ا اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی محمد ارشاد اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:director@iap.gov.pk Website:www.allamaiqbal.com مندرجات ۱- ماحولیاتی بحران، اسلامی تناظر میں مظفر اقبال؍طاہر حمید تنولی ۵ ۲- ’’تو شاخ سے کیوں پھوٹا…‘‘-تخلیق کائنات: ابن عربی کی نظر میں محمد سہیل عمر ۲۹ ۳- امام غزالی: معلم اخلاق و محیِ علوم ڈاکٹر قاسم صافی ۴۷ ۴- عباس علی لمعہ ڈاکٹر سعید اختر درانی ۵۳ ۵- اقبال کے اُردو کلام میں صنائع معنوی ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ۵۹ ۶- پاکستان میں اقبالیاتی ادب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۸۳ ۷- خطباتِ اقبال کے اُردو تراجم: ایک جائزہ محمد شعیب آفریدی ۱۲۷ ۸- اقبال، تحسین غالب اور اُردو شعریات احمد جاوید ۱۵۱ ۹- مجلہ نقوش میں ذخیرۂ اقبالیات سمیع الرحمن ۱۶۵ ۱۰- اقبالیاتی ادب نبیلہ شیخ ۱۷۷ ۱۱- تبصرۂ کتب اقبال اور عصری مسائل، ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف سلیم منصور خالد ۱۸۹ اقبالیات کی وضاحتی کتابیات (تحقیق)، مشتاق احمد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۹۴ سُرود سحر آفریں، غلام رسول ملک ڈاکٹر خالد ندیم ۱۹۷ اقبال اور عالم عربی، ڈاکٹر بدرالدین بٹ ارشاد الرحمن ۲۰۲ قلمی معاونین مظفر اقبال صدر، سنٹر فار اسلام اینڈ سائنس، کینیڈا ڈاکٹر طاہر حمید تنولی معاون ناظم (ادبیات) ،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور محمد سہیل عمر ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر قاسم صافی استاد، تہران یونی ورسٹی، ایران ڈاکٹر سعید اختر درانی ۳، سیلی کلوز، سیلی پارک، بی۲۹، ۷جے جی، برمنگھم، انگلینڈ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین استاد، شعبہ اُردو، اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ایچ ای سی، ایمی ننٹ پروفیسر، شعبہ اقبالیات، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور محمد شعیب آفریدی استاد، شعبہ انگریزی، ایبٹ آباد پبلک سکول، مانسہرہ روڈ، ایبٹ آباد احمد جاوید نائب ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سمیع الرحمن رکن، مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹ جے، ماڈل ٹائون، لاہور نبیلہ شیخ شعبۂ ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سلیم منصور خالد استاد، شعبہ پنجابی، گورنمنٹ کالج ٹائون شپ، لاہور ڈاکٹر خالد ندیم استاد، شعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج آف کامرس، شیخوپورہ ماحولیاتی بحران، اسلامی تناظر میں سید حسین نصر سے ایک گفتگو انٹرویو: مظفر اقبال ترجمہ: ڈاکٹر طاہر حمید تنولی ماحولیاتی بحران عصر حاضر کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس بحران کا ایک بڑا سبب سائنس اور ٹکنالوجی کا کسی اصول و ضابطے کے احترام کے بغیر بے مہابا استعمال ہے۔ جس کے باعث عالم طبعی کے احترام کا تصور، فوری ضروریات کو پورا کرنے کی ہوس کے تحت ختم ہو چکا ہے۔ مغرب کے صنعتی انقلاب کے بعد پیدا ہونے والے صارفیت کے کلچر نے نہ صرف عالم طبعی کے حسن کو تباہ کر دیا بلکہ اسے ماحولیاتی بحران سے بھی دو چار کیا۔ ماحولیاتی بحران صرف خارجی اسباب کا نتیجہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اسباب میں انسانی طرز فکر بھی شامل ہے۔ لہٰذا ماحولیاتی بحران کے حل کے لیے دور جدید کے انسان کے طرز فکر میں بنیادی تبدیلی لانا ضروری ہے کہ وہ عالم طبعی کے احترام کو اپنی غیر ضروری خواہشات کی تکمیل پر ترجیح دے۔ اس کے لیے کچھ اہل افراد کے گروہ کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس ذیل میں مسلمان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دنیا کی ہر مذہبی روایت کی طرح اسلام میں بھی فطرت کے تقدس کا تصور موجود ہے۔ تاہم ہمارے اہل علم کو چاہیے کہ وہ اس تصور کو عوامی سطح پر اجاگر کریں۔ ہمیں امام مہدی یا قیامت کے انتظار میں راہ عمل ترک نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ عالم طبعی کے احترام کے باب میں الوہی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے ایک محترم الوہی تخلیق کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اس کے تحفظ کے لیے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ اس طرح ہی ہم ماحولیاتی بحران سے نکل سکتے ہیں یا کم از کم اسے مزید بڑھنے سے روک سکتے ہیں۔ مظفر اقبال: میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنی گفتگو کا آغاز اس بات کے تعین سے کرنا چاہیے کہ ہم ماحولیاتی بحران سے کیا مراد لیتے ہیں؟ دراصل ہمیں ’’بحران‘‘ کی بجائے ’’بحرانوں‘‘ کی بات کرنی چاہیے کیونکہ اب ہمارے سامنے اس مسئلے کی کئی جہات ہیں،جس کے بارے میں آپ نے پچھلے پچاس سالوں کے دوران بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ ہم اس بحران کی مختلف جہات کا تعین کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کرسکتے ہیں۔ عام طور پر جس مسئلے کو ماحولیاتی بحران کہا جاتا ہے وہ صرف ماحول کا بحران نہیں ہے۔ اس میں عالم طبعی کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر کاعالم اصغر بھی شامل ہے ۔ ان دونوں جہات کے درمیان بہت ہی گہرے اور ناگزیر روابط موجود ہیں۔ اس بحران نے ہماری غذا تک کو آلودہ کر دیا ہے۔ پھر اس بحران کو پیدا کرنے میں سائنس اور ٹکنالوجی کا کردار بھی ہے۔ تو کیا ہم پہلے اس بحران کی تعریف سے آغاز کریں پھر اس کی تفصیلات میں جائیں؟ سید حسین نصر: جب ہم بحران کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو بلاشبہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اب اشیا اپنی فطری حالت میں نہیں ہیں بلکہ خطرناک اور غیرمتوازن حالت میں ہیں۔ اگر ہر زمانے میں ہر چیز بحران میں تھی تو پھر کوئی بحران نہیں ہوگا۔ مثلاً اگر آپ دیکھیں کہ سمندر کے ساحل پر بہت سی موجیں ہیں تو آپ قطعاً نہیں کہیں گے کہ یہ بحران یا مسئلہ ہے کیونکہ سمندر ہمیشہ سے ہی موجزن رہا ہے۔لیکن جب آپ ان موجوں کو طغیانِ سونامی کی شکل میں دیکھتے ہیں تو اسے بحران ہی کہنا پڑے گا۔لہٰذا بحران سے یہ مراد ہے کہ اشیا کی فطری حالت خراب اور تباہ ہوکر خطرناک جہت اور انداز پر چل پڑی ہے اور یہ کہ ہم سب اس وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی سے آگاہ ہیں، بصورتِ دیگر یہ ہمیں بحران کی صورت میں نظر نہ آتی۔جب ہم ماحولیاتی بحران کے بارے میں بات کرتے ہیں توہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ طبعی ماحول میں کوئی مسئلہ یا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ ایسا بحران کہ اس سے طبعی دنیا کا اعتدال اور توازن تباہ ہوگیا ہے۔ وہ طبعی دنیا جو ہمارے اردگرد موجود ہے اور جس نے ہر انسان کی اس دور سے پرورش کی ہے جب سے وہ ہماری یادداشت میں ہے، یعنی جتنا تاریخ کا ریکارڈ موجود ہے اور جب سے انسان اس زمین پر زندگی بسر کررہاہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے انسان اور عالم طبعی کے درمیان کوئی ٹکراؤ یا کشمکش موجود نہ تھی اور جب دس ہزار سال پہلے انسان نے زرعی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت اس کی طرز زیست کی تبدیلی سے طبعی ماحول پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اثر ضرور ہوا البتہ اس تبدیلی نے کوئی بحران یا مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ کیونکہ اس طرز زندگی کا ماحول کے ساتھ ایک توازن موجود تھا اوریہ توازن جاری رہا۔ اگر اس انداز کا بحران جس سے ہم آج گذر رہے ہیں، اس دور میں پیدا ہو جاتا تو عین ممکن ہے کہ ہم آج دنیا میں موجود ہی نہ ہوتے۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالم طبعی کے کام کرنے کے انداز میں، موسموں کے آنے جانے میں، سردی اور گرمی کی تبدیلی میں، آندھیوں اور خاموش ہواؤں میں، سمندروں اور صحراؤں میں اور اس امر میں کہ جانور اورپودے جس طرح زندگی گذار رہے تھے ایک مکمل ہم آہنگی اور توازن موجود تھا۔ ہم آج اگرماحولیاتی بحران کی بات کرتے ہیں تووہ اس لیے ’بحران‘ ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے صرف ضرورت کے تحت نہیں بلکہ ہوس کے تحت ہونے والے استعمال نے اس کرۂ ارض پر مصنوعی ضروریات پیدا کر کے اس کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ یہ بات بڑی واضح ہے اور اس کو جانوروں کی متعدد انواع اور ان کے قدرتی ماحول کے خاتمے کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تمازت ارضی (گلوبل وارمنگ)جس کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی جارہی ہے دراصل ’ماحولیاتی بحران‘ کا ایک پہلو ہے لیکن یہ اتنا شدید ہے کہ بالآخر اس نے ہر ایک کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی ہے۔ اس بحران کے کئی دوسرے پہلوؤں، خصوصاً کئی طرح کے جانوروں کی نسل مٹ جانے کو اکثر لوگوں نے نظر انداز کر رکھا ہے۔ جب تک عام لوگوں کے گرد کتے اور بلیاں موجود ہیں وہ لوگ اس بات کا احساس نہیں کرسکتے کہ طبعی ماحول اور نظام میں مختلف انواعِ حیات کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اب تو عالم طبعی کے ماحول کو آلودہ کرنے کا یہ عمل کیمیائی اور حیاتیاتی ٹکنالوجی کے ذریعے، اس ہوا کے ذریعے جس میں ہم سانس لیتے ہیں ، پانی کے ذریعے جسے ہم پیتے ہیں اور ہماری غذاکے ذریعے ہمارے جسموں میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ عمل اس قدر پھیل چکا ہے اور اکثر لوگوں کے لیے اتنا عام ہوگیا ہے کہ ابھی تک ہمیں بطور بحران کے اس کا احساس تک نہیں ہورہا ہے اور ہم اپنے اوپر اس کی پوری چوٹ کو محسوس نہیں کر رہے اِلاّیہ کہ جب ہم کسی کو ماحولیاتی آلودگی کے سبب سے شدید بیماری کی حالت میں یا موت سے دوچار ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ تا ہم وہ لوگ بھی کوئی ایسا لائحہ عمل یا عملی اقدام اختیار کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر طرح کے کینسر اور مختلف کیمیکلز کے درمیان جنھوں نے ہمارے اندرونی ماحول کو غذا کی آلودگی کے ذریعے آلودہ کردیا ہے، ایک گہرا تعلق ہے گو اس میں کچھ استثنا بھی ہے۔ اب کچھ لوگ اس بات کا احساس کرنے لگے ہیں کہ ہمیں حیاتیاتی زرعی یا حیاتیاتی انجینیرڈ زرعی پیداوار کے اثرات کے بارے میں مناسب حد تک علم نہیں ہے ۔لہٰذا ہمیں ان مصنوعات کے انسانی صحت پر طویل المیعاد اثرات کا اندازہ کیے بغیر انھیں استعمال کے لیے محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس طرح کے تحفظات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لہٰذا ماحولیاتی بحران ایک لحاظ سے ہمارے خارجی طبعی ماحول اور ہمارے اندرونی ماحول، جو ہمارے جسم میں ہے، دونوں کو محیط ہے۔ اس میں ہمارے جسم کا اندرونی ماحول بھی شامل ہے جس میں ایک نمایاں حد تک اعتدال موجود ہے اور ایک غیر معمولی کائنات اصغر ہوتے ہوئے یہ ایک لحاظ سے عالم طبعی کا حصہ ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ عالم اکبر یا خارجی دنیا کا ایک تکمیلی عنصربھی ہے۔ مظفر اقبال: آپ نے اپنے کئی مضامین میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جدید ٹکنالوجی اور ماحولیاتی بحران میں تعلق موجود ہے اور جدید ٹکنالوجی نے ماحولیاتی بحران پیدا کرنے اور طبعی ماحول کوتباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ہم نے ابھی بائیو انجینیرڈ خوراک کے بارے میں گفتگو کی ہے جو ہمارے جسم میں جاتی ہے۔ کیا ہم تاریخ کے پس منظر میں جا کر موجودہ بحران کی اس جہت کے ظہور کے متعلق کچھ معلوم کر سکتے ہیں؟یہ بہت اہم ہے کیونکہ اصل بحران کے پیدا ہونے اور اس کے متعلق احساس بیدار ہونے کے درمیان ایک بڑا وقفہ موجود ہے۔ سید حسین نصر: ہمیں پہلے ہی اس بحران کے بارے میں تاخیری ردعمل کا سامنا ہے۔ پہلے ہی ۲۱ ستمبر سے جو کہ موسم سرما کا وسط ہے ، دن لمبے ہوگئے ہیں۔ لیکن ہم محسوس کر رہے ہیں کہ دھوپ کا دورانیہ بڑھنے کے کئی ہفتے بعد اب سورج کی گرمی زمین پر زیادہ پہنچ رہی ہے۔یہی کچھ تاریخی واقعات کے ساتھ ہورہا ہے۔ دراصل ماحولیاتی بحران صنعتی انقلاب کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ چونکہ صنعتی انقلاب کرہ ارض کے تھوڑے سے حصے پر آیا، یہ بھی زیادہ تر مغربی دنیا، انگلستان ،جدید انگلستان کے وسط اور جرمنی کے کچھ حصے میں آیا اور پھر دوسرے علاقوں میں پھیل گیا۔ اس لیے اس کے ماحولیاتی اثر کو بھی ابتداً دنیا بھر میں محسوس نہیں کیا گیا کیونکہ یہ ایک مقامی نوعیت کا اثر تھا۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ بہت سے مصنفین اور شاعر ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں فضا اور ماحول کی بربادی کے بارے میں بہت ہی حساس ہیں۔ مثلاً چارلس ڈکنزنے انگلینڈ کی وادیوں اور پہاڑیوں اور سکاٹ لینڈ کی پہاڑیوں اور وادیوں کے حسن میںفرق کے بارے میں لکھا۔ وہ سکاٹ لینڈ جس کے ماحول کو ابھی نئی صنعتوں نے مَس نہیں کیا تھا اور انگلستان کی وہ وادیاں جو اس صنعتی ترقی کے نتیجے میں سیاہ نہیں ہوئی تھیں۔ تاہم نئی ٹکنالوجی جو کچھ پیش کررہی تھی اس کے سبب اس عمل نے صنعتی انقلاب کو نہیں روکا۔ مزید برآں انسانی ہوس کے تحت سائنس اور ٹکنالوجی حکومتوں، موثر شخصیات اور تنظیمات کو دولت اور طاقت کے حصول کے نئے امکانات پیش کر رہی تھی۔ جدید صنعتی عمل کے منفی اثرات مرتب ہونے کے عمل کو ایک ایسابحران بننے میں بڑا وقت لگا جسے عامۃ الناس وسیع پیمانے پر محسوس کرسکیں۔ اگر باقی دنیا نے اس میں حصہ نہ لیا ہوتا تو اس بحران کو پیدا ہونے اور ان چند جگہوں کو اس کرۂ ارض کے تمام ماحولیاتی حالات پر مہیب اور شدید اثرات مرتب کرنے میں زیادہ وقت لگتا، کئی صدیاں بلکہ کئی ہزار سال۔ لیکن جو ہوا وہ ایسا نہیں ہے۔ سوہم انیسویںصدی کے بعد سے مغرب کے دوسرے حصوں میں اس نئی ٹکنالوجی کے پھیلائو کو دیکھتے ہیں، جہاں اس کے اثرات صنعتی انقلاب سے قبل نہ تھے۔ انیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں یورپ کے اکثرحصوں میں زراعت روایتی طرز کی ہی تھی۔ لیکن جلد ہی وہ ٹکنالوجی جو صنعتی انقلاب کے دوران متعارف ہوئی پہلے مغرب کے تمام حصوں اور پھر غیر مغربی دنیا یعنی عالم اسلام ، بھارت اور چین تک عام ہو گئی۔ اس کایا کلپ کے عمل نے انتہائی حیران کن طریقے سے جاپان کو صنعتی بنانے کے عمل سے آشنا کیا۔ جس کے نتیجے میں اس کی معاشی اور عسکری قوت میں اضافہ ہوا مگر اس کے ساتھ ہی ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھ گئی۔ پھر اس کی عسکری طاقت تو دوسری جنگ عظیم کے دوران تباہ ہو گئی مگر اس کی اقتصادی طاقت غیر معمولی طور پر مسلسل بڑھ رہی ہے۔ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ صنعتی بنانے کے اس عمل نے ملائشیا اور انڈونیشیا کے دور دراز کے جنگلوں کو کس طرح تباہ کیا۔ یہ سب کچھ غیر مغربی معاشروں میں ٹکنالوجی کے ان طریقوںکو اختیار کرنے کا نتیجہ ہے، جہاں بھی انھیں کامیابی کے ساتھ اختیار کیا جا سکتا تھا۔ لیکن دوسری غیر مغربی دنیا نے بہت بعد تک اس عمل میں حصہ نہیں لیا تھا، جس میں تین بڑی تہذبیں ہندوستانی، چینی ،اسلامی اور غیراسلامی افریقہ و جنوبی امریکہ کا اکثر حصہ شامل ہیں۔ یہ تو پچھلی صدی کے آخری نصف میں پچھلے پچاس ، ساٹھ سال کے دوران ہوا کہ نئی ٹکنالوجی کے اثرات کو عوامی سطح پر محسوس کیا جانے لگا سوائے ان چند بڑے شہروں کے جہاں جدید ٹکنالوجی پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ ہمیں صرف آج کے چین کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مظفر اقبال: اب تو یہ بحران بہت ہی آگے بڑھ گیا ہے۔ آپ نے اس کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے صنعتی انقلاب کے دور کی طرف اشارہ کیاتھا اور اس کی ایک بڑی وجہ جدید ٹکنالوجی کو قرار دیاتھا۔ اس کے ساتھ آپ نے انسان کے اس جدید تشخص کو جو مغرب میں فروغ پذیر ہوا، وہ انسان، جیسا کہ آپ نے کہیں لکھا بھی ہے، جس نے صنعتی انقلاب کو فروغ دیا تھا ، مورد الزام ٹھہرایا۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ بحران ناگزیر تھا کیونکہ یاتو ہم صنعتی انقلاب کے دور سے پہلے کی دنیا کو اصلی حالت میں برقرار رکھتے اور صنعتی انقلاب سے محروم رہتے یا پھر صنعتی انقلاب کو طبعی ماحول کی تباہی کے ساتھ قبول کرتے۔ یہ سب لازم و ملزوم ہیں ، ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ صنعتی انقلاب کے دوران آنے والی ٹکنالوجی بھی ناگزیر تھی۔ یعنی یہ کہا جاسکتا تھا کہ اس تبدیلی کے لیے ان کا دریافت کیا جانا ضروری تھا جو اس وقت مغربی دنیا میں رو بہ عمل تھی، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ جب ایک دفعہ ٹکنالوجی کے ان طریقوں کو دریافت کر نے کے بعد بروئے کار لایا گیا تو اس صورت میں ماحول کی تباہی کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں تھی۔ اب ہم اس زمانے میں واپس نہیں جا سکتے۔ کیا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی تھا؟ اگر اس طرح کی آگہی ہوتی، اگر طبعی ماحول پر ٹکنالوجی کے ان طریقوں کے اثرات کے بارے میں زیادہ آگہی ہوتی تو کیا ہم اس بحران سے بچ سکتے تھے؟ سید حسین نصر: میں ایسا نہیں سمجھتا۔ جیسے ہی عالم طبعی کا تصور بدلا اوراسے خدا سے لا تعلق حقیقت یعنی محض ’شے‘ سمجھ لیا گیا تو ،جیسا کہ میں نے کہیں کہا ہے، ایک استکباری انسان نے جنم لیا۔اب تباہی کا آنا یقینی تھا، میں نہیں سمجھتاکہ کچھ اہل دانش ماہرین معیشت اٹھارویں صدی میں بوسٹن اور لندن میں بیٹھ کر ان امور کی مختلف انداز میں منصوبہ بندی کرتے اور یہ بحران ٹل جاتا۔ کیونکہ اس طرح کی منصوبہ بندی بنی نوع انسان کے اس لالچ اور ہوس کے سامنے مضبوط بند نہیں باندھ سکتی جو اس ٹکنالوجی کے نتیجے میں پر زور طریقے سے پیدا ہو چکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جنگ اس وقت ہار دی گئی جب عالم طبعی کوبے خدا سمجھ لیا گیا، یعنی اللہ سے اس کا تعلق منقطع کر دیا گیا۔ اس بنیادی تبدیلی کے بعد انسان عالم طبعی کے حوالے سے ہر طرح کی ذمہ۔داری سے آزاد ہو گیا۔ اب عالم طبعی صرف خام مواد کی فراہمی کا ذریعہ بن کر رہ گئی۔اب اس پر کسی قدغن اور عالم طبعی کے حقوق کا لحاظ رکھے بغیر غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے، چاہے جس مقصد کے لیے بھی ہو اور جس طریقے سے بھی ہو۔ میں نے اپنی کتاب Man and Nature میں لکھا ہے ۱ ؎ کہ روایتی معاشروں میں عالم طبعی کو بیوی کا مقام حاصل تھا مگر جدید مغربی معاشرے میں اسے داشتہ بنا دیا گیا ہے۔ مظفر اقبال: اب میں گفتگو کو عالم طبعی کے تصور __یعنی وہ جو ہمارے ماحول پر مشتمل ہے، ہمارے اندرکی دنیا میں اور اس کے باہر بھی ،اور موجودہ بحران کے درمیان تعلق کی طرف موڑنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اپنی کتاب The Need for a Sacred Science ۲ ؎ اور دوسری کتب میں اس تعلق کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہے۔وہ تعلق جو عالم طبعی اور انسان کے تعلق کی مساوات سے دست قدرت کی کارفرمائی کو منہا کر دینے سے ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ تبدیلی کا نقطۂ آغاز کیا ہے؟ حقیقی تبدیلی کا آغاز کہاں سے ہو گا۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ بہت سارے لوگ اس مسئلے کو گہرائی کے ساتھ دیکھنے میں سنجیدہ نہیں ہیں نہ یہ ان کی دلچسپی ہی ہے۔ چلن یہ بن گیا ہے کہ صرف کاربن مونو آکسائیڈ کے لیول کی پیمائش کی جائے اور اسی کی مقدار معلوم کی جائے۔ گرین ہائوس گیسوں کی کمی کے بارے میں گفتگو کی جائے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس مسئلے کی اس جہت کے بارے میں جس کی طرف آپ نے کئی دفعہ اشارہ کیا ہے بہت ہی کم گفتگو کی جاتی ہے یعنی عالم طبعی کے اعتدال کی مساوات میں سے اﷲ کے اختیار اور اقتدار کی علیحدگی۔ اور یہ کہ ہم اسلام میں موجود عالم طبعی کے تصور اور مسلم دنیا پر عاید ہونے والی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی کچھ غور کر سکیں۔ سید حسین نصر: جی ہاں، مجھے یہ گفتگو کرکے خوشی ہو گی لیکن پہلے میں اس بات پر تبصرہ کرنا چاہوں گا جو آپ نے کہی کہ یہ کم و بیش پچاس سال ہو چکے ہیں جب سے میں اس موضوع پہ لکھ رہا ہوں اور کم و بیش چالیس سال ہو چکے ہیں جب سے میری یہ کتاب چھپی ہے۔۳؎ اور اسی طرح میری وہ کتاب جو کونیات پر شائع ہوئی ہے۴؎ جس کی بنیاد ہارورڈ سے میری پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو یہ ڈگری لینے کے چند سال بعد شائع ہوا۔ میں اس وقت بھی اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ تھا جبکہ میں ایک نوجوان محقق تھا۔ یعنی قبل اس کے کہ دنیا بھر میں ایک معروف دانشور کے طور پہ میری پہچان ہو تی جب میں نے شکاگو یونی ورسٹی میں ۱۹۶۶ء میں راک فیلر (Rockefeller) سیریز آف لیکچرز دیے جو بعد میں کتابی صورت میں چھپے۔ اس وقت سے یہ کتاب کئی دفعہ چھپ چکی ہے اور اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ مجھے اس وقت بھی اس بحران کی شدت کا اندازہ تھا۔ اس کتاب کے اندر اس مساوات کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے ۔جو کچھ میں نے اس کتاب میں کہا ہے اور جو میری دوسری کتابوں میں شائع ہوا ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے یہ ہے کہ ماحولیاتی بحران کی بہت ہی گہری روحانی، فلسفیانہ اور مذہبی وجوہات ہیں۔ یہ صرف جدید سائنس کی ٹکنالوجی کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ ایسی وجوہات ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے لیکن جیسا کہ آپ نے کہا بد نصیبی سے اکثر لوگ اس معاملے کو اس حوالے سے نہیں سننا چاہتے خصوصاً جدید طبقات۔ کیونکہ اگر آپ اس بات کو جو میں کَہ رہا ہوں قبول کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس پیراڈائم کو تبدیل کرنا ہے جو آج کے جدید انسان کی پوری زندگی پر غالب آ گئی ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا۔ ’کوئی بھی نہیں‘ سے میری مراد بالکل ’کوئی بھی نہیں‘ نہیں کیونکہ کچھ ایسے جرأت مند افراد ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جو اصولوں پر مبنی انقلابی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ لیکن اکثر وبیشتر لوگ اس تبدیلی کو جو ان کی زندگی اور طرزِ فکر تک کو بدل دے، قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ میں نہیں سمجھتا کہ سطحی اقدامات اس بحران کے حل میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں یہ ایسے ہی ہے جیسے کینسر سے مرتی ہوئی مریضہ کے چہرے پر آپ پاؤڈر وغیرہ لگا دیں تو وہ خوبصورت لگنے لگے گی لیکن اس طرح سے آپ اس مریضہ کو بچا نہیں سکتے۔ عالم طبعی اور انسان کی حالت کے بارے میں اپنے فہم میں بڑی بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا خدا اور اس کی تخلیق کردہ اس کائنات اور اس کے ماحول کے ساتھ کیا تعلق ہے اور یہ سب کچھ ہمارے تصور کا ئنات کے اندر جس نے آج کے کرۂ ارض کے بڑے حصے پر غلبہ پا رکھا ہے، ایک بہت بڑی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ ہمیں عالم طبعی اور انسان کے بارے میں اپنے تصور پر نظر ثانی کرنادرکار ہے۔ نہ صرف مغرب میں بلکہ مشرق میں بھی جہاں پر لوگ اپنے عقیدے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔لیکن جہاں تک عالم طبعی کا تعلق ہے ہم میں سے اکثر اس کے بارے میں اپنا روایتی تصور کھو چکے ہیں اور ہم صرف مغرب کی نقالی کر رہے ہیں۔ مظفر اقبال: اس کے کچھ عملی پہلو بھی ہیں خصوصاً مسلم دنیا کے تعلق کے حوالے سے۔ جب آپ تہران، قاہرہ یا آج کے لاہور میں جاتے ہیں توپورے کا پورا شہر ایک بہت بڑی پارکنگ کا منظر پیش کرتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد اور ہوا میں آلودگی کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اس میں سانس تک لینا ناممکن ہے۔ پھر بھی اس صورت حال کا عملی پہلو یہ ہے کہ لوگوں کو نام نہاد جدید ذرائع آمد و رفت کی ضرورت ہے۔ آج کے معاصر معاشرے کا ڈھانچہ ٹکنالوجی کے مختلف طریقوںپر اتنا زیادہ منحصر ہو چکا ہے کہ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شہر گاڑیوں اور جدید ذرائع آمد و رفت کے بغیر ہو۔ سو جو بات آپ کَہ رہے ہیں ممکن ہے اکثر لوگوں کو موجودہ عملی طرزِ زندگی کے تناظر میں بالکل خیالی اور ناقابل عمل بات محسوس ہو۔ لوگ آپ کی اس بات پر یہ کَہ کر تنقید کر سکتے ہیں : ہاں یہ اچھے خواب ہیں، بڑے عمدہ الفاظ ہیں لیکن عملاً ہم کیا کریں؟ سید حسین نصر: میری تمنا ہے کہ کاش یہ خواب ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تو ایک جہاز کی طرح ہے جس کے اندر سوراخ ہو چکا ہے۔ قرآن مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰ ں اور خضر ں کی کہانی کی طرح ایک جہاز کہ جس کے اندر سوراخ ہے۔۵؎ قرآن حکیم کے بیان کردہ اس واقعہ میں خضر ں کہتے ہیں کہ ہمیں جہاز کی ہیئت اور ظاہری شکل و صورت میں تبدیلی کر دینی چاہیے سو وہ خوداس میں ایک سوراخ کرتے ہیں۔ موسیٰ ں جو کہ اس سفر میں ان کے ہم سفر ہیں اس سوراخ کرنے کے عمل کی گہری معنویت کا ادراک نہیں کر پاتے اور یہ نہیں سمجھ پاتے کہ خضر ں کے سوراخ کرنے کے عمل سے مراد کیا ہے۔ اگر سوراخ نہ کیا جاتا تو وہ جہاز ایک ظالم بادشاہ کے ہاتھوں غصب ہو جاتا جو کہ آگے ان کا انتظار کر رہا تھا اور جہاز پر سوار ہر شخص قتل کر دیا جاتا۔ اسی طرح یہ بات کہنا بالکل مضحکہ خیز اور لایعنی ہے کہ وہ شخص جو اس طرح کے مسائل کا ایک حقیقی حل پیش کرتا ہے جو صرف سوراخ کرنے کی بجائے عمل کی پوری جہت تبدیل کرنے پر مشتمل ہے، محض ایک خواب دیکھنے والا شخص ہے اور اس کے مقابلے میں وہ شخص جو صرف سطحی باتیں کرتا ہے اور سطحی اقدامات تجویز کرتا ہے وہ ایک عملی شخص ہے، میں اس صورت حال کو بالکل بھی قبول نہیں کرتا۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں کچھ ہنگامی عملی اقدامات کرنے کی ضرورت بھی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس زیادہ عوامی آمدو رفت کے ذرائع ہوں اور ہم پٹرولیم کی نسبت زیادہ قدرتی گیس استعمال کر سکتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ پچھلے دس سالوں کے دوران استنبول میں ہوا کا معیار ناقابل یقین حد تک بہتر ہوا ہے ۔ استنبول کبھی تہران اور لاہور کی طرح ہوتا تھا لیکن اب آپ دن کے وسط میں نیلا آسمان دیکھ سکتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ حکومت کے صرف ایک اقدام کے ذریعے ممکن ہوا۔ یہ اقدام کہ انھوں نے کاروں میں استعمال کیے جانے والے ایندھن کی نوعیت اور قسم کو بدل دیا ہے ۔ یہ تمام اقدامات اچھے ہیں اور ان خطوط پر جو کچھ ممکن ہو وہ کیا جانا چاہیے، لیکن اس سے دیر پا حل میسر نہیں آ سکتا۔ ان اقدامات سے ہمیں مسئلے کا حقیقی حل ڈھونڈنے کے لیے کچھ وقت مزید مل سکتا ہے ۔سو میں مسئلے کو حل کرنے والے تمام ہنگامی اقدامات کے حق میں ہوں جو ٹکنالوجی سے متعلق ہیں یا معاشی سطح پر کیے جا رہے ہوں ۔لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر ہم موجودہ صورت حال میں صرف اسی پر اصرار کرتے رہیں تو اس سے بحران حل ہو سکتا ہے ۔ مظفر اقبال: سو انجام کار جو حل ہمارے سامنے آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ ہم خود عالم طبعی کے بارے میں اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی پیدا کریں۔ سید حسین نصر: بالکل درست کہا آپ نے، ہمارا عالم طبعی اور انسانی زندگی کے بارے میں نقطہ نظر یہ ہے کہ اس حوالے سے ہم پرکیا ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں؟ مسلمان کے طور پہ ہم جانتے ہیں کہ ہم پر اﷲ کی طرف سے یہ ذمہ داری عاید کی گئی ہے لہٰذا ہم کھانے میں سؤر کا گوشت استعمال نہیں کرتے۔ یہ ایک عمدہ بات ہے اور اہم ہے لیکن اﷲ کی طرف سے ہمارے اوپر عاید کی جانے والی ذمہ داری صرف سور کا گوشت نہ کھانے تک ہی محدود نہیں ہے یا ان پابندیوںتک ہی محدود نہیں ہے جو شریعت نے صرف کھانے پینے کے ضابطوں کے حوالے سے عاید کی ہیں بلکہ اس میں ہم پر اﷲ کی تخلیق کے حوالے سے بھی کچھ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیںاوریہ سمجھنا چاہیے کہ اﷲ کی تخلیق صرف انسان ہی نہیں ہے۔ جدید دور کے بڑے المیوں میں سے ایک المیہ ،جس نے جدید ٹکنالوجی کو ممکن بنایا، نشاۃِ ثانیہ کے دور کا وہ تصورِ انسان ہے جس میں انسان کو ہی مرکزی حیثیت حاصل ہے اور وہی ہر شے کا واحد معیار ہے۔ اس نئے نظام فکر یا اس تصور کائنات کا مرکز خدا نہیں انسان ہے۔ اس لا دین انسان پرستی نے تمام اشیا کے بارے میں لوگوں کے تصور کو بدل دیا ہے یعنی ’الٰہ مرکز تصور کائنات‘ کی جگہ ’انسان مرکز تصور کائنات‘ نے لے لی ہے۔ اب ہر چیز انسان کے گرد گھومتی ہے۔ مثلاً مغرب میں جب صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا تو ان پرندوں، پودوں اور جانوروں پر توجہ کیوں نہیں دی گئی جو اس ٹکنالوجی کے اثرات کے نتیجے میں مررہے تھے۔ یا ان دریاؤں کی طرف توجہ کیوں نہ گئی جو اس صنعتی اور ٹکنالوجی کے انقلاب کے نتیجے میں آلودہ ہو رہے تھے۔ اس کی جو وجہ بیان کی گئی وہ کم و بیش یوں تھی کہ ہماری ساری کوششوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم انسان کی خدمت کر سکیں۔ اب انسان بہتر حالت میں ہیں ، کم بیمار ہوتے ہیں ، کم بھوکے رہتے ہیں۔ اس طرح کی اور باتیں اس کے جواز میں کہی گئیں۔ اس طرح انسان کی زمینی فلاح و بہبود ہی اس کے تمام اعمال کا مطلق معیار قرار پائی اور بقیہ عالم طبعی کی فلاح و بہبود کو کلیتاً نظر انداز کر دیا گیا۔ اس طرح کی خود غرضی جدید دنیا کا ایک المیہ ہے۔ آج کا انسان یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ انسان ہمیشہ سے ایسا ہی تھا… نہیں انسان ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ روایتی معاشروں میں ایسی مقدس پہاڑیاں تھیں جن پر کوئی بھی نہیں چڑھتا تھا چاہے لکڑیوں کی کتنی ہی زیادہ ضرورت کیوں نہ ہو۔ اس حوالے سے میں نے اکثر ایک مثال بیان کی ہے جس نے امریکہ میں لوگوں کو حیران و ششدر کر دیا۔ میں کہتا ہوں کہ آپ غور کریں کہ دہلی میں ہر رات لوگوں کی ایک بڑی تعداد صرف بھوک کی وجہ سے مر جاتی ہے لیکن آپ کے پاس شہر میں دائیں بائیں گھومنے والی بیسیوں گائیں موجود ہیں۔ ان میں سے کسی گائے کو پکڑ کر ذبح کرلیا جائے ۔ پھر کئی دنوں تک اس علاقے کے لوگ یہ گوشت کھا سکتے ہیں ۔لیکن وہ اس طرح نہیں کرتے۔ سو یہ خیال کہ انسان ہمیشہ سے ایسا ہی تھا کہ اس نے اپنے استعمال اور اپنی بہتری کے لیے ہر چیز کی قربانی دے دی قطعاً درست نہیں ہے۔ یہ بات کسی صورت میں بھی درست قرار نہیں دی جا سکتی لیکن کوئی بھی اس حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ سو ہمیں جو کام کرنا ہے یہ ہے کہ ہم اشیا کے بارے میں اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی لائیں۔ پہلی بات یہ کہ جدید آدمی زندگی سے لطف اندوزی کا عادی ہی اس لیے ہوا ہے کہ آج دنیا میں مسلسل صارفیت کی روایت قائم ہوچکی ہے۔ یہاں میری مراد سارے لوگ نہیں ہیں بلکہ اکثر لوگ ہیں اور اب مشرق میں بھی ایک اچھا صارف معاشرہ بننے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ مثلاًاگر آپ ایک ترکمان ہیںاور آج بھی شمالی ایران کے ترکمان صحرا میں رہ رہے ہیں، آپ کے پاس ایک خیمہ ہے، کچھ خوب صورت قالین ہیں اور آپ کے پاس بھیڑیں اور گھوڑے ہیں، بکریاں ہیں تو آپ ان تھوڑی چیزوں کے ساتھ بھی خوش گوار زندگی گذار سکتے ہیں ۔ اگر آپ کے پاس کافی بھیڑیں ہیں جو دودھ دیتی ہیں اور اس سے آپ اپنے خاندان کو پال سکتے ہیں تو آپ خوش ہیں لیکن اب بڑے شہروں میں وہ کیا چیز ہے جو ہمیں خوش بناتی ہے ، وہ زیادہ سے زیادہ مادی اشیا کی نہ ختم ہونے والی خواہشیں ہیں۔ خارجی ماحول پر مہلک اثرات کو سوچے بغیر ٹکنالوجی پر مبنی جدیددریافتیں کرنا ایک چلن بن چکا ہے۔ بلاشبہہ اس باب میں ٹکنالوجی کے کچھ طریقے ایسے بھی ہیں جو ہماری مدد کر سکتے ہیں اور ان سے کم آلودگی پھیلتی ہے۔ میں اس کا انکار نہیں کر رہا ۔ کئی لوگ مثلاً الگور اور دوسرے اس حوالے سے جو کچھ کہتے ہیں وہ بڑی حد تک درست ہے۔ ایسی ٹکنالوجی موجودہے جو کم آلودگی کا باعث ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ صرف ٹکنالوجی کے یہ طریقے ہی ہمیں اس بحران سے بچا سکتے ہیں۔ ہمیں اندرونی اور باطنی تبدیلی کے عمل سے گذرنے کی ضرورت ہے ،ہمیں اپنے بارے میں ایک اور انداز سے غور و فکر کرنے ضرورت ہے، وہ یہ کہ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس کے اطمینان کا باعث کیا ہو سکتا ہے؟ انسان کو کیا چیز خوش کرتی ہے؟ اور یہ کہ ہم صرف صارفیت کے کلچر کو ہی خوشی کا واحد ذریعہ نہ سمجھیں کہ ہم اپنی نہ ختم ہونے والی ہوس اور غیر مختتم ضروریاتِ زندگی اور غیر مختتم خواہشات کی تشفی میں ہی لگے رہیں جن کو ہم نے اپنی ناگزیر ضرورت بنا لیا ہے۔ مظفر اقبال: اب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہاں مشکل یہ ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے ماحولیاتی اثرات مقامی نہیں رہے بلکہ اب تو اس کے اثرات ساری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ اس کا اثر پورے کرۂ ارض پر ہے۔ سو اگر مسلمان کوئی تبدیلی لے بھی آئیں تو وہ اس انتہائی مرحلے میں کسی حل کا باعث نہیں بنے گی کیونکہ یہ صورت حال کثیر الجہات بحران کی حامل ہے ۔ تا ہم یہ توقع رکھنا کہ’ اگر مسلمان تبدیلی لائیں‘ بہت مشکل ہے۔ دراصل مسلم دنیا بھی تیزی سے اور شاید بہت اندھا دھند طریقے سے اسی راستے پر چل رہی ہے جس پر مغرب چل رہا ہے۔ اگرچہ ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو عالم طبعی کے احترام کے بارے میں فہم پیدا کرنا چاہیے کیونکہ اُن کے عقائد انھیں یہ بتاتے ہیں لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ اگر ہم مسلم دنیا میں ماحولیاتی بحران پر توجہ مرتکز کریں تو کیا ہم کَہ سکتے ہیں کہ اس بحران کے کچھ ایسے حل موجود ہیں جنھیں مسلمان اپنے روایتی علاقوں میں اختیار کر سکتے ہیں ، جو اہم اور معنی خیز نتائج پیدا کریں گے۔ آپ جو ہمارے تصورِ خدا اور تصورِ کائنات کے بارے میں بنیادی تبدیلی کی بات کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں، مغرب میں عام آدمی کے لیے اسے قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک مغربی آدمی خدا کے بارے میں اپنے تصور، اس کی ذات اور انسانیت کے اﷲ اور عالم طبعی کے ساتھ تعلق کے بارے میں تبدیلی لانے کے لیے بہت سے سوالات کر سکتا ہے، بہت سے اعتراضات کر سکتا ہے۔ آپ اس تبدیلی اور اس کی نوعیت کے بارے میں جو کچھ کہتے رہے ہیں جو کہ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کے دوران ہوئی آخر وہ ایک ایسی اہم تاریخی تبدیلی ہے جس نے مغربی تہذیب کے طرزِ زندگی کو اس حد تک بدل دیا ہے کہ اب ان حالات میں ایک بڑی انقلابی تبدیلی کا تقاضا کرنے کا مطلب ، جو آپ تجویز کر رہے ہیں، پورے نظامِ تصورات اور نظامِ عقائد کو بدل دینا ہے، یعنی ’انسان مرکز تصورِ زندگی‘ کے بجائے ’خدا مرکز تصورِ زندگی‘ کو اختیار کرنا اور یہ بہت زیادہ مشکل ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ مسلم دنیا کے لیے ماحولیاتی بحران کے اسباب اور وجوہات کا احساس کرنا باقی دنیا کی نسبت زیادہ آسان ہے کیونکہ اس کے لیے انھیں کوئی اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ مسلمان پہلے ہی ایسے عقائد اور نظریات رکھتے ہیں جو ماحولیاتی بحران کے خاتمے کے ساتھ جزوی تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً سؤر کا گوشت نہ کھانا۔ اس لیے ان کے لیے اس سے اگلا قدم اُٹھانا اور یہ کہنا آسان ہے کہ دیکھیے! عالم طبعی بھی تو اللہ کی مخلوق ہے ، میں اس کا احترام کروں گا اور اسے اللہ کی تخلیق جانتے ہوئے اس سے معاملہ کروں گا۔ سید حسین نصر:سب سے پہلے تو یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ اگرچہ یہ تباہی مغرب سے آئی لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے اثرات کے بارے میں آگہی بھی مغرب ہی نے پیدا کی ۔مسلم دنیا کی نسبت مغرب میں ماحولیات سے متعلق تحریکیں بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ میں امریکہ میں پڑھاتا ہوں اور میں نے مسلم دنیا میں بھی پڑھایا ہے۔ میری کلاس میں مسلم دنیا کے بجائے امریکہ میں ایسے نوجوان طلبا اور طالبات زیادہ ہوتے ہیں جو اس مضمون سے متعلق ہیں۔ آج کل میں ایک کورس ’’اسلام اور ماحول‘‘ پڑھا رہا ہوں اور طلبہ اس میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں اگر یہی کورس میں کسی دوسرے ملک مثلاً پاکستان میں پڑھاتا تو اس میں طلبہ کی دلچسپی بہت ہی کم ہوتی۔ اس میں کوئی شک وشبہ کی بات نہیں تاہم یہ ایک عجیب تناقض ہے کہ مسلم دنیا اب بھی عالم طبعی سے متعلق اپنے روایتی فہم سے دستبردار نہیں ہوئی اور مغرب، یہاں اس سے مراد ہر مغربی شخص نہیں ہے، عالم طبعی اور اللہ کی تخلیق کے بارے میں احترام کے حامل اس تصور سے دور ہوتا جارہا ہے جو آج سے چار یا پانچ صدیاں پہلے موجود تھا۔ اس سے بھی پہلے قرونِ وسطی کی عیسائیت کے دوران عالم طبعی کے احترام پر اتنا زور نہیں تھا جتنا کہ اسلام میں ہے کیونکہ مغرب کے پاس کوئی ایسا مقدس متن نہیں ہے جو عالم طبعی کے بارے میں گفتگو کرتا ہو جیسا کہ مسلمانوں کے پاس قرآن حکیم ہے۔ قرآن حکیم کائنات کی مختلف اشیا کو بطور گواہی کے پیش کرتا ہے کہ کس طرح وہ اللہ کی حمدوثنا اور تسبیح بیان کرتی ہیں۔ ارشادِ ربّانی ہے۔ و یسبح لہُ ما فی السمٰوٰت و الارض۔۶؎ کہ ’’آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔‘‘ اس طرح کی اور بہت سی آیات ہیں جو اللہ کی عبادت کرنے، اس کی تعریف اور تسبیح کرنے سے متعلق ہیں مثلاً والنجم و الشجر یسجدان۷؎ ’’اور تارے اور پودے سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں‘‘۔ کسی بھی نوع یا اللہ کی کسی بھی تخلیق کو بغیر کسی سبب کے جس کو اللہ نے خود بیان کردیا ہو، تباہ کرنے کا مطلب اللہ کی تسبیح کرنے والی ایک آواز کو تباہ کرنا ہے۔ ہمارا ادب اور فلسفہ اس حقیقت کے بیان سے مملو ہے۔ فارسی ادب میں ایسے سیکڑوں اشعار موجود ہیں جو اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور وہ اشعار لوگوں کو زبانی بھی یاد ہیں۔ سعدی (۱۲۹۱/۱۲۸۳ئ-۱۱۸۴ئ)اور رومی (۱۲۷۳ئ-۱۲۰۷ئ)نے اس کے بارے میں لکھا ہے جیساکہ بہت سے دوسرے مصنفین نے بھی لکھا ہے۔ میں یہاں فارسی اشعار کا حوالہ نہیں دوں گا لیکن آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں ۔جیسے آپ کی اپنی مادری زبان اُردو ہے جو اس طرح کا فہم رکھنے والے تصورات سے پُر اشعار پر مشتمل ہے۔ ترکی میں یونس امر ے(Yunus Emre 1238-1320) نے اس موضوع پر بہت خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ اسی طرح عربی شاعری میں بھی اس موضوع پر بہت لکھا گیا ہے۔ یہ سب اسلامی کلچر کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ دراصل مکمل طور پر صنعتی بنانے کے عمل میں کامیاب ہونے کے لیے اس صنعتی عمل اور جدیدیت کے نمایندے اس کلچر کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔ ہم اپنے بہت سے حصے کی نفی کررہے ہیں مسلم دنیا کے بہت سے مصلحین نے یہ سوچا کہ اس دنیا میں اصلاح کرنے کے لیے اور موجودہ کمزوری کی حالتسے نکلنے کے لیے مسلمانوں کو بھی اپنے روایتی کلچر کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اس مسلم کلچر کے خلاف جو عالم طبعی کے ساتھ روحانی معنوں میں محبت کے جذبات پر مشتمل تھا۔ مسلم دنیا میں بولی جانے والی تقریباً تمام زبانوں کی شاعری اور ان کی ضرب الامثال میں عالم طبعی سے محبت کی ایک بڑی زرخیز روایت موجود ہے جو اس موضوع سے متعلق ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بھی اللہ کی تخلیق کے ساتھ ہمارے رویے کے بارے میں بڑے واضح احکامات موجود ہیں۔ پھر بہت سے مسلمان فلسفیوں اور صوفیا نے عالم طبعی کے فلسفے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا بھی ہے۔ میں نے خود اس موضوع پر اس قدر زیادہ لکھا ہے کہ اب میں سوچتا ہوں کہ اب میں اپنا قلم روک دوں اور دوسرے لوگ آئیں اور اس کام کو لے کر آگے بڑھیں ان شاء اللہ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ ہمیں اس روایت کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا جو جزوی طور پر زمانۂ حال میں فراموش کی جارہی ہے۔ یہ ورثہ معاصر اہلِ مغرب کے لیے مغربی روایت میں زندہ کرنے کے بجائے ہمارے لیے زیادہ اہم ہے کہ ہم اسے اپنے لیے زندہ کریں۔ بلاشبہہ حکومتیں اس مسئلے کی طرف کماحقہ توجہ نہیں دیتیں مگر اس لمحے بھی جب وہ زبانی کلامی اسلام کی خدمت کا دعویٰ کررہی ہوتی ہیں ۔کیونکہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے یہ سیاسی، عسکری اور معاشی وجوہات کی بنیاد پر جدید ٹکنالوجی میں کمال مہارت حاصل کرلینا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ مغرب نے چونکہ عالم طبعی کو تباہ اور آلودہ کرکے موجودہ ترقی حاصل کی ،ہم بھی یہی کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہہ یہ نقطۂ نظر تباہ کن ہے کیونکہ مغرب جب یہ سب کچھ کررہا تھا توبقیہ دنیا میں یہ ہمہ گیر تباہ کن تبدیلیاں وقوع پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ ایمیزون، انڈونیشیا اور ملایشیا کے جنگلوں کو اس طرح تباہ نہیں کیا جارہا تھا اور زمین کا نظامِ تنفس درست کام کررہا تھا ۔لیکن اب جبکہ بقیہ دنیا بھی صنعتی بنانے کے عمل کے ذریعے سے، جس طرح کہ مغرب نے کیا، طبعی ماحول کو تباہ کرنے پہ تلی بیٹھی ہے اگر آپ بھی ایمیزون کے جنگلوں کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو یورپیوں نے صدیوں پہلے یورپ کے جنگلوں کے ساتھ کیا تو اس کرۂ ارض کا ماحولیاتی توازن تباہ و برباد ہوجائے گا۔ مظفر اقبال:یہ تو بالکل درست ہے۔ سید حسین نصر:یہ بالکل ہی ایک سادہ اور سامنے کی حقیقت ہے لیکن غیرمغربی حکومتیں مثلاً ہندوستان،چین، انڈونیشیا اور ملایشیا وہ بھی آپ کی بات نہیں سنیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ جوچیز سوچتے ہیںیہ ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ مغرب نے وہ کیا جو وہ چاہتے تھے اور اس عمل کے ذریعے وہ امیر اور طاقتور بن گئے اور اب ہمارے اوپر غلبہ پانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب ہماری باری ہے۔ یہ نقطہ نظر ایک مہلک صورت حال کو جنم دیتا ہے۔ ایک ایسی صورت حال جو تمام نوع انسانی کے لیے خطروں سے بھری ہوئی ہے اور مغرب جو دنیا میں پہلی تہذیب تھی جس نے طبعی ماحول کی بے حرمتی کی، اسے آلودہ کیا اور جس نے افریقہ اور ایشیا کی دولت کو صدیوں تک لوٹا وہ بھی یہ نہیں کَہ پارہا کہ اچھا ہم آپ کی دولت آپ کو واپس کرتے ہیں۔ ازراہِ کرم آپ یہ سب کچھ نہ کریں کیونکہ یہ ہم سب کے لیے خطرناک ہے۔ اس طرح مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنا اچھی خاصی دانش کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں کم ازکم موجودہ صورت حال میں کوئی حکومت اس دانش کی حامل نہیں ہے۔ مظفر اقبال:درست سید حسین نصر:میں اس دانش کی بات کررہا ہوں جو طاقت اور غلبے کے جھوٹے تصورات سے دستبردار ہوتے ہوئے جدید ٹکنالوجی کو، اس کے عواقب و نتائج کے تصور کے اختیار کرنے کے عمل کو ترک کرتے ہوئے آگے بڑھے تاکہ مستقبل کے لیے ایک محفوظ، مبنی بردانش اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ آپ کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں مَیں نے کہا تھا۸؎ جو مسلم ٹکنالوجی کے بارے میں تھا کہ ٹکنالوجی کے ایسے بہت سے متبادل طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے ہم ماحول پر اپنی سرگرمیوں کے اثر کو کم کرسکتے ہیں مثال کے طور پر مسلم دنیا میں ہمارے روایتی طریقۂ زراعت کو محفوظ کرنے کے لیے زیادہ امکانات اور امید موجود ہے۔ جب میں اپنے بچپن کے دوران تہران میں تھا تو وہاں دیہاتوں میں تمام زراعت روایتی طریق سے ہوتی تھی۔ وہ گندم کو گاہنے کے لیے بیل اور سادہ پہیے استعمال کرتے تھے۔ اور ہر چیز انسانی کوشش اور حیوانی توانائی یا اس توانائی جوطبعی طور پر مثلاً عالم طبعی سے گرتے ہوئے پانی یا ہوا سے حاصل کی جائے ۔ اس وقت کوئی مشین نہیں تھی، ٹریکٹر نہیں تھے، نہ وہاں کیمیائی کھادیں ہی تھیں۔ اب بلاشبہہ کیمیائی کھادیں اور ٹریکٹر عام ہوچکے ہیں اوروہ ہماری زراعت کے روایتی طریقوں کو صرف پیداوار بڑھانے اور معاشی فوائد کے نام پرتباہ وبرباد کررہے ہیں۔ لیکن اس طرح سے ہم فی الاصل بازی ہار رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا کوئی یقین نہیں ہے کہ طویل المیعاد بنیادوں پر ہماری پیداواری صلاحیت موجود رہے گی۔ نہ ہم اس زمین کی صلاحیت کے بارے میں ہی کچھ کَہ سکتے ہیں جو کیمیائی کھادوں کے استعمال اور پانی تک کو کیمیائی مادوں سے خراب کرنے سے زہرآلود ہوتی چلی جارہی ہے۔ بہت سے ایسے امورہیں جن پر مسلم دنیا اپنی آبادی کی صحت کو تباہ کیے بغیر اور روایتی ٹکنالوجی سے وابستہ رہتے ہوئے اور اسے ازسرِ نو زندہ کرتے ہوئے بھی عمل کرسکتی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ مجھے مسلم دنیا میں بھی کوئی حکومت ایسی نظر نہیں آتی چاہے وہ بائیں بازو سے متعلق ہے یا دائیں بازو سے، عوامی حکومتیں ہیں یا بادشاہتیں، سیکولر حکومتیں ہیں یا اسلامی، ان میں سے کوئی بھی سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر توجہ مبذول نہیں کررہا۔ مظفر اقبال:سو اس مسئلے کا واحد حل جو باقی بچتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس دانش، شعور اور آگہی کو عام کریں جس کے بارے میں آپ نے گفتگو کی۔ یہ علمی اور فکری سرگرمیوں کے ذریعے سے ایک ایسی سطح پر ہو کہ ہم کوئی پریشر گروپ تشکیل دے سکیں جو بتدریج عوامی سطح کی اس بارے میں آگہی کو فروغ دے۔لیکن المیہ یہ ہے جیسا کہ آپ نے بھی کہا کہ قرآنی وحی عالم طبعی کو خلق خدا کے طور پر کثرت سے بیان کرتی ہے لیکن ہمارے علما اس کے بارے میں بالکل کچھ نہیں لکھتے۔ ہم نے اپنے علما کو کبھی اس بحران کو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات سے متعلق کرکے بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔ اسلام کی وہ تعلیمات جو عالم طبعی کے احترام اور اس کے حقوق کو پامال نہ کرنے سے متعلق ہیں وہ اخلاقی زوال، اقدار اور اخلاقیات کی تباہی کے بارے میں تو بہت گفتگو کرتے ہیں لیکن ماحولیاتی بگاڑ اور اسلام کے تناظر میں عالم طبعی کی پامالی سے متعلق بہت کم گفتگو کرتے ہیں۔ اسلام کی وہ تعلیمات جو عالم طبعی سے متعلق ہیں اور ہمارے مذہبی قوانین کے علوم سے بھی متعلق ہیں۔ یہ تو اب ایک سیکولر مبحث بن چکا ہے کہ گویا اسلام کا اس کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ سید حسین نصر:یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس ایک یا دو علما ایسے تھے جو ماحولیاتی بحران سے آگاہ تھے مثلاً شیخ احمد کفتارو، سابق مفتیِ اعظم شام، وہ اکثر و بیشتر دمشق میں ماحولیات کے بارے میں بہت اچھے فتوے دیا کرتے تھے لیکن بہت سی جگہوں پر ماحولیاتی بحران کے بارے میں گفتگو کرنا حکومتوں کے لیے ایک خطرہ بھی بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی حکومتیں اس طرح کی گفتگو کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتیں کہ ان مسائل کو عوام الناس کے اندر زیربحث لایا جائے۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف وہ حکومتیں سخت اقدام کرتی ہیں۔ لہٰذا واحد بات جس پر عمل ہوسکتا ہے یہ ہے کہ جس طریقے سے بھی ہمارے لیے ممکن ہو اس کے بارے میں آگہی کو عام کیا جائے ۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عالم طبعی کو بے خدا کرنے کا یہ سارا عمل یورپ کے چند لوگوں کی وجہ سے ہوا۔ یعنی صرف یورپ کے بیس یا تیس لوگ۔ اگر اسی وقت انھیں اس کام سے روک دیا جاتا تو آج ہم اس صورت حال میں مبتلا نہ ہوتے ۔ عالم طبعی کی جدید پیرا ڈائم کا فروغ یورپ میں صرف چند لوگوں کی وجہ سے ہوا اور ان چند لوگوں کی وجہ سے یہ تصور بقیہ معاشرے میں نفوذ کر گیا جیسا کہ ایک لاطینی کہاوت ہے کہ بہترین لوگوں کی کرپشن بدترین ہوتی ہے یا جیسا کہ فارسی زبان میں کہا جاتا ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں فکری اور روحانی خواص پر مشتمل ایک طبقہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو روایتی معنوں میں اس بحران سے پوری طرح آگاہ ہو اور پھر وہ عامۃ الناس پر بھی اثر رکھتا اور انھیں متاثر کرسکتا ہو اور اسی خواص کے گروہ میں یقینی طورپر کچھ علما بھی شامل ہوں گے۔ مسلم دنیا میں ذہنی و فکری تبدیلی لانے کے لیے دوسطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سطح تو یہ ہے کہ اس آگہی کے فروغ کے لیے ایسے لوگوں میں کام کیا جائے جو جدید دنیا اور اسلام دونوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہوں۔ نتیجتاً وہ عامۃ الناس کے ذہنوں کو بدلنے کا کام کریں گے، دوسرے : عوامی سطح پر ہمیں اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم فعال افراد پر مشتمل ایسے گروپ تشکیل دیں جو اپنے اردگرد موجود ماحول کو محفوظ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، جو اپنے اردگرد نامیاتی زراعت کا آغاز کرسکتے ہوں اور چھوٹے پیمانے پر اس طرح کے دیگر اقدامات کرسکتے ہوں جو ماحول کو تحفظ دیں جیسا کہ ہم یورپ میں دیکھتے ہیں کہ وہاں پہلے ہی یہ ہورہا ہے۔ مسلم دنیا میں بھی خوش نصیبی سے ایسے کچھ گروپ موجود ہیں۔ اسی طرح مصر میں کچھ ایسے حلقے موجود ہیں جنھوں نے ایسے گائوں بنائے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب کچھ صرف سیاحوں کے لیے ہے۔ تاہم اس میں امید کا پہلو یہ ہے کہ بہرحال یہ ایک آغاز تو ہے۔ مجھے اتنا وقت نہیں ملا کہ میں ایسی روایتی کھیتی باڑی اور ٹکنالوجی پر مشتمل کسی ایسے نخلستان کا دورہ کرسکتا جو ماحول دوست ہیں۔ لیکن مجھے بتایا گیا کہ مصر میں ایسے ماحولیاتی گائوں موجود ہیں جہاں پر سب کچھ ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ ہے۔ وہاں ہر سرگرمی روایتی انداز سے انجام دی جاتی ہے۔ وہاں بجلی تک موجود نہیں اور پھر بھی وہاں یہ بات خوبصورت لگتی ہے کہ وہاں روشنی کے لیے موم بتیاں یا اس طرح کی کوئی چیز استعمال کی جاتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ اس کا طریقہ کار پورے مصر میں اختیار کرلیا جائے۔ لیکن زندہ رہنے کے لیے محفوظ طریقوں کے نمونے کے طور پر یہ بہت اہم ہے۔ میرا خیال ہے کہ شہزادہ چارلس نے بھی پچھلے سال ان میں سے کسی ایک گائوں کا دورہ کیا تھا۔ وہ ماحولیاتی بحران کے حل کے بہت بڑے علمبردار ہیں اور اس بحران سے متعلق کئی اہم عوامل کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن میں پھر کہوں گا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ مصر میں قائم یہ گائوں صرف بیرونی سیاحوں کے لیے ہیں، مصریوں کے لیے نہیں۔ یہ حقیقت پریشان کن ہے۔ بہرحال ہم مختلف لوگوں کے اندر آگہی کے فروغ کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اس مقصد کے لیے مقامی سطح پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات بھی حیران کن ہے کہ اس سطح پر اور اس دائرے کے اندر مسلم دنیا کی نسبت مغرب میں زیادہ مقامی نوعیت کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ مظفر اقبال: لہٰذا عملی طور پر بات کرتے ہوئے ہم کَہ سکتے ہیں کہ ماحولیاتی بحران کے حوالے سے دو سطحوں پر آگہی کو فروغ دینے اور مقامی سطح پر عمل درآمد پر توجہ مرتکز کرنے کی ضرورت ہے۔ سید حسین نصر:جی ہاں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مزید ایک اور چیزکے ذریعے سے اس کی تکمیل کی جانی ضروری ہے جو حتمی طور پر بہت ہی اہمیت کا حامل ہے یعنی افرادِ معاشرہ کے ایک ایسے گروہ کی تعلیم و تربیت کی جائے جو ماحولیات کے ماہر اور عالم طبعی کے متعلق ایسے تصورات کے حامل ہوں جو اسلام کی تعلیمات پر مشتمل ہوں۔ یہی گروہ مسلم دنیا اور مسلم معاشرے پر اس طرح کا اثر مرتب کرسکتا ہے ،جس طرح ان لوگوں نے مسلم دنیا پر اپنا اثر مرتب کیا جو صدیوں پہلے مغرب میں پڑھنے کے لیے گئے۔ وہاں انھوں نے طب اور انجینئرنگ پڑھی اور پھر واپس ہندوستان، ترکی، ایران یا مصر آئے اور وہاں اپنے معاشرے مغربی رنگ میں ڈھالنے کا کام شروع کردیا۔ مظفر اقبال: ایک لحاظ سے اب ہم اس لائحہ عمل کے بارے میں بات چیت کررہے ہیں جس کے بارے میں ہم نے اپنی دوسری گفتگو کے دوران بات چیت کی تھی جو مسلم فکر پر جدید ٹکنالوجی کے اثرات کے متعلق تھا۔ آپ نے کہا تھا کہ ہمیں نیند میں چلنے والے کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو قبول کرتا چلا جاتا ہے بغیر یہ سوچے کہ اس کا انجام اور نتائج کیا ہوںگے۔۹؎ سید حسین نصر: بالکل، میں نے اس مسئلے پر پہلے بھی گفتگو کی ہے لیکن وہ اصول جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے یہی ہے کہ اگر کوئی چیز چاہے یہ کتنی ہی پرکشش کیوں نہ ہو،آپ کے سامنے موجود ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے اسے ہرصورت استعمال کرنا ہے ۔ اگر آپ کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لیے جائیں اور وہاں آپ کو بہت سے لذیذ کھانے ملیں تو آپ ان سب کو نہیں کھا سکتے۔ آپ نے صرف وہی کھانا ہے جو آپ کے لیے بہتر ہے اور جس سے آپ صحتمند رہ سکیں۔ لیکن اب ہمارا رجحان یہ بن رہا ہے کہ جو کچھ سامنے آتا ہے اسے ہڑپ کرلیں۔ بلاشبہہ ہر وہ چیز جو بنائی گئی ہے یا دریافت کی گئی ہے خریدو فروخت کے اس معاشی دبائو کی وجہ سے بنانے والے اس کو ہر قیمت پر ہمیں فروخت کرنا چاہتے ہیں اور ہم خریداروں کے زمرے میں شامل ہیں۔ لہٰذا اس معاشی سرگرمی کے پورے دائرے میں ہم پر کسی عقل مندانہ انتخاب کے بغیر اس کا حصہ بننے اور ہر اچھی بری چیز کے خریدنے کا دبائو موجود ہے اور یہ بہت ہی تلخ اور بدنصیبی کی بات ہے۔ اب میں آپ کو تعمیراتی مواد کے حوالے سے ایک مثال دینا چاہوں گا۔ حسن فتحی مصر کے ایک بڑے ماہر تعمیرات ہیں جنھوں نے ہمیشہ اس مسئلے کے بارے میں گفتگو کی کہ ہم اپنی مٹی، اینٹیں، پتھر اور دوسرے روایتی تعمیراتی مواد استعمال کرکے ایک ایسی تعمیر کرسکتے ہیں جو ماحولیاتی لحاظ سے بہت بہتر ہو لہٰذا دھاتوں کو اتنے وسیع پیمانے پر تعمیرات میں استعمال کرنے کے بجائے ہمیں قدرتی مواد کو استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ عالم طبعی دھاتوں سے نفرت کرتاہے اور دھاتیں ہمیں اپنی اصل دھاتی حالت میں ملتی بھی نہیںبلکہ اس کے بجائے چند ایک قیمتی دھاتوں مثلاً سونے کے استثنیٰ کے ساتھ مرکبات کی شکل میں ملتی ہیں ۔ اگر آپ پاکستان کے شمالی علاقوں میں جائیں اور وہاں اس طرح کی خوبصورت عمارات دیکھیں تو ان میں آپ کو کسی دھات کا استعمال نظر نہیں آئے گا۔ اگرچہ جدید دور سے پہلے بھی دھاتوں کا وجود تھا۔ اگرہم کئی ہزار سال پہلے کی تاریخ میں جھانک کر دیکھیں، لوگ لوہے کے زمانے کے بارے میں بھی بات چیت کرتے ہیں اور دھاتوں اور لوہے کے استعمال کی علامات بھی ہمیں ایرانی سطح مرتفع اور چین میں نظر آتی ہیں۔ لیکن لوہے کا یہ سارا استعمال بہت چھوٹے پیمانے پر تھا۔ روایتی لوگوں کا ماحول اس طرح دھاتوں سے بھرا ہوا نہیں تھا۔ جب آپ اپنے ماحول کو دھاتوں سے اس طرح بھر لیتے ہیں چاہے وہ لوہا یا سٹیل ہوتو آپ اپنے اردگرد ایسی فضا اور ایسا ماحول تخلیق کرلیتے ہیں جو عالم طبعی کے لیے بالکل اجنبی ہے۔ نتیجتاًعالم طبعی آپ کے لیے اجنبی ہو جاتا ہے۔ مظفر اقبال:اب ہم کچھ توجہ اپنے باطنی ماحول کی طرف دیتے ہیں یعنی وہ بحران جو ہمارے اندرکی دنیا میں موجود ہے۔ ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز اس بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا تھا جو کیمیائی مواد اور جینیاتی لحاظ سے تبدیل شدہ زرعی پیداوار کے ذریعے سے پیدا ہوتا ہے۔ جن کا استعمال ہم نے اب شروع کررکھا ہے اور آپ نے اس حوالے سے ہوس، لالچ اور فروخت کے دبائو کا ذکر بھی کیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے ایسے پھل آرہے ہیں جو جینیاتی لحاظ سے تبدیل شدہ ہیں۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کسان صدیوں سے روایتی طریقے سے فصلیں اُگا رہے ہیں۔ اب تو اتنے دور دراز کے علاقے بھی محفوظ نہیں رہے۔ وادیٔ ہنزہ کی لذیذ خوبانیاں اب اس طرح لذیذ نہیں رہیں۔ کسان اب آباواجداد کے طریقوں کو بدل رہے ہیں اور وہ جینیاتی لحاظ سے تبدیل شدہ پیداوار کی طرف متوجہ ہورہے ہیں جو چینی چڑھائی ہوئی قابلِ خوردنی مصنوعات کی طرح ہیں اور وہ یہ سب کچھ فصل کو بڑھانے اور زیادہ پیسے کمانے کے لالچ میں کررہے ہیں۔ سید حسین نصر:میں نے یہ سب کچھ ساری مسلم دنیا میں ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ ایک عالمی بحران ہے جب Theodore Roszak نے اس کے بارے میں بہت خوبصورت انگریزی میںاپنی مشہور کتاب Where the Wasteland Ends لکھی جو دراصل میری کتاب Man and Nature کی کئی لحاظ سے بازگشت ہے۔ اس نے کہا کہ ماحول کی آلودگی ایک لحاظ سے ہمارے اندر کی دنیا کی آلودگی کے خارجی اظہار کا آخری مرحلہ ہوتا ہے۔۱۰؎ اس کے بیان کی سچائی میں کوئی شک نہیں ہے۔ اگر ہم سب لوگ روحانی طور پر پھر سے مضبوط ہو جائیں تو ہر چیز کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر بدل جائے بشمول ہماری اپنی ذات کے جوکہ عالم طبعی کے ساتھ متعلق ہے۔ یہی سبب ہے کہ سادہ سطحی اقدامات اور اعلیٰ اور اچھی انجینئرنگ اس بحران کو حل کرنے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرے گی۔ لیکن یہ حقیقت کہ وادیٔ ہنزہ میں خوبانیاں اُگانے والے اب اپنے طریقۂ کاشت کو بدل رہے ہیں اس کا سبب پاکستان کے بڑے شہروں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو اس طرح کی تبدیلیوں کی حمایت کرتے ہیں۔یعنی پہلے بڑے شہروں میں سوچنے کے انداز میں تبدیلی آئی جہاں لوگوں نے خوبانیوں کی کاشت کو صرف ایک معاشی سرگرمی کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ اس طرح وہ ان نئے طریقوں کی طرف پلٹے جو مغرب میں فروغ پذیر ہوئے جن کے ذریعے اچھے معیار سے قطع نظر صرف فصلوں کی مقدار میں اضافے کی یقین دہانی ہوتی ہے ۔پھر وہ ان طریقوں کو وادیٔ ہنزہ میں لے گئے یعنی ان لوگوں کے پاس لے گئے جو بصورتِ دیگر کبھی بھی اپنا روایتی طریقۂ کاشت تبدیل نہ کرتے کیونکہ ان کے پاس اس طرح کی مشینی کاشت کا کوئی تصور یا علم نہیں تھا۔ اس لحاظ سے تو وہ بالکل معصوم اور بے گناہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس ان طریقوں کا علم ہے تاکہ ان کے ذریعے سے وہ زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد اٹھائیں۔ وہ معیار کی بہتری کی طرف توجہ دیے بغیر ان طریقوں کو اس کرۂ ارض کے ان دور دراز علاقوں میں بھی صرف زیادہ پیسے کمانے کے لالچ میں پہنچا رہے ہیں۔ یہی لوگ قصور وار اور اس سارے المیے کے ذمہ دار ہیں۔ وہ کیوں اس کے ذمے دار ہیں؟ اس لیے کہ فرض کیا کہ آپ پاکستان کے وزیر زراعت یا اس طرح کی وزارت میں کسی اعلیٰ عہدے پر ہیں اور آپ کے فرائض منصبی میں ہے کہ آپ خوبانی کی پیداوار بڑھائیں ۔اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کو اپنی ذمہ د اریوں سے سبکدوش کردیا جائے گا۔ لہٰذا آپ اپنی ملازمت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے کہ پیداوار بڑھانے کے لالچ میں وادیٔ ہنزہ میں پیدا ہونے والی خوبانی اور پھل کے معیار پہ کیا اثر پڑ رہا ہے۔ آپ صرف اپنی ملازمت کی حفاظت اور زیادہ سرمایہ کمانا چاہتے ہیں تاکہ آپ کی بیویوں کو شبانہ تقریبات میں جانے کے مواقع ملتے رہیں۔ سو آپ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ماہرین سے زراعت کے نئے طریقے دریافت کرتے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ ماہرین ہی وہ لوگ ہیں جو وزیر یا کسی کمپنی میں اس کے کسی دوسرے ہم منصب سے بھی زیادہ ان منفی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہیں جو ہمارے ماحول میں وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ یہ تمام عوامل یعنی ٹکنالوجی کے نئے طریقے ، سیاسی نظام، معاشی نظام اور سماجی ڈھانچہ ان وقوع پذیر تبدیلیوں کے حوالے سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ متعلق اور منسلک ہیں۔ علم سے طاقت آتی ہے اور علم ہی کے ذریعے اشیا کو بدلنے کا طریقہ معلوم ہوسکتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس وقوع پذیر ہونے والے اُمور کا درست علم ہے اور وہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں لازمی طور پر ایک مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔ مثلاً میںیہ بات جانتا ہوں کہ دنیا کے خاص حصوں میں کسانوں اور کاشتکاروں کو یہ بات سکھائی جارہی ہے کہ وہ اپنے روایتی طریقۂ زراعت کو کس طرح محفوظ رکھیں۔ یہ بات وہ لوگ سکھا رہے ہیں جو زیادہ مستند علم اور ان کسانوں سے زیادہ طاقت کے حامل ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں روایتی طریقۂ زراعت اور درختوں کو محفوظ کرنے کی ایک بڑی طاقتور تحریک چل رہی ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں بہت ہی حیران کن بات ہے کہ یہ تحریک چند خواتین نے شروع کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی کام کرنا ناممکن نہیں ہے۔ اگر آپ جیسا کوئی شخص وادیٔ ہنزہ جائے اور وہاں جاکر کسانوں کو سب سے پہلے یہ بتائے کہ آپ کی پیداوار اور فصل ذائقے میں تو شکرنما پلاسٹک جیسی مصنوعی شے لگتی ہے اور طویل المیعاد بنیادوں پر اس کو شاید کوئی شخص بھی نہ خریدے تو وہ لوگ آپ کی بات سنیں گے۔ دوسرا یہ کہ انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان طریقوں سے ان کی زمین تباہ ہورہی ہے۔ اگلے پانچ سالوں میں جب ان کی زمین انھیں کوئی پیداوار نہ دے رہی ہو گی تو وہ بہت غریب ہوجائیں گے کیونکہ وہاں مزید کچھ بھی پیدا نہ ہوگا۔ نتیجتاًوہ لاہور کے کسی بازار میں کام کررہے ہوں گے۔ اس پر وہ آپ کی بات زیادہ غور سے سنیں گے۔ دنیا کا کوئی سادہ کسان دوسرے لوگوں کی نسبت جو کہ اس عمل میں شامل ہیں بہت کم لالچی اور حریص ہے۔ چاہے یہ جنوبی امریکہ ہو، پاکستان ہو یا نام نہاد ترقی پذیر دنیا کی کوئی اور جگہ ہو صورت حال کم وبیش ایک جیسی ہے۔ آج اس اصول کی بنیاد پرہر جگہ ایک تحریک موجود ہے کہ بالائی سطح پہ آگہی کو فروغ دے کر عام کسانوں اور معماروں پر اثرات مرتب کیے جائیں۔ انگلینڈ سے شائع ہونے والے رسالے Resurgence اوردیون، انگلینڈ کے Schumacher School کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جہاں روایتی زراعت اور روایتی طرز تعمیر کو محفوظ کیا جاسکتا ہووہاںماحولیاتی لحاظ سے محفوظ گائوں تعمیر کرنے میں جدید گائوں اور شہروں کو تعمیر کرنے کی نسبت کم توانائی خرچ ہوتی ہے۔ اس سطح پر ہمیں مسلم دنیا میں وہ کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے جو مغرب میں اور کسی نہ کسی حد تک ہندوستان اور چین میں ہورہا ہے۔ مظفر اقبال:جی ہاں، ہم نے اپنی گفتگو کے آغاز میں اس متناقض صورت حال کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ماحولیاتی بحران کے بارے میں مسلم دنیا کی نسبت مغرب میں زیادہ آگہی پائی جاتی ہے باوجودیکہ یہ بحران مغرب میں ہی پیدا ہوا۔ سید حسین نصر:جو کچھ اس صورت حال کے بارے میں مسلم دنیا کے رہنما کَہ رہے ہیں آپ بخوبی جانتے ہیں اور ان کا یہ کہنا مضحکہ خیز ہے۔ نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ بیک وقت مضحکہ خیز بھی ہے اور المیہ بھی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مغرب نے اپنا پورا ایک دور مکمل کرلیاہے۔ یعنی صنعتی عمل کے آغاز کے بعد وہ ماحولیاتی بحران کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے اس کی آگہی اور حل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم بھی جب ایک مرتبہ اپنا یہ دائرہ مکمل کرلیں گے تو وہی کچھ کریں گے جو مغرب کر رہا ہے ۔لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کرۂ ارض انھیں اس بات کی اجازت نہیں دے گا نہ خدا ہی انھیں یہ کچھ کرنے کا موقع دے گا۔ مظفر اقبال:مجھے اسلام آباد میں ۱۹۹۵ء میں Science in Islamic Polity in the Twenty-First Century پر ہونے والی عالمیکانفرنس یاد آرہی ہے جس میں آپ نے انتہائی خوبصورت خطاب کیا تھا۔۱۱؎ اس کانفرنس کاانتظام میں نے کیا تھا اور صدر پاکستان نے اپنی پہلے سے تحریر کردہ تقریر کو ایک طرف رکھ کر کم وبیش ایک گھنٹہ اس بات پر صرف کردیا کہ آپ نے اپنی تقریر میں کتنے خوبصورت الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن وہ عملی اقدامات کیوں نہیں کرتے؟ مسلم دنیا کیوں جدید ٹکنالوجی حاصل کرنے پر مصر ہے۔۱۲؎ لیکن وقتی طور پہ ہم اس کو ایک طرف رکھتے ہیں ۔آپ نے اپنی گفتگو میں Eleventh Hourکا ذکر کیا جس سے مجھے مارٹن لنگز کی Eleventh Hour یاد آگئی۔۱۳؎ آپ نے کائناتی تاریخ اور ماحولیاتی بحران کے درمیان تعلق کا ذکر کیا۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں Eleventh Hour میں زندہ رہ رہے ہیں اور اس کائنات کی مدت عنقریب پوری ہونے والی ہے تو پھر اس ماحولیاتی بحران کی ایک اور جہت بھی ہے۔ مسلمانوں کے لیے تو یومِ آخرت آنے کی یہ خبر عمل کرنے کی ایک اور ہنگامی صورت حال پیدا کردیتی ہے۔ مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ حدیث مبارکہ یاد آرہی ہے کہ اگر تم میں سے کسی کے پاس ایک پودا ہو اور قیامت کا وقت قریب آچکا ہو تو وہ پودا ضرور لگالے۔ سید حسین نصر:آپ نے بالکل درست کہا۔ میں کئی جگہوں پر اس مسئلے پر گفتگو کرچکا ہوں۔ لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ مسلم دنیا اور مغربی دنیا دونوں میں ایسے لوگ موجود ہیں، مسلمان اور عیسائی، حتیٰ کہ یہودی اور ہندو بھی جو ماحولیات کے حق میں چلنے والی تحریکوں کے سخت مخالف ہیں۔ مثلاً آپ عیسائیوں ہی کو لیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام جلد ہی زمین پر واپس آئیں گے اور تمام غیر عیسائی لوگ تباہ کر دیے جائیں گے اور خدا اپنی تخلیق کو ازسرِنو زندہ کرے گا۔ سو ہمیں اس کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم بے شک الاسکا میں سوراخ کرتے چلے جائیں اور جنگلی جانور چاہے تباہ ہوتے رہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس طرح کی ایک بڑی طاقتور تحریک امریکہ میں موجود ہے۔ حیران کن طور پر امریکہ میں بہت سے مخلص اور فعال عیسائی اب بھی موجود ہیں، اگرچہ ان میں اب کچھ بدل رہے ہیں، جو طبعیماحول کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں سے بالکل لاتعلق رہے ہیں۔ جب کہ اکثروبیشتر سیکولر اور لامذہب لوگ عالم طبعی کو محفوظ کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔ گویا ایک خاص تناظر میں ہر شے اُلٹ ہوچکی ہے۔ مسلم دنیا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو امام مہدی کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ ایران، عراق اورافریقہ کے بعض علاقوں مثلاً نائیجریا اور مغربی افریقہ میں بہت سے لوگ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ جلد ہی امام مہدی کا ظہور ہوگا۔ یہ لوگ آخرت سے متعلق تعلیمات کو صرف انسانی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ظلم اور ناانصافی جلد ہی ختم ہوجائیں گے۔ وہ عالم طبعی پر غور نہیں کرتے۔ جب کہ ہمارے لیے قرآن و حدیث کی تعلیمات یہ ہیں کہ چاہے ہم ساعت آخریں یا یومِ قیامت میں ہی زندہ کیوں نہ ہوں، عالم طبعی سے متعلق ہمارے فرائض میں کوئی تغیر نہیں آتا۔ مثلاً ہم خودکشی کا ارتکاب نہیں کرتے کہ امام مہدی کا ظہور ہونا ہی ہے اور ہم خودکشی کرلیں کیونکہ یہ شریعت اسلامی کے خلاف ہے۔ ہم صبح سویرے بیدار ہوکر نماز اس نیت سے ادا نہیں کرتے کہ ہم دنیا کے اختتام کے لمحے یا قیامت کے قیام کی قربت میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پرکچھ فرائض عائد کیے ہیں جنھیں ہم نے اس بات سے قطع نظر کہ ہم تاریخ کے کس لمحے میں پیدا ہوئے ہیں، ادا کرنا ہے۔ قیامت کا آنا اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور ہم نہیں جانتے کہ اللہ کا ارادہ کیا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ امام مہدی کب آئیں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی قیامت کے آنے کی پیش گوئی کرے وہ جھوٹا ہے۔ قیامت یعنی الساعۃ کا مطلب ہی یہ ہے کہ جب وقت اپنے اختتام کو پہنچے گا تو قیامت آجائے گی۔ اور آپؐ نے اس کی پیش گوئی کرنے والے کو جھوٹا قرار دیا۔ سوہم نہیں جانتے کہ یہ دنیا جس کے بارے میں ہمیں معلومات میسر ہیں کب ختم ہوجائے گی۔ اور ہم نے اپنی زندگی مخصوص و محسوس وقت، وہ وقت جس میں ہم زندہ ہیں اس میں اللہ کے احکام کی اطاعت کرتے ہوئے، نماز وروزہ ادا کرتے ہوئے گذارنی ہے گویا کہ کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش نہیں آرہا اور زندگی اسی طرح رواں دواں رہے گی۔ ہمارا یہی رویہ عالم طبعی کے حوالے سے ہونا چاہیے۔ اللہ نے ہمیں اس زمین پر اپنا خلیفہ یعنی خلیفۃ اللہ فی الارض بنایا ہے اور ہمیں یہ ذمہ داری سونپی کہ ہم اس کی تخلیق کی ہر وقت حتیٰ کہ آخری لمحے میں بھی حفاظت کریں۔ اس ذمہ داری سے فرار کا کوئی راستہ نہیں۔ علما کایہ فرض ہے کہ وہ اس کے بارے میں شعور بیدار کریں۔ ہمیں علما کی پوری ایک ایسی نسل کو تربیت دینے کی ضرورت ہے جو ایسے معاملات کا شعور رکھتے ہوں۔ وہ قرآن حکیم کی آیات اور احادیث مبارکہ کو پڑھیں، وہ ان معاملات کے بارے میں جو کچھ رازی، ابن سینا اور ابن عربی نے لکھا ہے ا سے تو نظر انداز کر سکتے ہیں مگر قرآن و حدیث کی ان تعلیمات سے جو واضح طور پر ماحول سے متعلق ہیں صرف نظرنہیں کرسکتے۔ مثلاً سورہ بقرہ میں قرآنی اصطلاح مفسدون فی الارض ہی کو دیکھیں جو انسانی تخلیق کے حوالے سے زمین پر فساد کرنے کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔ عام طور پر اس اصطلاح کی تعبیر ظلم اور ناانصافی کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ لیکن اس اصطلاح کا واحد جامع معنی فساد ہے یعنی جو کچھ کہ ہم اب کر رہے ہیں کیونکہ ہم حقیقی معنوں میں زمین پر فساد برپا کررہے ہیں۔ جب کہ اللہ نے فرشتوں سے فرمایا: جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے یعنی انسان کی تخلیق کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ وہ زمین پر میرا خلیفہ اور نائب ہے۔ اب اگر ہم اپنے اس فریضے کو ادا نہ کریں تو ہم زمین پر اللہ کے خلیفہ نہیں بلکہ خود خدائی منصب پر فائزہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس نیابت کو فراموش کرتے ہوئے آج انسان بطورِ خدا عمل کررہا ہے اور اس عظیم گناہ پر اسے سخت سزا دی جائے گی۔ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ہم کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوجائیں جب بھی ہم عالم طبعی کو تباہ کریں گے تو قدرت کا فیصلہ ہی آخری ہوگا۔ کیونکہ عالم طبعی کا اللہ سے براہِ راست رابطہ ہے اور وہ ہمارے سامنے جواب دہ نہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں کیونکہ یہ فریضہ ہمیں خود خدا نے سونپا ہے۔ اس لیے اللہ نے ہمیں ذہانت، آزادیٔ ارادہ اور دوسرے اختیارات دیے ہیں جنھیں ہمیں ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کا نائب سمجھتے ہوئے درست طور پر استعمال کرنا چاہیے ۔ ہم اپنے مالک خود نہیں جیسا کہ امریکی کہتے ہیں بلکہ ہم اللہ کے بندے ہیں ، لہٰذا بالکل ایسے ہی جیسے کہ اللہ ہر روز سورج کو طلوع اور غروب کرتا ہے ہمیں بھی عالم طبعی کے توازن کو تباہ کرنے کے بجائے اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ مظفر اقبال:جزاک اللہ خیرا! سید حسین نصر: والسلام علیکم! نوٹ: یہ مضمون پروفیسر سید حسین نصر اور مظفر اقبال کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو ہے جو شیروڈ پارک کینیڈا میں ۱۹؍ فروری ۲۰۰۷ء کو ریکارڈ کی گئی۔ سید حسین نصر جارج واشنگٹن یونی ورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں علومِ اسلامیہ کے پروفیسر اور فائونڈیشن فارٹریڈیشنل سٹڈیز کے صدر ہیں۔ مظفر اقبال سنٹر فار اسلام اینڈ سائنس کینیڈا کے صدر ہیں۔ ژ…ژ…ژ حوالے 1- Seyyed Hossein Nasr, The Encounter of Man and Nature (London: George Allen & Unwin, 1968), reprinted as Man and Nature: The Spiritual Crisis of Modern Man (Chicago: ABC International, 1997). 2- Seyyed Hossein Nasr, The Need for a Sacred Science (Albany: State University of New York Press, 1993). 3- Seyyed Hossein Nasr, Science and Civilization in Islam (Cambridge: Harvard University Press, 1968), reprinted as a new edition (Chicago: ABC International, 1999). 4- Seyyed Hossein Nasr, An Introduction to Islamic Cosmological Doctrines (Cambridge: Harvard University Press, 1968), revised edition, published by the State University of New York Press, 1993. ۵- القرآن، الکہف ۱۸:۷۱-۷۵۔ ۶- القرآن، الحشر، ۵۹:۲۴۔ ۷- القرآن، الرحمن۵۵:۶۔ 8- Islam & Science, Vol.3 (Winter 2005) No. 2, 109-28. 9- Islam & Science, Vol.3 (Winter 2005) No. 2, 117. 10- Theodore Roszak, Where the Wasteland Ends: Politics and Transcendence in Postindustrial Society (Berkeley: Celestial Arts, 1989). 11- March 26-30, 1995. 12- For the text of this keynote address, see the forthcoming Islam, Science, Muslims and Technology: Seyyed Hossein Nasr in Conversation with Muszaffar Iqbal (Sherwood Park: Al-Qalam, 2007). 13- Martin Lings, The Eleventh Hour (Cambridge: Quinta Essentia, 1987). ئ……ئ……ء ’’تو شاخ سے کیوں پھوٹا…‘‘ تخلیقِ کائنات- ابن عربی کی نظر میں محمد سہیل عمر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا نام دنیاے علوم و افکار میں ایک بلند مقام رکھتا ہے۔ علم کے متعدد پہلوئوں پر ان کا فکری سرمایہ یادگار ہے۔ فتوحاتِ مکیہ میں انھوں نے ہزاروں مسائل پر کلام کیا ہے جن میں سے ایک تخلیق کائنات ہے۔ تخلیق کائنات کی غرض اور سبب جس انداز سے ابن عربی کے ہاں مذکور ہے اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ شیخ اکبر نے اس نکتے کی توضیح کے لیے حقیقتِ الٰہیہ کے بارے میں زیادہ گہرائی اور انفرادیت کے ساتھ کلام کیا ہے۔ فتوحات کے باب ۶۶میں جہاں یہ مبحث موجود ہے شیخ نے ایک ایسے اسلوب میں بات کی ہے جو اسلامی مآخذ میں منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس باب میں تخلیق کائنات کے عمل میں اسماے الٰہیہ کی تاثیر کو بیان کیا گیا ہے۔ اور یوں اسماے الٰہیہ کی اس کہانی کے آہنگ میں قدرتِ مطلقہ کا رنگ نمایاں ہوتا جاتا ہے۔ شیخ کی اس طرزِفکر کو مابعد کی تاریخ افکار میں تلاش کریں تو اور مفکرین کے علاوہ مولانا جامی ،غالب اور علامہ محمد اقبال کے نام سامنے آتے ہیں۔ ان کا منظوم استدلال بھی اپنے اندر فکرونظر کی متعدد تَہ در تَہ سطحیں رکھتا ہے۔ ابن عربی تاریخ فکر اسلامی ہی نہیں بلکہ تاریخ فکر انسانی کے بڑے لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کو بڑا مفکر کہنا محض لفظوں کا کھیل یا مجرد تصور نہیں ہے۔ ہر تہذیب شرفِ آدمیت اور انسانی بڑائی کا معیار فراہم کرتی ہے۔ اس عظمت کو ناپنے کا پیمانہ اسلام نے بھی دیا ہے۔ اسے ہم علم، علم پر عمل اور اخلاص فی العمل سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص بڑا ہے، عظیم ہے تو انھی کے حوالے سے اور انھی کی کسوٹی پر۔ بالفاظ دیگر کسی کی عظمت کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کتنا علم رکھتا تھا، اپنے علم کے مطابق کس حد تک باعمل تھا اور اگر باعمل بھی تھا تو کیا اس کا یہ عمل مخلصانہ تھا؟ہر تین معیاروں پر، ہر کسوٹی پر، ہر پیمانے کے مطابق ابن عربی بہت بڑے آدمی ثابت ہوتے ہیں۔ شیخ اکبر کے علوم و افکار کے بہت سے گوشے ہیں۔ ان میں سے کس پر نظر ڈالی جائے، کس جہت پر کچھ کہنے کی کوشش کی جائے؟ تصور الٰہ، تصور وجود، وحدت الوجود، تصورِ علم، تصورِ نبوت و ولایت، انسانِ کامل، تصورِ مذہب، فلسفے کے بارے میں موقف، تفسیر قرآن، تصورِ محبت و عشق الٰہی، تصورِ شیطان، قضا و قدر، تصورِ زمان، فقہ اور اجتہاد، حیات اخروی اور معادیات، شعری تجربہ اور عالم خیال، یہ صرف ایک مختصر سی موضوعاتی فہرست ہے جن میں سے ہر ایک موضوع ایک سے زائد نشستوں اور تحریروں کا تقاضا کرتا ہے۔ اس مشکل پر غور کرتے ہوئے مجھے کسی مفکر کا ایک قول یاد آیا: If you want to understand the poet go to the land of the poet. land صرف جغرافیائی زمین اور جنم بھومی ہی نہیں ہوتی۔ مفکرین کے ضمن میں سرزمین فکر زیادہ اہم ہوتی ہے۔ سو فیصلہ یہ کیا کہ شیخ اکبر کے افکار پر تبصرہ کرنے اور لوگوں کی آرا سننے سنانے کے بجائے خود شیخ اکبر کی سرزمین فکر کا ایک مختصر سفر کیا جائے اور آپ کے ساتھ مل کر فکر کے اس ذائقے اور تعبیر حقائق کے اس اسلوب کو محسوس کرنے کی کوشش کی جائے جو شیخ اکبر سے خاص ہے۔ شاید یہ براہِ راست تجربہ بہت سے بالواسطہ بیانات سے زیادہ دلچسپ اور زیادہ مؤثر تعارف ثابت ہو! اس غرض سے میں نے فتوحاتِ مکیہ کا باب۶۶ منتخب کیا ہے۔ یہ باب مختصر ہے۔ ایک نشست میں اسے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک انفرادیت بھی ہے۔ منفرد اس اعتبار سے کہ اس باب میں شیخ اکبر نے کائنات کی تخلیق اور عملِ آفرینش کی لم اور سبب پر جس طرح گفتگو کی ہے اور انبیا و رسل بھیجنے کی ضرورت جس انداز سے بیان کی ہے وہ کم ہی کسی مصنف نے کی ہوگی۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وحی کی بنیاد اور اساس کیا ہے یعنی یہ کہ شیخ اکبر یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وجود کائنات میں وہ کیا چیز ہے جس کے سبب دنیا میں رسولوں کی بعثت اور پیغامِ خداوندی کا ظاہر ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ عام طور پر اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت یا ہدایت خداوندی کا تقاضا ہے۔ شیخ اکبر نے اس نکتے کی توضیح کے لیے خود حقیقت الٰہیہ کے بارے میں زیادہ گہرائی سے کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی تحریروں میں جابجا شیخ اکبر نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ کائنات اور مظاہر کائنات بہ۔اعتبار حقیقت کس طرح ایک الوہی اساس رکھتے ہیں اور اپنی اصل میں ہر چیز اپنے خالق و کردگار سے کس طرح جڑی ہوئی ہے۔ اسمائے الٰہیہ کا اس کائنات سے کیا تعلق ہے! اس نکتہ کی شرح کرتے ہوئے ان کا اندازِ بیان بہت سے مقامات پر علمِ کلام کے ماہرین کی طرح عقلی یا استدلالی ہوگیا ہے، ’’منطق سے سلجھا ہوا۔‘‘ باب ۶۶ کا طرزِ کلام یہ نہیں ہے۔ یہاں ان کا اسلوب ایک اور رنگ لیے ہوئے ہے، تمثیل و تخیل کا رنگ، بلکہ کسی حد تک قصہ کہانی کا رنگ، جس میں انھوں نے اس نکتے کے ابلاغ کی کوشش کی ہے کہ اسمائے الٰہیہ کے آثار effects دنیا میں کس طرح ہویدا ہوتے ہیں اور ان کی تاثیر کائنات میں کیونکر کارفرما ہوتی ہے۔ اس غرض سے انھوں نے اسمائے الٰہیہ کو گو یا مجسم کردیا ہے یا یوں کہیے کہ ان کو شخصیات بنا دیا ہے۔ اس طریق کار کی مثال اسلامی مآخذ میں بہت کم ملے گی۔ یہ کام بے دھیانی میں نہیں ہوا۔ انھیں خوب پتا ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے ابتدا ہی میں اپنے قاری کو متنبہ کردیا ہے کہ اس سلسلے میں ’’کثرت یا اجتماعِ وجودی‘‘ کا وہم نہ کرنا۔ یہی نہیں فتوحات میں دوسرے مقامات پر بھی اپنا موقف وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ مثلاً جلد چہارم میں لکھتے ہیں:۱؎ و ھل لھا أعیان وجودیۃ أم لا ففیہ خلاف بین أھل النظر و أما عندنا فما فیہا خلاف انھا نسب و اسما علی حقایق معقولہ غیر وجودیۃ فالذات غیر متکثرۃ بہا لان الشیٔ لا یتکثر الا بالاعیان الوجودیۃ لا بالاحکام و الاضافات والنسب۔ اسمائے الٰہیہ اعیانِ وجودی بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس مسئلے پر فکر استدلالی والے متکلمین کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اس مسئلے پر کوئی نزاع نہیں۔ ہمارے لیے یہ نسبتیں اور نام ہیں جو حقائق معقولہ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان کی وجودی حیثیت نہیں ہے۔ ذاتِ الٰہی ان کی وجہ سے کثرت کا شکار نہیں ہوجاتی کیونکہ کسی شے میں کثرت صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اعیانِ وجودیہ (یعنی وجود خارجی رکھنے والی اشیا/ ہستیاں) پائی جائیں۔ احکام، نِسب۔َ۔ اور اضافات Properties, Altributions, relationships کے پائے جانے سے کوئی چیز کثیر نہیں ہوجاتی۔ باب ۶۶کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اعیانِ ثابتہ اللہ کے علم میں ہیں یعنی معلوماتِ الٰہیہ ہیں۔ اعیانِ موجودہ بننے کے لیے یعنی وجودِ خارجی حاصل کرنے کے لیے وہ اس چیز کے محتاج ہیں کہ ارادۂ الٰہیہ ان سے متعلق ہوجائے اور قدرتِ خداوندی حرکت میں آئے۔ عملِ آفرینش اور تخلیقِ کائنات اللہ کی قدرت Power پرمنحصر ہے۔ اس کی قدرت اس کے ارادے سے کارفرما ہوتی ہے اور ارادہ علم پر مبنی ہوتا ہے؛ وہ علم جو ممکناتِ عالم Possible things کا علم ہے۔ علمِ خداوندی وجودِ الٰہیہ پر استوار ہوتا ہے۔ وجودِ خداوندی کو شیخ اکبر کئی جگہ حیاتِ الٰہیہ divine life کا عین قرار دیتے ہیں یعنی وجود و حیات کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔۲؎ اس طرح چار بنیادی اسما ہیں جنھیں اسم ذات، ’’اللہ‘‘، اپنی آغوشِ وجود میں لیے ہوئے ہے یعنی الحی، العلیم، المرید، القادر/ القدیر۔ سادہ اردو میں یوں کہیے کہ جیتا، جانتا، صاحبِ ارادہ و قدرت۔ یہ ترتیب یا درجہ بندی کوئی حادثاتی یا اٹکل سے کی ہوئی چیز نہیں ہے۔ اس کی بنیاد خود وجود کے خصائل ذاتی پر رکھی ہوئی ہے۔ اس باب کے تمثیلی اندازِ بیان سے ایک اور بات کی جانب ضمناً ذہن منتقل ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے اس خلیج کو کم کرنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ بن سکتا ہے جو سامی ادیان کی توحید اور بظاہر تعددِ الٰہ پر مبنی دینی ہئیتوں کے مابین پائی جاتی ہے۔ ہم یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ یہ جو بعض ادیان میں بہت سے خدا پائے جاتے ہیں یہ واقعی الگ جداگانہ ہستیاں ہیں یا ان امور کی تجسیم یا تخیلاتی تمثیل جن کو مسلم اصطلاح میں اسمائے الٰہیہ کہا جاتا ہے؟ شیخ اکبر غالباً مؤخر الذکر موقف کے حق میں رائے دیں گے۔ کیونکہ کثرت یا اجتماعِ وجودی ان کے نزدیک خارج از امکان ہے۔ ان کا موقف یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص ان خدائوں کو جداگانہ خارجی وجود قرار دیتا ہے تو یہ صرف ایک انفرادی رائے یا کم فہمی کا اظہار ہے یا پھر کسی پرانے نبی کے لائے ہوئے پیغام کی تحریف شدہ شکل۔ اس باب میں پہلے تو یہ بیان ہوا کہ کس طرح سب اسمائے الٰہیہ اکٹھے ہوئے اور یہ طے کیا کہ کائنات وجود میں لائی جائے۔ یہاں شیخ یہ تصور کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان اسما کو مکمل آزادی سے اپنے اپنے اثرات مرتب کرنے اور اپنی تاثیر کے آثار ظاہر کرنے کی اجازت دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ انتشار کے قریب ہونے لگا کیونکہ وہ اشیا جو اسم الرافع کے آثار و اثرات کی مظہر ہیں ان امور سے مختلف ہیں جو اسم المذل The Abaser کے مظہر ہیں۔ الغفور Forgiver کے آثار ظاہر کرنے والوں کا اختلاف ان سے ہوا جو المنتقم The Avenger کے مظہر ہیں۔ وہ جو المانع Withholder کے نمایندے ہیں ان کا نزاع الوہاب Bestower کے کارندوں سے شروع ہوا۔ مخلوقات نے اسما سے رجوع کیا اور التجا کی کہ تنظیم اور قوانین کی بنا رکھی جائے۔ اسماے الٰہیہ اپنا مسئلہ ذاتِ الٰہیہ کی طرف لوٹاتے ہیں۔ ذاتِ الٰہی نے اسم الرب کو مامور کیا کہ وہ ان اسماے کی باہم جدا صفات و خصائص میں ترتیب و تنظیم قائم کرے۔ ایک دوسری جگہ شیخ نے وضاحت کی ہے کہ اسم الرب جس بنیادی اور اوّلین صفت الٰہیہ پر دلالت کرتا ہے وہ ہے ’’اصلاح‘‘ یعنی to make whole / wholesome / sound, to put in order, to remedy, establish peace, conciliate۔بنابریں کائنات اسم الرب کی محتاج ٹھہری کہ اس کے وسیلے سے اپنی مصلحت تک پہنچے۔ ’اصلاح‘ کے فعل سے مشتق اس لفظ مصلحت کا مطلب ہوگا means to wholesomeness۔ ان کے الفاظ میں ’’دنیا کو اسم الرب کی احتیاج اور ہر نام سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ تمام مصالح کا جامع ہے‘‘name for every means to wholesomeness ۔۳؎ کائنات کی ترتیب و تنظیم کے لیے اسم الرب کے انتخاب پر گفتگو کے بعد شیخ انسانی صورتحال کی طرف توجہ کرتے ہیں اور وحی کی وجودی ضرورت کی توضیح پیش کرتے ہیں جو انسانوں کی اصلاح wholesomeness کی موجب ہوتی ہے اور انھیں موقع دیتی ہے کہ اپنے لیے سب سے بہتر راستے کا چنائو کرسکیں۔ اصلاح کا تصور اس ساری تحریر میں باربار سطح پر ابھرتا ہے اور ہمیں یاددلاتا ہے کہ اس تحریر کا بنیادی نکتہ یہ بتانا ہے کہ اسم الرب سے اللہ تعالیٰ عالمِ مخلوقات میں توازن کس طرح برقرار رکھتا ہے خواہ یہ توازن عالمِ خلق میں مجموعی طور پر ہو یا اس کائنات میں موجود عالمِ انسانی کے اندر واقع ہو۔ شیخ کا کہنا ہے کہ اہلِ دانش، فلسفی اور اہلِ خرد، اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے اس نکتہ تک تو پہنچ جاتے ہیں کہ اس کائنات کا آغاز اپنی اصل میں اللہ تعالیٰ سے متعلق ہے۔ اس جگہ ان کا بیان کسی حد تک ابن طفیل کے حیی ابن یقظان (جیتا جاگتا) سے قریب محسوس ہوتا ہے۔۴؎ ابن طفیل ان کے معاصر تھے۔ بعض دیگر فلاسفہ کی طرح ابن طفیل بھی اسی بات کے قائل تھے کہ عقلی استدلال کے ذریعے فلسفی بھی اس درجۂ علم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو انبیا کو وحی کے وسیلے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس نکتے پر شیخ اکبر ان سے سرے سے متفق نہیں ہیں اور اپنی تصانیف میں باربار واشگاف الفاظ میں ان کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے زیرنظر باب میں ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر فلسفی سچا مفکر ہے تو وہ انبیا کی فوقیت اور فضیلت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا اور ان کی رہنمائی قبول کرے گا کیونکہ اس کا اپنا فکری عمل اسے بتاتا ہے کہ علم استدلالی جو فلسفے کی انتہا ہے اس کے ذریعے آپ صرف تنزیہ خداوندی تک پہنچتے ہیں۔ اس کی تشبیہ کا علم اور یہ علم کہ نجاتِ اخروی اور قربِ خداوندی کے لیے تشبیہ کا کیا وظیفہ و مقام ہے انسانی عقلِ جزوی کے دائرۂ کار سے باہر ہے۔ تاہم اگر انسان عقلِ سلیم رکھتا ہو تو وہ فطری طور پر انبیا کے پیغام کی حقانیت اور صداقت کو شناخت کرکے قبول کرلیتی ہے۔ اس باب کے آخر میں شیخ اکبر نے اپنے زمانے کے فلاسفہ اور علم کلام کے ماہرین پر تنقید بھی کی ہے دلچسپ چیز یہ ہے کہ آخر میں شیخ نے ابن رشد کو اپنی تنقید سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ شیخ اکبر اور ابن رشد کی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اس وقت ابن رشد کی عمر ۵۵ کے لگ بھگ تھی اور ابن عربی ۱۵ برس کے تھے۔ ہمارے زیرنظر باب کی عبارت شاہد ہے کہ شیخ اکبر کی رائے ابن رشد کے بارے میں مثبت تھی۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن سینا کو چھوڑ کر مغربی دنیا میں جو مسلم مفکر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا ہے وہ ابن رشد ہے۔ شیخ اکبر کے بیان سے ابن رشد کی جو تصویر ذہن میں اُبھرتی ہے وہ ابن رشد کے اس تصور سے مختلف ہے جو مغربی مآخذ میں پایا جاتا ہے۔ مغرب میں ابن رشد کا خاکہ ایک متشکک کا ہے جو مبنی بر وحی ادیان پر خردہ گیری اور تنقید کرتا ہو اور ان کی صحت و صداقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہو۔ شیخ اکبر کی تحریر میں ابن رشد معقولات اور علم استدلالی کے ایک ایسے عظیم ماہر کے طور پر سامنے آتے ہیں جس کی تحریر اور فلسفہ وحی کے دفاع اور حمایت میں پیش پیش ہو۔ تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابن رشد کی فلسفیانہ تحریریں خود ان کی جنم بھومی یعنی مسلم تہذیب میں بڑی حد تک بے اعتنائی کا شکار رہی ہیں اور ابن عربی کے زمانے میں بھی اور بعد میں بھی ابن رشد کی شہرت فلسفہ کی بہ نسبت فقیہِ وقت اور ماہر علمِ اصول کی زیادہ رہی ہے۔دوسری طرف شیخ اکبر کی تعلیمات مختلف شکلوں میں اسلامی دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ گئیں۔ اس تمہید کے بعد آئیے فتوحات مکیہ کے باب ۶۶ کی سیر کریں۔۵؎ (الباب السادس و الستون فی معرفۃ سر الشریعۃ ظاہرا و باطنا وأی اسم الھی أوجدھا) قال اللہ عز وجل قل لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیہم من السماء ملکا رسولا و قال تعالیٰ و ما کنا معذبین حتی نبعث رسولا فاعلم ان الاسماء الالھیۃ لسان حال تعطیہا الحقائق فاجعل بالک لما تسمع ولا تتوھم الکثرۃ ولا الاجتماع الوجودیّ و انما أورد فی ھذا الباب ترتیب حقائق معقولۃ کثیرۃ من جھۃ النسب لا من جھۃ وجود عینیّ فانّ ذات الحق واحدۃ من حیث ما ھی ذات ثم انہ لما علمنا من وجودنا و افتقارنا و امکاننا انہ لا بد لنا من مرجح نستند الیہ و ان ذلک المستند لا بد أن یطلب وجودنا منہ نسبا مختلفۃ کنی الشارع عنہا بالاسماء الحسنٰی فسمی بھا من کونہ متکلما فی مرتبۃ وجوبیۃ وجودہ الالھی الذی لا یصح أن یشارک فیہ فانہ الہ واحد لا الہ غیرہ فأقول بعد ھذا التقریر فی ابتداء ھذا الامر التأثیر والترجیح فی العالم الممکن ان الاسماء اجتمعت بحضرۃ المسمی و نظرت فی حقائقھا و معانیھا فطلبت ظھور أحکامھا حتی تتمیز أعیانھا بآثارھا فان الخالق الذی ھو المقتدر و العالم و المدبر و المفصل و الباری والمصوّر والرزاق و المحیی والممیت والوارث والشکور وجمیع الاسماء الالھیۃ نظروا فی ذواتھم ولم یروا مخلوقا و لا مدبرا ولا مفصلا ولامصوّرا ولا مرزوقا فقالوا کیف العمل حتی تظھر ھذہ الاعیان التی تظھر أحکامنا فیہا فیظھر سلطاننا فلجأت الاسماء الالھیۃ التی تطلبہا بعض حقائق العالم بعد ظہور عینہ الی الاسم الباری فقالوا لہ عسی نوجد ھذہ الاعیان لتظھر أحکامنا و یثبت سلطاننا اذ الحضرۃ التی نحن فیھا لا تقبل تأثیرنا فقال الباری ذلک راجع الی الاسم القادر فانی تحت حیطتہ و کان أصل ھذا ان الممکنات فی حال عدمھا سألت الاسماء الالھیۃ سؤال حال ذلۃ و افتقار وقالت لھا ان العدم قد أعمانا عن ادراک بعضنا بعضا و عن معرفۃ ما یجب لکم من الحق علینا فلو أنکم أظھرتم أعیاننا و کسوتمونا حلۃ الوجود أنعمتم علینا بذلک و قمنا بما ینبغی لکم من الاجلال و التعظم و أنتم أیضا کانت السلطنۃ تصح لکم فی ظہورنا بالفعل والیوم أنتم علینا سلاطین بالقوّۃ والصلاحیۃ فھذا الذی نطلبہ منکم ھو فی حقکم أکثر منہ فی حقنا فقالت الاسماء انّ ھذا الذی ذکرتہ الممکنات صحیح فتحرّکوا فی طلب ذلک فلما لجؤا الی الاسم القادر قال القادر أنا تحت حیطۃ المرید فلا أوجد عینا منکم الا باختصاصہ و لا یمکننی الممکن من نفسہ الا أن یأتیہ أمر الآمر من ربہ فاذا أمرہ بالتکوین و قال لہ کن مکننی من نفسہ و تعلقت بایجادہ فکونتہ من حینہ فالجؤا الی الاسم المرید عسی انہ یرجح و یخصص جانب الوجود علی جانب العدم فحینئذ نجتمع أنا و الآمر و المتکلم و نوجدکم فلجؤا الی الاسم المرید فقالوا لہ ان الاسم القادر سألناہ فی ایجاد أعیاننا فأوقف أمر ذلک علیک فما ترسم فقال المرید صدق القادر ولکن ما عندی خبر ما حکم الاسم العالم فیکم ھل سبق علمہ بایجادکم فنخصص أو لم یسبق فانا تحت حیطۃ الاسم العالم فسیروا الیہ و اذکروا لہ قضیتکم فساروا الی الاسم العالم و ذکروا ما قالہ الاسم المرید فقال العالم صدق المرید و قد سبق علمی بایجادکم و لکن الادب أولی فان لنا حضرۃ مھیمنۃ علینا و ھی الاسم اللّٰہ فلا بدّ من حضورنا عندہ فانھا حضرۃ الجمع فاجتمعت الاسماء کلھا فی حضرۃ اللّٰہ فقال ما بالکم فذکروا لہ الخبر فقال أنا اسم جامع لحقائقکم و انی دلیل علی مسمی و ھو ذات مقدّسۃ لہ نعوت الکمال و التنزیہ فقفوا حتی أدخل علی مدلولی فدخل علی مدلولہ فقال لہ ما قالتہ الممکنات و ما تحاورت فیہ الاسماء فقال اخرج و قل لکل واحد من الاسماء یتعلق بما تقتضیہ حقیقتہ فی الممکنات فانی الواحد لنفسی من حیث نفسی و الممکنات انما تطلب مرتبتی و تطلبہا مرتبتی والاسماء الھیۃ کلھا للمرتبۃ لالی الا الواحد خاصۃ فھو اسم خصیص بی لایشارکنی فی حقیقتہ من کل وجہ أحد لا من الاسماء ولا من المراتب ولا من الممکنات فخرج الاسم اللّٰہ و معہ الاسم المتکلم یترجم عنہ الممکنات الاسماء فذکر لھم ما ذکرہ المسمی فتعلق العالم و المرید و القائل و القادر فظہر الممکن الاول من الممکنات بتخصیص المرید و حکم العالم۔ باب ۶۶ سرِ۔ّ۔ شریعت کی ظاہری و باطنی معرفت کے بیان میں اور اس چیز کے بیان میں کہ اسمائے الٰہیہ میں سے کون سا اسم شریعت کو وجود میں لاتا ہے فرمانِ خداوندی ہے: ’’قل لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیہم من السماء ملکًا رسولا‘‘ (۹۵:۱۷) ’’وما کنا معذّبین حتی نبعث رسولا‘‘ (۱۵:۱۷)۶؎ اسمائے الٰہیہ کو زبانِ حال جانیے جو انھیں حقائق کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ پس غور سے سنیے جو کہا جارہا ہے اور زنہار کثرت اور اجتماعِ وجودی کا وہم نہ کیجیے۔ اس باب میں ہم جس مبحث پر گفتگو کررہے ہیں وہ حقائق معقولہ کی درجہ بندی یا مراتب سے متعلق ہے۔ یہ حقائق اپنی نسبتوں کے لحاظ سے تو بے شک متعدد اور کثیر ہیں مگر وجودِ عینی کے اعتبار سے متعدد نہیں ہیں۔ کیونکہ ذاتِ حق بحیثیت ذاتِ حق واحد ہے۔ ہمیں اپنے وجود کا علم ہے، اپنے محتاج اور مستعار وجود ہونے کا علم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا وجود، وجودِ ممکن ہے۔ لازم ٹھہرتا ہے کہ ہمارے لیے کوئی (مرجِّح)ترجیح دہندہ (preponderator) بھی ہو جس پر ہمارا وجود تکیہ کرسکے (مستند support)۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ ہمارے وجود کا تقاضا ہے کہ اپنی اس مسندِوجود (ٹیک؍ سہارا) سے اس کی مختلف نسبتیں قائم ہوں۔ شارع نے انھی کی طرف ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے۔ وجودِ الٰہی نے مرتبہ وجوبیت سے کلام کرتے ہوئے بطور المتکلم اپنے آپ کو ان اسما سے موسوم کیا ہے۔ اس مرتبۂ وجود میں اس کا کوئی شریک نہیں کیونکہ وہ الٰہ واحد ہے اور لا الٰہ غیرہ۔ اس معاملے کی ابتدا، آثار و اثرات کے پیدا ہونے اور عالمِ امکان میں ترجیح دینے کے بارے میں تمہیداً یہ کہنے کے بعد اب میں یہ کہتا ہوں کہ: تمام اسما مل کربہ حضور موسوم (یعنی مسمّٰی کے سامنے) جمع ہوئے، اپنے حقائق و معانی پر نظر کی اور اپنے احکام (خواص properties) کے ظہور کا تقاضا کیا تاکہ ان کے اعیان (اشیاے خارجی) ان کے آثار یا اثرات کے ذریعے ایک دوسرے سے متمیّز ہوسکیں۔ سو الخالق، جو مقدر (تقدیر ساز ordainer) بھی ہے، نیز اسم العالِم (knower)، المدبِّر (Governor)، المفصل(Diffentiator)، الباری(Originator)، المصوِّر (Formgiver)، الرازق(Provider)، المحي(Life Giver)، الممیت(Slayer)، الوارث (Inheriter)، الشکور(Grateful)، اور دیگر تمام اسما نے اپنے آپ پر نظر کی، اپنی ذات تو دیکھی مگر انھیں نہ کوئی مخلوق نظر آئی نہ کوئی مدبَّر (Governed) نہ مفصَّل (differentiated)، نہ کوئی مصوَّر (صورت پذیر) نہ مرزوق (رزق پانے والا)۔ یہ دیکھا تو اسما گویا ہوئے ’’کیا کیا جائے کہ وہ اشیا جن میں ہمارے خواص (احکام) کا ظہور ہونا ہے وہ ظاہر ہوسکیں۔ وہ ظاہر ہوں گی تو ہماری سلطانی (authority) ظہو رپذیر ہوگی۔‘‘ اسمائے الٰہیہ نے اپنی التجا اسم الباری The Originator کے سامنے پیش کی۔ انھوں نے کہا ’’شاید آپ ہی ان اعیان (خارجی وجود کی حامل اشیا) کو وجود دے سکیں۔ اس طرح ہمارے احکام و خواص کا ظہور ہو اور ہماری سلطانی کا اثبات ہوسکے کیونکہ جس حضرۃ presence (یعنی جس عالم) میں ہم اب ہیں وہ تو ہماری تاثیر قبول کرنے سے عاری ہے۔ اسم الباری نے کہا ’’یہ معاملہ تو اسم القادر سے متعلق ہے کہ میں خود بھی اسی کے زیرِ اختیار ہوں۔‘‘ اس سارے معاملے کی جڑ یہ ہے کہ ممکنات نے اپنی حالتِ عدم میں اسماے الٰہیہ سے سوال کیا۔ اپنی حالتِ ذلت و فقدان کے ہاتھوں زبانِ حال سے یہ سوال کیا ’’ہمیں عدم نے اندھا کر رکھا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھنے سے قاصر ہیں اور ہمیں پتا نہیں کہ الحق کی منشا کیا ہے کہ اسما کا ہم سے کیا معاملہ ہوگا؟‘‘ اگر آپ ہمارے اعیان کو ظاہر کردیں اور ان کو زیورِ وجود سے آراستہ کردیں تو ہمیں ایک نعمت نصیب ہوگی اور ہم اجلال و تعظیم پر پورے اُتریں گے۔ مزید برآں آپ کی سلطنت صحیح معنوں میں ہم پر تبھی قائم ہوگی جب ہم بالفعل ظہور میں آئیں گے۔ آپ کو آج جو سلطانی حاصل ہے وہ صرف بالقوہ اور بالصلاحیت ہے۔ ہم جو شے آپ سے طلب کررہے ہیں وہ کہیں زیادہ درجے میں آپ کو ہم سے بھی مطلوب ہے۔ اسما نے کہا ممکنات ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔ یہ کَہ کر وہ اس امر کی طلب میں سرگرم ہوئے۔ سو جب اسماے الٰہیہ نے اس سلسلے میں اسم القادر سے درخواست کی تو اسم القادر نے کہا ’’میں تو خود اسم المرید (ارادہ کرنے والا) کے زیر اختیار ہوں جب تک وہ یہ اختصاص پیدا نہ کرے میں کسی ایک شے کو بھی وجودِ خارجی نہیں دے سکتا۔ کوئی ممکن شے از خود مجھے یہ استعداد نہیں دے دیتی کہ میں اسے وجود میں لے آئوں اِلّا یہ کہ حکم دینے والے کا حکم اس کے رب کی طرف سے آن پہنچے۔ ہاں جب وہ اس کی تکوین کا حکم دے دیتا ہے اور اسے کہتا ہے ’’کُن‘‘ تو مجھے بھی اس کی طرف سے یہ قوت اور استعداد مل جاتی ہے کہ میں اسے وجود میں لے آئوں سو میں اسے وجود پذیر کرنے میں لگ جاتا ہوں اور اسی لمحے اسے منصہ تکوین میں لے آتا ہوں۔ سو تم سب اسم المرید کے پاس اپنی درخواست لے جائو۔ شاید وہ ان ممکنا ت کے لیے وجود کو عدم پر ترجیح دے سکے۔ اُس آن میں اور الآمر Commander ، المتکلم مل کر تم کو وجود عطا کردیں گے۔‘‘ سو انھوں نے اپنی التجا اسم المرید کے سامنے پیش کی اور اس سے کہا، ’’ہم نے اسم القادر سے اپنے اعیان کو وجود بخشنے کا سوال کیا مگر اس نے معاملہ آپ کی مرضی پر موقوف رکھا۔ آپ کا کیا فیصلہ ہے؟‘‘ المرید نے جواب دیا ’’القادر نے صحیح کہا ہے مگر مجھے یہ خبر نہیں کہ اسم العالِم نے تمھارے بارے میں کیا حکم کیا ہے۔ نہ جانے اسے تمھارے وجود میں آنے کا پیشگی علم ہے یا نہیں۔ اگر علم ہے تو پھر ہم وجود کو تم سے خاص کردیں گے۔ میں خود بھی اسم العالِم کے زیرنگیں ہوں۔ سو اس کے پاس جائو اور اپنا قضیہ اس کے سامنے رکھو۔‘‘ سب اسما اسم العالِم کے پاس پہنچے اور اسے اسم المرید کی بات سے آگاہ کیا۔ اسم العالِم نے کہا ’’المرید نے سچ کہا۔ مجھے اس بات کا پہلے سے علم ہے کہ تمھیں وجود پذیر ہونا ہے تاہم ادب اولیٰ ہے۔ اس لیے ہم سب پر ایک حضرۃ مھیمنۃ Presence Watching over ہے اور وہ ہے اسم اللّہ۔ ہمیں اس کے حضور حاضر ہونا ہے کہ وہی حضرۃ الجمع ہے Presence of All Comprehensiveness۔ سب اسما حضورِ الٰہی میں جمع ہوئے۔ ارشاد ہوا ’’کیا معاملہ ہے‘‘؟ اسما نے ساری کتھا بیان کی۔ کہا گیا ’’میں تم سب کے حقائق کا اسمِ جامع ہوں اور میں خود موسوم (مسمّٰی) پر دلالت کرتا ہوں یعنی وہی ذاتِ مقدس ہے جو شانِ کمال اور تنزیہ کی حامل ہے۔ سو یہیں ٹھہرو کہ میں اپنے مدلول object of denotation کے پاس جائوں۔ یہ کہا اور اپنے مدلول کے حضور میں پیش ہوا اور وہ سب بیان کیا جو ممکنات نے کہا تھا اور جو اسماے الٰہیہ کے درمیان گفتگو رہی تھی۔ ارشاد ہوا ’’جائو اور ہر اسم سے کَہ دو کہ وہ اپنی اپنی حقیقت کے تقاضے کے مطابق اشیاے ممکنہ سے متعلق ہوجائے۔‘‘ سو اسم اللّہ اور اس کے ساتھ اسم المتکلم نے باہر آکر ممکنات اور اسمائے الٰہیہ سے وہ سب کچھ بیان کیا جو موسوم نے کہا تھا۔ اسم العالِم، المرید، المتکلم اور القادر کا علاقہ اپنے آثار سے استوار ہوا اور اس طرح ممکنات میں سے پہلی چیز خارج میں ظاہر ہوئی کہ اسے المرید نے وجود سے خاص کیا اور العالِم نے وجود میں لانے کا حکم کیا۔ خ…خ…خ شیخ اکبر کے تصورِ تخلیق و آفرینش کا عکس مابعد کی مسلم روایت فکر اور حکیمانہ شاعری میں ہر جگہ نمایاں ہے۔ درج ذیل میں صرف تین مفکرین کو حوالہ بناتے ہیں ورنہ مثالوں کے لیے تو کئی دفتر لکھنا ہوں گے۔ فتوحاتِ مکیہ کے اس باب کی روشنی میں مولانا عبدالرحمن جامی، میرزا اسداللہ خاں غالب اور علامہ محمد اقبال کی شاعری سے مندرجہ ذیل اقتباسات پر غور فرمائیے اور دیکھیے کہ ان کی معنویت کی ایک اور سطح اور مفہوم کا صحیح تناظر کیونکر میسر آسکتا ہے! جامی فرماتے ہیں: حبّذا روزے کہ پیش از روز و شب فارغ از اندوہ و آزاد از طلب متحد بودیم باشاہِ وجود حکمِ غیریتِ بکلّی محو بُود ناگہاں در جنبش آمد بحرِ جود جملہ را از خود، بخود، بیروں نمود واجب و ممکن ز ہم ممتاز شد رسم و آئین دوئی آغاز شد۷؎ خ…خ…خ غالب کے چند اشعار دیکھیے: ہے رنگِ لالہ و گلِ نسریں جدا جدا ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے دیکھ کر تجھ کو چمن بس کہ نمو کرتا ہے! خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس چاک مت کر جیب بے ایامِ گل کچھ اُدھر کا بھی اشارہ چاہیے آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیشِ نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا خ…خ…خ کلام اقبال سے چند نمایندہ اشعار: مجو مطلق دریں دیرِ مکافات کہ مطلق نیست جز نورالسمٰوات حقیقت لا زوال و لا مکان است مگو دیگر کہ عالم بیکران است کرانِ او درون است و بروں نیست درونش پست بالا کم فزوں نیست درونش خالی از بالا و زیر است ولے بیرونِ او وسعت پذیر است ابد را عقلِ ما ناسازگار است ’یکی‘ از گیرو دارِ او ہزار است۸؎ خودی تعویذ حفظِ کائنات است نخستیں پرتوِ ذاتش حیات است حیات از خوابِ خوش بیدار گردد درونش چوں یکی بسیار گردد نہ او را بے نمودِ ما کشودے نہ ما را بے کشودِ او نمودے ضمیرش بحرِ ناپیدا کنارے دلِ ہر قطرہ موج بیقرارے۹؎ بضمیرت آرمیدم تو بجوش خود نمائی بکنارہ برفگندی در آبدار خود را۱۰؎ چیست بودن دانی ای مرد نجیب از جمال ذات حق بُردن نصیب آفریدن جستجوی دلبری وا نمودن خویش را بر دیگری این ہمہ ہنگامہ ہای ہست و بود بی جمال ما نیاید در وجود۱۱؎ زندگی ای زندہ دل دانی کہ چیست عشق یک بین در تماشای دوئی است۱۲؎ من کہ این شب را چو مہ آراستم گرد پای ملت بیضا ستم ملتی در باغ و راغ آوازہ اش آتش دلہا سرود تازہ اش درہ کشت و آفتاب انبار کرد خرمن از صد رومی و عطار کرد آہ گرمم رخت بر گردون کشم گرچہ دو دم از تبار آتشم خامہ ام از ہمت فکر بلند راز این نہ پردہ در صحرا افکند۱۳؎ وا نمودن خویش را خوی خودی است خفتہ در ہر ذرّہ نیروی خودی است۱۴؎ چون حیات عالم از زور خودی است پس بقدر استواری زندگی است۱۵؎ جہان از خود برون آوردہ کیست جمالش جلوہ بی پردہ کیست۱۶؎ نِگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا۱۷؎ تُو اے اسیرِ مکان! لامکاں سے دور نہیں وہ جلوہ گاہ ترے خاک داں سے دور نہیں۱۸؎ یہ ہے خلاصۂ علمِ قلندری کہ حیات خدنگِ جَستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں۱۹؎ سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں جس سے دِکھاتی ہے ذات زِیروبم ممکنات۲۰؎ تُو شاخ سے کیوں پھوٹا‘ میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبۂ پیدائی، اک لذتِ یکتائی!۲۱؎ حریمِ ذات ہے اس کا نشیمنِ ابدی نہ تیرہ خاکِ لحد ہے، نہ جلوہ گاہِ صفات۲۲؎ خودی کیا ہے، رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے، بیداریِ کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے ایک بُوند پانی میں بند اندھیرے اُجالے میں ہے تابناک من و تُو میں پیدا، من و تُو سے پاک۲۳؎ دما دم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شعلے میں ہے پوشیدہ موجِ دُود گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گل خوش آئی اسے محنتِ آب و گل یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر مگر ہر کہیں بے چگوں، بے۔نظیر یہ عالَم، یہ بت خانۂ شش جہات اسی نے تراشا ہے یہ سومنات پسند اس کو تکرار کی خُو نہیں کہ تُو مَیں نہیں، اور مَیں تُو نہیں۲۴؎ من و تُو سے ہے انجمن آفریں مگر عینِ محفل میں خلوت نشیں چمک اس کی بجلی میں، تارے میں ہے یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے اسی کے بیاباں، اسی کے بَبوُل اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھول کہیں اس کی طاقت سے کہسار چُور کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حُور کہیں جُرّہ شاہینِ سیماب رنگ لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ کبوتر کہیں آشیانے سے دور پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور فریبِ نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرّۂ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود۲۵؎ خ…خ…خ But the question you are likely to ask is __'Can change be predicated of the Ultimate Ego?' We, as human beings, are functionally related to an independent world-process. The conditions of our life are mainly external to us. The only kind of life known to us is desire, pursuit, failure, or attainmentّّ__a continuous change from one situation to another. From our point of view life is change, and change is essentially imperfection. At the same time, since our conscious experience is the only point of departure for all knowledge, we cannot avoid the limitation of interpreting facts in the light of our own inner experience. An anthropomorphic conception is especially unavoidable in the apprehension of life; for life can be apprehended from within only. As the poet Nasir 'Ali of Sirhind imagines the idol saying to the Brahmin: مرا بر صورت خود فریدی برون از نقش خود آخر چہ دیدی؟ 'Thou hast made me after Thine own image! After all what hast Thou seen beyond Thyself?' It was the fear of conceiving Divine life after the image of human life that the Spanish Muslim theologian Ibn Hazm hesitated to predicate life of God, and ingeniously suggested that God should be described as living, not because He is living in the sense of our experience of life, but only because He is so described in the Qur'an. Confining himself to the surface of our conscious experience and ignoring its deeper phases, Ibn Hazm must have taken life as a serial change, a succession of attitudes towards an obstructing environment. Serial change is obviously a mark of imperfection; and, if we confine ourselves to this view of change, the difficulty of reconciling Divine perfection with Divine life becomes insuperable. Ibn Hazm must have felt that the perfection of God can be retained only at the cost of His life. There is, however, a way out of the difficulty. The Absolute Ego, as we have seen, is the whole of Reality. He is not so situated as to take a perspective view of an alien universe; consequently, the phases of His life are wholly determined from within. Change, therefore, in the sense of a movement from an imperfect to a relatively perfect state, or vice versa, is obviously inapplicable to His life. But change in this sense is not the only possible form of life. A deeper insight into our conscious experience shows that beneath the appearance of serial duration there is true duration. The Ultimate Ego exists in pure duration wherein change ceases to be a succession of varying attitudes, and reveals its true character as continuous creation, "untouched by weariness" and unseizable "by slumber or sleep". To conceive the Ultimate Ego as changeless in this sense of change is to conceive Him as utter inaction, a motiveless, stagnant neutrality, an absolute nothing. To the Creative Self change cannot mean imperfection. The perfection of the Creative Self consists, not in a mechanistically conceived immobility, as Aristotle might have led Ibn Hazm to think. It consists in the vaster basis of His creative activity and the infinite scope of His creative vision. God's life is self-revelation, not the pursuit of an ideal to be reached. The "not-yet" of man does mean pursuit and may mean failure; the "not-yet" of God means unfailing realization of the infinite creative possibilities of His being which retains its wholeness throughout the entire process. In the Endless, self-repeating flows for evermore The Same. Myriad arches, springing, meeting, hold at rest the mighty frame. Streams from all things love of living, grandest star and humblest clod. All the straining, all the striving is eternal peace in God. (GOETHE) Thus a comprehensive philosophical criticism of all the facts of experience on its efficient as well as appreciative side brings us to the conclusion that the Ultimate Reality is a rationally directed creative life. To interpret this life as an ego is not to fashion God after the image of man. It is only to accept the simple fact of experience that life is not a formless fluid, but an organizing principle of unity, a synthetic activity which holds together and focalizes the dispersing dispositions of the living organism for a constructive purpose. The operation of thought which is essentially symbolic in character veils the true nature of life, and can picture it only as a kind of universal current flowing through all things. The result of an intellectual view of life, therefore, is necessarily pantheistic. But we have a first-hand knowledge of the appreciative aspect of life from within. Intuition reveals life as a centralizing ego. This knowledge, however imperfect as giving us only a point of departure, is a direct revelation of the ultimate nature of Reality. Thus the facts of experience justify the inference that the ultimate nature of Realty is spiritual, and must be conceived as an ego. But the aspiration of religion soars higher than that of philosophy. Philosophy is an intellectual view of things; and, as such, does not care to go beyond a concept which can reduce all the rich variety of experience to a system. It sees Reality from a distance as it were. Religion seeks a closer contact with Reality. The one is theory; the other is living experience, association, intimacy. In order to achieve this intimacy thought must rise higher than itself, and find its fulfilment in an attitude of mind which religion describes as prayer__one of the last words on the lips of the Prophet of Islam.26 خ…خ…خ Rumi: is far more true to the spirit of Islam than Ghazali when he says: پیکر از ماہست شد، نے ما ازو باں از مامست شد، نے ما ازو Reality is, therefore, essentially spirit. But, of course, there are degrees of spirit. In the history of Muslim thought the idea of degrees of Reality appears in the writings of Shihabuddin Suhrawardi Maqtul. In modern times we find it worked out on a much larger scale in Hegel and, more recently, in the late Lord Haldane's Reign of Relativity, which he published shortly before his death. I have conceived the Ultimate Reality as an Ego; and I must add now that from the Ultimate Ego only egos proceed. The creative energy of the Ultimate Ego, in whom deed and thought are identical, functions as ego-unities. The world, in all its details, from the mechanical movement of what we call the atom of matter to the free movement of thought in the human ego, is the self-revelation of the "Great I am". Every atom of Divine energy, however low in the scale of existence, is an ego. But there are degrees in the expression of egohood. Throughout the entire gamut of being runs the gradually rising note of egohood until it reaches its perfection in man. That is why the Qur'an declares the Ultimate Ego to be nearer to man than his own neck-vein. Like pearls do we live and move and have our being in the perpetual flow of Divine life.27 خ…خ…خ There is, however, one question which will be raised in this connexion. Does not individuality imply finitude? If God is an ego and as such an individual, how can we conceive Him as infinite? The answer to this question is that God cannot be conceived as infinite in the sense of spatial infinity. In matters of spiritual valuation mere immensity counts for nothing. Moreover, as we have seen before, temporal and spatial infinities are not absolute. Modern science regards Nature not as something static, situate in an infinite void, but a structure of interrelated events out of whose mutual relations arise the concepts of space and time. And this is only another way of saying that space and time are interpretations which thought puts upon the creative activity of the Ultimate Ego. Space and time are possibilities of the Ego, only partially realized in the shape of our mathematical space and time. Beyond Him and apart from His creative activity, there is neither time nor space to close Him off in reference to other egos. The Ultimate Ego is, therefore, neither infinite in the sense of spatial infinity nor finite in the sense of the space-bound human ego whose body closes him off in reference to other egos. The infinity of the Ultimate Ego consists in the infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe, as known to us, is only a partial expression. In one word God's infinity is intensive, not extensive. It involves an infinite series, but is not that series. The other important elements in the Qur'anic conception of God, from a purely intellectual point of view, are Creativeness, Knowledge, Omnipotence, and Eternity.28 ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، جلد چہارم، دار صادر، بیروت، ص۲۹۴۔ ۲- علامہ اقبال نے بھی انگریزی میں یہی اصطلاح استعمال کی ہے جسے اس کے صحیح تناظر میں نہ سمجھنے کی وجہ سے اقبالیات پر لکھنے والوں اور اقبال کے مترجمین سے سنگین غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ دیکھیے تشکیل جدید (انگریزی)، صفحات ۴۷-۴۸، ۵۷-۵۸۔ ۳- الفتوحات المکیۃ، محولہ ماقبل، جلد، II، ۲:۴۴۲۔ ۴- دیکھیے حیی ابن یقظان کا اُردو ترجمہ، جیتا جاگتا، مترجم ڈاکٹر سید محمد یوسف، مطبوعہ ایجوکیشنل پریس، کراچی۔ ۵- ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، جلد اول، دار صادر، بیروت، ص۳۲۲ -۳۲۳۔ ۶- ’’کَہ اگر ہوتے بیچ زمین کے فرشتے چلا کرتے آرام سے البتہ اتارتے ہم اوپر ان کے آسمان سے فرشتے کو پیغام پہنچانے والا۔‘‘(۹۵:۱۷) ’’اور نہیں ہم عذاب کرنے والے یہاں تک کہ بھیجیں پیغمبر۔‘‘ (۱۵:۱۷) ۷- تصورات و معانی کے فکری سفر کی ایک اور جہت کی طرف توجہ دلانے کے لیے یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہوگا یہ کہ اشعار اکثر شارحینِ مثنوی مولانا روم نے ابتدائی اشعارِ مثنوی کی شرح و وضاحت کے لیے استعمال کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر دیکھیے: عبدالعلیبحرالعلوم، مثنوی معنوی مولوی مع شرح، منشی نولکشور، لکھنؤ، ۱۸۷۷ئ۔ ۸- علامہ محمد اقبال، ’’زبور عجم‘‘، کلیات اقبال، فارسی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص۴۳۷،۴۳۸۔ ۹- ایضاً، ص۴۴۳۔ ۱۰- ایضاً، ص۳۷۸۔ ۱۱- ایضاً، ’’جاوید نامہ‘‘، کلیات اقبال، فارسی، ص۶۶۰۔ ۱۲- ایضاً، ص۵۴۱۔ ۱۳- ایضاً، ’’اسرار ورموز‘‘، کلیات اقبال، فارسی، ص۳۲۔ ۱۴- ایضاً، ص۳۴۔ ۱۵- ایضاً۔ ۱۶- ایضاً، ’’ارمغان حجاز‘‘، کلیات اقبال، فارسی، ص۷۷۲۔ ۱۷- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال، اردو، ص۳۵۹۔ ۱۸- ایضاً، ص۳۸۰۔ ۱۹- ایضاً۔ ۲۰- ایضاًص۴۱۹۔ ۲۱- ایضاً، ص۴۴۹۔ ۲۲- ایضاً، ’’ارمغان حجاز‘‘، کلیات اقبال، اردو، ص۷۲۵۔ ۲۳- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال، اردو، ص۴۵۵۔ ۲۴- ایضاً، ص۴۵۳۔ ۲۵- ایضاً، ص۴۵۴۔ 26- Iqbal:"The Philosophical Test of the Revelations of Religious Experience", The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp. 47-48. 27- Iqbal:"The Conception of God", The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp. 57-58. 28- Ibid, pp. 52. ئ……ئ……ء امام غزالی: معلمِ اَخلاق و محیِ علوم ڈاکٹر قاسم صافی اسلامی تہذیب اور فکروفلسفے میں امام غزالی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اُن کی علمی مساعی اور مربیانہ جدوجہد کثیرجہتی ہے۔ صدیوں دنیا افکارِ غزالی سے مستفید ہوتی رہی۔ روحانی انقلاب کے دوران بظاہر، وہ اپنی مشکلات کا حل سوچتے تھے مگر درحقیقت مسلمان فکر کی حدوں کو وسعت بخش رہے تھے۔ اُن کے روحانی انقلاب کو ’’تجدیدی حرکت‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ بڑی شخصیات کا مقام و مرتبہ ان کی تجدیدی کوششوں کی بنا پر ہی متعین کیا جاتا ہے۔ غزالی اس اعتبار سے اپنے عہد کے مجدد و محیِ علوم نظر آتے ہیں۔ جس طرح اقبال کو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ لکھنا پڑی، غزالی نے بھی مقاصد الفلاسفہ اور تہافۃ الفلاسفہ تصنیف کیں۔ غزالی کے سلسلۂ تصنیف و تالیف کی ایک ایک کڑی فکرومعنی کے نئے جہان دکھاتی ہے احیاء علوم الدین اُن کے تمام افکار و تجربات کا نچوڑ ہے۔ غزالی کی اس حیثیت اور مقام کے پیش نظر مسلم تعلیمی دنیا میں اُن کے وسیع تعارف کی ضرورت ہے اور یونی ورسٹیوںکی سطح پر اس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ ما جامۂ نمازی بسر خم کردیم و ز خاک خرابات تیمم کردیم شاید کہ در این میکدہ ھا دریابیم آن عمر کہ در مدرسہ ھا گم کردیم پانچویں صدی ہجری میں علم و فضل اور فکرودانش کے آسمان پر ایک ایسے شخص کا نام روشن ستارے کی طرح چمکتا دکھائی دیتا ہے جس نے اپنے افکار سے مختلف میدانوں میں ایک تحرک پیداکیا۔ وہ نہ صرف فلسفہ اور حکمت کے نامور استاد ہیں بلکہ تعلیم اخلاق میں بھی اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ انھوں نے اپنے اعلیٰ افکار سے اپنے عہد کی معاشرتی سطح پر بھی ایک حرکت پیدا کی۔ یہ محی الدین ابو حامد محمد الغزالی ہیں۔ سرزمینِ ایران میں پیدا ہوئے اور اسلامی تاریخ میں ایک بہت بڑا نام پایا۔کون ہے جو غزالی کے اوصاف گنوا سکے اور ان کے علم و فضل اور مقام و مرتبہ پر رائے زنی کرسکے۔ خفتگاں را خبر از زمزمۂ مرغِ سحر حیوان را خبر از عالم انسانی نیست جب بھی کوئی آدمی اسلام اور اسلامی ثقافت وفلسفہ کا مطالعہ کرنا چاہے تو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ دنیاے اسلام کی اس سربرآوردہ شخصیت کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرے۔ آٹھ نو سو سال سے دنیا غزالی کے افکار سے مستفید ہورہی ہے۔ ان کی کتاب احیاء علوم الدین واقعی علومِ دین کو زندگی بخشتی ہے۔ فارابی، بو علی سینا اور ابو ریحان البیرونی علمی و فکری دنیا پر پانچ چھ سو سال تک حکومت کرتے رہے اور ان کی کتابیں یورپ کے علمی اداروں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی ہیں جبکہ غزالی تقریباً نو سو سال سے مشرقی تصوف پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ افکار غزالی کی اشاعت و توسیع کے لیے ان کے شایانِ شان اہتمام کرنا چاہیے۔ پاکستان کے علمی اداروں اور یونی ورسٹیوں کو جو وافر سہولتیں حاصل ہیں ان کے پیش نظر تو ’’غزالی کا سال‘‘ منانے سے بھی اس کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ اس سال میں غزالی پر خاص تحقیقات ہوں اور علمی ادارے ان کی یاد میں علمی مجالس منعقد کرائیں۔ ان الزامات سے قطع نظر جو غزالی پر لگائے جاتے ہیں، غزالی روحانی تحریک کا ایک مؤثر عنصر ہیں اور اسلامی فلسفہ کی تاریخ میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ہستی کی شناخت میں ان کے افکار اور خدمات قابل توجہ ہیں۔جب غزالی روحانی انقلاب کے دوران اپنی مشکلات کا حل سوچتے تھے تو گویا وہ مسلمانوں کی مشکلات کا حل سوچ رہے تھے۔ اسلامی زندگی اور دینی علوم میں غزالی کے روحانی انقلاب کو ہم ’’تجدیدی حرکت‘‘ کا نام دے سکتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے انھوں نے نہ صرف اپنی جان کو اضطراب سے نجات دلائی بلکہ دینی اور عصری مباحث و مسائل میں بھی نئی روح پھونک دی۔انھوں نے آواز بلند کی کہ الٰہیات میں کلام و تصوف کو دینی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور انھیں دینی اصول اور تعلیمات کے دوش بدوش چلنا چاہیے۔ امام غزالی نے نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے سیاسی افکار میں ایک تہلکہ مچا دیا۔دنیا کے بڑے بڑے فلاسفر مکڈونلڈ، ھزی لائوسٹ، اوبرمن، منٹگمری واٹ، عبدالجلیل، جولیس اوبرمن، ونسنگ، بویثیر اور مارگریٹ اسمتھ وغیرہ نے غزالی کی مائیگانہ حیثیت کا ذکر کیا ہے۔ غزالی پانچویں صدی ہجری کی وہ حیرت انگیز اور پہلو دار شخصیت ہیں جو خلیفۂ وقت اور سلطان کے پہلو میں بھی تنہائی محسوس کرتے ہیں۔اسلامی دنیا کا ایک عظیم روشن خیال مفکر ہونے کی حیثیت سے غزالی اپنی ایک کتاب میں خلیفۂ وقت مستظہر باللہ اور ہر اس شخص کو جس کے ہاتھ میں عنانِ حکومت ہے، خلافت اور منصب کے فرائض یاددلاتے ہیں۔ عقائد پر وہ اپنی سب سے اہم معروف کتاب اقتصاد میں اختیارات اور ان کی شرعی حیثیت اور اصل و غایت کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ وہ اپنے عہد کے علماے دین کو حکومت کے اُمور پر شرعی نگرانی کا پابند قرار دیتے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت اور علما دونوں کو تنبیہ کرتے ہیں۔ بہرحال غزالی کی زبان جو دماغی افکار سے غذا حاصل کرتی تھی مکمل طور پر دل سے ہم آہنگ تھی۔ بہت کم ایسا ہوا کہ کوئی عالم یا طالب علم ان کے فکری حلقے اور الفاظ کی تاثیر سے خالی رہا ہو یا ان کی قوتِ بیان اور ثقہ دلائل کے سامنے ٹھہر سکا ہو۔ سب جانتے ہیں کہ شخصیات کی اہمیت اور قدر و قیمت ان کی تجدیدی کوششوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ غزالی، عین القضات اور اقبال وغیرہ اپنے اپنے ادوار میں حقیقتاً اپنی اجتماعی حالت سے نالاں تھے۔ ان کا یہ تاثر ان کی کتابوں میں عیاں ہے۔ اپنے اپنے زمانے میں یہ سب لوگ ’’محی‘‘ تھے۔ ان سب نے دینی افکار کو ازسر نو زندہ کیا۔ اگر قرآن کی صحیح اور زندہ تفسیر کی جائے تو یہ سب سے زیادہ زندگی بخش ہے۔ بالفرض بظاہر ایسا نہیں ہوسکتا تو یہ اُسی جمود کی علامت ہے جس کے ہاتھوں ہر دور میں ’’محی‘‘ نالاں رہے ہیں۔ اقبال مسلمانوں کو خود سے اور مغرب کو وحی سے بے خبر سمجھتے ہیں اور اسلامی معارف کو مغربی معارف سے زیادہ وزنی اور وسیع خیال کرتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنے عہد میں جو جمود نظر آیا اس پر انھیں اسلام میں دینی افکار کا احیا The Reconstruction of Religious Thought in Islam لکھنی پڑی۔ وہ اسلامی تحریکوں کی ہر جگہ حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ مولاے روم جب دوسروں کے افکار کو بیدار کرنے اور اُن کی ہدایت کے لیے ہزاروں مطالب اور مثالوں کو نظم کی تنگنائیوں میں لاتے ہیں تو اُن کا کام وہاں بھی وسعت پذیر نظر آتا ہے۔ ہم سب اُن سے متاثر ہیں۔ اُن کی نظم (مثنوی معنوی) اپنے عہد کے جمود پر گواہ ہے۔ اسلام کے ثقافتی پہلو کے حوالے سے اسلام کے مفکروں کی شناخت ناگزیر ہے۔ غزالی کا تعلق اُسی گروہ سے ہے۔ اُن کی زندگی کا ۹۰۰ واں سال اسلام کی پندرہویں صدی ہجری کی احیائی تحریکوں اور احیائی افکار سے ہم آہنگ ہے۔ غزالی اس عہد کے آدمی ہیں جب معاشرہ شدید سیاسی، فکری اور اعتقادی بحران کا شکار تھا اور تاریخ و وحی کی باہمی جنگ جاری تھی۔ اسلامی مملکتوں میں یونانی فلسفہ در آنے سے دین کی بنیادیں متزلزل تھیں۔ اگرچہ ابونصر فارابی، بو علی سینا اور مسکویہ وغیرہ کی منطق نے یونانی فلسفہ کے اثرات کامقابلہ کیا تھا، لیکن اسلام سیاسی نظام کی حیثیت سے بتدریج روبہ تحلیل تھا۔ ایسے میں غزالی پیدا ہوئے اور انھوں نے وہ تحریک برپا کی جس نے اعتقادی اور سیاسی نظام کے تزکیہ اور شرعی احیا کا کام انجام دیا۔ انھوں نے دین کو حکومت پر غالب کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح انھوں نے اپنے زمانے میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد ڈالی جس کا اصل مقصد یونانی فلسفے کا مقابلہ کرنا تھا۔ بہرحال اس شہرت اور ترقی کے عالم میں جب غزالی مدرسۂ نظامیہ بغداد کے سربراہ اور دربار سلجوق کے جلیس تھے تو اُن کی حالت میں ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ اُن کی شخصیت ہی بدل گئی۔آسمانی جذبہ انھیں دنیاوی کثافتوں سے تجرد اور وارستگی کی دنیا میں لے گیا۔ غزالی نے ایک لمبا عرصہ باطنی کش مکش میں گزارا۔ ایک طرف دنیاوی منصب انھیں بغداد میں مقیم رہنے اور مقام و مرتبہ برقرار رکھنے کے لیے اُکسا رہا تھا تو دوسری جانب عشق الٰہی نے اُن کے شوق و جذبے کی آگ کو تیز کر رکھا تھا۔ اسی کش مکش میں آخرکار عشق۔الٰہی نے اپنا کام دکھایا اور وہ دنیاوی مناصب پر غالب آگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کل جو شخص عقلا اور متکلمین کا سربراہ تھا وہ آج عشق کے دیوانوں میں خاموش گرا پڑا تھا۔ کل کا شافعی المذھب آج کا وارستہ حال صوفی بن گیا اور کَہ اُٹھا: عاشقان را شد مدرس حسن دوست دفتر و درس و سبقشان روی اوست غزالی کے سوانح حیات میں دو باتیں قابل توجہ اور تجزیے کی متقاضی ہیں۔ پہلی یہ کہ ایک شخص جو صاحب اختیار و عظمت ہے اور دنیاوی منصب (مدرسۂ نظامیہ کی سربراہی) پر فائز ہے، اچانک اپنی حالت کیوں بدل ڈالتا ہے۔ غزالی کے اس فیصلے اور باطنی تغیر و تبدل پر مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ان میں سے ایک زاویۂ نظریہ ہے کہ غزالی ملک شاہ سلجوقی اور خواجہ نظام الملک کی طرف سے مدرسۂ نظامیہ میں تدریس پر مامور ہوئے اور بحث، مناظرہ، نقل روایات اور اجتہاد پر کام کرنے لگے۔ ایک دن جب وہ پڑھا رہے تھے تو ان کے حلقۂ درس میں پانچ سو ایسے علما و طلبا ان کی تقریر قلم بند کررہے تھے جو اپنے عہد کے علوم میں فاضل اور متبحر تھے۔ ان علما کو اپنے گرد جمع دیکھ کر غزالی میں نخوت و تکبر پیدا ہوا اور وہ اپنے آپ سے کہنے لگے ’’یہ میں ہوں جس کے حلقۂ درس میں ایسے علما بیٹھے ہیں‘‘۔ پھر غزالی مجلس سے اُٹھ کر گھر چلے گئے اور کچھ دیر تک سوچتے رہے اور اپنے افکار کا تجزیہ کرتے رہے۔ پھر خود سے کہنے لگے ’’اے غزالی تو کئی برسوں سے دوسروں کو پڑھا رہا ہے لیکن اب بھی فساد، تباہی اور حقیر انسانی رذائل نے تیرے قلب و روح اور فکر کو اپنے آپ میں محو رکھا ہوا ہے۔ تو نے علم کے علاوہ انسانیت کا کوئی درجہ اور مرتبہ نہیں پایا، تو ابھی خود پر ہی قابو نہیں پاسکا، تو ابھی اپنے نفس کو وعظ و نصیحت نہیں کرسکا، تو ہنوز اپنے نفس امارہ کے سرکش اژدھے کو رام نہیںکرپایا، تو کیسے دوسروں کو نصیحت کرسکتا ہے اور ان کا راہبر ہوسکتا ہے؟ اے غزالی ابھی قرآن اور سیرت النبی نے تیری روح کو جلا نہیں بخشی۔ بہتر ہے کہ پہلے اپنی فکر کر‘‘۔ چنانچہ غزالی ایک صبح بغداد سے نکلے اور حجاز، شام، حلب اور مصر کے مختلف مقامات، مساجد اور دشت وبیاباں میں سیروسیاحت اور ریاضت کرتے رہے۔ اس دس سال کی مجاہدت اور خلوت نے غزالی کو بدل دیا۔ اب نہ مناظرے اور مناقشے تھے، نہ شاہی دربار کے قرب کی خواہش۔ اب وہ سلاطین، امرا اور وزرا کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلانے کے لیے خطوط لکھتے۔ اسی عالم میں ۵۰۵ ہجری میں ان کے وجود کی شمع بجھ گئی اور عمر کا سورج غروب ہوگیا۔ مگر اُن کے افکار نے انھیں ہمارے اور متلاشیانِ حق کے درمیان آج تک ہمیشہ زندہ رکھا ہوا ہے ۔ غزالی کا دوسرا واقعہ امام اسعد میمنی نے نقل کیا ہے کہ جب غزالی جرجان سے واپس طوس جارہے تھے تو راستے میں ڈاکوئوں نے قافلہ لوٹ لیا۔ غزالی منت سماجت کرتے ہوئے ڈاکوئوں کے پیچھے ہولیے اور ان سے کہا ’’جو کچھ تم لوگوں نے لوٹا ہے وہ میں نے تمھیں بخش دیا مگر ایک تھیلا جس میں کچھ کاغذات ہیں وہ تمہارے کام کا نہیں ہے وہ مجھے واپس دے دو۔‘‘ جب غزالی نے اس تھیلے کی واپسی پر بہت اصرار کیا تو ڈاکوئوں کے سرغنہ نے پوچھا ’’اس تھیلے میں کیا رکھا ہے جو اس سے دل لگائے بیٹھے ہو‘‘؟ غزالی نے جواب دیا ’’اس میں عمر بھر لکھنے پڑھنے کا حاصل رکھا ہے۔‘‘ ڈاکو نے کہا ’’کیا کہتے ہو؟ تم نے کیسا علم پڑھا کہ جب ہم نے تمہارے کاغذات چھین لیے تو تم بے علم رہ گئے۔ یہ کیسا علم ہے جو ڈاکو بھی تم سے چھین سکتے ہیں؟ ڈاکو کی یہ بات غزالی کے بہت کام آئی۔ غزالی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد میری ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ ہر شے کو اس طرح سیکھوں کہ کوئی مجھ سے چھین نہ سکے۔ فلسفۂ غزالی: غزالی نے افلاطون، ارسطو، ابن سینا، فارابی اور دیگر فلاسفہ کے فلسفیانہ افکار کا گہرا مطالعہ کیا اور مقاصد الفلاسفہ کے نام سے کتاب لکھی۔ بعد میں فلاسفہ کے افکار کی تردید میں تہافۃ الفلاسفہ تحریر کی۔ تین سال کے مطالعات کے بعد غزالی اس نتیجہ پر پہنچے کہ فلسفے کے راستے سے دنیا اور اشیا کی حقیقت اور زندگی کے مقصد تک رسائی نہیں ہوسکتی۔ بہتر یہی ہے کہ راستہ تبدیل کیا جائے اور کوئی دوسرا راستہ چناجائے۔ غزالی اور تصوف: تصوف میں غزالی کے پہلے مربی احمد رادکانی تھے۔ نیز انھوں نے اپنے والد اور بھائی احمد غزالی سے بھی اکتساب کیا۔ احمد غزالی نے نوجوانی ہی میں عقائد اور انسانی نظریات کی پُرپیچ راہوں میں بھٹکنے سے پہلے تصوف کا راستہ اختیار کرلیا تھا لیکن محمد غزالی جوانی ہی میں فقہ و اصول اور کلام و مناظرہ میں اُلجھ گئے اور چالیس سال تک اس راستہ پر گامزن رہے۔ آخرکار انھوں نے بھی تصوف کا راستہ اپنا لیا۔ تاہم غزالی کا تصوف دوسروں کے تصوف سے مختلف ہے۔ وہ اپنی کتاب روضۃ الطالبین کے باب الثالث، فی بیان معنی السلوک و التصوف میں لکھتے ہیں: ’’اصول التصوف اکل الحلال والاقتداء برسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی أخلاقہ و افعالہ و أوامرہ و سنّتہ‘‘ یعنی تصوف کی بنیاد حلال کھانے اور آنحضرت ا کے اخلاق و کردار اور اوامر و سنت کے اتباع پر ہے۔ غزالی کی تصانیف: غزالی نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ استاد جلال ہمائی نے اپنی کتاب غزالی نامہ میں اس بارے میں جو تحقیق کی ہے اس میں سے دو سو سے زائد کتابیں اور رسائل غزالی سے منسوب کیے ہیں۔ زادِ آخرت، اقتصاد، کیمیائے سعادت، احیاء علوم الدین (اُن کا پختہ عمر کا حاصل)، المنقذ من الضلال، نصیحۃ الملوک، مقاصد الفلاسفہ، تہافۃ الفلاسفہ، ایہا الولد، اخلاق الانوار، الوجیز والوسیط (فقہ) وغیرہ امام کی چند مشہور کتب ہیں۔ یہ کتب اسلامی تعلیمات کا قیمتی خزینہ ہیں۔ حقیقت اور دین کے متلاشیوں کے لیے اُن میں بہت حقائق پوشیدہ ہیں۔ المنقذ من الضلال میں غزالی نے اپنی زندگی کے مراحل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور عقائد و افکار کی صحت و سقم پر بحث کی ہے۔ حقیقت میں یہ ایک قسم کا نفسیاتی تجزیہ ہے۔ وہ فلسفہ اور دین کے مسائل میں اپنے شکوک و شبہات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اس کتاب کو غزالی کے اعترافات کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔ وہ اخلاقیات کے عظیم معلم ہیں اور اب بھی انھیں تعلیم و تربیت کے سربرآوردہ دانش وروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ژ…ژ…ژ عباس علی لمعہ ڈاکٹر سعید اختر درانی اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ (شیخ محمد اشرف ، اڈیشن ۱۹۵۱ئ) میں عباس علی خان لمعہ حیدرآبادی کے نام علامہ کے مکاتیب کی تعداد ۲۹ ہے۔ محققین و ماہرینِ اقبالیات نے ان مکاتیب کو غیرمستند ٹھہرایا ہے۔ میر یٰسین علی خان کی معلومات اور اطلاع کے مطابق لمعہ صاحب نے اقبال سے خط کتابت کا کبھی ذکر نہیں کیا اور نہ کسی اور ذریعے سے ہی انھیں یہ معلوم ہوسکا کہ اقبال سے ان کی خط کتابت رہی تھی اور اُن سے شاگردی کا تعلق قائم ہوا تھا۔ البتہ یہ بات ضرور تھی کہ لمعہ صاحب کا یہ رجحان رہا کہ کسی طرح معروف و مشہور شخصیات سے اُن کا تعلق قائم ہوجائے۔ محققین کے مطابق ان خطوط کے جعلی ہونے کی بات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان خطوطِ اقبال کی اصل یا عکس پیش نہیں کیا جاسکا۔ یہ مسئلہ تبھی حل ہوسکتا ہے جب اس مراسلت کی اصل مہیا ہوجائے۔ دوسری بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ لمعہ تخلص کرنے والے ایک دوسرے بزرگ شاعر بھی تھے جن کا نام سید نوازش علی موسوی ہے۔ یہ حیدرآباد میں رہایش پذیر تھے۔ اُردو، فارسی میں گراں قدر شاعر تھے۔ علامہ کی یہ مراسلت ان صاحب سے بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے بھی کسی ٹھوس شہادت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عباس علی خان لمعہ کے نام علامہ اقبال کے خطوط کی تعداد اقبالنامہ، جلد اول، شیخ محمد اشرف، ۱۹۵۱ئ، ص۲۶۳-۲۹۸ مرتبہ شیخ عطائ۔اللہ کے مطابق ۲۹ ہے۔ اُن میں سے بعض خطوط ایک عرصے سے محققین کے نزدیک متنازع فیہ ہیں۔ میں نے ۱۹۸۴ء میں سفر حیدرآباد دکن کے دوران وہاں کے مشہور اخبار سیاست میں اس بارے میں چند مضامین پڑھے تھے۔ ان میں بعض لکھنے والوں نے مذکورہ خطوط کے جعلی ہونے اور بعض نے مستند ہونے کی حمایت کی تھی۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے دوران مَیں لندن میں اپنے دیرینہ کرم فرما جناب عزیز الدین احمد (جو خود بھی حیدرآباد کے ایک ممتاز علمی خانوادے کے رُکن ہیں)کے توسط سے وہاں کے ایک قدیمی نوابی خاندان کے فرد میر یٰسین علی خان صاحب سے اکثر ملا کرتا تھا۔ میر صاحب ایک مخیر انسان تھے اور نہ صرف ہماری پرتکلف مہمان نوازی فرماتے تھے، بلکہ حیدرآباد دکن کے قدیم علمی و ادبی ماحول کے بارے میں معلومات بہم پہنچایا کرتے تھے۔ میر صاحب موصوف علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے اور اُن کی بیگم ڈاکٹر زبیدہ یزدانی نے آکسفورڈ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ میر صاحب کی پیدائش ۱۹۰۸ء کے لگ بھگ کی تھی۔ موصوف کا ۱۹۹۶ء میں قریباً ۸۸ سال کی عمر میں لندن میں انتقال ہوا۔ میر یٰسین علی خان صاحب سے میری گفتگو اکثر علامہ اقبال کے بارے میں ہوتی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ لمعہ حیدرآبادی سے اچھی طرح واقف تھے۔ میں نے درخواست کی کہ آپ اُن کے بارے میں ایک مضمون لکھ دیں کیونکہ بہت سے اقبال شناس اس معاملے میں بہت متجسس ہیں۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد ۱۹۹۴ء میں میر صاحب نے ایک مضمون لکھ دیا، جو جناب عزیز احمد نے اپنے خوش خط میں نقل کرکے میرے حوالے کردیا۔اور بتایا کہ میر صاحب نے یہ شرط لگائی ہے کہ میں یہ مضمون ان کی وفات کے بعد شائع کروں۔ میں نے مارچ ۱۹۹۰ء میں میر صاحب کے گھر پر ایک خط کی عکسی نقل دیکھی تھی جو بظاہر عباس علی لمعہ صاحب کے نام علامہ اقبال کا لکھا ہوا خط محسوس ہوتا تھا لیکن جملے کی ساخت سے معلوم ہوتا تھا کہ اس میں تحریف کی گئی ہے۔ میرے ایک نوٹ (مورخہ ۱۴؍مئی ۱۹۹۰ئ) کے مطابق یہ خط سیاست اخبار میں شائع ہوا تھا جو میر صاحب نے مجھے دکھایا تھا۔ آج (مورخہ ۹؍جنوری ۲۰۰۷ئ) جناب محمد عبداللہ قریشی کی کتاب روحِ مکاتیب اقبال (اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۱۹۷۷ئ) میں پڑتال (Check) کرنے پر معلوم ہوا کہ علامہ کے خط مورخہ ۳۰؍جون ۱۹۳۳ء میں یوں تحریر ہے (ص ۴۶۴): ’’میرا دوستانہ مشورہ ہے کہ آپ شعر و سخن میں اپنا وقت عزیز ضرور صرف کریں‘‘۔ (اس فقرے کی ساخت بھی توجہ طلب ہے۔ دُرّانی) پھر اُسی کتاب میں ص۴۶۷ پر (خط مؤرخہ ۶؍جولائی ۱۹۳۳ئ) کا پہلا فقرہ یوں ہے: ’’میں نے آپ کو مشورہ دیا تھا آپ شعر و شاعری کا مشغلہ ترک نہ کریں…‘‘ بہرحال مکاتیب اقبال میںڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ حیدرآبادی کا شمار ان شخصیات میں ہے جن سے علامہ اقبال کی مراسلت رہی۔ اس اہمیت کے پیش نظر لمعہ صاحب کے بارے میں میر یٰسین علی خان صاحب کا یہ مضمون ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔ سعید اختر دُرّانی۔ برمنگھم، ۹؍جنوری ۲۰۰۷ء ئ…ئ…ء عباس علی لمعہ میر یٰسین علی خان جناب عباس علی لمعہ سے میری پہلی ملاقات اُن کے بھانجے عبداللطیف صاحب کے گھر پر حیدرآباد دکن میں ہوئی، جو محکمہ انکم ٹیکس میں میرے ساتھی تھے۔ یہ بات غالباً ۱۹۴۲ء یا ۱۹۴۳ء کی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، لمعہ صاحب سی-پی و برار میں کہیں رہا کرتے تھے اور کبھی اُن کا قیام جالنہ میں ہوا کرتا تھا جو ریاست حیدرآباد کے ضلع اورنگ آباد کا تعلقہ تھا۔ جب کبھی لمعہ صاحب حیدرآباد آتے، اپنے دورانِ قیام میں دو تین مرتبہ میرے گھر تشریف لایا کرتے اور اپنا اُردو اور فارسی کلام ضرور سنایا کرتے اور تعریف سے بہت خوش نظر آتے۔ اُن سے میری ملاقاتیں ۱۹۴۹ء تک جاری رہیں۔ رفتہ رفتہ وہ کھلتے گئے اور اپنے خانگی حالات کے ضمن میں مجھے بتلایا کہ اُن کی آبائی زرعی زمینات کے تعلق سے عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کو کافی گھومتے رہنا پڑتا ہے۔ ۱۹۴۸ء میں میرا تبادلہ اورنگ آباد میں بحیثیت انکم ٹیکس آفیسر ہوا۔ اس وقت جناب صدق جائسی، جو ایک اعلیٰ ذوق کے انسان اور ایک اچھے شاعر تھے، جن کی کتاب دربارِ دُربار بہت مشہور ہوئی، وہ بھی بحیثیت مدرس اورنگ آباد میں مقیم تھے۔ صدق جائسی صاحب کے پاس شعر خوانی کی محفلیں جمتی تھیں۔ وہاں بعض دفعہ لمعہ صاحب بھی آجایا کرتے تھے اور مجھ سے ملاقات کی تجدید ہوجایا کرتی تھی۔ لمعہ صاحب کو اپنے مقدمات کے سلسلہ میں اکثر بمبئی بھی جانا پڑتا تھا۔ بمبئی کا ذکر کرتے ہوئے لمعہ صاحب نے ایک دلچسپ بات مجھے یہ بتلائی کہ رابندر ناتھ ٹیگور جب کبھی بمبئی آتے تو نے پین سی روڈ (Napean Sea Road) کے ساحل پر تفریح کے لیے ضرور آتے۔ ایک دن لمعہ صاحب ٹیگور کی کتاب گیتا نجلی اپنے سینے پر کھلی رکھ کر سمندر کے کنارے آنکھیں بند کیے لیٹے ہوئے تھے۔ ٹیگور نے قریب سے گذرتے ہوئے انھیں اس حالت میں دیکھا تو جگا کر بڑی شفقت سے باتیں کیں۔ بس اس روز سے، بقول لمعہ صاحب کے، اُن کی دوستی اور شناسائی کی ابتدا گرو دیو ٹیگور سے ہوگئی اور مابعد خط و کتابت بھی ہونے لگی۔ اقبال سے اُن کے تعارف یا خط و کتابت کا کوئی ذکر کبھی بھی مجھ سے لمعہ صاحب نے نہیں کیا اور نہ کسی اور ذریعہ سے مجھے یہ بات معلوم ہوسکی کہ وہ اقبال کے شاگرد یا دوست ہیں، یا مرسل الیہ۔ لمعہ صاحب نے مجھ سے کبھی محترمہ عطیہ فیضی سے اُن کی ملاقات اور ان کی محفل میں اقبال کی تشریف آوری اور لمعہ صاحب کا تعارف (جیسا کہ رحمانی صاحب۱؎ نے تحریر فرمایا ہے) اس کا ذکر نہیں کیا۔ لہٰذا میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ علامہ اقبال سے اُن کے کیا تعلقات رہے ہیں۔ البتہ میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ لمعہ صاحب کا رجحان میں نے یہ پایا کہ کسی طرح معروف و مشہور ادبی شخصیتوں سے تعلق قائم کیا جائے۔ چنانچہ میں نے اُن کی خواہش کے بموجب تاریخ کے مشہور پروفیسر جناب ہارون خان شیروانی صاحب (پدما بھوشن) اور آثارِ قدیمہ کے ناظم جناب غلام یزدانی صاحب۲؎ مرحوم (پدما بھوشن OBE) سے اُن کا تعارف کروایا تو لمعہ صاحب نے اپنی ٹیگور سے خط و کتابت کا ذکر کرتے ہوئے ٹیگور کا اُن کے نام لکھا ہوا خط، جو اُن کو زبانی یاد تھا، شروع سے آخر تک سنا ڈالا۔ ان دونوں حضرات نے خط سننے کے بعد کسی رائے کا اظہار کیے بغیر یک گونہ خاموشی اختیار کرلی۔ اس طرح یہ ملاقات ختم ہوگئی۔ لمعہ صاحب کے جانے کے بعد میں نے ہمت کرکے ان بزرگوں سے پوچھا کہ آپ نے لمعہ صاحب سے گفتگو ایک دم ختم کردی، اس کی کیا وجہ تھی۔ تو مجھے یہ جواب ملا کہ جو شخص ٹیگور کا خط زبانی یاد کرکے سناتا پھرے اس کے پاس گفتگو کے لیے اور کیا تھا۔ اب میںپروفیسر رحمانی صاحب کے اس مضمون کے تعلق سے، جس میں انھوں نے ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے حوالے۳؎ سے لمعہ اور اقبال کی دوستی کی اہمیت کا ذکر کیا ہے یہ عرض کروں گا کہ جگن ناتھ آزاد، عبدالقوی دسنوی، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور سید عبدالواحد معینی کی اس رائے سے کہ لمعہ کے نام اقبال کے خطوط جعلی ہیں، میں قطعی طور پر اپنی کوئی رائے اس لیے نہیں دے سکتا کہ علامہ کی دستی تحریر یا اس کی فوٹو کاپی کسی نے بھی اب تک پیش نہیں کی ہے، جس کو بنیاد بنا کر کوئی تصفیہ کیا جاسکے کہ یہ خطوط اصلی ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ لمعہ صاحب کا وہ کلام جو اقبال کا دیکھا ہوا اور اس پر اصلاحیں دی ہوئی بیان کیا گیا ہے، اس کے متعلق یہ بتلایا گیا ہے کہ اصلی کاغذات تو نہیں مل سکے لیکن لمعہ حیدرآبادی نے اپنے اوردوسروں کے ہاتھوں جو نقل کروایا تھا، وہ کاغذات حاصل ہوگئے ہیں۔ یعنی یہ کاغذات بھی اصل نہیں ہیں۔ تو پھر کسی معتبر ثبوت کا مہیا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ جگن ناتھ آزاد، عبدالقوی دسنوی، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور عبدالواحد معینی اقبال شناسوں کے ایسے نام ہیں جن کی تحریر کو کسی طرح نظر انداز اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ اقبال کے ہاتھ کے لکھے ہوئے خطوط پیش نہ کیے جائیں کیونکہ اقبال کا نیم شکستہ خط بہ آسانی پہچانا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات ایک قصۂ پارینہ ہوچکی ہے۔ اس واسطے میرا ناچیز مشورہ پروفیسر اکبر رحمانی کو یہ ہوسکتا ہے کہ لمعہ اور اقبال کے تعلق سے جو مواد ان کو دستیاب ہوچکا ہے، [اور] جسے وہ مصدقہ سمجھتے ہیں معترضین کو بیچ میں لائے بغیر پیش فرمائیں تاکہ کوئی بے مزا معرکہ کھڑا نہ ہونے پائے۔ اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ لمعہ تخلص کرنے والے ایک بزرگ شاعر سید نوازش علی موسوی حیدرآباد میں رہتے تھے جو میرے دادا نواب میر حسن علی خان امیر شاگردِ داغؔ کے دوست تھے اور اُن کے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ سید نوازش علی موسوی لمعہ فارسی اور اُردو کے گراں قدر شاعر اور بڑے عالم تھے۔ اُن کے خاندان کے ایک گراں قدر فارسی گو شاعر جناب برق موسوی سے بزمِ سعدی (فارسی) کی شگفتہ محفلوں میں میری ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ حیدرآباد کی بزمِ سعدی کی محفلوں میں اس وقت کے ایرانی سفرا بھی شرکت فرمایا کرتے تھے اور ان کے سفارت خانے میں بھی بزمِ سعدی کی مجلسیں منعقد کی جاتی تھیں جن میں شہر حیدرآباد کے علما، پروفیسر اور صاحب ذوق حضرات کافی تعداد میں شریک ہوتے تھے۔ بزمِ سعدی کے اُس وقت کے سکرٹری جناب قمر ساحری تھے جو اب کراچی میں پروفیسر قمر ساحری کے نام سے ادبی اور علمی مشاغل میں مصروف ہیں۔ ۲۶؍جولائی ۱۹۹۴ء (لندن) ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- جناب اکبر رحمانی کی طرف اشارہ ہے۔ ۲- میر یٰسین علی خان کے خسر محترم تھے۔ ۳- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اپنی کتاب اقبال کی صحبت میں (مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۷۷ئ) میں لکھتے ہیں ’’مجھے علامہ کے ہاں لمعہ کی نظموں کا ایک مجموعہ ملا تھا، جس پر ۲۲؍جنوری ۱۹۳۴ء کی تاریخ درج ہے۔ اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ۱۹۳۲ء سے بھی پہلے ان صاحب نے علامہ کے ساتھ مراسلت و مکاتبت شروع کردی ہوگی۔‘‘(صفحہ ۳۹۴) ئ……ئ……ء اقبال کے اُردو کلام میں صنائعِ معنوی ڈاکٹر بصیرہ عنبرین شعر کو ظاہری حسن سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو معنوی اعتبار سے مزین کرنے کا نام صنائع معنوی یا تحسین معنوی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ظاہری فنی اصولوں پر پورا اترنے والا کلام اپنے سننے والے پر ایک سحر انگیز تاثیر چھوڑتا ہے لیکن اندرونی اور باطنی طور پر فکرونظر سے لبریز شعر کی تاثیر اس سے کہیں زیادہ دوررس اور دیرپا ہوتی ہے۔ اور یہی مہارتِ فن کسی شاعر کے مقام و مرتبے کو متعین کرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو شاعر کے کلام کو سامعین و مخاطَبین کے شعورواحساس کی بیداری کا باعث بنتی ہے۔ اقبال کے کلام میں صنائع و بدائع معنوی کے بھرپور استعمال نے معجز آثار محاسن پیدا کیے ہیں۔ وہ الفاظ کا چنائو کرتے وقت معنی کو ہر حال میں مقدم رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اعلیٰ ترین افکاروخیالات کا مؤثر ابلاغ ممکن ہوا۔ اقبال نے اپنے کلام میں ذومعنویت اور ایہامی صورت پیدا کرنے، زور اور دلالت میں اضافہ کرنے، مبالغہ و استعجاب کے عنصر کو ابھارنے، تقابل و موازنہ کی فضا تشکیل دینے اور بات میں اثر آفرینی لانے کے لیے درجنوں معنوی صنعتوں کو استعمال کیا۔ علامہ نے صنائع لفظی کی طرح صنائع معنوی کے سلسلے میں بھی مکمل فنی کاریکگری کا ثبوت دیا ہے۔ اگر اقبال جیسا پیغام بر اور فلسفی شاعر لفظی و معنوی محسنات کو بطور وسیلۂ شعر اپناتا ہے تو ان سے لفظی موشگافیاں ہرگز مطلوب نہیں ہوسکتیں بلکہ یقینی طور پر ان کا مقصود‘ جدتِ فکر پر مبنی نظریات و تصورات کا ابلاغ یا مکمل معنوی ابعاد کے ساتھ اذہان و قلوب پر اثرانداز ہونا ہی ٹھہرے گا جو یقینا شاعرانہ صنعت گری میں اجتہادی پہلو سے عبارت ہے۔ صنائعِ معنوی یا تحسینِ معنوی سے مراد وہ محسنات ہیں جن کے تحت شاعر تحسین و تزئینِ کلام کو لفظ کے بجاے معنی کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ وہ معنی کی تبعیّت کے پیشِ نظر شاعری میں ایسی لفظیات برتتا ہے کہ معانی میں حسن و خوبی اور تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ محققینِ علمِ بدیع نے محسناتِ معنویہ کی تعریف متعین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: صنائعِ معنوی بدیع، صنائع است کہ برایِ آرایش کلام بہ کار می رود، بعضی از طریق تداعی ھایی کہ در ذہن خوانندہ ایجاد می کند بہ عمق و لطفِ سخن می افز اید و عواطف و تخیل خوانندہ را بر می انگیزد۔ در این گونہ آرایش ھایِ کلام، اگر کلمات (باحفظِ معنی) ھم تغییر بیابند، از لطفِ کلام کاستہ نمی شود۔ ۱؎ _____ صناعاتِ معنوی (آرایہ ھای درونی) ’’آرایۂ درونی‘‘ یا ’’صناعتِ معنوی‘‘ آرایہ ای است کے از معنا در واژہ برآید و برآن استوار شدہ باشد؛ بہ گو نہ ای کہ اگر ریخت واژہ دیگر گون شود و معنا برجای بماند، آرایہ ازمیان نرود…۔ ۲؎ سید عابد علی عابد صنائعِ معنوی کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے خوب لکھتے ہیں: صنائعِ معنوی استعمال کرنے کی ترغیب دلانا تخلیقی عمل کی گرمی رفتار کو روکنے کا بہانہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ فن کار جلدی نہ کرے اور الفاظ کی اس خاص ترتیب کی جستجو کرتا رہے جو مفہومِ مطلوب کی تمام دلالتوں کو ادا کر سکتی ہے۔ مختلف صنائعِ معنوی کی تعریفوں پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ ان کے برمحل استعمال سے مفہوم کے ابلاغ و اظہار میں بڑی مدد ملتی ہے… جو فن کار اپنے عملِ تخلیق میں کاوش اور محنت سے کام لے گا اس پر یہ نکتہ خودبخود روشن ہو گا کہ صنائعِ معنوی کے استعمال کی غایت کیا ہے۔ جب فن کار شعوری طور پر صنعتیں استعمال کرے گا تو لازماً الفاظ کے استعمال میں محتاط ہو گا اور صرف ایسے الفاظ استعمال کرے گا جو صوتی یا لفظی و معنوی اعتبار سے مربوط ہوں۔ ایسا فن کار اپنے کلمات کی دلالتوں پر غور کرنے کے بعد مفہوم کے ابلاغ و اظہار کے لیے انھیں اس طرح استعمال کرے گا کہ تمام صوتی اور معنوی تلازمے قائم رہیں۔ ۳؎ اقبال، صنائعِ معنوی کے استعمال کی اس غرض و غایت سے بخوبی آگاہ ہیں اور اُن کے کلام میں بدیعِ معنوی کے استعمال سے معجز آثار محاسن پیدا ہوئے ہیں۔ وہ الفاظ کا چنائو کرتے ہوئے معنی کو ہر اعتبار سے مقدم رکھتے ہیں۔ اسی سبب سے اُن کے ہاں اعلیٰ ترین خیالات و افکار کا مؤثر طور پر اِبلاغ ہوا ہے۔ یہ علامہ کا امتیازِ خاص ہے کہ وہ محسناتِ معنوی کو برتتے ہوئے اپنے مطمحِ نظر کی ترسیل و تبلیغ کمال درجے کی بلاغت کے ساتھ کرتے ہیں۔ انھوں نے معنوی بدیعی صنعتوں سے پانچ نمایاں خصایص کا بہ آسانی حصول کیا ہے۔ اول یہ کہ ان سے کلام میں ایہامی یا ذو معنی رنگ ابھرتا نظر آتا ہے، دوم یہ کہ یہ محسنات شعر پاروں میں زور اور دلالت پیدا کرتے ہیں، سوم یہ کہ مبالغہ و استعجاب کے عناصر دلنشین پیراے میں جلوہ افروز ہوتے ہیں، چہارم یہ کہ تقابل و موازنہ کی خصوصیات کے توسط سے پیغامبری کا فریضہ احسن طور پر انجام پاتا ہے اور پنجم اثر آفرینی کی خصوصیت ہے جو انھی بے مثال صنائعِ معنوی کے ذریعے حاصل ہوئی ہے۔ ذیل میں اُردو شعرِ اقبال میں محسناتِ معنویہ کے خصایص پر روشنی ڈالی جاتی ہے: (ا) ذو معنویت یا ایہامی صورت اقبال نے اپنے کلام میں ذو معنویت پیدا کرنے یا اشعار کے ایہامی پہلوئوں کو ابھارنے کے لیے صنعتِ تدبیج، صنعتِ ایہام، صنعتِ ایہام تضاد، ایہام تناسب، تاکید المدح بما یشبہ الذم، تاکید الذم بمایشبہ المدح، صنعتِ محتمل الضدّین یا صنعتِ توجیہ، صنعتِ استتباع اور صنعتِ ادماج جیسی معنوی صنعتوں سے کیا ہے۔ ان صنعتوں کی گتھی سلجھاتے ہوئے قاری نہ صرف بھرپور حظ اٹھاتا ہے بلکہ تمام تر معنوی دلالتیں اور قرینے اُس پر روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ صنعتِ تدبیج وہ معنوی صنعت ہے جس کے ذریعے شاعر کلام کو یوں آراستہ کرتا ہے کہ اس سے کوئی مطلب بطریقِ کنایہ یا ایہام کے رنگوں میں بیان ہو جائے۔ مصنف بحر الفصاحت نے اسے صنعتِ طباق یا تضاد ہی کی ایک قسم قرار دیا ہے۔ ۴؎ اقبال اپنی شاعری کے ایہامی پہلو کو تقویت دینے کے لیے اس صنعت سے خاص استفادہ کرتے ہیں، مثلاً ذیل کے اشعار میں کیفیاتِ فراق اور اسلام کے بے حدود وثغور تصورِ ملت کو پیش کرتے ہوئے تدبیج کی صنعت سے کام لے کر کلام کے کنایاتی اسلوب کو گہرا کیا گیا ہے: زرد رخصت کی گھڑی عارضِ گلگوں ہو جائے کششِ حسن غمِ ہجر سے افزوں ہو جائے ۵؎ تیرے حرم کا ضمیر اسود و احمر سے پاک ننگ ہے تیرے لیے سُرخ و سپید و کبود ۶؎ صنعتِ ایہام جسے ’’توریہ‘‘ ۷؎، ’’تخییل‘‘ ۸؎ اور ’’توھیم‘‘ ۹؎ بھی کہا جاتا ہے اور انگریزی میں جو "Amphilboly" کے عین مطابق بھی قیاس کی جاتی ہے۱۰؎ اس کے لفظی معنی وہم میں ڈالنے یا چھپانے کے ہیں۔ اصطلاحاً اس سے مراد یہ ہے کہ شاعر کلام میں ایسا لفظ لاتا ہے، جس کے دو معنی ہوں، ایک قریب کے اور دوسرے بعید کے۔ خوبی اس کی یہ ہے کہ اس لفظ سے پڑھنے والے کا گمان قریب کے معنوں کی طرف جائے مگر شاعر کی مراد معنیِ بعید ہوں۔ نجم الغنی نے اس کی دو اقسام ’’ایہامِ مجرد‘‘ (معنی قریب کے کچھ مناسبات کلام میں مذکور نہ ہوں) اور ’’ایہام مر شحہ‘‘ (معنی قریب کے کچھ مناسبات مذکور ہوں) بتائی ہیں۔۱۱؎ علامہ اس صنعت سے مؤثر طور پر ذومعنویت پیدا کرتے ہیں۔ جیسے: موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی ہے ’الم‘ کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی ۱۲؎ صبحِ غربت میں اور چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ ۱۳؎ کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش ۱۴؎ ایہام ہی کے سلسلے میں ’’ایہامِ تضاد‘‘ اور ’’ایہامِ تناسب‘‘ بڑی خیال انگیز صنعتیں ہیں۔ ایہام تضاد سے مراد یہ ہے کہ کلام میں دو ایسے معنی جمع کیے جائیں جن میں آپس میں تو تضاد یا تقابل نہ ہو لیکن جن الفاظ کے ساتھ اُن کو تعبیر کیا جائے، اُن کے معنیِ حقیقی کے اعتبار سے اُن میں تضاد ضرور ہو۔ اقبال بڑی مشاقی کے ساتھ ایک لفظ کے حقیقی معنی دوسرے کے مجازی معنوں کے ساتھ یوں جمع کر دیتے ہیں کہ اُن کے مجازی معنوںکا حقیقی کے ساتھ تضاد ہوتا ہے یا دونوں کے مجازی معنوں کو یوں جمع کرتے ہیں کہ اُن کے معنیِ حقیقی میں تضاد ہوتا ہے مثلاً لکھتے ہیں: خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یادِ فصلِ بہار خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں ۱۵؎ ہم کو جمعیّتِ خاطر یہ پریشانی تھی ورنہ اُمّت ترے محبوبؐ کی دیوانی تھی ۱۶؎ مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا ۱۷؎ جبکہ صنعتِ ایہام تناسب کے ضمن میں اقبال نے اس شعری خوبی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کلام میں دو لفظ ایسے استعمال کیے ہیں جن کے قریب و بعید کے دونوں معنوں یا معنیِ مطلوب و مقصود اور معنیِ غیر مطلوب و مقصود میں ایک گونہ مناسبت ہے۔ اس طریقے سے اُن کے ہاں ترسیلِ مطلب میں بڑی خوش سلیقگی پیدا ہو گئی ہے، جیسے: نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں ۱۸؎ گِریہ ساماں مَیں کہ میرے دل میں ہے طوفانِ اشک شبنم افشاں تُو کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا ۱۹؎ آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی ۲۰؎ اقبال نے تاکید المدح بما یشبہ الذّم اور تاکید الذّم بما یشبہ المدح کے استعمال سے بھی کلام کے ذو معنوی ابعاد نکھارے ہیں یعنی ان کے ہاں مذکور پہلی صنعت کے تحت تعریف کی تاکید ایسے لفظوں سے کی جاتی ہے جو ہجو یا ذم سے مشابہت رکھتے ہیں۔ پہلی نظر ڈالنے پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مذمت کر رہے ہیں مگر بغور دیکھیں تو تعریف مقصود ہوتی ہے۔ دوسری معنوی صنعت کی رو سے علامہ ہجو یا مذمت کی تاکید ایسے الفاظ سے کرتے ہیں جو مدح سے خاصی مشابہت رکھتے ہیں۔ ذیل میں دونوں صنعتوں کے انطباق کی مثالیں دی جاتی ہیں: تاکید المدح بما یشبہ الذّم: مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ ۲۱؎ تاکید الذّم بما یشبہ المدح: مثلِ انجم اُفقِ قوم پہ روشن بھی ہوئے بتِ ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا ۲۲؎ صنعتِ توجیہ یا ’’متحمل الضدّین‘‘ ۲۳؎ جسے بعض اوقات ’’ذی جہتین‘‘ ۲۴؎ اور ’’ذوالوجہین‘‘ ۲۵؎ بھی کہہ لیا جاتا ہے، بنیادی طور پر وہ صنعت ہے جس کو برتتے ہوئے شاعر کلام میں ایسے الفاظ لاتا ہے جن کے معانی میں دو مختلف وجوہ کا شائبہ ہوتا ہے اور دونوں ہی وجوہات آپس میں تضاد کا تعلق رکھتی ہیں تاہم ایک کو دوسری پر فوقیت نہیں ہوتی یعنی کلام کے دونوں معنی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ علامہ اس سے بڑی نادرہ کاری کرتے ہیں۔ خصوصاً ظریفانہ کلام میں یہ شعری خوبی بڑا لطف دیتی ہے، جیسے: لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ۲۶؎ صنعتِ استتباع یا ’’صنعت المدح الموجّہ‘‘ ۲۷؎ یا ’’ستایشِ دو رویہ‘‘ ۲۸؎ بھی ایہامی و ذو معنی شعری خوبی ہے۔ اس کے تحت شاعر اپنے کلام میں کسی مظہر یا شخص کی مدح اس طرح سے کرتا ہے کہ ایک مدح سے ضمنی طور پر دوسری مدح پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال نے اس معنوی صنعت سے اپنے شعر پاروں کو گہرائی عطا کی ہے اور یہ محسنۂ شعری اس روانی سے پیوند ہوئی ہے کہ پہلی نظر ڈالنے پر احساس ہی نہیں ہو پاتا البتہ غور کرنے پر اُن کی فنّی پختگی کی داد دینا پڑتی ہے، مثلاً لکھتے ہیں: کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب تُو جو چاہے تو اُٹھے سینۂ صحرا سے حباب رہروِ دشت ہو سیلی زدۂ موجِ سراب ۲۹؎ کعبۂ اربابِ فن! سطوتِ دینِ مبیں تجھ سے حرم مرتبت اُندلسیوں کی زمیں ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں! آہ وہ مردانِ حق! وہ عربی شہسوار حاملِ ’’خلق عظیم‘‘، صاحبِ صدق و یقیں جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے، شاہی نہیں! جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں ۳۰؎ اسی ضمن میں صنعتِ ادماج یا ’’ذوالمعنین‘‘ ۳۱؎ بھی ایسی صنعت ہے جس سے شاعر اپنے کلام سے دونوں معنوں کا حصول کرتا ہے تاہم دوسرے معنی کی تصریح نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ’’استتباع‘‘ کی طرح محض مدح ہی ضروری نہیں ہے اور ’’ایہام‘‘ کی طرح ایک لفظ کے دو معنی پیش کرنے کے بجاے پورے کلام کے دو معنوں کی طرف توجہ ہوتی ہے، جن کا متضاد ہونا ضروری نہیں ہے۔ اقبال نے اس شعری خوبی سے بھی پہلو داری کا وصف ابھارا ہے، مثلاً شعر دیکھیے جسے سوالیہ انداز میں پڑھنے سے دوسرے معنی سمجھ میں آتے ہیں: پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ۳۲؎ (ب) زور اور دلالت شعرِ اقبال کا مقصود چونکہ پیغامبری تھا لہٰذا وسایلِ شعری سے استمداد لیتے ہوئے بسا اوقات وہ پرزور اور مدلّل صنعتوں کو مقدم رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں صنعتِ جمع، صنعتِ مزاوجہ، صنعتِ قول بالموجب، صنعتِ مذہب کلامی اور صنعتِ ایراد المثل وہ صنائعِ معنوی ہیں جن سے کلام کے زور اور دلالت میں بجا طور پر اضافہ ہوا ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ان صنعتوں کی دل پذیری لائقِ داد ہے۔ بعض اوقات تو کسی خاص سراغ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے کسی صنعت کو سمویا ہے وگرنہ زیادہ تر اشعار میں بڑی بے ساختگی سے مدلل و پرزور آہنگ ابھرا ہے۔ پھر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وہ کسی بھی مقام پر صوتی آہنگ کی دلنشینی میں کمی نہیں آنے دیتے، جو ایک عمدہ شعر پارے کا جزوِ لاینفک ہے۔ صنعتِ جمع ، وہ صنعت ہے جس کے تحت شاعر کئی امور کو کسی ایک ہی حکم کے تابع لا کر زور اور دلالت پیدا کر دیتا ہے۔ اقبال کے کلام میں یہ انداز نمایاں ہے اور وہ جابجا اپنے موقف پر اصرار کرنے کی خاطر اس بلیغ صنعتِ شعری سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس صنعت سے ان کی شاعری میں جامعیت کا وصف بھی پیدا ہو گیا ہے: بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ۳۳؎ زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی ۳۴؎ قہّاری و غفّاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان! ۳۵؎ خود گیری و خودداری و گلبانگِ ’انا الحق‘ آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات ۳۶؎ صنعتِ مزاوجہ، جسے ’’مزاوجت‘‘ ۳۷؎ یا ’’صنعتِ دو رویہ‘‘ ۳۸؎ بھی کہتے ہیں، وہ صنعتِ معنوی ہے جس کے تحت شاعر دو معنی شرط و جزا میں ایسے پیش کرتا ہے کہ جو امر پہلے معنی پر مترتب ہوتا ہو، وہی دوسرے پر بھی ہو۔ چونکہ لغت میں ’’مزاوجہ‘‘ دو چیزوں کو ملانے کو کہتے ہیں، اس لیے یہاں شاعر شعوری طور پر اس طرح کے معنی پیش کرنے کی کاوش کرتا نظر آتا ہے۔ اقبال نے اس صنعت کا بھی اس روانی سے التزام کیا ہے کہ کلام زیادہ مدلل ہو گیا ہے، لکھتے ہیں: واعظ! کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے ۳۹؎ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تُو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن ۴۰؎ صنعتِ قول بالموجب سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی کے کلام میں کوئی لفظ واقع ہو تو اُس لفظ کے معنی کو خلافِ مراد اس کہنے والے کے محمول کریں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں شدت پیدا کرنے کے لیے اس خصوصیت کو بھی بڑا برمحل موزوں کیا ہے، لکھتے ہیں: شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود ۴۱؎ صنعتِ مذہب کلامی تو خاص طور پر شاعری میں زور اور دلالت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے اس کی وساطت سے اپنے کلام کو دلائل و براہین کا خزینہ بنایا ہے اور بعض اہم نتائج کا احسن طور پر استخراج کیا ہے۔ ’’بعض عالموں نے مذہب کلامی کو علیحدہ صنعت شمار نہیں کیا۔ اُن کے خیال میں اصل صنعت کا نام ’’صنعتِ احتجاج بدلیل‘‘ ہے یعنی دلیل سے کلام کو مدلل کرنا۔ احتجاج بدلیل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک مذہب کلامی اور دوسری مذہب فقہی۔ جو کلام علماے متکلمین کے کلام کی مانند دلیل و برہان پر مشتمل ہو، وہ مذہب کلامی ہے اور جو کلام علماے فقہ کے کلام کی مانند تمثیل پر مشتمل ہو، وہ مذہب فقہی۔‘‘۴۲؎ اقبال نے اس صنعت کا خاصا استعمال کیا ہے اور بعض اوقات تو وہ اس حوالے سے پوری پوری نظمیں لکھ ڈالتے ہیں۔ چند اشعار سے اس محسنۂ معنوی کا رنگ ملاحظہ کیجیے: دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں ۴۳؎ ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہِ نو کمال کس کو میسّر ہوا ہے بے تگ و دو ۴۴؎ عشق و مستی نے کیا ضبطِ نفس مجھ پہ حرام کہ گرہ غنچے کی کھلتی نہیں بے موجِ نسیم! ۴۵؎ محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا ۴۶؎ صنعت ایراد المثل یا ’’ارسال المثل‘‘ ۴۷؎ یا ’’دستانزنی‘‘ ۴۸؎ بھی ایک اعتبار سے صنعتِ مذہب کلامی ہی کی طرح مدلل مزاج رکھتی ہے۔ شاعر اس کے تحت کسی ضرب المثل کو موزونیت کے ساتھ لاتا ہے۔ علامہ کے ہاں یہ صنعت بھی بڑی رواں، بے ساختہ اور برمحل ہے۔ دیکھیے: زور چلتا نہیں غریبوں کا پیش آیا لکھا نصیبوں کا آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے اس سے پالا پڑے خدا نہ کرے ۴۹؎ الٰہی سحر ہے پیرانِ خرقہ پوش میں کیا کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں ۵۰؎ فراقِ حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تُو پری کو شیشۂ الفاظ میں اُتار نہ تُو ۵۱؎ (ج) مبالغہ و استعجاب صنائعِ معنوی کے موزوں و بر محل استعمال سے کلام اقبال میں فطری طور پر مبالغہ و استعجاب کے عناصر بھی نمود کرتے ہیں۔ ایسی مبالغہ آمیز صنعتوں میں صنعتِ تجرید، تجاہلِ عارفانہ یا تجاہلِ عارف، صنعتِ رجوع، صنعتِ حسن تعلیل، صنعتِ تعجب، صنعتِ مبالغہ اور صنعتِ تصلیف شامل ہیں۔ علامہ کے ہاں تحیّر لازمۂ شعر ہے اور ایک اعتبار سے یہ انھی صنائعِ معنوی کا اعجاز ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ استعجابیہ رنگ و آہنگ کی تشکیل میں کامیاب رہے ہیں اور بلند مرتبت فکری شاعری کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ یہ جب تحیّر آمیز پیراے میں ڈھلتی ہے تو حد درجہ متاثر کن ہو جاتی ہے۔ یہ وصف اکثر اقبال کو شعری و فکری جودت سے ہمکنار کر گیا ہے۔ صنعتِ تجرید سے مراد کلام میں ایک ذی صفت شے سے ایک اور اُسی طرح کی ذی صفت شے حاصل کرنا ہے اور شاعر کی غرض ہی اس سے مبالغہ کرنا ہے۔ جلال الدین ہمائی نے اپنی کتاب فنونِ بلاغت و صناعاتِ ادبی میں اسے ’’خطاب النفس‘‘ کے مترادف خیال کیا ہے ۵۲؎ اس صنعت کے تحت شاعر، شعر کو جامع الصفات بنا ڈالتا ہے اور مقصود اس سے سرتا سر مبالغے اور حیرت کا حصول ہے۔ دیکھیے اقبال کس طرح ایک کے بعد دوسری صفت بیان کر کے پہلی صفت میں مبالغے کی لے تیز تر کر دیتے ہیں: محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے ۵۳؎ عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام! عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک عشق ہے صہباے خام عشق ہے کأس الکرام عشق فقیہہِ حرم، عشق امیرِ جنود عشق ہے ابن السّبیل اس کے ہزاروں مقام! ۵۴؎ صنعت تجاہلِ عارفانہ یا ’’تجاہل العارف‘‘۵۵؎ ، ’’نادان نمایی‘‘ ۵۶؎ یا Rhetoric Question۵۷؎ جسے قرآن کریم میں مستعمل ہونے کے سبب سے تقدس کے پیشِ نظر ’’سوق المعلوم مساق غیرہ‘‘ بھی کہا گیا ہے۵۸؎، وہ صنعت ہے جس کے ذریعے شاعر کسی چیز کے متعلق جان بوجھ کر غفلت یا بے خبری برتتا ہے اور اس سے اس کا مقصد مبالغے میں زیادتی ہوتا ہے۔ اقبال نے اس صنعتِ معنوی کو بھی ماقبل کے کلاسیکی شعرا کے مقابلے میں کمال درجے کی فنّی مہارت کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ خصوصاً ان کے تشبیہاتی نظام کی تشکیل میں صنعتِ تجاہلِ عارفانہ کا اہم حصہ ہے۔ جیسے لکھتے ہیں: جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرّہ ہے یا نمایاں سُورج کے پیرہن میں ۵۹؎ میں کہاں ہوں تو کہاں ہے؟ یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟ یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی؟ ۶۰؎ اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک کس ہاتھ نے کھینچی ابدیّت کی یہ تصویر؟ ۶۱؎ خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ ۶۲؎ صنعتِ رجوع یا ’’بازگشت‘‘۶۳؎میں شاعر اپنے شعر پارے میں ایک شے کی کوئی صفت بیان کرنے کے بعد اس کا بطلان کر کے از دِیاد مدح کی خاطر کسی دوسری بہتر صفت کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے اس کا مقصود رنگِ مبالغہ کو شوخ کرنا ہوتا ہے۔ بازگشت کی یہ صنعت اس قدر لطیف ہے کہ قاری بھرپور طور پر حظ اٹھاتا ہے۔ علامہ کے مبالغہ آمیز پیراے اس صنعت کی کرشمہ کاریاں دکھاتے ہیں مثلاً: تو خاک کی مُٹھی ہے، اجزا کی حرارت سے برہم ہو، پریشاں ہو، وسعت میں بیاباں ہو ۶۴؎ تخیلات کی دنیا غریب ہے، لیکن غریب تر ہے حیات و ممات کی دنیا ۶۵؎ صنعتِ حسن تعلیل یا ’’بھانگی نیک‘‘۶۶؎ کے تحت شاعر ایک ایسی چیز کو دوسری کے لیے علت یا وجہ ٹھہراتا ہے جو حقیقت میں اس کاسبب نہیں ہوتی مگر اُسے باور کرنے میں لطف آتا ہے۔ شاعرانہ مبالغے کی تعمیر میں اس صنعت کا خاصا اہم کردار ہے اور یہ براہِ راست معنویت و دلنشینی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ علامہ اس کی کاریگری سے کماحقہ آگاہ ہیں اور اسے بڑے قرینے سے برتتے ہیں، جیسے: محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں ۶۷؎ عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگِ آرزو، ہجر میں لذّتِ طلب ۶۸؎ جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو ۶۹؎ اقبال، صنعتِ تعجب کے ذریعے اپنی شاعری میں استعجابیہ رنگ کو قوی تر کر دیتے ہیں۔ اس صنعت کو شعر میں سموتے ہوئے شاعر کسی امر پر تعجب و تحیّر کا اظہار کرتا ہے اور بڑی خوش سلیقگی سے اپنی بات پہنچانا چاہتا ہے۔ علامہ کے شعری اوراق میں حیرت کے عناصر جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو اُن کے برّاق ذہن پر دالّ ہیں، مثلاً: چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے جو اوج ایک کا ہے، دوسرے کی پستی ہے ۷۰؎ دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی ۷۱؎ دل کیا ہے، اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے کیوں اس کی اک نگاہ اُلٹتی ہے تختِ کے ۷۲؎ تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ! کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ مَے خانہ! ۷۳؎ صنعتِ مبالغہ یا ’’مقبولہ‘‘۷۴؎ یا ’’مبالغۂ مقبول‘‘۷۵؎ جسے کسی قدر انگریزی میں "Amplificaton" کے مترادف بھی قرار دیا جا سکتا ہے۷۶؎، وہ صنعت ہے جس کے ذریعے کلام میں کسی امر کو ایسی شدت سے بیان کیا جاتا ہے کہ اُس حد تک اُس کا پہنچنا ناممکن یا بعید از قیاس ہو۔ محققینِ بدیع اس کے تین درجات بتاتے ہیں: نمبر۱: ’’تبلیغ‘‘ (مبالغہ عقل و عادت دونوں کے نزدیک ممکن ہو)۔ نمبر۲ :’’اغراق‘‘ (مبالغہ عقل کے لحاظ سے ممکن اور عادت کے اعتبار سے ناممکن ہو) ۔ نمبر۳: ’’غلوّ‘‘ (عقل و عادت دونوں سطحوں پر مبالغہ ناممکن ہو)۔ اقبال نے خوشگوار مبالغے کا اظہار کیا ہے اور اُن کے ہاں خلافِ عقل اور خلافِ عادت مبالغہ آمیزی یعنی غلوّ پر مبنی بیانات کم ملتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے اشعار کو چیستاں نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ شعریت کے ساتھ ساتھ ترسیلِ مطلب کا فریضہ بھی ہر لحظہ اُن کے پیشِ نظررہتا تھا۔ وہ اگر کہیں مبالغے کی بڑھی ہوئی صورت یعنی غلوّ کا اظہار کرتے بھی ہیں تو اس کے لیے شعر میں ایسی شرط لگا دیتے ہیں یا کوئی ایسا امر واجب کر دیتے ہیں کہ وہ اغراق کے درجے پر آ جاتا ہے۔ مبالغہ ان کی شاعری کا لازمی عنصر ہے اور اُن کا نظریۂ زیست اس سے نکھر کر سامنے آتا ہے۔ وہ جن آفاقی تصورات کو پیش کرنا چاہتے تھے، اُن کی بُنت مبالغے کی رنگ آمیزی کے بغیر ممکن بھی نہ تھی، تاہم یہاں بھی مطمحِ نظر، شعری بیان پر حاوی ہے، دیکھیے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ ۷۷؎ محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ۷۸؎ خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے اس آبجو سے کیے بحرِ بیکراں پیدا ۷۹؎ خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے ظاہر تری تقدیر ہو سیماے قمر سے ۸۰؎ صنعتِ تصلیف بھی مبالغہ و تعجب کی تشکیل میں معاونت کرتی ہے۔ اس صنعت کی وساطت سے شاعر جابجا تفاخر کا اظہار کرتا اور اپنے حق میں شیخی بگھارتا دکھائی دیتا ہے۔ علامہ نے بھی اپنی شاعری میں مبالغہ و تعلّی پر مبنی اس صنعت کا استعمال کیا ہے مگر یہاں بھی اُن کی جدت و انفرادیت قابلِ دید ہے: کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی ۸۱؎ زیارت گاہِ اہلِ عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی ۸۲؎ ترا گناہ ہے اقبال مجلس آرائی اگرچہ تو ہے مثالِ زمانہ کم پیوند! جو کوکنار کے خوگر تھے اُن غریبوں کو تری نوا نے دیا ذوقِ جذبہ ہاے بلند! ۸۳؎ مری نواے غم آلود ہے متاعِ عزیز جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد گلہ ہے مجھ کو زمانے کی کور ذوقی سے سمجھتا ہے مری محنت کو محنتِ فرہاد ۸۴؎ (د) تقابل و موازنہ شعرِ اقبال میں بعض صنائعِ معنوی نے تقابل و موازنہ کی فضا بھی مؤثر طور پر تشکیل دی ہے۔ اس ضمن میں اقبال صنعتِ طباق یا تضاد، صنعتِ تفریق، صنعتِ تقسیم، صنعتِ جمع و تفریق اور صنعتِ جمع و تقسیم سے کام لے کر کلام میں اس قدر جاذبیّت اور تاثیر پیدا کر دیتے ہیں کہ بات دل میں اُترتی چلی جاتی ہے۔ خصوصاً صنعتِ تضاد یا طباق کا انھوں نے کثرت سے استعمال کیا ہے اور ان کے ہاں معنی آفرینی میں اس شعری خوبی کا نہایت اہم حصہ ہے۔ وہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تقابل و موازنہ کے ذریعے کلام میں استدلالی رنگ ابھرتا ہے اور بعض اہم تصورات و نظریات کی تفہیم سہل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ متذکرہ معنوی صنعتوں کی وساطت سے ان مقاصد کو عمدگی سے حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ صنعتِ طباق یا تضاد جسے ’’تطبیق‘‘ و ’’تکافو‘‘ ۸۵؎، ’’تقابلِ ضدّین‘‘۸۶؎، ’’متضاد‘‘۸۷؎، ’’مطابقت‘‘۸۸؎ اور ’’ناسازی‘‘۸۹؎ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور جو انگریزی میں "Antithesis" کہلاتی ہے ۹۰؎، بنیادی طور پر وہ صنعت ہے جس کے تحت شاعر اپنے کلام میں دو ایسے الفاظ لاتا ہے جن کے معنوں میں ضد یا مقابلے کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اسے دو اقسام، ایجابی اور سلبی میں منقسم کیا جاتا ہے۔ تضاد ایجابی میں متضاد الفاظ کے ہمراہ حرفِ نفی کا التزام نہیں کیا جاتا جبکہ تضاد سلبی میں حرفِ نفی کے اہتمام کے بجاے دو ایک ہی مصدر سے مشتق ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں جن میں سے ایک مثبت اور دوسرا منفی ہوتا ہے۔ علامہ کلام میں تضاد و تخالف کی نزاکتوں سے بخوبی آگاہ تھے، لہٰذا وہ بڑے دل پذیر انداز میں تواتر سے اس صنعت پر اپنی چابکدستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ انھوں نے طباق کی دونوں صورتوں، طباق ایجابی اور طباق سلبی کو اپنی شاعری میں سمو کر حیرت انگیز نتائج کا حصول کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاں طباق ایجابی کو برتنے کا رجحان زیادہ ہے اور بعض اوقات ایک ہی نظم میں اس قسم پر مبنی کئی شعر مل جاتے ہیں۔ علامہ نے اس صنعتِ معنوی سے استفادہ کرتے ہوئے بھی فطری بے ساختگی کو مقدم رکھا ہے جس کے باعث کہیں بھی محض صنعت کو ٹھونسنے کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ انھوں نے صنعت تضاد یا طباق کی وساطت سے نہ صرف اپنے بنیادی تصورات کی تقابلی انداز میں توضیح کی ہے بلکہ بعض اہم امور مثلاً زمانے کا تغیر و تبدل، کیفیاتِ ظاہریہ و باطنیہ میں تفاوت، افراط و تفریط اور قدیم اور جدید تہذیب کے فرق کو ظاہر کرنے کے لیے بھی اس صنعتِ شعری سے فایدہ اٹھایا ہے۔ حتیٰ کہ اقبال کے محبوب اور مرکزی تصورات کی تشکیل بھی اس صنعت سے استمداد کی بنا پر زیادہ عمدگی سے ہوئی ہے۔ بعض اوقات وہ اپنی منظومات کے عناوین تک تضاد کی صورت میں قائم کر دیتے ہیں۔ بعینہٖ بعض اوقات پوری پوری نظم میں اس صنعت کی نادرہ کاری ملتی ہے۔ اقبال کے تخلیق کردہ کچھ کردار بھی تضاد و تقابل ہی کے نتیجے میںنمایاں ہوئے ہیں۔ شعرِ اقبال میں یہ صنعت نہ صرف سنجیدہ شاعری میں مستعمل ہے بلکہ اُن کے ظریفانہ کلام میں بھی اس محسنۂ شعری کی قوت و کاریگری کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ علامہ کی بعض شعری تراکیب کا حُسن بھی صنعتِ تضاد میں ڈھل کر زیادہ نکھرتا ہے۔ مثلاً اس سلسلے میں ’’وصال و فراق‘‘، ’’عقل و عشق‘‘، ’’دوش و فردا‘‘، ’’فقر و شاہنشہی‘‘، ’’نار اور نور‘‘ ، ’’ظلمت و ضیا‘‘ اور ’’تدبیرو تقدیر‘‘ اُن کی کلیدی تراکیب ہیں۔ اقبال کے ہاں طباقِ ایجابی اور طباقِ سلبی کا انداز ذیل کے اشعار سے بخوبی مترشح ہوتا ہے: طباق ایجابی: کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ۹۱؎ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصّہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں ۹۲؎ جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا ۹۳؎ آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک ۹۴؎ طباق سلبی: گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ ۹۵؎ نگاہ وہ نہیں جو سُرخ و زرد پہچانے نگاہ وہ ہے کہ محتاجِ مہر و ماہ نہیں ۹۶؎ حقائقِ ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسمِ افلاطوں! ۹۷؎ روشن تو وہ ہوتی ہے، جہاں بیں نہیں ہوتی جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نگہِ پاک ۹۸؎ صنعتِ تفریق کے تحت شاعر ایک ہی نوع کی دو چیزوں میں فرق ظاہر کرتا ہے اور اس سے اُس کا مقصود ان کے مابین پائے جانے والے تفاوت کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ اقبال نے اس صنعت کو بھی موازنہ و تقابل کے لیے مستعار لیا ہے اور اپنے نظریات کی تفہیم کے لیے اسے عمدگی سے معاون ٹھہرایا ہے، مثلاً: تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیّارا ۹۹؎ بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا ۱۰۰؎ تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا ۱۰۱؎ محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طربناک ۱۰۲؎ اسی طرح صنعتِ تقسیم کے تحت شاعر چند چیزوں کا ذکر کر کے ہر ایک کو اُن کے منسوبات پر تعیین کی قید سے تقسیم کرتا ہے یا صفات کو تعین کے ساتھ ترتیب دیتا ہے۔ اقبال اس شعری خوبی سے بھی موازنے کی دلچسپ صورتِ حال تخلیق کرتے ہیں، جیسے: پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس ۱۰۳؎ کر بلبل و طائوس کی تقلید سے توبہ بلبل فقط آواز ہے طائوس فقط رنگ ۱۰۴؎ تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب ۱۰۵؎ صنعتِ جمع و تفریق اور صنعتِ جمع و تقسیم بھی اسی قبیل کی صنعتیں ہیں جو کلام میں تقابلی فضا پیدا کر دیتی ہیں۔ صنعتِ جمع و تفریق یا ’’صنعتِ جمع مع التفریق‘‘ ۱۰۶؎ میں شاعر اپنے شعر میں دو یا زاید امور کو ایک ہی حکم کے تحت جمع کرتا ہے اور پھر ان میں کوئی فرق ظاہر کرتا ہے۔ گویا ایک ہی شعری مقام پر صنعتِ جمع اور تفریق یکجان ہو جاتی ہیں بعینہٖ صنعتِ جمع و تقسیم یا ’’جمع مع تقسیم‘‘۱۰۷؎ میں بہت سی چیزوں کو شعر میں ایک ہی حکم کے تحت جمع کر کے اور پھر ان میں سے ہر ایک کو کسی اور چیز کے ساتھ منسوب کر کے اُن کو اُن کے مناسبات پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ شعرِ اقبال سے ہر دو حوالوں سے موازنہ و مقابلہ کی مثالیں بالترتیب ملاحظہ کیجیے: یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے ’عَلَّم الاسما‘ مقامِ ذکر، کمالاتِ رومی و عطّار مقامِ فکر، مقالاتِ بو علی سینا مقامِ فکر ہے پیمایشِ زمان و مکاں مقامِ ذکر ہے ’سبحان ربی۔ّ الاعلیٰ‘ ۱۰۸؎ یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا ۱۰۹؎ (ہ) اثر آفرینی صنائعِ معنوی میں صنعتِ مراعاۃ النظیر، صنعتِ لف و نشر، صنعتِ اعتراض یا حشو، صنعتِ سوال و جواب، صنعتِ تشابہ الاطراف، صنعتِ اطراد، صنعتِ عکس، صنعتِ مشاکلہ اور صنعتِ ترجمۃ اللفظ وہ صنعتیں ہیں جو کلامِ اقبال میں اثر آفرینی کا سبب بنی ہیں۔ انھیں برتنے سے اقبال کے کلام میں اس قدر تاثیر پیدا ہو گئی ہے کہ پڑھنے والا ہر بار نئے لطف سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ متذکرہ معنوی صناعات کی پیشکش خاصی کدو کاوش کی مقتضی ہے تاہم علامہ نے اس کے باوصف روانی، بے ساختگی اور برجستگی کو اس حد تک برقرار رکھا ہے کہ کہیں ذرّہ برابر بھی جھول محسوس نہیں ہوتا۔ یہ صنعتیں ہر اعتبار سے شعرِ اقبا ل میں اثر انگیزی اور عذوبت و کشش کا ایک بڑا محرک ہیں۔ صنعتِ مراعاۃ النظیر، جسے ناقدینِ فن نے ’’تناسب‘‘، ’’ایتلاف‘‘، ’’تلفیق‘‘ ، ’’توفیق‘‘۱۱۰؎ ’’متناسب‘‘۱۱۱؎، ’’رعایتِ نظر‘‘۱۱۲؎، ’’ھمبستگی‘‘ ۱۱۳؎ اور ’’مؤاخات‘‘۱۱۴؎ سے بھی تعبیر کیا ہے، بنیادی طور پر وہ معنوی شعری خوبی ہے جس میں شاعر اپنے کلام میں ایسے الفاظ لانے کا اہتمام کرتا ہے جن کے درمیان تضاد کے علاوہ کوئی نسبت یا تعلق ہو۔ علامہ نے اس صنعت کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ وہ اس صنعت کے ذریعے خیال افروزی کا وصف پیدا کرتے ہیں۔ اگرچہ اس صنعت کو پیوندِ شعر کرتے ہوئے شعوری کاوش نہایت اہم ہے تاہم اقبال کی شاعری میں آمد کا احساس ہر جگہ نمایاں ہے۔ ان کے کلام کے مراعاۃ النظیری پہلو کی موفقیت کا اندازہ ذیل کے اشعار سے بخوبی ہوتا ہے: واں بھی جل مرتا ہے سوزِ شمع پر پروانہ کیا؟ اُس چمن میں بھی گل و بلبل کا ہے افسانہ کیا؟ کیا وہاں بجلی بھی ہے دہقاں بھی ہے خرمن بھی ہے قافلے والے بھی ہیں اندیشۂ رہزن بھی ہے ۱۱۵؎ اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر ۱۱۶؎ ترا بحر پُر سکوں ہے! یہ سکوں ہے یا فسوں ہے؟ نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابیِ کنارہ! ۱۱۷؎ وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں عشق سیتا ہے انھیں بے سوزن و تارِ رفو ۱۱۸؎ اقبال، صنعتِ لف و نشر کا بڑی روانی سے استعمال کرتے ہیں اور اس ضمن میں بھی وہ تاثیرِ معنوی کو افضلیت دیتے ہیں۔ لغت میں ’’لف‘‘ کے معنی لپیٹنا اور ’’نشر‘‘ کے معنی پھیلانا کے ہیں۔ اصطلاحاً ’’لف‘‘ سے مراد چند چیزوں کا کلام میں ایک جگہ ذکر کرنا ہے اور ’’نشر‘‘ کے معنی ان چیزوں کے مناسبات کو بغیر تعیین کے بیان کرنا ہیں۔ اگر چیزوں کے مناسبات کا ذکر ان اشیا کی ترتیب کے مطابق ہو جن کا ذکر لف میں کیا گیا ہے تو اسے ’’لف و نشر مرتب‘‘ کہتے ہیں اور اگر ان مناسبات کے ذکر میں ترتیب ملحوظ نہ ر کھی جائے تو اس قسم کو ’’لف و نشر غیر مرتب‘‘ کہتے ہیں۔ اقبال نے ان دونوں صورتوں کا اہتمام کیا ہے: لف و نشر مرتب: ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی ۱۱۹؎ نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میں ہلاکِ جادوے سامری، تو قتیلِ شیوۂ آزری ۱۲۰؎ لف و نشر غیر مرتب: نہ فلسفی سے نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد ۱۲۱؎ وہی نگاہ کے ناخوب و خوب سے محرم وہی ہے دل کے حلال و حرام سے آگاہ ۱۲۲؎ صنعتِ اعتراض یا حشو، جسے ’’اعتراض الکلام قبل التمّام‘‘ ۱۲۳؎ اور ’’اِعراض الکلام‘‘۱۲۴؎ بھی کہتے ہیں، وہ صنعتِ معنوی ہے جس کے تحت شاعر اپنے کلام میں ایک لفظ یا زاید الفاظ ایسے لاتا ہے کہ شاعری اُن کے بغیر بھی کُلّی فایدہ دیتی ہو۔ اس کی تین صورتیں ’’حشوِ قبیح‘‘، (کلام میں ایسے الفاظ بڑھانا کہ ان سے اداے معنی میں خوبی کے بجاے خامی پیدا ہو)، ’’حشوِ اوسط‘‘ (ایسے الفاظ بڑھانا کہ ان سے نہ خوبی پیدا ہو اور نہ خلل) اور ’’حشوِ ملیح‘‘ (اشعار میں وہ الفاظ زاید لانا کہ اُن کے در آنے سے سر تا سر خوبی پیدا ہو) ہیں، ان تینوں میں سے ’’حشوِ ملیح‘‘ یعنی تیسری صورت ہی اصل شعری خصوصیت ہے جسے ’’حشو لوزینج‘‘ یا ’’حشوِلوزینہ‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۱۲۵؎ اقبال نے بھی حشو ِملیح سے جودتِ فکر کا اظہار کیا ہے، جیسے: جرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے ’خاکم بدہن‘ ہے مجھ کو ۱۲۶؎ تمدّن آفریں، خلّاقِ آئینِ جہاں داری وہ صحراے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا ۱۲۷؎ میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا حق سے جب حضرتِ مُلّا کو ملا حکمِ بہشت! عرض کی میں نے الٰہی مری تقصیر معاف خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت ۱۲۸؎ صنعتِ سوال و جواب یعنی اشعار میں سوال و جواب لانا بھی ایک پُرتاثیر شعری خوبی ہے۔ اسے ’’مراجعہ‘‘۱۲۹؎، ’’مرافعہ‘‘ ۱۳۰؎ یا ’’پُرسش و پا سخ‘‘ ۱۳۱؎سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ صنعت ایک مصرعے، مکمل شعر یا دو اور دوسے زاید اشعار کی شکل میں ہو سکتی ہے۔ علامہ کے ہاں تاثیرِ شعری سے بھرپور یہ شعری خوبی اُن کے دلکش اور پر اثر مکالمات کی شکل میں ڈھل گئی ہے جو ان کے ہاں ڈرامائیت کی تشکیل میںاہم کردار ادا کرتے ہیں، مثلاً: عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بُھولے بھٹکے کی رہنما ہُوں میں بوند اک خون کی ہے تُو لیکن غیرتِ لعلِ بے بہا ہُوں میں دل نے سُن کر کہا یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہُوں میں رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں ۱۳۲؎ تاثیرِ کلام ہی کے ضمن میں اقبال نے صنعتِ تشابہ الاطراف سے بھی کام لیا ہے، جس کے تحت کلام کو ایسی شے کے ساتھ تمام کیا جاتا ہے جو ابتدا کے ساتھ مناسبت رکھتی ہو۔ یہ خصوصیت شعرِ اقبال میں ویسے بھی موجود ہے اور تقریباً ہر اچھا شاعر دونوں مصرعوں کی مطابقت کا خیال رکھتا بھی ہے، مثلاً اقبال لکھتے ہیں : تھا سراپا رُوح تُو بزمِ سخن پیکر ترا زیبِ محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا ۱۳۳؎ صنعتِ اطراد کے تحت شاعر اپنے ممدوح یا قابلِ مذّمت شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے اُس کے باپ دادا کا نام بالترتیب یا بغیر کسی ترتیب سے لاتا ہے تاکہ اپنے مطمحِ نظر کو قاری کے ذہن میں پوری تاثیر کے ساتھ راسخ کر سکے۔ علامہ صنعتِ تلمیح کے ساتھ صنعتِ اطراد کا امتزاج کر کے کمال کی اثر انگیزی پیدا کر دیتے ہیں، جیسے: بُت شکن اُٹھ گئے باقی جو رہے بُت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں ۱۳۴؎ صنعتِ عکس، کو ’’صنعتِ تبدیل‘‘ ۱۳۵؎، ’’طرد‘‘ ۱۳۶؎یا ’’مقلوبِ مستوی‘‘ ۱۳۷؎ بھی کہتے ہیں۔ اس میں کلام کے بعض اجزا کو مقدم اور مؤخر کر کے، پھر مؤخر کو مقدم اور مقدم کو مؤخر لایا جاتا ہے۔ شعرِ اقبال میں یہ انداز دیکھیے: دُنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اُس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا ۱۳۸؎ پسند اس کو تکرار کی خُو نہیں کہ تُو میں نہیں اور میں تُو نہیں ۱۳۹؎ جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ ۱۴۰؎ صنعتِ مشاکلہ یا ’’مشاکلت‘‘۱۴۱؎ میں شاعر دو چیزوں کا ذکر کرتا ہے اور ان دونوں کو ایک جگہ مذکور ہونے کی مناسبت سے ایک ہی لفظ سے تعبیر کر دیتا ہے: رعبِ فغفوری ہو دنیا میں کہ شانِ قیصری ٹل نہیں سکتی غنیمِ موت کی یورش کبھی ۱۴۲؎ مرا دل مری رزم گاہِ حیات! گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات ۱۴۳؎ اس صنعتِ معنوی کے ذریعے شاعر کلام میں ایک لفظ کے بعد دوسرا لفظ ایسا لاتا ہے جو اُس کا ترجمہ ہو اور اس سلسلے میں یہ قطعاً لازمی نہیںکہ دونوں لفظ آپس میں مربوط ہوں، اقبال نے صنعتِ ترجمۃ اللفظ سے اپنے کلام میں بلاغت و علمیّت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اثر انگیزی کے لیے بھی اسے مستعار لیا ہے۔ مثلاً علامہ کے شعر دیکھیے: شجر ہے فرقہ آرائی تعصّب ہے ثمر اس کا یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو ۱۴۴؎ شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے ۱۴۵؎ اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سُرود آغاز صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز ۱۴۶؎ تو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی ۱۴۷؎ گویا صنائعِ لفظی کی طرح صنائعِ معنوی بدیع کے سلسلے میں بھی علامہ نے مکمل فنی کاریگری کا ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے ان معنوی صنعتوں سے ذو معنویت و ایہام، زور اور دلالت، مبالغہ و استعجاب، تقابل و موازنہ اور اثر آفرینی کے خصایص جس عمدگی سے ابھارے ہیں، وہ اُن کے کمالِ شعری کی قوی دلیل ہے۔ اقبال کے ہاں صناعانہ خوبیاں زیادہ تر معانی کی تمام تر دلالتوں کو واضح اور روشن کرنے کے لیے مستعمل ہیں۔ اُن کے اس قبیل کے شعری تجربات سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر مقامات پر صنائع بدائع زیورِ کلام ہونے کے باوصف اُس وقت زیادہ مؤثر اور کارگر ہو گئے ہیں جب انھیں معنویت اور اثر آفرینی کے لیے مستعار لیا گیا ہے۔ یوں بھی اگر اقبال جیسا پیغام بر اور فلسفی شاعر محسنات لفظی و معنوی کو بطور وسیلۂ شعر اپناتا ہے تو ان سے لفظی موشگافیاں ہرگز مطلوب نہیں ہو سکتیں بلکہ یقینی طور پر ان کا مقصود جدتِ فکر پر مبنی نظریات و تصورات کا ابلاغ یا مکمل معنوی ابعاد کے ساتھ اذہان و قلوب پر اثر انداز ہونا ہی ٹھہرے گا۔ چنانچہ شعرِ اقبال میں اس حقیقت کا عملی اطلاق اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ نمود کرتا ہے جو یقیناً شاعرانہ صنعت گری میں اجتہادی پہلو سے عبارت ہے۔ اسی سبب سے اقبال بدیعِ معنوی کو جزوِ کلام بناتے ہوئے کہیں بھی ٹھوکر نہیں کھاتے۔ چونکہ وہ الفاظ و معانی کی مطابقتِ تام کا خیال رکھتے ہیں، اس لیے بھی یہ صنعتیں زیادہ دل پذیر ہیں اور آرایش و زیبایشِ کلام سے کہیں بڑھ کر پڑھنے والے کو بے مثل مطالب و مفاہیم کا اسیر کر لیتی ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ صنعتیں خیال افروزی اور تخیّل انگیزی کے اوصاف پیدا کرنے میں بھی ممیز و ممتاز ہیں۔ ژ…ژ…ژ حوالے ۱- میمنت میر صادقی، واژہ نامۂ ہنرِ شاعری، تہران، کتاب مہناز، طبع دوم ۱۳۷۶،ص ۳۹۔ ۲- میر جلال الدین کزازی، بدیع، (زیباشناسی سخن پارسی)،تہران، کتاب مادوابستہ بہ نشر مرکز، طبع ششم ۱۳۸۱،ص ۹۶۔ ۳- عابد علی عابد، شعرِ اقبال، لاہور، بزمِ اقبال ۱۹۹۳ئ،ص ۳۳۷۔ ۴- نجم الغنی، بحر الفصاحت، لاہور، مقبول اکیڈمی (طبع نو) ۱۹۸۹ئ،ج ۲، ص ۱۰۲۱۔ ۵- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)،اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۹۰ئ، ص۹۷۔ ۶- علامہ محمد اقبال، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)،ص۱۲۴۔ ۷- شمس الدین فقیر، حدائق البلاغۃ (ترجمہ) امام بخش صہبائی، کانپور: مطبع نامی منشی نولکشور ۱۸۸۷ئ،ص ۷۳۔ ۸- رشید الدین وطواط، حدائقُ السحر فی دقائقِ الشعر، بکوشش عباس اقبال، ایران، کتاب خانۂ طھوری و سنائی ۱۳۶۲، ص ۳۹۔ ۹- جلال الدین ہمائی، فنونِ بلاغت و صناعاتِ ادبی، تہران، انتشارات توس، طبع سوم ۱۳۶۴،ج ۲، ص ۲۶۹۔ ۱۰- لطف اللہ کریمی، اصطلاحاتِ ادبی، تہران، مجمع علمی و فرہنگی مجد ،طبع اول ۱۳۷۲،ص ۲۹۔ ۱۱- نجم الغنی، بحر الفصاحت، ج ۲، ص ۱۰۲۵۔ ۱۲- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۶۶۔ ۱۳- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۰۶۔ ۱۴- ایضاً، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۰۴۔ ۱۵- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۲۶۔ ۱۶- ایضاً، ص۱۷۵۔ ۱۷- ایضاً، ص۲۵۰۔ ۱۸- ایضاً، ص۱۷۴۔ ۱۹- ایضاً، ص۱۰۵۔ ۲۰- ایضاً، ص۲۰۵۔ ۲۱- ایضاً، ص۱۰۸۔ ۲۲- ایضاً، ص۲۱۷۔ ۲۳- نجم الغنی، بحر الفصاحت، ج ۲، ص ۸۶۔ ۲۴- محمد قلندر علی خاں، بہار بلاغت، حصار، ۱۹۲۴ئ، ص ۹۲۔ ۲۵- رشیدالدین وطواط، حدائقُ السحر فی دقائقِ الشعر، ص ۳۶۔ ۲۶- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۹۹۔ ۲۷- نجم الغنی، بحر الفصاحت، ج ۲، ص ۱۰۹۳۔ ۲۸- میرجلال الدین کزازی، بدیع، ص ۱۴۸۔ ۲۹- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۷۸۔ ۳۰- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۰۱۔ ۳۱- سحر بدایونی،دیبی پرشاد، معیار البلاغت، لکھنؤ:مطبع نامی منشی نولکشور،۱۸۸۵ئ،ص ۵۱۔ ۳۲- علامہ محمد اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۰۔ ۳۳- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۷۷۔ ۳۴- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۸۴۔ ۳۵- ایضاً، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۷۳۔ ۳۶- ایضاً، ’’ارمغان حجاز‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۴۹۔ ۳۷- محمد قلندر علی خاں، بہارِ بلاغت، ص ۷۴۔ ۳۸- میر جلال الدین کزازی، بدیع، ص ۱۴۵۔ ۳۹- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۱۷۔ ۴۰- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۴۳۔ ۴۱- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۱۵۔ ۴۲- نذیر احمد، اقبال کے صنائع بدائع، لاہور،آئینۂ ادب، طبع اول ۱۹۶۶ئ،ص ۱۵۹۔ ۴۳- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۹۹۔ ۴۴- ایضاً، ’’بال جبریل ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۷۵۔ ۴۵- ایضاً، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۴۲۔ ۴۶- ایضاً، ’’ارمغان حجاز‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۱۔ ۴۷- نجم الغنی، بحر الفصاحت، ج ۲، ص ۱۱۱۰۔ ۴۸- میرجلال الدین کزازی، بدیع، ص ۱۱۲۔ ۴۹- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۴۷۔ ۵۰- ایضاً، ص۱۵۰۔ ۵۱- ایضاً، ص۱۳۶۔ ۵۲- جلال الدین ہمائی: فنونِ بلاغت و صناعاتِ ادبی، ج ۲، ص ۲۹۸۔ ۵۳- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۸۶۔ ۵۴- ایضاً، ’’بال جبریل ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۹۷۔ ۵۵- شمس الدین فقیر، حدائق البلاغۃ (ترجمہ) امام بخش صہبائی، ص ۸۷۔ ۵۶- میر جلال الدین کزازی، بدیع، ص ۱۰۹۔ ۵۷- بحوالہ لطف اللہ کریمی، اصطلاحاتِ ادبی، ص ۱۱۴۔ ۵۸- بحوالہ شمس الدین فقیر، حدائق البلاغۃ (ترجمہ) امام بخش صہبائی، ص ۸۷۔ ۵۹- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۹۴۔ ۶۰- ایضاً، ’’بال جبریل ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۳۰۔ ۶۱- ایضاً، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۲۸۔ ۶۲- ایضاً، ’’ارمغان حجاز‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۵۷۔ ۶۳- میر جلال الدین کزازی، بدیع ، ص ۱۲۷۔ ۶۴- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۹۶۔ ۶۵- ایضاً، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۴۵۔ ۶۶- میر جلال الدین کزازی، بدیع ، ص ۱۶۳۔ ۶۷- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۱۴۔ ۶۸- ایضاً، ’’بال جبریل ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۱۸۔ ۶۹- ایضاً، ص۲۸۔ ۷۰- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۵۷۔ ۷۱- ایضاً، ’’بال جبریل ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۰۸۔ ۷۲- ایضاً، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۲۷۔ ۷۳- ایضاً، ’’ارمغان حجاز ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۵۳۔ ۷۴- شمس الدین فقیر، حدائق البلاغۃ (ترجمہ) امام بخش صہبائی، ص ۷۸۔ ۷۵- دیبی پرشاد، معیار البلاغت، ص ۴۸۔ ۷۶- دیکھیے، لطف اللہ کریمی، اصطلاحاتِ ادبی، ص ۳۰۔ ۷۷- علامہ محمد اقبال، ’’بال جبریل ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۶۰۔ ۷۸- ایضاً، ص۱۶۰۔ ۷۹- ایضاً، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۱۳۔ ۸۰- ایضاً، ص۱۳۳۔ ۸۱- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۰۹۔ ۸۲- ایضاً، ’’بال جبریل ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۹۔ ۸۳- ایضاً، ’’ضرب کلیم ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۴۔ ۸۴- ایضاً، ’’ارمغان حجاز ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۶۰۔ ۸۵- شمس الدین فقیر، حدائق البلاغۃ، (مترجم) ص ۶۵۔ ۸۶- دیبی پرشاد، معیار البلاغت، ص ۴۴۔ ۸۷- محمد قلندر علی خان، بہارِ بلاغت، ص ۶۹۔ ۸۸- محمد سجاد مرزا بیگ، تسہیل البلاغت، دہلی: محبوب المطابع برقی پریس ۱۹۲۱ئ،ص ۱۶۷۔ ۸۹- میر جلال الدین کزازی، بدیع، ص ۱۰۵۔ ۹۰- بحوالہ لطف اللہ کریمی، اصطلاحاتِ ادبی، ص ۳۳۔ ۹۱- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۹۵۔ ۹۲- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۳۱۔ ۹۳- ایضاً، ’’ضرب کلیم ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۸۳۔ ۹۴- ایضاً، ’’ارمغان حجاز ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۵۲۔ ۹۵- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۰۸۔ ۹۶- ایضاً، ’’ضرب کلیم ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۹۰۔ ۹۷- ایضاً، ص۶۲۔ ۹۸- ایضاً، ’’ارمغان حجاز ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۳۵۔ ۹۹- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۹۱۔ ۱۰۰- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۳۶۔ ۱۰۱- ایضاً، ’’ضرب کلیم ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۴۵۔ ۱۰۲- ایضاً، ’’ارمغان حجاز ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۵۲۔ ۱۰۳- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۳۷۔ ۱۰۴- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۷۷۔ ۱۰۵- ایضاً، ص۱۱۷۔ ۱۰۶- دیبی پرشاد، معیار البلاغت، ص ۴۷۔ ۱۰۷- ایضاً ۔ ۱۰۸- علامہ محمد اقبال، ’’ضرب کلیم ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۳۵۔ ۱۰۹- ایضاً، ص۲۶۔ ۱۱۰- نجم الغنی، بحر الفصاحت، ج ۲، ص ۱۰۲۸۔ ۱۱۱- رشید الدین وطواط ، حدائقُ السحر فی دقائقِ الشعر، ص ۳۴۔ ۱۱۲- محمد قلندر علی خان، بہارِ بلاغت، ص ۷۲۔ ۱۱۳- میر جلال الدین کزازی، بدیع، ص ۱۰۳۔ ۱۱۴- جلال الدین ہمائی، فنونِ بلاغت و صناعاتِ ادبی، ج ۲، ص ۲۵۹۔ ۱۱۵- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۵۴۔ ۱۱۶- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۵۳۔ ۱۱۷- ایضاً، ’’ضرب کلیم ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۴۹۔ ۱۱۸- ایضاً، ’’ارمغان حجاز ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۴۸۔ ۱۱۹- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۸۔ ۱۲۰- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۲۶۴۔ ۱۲۱- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۷۲۔ ۱۲۲- ایضاً، ’’ضرب کلیم ‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۸۴۔ ۱۲۳- رشید الدین وطواط، حدائقُ السحر فی دقائقِ الشعر، ص ۵۲۔ ۱۲۴- محمد قلندر علی خان، بہارِ بلاغت ، ص ۹۵۔ ۱۲۵- جلال الدین ہمائی ، فنونِ بلاغت و صناعاتِ ادبی، ج ۲، ص ۳۳۲۔ ۱۲۶- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۷۴۔ ۱۲۷- ایضاً، ص۱۹۱۔ ۱۲۸- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۲۱۔ ۱۲۹- دیبی پرشاد، معیار البلاغت، ص ۵۳۔ ۱۳۰- محمد سجاد مرزا بیگ، تسہیل البلاغت، ص ۱۸۰۔ ۱۳۱- میر جلال الدین کزازی، بدیع، ص ۱۵۴۔ ۱۳۲- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۵۶۔ ۱۳۳- ایضاً، ص۳۹۔ ۱۳۴- ایضاً، ص۲۱۳۔ ۱۳۵- شمس الدین فقیر، حدائق البلاغۃ، (مترجم)،ص ۷۲۔ ۱۳۶- دیبی پرشاد، معیار البلاغت، ص ۴۶۔ ۱۳۷- محمد قلندر علی خان، بہارِ بلاغت، ص ۷۵۔ ۱۳۸- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۷۰۔ ۱۳۹- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۲۹۔ ۱۴۰- ایضاً، ص۱۷۱۔ ۱۴۱- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۶۰۔ ۱۴۲- جلال الدین ہمائی، فنونِ بلاغت و صناعاتِ ادبی، ج ۲، ص ۳۰۲۔ ۱۴۳- علامہ محمد اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۶۰۔ ۱۴۴- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۸۶۔ ۱۴۵- ایضاً، ص۱۱۷۔ ۱۴۶- ایضاً، ص۱۴۱۔ ۱۴۷- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیاتِ اقبال(اُردو)، ص۱۵۳۔ ئ……ئ……ء پاکستان میں اقبالیاتی ادب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قیامِ پاکستان سے اب تک کے ساٹھ برسوں پر محیط ’’اقبالیاتی ادب‘‘ مختلف النوع، ہمہ گیر اور کثیر الاطراف ہے۔ اس کی حدود بہت وسیع ہیں، یہ ذخیرہ کم وبیش دس شاخوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اس گلستانِ ادب میں ایسے اقبالیاتی مصادر بھی منصہ شہود پر آئے جو اقبالیات میں بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور کلامِ اقبال کے تفہیم و تجزیہ کے ضمن میں بھی سیکڑوں کتب منظرعام پر آئیں۔ اقبال کے فکروفن اور شخصیت وکردار پر نہایت قیمتی سرمایۂ کتب وجود میں آیا۔ نقدوانتقاد اور تعریف و توصیف دونوں اعتبار سے اقبال اور فکرِ اقبال کا جائزہ لیا گیا۔ اس نہایت اہم اور دقت طلب کام میں نامور اقبال شناس بھی شریک رہے اور ایسے اہلِ علم وفکر بھی جو اقبال کے فکروفلسفہ کے ڈانڈے مغرب کے تصوراتِ علم و تہذیب سے ملاتے رہے۔ ساٹھ برس پر محیط اس کام پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے اس کی وسعت، پھیلائو، تنوع، اثرات اور گہرائی و گیرائی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ ممکن ہے اس جائزے میں بہت سے نشانات نظر سے اوجھل رہ گئے ہوں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تاہم کوشش کی گئی ہے کہ اس سلسلۂ قلم وقرطاس کی کوئی کڑی نظرانداز نہ ہونے پائے۔ اس جائزے سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ اقبالیات کے ثانوی مآخذ کے ساتھ ساتھ بنیادی مآخذ پر دقیق تحقیقی کام کی ضرورت اب بھی موجود ہے جس کی طرف ماہرین اور محققین کو توجہ کرنی چاہیے۔ نامور ادیب اور مدیر مخزن سر شیخ عبد القادر (۱۸۷۴ئ- ۱۹۵۰ئ) اُردو میں مطالعۂ اقبال کے پہل کار (Pioneer) ہیں۔ اگرچہ زبان دہلی (نومبر ۱۸۹۳ء اور فروری۱۸۹۴ئ) اور شورِ محشر لاہور (دسمبر ۱۸۹۶ئ) میں چند غزلوں کی اشاعت، لاہور کے مشاعروں میں شرکت اور انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے (۲۴ فروری ۱۹۰۰ئ) میں پیش کردہ نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ کے ذریعے اقبال چند محدود حلقوں میں تو متعارف ہو چکے تھے مگر وسیع تر دنیاے شعر و ادب میں ان کے تعارف اور رونمائی کا اعزازاقبال کے دیرینہ دوست اور مدّاح سر شیخ عبدالقادر کو حاصل ہے جنھوں نے مخزن (اپریل ۱۹۰۱ئ، ص ۳۳) میں اُن کی نظم ’’کوہستان ہمالہ‘‘ شائع کرتے ہوئے قارئین کو بتایا کہ شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے: ’’علومِ مغربی و مشرقی دونوں میں صاحبِ کمال ہیں۔ انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعراے انگلستان ورڈز ورتھ کے رنگ میں کوہِ ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔‘‘ ۱؎ مخزن کے مابعد شماروں میں اقبال کی غزلیں اور نظمیں، سر عبد القادر کی تعارفی اور تنقیدی سطور کے ساتھ شائع ہونے لگیں۔ بعض نثری مضامین بھی مخزن ہی کے ذریعے منظر عام پر آئے۔ اقبال کی متذکرہ بالا شعری اور نثری تخلیقات کے تمہیدی نوٹ، ایک اعتبار سے اقبال کی شخصیت کے تعارف اور ان کی شاعری پر تنقید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال پر شیخ صاحب کا پہلا مضمون خدنگِ نظر لکھنؤ (مئی ۱۹۰۲ئ) میں شائع ہوا۔ انھوں نے ازاں بعد بھی متعدد سوانحی اور تنقیدی مضامین لکھے جن میں بانگِ درا کا دیباچہ تو اقبالیاتی تحریروں میں ایک کلاسیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ (مشمولہ مجموعۂ مضامین: نذر اقبال، مرتب: محمد حنیف شاہد۔ بزم اقبال لاہور، ۱۹۷۲ئ) یوں بیسویں صدی کے ربع اول میں اقبال کو متعارف کرانے والوں میں سر شیخ عبد القادر سرفہرست ہیں۔ اگلے ہی برس ’’تنقید ہمدرد‘‘ (قلمی نام: حکیم عبد الکریم برہم) نے اقبال کی شاعری کو ہدفِ تنقید بنایا (اُردوے معلّٰی، یکم اگست ۱۹۰۳ئ) اس پر ایک قلمی معرکہ آرائی شروع ہو گئی جس میں خود اقبال کو بھی حصہ لینا پڑا۔ (مخزن ، اکتوبر ۱۹۰۳ئ)۔ ابتدائی دور کا دوسرا اہم نام محمد دین فوق کا ہے۔ اقبال کی ابتدائی سوانحی کتابوں میں اکثر و بیشتر فوق ہی کے بیانات (۱۹۰۹ئ، ۱۹۳۲ئ) کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ مطالعۂ اقبال کی پیش رفت میں نظم ’’شکوہ‘‘ (۱۹۰۹ئ) کے ردِ عمل میں لکھی جانے والی نظموں، ازاں بعد اسرارِ خودی (۱۹۱۵ئ) کے حوالے سے قلمی معرکہ آرائی نے بھی اقبالیاتی ادب میں معتدبہ اضافہ کیا، تاآنکہ صدی کا پہلا ربع ختم ہوتے ہوئے پیامِ مشرق (۱۹۲۳ئ) اور بانگِ درا (۱۹۲۴ئ) کی اشاعت نے اقبال پرتعارفی و توضیحی اور تنقیدی تحریروں کے سلسلے کو اور آگے بڑھایا۔ نیرنگِ خیال کا اقبال نمبر (۱۹۳۲ئ) اقبالیاتی ادب کے دورِ اول کی قابلِ ذکر دستاویزہے۔ اقبال کے مزید شعری مجموعوں کی اشاعت اور ان کی وفات نے اقبالیاتی مطالعے کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ ۱۹۴۷ء تک معروف علمی اور ادبی پرچوں میں بلا مبالغہ سیکڑوں مضامین چھپے، بعض وقیع اقبال نمبر نکلے اور چند اہم کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول کے ذخیرۂ اقبالیات پر مجموعی نظر ڈالیں تو زیادہ تر تحریریں تشریحی اور توضیحی نوعیت کی ہیں۔ ان میں اقبال کی پیغمبرانہ حیثیت کی تحسین کی گئی ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بقول سید وقار عظیم: علامہ ’’اقبال کے فکری نظام کی اساس اسلامی ہے‘‘۔ ۲؎ اس کے ساتھ، ان تحریروں میں اقبال کی تحسین و توصیف کا عقیدت مندانہ رجحان غالب ہے البتہ بعض اہل قلم کے ہاں ایک گہرا تنقیدی شعور اور تجزیہ و تحلیل کا ایک بہتر معیار ملتا ہے۔ ’’تنقید ہمدرد‘‘ سے جس مخالفانہ تنقید کا آغاز ہوا تھا، اس کا ایک اور زاویہ سامنے آیا اور وہ یہ کہ اقبال کے بعض معاصرین نے ان کے افکار سے اختلاف کیا خصوصاً ترقی پسند نقادوں (سبطِ حسن، اختر حسین راے پوری وغیرہ) کی طرف سے اختلاف اور مخالفت سے آگے بڑھ کر تعصب اور عناد کے چھینٹے بھی اڑائے گئے۔ ۳؎ برکت علی گوشہ نشین (اقبال کا شاعرانہ زوال ۱۹۳۱ء اور مکائد اقبال ۱۹۳۵ئ) کی فرقہ پرستی اور تعصب نے جارحانہ عناد کی شکل اختیار کر لی۔ اقبال کے بعض قارئین کو یہ شکوہ تھا کہ اقبال ’’ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘‘ کہتے کہتے ’’مسلم ہیں ہم‘ وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کہنے لگے۔ پنڈت آنند نرائن مُلانے بھی یہی شکوہ کیا ہے: ع ہندی ہونے پر ناز جسے کل تک تھا، حجازی بن بیٹھا۴؎ شاید اسی پس منظر میں خطبۂ الٰہ آباد پر بعض ہندو اخباروں نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ پرتاپ نے علامہ کو’’ شمالی ہند کا ایک خوفناک مسلمان‘‘ قرار دیا اور لکھا ’’وہ شاعر ہے، نہ فلاسفر، نہ محبِ وطن ہے۔ وہ ایک تنگ خیال، تنگ نظر اور انتہا درجے کا متعصب مسلمان ہے‘‘۔ ۵؎ بہرحال اقبالیات کے اس ذخیرے سے ایک بات تو بہت واضح ہوتی ہے کہ اقبال اپنی زندگی ہی میں ایک لی۔جند(legend) کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ ہندستان کی تقسیم (۱۹۴۷ئ) تک مطالعہ اقبال کے جو مختلف روپ نظر آتے ہیں، آگے چل کر انھوں نے نسبتاً واضح شکل اختیار کر لی۔ یہاں مطالعۂ اقبال کا ایک دور ختم ہوتا ہے اس کے بعد بھارت اور پاکستان میں مطالعۂ اقبال کی جہتوں نے ایک دوسرے سے قدرے مختلف صورتیں اختیار کرلیں۔ ’’بھارت میں مطالعۂ اقبال‘‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون ہماری کتاب اقبالیاتی جائزے [لاہور، ۱۹۹۱ئ] میں شامل ہے۔ ’’اقبالیاتِ پاکستان‘‘پر ذیل میں چند معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی تحریروں، خصوصاً خطبۂ الٰہ آباد اور محمد علی جناح کے نام خطوط میں، ہندی مسلمانوں کے لیے ہندستان کے شمال مغربی خطے میں ایک علاحدہ وطن کی تجویز و تمنا کا اظہار کیا تھا۔ گو، انھوں نے اس کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا، مگر ۱۴ ؍ اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہونے والی مملکتِ خداداد … پاکستان… علامہ اقبال ہی کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ علامہ اقبال کی حیثیت بھی، فکری اعتبار سے، بانیِ پاکستان ہی کی ہے۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد یہاں کے سیاسی، تعلیمی اور علمی و ادبی حلقوں میں ذکر اقبال اور مطالعۂ اقبال کی جانب ایک رغبت و اِعتنا بالکل فطری بات تھی۔ اقبال کی تعریف و تحسین کے ساتھ، ان پر ادبی نقد و انتقاد، کلامِ اقبال کی توضیح و تشریح اور مختلف زبانوں میں ان کے تراجم بھی ہونے لگے۔ اس طرح اقبالیات، ایک علمی و ادبی شعبے کی حیثیت سے رُو پذیر ہونا شروع ہوا۔ محدود پیمانے پر ۱۹۷۳ء میں اقبال کا صد سالہ یوم ولادت منایا گیا۔ ۶؎ بعد ازاں جب حکومت پاکستان نے سال ۱۹۷۷ء کو ’’اقبال صدی‘‘ کا نام دیا تو نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں مطالعۂ اقبال کے رجحان میں اضافہ ہونے لگا۔ حکومت پاکستان کی سر پرستی میں لاہور میں، ۲ تا ۸ دسمبر ۱۹۷۷ء ، پہلی عالمی (اور تا حال تاریخِ اقبالیات کی سب سے بڑی) اقبال کانگرس منعقد ہوئی۔ سال اقبال کے دوران میں تعلیمی اور علمی اداروں میں وسیع پیمانے پر تقریبات منعقد ہوئیں۔ ملک میں ایک عمومی اقبالیاتی فضا پیدا ہوتی گئی۔ ہمارے اہل قلم اور ناشرین نے بھی محسوس کیا کہ اقبالیات ایک پُر کشش موضوع ہے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اقبالیاتی ادب کا ایک سیلاب امڈ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے رطب و یا بس کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اقبالیات پر چھوٹی بڑی کتابوں، جامعات کے تحقیقی مقالوں اور مجلات کے خاص اقبال نمبروں کی تعداد دو ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے۔ رسائل و اخبارات میں شائع ہونے والے ہزارہا مضامین و مقالات ان کے علاوہ ہیں۔ اس بحرزخّار کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ’’اقبالیاتِ پاکستان‘‘ کا ہے۔ یوں اردو ادب کی اس نئی اور نوخیز صنف ادب ’’اقبالیات‘‘ نے ارد وکی دیگر اصناف کے مقابلے میں نسبتاً ایک مختصر عرصے میں، حیرت انگیز برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ اقبالیات کی اس سریع فروغ پذیری کو علامہ اقبال کی طلسماتی شخصیت کا اعجاز سمجھنا چاہیے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شیخ عبد القادر جس ’’مسٹر محمد اقبال، ایم اے‘‘ کو بطور ایک شاعر اردو دنیا میں متعارف کرا رہے تھے، ایک صدی بعد، آج انھیں اردو یا کم از کم بیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ ساٹھ برسوں میں اقبال کے تعلق سے وجود میں آنے والا ’’اقبا لیاتی ادب‘‘ مختلف النوع اور ہمہ گیر ہے اور کثیر الاطراف بھی۔ اس کی حدود خاصی وسیع ہیں۔ اگر صرف ذخیرۂ کتب و رسائل ہی کو دیکھیں تو اس کے تنوع، ہمہ جہتی اور وسعت کا اندازہ ہو جائے گا۔ مثلاً: ۱- علامہ اقبال کے متد اول اور متروک کلام کے مجموعے اور نثری متون ۲- نظم و نثرِ اقبال کے تراجم ۳- حوالہ جاتی کتابیں (فرہنگیں۔ کتابیات۔ اشاریے) ۴- سوانح اور شخصیت پر کتابیں اور ملفوظات کے مجموعے ۵- اقبال کے افکار و تصورات، فکر و فن اور فلسفے پر تحقیقی و توضیحی اور تنقیدی کتابیں اور مباحث ۶- یونی ورسٹیوں کے امتحانی تحقیقی مقالے ۷- کلامِ اقبال کی شرحیں ۸- اقبال پر منظوم کتابیں ۹- متفرق کتابیں (بچوں کے لیے کتابیں، نصابی کتابیں، سووینیر، کوئز کتابیں وغیرہ) ۱۰- علمی و ادبی رسائل کے اقبال نمبر اس طرح اقبالیات کا تحریری ذخیرہ کم و بیش دس شاخوں میں پھیلا ہوا ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں اقبالیات کے ان دسیوں پہلوؤں پر بہت کچھ شائع ہوا ہے اور یہ سب شاخیں خوب برگ و بار لائی ہیں۔ ۶۰ برسوں کا جائزہ بھی اقبالیات کے انھی عناوین و دوائر میں مناسب و با معنی ہو گا۔ اقبالیات کے مختلف شعبوں پر نظر ڈالنے سے قبل، یہ بتانا ضروری ہے کہ اقبالیاتِ پاکستان کی نصف صدی میں کچھ ایسے اقبالیاتی مصادر منصۂ شہود پر آئے ہیں جو اقبالیات میں بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مآخذ اس عرصے کی اہم ترین دریافت و بازیافت ہیں۔ ذیل میں ان کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے: ۱- اقبال کی قلمی بیاضیں اور مختلف شعری مجموعوں کے مسودات ۲- اقبال کے دست نوشت (hand-written) نثری مسودے الف: خطبۂ علی گڑھ:The Muslim Community ب: اقبال کی موعودہ تصنیف تاریخ تصوف کے چند ابواب ج: ایک انگریزی مضمون بہ عنوان: Bedil, in the Light of Bergson د: ایک ورق بعنوان: The Problem of Time in Muslim Philosophy ہ: اقبال کی نوٹ بک:Stray Reflections و: سیکڑوں اردو اور انگریزی خطوط(جن میں بڑی تعداد تو مولانا گرامی، چودھری محمد حسین، راغب احسن اور مہاراجا کشن پرشادکے نام خطوں کی ہے۔ متفرق خطوط بھی خاصی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اقبال کے دست نوشت ہیں۔ ) اقبالیات میں متذکرہ بالا بنیادی مآخذ کی قد ر و قیمت محتاج وضاحت نہیں۔ ان کی بنیاد پر علامہ اقبال کے متداول شعری متون کی تصحیح، متروکاتِ شعری کی مختلف صورتوں کا تعین، اردو اور انگریزی نثر اور خطوط کی اصل نوعیت واضح ہو گئی ہے۔ اب متون اقبال کی تصحیح اور تہذیب و تدوین، نیز ان پر تحقیق زیادہ آسان ہو گئی ہے، اور ان سمتوں میں اقبال شناسوں نے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ مآخذ ہی کے ضمن میں، اس عرصے میں اقبال کی سوانح اور شخصیت سے متعلق بہت سی معاصر روایات فراہم ہوئی ہیں۔ ان میں نذیر نیازی، خواجہ عبد الوحید، غلام رسول مہر، عبد المجید سالک، پروفیسر حمید احمد خاں، م ش، صوفی تبسم اور بعض دیگر معاصرینِ اقبال کی شہادتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ مزید برآں معاصر اخبارات و رسائل میں مطبوعہ لوازمہ بھی قابل توجہ ہے، خصوصیت سے اقبال کے بیانات اور تقاریر اور ان کی سوانح سے متعلق معلومات، جنھیں زیادہ تر محمد عبد اللہ قریشی اور محمد حمزہ فاروقی نے قدیم اخبارات و رسائل سے تلاش و اخذ کر کے کتابی صورت میں مدوّن و مرتب کر دیا ہے۔ اب ہم شعبہ وار، ۶۰ سالہ اقبالیاتی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہیں: ۱ علامہ اقبال کی شہرت و مقبولیت کی بنیاد ان کی اردو اور فارسی شاعری پر ہے۔ ان کے شعری مجموعے ہمیشہ ہی ’’بہترین فروخت‘‘ (best-seller) کے درجے پر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے شعری مجموعوں کی تقطیع، کتابت، اور طباعت و اشاعت کا جو انداز و آہنگ متعین و مقرر کیا تھا، ایک عرصے تک ان کے تمام شعری مجموعے اسی نہج پر شائع ہوتے رہے، مگر لیتھو کی فرسودہ طباعت زیادہ دیر ساتھ نہ دے سکی۔ تقریباً ۲۵ برس بعد، ڈاکٹر جاوید اقبال نے غلام رسول مہر کی نگرانی میں محمود اللہ صدیقی سے پورے کلام کی از سر نو کتابت کرائی اور ۱۹۷۳ء میں بڑے اہتمام سے اردو اور فارسی کے الگ الگ مجموعے اور کلیات بھی شائع کیے گئے۔ (شیخ غلام علی اڈیشن) متن کی متعدد اغلاط، ترتیب و تدوین کی بعض خامیوں ، چند ایک ضروری وضاحتی اشارات کی عدم موجودگی اور اشاریوں میں بہت سے نقائص کے باوجود، کلامِ اقبال کی اشاعت کے ضمن میں، یہ ایک قابل قدر پیش رفت تھی۔ خصوصاً کلیات اردو اور کلیات فارسی کی شکل میں سارے کلام کی یک جلدی اشاعتیں، ایک مستحسن اقدام تھا۔ ۷؎ دوسری بڑی اہم (اور نازک تر) پیش رفت کا آغاز اس وقت ہوا جب ۲۱؍ اپریل ۱۹۸۸ء کے بعد سے، کلامِ اقبال کے ’’حقوقِ اشاعت محفوظ‘‘ کی پچاس سالہ میعاد پوری ہوئی۔ اب ہر ناشر کلامِ اقبال چھاپنے میں آزاد تھا۔ اس کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ ناشرین کے درمیان باہمی تجارتی مسابقت کی وجہ سے کلامِ اقبال کے اردو مجموعے کم قیمت پر دستیاب ہونے لگے۔ اقبال اکادمی نے بھی نئی کتابت میں کلیات اردو کے کئی خوب صورت (ڈی لکس، سپر ڈی لکس اور ارزاں عوامی) اڈیشن شائع کیے۔ سپر ڈی لکس اڈیشن، نہایت حسین اور دیدہ زیب ہیں۔ رشید حسن خاں کے بقول : ’’اس کے صفحات کے حواشی ایسی گل کاری اور رنگ آمیزی سے مزین ہیں کہ کچھ دیر کے لیے تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آنکھوں کی روشنی بڑھ گئی ہو‘‘۔ ۸؎ اسلم کمال کا گراں قیمت مصور کلیات بھی چھپا۔ کلام اقبال کی اس اشاعتِ عام کا ایک منفی پہلو یہ سامنے آیا کہ بعض غیر ذمہ دار ناشرین نے کلامِ اقبال میں من مانے تحریفات و تصرفات کر ڈالے۔ ایک ناشر۹؎ نے تو بڑا ستم ڈھایا۔ بانگِ درا کا دیباچہ اڑا دیا، ترتیب کلام بدل ڈالی، ادوار کی حد بندی ختم کر دی اور لاپروائی کی انتہا یہ کہ کلام کا کچھ حصہ کلیات اردو سے حذف کر دیا۔ ۱۰؎ کیا اقبال کے پاکستان میں کسی ’’مقتدرۂ اقبالیات‘‘ کا قیام ممکن نہیں جو اقبال کا استحصال کرنے والوں کامحاسبہ کرے؟ صحتِ کلام کے لحاظ سے اقبال اکادمی کا تیار و شائع کردہ نسخہ بہتر ہے۔ اس کے عوامی اڈیشن (۱۹۹۴ئ) پر ’’اغلاط سے پاک نسخہ‘‘ کے الفاظ درج کیے گئے تھے (جو درست نہیں تھے) اب انھیں حذف کر دیا گیا ہے۔ اس نسخے کی کتابت برعظیم کے اکثر قارئین کے لیے مانوس اور دل کش نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں شیخ غلام علی اڈیشن کی کتابت زیادہ خوب صورت اور نظر افروز ہے۔ اگر اس نسخے کی: ۱- اغلاطِ متن و املا درست کر لی جائیں۔ ۲- بال جبریل میں غزلیات و قطعات کی اصل ترتیب بحال کر دی جائے۔ ۳- موجودہ اشاریے کی جگہ ایک نیا اور صحیح اشاریہ شامل کیاجائے۔ تو یہ ایک اچھا، معیاری اور مستند اڈیشن ہے۔ بازار میں، کلامِ اقبال کے نوع بہ نوع نسخوں اور اشاعتوں کی کمی نہیں، اس کے باوجود، جناب رشید حسن خاں کے بقول: ’’ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے کہ اقبال کو بہت کچھ ماننے کے باوجود، ان کے کلام کا کوئی تحقیقی اڈیشن اب تک مرتب نہیں ہو پایا ہے‘‘۔ ۱۱؎ اور یہ ایک ایسی کمی ہے جس پر جتنا بھی اظہار افسوس کیا جائے، کم ہے۔ جہاں تک فارسی کلیات کا تعلق ہے، اقبال اکادمی کے نسخے میں جدید ایرانی املا اختیار کیا گیا ہے۔ اس نظام میں غنہ آوازیں نہیں ہیں اور یاے معروف و مجہول اور واو معروف و مجہول کی تفریق بھی ختم ہو گئی ہے، صرف معروف آوازیں باقی رہ گئی ہیں۔ اول تو یہ اقبال کے طرزِ نگارش کے خلاف ہے: دوسرے ایرانی قارئین کے لیے تو یہ نسخہ ٹھیک ہو گا، مگر برعظیم پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے قارئین کے لیے یہ انداز کتابت بہت نا مانوس اور اجنبی ہے اور الجھن میں مبتلا کرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہاں شیخ غلام علی اڈیشن ہی، اغلاط کی تصحیح کے بعد، رائج رہنا چاہیے، اور اردو کلیات کی طرح فارسی کلیات کا بھی ایک تحقیقی اڈیشن مرتب ہونا ضروری ہے۔ اقبال کے متروک کلام پر ان کی بیاضوں، مسودوں اور دیگر مآخذ کی مدد سے ایک قابل قدر کام ڈاکٹر صابر کلوروی کا ہے۔ (ڈاکٹریٹ کا غیر مطبوعہ مقالہ بہ عنوان: باقیات شعرِ اقبال کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ) اب انھوں نے وسیع تر مآخذ کی بنیاد پر کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال مرتب اور شائع کر دیا ہے۔ (اقبال اکادمی لاہور، ۲۰۰۴ئ) جو باقیات و متروکات اقبال کے تمام مجموعوں اور غیر مدوّن متروک کلام کا جامع ہے۔ اقبال کے انگریزی خطبات (Reconstruction) ان کی نثر کی مشکل ترین کتاب ہے۔ پروفیسر محمد سعید شیخ نے برسوں کی محنت کے بعد، اسے ایک قابل رشک معیار پر مرتب کیا ہے (۱۹۸۶ئ)۔ متن کی صحت، حوالوں کی تلاش و تصحیح، اقتباسات کے تعین و تخریج اور حواشی و تعلیقات کے کام میں انھوں نے جس دیدہ ریزی اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے، ایسی محنت و کاوش اقبال کے کسی اور متن کی تدوین پر نہیں کی گئی۔ یہ ایک معیاری و مثالی تحقیقی اڈیشن ہے۱۲؎ ،جسے اقبالیات کے تدوینی کاموں میں نشانِ راہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایک اور اچھی تدوین، اقبال کے ایک نو دریافت انگریزی مضمون Bedil, in the Light of Bergson کی صورت میں سامنے آئی (۱۹۸۶ئ)۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اقبال میوزیم سے اس غیر مطبوعہ مقالے کا دست نوشت مسودہ تلاش کر کے دِقّتِ نظر سے اسے پڑھا، پھر متن کو اردو ترجمے، حواشی اور ایک عالمانہ مقدمے کے ساتھ مطالعہ بیدل، برگساں کی نظر میں کے نام سے شائع کیا۔ ۱۳؎ علامہ نے The Problem of Time in Muslim Philosophy کے نام سے ایک طویل مضمون لکھا تھا۔ اس کے معدوم متن کا صرف ایک ہی ورق دستیاب ہوا، اسے بھی ڈاکٹر تحسین فراقی نے ترجمہ و توضیحات کے ساتھ مرتب کر دیا۔ ۱۴؎ اقبال کی موعودہ تصنیف تاریخِ تصوف کے دو ابواب کا مسودہ صابر کلوروی کو دستیاب ہوا، جسے انھوں نے تاریخِ تصوف کے نام سے بعض حواشی کے ساتھ مرتب کر کے شائع کر دیا ہے،۱۵؎ مگر اپنی اس کاوش پر نظر ثانی اور اس مسودے کی مزید بہتر تدوین کلوروی صاحب کے پر عزم منصوبوں میں شامل ہے۔ خطبۂ علی گڑھ کا پورا متن دستیاب نہ تھا۔ اسے راقم نے جاوید منزل سے بازیافت کر کے ۱۹۸۰ء میں اپنے تحقیقی مقالے کے ساتھ پیش کیا۔ اس پر علامہ کا دست نوشت تمہیدی نوٹ، بسلسلۂ قادیانیت، خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ۱۶؎ علامہ اقبال ۱۹۱۰ء میں ایک نوٹ بک میں بعض شذرات لکھتے رہے، ان شذرات کو انھوں نے Stray Reflections کا نام دیا۔ اقبال کے ذہنی و فکری ارتقا کے سلسلے میں یہ نوٹ بک اہمیت رکھتی ہے۔ ۱۹۶۴ء میں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے اسے مرتب کر کے شائع کر دیا۔ حال ہی میں خرم علی شفیق نے اسے ایک بہتر اور اطمینان بخش ترتیب کے ساتھ مدوّن کیا ہے۔ (اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ) اقبال کی مطبوعہ اردو اور انگریزی نثر کے متعدد مجموعے لطیف احمد شروانی، عبد الواحد معینی، محمد عبد اللہ قریشی، شاہد حسین رزاقی، رحیم بخش شاہین، محمد رفیق افضل اور زیب النسا نے مرتب کیے ہیں۔ اس نثری ذخیرے کی تحقیقی تدوین باقی ہے۔ اس سمت میں ایک ابتدائی اچھی کوشش اختر النسا کے ایم فل اقبالیات کے تحقیقی مقالے بہ عنوان: گفتار اقبال: متن کا تحقیقی مطالعہ (۱۹۹۶ئ) میں نظر آتی ہے۔ ۱۹۴۷ء تک خطوط اقبال کے دو اردو مجموعے (اقبال نامہ، اول : شیخ عطاء اللہ اور شاد اقبال : محی الدین قادری زور) شائع ہوئے تھے۔ ایک مختصر مگر گراں قدر انگریزی مجموعہLetters of Iqbal to Jinnah بھی چھپ چکا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد، اس نصف صدی میں خطوط اقبال کے ضمن میں بھی خاصا کام ہوا ہے۔ اقبال نامہ کا دوسرا حصہ، نیز: نذیر نیازی، خان محمد نیاز الدین خاں، مولانا گرامی، راغب احسن اور سید سلیمان ندوی کے نام خطوں کے مجموعے چھپے۔ متفرق مکاتیب کے بعض مجموعے بھی (انوار اقبال اورLetters of Iqbal از بشیر احمد ڈار، خطوط اقبال از رفیع الدین ہاشمی)۔ محمد عبد اللہ قریشی نے شاد اقبالکو اضافوں کے ساتھ اقبال بنام شاد کے نام سے شائع کیا۔ اس عرصے میں سیکڑوں غیر مدون (ان میں سے بہت سے غیر مطبوعہ) خطوط دریافت و بازیافت ہو کر سامنے آئے اور ان پر تحقیقی کام بھی ہوا۔ (تدوین کار: افضل حق قرشی، رحیم بخش شاہین، صابر کلوروی، شیخ اعجاز احمد، سید شکیل احمد، اخلاق اثر، تحسین فراقی، جہانگیر عالم اور رفیع الدین ہاشمی وغیرہ) خطوط اقبال میں ایک اہم اضافہ ڈاکٹر سعید اختر درانی نے اور دوسرا ثاقف نفیس نے کیا۔ اقبال کی جرمن ٹیوٹر مس ایما ویگے ناسٹ کے نام ، اقبال کے جرمن اور انگریزی خطوط، جرمن نو مسلم محمد امان ہو بو ہوم کی تحویل میں تھے جنھیں درانی صاحب بڑی کاوش و محنت سے ، اُردو ترجمے اور حواشی کے ساتھ مدون کرکے منصۂ شہود پر لائے۔ چودھری محمد حسین کے نام غیر مطبوعہ خطوط اقبال کا ایک ذخیرہ، ان کے پوتے ثاقف نفیس نے اپنے ایم اے اردو کے تحقیقی مقالے کے ذریعے منکشف کیا ہے۔ ۱۷؎ اقبال کی شخصیت کی تفہیم کے ضمن میں یہ دونوں ذخیرے بہت اہم ہیں۔ اہمیت کے لحاظ سے وہ خطوط بھی گراں قدر ہیں جن کے بعض حصے حذف کر کے شیخ اعجاز احمد نے مظلوم اقبال اور ان کے کچھ اہم اقتباسات جاوید اقبال صاحب نے زندہ رود میں شامل کیے ہیں۔ ۱۸؎ اسی طرح سید شکیل احمد (اقبال: نئی تحقیق، حیدرآباد دکن، ۱۹۸۵ئ) کے دریافت کردہ اکبر حیدری کے نام وہ خطوط بھی جن سے، اپنے والد سے آفتاب اقبال کے تعلقات کی خرابی کی وجوہ سامنے آتی ہیں۔ راقم الحروف نے ۱۹۷۶ء میں خطوط اقبال کی ازسرِ نو ترتیب و تدوین کے لیے چند تجاویز پیش کی تھیں (مقدمہ: خطوط اقبال، ص۴۴،۴۵) دوبارہ ۱۹۸۰ء میں کلیاتِ مکاتیب اقبال کی تدوین کی طرف متوجہ کیا گیا تھا۔ (تصانیف اقبال، ص۲۷۲تا۲۷۶) یہ تجویز سید مظفر حسین برنی کے ہاتھوں روبعمل آئی۔ انھوں نے اقبال کے ۱۵۷۷ دستیاب مطبوعہ و غیر مطبوعہ مکاتیب کو چار جلدوں میں شائع کیا۔ ۱۹؎ تدوینِ مکاتیب میں متن کی تحقیق اور صحت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ برنی صاحب کے کلیات کا یہی پہلو سب سے کمزور ہے۔ ۲۰؎ بہرحال مکاتیب کی فراہمی و جمع آوری کی متذکرہ بالا کوششوں کے نتیجے میں تقریباً سولہ سترہ سو خطوط سامنے آ چکے ہیں مگر یہ مرحلۂ اول ہے۔ اصل کام ان خطوں کی تحقیقی تدوین ہے۔ اس کے بغیر ذخیرۂ مکاتیب کو جعلی منسوبات (مثلاً : لمعہ حیدر آبادی) سے محفوظ رکھنا مشکل ہوگا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اقبال نامہ اول کے متن کی تصحیح کا کام مکمل کر لیا ہے۔ خطوطِ اقبال کی یہ جلد، شائع ہونے پر، مکاتیب کی تحقیقی تدوین کے لیے ایک نمونے کا کام دے گی۔ اس اثنا میںجناب مختار مسعود نے اقبال نامہ کے دونوں حصے یکجا شائع کیے ہیں، مگر افسوس ہے کہ متن کی تصحیح پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ اقبال نامہ کے اس اڈیشن (اقبال اکادمی لاہور، ۲۰۰۵ئ) میں لمعہ حیدر آبادی کے نام اقبال کا صرف ایک خط شامل ہے، ان کے نام باقی خطوط کو مشکوک قرار دے کر خارج کر دیا گیا ہے۔ خطوط کی اصلیت و استناد کے ضمن میں، بھوپال کے ماسٹر اختر صاحب کی تحقیقات قابلِ توجہ ہیں اور احساس دلاتی ہیں کہ اقبال سے منسوب خطوں کو قبول کرنے میں حد درجہ محتاط رہنا چاہیے۔ ۲۱؎ مکاتیب اقبال کی اطمینان بخش تدوین، ایم فل اقبالیات کے تین مقالات کی صورت میں سامنے آئی ہے: ۱- مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں ، تعلیقات و حواشی از عبد اللہ شاہ ہاشمی ۱۹۹۳ء ۲- اقبال: جہانِ دیگر ، حواشی و تعلیقات از محمد صدیق ظفر ] حجازی[ ۱۹۹۷ء ۳- انوارِ اقبال (خطوط)، ترتیب و تحشیہ از زیب النسائ، ۱۹۹۸ء تدوینِ خطوط کے ضمن میں تینوں کاوشوں کو اچھی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقالہ نمبر۱ نظرثانی کے بعد کتابی صورت میں شائع ہوچکا ہے (اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۶ئ) اور نمبر۲ اور ۳نظر ثانی کے مرحلے میں ہیں۔ متفرق خطوط کی دریافت و باز یافت کا سلسلہ جاری ہے۔ وقتاً فوقتاً اِکّا دُکّا خطوط اب بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور کے اردو مجلے اقبالیات میں اقبال کے متعدد غیرمطبوعہ خطوط شائع ہوئے ہیں۔ اقبال ریویو (حیدرآباد دکن، اپریل۲۰۰۶) میں اقبال کے حیدرآبادی معاصرین (عبداللہ عمادی، ابو ظفر عبدالواحد، غلام دستگیر رشید اور ڈاکٹر سید عبداللطیف) کے نام ان کے مطبوعہ و غیرمطبوعہ خطوط یکجا کیے گئے ہیں۔ ۲ علامہ اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’میں ذاتی طور پر ترجموں کا قائل نہیں ہوں‘‘۔ ان کے خیال میں ترجمے کے ’’نہایت مشکل کام‘‘ سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں۔ ۲۲؎ اس کے باوجود بعض نے تو از راہِ عقیدت مندی اور بعض نے بطور مشق فارسی کلام کو اردو نظم و نثر میں منتقل کیا (عبد الرحمن طارق، محمد عبد الرشید فاضل، ایس اے رحمن، انعام اللہ خاں ناصر، نظیر لدھیانوی، کوکب شادانی، صوفی تبسم، فیض احمد فیض، حضور احمد سلیم)مہر تقوی جے پوری، رفیق خاور، عبد الغفور اظہر، گل بادشاہ، شریف کنجاہی، مسعود قریشی، عبد العلیم صدیقی، انجم رومانی، محمد زمان مضطر، ولایت علی شاہ، ظہیر احمد صدیقی وغیرہ)۔ اس کے برعکس بعض اصحاب (آفتاب اصغر، عبد الحمید عرفانی، مقبول الٰہی اور رفیق خاور) نے اردو کلام کو فارسی نظم میں منتقل کیا ہے۔ تراجم سے اقبالیین کی دل چسپی کا یہ عالم ہے کہ کلامِ اقبال کے بعض مجموعے کئی کئی زبانوں میںاور بعض زبانوں میں ایک ایک کتاب کے کئی کئی ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ علاقائی زبانوں میں ترجمے نسبتاً زیادہ جوش و خروش اور عقیدت مندی کے ساتھ کیے گئے، مثلاً: پشتو میں اقبال کے تمام اردو اورفارسی مجموعوں کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ بعض اصحاب نے فارسی اور اردو کلام کے منظوم اور منثور انگریزی ترجمے بھی کیے(عبد الرحمن طارق، شیخ عزیز احمد، رفیق خاور، الطاف حسین، صوفی اے کیو نیاز، اکبر علی شاہ، بشیر احمدڈار، محمود احمد شیخ، رحمت اللہ، محمد صادق خاں ستی، محمد ہادی حسین، یعقوب مرزا، سعید اختر درانی، ایم اے کے خلیل، اکرام اعظم، جمیل نقوی،خواجہ طارق محمود، سلیم گیلانی ، کیو اے کبیر، انیس ناگی، راجا سلطان ظہور اختر، عباس علی جعفری، محمد یوسف[شیخ]، حسن دین، مقبول الٰہی اور مستنصر میر۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی نے ۲۰۰۱ء میں نکلسن کے ترجمۂ اسرار خودی کا ایک ایسا نسخہ شائع کیا تھا جس میں خود علامہ اقبال کی دست نوشت ترمیمات موجود ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں درانی صاحب نے پروفیسر اے جے آربری کے ترجمۂ گلشن رازِ جدید کو مدوّن کرکے شائع کیا۔ اس ترجمے میں فارسی متن، درانی صاحب کا دیباچہ، آربری کا ترجمہ بعض مصرعوں کا درانی کا متبادل ترجمہ بھی، مختصر توضیحات اور آخر میں آربری (کے ترجمے) کا دست نوشت عکسی مسودہ بھی شامل ہے۔ ۲۳؎ کلامِ اقبال کا پنجابی ترجمہ جیسا عمدہ اسیر عابد نے کیا (جبریل اڈاری ) ویسا کسی اور سے نہیں ہو سکا۔ وہ اردو نظم کو پوری معنویت و مفہوم کے ساتھ پنجابی نظم میں منتقل کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے تھے۔ علاقائی زبانوں میں تراجم اقبال، مختلف اصحاب کے مرہون منت ہیں۔ (سندھی: لطف اللہ بدوی، عبدالغفار ایم سومرو، محمد بخش و اصف، محمد یوسف[شیخ]… گجراتی: سید عظیم الدین منادی، خادم کیتانوی… پشتو: تقویم الحق کا کا خیل، سمندر خاں سمندر، امیر حمزہ شنواری، راحت زا خیلی، عبدالحلیم اثر، شیر محمد مے نوش، عبد اللہ جان اسیر، سید الابرار، عبدالمنان… بنگالی: محمد شہید اللہ، علی احسن، سید عبد المنان، میزان الرحمن، عبدالرشید خان، منیرالدین یوسف، نورالاسلام، غلام صمدانی قریشی، غلام مصطفیٰ کوی، کمال الدین خاں، مقدس علی، سیف الرحمن، سلطان احمد میرزا، فرخ احمد، ابوالحسنات محمد کلیم اللہ، ابراہیم خاں، عبدالمنان طالب، ابو ضحی نور احمد، محمد عبدالحق فریدی… پنجابی: عبد الغفور اظہر، خلیل آتش، قریشی احمد حسین قلعداری، شریف کنجاہی، علی احمد گوندل، اختر حسین شیخ، عبد المجید خاں ساجد، سید منظور حسین، تنویر بخاری، اسیر عابد، صوفی تبسم، علی اکبر عباس، ماسٹر کاظم علی اور منظور حیدر… سرائیکی: مہر عبد الحق، نسیم لیہ، ایاز سہروردی… بلتی: شمیم بلتستانی… کشمیری: غلام احمد ناز…: بلوچی: غوث بخش صابر… براہوی: پیر محمد زبیرانی، ظفر مرزا… گجراتی: سید عظیم الدین مغادی۔ فارسی کلیات کا مکمل اردو نثری ترجمہ میاں عبد الرشید نے کیا، اور اب مکمل منظوم ترجمہ پروفیسر عبدالعلیم صدیقی نے شائع کیا ہے۔ ۲۴؎ آقا بیدار بخت، الٰہی بخش اعوان، اقبال احمد خاں، ڈاکٹر الف د نسیم، مخدوم غلام جیلانی، احمد جاوید، ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، صبغت جالندھری، ڈاکٹر محمد ریاض (باشتراک سعادت سعید)، اور طاہر شادانی (باشتراک ضیا احمد ضیا) نے بھی متفرق نثری تراجم کیے۔ حال ہی میں حمیداللہ شاہ ہاشمی نے بھی فارسی کلیات کا اردو نثری ترجمہ شائع کیا ہے۔ (مکتبہ دانیال،لاہور، ۲۰۰۷ئ) بایں ہمہ مکمل فارسی کلام کے ایک عمدہ بامحاورہ نثری ترجمے کی ضرورت ختم نہیں ہوئی۔ اقبال کے پورے انگریزی خطبات کا سب سے معروف اور اولین ترجمہ تو نذیر نیازی کا ہے، بعنوان: تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ (۱۹۵۸ئ) جو بعض خامیوں کے باوجود، اب بھی ایک بہتر ترجمہ ہے۔ دوسرا ترجمہ شریف کنجاہی نے کیا بعنوان: مذہبی افکار کی تعمیر نو (۱۹۹۲ئ)۔ تیسرا ترجمہ شہزاد احمد کا ہے: اسلامی فکر کی نئی تشکیل ] ۲۰۰۰ئ[ اور چوتھا وحید عشرت کا بعنوان: تجدیدِ فکریاتِ اسلام (۲۰۰۲ئ)۔ ۲۵؎ بعض اصحاب نے اِکّا دُکّا خطبوں کے ترجمے کیے ہیں، مثلاً حافظ ضمیرالدین، اختر مسعود، پروفیسر خورشید احمد وغیرہ۔ انگریزی تقاریر و بیانات کا ایک اردو ترجمہ تو حرف اقبال (۱۹۴۵ئ) لطیف احمد شیروانی (شاملو) کا ہے۔ دوسرا ترجمہ اقبال احمد صدیقی نے علامہ اقبال: تقریریں، تحریریں اور بیانات کے نام سے کیا۔ (اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۹۹ئ) چند منتخب انگریزی مضامین کا اردو ترجمہ ڈاکٹر محمد ریاض نے بعنوان: افکارِ اقبال (۱۹۹۰ئ) شائع کیا۔ خطبۂ علی گڑھ کے متعدد اردو تراجم چھپے ہیں: شاہد اقبال کامران کا ملت اسلامیہ، ایک عمرانی مطالعہ (۱۹۸۹ئ)، اسی عنوان سے جہانگیر عالم کا ترجمہ مشمولہ در: خطبات اقبال (۲۰۰۱ئ) اور عبدالجبار شاکر کا ’’ملتِ اسلامیہ: ایک عمرانی مطالعہ‘، مطبوعہ: دعوۃ، اقبال نمبر، نومبر دسمبر۲۰۰۷ئ۔ Stray Reflections کا بہت عمدہ ترجمہ افتخار احمد صدیقی نے، اور خطوط بنام جناح کا جہانگیر عالم نے کیا۔ تحسین فراقی نے ایک اہم انگریزی مضمون کا خوب صورت اردو ترجمہ مطالعۂ بیدل: فکر برگساں کی روشنی میں کے عنوان سے شائع کیا (اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۸۸ء و مابعد)۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے بیشتر تراجم پر نظر ثانی کی گنجایش موجود ہے اور نئے تراجم کی ضرورت بھی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ۳ ایک بار ڈاکٹر سید عبد اللہ (م: ۱۴؍ اگست ۱۹۸۶ئ) نے شکوے کے انداز میں لکھا تھا: اگر ہم سچ مچ اقبال کو اپنی ذہنی تاریخ میں وہی درجہ دیتے ہیں جو انگریزوں اور جرمنوں نے شیکسپیر اور گوئٹے کو دے رکھا ہے تو ہم ان کے ساتھ اپنی محبت اور ان کے اعتراف کے بارے میں شرمندہ ہونے پر مجبور ہوں گے۔ انگریزی اور مغربی ادب کے واقف کاروں سے وہ طویل و ضخیم اسماء الکتب (Bibliographies) پوشیدہ نہیں ہیں، جن میں شیکسپیر اور گوئٹے کے متعلق کتابیں شامل ہیں۔ ۲۶؎ سید صاحب نے یہ بات ۱۹۴۰ء میں کہی تھی لیکن آج ہمیں اس باب میں شرمندگی کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس عرصے میں علامہ اقبال پر خاصا حوالہ جاتی کام ہوا ہے۔ محدود نوعیت کی فہارسِ کتب اور مضامین (ڈاکٹر سید معین الرحمن، جمیل رضوی، معین نواز، اختر النسا، قمر عباس، ندیم شفیق ملک، شازیہ ظہیر خواجہ، نجف علی، حمیرا ظفر) کے علاوہ حوالہ جاتی تحقیق کے سلسلے میں چند عمدہ اشاریے اور جامع کتابیات بھی تیار ہو چکی ہیں۔ تلاشِ ابیات کے لیے جوئے شیر (داؤد عسکر، ۱۹۷۹ئ)، مجلسِ اقبال (پیر عبد اللطیف نقش بندی، ۱۹۹۵ئ)، اشاریہ کلامِ اقبال، فارسی (زبیدہ بیگم، ۱۹۹۶ئ)، اشاریہ کلیات اقبال، اردو (یاسمین رفیق، ۲۰۰۱ئ) اور اسی نام سے ایک اور اشاریہ از زبیدہ بیگم (۲۰۰۲ئ)، اشاریہ کلیاتِ باقیات شعر اقبال (سمیرا نسرین ۲۰۰۶ئ)، کلامِ اقبال کی تراکیب و الفاظ کے لیے کلید اقبال، اردو (یونس حسرت، ۱۹۸۶ئ) مفید اشاریے ہیں۔ کلیاتِ اقبال فارسی کا ایک کثیر الاطراف اشاریہ ساجد اللہ تفہیمی نے مرتب کیا: کشف الالفاظِ اقبال،(کراچی، ۲۰۰۲ئ)۔ تلاشِ ابیات کے ساتھ ساتھ یہ کتاب الفاظ، تراکیب اور مصادر و افعالِ مرکب کے استعمال کی کلید بھی ہے۔ اسی طرح خطوط کے لیے اشاریہ مکاتیب اقبال، (صابر کلوروی، ۱۹۸۴ئ)۔ اقبال کی تصانیف اور ان پر کتابوں کی توضیحی ببلو گرافی : کتابیات اقبال، (رفیع الدین ہاشمی، ۱۹۷۷ئ) ۲۰۰۶ء تک کے حوالوں کے ساتھ راقم ہی کی مرتبہ اس طرح کی ایک نئی کتاب حوالہ زیر اشاعت ہے۔ حوالہ جاتی کتابوں میں محمد صدیق کی Catalogue of Allama Iqbal's Personal Library (۱۹۸۳ئ) اور ابو الاعجاز حفیظ صدیقی کی اوزانِ اقبال (۱۹۸۳ئ) بھی اہم ہیں۔ نسیم فاطمہ کی آئینۂ ایامِ اقبال (۱۹۷۷ئ)، ہارون الرشید تبسم کی حیاتِ اقبال کا سفر (۱۹۹۲ئ) اور اقبال اکادمی کی اقبال: سنین کے آئینے میں (۱۹۹۹ئ) علامہ کے احوال و واقعات کو ترتیب زمانی سے پیش کرتی ہیں۔ یونی ورسٹیوں کے تحقیقی مقالات کی شکل میں بھی بعض علمی مجلوں (اقبال، اقبال ریویو، نقوش، سیارہ، اورینٹل کالج میگزین، نقد و نظر(علی گڑھ) میں شائع شدہ لوازمۂ اقبالیات کی فہارس تیار ہوئی ہیں۔ حال ہی میں محمد شاہد حنیف نے بعض مجلات کے ذخیرۂ اقبالیات کی فہارس (اشاریے) مرتب و شائع کرنا شروع کیے ہیں۔ ۲۷؎ اقبال اور اقبالیات سے متعلق شخصیات پر دو کتابیں: رجال اقبال (عبد الرؤف عروج، ۱۹۸۸ئ) اور معاصرین اقبال (فیوض الرحمن، ۱۹۹۳ئ) مفید معلومات فراہم کرتی ہیں، البتہ اقبال انسائی کلو پیڈیا کے ضمن میں ملک حسن اختر (م: ۲۳ جنوری ۱۹۹۳ئ) کی انفرادی کوشش (دائرہ معارف اقبال، ۱۹۷۷ئ) معیار سے فروتر رہی۔ اس ضمن میں حال ہی میں پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ اقبالیات نے دائرہ معارفِ اقبال کی پہلی جلد (’’الف‘‘ سے ’’ث‘‘ تک) شائع کی ہے (۲۰۰۶ئ) جو اقبالیات کے بعض اہم عنوانات پر مختلف اہل قلم کے مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے۔ ندیم شفیق ملک نے پاکستان کے انگریزی اخبارات میں اقبالیات (مقالات، مذاکرے، مراسلے، خبریں وغیرہ) کا جائزہ، اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کی صورت میں مرتب کیا ہے۔ ان کے مقالے کا عنوان ہے: (Perception of Life and Works of Allama Iqbal in Pakistani English Journalism: A Survey of English Dailies اقبالیاتی ادب میں روز افزوں اضافے کی وجہ سے، اس کے تجزیے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ مطالعہ اقبال کی ابتدائی کاوشوں اور اس ضمن میں مزید تحقیقی و تنقیدی کاموں کی ضرورت اور اہم موضوعات اور ’’مہماتِ امور‘‘ کی نشان دہی سب سے پہلے ڈاکٹر سید عبد اللہ نے اپنے ایک مضمون ’’کلامِ اقبال کی دقتیں اور ان کی تشریح کی ضرورت‘‘ مطبوعہ معارف اعظم گڑھ (مارچ ۱۹۴۴ئ) میں کی تھی۔ کتابی صورت میں قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کی اقبالیات کا تنقیدی جائزہ (۱۹۵۵ئ) اس سلسلے کی اولین علمی کاوش تھی۔ ۱۹۶۶ء میں مشفق خواجہ نے اپنے مضمون ’’اقبال پرستی سے اقبال شناسی تک‘‘ میں توجہ دلائی کہ اقبالیات کی بعض خاص سمتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ۲۸؎ پھر راقم الحروف نے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے تو ’’ ۱۹۸۴ء کے اقبالیاتی ادب کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا (مطبوعہ: اقبالیات، لاہور، جولائی تاستمبر ۱۹۸۵ئ، نیز مشمولہ:اقبالیاتی جائزے) بعد ازاں حسب ذیل جائزے کتابی صورت میں شائع کیے: ۱- ۱۹۸۵ء کا اقبالیاتی ادب: اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۸۶ء ۲- ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب: اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۸۸ء ۳- اقبالیاتی جائزے: گلوب پبلشرز لاہور، ۱۹۹۰ء ۴- اقبالیاتی ادب کے تین سال (۱۹۸۷ئ- ۱۹۸۹ئ): الحرا پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۹۳ء افسوس ہے کہ سالانہ اقبالیاتی جائزے کا یہ سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری نہ رہ سکا، البتہ راقم نے اس سلسلے میں متعدد مضامین تحریر کیے، مثلاً: ۱- پاکستان میں اقبالیاتی ادب ] مضمون ہذا کی ابتدائی صورت[ مشمولہ: تفہیم و تجزیہ (مجموعۂ مضامین) کلیہ علوم اسلامیہ و شرقیہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور، ۱۹۹۹ء ۲- ۱۹۹۸ء اقبال شناسی کا ایک اہم سال، نوائے وقت لاہور، ۱۵ جنوری ۱۹۹۹ء ۳- اقبال شناسی اکیسویں صدی کے پہلے سال میں: نوائے وقت راول پنڈی، ۷ مئی ۲۰۰۲ء ۲۹؎ ۴- پاکستانی جامعات میں اقبالیاتی تحقیق: خیابان (نوادر اقبال نمبر) پشاور یونی ورسٹی ۲۰۰۳ء ۵- اقبالیاتی ادب (اردو) ایک مختصر مطالعہ: اقبالیات سری نگر، شمارہ ۱۶، ۲۰۰۶ء اس نوع کے جائزے حوالے کا کام دیتے ہیں، ان سے اقبالیات کے مختلف رجحانات کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ کن شعبوں میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سید عبد اللہ (حوالہ ۲۶) اور مشفق خواجہ (حوالہ۲۸) کے مضامین اور ڈاکٹر تحسین فراقی کا ایک مبسوط جائزہ بعنوان: ’’جلوہ خوں گشت و نگاہے بہ تماشا نر سید‘‘ (اقبال ریویو، لاہور جولائی۱۹۸۴ئ) بھی لائق مطالعہ ہے۔ ۳۰؎ ۴ باعتبار موضوع، سوانحی کتابیں اقبالیاتی ادب میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ بزم اقبال لاہور نے ابتدا میں اقبال کی سوانح عمری لکھنے کا کام غلام رسول مہر (م:۱۶ نومبر ۱۹۷۱ئ) کو سونپا، جو اس علمی خدمت کے لیے موزوں ترین محقق تھے، پھر یہ کام عبد المجید سالک (م: ۲ نومبر ۱۹۵۹ئ) کے سپرد کر دیا گیا۔ ان کی کاوش ذکر اقبال کے نام سے ۱۹۵۵ء میں منظر عام پر آئی۔ قیام پاکستان کے بعد شائع ہونے والی یہ علامہ اقبال کی پہلی باضابطہ سوانح عمری ہے۔ سالک مرحوم کو اقبال کی صحبت و رفاقت حاصل رہی اور انھیں اس موضوع پر غلام رسول مہر کا جمع کردہ بہت سا ضروری لوازمہ بھی دے دیا گیا تھا۔ ذکر اقبال ایک معلومات افزا کتاب ضرور ہے، مگر مصنف کے مخصوص مزاج، بعض ذاتی معتقدات، صحافیانہ افتادِ طبع، ضروری تحقیق و تفحص میں کمی اور عدم احتیاط کے سبب اسے ایک معیاری سوانح عمری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں تاریخی اور واقعاتی غلطیاں ہیں اور ’’اقبال کی زندگی کے مختلف حالات و واقعات کے درمیان ربط کا فقدان ہے۔ کتاب ایک کل نہیں، بلکہ الگ الگ ٹکڑوں میں بٹی نظر آتی ہے، نتیجہ یہ کہ کتاب کو پڑھ کر اقبال کی شخصیت کا کوئی نقش نہیں بنتا‘‘۔ ۳۱؎ آیندہ بیس برسوں میں، اقبالیاتی ادب کے اس اہم شعبے یعنی سوانحِ اقبال کے ضمن میں، ایک سناٹے کی کیفیت طاری رہی۔ اقبال صدی (۱۹۷۷ئ) کے موقع پر اقبال کی ایک معیاری اور مستند سوانح عمری کی کمی کوشدت سے محسوس کیا گیا۔ ’’نیشنل کمیٹی برائے صد سالہ تقریباتِ ولادتِ اقبال‘‘ نے اس مسئلے پر غور کیا اور یہ ذمہ داری سید نذیر نیازی اور ڈاکٹر عبد السلام خورشید کو سونپی۔ موخر الذکر کی سرگذشتِ اقبال (۱۹۷۷ئ) میں، بقول ایس اے رحمن: ’’حیاتِ اقبال کے ضروری کوائف اجاگر ہو گئے‘‘۔ (دیباچہ) مگر یہ بہت عجلت میں لکھی گئی تھی اس لیے، اس کے بعض حصوں کی مناسب طور پر تسوید نہ ہو سکی، بعض امور تشنہ رہ گئے اور اس میں بعض غلطیاں بھی راہ پا گئیں۔ سرگذشتِ اقبال میں سیاست دان اقبال تو موجود ہے مگر شاعر اقبال اور ملّتِاسلامیہ کی سربلندی اور تجلیلِ انسان کے خواب دیکھنے والا اقبال یہاں نظر نہیں آتا۔ مزید برآں اس میں اقبال کی شخصیت اور فن کا پہلو بہت کمزور ہے اور یہ محض اقبال کے خارج کا کوائف نامہ محسوس ہوتا ہے۔ اگر ڈاکٹر خورشید ذکر اقبال کے سحر سے آزاد ہو کر قلم اٹھاتے تو زیادہ کامیاب رہتے۔ تاہم ان کی کاوش سے علامہ اقبال کے سوانحی ذخیرے میں کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور ہوئی۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے سر گذشت اقبال کا جائزہ لیتے ہوئے، اس پر ایک سخت محاکمہ تحریر کیا۔ ۳۲؎ سید نذیر نیازی کی داناے راز (۱۹۷۹ئ) ۱۹۰۸ء تک کے حالات پر محیط ہے۔ اس کے بعض ابواب بہت معلومات افزا اور عمدہ ہیں، جیسے: نوجوان اقبال، ازدواج، اور پہلی شادی۔ تشکیلی دور کی بحث بھی مربوط اور مفصل ہے۔ ازدواجی اختلاف ایسے نازک موضوع کو مصنف نے اس متوازن انداز میں سمیٹا ہے کہ اس سے پہلے اقبال کے کسی سوانح نگار سے ایسا ممکن نہ ہوا۔ لیکن اس کتاب کو مناسب تدوین، ابواب بندی اور حوالوں کی تکمیل کے بعد ہی شائع ہونا چاہیے تھا۔ متذکرہ بالا دونوں کتابوں کے مقابلے میں محمد حنیف شاہد کی مفکرِ پاکستان (۱۹۸۲ئ) زیادہ ضخیم اور مفصل ہے۔ اس کی جامعیت، مصنف کی محنت و کاوش، تلاش و جستجو اور لوازمے و مسالے کی کثرت قاری کو متاثر بلکہ مرعوب کرتی ہے۔ مصنف نے انجمنِ حمایتِ اسلام کی قلمی رودادوں اور پنجاب گزٹ سے پہلی بار مدد لی ہے۔ معلومات کی فراوانی، اقتباسات کی کثرت اور کوائف کی ثروت کے لحاظ سے بلاشبہہ یہ ایک پُراز معلومات کتاب ہے، مگر ایک تو جابجا مصنف کا اِدعا بہت کھلتا ہے، دوسرے: مصنف نے رطب و یا بس میں تمیز و تفریق کیے بغیر، جواہر کو خذف ریزوں کے ساتھ ملا کر پیش کیا ہے۔ مواد کی ترتیب و تدوین اور تنظیم ڈھنگ سے نہیں ہو سکی۔ مزید برآں حوالوں کا نظام ابتر اور بے قاعدہ ہے اور تحلیل اور تجزیے اور نقد و انتقاد کی بھی شدید کمی ہے۔ ان وجوہ سے مفکرِ پاکستان میں قاری کے لیے دل کشی کم ہے۔ اسی زمانے میں ایم ایس ناز کی حیاتِ اقبال اور صابر کلوروی کی یادِ اقبال بھی شائع ہوئیں، مگر ڈاکٹر جاوید اقبال (پ: ۵ ؍ اکتوبر ۱۹۲۴ئ) کی زندہ رود (اول: ۱۹۷۹ئ، دوم: ۱۹۸۱ئ، سوم: ۱۹۸۴ئ) اقبال کی جملہ سوانح عمریوں میں برتر اور فائق ہے۔ اس میں اقبال کی شخصیت کے جملہ پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ان کے علمی و شعری اور سیاسی کارناموں کا جامعیت سے احاطہ کیا گیا ہے۔ نجی زندگی سے متعلق بعض بنیادی مآخذ اور بعض نادر دستاویزات و شواہد مصنف کی دسترس میں تھے۔ اپنی نسبی حیثیت کی وجہ سے حیاتِ اقبال کے بعض امور پر بلا خوفِ لومتہ لائم کچھ لکھنا جاوید صاحب کے لیے خاصا مشکل تھا، مگر اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ انھوں نے ایک سوانح نگار کی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کیا، چنانچہ زندہ رود میں ہمیں معروضیت اور توازن نظر آتا ہے۔ یہاں حیاتِ اقبال کے اہم کوائف و حقائق اور واقعات پورے پس منظر و پیش منظر اور تفصیلات کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ یہ حکایت طویل ضرور ہے، مگر اس کی لذت میں کلام نہیں۔ زندہ رود اقبال کی دماغی و ذہنی سرگذشت ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی زندگی، ایک بڑے آدمی اور ایک عظیم انسان کی زندگی تھی۔ اگرچہ زندہ رود اقبال کی سوانح عمریوں میں سب سے بہتر اور جامع ہے، مگر حرفِ آخر یہ بھی نہیں ہے۔ باوجود یکہ مصنف نے زندہ رود پر نظر ثانی کی ہے ۳۳؎ اس میں بعض خامیاں کھٹکتی ہیں۔ راشد حمید نے زندہ رود کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ)میں ان کی نشان دہی کی ہے، چنانچہ اس پر مزید نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بعض کتابوں کو اقبال کی ’’جزوی سوانح‘‘ کہہ سکتے ہیں، جیسے : ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین کی اقبال کی ابتدائی زندگی (۱۹۸۶ئ) یا ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کی عروج اقبال (۱۹۸۷ئ)۔ موخر الذکر میں ۱۹۰۸ء تک اختصار و جامعیت سے حیات اقبال کے ضروری کوائف دیے گئے ہیں اور اقبال کا ذہنی و فکری اور شاعرانہ ارتقا بھی دکھایا گیا ہے۔ یہ اقبال کی ہشت پہلو شخصیت اور ان کے قلب و دماغ ا ور ذہن و فکر کا ایک عمدہ اور مربوط مطالعہ ہے۔ مصنف کے توازن فکر و نظر کے علاوہ عروج اقبال کی خاص بات مصنف کا دل کش ادبی اور تنقیدی اسلوب ہے۔ یہ کتاب بجا طور پر ’’قومی صدارتی اقبال اوارڈ‘‘ کی مستحق قرار پائی۔ خرم علی شفیق (دما دم رواں ہے یم زندگی، الحمرا، اسلام آباد، ۲۰۰۳ئ) نے اقبال کے سوانح کو اقبال کے ماحول اور زمانے کے قدرے وسیع تناظر میں اور ایک نئے اور منفرد انداز و اسلوب میں پیش کیا ہے۔ یہ ۱۹۰۴ء تک کے حالات پر مشتمل ہے۔ پوری سوانح ۵جلدوں میں مکمل ہوگی۔ اقبال کی زندگی، شخصیت، ان سے ملاقاتوں کی یادداشتوں اور ان کے ملفوظات پر مشتمل کتابیں بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہیں۔ ایسی مختلف النوع کتابوں کو اقبال کے سوانحی ذخیرے میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ کیوں کہ اقبال کے سوانح نگار کے لیے ان کی حیثیت ایک ناگزیر لوازمے اورمسالے کی ہے، جیسے: فقیر سید وحید الدین کی روزگار فقیر (اول ۱۹۵۰ئ، دوم ۱۹۶۴ئ)، سید حامد جلالی کی علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی (۱۹۶۷ئ، طبع دوم ۱۹۹۶ئ)، سید نذیر نیازی کی اقبال کے حضور (۱۹۷۱ئ)، خالد نظیر صوفی کی اقبال دورن خانہ [اوّل](۱۹۷۱ئ)، [دوم] (۲۰۰۶ئ)، صہبا لکھنوی کی اقبال اور بھوپال (۱۹۷۳ئ)، محمد حمزہ فاروقی کی سفر نامہ اقبال (۱۹۷۳ئ)، حیات اقبال کے چند مخفی گوشے (۱۹۸۸ئ) اور اقبال کا سیاسی سفر (۱۹۹۲ئ)، ڈاکٹر نظیر صوفی کی حیات و پیام علامہ اقبال (۱۹۷۹ئ)، رحیم بخش شاہین کی اوراقِ گم گشتہ (۱۹۷۵ئ) اور Mementos of Iqbal (۱۹۷۵ئ)، محمد حنیف شاہد کی اقبال اور انجمن حمایتِ اسلام (۱۹۷۶ئ)اور علامہ اقبال اور پنجاب کونسل (۱۹۷۷ئ)، محمد عبد اللہ چغتائی کی اقبال کی صحبت میں (۱۹۷۷ئ) اور روایاتِ اقبال (۱۹۷۷ئ)، غلام رسول عدیم اور محمد رفیق کی مشترکہ کاوش مزارِ اقبال (۱۹۸۲ئ)، محمد عبد اللہ قریشی کی حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں (۱۹۸۲ئ)، اعجاز احمد کی مظلومِ اقبال (۱۹۸۵ئ)، صابر کلوروی کی اقبال کے ہم نشین (۱۹۸۵ئ)، ڈورس احمد کی Iqbal, As I knew Him (۱۹۸۶ئ)، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی اقبال اور گجرات (۱۹۹۸ئ)، سجاد حسین شیرازی کی وفات نامۂ اقبال (۱۹۹۸ئ__ اقبال کے جنازے کی تفصیل اور نمازِ جنازہ کس نے پڑھائی؟ پر بحث)، جعفر بلوچ کی مجالسِ اقبال (لاہور، ۲۰۰۲ئ) اور ڈاکٹر تقی عابدی کی چوں مرگ آید (لاہور، ۲۰۰۷ئ)۔ مؤخر الذکر کے سرورق پر یہ توضیحی الفاظ درج ہیں: ’’علامہ اقبال کی بیماریوں اور مرض الموت کی تشخیص: خطوط، مستند حوالوں اور جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں۔ ‘‘ اس نوع کی کتابوں میں غلام رسول مہر کا مجموعۂ مضامین اقبالیات بہت اہم ہے۔ مہر صاحب ایک زمانے میں اقبال کی سوانح عمری لکھنے کا عزم رکھتے تھے۔ وہ تو بوجوہ بروے کار نہ آسکا، ۳۴؎ مگر ان کے یہ مضامین سوانحی معلومات و ملفوظات کے اعتبار سے بہت اہم ہیں، خصوصاً آخری حصے میں ڈائری کے اندراجات، جن سے اقبال کے فکروذہن اور بعض عزائم کا پتا چلتا ہے۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی کی دو کتابیں: اقبال یورپ میں (۱۹۸۴ئ، باضافہ ۱۹۹۹ئ) اور نوادرِ اقبال: یورپ میں (۱۹۹۵ئ) حیاتِ اقبال کے متعدد نئے گوشے سامنے لاتی ہیں، مثلاً: برطانیہ اور جرمنی میں اقبال کے مختلف تعلیمی مراحل سے متعلق نئی معلومات، خطوط اور نادر دستاویزات، برطانیہ کے کتب خانوں میں موجود تصانیفِ اقبال کے بعض نسخوں پر اقبال کی دست نوشت انتسابی تحریریں، ٹرنٹی کالج کیمبرج، لنکنز اِن اور میونخ یونی ورسٹی کے داخلہ رجسٹروں میں درج اقبال کے بعض اہم کوائف، مجلسِ ممتحنین کی رپورٹیں، اسی طرح جرمنی اور انگلستان میں اقبال کی قیام گاہوں پر انتسابی تختیوں کی تنصیب، کیمبرج میں مسندِ اقبال (Iqbal Chair) کے قیام کے ضمن میں درانی صاحب کی کاوشیں، اقبال کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے اصل مسودے کی دریافت اور مطبوعہ کتاب سے اس کا تقابل، ویگے ناسٹ کے نام جرمن اور انگریزی میں اقبال کے چند اہم خطوط کی دریافت وغیرہ۔ اقبال کی غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے کیمبرج میں بی اے کے لیے جو تحقیقی مقالہ لکھا، وہ اس قدر معیاری او ربلند پایہ تھا کہ اس میں معمولی ترامیم کے بعد، میونخ یونی ورسٹی نے انھیں اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دی۔ بعض کتابیں سوانح اقبال سے براہ راست متعلق نہیں ہیں، مگربالواسطہ یا بعض پہلوئوں سے ان کا تعلق علامہ کے حالات سے بنتا ہے، مثلاً سلطان محمود حسین کی شمس العلماء مولوی سید میر حسن (۱۹۸۱ئ)، بیگم رشیدہ آفتاب اقبال کی علامہ اقبال اور ان کے فرزند اکبر آفتاب اقبال (۱۹۹۹ئ) اور اقبال و آفتاب (۲۰۰۲ئ)۔ بعض اقبال شناس محققین نے اقبال کے سوانحی ذخیرے پرچند اہم مضامین کے ذریعے قابل قدر اضافے کیے ہیں، مثلاً: ڈاکٹر وحید قریشی (علامہ اقبال کی زندگی کی بعض تفصیلات۔ علامہ اقبال اور اسلامیہ کالج)۔ ڈاکٹر محمد باقر (اقبال کے اجداد کا سلسلۂ عالیہ)۔ صفدر محمود (علامہ اقبال کا گوشوارۂ آمدنی)۔ ملک حسن اختر نے پنجاب گزٹ کے حوالے سے اقبال کی تعلیمی زندگی سے متعلق مفید معلومات مہیا کی ہیں۔ ۳۵؎ نقوش اقبال نمبر۱، ۲ (ستمبر، دسمبر ۱۹۷۷ئ) میں چند اہم سوانحی مضامین شامل ہیں: ’’اقبال کے حضور‘‘ از خواجہ عبد الوحید، ’’اقبال کا قیام لاہور‘‘ از حکیم احمد شجاع ، ’’ایک انٹرویو بسلسلہ اقبال‘‘ از میاں عبد العزیز مالواڈہ، ’’اقبال بحیثیت ممتحن‘‘ از محمد حنیف شاہد، وغیرہ۔ اقبال پر سوانحی ذخیرے میں بعض مباحث بھی اہمیت رکھتے ہیں، مثلاً: تاریخ ولادت کا مسئلہ قیام پاکستان کے بعد ربع صدی تک بھی متحقق نہ ہو سکا۔ زیادہ قرائن ۱۹۷۳ء کے حق میں تھے، مگر سرکاری سطح پر ۱۹۷۳ء تک تاریخ ولادت کا تعین ہی نہ ہوسکا۔ اس ضمن میں جب بھارت کو پہل کرتے دیکھ کر حکومت پاکستان نے ۱۹۷۷ء کو اقبال کا سال ولادت قرار دے دیا، اور اسی مناسبت سے حکومت پاکستان نے سال ۱۹۷۷ء کو ’’اقبال صدی‘‘ کے طور پر منانے کا اہمتام کیا۔ تاریخ ولادت کی بحث اس کے بعد بھی جاری رہی۔ علامہ اقبال کی تاریخ ولادت (مرتبین: ڈاکٹر وحید قریشی +زاہد منیر عامر، ۱۹۹۴ئ) میں اس موضوع پر مطبوعہ منتخب مضامین یک جا کیے گئے ہیں، ان پر حواشی کا اضافہ بھی ہے، مگر صحیح تاریخ ولادت کیا ہے؟ اس کتاب کے مقدمے میں، مسئلہ حل کرنے کے بجاے زاہد منیر عامر نے اس کا ’’فیصلہ معزز قاری اور مستقبل کے مؤرخ پر چھوڑ دیا‘‘ ہے۔ بعض اصحاب نے اقبال کی شخصیت کا مطالعہ، جدید علم نفسیات کی روشنی میں کرنے کی سعی کی ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد عثمان کا مضمون ’’حیات اقبال کا ایک جذباتی دور‘‘ (۱۹۵۷ئ)۳۶؎ خاصا متوازن تھا۔ بیس برس بعد ڈاکٹر سلیم اختر نے علم نفسیات و تاویلات کے ذریعے اقبال کے قیام یورپ اور ما بعد کے ۵، ۷ سالوں کا (بقول خود) ایک ’’مزے دار‘‘ منظر نامہ تیار کیا: اقبال کا نفسیاتی مطالعہ (۱۹۷۷ئ)۔ ۳۷؎ انھوں نے تحلیلِ نفسی کی مدد سے اقبال کی شخصیت کے تاریک نہاں خانوں میں جھانکا اور ’’غوطہ لگا کر آئس برگ کی حقیقت کو جاننے کی جرأت‘‘ کی۔ اس ’’تفتیش‘‘ کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ اقبال اور عطیہ بیگم کے درمیان ’’تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟‘‘ مگر وہ خود کہتے ہیں: ’’اس ضمن میں صرف قیاسات سے ہی کام لیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس پر جناب نعیم صدیقی نے سوال اٹھایا کہ فاضل نقاد کیا اسی انداز میں اپنے والدین کا نفسیاتی تجزیہ کرنا بھی پسند کریں گے؟ پھر کیا تمام بزرگانِ ملت، اولیا اور اتقیا کا نفسیاتی تجزیہ مناسب رہے گا؟ ان کے خیال میں یہ محض ایک مریضانہ ذہنیت کی کارفرمائی ہے اور اس کے ڈانڈے ترقی پسندوں کی تحریکِ انہدام اقبال سے ملتے ہیں۔ ۳۸؎ شرفا، اپنے مرحومین کا پوسٹ مارٹم پسند نہیں کرتے۔ بجا ہے کہ اقبال لاہور کے ’’گھٹن کے ماحول‘‘ سے نکل کر، یورپ کی آزاد اور رنگین فضا میں پہنچے تو وہ ایک عرصے تک اندرونی کش مکش میں مبتلا رہے، (اندرونم جنگ بے خیل و سپہ) مگر صدیقی صاحب کہتے ہیں: اقبال یورپ کی آزاد فضاؤں سے جس پاکیزگی کے ساتھ گزرا ہے، وہ بڑا قابل فخر جو ہر سیرت ہے، بلکہ اگر آپ ثابت کر دیں کہ اس کے اندر کوئی جنسی داعیہ کام کر رہا تھا تو اس داعیے کے حملے سے جس خوبی سے بچ کر اقبال نکلا ہے، کوئی مہا تپسی بھی اس طرح نہ نکل سکے گا۔ یہی ضبط نفس اور ایثار ذات ہے، جس نے اس کی شخصیت اور اس کی فکر اور اس کے فن کو بے حد بالیدگی دی۔ ۳۹؎ یہی نتیجہ پروفیسر محمد عثمان نے اخذ کیا کہ اس سارے قصے کا ’’انجام بصیرت افزا اور نظر افروز ثابت ہوا اور اس کی بدولت اردو شاعری کو فکر و جذبے کی وہ ندرت اور ثروت نصیب ہوئی جو اسے میر و غالب کے ہاتھوں کبھی میسر نہ آ سکتی تھی‘‘۔ ۴۰؎ اس باب میں ایک غور طلب امر یہ ہے کہ اقبال کے نفسیاتی تجزیوں میں زیادہ تر عطیہ بیگم کے بیانات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ عطیہ کی کتاب میں، بلا شبہہ اقبال کی شخصیت کے بارے میں مفید معلومات ملتی ہے، مگر اس کے تمام بیانات کو جوں کا توں قبول کرنا مشکل ہے۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے خیال میں عطیہ کے بعض بیانات میں تضاد ہے اور کتاب میں عطیہ کا ’’جذبہ خود نمائی‘‘ جھلکتا ہے۔ ’’محلوں کی ناز پروردہ، تفریحات و تعیشات کی دل دادہ‘‘ اور ’’سطحی خیالات اور تفریحی رجحانات‘‘ رکھنے والی عطیہ اور اقبال جیسے درویش مزاج اور پر خلوص شخص کی طبیعتوںمیں زمین آسمان کا فرق تھا، بلکہ صدیقی صاحب نے طویل تجزیے (عروج اقبال ، ص ۳۲۱ تا ۳۲۸) کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عطیہ کے بعض ’’بیانات، دراصل خود ان کے شکستِ پندار کی دلیل ہیں‘‘۔ سعید اختر درانی نے بھی عطیہ بیگم کے بیانات کو ’’مبالغہ آمیز‘‘ قرار دیا ہے (اقبال، یورپ میں طبع دوم، ص ۲۶۴) سو ، یہ قرین انصاف نہ ہو گا کہ اقبال کے نفسیاتی تجزیوں کی بنیاد، عطیہ بیگم کے بیانات پر استوار کی جائے۔ ۴۱؎ ۵ اقبالیاتی ادب کا غالب حصہ، حضرت علامہ کے فکر و فلسفے کی تشریح و تعبیر اور تنقید و تجزیے پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی اقبالیات اردو کا تقریباً تین چوتھائی حصہ، تنقیدِ اقبال کے ذیل میں آتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی زمانے میں اس نوعیت کی کتابوں میں سے محمد احمد خاں کی اقبال کا سیاسی کارنامہ (۱۹۵۲ئ)، خلیفہ عبد الحکیم کی فکرِ اقبال (۱۹۵۷ئ) ، عابد علی عابد کی شعرِ اقبال (۱۹۶۴ئ) اور ڈاکٹر سید عبد اللہ کی مقاماتِ اقبال (۱۹۵۹ئ) نسبتاً زیادہ نمایاں ہیں۔ فکرِ اقبال اپنی بعض خامیوں کے باوجود مقبول ہوئی، کیونکہ ایک تو مصنف کا نام اہم تھا، دوسرے: اس وقت ایسی کوئی کتاب موجود نہ تھی، جس میں اقبال کے تمام اہم نظریات کی یک جا اور ایسی جامع تشریح ملتی ہو، اس لیے طالب علموں کے حلقوں میں اسے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ تیسرے: ایک سرکاری ادارے (بزم اقبال ) سے اس کی اشاعت کی وجہ سے اس کی استنادی حیثیت کو تقویت ملی۔ بلا شبہہ اس میں علامہ کے بیش تر افکار و تصورات پر دل کش اسلوب میں جامع تبصرہ ملتا ہے، مگر اس میں بعض خامیاں بھی ہیں۔ بڑی خامی تو مصنف کے ذہن میں ہے۔ فکرِ اقبال میں کئی مقامات پر شبہ ہوتا ہے کہ شاید اسلام کی حقانیت کے بارے میں مصنف کا ذہن صاف نہ تھا۔ انھیں شبہ تھا کہ عصر حاضر میں اسلام ایک زندہ و توانا نظریہ اور ایک انقلابی قوت بن سکتا ہے۔ مرحوم خلیفہ صاحب مغرب سے مرعوبیت کا شکار تھے، اس لیے انھیں، عقل پر اقبال کی تنقید اچھی نہیں لگی۔ مزید برآں وہ اسلام اور اقبال سے اشتراکیت برآمد کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، تاہم فکرِ اقبال کا آخری باب (نمبر ۲۰، خلاصۂ افکار) جامع ہے اور اس میں توازن بھی ہے۔ خلیفہ صاحب کے ایک مداح پروفیسر محمد عثمان نے فکرِ اقبال کو ’’مایوس کن‘‘ قرار دیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: خلیفہ مرحوم نے بہت سی مفید باتیں خاصے دل چسپ انداز میں بیان کی ہیں، مگر جہاں تک محققانہ دقتِ نظر، احتیاط پسندی اور حقائق کو جزئیات کے ساتھ تمام و کمال دیکھنے دکھانے کی کوشش کا تعلق ہے، فکرِ اقبال ہر جگہ اور ہر باب میں اپنے تشنہ اور ناکام ہونے کا احساس پیدا کرتی ہے۔ ۴۲؎ راقم کا پختہ عقیدہ ہے کہ جو شخص صدقِ دل سے فکرِ اقبال کا شعور وا دراک نہ رکھتا ہو اور اس کا قلب و ذہن فکرِ اقبال کو اپنے عقیدہ و عمل کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہ ہو، وہ اقبال کا روایتی اور پیشہ ور نقاد تو ہو سکتا ہے، صحیح معنوں میں ’’اقبال شناس‘‘ نہیں بن سکتا۔ جو بات فقط نوکِ قلم سے نکلے اور دل و دماغ سے اس کا علاقہ نہ ہو، اس میں تاثیر کہاں؟ عابد علی عابد (م: ۲۰ جنوری ۱۹۷۱ئ) نے شعرِ اقبال میں شاعر کے ’’شعورِ تخلیق کا جائزہ‘‘ لیتے ہوئے فنی رموز و علائم، صنائع و بدائع اور محسناتِ شعر کا مفصل تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہ اس موضوع پر پہلا مبسوط اور مربوط مطالعہ ہے، مگر مصنف کا یہ کہنا محل نظر ہے کہ اس ذہین اور طرار خاتون ] عطیہ فیضی[ کی رفاقت نے اقبال کی تخلیقی کاوشوں کو متاثر کیا (ص۲۳۲)۔ اوپر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عطیہ فیضی سطحی اور تفریحی ذہنیت رکھتی تھیں اور ان کے بعض بیانات خلافِ حقیقت ہیں۔ بعد ازاں کچھ دیگر ناقدین نے بھی ’’شاعراقبال‘‘ کے کمالِ فن کو نمایاں کیا (جابر علی سید، افتخار احمد صدیقی، پروفیسر نذیر احمد، سعد اللہ کلیم، تبسم کاشمیری وغیرہ)۔۴۳؎ اس کے باوجود شعر اقبال کے فنی تجزیے کا پہلو اور اقبال بحیثیتِ شاعر کا موضوع، فکر و فلسفے پر تنقید کے مقابلے میں دبا ہی رہا ہے۔ پاکستان میں اقبالیاتی ادب کا معتدبہ حصہ اقبال کی پیغمبرانہ، مجددانہ اور مفکرانہ حیثیت پر مشتمل ہے، حالانکہ ان کی شاعرانہ حیثیت ان کی فکری اہمیت سے فروتر نہیں ہے۔ اقبال کی بلند پایہ شاعری ہی نے، ان کے فکر و فلسفے میں جاذبیت، تاثیر اور ندرت پیدا کی ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ (م:۱۹۸۶ئ) جیسا فاضل معلم اور زیرک نقاد مسلسل ۴۵ برس تک اقبال کے فکر و فن کے مختلف گوشوں کو منور کرتا رہا۔ اقبال پر ان کی تصانیف: مسائلِ اقبال (۱۹۷۴ئ)، مقاصدِ اقبال (۱۹۸۱ئ)، مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ (۱۹۸۴ئ) اور درجنوں مضامین، اقبالیات پر ان کی عمیق اور عالمانہ نظر اور ان کے برسوں کے غور و خوض اور تدبر و تفکر کا ماحصل ہیں۔ انھوں نے فلسفۂ اقبال کے مشکل اور ادق نکات کو بھی سہل بنا کر پیش کیا ہے۔ وہ فکرِ اقبال کو ایک علمی، فکری اور نظریاتی تحریک بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ محمد اکرام چغتائی نے اقبالیات پر سید صاحب کی تمام تحریروں کو اعجاز اقبال کے نام سے یکجا شائع کیا ہے۔ (سنگ میل لاہور، ۲۰۰۴ئ)۔۴۴؎ ڈاکٹر محمد رفیع الدین (م: ۲۹ نومبر ۱۹۶۹ئ) چوٹی کے اقبال شناس اور اقبال اکادمی پاکستان کے بانی ڈائریکٹر تھے۔ انھوں نے اقبال ریویو کے ذریعے مطالعۂ فکرِ اقبال کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ ان کی کتاب اقبال کا فلسفۂ خودی اس موضوع پر پہلا عالمانہ اور فلسفیانہ مربوط مطالعہ ہے۔ ممتاز حسن (م: ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۷۴ئ) اور بشیر احمد ڈار، (م: ۲۹ مارچ ۱۹۷۹ئ) اقبالیاتِ پاکستان کے معماروں میں سے تھے۔ اقبال اکادمی سے وہ (علی الترتیب) بطور نائب صدر اور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔ انھوں نے بہت کچھ لکھا، لکھوایا ، منصوبے تیار کیے اور اقبالیات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، خصوصاً ڈار صاحب نے اردو اور انگریزی میں قابل قدر تنقیدی اور تدوینی کام انجام دیے، مثلاً: l Iqbal and Post- Kantian Voluntarism (۱۹۵۶ئ) l انوار اقبال (۱۹۶۷ئ)، l A Study in Iqbal's Philosophy (طبع دوم ۱۹۷۱ئ) l Letters of Iqbal (۱۹۷۷ئ) l Articles on Iqbal (۱۹۹۷ئ) اول الذکر پر انھیں ’’قومی صدارتی اقبال اوارڈ ‘‘ دیا گیا۔ اقبال اور عبد الحق، ممتاز حسن مرحوم کا نمونے کا کام ہے۔ اقبالیات پر انھوں نے اعلیٰ درجے کے تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں (مقالاتِ ممتاز)۔ ۴۵؎ اسی طرح محمد عبد اللہ قریشی (م: ۱۲ ؍ اگست ۱۹۹۴ئ) نے زیادہ تر تو ترتیب و تدوین کے شعبے میں بعض مفید اور قابل قدر کام کیے۔ (مکاتیب اقبال بنام گرامی ۱۹۶۹ئ۔ اقبال بنام شاد ۱۹۸۵ئ۔ حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں ۱۹۸۶ئ۔ حیات جاوداں ۱۹۸۷ئ۔ تذکار اقبال ۱۹۸۸ئ)۔ تاہم ان کی بعض معلومات افزا کاوشیں (معاصرین، اقبال کی نظر میں، ۱۹۷۷ئ۔ حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں، ۱۹۸۶ئ۔ ) تحقیق و تنقیدِ اقبالیات میں شمار ہوں گی۔ ڈاکٹر محمد ریاض (م: ۲۸ نومبر ۱۹۹۴ئ) نے علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا شعبۂ اقبالیات منظم کیا اور اقبالیات پر مضامینِ نو کے انبار لگا دیے۔ ان کے ہاں پھیلاو زیادہ ہے اور عمق نسبتاً کم۔ تقریباً ایک درجن تنقیدی مجموعوں کے علاوہ انھوں نے این میری شمل کی Gabriel's Wing کا اردو اور اقبال کی ڈائری Stray Reflections کا فارسی ترجمہ کیا۔ فارسی میں ایک کتابیات کتاب شناسی اقبال کے نام سے مرتب کی۔ ۴۶؎ ان کی مجموعی اقبالیاتی خدمات قابل قدر ہیں۔ محمد رفیق خاور (م: ۱۵ مئی ۱۹۹۰ئ) نے بھی اقبالیاتی ادب میں وقیع اضافہ کیا۔ اقبال کی شاعری کے اردو، انگریزی اور فارسی تراجم کے علاوہ، انھوں نے اقبالیاتی تنقید بھی لکھی اور اقبال کا فارسی کلام (۱۹۸۸ئ) پر ’’قومی صدارتی اقبال اوارڈ‘‘ حاصل کیا۔ پروفیسر محمد منور (م: ۷ فروری ۲۰۰۰ئ) اقبالیات کے ان تھک مفسر، شارح اور نقاد تھے۔ انھوں نے شعبۂ اقبالیات پنجاب یونی ورسٹی کے صدر، اقبال اکادمی کے ناظم اور سالہا سال تک مرکزیہ مجلس اقبال کے کلید ی مقرر کی حیثیت سے فروغ اقبالیات کے لیے قابل تحسین خدمات انجام دی ہیں۔ بارہا بیرون ملک اقبالیاتی دورے بھی کیے۔ ان کی تصانیف نے قارئین میں فکرِ اقبال کا ایک پختہ، سچا اور کھرا فہم و شعور پیدا کیا۔ تصانیف: میزانِ اقبال (۱۹۷۲ئ)، ایقانِ اقبال(۱۹۷۷ئ)، اقبال کی فارسی غزل (۱۹۷۷ئ) Iqbal and Quranic Wisdom (۱۹۸۱ئ)، برہانِ اقبال (۱۹۸۲ئ)،Dimensions of Iqbal (۱۹۸۶ئ) ،Iqbal: The Poet -Philosopher of Islam ۱۹۸۲ئ، قرطاسِ اقبال، ۱۹۸۸ئ۔ بقول ڈاکٹر غلام مصطفی خاں: ’’پروفیسر صاحب کو اللہ پاک نے ’’آہِ سحر‘‘ اور ’’نورِ بصیرت‘‘ دونوں سے نوازا ہے، اس لیے وہ صحیح مسلمان فاضل کی طرح اقبالیات کا مطالعہ کرتے ہیں‘‘۔ (دیباچہ: برہانِ اقبال )۔ راقم الحروف کے خیال میں وہ ’’باباے اقبالیات‘‘ کہلانے کے مستحق ہیں۔ ۴۷؎ اقبالیاتی خدمات ہی کے سلسلے میں ڈاکٹر وحید قریشی (پ: ۱۴ فروری ۱۹۲۵ئ) کا نام بھی اہم ہے۔ وہ ایک عرصے تک بزم اقبال لاہور اور اقبال اکادمی کے ناظم اور ان اداروں کے تحقیقی مجلات کے مدیر رہے۔ ان کی تحریک و تشویق پر بہت سی مفید کتابیں مرتب و شائع ہوئیں۔ ان کے تنقیدی مضامین اساسیاتِ اقبال (۱۹۹۶ئ) پر انھیں ’’قومی صدارتی اقبال اوارڈ‘‘ دیا گیا ہے۔ ’’اقبال اور اسلامیہ کالج ‘‘ اور ’’اقبال اور اورینٹل کالج‘‘ جیسے اور اسی طرح کے دیگر وقیع تحقیقی مقالات پر مشتمل، ان کا موعودہ مجموعہ ہنوز تشنۂ ترتیب و طباعت ہے۔ ڈاکٹر رحیم بخش شاہین (م: ۱۸ جولائی ۱۹۹۸ئ) نے بطور استاد و صدر شعبہ اقبالیات، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد؛ ایم فل کے بیسیوں تحقیقی مقالات کی نگرانی و راہ نمائی کی۔ متعدد کتابیں: اوراقِ گم گشتہ (۱۹۷۵ئ)، Mementos of Iqbal (۱۹۷۵ئ)، اقبال کے معاشی نظریات (۱۹۷۶ئ)، ارمغانِ اقبال (۱۹۹۱ئ) پی ایچ ڈی کا غیر مطبوعہ تحقیقی مقالہ بعنوان: مکاتیبِ اقبال کا تنقیدی جائزہ (۱۹۸۷ئ) اور بیسیوں غیر مدون تحقیقی و تنقیدی مقالات ان سے یادگار ہیں۔ ۴۸؎ ڈاکٹر صدیق جاوید (پ: ۱۰؍ اپریل ۱۹۳۶ئ) نے سوانحی اور تنقیدی پہلوؤں پر مفید کام کیا ہے۔ بالِ جبریل کا تنقیدی مطالعہ (۱۹۸۷ئ)، اقبال پر تحقیقی مقالے (۱۹۸۸ئ) اور اقبال کا عمرانی مطالعہ (۱۹۸۹ئ)۔ ان کی اقبالیاتی تحریروں کا کلیات بعنوان: اقبال، نئی تفہیم شائع ہو چکا ہے۔ (سنگ میل لاہور، ۲۰۰۳ئ) ڈاکٹر تحسین فراقی (پ: ۱۷؍ ستمبر ۱۹۵۰ئ) کی بعض کاوشوں کا ذکر گذشتہ اوراق میں آچکا ہے۔ جہاتِ اقبال (۱۹۹۳ئ) کے بعد، انھوں نے نئے مجموعۂ مضامین اقبال: چند نئے مباحث (۱۹۹۸ئ) پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے تحقیق و تنقید کا’’وزیراعظم ادبی انعام‘‘ حاصل کیا ہے۔ اس پر انھیں ’’قومی صدارتی اقبال اوارڈ ‘‘بھی دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ایوب صابر (پ: ۱۹۴۲ئ) نے علامہ اقبال کی شخصیت اور فکروفن پر اعتراضات: تحقیقی و تنقیدی جائزہ کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا تھا۔ اقبال پر اعتراضات اور مخالفانہ تنقید کا مطالعہ و تجزیہ اور دفاعِ اقبال، ان کا تخصص ہے۔ ان کا ایم فل کا مقالہ: اقبال دشمنی: ایک مطالعہ کے نام سے، اور ڈاکٹریٹ کے مقالے کے بعض اجزا، متعدد کتابوں کی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ (اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ، ۲۰۰۳ئ، اقبال کا اردو کلام، ۲۰۰۳ئ، تصور پاکستان: علامہ اقبال پر اعتراضات کا جائزہ، ۲۰۰۴ئ، معترضین اقبال، ۲۰۰۴ئ)۔ ڈاکٹر صابر کلوروی (پ:۳۱؍ اگست ۱۹۵۰ئ) کو باقیاتِ کلامِ اقبال کے موضوع پر تخصص حاصل ہے۔ کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال، (اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۴ئ) انھوں نے ملفوظاتی مضامین اقبال کے ہم نشین (لاہور، ۱۹۸۵ئ) کی تدوین کی۔ اور اشاریہ مکاتیب اقبال (لاہور، ۱۹۸۴ئ) مرتب کیا۔ یادِ اقبال (شاہکار لاہور، ۱۹۷۶ئ، جریدی تقطیع) کے نام سے اقبال کی سوانح عمری لکھی، جو نظرثانی کے بعد، داستانِ اقبال کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اقبال کے غیرمدوّن مکاتیب کی تدوین، ان کا ربع صدی پرانا منصوبہ ہے، مگر ان کا زیادہ تر وقت اقبالیاتی موضوعات پر ایم فل کا تحقیقی کام کرانے اور نوجوان محققین کی تربیت میں صرف ہوتا ہے۔ اقبال کے نقاد اور تجزیہ نگار بعض مخصوص موضوعات کی طرف زیادہ متوجہ رہے ہیں، جیسے: تصوفِ اقبال (شاہ عبد الغنی نیازی، ابو سعید نور الدین، پروفیسر محمد فرمان، محمد شریف بقا، ابو اللیث صدیقی، بشیر مخفی القادری، الف دنسیم) یا اقبال کے تعلیمی نظریات (محمد احمد خاں، محمد احمد صدیقی، بختیار حسین صدیقی، محمد فاروق جوبش)۔ بعض اصحاب نے اقبال کو اشتراکی عینک سے دیکھا (ممتاز حسین، محمد حنیف رامے، صفدر میر، ثاقب رزمی، ریاض صدیقی وغیرہ)۔ مختلف موضوعات پر مقالات و مضامین کے بیسیوں مجموعے چھپے۔ یہاں سب کے نام گنوانا ممکن نہیں، تاہم ہماری معلومات کی حد تک اقبال پر تنقیدی و تحقیقی مضامین کے مجموعے پیش کرنے والوں کے نام یہ ہیں:مولانا صلاح الدین احمد، پروفیسر حمید احمد خاں، سید عبد اللہ، سید وقار عظیم، میرزا ادیب، نعیم صدیقی، سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر محمد ریاض، رحیم بخش شاہین، پروفیسر فروغ احمد، پروفیسر محمد منور، ڈاکٹر وحید قریشی، غلام حسین ذوالفقار، خواجہ محمد زکریا، سید محمد اکرم، انور سدید، پروفیسر فتح محمد ملک، جیلانی کامران، سلیم اختر، جابر علی سید، سید افتخار حسین شاہ، تبسم کاشمیری، پروفیسر محمد عثمان، عبد الواحد معینی، ظہور احمد اعوان، تحسین فراقی، گوہر ملسیانی، سمیع اللہ قریشی، خواجہ حمید یزدانی، انعام الحق کوثر، اے بی اشرف، ملک حسن اختر، چودھری مظفر حسین، اسلم انصاری، احسان اکبر، احمد ہمدانی، رفیع الدین ہاشمی وغیرہ۔ علامہ اقبال پر بعض اکابر (سیدسلیمان ندوی، مولانا مودودی، چودھری محمد حسین، غلام رسول مہر، محمد دین تاثیر، صوفی تبسم، فیض احمد فیض، عزیز احمد، آل احمد سرور، عابد علی عابد) کی تحریروں کو مختلف مرتبین نے یک جا کر کے کتابی صورت میں محفوظ کیا۔ غالب، رومی، حافظ، اکبر، مودودی اور مشرق و مغرب کی بعض دیگرشخصیات سے اقبال کے تقابلی مطالعے پر مبنی متعدد مضامین اور کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ بعض اصحاب نے مربوط کتابی مطالعے پیش کیے۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی صدارتی اقبال اوارڈ یافتہ اقبال اور قرآن ، ڈاکٹر وزیر آغا کی تصوراتِ عشق و خرد، اقبال کی نظر میں، پروفیسر آسی ضیائی کی کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ، ڈاکٹر خالد مسعود کی اقبال کا تصورِ اجتہاد (اردو اور انگریزی)، خواجہ منظور حسین کی اقبال اور بعض دوسرے شعرا، ڈاکٹر محمد ریاض کی اقبال اور فارسی شعرا ، ڈاکٹر عبدالشکور احسن کی اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ ، اسعد گیلانی کی اقبال، دارالاسلام اور مودودی ، جعفر بلوچ کی اقبال اور ظفر علی خاں ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی اقبال سب کے لیے جیسی کتابوں میں اقبال کے حالات اور فکر و فن کے مختلف پہلوؤں کا جامع احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حمید نسیم (م: ۲۸ ستمبر ۱۹۹۸ئ) اقبال کو حکیم اور فلسفی کہنے پر معترض ہیں۔ ان کے خیال میں وہ ’’حکیم الامت‘‘ نہیں بلکہ ایک شاعر ہیں، ملی شاعر جنھوں نے قوم کو ایک خاص پیغام دیا۔ حمید نسیم کا یہ خیال محل نظر ہے کہ اقبال کے مردِ کامل کا تعقل بیش تر مغربی مفکروں کے افکار سے مستعار ہے۔ وہ اقبال کے خطبات کو زیادہ اہم نہیں سمجھتے، البتہ اقبال کو عالمی سطح کے عظیم شاعروں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی کتاب (علامہ اقبال، ہمارے عظیم شاعر، ۱۹۹۳ئ، قومی صدارتی اقبال اوارڈیافتہ ہے۔ علامہ اقبال پر مولوی احمد دین (م: ۹؍ اکتوبر ۱۹۲۹ئ) نے سب سے پہلی اردو کتاب (اقبال، ۱۹۲۳ئ) شائع کی تھی۔ علامہ نے اسے پسند نہیں کیا، کیونکہ اس سے کلامِ اقبال کی اشاعت متاثر ہونے کا اندیشہ تھا، اس لیے مصنف نے اس کتاب کے سارے نسخے جلا کر ضائع کر دیے۔ پھر ۱۹۲۶ء میں اسے از سر نو لکھا۔ جناب مشفق خواجہ (م: ۲۱ فروری ۲۰۰۵ئ) نے اسے ایک مفصل مقدمے اور حواشی کے ساتھ مدوّن کر کے ۱۹۷۹ء میں شائع کیا۔ (چند تبدیلیوں کے ساتھ تازہ اڈیشن: اقبال اکادمی لاہور، ۲۰۰۶ئ)کسی اقبالیاتی کتاب کی تحقیقی تدوین کے ضمن میں اسے ایک مثال بنایا جاسکتا ہے۔۴۹؎ اس تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے اقبالیاتی ادب کا سب سے بڑا ذخیرہ تنقید اقبال سے متعلق ہے، جس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ تنقید اقبال کے اس بحر زخار میں طرح طرح کے رجحانات و رویے ملتے ہیں۔ علامہ اقبال کی تحسین و توصیف کا رویہ غالب ہے اور سب سے زیادہ اقبال کی پیغمبرانہ حیثیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اقبال کی فکری اساس قرآن حکیم پر استوار ہے چنانچہ اقبالی مصنفین کی عظیم اکثریت زندگی کو مذہب اور اخلاقی قدروں کے حوالے سے دیکھنے کی عادی ہے۔ برعظیم کی تاریخ و سیاست کے حوالے سے، اقبال کی سوچ، فکر اور ان کا طرزِ عمل ہمیں قومی اور ملی امنگوں کے مطابق نظر آتا ہے۔ دوسرا رویہ اقبال سے اختلاف کا ہے، جس کے تحت مختلف نقادوں نے اپنے اپنے معتقدات کی روشنی میں اقبال کا تجزیہ کیا ہے۔ خودی اور تصوف کے مسئلے پر اختلاف یا اقبال کے سیاسی افکار و تصورات میں تضادات یا اقبال کا نظریۂ قوت و پیکار (بحوالہ شاہین) یا اقبال کے سماجی و معاشی تصورات پر اشتراکیوں کا اختلاف وغیرہ___ اس طرح کے اختلافات کہیں اقبال شکنی کا رجحان بن جاتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال کی شخصیت کو منہدم یا اسے مجروح کرنے کی شعوری کوشش ہو رہی ہے۔ (عالم خوند میری نے بہت عمدہ بات کہی ہے کہ اقبال کے ہاں تضادات اس وقت نظر آتے ہیں جب ہم فکرِ اقبال کے کسی ایک جز کو دوسرے جز سے الگ کر دیتے ہیں۔ کُل اقبال کو پیش نظر رکھیں تو الجھن ختم ہو جاتی ہے) بھارت کے بعض نقاد کہتے ہیں کہ اہل پاکستان علامہ اقبال پر تنقید کے روادار نہیں اور انھوں نے اقبال کو رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکا دیا ہے ___عرض ہے کہ اگر وہ خدوخالِ اقبال، ۱۹۸۶ء از محمد امین زبیری یا صدائے احتجاج، ۱۹۹۰ء از شمیم رجز، جیسی کتابیں دیکھ لیتے یا سردار محمد عبدالقیوم خاں کی (ناروے کی) تقریر پڑھ لیتے یا اقبال کے بارے میں جی ایم سید، غلام مصطفی شاہ اور ابراہیم جویو کے ’’ارشادات‘‘ سے آگاہ ہوتے تو انھیں اندازہ ہوتا کہ پاکستان میں اقبال ’’مقدس گائے‘‘ نہیں ہے بلکہ ان پر دل کھول کر مخالفانہ بلکہ متعصبانہ اور معاندانہ تنقید کی گئی ہے۔ اس کا کچھ اندازہ محمد ایوب صابر کی کتاب اقبال دشمنی: ایک مطالعہ (۱۹۹۳ئ) سے بھی ہوتا ہے۔ افسوس ہے اقبال دشمن عناصر نے اختلاف اور دشمنی کا فرق ملحوظ نہیں رکھا۔ اقبال کے بیش تر نقادوں کا رویہ متوازن و معقول ہے۔ انھوں نے بعض امور میں اقبال سے اختلاف کیا مگر ان کی قرار واقعی ستایش و تحسین میں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ ان کا رویہ ناقدانہ ضرور ہے، مگر مخالفانہ نہیں بلکہ ہمدردانہ ہے۔ علی عبا س جلال پوری کی اقبال کاعلم الکلام ہنگامہ خیز ثابت ہوئی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اقبال فلسفی نہیں متکلم تھے۔ فلسفی آزادنہ غو رو فکر کرتا ہے مگر اقبال نے پہلے سے چند مفروضے قائم کر کے ،انھیں دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ پھر یہ کہ اقبال خرد دشمن اور تمدن دشمن تھے یا ان کا ’’نظریۂ خودی بتمام و کمال فشٹے سے ماخوذ ہے‘‘ وغیرہ۔ فنون کے صفحات پر ایک عرصے تک بشیر احمد ڈار سے ان کی قلمی معرکہ آرائی جاری رہی۔ ۵۰؎ ایک اور قلمی مباحثہ سلیم احمد کی کتاب اقبال:ایک شاعر نے پید اکیا۔ ان کے خیال میں موت، اقبال کا مرکزی مسئلہ ہے اور وہ اپنی شا عری کے ہرجز کے ذریعے موت سے جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ’’اقبال کا تصور قوت ‘امام بخش گا ماں پہلوان کی کشتی کو دیکھ کر پیدا ہوا ہو گا ‘‘ یا’’ممکن ہے ساقی نامہ والا تصورِ حرکت‘سیالکوٹ کی کسی ندی پر نہانے کا ردعمل ہو‘‘ وغیرہ۔ پروفیسر محمد عثمان ، فتح محمد ملک اور صدیق جاوید نے نوائے وقت کے صفحات پر ردعمل ظاہر کیا۔ سراج منیر نے سلیم احمد کا دفاع کرتے ہوئے اسے ’’بڑی شاعری پر بڑی تنقید ‘‘قرار دیا۔ ۵۱؎ بایں ہمہ سلیم احمد کے ان سوالات کا تشفی بخش جواب سامنے نہیں آسکا کہ ہمارے شعرا کے تخلیقی وجدان نے اقبا ل کے اثرات کیوں نہیں قبول کیے؟اور ہمارے اہم ترین نقادوں (عسکری، مجنوں، فراق وغیرہ) نے اقبال سے خاطر خواہ اعتنا کیوں نہیں کیا ؟ سلیم احمد نے کتاب کے دوسرے اڈیشن میں مزید توضیحات پیش کیں اور کتاب پر بعض اعتراضات کے جواب بھی دیے۔ یہ مباحثہ و مکالمہ ان کی وفات(یکم ستمبر ۱۹۸۳ئ) کے بعد بھی جاری رہا۔ نظیر صدیقی ،اپنے ایک مضمون قومی زبان ،کراچی ،ستمبر۱۹۸۹ئ،ص۴۴) میں لکھتے ہیں :’’انھوں نے اپنی قوم کو،بلکہ نوعِ انسان کو موت سے آنکھیں چار کرنے کے قابل بنا دیا، اور اس لحاظ سے ان کی شاعری موت کے خوف کی شاعری نہیں،بلکہ موت کے خوف پر غالب آنے کی شاعری بن جاتی ہے‘‘۔ ۱۹۸۷ء میں ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ (م:۴؍اپریل۱۹۹۵ئ) نے ایک سلسلۂ مضامین کا آغازکرتے ہوئے لکھا تھا کہ علامہ اقبال، اس دور کے مجدد بلکہ ’’مجتہدِ مطلق‘‘ہیں۔ موصوف کا دعوٰی تھا کہ اقبال، اجتہاد اور تعبیرِ شریعت کا اختیار علمااور فقہا سے لے کر قانون ساز اسمبلیوں کو منتقل کرنا چاہتے تھے کیوں کہ اسمبلیاں ’’گہری بصیرت کے حامل عوام کی منتخب‘‘ ہوتی ہیں جب کہ فقہا ملوکیت کے نمایندے اور نا مزد ہوتے ہیں۔ انھوں نے بار بار اس امر پر زور دیا کہ علامہ اقبال نے اسلامی ریاست (پاکستان )کی قانون ساز اسمبلی کو’’اجتہادِ مطلق‘‘کا اختیا ر دیا ہے۔ گورایہ صاحب کے نزدیک پا کستانی پارلیمنٹ کا وجود افکارِ اقبال کا مرہون منت ہے،اس لیے اس پارلیمنٹ کا اخلاقی، قومی اور تاریخی فرض ہے کہ وہ شریعت کی نئی تعبیر انجام دے کیونکہ اسی صورت میں پاکستان ایک مثالی اور جدید اسلامی ریاست بن سکتا ہے۔ اس بحث میں بہت سے اہل قلم نے حصہ لیا اور یہ مباحثہ ڈیڑھ دو برس تک چلتا رہا مگر اس ساری بحث میں اس سوال کاتشفی ،بخش جواب سامنے نہیں آیا کہ اجتہاد اور تعبیر شریعت کا اختیار جس پارلیمنٹ کو دیا جائے گا ، اس کے ارکان کا معیار کیا ہوگا؟ مروجہ جمہوریت میں تو ہرایراغیرا ، بددیانت، خائن، بد عنوان، اور فاسق و فاجر اندھا دھند اور بے۔تحا شا روپیا خرچ کر کے یا دھاندلی اور غنڈہ گردی کر کے رکن بن سکتا ہے۔ کیا فی الواقع علامہ اقبال ایسے ہی’’مجتہدین‘‘کو تعبیرِ شریعت کا اختیا ر سونپنا چاہتے تھے؟۵۲؎ اس زمانے (۱۹۸۷ئ، ۱۹۸۸ئ) میں اخبارات میں ’’ناروے کی ناروا بحث‘‘بھی چلتی رہی۔ دسمبر۱۹۸۷ء میں اوسلو میں منعقدہ ایک تقریب میں ڈاکٹر جاوید اقبال اور سردار محمد عبدالقیوم خاں شریک تھے۔ تقریب میں جاوید صاحب کی تقریر سن کر سردار صاحب بے مزہ ہوئے۔ ان کے الفاظ تھے :’’مجھے سخت صدمہ ہوا‘‘۔ ردعمل میں وہ بہت سی تلخ باتیں کَہ گئے۔ یہ ردعمل،علامہ اقبال سے زیادہ پسر اقبال کے خلاف تھا مگر غم وغصے کے عالم میں، عدم توازن کا شکار ہو کر، وہ جاوید اقبال کے والد کو بھی بُرا بھلا کہنے لگے۔ یہ نہ سوچا کہ علامہ اقبال،محض جاوید اقبال کے والد نہیں، ملت اسلامیہ کا عظیم اور قابل فخر سرمایہ بھی ہیں اور ایک شاعر کے علاوہ احیاے دین و ملت کی ایک اہم علامت بھی۔ سردار صاحب کا لہجہ فی الواقع غیر محتاط تھا اور وہ حدِّ اعتدال سے تجاوز کر گئے، بقول پروفیسر محمد منور: تھا ناروے میں ناروا، اسلوب آپ کا انھیں اندازہ نہیں کہ انھوں نے اقبال کے مداحوں کے دل دکھائے۔ ڈاکٹر غلام علی چودھری نے اقبال کے دفاع میں من اے میرا مم! داد از تو خواہم کے نام سے پوری کتاب لکھ ڈالی۔ اس بحث میں بعض اصحاب (ڈاکٹر اسرارا حمد، مولانا صدر الدین الرفاعی، مفتی محمد حسین نعیمی وغیرہ) نے ڈاکٹر جاوید اقبال پر بھی تنقید کی۔ ۵۳؎ ابتدائی زمانے میں انگریزی خطبات کی طرف قارئینِ اقبال کا اعتنا نہ ہو سکا (شاید اس لیے کہ ان کی زبان انگریزی تھی، وہ بھی اَدق۔ پہلا اردو ترجمہ ۱۹۵۸ء میں چھپا)۔ اب گذشتہ پندرہ، بیس برسوں کے دوران میں، خطباتِ اقبال کے مطالعے کی طرف خاصی توجہ مبذول ہوئی ہے۔ خطبات کو سمجھنے سمجھانے کے لیے متعدد کتابیں شائع ہوئیں، مضامین چھپے اورمذاکرے ہوئے۔ محمد شریف بقا کی خطباتِ اقبال پر ایک نظر ] ۱۹۷۴ئ[ اور ڈاکٹر سید عبد اللہ کی مرتبہ: متعلقاتِ خطباتِ اقبال (۱۹۷۷ئ) ، تفہیم خطبات کی اولین سنجیدہ کوشش تھیں۔ اس کے بعد خطبات کی تسہیل و تشریح کے ضمن میں متعدد کتابیں سامنے آئیں، مثلاً: پروفیسر محمد عثمان کی فکر اسلامی کی تشکیل نو (۱۹۸۵ئ) یا بعض متفرق مضامین وغیرہ۔ بعد ازاں بعض اصحاب نے (جن میں محمد یوسف گورایہ پیش پیش تھے) خطبات کو فکرِ اقبال کا ’’بنیادی ماخذ‘‘ قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ اجتہاد کی عمارت علامہ کی اسی ’’نمایندہ کتاب‘‘ پر استوار کی جائے کیوں کہ اقبال کی شاعری، خطبات کے مقابلے میں ’’ثانوی حیثیت‘‘ رکھتی ہے۔ پروفیسر محمد منور کے خیال میں علامہ کا تصور اجتہاد، خود اجتہاد ہی کی طرح ارتقا پسند اور ارتقا پذیر رہا، لہٰذا یہ فرض کرنا درست نہ ہو گا کہ ۲۹-۱۹۲۸ء میں انھوں نے جو کچھ کہا اور ان کی سوچ کا جو رخ، وفات سے ۸، ۹ برس پہلے ان کے خطبات میں نظر آتا ہے، وہ ۱۹۳۸ء تک جوں کا توں برقرار رہا۔ منور صاحب نے یہ بات، اس مقالے میں کہی تھی جو پاکستان سٹڈی سنٹر جامعہ کراچی کے زیر اہتمام خطبات اقبال پر ایک مذاکرے (۲ تا ۴ ؍ اپریل ۱۹۸۷ئ) میں پیش کیا تھا۔ اس کی روداد اور مقالات پر مجموعۂ مضامین اقبال: فکر اسلامی کی تشکیل نو (مرتبہ: ڈاکٹر سید حسین محمد جعفری، ۱۹۸۸ئ) اس موضوع پر ایک لائق مطالعہ کتاب ہے۔ محمد سہیل عمر نے خطبات کو ایم فل اقبالیات کے تحقیقی مقالے کا موضوع بنایا۔ اس مقالے پر انھیں نہ صرف ڈگری ملی بلکہ اوپن یونی ورسٹی نے ’’اقبال اوارڈ‘‘ بھی عطا کیا۔ انھوں نے خطبات میں موجود بعض ’’شوالوں‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ (مطبوعہ بعنوان: خطباتِ اقبال، نئے تناظر میں،اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۹۶ئ)۔ اقبال اکادمی نے خطبات پر مباحث کے لیے مجلہ اقبالیات کا پورا شمارہ (جنوری ۱۹۹۷ئ) مختص کیا۔ بعض اصحاب، خصوصاً ڈاکٹر وحید عشرت کی تحریروں پر چودھری مظفر حسین (م: ۲۲ جولائی ۲۰۰۳ئ) نے گرفت کی اور انھیں ’’اقبال شناسی کا انحطاط ‘‘ قرار دیا۔ ۵۴؎ قریبی زمانے میں خالد جامعی نے رسالہ ساحل اور جریدہ، کراچی کے ذریعے خطباتِ اقبال کے متعلق سید سلیمان ندوی اور عبدالماجد دریابادی سے منسوب یہ انکشاف فرمایا کہ خطبات کے بعض مباحث میں اقبال کفروالحاد اور زندقہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان خطبات میں لادینیت مستور ہے۔ تاریخِ اقبالیات کے اس سب سے بڑے انکشاف کی بنیاد وہ مبیّنہ امالی ہیں جو سید سلیمان ندوی کی وفات (۱۹۵۳ئ) کے ۳۶،۳۷ برس بعد ۱۹۹۲ء کے آس پاس، سید صاحب کے ایک عقیدت مند ڈاکٹر غلام محمد نے وقتاً فوقتاً خالد جامعی کو مبینہ طور پر املا کرائے۔ ان ’’امالی‘‘ کا دورانیہ تین برس میں پھیلا ہوا ہے۔ پھر ۱۵،۱۶ برس تک یہ ’’امالی‘‘ خالد جامعی کی ’’لوحِ محفوظ‘‘ میں مستور رہے۔ ۲۰۰۶ء میں اچانک انھیں خیال آیا کہ خطباتِ اقبال کے ذریعے جو گمراہیاں پھیلتی جارہی ہیں، ان کے سدباب کے لیے ’’امالی‘‘ کی قرولی برآمد کرنا ناگریز ہوگیا ہے۔ خالد جامعی کے مطابق خطبات میں بے شمار تضادات ہیں کیوں کہ اقبال کے اجتہادات مغربی فکروفلسفے کی پیداوار ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اقبال نے خطبات سے رجوع کرلیا تھا، مگر اس دعوے کا ثبوت؟ فقط قیاس کی بیساکھیوں کے ساتھ تو بڑے سے بڑا دعویٰ بھی ایک خوش خیالی کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا__ بہرحال خطبات میں کفروالحاد اور زندقہ کا یہ انکشاف بہت ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ خالد جامعی کے مبیّنہ امالی پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے مثلاً یہ کہ اگر سید سلیمان ندوی خطبات کو واقعی کفر و الحاد و زندقہ ہی سمجھتے تھے تو انھوں نے علامہ اقبال سے طویل سلسلہ خط کتابت اور بارہا ملاقاتوں اور کئی دن کے سفر افغانستان میں شب و روز کی صحبتوں میں کیوں نہ دل کی بات زبان پر لانے کی جرأت کی؟ مبیّنہ طور پر وہ جن ’’خدشات، وسوسوں اور اندیشوں‘‘ میں مبتلا تھے، کبھی تو اقبال کے سامنے ان کا اظہار کیا ہوتا__ خالد جامعی کہتے ہیں: سید صاحب سمجھتے ہیں کہ اس طرح اقبال کا مرتبہ و مقام اور ان کی حیثیت مجروح ہوگی اور سید صاحب اقبال کی شاعری اور شخصیت کے مثبت اثرات کو زائل نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے کچھ نہ لکھا__ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا تھا تو پھر انھوں نے ڈاکٹر غلام محمد کے سامنے یہ خیالات کیوں ظاہر کیے؟__ اس سوال کا جواب بھی نہ ملا۔ مزید سوال یہ کہ سید صاحب تو اقبال کو مجروح کرنے سے گریزاں رہے مگر غلام محمد صاحب (اللہ ان کی مغفرت کرے) نے ’’امالی‘‘ کا یہ ورثہ خالد جامعی کو کیوں منتقل کیا؟ اور اگر خالد جامعی اقبال کے ’’مقام و مرتبے اور حیثیت‘‘ اور ان کی شخصیت اور شاعری کے ’’مثبت اثرات‘‘ کے قائل ہیں تو پھر (جو کام سید صاحب نے نہیں کیا، دریابادی صاحب نے نہیں کیا۔) اس ’’فرضِ کفایہ‘‘ کی ادایگی میں اس مستعدی کے ساتھ وہ (خالد جامعی) کیوں پرجوش ہوگئے؟ خالد جامعی صاحب نے ’’امالی‘‘ کی بہت تاویلیں کیں، راقم کے متعدد سوالات کے جواب دینے سے گریزاں رہے اور خلطِ مبحث کے لیے نئے نئے سوالات اٹھانے میں مستعد اور سرگرم رہے۔ براہ راست اقبال کی شخصیت اور اُن کی صلاحیتوں کو بقول سید قاسم محمود ’’جارحانہ ذاتیات‘‘ کی حد تک تنقید کا نشانہ بنایا۔ مثلاً یہ کہا کہ اقبال عربی نہیں جانتے تھے ان کا فہم قرآن و حدیث نہایت ناقص تھا، اقبال شاتم رسول کی سزا سے مکمل طور پر لاعلم تھے، وہ جرمن زبان سے ناواقف تھے، وہ شریعت اور فقہ کی معمولی باتیں بھی نہیں جانتے تھے، اسلامی علوم اور اسلامی فکروفلسفے پر ان کی نظر نہایت سرسری تھی۔ اقبال کے بارے میں خالد جامعی کے سوالات خاصے توہین آمیز اور اشتعال انگیز ہیں۔ محسوس ہوتا تھا کہ وہ بہرقیمت اقبال کو ضعیف کرنا اور اُن کی سبکی کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اقبال کا ذکر اس پیرایے میں کیا کہ لوگوں کے دل میں اقبال کی وقعت کم ہوجائے اور کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا کہ اُن کے دل میں اقبال کے خلاف بغض بھرا ہوا ہے۔ خالد جامعی قارئین کی جوابی تحریروں کو چھاپنے سے گریزاں رہے اور جو کچھ شائع کیا اُسے کانٹ چھانٹ کرکے اس انداز میں پیش کیا کہ ان کے اپنے موقف کی تائید کا تاثر پیدا ہو، یا ایسی ضمنی اور بعض اوقات سنسنی خیز سرخیاں لگا دیں جن سے مصنف کا موقف ہی غتربود ہوگیا۔ راقم کے خیال میں یہ جامعی صاحب کی سراسر فتنہ انگیزی تھی جو اقبال کے ساتھ سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر غلام محمد اور پورے دینی طبقے کے لیے رسوائی کا باعث ہوئی __ سوال یہ ہے کہ خالد جامعی نے اس جگ ہنسائی کا اہتمام کیوں کیا؟ پس پردہ محرکات کیا تھے؟ اور وہ ہر اس شخص کی پگڑی اچھالنے میں کیوں لذت محسوس کرتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے خدمتِ دین میں لگا ہوا ہے۔ ہمیں اس کا علم نہیں ہوسکا۔ شاید یہ راز ، راز ہی رہے گا۔ ۵۵؎ مظفر حسین مرحوم نے قریبی زمانے میں پاکستان اور اسلام کے بارے میں علامہ اقبال کے افکار و نظریات کی وضاحت کے لیے چند کتابچے لکھے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ ایک شاعر (علامہ اقبال) نے ہندی مسلمانوں کے لیے اسلام کے عصری تقاضوں کے مطابق ایک نصب العین متعین کر کے انھیں بحیثیت قوم ایک نیا جنم دیا، اور ایک سیاست دان اور مدبر (قائداعظم) نے سخت مشکلات کے باوجود، ایک شاعر کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کر دکھایا لیکن ان کے بعد جو سیاست دان آئے، انھوں نے اپنی پچاس سالہ غفلتوں، کوتاہیوں، بد عنوانیوں اور بد اعمالیوں سے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ۵۶؎ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ مظفر حسین صاحب نفاذ اسلام میں ناکامی کی ذمہ داری دینی رہنماؤں اور ان کی جماعتوں، خصوصاً مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پر عائد کرتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں مولانا مودودی نے علامہ اقبال کے ’’کلچرل طریق کار‘‘ کے بجاے ’’آئیڈیا لو جیکل طریق کار‘‘ کو اپنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ علما کا اصل میدان تعلیم اور کردار سازی ہے اور انھیں اپنی ساری توجہ اس کام پر مرکوز رکھنی چاہیے اور عملی سیاست میں حصہ لے کر اپنی توانائیوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ۵۷؎ اقبالیات کے بیش تر طلبہ کے لیے، مظفر حسین کے یوٹوپین نقطۂ نظر سے اتفاق مشکل ہو گا، تاہم انھوں نے پاکستان کی عملی صورتِ حال میں اقبال کے افکار و نظریات سے راہ نمائی کا ایک نیا زاویہ فراہم کیا ہے۔ ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف کے باوجود ملک و ملت کے لیے ان کا جذبۂ درد مندی و دل سوزی قابل قدر ہے۔ ۶ ایک تعجب خیز بات یہ کہ پاکستان کے نظریاتی بانی علامہ اقبال پر پاکستانی جامعات میں پی ایچ ڈی کی سطح پر بہت کم کام ہوا ہے۔ (تحقیق کار: ابو سعید نور الدین،محمد معروف، نذیر قیصر، رفیع الدین ہاشمی، صدیق جاوید، صابر کلوروی، نعیم احمد، رحیم بخش شاہین، فرزانہ ماجد، ندیم شفیق ملک، ناہید سلطانہ، محمد آفتاب احمد ، محمد اشرف چودھری، اختر النسا، محمد ایوب صابر،گیوساب شین، محمد آصف اعوان، عبد الغنی، سجاد حسین شاہ، محمد وسیم انجم)۔ ۶۰ برسوں میں کل ۲۱ (ممکن ہے دوچار اور بھی ہوں) مقالات، البتہ ایم اے اور ایم فل کی سطح پر خاصی بڑی تعداد میں مقالات تحریر ہوئے۔ رفعت حسن، سید محمد اکرم اور خورشید انور نے اقبالیات پر پی ایچ ڈی کی اسناد بیرونِ ملک جامعات سے حاصل کیں۔ پنجاب یونی ورسٹی میں اقبالیات پر ایم اے کے تقریباً دو سو مقالے لکھے گئے۔ علامہ اقبال اوپن یو نی ورسٹی کے شعبۂ اقبالیات میں رفتار تحقیق نسبتاً تیز ہے۔ وہاں ایم فل کے تقریباً ۲۵۵ مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ جہاں تک جامعاتی تحقیق کے معیار کا تعلق ہے، قدرِ اول کی چیزیں کم ہیں۔ ابھی تک ڈاکٹریٹ کے تقریباً نو، ایم فل کا ایک اور ایم اے کے تقریباً بارہ مقالوں کو اشاعت کا منہ دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ جامعات میں اقبال پر تحقیق، کسی بڑی اسکالر شپ کی منتظر ہے۔ جامعاتی تحقیق میں سب سے بڑا حصہ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے شعبۂ اقبالیات کا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ بلا شبہہ تحقیقِ اقبالیات میں یہ سب جامعات سے آگے ہے مگر معیار کا مسئلہ غور طلب ہے۔ اپریل ۲۰۰۳ء کی بین الاقوامی اقبال کانفرنس لاہور کی ایک نشست میں کرسیِ صدارت پر ڈاکٹر محمد صدیق خاں شبلی تشریف فرما تھے۔ وہ اُن دنوں اوپن یونی ورسٹی کے شعبۂ اقبالیات کے مشیر (consultant) کے عہدے پر فائز تھے۔ کسی موضوع پر مذاکرے کی سی صورت تھی۔ یکے از شرکاے مذاکرہ، ڈاکٹر صدیق جاوید نے علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے اقبالیاتی مقالوں کا ذکر کرتے ہوئے، اُن کے معیار کو ’’شرم ناک‘‘ قرار دیا۔ راقم نے یونی ورسٹی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک سو مقالے لکھے گئے ہیں تو سبھی اعلیٰ درجے کے تو نہیں ہوں گے۔ البتہ ایک سو میں سے دس کے بارے میں مطالبہ بجا ہے کہ وہ اونچے معیار کے ہونے چاہییں۔ ہمیں زمینی حقائق کو بھی پیشِ نگاہ رکھنا چاہیے۔ اس کے باوجود راقم سمجھتا ہے کہ علامہ اقبال سے منسوب اوپن یونی ورسٹی کو اپنے موجودہ معیار ِ تحقیق کو بہتر بنانے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ (جو اس وقت بہتری و برتری کی طرف مائل نہیں ہے۔) کم ازکم معیار ایسا ہو کہ تحقیقی مقالات بلا دریغ شائع کیے جا سکیں۔ غور کرنا چاہیے کہ اب تک جن مقالات پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے، اُن میں سے کتنے قابلِ اشاعت ہیں؟ اور اقبالیات کی پیش رفت میں کتنا کچھ اضافہ (contribute) کرتے ہیں؟ ۷ یوسف سلیم چشتی (م: ۱۱ فروری ۱۹۸۴ئ) کی معروف حیثیت کلامِ اقبال کے شرح نگار کی ہے۔ غلام رسول مہر (م:۱۹۷۱ئ)کے سلسلۂ مطالب (بانگِ درا، بال جبریل، ضرب کلیم، اسرارورموز) کے مقابلے میں، ان کی تشریحات مفصل ہیں۔ اس تفصیل و تطویل میں کہیں کہیں وہ موضوع سے ہٹ جاتے ہیں مگر ان کی علمیت اور راست فکری میں کلام نہیں۔ وہ اقبال کے پورے متداول اردو اور فارسی کلام کے شارح ہیں۔ بلا شبہہ ان کی شرحوں سے اقبال فہمی کا ایک شعور پیدا ہوا۔ اگر کوئی فہیم اقبال شناس ان کی شرحوں کی تدوین کر سکے تو اپنے موضوع پر آج بھی یہ اچھی شرحیں ہیں۔ ۵۸؎ مہر صاحب، صرف چار مجموعوں کے مطالب قلم بند کر سکے۔ یہ شرحیں مختصر ہیں، مگر ان میں ضروری نکات آ گئے ہیں۔ ۵۹؎ کلامِ اقبال کے دیگر جزوی (ایک یا ایک سے زائد مجموعوں یا منتخب کلام کے) شرح نگاروں میں نشتر جالندھری، آقاے رازی، عبد الرشید فاضل، ڈاکٹر محمد باقر، صوفی تبسم، عبدالرحمن طارق، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، محمد شریف بقا، عارف بٹالوی، عبید اللہ قدسی، اصغر علی شاہ جعفری، غلام احمد پرویز، اقبال احمد خاں، طاہر شادانی، ڈاکٹر شفیق احمد، ڈاکٹر الف دنسیم، اسرار زیدی، فیض لدھیانوی، پروفیسر خالد پرویز اور گوہر ملسیانی شامل ہیں۔ خواجہ حمید یزدانی اور حمیداللہ شاہ ہاشمی نے پورے فارسی کلام کی شرحیں لکھی ہیں۔ اقبال کے بعض اشعار (مثلاً: محمد بھی ترا جبریل بھی… وغیرہ) کے معانی و مفہوم کے تعین کے لیے قارئین اقبال کے درمیان،دل چسپ بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ بیسیوں کی تعداد میں یہ مباحث اخبارات و رسائل میں منتشر ہیں اور انھیں یک جا کر کے، اس موضوع پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ تشریحات کی ایک نوعیت کلامِ اقبال کی علامات، تلمیحات اور تراکیب کی توضیح و تصریح کی بھی ہے۔ اس سلسلے میں عابد علی عابد (تلمیحاتِ اقبال، ۱۹۵۹ئ)، نسیم امروہوی (فرہنگ اقبال، دو حصے، ۱۹۸۴ء اور ۱۹۸۹ئ)، مقبول انور داؤدی (مطالبِ اقبال، ۱۹۸۴ئ)اور ڈاکٹر اکبر حسین قریشی (مطالعۂ تلمیحات و اشاراتِ اقبال، باضافہ ۱۹۸۶ئ) کی قابل قدر کاوشیں حوالہ جاتی اہمیت کی حامل ہیں۔ ۸ اقبالیاتِ پاکستان کا ایک حصہ منظوم کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان میں زیادہ تر تو ایسی نظموں کے مجموعے ہیں جن میں اقبال کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ (اس روایت کا آغاز علامہ کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا)۔ تاہم ایسے مجموعوں میں وفاتِ اقبال پر لکھے گئے مرثیے، قطعات، کلامِ اقبال پر تضمینات اور اقبال کی زمینوں میں کہی گئی غزلیات وغیرہ شامل ہیں۔ بعض کی نوعیت اقبال کے فکر و فن پر منظوم تنقید و تبصرے کی ہے جیسے: معین الدین جمیل کی مثنوی سر الاسرار (۱۹۶۲ئ)۔ نئی منظوم کتابوں میں رفیق خاور کی حرفِ نشاط آور لبِ کوثر (۱۹۷۹ئ)، طفیل ہوشیار پوری کی تجدید شکوہ (۱۹۸۷ئ) ، طاہر لاہوری کی خودی ہے نور فشاں (۱۹۸۹ئ) اور اسلم انصاری کی فیضانِ اقبال (۱۹۹۷ئ) قابلِ ذکر ہیں۔ نوری صاحب کی ڈاکٹر اقبال سے معذرت کے ساتھ (۱۹۷۸ئ)، اس اعتبار سے ایک دلچسپ کتاب ہے کہ مصنف کے بقول یہ ’’شعر و شاعری میں صنفِ محکیات میں پہلی کتاب‘‘ ہے۔ اس میں علامہ اقبال کے مختلف اشعار کا، شعر ہی میں جواب دیا گیا ہے، مثلاً: اقبال: بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشاے لبِ بام ابھی نوری: بے خطر کودنے کا ان پر ہے الزام غلط ان کو پھینکا گیا، وہ کود پڑے کب؟ ۹ اقبالیاتِ پاکستان کا ایک حصہ ایسا ہے جسے ’’متفرق‘‘ میں شمار کرنا چاہیے کیوں کہ اس میں طرح طرح کی مطبوعات شامل ہیں، مثلاً: ۱- بچوں کے لیے کتابیں ۲- تقاریر اور خطبات ۳- نصابی کتابیں ۴- مصوّر کتابیں ۵- سووی نیر ۶- اقبالیاتی اداروں پر کتابیں ۷- متفرقات گو ہم نے متفرق کتابوں کو ان کی نوعیت کے اعتبار سے سات حصوں میں بانٹ دیا، مگر ان سات اقسام میں بھی بھانت بھانت کی کتابیں اور کتابچے شامل ہیں۔ ان میں سے بعض تو بالکل لغو، بے کار اور فضول ہیں، البتہ بچوں کے لیے تعارفی کتابیں تیار کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔ ان میں دوچیزیں بہت اچھی ہیں، محنت سے تیار کی گئی ہیں اور ان کی افادیت میں کلام نہیں۔ اوّل: سید محمد عبد الرشید فاضل کی سلسلۂ درسیاتِ اقبال (۳ حصے، اقبال اکادمی کراچی، ۱۹۷۳ئ، ۱۹۹۰ئ)، دوم: میرا اقبال مرتبین: زبیر حسین شیخ، سلمان آصف صدیقی (سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ حیدر آباد، ۲۰۰۲ئ)، یہ پانچ کتابوں کا مجموعہ ہے جو بطور اضافی مطالعہ جماعت چہارم سے جماعت ہشتم کے طلبہ و طالبات کے لیے نہایت سلیقے، خوب صورتی اور مہارت سے تیار کیا گیا ہے۔ اسی تسلسل میں مزید تین چار حصے اقبال اکادمی کے زیر اہتمام تیار ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے کی آخری کتاب گریجویٹ کلاس کے لیے ہو گی۔ میرا اقبال کی اب سی ڈی بھی دستیاب ہے۔ نصابی سلسلے میں انٹر میڈیٹ اور بی اے، کے لیے شعبہ ٔ اقبالیات، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد کی تیار کردہ کتابیں بھی مفید ہیں۔ ۱۰ اقبالیاتی ادب کا ایک قابل ذکر حصہ رسائل و جرائد کے خاص اقبال نمبروں پر مشتمل ہے۔ یہ اس روایت کا تسلسل ہے جس کا شاندار آغاز نیرنگِ خیال نے ۱۹۳۲ء میں کیا تھا۔ ۱۹۷۳ء میں جب پہلی بار اقبال صدی کی بازگشت سنائی دی تو بعض جرائد نے بڑے وقیع اقبال نمبر شائع کیے۔ تین چار سال بعد، جب حکومتی سطح پر ولادتِ علامہ اقبال کا سو سالہ جشن منایا گیا (۱۹۷۷ئ) تو اس تاریخی موقعے کی مناسبت سے اقبال نمبروں کا ایک تانتا بندھ گیا۔ بعض جریدوں نے ایک سے زائد بار اور بعض نے کئی کئی جلدوں میں خاص نمبر شائع کیے۔ اس ضمن میں مجلہ اقبال، اقبال ریویو، ادبی دنیا، نقوش، سب رس، سیارہ، افکار معلم اور صحیفہ کی ایک سے زائد بلند پایہ اشاعتیں منظر عام پر آئیں۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری سے ایک گونہ شغف تو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ ۱۹۷۷ء میں جب محکمہ تعلیم نے رسائل کے اقبال نمبر شائع کرنے کی ہدایت جاری کی تو یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے علاوہ سکولوں تک نے بڑے جوش و جذبے سے اقبال نمبر مرتب کر کے شائع کیے۔ خیابان پشاور، ضیا بار سرگودھا، راوی لاہور، اورینٹل کالج میگزین لاہور، برگ گل کراچی اور رگِ سنگ لورا لائی اور اسی طرح کے بعض دوسرے جرائد کے خاص نمبروں نے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات میں اقبال اور کلامِ اقبال سے دل چسپی اور رغبت میں اضافہ کیا۔ ۲۰۰۲ء کو سالِ اقبال کے طور پر منایا گیا۔ اس موقع پر بھی بہت سے رسائل نے بہت عمدہ اقبال نمبر شائع کیے۔ اقبال نمبروں کا شمار تنقیدِ اقبالیات میں ہونا چاہیے۔ علمی و ادبی جرائد کے خاص نمبروں کے ذریعے متعدد بلند پایہ علمی مقالات منظرِ عام پر آئے کیوں کہ ان کے مدیران کرام نے نامور اہلِ قلم اور نقادوں سے بعض اہم موضوعات پر با صرار مقالات لکھوائے، جن میں سے بعض کی حیثیت اقبالیاتی ادب میں قابلِ لحاظ اضافوں کی ہے۔ سکولوں اور کالجوں کے خاص نمبر زیادہ تر رسمی اور روایتی نوعیت کی تحریروں پر مشتمل ہیں۔ طالب علموں سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کرنی چاہیے مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان فرمایشی نمبروں نے، ایک اقبالیاتی فضا اور ماحول پیدا کرنے میں بہت مدد دی۔ ۱۱ آخر میں مختصراً اقبالیاتِ پاکستان کے بعض متفرق پہلوؤں کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا۔ اول:اقبال اور مطالعۂ اقبال کے اثرات، وسیع الاطراف ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ متعدد شعرا کے ہاں اقبال کی فکری و معنوی تقلید اور ان کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں، مثلاً: شیخ محمد ایوب: آبِ حیواں ، نوائے فردا۔ عرشی امرتسری : نقش ہاے رنگ رنگ۔ غلام النصیر چلاسی: معدن التوحید، گنجینۂ معرفت۔ عاصی کرنالی: رگِ جاں۔ جاوید احمد غامدی: مقامات وغیرہ۔ دوم: ۶۰ سالوں میں علامہ اقبال پر ہر نوعیت اور ہر معیار و قدرو قیمت کی کتابیں،مضامین اور نظمیں لکھی گئی ہیں۔ ان کی شاعری ہو یا فکر و فلسفہ، مابعد الطبیعیات، خودی و بے خودی، عقل و عشق، حیات و ممات، خیرو شر، جبر و قدر، حسن و فن، فقر و تصوف اور زمان و مکان کا مسئلہ یا ان کی زندگی اور شخصیت… شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو گا، جس پرخامہ فرسائی نہ کی گئی ہو، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ: ’’اقبالیات کے نام سے جو ذخیرۂ ادب تیار ہو چکا ہے، وہ اس پاے کا نہیں، جیسا کہ ہونا چاہیے تھا‘‘۔ ۶۰؎ کیونکہ بقول تحسین فراقی: اقبال کو اب تک جو نقاد ملے ہیں، ان میں کم از کم نوے فی صد ایسے ہیں جن کے یہاں وہ جامعیت مفقود تھی، جو تخلیق کے جوہر مخفی کو آئینہ کر دیتی ہے…] اس لیے [ بیش تر کام افقی جہات میں ہوا ہے۔ اس میں پھیلاؤ تو دریا و صحرا کی خبر لاتا ہے، لیکن عمق نہیں، وسعت ہے، گہرائی نہیں۔ ۶۱؎ اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال پر قلم اٹھانے کے لیے جس وسعتِ مطالعہ اور تنقیدی بصیرت کی ضرورت ہے، وہ ہمارے اقبالی نقادوں میں، الا ما شاء اللہ مفقود ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ بجا فرماتے ہیں: ’’اقبال شناسی اور اقبال فہمی کے لیے کئی علوم کی ضرورت ہے۔ مشرق و مغرب کے عام علوم کے ساتھ اسلامی علوم بھی سیکھے جائیں تو بات بنتی ہے۔ محض جدید تعلیم صحیح اقبال شناسی پیدا نہیں کر سکتی‘‘۔ ۶۲؎ سوم:۱۹۸۷ء کے گیلپ پاکستان سروے کے مطابق، پاکستان کے مقبول ترین شاعر علامہ اقبال ہیں۔۶۳؎ بیشتر پاکستانی بچے، اپنے سکول کے پہلے ہی دن سے ’’ترانۂ ملی‘‘ کے ذریعے سے اقبال سے متعارف ہوتے ہیں اور پھر مختلف حوالوں سے یہ نام ان کے ملی اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ چہارم: حکومتِ پاکستان نے ۱۹۷۷ء میں صد سالہ جشنِ ولادتِ علامہ اقبال اور پھر ۲۰۰۲ء کو بطور ’’سالِ اقبال‘‘ منانے کا اعلان کیا تو، جیسا کہ ابتدا میں بتایا گیا، بہت سی نئی کتابیں چھپیں، اقبال نمبر شائع ہوئے، سکولوں کالجوں میں اقبال کوئز مقابلے اور تقریری و تحریری انعامی مقابلے منعقد ہوئے۔ مختلف سطحوں پر اقبالیاتی جلسے، اور مذاکرے ہوئے، تین چار بین الاقوامی اقبال کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ان اقدامات و وقوعات سے اقبالیات میں خاصی پیش رفت ہوئی، مطالعاتِ اقبال کو فروغ ملا اور اقبالیاتی ادب کے ذخیرے میں معتدبہ اضافہ ہوا۔ پنجم: اقبالیات، پاکستانی علوم و ادبیات کا ایک بڑا موضوع ہے چنانچہ اقبالیاتی ادب کے مختلف شعبوں میں ٹھوس تحقیق و تنقید کی نہ صرف گنجایش موجود ہے بلکہ اس کی ضرورت بھی ہے۔ اقبال کے سوانح، شخصیت اور ان کے افکار کے بہت سے پہلو تا حال تشنۂ تحقیق ہیں۔ اقبال کا کلام اور ان کا فکر جتنا وسیع اور ہمہ جہت ہے، اس کے مطالعے کی گنجایشیں اتنی ہی زیادہ ہیں: سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر کی تَہ میں ہیں لاکھوں لولوے لالہ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ۱۹۴۴ء میں، قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی نے ۱۹۵۵ء میں اور مشفق خواجہ نے ۱۹۶۶ء میں اقبالیات کے جن پہلوؤں اور موضوعات پر کام کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی، ان میں سے بیش تر ابھی تک تشنۂ تحقیق چلے آ رہے ہیں۔ جو کچھ معقول کام ہوئے ہیں، وہ بعض اقبال شناسوں کی ذاتی تشویق و کوشش کا نتیجہ ہیں۔ ششم: چند لوگ جو آسمانِ اقبالیات کے روشن ستارے تھے، اب غروب ہو چکے ہیں، مثلاً: یوسف سلیم چشتی ، بشیر احمد ڈار، ڈاکٹر محمد رفیع الدین، محمد عبد اللہ قریشی، ڈاکٹر سید عبد اللہ، افتخار احمد صدیقی، ممتاز حسن، عابد علی عابد، خلیفہ عبد الحکیم، پروفیسر محمد عثمان، محمد رفیق خاور، ڈاکٹر محمد ریاض، رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر اکبر حسین قریشی، چودھری مظفر حسین، پروفیسر محمد منور اور پروفیسر محمد معروف۔ خدا ان سب کی روح کو آسودہ رکھے، اور جو اقبال سکالر حیات ہیں، خدا انھیں اقبالیاتی ادب کے ایوان کو بنانے سنوارنے، سجانے اور مستحکم رکھنے کی بیش از بیش توفیق بخشے، آمین۔ بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انفرادی کاوشیں ایک خاص حد سے آگے نتیجہ خیز نہیں ہو سکتیں۔ اقبالیاتی ادب کو باثروت بنانے کے لیے، مطلوبہ تحقیقی و تنقیدی کام: ’’بہتر صورت میں… اسی وقت انجام پا سکتے ہیںجب تمام ادارے ہم آہنگ ہوں اور اقبال سے دل چسپی رکھنے والے تمام اہل علم کا تعاون حاصل کریں۔ ان اداروں کو تقسیم کار کے ساتھ اشتراکِ عمل کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘ ۶۴؎ ہفتم: جو اقبالیاتی ادارے، خاص فروغِ اقبالیات کے لیے قائم کیے گئے ہیں اور ان کے پاس وسائل بھی ہیں، اگر وہ محض سرکاری شعبوں اور حکومتی اشاعت گھروں کی حیثیت سے اوپر اٹھ کر، اصحاب فکر و نظر کی مدد سے ٹھوس منصوبہ بندی کریں، اہداف اور ترجیحات مقرر کریں تو یقینا کہیں زیادہ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس سے اقبالیاتی ادب میں مقداری اضافہ تو ہو گا ہی، علمی لحاظ سے بھی اس کا گراف بالیقین بتدریج بلند ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں فقط براے دلچسپی یا عبرت آموزی (یادونوں اعتبار سے) نامور محقق اور نقاد مشفق خواجہ (۱۹۳۵ئ-۲۰۰۵ئ) کا ایک اقتباس نقل کرنا مناسب ہوگا: اقبال کے حوالے سے جو ہزاروں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں ان میں ایسی کتابیں کتنی ہیں جو ہمارے لیے اقبال کی شخصیت اور کمالات سے آگاہی کا وسیلہ بنتی ہیں؟ بمشکل ۲۵،۳۰ کتابیں ایسی ہوں گی جو اقبال فہمی اور اقبال شناسی میں ہماری معاون ہوسکیں، باقی سارا ذخیرہ ضائع بھی ہوجائے تو اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا! سوائے ان اداروں اور افراد کے جو اقبال کا نام کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ۶۵؎ خ…خ…خ ۶۰ برسوں میں اقبالیات کا ارتقا ایک ایسا بحرِ زخار ہے جس کی گہرائی اور گیرائی نامعلوم ہے۔ بقول خورشید رضوی: تم کو اس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں سطورِ بالا کا مطالعہ اس امر کو پیشِ نظر رکھ کر کیا جائے تو مناسب ہو گا کہ موضوعِ زیرِ بحث اصل میں پوری ایک کتاب کا موضوع ہے___ ایک ایسا وسیع و عریض موضوع، جس کی مختلف جہتوں، پرتوں اور ابعاد کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں ممکن نہیں چنانچہ اسے بعجلت ایک مختصر مضمون میں سمیٹنے اور کوزہ بند کرنے کی کوشش ناقص و نا تمام ہی رہے گی۔ ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے۔ وَ مَا توفیقی اِلّا بِاللّہ۔ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- مخزن، لاہور، اپریل ۱۹۰۱ئ، ص۳۳۔ ۲- سید وقار عظیم(مرتب): اقبال‘ معاصرین کی نظر میں، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۳ئ۔ ۳- اس کی ایک نمایاں مثال ادب اور انقلاب (اختر حسین راے پوری) ۔ ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد دکن، ۱۹۴۳ئ، میں شامل مضمون ہے: ’’ادب اور زندگی‘‘ (اپریل ۱۹۳۵ئ)۔ ۴- زمانہ، کان پور، فروری۱۹۲۹ئ، ص۱۱۸۔ ۵- بحوالہ روزنامہ انقلاب، لاہور، ۷؍جنوری ۱۹۳۱ئ، بحوالہ: حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے (مرتب: محمد حمزہ فاروقی) ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، لاہور، ۱۹۸۹ئ، ص۴۳۳-۴۳۴۔ ۶- خاص طور پر مجلس ترقی ادب لاہور کے ناظم پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم نے دسمبر ۱۹۷۳ء میں ’’اقبال صدی‘‘ کی مناسبت سے چند کتابیں شائع کیں اور مجلس کے زیر اہتمام ۲-کلب روڈ کے لان میں ایک تقریب منعقد کی۔ اس موقع پر ایک نمایش کتب و مقالات بھی منعقد ہوئی تھی۔ ۷- مذکورہ کلیات پر تبصرے کے لیے دیکھیے:راقم کی کتاب تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۸۲ئ، باب۱،۲۔ ۸- تحقیق،تدوین، روایت: رشید حسن خاں۔ دہلی ۱۹۹۹ئ، ص ۸۹۔ ۹- ایجوکیشنل ٹریڈرز، لاہور۔ ۱۰- تفصیل دیکھیے: اقبالیاتی ادب کے تین سال: رفیع الدین ہاشمی۔ حرا پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۲ئ، ص۳۴،۳۵۔ ۱۱- تحقیق، تدوین، روایت: ص۹۱۔ کلامِ اقبال کی تحقیقی تدوین پر جناب رشید حسن خاں کا مضمون: ’’کلامِ اقبال کی تدوین‘‘ مطبوعہ: سیارہ لاہور، ستمبر ۱۹۹۶ئ، اب مشمولہ: تحقیق، تدوین، روایت، یہ مضمون اور اس کے ساتھ راقم کا مضمون مشمولہ: اقبالیات : تفہیم و تجزیہ، اقبال اکادمی لاہور، ]۲۰۰۵ئ[ دیکھنا بھی مفید ہو گا۔ ۱۲- اس پر راقم کا ایک تفصیلی تبصرہ، دیکھیے: ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۸۸ئ، ص ۲۳ تا ۳۱۔ ۱۳- ناشر: یونی ورسل بکس، لاہور، ۱۹۸۸ئ، طبع دوم: اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۹۵ئ۔ ۱۴- مشمولہ، جہات اقبال : ڈاکٹر تحسین فراقی۔ بزم اقبال، لاہور، ۱۹۹۳ئ، ص ۱۲ تا ۲۹۔ ۱۵- ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۸۵ئ۔ ۱۶- دیکھیے: تصانیف اقبال، ص۴۴۸، نیز: خطبۂ علی گڑھ کی دریافت کے ضمن میں راقم کی ایک توضیح دیکھیے: اقبالیاتی ادب کے تین سال،ص ۳۳- ۳۴۔ ۱۷- یہ مقالہ: چودھری محمد حسین اور علامہ اقبال: روابط کے عنوان سے ۱۹۸۴ء میں پنجاب یونی ورسٹی میں پیش کیا گیا تھا۔ اس میں ۲۶ غیر مطبوعہ خطوط شامل ہیں۔ بعد ازاںیہ خطوط شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج لاہور کے مجلے تحقیق نامہ کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے۔ اب ان میں سے ۲۰خطوط، مکتوبات اقبال (بنام چودھری محمد حسین) کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیے گئے ہیں (ناشر: الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۸ئ۔ ) ۱۸- مظلوم اقبال کے بعض خطوط، مکمل صورت میں شاعر بمبئی کے اقبال نمبر ۱۹۸۸ء میں شائع ہو گئے ہیں۔ ۹ جون اور ۱۲ دسمبر ۱۹۱۸ء کے خطوط بہت اہم ہیں، دیکھیے: ص ۵۵۱ تا ۵۵۵۔ ۱۹- کلیات مکاتیب اقبال، ۴جلدیں (دہلی، ۱۹۸۹ئ، ۱۹۹۱ئ، ۱۹۹۳ئ، ۱۹۹۸ئ) ۔ ۲۰- کلیاتِ مکاتیب اقبال کی جلد سوم پر تحسین فراقی صاحب کا نقد، ان کی کتاب اقبال: چند نئے مباحث (لاہور، ۱۹۹۷ئ) میں شامل ہے۔ اقبال کی اردو نثر (زیب النسائ۔ اقبال اکادمی لاہور ۱۹۷۱ئ) میں بھی کلیاتِ مکاتیب کی ۷۴؍ اغلاط کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ۲۱- تفصیل کے لیے دیکھیے: ماسٹر اختر کی حسب ذیل کتابیں: ۱۔ ریاست بھوپال اور اقبال۔ بھوپال، ۱۹۸۷ئ۔ ۲۔ اقبال کے کرم فرما۔ دہلی، ۱۹۸۹ئ۔ ۳۔ اقبالیت اور اقبالیات۔ بھوپال، ۲۰۰۶ئ۔ اول الذکر دو کتابوں پر راقم کا اظہار خیال دیکھیے: اقبالیاتی ادب کے تین سال، ص ۱۲۲-۱۲۵۔ ۲۲- انوار اقبال مرتبہ: بشیر احمد ڈار، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۶۷ئ، ص ۱۵۶، ۱۹۴۔ ۲۳- اس کتاب کا پورا نام اس طرح ہے: Ms Translation by Professor Arthur J.Arberry of گلشنِ راز جدید The New Garden of Mystery by Allama Muhammad Iqbal مع اصل فارسی متن مشمولہ: زبور عجم ___ توضیحات اور متبادل ترجمہ از ڈاکٹر سعید اختر درانی،شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونی ورسٹی کراچی، ۲۰۰۵ء ۔ ۲۴- منظوم اردو ترجمہ کلیاتِ اقبال، فارسی، جہانگیر بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۵ئ۔ ۲۵- خطبات کا ایک اردو ترجمہ بھارت سے بھی شائع ہوا بعنوان: تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر از محمد سمیع الحق، دہلی ۱۹۹۴ئ۔ ۲۶- یہ مضمون، قدرے ترمیم کے بعد، ڈاکٹر سید عبد اللہ کے مجموعۂ مضامین: مسائل اقبال (مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور، ۱۹۷۴ئ) میں شامل ہے۔ ۲۷- ان کا مرتبہ اشاریہ اقبالیاتِ معارف اعظم گڑھ، مجلہ اقبالیات لاہور (جنوری۲۰۰۷ئ) میں شائع ہوا ہے۔ بعض دیگر علمی رسائل (صحیفہ، لاہور، اقبالیات، سری نگر، نقوش، لاہور، اورینٹل کالج میگزین، لاہور، اقبال ریویو‘ حیدرآباد وغیرہ) کے اشاریے زیر ترتیب و اشاعت ہیں۔ ۲۸- روزنامہ جنگ کراچی، ۲۲ ؍ اپریل ۱۹۶۶ئ۔ یہ مضمون مصباح الحق صدیقی کی مرتبہ کتاب: علامہ اقبال، اپنوں کی نظر میں (فرحان پبلشرز لاہور، ۱۹۷۷ئ) میں شامل ہے۔ ۲۹- اس سلسلے کے بیشتر مضامین راقم کی تالیف: اقبالیاتی جائزے (لاہور، ۱۹۹۰ئ) میں شامل ہیں۔ مضمون نمبر۲، اور ۳نظرثانی اور اضافوں کے بعد اقبالیاتی جائزے کے زیرطبع دوسرے اڈیشن بعنوان: اقبالیاتی ادب میں شامل ہیں۔ ۳۰- مشمولہ: جہات اقبال۔ ۳۱- اقبالیاتی جائزے ، ص۲۲، نیز: ص ۱۰۵ تا ۱۰۹۔ نیز : دیکھیے راقم کا مجموعۂ مقالات: تفہیم و تجزیہ (کلیہ علوم اسلامیہ و شرقیہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور، ۱۹۹۹ئ) ص ۹۸ حاشیہ۱۲۔ ۳۲- سر گذشت اقبال: ایک محاکمہ، خیابان ادب، لاہور، ۱۹۷۹ئ۔ ۳۳- متذکرہ سوانح عمریوں کے بارے میں تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے: راقم کا مضمون ’’علامہ اقبال کی سوانح عمریاں‘‘ مشمولہ: اقبالیاتی جائزے۔ نیز: ’’اقبال صدی کی سوانح عمریاں‘‘ مشمولہ: اقبالیات: تفہیم و تجزیہ۔ ۳۴- اقبالیات: مہر سنز، ۱۹۸۸ئ، ص ۴۹۔ نیز دیکھیے: چند یادیں، چند تاثرات، حصہ دوم از عاشق حسین بٹالوی، پیکے جز لمیٹڈ لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۱۳۳، ۱۳۵۔ ۳۵- ڈاکٹر وحید قریشی کے مضامین ان کے مجموعے : کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ (لاہور، ۱۹۶۵ئ) میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد باقر اور صفدر محمود کے مضامین صحیفہ ، لاہور، اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئے۔ ملک حسن اختر کامضمون، ان کے مجموعے: اقبال، ایک تحقیقی مطالعہ (لاہور، ۱۹۸۸ئ) میں شامل ہے۔ ۳۶- مشمولہ: حیات اقبال کا ایک جذباتی دور اور دوسرے مضامین، مکتبہ جدید، لاہور، ۱۹۷۷ئ۔ ۳۷- مشمولہ: اقبال کا نفسیاتی مطالعہ، مکتبہ عالیہ، لاہور، ۱۹۷۷ئ۔ ۳۸- سیارہ ،لاہور، مارچ ۱۹۷۹ء نیز: اقبال کا شعلہ نوا، ادارہ معارف اسلامی ، لاہور، ۱۹۹۲ئ، ص ۲۷۷ تا ۳۰۱۔ جناب نعیم صدیقی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اقبال کے خلاف شبہات کا غبار پھیلا دیا جائے تو پھر جتنی روشنی ان سے حاصل کی جا سکتی ہے، وہ بھی نہیں مل سکے گی۔ (ص۲۸۲) ۳۹- اقبال کا شعلہ نوا، ص ۲۹۳۔ ۴۰- حیاتِ اقبال کا ایک جذباتی دور،ص۳۰۸۔ ۴۱- عطیہ بیگم کی یہ کتاب ایک تفصیلی تحقیقی مطالعے کی متقاضی ہے۔ عطیہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ماہرالقادری کا ایک مضمون بہت اہمیت رکھتا ہے، جس کے بعض حصے پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ذکر و فن (جموں، ۲۰۰۳ئ) میںنقل کیے ہیں۔ ۴۲- ایضاً، ص۱۳۸۔ ۴۳- جابر علی سید کے دو مجموعے اقبال کا فنی ارتقا (۱۹۷۸ئ)، اقبال: ایک مطالعہ (۱۹۸۵ئ) اور افتخار احمد صدیقی کی کتاب عروج اقبال (۱۹۸۷ئ)بزم اقبال لاہور نے شائع کی۔ نذیراحمد کی اقبال کے صنائع بدائع (۱۹۶۶ئ) اور تشبیہات اقبال (۱۹۷۷ئ) اور سعد اللہ کلیم کی اقبال کے مشبہ بہِ و مستعار منہ (۱۹۸۵ئ) علی الترتیب آئینۂ ادب لاہور اور اقبال اکادمی پاکستان لاہور سے چھپیں۔ تبسم کاشمیری کی شعریات اقبال (۱۹۷۸ئ) مکتبہ عالیہ لاہور نے شائع کی۔ ۴۴- سید صاحب کے باقیاتِ اقبالیات کا ایک مجموعہ راقم الحروف نے مرتب کیا ہے، جو کتابت کے مرحلے میں ہے۔ ۴۵- مقالاتِ ممتاز (مرتب: شان الحق حقی، ادارہ یادگار غالب کراچی، ۱۹۹۵ئ) میں اقبالیات پر ممتاز حسن کی ۲۰ تحریریں شامل ہیں۔ اسی مجموعے میں شامل، ایک مضمون میں راقم نے ممتاز حسن کی اقبال شناسی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مقالات کا ایک اور مجموعہ علامہ اقبال: ممتاز حسن کی نظر میں کے نام سے ڈاکٹر محمد معز الدین نے مرتب کیا (اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۸۱ئ) اس میں پندرہ تحریریں شامل ہیں۔ ۴۶- ان پر راقم کا ایک مضمون: ’’ڈاکٹر محمد ریاض: ایک ہمہ جہت اقبال شناس‘‘ مطبوعہ: قومی زبان کراچی، مئی ۱۹۹۷ئ، ص۶۰ تا ۶۳۔ ۴۷- ان کی اقبالیاتی خدمات کے لیے دیکھیے، زبیدہ جبیں کی کتاب: پروفیسر محمد منور بطور اقبال شناس ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۰ئ۔ ۴۸- نہ صرف ڈاکٹر رحیم بخش شاہین بلکہ پاکستان کے دیگر حسب ذیل اقبال شناسوں پر ایم اے اور ایم فل یا پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں: سید نذیر نیازی، یوسف سلیم چشتی، چودھری محمد حسین، غلام رسول مہر، بشیر احمد ڈار، ممتاز حسن، محمد عبد اللہ قریشی، پروفیسر محمد عثمان، عابد علی عابد، سید عبد اللہ، افتخار احمد صدیقی، ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر جاوید اقبال، عبد الرحمن طارق، سید محمد عبد الرشید فاضل، سلیم احمد، غلام احمد پرویز، راجا حسن اختر، علی عباس جلال پوری، جابر علی سید، ملک حسن اختر، میاں محمد شفیع ]م۔ ش[، ڈاکٹر وزیر آغا، محمد طاہر فاروقی، سید وقار عظیم، سید عبد الواحد معینی، ڈاکٹر محمد ریاض، فقیر سید وحید الدین، ڈاکٹر محمد رفیع الدین اور رفیع الدین ہاشمی۔ ۴۹- حال ہی میں مولوی عبدالرزاق راشد کا مرتبہ: کلیاتِ اقبال (حیدرآباد دکن، ۱۹۲۴ئ) ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تعارف اور تقدیم کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ کاش یہ تاریخی کلیات بھی، مشفق خواجہ کی مرتبہ: اقبال از احمد دین کے طرز پر مدوّن کی جاتی۔ ۵۰- دیکھیے: فنون ، لاہور، جولائی ۱۹۷۳ئ، فروری، جون، ستمبر، دسمبر ۱۹۷۴ئ۔ ۵۱- دیکھیے: نواے وقت ، لاہور، ۱۸؍ اگست ۱۹۷۸ئ، ۲۰ ؍ اکتوبر ۱۹۷۸ء وغیرہ۔ ۵۲- تفصیل اور حوالوں کے لیے دیکھیے: اقبالیاتی ادب کے تین سال ، ص ۸۳ تا ۸۸۔ ۵۳- ایضاً، ص۸۸ تا ۹۴۔ ۵۴- خطبات پر مباحث کے لیے دیکھیے: ایضاً، ص۹۴-۹۹۔ نیز مظفر حسین صاحب کے کتابچے اقبال شناسی کے نئے زاویے (لاہور، ۱۹۹۸ئ) اور اقبال شناسی کا انحطاط، آل پاکستان ایجوکیشن کانگریس، لاہور، ۱۹۹۹ئ، نیز اقبالیات: تفہیم و تجزیہ، ص۴۳-۶۲۔ ۵۵- اس بحث کی تفصیل کے لیے دیکھیے: ساحل، کراچی کے ۲۰۰۶ کے شمارے۔ تعمیر افکار، کراچی، جنوری ۲۰۰۷ئ۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور کا کتابچہ: میارا بزم بر ساحل کہ آنجا، نیز: اس زمانے کے احیاے علوم (شاہکار میگزین)، لاہور، کے متعدد شمارے۔ ۵۶- علامہ اقبال اور غایت پاکستان از مظفر حسین، آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس، لاہور، ۱۹۹۷ئ، ص ۵۸، ۵۹۔ ۵۷- پاکستان کی منزل مراد اور ہمارے دینی راہ نما از مظفر حسین، آل پاکستان ایجوکیشن کانگریس، لاہور، ۱۹۹۸ئ، ص ۶۴… جناب مظفر حسین نے حسب ذیل کتابیں بھی شائع کی ہیں: پاکستان، نفاذ اسلام اور اقبال (۱۹۹۳ئ)، احیائے اسلام کے دو اسلوب (۱۹۹۵ئ)، پاکستان کی دینی سیاست (۱۹۹۶ئ)، مغربی جمہوریت اور علامہ اقبال (۱۹۹۸ئ)۔ ۵۸- تفصیل دیکھیے: اختر النسا کا تحقیقی مقالہ ایم اے اردو، بعنوان: یوسف سلیم چشتی بحیثیت شارح اردو، شعبۂ اردو، پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور، ۱۹۸۵ئ۔ مقامِ مسرت ہے کہ چشتی مرحوم کے ایک شاگرد اور مداح جناب محمد زین العابدین صاحب نے چشتی صاحب پر تحقیقی کام اور ان کی شرحوں کو تدوین نو کے بعد شائع کرنے کا ایک پُر عزم منصوبہ تیار کیا ہے۔ ۵۹- مطالب بانگ درا وغیرہ، ناشر: شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور۔ ۶۰- قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی: اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی کراچی، ۱۹۵۵ئ، ص ۱۹۹۔ ۶۱- جہاتِ اقبال ، ص ۱۶۲۔ ۶۲- مسائل اقبال، ص۹۔ ۶۳- روزنامہ جنگ، لاہور، ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ئ۔ ۶۴- مشفق خواجہ: روزنامہ جنگ، کراچی،۲۲؍ اپریل ۱۹۶۶ئ۔ ۶۵- علامہ اقبال اور ان کے فرزند اکبر آفتاب اقبال، بیگم رشیدہ آفتاب اقبال، کراچی، ۱۹۹۹ئ۔ ئ……ئ……ء خطباتِ اقبال کے اُردو تراجم: ایک جائزہ محمد شعیب آفریدی The Reconstruction of Religious Thought in Islam علامہ اقبال کے فکرو فلسفے کی ایک اہم کڑی ہے۔ ان خطبات کے ترجمے کا کام علامہ کی خواہش پر سید نذیر نیازی نے انجام دیا مگر علامہ اس ترجمے پر نظرثانی نہ کرسکے۔ البتہ دوسرے خطبے کے ترجمے کو دیکھنے اور اس میں اصلاح کرنے کے بعد ضروری ہدایات کے مطابق ترجمے کا کام جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ سید نذیرنیازی کا یہ ترجمہ ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا اور برسوں متداول رہا۔ لیکن کچھ عرصہ قبل ماہرین زبان نے اس ترجمے کی نسبت زیادہ سہل اور رواں ترجمے کے دعوے کے ساتھ اپنے تراجم پیش کیے۔ اُردو کے چار اور عربی، فارسی اور پنجابی کا ایک ایک ترجمہ اب تک سامنے آچکا ہے۔ ان اُردو تراجم کے ایک سرسری جائزے کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ تراجم بعض مقامات پر بہتر تفہیم اور مدّعاے مخاطِب کو عام فہم بنانے میں تو ضرور کامیاب ہوئے ہیں مگر ان میں سے کسی ترجمے کو بھی یہ مقام نہیں دیا جاسکتا کہ وہ سید نذیر نیازی کے ترجمے کی جگہ لے سکے۔ کئی مقامات پر تو ان مترجمین سے فہم کو بہتر بنانے کی بجائے بات بگڑ گئی ہے۔ اس جائزے کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سید نذیر نیازی کا ترجمہ مشکل اصطلاحات کے استعمال اور اسلوب کے پرانا ہوجانے کے باوجود آج بھی ایک منفرد علمی شان اور مقام رکھتا ہے۔ تاہم یہ ضرورت باقی ہے کہ اس کو سہل اور وقت کے جدید اسلوب کے اہم آہنگ بنایا جائے۔ اور ان مقامات کو واضح کیا جائے جہاں سید صاحب کا ترجمہ مبہم ہے۔ مولانا صلاح الدین احمد اپنے ایک مضمون ’’میرا جی کے چند منظوم تراجم‘‘ میں لکھتے ہیں:۱؎ ترجمہ بجائے خود ایک مشکل فن ہے۔ اس میں کامیابی کی جو دوتین شرائط ہیں ان میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ مترجم صاحبِ ذوق اور دونوں زبانوں کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہو۔ یوں ترجمہ کرنے کو جیسا آپ چاہیں کرلیں۔ لیکن ایک زبان کے فنکار کی روح کو دوسری زبان میں اُسی طرح داخل کرنا کہ ترجمے پر تصنیف کا گماں ہو، بہت کم اہلِ قلم کو ارزانی ہوا ہے۔ یہ تو عام کتب کے تراجم کی بات ہے۔ لیکن معاملہ جب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ جیسی دقیق اور عسیر الفہم کتاب کا ہو تو اس کی تسہیل اور ترجمے کی سلاست اور بھی ضروری ہوجاتی ہے اور اگر ترجمہ ایسی زبان میں کیا جائے جس میں فکری اور فلسفیانہ مضامین کو سہارنے کی روایت پہلے ہی مسدود ہوچکی ہو تو ترجمے کا کام دشوار تر ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال اس اصول کی اہمیت کو جانتے تھے لہٰذا ان کی خواہش تھی کہ ان کے خطبات کو تراجم کے ذریعے عام پڑھے لکھے مسلمان تک پہنچایا جائے۔ اس کے باوجود کہ انھیں خدشہ لاحق تھا کہ اُردو خواں طبقہ اس سے استفادہ نہیں کرسکے گا۔ چنانچہ میر غلام بھیک نیرنگ کو انھوں نے ایک خط کے ذریعے اپنے خدشے سے آگاہ کیا۔۲؎ اُن کی خواہش تھی کہ ان کے خیالات روایتی علما اور عام پڑھے لکھے مسلمانوں تک اس طریقے سے پہنچیں کہ انھیں سمجھنے میں دقت یا دشواری نہ ہو۔ اس غرض سے انھوں نے سیّد نذیر نیازی کو جو ہدایات دیں ان کا خلاصہ یہ ہے: ۱- ترجمے کی زبان آسان ہونی چاہیے اور مشکل اصطلاحات اور ادق اسلوبِ بیان سے پرہیز کیا جائے۔ ۲- ترجمے کے بعض اجزا علماے دین کی نظر سے گزرنے چاہییں۔ چنانچہ سیّد نذیر نیازی نے خطبات کے مباحث اور مصطلحات کے سلسلہ میں سیدسلیمان ندوی، ڈاکٹر سیّد عابد حسین، مولانا اسلم جیراج پوری اور مولانا محمد السورتی جیسے علما و فضلا سے مشاورت کی۔۳؎ ۳- خطبات کے وہ مقامات جہاں بحث میں صرف اشارات ملتے ہیں۔ ان کی تھوڑی بہت وضاحت اس غرض سے کر دی جائے کہ ان کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اس طرح وہ عبارت جس کا ترجمہ بسببِ ایجازِ کلام، فلسفیانہ اصطلاحات اور علمی افکار کی بحث میں کسی قدر مغلق یا عسیر الفہم نظر آئے اسے کھول دیا جائے۔ ڈاکٹر محمد اقبال کی اس خواہش سے مقصود اُردو دان طبقے کو ان مباحث سے روشناس کرانا تھا جو کہ دنیا کی متداول فکر سے شناسائی کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے باوجود کہ وہ اس امر کے امکانات کے بارے میں زیادہ پراُمید نہیں تھے۔ انھیں احساس تھا کہ ان کے مباحث چیدہ چیدہ لوگوں کی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ یعنی ایسے لوگ جن کی ذہنی اور فکری تربیت ایک خاص نہج پر ہو چکی ہے۔ عام آدمی تو ان موضوعات سے ہی متعارف نہیں، کجا وہ مقصد جو ان مباحث میں مضمر ہے اور اقبال کا مطمح نظر تھا۔ گویا ڈاکٹر محمد اقبال خطبات کو ترجمے کے ذریعہ عوام میں اس طور پر متعارف کروانا چاہتے تھے کہ ان کے مباحث علما اور عوامی حلقوں میں نفوذ کرجائیں اور وہ ان خطوط پر سوچنا شروع کریں۔ اس بات میں شک نہیں کہ خطبات کے براہِ راست مخاطب ایسے مسلمان اور غیر مسلم مفکرین اورمتخصّصین تھے جو انگریزی زبان اور جدید فلسفیانہ مباحث و مسائل سے آگاہ تھے۔ لیکن اقبال وسیع تہذیبی اور ثقافتی سطح پر ان مباحث کو پھیلانا چاہتے تھے اور یہ کام ترجمے ہی کے ذریعے ہوسکتا تھا۔ سیّد نذیر نیازی کے مطابق خطبات کے اُردو ترجمے کا خیال ڈاکٹر محمد اقبال کے ذہن میں ابتدا ہی سے موجود تھا۔ اقبال کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر عابد حسین (استاد فلسفہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی) اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیں مگر ان کی معذرت پر نیازی صاحب نے اس کام کا بیڑا اُٹھایا۔ چنانچہ ۱۹۳۰ء کی گرمیوں میں سیّد نذیر نیازی نے دوسرے خطبے کے کچھ اجزا کا ترجمہ کیا۔۴؎ علامہ اقبال نے اس ترجمے میں الفاظ اور مصطلحات حتیٰ کہ عبارتوں تک کی اصلاح کی اور انھیں ترجمہ جاری رکھنے کا حکم دیا۔ سیّد نذیر نیازی نے اپنے ترجمے میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ترجمہ انگریزی زبان اور جدید فلسفہ سے ناآشنا حضرات کے لیے دشوار نہ ہو۔ اور جدید فلسفیانہ افکار کی ترجمانی جن انگریزی الفاظ و مصطلحات میں کی گئی ہے ان کو ایسے اُردو الفاظ و مصطلحات میں بیان کیا جائے جو مغربی فلسفہ سے ناواقف حضرات کے لیے اجنبی اور نامانوس نہ ہوں۔ اس کے باوجود ناقدین نے اس ترجمہ کو دقیق اور مشکل قرار دیا ہے۔ کنیز فاطمہ یوسف اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں:۵؎ وہ ایسی جناتی زبان میں تھا جس کے مقابلے میں انگریزی کہیں زیادہ سہل اور مؤثر نظر آتی ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ مترجم نے اقبال کے انقلابی تصورات میں کانٹ چھانٹ اور تردید و تاویل کا حق بھی خدا جانے کہاں سے حاصل کرلیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت اُردو میں ان خطبات کا جو ترجمہ دستیاب ہے وہ نہ صرف پیچیدہ اور مبہم ہے بلکہ گمراہ کن حد تک اصل سے مختلف بھی ہے۔ ڈاکٹر محمد سمیع الحق لکھتے ہیں: ۶؎’’ترجمہ مذکور کو بالاستیعاب پڑھا۔ انگریزی لفظوں کو خود ساختہ عربی میں ترجمہ کرکے بوجھل بنایا گیا ہے۔‘‘ عامر سہیل اپنے مضمون ’’خطبات اقبال کا پہلا اُردو ترجمہ- ایک تجزیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:۷؎ علم فلسفہ سے گہرا تعلق رکھنے والے حضرات اوّل تو ان خطبات کا مطالعہ براہِ راست انگریزی ہی میں کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن مجبوراً اگر وہ اُردو ترجمہ کی طرف رجوع کریں تو ادق اسلوبِ بیان اور عربی فارسی کی گنجلک اصطلاحات ان کا راستہ روک لیتی ہیں۔ ڈاکٹر وحید عشرت نے لکھا ہے:۸؎ وہ عربی کے عالم تھے لہٰذا ترجمے میں عربی اصطلاحات ان کی مجبوری تھی۔ جس زمانے میں انھوں نے ترجمہ کیا اس زمانے میں اُردو زبان میں فلسفے کا کام ابھی ابتدائی مراحل میں تھا اور جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں تراجم ہورہے تھے۔ لہٰذا ترجمے کی مشکلات سے وہ بھی دوچار تھے۔ مرحوم ڈاکٹر محمد افضل (سابق ریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد) کے خیال میں یہ ترجمہ عربی و فارسی تراکیب سے گراںبار ہونے کے باعث عام قاری کے لیے وجہ کشش نہیں۔۹؎ شریف کنجاہی لکھتے ہیں:۱۰؎ اب کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں سے بمشکل ایک فیصد ایسے ہوتے ہیں جن کا ان تہذیبی اور دینی زبانوں (عربی،فارسی) سے نصابی تعلق رہا ہوتا ہے۔ اس لیے سیّد صاحب کا ترجمہ آج کل مشکل اور گنجلک لگتا ہے۔ درج بالا تمام اقتباسات میں مشترک اعتراض سیّد نذیر نیازی کے ترجمہ میں عربی و فارسی مصطلحات کا بے دریغ استعمال ہے جبکہ ہمارے نزدیک عربی اور فارسی مصطلحات کا استعمال زیر بحث ترجمہ کا سقم نہیں اور نہ اس سے ترجمہ گنجلک یا ادق بنتا ہے۔ سیّد نذیر نیازی کا مقصد بھی اس ترجمہ کو چیستاں بنانا نہیں تھا جیسا کہ وہ خود تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:۱۱؎ مترجم کو بہرحال یہ عرض کرنا ہے کہ حضرت علامہ کے ارشاد کے مطابق اس کا فرض تھا کہ خطبات میں جہاں کہیں جدید افکارِ فلسفہ کی ترجمانی جن الفاظ و مصطلحات میں کی گئی ہے ان کے لیے جو الفاظ، مصطلحات اور ترکیبات انتخاب کرے وہ انگریزی زبان اور مغربی فلسفہ سے ناواقف حضرات کے لیے غریب اور نامانوس نہ ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیّد نذیر نیازی کے ترجمے کو کیوں گنجلک اور ادق کہا جارہا ہے۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل اُمور کو پیش نظر رکھنا ہوگا: ۱- یہ ایک ایسی کتاب کا ترجمہ ہے جو بذاتِ خود بھی آسان نہیں ہے۔ یہ موضوعات عام لوگوں کے لیے مانوس نہیں۔ اِن موضوعات پر سوچنے اور انھیں سمجھنے کے لیے عام قاری کو فکری تربیت کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ کیونکہ ان کے مخاطبین ایسے حضرات ہیں جو عہد جدید کے فکری مسائل سے آشنا ہیں اور اقبال متعدد مقامات پر اپنے مخاطبین کے علمی تبحر پر اعتماد کرتے ہوئے بات صرف اشارات میں کرتے ہیں۔ اقبال نے ایک مقام پر میر غلام بھیک نیرنگ کو لکھا:۱۲؎ میں خیال کرتا ہوں کہ اُردو خواں دنیا کو شاید ان (خطبات) سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کرلیا ہے کہ پڑھنے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔ ۲- سیّد نذیر نیازی کے ترجمہ کے معترضین کا تعلق زمانۂ حال سے ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں میں زبان کے ڈھانچے اور اظہار کے کینڈے میں یقینا بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ وہ نسل جو عربی اور فارسی الفاظ سے مانوس تھی اور ان کے استعمال سے محظوظ ہوتی تھی، اب نہیں رہی۔ اس طرح عربی اور فارسی الفاظ یقینا آج کے قارئین کے لیے نامانوس ہوسکتے ہیں۔ ۳- جدید فکری مباحث کے لیے اُردو زبان کا دامن بہت محدود ہے اور یہ مشکل نہ صرف اُس وقت کے لکھاریوں کو درپیش تھی بلکہ آج بھی بدستور موجود ہے۔ تاحال علمی اصطلاحات کا اجتماعی اور قابل قبول نظام وضع کرنے کے لیے اعلیٰ پائے کی اجتماعی کوشش نہیں ہوئی۔ درج بالا اُمور کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سیّد نذیر نیازی مجبور تھے کہ وہ انفرادی سطح پر الفاظ و اصطلاحات کا چنائو کریں اور جہاں کہیں کوئی کمی یا مشکل ہو اسے تشریحی شذرات کی مدد سے واضح کردیں۔ تشریحی شذرات کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ اُردو زبان میں کچھ الفاظ ایسے بھی مروّج ہیں جن کو اپنے اصل مفہوم یا مادے (root word) سے کوئی نسبت نہیں رہی۔ یہ کام سیّد نذیر نیازی کا نہیں تھا کہ اُردو میں ان الفاظ کے استعمال میں تبدیلی لاتے اور اس کو مروج کردیتے۔ دوسرے یہ کہ وہ وضعِ اصطلاحات میں اناڑی نہ تھے۔ وہ وضعِ اصطلاحات یا واژہ سازی کے بنیادی اصولوں سے واقف تھے اور انھوں نے اپنے ترجمے میں اس امر کو خصوصی طور پر ملحوظ رکھا ہے۔ ایک مقام پر وہ خود لکھتے ہیں:۱۳؎ وضع اصطلاحات میں اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس طرح کے جو الفاظ اصطلاحاً استعمال ہورہے ہیں ان کے اصطلاحی اور حقیقی مفہوم میں اس درجہ تفاوت نہ ہو کہ ہماری وضع کردہ اصطلاحات اور قدیم مصطلحات میں کوئی معنوی علاقہ باقی نہ رہے۔ یہی امر اِن جدید یا قدیم عربی اور فارسی مصطلحات کے انتخاب میں ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے جن کے استعمال پر ہم مجبور ہیں۔ ان اصطلاحات کا تعلق ایسے الفاظ سے نہیں ہونا چاہیے جن کے معنی ہماری زبان میں بالکل بدل چکے ہیں۔ سیّد نذیر نیازی نے دانستہ کچھ قدیم عربی اور فارسی مصطلحات کو اپنے ترجمہ میں منتخب کیا ہے۔ ان کا مقصد ان کی ازسرنو ترویج ہے۔ یہی الفاظ و اصطلاحات ہمیں ہماری علمی اور فلسفیانہ روایت سے متعارف کرا کر ہمیں فکری طور پر اس سے مربوط کرسکتے ہیں۔ یہ اصطلاحات اگر آج مستعمل نہیں تو اس کی وجہ ہمارا زوالِ علم ہے۔ سیّد نذیر نیازی بعض نئی اور معروف اصطلاحات سے متفق نہیں اور ان میں ترمیم اور نظرثانی بلکہ تبدیلی کی سفارش کرتے ہیں۔ سیّد نذیر نیازی کے ترجمے میں اصطلاحات کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ کیجیے: نیازی صاحب نے (Paradoxes) کے لیے ’مغایرت‘ یا ’قول مغایر‘ کے الفاظ استعمال کرنے کی سفارش کی ہے جبکہ مولانا ظفر علی خان اس کے لیے مستبعد یا قولِ مستبعد کے الفاظ استعمال کرچکے تھے۔ یہاں لغوی اعتبار سے سیّد نذیر نیازی کا انتخاب بہتر معلوم ہوتا ہے کیونکہ (Paradox) وہ قول ہوتا ہے جس میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ سیّد نذیر نیازی نے خطبۂ دوم کے کچھ حصوں کا ترجمہ اصلاح کی غرض سے علامہ اقبال کو دکھایا بھی تھا۔ علامہ نے کچھ الفاظ کی اصلاح کی تھی۔ مثلاً (Teleological) کا ترجمہ نیازی صاحب نے ’غایتی‘ لکھا تھا، علامہ نے کہا کہ ’’غایتی‘‘ کے بجائے ’’غائی‘‘ کیا جائے۔ اسی طرح (cosmological) اور (ontological) کو سیّد نذیر نیازی نے بالترتیب ’کونیاتی‘ اور ’وجودیاتی‘ لکھا تھا۔ علامہ نے انھیں بدل دیا کیونکہ ان کے مطابق جہاں تک ممکن ہو ’’یاتی‘‘ کے استعمال سے احتراز بہتر ہے۔ سیّد نذیر نیازی کے نزدیک (Atom) کے لیے مناسب لفظ ’ذرہ‘ ہے اور (Atomic) کو ’ذریت‘ کہنا چاہیے اور اس مادہ (root word) سے متعدد مزید اصطلاحات وضع ہوسکتی ہیں۔ لیکن مشرقی علمی روایت کا لحاظ رکھتے ہوئے انھوں نے اس کے لیے ’جوہر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے حالانکہ ان معنوں میں ’جوہر‘ دراصل ’جوہر فرد‘ ہے۔ اس لیے کہ اشاعرہ کے نزدیک اس کا وجود مادی نہیں۔ وہ ایک غیر محسوس ہے اور اس کاسرچشمہ قدرت الٰہیہ ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ (Atomism) کو اگر ’جوہریت‘ کہا جائے تو (Atomicity) کو کیا کہا جائے گا، لہٰذا سیّد نذیر نیازی نے مجبوراً جواہریت لکھا ہے۔ (Intensity) کا لفظی ترجمہ تو شدت ہے لیکن اشارہ چونکہ حقیقت مطلقہ کی اندرونی لامتناہیت کی طرف ہے لہٰذا مترجم کو ادائے مطلب کے لیے ’افزونی‘ اور ’توسع‘ ایسے الفاظ کا سہارا لینا پڑا۔ اصطلاحاً (instant) کو ’آن‘ ہی کہنا چاہیے لیکن (point-instant) کو ’لمحہ- نقطہ‘ کہنا پڑا، اس لیے کہ ’آن-نقطہ‘ کی ترکیب بے جوڑ تھی۔ عربی میں مکان جیسی اصطلاح کے لیے ’’ھنا‘‘ کی اصطلاح موجود ہے جسے آج کل (point) کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لہٰذا ’سلسلہ نقاط و لمحات‘ کو ’سلسلۂ آنات و ھنات‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مترجم نے بہرحال (point-instant) کو ’نقطہ-لمحہ‘ ہی کہا ہے۔ اسی طرح ’احساس‘ (feeling) کا مترادف ہے۔ ’جذبہ‘ (passion) اور ’عاطفہ‘ (emotion) کا لہٰذا (emotion) کو جذبہ کہنا ٹھیک نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اُردو میں ’عواطف‘ بمعنی (emotions) استعمال ہوتا ہے لیکن ’عاطفہ‘ بمعنی (emotion) استعمال نہیں ہوتا۔ اب ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ عربی الفاظ امیال و عواطف، احساسات و تاثرات اور جذبات جیسے دوسرے الفاظ کا استعمال علمی نقطۂ نظر سے کیسے متعین کیا جائے۔ الفاظ کی مندرجہ بالا مثالوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ الفاظ و تراکیب اور اصطلاحات کے چنائو میں سیّد نذیر نیازی کا طریقہ مضبوط دلائل اور وجوہ کی بنیاد پر قائم ہے۔ انھوں نے الفاظ کے چنائو میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ اُردو میں مروّجہ اصطلاحات کے استعمال میں زبان کے اصول و ضوابط متاثر نہ ہوں۔ عربی اور فارسی اصطلاحات کے استعمال میں بھی انھوں نے اس امر کا لحاظ رکھا ہے کہ جن اصطلاحات کا استعمال از بس ضروری ہے ان کا تعلق ایسے مادہ (root word) سے نہ ہو جن کے معنی ہماری زبان میں بالکل بدل چکے ہیں۔ ان کی وضع کردہ اصطلاحات میں یہ اصول ان کے پیش نظر رہا کہ اصطلاحی اور حقیقی مفہوم میں بہرحال معنوی تعلق باقی رہنا چاہیے۔ قدیم عربی اور فارسی مصطلحات کے استعمال سے ان کا مقصد ایک تو ان کی ترویج تھا اور دوسرا اپنی مشرقی فکری و فلسفیانہ روایت سے عہد جدید کے قاری کا تعلق قائم کرنا۔ اُردو کی نئی اور معروف اصطلاحات میں ترمیم اور نظرثانی دراصل ان میں وضاحت اور سلاست کی خاطر کی گئی ہے۔ گذشتہ صفحات میں سیّد نذیر نیازی کے ترجمہ پر وارد ہونے والے اعتراضات اور مضامین کے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے کسی بھی مضمون نگار نے لغوی مباحث سے اپنے دعویٰ کا ثبوت مہیا نہیں کیا اور نہ الفاظ کا اپنا انتخاب ہی انھوں نے بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ ان کے لکھنے کا انداز اتنا سرسری ہے کہ ہم ان اعتراضات کا لغوی اور لسانی تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا ان رواروی میں لکھے گئے مضامین کی روشنی میں سیّد نذیر نیازی کی اہم علمی کاوش کے بارے میں ہم کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے لیے یہ صورت اور بھی الجھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ متعدد نامور نقادوں اور اقبال شناس علما نے اس ترجمے کو سراہا ہے: ۱- ’’سیّد نذیر نیازی مرحوم جو علامہ اقبال کے بڑے معتمد علیہ تھے اور جنھوں نے علامہ کے حکم سے اور ان کی نگرانی میں خطبات کا اُردو ترجمہ مع تشریحات و تعلیقات کے بڑی خوبی اور تحقیق و تدقیق سے کیا ہے‘‘۔ (مولانا سعید احمد اکبر آبادی)۱۴؎ ۲- ’’سیّد نذیر نیازی نے عمدہ ترجمہ ہمیں دیا ہے‘‘۔ (ڈاکٹر سیّد عبداللہ)۱۵؎ ۳- ’’نذیر نیازی نے ترجمہ بہت اچھا کیا ہے‘‘۔ (آل احمد سرور)۱۶؎ ۴- ’’سیّد نذیر نیازی نے یہ کام جو بڑا مشکل تھا، بہ سہولت انجام دیا اور یہ کام ہی ان کی علمی فضیلت، درّاکی اور فلسفہ فہمی کے ثبوت کے لیے کافی ہے‘‘۔۱۷؎ ۵- ’’انھوں نے انگریزی خطبات کا جو ترجمہ کیا ہے وہ چھوٹا کام نہیں۔ جہاں تک اس ترجمہ کی صحت کا تعلق ہے، اس کے بارے میں تو شبہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے بعض حصے علامہ اقبال نے دیکھے اور بعض ڈاکٹر عابد حسین نے‘‘۱۸؎ یہ توصیفی کلمات سیّد نذیر نیازی کے ترجمے کی اہمیت سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن اس ترجمے کو نقائص سے پاک نہیں کہا جاسکتا کیونکہ رفو کا بہت سا کام ابھی باقی ہے۔ کسی بھی علمی کتاب کے ترجمے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک پہلو زبان کی صرفی و نحوی تشکیلات اور محاورہ وغیرہ کا۔ دوسرا پہلو علمی اصطلاحات کا ہے۔ اوّل الذکر میں مترجم کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ بات کو سلیس اور عام فہم بنانے کے لیے جملے کی تشکیل جدید اور مروّجہ انداز میں کرے اور روزمرہ استعمال کی زبان کو وسیلۂ اظہار بنائے۔ لیکن اصطلاح سازی یا واژہ سازی کی آزادی ہر لکھاری کو نہیں دی جاسکتی۔ مصطلحاتِ علمی کو اپنانا اور رواج دینا ایک شخص یا ایک نسل کے بس کا کام نہیں۔ اس کے لیے علمی کلچر کی تشکیل اور فروغ ضروری ہے۔ اس کلچر کی تشکیل کے لیے پاکستان، ایران، مصر، ترکی، بھارت کے سکالر اور علما باہمی مشاورت سے ایک کمیٹی کی تشکیل کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ باہم مشاورت سے مصطلحات کا ایک ایسا نظام وضع کریں جو تمام ممالک کے علما کے لیے قابل قبول ہو اور انھیں تمام یونی ورسٹیوں میں درسی کتب میں استعمال کرکے مروّج کیا جائے۔ یوں ایشیائی ممالک اپنے ماضی سے رشتہ قائم کرسکتے ہیں اور جدید عہد میں عملی سطح پر ابلاغ میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور علمی مباحث کے انعقاد اور ان کے استفہام کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ ذاتی سطح پر معروضی اصولوں کو بروئے کار لائے بغیر علمی اصطلاح سازی سے اجتناب کیا جائے۔ پاکستانی مصنّفین کی ایک بڑی کھیپ اصطلاحات کے استعمال میں محتاط نہیں۔ وہ زبان کے اصولوں کو جانے بغیر اپنے طور پر زبان کے کچے پکے علم کی مدد سے اصطلاحات اپنا لیتے ہیں۔ یہ کام ڈکشن کا نہیں ڈکشنری کا ہے اور اس میں خالصتاً معروضیت اور قطعیت لازمی ہے۔ یوں ایشیائی ممالک میں عمومی طور پر اور ہندوستان اور پاکستان میں خاص طور پر اصطلاحات کے حوالے سے بے شمار لکھنے والے قارئین کی پریشانی میں اضافہ کررہے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر اگر ہم سیّد نذیر نیازی کے ترجمے کا موازنہ دوسرے تراجم سے کریں تو ہمیں سیّد نذیر نیازی کی اصطلاح سازی قدرے بہتر اور وقیع معلوم ہوتی ہے۔ تاہم جملوں کی ساخت اور انھیں جدید محاورے کے مطابق ڈھالنے کے حوالے سے اصلاح کی گنجایش موجود ہے۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں مستعمل الفاظ و اصطلاحات کا اسلوب اب مروج نہیں اور عوامی ذوق پر گراں گزرتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے جس سے مفرممکن نہیں۔ عربی اور فارسی کو اس طرح تعلیمی اداروں اور علمی حلقوں سے ختم کردیا گیا ہے کہ اب کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والوں سے بمشکل ایک فیصد ایسے ہوں گے جن کا ذوق اب زبانوں کے فکر و ادب اور محاورہ کے مطابق تربیت یافتہ ہو۔ عربی فارسی تراکیب آمیز عبارت آرائی ایک مدت تک مسلمان اہل قلم کی شناخت رہی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، شبلی نعمانی، علامہ عنایت اللہ مشرقی اور مولانا ظفر علی خان نے ایک نسل کے ذوق کی تربیت کی لیکن وہ نسل اب نہیں رہی لہٰذا اس امر میں کوئی قباحت نہیں کہ خطبات کے ایسے تراجم کیے جائیں جو اسلوب کے اعتبار سے جدید ذوق کی تشفی بھی کرسکیں اور عہد جدید کے عوام کے لیے قابل فہم بھی ہوں۔ اس سے قبل ذکر ہوچکا ہے کہ علامہ اقبال نے اس امر کی بالخصوص ہدایت فرمائی تھی کہ مترجم ہر ایسی عبارت کو جس کا ترجمہ بسبب ایجازِ کلام یا جدید فلسفیانہ اور علمی افکار کے بحث میں کسی قدر مغلق یا عسیر الفہم نظر آئے بقدر ضرورت کھول کر ایک حد تک واضح الفاظ میں بیان کردے۔ چنانچہ ۱۹۳۰ء میں جب اقبال کو دوسرے خطبے کے کچھ اجزا کا ترجمہ پیش کیا گیا تو انھوں نے بعض عبارتوں کی وضاحت فرمائی اور بعض میں ترمیم کردی۔ لیکن یہ کام بوجہ علالت مکمل نہ کرسکے۔ ایزادات اور توضیحات بڑی ذمہ داری کا کام تھا اور اقبال کے ایما اور نظرثانی ہی سے ممکن ہوسکتا تھا۔ تاہم سیّد نذیر نیازی نے اس امر کے پیش نظر کہ بہرحال اقبال کی کچھ توضیحات تو موجود ہیں اور ان کا برقرار رکھنا بھی ضروری ہے یہی مناسب سمجھا کہ تمام توضیحات کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ لہٰذا ایک حصے کو بشکل تصریحات کتاب کے آخر میں درج کر دیا اور دوسرا مختصر صورت میں کتاب کے ذیل میں درج ہوگیا۔ علامہ اقبال کی جو توضیحات حواشی میں درج ہیں ان کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر انھیں سیّد نذیر نیازی اپنے ترجمے کے متن ہی کے اندر قوسین میں درج کردیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ ان سے عبارت کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ان کی حیثیت حواشی کے بجائے عبارت ہی کے ایک حصے یعنی ناتمام جملوں کی ہے جنھیں متن کے ساتھ ملا کر پڑھ لینے سے مدعا اور مفہوم کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ خ…خ…خ سیّد نذیر نیازی کا ترجمہ ۳۶ برس تک متد اول اور رائج رہا۔ اس دوران اِکا دُکا خطبے کے ترجمے کی کوششیں ہوئیں۔ لیکن کوئی مکمل کاوش منظر عام پر نہ آسکی۔ دوسرا مکمل ترجمہ جناب شریف کنجاہی کے قلم سے بہ۔عنوان مذہبی افکار کی تعمیرِ نو، بزمِ اقبال لاہور سے شائع ہوا۔ شریف کنجاہی کئی برس قبل خطبات کا پنجابی ترجمہ شائع کرچکے تھے۔۱۹؎ محترم شریف کنجاہی نے سیّد نذیر نیازی کے ترجمہ کو بنیاد بنایا ہے اور وضاحتی حواشی میں احمد آرام کے فارسی ترجمہ۲۰؎ اور عباس محمود کے عربی ترجمہ۲۱؎ سے استفادہ کیا ہے۔ شریف کنجاہی کے پیش نظر بھی یہ مقصد تھا کہ خطبات کو عام فہم زبان میں پیش کیا جائے تاہم اصطلاحات کے انتخاب میں کسی زبان کے اصول کے نظام کو قبول کرنے کی بجائے انھوں نے خاصی آزادی برتی ہے جس سے اختلاف کی کافی گنجایش ہے۔ مترجم کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ خطبات کو عام فہم زبان میں ڈھالنا وقت کی ضرورت ہے اس دعویٰ کا ثبوت فراہم نہیں ہوتا کہ وہ واقعی اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے تو یہاں تک جرأت کرلی کہ وہ اصطلاحات جن کے اُردو مترادفات اقبال نے خود متعین کیے، انھیں بھی بدل دیا۔ ہمارے خیال میں اقبال نے جو اُردو مترادفات متعین کر دیے تھے انھیں جوں کا توں رکھنا چاہیے تھا۔ تاہم ایک دو مقامات ایسے ہیں جہاں شریف کنجاہی نے اپنی صوابدید کا بہتر استعمال کیا ہے جو عام قاری پر بات کو بہتر طور پر واضح کرتا ہے۔ انھوں نے احمد آرام کے فارسی ترجمہ اور عباس محمود کے عربی ترجمہ کو بنیاد بنایا ہے لیکن کچھ اصطلاحات میں انھوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا ہے اور بعض مقامات پر اصطلاحات کے استعمال کی بجائے پیرایۂ اظہار کو بدل کر مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ یوں وہ مروّجہ ترجمہ کے طریقوں سے ہٹ گئے ہیں لیکن بات کا ابلاغ بہتر ہوگیا ہے۔ اب ہم خطبات کے چند مقامات کے تراجم سے اپنے درج بالا موقف کی وضاحت کرتے ہیں۔ خطبہ اوّل میں ایک مقام پر اقبال لکھتے ہیں:۲۲؎ Ibn Khaldun, who approached the content of mystic consiousness in a more critical spirit and very nearly reached the modern hypothesis of subliminal selves. کنجاہی صاحب کا ترجمہ یوں ہے:۲۳؎ ابن خلدون نے عرفانی شعور کے مافیہ کی طرف زیادہ تنقیدی جذبے کے ساتھ نگاہ ڈالی اور نیم آگاہ نفوس یا شعور خفی کے مفروضے کے قریب جا پہنچا۔ اس اقتباس میں (Subliminal selves) علم نفسیات کی اصطلاح ہے۔ اس کا ترجمہ فارسی مترجم نے ’’خود آگاہی باطنی‘‘۲۴؎ اور عربی مترجم نے ’’عن العقل فیما وراء الشعور‘‘۲۵؎ کے الفاظ سے کیا ہے۔ سیّد نذیر نیازی نے ’’نفوس تحت الشعور‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔۲۶؎ یہ تمام تراکیب اس اصطلاح کے مفہوم کو قطعی طور پر واضح نہیں کرتیں۔ اس اصطلاحی ترکیب سے مراد اصل میں وہ تحت الشعوری ذہن ہے جس کی سرگرمی کا عالمِ بیداری میں ادراک نہیں ہوتا۔ اس سے باطنی تجربہ کا وہ حلقہ بھی مراد ہے جو وصالِ الٰہی کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں شریف کنجاہی کا ترجمہ زیادہ واضح اور بہتر معلوم ہوا ہے۔ انھوں نے ’شعور خفی‘ اور ’نیم آگاہ نفوس‘ کی اصطلاحات کے ذریعے قدرے قطعیت کے ساتھ اس اصطلاح کا مفہوم واضح کیا ہے۔ آج کل اس اصطلاح کے لیے ’’ذاتِ کشفی‘‘ کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ خطبات کے دیباچے میں اقبال کہتے ہیں:۲۷؎ There are however, men to whom it is not possible organically to assimilate an alien universe by re-living, as a vital process, that special type of inner experience on which religious faith ultimately rests. لیکن اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے نزدیک یہ مزاجاً ممکن نہیں ہے کہ جس مخصوص قسم کے داخلی تجربے پر مذہبی ایمان استوار ہوتا ہے اس کا وہ کسی بنیادی لہر کے روپ میں تصور کرسکیں جس کا زندگی سے تعلق ہو اور جس کے ذریعے اس بظاہر غیر سی لگتی کائنات کی غیریت کو دور کیا جاسکے۔۲۸؎ (alien universe) کو اُردو اور فارسی میں ’جہانِ بیگانہ‘ کہا جاتا ہے جبکہ فلسفہ میں جہانِ محسوس کو (alienation spirit) بھی کہا جاتا ہے اور (alienation) سے کسی مظہر یا مظاہر میں ایسی تبدیلی مراد لی جاتی ہے جس سے وہ بذاتِ خود جو ہے اس سے مختلف بن جائے یا بنا دی جائے، جیسے روح سے مادہ۔ شریف کنجاہی کے نزدیک اس ترکیب سے علامہ کی مراد ایسی کائنات ہے جو ہر چند مادی لگتی ہے لیکن اصل میں روح ہے، لہٰذا دیے گئے اقتباس کے ترجمے سے شریف کنجاہی کی علمِ فلسفہ کے بارے میں درّاکی کا سراغ ملتا ہے۔ شریف کنجاہی نے اپنے ترجمے میں متعدد مقامات پر اقبال کے روئے سخن اور عبارت کے تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے عام لغات سے ہٹ کر ترجمہ کیا ہے مثلاً (idea) کا ترجمہ اُردو فارسی اور عربی میں فکر، اندیشہ وغیرہ ہوتا ہے لیکن خطبات کے دیباچے میں انھوں نے (idea) کا ترجمہ ’معقول‘ کیا ہے۔ اسی طرح (deed) کا ترجمہ عام طور پر ’عمل‘ کیا جاتا ہے لیکن شریف کنجاہی نے اسے ’’محسوس‘‘ لکھا ہے۔ یہ فنِ واژہ سازی کے اصولوں سے بظاہر انحراف ہے لیکن یہاں انھوں نے فلسفہ کی اصطلاح کے طور پر لیا ہے اور یہ افلاطون اور ہیگل کے فلسفوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ پیامِ مشرق میں ہیگل کے حوالے سے علامہ اقبال نے یہی اصطلاحات استعمال کی ہیں: ’’حکمتش معقول و بامحسوس در خلوت نہ رفت۔‘‘۲۹؎ اسی طرح شریف کنجاہی نے ترجمہ میں ایک مقام پر (ideal) کے لیے ’مقصود‘ اور (real) کے لیے ’موجود‘ لکھا ہے۔ کچھ مقامات پر شریف کنجاہی نے اپنے فلسفہ کے علم کو بروے کار لاتے ہوئے براہِ راست اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کی بجائے پیرایۂ اظہار کو بدل کر اس طرح بیان کیا ہے کہ بات واضح ہوگئی مثلاً خطبۂ سوم میں ایک مقام پر اقبال یوں کہتے ہیں:۳۰؎ The more important regions of experience, examined with an eye on a synthetic view, reveal, as the ultimate ground of all experience, a rationally directed creative will which we have found reasons to describe as an ego. دریابی کے زیادہ اہم پہلوئوں کی طرف جب ہم اس چیز کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دھیان دیتے ہیں کہ آیا اس کی تصدیق واقعاتی علم سے بھی ہوتی ہے یا نہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی دریابی کی اصل ایک ایسی تخلیقی مشیت ہے جس کی کاروائیوں میں عقل کی کارفرمائی ہوتی ہے اور جسے ہم نے بجاطور پر ایگو کا نام دیا ہے۔۳۱؎ اس اقتباس میں (synthetic view) کے لیے کوئی اصطلاح استعمال کیے بغیر پیرایۂ اظہار کی تبدیلی کی مدد سے شریف کنجاہی نے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ انگریزی کی اس ترکیب کے لیے عربی مترجم نے ’نظیرۃ شاملہ‘ اور فارسی مترجم نے ’نظری ترکیبی‘ کی اصطلاحات استعمال کی ہیں جو کہ اس اصطلاح کا مفہوم کماحقہ بیان نہیں کرتیں بلکہ پریشان فکری میں اضافہ کرتی ہیں۔ اُردو مترجمین نے اس کا اظہار یوں کیا ہے: ’’اس خیال سے کہ ان کا سلسلہ ایک دوسرے سے جوڑ دیں‘‘… یہ ایک غیر واضح بات ہے اور اقبال کے مدعا کو بیان نہیں کرتی۔ (synthetic view) علم منطق کی اصطلاح ہے اس سے مراد وہ طرزِ استدلال ہے جس میں صداقت کا معیار محض اصول نہیں بلکہ اس میں واقعات کی تصدیق بھی ایک ضروری شرط ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس میں بھی شریف کنجاہی نے علمی اصطلاح سازی کی بجائے پیرایۂ اظہار کی تبدیلی کے ذریعے اقبال کے مدعا کی وضاحت کی ہے: We have a world of point-events with their primary interval-relations.32 ’’ہماری دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس میں ہونیوں کا مکانی حوالہ ہوتا ہے اور ان ہونیوں میں بنیادی طور پر فاصلوں کے ناتے ہوتے ہیں۔‘‘۳۳؎ (point event) کو نذیر نیازی نے ’نقاطِ لمحات‘ لکھا ہے۔ فارسی مترجم نے ’حوادث برساں نقطہ‘ اور عربی مترجم نے ’ذی حوادث‘ لکھا ہے۔ شریف کنجاہی کا طریقہ بہتر ہے۔ شریف کنجاہی نے کچھ اصطلاحات کے مترادفات بے جا طور پر روایت سے ہٹ کر استعمال کیے ہیں۔ مثلاً ’مذہبی واردات‘ یا ’مذہبی تجربہ‘ مقبول و معروف اصطلاحات ہیں ان کی بجائے ’’کشفی دریابی‘‘ اور فلسفیانہ پرکھ یا معیار کے لیے ’میزان عقل‘ صوتی اعتبار سے اچھوتے ضرور ہیں لیکن اس قسم کے انتخابات کا کوئی خاص لسانی جواز نہیں۔ خصوصاً اس وقت جب ان کے مترادفات موجود ہوں اور مقبول اور مروّج بھی ہوچکے ہوں۔ خ…خ…خ اس کے بعد پاکستان سے شہزاد احمد نے خطبات کو جدید محاورہ اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ شہزاد احمد ملک کے معروف شاعر ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور میں مقیم ہوئے۔ نفسیات اور فلسفہ میں ایم۔اے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۷ء میں ترجمہ کی ابتدا کی اور ان کے بقول پانچ ماہ میں اسے مکمل کرلیا اور اسلامی فکر کی نئی تشکیل کے نام سے علم و عرفان پبلشرز لاہور سے اس کو شائع کروایا۔ اس کے ابتدائیے میں وہ تحریر کرتے ہیں:۳۴؎ میں نے کوشش کی ہے کہ خطبات کا یہ ترجمہ عام فہم ہو۔ کئی مقامات پر میں نے اصطلاح استعمال کرنے کی بجائے مطلب بیان کردیا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے سمجھ سکیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ کوشش بھی کی گئی کہ مفہوم بگڑنے نہ پائے۔ جب اس ترجمے کا تنقیدی تجزیہ کیا گیا تو اس میں بھی متعدد اسقام سامنے آئے۔ بعض مقامات پر لغات کی غلطیاں ہیں۔ کچھ مقامات پر عبارت کے مدعا کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اور غیر معیاری ڈکشنریوں سے ترجمہ کرنے کی وجہ سے قاری کے گمراہ ہونے کا سامان پیدا ہوگیا ہے۔ مجموعی طور پر شہزاد احمد کا ترجمہ زبان کے مروّجہ محاورہ کے قریب ترین ہے اگر چند مقامات پر احتیاط برتی جاتی تو جدید ذوق کے لیے یہ بہترین ترجمہ ہوتا۔ انھوں نے خاص طور پر التزام رکھا ہے کہ زبان کی جدید صورتوں کی بروئے کار لایا جائے۔ شہزاد احمد نے اپنے ترجمہ کا جواز یہ مہیا کیا ہے کہ زبان ارتقا کے عمل سے گزر رہی ہے لہٰذا کتب کے تراجم کو جدید محاورے کے مطابق وقتاً فوقتاً تبدیل کرکے پیش ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود کہ وہ متعدد مقامات پر اپنے اس مقصد میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں مگر کئی مقامات پر ان کا ترجمہ لاپروائی کا شکار ہوگیا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ شہزاد احمد اقبال کے مدعا کو نہیں سمجھ سکے۔ مثلاً خطبۂ اوّل میں وہ لکھتے ہیں: ’’انتقاد عقل محض نے انسان کی عقلی حدود کا اخفا کیا اور عقلیت پسندی کے تمام کارخانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا‘‘۳۵؎ مجھے نہیں معلوم کہ (reveal) کا معنی ’اخفا‘ انھوں نے کس لغت سے لیا ہے۔ اقبال کا جملہ یوں ہے:۳۶؎ "His cirtique of pure reason revealed the limitations of human reason and reduced the whole work of rationalists to a heap of ruins" اسی طرح "Both seek visions of the same Reality which reveals itself to them in accordance with their function in life"37 کا ترجمہ انھوں نے یوں کیا ہے ’’دونوں ایک ہی حقیقت کے نظارے کے طلب گار ہیں جو ان پر اپنا اخفا ان کی زندگی کے مخصوص تفاعل کے اعتبار سے کرتی ہے‘‘۔۳۸؎ درج بالا اقتباس میں بھی انھوں نے (reveal) کا ترجمہ ’اخفا‘ کیا ہے۔ شہزاد احمد جیسے پڑھے لکھے شخص سے اس طرح کی غلطیوں کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ خطبۂ اوّل میں ہی ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’یہ موضوع اور معروض کے مابین باریک فرق تھا، جو ریاضیاتی تھا حیاتیاتی نہیں تھا مگر عیسائیت اس سے متاثر ہوگئی اسلام نے اختلاف کا مقابلہ اس پر غالب آنے کے ساتھ کیا۔‘‘۳۹؎ اصل عبارت یوں ہے:۴۰؎ It is the sharp opposition between the subject and the object, the mathematical without and the biological within, that impressed Christianity. Islam, however, faces the opposition with a view to overcome it. یہاں (overcome) کا ترجمہ شہزاد احمد نے ’غالب آنا‘ کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دسترس میں کوئی غیر معیاری لغت ہے۔ اچھی لغت میں (overcome) کا معنی (solve) بھی ہوتا ہے اور یہی اقبال کا مدعا ہے۔ اسی طرح(mathematical without) اور (biological within) کا معنی صرف ریاضیاتی اور حیاتیاتی کرنا درست نہیں۔ اسی طرح: Classical physics has learned to criticize its own foundations As a result of this criticism the kind of materialism, which it originally necessitated, is rapidly disappearing.41 ’’کلاسیکی طبیعیات نے اپنی ہی بنیادوں پر تنقید کرنا سیکھ لیا ہے جس کے نتیجے میں اس طرح کی مادیت جو پہلے اس نے رواج دی تھی اب تیزی سے غائب ہورہی ہے۔‘‘۴۲؎ یہاں (originally necessitated) کا ترجمہ ’’جو پہلے اُس نے رواج دی تھی‘‘ کرنا لغوی اعتبار سے بھی درست نہیں اور اس سے عبارت کے مفہوم کا تقاضا بھی پورا نہیں ہوتا۔ ایک مقام کا ترجمہ کرتے ہیں: ایمان پرندے کی طرح اپنا وہ بے نشان راستہ دیکھ لیتا ہے جسے خرد نے چھوا تک نہیں۔ ایک عظیم مسلم صوفی شاعر کے الفاظ میں ’’وہ انسان کے زندہ دل پر گھات لگاتی ہے اور اس سے نظر نہ آنے والی زندگی کی وہ دولت چھین لیتی ہے جو اس کے باطن میں موجود ہوتی ہے۔‘‘ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ایمان محض احساس سے بڑی شے ہے۔ اس میں تفکرانہ مواد سے ملتی جلتی کوئی چیز ہوتی ہے اس میں متکلمین اور صوفیا جیسے ایک دوسرے کے مخالف گروہ بھی موجود ہوتے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تاریخِ مذاہب میں خیالِ مذہب کا زندگی بخش عنصر ہے۔۴۳؎ علامہ کی عبارت ہے: …… and faith, like the bird, sees its 'trackless way' unattended by intellect which, in the words of the great mystic poet of Islam, only waylays the living heart of man and robs it of the invisible wealth of life that lies within, Yet it cannot be denied that faith is more than mere feeling. It has somthing like a cognitive content and the existence of rival parties - scholastics and mystics -in the history of religion shows that idea is a vital element in religion."44 یہاں ’’جسے خرد نے چھوا تک نہیں‘‘ (unattended by intellect) بہتر ترجمہ ہے اور اصل کے قریب الفہم ہونے کے ساتھ ساتھ سلیس بھی ہے لیکن (invisible wealth of life) کا ترجمہ نظر نہ آنے والی زندگی کی دولت یا دولتِ زندگی ہونا چاہیے۔ اسی طرح (cognitive content) کا ترجمہ ’’تفکرانہ مواد‘‘ اچھا ترجمہ نہیں۔ خطبہ اوّل میں "No one would hazard action on the basis of a doubtful principle of conduct." ۴۵؎’’کوئی بھی شعار کے مشتبہ اصولوں کی بنیاد پر جی کڑا کرکے عمل کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔‘‘۴۶؎ کچا ترجمہ ہے۔ اسی خطبہ میں ایک مقام پر لکھتے ہیں: Ghazali's philosophical scepticism which however, went a little too far, virtually did the same kind of work in the world of Islam.47 ’’غزالی کی فلسفیانہ تشکیک نے، جو کچھ زیادہ ہی طول کھینچ گئی عملی طور پر عالم اسلام میں اسی طرح کا کام سرانجام دیا۔‘‘۴۸؎ اس اقتباس میں (went a little too far) کا ترجمہ ’’جو کچھ زیادہ ہی طول کھینچ گئی‘‘ چہ معنی دارد۔ اسی طرح خطبات کی عبارت: Islam fully agrees with this insight and supplements it by the further insight that the illumination of the new world thus revealed is not something foreign to the world of matter but permeates it through and through.49 کا ترجمہ: ’’اسلام اس بصیرت سے مکمل اتفاق رکھتا ہے، بلکہ مزید بصیرت سے اس میں یہ اضافہ کرتا ہے کہ اس طرح منکشف ہونے والی جو روشنی حاصل ہوتی ہے وہ مادی دنیا کے لیے کوئی اجنبی شے نہیں، بلکہ اس کی رگ۔و۔پے میں جاری و ساری ہے‘‘۔۵۰؎ بہتر ترجمہ نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح: Such being the nature and promise of the universe, what is the nature of man whom it confronts on all sides?51 ’’سو یہ ہے ماہیت و پیمانِ کائنات، مگر انسان کی فطرت کیا ہے جسے یہ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے‘‘۔۵۲؎ اس عبارت میں (promise) کا ترجمہ ’پیمان‘ کیا گیا ہے جو کہ اس کا لغوی معنی ہے۔ عبارت کے مفہوم اور سیاق کے اعتبار سے یہ ترجمہ درست نہیں۔ میں نے یہ تمام اقتباسات اقبال کے پہلے خطبے کے نصف اوّل کے تجزیے سے نکالے ہیں پوری کتاب کا تجزیہ کیا جائے تو شاید پوری کتاب بن جائے۔ اس تجزیے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مترجم نے سہل نگاری اختیار کرتے ہوئے عبارت کے مفہوم کا خیال نہیں رکھا اور نادانستہ طور پر خطبات کے سمجھنے میں نہ صرف دقت پیدا کردی ہے بلکہ گمراہی کا خدشہ بھی لاحق ہے۔ یہ تو ترجمے کا ایک پہلو ہے۔ جس پہلو کی طرف میں خاص طور پر اشارہ کرنا چاہوں گا وہ قرآنی آیات کے حوالہ جات ہیں۔ اقبال نے خطبات میں قرآنی آیات کے لفظی تراجم کے حوالے سے بات نہیں کی بلکہ وہ اپنے مدعا کے لیے تفسیر یا تاویلات سے اخذ کردہ مفاہیم کو بروے کار لائے ہیں۔ شہزاد احمد نے متعلقہ آیات لکھ کر اُن کے مروّجہ تراجم لکھ دیے ہیں اور قاری کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ بات اقبال کی عبارت سے کیونکر متعلق ہے۔ یوں خطبات کی تفہیم میں دقت اور دشواری پیدا ہوگئی ہے۔ مثلاً سورۃ الاحزاب کی آیت۷۲ کا ترجمہ شہزاد احمد نے لکھا ہے:۵۳؎ ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اُٹھایا۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ جبکہ اقبال کی عبارت یوں ہے:۵۴؎ Verily we proposed to Heavens and to the earth and to the mountains to recieve the trust (of personality), but they refused the burden and they feared to recieve it. Man alone undertook to bear it, but hath proved unjust, senseless. اسی طرح سورۃ القیامۃ کی آیت ۴۰-۳۶ کا ترجمہ شہزاد احمد یوں کرتے ہیں:۵۵؎ کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا، کیا وہ حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے۔ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا۔ پھر اللہ نے اُس کا جسم بنالیا اور اس کے اعضا درست کیے اور پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں، کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر دے۔ جبکہ عبارت ہے:۵۶؎ Thinketh man that he shall be thrown away as an object of no use? Was he not a mere embryo? Then he became thick blood of which God formed him and fashioned him, and made him twain, male & female. Is not He powerful enough to quicken the dead? خ…خ…خ ہندوستان میں مسلمانوں کے دینی ذوق اور فکری تجسّس کی تشفی کے لیے ڈاکٹر محمد سمیع الحق نے خطبات کے ترجمے کا بیڑا اُٹھایا۔ وہ بھی نذیر نیازی کے ترجمے سے مطمئن نہیں اور اس کی وجہ وہ خود ساختہ عربی الفاظ کا استعمال بتاتے ہیں۔ اپنی کتاب تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر میں لکھتے ہیں:۵۷؎ انگریزی لفظوں کو خود ساختہ عربی میں ترجمہ کرکے بوجھل بنایا گیا ہے مثلاً (spontaneous) کے لیے ابدائی (Embrace) کے لیے اختوا (Categorical Impreative) کے لیے حکم قطعی (Vested interest) کے لیے حقوق مزعومہ وغیرہ جیسے الفاظ دیکھنے کو ملے۔ ایسا لگا جیسے کسی سازش کے تحت اُردو کو نامقبول بنانے کی سعی کی گئی ہے۔ نذیر نیازی کے ترجمہ کے بارے میں ہم اپنا موقف وضاحت سے بیان کرآئے ہیں اب ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سمیع الحق کے دعاوی ان کے اپنے ترجمے کے تنقیدی مطالعے سے کس قدر حق ثابت ہوتے ہیں۔ انھوں نے نذیر نیازی کے ترجمہ سے مایوس ہوکر ۱۹۶۳ء میں کام کا آغاز کیا اور ۱۹۹۴ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس کوچہ پنڈت لال کنواں دہلی سے اسے شائع کروایا۔ انھوں نے آسان الفاظ کے استعمال کی پابندی کو قبول کیا ہے، لکھتے ہیں:۵۸؎ اُردو کے آسان سے آسان لفظوں کی تلاش ہی ایک مترجم کی پابندی ہے۔ ترجمہ کا یہ مقصد نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ترجمہ پڑھنے کے لیے کسی کو ایک اور زبان سیکھنی پڑے۔ وہ زبان جس کے الفاظ عوام کی دسترس سے باہر ہوں۔ سمیع الحق نے اپنے ترجمے کے دیباچہ میں آسان زبان کے استعمال پر بہت زور دیا لیکن اُن کے ترجمہ کے تنقیدی مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ خود بھی اس ضمن میں کوئی زیادہ پیش رفت نہیں کرسکے۔ متعدد مقامات پر انھوں نے نذیر نیازی کے الفاظ کے مترادفات لکھے ہیں لیکن وہ مترادفات بھی عام فہم نہیں۔ یوں انھوں نے بھی پیرایۂ اظہار بدل کر نئے مشکل عربی الفاظ کو استعمال کیا ہے۔ مثلاً قوی الحجت، نظامِ فکر وغیرہ۔ ڈاکٹر سمیع الحق کے ترجمے کا تنقیدی مطالعہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ موصوف نے نہ صرف یہ کہ اپنے دعوے کا عملی ثبوت مہیا نہیں کیا بلکہ کئی مقامات پر اصل متن کے مفہوم تک بھی قاری کی رہنمائی نہیں کرسکے۔ ہم اپنی بات کی وضاحت خطبات کی چند عبارتوں اور ان کے ترجمے سے کرتے ہیں: … and faith like the bird, sees its 'trackless way' unattended by intellect which, in the words of the great mystic poet of Islam, 'only waylays the living heart of man and robs it of the invisible wealth of life that lies within'. Yet it cannot be denied that faith is more than mear feeling. It has something like a cognitive content.59 ایمان کی مثال اس طائر کی سی ہے جو عقل کی مدد کے بغیر اپنی دشوار گذار راہوں کو دیکھ لیتا ہے۔ عقل کے متعلق ایک صوفی شاعر کا قول ہے کہ یہ آدمی کے قلبِ حیوان کو گمراہ کرتی اور اس کی غیر محسوس دولت حیات جو اس کے اندرون میں جاگزیں رہتی ہے لوٹ لیتی ہے۔ تاہم یہ ایک ناقابل انکار امر ہے کہ ایمان احساسِ محض سے بالاتر ہے اس میں کچھ ایسی باتیں موجود ہیں جو عقلی تجسّس کا سامان بن سکتی ہیں۔۶۰؎ یہ اقتباس اچھے ترجمے کی مثال نہیں مثلاً (trackless way) کا ترجمہ ’دشوار گذار‘ کیا گیا ہے۔ اسی طرح (cognitive content) کا معنی ’’عقلی تجسّس‘‘ بھی اچھا ترجمہ نہیں ہے۔ … religion on its doctrinal side, as defined by Professor Whitehead, is a system of general truths.61 ’’پروفیسر وائٹ ہیڈ نے وضاحت کی ہے کہ مذہب کا جو روایتی پہلو ہے وہ حقائق عامہ کا ایک ایسا منظم ضابطہ ہے۔‘‘۶۲؎ (religion on its doctrinal side) کا معنی ’مذہب کا روایتی پہلو ہے‘ اچھا ترجمہ نہیں۔ the general truth which it embodies must not remain unsettled".63…"’’وہ حقائق جو اس نظام کے اجزا ے ترکیبی ہیں ان کو ہرگز غیر متعین حالت میں نہیں چھوڑا گیا ہوگا۔‘‘۶۴؎ … religion stands in greater need of a rational foundation of its ultimate principles than even the dogmas of science.65 ’’(مذہب کو) اپنے معیاری اصولوں کے لیے سائنسی دعاوی سے بھی زیادہ عقلی اساس کی ضرورت ہے۔‘‘۶۶؎ (ultimate principle) کے لیے ’معیاری اصول‘ اچھے ترجمے کی مثال نہیں۔ But to rationalize faith is not to admit the superiority of philosophy over religion.67 ’’لیکن دین کو دلیل سے پرکھنے کے یہ معنی نہیں کہ فلسفہ کو مذہب پر فوقیت حاصل ہے۔‘‘۶۸؎ Thus, in the evalution of religion, philosophy must recognize the central position of religion and has no other alternative but to admit it as something focal in the process of reflective synthesis.69 پس مذہب کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتے وقت فلسفہ کو مذہب کی مرکزی حیثیت تسلیم کرنا پڑے گی اور فلسفہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے کہ مختلف روابط پر غور و خوض کے عمل میں مذہب کی مرکزیت کا اقرار کرے۔۷۰؎ اس اقتباس میں (reflective synthesis) کا معنی ’’مختلف روابط پر غور و خوض‘‘ اچھا ترجمہ نہیں ہے۔ Yet a careful study of the Qur'an and the various schools of scholastic theology that arose under the inspiration of Greek thought diclose the remarkable fact that while Greek philosophy very much broadened the outlook of Muslim thinkers, it on the whole obscured their vision of the Qur'an.71 تاریخ اسلام میں فلسفہ یونان کو ایک عظیم ثقافتی درجہ حاصل تھا، تاہم فلسفہ یونان سے متاثر ہوکر مسالک دینیہ کے جو مختلف مکاتب فکر عالم وجود میں آئے ان کے مطالعہ کے ساتھ قرآن مجید کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ اہم حقیقت کھل جاتی ہے کہ ایک طرف یونانی فلسفہ کی بدولت مفکرین اسلام کے مطمح نظر میں کافی وسعت ہوئی تو دوسری طرف بحیثیت مجموعی قرآن کے مطالعہ میں ان کی نگاہوں کو بصیرت نہیں مل سکی۔۷۲؎ (it on the whole obscured their vision of Qur'an) کا ترجمہ ’’بحیثیت مجموعی قرآن مجید کے مطالعہ میں ان کی نگاہوں کو بصیرت نہیں مل سکی‘‘ اچھے ترجمے کی مثال نہیں ہے۔ Thus the affirmation of spirit sought by christianity would come not by the renunciation of external forces which are already permeated by the illumination of spirit but by a proper adjustment of man's relation to these forces in view of the light received from the world within.73 پس عیسائیت کو جس روحانی انوار کی تلاش ہے وہ اس عالم خارجی سے قطع تعلق ہوکر ملتا ہی نہیں کیونکہ اس کے رگ و پے میں پہلے ہی سے نور عرفان مسلک ہے۔ اس کا حصول تو تب ہی ممکن ہے جب مناسب ڈھنگ سے اس نور عرفان کی روشنی میں جو قلب پر منکشف ہوا ہے عالم خارجی سے انسانی رشتہ کا تعین کرلیا جائے۔۷۴؎ درج بالا اقتباس بیش تسہیلی کی مثال ہے اور اچھا ترجمہ نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ کئی مقامات پر انھوں نے غلط الفاظ استعمال کیے ہیں یہاں تک کہ اقبال کے مدعا سے دور جاپڑے ہیں اور نہ صرف قاری کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اُس کی گمراہی کے امکانات بھی پیدا ہوگئے ہیں، مثلاً اقبال نے انگریزی میں کہا ہے: Yet it cannot be denied that faith is more than mere feeling. It has something like a cognitive content.75 اس اقتباس کا ترجمہ سمیع الحق نے یوں کیا ہے: ’’تاہم یہ ایک ناقابل انکار امر ہے کہ ایمان احساس محض سے بالاتر ہے۔ اس میں کچھ ایسی باتیں موجود ہیں جو عقلی تجسّس کا سامان بن سکتی ہیں۔‘‘۷۶؎ (cognitive content) کا معنی ’’عقلی تجسّس‘‘ اچھے ترجمے کی مثال نہیں۔ خ…خ…خ خطبات کے تراجم میں ایک اہم کتاب وحید عشرت کی تجدیدِ فکریات اسلام، اقبال اکادمی پاکستان، لاہورسے شائع ہوئی ہے۔ پہلے خطبے کے ترجمہ کو اکادمی کی مجلس علمی کے ۲۴ ارکان کے سامنے اصلاح و تنقید کی خاطر پیش کیا گیا۔ اس مجلس میں ملک کے ممتاز ادیب، نقاد، انشاپرداز، مترجم اور شاعر شامل تھے۔ مجلس علمی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس پر غور ہوا۔ وحید عشرت کے بقول ’’تمام حضرات نے اس ترجمہ کو سراہا۔ اسے سہل، مستند اور جدید اسلوب کا حامل قرار دیا۔‘‘۷۷؎ اس کے علاوہ مجلہ اقبالیات میں اس کی اشاعت مکمل ہونے کے بعد یہ کام پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق کو نظرثانی کے لیے پیش کیا گیا۔ ان تمام اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ توقع کرنا درست ہوگا کہ خطبات کا یہ ترجمہ مثالی ہوگا۔ لیکن اس ترجمے کا سرسری مطالعہ ہی قاری کو اس توقع کے برخلاف نتیجہ نکالنے پر مجبور کرتا ہے۔ جملوں کی صرفی و نحوی ترکیب میں خامیاں، کتابت کی اغلاط اور بعض مقامات پر ڈھیلے ڈھالے جملوں کے باعث اسے مثالی ترجمہ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم اس ترجمے کے چند اوصاف اسے دوسرے تراجم سے ممتاز کرتے ہیں۔ مترجم کے مطابق انھوں نے ترجمہ سے قبل خطبات سے متعلق لکھی گئی کتب کا مطالعہ کیا۔ جن میں ان سے قبل کے کیے گئے تراجم بھی شامل ہیں۔ فلسفیانہ اصطلاحات کے لیے قاموس الاصطلاحات اور فلسفے کی ڈکشنریوں سے بھی مدد لی گئی۔ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی ترجمہ شدہ فلسفے کی کتب اور ان کے آخر میں دی گئی فرہنگوں کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ مشکل مقامات پر متن کا مفہوم مختلف پیرائے میں بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت ہر فقرے پر غور کیا گیا ہے کہ کہیں ترجمے میں وہ مہمل، بے معنی یا اصل متن سے ہٹ تو نہیں گیا، اور فقرہ بامعنی بھی ہے کہ نہیں۔ مترجم نے یہ کوشش بھی کی ہے کہ اسلوب اس طرح کا ہو کہ یہ کتاب ترجمے کی کتاب نہ لگے بلکہ طبع زاد معلوم ہو۔ وحید عشرت کے مطابق: ترجمے کی زبان انتہائی سہل، رواں اور بوجھل اصطلاحات سے پاک رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، صرف ناگزیر اصطلاحات کو ہی استعمال کیا گیا۔۷۸؎ خطبات کے کم و بیش سب مترجمین نے اصطلاحات سے اجتناب کو ایک مثبت قدر کے طور پر پیش کیا ہے، یہ ترجمہ کے معیار اور اقدار سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سب مترجمین کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ بہتر ترجمہ وہی ہے جس میں اصطلاحات استعمال نہ ہوں یا یہ کہ اصطلاحات کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ گویا اس وصف کا موجود ہونا ترجمے کے بہتر نہ ہونے کی دلیل ہے۔ دراصل ایک معیاری ترجمہ وہی ہے جواصل متن کے مدعا کو ہوبہو ادا کرے اور اس طرح کہ متن سے لغوی اور محاورے کے اعتبار سے بُعد یا دوری پیدا نہ ہو۔ اصطلاحات کا مناسب استعمال کسی بھی تحریر کی قطعیت میں اضافہ کرتا ہے۔ بلکہ اصطلاح سازی ایک فن ہے جو کسی زبان کے علمی ذخیرے میں نشووارتقا کا سبب بنتا ہے۔ دقت اور ابہام اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مترجم یا لکھاری متعلقہ دو زبانوں میں کسی ایک پر حسبِ ضرورت دسترس نہ رکھتا ہو۔ ترجمے میں اصطلاحات سے شعوری اجتناب مترجم کا منصب نہیں۔ کیونکہ متن کی بیش تسہیلی ترجمے کے اسقام کا سبب بن جاتی ہے۔ تجدیدِ فکریاتِ اسلام میں چند ایسے مقامات کا کامیاب ترجمہ کیا گیا ہے جو دوسرے مترجمین نے مشکل سمجھ کر یا تو بالکل نظر انداز کر دیے ہیں یا اپنے الفاظ میں انھیں بیان تو کیا ہے مگر بات کھل نہیں سکی۔ ڈاکٹر وحید عشرت نے اس حوالے سے ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے لیکن چند مقامات پر اُن سے بھی بات نہیں بن سکی۔ اب ہم تجدید فکریاتِ اسلام سے چند اقتباس لے کر اپنی بات کا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ The essence of religion, on the other hand is faith; and faith like the bird, sees its 'trackless way' unattended by intellect which, in the words of the great mystic poet of Islam, 'only waylays the living heart of man and robs it of the invisible wealth of life that lies within. 79 دوسری طرف مذہب کا جوہر ایمان ہے اور ایمان اس پرندے کی مانند ہے جو اپنا انجانا راستہ عقل کی مدد کے بغیر پالیتا ہے۔ اسلام کے ایک بہت بڑے صوفی کے الفاظ میں عقل تو انسان کے دلِ زندہ میں گھات لگائے رہتی ہے تاکہ وہ زندگی کی اس اَن دیکھی دولت کو لوٹ لے جو اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے۔ ۸۰؎ اس اقتباس میں "trackless way" کا معنی ’’انجانا راستہ‘‘ بہتر ترجمے کی مثال ہے۔ اسی طرح In its attitude towards the Ultimate Reality it is opposed to the limitations of man, it enlarges his claims and holds out the prospect of nothing less than a direct vision of Reality.81 حقیقت ِمطلقہ کے بارے میں اس کا اندازِ نظرانسانی تحدیدات سے ترفع کرتے ہوئے حقیقتِ مطلقہ کے براہِ راست مشاہدے تک اپنے دعوئوں کو بڑھاتا ہے ۔ ۸۲؎ یہ اقتباس ایک عمدہ ترجمے کی مثال ہے۔ اس طرح کے متعدد مقامات ہیں جہاں وحید عشرت نے جملوں کی ترکیب عمدہ رکھی ہے۔ لیکن ایسی کئی مثالیں بھی مل جاتی ہیں جہاں جملوں کا معیار برقرار نہیں رہتا۔ مثلاً: Its function is to trace the uncritical assumptions of human thought to their hiding places, and in this pursuit it may finally end in denial or a frank admission of the incapacity of pure reason to reach the Ultimate Reality.83 یہ اس کا وظیفہ ہے کہ وہ انسانی فکر کے بلاتنقید قبول کیے گئے مفروضات کے چھپے ہوئے گوشوں کا سراغ لگائے۔ اس تجسس کا بالآخر انجام چاہے انکار میں ہو یا اس برملا اعتراف میں کہ عقلِ خالص کی حقیقتِ مطلقہ تک رسائی ممکن نہیں۔ ۸۴؎ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر، ترجمے کا فن ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۷ئ، ص۱۱۲۔ ۲- علامہ محمد اقبال، مکتوب بنام غلام بھیک نیرنگ مشمولہ اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص۱۹۷۔ ۳- سید نذیر نیازی، دیباچہ تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، بزمِ اقبال لاہور، ۱۹۸۷ئ۔ ۴- ایضاً ۵- رفیع الدین ہاشمی، ’’علامہ اقبال کے انگریزی خطبات‘‘، مشمولہ اقبالیات، اقبال اکادمی پاکستان، جنوری-مارچ ۱۹۹۷ئ، ص۱۸۔ ۶- محمد سمیع الحق،ڈاکٹر، دیباچہ تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۱۹۹۴ئ۔ ۷- عامر سہیل، ’’خطباتِ اقبال کا پہلا اُردو ترجمہ- ایک تجزیہ‘‘، مشمولہ فنون، لاہور، ۲۰۰۱ئ، شمارہ۱۱۲، ص۸۵۔ ۸- وحید عشرت،ڈاکٹر، عرضِ مترجم تجدید فکریاتِ اسلام،اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۲ئ، ص۲۳۷۔ ۹- شریف کنجاہی، دیباچہ، مذہبی افکار کی تعمیر نو،بزمِ اقبال لاہور، ۱۹۹۲، ص۷۔ ۱۰- ایضاً ۱۱- دیباچہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ۔ ۱۲- علامہ محمد اقبال، مکتوب بنام غلام بھیک نیرنگ مشمولہ اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص۱۹۷۔ ۱۳- سید نذیر نیازی، دیباچہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ۔ ۱۴-۱۸ رفیع الدین ہاشمی، محولہ بالا۔ ۱۹- شریف کنجاہی، دیباچہ مذہبی افکار کی تعمیر نو ۔ ۲۰- خطبات کا فارسی ترجمہ از احمد آرام احیاے فکر دینی در اسلام کے نام سے ۱۹۶۸ء میں ریجنل کلچرل انسٹی ٹیوٹ طہران سے شائع ہوا۔ ۲۱- خطباتکا عربی ترجمہ از عباس محمود تجدید التفکیر الدینی فی الاسلام کے نام سے دارالہدایۃ مصر کے زیراہتمام شائع ہوا۔ ۲۰۰۰ء میں سفارت خانہ پاکستان کے لیے شائع کیا گیا۔ 22- Allama Muhammad Iqbal: The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy, Lahore, 1989, p. 14. ۲۳- مذہبی افکار کی تعمیر نو ، ص۳۰۔ ۲۴- احیائے فکر دینی در اسلام، ص۲۲۔ ۲۵- تجدید التفکیر الدینی فی الاسلام، ص۲۷۔ ۲۶- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص۵۵۔ 27- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. xxii. ۲۸- مذہبی افکار کی تعمیر نو ، ص۹۔ ۲۹- علامہ محمد اقبال، ’’پیامِ مشرق‘‘ کلیاتِ اقبال (فارسی)، غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۹۰ئ، ص۳۷۷۔ 30- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 50. ۳۱- مذہبی افکار کی تعمیر نو ، ص۷۹۔ 32- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 53. ۳۳- مذہبی افکار کی تعمیر نو ، ص۸۲۔ ۳۴- اسلامی فکر کی نئی تشکیل، ص۱۱۔ ۳۵- ایضاً، ص۲۱۔ 36- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 4. 37- ibid, p. 2. ۳۸- اسلامی فکر کی نئی تشکیل ، ص۱۹۔ ۳۹- ایضاً، ص۲۵۔ 40- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 7. 41- ibid, p. xxii. ۴۲- اسلامی فکر کی نئی تشکیل ، ص۱۶۔ ۴۳- ایضاً، ص۱۸۔ 44- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 1. 45- ibid, p. 2. ۴۶- اسلامی فکر کی نئی تشکیل ، ص۱۸۔ 47- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 4. ۴۸- اسلامی فکر کی نئی تشکیل ، ص۲۱۔ 49- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 7. ۵۰- اسلامی فکر کی نئی تشکیل ، ص۲۵۔ 51- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 9. ۵۲- اسلامی فکر کی نئی تشکیل ، ص۲۸۔ ۵۳- ایضاً، ص۱۱۳۔ 54- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 9,70,76. ۵۵- اسلامی فکر کی نئی تشکیل ، ص۲۹۔ 56- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 9. ۵۷- محمد سمیع الحق، ڈاکٹر، دیباچہ،تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی ۱۹۹۴ئ،ص۵۔ ۵۸- ایضاً، ص۵،۶۔ 59- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 1. ۶۰- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر ، ص۹۔ 61- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 1. ۶۲- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر، ص۹،۱۰۔ 63- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 1,2. ۶۴- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر، ص۱۰۔ 65- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 2. ۶۶- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر ، ص۱۰۔ 67- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 2. ۶۸- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر ، ص۱۰۔ 69- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 2. ۷۰- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر ، ص۱۰۔ 71- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 3. ۷۲- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر ، ص۱۱۔ 73- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 7. ۷۴- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر ، ص۱۷۔ 75- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 1. ۷۶- تفکیر دینی پر تجدیدِ نظر ، ص۹۔ ۷۷- وحید عشرت،ڈاکٹر، تجدید فکریاتِ اسلام، ص۲۳۵۔ ۷۸- ایضاً، ص۲۳۶۔ 79- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 1. ۸۰- تجدید فکریاتِ اسلام، ص۱۶۔ 81- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 1. ۸۲- تجدید فکریاتِ اسلام، ص۱۵۔ 83- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 1. ۸۴- تجدید فکریاتِ اسلام، ص۱۵۔ ئ……ئ……ء اقبال، تحسین غالب اور اُردو شعریات احمد جاوید اقبال نے اپنی نظم ’’مرزا غالب‘‘ میں اسد اللہ خاں غالب کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ عام قاری کو اقبال کی اس تحسین غالب کے اندر کچھ مبالغہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اقبال کا تصور شاعری، غالب کے تصور شاعری سے بالکل مختلف ہے۔ اقبال مقصدیت کے بہت بڑے ترجمان تھے جبکہ غالب اور ان جیسے دیگر شعرا شاعری برائے شاعری کا پرچم اٹھائے نظر آتے ہیں۔ ایسی متضاد صورت حال میں حضرتِ علامہ کی نظم در مدح غالب کچھ عجیب محسوس ہوتی ہے۔ کیا غالب کی شاعری واقعی اس مبالغہ آمیز تعریف و توصیف پر پوری اترتی ہے؟ یہ تعجب اس پہلو سے تو ٹھیک محسوس ہوتا ہے کہ اقبال ایک طرف تو شعر کے روایتی تصور کو بڑی حد تک رد کرتے ہیں اور دوسری طرف ایک ایسے شاعر کی پر زور مداحی بھی کررہے ہیں جو تمام تر جدت اور ندرت کے باوجود روایتی شعریات کے اکثر مسلمات سے تجاوز نہیں کرتا ۔ کم از کم فنی اور ذوقی سطح پر غالب اسی معیار سے پر کھے جانے کا تقاضا کرتا ہے جو کسی بھی بڑے روایتی شاعر کے مطالعے کے لیے درکار ہے۔ تاہم یہ چیز بھی پیش نظر رہے کہ خود اقبال کی شعری عظمت جن بنیادوں پر قائم ہے وہ نظریاتی کم ہیں اور فنی زیادہ۔ اس عظمت کے فنی اسباب کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بہت واضح نظر آتی ہے کہ اگر غالب نہ ہوتے تو اظہار اور تخیل کے بعض ایسے نادر سانچے شاید وجود ہی میں نہ آتے جن کے استعمال نے اقبال کو بڑا شاعر بننے میں ایک فیصلہ کن مدد فراہم کی۔ اردو زبان میں پیچیدہ مفکرانہ + جمالیاتی تخیل اور اس کی بنیاد پر نئے سے نئے پیکر ڈھالنے کی وہ سہار غالب ہی نے پیدا کی جو اقبال کا مایۂ امتیاز ہے۔ ’’مرزا غالب‘‘ اقبال کے ابتدائی ادوار کی ایک نظم ہے، اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ غالب کی کائنات شعر میں کس درجہ رسوخ رکھتے تھے اور اردو شاعری کے لیے واحد معیار بن جانے والے اس شاعر سے بامعنی تخلیقی گہرائی میں اثر پذیر ہونے کی کیسی استعداد رکھتے تھے۔ تعجب تو اس بات پر ہونا چاہیے کہ اپنے شعری سفر کے ابتدائی مراحل ہی میں اقبال کا شعری فہم اور ذوق اتنا پختہ اور اس قدر تربیت یافتہ تھا کہ غالب ایسے مشکل شاعر کے تخلیقی جوہر کو گرفت میں لے کر اس کے اصولی خصائص کو اس طرح متعین کر کے بیان کر دیا ہے ۔ میری رائے میں ناگزیر رسمی مبالغے کے باوجود اقبال نے اس نظم میں غالب کی مداحی میں کوئی ایسا مبالغہ نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم غالب کے ہاں کوئی ایسا وصف بھی مان لیں جو دراصل وہاں موجود نہیں ہے۔ غالب اس تعریف کا مستحق ہے، بلکہ اس میں کچھ باتیں ایسی بھی دریافت ہو سکتی ہیں جن کی طرف اس نظم میں اشارہ نہیں کیا جا سکا۔ فن برائے زندگی اور فن برائے فن کا تضاد تو ٹھیک ہے ، لیکن یہ بات یاد رہے کہ فن چاہے برائے زندگی ہو چاہے برائے فن، اس کا حسن و قبح تو دونوں دائروں میں مشترک ہی رہے گا۔ شاعر کا نظریہ جو بھی ہو، اس کی شاعری کو جانچنے کا معیار بہرحال واحد ہو گا۔ہم نے دیکھا ہے کہ نظریاتی سطح پر اقبال ، حافظ کی مخالفت میں کہاں تک پہنچ گئے تھے لیکن تخلیقی اور فنی جہت سے وہ خواجۂ شیراز کو ہمیشہ شاعروں کے شاعر کی حیثیت سے دیکھتے اور سراہتے رہے۔ ویسے فن کی مقصدیت کا سارا مبحث بے معنی ہے۔ ایک فن کار کسی نظریے یا فلسفے کو اپنی جمالیاتی سرگرمیوں کا مرکز بنا سکتا ہے، لیکن اس کی بنیاد پر جمالیاتی اصول اور معیارات سے پہلو تہی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح دوسرا فن کار کسی نظریے یا فلسفے سے بے نیاز ہو کر یا اُن کا پابند ہوئے بغیر فن کے عظیم نمونے ایجاد کر سکتا ہے۔ نظریہ و فکر فن کی شرائط میں سے نہیں ہیں، البتہ محاسن ہو سکتے ہیں۔ شعور کا جمالیاتی تناظر ایک مربوط معنویت پر استوار ہو تو اس کی بدولت جمالیاتی رسائی میں اضافہ یقینا ہوتا ہے۔ شاعری وغیرہ تصور جمال کی موجد نہیں ہوتی بلکہ ایک موجود تصور جمال کی خلاقانہ اتباع اور صورت گری کرتی ہے۔ ہر تہذیب دیگر مجموعی تصورات کی طرح جمال کا بھی ایک تصور رکھتی ہے۔ اس کی ماہیت ذہنی یا انفرادی یا وقتی نہیں ہوتی بلکہ اس میں بھی حق اور خیر کے تصورات کی طرح وہ اقداری استقلال پوری طرح موجود ہوتا ہے جس میں تبدیلی و تغیرکا امکان محض اوپر اوپر کار فرما رہتا ہے، اصول ان کی پہنچ سے ماورا رہتے ہیں۔ ہماری روایت اپنی اصل اور مقصود، یعنی حقیقت کے تناظر میں جن بنیادی تصورات پر مبنی ہے، اُن کی باہمی نسبتوں کا شعور ہماری اصطلاح میںحکمت کہلاتا ہے ___ یعنی حقیقت کی بہ اعتبار مظاہر معرفت ۔ تصور جمال چونکہ حقیقت کے سلسلۂ ظہور اور اس میں پائے جانے والے تنوع کو محفوظ رکھتا ہے، لہٰذا اس کی کارفرمائی میں حسی اور تجربی رنگ حاوی رہتا ہے اور ذہنی کیفیت کم ہوتی ہے۔ اس لیے حکیمانہ شعور جمال کو نظریہ سازی اور فلسفہ طرازی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ۔ اس شعور کو حقیقت کا ورائے ذہن حضور میسر ہے، ذہن جن اسالیب حصول کا پابند ہے وہ اس فضا کو اول تو گرفت میں نہیں لے سکتا اور اگر یہ کوشش کرے گا تو انتشار کا موجب بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹھیٹھ عارفانہ اور حکیمانہ شاعری بھی حقائق کے حضور سے عبارت ہوتی ہے، فہم سے نہیں۔ شاعری کی اس قسم میں معانی اپنی نوع کے لحاظ سے محض مفہومات نہیں ہوتے ، بلکہ حقیقت سے نسبت رکھنے والے تجربات کا اظہار ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا اظہار ذہن اور عقل کے لیے fulfilling ہوتا ہے۔شعرِ حکمت کی شرح بھی اسی اصول پر کی جاتی ہے کہ اس میں ذہن ایک معاون عنصر کی حیثیت سے شامل ہو کر اپنی تسکین اور سرشاری کی روداد بیان کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ اقبال کا مفکر اور فلسفی ہونا، اور مثال کے طور پر نظیری کا ایسا نہ ہونا ، ہمیں نظیری پر اقبال کی کسی جزوی فوقیت کا بھی دعویٰ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ نظیری حقیقت کے self disclosure کو جس جمالیاتی درو بست میں دیکھنے کی صلاحیت اور بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہے، وہ حقیقت کے ذہنی تصور سے بہت بڑی چیز ہے۔ اس پس منظر میں بہتر ہوگا کہ ’’مرزا غالب‘‘ کا مصرع بہ مصرع ، بیت بہ بیت ایک تشریحی تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ امید ہے کہ اس طرح ایک تو یہ پتہ چل جائے گا کہ غالب کی شاعری کن بنیادوں پر عظمت کا ناقابل تسخیر پہاڑ بنی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ تفہیم غالب کی روایت میں اقبال نے بھی کچھ بلیغ اضافے کیے ہیں۔ فکر انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پر مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا اگر غالب نہ ہوتا تو اردو کی فکری روایت میں بھی یہ نکتہ پوری طرح سامنے نہ آتا کہ فکر کا جمالیاتی منتہا کیا ہوتا ہے، اور عقلی شعور اور جمالیاتی شعور کے نقطہ یکجائی تک رسائی کے بلند ترین مراتب کا حصول کیسے ممکن ہے؟ بالفاظ دیگر، غالب نے جس طرح حقائق کے جمالیاتی حضور کو عقلی تصورات سے ممتاز کرکے دکھایا ہے، اس سے کم از کم اردو شاعری ایک اور حکیمانہ مرتبے کو پہنچ گئی ۔یہ نری مداحی نہیں ہے بلکہ اس کے شواہد غالب کی اردو اور فارسی شاعری سے بہ کثرت فراہم ہوتے ہیں۔ یہاں ان کے اردو دیوان سے دو منسوخ اشعار نقل کیے جا رہے ہیں جو غالب نے عین نوجوانی یعنی ۱۸ برس کی عمر میں کہے تھے: نہیں ہے باوجودِ ضعف سیرِ بے خودی آساں رہِ خوابیدہ میں افگندنی ہے طرحِ منزل ہا تماشا کردنی ہے انتظار آباد حیرانی نہیں غیر از نگہ جوں نرگستاں فرش محفل ہا پہلے شعر میں حضورِ حقیقت کا وجودی مرتبہ بیان ہوا ہے اور دوسرے میں علمی ۔ پہلے کا اقتضا فقدان ہے اور دوسرے کا حصول ۔یہ حکیمانہ سطح اردو شاعری کی پوری روایت میں اگر کہیں دریافت ہو جائے تو میرے لیے تعجب خیز ہو گا۔ تھا سراپا روح تو، بزمِ سخن پیکر ترا زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا غالب اردو شاعری کی ایک نہایت قیمتی روایت کا موجد ہے مگر خود اس روایت کے حدود میں سما نہیں سکتا، یعنی اس کی شاعری سے جو روایت پیدا ہوئی وہ اس کی شاعرانہ عظمت کی طرف اشارہ تو کرتی ہے مگر اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اردو کے شعری معیارات غالب سے بڑی حد تک ماخوذ ہیں مگر اس کے شعری کمالات کی توجیہ کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس شعر میں بزم سخن اردو شاعری اور اس کی مجموعی روایت کو کہا گیا ہے، یہ نکتہ نظر میں رہے تو ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے بن کے سوزِ زندگی، ہر شے میں جو مستور ہے وحدت اور ہمہ گیری، شعور کی دیگر انواع کی طرح جمالیاتی شعور کا بھی مقصود ہے۔ شعور کی ہر قسم موجودات کو اصل واحد پر استوار دیکھنا چاہتی ہے۔ یعنی حقیقت کے ساتھ نسبت ثابت نہ ہو تو موجود ہونے کا استحقاق فنا ہو جاتا ہے۔ جمالیاتی شعور اس نسبت کو اصل و مظاہر کے نظام تعلق کی بنیاد پر قبول کرتا ہے، مطلب یہ کہ حضور (presence) کو مقصود اصلی جانتا ہے اور چیزوں کی جمالیاتی قدر کو اسی حضور سے مشروط رکھتا ہے۔ دیکھیے غالب کے ہاں شعور کی یہ بلند ترین جمالیاتی کارکردگی کس کس انداز سے ظاہر ہوتی ہے۔ ہے رنگِ لالہ و گلِ نسریں جدا جدا ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے دیکھ کر تجھ کو چمن بس کہ نمو کرتا ہے! خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس چاک مت کر جیب بے ایامِ گل کچھ اُدھر کا بھی اشارہ چاہیے آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیشِ نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا اس باب میں غالب کے بیسیوں اشعار نقل کیے جا سکتے ہیں، یہ پانچ تو بس نمونے کے ہیں۔ محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار بڑی شاعری، بڑی آواز بھی ہوتی ہے۔ شعر کی جمالیاتی تکمیل میں اس بات کا بہت دخل ہے کہ معنی اور تصویر کے ساتھ ساتھ ، لفظ کی آواز بھی اس کے حسن اور معنویت میں اضافہ کرے۔ غالب اس شرط پر بھی ہر عظیم شاعر کی طرح پورے اترتے ہیں۔ مثلاً ذیل کے اشعار میں دیکھیے کہ ان میں بننے والی مجموعی فضا میں خوش آہنگی کتنے واضح انداز سے کار فرما ہے: جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی کیا قیامت ہے کہ دامان خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے غرض اس طرح کی متعدد مثالیں ہیں جو اس وصف میں غالب کو انتہائی حد تک منفرد ثابت کرتی ہیں۔ تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ وار عظیم شاعری ، آواز، تصویر اور معنی کو ایک دوسرے میں مدغم کرنے کا عمل ہے۔ آواز کا بیان پچھلے شعر میں ہو گیا تھا، یہاں پیکر تراشی اور معنی آفرینی میں اس اہم ترین شاعر کا مرتبہ دکھایا گیا ہے۔ شاعری میں تخیل ، جمال کی روبروئی میں ایسے حسی وفور سے عبارت ہے جو تصور کو محسوس بنا دیتا ہے اور حسن کی حقیقت کے لیے ایک صوری سیاق و سباق تخلیق کر دیتا ہے۔ جمال جس کامل اظہار کا نام ہے، لفظ کی شمولیت کے بغیر اس کا فعال اور تخلیقی ادراک ممکن نہیں ہے۔ شعری تخیل اسی ادراک کا دوسرا عنوان ہے۔جس کے عمومی اور mechenical مظاہر ، جمالیاتی شعور کی تخلیقی طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا انسان اپنی اس طاقت کو جس میں اظہار اور ادراک ضروری امتیاز کے ساتھ یکجان ہیں، جمال کے نئے اسالیبِ اظہار کی ایجاد یا دریافت میں صرف کرتا ہے۔ یہ قوت جو جمال کی قبولیت اور اس قبولیت کے اظہار کو برسرِ عمل لاتی ہے، لفظ ہے۔ انسانی شعور کا تمام تر فعل و انفعال لفظ کی اساس پر ہے۔ ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ ملفوظ ہے اور ہم اظہار کی اتنی ہی طاقت رکھتے ہیں جو لفظ ہمیں فراہم کرتا ہے۔ گویا قدرت مظہر جمال تو ہے مگر منجمد۔ تنوع ظہور جمال کا خاصہ ہے، قدرت یعنی عالم خارجی اس تنوع کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ظہورِ جمال کا اصل Pattern انسانی شعور اور لفظ کی تَہ دار نسبتوں پر استوار ہے۔ شاعر کی تخلیقی گہرائی میں صورت پکڑنے والا حضورِ جمال ، مناسبِ حال الفاظ میں اظہار پا کر چیزوں کے جمالیاتی جمود کو توڑ کر ان کے اندر موجود اس معنویت کو نئے ڈھب سے ابھار دیتا ہے جو نظر انداز شدہ حالت میں پڑی ہوئی تھی۔ تخیل کو قدرت کی بہار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ چیزوں میںمظہریت کے عنصر کو ان کے دیگر عناصرِ ہستی پر غالب کر دیتا ہے۔ تخیل کی یہ شان غالب کا اصلی امتیاز ہے۔ جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گئیں ٭ کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلائوں کا نزول آج ادھر ہی کو رہے گا دیدئہ اختر کھلا ٭ رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ٭ سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر تو اس قدِ دلکش سے جو گلزار میں آوے ٭ ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہ آفتاب!! ذرّے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں ٭ رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں ٭ دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا! حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی جس طرح تخیل ، جمال کی صوری تجدید اور تشکیل کرتا ہے اسی طرح فکر اس کی معنوی ہیئت کو تخلیقی گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہے، بالفاظ دیگر تخیل کا انحصار جمال کے ظاہر پر ہے جب کہ فکر کا قیام جمال کے باطن پر ہے۔ فکر حسن کو نظری تسکین کا ماخذ بنا دیتی ہے۔ غالب کا تخیل چونکہ معنی کو تصویر کرنے کا عمل ہے لہٰذا ان کے ہاں فکر اور تخیل کا اصطلاحی امتیاز بہت حد تک رفع ہو جاتا ہے۔ جو مثالیں اوپر دی گئی ہیں، وہ فکر کے نمونوں کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ تاہم بعض مقامات ایسے ہیں جہاں تفکر تخیل سے ممتاز اور اُس پر غالب نظر آتا ہے،مثلاً: ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگزارِ باد یاں ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا غالب کی نوجوانی کی غزلوں میں سے ایک غزل کے کچھ اشعار دیکھیے جن سے یہ بہرحال ثابت ہوتا ہے کہ فکر کا جوہر غالب کے تخلیقی سرمائے میں شروع ہی سے پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہا ہے: گر یاس سر نہ کھینچے تنگی عجب فضا ہے وسعتِ گہ تمنا یک بام و صد ہوا ہے دیوانگی ہے تجھ کو درس خرام دینا موجِ بہار یکسر زنجیرِ نقشِ پا ہے درسِ خرام تا کے خمیازئہ روانی؟ اس موجِ مے کو غافل پیمانہ نقشِ پا ہے ابھی تک ہم نے فکر کو ذہن کی فلسفیانہ صلاحیت کے معنی میں قبول کر کے غالب کے دیوان سے اس کے کچھ شواہد پیش کیے ہیں۔ یہ خیال اب آیا ہے کہ فکر ایک شعری اصطلاح بھی ہے جو مضمون آفرینی کے کام آتی ہے۔ گویا فکر جمالیاتی شعور میں وقوف (cognition) کا وہ عمل ہے یا ملکہ ہے جس کی بنیاد پر معانی کی جمالیاتی تشکیل ہوتی ہے۔ وہ معانی جو ذہن کے لیے بھی نامانوس نہیںہیں۔ دیکھیے غالب خالص عقلی تصورات کو کس طرح جمالیاتی شعور کی تحویل میں دیتا ہے: خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے مرے دام تمنا میں ہے ایک صید زبوں وہ بھی ٭ ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں ٭ شوق اُس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں جادہ از غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں ٭ اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب ادھر بھی سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے ٭ ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ٭ زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں تابِ گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں ’’شوخیِ تحریر‘‘غالب کا وہ وصف ہے جس میں کئی چیزیں آ جاتی ہیں، مثلاً : زندہ دلی، طنازی، خود استہزائی، اسلوب کی چمک دمک، رنگیں بیانی اور وہ قوتِ اظہار جس کے لیے پیچیدہ سے پیچیدہ خیال کا بیان بھی آسان ہو۔ غالب کے حوالے سے اس وصف کا مجموعی مطلب یہ ہو گا کہ کوئی چیز اُس کی جمالیاتی دسترس سے باہر نہیں۔ اس پر مزید کمال یہ ہے کہ غالب چیزوں میں جمالیاتی معنویت کے ساتھ ایسی شدت اور حرکیت بھی پیدا کر دیتا ہے کہ ان کا اظہار ذہن پر ثبت ہو جانے والی ساکت تصویروں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ وہ زندگی کے زندہ مظاہر بننے کی طاقت فراہم کر لیتی ہیں۔ یعنی زندہ جمالیاتی مظاہر۔ غالب کے پیکروں میں اعلی درجے کی شاعرانہ معنٰی خیزی کے بعد جو اوصاف بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اُس کا شعر خواہ مایوسی کے مضمون پر ہو مگر اس کی تاثیر فرحت اور شادمانی والی ہوتی ہے۔ ’’زندگی مضمر ہے‘‘ کا مفہوم یہ بھی ہے کہ مضامین کا فرق غالب کے جمالیاتی جوہر یعنی مسرت بخشی کو مجروح نہیں کرتا ۔ ہم آپ دیکھتے ہیں کہ زبان کی انتہائی غرابت اور زمانے کے اچھے خاصے فصل کے باوجود غالب کے ہاں باسی پن نہیں پیدا ہوا بلکہ اس کے برعکس وہ غالباً واحد شاعر ہے جس کی تخلیقی گہرائیوں کو مزید کھنگالنے کی گنجائش ، ہمارے معیاری شعری ذوق میں مسلمے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرزا غالب کے علاوہ اردو میں کوئی ایسا شاعر نہیں جس کی انتہائی تحسین میں بھی نارسائی کا اعتراف یا شکوہ نہ پایا جاتا ہو۔ یہ کوئی معمولی بات ہے کہ کسی شاعر کا شعر فعلاً نا مفہوم ہونے کے باوجود پسندیدگی کی انتہائی سطح پر لے جا کر قبول کیا جائے؟ یہاں ایک نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ خود زندگی کا یہی عالم ہے، اس کا فہم حاصل نہ ہو تو بھی اس کی تاثیر قائم اور ثابت رہتی ہے۔ یعنی غالب کے شعر کی بناوٹ گویا زندگی کی بناوٹ ہے۔ اب ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ لب تصویر میں جنبش کیسے پیدا ہوتی ہے: دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے!! خود بخود پہنچے ہے گل گوشئہ دستار کے پاس ٭ بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی وہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے گم ہے ٭ کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے ٭ نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر شمس الرحمان فاروقی نے کسی جگہ غالب کے تخیل کو ’’آسمانی تخیل‘‘ قرار دیا ہے۔ان کی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بلکہ اس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب ذوق جمال سے آشنا آنکھ اور شعور حسن سے تشکیل پانے والے ذہن کو مخاطب بناتے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے پیکر رنگینی ، وسعت اور بلندی سے ترتیب پاتے ہیں اور حسی وفور سے زیادہ معنوی تَہ داری کے حامل ہوتے ہیں۔ فارسی شاعری کی نشاطیہ روایت میں فکر کو غلبے کے ساتھ داخل کر کے غالب نے اردو کی شعری جمالیات کے سب سے طاقت ور جوہر کو تخلیق کر کے دکھایا۔ یہ وہی جوہر ہے جس نے اقبال کے باقاعدہ فکری نظام کو شعر میں ڈھلنے کا سانچا فراہم کیا۔ جمال کو صورت کی تحدید سے ماورا کر کے فارسی کے بڑے شاعروں کی طرح غالب نے پیکر تراشی کا جو منتہا حاصل کر دکھایا ہے وہ گویا مکانی بلندیوں اور وسعتوں کی سمائی سے باہر ہے۔ غالب کی امیجری کا در و بست ایسا ہے کہ جیسے جیسے کائنات کے بارے میں ہمارا مشاہداتی علم بڑھتا جائے گا، غالب کی تصویر کردہ دنیا، اُس دنیا کا شکوہ اور پھیلائو اسی حساب سے ہمارے جمالیاتی ادراک میں آتا جائے گا۔ غالب یقینا اردو کا مشکل ترین شاعر ہے لیکن اس کے شعر کی مشکلات ، فکری کم ہیں ، جمالیاتی زیادہ۔ اس لیے غالب کا مخاطَب بننے کے واسطے فہم سے بڑھ کر ذوق کی ضرورت ہے۔ اور جمالیاتی حقائق کا شعور جس صلاحیت پر منحصر ہے وہ یہی ذوق ہے جو حقیقت کے حضور میں پروان چڑھتا ہے اور اس حضور کی جمالیاتی اساس تک پہنچنے کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ غالب کے ہاں یہ حضور کونیاتی (cosmological) ہے، ہمارے تجربے میں آئی ہوئی دنیا تا حال اتنی چھوٹی ہے کہ دیوان غالب میں اظہار پانے والی اقلیم کی سیر کرنے میں ہماری رہنمائی یا معاونت نہیں کر سکتی۔ اس گفتگو کا تعلق دوسرے مصرع سے تھا۔ پہلے مصرعے میں غالب کی ستایش کے پردے میں اقبال نے بڑی شاعری کا ایک بنیادی عنصر تعلیم کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بڑا شعری اظہار ادراک کی ہر قسم اور ہر سطح سے بلند تر ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے نطق کی تعریف کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ نطق مجموعہ ہے حسی و عقلی ادراک اور اس کے اظہار کا۔یعنی اظہار کو مطابق ادراک کرنے والی استعداد، نطق ہے۔ بڑا شاعر اظہار پر لگی ہوئی اس قدغن کو توڑ دیتا ہے اور لفظ کو اس کے معنی پر غالب کر دیتا ہے ۔ یہ غلبہ اظہار کو اصل اور ادراک کو اس کی فرع بنا دیتا ہے۔ گویا اس طرح نطق کے خلقی نقص کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بار بار کہنا پڑ رہا ہے کہ غالب کے ہاں اظہار پانے والی کائنات ہمارے ہی سیاروں پر مشتمل ہونے کے باوجود ہماری کائنات سے کہیں بڑی ہے۔ نطق کو اس کے لب اظہار پر ناز کیوں نہ ہو جس نے ادراک کو مُدرَکات سے وسیع تر کر دیا: رات دن گردش میں ہیں سات آسمان ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا ٭ قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ اے نالہ نشانِ جگرِ سوختہ گیا ہے ٭ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی! ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاںکا ٭ ہاں کھائیو مت فریب ہستی ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے ٭ خیال جلوئہ گل سے خراب ہیں مے کش! شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں ٭ شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر خندہ زن ہے غنچۂ دلی گلِ شیراز پر شعریات سے بالکل ناواقف آدمی کو سمجھانے کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعر میں بیان ہونے والی پوری بات کو مضمون کہتے ہیں۔ اس بات میں ندرت و تازگی بھی ہو تو مضمون اچھا ہے اور جس عمل سے یہ تازگی پیدا ہوتی ہے اُسے مضمون آفرینی کہا جاتا ہے۔ عموماً مضامین کی نوعیت اخلاقی اور محاکاتی ہوتی ہے اور ان کی تشکیل میں واقعاتی پن کا انداز قدرے غالب ہوتا ہے۔ مضمون کا یہ عمومی اسلوب غالب کے ہاں بھی پایا جاتا ہے مگر اس قدر تازگی کے ساتھ کہ گویا اس پر غالب کی مہر لگی ہوتی ہے، تاہم ان کی مضمون آفرینی کا اصل جوہر جمالیاتی+ فکری ہے۔ غالب مضمون کے واقعاتی بہائو کو اس جمالیاتی وفور میں ضم کر دیتے ہیں جہاں چیزیں ایک بلند تر جمالیاتی نظم کا حصہ بن کر معنویت کے نئے روزن اور معنی خیزی کے غیر ذہنی معیارات کے ظہور کا ذریعہ بنتی ہیں۔ میری ناچیز رائے میں معنی کی جمالیاتی تشکیل غالب کے اصل شعری کارناموں میں ایک ہے۔ یہ ایسا میدان ہے ، جہاں غالب کے سوا کوئی دوسرا اردو شاعر نظر نہیں آتا۔ خیال ہو یا احساس، تصور ہو یا جذبہ، غالب نے سب کی تقلیب اور تجدید کر کے دکھائی ہے۔ مختصر یہ کہ غالب ایسا شاعر ہے کہ پرانے راستے پر بھی قدم رکھتا ہے تو اس کی منزل بن جاتا ہے۔ پورا دیوان غالب اس کا ثبوت ہے کہ اردو شعری روایت میں عموماً دوام اسی روش کو نصیب ہواجسے غالب نے اختیار کیا۔ اس شعر کے پہلے مصرعے میں اقبال حسنِ اظہار کی روایتی اہمیت کو قبول کر کے اس کی بنیاد پر دراصل یہ کَہ رہے ہیں کہ غالب معنی و صورت کو بلند ترین جمالیاتی تناظر میں یکجا کر دیتے ہیں۔ غالب کے ہاں اس کی مثالیں ملاحظہ کیجیے : رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟ ٭ نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا! قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا ٭ نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا حباب موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا ٭ ترے سرو قامت سے یک قد آدم قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں ٭ آہ! تو اجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے غالب اور گوئٹے میں کئی مشابہتیں ہیں ، مثلاً اقداری معنٰی کو جمالیاتی تناظر فراہم کرنا، مابعد الطبیعی حقائق کو ٹھیٹھ انسانی نقطۂ نظر سے دیکھنا، لفظوں کو پیکر تراشی میں صرف کرنا اور ان پیکروں کو معنٰی کا ماخذ بنانا وغیرہ۔غالب کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس کی بڑائی کا ادراک دیگر بڑے شاعروں کے ساتھ تقابل کیے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ لطفِ گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں اقبال نے اس شعر میں بڑی شاعری کے عناصر ثلاثہ بتا دیے ہیں: ۱۔ لطف گویائی یعنی حسن اظہار۔ ۲۔ تخیل یعنی محسوسات میں تصرف اور ان کی جمالیاتی تشکیل ۔ ۳۔ فکر ِ کامل یعنی معقولات میں تصرف اور نئے معنی کا حصول۔ اس شعر پر اقبال نے اپنی مدح غالب کو خلاصہ کر کے بیان کر دیا ہے۔ آگے کے اشعار ہمارے موضوع سے تعلق نہیں رکھتے۔ آخر میں غالب کے ایک خاص الخاص وصف کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ نظریاتی شاعر ہرگز نہیں تھا مگر اس کا شعور جمال اتنا مکمل اور معنی آفریں تھا کہ مضمون کو فلسفیانہ اور مفکرانہ منتہائوں تک لے جانے کی بھی قدرت رکھتا تھا۔ مثال کے طور پر حرکت ، فنا اور مستقبل ، علامہ اقبال کے مخصوص نظریاتی مضامین ہیں ۔ ان موضوعات پر غالب نے گویا اقبال بن کر کہا ہے: نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا حبابِ موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا ٭ ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگزارِ باد یاں ٭ ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں اگر یہ اشعار کلیاتِ اقبال میں ہوتے تو متعلقہ موضوعات پر اُن کے بہترین اشعار کا درجہ پاتے۔ ئ……ئ……ء مجلہ نقوش میں ذخیرۂ اقبالیات سمیع الرحمن ’’اقبالیاتی ادب‘‘ کا ایک قابلِ لحاظ حصہ، حوالہ جاتی مواد (reference material) پر مشتمل ہے اس میں کتب، رسائل اور فہارس وغیرہ شامل ہیں۔ اقبالیاتی تحقیق و تنقید کی پیش رفت میں اس طرح کے حوالہ۔جاتی لوازمے کا کردار کلیدی نوعیت کا حامل ہے۔ اقبالیات کے حوالہ جاتی کام کئی طرح کے ہیں۔ ان میں کشف الابیات، کلیدیں اور اشاریے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ رسائل و جرائد میں اقبالیات سے متعلق مختلف موضوعات پر ہزارہا مقالات محفوظ ہیں۔ بعض رسائل کی مکمل اور نامکمل فہارس شائع ہوچکی ہیں۔ موجودہ شمارے میں مجلہ نقوش لاہور میں شائع شدہ اقبالیاتی ادب کا اشاریہ شائع کیا جارہا ہے۔ نقوش نے اُردو ادب میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ادبی دنیا اس کی معترف ہے۔ اس کے خاص نمبروں نے نہایت اہم تاریخی اور دستاویزی مواد پیش کیا ہے۔نقوش ایک ماہنامہ ہے لیکن مختلف موضوعات پر اس کے ضخیم خاص نمبر کتابوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ خاص نمبر علم وادب کے تشنگان کے لیے موارد الظماٰن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ انمول ذخیرے تو دورِ حاضر کے ادیب، نقاد، طلبا اور محققین کے لیے استفادہ کا بہترین ذریعہ ہیں ہی، اس کے معمول کے شماروں میں بھی ایسے گراں قدر علمی وتحقیقی جواہر موجود ہیں جن سے استفادہ آیندہ نسلوں کے لیے نشان راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ علامہ اقبال کی تحریریں محمد اقبال،علامہ اسلام، قومیت اور وطنیت نومبر۱۹۷۷ ۲۹۹-۳۰۷ // // انتخاب نعت فارسی جنوری۱۹۸۴ ۳۸۵ // // آدمیت، احترامِ آدمی [نظم] شمارہ۷ ۱۰ // // جناب رسالتمآب کا ادبی تبصرہ رسول نمبرجلد۴ ۶۴۴تا۶۴۵ // // حیاتِ جاوداں نومبر۱۹۷۷ ص ن // // خطبہ الٰہ آباد [مترجم: مختار زمن/ عکسی اشاعت] ستمبر۱۹۷۷ ۴۹۹-۵۰۴ محمد اقبال،علامہ سلطنت [نظم] شمارہ۲ ۶۷ // // کیا مذہب کا امکان ہے؟ [مترجم: اختر مسعود] شمارہ۱۳ ۱۸-۲۶ // // محفل میلاد النبی ا رسول نمبرجلد۴ ۶۴۶تا۶۵۰ // // محمد اقبال[مرتب: عبداللہ قریشی] جون۱۹۶۴ ۲-۱۷ // // نعتیہ اشعار جنوری۱۹۸۴ ۵۹ // // ۱۰؍غزلیں مئی۱۹۵۹ ۱۲۹-۱۳۳ مکتوبات ارشد میر اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط [عکسی اشاعت] ستمبر۱۹۷۷ ۵۲۳-۵۳۰ عبدالقادر،سر خطوط بنام مولوی بشیرالدین، علامہ اقبال وغیرہ نومبر۱۹۵۷ ۳۱۸-۳۳۵ عبداللطیف اعظمی مکاتیب اقبال کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ جنوری۱۹۷۹ ۴۰۱-۴۲۴ قاف اقبال کے خط عطیہ بیگم کے نام [انگریزی] شمارہ۳ ۹۹-۱۰۰ محمد اقبال،علامہ ایک خط کا عکس[بنام شوکت تھانوی] ستمبر۱۹۶۳ ۹ // // ایک خط کا عکس[بنام مولانا محمد عرفان] نومبر۱۹۵۷ … // // ایک خط [بنام مولانا عرفان] اپریل۱۹۶۰ ۶۱۳-۶۱۴ // // خطوط کے عکس [بنام تلوک چند محروم] اپریل۱۹۶۶ ۱۵۵ // // خطوط کے عکس [بنام ڈاکٹر حبیب النسا اور عبدالسلام ہزاروی] اپریل۱۹۶۸ ۴۳۶-۴۳۷ // // خطوط کے عکس [بنام غلام قادر گرامی] اپریل۱۹۶۸ ۲۳-۲۸ // // ۷؍مکتوبات دسمبر۱۹۷۷ ص ن // // ۴۹؍خطوط نومبر۱۹۵۷ ۲۹۳-۳۱۷ محمد طفیل مکتوب بنام رفیع الدین ہاشمی [بسلسلہ اقبال نمبر] جولائی۱۹۸۷ ۸۹۹ دیگر مصنّفین کے مقالات آفتاب احمد علامہ سر اقبال کے اُستاذ نومبر۱۹۷۷ ۴۱-۴۹ ابوالخیر کشفی اقبال کے ساتھ ساتھ دسمبر۱۹۷۷ ۴۷۳-۴۸۹ ابواللیث صدیقی علامہ اقبال اور میراثِ اسلام دسمبر۱۹۷۷ ۶۹-۱۰۹ احسن فاروقی اقبال ہمارا عظیم ترین شاعر ستمبر۱۹۷۷ ۲۱۲-۲۱۹ احمد خاں اقبال کی نظر میں علومِ جدیدہ دسمبر۱۹۷۷ ۲۳۰-۲۴۲ احمد شجاع،حکیم اقبال کا فلسفہ خودی اگست۱۹۶۹ ۴۵-۴۸ // // اقبال کا قیامِ لاہور ستمبر۱۹۶۷ ۷-۲۲ // // اقبال کا قیامِ لاہور دسمبر۱۹۷۷ ۵۵۵-۵۶۸ احمد علی خاں درانی علامہ اقبال [مترجم: مجازی لکھنوی] نومبر۱۹۷۷ ۱۷۳-۱۷۹ اختر راہی شاہ ولی اللہ اور اقبال جنوری۱۹۷۹ ۴۳۴-۴۳۹ ادیب اے آبادی علامہ اقبال اور فلسفۂ تصوف نومبر۱۹۷۷ ۱۶۵-۱۷۲ اسلم جیراج پوری جاوید نامہ نومبر۱۹۷۷ ۱۱۰-۱۱۷ اسلوب احمد انصاری جاوید نامہ کا ایک پہلو ستمبر۱۹۷۷ ۳۲۹-۳۴۳ اسماعیل حسن اقبال کے فلسفہ کی ایک جھلک نومبر۱۹۷۷ ۵۳۹-۵۴۴ افضل حق قرشی اقبال اور ابوالکلام آزاد دسمبر۱۹۷۷ ۵۴۳-۵۵۴ // // اقبال اور اکبر الٰہ آبادی دسمبر۱۹۷۷ ۵۰۳-۵۱۱ اکبر حیدری کشمیری علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش دسمبر۱۹۷۷ ۳۳-۴۱ الطاف علی بریلوی اقبال، شاعر مشرق دسمبر۱۹۷۷ ۲۴۳-۲۵۸ الیگزنڈریو سانی اقبال کا الٰہیاتی فلسفہ [مترجم: یوسف جمال انصاری] نومبر۱۹۷۷ ۳۷۰-۳۷۵ امتیاز علی عرشی اقبال اور آرزوئے نایافت دسمبر۱۹۷۷ ۴۲-۴۷ // // اقبال اور عراقی ستمبر۱۹۷۷ ۱۲۶-۱۳۳ امجد علی بیگ اقبال اور اقتصادیات ستمبر۱۹۷۷ ۳۶۰-۳۶۷ انور سدید اقبال، مخزن اور رومانیت دسمبر۱۹۷۷ ۲۵۹-۲۷۲ این ایچ ہاشمی اقبال اور اُردو[نظم] نومبر۱۹۷۷ ۲۸۴ بشیر احمد ڈار اقبال اور سنائی ستمبر۱۹۷۷ ۱۵۲-۱۷۴ پطرس بخاری سر محمد اقبال [مترجم: ریاض حسین] ستمبر۱۹۵۹ ۵۷۷-۵۷۹ // // سر محمد اقبال[مترجم: صوفی ریاض حسین] نومبر۱۹۷۷ ۳۲۸-۳۳۰ تلوک چند محروم علامہ اقبال سے ایک مختصر ملاقات ستمبر۱۹۶۷ ۱۶۳-۱۶۴ تمکین کاظمی اقبال اور شعر و شاعری نومبر۱۹۷۷ ۴۰۰-۴۲۱ ثاقبہ رحیم الدین دائمی تحریک اور اجتہادِ فکروعمل کا شاعر ستمبر۱۹۸۶ ۱۴۶-۱۵۳ جگن ناتھ آزاد اقبال کا مثالی انسان ستمبر۱۹۷۷ ۲۷۵-۲۸۹ // // اقبال کی اپنے کلام پر نظر ثانی ستمبر۱۹۷۷ ۲۳۴-۲۶۵ // // اقبال مغربی خاور شناسوں کی نظر میں دسمبر۱۹۷۷ ۲۰۲-۲۱۵ // // غالب اور اقبال ستمبر۱۹۷۱ ۳۰۷-۳۲۶ جمیل احمد اقبال اور عصر حاضر کی سیاسی تحریکات نومبر۱۹۷۷ ۵۶۶-۵۸۰ // // اقبال و ٹیگور نومبر۱۹۷۷ ۵۴۵-۵۴۸ // // طبقۂ نسواں اور اقبال نومبر۱۹۷۷ ۴۹۷-۵۰۴ // // علامہ اقبال کی اُردو شاعری نومبر۱۹۷۷ ۴۳۴-۴۵۳ چراغ حسن حسرت فلسفۂ سخت کوشی [ علامہ اقبال کا ایک مضمون اُردو میں پہلی مرتبہ] نومبر۱۹۷۷ ۳۵-۴۰ حامد حسن قادری میر، غالب، اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۴۸ حامد علی مجازی اقبال اور اسلام نومبر۱۹۷۷ ۴۶۱-۴۷۰ حبیب الرحمن پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق نومبر۱۹۷۷ ۵۰۵-۵۱۶ حسن اختر،ملک اقبال اور نئی نسل ستمبر۱۹۷۷ ۴۴۱-۴۵۳ // // اقبال، شاعرِ عالم اسلامی جنوری۱۹۷۹ ۴۴۰-۴۵۴ حفیظ جالندھری اقبال اور حفیظ دسمبر۱۹۷۷ ۴۵۸-۴۶۶ حمید یزدانی فارسی نعت، ایک سرسری جائزہ جنوری۱۹۸۴ ۱۶۵-۱۶۶ دیا نرائن نگم اقبال کا پیغام نومبر۱۹۷۷ ۳۳۱-۳۳۲ ذوالفقار علی،سید اقبال پر ایک اعتراض کا جواب نومبر۱۹۷۷ ۵۶۰-۵۶۵ // // اقبال کا نظریۂ خودی نومبر۱۹۷۷ ۴۷۱-۴۹۶ راج آنند،ملک اقبال کی شاعری نومبر۱۹۷۷ ۵۰-۵۹ راز ہاشمی اقبال کے بدلتے ہوئے نظریات نومبر۱۹۷۷ ۴۵۷-۴۶۰ راغب احسن اقبال اکاڈیمی نومبر۱۹۷۷ ۹-۱۵ // // اقبال پر ایک محققانہ نظر نومبر۱۹۷۷ ۲۳۷-۲۴۴ رشید احمد صابر اقبال پر بعض فضلا کی حرف گیری کی حقیقت نومبر۱۹۷۷ ۵۴۹-۵۵۹ رشید احمد صدیقی کچھ اقبال کے بارے میں دسمبر۱۹۷۷ ۴۸-۵۲ رضی الدین صدیقی اقبال کا نظامِ فکر ستمبر۱۹۷۷ ۲۰۱-۲۰۹ رفیع الدین ہاشمی اقبال کی موعودہ تصانیف دسمبر۱۹۷۷ ۱۴۷-۱۶۵ // // حیات نامۂ اقبال ستمبر۱۹۷۷ ۹-۲۵ // // محمد طفیل اور نقوش کے اقبال نمبر جولائی۱۹۸۷ ۵۰۸-۵۱۳ زبیر،سید اقبال اور سیاسیاتِ عالیہ نومبر۱۹۷۷ ۹۹-۱۰۹ سجاد باقر رضوی اقبال کا توحیدی فکر اور وحدت ستمبر۱۹۷۷ ۳۶۸-۳۸۰ سرتیج بہادر سپرو پیغام [بر ’اقبال نمبر‘] نومبر۱۹۷۷ ۸ سلیم اختر اقبال اور نیرنگ خیال نومبر۱۹۷۷ ۵۸۹-۶۰۰ // // اقبال اور ہمارے فکری روّیے جنوری۱۹۷۹ ۳۹۲-۴۰۰ // // اقبال کا نفسیاتی مطالعہ ستمبر۱۹۷۷ ۴۱۲-۴۴۰ // // اقبال ممدوحِ عالم دسمبر۱۹۷۷ ۳۶۲-۳۷۹ سہما مجددی ارمغانِ حجاز نومبر۱۹۷۷ ۳۸۴-۳۹۴ شمس الدین صدیقی اقبال کا نظریۂ تاریخ ستمبر۱۹۷۷ ۲۲۰-۲۳۳ // // اقبال کی شاعری میں طنز کا عنصر دسمبر۱۹۵۰ ۸۲-۸۸ صلاح الدین احمد دگر دانائے راز مئی۱۹۵۰ ۳۱-۳۴ طاہر تونسوی اقبال اور سید سلیمان ندوی دسمبر۱۹۷۷ ۵۱۲-۵۲۰ طاہر فاروقی اقبال کا تفکر دسمبر۱۹۷۷ ۱۶۶-۱۷۲ ظفر قریشی دہلوی شاعران عالم اور شاعر اسلام __ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۴۵-۲۴۶ ظ-انصاری اقبال شناسی دسمبر۱۹۷۷ ۳۰۵-۳۴۰ عابد حسین اقتباسات از افکار مفکرین حاضرہ [اقبالیات] نومبر۱۹۷۷ ۳۹۷-۳۹۹ عاصم صہبائی اقبال کا تصوراتی سپاہی اپریل۱۹۶۶ ۸۷۶-۸۸۰ عالم خوندمیری اقبال اور زماں دسمبر۱۹۷۷ ۱۲۸-۱۴۲ عالم مختار حق علامہ اقبال کے سفر کی روئیداد اور خطبات ستمبر۱۹۷۷ ۵۵۰-۵۷۵ عبدالحق اقبال اور غالب ستمبر۱۹۷۷ ۱۴۴-۱۵۱ // // اقبال کا شعری آہنگ جنوری۱۹۷۹ ۳۴۹-۳۵۹ // // بانگ درا نومبر۱۹۷۷ ۳۰۸-۳۲۰ عبدالحکیم،خلیفہ اقبال جنوری۱۹۵۵ ۱۰۸-۱۱۴ // // رومی، نیطشے اور اقبال نومبر۱۹۷۷ ۳۲۱-۳۲۷ عبدالرحمن بجنوری مثنویاتِ اقبال [مترجم: مالک رام] نومبر۱۹۷۷ ۸۰-۸۹ عبدالرحمن،شیخ اقبال ایک مصلح کی حیثیت سے نومبر۱۹۷۷ ۲۱۵-۲۲۳ عبدالرحیم چغتائی ڈاکٹر صاحب اور چغتائی جنوری۱۹۷۹ ۴۲۵-۴۳۳ عبدالرشید طارق ارمغانِ حجاز نومبر۱۹۷۷ ۵۱۷-۵۳۸ عبدالرشید فاضل علامہ اقبال ایک ریفارمر کی حیثیت میں نومبر۱۹۷۷ ۱۳۱-۱۳۹ عبدالرشید،خواجہ اقبال اور اس کے مفکر معاصرین ستمبر۱۹۷۷ ۱۳۴-۱۴۳ عبدالسلام خورشید اقبال اور پاکستان ستمبر۱۹۷۷ ۵۳۸-۵۴۹ // // اقبال اور مہر و سالک دسمبر۱۹۷۷ ۵۲۷-۵۴۲ // // اقبال ایک مستقبل شناس سیاستدان جنوری۱۹۶۶ ۱۴۸-۱۵۱ عبدالعزیز مالواڈہ ایک انٹرویو بسلسلہ اقبال دسمبر۱۹۷۷ ۶۲۰-۶۳۷ عبدالغفار،قاضی پیامِ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۶۴-۷۹ عبدالغنی عباسی اقبال اور ہمارے فرائض نومبر۱۹۷۷ ۵۸۱-۵۸۳ عبدالقادر،سر غزل اور متغزلین، اقبال جولائی۱۹۵۴ ۲۲۵-۲۲۶ عبدالقوی دسنوی اقبال کا بھوپال سے تعلق دسمبر۱۹۷۷ ۶۳۸-۶۴۷ // // بچوں کا اقبال دسمبر۱۹۷۷ ۲۸۲-۲۹۵ // // حیاتِ اقبال ستمبر۱۹۷۷ ۲۶-۴۷ عبدالقیوم،ملک اقبال اور اسلامی دنیا کے دیگر شعرا نومبر۱۹۷۷ ۶۰-۶۳ عبداللطیف اعظمی مکاتیب اقبال کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ جنوری۱۹۷۹ ۴۰۱-۴۲۴ عبداللہ چغتائی اقبال اور انتخابِ کونسل دسمبر۱۹۷۷ ۴۶۷-۴۷۲ عبداللہ قریشی اقبال اور گرامی دسمبر۱۹۷۷ ۴۹۴-۵۰۲ عبداللہ قریشی اقبال کے ادبی معرکے ستمبر۱۹۸۱؍۲ ۲۱۳-۲۲۶ // // اُردو کے طنزیہ و مزاحیہ شاعر___اقبال فروری۱۹۵۹ ۶۷۶-۷۷۷ // // حیات اقبال کی گمشدہ کڑیاں، معرکۂ اسرارِ خودی ستمبر۱۹۸۱؍۲ ۲۲۷-۲۶۴ // // مشاہیر ادب، اقبال نومبر۱۹۵۷ ۹۳۳ عبداللہ،سید اقبال اور ابن عربی ستمبر۱۹۷۷ ۱۱۲-۱۲۵ عبدالماجد دریابادی نیطشے، رومی اور اقبال نومبر۱۹۶۴ ۳۷-۴۰ // // نیطشے، رومی اور اقبال دسمبر۱۹۷۷ ۴۹۰-۴۹۳ عبدالمغنی اقبال کا فن مارچ۱۹۶۳ ۶۳-۸۰ // // اقبال کی انسان دوستی جنوری۱۹۶۶ ۱۵۲-۱۶۷ // // عالمی ادب میں اقبال کا پیغام جنوری۱۹۷۶ ۵۷۹-۵۸۹ عبدالوحید،خواجہ اقبال کے حضور دسمبر۱۹۷۷ ۳۸۰-۴۲۱ عسکری علی خان ٹیگور و اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۳۶ عطا الرحمن،میاں اقبال [مترجم: صالحہ الکبریٰ] دسمبر۱۹۷۷ ۴۲۲-۴۳۱ عطا اللہ سجاد اقبال، عظمت انسان اور انقلاب کا شاعر جون۱۹۸۵ ۳۸۷-۳۹۱ عمر نور الٰہی حسن عقیدت[اقبالیات] نومبر۱۹۷۷ ۲۴۷ غلام احمد پرویز متفادلِ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۱۱۸-۱۳۰ غلام جیلانی برق اقبال اور روحانیت ستمبر۱۹۷۷ ۷۱-۷۶ // // اقبال، کائونٹ ٹیونیو اور ملوکیت ستمبر۱۹۵۴ئ ۱۷۱-۱۸۰ غلام حسین ذوالفقار اقبال اور کشور پنجاب دسمبر۱۹۷۷ ۲۹۶-۳۰۴ غلام رسول مہر اقبال کے اُستاد پروفیسر آرنلڈ دسمبر۱۹۷۷ ۶۵۰ // // اقبال کے اُستاد میر حسن دسمبر۱۹۷۷ ۶۴۸-۶۴۹ // // حضرت اقبال دسمبر۱۹۷۷ ۶۵۱-۶۵۳ غلام قادر اثر رباعی نومبر۱۹۷۷ ۲۸۰ غلام مرشد علامہ اقبال سے سعادت مند ملاقاتیں جنوری۱۹۷۹ ۳۰۱-۳۲۷ غلام مصطفی تبسم اقبال کی ایک نظم ’’سرودِ انجم‘‘ ستمبر۱۹۷۷ ۳۰۵-۳۱۳ غلام مصطفی تبسم اقبال کی شاعری نومبر۱۹۷۷ ۱۸۷-۲۰۵ غلام مصطفی خاں علامہ اقبال بارگاہِ رسالت میں ستمبر۱۹۷۷ ۴۸-۷۰ فتح محمد ملک اقبال اور ہماری ثقافتی تشکیل نو ستمبر۱۹۸۲ ۸۲۶-۸۳۱ // // اقبال، اثباتِ نبوت اور پاکستان جون۱۹۸۵ ۳۹۲-۳۹۸ // // اقبال مجموعۂ اضداد یا دانائے راز جنوری۱۹۷۹ ۳۶۹-۳۹۱ فرمان فتح پوری اقبال اور ملتِ اسلامیہ دسمبر۱۹۷۷ ۳۴۱-۳۶۱ // // اُردو غزل کی معنوی توسیع میں اقبال کا حصہ ستمبر۱۹۷۷ ۲۹۰-۳۰۴ فیض احمد فیض محمد اقبال [مترجم: سجاد باقر رضوی] دسمبر۱۹۷۷ ۱۲۳-۱۲۷ قدرت اللہ شہاب اقبال کا جشن صد سالہ جنوری۱۹۷۹ ۲۹۷-۳۰۰ کرار حسین اقبال، سوشلزم اور اسلام دسمبر۱۹۷۷ ۱۱۰-۱۱۶ کسریٰ منہاس اقبال اور تاریخ گوئی ستمبر۱۹۷۷ ۳۸۱-۴۱۱ // // اقبال اور قیامِ یورپ دسمبر۱۹۷۷ ۵۶۹-۵۹۴ // // اقبال کی دعائیں جنوری۱۹۷۹ ۴۷۶-۵۰۸ گوپی چند نارنگ اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام دسمبر۱۹۷۷ ۱۷۳-۱۸۵ گیان چند اقبال کے اُردو کلام کا عروضی مطالعہ جنوری۱۹۷۹ ۳۲۸-۳۴۸ مبشر علی صدیقی اقبال کی شاعری کے تین دور نومبر۱۹۷۷ ۴۲۴-۴۳۳ مجنوں گورکھ پوری اقبال اور رومی شمارہ۵ ۳۶ محمد اجمل اقبال کا مطالعہ دسمبر۱۹۷۷ ۱۴۳-۱۴۶ محمد اسماعیل پانی پتی اُردو ادیبوں کے دلچسپ لطائف___ڈاکٹر محمد اقبال شمارہ۷۱ ۹۱۸-۹۲۱ محمد اکبر خاں کلامِ اقبال کی ادبی خوبیاں نومبر۱۹۷۷ ۲۰۶-۲۱۴ محمد بشیر،میرزا اقبال اور بھرتری ہری نومبر۱۹۷۷ ۴۵۴-۴۵۶ محمد حسن اقبال، مذہب اور سائنس دسمبر۱۹۷۷ ۱۸۶-۱۹۳ محمد حسین،چودھری جاوید نامہ نومبر۱۹۷۷ ۱۴۰-۱۶۴ محمد حنیف شاہد اقبال بطورِ ممتحن ستمبر۱۹۷۷ ۴۵۴-۴۷۷ // // گمشدہ اوراقِ اقبال ستمبر۱۹۷۷ ۴۷۸-۴۹۷ محمد حنیف فوق اقبال کے تصورِ خودی کی بین الاقوامیت جون۱۹۸۵ ۳۹۹-۴۰۵ محمد دین تاثیر اسماء الرجال نومبر۱۹۷۷ ۳۶۳-۳۶۹ // // فلسفۂ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۳۴۸-۳۶۲ محمد دین فوق ڈاکٹر شیخ محمد اقبال __ مختصر سوانح حیات نومبر۱۹۷۷ ۱۶-۳۴ محمد ریاض اقبال چند عاشقانِ رسول ا کے حضور ستمبر۱۹۷۷ ۹۶-۱۱۱ محمد سرور اقبال کا پیغامِ اسلامیت درحقیقت پیامِ انسانیت ہے نومبر۱۹۷۷ ۴۲۲-۴۲۳ محمد شفیع اقبال اور جاوید منزل دسمبر۱۹۷۷ ۴۵۳-۴۵۷ محمد طفیل اقبال نومبر۱۹۷۷ ۵۸۴-۵۸۸ // // طلوع [اداریہ ’اقبال نمبر‘] ستمبر۱۹۷۷ ۵ // // طلوع [اداریہ ’اقبال نمبر‘] نومبر۱۹۷۷ ۷ // // طلوع [اداریہ ’اقبال نمبر‘] دسمبر۱۹۷۷ ۵ محمد عثمان اقبال اور خلیفہ عبدالحکیم دسمبر۱۹۷۷ ۵۲۱-۵۲۶ محمد عقیل،سید اقبال کی شاعری میں تمثال کا مطالعہ دسمبر۱۹۷۷ ۱۹۴-۲۰۱ // // اقبال کے شاہین کا ایک اور مطالعہ جنوری۱۹۷۹ ۳۶۰-۳۶۸ محمد منور،مرزا اقبال کا تصورِ قرآنی دسمبر۱۹۷۷ ۲۱۶-۲۲۹ محمد نقوش اس شمارے میں [’اقبال نمبر‘] دسمبر۱۹۷۷ ۶ // // اس شمارے میں [’اقبال نمبر‘] ستمبر۱۹۷۷ ۶ // // اس شمارے میں [’اقبال نمبر‘] نومبر۱۹۷۷ ۳۹۸ محمود حسین،میر اقبال اور حیدرآباد دکن دسمبر۱۹۷۷ ۵۹۵-۶۱۲ مختار زمن دوازدہ منزل سے منزلِ پاکستان تک ستمبر۱۹۷۷ ۵۰۵-۵۲۲ مسعود حسن شہاب اقبال اور بہاولپور ستمبر۱۹۷۷ ۵۳۱-۵۳۷ مسعود حسین فلسفۂ اقبال پر تنقیدی اشارے شمارہ۱۰؍۱۹۴۹ ۱۱-۱۵ مظفر علی سید اقبال کی ایک نظم پر عملی تنقید شمارہ۱۴ ۱۸-۲۱ ممتاز حسن اقبال اور فلسفۂ مغرب [مترجم: یوسف سلیم چشتی] نومبر۱۹۷۷ ۲۶۰-۲۷۲ // // اقبال کی شاعری پر قیامِ یورپ کا اثر نومبر۱۹۷۷ ۱۸۰-۱۸۶ منظور الٰہی مسجدِ قرطبہ ستمبر۱۹۸۲ ۸۱۲-۸۲۵ میرزا ادیب علامہ اقبال کی دعائیں ستمبر۱۹۷۷ ۷۷-۹۵ میکش اکبر آبادی گلشنِ رازِ قدیم اور جدید ستمبر۱۹۷۷ ۳۱۴-۳۲۸ نبی بخش بلوچ اقبال ایک دیدہ ور ستمبر۱۹۷۷ ۲۱۰-۲۱۱ نجم الاسلام اقبال اور رسالہ معارف ستمبر۱۹۷۷ ۳۴۴-۳۵۹ // // اقبال اور رسالہ معارف دسمبر۱۹۷۷ ۲۷۳-۲۸۱ نجیب اشرف ندوی حیاتِ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۳۳۳-۳۴۷ نذیر احمد اقبال کی نظر میں انسانی زندگی کا مقصد ستمبر۱۹۷۷ ۲۷۲-۲۷۴ نذیر علی،سید اقبال اور بہاولپور دسمبر۱۹۷۷ ۶۱۳-۶۱۹ نذیر مومن اقبال اور رومی شمارہ۵ ۳۱-۳۶ نذیر نیازی اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح دسمبر۱۹۷۷ ۱۱۷-۱۲۲ // // بال جبریل سرسری نظر سے نومبر۱۹۷۷ ۳۷۶-۳۸۳ // // تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ نومبر۱۹۷۷ ۲۴۹-۲۵۹ نکلسن پیامِ مشرق [مترجم: مولوی محمد عبداللہ] نومبر۱۹۷۷ ۲۲۴-۲۳۵ نور احمد ثاقب پنجابی زبان و ثقافت اور اقبال جنوری۱۹۷۹ ۴۵۵-۴۷۵ وحید قریشی شعرا کے مختصر حالات __ اقبال مئی۱۹۵۹ ۴۶۸ // // علامہ اقبال کی تاریخ ولادت دسمبر۱۹۷۷ ۹-۳۲ وزیر آغا اقبال اور بیداریِ ذات ستمبر۱۹۷۷ ۲۶۶-۲۷۱ ہاجرہ مسرور طلوع[اداریہ بر یومِ اقبال] شمارہ۲ ۳ ہادی حسین اقبال اور شاعری دسمبر۱۹۷۷ ۵۳-۶۸ یعقوب ہاشمی اقبال اور نثرادِ نو جنوری۱۹۷۹ ۵۰۹-۵۱۳ یوسف حسن،حکیم اقبال کی شخصیت دسمبر۱۹۷۷ ۴۳۲-۴۵۲ // // اقبال نمبر __ طبع اوّل (۱۹۳۲ئ) [اداریہ] نومبر۱۹۷۷ ۵ // // اقبال نمبر __ طبع ثانی (۱۹۳۲ئ) [اداریہ] نومبر۱۹۷۷ ۶ یوسف حسین خان اقبال اور حافظ ستمبر۱۹۷۷ ۱۷۵-۲۰۰ ……… فلسفۂ اقبال میں راہِ حیات نومبر۱۹۷۷ ۳۹۵-۳۹۶ ……… اقبال کا ایک شعر ستمبر۱۹۸۱؍۲ ۴۲۷-۴۵۶ ……… اقبال فروری۱۹۶۲ ۹۲۱-۹۲۲ ……… چند بڑے ادیب [علامہ اقبال] فروری۱۹۶۲ ۱۰۷۱-۱۰۷۳ ……… حکیم الامت سر اقبال فروری۱۹۶۲ ۴۲۸-۴۳۶ ……… شعرا کے مختصر حالات کا خاکہ __ اقبال مئی۱۹۵۹ ۴۷۴ نظمیں ابوالعلا عطا چشتی آرزوئے اقبال[فارسی] نومبر۱۹۷۷ ۲۷۹ احسان دانش تصویر خیالی نومبر۱۹۷۷ ۲۷۶ اشرف الدین یکتا بزمِ خیال نومبر۱۹۷۷ ۲۸۸-۲۹۱ جلال الدین اکبر اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۷۸ حامد علی خاں اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۷۵ دلبر حسن مسحور اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۸۳ عبدالحمید حمد اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۹۳-۲۹۴ عبدالحمید شوق علامہ سر اقبال سے نومبر۱۹۷۷ ۲۹۵-۲۹۶ عبدالرشید ملک پیشکش بحضورِ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۹۲ غلام بھیک نیرنگ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۷۳ کاشی پریاگی اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۸۲ مجازی لکھنوی اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۸۱ مجید ملک تحسین خراج نومبر۱۹۷۷ ۲۷۷ محمد دین تاثیر عالمگیر نومبر۱۹۷۷ ۲۷۴ محمد کبیر خاں رسا فریادِ رسا نومبر۱۹۷۷ ۲۸۰ مظہر انصاری اقبال سے [۵؍نظمیں] نومبر۱۹۷۷ ۲۸۵-۲۸۷ تبصرے رفیع الدین ہاشمی اقبال اور پاکستانی ادب از عزیز احمد [مرتب: طاہر تونسوی] جنوری۱۹۷۹ ۵۱۷-۵۱۹ عارف عبدالمتین اقبال کا نفسیاتی مطالعہ از ڈاکٹر سلیم اختر جنوری۱۹۷۹ ۵۲۵-۵۲۸ عظمت عبدالقیوم اقبال اور اس کا عہد از پروفیسر جگن ناتھ آزاد نومبر۱۹۶۴ ۵۶۰-۵۶۱ اقبال نمبر مدیر ماہ و سال صفحات محمد طفیل ستمبر ۱۹۷۷ ۵۷۶ // // نومبر ۱۹۷۷ [ماہنامہ نیرنگ خیال کا اقبال نمبر مع اضافہ] ۶۰۰ // // دسمبر ۱۹۷۷ ۶۵۳ ئ……ئ……ء اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ اعظم نوید: ’’مغرب کا نظریاتی، ثقافتی اور سیاسی غلبہ ختم کرنے کے لیے اقبال کی کاوشوں کا تفصیلی جائزہ‘‘، ماہنامہ قومی زبان، کراچی، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص۱۹-۲۹۔ اقبال ان مسلم مفکرین میں سے ہیں جنھیں بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مغربی تہذیب اور سیاسی خلفشار کے نہ صرف مشاہدے کا موقع ملا بلکہ اس میں انھیں ایسے محرکات نظر آئے جو ایک طرف اقوامِ مشرق کے لیے تباہ کن تھے تو دوسری جانب خود مغرب کی تباہی پر بھی شاہد تھے۔ اس استعماری تہذیبی یلغار میں اقوامِ مشرق نے جو رعنائی دیکھی اقبال نے اس رعنائی کے باطن میں منافقت، استبداد اور قیصریت کو دریافت کیا اور نفسانیت اور انانیتِ محض کو محسوس کیا۔ مگر ان کی فکر میں یہ بات محض احساس کی حد تک نہ رہی بلکہ اپنے فکری استحکام کے بل پر اقبال نے استعمار کے خلاف ایک باقاعدہ جہاد کا آغاز کیا۔ فرنگ سے متعلق اقبال کی نقد و جرح کے بڑے میدان تین ہیں: ۱- مغربی سیاست، ۲-مغربی معاشرت، ۳- مغربی فکریات۔ علامہ نے اپنے کلام کے ذریعے اسلام کی تہذیب و تمدن کو زندہ کرنے پر ازحد زور دیا ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن کو مذہب اسلام کے لیے سم قاتل تصور کیا۔ علامہ فرنگ کی فتنہ آفرینی اور فتنہ پروری سے بخوبی آگاہ تھے۔ وہ افراد ملت کو مسلسل بتاتے رہے تھے کہ فرنگ کے پردے میں وہی ساحر الموت چھپا ہوا ہے جو اپنے حقیقت ناشناس عقیدت مندوں کو برگِ حشیش دے کر کہتا تھا کہ یہ شاخِ نبات ہے۔ اقبال کا مقصد ہمیشہ ارتفاعِ انسانیت اور معراج بشریت رہا۔ اقبال کی نظر میں قومی، نسلی اور ملکی تفریق کی بنا پر انسانیت کی اس برادری میں رخنہ ڈالنا ایک سنگین جرم ہے۔ اقبال مغرب کی مادہ پرستی، وطنیت اور قومیت کی تنگ و تاریک گلیوں میں بھٹکتی ہوئی تہذیبی زندگی سے بے زار تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان کے فلسفۂ حیات کا اصل محرک ہی مغرب کی تہذیبی زندگی اور اس کا زوال آمادہ معاشرہ تھا۔ اقبال نے اس بات کو پوری طرح واضح کیا ہے کہ لادینی تہذیب کی اساس ہی دین و اخلاق کی دائمی دشمنی پر ہے۔ فرنگی مدنیت ایک ہمہ گیر مہاجنی نظام ہے جس کی بنیاد بے رحمانہ لوٹ کھسوٹ پر رکھی گئی ہے۔ یہ ظالمانہ معیشت انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں ایک استحصالی قوت کے طور پر عمل پیرا ہے۔ اس لوٹ کھسوٹ کی سب سے بڑی اور واضح علامت یہودیت ہے۔ یہودیت اقتصادی چیرہ دستی کی موجد بھی ہے اور علم بردار بھی۔ عصر حاضر کی ذہنی سرگرمیوں سے جو نتائج مرتب ہوئے ہیں ان کے زیر اثر انسان کی روح مردہ ہوچکی ہے۔ اقبال مغرب کے عیوب کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں سے بخوبی واقف اور ان کے مداح بھی تھے۔ ان کی نظر میں علم مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ فرنگ کے پاس ہو یا اہل چین کے، مسلمان کو اس کی طرف اس طرح لپکنا چاہیے جس طرح انسان بازیافتہ گم شدہ مال کی طرف لپکتا ہے۔ اقبال مسلمانوں کو اپنے اسلاف کی بنا پر حکمرانی کرتے ہوئے دیکھنے کے خواہش مند تھے اور چاہتے تھے کہ مشرقی قومیں بھی علوم و فنون اور مادیت میں ترقی کرکے وہ تہذیب و تمدن زندہ کریں جس میں اخلاق، محبت، مروت، ہمدردی، اخوت اور مساوات ہو اور یہ صرف اسلام کی پیروی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ٭٭٭ پروفیسر جمیل احمد انجم: ’’اقبال کا اثر اُردو شاعری پر ‘‘، ماہنامہ قومی زبان، کراچی، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص۵-۱۸۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ اقبال نے اپنی فکر جدید اور طرزِ بیان سے اُردو شاعری میں انقلاب پیدا کردیا۔ ابتدا سے ہی ان کا اندازِ شعر گوئی اتنا مقبول ہوا کہ معاصر شعرا نے ان کے اسلوب کی پیروی میں نظمیں لکھیں۔ وہ ایک نئے عصر کے معمار ہیں۔ اُردو شاعری کو اقبال کے جس پہلو نے بہت زیادہ متاثر کیا وہ ان کی انقلابی شاعری ہے۔ اقبال کی انقلابی فکر معاشرے کی ناہمواری اور سرمایہ داری کی حیلہ جوئی میں جکڑی انسانیت کے مشاہدے کا قدرتی نتیجہ تھی۔ اقبال کی کوششوں سے جدید اُردو شاعری میں ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا ہوا۔ اقبال کے موضوع ’فضیلتِ آدم‘ کی بازگشت اس دور کے بہت بڑے شاعر جوش کے ہاں بڑے طمطراق سے ملتی ہے۔ عظمتِ انسان کا ذکر احمد ندیم قاسمی کے کلام میں بھی ملتا ہے۔ اقبال نے نہ صرف اپنے دور کے شعرا کو متاثر کیا ہے بلکہ آنے والی نسلیں بھی ان کے فکر و انداز کو اپنانے پر مجبور ہوں گی۔ ٭٭٭ پروفیسر محسن احسان: ’’اقبال اور ترک‘‘، ماہنامہ قومی زبان، کراچی، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص۳۰-۳۳۔ علامہ اقبال کے ذہنی و فکری ماخذات کا سلسلہ قرآن مجید کے علاوہ بہت سے مشرقی و مغربی فلاسفہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اقبال کے ایک بڑے ممدوح ترکی کے مولانا روم تھے جن کے شاعرانہ اسرار و رموز سے دنیا باخبر ہے۔ ان کی مثنوی شعر و معرفت کے ساتھ ساتھ اسرارِ دین اور علم کلام کا مجموعہ ہے۔ ترک قوم اور ترکی مزاج و تمدن سے اقبال ابتدا ہی سے آشنا ہوگئے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترکوں کی فتح یابی اور سیاسی کامیابی میں کمال اتاترک کا اہم کردار ہے۔ علامہ نے فارسی نظم ’’خطاب بہ مصطفی کمال پاشا‘‘ لکھ کر ترکوں کے ساتھ جذباتی وابستگی کا اظہار کیا۔ علامہ کی اتاترک اور ترکوں کے ساتھ یہ قلبی اور جذباتی وابستگی ان کے اسلامی جذبے کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ترکی میں اقبال شناسی کے سلسلے میں جن شیدائیانِ اقبال نے کام کیا ان میں محمد عاکب ارصوئے، پروفیسر ڈاکٹر علی نہاد تارلان، ڈاکٹر عبدالقادر قرہ خان، پروفیسر ڈاکٹر علی گنجیلی، ڈاکٹر حسین پرویز، احمد متین شاہین، یوسف صالح، قرہ جاہ صوفی اور ڈاکٹر احمد اسرار اور بہت سے دیگر نام بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر خلیل طوق اُر نے اقبال اور ترک لکھ کر اہل علم و دانش کو اقبال کی فکر سے آگاہی حاصل کرنے کا ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر اسرار احمد: ’’علامہ اقبال، قائداعظم اور نظریۂ پاکستان۔ اور۔ اس نظریے سے انحراف کے نتائج ‘‘، ماہنامہ میثاق، لاہور، مئی ۲۰۰۷ئ، ص۷-۶۴۔ نظریۂ پاکستان ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اس نظریے کی جڑیں اُن صلحائے اُمت کی کاوشوں کے ساتھ پیوستہ ہیں جنھوں نے اکبر کے دین الٰہی کو قبول نہ کیا، وادیِ سندھ کو فتح کیا، انگریز کی حکومت میں تو رہے مگر اس ناگواری کے ساتھ کہ یہ وقت کا تقاضا تھا۔ لیکن اس دوران بھی اپنی حیثیت کو بحال کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ جب دیکھا گیا کہ ہندوستان میں انگریزی حکومت مسلمانوں اور ہندوئوں کو دو مختلف نگاہوں سے دیکھتی ہے اور ہندو بھی اس امتیاز کو بڑھانے میں اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت چند نوابوں نے انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی طرف سے وفاداری کا یقین دلانے کے لیے ایک وفد تشکیل دیا جو آگے چل کر مسلم لیگ کے قیام کا سبب بنا۔ اور پھر مسلم لیگ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے وجود کے تحفظ سے آگے بڑھ کر مسلمانوں کے حقوق کی نمایندہ بنی تو محمد علی جناح کو باصرار اس میں شامل کیا گیا۔ لیکن حالات سے مایوس ہوکر وہ انگلستان چلے گئے اور اسی سال علامہ محمد اقبال نے مسلمان حکومت کے قیام کا تصور دیا اور بعدازاں محمد علی جناح کو لندن میں ملاقات کے بعد واپسی پر تیار کیا۔ اگرچہ یہ دونوں شخصیات ابتدا میں اپنے نظریات کے اعتبار سے جزوی طور پر قابل اعتراض تھیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات بدلتے گئے اور یہ اس سیاسی و قانونی شاہراہِ مستقیم پر آگئے جو آگے چل کر قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا محرک اعظم بنی۔ اس جدوجہد میں قائداعظم نے بے مثل کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے جوش و جذبے نے اس قائدانہ کردار کو قبول کرکے اپنی منزل کی جانب سفر کو تیز تر کرلیا۔ یوں یہ جدوجہد تہی نظریہ نہ رہی بلکہ بامقصد تحریک کی صورت اختیار کرگئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ مسلمان اپنی تعداد کے اعتبار سے اس قابل نہیں تھے کہ ہندوستان کے اندر ایک الگ مملکت قائم کرسکتے۔ یہ صرف ان کا نظریہ تھا جس کے بل پر یہ اس قابل ہوئے۔ لیکن افسوس ہے کہ آج نصف صدی کے بعد قائداعظم اور علامہ اقبال کے ان نظریات کو بہت بڑی غلطی کہا جارہا ہے۔ حالانکہ علامہ اقبال کی تو پوری فکر موجود ہے جو اس بات کی شاہد ہے کہ وہ کس رُخ پر مسلمانوں کو لے جانا چاہتے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے بھی سیکڑوں بیانات اس بات کو پوری وضاحت سے اہل پاکستان کے سامنے رکھتے ہیں کہ انھیں کس طرح کی مملکت درکار تھی۔ ۱۹۳۷ئ-۱۹۴۷ء کے دس سال ان کی اس فکری سمت کو واضح طور پر ہمارے سامنے رکھتے ہیں۔ افسوس کہ قائداعظم کی وفات کے بعد ’’پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ کے مصداق حالات پر اندھیرا چھا گیا۔ معیشت، معاشرت، نظامِ حکومت، نظامِ تعلیم، غرض ہر شعبۂ زندگی بے سمت ہوگیا اور اسلام کا نام اور شناخت ختم کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ یہ قائد و اقبال کے نظریۂ پاکستان کے صریحاً منافی ہے اور اس کے خطرناک نتائج ہم اپنے تمام تر شعبوں کی دگرگوں حالت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ اس صورتِ حالات سے نکلنے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم اپنے مقصد اور نظریے کی طرف رجوع کریں۔ ٭٭٭ پروفیسر فتح محمد ملک: ’’لفظ پاکستان بھی اقبال ہی کی عطا ہے‘‘، ماہنامہ احیائے علوم، لاہور، مئی ۲۰۰۷ئ، ص۷۶-۷۹۔ لفظ پاکستان سب سے پہلے اس گشتی مراسلے میں سامنے آیا تھا جو علامہ اقبال نے ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ (Now or Never) کے عنوان سے لکھا تھا اور انگلستان میں زیرتعلیم چارانڈر گریجویٹ طالب علموں کے نام سے تقسیم کرایا تھا۔ اس میں بالترتیب درج ذیل طالب علموں کے نام دیے گئے:۱- محمد اسلم خٹک صدر خیبر یونین، ۲- شیخ محمد صادق صاحبزادہ، ۳- رحمت علی چودھری، ۴-عنایت اللہ خان، چارسدہ سیکرٹری خیبر یونین۔ گویا اس زمانے میں اپنے سیاسی نظریات کو اسلامیانِ ہند کی عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنے کی دھن میں قائداعظم جیسے عظیم سیاسی مدبر سے لے کر چودھری رحمت علی جیسے انڈر گریجویٹ طالب علم تک رابطے میں تھے۔ عبدالواحد خان لفظ پاکستان کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کی اشاعت سے چالیس برس پیشتر بھی لفظ پاکستان اقبال کے ذہن میں موجود تھا۔ اقبال کی شاعری کی اندرونی شہادت یہ ہے کہ جب انھوں نے اپنے کارواں کو عمل کی راہ پر گامزن کرنے کی خاطر اپنی شاعری کو بانگ درا بنانے کا آغاز کیا تھا تب بھی ان کے ذہن میں لفظ پاکستان موجود تھا۔ برسوں بعد چودھری رحمت علی نے یہ دعویٰ کرکے کہ یہ ان کی تصنیف ہے اپنے طالب علم رفقاے کار کو حیرت میں مبتلا کردیا۔ راشدہ ملک نے اپنی کتاب دی سپرچوئل فادر آف پاکستان میں یہ ثابت کیا ہے کہ (Now or Never) کے مندرجات اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد ۱۹۳۰ء اور خطبۂ لاہور ۱۹۳۲ء سے مستعار ہیں اور اپنے اسلوب و ادا کے اعتبار سے بھی ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ پکارپکار کر کہہ رہا ہے کہ میں اقبال کے قلم سے نکلا ہوں۔ چودھری رحمت علی کے طالب علم معاصرین کی تحریروں سے برآمد ہونے والے تاریخی حقائق کی روشنی میں بھی اور اقبال کی شاعری اور فلسفے کی اندرونی شہادت کی بنا پر بھی انھیں نہ تو ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کا اصل مصنف تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کا خالق۔ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ اقبال کے ذہن کی پیداوار ہے اور لفظ ’’پاکستان‘‘ بھی اقبال ہی کی عطا ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد معزالدین: ’’علامہ اقبال اور عظمتِ آدم‘‘، سہ ماہی الاقربا، اسلام آباد، اپریل-جون ۲۰۰۷ئ، ص۱۷-۴۳۔ علامہ اقبال کے فکر و فن اور تصورِ حیات میں انسان کی حیثیت مرکزی ہے۔ وہ انسان کے شاندار اور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ اس کا ذکر اقبال نے اپنی شاعری میں بھی کیا۔ اسرار و رموز میں دراصل انسان کی اسی انفرادی اور اجتماعی عظمت کی تشریح و تفسیر ہے۔ یہ تصور اسرار و رموز تک محدود نہیں بلکہ ان کی شاعری کے ہر دور میں یہ عنصر غالب رہا ہے۔ پیامِ مشرق کی نظم ’میلادِ آدم‘ اور بالِ جبریل کی نظم ’’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘‘، ’’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘۔ جاوید نامہ میں ’’خلافتِ آدم‘‘ کے عنوان سے اقبال کے اشعار نہ صرف انسانی عظمت و برتری کے مظہر ہیں بلکہ انسان کے اعلیٰ و افضل مقام کی آخری حد کی نشان دہی کرتے ہیں کہ وہ روئے زمین پر نائب ایزدی ہے۔ بانگِ درا کی نظم ’’انسان‘‘ کا آخری شعر انسان کی تخلیقی قوت کا عکاس ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک معراجِ مصطفی انسانی عظمت کا منتہائے کمال ہے۔ اقبال کی عظمتِ انسانی کے اسی تصور نے ان کے کلام کو آفاقیت بخشی اور وہ دانائے راز کہلائے۔ وہ جاوید نامہ میں وشوامتر، بھرتری ہری، ٹالسٹائی، قرۃ العین ، کارل مارکس، نطشے، زرتشت، گوتم بدھ وغیرہ کا ذکر کرکے اپنی انسان دوستی اور ایک دوسرے کے لیے محبت اور رواداری کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ عظمت انسانی کے درس کے ساتھ اپنی وسیع النظری اور عالمگیر جذبۂ اخوت کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح اقبال کی شاعری اور فکر و فلسفے کا ایک اہم موضوع انسان کی کھوئی ہوئی عظمت کی بازیافت ہے۔ وہ ایسے معاشرے کی تلاش میں تھے جہاں عزتِ نفس ہو، انسانی عظمت کا احساس ہو، نسلی امتیاز کا خاتمہ ہو، اللہ کی حاکمیت اور احترامِ آدمیت ہو۔ ٭٭٭ ڈاکٹر مسرت پروین نیلم: ’’اقبال کا تصورِ زمان و مکان‘‘، سہ ماہی پیغام آشنا، اسلام آباد، اپریل-جون ۲۰۰۷ئ، ص۱۰۰-۱۱۵۔ اقبال محض ایک شاعر نہیں بلکہ مفکر، فلسفی اور حکیم و دانا بھی تھے۔ انھوں نے حیات و کائنات کے بارے میں فلسفہ، نفسیات، الٰہیات اور مابعد الطبیعیات کے فکری رویوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ اس ضمن میں دیگر فلاسفہ، صوفیہ اور سائنس دانوں کے نظریات پر گہری نظر ڈالی اور ردّ و قبول کے مراحل سے گذرتے ہوئے برگساں کے فلسفۂ وجدان سے ایک قدم آگے بڑھ کر خودی اور بے خودی کے تصور کو گہرائی سے جانچتے ہوئے زمان و مکان کی اہمیت، لاقانونیت اور الٰہی خدوخال کو نمایاں تر کرنے کی کوشش کی۔ علامہ حیات و کائنات میں مادہ کی ہمہ گیریت سے یکسر انکار کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں مادہ محدودیت کی علامت ہے اور فانی ہے جبکہ کائنات تمام تر توحید کی مظہر، لامتناہی خودی کی آئینہ دار اور لافانی ہے جس میں ان گنت زمانے ابھی پوشیدہ ہیں اور جو خودی کے بے کنار سفر میں ظاہر ہوکر رہیں گے۔ کائنات لمحہ بہ لمحہ حرکت میں ہے۔ ہر سانس، ہر سوچ اور ہر احساس نظامِ حیات کو بڑے قرینے اور ترتیب سے آگے بڑھا رہا ہے۔ متناہی خودیاں تیزی سے لامتناہی خودی میں جذب ہوکر اپنی انفرادیت تسلیم کرانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ خدا جو کہ مظہر حیات ہے اپنی لافانیت اور ربوبیت کے اظہار کے لیے حیات کو ہر لحظہ ایک نئے انداز سے متعارف کرا رہا ہے۔ علامہ نے بہت سے فلاسفہ کے حوالے دیے ہیں مگر بحیثیت مجموعی کسی بھی مفکر کے نظریۂ زمان ومکان سے بدرجۂ اتم مطمئن نہیں کیونکہ ہر ایک نے زیادہ تر حیات کے مادی پہلوئوں کو ہی پیش نظر رکھا ہے جو زمان و مکان کے مذہبی و آفاقی تصور کے منافی ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر شاہد نوخیز: ’’جاویدنامہ ایک پیغامِ عمل‘‘، ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ(ہند)، مئی ۲۰۰۷ئ، ص۳۸۴-۳۹۳۔ جاوید نامہ علامہ اقبال کے شعری سلسلے کی ایک مضبوط کڑی ہے۔ اس میں انھوں نے ’’سیر افلاک‘‘ کے عنوان سے ڈرامائی او ر دلچسپ انداز میں اپنا فلسفۂ حیات پیش کیا اور نوجوان نسل کو ایک پیغامِ عمل دیا۔ ’’خطاب بہ جاوید سخنے بہ نژادِ نو‘‘ کے زیرعنوان انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں زندگی کے تمام گوشوں کو منور کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ نئی نسل ایمان و یقین سے بہرہ ور ہوکر رسم کہن کے تار و پود کو بکھیر دے، ظلم و جبر کا خاتمہ ہو اور ایک جہانِ تازہ پیدا ہو جس میں حرکت و حرارت، پاکیزگی و پرہیز گاری، صدق و صفا اور سوز و شوق کی حکمرانی ہو۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آصف اعوان: ’’تحقیق اسلامی کے تقاضے اور اقبال- خطوطِ اقبال کی روشنی میں‘‘، سہ ماہی پیغام آشنا، اسلام آباد، اپریل- جون۲۰۰۷ئ، ص۹۲-۹۹ ۔ اقبال کی بنیادی حیثیت ایک فلسفی اور شاعر کی ہے تاہم تعلیم و تعلّم سے بھی ان کی وابستگی اور دلچسپی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اقبال کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ہمارے پاس ایسا علمی سرمایہ موجود ہے جو ہمیں ایک طرف قدیم علوم اور بزرگوں کی علمی سرگرمیوں سے آگاہ کرسکے اور دوسری طرف ہمیں اس قابل بناسکے کہ ہم اپنے حال اور مستقبل کو سمجھ کر کوئی واضح اور صحیح نقطۂ نظر اختیار کرسکیں۔ اقبال یہ چاہتے تھے کہ مسلمان اس علمی سرمائے کا کھوج لگائیںجو ان کے اسلاف کی میراث ہے۔ اقبال نے ایسے ادارے کے قیام پر بھی زور دیا جہاں علومِ جدیدہ کے فارغ التحصیل حضرات اور چند علومِ دینیہ کے ماہرین مل کر اسلامی تحقیق کا کام جدید خطوط پر کریں۔ اقبال کی نظر میں ایک اسلامی محقق کے لیے بلند نظری اور ذہنی کشادگی بنیادی خصوصیات ہیں۔ وہ ایسی تعلیم اور نصاب کے خلاف ہیں جو تنگ نظری اور تعصب کی فضا پیدا کرے۔ وہ چاہتے ہیں کہ طلبہ کو ان کے رجحانِ طبعی کے مطابق مطالعہ اور تحقیق کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ وہ اس امر کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں کہ اسلامی تحقیق کے تقاضے وہ افراد پورے کرسکتے ہیں جن کی سرشت میں لا الٰہ الا اللہ موجود ہو اور وہ علم کا قرآن و حدیث کی نظر سے تحقیقی جائزہ لینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نصاب اسلامی تحقیق کے مقصد کو پیش نظر رکھ کر مرتب کیا جائے۔ تاکہ ایسے صاحب علم و حکمت افراد پیدا ہوں جن کے دل نورِ حقیقت سے منور ہوں۔ علومِ جدیدہ کے الحادی پہلو کی رو میں بہہ جانے کی بجاے وہ ان علوم کی مدد سے اسلامی تہذیب کی سچائی کو اسلامی تحقیق کا موضوع بنا سکیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر شاہد اقبال کامران: ’’قادیانیت کی ملت شکنی پر اقبال کی توجہ-ایک مطالعہ‘‘، سہ ماہی الاقربا، اسلام آباد، اپریل-جون ۲۰۰۷ئ، ص۲۶-۴۳۔ اقبال قادیانیت کو مسلمانوں کے ملّی وجود کے لیے دو نمایاں پہلوئوں سے نقصان دہ خیال کرتے تھے۔ اوّل: اس فرقے کے باطل عقائد اسلام کی بنیادی روح کے منافی تھے، دوم: ملکی صورت حال کے تناظر میں اس فرقے کا طرز فکر و عمل جو اس کے مخصوص عقائد کے ہنگامی مفادات کا لازمی نتیجہ تھا اور مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے یکسر خلاف تھا۔ اقبال نے ایک صاحبِ بصیرت محقق کی طرح بڑی احتیاط کے ساتھ اس جماعت کے طرزِعمل اور اعتقادات کا جائزہ لیا، انھوں نے قادیانیوں کے باطل عقائد کی نقاب کشائی خالص علمی اور تاریخی بنیادوں پر کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ دینی اور تمدنی اعتبار سے یہ تحریک اسلام کے لیے کتنا بڑا فتنہ ہے۔ بہائیت اور قادیانیت مجوسیت سے جنم لینے والی دو تحریکیں ہیں۔ بہائی قادیانیوں کی نسبت کھلے طور پر اسلام کے باغی ہیں، جبکہ قادیانی اسلام کی چند اہم صورتوں کو ظاہری طور پر قائم رکھتے ہیں لیکن باطنی طور پر وہ اسلام کی روح اور مقاصد کے لیے مہلک ہیں۔ بہائی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے اس لیے ان کا غیر اسلامی تشخص وجودِ اسلام کے لیے کوئی خطرہ نہیں لیکن قادیانی اپنی تمام تر گمراہی کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر اصرار کرتے ہیں۔ اقبال نظریاتی سطح پر اسلام کو ایک عالمگیر قوت کے روپ میں عمل پیرا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ایک ایسی تحریک کو کیوں کر برداشت کرسکتے تھے جو ایک طرف اسلام کی نظریاتی اساس پر وارکرکے اس کی ملّی وحدت کو منتشر کرنے کے درپے تھی تو دوسری طرف ملکی سیاست میں اس کا وظیفہ سیاسی غلامی کی تائید کو الہامی بنیاد فراہم کرتے ہوئے برصغیر کی تحریک آزادی کو بالعموم اور مسلمانوں کے مخصوص مفادات کو بالخصوص نقصان پہنچانا ہو۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنا پر اقبال قادیانیت کو اسلام اور ملک دونوں کا غدار کہتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر تحسین فراقی: ’’اقبال کا تصورِ تہذیب‘‘، مجلہ ایران شناسی، لاہور، جون ۲۰۰۷ئ، ص۱۳-۲۶۔ تہذیبوں، ان کے عناصر ترکیبی اور ان کے عروج و زوال کے اسباب و علل پر اقبال اپنے ابتدائی شعری و نثری آثار سے لے کر اپنے آخری شعری و فکری کارناموں تک اپنے خیالات کی وضاحت کرتے رہے۔ ۱۹۱۰ء میں لکھی گئی ’’گورستانِ شاہی‘‘ سے لے کر ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ تک اور ۱۹۰۴ء میں لکھے گئے مضمون ’’قومی زندگی‘‘ سے لے کر "The Spirit of Muslim Culture" اور مارچ ۱۹۳۸ء میں لاہور ریڈیو پر نشر ہونے والے اپنے آخری پیغام تک اقبال افراد اور تہذیبوں کی تقدیروں ، برگزیدہ اور برتر زندگی اور اعلیٰ تہذیبوں کے مقاصد اور اعمال کو آئینہ کرتے رہے۔ اقبال نے متعدد مقامات پر مسلم تہذیب کو ایک برگزیدہ، برتر اور تاریخ ساز تہذیب کے طور پر پیش کیا ہے۔ اقبال اپنی معاصر یورپی تہذیب کو تہذیب نو، تہذیب حاضر، تہذیب جدید، تہذیب مغرب اور کہیں صرف تہذیب کَہ کر اس کے منفی اور انسان کش عناصر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ آج ملت اسلامیہ کو ایک بڑا معرکہ درپیش ہے جسے اقبال کے بڈھے بلوچ نے ’’معرکۂ روح و بدن‘‘ سے تعبیر کیا۔ بڈھے بلوچ کی اس نصیحت کو پھر سے سن لینے کی ضرورت ہے، ممکن ہے یہ نصیحت آج کے بہت سے سیکولر مزاج افرادِ قوم کو وہ راہ سمجھا سکے جسے بدقسمتی سے وہ چھوڑتے جارہے ہیں۔ ٭٭٭ ثمینہ چغتائی: ’’نظم طلوع اسلام کا ایک تنقیدی جائزہ‘‘، سہ ماہی پیغام آشنا، اسلام آباد،جولائی-ستمبر ۲۰۰۷ئ، ص۱۱۷-۱۲۲۔ طلوع اسلام بانگِ درا کی طویل نظم ہے جو اپنی سرمدی کیفیت، پیغمبرانہ بشارت اور جذباتِ مسرت کے اعتبار سے بے نظیر ہے۔ یہ نظم ۱۹۲۲ء میں لکھی گئی تھی۔ علامہ اقبال نے طلوعِ اسلام لکھ کر ترکوں کی فتوحات کو طلوعِ اسلام کا نام دیا اور یہی اس نظم کا مرکزی خیال ہے۔ اقبال اس المناک حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ تمیزِ رنگ و نسل، رشک و رقابت، ہوس و خود غرضی، باہمی اختلاف کے سبب امت مسلمہ نے ملّی اعتبار سے بڑا نقصان اٹھایا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ آج بھی مسلمان بساط عالم پر اپنا وہی کردار ادا کرسکتے ہیں جو ان کے اسلاف نے ماضی میں ادا کیا تھا لیکن وہ اوصاف پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن کے اکتساب کے بعد انسان انفس و آفاق کو تسخیر کرلیتا ہے اور اس کی حیوانی جبلتوں پر ملکوتی صفات غالب آجاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں واجب ہے کہ تم اپنی صلاحیتوں کو پہچانو، اپنی خودی کو بیدار اور مستحکم کرو۔ رنگ و نسل کے امتیازات کو مٹاکر عالم انسانیت کو اخوت اور محبت کا پیغام دو اور تعمیر انسانیت کے لیے سرگرم عمل ہوجائو۔ نظم طلوعِ اسلام نوبندوں پر مشتمل ہے۔ اس کے لب و لہجے میں زیروبم کی کیفیت پائی جاتی ہے ’صبح روشن‘ اور ستاورں کی ’تنک تابی‘ جیسی نرم و گداز تراکیب کے بعد لب و لہجے میں تیزی اور جوش و خروش بڑھتا جاتا ہے۔ طوفانِ مغرب، تلاطم ہائے دریا، ’’شکوۂ ترکمانی‘‘، ’’جہاد زندگی‘‘، ’’سیرتِ فولاد‘‘ اور ’’شہیدِ جستجو‘‘ جیسی تراکیب سے احساس ہوا کہ اقبال اپنے افکار و تصورات میں الفاظ کے زور سے کام لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس طرح یہ نظم اُمت مسلمہ کی بیداری کے لیے صورِ اسرافیل کا کام دیتی ہے۔ ٭٭٭ ثاقبہ رحیم الدین: ’’عشق کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے‘‘، سہ ماہی پیغام آشنا، اسلام آباد، جولائی-ستمبر ۲۰۰۷ئ، ص۱۰۵-۱۱۶۔ یہ تاریخی سچائی ہے کہ برصغیر پاک وہند کے دورِ انحطاط میں پیدا ہونے والے شاعر اقبال نے اپنے جاں فزا کلام سے مسلمانانِ ہند جیسی بڑی جماعت کے تن مردہ میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ اقبال کی جاوداں شاعری کی اہم خوبی یہ ہے کہ شعر میں خیال، جذبہ، لفظ اور آہنگ گھل مل کر ایک جان ہوجاتے ہیں اور شعر کا جیتا جاگتا وجود سامنے آجاتا ہے۔ اقبال کے عہد میں شاعری کی زبان میں حد سے زیادہ نزاکت اور نڈھال سی نسوانیت پیدا ہوچکی تھی۔ شعرائے جدید کے کلام سے رنگِ تغزل بے جان و بے کیف ہوا جارہا تھا۔ اقبال کا یقین تھا کہ قنوطی لٹریچر کبھی دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے اپنے دور کے اندازِ بیاں اور اسلوب کو بتدریج ترک کردیا اور اپنے پیامِ شاعری کے لیے اظہار کے نئے سانچے تخلیق کیے۔ جوں جوں وقت گذرتا گیا اقبال کے پیرایۂ اظہار میں تنوع، دل آویزی اور اثر و سوز آتا چلا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دورِ آخر کی شاعری جلال و جمال کے رنگوں سے سج کر ساحری بنتی چلی گئی۔ ان کے کلام میں کلاسیکیت اور رومانیت دونوں مکاتب فکر کی لہریں موجود ہیں۔ انھوں نے اپنے معاصر شعرا کی سی منظرکشی نہیں کی بلکہ فطرت کے حسن میں داخل ہوکر اصل معنی کو جھانک کر دیکھا ہے۔ اقبال نیچر کے حسن کو کئی زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پھر اُسے اپنے طرزِ کلام میں سموتے جاتے ہیں۔ رباعیات اقبال کی فنی بلندی کا نادرنمونہ ہیں۔ تمثیل نگاری کا آرٹ، کئی انداز اور روپ میں موجود ہے۔ غرض یہ کہ اقبال کی شاعری فن و فکر کا نادر نمونہ تو ہے ہی نفوذ و تاثیر کا دلنشین نغمہ بھی ہے۔ ٭٭٭ ریاض احمد ریاض: ’’علامہ اقبال اور دیدارِ الٰہی‘‘، ماہنامہ مرأۃ العارفین ، لاہور،اکتوبر۲۰۰۷ئ، ص۳۰-۳۳۔ انسان کی فطرت میں خدا کی تلاش کا جذبہ رکھا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے بعد اس کو سکون و قرار حاصل نہیں ہوسکتا۔ تلاش کے اس جذبے نے انسان کو کارخانۂ حیات اور کائنات کی ہر شے پر غوروفکر کرنے پر مجبور کردیا اور آخر انسان نے تمام سربستہ رازوں کا فہم حاصل کرلیا جو اس کی ظاہری آنکھ سے پوشیدہ رکھے گئے۔ بقول اقبال ’یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ‘ اگرچہ ہم ایک ذات کے نور سے الگ ہوئے لیکن ہمارا اصل تک پہنچنے کے لیے تڑپنا اور جدائی و فراق کے صدمے کو برداشت کرنا بھی ہماری فطرت میں رکھا گیا ہے، اسی فراق میں تڑپنا مقصودِ انسانیت ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے دیدار کے لیے انسان سرگرداں رہتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی آدم کی تلاش میں رہتا ہے۔ حضورؐ کو معراج پر طلب کرنا اس قول کی دلیل ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بندہ و آقا دونوں ذوقِ نظر کے سبب ایک دوسرے کے لیے بے تاب ہیں۔ زندگی سراسر جستجو کا نام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیکھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے تو اسے پاکیزہ نگاہ سے اس کی قدسیت کو دیکھنا چاہیے۔ علامہ نے اپنے کلام میں بارہا ان جذبات کا اظہار کیا۔ یہ علامہ کی محبت، عشق اور طلب کا معیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی غیر چیز کو خاطر میں نہیں لاتے۔ نہ دنیا کی طلب کرتے ہیں اور نہ آخرت اور جنت کی آرزو کرتے ہیں۔ خدا کی عبادت نہ تو دنیا میں کامیابی کے لیے ہے اور نہ عقبیٰ اور بہشت کے حصول کی خاطر ہی۔ اگر ایسا ہو تو اس سے سوداگری اور مطلب براری کی شکل پیدا ہوتی ہے۔ عبادت کی غرض فقط اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشی ہونا ضروری ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان ظاہریت کا دلدادہ ہے اور دیدار الٰہی کا مشتاق نہیں ہے اور نہ حقیقت کی اس راہ پر چلنا چاہتا ہے۔ اس بھٹکے ہوئے انسان کے لیے اقبال مرشدِ کامل کی دعا کرتے ہیں جو اس کو راہِ راست پر لاسکے۔ ٭٭٭ محمد نعیم بزمی: ’’نظم جگنو امیجری کے آئینے میں‘‘، ششماہی مخزن، لاہور، شمارہ۱۳،۲۰۰۷ئ، ص۶۸-۷۱۔ اقبال کی شاعری کا ایک اہم موڑ اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ فطرت کو پیش منظر کی بجاے پس منظر یا کسی موضوع کی تمہید کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہیں سے ان کی امیجری کا نیا رنگ جلوہ گر ہوتا ہے جس میں فطرت کے امیجز کو فکری، مذہبی، عقلی، تلمیحاتی، شخصی، مابعدالطبیعیاتی و دیگر امیجز کے پہلو بہ پہلو یا زیراثر استعمال کیا گیا ہے۔ نظم جگنو کا آغاز روشنی کی ایک لہر سے ہوا ہے۔ جس سے متنوع، خوش رنگ امیجز پھوٹ رہے ہیں۔ شمع، ستارہ، مہتاب کی کرن، دن کا سفیر، مہتاب کی قبا کا تکمہ، سورج کا پیرہن، یہ سب روشنی کے مختلف ہالے تشکیل دے رہے ہیں۔ ان اشعار میں جگنو کو ایسا پُرنور وجود قرار دیا گیا ہے جو روشنی کے ان ہالوں سے طبعی انسلاک رکھتا ہے۔ نظم کا پہلا بند اس کاوش کا مظہر ہے۔ جگنو کے لیے ’’چھوٹا سا چاند‘‘ کا امیج نظم کے اس بند کی دلکشی میں بے پناہ اضافہ کررہا ہے۔ پھر جب شاعر چھوٹے سے چاند کوکبھی گہن میں آتا اور کبھی گہن سے نکلتا دکھاتا ہے تو بصری حسن کی تشفی ہوجاتی ہے۔ یوں اقبال روشنی کے ذریعے حرکی امیجز پیدا کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں۔ نور سے تحرک اور تحرک سے نور پیدا کرنا ایک اعلیٰ تر جمالیاتی تجربہ ہے۔ جگنو کے اگلے اشعار ایک خاص فکری رو کے پروردہ ہیں اور ایک منضبط جمالیات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ نظارہ شفق کے لیے ’پری‘، سحر کے لیے ’بانکی دلہن‘ کے امیجز اور بانکی دلہن کی مناسبت سے ’لال جوڑے‘ اور ’آرسی‘ کے ذیلی امیجز وقتی طور پر فطرت سے منسوب مسرت اندوزی کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن جب اس بند کا آخری شعر آتا ہے تو خالصتاً مسرت اندوزی کی یہ لہر ایک فکری لہر میں بدل جاتی ہے۔ نظم کے آخری بند میں ماقبل بند کے آخری شعر کے منطقی دائرے کو نو بہ نو فطرت سے متعلق امیجز کے ذریعے وسعت بخشی گئی ہے اور پھر اس شعر پہ وحدت الوجودی منطق کی تکمیل کردی گئی۔ نظم کے حاصل کلام شعر میں بھی جگنو کا ذکر ہے اور اس کی چمک کو پھول کی مہک قرار دے کر شاعر روشنی کی جمالیات کو رنگ و خوشبو سے آشنا کررہا ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ’’ڈاکٹر عبدالمغنی: ایک جید نقاد اور اقبال شناس‘‘، مجلہ اورینٹل کالج میگزین، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص۱۲۷-۱۴۲۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمغنی ایک جید نقاد، اقبال شناس اور بھارت کے نام ور مسلم دانش ور تھے۔ ان کی رحلت ۵؍ستمبر ۲۰۰۶ء کو پٹنہ میں ہوئی۔ اُن کی وفات اُردو ادب اور اقبالیات خصوصاً بھارت کی اُردو تحریک کے لیے ایک نقصان عظیم ہے۔ مرحوم کا تعلق صوبہ بہار کے ایک علمی خانوادے سے تھا۔ انھوں نے اسکول کالج اور یونی ورسٹی کے امتحانات بڑے امتیاز و اعزاز کے ساتھ پاس کیے۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز لیکچرر کی حیثیت سے ہوا۔ کئی سال بعد T.S Eliot Concept of Culture کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ کے بی این کالج کی ملازمت سے سبک دوش ہوئے تو انھیں بہار ایل این متھلا یونی ورسٹی دربھنگا کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ انھی کی دل چسپی و کاوش سے متھلا یونی ورسٹی میں ابوالکلام آزاد مسند (chair) کا قیام عمل میں آیا۔ اسی زمانے میں حکومت بہار کے محکمہ راج بھاشا نے ان کو شیخ شرف الدین منیری اوارڈ مبلغ ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ فرقہ پرستوں کو ایک مسلم چانسلر ہضم نہ ہوسکا تو ان کے خلاف سازش کرکے اور کچھ چھوٹے بڑے الزامات لگا کر انھیں گرفتار کرادیا گیا مگر جلد باعزت طریقے سے بری ہوگئے۔ بے باکانہ انداز اور مسائل پر محکم طرزِ گفتار ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ اپنی تقاریر میں بعض سیمی ناروں اور کانفرنسوں کے موقع پر لوگوں کی منافقت کو خوب تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ وہ غیر اسلامی تصوف اور مراسمِ خانقاہی کے تو شدید ناقد تھے لیکن ان کا دل صوفی تھا۔ ان کا دل دولتِ دنیا سے بے گانہ رہا۔ فکر آخرت ان کا مطلوب و مقصود رہا۔ وہ اُردو انگریزی میں چھوٹی بڑی ۴۵کتابوں کے مصنف ہیں۔ اردو انگریزی میں اقبالیات پر ان کی چھے کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں متعدد انعامات پیش کیے گئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ بہار میں انجمن ترقی اردو کو ایک انتہائی فعال ادارہ بنانا اور اس کے ذریعے اردو کو بہار کی دوسری سرکاری زبان کی حیثیت دلوانا ہے۔ ان کے انتقال سے اردو زبان اور ادب کو بہت بڑا نقصان پہنچا۔ ان کی وفات سے اُردو دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پُر کرنا یقینا انتہائی مشکل کام ہوگا۔ ئ……ئ……ء  تبصرہ کتب ٭ اقبال اور عصری مسائل ، ڈاکٹر کنیز یوسف فاطمہ، مبصر: سلیم منصور خالد ٭ سرود سحر آفریں، غلام رسول ملک، مبصر: ڈاکٹر خالد ندیم ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف: اقبال اور عصری مسائل۔ ناشر:سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۵ئ، صفحات۵۶۸، قیمت۔؍۷۵۰ روپے، مع اشاریہ، مجلد، مجلاتی سائز۔ زیر تبصرہ کتاب متعدد حوالوں سے ایک قابلِ ذکر کتاب ہے۔ اس کا اولین حوالہ تو یہ ہے کہ اسے اقبال کے ایک نہایت قریبی معتمدار محب چودھری محمد حسین [……]کی شاگرد نے لکھا ہے۔ تاہم کتاب کے مندرجات کو اگر استاد کی دانش کا پرتو سمجھا جائے تو اقبال کی مردم شناسی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ افسوس (اور تعجب بھی) ہوتا ہے کہ اقبال نے ایسے پریشان فکر فرد کو اپنی اولاد کا سرپرست مقرر کیا تھا جو فکراقبال کی موٹی موٹی چیزوں کو بھی نہ سمجھتا تھا۔ چودھری صاحب پر یہ الزام اس لیے لگانے کی جسارت کی جارہی ہے کہ ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف نے اپنے فہم اقبال کو انھی کی جانب منسوب کیا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کو قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کی وائس چانسلر خاتون نے زندگی بھر کے مطالعے کے بعد لکھا ہے۔ فاضل مصنفہ کا پس منظر ترقی پسندی اور خود اختیاریت نسواں سے ایک گہری نسبت رکھتا ہے۔ یہ حوالہ تحریک نسواں کی ایک قائد کی دانش اور بصیرت کی پیمایش کا مصدر بنتا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں ترقی پسند دانش ور محمد حنیف رامے [م:یکم جنوری ۲۰۰۶ئ] نے لکھا ہے کہ اس کتاب میں: ’’اقبال کے فکروفلسفے کو پاکستان کی حقیقتوں کے ساتھ مطابقت دے کر مسلمانوں کے علم الکلام میں ایک قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ (ص۸)… ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے کم وبیش تین سال اس کتاب پر صرف کر [دیے] اور انھوں نے یہ فرض نہایت دیانت داری سے ادا کیا… [تاہم] یہ کتاب اقبال سے زیادہ پاکستان کے بارے میں ہے‘‘ (ص۷)___رامے صاحب ایک وضع دار انسان تھے‘ انھوں رواداری میں تقریظ لکھی اور دو متضاد بیان دے کر کتاب کے حسن و قبح کی پیمایش کو قاری پر چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف نے اپنے منہاجِ تحریر کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے: ’’میری یہ کتاب ایک کوشش ہے کہ اقبال کو اس کے افکار کے حوالے سے نہ پڑھا جائے، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اس [موجودہ] دور میں اس کے فکری رجحانات کہاں تک ہماری مدد کرسکتے ہیں۔‘‘ (ص۱۱)___معلوم نہیں اس بیان میں اقبال سے فیض حاصل کرنے کا راستہ دکھایا جارہا ہے یا اقبال کو ایک فریم میں محض سجا کر اپنے مشاہدے اور اپنے افکار پر اقبال (بطور ایک خاموش تماشائی) کی مہر لگا کر پیش کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے؟ پوری کتاب میں چند مقامات پر ابتدا، درمیان میں اور پھر آخر میں کچھ اوراق پر اقبال کو چلتے چلتے محض بطور حوالہ پیش کیا گیا ہے‘ ورنہ کتاب کا اسّی فی۔صد سے زیادہ حصہ مصنفہ کے فکری، نفسیاتی، داخلی اور ہیجانی افکار کی ایسی کشمکش کا آئینہ دار ہے‘ جس سے مصنفہ کے جذباتی اور قنوطی اسلوب بیان کا اندازہ تو ضرور ہوتا ہے، مگر پڑھنے والا اس مطالعاتی کرب وبلا سے کوئی راہ مستقیم تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا اور آخر میں وہ سوال کرتا ہے: ’’مسائل کا دکھ تو مجھے بھی معلوم تھا کہ میں ان مصائب سے گزر رہا ہوں، لیکن میں نے اقبال کے درِدانش پر دستک دے کر اس کتاب کی طفیل رہنمائی چاہی تھی، افسوس کہ وہاں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔ تو کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ اقبال ہمارے عصر سے غیر متعلق ہے؟ متعلق ہوتا تو یقینا اقبال ضرور رہنمائی دیتا۔‘‘ مگر یہ کتاب اتنے بڑے دعوے کے ساتھ اقبال اور فکر اقبال کو گم کردیتی ہے۔ اس تناظر میں یہ کتاب کی دانش اور بصیرت کو مظلومیت اور بے زبانی کے دفتر میں دھکیل دیتی ہے۔ کتاب کے مندرجات کو دیکھیں تو بعض مقامات پر بڑے مضبوط دانش ورانہ جملے نظرنواز ہوتے ہیں، لیکن ایسے مرحلے بڑی مشکل سے آتے ہیں۔ یہ کتاب درحقیقت اقبال کا نام بروزنِ بیت استعمال کرتے ہوئے، مصنفہ کے ذوقِ مطالعۂ تواریخ کے نوٹس کا مجموعہ ہے۔ یہ نکات بھی کسی باقاعدہ ربط و تدوین کے بجائے رواںرواں انداز سے آگے پیچھے جوڑ دیے گئے ہیں۔ یہاں کتاب کے متعدد مقامات سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں، جن سے سے کتاب کے اندازِ فکر کو سمجھنا شاید آسان ہوجائے: ز’’اسلام میں راسخ الاعتقادی کا فلسفہ زور پکڑ گیا… غزالی کی رجعت پسندی نے بہت عروج حاصل کیا… منگولوں نے بغداد کو روند ڈالا تو مسلمان کے پاس اپنی شکست کا صرف ایک جواز تھا: چونکہ اسلام سے انحراف کیا تھا اس لیے ان پر یہ قہر نازل ہوا… جیسے جیسے اسلام سے انحراف کا فتویٰ جڑ پکڑتا گیا، مسلمان ابہام پرست، قنوطی اور مثبت تبدیلی سے بھی گریز پسند بنتا چلا گیا۔‘‘ (ص۵۴-۵۵) ___غزالی، جس کی دانش کا ایک زمانہ معترف ہے، اس پر پانی پھیر دینے کے بعد مصنفہ نے مسلمانوں کی شام الم کا جس انداز سے تجزیہ پیش کیا ہے، یہ ملامتی طرزِ خطاب خود بہت سے سوالات کا سرعنوان ہے۔ ز’’عربوں کی بے اعتنائی نے ترکی کو تو مذہب سے دور کرایا، یہاں تک عربی میں اذان دینا بھی ممنوع قرار پایا۔‘‘(ص۸۰) ’’مدتوں ترک، عثمانی خلافت کے نام سے عربوں پر حکمرانی کرتے رہے‘ لیکن چند واقعات پر ایسے بدظن ہوئے کہ عربی اذان سے توبہ کرلی۔‘‘___ مگر صرف ۳۵سال بعد پھر عربی میں اذان دینا شروع کردی۔ آخر اتنا سطحی تجزیہ کس دانش وری کا مظہر ہے۔ ز’’اسلام اتنا سادہ مذہب تھا کہ اس کی تشریح کے لیے پادریوں کی ضرورت نہ تھی۔‘‘ (ص۱۱۳-۱۱۴) ___ مصنفہ نے علماے دین سے اپنی بے زاری اور نفرت کو یہاں لفظ ’’پادری‘‘ میں سموکر تسکین حاصل کی ہے۔ ز’’جب [جنرل] ایوب خان [م:۱۹؍اپریل ۱۹۷۴ئ] نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تو اس غیرآئینی اور غیراخلاقی اقدام کو سہارا مذہبی تنظیموں اور عدلیہ نے دیا۔‘‘ (ص۱۴۳)___ یہاں پر روشن خیال مصنفہ کو بتانا چاہیے تھا کہ پاکستان کے اس سے پہلے خودساختہ فیلڈ مارشل کو کون سی مذہبی تنظیم نے سہارا دیا؟ اہل وطن آج تک ایسی مذہبی تنظیم کے نام سے بے خبر ہیں۔ انھیں متعین طور پر بتا نا چاہیے تھا، روشن خیالی اور ترقی پسندی و سیکولر ذہنیت کے علم بردار جسٹس محمد منیر [م:۲۶؍ جون۱۹۸۱ئ] کی عدالت ہی نے ایوب خاں کی آمریت کو سہارا دیا تھا، جس کا بعد ازاں موصوف نے اعتراف بھی کیا لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے ابہام پرستی میں تاریخ کا قتل کرنے کے لیے یہ کیسا روشن خیال انداز اختیار کیا۔ ز’’[پاکستان کے] تعلیمی اداروں میں دانش وری مغلوب و معتوب رہی، [اور] مُلا۔ّ ۔، دانش ور کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔‘‘ (ص۱۴۴)___ یہ بتانا ضروری تھا کہ مشرقی پاکستان، صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور پنجاب کی دانش گاہوں میں کہاں مُلا۔ّ ۔ نے یلغار کی؟ اور کتنے مُلا۔ّ ۔یونی ورسٹی کے سیاہ و سفید کے مالک بنے؟ مصنفہ نے اپنی تحقیقی ذمہ داریوں کی ادایگی سے فرار کو ایک لفظ ’’مُلا۔ّ ۔‘‘ میں سمو دیا ہے۔ ز’’مغربی تہذیب کے علم برداروں نے اسلام اور اشتراکیت کو اکٹھا نہیں ہونے دیا۔‘‘ (ص۱۷۸) کیا خوب بقراطی نکتہ پیش کیا ہے! ز’’لینن [م:۱۹۲۴ئ] کے دورِ حکومت میں ایک ایسا دور آیا تھا کہ اشتراکیت نے خود اسلام کے نزدیک آنے کی کوشش کی تھی‘‘۔ (ص۱۸۲)___ اشتراکی کوچہ گردوں نے اسلام کے نزدیک آنے کی کوشش کی یا مسلمانوں سے ہمدردی کا دم بھر کر انھیں دھوکا دیتے ہوئے ان کے وسطِ ایشیائی ممالک پر قبضہ کرنے اور لاکھوں مسلمانوں کی گردنیں مارنے کی کوشش کی تھی؟ ز’’انگریز‘ ہندستانیوں کے مذاہب میں دخل نہیں دینا چاہتا تھا، اسے ضرورت بھی نہ تھی‘‘۔ (ص۱۲۴) تاریخ کے طالب علم کے لیے اس خیال کا اُچھوتا پن، بیان سے باہر ہے۔ انگریزوں کی جانب سے یہاں مذاہب میں مداخلت کے حوالے سے متعدد ہمہ گیر اقدام اُٹھائے گئے‘ تاہم صرف ایک قادیانیت کی ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح انھوں نے تھوہر کے اس پودے کی کاشت و پرداخت میں حصہ لیا، اسے تحفظ دیا اور آج تک وہ اسے کس احسان بھری نظر سے دیکھتے اور انھی راہوں پر اسلام کے پورے نظامِ فکر کو ڈھالنے کے لیے سوچتے دکھائی دیتے ہیں۔ ز’’دورِ حاضر میں اسلام کم علم ملائوں کے قبضے میں آگیا ہے۔ (ص۳۵)… برطانوی دور میں ملائیت کو بہت فروغ ملا ۔(ص۱۲۶)’’ مُلا۔ّ ۔ نے پڑھ رکھا ہے کہ اسلام محض عقائد کا نام نہیں‘ بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔‘‘ (ص۱۲۸)’’ مُلا۔ّ ۔، جہالت کے فروغ میں معاون ہے‘‘ (ص۱۲۹)۔’’کیا رسول ا کے دور کی سیاست و ثقافت کے اصول و قوانین اس دور کی پیچیدہ سیاست و ثقافت کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں؟‘‘ (ص۱۱۷)’’مُلا۔ّ ۔ اور غنڈا پارلیمنٹ میں پہنچ گئے‘‘۔ (ص۱۴۳)___ ’’ مُلا۔ّ ‘‘ اور مولوی سے اُکتاہٹ بلکہ نفرت کچھ اس انداز سے کتاب میں جھلکتی ہے کہ شاید اس کتاب کا اصل ہدف ’’مُلا۔ّ ۔‘‘ ہے کہ وہی ان تمام قومی ناکامیوں کا ذمہ دار ہے۔ حالانکہ ان ہوش رُبا ناکامیوں کا آغاز بھی جدید تعلیم یافتہ ہاتھوں سے ہوا اور جن کی انتہا کا پھل بھی انھی جدیدیت پسندوں کے دامن میں آیا ہے لیکن اصل مجرم کو بچانے کے لیے مولوی دھر لیا گیا ہے۔ ز’’مولانا جمال الدین افغانی [م: ۱۸۹۷ئ] اتحادِ اسلام کے فلسفے کے موجد تھے… وہ سرسیّد [م:۱۸۹۸ئ] کو ہندستان میں اپنی جدوجہد کی مخالفت کا سب سے بڑا مہرہ سمجھتے تھے۔ ان کو سرسیّد کے عقلی اسلوب بھی کسی طور پسند نہ تھے۔‘‘ (ص۲۰۸)۔ ’’دیوبندی علما بھی افغانی کے پیروکار ہوگئے۔ اس طرح قدامت پسند علما میں افغانی افکار کی مقبولیت بڑھ گئی۔ علی گڑھ کے مقابلے میں … سب نے مل کر سرسیّد کی جدیدیت کو مغلوب کرلیا۔ ایک ترقی پسند علمی اور فنی تحریک جلد ہی رجعت پسند تحریک میں دب کر اپنی اصلی ارتقائی منازل سے منحرف ہوگئی۔‘‘ (ص۲۰۸۔۲۰۹) ’’جمال الدین کی شخصیت اتنی موثر اور مسحور کن تھی کہ باوجود ملک ملک کے بھٹکنے کے، ہرجگہ وہ مسلمانوں کا شعور بیدار کرنے میں کامیاب رہے۔ سرسیّد بھی افغانی سے متاثر ہوئے، شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۳ئ] بھی اور اقبال بھی۔‘‘ (ص۵۲۲) ___ زیرنظر کتاب کے صفحات پر شاہ ولی اللہ، افغانی، سرسیّد اور اقبال سبھی اپنی مظلومیت پر شکوہ کناں ہیں۔ اقتباسات میں تضاد فکری پر مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے۔ لیکن افغانی سے ایک سوسال پہلے فوت ہوجانے والے شاہ ولی اللہ صاحب کا سوسال بعد آنے والے جمال الدین افغانی سے متاثر ہونے کا واقعہ جدیدیت، تحقیق کاری اور خرد مندی کی ’’بہترین‘‘ مثال ہے۔ زیہ درست نہیں کہ ’’اخوان المسلمون ۱۹۲۳ء میں قائم ہوئی‘‘ (ص۴۳۳)___ اخوان المسلمون کو ۱۹۲۸ میں قائم کی گئی تھی۔ اس طرح نظم ’’جواب شکویہ‘‘ ۱۹۱۴ء نہیں (ص۲۱۸) ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی۔ علامہ کے انگریزی خطبات چھ نہیں (ص۳۶) سات ہیں اور ان کا (نذیر نیازی کا) اُردو ترجمہ، اقبال اکادمی (ص۳۶) نے نہیں بزم اقبال لاہور نے شائع کیا تھا۔ ۱۹۵۷ء میں نہیں، ۱۹۵۸ء میں۔ ز’’۱۹۷۴ء میں احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا شوشا پھر سے شروع کیا گیا۔ اس جھگڑے میں بھٹو [م:۴؍اپریل ۱۹۷۹ئ] نے شکست کھائی… اٹارنی جنرل یحییٰ بخیتار [م:۲۷؍جون۲۰۰۳ئ] نے مشورہ دیا کہ مرزا بشیرالدین محمود [م:۷؍نومبر ۱۹۶۵ئ] کو جو اس وقت جماعت احمدیہ کے سربراہ تھے، بلاکر پارلیمنٹ میں پوچھا جائے کہ وہ اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں۔ جواب ملا کہ احمدی فرقے کے لوگ مرزا غلام احمد [م:۲۶؍مئی ۱۹۰۸ئ] پر ایمان نہ لانے والوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے‘ اس جواب کے بعد پارلیمنٹ کے متفقہ اصرار پر احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیاگیا۔‘‘ (ص۳۵۸ تا۳۵۹)___اگرچہ اس سارے مسئلے کو بھی مصنفہ نے مولویوں یا مولویوں کے ’’تنگ نظری‘‘ پر مبنی رویے کے کھاتے میں ڈال کر قصہ تمام کیا ہے، لیکن وہ اپنا فتویٰ تصنیف کرتے ہوئے اقبال کی نہرو سے خط۔کتابت کو بھول گئی ہیں، جن میں اقبال نے لکھا تھا: ’’قادیانی اسلام اور ہندستان دونوں کے غدار ہیں۔‘‘ موصوفہ کے اقتباس میں دوسری بات یہ قابل ذکر ہے کہ پارلیمنٹ میں مرزا ناصر الدین [م:۹؍جون ۱۹۸۲ئ] آئے تھے، مرزا بشیرالدین محمود تو ۱۸سال پہلے فوت ہو چکے تھے۔ ز’’۱۹۷۷ کے انتخابات [میں] پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام نے پاکستان قومی اتحاد (PNA) بنا لیا۔‘‘ (ص۳۵۹)___ حالانکہ اس اتحاد میں ائر مارشل محمداصغرخاں کی تحریک استقلال،نواب زادہ نصراللہ خاں کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، مولانا شاہ احمد نورانی [م:۱۱؍دسمبر ۲۰۰۳ئ] کی جمعیت علماے پاکستان، بیگم نسیم ولی خاں کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل تھیں۔ لیکن دانستہ ان کا نام نظرانداز کیا گیا ہے تاکہ پاکستان قومی اتحاد کا ’’رجعت پسندانہ‘‘ چہرہ نمایاں کیا جاسکے۔ ز’’۱۹۳۴ سے [محمد علی جناح] مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوچکے تھے۔ اس وقت ہندستان میں مسلمانوں کی مندرج ذیل پارٹیاں تھیں: [۱۴ پارٹیوں کے نام درج ہیں] جمعیت العلمائے ہند شیخ الہند محمودالحسن، ۱۹۴۰ سے مولانا حسین احمد مدنی [م:۱۹۵۷ئ] ، جماعت اسلامی، سید ابوالاعلیٰ مودودی‘‘۔ (ص۲۶۱،۲۶۲)___ مولانا محمودحسن تو ۱۹۲۰ء میں انتقال کرگئے تھے، جب کہ جماعت اسلامی ۲۶؍اگست۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی تھی، مصنفہ نے یہ ماضی و مستقبل کو ۱۹۳۴ء میں یک۔جا کر دیا، بلاشبہ وہ تاریخ گہری نظر رکھتی ہیں۔ ز’’اقبال کو ہم نے ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ یاتو اسے رحمۃ اللہ علیہ کے لقب سے نواز کر اتنی عزت کی جائے کہ تنقیدی اور تجزیاتی حوالے سے پڑھنا ناممکن ہوجائے، یا اسے فلاسفر اور صوفی کہہ کہ یہ ثابت کیا جائے کہ آج کے دور میں اس کی فکری اساس ہمارے لیے موزوں نہیں ہے۔‘‘ (ص۱۵۱)___ اقبال کو ان القاب و اعزازات سے تہی دست کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انھوں نے شروع میں لکھا تھا: ’’اس کتاب کے لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ نوجوان نسل، اقبال سے کچھ سیکھ سکے۔‘‘ (ص۱۶) [میں] طالب علموں کو بتانا چاہتی ہوں کہ تم کو اقبال کوئی نہیں پڑھائے گا۔ یہ کام تم کو خود کرنا ہوگا۔‘‘ (ص۱۸) ’’اس کتاب کے لکھنے میں کوشش یہ بھی کی ہے کہ شاید ہم اقبال کے افکار کی مدد سے علما کی راسخ العقیدیت سے آزاد ہوسکیں۔‘‘ (ص۱۹)___ ظاہر ہے جب مقصد اتنا واضح ہوتو پھر تاریخ، افکار اور تہذیب کا وہی حشر کرنا ضروری ہوجاتا ہے، جو مصنفہ نے کیا ہے۔ اقبال کی راسخ العقیدیت کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اُن کی عقیدت کا مرکزومحورنبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اقبال کی رہنمائی کا سرچشمہ قرآن کریم ہے، اسلامیت‘ اقبال کے نزدیک طرزِحیات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے اور مسلم امۃ کا اتحاد و فلاح اُن کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ ’’راسخ العقیدیت‘‘ کی زنجیروں سے اقبال کو آزاد کرنے کے لیے لازم ہے کہ یہ تمام حوالے کلام اقبال سے نکال باہر کیے جائیں، مگر اس کے بعد بچے گا کیا؟ نائن الیون زدہ دانش کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے الجھائو کی تصویر ہے۔ اقبال کا حوالہ تو محض نام کا حوالہ ہی ہے، جس کا تعلق نہ متن سے ہے اور نہ حاشیے سے۔ اسے تاریخ کی کتاب بھی کہنا، مورخین کی اسکالرشپ سے زیادتی ہوگی۔ ہاں، البتہ اسے روزمرہ صحافت کے ان افکارِ پریشان کا ایک ایسا پلندہ سمجھا جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا، جنھیں ڈیسک پر بیٹھے صحافی حضرات بالکل وقتی ضرورت سمجھ کر لکھتے ہیں۔ ایسی تحریروں کی زندگی ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ز’ڈاکٹر کے کے عزیز، مصنفہ کے فکری قبیلے کے ساتھی ہونے کے باوجود، تین چار مقامات پر بے وجہ: نفرت، رقابت اور محاسبے کا شکار ہوئے ہیں۔ اگر مصنفہ اس کتاب کو تین مختلف حصوں میں تقسیم کرکے شائع کرتیں تو زیادہ موثر کاوش سامنے آتی۔وہ تین حصے یہ بنتے ہیں: ۱-’’اقبال جسے یوں ہونا چاہیے تھا‘‘ ۲-’’پاکستانی تاریخ‘ میری نظر میں‘‘ ۳- ’میرے مطالعۂ زندگی کا حاصل‘‘___ کتاب کا اشاریہ بھی اسے کچھ نہ کچھ سہارا دے سکتا تھا۔ طرزِ بیان کی ناہمواری اور اکثر مقامات پر کھردارپن بھی کسی اُستاد کی چشم فیض سے روشنی پاتا تو نیک نام پبلشر اور ’روشن خیال‘ مکتب فکر کا کچھ بھلا ہوتا۔ ___سلیم منصورخالد ٭٭٭ غلام رسول ملک: سرود سحر آفریں۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، صفحات۱۶۳، قیمت۔؍۱۵۰ روپے۔ گذشتہ صدی کے اکابرین میں سے جن شخصیات پر روز افزوں تنقیدی و تفہیمی کام تسلسل سے جاری ہے، ان میں اقبال سرفہرست ہیں۔اقبال کی نظریاتی وابستگی کے پیش نظر بعض ناقدین، اقبال کے مستقبل کے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اقبال کے پیغام کی اساس کسی مادی و لادینی فکر پر نہیں، بلکہ آفاقی، عالم گیر اور ابدی پیغام پر استوار ہے۔ سرودِ سحر آفریں کے مصنف نے اقبال کی عظمت کو اسی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف کے خیال میں اقبال نیتاً اور عملاً ایک اسلامی مفکر اور اسلامی فن کار تھے، تاہم وہ اقبال کے خطبات اور ان کے ابتدائی کلام کے بارے میں کوئی تاویل پیش نہیں کرتے۔ مصنف نے اقبال کی وابستگی پر اعتراض کرنے والوں کو دانتے، ملٹن، سعدیؒ، ورڈز ورتھ، ٹالسٹائی، ییٹس اور ٹیگور کا حوالہ دیا ہے، جب کہ اقبال کی تنگ نظری کی شکایت کرنے والوں کو ابلیس، ابوجہل، وشوامتر، نٹشے، نپولین، بائرن اور لینن کے بارے میں اقبال کا ہمدردانہ روّیہ یاد دِلایا ہے۔ کلیم الدین احمد اور ان کی قبیل کے دیگر ناقدین کی طرف سے طعن و تشنیع کا جواب دیتے ہوئے مصنف نے شعر و ادب میں پیغام، خطاب اور بیان کے دِفاع میں مشرق و مغرب کے ناموروں کا ذِکر کیا ہے اور کلامِ اقبال سے متعدد مثالیں پیش کر کے لکھا ہے کہ اگر یہ شاعری نہیں تو پھر دُنیا کی شاعری کا بیش تر حصہ دریا بُرد کرنا پڑے گا۔ کتاب تیرہ مضامین پر مشتمل ہے، جنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصے میں اقبال کی عظمت کے بنیادی عناصر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس حصے میں ’اقبال کی عظمت‘، ’اقبال کی مذہبی فکر کی معنویت‘، ’اقبال اور ملتِ اسلامیہ کا احیاے نو‘ اور ’اقبال کا قرآنی اندازِ فکر‘ شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں مصنف نے ’اقبال اور شاہ ہمدان‘ اور ’اقبال اور ورڈز ورتھ‘ کے عنوان سے اپنے تقابلی مطالعے کا حاصل پیش کیا ہے، تیسرے حصے میں ’بزمِ انجم کے تعلق سے‘، ’محاورہ مابین خدا و اِنسان‘، ’بندگی نامہ‘ اور ’ذوق و شوق‘ میںعملی تنقید کا اظہار ہوا ہے، جب کہ چوتھے حصے میں ’اقبال کے پسندیدہ اصنافِ شعر‘، ’بانگِ درا کی غزلیں‘اور ’جاوید نامہ کی تکنیک‘ میں اقبال کے شعری فن کی بوقلمونی پر بحث کی گئی ہے۔ ۔ ’اقبال کی عظمت کا راز‘ میں ان کی مختلف علمی و فکری حیثیات سے بحث کی گئی ہے، تاہم مصنف کے خیال میں جو خصوصیت انھیں زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماورا ثباتِ دوام عطا کرتی ہے وہ ان کا دَورِ حاضر کے آشوب کا صحیح عرفان اور اس مرض کی صحیح تشخیص ہے۔ اقبال کی نظر میں عصرِ حاضر کا اصل مسئلہ زندگی سے مذہب کی دوری ہے۔مصنف نے مذہب سے لاتعلقی کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، چاہے وہ مذہب بے زار مادہ پرستی سے پیوستہ ہوں یا لا دِین اشتراکیت سے۔ اسی لادینیت نے انسان میں خود غرضی، مفاد پرستی اور بددیانتی کو فروغ دیا اور انسان کے ہاتھوں انسان کی تباہی و بربادی کا سامان ہونے لگا، چنانچہ مصنف کے نزدیک زمانۂ حاضر کے مرض کی یہ بصیرت و فراست کی آئینہ دارتشخیص، یہ داعیانہ اندازِ فکر اور بے باکانہ لب و لہجہ، اس ازلی اور ابدی حقیقت کے ادراک پر مبنی ہے، جو کائناتِ ہستی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ ’اقبال کی مذہبی فکر کی معنویت‘ میں مصنف نے اقبال کا یہ استدلال پیش کیا ہے کہ آج کا انسان شاہراہِ اعتدال سے ہٹ گیا ہے۔ اقبال مغرب کی مادی ترقی اور تسخیر کائنات کے بعد اس کی ہلاکت خیزیوں کا ذکر کرتے ہیں تو دوسری جانب نِری رُوحانیت کے باعث مشرق کی محکومیت کو بھی فراموش نہیں کرتے۔ مصنف کے خیال میں ملتِ اسلامیہ کا احیاے نَو ان چند موضوعات میں سے ہے، جن پر اقبال نے سب سے زیادہ توجہ صرف کی۔ اقبال کی نظر میں قرونِ اولیٰ کا عروج بھی تھا اور حال کا زوال بھی۔ ان کے نزدیک زوال کی دو وجوہ تھیں… ایک حیات کش اور رہبانی نظریات کی ترویج اور دوسری اجتہاد کا فقدان۔ مصنف نے تربیتِ فرد اور تعمیر ملت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ مومن نہ دُنیا پرست ہوتا ہے اور نہ دنیا بے زار، بلکہ وہ دُنیا کو مسخر کرتے ہوئے اسے اپنے رُوحانی ارتقا کا ایک زینہ بنا لیتا ہے۔ ’اقبال کا قرآنی اندازِ فکر و نظر‘ میں مصنف نے مغربی فن کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی بڑے تخلیقی فن کار کا کسی کتاب یا مصنف سے متاثر ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ اقبال کے فکر و نظر پر قرآن کی گہری چھاپ ہے، جس کے نتیجے میںان کے اشعار میں اکثر اوقات قرآنی لب و لہجے اور اسلوب و آہنگ کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ مصنف کے نزدیک اقبال کے اس دعوے میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ انھوں نے اپنی شاعری میں اسرارِ قرآن کے موتی پروئے ہیں اور ایک صدی سے زیادہ مدت پر محیط شبِ تاریک کو نورِ قرآن کے ذریعے سحر آشنا کیا ہے ۔ کتاب کے دو مضامین مشرق و مغرب کی دو شخصیات سے اقبال کے تقابلی مطالعے پر مشتمل ہیں۔ کلامِ اقبال میں شاہ ہمدان جاوید نامہ میں ڈرامائی تناظر میں نمودار ہوتے ہیں، چنانچہ وہ تاریخ کے شاہ ہمدان کم اور اقبال کے شاہ ہمدان زیادہ دِکھائی دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اقبال کی شاعری میں تاریخی شخصیات ان معانی و مطالب کی ترجمان بن جاتی ہے، جن کا ان کے فلسفۂ حیات سے گہرا تعلق ہے، چناںچہ وہ ان شخصیات میں ضرورت کے مطابق رَد و بدل بھی روا رکھتے ہیں، تاکہ وہ ان کے فکر و نظر سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ مشرقی رجحان داخلیت کا حامل رہا ہے اور مغرب کا غالب رجحان اس کی خارجیت اور معروضیت ہی قرار پاتا ہے، تاہم مغرب میں زیریں سطح پر داخلیت کی لہریں کبھی غیر محسوس طور پر اور کبھی کبھار ذرا نمایاں صورت میں نمودار ہوتی رہی ہیں۔ اقبال،جو مغرب کی بہت سی شخصیات اور ان کے فکر و نظر سے مفید مطلب نقطہ نظر سے مستفیض ہوتے رہے ہیں، یورپ کی رومانی تحریک اور بالخصوص اس کے نمایندے ورڈز ورتھ سے خاص مناسبت رکھتے ہیں۔ ’اقبال اور ورڈز ورتھ‘ میں مصنف نے مغرب کی رومانی تحریک اور خاص طور پر ورڈز ورتھ سے اقبال کی گہری وابستگی کے اسباب جاننے کی کوشش کی ہے۔ فنِ شعر سے متعلق دونوں کے مشترک نظریات کو پیش کرنے کے بعد مصنف نے ایک اختلافی امر کا ذکر کیا ہے، جس کے مطابق جہاں اقبال کے نظریۂ فن میں جلال کو بھی وہی اہمیت حاصل ہے، جو جمال کو ہے؛ وہاں ورڈز ورتھ کے نظریۂ فن میں اصل اہمیت جمال کی ہے۔ اقبال کے فکر و نظر پر گفتگو کے علاوہ غلام رسول ملک نے اقبال کی مختلف نظموں کے بارے میں عملی تنقید کے چار نمونے پیش کیے ہیں۔مصنف کے مطابق ایک عظیم فن کار کی طرح اقبال کی فکر ، ان کی شاعری کے تابع رہتی ہے، اس لیے اہم پیغامات کی حامل ان کی بیش تر منظومات عام طور پر ایک انتہائی دِل رُبا اور سحر انگیز حسن آفرینی سے شروع ہوتی ہیں، یہاں تک کہ قاری کے اندر اس حسن کے لیے ایک والہانہ جذبۂ عشق پیدا ہو جاتا ہے اور پھر شاعر کی زبان سے حقائق و اَسرار کا انکشاف شروع ہو جاتا ہے۔ مصنف نے ’خضرراہ‘، ’ذوق و شوق‘ اور ’ساقی نامہ‘ کو مثال کے طور پر پیش کرنے کے بعد ’بزمِ انجم‘ کا فکری جائزہ لیتے ہوئے اسے اقبال کی اُن منظومات میں شامل کیا ہے، جن میں شروع کی منظر کشی اور بعد کے کشفِ حقائق میں ایک نامیاتی رشتہ ہے۔ ’محاورہ مابین خدا و اِنسان‘ پر بات کرتے ہوئے مصنف کا کہنا ہے کہ اقبال کی شاعری نہ صرف جمالیاتی تسکین کے ذریعے ہماری رُوح کو بیدار کرتی ہے، بلکہ اس بیداریِ رُوح اور قلبی زندگی کو ارتقاے حیاتِ انسانی کی راہ میں وقف کرنے کی تحریک بھی ہمارے اندر پیدا کرتی ہے۔ نظم کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ڈرامائی تکنیک اس زبردست ارتکاز کی اساس ہے، جو تخلیقی نقطہ نظر سے اس نظم کی اہم خصوصیت ہے۔ اس لحاظ سے یہ نظم ایجاز و بلاغت کی بہترین مثال ہے۔ سیدھے سادے الفاظ میں جہانِ معنی نہیں، بلکہ جہان ہاے معنی سمیٹ لیے گئے ہیں۔ زبورِ عجم کی نظم ’بندگی نامہ‘ کو مصنف نے اقبال کی ان اہم ترین منظومات میں شمار کیا ہے، جن میں انھوں نے فن اور مذہب کے متعلق اپنے خیالات بہت ہی جامعیت اور اختصار کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ مصنف کے خیال میں اقبال مذہب اور آرٹ کو ایک ہی حقیقت کبریٰ کے مختلف پہلو تصور کرتے ہیں اور یہ کہ فن اور مذہب دونوں کا زندگی سے ایک بامعنی تعلق ہے اور ان کی قدر و قیمت کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ زندگی کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں۔ ’ذوق و شوق‘ کو مصنف نے اقبال کا ارضِ فلسطین سے واپسی پر امتِ مسلمہ کے لیے ایک تحفہ سمجھتے ہوئے انھیں رومی، سعدی، عطار اور سنائی کا ساتھی قرار دیا ہے۔ ہیت کے اعتبار سے اس نظم کو ترکیب بند کہا جا سکتا ہے اور تو موضوع کے لحاظ سے نعتیہ قصیدہ، جو عربی قصیدے کی روایت سے متعلق ہے۔ نظم کا بھرپور موضوعی جائزہ لینے کے بعد مصنف نے اس کے اسلوب اور اس کے زیر اثر موسیقیت پر گفتگو کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عملی تنقید پر مشتمل مذکورہ چاروں مضامین کے مطالعے کے بعد قاری ان نظموں کی بہتر تفہیم کے قابل ہو جاتا ہے، جو درسی تشریحات کی سطحیت کے بجائے ذہنی افق کی وسعت پذیری کا سبب بنتی ہے۔ ’اقبال کے پسندیدہ اصنافِ شعر‘، ’بانگِ دراکی غزلیں‘ اور ’جاوید نامہ کی تکنیک‘ میں ملک صاحب نے اقبال کے ہاں ہیتی اور تکنیکی تجربات کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ مصنف کے مطابق اقبال مشرقی مزاج کے عین مطابق فی الاصل ایک تغزل پسند شاعر ہیں۔ مشرق کی تمام تر اصنافِ شعر، جو اپنے مقصد و موضوع کے اعتبار سے معروضیت کی حامل ہیں، ان میں بھی وہی اظہارِ جذبات، وہی وارداتِ قلب کا بیان اور وہی احساس کی آنچ میں تپتی ہوئی زبان مِلتی ہے، جو فارسی اور اردو غزل کا امتیاز سمجھی جاتی ہے۔ اقبال کے ہاں غزل، رباعی، نعت اور مثنوی میں نئے تجربات کے باوجود روایت کی پاس داری کی گئی ہے۔ اپنی منظومات کے لیے انھوں نے ترکیب بند، ترجیع بند، مسدس اور دیگر ہئیتوں کا استعمال کیا ہے۔ نظموں میں ان کی پسندیدہ صنف ترکیب بند ہے، جس کی ساخت مصنف کے خیال میں اقبال کی پیچیدہ شخصیت اور کثیر الاطراف فکر کے مختلف پہلو ابھارنے کے لیے بہت موزوں ہے۔ معروضیت اور صلاحیتِ نفی ذات کے ثبوت کے باوجود اقبال کی ڈرامائی نظموں میں شخصی اور غنائی عنصر غالب ہے اور وہ ان کے بہترین شاہ کاروں میں شمار ہونے کے قابل ہیں۔ ’خضرراہ‘، ’جبریل و ابلیس‘، ’شعاعِ امید‘، ’تنہائی‘ ، ’محاورہ مابین خدا و اِنسان‘، ’قطرئہ آب‘، ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ اور جاوید نامہ کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے کہا ہے کہ اقبال چاہے، کسی بھی صنف کو برت رہے ہوں، ان کا شخصی لب و لہجہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ’بانگِ درا کی غزلیں‘ میں مصنف نے نہایت اختصار سے اقبال کے تینوں ادوار کی غزلوں کا جائزہ لیا ہے۔ اقبال کے ابتدائی دو ادوار میں ان کی غزل مضامین و اسلوبِ بیان کے لحاظ سے روایت کی پاس داری کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جب کہ تیسرے حصے کی غزلیں نمایاں طور پر پہلے دونوں حصوں سے مختلف ہیں۔ مصنف کے خیال میں تیسرے حصے کی غزلوں میں اقبال کی شخصیت روایت پر غالب آ جاتی ہے اور یہاں ایسے اشعار بکثرت مِل جاتے ہیں، جو بآسانی بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں جگہ پا سکتے ہیں۔ ’جاوید نامہ کی تکنیک‘ میں مصنف نے قدیم معراج ناموں کی ہیئت کا جائزہ لیا ہے اور تخلیقی ادب میں تکنیک کی اہمیت پر گفتگوکرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک عظیم فن پارہ اس وقت وجود میں آتا ہے، جب تکنیک موضوع کے عین مطابق ہو اور موضوع تکنیک کے سانچے میں بآسانی ڈھل جائے۔ لہجے کے دھیمے پن اور شگفتہ اندازِ نقد کی بِنا پر غلام رسول ملک کی یہ کاوِش مجموعی طور پر اقبالیات میں ایک نہایت وقیع اضافے کا درجہ رکھتی ہے۔ان کے مطالعے کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ایک طرف اقبال کی نظم و نثر کے کُل سرمائے کو پیش نظر رکھا ہے اور دوسری جانب اپنے مقالات کومشرق و مغرب کے معروف و مستند حوالوں سے مزین کیا ہے۔ کتاب مصنف کی تنقیدی سنجیدگی اور علمی متانت کا بیّن ثبوت فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ’تقدیم‘ میں بجا طور پر مصنف کوہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے والے اقبالیین میں شمار کیا ہے۔ ___ڈاکٹر خالد ندیم ٭٭٭ گڈاکٹر سہیل شفیق: اشاریۂ معارف اعظم گڑھ۔ ناشر:قرطاس، کراچی، ۲۰۰۷ئ، صفحات… قیمت۔؍۵۰۰ روپے، مع اشاریہ، مجلد، مجلاتی سائز۔ اشاریہ سازی کو بظاہر جمع آوری سے تشبیہ دی جاتی ہے، لیکن یہ جمع آوری فقط گل چینی نہیں، بلکہ نایاب جڑی بوٹیوں کی تلاش کے مترادف ہے، چناںچہ کسی پرچے کے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے شماروں کا کھوج لگانا، مختلف کتب خانوں میں ان تک رسائی اور ان سے معلومات کو یک جا کرنا اور پھر اس ذخیرے کو سلیقے اور قرینے سے ترتیب دینا کسی مبتدی کا کام نہیں۔ عام طور پر اشاریہ سازی کو مستحسن نہیں سمجھا جاتا، حالاںکہ اشاریے محققین کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتے۔ اشاریہ سازی کے بارے میں عام تاثر کیا ہے، اس سلسلے میں ڈاکٹر صدیق شبلی کی روایت قابلِ ذکر ہے۔ لکھتے ہیں کہ جب مَیں اشاریۂ کلامِ اقبال (اردو) تیار کر رہا تھا تو بعض ’بقراط صفت‘ دوست اس کام کو حقیر سمجھ کر میری حوصلہ شکنی میں مصروف رہے۔ گویا علم و ادب کی فضا میں سانس لینے والے بھی اس کام کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں ۔ تاہم کسی پرچے کے اشاریے کی اہمیت اُس محقق سے پوچھیے، جو کسی مجلے کے کسی نامعلوم پرچے میں کسی مصنف کے مطبوعہ مضمون کی تلاش میں ہو۔ اشاریہ سازی کی اسی اہمیت کے پیش نظر دنیا بھر کی جامعات اپنے طالب علموں کے ذریعے مختلف جرائد کے اشاریوں کی تیاری کا بندوبست کرتی رہتی ہیں۔ اردو دنیا میں بھی مختلف جرائد کے اشاریے مِلتے ہیں۔ گو پاکستانی جامعات میں اس سلسلے میں قابلِ قدر کام ہو چکا ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر اشاریے جامعات کی لائبریریوں تک محدود ہیں اور عام محققین ان سے مستفیض نہیں ہو پاتے۔ پھر جو اشاریے شائع بھی ہو جاتے ہیں، وہ بھی ایک محدود حلقے تک پہنچتے ہیں اور پھر نایاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے شاید ہی کسی اشاریے کی اشاعتِ ثانی کی نوبت آئی ہو۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شعبے میں اشاریہ سازی اس فن میں رفتارِ تحقیق کو تیز ترکرنے میں ممدد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے مطابق اشاریہ سازی کا یہ کام اہم بھی ہے، دِقت طلب بھی اور صبر آزما بھی۔ اس میں عرق ریزی کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ اشاریے محققین کے لیے تازہ ہوا اور صاف پانی کی مانند ضروری ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سفیر اختر [راہی] کہتے ہیں کہ مَیں ذاتی طور پر کتابیات، اشاریہ سازی اور ان سے ملتے جلتے کاموں کو ’سبیل‘ سمجھتا ہوں۔ تپتی دھوپ میں راہ گیر راستے پر سبیل سے پیاس بجھاتا، تازہ دم ہوتا اور دُعا دیتا آگے بڑھ جاتا ہے، اسی طرح اشاریہ اور کتابیات مستقبل کے محققین، ادبی مؤرخیں، ناقدین اور مقالہ نگاروں کے لیے سبیل کا کام کرتے ہوئے علمی تشنگی دُور کرتی ہے۔ شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی کے استاد ،محمد سہیل شفیق نے اشاریہ سازی کی اسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اردو کے معروف علمی و ادبی مجلے معارف کا ایک جامع اشاریہ تیار کیا ہے۔ مجلہ ٔمذکورہ کی نوے سالہ تاریخ پر محیط اس اشاریے کو اس فن کی ایک مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ معارفاپنے علمی و تحقیقی معیار کے اعتبار سے اردو کا ایک نمایاں مجلہ ہے۔ علامہ شبلی نعمانی (م:۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ئ)ندوۃ العلما لکھنؤ سے قطع تعلق کر کے جب اپنے آبائی شہر اعظم گڑھ آئے تو انھوں نے ایک علمی و تحقیقی ادارے ، ایک کتب خانے کے قیام اور ایک علمی مجلے کا خواب دیکھا تھا ، جو اُن کی زندگی میں تو شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا، تاہم۱۹۱۴ء کے اواخر میں ان کے تلامذہ و معتقدین نے دارالمصنفین کے نام سے ایک علمی، ادبی اور تحقیقی ادارہ قائم کر لیا، جس میںتصنیف و تالیف اور ترجمے کے ساتھ ساتھ، ایک علمی ماہ نامے کے اجرا کا فیصلہ بھی کیا گیا، چناںچہ سید سلیمان ندوی (۱۲؍دسمبر ۱۸۸۴ ء - ۲۲؍نومبر ۱۹۵۳ئ)نے رمضان المبارک ۱۳۳۴ھ بمطابق جولائی ۱۹۱۶ء میں علامہ شبلی نعمانی کی خواہش کے مطابق اعظم گڑھ سے معارف کا پہلا شمارہ مرتب کر کے شائع کر دیا، جس کے مقاصد میں سے بقول مرتب: ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اسلام اور اسلامی علوم و فنون کی تاریخ مرتب کی جائے اور اسے جدید اسلوب و انداز میں پیش کیا جائے۔ پرچے کے بانی مدیر سید سلیمان ندوی نے معارف میں خود بھی تاریخ اسلام، بالخصوص ہندوستان کی تاریخ کے علمی و تمدنی و تہذیبی پہلوؤں پر مقالات لکھے، مستشرقین اور ان کے ہم نوا مؤرخین کی دروغ گوئی کی تردید کی اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے رفقا کے علاوہ ملک کے دوسرے اہل علم کے تحقیقی کارناموں ے قارئین کو رُوشناس کرایا۔ اس پرچے کے متعلق مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں کہ صرف یہی ایک [قابلِ ذکر] پرچہ ہے، اَور ہر طرف سناٹا ہے۔ الحمد اللہ! مولانا شبلی مرحوم کی تمنائیں رائگاں نہیں گئیں اور صرف آپ[سلیمان ندوی] کی بدولت ایک ایسی جگہ بن گئی ، جو خدمتِ علم و تصنیف کے لیے وقف ہے۔ عالمِ اسلام کے عظیم دانش وَر و مؤرخ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے نزدیک: واقعہ تو یہ ہے کہ آج کل ساری دنیاے اسلام میں ، عرب ہو کہ عجم، کوئی اسلامی رسالہ اسلامیات پر اعظم گڑھ والے معارف کے معیار کا نہیں، اَوروں کے ہاں کاغذ اور طباعت بہتر ہوسکتی ہے، لیکن مضامین کے مندرجات میں علمی معیار بدقسمتی سے کچھ بھی نہیں۔ خدا معارف کو سلامت باکرامت رکھے۔ مَیں خود معارف میں جگہ پاؤں تو اپنے لیے باعثِ عزت سمجھتا ہوں۔ معارف کے مدیران کے تعارُف سے پرچے کے آیندہ سفر اور علمی و تحقیقی و ادبی معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔ معارف کے شاندار ماضی ، قابلِ ذکر حال اور تابناک مستقبل میں اس کے فاضل مدیران ، یعنی سید سلیمان ندوی (۱۹۱۶ء تا ۱۹۴۹ئ)، شاہ معین الدین احمد ندوی(۱۹۴۹ء تا ۱۹۷۴ئ) ، عبدالسلام قدوائی ندوی (۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۹ئ)؍ سید صباح الدین عبدالرحمن(۱۹۷۵ء تا ۱۹۸۷ئ) ، ضیاء الدین احمد اصلاحی(۱۹۸۷ء تا حال) کی شبانہ روز دیانت دارانہ سعی جمیلہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے نزدیک معارف کا فیضان آج بھی اپنی قدیم روایات کے ساتھ جاری ہے۔ اسے بجا طور پر علومِ اسلامیہ کی اردو انسائیکلو پیڈیا کا نام دیا جاتا ہے، کیوںکہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق جو تحقیقی سرمایہ، صرف معارف نے پیش کیا ہے، اگر اسے جمع کیا جائے تو سیکڑوں معرکہ آرا کتابیں شائع ہو سکتی ہیں۔ تاریخ اسلام اور اسلامی علوم و فنون کا شاید ہی کوئی پہلو یا تذکرہ ہو، جو معارف کے صفحات میں اجاگر نہ کیا گیا ہو۔ اگر معارف کی نوے سالہ تاریخ پر نظر ڈورائیں تو اس کے موضوعات کی وسعت اور اس کے مقالہ نگاروں کی فہرست پرچے کی بلند پایہ علمی سطح کا احساس دِلاتی ہے۔ اس کے موضوعات میں قرآن اور علومِ قرآن(۱۳۶ مضامین)،حدیث و سنت(۶۱)، سیرتِ نبوی(۵۴)، فقہ اسلام(۸۱)، عقاید و عباداتِ اسلامی(۱۶)، اسلام (۷۱)، تاریخ(۲۱۵)، مذاہبِ عالم(۵۶)، تہذیب و تمدن(۲۸)، اخلاقیات(۱۸)، تصوف (۶۳)، فلسفہ (۸۱)، تعلیم و تربیت(۳۲)، طب و سائنس(۷۶)، سیاسیات(۴۳)، خلافت (۱۳)، اقتصادیات (۸)، لسانیات(۵۵)، زبان و ادب(۳۴۵)، اقبالیات(۱۰۴)، آثار و مقامات (۹۱)، شخصیات(۶۷۳)، آرٹ اور آرکیٹکچر(۱۲)، استشراق اور مستشرقین(۶۶)، علوم و فنون(۳۹)، عالمِ اسلام(۳۳)، عرب(۲۲)، مسلم اقلیتیں(۱۳)، اقوامِ عالم(۶) ہندوستان(۷۸)، کتب خانے (۴۸)، جامعات؍ تعلیمی ادارے(۱۶)، خطبات؍انجمنیں؍ ادارے(۵۸)، تحریکیں(۱۰)، قلمی نسخے؍ مخطوطات (۶۲)، کتابیں(۱۴۹) اور متفرقات (۲۲۳) شامل ہیں۔ اس عرصے میں معارف کے سیکڑوں قلمی معاونین میں سے ابوالجلال ندوی، ابولحسنات ندوی، ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی، ابوظفر ندوی، احتشام احمد ندوی، قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی، قاضی اطہر مبارک پوری، امتیاز علی خان عرشی، ڈاکٹر امیر حسن عابدی، بدیع الزماں، محمد تقی امینی، حبیب الرحمن خان شروانی، حبیب ریحان ندوی، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، رام لعل نابھوی، ریاست علی ندوی، سعید انصاری، سلیمان ندوی، شبیر احمد خان غوری، ڈاکٹر شہاب الدین صدیقی، صباح الدین عبدالرحمن، ضیاء الدین اصلاحی، عارف اعظمی عمری، سید عبدالباری ندوی، مولوی عبدالحلیم چشتی ندوی، عبدالسلام ندوی، عبدالماجد دریابادی، عبیداللہ کوٹی ندوی، حافظ عمیر الصدیق دریابادی ندوی، ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ، حافظ غلام مرتضیٰ، غلام مصطفی خان، محمد غوث، ڈاکٹر لطیف حسین ادیب، حافظ مجیب اللہ ندوی، معتضد ولی الرحمن، شاہ معین الدین ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، ڈاکٹر مہرولی الدین ، ڈاکٹر نذیر احمد، شیخ نذیر حسین، نصر الدین ہاشمی، محمد نعیم ندوی صدیقی اور ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی اپنے مضامین کی تعداد کے اعتبار سے بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔ معارف کے مستقل اور مثبت کردارکے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ اس کا ایک اشاریہ ترتیب دیا جائے۔ زیر نظر اشاریے سے پہلے بھی چار جزوی اشاریے مرتب کیے جا چکے ہیں۔ ۱۹۶۶ء میں رسالہ برہان میں ’علومِ اسلامیہ کی ایک اردو انسائیکلوپیڈیا‘ کے عنوان سے معارف کا اشاریہ شائع ہونا شروع ہوا، جو چند قسطوں کے بعد رُک گیا۔ انجمن ترقی اردو (ہند)،دہلی کے سہ ماہی رسالے اردو ادب میں ستمبر۱۹۸۳ء کے شمارے میں ڈاکٹر صابرہ بیگم نے ’اشاریۂ معارف علی گڑھ‘ کے نام سے معارف کی جلد اوّل سے سولہ تک کے مضامین کا الف بائی ترتیب سے اشاریہ شائع کیا۔ ۱۹۹۵ء میں علومِ اسلامیہ کی اردو انسائیکلوپیڈیا کی پہلی جلد میں معارف کا چون سالہ(۱۹۱۶ء تا ۱۹۷۰ئ) اشاریہ مرتب کیا۔ جمشید ندوی کا مرتب کردہ معارف کا چوتھا اشاریہ ’ماہ نامہ معارف کے اشاریے‘ کے نام سے معارف کے شمارے اپریل، مئی ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔ مرتب نے نمونے کے طور پر شائع کیے جانے والے اس اشاریے میں معارف کے الف بائی ترتیب سے تین اشاریے مرتب کیے: ایک موضوع کے اعتبار سے، دوسرا مضمون نگاروں کے اعتبار سے اور تیسرا مضامین کے اعتبار سے۔ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کہتی ہیں کہ جمشید ندوی نے بِلاشبہ یہ اشاریے بڑی محنت اور دیدہ ریزی کے بعد تیار کیے گئے ہیں۔ اگر اب تک یہ کام ختم ہو چکا ہے تو یقینا اس کی اشاعت سے اہلِ علم کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ (ص۱۷ تا۱۸) زیر نظر اشاریے سے قبل معارف کا کوئی مکمل اشاریہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا ۔مبارک باد کے مستحق ہیں اس اشاریے کے مرتب کہ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی قیمت پر انھوں نے معارف کا یہ اشاریہ ترتیب دیا اور تشنگانِ علم و آگہی کی پیاس بجھانے کا سامان بہم پہنچایا۔ فاضل مرتب نے اپنے اس اشاریے کا انتساب علامہ شبلی نعمانی اور مدیرانِ معارف: سید سلیمان ندوی، شاہ معین الدین ندوی، عبدالسلام قدوائی ندوی، سید صباح الدین عبدالرحمن اور ضیا الدین احمد اصلاحی کے نام کیا ہے، جنھوں نے ، مرتب کے بقول: اپنے خونِ جگر سے چمنِ معارفکی آب یاری کی۔ پیش گفتار میں مرتب نے اشاریے کا جواز اور کام کی نوعیت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کا یہ بیان ان کے انکسار اور علمی مقام و مرتبے پر دال ہے: الحمد للہ، اشاریہ مکمل ہو گیا، اگرچہ پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے شروع کیا جانے والا کام کہیں پیچھے رہ گیا، لیکن یہ اطمینانِ قلب حاصل ہے کہ تحقیق و جستجو کی کٹھن راہوں میں اپنے حصے کا ایک دِیا روشن کر دیا ہے اور ایک علمی سبیل قائم کر دی ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ محض ایک مبتدی کا کام ہے، منتہی کا نہیں۔ مرتب نے اظہارِ تشکر میں علمی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے محسنین کا تذکرہ بڑی ممنونیت کے ساتھ کیا ہے۔ حمد و ثنا اور درَود و سلام کے بعد انھوں نے اپنے استاد ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، صدرِ شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی؛ ڈاکٹر محمد شکیل صدیقی، مرحوم مشفق خواجہ، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری، سید معراج جامی، ڈاکٹر محمد شکیل اوج، عبدالوہاب خاں سلیم(امریکہ)، ضیاء اللہ کھوکھر (گوجرانوالہ)، محترمہ زیبا افتخار کے ساتھ ساتھ شرف آباد بیدل لائبریری، ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، مدینۃ الحکمت لائبریری، مجلس علمی لائبریری، بہادر یار جنگ اکیڈمی لائبریری، کتب خانۂ خاص انجمن ترقی اردو پاکستان، غالب لائبریری، اردو ڈکشنری بورڈ، آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس لائبریری، عبدالمجید کھوکھر یادگاری لائبریری، مولانا آزاد لائبریری اور دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کے منتظمین کا انھوں نے بڑی فراخ دِلی سے شکریہ ادا کیا ہے۔ اشاریے کا مقدمہ مقالے کی نگران ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے لکھا ہے اور حق تو یہ ہے کہ انھوں نے مقدمہ لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ معارف کے اجرا کے سلسلے میں مولانا شبلی نعمانی کے خواب کو شرمندئہ تعبیر و تکمیل کرنے میں سید سلیمان ندوی کے کردار،معارف کے اجرا اور اس کی نوے سالہ تاریخ ، مدیران کے تعارف اور ان کے کارناموں، اردو کی دینی صحافت میں معارف کے کردار، معارف کے مختلف اشاریوںاور محمد سہیل شفیق کی لگن اور جستجو کے متعلق انھوں نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ مقدمے کے آخر میں انھوں نے اشاریے کے ناشر کے طور پر اپنے ادارے ’قرطاس‘ کے علمی کاموں پر مختصر تبصرہ کیا ہے۔ اشاریے سے قبل مرتب نے ’اشاریہ کی توضیح‘ کے نام سے ابواب بندی اور اشاریے میں اپنائی گئی حکمتِ علمی کی وضاحت کی ہے۔ یہ توضیح اشاریے کے مطالعے سے قبل قاری کی مناسب رہنمائی کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔ مرتب نے اس اشاریے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں صفحہ نمبر ۲۳ سے صفحہ نمبر ۲۱۱ تک زمانی اعتبار سے ایک سو پچھتّر جلدوں کے چار ہزار تین سو پچانوے مقالات کی فہرست دی گئی ہے،جس میں جلد نمبر، عدد (شمارہ نمبر)، تاریخ (عیسوی و ہجری ماہ و سال)، موضوع، مصنف اور اُس کتب خانے کا اندراج کیا گیا ہے، جہاں یہ شمارہ یقینی طور پر موجود ہے۔ اس بات کی اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کتب خانے کے مکمل نام کے بجائے مخففات سے کام لیا گیا ہے، جن کی وضاحت اشاریے کے آخری صفحے پر کر دی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں مقالات کو چھتیس مختلف موضوعات کے تحت صفحہ نمبر ۲۱۵ سے صفحہ نمبر ۲۶۷ تک زمانی اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔اس میں مختلف موضوعات کے تحت مضامین و مقالات کے اندراج کے سامنے جلد نمبر اور کولن (:) کے بعد شمارہ نمبر دیا گیا ہے۔ ایک مضمون کو دوسرے سے ممتاز کرنے کے لیے درمیان میں سکتہ (،) لگایا گیا ہے، جب کہ کسی مقالے کا ایک سے زائد موضوعات سے تعلق ہونے کی صورت میں اسے متعلقہ تمام موضوعات میں درج کر دیا گیا ہے۔ اس اشاریے سے معلوم ہوتا ہے کہ پرچے میں سب سے کم مضامین اقتصادیات کی ذیل میں شائع ہوئے، یعنی آٹھ؛ جب کہ سب سے زیادہ شخصیات کے ضمن میں، یعنی چھے سو تہتر۔ اس باب میں مختلف موضوعات کے تحت مضامین کو زمانی ترتیب سے درج کیا گیا ہے، جب کہ اسے الف بائی ترتیب سے درج کیا جانا چاہیے تھا، تاکہ قاری کسی معلومہ مضمون کے شمارے تک بآسانی رسائی حاصل کر سکتا۔ تیسرا حصہ صفحہ نمبر ۲۷۱ سے ۲۹۴ تک محیط ہے، جو الف بائی ترتیب سے آٹھ سو انہتر مصنفین کے اشاریے پر مشتمل ہے۔ اس میںمقالہ نگاروں کے نام کے سامنے ان کے مطبوعہ مقالات کے حوالے سے جلد نمبر اور شمارہ نمبر درج کیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر ۲۹۷ سے صفحہ نمبر ۵۳۲ تک پھیلے ہوئے چوتھے حصے میں زمانی اعتبار سے تبصرہ شدہ کتب کی فہرست دی گئی ہے۔اس میں جلد نمبر، شمارہ نمبر، عیسوی و ہجری ماہ و سال، کتاب کا نام، مصنف؍ مؤلف؍مترجم ؍ مرتب کا نام، کتاب کے ناشر اور شہر کا نام اور آخر میں کتاب کے صفحات کا اندراج کیا گیا ہے، تاہم مبصرین سے شناسائی نہیں ہوتی، جس کی ایک وجہ غالباً پرچے میں مبصرین کے لیے بالعموم مخففات کا استعمال ہو سکتی ہے۔ الف بائی ترتیب سے چار ہزار تین سو تہتر تبصرہ شدہ کتب کی فہرست صفحہ نمبر ۵۳۵ سے صفحہ نمبر ۶۲۱ تک پانچویں حصے میں پیش کی گئی ہے۔یہاں کتاب کے نام کے سامنے جلد نمبر اور شمارہ نمبر تحریر کیا گیا ہے۔ درج بالا دونوں ابواب میں تبصرہ شدہ کتب کی زمانی اور الف بائی ترتیب دی گئی ہے، تاہم تبصرہ شدہ کتب کے مصنفین، مبصرین اور ناشرین کے اشاریے کی کمی کھٹکتی ہے۔ اگرچہ کسی بھی تحقیق کی کچھ نہ کچھ حدود متعین کرنا ہی پڑتی ہیں اور محقق کسی دائرے میں رہتے ہوئے ہی کام کر سکتا ہے، تاہم اگر مبصرین اور ناشرین کا اشاریہ غیر ضروری سمجھا جائے تو بھی مصنفین کے اشاریے کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چھٹے حصے میں صفحہ نمبر ۶۲۵سے صفحہ نمبر ۶۳۷ تک وفیات کا الف بائی اندراج کیا گیا ہے۔ اس میں دو سو اکسٹھ شخصیات کا تذکرہ ہے۔ ا س حصے میں شخصیت، تاریخ پیدائش؍ عمر، تاریخ وفات، تذکرہ نگار، تاریخ اطلاع، معارف کی جلد اور شمارہ نمبر کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ساتویں باب میں معارف کے ایک ہزار اسّی شماروں میں جلد نمبر، ہجری ماہ و سال کے حوالے سے پائے جانے والے ایک سو پانچ تسامحات کی تصحیح کی گئی ہے۔ محقق نے نہایت عرق ریزی سے ہجری ماہ و سال میں چوالیس، عیسوی ماہ و سال میں تین، جلد کے حوالے سے انسٹھ اور شماروں کے اندراج میں تین مقامات پر در آنے والی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ جب کہ آخری حصے میں کتب خانوں کے لیے استعمال کیے گئے مخففات کی وضاحت کی گئی ہے۔کراچی کے کتب خانوں میں کتب خانۂ خاص انجمن ترقی اردو پاکستان (ا ت ا ل)، بہادر یار جنگ اکیڈمی لائبریری (ب ی ج ل) ، شرف آباد بیدل لائبریری (ش ب ل )، کراچی یونی ورسٹی لائبریری (ک ی ل )، مشفق خواجہ لائبریری (م خ ل)، مجلس علمی لائبریری (م ع ل) اور ہمدرد یونی ورسٹی لائبریری (ھ م ل) شامل ہیں، علاوہ ازیں گوجرانوالہ میں عبدالمجید کھوکھر لائبریری (ع ک ل) اور دارالمصنفین شبلی اکیڈمی (د ش ا) سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ اس اشاریے میں جس قدر حسن و خوبی پائی جاتی ہے، اس میں مرتب کی لگن کے ساتھ ساتھ عطا خورشید اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کی رہنمائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جن کے مشورے کے بعد مرتب نے اشاریے میں تبصرہ شدہ کتب کو زمانی ترتیب سے درج کرنے کے علاوہ اس کا الف بائی انداز میں اشاریہ بھی مرتب کیا۔ مزید ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ہدایت پر انھوں نے وفیات کو بھی شامل اشاریہ کیا۔ چناںچہ اس سے اشاریے کی افادیت اور قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا۔ موجودہ حالت میں یہ کاوش اردو اشاریہ سازی کی تاریخ میں ایک عمدہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے پیش نظر امید کی جانی چاہیے کہ جامعات میں ترتیب دیے جانے اشاریے اسی اعلیٰ علمی سطح کے حامل ہوں گے۔ سید معراج جامی کے خیال میں ’معارف کا یہ اشاریہ علم و ادب کی دنیا میں یقینا وقیع اور کارآمد دستاویز کی حیثیت سے محققین اور علم کے جویا حضرات کے لیے مفید ثابت ہو گا۔‘ اس اشاریے کے مطالعے کے بعد مرتب کے علمی اخلاص اور محنت و کاوش کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یہ اشاریہ اپنی علمی وسعت اور حسن ترتیب کی بدولت مسافرانِ علم و ادب کو ہر ہر مرحلہ پر اپنی اہمیت و افادیت کا احساس دِلاتا رہے گا۔ راقم کے خیال مرتب کو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ ان کا سفر رائگاں نہیں جائے گا، بلکہ محققین و ناقدین کی ایک بڑی تعداد تادیر ان کی اس سبیل سے تازہ دم ہوتی رہے گی اور ان کے قدم نئی منزلوں کی طرف گامزن رہیں گے۔ ___ڈاکٹر خالد ندیم ٭٭٭ ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی: اقبالیات کی وضاحتی کتابیات(تحقیق)۔ ناشر:ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، ۳۱۰۸ وکیل سٹریٹ، کوچہ پنڈت، لال کنواں، دہلی۔۶، ۲۰۰۶ئ، صفحات… قیمت۔؍۵۰۰ روپے۔ بھارت میں جامعاتی سطح پر تحقیق اقبالیات کا آغاز غالباً ڈاکٹر آصف جاہ کامرانی کے تحقیقی مقالے ’’اقبال کا فلسفۂ خودی، اقبالیات کات تنقیدی جائزہ‘‘ (الٰہ آباد یونی ورسٹی، ۱۹۵۷ئ) سے ہوتا ہے۔ [ابتدا میں ’’ہندوستان دشمن‘‘ شاعر اقبال پر کام کی اجازت بہت مشکل سے ملتی مثلاً: عبدالحق کو شروع شروع میں گورکھ یونی ورسٹی سے اقبال پر مقالہ لکھنے کی اجازت نہیں دی گئی بعد ازاں، بدنامی کے خوف سے ازراہِ مصلحت اجازت دے دی گئی۔] بھارت کی جامعات میں اقبالیات پر تاحال کم و بیش پانچ درجن سندی تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ پیش نظر مقالہ اس سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔ ’’پیش لفظ‘‘ میں ڈاکٹر مشتاق احمد اپنے اس کام کو اقبالیات منفرد قرار دیتے ہیں یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے ہاں، کہنا چاہیے کہ بھارت کی حد تک، [اقبالیات میں یہ ایک منفرد کام ہے۔] اس کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ بھارت میں پی ایچ ڈی کے لیے تحریر شدہ زیادہ تر مقالات کی نوعیت تشریعی و توضیحی اور تنقیدی ہے، جب کہ یہ مقالہ حوالہ جاتی ہے۔ اقبالیاتِ بھارت میں حوالہ جاتی کاموں کی طرف کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ اس کاایک سبب وہ مشکلات بھی ہوسکتی ہین جو کتابیاتِ نگار کو بالعموم اس راہ پُرخار میں پیش آتی ہیں اور شاید پتّہ ماری کا وہ خوف جو اس نوعیت کی تحقیق میں ہاتھ ڈالتے ہوئے لاحق ہوجاتا ہے۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کی یہ کاوش قابلِ قدر ہے اور ان کے باہمت و حوصلہ ہونے کی دلیل ہے۔ باب اول (اردو میں وضاحتی کتابیات) میں وضاحتی کتابیات کی نوعیت، اقسام اور ہیئت پر بحث کی گئی ہے اور اس کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے اُردو کی متعدد کتابیات اور اشاریوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ انھوں نے اردو کتابیات کی جتنی تعداد گنوائی ہے، اس کے پیش نظر یہ کہنا کہ اب اردو میں جتنا کچھ کام ہوا ہے اس انگلیوں میں گنا جاسکتا ہے۔ (ص۲۶) اس کام کی تفصیل سے ناواقفیت اور اس کی اہمیت کو گھٹانے کے مترادف ہے۔ بیسیوں شخصی اور موضوعاتی کتابیتوں کے علاوہ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کا سلسلۂ سوانح و کتابیات کم وبیش، ایک سو مشاہیر ادب کا احاطہ کرتا ہے۔ دوسرا باب (اقبالیاتی ادب کا جائزہ) کتاب کے اصل موضوع (وضاحتی کتابیات) سے مختلف بلکہ منحرف ہے۔ ’’جائزہ‘‘ تبصرے اور تجزیہ و تحلیل اور کسی حد تک نقدوانتظار کے مترادف ہے، جب کہ ’’کتابیات‘‘ صرف کتابیاتی کوائف (ناشر، صفحات، تقطیع، اور سنہ اشاعت) پر مشتمل ہوتی ہے۔ ’’وضاحتی کتابیات‘‘ میں کتابیاتی کوائف کے ساتھ، کتاب کے مباحث ومشمولات اور موضوعات و نوعیت سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کا یہ جائزہ، کتابیات سے ایک الگ نوعیت کے محاکمے کی نوعیت رکھتا ہے۔ (آغاز تا ۲۰۰۰ئ) سے جائزے کی حدبندی کی گئی ہے یعنی یہ ایک سوسالہ اقبالیات کا جائزہ ہے۔ اسے ۲۲صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔ بظاہر یہ ایک اچھی اور معلومات افزا کاوش نظر آتی ہے۔ تاہم جائزہ نگار کے بعض بیانات محلِ نظر ہیں، مثلاً لکھتے ہیں: ’’اردو میں غالب کو چھوڑ کر شاید ہی کسی اور ادبی شخصیت پر اتنا کام ہوا ہوگا۔ ‘‘(ص۲۸) اول تو یہ کہ ’’غالب کو چھوڑ کر‘‘ کیوں؟ باوجود یکہ مرزا غالب کی وفات پر سوا سوسال سے زیادہ عرصہ گذرا اور اقبال کی وفات پر ابھی ستر برس ہی ہوئے ہیں۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق، جتنا تحقیقی و تنقیدی کام علامہ اقبال پر ہوا، اردو کے کسی اور ادیب اور شاعر (بشمول مرزا غالب) پر اتنا کام نہیں ہوا، نہ اتنی کتابیں اور رسالے (مراد ہے خاص نمبر) شائع ہوئی۔ تقریباً دوہزار مطبوعات پر مشتمل اقبالیاتی ادب مختلف النوع موضوعات پر مشتمل ہے موضوعاتی تقسیم یوں ہوسکتی ہے۔ علامہ اقبال کے متن پر کتابیں، تراجم، شرحیں، حوالہ جاتی کتابیں (اشاریہ، کتابیات، فہرستیں وغیرہ) سوانحی کتابیں، تحقیقی و تنقیدی کتابیں، منظوم کتابیں اور رسائل و جرائد کے اقبال نمبر وغیرہ۔ مشتاق صاحب نے اس سارے ذخیرے کا جائزہ، اُن کی نوعیت، موضوع کے لحاظ سے نہیں، بلکہ زمانی لحاظ سے لیا ہے۔ اس میں بھی کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن ثانوی مصادر پر تکیہ کرنے سے زیرنظر جائزے میں متعدد کوتاہیاں اور غلطیاں در آئی ہیں۔ مثلاً: پیام اقبال، اقبال کی سوانح کے اعتبار سے ’’کافی اہمیت کی حامل‘‘ ہے۔ (ص۳۲) اختر اورینوی کی کتاب اقبال ایک ’’بنیادی کتاب کی حیثیت‘‘ رکھتی ہے۔ (ص۳۲) ’’اسلم ملک کاترتیب کردہ مجموعۂ مضامین مطالعاتِ اقبال (۱۹۶۹ئ) ایک ایسا بحر ذخار ہے، جس کی وسعت میں بہت ساری کتابیں سما سکتی ہیں۔‘‘ (ص۳۶) روح مکاتیب اقبال ’’اقبال کی خطوط نگاری کے متعلق ایک اہم کتاب ہے۔‘‘ (ص۳۹)۔ شعریاتِ اقبال میں تشبیہاتِ اقبال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ (ص۴۴) ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۰ء تک عرصے میں اقبال پر باضابطہ کتابیں زیادہ لکھی گئی ہیں او رمجموعۂ مضامین بس گنتی ہی کے منظرعام پر آئے ہیں۔ (ص۴۸) یہ اور اس طرح کے بیانات اصلاح طلب ہیں۔ مشتاق احمد صاحب نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی مے لالہ فام ۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی [جاوید اقبال صاحب اس وقت ۲۰سال کے تھے۔] مشتاق صاحب نے اسے تقسیمِ ہند سے ماقبال کی کتابوں میں ذکر کیا۔ مجنوں گورکھ۔پوری کی اقبال کا سنہ اشاعت ۱۹۴۸ء لکھا گیا ہے۔ حالانکہ کتاب پر اشاعت کا سال درج نہیں۔ اس کے سنہ اشاعت حتمی طور پر متعین کرنے کے لیے کوئی معتبر شہادت میسر نہیں۔ تیسرا باب (اقبال پر نامور مصنفوں کی کتابیں) دو سو چھے کتابوں، اُن کے مصنفین اور سنین اشاعت پر مشتمل فقط ایک فہرست کتب ہے۔ اس نہ تو کتابیات قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ اشاریہ، اور نہ ہی یہ موضوعاتی فہرست ہے۔ کتابوں یا مصنفین کی الف بائی ترتیب بھی قائم نہیں کی گئی۔ دراصل اسے سالِ اشاعت کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے (یہاں بھی مے لالہ فام کا سنہ اشاعت ۱۹۴۴ء ہے۔) جب مؤلف کہتے ہیں کہ اقبال پر کم و بیش دوہزار کتابیں شائع ہوئی ہیں تو کم از کم اس کے نصف (ایک ہزار) کی فہرست تو دینی چاہیے تھی۔ اگر وہ کہیں کہ یہ صرف ’’نامور مصنفین‘‘ کی کتابیں ہیں، تو اول: سوال یہ ہے کہ ’’نامور‘‘ کا معیار کیا ہے؟ اختر حسین گیلانی، سیدہ اختر، اختر صدیقی، احسن شکوہ، شراف اللہ یا قدسیہ سرفراز کو کس اعتبار سے ’’نامور‘‘ کہا جائے گا؟ پھر یہ کہ فی الواقع نامور مصنفین کی ساری کتابیں اس فہرست میں نہیں آسکیں۔ نامور مصنفین کی ۲۰۶ کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔اس کے بعد ہر کتاب کے کتابیاتی کوائف اور اس کی مختلف توضیح بھی پیش کی گئی ہے۔ اس اعتبار سے یہی کتاب کا مرکزی اور سب اہم حصہ بنتا ہے۔ اگرچہ اس حصے میں بھی متعدد خامیاں یا غلطیاں موجود ہیں، اس کے باوجود یہ ایک مفید اور معلومات افزا کاوش ہے اور اقبال پر کام کرنے والوں کے لیے راہ نما اور مفید و معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کے آخری (چوتھے) باب میں اقبال پر مضامین کے ۴۲مجموعوں کی توضیحی کتابیات کی فہرست اور بعد ازاں اُن کی توضیحی کتابیات مرتب کی گئی ہے۔ اگرچہ ’’مقاماتِ آہ و فغاں‘‘ یہاں بھی نظر آتے ہیں۔ (ص۱۴۲،ص۱۴۳ کی فہرست کتب کے شمار نمبر۲۱، ۲۴، ۲۵، ۳۵ اور ۳۶ کسی صورت بھی اقبال پر مضامین کے مجموعوں کے ذیل میں نہیں آتے۔) آخر میں یہ وضاحت ناگزیر ہے کہ ص۵۹ پر حکمت اقبال، راقم آثم سے منصوب کی گئی ہے، جو درست نہیں۔ اس کے مصنف میرے (جزوی) ہم نام فاضلِ گرامی اور اقبال اکادمی پاکستان کراچی کے اولین ناظم ڈاکٹر محمد رفیع الدین تھے۔ ___ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی