنات تڑپ رہا ہے، ہر شے متغیر ہو رہی ہے، ہر دم صدائے کن فیکوں آرہی ہے اور ایک مسلسل سفر کی کیفیت ہر شے پر طاری ہے۔ ۲۲؎ انسانی عقل کُن کے ادراک کی رسائی سے یکسر قاصر ہے۔ عاقل، بالغ، عالم اور فاضل بھی اس راز کی حقیقت پانے سے قاصر ہیں۔ میاں محمد بخشؒ کہتے ہیں کُن اوہدی نوں کوئی نہ پہتا عاقل بالغ داناں در جس دے سِر سجدے سَٹّے لوح قلم اسماناں ۲۳؎ پوری کائنات آہستہ آہستہ منور ہو رہی ہے اور اسے تخلیقی آگاہی حاصل ہو رہی ہے، یعنی اسے اپنی ہی آگہی حاصل ہورہی ہے۔ چونکہ آگہی ہی تخلیق ہے، اس لیے ہر لمحہ تخلیق کاری کا عمل جاری وساری ہے۔اسی نتیجے پر اقبالؒ بھی پہنچتے ہیں اور فرماتے ہیں: یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں ۲۴؎ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: تصوف میں عشق کا تصور دائرے سے نجات پا کر مرکز سے ہم رشتہ ہونے کا عمل بھی ہے اور اس لحاظ سے سراسر تخلیقی ہے مگر دائرے کے زندان سے عشق کی جست سیدھی لکیر اختیار کرنے کا ایک بالکل عارضی منظر ہے، کیونکہ اس کے فوراً ہی بعد عاشق ’’مرکزہ‘‘ میں تحلیل ہو جاتا ہے۔۲۵؎ گویا عاشق زندگی اور موت کے مرحلے سے گزرتا ہے اور اپنی بقا کے لیے جست لگا کر حُسنِ ازل سے وابستہ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی وسعتیں اُس کے جذبۂ عشق کے سامنے سمٹ جاتی ہیں اور وہ ان پر غالب آجاتا ہے: عشق کی اِک جست نے طے کر دیا قصّہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں ۲۶؎ میاں محمد بخشؒ کے نزدیک عشق کا سفر حیات بعد الممات کا سفر ہے اس لیے عاشق آگ کا یہ دریا بے خوف و خطر عبور کر لیتا ہے۔ اُس کے نزدیک یہ موت عارضی ہے جس میں خاکستر ہونے کے بعد ایک نئی اور روشن زندگی کی صبح طلوع ہوتی ہے۔ بڑے بڑے عقل مند اور دانش۔ور اس پُل کے سفرکو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں لیکن عشق ہی وہ جذبہ ہے جو عاشق کو ہر خوف ، غم اور مصیبت سے نجات دلا کر منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ یہ زندگی کو پُر جوش، باعمل اور طاقتور بنا دیتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: کی کجھ بات عشق دی دساں قدر نہ میرا بھائی ایہہ دریا اگّی دا وگدا جس دا لاہنگ نہ کائی جس نے قدم اگیرے دھریا سویو سڑیا سڑیا پر ایتھے سڑ مرن حیاتی اینویں گل نہ اڑیا ۲۷؎ عاشق صادق مرنے سے ہر گز نہیں ڈرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت عشق کو فنا نہیں کر سکتی۔ عشق کا جوہر غیرفانی ہے۔اس لیے عشق میں حیل و حجت اور پرہیز کا کوئی کام نہیں ۔ میاں محمد بخشؒ کے نزدیک عشق جرأت ِرندانہ سے عبارت ہے: چھم چھم تیر پَوّن تلواریں عاشق ناں ڈر رہندے عشق پرہیز محمد بخشا نہیں کدے رل بہندے ۲۸؎ علامہ اقبالؒ کے نزدیک عشق فتح یاب ہے۔ وہ مقصد کے حصول سے ایک لمحہ کے لیے بھی غفلت شعاری کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ ہر قسم کے شکوک و شبہات سے دامن چھڑا کر نصب العین کو گرفت میں لے آتا ہے: عقل در پیچاکِ اسباب و علل عشق چوگاں بازِ میدان عمل ۲۹؎ جرأتِ رندانہ کی نعمت صرف عشق کو ہی حاصل ہوتی ہے کیونکہ عشق راستے کی تکالیف کو خاطر میں نہیں لاتا اور نصب العین کے حصول کی جانب سفر جاری رکھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک عقل اور عشق دونوں ہی سالارِقافلہ ہیں اور منزل تک پہنچانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اقبالؒ عقل کی مخالفت نہیں کرتے لیکن اس کی حدود اور عجز سے باخبر ہیں کیونکہ عقل کی خامی یہ ہے کہ وہ شک میں مبتلا ہوجاتی ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے جبکہ عشق کی اساس یقین پر ہے جس کے سامنے ہر ممکن اور موجود شے شکست کھا جاتی ہے۔ گویا عشق ایک سیلاب کی مانند ہے جو راستے کے تمام خس و خاشاک کو بہا کر لے جاتا ہے۔ جس طرح خوشبو کو قید نہیں کیا جا سکتا اسی طرح عشق کو گرفت میں لانا ناممکن ہے۔ میاں محمد بخش ؒفرماتے ہیں: جھولی پأ انگار محمد کوئی پچا نہ سکے عشقاں مشکاں تے دریاواں کون چھپائے ڈکے ۳۰؎ عشق کی تڑپ، بے قراری اور لگن لمحہ بہ لمحہ انسان کو سرگرم عمل رکھتی ہے اور یہی سعیٔ پیہم منزل تک پہنچنے کے لیے سازگار ثابت ہوتی ہے۔ گویا راہ عشق کے مسافر کے لیے صبر و قرار ناممکن ہے۔ عقل ہر شے کو شعور و ادراک کی کسوٹی پر پرکھتی ہے اور صبر کے ساتھ منزل تک رسائی کی متقاضی ہے اس لیے جرأت رندانہ سے عاری ہے: ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: اقبال نے اپنی شاعری میں عقل کو اسباب و علل کے تابع قرار دینے کے علاوہ ایک خوف زدہ، پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی ہستی کے روپ میں دیکھا ہے۔ ایک ایسی ہستی جس کے ہاں جرأتِ رندانہ کی کمی ہے۔۳۱؎ عقل ہم عشق است و از ذوقِ نگہ بیگانہ نیست لیکن ایں بیچارہ را آں جرأتِ رندانہ نیست ۳۲؎ عقل کی مدد سے انسان خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ عالمِ روحانیت عقل کی گرفت سے باہر ہے۔ اس لیے علامہ اقبالؒ اسے منزل کی بجائے چراغِ راہ سمجھتے ہیںجو منزل کا راستہ دکھانے میں مددگار تو ثابت ہو سکتا ہے لیکن راز ہائے درون ِخانہ سے بے خبر ہے: خِرد سے راہرو روشن بصر ہے خِرد کیا ہے؟ چراغِ رہگذر ہے درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگذر کو کیا خبر ہے! ۳۳؎ نور حقیقی کو دیکھنے کے لیے جذبۂ عشق اور دلِ بینا کا ہونا ضروری ہے محض عقل اور فہم و فراست سے اس منزل تک حضوری ناممکن ہے: میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں عقل کی تنگ دامنی عاشق و معشوق کے مابین ہونے والے راز و نیاز کی وسعت کو نہیں سمیٹ سکتی کیونکہ یہ مرحلہ صرف عشق طے کر سکتا ہے جس نے یہ راز پا لیا وہ سب سے زیادہ دانشمند ہے: دور کِتے اس شہروں باہر پھردا عقل بے چارا جس ایہ سِرّ ذرا ہک لدھا ہر تھیں ہو یا نیارا ۳۴؎ عشق ہی خلّاق اور فعال ہے محض عقل کی کیفیت انفعالی ہے۔ انسانی ارتقا میں جو قدم بھی اُٹھتا ہے وہ جذبۂ عشق کی بدولت اٹھتا ہے۔ عالم علم میں مست رہتا ہے اور عابد عبادت میں لیکن عاشق عشق کے اندر لمحہ بہ لمحہ نئے احوال پید اکرتا ہے۔۳۵؎ علم بے عشق است از طاغوتیاں علم با عشق است از لاہوتیاں ۳۶؎ ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی لکھتے ہیں: علامہ اقبال نے جس شدو مد سے عشق کی مدح و ستائش کی اور عقل کی مذمّت کی ہے، اس سے عام طور پر یہ دھوکا ہُوا ہے کہ وہ عقل کے یکسر مخالف ہیں حالانکہ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے۔ حضرت علامہ صرف یہ کہتے ہیں عقل یقین سے بے بہرہ اور ظن و تخمین میں ڈوبی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر مگر اور تامّل و تذبذب کا شکار رہتی ہے اس کے برعکس عشق انجام کا اندیشہ کیے بغیر محبوب کے فرمان کے مطابق سبک گامِ عمل ہوتا ہے۔ اس لیے منزل پر پہنچ جاتا ہے اور عقل وہم و شک کے گرداب میں غوطے کھاتی رہ جاتی ہے۔۳۷؎ علامہ اقبالؒ عقل کی حدود سے آگے نکل جانے کے لیے اﷲ تعالیٰ سے یوں دُعا کرتے ہیں: خرد کی گتھیاں سُلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحبِ جنوں کر! ۳۸؎ فرمان فتح پوری لکھتے ہیں: اقبال کے نزدیک دانش کی دو قسمیں ہیں، ایک دانش برہانی دوسری دانش شیطانی۔ اگر علم و عقل باطنی شعور سے آگاہ نہ ہوں اور صرف جسم پروری کے کام کررہے ہوں تو یہ دانش شیطانی ہے۔ اس کے برعکس اگر علم و عقل، روحانی حقائق سے آشنا ہوں اور منزل تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر کے انسان کے دل میں اعلیٰ مقاصد کے لیے آرزو پیدا کرتے ہوں تو یہ دانش برہانی ہے اور اسی دانش برہانی کا دوسرا نام عشق ہے۔۳۹؎ جب انسان کی دانش میں اضافہ ہوتا ہے تو اُس پر اپنے جہل اور بے بصری کا راز بھی منکشف ہوتا ہے اور ہر قدم پر اس کی حیرت میں اضافہ ہوتاجاتا ہے گویا پوری کائنات اس کے لیے حیرت کدہ بن جاتی ہے۔ حیرت کی یہی فراوانی منزلِ عشق ہے: اک دانش نورانی، اک دانش برہانی ہے دانش برہانی، حیرت کی فراوانی ۴۰؎ عشق کی یہ منزل عرفان کی منزل ہے جہاں حیرت کا شیر گرج رہا ہے۔عقل و فکر اس منزل کے ادراک سے عاجز ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان نہیں ہو سکتی: اس میدان نہ چلّے گھوڑا شینھ حَیرت دا گجّے خاص بلیٰ لَا اُحْصِیْ کہہ کے اس دوڑوں سن رجّے ۴۱؎ میاں محمدبخشؒ نے حیرت کی اِس منزل کا ایک طویل نظم میں کیا ہے، اس کا پہلا شعر ہے: فیر اگوں اک منزل آوے حیرت والی وادی درد افسوس ہوئے گُم اوتھے ہرگز خوشی نہ شادی ۴۲؎ عشق کے ساتھ ساتھ عقل بھی بہت ضروری ہے۔ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ عقل کی اہمیت و افادیت سے ہر گز انکار نہیںکرتے بلکہ دیوانگی کے بعد جب اللہ تعالیٰ فرزانگی عطا کرتا ہے تو اس مرحلے پر میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: دانش عقل دِتّا رب مینوں سُکّی نہر وگائی آؤ سَنگل لاہو میرے، وَلّ ہویا سودائی ۴۳؎ علامہ اقبالؒ کی تعلیم یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو عشق کے ساتھ ساتھ عقل کی قوت سے بھی نوازا ہے۔ لہٰذا اس سے کام ضرور لیا جائے لیکن اسے راہنمانہ بنایا جائے کیونکہ زندگی کی اساس عقل نہیں بلکہ عشق ہے جو روحانی ارتقا کا ضامن بنتا ہے: انسان تمام کائنات کو صرف اس لیے مسخر کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عقل اور عشق کی قوتوں سے نوازا ہے عشق کی بدولت مومن کے لیے کوئی چیز ناممکن نہیں رہتی۔مکاں اور لامکاں کی تمام وسعتیں اس کے زیر نگیں ہو جاتی ہیں۔ عقلِ آدم برجہاں شبخوں زند عشقِ او بر لامکاں شبخوں زند ۴۴؎ یوسف حسین لکھتے ہیں: اقبال عشق کو عقل کے مقابلے میں فضلیت دیتا ہے اس واسطے کہ اس سے حقائق اشیا کا مکمل علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے پھر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنا اس کا اثر ہے عقل کا اثر اِس کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔۴۵؎ علم اور عقل انسان کو منزل کے قریب کرنے کے وسیلے ہیں لیکن منزل عطا نہیں کرسکتے۔منزل پر پہنچنے کے لیے صاحبِ جنوں ہونا ضروری ہے۔ زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ کِسے خبر کی جنوں بھی ہے صاحبِ ادارک! ۴۶؎ میاں محمد بخشؒ عقل کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ جہالت کی تاریکی دُور کرنے کے لیے اُن کے نزدیک بھی عقل کی روشنی کی ضرورت ہے۔ عقل ہی منزل کا راستہ دکھا سکتی ہے کیونکہ یہ ایک چراغ ہے جو زندگی کی تاریک راہوں کو منور کرتا ہے۔ اس لیے وہ دعا کرتے ہیں: لاہ ہنیرا جہل بُرے دا چانن لا عقل دا بخش ولایت شعر سخن دی یُمن رہے وچہ رَلدا ۴۷؎ اللہ تعالیٰ جب انسان کو عقل کی نعمت سے سرفراز کرتا ہے تو وہ ستاروں پہ کمند ڈالتا ہے اور اپنی عقل و دانش کی بدولت ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیتا ہے جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ تسخیر کائنات کے لیے عقل قدم قدم پر راہنما بنتی ہے اور نت نئی تخلیقات میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے: ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی باہر نہیں کچھ عقلِ خداداد کی زد سے ۴۸؎ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: اقبال نے خودی کو مختلف مفاہیم عطا کیے ہیں، ان کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ خودی وہ ثمر ہے جو مسافر کو ایک طویل تگ و دو کے بعد حاصل ہوتا ہے اور جس کے حصول کے بعد اس کا ایمان تازہ اور یقین پختہ ہو جاتا ہے۔۴۹؎ خودی کا اثبات عشق کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے اور اس کی تربیت بھی عشق پر ہی موقوف ہے۔اقبالؒ کے نزدیک خودی ایک روشن نقطہ ہے جو تمام ترطاقتوں اور قوتوں کا منبع و ماخذ ہے اس نقطے کی روشنی بھی عشق سے پیدا ہوتی ہے: یوسف حسین لکھتے ہیں: اقبال نزدیک انسانی مقاصد کی لگن بھی عشق ہے، تغیر و انقلاب کی خواہش بھی عشق ہے تہذیب نفس کی تخلیقی استعداد بھی عشق ہے اس نے مولانا روم کی طرح عشق کو عقل کا جزوی مدمقابل بنا دیا اور اس کی فضیلت و برتری طرح طرح سے ثابت کی۔ ۵۰؎ عشق سلطان است و برہانِ مبیں ہر دوعالم عشق را زیرِ نگیں ۵۱؎ خودی جب پختہ ہو جاتی ہے تو موت سے پاک ہو جاتی ہے موت کے دروازے سے گزر کر عاشق ایک ابدی اور حقیقی زندگی میں داخل ہوتا ہے اس لیے عاشق صادق موت سے نہیں ڈرتے۔ عشق کا خاصہ یہ ہے کہ وہ انسان کو غیر فانی بنا دیتا ہے۔میاں محمد بخشؒ کے نزدیک: عشقوں باہجہ ایمان کویہا کہن ایمان سلامت مر کے جیون صفت عشق دی دم دم روز قیامت ۵۲؎ اللہ تعالیٰ نے عشق کی جو گرانقدر نعمت انسان کو عطا کی ہے اُس نے انسان کو پیکرِ نوری سے بھی افضل و برتر بنا دیا ہے۔ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ دونوں کو انسان کی اِس فضیلت و اہمیت کا پوری طرح ادراک ہے کہ فرشتے ذوقِ مہجوری سے محروم ہیں۔عشق کی تپش اور سوز کی نعمت صرف انسان کو ہی ودیعت کی گئی ہے: پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میّسر تو کیا اس کو میّسر نہیں سوز و گدازِ سجود! ۵۳؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں:٭٭٭٭٭٭٭ شان انسان جوان بھلے دا ملکاں نالوں اگے کھول نئیں ایہ گل محمد مت کوئی جھگڑا لگے ۵۴؎ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد عبادتِ خداوندی ہے کیونکہ وہ صرف زبان سے ہی اطاعت نہیں کرتا بلکہ اپنی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں میں بھی خدا کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور شریعت کی راہ پر چلنے کے لیے بے شمار تکلیفوں اور آزمائشوں سے بھی گزرتا ہے فرشتوں کا کام صرف تسبیح و تحلیل ہے جب کہ انسان عشقِ الہٰی کی بدولت بدی کی طاقتوں کا بھی مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔گویا عشق کی بدولت وہ اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اور احکاماتِ خداوندی بجا لاتا ہے: فرشتوں کے اندر فکر کی صلاحیت بھی موجود نہیں وہ تو صرف اﷲ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں اور اپنے علم و عقل سے کام لے کر حقائق تک رسائی حاصل کرنے سے بھی عاجز ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عشق کے مقام تک پہنچنا فرشتوں کے بس کی بات نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو حوصلہ اور جرأت کی بلندیوں سے نوازا ہے جس کی بدولت وہ عزم و ہمت سے کام لے کر ارتقا کی منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے۔ مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انھیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد! ۵۵؎ علامہ اقبالؒ کو انسان کا مقامِ بندگی بے حد عزیز ہے کیونکہ اس میں عشق کا سوز شامل ہے۔یہی سوز اُسے منزلِ مقصود پر پہنچاتا ہے اور وہ قربِ الٰہی حاصل کر لیتا ہے۔ عبادت کی روح دراصل عشق ہے۔ عشق کے بغیر دل میں سوز و گداز پیدا نہیں ہو سکتاگویا خضوع و خشوع کے ساتھ عبادت کے لیے بھی ضروری ہے کہ دل عشق کی تڑپ اور سوز سے لبریز ہو۔ عشق کی بدولت انسانی روح قربِ الہٰی حاصل کرتی ہے۔ روحِ انسانی کی فطرت میں عشق کی آگ پوشیدہ ہے: عشق اجہی اگ ہے جے دوزخ ویکھ سڑے اس دے بھارے بھار تھیں تھر تھر عرش کرے ۵۶؎ انسان ہی کائنات کی وہ عظیم اور معصوم ہستی ہے جس نے عشق کی اس نعمت کو عطیہ خداوندی سمجھ کر قبول کیا اور اپنے لیے مصیبتوں ، تکالیف اور مشکلات سے پُر راستے کا انتخاب کر لیا۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: بھار عشق دا کسے نہ چایا ہر ہر عذر بہانے آکھ بَلیٰ بلا سہیڑی انسانے نادانے ۵۷؎ علامہ اقبالؒ کے نزدیک عشق کی یہی آگ مسلمان کا مقصدِ حیات ہے جو اسے حیاتِ ابدی سے ہم۔کنار کرتی ہے: بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے ۵۸؎ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: عشق حسن سے پیدا ہوتا ہے اور پھر خود حسن آفرینی کرتا ہے۔ حسن و عشق ایک دوسرے کی علت اور معلول ہیں اقبال کے کلام میں عشق اور خودی کا مضمون جابجا ایک ہو گیا ہے۔ عشق کو خودی سے اور خودی کو عشق سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ۵۹؎ عشق میں پختگی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب مصلحت اندیشی باکل ختم ہو جاتی ہے اور یقین کامل حاصل ہو جاتا ہے۔ پھر کبھی کبھی منزل خود بخود اچانک سامنے آجاتی ہے: وادیٔ عشق بسے دور و دراز است ولے طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے در طلب کوش و مدہ دامنِ امید زدست دولتے ہست کہ یابی سرِ سراہے گاہے! ۶۰؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: پکاّ پیر دھریں جے دھرناں تلک نیں مت جاوے سو اس پاسے بہے محمد جو سربازی لاوے ۶۱؎ علامہ اقبالؒ نے عقل اور عشق کے بارے میں جو کچھ کہا وہ بنیادی طور پر رومیؔ سے ماخوذ ہے۔ اپنے کلام میں بار بار رومیؒؔ سے فیض حاصل کرنے کا اعتراف کرتے ہیں: قرآنِ کریم نے آفرینش آدم اور اعتراض ملائکہ کا جو قصّہ بیان کیا ہے وہ آدم کے مسجود ملائک ہونے پر منتج ہوتا ہے۔ آدم کو وہ علم عطا کیا گیا جو ملائکہ کو حاصل نہ تھا اس وسعتِ علم کی بدولت آدم ملائکہ سے افضل قرار پایا، لیکن علم کے ساتھ ہی آدم کا طالب عفو ہونا اور خدا کی طرف رجوع کرنا عشق کی بدولت تھا۔ اس لیے عارف رومی محض علم کو نہیں بلکہ عشق کو آدم کی امتیازی خصوصیت قرار دیتا ہے۔ خالی علم زیر کی پیدا کرسکتا تھا جو ابلیس کی صفت ہے، عشق اس سے الگ چیز ہے۔ عشق سے علم کی تکمیل ہوتی ہے لیکن رومی اور اقبال دونوں کے نزدیک آدم فوراً واصل باللہ نہیں ہو گیا بلکہ عشق کی بدولت اس پر ایک طویل مہجوری طار ی ہو گئی۔۶۲؎ اقبال ؒ کے نزدیک وصل الی اﷲ کی منزل بہت دور ہے: باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟ کارِ جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر! ۶۳؎ اس عشق کی کوئی ابتدا اور انتہا نہیں اور خود اقبالؒ بھی اس کی انتہا کے آرزو مند نہیں ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک زندگی ازل سے ابد تک جستجو سے عبارت ہے۔ اقبالؒ نے زندگی کو ہمیشہ جستجو اور آرزو ہی سمجھا اور وہ اس بات کے آرزو مند رہے کہ یہ مرحلۂ شوق کبھی طے نہ ہو ۔ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: اگر انسان کی خودی خدا سے الگ ہو کر فراق زدہ نہ ہوتی تو اس میں کوئی زندگی نہ ہوتی کیونکہ زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے اور آرزو کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مقصود ایک لحاظ سے موجود ہوتا ہے اور دوسری حیثیت سے مطلوب ہوتا ہے۔ اگر انسان خدا کا عاشق ہو سکتا ہے تو فراق ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کی ذات بھی تو عشق سے معرّا نہیں، عشق اس کی ماہیت میں بھی داخل ہے اس لیے حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے بے تاب ہیں اور خدا ہمارے لیے بے تاب ہے۔ اگر ہم اس سے الگ نہ ہوئے ہوتے تو وہ ہمارے لیے بے تاب کیسے ہوتا۔ فراق عشق کی فطرت میں داخل ہے اور یہی وجہ آفرینش ہے۔ ۶۴؎ خدا کا مقصوداپنی مخلوق میںعشق پیدا کرنا ہے اور عشق کا مقصود خود خدا ہے۔ اس لیے عشق کی بدولت انسان میں وہ بصیرت اور معرفت پیدا ہوتی ہے جس کی بدولت وہ خدا تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ عشق اس جوہرِ حیات کا نام ہے جو انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کر رکھاہے لیکن یہ مخفی و مستور ہوتا ہے اور صرف ذوقِ طلب سے متصّف ہو کر حقیقت مطلقہ کی جستجو کرتا ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: زندگی در جستجو پوشیدہ است اصلِ او در آرزو پوشیدہ است ۶۵؎ حُسن کو دیکھ کر دل میں پیدا ہونے والی پہلی خواہش کا نام آرزو ہے اور یہی آرزو محبت کا ایک اہم جزو ہے کیونکہ آرزو کے بغیر عشق کا وجود میں آنا ناممکن ہے۔ یہی آرزو جب شدت اختیار کرتی ہے تو عشق بن جاتی ہے۔مقصد کے بغیر عمل ناممکن سی بات ہے کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے دل میں آرزو یا خواہش پیدا ہوتی ہے اور پھر یہی آرزو یا خواہش انسان کو عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ اگر آرزو نہ ہو تو کوئی عمل وجود پذیر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے آرزو یا تمنا کو بھی بڑی اہمیت دی ہے کیونکہ آرزو تخلیق کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک خودی کے استحکام کے لیے تعمیر و تخلیق کی بہت اہمیت ہے کیونکہ یہی قوت تسخیر کائنات کا سبب بنتی ہے۔ زندگی ہر لمحہ عمل کی متقاضی ہے کیونکہ انسان کے اعمال ہی اُسے منزلِ مقصود تک پہنچاتے ہیں۔عمل کے بغیر زندگی میں حرکت و توانائی ممکن نہیں جس زندگی میں انقلاب نہ ہو وہ زندگی موت ہے۔ زندگی ترقی کے راستے پر عمل کی بدولت ہی رواں دواں رہتی ہے۔ عشق کا یہی وہ اعلیٰ و ارفع جذبہ ہے جو بلند نصب العین کے حصول کے لیے انسان کو اپنا سب کچھ قربان کردینے پر تیار کرتا ہے اس لیے صرف یہی زندگی کی دلیل ہے: عشق ایک سیلاب کی مانند ہے اور اس کے کئی راستے ہیں یہ خفیہ راستوں سے سینے میں جاگزیں ہو جاتا ہے اس کو روکنا محال ہے۔ عشق مختلف جلوؤں میں تجلی ریز ہوتا ہے اور انسان کے پیکر میں زندگی کی حرارت پیدا کرتا ہے۔ اسی کے دم قدم سے زندگی ہے۔ عشق زندگی کا جوہر اور روح ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: عشقے دے کئی راہ نیں، ناہیں اکھیں بس جاندا ہر ہر سینہ تھیں چوراں وانگن دھس ۶۶؎ بقول اقبالؒ: تُند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو عشق خود اک سیل ہے ، سیل کو لیتا ہے تھام ۶۷؎ عشق کی ابتدا حُسن ہے، اور حُسن خلّاقِ آرزو ہے۔ آرزو وہ خواہش ہے جو انسان کو زندگی میں بلند نصب العین کے حصول کی جانب کشاں کشاں لے جاتی ہے اور بالآخر کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ اس لیے علامہ اقبالؒ آرزو کو دل سے کبھی جدا نہیں کرتے کیونکہ آرزو ہی جستجو پر آمادہ کرتی ہے اور انسان کو پُر اُمید بناتی ہے۔ اُمید زندگی کی علامت ہے جبکہ نااُمیدی اور یاسیت موت ہے۔ اقبال کے ہاں آرزو سے انسان کے خون میں گرمی پیدا ہوتی ہے اور اسی سے زندگی کی شمع روشن رہتی ہے۔ یہ افعال کی شیرازہ بندی کرتی ہے اور مقاصد پر کمند ڈال کر ان کا شکار کھیلتی ہے۔ اسی کی بدولت انسان تسخیر کائنات کی راہوں پر رواں دواں رہتا ہے اور منزل کے حصول تک سفر جاری رہتا ہے۔ یہ آرزو ہی ہے جو انسان کو جستجو کے راستے پر گامزن کرتی ہے اور پھر ہر لمحہ اس کے ساتھ رہتی ہے: زندگی مضمونِ تسخیر است و بس آرزو افسونِ تسخیر است و بس زندگی صید افگن و دام آرزو حسن را از عشق پیغامِ آرزو ۶۸؎ آرزو ہی وہ انسانی قوت ہے جو قلب کو فعال اور متحرک رکھتی ہے اور انسان کو جستجو اور تحقیق پر آمادہ کرتی ہے: کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دل میں آرزو اور لگن کا ہونا ضروری ہے یہی آرزو انسان کو بلند نصب العین کے مقصد کے حصول کے لیے عمل پیہم پر آمادہ کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقبال ؒنے آرزو یا تمنا کو عشق کی اساس قرار دیا ہے۔ آرزو کے بغیر زندگی محال ہے بلکہ یہ دنیا خواہشات اور تمناؤں کی بدولت ہی خوبصورت اور رنگین ہے۔ آرزو انسان کے ساتھ ہر وقت رہتی ہے بلکہ لہو میں گردش بن کر دوڑتی ہے۔ آرزو کی موت مایوسی اور نااُمیدی پیدا کرتی ہے۔ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ کے کلام میں یاسیت اور نااُمیدی کی بجائے قوت اور ہمت کا درس پایا جاتا ہے جو آرزو ہی کا مرہونِ منت ہے: سنگِ رہ آب است اگر ہمت قوی است سیل را پست و بلندِ جادہ چیست سنگِ رہ گردد فسانِ تیغِ عزم قطعِ منزل امتحانِ تیغِ عزم ۶۹؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: رکھ دلیری کریں نہ جھورا مت قوت گھٹ جائے مرداں دے سر بنن قضیّے اوڑک پُہچن جائے جھورا فکر گھٹاندا قوت نالے نور عقل دا ٍٍتُدّھ پر کم اجے کئی بھارے ہار نہ جاویں چل دا ۷۰؎ علامہ اقبالؒ کا تصورِ عشق دوسرے شعرا کے رسمی عشق سے قطعاً مختلف ہے۔ اقبالؒ نے عشق کو بہت اعلیٰ و ارفع اور وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ عشق و جنوں مقصد سے بے پایاں لگن اور محبت کا نام ہے کیونکہ جب تک دل میں کسی مقصد کے حصول کی تڑپ، دیوانگی اختیار نہ کر جائے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ یہی لگن انسان کو لمحہ بہ لمحہ قوت اور توانائی عطا کرتی ہے اور اسی کی بدولت انسان راستے کی تمام مشکلات اور پریشانیاں عزم و استقلال اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتا چلا جاتا ہے۔ جس قدر اس کا مقصد بلند ہوتا ہے اسی قدر طاقت اور ہمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ اسی لیے اقبالؒ کے ہاں عشق ذوقِ تسخیر کا نام ہے جو انسان کو لمحہ بہ لمحہ عمل پر آمادہ کرتا ہے: عشق شبخونے زدن بر لامکاں گور را نادیدہ رفتن از جہاں! ۷۱؎ میاں محمد بخش ؒ فرماتے ہیں: عشق زور آور شیر شکاری اس دا ہاڑ نہ خالی چھیڑ کھیڑ نہ کرئیے مارے انگل جس دسالی کوئی ہتھیار نہ پوہندا اُس نوں ناں پھٹ لگدا کاری مار اپنا چھڈ جاندا ناہیں چڑیا کرے خواری ۷۲؎ فقر بھی عشق کا ہی ایک روپ ہے اس لیے اس میں وہ تمام قوتیں پائی جاتی ہیں جو عشق کے فیضان سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ فقر کا ہی کمال ہے کہ وہ بندے کو مقامِ عبودیت پر فائز کر تا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب ساری کائنات صاحبِ فقر کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے لیکن وہ ان سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اس کا ہر عمل صرف محبوبِ خدا کی خوشنودی اور رضا کے لیے ہوتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ کے نزدیک عشق کی یہی اکمل ترین صورت ہے جب عاشق محبوب خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے خدا کی صفت بے نیازی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اﷲ کے سوا ہر چیز کا خیال دل سے نکال دیتا ہے تو یہ کامل عشق سالک کوبے پایاں غیبی طاقت عطا کرتا ہے۔ اسی لیے میاں محمد بخشؒ اللہ تعالیٰ سے دُعا فرماتے ہیں: کامل عشق خدایا بخشیں غیر ولوں مکھ موڑاں ہکو جاناں ہکو تکّاں ہکو آکھاں لوڑاں! ۷۳؎ بقول اقبالؒ: مَاسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست پیشِ فرعونے سرش افگندہ نیست ۷۴؎ غیر اللہ کی غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے کامل عشق کا طالب ہو کیونکہ مسلک عشق اختیار کرنے سے ہی انسان غیر اللہ کی غلامی سے رہائی پا سکتا ہے۔ اور اُس کا مقصدِ حیات صرف اللہ تعالیٰ بن جاتا ہے۔ جب عشقِ الہٰی کامل ہوجاتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرنے لگتا ہے اور وہ انسان مقامِ محبوبیت حاصل کر لیتا ہے۔یعنی نفس ِانسانی حقیقت کلی کا عکس مکمل طور پر اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں: رنگِ او برکن مثالِ او شوی درجہاں عکسِ جمالِ او شوی ۷۵؎ گویا انسان میں خدا تعالیٰ کی صفات منعکس ہو جاتی ہیں اور وہ کُلّی طور پر خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جب اُس کاہاتھ خدا کا ہاتھ بن جاتا ہے اور اُس کی ہستی خدا کی ذات کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ عشق کی معراج یہ ہے کہ عاشق محبوب کے رنگ میں پوری طرح رنگ جائے اور وہ صرف محبوب کی رضا میں راضی ہو۔اس کا ہر فعل اور عمل محبوب کی مرضی و منشا کے مطابق سرزد ہو۔یہی ایمان ِ کامل کی شرط ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: قلب را از صبغتہاللہ رنگ دہ عشق را ناموس و نام و ننگ دہ ۷۶؎ پروفیسر محمد منور لکھتے ہیں: گویا صبغتہ اللہ (اللہ کا رنگ) اختیار کرنے والا بھی نُور ہی کا مظہر ہوتا ہے۔ جس قدر صبغتہ اللہ زیادہ، اسی قدر نور زیادہ، بصیرت زیادہ، دانش زیادہ، فہم و شعور زیادہ۔ پھر عالمِ نورانی کیوں دکھائی نہ دے پھر یہ امر بھی واضح ہے کہ خدائی صفات کا انسانی پَرتو کامل بلکہ اکمل تو حضور نبی اکرمؐ ہی کی ذات ہے، چنانچہ نبی اکرمؐ کا اسوۂ حسنہ اختیار کیے بغیر اخلاق الہٰیہ کا اسلوب اپنا یا نہیں جا سکتا ۔۷۷؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: رستہ چھوڑ نبی دا ٹُریاں کوئی نہ منزل پُگدا جے لکھ محنت ایویں کرئیے کلّر کول نہ اُگدا رستہ صاف نبی دے پچھّے ہور نہ جانو کوئی اوہو کرے شفاعت ساڈی تاہئیں مِلسی ڈھوئی ۷۸؎ مسلمان کے لیے اِتباعِ رسولؐ اور تقلید نبویؐاولین شرط ہے یعنی سُنت نبوی میں ڈوب کر خود شناسی حاصل کرنا ہی مومن کی شان ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب حضورؐ کے تمام کمالات کا عکس مومن کی ذات سے منعکس ہونے لگتا ہے۔ علامہ اقبالؒ مومن کو فنا فی الرّسولؐ کی منزل تک پہنچنے کا درس دیتے ہیں کیونکہ آپ کی ذاتِ مبارک ہی اصل دین ہے۔ اگر کوئی اس منزل تک نہیں پہنچتا تو وہ اسلام سے دُور ہے اور اس کی تمام تگ و دو بولہبی ہے: بمنزل کوش مانندِ مہِ نَو دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شَو مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہِ مصطفیؐ رو ۷۹؎ علامہ اقبالؒ سچے عاشق رسولؐ تھے آپ کی طبیعت میں اس قدر سوز و گداز تھا کہ جب کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہوتا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک خودی کی معراج عشقِ رسولؐ ہی ہے ۔ گویا اقبالؒ کی تعلیمات کا خلاصہ اور لب لباب اِتباع رسول ؐہے اوریہی راہ نجات ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں یہ عشق کا ہی معجزہ ہے کہ راہِ طلب میں امامِ حسنؓ اور امام حسینؓ نے اپنے تن بدن پر خنجر کے وار جھیلے اور اُف تک نہ کی کیونکہ وہ حُسنِ حقیقی کے عاشق زار تھے اس لیے شہادت سے سرفراز ہوئے: میاں محمد بخشؒ کے نعتیہ کلام کی عظمت سے اندازہ ہوتا ہے کہ عشق کی معراج ان کے نزدیک فنا۔فی۔الرّسولؐ کا مرتبہ ہے۔ وہ شاعرِ آتشِ بیاں اور ولی کامل ہونے کے ساتھ ساتھ سچے عاشقِ رسولؐ بھی تھے اُن کی تصنیف تحفۂ رسولیہ میں اُن کے فکری دلائل انسان کی راہنمائی کے لیے نبوت کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ نبوت کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے میاں صاحبؒنے انبیائے کرامؑ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات وضاحت و صراحت کے ساتھ پیش کیے اور ہدایت سے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین اظہر کے مطابق: میاں صاحب نے انھی قرآنی معارف پر اپنے استدلال کی بنیاد استوار کی ہے۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ جس نے ہمیں جسمانی لوازمات سے نوازا ہے اس نے ہماری رہبری اور راہنمائی کا سامان بھی مہیا کیا ہے۔ یہ رہبری ہمیں نبوت کی صورت عطا کی گئی ہے۔ حواس، وجدان اور عقل جس منزل پر رک جاتے ہیں وہاں نورِ نبوت ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ ۸۰؎ میاں صاحبؒ نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو سیرت نگاری کے لیے وقف کر دیا تھا۔ آپ پورے دو برس تک سیرت کے مطالعہ میں منہمک رہے۔ آپ کا نعتیہ کلام رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی عقیدت اور محبت کا بے پایاں ثبوت ہے ۔آپ کی نعتیہ شاعری کا ایک ایک لفظ محبت و احترام کی چاشنی میں ڈوباہوا ہے۔ میاں صاحبؒ کی حُبِّ رسولؐ کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی ہر تصنیف کے آغازمیں حمد باری تعالیٰ کے بعد حضورؐ کی بارگاہ عقیدت میں ہدیۂ نعت پیش کیا ہے: میاں محمد بخش ؒ کے اسی عشقِ رسولؐ کی عقیدت میں ڈوبے لہجے کی مٹھاس اور محبت و احترام کے جذبات نے انھیں یہ کہنے پر مجبور کیا۔ میاں محمد بخشؒاور علامہ اقبال ؒکے نعتیہ کلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ دونوں تعلق بالرسالت پر زور دیتے ہیں اور بارگاہ نبوت کو ہی ہر طرح کے فیضان کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جس خوش قسمت کو آپؐ کی محبت نصیب ہو گئی اُس کو دنیا اور آخرت میں فلاح نصیب ہو گئی۔ مزید یہ کہ تسخیرِ کائنات کا جیسا عظیم کام بھی عشقِ رسولؐ کے بغیر ناممکن ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: می ندانی عشق و مستی از کجاست؟ ایں شعاعِ آفتابِ مصطفیؐ ست ۸۱؎ اسی مقامِ فنائیت سے علامہ اقبالؒ جب کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں اِس پوری کائنات میں ہر طرف حضور اکرمؐ کے جلوے بکھرے نظر آتے ہیں اور حضورؐ کی ذات ایک ایسے بحرِ ذخّار کی مانند نظر آتی ہے جس سے کائنات کی ہر شے سیرابی حاصل کر رہی ہے۔ میاں محمد بخشؒ بھی حضور اکرم ؐ سے عقیدت کا اظہار ایسے ہی الفاظ میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؐ کا نورِ مبارک اُس وقت بھی روشن تھا جب آدمؑ کا خمیر بھی نہ بنا تھا۔ آپؐ ہی اوّل اور آپؐ ہی آخر ہیں۔ دنیا کے تمام نور آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کے باعث ہیں جبکہ آپ کے نور کا تعلق براہِ راست اللہ تعالیٰ کے نور کے ساتھ ہے کیونکہ آپؐ کو معراج کی رات نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ طٰہٰ اور یٰس ٓ کہہ کر آپ ؐکی صفات بیان کرتا ہے: سخن نیئں کوئی ہوندا میں تھیں تیری شان قدر دا طٰہٰ تے یٰسٓ الہٰی صفت تساڈی کردا ۸۲؎ اللہ تعالیٰ نے حضوراکرمؐ کی بعثت کو عالمِ انسانیت کے لیے احسانِ عظیم قرار دیا کیونکہ اطاعتِ رسولؐ اطاعتِ الٰہی کے مترادف ہے۔ قرآن مجید میں سنتِ رسولؐ کی پیروی اور اسوۂ حسنہ کے اِتباع کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ عشقِ رسولؐ مومن کے لیے محبت کی معراج ہے۔ علامہ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒکے نزدیک عشق کا یہی کامل اور اکمل ترین درجہ ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: لوح بھی تُو ، قلم بھی تُو ، تیرا وجُود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حَباب! ۸۳؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: لوح قلم آسماناں زمیاں دوزخ جنت تائیں کرسی عرش معلّٰی ویکھیں سیر کریں سبھ جائیں ۸۴؎ یہ عشقِ رسولؐ ہی تھا جو علامہ اقبالؒ کی رگ رگ میں سرایت کر چکا تھا اُن کا سارا کلام بھی عشقِ رسولؐ کا ہی معجزہ دکھائی دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عشقِ رسولؐ کو دین و دنیا کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور آپؐ ہی کی ذاتِ مبارکہ کو سرچشمہ حقیقت و مجاز کا درجہ دیتے ہیں۔ یہی عشقِ رسولؐ کا جذبہ اقبال ؒکی ساری زندگی میں جاری و ساری رہا اور ان کے نزدیک عشق کی معراج بنا جس سے زمانے میں اُجالا کیا جا سکتا ہے۔ قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے ۸۵؎ ظ……ظ……ظ حوالے و حواشی ۱- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکرِاقبال ،ص۲۵۸ ۲- پروفیسر منور رؤف:دیدہ ور، ادارۂ تحقیق و تصنیف، پاکستان، طبع دوم،۱۹۸۰ء ،ص۸۱ ۳- محمد اقبال: کلیاتِ اقبال(اُردو) شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص۳۸۷ ۴- ایضاً ،ص۳۲۴ ۵- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۵ ۶- محمد اقبال: کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۰۱ ۷- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں، اقبال اکادمی پاکستان، طبع سوم،۱۹۹۴ء ،ص۱۷۰ ۸- ایضاً ،ص۱۶۸ ۹- محمد اقبال: کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۸۷ ۱۰- ایضاً ،ص۳۹۳ ۱۱- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۲۷ ۱۲- محمد اقبال: کلیات اقبال(اردو) ،ص۳۳۱،۵۸۰، ۵۸۱ ۱۳- محمد اقبالـ: کلیات اقبال(فارسی) ،شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص۶۳۲ ۱۴- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۲۲۷ ۱۵- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۳۴ ۱۶- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۲۲۷ ۱۷- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۷۷، ۱۷۸ ۱۸- محمد اقبال: کلیات اقبال(اردو) ،ص۴۱۸ ۱۹- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۸۱ ۲۰- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۸۰ ۲۱- محمد اقبال: کلیات اقبال( فارسی) ،ص۷۹۶ ۲۲- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۷۸ ۲۳- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۶ ۲۴- محمد اقبال: کلیات اقبال(اردو) ،ص۳۲۰ ۲۵- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۶۴ ۲۶- محمد اقبال: کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۱۰ ۲۷- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۳۴ ۲۸- ایضاً ،ص۳۶ ۲۹- محمد اقبال: کلیات اقبال( فارسی) ،ص۱۰۹ ۳۰- میاں محمد بخش: سیف الملوک،ص۳۷۶ ۳۱- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۰۲ ۳۲- محمد اقبال: کلیات اقبال( فارسی ) ،ص۴۱۸ ۳۳- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۷۷ ۳۴- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۴۰ ۳۵- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ،ص۲۲۴ ۳۶- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۶۳ ۳۷- ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی: اقبال اور محبت رسولؐ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ،لاہور، طبع اوّل،۱۹۷۷ء ،ص۲۶ ۳۸- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو ) ،ص۳۷۹ ۳۹- فرمان فتح پوری: اقبال سب کے لیے، اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی، ۱۹۷۶ء ،ص۲۶۳، ۲۶۴ ۴۰- محمد اقبال:کلیات اقبال(اردو ) ،ص۳۱۱ ۴۱- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۹ ۴۲- ایضاً ،ص۴۱ ۴۳- ایضاً ،ص۸۳ ۴۴- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۰۳ ۴۵- یوسف حسین: خان، روح اقبال، آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۴ء ،ص۵۴ ۴۶- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۵۹ ۴۷- میاں محمد بخش: میاں، سیف الملوک ،ص۵ ۴۸- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۵۰۱ ۴۹- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۲۲۱ ۵۰- یوسف حسین خان: اقبال کا تصور عشق، اقبال نامہ ، ص۲۱۷ ۵۱- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۱۰ ۵۲- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۴ ۵۳- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۸۷ ۵۴- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۲۷ ۵۵- محمد اقبال:کلیات اقبال(اردو) ،ص۳۰۰ ۵۶- میاں محمد بخش: شیریں فرہاد، مکتبہ رضوان، میر پور، آزادکشمیر ، ۱۹۷۸ء ،ص۲۹ ۵۷- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۲۷ ۵۸- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۴۱۶ ۵۹- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم:فکر اقبال ،ص۲۸۷ ۶۰- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۳۹۴ ۶۱- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۵ ۶۲- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ،ص۲۷۳ ۶۳- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۲۹۹ ۶۴- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ،ص۳۹۹، ۴۰۰ ۶۵- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۱۵ ۶۶- میاں محمد بخش: قصہ سوہنی مہینوال ،ص۴۸ ۶۷- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۸۶ ۶۸- محمد اقبال:کلیات اقبال(فارسی) ،ص۳۴ ۶۹- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۵۳ ۷۰- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۱۹ ۷۱- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۱۰ ۷۲- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۶۴ ۷۳- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۱۲۵ ۷۴- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۱۱۱ ۷۵- ایضاً ،ص۱۵۷ ۷۶- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۲ ۷۷- محمد منور، پروفیسر: برہان اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع اوّل، ۱۹۸۲ء ،ص۶۵ ۷۸- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۹ ۷۹- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۵ ۸۰- ڈاکٹر غلام حسین اظہر:میاں محمد بخش ،ص۱۲۴ ۸۱- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۸۶۴ ۸۲- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۱۳ ۸۳- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۴۰۵ ۸۴- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۱۱ ۸۵- محمد اقبال:کلیات اقبال، (اردو) ،ص۲۰۷ ظ……ظ……ظ  حسین بن منصور حلّاج ڈاکٹر علی رضا طاہر حلّاج تیسری صدی ہجری کے نامور عرفا میں سے ہیں۔ ان کا اصل وطن بیضا(شیراز) تھا۔ البتہ انھوں نے عراق میں نشوونما پائی۔ حلّاج عرفاے اسلامی میں بڑی پیچیدہ اور الجھی ہوئی شخصیت ہیں۔ ان کے شطحیات کی وجہ سے انھیں کافر و زندیق اور ملحد کہا گیا۔ مقتدر عباسی کے دور میں فقہا نے ان کے قتل و کفر کا فتویٰ جاری کیا اور ۲۵مارچ ۱۹۲۲ء (۲۴ذی قعدہ۳۰۹ھ) کو اس نامور عارف کو دار پر کھینچ دیا گیا۔ ۱؎ عرفا انھیں کفروزندقہ اور الحاد کے تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں اور ان کے اور بایزید کے کلمات(جن کی وجہ سے ہر دو کے کفروقتل کا فتویٰ جاری کیا گیا) کو حالتِ سکر اور بے خودی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہر دور کے نامور عرفا حلّاج کو ’’شہید‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ البتہ عرفا نے حلّاج کے بارے میں یہ ضرور کہا ہے کہ انھوں نے ان اسرارورموز کو سرعام فاش کردیا جن کے برداشت کی قوت عامۃ الناس اور اہل فقہ میں نہیں تھی۔ جیسا کہ حافظ شیراز حلّاج کے بارے میں کہتے ہیں: گفت آں یار کزو گشت سر دار بلند جرمش آں بود کہ اسرار ہویدا می کرد۲؎ حلّاج کی اس کیفیت پر کتاب الطواسین کے انگریزی نسخے کے ’’تعارف‘‘ میں عبدالقادر الصوفی کا خوبصورت تذکرہ یوں ملتا ہے: The inability to conceal the state and thus to reach the final goal of 'Baqa' was the glorious but tragic destiny of Mansur al-Hallaj.3 اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے The Development of Metaphysics in Persia میں صرف ایک مقام پر حلّاج کا تذکرہ کیا ہے۔ مذکورہ مقالے کے باب نمبر۵ بعنوان تصوف میں اقبال نے صوفیانہ مابعدالطبیعیات کے مختلف پہلو تین عنوانات کے تحت بیان کیے ہیں۔ ان تین پہلوئوں میں سے ایک کا عنوان ’’حقیقت بطور جمال‘‘ ہے۔ اس میں اقبال منصور حلّاج کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’اس مکتب کو حسین منصور حلّاج نے بالکل وحدت الوجودی بنا دیا اور وہ ایک سچے ہندو ویدانتی کی طرح ’’اناالحق‘‘ (اہم برہما اسمی) چلا اٹھا۔‘‘ ۴؎ مذکورہ بالا بیان سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ۱- حلّاج کا تعلق صوفیا کے اس مکتب سے بیان کیا گیا ہے جو حقیقت کو ’’بطور جمال‘‘ بیان کرتے ہیں۔ ۲- حلّاج نے صوفیا کے اس مکتب کو وحدت الوجودی بنا دیا۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ تحقیقی مقالے کے بعد اقبال نے حلّاج کے بارے میں کیا نقطۂ نظر اختیار کیا۔ اقبال کے مذکورہ بالا تحقیقی مقالے کا زمانۂ تحریر ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۷ء کے عرصے میں ہے۔ جب کہ اپنی کتاب تاریخِ تصوف ۱۹۱۶ء میں لکھنا شروع کی۔ (جو نامکمل ہے جس کے دو باب تحریر کیے اور بقیہ تین ابواب کے اشارات اور مختصر نوٹس ہی تحریر کرسکے) اس کتاب میں منصور حلّاج کے متعلق اقبال کا درج ذیل نقطۂ نظر ملتا ہے۔ تاریخ تصوف کے باب نمبر۲ کے آخر میں بایزید بسطامی کے مکتب تصوف کے تسلسل میں منصور حلّاج کا یوں ذکر کرتے ہیںـ:اس چمنستان تخیل کا پہلا پھول حسین بن منصور حلّاج ہے جس کے خیالات کی مفصل کیفیت آئندہ باب میں بیان ہوتی ہے۔۵؎ اقبال نے کتاب تاریخ تصوف کا تیسرا باب مکمل منصور حلّاج کے متعلق تحریر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اس باب کو تحریر نہ کرسکے اس باب کے صرف حواشی، اشارات اور مختصر نوٹس ہم تک پہنچے ہیں۔ اقبال نے تیسرے باب کا عنوان ’’ابوالمغیث حسین بن منصور حلّاج البغدادی البیضاوی‘‘ قائم کیا ہے۔ ان حواشی میں اقبال نے جن مؤرخین و مؤلفین اور دانش وروں سے مدد لی ہے۔ ان میں سے اکثروبیشتر حلّاج کے ناقد اور مخالف ہیں، مثلاً ابن ندیم(صاحب الفہرست)، جنید بغدادی، ابوبکر محمد بن یحییٰ۔الصولی (عباسیہ دور کا نامور مؤرخ) ابن مسکویہ، ابوعبداللہ ابوالحسن محمد بن عبدالملک الہمدانی(مؤرخ)، شمس۔الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد ابوالذہبی (۱۳۴۸- ۱۲۷۴ نامور مؤرخ) عبدالرحمن بن علی محمد بن ابوالفرح (حنبلی مذہب کا نامور فقیہ، صاحب تبلیس)، پروفیسر ای جی برائون (نامور مستشرق) اور نامور فرانسیسی مستشرق و محقق ماسی نوں (Massignon) ہیں۔ ان میں زیادہ سے زیادہ ہمدردانہ نقطۂ نظر صرف مسینیون ہی کا ہے۔ اشارات وحواشی میں اقبال نے حلّاج کے حالاتِ زندگی، شخصیت کے بعض پہلو اور افکارونظریات بیان کیے ہیں اور جو نقطۂ نظر اقبال نے حلّاج کے مذہب اور عقیدے کے متعلق قائم کیا، اس کے اثبات کے لیے اقبال نے حلّاج کی معروف تالیف کتاب الطواسین سے بعض حوالے بھی نقل کیے ہیں۔ بہرحال اقبال کی تاریخ تصوف کے باب سوم(متعلق بہ منصور حلّاج) کے حواشی و اشارات سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں: ۰ منصور حلّاج ایک کم علم، جاہل اور غیر سنجیدہ و غیر شائستہ شخصیت کا مالک ہے۔۷؎ ۰ وہ ایک متضاد و متناقض شخصیت تھا جو کبھی خود کو سنی کہتا تھا اور کبھی شیعہ ظاہر کرتا تھا۔۸؎ ۰ اس کا قرامطہ تحریک سے تعلق تھا (یہ ایک تخریب کار باطنی فرقہ تھا اس کا بانی عراق کا ایک باشندہ حمدانی تھا)۔ ۹؎ ۰ منصور ایک سیاسی چال باز تھا۔ خود خدائی کا داعی تھا اور اپنے شاگردوں کو انبیائں کے نام دیتا تھا۔ ۱۰؎ ۰ وہ ایک شعبدہ باز تھا۔۱۱؎ ۰ منصور وجود یعنی ناسوت کے قدم کا قائل تھا اسلامی نقطۂ خیال سے جو الزام زندیقیت مسلمانوں نے لگایا، وہ بالکل بے بنیاد نہ تھا۔ ۱۲؎ ۰ منصور ’’اناالحق‘‘ کا دعویٰ کرتا تھا اور اس کا یہ دعویٰ ضلال و گمراہی تھا اور وہ ایک وحدت الوجودی تھا۔ ۱۳؎ ۰ حلّاج معرفت کو علم پر ترجیح دیتا تھا۔ جب کہ جنید علم کو معرفت پر۔ یہاں اقبال جنید کے ہم نوا نظر آتے ہیں۔ ۱۴؎ معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ تصوف میں اقبال کا منصور کے بارے میں وہی نقطۂ نظر ہے جو تحقیقی مقالے کی تحریر کے وقت تھا۔ لہٰذا یہاں تک حلّاج کے بارے میں اقبال کے نقطہ نظر کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی۔ حافظ محمد اسلم جیراجپوری کے نام ۱۷؍مئی ۱۹۱۹ء کے محررہ ایک خط میں حلّاج کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے: منصور حلّاج کا رسالہ کتاب الطواسین جس کا ذکر ابن حزم کی الفہرست میں ہے۔ فرانس میں شائع ہوگیا ہے۔ مؤلف نے فرنچ زبان میں نہایت مفید حواشی اس پر لکھے ہیں۔ آپ کی نظر سے گزرا ہوگا۔ حسین کے اصلی معتقدات پر اس رسالے سے بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان منصور کی سزا دہی میں بالکل حق بجانب تھے۔ اس کے علاوہ ابن حزم نے کتاب الملل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے، اس کی اس رسالے سے پوری تائید ہوتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ غیر صوفیا قریباً سب کے سب منصور سے بے۔زار تھے معلوم نہیں متاخرین اس کے اس قدر دلدادہ کیوں ہوگئے۔ ۱۵؎ لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کے نام ۲۷؍جنوری ۱۹۱۶ء کے ایک خط میں حلّاج کے بارے میں اقبال کی یہ رائے ملتی ہے: علامہ ابن جوزی نے جو کچھ تصوف پر لکھا ہے، اس کو شائع کردینے کا قصد ہے۔ اس کے ساتھ تصوف کی تاریخ پر ایک مفصل دیباچہ لکھوں گا، ان۔شائاللہ۔ اس کا مسالہ جمع کرلیا ہے۔ منصور حلّاج کا رسالہ کتاب الطواسین فرانس میں مع نہایت مفید حواشی کے شائع ہوگیا ہے۔ دیباچے میں اس کتاب کو استعمال کروں گا۔ فرانسیسی مستشرق نے نہایت عمدہ حواشی دیے ہیں۔ ۱۶؎ اکبر الٰہ آبادی کے نام ہی اپنے ایک اور خط محررہ ۴؍فروری ۱۹۱۶ء میں حلّاج کا ذکر یوں کرتے ہیں: ’’منصور حلّاج کا رسالہ کتاب الطواسین نامی فرانس میں شائع ہوگیا ہے وہ بھی منگوایا ہے۔‘‘ ۱۷؎ انھی کے نام ۱۱؍جون ۱۹۱۸ء کے خط میں پھر حلّاج کا ذکر ہوتا ہے: پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کون سا تصوف میرے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ نئی بات نہیں۔ حضرت علاء الدولہ سمنانی لکھ چکے ہیں، حضرت جنید بغدادی لکھ چکے ہیں۔ میں نے تو محی الدین اور منصور حلّاج کے متعلق وہ الفاظ نہیں لکھے جو حضرت سمنانیؒ اور جنیدؒ نے ان دونوں بزرگوں کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں۔ ہاں ان کے عقائد اور خیالات سے بے زاری ضروری ظاہر کی ہے۔۱۸؎ مذکورہ بالا آرا سے یہ ظاہر ہوتا ہے ابھی تک حلّاج کے متعلق اقبال کا وہی نقطہ نظر ہے جو تحقیقی مقالے اور بعد ازاں تاریخ تصوف کے زمانۂ تحریر کے دوران تھا۔ یعنی وہ حلّاج کے افکاروتصورات کو اُمت مسلمہ کے لیے درست نہیں جانتے، حلّاج سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں اور حلّاج کو دی جانے والی پھانسی کو درست گردانتے ہیں۔ مقالات اقبال میں اقبال کا ایک مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ شامل ہے یہ اقبال نے مثنوی اسرار خودی میں حافظ پر شدید تنقید کی تھی، اس وجہ سے اقبال پر دیگر اعتراضات کے علاوہ یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ وہ تصوف ہی کا مخالف ہے) شامل ہے یہ متذکرہ بالا مضمون میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے حلّاج کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: بہرحال سکر کی حالت میں جن لوگوں نے بعض باتیں خلاف منشا تعلیم اسلام کی ہیں، مسلمانوں نے ان کے متعلق حسنِ ظن سے کام لیا ہے۔ یہاں تک کہ غزالی نے منصور کے صریح الحاد کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے سامنے منصور کا صرف مقولہ ہی تھا اور وہ ذہنی یا مذہبی تحریک نہ تھی جس کا منصور مظہر یا بانی تھا۔ ابنِ حزم نے جو منصور سے شاید ایک صدی بعد ہوا ہے منصوری تحریک اور اس کے حلولی فرقے کا مفصل حال لکھا ہے اور حال میں فرانس میں بھی ایک رسالہ منصوری تحریک پر شائع ہوا ہے۔۱۹؎ ۱۹۱۶ء ہی میں ایک اور مضمون بعنوان ’’سر اسرار خودی‘‘ میں خواجہ سید حسن نظامی کے ان اعتراضات کے جواب دیے گئے جو انھوں نے اقبال کی مثنوی اسرار خودی پر کیے تھے، واضح رہے کہ خواجہ حسن نظامی نے ’’سر اسرار خودی‘‘ کے نام ہی سے اپنا مضمون ۳۰؍جنوری ۱۹۱۶ء کے خطیب میں تحریر کیا تھا اور اقبال نے اسی عنوان کے تحت خواجہ حسن نطامی کے اعتراضات کے جواب دیتے ہوئے ایک مقام پر منصور حلّاج کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: خواجہ صاحب محض اس وجہ سے کہ ان کے نام کے ساتھ بھی خواجہ کا لفظ ہے یا منصور حلّاج کے مذہب حلولی کی پابندی سے جو بحیثیت وحدت الوجودی ہونے کے ان پر لازم ہے، اگر انا الحافظ کا نعرہ لگا کر میرے اشعار کو اپنی طرف منسوب سمجھیں تو ان کا اختیار ہے۔۲۰؎ اسی مضمون میں آگے چل کر مثنوی کی اہمیت کے بیان میں منصور حلّاج پر یوں تنقید کرتے ہیں: یاد رہے کہ یہ مثنوی کسی زمانۂ حال کے منصور کی لکھی ہوئی نہیں جو اپنی نادانی سے یہ سمجھتا تھا کہ میں قرآن جیسی عبارت لکھ سکتا ہوں۔ بلکہ ایک مسلمان کی لکھی ہوئی ہے، جس نے قرآن سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کی تعلیم بنی نوع انسان کی نجات کا باعث تصور کرتا ہے۔ ۲۱؎ منصور حلّاج کے متعلق اقبال کے مذکورہ بالا بیانات، منصور حلّاج کے متعلق اس کے سابق الذکر بیانات سے ملتے جلتے ہیں اور وہی تنقیدی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ اقبال حلّاج کے مذہب کو ’’حلولی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ منصور کی شطحیات پر اعتراض کرتے ہوئے اپنی مثنوی کو منصور حلّاج کے نقطۂ نظر اور روش سے بری قرار دیتے ہیں۔ منصور حلّاج کا بطور وحدت الوجودی ذکر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا بیانات میں بھی وہ منصور حلّاج کی روش، طریق کار اور فکرونظر سے مکمل بے زاری کا اظہار کرتے ہیں اور اس سے اپنی برائ۔ت کو بیان کرتے ہیں۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اپنے تحقیقی مقالے میں اقبال منصور حلّاج کے بارے میں کیا نقطۂ۔نظر اپناتے ہیں۔ مذکورہ بالا کتاب کے خطبۂ چہارم ’’خودی، جبروقدر، حیات بعدالموت، The Human Ego: His Freedom and Immortality میں اقبال حلّاج کے متعلق اپنی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں: یہ تصوف تھا جس نے کوشش کی کہ عبادت اور ریاضت کے ذریعے وارداتِ باطن کی وحدت تک پہنچے۔ قرآن پاک کے نزدیک یہ واردات علم کا ایک سرچشمہ ہیں جن میں ہمیں دو اور عوالم یعنی عالم تاریخ اور عالم فطرت کا اضافہ کرلینا چاہیے۔ اب اگر صرف مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان واردات کا نشوونما حلّاج کے نعرہ ’’اناالحق‘‘ میں اپنے معراج کمال کو پہنچ گیا اور گو حلّاج کے معاصرین علیٰ ہذا متبعین نے اس کی تعبیر وحدت الوجود کے رنگ میں کی لیکن مشہور فرانسیسی مستشرق ماسی نوں (Massignon) نے حلّاج کی تحریروں کے جو اجزا حال ہی میں شائع کیے ہیں، ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہید صوفی نے اناالحق کہا تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسے ذات الٰہیہ کے وراء الورا ہونے سے انکار تھا۔ لہٰذا ہمیں اس کی تعبیر اس طرح کرنی چاہیے جیسے قطرہ دریا میں واصل ہوگیا۔ حالانکہ یہ اس امر کا ادراک، بلکہ علی الاعلان اظہار تھا کہ خودی ایک حقیقت ہے جو اگر ایک عمیق اور پختہ تر شخصیت پیدا کرلی جائے تو ثبات و استحکام حاصل کرسکتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کچھ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حلّاج ان الفاظ میں متکلمین کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا۔ آج کل بھی مذہب کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس میں کچھ ویسی ہی مشکلات پیش آتی ہیں، مثلاً یہی ایک مشکل کہ حلّاج کا گزر جن احوال سے ہوا، ان میں ابتدائ۔ً تو اگرچہ کوئی بات ایسی نظر نہیں آتی جسے غیر طبعی کہا جائے۔ لیکن جب یہی احوال پختگی کو پہنچ جائیں تو خیال ہونے لگتا ہے کہ ہمارے شعور کے بعض مراتب ایسے بھی ہیں جن سے ہم قطعی بے خبر ہیں۔ ابن خلدون نے مدت ہوئی محسوس کرلیا تھا کہ ان مراتب کی تحقیق کے لیے کسی ایسے منہاج علم کی ضرورت ہے جو فی الواقع موثر ہو۔ جدید نفسیات کو بھی اگرچہ اس قسم کے کسی منہاج کی ضرورت کا اعتراف ہے لیکن اس کا قدم ابھی اکتشاف سے آگے نہیں بڑھا کہ صوفیانہ مراتبِ شعور کی خصوصیات کیا ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے اس قسم کے احوال اور مشاہدات کی تحقیق علمی نہج پر کی جائے جیسے مثلاً حلّاج کو پیش آئے اور جو اگر علم کا ایک سرچشمہ ہیں بھی تو ہم ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔۲۲؎ مذکورہ بالا خطبے میں ایک اور مقام پر مباحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: عالم اسلام نے جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق کہ انسان اپنے اندر اخلاقِ الٰہیہ پیدا کرے، مذہبی مشاہدات اور واردات کی طرف قدم بڑھایا تو جیسا کہ مطالعے سے پتا چلتا ہے اس تقرب و اتصال کی ترجمانی کچھ اسی قسم کے اقوال میں ہوتی رہی مثلاً اناالحق(حلّاج) اناالدھر (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہوں قرآن ناطق(علی کرم اللہ وجہ) مااعظم شانی(بایزید رحمتہ اللہ علیہ) لہٰذا اسلامی تصوف کے اعلیٰ مراتب و اتحاد و تقرب سے یہ مقصود نہیں تھا کہ متناہی خودی لامتناہی خودی میں جذب ہوکر اپنی ہستی فنا کردے بلکہ یہ کہ لامتناہی، متناہی کی آغوش میں آجائے۔۲۳؎ خطبات میں اقبال کے مذکورہ بالا بیانات سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یہاں حلّاج کے بارے میں اقبال کا نقطۂ نظر یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ اب وہ حلّاج کو وحدت الوجودی صوفی نہیں سمجھتے خودی کا منکر نہیں بلکہ پیامبر و نقیب سمجھتے ہیں۔ ’’اناالحق‘‘ جس کی وجہ سے اسے گمراہ سمجھتے تھے، اسی نعرے کی وجہ سے اس کی پھانسی کو اب ’’شہادت‘‘ سمجھتے ہیں۔ حلّاج کی اناالحق کی کیفیت و حال اور واردات کو تاریخ اسلام و انسان کی برگزیدہ ترین ہستیوں کے تسلسل میں ذکر کرتے ہیں۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، ۱۹۰۵ء میں یورپ جانے سے قبل تک کی شاعری میں اقبال کے ہاں منصور کا ذکر دو مرتبہ ملتا ہے اور وہ دونوں بار ستائشی انداز میں ہے۔اپنی نظم ’’زہد اور رندی‘‘ میں منصور حلّاج کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف پوچھو جو تصوف کی، تو منصور کا ثانی۲۴؎ بالِ جبریل ہی میں شامل ۱۹۰۵ء سے قبل کی ایک نظم میں منصور کا ذکر یوں ملتا ہے: منصور کو ہوا لب گویا پیام موت اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی۲۵؎ یورپ جانے سے قبل کی شاعری میں اقبال کا جھکائو وحدت الوجود کی جانب بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے اور وہ منصور حلّاج کے مداح بھی نظر آتے ہیں۔ مقالے کی تحریر کے دوران بھی اقبال کا جھکائو وحدت الوجود کی طرف نظر آتا ہے۔ البتہ یورپ سے واپسی کے بعد وہ ایک فکری کش مکش میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس کا اظہار اسرار خودی کی صورت میں ہوتا ہے تو اقبال ’’وحدت۔الوجود‘‘ کے بھی سخت مخالف ہوجاتے ہیں اور ہر اس فکر کے بھی، جس کا نقطۂ نظر انھیں وحدت الوجود کے قریب نظر آتا ہے یا جسے وحدت الوجودی سمجھتے ہیں۔ محی الدین ابن عربی، عبدالکریم الجیلی، حافظ شیرازی اور منصور حلّاج بھی اس دور میں اقبال کی تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ اس دور کی نثری تالیفات میں اقبال، حلّاج کا ذکر جس انداز سے کرتے ہیں وہ گذشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ اس دور کے شعری آثار میں البتہ حلّاج کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ اقبال کی وحدت الوجود اور وحدت الوجودی صوفیا پر تنقید اور اس کے دفاع میں وحدت الوجود کے حامیوں کے اعتراضات و جوابات اور علمی مباحثوں کا سلسلہ ۱۹۲۰ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد یہ ہنگامہ خود ہی سرد پڑ گیا، البتہ منصور حلّاج کے بارے میں اقبال کا تحقیقی مطالعہ بعد ازاں بھی جاری رہا۔ اور رفتہ رفتہ حلّاج کے بارے میں اقبال کا نقطۂ نظر یکسر بدل گیا اور اس بدلے ہوئے نقطہ نظر میں جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، بال جبریل میں شامل ۱۹۳۳ء کی ایک نظم میں حلّاج کا ذکر یوں ملتا ہے: رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی کہ وہ حلّاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا۲۶؎ ضربِ کلیم کے ایک قطعے میں حلّاج کا تذکرہ یوں ملتا ہے: فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ ، وہی آش حلّاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا رازِ خودی تلاش۲۷؎ یہاں دونوں مقامات پر اقبال حلّاج کے حد سے زیادہ معترف نظر آتے ہیں۔ اقبال کا نقطۂ۔نظر یکسر بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ تاریخ تصوف میں اقبال نے علم کو عرفان پر ترجیح دینے کے بعد جنید بغدادی کے نقطۂ۔نظر کے برعکس عرفان کو علم پر ترجیح دینے کے نقطۂ۔نظر کی مذمت کی تھی، لیکن یہاں اقبال بڑی خوبصورتی سے حلّاج کے نقطۂ۔نظر کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حلّاج کو سزا دینے والے اس وقت کے فقہا پر بڑی سنجیدہ تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ ضربِ کلیم کے قطعے میں عالم بالا(فردوس) میں اہل مشرق کے بارے میں رومی اور سنائی کے درمیان ہونے والے مکالمے کو، فیصلہ کن رُخ حلّاج کی زبان سے دلاتے ہیں۔ اس سے جہاں خود اقبال کی یہ حیثیت سامنے آتی ہے کہ وہ ’’راز خودی فاش‘‘ کرنے والے ہیں۔ وہاں ایک تو حلّاج، رومی اور سنائی کے ساتھ جنت نشین نظر آتا ہے اور دوسرا وہ ’’مبلغِ خودی‘‘ کا نقیب دکھائی دیتا ہے اور بلاشبہ اس سے یہ نکتہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ اقبال حلّاج کو اپنا ہم مشرب سمجھتے ہیں یا خود کو حلّاج کا ہم مشرب۔ فارسی شاعری میں اقبال نے تیرہ مقامات پرحلّاج کا تذکرہ کیا ہے اور وہ سب اشعار جاوید نامہ میں شامل ہیں۔ ان اشعار میں اقبال نے حلّاج کے متعلق جو نقطۂ۔نظر اختیار کیا، اس کو ہم انتہائی اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں: ۰اقبال حلّاج کی روح کو ’’روح جلیلہ‘‘ کا نام دیتا ہے۔ اور اس کا ذکرغالب و قرۃ العین طاہرہ کے ساتھ کرتا ہے۔۲۸؎ ۰ نوائے حلّاج روح میں ثبات، کائنات میں حرارت، زندگی اور جان و جوش وخروش پیدا کرنے والی ہے۔ ۲۹؎ ۰ حلّاج کہتا ہے کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنی چاہیے۔ عقل فسوں پیشہ اپنے لیے لشکر مہیا کرلیتی ہے۔ مگر گھبرانا نہیں چاہیے کہ عشق بھی تنہا نہیں ہے اور ایسے پیر کی بیعت سے پرہیز کرنی چاہیے جو جوش و خروش اور جذبہ وولولہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور تن مردہ میں صور پھونکنے کے ہنر سے عاری ہو۔۳۰؎ ۰ فلک مشتری پر جب اقبال کی ملاقات ’’ارواح جلیلہ‘‘ حلّاج و غالب و قرۃ العین طاہرہ سے ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جنت میں ایک جگہ رہنا پسند نہیں کیا بلکہ ہم نے ہمیشہ حرکت میں رہنا پسند کیا ہے۔ تم نے فردوس سے جو کہ مقامِ مومناںہے دور رہنا کیوں پسند کیا؟ اقبال اس نکتے کی وضاحت حلّاجکی زبان سے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’مرد آزاد جو اچھے اور برے کی تمیز کرسکتا ہے، اس کی روح بہشت کے اندر ایک مقام پر نہیں رہ سکتی۔ وہ فقط ملاّ ہے جس کی جنت ’’مے‘‘، ’’حور‘‘ اور ’’غلام‘‘ تک محدود ہے۔ آزاد انسانوں کی جنت سیر دوام ہے۔ ملا کی جنت کھانا، پینا، سونا اور مستی ہے جب کہ ’’عاشق کی جنت تماشائے وجود ہے۔ اس کے بعد اسی نظم میں اقبال حلّاج کی زبان میں علم و عشق کا موازنہ کرتے ہیں۔ عشق ہر میدان میں کامیاب نظر آتا ہے اور حقیقی زندگی وہی ہے جو علم کے بجائے عشق کی راہنمائی میں گزرتی ہے۔ یہی زندگی خودی کی تقدیر ہے اور اسی تقدیر سے خودی کی تعمیر ہوتی ہے۔۳۱؎ ۰ مرد مومن خدا سے راز و نیاز رکھتا ہے۔ اس کے عزم سے حق کی تقدیر بنتی ہے، میدان کارزار میں اس کی جنگ حق کی جنگ اور اس کا وار حق کا وار ہوتا ہے۔ ۳۲؎ ۰ زندہ رود منصور سے سوال کرتا ہے کہ تو بندہ حق تھا، تجھے کوتاہ نظروں نے دار پر کھینچ دیا تھا تو ہی بتا آخر تیرا جرم کیا تھا؟ تو منصور جواب میں کہتا ہے: ملت زندہ لاش تھی زبان سے لا الٰہ کہتے تھے، عمل سے منکر تھے۔ میرے سینے میں ’’بانگ صور‘‘ تھی۔ پس میں نے مردہ قوم کو اسرار حیات بتائے، دلبری میں قاہری پیدا کی، خودی کا پیغام دیا، ان میں خودی بیدار کرنے کی کوشش کی اور خودی کی بیداری سے ایک نیا جہاں پیدا کرنے کی کوشش کی، یہی میرا جرم تھا۔ یہاں پہنچ کر منصور حلّاج اقبال سے کہتا ہے: ’’میرے انجام سے عبرت حاصل کر جو میں نے کیا تھا، اب تو بھی وہی کرنے جارہا ہے، تو بھی میری طرح مردہ دلوں میں محشر بپا کرنے جارہا ہے مگر میرا انجام سامنے رکھ۔‘‘ ۳۳؎ جناب رسالت مآب ا کے متعلق حلّاج کے نقطہ نظر کو اقبال یوں بیان کرتے ہیں : ہر رنگ، ہر وجود اور ہر جہان کی قدروقیمت نورِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور ہر شے مصطفیا کی تلاش، پہچان، عرفان اور پانے کی کوشش میں ہے۔ وہ سب سے افضل، سب سے اعلیٰ اور سب سے اول ہیں، راز درون کائنات ہیں، خدا کے بندے ’’عبدہ‘‘ ہیں اور کوئی بھی ’’سر عبدہ‘‘‘ سے آگاہ نہیں۔ عبدۃ ’’سر الا اللہ‘‘ ہیں۔۳۴؎ جب زندہ رود حلّاج سے کہتا ہے کہ کچھ دیر اور ہمارے ساتھ گزاریے تو حلّاج کہتا ہے، ہم سراپا ذوق پرواز ہیں، ایک مقام اور ایک منزل پر قناعت کرنے والے نہیں، ہر زمانے کو دیکھ رہے ہیں اور بال۔وپر کے بغیر پرواز کرنا ہمارا کام ہے۔‘‘ ۳۴؎ ارمغان حجاز میں شامل ’’اناالحق‘‘ کے موضوع پر دو رباعیوں میں اس نقطۂ نظر کا اظہار ملتا ہے: ۳۵؎ اناالحق چونکہ مقام کبریا ہے، اس لیے انسان اگر یہ کلمہ زبان پر لائے تو اس کی سزا وہی ہے، جو حلّاج کو ملی لیکن اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ اگر فرد ایسی بات کہے تو بے شک مستوجب سزا ہے لیکن اگر پوری قوم یہ بات کہنے لگے تو جائز ہے۔ ۳۶؎ اسی طرح ارمغان حجاز کی ہی ایک اور رباعی میں مذکورہ بالا موضوع کی وضاحت یوں کرتے ہیں: اناالحق کہنا اس قوم کے لیے مناسب ہے جس کا ہر فرد اپنی خودی کی تکمیل کرچکا ہو اور جس کے جلال(اقتدار) میں جمال(رحمت) کا رنگ بھی پایا جائے۔ ۳۷؎ منصور حلّاج کے حوالے سے اقبال کی فکر میں اس تدریجی تغیر کے بارے میں ڈاکٹر محمد ریاض یوں اظہارِ نظر کرتے ہیں: البتہ بعد میں ابن الحلّاج کے نعرہ انا الحق کے بارے میں علامہ مرحوم کے خیال میں تغیر رونما ہوا۔ خطبات، مثنوی، گلشن راز جدید اور جاوید نامہ وغیرہ میں انا الحق، خودی ہی کے مترادف بن گیا۔۳۸؎ منصور حلّاج کے متعلق اقبال کے نقطۂ نظر کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے: ۱- ۱۹۰۵ء تک اقبال کے ہاں منصور حلّاج کا ذکر ان کی اُردو شاعری (بال جبریل) میں ملتا ہے۔ اقبال حلّاج کے مداح نظر آتے ہیں اور خود کو اس کی عارفانہ روش کا پیرو قرار دیتے ہیں۔ ۲- ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء کے قیامِ یورپ کے دوران بھی اقبال کا رحجان وحدت الوجود کی طرف رہا۔ ان کے تحقیقی مقالے میں منصور حلّاج کا ذکر صرف ایک بار وحدت الوجودی صوفی کے حوالے سے ملتا ہے۔ اور یہاں اقبال حلّاج کے نعرہ ’’اناالحق‘‘ کو ہندو ویدانتی نعرے ’’اہم برہما اسمی‘‘ سے مربوط کرکے پیش کرتے ہیں۔ ۳- یورپ سے واپسی کے بعد تقریباً ۱۹۲۰ء تک اقبال کی مثنوی اسرار خودی کی تصنیف، مثنوی اور اس کے دیباچہ میں وحدت الوجود اور وحدت الوجود کے حامی صوفیا اور عارف شعرا پر اقبال کی تنقید سے ہند کے علمی حلقوں میں ایک مناظرہ و مناقشہ کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ وحدت الوجود کے حامی بالخصوص خواجہ حسن نظامی، اقبال کی تنقید کے جواب میں اقبال پر اعتراض کرتے ہیں اور وحدت الوجود کا دفاع کرتے ہیں۔ اس دور میں اقبال کی تحریروں میں وحدت الوجود اور اس کے حامیوں بالخصوص ابن عربی، عبدالکریم الجیلی، حافظ شیرازی اور حلّاج پر شدید تنقیدیں ملتی ہیں۔ ۴- ۱۹۲۰ء تک یہ ہنگامہ سرد پڑ جاتا ہے۔ا سی دور میں حلّاج کے متعلق اقبال کے مزید مطالعات سے بتدریج ان کا نقطۂ نظر تبدیل ہوجاتا ہے۔ اور اس کے بعد کی تقریباً تمام شعری و نثری تالیفات میں اقبال حلّاج کے پھر سے مداح بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ مداحی اس کے وحدت الوجودی نقطۂ۔نظر کی وجہ سے نہیں بلکہ اقبال مزید مطالعے کے بعد حلّاج کو وحدت الوجود سے بری اور خودی کا مبلغ و نقیب اور تحفظ خودی کا نمایندہ قرار دیتے ہوئے، منصور حلّاج کی روش، فکرونظر اور طریق کار کی ستائش کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال اقبال کی فکرونظر میں حلّاج کے متعلق اس تغیروتبدل کے سفر کا مطالعہ جہاں اپنی جگہ دلچسپی کا حامل ہے، وہیں اس سے اقبال کے غیر جانبدار محقق، زندہ مفکر، غیر متعصبانہ نقطۂ۔نظر اور دیانتدارانہ موقف و روش سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ تا آخر وحدت الوجودی نقطہ نظر سے اقبال کے فکری اختلاف کو جاننے کے لیے بھی راہنمائی ملتی ہے۔ خ…خ…خ…خ حوالے و حواشی 1- Shorter Encyclopaedia of Islam, Leiden, 1961, P,128. ۲- مرتضیٰ مطہری: خدمات متقابل اسلام و ایران، انتشارات صدرا، تہران، ۱۳۶۲ھ، ص۴۶۹ 3- Mansur Al-Hallaj, The Tawasin, Translated by Aisha Abad-ar-Rahman, Berkley and London, Diwan Press, 1974, P,13. ۴- علامہ محمد اقبال: فلسفہ عجم، ترجمہ، میر حسن الدین، نفیس اکیڈمی، کراچی، ۱۹۶۹، ص۶۴ ۵- علامہ محمد اقبال: تاریخ تصوف، مرتبہ صابر کلوروی، مکتبۂ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۸۷، ص۸۵ ۶- علامہ محمد اقبال: فلسفہ عجم، ص۶۴ ۷- ایضاً، ص۶۵-۶۷ ۸- ایضاً، ص۶۵ ۹- ایضاً، ص۸۰ ۱۰- ایضاً، ص۶۶ ۱۱- ایضاً، ص۶۸ ۱۲- ایضاً، ص۷۱ ۱۳- ایضاً، ص۷۲-۷۳ ۱۴- ایضاً، ص۷۴ ۱۵- علامہ محمد اقبال: اقبال نامہ، مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اول، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۴۴، ص۵۴-۵۵ ۱۶- ایضاً، ص۵۰-۵۱ ۱۷- ایضاً، ص۵۲-۵۴ ۱۸- ایضاً، ص۵۵ ۱۹- علامہ محمد اقبال: مقالاتِ اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۶۳، ص۱۶۶-۱۶۵ ۲۰- ایضاً، ص۱۷۴ ۲۱- ایضاً، ص۱۷۶ ۲۲- علامہ محمد اقبال: تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجم سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۶۳، ص۱۴۴-۱۵۵ ۲۳- ایضاً، ص۱۶۶ ۲۴- علامہ محمد اقبال: کلیات اقبال، اردو، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۶، ص۶۰ ۲۵- ایضاً، ص۱۰۲ ۲۶- ایضاً، ص۳۱۵ ۲۷- ایضاً، ص۸۵۰ ۲۸- علامہ محمد اقبال: کلیات اقبال، فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۵، ص۷۰۳ ۲۹- ایضاً، ص۷۰۴ ۳۰- ایضاً، ص۷۰۵ ۳۱- ایضاً، ص۷۰۷-۷۰۸ ۳۲- ایضاً، ص۷۰۹-۷۱۰ ۳۳- ایضاً، ص۷۱۶-۷۲۰ ۳۴- ایضاً، ص۷۲۲ ۳۵- ایضاً، ص۲۷۱ ۳۶- ایضاً، ص۹۵۲ ۳۷- ایضاً، ص۹۵۲ ۳۸- علامہ محمد اقبال: تاریخ تصوف، ص۱۰ نوٹ: علامہ اقبال سے منسوب تاریخ تصوف کے بارے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اقبال کی کوئی باضابطہ تصنیف نہیں ہے بلکہ بالکل ابتدائی نوعیت کے نوٹس ہیں جن کو وہ ایک کتاب کی صورت میں احاطۂ تحریر میں لانا چاہتے تھے لیکن بوجوہ ایسا نہ کرسکے۔ انھی ابتدائی نوعیت کے منتشر نوٹس کو صابرکلوروی صاحب نے مرتب کرکے تاریخ تصوف کے نام سے شائع کیا۔ خ…خ…خ…خ  تصو۔ّرِ عشق علامہ محمد اقبال اور میاں محمد بخش کا تقابلی مطالعہ عابدہ خاتون علامہ اقبال ؒکے نظامِ فکر میں عشق کو ایک بنیادی مقام حاصل ہے۔ وہ عشق کو مقصد سے بے پایاں لگن کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک ایسی لگن جو راستے میں آنے تمام والی مشکلات اور تکالیف کو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ پوری قوت اور جدوجہد کے ساتھ منزل کی جانب اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: اقبال نے عشق کے مفہوم میں بڑی گہرائی اور بڑی وسعت پیدا کر دی ہے اور اس بارے میں وہ خاص طور پر عارفِ رومی کا شاگرد رشید ہے۔ اقبال نے حکمت و عرفان کے بیش بہا جواہر اسی مرشد سے حاصل کیے ہیں لیکن عشق کے بارے میں وہ خاص طور پر رومی کا ہم آہنگ ہے۔۱؎ رومیؒ عشق کے علم بردار ہیں کیونکہ عشق ہی وہ قوت محرکہ ہے جو کائنات کے سربستہ رازوں تک انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ بھی رومی ؒکے ہم نوا ہیں ان کے نزدیک عشق کی بدولت ایک نئی دنیا انسان کی نگاہوں پرمنکشف ہوتی ہے۔ پروفیسر منور رئوف لکھتے ہیں:’’وہ سمجھتے ہیں کہ عشق کے ذریعے سے انسان کو وہ دانش نورانی اور بصیرت یزدانی حاصل ہوتی ہے جس سے کائنات کے راز ہائے سربستہ اس پر منکشف ہو جاتے ہیں اور وہ حقائق اشیا پر مکمل عبور حاصل کر لیتا ہے۔۲؎ عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نورِ حیات، عشق سے نار حیات ۳؎ عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نَم ۴؎ علامہ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ کے فلسفۂ عشق میں گہری مطابقت پائی جاتی ہے۔ دونوں دل کے سوز کے طلب۔گار ہیں اور عشق کو مقصد حیات سمجھتے ہیں۔جب تک دل میں منزل کے حصول کی لگن نہ ہو انسان بلند نصب العین کو نہیں پا سکتا اور یہ تڑپ صرف عشق کی بدولت ہی حاصل ہوتی ہے۔ عشق ہی انسان کو اوج ِ کمال تک پہنچاتا ہے اور حیاتِ ابدی سے ہم۔کنار کرتا ہے۔ عشق نورِ حیات ہے اور نور کا منبع اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جب تک دل اصل سرچشمے کی روشنی سے منور نہ ہو، حقائق کا ادراک ممکن نہیں، اس لیے اپنے دل میں عشق کا روشن چراغ جلانے کے لیے میاں محمد بخشؒ اﷲ تعالیٰ سے یوں دعا کرتے ہیں: ؎ بال چراغ عشق دا میرا روشن کر دے سیناں دل دے دیوے دی روشنائی جاوے وچہ زمیناں ۵؎ علامہ اقبالؒ بھی عشق کی لازوال کسک کے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعا گو ہوتے ہیں کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو ۶؎ عشق مجازی تصوف میں عشق حقیقی تک رسائی کے لیے ایک زینے کا کام دیتا ہے۔ اسی طرح مادی حُسن ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں صوفی کو حُسنِ ازل کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو اسے بے قرار کرتی ہے۔ وزیر آغا لکھتے ہیں: حسنِ ازل کے بارے میں دو باتیں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ حسنِ ازل روشنی کا ایک کوندا اور تجلّی کی ایک لپک ہے گویا یہ حُسن، آواز اور صورت کی بجائے روشنی سے عبارت ہے۔ …… دوسرا یہ کہ دنیا میں جہاں کہیں حسن ہے چاہے وہ اشیا، پرندوں، سبزہ زاروں اور ندیوں ہی کا حُسن کیوں نہ ہو، دراصل حُسنِ ازل کا عطیہ ہے۔۷؎ تصوف میں پہلا درجہ حُسن کے ظہور کا ہے جو محبوب کے سراپا کو دیکھ کر عاشق کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور پھر اسے اتنا بے قرار کرتا ہے کہ وہ بے بس اور مجبور ہو جاتا ہے۔ اگر یہ کشش محض جسم کی سطح تک رہے تو جنسی کشش کہلائے گی لیکن جب اس جذبے کی تہذیب ہو جاتی ہے تو یہ محبت کا عنوان پاتا ہے اور دلوں کی ہم آہنگی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن جب اس جذبے میں اتنی شدت پیدا ہو جائے کہ محبوب کی ذات کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے تو عشق کہلاتا ہے اور پاکیزگی کی لطافت میں تبدیل ہو کر حیاتِ دوام حاصل کرتا ہے۔ تصوف کے باب میں عشق کسی مادی محبوب کے سراپا سے مربوط نہیں کیونکہ صوفی کی نظر مادی حُسن کے پردے سے گزر کر حُسن ِ ازل کی تجلی تک پہنچتی ہے۔ لیکن اپنے مزاج اور کارکردگی کے حوالے سے یہ جذبہ عام انسان کو مادی عشق ہی سے مشابہ نظر آتا ہے اور صرف صاحبِ نظر ہی اس کی حقیقت کا ادراک کر سکتے ہیں۔ اسی عشق کی بدولت صوفی روحانی ارتقا کا سفر طے کرتا ہے اور پھر اپنے فن ِسخن گوئی کی بدولت اسے دوسرے انسانوں تک پہنچانے کا فریضہ بھی بخوبی سرانجام دیتا ہے۔ یہ فن ہی ہے جو معرفت کے نازک اور لطیف اسرار و رموز کو اپنے دامن میں سمو لیتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے الفاظ میں: صوفی خدا اور کائنات کے بارے میں جو علم حاصل کرتا ہے اسے وہ بآسانی دوسروں تک منتقل کر سکتا ہے اور تصوف کا فلسفیانہ پہلو اس انتقالِ علم ہی کا مظہر ہے لیکن جب صوفی حُسنِ ازل کی تجلیات سے آشنا ہوتا ہے تو اس کے شخصی نوعیت کے انتہائی لطیف اور پُراسرار تجربے کو صرف فن ہی گرفت میں لے سکتا ہے۔۸؎ فن کی آبیاری کے لیے خون ِ جگر کی ضرورت ہے۔ خلوص نیت اور جذبۂ پیہم کے بغیر فن بے روح جسد کی مانند ہے۔ مسلسل محنت اور لگن ہی فن کو لازوال بناتی ہے: رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود ۹؎ نقش ہیں سب ناتمام ، خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر ۱۰؎ علامہ اقبالؒ کے نزدیک فن وہی ہے جو حیات بخش اور زندگی کا ترجمان ہو، اس کے لیے خون جگر کی آمیزش ضروری ہے۔ میاں محمد بخشؒ بھی کمالِ فن کو عشق ہی کا معجزہ قرار دیتے ہیں۔ فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن پارے میں تاثیر، گداز اور ابدیت کا رنگ بھرنے کے لیے سعیِ پیہم سے کام لے کیونکہ وارداتِ قلبی کا بیان صرف اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب سوزِ عشق عروج پر ہو۔ لہٰذا دردِ دل اور سوزِ جگر ہی عاشق کی پہچان ہیں۔شعلۂ عشق کی روشنی میں ہی عاشق معرفت کا سفر طے کرتا ہے: زندگی کے دکھ درد شاعر کے دل میں انسانیت کے لیے ہمدردی ، خلوص اورمحبت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ جب تک شاعر کے دل میں انسانیت کے درد کا سوز نہ ہو وہ زندگی کے اندھیروں میں اُجالا نہیں کر سکتا۔ محبت اور ہمدردی کی یہی تڑپ خود جل کر دوسروں کے لیے روشنی مہیا کرتی ہے۔ شاعر کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے وہ سوزِ قلب کا کرشمہ ہوتا ہے کیونکہ عشق ہی کی بدولت تخیلات و افکار کی دنیا میں آگ بھڑکتی ہے۔ میاں محمد بخش ؒ کے نزدیک درد مندی ہی شاعر کی پہچان ہے: ؎ جس وچہ کجھی رمز نہ ہووے درد منداں دے حالوں بہتر چپ محمد بخشاؒ سخن اجیہے نالوں جو شاعر بے پیڑا ہووے سخن اوہدے بھی رُکّھے بے پیڑے تھیں شعر نہ ہوندا اگ بن تہوں نہ تُکّھے ۱۱؎ شاعری کے لیے سوز و مستی بے حد ضروری ہے کیونکہ شاعر اپنے کلام سے دلوں میں پاکیزہ خیالات پیدا کرتا ہے اور قوموں کونہ صرف زندہ کرتا ہے بلکہ ان کے اندر عمل کا ولولہ پیدا کرتا ہے ۔ ایسی شاعری ہی زندگی کی ترجمان ہو سکتی ہے جو مایوسی اور قنوطیت کے پردوں کو چاک کر کے زندگی کو امید کی روشنی سے ہم۔کنار کرے اور انسان کے باطن میں انقلاب پیدا کر دے۔ شاعری کا اصل مقصد زندگی کی اعلیٰ قدروں کا حصول اور حقائق تک رسائی ہے جو شاعری اس معیار پر پوری نہیں اترتی وہ مذموم ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ؎ اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا! ۱۲؎ علامہ اقبالؒ کے نزدیک شاعر قوم کا درد شناس ہوتا ہے وہ اپنی ہمدردی اور محبت سے ان کا مسیحا بن کر انھیں پستی سے بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور ہردم سرگرم عمل رہنے پر آمادہ کرتا ہے: ؎ شاعر اندر سینۂ ملت چو دل ملتے بے شاعرے انبارِ گل! ۱۳؎ میاں محمد بخشؒ بھی اپنے اشعار میں پوشیدہ فقر کے لطیف رموز کے بارے میں کہتے ہیں: ہر بیتے وچہ رمز فقر دی جے تدھ سمجھ اندر دی گل سُنا محمد بخشا عاشق تے دلبر دی ۱۴؎ عشق ہی وہ حرکی قوت ہے جو عاشق صادق کو زمان و مکاں کی قیود سے آزاد کرکے قربِ الٰہی نصیب کرتی ہے۔ عشق کا باطنی پہلو نورانی ہے اور نو رمیں جمال ہے۔ عشق کی اصل نورِ رب العالمین ہے۔ میاں محمد بخش ؒ کی مثنوی سفرالعشقکا ہیرو سیف الملوک، پری بدیع الجمال پر عاشق ہوتا ہے جو نوری مخلوق ہے ۔ گویا مجاز کے پردے میں میاں محمد بخش ؒ نورِ حقیقی کے طلب۔گار ہیں اور یہی انسان کی اصل منزل ہے۔ لیکن اس منزل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عشق اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور عاشق بننا میاں محمد بخشؒ کے نزدیک آسان کام نہیں: عاشق بنن سکھالا ناہیں ویکھاں نہیوں پتنگ دے خوشیاں نال جلن وچہ آتش موتوں ذرا نہ سنگدے ۱۵؎ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: تصوف میں عشق کا سفر پروانے کے سفر کے مماثل ہے جو شمع کی روشنی کی ایک جھلک پانے پر شروع ہوتا اور اُس لمحے انجام کو پہنچتا ہے جب پروانہ خود کو شمع کی آگ میں جلا کر روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ درمیانی مدارج میں سے ایک طواف ہے جس سے مراد یہ ہے کہ پروانے کا سفر دائرے میں طے ہوتا ہے اور جیسے جیسے طواف کی رفتار تیز ہوتی ہے عاشق اپنے وجود کے فاضل بوجھ سے دست کش ہوتا جاتا ہے۔۱۶؎ طواف دراصل ایک مخصوص دائرے میں دیوانہ وار مرکز کے گرد گردش ہے جسے خود فراموشی کی کیفیت کا رقص بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہی طواف عشق کی پہلی منزل ہے اور ارتکاز کی طرف پہلا قدم ہے: تصوف کے بہت سے مسالک میں رقص کو اس لیے اہمیت ملی ہے کہ رقص جب اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو انسان عقل و خرد کی قربانی پیش کرتا ہے۔ تاکہ اسے باریابی یا حضوری کی سعادت حاصل ہو سکے۔ ہندو دیومالا کے مطابق رقص ہی سے کائنات کی تخلیق ہوئی ہے، اس لیے کہ رقص سے خود فراموشی کا تسلط قائم ہوتا ہے اور خود فراموشی سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ چونکہ یہ کائنات ایک عظیم تخلیقِ مُسلسل ہے، لہذا کچھ عجب نہیں کہ ایک بے پایا ںخود فراموشی ہی اس تخلیق کا منبع ہو اور اس بے پایاں خود فراموشی کو قائم رکھنے کے لیے پوری کائنات رقص کر رہی ہو اقبال نے جس تغیرکے ثبات کا اقرار کیا ہے وہ کائنات کی مسلسل گردش ہی کا دوسرا نام ہے۔۱۷؎ سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز اُلجھ کر سلجھنے میں لذّت اسے! تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے ۱۸؎ ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں: عشق دائرے میں گھومتا ہے اور ’’محبوب‘‘ کے گرد پروانہ وار طواف کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے ہاں ایک طرف تو پوری کائنات ’’مرکزِ عظمٰی‘‘ کے گرد بے پناہ رفتار کے ساتھ طواف کرتی ہوئی نظر آتی ہے، دوسری طرف مردِ مومن کائنات کی اس رفتار سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ تو پوری کائنات کا اعلامیہ بن گیا ہے۔۱۹؎ میاںمحمد بخشؒرقص کے اس سفر کو عشق سے منسوب کرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی گردش اُس وقت تک بے معنی ہے جب تک کسی مرکز و محور کے گرد نہ ہو۔ چنانچہ فرماتے ہیں: عشق نچاوے تھیّا تھیّا چھنکن پیریں سنگل قید چُھٹے تاں اُس لکھ لُٹی ڈھونڈاں ندیاں جنگل ۲۰؎ عشق کی قید سے رہائی پانا نا ممکن ہوتا ہے کیونکہ عاشق کی حیثیت ایک جذباتی گردباد کی صورت میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس کا مقدر مسلسل سفر اور تڑپ سے عبارت ہوتا ہے۔ یہ رقص جاں نہیں بلکہ روح کا رقص ہے۔جو عاشق کا مقدر بن جاتا ہے اور وہ اس رقص کے ذریعے زمان و مکاں پر غالب آنے کی قوت حاصل کرلیتاہے۔ بقول اقبالؒ: رقصِ تن در گردش آرد خاک را رقصِ جاں برہم زند افلاک را ۲۱؎ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: اقبال نے اپنی شاعری میں کائنات کے رقص کا بار بار ذکر کیا ہے۔ ان کے نزدیک ہر ذرہ کائنات تڑپ رہا ہے، ہر شے متغیر ہو رہی ہے، ہر دم صدائے کن فیکوں آرہی ہے اور ایک مسلسل سفر کی کیفیت ہر شے پر طاری ہے۔ ۲۲؎ انسانی عقل کُن کے ادراک کی رسائی سے یکسر قاصر ہے۔ عاقل، بالغ، عالم اور فاضل بھی اس راز کی حقیقت پانے سے قاصر ہیں۔ میاں محمد بخشؒ کہتے ہیں کُن اوہدی نوں کوئی نہ پہتا عاقل بالغ داناں در جس دے سِر سجدے سَٹّے لوح قلم اسماناں ۲۳؎ پوری کائنات آہستہ آہستہ منور ہو رہی ہے اور اسے تخلیقی آگاہی حاصل ہو رہی ہے، یعنی اسے اپنی ہی آگہی حاصل ہورہی ہے۔ چونکہ آگہی ہی تخلیق ہے، اس لیے ہر لمحہ تخلیق کاری کا عمل جاری وساری ہے۔اسی نتیجے پر اقبالؒ بھی پہنچتے ہیں اور فرماتے ہیں: یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں ۲۴؎ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: تصوف میں عشق کا تصور دائرے سے نجات پا کر مرکز سے ہم رشتہ ہونے کا عمل بھی ہے اور اس لحاظ سے سراسر تخلیقی ہے مگر دائرے کے زندان سے عشق کی جست سیدھی لکیر اختیار کرنے کا ایک بالکل عارضی منظر ہے، کیونکہ اس کے فوراً ہی بعد عاشق ’’مرکزہ‘‘ میں تحلیل ہو جاتا ہے۔۲۵؎ گویا عاشق زندگی اور موت کے مرحلے سے گزرتا ہے اور اپنی بقا کے لیے جست لگا کر حُسنِ ازل سے وابستہ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی وسعتیں اُس کے جذبۂ عشق کے سامنے سمٹ جاتی ہیں اور وہ ان پر غالب آجاتا ہے: عشق کی اِک جست نے طے کر دیا قصّہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں ۲۶؎ میاں محمد بخشؒ کے نزدیک عشق کا سفر حیات بعد الممات کا سفر ہے اس لیے عاشق آگ کا یہ دریا بے خوف و خطر عبور کر لیتا ہے۔ اُس کے نزدیک یہ موت عارضی ہے جس میں خاکستر ہونے کے بعد ایک نئی اور روشن زندگی کی صبح طلوع ہوتی ہے۔ بڑے بڑے عقل مند اور دانش۔ور اس پُل کے سفرکو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں لیکن عشق ہی وہ جذبہ ہے جو عاشق کو ہر خوف ، غم اور مصیبت سے نجات دلا کر منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ یہ زندگی کو پُر جوش، باعمل اور طاقتور بنا دیتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: کی کجھ بات عشق دی دساں قدر نہ میرا بھائی ایہہ دریا اگّی دا وگدا جس دا لاہنگ نہ کائی جس نے قدم اگیرے دھریا سویو سڑیا سڑیا پر ایتھے سڑ مرن حیاتی اینویں گل نہ اڑیا ۲۷؎ عاشق صادق مرنے سے ہر گز نہیں ڈرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت عشق کو فنا نہیں کر سکتی۔ عشق کا جوہر غیرفانی ہے۔اس لیے عشق میں حیل و حجت اور پرہیز کا کوئی کام نہیں ۔ میاں محمد بخشؒ کے نزدیک عشق جرأت ِرندانہ سے عبارت ہے: چھم چھم تیر پَوّن تلواریں عاشق ناں ڈر رہندے عشق پرہیز محمد بخشا نہیں کدے رل بہندے ۲۸؎ علامہ اقبالؒ کے نزدیک عشق فتح یاب ہے۔ وہ مقصد کے حصول سے ایک لمحہ کے لیے بھی غفلت شعاری کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ ہر قسم کے شکوک و شبہات سے دامن چھڑا کر نصب العین کو گرفت میں لے آتا ہے: عقل در پیچاکِ اسباب و علل عشق چوگاں بازِ میدان عمل ۲۹؎ جرأتِ رندانہ کی نعمت صرف عشق کو ہی حاصل ہوتی ہے کیونکہ عشق راستے کی تکالیف کو خاطر میں نہیں لاتا اور نصب العین کے حصول کی جانب سفر جاری رکھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک عقل اور عشق دونوں ہی سالارِقافلہ ہیں اور منزل تک پہنچانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اقبالؒ عقل کی مخالفت نہیں کرتے لیکن اس کی حدود اور عجز سے باخبر ہیں کیونکہ عقل کی خامی یہ ہے کہ وہ شک میں مبتلا ہوجاتی ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے جبکہ عشق کی اساس یقین پر ہے جس کے سامنے ہر ممکن اور موجود شے شکست کھا جاتی ہے۔ گویا عشق ایک سیلاب کی مانند ہے جو راستے کے تمام خس و خاشاک کو بہا کر لے جاتا ہے۔ جس طرح خوشبو کو قید نہیں کیا جا سکتا اسی طرح عشق کو گرفت میں لانا ناممکن ہے۔ میاں محمد بخش ؒفرماتے ہیں: جھولی پأ انگار محمد کوئی پچا نہ سکے عشقاں مشکاں تے دریاواں کون چھپائے ڈکے ۳۰؎ عشق کی تڑپ، بے قراری اور لگن لمحہ بہ لمحہ انسان کو سرگرم عمل رکھتی ہے اور یہی سعیٔ پیہم منزل تک پہنچنے کے لیے سازگار ثابت ہوتی ہے۔ گویا راہ عشق کے مسافر کے لیے صبر و قرار ناممکن ہے۔ عقل ہر شے کو شعور و ادراک کی کسوٹی پر پرکھتی ہے اور صبر کے ساتھ منزل تک رسائی کی متقاضی ہے اس لیے جرأت رندانہ سے عاری ہے: ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: اقبال نے اپنی شاعری میں عقل کو اسباب و علل کے تابع قرار دینے کے علاوہ ایک خوف زدہ، پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی ہستی کے روپ میں دیکھا ہے۔ ایک ایسی ہستی جس کے ہاں جرأتِ رندانہ کی کمی ہے۔۳۱؎ عقل ہم عشق است و از ذوقِ نگہ بیگانہ نیست لیکن ایں بیچارہ را آں جرأتِ رندانہ نیست ۳۲؎ عقل کی مدد سے انسان خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ عالمِ روحانیت عقل کی گرفت سے باہر ہے۔ اس لیے علامہ اقبالؒ اسے منزل کی بجائے چراغِ راہ سمجھتے ہیںجو منزل کا راستہ دکھانے میں مددگار تو ثابت ہو سکتا ہے لیکن راز ہائے درون ِخانہ سے بے خبر ہے: خِرد سے راہرو روشن بصر ہے خِرد کیا ہے؟ چراغِ رہگذر ہے درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگذر کو کیا خبر ہے! ۳۳؎ نور حقیقی کو دیکھنے کے لیے جذبۂ عشق اور دلِ بینا کا ہونا ضروری ہے محض عقل اور فہم و فراست سے اس منزل تک حضوری ناممکن ہے: میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں عقل کی تنگ دامنی عاشق و معشوق کے مابین ہونے والے راز و نیاز کی وسعت کو نہیں سمیٹ سکتی کیونکہ یہ مرحلہ صرف عشق طے کر سکتا ہے جس نے یہ راز پا لیا وہ سب سے زیادہ دانشمند ہے: دور کِتے اس شہروں باہر پھردا عقل بے چارا جس ایہ سِرّ ذرا ہک لدھا ہر تھیں ہو یا نیارا ۳۴؎ عشق ہی خلّاق اور فعال ہے محض عقل کی کیفیت انفعالی ہے۔ انسانی ارتقا میں جو قدم بھی اُٹھتا ہے وہ جذبۂ عشق کی بدولت اٹھتا ہے۔ عالم علم میں مست رہتا ہے اور عابد عبادت میں لیکن عاشق عشق کے اندر لمحہ بہ لمحہ نئے احوال پید اکرتا ہے۔۳۵؎ علم بے عشق است از طاغوتیاں علم با عشق است از لاہوتیاں ۳۶؎ ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی لکھتے ہیں: علامہ اقبال نے جس شدو مد سے عشق کی مدح و ستائش کی اور عقل کی مذمّت کی ہے، اس سے عام طور پر یہ دھوکا ہُوا ہے کہ وہ عقل کے یکسر مخالف ہیں حالانکہ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے۔ حضرت علامہ صرف یہ کہتے ہیں عقل یقین سے بے بہرہ اور ظن و تخمین میں ڈوبی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر مگر اور تامّل و تذبذب کا شکار رہتی ہے اس کے برعکس عشق انجام کا اندیشہ کیے بغیر محبوب کے فرمان کے مطابق سبک گامِ عمل ہوتا ہے۔ اس لیے منزل پر پہنچ جاتا ہے اور عقل وہم و شک کے گرداب میں غوطے کھاتی رہ جاتی ہے۔۳۷؎ علامہ اقبالؒ عقل کی حدود سے آگے نکل جانے کے لیے اﷲ تعالیٰ سے یوں دُعا کرتے ہیں: خرد کی گتھیاں سُلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحبِ جنوں کر! ۳۸؎ فرمان فتح پوری لکھتے ہیں: اقبال کے نزدیک دانش کی دو قسمیں ہیں، ایک دانش برہانی دوسری دانش شیطانی۔ اگر علم و عقل باطنی شعور سے آگاہ نہ ہوں اور صرف جسم پروری کے کام کررہے ہوں تو یہ دانش شیطانی ہے۔ اس کے برعکس اگر علم و عقل، روحانی حقائق سے آشنا ہوں اور منزل تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر کے انسان کے دل میں اعلیٰ مقاصد کے لیے آرزو پیدا کرتے ہوں تو یہ دانش برہانی ہے اور اسی دانش برہانی کا دوسرا نام عشق ہے۔۳۹؎ جب انسان کی دانش میں اضافہ ہوتا ہے تو اُس پر اپنے جہل اور بے بصری کا راز بھی منکشف ہوتا ہے اور ہر قدم پر اس کی حیرت میں اضافہ ہوتاجاتا ہے گویا پوری کائنات اس کے لیے حیرت کدہ بن جاتی ہے۔ حیرت کی یہی فراوانی منزلِ عشق ہے: اک دانش نورانی، اک دانش برہانی ہے دانش برہانی، حیرت کی فراوانی ۴۰؎ عشق کی یہ منزل عرفان کی منزل ہے جہاں حیرت کا شیر گرج رہا ہے۔عقل و فکر اس منزل کے ادراک سے عاجز ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان نہیں ہو سکتی: اس میدان نہ چلّے گھوڑا شینھ حَیرت دا گجّے خاص بلیٰ لَا اُحْصِیْ کہہ کے اس دوڑوں سن رجّے ۴۱؎ میاں محمدبخشؒ نے حیرت کی اِس منزل کا ایک طویل نظم میں کیا ہے، اس کا پہلا شعر ہے: فیر اگوں اک منزل آوے حیرت والی وادی درد افسوس ہوئے گُم اوتھے ہرگز خوشی نہ شادی ۴۲؎ عشق کے ساتھ ساتھ عقل بھی بہت ضروری ہے۔ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ عقل کی اہمیت و افادیت سے ہر گز انکار نہیںکرتے بلکہ دیوانگی کے بعد جب اللہ تعالیٰ فرزانگی عطا کرتا ہے تو اس مرحلے پر میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: دانش عقل دِتّا رب مینوں سُکّی نہر وگائی آؤ سَنگل لاہو میرے، وَلّ ہویا سودائی ۴۳؎ علامہ اقبالؒ کی تعلیم یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو عشق کے ساتھ ساتھ عقل کی قوت سے بھی نوازا ہے۔ لہٰذا اس سے کام ضرور لیا جائے لیکن اسے راہنمانہ بنایا جائے کیونکہ زندگی کی اساس عقل نہیں بلکہ عشق ہے جو روحانی ارتقا کا ضامن بنتا ہے: انسان تمام کائنات کو صرف اس لیے مسخر کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عقل اور عشق کی قوتوں سے نوازا ہے عشق کی بدولت مومن کے لیے کوئی چیز ناممکن نہیں رہتی۔مکاں اور لامکاں کی تمام وسعتیں اس کے زیر نگیں ہو جاتی ہیں۔ عقلِ آدم برجہاں شبخوں زند عشقِ او بر لامکاں شبخوں زند ۴۴؎ یوسف حسین لکھتے ہیں: اقبال عشق کو عقل کے مقابلے میں فضلیت دیتا ہے اس واسطے کہ اس سے حقائق اشیا کا مکمل علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے پھر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنا اس کا اثر ہے عقل کا اثر اِس کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔۴۵؎ علم اور عقل انسان کو منزل کے قریب کرنے کے وسیلے ہیں لیکن منزل عطا نہیں کرسکتے۔منزل پر پہنچنے کے لیے صاحبِ جنوں ہونا ضروری ہے۔ زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ کِسے خبر کی جنوں بھی ہے صاحبِ ادارک! ۴۶؎ میاں محمد بخشؒ عقل کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ جہالت کی تاریکی دُور کرنے کے لیے اُن کے نزدیک بھی عقل کی روشنی کی ضرورت ہے۔ عقل ہی منزل کا راستہ دکھا سکتی ہے کیونکہ یہ ایک چراغ ہے جو زندگی کی تاریک راہوں کو منور کرتا ہے۔ اس لیے وہ دعا کرتے ہیں: لاہ ہنیرا جہل بُرے دا چانن لا عقل دا بخش ولایت شعر سخن دی یُمن رہے وچہ رَلدا ۴۷؎ اللہ تعالیٰ جب انسان کو عقل کی نعمت سے سرفراز کرتا ہے تو وہ ستاروں پہ کمند ڈالتا ہے اور اپنی عقل و دانش کی بدولت ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیتا ہے جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ تسخیر کائنات کے لیے عقل قدم قدم پر راہنما بنتی ہے اور نت نئی تخلیقات میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے: ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی باہر نہیں کچھ عقلِ خداداد کی زد سے ۴۸؎ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں: اقبال نے خودی کو مختلف مفاہیم عطا کیے ہیں، ان کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ خودی وہ ثمر ہے جو مسافر کو ایک طویل تگ و دو کے بعد حاصل ہوتا ہے اور جس کے حصول کے بعد اس کا ایمان تازہ اور یقین پختہ ہو جاتا ہے۔۴۹؎ خودی کا اثبات عشق کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے اور اس کی تربیت بھی عشق پر ہی موقوف ہے۔اقبالؒ کے نزدیک خودی ایک روشن نقطہ ہے جو تمام ترطاقتوں اور قوتوں کا منبع و ماخذ ہے اس نقطے کی روشنی بھی عشق سے پیدا ہوتی ہے: یوسف حسین لکھتے ہیں: اقبال نزدیک انسانی مقاصد کی لگن بھی عشق ہے، تغیر و انقلاب کی خواہش بھی عشق ہے تہذیب نفس کی تخلیقی استعداد بھی عشق ہے اس نے مولانا روم کی طرح عشق کو عقل کا جزوی مدمقابل بنا دیا اور اس کی فضیلت و برتری طرح طرح سے ثابت کی۔ ۵۰؎ عشق سلطان است و برہانِ مبیں ہر دوعالم عشق را زیرِ نگیں ۵۱؎ خودی جب پختہ ہو جاتی ہے تو موت سے پاک ہو جاتی ہے موت کے دروازے سے گزر کر عاشق ایک ابدی اور حقیقی زندگی میں داخل ہوتا ہے اس لیے عاشق صادق موت سے نہیں ڈرتے۔ عشق کا خاصہ یہ ہے کہ وہ انسان کو غیر فانی بنا دیتا ہے۔میاں محمد بخشؒ کے نزدیک: عشقوں باہجہ ایمان کویہا کہن ایمان سلامت مر کے جیون صفت عشق دی دم دم روز قیامت ۵۲؎ اللہ تعالیٰ نے عشق کی جو گرانقدر نعمت انسان کو عطا کی ہے اُس نے انسان کو پیکرِ نوری سے بھی افضل و برتر بنا دیا ہے۔ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ دونوں کو انسان کی اِس فضیلت و اہمیت کا پوری طرح ادراک ہے کہ فرشتے ذوقِ مہجوری سے محروم ہیں۔عشق کی تپش اور سوز کی نعمت صرف انسان کو ہی ودیعت کی گئی ہے: پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میّسر تو کیا اس کو میّسر نہیں سوز و گدازِ سجود! ۵۳؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: شان انسان جوان بھلے دا ملکاں نالوں اگے کھول نئیں ایہ گل محمد مت کوئی جھگڑا لگے ۵۴؎ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد عبادتِ خداوندی ہے کیونکہ وہ صرف زبان سے ہی اطاعت نہیں کرتا بلکہ اپنی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں میں بھی خدا کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور شریعت کی راہ پر چلنے کے لیے بے شمار تکلیفوں اور آزمائشوں سے بھی گزرتا ہے فرشتوں کا کام صرف تسبیح و تحلیل ہے جب کہ انسان عشقِ الہٰی کی بدولت بدی کی طاقتوں کا بھی مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔گویا عشق کی بدولت وہ اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اور احکاماتِ خداوندی بجا لاتا ہے: فرشتوں کے اندر فکر کی صلاحیت بھی موجود نہیں وہ تو صرف اﷲ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں اور اپنے علم و عقل سے کام لے کر حقائق تک رسائی حاصل کرنے سے بھی عاجز ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عشق کے مقام تک پہنچنا فرشتوں کے بس کی بات نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو حوصلہ اور جرأت کی بلندیوں سے نوازا ہے جس کی بدولت وہ عزم و ہمت سے کام لے کر ارتقا کی منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے۔ مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انھیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد! ۵۵؎ علامہ اقبالؒ کو انسان کا مقامِ بندگی بے حد عزیز ہے کیونکہ اس میں عشق کا سوز شامل ہے۔یہی سوز اُسے منزلِ مقصود پر پہنچاتا ہے اور وہ قربِ الٰہی حاصل کر لیتا ہے۔ عبادت کی روح دراصل عشق ہے۔ عشق کے بغیر دل میں سوز و گداز پیدا نہیں ہو سکتاگویا خضوع و خشوع کے ساتھ عبادت کے لیے بھی ضروری ہے کہ دل عشق کی تڑپ اور سوز سے لبریز ہو۔ عشق کی بدولت انسانی روح قربِ الہٰی حاصل کرتی ہے۔ روحِ انسانی کی فطرت میں عشق کی آگ پوشیدہ ہے: عشق اجہی اگ ہے جے دوزخ ویکھ سڑے اس دے بھارے بھار تھیں تھر تھر عرش کرے ۵۶؎ انسان ہی کائنات کی وہ عظیم اور معصوم ہستی ہے جس نے عشق کی اس نعمت کو عطیہ خداوندی سمجھ کر قبول کیا اور اپنے لیے مصیبتوں ، تکالیف اور مشکلات سے پُر راستے کا انتخاب کر لیا۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: بھار عشق دا کسے نہ چایا ہر ہر عذر بہانے آکھ بَلیٰ بلا سہیڑی انسانے نادانے ۵۷؎ علامہ اقبالؒ کے نزدیک عشق کی یہی آگ مسلمان کا مقصدِ حیات ہے جو اسے حیاتِ ابدی سے ہم۔کنار کرتی ہے: بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے ۵۸؎ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: عشق حسن سے پیدا ہوتا ہے اور پھر خود حسن آفرینی کرتا ہے۔ حسن و عشق ایک دوسرے کی علت اور معلول ہیں اقبال کے کلام میں عشق اور خودی کا مضمون جابجا ایک ہو گیا ہے۔ عشق کو خودی سے اور خودی کو عشق سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ۵۹؎ عشق میں پختگی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب مصلحت اندیشی باکل ختم ہو جاتی ہے اور یقین کامل حاصل ہو جاتا ہے۔ پھر کبھی کبھی منزل خود بخود اچانک سامنے آجاتی ہے: وادیٔ عشق بسے دور و دراز است ولے طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے در طلب کوش و مدہ دامنِ امید زدست دولتے ہست کہ یابی سرِ سراہے گاہے! ۶۰؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: پکاّ پیر دھریں جے دھرناں تلک نیں مت جاوے سو اس پاسے بہے محمد جو سربازی لاوے ۶۱؎ علامہ اقبالؒ نے عقل اور عشق کے بارے میں جو کچھ کہا وہ بنیادی طور پر رومیؔ سے ماخوذ ہے۔ اپنے کلام میں بار بار رومیؒؔ سے فیض حاصل کرنے کا اعتراف کرتے ہیں: قرآنِ کریم نے آفرینش آدم اور اعتراض ملائکہ کا جو قصّہ بیان کیا ہے وہ آدم کے مسجود ملائک ہونے پر منتج ہوتا ہے۔ آدم کو وہ علم عطا کیا گیا جو ملائکہ کو حاصل نہ تھا اس وسعتِ علم کی بدولت آدم ملائکہ سے افضل قرار پایا، لیکن علم کے ساتھ ہی آدم کا طالب عفو ہونا اور خدا کی طرف رجوع کرنا عشق کی بدولت تھا۔ اس لیے عارف رومی محض علم کو نہیں بلکہ عشق کو آدم کی امتیازی خصوصیت قرار دیتا ہے۔ خالی علم زیر کی پیدا کرسکتا تھا جو ابلیس کی صفت ہے، عشق اس سے الگ چیز ہے۔ عشق سے علم کی تکمیل ہوتی ہے لیکن رومی اور اقبال دونوں کے نزدیک آدم فوراً واصل باللہ نہیں ہو گیا بلکہ عشق کی بدولت اس پر ایک طویل مہجوری طار ی ہو گئی۔۶۲؎ اقبال ؒ کے نزدیک وصل الی اﷲ کی منزل بہت دور ہے: باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟ کارِ جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر! ۶۳؎ اس عشق کی کوئی ابتدا اور انتہا نہیں اور خود اقبالؒ بھی اس کی انتہا کے آرزو مند نہیں ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک زندگی ازل سے ابد تک جستجو سے عبارت ہے۔ اقبالؒ نے زندگی کو ہمیشہ جستجو اور آرزو ہی سمجھا اور وہ اس بات کے آرزو مند رہے کہ یہ مرحلۂ شوق کبھی طے نہ ہو ۔ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: اگر انسان کی خودی خدا سے الگ ہو کر فراق زدہ نہ ہوتی تو اس میں کوئی زندگی نہ ہوتی کیونکہ زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے اور آرزو کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مقصود ایک لحاظ سے موجود ہوتا ہے اور دوسری حیثیت سے مطلوب ہوتا ہے۔ اگر انسان خدا کا عاشق ہو سکتا ہے تو فراق ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کی ذات بھی تو عشق سے معرّا نہیں، عشق اس کی ماہیت میں بھی داخل ہے اس لیے حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے بے تاب ہیں اور خدا ہمارے لیے بے تاب ہے۔ اگر ہم اس سے الگ نہ ہوئے ہوتے تو وہ ہمارے لیے بے تاب کیسے ہوتا۔ فراق عشق کی فطرت میں داخل ہے اور یہی وجہ آفرینش ہے۔ ۶۴؎ خدا کا مقصوداپنی مخلوق میںعشق پیدا کرنا ہے اور عشق کا مقصود خود خدا ہے۔ اس لیے عشق کی بدولت انسان میں وہ بصیرت اور معرفت پیدا ہوتی ہے جس کی بدولت وہ خدا تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ عشق اس جوہرِ حیات کا نام ہے جو انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کر رکھاہے لیکن یہ مخفی و مستور ہوتا ہے اور صرف ذوقِ طلب سے متصّف ہو کر حقیقت مطلقہ کی جستجو کرتا ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: زندگی در جستجو پوشیدہ است اصلِ او در آرزو پوشیدہ است ۶۵؎ حُسن کو دیکھ کر دل میں پیدا ہونے والی پہلی خواہش کا نام آرزو ہے اور یہی آرزو محبت کا ایک اہم جزو ہے کیونکہ آرزو کے بغیر عشق کا وجود میں آنا ناممکن ہے۔ یہی آرزو جب شدت اختیار کرتی ہے تو عشق بن جاتی ہے۔مقصد کے بغیر عمل ناممکن سی بات ہے کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے دل میں آرزو یا خواہش پیدا ہوتی ہے اور پھر یہی آرزو یا خواہش انسان کو عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ اگر آرزو نہ ہو تو کوئی عمل وجود پذیر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے آرزو یا تمنا کو بھی بڑی اہمیت دی ہے کیونکہ آرزو تخلیق کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک خودی کے استحکام کے لیے تعمیر و تخلیق کی بہت اہمیت ہے کیونکہ یہی قوت تسخیر کائنات کا سبب بنتی ہے۔ زندگی ہر لمحہ عمل کی متقاضی ہے کیونکہ انسان کے اعمال ہی اُسے منزلِ مقصود تک پہنچاتے ہیں۔عمل کے بغیر زندگی میں حرکت و توانائی ممکن نہیں جس زندگی میں انقلاب نہ ہو وہ زندگی موت ہے۔ زندگی ترقی کے راستے پر عمل کی بدولت ہی رواں دواں رہتی ہے۔ عشق کا یہی وہ اعلیٰ و ارفع جذبہ ہے جو بلند نصب العین کے حصول کے لیے انسان کو اپنا سب کچھ قربان کردینے پر تیار کرتا ہے اس لیے صرف یہی زندگی کی دلیل ہے: عشق ایک سیلاب کی مانند ہے اور اس کے کئی راستے ہیں یہ خفیہ راستوں سے سینے میں جاگزیں ہو جاتا ہے اس کو روکنا محال ہے۔ عشق مختلف جلوؤں میں تجلی ریز ہوتا ہے اور انسان کے پیکر میں زندگی کی حرارت پیدا کرتا ہے۔ اسی کے دم قدم سے زندگی ہے۔ عشق زندگی کا جوہر اور روح ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: عشقے دے کئی راہ نیں، ناہیں اکھیں بس جاندا ہر ہر سینہ تھیں چوراں وانگن دھس ۶۶؎ بقول اقبالؒ: تُند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو عشق خود اک سیل ہے ، سیل کو لیتا ہے تھام ۶۷؎ عشق کی ابتدا حُسن ہے، اور حُسن خلّاقِ آرزو ہے۔ آرزو وہ خواہش ہے جو انسان کو زندگی میں بلند نصب العین کے حصول کی جانب کشاں کشاں لے جاتی ہے اور بالآخر کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ اس لیے علامہ اقبالؒ آرزو کو دل سے کبھی جدا نہیں کرتے کیونکہ آرزو ہی جستجو پر آمادہ کرتی ہے اور انسان کو پُر اُمید بناتی ہے۔ اُمید زندگی کی علامت ہے جبکہ نااُمیدی اور یاسیت موت ہے۔ اقبال کے ہاں آرزو سے انسان کے خون میں گرمی پیدا ہوتی ہے اور اسی سے زندگی کی شمع روشن رہتی ہے۔ یہ افعال کی شیرازہ بندی کرتی ہے اور مقاصد پر کمند ڈال کر ان کا شکار کھیلتی ہے۔ اسی کی بدولت انسان تسخیر کائنات کی راہوں پر رواں دواں رہتا ہے اور منزل کے حصول تک سفر جاری رہتا ہے۔ یہ آرزو ہی ہے جو انسان کو جستجو کے راستے پر گامزن کرتی ہے اور پھر ہر لمحہ اس کے ساتھ رہتی ہے: زندگی مضمونِ تسخیر است و بس آرزو افسونِ تسخیر است و بس زندگی صید افگن و دام آرزو حسن را از عشق پیغامِ آرزو ۶۸؎ آرزو ہی وہ انسانی قوت ہے جو قلب کو فعال اور متحرک رکھتی ہے اور انسان کو جستجو اور تحقیق پر آمادہ کرتی ہے: کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دل میں آرزو اور لگن کا ہونا ضروری ہے یہی آرزو انسان کو بلند نصب العین کے مقصد کے حصول کے لیے عمل پیہم پر آمادہ کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقبال ؒنے آرزو یا تمنا کو عشق کی اساس قرار دیا ہے۔ آرزو کے بغیر زندگی محال ہے بلکہ یہ دنیا خواہشات اور تمناؤں کی بدولت ہی خوبصورت اور رنگین ہے۔ آرزو انسان کے ساتھ ہر وقت رہتی ہے بلکہ لہو میں گردش بن کر دوڑتی ہے۔ آرزو کی موت مایوسی اور نااُمیدی پیدا کرتی ہے۔ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ کے کلام میں یاسیت اور نااُمیدی کی بجائے قوت اور ہمت کا درس پایا جاتا ہے جو آرزو ہی کا مرہونِ منت ہے: سنگِ رہ آب است اگر ہمت قوی است سیل را پست و بلندِ جادہ چیست سنگِ رہ گردد فسانِ تیغِ عزم قطعِ منزل امتحانِ تیغِ عزم ۶۹؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: رکھ دلیری کریں نہ جھورا مت قوت گھٹ جائے مرداں دے سر بنن قضیّے اوڑک پُہچن جائے جھورا فکر گھٹاندا قوت نالے نور عقل دا ٍٍتُدّھ پر کم اجے کئی بھارے ہار نہ جاویں چل دا ۷۰؎ علامہ اقبالؒ کا تصورِ عشق دوسرے شعرا کے رسمی عشق سے قطعاً مختلف ہے۔ اقبالؒ نے عشق کو بہت اعلیٰ و ارفع اور وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ عشق و جنوں مقصد سے بے پایاں لگن اور محبت کا نام ہے کیونکہ جب تک دل میں کسی مقصد کے حصول کی تڑپ، دیوانگی اختیار نہ کر جائے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ یہی لگن انسان کو لمحہ بہ لمحہ قوت اور توانائی عطا کرتی ہے اور اسی کی بدولت انسان راستے کی تمام مشکلات اور پریشانیاں عزم و استقلال اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتا چلا جاتا ہے۔ جس قدر اس کا مقصد بلند ہوتا ہے اسی قدر طاقت اور ہمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ اسی لیے اقبالؒ کے ہاں عشق ذوقِ تسخیر کا نام ہے جو انسان کو لمحہ بہ لمحہ عمل پر آمادہ کرتا ہے: عشق شبخونے زدن بر لامکاں گور را نادیدہ رفتن از جہاں! ۷۱؎ میاں محمد بخش ؒ فرماتے ہیں: عشق زور آور شیر شکاری اس دا ہاڑ نہ خالی چھیڑ کھیڑ نہ کرئیے مارے انگل جس دسالی کوئی ہتھیار نہ پوہندا اُس نوں ناں پھٹ لگدا کاری مار اپنا چھڈ جاندا ناہیں چڑیا کرے خواری ۷۲؎ فقر بھی عشق کا ہی ایک روپ ہے اس لیے اس میں وہ تمام قوتیں پائی جاتی ہیں جو عشق کے فیضان سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ فقر کا ہی کمال ہے کہ وہ بندے کو مقامِ عبودیت پر فائز کر تا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب ساری کائنات صاحبِ فقر کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے لیکن وہ ان سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اس کا ہر عمل صرف محبوبِ خدا کی خوشنودی اور رضا کے لیے ہوتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ کے نزدیک عشق کی یہی اکمل ترین صورت ہے جب عاشق محبوب خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے خدا کی صفت بے نیازی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اﷲ کے سوا ہر چیز کا خیال دل سے نکال دیتا ہے تو یہ کامل عشق سالک کوبے پایاں غیبی طاقت عطا کرتا ہے۔ اسی لیے میاں محمد بخشؒ اللہ تعالیٰ سے دُعا فرماتے ہیں: کامل عشق خدایا بخشیں غیر ولوں مکھ موڑاں ہکو جاناں ہکو تکّاں ہکو آکھاں لوڑاں! ۷۳؎ بقول اقبالؒ: مَاسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست پیشِ فرعونے سرش افگندہ نیست ۷۴؎ غیر اللہ کی غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے کامل عشق کا طالب ہو کیونکہ مسلک عشق اختیار کرنے سے ہی انسان غیر اللہ کی غلامی سے رہائی پا سکتا ہے۔ اور اُس کا مقصدِ حیات صرف اللہ تعالیٰ بن جاتا ہے۔ جب عشقِ الہٰی کامل ہوجاتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرنے لگتا ہے اور وہ انسان مقامِ محبوبیت حاصل کر لیتا ہے۔یعنی نفس ِانسانی حقیقت کلی کا عکس مکمل طور پر اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں: رنگِ او برکن مثالِ او شوی درجہاں عکسِ جمالِ او شوی ۷۵؎ گویا انسان میں خدا تعالیٰ کی صفات منعکس ہو جاتی ہیں اور وہ کُلّی طور پر خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جب اُس کاہاتھ خدا کا ہاتھ بن جاتا ہے اور اُس کی ہستی خدا کی ذات کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ عشق کی معراج یہ ہے کہ عاشق محبوب کے رنگ میں پوری طرح رنگ جائے اور وہ صرف محبوب کی رضا میں راضی ہو۔اس کا ہر فعل اور عمل محبوب کی مرضی و منشا کے مطابق سرزد ہو۔یہی ایمان ِ کامل کی شرط ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: قلب را از صبغتہاللہ رنگ دہ عشق را ناموس و نام و ننگ دہ ۷۶؎ پروفیسر محمد منور لکھتے ہیں: گویا صبغتہ اللہ (اللہ کا رنگ) اختیار کرنے والا بھی نُور ہی کا مظہر ہوتا ہے۔ جس قدر صبغتہ اللہ زیادہ، اسی قدر نور زیادہ، بصیرت زیادہ، دانش زیادہ، فہم و شعور زیادہ۔ پھر عالمِ نورانی کیوں دکھائی نہ دے پھر یہ امر بھی واضح ہے کہ خدائی صفات کا انسانی پَرتو کامل بلکہ اکمل تو حضور نبی اکرمؐ ہی کی ذات ہے، چنانچہ نبی اکرمؐ کا اسوۂ حسنہ اختیار کیے بغیر اخلاق الہٰیہ کا اسلوب اپنا یا نہیں جا سکتا ۔۷۷؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: رستہ چھوڑ نبی دا ٹُریاں کوئی نہ منزل پُگدا جے لکھ محنت ایویں کرئیے کلّر کول نہ اُگدا رستہ صاف نبی دے پچھّے ہور نہ جانو کوئی اوہو کرے شفاعت ساڈی تاہئیں مِلسی ڈھوئی ۷۸؎ مسلمان کے لیے اِتباعِ رسولؐ اور تقلید نبویؐاولین شرط ہے یعنی سُنت نبوی میں ڈوب کر خود شناسی حاصل کرنا ہی مومن کی شان ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب حضورؐ کے تمام کمالات کا عکس مومن کی ذات سے منعکس ہونے لگتا ہے۔ علامہ اقبالؒ مومن کو فنا فی الرّسولؐ کی منزل تک پہنچنے کا درس دیتے ہیں کیونکہ آپ کی ذاتِ مبارک ہی اصل دین ہے۔ اگر کوئی اس منزل تک نہیں پہنچتا تو وہ اسلام سے دُور ہے اور اس کی تمام تگ و دو بولہبی ہے: بمنزل کوش مانندِ مہِ نَو دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شَو مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہِ مصطفیؐ رو ۷۹؎ علامہ اقبالؒ سچے عاشق رسولؐ تھے آپ کی طبیعت میں اس قدر سوز و گداز تھا کہ جب کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہوتا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک خودی کی معراج عشقِ رسولؐ ہی ہے ۔ گویا اقبالؒ کی تعلیمات کا خلاصہ اور لب لباب اِتباع رسول ؐہے اوریہی راہ نجات ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں یہ عشق کا ہی معجزہ ہے کہ راہِ طلب میں امامِ حسنؓ اور امام حسینؓ نے اپنے تن بدن پر خنجر کے وار جھیلے اور اُف تک نہ کی کیونکہ وہ حُسنِ حقیقی کے عاشق زار تھے اس لیے شہادت سے سرفراز ہوئے: میاں محمد بخشؒ کے نعتیہ کلام کی عظمت سے اندازہ ہوتا ہے کہ عشق کی معراج ان کے نزدیک فنا۔فی۔الرّسولؐ کا مرتبہ ہے۔ وہ شاعرِ آتشِ بیاں اور ولی کامل ہونے کے ساتھ ساتھ سچے عاشقِ رسولؐ بھی تھے اُن کی تصنیف تحفۂ رسولیہ میں اُن کے فکری دلائل انسان کی راہنمائی کے لیے نبوت کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ نبوت کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے میاں صاحبؒنے انبیائے کرامؑ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات وضاحت و صراحت کے ساتھ پیش کیے اور ہدایت سے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین اظہر کے مطابق: میاں صاحب نے انھی قرآنی معارف پر اپنے استدلال کی بنیاد استوار کی ہے۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ جس نے ہمیں جسمانی لوازمات سے نوازا ہے اس نے ہماری رہبری اور راہنمائی کا سامان بھی مہیا کیا ہے۔ یہ رہبری ہمیں نبوت کی صورت عطا کی گئی ہے۔ حواس، وجدان اور عقل جس منزل پر رک جاتے ہیں وہاں نورِ نبوت ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ ۸۰؎ میاں صاحبؒ نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو سیرت نگاری کے لیے وقف کر دیا تھا۔ آپ پورے دو برس تک سیرت کے مطالعہ میں منہمک رہے۔ آپ کا نعتیہ کلام رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی عقیدت اور محبت کا بے پایاں ثبوت ہے ۔آپ کی نعتیہ شاعری کا ایک ایک لفظ محبت و احترام کی چاشنی میں ڈوباہوا ہے۔ میاں صاحبؒ کی حُبِّ رسولؐ کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی ہر تصنیف کے آغازمیں حمد باری تعالیٰ کے بعد حضورؐ کی بارگاہ عقیدت میں ہدیۂ نعت پیش کیا ہے: میاں محمد بخش ؒ کے اسی عشقِ رسولؐ کی عقیدت میں ڈوبے لہجے کی مٹھاس اور محبت و احترام کے جذبات نے انھیں یہ کہنے پر مجبور کیا۔ میاں محمد بخشؒاور علامہ اقبال ؒکے نعتیہ کلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ دونوں تعلق بالرسالت پر زور دیتے ہیں اور بارگاہ نبوت کو ہی ہر طرح کے فیضان کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جس خوش قسمت کو آپؐ کی محبت نصیب ہو گئی اُس کو دنیا اور آخرت میں فلاح نصیب ہو گئی۔ مزید یہ کہ تسخیرِ کائنات کا جیسا عظیم کام بھی عشقِ رسولؐ کے بغیر ناممکن ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: می ندانی عشق و مستی از کجاست؟ ایں شعاعِ آفتابِ مصطفیؐ ست ۸۱؎ اسی مقامِ فنائیت سے علامہ اقبالؒ جب کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں اِس پوری کائنات میں ہر طرف حضور اکرمؐ کے جلوے بکھرے نظر آتے ہیں اور حضورؐ کی ذات ایک ایسے بحرِ ذخّار کی مانند نظر آتی ہے جس سے کائنات کی ہر شے سیرابی حاصل کر رہی ہے۔ میاں محمد بخشؒ بھی حضور اکرم ؐ سے عقیدت کا اظہار ایسے ہی الفاظ میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؐ کا نورِ مبارک اُس وقت بھی روشن تھا جب آدمؑ کا خمیر بھی نہ بنا تھا۔ آپؐ ہی اوّل اور آپؐ ہی آخر ہیں۔ دنیا کے تمام نور آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کے باعث ہیں جبکہ آپ کے نور کا تعلق براہِ راست اللہ تعالیٰ کے نور کے ساتھ ہے کیونکہ آپؐ کو معراج کی رات نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ طٰہٰ اور یٰس ٓ کہہ کر آپ ؐکی صفات بیان کرتا ہے: سخن نیئں کوئی ہوندا میں تھیں تیری شان قدر دا طٰہٰ تے یٰسٓ الہٰی صفت تساڈی کردا ۸۲؎ اللہ تعالیٰ نے حضوراکرمؐ کی بعثت کو عالمِ انسانیت کے لیے احسانِ عظیم قرار دیا کیونکہ اطاعتِ رسولؐ اطاعتِ الٰہی کے مترادف ہے۔ قرآن مجید میں سنتِ رسولؐ کی پیروی اور اسوۂ حسنہ کے اِتباع کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ عشقِ رسولؐ مومن کے لیے محبت کی معراج ہے۔ علامہ اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒکے نزدیک عشق کا یہی کامل اور اکمل ترین درجہ ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: لوح بھی تُو ، قلم بھی تُو ، تیرا وجُود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حَباب! ۸۳؎ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: لوح قلم آسماناں زمیاں دوزخ جنت تائیں کرسی عرش معلّٰی ویکھیں سیر کریں سبھ جائیں ۸۴؎ یہ عشقِ رسولؐ ہی تھا جو علامہ اقبالؒ کی رگ رگ میں سرایت کر چکا تھا اُن کا سارا کلام بھی عشقِ رسولؐ کا ہی معجزہ دکھائی دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عشقِ رسولؐ کو دین و دنیا کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور آپؐ ہی کی ذاتِ مبارکہ کو سرچشمہ حقیقت و مجاز کا درجہ دیتے ہیں۔ یہی عشقِ رسولؐ کا جذبہ اقبال ؒکی ساری زندگی میں جاری و ساری رہا اور ان کے نزدیک عشق کی معراج بنا جس سے زمانے میں اُجالا کیا جا سکتا ہے۔ قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے ۸۵؎ خ…خ…خ…خ حوالے و حواشی ۱- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکرِاقبال ،ص۲۵۸ ۲- پروفیسر منور رؤف:دیدہ ور، ادارۂ تحقیق و تصنیف، پاکستان، طبع دوم،۱۹۸۰ء ،ص۸۱ ۳- محمد اقبال: کلیاتِ اقبال(اُردو) شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص۳۸۷ ۴- ایضاً ،ص۳۲۴ ۵- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۵ ۶- محمد اقبال: کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۰۱ ۷- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں، اقبال اکادمی پاکستان، طبع سوم،۱۹۹۴ء ،ص۱۷۰ ۸- ایضاً ،ص۱۶۸ ۹- محمد اقبال: کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۸۷ ۱۰- ایضاً ،ص۳۹۳ ۱۱- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۲۷ ۱۲- محمد اقبال: کلیات اقبال(اردو) ،ص۳۳۱،۵۸۰، ۵۸۱ ۱۳- محمد اقبالـ: کلیات اقبال(فارسی) ،شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص۶۳۲ ۱۴- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۲۲۷ ۱۵- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۳۴ ۱۶- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۲۲۷ ۱۷- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۷۷، ۱۷۸ ۱۸- محمد اقبال: کلیات اقبال(اردو) ،ص۴۱۸ ۱۹- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۸۱ ۲۰- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۸۰ ۲۱- محمد اقبال: کلیات اقبال( فارسی) ،ص۷۹۶ ۲۲- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۷۸ ۲۳- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۶ ۲۴- محمد اقبال: کلیات اقبال(اردو) ،ص۳۲۰ ۲۵- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۶۴ ۲۶- محمد اقبال: کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۱۰ ۲۷- میاں محمد بخش:سیف الملوک ،ص۳۴ ۲۸- ایضاً ،ص۳۶ ۲۹- محمد اقبال: کلیات اقبال( فارسی) ،ص۱۰۹ ۳۰- میاں محمد بخش: سیف الملوک،ص۳۷۶ ۳۱- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۱۰۲ ۳۲- محمد اقبال: کلیات اقبال( فارسی ) ،ص۴۱۸ ۳۳- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۷۷ ۳۴- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۴۰ ۳۵- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ،ص۲۲۴ ۳۶- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۶۳ ۳۷- ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی: اقبال اور محبت رسولؐ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ،لاہور، طبع اوّل،۱۹۷۷ء ،ص۲۶ ۳۸- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو ) ،ص۳۷۹ ۳۹- فرمان فتح پوری: اقبال سب کے لیے، اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی، ۱۹۷۶ء ،ص۲۶۳، ۲۶۴ ۴۰- محمد اقبال:کلیات اقبال(اردو ) ،ص۳۱۱ ۴۱- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۹ ۴۲- ایضاً ،ص۴۱ ۴۳- ایضاً ،ص۸۳ ۴۴- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۰۳ ۴۵- یوسف حسین: خان، روح اقبال، آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۴ء ،ص۵۴ ۴۶- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۵۹ ۴۷- میاں محمد بخش: میاں، سیف الملوک ،ص۵ ۴۸- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۵۰۱ ۴۹- ڈاکٹر وزیر آغا: تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ،ص۲۲۱ ۵۰- یوسف حسین خان: اقبال کا تصور عشق، اقبال نامہ ، ص۲۱۷ ۵۱- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۱۰ ۵۲- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۴ ۵۳- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۸۷ ۵۴- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۲۷ ۵۵- محمد اقبال:کلیات اقبال(اردو) ،ص۳۰۰ ۵۶- میاں محمد بخش: شیریں فرہاد، مکتبہ رضوان، میر پور، آزادکشمیر ، ۱۹۷۸ء ،ص۲۹ ۵۷- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۲۷ ۵۸- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۴۱۶ ۵۹- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم:فکر اقبال ،ص۲۸۷ ۶۰- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۳۹۴ ۶۱- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۵ ۶۲- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ،ص۲۷۳ ۶۳- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۲۹۹ ۶۴- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ،ص۳۹۹، ۴۰۰ ۶۵- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۱۵ ۶۶- میاں محمد بخش: قصہ سوہنی مہینوال ،ص۴۸ ۶۷- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۳۸۶ ۶۸- محمد اقبال:کلیات اقبال(فارسی) ،ص۳۴ ۶۹- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۵۳ ۷۰- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۱۹ ۷۱- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۱۰ ۷۲- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۳۶۴ ۷۳- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۱۲۵ ۷۴- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۱۱۱ ۷۵- ایضاً ،ص۱۵۷ ۷۶- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۲ ۷۷- محمد منور، پروفیسر: برہان اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع اوّل، ۱۹۸۲ء ،ص۶۵ ۷۸- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۹ ۷۹- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۶۵ ۸۰- ڈاکٹر غلام حسین اظہر:میاں محمد بخش ،ص۱۲۴ ۸۱- محمد اقبال:کلیات اقبال( فارسی) ،ص۸۶۴ ۸۲- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۱۳ ۸۳- محمد اقبال:کلیات اقبال( اردو) ،ص۴۰۵ ۸۴- میاں محمد بخش: سیف الملوک ،ص۱۱ ۸۵- محمد اقبال:کلیات اقبال، (اردو) ،ص۲۰۷ خ…خ…خ…خ  کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔ حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ الف:۔ اعلام اور تلمیحات: یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات اور مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ ب:۔ مشکلات.۔.... یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح، توضیح اور تفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہلِ علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہوسکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جاسکتا، مجروح نہ ہو۔ ج:۔ تکنیکی اور فنی محاسن: یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص مقام پر اقبال کے پیشِ نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آجائیں گے۔ m صفحات ذیل میں فرہنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جارہے ہیں۔ کلیاتِ اقبال (اردو) احمد جاوید ص کلیات۔ ۱۳۹ عشق گرہ کشاے: ۱- گرہ کھولنے والا عشق (عشق+ گرہ کشا= گتھی سلجھانے والا، رکاوٹ دور کرنے والا، مشکل کشا + ے= یاے تعظیمی)۔ ۲- وہ عشق جو محبوب کی راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ گرا دیتا ہو۔ ۳- حقیقت کی تلاش میں عقل کی رہنمائی کرنے والا عشق مزید دیکھیے: ’’عشق‘‘ ص کلیات۔ ۱۴۰ مستی تسنیم عشق: ۱- عشق کی تسنیم سے سیراب ہوکر حاصل ہونے والی بے خودی اور سرمستی۔ ۲- اللہ کے دیدار کی کیفیت۔ ۳- وحدت الوجود کی حقیقت کا تجربہ۔ [مستی +تسنیم= جنت کی ایک نہر، مراد فیضان کا سرچشمہ+ عشق= دیکھیے تمام اندراجات] ص کلیات۔ ۱۴۸ عاشق ہرجائی: عطیہ فیضی کے نام ۱۷؍جولائی ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں اقبال نے اپنے روّیے کی وضاحت کے لیے جس نظم کی اشاعت کا وعدہ کیا تھا، وہ یہی نظم ہے (’اقبال‘ از عطیہ بیگم۔ خالد ایڈیشن۔ ص۵۷)۔ نظر ثانی میں ابتدائی متن میں پہلے بند کے تین اور دوسرے بند کا ایک شعر حذف کردیا گیا۔ ص کلیات۔ ۱۵۵ پیامِ عشق: مطبوعہ مخزن اکتوبر ۱۹۰۸ء یہ غزل نما نظم اس لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں اقبال کے بنیادی تصورات مثلاً خودی وغیرہ کی ابتدا نظر آتی ہے۔ ص کلیات۔ ۱۵۸ صیقل عشق: ۱- ’صیقل‘ اُس آلے اور عمل کو کہتے ہیں جس کے ذریعے سے پتھر وغیرہ کو چمکا کر آئینہ بنایا جاتا ہے۔ ص کلیات۔ ۲۳۶ قوتِ عشق: ۱- وہ قوت جو کائنات کی وجودی تنظیم کو بدل سکتی ہے اور ماہیت اشیا پر تصرف کرسکتی ہے۔ ۲- عشق کی معنویت عقل کے تقابل میں واضح ہوتی ہے۔ عقل اپنی آزاد حالت میں خلق کی محکوم اور خالق پر ’حاکم‘ ہے۔ جب کہ عشق خالق کا محکوم اور خلق پر حاکم ہے۔ عقل کے مطالبات فکر سے پورے ہوتے ہیں اور عشق کے قوت سے روحانی اور وجدانی ہے۔ ص کلیات۔ ۳۱۰ عشق: روحِ انسانی کی وہ قوت جو سودو زیاں اور راحت و زحمت کی فکر سے بے نیاز ہوکر محبوب پر نثار ہونا سکھاتی ہے۔ سرمستی اور بے باکی اس کے بنیادی اوصاف میں سے ہیں۔ ص کلیات۔ ۴۷ عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر یعنی: ۱- دونوں میں سے کوئی آشکار ہوجائے، نتیجہ ایک ہی ہے۔ حُسن ظاہر ہوگیا تو گویا عشق پردے سے نکل آیا اور عشق آشکار ہوگیا تو گویا حُسن کا ظہور ہوگیا۔ مطالبہ یہ ہے کہ خدایا! خود کو ظاہر کردے تاکہ مجھے پورا اظہار مل جائے یا میری حقیقت کو آشکار کردے تاکہ تو پوشیدہ نہ رہے۔ ۲- بارِ الہا! یا تو خود کو ظاہر کردے اور مجھے چھپا رہنے دے، یا مجھے ظاہر کردے اور خود کو چھپا رہنے دے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور ہونی چاہیے ورنہ یہ کارخانۂ وجود بے معنی ہے۔ اس شعر میں اقبال نے ’عشق‘ کو وحدت الوجود کی گرفت سے نکالا ہے اور اسے بقا، امتیاز اور غیریت کی اساس بنایا ہے۔ ص کلیات۔ ۳۵۰ عشق: ۱- حقیقتِ انسانی کا ذاتی داعیہ جو انسان کو اُس کے انفرادی اور نوعی تشخص کے اُفقی حدود سے بلند ہونے کی قوت دیتا ہے۔ ۲- اللہ نے چاہا کہ اُس کا ظہور ہو، یہ ’حُب‘ ہے۔ انسان اسی خواہشِ ظہور کا ایک فعال مظہر ہے اور ظہورِ حق کے لیے ضروری ہے کہ خود انسان بھی اپنے اُس کمال کے ساتھ ظاہر ہو جو اُسے مظہرِ حق بننے کے لیے بخشا گیا ہے اور جسے موجودیت کے عام پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا، یعنی موجودات جن حدود سے عبارت ہیں وہ اس کمال کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ مظہریت کی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے جو اُس پر ڈالی گئی ہے، انسان بھی اپنی پوری حقیقت کے ساتھ ظاہر ہونا چاہتا ہے۔ اقبال کی اصطلاح میں یہ ’’عشق‘‘ ہے۔ گویا تقاضاے ظہور مشترک ہے، اللہ کی طرف سے ہو تو اس کا نام ’حب‘ ہے اور بندے کی طرف سے ہو تو ’عشق‘۔ ۳- بندگی کا منتہا یعنی اللہ کے رنگ میں رنگ جانا۔ ص کلیات۔ ۳۵۳ نوائے عاشقانہ: ۱- عاشقانہ کلام، عشقیہ شاعری، نغمۂ محبت۔ ۲- اقبال کی شاعری جو عشق کی روایت سے تعلق رکھتی ہے۔ ۳- فطرت عاشق کا جمالیاتی اظہار جو کسی خارجی محرک کا محتاج نہ ہو۔ ص کلیات۔ ۳۵۴ عشق: ۱- اللہ سے والہانہ وابستگی کی قوت جو کائنات کو انسان کے لیے مسخر کردیتی ہے۔ ۲-اللہ سے تعلق کی ہمہ گیری کا اصول جو مسلمان کے قلب کو مرکز بنا کر ساری دنیا میں ظہور کرتا ہے۔ ۳- انسان اور کائنات کی حقیقت اور اُن میں پوشیدہ کمالات کو بروے کار لانے والی قوت۔ ۴- دین محمدیﷺ۔ ص کلیات۔ ۳۵۵ عشق: ۱- بندے کا اللہ کی کشش پر اپنے پورے وجود کے ساتھ لبیک کہنا اور بیچ کی تمام رکاوٹوں کو پھلانگ جانا۔ ۲- حقیقت تک رسائی کی واحد قوت۔ ص کلیات۔ ۳۶۳ نگاہِ عشق و مستی: ۱- وہ اندازِ نظر جو عشق اور سرمستی کی دین ہے۔ ۲- محبوب میں فنا ہوجانے والے کی نظر جو جدھر اُٹھتی ہے، محبوب ہی کو دیکھتی ہے۔ ۳- وہ آنکھ جو ساری بڑائیاں اور تمام خوبیاں محبوب ہی میں دیکھتی ہے اور اس کا یہ مشاہدہ عام اسلوبِ دید اور اندازِ فہم کی گرفت سے باہر ہونے کے باوجود، حقیقت اور صداقت پر مبنی ہوتا ہے۔ ۴- محبوب کی حقیقت تک رسائی رکھنے والی نگاہ، جہاں عقل و ہوش کا گزر نہیں۔ ۵- صورت سے معنی تک پہنچ جانے والی عاشقانہ بصیرت، جو منطق وغیرہ کی قید کو قبول نہیں کرتی۔ ۶- مجذوب کی نگاہ، جو مشاہدے کی عام روایت سے آزاد ہوکر کام کرتی ہے اور اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، نہ براے تردید نہ براے تائید۔ ص کلیات۔ ۳۷۰ بتانِ عہدِ عتیق: ۱- زمانۂ قدیم کے بُت۔ ۲- خود ساختہ عقائد و تصورات جو قدیم زمانے سے آج تک انسان کو حق کی طرف سے جانے سے روکے ہوئے ہیں۔ نیز دیکھیے: ’طلسمِ کہن‘ ص کلیات۔ ۳۷۳ عشق بتاں سے ہاتھ اُٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا نقش و نگارِ دیر میں خونِ جگر نہ کر تلف اس شعر میں غالباً یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ہندووں کے ساتھ سیاسی اتحاد کرنے کی بجائے اپنی جداگانہ حیثیت پر زور دینا چاہیے۔ اس اتحاد سے بالآخر فائدہ ہندو ہی کو پہنچے گا۔ مسلمان ہر حال میں خسارے میں رہیں گے۔ نیز متحدہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنی جانیں کھپانے کا کوئی حاصل نہیں، مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد کرنی چاہیے، جہاں اُن کی قومی بقا کے تمام اسباب یکجا ہوں۔ ص کلیات۔ ۳۷۳ سرِ مقام مرگ و عشق: موت اور عشق کے مقام کا بھید، موت اور عشق کی حقیقت۔ نیز دیکھیے: ’عشق ہے مرگِ باشرف‘، ’مرگ حیاتِ بے شرف‘ ص کلیات۔ ۳۷۳ عشق ہے مرگِ باشرف: ۱- عشق، عزت کی موت ہے، راہِ عشق میں جان دینا اعزاز کی بات ہے۔ ۲- عشق، موت کو ہمیشہ کی زندگی بنا دیتا ہے۔ ۳- عشق، فنا فی اللہ ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۵ عشق: ۱- ایمان کا حال بن جانا اور اُس حال کا پورے وجود اور اس کے تمام فعال عناصر مثلاً شعور، طبیعت، ارادے وغیرہ پر مستقلاً غالب آجانا۔ ۲- اصولِ ظہور جو مراتبِ الٰہیہ میں حُب ہے اور مراتبِ انسانیہ میں عشق۔ یعنی ذاتِ الٰہی کا ظہور ’حُب‘ کی وجہ سے ہوا اور ذاتِ انسانی کا اظہار عشق کی بدولت ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۵ غزل۳۴ جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی یعنی خودی کی حقیقت، عقل سے نہیں بلکہ عشق سے کھلتی ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۹ غزل۴۰ عشق: اللہ کی محبت جو بندے کو اللہ کے ملک کی سیر کرواتی ہے اور تسخیرِ کائنات کی قوت عطا کرتی ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۹ عیشِ منزل: پڑائو کی لذت، ایک جگہ جم کر رہنے کا آرام، کہیں پہنچ جانے کی خوشی۔ ص کلیات۔ ۳۹۴ عشقِ ید اللّٰہی: ۱- حضرت علیؓ کا سا عشق جو ید اللہ تھے،تقاضاے بندگی کی تعمیل و تکمیل میں جان و دل سے مشغول مومن کا عشق جس کے متعلق حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ اللہ ایسے بندوں کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ ۲- عشق جو علم، شجاعت، کامرانی، آزادی اور اقتدار کا سرچشمہ ہے۔ ص کلیات۔ ۴۳۴ عشقِ گرہ کشاے: ۱- ہر مشکل کو حل کردینے والا عشق۔ ۲- عشق جو دانش، دین، علم اور فن کی تمام گتھیاں سلجھا کر انھیں ان کی حقیقت سے واصل کرتا ہے۔ ۳- دلوں کی گرہ کھولنے والی محبت۔ ۴- عشق جو اُن تنگ حدود کو توڑ دیتا ہے جن میں زندگی گھٹ کر رہ جاتی ہے اور اس کا جوہر ظاہر نہیں ہوپاتا۔ [عشق + گرہ کشا= مشکل کشا + ے= یا ے تعظیم جو عشق کی عظمت کی طرف اشارہ کرتی ہے] ص کلیات۔ ۵۳۲ عشق ہے دیوانہ پن: علم یعنی عقل پرستی نے تو ’دیوانہ پن‘ کا لفظ تحقیر کے لیے استعمال کیا ہے مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ لفظ و معنی کی ایک برتر روایت سے مدد لے کر اسی کلمے کو عشق کی عظمت کا بیان بنا دیا۔ عشق، ’دیوانہ پن‘ ہی ہے لیکن علم حقیقت تک پہنچ نہیں رکھتا لہٰذا دیوانگی کے ظاہری و لفظی مفہوم تک محدود رہا۔ اس کی نظر میں عشق اس لیے دیوانہ پن ہے کہ: ۱- اس کا مقصود جانا نہیں جاسکتا۔ ۲- یہ جس فضا میں رہتا ہے وہاں عقل پنپ ہی نہیں سکتی۔ ۳- یہ اسباب و نتائج سے بے پروا ہے بلکہ حقیقت کے ادراک و اثبات کے ذہنی سانچے ہی کو توڑ دیتا ہے۔ ۴- یہ وجود کو لازمانی و لامکانی مانتا ہے۔ ۵- یہ عقل کی رہنمائی قبول نہیں کرتا۔ ۶- عقل نے چیزوں کو جو معنی دیے ہیں، یہ انھیں نہیں مانتا۔ ۷- یہ خود ٹک کر بیٹھتا ہے نہ چیزوں کو کسی ایک صورت یا معنی پر ٹکنے دیتا ہے۔ ۸- عقل جو اُمور کو محال سمجھتی ہے یہ اُنھیں نہ صرف یہ کہ ممکن کہتا ہے بلکہ ایک دوسرے راستے سے جس پر عقل کے قدم نہیں پڑے، اُن کا ممکن ہونا ثابت بھی کردیتا ہے۔ ۹- یہ فنا کو بقا کی تمہید سمجھتا ہے اور انسانی خودی میں لازمانیت کی استعداد دیکھتا ہے۔ نیز دیکھیے: ’علم‘، ’عقل‘، ’عشق‘، ’جنوں‘ [تمام اندراجات] ص کلیات۔ ۵۳۱ عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں: ۱- ظہورِ حقیقت کے دو تعینات ہیں: مکانی اور زمانی۔ ہر تعین کی دو جہتیں ہیں: فعلی اور انفعالی۔ فعلی جہت، ظہورِ لطیف ہے اور انفعالی، ظہورِ کثیف۔ ظہورِ لطیف غیر مادی ہوتا ہے اور ظہورِ کثیف مادی۔ مکانی تعین میں ’مکان‘ ظہورِ لطیف ہے اور غیر مادی، جب کہ ’مکین‘ ظہورِ کثیف ہے اور مادی ۔ ’زمان‘ اور ’زمیں‘ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ عقل چونکہ مادی اور غیر مادی کی دوئی یا تضاد کو مستقل ماننے پر مجبور ہے۔ لہٰذا اس کا فراہم کردہ علم، ظہور کے ان کائناتی مراتب کا بھی احاطہ نہیں کرتا۔ یہ عشق ہے جو حقیقت کے حالی استحضار کی بدولت خود اپنی ذات میں حقیقت کا مظہر جامع ہے۔ ظہور کے تمام انفسی و آفاقی تعینات اسی سے منعکس ہوتے ہیں اور اسی پر قائم ہیں۔ ۲- ’مکان‘، ’مکین‘ کی حدِ وجود ہے اور ’زمان‘، ’زمین‘ کی۔ ۳- کائنات میں وجود کے دو اصول ہیں: حرکت اور سکون۔ ’زمان‘، حرکت کا اصول ہے اور ’مکان‘ سکون کا۔ عشق ان دونوں کا نقطۂ وحدت ہے۔ ص کلیات۔ ۵۳۳ عشق حیات و ممات: ۱- عشق اُس بندۂ کامل کا حال ہے، جو یہ کہہ سکے کہ میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۲- عشق، زندگی اور موت کی اصل ہے۔ اللہ نے جینے اور مرنے کو اسی کے لیے تخلیق کیا ہے۔ ۳- عشق، حقیقت بندگی ہے اور حیات و ممات کمالِ بندگی کے دو پہلو ہیں۔ ص کلیات۔ ۵۳۳ عشق سراپا حضور: ۱- یعنی عشق وہ آنکھ ہے، جو حق پر جمی رہتی ہے اور جسے اللہ نے اپنے مشاہدے کے لیے ایجاد کیا ہے۔ ۲- عشق کے لیے حق، محسوس ہے نہ کہ معقول۔ ص کلیات۔ ۵۳۳ عشق سکون و ثبات: یعنی عشق، کمال اور دوام کی اصل ہے۔ ’سکون‘، حرکت‘ کی ضد ہے جو نقص اور ادھورے پن سے پیدا ہوتی ہے اور ’ثبات‘، ’تغیر‘ کا اُلٹ ہے جو فنا اور عارضی پن کا مظہر ہے۔ ص کلیات۔ ۵۸۳ عشق ناپید و خرد میگزدش صورتِ مار عشق ناپید ہے اور عقل اُسے یعنی دورِ جدید کے انسان کو سانپ کی طرح ڈس رہی ہے۔ ص کلیات۔ ۱۳۷ محبت: ۱- اس نظم میں محبت کی اصطلاح مندرجۂ ذیل معنوں میں استعمال ہوئی ہے: ۱- وجود کی اولین حرکت۔ ۲- زندگی کا نقطۂ آغاز۔ ۳- زمانے کی بنیاد۔ ۴- نظامِ کائنات کی اصل۔ ۵- کائنات میں روح پھونکنے و الی قوت۔ ۶- موجودات کا اصولِ تعلق۔ ۷- انسان اور کائنات کو مرتبۂ کمال تک پہنچانے اور ان کے تمام امکانات کو انتہائی درجے پر بروے کار لانے والا خداوندی فیضان۔ ۲- محبت کے اجزاے ترکیبی: ہدایت رسانی، مقصود تک پہنچانے کی مستقل لگن، تہ داری، بے قراری ، پاکیزگی، حیات بخشی، بے نیازی، عاجزی، ایثار اور ابدیت۔ ص کلیات۔ ۳۰۵ علم و محبت: ۱- معرفت اور عشق۔ ۲- علم کا تعلق اللہ کی صفات اور اُن کے آثار یعنی کائنات سے ہے۔ اور محبت کا ذات ہے۔ ۳- علم، صورتِ شے کا حصول ہے اور محبت حقیقتِ شے کا۔ صورت، حقیقت پر دلالت کرتی ہے اور حقیقت اپنی لامحدودیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس دلالت کو قبول کرتی ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر ’معلوم‘ اور ’محبوب‘ ایک ہوجاتے ہیں۔ کانٹ نے علم پر جو دروازہ بند کردیا تھا، محبت اسے کھول دیتی ہے کیونکہ محبت، وجود کے اُن احکام و احوال تک رسائی رکھتی ہے جن کے ادراک و اثبات کی شرائط علم بالحواس سے پوری نہیں ہوتیں۔ ۴- حصول جو عقل کے اور وصول جو حواس کے نقص سے پاک ہے۔ ۵- اصطلاحِ تصوف میں علم سے مراد حُب عقلی ہے اور محبت سے حبِ عشقی حسّی۔ ص کلیات۔ ۳۰۵ ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی ’معلوم‘ کی انتہا نہ ہوگی تو علم بھی بے انتہا ہوگا اور ’محبوب‘ لامحدود ہوگا تو محبت کی بھی کوئی حد نہ ہوگی۔ چونکہ مسلمان کا ’معلوم و محبوب‘ اللہ ہے لہٰذا اس کا علم بھی غیر محدود ہے اور محبت بھی۔ اس کا علم اپنی ہر جہت سے… خواہ دُنیاوی ہو یا اُخروی، انفسی ہو یا آفاقی، عقلی ہو یا حسی، طبیعی ہو یا مابعد الطبیعی… اللہ ہی کی کسی نہ کسی پہچان پر تمام ہوتا ہے، اور یہی حال اس کی محبت کا ہے کہ جس طرف بھی لپکتا ہے، اللہ تک پہنچ جاتا ہے۔ نیز دیکھیے: ’’علم ومحبت‘‘ ص کلیات۔ ۳۰۷ دگر شاخِ خلیل از خونِ ما نم ناک می گردد ببازارِ محبت نقدِ ما کامل عیار آمد (سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ں کی لگائی ہوئی ٹہنی ہمارے لہو سے سیراب ہورہی ہے۔ محبت کے بازار میں ہماری جنس کھری نکلی اور سونا سچا) ص کلیات۔ ۳۵۲ آوارۂ کوے محبت: ۱- محبت کی گلی میں مارا مارا پھرنے والا، عاشق۔ ۲- کوچۂ محبوب میں بے قرار پھرنے والے۔ ۳- محبوب سے وصال کا آرزو مند۔ ۴- جذب کی راہ سے اسما و صفات کی تفصیلی سیر کرنے والا عاشق جس کی منزل ذات ہے۔ ص کلیات۔ ۳۶۲ محبت: اللہ اور اللہ کے رسول ا سے ایسا تعلق جو کسی اور تعلق کی گنجائش نہ چھوڑے اور بندے کے تمام نقائص کا ازالہ کرکے اُسے مرتبۂ کمال تک پہنچا دے۔ یہی تعلق انسان کو اپنی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے اور نائبِ حق کی حیثیت سے اس کے کردار کا تعین کرتا ہے۔ ص کلیات۔ ۳۷۴ نخچیر محبت: محبت کا شکار، عشق کا مارا۔ ص کلیات۔ ۳۸۹ غریبانِ محبت: جنھیں عشق نے بے گھر اور بے وطن کردیا ہو، اہل محبت جو دنیا میں مسافر اور اجنبی بن کررہتے ہیں۔ ظ……ظ……ظ  کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔ حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ الف:۔ اعلام اور تلمیحات: یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات اور مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ ب:۔ مشکلات.۔.... یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح، توضیح اور تفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہلِ علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہوسکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جاسکتا، مجروح نہ ہو۔ ج:۔ تکنیکی اور فنی محاسن: یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص مقام پر اقبال کے پیشِ نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آجائیں گے۔ m صفحات ذیل میں فرہنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جارہے ہیں۔ کلیاتِ اقبال (اردو) احمد جاوید ص کلیات۔ ۱۳۹ عشق گرہ کشاے: ۱- گرہ کھولنے والا عشق (عشق+ گرہ کشا= گتھی سلجھانے والا، رکاوٹ دور کرنے والا، مشکل کشا + ے= یاے تعظیمی)۔ ۲- وہ عشق جو محبوب کی راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ گرا دیتا ہو۔ ۳- حقیقت کی تلاش میں عقل کی رہنمائی کرنے والا عشق مزید دیکھیے: ’’عشق‘‘ ص کلیات۔ ۱۴۰ مستی تسنیم عشق: ۱- عشق کی تسنیم سے سیراب ہوکر حاصل ہونے والی بے خودی اور سرمستی۔ ۲- اللہ کے دیدار کی کیفیت۔ ۳- وحدت الوجود کی حقیقت کا تجربہ۔ [مستی +تسنیم= جنت کی ایک نہر، مراد فیضان کا سرچشمہ+ عشق= دیکھیے تمام اندراجات] ص کلیات۔ ۱۴۸ عاشق ہرجائی: عطیہ فیضی کے نام ۱۷؍جولائی ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں اقبال نے اپنے روّیے کی وضاحت کے لیے جس نظم کی اشاعت کا وعدہ کیا تھا، وہ یہی نظم ہے (’اقبال‘ از عطیہ بیگم۔ خالد ایڈیشن۔ ص۵۷)۔ نظر ثانی میں ابتدائی متن میں پہلے بند کے تین اور دوسرے بند کا ایک شعر حذف کردیا گیا۔ ص کلیات۔ ۱۵۵ پیامِ عشق: مطبوعہ مخزن اکتوبر ۱۹۰۸ء یہ غزل نما نظم اس لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں اقبال کے بنیادی تصورات مثلاً خودی وغیرہ کی ابتدا نظر آتی ہے۔ ص کلیات۔ ۱۵۸ صیقل عشق: ۱- ’صیقل‘ اُس آلے اور عمل کو کہتے ہیں جس کے ذریعے سے پتھر وغیرہ کو چمکا کر آئینہ بنایا جاتا ہے۔ ص کلیات۔ ۲۳۶ قوتِ عشق: ۱- وہ قوت جو کائنات کی وجودی تنظیم کو بدل سکتی ہے اور ماہیت اشیا پر تصرف کرسکتی ہے۔ ۲- عشق کی معنویت عقل کے تقابل میں واضح ہوتی ہے۔ عقل اپنی آزاد حالت میں خلق کی محکوم اور خالق پر ’حاکم‘ ہے۔ جب کہ عشق خالق کا محکوم اور خلق پر حاکم ہے۔ عقل کے مطالبات فکر سے پورے ہوتے ہیں اور عشق کے قوت سے روحانی اور وجدانی ہے۔ ص کلیات۔ ۳۱۰ عشق: روحِ انسانی کی وہ قوت جو سودو زیاں اور راحت و زحمت کی فکر سے بے نیاز ہوکر محبوب پر نثار ہونا سکھاتی ہے۔ سرمستی اور بے باکی اس کے بنیادی اوصاف میں سے ہیں۔ ص کلیات۔ ۴۷ عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر یعنی: ۱- دونوں میں سے کوئی آشکار ہوجائے، نتیجہ ایک ہی ہے۔ حُسن ظاہر ہوگیا تو گویا عشق پردے سے نکل آیا اور عشق آشکار ہوگیا تو گویا حُسن کا ظہور ہوگیا۔ مطالبہ یہ ہے کہ خدایا! خود کو ظاہر کردے تاکہ مجھے پورا اظہار مل جائے یا میری حقیقت کو آشکار کردے تاکہ تو پوشیدہ نہ رہے۔ ۲- بارِ الہا! یا تو خود کو ظاہر کردے اور مجھے چھپا رہنے دے، یا مجھے ظاہر کردے اور خود کو چھپا رہنے دے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور ہونی چاہیے ورنہ یہ کارخانۂ وجود بے معنی ہے۔ اس شعر میں اقبال نے ’عشق‘ کو وحدت الوجود کی گرفت سے نکالا ہے اور اسے بقا، امتیاز اور غیریت کی اساس بنایا ہے۔ ص کلیات۔ ۳۵۰ عشق: ۱- حقیقتِ انسانی کا ذاتی داعیہ جو انسان کو اُس کے انفرادی اور نوعی تشخص کے اُفقی حدود سے بلند ہونے کی قوت دیتا ہے۔ ۲- اللہ نے چاہا کہ اُس کا ظہور ہو، یہ ’حُب‘ ہے۔ انسان اسی خواہشِ ظہور کا ایک فعال مظہر ہے اور ظہورِ حق کے لیے ضروری ہے کہ خود انسان بھی اپنے اُس کمال کے ساتھ ظاہر ہو جو اُسے مظہرِ حق بننے کے لیے بخشا گیا ہے اور جسے موجودیت کے عام پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا، یعنی موجودات جن حدود سے عبارت ہیں وہ اس کمال کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ مظہریت کی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے جو اُس پر ڈالی گئی ہے، انسان بھی اپنی پوری حقیقت کے ساتھ ظاہر ہونا چاہتا ہے۔ اقبال کی اصطلاح میں یہ ’’عشق‘‘ ہے۔ گویا تقاضاے ظہور مشترک ہے، اللہ کی طرف سے ہو تو اس کا نام ’حب‘ ہے اور بندے کی طرف سے ہو تو ’عشق‘۔ ۳- بندگی کا منتہا یعنی اللہ کے رنگ میں رنگ جانا۔ ص کلیات۔ ۳۵۳ نوائے عاشقانہ: ۱- عاشقانہ کلام، عشقیہ شاعری، نغمۂ محبت۔ ۲- اقبال کی شاعری جو عشق کی روایت سے تعلق رکھتی ہے۔ ۳- فطرت عاشق کا جمالیاتی اظہار جو کسی خارجی محرک کا محتاج نہ ہو۔ ص کلیات۔ ۳۵۴ عشق: ۱- اللہ سے والہانہ وابستگی کی قوت جو کائنات کو انسان کے لیے مسخر کردیتی ہے۔ ۲-اللہ سے تعلق کی ہمہ گیری کا اصول جو مسلمان کے قلب کو مرکز بنا کر ساری دنیا میں ظہور کرتا ہے۔ ۳- انسان اور کائنات کی حقیقت اور اُن میں پوشیدہ کمالات کو بروے کار لانے والی قوت۔ ۴- دین محمدیﷺ۔ ص کلیات۔ ۳۵۵ عشق: ۱- بندے کا اللہ کی کشش پر اپنے پورے وجود کے ساتھ لبیک کہنا اور بیچ کی تمام رکاوٹوں کو پھلانگ جانا۔ ۲- حقیقت تک رسائی کی واحد قوت۔ ص کلیات۔ ۳۶۳ نگاہِ عشق و مستی: ۱- وہ اندازِ نظر جو عشق اور سرمستی کی دین ہے۔ ۲- محبوب میں فنا ہوجانے والے کی نظر جو جدھر اُٹھتی ہے، محبوب ہی کو دیکھتی ہے۔ ۳- وہ آنکھ جو ساری بڑائیاں اور تمام خوبیاں محبوب ہی میں دیکھتی ہے اور اس کا یہ مشاہدہ عام اسلوبِ دید اور اندازِ فہم کی گرفت سے باہر ہونے کے باوجود، حقیقت اور صداقت پر مبنی ہوتا ہے۔ ۴- محبوب کی حقیقت تک رسائی رکھنے والی نگاہ، جہاں عقل و ہوش کا گزر نہیں۔ ۵- صورت سے معنی تک پہنچ جانے والی عاشقانہ بصیرت، جو منطق وغیرہ کی قید کو قبول نہیں کرتی۔ ۶- مجذوب کی نگاہ، جو مشاہدے کی عام روایت سے آزاد ہوکر کام کرتی ہے اور اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، نہ براے تردید نہ براے تائید۔ ص کلیات۔ ۳۷۰ بتانِ عہدِ عتیق: ۱- زمانۂ قدیم کے بُت۔ ۲- خود ساختہ عقائد و تصورات جو قدیم زمانے سے آج تک انسان کو حق کی طرف سے جانے سے روکے ہوئے ہیں۔ نیز دیکھیے: ’طلسمِ کہن‘ ص کلیات۔ ۳۷۳ عشق بتاں سے ہاتھ اُٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا نقش و نگارِ دیر میں خونِ جگر نہ کر تلف اس شعر میں غالباً یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ہندووں کے ساتھ سیاسی اتحاد کرنے کی بجائے اپنی جداگانہ حیثیت پر زور دینا چاہیے۔ اس اتحاد سے بالآخر فائدہ ہندو ہی کو پہنچے گا۔ مسلمان ہر حال میں خسارے میں رہیں گے۔ نیز متحدہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنی جانیں کھپانے کا کوئی حاصل نہیں، مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد کرنی چاہیے، جہاں اُن کی قومی بقا کے تمام اسباب یکجا ہوں۔ ص کلیات۔ ۳۷۳ سرِ مقام مرگ و عشق: موت اور عشق کے مقام کا بھید، موت اور عشق کی حقیقت۔ نیز دیکھیے: ’عشق ہے مرگِ باشرف‘، ’مرگ حیاتِ بے شرف‘ ص کلیات۔ ۳۷۳ عشق ہے مرگِ باشرف: ۱- عشق، عزت کی موت ہے، راہِ عشق میں جان دینا اعزاز کی بات ہے۔ ۲- عشق، موت کو ہمیشہ کی زندگی بنا دیتا ہے۔ ۳- عشق، فنا فی اللہ ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۵ عشق: ۱- ایمان کا حال بن جانا اور اُس حال کا پورے وجود اور اس کے تمام فعال عناصر مثلاً شعور، طبیعت، ارادے وغیرہ پر مستقلاً غالب آجانا۔ ۲- اصولِ ظہور جو مراتبِ الٰہیہ میں حُب ہے اور مراتبِ انسانیہ میں عشق۔ یعنی ذاتِ الٰہی کا ظہور ’حُب‘ کی وجہ سے ہوا اور ذاتِ انسانی کا اظہار عشق کی بدولت ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۵ غزل۳۴ جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی یعنی خودی کی حقیقت، عقل سے نہیں بلکہ عشق سے کھلتی ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۹ غزل۴۰ عشق: اللہ کی محبت جو بندے کو اللہ کے ملک کی سیر کرواتی ہے اور تسخیرِ کائنات کی قوت عطا کرتی ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۹ عیشِ منزل: پڑائو کی لذت، ایک جگہ جم کر رہنے کا آرام، کہیں پہنچ جانے کی خوشی۔ ص کلیات۔ ۳۹۴ عشقِ ید اللّٰہی: ۱- حضرت علیؓ کا سا عشق جو ید اللہ تھے،تقاضاے بندگی کی تعمیل و تکمیل میں جان و دل سے مشغول مومن کا عشق جس کے متعلق حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ اللہ ایسے بندوں کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ ۲- عشق جو علم، شجاعت، کامرانی، آزادی اور اقتدار کا سرچشمہ ہے۔ ص کلیات۔ ۴۳۴ عشقِ گرہ کشاے: ۱- ہر مشکل کو حل کردینے والا عشق۔ ۲- عشق جو دانش، دین، علم اور فن کی تمام گتھیاں سلجھا کر انھیں ان کی حقیقت سے واصل کرتا ہے۔ ۳- دلوں کی گرہ کھولنے والی محبت۔ ۴- عشق جو اُن تنگ حدود کو توڑ دیتا ہے جن میں زندگی گھٹ کر رہ جاتی ہے اور اس کا جوہر ظاہر نہیں ہوپاتا۔ [عشق + گرہ کشا= مشکل کشا + ے= یا ے تعظیم جو عشق کی عظمت کی طرف اشارہ کرتی ہے] ص کلیات۔ ۵۳۲ عشق ہے دیوانہ پن: علم یعنی عقل پرستی نے تو ’دیوانہ پن‘ کا لفظ تحقیر کے لیے استعمال کیا ہے مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ لفظ و معنی کی ایک برتر روایت سے مدد لے کر اسی کلمے کو عشق کی عظمت کا بیان بنا دیا۔ عشق، ’دیوانہ پن‘ ہی ہے لیکن علم حقیقت تک پہنچ نہیں رکھتا لہٰذا دیوانگی کے ظاہری و لفظی مفہوم تک محدود رہا۔ اس کی نظر میں عشق اس لیے دیوانہ پن ہے کہ: ۱- اس کا مقصود جانا نہیں جاسکتا۔ ۲- یہ جس فضا میں رہتا ہے وہاں عقل پنپ ہی نہیں سکتی۔ ۳- یہ اسباب و نتائج سے بے پروا ہے بلکہ حقیقت کے ادراک و اثبات کے ذہنی سانچے ہی کو توڑ دیتا ہے۔ ۴- یہ وجود کو لازمانی و لامکانی مانتا ہے۔ ۵- یہ عقل کی رہنمائی قبول نہیں کرتا۔ ۶- عقل نے چیزوں کو جو معنی دیے ہیں، یہ انھیں نہیں مانتا۔ ۷- یہ خود ٹک کر بیٹھتا ہے نہ چیزوں کو کسی ایک صورت یا معنی پر ٹکنے دیتا ہے۔ ۸- عقل جو اُمور کو محال سمجھتی ہے یہ اُنھیں نہ صرف یہ کہ ممکن کہتا ہے بلکہ ایک دوسرے راستے سے جس پر عقل کے قدم نہیں پڑے، اُن کا ممکن ہونا ثابت بھی کردیتا ہے۔ ۹- یہ فنا کو بقا کی تمہید سمجھتا ہے اور انسانی خودی میں لازمانیت کی استعداد دیکھتا ہے۔ نیز دیکھیے: ’علم‘، ’عقل‘، ’عشق‘، ’جنوں‘ [تمام اندراجات] ص کلیات۔ ۵۳۱ عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں: ۱- ظہورِ حقیقت کے دو تعینات ہیں: مکانی اور زمانی۔ ہر تعین کی دو جہتیں ہیں: فعلی اور انفعالی۔ فعلی جہت، ظہورِ لطیف ہے اور انفعالی، ظہورِ کثیف۔ ظہورِ لطیف غیر مادی ہوتا ہے اور ظہورِ کثیف مادی۔ مکانی تعین میں ’مکان‘ ظہورِ لطیف ہے اور غیر مادی، جب کہ ’مکین‘ ظہورِ کثیف ہے اور مادی ۔ ’زمان‘ اور ’زمیں‘ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ عقل چونکہ مادی اور غیر مادی کی دوئی یا تضاد کو مستقل ماننے پر مجبور ہے۔ لہٰذا اس کا فراہم کردہ علم، ظہور کے ان کائناتی مراتب کا بھی احاطہ نہیں کرتا۔ یہ عشق ہے جو حقیقت کے حالی استحضار کی بدولت خود اپنی ذات میں حقیقت کا مظہر جامع ہے۔ ظہور کے تمام انفسی و آفاقی تعینات اسی سے منعکس ہوتے ہیں اور اسی پر قائم ہیں۔ ۲- ’مکان‘، ’مکین‘ کی حدِ وجود ہے اور ’زمان‘، ’زمین‘ کی۔ ۳- کائنات میں وجود کے دو اصول ہیں: حرکت اور سکون۔ ’زمان‘، حرکت کا اصول ہے اور ’مکان‘ سکون کا۔ عشق ان دونوں کا نقطۂ وحدت ہے۔ ص کلیات۔ ۵۳۳ عشق حیات و ممات: ۱- عشق اُس بندۂ کامل کا حال ہے، جو یہ کہہ سکے کہ میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۲- عشق، زندگی اور موت کی اصل ہے۔ اللہ نے جینے اور مرنے کو اسی کے لیے تخلیق کیا ہے۔ ۳- عشق، حقیقت بندگی ہے اور حیات و ممات کمالِ بندگی کے دو پہلو ہیں۔ ص کلیات۔ ۵۳۳ عشق سراپا حضور: ۱- یعنی عشق وہ آنکھ ہے، جو حق پر جمی رہتی ہے اور جسے اللہ نے اپنے مشاہدے کے لیے ایجاد کیا ہے۔ ۲- عشق کے لیے حق، محسوس ہے نہ کہ معقول۔ ص کلیات۔ ۵۳۳ عشق سکون و ثبات: یعنی عشق، کمال اور دوام کی اصل ہے۔ ’سکون‘، حرکت‘ کی ضد ہے جو نقص اور ادھورے پن سے پیدا ہوتی ہے اور ’ثبات‘، ’تغیر‘ کا اُلٹ ہے جو فنا اور عارضی پن کا مظہر ہے۔ ص کلیات۔ ۵۸۳ عشق ناپید و خرد میگزدش صورتِ مار عشق ناپید ہے اور عقل اُسے یعنی دورِ جدید کے انسان کو سانپ کی طرح ڈس رہی ہے۔ ص کلیات۔ ۱۳۷ محبت: ۱- اس نظم میں محبت کی اصطلاح مندرجۂ ذیل معنوں میں استعمال ہوئی ہے: ۱- وجود کی اولین حرکت۔ ۲- زندگی کا نقطۂ آغاز۔ ۳- زمانے کی بنیاد۔ ۴- نظامِ کائنات کی اصل۔ ۵- کائنات میں روح پھونکنے و الی قوت۔ ۶- موجودات کا اصولِ تعلق۔ ۷- انسان اور کائنات کو مرتبۂ کمال تک پہنچانے اور ان کے تمام امکانات کو انتہائی درجے پر بروے کار لانے والا خداوندی فیضان۔ ۲- محبت کے اجزاے ترکیبی: ہدایت رسانی، مقصود تک پہنچانے کی مستقل لگن، تہ داری، بے قراری ، پاکیزگی، حیات بخشی، بے نیازی، عاجزی، ایثار اور ابدیت۔ ص کلیات۔ ۳۰۵ علم و محبت: ۱- معرفت اور عشق۔ ۲- علم کا تعلق اللہ کی صفات اور اُن کے آثار یعنی کائنات سے ہے۔ اور محبت کا ذات ہے۔ ۳- علم، صورتِ شے کا حصول ہے اور محبت حقیقتِ شے کا۔ صورت، حقیقت پر دلالت کرتی ہے اور حقیقت اپنی لامحدودیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس دلالت کو قبول کرتی ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر ’معلوم‘ اور ’محبوب‘ ایک ہوجاتے ہیں۔ کانٹ نے علم پر جو دروازہ بند کردیا تھا، محبت اسے کھول دیتی ہے کیونکہ محبت، وجود کے اُن احکام و احوال تک رسائی رکھتی ہے جن کے ادراک و اثبات کی شرائط علم بالحواس سے پوری نہیں ہوتیں۔ ۴- حصول جو عقل کے اور وصول جو حواس کے نقص سے پاک ہے۔ ۵- اصطلاحِ تصوف میں علم سے مراد حُب عقلی ہے اور محبت سے حبِ عشقی حسّی۔ ص کلیات۔ ۳۰۵ ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی ’معلوم‘ کی انتہا نہ ہوگی تو علم بھی بے انتہا ہوگا اور ’محبوب‘ لامحدود ہوگا تو محبت کی بھی کوئی حد نہ ہوگی۔ چونکہ مسلمان کا ’معلوم و محبوب‘ اللہ ہے لہٰذا اس کا علم بھی غیر محدود ہے اور محبت بھی۔ اس کا علم اپنی ہر جہت سے… خواہ دُنیاوی ہو یا اُخروی، انفسی ہو یا آفاقی، عقلی ہو یا حسی، طبیعی ہو یا مابعد الطبیعی… اللہ ہی کی کسی نہ کسی پہچان پر تمام ہوتا ہے، اور یہی حال اس کی محبت کا ہے کہ جس طرف بھی لپکتا ہے، اللہ تک پہنچ جاتا ہے۔ نیز دیکھیے: ’’علم ومحبت‘‘ ص کلیات۔ ۳۰۷ دگر شاخِ خلیل از خونِ ما نم ناک می گردد ببازارِ محبت نقدِ ما کامل عیار آمد (سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ں کی لگائی ہوئی ٹہنی ہمارے لہو سے سیراب ہورہی ہے۔ محبت کے بازار میں ہماری جنس کھری نکلی اور سونا سچا) ص کلیات۔ ۳۵۲ آوارۂ کوے محبت: ۱- محبت کی گلی میں مارا مارا پھرنے والا، عاشق۔ ۲- کوچۂ محبوب میں بے قرار پھرنے والے۔ ۳- محبوب سے وصال کا آرزو مند۔ ۴- جذب کی راہ سے اسما و صفات کی تفصیلی سیر کرنے والا عاشق جس کی منزل ذات ہے۔ ص کلیات۔ ۳۶۲ محبت: اللہ اور اللہ کے رسول ا سے ایسا تعلق جو کسی اور تعلق کی گنجائش نہ چھوڑے اور بندے کے تمام نقائص کا ازالہ کرکے اُسے مرتبۂ کمال تک پہنچا دے۔ یہی تعلق انسان کو اپنی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے اور نائبِ حق کی حیثیت سے اس کے کردار کا تعین کرتا ہے۔ ص کلیات۔ ۳۷۴ نخچیر محبت: محبت کا شکار، عشق کا مارا۔ ص کلیات۔ ۳۸۹ غریبانِ محبت: جنھیں عشق نے بے گھر اور بے وطن کردیا ہو، اہل محبت جو دنیا میں مسافر اور اجنبی بن کررہتے ہیں۔ خ…خ…خ…خ  اقبال شناسی یا اقبال تراشی اجمل کمال ۱ لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے احیائے علوم میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رسالے جریدہ کے شمارہ ۳۳میں اقبال کے ان خطبات پر، جن کے مجموعے کا عنوان Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے، قدامت پرست مذہبی نقطۂ نظر سے کیے گئے طویل تبصرے شائع کیے گئے اور یہ اطلاع دی گئی کہ یہ علامہ سید سلیمان ندوی کے خیالات ہیں جنھیں ان کے ایک عقیدت مند مرید ڈاکٹر غلام محمد نے روایت کیا ہے۔ ان تبصروں کو میں نے اسی بحث کی روشنی میں پڑھا جو احیائے علوم میں جاری ہے اور اسی پس منظر میں ان تبصروں کے بعض نکات پر اپنے مختصر مضمون ’’اجتہاد اور فیصلہ سازی‘‘ میں اظہارخیال کیا۔ اپنا مضمون احیائے علوم کے مدیر سید قاسم محمود کو بھجواتے ہوے مجھے یہ مناسب معلوم ہوا کہ علامہ ندوی سے منسوب ان تبصروں کے وہ اقتباسات الگ سے نقل کر دوں جنھوں نے میرے خیالات کو تحریک دی تھی۔میں نے ان اقتباسات پر مشتمل متن بھی’’خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ‘‘ کے عنوان سے سید قاسم محمود کو بھجوا دیا۔ اس متن کے آخر میں یہ وضاحت موجود تھی: ’’(ماخوذ از جریدہ، شمارہ ۳۳، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی۔ مدیر: خالد جامعی)‘‘۔یہ دونوں متن احیائے علوم کے شمارہ ۱۳ میں الگ الگ مقامات پر شائع ہوے۔ میرے مضمون کے عنوان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی البتہ اقتباسات کے متن کو یہ سرخی دی گئی: ’’خطبات اقبال، علامہ سید سلیمان ندوی کا بصیرت افروز تبصرہ‘‘۔اس کے علاوہ اس متن کے ساتھ علامہ ندوی کی ایک تصویر بھی شائع کی گئی۔احیائے علوم کے اس شمارے کی اشاعت کے بعد اقبال اکادمی کی طرف سے اکادمی کے ناظم محمد سہیل عمر، نائب ناظم احمد جاوید اور ان کے علاوہ خرم علی شفیق اور چند دیگر اصحاب کا ردعمل سامنے آیا۔ان تحریروں میں مذکورہ تبصروں کے علامہ ندوی سے منسوب کیے جانے پر شبہات ظاہر کیے گئے اور بعض اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ تحریریں اکادمی کی طرف سے شائع کیے جانے والے کتابچے میارابزم بر ساحل کہ آنجا میں شامل کی گئیں اور ان میں سے تین بعد میں احیائے علوم کے شمارہ۱۴ میں شائع ہوئیں۔ مذکورہ شمارہ ۱۴ کا انشائیہ نما اداریہ بعنوان ’’کمپیوٹر کی شرارت‘‘ پڑھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔اس تحریر میں مجھے جن ناکردہ گناہوں کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے ان کا ذکر توذرا آگے چل کر ہو گا، لیکن حیرت کا بڑا سبب یہ ہے کہ کمپیوٹر تک سے اداریہ نویس نے ایسے افعال و اعمال منسوب کر دیے ہیں جو عموماً اس سے منسوب نہیں کیے جاتے۔سید قاسم محمود صاحب، جن کا نام اس رسالے پر مدیر کے طور پر چھپتا ہے، اداریے میں فرماتے ہیں:’’اب کمپیوٹر ایڈیٹر بن بیٹھا ہے۔ جو چیز چھپنے کے لیے آتی ہے، غڑاپ سے اپنے پیٹ میں ڈال کر سڑاپ سے باہر نکال دیتا ہے...‘‘ کمپیوٹر اور ای میل کا استعمال اب اردو کے اخباروں اور رسالوں میں خاصا عام ہو گیا ہے اور مدیروں کواشاعت کے لیے بھیجی جانے والی بہت سی تحریریں الیکٹرانک ذرائع سے موصول ہوتی اورکمپیوٹر کی مدد سے اشاعت کے لیے مرتب کی جاتی ہیں، تاہم کمپیوٹر کی غڑاپ اور سڑاپ کے درمیان عموماً رسالے کامدیر واقع ہوتا ہے جو اس ذریعے سے موصول ہونے والی ہرتحریر کا پرنٹ آؤٹ نکال کر(یا نکلوا کر) اسے غور سے پڑھنے کے بعد ہی اس کے قابل اشاعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ احیائے علوم غالباً اردو کا پہلا رسالہ ہے جس میں مدیر نے یہ پورا عمل کمپیوٹر کو سونپ کر اس کا رابطہ براہ راست شرکت پریس سے کرا دیا ہے اور خود چین کی بنسی بجانے کا شغل اختیار کر لیا ہے۔ میں اردو کے اس پہلے مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ رسالے کے اجرا پر مبارک بادپیش کر نا چاہتا ہوں، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ مبارک باد سید قاسم محمود کو دی جائے یا براہِ راست ان کے کمپیوٹر کو۔ لیکن جہاں تک زیربحث مضامین کا تعلق ہے، ان کے سلسلے میں کمپیوٹر کی اس غڑاپ سڑاپ کی قطعی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ یہ دونوں تحریریں جنھیں احیائے علوم کے شمارہ ۱۳ میں مختلف مقامات پر شائع کیا گیا، مدیر کے نام خط کے ساتھ ہارڈ کاپی یعنی کاغذ پر نکالے ہوے پرنٹ آؤٹ کی شکل میں (بقول اداریہ نویس’’رجسٹری سے‘‘)بھیجی گئی تھیں، اور خط میں مدیر سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ اگر وہ انھیں شائع کرنے کا فیصلہ کریں تو ان کی سافٹ کاپی بذریعہ ای میل الگ سے بھیجی جا رہی ہے، اس متن کو استعمال کر لیں تاکہ انھیں نئے سرے سے کمپوزنگ نہ کرانی پڑے اور پروف کی غلطیاں نہ ہوں۔ رسید کے طور پر سید قاسم محمود کا ۲۶ جولائی کا لکھا ہواخط موصول ہوا کہ ’’آپ کے مرسلہ دونوں مضامین دونوں ذریعوں سے مل گئے ہیں۔ توجّہ فرمائی کا شکریہ۔ ہمیں ایسے ہی مضمونوں کی ضرورت ہے،‘‘ وغیرہ وغیرہ۔اب جیساکہ اداریے میں دیے گئے حلفیہ بیان سے انکشاف ہوا ہے، اگر محترم مدیر نے یہ باتیں خط کے ساتھ منسلک مضامین کو پڑھے بغیر ہی لکھ بھیجیں، اور پھر اشاعت کے لیے منتخب کرتے وقت (یا شائع ہونے کے بعد)بھی انھیں پڑھنے کی زحمت نہ کی تو ظاہر ہے کہ اس طرزعمل کا قصوروارکمپیوٹر کے سوا کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟یہ فیصلہ بھی یقیناکمپیوٹر نے کیا ہو گا کہ رسالے کے کن صفحات پر کن تحریروں کو جگہ دی جائے، ان پر کیا عنوان قائم کیا جائے اور کون سی تصویر کہاں لگائی جائے۔ واہ کمپیوٹر جی واہ! سید قاسم محمود صاحب میرے بزرگ ہیں اور میرے لیے قابل احترام ہیں۔میں نے ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے، مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے۔ یعنی ایک طرف رسالوں کو دیدہ زیب اور دلچسپ بنانے کے بہت سے طریقے ان کی مرتب کی ہوئی مطبوعات کو غور سے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف یہ بھی سیکھا کہ اشاعت کے لیے آنے والی تحریروں کو پڑھے بغیر شائع کرنا سید قاسم محمود کا ایسا عمل ہے جس کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ واقعہ اردو رسالوں میں کمپیوٹر کے مروج ہونے سے برسوں پہلے کا ہے جب ان کی ادارت میں نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں ممتاز مفتی کا سفرنامۂ حج لبیک قسط وار شائع ہوا تھا۔ جب یہ سفرنامہ کتاب کے طور پر چھپا تو اس میں سید قاسم محمود کی ایک تحریر بھی شامل تھی جس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ ان قسطوں کو پڑھے بغیر رسالے میں شائع کیا کرتے تھے۔ اپنے رسالے کے مشمولات اور ان کے مضمرات سے ناواقف ہونے کے باعث، اقبال اکادمی کے سرکاری عمال کے شوروغوغا سے سید قاسم محمود اس قدر گھبرا گئے کہ انھوں نے ہر چیز سے اپنی برأت کا اعلان کرتے ہوے یہ بھی نہ دیکھا کہ ’’خطبات اقبال‘‘ پر جن تبصروں سے اقتباسات منتخب کر کے شائع کیے گئے ہیں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف کے رسالے جریدہ کے شمارہ ۳۳ سے لیے گئے ہیں اور اس رسالے کا مکمل حوالہ دیا گیا ہے بلکہ ان میں سے ہر اقتباس پر مذکورہ رسالے کا صفحہ نمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ان تبصروں کو علامہ سید سلیمان ندوی سے جریدہ کے مدیر خالد جامعی نے منسوب کیا تھا، اس لیے اس انتساب کی ذمے داری انھی کے سر جاتی ہے، نہ کہ سید قاسم محمود (یا ان کے کمپیوٹر) کے۔جہاں تک میرا تعلق ہے میں تویہ ذمے داری اپنے سر لینے سے قطعی قاصر ہوں۔خالد جامعی نے وضاحت کے طور پر بتایا ہے کہ علامہ ندوی کے ان خیالات کے راوی ڈاکٹر غلام محمد ہیں، اور بظاہرخالد جامعی کو اس امر پر اطمینان معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت معتبر ہے۔ڈاکٹر غلام محمد کون تھے، میں اس سے ناواقف ہوں، اور شمارہ ۱۴ میں اقبال اکادمی کے زیراہتمام تیار کیے ہوے جو وضاحتی مضامین شائع کیے گئے ہیں ان میں بھی ان صاحب کا تعارف نہیں کرایا گیا۔ تاہم محمد سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے علامہ ندوی اور ڈاکٹر غلام محمد کے ناموں پر رحمت اﷲ علیہ کی علامت لگائی ہے جس سے اُن دونوں مرحومین کی بابت اِن دونوں کا احترام ظاہر ہوتا ہے۔ ان حضرات نے اس بارے میں کوئی بحث نہیں کی کہ ڈاکٹر غلام محمد کی گواہی علامہ ندوی کے بارے میں (جو بقول خالد جامعی،ڈاکٹر غلام محمد کے شیخ تھے) کس بنیاد پر نامعتبر ہے۔ بہرحال، چونکہ اس بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں، خالد جامعی اس بات کے مکلف ہیں کہ ان شکوک کو رفع کریں۔ ۲ خرم علی شفیق نے ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کے سلسلے میں کئی بیانات دیے ہیں: ’’امالی کے ملفوظات سید سلیمان ندوی صاحب سے منسوب کیے گئے ہیں (اگرچہ اس دعوے کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے)‘‘۔...’’کسی ثبوت کے بغیر یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ ]علامہ ندوی[ہی کے ارشادات ہیں۔ جب تک ثبوت نہ مل جائے ہمیں مصلحت پسندی کا یہ چہرہ ]علامہ ندوی[ پر چپکانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، صفحہ ۲۷۔) اس کے بعد صفحہ ۳۱ پر انھوں نے علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ معلوم کریں کہ یہ ملفوظات واقعی ]علامہ ندوی[کے ہیں یا نہیں۔‘‘ آگے چل کر کہتے ہیں: ’’یہاں بھی وہی شک گزرتا ہے کہ یہ ]علامہ ندوی[کے ارشادات ہیں یا کسی اور کا خامۂ ہذیان رقم!‘‘ (ص ۳۳) مزید کہتے ہیں: ’’ان امالی میں جس قسم کی ذہنیت سامنے آتی ہے...اسے ]علامہ ندوی[سے منسوب کرنے میں ابھی مجھے تامل ہے مگر یہ ملفوظات جس کسی کے بھی ہوں، ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک الجھے ہوئے ذہن کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ (ص۳۷۔) ان تمام بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خرم علی شفیق یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ خیالات، جنھیں ڈاکٹر غلام محمد اور خالد جامعی نے علامہ ندوی سے منسوب کیا ہے، ان کے ہیں یا نہیں۔اگر انتساب کا کوئی حتمی ثبوت خالد جامعی نے پیش نہیں کیا (کہا نہیں جا سکتاکہ سینہ بہ سینہ زبانی روایت سے بڑھ کر کون سا ثبوت ہو سکتا تھا)تو سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے بھی قطعی طور پر واضح نہیں کیا کہ یہ زبانی روایت اس مخصوص معاملے میں کیوں ناقابل قبول ہے۔ البتہ خرم علی شفیق نے ان خیالات کا علامہ ندوی کے معروف خیالات سے تضاد بڑی محنت اورقابلیت سے ظاہر کیاہے۔ تاہم بعض اہل قلم کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف ادوار میں ان کی رایوں اور خیالات میں نمایاں تضاد پایا جاتا ہے؛ اس قسم کے ادیبوں میں محمد حسن عسکری مثالی حیثیت رکھتے ہیں جنھوں نے تضادبیانی کو ایک فن لطیف کے درجے پر پہنچا دیا۔ خلاصہ یہ کہ خطبات اقبال پر ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کا معاملہ ابھی حتمی طور پر طے ہوناباقی ہے؛ جیسا کہ خرم علی شفیق نے کہا ہے، علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کو چاہیے کہ معلوم کریں کہ یہ خیالات ان سے منسوب کیے جانے چاہییں یا نہیں۔ تاہم میری رائے میں جریدہ شمارہ ۳۳ میں شائع ہونے والے خیالات کا علامہ ندوی یا کسی اور سے انتساب واحد اہم یا اہم ترین نکتہ نہیں۔ جیساکہ خرم علی شفیق کہتے ہیں، اگر یہ علامہ ندوی کے ’’ملفوظات نہیں ہیں تب بھی یہ خیالات کسی نہ کسی کا نتیجہ ٔ فکر تو ہوں گے،‘‘ چنانچہ ان کا محاکمہ کیا جانا جائز اورضروری ہے، اور اکادمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے اپنے مخصوص زاویۂ نظر سے ایسا کیا بھی ہے۔ میں نے بھی اپنے مختصر مضمون ’’اجتہاد اور فیصلہ سازی‘‘ میں ان میں سے بعض نکات پر اظہارخیال کیا تھا۔ میرے نزدیک یہ بات بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے زیراہتمام (اور ملک کے شہریوں سے وصول کردہ ٹیکسوں کی رقم کے صرف سے) اس قسم کے افسوسناک اور دقیانوسی خیالات کی اشاعت کی جا رہی ہے۔ ۳ سہیل عمر کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں بلاتحقیق ان سے یہ منسوب کر دیا کہ انھوں نے شہادت دی ہے کہ اقبال نے رحلت سے پیشتر خطبات سے رجوع کر لیا تھا۔ یہ انتساب بھی میرا نہیں، مدیر جریدہ خالد جامعی کاہے، اور اس ضمن میں میں نے مذکورہ اقتباس سے اوپر کے پیراگراف میں جریدہ کے شمارہ ۳۴ کا حوالہ دیا ہے۔اپنا مضمون لکھتے وقت میں ’’خطبات اقبال‘‘ کے بارے میں سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے لاعلم تھا۔ اس کے شائع ہونے کے بعد سہیل عمر سے ای میل پر میری خط و کتابت رہی اور انھوں نے یہ تمام وضاحتی تحریریں، جو احیائے علوم کے شمارہ ۱۴ میں شائع کی گئی ہیں، پہلے ای میل کے ذریعے اور پھر اکادمی کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کی صورت میں، مجھے ارسال کیں۔میں نے جواباً ان کو اطمینان دلایا کہ اگر میں نے خالد جامعی کی شہادت پر بھروسا کر کے نادانستگی میں ان سے کوئی ایسی بات منسوب کر دی ہے جو انھوں نے نہیں کہی تھی تو مجھے اپنے الفاظ واپس لینے اور معذرت کرنے میں قطعی کوئی عار نہیں ہو گی۔ میں اپنے اس بیان پر اب بھی قائم ہوں ۔ آئیے اب دیکھیں کہ سہیل عمر ’’خطبات اقبال‘‘ کے بارے میں دراصل کیا رائے رکھتے ہیں۔ انھوں نے میری درخواست پر بڑی مہربانی سے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ (جسے انھوں نے اقبال اکادمی کے زیراہتمام شائع کیا ہے) مجھے فراہم کی۔ میں نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے پڑھا اوراسی دوران مجھے اکادمی کے رسالے اقبالیات اور بعض دوسری مطبوعات میں ’’خطبات‘‘ کے بارے میں اکادمی کے سابق ناظم پروفیسر مرزا محمد منور اور حالیہ نائب ناظم احمد جاوید کے خیالات سے بھی کسی قدر واقف ہونے کا موقع ملا۔ان مطالعات سے تاثر ملتا ہے کہ اکیڈی کے یہ سابق اور موجودہ کارپردازان اقبال کے خطبات کے بارے میں کئی قسم کے تحفظات رکھتے ہیں، اور چند نامعلوم اسباب کی بنا پر ان کی کوشش رہتی ہے کہ اقبال کے خطبات کو ان کی شاعری کے مقابلے پر لایا جائے اور کسی طرح یہ جتایا جائے کہ خطبات ان کی شاعری کی بہ نسبت کم اہمیت کے حامل ہیں اور کہیں کہیں اقبال کے کام کے ان دونوں اجزا کے درمیان، ان حضرات کی فہم کے مطابق، نقطۂ نظر کا اختلاف پایا جانا بھی خارج از امکان نہیں۔یہ تاثر اس قسم کی باتوں سے ملتا ہے جن میں سے کچھ ذیل میں درج کی جا رہی ہیں: محمد سہیل عمر(’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘): ’’علامہ کی شاعری کا بیشتر حصہ آج بھی پہلے کی طرح قابل قدر، فکرانگیز اور پرتاثیر ہے جبکہ خطبات کا کچھ حصہ اب صرف تاریخی اہمیت کا حامل معلوم ہوتا ہے۔‘‘(صفحہ ۱۱)’’پہلا سوال جو اقبالیات کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے، یہ ہو گا کہ اصل چیز اقبال کا شعر ہے یا خطبات! شاعری کو اولیت حاصل ہے یا خطبات کو؟کیا خطبات ہمارے ادبی اور فکری سرمایے میں اسی جگہ کے مستحق ہیں جو شاعری کو حاصل ہے؟ اس بڑے سوال کے ساتھ ضمنی سوالات کی پخ بھی لگی ہوئی ہے کہ خطبات کے مخاطب کون تھے؟ اس کے موضوعات چونکہ متعین اور تحریر فرمائشی تھی نیز وسائل مطالعہ و تحقیق ۱۹۲۰۔۱۹۲۸ تک محدود تھے، لہٰذاشاعری کے آزاد، پائدار اور تخلیقی وسیلے کے مقابلے میں خطبات زمانے کے فکری اور سیاسی تقاضوں، معاشرتی عوامل، رجحانات، نفسیاتی ردعمل اور دیگر محرکات کے زیادہ اسیر ہیں ‘‘ (۱۲-۱۱) ’’یہاں ایک ضمنی سوال سر اٹھاتا ہے کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا؟‘‘ (۱۲)’’خطبات کے بعد علامہ لگ بھگ دس برس زندہ رہے اور مابعد کی شاعری اور دیگر نثری تحریروں میں انہی موضوعات پر اظہار خیال کرتے رہے جو خطبات سے متعلق تھے، لہذا خطوط اور مابعد خطبات کی شاعری کا تعلق خطبات سے طے کیے بغیر ہم علامہ کے پورے فکری تناظر میں خطبات کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتے۔ اسی بات پر ایک اور پہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے، علامہ کا فکری ارتقا یا مختلف مسائل کے مقابل ان کا موقف کہاں ظاہر ہوا ہے، شاعری میں یا خطبات میں؟بالفاظ دیگر ان کی شخصیت اور فکر کا زیادہ ارتقایاب میڈیم کون سا ہے؟ کیا وہی زیادہ قابل اعتبار نہ ہو گا؟‘‘ (۱۳)وغیرہ۔ احمد جاوید(ملفوظات بعنوان ’’اقبال—تصور زمان و مکاں پر ایک گفتگو‘‘، ضبط و ترتیب: طارق اقبال، ’’اقبالیات‘‘ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ئ): ’’اقبال کے کسی خاص تصور کا مطالعہ کرنے چلیں تو آغاز ہی میں ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، اور وہ یہ کہ ان کا ہر تصور شاعری میں بھی بیان ہوا ہے، اور ضروری نہیں کہ شاعری میں اُس کی وہی صورت پائی جائے جو خطبات وغیرہ میں ملتی ہے۔...بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں ان کا موقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ موقف کے الٹ ہے۔‘‘ پروفیسر محمد منور: ’’ہمیں تشکیل جدید ]خطبات اقبال[کی روشنی میں دور مابعد کے مکتوبات، بیانات، خطبات اور تصریحات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ ’فکراقبال تشکیل جدید کے بعد‘ ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔‘‘ (’’علامہ اقبال اور اصول حرکت‘‘، بحوالہ سہیل عمر، ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ ص ۱۵) جہاں تک خطبات کے بعد اقبال کی طرف سے مختلف موضوعات پر اپنے موقف سے مفروضہ رجوع یا اس پرنظرثانی کا تعلق ہے، خرم علی شفیق نے مرزا منور، خالد جامعی، علامہ ندوی (یا چلیے ان کے راوی ڈاکٹر غلام محمد) وغیرہم کے مفروضات و دعاوی کا بڑی خوبی سے سدباب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطبات کے بین الاقوامی ایڈیشن کے لیے متن کو اقبال نے خود حتمی شکل دی اور یہ ایڈیشن ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ ’’اگر رجوع وغیرہ کیا ہوتا تو اچھا موقع تھا کہ متن میں تبدیلی کرتے۔ انہوں نے لفظی ترامیم کے سوا کوئی تبدیلی نہ کی۔‘‘ اس سلسلے میں علامہ ندوی سے منسوب ایک بیان پر جس کا تعلق اقبال کے چھٹے خطبے میں شاہ ولی اﷲکی ’’حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ سے ایک عبارت کا حوالہ دینے سے ہے، خرم علی شفیق نے خاصی قائل کن بحث کی ہے۔ ان کے پیش کیے ہوے حقائق کا اطلاق اسی عبارت کے سلسلے میں سہیل عمر کے اس موقف پر بھی ہوتا ہے جو ان کی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ کے ضمیمہ ۳ کے طور پر شامل مضمون ’’سزا یا ناسزا‘‘ میں سامنے آتا ہے۔اس مضمون کے بارے میں قدرے تفصیل سے آگے بات ہوگی۔ لیکن ان تحریروں سے جن کے اقتباسات اوپر پیش کیے گئے، اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا کہ جب اقبال کے بے شمار پڑھنے والوں کو خطبات اور شاعری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا یا ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا ضروری محسوس نہیں ہوتا تو پھر اکادمی کے کارپردازان کو اس سلسلے میں بے تابی کیوں ہے۔غور کرنے پر یہ اندازہ کرنا ممکن ہے کہ خطبات میں اقبال کا اختیارکردہ موقف بیشتر مقامات پر ان حضرات کے سیاسی خیالات سے اسی طرح متصادم ہے جس طرح مذہب کی اس مخصوص (’’روایتی‘‘)تعبیر سے جس پر یہ حضرات عقیدہ رکھتے ہیں۔ان محترم ومقتدر ہستیوں کا سیاسی اور مذہبی نقطۂ نظر اپنی جگہ، لیکن اس سے یہ کیونکر لازم آیا کہ اقبال کے فکری اور فنی سرمائے کو صرف و محض اسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے اور جہاں کہیں دونوں میں اختلاف پایا جائے وہاں یا تو کسی تاویل کی مدد سے اقبال کے نقطۂ نظر کو جوں توں قابلِ قبول بنایا جائے (یعنی تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے) یا جہاں ایسا کرنا ممکن نہ دکھائی دے وہاں کسی اور ترکیب سے اقبال اکادمی کے موقف کو اقبال کے موقف پر فوقیت دی جائے؟ ۴ سہیل عمر کی تصنیف ’’خطباتِ اقبال نئے تناظر میں‘‘ ان کے ایم فل کے مقالے کا کتابی روپ ہے۔ اس تصنیف میں سہیل عمر نے ’’خطبات اقبال‘‘ کے مباحث کے تجزیے کی بنیاد مندرجہ ذیل تین مفروضات پر استوار کی ہے: (۱)پہلا مفروضہ یہ ہے کہ خطبات اقبال کے مخاطبین ایک خاص ذہنی پس منظر رکھتے تھے جو اقبال کے اپنے ذہنی پس منظر سے جدا تھا۔اس مفروضے کی تفصیل سہیل عمر کے الفاظ میں یہ ہے: ’’علامہ کے مخاطبین دوگونہ مشکلات کا شکار تھے۔ ایک طرف وہ صرف انہی مقولات (Categories) کے آشنا یا انہی مقولات کے قائل تھے جو حسیت پرستی (Empiricism) کے عملی پس منظر نے انہیں فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیات پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرۂ کار سے باہر وارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔‘‘ (ص۲۳) (یہاں میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ Empiricism کا ترجمہ ’’حسیت پرستی‘‘ محلِ نظر ہے اور اس طرزِ تحقیق پر ایک خاص طرح کا اخلاقی حکم لگانے کا قرینہ ہے جس کا قطعی جواز نہیں۔ ایک اور جگہ، صفحہ ۲۸ پر، وہ اسی اصطلاح کا زیادہ مانوس اور درست ترجمہ ’’تجربیت ‘‘کرتے ہیں۔ اس دورنگی کی مذکورہ تصنیف میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔)’’علامہ کے مخاطبین ادراک بالحواس کے اسیر ہیں۔‘‘ (۴۳)’’وہ وحی کے روایتی معنوں میں قائل نہیں ہیں اور جدید علوم کے تحت تشکیل پانے والے ذہن کے نمائندہ ہیں۔‘‘ (۴۸) ’’علامہ کے مخاطبین...اس معروضی اقلیمِ ربانی کے بارے میں طبقۂ متشککین سے تعلق رکھتے تھے...‘‘ (ص۵۳-۵۴)صفحہ ۹۵ پر انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اقبال ’’مخالف اور متشکک سامعین سے خطاب‘‘ کر رہے تھے۔ ان نہایت سنگین مفروضات (بلکہ الزامات) کے سلسلے میں کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی اور نہ کہیں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقبال کے خطبات کے سامعین کے بارے میں ان معلومات کا ماخذ کیا ہے۔اس سلسلے میں سہیل عمر نے دو مقامات پر خود اقبال کا درجِ ذیل بیان اقتباس کیا ہے، جس سے مذکورہ بالا مفروضات کی کسی بھی طرح تصدیق نہیں ہوتی۔ (صفحہ ۱۰ پر یہ اقتباس پیش کرتے ہوے وہ کہتے ہیں کہ ’’علامہ کے متعدد بیانات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک نمائندہ اقتباس دیکھیے۔‘‘ مفروضے کی سنگینی کا تقاضا تھا کہ ان متعدد بیانات کوسامنے لایا جاتا اور ان سے تشفی بخش شہادت حاصل کی جاتی کہ واقعی اقبال اپنے مخاطبین کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے۔اگر یہ واقعی ان متعدد بیانات کا نمائندہ اقتباس ہے تو اس سے اس کی ہرگز وضاحت نہیں ہوتی۔) صفحہ ۲۲ پر دوبارہ اسی اقتباس کو پیش کرتے ہوے سہیل عمر نے اپنی طرف سے یہ تبصرہ کیا ہے کہ اقبال کے مخاطبین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ (گویا ذہنی امراض!) سابقہ نسلوں سے مختلف تھے۔ بہرکیف، اقبال کے بیان کا پیش کردہ اقتباس دیکھیے: ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں، اور اس بات کے خواہش مند ہیںکہ فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنے خطبات کے ان مخاطبین کے بارے میں اس قسم کی کوئی منفی رائے نہیں رکھتے جیسی سہیل عمر رکھتے ہیں، اوروہ ان تعلیم یافتہ مسلمانوں کی خواہش کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس موضوع پر اپنے تجزیے کو خطبات کی صورت میں تحریر کر کے ان کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ دانشِ حاضر سے روشنی پانے والے ان جدید مسلمانوں کے اس خیال کو بھی قابلِ قبول پاتے ہیں کہ اس موضوع پر ’’پرانے تخیلات‘‘(گویا مذہبِ اسلام کی اس سے پہلے کی، یا روایتی، تعبیروں) میں خامیوں کا ہونا ممکن ہے، اور ان خامیوں کو رفع کیا جانا چاہیے۔ سہیل عمر نے اس بات کے حق میں کسی قسم کی کوئی دلیل یا شہادت پیش نہیں کی کہ اقبال کے خطبات کے ان سامعین کو کس بنا پر اقبال کے ’’مخالف‘‘ نقطۂ نظر کا حامل سمجھا جائے۔ انھوں نے اقبال کا ایک اور بیان ان کی اپنی ’’افتادِ طبع‘‘ کے بارے میں صفحہ ۲۲ پر پیش کیا ہے۔ (جس شے کو انھوں نے خطبات کے سامعین کے ’’ذہنی مسائل‘‘—گویا ذہنی امراض— قرار دیا تھا وہی شے اقبال کے معاملے میں ان کی ’’افتادِ طبع‘‘— گویا مجبوری — کے طور پر پیش کی گئی ہے۔اگر دونوں مقامات پر ان اصطلاحوں کو ’’نقطۂ نظر‘‘ سے بدل دیا جائے تو وہ تضاد یا تخالف غائب ہو جاتا ہے جسے سہیل عمر ان دونوں اقتباسات میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔) اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوے اقبال کہتے ہیں: میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں۔ اقبال کا یہ بیان ان خطبات میں ان کے طرزِاستدلال کو سمجھنے کی بہت اہم کلید فراہم کرتا ہے۔ اس بیان میں اس امر پر کسی قسم کی شرمندگی نہیں پائی جاتی کہ وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ؛وہ اسے ایک جائز طریق کار (یا منہاج) سمجھتے ہیں۔’’دانستہ یا نادانستہ‘‘ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی غلط بات نہیں۔ اقبال کے ان دونوں اقتباسات سے یہ نتیجہ غیرمبہم طور پر برآمد ہوتا ہے کہ ان کا نقطۂ نظر وہی ہے جو ان کے خیال میں ان کے مخاطبین کا ہے، اور اسی بنا پر خطبات اقبال کی ایک نہایت اہم اور بنیادی نوعیت کی فکری سرگرمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطبات کی تکمیل کے بعد کی پوری زندگی میں اقبال کے قول اور عمل سے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ اپنے ان خطبات کو اپنا ایک اہم اور بنیادی کام سمجھتے رہے اور ان خطبات کے مشمولات یا طرزاستدلال میں انھوں نے کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہ کی؛ اپنی وفات سے چار برس پہلے ان خطبات کا دوسرا، بین الاقوامی ایڈیشن مرتب کرتے ہوے بھی نہیں۔ (۲)سہیل عمر کے تجزیے کا دوسرا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ چونکہ اقبال اپنے مخاطبین کو اپنے مخالف نقطۂ نظر کا حامل سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے ان کے ’’ذہنی مسائل‘‘، ’’اشکالات اور فکری الجھنوں‘‘، ’’استعداد و افتادِ فکر‘‘ وغیرہ کی رعایت کرتے ہوے، استدلال کی غرض سے وہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے جو سہیل عمر کی رائے میں اقبال کے اپنے نقطۂ نظر سے مختلف بلکہ کہیں کہیں تو اس کی عین ضد ہے۔سہیل عمر ’’مصلحتِ وقت‘‘ کواقبال کے اس مفروضہ طریق کار کی اس کی ایک اور وجہ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا مفروضہ ہے اور سہیل عمر کی تصنیف کے متن کی حد تک کسی قسم کی بنیاد سے قطعی عاری ہے۔انھوں نے اس کے حق میں کوئی دلیل یا شہادت پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا؛ اقبال کا کوئی بیان ایسا نہیں پیش کیا جس سے اس مفروضے کا خفیف ترین جواز بھی نکل سکتا ہو۔ اس نہایت سنگین سقم کے ہوتے ہوے اسے اقبال کے بارے میں سہیل عمر کی بہت بڑی، اور بلاجواز، جسارت سمجھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس مفروضے کے تحت اپنی زیرِنظر تصنیف میں ان کا تجزیاتی طریق کار کچھ اس قسم کا دکھائی دیتا ہے: (الف) وہ اقبال کے خطبے سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں، اور اس کے بعد اس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔(ب) جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خطبے کے اقتباس میںسائنس، فلسفے یا مذہب کے زیربحث قضیے کی بابت ظاہر کیا گیا موقف خود سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے مختلف (بہت سے موقعوں پر متضاد) ہے تو وہ اپنے ہی قائم کردہ بلاجواز مفروضے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوے کہتے ہیں کہ دراصل اقبال کا اپنا نقطۂ نظر وہی تھا جو خود سہیل عمر کا ہے، اور مذکورہ اقتباس میں پیش کردہ موقف انھوں نے صرف ’’مصلحتِ وقت‘‘ یا مخاطبین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ کی رعایت سے اختیار کیا تھا۔سہیل عمر کا یہ طریق کار اس قدر ناقص، غیراطمینان بخش اور افسوسناک ہے کہ اسے درست یا جائز تسلیم کرناممکن ہی نہیں۔ یہ کچھ اس طرح کی بات ہے جیسے کہا جائے کہ اقبال سہیل عمر کے نقطۂ نظر کی موافقت میں دن کو سیاہ سمجھتے تھے، لیکن چونکہ ان کے مخاطبین ’’خوگرِ محسوس‘‘ ہونے کی وجہ سے یا مغربی تعلیم پانے کے باعث دن کو روشن دیکھنے کے عادی تھے، اس لیے اقبال نے مصلحت سے کام لیتے ہوے اپنے خطبے میں دن کو سفید قرار دے دیا۔ اب ہمیں چاہیے کہ خطبات میں جہاں جہاں دن کی صفت کے طور پر سفید کا لفظ آئے، اسے سیاہ سمجھیں۔ خطبات اقبال اور ان کے بارے میں اقبال کے قول و عمل سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کی نسبت ایسے معاملے میں جو ان کے فکری اور جذباتی وجود کے لیے اس قدر قریبی اہمیت رکھتا تھا، کسی قسم کی مصلحت پسندی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح انھیں مخاطبین کے کسی قسم کے ذہنی و نفسیاتی مسائل کے سلسلے میں ان کو تسکین پہنچانے کی قطعی کوئی مجبوری لاحق نہ تھی۔اس کے برعکس، وہ اپنے اس فکری عمل میں ان لوگوں کو شریک کرنا چاہتے تھے جو ان کا خیال تھا کہ اس شرکت کی اہلیت اور علمی تیاری رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ بات کہی: مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردوخواں دنیا کو شاید اس سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے (یا سننے والے) کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیرچارہ نہ تھا۔(ص۲۲) اردوخواں دنیا کو فائدہ نہ پہنچنے کی وجہ یہ نہیں کہ اردوخواں لوگ ان ’’ذہنی مسائل‘‘ سے آزاد ہیں جو سہیل عمر کے خیال میں اقبال کے مخاطبین کو لاحق ہیں؛ اس واضح بیان کی روشنی میں،وجہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک یہ لوگ،مغربی فلسفے کے پس منظر سے ناواقف ہونے کے باعث، ان مباحث کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے جن پر ان خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔ (۳)سہیل عمر کے تجزیے کا تیسرا بنیادی مفروضہ وہ ہے جسے انھوں نے صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،ڈاکٹر ظفرالحسن، کے اس خطبۂ صدارت سے اخذ کیا ہے جو اقبال کے چھ خطبات کے سلسلے کے اختتام پر پیش کیاگیا۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا خیال ہے کہ(الف) اقبال نے جو کام کیا ہے وہ ’’اسلام میں فلسفۂ دین کی تشکیلِ نویا، بالفاظ دیگر، ایک نئے علم کلام کی تخلیق‘‘ کا کام ہے۔ (ب) علم کلام کا کام یہ واضح کرنا ہے کہ حقائق دینی اور فلسفہ و سائنس میں کوئی عدم مطابقت نہیں ہے، اور (ج)ڈاکٹر صاحب سرسید کے ’’اصول تفسیر اور دیگر تحریروں‘‘کے حوالے سے کہتے ہیں کہ علم کلام کا یہ مقصددو طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے، اور اقبال کا اختیارکردہ طریقہ یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ’’مذہب جو کہتا ہے وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔‘‘ سہیل عمر اقبال کے اس مفروضہ طور پر اختیارکردہ طریق کار کو ’’اصول تطبیق‘‘ کا نام دیتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خطبات کے مباحث کو ڈاکٹر ظفرالحسن کی اسی رائے کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے یا دیکھا جانا چاہیے۔کہتے ہیں، ’’ڈاکٹر ظفرالحسن صاحب کے تبصرے سے یہ واضح ہوا کہ علامہ کا اختیارکردہ منہاج علم اصول تطبیق سے عبارت ہے۔‘‘ (ص۲۱) مزید یہ کہ: ’’ہم یہ دیکھیں گے کہ اصول تطبیق کو مطمحِ نظر بنا کر اور مقولات مسلمہ کو بنیاد بنا کر علامہ نے یہ کام کیسے انجام دیا۔‘‘ (ص۳۷) خطبات اقبال اپنے موضوع پر اتنا بنیادی نوعیت کا کام ہے اور اپنے محتاط اور کہیں کہیںپیچیدہ طرزِتحقیق و استدلال کے اعتبار سے اتنا عمیق کہ اسے مختلف زاویہ ہاے نگاہ سے پڑھا اور پرکھا جانا ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا اختیارکردہ زاویۂ نظر بلاشبہ خطبات کے مطالعے کاایک جائزطریقہ ہے لیکن واحد یا اہم ترین یا دیگر تمام طریقوں کو کالعدم کر دینے والا طریقہ ہرگز نہیں۔ سہیل عمر نے اپنی تصنیف میں اسی زاویۂ نظر کو اختیار کیا ہے، جو بلاشبہ ان کا حق تھا، لیکن وہ اسے قولِ فیصل یا حرفِ آخر کے طور پر پیش کرتے معلوم ہوتے ہیں اور پڑھنے والے کے لیے اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالحسن نے یہ خطبہ ٔصدارت اقبال کی موجودگی میں دیا تھا۔ اگر اقبال نے اس موقعے پر یا بعد میںان کے بیان کردہ زاویۂ نگاہ کی اپنے کسی بیان میں تائید کی ہوتو میں اس سے لاعلم ہوں۔ سہیل عمر نے بھی ایسا کوئی بیان پیش نہیں کیا جس سے اس کی بابت اقبال کی پسندیدگی یا ترجیح ظاہر ہوتی ہو۔سہیل عمر کا کہنا ہے کہ اقبال نے ’’اصول تطبیق کو مطمحِ نظر ‘‘ اور ’’مقولات مسلمہ کو بنیاد ‘‘ بنایا تھا، اور یہ دعویٰ دلیل یا شہادت کا محتاج ہے، جو فراہم نہیں کی گئی۔ اور جب اقبال کے اپنے بیانات اس زاویۂ نظر کی تردید کرتے دکھائی دیں تو اسے تسلیم کرنا اور بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ اقبال ان خطبات میں کیا کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا بیان قطعی غیرمبہم ہے: وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں، نہ کہ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے مغربی فلسفے کا۔اور میری رائے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ ان کا یہ طریق کارمذکورہ اصول تطبیق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید مغربی تعلیم سے روشنی پایا ہوا ذہن (جو خود اقبال کا ذہن ہے اور ان کے مخاطبین کا بھی)مذہب اسلام کے حقائق کو کس طرح سمجھ سکتا ہے، اور کیا اس جدید ذہن میں مذہب کے لیے گنجائش موجود ہے۔خطبات میں زیربحث آنے والے پیچیدہ سوالات سے نبردآزما ہو کر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مغربی فلسفے کی روشنی میں مذہب اسلام کو سمجھنا اور ماننا قطعی ممکن ہے۔ان کا استدلال متعدد مقامات پر ’’پرانے تخیلات‘‘سے متصادم ہے، اور ایسا ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ ان ’’پرانے تخیلات‘‘سے، ان کی ممکنہ خامیوں کے باعث،غیرمطمئن ہونے کے احساس ہی کے نتیجے میں اقبال کو حقائق اسلام کا جدید مغربی تعلیم کی روشنی میںمطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ خود سہیل عمر بھی خطبات میں پیش کیے ہوے استدلال کا تجزیہ کرتے ہوے اسے متعدد مقامات پر مذہب کے روایتی تصور (بقول اقبال ’’پرانے تخیلات‘‘) سے مختلف یا متصادم پاتے ہیں۔اس کا اظہار سہیل عمر کئی مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، مثلاً: ’’مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبدأ سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘ (ص۸۷)’’شعورِ مذہبی جو تقاضا رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان چونکہ قدرت مطلقہ نہیں رکھتا لہٰذا اس کا خالق قادر مطلق ہونا چاہیے۔ یہاں فکراستدلالی اور مذہبی شعور میں فرق واقع ہوتا ہے۔‘‘(ص۸۸-۸۹)’’یہ نکتہ اﷲ کے علم پر ایک تحدید عائد کرتا ہے اور شعور مذہبی اسے قبول نہیں کر سکتا۔‘‘ (ص۹۱)’’اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دعا کی معنویت اور جواز کا مندرجہ بالا بیان کس حد تک ہمیں اس تصور کے قریب لے جاتا ہے جو قرآن اور آثار نبوی سے ملتا ہے۔...اس ضمن میں پہلا فرق تو یہ نظر آتا ہے کہ اگرچہ عبادت و دعا کا دینی مفہوم بھی نتائجیت کا پہلو لیے ہوئے ہے تاہم اس کی عملی تاثیر اور نتائج اخروی نوعیت کے ہیں۔ علامہ نے نتائجیت کے پہلو پر زیادہ زور دیا ہے اور... ]قرآن کے[نصوص سے عبادت کے مقصود کا جو تصور ابھرتا ہے ]اسے[ مصلحتاً اجاگر نہیں کیا۔‘‘ (ص۹۵) ’’...وحی کے بارے میں قرآن میں جو نصوص ملتی ہیںان سے بھی وحی کے معروضی، موجود فی الخارج اور ماوراء طبیعی ہونے ہی کا مفہوم ملتا ہے۔ ان کے مقابلے میں علامہ کے الفاظ سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل اس صورت میں ممکن ہے کہ اسے سابقہ مقامات کی طرح سامعین کی رعایت کے لیے قریب الفہم اصطلاح کے استعمال سے تعبیر کیا جائے۔ ان کے سامعین حیاتیاتی علوم، سائنسی تصور اور جغرافیائی احوال سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی اس ذہنی افتاد اور عملی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت خطاب اور مصلحت تفہیم کی خاطر یہ اسلوب اختیار کیا گیا۔‘‘ (ص۱۳۸)’’شعورِ مذہبی‘‘ کے علاوہ سہیل عمر کے بیان میں ان کے روایتی اور اقبال کے غیرروایتی نقطۂ نظر کا فرق جابجا’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘ جیسے لفظوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہی ’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘، نیز ’’شعورمذہبی‘‘ سے اختلاف یا تصادم وغیرہ کے ذہنی مسائل ہیں جن کے سبب مثلاً احمد جاوید، نائب ناظم اقبال اکادمی، کو اقبال کے بعض بیانات نقل کرتے وقت ’’نعوذباﷲ‘‘ کہنا پڑتا ہے (موصوف کے کمالات کا قدرے تفصیلی ذکر آنے کو ہے)، اور انھی مسائل کا اظہار روایتی تصورِ مذہب کے حامل علما نے اقبال کی زندگی میں اور مابعد اپنی برافروختگی اور فتویٰ پردازی کی شکل میں کیا۔ جریدہ کے شمارہ ۳۳ میں خطبات اقبال پر جو تبصرے ڈاکٹر غلام محمد کی زبانی روایت کی سند پر علامہ ندوی سے منسوب کیے گئے، ان میں بھی یہی باتیں زیادہ غیرمصلحت بیں اوردوٹوک انداز سے کہی گئی ہیں۔خرم علی شفیق نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ اس قسم کے قدامت پرست ردعمل نے اقبال کو آخر تک تشویش میں مبتلا نہیں کیا اور وہ کسی بھی موقعے پر خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوے تھے۔سہیل عمر چونکہ ان حضرات کے برخلاف، بوجوہ، اقبال کے خیالات کی بابت نسبتاً نرم رویہ رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے تاویل کی یہ انوکھی راہ نکالی کہ اقبال کو اپنے بیان کردہ طرزِاستدلال سے پیدا ہونے والے ’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘ وغیرہ کا بخوبی احساس تھا، لیکن مصلحتِ وقت کے تقاضے اور مخاطبین کے ذہنی مسائل کے لحاظ نے انھیں یہ طرزِاستدلال اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ سہیل عمر کی نیک نیتی اور تاویل کا انوکھاپن اپنی جگہ، لیکن کسی دلیل کی غیرموجودگی میں اسے تسلیم کرنا ممکن نہیں۔ ۵ آئیے خطبات میںاظہار پانے والے اقبال کے نقطۂ نظر کے بعض ایسے نکتوں پر نظر ڈالیںجن سے سہیل عمر متفق نہیں ہیں اورجو جریدہ میں شائع کیے جانے والے ان اعتراضات کا بھی ہدف بنے ہیں جن کو علامہ ندوی سے منسوب کیا گیا ہے۔اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ان نکات پر کم و بیش ایک ہی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، فرق ہے تو بس جذبے کی شدت اور لفظوں کے انتخاب کا۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں سہیل عمر کی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ سے نقل کر رہا ہوں اور ہر انگریزی اقتباس کے آخر میںدیا گیا صفحہ نمبر بھی اسی کتاب سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے انگریزی عبارت کو اردو ترجمے پر ترجیح دی ہے کیونکہ میں نے اردو ترجمے کو بیشتر جگہوں پر اقبال کے انگریزی متن کے مقابلے میں گنجلک، اور بعض مقامات پر ناقص پایا۔ہر اقتباس کے بعد سہیل عمر کا تبصرہ درج کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اقبال کے نقطۂ نظر کی بابت اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں: Religious experience, I have tried to maintain, is essentially a state of feeling with a cognitive aspect, the contents of which cannot be communicated to others, except in the form of a judgement. Now when a judgement which claims to be the interpretation of a certain region of human experience, not accessible to me, is placed before me for my assent, I am entitled to ask, what is the guarantee of its truth? Are we in possession of a test which would reveal its validity.... Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intellectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean critical interpretation, without any presuppositions of human experience, generally with a view to discover whether our interpretation leads us ultimately to a reality of the same character as is revealed by religious experience.... In the lecture that follows, I will aply the intellectual test. (p-54-55) سہیل عمر: ’’سطوربالا میں مذکور امتحان اول کو اس طرح کے وجدان کے لیے قبول کیا جا سکتا ہے جسے ہم نے Psychic تجربات سے منسوب کیا تھا۔ لیکن اس امتحان کو اس ذات کے مشاہدے پر کیونکر لاگو کیا جا سکتا ہے جو ہرتجربے اور واردات سے بالا ہے۔ نیز اگر اس کسوٹی، اس آزمائش کو مشاہدۂ حق کا معیار مان لیا جائے تو Mystic اس وحی قرآنی پر ایمان کی ضرورت سے مستغنی ہو جائے گا جو آنحضرت پر نازل ہوئی کیونکہ اس پیمانے پر تو وہ براہ راست علم حق حاصل کرنے کی استعداد کا حامل قرار پائے گا۔‘‘ (ص۵۵) The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48) سہیل عمر: ’’اس دعا کی معنویت پر ہمیں ذرا غور کرنا ہو گا۔ نیز یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ نبی علیہ السلام کے عمیق ترین ایقان اور ایک عام آدمی کے ایمان کے مابین کیا فرق ہے: عام آدمی جو حصول یقین کی خاطراپنے ایمان کی عقلی بنیادیں تلاش کر رہا ہو۔ نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کسی عقیدے کی عقلی بنیادوں کی تلاش کسی معاشرے میں کب جنم لیتی ہے۔ (ص۴۸-۴۹) Plato despised sense perception which, in his view, yielded mere opinion and no real knowledge. How unlike the Qur’an, which regards hearing and sight as the most valuable Divine gifts and declares them to be accountable to God for their activity in this world. (p-50) اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے: ادراک بالحواس کے بارے میں افلاطون کا خیال قرآن سے متصادم ہے۔ وہ کہتے ہیں: He [Ghazali] failed to see that thought and intuition are organically related… (p-51) سہیل عمراس نکتے پر اقبال سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غزالی کے مطابق ’’وجدان بہ اعتبار کیفیت و نوعیت فکر سے مختلف نہیں ہے۔ فکر اپنے درجۂ کمال کو پہنچ کر وجدان میں ڈھل جاتی ہے۔‘‘ (ص۵۱) The heart is a kind of inner intuition or insight which, in the beautiful words of Rumi, feeds on the rays of the sun and brings us into contact with aspects of Reality other than those open to sense perception. It is, according to the Qur’an, something which sees; and its reports, if properly interpreted, are never false…. To describe it as psychic, mystical or supernatural does not detract from its value as experience. (p-53) سہیل عمرکا خیال یہاں بھی اقبال سے مختلف ہے۔’’قرآن میں ’فواد‘ یا ’قلب‘ کا لفظ بہت سی جگہ آیا ہے۔معانی کے کئی رنگ اس سے متعلق ہیں مگر ہماری سمجھ کے مطابق کہیں بھی اسے حقیقت اولیٰ کا علم حاصل کرنے والی ایسی استعداد کے معنی میں نہیں لایا گیا جو اس عمل میں کوئی فاعلی حیثیت رکھتی ہو۔‘‘ (ص۵۳) The problem of Christian mysticism alluded to by Professor James has been in fact the problem of all mysticism. The demon in his malice does counterfeit experiences wich creep into the circuit of the mystic state. As we read in the Qur’an: "We have not sent any Apostle or Prophet before thee among whose desires Satan injected not some wrong desire, but God shall bring to naught that which Satan has suggested. Thus shall God affirm His revelation, for God is Knowing and Wise." (22:25) (p-57) سہیل عمرکہتے ہیں: ’’اس استدلال پر کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ نذیر نیازی صاحب نے اپنے ترجمے کے حاشیے میں صاف لکھا ہے کہ ان کے خیال میں آیت مذکورہ بالا اس جگہ منطبق نہیں ہوتی۔‘‘ (ص۵۸) (نذیر نیازی کا خیال اپنی جگہ، لیکن کیا یہ اقبال کے ردمیں کافی دلیل ہے جن کا واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ یہ آیت اس جگہ منطبق ہوتی ہے؟ اس سے تو بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا موقف نذیر نیازی اور سہیل عمر سے مختلف ہے۔) All I mean to say is that the immediacy of our experience in the mystic state is not without a parallel. It has some sort of resemblance to our normal experience and probably belongs to the same category. (p-62) The interpretation that the mystic or the prophet puts on the content of his religious consciousness can be conveyed to others in the form of propositions, but the content itself cannot be so transmitted…(p-63) The incommunicability of mystic experience is due to the fact that it is essentially a matter of inarticulate feeling, untouched by discursive intellect. (p-63) Inarticulate feeling seeks to fulfil its destiny in idea, which, in its turn, tends to develop… out of itself its own visible garment. (p-64) سہیل عمر: ’’اگر اس خصوصیت پر زور دیا جائے تو وحی اور الہام کے درمیان امتیاز کی دیوار ڈھے جائے گی کیونکہ علامہ کے الفاظ میں ہر دو صورتوں میں تجربے کے حاصلات اور مافیہ کو منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی فکری تعبیر بصورت منطقی قضایا کا ابلاغ کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وحی نبوی کے الفاظ ربانی نہیں ہوتے بلکہ نبی کے اپنے ہوتے ہیں اور قرآن کے الفاظ براہ راست منزل من اﷲ نہیں ہیں۔‘‘ (ص۶۴) The infinity of the Ultimate Ego consists in the infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe ‘as known to us’ is only a partial expression. (p-85) From the Ultimate Ego only egos proceed…. Every atom of Divine energy, however low in the scale of esixtence, is an ego. (p-87) سہیل عمرکہتے ہیں: ’’یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظہورذات کا یہ عمل اس عمل خوددمیدگی سے کس طرح مختلف ہے جو اقلیم نامیات یا نموپذیر اشیا میں سامنے آتا ہے نیز یہ کہ اگر انائے مطلق کا ظہورپذیر ہونا اس کے عمل تخلیق کے مترادف ہے تو صفحۂ ہستی پر ظاہر ہونے والی ہر شے کا مبداء اور اصل اس انائے مطلق کی فطرت ہی ہو گا۔ اگر ہر انا ربانی اور قدسی ہے تو اس کا فعالیت کا ہر معلوم بھی ربانی اور قدسی صفت ہو گا: لیکن امرواقعہ یوں نہیں ہے۔ دوسری طرح دیکھئے تو صفحۂ ہستی پر صرف مظاہرخیر ہی نہیں بلکہ شر اور شیطان کے آثار بھی موجود ہیں۔ مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبداء سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘(ص۸۷) No doubt, the emergence of egos endowed with power of spontaneous and hence unforeseeable action is, in a sense, a limitation on the freedom of the all-inclusive Ego. But the limitation is not externally imposed. It is born out of His own creative freedom whereby He has chosen finite egos to be participators of His life, power and freedom. (p-89) سہیل عمر: ’’مگر اختیار یا آزادی مقولات مذہبی میں سے ایک ہے اور انسان کے اخلاقی اور مذہبی شعور کا جزو ہے اگر اس کو بے ساختہ اور ازخود فعلیت کا ہم معنی قرار دیا جائے تو اس کی معنویت جاتی رہے گی اس اعتبار سے تو پودے بھی جزواً آزاد اور جانور پوری طرح آزاد ہیں کیونکہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت حرکت نہیں کرتے بلکہ اندرونی داعیے سے متحرک ہوتے ہیں۔‘‘(ص۸۹) The spirit of all true prayer is social. (p-94) The Islamic form of association in prayer, therefore, besides its cognitive value, is further indicative of the aspiration to realize this essential unity of mankind as a fact in life by demolishing all barriers which stand between man and man. (p-95) سہیل عمر: ’’عبادت کی معنویت اس کی فی نفسہٖ اور بالذات قدروقیمت سے متعین ہونا چاہیے نہ کہ ان سماجی، نفسیاتی اور عملی نتائج سے جو اس کے ذیلی ضمنی اثرات تو شمار ہو سکتے ہیں مگر اس کا جواز وجود قرار نہیں دیئے جا سکتے۔‘‘(ص۹۵) A colony of egos of a lower order out of which emerges the ego of a higher order, when their association and interaction reach a certain degree of co-ordination. It is the world reaching the point of self-guidance wherein the Ultimate Reality, perhaps, reveals its secret, and furnishes a clue to its ultimate nature. (p-102) The Ultimate Ego that makes the emergent emerge is immanent in Nature. (p-102) سہیل عمر: ’’تخلیق کا تصور جو مذہب کا ایک جزو ہے وہ یہاں پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ارتقائے صدوری Emergent Evolution کو مل جاتی ہے۔ شعور مذہبی کے لیے آفرینش کا یہ نظریہ بہت وحشت انگیز ہے کیونکہ اس میں پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ اس سے انسان اور خدا کی غیریت اور دوئی مٹتی معلوم ہوتی ہے نیز تنزیہ پر زد پڑتی ہے ۔پھر یہ کہ شر اور خیر ایک کل کا جزو دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی قبول کرنا مشکل ہے۔ سوم یہ کہ یہاں غیرنامیاتی اور غیرذی حیاتinorganic سطح وجود سے انکار نظر آتا ہے جو امرواقعہ کے خلاف ہے۔‘‘(ص۱۰۲) A prophet may be defined as a type of mystic consciousness in which unitary experience tends to overflow its boundaries… (p-115) (p-117) Another way of judging the value of a prophet’s religious experience, therefore, would be to examine the type of manhood that he has created, and the cultural world that has sprung out of the spirit of his message. (p-116) سہیل عمر: ’’یہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اس استدلال کے منطقی نتیجے میں ولایت اور نبوت کا فرق اپنی اساس میں باقی نہیں رہتا۔...مسئلہ یوں اٹھتا ہے کہ نبوت کو اختباریت کی کسوٹی پر پرکھنا ایک مناسب بات ہو گی یا نہیں؟‘‘(ص۱۰۲) ’’اس عبارت میںنبی اور نبوت کے تصور کی تفہیم کے لیے اس کو نابغہ کی تشبیہ سے سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس لیے یہ مشکل پیدا ہوتی ہے بظاہر یہ تصورخدا سے منقطع لگتا ہے اور سماجی مصلح یا تخلیقی فنکار سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتا ہے اور اسے خدا کے حوالے کے بغیر بھی کائنات کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے۔‘‘ (ص۱۱۷) The way in which the word wahy (inspiration) is used in the Qur’an shows that the Qur’an regards it as a universal property of life; though its nature and character are different stages of the evolution of life. (p-117) سہیل عمر: ’’اس عبارت سے پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ لیا جا سکتا ہے کہ وحی فوق الطبیعی اور عالم غیب کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک کاملاً طبعی مظہر ہے۔...ایک اصطلاح شرعی جو شعورمذہبی کا لازمہ ہے اور معروضی حقیقت کے طور پر مذہب کے امرواقعہ ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ سابقہ صفحات میں بیان کردہ تصور وحی کا اس تصور سے منطبق ہونا مشکل نظر آتا ہے۔‘‘ (ص۱۱۸) The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur’an and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality. (p-119) (p-121) سہیل عمر: ’’...حکومت کو وراثت سے مشروط کسی بھی دین اور تمدن نے تسلیم نہیں کیا۔ البتہ موروثی شہنشاہیت کو یکے از امکانات کے طور پر قبول کیا ہے یا پھر مظاہرزوال میں اس نے غلبہ کر لیا ہے۔ خود اسلام کی تاریخ میں جو ایک طویل سلسلہ ملوکیت نظر آتا ہے وہ اسی امکان کا وقوع درتاریخ ہے۔ اسے رد کرنے سے ہمیں اپنی تاریخ کو رد کرنا ہو گا اور اس سے ان گنت مسائل پیدا ہو جائیں گے۔‘‘ (ص۱۲۲-۱۲۳) لفظ ’’ملوکیت‘‘ کے استعمال کی وضاحت کے طور پر حاشیے میں کہتے ہیں: ’’یہ لفظ بعض مصنفین کی تحریروں میں ایک منفی اور تحقیری مفہوم کا حامل بن کر ابھرا ہے۔ ہم اسے اس کے لغوی معنی میں برت رہے ہیں اور اس سے صرف ایک طرزحکمرانی کی شناخت مقصود جانتے ہیں جو اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔‘‘ (ص۱۳۱) The world-life intuitively sees its own needs, and at critical moments defines its own direction. This is what, in the language of religion, we call prophetic revelation. It is only natural that Islam should have flashed across the consciousness of a simple people untouched by any of the ancient cultures, and occupying a geographical position where three continents meet together. (p-135) سہیل عمر: ’’اس اقتباس میں جو لفظ World Life استعمال کیا گیا ہے ...یہ اصطلاح ایک الٰہ شخصی پر ایمان کو مستلزم نہیں ہے۔ اس میں ایک طبیعی تصور کی جھلک ملتی ہے جس سے مذہب مظاہر طبیعی میں سے ایک چیز معلوم ہونے لگتا ہے اور عام انسانی تجربے کی سطح پر آ کر حیاتیاتی تصورات کے قبیل میں سے محسوس ہونے لگتا ہے۔‘‘ (ص۱۳۶) ۶ اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے جزوی یا کلی طور پر رجوع کرنے پر آمادہ تھے یا نہیں، یہ بحث بہت سے لوگوں نے مختلف موقعوں پر اٹھائی ہے۔ پروفیسر مرزا منور کی رائے خود سہیل عمر نے (تائید اور تحسین کے انداز میں)درج کی ہے کہ ’’علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ ’فکراقبال تشکیل جدید کے بعد‘ ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔‘‘ یہ مستقل کتاب میری معلومات کے مطابق اب تک نہیں لکھی گئی،اس لیے اس کے مفروضہ نتائج کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں، البتہ خرم علی شفیق کے مضمون میں اس موضوع پر خاصی بحث ملتی ہے جس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اقبال کی فکر ترقی پا کر مرزا منور، خالد جامعی وغیرہم کی سطح تک نہیں پہنچی تھی (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی ترقی کو اصطلاحاً ’’ترقیِ معکوس‘‘ کہا جاتا ہے) اور ان کے خیالات آخردم تک وہی رہے جو انھوں نے خطبات میں بیان کیے تھے۔اس مضمون کے جز ۴ میں شاہ ولی اﷲ کی ’’حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ کے اس اقتباس کے معاملے کا تجزیہ کیا گیا ہے جو اقبال نے اپنے خطبۂ اجتہاد میںپیش کیا تھا۔ جریدہ میں علامہ ندوی سے منسوب تبصروں میں اس معاملے کا جو ذکر آتا ہے، اسے خرم علی شفیق نے ’’رجوع کی ایک اور فینٹسی‘‘ کے تبصرے کے ساتھ یوں نقل کیا ہے: شاہ ولی اﷲ کے نام سے غلط حوالہ پیش کرنا ایک ایسے خطبے میں جسے علما کی نظر سے گزرنا تھا بڑی جرأت کی بات تھی۔ ماجد صاحب نے اس غلطی کو بھی واضح کیا تھا لیکن مرحوم پر یہ غلطی اس وقت واضح نہ ہو سکی۔ جب اقبال مرحوم پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور امت کے اجماع کے برعکس رائے دی گئی ہے اور دلیل بھی محرف ہے تو وہ دل گرفتہ ہوئے۔ مجھ سے خط و کتابت کے ذریعے استفسار کیا۔دوسرے علما سے بھی رجوع کیا۔ خطبات پر نظرثانی کا وعدہ کر لیا لیکن مہلت نہ ملی۔اقبال مرحوم کے مسودات میں نظرثانی شدہ عبارتیں مل سکتی ہیں۔ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، صفحہ۳۶) خرم علی شفیق کہتے ہیں کہ اس موضوع پر علامہ ندوی سے اقبال کی مراسلت میں اس ’’دل گرفتگی‘‘ کا کوئی شائبہ نہیں ملتا، بلکہ ’’پہلے اجتہاد پر خطبہ دیا تھا، اب پوری کتاب لکھنے کا ارادہ ہے، اور یہ وفات سے صرف بیس مہینے قبل کی بات ہے۔...وہ نظرثانی کا وعدہ کب کیا؟ خطبات کے مباحث سے اقبال کا رجوع ایک ...فینٹسی ہے...‘‘ (ص ۳۷) عجب اتفاق ہے کہ سہیل عمر کی کتاب کے آخر میں ضمیمہ ۳ کے طور پر شامل ان کے مضمون ’’سزا یا ناسزا‘‘ میں اقبال کے اسی خطبے میں شاہ ولی اﷲسے منسوب اسی اقتباس کا کم و بیش اسی انداز میں ذکر آیا ہے جس انداز میں علامہ ندوی سے منسوب مندرجہ بالا تبصرے میں۔(فرق صرف اتنا ہے کہ جس شے کو مندرجہ بالا اقتباس میں ’’دل گرفتگی‘‘ کہا گیا اسے سہیل عمر اقبال کے ’’تحیر‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ باقی مضمون واحد ہے۔)دونوں کی اطلاع یہ ہے کہ اقبال نے مذکورہ اقتباس شبلی کی ’’الکلام‘‘ سے لیا تھا۔ سہیل عمربتاتے ہیں کہ ’’شبلی نے جو عبارت الکلام میں درج کی اور جسے علامہ نے اپنے استدلال کے لیے شبلی کے بھروسے پر بنیاد بنایا اس میں اور شاہ ولی اﷲ کی اصل عبارت میں اختلاف ہے۔‘‘ (ص۲۰۱) آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ اقبال نے شاہ ولی اﷲ کی اس عبارت کو اپنے خطبے میں کس طرح استعمال کیا ہے۔ موضوع زیربحث یہ ہے کہ مذہبی روایات (احادیث نبوی)کے کون سے حصوں کا تعلق قانونی معاملات سے ہے اور کن کا قانون کے سوا دیگر معاملات سے۔ قانون سے متعلق روایات میں سے بعض ایسی ہیں جو قبل از اسلام زمانے میں عرب میں مروج تھیں اور جنھیں جوں کا توں اسلامی روایت میں شامل کر لیا گیا۔اقبال شاہ ولی اﷲ کی عبارت کا اپنے الفاظ میں خلاصہ پیش کر کے اس نتیجے پر پہنچتے ہیںکہ جرائم کی سزاؤں سے متعلق روایات کو، جو عرب قوم کی عادات اور حالات کے مطابق تھیں، جوں کا توں اختیار یا نافذ کیا جانا مناسب نہیں۔ سہیل عمر کہتے ہیں کہ اقبال نے شاہ ولی اﷲ کی مذکورہ عبارت کو ’’اپنے استدلال کے لیے...بنیاد بنایا۔‘‘ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ شاہ ولی اﷲ کا ذکر آنے سے پہلے کے جملوں میں وہ اپنا یہ نقطۂ نظر بیان کر چکے ہیں کہ دونوں قسم کی روایات میں فرق کیا جانا ضروری ہے،یعنی دونوں قسم کی روایات کو نافذیا اختیار کرنے میں ایک جیسی سختی مناسب نہیں ۔شاہ ولی اﷲ کی عبارت کو اقبال نے دلیل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے نقطۂ نظر کی ایک "illuminating" وضاحت کے طور پر استعمال کیا ہے۔خطبات میں کسی بھی جگہ کسی اسلامی یا مغربی شخصیت کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا گیابلکہ اقبال نے ہر قول کواپنی دانش کے مطابق پرکھ کر یہ طے کیا ہے کہ وہ اس سے کس حد تک اتفاق یااختلاف رکھتے ہیں ۔شاہ ولی اﷲ کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال کرنا، خود سہیل عمر کے مذکورہ بالا مفروضات کی رو سے بھی، ناموزوں معلوم ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیے، اقبال جن لوگوں سے مخاطب ہیںوہ آپ کے خیال کے مطابق ’’وحی کے وجود یا اس کے ممکن ہونے کے بارے میں ہی متشکک‘‘ (ص۱۸۳)ہیں، اور قرآنی نصوص تک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے؛ پھر بھلاشاہ ولی اﷲ کا قول ان کے لیے استدلال کی بنیاد کیونکر بن سکتا ہے؟شاہ ولی اﷲ سے منسوب عبارت کا خلاصہ اقبال نے اس بنا پر اپنے خطبے میں استعمال کیا ہے کہ وہ ان کے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ خرم علی شفیق نے علامہ ندوی کے نام اقبال کے ۷ اگست ۱۹۳۶ء کے خط کا حوالہ دیا ہے جس میں اقبال انگریزی زبان میں ایک کتاب تحریر کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے کہتے ہیں: ’’اس کتاب میں زیادہ تر قوانینِ اسلام پر بحث ہو گی کہ اس وقت اسی کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ اگراقبال کا موقف اسلام میں شامل قانونی روایات کو(یعنی مثلاًان سزاؤں کو جنھیں ہمارے یہاں بعض لوگ غلط فہمی میں ’’اسلامی سزائیں ’’یا ’’شرعی سزائیں‘‘ کہتے ہیں) جوں کا توں نافذ کرنے کے حق میں ہوتا تو یہ موقف تو ’’پرانے تخیلات‘‘ میں پوری وضاحت سے بیان کردہ موجود ہی تھا، اس پر بحث کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی؟ صاف ظاہر ہے کہ اقبال کا موقف یہ تھا کہ ان سزاؤںکا تعلق عرب کی قبل از اسلام روایات سے تھا جنھیں، اس ’’خاص قوم کی عادات اور حالات کی بنا پر‘‘، اسلامی روایات میں قائم رکھا گیا تھا اور دیگر قوموں اور دیگر حالات میں ان کو جوں کا توں نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔اور خرم علی شفیق کی بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اپنے اس موقف میں آخر تک ترمیم نہ کی۔(اقبال کے علاوہ شبلی بھی اسی رائے کے معلوم ہوتے ہیں۔) سہیل عمر کا موقف اقبال سے متضاد ہے، جیساکہ خطبات کے دیگر متعدد مقامات پر ہے، جو کوئی عجیب بات نہیں۔ پاکستان میں یہ بحث نئے سرے سے اس وقت شروع ہوئی جب جنرل ضیاء الحق کے دوراقتدار میں، جسے پاکستانی عوام کی بہت بڑی تعداد (ایک موقف کے مطابق اکثریت) غاصبانہ آمریت کا دور سمجھتی ہے، وہ عمل شروع کیا گیا جسے اسلامائزیشن کانام دیا جاتا ہے۔اس عمل میں ان سزاؤں کا نفاذبھی شامل تھا، جوایک غیرنمائندہ اور غیرمنتخب اقتدار کے زور پر، کسی مذہبی، آئینی یا اخلاقی اختیار کے بغیر کی گئی قانون سازی تھی، جسے بہت سے لوگ مذہب کی ایک مخصوص تعبیر کو پاکستانی عوام پر ان کی مرضی کے خلاف، یا کم از کم ان کی آزادانہ مرضی معلوم کیے بغیر، زبردستی مسلط کرنے کا عمل سمجھتے ہیں۔ ان قوانین سے پاکستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد (یااکثریت) سخت اختلاف رکھتی ہے اور ان کو منسوخ کرنے کے حق میں ہے۔جدید دور میںاجتہاد کے پوری طرح اہل مجتہد کے طور پراقبال کا موقف بھی اس موجودہ عوامی موقف کی واضح طور پر تائید کرتا ہے۔ سہیل عمر اور ان کے ہم خیال حضرات کو اس کے مخالف موقف پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے، لیکن انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے موقف کو متفق علیہ قرار دیں جبکہ دوسرے موقف کی موجودگی اور جمہورامت کی اس کے لیے حمایت کسی ابہام کے بغیر عیاں ہے، اور یہ حق بھی حاصل نہیں کہ تاویل کے ذریعے سے اقبال کو اپنے موقف کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کریں جبکہ اقبال نے اپنے خطبے میں اپنا موقف کسی ابہام کے شائبے کے بغیر بیان کر دیا ہے۔سہیل عمر کا کہنا ہے: شاہ صاحب کے پورے فکری تناظر میں یہ سوال تو اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اور اقوام و ملل کی رنگارنگی اور تنوع کے روبرو اسلام کی شرعی سزاؤں کو باقی رکھا جائے یا تبدیل کر دیا جائے؟ یہ سوال ہمارے اقبال شناسی کے حلقوں کا ہو تو ہو، شاہ صاحب کا نہیں ہے۔ (۲۱۲) دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ سہیل عمر اقبال شناسوں کے ساتھ اقبال کو بھی شامل کرتے، کیونکہ یہ سوال ان کا بھی ہے۔اوراس سوال پر غور کرنے کے بعد اقبال اس غیرمبہم نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان سزاؤں کو نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ سوال شاہ ولی اﷲ کا ہے یا نہیں، اس نکتے کا تعلق مذکورہ عبارت کے انتساب سے ہے۔ سہیل عمر کے خیال میں اقبال کی بیان کردہ عبارت کو شاہ ولی اﷲ سے منسوب کرنا درست نہیں۔ لیکن یہ بھی متفق علیہ موقف نہیں۔ جن اہلِ رائے حضرات سے سہیل عمر نے اس سلسلے میں استصواب کیا، ان میں سے کئی ایک نے دستیاب شہادتوں کی روشنی میںیہ رائے دی کہ شبلی نے شاہ ولی اﷲ کے موقف کی جو ترجمانی کی ہے وہ درست ہے اور اقبال نے اگر شبلی کی تعبیر کو اختیار کیا ہے تو ٹھیک کیا ہے۔سہیل عمر کا کہنا ہے کہ شاہ ولی اﷲ کے فکری تناظر میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا؛ بعض دوسرے اہل علم حضرات کا کہنا ہے کہ شاہ ولی اﷲ کا مقصودکلام وہی ہے جو شبلی اور اقبال نے بیان کیا۔ بحث کے تیسرے نکتے کے طور پر اپنے مضمون میں سہیل عمر اس بات کے حق میں بحث کرتے ہیں کہ اقبال شاہ ولی اﷲ سے اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے خطبے پر نظرثانی کرنا چاہتے تھے، لیکن ’’علامہ کی حیات نے اس خطبے کے ترجمے کی نظرثانی یا اصل متن کی نظرثانی شدہ اشاعت مکرر تک وفا نہ کی۔‘‘ (ص۲۱۶) بہرکیف، اقبال نے ممکن ہے خطبے کا متن تیار کرتے وقت شاہ ولی اﷲ کی کتاب کا اقتباس شبلی کی ’’الکلام‘‘ سے لیا ہو، لیکن بعد میں (خرم علی شفیق کی تحقیق کے مطابق ۱۹۲۹ء میں) انھوں نے علامہ ندوی کے نام خط میں لکھا تھاکہ ’’شاہ ولی اﷲ کی کتاب بھی نظر سے گزر گئی ہے۔‘‘ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، ص۳۶) سہیل عمر مزید کہتے ہیں: ’’علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس میں یہ عبارت وارد ہوتی ہے اپنی اولین شکل میں ۱۹۲۴ء کے لگ بھگ تصنیف ہوا۔ موجودہ شکل میں ۱۹۲۸ء میں تیار کیا گیا۔‘‘ (’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘،ص۲۱۶) ’’بہرکیف ۱۹۲۸ء تک کی تحقیقات اور مجموعۂ معلومات کی بنیاد پر جو نتائج فکر مرتب ہوئے انہیں علامہ نے لکھ دیا اور دیگر خطبات کے ہمراہ یہ خطبہ بھی حیدرآباد اور بعد ازاں علی گڑھ میں پیش کیا گیا۔پھر یہ خطبات طباعت کے مرحلے سے بھی گذر گئے۔‘‘ (ص۲۱۸) ’’گزر گئے‘‘یوں تو بات کہنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن اس سے گمان ہوتا ہے کہ خطبات طباعت کے مرحلے سے (غالباً اپنے اندرونی داعیے پر) یوں گزر گئے جیسے احیائے علوم اس مرحلے سے دبے پاؤں گزر جاتا ہے اور مدیر کو کانوں کان خبر نہیں ہونے پاتی! یایہ کہ خطبات اقبال کے علم، مرضی یا اجازت کے بغیر شائع کر دیے گئے تھے۔تاہم، دستیاب شہادتوں سے ایسا اندازہ نہیںہوتا۔یہی نہیں، بلکہ خرم علی شفیق نے اطلاع دی ہے کہ ۱۹۳۴ء میں خطبات کا بین الاقوامی ایڈیشن اقبال کی نہ صرف مرضی سے بلکہ ان کی نگرانی میں شائع ہوا۔اس کے بعد اس قیاس آرائی (خرم علی شفیق کے الفاظ میں ’’فینٹسی’’) کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اقبال اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اس پر، یا اس موضوع کے بارے میں اپنے موقف پر، نظرثانی کرنا چاہتے تھے۔ ۷ ’’خطبات اقبال‘‘ پر علامہ ندوی سے منسوب تبصروں پر اقبال اکادمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے بھی اظہارخیال فرمایا ہے۔ اس اظہارخیال کی ترکیب استعمال کو ان سے منسوب مضمون کے آخری پیراگراف میں یوں بیان کیا گیا ہے: ان امالی کے بنیادی اعتراضات پر جو تبصرے کیے گئے ہیںوہ بھی فی البدیہہ ہیں انہیں اسی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جائے۔ باقاعدہ تحقیقی جواب لکھنے کے لیے وقت بھی زیادہ چاہیے تھا اور تحریر میں طوالت بھی پیدا ہو جاتی اس لیے اس کی نوبت نہیں آئی ۔ ویسے بھی یہ اعتراضات علمی انداز میں نہیں کیے گئے۔ ان پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب تھا۔(احیائے علوم،شمارہ ۱۴، صفحہ۲۶) نائب ناظم موصوف کی ابتدائی وجہِ شہرت چند برس پیشتر کی وہ گفتگو تھی جو انھوں نے اپنے دو عدد مرعوب مداحوں، آصف فرخی اور قیصرعالم، کے ساتھ فرمائی تھی اور جس کا موضوع تینوں محوگفتگوحضرات کے سابق پیرومرشدمحمد حسن عسکری کے کمالات تھے۔ (اس گفتگو کے غیرمدون متن کو الٰہ آباد کے مرحوم رسالے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیا گیا تھا، لیکن جب اس گفتگو کے غیرمہذب لہجے اور اوٹ پٹانگ نفس مضمون پر دو غیرمرعوب نقادوں مبین مرزا اور صابر وسیم نے سختی سے گرفت کی تو اس متن کو پاکستان میں شائع کرانے کا ارادہ مصلحتاً ٹال دیا گیا۔اس گفتگوکو پاکستان میں اب تک شائع نہیں کرایا گیا ہے۔) معلوم ہوتا ہے بے تکان زبانی گفتگونے احمد جاوید کے اظہارذات کے اصل اسلوب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اقبال اکادمی کے جریدے اقبالیات میں احمد جاوید کے ملفوظات شائع کیے جاتے ہیں۔جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں یہ ملفوظات ’’اقبال–تصورزمان ومکاںپر ایک گفتگو‘‘ کے عنوان سے شامل ہیں اور ان کے ’’ضبط و ترتیب‘‘ کا سہرا کسی طارق اقبال کے سر باندھا گیا ہے جو یا تو اکادمی میں نائب ناظم کے ماتحت ہونے کی وجہ سے بندگی بیچارگی کے شکار ہوں گے یا پھر موصوف کے مریدوں میں شامل ہوں گے، جن کی تعداد میں اس وقت سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جب سے انھوں نے ٹیلی وژن کے ایک تجارتی چینل پر وعظ فروشی کا دلچسپ مشغلہ اختیار کیا ہے۔(یہ مشغلہ علمائے حق کے اس واضح فیصلے کے باوجود اختیار کیا گیا ہے کہ ٹیلی وژن دیکھنا اور اس پر جلوہ افروز ہونا قطعی حرام ہے، اور اس مشغلے سے ہونے والی آمدنی رزقِ حرام کی تعریف میں آتی ہے۔ حوالے کے لیے ملاحظہ کیجیے مولانا یوسف لدھیانوی کی تصنیف ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل۔‘‘) قدرت اﷲ شہاب کے مبینہ خلیفہ اشفاق احمد کے گزر جانے کے بعد ٹیلی وژن کے مہااُپدیشک کی یہ پُول (slot) خالی پڑی تھی، جس میں نائب ناظم نے خود کو بخوبی دھانس لیا (جاے خالی را دیو می گیرد) تاکہ انٹرٹینمنٹ کے رسیا ناظرین کی لذت اندوزی کے تسلسل میں خلل نہ پڑے۔ ان مواعظ کے درمیان واقع ہونے والے تجارتی وقفوںمیں ناظرین کو دیگر فروختنی اشیا خریدنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ خیر، جب انٹرٹینر اور انٹرٹینڈ دونوں فریق اس سودے سے خوش ہیں تو ہمارا آپ کا کیا جاتا ہے۔ رہا نائب ناظم موصوف کا ایمان، تو اس کاذکر ہی کیا، رہا رہا نہ رہانہ رہا۔ اوپر کے اقتباس کی روشنی میں عسکری اور اقبال کی مثالوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ احمد جاویدجس موضوع کو ’’غیرعلمی انداز‘‘ کا حامل خیال فرماتے ہیں اس پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات کم و بیش ہر موضوع پر صادق آتی ہے۔ اس طرزعمل کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ ملفوظات کا متن شائع ہونے پر کوئی اعتراض سامنے آئے تو صاحب ملفوظات بڑی آسانی اور بے نیازی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو زبانی گفتگو تھی جو کسی تیاری اور حوالوں کی موجودگی کے بغیر کی گئی تھی، اور اسے اسی طرح پڑھا جانا چاہیے جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس امر کی حکمت بہت سے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ مناسب تیاری کے ساتھ معروف تحقیقی اسلوب میں اظہار خیال سے اجتناب کیوں ضروری ہے۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دانش و علامگی کا فی البدیہہ وفور اس قدر منھ زور ہے کہ کاغذ اور قلم اس کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ پھر موصوف کی پاٹ دار آواز اور پاٹے خانی لہجہ خود ان کے کانوں کواس قدربھانے لگا ہے کہ نالے کوذرا دیر کے لیے بھی سینے میں تھامنا ان کے لیے قریب قریب ناممکن ہو گیا ہے۔(گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوشِ گفتگو۔)علاوہ ازیں اس سے اپنی ذات کے بارے میں موصوف کے فرضی تصور کی تصدیق ہوتی ہے کہ کسی اونچی جگہ پر بیٹھے فانی انسانوں کے اشکالات کو اپنی بے مہار گفتگو سے رفع کیے چلے جا رہے ہیں۔(بقول اقبال:اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی) اپنے اس تصور کی غمازی ان کے فقروں میں اختیارکردہ لہجے سے جابجا ہوا کرتی ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ اقبالیات کے محولہ بالا شمارے میں ’’استفسارات‘‘کے عنوان سے ایک گوشہ قائم کیا گیا ہے جس میں علامہ احمد جاوید کے سامعین اقبال کی شاعری کے بارے میں اپنے استفسارات و اشکالات پیش کرتے ہیں اور پھر موصوف کے جوابات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (حسنِ اتفاق سے طارق اقبال اپنے تہہ کیے ہوے زانوے تلمذ، یا بقول یوسفی زانوے تلذذ،کے ساتھ یہاں بھی موجود ہیں۔) ذیل کی مثالیں نائب ناظم کی گفتگو پر مبنی اسی متن سے لی گئی ہیں: ’’یہ سوال اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اس کے ذریعے سے شعرفہمی کے بعض ضروری قاعدے سامنے آ جائیں گے۔ کچھ باتیں نمبروار عرض کی جا رہی ہیں، ان پر غور فرمالیں، تو یہ مسئلہ بلکہ اس طرح کے دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔‘‘ (ص۲۴۰) ’’آئیے آپ کے اشکالات کی طرف چلتے ہیں۔‘‘ (۲۴۳) اقبالیات کے اسی شمارے میں نائب ناظم نے اقبال کے ایک شارح خواجہ محمد ذکریا کی تفہیم بال جبریلکی ’’اغلاط اور نقائص‘‘ پر گرفت اور خواجہ صاحب کے مفروضہ اشکالات کو رفع کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ لہجہ بدستور پاٹے خان سے مستعارہے: ’’پہلے خواجہ صاحب کی عبارت یا اس کا خلاصہ انھی کے لفظوں میں نقل کیا جائے گا اور پھر تبصرہ کے عنوان سے اس فہرست کے مشمولات کو کھولا جائے گا۔ اس کے بعد فرہنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن پیشتر اس کے اس عمل کا باقاعدہ آغاز کیا جائے، مناسب ہو گا کہ ایک آدھ بات شعر کی تشریح و تفہیم کے اصول و آداب کے حوالے سے عرض کر دی جائے۔‘‘ (ص ۱۴۵)’’امید ہے اب یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اس شعر کے بارے میں یوں کہنا چاہیے...‘‘ (ص۱۶۷)۔وغیرہ۔ لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ لہجہ صرف پروفیسر خواجہ محمد ذکریا اور طارق اقبال جیسے لوگوں کے سلسلے میں اختیار کیا جاتا ہے۔باعثِ تخلیقِ اقبال اکادمی—یعنی اقبال— کا بھی ذکر ہو تو اندازگفتگو ویسا ہی مربیانہ، بلکہ سرپرستانہ رہتا ہے۔ موصوف اپنے ملفوظات میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’سرِدست ہم اپنی توجہ اسی نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہِ تناقض کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اور جہاں تک کیوں کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔‘‘ (ص۱۰۶) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے، ’’پیام مشرق میں اقبال نے ابلیس سے اپنا دفاع اسی پوچ اور بے اصل دعوے اور استدلال پر کروایا ہے...‘‘ (ص۱۵۹-۱۶۰) بال جبریل کی غزل کے شعر (اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی/خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا) کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے: ’’میں خود اس شعر کی تشریح اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے یہ شعری اعتبار سے معمولی اور فکری اعتبار سے غلط اور قابل اعتراض لگتا ہے۔...اس شعر میں بنیادی طور پر یہی کہا گیا ہے جو میں نے نعوذباﷲ پڑھ کر لکھا۔‘‘ (ص۱۵۸)بال جبریل ہی کی ایک اور غزل کے شعر (باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں/ کارجہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر) کے متعلق فرماتے ہیں: ’’...یا تو خدا کو انتظار کروانے والی تعلّی پر ڈھنگ سے گرفت کی جانی چاہیے تھی یا اس کی کوئی ایسی تاویل ہونی چاہیے تھی کہ پڑھنے والا گستاخی کے تاثر سے نکل آتا...‘‘ (ص۱۶۹)یوں تو نائب ناظم کی گفتگو غیرارادی مزاح کے نمونوں سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اٹی ہوئی ہوتی ہے، لیکن اس شعر کے ذکر میں انھوں نے دانستہ مزاح پیدا کرنے کی بھی کوشش فرمائی ہے: ’’‘کارِجہاں کی درازی‘ کاوہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو چاندرات کو خیاطوں کے ذہن پر چھایا ہوتا ہے...‘‘ (ص۱۶۹) اسی غزل کے ایک اور شعر (روزِحساب جب مرا، پیش ہو دفترِ عمل/آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر) پر اپنے مچان کی اونچائی سے خواجہ ذکریا کو ڈپٹتے ہوے فرماتے ہیں: ’’اﷲ کا ندامت محسوس کرنا اﷲ کو نہ ماننے والے کے دماغ میں بھی نہیں آ سکتا۔ اس انتہائی فضول غلطی میں کچھ دخل اس شعر کا بھی ہے لیکن باقی کارنامہ شارح کا ہے۔‘‘ (ص۱۷۰) محمد حسین آزاد کے اسلوب میں کہا جائے تو احمد جاوید کا پیشہ خوداطمینانی ہے اور تعلّی و مشیخت سے اسے رونق دیتے ہیں۔ انا کے گیس بھرے غبارے کا دھاگا چٹکی میں تھام کر وہ جس اونچائی پر جا پہنچے ہیں وہ انھیں فلکِ ہشتم معلوم ہوتی ہے جہاں سے پروفیسر ذکریا، محمد حسن عسکری، مبین مرزا، صابر وسیم اور باقی سب بندگانِ خدا انھیں حشرات الارض سے بیش دکھائی نہیں دیتے۔(بقولِ اقبال،’’زیروبالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے‘‘اور ’’غرورِ زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو/کہ بندگانِ خدا پر زباں دراز کرے‘‘) حد تو یہ ہے کہ اقبال سے بھی وہ یوں خطاب فرماتے ہیں جیسے طارق اقبال سے مخاطب ہوں۔ اب نائب ناظم کویہ تنبیہ کرنا تو ان کے پیرومرشد کا فرض ہے کہ صاحبزادے، نیچے اتر آئیے، گر پڑے تو خواہ مخواہ پاؤں میں موچ آ جائے گی۔لیکن اُن حضرت نے اِنھیں ٹی وی پر اداکاری کرنے کے فعل ِحرام سے نہ روکا تو ان سے اپنے برخودغلط مرید کی بہی خواہی کی بھلا کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ کیاعجب کہ احمد جاوید کے ہاتھوںان کے سابق پیرومرشد عسکری کی درگت دیکھ کر انھوں نے موصوف کو نصیحت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو، کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے پہنچے ہوے مرید کی طرح یہی رائے رکھتے ہوں کہ اقبال اکادمی کے نائب ناظم کا درجہ (نعوذباﷲ) اقبال سے بڑھ کر ہے۔ ٰٰحقیقت یہ ہے کہ احیائے علوم کے شمارہ ۱۴اور اقبالیات کے جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شامل احمد جاوید کے فرمودات پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ اکادمی کا دستورِ زباں بندی اقبال کو اسی حد تک اپنی بات کہنے کی آزادی دیتا ہے جہاں تک وہ اکادمی کے کارپردازان سے متفق ہوں۔ اس حد کو پار کرنے پر انھیں جلالی نائب ناظم کی جھڑکی سننی پڑتی ہے کہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی ہے، یا ان کا ’’شعر جس مضمون پر مبنی ہے وہ نرا شاعرانہ ہے اور عرفانی روایت سے باہر کی چیز ہے۔‘‘ (اقبالیات،ص ۱۷۱) گویا اقبال اکادمی نہ ہوئی عرفانی روایت اکادمی ہو گئی کہ اقبال کی نثرونظم کا جتنا حصہ نام نہاد عرفانی روایت سے باہر ہے وہ اکادمی کی اقبال شناسی کے دائرے سے بھی باہرر ہے گا۔ نائب ناظم اس سے بالکل بے نیاز ہیں کہ عرفانی روایت کی جس محدود، تنگ نظر اور متنازعہ فیہ تعریف کوانھوں نے اپنی بیعت کے نتیجے میں اپنی قید بنا رکھا ہے، اس کی پابندی کسی اور پر، یہاں تک کہ اقبال پر بھی لازم نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نائب ناظم کو اپنی ذاتی رائے، خواہ وہ کتنی ہی احمقانہ، بے بنیاداور اقبال دشمن کیوں نہ ہو، رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل نہیں؛ عبرت کا مقام تو یہ ہے کہ یہ بات زور دے کر کہنی پڑ رہی ہے کہ اقبال اکادمی کے تنخواہ دار عمال کے مقابلے میں اقبال کو بھی تو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔اگر اقبال شناسی کی اصطلاح کا وہی مطلب ہے جو اس کے لغوی معنوں سے سمجھ میں آتا ہے، تو یہ عمل اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے کہ اپنے اردو اور فارسی کلام، خطبات، اور دیگر تحریروں میں اقبال نے اپنا جو ’’نرافکری‘‘ اور ’’نرا شاعرانہ‘‘ اظہار کیا ہے، اسے اس کے درست پس منظر میںسمجھنے کی کوشش کی جائے، اور اس پر ریاست کی پالیسی یا نائب ناظم وغیرہ کے تنگ نظر، دقیانوسی اور قطعی غیرمتفق علیہ مذہبی و سیاسی نظریے کو ٹھونسنے کی کوشش سے باز رہا جائے۔دوسری صورت میں اس عمل کے لیے اقبال شناسی کے بجاے اقبال تراشی کی اصطلاح زیادہ موزوں ہوگی۔ احمد جاوید اپنی ایک خلقی معصومیت کے باعث بھی اقبال کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ حقائق کو دریافت کرنے، گہرائی میں جاننے اور درست تناظر میں سمجھنے کی جو تڑپ اور جستجو اقبال کی تمام تحریروں میں، بشمول شاعری اور خطبات،نمایاں طور پر پائی جاتی ہے، وہ موصوف کو بالکل اسی طرح کورا چھوڑ دیتی ہے جیسے مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر رہتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ انھیں تجسس کی خصوصیت سے منزہ پیدا کیا گیا ہے۔ (بقول اقبال،’’دردِ استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں/جستجوئے رازِقدرت کا شناسا تو نہیں‘‘) ان کے خیال میں نام نہاد عرفانی روایت میں ہر چیز کا جواب پہلے سے فراہم کر دیا گیا ہے اور تمام حقائق گویالفافوں میں بندموصوف کے سامنے سلیقے سے چنے ہوے رکھے ہیں۔ جب کبھی کوئی سوال(یانائب ناظم کی مرغوب اصطلاح میں ’’اشکال‘‘) سر اٹھاتا ہے، موصوف فال نکالنے والے طوطے کی سی مستعدی سے متعلقہ لفافے تک پہنچتے ہیں اور اسے کھول کر نہایت خوداطمینانی کے ساتھ اقبال (یا طارق اقبال) کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں کہ زیربحث شعر یا قول سے بذریعۂ تاویل یہ نکتہ متبادر ہوتاہے کہ سوئی کی نوک پر ڈھائی فرشتے بیٹھ سکتے ہیں جبکہ عرفانی لفافے میں پونے تین کی تعدادلکھی ہوئی آئی ہے، چنانچہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی، مگر نہ اتنی شدید کہ...وعلیٰ ہذالقیاس۔ نہ صرف یہ حکم لگانا نائب ناظم کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ اقبال کا کون سا ’’نرا شاعرانہ‘‘ مضمون، یا خطبات وغیرہ میں بیان کردہ ’’نرا خطیبانہ‘‘موقف، نام نہاد عرفانی روایت کے اندر یا باہر ہے، بلکہ یہ فیصلہ بھی وہ چٹکی بجاتے میں کر دیتے ہیں کہ اس کا تعلق حقیقت کے مروجہ عرفانی درجوں میں سے کس درجے سے ہے اور اس کی روشنی میں اقبال وغیرہ کے اعتقادات قابل قبول قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ایسا جناتی ’’منہاج‘‘ رکھنے والے نائب ناظم سے یہ توقع کرنا نادانی ہو گی کہ وہ لفافوں کے حلقے سے باہر نکل کر اقبال کے فکری اور شاعرانہ کارنامے کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جس کی بنیاد ہی اقبال کے وجود کی یہ بے قراری تھی کہ وہ بنے بنائے فرسودہ جوابی لفافوں (یا ’’پرانے تخیلات‘‘)کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور اپنے عہد کے بڑے سوالوں سے نبردآزما ہو کران کے تخلیقی جواب وضع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس عمل میں انھیں بہت سے لکیرالدین فقیروں کے اعتراضات اور فتووں وغیرہ کابارہاسامنا ہوا، جنھیں اقبال نے کبھی اہمیت نہ دی۔ احمد جاوید،ہماری آپ کی بدقسمتی سے، نائب اقبال شناس کے سرکاری عہدے پر فائز ہو گئے ہیں، لیکن ان کا اصل مقام انھی معترضین اور فتویٰ پردازوں کے درمیان ہے جو اقبال کی زندگی میں بھی اپنے فضول کام میں لگے رہے اور بعد کے دور میں بھی۔ ان حضرات کی سمجھ میں اقبال کی وہ سادہ سی بات آنے سے رہی جو انھوں نے اپنی نظم ’’زہد اور رندی‘‘ میں بیان کی ہے (اس نظم کا متن آگے پیش کیا جا رہا ہے) اور جسے کشورناہید نے اپنے لفظوں میں یوں کہا ہے کہ ریش مبارک کی لمبائی چوڑائی اور دبازت کا سخن فہمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ علامہ ندوی سے منسوب اعتراضات کا بزعم خود جواب دیتے ہوے، کئی مقامات پر احمد جاوید کا موقف معترض کے موقف کے نہایت قریب جا پہنچتا ہے، اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فروعی اختلافات کے باوجود دونوں حضرات اس پر متفق ہیں کہ اقبال کی آزادفکر کے بارے میں فیصلہ ’’پرانے تخیلات‘‘ہی کے تنگ دائرے میں رہ کر صادرکرنا ہے۔فکرِ ا قبال کی رواں دواں آبجو کو اپنے تنگ خیال نقطۂ نظر کے لوٹے میں بند کرنے کی بے سود مگر پرجوش کوشش دونوں حضرات میں مشترک دکھائی دیتی ہے۔ نمونے کے طور پرعلامہ نائب ناظم کے چند ارشادات دیکھیے: انھوں نے مغرب کو اسلام پر غالب نہیں کیا بلکہ اسلام کو مغرب کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کی اور یہ دکھایا کہ اسلام سے پیدا ہونے والی فکر مغرب کے اسلوب حصول سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ گو کہ میری ذاتی رائے میں مذہبی فکر میں اس طرح کی تطبیق کا عمل ہمیشہ مضر ہوتا ہے اور اس کا ضرر خطبات اقبال میں بھی جابجا نظر آتا ہے ۔ جب ہم دو مختلف چیزوں میں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں فریق ثانی یعنی جس سے تطبیق دینا مقصود ہے لامحالہ مرکزی اور غالب حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔ اسلام اور مغرب میں تالیف و تطبیق کا کوئی بھی عمل مغرب کی مرکزیت اور یک گو نہ فوقیت کے اثبات پر ختم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴،ص۱۰) اپنے فلسفہ حرکت کے بیان میں اقبال جب خدا کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس میں کئی الجھنیں سر اٹھاتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی غلطی قاری کو یہاں تک نہیں پہنچاتی کہ وہ یہ باور کر سکے کہ اقبال یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ معاذ اللہ خدا یعنی خالق بھی مسلسل تخلیق ہو رہا ہے۔(ص۱۱) عصرِ حاضر میں زندگی کے تمام شعبوں میں رونما ہونے والے مظاہر ترقی کو حیات اجتماعی کی فلاح کے اسلامی اصول تک پہنچنے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ اس عمل میں انہیں مغرب یا جدیدیت سے تصادم مول لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اس کی وجہ سے کچھ ناہمواریاں تو یقینا پیدا ہوتی ہوں گی لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ اقبال کے دینی افکار مغربی فلسفے سے ماخوذ ہیں یا انھوں نے مغربی خیالات کو اسلامی لباس پہنا دیا۔(ص۱۱) جہاںتک اجتہادِ مطلق کا معاملہ ہے اس میں اقبال سے غلطی ہو ئی۔ اس غلطی کی شدت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھیں کہ اقبال کے ہاں اجتہاد مطلق اپنے حالات کے موافق دین کو ایک بالکل نئی تعبیر دینے کے لیے ہوتا ہے ۔ اقبال کے ہاں اجتہاد کا دائرہ محض قانونی امور پر محدود نہیں رہتا بلکہ شریعت کی ان قوتوں اور مصلحتوں کا بھی احاطہ کرتا ہے جن کی بنیاد پر مسلم تہذیب متشکل ہوتی ہے۔(ص۱۲) اس پورے تصور]جمہوریت[ میں فقط ایک چیز ایسی ہے جو محفوظ نہ رہے تو انتشار کاموجب بن سکتی ہے اور وہ ہے رائے دینے کی اہلیت، جس کا اثبات مخالف رائے رکھنے والا بھی کرے۔ اقبال نے اپنے اس خیال میں اس نقطے کو ملحوظ نہیں رکھا کہ یہاں محض عددی اکثریت کافی نہیں ہے بلکہ اصحاب الرائے کی اکثریت درکار ہے۔ جسے مرجوع قرار پانے والی اقلیت بھی رائے دینے کا اہل مانتی ہو۔ (ص۱۴) حرکت اور ارتقاء پر اقبال کا یقین بعض مواقع پر ایسی جذباتیت میں بدل جاتا ہے جو آدمی کو اپنی ہی بات سے برآمد ہونے والے فوری نتائج سے بھی غافل کر دیتی ہے حیاتیاتی ارتقاء اور تاریخی حرکت کے تصورات کو یک جان کر کے دین کی حقیقت کے بارے میں چند کلی نوعیت کے مفروضے وضع کر لینا، اقبال کا مزاج تھا۔(ص۱۵) اقبال کے اس قول میں کچھ خطرات اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں کہ ان سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ (ص۱۵-۱۶) دینی زندگی کمال وجامعیت کے منتہا پر ایمان (Faith) کی قدر اعلیٰ پر استوار ہوتی ہے۔ یہ استواری جب کمزور پڑنے لگتی ہے تو فکر (Thought) بنیادی قدر بن جاتی ہے فکر ایمان کو اپنی خلقی منطق کے مطابق جب تصور سازی اور تعقل کے عمل سے گزارنے میں عاجز ہو جاتی ہے تو یہ چند ان گھڑ تخیلات کی اساس پر ایک ایسا نظام محسوسات پیدا کر لیتی ہے جو حواس کے دائرہ فعلیت سے باہر نکل سکنے کا امکان باور کروا دیتی ہے۔ فکر تھک ہار کر تخیل بن جاتی ہے اور تخیل ظاہر ہے کہ محسوسات میں واقع ہونے والے التباس کا منبع ہے۔...گویا اقبال جس کو ترقی کہہ رہے ہیں وہ اصل میں ایمان کی دست برداری کا نام ہے۔ فکر اور تجربے کے حق میں ۔... اقبال کی پوری بات میں ایک اور خطرہ یہ بھی پوشیدہ ہے کہ وہ]کذا[ ماہیت ذہن یعنی انفعال کو ایمان کے سائے سے نکال کر تجربیت کے تحت لانا پڑتا ہے۔ (ص۱۶) علم نفسیات کے بعض غیر ضروری اثرات کی وجہ سے اقبال نے نبی اور وحی کو بھی اپنے زمانے میں مروج نفسیاتی تجزیے کا موضوع بنا لیا اور اس اصول کو نظر انداز کر دیا کہ وحی کی تنزیل اور نبی کا اسے وصول کرنا کوئی تجربہ نہیں ہے بلکہ واقعہ ہے۔(ص۱۷) اقبال کے یہاں Ego یا Selfکا تصور بعض اخلاقی اور نفسیاتی کمالات کے باوجود انسان اور خدا کے بارے میں ان مذہبی تصورات سے اصلاً متصادم ہے جن پر آج تک کی مذہبی فکر متفق چلی آ رہی ہے۔ (ص۱۸) وہ ]معترضِ اقبال[اگر یہ پوزیشن اختیار کرتے کہ مذہبی زندگی اور اس کے کمالات کی تحقیق کا یہ انداز خود دین کے متعین کردہ کمالات بندگی سے مختلف ہے اور اس سے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی دین داری کم تر درجے پر نظر آتی ہے، تو ایک بات بھی تھی۔(ص۱۹) ان کا تصور انفرادیت بالکل غیر روایتی ہے اور ایک حد تک ان کے مطالعہ مغرب کا نتیجہ ہے۔ اقبال انسانی انفرادیت کے حدود میں ایسی رومانوی توسیع کر دیتے ہیں کہ بعض مقامات پر آدمی اور خدا کا امتیاز ایک رسمی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔(ص۲۱) ان کا تصور خدا بہرحال لائق اعتبار نہیں ہے اور بعض ایسے نتائج تک پہنچا دیتا ہے جہاں خدا کو ماننا محض ایک تکلف لگتا ہے۔ علامہ کے نظام الوجود میں انسان مرکزی کا شور اتنا زیادہ ہے کہ خدا کی آواز دب جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا ہونا انسانی وجود کی تکمیل ایک ذریعہ ہے اور بس۔(ص۲۲) ذاتِ الٰہی اور ذاتِ انسانی، یا الوہی ذاتیت اور انسانی ذاتیت کے تقابل کی ہر جہت میں اقبال جن نتائج تک پہنچتے ہیں، وہ مابعد الطبیعیات کی منطق پر پورے نہیں اترتے۔ اور ان مباحث سے بننے والی فضا میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔...ذات یا انا کے مقولے کو مدار بنا کر اقبالؒ نے خدا اور انسان کے تقابل کی جو فضا ایجاد کی ہے اس میں انسان تو اپنی انفرادیت ثابت کر دیتا ہے لیکن خدا کی انفرادیت دب کر رہ جاتی ہے۔(ص۲۲) مذہبی یا روحانی واردات میں نفس کی شمولیت سے جو حسی وفور پیدا ہو جاتا ہے، اقبال اسے حقیقت کے علم یا تجربے کی قابل قبول اساس تصور کر لیتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان کا انہماک یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ وہ حسی، نفسی،روحانی حسی کہ تنزیل وحی کے تجربے کو اصلاً ہم نوع قرار دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ہماری رائے میں اس سنگین غلطی کا بڑا سبب ان کے تصور خودی میں پوشیدہ ہے۔(ص۲۴-۲۵) جنت و دوزخ احوال ہیں نہ کہ مقامات‘۔ ۔۔ اور ’حیات بعد الموت ہر انسان کا استحقاق نہیں ہے‘۔۔۔ اقبال کے یہ تصورات ظاہر ہے کہ قرآنی محکمات سے متصادم ہیں۔ (ص۲۶) ایک مقام پر تو نائب ناظم موصوف نے حد ہی کر دی۔ فرماتے ہیں: یہاں ہم بھی مجبور ہیں کہ اقبال کی مدافعت کے ارادے کے باوجود ہاتھ کھڑے کر دیں۔(ص۲۲) احمد جاوید کے مرشدِمعزول عسکری اگر زندہ ہوتے تو شاید اس قسم کا فقرہ چست کرتے کہ ’’ذراآپ کو دیکھیے اور آپ کے ارادے کو دیکھیے!‘‘ لیکن خرم علی شفیق تو بحمداﷲ بقیدحیات ہیں اورکہہ ہی سکتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسا تاثر ملتا ہے گویا نائب ناظم کی مدافعت اقبال کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ شاعرِ مشرق کے مقام پر بھی ٹھہر نہ پاتے۔ خرم علی شفیق نے اس قسم کے طرزِعمل کی مثال کے طور پرلاہور کی مسجد وزیرخاں کے خطیب دیدار علی کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا تھا۔’’اس میں اقبال کے خلاف ایسے دلائل پیش کیے جن کے بعد کم سے کم ایک عام مسلمان کی نظر میں اقبال کا ایمان مشکوک ہو جانا چاہیے تھا...نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اقبال کو اپنے دفا ع میں کچھ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی، خواص اور عوام نے خطیب دیدار علی صاحب ہی کو رد کر دیا۔‘‘ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، ص ۲۹) خود اقبال نے ان جانے پہچانے فتویٰ پرداز کرداروں کے بارے میں ایک پرلطف نظم ’’زہد اور رندی‘‘کے عنوان سے لکھی تھی جو ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہے اور احمد جاویدپر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ آئیے اس نظم کا ایک بار پھر لطف اٹھائیں: اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی مَنشی کا کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادانی کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی لبریز مئے زُہد سے تھی دل کی صراحی تھی تہہ میں کہیں دُردِ خیالِ ہمہ دانی کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا اقبال، کہ ہے قمریِ شمشادِ معانی پابندیِ احکامِ شریعت میں ہے کیسا؟ گو شعر میں ہے رشکِ کلیمِ ہمدانی سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی ہے اس کی طبیعت میں تشیّع بھی ذراسا تفضیلِ علی ہم نے سنی اس کی زبانی سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے بے داغ ہے مانندِسحر اس کی جوانی مجموعۂ اضداد ہے، اقبال نہیں ہے دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفقانی رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے تادیر رہی آپ کی یہ نغزبیانی اس شہر میں جو بات ہو، اڑ جاتی ہے سب میں میں نے بھی سنی اپنے احباّ کی زبانی اک دن جو سرِ راہ ملے حضرتِ زاہد پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی فرمایا، شکایت وہ محبت کے سبب تھی تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے یہ آپ کا حق تھا زرہِ قربِ مکانی خم ہے سرِ تسلیم مرا آپ کے آگے پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت پیدا نہیں کچھ اس سے قصورِ ہمہ دانی میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واﷲ نہیں ہے اس قسم کے مئے زہدسے سرشار اور دُردِ خیالِ ہمہ دانی سے معمور کرداروں کو پاکستانی ٹیکس گذاروں کے خرچ پر اقبال شناسی کی ذمے داری سونپ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے پریس برانچ کے چودھری محمد حسین کا ماہانہ وظیفہ عوامی خزانے سے باندھ کر انھیں منٹو شناسی پر مامور کر دیا جائے۔لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اقبال اکاد می کے عمال کو جو کام دراصل سونپا گیا ہے وہ اقبال شناسی کانہیں بلکہ اقبال تراشی کاہے، یعنی یہ کہ کاٹ پیٹ کر انھیں ریاستی اور عرفانی روایت کے سانچے میں کچھ اس طرح فٹ کیا جائے کہ اقبال کے پاکستانی پڑھنے والے ان کی شاعری اور نثر کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اور یہی وہ سرکاری طور پر تراشا گیا بے ضرراقبال ہے جس کی مدافعت کا ارادہ اکادمی کے نائب ناظم باندھتے اورکھولتے رہتے ہیں۔ سرکاری نوکری کی انھی نزاکتوں کا کرشمہ ہے کہ وہ اقبال کے خلاف اپنی مرغوب عرفانی روایت کی رو سے خاصے سنگین اور بنیادی نوعیت کے عتراضات کرنے کے باوجود، اور ان کے متعدد غیرمحتاط خیالات پر نعوذباﷲ،استغفراﷲ اور لاحول ولا پڑھتے رہنے کے باوجود، اقبال کے ایمان کے بارے میں صاف صاف کوئی فتویٰ جاری کرنے سے باز رہتے ہیں اورمحض ان کے اعتقادات کے بارے میں شکوک پیدا کرنے اور ان کی مفروضہ لغزشوں پر ناشائستگی سے انھیںسرزنش کرتے رہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ عرفانی روایت کا لوٹا اٹھا کر موصوف بھی ظروف بردارفتویٰ پردازوں کی لمبی قطار میں لگ گئے تو اس سے اقبال کا تو کچھ بگڑنے سے رہا،الٹا اکادمی کی طرف سے ہر پہلی تاریخ کو ملنے والالفافہ ہاتھ سے جاتا رہے گا اور اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محض ٹیلی وژن کی اداکاری کے اکلِ حرام پر انحصار کرنا پڑے گا۔ ۸ اقبال اکادمی کے سابق ناظم مرزا منور نشان دہی کرتے ہیں کہ اقبال کی فکر خطبات تک پہنچ کر رک نہ گئی تھی۔ موجودہ ناظم سہیل عمر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ اقبال کا مقام تو خیر جو کچھ بھی ہوتا،یہ بات یقینی ہے کہ اگرانھوں نے خطبات نہ لکھے ہوتے تو اقبال اکادمی کے کارپردازان کی زندگی زیادہ آسان ہوتی اور وہ رات کو اس فکر میں پڑے بغیر چین کی نیند سویا کرتے کہ خطبات میں اختیارکردہ واضح فکری طریق کار، اور استدلال کے ذریعے وضع کیے ہوے غیرمبہم اجتہادی نتائج کی اہمیت کو کس طرح کم کر کے پیش کیا جائے کہ اقبال کا نقطۂ نظرریاست کی سیاسی پالیسی اور قدامت پرست مذہبی نظریے سے ہم آہنگ دکھائی دینے لگے۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو ایک بڑے شاعر اور اسلامی نظریات کے مفکر اوراجتہاد کی بے مثال صلاحیت رکھنے والے مجتہد کے طور پر اپنے مقام اور اس کی ذمے داریوں کی تو آگاہی تھی، لیکن انھیں اس کا گمان تک نہ تھا کہ بعدازمرگ انھیں ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے تسلیم شدہ سرکاری شاعر و مفکر کے (قطعی غیرشایانِ شان) عہدے پر تعینات کیا جانے والا ہے جس کے تقاضے اور مصلحتیں ان کی اختیارکردہ ذمے داریوں سے قطعی مختلف، بلکہ بعض مقامات پر متضاد ہوں گی۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اقبال اکادمی وغیرہ کو انھیں اس بعدازمرگ وضع کردہ سانچے میں فٹ کرنے میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور ان عمال کے دل میں یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش اقبال نے اپنے ناخواندہ مقام اور ان حضرات کی نوکریوں کا خیال کرتے ہوے کسی قدر احتیاط کا ثبوت دیا ہوتا۔ بدقسمتی سے اقبال نے ایسا نہیں کیا، چنانچہ ان دقتوں کواپنے پیشے کی مشکلات کے طور پر قبول کر کے انھوں نے ان دقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے چند دلچسپ طریقے وضع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جو سہیل عمر نے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ میں اختیار کیا، اور جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کسی طرح شاعری کو خطبات کے مدمقابل ٹھہرایا جائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ ان کی شاعری سے، تشریح و تعبیر کی مدد سے ایک ایسا نقطۂ نظر برآمد کیا جا سکتا ہے جو خطبات میں سامنے آنے والے نقطۂ نظر سے مختلف اور قابلِ ترجیح ہے۔جو لوگ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں ان کا ذکر سہیل عمر نے اس طرح کیا ہے:’’ان کی عام دلیل یہ ہے کہ خطبات سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہار کا نمونہ ہیں اور شاعری اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر۔یہ لوگ وہ ہیں جو شاعری پڑھنے یا سمجھنے کے اہل ہی نہیں...اس رویے کا نتیجہ شعرفراموشی ہی ہو سکتا ہے، اور یہی ہوا بھی ہے۔‘‘(ص۱۲) میں نہیں جانتا کہ یہ کن لوگوں کا ذکر ہے، کیونکہ سہیل عمر نے یہ بات کسی شخص کا نام لیے یا کوئی حوالہ دیے بغیر لکھی ہے۔ تاہم ان نامعلوم افراد کے دفاع میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شاعری پڑھنے یا سمجھنے کی اہلیت ایسی چیز نہیں جس کا اقبال اکادمی کے باہر پایا جانا ممکن نہ ہو،لیکن سہیل عمر کے اس بیان میں ایک مغالطہ ایسا ہے جس کی تردیدضروری ہے۔ خطبات کو ’’سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہارکا نمونہ‘‘ قرار دینے کا یہ مطلب کہیں سے بھی نہیں نکلتا کہ ’’شاعری کو اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر‘‘ٹھہرایا جا رہا ہے۔ شاعری میں بعض جگہ شاعر کے غیرمبہم نقطۂ نظر کو پالینا ناممکن نہیں ہوتا۔اقبال کی شاعری میں جابجا مختلف اہم معاملات پر ان کا نقطۂ نظر بھی صراحت سے سامنے آتا ہے جس کی موجودگی میں ان کی فکر پر اس سے متضاد نقطۂ نظر سے حکم لگانا ممکن نہیں رہتا۔ چند مثالیں دیکھیے جو کسی خاص کوشش کے بغیر چنی گئی ہیں: تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی رہنے دو خم کے سر پہ تم، خشتِ کلیسیا ابھی گیا ہے تقلید کا زمانہ، مجاز رختِ سفر اٹھائے ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوقِ تکلم کی چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں نہیں جنسِ شرابِ آخرت کی آرزو مجھ کو وہ سوداگر ہوں میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں لیکن شاعری صرف نقطۂ نظر یا اعتقادات کے اظہار یا اعلان پر مشتمل نہیں ہوتی(اگرچہ اکادمی کے نائب ناظم کا سلوک اقبال کے شعر کے ساتھ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ پھرتی سے شعر کے قارورے کا امتحان کر کے رپورٹ دے دی جائے کہ اس کی روشنی میں اقبال کا عقیدہ قابل قبول ٹھہرتا ہے یا نہیں)۔ اس کے برعکس خطبات کا متن ایسا ہے جسے اقبال نے ان اجتہادی نتائج کو ممکنہ حد تک واضح اور قابل فہم انداز میں بیان کرنے کی غرض سے تحریر کیا جن پر وہ اپنے اختیارکردہ مخصوص طریق کار اورطرزِ استدلال کی مدد سے پہنچے تھے۔ علاوہ ازیں، شاعری میں اقبال کا خطاب کسی مخصوص گروہ سے نہیں ہے جس کی خصوصیات کے بارے میں کوئی مجموعی حکم لگایاجا سکتا ہو، جبکہ خطبات کے سلسلے میں یہ امر اقبال کے ذہن میں پوری طرح واضح ہے: یہاں وہ برصغیر کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کے ایک مخصوص مقام پر ان جدید ذہن رکھنے والے مسلمانوں سے خطاب کر رہے ہیں جو مغربی فلسفے کی تعلیم سے روشنی حاصل کرنے کی بدولت اقبال کے نزدیک ان مباحث کو سمجھنے کے اہل ہیں جن پر خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں شاعری کو خطبات کے برعکس یا کم تر سمجھنے کا مفہوم کہاں سے پیدا ہو گیا؟ اور اس کا نتیجہ شعرفراموشی کی صورت میں کیونکر اور کب نکلا؟ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی سے خطاب کے متن نے، جس میں انھوں نے نئی قائم شدہ ریاست کے سیاسی نظام کے رہنما خطوط واضح طور پر بیان کیے تھے، ملک کو اس کے عین مخالف سمت میں لے جانے والے چیرہ دست حکمرانوں اور ان کے سرکاری عمال کے لیے چنددرچنددشواریاں پیدا کی ہیں، اسی طرح اقبال کے خطبات نے بھی ان حلقوں کو متواتر مشکل میں ڈالے رکھا ہے۔جس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اقبال کی شاعری سے نمٹنا ان کے لیے آسانی سے ممکن ہوا ہے۔ البتہ شاعری میں تشریح و تعبیر کی گنجائش نثر میں دیے گئے واضح بیان کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے اور نائب ناظم کی قبیل کے شارحین اسی گنجائش کو تاویل کے کھیل کے میدان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ احمد جاوید نے جب اقبال اکادمی میں نوکری پانے کے لیے درخواست دی ہوگی تو یقینا انٹرویو کے لیے بھی پیش ہوئے ہوں گے، اور ثقافت اور کھیل کی وفاقی وزات کے ارباب اختیار کو یقین دلایا ہو گا کہ وہ وزارت اور اکادمی کے مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے موزوں قابلیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کھیلوں سے اپنی دلچسپی کے نمونے کے طور پر چڑی ماری کے کھیل میں اپنی کارکردگی کو پیش کیا ہو گا اور انھیں اطمینان دلانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے کہ اس کھیل کے کرتبوں سے شعرِ اقبال اور فکرِ اقبال کے طائرانِ لاہوتی کو بھی شکار کیا جا سکتا ہے۔ بعد میں، جولائی ۲۰۰۳ء میں، انھیں کسی اور معاملے میں ناسازگار حالات پیش آنے پر مجبور ہو کرچڑی ماری سے تحریری طور پر توبہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا، جس کا متن آپ کراچی کے رسالے ’’دنیازاد‘‘، شمارہ ۹ کے صفحہ ۳۳۰پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔لیکن توبہ کے باوجود اقبال پر ان کی غلیل بازی بدستور جاری ہے، جس کے چند نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں جن میں ان کا لایا ہوا یہ نادر نکتہ بھی شامل تھاکہ چاند رات کو اپنے پیشے کی دشواریوں کے ہاتھوں خیاطوں کی کیا ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ نوکری کی عائدکردہ ذمے داریوں کے ہاتھوں خود موصوف کی اپنی ذہنی کیفیت بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ اقبالیات کے محولہ بالا شمارے میں اقبال کے تصور زمان و مکاں سے ہاتھاپائی کرتے ہوے وہ ان سرکاری ذمے داریوں کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں اُن کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔‘‘ (ص ۹۳) ’’دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطئہ نظر کو اقبال کا حتمی نقطئہ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟ (ص۹۳-۹۴) اگر کوئی ایسی چیز فطری طریقے سے پیدا ہونے کو تیار نہیں ہوتی تو اسے نظریۂ ضرورت کے تحت زبردستی پیدا کیا جائے گا، کیونکہ مقصودحقیقی ’’خطبات میں اظہار پانے والے نقطئہ نظر‘‘ کا، بقول یوسفی، دف مارنا ہے۔اس کے دو طریقے مروج ہیں: ایک تو یہ کہ اقبال کے ظاہرکردہ کسی بھی ناپسندیدہ نقطۂ نظر کے سلسلے میں کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ انھوں نے اس پر نظرثانی کر لی تھی، یا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن حیات نے وفا نہ کی، وغیرہ۔ دوسرا طریقہ یہ کہ تاویل کے ذریعے سے یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ جہاں کہیں اقبال نے دن کو سفید قرار دیا وہاں دراصل ان کی مراد سیاہ رنگ سے تھی۔یہ کون بڑی بات ہے؛ آخر تاویل ہی سے تو ’’پرانے تخیلات‘‘ کے حامل حضرات، بقول اقبال، قرآن کو پاژند بنایا کرتے تھے۔ نائب ناظم بھی ایسا ہی مبارک ارادہ رکھتے ہیں: ...جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کارفرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی راے پر نظرِ ثانی کی اور بعض معاملات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دو لختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریںگے۔ (ص ۹۴) بسم اﷲ، ضرور کیجیے کوشش، لیکن ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا۔اگر آپ نے دھاندلی کرتے ہوے اقبال پر ان نظریات کو منڈھنے کی کوشش کی جو ان کے نہیں تھے، تواقبال کو پڑھنے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آپ کے 'academic' self کو، یعنی نائب ناظم کے طور پر آپ کی نوکری کی مجبوریوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ آپ کے electronic self یعنی ’ٹیلی اُپدیشک‘ ہونے سے متاثر ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی آپ کو ٹوکے گا ضرور، اور پھرکہیں ایسا نہ ہو کہ مجبور ہو کر آپ کو اپنی اس سرگرمی سے بھی توبہ کا اعلان کرنا پڑ جائے۔چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔ حقیقت یہ ہے کہ خطبات میں اقبال نے اپنا نقطۂ نظرجابجا اتنے صاف لفظوں میں بیان کر دیا ہے کہ اس سلسلے میں کنفیوژن پھیلانے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں، جنھیں سہیل عمر کی تصنیف میں نقل کیا گیا ہے، اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے، اور اکادمی کے پسندیدہ نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ …eternal principles when they are understood to exclude all possibilities of change which according to the Qur’an is one of the greatest signs of God, tend to immobilize what is essentially mobile in its nature…. [T]he immobility of Islam during the last five hundred years illustrates [this principle]. (p-139-140) …conservative thinkers regarded this movement [of Rationalism] as a force of disintegration , and considered it a danger to the stability of Islam as a social polity. Their main purpose, therefore, was to preserve the social integrity of Islam, and to realize this the only course open to them was to utilize the binding force of Shari’ah and to make the structure of their legal system as rigorous as possible. (p-142) The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48) اس پر احمد جاویدفرماتے ہیں’’Rationalism کا اقبال سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔... Rationalism اپنی ہر نوع میں اور ہر جہت میں وحی کا انکار ہے۔ اس کا انحصار ہی اس تصور اور دعوے پر ہے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے عقل کافی ہے اور اسے باہر سے کسی رہ نمائی کی حاجت نہیں ہے۔‘‘ (احیائے علوم، شمارہ۱۴، ص۲۴) This spirit of total other-worldliness in later Sufism… offering the prospect of unrestrained thought on its speculative side, … attracted and finally absorbed the best minds in Islam. The Muslim state was thus left generally in the hands of intellectual mediocrities, and the unthinking masses of Islam, having no personalities of a higher caliber to guide them, found their security only in blindly following the schools. (p-142-143) The fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the conservative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving the uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of Shari’ah as expounded by the early doctors of Islam. (p-143) ... a false reverence for past history and its artificial resurrection constitute no remedy for a people's decay. (p-30) The most remarkable phenomenon of modern history however is the enormous rapidity with which the world of Islam is spiritually moving towards the West. There is nothing wrong in this movement, for European culture, on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam. (p-29) The theory of Einstein has brought a new vision of the universe and suggest new ways of looking at the problems common to both religion and philosophy. No wonder then that the younger generations of Islam in Asia and Africa demand a fresh orientation of their faith. With the reawakening of Islam, therefore, it is necessary to examine, in an independent spirit, what Europe has thought and how far the conclusions reached by her can help us in the revision and, if necessary, reconstruction, of theological thought in Islam (p-29-30) They disclose new standards in the light of which we begin to see that our environment is not wholly inviolable and requires revision. (p-30-31) I propose to undertake a philosophical discussion of some of the basic ideas of Islam, in the hope that this may, at least, be helpful towards a proper understanding of the meaning of Islam as a message to humanity. (p-30) The only course open to us is to approach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that knowledge. (p-99) The truth is that all search of knowledge is essentially a form of prayer. The scientific observer of Nature is a kind of mystic seeker in the act of prayer. (p-94) The question which confronts him [the Turk] today, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future, is whether the Law of Islam is capable of evolution; a question which will require great intellectual effort, and is sure to be answered in the affirmative. (p-146) In order to create a really effective political unity of Islam, all Muslim countries must first become independent; and then in their totality they should range themselves under one Caliph. Is such a thing possible at the present moment? If not today, one must wait. In the meantime the Caliph must reduce his own house to order and lay the foundations of a workable modern State. (p-145-146) The republican form of government is not only thoroughly consistent with the spirit of Islam, but has also become a necessity in view of the new forces that are set free in the world of Islam. (p-144) ۹ علامہ نائب ناظم اور علامہ ندوی (بہ روایت زبانی ڈاکٹر غلام محمد) اس بارے میں پوری طرح ہم خیال ہیں کہ ’’اجتہاد کی صلاحیت ... یقینا اقبال میں نہیں پائی جاتی ...‘‘ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، ص۱۳) اقبال کے بارے میں یہ فتویٰ ان دیگر فتووں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو ان کی زندگی میں اور بعد کے زمانے میں جاری کیے جاتے رہے ہیں اور اس کا انجام بھی سابقہ فتووں سے مختلف ہونے والا نہیں۔ ان فتووں سے قطع نظر، اقبال نے جدید مغربی تعلیم کی روشنی میں پرانے تخیلات اور تقلیدپرستی سے پیدا ہونے والی خامیوں کو رفع کر کے برصغیر کے مسلمان کے نقطۂ نظر سے مذہب کی معنویت کو نئے سرے سے متعین کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ جدید دور کے تقاضوں کے مدنظر مذہبی فکر میں کس قسم کی تبدیلیاں کرنا ضروری ہے اور اس اصلاح شدہ مذہبی فکر پر مبنی انفرادی اور اجتماعی عملی فیصلوں کی کیا صورت اس دور کے لیے ممکن اور مناسب ہے۔ اقبال کے پڑھنے والوں کا حق ہے کہ وہ ان کی تحریروں کو ان کے درست تناظر میں پڑھ کر اپنی رائے قائم کریں اور تاویل وغیرہ کے حربوں سے اقبال کے نقطۂ نظر کی صورت مسخ کرنے کی کوششوں کی بھرپورمزاحمت کریں۔ ظ……ظ……ظ  اقبال شناسی یا اقبال تراشی اجمل کمال ۱ لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے احیائے علوم میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رسالے جریدہ کے شمارہ ۳۳میں اقبال کے ان خطبات پر، جن کے مجموعے کا عنوان Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے، قدامت پرست مذہبی نقطۂ نظر سے کیے گئے طویل تبصرے شائع کیے گئے اور یہ اطلاع دی گئی کہ یہ علامہ سید سلیمان ندوی کے خیالات ہیں جنھیں ان کے ایک عقیدت مند مرید ڈاکٹر غلام محمد نے روایت کیا ہے۔ ان تبصروں کو میں نے اسی بحث کی روشنی میں پڑھا جو احیائے علوم میں جاری ہے اور اسی پس منظر میں ان تبصروں کے بعض نکات پر اپنے مختصر مضمون ’’اجتہاد اور فیصلہ سازی‘‘ میں اظہارخیال کیا۔ اپنا مضمون احیائے علوم کے مدیر سید قاسم محمود کو بھجواتے ہوے مجھے یہ مناسب معلوم ہوا کہ علامہ ندوی سے منسوب ان تبصروں کے وہ اقتباسات الگ سے نقل کر دوں جنھوں نے میرے خیالات کو تحریک دی تھی۔میں نے ان اقتباسات پر مشتمل متن بھی’’خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ‘‘ کے عنوان سے سید قاسم محمود کو بھجوا دیا۔ اس متن کے آخر میں یہ وضاحت موجود تھی: ’’(ماخوذ از جریدہ، شمارہ ۳۳، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی۔ مدیر: خالد جامعی)‘‘۔یہ دونوں متن احیائے علوم کے شمارہ ۱۳ میں الگ الگ مقامات پر شائع ہوے۔ میرے مضمون کے عنوان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی البتہ اقتباسات کے متن کو یہ سرخی دی گئی: ’’خطبات اقبال، علامہ سید سلیمان ندوی کا بصیرت افروز تبصرہ‘‘۔اس کے علاوہ اس متن کے ساتھ علامہ ندوی کی ایک تصویر بھی شائع کی گئی۔احیائے علوم کے اس شمارے کی اشاعت کے بعد اقبال اکادمی کی طرف سے اکادمی کے ناظم محمد سہیل عمر، نائب ناظم احمد جاوید اور ان کے علاوہ خرم علی شفیق اور چند دیگر اصحاب کا ردعمل سامنے آیا۔ان تحریروں میں مذکورہ تبصروں کے علامہ ندوی سے منسوب کیے جانے پر شبہات ظاہر کیے گئے اور بعض اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ تحریریں اکادمی کی طرف سے شائع کیے جانے والے کتابچے میارابزم بر ساحل کہ آنجا میں شامل کی گئیں اور ان میں سے تین بعد میں احیائے علوم کے شمارہ۱۴ میں شائع ہوئیں۔ مذکورہ شمارہ ۱۴ کا انشائیہ نما اداریہ بعنوان ’’کمپیوٹر کی شرارت‘‘ پڑھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔اس تحریر میں مجھے جن ناکردہ گناہوں کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے ان کا ذکر توذرا آگے چل کر ہو گا، لیکن حیرت کا بڑا سبب یہ ہے کہ کمپیوٹر تک سے اداریہ نویس نے ایسے افعال و اعمال منسوب کر دیے ہیں جو عموماً اس سے منسوب نہیں کیے جاتے۔سید قاسم محمود صاحب، جن کا نام اس رسالے پر مدیر کے طور پر چھپتا ہے، اداریے میں فرماتے ہیں:’’اب کمپیوٹر ایڈیٹر بن بیٹھا ہے۔ جو چیز چھپنے کے لیے آتی ہے، غڑاپ سے اپنے پیٹ میں ڈال کر سڑاپ سے باہر نکال دیتا ہے...‘‘ کمپیوٹر اور ای میل کا استعمال اب اردو کے اخباروں اور رسالوں میں خاصا عام ہو گیا ہے اور مدیروں کواشاعت کے لیے بھیجی جانے والی بہت سی تحریریں الیکٹرانک ذرائع سے موصول ہوتی اورکمپیوٹر کی مدد سے اشاعت کے لیے مرتب کی جاتی ہیں، تاہم کمپیوٹر کی غڑاپ اور سڑاپ کے درمیان عموماً رسالے کامدیر واقع ہوتا ہے جو اس ذریعے سے موصول ہونے والی ہرتحریر کا پرنٹ آؤٹ نکال کر(یا نکلوا کر) اسے غور سے پڑھنے کے بعد ہی اس کے قابل اشاعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ احیائے علوم غالباً اردو کا پہلا رسالہ ہے جس میں مدیر نے یہ پورا عمل کمپیوٹر کو سونپ کر اس کا رابطہ براہ راست شرکت پریس سے کرا دیا ہے اور خود چین کی بنسی بجانے کا شغل اختیار کر لیا ہے۔ میں اردو کے اس پہلے مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ رسالے کے اجرا پر مبارک بادپیش کر نا چاہتا ہوں، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ مبارک باد سید قاسم محمود کو دی جائے یا براہِ راست ان کے کمپیوٹر کو۔ لیکن جہاں تک زیربحث مضامین کا تعلق ہے، ان کے سلسلے میں کمپیوٹر کی اس غڑاپ سڑاپ کی قطعی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ یہ دونوں تحریریں جنھیں احیائے علوم کے شمارہ ۱۳ میں مختلف مقامات پر شائع کیا گیا، مدیر کے نام خط کے ساتھ ہارڈ کاپی یعنی کاغذ پر نکالے ہوے پرنٹ آؤٹ کی شکل میں (بقول اداریہ نویس’’رجسٹری سے‘‘)بھیجی گئی تھیں، اور خط میں مدیر سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ اگر وہ انھیں شائع کرنے کا فیصلہ کریں تو ان کی سافٹ کاپی بذریعہ ای میل الگ سے بھیجی جا رہی ہے، اس متن کو استعمال کر لیں تاکہ انھیں نئے سرے سے کمپوزنگ نہ کرانی پڑے اور پروف کی غلطیاں نہ ہوں۔ رسید کے طور پر سید قاسم محمود کا ۲۶ جولائی کا لکھا ہواخط موصول ہوا کہ ’’آپ کے مرسلہ دونوں مضامین دونوں ذریعوں سے مل گئے ہیں۔ توجّہ فرمائی کا شکریہ۔ ہمیں ایسے ہی مضمونوں کی ضرورت ہے،‘‘ وغیرہ وغیرہ۔اب جیساکہ اداریے میں دیے گئے حلفیہ بیان سے انکشاف ہوا ہے، اگر محترم مدیر نے یہ باتیں خط کے ساتھ منسلک مضامین کو پڑھے بغیر ہی لکھ بھیجیں، اور پھر اشاعت کے لیے منتخب کرتے وقت (یا شائع ہونے کے بعد)بھی انھیں پڑھنے کی زحمت نہ کی تو ظاہر ہے کہ اس طرزعمل کا قصوروارکمپیوٹر کے سوا کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟یہ فیصلہ بھی یقیناکمپیوٹر نے کیا ہو گا کہ رسالے کے کن صفحات پر کن تحریروں کو جگہ دی جائے، ان پر کیا عنوان قائم کیا جائے اور کون سی تصویر کہاں لگائی جائے۔ واہ کمپیوٹر جی واہ! سید قاسم محمود صاحب میرے بزرگ ہیں اور میرے لیے قابل احترام ہیں۔میں نے ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے، مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے۔ یعنی ایک طرف رسالوں کو دیدہ زیب اور دلچسپ بنانے کے بہت سے طریقے ان کی مرتب کی ہوئی مطبوعات کو غور سے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف یہ بھی سیکھا کہ اشاعت کے لیے آنے والی تحریروں کو پڑھے بغیر شائع کرنا سید قاسم محمود کا ایسا عمل ہے جس کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ واقعہ اردو رسالوں میں کمپیوٹر کے مروج ہونے سے برسوں پہلے کا ہے جب ان کی ادارت میں نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں ممتاز مفتی کا سفرنامۂ حج لبیک قسط وار شائع ہوا تھا۔ جب یہ سفرنامہ کتاب کے طور پر چھپا تو اس میں سید قاسم محمود کی ایک تحریر بھی شامل تھی جس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ ان قسطوں کو پڑھے بغیر رسالے میں شائع کیا کرتے تھے۔ اپنے رسالے کے مشمولات اور ان کے مضمرات سے ناواقف ہونے کے باعث، اقبال اکادمی کے سرکاری عمال کے شوروغوغا سے سید قاسم محمود اس قدر گھبرا گئے کہ انھوں نے ہر چیز سے اپنی برأت کا اعلان کرتے ہوے یہ بھی نہ دیکھا کہ ’’خطبات اقبال‘‘ پر جن تبصروں سے اقتباسات منتخب کر کے شائع کیے گئے ہیں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف کے رسالے جریدہ کے شمارہ ۳۳ سے لیے گئے ہیں اور اس رسالے کا مکمل حوالہ دیا گیا ہے بلکہ ان میں سے ہر اقتباس پر مذکورہ رسالے کا صفحہ نمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ان تبصروں کو علامہ سید سلیمان ندوی سے جریدہ کے مدیر خالد جامعی نے منسوب کیا تھا، اس لیے اس انتساب کی ذمے داری انھی کے سر جاتی ہے، نہ کہ سید قاسم محمود (یا ان کے کمپیوٹر) کے۔جہاں تک میرا تعلق ہے میں تویہ ذمے داری اپنے سر لینے سے قطعی قاصر ہوں۔خالد جامعی نے وضاحت کے طور پر بتایا ہے کہ علامہ ندوی کے ان خیالات کے راوی ڈاکٹر غلام محمد ہیں، اور بظاہرخالد جامعی کو اس امر پر اطمینان معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت معتبر ہے۔ڈاکٹر غلام محمد کون تھے، میں اس سے ناواقف ہوں، اور شمارہ ۱۴ میں اقبال اکادمی کے زیراہتمام تیار کیے ہوے جو وضاحتی مضامین شائع کیے گئے ہیں ان میں بھی ان صاحب کا تعارف نہیں کرایا گیا۔ تاہم محمد سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے علامہ ندوی اور ڈاکٹر غلام محمد کے ناموں پر رحمت اﷲ علیہ کی علامت لگائی ہے جس سے اُن دونوں مرحومین کی بابت اِن دونوں کا احترام ظاہر ہوتا ہے۔ ان حضرات نے اس بارے میں کوئی بحث نہیں کی کہ ڈاکٹر غلام محمد کی گواہی علامہ ندوی کے بارے میں (جو بقول خالد جامعی،ڈاکٹر غلام محمد کے شیخ تھے) کس بنیاد پر نامعتبر ہے۔ بہرحال، چونکہ اس بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں، خالد جامعی اس بات کے مکلف ہیں کہ ان شکوک کو رفع کریں۔ ۲ خرم علی شفیق نے ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کے سلسلے میں کئی بیانات دیے ہیں: ’’امالی کے ملفوظات سید سلیمان ندوی صاحب سے منسوب کیے گئے ہیں (اگرچہ اس دعوے کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے)‘‘۔...’’کسی ثبوت کے بغیر یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ ]علامہ ندوی[ہی کے ارشادات ہیں۔ جب تک ثبوت نہ مل جائے ہمیں مصلحت پسندی کا یہ چہرہ ]علامہ ندوی[ پر چپکانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، صفحہ ۲۷۔) اس کے بعد صفحہ ۳۱ پر انھوں نے علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ معلوم کریں کہ یہ ملفوظات واقعی ]علامہ ندوی[کے ہیں یا نہیں۔‘‘ آگے چل کر کہتے ہیں: ’’یہاں بھی وہی شک گزرتا ہے کہ یہ ]علامہ ندوی[کے ارشادات ہیں یا کسی اور کا خامۂ ہذیان رقم!‘‘ (ص ۳۳) مزید کہتے ہیں: ’’ان امالی میں جس قسم کی ذہنیت سامنے آتی ہے...اسے ]علامہ ندوی[سے منسوب کرنے میں ابھی مجھے تامل ہے مگر یہ ملفوظات جس کسی کے بھی ہوں، ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک الجھے ہوئے ذہن کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ (ص۳۷۔) ان تمام بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خرم علی شفیق یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ خیالات، جنھیں ڈاکٹر غلام محمد اور خالد جامعی نے علامہ ندوی سے منسوب کیا ہے، ان کے ہیں یا نہیں۔اگر انتساب کا کوئی حتمی ثبوت خالد جامعی نے پیش نہیں کیا (کہا نہیں جا سکتاکہ سینہ بہ سینہ زبانی روایت سے بڑھ کر کون سا ثبوت ہو سکتا تھا)تو سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے بھی قطعی طور پر واضح نہیں کیا کہ یہ زبانی روایت اس مخصوص معاملے میں کیوں ناقابل قبول ہے۔ البتہ خرم علی شفیق نے ان خیالات کا علامہ ندوی کے معروف خیالات سے تضاد بڑی محنت اورقابلیت سے ظاہر کیاہے۔ تاہم بعض اہل قلم کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف ادوار میں ان کی رایوں اور خیالات میں نمایاں تضاد پایا جاتا ہے؛ اس قسم کے ادیبوں میں محمد حسن عسکری مثالی حیثیت رکھتے ہیں جنھوں نے تضادبیانی کو ایک فن لطیف کے درجے پر پہنچا دیا۔ خلاصہ یہ کہ خطبات اقبال پر ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کا معاملہ ابھی حتمی طور پر طے ہوناباقی ہے؛ جیسا کہ خرم علی شفیق نے کہا ہے، علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کو چاہیے کہ معلوم کریں کہ یہ خیالات ان سے منسوب کیے جانے چاہییں یا نہیں۔ تاہم میری رائے میں جریدہ شمارہ ۳۳ میں شائع ہونے والے خیالات کا علامہ ندوی یا کسی اور سے انتساب واحد اہم یا اہم ترین نکتہ نہیں۔ جیساکہ خرم علی شفیق کہتے ہیں، اگر یہ علامہ ندوی کے ’’ملفوظات نہیں ہیں تب بھی یہ خیالات کسی نہ کسی کا نتیجہ ٔ فکر تو ہوں گے،‘‘ چنانچہ ان کا محاکمہ کیا جانا جائز اورضروری ہے، اور اکادمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے اپنے مخصوص زاویۂ نظر سے ایسا کیا بھی ہے۔ میں نے بھی اپنے مختصر مضمون ’’اجتہاد اور فیصلہ سازی‘‘ میں ان میں سے بعض نکات پر اظہارخیال کیا تھا۔ میرے نزدیک یہ بات بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے زیراہتمام (اور ملک کے شہریوں سے وصول کردہ ٹیکسوں کی رقم کے صرف سے) اس قسم کے افسوسناک اور دقیانوسی خیالات کی اشاعت کی جا رہی ہے۔ ۳ سہیل عمر کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں بلاتحقیق ان سے یہ منسوب کر دیا کہ انھوں نے شہادت دی ہے کہ اقبال نے رحلت سے پیشتر خطبات سے رجوع کر لیا تھا۔ یہ انتساب بھی میرا نہیں، مدیر جریدہ خالد جامعی کاہے، اور اس ضمن میں میں نے مذکورہ اقتباس سے اوپر کے پیراگراف میں جریدہ کے شمارہ ۳۴ کا حوالہ دیا ہے۔اپنا مضمون لکھتے وقت میں ’’خطبات اقبال‘‘ کے بارے میں سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے لاعلم تھا۔ اس کے شائع ہونے کے بعد سہیل عمر سے ای میل پر میری خط و کتابت رہی اور انھوں نے یہ تمام وضاحتی تحریریں، جو احیائے علوم کے شمارہ ۱۴ میں شائع کی گئی ہیں، پہلے ای میل کے ذریعے اور پھر اکادمی کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کی صورت میں، مجھے ارسال کیں۔میں نے جواباً ان کو اطمینان دلایا کہ اگر میں نے خالد جامعی کی شہادت پر بھروسا کر کے نادانستگی میں ان سے کوئی ایسی بات منسوب کر دی ہے جو انھوں نے نہیں کہی تھی تو مجھے اپنے الفاظ واپس لینے اور معذرت کرنے میں قطعی کوئی عار نہیں ہو گی۔ میں اپنے اس بیان پر اب بھی قائم ہوں ۔ آئیے اب دیکھیں کہ سہیل عمر ’’خطبات اقبال‘‘ کے بارے میں دراصل کیا رائے رکھتے ہیں۔ انھوں نے میری درخواست پر بڑی مہربانی سے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ (جسے انھوں نے اقبال اکادمی کے زیراہتمام شائع کیا ہے) مجھے فراہم کی۔ میں نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے پڑھا اوراسی دوران مجھے اکادمی کے رسالے اقبالیات اور بعض دوسری مطبوعات میں ’’خطبات‘‘ کے بارے میں اکادمی کے سابق ناظم پروفیسر مرزا محمد منور اور حالیہ نائب ناظم احمد جاوید کے خیالات سے بھی کسی قدر واقف ہونے کا موقع ملا۔ان مطالعات سے تاثر ملتا ہے کہ اکیڈمی کے یہ سابق اور موجودہ کارپردازان اقبال کے خطبات کے بارے میں کئی قسم کے تحفظات رکھتے ہیں، اور چند نامعلوم اسباب کی بنا پر ان کی کوشش رہتی ہے کہ اقبال کے خطبات کو ان کی شاعری کے مقابلے پر لایا جائے اور کسی طرح یہ جتایا جائے کہ خطبات ان کی شاعری کی بہ نسبت کم اہمیت کے حامل ہیں اور کہیں کہیں اقبال کے کام کے ان دونوں اجزا کے درمیان، ان حضرات کی فہم کے مطابق، نقطۂ نظر کا اختلاف پایا جانا بھی خارج از امکان نہیں۔یہ تاثر اس قسم کی باتوں سے ملتا ہے جن میں سے کچھ ذیل میں درج کی جا رہی ہیں: محمد سہیل عمر(’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘): ’’علامہ کی شاعری کا بیشتر حصہ آج بھی پہلے کی طرح قابل قدر، فکرانگیز اور پرتاثیر ہے جبکہ خطبات کا کچھ حصہ اب صرف تاریخی اہمیت کا حامل معلوم ہوتا ہے۔‘‘(صفحہ ۱۱)’’پہلا سوال جو اقبالیات کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے، یہ ہو گا کہ اصل چیز اقبال کا شعر ہے یا خطبات! شاعری کو اولیت حاصل ہے یا خطبات کو؟کیا خطبات ہمارے ادبی اور فکری سرمایے میں اسی جگہ کے مستحق ہیں جو شاعری کو حاصل ہے؟ اس بڑے سوال کے ساتھ ضمنی سوالات کی پخ بھی لگی ہوئی ہے کہ خطبات کے مخاطب کون تھے؟ اس کے موضوعات چونکہ متعین اور تحریر فرمائشی تھی نیز وسائل مطالعہ و تحقیق ۱۹۲۰۔۱۹۲۸ تک محدود تھے، لہٰذاشاعری کے آزاد، پائدار اور تخلیقی وسیلے کے مقابلے میں خطبات زمانے کے فکری اور سیاسی تقاضوں، معاشرتی عوامل، رجحانات، نفسیاتی ردعمل اور دیگر محرکات کے زیادہ اسیر ہیں ‘‘ (۱۲-۱۱) ’’یہاں ایک ضمنی سوال سر اٹھاتا ہے کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا؟‘‘ (۱۲)’’خطبات کے بعد علامہ لگ بھگ دس برس زندہ رہے اور مابعد کی شاعری اور دیگر نثری تحریروں میں انہی موضوعات پر اظہار خیال کرتے رہے جو خطبات سے متعلق تھے، لہذا خطوط اور مابعد خطبات کی شاعری کا تعلق خطبات سے طے کیے بغیر ہم علامہ کے پورے فکری تناظر میں خطبات کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتے۔ اسی بات پر ایک اور پہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے، علامہ کا فکری ارتقا یا مختلف مسائل کے مقابل ان کا موقف کہاں ظاہر ہوا ہے، شاعری میں یا خطبات میں؟بالفاظ دیگر ان کی شخصیت اور فکر کا زیادہ ارتقایاب میڈیم کون سا ہے؟ کیا وہی زیادہ قابل اعتبار نہ ہو گا؟‘‘ (۱۳)وغیرہ۔ احمد جاوید(ملفوظات بعنوان ’’اقبال—تصور زمان و مکاں پر ایک گفتگو‘‘، ضبط و ترتیب: طارق اقبال، ’’اقبالیات‘‘ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ئ): ’’اقبال کے کسی خاص تصور کا مطالعہ کرنے چلیں تو آغاز ہی میں ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، اور وہ یہ کہ ان کا ہر تصور شاعری میں بھی بیان ہوا ہے، اور ضروری نہیں کہ شاعری میں اُس کی وہی صورت پائی جائے جو خطبات وغیرہ میں ملتی ہے۔...بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں ان کا موقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ موقف کے الٹ ہے۔‘‘ پروفیسر محمد منور: ’’ہمیں تشکیل جدید ]خطبات اقبال[کی روشنی میں دور مابعد کے مکتوبات، بیانات، خطبات اور تصریحات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ ’فکراقبال تشکیل جدید کے بعد‘ ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔‘‘ (’’علامہ اقبال اور اصول حرکت‘‘، بحوالہ سہیل عمر، ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ ص ۱۵) جہاں تک خطبات کے بعد اقبال کی طرف سے مختلف موضوعات پر اپنے موقف سے مفروضہ رجوع یا اس پرنظرثانی کا تعلق ہے، خرم علی شفیق نے مرزا منور، خالد جامعی، علامہ ندوی (یا چلیے ان کے راوی ڈاکٹر غلام محمد) وغیرہم کے مفروضات و دعاوی کا بڑی خوبی سے سدباب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطبات کے بین الاقوامی ایڈیشن کے لیے متن کو اقبال نے خود حتمی شکل دی اور یہ ایڈیشن ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ ’’اگر رجوع وغیرہ کیا ہوتا تو اچھا موقع تھا کہ متن میں تبدیلی کرتے۔ انہوں نے لفظی ترامیم کے سوا کوئی تبدیلی نہ کی۔‘‘ اس سلسلے میں علامہ ندوی سے منسوب ایک بیان پر جس کا تعلق اقبال کے چھٹے خطبے میں شاہ ولی اﷲکی ’’حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ سے ایک عبارت کا حوالہ دینے سے ہے، خرم علی شفیق نے خاصی قائل کن بحث کی ہے۔ ان کے پیش کیے ہوے حقائق کا اطلاق اسی عبارت کے سلسلے میں سہیل عمر کے اس موقف پر بھی ہوتا ہے جو ان کی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ کے ضمیمہ ۳ کے طور پر شامل مضمون ’’سزا یا ناسزا‘‘ میں سامنے آتا ہے۔اس مضمون کے بارے میں قدرے تفصیل سے آگے بات ہوگی۔ لیکن ان تحریروں سے جن کے اقتباسات اوپر پیش کیے گئے، اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا کہ جب اقبال کے بے شمار پڑھنے والوں کو خطبات اور شاعری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا یا ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا ضروری محسوس نہیں ہوتا تو پھر اکادمی کے کارپردازان کو اس سلسلے میں بے تابی کیوں ہے۔غور کرنے پر یہ اندازہ کرنا ممکن ہے کہ خطبات میں اقبال کا اختیارکردہ موقف بیشتر مقامات پر ان حضرات کے سیاسی خیالات سے اسی طرح متصادم ہے جس طرح مذہب کی اس مخصوص (’’روایتی‘‘)تعبیر سے جس پر یہ حضرات عقیدہ رکھتے ہیں۔ان محترم ومقتدر ہستیوں کا سیاسی اور مذہبی نقطۂ نظر اپنی جگہ، لیکن اس سے یہ کیونکر لازم آیا کہ اقبال کے فکری اور فنی سرمائے کو صرف و محض اسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے اور جہاں کہیں دونوں میں اختلاف پایا جائے وہاں یا تو کسی تاویل کی مدد سے اقبال کے نقطۂ نظر کو جوں توں قابلِ قبول بنایا جائے (یعنی تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے) یا جہاں ایسا کرنا ممکن نہ دکھائی دے وہاں کسی اور ترکیب سے اقبال اکادمی کے موقف کو اقبال کے موقف پر فوقیت دی جائے؟ ۴ سہیل عمر کی تصنیف خطباتِ اقبال نئے تناظر میں ان کے ایم فل کے مقالے کا کتابی روپ ہے۔ اس تصنیف میں سہیل عمر نے خطبات اقبال کے مباحث کے تجزیے کی بنیاد مندرجہ ذیل تین مفروضات پر استوار کی ہے: (۱)پہلا مفروضہ یہ ہے کہ خطبات اقبال کے مخاطبین ایک خاص ذہنی پس منظر رکھتے تھے جو اقبال کے اپنے ذہنی پس منظر سے جدا تھا۔اس مفروضے کی تفصیل سہیل عمر کے الفاظ میں یہ ہے: ’’علامہ کے مخاطبین دوگونہ مشکلات کا شکار تھے۔ ایک طرف وہ صرف انہی مقولات (Categories) کے آشنا یا انہی مقولات کے قائل تھے جو حسیت پرستی (Empiricism) کے عملی پس منظر نے انہیں فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیات پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرۂ کار سے باہر وارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔‘‘ (ص۲۳) (یہاں میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ Empiricism کا ترجمہ ’’حسیت پرستی‘‘ محلِ نظر ہے اور اس طرزِ تحقیق پر ایک خاص طرح کا اخلاقی حکم لگانے کا قرینہ ہے جس کا قطعی جواز نہیں۔ ایک اور جگہ، صفحہ ۲۸ پر، وہ اسی اصطلاح کا زیادہ مانوس اور درست ترجمہ ’’تجربیت ‘‘کرتے ہیں۔ اس دورنگی کی مذکورہ تصنیف میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔)’’علامہ کے مخاطبین ادراک بالحواس کے اسیر ہیں۔‘‘ (۴۳)’’وہ وحی کے روایتی معنوں میں قائل نہیں ہیں اور جدید علوم کے تحت تشکیل پانے والے ذہن کے نمائندہ ہیں۔‘‘ (۴۸) ’’علامہ کے مخاطبین...اس معروضی اقلیمِ ربانی کے بارے میں طبقۂ متشککین سے تعلق رکھتے تھے...‘‘ (ص۵۳-۵۴)صفحہ ۹۵ پر انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اقبال ’’مخالف اور متشکک سامعین سے خطاب‘‘ کر رہے تھے۔ ان نہایت سنگین مفروضات (بلکہ الزامات) کے سلسلے میں کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی اور نہ کہیں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقبال کے خطبات کے سامعین کے بارے میں ان معلومات کا ماخذ کیا ہے۔اس سلسلے میں سہیل عمر نے دو مقامات پر خود اقبال کا درجِ ذیل بیان اقتباس کیا ہے، جس سے مذکورہ بالا مفروضات کی کسی بھی طرح تصدیق نہیں ہوتی۔ (صفحہ ۱۰ پر یہ اقتباس پیش کرتے ہوے وہ کہتے ہیں کہ ’’علامہ کے متعدد بیانات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک نمائندہ اقتباس دیکھیے۔‘‘ مفروضے کی سنگینی کا تقاضا تھا کہ ان متعدد بیانات کوسامنے لایا جاتا اور ان سے تشفی بخش شہادت حاصل کی جاتی کہ واقعی اقبال اپنے مخاطبین کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے۔اگر یہ واقعی ان متعدد بیانات کا نمائندہ اقتباس ہے تو اس سے اس کی ہرگز وضاحت نہیں ہوتی۔) صفحہ ۲۲ پر دوبارہ اسی اقتباس کو پیش کرتے ہوے سہیل عمر نے اپنی طرف سے یہ تبصرہ کیا ہے کہ اقبال کے مخاطبین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ (گویا ذہنی امراض!) سابقہ نسلوں سے مختلف تھے۔ بہرکیف، اقبال کے بیان کا پیش کردہ اقتباس دیکھیے: ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں، اور اس بات کے خواہش مند ہیںکہ فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنے خطبات کے ان مخاطبین کے بارے میں اس قسم کی کوئی منفی رائے نہیں رکھتے جیسی سہیل عمر رکھتے ہیں، اوروہ ان تعلیم یافتہ مسلمانوں کی خواہش کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس موضوع پر اپنے تجزیے کو خطبات کی صورت میں تحریر کر کے ان کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ دانشِ حاضر سے روشنی پانے والے ان جدید مسلمانوں کے اس خیال کو بھی قابلِ قبول پاتے ہیں کہ اس موضوع پر ’’پرانے تخیلات‘‘(گویا مذہبِ اسلام کی اس سے پہلے کی، یا روایتی، تعبیروں) میں خامیوں کا ہونا ممکن ہے، اور ان خامیوں کو رفع کیا جانا چاہیے۔ سہیل عمر نے اس بات کے حق میں کسی قسم کی کوئی دلیل یا شہادت پیش نہیں کی کہ اقبال کے خطبات کے ان سامعین کو کس بنا پر اقبال کے ’’مخالف‘‘ نقطۂ نظر کا حامل سمجھا جائے۔ انھوں نے اقبال کا ایک اور بیان ان کی اپنی ’’افتادِ طبع‘‘ کے بارے میں صفحہ ۲۲ پر پیش کیا ہے۔ (جس شے کو انھوں نے خطبات کے سامعین کے ’’ذہنی مسائل‘‘—گویا ذہنی امراض— قرار دیا تھا وہی شے اقبال کے معاملے میں ان کی ’’افتادِ طبع‘‘— گویا مجبوری — کے طور پر پیش کی گئی ہے۔اگر دونوں مقامات پر ان اصطلاحوں کو ’’نقطۂ نظر‘‘ سے بدل دیا جائے تو وہ تضاد یا تخالف غائب ہو جاتا ہے جسے سہیل عمر ان دونوں اقتباسات میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔) اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوے اقبال کہتے ہیں: میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں۔ اقبال کا یہ بیان ان خطبات میں ان کے طرزِاستدلال کو سمجھنے کی بہت اہم کلید فراہم کرتا ہے۔ اس بیان میں اس امر پر کسی قسم کی شرمندگی نہیں پائی جاتی کہ وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ؛وہ اسے ایک جائز طریق کار (یا منہاج) سمجھتے ہیں۔’’دانستہ یا نادانستہ‘‘ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی غلط بات نہیں۔ اقبال کے ان دونوں اقتباسات سے یہ نتیجہ غیرمبہم طور پر برآمد ہوتا ہے کہ ان کا نقطۂ نظر وہی ہے جو ان کے خیال میں ان کے مخاطبین کا ہے، اور اسی بنا پر خطبات اقبال کی ایک نہایت اہم اور بنیادی نوعیت کی فکری سرگرمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطبات کی تکمیل کے بعد کی پوری زندگی میں اقبال کے قول اور عمل سے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ اپنے ان خطبات کو اپنا ایک اہم اور بنیادی کام سمجھتے رہے اور ان خطبات کے مشمولات یا طرزاستدلال میں انھوں نے کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہ کی؛ اپنی وفات سے چار برس پہلے ان خطبات کا دوسرا، بین الاقوامی ایڈیشن مرتب کرتے ہوے بھی نہیں۔ (۲)سہیل عمر کے تجزیے کا دوسرا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ چونکہ اقبال اپنے مخاطبین کو اپنے مخالف نقطۂ نظر کا حامل سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے ان کے ’’ذہنی مسائل‘‘، ’’اشکالات اور فکری الجھنوں‘‘، ’’استعداد و افتادِ فکر‘‘ وغیرہ کی رعایت کرتے ہوے، استدلال کی غرض سے وہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے جو سہیل عمر کی رائے میں اقبال کے اپنے نقطۂ نظر سے مختلف بلکہ کہیں کہیں تو اس کی عین ضد ہے۔سہیل عمر ’’مصلحتِ وقت‘‘ کواقبال کے اس مفروضہ طریق کار کی اس کی ایک اور وجہ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا مفروضہ ہے اور سہیل عمر کی تصنیف کے متن کی حد تک کسی قسم کی بنیاد سے قطعی عاری ہے۔انھوں نے اس کے حق میں کوئی دلیل یا شہادت پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا؛ اقبال کا کوئی بیان ایسا نہیں پیش کیا جس سے اس مفروضے کا خفیف ترین جواز بھی نکل سکتا ہو۔ اس نہایت سنگین سقم کے ہوتے ہوے اسے اقبال کے بارے میں سہیل عمر کی بہت بڑی، اور بلاجواز، جسارت سمجھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس مفروضے کے تحت اپنی زیرِنظر تصنیف میں ان کا تجزیاتی طریق کار کچھ اس قسم کا دکھائی دیتا ہے: (الف) وہ اقبال کے خطبے سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں، اور اس کے بعد اس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔(ب) جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خطبے کے اقتباس میںسائنس، فلسفے یا مذہب کے زیربحث قضیے کی بابت ظاہر کیا گیا موقف خود سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے مختلف (بہت سے موقعوں پر متضاد) ہے تو وہ اپنے ہی قائم کردہ بلاجواز مفروضے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوے کہتے ہیں کہ دراصل اقبال کا اپنا نقطۂ نظر وہی تھا جو خود سہیل عمر کا ہے، اور مذکورہ اقتباس میں پیش کردہ موقف انھوں نے صرف ’’مصلحتِ وقت‘‘ یا مخاطبین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ کی رعایت سے اختیار کیا تھا۔سہیل عمر کا یہ طریق کار اس قدر ناقص، غیراطمینان بخش اور افسوسناک ہے کہ اسے درست یا جائز تسلیم کرناممکن ہی نہیں۔ یہ کچھ اس طرح کی بات ہے جیسے کہا جائے کہ اقبال سہیل عمر کے نقطۂ نظر کی موافقت میں دن کو سیاہ سمجھتے تھے، لیکن چونکہ ان کے مخاطبین ’’خوگرِ محسوس‘‘ ہونے کی وجہ سے یا مغربی تعلیم پانے کے باعث دن کو روشن دیکھنے کے عادی تھے، اس لیے اقبال نے مصلحت سے کام لیتے ہوے اپنے خطبے میں دن کو سفید قرار دے دیا۔ اب ہمیں چاہیے کہ خطبات میں جہاں جہاں دن کی صفت کے طور پر سفید کا لفظ آئے، اسے سیاہ سمجھیں۔ خطبات اقبال اور ان کے بارے میں اقبال کے قول و عمل سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کی نسبت ایسے معاملے میں جو ان کے فکری اور جذباتی وجود کے لیے اس قدر قریبی اہمیت رکھتا تھا، کسی قسم کی مصلحت پسندی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح انھیں مخاطبین کے کسی قسم کے ذہنی و نفسیاتی مسائل کے سلسلے میں ان کو تسکین پہنچانے کی قطعی کوئی مجبوری لاحق نہ تھی۔اس کے برعکس، وہ اپنے اس فکری عمل میں ان لوگوں کو شریک کرنا چاہتے تھے جو ان کا خیال تھا کہ اس شرکت کی اہلیت اور علمی تیاری رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ بات کہی: مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردوخواں دنیا کو شاید اس سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے (یا سننے والے) کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیرچارہ نہ تھا۔(ص۲۲) اردوخواں دنیا کو فائدہ نہ پہنچنے کی وجہ یہ نہیں کہ اردوخواں لوگ ان ’’ذہنی مسائل‘‘ سے آزاد ہیں جو سہیل عمر کے خیال میں اقبال کے مخاطبین کو لاحق ہیں؛ اس واضح بیان کی روشنی میں،وجہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک یہ لوگ،مغربی فلسفے کے پس منظر سے ناواقف ہونے کے باعث، ان مباحث کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے جن پر ان خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔ (۳)سہیل عمر کے تجزیے کا تیسرا بنیادی مفروضہ وہ ہے جسے انھوں نے صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،ڈاکٹر ظفرالحسن، کے اس خطبۂ صدارت سے اخذ کیا ہے جو اقبال کے چھ خطبات کے سلسلے کے اختتام پر پیش کیاگیا۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا خیال ہے کہ(الف) اقبال نے جو کام کیا ہے وہ ’’اسلام میں فلسفۂ دین کی تشکیلِ نویا، بالفاظ دیگر، ایک نئے علم کلام کی تخلیق‘‘ کا کام ہے۔ (ب) علم کلام کا کام یہ واضح کرنا ہے کہ حقائق دینی اور فلسفہ و سائنس میں کوئی عدم مطابقت نہیں ہے، اور (ج)ڈاکٹر صاحب سرسید کے ’’اصول تفسیر اور دیگر تحریروں‘‘کے حوالے سے کہتے ہیں کہ علم کلام کا یہ مقصددو طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے، اور اقبال کا اختیارکردہ طریقہ یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ’’مذہب جو کہتا ہے وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔‘‘ سہیل عمر اقبال کے اس مفروضہ طور پر اختیارکردہ طریق کار کو ’’اصول تطبیق‘‘ کا نام دیتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خطبات کے مباحث کو ڈاکٹر ظفرالحسن کی اسی رائے کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے یا دیکھا جانا چاہیے۔کہتے ہیں، ’’ڈاکٹر ظفرالحسن صاحب کے تبصرے سے یہ واضح ہوا کہ علامہ کا اختیارکردہ منہاج علم اصول تطبیق سے عبارت ہے۔‘‘ (ص۲۱) مزید یہ کہ: ’’ہم یہ دیکھیں گے کہ اصول تطبیق کو مطمحِ نظر بنا کر اور مقولات مسلمہ کو بنیاد بنا کر علامہ نے یہ کام کیسے انجام دیا۔‘‘ (ص۳۷) خطبات اقبال اپنے موضوع پر اتنا بنیادی نوعیت کا کام ہے اور اپنے محتاط اور کہیں کہیںپیچیدہ طرزِتحقیق و استدلال کے اعتبار سے اتنا عمیق کہ اسے مختلف زاویہ ہاے نگاہ سے پڑھا اور پرکھا جانا ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا اختیارکردہ زاویۂ نظر بلاشبہ خطبات کے مطالعے کاایک جائزطریقہ ہے لیکن واحد یا اہم ترین یا دیگر تمام طریقوں کو کالعدم کر دینے والا طریقہ ہرگز نہیں۔ سہیل عمر نے اپنی تصنیف میں اسی زاویۂ نظر کو اختیار کیا ہے، جو بلاشبہ ان کا حق تھا، لیکن وہ اسے قولِ فیصل یا حرفِ آخر کے طور پر پیش کرتے معلوم ہوتے ہیں اور پڑھنے والے کے لیے اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالحسن نے یہ خطبہ ٔصدارت اقبال کی موجودگی میں دیا تھا۔ اگر اقبال نے اس موقعے پر یا بعد میںان کے بیان کردہ زاویۂ نگاہ کی اپنے کسی بیان میں تائید کی ہوتو میں اس سے لاعلم ہوں۔ سہیل عمر نے بھی ایسا کوئی بیان پیش نہیں کیا جس سے اس کی بابت اقبال کی پسندیدگی یا ترجیح ظاہر ہوتی ہو۔سہیل عمر کا کہنا ہے کہ اقبال نے ’’اصول تطبیق کو مطمحِ نظر ‘‘ اور ’’مقولات مسلمہ کو بنیاد ‘‘ بنایا تھا، اور یہ دعویٰ دلیل یا شہادت کا محتاج ہے، جو فراہم نہیں کی گئی۔ اور جب اقبال کے اپنے بیانات اس زاویۂ نظر کی تردید کرتے دکھائی دیں تو اسے تسلیم کرنا اور بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ اقبال ان خطبات میں کیا کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا بیان قطعی غیرمبہم ہے: وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں، نہ کہ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے مغربی فلسفے کا۔اور میری رائے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ ان کا یہ طریق کارمذکورہ اصول تطبیق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید مغربی تعلیم سے روشنی پایا ہوا ذہن (جو خود اقبال کا ذہن ہے اور ان کے مخاطبین کا بھی)مذہب اسلام کے حقائق کو کس طرح سمجھ سکتا ہے، اور کیا اس جدید ذہن میں مذہب کے لیے گنجائش موجود ہے۔خطبات میں زیربحث آنے والے پیچیدہ سوالات سے نبردآزما ہو کر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مغربی فلسفے کی روشنی میں مذہب اسلام کو سمجھنا اور ماننا قطعی ممکن ہے۔ان کا استدلال متعدد مقامات پر ’’پرانے تخیلات‘‘سے متصادم ہے، اور ایسا ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ ان ’’پرانے تخیلات‘‘سے، ان کی ممکنہ خامیوں کے باعث،غیرمطمئن ہونے کے احساس ہی کے نتیجے میں اقبال کو حقائق اسلام کا جدید مغربی تعلیم کی روشنی میںمطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ خود سہیل عمر بھی خطبات میں پیش کیے ہوے استدلال کا تجزیہ کرتے ہوے اسے متعدد مقامات پر مذہب کے روایتی تصور (بقول اقبال ’’پرانے تخیلات‘‘) سے مختلف یا متصادم پاتے ہیں۔اس کا اظہار سہیل عمر کئی مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، مثلاً: ’’مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبدأ سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘ (ص۸۷)’’شعورِ مذہبی جو تقاضا رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان چونکہ قدرت مطلقہ نہیں رکھتا لہٰذا اس کا خالق قادر مطلق ہونا چاہیے۔ یہاں فکراستدلالی اور مذہبی شعور میں فرق واقع ہوتا ہے۔‘‘(ص۸۸-۸۹)’’یہ نکتہ اﷲ کے علم پر ایک تحدید عائد کرتا ہے اور شعور مذہبی اسے قبول نہیں کر سکتا۔‘‘ (ص۹۱)’’اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دعا کی معنویت اور جواز کا مندرجہ بالا بیان کس حد تک ہمیں اس تصور کے قریب لے جاتا ہے جو قرآن اور آثار نبوی سے ملتا ہے۔...اس ضمن میں پہلا فرق تو یہ نظر آتا ہے کہ اگرچہ عبادت و دعا کا دینی مفہوم بھی نتائجیت کا پہلو لیے ہوئے ہے تاہم اس کی عملی تاثیر اور نتائج اخروی نوعیت کے ہیں۔ علامہ نے نتائجیت کے پہلو پر زیادہ زور دیا ہے اور... ]قرآن کے[نصوص سے عبادت کے مقصود کا جو تصور ابھرتا ہے ]اسے[ مصلحتاً اجاگر نہیں کیا۔‘‘ (ص۹۵) ’’...وحی کے بارے میں قرآن میں جو نصوص ملتی ہیںان سے بھی وحی کے معروضی، موجود فی الخارج اور ماوراء طبیعی ہونے ہی کا مفہوم ملتا ہے۔ ان کے مقابلے میں علامہ کے الفاظ سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل اس صورت میں ممکن ہے کہ اسے سابقہ مقامات کی طرح سامعین کی رعایت کے لیے قریب الفہم اصطلاح کے استعمال سے تعبیر کیا جائے۔ ان کے سامعین حیاتیاتی علوم، سائنسی تصور اور جغرافیائی احوال سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی اس ذہنی افتاد اور عملی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت خطاب اور مصلحت تفہیم کی خاطر یہ اسلوب اختیار کیا گیا۔‘‘ (ص۱۳۸)’’شعورِ مذہبی‘‘ کے علاوہ سہیل عمر کے بیان میں ان کے روایتی اور اقبال کے غیرروایتی نقطۂ نظر کا فرق جابجا’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘ جیسے لفظوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہی ’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘، نیز ’’شعورمذہبی‘‘ سے اختلاف یا تصادم وغیرہ کے ذہنی مسائل ہیں جن کے سبب مثلاً احمد جاوید، نائب ناظم اقبال اکادمی، کو اقبال کے بعض بیانات نقل کرتے وقت ’’نعوذباﷲ‘‘ کہنا پڑتا ہے (موصوف کے کمالات کا قدرے تفصیلی ذکر آنے کو ہے)، اور انھی مسائل کا اظہار روایتی تصورِ مذہب کے حامل علما نے اقبال کی زندگی میں اور مابعد اپنی برافروختگی اور فتویٰ پردازی کی شکل میں کیا۔ جریدہ کے شمارہ ۳۳ میں خطبات اقبال پر جو تبصرے ڈاکٹر غلام محمد کی زبانی روایت کی سند پر علامہ ندوی سے منسوب کیے گئے، ان میں بھی یہی باتیں زیادہ غیرمصلحت بیں اوردوٹوک انداز سے کہی گئی ہیں۔خرم علی شفیق نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ اس قسم کے قدامت پرست ردعمل نے اقبال کو آخر تک تشویش میں مبتلا نہیں کیا اور وہ کسی بھی موقعے پر خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوے تھے۔سہیل عمر چونکہ ان حضرات کے برخلاف، بوجوہ، اقبال کے خیالات کی بابت نسبتاً نرم رویہ رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے تاویل کی یہ انوکھی راہ نکالی کہ اقبال کو اپنے بیان کردہ طرزِاستدلال سے پیدا ہونے والے ’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘ وغیرہ کا بخوبی احساس تھا، لیکن مصلحتِ وقت کے تقاضے اور مخاطبین کے ذہنی مسائل کے لحاظ نے انھیں یہ طرزِاستدلال اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ سہیل عمر کی نیک نیتی اور تاویل کا انوکھاپن اپنی جگہ، لیکن کسی دلیل کی غیرموجودگی میں اسے تسلیم کرنا ممکن نہیں۔ ۵ آئیے خطبات میںاظہار پانے والے اقبال کے نقطۂ نظر کے بعض ایسے نکتوں پر نظر ڈالیںجن سے سہیل عمر متفق نہیں ہیں اورجو جریدہ میں شائع کیے جانے والے ان اعتراضات کا بھی ہدف بنے ہیں جن کو علامہ ندوی سے منسوب کیا گیا ہے۔اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ان نکات پر کم و بیش ایک ہی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، فرق ہے تو بس جذبے کی شدت اور لفظوں کے انتخاب کا۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں سہیل عمر کی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ سے نقل کر رہا ہوں اور ہر انگریزی اقتباس کے آخر میںدیا گیا صفحہ نمبر بھی اسی کتاب سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے انگریزی عبارت کو اردو ترجمے پر ترجیح دی ہے کیونکہ میں نے اردو ترجمے کو بیشتر جگہوں پر اقبال کے انگریزی متن کے مقابلے میں گنجلک، اور بعض مقامات پر ناقص پایا۔ہر اقتباس کے بعد سہیل عمر کا تبصرہ درج کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اقبال کے نقطۂ نظر کی بابت اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں: Religious experience, I have tried to maintain, is essentially a state of feeling with a cognitive aspect, the contents of which cannot be communicated to others, except in the form of a judgement. Now when a judgement which claims to be the interpretation of a certain region of human experience, not accessible to me, is placed before me for my assent, I am entitled to ask, what is the guarantee of its truth? Are we in possession of a test which would reveal its validity.... Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intellectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean critical interpretation, without any presuppositions of human experience, generally with a view to discover whether our interpretation leads us ultimately to a reality of the same character as is revealed by religious experience.... In the lecture that follows, I will aply the intellectual test. (p-54-55) سہیل عمر: ’’سطوربالا میں مذکور امتحان اول کو اس طرح کے وجدان کے لیے قبول کیا جا سکتا ہے جسے ہم نے Psychic تجربات سے منسوب کیا تھا۔ لیکن اس امتحان کو اس ذات کے مشاہدے پر کیونکر لاگو کیا جا سکتا ہے جو ہرتجربے اور واردات سے بالا ہے۔ نیز اگر اس کسوٹی، اس آزمائش کو مشاہدۂ حق کا معیار مان لیا جائے تو Mystic اس وحی قرآنی پر ایمان کی ضرورت سے مستغنی ہو جائے گا جو آنحضرت پر نازل ہوئی کیونکہ اس پیمانے پر تو وہ براہ راست علم حق حاصل کرنے کی استعداد کا حامل قرار پائے گا۔‘‘ (ص۵۵) The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48) سہیل عمر: ’’اس دعا کی معنویت پر ہمیں ذرا غور کرنا ہو گا۔ نیز یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ نبی علیہ السلام کے عمیق ترین ایقان اور ایک عام آدمی کے ایمان کے مابین کیا فرق ہے: عام آدمی جو حصول یقین کی خاطراپنے ایمان کی عقلی بنیادیں تلاش کر رہا ہو۔ نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کسی عقیدے کی عقلی بنیادوں کی تلاش کسی معاشرے میں کب جنم لیتی ہے۔ (ص۴۸-۴۹) Plato despised sense perception which, in his view, yielded mere opinion and no real knowledge. How unlike the Qur’an, which regards hearing and sight as the most valuable Divine gifts and declares them to be accountable to God for their activity in this world. (p-50) اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے: ادراک بالحواس کے بارے میں افلاطون کا خیال قرآن سے متصادم ہے۔ وہ کہتے ہیں: He [Ghazali] failed to see that thought and intuition are organically related… (p-51) سہیل عمراس نکتے پر اقبال سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غزالی کے مطابق ’’وجدان بہ اعتبار کیفیت و نوعیت فکر سے مختلف نہیں ہے۔ فکر اپنے درجۂ کمال کو پہنچ کر وجدان میں ڈھل جاتی ہے۔‘‘ (ص۵۱) The heart is a kind of inner intuition or insight which, in the beautiful words of Rumi, feeds on the rays of the sun and brings us into contact with aspects of Reality other than those open to sense perception. It is, according to the Qur’an, something which sees; and its reports, if properly interpreted, are never false…. To describe it as psychic, mystical or supernatural does not detract from its value as experience. (p-53) سہیل عمرکا خیال یہاں بھی اقبال سے مختلف ہے۔’’قرآن میں ’فواد‘ یا ’قلب‘ کا لفظ بہت سی جگہ آیا ہے۔معانی کے کئی رنگ اس سے متعلق ہیں مگر ہماری سمجھ کے مطابق کہیں بھی اسے حقیقت اولیٰ کا علم حاصل کرنے والی ایسی استعداد کے معنی میں نہیں لایا گیا جو اس عمل میں کوئی فاعلی حیثیت رکھتی ہو۔‘‘ (ص۵۳) The problem of Christian mysticism alluded to by Professor James has been in fact the problem of all mysticism. The demon in his malice does counterfeit experiences wich creep into the circuit of the mystic state. As we read in the Qur’an: "We have not sent any Apostle or Prophet before thee among whose desires Satan injected not some wrong desire, but God shall bring to naught that which Satan has suggested. Thus shall God affirm His revelation, for God is Knowing and Wise." (22:25) (p-57) سہیل عمرکہتے ہیں: ’’اس استدلال پر کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ نذیر نیازی صاحب نے اپنے ترجمے کے حاشیے میں صاف لکھا ہے کہ ان کے خیال میں آیت مذکورہ بالا اس جگہ منطبق نہیں ہوتی۔‘‘ (ص۵۸) (نذیر نیازی کا خیال اپنی جگہ، لیکن کیا یہ اقبال کے ردمیں کافی دلیل ہے جن کا واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ یہ آیت اس جگہ منطبق ہوتی ہے؟ اس سے تو بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا موقف نذیر نیازی اور سہیل عمر سے مختلف ہے۔) All I mean to say is that the immediacy of our experience in the mystic state is not without a parallel. It has some sort of resemblance to our normal experience and probably belongs to the same category. (p-62) The interpretation that the mystic or the prophet puts on the content of his religious consciousness can be conveyed to others in the form of propositions, but the content itself cannot be so transmitted…(p-63) The incommunicability of mystic experience is due to the fact that it is essentially a matter of inarticulate feeling, untouched by discursive intellect. (p-63) Inarticulate feeling seeks to fulfil its destiny in idea, which, in its turn, tends to develop… out of itself its own visible garment. (p-64) سہیل عمر: ’’اگر اس خصوصیت پر زور دیا جائے تو وحی اور الہام کے درمیان امتیاز کی دیوار ڈھے جائے گی کیونکہ علامہ کے الفاظ میں ہر دو صورتوں میں تجربے کے حاصلات اور مافیہ کو منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی فکری تعبیر بصورت منطقی قضایا کا ابلاغ کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وحی نبوی کے الفاظ ربانی نہیں ہوتے بلکہ نبی کے اپنے ہوتے ہیں اور قرآن کے الفاظ براہ راست منزل من اﷲ نہیں ہیں۔‘‘ (ص۶۴) The infinity of the Ultimate Ego consists in the infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe ‘as known to us’ is only a partial expression. (p-85) From the Ultimate Ego only egos proceed…. Every atom of Divine energy, however low in the scale of esixtence, is an ego. (p-87) سہیل عمرکہتے ہیں: ’’یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظہورذات کا یہ عمل اس عمل خوددمیدگی سے کس طرح مختلف ہے جو اقلیم نامیات یا نموپذیر اشیا میں سامنے آتا ہے نیز یہ کہ اگر انائے مطلق کا ظہورپذیر ہونا اس کے عمل تخلیق کے مترادف ہے تو صفحۂ ہستی پر ظاہر ہونے والی ہر شے کا مبداء اور اصل اس انائے مطلق کی فطرت ہی ہو گا۔ اگر ہر انا ربانی اور قدسی ہے تو اس کا فعالیت کا ہر معلوم بھی ربانی اور قدسی صفت ہو گا: لیکن امرواقعہ یوں نہیں ہے۔ دوسری طرح دیکھئے تو صفحۂ ہستی پر صرف مظاہرخیر ہی نہیں بلکہ شر اور شیطان کے آثار بھی موجود ہیں۔ مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبداء سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘(ص۸۷) No doubt, the emergence of egos endowed with power of spontaneous and hence unforeseeable action is, in a sense, a limitation on the freedom of the all-inclusive Ego. But the limitation is not externally imposed. It is born out of His own creative freedom whereby He has chosen finite egos to be participators of His life, power and freedom. (p-89) سہیل عمر: ’’مگر اختیار یا آزادی مقولات مذہبی میں سے ایک ہے اور انسان کے اخلاقی اور مذہبی شعور کا جزو ہے اگر اس کو بے ساختہ اور ازخود فعلیت کا ہم معنی قرار دیا جائے تو اس کی معنویت جاتی رہے گی اس اعتبار سے تو پودے بھی جزواً آزاد اور جانور پوری طرح آزاد ہیں کیونکہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت حرکت نہیں کرتے بلکہ اندرونی داعیے سے متحرک ہوتے ہیں۔‘‘(ص۸۹) The spirit of all true prayer is social. (p-94) The Islamic form of association in prayer, therefore, besides its cognitive value, is further indicative of the aspiration to realize this essential unity of mankind as a fact in life by demolishing all barriers which stand between man and man. (p-95) سہیل عمر: ’’عبادت کی معنویت اس کی فی نفسہٖ اور بالذات قدروقیمت سے متعین ہونا چاہیے نہ کہ ان سماجی، نفسیاتی اور عملی نتائج سے جو اس کے ذیلی ضمنی اثرات تو شمار ہو سکتے ہیں مگر اس کا جواز وجود قرار نہیں دیئے جا سکتے۔‘‘(ص۹۵) A colony of egos of a lower order out of which emerges the ego of a higher order, when their association and interaction reach a certain degree of co-ordination. It is the world reaching the point of self-guidance wherein the Ultimate Reality, perhaps, reveals its secret, and furnishes a clue to its ultimate nature. (p-102) The Ultimate Ego that makes the emergent emerge is immanent in Nature. (p-102) سہیل عمر: ’’تخلیق کا تصور جو مذہب کا ایک جزو ہے وہ یہاں پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ارتقائے صدوری Emergent Evolution کو مل جاتی ہے۔ شعور مذہبی کے لیے آفرینش کا یہ نظریہ بہت وحشت انگیز ہے کیونکہ اس میں پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ اس سے انسان اور خدا کی غیریت اور دوئی مٹتی معلوم ہوتی ہے نیز تنزیہ پر زد پڑتی ہے ۔پھر یہ کہ شر اور خیر ایک کل کا جزو دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی قبول کرنا مشکل ہے۔ سوم یہ کہ یہاں غیرنامیاتی اور غیرذی حیاتinorganic سطح وجود سے انکار نظر آتا ہے جو امرواقعہ کے خلاف ہے۔‘‘(ص۱۰۲) A prophet may be defined as a type of mystic consciousness in which unitary experience tends to overflow its boundaries… (p-115) (p-117) Another way of judging the value of a prophet’s religious experience, therefore, would be to examine the type of manhood that he has created, and the cultural world that has sprung out of the spirit of his message. (p-116) سہیل عمر: ’’یہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اس استدلال کے منطقی نتیجے میں ولایت اور نبوت کا فرق اپنی اساس میں باقی نہیں رہتا۔...مسئلہ یوں اٹھتا ہے کہ نبوت کو اختباریت کی کسوٹی پر پرکھنا ایک مناسب بات ہو گی یا نہیں؟‘‘(ص۱۰۲) ’’اس عبارت میںنبی اور نبوت کے تصور کی تفہیم کے لیے اس کو نابغہ کی تشبیہ سے سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس لیے یہ مشکل پیدا ہوتی ہے بظاہر یہ تصورخدا سے منقطع لگتا ہے اور سماجی مصلح یا تخلیقی فنکار سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتا ہے اور اسے خدا کے حوالے کے بغیر بھی کائنات کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے۔‘‘ (ص۱۱۷) The way in which the word wahy (inspiration) is used in the Qur’an shows that the Qur’an regards it as a universal property of life; though its nature and character are different stages of the evolution of life. (p-117) سہیل عمر: ’’اس عبارت سے پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ لیا جا سکتا ہے کہ وحی فوق الطبیعی اور عالم غیب کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک کاملاً طبعی مظہر ہے۔...ایک اصطلاح شرعی جو شعورمذہبی کا لازمہ ہے اور معروضی حقیقت کے طور پر مذہب کے امرواقعہ ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ سابقہ صفحات میں بیان کردہ تصور وحی کا اس تصور سے منطبق ہونا مشکل نظر آتا ہے۔‘‘ (ص۱۱۸) The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur’an and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality. (p-119) (p-121) سہیل عمر: ’’...حکومت کو وراثت سے مشروط کسی بھی دین اور تمدن نے تسلیم نہیں کیا۔ البتہ موروثی شہنشاہیت کو یکے از امکانات کے طور پر قبول کیا ہے یا پھر مظاہرزوال میں اس نے غلبہ کر لیا ہے۔ خود اسلام کی تاریخ میں جو ایک طویل سلسلہ ملوکیت نظر آتا ہے وہ اسی امکان کا وقوع درتاریخ ہے۔ اسے رد کرنے سے ہمیں اپنی تاریخ کو رد کرنا ہو گا اور اس سے ان گنت مسائل پیدا ہو جائیں گے۔‘‘ (ص۱۲۲-۱۲۳) لفظ ’’ملوکیت‘‘ کے استعمال کی وضاحت کے طور پر حاشیے میں کہتے ہیں: ’’یہ لفظ بعض مصنفین کی تحریروں میں ایک منفی اور تحقیری مفہوم کا حامل بن کر ابھرا ہے۔ ہم اسے اس کے لغوی معنی میں برت رہے ہیں اور اس سے صرف ایک طرزحکمرانی کی شناخت مقصود جانتے ہیں جو اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔‘‘ (ص۱۳۱) The world-life intuitively sees its own needs, and at critical moments defines its own direction. This is what, in the language of religion, we call prophetic revelation. It is only natural that Islam should have flashed across the consciousness of a simple people untouched by any of the ancient cultures, and occupying a geographical position where three continents meet together. (p-135) سہیل عمر: ’’اس اقتباس میں جو لفظ World Life استعمال کیا گیا ہے ...یہ اصطلاح ایک الٰہ شخصی پر ایمان کو مستلزم نہیں ہے۔ اس میں ایک طبیعی تصور کی جھلک ملتی ہے جس سے مذہب مظاہر طبیعی میں سے ایک چیز معلوم ہونے لگتا ہے اور عام انسانی تجربے کی سطح پر آ کر حیاتیاتی تصورات کے قبیل میں سے محسوس ہونے لگتا ہے۔‘‘ (ص۱۳۶) ۶ اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے جزوی یا کلی طور پر رجوع کرنے پر آمادہ تھے یا نہیں، یہ بحث بہت سے لوگوں نے مختلف موقعوں پر اٹھائی ہے۔ پروفیسر مرزا منور کی رائے خود سہیل عمر نے (تائید اور تحسین کے انداز میں)درج کی ہے کہ ’’علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ ’فکراقبال تشکیل جدید کے بعد‘ ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔‘‘ یہ مستقل کتاب میری معلومات کے مطابق اب تک نہیں لکھی گئی،اس لیے اس کے مفروضہ نتائج کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں، البتہ خرم علی شفیق کے مضمون میں اس موضوع پر خاصی بحث ملتی ہے جس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اقبال کی فکر ترقی پا کر مرزا منور، خالد جامعی وغیرہم کی سطح تک نہیں پہنچی تھی (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی ترقی کو اصطلاحاً ’’ترقیِ معکوس‘‘ کہا جاتا ہے) اور ان کے خیالات آخردم تک وہی رہے جو انھوں نے خطبات میں بیان کیے تھے۔اس مضمون کے جز ۴ میں شاہ ولی اﷲ کی ’’حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ کے اس اقتباس کے معاملے کا تجزیہ کیا گیا ہے جو اقبال نے اپنے خطبۂ اجتہاد میںپیش کیا تھا۔ جریدہ میں علامہ ندوی سے منسوب تبصروں میں اس معاملے کا جو ذکر آتا ہے، اسے خرم علی شفیق نے ’’رجوع کی ایک اور فینٹسی‘‘ کے تبصرے کے ساتھ یوں نقل کیا ہے: شاہ ولی اﷲ کے نام سے غلط حوالہ پیش کرنا ایک ایسے خطبے میں جسے علما کی نظر سے گزرنا تھا بڑی جرأت کی بات تھی۔ ماجد صاحب نے اس غلطی کو بھی واضح کیا تھا لیکن مرحوم پر یہ غلطی اس وقت واضح نہ ہو سکی۔ جب اقبال مرحوم پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور امت کے اجماع کے برعکس رائے دی گئی ہے اور دلیل بھی محرف ہے تو وہ دل گرفتہ ہوئے۔ مجھ سے خط و کتابت کے ذریعے استفسار کیا۔دوسرے علما سے بھی رجوع کیا۔ خطبات پر نظرثانی کا وعدہ کر لیا لیکن مہلت نہ ملی۔اقبال مرحوم کے مسودات میں نظرثانی شدہ عبارتیں مل سکتی ہیں۔ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، صفحہ۳۶) خرم علی شفیق کہتے ہیں کہ اس موضوع پر علامہ ندوی سے اقبال کی مراسلت میں اس ’’دل گرفتگی‘‘ کا کوئی شائبہ نہیں ملتا، بلکہ ’’پہلے اجتہاد پر خطبہ دیا تھا، اب پوری کتاب لکھنے کا ارادہ ہے، اور یہ وفات سے صرف بیس مہینے قبل کی بات ہے۔...وہ نظرثانی کا وعدہ کب کیا؟ خطبات کے مباحث سے اقبال کا رجوع ایک ...فینٹسی ہے...‘‘ (ص ۳۷) عجب اتفاق ہے کہ سہیل عمر کی کتاب کے آخر میں ضمیمہ ۳ کے طور پر شامل ان کے مضمون ’’سزا یا ناسزا‘‘ میں اقبال کے اسی خطبے میں شاہ ولی اﷲسے منسوب اسی اقتباس کا کم و بیش اسی انداز میں ذکر آیا ہے جس انداز میں علامہ ندوی سے منسوب مندرجہ بالا تبصرے میں۔(فرق صرف اتنا ہے کہ جس شے کو مندرجہ بالا اقتباس میں ’’دل گرفتگی‘‘ کہا گیا اسے سہیل عمر اقبال کے ’’تحیر‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ باقی مضمون واحد ہے۔)دونوں کی اطلاع یہ ہے کہ اقبال نے مذکورہ اقتباس شبلی کی ’’الکلام‘‘ سے لیا تھا۔ سہیل عمربتاتے ہیں کہ ’’شبلی نے جو عبارت الکلام میں درج کی اور جسے علامہ نے اپنے استدلال کے لیے شبلی کے بھروسے پر بنیاد بنایا اس میں اور شاہ ولی اﷲ کی اصل عبارت میں اختلاف ہے۔‘‘ (ص۲۰۱) آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ اقبال نے شاہ ولی اﷲ کی اس عبارت کو اپنے خطبے میں کس طرح استعمال کیا ہے۔ موضوع زیربحث یہ ہے کہ مذہبی روایات (احادیث نبوی)کے کون سے حصوں کا تعلق قانونی معاملات سے ہے اور کن کا قانون کے سوا دیگر معاملات سے۔ قانون سے متعلق روایات میں سے بعض ایسی ہیں جو قبل از اسلام زمانے میں عرب میں مروج تھیں اور جنھیں جوں کا توں اسلامی روایت میں شامل کر لیا گیا۔اقبال شاہ ولی اﷲ کی عبارت کا اپنے الفاظ میں خلاصہ پیش کر کے اس نتیجے پر پہنچتے ہیںکہ جرائم کی سزاؤں سے متعلق روایات کو، جو عرب قوم کی عادات اور حالات کے مطابق تھیں، جوں کا توں اختیار یا نافذ کیا جانا مناسب نہیں۔ سہیل عمر کہتے ہیں کہ اقبال نے شاہ ولی اﷲ کی مذکورہ عبارت کو ’’اپنے استدلال کے لیے...بنیاد بنایا۔‘‘ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ شاہ ولی اﷲ کا ذکر آنے سے پہلے کے جملوں میں وہ اپنا یہ نقطۂ نظر بیان کر چکے ہیں کہ دونوں قسم کی روایات میں فرق کیا جانا ضروری ہے،یعنی دونوں قسم کی روایات کو نافذیا اختیار کرنے میں ایک جیسی سختی مناسب نہیں ۔شاہ ولی اﷲ کی عبارت کو اقبال نے دلیل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے نقطۂ نظر کی ایک "illuminating" وضاحت کے طور پر استعمال کیا ہے۔خطبات میں کسی بھی جگہ کسی اسلامی یا مغربی شخصیت کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا گیابلکہ اقبال نے ہر قول کواپنی دانش کے مطابق پرکھ کر یہ طے کیا ہے کہ وہ اس سے کس حد تک اتفاق یااختلاف رکھتے ہیں ۔شاہ ولی اﷲ کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال کرنا، خود سہیل عمر کے مذکورہ بالا مفروضات کی رو سے بھی، ناموزوں معلوم ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیے، اقبال جن لوگوں سے مخاطب ہیںوہ آپ کے خیال کے مطابق ’’وحی کے وجود یا اس کے ممکن ہونے کے بارے میں ہی متشکک‘‘ (ص۱۸۳)ہیں، اور قرآنی نصوص تک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے؛ پھر بھلاشاہ ولی اﷲ کا قول ان کے لیے استدلال کی بنیاد کیونکر بن سکتا ہے؟شاہ ولی اﷲ سے منسوب عبارت کا خلاصہ اقبال نے اس بنا پر اپنے خطبے میں استعمال کیا ہے کہ وہ ان کے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ خرم علی شفیق نے علامہ ندوی کے نام اقبال کے ۷ اگست ۱۹۳۶ء کے خط کا حوالہ دیا ہے جس میں اقبال انگریزی زبان میں ایک کتاب تحریر کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے کہتے ہیں: ’’اس کتاب میں زیادہ تر قوانینِ اسلام پر بحث ہو گی کہ اس وقت اسی کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ اگراقبال کا موقف اسلام میں شامل قانونی روایات کو(یعنی مثلاًان سزاؤں کو جنھیں ہمارے یہاں بعض لوگ غلط فہمی میں ’’اسلامی سزائیں ’’یا ’’شرعی سزائیں‘‘ کہتے ہیں) جوں کا توں نافذ کرنے کے حق میں ہوتا تو یہ موقف تو ’’پرانے تخیلات‘‘ میں پوری وضاحت سے بیان کردہ موجود ہی تھا، اس پر بحث کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی؟ صاف ظاہر ہے کہ اقبال کا موقف یہ تھا کہ ان سزاؤںکا تعلق عرب کی قبل از اسلام روایات سے تھا جنھیں، اس ’’خاص قوم کی عادات اور حالات کی بنا پر‘‘، اسلامی روایات میں قائم رکھا گیا تھا اور دیگر قوموں اور دیگر حالات میں ان کو جوں کا توں نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔اور خرم علی شفیق کی بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اپنے اس موقف میں آخر تک ترمیم نہ کی۔(اقبال کے علاوہ شبلی بھی اسی رائے کے معلوم ہوتے ہیں۔) سہیل عمر کا موقف اقبال سے متضاد ہے، جیساکہ خطبات کے دیگر متعدد مقامات پر ہے، جو کوئی عجیب بات نہیں۔ پاکستان میں یہ بحث نئے سرے سے اس وقت شروع ہوئی جب جنرل ضیاء الحق کے دوراقتدار میں، جسے پاکستانی عوام کی بہت بڑی تعداد (ایک موقف کے مطابق اکثریت) غاصبانہ آمریت کا دور سمجھتی ہے، وہ عمل شروع کیا گیا جسے اسلامائزیشن کانام دیا جاتا ہے۔اس عمل میں ان سزاؤں کا نفاذبھی شامل تھا، جوایک غیرنمائندہ اور غیرمنتخب اقتدار کے زور پر، کسی مذہبی، آئینی یا اخلاقی اختیار کے بغیر کی گئی قانون سازی تھی، جسے بہت سے لوگ مذہب کی ایک مخصوص تعبیر کو پاکستانی عوام پر ان کی مرضی کے خلاف، یا کم از کم ان کی آزادانہ مرضی معلوم کیے بغیر، زبردستی مسلط کرنے کا عمل سمجھتے ہیں۔ ان قوانین سے پاکستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد (یااکثریت) سخت اختلاف رکھتی ہے اور ان کو منسوخ کرنے کے حق میں ہے۔جدید دور میںاجتہاد کے پوری طرح اہل مجتہد کے طور پراقبال کا موقف بھی اس موجودہ عوامی موقف کی واضح طور پر تائید کرتا ہے۔ سہیل عمر اور ان کے ہم خیال حضرات کو اس کے مخالف موقف پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے، لیکن انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے موقف کو متفق علیہ قرار دیں جبکہ دوسرے موقف کی موجودگی اور جمہورامت کی اس کے لیے حمایت کسی ابہام کے بغیر عیاں ہے، اور یہ حق بھی حاصل نہیں کہ تاویل کے ذریعے سے اقبال کو اپنے موقف کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کریں جبکہ اقبال نے اپنے خطبے میں اپنا موقف کسی ابہام کے شائبے کے بغیر بیان کر دیا ہے۔سہیل عمر کا کہنا ہے: شاہ صاحب کے پورے فکری تناظر میں یہ سوال تو اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اور اقوام و ملل کی رنگارنگی اور تنوع کے روبرو اسلام کی شرعی سزاؤں کو باقی رکھا جائے یا تبدیل کر دیا جائے؟ یہ سوال ہمارے اقبال شناسی کے حلقوں کا ہو تو ہو، شاہ صاحب کا نہیں ہے۔ (۲۱۲) دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ سہیل عمر اقبال شناسوں کے ساتھ اقبال کو بھی شامل کرتے، کیونکہ یہ سوال ان کا بھی ہے۔اوراس سوال پر غور کرنے کے بعد اقبال اس غیرمبہم نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان سزاؤں کو نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ سوال شاہ ولی اﷲ کا ہے یا نہیں، اس نکتے کا تعلق مذکورہ عبارت کے انتساب سے ہے۔ سہیل عمر کے خیال میں اقبال کی بیان کردہ عبارت کو شاہ ولی اﷲ سے منسوب کرنا درست نہیں۔ لیکن یہ بھی متفق علیہ موقف نہیں۔ جن اہلِ رائے حضرات سے سہیل عمر نے اس سلسلے میں استصواب کیا، ان میں سے کئی ایک نے دستیاب شہادتوں کی روشنی میںیہ رائے دی کہ شبلی نے شاہ ولی اﷲ کے موقف کی جو ترجمانی کی ہے وہ درست ہے اور اقبال نے اگر شبلی کی تعبیر کو اختیار کیا ہے تو ٹھیک کیا ہے۔سہیل عمر کا کہنا ہے کہ شاہ ولی اﷲ کے فکری تناظر میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا؛ بعض دوسرے اہل علم حضرات کا کہنا ہے کہ شاہ ولی اﷲ کا مقصودکلام وہی ہے جو شبلی اور اقبال نے بیان کیا۔ بحث کے تیسرے نکتے کے طور پر اپنے مضمون میں سہیل عمر اس بات کے حق میں بحث کرتے ہیں کہ اقبال شاہ ولی اﷲ سے اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے خطبے پر نظرثانی کرنا چاہتے تھے، لیکن ’’علامہ کی حیات نے اس خطبے کے ترجمے کی نظرثانی یا اصل متن کی نظرثانی شدہ اشاعت مکرر تک وفا نہ کی۔‘‘ (ص۲۱۶) بہرکیف، اقبال نے ممکن ہے خطبے کا متن تیار کرتے وقت شاہ ولی اﷲ کی کتاب کا اقتباس شبلی کی ’’الکلام‘‘ سے لیا ہو، لیکن بعد میں (خرم علی شفیق کی تحقیق کے مطابق ۱۹۲۹ء میں) انھوں نے علامہ ندوی کے نام خط میں لکھا تھاکہ ’’شاہ ولی اﷲ کی کتاب بھی نظر سے گزر گئی ہے۔‘‘ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، ص۳۶) سہیل عمر مزید کہتے ہیں: ’’علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس میں یہ عبارت وارد ہوتی ہے اپنی اولین شکل میں ۱۹۲۴ء کے لگ بھگ تصنیف ہوا۔ موجودہ شکل میں ۱۹۲۸ء میں تیار کیا گیا۔‘‘ (خطبات اقبال نئے تناظر میں،ص۲۱۶) ’’بہرکیف ۱۹۲۸ء تک کی تحقیقات اور مجموعۂ معلومات کی بنیاد پر جو نتائج فکر مرتب ہوئے انہیں علامہ نے لکھ دیا اور دیگر خطبات کے ہمراہ یہ خطبہ بھی حیدرآباد اور بعد ازاں علی گڑھ میں پیش کیا گیا۔پھر یہ خطبات طباعت کے مرحلے سے بھی گذر گئے۔‘‘ (ص۲۱۸) ’’گزر گئے‘‘یوں تو بات کہنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن اس سے گمان ہوتا ہے کہ خطبات طباعت کے مرحلے سے (غالباً اپنے اندرونی داعیے پر) یوں گزر گئے جیسے احیائے علوم اس مرحلے سے دبے پاؤں گزر جاتا ہے اور مدیر کو کانوں کان خبر نہیں ہونے پاتی! یایہ کہ خطبات اقبال کے علم، مرضی یا اجازت کے بغیر شائع کر دیے گئے تھے۔تاہم، دستیاب شہادتوں سے ایسا اندازہ نہیںہوتا۔یہی نہیں، بلکہ خرم علی شفیق نے اطلاع دی ہے کہ ۱۹۳۴ء میں خطبات کا بین الاقوامی ایڈیشن اقبال کی نہ صرف مرضی سے بلکہ ان کی نگرانی میں شائع ہوا۔اس کے بعد اس قیاس آرائی (خرم علی شفیق کے الفاظ میں ’’فینٹسی’’) کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اقبال اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اس پر، یا اس موضوع کے بارے میں اپنے موقف پر، نظرثانی کرنا چاہتے تھے۔ ۷ ’’خطبات اقبال‘‘ پر علامہ ندوی سے منسوب تبصروں پر اقبال اکادمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے بھی اظہارخیال فرمایا ہے۔ اس اظہارخیال کی ترکیب استعمال کو ان سے منسوب مضمون کے آخری پیراگراف میں یوں بیان کیا گیا ہے: ان امالی کے بنیادی اعتراضات پر جو تبصرے کیے گئے ہیںوہ بھی فی البدیہہ ہیں انہیں اسی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جائے۔ باقاعدہ تحقیقی جواب لکھنے کے لیے وقت بھی زیادہ چاہیے تھا اور تحریر میں طوالت بھی پیدا ہو جاتی اس لیے اس کی نوبت نہیں آئی ۔ ویسے بھی یہ اعتراضات علمی انداز میں نہیں کیے گئے۔ ان پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب تھا۔(احیائے علوم،شمارہ ۱۴، صفحہ۲۶) نائب ناظم موصوف کی ابتدائی وجہِ شہرت چند برس پیشتر کی وہ گفتگو تھی جو انھوں نے اپنے دو عدد مرعوب مداحوں، آصف فرخی اور قیصرعالم، کے ساتھ فرمائی تھی اور جس کا موضوع تینوں محوگفتگوحضرات کے سابق پیرومرشدمحمد حسن عسکری کے کمالات تھے۔ (اس گفتگو کے غیرمدون متن کو الٰہ آباد کے مرحوم رسالے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیا گیا تھا، لیکن جب اس گفتگو کے غیرمہذب لہجے اور اوٹ پٹانگ نفس مضمون پر دو غیرمرعوب نقادوں مبین مرزا اور صابر وسیم نے سختی سے گرفت کی تو اس متن کو پاکستان میں شائع کرانے کا ارادہ مصلحتاً ٹال دیا گیا۔اس گفتگوکو پاکستان میں اب تک شائع نہیں کرایا گیا ہے۔) معلوم ہوتا ہے بے تکان زبانی گفتگونے احمد جاوید کے اظہارذات کے اصل اسلوب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اقبال اکادمی کے جریدے اقبالیات میں احمد جاوید کے ملفوظات شائع کیے جاتے ہیں۔جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں یہ ملفوظات ’’اقبال–تصورزمان ومکاںپر ایک گفتگو‘‘ کے عنوان سے شامل ہیں اور ان کے ’’ضبط و ترتیب‘‘ کا سہرا کسی طارق اقبال کے سر باندھا گیا ہے جو یا تو اکادمی میں نائب ناظم کے ماتحت ہونے کی وجہ سے بندگی بیچارگی کے شکار ہوں گے یا پھر موصوف کے مریدوں میں شامل ہوں گے، جن کی تعداد میں اس وقت سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جب سے انھوں نے ٹیلی وژن کے ایک تجارتی چینل پر وعظ فروشی کا دلچسپ مشغلہ اختیار کیا ہے۔(یہ مشغلہ علمائے حق کے اس واضح فیصلے کے باوجود اختیار کیا گیا ہے کہ ٹیلی وژن دیکھنا اور اس پر جلوہ افروز ہونا قطعی حرام ہے، اور اس مشغلے سے ہونے والی آمدنی رزقِ حرام کی تعریف میں آتی ہے۔ حوالے کے لیے ملاحظہ کیجیے مولانا یوسف لدھیانوی کی تصنیف ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل۔‘‘) قدرت اﷲ شہاب کے مبینہ خلیفہ اشفاق احمد کے گزر جانے کے بعد ٹیلی وژن کے مہااُپدیشک کی یہ پُول (slot) خالی پڑی تھی، جس میں نائب ناظم نے خود کو بخوبی دھانس لیا (جاے خالی را دیو می گیرد) تاکہ انٹرٹینمنٹ کے رسیا ناظرین کی لذت اندوزی کے تسلسل میں خلل نہ پڑے۔ ان مواعظ کے درمیان واقع ہونے والے تجارتی وقفوںمیں ناظرین کو دیگر فروختنی اشیا خریدنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ خیر، جب انٹرٹینر اور انٹرٹینڈ دونوں فریق اس سودے سے خوش ہیں تو ہمارا آپ کا کیا جاتا ہے۔ رہا نائب ناظم موصوف کا ایمان، تو اس کاذکر ہی کیا، رہا رہا نہ رہانہ رہا۔ اوپر کے اقتباس کی روشنی میں عسکری اور اقبال کی مثالوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ احمد جاویدجس موضوع کو ’’غیرعلمی انداز‘‘ کا حامل خیال فرماتے ہیں اس پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات کم و بیش ہر موضوع پر صادق آتی ہے۔ اس طرزعمل کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ ملفوظات کا متن شائع ہونے پر کوئی اعتراض سامنے آئے تو صاحب ملفوظات بڑی آسانی اور بے نیازی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو زبانی گفتگو تھی جو کسی تیاری اور حوالوں کی موجودگی کے بغیر کی گئی تھی، اور اسے اسی طرح پڑھا جانا چاہیے جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس امر کی حکمت بہت سے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ مناسب تیاری کے ساتھ معروف تحقیقی اسلوب میں اظہار خیال سے اجتناب کیوں ضروری ہے۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دانش و علامگی کا فی البدیہہ وفور اس قدر منھ زور ہے کہ کاغذ اور قلم اس کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ پھر موصوف کی پاٹ دار آواز اور پاٹے خانی لہجہ خود ان کے کانوں کواس قدربھانے لگا ہے کہ نالے کوذرا دیر کے لیے بھی سینے میں تھامنا ان کے لیے قریب قریب ناممکن ہو گیا ہے۔(گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوشِ گفتگو۔)علاوہ ازیں اس سے اپنی ذات کے بارے میں موصوف کے فرضی تصور کی تصدیق ہوتی ہے کہ کسی اونچی جگہ پر بیٹھے فانی انسانوں کے اشکالات کو اپنی بے مہار گفتگو سے رفع کیے چلے جا رہے ہیں۔(بقول اقبال:اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی) اپنے اس تصور کی غمازی ان کے فقروں میں اختیارکردہ لہجے سے جابجا ہوا کرتی ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ اقبالیات کے محولہ بالا شمارے میں ’’استفسارات‘‘کے عنوان سے ایک گوشہ قائم کیا گیا ہے جس میں علامہ احمد جاوید کے سامعین اقبال کی شاعری کے بارے میں اپنے استفسارات و اشکالات پیش کرتے ہیں اور پھر موصوف کے جوابات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (حسنِ اتفاق سے طارق اقبال اپنے تہہ کیے ہوے زانوے تلمذ، یا بقول یوسفی زانوے تلذذ،کے ساتھ یہاں بھی موجود ہیں۔) ذیل کی مثالیں نائب ناظم کی گفتگو پر مبنی اسی متن سے لی گئی ہیں: ’’یہ سوال اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اس کے ذریعے سے شعرفہمی کے بعض ضروری قاعدے سامنے آ جائیں گے۔ کچھ باتیں نمبروار عرض کی جا رہی ہیں، ان پر غور فرمالیں، تو یہ مسئلہ بلکہ اس طرح کے دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔‘‘ (ص۲۴۰) ’’آئیے آپ کے اشکالات کی طرف چلتے ہیں۔‘‘ (۲۴۳) اقبالیات کے اسی شمارے میں نائب ناظم نے اقبال کے ایک شارح خواجہ محمد زکریا کی تفہیم بال جبریلکی ’’اغلاط اور نقائص‘‘ پر گرفت اور خواجہ صاحب کے مفروضہ اشکالات کو رفع کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ لہجہ بدستور پاٹے خان سے مستعارہے: ’’پہلے خواجہ صاحب کی عبارت یا اس کا خلاصہ انھی کے لفظوں میں نقل کیا جائے گا اور پھر تبصرہ کے عنوان سے اس فہرست کے مشمولات کو کھولا جائے گا۔ اس کے بعد فرہنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن پیشتر اس کے اس عمل کا باقاعدہ آغاز کیا جائے، مناسب ہو گا کہ ایک آدھ بات شعر کی تشریح و تفہیم کے اصول و آداب کے حوالے سے عرض کر دی جائے۔‘‘ (ص ۱۴۵)’’امید ہے اب یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اس شعر کے بارے میں یوں کہنا چاہیے...‘‘ (ص۱۶۷)۔وغیرہ۔ لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ لہجہ صرف پروفیسر خواجہ محمد زکریا اور طارق اقبال جیسے لوگوں کے سلسلے میں اختیار کیا جاتا ہے۔باعثِ تخلیقِ اقبال اکادمی—یعنی اقبال— کا بھی ذکر ہو تو اندازگفتگو ویسا ہی مربیانہ، بلکہ سرپرستانہ رہتا ہے۔ موصوف اپنے ملفوظات میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’سرِدست ہم اپنی توجہ اسی نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہِ تناقض کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اور جہاں تک کیوں کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔‘‘ (ص۱۰۶) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے، ’’پیام مشرق میں اقبال نے ابلیس سے اپنا دفاع اسی پوچ اور بے اصل دعوے اور استدلال پر کروایا ہے...‘‘ (ص۱۵۹-۱۶۰) بال جبریل کی غزل کے شعر (اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی/خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا) کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے: ’’میں خود اس شعر کی تشریح اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے یہ شعری اعتبار سے معمولی اور فکری اعتبار سے غلط اور قابل اعتراض لگتا ہے۔...اس شعر میں بنیادی طور پر یہی کہا گیا ہے جو میں نے نعوذباﷲ پڑھ کر لکھا۔‘‘ (ص۱۵۸)بال جبریل ہی کی ایک اور غزل کے شعر (باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں/ کارجہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر) کے متعلق فرماتے ہیں: ’’...یا تو خدا کو انتظار کروانے والی تعلّی پر ڈھنگ سے گرفت کی جانی چاہیے تھی یا اس کی کوئی ایسی تاویل ہونی چاہیے تھی کہ پڑھنے والا گستاخی کے تاثر سے نکل آتا...‘‘ (ص۱۶۹)یوں تو نائب ناظم کی گفتگو غیرارادی مزاح کے نمونوں سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اٹی ہوئی ہوتی ہے، لیکن اس شعر کے ذکر میں انھوں نے دانستہ مزاح پیدا کرنے کی بھی کوشش فرمائی ہے: ’’‘کارِجہاں کی درازی‘ کاوہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو چاندرات کو خیاطوں کے ذہن پر چھایا ہوتا ہے...‘‘ (ص۱۶۹) اسی غزل کے ایک اور شعر (روزِحساب جب مرا، پیش ہو دفترِ عمل/آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر) پر اپنے مچان کی اونچائی سے خواجہ ذکریا کو ڈپٹتے ہوے فرماتے ہیں: ’’اﷲ کا ندامت محسوس کرنا اﷲ کو نہ ماننے والے کے دماغ میں بھی نہیں آ سکتا۔ اس انتہائی فضول غلطی میں کچھ دخل اس شعر کا بھی ہے لیکن باقی کارنامہ شارح کا ہے۔‘‘ (ص۱۷۰) محمد حسین آزاد کے اسلوب میں کہا جائے تو احمد جاوید کا پیشہ خوداطمینانی ہے اور تعلّی و مشیخت سے اسے رونق دیتے ہیں۔ انا کے گیس بھرے غبارے کا دھاگا چٹکی میں تھام کر وہ جس اونچائی پر جا پہنچے ہیں وہ انھیں فلکِ ہشتم معلوم ہوتی ہے جہاں سے پروفیسر زکریا، محمد حسن عسکری، مبین مرزا، صابر وسیم اور باقی سب بندگانِ خدا انھیں حشرات الارض سے بیش دکھائی نہیں دیتے۔(بقولِ اقبال،’’زیروبالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے‘‘اور ’’غرورِ زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو/کہ بندگانِ خدا پر زباں دراز کرے‘‘) حد تو یہ ہے کہ اقبال سے بھی وہ یوں خطاب فرماتے ہیں جیسے طارق اقبال سے مخاطب ہوں۔ اب نائب ناظم کویہ تنبیہ کرنا تو ان کے پیرومرشد کا فرض ہے کہ صاحبزادے، نیچے اتر آئیے، گر پڑے تو خواہ مخواہ پاؤں میں موچ آ جائے گی۔لیکن اُن حضرت نے اِنھیں ٹی وی پر اداکاری کرنے کے فعل ِحرام سے نہ روکا تو ان سے اپنے برخودغلط مرید کی بہی خواہی کی بھلا کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ کیاعجب کہ احمد جاوید کے ہاتھوںان کے سابق پیرومرشد عسکری کی درگت دیکھ کر انھوں نے موصوف کو نصیحت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو، کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے پہنچے ہوے مرید کی طرح یہی رائے رکھتے ہوں کہ اقبال اکادمی کے نائب ناظم کا درجہ (نعوذباﷲ) اقبال سے بڑھ کر ہے۔ ٰٰحقیقت یہ ہے کہ احیائے علوم کے شمارہ ۱۴اور اقبالیات کے جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شامل احمد جاوید کے فرمودات پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ اکادمی کا دستورِ زباں بندی اقبال کو اسی حد تک اپنی بات کہنے کی آزادی دیتا ہے جہاں تک وہ اکادمی کے کارپردازان سے متفق ہوں۔ اس حد کو پار کرنے پر انھیں جلالی نائب ناظم کی جھڑکی سننی پڑتی ہے کہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی ہے، یا ان کا ’’شعر جس مضمون پر مبنی ہے وہ نرا شاعرانہ ہے اور عرفانی روایت سے باہر کی چیز ہے۔‘‘ (اقبالیات،ص ۱۷۱) گویا اقبال اکادمی نہ ہوئی عرفانی روایت اکادمی ہو گئی کہ اقبال کی نثرونظم کا جتنا حصہ نام نہاد عرفانی روایت سے باہر ہے وہ اکادمی کی اقبال شناسی کے دائرے سے بھی باہرر ہے گا۔ نائب ناظم اس سے بالکل بے نیاز ہیں کہ عرفانی روایت کی جس محدود، تنگ نظر اور متنازعہ فیہ تعریف کوانھوں نے اپنی بیعت کے نتیجے میں اپنی قید بنا رکھا ہے، اس کی پابندی کسی اور پر، یہاں تک کہ اقبال پر بھی لازم نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نائب ناظم کو اپنی ذاتی رائے، خواہ وہ کتنی ہی احمقانہ، بے بنیاداور اقبال دشمن کیوں نہ ہو، رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل نہیں؛ عبرت کا مقام تو یہ ہے کہ یہ بات زور دے کر کہنی پڑ رہی ہے کہ اقبال اکادمی کے تنخواہ دار عمال کے مقابلے میں اقبال کو بھی تو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔اگر اقبال شناسی کی اصطلاح کا وہی مطلب ہے جو اس کے لغوی معنوں سے سمجھ میں آتا ہے، تو یہ عمل اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے کہ اپنے اردو اور فارسی کلام، خطبات، اور دیگر تحریروں میں اقبال نے اپنا جو ’’نرافکری‘‘ اور ’’نرا شاعرانہ‘‘ اظہار کیا ہے، اسے اس کے درست پس منظر میںسمجھنے کی کوشش کی جائے، اور اس پر ریاست کی پالیسی یا نائب ناظم وغیرہ کے تنگ نظر، دقیانوسی اور قطعی غیرمتفق علیہ مذہبی و سیاسی نظریے کو ٹھونسنے کی کوشش سے باز رہا جائے۔دوسری صورت میں اس عمل کے لیے اقبال شناسی کے بجاے اقبال تراشی کی اصطلاح زیادہ موزوں ہوگی۔ احمد جاوید اپنی ایک خلقی معصومیت کے باعث بھی اقبال کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ حقائق کو دریافت کرنے، گہرائی میں جاننے اور درست تناظر میں سمجھنے کی جو تڑپ اور جستجو اقبال کی تمام تحریروں میں، بشمول شاعری اور خطبات،نمایاں طور پر پائی جاتی ہے، وہ موصوف کو بالکل اسی طرح کورا چھوڑ دیتی ہے جیسے مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر رہتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ انھیں تجسس کی خصوصیت سے منزہ پیدا کیا گیا ہے۔ (بقول اقبال،’’دردِ استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں/جستجوئے رازِقدرت کا شناسا تو نہیں‘‘) ان کے خیال میں نام نہاد عرفانی روایت میں ہر چیز کا جواب پہلے سے فراہم کر دیا گیا ہے اور تمام حقائق گویالفافوں میں بندموصوف کے سامنے سلیقے سے چنے ہوے رکھے ہیں۔ جب کبھی کوئی سوال(یانائب ناظم کی مرغوب اصطلاح میں ’’اشکال‘‘) سر اٹھاتا ہے، موصوف فال نکالنے والے طوطے کی سی مستعدی سے متعلقہ لفافے تک پہنچتے ہیں اور اسے کھول کر نہایت خوداطمینانی کے ساتھ اقبال (یا طارق اقبال) کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں کہ زیربحث شعر یا قول سے بذریعۂ تاویل یہ نکتہ متبادر ہوتاہے کہ سوئی کی نوک پر ڈھائی فرشتے بیٹھ سکتے ہیں جبکہ عرفانی لفافے میں پونے تین کی تعدادلکھی ہوئی آئی ہے، چنانچہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی، مگر نہ اتنی شدید کہ...وعلیٰ ہذالقیاس۔ نہ صرف یہ حکم لگانا نائب ناظم کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ اقبال کا کون سا ’’نرا شاعرانہ‘‘ مضمون، یا خطبات وغیرہ میں بیان کردہ ’’نرا خطیبانہ‘‘موقف، نام نہاد عرفانی روایت کے اندر یا باہر ہے، بلکہ یہ فیصلہ بھی وہ چٹکی بجاتے میں کر دیتے ہیں کہ اس کا تعلق حقیقت کے مروجہ عرفانی درجوں میں سے کس درجے سے ہے اور اس کی روشنی میں اقبال وغیرہ کے اعتقادات قابل قبول قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ایسا جناتی ’’منہاج‘‘ رکھنے والے نائب ناظم سے یہ توقع کرنا نادانی ہو گی کہ وہ لفافوں کے حلقے سے باہر نکل کر اقبال کے فکری اور شاعرانہ کارنامے کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جس کی بنیاد ہی اقبال کے وجود کی یہ بے قراری تھی کہ وہ بنے بنائے فرسودہ جوابی لفافوں (یا ’’پرانے تخیلات‘‘)کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور اپنے عہد کے بڑے سوالوں سے نبردآزما ہو کران کے تخلیقی جواب وضع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس عمل میں انھیں بہت سے لکیرالدین فقیروں کے اعتراضات اور فتووں وغیرہ کابارہاسامنا ہوا، جنھیں اقبال نے کبھی اہمیت نہ دی۔ احمد جاوید،ہماری آپ کی بدقسمتی سے، نائب اقبال شناس کے سرکاری عہدے پر فائز ہو گئے ہیں، لیکن ان کا اصل مقام انھی معترضین اور فتویٰ پردازوں کے درمیان ہے جو اقبال کی زندگی میں بھی اپنے فضول کام میں لگے رہے اور بعد کے دور میں بھی۔ ان حضرات کی سمجھ میں اقبال کی وہ سادہ سی بات آنے سے رہی جو انھوں نے اپنی نظم ’’زہد اور رندی‘‘ میں بیان کی ہے (اس نظم کا متن آگے پیش کیا جا رہا ہے) اور جسے کشورناہید نے اپنے لفظوں میں یوں کہا ہے کہ ریش مبارک کی لمبائی چوڑائی اور دبازت کا سخن فہمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ علامہ ندوی سے منسوب اعتراضات کا بزعم خود جواب دیتے ہوے، کئی مقامات پر احمد جاوید کا موقف معترض کے موقف کے نہایت قریب جا پہنچتا ہے، اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فروعی اختلافات کے باوجود دونوں حضرات اس پر متفق ہیں کہ اقبال کی آزادفکر کے بارے میں فیصلہ ’’پرانے تخیلات‘‘ہی کے تنگ دائرے میں رہ کر صادرکرنا ہے۔فکرِ ا قبال کی رواں دواں آبجو کو اپنے تنگ خیال نقطۂ نظر کے لوٹے میں بند کرنے کی بے سود مگر پرجوش کوشش دونوں حضرات میں مشترک دکھائی دیتی ہے۔ نمونے کے طور پرعلامہ نائب ناظم کے چند ارشادات دیکھیے: انھوں نے مغرب کو اسلام پر غالب نہیں کیا بلکہ اسلام کو مغرب کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کی اور یہ دکھایا کہ اسلام سے پیدا ہونے والی فکر مغرب کے اسلوب حصول سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ گو کہ میری ذاتی رائے میں مذہبی فکر میں اس طرح کی تطبیق کا عمل ہمیشہ مضر ہوتا ہے اور اس کا ضرر خطبات اقبال میں بھی جابجا نظر آتا ہے ۔ جب ہم دو مختلف چیزوں میں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں فریق ثانی یعنی جس سے تطبیق دینا مقصود ہے لامحالہ مرکزی اور غالب حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔ اسلام اور مغرب میں تالیف و تطبیق کا کوئی بھی عمل مغرب کی مرکزیت اور یک گو نہ فوقیت کے اثبات پر ختم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴،ص۱۰) اپنے فلسفہ حرکت کے بیان میں اقبال جب خدا کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس میں کئی الجھنیں سر اٹھاتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی غلطی قاری کو یہاں تک نہیں پہنچاتی کہ وہ یہ باور کر سکے کہ اقبال یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ معاذ اللہ خدا یعنی خالق بھی مسلسل تخلیق ہو رہا ہے۔(ص۱۱) عصرِ حاضر میں زندگی کے تمام شعبوں میں رونما ہونے والے مظاہر ترقی کو حیات اجتماعی کی فلاح کے اسلامی اصول تک پہنچنے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ اس عمل میں انہیں مغرب یا جدیدیت سے تصادم مول لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اس کی وجہ سے کچھ ناہمواریاں تو یقینا پیدا ہوتی ہوں گی لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ اقبال کے دینی افکار مغربی فلسفے سے ماخوذ ہیں یا انھوں نے مغربی خیالات کو اسلامی لباس پہنا دیا۔(ص۱۱) جہاںتک اجتہادِ مطلق کا معاملہ ہے اس میں اقبال سے غلطی ہو ئی۔ اس غلطی کی شدت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھیں کہ اقبال کے ہاں اجتہاد مطلق اپنے حالات کے موافق دین کو ایک بالکل نئی تعبیر دینے کے لیے ہوتا ہے ۔ اقبال کے ہاں اجتہاد کا دائرہ محض قانونی امور پر محدود نہیں رہتا بلکہ شریعت کی ان قوتوں اور مصلحتوں کا بھی احاطہ کرتا ہے جن کی بنیاد پر مسلم تہذیب متشکل ہوتی ہے۔(ص۱۲) اس پورے تصور]جمہوریت[ میں فقط ایک چیز ایسی ہے جو محفوظ نہ رہے تو انتشار کاموجب بن سکتی ہے اور وہ ہے رائے دینے کی اہلیت، جس کا اثبات مخالف رائے رکھنے والا بھی کرے۔ اقبال نے اپنے اس خیال میں اس نقطے کو ملحوظ نہیں رکھا کہ یہاں محض عددی اکثریت کافی نہیں ہے بلکہ اصحاب الرائے کی اکثریت درکار ہے۔ جسے مرجوع قرار پانے والی اقلیت بھی رائے دینے کا اہل مانتی ہو۔ (ص۱۴) حرکت اور ارتقاء پر اقبال کا یقین بعض مواقع پر ایسی جذباتیت میں بدل جاتا ہے جو آدمی کو اپنی ہی بات سے برآمد ہونے والے فوری نتائج سے بھی غافل کر دیتی ہے حیاتیاتی ارتقاء اور تاریخی حرکت کے تصورات کو یک جان کر کے دین کی حقیقت کے بارے میں چند کلی نوعیت کے مفروضے وضع کر لینا، اقبال کا مزاج تھا۔(ص۱۵) اقبال کے اس قول میں کچھ خطرات اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں کہ ان سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ (ص۱۵-۱۶) دینی زندگی کمال وجامعیت کے منتہا پر ایمان (Faith) کی قدر اعلیٰ پر استوار ہوتی ہے۔ یہ استواری جب کمزور پڑنے لگتی ہے تو فکر (Thought) بنیادی قدر بن جاتی ہے فکر ایمان کو اپنی خلقی منطق کے مطابق جب تصور سازی اور تعقل کے عمل سے گزارنے میں عاجز ہو جاتی ہے تو یہ چند ان گھڑ تخیلات کی اساس پر ایک ایسا نظام محسوسات پیدا کر لیتی ہے جو حواس کے دائرہ فعلیت سے باہر نکل سکنے کا امکان باور کروا دیتی ہے۔ فکر تھک ہار کر تخیل بن جاتی ہے اور تخیل ظاہر ہے کہ محسوسات میں واقع ہونے والے التباس کا منبع ہے۔...گویا اقبال جس کو ترقی کہہ رہے ہیں وہ اصل میں ایمان کی دست برداری کا نام ہے۔ فکر اور تجربے کے حق میں ۔... اقبال کی پوری بات میں ایک اور خطرہ یہ بھی پوشیدہ ہے کہ وہ]کذا[ ماہیت ذہن یعنی انفعال کو ایمان کے سائے سے نکال کر تجربیت کے تحت لانا پڑتا ہے۔ (ص۱۶) علم نفسیات کے بعض غیر ضروری اثرات کی وجہ سے اقبال نے نبی اور وحی کو بھی اپنے زمانے میں مروج نفسیاتی تجزیے کا موضوع بنا لیا اور اس اصول کو نظر انداز کر دیا کہ وحی کی تنزیل اور نبی کا اسے وصول کرنا کوئی تجربہ نہیں ہے بلکہ واقعہ ہے۔(ص۱۷) اقبال کے یہاں Ego یا Selfکا تصور بعض اخلاقی اور نفسیاتی کمالات کے باوجود انسان اور خدا کے بارے میں ان مذہبی تصورات سے اصلاً متصادم ہے جن پر آج تک کی مذہبی فکر متفق چلی آ رہی ہے۔ (ص۱۸) وہ ]معترضِ اقبال[اگر یہ پوزیشن اختیار کرتے کہ مذہبی زندگی اور اس کے کمالات کی تحقیق کا یہ انداز خود دین کے متعین کردہ کمالات بندگی سے مختلف ہے اور اس سے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی دین داری کم تر درجے پر نظر آتی ہے، تو ایک بات بھی تھی۔(ص۱۹) ان کا تصور انفرادیت بالکل غیر روایتی ہے اور ایک حد تک ان کے مطالعہ مغرب کا نتیجہ ہے۔ اقبال انسانی انفرادیت کے حدود میں ایسی رومانوی توسیع کر دیتے ہیں کہ بعض مقامات پر آدمی اور خدا کا امتیاز ایک رسمی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔(ص۲۱) ان کا تصور خدا بہرحال لائق اعتبار نہیں ہے اور بعض ایسے نتائج تک پہنچا دیتا ہے جہاں خدا کو ماننا محض ایک تکلف لگتا ہے۔ علامہ کے نظام الوجود میں انسان مرکزی کا شور اتنا زیادہ ہے کہ خدا کی آواز دب جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا ہونا انسانی وجود کی تکمیل ایک ذریعہ ہے اور بس۔(ص۲۲) ذاتِ الٰہی اور ذاتِ انسانی، یا الوہی ذاتیت اور انسانی ذاتیت کے تقابل کی ہر جہت میں اقبال جن نتائج تک پہنچتے ہیں، وہ مابعد الطبیعیات کی منطق پر پورے نہیں اترتے۔ اور ان مباحث سے بننے والی فضا میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔...ذات یا انا کے مقولے کو مدار بنا کر اقبالؒ نے خدا اور انسان کے تقابل کی جو فضا ایجاد کی ہے اس میں انسان تو اپنی انفرادیت ثابت کر دیتا ہے لیکن خدا کی انفرادیت دب کر رہ جاتی ہے۔(ص۲۲) مذہبی یا روحانی واردات میں نفس کی شمولیت سے جو حسی وفور پیدا ہو جاتا ہے، اقبال اسے حقیقت کے علم یا تجربے کی قابل قبول اساس تصور کر لیتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان کا انہماک یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ وہ حسی، نفسی،روحانی حسی کہ تنزیل وحی کے تجربے کو اصلاً ہم نوع قرار دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ہماری رائے میں اس سنگین غلطی کا بڑا سبب ان کے تصور خودی میں پوشیدہ ہے۔(ص۲۴-۲۵) جنت و دوزخ احوال ہیں نہ کہ مقامات‘۔ ۔۔ اور ’حیات بعد الموت ہر انسان کا استحقاق نہیں ہے‘۔۔۔ اقبال کے یہ تصورات ظاہر ہے کہ قرآنی محکمات سے متصادم ہیں۔ (ص۲۶) ایک مقام پر تو نائب ناظم موصوف نے حد ہی کر دی۔ فرماتے ہیں: یہاں ہم بھی مجبور ہیں کہ اقبال کی مدافعت کے ارادے کے باوجود ہاتھ کھڑے کر دیں۔(ص۲۲) احمد جاوید کے مرشدِمعزول عسکری اگر زندہ ہوتے تو شاید اس قسم کا فقرہ چست کرتے کہ ’’ذراآپ کو دیکھیے اور آپ کے ارادے کو دیکھیے!‘‘ لیکن خرم علی شفیق تو بحمداﷲ بقیدحیات ہیں اورکہہ ہی سکتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسا تاثر ملتا ہے گویا نائب ناظم کی مدافعت اقبال کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ شاعرِ مشرق کے مقام پر بھی ٹھہر نہ پاتے۔ خرم علی شفیق نے اس قسم کے طرزِعمل کی مثال کے طور پرلاہور کی مسجد وزیرخاں کے خطیب دیدار علی کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا تھا۔’’اس میں اقبال کے خلاف ایسے دلائل پیش کیے جن کے بعد کم سے کم ایک عام مسلمان کی نظر میں اقبال کا ایمان مشکوک ہو جانا چاہیے تھا...نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اقبال کو اپنے دفا ع میں کچھ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی، خواص اور عوام نے خطیب دیدار علی صاحب ہی کو رد کر دیا۔‘‘ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، ص ۲۹) خود اقبال نے ان جانے پہچانے فتویٰ پرداز کرداروں کے بارے میں ایک پرلطف نظم ’’زہد اور رندی‘‘کے عنوان سے لکھی تھی جو بانگ درا میں شامل ہے اور احمد جاویدپر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ آئیے اس نظم کا ایک بار پھر لطف اٹھائیں: اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی مَنشی کا کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادانی کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی لبریز مئے زُہد سے تھی دل کی صراحی تھی تہہ میں کہیں دُردِ خیالِ ہمہ دانی کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا اقبال، کہ ہے قمریِ شمشادِ معانی پابندیِ احکامِ شریعت میں ہے کیسا؟ گو شعر میں ہے رشکِ کلیمِ ہمدانی سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی ہے اس کی طبیعت میں تشیّع بھی ذراسا تفضیلِ علی ہم نے سنی اس کی زبانی سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے بے داغ ہے مانندِسحر اس کی جوانی مجموعۂ اضداد ہے، اقبال نہیں ہے دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفقانی رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے تادیر رہی آپ کی یہ نغزبیانی اس شہر میں جو بات ہو، اڑ جاتی ہے سب میں میں نے بھی سنی اپنے احباّ کی زبانی اک دن جو سرِ راہ ملے حضرتِ زاہد پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی فرمایا، شکایت وہ محبت کے سبب تھی تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے یہ آپ کا حق تھا زرہِ قربِ مکانی خم ہے سرِ تسلیم مرا آپ کے آگے پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت پیدا نہیں کچھ اس سے قصورِ ہمہ دانی میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واﷲ نہیں ہے اس قسم کے مئے زہدسے سرشار اور دُردِ خیالِ ہمہ دانی سے معمور کرداروں کو پاکستانی ٹیکس گذاروں کے خرچ پر اقبال شناسی کی ذمے داری سونپ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے پریس برانچ کے چودھری محمد حسین کا ماہانہ وظیفہ عوامی خزانے سے باندھ کر انھیں منٹو شناسی پر مامور کر دیا جائے۔لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اقبال اکاد می کے عمال کو جو کام دراصل سونپا گیا ہے وہ اقبال شناسی کانہیں بلکہ اقبال تراشی کاہے، یعنی یہ کہ کاٹ پیٹ کر انھیں ریاستی اور عرفانی روایت کے سانچے میں کچھ اس طرح فٹ کیا جائے کہ اقبال کے پاکستانی پڑھنے والے ان کی شاعری اور نثر کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اور یہی وہ سرکاری طور پر تراشا گیا بے ضرراقبال ہے جس کی مدافعت کا ارادہ اکادمی کے نائب ناظم باندھتے اورکھولتے رہتے ہیں۔ سرکاری نوکری کی انھی نزاکتوں کا کرشمہ ہے کہ وہ اقبال کے خلاف اپنی مرغوب عرفانی روایت کی رو سے خاصے سنگین اور بنیادی نوعیت کے عتراضات کرنے کے باوجود، اور ان کے متعدد غیرمحتاط خیالات پر نعوذباﷲ،استغفراﷲ اور لاحول ولا پڑھتے رہنے کے باوجود، اقبال کے ایمان کے بارے میں صاف صاف کوئی فتویٰ جاری کرنے سے باز رہتے ہیں اورمحض ان کے اعتقادات کے بارے میں شکوک پیدا کرنے اور ان کی مفروضہ لغزشوں پر ناشائستگی سے انھیںسرزنش کرتے رہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ عرفانی روایت کا لوٹا اٹھا کر موصوف بھی ظروف بردارفتویٰ پردازوں کی لمبی قطار میں لگ گئے تو اس سے اقبال کا تو کچھ بگڑنے سے رہا،الٹا اکادمی کی طرف سے ہر پہلی تاریخ کو ملنے والالفافہ ہاتھ سے جاتا رہے گا اور اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محض ٹیلی وژن کی اداکاری کے اکلِ حرام پر انحصار کرنا پڑے گا۔ ۸ اقبال اکادمی کے سابق ناظم مرزا منور نشان دہی کرتے ہیں کہ اقبال کی فکر خطبات تک پہنچ کر رک نہ گئی تھی۔ موجودہ ناظم سہیل عمر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ اقبال کا مقام تو خیر جو کچھ بھی ہوتا،یہ بات یقینی ہے کہ اگرانھوں نے خطبات نہ لکھے ہوتے تو اقبال اکادمی کے کارپردازان کی زندگی زیادہ آسان ہوتی اور وہ رات کو اس فکر میں پڑے بغیر چین کی نیند سویا کرتے کہ خطبات میں اختیارکردہ واضح فکری طریق کار، اور استدلال کے ذریعے وضع کیے ہوے غیرمبہم اجتہادی نتائج کی اہمیت کو کس طرح کم کر کے پیش کیا جائے کہ اقبال کا نقطۂ نظرریاست کی سیاسی پالیسی اور قدامت پرست مذہبی نظریے سے ہم آہنگ دکھائی دینے لگے۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو ایک بڑے شاعر اور اسلامی نظریات کے مفکر اوراجتہاد کی بے مثال صلاحیت رکھنے والے مجتہد کے طور پر اپنے مقام اور اس کی ذمے داریوں کی تو آگاہی تھی، لیکن انھیں اس کا گمان تک نہ تھا کہ بعدازمرگ انھیں ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے تسلیم شدہ سرکاری شاعر و مفکر کے (قطعی غیرشایانِ شان) عہدے پر تعینات کیا جانے والا ہے جس کے تقاضے اور مصلحتیں ان کی اختیارکردہ ذمے داریوں سے قطعی مختلف، بلکہ بعض مقامات پر متضاد ہوں گی۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اقبال اکادمی وغیرہ کو انھیں اس بعدازمرگ وضع کردہ سانچے میں فٹ کرنے میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور ان عمال کے دل میں یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش اقبال نے اپنے ناخواندہ مقام اور ان حضرات کی نوکریوں کا خیال کرتے ہوے کسی قدر احتیاط کا ثبوت دیا ہوتا۔ بدقسمتی سے اقبال نے ایسا نہیں کیا، چنانچہ ان دقتوں کواپنے پیشے کی مشکلات کے طور پر قبول کر کے انھوں نے ان دقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے چند دلچسپ طریقے وضع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جو سہیل عمر نے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ میں اختیار کیا، اور جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کسی طرح شاعری کو خطبات کے مدمقابل ٹھہرایا جائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ ان کی شاعری سے، تشریح و تعبیر کی مدد سے ایک ایسا نقطۂ نظر برآمد کیا جا سکتا ہے جو خطبات میں سامنے آنے والے نقطۂ نظر سے مختلف اور قابلِ ترجیح ہے۔جو لوگ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں ان کا ذکر سہیل عمر نے اس طرح کیا ہے:’’ان کی عام دلیل یہ ہے کہ خطبات سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہار کا نمونہ ہیں اور شاعری اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر۔یہ لوگ وہ ہیں جو شاعری پڑھنے یا سمجھنے کے اہل ہی نہیں...اس رویے کا نتیجہ شعرفراموشی ہی ہو سکتا ہے، اور یہی ہوا بھی ہے۔‘‘(ص۱۲) میں نہیں جانتا کہ یہ کن لوگوں کا ذکر ہے، کیونکہ سہیل عمر نے یہ بات کسی شخص کا نام لیے یا کوئی حوالہ دیے بغیر لکھی ہے۔ تاہم ان نامعلوم افراد کے دفاع میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شاعری پڑھنے یا سمجھنے کی اہلیت ایسی چیز نہیں جس کا اقبال اکادمی کے باہر پایا جانا ممکن نہ ہو،لیکن سہیل عمر کے اس بیان میں ایک مغالطہ ایسا ہے جس کی تردیدضروری ہے۔ خطبات کو ’’سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہارکا نمونہ‘‘ قرار دینے کا یہ مطلب کہیں سے بھی نہیں نکلتا کہ ’’شاعری کو اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر‘‘ٹھہرایا جا رہا ہے۔ شاعری میں بعض جگہ شاعر کے غیرمبہم نقطۂ نظر کو پالینا ناممکن نہیں ہوتا۔اقبال کی شاعری میں جابجا مختلف اہم معاملات پر ان کا نقطۂ نظر بھی صراحت سے سامنے آتا ہے جس کی موجودگی میں ان کی فکر پر اس سے متضاد نقطۂ نظر سے حکم لگانا ممکن نہیں رہتا۔ چند مثالیں دیکھیے جو کسی خاص کوشش کے بغیر چنی گئی ہیں: تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی رہنے دو خم کے سر پہ تم، خشتِ کلیسیا ابھی گیا ہے تقلید کا زمانہ، مجاز رختِ سفر اٹھائے ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوقِ تکلم کی چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں نہیں جنسِ شرابِ آخرت کی آرزو مجھ کو وہ سوداگر ہوں میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں لیکن شاعری صرف نقطۂ نظر یا اعتقادات کے اظہار یا اعلان پر مشتمل نہیں ہوتی(اگرچہ اکادمی کے نائب ناظم کا سلوک اقبال کے شعر کے ساتھ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ پھرتی سے شعر کے قارورے کا امتحان کر کے رپورٹ دے دی جائے کہ اس کی روشنی میں اقبال کا عقیدہ قابل قبول ٹھہرتا ہے یا نہیں)۔ اس کے برعکس خطبات کا متن ایسا ہے جسے اقبال نے ان اجتہادی نتائج کو ممکنہ حد تک واضح اور قابل فہم انداز میں بیان کرنے کی غرض سے تحریر کیا جن پر وہ اپنے اختیارکردہ مخصوص طریق کار اورطرزِ استدلال کی مدد سے پہنچے تھے۔ علاوہ ازیں، شاعری میں اقبال کا خطاب کسی مخصوص گروہ سے نہیں ہے جس کی خصوصیات کے بارے میں کوئی مجموعی حکم لگایاجا سکتا ہو، جبکہ خطبات کے سلسلے میں یہ امر اقبال کے ذہن میں پوری طرح واضح ہے: یہاں وہ برصغیر کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کے ایک مخصوص مقام پر ان جدید ذہن رکھنے والے مسلمانوں سے خطاب کر رہے ہیں جو مغربی فلسفے کی تعلیم سے روشنی حاصل کرنے کی بدولت اقبال کے نزدیک ان مباحث کو سمجھنے کے اہل ہیں جن پر خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں شاعری کو خطبات کے برعکس یا کم تر سمجھنے کا مفہوم کہاں سے پیدا ہو گیا؟ اور اس کا نتیجہ شعرفراموشی کی صورت میں کیونکر اور کب نکلا؟ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی سے خطاب کے متن نے، جس میں انھوں نے نئی قائم شدہ ریاست کے سیاسی نظام کے رہنما خطوط واضح طور پر بیان کیے تھے، ملک کو اس کے عین مخالف سمت میں لے جانے والے چیرہ دست حکمرانوں اور ان کے سرکاری عمال کے لیے چنددرچنددشواریاں پیدا کی ہیں، اسی طرح اقبال کے خطبات نے بھی ان حلقوں کو متواتر مشکل میں ڈالے رکھا ہے۔جس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اقبال کی شاعری سے نمٹنا ان کے لیے آسانی سے ممکن ہوا ہے۔ البتہ شاعری میں تشریح و تعبیر کی گنجائش نثر میں دیے گئے واضح بیان کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے اور نائب ناظم کی قبیل کے شارحین اسی گنجائش کو تاویل کے کھیل کے میدان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ احمد جاوید نے جب اقبال اکادمی میں نوکری پانے کے لیے درخواست دی ہوگی تو یقینا انٹرویو کے لیے بھی پیش ہوئے ہوں گے، اور ثقافت اور کھیل کی وفاقی وزات کے ارباب اختیار کو یقین دلایا ہو گا کہ وہ وزارت اور اکادمی کے مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے موزوں قابلیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کھیلوں سے اپنی دلچسپی کے نمونے کے طور پر چڑی ماری کے کھیل میں اپنی کارکردگی کو پیش کیا ہو گا اور انھیں اطمینان دلانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے کہ اس کھیل کے کرتبوں سے شعرِ اقبال اور فکرِ اقبال کے طائرانِ لاہوتی کو بھی شکار کیا جا سکتا ہے۔ بعد میں، جولائی ۲۰۰۳ء میں، انھیں کسی اور معاملے میں ناسازگار حالات پیش آنے پر مجبور ہو کرچڑی ماری سے تحریری طور پر توبہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا، جس کا متن آپ کراچی کے رسالے ’’دنیازاد‘‘، شمارہ ۹ کے صفحہ ۳۳۰پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔لیکن توبہ کے باوجود اقبال پر ان کی غلیل بازی بدستور جاری ہے، جس کے چند نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں جن میں ان کا لایا ہوا یہ نادر نکتہ بھی شامل تھاکہ چاند رات کو اپنے پیشے کی دشواریوں کے ہاتھوں خیاطوں کی کیا ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ نوکری کی عائدکردہ ذمے داریوں کے ہاتھوں خود موصوف کی اپنی ذہنی کیفیت بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ اقبالیات کے محولہ بالا شمارے میں اقبال کے تصور زمان و مکاں سے ہاتھاپائی کرتے ہوے وہ ان سرکاری ذمے داریوں کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں اُن کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔‘‘ (ص ۹۳) ’’دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطئہ نظر کو اقبال کا حتمی نقطئہ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟ (ص۹۳-۹۴) اگر کوئی ایسی چیز فطری طریقے سے پیدا ہونے کو تیار نہیں ہوتی تو اسے نظریۂ ضرورت کے تحت زبردستی پیدا کیا جائے گا، کیونکہ مقصودحقیقی ’’خطبات میں اظہار پانے والے نقطئہ نظر‘‘ کا، بقول یوسفی، دف مارنا ہے۔اس کے دو طریقے مروج ہیں: ایک تو یہ کہ اقبال کے ظاہرکردہ کسی بھی ناپسندیدہ نقطۂ نظر کے سلسلے میں کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ انھوں نے اس پر نظرثانی کر لی تھی، یا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن حیات نے وفا نہ کی، وغیرہ۔ دوسرا طریقہ یہ کہ تاویل کے ذریعے سے یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ جہاں کہیں اقبال نے دن کو سفید قرار دیا وہاں دراصل ان کی مراد سیاہ رنگ سے تھی۔یہ کون بڑی بات ہے؛ آخر تاویل ہی سے تو ’’پرانے تخیلات‘‘ کے حامل حضرات، بقول اقبال، قرآن کو پاژند بنایا کرتے تھے۔ نائب ناظم بھی ایسا ہی مبارک ارادہ رکھتے ہیں: ...جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کارفرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی راے پر نظرِ ثانی کی اور بعض معاملات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دو لختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریںگے۔ (ص ۹۴) بسم اﷲ، ضرور کیجیے کوشش، لیکن ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا۔اگر آپ نے دھاندلی کرتے ہوے اقبال پر ان نظریات کو منڈھنے کی کوشش کی جو ان کے نہیں تھے، تواقبال کو پڑھنے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آپ کے 'academic' self کو، یعنی نائب ناظم کے طور پر آپ کی نوکری کی مجبوریوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ آپ کے electronic self یعنی ’ٹیلی اُپدیشک‘ ہونے سے متاثر ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی آپ کو ٹوکے گا ضرور، اور پھرکہیں ایسا نہ ہو کہ مجبور ہو کر آپ کو اپنی اس سرگرمی سے بھی توبہ کا اعلان کرنا پڑ جائے۔چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔ حقیقت یہ ہے کہ خطبات میں اقبال نے اپنا نقطۂ نظرجابجا اتنے صاف لفظوں میں بیان کر دیا ہے کہ اس سلسلے میں کنفیوژن پھیلانے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں، جنھیں سہیل عمر کی تصنیف میں نقل کیا گیا ہے، اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے، اور اکادمی کے پسندیدہ نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ …eternal principles when they are understood to exclude all possibilities of change which according to the Qur’an is one of the greatest signs of God, tend to immobilize what is essentially mobile in its nature…. [T]he immobility of Islam during the last five hundred years illustrates [this principle]. (p-139-140) …conservative thinkers regarded this movement [of Rationalism] as a force of disintegration , and considered it a danger to the stability of Islam as a social polity. Their main purpose, therefore, was to preserve the social integrity of Islam, and to realize this the only course open to them was to utilize the binding force of Shari’ah and to make the structure of their legal system as rigorous as possible. (p-142) The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48) اس پر احمد جاویدفرماتے ہیں’’Rationalism کا اقبال سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔... Rationalism اپنی ہر نوع میں اور ہر جہت میں وحی کا انکار ہے۔ اس کا انحصار ہی اس تصور اور دعوے پر ہے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے عقل کافی ہے اور اسے باہر سے کسی رہ نمائی کی حاجت نہیں ہے۔‘‘ (احیائے علوم، شمارہ۱۴، ص۲۴) This spirit of total other-worldliness in later Sufism… offering the prospect of unrestrained thought on its speculative side, … attracted and finally absorbed the best minds in Islam. The Muslim state was thus left generally in the hands of intellectual mediocrities, and the unthinking masses of Islam, having no personalities of a higher caliber to guide them, found their security only in blindly following the schools. (p-142-143) The fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the conservative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving the uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of Shari’ah as expounded by the early doctors of Islam. (p-143) ... a false reverence for past history and its artificial resurrection constitute no remedy for a people's decay. (p-30) The most remarkable phenomenon of modern history however is the enormous rapidity with which the world of Islam is spiritually moving towards the West. There is nothing wrong in this movement, for European culture, on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam. (p-29) The theory of Einstein has brought a new vision of the universe and suggest new ways of looking at the problems common to both religion and philosophy. No wonder then that the younger generations of Islam in Asia and Africa demand a fresh orientation of their faith. With the reawakening of Islam, therefore, it is necessary to examine, in an independent spirit, what Europe has thought and how far the conclusions reached by her can help us in the revision and, if necessary, reconstruction, of theological thought in Islam (p-29-30) They disclose new standards in the light of which we begin to see that our environment is not wholly inviolable and requires revision. (p-30-31) I propose to undertake a philosophical discussion of some of the basic ideas of Islam, in the hope that this may, at least, be helpful towards a proper understanding of the meaning of Islam as a message to humanity. (p-30) The only course open to us is to approach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that knowledge. (p-99) The truth is that all search of knowledge is essentially a form of prayer. The scientific observer of Nature is a kind of mystic seeker in the act of prayer. (p-94) The question which confronts him [the Turk] today, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future, is whether the Law of Islam is capable of evolution; a question which will require great intellectual effort, and is sure to be answered in the affirmative. (p-146) In order to create a really effective political unity of Islam, all Muslim countries must first become independent; and then in their totality they should range themselves under one Caliph. Is such a thing possible at the present moment? If not today, one must wait. In the meantime the Caliph must reduce his own house to order and lay the foundations of a workable modern State. (p-145-146) The republican form of government is not only thoroughly consistent with the spirit of Islam, but has also become a necessity in view of the new forces that are set free in the world of Islam. (p-144) ۹ علامہ نائب ناظم اور علامہ ندوی (بہ روایت زبانی ڈاکٹر غلام محمد) اس بارے میں پوری طرح ہم خیال ہیں کہ ’’اجتہاد کی صلاحیت ... یقینا اقبال میں نہیں پائی جاتی ...‘‘ (احیائے علوم، شمارہ ۱۴، ص۱۳) اقبال کے بارے میں یہ فتویٰ ان دیگر فتووں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو ان کی زندگی میں اور بعد کے زمانے میں جاری کیے جاتے رہے ہیں اور اس کا انجام بھی سابقہ فتووں سے مختلف ہونے والا نہیں۔ ان فتووں سے قطع نظر، اقبال نے جدید مغربی تعلیم کی روشنی میں پرانے تخیلات اور تقلیدپرستی سے پیدا ہونے والی خامیوں کو رفع کر کے برصغیر کے مسلمان کے نقطۂ نظر سے مذہب کی معنویت کو نئے سرے سے متعین کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ جدید دور کے تقاضوں کے مدنظر مذہبی فکر میں کس قسم کی تبدیلیاں کرنا ضروری ہے اور اس اصلاح شدہ مذہبی فکر پر مبنی انفرادی اور اجتماعی عملی فیصلوں کی کیا صورت اس دور کے لیے ممکن اور مناسب ہے۔ اقبال کے پڑھنے والوں کا حق ہے کہ وہ ان کی تحریروں کو ان کے درست تناظر میں پڑھ کر اپنی رائے قائم کریں اور تاویل وغیرہ کے حربوں سے اقبال کے نقطۂ نظر کی صورت مسخ کرنے کی کوششوں کی بھرپورمزاحمت کریں۔ خ…خ…خ…خ  ماہنامہ معارف میں اقبالیاتی ادب محمد شاہد حنیف ماہنامہ معارف کا آغاز مولانا …… نے ۱۹ء سے اعظم گڑھ سے کیا تھا مصنف؍مرتب مضمون ماہ و سال صفحات نمبر آفاق فاخری اقبال کے فلسفیانہ افکار کا ارتقا اگست۱۹۹۳ ۱۳۳-۱۴۳ ابو ظفر عبدالواحد متاح اقبال از ابو ظفر عبدالواحد نومبر۱۹۴۲ ۳۹۸-۴۰۰ اختر حسین حقیقتِ لمعہ [تعاقب بر مضمون اکبر رحمانی‘ جنوری۲۰۰۱] اپریل۲۰۰۱ ۲۸۱-۲۸۶ اختر حسین یک دُرّنا قبول از گنجینہ اقبال [لمعہؔ کی بحث پر مزید تعاقب] دسمبر۲۰۰۱ ۴۶۷-۴۷۵ ادارہ ادارہ اقبال‘ لکھنؤ کا قیام [شذرہ] مئی۱۹۴۲ ۳۲۳-۳۲۴ // // اسرار خودی [انگریزی ترجمہ] مارچ۱۹۲۱ ۲۳۳-۲۳۸ // // اقبال پر دوسری بین الااقوامی کانگریس‘ بمقام لاہور کا انعقاد -۱ نومبر۱۹۸۳ ۳۲۲-۳۲۴ // // اقبال پر دوسری بین الااقوامی کانگریس‘ بمقام لاہور کا انعقاد -۲ دسمبر۱۹۸۳ ۴۰۲-۴۰۴ ادارہ اقبال کی یک صدی سالگرہی پر دہلی میں سیمینار نومبر۱۹۷۷ ۳۲۲-۳۲۴ اسد ملتانی اقبال- انا اور تخلیق جولائی۱۹۴۵ ۳۲-۴۰ اسعید الظفر چغتائی اقبال کی معنویت آج جون۱۹۷۹ ۴۵۱-۴۶۱ افضل حق قرشی اقبال کے ممدوح علما ستمبر۱۹۷۹ ۲۳۸-۲۳۹ اقبال،علامہ خضر راہ [غیر مطبوعہ نظموں کی اشاعت]-- موضوع ادبیات مئی۹۲ ۱۹ ۱-۶ اکبر حسین قریشی اقبال اور حدیث نبوی جولائی۱۹۶۱ ۴۷-۶۲ اکبر رحمانی علامہ اقبال کا برقی علاج‘ بھوپال جانے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ جنوری۲۰۰۱ ۴۵-۵۸ // // علامہ اقبال کی مکتوب نگاری پر ایک نظر اپریل۱۹۹۸ ۲۸۵-۳۰۷ // // علامہ اقبال کی مکتوب نگاری کی امتیازی خصوصیات اکتوبر۲۰۰۰ ۳۰۵-۳۱۵ // // ماسٹر اختر حسین اور حقیقتِ لمعہ [تعاقب کا جواب] ستمبر۲۰۰۱ ۲۲۹-۲۳۶ // // مکاتیب میں اقبال کی مخصوص روش اور ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اگست۲۰۰۲ ۱۵۱-۱۵۵ اکرام الحق سلیم فلسفہ اقبال جنوری۱۹۲۶ ۴۲-۵۳ الطاف احمد اعظمی اقبال کا تصور انا-۱ ستمبر۲۰۰۱ ۱۸۷-۲۰۸ // // اقبال کا تصور انا-۲ اکتوبر۲۰۰۱ ۲۶۸-۲۸۶ انعام الحق علمی اقبال کے اردو کلام میں قرآن سے ماخوذ چند اصطلاحات مارچ۱۹۹۷ ۱۹۲-۲۰۴ // // علامہ اقبال کی چند پیشین گوئیاں جون۱۹۹۱ ۴۶۲-۴۶۹ انیس چشتی اقبال کا تصورِ وطن ستمبر۲۰۰۴ ۲۰۹-۲۲ ای ایم فاسٹر کلام اقبال بلبل ہندوستان مئی۱۹۲۱ ۴۲۳-۴۳۱ بدرالدین بٹ ابو علی مسکویہ اقبال کی نظر میں فروری۱۹۸۲ ۲۱۵-۲۲۴ // // اقبال اور دنیائے عرب جون۱۹۸۹ ۴۳۶-۴۴۵ بشیر الحق دسنوی اصلاحات اقبال اگست۱۹۵۳ ۱۴۳-۱۵۲ بشیر مخفی قادری اقبال کے تصورِ خودی کا مآخذ ستمبر۱۹۴۵ ۱۷۱-۱۷۹ بشیرالحق دسنوی اصلاحات اقبال-۱ اگست۱۹۴۹ ۱۳۵-۱۵۴ // // اصلاحات اقبال-۲ ستمبر۱۹۴۹ ۲۱۵-۲۳۵ تاج پیامی اقبال کی ایک غزل کا تشریحی تجزیہ جولائی۱۹۹۵ جگن ناتھ آزاد اقبال اور ان کا عہد از جگن ناتھ آزاد جنوری۱۹۶۳ ۳۱۷-۳۱۸ // // اقبال اور عظمت آدم علیہ السلام [سیرتِ انبیا کرام و نظریہ ارتقا] جولائی۱۹۷۷ ۵-۲۴ // // اقبال اور ونطشے جون۱۹۷۶ // // اقبال، اسلام اور اشتراکیت فروری۱۹۷۶ // // اقبال، اسلام اور اشتراکیت مارچ۱۹۷۶ // // جاوید نامہ کے کردار دسمبر۱۹۷۵ ۴۳۹-۴۴۷ // // ڈاکٹر ذاکر حسین اور علامہ اقبال جولائی۱۹۸۷ ۲۱-۳۸ // // رودادِ اقبال [زیر طبع کتاب کا حرف اول] -۱ دسمبر۱۹۸۵ ۴۳۷-۴۵۷ // // رودادِ اقبال [زیر طبع کتاب کا حرف اول] -۲ جنوری۱۹۸۶ ۴۹-۶۴ // // کلام اقبال میں عورت کا درجہ جولائی۱۹۷۵ ۲۵-۴۳ حبیب الرحمن ندوی اقبال کی علمی جستجو [شاعری میں وطنیت، آفاقیت اور اسلامی نظریات]-۱ جنوری۱۹۹۶ ۵-۲۸ // // اقبال کی علمی جستجو [شاعری میں وطنیت، آفاقیت اور اسلامی نظریات]-۲ فروری۱۹۹۶ ۱۰۷-۱۲۹ حفیظ،سید سر اقبال مرحوم اور ان کی شاعری جنوری۱۹۴۲ ۵۷-۶۷ ڈکنسن،پروفیسر اسرار خودی [تبصرہ بشکریہ ’دی نشین‘ مترجم: ادارہ] ستمبر۱۹۲۱ ۲۱۲-۲۱۶ شبیر احمد خاں علامہ اقبال اور اسلام کے تصورِ زمان کی ترجمانی-۱ اگست۱۹۶۱ ۸۵-۱۰۳ // // علامہ اقبال اور تصورِ زمان -۲ جون۱۹۶۲ ۴۲۹-۴۴۴ // // علامہ اقبال اور تصورِ زمان -۳ جولائی۱۹۶۲ ۴۴-۵۹ // // اقبال کا تصور زمان-۴ جنوری۱۹۶۵ ۵-۲۲ شوکت سبزواری فلسفہ اقبال کا مرکزی خیال -- وحدت و حرکت فروری۱۹۴۶ ۱۳۶-۱۴۵ صباح الدین عبدالرحمن اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی کا ایک سیمی نار نومبر۱۹۸۱ ۳۸۳-۳۹۷ // // اقبال کی صدسالہ سالگرہ کی بین الاقوامی کانگریس کا جشن بمقام لاہور -۱ جنوری۱۹۷۸ ۶۱-۷۸ // // اقبال کی صدسالہ سالگرہ کی بین الاقوامی کانگریس کا جشن بمقام لاہور -۲ فروری۱۹۷۸ ۱۳۶-۱۵۱ // // اقبال کی صدسالہ سالگرہ کی بین الاقوامی کانگریس کا جشن بمقام لاہور -۳ مارچ۱۹۷۸ ۲۱۶-۲۳۴ // // حضرت سید صاحب اور ڈاکٹر اقبال جولائی۱۹۶۷ ۵-۲۸ // // کیا علامہ اقبال یورپ کے فلسفہ سے متاثر ہوئے؟ فروری۸۴ ۱۰۹-۱۲۵ // // ’زندہ رود‘ از جسٹس جاوید اقبال - اقبال پر ایک دل آویز کتاب [تبصرہ] جنوری۱۹۸۲ ۵-۴۲ صفدر علی،مرزا اقبال کا پیغام عمل جون۱۹۵۷ ۴۵۹-۴۷۱ // // اقبال کا فوق البشر اکتوبر۱۹۵۷ ۲۸۱-۲۹۳ عبدالحمید یزدانی کلام اقبال میں رومی کی شعری تلمیحات و اقتباسات-۱ جولائی۱۹۸۱ ۳۳-۵۳ // // کلام اقبال میں رومی کی شعری تلمیحات و اقتباسات-۲ اگست۸۱ ۱۱۵-۱۲۴ عبدالحمید،خواجہ اقبال علی الرحمہ کے چند جواہر ریزے-۱ اگست۱۹۳۸ ۱-۱۳ // // اقبال علی الرحمہ کے چند جواہر ریزے-۲ ستمبر۱۹۳۸ ۱۶۵-۱۸۰ // // اقبال- انا اور تخلیق-۱ نومبر۱۹۴۴ ۲۱۱-۲۱۸ // // اقبال- انا اور تخلیق-۲ دسمبر۱۹۴۴ ۲۴۵-۲۵۲ عبدالرحمن سعید اقبال کا نظریہ عشق و خرد اکتوبر۱۹۹۱ ۲۶۱-۲۸۱ // // اقبال کا نظریہ عشق و خودی ۲۶۱-۲۸۱ عبدالسلام رام پوری اقبال اور برگساں-۱ فروری۱۹۴۱ ۹۷-۱۱۵ // // اقبال اور برگساں-۲ مارچ۱۹۴۱ ۱۷۳-۱۸۵ // // اقبال اور برگساں-۳ اپریل۱۹۴۱ ۲۸۶-۳۰۰ // // اقبال کا فکری ارتقا پر تعاقب و تصیح [اقبال اور ابن سینا کے مزعومہ فلسفہ عشق کی تشریح-۱] ستمبر۱۹۸۰ ۱۷۲-۱۹۴ // // اقبال کا فکری ارتقا پر تعاقب و تصیح [اقبال اور ابن سینا کے مزعومہ فلسفہ عشق کی تشریح-۲]اکتوبر۱۹۸۰ ۲۶۰-۲۷۷ عبدالسلام رام پوری اقبال کا فکری ارتقا-۱ دسمبر۱۹۷۷ ۴۰۵-۴۳۰ // // اقبال کا فکری ارتقا-۲ جنوری۱۹۷۸ ۵-۳۱ // // اقبال کی ریاست [اسلامی ریاست کا تصور]-۱ اکتوبر۱۹۵۴ ۲۴۵-۲۶۲ // // اقبال کی ریاست[اسلامی ریاست کا تصور]-۲ نومبر۱۹۵۴ ۳۲۵-۳۴۶ // // اقبال کے اخلاقی تصورات جنوری۱۹۴۹ ۲۷-۵۱ // // اقبال کے یہاں تصوف اور عقلیت [خطاب] ستمبر۱۹۸۸ ۱۶۵-۱۸۲ // // علامہ اقبال کا فکری ارتقا-۳ فروری۱۹۷۸ ۸۵-۱۰۴ عبدالسلام ندوی اقبال کا فلسفہ خودی-۱ اپریل۱۹۴۷ ۲۴۵-۲۶۵ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۲ مئی۱۹۴۷ ۳۴۷-۳۵۷ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۳ جون۱۹۴۷ ۴۰۵-۴۱۶ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۴ جولائی۱۹۴۷ ۵-۱۳ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۵ اگست۱۹۴۷ ۸۵-۹۵ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۶ ستمبر۱۹۴۷ ۱۶۵-۱۷۱ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۷ اکتوبر۱۹۴۷ ۳۵۶-۲۶۶ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۸ نومبر۱۹۴۷ ۳۲۵-۳۳۸ // // امام المسلمین کا حکم تشریعی اور عالم رویا کے احکام کی اطاعت [مکاتیب اقبال کے حوالے استفسارات] مئی۱۹۴۷ ۳۹۱-۳۹۳ عبداللہ،سید اقبال اور سیاسیات [خلافت و جمہوریت وغیرہ]-۱ مارچ۱۹۴۶ ۱۹۱-۲۰۵ // // اقبال اور سیاسیات [خلافت و جمہوریت وغیرہ]-۲ اپریل۱۹۴۶ ۲۷۶-۲۹۸ عبداللہ،سید کلام اقبال کی دقتیں اور ان کی تشریح کی ضرورت [پسندیدہ مقامات]-۱ مارچ۱۹۴۴ ۱۹۹-۲۱۰ // // کلام اقبال کی دقتیں اور ان کی تشریح کی ضرورت [رومی، عطار، سنائی وغیرہ]-۲ اپریل۱۹۴۴ ۲۶۸-۲۷۹ عبدالمغنی اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیل جدید-۱ اگست۱۹۷۳ // // اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیل جدید-۲ ستمبر۱۹۷۳ ۱۸۹-۲۰۵ // // اقبال اور نئی دنیا [مغرب اور مغربی تہذیب] فروری۱۹۷۹ ۱۱۸-۱۳۶ // // موازنہ اقبال اور غالب-۱ اکتوبر۱۹۶۳ ۲۸۹-۳۰۰ // // موازنہ اقبال اور غالب-۲ نومبر۱۹۶۳ ۳۶۱-۳۷۲ عشرت حسن انور اقبال اور برگسان -۱ مئی۱۹۵۱ ۳۶۴-۳۷۷ // // اقبال اور جیمس وارڈ [خدا کے وجود کے بارے میں]-۵ اکتوبر۱۹۵۱ ۲۸۳-۲۹۳ // // اقبال اور جیمس وارڈ [خودی کے نظریات]-۴ اگست۱۹۵۱ ۱۱۳-۱۲۵ // // اقبال اور نیطشے-۲ جون۱۹۵۱ ۴۵۱-۴۶۰ // // اقبال اور نیطشے-۳ جولائی۱۹۵۱ ۴۵-۵۴ // // اقبال اور وائٹ ہیڈ-۷ دسمبر۱۹۵۱ ۴۲۸-۴۴۰ // // اقبال اور وائٹ ہیڈ-۸ جنوری۱۹۵۲ ۵۹-۷۰ // // اقبال اور ولیم جیمس -۶ نومبر۱۹۵۱ ۳۴۵-۳۶۰ // // اقبال، رومی اور ولیم جیمس-۱ فروری۱۹۵۴ ۱۰۶-۱۲۵ // // اقبال، رومی اور برگسان-۲ مارچ۱۹۵۴ ۱۹۳-۲۰۷ // // اقبال، رومی اور شنکر اچاریہ-۳ جون۱۹۵۴ ۴۰۵-۴۱۹ // // اقبال، رومی اور شنکر اچاریہ-۴ اگست۱۹۵۴ ۹۸-۱۰۷ // // اقبال، رومی اور شنکر اچاریہ-۵ ستمبر۱۹۵۴ ۱۶۵-۱۷۶ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۱ اپریل۱۹۵۴ ۳۰۶-۳۱۳ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۲ مئی۱۹۵۴ ۳۸۹-۳۹۴ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۳ جون۱۹۵۴ ۴۶۱-۴۷۲ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۴ جولائی۱۹۵۴ ۶۶-۷۶ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۵ اگست۱۹۵۴ ۱-۸ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۶ ستمبر۱۹۵۴ ۲۱۳-۲۱۷ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۷ اکتوبر۱۹۵۴ ۳۰۹-۳۱۳ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۸ نومبر۱۹۵۴ ۳۹۴-۳۹۶ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۹ جنوری۱۹۵۵ ۶۴-۷۳ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۱۰ مارچ۱۹۵۵ ۲۲۷-۲۳۲ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی-۱۱ …… ۳۱۲-۳۱۳ کلب صادق شعلہ بہ پیراہین کراچی سے گلستاں بہ کنارا ایران تک دسمبر۱۹۹۵ محمد اسد خان سوال بہ اقبال [اسرار خودی پر اعترضات ؍ منظوم] فروری۱۹۳۱ ۱۴۴ محمد اسلم سلیم ڈاکٹر اقبال اور روح و جسم کا اتحاد [عبدالسلام ندوی کے مضمون (مئی۴۷)کا تعاقب اور اُن کا جواب] جون۱۹۴۷ ۴۶۷-۴۶۹ محمد بدیع الزماں اقبال اور سرزمین اندلس [زوالِ امت مسلمہ] دسمبر۱۹۸۹ ۴۳۸-۴۵۵ // // اقبال کا فلسفہ خودی اپریل۱۹۹۰ ۲۶۳-۲۶۹ // // اقبال کا ’مرد قلندر‘ فروری۱۹۹۳ ۱۱۸-۱۲۷ // // اقبال کی دو نظمیں‘ قرآن کے آئینے میں مارچ۸۵ ۱-۱۲ // // اقبال کے چند موضوعات کی تشریح خود اقبال کی زبانی جون۱۹۹۶ ۴۴۴-۴۵۲ // // اقبال کے کلام کی قرآ نی تلمیحات کے اشاریے جنوری۱۹۹۴ ۲۶-۴۴ // // اقبال کے کلام میں قرآنی آیات کے منظوم ترجموں کے اشاریے جولائی۱۹۹۴ ۴۲-۵۰ // // اقبال کے کلام میں قرآنی تلمیحات کی ندرت دسمبر۲۰۰۰ ۴۴۷-۴۶۹ // // اقبال کے کلام میں ’خبر‘ و‘نظر‘ کی اصطلاحیں نومبر۱۹۹۶ ۳۵۸-۳۶۶ // // اقبال کے کلام میں ’قیصر‘ کی اصطلاح دسمبر۱۹۹۴ …… // // اقبال کے کلام میں ’یقین‘ کی اصطلاح مئی۱۹۹۵ ۳۶۶-۳۷۸ // // اقبال کے کلام میں ’یوسف‘ اور ’زلیخا‘ نومبر۲۰۰۴ ۳۸۱-۳۸۴ // // الفاظ سے مشتق اقبال کی چند بصیرت افروز اصطلاحیں اپریل۲۰۰۰ ۲۹۸-۳۱۰ // // تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی [مسلمانی کی اصطلاح] جولائی۱۹۹۷ ۳۷-۴۵ // // خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے[غزل] مئی۱۹۹۱ ۳۵۲-۳۵۸ // // سینما ہے یا صنعت آذری ہے[اقبال کی نظم ’سینما‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں-۱] جنوری۱۹۸۹ ۳۵-۵۰ // // سینما ہے یا صنعت آذری ہے[اقبال کی نظم ’سینما‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں-۲] فروری۱۹۸۹ ۱۲۶-۱۳۸ // // قرآن میں ہو غوطہ زن ا ے مردِ مسلماں [غزل] اکتوبر۱۹۹۰ // // قل العفو [اقبال کی نظم صدیق ص‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں] اکتوبر۱۹۸۷ ۲۶۹-۲۸۵ // // کافر و مومن کی پہچان [اقبال کی نظم کافر و مومن کی روشنی میں] اگست۱۹۸۸ ۱۳۶-۱۴۲ // // کلام اقبال میں ’عشق‘، ’خودی‘ اور ’فقر‘ کے اشارے اگست۱۹۹۸ ۱۳۲-۱۴۷ // // کلیاتِ اقبال میں انبیا اور صحابہ پر اشعار کے اشاریے نومبر۲۰۰۲ ۳۶۵-۳۷۹ // // کہ شاہین شہِ لولاک ا ہے تو [بال جبریل کی رباعی] ستمبر۲۰۰۳ ۲۱۲-۲۱۸ // // گوشوارہ کلیات اقبال جنوری۱۹۹۹ // // موت کہتے ہیں جسے اہل زمیں کیا راز ہے؟ دسمبر۱۹۹۱ ۴۴۴-۴۵۰ // // ہر ایک ذرہ میں ہے شاید مکیں دل [اقبال کی ایک رباعی قرآن کی روشنی میں] جولائی۱۹۸۹ ۴۸-۵۷ // // ’خون جگر‘ (کی اصطلاح )اور اقبال جولائی۱۹۹۳ ۴۹-۵۷ محمد ریاض،ڈاکٹر تقدیر اُمم اور علامہ اقبال [اقوامِ سابقہ امت مسلمہ]-۱ اگست۱۹۷۷ ۸۵-۱۰۴ // // تقدیر اُمم اور علامہ اقبال [اقوامِ سابقہ امت مسلمہ]-۲ ستمبر۱۹۷۷ ۱۶۵-۱۷۸ محمد طاہر علی افکار اقبال [پیام مشرق کے آئینے میں] فروری۱۹۷۲ محمد محمود زمان ڈاکٹر اقبال کی اردو [اعتراضات کا جائزہ] مئی۱۹۲۸ ۳۶۰-۳۷۳ محمد منصور عالم ابلیس و بشر اور اقبال جون۱۹۸۷ ۴۳۸-۴۶۲ محمد نعمان خان اقبال اور اسلام جولائی۲۰۰۰ ۵۹-۶۸ محمد ہاشم،سید اقبال کی نظم ’مسجد قرطبہ‘ فکر و فنی حیثیت سے اکتوبر۱۹۷۸ ۲۹۱-۳۰۲ محمد ہاشم اقبال بحیثیت غزل گو نومبر۱۹۷۷ ۳۵۸-۳۶۸ معین الدین ندوی اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۱ اکتوبر۱۹۷۱ ۲۴۵-۲۷۰ // // اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۲ نومبر۱۹۷۱ ۳۲۵-۳۴۵ // // اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۳ دسمبر۱۹۷۱ ۴۰۵-۴۲۵ // // اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۴ جنوری۱۹۷۲ // // کیا اقبال فرقہ پرست شاعر تھے؟-۱ جنوری۱۹۵۰ ۴۳-۶۲ // // کیا اقبال فرقہ پرست شاعر تھے؟-۲ فروری۱۹۵۰ ۸۵-۱۰۸ مقبول حسین،سید اقبال اور ٹیگور مارچ۱۹۳۲ ۲۳۴-۲۳۵ میر ولی الدین اقبال اور تصورِ فقر جولائی۱۹۴۸ ۴۷-۵۷ // // زمانہ حاضر کا انسان اور اقبال جون۱۹۴۵ ۱۳۱-۱۴۱ نذیر احمد کاشمیری اقبال کے مداح اور نقاد مئی۱۹۷۸ ۳۴۱-۳۶۱ نذیر نیازی،سید اقبال کے نام سے رسائل اور مجالس [شذرہ] مئی۴۲ ۳۲۴ // // لکھنؤ میں ادارہ اقبال کے نام سے مجلس کا قیام [شذرہ] مئی۴۲ ۳۲۳ نعیم الدین امراؤتی رومی و اقبال کا تصورِ انسان اگست۱۹۸۰ ۹۹-۱۱۲ نکلسن،پروفیسر اسرار خودی اور ڈاکٹر اقبال اکتوبر۱۹۲۱ ۲۸۶-۲۹۴ وارث ریاض علامہ اقبال اور احمدیت اکتوبر۲۰۰۲ ۲۶۶-۲۸۶ وحید اشرف اقبال کی فارسی شاعری پر ایک اجمالی نظر-۱ فروری۱۹۹۵ ۱۲۴-۱۳۲ // // اقبال کی فارسی شاعری پر ایک اجمالی نظر-۲ مارچ۱۹۹۵ ۲۰۲-۲۱۱ // // مثنوی اسرار خودی پر ایک نظر اگست۱۹۷۸ ۱۰۰-۱۱۴ وحید عشرت اقبال کا تصور زمان و مکان اور صوفیہ دسمبر۱۹۸۷ ۴۳۵-۴۵۷ یٰسین مظہر صدیقی ملفوظات اقبال کی ادبی اہمیت [تذکرہ حسین احمد مدنی و دیگر اکابر]-۱ اگست۱۹۹۷ ۱۹۴-۲۱۶ // // ملفوظات اقبال کی ادبی اہمیت [تذکرہ حسین احمد مدنی و دیگر اکابر]-۲ ستمبر۱۹۹۷ ۱۹۴… نظمیں جگن ناتھ آزاد مزارِ اقبال پر جنوری۱۹۸۴ ۷۴ امین عالم رابن اقبال اپریل۱۹۹۶ ۳۱۵ محمد حسین فطرت مزارِ اقبال پر حاضری [حسن تصور] اپریل۱۹۹۵ ۳۱۲-۳۱۳ صالحہ عرشی افکار اقبال ترجمہ از پیامِ مشرق ستمبر۱۹۷۸ ۲۳۲ عبدالرئوف اقبال اگست۱۹۶۳ ۱۵۵-۱۵۶ خورشید افسر بسوانی نذرِ اقبال ستمبر۱۹۶۵ ۲۳۶ حسن،سید یادِ اقبال بمناسبت یومِ یاد بودِ اقبال اپریل۱۹۷۵ ۳۱۴-۳۱۵ یحییٰ اعظمی ماتم اقبال مئی۱۹۳۸ ۱۶۱-۱۶۳ محمد اقبال،ڈاکٹر خلافت اور ترک و عرب فروری۱۹۲۴ ۱۴۴ محمد اقبال،ڈاکٹر نغمہ ساربان حجاز اگست۱۹۲۳ ۱۳۶-۱۳۷ محمد سراج الحق مقامِ مسلم [بہ تتبع حضرت رومی و اقبال] اپریل۱۹۵۵ ۳۱۲-۳۱۳ نگہت شاہ جہاں پوری پیام اقبال مئی۱۹۴۴ ۳۹۳ تبصرے مبصر کتاب؍ مصنف ماہ و سال صفحات نمبر محمد سراج الحق مقامِ مسلم [بہ تتبع حضرت رومی و اقبال] اپریل۱۹۵۵ ۳۱۲-۳۱۳ ادارہ [مبصر] اسرارِ خودی [مرتب: شائستہ خان؍ طبع اوّل کا عکسی مجموعہ] مارچ۱۹۹۶ ۲۳۷-۲۳۸ ادارہ [مبصر] اقبال اور مغربی مفکرین از جگن ناتھ آزاد نومبر۱۹۹۶ ۳۹۷ ادارہ [مبصر] رموزِ اقبال از امیر الدین ولی اگست۱۹۴۶ ۱۵۸-۱۵۹ ادارہ [مبصر] رموزِ بے خودی از علامہ محمد اقبال اپریل۱۹۱۸ ۴۱-۵۰ ادارہ [مبصر] قرآن اور اقبال از ابو محمد مصلح جنوری۱۹۴۱ ۷۸ ادارہ [مبصر] ماہنامہ جامعہ دہلی کا اقبال نمبر [مدیر: عبداللطیف اعظمی] ستمبر۱۹۷۸ ۲۳۴-۲۳۶ ادارہ [مبصر] ماہنامہ شاعر بمبئیکا اقبال نمبر [مدیر: افتخار احمد صدیقی] نومبر۱۹۹۰ ۳۱۲-۳۱۳ ادارہ [مبصر] مقالات یومِ اقبال از آل احمد سرور نومبر۱۹۴۶ ۳۹۹-۴۰۰ ادارہ [مبصر] مکاتیب سر محمد اقبال بنام سیّد سلیمان ندوی از شفقت رضوی جون۱۹۹۴ ۴۷۸ ادارہ [مبصر] Gabriel's Wing از این میری شمل[شاعر مشرق کے مذہبی نظریات کا جائزہ] جنوری۱۹۹۲ ۷۷-۷۸ ’اقبال ریویو‘ ماہنامہ علامہ اقبال کا پی-ایچ-ڈی کا مقالہ از محمد صدیق شبلی [مترجم: ابو سفیان اصلاحی] ستمبر۱۹۹۰ ۲۰۸-۲۱۶ ر [مبصر] اخبار الدولۃ السلجوقیہ از آرتھر کرسٹن [مترجم:علامہ اقبال] مارچ۱۹۳۴ ۲۳۸ ص ع [مبصر] Iqbal as a thinker (مجموعہ مقالات)از … جنوری۱۹۴۶ ۸۰ ص ع [مبصر] اقبال کا نظامِ فن از عبدالمغنی اگست۱۹۸۵ ۱۳۵-۱۵۵ ص ع [مبصر] زندہ رود‘جلد سوم از جاوید اقبال اکتوبر۱۹۸۵ ۲۸۷-۳۱۲ ص ع [مبصر] ماہنامہ المعارف سری نگر کا اقبال نمبر [مدیر: رشید نازکی] اپریل۱۹۷۸ ۳۱۵ ص ع [مبصر] ماہنامہ المعارف لاہور کا اقبال نمبر [مدیر: عبداللہ قریشی] اپریل۱۹۷۸ ۳۱۲-۳۱۳ ص ع [مبصر] ماہنامہ آج کل دہلی کا اقبال نمبر [مدیر: شہباز حسین] اپریل۱۹۷۸ ۳۱۳ ص ع [مبصر] Bibliography of Iqbal از عبدالغنی؍ نور الٰہی اگست۱۹۵۵ ۱۶۰ ص ع [مبصر] Metaphsics of Iqbal از عشرت حسین انور جنوری۱۹۴۶ ۷۹-۸۰ ض [مبصر] اقبال اور تصوف از آل احمد سرور مئی۱۹۸۳ ۳۹۳-۳۹۵ ض [مبصر] اقبال اور عالمی ادب از عبدالمغنی ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۸ ض [مبصر] اقبال اور مغربی مفکرین از جگن ناتھ آزاد جون۱۹۸۱ ض [مبصر] اقبال بحیثیت مفکر پاکستان از عبدالحمید ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۶ ض [مبصر] اقبال کا تصور بقائے دوام از نعیم احمد ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۳-۲۳۴ ض [مبصر] اقبال کا سیاسی کارنامہ از محمد احمد خان فروری۱۹۵۹ ۱۵۷-۱۵۸ ض [مبصر] اقبال کا نظام فن از عبدالمغنی ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۹ ض [مبصر] اقبال کا نظریہ اخلاق از سعید احمد رفیق فروری۱۹۶۱ ۱۵۷-۱۵۸ ض [مبصر] اقبال کے ابتدائی افکار از عبدالحق نومبر۱۹۶۹ ۳۹۸-۳۹۹ ض [مبصر] اقبال کے ممدوح علما از افضل حق قریشی ستمبر۱۹۷۹ ۲۳۸ ض [مبصر] اقبال ۱۹۸۵ء [مرتب: وحید عشرت] ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۵ ض [مبصر] اقبالیات (کتابیاتی جائزہ) از عبدالقوی دسنوی فروری۱۹۷۸ ض [مبصر] انوار اقبال از بشیر احمد ڈار اکتوبر۱۹۶۷ ۳۱۷ ض [مبصر] پیام اقبال از محمد بدیع الزماں فروری۱۹۸۸ ۱۶۰ ض [مبصر] تلمیحات و اشارات اقبال از اکبر حسین قریشی اپریل۱۹۷۲ ۳۱۸ ض [مبصر] سرسیّد اقبال اور علی گڑھ از اصغر عباس ستمبر۱۹۸۸ ۲۳۸ ض [مبصر] سلسلہ درسیاتِ اقبال‘ جلد اول تا سوم از عبدالرشید فاضل ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۷ ض [مبصر] سلسلہ درسیاتِ اقبال‘ جلد اول تا سوم از عبدالرشید فاضل ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۷ ض [مبصر] طواسین اقبال‘ جلددوم،سوم از ایس ایم فاروق ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۲ ض [مبصر] علامہ اقبال اور بھوپال از عبدالقوی دسنوی اگست۱۹۶۷ ۱۵۹-۱۶۰ ض [مبصر] علامہ اقبال بھوپال میں از عبدالقوی دسنوی اگست۱۹۶۷ ۱۵۹ ض [مبصر] علامہ اقبال‘ مصلح قرن آخر از علی شریعتی [خطاب] دسمبر۱۹۸۲ ۴۷۹-۴۸۰ ض [مبصر] علامۂ اقبال (مصلح قرن آخر) از کبیر احمد جائسی دسمبر۱۹۸۲ ۴۷۹ ض [مبصر] فریب تمدن از اکرام اللہ اگست۱۹۷۱ ض [مبصر] فکر اقبال از خلیفہ عبدالحکیم فروری۱۹۵۹ ۱۵۵-۱۵۶ ض [مبصر] محب وطن اقبال از مظفر حسین برنی اپریل۱۹۸۶ ۳۱۴-۳۱۵ ض [مبصر] محمد اقبال از کبیر احمد جائسی دسمبر۱۹۸۳ ۴۷۶ ض [مبصر] من اے میرامم و اداز تو خواہم از غلام علی چودھری ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۹ ض [مبصر] نفائس اقبال از شیما مجید ستمبر۱۹۹۰ ۲۳۷ ع ا [مبصر] اقبال بحیثیت مفکر کے(انگریزی) از محمد حمید اللہ اپریل۱۹۴۸ ۳۱۷ ع ص [مبصر] ارمغان مشرق (منظوم ترجمہ) از عبدالعلیم صدیقی مئی۲۰۰۳ ۳۹۹ ع ص [مبصر] اشاریۂ اقبالیات از اختر النسائ جولائی۲۰۰۲ ۷۵ ع ص [مبصر] افکار اقبال‘ تشریحات ِجاوید از جاوید اقبال جون۱۹۹۶ ۴۷۸ ع ص [مبصر] اقبال اور ظفر علی خاں از جعفر بلوچ اکتوبر۱۹۹۸ ۳۱۹ ع ص [مبصر] اقبال اور قائداعظم از احمد سعید اپریل۱۹۹۱ ۳۱۸ ع ص [مبصر] اقبال فکر و فن از سیّد محمد ہاشم اگست۱۹۹۱ ۱۵۷-۱۵۸ ع ص [مبصر] اقبال فکر و فن کے آئینہ میں از احمد ہمدانی جون۱۹۹۶ ۴۷۸-۴۷۹ ع ص [مبصر] اقبال کا ادبی نصب العین از سلیم اختر اپریل۲۰۰۵ ۳۱۷ ع ص [مبصر] اقبال کی اردو نثر- ایک مطالعہ از زیب النسائ جنوری۱۹۹۹ ع ص [مبصر] اقبال نامے از اخلاق اثر اپریل۱۹۹۶ ۳۱۹ ع ص [مبصر] اقبالیات آزاد از محمد اسد اللہ وانی فروری۲۰۰۰ ۱۵۸ ع ص [مبصر] ایقان اقبال (فارسی) از مرزا محمد منور اپریل۱۹۹۱ ۳۱۸ ع ص [مبصر] براق شنگ از شمیم بلتستانی جون۱۹۹۲ ۴۷۹ ع ص [مبصر] پس چہ باید کرد مع مسافر از علامہ اقبال [مترجم: خواجہ حمید یزدانی] نومبر۲۰۰۱ ۳۹۹ ع ص [مبصر] تجدید فکریات اسلام (اقبال کے خطبات کا اردو ترجمہ) از وحید عشرت ستمبر۲۰۰۳ ۲۳۹ ع ص [مبصر] تسہیل ارمغان حجاز (حصہ فارسی) از طاہر شادانی؍ ضیا احمد ضیا اپریل۱۹۹۹ ۳۱۹ ع ص [مبصر] تسہیل کلامِ اقبال، پیامِ مشرق از احمد جاوید جنوری۱۹۹۴ ۷۷-۷۸ ع ص [مبصر] جگن ناتھ آزاد بطور اقبال شناس از یاسمین کوثر مارچ۲۰۰۲ ۲۳۹ ع ص [مبصر] جہان اقبال از سیّد معین الرحمن مارچ۲۰۰۳ ۲۳۹ ع ص [مبصر] خطبات اقبال از محمد شریف بقا اپریل۱۹۹۷ ۳۱۷ ع ص [مبصر] خطبات اقبال، نئے تناظر میں از محمد سہیل عمر جون۱۹۹۸ ۲۷۸-۴۷۹ ع ص [مبصر] دی موسک آف کورڈوبا (نظم ’مسجد قرطبہ‘ کا انگریزی ترجمہ) از سلیم اے گیلانی فروری۱۹۹۷ ۱۶۰ ع ص [مبصر] زبورِ عجم (منظور پنجابی ترجمہ) از علی اکبر عباس نومبر۱۹۹۹ ۴۰۰ ع ص [مبصر] سرود رفتہ از امیر چند بہار مئی۱۹۹۹ ع ص [مبصر] سفرنامہ اقبال از حمزہ فاروقی دسمبر۲۰۰۰ ۴۸۰ ع ص [مبصر] شکوہ جوابِ شکوہ [انگریزی ترجمہ: سلطان ظہور اختر] فروری۲۰۰۳ ۱۵۹ ع ص [مبصر] غزل تنقید (ولی دکنی سے اقبال اور مابعد اقبال تک) از اسلوب احمد انصاری مارچ۲۰۰۴ ۲۳۶-۲۳۷ ع ص [مبصر] فکر اقبال کے سرچشمے از آفاق فاخری جنوری۱۹۹۵ ۷۸ ع ص [مبصر] فکر اقبال کے سرچشمے از آفاق فاخری جنوری۱۹۹۵ ۷۸ ع ص [مبصر] فلسفے کے جدید نظریات از قاضی قیصر الاسلام اکتوبر۱۹۹۹ ۳۱۸ ع ص [مبصر] قر طاس اقبال از مرزا محمد منور جولائی۱۹۹۹ ۷۹ ع ص [مبصر] مرقع اقبال از جگن ناتھ آزاد اکتوبر۲۰۰۰ ۳۲۰ ع ص [مبصر] مطالعہ بیدل فکرِ برگساں کی روشنی میں از علامہ اقبال[ مترجم: تحسین فراقی] مئی۲۰۰۱ ۳۹۹ ع ص [مبصر] نوادر اقبال یورپ میں از اختر سعید درانی مئی۲۰۰۰ ۳۹۶ ع ص [مبصر] Articles on Iqbal از بشیر احمد ڈار[ مرتب: شیما مجید] نومبر۲۰۰۳ ۳۹۹ ع [مبصر] کلیات اقبال [مرتب: مولوی عبدالرزاق] جون۱۹۲۶ ۴۷۵-۴۷۷ م ج [مبصر] اسرار و رموز پر ایک نظر از محمد عثمان اپریل۱۹۶۲ ۳۱۶-۳۱۷ م ج [مبصر] اقبال اور ان کا عہد از جگن ناتھ آزاد اپریل۱۹۶۳ ۳۱۷ م ج [مبصر] اقبال اور سیاست ملی از رئیس احمد جعفری مئی۱۹۶۴ ۳۹۸ م ج [مبصر] اقبال کے آخری دو سال از عاشق حسین بٹالوی اپریل۱۹۶۲ ۳۱۸-۳۱۹ م ج [مبصر] حدیث اقبال از طیّب عثمانی فروری۱۹۶۲ ۱۵۸-۱۵۹ م ج [مبصر] ردائع اقبال از ابوالحسن علی ندوی مارچ۱۹۶۴ ۲۳۷ م ج [مبصر] روح اسلام اقبال کی نظر میں از غلام عمر خاں جولائی۱۹۶۵ ۷۹ م ج [مبصر] روحِ اسلام اقبال کی نظر میں از غلام عمر خاں جولائی۱۹۶۵ ۷۹-۸۰ م ج [مبصر] مرقع کلامِ اقبال از عصمت عارف علوی اگست۱۹۶۵ ۱۵۹ م [مبصر] اصلاحات اقبال از بشیر الحق دسنوی نومبر۱۹۵۱ ۴۰۰ م [مبصر] اقبال اور مسٹر از عبدالرحمن،منشی جنوری۱۹۵۷ ۸۰ م [مبصر] اقبال کا مطالعہ از سیّد نذیر نیازی اپریل۱۹۴۲ ۳۱۷-۳۱۸ م [مبصر] اقبال کی کہانی، کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی از ظہیر الدین ستمبر۱۹۵۲ ۲۳۷-۲۳۸ م [مبصر] ایران بعہد ساسانیان [مترجم: ڈاکٹر محمد اقبال] اپریل۱۹۴۲ ۳۱۶ م [مبصر] آثار اقبال از غلام دستگیر رشید ستمبر۱۹۴۶ ۲۳۹ م [مبصر] ذکر اقبال از عبدالمجید سالک فروری۱۹۵۶ ۱۵۷-۱۵۸ م [مبصر] روحِ اقبال از یوسف حسین خان جون۱۹۴۲ ۴۷۵-۴۷۶ م [مبصر] روحِ اقبال از یوسف حسین خان جنوری۱۹۵۳ ۸۰ م [مبصر] شاد اقبال از محی الدین زورقادری مارچ۱۹۴۳ ۲۴۰ م [مبصر] ضربِ کلیم اپریل۱۹۳۷ ۳۰۵-۳۰۸ م [مبصر] متاعِ اقبال از ابوظفر عبدالواحد نومبر۱۹۴۲ ۳۹۸ م [مبصر] مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خان [مرتب: ادارہ بزمِ اقبال] ستمبر۱۹۵۵ ۲۳۷ م [مبصر] نقدِ اقبال از میکش اکبر آبادی دسمبر۱۹۵۳ ۴۷۸ م [مبصر] Persian Psalms از آرتھر جے آربری [زبورِ عجم کا انگریزی ترجمہ] نومبر۱۹۴۹ ۳۹۸-۳۹۹ ن [مبصر] اقبال و شعر فارسی از سیّد محمد علی جون۱۹۲۹ ۴۷۷ ض [مبصر] اقبال اور مغربی مفکرین از جگن ناتھ آزاد جون۱۹۸۱ ض [مبصر] اقبالیات (کتابیاتی جائزہ) از عبدالقوی دسنوی فروری۱۹۷۸ ض [مبصر] فریب تمدن از اکرام اللہ اگست۱۹۷۱ ع ص [مبصر] اقبال کی اردو نثر- ایک مطالعہ از زیب النسائ جنوری۱۹۹۹ ع ص [مبصر] سرود رفتہ از امیر چند بہار مئی۱۹۹۹ م [مبصر] روحِ اقبال از یوسف حسین خان جون۱۹۴۲ ۴۷۵-۴۷۶ م [مبصر] روحِ اقبال از یوسف حسین خان جنوری۱۹۵۳ ۸۰ ……… اقبال خواتین کی نظر میں از یکتا امروہوی ستمبر۱۹۴۷ ……… اقبال نامہ جہانگیری از معتمد خان بخشی نومبر۱۹۳۲ ……… اقبالی مجرم از شورش کاشمیری اگست۱۹۷۶ ……… تاریخ فرخ سیر و اوائل عہد محمد شاہ معروف بہ شاہنامہ منور کلام از سیّد حسن عسکری فروری۱۹۷۶ ……… چند جواہر ریزے از خواجہ عبدالحمید اپریل۱۹۴۴ ……… علامہ سیّد سلیمان ندویؒ (سیمی نار کے مقالات) از …… مئی۱۹۹۰ ……… فلسفۂ اقبال (خطبات کی روشنی میں) از وحید الدین دسمبر۱۹۹۴ ……… میزان اقبال (فارسی) از مرزا محمد منور[ مترجم: شہین کامران مقدم ] فروری۱۹۹۴ ……… نقوش اقبال از ابوالحسن علی ندوی[ مترجم: شمس تبریز خان] مارچ۱۹۷۱ ……… نقوش اقبال از شمس تبریز خان ستمبر۱۹۷۶ ……… واقعات کشمیر (تاریخ کشمیر) از محمد اعظم دیدہ مری[ مترجم: حمید یزدانی] اگست۱۹۹۶ ……… یادِ اقبال از غلام سرور فکار مارچ۱۹۴۱ ……… Aspects of Iqbal، (مقالاتِ علامہ اقبال/ اُردو و انگریزی) از الطاف حسین شوکت اکتوبر۱۹۳۹ مجلہ اقبالیات مئی۱۹۹۹ چیک عمیر الصدیق ندوی بحوالہ اقبال جو شمارے چیک کرنے ہیں جولائی۲۰۰۵ تا تا حال تبصرے ، مضامین………منشاء الرحمن خان، تضمین بر کلام اقبال [نظم]……ستمبر۷۲ سے ستمبر۷۳ …اسرار خودی از علامہ محمد اقبال پر پروفیسر نکلسن کے تبصرہ میں اعترضات کا جواب جون۲۱ ظ……ظ……ظ  ماہنامہ معارف میں اقبالیاتی ادب محمد شاہد حنیف ’’اقبالیاتی ادب‘‘ کا ایک قابلِ لحاظ حصہ، حوالہ جاتی لوازمے (Reference material) پر مشتمل ہو تا ہے اس میں خاص نوعیت کی کتابیں، رسائل اور بعض فہارس وغیرہ شامل ہیں۔ اقبالیاتی تحقیق و تنقید کی پیش رفت میں اس طرح کے کاموں اور لوازمے کا کردار بہت اہم بلکہ بسا اوقات کلیدی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اقبالیات کے حوالہ جاتی کام کئی طرح کے ہیں ان میں کشف الابیات، کلیدیں اور اشاریے خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ رسائل و جرائد میں اقبالیات سے متعلق مختلف موضوعات پر ہزارہا مقالات محفوظ ہیں۔ بعض رسائل کی مکمل اور نامکمل فہارس شائع ہوچکی ہیں۔ اس ضمن میں ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے اور اس شمارے میں محمد شاہد حنیف صاحب کا مرتب کردہ اقبالیاتِ معارف کا اشاریہ پیش کیا جارہا ہے۔ جس میں ماہ۔نامہ معارف اعظم گڑھ میں شائع شدہ اقبالیاتی ادب کی فہرست شامل ہے۔ دارالمصنفین کا مجلہ معارف جولائی۱۹۱۶ء میں اعظم گڑھ سے مولانا سیّدسلیمان ندوی کی زیرادارت جاری ہوا تھا اور آج تک باقاعدگی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ برعظیم کے علمی حلقوں میں اس کا مقام و مرتبہ مسلم ہے۔ معارف کے بانی مدیر سیّد سلیمان ندوی کو علامہ اقبال سے ایک خاص طرح کی قربت حاصل تھی۔ اقبال انھیں ’’استاذ الکل‘‘ اور ’’ہندوستان میں جوے شیر اسلام کے فرہاد‘‘ سمجھتے تھے۔ اقبالیاتِ معارف کا ایک اہم موضوع رہا اور اس میں اقبال سے متعلق مضامین، تبصرے اور نظمیں بکثرت شائع ہوتی رہیں۔ اقبالیاتِ معارف کا یہ اشاریہ کام کرنے والوں کے لیے، بہرنوع استفادہ و اعانتِ علمی کا باعث ہوگا۔ آیندہ بھی اس انداز میں دیگر رسائل و جرائد میں مطبوعہ ذخیرۂ اقبالیات کے اشاریے پیش کیے جاتے رہیں گے۔ [ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی] مقالات مصنف؍مرتب مضمون ماہ و سال صفحات نمبر آفاق فاخری اقبال کے فلسفیانہ افکار کا ارتقا اگست۱۹۹۳ئ ۱۳۳-۱۴۳ اختر حسین حقیقتِ لمعہ [تعاقب بر مضمون اکبر رحمانی‘ جنوری۲۰۰۱] اپریل۲۰۰۱ئ ۲۸۱-۲۸۶ اختر حسین یک دُرِّنا قبول از گنجینہ اقبال [لمعہؔ کی بحث پر مزید تعاقب] دسمبر۲۰۰۱ئ ۴۶۷-۴۷۵ ادارہ ادارہ اقبال‘ لکھنؤ کا قیام [شذرہ] مئی۱۹۴۲ئ ۳۲۳-۳۲۴ // // اسرار خودی [انگریزی ترجمہ] مارچ۱۹۲۱ئ ۲۳۳-۲۳۸ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۱ اپریل۱۹۵۴ئ ۳۰۶-۳۱۳ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۲ مئی۱۹۵۴ئ ۳۸۹-۳۹۴ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۳ جون۱۹۵۴ئ ۴۶۱-۴۷۲ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۴ جولائی۱۹۵۴ئ ۶۶-۷۶ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۵ اگست۱۹۵۴ئ ۱-۸ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۶ ستمبر۱۹۵۴ئ ۲۱۳-۲۱۷ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۷ اکتوبر۱۹۵۴ئ ۳۰۹-۳۱۳ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۸ نومبر۱۹۵۴ئ ۳۹۴-۳۹۶ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۹ جنوری۱۹۵۵ئ ۶۴-۷۳ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۱۰ مارچ۱۹۵۵ئ ۲۲۷-۲۳۲ // // مکاتیب سر اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی-۱۱ …… ۳۱۲-۳۱۳ // // اقبال پر دوسری بین الااقوامی کانگریس‘ بمقام لاہور کا انعقاد -۱ نومبر۱۹۸۳ئ ۳۲۲-۳۲۴ // // اقبال پر دوسری بین الااقوامی کانگریس‘ بمقام لاہور کا انعقاد -۲ دسمبر۱۹۸۳ئ ۴۰۲-۴۰۴ ادارہ اقبال کی یک صدی سالگرہ پر دہلی میں سیمینار نومبر۱۹۷۷ئ ۳۲۲-۳۲۴ اسد ملتانی اقبال- انا اور تخلیق جولائی۱۹۴۵ئ ۳۲-۴۰ سعید الظفر چغتائی اقبال کی معنویت آج جون۱۹۷۹ئ ۴۵۱-۴۶۱ اقبال،علامہ خضر راہ [غیر مطبوعہ نظموں کی اشاعت]-- موضوع ادبیات مئی۹۲ ۱۹ئ ۱-۶ اکبر حسین قریشی اقبال اور حدیث نبوی جولائی۱۹۶۱ئ ۴۷-۶۲ اکبر رحمانی علامہ اقبال کا برقی علاج‘ بھوپال جانے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ جنوری۲۰۰۱ئ ۴۵-۵۸ // // علامہ اقبال کی مکتوب نگاری پر ایک نظر اپریل۱۹۹۸ئ ۲۸۵-۳۰۷ // // علامہ اقبال کی مکتوب نگاری کی امتیازی خصوصیات اکتوبر۲۰۰۰ئ ۳۰۵-۳۱۵ // // ماسٹر اختر حسین اور حقیقتِ لمعہ [تعاقب کا جواب] ستمبر۲۰۰۱ئ ۲۲۹-۲۳۶ // // مکاتیب میں اقبال کی مخصوص روش اور ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اگست۲۰۰۲ئ ۱۵۱-۱۵۵ // // بابا تاج الدین ناگ پوری سے علامہ اقبال کی اور شاد کی عقیدت فروری۱۹۹۹ئ ۱۸۸-۱۴۳ اکرام الحق سلیم فلسفہ اقبال جنوری۱۹۲۶ئ ۴۲-۵۳ الطاف احمد اعظمی اقبال کا تصورِ۔ّ انا-۱ ستمبر۲۰۰۱ئ ۱۸۷-۲۰۸ // // اقبال کا تصورِ۔ّ انا-۲ اکتوبر۲۰۰۱ئ ۲۶۸-۲۸۶ انعام الحق علمی اقبال کے اردو کلام میں قرآن سے ماخوذ چند اصطلاحات مارچ۱۹۹۷ئ ۱۹۲-۲۰۴ // // علامہ اقبال کی چند پیشین گوئیاں جون۱۹۹۱ئ ۴۶۲-۴۶۹ انیس چشتی اقبال کا تصورِ۔ّ وطن ستمبر۲۰۰۴ئ ۲۰۹-۲۲ ای ایم فاسٹر کلام اقبال بلبل ہندوستان [اسرار خودی کے انگریزی ترجمہ (از نکلسن) پر انگلستانی پرچے اتہینیم کا تبصرہ/ ماخوذ] مئی،جون۱۹۲۱ئ ۴۲۳-۴۳۱ بدرالدین بٹ ابو علی مسکویہ اقبال کی نظر میں فروری۱۹۸۲ئ ۲۱۵-۲۲۴ // // اقبال اور دنیائے عرب جون۱۹۸۹ئ ۴۳۶-۴۴۵ بشیر مخفی القادری اقبال کے تصورِ۔ّ خودی کا مآخذ ستمبر۱۹۴۵ئ ۱۷۱-۱۷۹ بشیرالحق دسنوی اصلاحاتِ اقبال-۱ اگست۱۹۴۹ئ ۱۳۵-۱۵۴ // // اصلاحاتِ اقبال-۲ ستمبر۱۹۴۹ئ ۲۱۵-۲۳۵ // // اصلاحاتِ اقبال اگست۱۹۵۳ئ ۱۴۳-۱۵۲ تاج پیامی اقبال کی ایک غزل کا تشریحی تجزیہ جولائی۱۹۹۵ئ ۴۸-۵۷ جگن ناتھ آزاد اقبال اور عظمت آدم علیہ السلام [سیرتِ انبیا کرام و نظریہ ارتقا] جولائی۱۹۷۷ئ ۵-۲۴ // // اقبال اور نطشے جون۱۹۷۶ئ ۴۲۵-۴۴ // // اقبال، اسلام اور اشتراکیت فروری۱۹۷۶ئ جگن ناتھ آزاد اقبال، اسلام اور اشتراکیت مارچ۱۹۷۶ئ // // جاوید نامہ کے کردار دسمبر۱۹۷۵ئ ۴۳۹-۴۴۷ // // ڈاکٹر ذاکر حسین اور علامہ اقبال جولائی۱۹۸۷ئ ۲۱-۳۸ // // رودادِ اقبال [زیر طبع کتاب کا حرفِ اوّل] -۱ دسمبر۱۹۸۵ئ ۴۳۷-۴۵۷ // // رودادِ اقبال [زیر طبع کتاب کا حرفِ اوّل] -۲ جنوری۱۹۸۶ئ ۴۹-۶۴ // // کلام اقبال میں عورت کا درجہ جولائی۱۹۷۵ئ ۲۵-۴۳ حبیب الرحمن ندوی اقبال کی علمی جستجو [شاعری میں وطنیت، آفاقیت اور اسلامی نظریات]-۱ جنوری۱۹۹۶ئ ۵-۲۸ // // اقبال کی علمی جستجو [شاعری میں وطنیت، آفاقیت اور اسلامی نظریات]-۲ فروری۱۹۹۶ئ ۱۰۷-۱۲۹ حفیظ،سیّد سر اقبال مرحوم اور ان کی شاعری جنوری۱۹۴۲ئ ۵۷-۶۷ ڈکنسن،پروفیسر اسرار خودی [تبصرہ بشکریہ دی نشین مترجم: ادارہ] ستمبر۱۹۲۱ئ ۲۱۲-۲۱۶ شبیر احمد خاں علامہ اقبال اور اسلام کے تصورِ۔ّ زمان کی ترجمانی-۱ اگست۱۹۶۱ئ ۸۵-۱۰۳ // // علامہ اقبال اور تصورِ۔ّ زمان -۲ جون۱۹۶۲ئ ۴۲۹-۴۴۴ // // علامہ اقبال اور تصورِ۔ّ زمان -۳ جولائی۱۹۶۲ئ ۴۴-۵۹ // // اقبال کا تصورِ۔ّ زمان-۴ جنوری۱۹۶۵ئ ۵-۲۲ شوکت سبزواری فلسفہ اقبال کا مرکزی خیال -- وحدت و حرکت فروری۱۹۴۶ئ ۱۳۶-۱۴۵ صباح الدین عبدالرحمن اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی کا ایک سیمی نار نومبر۱۹۸۱ئ ۳۸۳-۳۹۷ // // اقبال کی صدسالہ سالگرہ کی بین الاقوامی کانگریس کا جشن بمقام لاہور -۱ جنوری۱۹۷۸ئ ۶۱-۷۸ // // اقبال کی صدسالہ سالگرہ کی بین الاقوامی کانگریس کا جشن بمقام لاہور -۲ فروری۱۹۷۸ئ ۱۳۶-۱۵۱ // // اقبال کی صدسالہ سالگرہ کی بین الاقوامی کانگریس کا جشن بمقام لاہور -۳ مارچ۱۹۷۸ئ ۲۱۶-۲۳۴ // // حضرت سیّد صاحب اور ڈاکٹر اقبال جولائی۱۹۶۷ئ ۵-۲۸ // // کیا علامہ اقبال یورپ کے فلسفہ سے متاثر ہوئے؟ فروری۸۴ ۱۰۹-۱۲۵ // // زندہ رود از جسٹس جاوید اقبال - اقبال پر ایک دل آویز کتاب کا تعارف جنوری۱۹۸۲ئ ۵-۴۲ صفدر علی،مرزا اقبال کا پیغام عمل جون۱۹۵۷ئ ۴۵۹-۴۷۱ // // اقبال کا فوق البشر اکتوبر۱۹۵۷ئ ۲۸۱-۲۹۳ طارق مجاہد جہلمی اقبال کے تصورِ زمان پر اعتراضات کے جواب-۱ فروری۲۰۰۶ئ ۱۰۲-۱۱۸ // // اقبال کے تصورِ زمان پر اعتراضات کے جواب-۲ مارچ۲۰۰۶ئ ۱۸۱-۲۰۱ عبدالحمید یزدانی کلام اقبال میں رومی کی شعری تلمیحات و اقتباسات-۱ جولائی۱۹۸۱ئ ۳۳-۵۳ // // کلام اقبال میں رومی کی شعری تلمیحات و اقتباسات-۲ اگست۱۹۸۱ئ ۱۱۵-۱۲۴ عبدالحمید،خواجہ اقبال علی الرحمہ کے چند جواہر ریزے-۱ اگست۱۹۳۸ئ ۱-۱۳ // // اقبال علی الرحمہ کے چند جواہر ریزے-۲ ستمبر۱۹۳۸ئ ۱۶۵-۱۸۰ // // اقبال- انا اور تخلیق-۱ نومبر۱۹۴۴ئ ۲۱۱-۲۱۸ // // اقبال- انا اور تخلیق-۲ دسمبر۱۹۴۴ئ ۲۴۵-۲۵۲ عبدالرحمن سعید اقبال کا نظریہ عشق و خودی اکتوبر۱۹۹۱ئ ۲۶۱-۲۸۱ عبدالسلام رام پوری اقبال اور برگساں-۱ فروری۱۹۴۱ئ ۹۷-۱۱۵ // // اقبال اور برگساں-۲ مارچ۱۹۴۱ئ ۱۷۳-۱۸۵ // // اقبال اور برگساں-۳ اپریل۱۹۴۱ئ ۲۸۶-۳۰۰ عبدالسلام رام پوری اقبال کا فکری ارتقا پر تعاقب و تصحیح [اقبال اور ابن سینا کے مزعومہ فلسفہ عشق کی تشریح-۱] ستمبر۱۹۸۰ئ ۱۷۲-۱۹۴ // // اقبال کا فکری ارتقا پر تعاقب و تصحیح[اقبال اور ابن سینا کے مزعومہ فلسفہ عشق کی تشریح-۲] اکتوبر۱۹۸۰ئ ۲۶۰-۲۷۷ // // اقبال کا فکری ارتقا-۱ دسمبر۱۹۷۷ئ ۴۰۵-۴۳۰ // // اقبال کا فکری ارتقا-۲ جنوری۱۹۷۸ئ ۵-۳۱ // // اقبال کی ریاست [اسلامی ریاست کا تصور۔ّ]-۱ اکتوبر۱۹۵۴ئ ۲۴۵-۲۶۲ // // اقبال کی ریاست[اسلامی ریاست کا تصور۔ّ]-۲ نومبر۱۹۵۴ئ ۳۲۵-۳۴۶ // // اقبال کے اخلاقی تصور۔ّات جنوری۱۹۴۹ئ ۲۷-۵۱ // // اقبال کے یہاں تصوف اور عقلیت [خطاب] ستمبر۱۹۸۸ئ ۱۶۵-۱۸۲ // // علامہ اقبال کا فکری ارتقا-۳ فروری۱۹۷۸ئ ۸۵-۱۰۴ عبدالسلام ندوی اقبال کا فلسفہ خودی-۱ اپریل۱۹۴۷ئ ۲۴۵-۲۶۵ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۲ مئی۱۹۴۷ئ ۳۴۷-۳۵۷ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۳ جون۱۹۴۷ئ ۴۰۵-۴۱۶ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۴ جولائی۱۹۴۷ئ ۵-۱۳ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۵ اگست۱۹۴۷ئ ۸۵-۹۵ عبدالسلام ندوی اقبال کا فلسفہ خودی-۶ ستمبر۱۹۴۷ئ ۱۶۵-۱۷۱ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۷ اکتوبر۱۹۴۷ئ ۳۵۶-۲۶۶ // // اقبال کا فلسفہ خودی-۸ نومبر۱۹۴۷ئ ۳۲۵-۳۳۸ // // امام المسلمین کا حکم تشریعی اور عالم رویا کے احکام کی اطاعت [مکاتیب اقبال کے حوالے استفسارات] مئی۱۹۴۷ئ ۳۹۱-۳۹۳ عبداللہ،سیّد اقبال اور سیاسیات [خلافت و جمہوریت وغیرہ]-۱ مارچ۱۹۴۶ئ ۱۹۱-۲۰۵ // // اقبال اور سیاسیات [خلافت و جمہوریت وغیرہ]-۲ اپریل۱۹۴۶ئ ۲۷۶-۲۹۸ // // کلام اقبال کی دقتیں اور ان کی تشریح کی ضرورت [پسندیدہ مقامات]-۱ مارچ۱۹۴۴ئ ۱۹۹-۲۱۰ // // کلام اقبال کی دقتیں اور ان کی تشریح کی ضرورت [رومی، عطار، سنائی وغیرہ]-۲ اپریل۱۹۴۴ئ ۲۶۸-۲۷۹ عبدالمغنی اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیل جدید-۱ اگست۱۹۷۳ئ // // اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیل جدید-۲ ستمبر۱۹۷۳ئ ۱۸۹-۲۰۵ // // اقبال اور نئی دنیا [مغرب اور مغربی تہذیب] فروری۱۹۷۹ئ ۱۱۸-۱۳۶ // // موازنہ اقبال اور غالب-۱ اکتوبر۱۹۶۳ئ ۲۸۹-۳۰۰ // // موازنہ اقبال اور غالب-۲ نومبر۱۹۶۳ئ ۳۶۱-۳۷۲ عشرت حسن انور اقبال اور برگسان -۱ مئی۱۹۵۱ئ ۳۶۴-۳۷۷ // // اقبال اور جیمس وارڈ [خدا کے وجود کے بارے میں]-۵ اکتوبر۱۹۵۱ئ ۲۸۳-۲۹۳ // // اقبال اور جیمس وارڈ [خودی کے نظریات]-۴ اگست۱۹۵۱ئ ۱۱۳-۱۲۵ // // اقبال اور نیطشے-۲ جون۱۹۵۱ئ ۴۵۱-۴۶۰ // // اقبال اور نیطشے-۳ جولائی۱۹۵۱ئ ۴۵-۵۴ // // اقبال اور وائٹ ہیڈ-۷ دسمبر۱۹۵۱ئ ۴۲۸-۴۴۰ // // اقبال اور وائٹ ہیڈ-۸ جنوری۱۹۵۲ ۵۹-۷۰ // // اقبال اور ولیم جیمس -۶ نومبر۱۹۵۱ئ ۳۴۵-۳۶۰ // // اقبال، رومی اور ولیم جیمس-۱ فروری۱۹۵۴ئ ۱۰۶-۱۲۵ // // اقبال، رومی اور برگسان-۲ مارچ۱۹۵۴ئ ۱۹۳-۲۰۷ // // اقبال، رومی اور شنکر اچاریہ-۳ جون۱۹۵۴ئ ۴۰۵-۴۱۹ // // اقبال، رومی اور شنکر اچاریہ-۴ اگست۱۹۵۴ئ ۹۸-۱۰۷ عشرت حسن انور اقبال، رومی اور شنکر اچاریہ-۵ ستمبر۱۹۵۴ئ ۱۶۵-۱۷۶ محمد اسلم سلیم ڈاکٹر اقبال اور روح و جسم کا اتحاد [عبدالسلام ندوی کے مضمون (مئی۴۷)کا تعاقب اور اُن کا جواب] جون۱۹۴۷ئ ۴۶۷-۴۶۹ محمد بدیع الزماں اقبال اور سرزمین اندلس [زوالِ امت مسلمہ] دسمبر۱۹۸۹ئ ۴۳۸-۴۵۵ // // اقبال کا فلسفہ خودی اپریل۱۹۹۰ئ ۲۶۳-۲۶۹ // // اقبال کا ’مرد قلندر‘ فروری۱۹۹۳ئ ۱۱۸-۱۲۷ // // اقبال کی دو نظمیں‘ قرآن کے آئینے میں مارچ۱۹۸۵ئ ۱-۱۲ // // اقبال کے چند موضوعات کی تشریح خود اقبال کی زبانی جون۱۹۹۶ئ ۴۴۴-۴۵۲ // // اقبال کے کلام کی قرآ نی تلمیحات کے اشاریے جنوری۱۹۹۴ئ ۲۶-۴۴ // // اقبال کے کلام میں قرآنی آیات کے منظوم ترجموں کے اشاریے جولائی۱۹۹۴ئ ۴۲-۵۰ // // اقبال کے کلام میں قرآنی تلمیحات کی ندرت دسمبر۲۰۰۰ئ ۴۴۷-۴۶۹ // // اقبال کے کلام میں ’خبر‘ و‘نظر‘ کی اصطلاحیں نومبر۱۹۹۶ئ ۳۵۸-۳۶۶ // // اقبال کے کلام میں ’قیصر‘ کی اصطلاح دسمبر۱۹۹۴ئ …… // // اقبال کے کلام میں ’یقین‘ کی اصطلاح مئی۱۹۹۵ئ ۳۶۶-۳۷۸ // // اقبال کے کلام میں ’یوسف‘ اور ’زلیخا‘ نومبر۲۰۰۴ئ ۳۸۱-۳۸۴ // // الفاظ سے مشتق اقبال کی چند بصیرت افروز اصطلاحیں اپریل۲۰۰۰ئ ۲۹۸-۳۱۰ // // تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی [مسلمانی کی اصطلاح] جولائی۱۹۹۷ئ ۳۷-۴۵ // // خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے[غزل] مئی۱۹۹۱ئ ۳۵۲-۳۵۸ // // سینما ہے یا صنعت آذری ہے[اقبال کی نظم ’سینما‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں-۱] جنوری۱۹۸۹ئ ۳۵-۵۰ // // سینما ہے یا صنعت آذری ہے[اقبال کی نظم ’سینما‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں-۲] فروری۱۹۸۹ئ ۱۲۶-۱۳۸ // // قرآن میں ہو غوطہ زن ا ے مردِ مسلماں [غزل کی مفصل تشریح] اکتوبر۱۹۹۰ئ ۱۸۴-۲۹۶ // // قل العفو [اقبال کی نظم صدیق ص‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں] اکتوبر۱۹۸۷ئ ۲۶۹-۲۸۵ // // کافر و مومن کی پہچان [اقبال کی نظم کافر و مومن کی روشنی میں] اگست۱۹۸۸ئ ۱۳۶-۱۴۲ // // کلام اقبال میں ’عشق‘، ’خودی‘ اور ’فقر‘ کے اشارے اگست۱۹۹۸ئ ۱۳۲-۱۴۷ // // کلیاتِ اقبال میں انبیا اور صحابہ پر اشعار کے اشاریے نومبر۲۰۰۲ئ ۳۶۵-۳۷۹ // // کہ شاہین شہِ لولاک ا ہے تو [بال جبریل کی رباعی] ستمبر۲۰۰۳ئ ۲۱۲-۲۱۸ محمد بدیع الزماں گوشوارہ کلیاتِ اقبال جنوری۱۹۹۹ئ ۵۹-۶۵ // // موت کہتے ہیں جسے اہل زمیں کیا راز ہے؟ دسمبر۱۹۹۱ئ ۴۴۴-۴۵۰ // // ہر ایک ذرہ میں ہے شاید مکیں دل [اقبال کی ایک رباعی قرآن کی روشنی میں] جولائی۱۹۸۹ئ ۴۸-۵۷ // // ’خون جگر‘ (کی اصطلاح )اور اقبال جولائی۱۹۹۳ئ ۴۹-۵۷ // // ’مسلم‘ اور ’مسلمان‘ سے ترتیب دیے گئے اشعارِ اقبال کی معنویت جولائی۲۰۰۵ئ ۵۸-۶۵ محمد ریاض تقدیر اُمم اور علامہ اقبال [اقوامِ سابقہ امت مسلمہ]-۱ اگست۱۹۷۷ئ ۸۵-۱۰۴ // // تقدیر اُمم اور علامہ اقبال [اقوامِ سابقہ امت مسلمہ]-۲ ستمبر۱۹۷۷ئ ۱۶۵-۱۷۸ محمد طاہر علی افکار اقبال [پیام مشرق کے آئینے میں] فروری۱۹۷۲ئ محمد محمود زمان ڈاکٹر اقبال کی اردو [اعتراضات کا جائزہ] مئی۱۹۲۸ئ ۳۶۰-۳۷۳ محمد منصور عالم ابلیس و بشر اور اقبال جون۱۹۸۷ئ ۴۳۸-۴۶۲ محمد نعمان خان اقبال اور اسلام جولائی۲۰۰۰ئ ۵۹-۶۸ محمد ہاشم،سیّد اقبال کی نظم ’مسجد قرطبہ‘ فکری و فنی حیثیت سے اکتوبر۱۹۷۸ئ ۲۹۱-۳۰۲ محمد ہاشم،سیّد اقبال بحیثیتِ غزل گو نومبر۱۹۷۷ئ ۳۵۸-۳۶۸ معین الدین ندوی اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۱ اکتوبر۱۹۷۱ئ ۲۴۵-۲۷۰ // // اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۲ نومبر۱۹۷۱ئ ۳۲۵-۳۴۵ // // اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۳ دسمبر۱۹۷۱ئ ۴۰۵-۴۲۵ // // اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۴ جنوری۱۹۷۲ئ // // کیا اقبال فرقہ پرست شاعر تھے؟-۱ جنوری۱۹۵۰ئ ۴۳-۶۲ // // کیا اقبال فرقہ پرست شاعر تھے؟-۲ فروری۱۹۵۰ئ ۸۵-۱۰۸ مقبول حسین،سیّد اقبال اور ٹیگور مارچ۱۹۳۲ئ ۲۳۴-۲۳۵ میر ولی الدین اقبال اور تصورِ۔ّ فقر جولائی۱۹۴۸ئ ۴۷-۵۷ // // زمانہ حاضر کا انسان اور اقبال جون۱۹۴۵ئ ۱۳۱-۱۴۱ نذیر احمد کاشمیری اقبال کے مداح اور نقاد مئی۱۹۷۸ئ ۳۴۱-۳۶۱ نذیر نیازی،سیّد اقبال کے نام سے رسائل اور مجالس [شذرہ] مئی۴۲ ۳۲۴ // // لکھنؤ میں ادارہ اقبال کے نام سے مجلس کا قیام [شذرہ] مئی۴۲ ۳۲۳ نعیم الدین امراؤتی رومی و اقبال کا تصورِ۔ّ انسان اگست۱۹۸۰ئ ۹۹-۱۱۲ نکلسن،پروفیسر اسرار خودی اور ڈاکٹر اقبال اکتوبر۱۹۲۱ئ ۲۸۶-۲۹۴ وارث ریاض علامہ اقبال اور احمدیت اکتوبر۲۰۰۲ئ ۲۶۶-۲۸۶ وارث ریاض ملفوظات اقبال کی ادبی اہمیت فروری۱۹۹۸ئ چیک وحید اشرف اقبال کی فارسی شاعری پر ایک اجمالی نظر-۱ فروری۱۹۹۵ئ ۱۲۴-۱۳۲ // // اقبال کی فارسی شاعری پر ایک اجمالی نظر-۲ مارچ۱۹۹۵ئ ۲۰۲-۲۱۱ // // مثنوی اسرار خودی پر ایک نظر اگست۱۹۷۸ئ ۱۰۰-۱۱۴ وحید عشرت اقبال کا تصورِ۔ّ زمان و مکان اور صوفیہ دسمبر۱۹۸۷ئ ۴۳۵-۴۵۷ یٰسین مظہر صدیقی ملفوظات اقبال کی ادبی اہمیت [تذکرہ حسین احمد مدنی و دیگر اکابر]-۱ اگست۱۹۹۷ئ ۱۰۲-۱۱۷ // // ملفوظات اقبال کی ادبی اہمیت [تذکرہ حسین احمد مدنی و دیگر اکابر]-۲ ستمبر۱۹۹۷ئ ۱۹۴-۲۱۶ خ…خ…خ…خ نظمیں امین عالم رابن اقبال اپریل۱۹۹۶ئ ۳۱۵ جگن ناتھ آزاد مزارِ اقبال پر جنوری۱۹۸۴ئ ۷۴ حسن سرمد،سیّد یادِ اقبال بمناسبت یومِ یاد بودِ اقبال اپریل۱۹۷۵ئ ۳۱۴-۳۱۵ خورشید افسر بسوانی نذرِ اقبال ستمبر۱۹۶۵ئ ۲۳۶ صالحہ عرشی افکار اقبال ترجمہ از پیامِ مشرق ستمبر۱۹۷۸ئ ۲۳۲ عبدالرئوف اقبال اگست۱۹۶۳ئ ۱۵۵-۱۵۶ محمد اسد خان سوال بہ اقبال [اسرار خودی پر اعترضات ؍ منظوم] فروری۱۹۳۱ئ ۱۴۴ محمد اقبال،ڈاکٹر خلافت اور ترک و عرب فروری۱۹۲۴ئ ۱۴۴ محمد اقبال،ڈاکٹر نغمہ ساربان حجاز اگست۱۹۲۳ئ ۱۳۶-۱۳۷ محمد حسین فطرت مزارِ اقبال پر حاضری [حسن تصور۔ّ] اپریل۱۹۹۵ئ ۳۱۲-۳۱۳ محمد سراج الحق مقامِ مسلم [بہ تتبع حضرت رومی و اقبال] اپریل۱۹۵۵ئ ۳۱۲-۳۱۳ منشاء الرحمن خان تضمین برکلامِ اقبال [نظم] ستمبر۱۹۷۲ئ ۲۷۵ نکہت شاہ جہاں پوری پیامِ اقبال مئی۱۹۴۴ئ ۳۹۳ یحییٰ اعظمی ماتمِ اقبال مئی۱۹۳۸ئ ۱۶۱-۱۶۳ تبصرہ کتب مبصر کتاب؍ مصنف ماہ و سال صفحات نمبر ادارہ [مبصر] اسرارِ خودی [مرتب: شائستہ خان؍ طبع اوّل کا عکسی مجموعہ] مارچ۱۹۹۶ئ ۲۳۷-۲۳۸ // // اقبال اور مغربی مفکرین از جگن ناتھ آزاد نومبر۱۹۹۶ئ ۳۹۷ // // رموزِ اقبال از امیر الدین ولی اگست۱۹۴۶ئ ۱۵۸-۱۵۹ // // رموزِ بے خودی از علامہ محمد اقبال اپریل۱۹۱۸ئ ۴۱-۵۰ // // قرآن اور اقبال از ابو محمد مصلح جنوری۱۹۴۱ئ ۷۸ // // ماہنامہ جامعہ دہلی کا اقبال نمبر [مدیر: عبداللطیف اعظمی] ستمبر۱۹۷۸ئ ۲۳۴-۲۳۶ // // ماہنامہ شاعر بمبئیکا اقبال نمبر [مدیر: افتخار احمد صدیقی] نومبر۱۹۹۰ئ ۳۱۲-۳۱۳ // // مقالات یومِ اقبال از آل احمد سرور نومبر۱۹۴۶ئ ۳۹۹-۴۰۰ // // مکاتیب سر محمد اقبال بنام سیّد سلیمان ندوی از شفقت رضوی جون۱۹۹۴ئ ۴۷۸ // // نقوش اقبال از ابوالحسن علی ندوی[ مترجم: شمس تبریز خان] مارچ۱۹۷۱ئ // // Gabriel's Wing از این میری شمل[شاعر مشرق کے مذہبی نظریات کا جائزہ] جنوری۱۹۹۲ئ ۷۷-۷۸ ’اقبال ریویو‘ ماہنامہ علامہ اقبال کا پی-ایچ-ڈی کا مقالہ از محمد صدیق شبلی [مترجم: ابو سفیان اصلاحی] ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۰۸-۲۱۶ ذکی احمد اقبال خواتین کی نظر میں از یکتا امروہوی ستمبر۱۹۴۷ئ ۲۳۹ ر [مبصر] اخبار الدولۃ السلجوقیہ از آرتھر کرسٹن [مترجم:علامہ اقبال] مارچ۱۹۳۴ئ ۲۳۸ // // اقبال نامہ جہانگیری از معتمد خان بخشی نومبر۱۹۳۲ ۳۹۷ ص [مبصر] نقوش اقبال از شمس تبریز خان ستمبر۱۹۷۶ئ ۲۳۷ ص ع [مبصر] زندہ رود از جسٹس جاوید اقبال - اقبال پر ایک دل آویز کتاب [تبصرہ] جنوری۱۹۸۲ئ ۵-۴۲ // // اقبال کا نظامِ فن از عبدالمغنی اگست۱۹۸۵ئ ۱۳۵-۱۵۵ // // زندہ رود‘جلد سوم از جاوید اقبال اکتوبر۱۹۸۵ئ ۲۸۷-۳۱۲ // // سہ ماہی شیرازہ سری نگر کا اقبال نمبر [مدیر: رشید نازکی] اپریل۱۹۷۸ئ ۳۱۵ ص ع [مبصر] ماہنامہ المعارف لاہور کا اقبال نمبر [مدیر: عبداللہ قریشی] اپریل۱۹۷۸ئ ۳۱۲-۳۱۳ // // ماہنامہ آج کل دہلی کا اقبال نمبر [مدیر: شہباز حسین] اپریل۱۹۷۸ئ ۳۱۳ // // Iqbal as a Thinker (مجموعہ مقالات) جنوری۱۹۴۶ئ ۸۰ // // Aspects of Iqbal، (مقالاتِ علامہ اقبال/ اُردو و انگریزی) از الطاف حسین شوکت اکتوبر۱۹۳۹ئ ۳۱۵-۳۱۷ // // Bibliography of Iqbal از عبدالغنی؍ نور الٰہی اگست۱۹۵۵ئ ۱۶۰ // // Metaphsics of Iqbal از عشرت حسن انور جنوری۱۹۴۶ئ ۷۹-۸۰ ض [مبصر] اقبال اور تصّوف از آل احمد سرور مئی۱۹۸۳ئ ۳۹۳-۳۹۵ // // اقبال اور عالمی ادب از عبدالمغنی ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۸ // // اقبال اور ان کا عہد از جگن ناتھ آزاد جنوری۱۹۶۳ئ ۳۱۷-۳۱۸ // // اقبال کے ممدوح علما از افضل حق قرشی ستمبر۱۹۷۹ئ ۲۳۸-۲۳۹ // // اقبال اور مغربی مفکرین از جگن ناتھ آزاد جون۱۹۸۱ئ ۴۸۳-۴۸۴ // // اقبال بحیثیتِ مفّکر پاکستان از عبدالحمید ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۶ // // اقبال کا تصورِ۔ّ بقائے دوام از نعیم احمد ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۳-۲۳۴ // // اقبال کا سیاسی کارنامہ از محمد احمد خان فروری۱۹۵۹ئ ۱۵۷-۱۵۸ // // اقبال کا نظامِ فن از عبدالمغنی ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۹ // // اقبال کا نظریۂ اخلاق از سعید احمد رفیق فروری۱۹۶۱ئ ۱۵۷-۱۵۸ // // اقبال کے ابتدائی افکار از عبدالحق نومبر۱۹۶۹ئ ۳۹۸-۳۹۹ // // اقبال کے ممدوح علما از افضل حق قریشی ستمبر۱۹۷۹ئ ۲۳۸ // // اقبال ۱۹۸۵ء [مرتب: وحید عشرت] ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۵ // // اقبالی مجرم از شورش کاشمیری اگست۱۹۷۶ئ ۶۰ // // اقبالیات (کتابیاتی جائزہ) از عبدالقوی دسنوی فروری۱۹۷۸ ۱۶۶ // // انوار اقبال از بشیر احمد ڈار اکتوبر۱۹۶۷ئ ۳۱۷ // // پیام اقبال از محمد بدیع الزماں فروری۱۹۸۸ئ ۱۶۰ // // تلمیحات و اشارات اقبال از اکبر حسین قریشی اپریل۱۹۷۲ئ ۳۱۸ // // سرسیّد اقبال اور علی گڑھ از اصغر عباس ستمبر۱۹۸۸ئ ۲۳۸ // // سلسلہ درسیاتِ اقبال‘ جلد اوّل تا سوم از عبدالرشید فاضل ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۷ ض [مبصر] طواسین اقبال‘ جلددوم،سوم از ایس ایم فاروق ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۲ // // علامہ اقبال اور بھوپال از عبدالقوی دسنوی اگست۱۹۶۷ئ ۱۵۹-۱۶۰ // // علامہ اقبال (مصلح قرن آخر) از کبیر احمد جائسی دسمبر۱۹۸۲ئ ۴۷۹ // // فکر اقبال از خلیفہ عبدالحکیم فروری۱۹۵۹ئ ۱۵۵-۱۵۶ // // محب وطن اقبال از مظفر حسین برنی اپریل۱۹۸۶ئ ۳۱۴-۳۱۵ // // محمد اقبال از کبیر احمد جائسی دسمبر۱۹۸۳ئ ۴۷۶ // // من اے میرامم داد ازتو خواہم از غلام علی چودھری ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۹ // // نفائس اقبال از شیما مجید ستمبر۱۹۹۰ئ ۲۳۷ ع [مبصر] کلیات اقبال [مرتب: مولوی عبدالرزاق] جون۱۹۲۶ئ ۴۷۵-۴۷۷ ع ا [مبصر] اقبال بحیثیت مفکر کے(انگریزی) از محمد حمید اللہ اپریل۱۹۴۸ئ ۳۱۷ ع ص [مبصر] ابتدائی کلام اقبال بہ ترتیب ماہ و سال از گیان چند جولائی۲۰۰۵ ۷۵-۷۶ // // ارمغان مشرق (منظوم ترجمہ) از عبدالعلیم صدیقی مئی۲۰۰۳ئ ۳۹۹ // // اشاریۂ اقبالیات از اختر النسائ جولائی۲۰۰۲ئ ۷۵ // // افکار اقبال‘ تشریحات ِجاوید از جاوید اقبال جون۱۹۹۶ئ ۴۷۸ // // اقبال اور ظفر علی خاں از جعفر بلوچ اکتوبر۱۹۹۸ئ ۳۱۹ // // اقبال اور قائداعظم از احمد سعید اپریل۱۹۹۱ئ ۳۱۸ // // اقبال، جدید تنقیدی تناظرات از اسلوب احمد انصاری جون۲۰۰۶ئ ۴۷۷-۴۷۸ // // اقبال فکر و فن از سیّد محمد ہاشم اگست۱۹۹۱ئ ۱۵۷-۱۵۸ // // اقبال فکر و فن کے آئینہ میں از احمد ہمدانی جون۱۹۹۶ئ ۴۷۸-۴۷۹ // // اقبال کا ادبی نصب العین از سلیم اختر اپریل۲۰۰۵ئ ۳۱۷ // // اقبال کی اردو نثر- ایک مطالعہ از زیب النسائ جنوری۱۹۹۹ئ ۷۷ // // اقبال کے اشعار پر زعفرانی یلغار از یعقوب یاور نومبر۲۰۰۶ئ ۳۹۸ // // اقبال نامے از اخلاق اثر اپریل۱۹۹۶ئ ۳۱۹ // // اقبالیات آزاد از محمد اسد اللہ وانی فروری۲۰۰۰ئ ۱۵۸ // // ایقان اقبال (فارسی) از مرزا محمد منور اپریل۱۹۹۱ئ ۳۱۸ // // براق شنگ از شمیم بلتستانی جون۱۹۹۲ئ ۴۷۹ ع ص [مبصر] پس چہ باید کرد مع مسافر از علامہ اقبال [مترجم: خواجہ حمید یزدانی] نومبر۲۰۰۱ئ ۳۹۹ // // تجدید فکریات اسلام (اقبال کے خطبات کا اردو ترجمہ) از وحید عشرت ستمبر۲۰۰۳ئ ۲۳۹ // // تسہیل ارمغان حجاز (حصہ فارسی) از طاہر شادانی؍ ضیا احمد ضیا اپریل۱۹۹۹ئ ۳۱۹ // // تسہیل کلامِ اقبال، پیامِ مشرق از احمد جاوید جنوری۱۹۹۴ئ ۷۷-۷۸ // // تنقیدی تبصرے از اسلوب احمد انصاری [اقبالیاتی کتابوں پر تبصرے] اکتوبر۲۰۰۵ئ ۳۱۷-۳۱۹ // // جگن ناتھ آزاد بطور اقبال شناس از یاسمین کوثر مارچ۲۰۰۲ئ ۲۳۹ // // جہان اقبال از سیّد معین الرحمن مارچ۲۰۰۳ئ ۲۳۹ // // خطبات اقبال از محمد شریف بقا اپریل۱۹۹۷ئ ۳۱۷ // // خطبات اقبال، نئے تناظر میں از محمد سہیل عمر جون۱۹۹۸ئ ۲۷۸-۴۷۹ // // دی موسک آف کورڈوبا (نظم ’مسجد قرطبہ‘ کا انگریزی ترجمہ) از سلیم اے گیلانی فروری۱۹۹۷ئ ۱۶۰ // // زبورِ عجم (منظور پنجابی ترجمہ) از علی اکبر عباس نومبر۱۹۹۹ئ ۴۰۰ // // سفرنامہ اقبال از حمزہ فاروقی دسمبر۲۰۰۰ئ ۴۸۰ // // سہ ماہی اقبالیات لاہور کا گولڈن جوبلی پاکستان نمبر[مدیر: محمد سہیل عمر] مئی۱۹۹۹ئ ۳۹۵ // // شکوہ جوابِ شکوہ [انگریزی ترجمہ: سلطان ظہور اختر] فروری۲۰۰۳ئ ۱۵۹ // // غزل تنقید (ولی دکنی سے اقبال اور مابعد اقبال تک) از اسلوب احمد انصاری مارچ۲۰۰۴ئ ۲۳۶-۲۳۷ // // فکر اقبال کے سرچشمے از آفاق فاخری جنوری۱۹۹۵ئ ۷۸ // // فلسفے کے جدید نظریات از قاضی قیصر الاسلام اکتوبر۱۹۹۹ئ ۳۱۸ // // قر طاس اقبال از مرزا محمد منور جولائی۱۹۹۹ئ ۷۹ // // مرقع اقبال از جگن ناتھ آزاد اکتوبر۲۰۰۰ئ ۳۲۰ // // مطالعہ بیدل فکرِ برگساں کی روشنی میں از علامہ اقبال[ مترجم: تحسین فراقی] مئی۲۰۰۱ئ ۳۹۹ // // میزان اقبال (فارسی) از مرزا محمد منور[ مترجم: شہین کامران مقدم ] فروری۱۹۹۴ئ ۱۶۰ // // نوادر اقبال یورپ میں از اختر سعید درانی مئی۲۰۰۰ئ ۳۹۶ // // Articles on Iqbal از بشیر احمد ڈار[ مرتب: شیما مجید] نومبر۲۰۰۳ئ ۳۹۹ م [مبصر] اصلاحات اقبال از بشیر الحق دسنوی نومبر۱۹۵۱ئ ۴۰۰ // // اقبال اور مسٹر از عبدالرحمن،منشی جنوری۱۹۵۷ئ ۸۰ // // یادِ اقبال از غلام سرور فگار مارچ۱۹۴۱ئ ۲۴۰ م [مبصر] متاع اقبال از ابو ظفر عبدالواحد نومبر۱۹۴۲ئ ۳۹۸ // // اقبال کا مطالعہ از سیّد نذیر نیازی اپریل۱۹۴۲ئ ۳۱۷-۳۱۸ // // اقبال کی کہانی، کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی از ظہیر الدین ستمبر۱۹۵۲ئ ۲۳۷-۲۳۸ // // ایران بعہد ساسانیان [مترجم: ڈاکٹر محمد اقبال] اپریل۱۹۴۲ئ ۳۱۶ // // آثار اقبال از غلام دستگیر رشید ستمبر۱۹۴۶ئ ۲۳۹ // // ذکر اقبال از عبدالمجید سالک فروری۱۹۵۶ئ ۱۵۷-۱۵۸ // // روحِ اقبال از یوسف حسین خان جون۱۹۴۲ئ ۴۷۵-۴۷۶ // // روحِ اقبال از یوسف حسین خان جنوری۱۹۵۳ئ ۸۰ // // شاد اقبال از محی الدین زورقادری مارچ۱۹۴۳ئ ۲۴۰ // // ضربِ کلیم اپریل۱۹۳۷ئ ۳۰۵-۳۰۸ // // متاعِ اقبال از ابوظفر عبدالواحد نومبر۱۹۴۲ئ ۳۹۸ // // مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خان [مرتب: ادارہ بزمِ اقبال] ستمبر۱۹۵۵ئ ۲۳۷ // // دِ اقبال از میکش اکبر آبادی دسمبر۱۹۵۳ئ ۴۷۸ // // Persian Psalms از آرتھر جے آربری [زبورِ عجم کا انگریزی ترجمہ] نومبر۱۹۴۹ئ ۳۹۸-۳۹۹ م ج [مبصر] اسرار و رموز پر ایک نظر از محمد عثمان اپریل۱۹۶۲ئ ۳۱۶-۳۱۷ // // اقبال اور ان کا عہد از جگن ناتھ آزاد اپریل۱۹۶۳ئ ۳۱۷ // // اقبال اور سیاست ملی از رئیس احمد جعفری مئی۱۹۶۴ئ ۳۹۸ // // اقبال کے آخری دو سال از عاشق حسین بٹالوی اپریل۱۹۶۲ئ ۳۱۸-۳۱۹ // // حدیث اقبال از طیّب عثمانی فروری۱۹۶۲ئ ۱۵۸-۱۵۹ // // ردائع اقبال از ابوالحسن علی ندوی مارچ۱۹۶۴ئ ۲۳۷ // // روحِ اسلام اقبال کی نظر میں از غلام عمر خاں جولائی۱۹۶۵ئ ۷۹-۸۰ // // مرقع کلامِ اقبال از عصمت عارف علوی اگست۱۹۶۵ئ ۱۵۹ ن [مبصر] اقبال و شعر فارسی از سیّد محمد علی جون۱۹۲۹ئ ۴۷۷ خ…خ…خ…خ // // اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر-۴ جنوری۱۹۷۲ئ محمد طاہر علی افکار اقبال [پیام مشرق کے آئینے میں] فروری۱۹۷۲ئ عبدالمغنی اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیل جدید-۱ اگست۱۹۷۳ئ // // اقبال، اسلام اور اشتراکیت مارچ۱۹۷۶ئ // // اقبال، اسلام اور اشتراکیت فروری۱۹۷۶ئ ……… فلسفۂ اقبال (خطبات کی روشنی میں) از وحید الدین دسمبر۱۹۹۴ئ خ…خ…خ…خ  تبصرہ کتب زبیدہ جبیں: پروفیسر محمد منور بطور اقبال شناس۔ ناشر:اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، صفحات۲۳۰، قیمت۔؍۱۵۰ روپے فکر اقبال کو قریباً ایک صدی سے دانش وروں اور ادبی نقادوں کے لیے ایک اہم مبحث کی حیثیت حاصل ہے۔ نہ صرف پاکستان اور بھارت کے علمی و فکری حلقوں میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اقبالیاتی فکر کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس بڑھتا جارہا ہے کہ فکر اقبال کے مختلف پہلوئوں پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ پروفیسر محمد منور ان دانش وروں میں شامل ہیں، جنھوں نے فکر اقبال سے وابستگی کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھا۔ انھوں نے نہ صرف اقبال کے فکر کو اپنے دامن میں کشید کرنے کی کوشش کی بلکہ اس فکر کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے دوسروں تک منتقل کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ فکراقبال کو سمجھنے کے لیے بجاطور پر ایک ایسے شخص کی ضرورت رہی ہے، جو عربی وفارسی زبان کے علاوہ انگریزی میں بھی دسترس رکھتا ہو، اور اس کے قلب و روح میں اسلام کی حقانیت اور امت مسلمہ سے محبت کا وافر جذبہ بھی موجود ہو۔ یہ تمام خوبیاں پروفیسر محمد منور کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ زبیدہ جبیں صاحبہ نے پروفیسر محمد منور کی سوانح اور علامہ اقبال پر ان کے کام کا تنقیدی جائزہ اپنے مقالے میں پیش کیا ہے۔ مقالہ پانچ ابواب میں منقسم ہے۔ پہلا باب پروفیسر محمد منور کی سوانح اور شخصیت کے متعلق ہے۔ دوسرے باب میں اقبال اور فکراقبال سے وابستگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پروفیسر محمد منور کا اقبالیاتی سرمایہ(اردو) تیسرے باب کا موضوع ہے۔ چوتھے باب میں ان کی انگریزی تحریروں اور پانچویں باب میں مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ سوانح و شخصیت کے باب میں مقالہ نگار نے پروفیسر محمد منور کی زندگی کا نقشہ بہت عمدگی سے پیش کیا ہے۔ ان کے آبائی وطن بھیرہ(ضلع سرگودھا) کا ذکر، وہاں سے سرگودھا منتقلی اور ان کے تعلیمی مراحل کی تفصیل اختصار اور جامعیت سے پیش کی گئی ہے۔ واقعاتِ زندگی کو فکر سے مربوط کرنا ایک دشوار گزار کام ہوتا ہے۔ زمانہ طالب علمی کے حالات بیان کرتے ہوئے، بتایا گیا ہے کہ محمد منور کے اندر خودی کا جذبہ موجود تھا۔ اور اگر کہیں اس کو ٹھیس لگانے کی کوشش کی جاتی تھی، تو فقروغنا کا یہ پیکر اسے ہرگز قبول نہیں کرتا تھا۔ اس خودی و انانیت کی مثالیں ان کی زندگی میں مختلف مواقع پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں، مثلاً زمانہ طالب۔علمی میں علی۔گڑھ یونی ورسٹی کی انتظامیہ کے ایک رکن نے آپ کو علی گڑھ میں داخلہ اور وظیفہ دلوانے کی حامی بھری، جس پر آپ علی گڑھ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ لباس وغیرہ بھی سلوا لیا۔ اسٹیشن پر اپنا سامان لے کر پہنچ گئے۔ لیکن روانگی سے کوئی دس منٹ قبل سارا منصوبہ محض اس لیے ترک کردیا کہ وہ شخص اپنے اندازِ گفتگو سے اپنے آپ کو آقا سمجھنے لگا تھا۔ پرفیسر محمد منور کی وطن دوستی اور حق گوئی بھی ان کی شخصیت کی نمایاں خوبی تھی۔ مقالہ نگار نے ان کی زندگی کے حوالے سے اس کا بھرپور نقشہ پیش کیا ہے۔ وہ ہمیشہ حق کے علم بردار رہے اور دنیاوی اغراض کی خاطر کسی جاہ پسند حکمران کے سامنے نہیں دبے۔ انھیں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا بہت دکھ تھا۔ اس سلسلے میں وہ خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ مقالہ نگار نے پروفیسر محمد منور کے فقروغنا کو بھی موضوع بنایا ہے اور اس کی جھلک ان کی زندگی میں دکھائی ہے۔ خاص طور پر جب وہ اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر تھے، تو انھوں نے اکادمی کی مالی مشکلات کے پیش نظر اپنی تنخواہ سے دستبرداری کا اعلان کیا اور مزید یہ کہ اکادمی کے اشاعتی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی جیب سے سوا لاکھ روپے پیش کیے۔ بین الاقوامی سیمی ناروں اور کانفرنسوں میں شرکت، احباب سے بے تکلف گفتگو، گھریلو اور مجلسی زندگی، اور متانت کے ساتھ لطف طبع کے واقعات کو بہت بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ سوانح میں ایک خفیف سی لغزش کا احساس بھی ہوتا ہے۔ پروفیسر محمد منور کے والد کا نام متعدد مقامات پر مرزا ہاشم۔الدین لکھا گیا ہے۔ جب کہ ضمیمے میں دیے گئے سرٹیفکیٹ اور اسناد کے مطابق ان کا نام ہاشم دین ہے۔ باب سوم میں پروفیسر صاحب کے اقبالیاتی سرمائے کا، بحوالہ اردو کتب(میزان اقبال، ایقان اقبال، علامہ اقبال کی فارسی غزل اور برہانِ اقبال) احاطہ کیا گیا ہے۔ میزانِ اقبال کے آٹھ مضامین میں سے بیش تر علامہ اقبال کی شاعرانہ فن کاری سے متعلق ہیں۔ ایقانِ اقبال کے مضامین کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے مقالہ نگار نے بتایا ہے کہ محمد منور کے ہاں فکرِاقبال اور پاکستان دو ایسے اجزا ہیں، جو ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہوگئے ہیں کہ انھیں لازم و ملزوم سمجھنا چاہیے۔ علامہ اقبال کی فارسی غزل میں محمد منور نے فارسی کے نو غزل گو شعرا سے اقبال کا موازنہ پیش کیا ہے اور بے لاگ تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اقبال کو فارسی غزل گوئی میں ان شعرا پر کہاں کہاں تفوق حاصل ہے۔ مقالہ نگار نے اقبال کی فارسی شاعری کے آغاز کے متعلق محمد منور کی بحث پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ برہانِ اقبال کے مضامین سے مقالہ نگار نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جس طرح اقبال کو قرآنی فکر اور پیغام سے گہرا شغف تھا، اسی طرح اقبال کے انھی پہلوئوں کو محمد منور نے بھی پیش کیا جو فکرِاقبال سے دل چسپی رکھنے والوں کے اندر بیداری کی لہر دوڑا دے اور خود کو نئے دور کے فتنوں سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار کرسکے۔ قرطاسِ اقبال محمد منور کے قدرے مختصر اور مختلف النوع مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے قلم سے ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ان پُرسوز تحریروں کی تاثیر دراصل پروفیسر صاحب کی ایمانی حرارت سے ماخوذ ہے کیونکہ پروفیسر صاحب افرادِملت کی کوتاہیوں کے باوجود امت کے روشن مستقبل پر یقین رکھتے ہیں۔ قرطاسِ اقبال پر تبصرہ کرتے ہوئے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ زیرِنظر کتاب میں اپنی دیگر علمی تصانیف کے برعکس مرزا صاحب کا اسلوب تحریر نسبتاً ہلکاپھلکا ہے۔ مرزا صاحب کے نزدیک فکرِاقبال کو عام کرنے کا مقصد عوام الناس کی فکری و عملی تربیت کرنا بھی تھا اور اس کتاب کے مضامین دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی کتاب متذکرہ مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے۔ پروفیسر محمد منور بیک وقت پانچ زبانوں (اردو، فارسی، عربی، انگریزی اور پنجابی) میں تحریروتقریر کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں بھی چار کتابیں تصنیف کی ہیں: 1- Iqbal and Quranic Wisdom 2- Iqbal: Poet-Philosopher of Islam 3- Dimensions of Iqbal 4- Iqbal on Human Perfection ان کتب کی تحریر کا ایک اہم مقصد چونکہ انگریزی خواں طبقے کو اقبالیاتی فکر سے روشناس کرانا اور اقبال کے نظریات کو صحیح صورت میں پیش کرنا تھا، چنانچہ ان کتابوں میں بحث اور مطالعے کا انداز علمی و فکری ہے۔ مقالہ نگار نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ پروفیسر محمد منور نے جس عمدہ پیرائے میں ان مضامین کو موضوع بحث بنایا ہے، اسے غیرجانبدارانہ تجزیے کے ساتھ پیش کیا جائے۔ آخری باب میں مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے، جو پروفیسر موصوف کی مجموعی اقبالیاتی خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ زبیدہ جبیں کا یہ مقالہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے سب سے پہلی بات یہ سامنے آتی ہے کہ افرادِ ملت میں اب بھی ایسی چنگاریاں موجود ہیں، جو قوم کو حیاتِ تازہ بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اقبال کا مردِمومن جو فقرودرویشی کی مثال ہے، محض ایک خیال نہیں بلکہ اس کی عملی تفسیریں اور تعبیریں موجود ہیں اور علمی میراث کو سنبھالنے والے افراد ہمیشہ عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ فکرِاقبال پر پروفیسر محمد منور نے جو کام کیا، اس سارے کام کا احاطہ کرنا اور اس کی تفہیم و تعبیر کے ذریعے اُمت مسلمہ میں جوش و جذبے کی نئی روح پھونکنا، بھی اہم مقصد ہے۔ زوالِ اُمت کے اس دور میں علمی میراث کے ذریعے کامیابی کے راستے کی طرف راہنمائی کرنا بھی اس کام کا اہم مقصد ہے۔ مقالہ نگار نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ پروفیسر محمد منور کے افکار کو کماحقہ پیش کیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو، ایک ایسی تصویر پیش کی جائے، جسے دیکھ کر محبت و عقیدت کے جذبات پروان چڑھیں۔ اپنی اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب رہی ہیں۔ ___محمد ایوب لِلّہ ٭٭٭ احمد رضا: کلیات اقبال،اردو (مع اشاریہ و کشف الابیات) ناشر:ادارہ اہل قلم 3/10 ہمابلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور، صفحات۸۸۰، قیمت۔؍۱۰۰۰ روپے علامہ اقبال کے اردو اور فارسی شعری مجموعوں پر مبنی ان کے اردو اور فارسی کلیات، پہلی بار ۱۹۷۳ء میں شائع کیے گئے تھے (اس زمانے میں بھارت میں بڑے پیمانے پر اور پاکستان میں محدود پیمانے پر سوسالہ جشن ولادتِ اقبال منایا جارہا تھا۔) کلیات اقبال اردو میں کلامِ اقبال کے تمام اردو مجموعوں کو یکجا کیا گیا اور ارمغانِ حجاز کا اردو حصہ بھی اسی میں شامل کرلیا گیا۔ پورے کلام کی ازسرِنو کتابت کرائی گئی۔ محمود اللہ صدیقی کا کتابت کردہ کلیات کا یہ نسخہ کسی قدر تزئین کے ساتھ اقبال صدی کے موقع پر ایک برمحل پیش کش تھا، شائقین اقبال کے لیے ایک ارمغان۔ ناشر نے کلیات کو الگ الگ مجموعوں کی شکل میں بھی شائع کیا۔ کلامِ اقبال کی یہ جامع اشاعت ایک بڑا اہم، سنجیدہ، نازک اور توجہ طلب کام تھا۔ اگرچہ غلام رسول مہر ایسے فاضل بزرگ کلیاتِ مذکورہ کی ترتیب، پروف خوانی میں مجموعی مشاورت میں پروفیسر حمید احمد خاں، حامد علی خاں، مرزا ہادی علی بیگ، وامق ترابی اور ڈاکٹر جاوید اقبال بھی ان کے ساتھ شامل رہے، اس کے باوجود مطبوعہ کلیات میں کتابت کی بیسیوں اغلاط باقی رہ گئیں۔ سابقہ مجموعوں کی تقریباً ۳۰ اغلاط درست کردی گئیں۔ پھر بھی متن، املا اور کتابت کی متعدد اغلاط کی صحت نہیں ہوسکی اور کلیات کی نئی اغلاط بھی دَر آئیں۔ لیکن دو درجن سے زائد ایسی اغلاط کو نظرانداز بھی کردیا جائے، تب بھی کلیات کی کتابت کے موقع پر کلامِ اقبال خصوصاً بالِ جبریل کی ترتیبِ کلام میں جو تبدیلی کی گئی، اس کا کوئی جواز نہ تھا اور کسی شخص یا کمیٹی کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ بالِ جبریل کی غزلیات کے آخر میں درج رباعیات یا قطعات کو خود اقبال کے تعین کردہ محل سے اٹھا کر انھیں یک جا کرکے ’’رباعیات‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک نیا حصہ بنا دیتی۔ ہم نے اس مسئلے پر سب سے پہلے ۱۹۸۲ء میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ ترتیبِ کلیات کی مشاورتی کمیٹی نے ’’ترتیب کلامِ میں یہ تبدیلی کیسے گوارا کرلی؟‘‘ (تصانیفِ اقبال، ص۴۴) بعدازاں بھی متعدد بار توجہ دلائی جاتی رہی (مثلاً افکارِ معلم، نومبر ۱۹۹۰ئ، اقبال نمبر۱۹۹۲ئ۔ اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لیے دیکھیے۔ راقم کا مضمون ’’کلامِ اقبال کی تدوینِ جدید‘‘مشمولہ: اقبال، تفہیم و تجزیہ) کلامِ اقبال کے قدیم نسخے اس اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں کہ ان میں کلامِ اقبال کی ترتیب، علامہ اقبال کی قائم کردہ ہے۔ حسنِ کتابت، ان کی ایک اور نمایاں خوبی ہے۔ بیش تر مجموعوں کی کتابت پروین رقم کی ہے، جو علامہ کے پسندیدہ کاتب تھے۔ بعض لوگوں نے مذکورہ قدیم نسخوں کی اسی اہمیت اور حسنِ کتابت کے سبب حال ہی میں ان کے عکسی اڈیشن شائع کیے ہیں۔ جنابِ احمد رضا نے متذکرہ قدیم نسخوں کو اپنے الفاظ میں’’ایک تبرّک‘‘ سمجھتے ہوئے کلیاتِ اقبال کے زیرِنظر اڈیشن میں انھیں یکجا کردیا ہے۔ اگرچہ ان کا اصل مقصود کشف الابیات اور متعدد اشاریے پیش کرنا تھا جو اس نسخے میں شامل ہیں۔ کلیاتِ اقبال کے اس اڈیشن کو، انھی کی وجہ سے، کلیدِ کلیات کا نام دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے جملہ اردو مجموعے بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم (قدیم اڈیشن) باربار شائع ہوتے رہے ہیں۔ زیرِنظر کلیات انھی قدیم اشاعتوں کے عکسی متون پر مبنی ہے۔ مگر یہ پتا نہیں چلتا کہ مشمولہ عکسی متون بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کی کون کون سی اشاعتوں (کن سنین کے اڈیشنوں) کے ہیں؟ یہ بتانا اس لیے ضروری تھا کہ مذکورہ تینوں مجموعوں کے بیشتر اڈیشنوں کے املا، کتابت اور متن میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔ احمد رضا صاحب نے عکسی متون پورے اور مِن و عن بھی شامل نہیں کیے۔ بعض وجوہ سے کہیں کہیں نظموں کے عنوانات اور متن کے کچھ حصے کی نئی کتابت کرائی گئی۔ اس سے بھی بڑی تبدیلی یہ کی ہے کہ بالِ جبریل کی غزلیات کے آخر میں شامل رباعیات/قطعات کو کلیاتِ ۱۹۷۳ء کے تتبع میں اُن کے محل سے ہٹا دیا گیا ہے۔ مگر مذکورہ اڈیشن کی پوری طرح تقلید بھی نہیں کی گئی۔ اس طرح بالِ جبریل کی یہ ایک نئی (تیسری) ترتیب سامنے آگئی ہے اور قدیم اڈیشن کا متن دینے کا جو فائدہ ہوسکتا تھا(کہ متنِ کلام کی اصل ترتیب قائم رہے) وہ ختم ہوگیا۔ ہمارے خیال میں احمد رضا صاحب کے زیرِنظر کام کی اصل اہمیت اس کے کشف الابیات اور پانچ اشاریوں کی ہے، جو اس نسخے کے آخر میں باریک کتابت میں سوا سو صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ انھوں نے کلیات کی یہ کلید بڑی محنت و دیدہ ریزی، مہارت و ہنر مندی اور باریک بینی و دقت نظری سے مرتب کی ہے۔ ایسی جامع اور اس ہمہ جہت انداز میں ابھی تک کلیات کی کوئی کلید تیار نہیں کی گئی۔ کلید کا پہلا حصہ کشف الابیات پر مشتمل ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ پورے کلیات کا ایک مصرع وار اشاریہ ہے۔ کشف الابیات اقبال (اردو) کے ضمن میں قبل ازیں متعدد کام ہوئے ہیں۔ جوے شیر (دائو د عسکر) اور مصرع وار اشاریہ کلام اقبال (یاسمین رفیق) میں پورے پورے مصرعے دیے گئے ہیں، مگر زیرِنظر کلیات میں ہر مصرعے کے صرف پہلے دو (یا کہیں کہیں تین) الفاظ دیے گئے ہیں۔ چونکہ پورا کلیات، کشف الابیات سے ملحق موجود ہے، اس لیے پورے مصرعے دینے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ اس کلید کا دوسرا اہم حصہ پانچ اشاریوں کا ہے، جن میں پہلا، موضوعات (تلمیحات، استعارات، تراکیب، اقوام و قبائل وغیرہ) کا اشاریہ ہے۔ اس میں بعض ایسے عنوانات بھی آگئے ہیں جنھیں الفاظ یا ترکیب تو کہا جاسکتا ہے لیکن انھیں کلام اقبال کے ’’موضوع‘‘ نہیں کہا جاسکتا، مثلاً اکسیر، بجلی، بے داد، آوارہ، نمایش، نوری نہاد، نونیاز، نیام وغیرہ۔ دراصل یہ اشاریہ، ’’موضوعات‘‘ کے ساتھ کلامِ اقبال کے الفاظ و تراکیب کا اشاریہ بھی ہے۔ مرتب کو اس کی صراحت، شروع ہی میں کردینی چاہیے تھی۔ دوسرا اشاریہ ’’شخصیات‘‘ کا ہے ان میں بقول مرتب: ’’انسان، فرشتے اور دیگر اساطیری کردار‘‘ شامل ہیں۔ (الف) اقبال کے کلام میں کہیں کہیں دو دو یا تین تین اسما متصلاً استعمال ہوئے ہیں۔ اشاریہ ساز نے انھیں یکجا ایک ہی حوالہ بنا دیا ہے، چند مثالیں: ۱- جم و کے ۶۳۹ ۲- جبریل و حور ۴۵۴ ۳- جم و پرویز ۵۶۷ ۴- خدا کے رسولؐ ۲۵۳ ۵- سنجر و سلیم ۴۴۱ متذکرہ بالانوعیت کے حوالوں میں کہیں کہیں دوسرے یا ما بعد نام کا الگ حوالہ نہیں دیا جاسکا، مثلاً: ’’کے‘‘ ۶۳۹ کا الگ حوالہ نہیں بنایا گیا۔ ’’حور‘‘ ۴۵۴ کا الگ حوالہ ندارد۔ ’’پرویز‘‘ ۵۶۷ کا الگ حوالہ موجود نہیں۔ ’’رسولؐ‘‘ ۲۵۳ کا الگ حوالہ موجود نہیں۔ ’’سلیم‘‘ ۴۴۱ کا الگ حوالہ موجود نہیں۔ (ب) بعض جگہ یکسانیت نہیں ہے، مثلاً جبریل و حور، جبریل و ابلیس کے حوالے تو بنائے گئے، مگر جبریل و سرافیل کا حوالہ نہیں بنایا گیا۔ سینا و فارابی کا حوالہ بھی نہیں بنایا گیا۔ہمارے خیال میں اسماے افراد کے حوالے الگ الگ ہی ہونے چاہییں۔ (ج) کہیں کہیں ایک ہی شخصیت کے حوالے دو جگہ اور دو طرح سے درج ہوئے ہیں۔ ۱- جانِ جاناں، مرزا ۷۵۲ اور مرزا جانِ جاناں، مظہر ۷۵۲ ۲- قاآنی،حکیم ۴۹۴ اور حکیم قاآنی ۴۹۴ ۳- قمی، ملک ۲۷۲ اور ملک قمی ۲۷۲ ۴- ابو العلا معری ۴۸۶،۴۸۷ اور معری، ابوالعلا ۴۸۶،۴۸۷ ۵- میر رضی دانش ۲۷۰ اور رضی دانش، میر ۲۷۰ ۶- اکبر حیدری،سر ۷۵۳ اور سر اکبر حیدری ۷۵۳ ۷- آغا خان(سر) ۳۲۳ اور سر آغا خاں ۳۲۳ (د) بعض ناموں کے ساتھ، وضاحت کے لیے، واوین میں کچھ اضافہ ضروری تھا، مثلاً ’’امیر ۱۱۵‘‘ کے ساتھ ’’مینائی‘‘، ’’ہاشمی‘‘ کے ساتھ ’’حسین، شریفِ مکہ‘‘ اسی طرح ’’لسان العصر‘‘ کے ساتھ ’’اکبر الٰہ آبادی‘‘۔(ہ) زیرِبحث اشاریے میں بعض القابات یا کنیتوں کو بھی حوالہ بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ مناسب ہوتا، اگر لقب کا کنیت کے ساتھ قوسین میں متعلقہ شخصیت کا نام بھی لکھ دیا جاتا۔ نبی اکرم ا کے لیے علامہ اقبال نے جو القاب اور تراکیب استعمال کی ہیں، انھیں حوالہ بناتے ہوئے مرتب نے ان کے ساتھ کئی جگہ (۔۔ؐ) کی علامت بنائی ہے چنانچہ واضح ہوجاتا ہے کہ مراد نبی اکرم ا ہیں۔ مگر ’’خواجۂ بدروحنین‘‘ پر یہ ضروری علامت نہیں بنائی جاسکی۔ سرسید احمد خاں کا حوالہ ’’احمد‘‘ کے تحت دیا گیا ہے۔ جو اُن کی عرفیت ’’سرسید‘‘ کے تحت دینا مناسب تھا۔ (و) اس حصے میں ایک حوالہ ہے: رفیق نبوت ۲۵۲۔ اول: اس حوالے کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ یہ ترکیب بانگِ درا کی نظم ’’صدیق؛ؓ‘‘ میں آئی ہے اور ’’صدیق؛ؓ‘‘ کا الگ حوالہ موجود ہے۔ اگر اصرار ہو کہ یہ ضروری ہے تو پھر اسی نظم کی ترکیب بنالی جائے: ’’مردِ وفا سرشت‘‘ ۲۵۲ کو بھی حوالہ بنانا پڑے گا کہ یہ ترکیب بھی اقبال نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لیے وضع کی ہے۔ پھر: ’’عشق و محبت کا راز دار‘‘ ۲۳۶ کے الفاظ بھی اقبال نے حضرت صدیق اکبرؓ کے لیے ہی استعمال کیے ہیں، تو اسے بھی ایک حوالہ بنا دیا جائے گا۔ اس طرح تو یہ سلسلہ کہیں نہیں رکے گا۔ ہمارے خیال میں (شخصیات کے حوالے سے) صرف ان الفاظ و تراکیب کو حوالہ بنانا چاہیے جن کے آس پاس شخصیت ممدوح کے تعین کے لیے کوئی قرینہ موجود نہ ہو۔ شخصیات کی اس فہرست میں ’’خضرِ ہمت‘‘ کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ یہ کوئی شخصیت نہیں اسی طرح ’’مہدیِ برحق‘‘ بھی کوئی متعین شخص نہیں۔ تیسرے اشاریے بعنوان ’’مقامات‘‘ میں براعظموں، ملکوں، شہروں، سمندروں اور دریائوں کے حوالے شامل کیے گئے ہیں۔ اس حصے میں ’’اسرائیل‘‘۲۹ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے ایک مصرعے میں مذکور ’’دینوب‘‘ کو ’’دینیوب‘‘ لکھا ہے۔ ہمارے خیال میں اشاریے میں نام متن کے مطابق ہی لکھنا چاہیے، واوین میں وضاحت کی جاسکتی ہے۔ ’’جہاں آباد‘‘ کے واوین میں ’’دہلی‘‘ کا اندراج قاری کے لیے مفید ہوتا۔ اس حصے میں بھی دو دو مقامات کا یکجا حوالہ دیا گیا ہے (پارس و شام۔ روم و شام یہ بدروحنین) مگر یہ حوالے فردی اعتبار سے مکمل نہیں ہیں۔ چوتھا اشاریہ حیوانیات کے حوالوں پر مشتمل ہے اور پانچواں کتابوں، رسالوں اور اخبارات کے حوالوں سے متعلق۔ کلیات کی ابتدا میں منظومات، غزلیات اور رباعیات و قطعات کی مفصل فہرستیں شامل ہیں۔ کلیات اقبال،کے مختلف دستیاب نسخوں میں یہ اہتمام کسی میں نظر نہیں آتا۔ اس اعتبار سے بھی زیرِنظر نسخے کی یہ ایک اضافی خوبی ہے۔ مجموعی حیثیت سے کلیات اقبال، اردو اور کلید پر مشتمل، زیرِنظر نسخہ اپنی نوعیت میں ایک منفرد اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے، جس پر ہمارے بعض اکابر ادب و اقبالیات (احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر محمد اسلم فرخی، پروفیسر فتح محمد ملک) نے مرتب کی محنت، دیدہ ریزی اور جاں کاہی کی بجاطور پر تحسین کی ہے۔ احمد رضا صاحب اس کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ __ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ظ……ظ……ظ  تبصرہ کتب زبیدہ جبیں: پروفیسر محمد منور بطور اقبال شناس۔ ناشر:اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، صفحات۲۳۰، قیمت۔؍۱۵۰ روپے فکر اقبال کو قریباً ایک صدی سے دانش وروں اور ادبی نقادوں کے لیے ایک اہم مبحث کی حیثیت حاصل ہے۔ نہ صرف پاکستان اور بھارت کے علمی و فکری حلقوں میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اقبالیاتی فکر کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس بڑھتا جارہا ہے کہ فکر اقبال کے مختلف پہلوئوں پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ پروفیسر محمد منور ان دانش وروں میں شامل ہیں، جنھوں نے فکر اقبال سے وابستگی کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھا۔ انھوں نے نہ صرف اقبال کے فکر کو اپنے دامن میں کشید کرنے کی کوشش کی بلکہ اس فکر کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے دوسروں تک منتقل کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ فکراقبال کو سمجھنے کے لیے بجاطور پر ایک ایسے شخص کی ضرورت رہی ہے، جو عربی وفارسی زبان کے علاوہ انگریزی میں بھی دسترس رکھتا ہو، اور اس کے قلب و روح میں اسلام کی حقانیت اور امت مسلمہ سے محبت کا وافر جذبہ بھی موجود ہو۔ یہ تمام خوبیاں پروفیسر محمد منور کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ زبیدہ جبیں صاحبہ نے پروفیسر محمد منور کی سوانح اور علامہ اقبال پر ان کے کام کا تنقیدی جائزہ اپنے مقالے میں پیش کیا ہے۔ مقالہ پانچ ابواب میں منقسم ہے۔ پہلا باب پروفیسر محمد منور کی سوانح اور شخصیت کے متعلق ہے۔ دوسرے باب میں اقبال اور فکراقبال سے وابستگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پروفیسر محمد منور کا اقبالیاتی سرمایہ(اردو) تیسرے باب کا موضوع ہے۔ چوتھے باب میں ان کی انگریزی تحریروں اور پانچویں باب میں مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ سوانح و شخصیت کے باب میں مقالہ نگار نے پروفیسر محمد منور کی زندگی کا نقشہ بہت عمدگی سے پیش کیا ہے۔ ان کے آبائی وطن بھیرہ(ضلع سرگودھا) کا ذکر، وہاں سے سرگودھا منتقلی اور ان کے تعلیمی مراحل کی تفصیل اختصار اور جامعیت سے پیش کی گئی ہے۔ واقعاتِ زندگی کو فکر سے مربوط کرنا ایک دشوار گزار کام ہوتا ہے۔ زمانہ طالب علمی کے حالات بیان کرتے ہوئے، بتایا گیا ہے کہ محمد منور کے اندر خودی کا جذبہ موجود تھا۔ اور اگر کہیں اس کو ٹھیس لگانے کی کوشش کی جاتی تھی، تو فقروغنا کا یہ پیکر اسے ہرگز قبول نہیں کرتا تھا۔ اس خودی و انانیت کی مثالیں ان کی زندگی میں مختلف مواقع پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں، مثلاً زمانہ طالب۔علمی میں علی۔گڑھ یونی ورسٹی کی انتظامیہ کے ایک رکن نے آپ کو علی گڑھ میں داخلہ اور وظیفہ دلوانے کی حامی بھری، جس پر آپ علی گڑھ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ لباس وغیرہ بھی سلوا لیا۔ اسٹیشن پر اپنا سامان لے کر پہنچ گئے۔ لیکن روانگی سے کوئی دس منٹ قبل سارا منصوبہ محض اس لیے ترک کردیا کہ وہ شخص اپنے اندازِ گفتگو سے اپنے آپ کو آقا سمجھنے لگا تھا۔ پرفیسر محمد منور کی وطن دوستی اور حق گوئی بھی ان کی شخصیت کی نمایاں خوبی تھی۔ مقالہ نگار نے ان کی زندگی کے حوالے سے اس کا بھرپور نقشہ پیش کیا ہے۔ وہ ہمیشہ حق کے علم بردار رہے اور دنیاوی اغراض کی خاطر کسی جاہ پسند حکمران کے سامنے نہیں دبے۔ انھیں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا بہت دکھ تھا۔ اس سلسلے میں وہ خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ مقالہ نگار نے پروفیسر محمد منور کے فقروغنا کو بھی موضوع بنایا ہے اور اس کی جھلک ان کی زندگی میں دکھائی ہے۔ خاص طور پر جب وہ اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر تھے، تو انھوں نے اکادمی کی مالی مشکلات کے پیش نظر اپنی تنخواہ سے دستبرداری کا اعلان کیا اور مزید یہ کہ اکادمی کے اشاعتی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی جیب سے سوا لاکھ روپے پیش کیے۔ بین الاقوامی سیمی ناروں اور کانفرنسوں میں شرکت، احباب سے بے تکلف گفتگو، گھریلو اور مجلسی زندگی، اور متانت کے ساتھ لطف طبع کے واقعات کو بہت بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ سوانح میں ایک خفیف سی لغزش کا احساس بھی ہوتا ہے۔ پروفیسر محمد منور کے والد کا نام متعدد مقامات پر مرزا ہاشم۔الدین لکھا گیا ہے۔ جب کہ ضمیمے میں دیے گئے سرٹیفکیٹ اور اسناد کے مطابق ان کا نام ہاشم دین ہے۔ باب سوم میں پروفیسر صاحب کے اقبالیاتی سرمائے کا، بحوالہ اردو کتب(میزان اقبال، ایقان اقبال، علامہ اقبال کی فارسی غزل اور برہانِ اقبال) احاطہ کیا گیا ہے۔ میزانِ اقبال کے آٹھ مضامین میں سے بیش تر علامہ اقبال کی شاعرانہ فن کاری سے متعلق ہیں۔ ایقانِ اقبال کے مضامین کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے مقالہ نگار نے بتایا ہے کہ محمد منور کے ہاں فکرِاقبال اور پاکستان دو ایسے اجزا ہیں، جو ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہوگئے ہیں کہ انھیں لازم و ملزوم سمجھنا چاہیے۔ علامہ اقبال کی فارسی غزل میں محمد منور نے فارسی کے نو غزل گو شعرا سے اقبال کا موازنہ پیش کیا ہے اور بے لاگ تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اقبال کو فارسی غزل گوئی میں ان شعرا پر کہاں کہاں تفوق حاصل ہے۔ مقالہ نگار نے اقبال کی فارسی شاعری کے آغاز کے متعلق محمد منور کی بحث پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ برہانِ اقبال کے مضامین سے مقالہ نگار نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جس طرح اقبال کو قرآنی فکر اور پیغام سے گہرا شغف تھا، اسی طرح اقبال کے انھی پہلوئوں کو محمد منور نے بھی پیش کیا جو فکرِاقبال سے دل چسپی رکھنے والوں کے اندر بیداری کی لہر دوڑا دے اور خود کو نئے دور کے فتنوں سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار کرسکے۔ قرطاسِ اقبال محمد منور کے قدرے مختصر اور مختلف النوع مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے قلم سے ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ان پُرسوز تحریروں کی تاثیر دراصل پروفیسر صاحب کی ایمانی حرارت سے ماخوذ ہے کیونکہ پروفیسر صاحب افرادِملت کی کوتاہیوں کے باوجود امت کے روشن مستقبل پر یقین رکھتے ہیں۔ قرطاسِ اقبال پر تبصرہ کرتے ہوئے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ زیرِنظر کتاب میں اپنی دیگر علمی تصانیف کے برعکس مرزا صاحب کا اسلوب تحریر نسبتاً ہلکاپھلکا ہے۔ مرزا صاحب کے نزدیک فکرِاقبال کو عام کرنے کا مقصد عوام الناس کی فکری و عملی تربیت کرنا بھی تھا اور اس کتاب کے مضامین دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی کتاب متذکرہ مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے۔ پروفیسر محمد منور بیک وقت پانچ زبانوں (اردو، فارسی، عربی، انگریزی اور پنجابی) میں تحریروتقریر کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں بھی چار کتابیں تصنیف کی ہیں: 1- Iqbal and Quranic Wisdom 2- Iqbal: Poet-Philosopher of Islam 3- Dimensions of Iqbal 4- Iqbal on Human Perfection ان کتب کی تحریر کا ایک اہم مقصد چونکہ انگریزی خواں طبقے کو اقبالیاتی فکر سے روشناس کرانا اور اقبال کے نظریات کو صحیح صورت میں پیش کرنا تھا، چنانچہ ان کتابوں میں بحث اور مطالعے کا انداز علمی و فکری ہے۔ مقالہ نگار نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ پروفیسر محمد منور نے جس عمدہ پیرائے میں ان مضامین کو موضوع بحث بنایا ہے، اسے غیرجانبدارانہ تجزیے کے ساتھ پیش کیا جائے۔ آخری باب میں مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے، جو پروفیسر موصوف کی مجموعی اقبالیاتی خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ زبیدہ جبیں کا یہ مقالہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے سب سے پہلی بات یہ سامنے آتی ہے کہ افرادِ ملت میں اب بھی ایسی چنگاریاں موجود ہیں، جو قوم کو حیاتِ تازہ بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اقبال کا مردِمومن جو فقرودرویشی کی مثال ہے، محض ایک خیال نہیں بلکہ اس کی عملی تفسیریں اور تعبیریں موجود ہیں اور علمی میراث کو سنبھالنے والے افراد ہمیشہ عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ فکرِاقبال پر پروفیسر محمد منور نے جو کام کیا، اس سارے کام کا احاطہ کرنا اور اس کی تفہیم و تعبیر کے ذریعے اُمت مسلمہ میں جوش و جذبے کی نئی روح پھونکنا، بھی اہم مقصد ہے۔ زوالِ اُمت کے اس دور میں علمی میراث کے ذریعے کامیابی کے راستے کی طرف راہنمائی کرنا بھی اس کام کا اہم مقصد ہے۔ مقالہ نگار نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ پروفیسر محمد منور کے افکار کو کماحقہ پیش کیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو، ایک ایسی تصویر پیش کی جائے، جسے دیکھ کر محبت و عقیدت کے جذبات پروان چڑھیں۔ اپنی اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب رہی ہیں۔ ___محمد ایوب لِلّہ ٭٭٭ احمد رضا: کلیات اقبال،اردو (مع اشاریہ و کشف الابیات) ناشر:ادارہ اہل قلم 3/10 ہمابلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور، صفحات۸۸۰، قیمت۔؍۱۰۰۰ روپے علامہ اقبال کے اردو اور فارسی شعری مجموعوں پر مبنی ان کے اردو اور فارسی کلیات، پہلی بار ۱۹۷۳ء میں شائع کیے گئے تھے (اس زمانے میں بھارت میں بڑے پیمانے پر اور پاکستان میں محدود پیمانے پر سوسالہ جشن ولادتِ اقبال منایا جارہا تھا۔) کلیات اقبال اردو میں کلامِ اقبال کے تمام اردو مجموعوں کو یکجا کیا گیا اور ارمغانِ حجاز کا اردو حصہ بھی اسی میں شامل کرلیا گیا۔ پورے کلام کی ازسرِنو کتابت کرائی گئی۔ محمود اللہ صدیقی کا کتابت کردہ کلیات کا یہ نسخہ کسی قدر تزئین کے ساتھ اقبال صدی کے موقع پر ایک برمحل پیش کش تھا، شائقین اقبال کے لیے ایک ارمغان۔ ناشر نے کلیات کو الگ الگ مجموعوں کی شکل میں بھی شائع کیا۔ کلامِ اقبال کی یہ جامع اشاعت ایک بڑا اہم، سنجیدہ، نازک اور توجہ طلب کام تھا۔ اگرچہ غلام رسول مہر ایسے فاضل بزرگ کلیاتِ مذکورہ کی ترتیب، پروف خوانی میں مجموعی مشاورت میں پروفیسر حمید احمد خاں، حامد علی خاں، مرزا ہادی علی بیگ، وامق ترابی اور ڈاکٹر جاوید اقبال بھی ان کے ساتھ شامل رہے، اس کے باوجود مطبوعہ کلیات میں کتابت کی بیسیوں اغلاط باقی رہ گئیں۔ سابقہ مجموعوں کی تقریباً ۳۰ اغلاط درست کردی گئیں۔ پھر بھی متن، املا اور کتابت کی متعدد اغلاط کی صحت نہیں ہوسکی اور کلیات کی نئی اغلاط بھی دَر آئیں۔ لیکن دو درجن سے زائد ایسی اغلاط کو نظرانداز بھی کردیا جائے، تب بھی کلیات کی کتابت کے موقع پر کلامِ اقبال خصوصاً بالِ جبریل کی ترتیبِ کلام میں جو تبدیلی کی گئی، اس کا کوئی جواز نہ تھا اور کسی شخص یا کمیٹی کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ بالِ جبریل کی غزلیات کے آخر میں درج رباعیات یا قطعات کو خود اقبال کے تعین کردہ محل سے اٹھا کر انھیں یک جا کرکے ’’رباعیات‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک نیا حصہ بنا دیتی۔ ہم نے اس مسئلے پر سب سے پہلے ۱۹۸۲ء میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ ترتیبِ کلیات کی مشاورتی کمیٹی نے ’’ترتیب کلامِ میں یہ تبدیلی کیسے گوارا کرلی؟‘‘ (تصانیفِ اقبال، ص۴۴) بعدازاں بھی متعدد بار توجہ دلائی جاتی رہی (مثلاً افکارِ معلم، نومبر ۱۹۹۰ئ، اقبال نمبر۱۹۹۲ئ۔ اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لیے دیکھیے۔ راقم کا مضمون ’’کلامِ اقبال کی تدوینِ جدید‘‘مشمولہ: اقبال، تفہیم و تجزیہ) کلامِ اقبال کے قدیم نسخے اس اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں کہ ان میں کلامِ اقبال کی ترتیب، علامہ اقبال کی قائم کردہ ہے۔ حسنِ کتابت، ان کی ایک اور نمایاں خوبی ہے۔ بیش تر مجموعوں کی کتابت پروین رقم کی ہے، جو علامہ کے پسندیدہ کاتب تھے۔ بعض لوگوں نے مذکورہ قدیم نسخوں کی اسی اہمیت اور حسنِ کتابت کے سبب حال ہی میں ان کے عکسی اڈیشن شائع کیے ہیں۔ جنابِ احمد رضا نے متذکرہ قدیم نسخوں کو اپنے الفاظ میں’’ایک تبرّک‘‘ سمجھتے ہوئے کلیاتِ اقبال کے زیرِنظر اڈیشن میں انھیں یکجا کردیا ہے۔ اگرچہ ان کا اصل مقصود کشف الابیات اور متعدد اشاریے پیش کرنا تھا جو اس نسخے میں شامل ہیں۔ کلیاتِ اقبال کے اس اڈیشن کو، انھی کی وجہ سے، کلیدِ کلیات کا نام دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے جملہ اردو مجموعے بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم (قدیم اڈیشن) باربار شائع ہوتے رہے ہیں۔ زیرِنظر کلیات انھی قدیم اشاعتوں کے عکسی متون پر مبنی ہے۔ مگر یہ پتا نہیں چلتا کہ مشمولہ عکسی متون بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کی کون کون سی اشاعتوں (کن سنین کے اڈیشنوں) کے ہیں؟ یہ بتانا اس لیے ضروری تھا کہ مذکورہ تینوں مجموعوں کے بیشتر اڈیشنوں کے املا، کتابت اور متن میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔ احمد رضا صاحب نے عکسی متون پورے اور مِن و عن بھی شامل نہیں کیے۔ بعض وجوہ سے کہیں کہیں نظموں کے عنوانات اور متن کے کچھ حصے کی نئی کتابت کرائی گئی۔ اس سے بھی بڑی تبدیلی یہ کی ہے کہ بالِ جبریل کی غزلیات کے آخر میں شامل رباعیات/قطعات کو کلیاتِ ۱۹۷۳ء کے تتبع میں اُن کے محل سے ہٹا دیا گیا ہے۔ مگر مذکورہ اڈیشن کی پوری طرح تقلید بھی نہیں کی گئی۔ اس طرح بالِ جبریل کی یہ ایک نئی (تیسری) ترتیب سامنے آگئی ہے اور قدیم اڈیشن کا متن دینے کا جو فائدہ ہوسکتا تھا(کہ متنِ کلام کی اصل ترتیب قائم رہے) وہ ختم ہوگیا۔ ہمارے خیال میں احمد رضا صاحب کے زیرِنظر کام کی اصل اہمیت اس کے کشف الابیات اور پانچ اشاریوں کی ہے، جو اس نسخے کے آخر میں باریک کتابت میں سوا سو صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ انھوں نے کلیات کی یہ کلید بڑی محنت و دیدہ ریزی، مہارت و ہنر مندی اور باریک بینی و دقت نظری سے مرتب کی ہے۔ ایسی جامع اور اس ہمہ جہت انداز میں ابھی تک کلیات کی کوئی کلید تیار نہیں کی گئی۔ کلید کا پہلا حصہ کشف الابیات پر مشتمل ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ پورے کلیات کا ایک مصرع وار اشاریہ ہے۔ کشف الابیات اقبال (اردو) کے ضمن میں قبل ازیں متعدد کام ہوئے ہیں۔ جوے شیر (دائو د عسکر) اور مصرع وار اشاریہ کلام اقبال (یاسمین رفیق) میں پورے پورے مصرعے دیے گئے ہیں، مگر زیرِنظر کلیات میں ہر مصرعے کے صرف پہلے دو (یا کہیں کہیں تین) الفاظ دیے گئے ہیں۔ چونکہ پورا کلیات، کشف الابیات سے ملحق موجود ہے، اس لیے پورے مصرعے دینے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ اس کلید کا دوسرا اہم حصہ پانچ اشاریوں کا ہے، جن میں پہلا، موضوعات (تلمیحات، استعارات، تراکیب، اقوام و قبائل وغیرہ) کا اشاریہ ہے۔ اس میں بعض ایسے عنوانات بھی آگئے ہیں جنھیں الفاظ یا ترکیب تو کہا جاسکتا ہے لیکن انھیں کلام اقبال کے ’’موضوع‘‘ نہیں کہا جاسکتا، مثلاً اکسیر، بجلی، بے داد، آوارہ، نمایش، نوری نہاد، نونیاز، نیام وغیرہ۔ دراصل یہ اشاریہ، ’’موضوعات‘‘ کے ساتھ کلامِ اقبال کے الفاظ و تراکیب کا اشاریہ بھی ہے۔ مرتب کو اس کی صراحت، شروع ہی میں کردینی چاہیے تھی۔ دوسرا اشاریہ ’’شخصیات‘‘ کا ہے ان میں بقول مرتب: ’’انسان، فرشتے اور دیگر اساطیری کردار‘‘ شامل ہیں۔ (الف) اقبال کے کلام میں کہیں کہیں دو دو یا تین تین اسما متصلاً استعمال ہوئے ہیں۔ اشاریہ ساز نے انھیں یکجا ایک ہی حوالہ بنا دیا ہے، چند مثالیں: ۱- جم و کے ۶۳۹ ۲- جبریل و حور ۴۵۴ ۳- جم و پرویز ۵۶۷ ۴- خدا کے رسولؐ ۲۵۳ ۵- سنجر و سلیم ۴۴۱ متذکرہ بالانوعیت کے حوالوں میں کہیں کہیں دوسرے یا ما بعد نام کا الگ حوالہ نہیں دیا جاسکا، مثلاً: ’’کے‘‘ ۶۳۹ کا الگ حوالہ نہیں بنایا گیا۔ ’’حور‘‘ ۴۵۴ کا الگ حوالہ ندارد۔ ’’پرویز‘‘ ۵۶۷ کا الگ حوالہ موجود نہیں۔ ’’رسولؐ‘‘ ۲۵۳ کا الگ حوالہ موجود نہیں۔ ’’سلیم‘‘ ۴۴۱ کا الگ حوالہ موجود نہیں۔ (ب) بعض جگہ یکسانیت نہیں ہے، مثلاً جبریل و حور، جبریل و ابلیس کے حوالے تو بنائے گئے، مگر جبریل و سرافیل کا حوالہ نہیں بنایا گیا۔ سینا و فارابی کا حوالہ بھی نہیں بنایا گیا۔ہمارے خیال میں اسماے افراد کے حوالے الگ الگ ہی ہونے چاہییں۔ (ج) کہیں کہیں ایک ہی شخصیت کے حوالے دو جگہ اور دو طرح سے درج ہوئے ہیں۔ ۱- جانِ جاناں، مرزا ۷۵۲ اور مرزا جانِ جاناں، مظہر ۷۵۲ ۲- قاآنی،حکیم ۴۹۴ اور حکیم قاآنی ۴۹۴ ۳- قمی، ملک ۲۷۲ اور ملک قمی ۲۷۲ ۴- ابو العلا معری ۴۸۶،۴۸۷ اور معری، ابوالعلا ۴۸۶،۴۸۷ ۵- میر رضی دانش ۲۷۰ اور رضی دانش، میر ۲۷۰ ۶- اکبر حیدری،سر ۷۵۳ اور سر اکبر حیدری ۷۵۳ ۷- آغا خان(سر) ۳۲۳ اور سر آغا خاں ۳۲۳ (د) بعض ناموں کے ساتھ، وضاحت کے لیے، واوین میں کچھ اضافہ ضروری تھا، مثلاً ’’امیر ۱۱۵‘‘ کے ساتھ ’’مینائی‘‘، ’’ہاشمی‘‘ کے ساتھ ’’حسین، شریفِ مکہ‘‘ اسی طرح ’’لسان العصر‘‘ کے ساتھ ’’اکبر الٰہ آبادی‘‘۔(ہ) زیرِبحث اشاریے میں بعض القابات یا کنیتوں کو بھی حوالہ بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ مناسب ہوتا، اگر لقب کا کنیت کے ساتھ قوسین میں متعلقہ شخصیت کا نام بھی لکھ دیا جاتا۔ نبی اکرم ا کے لیے علامہ اقبال نے جو القاب اور تراکیب استعمال کی ہیں، انھیں حوالہ بناتے ہوئے مرتب نے ان کے ساتھ کئی جگہ (۔۔ؐ) کی علامت بنائی ہے چنانچہ واضح ہوجاتا ہے کہ مراد نبی اکرم ا ہیں۔ مگر ’’خواجۂ بدروحنین‘‘ پر یہ ضروری علامت نہیں بنائی جاسکی۔ سرسید احمد خاں کا حوالہ ’’احمد‘‘ کے تحت دیا گیا ہے۔ جو اُن کی عرفیت ’’سرسید‘‘ کے تحت دینا مناسب تھا۔ (و) اس حصے میں ایک حوالہ ہے: رفیق نبوت ۲۵۲۔ اول: اس حوالے کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ یہ ترکیب بانگِ درا کی نظم ’’صدیق؛ؓ‘‘ میں آئی ہے اور ’’صدیق؛ؓ‘‘ کا الگ حوالہ موجود ہے۔ اگر اصرار ہو کہ یہ ضروری ہے تو پھر اسی نظم کی ترکیب بنالی جائے: ’’مردِ وفا سرشت‘‘ ۲۵۲ کو بھی حوالہ بنانا پڑے گا کہ یہ ترکیب بھی اقبال نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لیے وضع کی ہے۔ پھر: ’’عشق و محبت کا راز دار‘‘ ۲۳۶ کے الفاظ بھی اقبال نے حضرت صدیق اکبرؓ کے لیے ہی استعمال کیے ہیں، تو اسے بھی ایک حوالہ بنا دیا جائے گا۔ اس طرح تو یہ سلسلہ کہیں نہیں رکے گا۔ ہمارے خیال میں (شخصیات کے حوالے سے) صرف ان الفاظ و تراکیب کو حوالہ بنانا چاہیے جن کے آس پاس شخصیت ممدوح کے تعین کے لیے کوئی قرینہ موجود نہ ہو۔ شخصیات کی اس فہرست میں ’’خضرِ ہمت‘‘ کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ یہ کوئی شخصیت نہیں اسی طرح ’’مہدیِ برحق‘‘ بھی کوئی متعین شخص نہیں۔ تیسرے اشاریے بعنوان ’’مقامات‘‘ میں براعظموں، ملکوں، شہروں، سمندروں اور دریائوں کے حوالے شامل کیے گئے ہیں۔ اس حصے میں ’’اسرائیل‘‘۲۹ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے ایک مصرعے میں مذکور ’’دینوب‘‘ کو ’’دینیوب‘‘ لکھا ہے۔ ہمارے خیال میں اشاریے میں نام متن کے مطابق ہی لکھنا چاہیے، واوین میں وضاحت کی جاسکتی ہے۔ ’’جہاں آباد‘‘ کے واوین میں ’’دہلی‘‘ کا اندراج قاری کے لیے مفید ہوتا۔ اس حصے میں بھی دو دو مقامات کا یکجا حوالہ دیا گیا ہے (پارس و شام۔ روم و شام یہ بدروحنین) مگر یہ حوالے فردی اعتبار سے مکمل نہیں ہیں۔ چوتھا اشاریہ حیوانیات کے حوالوں پر مشتمل ہے اور پانچواں کتابوں، رسالوں اور اخبارات کے حوالوں سے متعلق۔ کلیات کی ابتدا میں منظومات، غزلیات اور رباعیات و قطعات کی مفصل فہرستیں شامل ہیں۔ کلیات اقبال، کے مختلف دستیاب نسخوں میں یہ اہتمام کسی میں نظر نہیں آتا۔ اس اعتبار سے بھی زیرِنظر نسخے کی یہ ایک اضافی خوبی ہے۔ مجموعی حیثیت سے کلیات اقبال، اردو اور کلید پر مشتمل، زیرِنظر نسخہ اپنی نوعیت میں ایک منفرد اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے، جس پر ہمارے بعض اکابر ادب و اقبالیات (احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر محمد اسلم فرخی، پروفیسر فتح محمد ملک) نے مرتب کی محنت، دیدہ ریزی اور جاں کاہی کی بجاطور پر تحسین کی ہے۔ احمد رضا صاحب اس کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ __ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی خ…خ…خ…خ  اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ ڈاکٹر شاہد کامران: ’’دانش افرنگ، اشتراکیت اور اقبال‘‘ الاقربا، اسلام آباد، جولائی-ستمبر ۲۰۰۶ئ، ص۳۸-۵۹ مغرب سے متعلق اقبال کے طرزِ فکر میں دو نمایاں رجحان نظر آتے ہیں۔ اول: اقبال مغربی علوم و فنون اور خصوصاً طبعی علوم میں مغرب کی حیرت انگیز ترقیات کو سراہتے ہیں۔ دوم: انھوں نے فکر غرب سے ذاتی سطح پر استفادہ کیا، تاہم اقبال غیر ملکی زبان و ادب، تاریخ اور تہذیب کے یک طرفہ مطالعات کے نقصانات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ نوجوانوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے عقلی پس منظر کے بغیر محض مغربی تعلیم دینے کے خلاف نظر آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کی وجہ جدید مغربی تہذیب و تمدن کی بے راہ روی ہے، جو روحانیت سے انکار سے جنم لیتی ہے۔وہ اشتراکی تحریک کو بھی مغربی تمدن و سیاست کے خلاف ایک ردّعمل خیال کرتے ہیں۔ قیصر و کلیسا کی مذمت، مزدور و کسان کی عظمت اور محنت کو ایک معاشی قدر قرار دینے سے اقبال خود کو اشتراکی ثابت نہیں کرتا۔ تاہم اشتراکیت کا بطور ایک سیاسی و معاشی تحریک کے مطالعہ، اقبال کا ایک اہم اور دل چسپ موضوع رہا ہے۔ اقبال مجموعی طور پر اشتراکیت و ملوکیت دونوں سے متعدد وجوہ کی بنا پر مایوس نظر آتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی: ’’فکر اقبال میں اجتہاد کی اہمیت‘‘ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ، جولائی ۲۰۰۶ئ، ص۷۴-۹۳ علامہ اقبال نے اپنے وقت میں فقہی جمود پر تنقید کی اور اجتہاد پر زور دیا۔ وہ ابتدا ہی سے معاشرے میں اصلاحِ تمدن کی ضرورت شدت سے محسوس کررہے تھے۔ اور ان کے خیال کے مطابق اصلاحِ تمدن اُسی وقت ممکن ہے جب فقہ اسلامی میں اصلاح کی جائے۔ اقبال کے نزدیک فقہ اسلامی کی تدوین جدید عہد حاضر کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اقبال کہتے ہیں کہ اسلام کائنات کے بارے میں حرکی (Dynamic) نظریہ پیش کرتا ہے۔ علمائے متقدمین کی طرح علامہ اقبال بھی اجتہاد کے چار بنیادی مآخذ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کو تسلیم کرتے ہیں۔ اجتہاد کے معاملے میں آپ نے وسعت نظر کا مظاہرہ کرکے فقہ اسلامی میں قرآن و سنت کی حدود میں رہتے ہوئے جو انقلابی تعبیریں پیش کیں، اگر عہدحاضر کے علماے دین اور دانش اور حضرات ان کے استدلال سے اتفاق کریں تو یقینا روشن مستقبل اور فکرِ اسلامی کی تشکیل جدید کے لیے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ ٭٭٭ ناصر عباس نیر: ’’اقبال اور جدیدیت‘‘ اقبال، لاہور، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۶ئ، ص۷۱-۸۰ ماڈرن ازم اقبال کی معاصر ادبی تحریک تھی۔ اس کا زمانہ ۱۹۱۰ء تا ۱۹۳۰ء ہے، مگر اس کے براہِ راست اثرات اقبال کی شاعری پر نظر نہیں آتے۔ شاید اس لیے کہ ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ، متشکل ہوچکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں ان کے چند مصرعوں کا ترجمہ کیا ہے۔ مگر ۱۹۱۰ء کے بعد ان کی نظر انتخابی ہوجاتی ہے اور جن دنوں ماڈرن ازم کی یہ تحریک زور وشور سے جاری تھی، اقبال مغربی تہذیب پر تنقید کا آغاز کرچکے تھے اور ماڈرن ازم مغربی تہذیب ہی کا مظہر ہے۔اقبال نے اسلوبی سطح پر تجربہ پسندی اور روایت شکنی کا مظاہرہ ایک خاص مفہوم میں بہرحال کیا ہے۔ روایت کا جتنا گہرا اور وسیع تصور اقبال کا تھا کسی دوسرے اردو شاعر کا مشکل سے ہوگا۔ اقبال کی انفرادیت ناقابل تقلید تو ہے مگر اپنی مشرق روایت میں بہرحال قابل فہم ہے۔ اقبال کی یہ عطا کچھ کم نہیں انھوں نے جدیدیت کو مغربیت سے آزاد کیا۔ اقبال ماڈرینٹی کو تنقیدی اور انتخابی طور سے قبول کرنے کے حق میں تھے۔ اقبال ماڈرینٹی کے نکتہ چیں بھی تھے اور مداح بھی۔ اقبال دراصل اپنی اسلامی ثقافتی نہاد کو قائم و برقرار رکھتے ہوئے مغربی جدیدیت سے اخذواستفادے کے قائل نظر آتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آصف اعوان: ’’اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کا تہذیبی و تمدنی پس منظر‘‘ اقبال، لاہور، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۶ئ، ص۵۰-۵۹ خطبہ الٰہ آباد تحریک پاکستان کا ایک درخشاں باب ہے۔ اس خطبے کے بعد مسلمانوں کے سامنے جدوجہد کے لیے ایک واضح منزل کا تعین ہوگیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم نے دوسری قوم پر فتح حاصل کی تو نہ صرف سیاسی تغلب حاصل کیا، بلکہ سماجی لحاظ سے بھی مفتوح قوم کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اقبال جس عہد میں برصغیر میں ایک فلسفی، متکلم اور مصلح قوم کی حیثیت سے سیاسی افق پر ابھرے، وہ فکری پستی ، تہذیبی زوال اور معاشی افلاس کا دور تھا۔ اقبال ایک ایسی قوم کا ہادی و رہبر بنا جو اپنے حال سے بیگانہ، ماضی سے بے نیاز اور مستقبل سے بے خبر تھی۔ یہ نہایت قنوطیت اور مایوسی کا دور تھا۔ اکبر الٰہ آبادی کی شاعری ایک زوال آمادہ تہذیب پر درد مندوں کا نوحہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر فکر کے ایسے بیش قیمت موتی رکھتی ہے، جنھیں اقبال کے لفظوں میں ’’بیابان کی شب تاریخ میں قندیل رہبانی‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے پہلے بھی جغرافیائی علیحدگی سے متعلق بہت سی تجاویز سامنے آچکی تھیں، تاہم اقبال کا الگ وطن کے قیام کا مطالبہ ان کی گہری سوچ اور مجموعی فکری نظام کا حصہ تھا۔ ان کا موقف تھا کہ دین اور سیاست کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے اقبال نے الگ اسلامی ریاست کے قیام کی اصل وجہ اسلامی تہذیبی و تمدنی عوامل کو قرار دیا ہے۔ اقبال اسلامی تہذیب کے علمی و ثقافتی ورثے کی تشکیل نو کے خواہاں تھے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آصف قادری: ’’اقبال کی انقلابی اور مزاحمتی شاعری‘‘ اقبال، لاہور، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۶ئ، ص۱۸-۴۹ مزاحمتی ادب کی اصطلاح بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں فرانس میں استعمال ہوئی۔ اقبال اصطلاح کے وجود میں آنے سے قبل ہی مزاحمتی شاعری کررہے تھے۔ان کا انقلابی ذہن فکروعمل، حرکت و تموج اور حرارت و توانائی کا منبع تھا۔ اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے ذہنوں میں تعمیر جہان نو کی تمنا کو بیدار کیا۔ جب ہم انھیں انقلابی شاعر کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں کہ انھوں نے نعرہ بازی سے کام لیا۔ اقبال کو یقین تھا کہ جب انسان میں مزاحمت کا جذبہ بیدار ہوجائے تو وہ ایک تیغ برّاں بن جاتا ہے اور غلامی کی زنجیروں کا کاٹ دیتا ہے۔ اقبال نے برطانوی سامراج کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ طلسم مغرب کو توڑنے کے لیے اقبال نے مزاحمتی نگاہ کو عصائے کلیم بنا کر استعمال کیا۔ اقبال شہنشاہیت، غلامی، ملوکیت اور فاشزم کو ابلیسیت بتاتے ہیں۔ ابلیسیت کے خلاف مقاومتی لب ولہجے کے غماز مرقومہ اشعار اپنی مثال آپ ہیں۔ اقبال ایسی حکومت چاہتے ہیں جو اسلامی اصولوں پر استوار ہو۔ جب کبھی عالمی ادب میں ممتاز مزاحمتی شاعروں کی کوئی فہرست مرتب کی جائے گی، اقبال اس میں بلند مقام پائیں گے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد سلیم: ’’علامہ اقبال اور ڈاکٹر تاثیر‘‘ تہذیب الاخلاق، لاہور، اکتوبر ۲۰۰۶ئ، ص۲۶-۳۶ ڈاکٹر محمد دین تاثیر ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ شاعر اور سخن فہم، اردو ادب کے اہم نقاد، قدیم و جدید مصوری کے باکمال پارکھ، اردو، انگریزی اور فارسی زبانوں پر حاوی، اچھے مقرر، انتظامی امور میں بے نظیر اور تیزیِ طبع میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ [مقالہ نگار نے ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے اقبال کے ساتھ گزارے گئے وقت کے متعلق چیدہ چیدہ واقعات بھی اس مقالے میں نقل کیے ہیں۔] خواجہ محمد زکریا کا خیال ہے کہ اگر ڈاکٹر تاثیر علامہ اقبال پر کوئی مربوط کام کرجاتے تو ان کے کام کو سند کی حیثیت حاصل ہوجاتی، لیکن ادبی چھیڑچھاڑ اور انتظامی ذمہ داریوں نے انھیں جم کر کام کرنے کی مہلت نہ دی۔ ٭٭٭ محمد نعیم بزمی: ‘‘اقبال کی خطابیہ اور مکالماتی نظموں میں امیجری‘‘ اقبال، لاہور، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۶ئ، ص۶۵-۷۵ اقبال کی نظموں کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اقبال اپنے جوش تخیل یا زورِ تخیل سے بعض اوقات مظاہر فطرت کو آپس میں یا انسان کو مظاہر فطرت سے مکالمہ کرتے دکھاتے ہیں۔ مکالماتی نظم میں امیجری کے پنپنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے یہ محسوس ہوتا ہے کہ خاموش موجودات کو زبان مل گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ امیجری میں بصروصور کے ساتھ ساتھ صوت و تحرک کے اوصاف بھی پیدا ہوجاتے ہیں اور یوں شاعر کے تخیل کی زرخیزی اور نادرہ کاری کے امکانات وقوع میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اقبال نے اپنی خطابیہ نظموں کو گونا گوں امیجز سے سجایا ہے۔ مکالماتی انداز سے امیجری کو جمالیات کی اعلیٰ تر سطح سے روشناس کراتا ہے۔ اقبال کی امیجری کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ جب کسی مخصوص امیج کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں تو اس امیج کے ساتھ متضاد نوعیت کے ذیلی امیجز بھی لاتے ہیں، تاکہ پسندیدہ امیج کے خدوخال زیادہ اجاگر ہوسکیں۔ حمام، کبوتر، چکور کے امیجز پس منظر کے طور پر لاکر شاہین کے اوصاف کو نکھارتے اور اس کی درویشی، خودداری، غیرت اور عزت نفس کو اجاگر کرتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ’’علامہ اقبال کا مصری مترجم الشیخ الصاوی علی شعلان‘‘ قومی زبان، کراچی، اگست۲۰۰۶ئ، ص۸۰-۸۴ عربی میں کلامِ اقبال کے دیگر مترجمین مثلاً ڈاکٹر عبدالوہاب عزام، شام کے عبدالمعین الملوحی اور حسن ظاظا پر شیخ الصاوی کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ ایک تو وہ خود شاعر تھے، علاوہ ازیں ان کے ترجمے کو مصر کی معروف مغنیہ اُم کلثوم نے ترنم میں پیش کیا جس سے عرب دنیا میں اقبال اور ان کے کلام سے آگاہی پیدا ہوئی۔ شیخ الصاوی کا ترجمہ ایسی فصیح و بلیغ عربی میں ہے کہ ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ ایسے تراجم اصل تخلیق کے ہم پلہ ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر وحید عشرت، ’’اقبال ایک تحریک‘‘ مخزن ،نومبر۲۰۰۶، لاہور، ص۱۳۵-۱۴۳ ڈاکٹر محمد اکرم اکرام کی تصنیف اقبال ایک تحریک میں مسلمانوں کو درپیش نئی مبارزتوں کا ادراک ملتا ہے۔ حضرت علی ہجویریؒ سے اقبال تک اور محمود غزنوی سے قائداعظم تک ایک ہی تحریک روبہ عمل ہے۔ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے فکروعمل کی ہم آہنگی قران۔السعدین ہے۔ یہ کتاب اقبال کے فکروفلسفے کی وضاحت کی اچھی کوشش ہے۔ کتاب کے ایک مقالے بعنوان زندہ رود پر تاریخی اور جغرافیائی نقطہ نظر سے تبصرہ کیا گیا ہے۔ ایک دوسرے مقالے معراج النبی ا پر فلسفیانہ نقطہ نظر سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کا ایک اور مقالے بعنوان اقبال در راہِ رومیؒ میں اقبال اور رومی کی فکری اور مذہبی اساسیات کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ تبصرہ نگار نے آخری مقالے کو بہت اہم قرار دیا ہے جو ’’احیاے علوم‘‘ کے عنوان سے ہے۔ آخر میں تبصرہ نگار نے تجویز پیش کی ہے کہ اقبال نے اپنی جن تحریروں میں علوم کے احیا کی بات کی ہے، انھیں مدوّن کیا جائے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭ شیخ عبدالرشید، علامہ اقبال اور تصوراتِ تاریخ، الشریعہ،گوجرانوالہ، نومبر ۲۰۰۶ئ۔ ص۱۰ علامہ اقبال کا تصورِ تاریخ قرآن مجید سے ماخوذ ہے۔ وہ تاریخ کی غرض و غایت اور تاریخی عمل کو الگ الگ شے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ علامہ کے حوالے سے تاریخ کی تعریف یہ ہے کہ تاریخ ایک طرح کا ضخیم گراموفون ہے، جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔ مختلف مفکرین کے ہاں مختلف تصوراتِ تاریخ ملتے ہیں۔ اقبال کے حوالے سے مطالعہ تاریخ سے ماخوذ تصورات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا یہ کہ زندگی کا مبدا و منبع ایک ہے۔ دوسرا اس امر کا گہرا احساس کہ زمانہ ایک حقیقت ہے لہٰذا زندگی مسلسل اور مستقل حرکت سے عبارت ہے۔اقبال کے فکر کی اہم ترین جہت حرکت ہے، اس لیے وہ تاریخ کو بھی ایک حرکت ہی تصور کرتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آصف اعوان: ’’نطشے کا نظریہ تکرارِ ابدی اقبال‘‘ الشریعہ، گوجرانوالہ، نومبر۲۰۰۶ئ،ص۲۲-۲۸ اقبالِ کی تنقید کے پانچ مراحل ہیں۔ (i) نطشے کا غلط تصورِ توانائی (ii) زمان کا غلط تصور (iii) لامتناہیت کا غلط تصور (iv) نطشے کا تضاد (v) بدترین تقدیر پرستی اقبال کے نزدیک خدا تعالیٰ کی تخلیقی توانائی لامحدود ہے، اس لیے تخلیق میں اعادہ ممکن نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک کولھو کے بیل کی طرح ایک شے کا باربار دہرایا جانا انسانِ کے تصورِ دوام سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ ٭٭٭ محمد ظہیر الدین، ’’اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد دکن، اپریل ۲۰۰۶ئ، ص۵-۸ اقبال اکیڈمی حیدرآباد کو حسب ذیل خطوط دست یاب ہوئے ہیں۔ پہلے چار خطوط کی نقول سرکاری مسلوں سے ملیں۔ آخری تین خط، اصل حالت میں آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔ ان خطوط کی تواریخ مکتوب الیہان اور موضوعات حسب ذیل ہیں: ۱: ۹؍دسمبر ۱۹۲۸ء (غالباً) بنام رجسٹرار جامعہ عثمانیہ۔ بسلسلہ حیدرآباد خطبات ۲: ۲۱؍دسمبر۱۹۲۸ء ارباب جامعہ عثمانیہ کے نام بسلسلہ خطبات کے عنوانات ۳: ۲۶؍فروری ۱۹۲۹ء سرامین جنگ کے نام۔ بسلسلہ ادارۂ معارفِ اسلامیہ، لاہور کو امداد ۴: ۳؍جنوری ۱۹۳۰ء جناب حمید اور رجسٹرار جامعہ عثمانیہ کے نام۔ خطبات کے سلسلے میں اقبال نے معذوری کا اظہار کیا۔ ۵: ۲؍مئی ۱۹۳۱ء ۶: ۱۴؍مئی ۱۹۳۱ء ۷: ۳؍فروری۱۹۳۸ء یہ تینوں خطوط سراکبر حیدری کے نام ہیں جو اقبال نے مالی اعانت کے لیے آفتاب اقبال کی درخواستوں کے سلسلہ میں سر اکبر حیدری کے خطوط کے جواب میں لکھے تھے۔ ۸: ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۸ء بنام علامہ عمادی ۹: ۳۱؍اکتوبر ۱۹۱۸ء بنام پروفیسر ابوظفر عبدالواحد ۱۰: ۲؍مارچ ۱۹۳۵ء بنام پروفیسر غلام دستگیر رشید ۱۱: ۱؍نومبر ۱۹۳۵ء ۱۳؍دسمبر۱۹۳۵ء ۱۷؍ستمبر۱۹۳۷ء بنام ڈاکٹر سید عبداللطیف بنام ڈاکٹر سید عبداللطیف بنام ڈاکٹر سید عبداللطیف بعض خطوط کے عکس اور تعلیقات بھی شامل ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر سید عبداللطیف، ’’اقبال کا مسلکِ انسانیت‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد دکن، اپریل۲۰۰۶ئ، ص۷۵-۸۰ اقبال کی انسان دوستی اس کے کلام کا سرچشمہ ہے۔ کبھی کبھی تو یہ انسان دوستی اس قدر واضح دکھائی دیتی ہے کہ اسے تسلیم نہ کرنا شاعر کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ اقبال چاہتے ہیں کہ انسانی زندگی خودداری کی بنیادوں پر کھڑی ہو اور اپنے آپ کو تنگ نظری، نسل پرستی اور قومی تفوق کے جذبے سے آزاد کرے۔ اقبال کا جذبہ انسانیت ان کا بنیادی نظریہ ہے۔ اقبال کی تحریروں میں مغرب کی تحریکات کے ساتھ ساتھ عیسائی اثرات اور ہندوستان اور قدیم ایران کے مسلکِ انسانیت کی جھلک ملتی ہے، لیکن جس جذبۂ انسانیت نے اقبال کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد ا جیسے مصلحینِ اعظم کا پیش کردہ، جنھوں نے رنگ و نسل اور ملک و قوم کی تفریق کی جڑ سے مٹا دیا اور عالم انسانیتِ میں ہم آہنگی پیدا فرمائی۔ اقبال بھی اس جذبۂ انسانیت پر بھروسا کرتے ہیں جو اسلام سے عبارت ہے۔ ٭٭٭ سید امتیاز الدین، ’’علامہ عمادی اور اقبال‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد، اپریل۲۰۰۶ئ۔ ص۱۹-۲۱ اقبال کے بارے میں علامہ عمادی کے مضامین دستیاب نہیں ہیں، لیکن بعض تحریروں اور خطوط سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان نہایت مخلصانہ روابط تھے اور دونوں ایک دوسرے کے قدردان تھے۔ مثنوی اسرارِ خودی شائع ہوئی تو مخالفین نے تنقیدی مضامین لکھنا شروع کردیے۔ مولانا عمادی نے اقبال کے نقطۂ نظر کی تائید میں مضامین لکھے جو روزنامہ زمیندار میں شائع ہوئے۔ اقبال کے انتقال پرملال کی خبر سن کر علامہ عمادی نے ان کے مشہور فارسی قطعے کا اسی وقت قلم برداشتہ ترجمہ فرمادیا۔ علامہ اقبال علامہ عمادی سرود رفتہ باز آید کہ ناید سرودِ دل نواز آئے نہ آئے نسیمے از حجاز آید کہ ناید پھر اب بوئے حجاز آئے نہ آئے سر آمد روزگارے ایں فقیرے زمانہ اس گدا کا ہوگیا ختم دگر داناے راز آید کہ ناید کوئی دناے راز آئے نہ آئے ٭٭٭ ڈاکٹر سید عبداللطیف: ’’شاعر اقبال اور اس کا پیام‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد دکن۔ اپریل۲۰۰۶ئ۔ ص۸۱-۸۴ ڈاکٹر سچد انند سنہا نے اپنی ضخیم کتاب The Poet and His Message میں اقبال کی پوری زندگی، ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں کا عمومی جائزہ لیا ہے۔ جو قاری کو ڈاکٹر سنہا کے ذہن تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ ڈاکٹر سنہا اس بات سے ناخوش ہیں کہ اقبال نے اردو کے بجائے فارسی کو وسیلۂ اظہار بنایا ہے۔ اس نقطۂ نظر کا اظہار انھوں نے بارہا کیا ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید وہ شاعر اقبال کے تعلق سے تعصبات کا شکار ہے۔ ڈاکٹر سنہا کی تحقیق کا مقصد مثبت سے زیادہ منفی محسوس ہوتا ہے۔ مصنف نے نہایت تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ’’اقبال کیا نہیں ہیں‘‘ بجائے اس کے ’’اقبال کیا ہیں‘‘۔ کتاب کے شروع سے آخر تک سچدانند سنہا ایک بت شکن کی طرح آمادہ پیکار نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر سنہا نے اقبال کی پوری شخصیت اور فن کا کلی جائزہ لینے کی بجائے ان کا تجزیہ جزواً جزواً کیا ہے۔ اسی وجہ سے اقبال کی حقیقی تصویر ابھر کر ہمارے سامنے نہ آسکی۔ ٭٭٭ پروفیسر ابوظفر عبدالواحد، ’’اقبال کا شاعرانہ فلسفہ‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد دکن، اپریل۲۰۰۶ئ۔ ص۲۹-۳۷ اقبال نے شعر کو فلسفہ اور فلسفے کو شعر بنا دیا۔ فلسفے اور شعر کا جہاں خوش گوار امتزاج ہو، شعر جادو بن جاتا ہے۔ غالب کی شعریت فلسفے پر سدا غالب رہی۔ لیکن اقبال کی فلسفیت بعض اوقات شعریت پر غالب آجاتی ہے اوربحیثیت شاعر یہی اس کی کمزوری ہے۔ کوئی شاعر اپنے ماحول اور گردوپیش کے واقعات سے الگ تھلگ اور بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ جو کچھ وہ اپنے آس پاس دیکھتا ہے، اسے اپنی سرشت کے حساس سانچے میں ڈھال کر ایک خوبصورت اور دلکش انداز میں بیان کرتا ہے۔ اقبال کا ہندی ترانہ، نیا شوالہ اور تصویر، انھی تاثرات کا نتیجہ ہیں۔ بحیثیت فلسفی انھوں نے اسلام کے اصولوں کو نظر کے سامنے رکھ کر، عالم گیر اخوت اور حیاتِ افراد کی ترقی اور تعمیر کا وہ انوکھا اصول تیار کیا جس کو نہ تو نطشے اور برگساں کے فلسفے سے براہِ راست کوئی تعلق ہے، جسے اقبال کے بعض یورپی ناقدوں نے دھڑلے کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس غلط فہمی کو خود اقبال نے اپنے ایک خط (بنام ڈاکٹر نکلسن) کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ علاوہ اس خط کے شاعر کی فارسی اور اردو تصانیف میں جابجا فلاسفہ مغرب کی تعلیمات سے بیزاری اور کم اعتقادی کا ثبوت ملتا ہے۔ اقبال فلسفی بھی تھا لیکن اس کے لیے یہ ایک اکتسابی چیز تھی۔ فلسفے کی رو میں وہ مدتوں بہتا رہا، اس کی شاعری کی عظمت اور بنا بھی فلسفے پر ہے تاہم فلسفہ علم ہے اور شاعری عشق۔ شاعری سے اسے عشق تھا اور اس کا عشق اس کی شاعری ہے۔ اسی سے اس نے سکون پایا اور اسی کے ذریعے اس نے اوروں کو سکون بخشا۔ وہ عمر بھر اپنے قناعت کدے میں دھونی رمائے، قلندرانہ زندگی بسر کرتا رہا اور اس رنگ کو مرتے دم تک نباہا۔ ٭٭٭ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی: ’’کلامِ اقبال میں رجائیت‘‘ آفاق، ٹورانٹو، جولائی۲۰۰۶ئ۔ ص۳۲-۳۵ زندگی اہل احساس کے لیے المیہ اور اہل فکر کے لیے طربیہ ہوتی ہے۔ اقبال کو مبدأ فیاض سے حسّاس دل کے ساتھ مفکرانہ ذہن اور قلندرانہ مزاج عطا ہوا تھا۔ اقبال کے نزدیک شاعر اور فن کار کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے کمال فن سے دلوں میں نئی نئی آرزوئیں اور امنگیں بیدار کرے۔ اقبال حکیمِ حیات ہیں اور انسانی زندگی کی تکمیل کے لیے غم و آلام کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ غم ان کے نزدیک ایک تعمیری و تخلیقی قوت ہے، جس سے انسانی فطرت کے جوہر منکشف ہوتے اور جلا پاتے ہیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد اقبال کی حکیمانہ بصیرت خضر راہ بن کر یہ پیغام دیتی ہے کہ تخریب کے یہ ہنگامے تعمیر نو کا پیش خیمہ ہیں۔ اقبال نے جبریت کے فلسفے اور قنوطیت کے سدباب کے لیے تقدیر کا ایک نیا تصور پیش کیا۔ اقبال کے نزدیک تقدیر کوئی اٹل فیصلہ نہیں، بلکہ مستقبل کا ایک کھلا امکان ہے۔ ٭٭٭ ناصر عباس نیر: ’’اقبال اور ہسے‘‘ قومی زبان، کراچی، جون۲۰۰۶ئ۔ ص۲۵-۳۴ ہرمان ہسے اقبال کے معاصر تھے۔ اقبال اور ہسے میں متعدد مشابہتیں اور مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ ان دونوں کی نظر میں مشرقی تہذیب آفاقی ہے۔ ہسے اور اقبال کے فن کی اصل عشق میں پنہاں ہے۔ وہ عقل کو چراغِ راہ اور عشق کو منزل قرار دیتے ہیں اور دونوں نے یہ تصور غالباً مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔ اقبال اور ہسے دونوں متقدمین مشرق سے اثر اندوزی، طلب، تشنگی اور عقیدت میں بھی برابر ہیں۔ جاوید نامہ میں اقبال جن اصحاب کرام کی عنایتوں کے شکر گزار ہیں، ہسے بھی انھیں کے مداح ہیں۔ اقبال علم کے لیے ’’خبر‘‘ اور ’’نظر‘‘ کی اصطلاح لائے۔ دونوں کے خیال میں علم وہی درست ہے جو عقل اور عشق دونوں کا حسین امتزاج ہو اور ایسے ہی علم پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں مولانا روم کی پیروی میں صرف عقل کے تابع زندگی کو ظلمانی اور شیطانی، جب کہ عشق کے تابع زندگی کو الوہی اور نورانی قرار دیتے ہیں۔ اقبال اور ہسے کی مشرق و مغرب کے فلسفے، دین، تاریخ، تصوف اور روایت پر خصوصی گہری نظر تھی۔ دونوں اپنی تاریخ اور روایت کے بڑے پاسدار تھے۔ ان فکری اور فنی یکسانیوں کے علاوہ اقبال اور ہسے میں حیران کن حد تک داخلی، خانگی اور نجی نوعیت کی مشابہتوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا پرتو نظر آتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد رفیع الدین: ’’خودی اور آرٹ‘‘ آفاق، اگست۲۰۰۶ئ۔ ص۳۲-۳۵ فعلِ جمیل سے اقبال کا مطلب ایسا فعل ہے جو اپنے مقصد کے لحاظ سے حسین ہو یعنی جس کا مقصد خودی کے کامل نصب العین یا صحیح تصورِ حقیقت سے ماخوذ ہو اور صفات حسن کے مطابق ہو۔ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ انسان کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس کو وہ معنوی طور پر ہی نہیں بلکہ ظاہری طور پر بھی خوبصورت بنانے کی کوشش نہ کرے۔ خودی اور آرٹ کے ضمن میں ثقافت اور تہذیب کا فرق، حسن کے پہلوئوں، صداقت اور نیکی، خدا کی آرزو اور آرٹ کا تعلق اور آرٹ کی خطرناک قسموں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ٭٭٭  اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ ڈاکٹر شاہد کامران: ’’دانش افرنگ، اشتراکیت اور اقبال‘‘ الاقربا، اسلام آباد، جولائی-ستمبر ۲۰۰۶ئ، ص۳۸-۵۹ مغرب سے متعلق اقبال کے طرزِ فکر میں دو نمایاں رجحان نظر آتے ہیں۔ اول: اقبال مغربی علوم و فنون اور خصوصاً طبعی علوم میں مغرب کی حیرت انگیز ترقیات کو سراہتے ہیں۔ دوم: انھوں نے فکر غرب سے ذاتی سطح پر استفادہ کیا، تاہم اقبال غیر ملکی زبان و ادب، تاریخ اور تہذیب کے یک طرفہ مطالعات کے نقصانات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ نوجوانوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے عقلی پس منظر کے بغیر محض مغربی تعلیم دینے کے خلاف نظر آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کی وجہ جدید مغربی تہذیب و تمدن کی بے راہ روی ہے، جو روحانیت سے انکار سے جنم لیتی ہے۔وہ اشتراکی تحریک کو بھی مغربی تمدن و سیاست کے خلاف ایک ردّعمل خیال کرتے ہیں۔ قیصر و کلیسا کی مذمت، مزدور و کسان کی عظمت اور محنت کو ایک معاشی قدر قرار دینے سے اقبال خود کو اشتراکی ثابت نہیں کرتا۔ تاہم اشتراکیت کا بطور ایک سیاسی و معاشی تحریک کے مطالعہ، اقبال کا ایک اہم اور دل چسپ موضوع رہا ہے۔ اقبال مجموعی طور پر اشتراکیت و ملوکیت دونوں سے متعدد وجوہ کی بنا پر مایوس نظر آتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی: ’’فکر اقبال میں اجتہاد کی اہمیت‘‘ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ، جولائی ۲۰۰۶ئ، ص۷۴-۹۳ علامہ اقبال نے اپنے وقت میں فقہی جمود پر تنقید کی اور اجتہاد پر زور دیا۔ وہ ابتدا ہی سے معاشرے میں اصلاحِ تمدن کی ضرورت شدت سے محسوس کررہے تھے۔ اور ان کے خیال کے مطابق اصلاحِ تمدن اُسی وقت ممکن ہے جب فقہ اسلامی میں اصلاح کی جائے۔ اقبال کے نزدیک فقہ اسلامی کی تدوین جدید عہد حاضر کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اقبال کہتے ہیں کہ اسلام کائنات کے بارے میں حرکی (Dynamic) نظریہ پیش کرتا ہے۔ علمائے متقدمین کی طرح علامہ اقبال بھی اجتہاد کے چار بنیادی مآخذ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کو تسلیم کرتے ہیں۔ اجتہاد کے معاملے میں آپ نے وسعت نظر کا مظاہرہ کرکے فقہ اسلامی میں قرآن و سنت کی حدود میں رہتے ہوئے جو انقلابی تعبیریں پیش کیں، اگر عہدحاضر کے علماے دین اور دانش اور حضرات ان کے استدلال سے اتفاق کریں تو یقینا روشن مستقبل اور فکرِ اسلامی کی تشکیل جدید کے لیے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ ٭٭٭ ناصر عباس نیر: ’’اقبال اور جدیدیت‘‘ اقبال، لاہور، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۶ئ، ص۷۱-۸۰ ماڈرن ازم اقبال کی معاصر ادبی تحریک تھی۔ اس کا زمانہ ۱۹۱۰ء تا ۱۹۳۰ء ہے، مگر اس کے براہِ راست اثرات اقبال کی شاعری پر نظر نہیں آتے۔ شاید اس لیے کہ ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ، متشکل ہوچکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں ان کے چند مصرعوں کا ترجمہ کیا ہے۔ مگر ۱۹۱۰ء کے بعد ان کی نظر انتخابی ہوجاتی ہے اور جن دنوں ماڈرن ازم کی یہ تحریک زور وشور سے جاری تھی، اقبال مغربی تہذیب پر تنقید کا آغاز کرچکے تھے اور ماڈرن ازم مغربی تہذیب ہی کا مظہر ہے۔اقبال نے اسلوبی سطح پر تجربہ پسندی اور روایت شکنی کا مظاہرہ ایک خاص مفہوم میں بہرحال کیا ہے۔ روایت کا جتنا گہرا اور وسیع تصور اقبال کا تھا کسی دوسرے اردو شاعر کا مشکل سے ہوگا۔ اقبال کی انفرادیت ناقابل تقلید تو ہے مگر اپنی مشرق روایت میں بہرحال قابل فہم ہے۔ اقبال کی یہ عطا کچھ کم نہیں انھوں نے جدیدیت کو مغربیت سے آزاد کیا۔ اقبال ماڈرینٹی کو تنقیدی اور انتخابی طور سے قبول کرنے کے حق میں تھے۔ اقبال ماڈرینٹی کے نکتہ چیں بھی تھے اور مداح بھی۔ اقبال دراصل اپنی اسلامی ثقافتی نہاد کو قائم و برقرار رکھتے ہوئے مغربی جدیدیت سے اخذواستفادے کے قائل نظر آتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آصف اعوان: ’’اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کا تہذیبی و تمدنی پس منظر‘‘ اقبال، لاہور، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۶ئ، ص۵۰-۵۹ خطبہ الٰہ آباد تحریک پاکستان کا ایک درخشاں باب ہے۔ اس خطبے کے بعد مسلمانوں کے سامنے جدوجہد کے لیے ایک واضح منزل کا تعین ہوگیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم نے دوسری قوم پر فتح حاصل کی تو نہ صرف سیاسی تغلب حاصل کیا، بلکہ سماجی لحاظ سے بھی مفتوح قوم کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اقبال جس عہد میں برصغیر میں ایک فلسفی، متکلم اور مصلح قوم کی حیثیت سے سیاسی افق پر ابھرے، وہ فکری پستی ، تہذیبی زوال اور معاشی افلاس کا دور تھا۔ اقبال ایک ایسی قوم کا ہادی و رہبر بنا جو اپنے حال سے بیگانہ، ماضی سے بے نیاز اور مستقبل سے بے خبر تھی۔ یہ نہایت قنوطیت اور مایوسی کا دور تھا۔ اکبر الٰہ آبادی کی شاعری ایک زوال آمادہ تہذیب پر درد مندوں کا نوحہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر فکر کے ایسے بیش قیمت موتی رکھتی ہے، جنھیں اقبال کے لفظوں میں ’’بیابان کی شب تاریخ میں قندیل رہبانی‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے پہلے بھی جغرافیائی علیحدگی سے متعلق بہت سی تجاویز سامنے آچکی تھیں، تاہم اقبال کا الگ وطن کے قیام کا مطالبہ ان کی گہری سوچ اور مجموعی فکری نظام کا حصہ تھا۔ ان کا موقف تھا کہ دین اور سیاست کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے اقبال نے الگ اسلامی ریاست کے قیام کی اصل وجہ اسلامی تہذیبی و تمدنی عوامل کو قرار دیا ہے۔ اقبال اسلامی تہذیب کے علمی و ثقافتی ورثے کی تشکیل نو کے خواہاں تھے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آصف قادری: ’’اقبال کی انقلابی اور مزاحمتی شاعری‘‘ اقبال، لاہور، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۶ئ، ص۱۸-۴۹ مزاحمتی ادب کی اصطلاح بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں فرانس میں استعمال ہوئی۔ اقبال اصطلاح کے وجود میں آنے سے قبل ہی مزاحمتی شاعری کررہے تھے۔ان کا انقلابی ذہن فکروعمل، حرکت و تموج اور حرارت و توانائی کا منبع تھا۔ اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے ذہنوں میں تعمیر جہان نو کی تمنا کو بیدار کیا۔ جب ہم انھیں انقلابی شاعر کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں کہ انھوں نے نعرہ بازی سے کام لیا۔ اقبال کو یقین تھا کہ جب انسان میں مزاحمت کا جذبہ بیدار ہوجائے تو وہ ایک تیغ برّاں بن جاتا ہے اور غلامی کی زنجیروں کا کاٹ دیتا ہے۔ اقبال نے برطانوی سامراج کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ طلسم مغرب کو توڑنے کے لیے اقبال نے مزاحمتی نگاہ کو عصائے کلیم بنا کر استعمال کیا۔ اقبال شہنشاہیت، غلامی، ملوکیت اور فاشزم کو ابلیسیت بتاتے ہیں۔ ابلیسیت کے خلاف مقاومتی لب ولہجے کے غماز مرقومہ اشعار اپنی مثال آپ ہیں۔ اقبال ایسی حکومت چاہتے ہیں جو اسلامی اصولوں پر استوار ہو۔ جب کبھی عالمی ادب میں ممتاز مزاحمتی شاعروں کی کوئی فہرست مرتب کی جائے گی، اقبال اس میں بلند مقام پائیں گے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد سلیم: ’’علامہ اقبال اور ڈاکٹر تاثیر‘‘ تہذیب الاخلاق، لاہور، اکتوبر ۲۰۰۶ئ، ص۲۶-۳۶ ڈاکٹر محمد دین تاثیر ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ شاعر اور سخن فہم، اردو ادب کے اہم نقاد، قدیم و جدید مصوری کے باکمال پارکھ، اردو، انگریزی اور فارسی زبانوں پر حاوی، اچھے مقرر، انتظامی امور میں بے نظیر اور تیزیِ طبع میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ [مقالہ نگار نے ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے اقبال کے ساتھ گزارے گئے وقت کے متعلق چیدہ چیدہ واقعات بھی اس مقالے میں نقل کیے ہیں۔] خواجہ محمد زکریا کا خیال ہے کہ اگر ڈاکٹر تاثیر علامہ اقبال پر کوئی مربوط کام کرجاتے تو ان کے کام کو سند کی حیثیت حاصل ہوجاتی، لیکن ادبی چھیڑچھاڑ اور انتظامی ذمہ داریوں نے انھیں جم کر کام کرنے کی مہلت نہ دی۔ ٭٭٭ محمد نعیم بزمی: ‘‘اقبال کی خطابیہ اور مکالماتی نظموں میں امیجری‘‘ اقبال، لاہور، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۶ئ، ص۶۵-۷۵ اقبال کی نظموں کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اقبال اپنے جوش تخیل یا زورِ تخیل سے بعض اوقات مظاہر فطرت کو آپس میں یا انسان کو مظاہر فطرت سے مکالمہ کرتے دکھاتے ہیں۔ مکالماتی نظم میں امیجری کے پنپنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے یہ محسوس ہوتا ہے کہ خاموش موجودات کو زبان مل گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ امیجری میں بصروصور کے ساتھ ساتھ صوت و تحرک کے اوصاف بھی پیدا ہوجاتے ہیں اور یوں شاعر کے تخیل کی زرخیزی اور نادرہ کاری کے امکانات وقوع میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اقبال نے اپنی خطابیہ نظموں کو گونا گوں امیجز سے سجایا ہے۔ مکالماتی انداز سے امیجری کو جمالیات کی اعلیٰ تر سطح سے روشناس کراتا ہے۔ اقبال کی امیجری کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ جب کسی مخصوص امیج کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں تو اس امیج کے ساتھ متضاد نوعیت کے ذیلی امیجز بھی لاتے ہیں، تاکہ پسندیدہ امیج کے خدوخال زیادہ اجاگر ہوسکیں۔ حمام، کبوتر، چکور کے امیجز پس منظر کے طور پر لاکر شاہین کے اوصاف کو نکھارتے اور اس کی درویشی، خودداری، غیرت اور عزت نفس کو اجاگر کرتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ’’علامہ اقبال کا مصری مترجم الشیخ الصاوی علی شعلان‘‘ قومی زبان، کراچی، اگست۲۰۰۶ئ، ص۸۰-۸۴ عربی میں کلامِ اقبال کے دیگر مترجمین مثلاً ڈاکٹر عبدالوہاب عزام، شام کے عبدالمعین الملوحی اور حسن ظاظا پر شیخ الصاوی کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ ایک تو وہ خود شاعر تھے، علاوہ ازیں ان کے ترجمے کو مصر کی معروف مغنیہ اُم کلثوم نے ترنم میں پیش کیا جس سے عرب دنیا میں اقبال اور ان کے کلام سے آگاہی پیدا ہوئی۔ شیخ الصاوی کا ترجمہ ایسی فصیح و بلیغ عربی میں ہے کہ ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ ایسے تراجم اصل تخلیق کے ہم پلہ ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر وحید عشرت، ’’اقبال ایک تحریک‘‘ مخزن ،نومبر۲۰۰۶، لاہور، ص۱۳۵-۱۴۳ ڈاکٹر محمد اکرم اکرام کی تصنیف اقبال ایک تحریک میں مسلمانوں کو درپیش نئی مبارزتوں کا ادراک ملتا ہے۔ حضرت علی ہجویریؒ سے اقبال تک اور محمود غزنوی سے قائداعظم تک ایک ہی تحریک روبہ عمل ہے۔ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے فکروعمل کی ہم آہنگی قران۔السعدین ہے۔ یہ کتاب اقبال کے فکروفلسفے کی وضاحت کی اچھی کوشش ہے۔ کتاب کے ایک مقالے بعنوان زندہ رود پر تاریخی اور جغرافیائی نقطہ نظر سے تبصرہ کیا گیا ہے۔ ایک دوسرے مقالے معراج النبی ا پر فلسفیانہ نقطہ نظر سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کا ایک اور مقالے بعنوان اقبال در راہِ رومیؒ میں اقبال اور رومی کی فکری اور مذہبی اساسیات کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ تبصرہ نگار نے آخری مقالے کو بہت اہم قرار دیا ہے جو ’’احیاے علوم‘‘ کے عنوان سے ہے۔ آخر میں تبصرہ نگار نے تجویز پیش کی ہے کہ اقبال نے اپنی جن تحریروں میں علوم کے احیا کی بات کی ہے، انھیں مدوّن کیا جائے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭ شیخ عبدالرشید، علامہ اقبال اور تصوراتِ تاریخ، الشریعہ،گوجرانوالہ، نومبر ۲۰۰۶ئ۔ ص۱۰ علامہ اقبال کا تصورِ تاریخ قرآن مجید سے ماخوذ ہے۔ وہ تاریخ کی غرض و غایت اور تاریخی عمل کو الگ الگ شے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ علامہ کے حوالے سے تاریخ کی تعریف یہ ہے کہ تاریخ ایک طرح کا ضخیم گراموفون ہے، جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔ مختلف مفکرین کے ہاں مختلف تصوراتِ تاریخ ملتے ہیں۔ اقبال کے حوالے سے مطالعہ تاریخ سے ماخوذ تصورات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا یہ کہ زندگی کا مبدا و منبع ایک ہے۔ دوسرا اس امر کا گہرا احساس کہ زمانہ ایک حقیقت ہے لہٰذا زندگی مسلسل اور مستقل حرکت سے عبارت ہے۔اقبال کے فکر کی اہم ترین جہت حرکت ہے، اس لیے وہ تاریخ کو بھی ایک حرکت ہی تصور کرتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آصف اعوان: ’’نطشے کا نظریہ تکرارِ ابدی اور اقبال‘‘ الشریعہ، گوجرانوالہ، نومبر۲۰۰۶ئ،ص۲۲-۲۸ اقبالِ کی تنقید کے پانچ مراحل ہیں۔ (i) نطشے کا غلط تصورِ توانائی (ii) زمان کا غلط تصور (iii) لامتناہیت کا غلط تصور (iv) نطشے کا تضاد (v) بدترین تقدیر پرستی اقبال کے نزدیک خدا تعالیٰ کی تخلیقی توانائی لامحدود ہے، اس لیے تخلیق میں اعادہ ممکن نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک کولھو کے بیل کی طرح ایک شے کا باربار دہرایا جانا انسانِ کے تصورِ دوام سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ ٭٭٭ محمد ظہیر الدین، ’’اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد دکن، اپریل ۲۰۰۶ئ، ص۵-۸ اقبال اکیڈمی حیدرآباد کو حسب ذیل خطوط دست یاب ہوئے ہیں۔ پہلے چار خطوط کی نقول سرکاری مسلوں سے ملیں۔ آخری تین خط، اصل حالت میں آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔ ان خطوط کی تواریخ مکتوب الیہان اور موضوعات حسب ذیل ہیں: ۱: ۹؍دسمبر ۱۹۲۸ء (غالباً) بنام رجسٹرار جامعہ عثمانیہ۔ بسلسلہ حیدرآباد خطبات ۲: ۲۱؍دسمبر۱۹۲۸ء ارباب جامعہ عثمانیہ کے نام بسلسلہ خطبات کے عنوانات ۳: ۲۶؍فروری ۱۹۲۹ء سرامین جنگ کے نام۔ بسلسلہ ادارۂ معارفِ اسلامیہ، لاہور کو امداد ۴: ۳؍جنوری ۱۹۳۰ء جناب حمید اور رجسٹرار جامعہ عثمانیہ کے نام۔ خطبات کے سلسلے میں اقبال نے معذوری کا اظہار کیا۔ ۵: ۲؍مئی ۱۹۳۱ء ۶: ۱۴؍مئی ۱۹۳۱ء ۷: ۳؍فروری۱۹۳۸ء یہ تینوں خطوط سراکبر حیدری کے نام ہیں جو اقبال نے مالی اعانت کے لیے آفتاب اقبال کی درخواستوں کے سلسلہ میں سر اکبر حیدری کے خطوط کے جواب میں لکھے تھے۔ ۸: ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۸ء بنام علامہ عمادی ۹: ۳۱؍اکتوبر ۱۹۱۸ء بنام پروفیسر ابوظفر عبدالواحد ۱۰: ۲؍مارچ ۱۹۳۵ء بنام پروفیسر غلام دستگیر رشید ۱۱: ۱؍نومبر ۱۹۳۵ء ۱۳؍دسمبر۱۹۳۵ء ۱۷؍ستمبر۱۹۳۷ء بنام ڈاکٹر سید عبداللطیف بنام ڈاکٹر سید عبداللطیف بنام ڈاکٹر سید عبداللطیف بعض خطوط کے عکس اور تعلیقات بھی شامل ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر سید عبداللطیف، ’’اقبال کا مسلکِ انسانیت‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد دکن، اپریل۲۰۰۶ئ، ص۷۵-۸۰ اقبال کی انسان دوستی اس کے کلام کا سرچشمہ ہے۔ کبھی کبھی تو یہ انسان دوستی اس قدر واضح دکھائی دیتی ہے کہ اسے تسلیم نہ کرنا شاعر کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ اقبال چاہتے ہیں کہ انسانی زندگی خودداری کی بنیادوں پر کھڑی ہو اور اپنے آپ کو تنگ نظری، نسل پرستی اور قومی تفوق کے جذبے سے آزاد کرے۔ اقبال کا جذبہ انسانیت ان کا بنیادی نظریہ ہے۔ اقبال کی تحریروں میں مغرب کی تحریکات کے ساتھ ساتھ عیسائی اثرات اور ہندوستان اور قدیم ایران کے مسلکِ انسانیت کی جھلک ملتی ہے، لیکن جس جذبۂ انسانیت نے اقبال کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد ا جیسے مصلحینِ اعظم کا پیش کردہ، جنھوں نے رنگ و نسل اور ملک و قوم کی تفریق کی جڑ سے مٹا دیا اور عالم انسانیتِ میں ہم آہنگی پیدا فرمائی۔ اقبال بھی اس جذبۂ انسانیت پر بھروسا کرتے ہیں جو اسلام سے عبارت ہے۔ ٭٭٭ سید امتیاز الدین، ’’علامہ عمادی اور اقبال‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد، اپریل۲۰۰۶ئ۔ ص۱۹-۲۱ اقبال کے بارے میں علامہ عمادی کے مضامین دستیاب نہیں ہیں، لیکن بعض تحریروں اور خطوط سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان نہایت مخلصانہ روابط تھے اور دونوں ایک دوسرے کے قدردان تھے۔ مثنوی اسرارِ خودی شائع ہوئی تو مخالفین نے تنقیدی مضامین لکھنا شروع کردیے۔ مولانا عمادی نے اقبال کے نقطۂ نظر کی تائید میں مضامین لکھے جو روزنامہ زمیندار میں شائع ہوئے۔ اقبال کے انتقال پرملال کی خبر سن کر علامہ عمادی نے ان کے مشہور فارسی قطعے کا اسی وقت قلم برداشتہ ترجمہ فرمادیا۔ علامہ اقبال علامہ عمادی سرود رفتہ باز آید کہ ناید سرودِ دل نواز آئے نہ آئے نسیمے از حجاز آید کہ ناید پھر اب بوئے حجاز آئے نہ آئے سر آمد روزگارے ایں فقیرے زمانہ اس گدا کا ہوگیا ختم دگر داناے راز آید کہ ناید کوئی داناے راز آئے نہ آئے ٭٭٭ ڈاکٹر سید عبداللطیف: ’’شاعر اقبال اور اس کا پیام‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد دکن۔ اپریل۲۰۰۶ئ۔ ص۸۱-۸۴ ڈاکٹر سچد انند سنہا نے اپنی ضخیم کتاب The Poet and His Message میں اقبال کی پوری زندگی، ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں کا عمومی جائزہ لیا ہے۔ جو قاری کو ڈاکٹر سنہا کے ذہن تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ ڈاکٹر سنہا اس بات سے ناخوش ہیں کہ اقبال نے اردو کے بجائے فارسی کو وسیلۂ اظہار بنایا ہے۔ اس نقطۂ نظر کا اظہار انھوں نے بارہا کیا ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید وہ شاعر اقبال کے تعلق سے تعصبات کا شکار ہے۔ ڈاکٹر سنہا کی تحقیق کا مقصد مثبت سے زیادہ منفی محسوس ہوتا ہے۔ مصنف نے نہایت تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ’’اقبال کیا نہیں ہیں‘‘ بجائے اس کے ’’اقبال کیا ہیں‘‘۔ کتاب کے شروع سے آخر تک سچدانند سنہا ایک بت شکن کی طرح آمادہ پیکار نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر سنہا نے اقبال کی پوری شخصیت اور فن کا کلی جائزہ لینے کی بجائے ان کا تجزیہ جزواً جزواً کیا ہے۔ اسی وجہ سے اقبال کی حقیقی تصویر ابھر کر ہمارے سامنے نہ آسکی۔ ٭٭٭ پروفیسر ابوظفر عبدالواحد، ’’اقبال کا شاعرانہ فلسفہ‘‘ اقبال ریویو، حیدرآباد دکن، اپریل۲۰۰۶ئ۔ ص۲۹-۳۷ اقبال نے شعر کو فلسفہ اور فلسفے کو شعر بنا دیا۔ فلسفے اور شعر کا جہاں خوش گوار امتزاج ہو، شعر جادو بن جاتا ہے۔ غالب کی شعریت فلسفے پر سدا غالب رہی۔ لیکن اقبال کی فلسفیت بعض اوقات شعریت پر غالب آجاتی ہے اوربحیثیت شاعر یہی اس کی کمزوری ہے۔ کوئی شاعر اپنے ماحول اور گردوپیش کے واقعات سے الگ تھلگ اور بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ جو کچھ وہ اپنے آس پاس دیکھتا ہے، اسے اپنی سرشت کے حساس سانچے میں ڈھال کر ایک خوبصورت اور دلکش انداز میں بیان کرتا ہے۔ اقبال کا ہندی ترانہ، نیا شوالہ اور تصویر، انھی تاثرات کا نتیجہ ہیں۔ بحیثیت فلسفی انھوں نے اسلام کے اصولوں کو نظر کے سامنے رکھ کر، عالم گیر اخوت اور حیاتِ افراد کی ترقی اور تعمیر کا وہ انوکھا اصول تیار کیا جس کو نہ تو نطشے اور برگساں کے فلسفے سے براہِ راست کوئی تعلق ہے، جسے اقبال کے بعض یورپی ناقدوں نے دھڑلے کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس غلط فہمی کو خود اقبال نے اپنے ایک خط (بنام ڈاکٹر نکلسن) کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ علاوہ اس خط کے شاعر کی فارسی اور اردو تصانیف میں جابجا فلاسفہ مغرب کی تعلیمات سے بیزاری اور کم اعتقادی کا ثبوت ملتا ہے۔ اقبال فلسفی بھی تھا لیکن اس کے لیے یہ ایک اکتسابی چیز تھی۔ فلسفے کی رو میں وہ مدتوں بہتا رہا، اس کی شاعری کی عظمت اور بنا بھی فلسفے پر ہے تاہم فلسفہ علم ہے اور شاعری عشق۔ شاعری سے اسے عشق تھا اور اس کا عشق اس کی شاعری ہے۔ اسی سے اس نے سکون پایا اور اسی کے ذریعے اس نے اوروں کو سکون بخشا۔ وہ عمر بھر اپنے قناعت کدے میں دھونی رمائے، قلندرانہ زندگی بسر کرتا رہا اور اس رنگ کو مرتے دم تک نباہا۔ ٭٭٭ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی: ’’کلامِ اقبال میں رجائیت‘‘ آفاق، ٹورانٹو، جولائی۲۰۰۶ئ۔ ص۳۲-۳۵ زندگی اہل احساس کے لیے المیہ اور اہل فکر کے لیے طربیہ ہوتی ہے۔ اقبال کو مبدأ فیاض سے حسّاس دل کے ساتھ مفکرانہ ذہن اور قلندرانہ مزاج عطا ہوا تھا۔ اقبال کے نزدیک شاعر اور فن کار کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے کمال فن سے دلوں میں نئی نئی آرزوئیں اور امنگیں بیدار کرے۔ اقبال حکیمِ حیات ہیں اور انسانی زندگی کی تکمیل کے لیے غم و آلام کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ غم ان کے نزدیک ایک تعمیری و تخلیقی قوت ہے، جس سے انسانی فطرت کے جوہر منکشف ہوتے اور جلا پاتے ہیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد اقبال کی حکیمانہ بصیرت خضر راہ بن کر یہ پیغام دیتی ہے کہ تخریب کے یہ ہنگامے تعمیر نو کا پیش خیمہ ہیں۔ اقبال نے جبریت کے فلسفے اور قنوطیت کے سدباب کے لیے تقدیر کا ایک نیا تصور پیش کیا۔ اقبال کے نزدیک تقدیر کوئی اٹل فیصلہ نہیں، بلکہ مستقبل کا ایک کھلا امکان ہے۔ ٭٭٭ ناصر عباس نیر: ’’اقبال اور ہسے‘‘ قومی زبان، کراچی، جون۲۰۰۶ئ۔ ص۲۵-۳۴ ہرمان ہسے اقبال کے معاصر تھے۔ اقبال اور ہسے میں متعدد مشابہتیں اور مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ ان دونوں کی نظر میں مشرقی تہذیب آفاقی ہے۔ ہسے اور اقبال کے فن کی اصل عشق میں پنہاں ہے۔ وہ عقل کو چراغِ راہ اور عشق کو منزل قرار دیتے ہیں اور دونوں نے یہ تصور غالباً مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔ اقبال اور ہسے دونوں متقدمین مشرق سے اثر اندوزی، طلب، تشنگی اور عقیدت میں بھی برابر ہیں۔ جاوید نامہ میں اقبال جن اصحاب کرام کی عنایتوں کے شکر گزار ہیں، ہسے بھی انھیں کے مداح ہیں۔ اقبال علم کے لیے ’’خبر‘‘ اور ’’نظر‘‘ کی اصطلاح لائے۔ دونوں کے خیال میں علم وہی درست ہے جو عقل اور عشق دونوں کا حسین امتزاج ہو اور ایسے ہی علم پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں مولانا روم کی پیروی میں صرف عقل کے تابع زندگی کو ظلمانی اور شیطانی، جب کہ عشق کے تابع زندگی کو الوہی اور نورانی قرار دیتے ہیں۔ اقبال اور ہسے کی مشرق و مغرب کے فلسفے، دین، تاریخ، تصوف اور روایت پر خصوصی گہری نظر تھی۔ دونوں اپنی تاریخ اور روایت کے بڑے پاسدار تھے۔ ان فکری اور فنی یکسانیوں کے علاوہ اقبال اور ہسے میں حیران کن حد تک داخلی، خانگی اور نجی نوعیت کی مشابہتوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا پرتو نظر آتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد رفیع الدین: ’’خودی اور آرٹ‘‘ آفاق، اگست۲۰۰۶ئ۔ ص۳۲-۳۵ فعلِ جمیل سے اقبال کا مطلب ایسا فعل ہے جو اپنے مقصد کے لحاظ سے حسین ہو یعنی جس کا مقصد خودی کے کامل نصب العین یا صحیح تصورِ حقیقت سے ماخوذ ہو اور صفات حسن کے مطابق ہو۔ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ انسان کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس کو وہ معنوی طور پر ہی نہیں بلکہ ظاہری طور پر بھی خوبصورت بنانے کی کوشش نہ کرے۔ خودی اور آرٹ کے ضمن میں ثقافت اور تہذیب کا فرق، حسن کے پہلوئوں، صداقت اور نیکی، خدا کی آرزو اور آرٹ کا تعلق اور آرٹ کی خطرناک قسموں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ خ…خ…خ…خ