اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:director@iap.gov.pk Website:www.allamaiqbal.com مندرجات خ اقبال کا تصورِ اجتہاد ڈاکٹر جاوید اقبال ۱ خ اقبال کے تصور جمہوریت پر اعتراضات کا جائزہ ڈاکٹر ایوب صابر ۹ خ ذوق و شوق- تعبیر و تحسین ظفر احمد صدیقی ۳۷ خ علامہ اقبال اورمولانا اسلم جیراج پوری جعفر بلوچ ۴۹ خ تاریخ ہند: مزید تصریحات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۶۷ خ اقبال کی سوانح پر نئی روشنی(قسط اوّل) خرم علی شفیق ۷۳ بحث و نظر خ فیض احمد فیض: سایے اور سراب خرم علی شفیق ۹۳ خ استفسارات احمد جاوید ۱۰۱ اقبالیاتی ادب خ ماہنامہ قومی زبان میں ذخیرۂ اقبالیات سمیع الرحمن ۱۰۹ خ علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ ۱۳۵ قلمی معاونین ڈاکٹر جاوید اقبال ۶۱۔بی، مین گلبرگ، لاہور ڈاکٹر ایوب صابر ۷۷۵،گلی نمبر۷۲،آئی ایٹ تھری، اسلام آباد ظفر احمد صدیقی استاد شعبہ اردو، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، بھارت جعفر بلوچ ۸،غزالی پارک، وحدت کالونی، لاہور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۲۸۔ڈی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور ۵۴۷۹۰ خرم علی شفیق رفیق علمی، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور احمد جاوید نائب ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سمیع الرحمن رکن مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹جے ، ماڈل ٹائون لاہور نبیلہ شیخ شعبہ ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور اقبال کا تصورِ اجتہاد٭ ڈاکٹر جاوید اقبال علامہ اقبال کا تصورِ اجتہاد کئی پہلوئوں سے زیر بحث آیا ہے۔ اسے عصری تقاضوںسے ہم آہنگی رکھنے والے علما نے ایک طرح سے دیکھا ہے تو قدامت پسندی سے علاقہ رکھنے والے علما نے دوسری طرح سے ---- اقبال کے تصور اجتہاد کو جس زاویے سے بھی دیکھا جائے اس میں فکر و عمل کی غذا بہرحال موجود ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کو پیدا کرنے کے لیے اقبال نے اس موضوع پر قلم اٹھایا۔ موضوع اہم ہونے کی بنا پر ایک بڑی تعداد کی توجہ کا مرکز بھی رہا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سی ایسی جہتیں سامنے آئی ہیں جن پر مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔ زیر نظر مقالے میں ایسے چند سوالات متعین کرکے اُن کے جواب فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور یقینا یہ سوالات اقبال کے تصور اجتہاد کو سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کی وفات کو تقریباً ستر برس گزر چکے ہیں، مگر ابھی تک اُن کی فکر کی مختلف جہتوں کو پورے طور پر دریافت نہیں کیا جاسکا۔ ممکن ہے اس کا سبب یہ ہو کہ ہم نے انھیں صرف شاعر سمجھا ہے اور ان کی نثری کاوشوں کو، جس توجہ کی وہ مستحق ہیں، وہ انھیں نہیں دی گئی۔ اقبال نہ اپنے آپ کو شاعر سمجھتے تھے، نہ عالم اور نہ فلسفی۔ لیکن وہ ایک پہلودار شخصیت ضرور تھے۔ اس لیے اُنھیں صرف شاعر سمجھنا اور ان کی نثری تحریروں، خصوصی طور پرخطبات کو ثانوی حیثیت دینا، ان کی فکر کی مختلف جہتوں کی دریافت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ احیاے فکر و تمدنِ اسلامی کے بارے میں اقبال کے افکار کی متفرق جہتوں میں سے ایک جہت جو غور طلب ہے، وہ ان کا ’’تقلید‘‘ کو مسترد کرکے ’’اجتہاد مطلق‘‘ پر اصرار ہے، جس کا اختیار وہ منتخب مسلم اسمبلی کو بطور ’’اجماع‘‘ دینا چاہتے ہیں۔۱؎ اس مرحلے پر چند اہم سوال اُٹھتے ہیں، جن کا جواب دینا اقبال شناسوں کا فرض ہے: پہلا: جس ریاست کی منتخب اسمبلی کو اقبال ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا اختیار دیتے ہیں، اس کا ’’ماڈل‘‘ کیا ہے؟ دوسرا: اقبال کو کن حالات کے ردِّعمل کے طور پر ’’اجتہاد مطلق‘‘ کی ضرورت محسوس ہوئی؟ تیسرا: منتخب اسمبلی کو ایسا اختیار دیتے ہوئے اقبال کون سی شرائط متعین کرتے ہیں؟ چوتھا: اقبال کی نگاہ میں وقت کے جدید تقاضوں سے عہدہ برآہونے کی خاطر مسلم معاشرے کو کس قسم کی تعلیم سے آراستہ علما، فقہا اور واعظین کی ضرورت ہے؟ پانچواں: ’’اُصول توحید‘‘ کو انسانی اتحاد، مساوات اور آزادی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے، اقبال کے نزدیک اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی جمہوریت‘‘ کو وجود میں لانا ہے۔ اس سے اُن کی کیا مراد ہے؟۲؎ چھٹا: اقبال کی تخیلی جدید اسلامی ریاست میں کن معاملات میں اجتہاد کی ضرورت ہے؟ ساتواں: کیا پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں اسلامی قانون سازی کے لیے اقبال کے تصورِ اجتہاد کو برسرعمل لایا جاسکتا ہے؟ اقبال کے اسلامی ریاست کے ’’ماڈل‘‘ کی شناخت کے لیے ہمیں انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ جب ترک قوم پرست عثمانی خلیفہ کے آمرانہ اختیارات کو محدود کرنے کی خاطر ترکی میں جمہوری نظام لانے کی کوشش کررہے تھے اور سید جمال الدین افغانی نے ’’آئینی خلافت‘‘ کا نظریہ اس لیے پیش کررکھا تھا تاکہ عثمانی خلافت کے زیرِسایہ دنیائے اسلام کی وحدت کو برقرار رکھا جاسکے۔ مگر شیخ الاسلام نے استنبول میں فتویٰ صادر کردیا کہ چونکہ ’’اولوا لامر کی اطاعت‘‘ مسلمانوں پر قرآنی فرض ہے، اس لیے جو لوگ بھی خلیفہ (سلطان) کے اختیارات کی تحدید کے درپے ہیں وہ کافر ہیں۔ اس قدامت پسندانہ فتوے اور دیگر عوامل کے نتیجے میں ۱۹۲۴ء میں قوم پرست ترکوں کے ہاتھوں خلافت کی تنسیخ عمل میں آئی اور شیخ الاسلام کا منصب ختم کردیا گیا۔ ترکوں کے اجتہاد کے مطابق خلیفہ کے تمام اختیارات ان کی منتخب قومی اسمبلی کو منتقل ہوگئے اور یوں دنیائے اسلام متفرق قومی ریاستوں میں بٹ گئی۔ اقبال کے نزدیک ترکوں کا یہ اجتہاد کہ پارلیمنٹ کو مقتدر امام کی حیثیت حاصل ہوگئی، حقیقت کے عین مطابق اور درست تھا۔۳؎ انھوں نے اُسے اپنی تخیلی اسلامی ریاست کی خاطر قبول کیا۔ بہرحال ترک قوم پرستوں نے تو ’’سیکولرزم‘‘ کی راہ اختیار کی۔ مگر اقبال نے اپنی اجتہادی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے قرار دیا کہ مسلمانوں کے لیے اسلام محض مذہب ہی نہیں بلکہ ریاست بھی ہے، اور یوں اُنھوں نے اسلامی ریاست کی بنیاد ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کے اُصول پر رکھی۔ اقبال کی نثری تحریروں سے ثابت ہے کہ اپنے اشعار میں جمہوریت پر کڑی تنقید کے باوجود ان کی جدید اسلامی ریاست میں جمہوریت کا نعم البدل کوئی اور سیاسی نظام نہیں۔ اگر کوئی ہے تو ملوکیت یا آمریت ہے جو بقول اقبال دونوں اسلام کی روح کے خلاف ہیں۔۴؎ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ اقبال الفارابی کی مانند جمہوریت ہی کو ’’المدینۃ الفاضلہ‘‘ یعنی مثالی اسلامی ریاست کے قریب ترین سمجھتے ہیں۔ پس وہ اسلامی جمہوریہ کی بنیاد انتخابات، حقوقِ بشر کے تحفظ اور قانون کی حاکمیت پر استوار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ جدید اُصول اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں۔ اقبال کے ہاں منتخب اسمبلی یا پارلیمنٹ ایسا ’’شورائی ادارہ‘‘ نہیں جو کسی اولوالامر کو مشورہ دے، خواہ وہ اسے قبول کرے یا ردّ کردے۔ بلکہ وہ ’’باہمی مشاورت‘‘ کے ادارے کے طور پر مقتدر ہے اور ایک قانون ساز ادارے کی حیثیت سے ’’اجماع‘‘ کے فرائض ادا کرسکتا ہے۔ اسی پارلیمنٹ یا قانون ساز ادارے کو اقبال اسلامی قانون سازی کے معاملے میں ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا اختیار دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ ’’ماڈل‘‘ سعودی یا دیگر مختلف اقسام کی ہم عصری ’’مسلم ملوکیت‘‘ یا بیشتر مسلم ممالک میں نافذ ’’آمریت‘‘ یا ترکی کی ’’سیکولر جمہوریت‘‘ سے مختلف ہے۔ اُنھیں امام غائب کے دوبارہ ظہور تک ’’ادارۂ نائبین امام‘‘ یا ’’ولایت فقیہہ‘‘ کا تصور اس لیے قبول نہیں کیونکہ ایسی صورت میں ایک طرح کی ’’مذہبی پیشواؤں کی حکومت‘‘ یا تھیاکریسی کے وجود میں آنے کا امکان ہے۔۵؎ اسی بنا پر راقم کے خیال میں اقبال طالبان کی ’’گزشتہ شورائیت پر مبنی امارت‘‘ بھی قبول نہ کرتے کیونکہ وہ بھی تھیاکریسی کی ایک شکل تھی۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ اقبال کے ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ کے مطابق نبوت کے خاتمہ کے ساتھ ہر قسم کی ملوکیت یا آمریت سمیت ہر قسم کی مذہبی پیشوائیت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ گویا اسلام کا ظہور دراصل عقل استقرائی کا ظہور ہے یا انسان کے عقلی شعور کی تکمیل کا اعلان ہے۔۶؎ اقبال کو ’’اجتہاد مطلق‘‘ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ جواب ہے کہ اگرچہ انھوں نے اجتہاد کے حق میں ماضی کے علما و فقہا کے ساتھ شاہ ولی اللہ کا حوالہ بھی دیا ہے، مگر برصغیر ہند میں جو اجتہادات سید احمد بریلوی اور شاہ اسمٰعیل کی وہابی نوعیت کی عسکری تحریک کا سبب بنے یا بعدازاں جو اجتہادات علما نے تحریک خلافت کے دوران کیے، ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ان دونوں تحریکوں سے برصغیر ہند میں من حیث الملت مسلمانوں کی شناخت تو مستحکم ہوئی، مگر ان تحریکوں کے اپنے اپنے اجتہادات کے تحت عمل کے میدان میں مکمل ناکامی کے سبب معاشی، سیاسی، علمی اور تمدنی طور پر جو نقصان مسلمانوں کو اُٹھانا پڑا، اس کی کچھ تفصیل راقم نے اپنی انگریزی تصنیفIslam and Pakistan's Identity میں دینے کی کوشش کی ہے۔ ان اجتہادات کے پیچھے مذہبی جذبہ تو کارفرما تھا مگر عقلی حکمت عملی کا فقدان تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد مسلمانانِ ہند کا ہر اعتبار سے تنزل اپنی انتہا تک پہنچ گیا تو سرسید احمد خان نے ’’تقلید‘‘ کو اس صورت حال کا باعث قرار دیا۔۷؎ بعدازاں بیسویں صدی کے اوائل میں فتوے کی صورت میں جو اجتہاد ترکی کے شیخ الاسلام نے عثمانی خلیفۂ وقت کی مطلق العنانیت کی حمایت میں فرمایا، اس کے نتیجہ میں بالآخر عثمانی خلافت کی تنسیخ عمل میں آئی اور نہ صرف دنیائے اسلام متفرق قومی ریاستوں میں منقسم ہوگئی بلکہ یورپی طاقتوں کے استعمار کے سبب مسلمانانِ عالم میں انتشار کی ایسی کیفیت طاری ہوئی جس کی تاریخِ اسلام میں مثال نہیں ملتی۔ پس ایک طرف ہندی علمائے وقت کے کبھی ’’جہاد‘‘ اور کبھی ’’ہجرت‘‘ کے حق میں قدامت پسندانہ اجتہادات کے زیراثر وہابی تحریک اور بعدازاں خلافت تحریک کی ناکامی سے مسلمانان ہند پر شکست اور مایوسی کا عالم طاری تھا۔ نیز سرسید ’’تقلید‘‘ کو مسلمانوں کے لیے زہرقاتل قرار دے رہے تھے۔ اور دوسری جانب ترکی میں ایسے ہی اجتہاد کے سبب عثمانی خلافت کی تنسیخ کے بعد عالم اسلام کا اتحاد پارہ پارہ ہوکر یورپی طاقتوں کے استعمار کی زد میں آچکا تھا۔ انھی حالات سے متاثر ہوکر اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ فقہا کے استدلالات، جن کے مجموعے کو عام طور پر شریعت اسلامی کہا جاتا ہے، ایک نظرثانی کے محتاج ہیں۔۸؎ یا یہ کہ فرد کی ذہنی اور فکری آزادی اور طبیعی علوم کی ترقی نے جدید زندگی کی اساس کو متغیر کردیا ہے۔ لہٰذا جس طرز کا علم کلام، علم دین اور اجتہاد از منۂ متوسطہ کے مسلمانوں کی تسکین قلب کے لیے کافی ہوتا تھا، وہ آج تسکین بخش نہیں ہے۔۹؎ راقم کی دانست میں اسی ماحول کے ردّعمل کے طور پر اقبال نے پہلی مرتبہ ۱۹۲۴ء میں ’’اجتہاد مطلق‘‘ کی اہمیت اور ضرورت پر خطبہ دیا، جس کے سبب بقول ان کے اُنھیں بعض حلقوں میں کافر قرار دیاگیا۔۱۰؎ منتخب اسمبلی کو اجتہاد کا اختیار دیتے ہوئے اقبال کو اس بات کا احساس تھا کہ آج کی مسلم اسمبلی فقہ کی باریکیوں سے ناواقفیت کے سبب اسلامی نوعیت کی قانون سازی کرتے وقت غلطیوں کا ارتکاب کرسکتی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے ان کی تجویز ہے کہ علما کا ایک مقرر کردہ بورڈ ایسے معاملات میں اراکین کی بحث میں رہبری کرے۔ مگر وہ اس بورڈ کے ممبر علما کو ووٹ کا حق نہیں دیتے بلکہ اس طریق کار کو بھی محض عارضی طور پر قبول کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسمبلی کے منتخب اراکین میں ایسے وکلا کی ایک مخصوص تعداد بطور ٹیکنوکریٹس منتخب کی جائے جنھوں نے فقہ اسلامی کا مطالعہ جدید جورسپروڈنس کی روشنی میں کیا ہو۔ اس بارے میں وہ اپنی اسلامی ریاست کے لاء کالجوں کے نصاب میں ایسے اضافے کے خواہشمند ہیں جس کے ذریعے عربی زبان کے مطالعہ کے ساتھ ان کے تجویز کردہ نئے شعبے میں اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کا بندوبست کیا جاسکے۔ اسی طرح وہ مسلم اسمبلی میں ایسے اشخاص کے بطور ٹیکنوکریٹس منتخب ہونے کے بھی قائل ہیں جو جدید علوم مثلاً بینکنگ، اکاؤنٹنگ، معاشیات وغیرہ میں مہارت رکھتے ہوں۔ ایسے وکلا اور ماہرین ٹیکنوکریٹس کی رہبری میں پارلیمنٹ، بقول اقبال ’’اجماع‘‘ کی صورت میں ’’اجتہاد مطلق‘‘ کے ذریعے اسلامی قانون سازی کے قابل تصور کی جائے۔۱۱؎ اقبال کی ان تجاویز میں دو باتیں خصوصی طور پر قابل غور ہیں: پہلی یہ کہ وہ علما کو جدید جورسپروڈنس کے طرقِ استدلال سے ناآشنا ہونے اور ان میں ذاتی فرقہ وارانہ یا مسالک کے اختلافات کے سبب انھیں پارلیمنٹ میں ٹیکنوکریٹس کی حیثیت سے شامل نہیں کرتے۔ اور دوسری یہ کہ وہ آج کے ’’مجتہد‘‘ کو وکیل یا قانون دان تصور کرتے ہوئے ان میں روایتی،اخلاقی یا مذہبی، شرائط مثلاً متقی یا پرہیزگار ہونا، کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے۔ اقبال برصغیر ہند کے علما و فضلا کو کس قسم کی تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے؟ اس ضمن میں اقبال کی نثری تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ موجودہ زمانے کے علما اور واعظین کے لیے اسلامی تاریخ، اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے ادب اور تخیل میں پوری دسترس رکھنا ضروری خیال کرتے تھے۔۱۲؎ اقبال کی رائے میں قانون محمدی سراسر تعمیری تشکیل کا محتاج ہے، بلکہ جس طرح سے عمل میں لایا جاتا ہے وہ بغایت تاسف انگیز ہے۔۱۳؎ آپ نے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر کو تحریر کیا کہ دیوبند اور ندوہ جیسے مدرسوں سے ذہین اور طباع طلبا منتخب کرکے انھیں اقتصادیات اور اجتماعیات کے ساتھ فقہ اور جدید قانون سازی کے اُصول کی تعلیم دی جائے۔ بلکہ اُن میں سے بعض کو انٹرمیڈیت کرلینے کے بعد ایل ایل بی کا امتحان پاس کراکے وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے۔ یا انھیں علوم طبیعی، ریاضیات، فلسفہ وغیرہ میں انتخاب کرنے کو کہا جائے تاکہ افکار جدیدہ اور سائنس سے متعارف ہوجائیں۔ اقبال کی رائے میں دوسری منزل میں اُنھیں اسلام کے مختلف فرقوں، اسلامی اخلاقیات و فلسفہ، مابعد الطبیعیات، دینیات، کلام اور فقہ پر مجتہدانہ خطبات دینے کے لیے تیار کیا جائے۔ ان میں سے جو خالص سائنسی تحقیق کا ذوق رکھتے ہوں، ان کو ان کے میلانات طبعی کے مطابق جدید ریاضیات، سائنس اور ٹیکنالوجی کی مکمل تعلیم دی جائے۔ اسلامی تمدن کے ایسے کورس میں مسلم آرٹ اور فن تعمیر کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ نیز جو افراد یہ نصاب اختیار کریں ان کے لیے جرمن اور فرانسیسی زبانوں کا حسب ضرورت جاننا از بس ضروری قرار دیا جائے۔ اقبال مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کو یہ تمام تجاویز اس لیے پیش کررہے تھے کہ ان کی نگاہ میں ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علما و واعظین انجام دے رہے ہیں جو اس خدمت کی انجام دہی کے اہل نہیں ہیں کیونکہ بقول اقبال ان کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے۔۱۴؎ اقبال کے نزدیک اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ لیکن ’’روحانی جمہوریت‘‘ سے اُن کی مراد کیا ہے؟ بعض اقبال شناسوں کے خیال میں اس سے مراد ان کی تخیلی اسلامی ریاست میں اسلام کے مختلف فرقوں کو برداشت یا قبول کرنا ہے۔ لیکن اقبال کی تحریروں کی روشنی میں ان کا یہ تصور صرف اسلامی فرقوں کو قبول کرنے تک محدود نہیں بلکہ اُس میں خصوصی طور پر غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی شامل ہے۔۱۵؎ اگرچہ اقبال نے اپنے اس تصور کی وضاحت نہیں کی، مگر ہوسکتا ہے کہ یہ تحریر کرتے وقت ان کے ذہن میں ’’میثاق مدینہ‘‘ ہو جو مسلم، یہودی، مسیحی اور کافر لوگوں پر مشتمل ایک وفاقی جمہوری طرز کی آئینی تحریر تھی جس میں اِن سب کو ’’امت واحدۃ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔۱۶؎ یا اقبال نے اس استدلال کی بنا سورۃ المائدہ کی آیت۴۸ پر رکھی ہو، جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی آزمائش کی خاطر ایک ہی مذہب کے بجائے ان میں سے ہر ایک کے لیے علیحدہ شریعت اور راہِ عمل ترتیب دی۔ مگر ساتھ ہی حکم دے دیا کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ بالآخر تم سب اللہ کی طرف لوٹو گے تو وہ تمھیں حقیقت بتادے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔ آخر میں جب اقبال ’’توحید‘‘ کی تعبیر بطور انسانی اتحاد، مساوات اور آزادی کرتے ہیں تو اس کا منطقی تقاضا اسلام کو ایک ایسی جمہوریت قرار دینے ہی سے ہوسکتا ہے جو ’’روحانی‘‘ نوعیت کی ہو۔ اگر ’’میثاق مدینہ‘‘ اور سورۃ المائدہ کی آیت۴۸ ہی اقبال کے اس استدلال کی بنیاد ہیں تو ظاہر ہے ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا عملی اطلاق اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ ریاست میں مسلم فرقوں اور غیر مسلموں میں امتیاز بحیثیت شہری نہ کیا جائے۔ علاوہ اس کے شیعہ و سنّی یا غیرمسلم اقلیتوں کے سول قوانین معروضی ہونے کے باعث رائج لیگل سسٹم کے تحت اگر کسی بھی عقیدے کا جج کسی بھی مذہبی فرقے کے قضیوں کا فیصلہ اس کے پرسنل لاء کے تحت کرسکتا ہے تو اسی طرح ہر مذہب و مسلک کے منتخب ممبران اسمبلی کسی بھی قسم کی قانون سازی پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرنے یا اُس کے حق میں یا خلاف ووٹ دینے کے مجاز سمجھے جائیں گے۔ مطلب یہ کہ اقبال کی رائے میں غیر مسلم اراکین اسمبلی ’’اجماع‘‘ کی صورت میں اجتہاد میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک وہ کون سے اسلامی مسائل ہیں جن سے متعلق قانون سازی کے لیے اجتہاد کی ضرورت ہے؟ اپنے معروف خطبہ میں مسلم عائلی قوانین میں اصلاح کی خاطر اسمبلی میں قانون سازی پر اصرار کرتے ہیں۔ مگر خطبہ کے ساتھ اقبال کی دیگر نثری تحریروں پر نگاہ ڈالی جائے تو ان کے ذہنی رجحانات کا پتا چلتا ہے۔ مثلاً مخصوص حالات میں قرآنی احکام یا اجازتوں کی تحدید، توسیع یا انھیں التوا میں رکھنے کے قائل ہیں۔ اسلامی قوانین جرائم یا حدود کے سختی سے اطلاق کے خلاف ہیں۔۱۷؎ خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں قانون سازی پر اعتراض نہیں کرتے۔ کثرت ازدواج پر پابندی کے قانون کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ جاگیرداری کے خاتمہ کے لیے اسلامی قانون وراثت کی سختی سے پابندی چاہتے ہیں۔ ملکیت اراضی کی حد متعین کرنے کی خاطر قانون سازی کو شریعت کے خلاف خیال نہیں کرتے۔ اگریکلچرل پروڈیوس (فصلوں سے آمدنی) پر انکم ٹیکس لگانے کے حامی ہیں۔ بے زمین کسانوں کو سرکاری اراضی دینے یا صنعتی مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کو اسلامی احکام کے مطابق سمجھتے ہیں۔ انشورنس کمپنیوں کے قیام یا مسلمانوں میں لائف انشورنس کرانے کے رجحان کے مخالف نہیں۔ فری مارکیٹ اکانومی کے فروغ کے لیے بینکوں میں رقوم کے ڈیپازٹ پر منافع، قرضوں پر سود یا کمپنیوں میں حصص سے اخذ کردہ آمدنی کو ربوا نہیں سمجھتے۔ اکثریت و اقلیتوں کے مذاہب کے احترام کے پیش نظر ’’توہین بانیان ادیان‘‘ پر سزا کے قانون کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مسلم فرقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کی خاطر ریاست میں مذہبی امور کے شعبہ کی علیحدگی کو ’’چرچ‘‘ اور ’’سٹیٹ‘‘ کا الگ ہونا تصور نہیں کرتے بلکہ اُسے ’’فنکشنل‘‘ یا انتظامی ضرورت سمجھتے ہوئے مساجد پر کنٹرول اور ان میں خطیبوں یا اماموں کے حکومت کی طرف سے تقرر، اور مدرسوں کے یونی ورسٹیوں کے ساتھ الحاق، ریاست کے ذمہ ڈالتے ہوئے ایسے اقدام کو اسلامی احکام کے مطابق خیال کرتے ہیں۔۱۸؎ آخری سوال: کیا پاکستان میں اسلامی قانون سازی کے لیے اقبال کے تصور اجتہاد کو برسرعمل لایا جاسکتا ہے؟ جواب ہے پاکستان میں ’’اسلامائزیشن‘‘ ایک الگ موضوع ہے، جو علیحدہ مطالعہ کا تقاضا کرتا ہے۔ اب تک یہاں جو ’’اسلامائزیشن‘‘ ہوئی ہے، وہ اجتہادی نوعیت کی نہیں۔ بلکہ ایسے بیشتر قوانین ایک عسکری آمر نے قدامت پسند مذہبی رہنماؤں کی حمایت کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ کے بغیر، صدارتی فرامین کے ذریعے نافذ کیے اور پارلیمنٹ نے بغیر کسی اجتہادی بحث کے اُنھیں قبول کرلیا۔ اس لیے اقبال کے تصور اجتہاد کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ اقبال کے نظریے کہ اسلامی قانون سازی میں پارلیمنٹ بطور ’’اجماع‘‘ اجتہاد کرے، پر بڑا اعتراض یہی ہے کہ منتخب اراکین اسمبلی اس قابل نہیں کہ اجتہاد کرسکیں۔ مگر اقبال کے بیانات سے ظاہر ہے کہ جدید علوم سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے علما و فقہا بھی اس قابل نہیں کہ وقت کے جدید تقاضوں سے عہدہ برآ ہوسکنے کی خاطر اسلامی قانون سازی کے معاملہ میں اسمبلی کے منتخب اراکین کی رہبری کرسکیں، نیز اس مقصد کے حصول کی خاطر اقبال کی تجویز کے مطابق جس قسم کی تعلیم سے آراستہ وکلا اور ماہرین کی ضرورت ہے، وہ بھی موجود نہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود اقبال کا یہ دعویٰ ہے کہ چونکہ شریعت اسلامی فطرتاً جامد نہیں، اس لیے علما و فقہا کی قدامت پسندی اُسے وقت کے جدید تقاضوں سے عہدہ برآ ہوسکنے کے لیے متحرک ہونے سے روک نہیں سکتی۔۱۹؎ اس دعوے کی صداقت کو جانچنے کی خاطر ہمیں دریافت کرنا چاہیے کہ دنیائے اسلام کی دیگر قومی ریاستوں میں کس نوعیت کے اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ مثلاً انڈونیشیا کے اسلامی قانون وراثت میں بیٹے اور بیٹی کا حصہ برابر ہے یا وہاں بین المذاہب ’’نکاح‘‘ کی شرعاً اجازت ہے۔۲۰؎ اسی طرح جن ملکوں میں ’’زنا‘‘ کے جرم کی سزا رجم یا موت ہے، وہاں چار عورتوں تک کسی مرد کے ’’علانیہ‘‘ مستقل نکاح کے علاوہ مرد اور عورت کے درمیان ’’خفیہ‘‘ طور پر ایران میں ’’صیغہ‘‘ اور سعودی عرب میں ’’مسیار‘‘ جیسے معاہدوں کے ذریعے ’’عارضی‘‘ جنسی تعلقات استوار کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔۲۱؎ اگر یہ قوانین ہمارے تصور اسلامی شریعت کے مطابق نہیں تو یہ جاننا ضروری ہوگا کہ کس قسم کے اجتہاد، مطلق یا تقلیدی، کی بناپر ایسے قوانین کے حق میں ان ملکوں کے علما و فقہا نے فتوے صادر کیے ہیں۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے، اُن کا تصور ریاست اسلامی بھی ہے، جمہوری بھی، فلاحی بھی اور انسانی بھی۔ مگر اُسے جدید بنانے کی خاطر جس طریق اجتہاد کا اختیار وہ پارلیمنٹ کو دیتے ہیں، اسے پاکستان میں عمل میں لائے جانے کا فی الحال کوئی امکان نہیں، کیونکہ اس کے لیے پاکستانی مسلم قوم ابھی تیار نہیں ہے۔ بلکہ ابھی تو پاکستان میں مستقل طور پر جمہوریت کے قیام کی خاطر تگ و دو جاری ہے۔ اقبال کی جدیدیت کو اپنا سکنا تو دور کی بات ہے۔ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ٭اسلامی نظریاتی کونسل کے یوم تاسیس کے موقع پر پڑھا گیا۔ ۱- علامہ محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (انگریزی) پبلشرز شیخ محمد اشرف، ۱۹۸۲،ص۱۵۷۔ ۲- ایضاً،ص۱۵۴،۱۸۰۔ ۳- ایضاً،ص۱۵۷۔ ۴- ایضاً، ص۱۵۷۔ ۵- ایضاً،ص۱۷۶۔ ۶- ایضاً، ص۱۲۶۔ ۷- علی عباس جلالپوری ، اقبال کا علمِ کلام، آئینہ ادب ، لاہور، ۱۹۷۲ء ،ص ۵۰،۵۱۔ ۸- ڈاکٹر جاوید اقبال ،زندہ رود، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ئ،ص۲۲۷۔ ۹- ایضاً،ص۲۳۹ -۱۴۲۔ ۱۰- ڈاکٹر جاوید اقبال ،خطبات اقبال: تسہیل و تفہیم، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۸،ص۶۔ ۱۱- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (انگریزی)،ص۱۷۵،۱۷۶۔ ۱۲- زندہ رود، ص۲۳۲،۲۳۳۔ ۱۳- ایضاً،ص۲۳۹-۲۴۱۔ ۱۴- ایضاً،ص۲۳۲،۲۳۳۔ ۱۵- اے-آر طارق ،اقبال کی تقریریں اور بیانات (انگریزی) ، پبلشرز شیخ غلام علی اینڈ سنز،۱۹۷۳،ص۱۰۔ ۱۶- منٹگمری واٹ، محمدؐ مدینہ میں(انگریزی)،۱۹۶۲،ص۱۲۲-۲۲۵ (انگریزی ترجمہ ’’میثاق مدینہ‘‘)۔ ۱۷- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (انگریزی)،ص۷۲۔ ۱۸- یہ مواد علامہ اقبال کے مختلف بیانات یا تحریروں سے اخذ کیا گیا ہے۔ ۱۹- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (انگریزی)،ص۱۶۴۔ ۲۰- سہ ماہی جرنل، اجتہاد، دسمبر۲۰۰۷، کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی، اسلام آباد،ص۱۰۴۔ ۲۱- مہرین ہمدانی ،دی ہیرولڈ (انگریزی)، جون۲۰۰۸، مضمون ’’ضرورت کی شادی‘‘ ۔ ئ……ئ……ء اقبال کے تصورِ جمہوریت پر اعتراضات کا جائزہ ڈاکٹر ایوب صابر علامہ اقبال نے ریاست کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس ضمن میں جمہوریت بھی زیربحث آئی ہے۔ اقبال نے جمہوریت کے بارے میں اپنی جس رائے کا اظہار کیا ہے اس کی حمایت اور مخالفت میں دونوں طرح کی آرا موجود ہیں۔ مخالفت کرنے والوں میں مختلف نظریات سے وابستہ مصنفین کے علاوہ بعض ماہرین اقبالیات بھی شامل ہیں۔ نظریات سے تعلق رکھنے والوں کے پیشِ نظر تو اقبال کے نظریے کو منہدم کرنا تھا لیکن ماہرینِ اقبالیات کی آرا کا جائزہ بتاتا ہے کہ انھوں نے اقبال کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ جذبات سے مملواس تلخ نزاع کا ایک سبب اقبال کی غلط تفہیم اور دوسرا سبب اقبال کا جزوی مطالعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نے اقبال کو مغربی جمہوریت کا حامی قرار دے کر ہدف تنقید بنایا اور کسی نے جمہوریت مخالف سمجھ کر برہمی کا اظہار کیا۔ اس مضمون میں اقبال کی مخالفتِ جمہوریت اور اقبال کے کلام نظم و نثر کے حوالے سے اعتراضات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اقبال اور جمہوریت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اقبال کی فکری رہ نمائی پر اتفاقِ رائے پیدا ہونے کے بجائے فکری انتشار میں اضافہ ہوا ہے۔ اقبال کی مخالفتِ جمہوریت پر سِکہ بند معترضینِ اقبال کے علاوہ ان دانشوروں نے بھی اعتراضات کیے ہیں جو ماہرینِ اقبالیات کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ محدود مطالعے، کم نظری اور تعصبات نے ایسے گل کھلائے ہیں کہ حقیقت خرافات میں کھوگئی ہے۔ اس معاملے کا عبرتناک پہلو یہ ہے کہ اقبال کے جن اشعار کو سب سے زیادہ ہدفِ تنقید بنایا گیا ان کا مفہوم معترضینِ اقبال کے علاوہ اقبال کے ارادت مندوں نے بھی غلط سمجھا ہے۔ معتبر اقبال شناس پروفیسر محمد منور نے اقبال کے دفاع میں ایک مقالہ بعنوان Iqbal's Idea of Democracy تحریر کیا جو ان کی کتاب Dimensions of Iqbal میں شامل ہے۔ مضمون کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے: I make bold to deal with a topic which has assumed a form of bitter controversy charged with emotions. جذبات سے مملو اس تلخ نزاع کا ایک سبب اقبال کی غلط تفہیم اور دوسرا سبب اقبال کا جزوی مطالعہ ہے۔ حد یہ ہے کہ کسی نے اقبال کو مغربی جمہوریت کا حامی قرار دے کر ہدفِ اعتراض بنایا۱؎ اور کسی نے جمہوریت مخالف سمجھ کر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ زیادہ تعداد ایسے ہی معترضین کی ہے، چنانچہ اولاً اقبال کی مخالفتِ جمہوریت پر متعدد اعتراضات نقل کیے جائیں گے تاکہ معترضین کا موقف پوری طرح سامنے آجائے، ازاں بعد علامہ اقبال کے کلامِ نظم و نثر کے حوالے سے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا اور اقبال کے موقف کی وضاحت کی جائے گی۔ کانٹ ویل سمتھ کی کتابModern Islam in India اوّلاً ۱۹۴۳ء میں لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ سمتھ نے اقبال سے’ نجات دہندہ آمر‘کا تصور منسوب کرکے ایک بڑے مغالطے کا دروازہ کھول دیا۔ وہ لکھتا ہے: He depreciated the pitiful decadence of the West, and seeing some sham in capitalistic democracy, was led to condemn democracy as a system, and looked to a dictator-saviour to rescue society. "In Germany Hitler has founded a new era and so on....2 سرمایہ دارانہ جمہوریت کی مخالفت اشتراکی بھی کرتے ہیں اور یہ عنصر فکرِ اقبال اور اشتراکیت میں مشترک ہے، لیکن سمتھ اور اس کے دور کے دوسرے اشتراکی اقبال کو منہدم کرنے کے درپے تھے، اس لیے سمتھ نے ’نجات دہندہ آمر‘ کے ضمن میں سٹالن کی جگہ ہٹلر کا ذکر کیا ہے۔ اس دور کے دوسرے اشتراکیوں نے بھی اقبال کی تنقیدِ جمہوریت کو ہدفِ اعتراض بنایا ہے۔ اختر حسین رائے پوری نے اقبال پر فاشزم کا الزام عائد کیا۔ غلام ربانی عزیز نے اپنے مضمون ’’اقبال اور نظریۂ جمہوریت (اشتراکیت و اشتمالیت)‘‘ میں ایک طرف اقبال کو ’’رجعتِ قہقری‘‘ کی مثال بتایا اور دوسری طرف ’’روسی تشدد پسند انقلابی جماعت‘‘ کا فرد قرار دیا جب کہ لینن سے ’امن پسندانہ انقلاب‘ منسوب کیا۔ غلام ربانی عزیز علامہ اقبال کے بعض بظاہر جمہوریت مخالف اشعار نقل کرکے لکھتے ہیں: رجعتِ قہقری کی ایسی مثال شاید ہی اور کہیں مل سکے۔ اقبال کے خلاف یہ عام شکایت ہے کہ وہ حال یا مستقبل کی بجائے ماضی کا شاعر ہے۔ وہ گزشتہ تاریخ کو دہرا کر قوم کو پھر سے وہیں لے جانا چاہتا ہے جہاں سے یہ قافلہ چودہ سو سال پہلے چلا تھا۔۳؎ موصوف نے اپنے مضمون کی تان ان جملوں پر توڑی ہے: دنیا میں جو انقلاب بھی آیا، ماردھاڑ اور قتل و غارت کے بغیر کامیاب نہ ہوسکا، روس کا انقلاب لینن کی کوششوں کا مرہون منت ہے جو صلح و آشتی سے دنیا میں انقلاب لانا چاہتا تھا۔ چنانچہ جب تک زندہ رہا اس کی کوششیں امن پسندانہ انقلاب پر مرکوز رہیں۔ مگر روسی انقلابیوں میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جو جبر و تشدد کی قائل تھی تاکہ انسانیت سرمایہ داری کے مظالم سے جلد تر نجات پاسکے۔ اقبال بھی اسی تشدد پسند انقلابی جماعت کا فرد ہے۔ کلام اقبال کے حوالے دے کر راجندرناتھ شیدا نے لکھا تھا: وہی ’جہد برائے قوت و برتری‘ وہی ’اذیت میں استلذاذ، وہی ’غلبہ کا اخلاق‘ اور ’جنگ کی تہذیب‘۔ جب نطشے عوام اور جمہوریت کا خاکہ اُڑاتا ہے تو اقبال بھی جمہوریت کی جڑیں کھودنے لگتے ہیں۔۴؎ ہندو صاحبانِ علم میں سے ڈاکٹر راج بہادر گوڑ لکھتے ہیں: اقبال مغربی سامراج کے تحت بورژوا جمہوری اداروں کے زوال و انحطاط سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں جمہوریت کے نام سے نفرت ہوگئی… فرد پر ضرورت سے زیادہ زور اور ’انسانِ کامل‘ کی تلاش و جستجو نے اقبال کے قلم سے یہ مصرع اگلوایا ہے: کہ از مغز د و صدخر فکرِ انسانی نمی آید۔ اقبال کے ’انسان‘ اور عوام میں جو تاریخ ساز طاقت ہوتے ہیں اتنا بڑا ذہنی بعد تھا۔ اس مسئلہ میں اقبال کا رویہ ’فعال ہیرو اور بے حس و حرکت عوام‘ کی صدائے بازگشت سا لگتا ہے۔۵؎ ڈاکٹر کنورکرشن بالی لکھتے ہیں: سیاسی لحاظ سے اقبال نے دنیا کو کوئی نیا اور بہتر تصور نہیں دیا اور نہ ہی انھوں نے جدید دور کے جمہوری اور سماج وادی تصورات سے اتفاق کیا۔ سیاسی لحاظ سے وہ ایک پرانے انداز کے نظامِ حکومت کے حامی ہوگئے تھے۔ ان کی پسند کا وہ نظام دینی نظامِ حکومت تھا اور خصوصاً دینِ اسلام کی اساس پر مبنی نظامِ حکومت جسے اسلامی اصطلاح میں نظامِ خلافت کہا جاتا ہے۔۶؎ ڈاکٹر تارا چرن رستوگی نے لکھا ہے کہ: ... democracy too was bete noire to Iqbal. He extols and condemns the West, a dischotomy that he could never escape from. He no doubt wanted freedom but he hated democracy.7 اس ضمن میں علامہ اقبال کے مسلمان معترضین غیر مسلم معترضین سے پیچھے نہیں ہیں۔ ان معترضین میں مخالفینِ اقبال کے علاوہ وہ صاحبان بھی شامل ہیں جن کی خاص پہچان اقبالیات کے موضوع پر ان کا کام ہے۔ یہ کام بیشتر مثبت ہے لیکن کہیں کہیں منفی ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر وحید عشرت اس سلسلے کی نمایاں مثالیں ہیں۔ وحید عشرت نے اقبال کے اشعار نقل کرکے جمہوریت پر اقبال کے اعتراضات کو مرتب کیا ہے اور ازاں بعد ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: اس [جمہوریت] کے مقابلے میں جو نظام پیش کیے جاتے ہیں وہ بدترین آمرانہ استبدادیت کے نمونے ہیں جن میں افراد کو تولنا تو درکنار، گنا بھی نہیں جاتا۔ جمہوریت میں معاشرے کے افراد کی رائے تو پوچھی جاتی ہے جب کہ دوسرے نظامات میں قوت کے بل پر اقتدار میں آنے والا ہر آمر خود کو عقلِ کل، مردِ مومن اور انسانِ کامل ہی تصور کرتا ہے… دوسرا اعتراض بھی مہمل ہے یعنی اس سے اقتدار پر سرمایہ دار اور اہلِ ثروت ہی قابض ہوسکتے ہیں… تیسرا اعتراض بھی زیادہ توجہ کے لائق نہیں اس لیے کہ ایک انسان کے مقابل دو سو انسانوں کی رائے زیادہ معتبر تصور کی جانی چاہیے… اصل بات یہ ہے کہ ہر آمر خود کو عقلِ کل اور دوسروں کو گدھے ہی تصور کرتا ہے۔ یہی سائیکی ہے جو جمہوریت کے مخالفین کے بھی لاشعور میں موجود ہے۔ عوام کو گدھے کہنا اور آمروں کو عقلِ کل سمجھنا عوام کی توہین اور آمروں کی خوشامد کے سوا کچھ نہیں۔ ایسی باتوں سے آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے سوا اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے…چوتھا اعتراض اس وقت مہمل ہوجاتا ہے جب ہم جمہوریت کا مقابلہ دوسرے نظاموں سے کرتے اور دیکھتے ہیں کہ جمہوری حکمرانوں کی نسبت آمروں کا باطن چنگیز سے زیادہ تاریک تر ہے… آمریتیں تو فیصلے مسلط کرتی ہیں۔ طاقت سے، قوت سے اور خوف سے… ان کو چنگیز سے تاریک تر قرار دینا تک صائب ہے۔۸؎ ڈاکٹر سلیم اختر اقبال کے جمہوریت مخالف اشعار نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس نوع کے اشعار کا فائدہ (یانقصان) یہ ہوتا ہے کہ جہاں ان سے آمریت کو جواز اور تحفظ ملتا ہے وہاں یہ بھی ہے کہ آمریت کے ستائے جب کبھی جمہوریت کا پودا سینچنے لگتے ہیں تو ایسے اشعار نہ صرف آڑے آتے ہیں بلکہ آمر پسند افراد اور مراعات یافتہ طبقہ کے لیے جمہوریت کشی کے لیے قوی دلیل کی صورت اختیار کرلیتے ہیں… وہ آج اگر زندہ ہوتے، انھوں نے آمریت میں زندگی بسر کی ہوتی اور مذہبی تشدد کے مظاہرے دیکھے ہوتے تو اس انداز کے اشعار پر دوبارہ غور کرتے: جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۹؎ اقبال کے سکہ بند مخالفین کے اعتراضات بھی وہی ہیں جو ڈاکٹر وحید عشرت اور ڈاکٹر سلیم اختر جیسے حامیانِ اقبال نے کیے ہیں۔ مخالفینِ اقبال میں یوسف ثانی شامل ہیں۔ انھوں نے دوسرے معترضینِ اقبال کی طرح پیامِ مشرق کی نظم ’جمہوریت‘ نقل کرکے خاصی خیال آرائی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اقبال نے اس نظم میں انسانوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ اور اسی تقسیم کے مطابق استعارات بھی استعمال کیے ہیں۔ ادنیٰ انسانوں یا عوام کے لیے ’’دوں فطرتاں‘‘، ’’موراں‘‘ اور ’’خَر‘‘ کے استعارات استعمال کیے ہیں جب کہ اعلیٰ انسانوں کے لیے ’’سلیمانے‘‘، ’’پختہ کارے‘‘ اور ’’انسانی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مزید ادنیٰ اور اعلیٰ کی تمیز افلاطونی معیار کے مطابق کی گئی ہے۔ اس معیار کے مطابق ادنیٰ لوگ (عوام) ’’معنی بیگانہ‘‘ forms یا مستقل اقدار کا علم نہیں رکھتے۔ یہ علم صرف تربیت یافتہ فلسفی ہی حاصل کرسکتے ہیں اور یہی فلسفی حکمرانی کرسکتے ہیں۔۱۰؎ یوسف ثانی مزید لکھتے ہیں: ان اشعار میں اقبال نے عوام کی توہین کی ہے۔ ان اشعار سے بلامبالغہ فسطائیت کی بوآتی ہے... عوام کی اکثریت (فکرِ دو صد خر) کی فکر ادنیٰ اور ایک ’’پختہ کار‘‘ انسان (مردِ کامل، فلسفی یا افلاطون کا بادشاہ فلسفی) کی فکر اعلیٰ ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں جمہوری سیاست میں حصہ لینے والے عوام کو اقبال نے واقعی گدھوں میں تبدیل کردیا ہے۔ اقبال کا لبرل جمہوریت کا متبادل بھی کوئی اتنا پرکشش نہیں کیونکہ یہ متبادل (غلامِ پختہ کارے شو) شخصی آمریت ہے، چاہے وہ خدا کے نام پر ہو یا بندے کے نام پر، ہمیشہ ظالمانہ ہوتی ہے۔ دنیا کے شہنشاہی نظام ہمیشہ خدا کے عطا کردہ حق Divine right کے نام پر صدیوں اپنی رعایا کو نشانۂ ستم بناتے رہے ہیں۔ خدا کے نام پر حکومتیں حکمرانوں کو عملاً خدا بنادیتی ہیں۔۱۱؎ شمیم رجز نے بھی، اپنی توفیق و حیثیت کے مطابق، جمہوریت کے ضمن میں علامہ اقبال کو برا بھلا کہا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ سر اقبال جمہوریت کے سخت مخالف تھے اور انگریز کا مفاد بھی اسی میں تھا کہ ہندوستان میں جمہوریت کا نام نہ لیا جائے۔ سراقبال نے جمہوریت کی مخالفت اس لیے بھی کی کہ وہ نطشے کے پیرو تھے، نطشے بھی جمہوریت کا مخالف تھا۔ آزادیِ افکار کو ابلیس کی ایجاد کَہ کر سراقبال نے انگریز کی محبت میں کذب بیانی سے کام لیا ہے اور سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کی ہاں میں ہاں ملائی ہے۔ سراقبال جمہوریت کی مخالفت کرکے قرآن اور سیرتِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا یہ پیغام، پیغامِ مصطفیٰ سے کوئی سروکار نہیں رکھتا بلکہ اس کی تردید کرتا ہے۔۱۲؎ اس نوع کی الزام تراشیاں متعدد دانشوروں نے کی ہیں۔۱۳؎ اقبال کے خلاف تیار کردہ فردِ جرم میں یہ تین الزامات سرفہرست ہیں: علامہ اقبال نے گدھے قرار دے کر عوام کی توہین کی ہے، انھوں نے آمریت کے ہاتھ مضبوط کیے اور انھیں جمہوریت سے نفرت تھی۔ یہ الزامات، دوسرے جملہ الزامات سمیت، غلط اس لیے ہیں کہ کلامِ اقبال کی غلط تفہیم اور ناقص مطالعے پر مبنی ہیں۔ معترضینِ اقبال کے علاوہ اکثر معروف ماہرینِ اقبالیات نے بھی پیامِ مشرق میں شامل مختصر نظم ’جمہوریت‘ کا مفہوم متعین کرنے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ چونکہ پارلیمانی اجتہاد اور اسلامی ریاست کی طرح جمہوریت کا معاملہ بھی ملکی و ملی نقطۂ نظر سے اہم اور ان امور سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس پر، علامہ اقبال کے حوالے سے سنجیدہ نظرڈالنے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ نظم جس کی غلط تفہیم کی بنیاد پر اقبال سخت اعتراضات کا ہدف بنے ہیں؛ یہ ہے: متاعِ معنیِ بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی زموراں شوخیِ طبعِ سلیمانے نمی آید گریزاز طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمی آید اس نظم کے معنی اقبال کے کلامِ نظم و نثر کے تناظر میں متعین نہیں کیے گئے، اس لیے مغالطہ پیدا ہوا؛ چنانچہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین اقبال کی ترجمانی نیز دفاع کرتے ہوئے، لکھتے ہیں: رواجی جمہوریت کا یہ طریقِ کار غلط ہے کہ اکثریت کی رائے کو قوم کے بہترین شخص کی رائے پر بھی ترجیح دی جائے، خواہ اکثریت کی رائے اس کی رائے سے کیسی ہی مختلف اور کیسی ہی گھٹیا کیوں نہ ہو۔ اقبال بڑے زوردار الفاظ میں ایسی جمہوریت کی مخالفت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم ایک اچھوتے اور حکیمانہ خیال کی توقع ایسے لوگوں سے کرتے ہو جو جاہل اور پست فطرت ہیں۔ کہاں چیونٹی اور کہاں حضرتِ سلیمان۔ ہم ایک چیونٹی سے حضرت سلیمان کی سی ذہانتِ طبع کی توقع نہیں کرسکتے۔ اس رواجی جمہوریت کو ترک کردو کیونکہ اگر دو سو گدھے بھی جمع ہوجائیں تو ان سے انسان کے فکر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔۱۴؎ اس ترجمانی میں محض جزوی صداقت ہے۔ جو غلط نتیجہ اخذ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اقبال نے چیونٹیوں اور دو سو گدھوں کے جو استعارے استعمال کیے ہیں ان سے مراد جاہل اور پست فطرت عوام ہیں۔ آل احمد سرور نے اپنی عمر کے آخری دور میں فکرِ اقبال خصوصاً اقبال کے اسلامی تصورِ قومیت پر بعض اعتراضات ضرور کیے ہیں لیکن وہ ماہرینِ اقبالیات میں اہم مقام کے حامل ہیں۔ اپنے مضمون ’اقبال اور جمہوریت‘ میں وہ بھی مذکورہ قطعے سے یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ ’’اقبال جمہور یا عوام کے دلدادہ نہیں۔‘‘۱۵؎ پروفیسر محمد منور نے بھی جو اقبال کے سچے شیدائی ہیں اور اکثر تفہیم اقبال کا حق ادا کیا ہے، Common low grade people بطور ترجمہ لکھ کر یہ ظاہر کیا ہے کہ ’موراں‘ اور ’دوں فطرتاں‘ سے مراد عوام ہیں۔۱۶؎ ڈاکٹر صدیق جاوید نے بھی ’دوں فطرتاں‘ اور ’دو صد خر‘سے عوام مراد لیے ہیں۔۱۷؎ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے البتہ یہ غلط رائے ظاہر نہیں کی اور جزواً صحیح معنی کے قریب پہنچ کر کسی دوسری طرف متوجہ ہوگئے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’دوسوگدھے بھی اگر ایک ایوان میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کے لیے جمع ہوجائیں تو کوئی انسانیت کی آواز وہاں سنائی نہیں دے سکتی۔‘‘۱۸؎ ڈاکٹر خلیفہ نے عوام کو نہیں بلکہ زمین داری اور سرمایہ داری نیز ذلیل دروغ بافی کی بنا پر منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچنے والوں کو گدھے قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ بعض مشرقی ممالک کے حوالے سے جمہوری نمایندوں کے انتخاب و کردار کو زیربحث لارہے ہیں اور اگرچہ اقبال کے ان اشعار کی معنویت کو مشرق تک وسیع کرنا غلط نہیں لیکن اقبال کی اس نظم کا اصلی تناظر مشرقی نہیں بلکہ مغربی ہے۔ مذکورہ نظم کی درست تفہیم کے لیے بعض الفاظ و تراکیب کے معنوں کا تعین، اقبال کے کلامِ نظم و نثر کے تناظر میں، ضروری ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’جمہوریت‘۔ اس لفظ سے مراد واضح طور پر اور بہرحال ’مغربی جمہوریت‘ ہے۔ کلامِ اقبال [اور اس نظم میں بھی] ’جمہوریت‘ پر جو تنقید ہے وہ تمام تر سرمایہ دارانہ مغربی جمہوریت پر ہے۔ ’خضرِ راہ‘ کم و بیش اسی زمانے کی نظم ہے۔ اس نظم کے مصرعے ’’ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام‘‘ سے اقبال کے موضوع و موقف کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس نظم کی تفہیم کے لیے متاعِ معنیِ بیگانہ‘ بنیادی ترکیب ہے جس سے عموماً چشم پوشی کی گئی ہے۔ کسی نے اس کے معنی بیان بھی کیے ہیں تو الل ٹپ طریقے سے بیان کیے ہیں چنانچہ اس ترکیب کو غلط معنی پہنائے ہیں۔۱۹؎ معترضین اپنی ہی تحریروں پر غور کرلیتے تو بھی ’معنیِ بیگانہ‘ کا مفہوم واضح ہوجاتا۔ ڈاکٹر سلیم اختر اپنے مضمون بعنوان ’’موجودہ سیاسی صورتِ حال اور اقبال‘‘ میں رقم طراز ہیں: عام تصور کے برعکس جمہوریت جداگانہ سیاسی عمل نہیں بلکہ یہ وطنیت اور قومیت سے تشکیل پانے والی اس سیاسی مثلث کا ایک زاویہ ہے جو اپنی اساس میں مغربی ہی نہیں افلاطون جتنی قدیم بھی ہے۔ اس ضمن میں کلامِ اقبال سے استفادے میں سب سے بڑی الجھن یہی پیش آتی ہے کہ اقبال وطن، قوم، جمہوریت… تینوں کے مخالف ہیں جب کہ گزشتہ نصف صدی میں مسلم ممالک میں مغربی استبداد کے خلاف تمام تحریکیں قومیت اور وطنیت کی داعی تھیں۔۲۰؎ آگے چل کر اقبال کے دفاع میں ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ اقبال کے جمہوریت کش اشعار سے آمریت کو تقویت دیتے وقت یہ اساسی حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ ’’علامہ نے غلام ہندوستان میں مسلمانوں کی عددی اقلیت کی بنا پر جمہوریت کے خلاف اشعار لکھے تھے۔‘‘ بات یہ نہیں ہے۔ اقبال نے جمہور، جمہوریت اور اسلامی قومیت کی حمایت بھی اسی دور میں کی ہے۔ ان کے نزدیک مسلم اکثریتی ممالک میں وطن اور اسلام ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ مغربی استبداد کے خلاف اصل قوت اسلام کی ہے اور وطنی و علاقائی قومیتوں کے نعرے بلند کرنے والی قیادتوں کا کردار وقتی و عارضی رہا ہے۔ اس دور کا سب سے بڑا واقعہ پاکستان کا قیام ہے جو اسلامی قومیت کی دین ہے۔ جمہوریت اور نیشنلزم کی مثلث کا تیسرا زاویہ سرمایہ داری نظام ہے۔ اقبال اس سرمایہ داری نظام کے مخالف ہیں۔ وہ جمہوریت جو نظامِ سرمایہ داری پر استوار ہے اور وطنی قومیت کی سرحد عبور کرتے ہی جارحیت، سامراج، استعمار اور استبداد کی شکل اختیار کرلیتی ہے، اقبال اس کے بھی مخالف ہیں۔ ’معنیِ بیگانہ‘ کا مفہوم متعین کرنے سے پہلے یہ تصریحات ضروری تھیں۔ سرمایہ داری نظام دنیا و آخرت میں سے صرف دنیا کو پیشِ نظر رکھتا ہے، مادہ پرستانہ ہے اور سودپر مبنی ہے۔ اسلامی معیشت حلال و حرام میں تمیز کرتی ہے اور اسلام کا اقتصادی نظام اخلاقی اقدار سے جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ داری نظام استحصال کی الگ تاریخ رکھتا ہے جس سے اسلامی فکر ناآشنا ہے۔ اسی طرح وطنی و نسلی قوم پرستی توحید کے منافی ہے۔ مغرب کا جمہوری نظام سرمایہ دارانہ ہے اور قوم پرستانہ ہے۔ اس کا تمام تر ارتقا مغرب میں ہوا ہے اور اسلامی فکر کے لیے اجنبی ہے۔ اقبال نے اس کے لیے ’’متاعِ معنیِ بیگانہ‘‘ کی ترکیب بمعنی ’متاعِ فکرِ غیر‘ استعمال کی ہے۔ ڈاکٹر بالی کا اعتراض بھی اسی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ اقبال پرانے انداز کے نظامِ حکومت کے حامی ہوگئے تھے، جسے اصطلاح میں اسلامی نظامِ خلافت کہا جاتا ہے؛ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان جس نظام کو اپنا تصور کرتے ہیں وہ نظامِ خلافت ہے۔ پرانا کَہ کر ڈاکٹر بالی نے اس کا استخفاف کیا ہے۔ نظامِ خلافت ابدی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال سائنسی ایجادات کی طرح نئے اداروں کو قبول کرتے ہیں اور خلافت کے اختیارات پارلیمان کو سونپ دینے کے حامی ہیں۔ نظامِ خلافت میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کے لیے وقف ہوتی ہے اور اس سے عوام و حکمران ایک سطح پر رہتے ہیں۔ سرمایہ داری کا استبداد، قوم پرستی کی بنیاد پر سامراجی عزائم اور اللہ کی حاکمیت کو منسوخ کرکے عوامی حکمرانی کے نام پر سرمایہ داروں کا اقتدار پر قبضہ نیز حِسّی اور بے حیا تہذیب کو فروغ دینے والی قانون سازی؛ یہ سب کچھ اسلام کے لیے ’معنیِ بیگانہ‘ ہے۔ چنانچہ ’معنی بیگانہ‘ کا مفہوم ’اجنبی فکر‘ یا ’’فکرِ غیر‘‘ کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ زیرِ بحث نظم کے پہلے مصرعے میں ایک اور لفظ قابلِ توجہ، قابلِ غور اور تحقیق طلب ہے۔ یہ لفظ ہے ’دوں فطرتاں‘۔ اقبال نے یہ لفظ کس کے لیے استعمال کیا ہے؟ ماہرینِ اقبالیات اور معترضین و مخالفینِ اقبال سب اس پر متفق ہیں کہ اس لفظ کا اطلاق عوام پر ہوا ہے۔ ان کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ نظم میں استعمال شدہ استعارے ’موراں‘ اور ’دوصدخر‘ سے بھی عوام مراد ہیں۔ علامہ اقبال نے عوام کو دوں فطرت قرار دیا ہے اور چیونٹیوں سے تشبیہ دی ہے اور انھیں گدھے کہا ہے۔ معترضینِ اقبال لکھتے ہیں کہ اقبال نے عوام کی توہین کی ہے اور آمریت کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں اور اس امر کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن کیا اقبال نے واقعتاً عوام ہی کو گدھے کہا ہے اور عوام ہی کو ’’دوں فطرت‘ قرار دیا ہے؟ یہ پہلا سوال ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر عوام دوں فطرت نہیں ہیں تو کون لوگ ہیں جن کے لیے ’دوں فطرتاں‘ جیسا حقارت آمیز لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس نکتے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی کہ ’معنیِ بیگانہ‘ یا فکرِ اغیار کی متاع عوام سے کیسے طلب کی جاسکتی ہے۔ فکرِ اغیار تو اغیار ہی سے طلب کی جاسکتی ہے اور ’دوں فطرتاں‘ کے لفظ کا اطلاق بھی انھی لوگوں پر ہوگا جو یہ متاع رکھتے ہیں اور جن سے یہ متاع طلب کی جارہی ہے۔ اس متاع سے نہ عوام کا کوئی تعلق ہے اور نہ عوام کو اقبال نے اس مقام پر یا کسی اور مقام پر ’دوں فطرت‘ قرار دیا ہے۔ جنھیں دوں فطرت اس مقام پر کہا ہے، ان کے لیے دوسرے مقامات پر بھی ایسے الفاظ روا رکھے ہیں۔ قصۂ اسکندر و جم کے خاتمے اور بیداریِ جمہور کا تو اقبال نے خیرمقدم کیا ہے۔ اسی دور کی نظم ’خضرِ راہ‘ [بانگ درا] کا شعر ہے: نغمۂ بیداریِ جمہور ہے سامانِ عیش قصۂ خواب آورِ اسکندر و جم کب تلک اس سے کچھ پہلے ۲۸جولائی ۱۹۱۷ء کو اقبال کا ایک مختصر سا مضمون TheNew Era، لکھنؤ، میں شائع ہوا تھا۔ یہ شذرہ توجہ چاہتا ہے اور فکرِ اقبال کی تفہیم کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اسے پورا نقل کرنا ضروری ہے: The Democracy of Europe---overshadowed by socialistic agitation and anarchical fear---originated mainly in the economic regeneration of European societies. Nietzshe, however abhores this 'rule of the herd' and hopeless of the plebeian, he bases all higher culture on the cultivation and growth of an Aristrocacy of Supermen. But is the plebeian so absolutely hopeless? The Democracy of Islam did not grow out of the extension of economic opportunity, it is a spirtual priniciple based on the assupmtion that every being is a centre of latent power the possibilities of which can be developed by cultivating a certian type of character. Out of the plebeian material Islam has formed men of the noblest type of life and power. Is not, then, the Democracy of early Islam and experimental reputation of the ideas of Nietzsche?21 اس اقتباس میں اقبال نے نطشے کے موقف کو، اسلامی نقطۂ نظر سے، مسترد کیا ہے۔ نطشے عوام کی حکمرانی [rule of the herd] کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسلام اور اقبال کا نقطۂ نظر اس کے برعکس ہے۔ یہ اقتباس متعدد معترضین کے اس الزام کی بھی تردید کرتا ہے کہ اقبال نے نطشے کی پیروی میں جمہوریت کی مخالفت کی ہے۔ اقبال نے مغربی اور اسلامی جمہوریت کا فرق و اختلاف کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔ یہاں بھی وہ ایک بنیادی فرق کی وضاحت کرتے ہیں جو معترضینِ اقبال کے علاوہ ان ماہرینِ اقبالیات کے لیے بھی غور طلب ہے جو ’دوں فطرتاں‘ اور ’دوصدخر‘ سے مراد عوام لیتے ہیں۔ اقبال بیان کرتے ہیں کہ یورپ کی جمہوریت بیشتر یورپی معاشروں کے اقتصادی ابھار سے وجود میں آئی جب کہ اسلامی جمہوریت کا نمو اقتصادی مواقع کا رہین منت نہیں ہے۔ یہ ایک روحانی اُصول ہے جو اس یقین پر استوار ہے کہ ہر فرد مخفی قوتوں کا ایک مرکز ہے۔ ان قوتوں کو ایک خاص طرح کی سیرت تشکیل کرکے ترقی دی جاسکتی ہے۔ اسلام نے ادنیٰ عامی اشخاص کے مسالے سے حیات و قوت کے بلند ترین نمونے تعمیر کیے ہیں۔ اقبال کا یہ نقطۂ نظر ان کی فکری زندگی کی ابتدا سے لے کر آخر تک ایک تواتر کے ساتھ مختلف تناظرات کے تحت مختلف اسالیب اختیار کرتے ہوئے نمایاں ہوتا رہا ہے۔ اقبال کہیں بھی عوام یا عام آدمیوں کی توہین نہیں کرتے بلکہ ان کی زندگی کی سطح کو بلند کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ۱۹۰۴ء کے مضمون ’قومی زندگی‘ میں مسلم عوام کی اقتصادی پسماندگی کا روح فرسا منظر پیش کیا ہے۔۲۲؎ اس میں دلسوزی تو ہے نفرت و حقارت نہیں ہے اور اقتصادی پسماندگی کا علاج صنعت و حرفت بتایا ہے۔ تان اس پر توڑی ہے کہ بڑھئی کے ہاتھ جو تیشے کے متواتر استعمال سے کھردرے ہوگئے ہیں، ان نرم ہاتھوں سے بدرجہا خوب صورت اور مفید ہیں جنھوں نے قلم کے سوا کسی اور چیز کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا۔۲۳؎ ۱۹۱۱ء کے خطبۂ علی گڑھ [The Muslim Community ...] میں ’’عام مسلمانوں کی سطح کو اونچا کرنے‘‘کی بات پھر زیرِ بحث ہے۔ جو نسخہ تجویز کررہے ہیں وہ ایک طرف صنعتی اور تجارتی تعلیم کا ہے اور دوسری طرف اخلاقی تربیت کا۔ اس اہم خطبے کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے: ’’اگر ہم اچھے کاریگر، اچھے دکاندار، اچھے اہلِ حرفہ اور (سب سے بڑھ کر یہ کہ) اچھے شہری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ انھیں اوّل پکا مسلمان بنائیں۔‘‘۲۴؎ پکے مسلمان کے دل و دماغ پر توحید اور شخصیتِ رسولؐ کے اثرات ہوتے ہیں۔ وہ کاریگر ہو، دکاندار ہو، اہلِ حرفہ ہو، کلرک ہو، کسان ہو، مزدور ہو یا زندگی کے دوسرے شعبوں سے متعلق ہو؛ اسلام اسے layman ہونے کے باوجود ایک بصیرت عطا کردیتا ہے۔ اقبال عام مسلمانوں کی اس بصیرت کو پارلیمان میں بروئے کار دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی بات ہے۔ اقبال پر لکھنے والوں کی اکثریت نے اس کی طرف توجہ نہیں دی جب کہ بعض نے اس کی مخالفت کی ہے۔ خطبۂ اجتہاد اوّلاً ۱۹۲۴ء میں تیار ہوا اور حتمی شکل ۱۹۲۹ء میں اختیار کی۔ اس میں اقبال لکھتے ہیں: The transfer of the power of Ijtihad from individual representatives of schools to a Muslim lagislative assembly which, in view of the growth of opposing sects, is the only possible form Ijma can take in modern times, will secure contributions to legal discussion from laymen who happen to possess a keen insight into affairs.25 سیّد نذیر نیازی نے layman کا ترجمہ ’غیر علما لیکن ماہران قانون‘ کیا ہے۔۲۶؎ یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ پارلیمان میں اسلامی یا جدید قانون کے ماہرین کے علاوہ سماجی اور سائنسی علوم کے ماہرین بھی آسکتے ہیں۔ زراعت، طب، صنعت و حرفت اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد بھی منتخب ہوسکتے ہیں۔ layman کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے۔ ایک عام پڑھا لکھا یا ان پڑھ بھی layman ہے۔ بعض معترضینِ اقبال نے layman کو اسی مفہوم تک محدود کیا ہے۔۲۷؎ اگرچہ اس لفظ کا اطلاق، قانون سازی کے تناظر میں ان تمام افراد پر ہوگا جو ماہرینِ قانون نہیں ہیں۔ عام مسلمان بہرحال اس میں شامل ہیں۔ مزید تین برس بعد، خطبۂ لاہور میں، اقبال نے کہا کہ جدید مغربی سرمایہ داری نظام اپنی بے قید انفرادیت کے ساتھ ایشیا کی سمجھ سے باہر ہے۔ تم جس عقیدے کی نمایندگی کرتے ہو وہ فرد کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور اسے اپنا سب کچھ خدا اور انسان کی خدمت کے لیے قربان کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ اس عقیدے کے تمام امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ یہ اب بھی ایک نئی دنیا پیدا کرسکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں ذات، رنگ یا دولت کے پیمانے سے انسان کا سماجی مرتبہ متعین نہیں ہوتا بلکہ اس کی طرزِ زندگی سے متعین ہوتا ہے۔ جہاں غریب امیر پر ٹیکس عائد کرتا ہے۔ جہاں انسانی معاشرہ شکم کی بجائے روح کی مساوات پر قائم ہوتا ہے اور جہاں ذاتی ملکیت ایک امانت ہوتی ہے۔۲۸؎ حقیقی اسلامی تعلیمات پر مبنی اس اہم تحریر کی کوئی بھی دوسری تاویل ممکن نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ اقبال کے نزدیک عام مسلمان یا عوام اسے بھی اوپر اُٹھاتا ہے اور اعلیٰ مراتب پر فائز کرتا ہے۔ ہر انسان خواہ وہ خاص ہو یا عام ہو مخفی قوتوں کا ایک مرکز ہے۔ ایک خاص سیرت کے ذریعے ان قوتوں کو ترقی دی جاسکتی ہے، چنانچہ بقول اقبال اسلام نے ادنیٰ عامی اشخاص کے مسالے سے حیات و قوت کے بلند ترین نمونے تعمیر کیے ہیں۔ اقبال خود بھی عوام کو اوپر اُٹھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مثلاً ’شمع اور شاعر‘ [بانگ درا] کا وہ بند اہمیت رکھتا ہے جس کا مصرع ہے: آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں! ذرا۔ ’خضرِ راہ‘ [بانگ درا] میں عوام کی فطرت کو ’تجلی زار‘ کہا ہے: اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے! نغمۂ بیداریِ جمہور ہے سامانِ عیش قصۂ خواب آورِ اسکندر و جم کب تلک کرمکِ ناداں طوافِ شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو! یہ تو واضح ہوگیا کہ اقبال نے ’دوں فطرتاں‘ کا لفظ [نیز ’موراں‘ اور ’دوصدخر‘ کے الفاظ] عوام کے لیے استعمال نہیں کیے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ الفاظ کس کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ حسبِ ذیل اشعار پر غور کرنے سے مسئلہ صاف ہوجاتا ہے: تری حریف ہے یا رب سیاستِ افرنگ مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس۲۹؎ مری نگاہ میں ہے یہ سیاستِ لادیں کنیزِ اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیوِ بے زنجیر۳۰؎ ’دو صد ہزار ابلیس‘، کی ترکیب معنویت اور تعدد دونوں کے اعتبار سے ’دوصدخر‘ سے بڑھ کر ہے۔ سیاستِ افرنگ کے یہ کھلاڑی فقط امیر و رئیس ہیں۔ ان کی سیاست ’لادین‘ ہے اور ترکِ کلیسا سے دیوِ بے زنجیر ہوگئی ہے۔ یہی وہ سیاست ہے جو یزداں کی نہیں بلکہ اہرمن کی کنیز ہے۔ ’دوں نہاد‘ ہے اور مردہ ضمیر ہے۔ زیرِ بحث نظم ’جمہوریت‘ میں انھی اہلِ سیاست کو ’موراں‘ بمقابلہ ’سلیمانے‘ کہا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ہدایت یافتہ تھے، لادین نہیں تھے۔ حق کے حلیف تھے نہ کہ حریف۔ مردِ پختہ کار تھے نہ کہ دوں نہاد و مردہ ضمیر۔ زیرِ بحث اشعار میں جن معترضینِ اقبال نے ’مردِ پختہ کار‘ اور ’سلیمانے‘ سے مراد ’آمر‘ لیے ہیں، ان کا فہمِ اقبال ناقص، اُلٹا اور گمراہ کن ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ’سلیمانؑ‘ کے اوصاف سے تفصیلی بحث کی ہے لیکن ’سلیمانؑ‘ کی ضد کا تعین غلط کیا ہے اور وہی خلطِ مبحث پیدا کردیا ہے جس میں ماہرینِ اقبالیات اور مخالفینِ اقبال دونوں مبتلا رہے ہیں۔ ایک مغالطے کا ازالہ کیا لیکن دوسرے کو اور گہرا کردیا۔ ڈاکٹر فراقی لکھتے ہیں: اسی پیامِ مشرق میں ان کا ایک قطعہ ’جمہوریت‘ کے زیرِ عنوان شامل ہے جس میں انھوں نے عوام کی عدمِ بصیرت، ان کی خاک افتادگی اور کم نظری کا ماتم کیا ہے۔ اس کے دوسرے شعرکا بالعموم بار بار حوالہ آتا ہے ... اس شعر کے پس منظر میں جہاں آدمی اور انسان کے گہرے روایتی تفاوت کی طرف اشارہ ہے، اس حقیقت کا بھی واشگاف اعلان ہے کہ گھٹیا سے بڑھیا کا صدور ناممکن ہے۔ مطلب نکالنے والوں نے تو اس شعر سے یہ مطلب بھی نکالا ہے کہ علامہ ’غلامِ پختہ کارے شو‘ کا سبق دے کر آمریت سے اپنی وابستگی کا اعلان کررہے ہیں لیکن وہ اسے پہلے شعر کے دوسرے مصرعے سے ملا کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں فرماتے جس میں چیونٹی کی رعایت سے ’طبعِ سلیمان‘ کا ذکر کیا گیا ہے ... وہ وسعتِ نظری جس میں مشورت کی حیثیت بنیادی تھی اور جسے ایک ایسا اعلیٰ جمہوری رویہ قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں انسانوں ہی کا نہیں، حیوانوں اور پرندوں کا موقف تحمل سے سننے کی روایت موجود ہے۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ حضرت سلیمانؑ جیسے جلیل القدر، خداترس، وسیع النظر، بسیط العلم، صاحبِ بصیرت، علامتوں کی زبان کے فہام اور صاحبِ اسم اعظم کو تنگ نظر، عیاش، خونخوار، مکار اور دوں فطرت آمروں اور شہنشاہوں پر قیاس کیا جائے۔۳۱؎ یہ بالکل درست ہے کہ سلیمان کے استعارے سے مراد تنگ نظر، عیاش، خونخوار، مکار اور دوں فطرت آمر اور شہنشاہ نہیں ہیں اور اقبال پر آمریت سے وابستگی کا الزام غلط ہے لیکن اس کے علاوہ ڈاکٹر فراقی نے بھی جو کچھ کہا ہے غلط کہا ہے۔ انھوں نے عوام سے عدمِ بصیرت، خاک افتادگی، کم نظری اور گھٹیاپن کی صفات علامہ اقبال کے دفاع میں ’دوں فطرتاں‘، ’موراں‘ اور ’دوصدخر‘ کے تناظر میں منسوب کی ہیں جب کہ اقبال نے نہ اس مقام پر اور نہ کسی دوسرے مقام پر یہ الفاظ عوام کے لیے استعمال کیے ہیں۔ اقبال کے نزدیک ’سلیمانے‘ اور ’پختہ کارے‘ کی ضد عوام نہیں بلکہ مغرب کے اہلِ سیاست ہیں جنھیں اقبال نے ’دوصدہزار ابلیس‘ کہا ہے، اس لیے کہ وہ حق کے پاسدار نہیں بلکہ ابلیس کے آلۂ کار ہیں۔ بالِ جبریل کی نظم ’ابلیس کی عرضداشت‘ میں ابلیس خداوندِ جہاں سے کہتا ہے: ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک! جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک! بال جبریل ہی کی نظم ’زمانہ‘ میں اقبال کہتے ہیں: شفق نہیں مغربی افق پر یہ جوئے خوں ہے! یہ جوئے خوں ہے! ضربِ کلیم کی نظم ’ابی سینیا‘ کا ایک بند یہ ہے: تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش! ہر گرگ کو ہے برّۂ معصوم کی تلاش! ’پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کشی۳۲؎ مغرب کا شعار بن گئی ہے اور: ’عالم ہمہ ویرانہ زچگیزیِ افرنگ‘۳۳؎ کا قول جیسے کَل واقعیت پر مبنی تھا ویسے آج بھی ہے۔ چنانچہ ’جمہوریت‘ کے عنوان سے جو قطعہ یا نظم پیامِ مشرق میںہے اس کا مفہوم وہ نہیں جو بہ تکرار بیان کیا گیا ہے۔ اس کا تعلق پاکستان کے نام نہاد جمہوری یا غیر جمہوری حکمرانوں کی مخالفت یا حمایت سے نہیں ہے۔ یہ نظم ایک ایسے فکر کو مسترد کرتی ہے جو ہمارا اپنا نہیں ہے اور ایک ایسے فکر کی حمایت کرتی ہے جو ہمارا اپنا ہے۔ اس کا تناظر مشرقی یا اسلامی بمقابلہ مغرب ہے۔ مغرب کے جمہوری نظام پر ابلیس کے سیاسی فرزند چھائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے حق کے ساتھ اپنا رشتہ توڑ لیا ہے اور مادہ پرستی اختیار کرلی ہے۔ قومی سرحدوں کو عبور کرتے ہی ان کی جمہوریت جارحیت میں بدل جاتی ہے۔ دنیا کو انھوں نے قمارخانہ بنادیا ہے۔ ان کی لادین سیاست کنیزِ اہرمن، دوں نہاد اور مردہ ضمیر ہے۔ مادہ پرستی سے اوپر اُٹھنا اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ دنیا کو معرکۂ روح و بدن درپیش ہے۔۳۴؎ خلافتِ اسلامیہ روحانی اصول پر مبنی ہے، خلافت کی اصطلاح اقبال نے ۱۹۰۸ء میں استعمال کی اور کبھی اس سے دسبردار نہیں ہوئے۔ نظم ’جمہوریت‘[ضرب کلیم] جس دور میں کہی اسی دور کی نظم ’خضرِ راہ‘ [بانگ درا] ہے جس میں نظامِ خلافت کو مطلوب و مقصود قرار دیا ہے: تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار اس نظامِ خلافت کی نمایاں ترین خصوصیت حق تعالیٰ کی حکمرانی ہے۔ ’خضرِ راہ‘ ہی کا شعر ہے: سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری خطبۂ اجتہاد میں نظامِ خلافت کے لیے متبادل اصطلاح روحانی [بمقابلہ مادی] جمہوریت استعمال کی۔ اس کے دو بنیادی عناصر کی وضاحت اقبال نے ۱۹۰۸ء ہی میں کردی تھی۔ وہ یہ کہ ’’مذہبِ اسلام میں مسئلہ قانون سازی کی بنیاد شریعت کے تصریحی احکام کے بعد تمام تر اتحاد و اتفاق و آرائے جمہورِ ملت کے بنیادی اُصول پر قائم ہے۔۳۵؎ زیرِ بحث نظم یا قطعے میں اصل معاملہ متاعِ فکر کا ہے۔ ایک طرف ’متاعِ معنیِ بیگانہ‘ ہے جو مردود ہے اور دوسری طرف ’فکرِ انسانی‘ ہے جو مطلوب ہے۔ قطعے کا مفہوم یہ ہے کہ تو دوں نہادوں اور مردہ ضمیروں سے ایسے سرمایۂ فکر کا طالب ہے جو تیرے عقیدے کے منافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مادہ پرستوں کا پورا ہجوم بھی ایک ہدایت یافتہ انسان کی شوخیِ فکر و کردار کا نقیب نہیں بن سکتا۔ مغرب کے جمہوری نظام سے تجھے گریز کرنا چاہیے اور ایک ایسے مردِ پختہ کار کی فکری رہ نمائی کو قبول کرنا چاہیے جو فکرِ انسانی کا حامل ہو۔ یہ فکرِ انسانی روحانی اُصول پر مبنی ہے اور ان لوگوں سے اس فکرِ انسانی کا ظہور ناممکن ہے جو روحانیت سے نابلد یا ابلیس کے آلۂ کار ہیں۔ کانٹ ویل سمتھ نے لکھا ہے کہ اقبال کسی نجات دہندہ آمر کے منتظر تھے۔ اگلا جملہ جو ہٹلر کے بارے میں واوین میں ہے اس کا حوالہ کلامِ اقبال سے نہیں دیا بلکہ عبداللہ انور بیگ کی کتاب The Poet of the East سے دیا ہے۔ اس کی تفصیل سمتھ نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۵۸ پر بیان کی ہے اور لکھا ہے کہ مصطفی کمال، مسولینی اور ہٹلر جیسا یہ نجات دہندہ پنجاب کی سرزمین سے اُٹھے گا۔ حوالہ دیتے ہوئے سمتھ نے لکھا ہے: quoting Iqbal without reference.36 یعنی عبداللہ انور بیگ نے اقبال کا قول بغیر حوالہ دیے نقل کیا ہے۔ گویا عبداللہ انور بیگ کا بیان غیر مستند ہے اور سمتھ نے اس غیر مستند بیان کے بَل پر اقبال کو آمریت کا حامی قرار دیا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ان ماہرین اقبالیات کے لیے جو سمتھ سمیت مستشرقین کے بے بنیاد یا غلط دعوؤں کو اپنی تحریروں کے ذریعے شائع و عام کرتے رہتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ بعض صاحبان نے اس خاص الزام کو سمتھ سے کہیں زیادہ غیر ذمہ دارانہ اور ناروا انداز کے ساتھ دہرایا ہے۔ تفصیل گزشتہ سطور میں آچکی ہے۔ عبداللہ انور بیگ کی کتابThe Poet of the East علامہ اقبال پر لکھی گئی عمدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ ’نجات دہندہ آمر‘ سے ان کی مراد ہٹلر یا مسولینی جیسے فاشسٹ نہیں ہیں۔ یہ ایسا نجات دہندہ ہے جو ریاستی اختیار کو بروئے کار لاکر عوام کو جاگیرداروں، سرداروں، سرمایہ داروں اور بدعنوان افسروں نیز اہل کاروں سے نجات دلائے گا، امتیازات کم کرے گا اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرے گا۔ ایسے نجات دہندہ آمر کی ہمیں ضرورت ہے، خواہ وہ انتخابی عمل سے گزر کر اوپر آئے یا انقلاب کے ذریعے سے۔ روحانی جمہوریت تک پہنچنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے۔ عبداللہ انور بیگ نے سند کے ساتھ جو رائے ظاہر کی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال جمہوریت کے حامی تھے۔ لکھتے ہیں: The Kingdom of God on earth means the democracy of more or less unique individuals presided over by the most unique individual possible on the earth.37 یہاں حوالہ اس خط کا ہے جو خودی کی توضیح کے لیے اقبال نے پروفیسر نکلسن کے نام لکھا تھا اور اسرارِ خودیکے انگریزی ترجمے کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ نسلِ انسانی کے لیے یہ ایک مثالی صورتِ حال ہے جو تصورِ خودی کو بروئے کار لانے کے بعد پیدا ہوگی۔ عبداللہ انور بیگ نے اسے تکرار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں: He is naturally a democrate, but his democracy is presided over by a unique personality.38 اس کے بعد عبداللہ انور بیگ نے اسلامی جمہوریت سے متعلق علامہ اقبال کی ۱۹۱۷ء کی تحریر درج کی ہے جوThe New Era میں شائع ہوئی تھی اور جس میں اقبال نے مغربی اور اسلامی جمہوریت کا فرق واضح کیا ہے۔ کانٹ ویل سمتھ کی نظر عبداللہ انور بیگ کی ان تحریروں پر نہیں پڑتی جو علامہ اقبال کے حوالوں سے مزین اور ان کے اقتباسات پر مبنی ہیں۔ وہ ایک غیر مستند تحریر کا انتخاب کرتا ہے اور اسے غلط معنی پہنا کر فکرِ اقبال کو مسخ کرتا ہے۔ وہ مغربی ہے اور اشتراکی ہے لیکن وہ جو پاکستانی ہیں اور مسلمان ہیں، انھوں نے بھی اقبال کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے۔ کلامِ اقبال کا سرسری مطالعہ کرنے والا بھی جانتا ہے کہ اقبال جاگیرداروں اور وڈیروں سے لے کر عالمی استعماری طاقتوں تک سب کے ظلم و استبداد کے خلاف مؤثر آواز اُٹھاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی مخالفت بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ ’دیوِ استبداد‘ کا رقص اور قیصریت و آمریت کی ایک شکل ہے: ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری گرمیِ گفتارِ اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری! اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو۳۹؎ سرمایہ دارای پر مبنی مغرب کا جمہوری نظام قیصریت کا مظہر ہے۔ جمہوری قبا میں دیوِ استبداد ناچ رہا ہے۔ اسمبلی میں گفتار کی گرمی جنگِ زرگری ہے اور یہ نام نہاد جمہوریت چمن نہیں [کمزور اقوام کے لیے] قفس ہے۔ روشن چہرہ رکھنے والی سرمایہ دارانہ جمہوریت کمزور اقوام کے لیے اندر سے تاریک ہے۔ یہ نکتہ ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں مزید واضح ہوا ہے۔ دوسرا مشیر جب پہلے مشیر سے کہتا ہے: خیر ہے سلطانیِ جمہور کا غوغا کہ شر… تو پہلا مشیر ابلیسی نقطۂ نظر کو پیش کرتے ہوئے جواب دیتا ہے کہ یہ جمہوریت پردہ ہے ملوکیت کا۔ ہم نے شاہی کو جمہوری لباس پہنادیا ہے۔ مطلق العنان بادشاہی کے لیے ’میر و سلطاں‘ کا وجود ضروری نہیں ہے۔ قومی اسمبلی ہو یا شاہی دربار ہو، کمزور اقوام کے وسائل ہڑپ کرنے والا درحقیقت مطلق العنان [آمر] بادشاہ ہوتا ہے۔ ارمغانِ حجاز کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے یہ اشعار دیکھیے: مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر! تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر! اب یہ کہنا کہ جمہوری حکمرانوں کی نسبت آمروں کا باطن ’چنگیز سے زیادہ تاریک تر‘ [زیادہ تاریک تر؟] ہے؛ اور اس ضمن میں علامہ اقبال کو ہدفِ تنقید بنانا اقبال کے مجموعی کلامِ نظم و نثر کو نظرانداز کرنے کا نیز فکری کج روی اور افلاسِ فکر کا نتیجہ ہے۔ اقبال کے نزدیک جمہوریت اسلام کے سیاسی نظام کا اہم ترین پہلو ہے: Democracy, then, is the most important aspect of Islam regarded as a political ideal.40 اقبال نے سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کو یزداں نا شناس اور آدم فریب قرار دیا ہے۔ ۱۹۲۳ء میں اقبال نے یہ یقین ظاہر کیا تھا کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص، تجربے سے معلوم کرکے، اسے ترک کردے گی۔ نظم ’طلوعِ اسلام‘ [بانگ درا] بھی اسی دور کی ہے جس کا یہ شعر سرمایہ داری تمدن کو نامحکم ٹھہراتا ہے: تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے چنانچہ اقبال سرمایہ داری کے ساتھ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور اسلام کے ساتھ اسلامی جمہوریت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ خطبۂ اجتہاد کی تان اس موقف پر ٹوٹی ہے کہ روحانی [اسلامی] جمہوریت اسلام کا حتمی نصب العین ہے۔ اقبال جب سرمایہ دارانہ نیز جاگیردارانہ جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کا مقصد آمریت کی حمایت نہیں ہوتا۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ضد آمریت نہیں ہے بلکہ روحانی جمہوریت ہے۔ اقبال کے فکری نظام میں آمریت کی کوئی جگہ نہیں ہے حتیٰ کہ روحانی جمہوریت میں اقبال خلافت کے اختیارات منتخب پارلیمان کے سپرد کرتے ہیں تاکہ خدائی نمایندگی یا خدا کے عطا کردہ حق کے نام پر کوئی فردِ واحد آمرانہ استبداد کو روا نہ رکھ سکے۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں: The essense of Tauhid, as a working idea, is equality, solidarity, and freedom. The state, from the Islamic standpoint, is an endeavour to transform these ideal principles into space time forces, an aspiration to realize them in a definite human organization. It is in this sense alone that a state in Islam is a theocracy, not in the sense that it is headed by a representative of God on earth who can always screen his despotic will behind his supposed infallibility.41 توحید کا جوہر، اپنے عملی تصور میں، مساوات، یک جہتی اور آزادی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ریاست ان اعلیٰ اُصولوں کو زمانی اور مکانی قوتوں میں تبدیل کرنے کی جدوجہد سے عبارت ہے یعنی اسے ایک مخصوص انسانی ادارے میں عملی صورت دینے کی خواہش کا نام ہے۔ صرف اسی اکیلے مفہوم میں اسلام میں ریاست تھیوکریسی ہے۔ اس مفہوم میں ہرگز نہیں کہ ریاست کا سربراہ زمین پر خدا کا کوئی نائب یا نمایندہ ہوگا جو اپنی مطلق العنان استبدادیت پر اپنی مفروضہ معصومیت کا پردہ ڈال دے۔۴۲؎ یہ ترجمہ ڈاکٹر وحید عشرت کا ہے۔ علامہ اقبال مطلق العنانی استبداد یعنی آمرانہ ظلم کا راستہ بند کررہے ہیں۔ کیا خطبۂ اجتہاد کو سمجھ کر پڑھنے اور ترجمہ کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر موصوف اپنے اس دعوے سے اتفاق کرتے ہیں کہ اقبال نے آمریت کی حمایت کی ہے؟ تصورِ توحید انسان کو اللہ کی بندگی کے مقام پر فائز کرتا ہے۔ یہ کامیابی اسے ہر دوسری پرستش اور بندگی سے آزاد کردیتی ہے۔ مساوات، آزادی اور یک جہتی کے اُصول بجائے خود آمریت کی نفی کرتے ہیں۔ اس نکتے کو اپنے شعور سے باہر رکھ کر ڈاکٹر سلیم اختر بھی تشویش ناک حد تک گمراہ ہوئے ہیں۔ ان کی یہ رائے کہ اگر آج اقبال زندہ ہوتے اور آمریت میں زندگی بسر کی ہوتی اور مذہبی تشدد کے مظاہرے دیکھے ہوتے تو ایسے شعر نہ کہتے کہ: جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو وہی کہتے جو اپنی زندگی میں کہا یعنی دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد۔ اقبال تو ملوکیت ہی کی طرح ملائی و پیری کو بھی مسلمان کے ضمیر کا قاتل تصور کرتے ہیں: باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری! اے کشتۂ سلطانی و ملاّئی و پیری!۴۳؎ تاہم نہ سارے مولوی تشدد پسند اور فسادی ہیں اور نہ اسلام پاپائیت کا ر وا دار ہے۔ اسلام کی علمبردار پوری امت ہے۔ سیاست کو دین سے جدا کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کو عیسائیت کی طرح پرائیویٹ بناکر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی سے خارج کردیا جائے۔ اس سے تصورِ پاکستان کی بنیاد بھی منہدم ہوجائے گی۔ خطبۂ الہٰ آباد میں علامہ اقبال نے الگ مسلم ریاست کے لیے جو دلیل فراہم کی وہ یہی تھی کہ اسلام، عیسائیت کی طرح، کوئی پرائیویٹ مذہب نہیں ہے۔ مسلمانوں کا اجتماعی سیاسی نظام بروئے کار آسکتا ہے تو صرف مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل الگ ریاست میں۔ افسوس یہ ہے کہ جن لوگوں کو ماہرینِ اقبالیات سمجھا جاتا ہے، ان میں سے بعض خود فکر اقبال اور دینِ اسلام دونوں کو زک پہنچاتے ہیں۔ اپنی انٹ سنٹ اور غیرمحتاط تحریروں سے۔ اور معترضینِ اقبال کے یہ دعوے کہ اقبال ’فعال ہیرو‘ اور ’بے حس و حرکت عوام‘ کا تصور دیتے ہیں یا نطشے کی پیروی میں جمہوریت کی مخالفت اور اس سے نفرت کرتے ہیں یا خدا کے عطا کردہ حق[divine right] کے نام پر عوام کو نشانۂ ستم بنانا چاہتے ہیں یا سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں؛ یہ سب فضول اور غلط باتیں ہیں۔ فکرِ اقبال کی بلندی اور اصابت اور معترضینِ اقبال کی اس پر پست اور ناروا رائے زنی دونوں غور طلب اور دیدنی ہیں۔ علامہ اقبال جس تھیاکریسی کو روا رکھتے ہیں وہ آزادی، انسانی یکجہتی و استحکام اور مساوات کے اُصولوں سے متعلق ہے جن کا سرچشمہ تصورِ توحید ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ تصور توحید ہے جو انسان کو ہر طرح کی ناروا بندگی و غلامی سے آزادی عطا کرتا ہے، قانونی و معاشرتی مساوات اور مساوی مواقع کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور انسانی اخوت و یکجہتی و استحکام کو فروغ دیتا ہے۔ آمریت و استبداد کی تمام صورتوں کو اقبال مسترد کرتے ہیں۔ یہ آمریت و استبداد اگر خدا کے عطا کردہ حق[divine right] کے نام پر ہو تو وہ اسے بھی مسترد کرتے ہیں اور اس کا راستہ روکنے کے لیے خلافت کے اختیارات منتخب پارلیمان کے سپرد کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے نام لے کر بھی آمریت [dictatorship] پر تشویش ظاہر کی ہے۔ سیّد سلیمان ندوی کے نام خط مؤرخہ ۱۵؍جنوری ۱۹۳۴ء کے یہ جملے قابلِ توجہ ہیں: دنیا اس وقت عجیب کشمکش میں ہے۔ جمہوریت فنا ہورہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹرشپ قائم ہورہی ہے۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جارہی ہے… تہذیب و تمدن بھی حالتِ نزع میں ہے (بالخصوص یورپ میں)۔ غرض کہ نظامِ عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہوسکتا ہے۔۴۴؎ یہ بات واضح ہے کہ آمریت کے مقابلے پر اقبال کا انتخاب جمہوریت ہے۔ اسی طرح ظالمانہ مطلق العنانیت [atrocious forms of despotism] سے ممالک کی نجات اور اس کی جگہ جمہوریت کے فروغ پر انگلستان کی تعریف، لگی لپٹی رکھے بغیر کی ہے تاہم مسلم سیاسی دستور میں اللہ کی حکمرانی اور اس پر مبنی انسانی مساوات کا حصول [روحانی جمہوریت] اقبال کی پہلی ترجیح ہے۔۴۵؎ اس پورے منظر نامے میں جو حقیقت نمایاں طور پر واضح ہے وہ یہ ہے کہ علامہ اقبال ہر طرح اور ہر سطح کے جبر، ظلم اور استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس کے خلاف مؤثر آواز تسلسل کے ساتھ اُٹھائی ہے۔ مخالفینِ اقبال نے اپنے اپنے مقاصد اور تعصبات کے تحت فکرِ اقبال کو مسخ کرکے پیش کیا ہے،حد یہ ہے کہ اقبال پر آمریت کی حمایت کے علاوہ سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کی ہاں میں ہاں ملانے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ حمید نسیم نے اپنی کتاب علامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر: ایک ناقدانہ جائزہ میں لکھا ہے کہ اقبال نے ایفر و ایشیائی نوآزاد ممالک میں بونے مگر سفاک آمروں کو غصبِ اقتدار کی راہ دکھائی۔ افسوس تو ان احباب پر ہوتا ہے جن کا اقبالیات میں ایک نام ہے لیکن بسااوقات وہ مخالفینِ اقبال کے اعتراضات کو دہرانے میں تامل نہیں کرتے۔ یہاں اقبال کے کچھ مشہور اشعار ان کی توجہ کے لیے درج کیے جاتے ہیں: اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو۴۶؎ اسی طرح اقبال کی اس نظم کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے، جس کا پہلا بند حسبِ ذیل ہے: خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب ازجفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب۴۷؎ اوامر و نواہی کا اللہ کا حق غصب کرنے والا وڈیرہ اور آمر ایک بت ہے جسے توڑنا ضروری ہے۔ اپنے لیے خواجہ تراشنے والا مسلمان برہمن سے بڑا کافر ہے۔۴۸؎ یہی نکتۂ توحید ہے۔ سرداری، ملوکیت اور آمریت پر اقبال مغربی طرز کی جمہوریت کو بھی ترجیح دیتے ہیں اور اس ضمن میں انگلستان کی تحسین کی ہے۔ لکھا ہے کہ جو کام مسلمانوں کے کرنے کا تھا اور وہ ناموافق حالات کے باعث سرانجام نہ دے سکے، اس کا سہرا انگلستان کے سر ہے۔۴۹؎ انگلستان کی یہ زبردست تحسین جمہوری نظام کی بنیاد پر ہے لیکن اسی جمہوری دستور کی بنا پر انگلستان ہی کی زبردست مذمت بھی کی ہے۔ ’ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام‘ اور’ چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ جیسی تنقید کے علاوہ ’محکماتِ عالمِ قرآنی‘ کا یہ شعر قابلِ توجہ ہے: وائے بر دستورِ جمہورِ فرنگ مردہ تر شد مردہ از صورِ فرنگ!۵۰؎ بظاہر یہ واضح تضاد ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے عقل کے علاوہ حق کی جستجو اور طلب درکار ہے۔ مروجہ نظاموں میں سے اقبال کی ترجیح ’جمہوریت‘ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں طلبا سے خطاب کے دوران کہا کہ ’’ذاتی طور پر میں اس ڈیموکریسی کا معتقد نہیں ہوں اور محض اس لیے اس کو گوارا کرلیتا ہوں کہ اس کا فی الحال کوئی نعم البدل نہیں ہے۔‘‘۵۱؎ مطلب یہ کہ جمہوریت دوسرے نظاموں [ملوکیت، سرداری، آمریت] سے بہتر ہے لیکن فی الحال اس کا نعم البدل معرضِ وجود میں آئے گا تو وہ اس جمہوریت سے بہتر ہو گا۔ اس نعم البدل کی نشاندہی اقبال بیسویں صدی کے اوائل سے کررہے تھے۔ جمہوری نظام کی بنیاد پر انگلستان کی کھلے دل سے تحسین ۱۹۰۹ء کے ایک مضمون Islam as a Moral and Political Ideal میں کی ہے۔ اس تحسین کے فوراً بعد اسلام کے سیاسی دستور کے یہ دو اُصول بیان کیے ہیں: (1) The law of God is absolutely supreme. (2) The absolute equality of all the members of the community. ۱۹۱۷ء میں شائع ہونے والے ایک شذرے میں کہا کہ ’’اسلام نے ادنیٰ عامی اشخاص کے مسالے سے حیات و قوت کے بلند ترین نمونے تعمیر کیے ہیں۔‘‘ ’خضرراہ‘ میں توجہ دلائی کہ ’’سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے۔‘‘ جاویدنامہکے ان اشعار میں ذاتِ باری کو آمر مان کر ماسواکی آمریت کو مسترد کیا ہے: غیرِ حق چوں ناہی و آمر شود زور ور بر ناتواں قاہر شود زیرِ گردوں آمری از قاہری است آمری از ما سوی اللہ کافری است۵۲؎ ’جب اللہ کے علاوہ کوئی بھی صاحبِ اوامر و نواہی بنتا ہے تو گویا طاقتور کمزور پر مسلط ہوجاتا ہے۔ دنیا میں آمریت جبر سے قائم ہوتی ہے۔ اللہ کے سوا کسی کی آمریت یا حکمرانی کافری ہے۔‘ یہ واضح ہے کہ علامہ اقبال کے نزدیک سرمایہ دارانہ جمہوریت میں جو خرابیاں ہیں ان کی وجہ سیاسی نظام سے خدا کی بے دخلی اور مادّہ پرستی ہے۔ ملوکیت، سرمایہ دارانہ جمہوریت، اشتراکیت اور فسطائیت سب نے خدائے رحیم و کریم سے انحراف کیا اور نتیجہ چنگیزی کی صورت میں نکلا۔ بال جبریل [غزل(۲)-۱۷] میں کہا ہے: زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا! طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی! جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی! یہی نکتہ سالِ نو کے پیغام میں جو یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو آل انڈیا ریڈیو لاہور سے نشر ہوا، اقبال نے انتہائی دردمندی و احساس کے ساتھ بہ تفصیل بیان کیا۔ یہ اقتباس قابلِ توجہ ہے: اس تمام ترقی کے باوجود اس زمانہ میں ملوکیت [imperialism] کے جبرو استبداد نے جمہوریت، قومیت، اشتراکیت، فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدرِ حریت اور شرفِ انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ جن نام نہاد مدبروں کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سپرد کی گئی ہے وہ خون ریزی، سفاکی اور زیردست آزاری کے دیوتا ثابت ہوئے۔ جن حاکموں کا یہ فرض تھا کہ اخلاقِ انسانی کے نوامیسِ عالیہ کی حفاظت کریں، انسان کو ظلم کرنے سے روکیں اور انسانیت کی ذہنی اور عملی سطح کو بلند کریں، انھوں نے ملوکیت اور استعمار کے جوش میں لاکھوں کروڑوں مظلوم بندگانِ خدا کو ہلاک و پامال کرڈالا۔ صرف اس لیے کہ ان کے اپنے مخصوص گروہ کی ہوا و ہوس کی تسکین کا سامان بہم پہنچایا جائے۔۵۳؎ چنانچہ اقبال جمہوریت کو قوم پرستانہ، سرمایہ دارانہ اور ملوکانہ اغراض و مقاصد سے الگ اور پاک کرکے اس کا رشتہ اخلاقِ انسانی کے نوامیسِ عالیہ سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ نعم البدل ہے جو فی الحال موجود نہیں ہے لیکن جسے وجود میں لانا اسلام کی غرض و غایت ہے۔ اقبال نے اسے روحانی جمہوریت کا نام دیا ہے۔ خطبۂ اجتہاد کی تکمیل اس جملے پر ہوئی ہے: Let the Muslim of today appreciate his position, reconstruct his social life in the light of ultimate principle, and evolve, out of the hitherto partially revealed purpose of Islam, that spiritual democracy which is the ultimate aim of Islam. روحانی جمہوریت کو اقبال اسلام کا مقصد قرار دے رہے ہیں۔ اس سے کچھ پہلے یورپ کی حریف جمہوریتوں کو مذہب سے لاتعلقی کی بنا پر مسترد کیا ہے اور یورپ کو انسان کے اخلاقی ارتقا میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ مغربی جمہوریت انسانی فلاح کی ضمانت نہیں ہے۔ عوام کی نمایندہ اسمبلیوں نے صحبتِ ہم جنس کو بھی جائز ٹھہرایا ہے۔ ایسے قوانین اخلاق و تہذیب کے منافی ہیں اور انسان کی تمدنی زندگی کے لیے ایک بڑے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روحانی جمہوریت میں ایسے غیرانسانی قوانین منظور نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ روحانی جمہوریت میں عوامی رائے دہندگی کے ساتھ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا تصور ہے۔ عوام کی منتخب پارلیمان محکمات کو تسلیم کرتے ہوئے تغیرات کے لیے قانون سازی بذریعہ اجتہاد کرے گی۔ مغرب کے جمہوری نظام میں جو نقائص ہیں وہ صرف علامہ اقبال ہی نے بیان نہیں کیے، خود مغرب کے حامیانِ علم اور اہلِ دانش نے بھی انھیں بہ تکرار بیان کیا ہے۔۵۴؎ فرق یہ ہے کہ اقبال نے متبادل نظام کی نشان دہی بھی کی ہے۔ مغرب کے جمہوری نظام… ’’کی تاریخ بیشتر عہد شکنی، خودستائی، بہتان طرازی، کھوکھلی خطابت، نعرہ بازی، اقتدار پرستی، عدمِ استحکام، متوسطیت [mediocrity]، جہالت، ظلم و عدوان، کردار کشی، سرمایہ داری، رشوت ستانی، دولت اور پروپاگنڈا کی کرشمہ سازیوں سے عبارت رہی ہے۔‘‘۵۵؎ یہ خلاصہ مغرب کے اہلِ دانش کی آرا کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مغرب کے متعدد ترقی یافتہ ممالک میں، تعلیمی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ، جمہوری نظام میں بہتری بھی آئی ہے لیکن جمہوریت کی باگیں آج بھی سرمایہ داروں بشمول میڈیا والوں کے ہاتھ میں ہیں۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت، مغربی جمہوریت کی بھی مسخ شدہ شکل ہے۔ وڈیرہ شاہی کے مقابلے پر علم و فضل اور لیاقت و دانش کی کوئی اہمیت نہیں۔ انتخاب کے دوران جو تماشے ہوتے ہیں ان کا اندازہ اخبارات کی سرخیوں، اداریوں اور کالموں سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہاں بھی آغاز خودستائی، بہتان طرازی، کھوکھلی خطابت، نعرہ بازی، کردار کشی، سرداری کے اثر اور سرمائے کی قوت سے ہوتا ہے اور انجام بدعنوانی، رشوت ستانی، اقتدار پرستی، بدعہدی، اخلاق باختگی، ظلم و عدوان، عدمِ استحکام اور ذلت و رسوائی پر۔۵۶؎ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں مغرب کا جمہوری نظام رائج کرنا کہاں تک مفید یا نقصان دہ ہے۔ مذکورہ بالانقائص کے علاوہ یہ جمہوریت فتنہ و فساد کو جنم دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں کہا تھا کہ ’’اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ جمہوریت کامل سیاسی سکون کی ضامن ہے تو وہ تاریخ سے بالکل ناواقف ہے۔‘‘۵۷؎ ارشاد احمد حقانی نے جمہوریت کے حق میں بہت کچھ لکھا ہے۔ انھوں نے ایک کالم میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کی ایک رائے کو نقل کیا ہے اور اس کی مخالفت نہیں کی۔ ’حرفِ تمنا‘ میں ’’ڈاکٹر مہاتیر اور مغربی جمہوریت‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں: ڈاکٹر مہاتیر مغربی طرز کی تمام جمہوری اقدار اور روایات اور تصورات کو ترقی پذیر ممالک یا نیم ترقی یافتہ ممالک کے لیے موزوں خیال نہیں کرتے بلکہ ان کی تو یہ رائے بھی ہے کہ مغربی اقوام ہمارے ممالک میں جمہوریت کے مغربی تصورات کی کلی پیروی کا مطالبہ کرتی ہی اس لیے ہیں کہ یہاں جمہوریت کے نام پر اکھاڑ پچھاڑ جاری رہے اور انسانی حقوق کے نام پر تشدد، توڑ پھوڑ اور ایسی ہی دوسری سرگرمیاں فروغ پاتی رہیں تاکہ ترقی پذیر ممالک یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ قومی تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف نہ رہ سکیں۔۵۸؎ فکرِ اقبال تعصبات سے آلودہ نہیں ہے۔ انھوں نے شاہی استبداد کا خاتمہ کرکے طریقِ جمہوری [عوامی رائے دہندگی کی بنا پر حکومت سازی] کی بنا پر انگلستان کی تعریف کھلے دل سے کی۔ وہ اگر زندہ ہوتے تو برطانیہ کو فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کو بنظرِ استحسان دیکھتے اور اسے اسلامی عمل قرار دیتے۔ تاہم اگر جمہوری حکمران آمر بن جائیں یا ملوکیت ہی کو جمہوری لباس پہنا دیا جائے تو اقبال اس کی حمایت نہیں کرتے۔ مغربی جمہوریت وطنی قوم پرستی، نظامِ سرمایہ داری، سیکولرزم [بمعنی دین و سیاست کی جدائی] اور لبرلزم [بمعنی روحانی اقدار سے روگردانی] سے عبارت بھی ہے۔ ان غیراسلامی عناصر کی وجہ سے اقبال اسے من و عن قبول نہیں کرتے اور اس کے متبادل کے طور پر روحانی جمہوریت کا تصور پیش کرتے ہیں۔ عوامی رائے دہندگی کے پاسدار ہیں اور اسے اسلامی بتاتے ہیں لیکن غیر مشروط عوامی حاکمیت کو قبول نہیں کرتے؛ اس لیے کہ حاکمیتِ اعلیٰ حق تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اور عوامی نمائندے اسے بروئے کار لانے کے پابند ہیں۔ سرمایہ داروں یا جاگیرداروں کے علاوہ اگر بندۂ مزدور بھی پرویزی حیلوں پر اتر آئے تو اقبال اسے مسترد کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے اگر کوئی بادشاہ بھی اسلامی اقدار، خاص طور پر، عوامی فلاح کا پاسدار ہو تو لائق تحسین ہے۔ بعض عمدہ صفات کی بنا پر اقبال نے متعدد مسلمان بادشاہوں کی تعریف کی ہے۔ تاہم اقبال روحِ عصر کی بات بھی کرتے ہیں اور اب چونکہ دنیا جمہوریت کو قبول کررہی ہے اور عوامی رائے دہندگی اسلام کے مطابق بھی ہے [یہ گویا بیعت کی جدید شکل ہے] اس لیے دوسرے نظاموں سے جمہوریت بہتر ہے۔ مغربی جمہوریت سے وطنی قوم پرستی اور سرمایہ داری کو خارج کرکے اور اسے روحانی اقدار کے تحت لاکر وہ نظام وضع کیا جاسکتا ہے جو اقبال کے نزدیک اسلام کی اصل غایت ہے۔ بہت کچھ اصلاح و ترقی کے باوجود مغرب میں انتخابات پر اثر انداز ہونے والی ایک بڑی قوت اب بھی سرمائے کی ہے۔ ہماری جمہوریت مغربی جمہوریت کی بھی مسخ شدہ شکل ہے۔ ووٹ خریدنے کا چلن عام ہے۔ بالواسطہ انتخاب میں عوامی نمائندوں کی قیمت لگتی ہے۔ سرمائے کا اثر، جاگیر دار کا اثر اور سردار یا خان کا اثر اکثر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ کوئی سیاسی رہ نما عوامی مقبولیت کی بنا پر ان اثرات کا زور توڑ دے تو بھی اس کی جماعت میں موجود جاگیر دار اور سرمایہ دار ذاتی تحفظ اور اغراض سے سروکار رکھتے ہیں اور اسلامی جمہوریت فلاحی ریاست قائم نہیں ہوپاتی۔ عوامی غربت کا خاتمہ کرنے اور ہر فرد کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے بجائے ان کے لیے زندگی مزید مشکل بنادی جاتی ہے۔ سیاست پر یہ خود غرض لوگ اب بھی چھائے ہوئے ہیں جو وفاداریاں تبدیل کرتے وقت ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔ جھرلو، ہارس ٹریڈنگ، لوٹے اور بریف کیس اس جمہوریت کی معروف اصطلاحات ہیں۔ وہ قوم ابھی تک دلدل میں پھنسی ہوئی ہے جسے بہترین فکری رہ نمائی میسر ہے۔ فکرِ اقبال کو بروئے کار لاکر ایک نیا جہان تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ قومی دولت کو لوٹ کھسوٹ سے بچاکر افراد کی تعلیم و تربیت، زراعت و صنعت کی ترقی، تیل گیس اور معدنیات کی تلاش و حصول اور عسکری استحکام پر صرف کیا جاسکتا ہے۔ یقین افروزی اور احیائے علوم دونوں ناگزیر ہیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی جگہ روحانی جمہوریت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ملتِ اسلامیہ پانچ چھے صدیوں سے جمود کا شکار ہے۔ سلطانی، ملاّئی اور پیری اس جمود کے بڑے اسباب ہیں۔ اجتہادِ مطلق نشأۃِ ثانیہ کی بنیادی ضرورت ہے لیکن بدستور بند ہے۔ پاکستان اور عالمِ اسلام میں اجتماعی اجتہاد کو بروئے کار لانا ایک بڑی پیش رفت ہوگی اور اقبال کے نزدیک اس کی عمدہ ترین صورت پارلیمانی اجتہاد ہے لیکن پارلیمان کو ’’مسلمان‘‘ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کی بنیادی شرط عوامی بیداری اور اسلامی اقدار کا فروغ ہے۔ یہ مراحل فکرِ اقبال کو فروغ دے کر اور اس کی روشنی میں طے ہوسکتے ہیں۔ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- ثناء اللہ اختر کی کتاب شاعرِ مشرق اور علامہ مشرقی: فکر و عمل کا تقابلی جائزہ [راولپنڈی، ۲۰۰۷ئ] کے بیسویں باب کا عنوان ہے: ’’علامہ مشرقی اور جمہوریت۔‘‘ انگریزی جمہوریت کو مشرقی نے طلسم اور فریب قرار دیا اور مصنف کے نزدیک مشرقی کا یہ موقف قابلِ تعریف ہے۔ اس کے برعکس انیسویں باب میں ’’علامہ اقبال اور جمہوریت‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کے ایک مضمون کے اقتباسات درج کرکے لکھا ہے کہ ’’اگر ڈاکٹر اقبال کے ارشادات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک واضح تصور ابھرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے بہترین نظامِ حکومت مغربی جمہوریت کو قرار دیتے ہیں۔‘‘ اور مصنف کے نزدیک یہ موقف گویا قابلِ مذمت ہے۔ ثناء اللہ اختر اگر اقبال کی تحریر کا واقعی بغور جائزہ لیتے اور تعصب سے بچ کر ایسا کرتے تو مختلف نتیجہ اخذ کرتے۔ اقبال کے ۱۹۰۹ء کے مضمون بعنوان: ’’اسلام بحیثیت ایک اخلاقی اور سیاسی تصور‘‘ کا متعلقہ جملہ جو ثناء اللہ اختر نے اقبال احمد صدیقی کے ترجمے میں نقل کیا ہے یہ ہے کہ ’’جدید دور میں انگلستان نے جمہوریت کو اپنا عظیم مشن بنالیا اور انگریزی مدبرین نہایت دلیری کے ساتھ اس اُصول کو ان ممالک میں لے گئے جو صدیوں سے بے حد ظالمانہ مطلق العنانیت کی چکی میں پِس رہے تھے۔‘‘ [علامہ اقبال: تقریریں، تحریریں اور بیانات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص۱۳۵] اقبال کی اصل انگریزی عبارت یہ ہے: Democracy has been the great mission of England in modern times and English statesmen have boldly carried this principle to countries which have been, for centuries, groaning under the most atrocious forms of despotism. [Speeches, Writings and Statements of Iqbal, Compiled and Edited by Latif Ahmad Sherwani, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1995, Page:115] انگریزی عبارت اور اردو ترجمے دونوں سے صاف ظاہر ہے کہ جمہوریت کی بنا پر اقبال انگریزوں کی تعریف کررہے ہیں نہ کہ مغربی جمہوریت کی جس میں نظامِ سرمایہ داری اور وطنی قوم پرستی کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ ۲- Modern Islam in India، شیخ محمد اشرف ایڈیشن، ص۱۴۵۔ ۳- ’اقبال اور نظریۂ جمہوریت‘ مشمولہ اقبال شناسی اور نیاز و نگار، مرتبہ: طاہر تونسوی، سلسلۂ مطبوعات، ماہنامہ نگار، لاہور ۱۹۹۸ئ،ص۹۳۔ ۴- ’اقبال کا نظریۂ ارتقا‘ مشمولہ اقبال شناسی اور نیاز و نگار، ص۸۵۔ ۵- ’علامہ اقبال‘ ان کا ورثہ اور ان کی کوتاہیاں‘، مشمولہ فکر اقبال (مقالات-حیدرآباد سیمی نار) ناشر: کل ہند اقبال صدی تقاریب کمیٹی، حیدرآباد، بھارت، ۱۹۷۷، ص۱۵۔ ۶- ’اقبال پر ایک تنقیدی نظر‘ مشمولہ عصری ادب، جولائی ۱۹۹۰ئ، ص۳۳۔ ۷- تاراچند رستوگی، Iqbal in Final Countdown- اومسنز پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۱۹۹۱، ص۱۶-۱۷۔ ۸- اقبال ۸۶ئ، مرتب: ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۰ئ، صفحات ۲۸۱تا۲۸۵۔ ۹- اقبالیات، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، جنوری مارچ ۱۹۹۶ئ، ص۵۴۔ ۱۰- یوسف ثانی، تجزیہ تشکیلِ الٰہیاتِ اقبال، موسیلے، برمنگم، یو-کے، ۱۹۹۷ئ، ص۱۰۹-۱۱۱۔ ۱۲- تفصیل کے لیے دیکھیے، صدائے احتجاج، ص۱۳۹-۱۵۴۔ ۱۳- اقبال کے معترضین اور مخالفین کے ہاں اقبال مخالف آرا کی تکرار ہوتی رہی ہے۔ ایک کی الزام تراشی کو دوسرے نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے اور یوں یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر مبارک علی نے انھی اعتراضات کو اس طرح پیش کیا ہے: دورِ جدید کے دانشوروں میں اقبال کے افکار کہ جو مطلق العنان حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں، کیونکہ یہ جمہوری نظام کے خلاف ہیں، ان میں اشتراکیت پر تنقید، مغربی تہذیب سے بیزاری، عورتوں کی آزادی کی مخالفت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ہاں شخصیت پرستی کی تبلیغ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت کے لیے اقبال اور ان کے افکار، کہ جو آمریت، جبر اور تشدد کی حمایت کرتے ہیں، ان کی اشاعت و تبلیغ اسی لیے کی جاتی ہے تاکہ ان سے وہ اپنے قانونی اور اخلاقی ہونے کا جواز ثابت کریں۔ [تاریخ اور دانشور، ص۳۳] اس تحریر میں ایک بات بھی صداقت پر مبنی نہیں ہے۔ قطع نظر اصل موضوع کے کلامِ اقبال کو اپنی حمایت میں پیش کرنے یا اپنے پسندیدہ نظریات کی تقویت کے لیے استعمال کرنے کا رجحان حکومتوں کے علاوہ ڈاکٹر مبارک علی کے ہم مشرب اشتراکیوں کا بھی رہا ہے۔ حکومتوں کے ضمن میں اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک کسی حکومت نے بھی فکرِ اقبال کی حقیقی توانائی، ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے، عوام تک نہیں پہنچائی اور نہ فکرِ اقبال کی رہ نمائی میں پاکستانی معاشرے کی تشکیل پر توجہ دی ہے۔ اس وقت بھی ایسی کوئی حکمتِ عملی موجود نہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ۱۴- محمد رفیع الدین، حکمتِ اقبال، ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد، ۱۹۹۶ئ، ص۳۵۸۔ ۱۵- آل احمد سرور، عرفانِ اقبال، مرتب: زہرا معین، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۷ئ،ص۲۱۶، آل احمد سرور نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’وہ نہ صرف سلطانی جمہور کا خیرمقدم کرتے ہیں بلکہ مزدور کو یہ بشارت بھی دیتے ہیں کہ مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۔‘‘ یہ جملہ سرور کے پہلے جملے کی تردید کرتا ہے۔ دراصل یہ رائے کہ ’’اقبال جمہور یا عوام کے دلدادہ نہیں‘‘ اقبال کے مذکورہ اشعار کی غلط تفہیم کا نتیجہ ہے۔ ۱۶- پروفیسر مرزا محمد منور، Dimensions of Iqbal، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۳، ص۳۷۔ ۱۷- ڈاکٹر صدیق جاوید رقم طراز ہیں: اقبال نے ۱۹۱۶ء میں نیوایرا میں چھپنے والے اپنے مضمون میں نٹشے کے لب و لہجہ کو ناپسند کیا تھا جو اس نے عوام کے لیے اختیار کیا تھا۔ مگر پیام مشرق میں ان کا اپنا لب و لہجہ سخت ہوجاتا ہے جب وہ جمہوریت کے زیرِ عنوان دو شعروں کے قطعہ میں کہتے ہیں... اس قطعہ میں طرزِ جمہوری سے گریز کے مشورہ کی جس دلیل پر بنیاد رکھی ہے، وہ یہ ہے کہ جاہل اور نادان اکثریت فکر وبصیرت سے بہرحال محروم رہے گی کیونکہ دوسو گدھوں کے اجتماع سے ان کے دل و دماغ میں نور بصیرت پیدا نہیں ہوسکتا۔ [اقبال: نئی تفہیم، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳،ص۳۸۳] ۲۸جولائی ۱۹۱۷ء کو The New Era میں شائع ہونے والی علامہ اقبال کی تحریر بعنوان Muslim Democracy اور اقبال کی مذکورہ نظم ’’جمہوریت‘‘ معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کی تائید و توثیق کرتی ہیں اور زمانی اعتبار سے بھی قریب ہیں۔ ڈاکٹر صدیق جاوید جو تضاد فکر اقبال میں دیکھ رہے ہیں وہ مذکورہ قطعے [نظم] کی غلط تفہیم کا نتیجہ ہے۔ ۱۸- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، فکرِ اقبال، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، بھارت، ۲۰۰۲ئ، ص۲۹۷۔ ۱۹- مثلاً یوسف ثانی نے یہ معنی لکھے ہیں کہ ’’ادنیٰ لوگ (عوام) ’معنیِ بیگانہ‘ Forms یا مستقل اقدار کا علم نہیں رکھتے۔‘‘ [تجزیہ تشکیلِ الٰہیاتِ اقبال، ص۱۰۰] سوال یہ ہے کہ دنیا کی کون سی لغت میں ’معنیِ بیگانہ‘ کا مطلب Form لکھا ہوا ہے یا Form کا مطلب ’مستقل اقدار‘ بیان کیا گیا ہے۔ ۲۰- اقبالیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، جنوری مارچ ۱۹۹۶ئ۔ ۲۱- Discources of Iqbal، مرتبہ: شاہد حسین رزاقی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۳ئ، ص۱۷۷۔ ۲۲ تا ۲۴- دیکھیے: مقالاتِ اقبال، مرتب: سید عبدالواحد معینی، ناشر: شیخ محمد اشرف لاہور، ۱۹۶۳ئ، صفحات [بالترتیب] ۸۸،۹۹،۱۸۳۔ ۲۵- The Reconstruction of Religious Thought in Islam، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۷ئ،ص۱۳۸۔ ۲۶- تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ، بزم اقبال، لاہور، ۲۰۰۰ئ،ص۶۶۔ ۲۷- مثلاً ڈاکٹر محمد یوسف اور ڈاکٹر تحسین فراقی نے۔ ۲۸- اصل انگریزی متن کے لیے دیکھیے، Thoughts and Reflections of Iqbal، مرتبہ: سید عبدالواحد، ناشر: شیخ محمد اشرف لاہور، ۱۹۹۲ئ، صفحات ۲۱۲-۲۱۳۔ ۲۹،۳۰- دیکھیے: ’سیاستِ افرنگ‘، (ص۱۵۴)؛ لادین سیاست، (ص۱۶۴)؛ ضربِ کلیم [کلیاتِ اقبال اُردو]، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ۔ ۳۱- ڈاکٹر تحسین فراقی، جہاتِ اقبال، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۹۳ئ، ص۴۱-۴۲۔ ۳۲- پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج! ضربِ کلیم، [کلیات اقبال اُردو]،ص۱۶۲۔ ۳۳- زبورِ عجم[کلیاتِ اقبال فارسی]، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۹۰ئ، ص۸۳۔ ۳۴- دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا ارمغانِ حجاز [کلیاتِ اقبال اُردو]، ص۲۲۔ ۳۵- مقالاتِ اقبال، ص۱۲۷۔ ۳۶- Modern Islam in India، ص۳۶۸۔ ۳۷،۳۸۔ عبداللہ انور بیگ، The Poet of the East، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۴ئ، ص۱۲۲،۱۹۱۔ ۳۹- بانگِ درا [کلیاتِ اقبال اردو]، ص۲۷۴۔ ۴۰- Thoughts and Reflections of Iqbal، ص۵۱۔ ۴۱- The Reconstruction of Religious Thought in Islam، ص۱۲۲-۱۲۳۔ ۴۲- تجدیدِ فکریاتِ اسلام، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۲۰۰۲ئ، ص۱۸۷۔ ۴۳- ارمغانِ حجاز [کلیاتِ اقبال اُردو]، ص۳۵۔ ۴۴- اقبال نامہ حصہ اوّل، (مرتب: شیخ عطاء اللہ)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص۱۸۰۔ ۴۵- دیکھیے: Thoughts and Reflections of Iqbal، ص۵۲-۵۳۔ ۴۶- بالِ جبریل [کلیاتِ اقبال اُردو]، ص۱۱۳۔ ۴۷- زبورِ عجم[کلیات اقبالفارسی]،ص۹۴۔ ۴۸- از غلامی فطرتِ آزاد را رسوا مکن تا تراشی خواجۂ از برہمن کافر تری ۴۹- Thoughts and Reflections of Iqbal، ص۵۲۔ ۵۰- جاوید نامہ، [کلیات اقبال فارسی]، ص۷۲۔ ۵۱- گفتارِ اقبال، مرتبہ: محمد رفیق افضل، ادارۂ تحقیقات پاکستان، دانش گاہِ پنجاب، لاہور، ۱۹۶۹ئ، ص۱۰۴۔ ۵۲- جاوید نامہ، [کلیاتِ اقبال فارسی]،ص۷۱۔ ۵۳- حرفِ اقبال، ترتیب و ترجمہ: لطیف احمد خان شروانی، ناشر: علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد، ۱۹۸۴ئ، ص۶۱۷۔ ۵۴- تفصیل کے لیے دیکھیے: تحسین فراقی، مغربی جمہوریت اہلِ مغرب کی نظر میں، دیال سنگھ لائبریری، ۱۹۸۳ئ، ص۶۔ ۵۶- مزید دیکھیے: پروفیسر ڈاکٹر محمود علی ملک، ’’مغربی جمہوریت اور پسماندہ ممالک‘‘ مشمولہ مغربی جمہوریت اور اسلام: اقبال کا نقطۂ نظر، بزم اقبال، لاہور، ۲۰۰۰ئ، ۵۷- حرفِ اقبال،ص۱۵۶۔ ۵۸- روزنامہ جنگ ، ۹؍اگست ۱۹۹۷ئ۔ ئ……ئ……ء ذوق و شوق- تعبیر و تحسین ظفر احمد صدیقی اقبال کی شاعری اور فکر میں ارتقائی مراحل پر ماہرینِ فن نے اظہارِ خیال کیا ہے۔ خود اقبال نے بھی اپنی تحریروں میں اس طرح کے اشارے کیے ہیں۔ اقبال نے دیگر شعرا کی طرح ابتدا میں زیادہ تر یک موضوعی نظمیں لکھیں لیکن وہ بتدریج اسلوب کی ہیئت، مواد اور تنوع میں دیگر شعرا سے مختلف ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ فن و فکر کی یہ بالیدگی اپنے عروج کو پہنچی تو مسجد قرطبہ، ساقی نامہ اور ذوق و شوق جیسی نظمیں تخلیق ہوئیں۔ بال جبریل کی ان نظموں میں موضوعاتی تنوع ہونے کے باوجود کچھ مشترک قدریں بھی ہیں جن میں ایک ’’غیر آرایشی زبان‘‘ کا استعمال ہے۔ ان نظموں میں سے ’’ذوق و شوق‘‘ کا ایک سرسری مطالعہ زیرنظر مضمون میں پیش کیا گیا ہے۔ اُردو میں نظمِ جدید کی باقاعدہ روایت انجمن پنجاب کے مشاعروں سے شروع ہوتی ہے۔ پھر حالی، آزاد، شبلی، اسماعیل، صفی، چکبست، آغا حشر، نظم طباطبائی اور اکبر الٰہ آبادی سے ہوتی ہوئی اقبال تک پہنچتی ہے۔ اقبال کے پیش رو شعرا نے عام طور پر یک موضوعی نظمیں لکھی ہیں۔ خود اقبال نے نظم گوئی کا آغاز اسی روایت کے زیرسایہ کیا۔ اس لیے انھوں نے بھی ابتدا میں زیادہ تریک موضوعی نظمیں لکھیں۔ لیکن وہ ہیئت، مواد اور اسلوب تینوں سطح پر بہ تدریج اپنے پیش روئوں سے مختلف ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنے پسندیدہ موضوعات و افکار کو ایک قالب میں سمونے کا فن سیکھ لیا۔ ’’تصویر درد‘‘، ’’شمع اور شاعر‘‘، ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ اس سلسلے کی تجرباتی نظمیں ہیں۔ تجرباتی اس لیے کہ ان میں موضوعات کا تنوع ہے، لیکن فنی و فکری بالیدگی ابھی ارتقا پذیر ہے۔ ان کے برخلاف والدہ مرحومہ کی یاد میں، خضر راہ اور طلوعِ اسلام اسی طرز و انداز کی نسبۃً پختہ اور زیادہ فن کارانہ نظمیں ہیں۔ البتہ ’’خضرراہ‘‘ میں اقبال کا فن پہلی دفعہ اپنی بلندی پر نظرآتا ہے۔ فن کی یہ پختگی و بلندی ’’مسجد قرطبہ‘‘، ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’ذوق و شوق‘‘ میں اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے۔ بال جبریل کی ان منتخب منظومات میں بعض اوصاف قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سرفہرست موضوعات کا تنوع ہے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی نظم از اول تا آخر ایک فکر یا ایک موضوع پر مرکوز نہیں ہے۔ تاہم یہ اقبال کی فن کارانہ عظمت ہے کہ یہ نظمیں پراگندہ خیالی کا شکار ہونے کے بجائے صورت و معنی ہردو لحاظ سے ایک سجے سجائے گلدستے کی طرح دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ان کا ایک اور وصف مشترک یہ ہے کہ ان کی زبان غیرآرائشی اور حشو و زائد سے پاک ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر شعر اور ہر مصرع، ساز کے تاروں کی طرح کسا ہوا ہے۔ ایجاز یعنی قلتِ الفاظ میں کثرتِ معانی کی جلوہ گری کے لحاظ سے بھی یہ نظمیں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ تمام نظمیں قدرے طویل بھی ہیں۔ اس لیے ان کا آغاز تمہید اور فضاسازی سے ہوتا ہے۔ تنوع، ارتقائے خیال اور لطف و انبساط کی خاطر شاعر نے ان نظموں کو مختلف بندوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہربند بالعموم ایک وحدت کی تشکیل کرتا ہے۔ اس طرح پوری نظم چند وحدتوں سے مل کر ایک مرقع کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اقبال کی ان شاہ کار نظموں کی اگر درجہ بندی مقصود ہوتو ترتیب و تنظیم اور جمالیاتی نقطۂ نظر سے ’’مسجد قرطبہ‘‘ کو، ربط و تسلسل اور روانی کے لحاظ سے ’’ساقی نامہ‘‘ کو، ایجاز اور کفایت لفظی کے لحاظ سے ’’ذوق و شوق‘‘ کو بقیہ منظومات پر فوقیت حاصل ہوگی۔ پیش نظر نظم کا عنوان ’’ذوق و شوق‘‘ ہے۔ چونکہ اقبال نے یہ نظم سرزمین حجاز کے قریب تصوراتی طور پر حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر اور عشق نبویؐ میں ڈوب کر لکھی ہے۔ اس لیے اس کا عنوان ’’ذوق و شوق‘‘ تجویز کیا ہے۔ نظم میں نعت نبویؐ کے علاوہ جو دوسرے موضوعات زیربحث آئے ہیں، وہ بھی ’’ذوق و شوق‘‘ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نظم ترکیب بند کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ ہر بند چھے چھے اشعار پر مشتمل ہے، جن میں پانچ شعر مطلع کے ساتھ غیرمعروف غزل کی طرح ہم قافیہ ہیں اور آخری شعر ردیف و قافیے کے ساتھ بند کا ہے۔ اس طرح نظم کے اشعار کی مجموعی تعداد تیس تک پہنچتی ہے۔ اس نظم کی ترتیب اس طرح ہے کہ شاعر سرزمینِ فلسطین میں اپنے آپ کو موجود پاکر حجازِ مقدس بالخصوص مدینۃ الرسولؐ سے مکانی طور پر قرب محسوس کرتا ہے۔ دیارِ حبیب سے قرب کا یہ احساس تصوراتی طور پر اُسے بارگاہِ نبویؐ میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اب نظم شروع ہوتی ہے۔ پہلے بند میں شاعر پہلے زمان و مکان کی تصویر کشی کرتا ہے۔ پھر حضورِ رسالت مآبؐ میں غمِ دل اورغمِ دیں کی حکایت میں مصروف ہوجاتا ہے۔ یہ دونوں غم اس کی ذات میں ایک ہوگئے ہیں۔ اس لیے غم دل سے گفتگو کے آغاز کے ساتھ ہی اس کا رُخ غمِ دیں کی طرف مڑجاتا ہے۔ غم کی یہ حکایت تصور عشق تک دراز ہوجاتی ہے۔ بیانِ عشق پر ہی دوسرا بند تمام ہوجاتا ہے۔ تیسرے بند میں شاعر حضور پاکؐ سے مخاطبت کا شرف حاصل کرتا ہے۔ پھر مدرسہ و میکدہ کی نوحہ گری کرتے ہوئے اپنے دل کی پوشیدہ بے تابیوں کا ذکر کرتا ہے۔ اُس کے بعد اپنی شاعری کی توصیف کرتا ہے۔ آخر میں اپنے کلام کی تاثیر کو حضورِ پاکؐ کی نگاہِ فیض اثر کا کرشمہ قرار دیتے ہوئے عشق رسولؐ میں اور زیادہ ڈوب جانے کی تمنا کا اظہار کرتا ہے۔ چوتھے بند میں شاعر اولاً ایک خوب صورت نعت کہتا ہے۔ پھر حضورِ پاکؐ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ پھر عقل پر عشق کی برتری ثابت کرتا ہے۔ پھر رسالت مآبؐ سے دنیا کی تاریکیوں کو دور کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ پانچویں بند میں شاعر دوبارہ عقل و عشق کا موضوع چھیڑتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ غمِ دل کی حکایت کی طرف پلٹ جاتا ہے، جو دراصل عشق نبویؐ سے عبارت ہے۔ چونکہ یہ عشق حبیبؐ اور دیارِ حبیبؐ سے دوری و مہجوری کا زائیدہ و پروردہ ہے، اس لیے فراق کی قصیدہ خوانی پر گفتگو کو تمام کردیتا ہے۔ قلب و نظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں ان دونوں اشعار میں دشتِ فلسطین کی ایک صبح کا منظر پیش کیا گیا ہے، جس کے عقب میں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں ہیں۔ یہ دل آویز منظر آیاتِ آفاق کا ایک حصہ ہے۔ جس سے حسنِ ازل کی نمود ہورہی ہے۔ اسی لیے یہ قلب و نظر کے لیے حیات بخش ہے۔ قرآن پاک میں حسنِ ازل کی تعبیر ’’اَللّٰہُ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضِ‘‘ سے کی گئی ہے۔ اس لیے نور کی ندیوں سے حسنِ ازل کی نمود فطری بھی ہے اور واقعی بھی۔ قلب، نظر، صبح، آفتاب سب کی حیات نور سے، اور سب کا نور حیات سے وابستہ ہے۔ اور نور و حیات دونوں کا سرچشمہ حسنِ ازل ہے۔ دوسرے شعر کا مصرعِ ثانی ایک جملۂ معترضہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ’’ذوق و شوق‘‘ کا یہ مصرع کفایتِ الفاظ اور صناعی کے لحاظ سے ’’خضرراہ‘‘ کے شعر پر بھاری ہے۔ کیوں کہ یہ یہاں ’’سود و زیاں‘‘ کے طباق پر ’’دل و نگاہ‘‘ کا تناسب اور ’’ہزار و ایک‘‘ کا تقابل مستزاد ہے۔ نمود، وجود اور سود داخلی قوافی کی حیثیت سے شعر کی غنائیت میں اضافہ کررہے ہیں۔ سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب کوہِ اِضَم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دُھل گئے ریگِ نواحِ کاظمہ، نرم ہے مثلِ پرنیاں یہ دونوں شعر بھی فضا سازی کا ہی حصہ ہیں۔ چشمۂ آفتاب سے شاعر سحابِ شب کے آثار یعنی سرخ وکبود بدلیوں کی طرف نزول کرتا ہے۔ شفق کے یہ ٹکڑے گویا کوہِ اضم کی رنگ برنگی چادریں ہیں۔ کوہ اضم سے اس کا ذہن دیار کاظمہ کی جانب منتقل ہوجاتا ہے، جہاں رات کی بارش کی وجہ سے فضا شفاف ہے۔ برگ ہائے نخیل دُھلے ہوئے ہیں اور دور دور تک بچھی ہوئی ریت حریر و پرنیاں کی طرح نرم ہے۔ محاکات، نادر تشبیہات اور رنگ و نور کے استعاروں کے پہلو بہ پہلو متذکرہ بالاچاروں اشعار میں مدارجِ ہبوط و نزول خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں: چشمۂ آفتاب … سحاب شب …بدلیاں … کوہِ اضم … پاک و صاف ہوا … برگِ نخیل… ریگِ نواح کاظمہ گویا فضا سازی کا جو سفر چشمۂ آفتاب سے شروع ہوا تھا، وہ کالی گھٹائوں، سرخ بدلیوں، کوہِ اضم، پاک و صاف ہوا اور کھجور کے درختوں سے منزل بہ منزل نیچے اُترتا ہوا ریگ نواحِ کاظمہ پر تمام ہوجاتا ہے۔ ان اشعارمیں ربط و پیوستگی کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ چشمۂ آفتاب میں حسنِ ازل کی نمود، حمدِ باری سے کنایہ ہے۔ اس کے بعد کوہِ اضم اور دیارِ کاظمہ کا ذکر، نعتِ پاک کا استعارہ ہے۔ کیوں کہ یہ دونوں تلمیحیں بوصیری (ف۶۹۶ھ) کے قصیدۂ نعتیہ سے مستفاد ہیں۔ وہ اس قصیدے کی تشبیب میں کہتے ہیں: أَمِنْ تَذَکُّرِ جِیْراَنٍ بِذِیْ سَلَمِ مَزَجْتَ دَمْعاً مِنْ مُقْلَۃٍ بِدَمِ أمْ ھَبَّتِ الرِّیحُ مِنْ تِلْقَائِ کَاظِمۃٍ أَوْ أَوْمَضَ البَرْقُ فِی الظَّلْمَائِ مِنْ اِضَمِ یاد کیا آنے پھر ذی سلم کے دوست دار اشکِ خونیں اس لیے کرنے لگیں آنکھیں نثار کاظمہ سے آرہی ہے یا نسیمِ عطر بیز یا چمکتی ہے اِضَم کے سمت برقِ شعلہ بار [ترجمہ: مولانا عبدالرحمن بیخود مبارک پوری] آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں؟ کوہِ اضم اور دیارِ کاظمہ کے ذکر کے ساتھ شاعر کا ذہن اس طرف منتقل ہوجاتا ہے کہ فلسطین کی یہ سرزمین صدیوں تک انبیا و رسل کا مسکن و مدفن رہی ہے اور تاریخ کے ہزارہا کارواں اس دیار سے گزر چکے ہیں۔ اسی سرزمین پر بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیا و رسل کی امامت فرمائی اور یہیں سے آپ سفرِ معراج پر روانہ ہوئے۔ اس شعر کے مصرع اول میں عربی قصائد کی تشبیب کا انداز ہے، جسے اوپر کے دونوں اشعار سے خاص مناسبت ہے۔ کیوں کہ ان میں حبیب اور دیارِ حبیب کا ذکر آچکا ہے۔ مصرع ثانی کی بلاغت یہ ہے کہ استفہام اور ابہام نے زمانِ لامحدود کی طنابیں کھینچ دی ہیں اور ان گنت کاروانوں کو چشمِ تصور میں رواں دواں دکھلا دیا ہے۔ آئی صداے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی جس دشت میں حسنِ ازل کی نمود ہو، جہاں کوہِ اضم اور دیارِ کاظمہ کا قرب ہو، جہاں انبیا و رسل کے گذشتہ کاروانوں کے آثار ہوں وہاں عالمِ خیال میں اگر حضرت جبرئیل شاعر کو طرحِ اقامت کی دعوت دیتے ہوں اور اہلِ فراق کو عیشِ دوام کی بشارت سناتے ہوں تو کیا عجب ہے۔ کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مَے حیات کہنہ ہے بزمِ کائنات، تازہ ہیں میرے واردات یہ شعر اُس کرب کا اظہار کررہا ہے، جس کی بنا پر شاعر نے خود کو زمرۂ اہلِ فراق میں شامل کیا ہے۔ اس کرب کا منشا عالمِ اسلام کی زبوں حالی، خونِ مسلم کی ارزانی، ملت کا انتشار و افتراق اور قوم کی تن آسانی و بے عملی ہے۔ اس شعر کا مضمون نیا نہیں ہے۔ اقبال ابتدائی دور کی ایک نظم ’’حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں عرض کرچکے ہیں: حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے، وہ زندگی نہیں ملتی اسی طرح بال جبریل کی نظم ’’ہسپانیہ‘‘ میں کہتے ہیں: غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے ولیکن تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں لیکن جو زور اور قوت ’’ذوق و شوق‘‘ کے اس شعر میں ہے، وہ بقیہ دونوں اشعار میں نہیں۔ اس کی وجہ وہ استفہام ہے، جس سے شعر کا آغاز ہوتا ہے۔ گویا شاعر محسوس کرتا ہے کہ رنج و کرب میں شریک ہونا تو درکنار، عامۃ الناس میں کوئی اس کا مخاطب صحیح بھی موجود نہیں۔ پھر ’’مَے‘‘ کی ’’حیات‘‘ کی طرف اضافتِ تشبیہی جداگانہ لطافت کی حامل ہے۔ یہاں ’’مَے‘‘ سے متعلق حافظ کا مشہور شعر یاد دلانے میں کوئی مضائقہ نہیں: آں تلخ وش کہ ساقی ام الخبائثس خواند اشہی لَنَا و أَحْلَیٰ مِنْ قُبْلۃِ الْعِذَارَیٰ ان تلازمات کو ذہن میں رکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مَے حیات کی زہر سے تعبیر میں جو بلاغت ہے، اس کی صحیح داد اہلِ ذوق ہی دے سکتے ہیں۔ مصرع اول کی طرح اس شعر کا مصرع ثانی بھی ایجازِ بیان کا شاہکار ہے۔ اس میں بیک وقت ماحول سے عدم ہم آہنگی کا بیان بھی ہے، معاصر فنکاروں پر طنز بھی اور اپنے کلام و پیام کی انفرادیت پر اصرار بھی۔ جیسا کہ غالب نے کہا ہے: بیا ورید گر ایں جا بود زباں دانے غریبِ شہر سخن ہائے گفتنی دارد کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات یہاں خبر کے بجائے استفہام نے بیان میں قوت اور دل کشی پیدا کردی ہے۔ مصرع ثانی میں ’’اہلِ حرم کے سومنات‘‘ کی ترکیب ’’چو کفر از کعبہ برخیزد‘‘ کی ہم پایہ ہے۔ دوسری جانب ’’اہلِ حرم‘‘ سے ’’سومنات‘‘ کی کشید ’’صنعت تجرید‘‘ کی ایک اچھی مثال بھی ہے۔ اس شعر کے حوالے سے یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ فارسی و اردو میں ’’محمود‘‘ کی تلمیح ’’ایاز‘‘ کے ساتھ ایک خاص سیاق وسباق میں مستعمل رہی ہے لیکن محمود کو بت شکنی اور سومنات کے حوالے سے تلمیح کا درجہ دینا خاص اقبال کی عطا ہے۔ ذکرِ عرب کے سوز میں، فکرِ عجم کے ساز میں نَے عربی مشاہدات، نَے عجمی تخیلات اس شعر کا شمار اس نظم کے بلیغ ترین اشعار میں کیا جاسکتا ہے۔ صرف دو مصرعوں میں یہ عالم اسلام پر بھرپور تبصرہ ہے۔ اوپر کے شعر میں مطلق اہلِ حرم کا ذکر آیا تھا۔ یہاں اہلِ حرم کے دونوں بازوئوں ’’عرب‘‘ اور ’’عجم‘‘ کی صورتِ حال بیان کرکے اُن کے سومناتی ہونے کی دلیل پیش کردی گئی ہے۔ پھر عرب کی مناسبت سے ذکروسوز و مشاہدہ اور عجم کی رعایت سے فکروساز و تخیل میں جو تَہ بہ تَہ معنویتیں اور لطفِ بیان کے پہلو ہیں، اہلِ نظر کے لیے ان کی طرف اشارہ کافی ہے۔ البتہ یہاں یہ وضاحت بے محل نہ ہوگی کہ ’’مشاہدہ‘‘ کا تعلق حواسِ خمسۂ ظاہرہ سے ہے اور ’’خیال‘‘ کا حواسِ خمسۂ باطنہ سے۔ اور اربابِ طب و حکمت کے نزدیک خیال مشاہدے کا خزانہ ہے۔ یعنی انسان آنکھوں سے جو کچھ دیکھتا رہتا ہے، وہ خیال کے خزانے میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس توضیح کا حاصل یہ ہے کہ ’’عربی مشاہدات‘‘ اور ’’عجمی تخیلات‘‘ کا تقابل سرسری اور اتفاقی نہیں، بلکہ گہری معنویت کا حامل ہے۔ قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوے دجلہ و فرات یہ مضمون کہ دیار و امصار موجود ہیں، لیکن ان سے اب پہلے جیسی شخصیات نہیں اُٹھتیں، قوم کو جگانے کے لیے اقبال کا ایک پسندیدہ پیرایۂ بیان ہے۔ چنانچہ غزل کے ایک شعر میں کہتے ہیں: نہ اُٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی یہ شعر بھی اپنی جگہ خوب ہے، لیکن صناعی و ہنرمندی کے لحاظ سے ذوق و شوق کا شعر فائق ہے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت حسینؓ سر پر گیسو، رکھتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ حجاز کے ریگستان میں عربوں کے قافلے اونٹوں کے قطار کی شکل میں چلتے تھے۔ دریا کی موجوں کو بھی گیسو سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان مناسبتوں کو ذہن میں رکھ کر اس شعر کی قراء ت کی جائے تو حضرت حسینؓ، قافلۂ حجاز اور گیسوے دجلہ و فرات کے اجتماع میں ایک خاص حسن محسوس ہوتا ہے۔ معنویت پر اصرار کے ساتھ حسن آفرینی کی ایسی بدیع مثالیں صرف عظیم شاعروں کے یہاں ملتی ہیں۔ عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں، بت کدۂ تصورات صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق، صبر حسینؓ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں، بدر و حنین بھی ہے عشق حضرت حسینؓ کے ذکر کے ساتھ ہی اقبال کا ذہن اپنے ایک پسندیدہ موضوع کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اس عظیم کردار میں بھی وہ عشق ہی کی کارفرمائی دیکھتے ہیں۔ البتہ ’مسجد قرطبہ‘ کے برخلاف یہاں انھوں نے اس ذکر جمیل کو صرف دو شعر میں پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔ کیوں کہ ذوق و شوق میں ان کا میلانِ طبع موجز بیانی کی جانب زیادہ ہے۔ ان میںپہلا شعر ایک کلیے کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرا اس کلیے کی تمثیل ہے۔ ان اشعار کے حوالے سے چند نکات قابل توجہ ہیں: ۱- مرشد کا کام رہنمائی ہے اور دین و شریعت بھی انسان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے پہلے شعر کے دونوں مصرعے پوری طرح مربوط ہیں۔ ۲- بدر و حنین کو شاعری میں تلمیح کے طور پر استعمال کرنا اور حسین اور حنین کو ہم قافیہ بنانا بھی انیس کے بعد اقبال کے ساتھ خاص ہے۔ ۳- اس بند کے آغاز میں ’’سومنات‘‘ کا ذکر آیا تھا۔ اس مناسبت سے اختتام پر ’’بت کدۂ تصورات‘‘ کی ترکیب ایک عجب لطف کی حامل ہے۔ آیۂ کائنات کا معنیِ دیریاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہاے رنگ و بو معرکۂ بدر و حنین کے تذکرے کے ساتھ ہی اقبال ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب متوجہ ہوکر اولاً نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں اس کے بعد بارگاہِ نبویؐ میں قائدین امت کی تہی مایگی کا دکھڑا روتے ہیں۔ آیت و معنی کا ذکر سودا کے نعتیہ قصیدے میں بھی آیا ہے: اسی کو آدم و حوا کی خلقت سے کیا پیدا مراد الفاظ سے معنی ہے تا آیاتِ قرآنی جلوتیانِ مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق خلوتیانِ مے کدہ کم طلب و تہی کدو علم و دانش کے بے نور مراکز اور مدعیانِ معرفت کی بے روح مجالس سے بے اطمینانی کا اظہار اقبال نے اپنے کلام میں بار بار کیا ہے۔ مثلاً: اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے یہ بتانِ عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ اداے کافرانہ، نہ تراشِ آذرانہ رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی فسانہ ہاے کرامات رہ گئے باقی حلقۂ صوفی میں ذکر، بے نم و بے سوز و ساز میں بھی رہا تشنہ کام، تو بھی رہا تشنہ کام لیکن ایجاز بیان، ترصیع، تناسب، تقابل، غنائیت اور سیاق و سباق کی مناسبت کے لحاظ سے زیربحث شعر کا کوئی جواب نہیں۔ ’’جلوتیانِ مدرسہ‘‘ کو ’’کورنگاہ و مردہ ذوق‘‘ اور ’’خلوتیانِ مے کدہ‘‘ کو ’’کم طلب وتہی کدو‘‘ کَہ کر شاعر نے گویا سمندر کو اک بوند پانی میں بند کردیا ہے۔ میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ میری تمام سرگذشت، کھوئے ہوئوں کی جستجو یہ اور اس کے بعد کے دو شعر شاعر کی اپنی ذات سے متعلق ہیں۔ فحواے کلام یہ ہے کہ ارباب مدرسہ کی کور نگاہی اور اصحابِ خانقاہ کی کم کوشی کے درمیان میری شاعری بہت غنیمت ہے۔ کیوں کہ یہ آرزوئوں کو جگانے والی اور تمنا کو سینے میں بیدار کرنے والی ہے: مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو آتش رفتہ، سراغ، کھوئے ہوئے اور جستجو مراعاۃ النظیر کی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں۔ گذشتہ مثالی شخصیات کے لیے ’’آتشِ رفتہ‘‘ کا استعارہ نہایت بلیغ ہے۔ بادِ صبا کی موج سے نشوونماے خار و خس میرے نفس کی موج سے نشوونماے آرزو بہار اور سامانِ بہار سے اپنی شاعری کا موازنہ سودا نے بھی اپنے قصیدۂ لامیہ کیا ہے: تا ابد طرزِ سخن کی ہے مرے رنگینی جلوۂ رنگِ چمن جاوے گا اک آن میں ڈھل نام تلخی نہیں مجھ نطق میں، جز شیرینی یک طرف نالہ گلستاں میں ہے، یک سو حنظل ہیں برومند سخن ور مرے ہر مصرعے سے مصرعِ سرو سے پایا ہے کسی نے بھی پھل؟ لیکن قوت و تاثیر کے لحاظ سے اقبال کے دو مصرعے سودا کی طول کلامی پر بھاری ہیں۔ مزید برآں توازن، تناسب اور ترصیع نے شعر کو جواہر نگار بنا دیا ہے۔ خونِ دل و جگر سے ہے، میری نوا کی پرورش ہے رگِ ساز میں رواں، صاحبِ ساز کا لہو شاعرانہ تعلّی کے ساتھ ساتھ یہ شعر فنون لطیفہ سے متعلق اقبال کے نقطۂ نظر کی نمائندگی بھی کرتا ہے کہ فنکار کے خلوص اور ریاضِ پیہم کے بغیر معجزۂ فن وجود میں نہیں آتا۔ اس کے لیے یہ پیرایۂ اظہار کہ رگِ ساز میں جب تک صاحبِ ساز کا لہور دوڑ نہ جائے، نوا کی پرورش نہیں ہوسکتی، اقبال کی شاعرانہ ہنرمندی پر شاہدِ عادل ہے۔ موقع و محل کی مناسبت سے یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی تہذیب میں تعلّی سب کے لیے ممنوع، لیکن شاعر کے لیے روا بلکہ مستحسن سمجھی جاتی ہے۔ اس استثنا کی وجہ یہ ہے کہ مشرقی روایت میں شاعری کا سرچشمہ مبدأ فیاض یعنی ذاتِ باری تعالیٰ کو قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ شعرا کو تلامیذ الرحمن کہتے ہیں۔ اقبال نے یہاں اسی روایت کا سہارا لیتے ہوئے اپنی شاعری کی توصیف کی ہے۔ لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ، تیرے محیط میں حباب یہ اور اس کے بعد کے دونوں شعر نعت میں کہے گئے ہیں۔ لیکن ان کا انداز روایتی نعتوں سے مختلف ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ایک روایت میں یہ مضمون وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا (کَانَ خُلُقُہ‘ القُرآن) ممکن ہے اس شعر کے مصرعِ اول میں اسی طرف اشارہ ہو۔ شعر کا مصرعِ ثانی علو مرتبتِ نبویؐ کے بیان کے لیے نہایت خوب صورت پیرایۂ اظہار ہے۔ اس کا حسن اُس وقت کھلے گا، جب سفر معراج اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ قاری کے ذہن میں مستحضر ہو اور شیخ سعدی کا یہ شعر پیشِ نظر ہو: اگر یک سر موے برتر پرم فروغِ تجلی بسوزد پرم ’’لوح و قلم و کتاب‘‘ اور ’’آبگینہ و محیط و حباب‘‘ تناسب کے دو سلسلے ہیں، جو شعر کے صوتی و معنوی حسن میں اضافہ کررہے ہیں۔ عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب ’’لَو لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاکَ‘‘ کی روایت صوفیاے کرام کے یہاں بہت مقبول و مروج رہی ہے۔ بطور خاص صوفیاے دکن نے اس کی شرح میں درجنوں چھوٹے بڑے رسالے لکھے ہیں۔ لیکن نعت گوئی کے پورے ذخیرے میں اس شعر کا جواب نہیں۔ آب و خاک، ذرۂ آفتاب اور ظہور و فروغ کا تناسب و تقابل شعر کے حسن میں اضافے کا باعث ہے۔ شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود فقرِ جنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب اس شعر کے دونوں مصرعوں کو عام طور پر مبتدا اور خبر کی صورت میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر انھیں سوال و جواب کی صورت میں لکھا اور پڑھا جائے جب بھی ان کا معنوی حسن برقرار رہے گا: شوکتِ سنجر و سلیم؟ تیرے جلال کی نمود فقرِ جنید و بایزید؟ تیرا جمالِ بے نقاب واضح رہے کہ بال جبریل کی بیاض میں یہ شعر علامتِ استفہام کے ساتھ ہی مندرج ہے۔ اس شعر کے دونوں مصرعوں میں بیشتر الفاظ ہم وزن ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ترصیع کی ایک اچھی مثال ہے۔ مراعات النظیر اور طباق کا حسن اس پر مستزاد ہے۔ شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب یہ شعر بارگاہِ نبوی میں ایک نذرانۂ عقیدت اور عشقِ نبویؐ میں سرمست ہوجانے سے عبارت ہے۔ نماز، امام، قیام اور سجود ایک سلسلے کے الفاظ ہیں۔ تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب اس شعر میں اقبال نے عقل پر عشق کی برتری کا اپنا پسندیدہ مضمون نظم کیا ہے۔ البتہ سیاق وسباق کی مناسبت سے یہاں یہ جدت پیدا کی ہے کہ عقل و عشق اور ان دونوں کے لوازمات کو ’’نگاہِ ناز‘‘ یعنی ذاتِ نبویؐ سے وابستہ کر دیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ حبِ رسول کی بھی دو قسمیں ہیں: عقلی اور قلبی، اور ظاہر ہے کہ مؤخرالذکر کو مقدم الذکر پر ترجیح حاصل ہے۔ متذکرہ بالا شعر اسی فلسفیانہ بحث کی شاعرانہ تعبیر ہے۔ اسے سِحرِ حلال کہنا غلط نہ ہوگا۔ مصرعِ ثانی میں عقل و عشق کو اپنی صفات کے ساتھ جس طرح پیش کیا گیا ہے، علم بدیع کی اصطلاح میں اسے ’’صنعتِ مقابلہ‘‘ کہتے ہیں۔ تیرہ و تار ہے جہاں گردشِ آفتاب سے طبعِ زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے یہ شعر خالصتہً عاشقانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ دنیا گردشِ آفتاب کے باوجود تیرہ و تار ہے۔ اقبال حبیبِ پاکؐ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپؐ اسے اپنے انوار سے روشن کردیں۔ ’’جلوۂ بے حجاب‘‘ کی ترکیب یہاں ماقبل کے شعر میں وارد ’’نگاہ ناز‘‘ کی مناسبت سے لائی گئی ہے۔ مزید برآں طباق وتناسب یہاں بھی مضمونِ شعر کو چار چاند لگارہا ہے۔ تیری نظر میں ہیں تمام، میرے گذشتہ روز و شب مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم، نخیلِ بے رطب یہاں سے نظم کا آخری بند شروع ہوتا ہے۔ اس میں اقبال نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے ذوق و شوق اور سوزو ساز کا نہایت والہانہ و عاشقانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے سب سے پہلے اس دور کو یاد کیا ہے، جب وہ فلسفے کے شیدائی تھے اور اسی راہ سے حقائقِ اشیا تک پہنچنے کی سعی کرتے تھے، لیکن بالآخر اُن پر اِس کی بے اعتباری ظاہر ہوگئی۔ اس تعلق سے علم کو ’’نخیل بے رطب‘‘ کہنا ایک تازہ پیرایۂ بیان ہے، جسے نظم کی فضا سے خاص مناسبت حاصل ہے۔ تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب یہ شعر عقل و عشق کی آویزش اور موخر الذکر کی دل آویزی کی نہایت خوب صورت تعبیر ہے۔ ’’تازہ و کہن‘‘، ’’عشق و عقل‘‘، ’’مصطفی و بولہب‘‘ کا تقابل شعر کے حسن میں اضافے کا باعث ہے۔ مصرعِ اول میں ’’معرکہ‘‘ کا لفظ سیاق و سباق کے لحاظ سے نہایت موزوں ہے۔ گاہ بہ حیلہ می برد، گاہ بہ زور می کشد عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب عشق ایک ایسا موضوع ہے، جس کے مختلف پہلوئوں پر اقبال نے بار بار اظہارِ خیال کیا ہے اور متعدد لازوال اشعار کہے ہیں۔ مثلاً: آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گل میں جس طرح باد سحرگاہی کا نم دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو عجب چیز ہے لذتِ آشنائی طبیبِ عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا ترا مرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی نظم کا زیر بحث شعر بھی اسی سلسلۃ الذھب کی ایک کڑی ہے۔ معاملاتِ عشق میں عاشق کی بے دست وپائی کی یہ ایک خوب صورت تعبیر ہے۔ مصرعِ ثانی کی قوت کا راز انشائیہ پیرایۂ بیان میں پنہاں ہے۔ عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگِ آرزو، ہجر میں لذتِ طلب یہ شعر بھی عالمِ عشق ہی سے علاقہ رکھتا ہے۔ یہاں اس سوال کا جواب فراہم کیا گیا ہے کہ عشق میں وصال پر فراق کو ترجیح کیوں حاصل ہے؟ اور حاصل جواب یہ ہے کہ عشق کی کھیتی دوری و مہجوری ہی سے سرسبز ہوتی ہے۔ کیوں کہ عشق نام ہے شوق و آرزو کا اور شوق کی حیات ہجر پر موقوف ہے۔ سوزو ساز، طلب و آرزو، وصل و لذت اور ہجر و فراق جیسے الفاظ کا شعر میں اجتماع، صورت و معنی دونوں سطح پر شعر کو خوب صورت بنا رہا ہے۔ عینِ وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا گرچہ بہانہ جُو رہی ، میری نگاہِ بے ادب یہاں شاعر ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوکر عاشقانہ انداز میں عرض کرتا ہے کہ اگر میں دیارِ حبیبؐ تک پہنچ کر بھی درِ حبیبؐ پر حاضری نہ دے سکا، تو اس کا منشا بھی شوق و آرزو کو تازہ رکھنا ہے۔ اس شعر میں ’’حوصلۂ نظر‘‘ اور ’’نگاہِ بے ادب‘‘ جیسی تراکیب عاشقانہ فضا آفرینی کے لیے لائی گئی ہیں۔ گرمیِ آرزو و فراق، شورش ہاے و ہُو فراق موج کی جستجو فراق، قطرے کی آبرو فراق یہ نظم کا آخری شعر ہے اور کئی پہلوئوں سے قابل توجہ ہے۔ اول یہ کہ فراق کے موضوع پر اُردو میں شاید اس سے زیادہ پرجوش اور طاقت ور کوئی دوسرا شعر موجود نہیں۔ دوم یہ شعر نظم کے عنوان ’’ذوق و شوق‘‘ سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ سوم یہ پہلے بند کے آخری شعر: آئی صداے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی کے مضمون کو کھولتا ہے اور مجموعی طور پر اولِ کلام کو آخرِ کلام سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ گویا اہلِ بلاغت کی اصطلاح میں ’’تشابہہ اطراف‘‘ کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ اہلِ نظر واقف ہیں کہ ’’براعتِ استہلال‘‘ کی طرح یہ بھی حسنِ کلام کا ایک پہلو ہے۔ ژ…ژ…ژ علامہ اقبال اور مولانا اسلم جیراج پوری جعفر بلوچ ’اہل قرآن‘ کے نام سے شہرت پانے والوں میں مولانا اسلم جیراج پوری کا نام بھی شامل ہے۔ البتہ ان کا ذاتی خیال یہ سامنے آیا ہے کہ میں اہل قرآن میں سے نہیں ہوں۔ مولانا اسلم ایک علمی شخصیت ہونے کے ناتے اپنا ایک نقطۂ نظر رکھتے تھے جس کا اظہار انھوں نے مختلف علمی مسائل میں کیا۔ علامہ اقبال کی شعری تخلیقات پر ان کی عالمانہ آرا موجود ہیں۔ علامہ سے ان کی مراسلت بھی رہی۔ علامہ کے بعض شعری مجموعوں پر انھوں نے اپنے اختلافات اور تحفظات کا اظہار بھی کیا تاہم وہ کلام اقبال کو اپنے لیے غذاے روح قرار دیتے تھے اور اقبال کو دیگر سب شعرا سے افضل تر سمجھتے تھے۔ زیر نظر مقالے میں علامہ اقبال کے کلام نثر و نظم کے حوالے سے مولانا اسلم کی علمی اور تنقیدی آرا کو مربوط صورت میں پیش کیا گیا ہے جس سے مولانا اسلم کی اقبال سے عقیدت اور خود مولانا کے بارے میں بھی بہت سی تہیں کھلتی ہیں۔ مولانا محمد اسلم جیراج پوری (جنوری۱۸۸۳ئ، جے پور، ضلع اعظم گڑھ-۲۸دسمبر۱۹۵۵، دہلی) کے نام اور علمی کارناموں سے اہل ادب ناآشنا نہیں۔ انھوں نے اسلام، قرآن ا ور اسلامی تاریخ کے حوالے سے گراں قدر دینی اور علمی و ادبی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کی بعض تصانیف مثلاً تاریخ الامت، نکات قرآن، علم المیراث، تاریخ التمدن الاسلامی(ترجمہ)، تاریخ نجد اور نوادرات وغیرہ شہرہ آفاق ہیں اور اسلامی دنیا کی کئی علمی اور تہذیبی ضروریات کو پورا کرنے والی ہیں۔ چنانچہ یہ کتابیں بار بار چھپتی رہتی ہیں۔ مولانا جیراج پوری کا شعری ذوق بھی بہت اعلیٰ تھا۔ وہ فنِ شعر کے اسرار و رموز سے بخوبی آگاہ تھے۔ علامہ اقبال کی بعض تصانیف پر ان کے تبصروں سے ان کے ذوقِ شعر کی بلندی اور ان کی ناقدانہ بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا ایک مختصر مجموعۂ منظومات بھی جواہر ملیہ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ مولانا جیراج پوری میں یہ قابل رشک علمی و دینی بصیرت اور مجتہدانہ نقطۂ نظر پیدا کرنے کا سہرا ان کے والد ماجد مولانا سلامت اللہ (۱۸۵۶ئ-۱۵ جون ۱۹۰۴ئ) کے سر ہے، جو خود بھی اپنے زمانے کے ایک ممتاز عالمِ دین تھے اور نواب صدیق حسن خاں کے زمانۂ اقتدار میں بھوپال کے محکمۂ تعلیمات کے مہتمم رہے تھے۔ مولانا جیراج پوری پیسہ اخبار لاہور کی ملازمت چھوڑ کر (۱۹۰۴ئ) علی گڑھ کالج میں پروفیسر ہوگئے تھے۔ پھر دینی اور ملّی جذبے کے تحت وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بطور استادِ اسلامیات وابستہ ہوگئے اور تاحیات اسی ادارے سے منسلک رہے۔ شاہ معین الدین احمد ندوی مدیر معارف اعظم گڑھ نے مولانا اسلم جیراج پوری کی وفات پر لکھا تھا: مرحوم صاحبِ علم و نظر عالم تھے۔ اگرچہ ان کی تعلیم پُرانے (تعلیمی نظام) اور پھر اہلِ حدیث کے ماحول میں ہوئی تھی لیکن وہ بڑے روشن خیال اور زمانہ کے حالات و رجحانات سے باخبر تھے اور کسی سوسائٹی میں اجنبی نہیں معلوم ہوتے تھے… مسلکاً اہلِ قرآن کی طرف مائل تھے مگر منکرینِ حدیث کی طرح غالی نہ تھے۔ سنتِ متواترہ کو مانتے تھے۔ عملاً دیندار اور طبعاً بڑے سادہ، متواضع اور خلیق تھے۔۱؎ اہلِ قرآن سے مولانا اسلم جیراج پوری کا تعلق تو بِلا شبہہ رہا ہے اور جناب غلام احمد پرویز انھیں اپنا استاد بھی تسلیم کرتے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مولانا خود اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ انھیں اہل قرآن میں شمار کیا جائے۔ چنانچہ جناب عبدالعزیز کمال کے نام اپنے ۱۲؍اپریل ۱۹۵۱ء کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: میں جماعت اہلِ قرآن میں سے نہیں ہوں۔ وہ لوگ عملِ متواتر کے قائل نہیں ہیں۔ اور نماز و روزہ وغیرہ کے لیے اپنی اختراعی شکلیں نکالتے ہیں اور میں رسول اللہؐ کے اسوۂ حسنہ کو جو اُمت میں سلسلہ بہ سلسلہ نسلاً بعد نسل چلے آتے ہیں، دینی اور یقینی مانتا ہوں۔ حدیثیں یقینی نہیں ہیں بلکہ ظنی ہیں۔ وہ دینی نہیں ہیں بلکہ تاریخی حیثیت رکھتی ہیں… طلوع اسلام کا اپریل (۱۹۵۱ئ) کا شمارہ اقبال نمبر ہے۔ نیز وہ کبھی کبھی میرے مضامین بھی چھاپتا رہتا ہے۔۲؎ مولانا جیراج پوری دین و ادب کے متنوع دوائر میں امامت کے منصب پر فائز تھے۔ اقبالیات بھی دین و ادب ہی کا ایک سعادت آگیں شعبہ ہے۔ مولانا اس طرف بھی متوجہ ہوئے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا اپنی جودتِ فکر و نظر کے باعث اقبالیاتی ادب کا بھی ایک محکم حوالہ ہیں۔ حضرت علامہ اقبال سے مولانا کا غائبانہ تعارف تو غالباً ان کے زمانۂ طالب العلمی سے ہوگا حضرت علامہ سے ملاقات کا شرف ممکن ہے انھیں ۰۴-۱۹۰۳ء میں حاصل ہوا ہو۔ ان دنوں مولانا عربی مضامین اور خبروں وغیرہ کے مترجم کے طور پر پیسہ اخبار لاہور سے وابستہ تھے۔ لیکن تاحال ایسی کسی ملاقات کی تحریری یا زبانی شہادت دستیاب نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے جب حضرت علامہ سے مولانا کی ملاقات ہوسکتی تھی۔ مثلاً حضرت علامہ ۱۹۳۳ء میں غازی رؤف پاشا (ترکی) کے لیکچروں کی صدارت کے سلسلے میں ۱۸ سے ۲۱مارچ تک دہلی میں رہے۔ اسی طرح ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی درخواست پر حضرت علامہ ۵؍اپریل کو پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں تشریف لے گئے اور اسی روز جامعہ میں جلسہ ہوا۔ افسوس ہے کہ ان مواقع پر بھی ان اکابر کی باہمی ملاقات کی کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی۔ البتہ اس کے بعد حضرت علامہ اور مولانا کی چند ملاقاتوں کا تذکرہ سید نذیر نیازی اور خود مولانا کی بعض تحریروں میں ملتا ہے۔ مثلاً ۶؍اپریل۱۹۳۳ء کی سہ پہر کو حضرت علامہ طلبہ سے خطاب کرنے کے لیے جامعہ ملیہ میں تشریف لائے۔ ان دنوں مولانا جیراج پوری جامعہ میں پروفیسر تھے، اس موقع پر انھوں نے ایک مختصر تقریر کرتے ہوئے حضرت علامہ کا استقبال کیا۔ اس جلسے کا حال سید نذیر نیازی نے اپنے مکتوبات بنام علامہ اقبال میں اور فارابی القمری نے اپنے ایک مضمون (مشمولہ اقبال نامہ مرتبہ: چراغ حسن حسرت) میں بیان کیا ہے۔سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: اگلے روز سہ پہر میں حضرت علامہ پھر جامعہ تشریف لائے۔ مولانا اسلم نے خیرمقدم کیا۔ ان کی تقریر بڑی پرلطف اور خلوص و ارادت سے بھری ہوئی تھی۔ مولانا نے کہا آپ ہمارے مدت العمر کے محبوب ہیں۔ آپ نے شعر کہنا کیا شروع کیا ہمارے دل میں گھر کرلیا۔ ہم اپنی محبت کا اظہار آپ کے استاد ہی کی زبان میں کریں گے۔ انھوں نے کہا تھا: تخلص داغ ہے اور عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں! آپ کا گھر بھی عشاق کا دل ہے۔ آپ ہم سب کے محبوب ہیں۔ حضرت علامہ نے طلبہ سے خطاب کیا۔ انجمن اتحاد طلباے جامعہ کی رکنیت قبول کی اور سپاس نامے کے جواب میں بڑے حوصلہ افزا کلمات ارشاد فرمائے۔ اس کے بعد طلبہ سے بات چیت کے ساتھ ان کی بیاضوں پر دستخط کرتے رہے۔ شام کو مجیب صاحب۳؎ کے یہاں دعوت تھی۔ کھانے پر مزے مزے کی باتیں ہوتی رہیں۔ مولانا اسلم مرحوم سے بھی تبادلۂ خیالات ہوا۔ دعوت پر زیادہ تر بحث اسلامی ریاست ہی کی رہی۔۴؎ حضرت علامہ سے مولانا جیراج پوری اور ان کے احباب یعنی پرویز صاحب۵؎ حضرت اسد ملتانی۶؎ اور شیخ سراج الحق۷؎ کی ایک تفصیلی ملاقات ۱۰؍جنوری ۱۹۳۸ء کو لاہور میں علامہ کے دولت کدے پر ہوئی۔ اس ملاقات کی مفصل رُوداد سید نذیر نیازی کی قابلِ قدر کتاب اقبال کے حضور میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبالیات کے حوالے سے مبصرانہ اور محاکمانہ سطح پر مولانا جیراج پوری کی حکمت و بصیرت کا اولین اظہار اسرارِ خودی پر ان کے تبصرے سے ہوتا ہے۔ اسرارِ خودی ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی تھی اور اس میں حضرت علامہ نے عجمی تصوف پر تنقید کی تھی۔ اس ضمن میں ان کے قلم سے حافظ شیرازی کے بارے میں بھی بعض سخت اشعار نکل گئے، مثلاً: ہوشیار از حافظِ صہبا گسار جامش از زہرِ اجل سرمایہ دار عجمی تصوف کی مخالفت اور حافظ شیرازی کے خلاف اشعار کی وجہ سے برعظیم میں حضرت علامہ کے خلاف مخالفت کا سیلاب امڈ آیا۔ متعدد تصوف پرستوں نے نظم و نثر میں علامہ کے اس اُسلوب فکر پر لَے دے شروع کردی۔ حضرت علامہ نے بھی جواباً کئی مضامین لکھے جو اب مقالاتِ اقبال اور انوارِ اقبال وغیرہ میں شامل ہیں۔ اس بحث کی حمایت اور مخالفت میں اور کئی حضرات بھی کود پڑے۔ بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ حضرت علامہ کے موقف کی حمایت میں مولانا ظفر علی خاں اور اس کی مخالفت میں خواجہ حسن نظامی پیش پیش تھے۔ حضرت اکبر الہ آبادی نے اقبال کے نقطۂ نظر کی حمایت کی۔ کئی شعرا مثلاً مظفر احمد صاحب فضلی اور حکیم فیروز الدین صاحب طغرائی نے اسرار خودی کے جواب میں مثنویاں لکھیں۔ مولانا جیراج پوری اس سارے ہنگامے کو دیکھ رہے تھے اور خاموش تھے۔ معلوم نہیں کیوں وہ اس بحث کو اُصولی بحث نہیں سمجھتے تھے۔ بہرحال بعض دوستوں کے اصرار پر انھوں نے اسرارِ خودی اور اس کی متعلقہ بحثوں پر قلم اُٹھایا اور ان کا مضمون ماہنامہ الناظر کے فروری ۱۹۱۹ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ مولانا جیراج پوری عدل گستر اور بے لاگ ناقد تھے، علمی و ادبی کتابوں کے تبصروں میں بھی ان کا یہی اُسلوبِ نقد قائم رہتا تھا اور اپنی انتقادی کاوشوں میں وہ دانے سے بھوسے کو الگ کرتے جاتے تھے۔ چنانچہ اسرارِ خودی کے تبصرے میں بھی جہاں انھوں نے عجمی تصوف کے مسئلے پر حضرتِ علامہ کی ہم نوائی کی اور فضلی اور طغرائی صاحبان کے اعتراضات کا جواب دیا، وہیں یہ بھی لکھا کہ: ڈاکٹر صاحب نے اس مثنوی میں خواجہ حافظ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے، اگر وہ نہ لکھتے تو بہتر تھا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ایک تو خود ان کی ذات پر حملے ہونے لگے، …دوسرے نفسِ مسئلہ جو مفید تھا، ان ناگوار بحثوں کے حجاب میں آگیا۔۸؎ مولانا جیراج پوری نے اس بات کو بھی حیرت انگیز گردانا ہے کہ حضرت علامہ اقبال نے خواجہ حافظ کے مقابلے میں عرفی شیرازی کی تحسین فرمائی تھی حالانکہ عرفی تو خود شمعِ حافظ کا پروانہ ہے۔ تاہم علامہ اقبال مولانا جیراج پوری کے تبصرے کی اشاعت سے پہلے ہی ان نتائج تک پہنچ چکے تھے جن کی نشان دہی مولانا نے فرمائی تھی۔ بلکہ مولانا کے تبصرے کی اشاعت سے پہلے ہی اسرارِ خودی کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۱۸ء کے نصفِ آخر کے اوائل میں شائع ہوگیا تھا اور اس میں تمام قابلِ اعتراض اشعار حذف کردیے گئے تھے اور متعدد دیگر تبدیلیاں بھی کردی گئی تھیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ میں ان ترامیم کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال حضرت علامہ نے مولانا کے تبصرے کو قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا اور ۱۷ مئی ۱۹۱۹ء کو انھیں شکریے کا خط لکھا۔ مولانا جیراج پوری کا قیاس ہے کہ حضرتِ علامہ نے اسرارِ خودی پر انھی کے تبصرے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا یہ مشہور شعر کہا تھا: گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں۹؎ پیام مشرق کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا اور دوسرا مارچ ۱۹۲۴ء میں۔ مولانا جیراج پوری کا تبصرہ اس کتاب پر دوسرے ایڈیشن کی اشاعت سے غالباً پہلے شائع ہوا تھا کیونکہ دوسرے ایڈیشن میں اس غلطی کی اصلاح کردی گئی ہے جس کی نشان دہی پہلے ایڈیشن کے چھپنے پر کی گئی تھی۔ اس تبصرے میں مولانا نے پیامِ مشرق کے مندرجات کی کشادہ دلی سے تحسین کی ہے۔ وسیع المطالعہ اور حاضر دماغ ہونے کی وجہ سے وہ جابہ جا اقبال کے اشعار کے ہم مضمون اشعار متقدمین کے کلام سے نقل کرتے جاتے ہیں اور اس طرح مطالعۂ کلامِ اقبال میں مزید دل کشی کا سامان پیدا کردیتے ہیں لیکن جہاں ضروری سمجھتے ہیں، گرفت بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے آغازِ تبصرہ میں اس کتاب کے تہدیہ بنام امان اللہ خان حاکمِ افغانستان کو تو سراہا ہے لیکن اسرارِ خودی کے انتساب کے بارے میں، جسے حضرت علامہ نے دوسرے ایڈیشن میں حذف کردیا تھا، بعد از وقت، یہ لکھا ہے: اس سے پیشتر ڈاکٹر صاحب کی ایک مثنوی کا تہدیہ میری نظر سے گزرا تھا جس کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی تھی کہ اللہ اکبر! اسرارِ خودی کی تعلیم اور اس پر یہ بے خودی: چو روئے خویش در آئینہ می توانی دید چرا نظر بہ جمالِ کسے دگر داری۱۰؎ اس انتساب یا تہدیہ کی بحث میں مولانا نے کیا خوب نکتہ بیان کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: کتاب کو کسی کے نام سے معنون کردینا ایک عام رسم ہوگئی ہے۔ حالانکہ اس کا موقع صرف وہ ہے جب کہ کتاب کے مقصد کو اس سے مدد مل سکے۔ ورنہ اہل نظر اس کو کتاب کی خواری اور مصنف کی سبکساری کی دلیل سمجھتے ہیں۔۱۱؎ مولانا نے پیام مشرق (اشاعت اوّل) کی ایک نظم بعنوان ’’بوئے گل‘‘ کے درج ذیل شعر پر بھی اعتراض کیا تھا: زندانیِ کہ بند ز پایش کشادہ اند آہے گزاشت است کہ بُو نام دادہ اند مولانا کا اعتراض یہ تھا کہ ’’آہے گزاشت است‘‘ کا ٹکڑا ذوقِ سلیم کو کھٹکتا ہے۔‘‘ اس اعتراض کے پیشِ نظر حضرت علامہ نے اس شعر کو یوں بدل دیا: زاں نازنیں کہ بند ز پایش کشادہ اند آہے ست یاد گار کہ بُو نام دادہ اند اس کے باوجود حضرت علامہ نے اس مسئلے پر سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا بادی اور گرامی جالندھری سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ حضرت گرامی نے کچھ مشورہ دیا لیکن حضرت علامہ کو موقع و محل کے لحاظ سے اپنا ہی متبادل شعر زیادہ مناسب معلوم ہوا۔ چنانچہ پیام مشرق کے دوسرے ایڈیشن میں اسی کے مطابق تبدیلی کردی گئی۔۱۲؎ پیام مشرق ہی کے تبصرے میں مولانا نے جمہوریت کے بارے میں حضرت علامہ کے نقطۂ نظر سے بھی اختلاف کیا ہے۔ حضرت علامہ نے لکھا ہے: گریز از طرز جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید مولانا کا کہنا تھا کہ: حضرت علامہ کا یہ قول نہایت تعجب انگیز ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ ’’پختہ کار‘‘ صاحب بھی ’’خرِ نامشخص‘‘ نکلے تو پھر کیا ہوگا؟ …اس میں کچھ شک نہیں کہ رائے صواب ہر معاملے میں صرف ایک ہی ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایک شخص سے حاصل کی جائے یا ایک جماعت سے۔ مشورے میں دو فائدے ہیں: ۱-نتیجہ خراب ہونے کی صورت میں ملامت کا خوف نہیں رہتا۔ اسی بنیاد پر رسولِ اکرم کو بھی جن کی رائے کے قطعی درست ہونے میں شبہ نہیں تھا شاورھم فی الامر کا حکم دیا گیا۔ ۲-بہ نسبت ایک شخص کے جماعت میں اغلباً مذاقِ صحیح موجود ہوتا ہے۔ اس لیے عام مسلمانوں کے لیے امرھم شوریٰ بینھم نازل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے کی کوئی توجیہ میری سمجھ میں بجز اس کے نہیں آتی کہ میں اس کو ان کی تعلیمات سے نکال کر مطائبات میں شمار کرلوں۔۱۳؎ افسوس ہے کہ مولانا نے جمہوریت اور نظام خلافت کے امتیازات پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ جاوید نامہ پر جناب اسلم جیراج پوری کا تبصرہ ۱۹۳۲ء ہی میں لکھا گیا۔ اس تبصرے میں مولانا نے مختلف افلاک کی سیر کا خلاصہ درج کیا ہے اور تعلیمات اقبال کا اجمالی ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور اشتراکیت کا فرق بھی واضح کیا ہے۔ انھوں نے اپنے تجزیے میں بتایاہے کہ رُوس لا کی منزل پر آکر رک گیا ہے اور الاّ کی طرف نہیں بڑھا۔ جناب جیراج پوری تعلیماتِ اقبال کو کلام الٰہی کی روشنی میں دکھانے کے بھی متمنی تھے لیکن تبصرے کی تنگ دامانی کی وجہ سے یہ ارادہ ترک کرنا پڑا۔ انھوں نے جاوید نامہ کو فارسی ادبیات کی پانچ اعلیٰ ترین کتابوں میں شامل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ہم سنا کرتے تھے کہ فارسی زبان سیکھنے کے بعد صرف چار کتابیں اچھی پڑھنے کو ملتی ہیں، شاہ نامۂ فردوسی، مثنوی مولانا رُوم، گلستانِ سعدی، اور دیوانِ حافظ مگر اب جاوید نامہ کو بھی پانچویں کتاب سمجھنا چاہیے جو کہ معنویت اور نافعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتی ہے۔۱۴؎ جاوید نامہ میں بھی ایک نکتے پر وہ حضرت علامہ سے اختلاف کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں: ’’فلکِ مشتری پر ڈاکٹر صاحب کی ایک ادا قرآن کے خلاف معلوم ہوئی اس لیے اس کو بھی ظاہر کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ وہ جوہر مصطفی کی حقیقت جس کو اللہ تعالیٰ معراج کے بیان میں ’’عبدہ‘‘ فرماتا ہے، حلاج کی زبان میں اس طرح بیان کرتے ہیں: کس ز سرِ عبدہٗ آگاہ نیست عبدہٗ جز سرِّ اِلّا اللّٰہ نیست لا اِلہ تیغ و دم اُو عَبْدُہٗ فاش تر خواہی بگو ہُوْ عَبْدُہٗ‘‘ عبدہ کے بارے میں حضرت علامہ کے پانچ شعر نقل کرنے کے بعد مولانا لکھتے ہیں: یہ حقیقت میں غلو ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کے حدود میں رکھنے سے ان کا اسوۂ حسنہ انسانوں کے لیے دلکش اور آسان رہتا ہے۔ بخلاف اس کے دائرۂ الوہیت میں داخل کردینے سے ان کی پیروی نہ صرف دشوار بلکہ غیر ضروری بھی ہوجاتی ہے۔ غالباً اسی نکتے کی وجہ سے قرآن نے جہاں جہاں اس امر کو بیان کیا ہے، حصر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے: ھَلْ کُنْتُ اِلّا بَشَرًا رَّسُوْلاً(۱۷:۹۳) ترجمہ: میں نہیں ہوں مگر ایک انسان پیغام لانے والا۔ سورۂ کہف میں ہے: قُلْ اِنَّما اَنَا بَشَرٌمِثْلُکُمْ یُوْحیٰ اِلیَّ (۱۸:۱۱۰) ترجمہ: کہہ دے کہ میں تو بس تمھارے ہی جیسا انسان ہوں، (مگر) مجھ پر وحی بھیجی جاتی ہے۔ یعنی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، بجز اس کے کہ عالم غیب سے اللہ ان پر وحی بھیجتا ہے، بشریت ہی کے دائرہ میں محصور ہے اور کوئی شعبہ الوہیت کا اس میں نہیں ہے۔ مزید تصریحات قرآن کے متعدد آیات میں ہیں۔۱۵؎ ’’عبدہٗ‘‘کی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اسلم جیراج پوری اپنے افکار و تصورات میں صراحت و صفا کے کتنے دل دادہ تھے اور ان کا تصورِ توحید کتنا محکم، بے آمیز اور غیر مبہم تھا۔ بال جبریل پر مولانا جیراج پوری اگرچہ تبصرہ نہ لکھ سکے لیکن اس کے مطالعے کے فوری تاثرات سید نذیر نیازی کی وساطت سے ہم تک پہنچے ہیں۔ حضرت علامہ نے سیّد نذیر نیازی کے نام اپنے مکتوب مرقومہ ۱۲ جنوری ۱۹۳۵ء میں لکھا تھا کہ ’’بال جبریل دو چار روز تک آپ کی خدمت میں ارسال ہوگی۔‘‘ اس مکتوب پر حواشی لکھتے ہوئے سید نذیر نیازی رقم طراز ہیں: بالِ جبریل دوسرے تیسرے روز پہنچ گئی۔ میں نہیں کہہ سکتا مولانا اسلم نے پیکٹ دیکھا تو کس اشتیاق سے کہا، ’’اس پر پہلا حق میرا ہے۔‘‘ میں نے سرِتسلیم خم کردیا۔ مولانا دوسرے روز کتاب واپس لائے تو فرمایا ’’ڈاکٹر صاحب کی شاعری معراج کمال کو پہنچ گئی ہے اور پھر اس کے ساتھ اپنا وہ قطعہ بھی سُنایا جس کا آخری مصرع یوں تھا: اوراق میں بکھرے ہوئے جبریل کے پر دیکھ! جو آگے چل کر (ماہنامہ) طلوع اسلام میں شائع ہوا۔۱۶؎ ضرب کلیم (اشاعت اوّل ۱۹۳۵ئ) کے بارے میں مولانا اسلم جیراج پوری کا ایک قطعہ ستمبر ۱۹۳۶ء کے طلوع اسلام میں شائع ہوا۔ یہ قطعہ مع تمہیدی نوٹ درج ذیل ہے: ضربِ کلیم موصول ہوئی۔ مجھے کس قدر خوشی ہوئی اور … اس کو بیان نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر صاحب کا کلام میرے لیے غذائے رُوح ہے اور میں ان کو ان سب شعرا سے افضل تر سمجھتا ہوں جو آج تک دنیائے اسلام میں ہوئے ہیں۔ آپ نے ریویو کی فرمایش کی ہے مگر میں نے آنکھوں کی تکلیف اور نگاہ کی کمزوری کے باعث مضمون نویسی بالکل چھوڑ دی ہے۔…یہ دو شعر البتہ پیش کرتا ہوں۔ مناسب معلوم ہو تو ان کو طلوع اسلام میں شائع کردیں تاکہ ڈاکٹر صاحب کی نظر سے گزر جائیں اور ساری ’’اقبالی‘‘ برادری کی نظر سے بھی۔ ضرب کلیم ہم نے تو دیکھی نہیں مگر سُنتے ہیں اس کے ڈر سے دلِ کوہ خون تھا اقبال کا قلم بھی عصائے کلیم ہے اعجاز جس کا تَلْقَفُ مَا یَافِکُونَ تھا۱۷؎ پھر ۱۹۳۷ء میں ضرب کلیم پر جناب جیراج پوری کا تبصرہ بھی شائع ہوا۔ یہ تبصرہ نوادرات میں بھی شامل ہے۔ اس مختصر مضمون کی تمہید میں بھی مولانا نے حضرت علامہ کو زبردست خراج پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں: یہ [مجموعہ ضرب کلیم] کس قدر دل کش اور رُوح پرور ہے، صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان اشعار کی تعریف کرنا یا دوسرے شعرا کے کلام کی طرح ان کی داد دینا، یا اپنے خیال کے ساتھ ان کی مطابقت دکھانا، یا بے کیف توضیحات کرکے ان کی لطافت کو کھونا نہ صرف کور ذوقی ہے بلکہ شریعتِ ادب میں گناہِ کبیرہ ہے کیونکہ یہ شاعری نہیں ہے بلکہ حیات ملیۂ اسلامیہ کے ان اہم مسائل کے متعلق جن میں مفکرین غلطاں و پیچاں ہیں اور جو دفتر کے دفتر سیاہ کرنے سے بھی حل نہیں ہوتے، دو دو اور چار چار شعروں میں جچی اور تلی رائیں، روشن تعلیمات اور بے پردہ حقائق ہیں جو اہلِ بصیرت کی نگاہوں میں موتی کی طرح چمک رہی ہیں۔۱۸؎ پھر اچانک مولانا رخ بدل کر فرماتے ہیں: لیکن میرا طریقۂ فکر جداگانہ ہے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب کی بعض باتوں سے کلی طور پر میں متفق نہیں ہوسکا۔ انھیں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ’’مہدی‘‘ کے عنوان سے وہ فرماتے ہیں: مجذوبِ فرنگی نے بہ اندازِ فرنگی مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار نومید نہ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو اس میں غالباً روئے سخن میری طرف ہے کیونکہ مہدی کے عقیدے کے اسلامی ہونے سے سب سے پہلے میں نے علی الاعلان انکار کیا ہے۔۱۹؎ معلوم نہیں مولانا نے اس متذکرہ عقیدۂ مہدی کے اسلامی ہونے سے پہلی بار کب انکار کیا تھا لیکن حضرت علامہ تو غالباً ہمیشہ سے مہدی کے معروف تصور کے خلاف رہے۔ چنانچہ انھوں نے تو ۱۹۰۵ء میں کہا تھا: مینارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ یہ انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے۲۰؎ تاہم بانگِ درا کی تدوین کے وقت اس شعر کو بوجوہ متعلقہ غزل سے حذف کردیا گیا۔ اپنے اسی نقطۂ نظر کا اعادہ حضرت علامہ نے اپنی انگریزی نوٹ بک Stray Reflections (۱۹۱۰ئ) میں کیا ہے: Give up waiting for the Mehdi - the personification of power. Go and create him.21 بالِ جبریل اور ضرب کلیم کے بعض دیگر اشعار میں بھی حضرتِ علامہ نے ظہورِ مہدی کے بارے میں اپنے اس خیال کی تکرار کی ہے۔ مثلاً بالِ جبریل (ص۹۰) میں مہدی کے بارے میں ان کا یہ مشہور شعر ہے: ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخر زمانی مہدی کے بارے میں حضرت علامہ کا یہ نقطۂ نظر ان کی نثری نگارشات میں بھی کئی جگہ مل جائے گا۔ مثلاً ضرب کلیم کی اشاعت اول سے تین سال پہلے ۷؍اپریل ۱۹۳۲ء کو حضرت علامہ نے چودھری محمد احسن کو لکھا: میرے نزدیک مہدی، مسیحیت اور مجددیت کے متعلق جو احادیث ہیں وہ ایرانی اور عجمی تخیلات کا نتیجہ ہیں۔ عربی تخیلات اور قرآن کی صحیح سپرٹ سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔۲۲؎ پھر یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ظہورِ مہدی کے تصور کے غیر اسلامی ہونے کے بارے میں اولین اظہار کرنے والے نہ علامہ اقبال ہیں نہ مولانا جیراج پوری۔ یہ تصور صدیوں پہلے سے عالم اسلام کے اکابر کے اعتراضات کی زد پر رہا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے جناب سعید شیخ (مرتب خطبات اقبال۔ انگریزی) کے حوالے سے لکھا ہے: ابن خلدون نے بھی مہدویت وغیرہ کے تصور پر کڑی تنقید کی تھی۔ اس ضمن میں ابن خلدون نے مہدی کے ذکر پر مبنی چوبیس احادیث کا ذکر کیا ہے۔ ان احادیث میں سے کوئی ایک بھی بخاری یا مسلم میں شامل نہیں۔ ابن خلدون نے ان تمام احادیث کے استناد کو چیلنج کیا ہے۔۲۳؎ مولانا جیراج پوری کے زیرِ بحث ارشاد کے بارے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ انھوں نے حضرت علامہ کی نظم ’’مہدی‘‘ کو سمجھنے میں کچھ عجلت پسندی سے کام لیا ہے۔ اگر اقبال اس نظم میں عمومی تصورِ مہدی کی حمایت کررہے ہوتے تو وہ اس نظم کے آخری شعر میں یہ کیوں فرماتے: ہو زندہ کفن پوش تو میّت اسے سمجھیں یا چاک کریں مردکِ ناداں کے کفن کو حضرتِ علامہ کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانانِ عالم، انتظارِ مہدی میں خود بے عمل ہوکر مردوں کی طرح کفن پوش پڑے ہیں۔ حالانکہ انھیں خود مہدی بننا چاہیے۔ اب ان نادانوں کا علاج یہ ہے کہ ان کے کفن کو چاک کرکے انھیں زندہ ہونے کا احساس دلایا جائے۔ ضرب کلیم کے شارحین مثلاً مولانا غلام رسول مہر اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے بھی اس نظم کی تشریح میں یہی موقف اختیار کیا ہے یعنی اسے احیائے ملتِ بیضا کا ایک نسخہ قرار دیا ہے۔ چشتی صاحب اپنی شرح ضرب کلیم میں لکھتے ہیں: یہ نظم بہت غور سے پڑھنے کے قابل ہے۔ ... آخر مہدی آسمان سے تو آئے گا نہیں۔ اللہ ملتِ اسلامیہ ہی میں سے کسی فرد کو اس منصب رفیع پر سرفراز فرمائے گا۔ تو کیوں نہ ہر مسلمان اس عزت کے حصول کے لیے کوشش کرے… پس مسلمان کا مہدی کے انتظار میں، عمل صالح اور جدوجہد سے بیگانہ ہوجانا ایسا ہی افسوس ناک ہے جیسا کہ کوئی زندہ آدمی کفن پہن کر مردہ بن کر لیٹ جائے۔۲۴؎ ان گزارشات سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ نظم ’’مہدی‘‘ میں حضرت علامہ نے تصورِ ظہورِ مہدی کے مروج عقیدے کی تائید نہیں کی۔ یہ البتہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نظم میں انھوں نے مہدی کے تصور کی حیات آفریں تاویل فرمائی ہے۔ مولانا اسلم جیراج پوری نے حضرت علامہ کے انگریزی خطبات کے اُردو ترجمے یعنی تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ کے سلسلے میں بھی نمایاں حصہ لیا۔ حضرت علامہ کے یہ انگریزی خطبات پہلی بار ۱۹۳۰ء میں:Six Lectures on Reconstruction of Religious Thought in Islam.کے نام سے شائع ہوئے تھے۔ اس ایڈیشن کے آغازِ اشاعت ہی میں حضرت علامہ کو اس کے ترجمے کا خیال پیدا ہوگیا تھا۔ حضرت علامہ چاہتے تھے کہ ڈاکٹر سید عابد حسین۲۵؎ ان خطبات کا ترجمہ کریں لیکن ڈاکٹر عابد حسین اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے یہ اہم ذمہ داری اُٹھانے سے قاصر رہے۔ آخر بہت غور و فکر اور باہمی مشاورت کے بعد حضرت علامہ نے سیّد نذیر نیازی کو اس کتاب کے ترجمے کی اجازت دی اور نیازی صاحب نے ۱۹۳۰ء ہی میں ان خطبات کا ترجمہ شروع کردیا۔ ۱۹۳۴ء میں حضرتِ علامہ کی یہ انگریزی تصنیف بعض لفظی ترامیم اور ایک خطبے کے اضافے کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس لندن سے دوبارہ شائع ہوئی۔ اس ایڈیشن میں کتاب کے نام سے ’’سکس لیکچرز آن‘‘ کے الفاظ حذف کردیے گئے تھے۔ خطبات کا دوسرا ایڈیشن سامنے آگیا تو سید نذیر نیازی نے اسی کے مطابق خطبات کا ترجمہ مکمل کیا۔ حضرت علامہ چاہتے تھے کہ کتاب کا ترجمہ عام فہم ہو اور ترجمہ کے بعض اجزا چند علما کی نظر سے بھی گزر جائیں۔ چنانچہ نیازی صاحب نے اس سلسلے میں مولانا محمد السورتی۲۶؎ سید سلیمان ندوی ۲۷؎ اور مولانا محمد اسلم جیراج پوری سے مسلسل رابطہ رکھا۔ ان مشاورتی محفلوں میں ڈاکٹر سید عابد حسین بھی شریک ہوتے تھے۔ مولانا جیراج پوری کا ذکر کرتے ہوئے سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: ’’مولانا اسلم نے بھی بالالتزام ہر خطبے کا ترجمہ سنا۔ انھیں حضرتِ علامہ سے جو عقیدت تھی، محتاج بیان نہیں۔‘‘۲۸؎ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے، مولانا جیراج پوری اختلاف رائے میں بہت بے باک تھے۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال خطبات کے ترجمے کے ضمن میں بھی پیش آئی۔ تیسرے خطبے میں آیۂ نور کی بحث میں شاید نیازی صاحب کے ترجمہ کی نارسائی کی وجہ سے مولانا جیراج پوری کو اعتراض پیدا ہوا کہ حضرت علامہ نور کو مادّی نور کے معنوں میں استعمال کررہے ہیں۔ اور انھوں نے اصرار کیا کہ ان کا یہ خیال حضرت علامہ تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ نیازی صاحب کے خط کے جواب میں حضرت علامہ نے ۹دسمبر ۱۹۳۰ء کو لکھا: مولانا اسلم کا ارشاد بجا ہے۔ مگر اس آیت کو تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ اس مضمون کی آیات قریباً تمام کتب سماوی میں موجود ہیں۔ اس کا مقصود یہ نہیں کہ خدا مادّی معنوں میں نور ہے۔ (یعنی) Light dealt within physical science29 نور محض ایک استعارہ ہے۔ جیسے قدیم کتب سماوی میںpantheistic اغراض کے لیے استعمال کیا گیا تھا، یعنی وجودِ باری کو ہمہ گیر Pervasive ظاہر کرنے کے لیے۔قرآن نے میری رائے ناقص میں اس قدیم استعارے کو وجود باری کی Absoluteness پر اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، کیونکہ عالم مادّی میں بھی زمانۂ حال کی تحقیق کی رُو سے صرف نور ہی ایک ایسی چیز ہے جو Relatively Absolute ہے۔۳۰؎ مقدمہ وغیرہ کا انتظام ابھی سے کرلیجیے… مکرر آنکہ معلوم ہوتا ہے تیسرے خطبے میں جو کچھ آیت مذکورہ میں میں نے لکھا ہے، آپ کو اس کی اچھی طرح سمجھ نہیں آسکی۔ ورنہ مولانا اسلم اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے کہ میرے خیال میں اس آیتِ قرآنی میں خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو نور (مادّی معنوں میں) قرار دیا ہے۔۳۱؎ حضرت علامہ کے اس مکتوب کے مندرجات پر اظہار رائے کرتے ہوئے سیّد نذیر نیازی لکھتے ہیں: [حضرت علامہ کو] تنبیہہ کا خیال بشکلِ ’’مکرر آنکہ‘‘ بعد میں آیا۔ بہرحال میں نے مولانا کو حضرت علامہ کا مکتوب پڑھ کر سنادیا۔ لیکن ان کی تسلی نہ ہوئی۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ کا اپنے آپ کو نور السمٰوٰت کہنا اس لیے نہیں کہ یہاں نور سے مراد وہ نور نہیں جو مرئی کے ساتھ قائم ہے اور جسے قرآن پاک میں نصاً مخلوق کہا گیا ہے بلکہ یہ وہ نور ہے جو رأی کے ساتھ قائم ہے یعنی جِس سے اس عالم کی ہستی محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ آیت زیادہ غور و فکر کی محتاج ہے۔ مزید تشخصات دراصل اس (نور) کو سمجھانے کے لیے ہیں۔ ان پر غور کرنا لازم ہے مثلاً بیت سے مراد ہے دین، طاق سے مردِ مومن، زجاج سے ایمان، زجاجہ سے قلب، زیت سے آسمانی تعلیم۔۳۲؎ میں نے مولانا کی تاویل حرف بہ حرف حضرت علامہ کی خدمت میں پہنچا دی۔ (حضرت علامہ کے مندرجہ بالا مکتوب میں) مقدمے کا اشارہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے مقدمے کی طرف ہے۔ حضرتِ علامہ کے ذہن میں یہ خیال مولانا اسلم کی تاویل کو دیکھ کر پیدا ہوا۔۳۳؎ ۱۱دسمبر ۱۹۳۰ء کو حضرتِ علامہ نے نیازی صاحب کو آیۂ نور کے سلسلے میں مزید لکھا: آیۂ نور کے متعلق میں نے جو کچھ لکھا ہے اُسے تاویل کہنا صحیح نہیں ہے۔ تاویل کا لفظ اس وقت صحیح ہوتا ہے جب کسی آیت کے الفاظ کے عام معنی چھوڑ کر کوئی اور معانی لیے جائیں۔ میں نے لفظ نور کے وہی معنی لیے ہیں جن میں یہ لفظ عام طور پر لیا جاتا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ اس آیہ میں نور، علی ھذا القیاس زجاج وغیرہ سے کچھ اور مراد ہے تو یہ تاویل ہوگی۔ میں نے اپنے تمام لیکچروں میں اس قسم کی تاویل سے پرہیز کی ہے اور الفاظ کو انھیں [انھی؟] معنوں میں لیا ہے جن میں وہ عام طور پر مستعمل ہوتے ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ حضور رسالت مآبؐ کا یہی طریق تھا۔ یہی طریقِ بحث ابنِ حزم کا ہے۔ مولانا رُوم کا یہ شعر میرے لیے نہ صرف دلیلِ راہ ہے بلکہ سوز وگداز کا بھی سامان ہے: کردہ ای تاویل حرفِ بکر را خویش را تاویل کن، نے ذکر را۳۴؎ حضرتِ علامہ کے اس مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: قرآن پاک سے حضرت علامہ کے عشق کی یہ کیفیت تھی کہ ادھر مولانا (جیراج پوری) کی تاویل حضرت علامہ کی خدمت میں پہنچی اور ادھر انھوں نے دوسرے ہی روز اس کا مفصل جواب رقم فرمادیا۔ جس سے (جہاں تک میں سمجھ سکا) مولانا کا پورا پورا اطمینان ہوگیا۔ اس لیے کہ انھوں نے پھر کبھی یہ بحث نہیں چھیڑی۔۳۵؎ حضرت علامہ نے اپنے متذکرہ بالا مکتوب نگاشتہ ۹؍دسمبر ۱۹۳۰ء میں فرمایا کہ آیۂ نور میں نور کا لفظ استعارتہً استعمال ہوا ہے۔ یہی موقف انھوں نے اپنے تیسرے خطبے (انگریزی) میں بھی اختیار کیا ہے اور لکھا ہے کہ نور کا استعارہ اللہ کی مطلقیت(Absoluteness)کو بیان کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔۳۶؎ لیکن حضرت علامہ کی یہ رائے صرف لفظ ’’نور‘‘ کے بارے میں ہے۔ دیگر متعلقہ الفاظ مثلاً مشکوٰۃ، مصباح وغیرہ کے بارے میں نہیں۔ اگر ہم آیۂ نور کے الفاظ مَثَلُ نورِہٖ کَمِشکوٰۃٍ فِیْھَا مِصْبَاح پر ذرا غور کریں تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں مشکوٰۃ، مصباح اور ان سے متعلقہ دیگر الفاظ استعارے کے طور پر نہیں بلکہ تمثیلی یا تشبیہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ جہاں تک لفظ ’’نور‘‘ کا مفہوم متعین کرنے کا معاملہ ہے، حضرت علامہ اور مولانا جیراج پوری کے مواقف میں کوئی بنیادی فرق نظر نہیں آتا لیکن اگر اس تمثیل کو پھیلانے کی کوشش کی جائے اور اس سے متعلق دیگر الفاظ یعنی مشکوٰۃ، مصباح، زیتون وغیرہ کے تمثیلی معانی کی جستجو شروع کی جائے تو معاملہ ذرا الجھ جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان الفاظ و علامات کی تحلیل و تشریح میں مفسرینِ قرآن نے بھی قیاس سے کام لیا ہے لیکن تمثیلی معانی کے تعین میں مفسرین کے یہاں بھی کامل مطابقت نہیں ملتی بلکہ خاصا اختلاف دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہاں مولانا جیراج پوری اور مولانا مودودی کے متعینہ معانی کا فرق پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا جیراج پوری کے نزدیک طاق (المشکوٰۃ) سے مراد ہے مردِ مومن، زجاج سے مراد ہے قلب، زیت سے مراد آسمانی تعلیم وغیرہ۔ جب کہ مولانا مودودی نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن میں طاق سے مراد کائنات، مصباح یا چراغ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات اور زجاج سے مراد وہ پردہ لیا ہے جس میں حضرتِ حق نے اپنے آپ کو نگاہِ خلق سے چھپا رکھا ہے۔۳۷؎ تاویلوں کے اس جاں شکن سرابستان میں سرگرداں اورآخر کار تشنہ میری کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ حضرتِ علامہ اقبال کے دین آموز اور حیات افروز موقف کو تسلیم کرلیا جائے۔ مولانا اسلم جیراج پوری، جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے، اسلامی فکریات کے ایک خوش آہنگ شاعر بھی تھے۔ چنانچہ ان کے اس کمالِ سخن کا اظہار اقبالیات کے حوالے سے بھی ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی دو نظمیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ ایک تو انھوں نے حضرت علامہ کی ایک نظم ’’میلادِ آدم‘‘ جو دراصل پیام مشرقکی نظم بعنوان ’’تسخیر فطرت‘‘ کا پہلا حصہ ہے، کا منظوم ترجمہ کیا ہے اور دوسرے ’’زندہ رود‘‘ کے عنوان سے حضرت علامہ کو خراج عقیدت و ارادت پیش کیا ہے۔ حضرت علامہ کی پانچ اشعار کی مختصر نظم ’’میلادِ آدم‘‘ کا منظوم اُردو ترجمہ مولانا نے اسی عنوان کے تحت کیا ہے اور پھر ان اشعار پر چار اشعار کا اضافہ بھی کردیا ہے۔ اس طرح نظم کا یہ حصہ معنوی طور پر بھی کچھ وسیع تر ہوگیا ہے۔ یہ منظوم ترجمہ ماہنامہ طلوع اسلام کے دسمبر ۱۹۳۸ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ دو اشعار کا ترجمہ یہاں بطور مثال درج کیا جاتا ہے: اصل نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شُد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد ترجمہ: عشق چیخ اُٹھا کہ اک خونیں جگر پیدا ہوا حسن کانپ اُٹھا کہ اک صاحب نظر پیدا ہوا اصل: زندگی گفت کہ در خاک تپیدم ہمہ عمر تا ازیں گنبدِ دیرینہ درے پیدا شد ترجمہ: زندگی بولی کہ تھی میں آب و گل میں مضطرب بارے آج اس گنبدِ بے در میں در پیدا ہوا۳۸؎ اس منظوم ترجمے کے بارے میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مولانا نے ترجمے میں حضرت علامہ کے اُسلوب شعر کے اختصاصی عناصر کو قائم رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ نظم ’’زندہ رود‘‘ ماہنامہ طلوع اسلام کے ستمبر ۱۹۴۰ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں اس رسالے کے مدیر اخوند زادہ حسین امام تھے۔ حضرت علامہ نے جاوید نامہ میں اپنے آپ کو ’’زندہ رود‘‘ کہا ہے۔ حضرت جیراج پوری نے اسی کے تتبع میں اپنی نظم کا عنوان ’’زندہ رود‘‘ قائم کیا۔ یہ نظم دی انٹر کالجیئٹ مسلم برادرہڈ کے زیر اہتمام ۹جنوری ۱۹۳۸ء کو منعقد ہونے والے ’’اقبال ڈے‘‘ میں پڑھی گئی تھی۔ ادارے کی طرف سے نظم کے تمہیدی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ یہ نظم: اس قدر مقبول ہوئی کہ آج تک اس کی اشاعت کے تقاضے موصول ہورہے ہیں۔ ’’زندہ رود‘‘ آج ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے لیکن اس رُود کے زندہ ہونے میں کسے کلام ہوسکتا ہے کہ اقبال اس پیکرِ خاکی کا نام نہیں جو زیرِ زمین مدفون ہے بلکہ اس آفتابِ حقیقت کا نام ہے جو ظلمت کدۂ عالم میں آج بھی اسی طرح ضو بار ہے، جیسے پہلے تھا کہ اس آفتاب نے اللہ کی کتابِ مبین سے اکتسابِ نور کیا تھا۔ اقبال کی حقیقت ایک اقبال شناس اور قرآن دان کی زبان سے سُنیے۔۳۹؎ نظم ’’زندہ رُود‘‘ مثنوی کی ہیئت میں ہے۔ گیارہ اشعار کی نظم کے آخری چار شعر یہاں بطور نمونہ درج کیے جاتے ہیں: عشق را تازہ برات آوردہ ای یعنی پیغامِ حیات آوردہ ای شرح دادی عالم موجود را وا نمودی منزلِ مقصود را گفتۂ تو مغز و جانِ شاعری بر تو می نازد جہانِ شاعری اے کہ از آبِ حیاتی زندہ رُود بر روانی ہاے تو از من درود۴۰؎ مولانا اسلم جیراج پوری نے حضرت علامہ کے فکر و فن پر اگرچہ زیادہ نہیں لکھا لیکن اقبالیات میں ان کا یہ مختصر کام بھی فن آشنائی اور فکر افروزی کے حوالے سے دفاتر پر بھاری ہے۔ ان کی دینی اور ادبی بصیرت مسلمہ تھی اور ان کی رائے صحت و صواب کی آئینہ دار ہوتی تھی۔ وہ کبھی اختلاف برائے اختلاف نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا اختلاف بھی دین و ادب کے اعلیٰ معیاروں کے تناظر میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت علامہ بھی ان کی رائے کا احترام کرتے تھے اور ان کی آرا سے حسبِ موقع شکریے کے ساتھ استفادہ کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ مولانا کا اختلاف اپنی علمی و ادبی نمود و نمایش کے لیے بھی نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ہمیشہ اخلاص و محبت کی بنیاد پر اور خوب تر کی تلاش کے لیے ہوتا تھا۔ یہ کیسی بے نفسی کی بات ہے کہ جب حضرت علامہ نے مولانا کے توجہ دلانے پر اپنے بعض اشعار میں تبدیلی کرلی تو مولانا نے وہ اعتراضات آیندہ اشاعتوں میں اپنے مضامین سے خارج کردیے البتہ وہ اعتراضات باقی رہنے دیے جن سے حضرت علامہ متفق نہیں ہوسکے تھے۔ مختصر یہ کہ حضرت علامہ اقبال کے فکر و فن کے بارے میں حضرت مولانا محمد اسلم جیراج پوری کی یہ تحریریں ہمارے اقبالیاتی ادب کا نہایت گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ، جنوری ۱۹۵۶ئ، بحوالہ معاصرین اقبال از ڈاکٹر فیوض الرحمن، نیشنل بک سروس لاہور،ص۱۳۴۔ ۲- نقوش ، لاہور، خطوط نمبر۲۔ ۳- شیخ محمد مجیب صاحب، بی اے (آکسن): چانسلر جامعہ ملیہ دہلی۔ ۴- مکتوبات اقبال بنام سید نذیر نیازی، اقبال اکادمی پاکستان کراچی، ۱۹۵۷ئ، ص۱۰۰-۱۱۱۔ ۵- غلام احمد پرویز، معروف عالم دین سید نذیر نیازی کے زمانۂ ادارت کے بہت عرصہ بعد طلوع اسلام کے مدیر بنے۔ تبویب القرآن، انسان نے کیا سوچا؟ اور متعدد دیگر کتابوں کے مصنف۔ ۶- اسد ملتانی: ولادت ۱۹۰۲، ملتان-وفات ۱۷نومبر۱۹۵۹ء راولپنڈی۔ ڈپٹی سیکرٹری وزارت امور خارجہ، شاعری میں علامہ اقبال کے براہ راست شاگرد۔ راقم نے ان کی نگارشات پر مشتمل دو کتابیں یعنی اقبالیات اسد ملتانی اور مشارق (مجموعۂ حمد و نعت) مرتب کی ہیں۔ ۷- شیخ سراج الحق: انڈیا ریلوے بورڈ کے ایک عہدے دار۔ کبھی کبھار طلوع اسلام میں مضمون بھی لکھتے تھے۔ ۸- علامہ اسلم جیراج پوری، نوادرات، اشاعت ثانی ۔ ۹- اس سلسلے میں مولانا جیراج پوری کے اصل الفاظ کے لیے ملاحظہ ہو اُن کا مکتوب بنام عبدالعزیز کمال، مطبوعہ نقوش لاہور، خطوط نمبر۲،ص۵۹۵۔مولانا کا یہ قیاس اس لیے درست معلوم نہیں ہوتا کہ اگر ایسا ہو، تو علامہ نے ۱۹۱۹ء میں جو (مذکورہ) شعر کہا، وہ پہلے اردو مجموعۂ کلام (بانگِ درا) میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں، بلکہ مذکورہ شعر بال جبریل (۱۹۳۶ئ) میں ملتا ہے۔ کسی واقعے کے ۲۶-۲۷ سال بعد جو شعر سامنے آیا، اُسے ماضیِ بعید پر منطبق کرنا، فقط خوش خیالی ہے۔ (ادارہ) ۱۰- محمد اسلم جیراج پوری، نوادرات، طبع دوم، ص۹۱۔ ۱۱- ایضاً ۱۲- محمد عبداللہ قریشی (مرتب)، مکاتیب اقبال بنام گرامی، اقبال اکادمی، پاکستان کراچی۱۹۶۹ئ، ص ۲۳۲-۲۳۳۔ ۱۳- نوادرات، ص۱۰۵۔ ۱۴- ایضاً، ص۱۱۵۔ ۱۵- ایضاً، ص۱۱۴-۱۱۵۔ ۱۶- مکتوبات اقبال بنام سید نذیر نیازی، ص۲۴۵۔ ۱۷- ماہنامہ طلوع اسلام، لاہور (زیر ادارت سید نذیر نیازی)، ستمبر ۱۹۳۶ئ،ص۵۔ ۱۸- نوادرات، اشاعت دوم، ص۱۱۷۔ ۱۹- ایضاً، ص۱۱۷۔ ۲۰- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال،ڈاکٹر صابر کلوروی (مرتب)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۲۰۰۴، ص۳۰۶، نیز باقیاتِ شعرِ اقبال کے متعدد دیگر مجموعے۔ ۲۱- Stray Reflections، ۱۹۶۱ئ، ص۹۴۔ ۲۲- اقبال نامہ، جلد دوم (مرتب: شیخ عطاء اللہ)، شیخ محمد اشرف لاہور ۱۹۵۱ئ، ص۲۳۱۔ ۲۳- ڈاکٹر تحسین فراقی، اقبال چند نئے مباحث، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۷ئ، ص۹۲۔ ۲۴- پروفیسر یوسف سلیم چشتی، شرح ضرب کلیم، عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور، ص۱۷۴-۱۷۷۔ ۲۵- ڈاکٹر سید عابد حسین (۱۸۹۶-۱۹۷۹ئ) بھوپال میں پیدا ہوئے۔ جرمنی سے فلسفے میں پی ایث ڈی کی ڈگری لی۔ علی گڑھ اور دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں فلسفے کے استاد رہے۔ گوئٹے کے مشہور ڈرامے فاؤسٹ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کی کتاب مضامین عابد بھی شائع ہوچکی ہے۔ ۲۶- محمد السورتی (م:اگست ۱۹۴۲ئ) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں عربی کے پروفیسر رہے۔ ۲۷- سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴-۱۹۵۳) علامہ شبلی نعمانی کے شاگردِ خاص۔ آپ نے علامہ شبلی نعمانی کی سیرۃ النبیؐ کو مکمل کیا اور شبلی نعمانی کی متعدد کتابوں کی اشاعت کا اہتمام فرمایا۔ الندوہ کے مدیر رہے۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ کی بنیاد رکھی۔ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ جاری کیا۔ عربوں کی جہاز رانی، خطبات مدراس، عرب و ہند کے تعلقات، بریدِ فرنگ، سیرۃ عائشہؓ، ارض القرآن، نقوش سلیمانی، وغیرہ آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ ۲۸- سید نذیر نیازی (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ،بزم اقبال لاہور، دیباچہ ص۸۔ ۲۹- ’’جیسا کہ نور سے علومِ طبیعیہ میں بحث کی جاتی ہے۔‘‘ ترجمہ از سید نذیر نیازی۔ حاشیہ: مکتوبات اقبال بنام سید نذیر نیازی، ص۴۰۔ ۳۰- ’’اضافی طور پر مطلق۔‘‘ ترجمہ از سید نذیر نیازی، حاشیہ ایضاً، ص۴۱۔ ۳۱- ایضاً، ص۴۰-۴۱۔ ۳۲- معلوم ہوتا ہے یہاں مولانا جیراج پوری کی ترجمانی کرتے ہوئے سید نذیر نیازی زجاج بہ مفہوم ایمان سہواً لکھ گئے ہیں۔ شاید سننے یا بیان کرنے میں ان سے تسامح ہوا۔ قیاساً کہا جاسکتا ہے کہ مولانا نے یہاں مصباح کا لفظ بہ مفہوم ایمان، بولا ہوگا ورنہ ان کے بیان میں زجاج کا لفظ دوبار استعمال نہ ہوتا اور مصباح کا لفظ غائب نہ ہوتا۔ ۳۳- مکتوباتِ اقبال، ص۴۲۔ ۳۴- ایضاً، ص۴۳-۴۴۔ ۳۵- ایضاً،ص۴۶۔ 36- The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Oxford University Press London 1934. pp. 60-61. ۳۷- تفصیل کے لیے دیکھیں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن، جلد سوم، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور، ۱۹۹۱، ص۴۰۷۔ ۳۸- ماہنامہ طلوع اسلام ، دسمبر ۱۹۳۸ئ، ص۲۔ ۳۹- ایضاً، ستمبر ۱۹۴۰،ص۳۲۔ ۴۰- ایضاً۔ حضرت مولانا جیراج پوری نے دی انٹرکالجیٹ مسلم برادر ہڈ کے زیراہتمام منعقد ہونے والے ۹جنوری ۱۹۳۸ء کے ’’یوم اقبال‘‘ کو اولین یوم اقبال قرار دیا ہے۔ ان کے تتبع میں مدیر طلوع اسلام نے نظم ’’زندہ رود‘‘ کے تعارفی نوٹ میں بھی اس یوم اقبال کو اولین یوم اقبال ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلا یوم اقبال خواجہ عبدالوحید (۱۹۰۱-۱۹۷۹) اور ان کے احباب کی کوششوں سے ۶ستمبر ۱۹۳۲ء کو یونی ورسٹی ہال لاہور میں منعقد ہوا اور اس کی کارروائی ۷ستمبر ۱۹۳۲ء کے روزنامہ انقلاب لاہور میں شائع ہوئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیں مجالس اقبال (مرتب: جعفر بلوچ)، دارالتذکیر لاہور، ۲۰۰۱، ص۱۴۱ تا ۱۴۳۔ ئ……ئ……ء تاریخِ ہند: مزید تصریحات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’علامہ اقبال سے منسوب تاریخِ ہند : چند تصریحات‘‘ کے عنوان سے راقم کا ایک مضمون شعبۂ اُردو پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے تحقیقی مجلے بازیافت (شمارہ اول، جنوری ۲۰۰۲ئ) میں شائع ہوا تھا۔ بعد ازاں یہی مضمون نظر ثانی اور ترمیم شدہ صورت میں راقم نے اپنے مجموعۂ مضامین اقبالیات، تفہیم و تجزیہ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور [۲۰۰۵ئ] میں شامل کیا۔ حال ہی میں مجھے اس سلسلے میں کچھ نئی معلومات میسر آئی ہیں، جنھیں اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ حالیہ نئی معلومات و تصریحات پیش کرنے سے پہلے تاریخِ ہند کے انتساب کا مختصر پس منظر بیان کردینا مناسب ہوگا۔ علامہ اقبال سے منسوب ایک کتاب تاریخِ ہند ۷۷سال تک غلط طور پر علامہ اقبال سے منسوب چلی آرہی تھی اور اس غلط انتساب کا ذکر فقیروحیدالدین، خواجہ عبدالوحید اور بشیر احمد ڈار جیسے نامور اور جید اقبال شناسوں کی تحریروں اور کتابوں میں موجود ہے۔۱؎ اقبال کے اپنے کسی خط، مضمون یا گفتگو میں تاریخِ ہند یا اس طرح کی کسی کتاب کا ذکر نہیں ملتا۔ علامہ کی مجالس میں حاضر باش کسی شخص نے بھی کبھی تاریخِ ہند نامی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔ پہلی بار راقم الحروف نے اپنے تحقیقی مقالے تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ تحریر ۱۹۸۰ئ، اشاعت ۱۹۸۲ء ۲؎ میں تاریخِ ہند کی اصلیت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے دلائل کے ساتھ واضح کیا کہ تاریخِ ہند کو علامہ اقبال سے کوئی علاقہ نہیںہے۔ راقم نے اپنا موقف تاریخِ ہند کے اُس واحد نسخے (= نسخۂ اکادمی) کی بنیاد پر پیش کیا تھا جو اس زمانے میں اقبال اکادمی پاکستان، لاہور کے کتب خانے میں موجود تھا۔۳؎ کئی سال بعد راقم کو تاریخِ ہند کا ایک اور نسخہ (=نسخۂ کفایت) دستیاب ہوا۔ ان دونوں نسخوں کا نام تو تاریخِ ہند تھا، مصنّفین کے نام بھی وہی، سرورق بھی ہوبہو ایک جیسے، دیباچہ بھی یکساں تھا لیکن دونوں کتابوں کا متن ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھا۔ یعنی ایک نام کی یہ دو مختلف کتابیں تھیں۔ راقم نے بازیافت میں شائع شدہ مضمون میں دونوں نسخوں کا تفصیلی تعارف کرایا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ نسخۂ کفایت ناقص الآخر ہے۔ اس وقت سے راقم الحروف اس کے کسی دوسرے نسخے کی تلاش میں تھا۔ خوش قسمتی سے کچھ عرصہ پہلے راقم کو اس کے ایک اور نسخے کا سراغ ملا، جو مکمل نسخہ ہے۔ نسخۂ کفایت کا آخری صفحہ ۳۵۶تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ چونکہ آخری باب (۲۳) صفحہ ۳۵۴ سے شروع ہورہا ہے اس لیے وہ صفحہ ۴۰۰ تک پھیلا ہوا ہوگا، مگر اس نئے نسخے کا متن صفحہ۳۵۸ پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح گویا نسخۂ کفایت میں صرف دو صفحات (۳۵۷، ۳۵۸) موجود نہیں ہیں۔ نیا دریافت شدہ مذکورہ بالا نسخہ (=نسخۂ سنجرپور) محمد مبارک شاہ جیلانی کے کتب خانۂ سنجرپور، ریاست بہاول پور میں موجود ہے، مجھے اس کا عکس اپنے فاضل دوست ملک حق نواز خاں صاحب (پیرزئی ضلع اٹک) کی وساطت سے حاصل ہوا ہے۔ نئی معلومات و تصریحات کے ضمن میں دو تین باتیں قابلِ ذکر ہیں: ۱-نسخۂ کفایت اور نسخۂ سنجرپور کے سرورق یکساں ہیں۔ دونوں پر قیمت بھی فی جلد-/۸؍آنے لکھی ہوئی ہے مگر نسخۂ کفایت میں تعداد جلد کا ذکر نہیں ہے جب کہ نسخۂ سنجرپور میں تعداد جلد دس ہزار درج ہے۔ نسخۂ کفایت پر ’’دفعہ اول‘‘ ہے جب کہ نسخۂ سنجرپور میں ’رفعہ 1‘ لکھا ہوا ہے۔ (دونوں سرورقوں کے عکس دیے جارہے ہیں) ۲- نسخۂ کفایت، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ناقص الآخر ہے لیکن نسخۂ سنجرپور مکمل ہے اور کتاب کا متن صفحہ ۳۵۸ پر مکمل ہوکر ختم ہوتا ہے۔ ۳-نسخۂ سنجرپور کی سب سے اہم چیز کتاب کے بائیں طرف شامل انگریزی زبان میں سرورق ہے۔ یہ انگریزی سرورق اُردو سرورق کا ترجمہ ہے، تاہم اس میں History of India کے نیچے ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے: Completely revised and brought down to 1912 اُردو اور انگریزی سرورقوں میں ایک اور فرق یہ ہے کہ اُردو سرورق پر ’’ایجوکیشنل پبلشرز‘‘ کے الفاظ درج ہیںجب کہ انگریزی سرورق پر Mufid-i-Am Press کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ (انگریزی سرورق بھی مضمون ہذا کے ساتھ دیا جارہا ہے) ۴-دس ہزار کی تعداد میں کتاب (نسخۂ سنجرپور) کی اشاعت سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ اسے بطور نصابی کتاب منظور کر کے سکولوں میں پڑھایا گیا۔ اگرچہ تاریخِ ہند کے ترمیم شدہ اڈیشن (نسخۂ کفایت و سنجر) سے عالمگیر، محمود غزنوی، ٹیپوسلطان اور سراج الدولہ سے متعلق بہت سی قابلِ اعتراض باتیں نکال دی گئی تھیں، اس کے باوجود، اس میں اب بھی ہندستانی حکمرانوں اور انگریزی حکومت سے متعلق ایسے بیانات موجود ہیں، جو اقبال کے تصورات اور فکر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ بنابریں یہ سوال اب بھی حل طلب ہے کہ اس کے سرورق پر ’’شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا‘‘ کے الفاظ کیوں درج ہیں؟ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- دیکھیے علی الترتیب: ا- فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر، جلد دوم، لائن آرٹ پریس، کراچی، نومبر ۱۹۶۴ئ، ص۶۴۔ ب- کے اے وحید، A Bibliography of Iqbal، اقبال اکادمی پاکستان، کراچی، جنوری ۱۹۶۵ئ، ص۲۲۔ ج- بشیر احمد ڈار، انوارِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، کراچی، ۱۹۶۷ئ، ص۲۴۔ ۲- ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۲ئ، مکرر اشاعت: ۲۰۰۱ئ۔ ۳- یہ وہی نسخہ (=نسخۂ اکادمی) تھا جس کے سرورق کا عکس انوار اقبال اور روزگار فقیر (دوم) میں شامل ہے___ اکادمی کے کتب خانے میں اب اس نسخے کی عکسی نقل دیکھی جاسکتی ہے۔ ئ……ئ……ء اقبال کی سوانح پر نئی روشنی [قسط اوّل] خرم علی شفیق ۲۰۰۳ء میں جب دمادم رواں ہے یمِ زندگی شائع ہوئی تو میرا خیال تھا کہ اقبال کی ابتدائی زندگی سے متعلق جو کچھ معلوم ہے وہ میں نے اس کتاب میں شامل کر دیا ہے۔ اب بھی یہی خیال ہے مگر اُس کتاب کی اشاعت کے بعد ناظم اقبال اکادمی محمد سہیل عمر کی خاص دلچسپی کی وجہ سے مجھے دائرۂ تحقیق وسیع کرنے کا موقع ملا اورحیاتِ اقبال کے ابتدائی دَور کے بارے میں بعض بالکل نیا مواد اور بعض نئے پہلو سامنے آئے۔ اُن کے اضافے کے ساتھ کتاب نئے عنوان : اقبال: ابتدائی دور، ۱۹۰۴ء تک کے ساتھ جنوری ۲۰۰۹ء میں اقبال اکادمی پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔ حیاتِ اقبال میں اس کے بعد کے ادوار پر محیط مزید پانچ کتابوں کی صورت میں یہ سلسلہ مکمل ہو گا۔ نیا مواد جو اِس کتاب میں متعارف کروایا جا رہا ہے اُن میں سے بعض چیزیں خاص طور پر ماہرین کی توجہ کے لائق ہیں: ۱- قصور کے ایک شاعر کی نظم ’ماں کا خواب‘ جو ممکن ہے کہ اقبال کو اصل انگریزی نظم کی طرف متوجہ کرنے کا سبب بنی ہو ۲- ’’ہستیِ غیر ذی روح‘‘ کے قلمی نام سے لکھا ہوا وہ مضمون جو اقبال کا بھی ہو سکتا ہے اِس کے علاوہ مندرجہ ذیل پہلوؤں کی طرف اقبال شناسوں نے عام طور پر توجہ نہیں دی تھی جس کی اس کتاب میں تلافی کرنے کی کوشش کی گئی ہے: ۱- بعض نظمیں جو اقبال سے منسوب کی جاتی ہیں اُن کا اقبال کی تصنیف ہونا مشکوک ہے۔ ان میں ہجوِ سعدی، ’عیشِ جوانی‘، ’گلِ خزاں دیدہ‘ اور ’شمعِ زندگانی‘ شامل ہیں۔ ۲- اقبال کی بالکل ابتدائی زندگی کی ایک قلبی واردات جس کا تذکرہ شیخ عبدالقادر نے ۱۹۰۲ء میں ایک مضمون میں کیا اُس پر عموماً کسی نے توجہ نہیں دی (پروفیسر محمد عثمان اور جناب سلیم اختر نے بھی نہیں)! ۳- اقبال اور غالب کے درمیان مماثلت مشہور ہے مگر تصانیف ِ اقبال کا غالب کی فارسی مثنویوں کے ساتھ گہرا تعلق دریافت نہیں ہوا ۴- اقبال کی فکر پر قرآن کے اثرات کی بات سبھی کرتے ہیں مگر قرآن کو اقبال کی سوانح کا بنیادی موضوع نہ بنایا گیا اور یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ اِسے بنیادی موضوع بنانے سے پوری ذہنی سرگذشت کی صورت بدل جاتی ہے ۵- عموماً سمجھا گیا کہ اقبال پہلے وطنیت کے قائل تھے اور بعد میں ملت کے قائل ہوئے مگر شواہد کی روشنی میں یہ مفروضہ کمزور معلوم ہوتا ہے ۶- اقبال کی بعض متروک نظموں، بالخصوص ’اسلامیہ کالج‘ اور ’اشک ِ خوں‘ یعنی ملکہ وکٹوریہ کے مرثیے کا اُن کی شاعری کے ارتقا میں حصہ ٹھیک سے نہیں سمجھا گیا ماں کا خواب بانگِ درا حصہ اول میں ’ماں کا خواب‘کے ساتھ ذیلی عنوانات ’بچوں کے لیے‘ اور ’ماخوذ‘ درج ہیں البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ کس شاعر سے ماخوذ ہے۔ میرے خیال میں اقبال نے ’ماخوذ‘ کے ذیل میں صرف اُن شاعروں کے نام درج کیے ہیں جن کے ادبی نصب العین سے انہیں کوئی نسبت ہو مثلاً ٹینی سن، ایمرسن اور لانگ فیلو ورنہ دوسرے شاعروں سے ماخوذ نظموں پر صرف ’ماخوذ‘ لکھا مگر شاعر کا نام درج نہیں کیا۔ گیان چند نے ابتدائی کلامِ اقبال میں سازِ مغرب کے حوالے سے اسے ولیم بارنس کی نظم ’اے مدرز ڈریم‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور بارنس کی نظم بھی درج کی ہے۔ اب یہ دلچسپ بات میرے سامنے آئی ہے کہ مئی ۱۹۰۳ء کے مخزن میں صفحہ ۴۷-۴۶ پرصدرالدین (از قصور) کی نظم ’ماں کا خواب‘ شائع ہوئی تھی جو بظاہر ولیم بارنس ہی کی نظم سے ماخوذ معلوم ہوتی ہے۔ اقبال کی نظم کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ کب لکھی گئی اورپہلی دفعہ کہاں شائع ہوئی۔ ۱۹۲۴ء میں کلیاتِ اقبال مرتبہ عبدالرزاق میں شامل ہوئی اور اسی برس بانگِ درا میں چونکہ حصہ اول کی گیارہویں نظم قرار پائی اِس لیے سمجھنا پڑتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں کہی گئی ہو گی مگر بانگِ درا کی ترتیب میں اقبال نے ہر جگہ زمانی ترتیب کی پابندی نہیں کی جس کی خاص وجہ میں نے اپنے زیرِ اشاعت کتابچے بانگِ درا:ایک تعارف میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال ’ماں کا خواب‘ کے کچھ متروک اشعار روزگارِ فقیر میں درج ہیں جو عبدالرزاق کی کلیات میں ہیں نہ بانگِ درا میں، اور اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظم پہلے متروک اشعار کے ساتھ اور پھر اُن کے بغیر شائع ہوئی جسے عبدالرزاق نے کلیاتِ اقبال میں شامل کیا اور بانگِ درا میں بھی یہی ترقی یافتہ متن موجود ہے۔ اب یہ دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے ’ماں کا خواب‘ صدرالدین کی نظم سے پہلے لکھی جس کی وجہ سے صدرالدین کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی یا صدرالدین کی نظم کی وجہ سے اقبال اس طرف متوجہ ہوئے؟ مزید یہ کہ اقبال نے اصل نظم کی جستجو بھی کی یا صرف صدرالدین کی نظم ہی سے فکر کی کشتی ٔ نازک رواں ہو گئی اور اُنھوں نے اسی سے ماخوذ نظم لکھ دی؟ یہ درست ہے کہ صدرالدین کی نظم کا معیار آج پست معلوم ہوتا ہے: اس تجسس میں شکیل و سلیم بچے لائن میں کرتے دیکھے عبور سب کے ہاتھوں میں شمعیں تھیں روشن سب کے سب تھے سفید جوں بلور ایسے اشعار دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ اقبال ان سے ماخوذ نظم نہیں لکھ سکتے لہٰذا اُنھوں نے یہ نظم دیکھ کر ولیم بارنس کے انگریزی متن کی جستجو کی ہوگی (اگر اُن کی نظم پہلے ہی بارنس سے ماخوذ ہو کر نہیں چھپ چکی تھی اور صدرالدین کی نظم خود اقبال کی نظم سے ماخوذ نہیں تھی)۔ دو باتیں ذہن میں رکھنی چاہئییں:پہلی یہ کہ اُس زمانے میں انگریزی نظموں کے ترجمے میں بڑے بڑے شاعر ٹھوکر کھا رہے تھے اور صدرالدین کی نظم مخزن میں شائع ہونے کا مطلب یہی تھا کہ اِسے کسی نہ کسی قابل تو سمجھا گیا (مخزن بہرحال معیاری رسالہ تھا)۔ دوسری بات یہ ہے کہ بارنس اور صدرالدین کے معیار میں لاکھ درجوں کا فرق بھی ہو تو اقبال کی نظم دونوں سے اتنی بلند ہے کہ اُس کے مقابلے میں بارنس اور صدرالدین کا باہمی فرق کچھ زیادہ اہم نہیں رہتا: انگریزی نظم اور صدرالدین کی نظم سے اقبال کی نظم بالخصوص متروک اشعار کے بغیر بعض بنیادی اختلافات رکھتی ہے۔ انگریزی نظم میں ماں خواب سنانے سے پہلے ہی قارئین کو بتا دیتی ہے کہ اُس کا بچہ مر چکا ہے۔ صدرالدین کی نظم میں بچے کی موت کا تذکرہ خواب کے بیان کے بیچ میں آتا ہے مگر وہاں بھی اس پر اصرار ہے۔ اقبال کی نظم کی ابتدا ہی خواب کے بیان سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ امکان موجود رہتا ہے کہ بچہ سچ مچ میں نہ مرا ہو بلکہ ماں نے صرف خواب میں اُسے مردہ دیکھا ہو۔ یہ فرق اِس لحاظ سے اہم ہو جاتا ہے کہ اقبال کے یہاں روشنی اُس علم کا استعارہ تھا جو انسان کی شخصیت بدل دیتا ہے بلکہ تصوف کی رُو سے ایک طرح کی فنا سے ہم کنار کر کے نئی شخصیت عطا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بچے کا ان مراحل سے گزرنا بھی ماں کے خواب میںبچے کی موت کا استعارہ بن سکتا ہے۔وہ دیا جو بچے کے ہاتھوں میں روشن نہیں تھا وہ کہیں وہی روشنی تو نہیں تھی جس کی دعا ’ایک بچے کی دعا‘ میں بھی مانگی گئی تھی اور جس کی بدولت ’ہمدردی‘ میں جگنو نے بلبل کی رہنمائی کی تھی؟ [اقبال: اِبتدائی دَور، ص۲۵۷] صدرالدین کی نظم، بارنس کا انگریزی متن اور اقبال کی نظم (اس کے متروک اشعار بھی) میری کتاب میں شامل ہیں۔ امید ہے کہ قارئین موازنہ کر کے رائے قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیا وہ اقبال تھے؟ نومبر ۱۹۰۳ کے مخزن میں ص۲۸-۱۷ پر ایک طنزیہ مضمون ’مقیاس الروح کا تعلق تصوف کے ساتھ‘ شائع ہوا جس کے مصنف نے قلمی نام ’’ہستی ٔ غیر ذی روح‘‘ اختیار کیا تھا۔ مدیر کے نوٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اخبار وطن میں اسی مصنف کا مضمون ’مقیاس الروح‘ اخبار وطن ،لاہور میں شائع ہو چکا تھا جس میں طنز کیا گیا تھا کہ یورپ کی جدید تحقیقات کی رُو سے رنگ مقیاس الروح ہے یعنی جن اقوام کا رنگ گورا ہے وہ ذی روح ہیں اور رنگدار قوموں کو غیر ذی روح سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایمرسن کوئی انگریز تھا جسے کسی ہندوستانی پر گولی چلانے کی پاداش میں انگلستان واپس بھجوایا گیا مگر ہندوستان میں انصاف کے مطالبے نے زور پکڑا تو واپس بلوا کر مقدمہ قائم کیا گیا۔ ۹ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو ستم ظریف عدالت نے نہ صرف اُسے بے قصور ٹھہرایا بلکہ اُسے نوکری پر بحال کر کے ساقط تنخواہ کی ادائیگی کا حکم بھی جاری کیا۔ اقبال سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے اپنے نام سے اس مسئلے پر کچھ نہیں لکھ سکتے تھے مگر مخزن والا مضمون پڑھ کر گمان گزرتا ہے کہ ’’ہستی ٔ غیر ذی روح‘‘ کے قلمی نام سے یہ مضمون شائد انہی نے لکھا ہو۔ درست ہے کہ یہ قلمی نام اُن کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا مگر یہ ابتدائی زمانہ تھا، مضمون اور نام طنزیہ تھے اور پھر قلمی نام اختیار کرنے کا سب سے بڑا مقصد ہی یہی تھا کہ مصنف کی شخصیت پردے میں رہے اور آسانی سے ذہن اُس کی طرف منتقل نہ ہو سکے۔ مضمون میں ظاہر کیے گئے خیالات ’ابلیس کی مجلس ِشوریٰ‘ سے جڑے ہوئے ہیں جسے اقبال نے تینتیس برس بعد لکھا۔اُس میں ابلیس کہتا ہے: الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر حافظِ ناموسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں مضمون میں شعر درج ہے: الحذر اُس فقر و ناداری سے سو بار الحذر جس سے عزّت کو ہے خوف اور جس سے عصمت کو ہے ڈر دونوں اشعار میں نہ صرف لفظی مناسبت ہے بلکہ مضمون میں یہ شعر ایک حکایت کے ضمن میں درج ہوا ہے جس میں کوئی شخص دوردراز کا سفر اختیار کرتا ہے اور پیچھے اُس کی بیوی بے گھر ہو کر دس سال غربت کا مقابلہ کرتی ہے اور ایک بدچلن عورت کے مشوروں کے باوجود راستے سے نہیں بھٹکتی۔ آخر فاقوں پر مجبور ہوتی ہے۔ ’’ایسے عالم میں شیطان محلہ کی اسی بدچلن عورت کی صورت میں ظاہر ہو کر اس کو ترغیب دیتا ہے کہ گناہ کر کے اپنی جان کو اس فاقہ کشی کی عذاب دہ موت سے بچائے اور وہ نصیبوں جلی مجبوراً اس پر راضی ہو جاتی ہے۔‘‘ عورت کا شوہر واپس آکر اُسے تلاش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ آخر ایک بزرگ کے آستانے پر حاضر ہوتا ہے تو شرط رکھتے ہیں کہ پہلے کسی چکلے سے ہو کر آئے۔ پہلے بدکتا ہے مگر پھر بزرگ کی ہدایت پر عمل کرتا ہے تو اتفاق سے وہاں جو عورت ملتی ہے منت سماجت کرتی ہے کہ غربت سے مجبور ہو کر پہلی دفعہ آئی ہے اور پچھتا رہی ہے۔ گھونگھٹ اُلٹ کر دیکھتا ہے تو اپنی بیوی ہے۔ یوں میاں بیوی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور بزرگ کی ہدایت کی مصلحت واضح ہوتی ہے۔ مضمون میں ایمرسن کے قصے کو طنزاً اِس حکایت سے مماثل قرار دیا گیا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ ’ابلیس کی مجلس ِشوریٰ‘ میں ابلیس یہ بھی کہتا ہے: کیا امامانِ سیاست کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو مضمون میں بھی انصاف کے ہندوستانی مطالبے کے حوالے سے درج تھا، ’’ایک بڑے جغادری لاٹ پادری کی روح نے جس کو روحوں کی اصطباغ و تطہیر اور ہدایت و تلقین کے مشاغل کی وجہ سے عدم میں بھی چین سے لیٹنے کی فرصت نہ تھی۔ مدراس گورنمنٹ کے گوشِ نصیحت نیوش تک یہ پیغام پہونچا دیا کہ جو کالی ہستی شور و غوغا مچا رہی ہے اُس کو دم دلاسہ دینے کا انتظام کیا جائے۔ لیکن طرزِ عمل وہی ملحوظ رہے جو شیکسپئر کی چڑیلوں نے میکبتھ کے متعلق اختیار کیا تھا۔‘‘ اِس مضمون کا ’ابلیس کی مجلس ِشوریٰ‘ کے ساتھ تعلق تو صاف ظاہر ہے لیکن اس بات کا بھی قوی امکان پیدا ہوتا ہے کہ اِسے اقبال ہی نے لکھا ہو۔ یہ موضوع مزید تحقیق کے قابل ہے اور اِس سلسلے میں اخبار وطن میں اسی قلمی نام سے شائع ہونے والا مضمون ’مقیاس الروح‘ بھی تلاش کرنا چاہیے جس کی تاریخِ اشاعت معلوم نہیں مگر مدیرِ مخزن نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ’’حال میں‘‘ شائع ہوا چنانچہ نومبر۱۹۰۳ء سے کچھ ہی عرصہ قبل شائع ہوا ہو گا۔ ممکن ہے ۹ اکتوبر کو عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد شائع ہوا ہو۔ فی الحال یہ مجھے نہیں مل سکا مگر مخزن والے مضمون کے اقتباسات، اُس کا پس منظر اور تجزیہ میں نے اپنی کتاب میں شامل کر دیا ہے تاکہ دُوسروں کو مزید تحقیق کی طرف متوجہ کر سکے۔ مشتبہ نظمیں کلامِ اقبال کی بعض ’باقیات‘کے اولین حوالے موجود نہیں ہیں یعنی ہم عصر رسالہ جس میں وہ شائع ہوں یا اقبال کے اپنے ہاتھ میں لکھے ہوئے متن دستیاب نہیںبلکہ انہیں بعد میں شائع ہونے والے کسی مجموعے سے اخذ کیا گیا ہے۔ ایسی نظموں کو اقبال سے منسوب کرنے میں ہمیشہ شبہے کی گنجائش رہے گی لیکن جب نظم میں کوئی ایسی بات ہو جو اقبال کے فکری ارتقا کے کسی بھی مرحلے سے میل نہ کھاتی ہو تو پھر زیادہ تامل ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے چار نظمیں جنہیں اقبال سے منسوب کیا گیا ہے وہ مشتبہ دکھائی دیتی ہیں: ۱- لدھیانہ کے ایک شاعر سعدی کے خلاف لکھی ہوئی ہجو جو اقبال کے کالج کے زمانے سے منسوب ہے۔ ۲- عیشِ جوانی ۳- گلِ خزاں دیدہ ۴- شمع ِ زندگانی پہلی نظم کا ذکر شیخ اعجاز احمد نے مظلوم اقبال (۱۹۸۴) میں کیا۔ اُنھوں نے ۱۹۲۴ء میں شائع ہونے والی ایک احمدی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔ اُس کتاب میں لکھا تھا کہ لدھیانہ سے سعدی نام کے کوئی صاحب مرزا غلام احمد کے خلاف لکھا کرتے تھے، یہ نظم اُن کی ہجو میں ۱۸۹۴ء میں ایک احمدی اخبار میں شائع ہوئی۔ میں نے کتاب سے نظم تلاش کروا کے دمادم رواں ہے یمِ زندگی کے حواشی میں شامل کی لیکن مزید غور کرنے کے بعد میں مندرجہ ذیل نتیجے پر پہنچا ہوں: ۱۸۹۴ء میں مرزا غلام احمد کی طرف داری کرنے کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ ابھی پچھلے ہی برس اُنھوں نے اپنی کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام میں ملکہ وکٹوریہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور پھرامرتسر کے ایک مناظرے میں بڑے دلچسپ انداز میں پادریوںکو نیچا دکھایا تھا جب بعض پادریوں نے کوڑھیوں اور اندھوں کو مرزا صاحب کے پاس بھیجا اور کہلوایا،’’آپ مسیحِ موعود ہیں تو اِنہیں صحیح کر دیں۔‘‘مرزا صاحب نے مریضوں کو پادریوں کے پاس واپس بھیجتے ہوئے جواب دیا، ’’حضرت عیسیٰ کی مسیحائی کا تذکرہ انجیل میں موجود ہے ہمارے قرآن میں نہیں مگر آپ کی انجیل یہ بھی کہتی ہے کہ عیسائیوں کے دل میں اگر سرسوں کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو وہ پہاڑوں کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ اب آپ اِنہیں اپنے ایمان کی قوّت سے تندرست کر دیں ۔‘‘ اِس کے باوجود وہ ہجو جسے اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے اقبال کی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کا براہِ راست ماخذ کوئی ہمعصر اخبار نہیں بلکہ بعد میں چھپی ہوئی ایک کتاب ہے۔ اِس میں جو روانی ہے وہ اقبال کی اُس زمانے کی مستند غزلوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتی اورجس قسم کا ابتذال ہے اُس کی کوئی اور مثال بھی اقبال کے یہاں نہیں ملتی بلکہ عجیب سا لگتا ہے کہ ایف اے کے زمانے میں وہ بعض ناگوار تشبیہات سے لبریز نظم کسی ایسے رسالے میں شائع کرواتے جسے اُن کے بزرگوں کی نظر سے گزرنا تھا۔ [اقبال: اِبتدائی دَور، ص۱۰۶-۱۰۷] پوری نظم میں نے کتاب کے حواشی میں رہنے دی ہے اور ص۳۳۱-۳۲۹ پر دیکھی جا سکتی ہے تاکہ قارئین خود فیصلہ کر سکیں۔ بقیہ تینوں نظمیں گیان چند نے ابتدائی کلامِ اقبال (۱۹۸۷) میں شامل کیں جہاں سے میں نے بھی انہیںدمادم رواں ہے یمِ زندگی میں اور صابر کلوروی نے بھی کلیاتِ باقیاتِ اقبال میں شامل کیا۔ اب میں نے حواشی میں ان کے بارے میں لکھا ہے: یہ تینوں نظمیں گیان چند (۱۹۸۸) ص۸۸-۸۳ پر موجود ہیں۔ ’عیش ِ جوانی‘ ۴۵ اشعار کا قطعہ ہے جس میں شاعر نے گزری ہوئی جوانی کو یاد کرتے ہوئے وصال کے لمحات کا نقشہ کھینچا ہے اور ’’بوس و کنار‘‘ کے قافیے کو اتنی بار استعمال کیا ہے کہ بیزاری ہونے لگتی ہے۔ آخر میںمعلوم ہوتا ہے کہ شاعر اب بوڑھا ہو چکا ہے اور ناتوانی سے کروٹ بدلنا بھی ناگوار ہے۔ اِس کے بارے میں خود گیان چند نے خیال ظاہر کیا ہے، ’’اقبال سے منسوب کرتے ہوئے تامل ہوتا ہے۔۔۔ لیکن ’در ایامِ جوانی چناں کہ اُفتد دانی‘ والا معاملہ ہے۔‘‘ اُنھوں نے کسی سَند کے بغیر اِسے اقبال کی نظم تین بنیادوں پر مان لیا ہے: پہلی یہ کہ اقبال نے ایک اور متروک قطعے’ہم نچوڑیں گے دامن‘ میں بھی عورت کے سراپے کی تصویرکشی کی ہے۔ یہ موقف تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ کبھی نہ کبھی اقبال کی شاعری میں بھی جنس کا اثر جھلکا ہو گا اور ایسی کوئی چیز ملے تو اُسے تبرک سمجھا جائے مگر ایسی چیز ’ہم نچوڑیں گے دامن‘ تو ضرور ہے کیونکہ اُس میں ذہانت جھلکتی ہے، ’عیشِ جوانی‘ صرف جنس زدہ ہی نہیں بلکہ اس میں دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچنے کے لیے جس قدر بے لطف انداز اختیار کیا گیا ہے وہ اقبال کے فطری رجحانات سے کسی زمانے میں بھی میل نہیں کھاتا تھا۔ گیان چند کی دوسری دلیل یہ ہے، ’’عام طور سے قطعے میں مطلع نہیں ہوتا لیکن اقبال نے اپنی کئی نظموں میں ایسا کیا ہے مثلاً ’شمعِ زندگانی‘ میں۔ یہی ہیئت دوسری نظم ’گلِ خزاں دیدہ‘ کی ہے۔‘‘ یہ دلیل کافی نہیں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جن دو نظموں کا خاص طور پر حوالہ دیا ہے یعنی ’شمعِ زندگانی‘ اور’گلِ خزاں دیدہ‘ خود اُن دونوں کے اقبال کی نظمیں ہونے کی سند نہیں ہے۔ تیسری دلیل ہے، ’’آخری شعر میں ’خندۂ گل‘ کا موضوع بھی اقبال پن لیے ہوئے ہے‘‘ مگر بلبل کے کاروبار پر خندہ ہائے گل تو غالب کے یہاں بھی ہیں۔ اِس نظم کا قدیم ترین ماخذ جو مولف کو بالواسطہ دستیاب ہوا وہ نیچرل شاعری ہے جو ۱۹۰۸ء اور ۱۹۲۴ء کے درمیان کسی وقت لکھنو سے شائع ہوئی۔ اس کے مرتب صفدر مرزاپوری کی بے توجہی کا اندازہ گیان چند کی اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے، ’’اِس میں ڈاکٹر اقبال ایم اے اور مسٹر اقبال ایم اے بیرسٹر ایٹ لا کے نام سے حسبِ ذیل نظمیں شامل ہیں۔۔۔‘‘ گویا کتاب میں ایک ہی شاعر کا نام الگ الگ جگہوں پر الگ الگ اعزازات کے ساتھ درج ہے اور لطف یہ ہے کہ دونوں جگہ غلط یعنی ’’ڈاکٹر اقبال ایم اے‘‘ جبکہ کسی نے صرف ایم اے کیا ہو تو وہ ڈاکٹر کیسے کہلائے گا اور ’’مسٹر اقبال ایم اے بیرسٹر ایٹ لا‘‘ تاریخی اعتبار سے غلط کیونکہ اقبال بیرسٹر بننے سے پہلے پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر بن چکے تھے۔ جس مرتب کی بے توجہی کا یہ حال ہو اُس کی سَنَد پر ایک بالکل نئی نظم کو اقبال سے کیونکر منسوب کر لیا جائے۔ دوسری نظم ’گل ِ خزاں دیدہ‘ میں بھی دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ ایک پھول کی زبان سے کھینچا گیا ہے جو کبھی جوان تھا اور اَب نہیں ہے۔ بظاہر یہ نظم اُسی شاعر نے لکھی ہو گی جس نے’عیشِ جوانی‘ لکھی تھی اور کسی سند کے بغیر اِس شاعر کو اقبال تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نظم بھی صفدر مرزاپوری کے مجموعے نیچرل شاعری سے لی گئی ہے جہاں اِس کا ماخذ درج نہیں کیا گیا۔ تیسری نظم ’شمع ِ زندگانی‘ کے بارے میں گیان چند خود لکھتے ہیں، ’’یہ نظم محض باقیات [یعنی باقیاتِ اقبال] طبع سوم میں ص ۲۲۹م ۲۲۸ پر ہے۔ مرتب نے اس کا ماخذ نہیں دیا تاکہ اقبال سے اس کے انتساب کے بارے میں مزید یقین ہو جاتا۔ ویسے شمع سے خطاب کرنا اقبال کو بہت مرغوب ہے۔ اس نظم میں شاعر موت آنے پر گڑگڑا کر کَہ رہا ہے کہ چندے اور دُنیا میں رہنے دے۔ یہ خیال اقبال کے مسلک کے بالکل برعکس ہے۔ نظم کا زمانہ معلوم نہیں لیکن اس کی ذہنی افتاد کے پیشِ نظر یہ ابتدائی دَور ہی کی ہو سکتی ہے۔‘‘ میرے خیال میں یہ اقبال کے کسی دَور کی بھی نہیں ہو سکتی اور شمع سے خطاب کرنا اقبال ہی کو نہیں اکثر شعرا کو مرغوب تھا مگر جس نوعیت کا یہ خطاب ہے وہ اقبال سے بعید ہے۔ ویسے اِس میں خطاب شمع سے نہیں بلکہ’شمعِ زندگانی‘ سے ہے اور اقبال نے زندگی کو عموماً شمع نہیں بلکہ شرار یا شعلے سے تشبیہ دی ہے۔ ان دونوں باتوں میں لطیف فرق ہے۔ گیان چند نے اسماعیل میرٹھی کی نظم’شمعِ ہستی‘ کو بھی اقبال کی سمجھ لیا اور شاید اِسی وجہ سے تامل کے باوجود اِس نظم کے بارے میں بھی باقیاتِ اقبال کا دعویٰ تسلیم کر بیٹھے۔[اقبال: اِبتدائی دَور، ص۱۰۷-۱۰۶] ایک قلبی واردات مئی ۱۹۰۲ء میں شیخ عبدالقادر کا مضمون ’اقبال‘ شائع ہوا جو محمد دین فوق کے لکھے ہوئے ایک شذرے کے سوا اقبال کے بارے میں پہلی سوانحی تحریر سمجھا گیا ہے۔ اس میں اقبال کی پہلی شادی کے حوالے سے درج ہے، ’’ چونکہ یہاں رشتہ داریاں نوعمر لڑکوں کی استرضا کے بغیر ہی کر دی جاتی ہیں اِس لیے شیخ محمد اقبال باعتبار شادی بہت خوش قسمت ثابت نہ ہوئے اور اِس واقعے نے طبیعت کی بشاشی اور شگفتگی کو اُداسی سے بدل دیا۔‘‘ شیخ عبدالقادر جیسے قریبی دوست نے یہ بات اقبال کی اجازت کے بغیر نہ لکھی ہو گی لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۲ء تک اقبال کے اپنی پہلی بیوی سے اختلافات کم از کم اتنے تلخ ضرور ہو گئے تھے کہ انھوں نے ایک قریبی دوست کو مضمون میں ان کا تذکرہ کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ یہ بیزاری بعد میں یورپ کی بیباک فضا میں سانس لینے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ میں نے اس بات کا ذکرIqbal: An Illustrated Biography (2006) میں بھی کیا تھا مگر مضمون کے اگلے ہی جملے میں شیخ عبدالقادر نے جو بات لکھی ہے اُس کی طرف اُس وقت میری توجہ نہیں گئی تھی۔ انھوں نے لکھا، ’’ اُنہیں ایام میں ایک پیارے دوست کے انتقال نے غم کی آگ پر اور تیل ڈال دیا اور طبیعت کا رنج اشعار سے ٹپکنے لگا اور اُس درد نے شاعری کا وہ حصہ عطا کر کے جسے گداز کہتے ہیں اقبال کو پورا شاعر بنا دیا۔ ہندوستان میں شاعری کی ستّۂ ضروریہ میں لاگ یا لگاؤ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ حالی جیسے متین شاعر نے اِسے ’’چیز وہ مضمون سجھانے والی‘‘ لکھا ہے اور دیگر اساتذہ نے بھی کسی نہ کسی رنگ میں کسی نہ کسی کے ساتھ لگاؤ پیدا کیا ہے اور اس سے کلام میں واقفیت اور جوش کی چاشنی پیدا کی ہے جس کے بغیر کلام پھیکا رہ جاتا ہے۔ ہمارے اقبال بھی اِس سے خالی نہ رہے۔ کسی کی شوخی کے قائل ہوئے اور کلام میں رندانہ رنگ کی جھلکیاں نظر آنے لگیں اور بہت سے معاملے کے اشعار نکلنے لگے۔ ‘‘ یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں: ۱- وہ دوست کون تھا جو اقبال کی پہلی شادی کے دنوں میں یعنی ۱۸۹۳ء میں میٹرک کے فوراً بعد کے زمانے میں فوت ہو ا اور جس کے غم نے اقبال کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا؟ ۲- اقبال جس کی ’’شوخی کے قائل ہوئے‘‘ اور کلام میں رندانہ رنگ کی جھلکیاں نظر آنے لگیں کیا وہ یہی شخصیت تھی اور یہ اُس کی موت سے پہلے کا معاملہ ہے یا اُس کے بعد کسی اور کی طرف اشارہ ہے؟ سیاق و سباق پر غور کر کے میں صرف اتنا ہی اندازہ لگا سکا ہوں: یہ کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کا تذکرہ اقبال کے کسی اور سوانح نگار نے نہیں کیا۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دوستی نہیں بلکہ محبت کی بات ہے جس کی ایک تعبیر یوں سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اقبال کی مرضی کے خلاف اُن کی شادی ہوئی تو اِس صدمے نے کسی محبوب کی جان لے لی مگر کسی تفصیل کے بغیر صرف قیاس آرائی ہی ممکن ہے۔ [اقبال: اِبتدائی دَور، ص۹۵] شیخ عبدالقادر کا مضمون اقبال جادوگرِ ہندی نژاد (۱۹۷۵) سے لے کر اقبالیات کے سو سال میں شامل کیا گیا۔ میرا ماخذ بھی یہی موخرالذکر کتاب ہے اور وہاں سے میں نے پورا مضمون اپنی کتاب میں ص۲۲۸-۲۲۱ پر بھی شامل کیا ہے اور اس میں دی ہوئی معلومات سے ان کے متعلقہ ادوار میں بھی انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ کلامِ اقبال پر غالب کے اثرات بانگِ درا کے دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے لکھا کہ اگر وہ تناسخ کے قائل ہوتے تو سمجھتے کہ مرزا غالب کی روح نے اُردو کی ترقی کے لیے اقبال کی صورت میں دوبارہ جنم لیا۔ ماہرین ِ اقبالیات عموماً اِسی دائرے میں رہتے ہوئے دونوں شاعروں کے اُردو کلام کے موازنے تک محدود رہے اور میں نے بھی دمادم رواں ہے یمِ زندگی میں اگرچہ اقبال کی ابتدائی زندگی میں غالب کے اثرات کو خاص طور پر نمایاں کرنے کی کوشش کی مگر وہ اِسی دائرے میں تھی۔ غالب کے فارسی کلام بالخصوص اُن کی مثنویات کی روشنی میں بعض نئے پہلو توجہ کے لائق محسوس ہوتے ہیں۔ غالب کی فارسی مثنویاں گیارہ ہیں۔ ان میں سے پہلی ’سرمہ ٔ بینش‘مولانا روم کی مثنوی کے پہلے شعر سے شروع ہوتی ہے: بشنو از نے چوں حکایت می کند و از جدائی ھا شکایت می کند اس کے بعد غالب کہتے ہیں کہ وہ خود نہیں کہہ رہے بلکہ کسی کے فیض سے بیان کر رہے ہیں: من نیم کز خود حکایت می کنم از دمِ مردے روایت می کنم از دمِ فیضے کز اُستاد آورم خامہ را چوں نے برفیاد آورم ظاہر ہے کہ یہ شخص مولانا روم ہیں۔ بقیہ مثنوی بہادر شاہ ظفر کا قصیدہ ہے مگر یہ تاریخی بہادر شاہ سے زیادہ غالب کے تخیل کا مثالی بادشاہ معلوم ہوتا ہے جس میں فقر اور سلطانی کے اوصاف جمع ہیں۔ اسلامی ادبیات میں بادشاہت کا یہ تصور پہلے سے موجود تھا، قصہ چہار درویش جو امیر خسرو سے منسوب ہے اُس میں بھی پیش کیا گیا تھا مگر غالب کے بچپن کے زمانے میں میر امن دہلوی نے اسے باغ و بہار (۱۸۰۴) کی صورت میں اُردو میں منتقل کر کے ایک نئی زندگی دے دی تھی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ نہ صرف فقر و درویشی کا یہ امتزاج اقبال کے یہاں ایک مستقل موضوع بنا بلکہ اُن کی اپنی پہلی فارسی مثنوی اسرار و رموز بھی بالکل مرزا غالب کی پہلی مثنوی کی طرح مولانا روم کے تتبع کے ساتھ شروع ہوئی۔ اس کے آغاز میں دیوان شمس تبریز کے اشعار نقل کیے گئے اور تمہید میں کہا کہ مولانا روم کے حکم پر اُنہی کے پیغام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس شعر میں یہ بات کہی وہ بھی غالب کے ’’از دمِ فیضے‘‘ والے شعر کی تلمیح معلوم ہوتا ہے جو اوپر درج کیا گیا۔ اقبال کہتے ہیں: باز بر خوانم ز فیضِ پیر روم دفتر سربستہ اسرارِ علوم میں نے غالب کی تیسری مثنوی کے بارے میں لکھا ہے: تیسری ’چراغِ دیر‘ میں بنارس کا احوال بیان ہوا تھا جو غالبؔ کے تخیل میں آباد کسی دنیائے کامل کا نقشہ بھی ہو سکتا تھا: ’’اِن رُوحوں کو دیکھو جن پر تن کا خول نہیں ہے۔ یہ وہ رُوپ ہے جسے آب و خاک سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی فطرت پھول کی خوشبو کی طرح ہلکی پھلکی ہے، یہ لوگ جان ہی جان ہیں، جسم حائل نہیں!‘‘ [اقبال: اِبتدائی دَور، ص۸۴] امید ہے کہ قارئین خود ہی اندازہ لگا لیں گے کہ اقبال کے شاہکار جاویدنامہ میں فلک ِ مریخ پر پیش کی گئی دنیا اور اُس کے رہنے والوں کی جو خصوصیات بیان ہوئی ہیں اُن کا اِس مثنوی سے کتنا گہرا تعلق بنتا ہے۔ چوتھی مثنوی ’رنگ و بو‘ میں ایک بادشاہ کی حکایت کے ذریعے ہمت کو سب سے بڑی قدر بتایا گیا ہے۔ اس کا یہ شعر قابل ِ غور ہے: ہمت اگر بال کشائے کند صعوہ تواند کہ ہمائے کند غالب کہہ رہے ہیں کہ ہمت اپنے پر کھولے تو ممولے کو ہما کا مقام مل جائے۔ اقبال کے ’ساقی نامہ‘ کا یہ شعر فوراً ذہن میں آتا ہے: اُٹھا ساقیا پردہ اِس راز سے لڑا دے ممولے کو شہباز سے میں نے چھٹی مثنوی کے بارے میں لکھا ہے: چھٹی مثنوی ’بیانِ نموداری شانِ نبوت و ولایت‘ میں نورِ محمدیؐ کا بیان تھا کہ احمد میں سے م نکال دیا جائے تو احد بن جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ کا بے مثال ہونا اسی سے ثابت ہے کہ آپؐ خاتم الانبیا ٔ ہیں اور ظاہر ہے کہ آخری نبی دو نہیں ہو سکتے۔ یہ مثنوی اُس زمانے میں لکھی گئی جب دہلی میں یہ بحث چھڑی تھی کہ کیا خدا آنحضرتؐ جیسا دوسرا بنانے پر قدرت رکھتا ہے؟ غالب کی مثنوی یہ پیغام دیتی تھی کہ اول تو اس نکتے سے بہتر نکتہ یہ ہے کہ خدا جتنی دنیائیں چاہے بنا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دنیا کا ایک ایک رحمۃللعالمین بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کہنے کے بعد غالب نے کہا تھا کہ اس کے باوجود آخری نبی ایک ہی رہے گا جو آنحضرتؐ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ [اقبال: اِبتدائی دَور، ص۸۴] اقبال کی ابتدائی شاعری اور خاص طور پر متروک منظومات میں تو اِس مثنوی کے مضامین کثرت سے دہرائے ہی گئے مگر جاویدنامہ میں فلک ِ مشتری پر جب غالب کی روح ظاہر ہوتی ہے تو اقبال نے نہ صرف اُن سے اِس مثنوی کے بارے میں سوال پوچھے بلکہ اس مکالمے میں حلاج کو بھی شامل کر کے مثنوی کی تشریح حلاج کے ذریعے کروائی۔ غالب کی گیارہویں مثنوی کا عنوان ’ابرِ گہربار‘ ہے۔ سب سے پہلے یہی بات قابلِ توجہ ہے کہ اقبال نے ۱۹۰۳ء میں اپنے ابتدائی زمانے کی اہم ترین نظم کے لیے یہی عنوان پسند کیا:’ ابرگہربار یعنی نعت ِ عاشقانۂ جنابِ سرور کائنات و فریادِ اُمّت برآستانۂ آں ذاتِ بابرکات۔‘سمجھا جا سکتا ہے کہ اس عنوان کا مقصد یہی تھا کہ غالب کی اُس مثنوی کی طرف تلمیح ہو جائے جو نہ صرف غالب کی پوری فکر کا خلاصہ ہے بلکہ اس کا ایک حصہ معراج نامے پر بھی مشتمل ہے۔ پھر کیوں نہ سمجھا جائے کہ جاویدنامہ کے ماخذوں میں سب سے اہم ماخذ غالب کی یہی مثنوی تھی؟اس کے معراج نامے والے حصے میں غالب نے جہاں دیدار کی کیفیت بیان کی ہے وہ اُس سے بہت مماثل ہے جو اقبال نے جاویدنامہ میں بیان کی۔ غالب کا بیان کچھ یوں ہے : در آنجا کہ از روئے فرہنگ ورائے بجا باشد را خود نگویند جائے جہت را دم خودنمائی نمانند زمان و مکاں را روائی نمانند غبار از نظر شد ز رہ ناپدید سراپائے بینندہ شد جملہ دید در آورد بے کلفت سمت و سوئے بنور السمٰوات و الارض روئے تماشا ہلاکِ جمالِ بسیط فروغِ نظر موجۂ زاں محیط شنیدن شہیدِ کلامی شگرف منزہ ز آمیزشِ صوت و حرف کلامے بی نیرنگے ذات علم شنیدن بہ عقل اندر اثبات علم ظ-انصاری نے غالب کی فارسی مثنویوں کا خوبصورت ترجمہ کیا ہے جس میں متعلقہ اشعار کا ترجمہ لفظی ترمیم کے ساتھ میں نے اپنی کتاب میں یوں شامل کیا ہے: یہ وہ مقام تھا کہ ازروئے عقل اس کو جگہ نہیں کہہ سکتے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سمتوں کا تعین ہی نہ رہا، وقت اور جگہ کا وجود بے معنی ہو گیا۔ درمیان سے نظر کا غبار فنا ہوا اور دیکھنے والا ہمہ تن دید ہو گیا۔ بغیر سمت اور رخ کے آنحضرتؐ آسمانوں اور زمین کے نور کی طرف متوجہ ہوئے، جمالِ بسیط نے دیکھنے کو فنا کر دیا، خود اس ذات کی موج نظر کی روشنی ہو گئی! یہاں سننے کی قوت عجیب کلام نے فنا کر دی، اس کلام میں نہ حرف تھے نہ آواز! ذاتِ علم کی بے رنگی اس کلام میں تھی جیسے عقل سے کسی حقیقت کا ادراک کہ اس میں سننے کو دخل نہیں! اقبال نے جاویدنامہ میں دیدار کے مقام کو جس طرح بیان کیا اُس کی غالب کے بیان کے ساتھ مماثلت صاف ظاہر ہے: غرق بودم در تماشاے جمال ہر زماں در انقلاب و لایزال گم شدم اندر ضمیر کائنات چون رباب آمد بچشم من حیات آنکہ ہر تارش رباب دیگرے ہر نوا از دیگرے خونیں ترے ما ہمہ یک دودمان نار و نور آدم و مہر و مہ و جبریل و حور پیش جاں آئینۂ آویختند حیرتے را با یقیں آمیختند صبح امروزے کہ نورش ظاہر است در حضورش دوش و فردا حاضر است حق ہویدا با ہمہ اسرار خویش با نگاہ من کند دیدار خویش دیدنش افزودن بے کاستن دیدنش از قبر تن برخاستن عبد و مولا در کمین یک دگر ہر دو بے تاب اند از ذوق نظر زندگی ہر جا کہ باشد جستجوست حل نشد ایں نکتہ من صیدم کہ اوست جناب احمد جاوید نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے: میں (اس) جمال کی دید میں غرق تھا (جو) ہر پل منقلب مگر اٹل میں کائنات میں باطن میں محو ہو گیا تھا مجھے زندگی رباب کی طرح دکھائی دی وہ جس کا ہر تار ایک نیا رباب تھا اس کا ہر نغمہ دوسرے سے زیادہ لہو برسانے والا تھا ہم سب آگ اور نور کا ایک خاندان ہیں آدم، سورج، چاند ، جبریل اور حور روح کے آگے آئینہ سا لٹکا دیا گیا حیرت کو یقین کے ساتھ گوندھ دیا گیا آج کی صبح جس کا نور ظاہر ہے اس کے حضور میں حاضر ہیں ماضی اور مستقبل حق اپنے سب اسرار سمیت ظاہر میری آنکھ سے خود کو دیکھ رہا ہے اس کی دید ایک چڑھاؤ ہے بے اتار اس کی دید تن کی قبر سے اٹھ کھڑا ہونا ہے بندہ اور مولا دونوں ایک دوسرے کی گھات میں ہیں دونوں ذوق نظر کے ہاتھوں بے تاب ہیں زندگی جہاں بھی ہو، جستجو (سے عبارت) ہے یہ نکتہ حل نہیں ہوا کہ شکار میں ہوں کہ وہ! یہ بات بھی چونکانے والی ہے کہ بانگِ درا کی ترکیب جو اقبال کی نظموں میں بار بار استعمال ہوئی یہاں تک کہ ان کے مجموعے کا عنوان بنی وہ جب پہلی دفعہ ۱۹۰۲ء میں متروک نظم ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے‘میں استعمال ہوئی تو غالب کے پیغام کے تسلسل کی طرف اشارہ کر رہی تھی: ہے سوئے منزل رواں ہونے کو اپنا کارواں ہم صریرِ خامہ کو بانگِ درا کہنے کو ہیں غالب نے صریرِ خامہ کو نوائے سروش یعنی غیب سے مضامیں لانے والے فرشتے کی آواز کہا تھا۔ اقبال اسی صریرِ خامہ کو بانگِ درا کہنے والے تھے۔ ’’نوائے سروش نے منزل کا پتہ دیا تھا،‘‘ میں ص۲۰۸ پر لکھا ہے۔ بانگِ درا منزل کی طرف بڑھنے کا اعلان کرنے والی تھی۔‘‘ (بعد میں مثنوی اسرارِ خودی لکھی تو پہلے اُس کا عنوان بھی ’نوائے سروش‘ ہی تجویز کیا جو بظاہر غالب ہی سے ماخوذ تھا)۔ اقبال اور قرآن ’’کالج میں میری تعلیم کا ابتدائی زمانہ تھا،‘‘اقبال کا بیان ہے۔ ’’میرا معمول تھا ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا۔ اِس دوران والد ماجد بھی مسجد سے تشریف لے آتے اور مجھے تلاوت کرتا دیکھ کر اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔ وہ جیسے کسی خیال سے میرے پاس بیٹھ گئے۔ میں تلاوت کرتے کرتے رک گیا۔۔۔ کہنے لگے ، تم کیا پڑھا کرتے ہو؟ مجھے اُن کے سوال پر بہت تعجب ہوا۔ بہرحال ، میں نے مؤدبانہ عرض کیا، قرآن پاک۔ کہنے لگے، تم جو کچھ پڑھتے ہو سمجھتے بھی ہو؟ میں نے کہا کیوں نہیں ، تھوڑی بہت عربی جانتا ہوں، کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہوں۔ اُنھوں نے میرا جواب نہایت خاموشی سے سنا اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ میں حیران تھا۔۔۔کچھ دن گزر گئے اور بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن اِس واقعے کو چھٹا روز تھا کہ صبح سویرے ۔۔۔ والد ماجد مسجد سے واپس آئے اور میں نے تلاوت ختم کی تو اُنھوں نے مجھے بلایا اور پاس بٹھا کر بڑی نرمی سے کہنے لگے،’’ بیٹا ! قرآن مجید وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس پر نزول ہو۔۔۔ کیوں نہ تم اس کی تلاوت اس طرح کروجیسے یہ تم پر نازل ہورہا ہے۔ ایسا کروگے تو یہ تمہاری رگ وپے میں سرایت کر جائے گی۔‘‘ یہ واقعہ سید نذیر نیازی نے اقبال سے سن کر اقبال کے حضور میں شامل کیا جہاں سے یہ کافی مشہور ہوا ہے۔ اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والے عام طور پر اِس واقعے سے واقف ہوتے ہیں مگر تشکیل جدید (انگریزی) پر پروفیسر محمد سعید کے لکھے ہوئے حواشی میں یہ بات مزید کھل کر سامنے آئی کہ اپنی سب سے اہم فلسفیانہ تصنیف کے آخری خطبے میں اقبال نے جس ’’صوفی‘‘ کا قول نام لیے بغیر دہرایا اور ایک طرح سے اُسے خطبے کا بنیادی موضوع بنایا ہے وہ دراصل اقبال کے والد ہیں اور قول بھی وہی نصیحت ہے جو انھوں نے اس موقع پر کی تھی۔ اِس کے ساتھ دوسری باتیں بھی ذہن میں رکھنی چاہئیں، مثلاً اسرار و رموز کے آخر میں اپنے کلام کے بارے میں کہنا کہ اس میں قرآن کے سوا کچھ نہیں،اسرارِ خودی کے انگریزی ترجمے کے موقع پر انگلستان کے دانشوروں سے اصرار کرنا کہ یہ مثنوی نیٹشے نہیں بلکہ قرآن سے ماخوذ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کا مجموعی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اقبال کی ذہنی سرگذشت کا اصل موضوع قرآن تھا۔ شروع ہی سے یہ بات محسوس کی گئی اور اس پر بہت کچھ لکھا گیا جس میں ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی ضخیم کتاب اقبال اور قرآن شامل ہے۔ ان کتابوں کی وجہ سے سوانح نگاروں کوبھی کم سے کم اِتنا ضرور کہنا پڑا کہ اقبال اور قرآن میں کچھ تعلق تھا مگر یہ کہنے کے باجود بہت سے سوانح نگاروں نے عملاً پوری سوانح کی اُٹھان کچھ اِس طرح رکھی جیسے اقبال یکے بعد دیگرے بہت سے مغربی فلسفیوں کے رد و قبول کے مراحل سے گزرتے جا رہے ہیں مگرتحصیل ِ حاصل کے سوا کچھ اور مقصد نہیں۔ یہ ذہنی سرگذشت ’میبل اور میں‘ کے ہیرو کی ہو سکتی ہے، اقبال کی نہیں۔ ۱۹۰۴ء تک کے واقعات پر ختم ہونے والی سوانح میں ممکن نہیں کہ اِس بحث کو تکمیل تک پہنچا کر اِس کے تمام مضمرات واضح کر دیے جائیں مگر امید ہے کہ قارئین محسوس کر لیں گے کہ اس کتاب میں اقبال کی سوانح کا اصل رُخ یہی ہے۔ آئندہ اَدوار میں یہ بات مزید واضح ہوتی جائے گی۔ قوم اور وطن اقبالیات میں یہ مفروضہ عام طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ اقبال پہلے وطنیت کے قائل تھے اور بعد میں قوم کو اہمیت دینے لگے۔ اس سلسلے میں اقبال کے بعض خطوط سے بھی حوالے دیے جاتے ہیں اور سب سے بڑی مثال یہ دی جاتی ہے کہ پہلے انھوں نے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اور بعد میں ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کہا۔ اپنی جگہ یہ تمام شواہد درست ہیں مگر ان سے جو مجموعی صورت حال برآمد کی جاتی ہے وہ کس حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ جب اِس بات پر غور کیا جائے کہ مخزن اکتوبر ۱۹۰۴ء کے شمارے میں جب ترانۂ ہندی پہلی بار ’ہمارا دیس‘ کے عنوان سے شائع ہوا تو اُسی شمارے میں ’قومی زندگی‘ کے عنوان سے اقبال کا ایک مضمون بھی شامل تھا جس میں قوم سے ہندوستانی نہیں بلکہ ہندوستان کی مسلمان قوم مراد لی گئی تھی! تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اقبال شروع ہی سے سمجھتے تھے کہ ہندوستان وطن ہے جس میں کئی قومیں آباد ہیں۔ یہی موقف ترانۂ ہندی میں ہے اور یہی ’طلوعِ اسلام‘، خطبہ ٔ الٰہ آباد اور اے اقوامِ شرق (پس چہ باید کرد) میں دہرائے جاتے ہوئے آخر تک قائم رہا۔اصل تبدیلی کچھ اور تھی جسے سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستانی وطنیت کے بارے میں اقبال کا موقف دراصل وہی تھا جو صدیوں سے ہندوستان میں رائج تھا اور جسے سر سید احمد خاں، مولانا محمد علی جوہر اور خود اقبال نے نئے زمانے میں بڑی دیانتداری کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی یعنی ہندوستان کئی قوموں کا وطن ہے جن کی جداگانہ شناخت کو تحفظ ملنا چاہیے کیونکہ اس قومیت کی بنیاد مذہبی تجربے پر ہوتی ہے یعنی یہ کسی نہ کسی پیغمبر کے روحانی مشاہدات کی یادگار ہوتی ہے۔چنانچہ مولانا محمد علی جوہر نے ایک دفعہ کہا تھا، ہندوستان ایک ملک نہیں ہے مگر اِسے ایک بنانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا تصور نیا تھا جسے کانگریس ۱۸۸۵ء کے بعد سے رائج کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ مغربی تعلیم حاصل کرنے والے چند نوجوانوں کا نظریہ تھا جسے حقیقت سے کوئی واسطہ نہ تھا مگر اتفاق سے ہندو انتہاپسندی کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ ہو گیا خواہ دانستہ یا نادانستگی میں ہوا ہو۔ اس تصور میں سب سے بڑی مشکل یہی تھی کہ اسے حقیقت سے واسطہ نہ تھا: مغربی ادب سے اُنیسویں صدی کے شروع کی رومانویت اوراواخر کا انحطاط لے کر اُس بنگالی ادب کا خمیر تیار ہوا جس میں ہندوستان کو انگلستان اور فرانس کی طرز پر ایک ریاست سمجھا گیا تھا۔ مغربی تہذیب میں امریکہ ایک ایسا عنصر تھا جو روایات کے پھندوں سے آزاد تھا اور اسے اقبال نے اُس وقت دریافت کیا تھا جب بنگال کے کولمبس بحرِ ظلمات کے پار نہیں پہنچے تھے۔ ایمرسن کی نظم سے ماخوذ ’ایک پہاڑ اور گلہری‘ غالباً اقبال پہلے ہی لکھ چکے تھے مگر اب امریکی صوفی کی ایک اور نظم نے اُن کی توجہ کھینچی۔ ’گڈبائے‘ میں ایمرسن نے دنیا کو خدا حافظ کَہ کر عدم کی طرف سفر کرنے کی بجائے فطرت کی طرف رجوع کیا تھا اور اُس کے لیے فطرت غفلت اور فرار کی بجائے آگہی کا ذریعہ بن گئی تھی۔ ’رخصت اے بزمِ جہاں‘ ستائیس اشعار کی نظم تھی۔ اِس کی ہیئت مثنوی کی تھی۔ پہلے بند میں بارہ، دوسرے میں چھ اور تیسرے میں نو شعر تھے: علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اُس کی نمود گل کی پتّی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بُود یہ بنگالی ادب اور اُس سے پیدا ہونے والے تصورات پر بڑی لطیف تنقید تھی۔فروری میں دکن ریویو میں شائع ہوئی۔ شیخ عبدالقادر نے مخزن کے لیے کوئی نظم طلب کی تو اقبال نے کچھ ترمیم کے ساتھ یہی نظم دے دی ۔۔۔ [اقبال: اِبتدائی دَور، ص۲۹۳] اُس زمانے کی صرف چند نظمیں ہی نہیں بلکہ اقبال کی ابتدائی زندگی کی پوری اُٹھان انہی بنیادوں پر دکھائی دیتی ہے بشرطیکہ پہلے سے قائم کیے ہوئے مفروضوں کی روشنی میں صرف چند حقائق منتخب نہ کیے جائیں بلکہ چھوٹی سے چھوٹی ہر تفصیل سامنے رکھ کر ایسی تصویر بنانے کی کوشش کی جائے جو پورے منظر کے ساتھ انصاف کرتی ہو۔ میں نے تمام جزئیات یکجا کرنے کی کوشش کی ہے اور اُمید ہے کہ اُن کی روشنی میں قارئین کو خود بھی کسی فیصلے پر پہنچنے میں سہولت ہو گی۔ اس کے باوجود یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ قوم کے بارے میں اقبال کسی نہ کسی قسم کے تجربے سے دوچار ضرور ہوئے۔ میرے خیال میں اس تجربے کی حقیقت بہت پہلے ہمارے سامنے آ گئی ہوتی اگر ہم اقبال کی سوانح کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کو بھی شاعر، فلسفی، وطن پرست اور ملت پرست کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کر کے اس کی زندہ توانائی کو نظرانداز نہ کر بیٹھے ہوتے: ۱- ۱۸۷۳ء میں سر سید احمد خاں نے اپنے مضمون یا افسانے ’گزرا ہوا زمانہ‘ میں نوجوانوں کو ایک دلہن کی جھلک دکھا کر اُس سے محبت کرنے کا درس دیا۔ اس دلہن کا نام ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ تھا۔ نہ صرف عام اسلامی ادبیات بلکہ اس افسانے سے صرف تین برس قبل لکھے جانے والے خود سرسید کے خطباتِ احمدیہ کے دیباچے کی روشنی میں یہ تمام انسانوں کی روح مسلمانوں کی وہ اجتماعی خودی تھی جسے بعض حکیموں نے انسانِ کامل کا نام دیا تھا۔ ۲- یہ محض اتفاق تو نہیں ہو سکتا کہ سرسید کے خاص پیروکار مولوی سید میر حسن کی نگرانی میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اقبال نے تحقیق کا آغاز کیا تو سب سے پہلے عبدالکریم الجیلی کے اُس رسالے کو موضوع بنایا جس کا عنوان ہی الانسان الکامل تھا۔ ۳- اس تعلیمی سفر کے صرف آخری مراحل میں انہیں آرنلڈ کی نگرانی بھی میسر آئی جس کے زیرِ اثر اُنھوں نے الانسان الکامل سے شروع ہونے والی تحقیق کو مزید پھیلانے کے لیے کیمبرج اور جرمنی کا سفر اختیار کیا۔ ایک دفعہ پھر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اقبال نے اپنی اعلیٰ تحقیق کے بارے میں مولوی سید میر حسن سے مشورے کیے۔ ۴- یہ تحقیق ایران میں مابعدالطبیعیات کا ارتقا میں بدل گئی مگر اِس کے ساتھ ہی یورپ میں قیام کے دوران اقبال اعلان کر رہے تھے کہ حقیقت ظاہر ہو گئی ہے: وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا گیا ہے تقلید کا زمانہ، مجاز رخت ِ سفر اُٹھائے ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا؟ جسے وطن پرستی سے قوم پرستی کی طرف مراجعت سمجھا گیا ہے دراصل وہ غیب اور حضور کا فرق تھا۔ اقبال کو اُس اجتماعی خودی کی جستجو تھی جس کی ایک جھلک سرسید دکھا کر اُسے اُس عہد کے سب نوجوانوں کے خیالوں میں بسا گئے تھے۔ ’مارچ ۱۹۰۷‘ وہ نیا موڑ تھا جب یہ حقیقت اِس طرح سامنے آئی کہ جستجو کے مراحل ختم ہو گئے اور صرف اپنے مجازی وجود کو فنا کرکے اُس حقیقت کو اپنانے کی ضرورت رہ گئی۔ غیب سے حضور کا یہ فاصلہ صرف لاہور سے کیمبرج سفر کر کے طے نہیں ہو گیا بلکہ اس میں اُس زمانے کے مسلمان معاشرے کے اجتماعی تجربات بھی شامل تھے جن سے اقبال روحانی، فکری اور جذباتی طور پر جڑے ہوئے تھے۔ مسلمان قومیت سے وابستہ ہونے کا احساس ایک غیرمتوقع طور پر ملکہ وکٹوریہ کے مرثیے ’اشک ِ خوں‘(۱۹۰۱ئ) میں ظاہر ہوتا ہے۔ چند برس پہلے ملکہ کی گولڈن جوبلی پر سپاسنامے پیش ہو رہے تھے تو مسلمانوں نے علیحدہ بھی پیش کیے تھے اور ایسے ہی ایک سپاسنامے کی تجویز پر سید میر حسن نے تقریر بھی کی تھی جس کے اقتباس میں نے کتاب میں شامل کیے ہیں۔ اقبال کے مرثیے میں ہندوستان ایک وطن اور مسلمان ایک قوم کے طور پر موجود ہیں۔’’مرحوم کے نصیب ثوابِ جزیل ہو‘‘ خالص مسلمانوں کا اظہارِ تعزیت ہے: ملکہ وکٹوریہ کا انتقال عید کے دن ہوا چنانچہ اقبال نے ہلالِ عید سے خطاب کر کے ایک طرف اُسے وہ خاص تعلق یاد دلایا جو اُسے اُن کی قوم کے ساتھ تھا مثلاً مسلمانوں کا قومی نشان تھا۔۔۔ایک اچھے حکمراں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اقبال نے وہ بنیادی خصوصیات گنوا دیں جو اُن کے خیال میں اور شبلی نعمانی کے حساب سے مسلمان بادشاہوں میں ہوا کرتی تھیں: فرماں نہ ہو دِلوں پہ تو شانِ شہی نہیں سونے کا تاج کوئی نشانِ شہی نہیں تعزیت کے موقع پر اِن خصوصیات کو اعزازی طور پر ملکہ وکٹوریہ سے منسوب کر دینے سے ظاہر تھا کہ تعزیت کرنے والی قوم خود بھی آدابِ جہانبانی سے ناواقف نہیں ہے: شاہی یہ ہے کہ اور کا غم چشمِ تر میں ہو شاہنشہی پہ شانِ غریبی نظر میں ہو یہ کہنا مشکل ہے کہ ملکہ وکٹوریہ میں یہ تمام خوبیاں موجود رہی تھیں مگر اقبال کے اپنے تخیل کی ایک گرہ ضرور کھُل رہی تھی۔ فقر اور شاہی کے امتزاج کی پہلی جھلک یہیں دکھائی دیتی ہے۔ [اقبال: اِبتدائی دَور، ص۱۸۷-۱۸۵] البتہ یہ بھی درست ہے کہ اِس سے پہلے اقبال عام طور پر کشمیر کو جنت اور گلشن کہا کرتے تھے مگر یہاں پہلی بار ہندوستان کے لیے باغ کا لفظ ملتا ہے جو بعد میں ’ترانۂ ہندی‘ میں اپنے عروج کو پہنچا۔ چنانچہ ’اشک ِ خوں‘یعنی وکٹوریہ کا مرثیہ ایک اور مثال ایسی نظم کی ہے جہاں ہندوستان کو اِس شرط پر وطن تسلیم کیا جا رہا ہے کہ قومیت کی بنیاد اسلام ہی رہے گا۔ اس کے اگلے برس انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے‘ پڑھی۔ یہ نظم بھی بانگِ درا میں شامل نہیں۔ وجہ یہ رہی ہو گی کہ اس کے مضامین زیادہ بہتر طور پر دوسری نظموں میں آگئے۔ سوانح میں اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہاں ’’عشق ِاخوان‘‘ کا تصور واضح طور پر سامنے آیا جو بعد میں تصورِ ملت اور فلسفۂ بے خودی کی اساس بنا۔ نوٹ: سوانحی سلسلے کی دوسری کتاب [اقبال: تشکیلی دَور ۱۹۰۵سے ۱۹۱۳] تیار ہو چکی ہے۔ اس میں جو نیا مواد اور نئے پہلو سامنے آ رہے ہیں اُن کا تعارف آیندہ شمارے میں مضمون کی دوسری قسط میں پیش کیا جائے گا۔ ژ…ژ…ژ فیض احمد فیض: سایے اور سراب خرم علی شفیق کیا فیض کی شاعری انسان اور خدا کے رُوحانی تعلق سے عاری ہے؟ یہ سوال اقبالیات جولائی ۲۰۰۸ء میں ڈاکٹر ریاض قدیر کے مضمون ’اقبال اور فیض: قربتیں اور فاصلے‘ سے تازہ ہو گیا۔ ڈاکٹر قدیر نے جہاں سے شہر کو دیکھا وہاں سے ایسا نظر آتا ہو گا لیکن ادب میں یہی لطف ہے کہ اسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں فیض کی شاعری میں آخرت کا واضح تصور موجود ہے مگر اُن کی شاعری کو کبھی وہاں سے دیکھا ہی نہیں گیا جہاں سے یہ پہلو سامنے آتا۔ بعض نئی جہتیں دریافت کرنے کے لیے تین بنیادی موضوعات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں: ا- شاعر اورمعاشرے کا تعلق ب- عشق ج-آخرت شاعر اور معاشرے کا تعلق فیض اور اُن کے معاشرے میں بنیادی تعلق اختلاف اور عناد کا ہے۔ اُنھوں نے مزدوروں، کسانوں اور عام آدمیوں کی طرف سے بات کی ہو تو وہ مزدور، کسان اور عام آدمی رُوس کے رہے ہوں گے، پاکستان کے تو نہیں ہو سکتے تھے۔ یہاں عوام نے ۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات میں سوشلزم کو رد کر دیا۔ اُنہیں زبردستی اُس طرف ہانکنا اگر دوستانہ رویہ کہلائے تو ویسی بات ہو گی جیسے اسکول کے کئی بچے ’’نیکی‘‘ کرنے کے لیے اُس بڑھیا کو سڑک پار کروائیں جو سڑک پار کرنا نہیں چاہتی! فیض جو نظریہ پیش کرتے تھے عوام اُسے پہلے ہی رد کر چکے تھے اور عوام نے جس چیز کو قبول کیا وہ فیض کو قبول نہیں تھی۔ پاکستان کے بارے میں اُن کا خیال تھا، ’’وہ انتظار تھا جس کا،یہ وہ سحر تو نہیں‘‘ (نظم ’صبحِ آزادی‘ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد لکھی گئی یعنی یہ بعد میں پیدا ہونے والی کسی مایوسی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ عوام کے فیصلے سے بنیادی اختلاف کا اظہار تھی)۔ وجہ یہ نہ تھی کہ فیض ملک دشمن رہے ہوں۔دراصل اُنھوں نے معاشرے کے بارے میں جو نظریات اپنائے وہ یہی بتاتے تھے کہ عوام کا شعور اعتماد کے قابل نہیں ہوتا، اُنہیں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی اور وہ اپنی مرضی سے نظامِ زندگی منتخب کرنے کا حق نہیں رکھتے: پبلک کا ذہن تو اُن چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے جو آپ اُن کو دکھاتے ہیں۔ اِس سے خاص طرح کی کنڈیشننگ ہو جاتی ہے۔ اِس کنڈیشننگ کی وجہ سے ایک خاص طرح کا ردِ عمل پیدا ہوتا ہے۔ (متاعِ لوح و قلم، ص۲۵۰) فیض پوری نیک نیتی کے ساتھ سمجھتے تھے کہ اُن کا کام اُس جراح جیسا ہے جسے ایک دیوانے کی فصد کھولنی ہے۔ممکن ہے اِس معاملے میں وہ درست اور عوام غلط رہے ہوں مگر دو باتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا: ۱- فیض اور پاکستانی عوام کے درمیان نظریاتی اختلاف موجود تھا ۲- فیض کی نظر میں عوام صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے ہر ادیب کو حق ہے کہ وہ عوام کی رائے کا احترام نہ کرے، یہ حق فیض کو بھی حاصل تھا اور اُنھوں نے عمر بھر اِستعمال کیا۔ اُن کی شاعری کی افادیت یہی ہے کہ تجزیہ کرنے پر معلوم ہو سکتا ہے کہ معاشرے کی اکثریت کو حق ِ خوداِرادی سے محروم کرنے والے ادیب کا کرب اور مشکلات، سوز و ساز اور ہجر و وصال کیسے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے ادیب کا پہلا مسئلہ یہ ہو گا کہ اُس کے انفس اور آفاق میں تعلق ٹوٹ جائے گا یعنی اپنی باطنی کیفیات کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق سامعین سے نہ کروا سکے گا (جدید مغربی ادب میں یہ رویہ غالباً بودلئر کے ساتھ پوری طرح کھل کر سامنے آیا اور میتھو آرنلڈ نے اِسے ایک نظریے میں تبدیل کیا مگر یہ دونوں صرف حوالے ہیں ورنہ ’’یہ بھی ہیں، ایسے کئی اور مضمون ہوں گے‘‘)۔ادبِ عالیہ کا دعویٰ رکھنے والے ادیبوں کو یہ مسئلہ پیش آ سکتا ہے کہ اپنے ہی نظریات پر بھروسہ کرنا پڑے اور ناظرین سے مدد نہ لے سکیں کیونکہ ادبِ عالیہ کا مطلب یہی ہے کہ عام قاری کی رائے اعتبار کے قابل نہیں۔ چنانچہ فیض کا کفر خدا کا نہیں بلکہ انسان کا انکار ہے (ڈاکٹر قدیر نے بھی اُس پنجابی نظم کا حوالہ دیا ہے جس میں ’’ربیا سچّیا‘‘ کو مخاطب کر کے خلافت ِ آدم پر طنز کیا گیا )۔ فیض کے یہاں ہر قدم پر احساس ہوتا ہے کہ وہ اور اُن کے چند ہم خیال ہی ’’اہلِ صفا‘‘ ہیں، باقی سب ’’پیرویِ کذب و ریا‘‘ کرنے والے ہیں۔ اِس رویے کی موجودگی میں کم سے کم وہ عشق تو ممکن نہیں جس میں کسی ایک سے لگاؤ سب سے محبت کا اعتراف ہوتا ہے، جیسے قیس کو صرف لیلیٰ سے محبت تھی مگر اُس جذبے کی زد میں صحرا کے چرند و پرند سے لے کر حور، جبرئیل اور خدا سبھی تھے یا جس طرح میر نے کہا، سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق! تصورِ عشق سامعین کے انسانی جوہر سے منکر ہونے کی پہلی زد فیض کے عشق پر پڑی۔ ہمہ گیر نہ رہا بلکہ یوں لگا، ’’اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔‘‘ مولانا نظامی گنجوی سے لے کر علامہ اقبال تک ہمارے کسی بڑے شاعر کے یہاں محبت کے سوا کوئی اور دُکھ نہیں بلکہ سارے غم اِسی کی مختلف صورتیں ہیں۔ اقبال نے تو یہاں تک کہا کہ شریعت کا مطلب بھی اُن کی سمجھ میں یہی آیا ہے کہ کافر وہ ہوتا ہے جو عشق کا انکار کرے: ز رسم و راہِ شریعت نکردہ ام تحقیق جز اینکہ منکرِ عشق است کافر و زندیق فیض منکرِ دیں نہیں، منکرِ عشق تھے۔ یہاں عشق کے فلسفے سے بحث نہیں کیونکہ اُس میں اختلاف ہو سکتا ہے، یہ دیکھنا چاہیے کہ عشق کا انکار کرنے سے شاعری میں کون سی کیفیات پیدا ہوئیں جو فیض کو دُوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ عشق کے بارے میں ’’تبدیلیِ مذہب‘‘ کا اعلان کرنے کے لیے اُنھوں نے نظامی گنجوی کا مصرع استعمال کیا جو نقش فریادی کے حصہ دوم میں سرنامے کے طور پر لکھا ہے، ’’دلے بفروختم، جانے خریدم۔‘‘ فیض کو پڑھنے والے عام طور پر پورے شعر سے واقف نہیں ہوتے اِس لیے صرف دُوسرا مصرع پڑھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ دل ’’بیچ کر‘‘ رُوح ’’خریدنا‘‘ اُس طرح ہے جیسے بعض ستم رسیدہ اپنا گردہ بیچ کر ضرورت کی کوئی چیز خرید لیتے ہیں۔ بے شک فیض نے یہی مفہوم پیش کیا مگر نظامی کا مطلب برعکس تھا: چو من بے عشق خود را جاں ندیدم دلے بفروختم جانے خریدم یعنی جب میں نے عشق کے بغیر اپنے آپ کو بے رُوح پایا تو میں بھی کسی سے دل لگا بیٹھا اور یوں ’’دل دینے‘‘ سے مجھے رُوح مل گئی۔ نظامی ایک طرح سے اُس تصورِ عشق کے موجد تھے جو بعد میں مشرقی ادب میں رائج ہوا۔ فیض کی وسعت ِ مطالعہ کا ثبوت ہے کہ اُنھوں نے عشق کے انکار کے لیے اِسی شاعر کا مصرع لیا (اور ظاہر ہے کہ نظامی سے اختلاف رکھنے کا حق بھی رکھتے تھے)۔ غلط فہمی یوں پیدا ہوئی کہ اکثر دانشور یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ فیض نے نظامی کے پیش کیے ہوئے تصورِ عشق سے انکار کیا اور چونکہ ہمارے تمام بڑے شعرا نظامی ہی کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا عشق کے موضوع پر فیض اوراُن سب کے درمیان واضح اختلاف موجود ہے جس کی مثالیں نسخہ ہائے وفا میں قدم قدم پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ عشق کی ہمہ گیری سے انکار کرنے کی وجہ سے فیض کو ’دو عشق‘ بنانے پڑے ہیں۔وہ عورت کے پرکشش ہونے سے انکار نہیں کرتے مگر اُس کشش میں کسی بلند جذبے کی تلاش کو فضول سمجھتے ہیں: ’’یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘‘ (بالکل اُس طرح جیسے نانگا پربت میں مستنصر حسین تارڑ کے ایک کمیونسٹ دوست چناب میں ٹھنڈے کیے ہوئے تربوز کو جنت کا میوہ قرار دیتے ہیں اور تارڑ یاد دلاتے ہیں کہ آپ تو جنت پر یقین نہیں رکھتے تو دوست کہتے ہیں، ’’پر میں جنت کے میووں پر تو یقین رکھتا ہوں تارڑ صاحب‘‘)! اب خواہ لیلائے وطن کو بھی اُسی رنگ میں چاہتے ہوں جس رنگ میں دوسری لیلاؤں کو چاہا کرتے تھے مگر بہرحال عشق ایک سے زیادہ ہوں تو ہوس کہلاتے ہیں۔ دونوں میں فرق یہی ہے کہ عشق ایک سے ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات محبوب اور خدا بھی ادبی اعتبار سے الگ نہیں رہتے (اقبال نے بھی اپنے آپ کو ’عاشقِ ہرجائی‘ نہیں کہا بلکہ اعتراض کرنے والوں سے یہ عنوان لے کر اُس کی نفی کی، ’’جستجو کُل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے‘‘)! جائز ہے کہ اگلے تمام شاعروں نے کسی چیز کو عشق کہا اور فیض اُس کی ضد کو عشق کہتے ہیں تو سمجھا جائے کہ تمام شاعر غلط اور فیض درست رہے ہوںگے۔ اُن کی وحشت، اِن کی شہرت ہی سہی مگر مشکل یہ ہو گی کہ اگر عشق یہ ہے تو پھر اگلے شاعر جسے عشق کہتے تھے وہ کیا تھا؟ ہمارے بیشتر دانشوروں نے نادانستگی میں یہی راستہ اختیار کیا اور اگلے شاعروں کے جذبات پر طرح طرح کے عنوانات لگانے پڑے، مثلاً میر کے یہاں کسی اور قسم کی جمالیات دریافت ہوئی، غالب کے یہاں دوسری طرح کی اور اقبال تک پہنچتے پہنچتے کہنا پڑا کہ وہاں صرف قوم کا عشق ہے، مجاز کی کوئی بات نہیں۔ اقبال کے بارے میں یہ غلط فہمی فیض کے بعد ہی عام ہوئی ورنہ اگلی نسل کو اقبال کی شاعری میں اپنے تمام جذبات کی تسکین مل جاتی تھی۔ شورش کاشمیری نے اُس بازار میںمیں ۱۹۴۸ء میں اقبال کی برسی کا حال لکھا ہے۔ بازارِ حسن میں ’’نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے‘‘ پر مجرا ہو رہا تھا اور نوٹ لٹائے جا رہے تھے: فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے ہمارے ادبِ عالیہ کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر عشق اُسے سمجھا جائے جو رُوس اور فرانس کے دورِ انحطاط سے برآمد کیا گیا تو پھر مشرق کے عظیم شعرا کا عشق کچھ اور چیز ثابت ہوتا ہے یہاں تک کہ نظامی کی لیلیٰ مجنوں فراریت پسندی کا شاہکار ٹھہرتی ہے۔ بزرگوں کا اعتبار کریں تو فیض کی کیفیات ہوس قرار پاتی ہیں مگر اِس صورت میں مغالطے پیدا ہونے کا امکان کم ہے اور فیض کا یہ امتیاز بھی کھل کر سامنے آتا ہے کہ اگلوں نے جس چیز کو شجرِ ممنوعہ سمجھ کر چھوڑ دیا اِنھوں نے ہمیں اُس کی داخلی کیفیات کا تجربہ کر دکھایا۔ چنانچہ اگلے شاعروں کے یہاں ہوس کی جتنی نشانیاں ’’غیر‘‘ کے حوالے سے بیان ہوئیں اُن میں سے اکثر فیض کے یہاں اپنی کیفیات کے طور پر ملتی ہیں، مثلاً: ہر داغ ہے اِس دل میں بجز داغِ ندامت اگلے شاعروں نے عشق کی پہچان یہی بتائی کہ اُس میں ندامت، نیازمندی اور خوداحتسابی ہوتی ہے یہاں تک کہ اقبال جو ہمیشہ خودی کا دم بھرتے تھے اُن کا ’’داغِ ندامت‘‘ غالباً سب سے زیادہ چمکتا ہے۔ فیض اُردو کے منفرد شاعر ہیں کہ مجبوری اور بے بسی پھٹی پڑتی ہیں مگر نیازمندی مشکل سے ملتی ہے اور ندامت نام کو نہیں ہے۔ ہوس کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا پہلو فیض کے یہاں یہ سامنے آتا ہے کہ گہرے تجزیے پر کبھی کبھی اُن کا محبوب واہمہ اور باطل بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ غالباً شاعرانہ مہارت کا کمال ہے: دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں تیری آواز کے سائے،ترے ہونٹوں کے سراب دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے کھِل رہے ہیں، ترے پہلو کے سمن اور گلاب محبوب کی تین چیزوں میں سے صرف آخری یعنی ’’پہلو‘‘ کو ایسی تشبیہ دی گئی جو سچ مچ وجود رکھتی ہو یعنی ’’سمن اور گلاب‘‘!اُس سے پہلے محبوب کی ’’آواز‘‘ اور ’’ہونٹوں‘‘ کو بالترتیب ’’سائے‘‘ اور ’’سراب‘‘ سے تشبیہ دی جا چکی لہٰذا تیسری چیز اور اُس کی تشبیہ بھی سائے اور سراب کی طرح فرضی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ نظم کا عنوان ’یاد‘ ہے اس لیے محبوب غائب ہو تو حرج نہیں مگر پوری نظم میں کوئی ایسی بات سامنے نہیں آتی جس سے معلوم ہو کہ محبوب شاعر کے محسوسات سے باہر کوئی وجود رکھتا بھی ہے۔ فیض نے ہر جگہ تو نہیں مگر متعدد مقامات پر استعاروں کو اِسی طرح گھمایا ہے کہ وہ محبوب کے وجود کو واہمہ اور طلسم ماننے کی راہ میں حائل نہیں ہوتے، ’’جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں،‘‘مثلاً: یہ رات اُس درد کا شجر ہے جو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر ہے وہ درد کون سا ہے جو محبوب سے بھی عظیم تر ہے؟ سوانح کی روشنی میں جو بھی ہو مگر نظم اپنے آپ میں بھی اُس درد کی دلچسپ تصویر پیش کرتی ہے جس کے رنگ جتنے گہرے اور دلکش ہوتے جائیں، منظر اُتنا ہی غیرحقیقی اور خوابناک ہوتا جاتا ہے۔ یہ اذیت انگیز اور مضطرب کرنے والے خواب کی صرف تصویرکشی نہیں بلکہ قاری کو اُس وہم کی دنیا میں پہنچا دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ یہی خوبی ہے۔ چنانچہ ہوس کی تین اہم خصوصیات کا تجربہ فیض کی شاعری سے بآسانی ہو جاتا ہے: ۱- یہ ندامت، نیازمندی اور خوداحتسابی کی متحمل نہیں ۲- محبوب ’’کافی‘‘ نہیں ہے ۳- محبوب واہمہ اور باطل بھی ہو سکتا ہے غور کیجیے تو یہ ساری باتیں شاعر اور عوام کی باہمی دشمنی سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جس کا پہلے ذکر ہوا۔ شاعر اپنا نظریہ عوام پر زبردستی مسلط کرنا چاہتا ہے اور اُنہیں وہ قبول نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ یکطرفہ محبت، ہوس اور وہم کی طرف لے جانے والا ہے (چونکہ فیض کی ہمت ِ کفرنے اُنہیں خدا کا نہیں بلکہ انسان کا انکار کرنے کی طرف مائل کیا لہٰذا اُن کے کفر میں محبوب کے ’’حقیقی‘‘ ہونے کا انکار بھی شامل ہو گیا)۔ تصورِ آخرت عوام دشمنی اور عشق سے انکار کو سمجھنے کے بعد فیض کے تصورِ آخرت کو بہتر طور پر پہچانا جا سکتا ہے اور میرے خیال میں اُسے شخصی رجحانات اور ذاتی عقائد کی بجائے نظریے اور ادبی مطمح نظر سے منسوب کرنا بہتر ہو گا۔ فیض کا تصورِ آخرت جہنم ہے۔ فیض کے یہاں جہنم کی روایتی تصویرکشی نہیں (وہ تنبیہ کے لیے ہوتی ہے اِس لیے عموماً بیرونی طور پر کی جاتی ہے)۔ فیض کی شاعری میں موت کے بعد کی زندگی جہنم کا داخلی تجربہ ہے، مثلاً ’ہارٹ اٹیک‘ میں موت محبوب سے وصل نہیں بلکہ دُوری کی طرف لے جارہی ہے۔ اِسی طرح جب کبھی اُن کی شاعری میں وہ تصورات آئیں جو حیات بعد الموت کے استعارے ہوتے ہیں، مثلاً بہار، برسات وغیرہ تو اُن کے ساتھ عذاب کا تصور عام طور پر خودبخود اُبھرتا ہے: آئے کچھ اَبر، کچھ شراب آئے اُس کے بعد آئے جو عذاب آئے ظاہر ہے شراب نوشی کا یہ تصور غالب سے بہت مختلف ہے جو اِس لیے شراب پیتے ہیں کہ آخرت میں ملے گی تو یہاں کیوں نہ پی جائے، اور آخرت میں شراب یافتہ ہونے کا یقین اِس لیے کیونکہ مسلمان ہیں (’’یہ سوئے ظن ہے ساقی ٔ کوثرؐ کے باب میں‘‘)! فیض کے یہاں شراب کے ساتھ کوثر اور رحمت نہیں بلکہ آخرت کے عذاب کا تصور اُبھرتا ہے۔’بہار آئی‘ کے دلکش اور خوبصورت استعاروں میں یہ جہنم پوری طرح سمٹ آیا جو فیض کے تصورِ آخرت کی بنیاد ہے: اُبل پڑے ہیں عذاب سارے ملالِ احوالِ دوستاں بھی خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی دیکھنے میں سادہ نظم ہے مگر صرف انہی تین مصرعوں کو پوری طرح محسوس کر لیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کون سی کیفیت اور مقام ہے جہاں ’’خمارِ آغوشِ مہ وشاں‘‘ عذاب ہو جائے؟ ظاہر ہے دائمی مایوسی کی وہ وادی جہاں آغوش کی اُمید نہ رہی ہو، صرف اُس کا خمار ملے اور اِس وجہ سے سزا بن جائے! چنانچہ جن لوگوں کے خیال میں فیض کے یہاں آخرت کا تصور موجود نہیں وہ غالباً حوروں اور فرشتوں کا تذکرہ تلاش کرتے رہے اور یہ بھول گئے کہ نسخہ ہائے وفا کا شاعرجس راستے پر چلا اُس کا منطقی انجام جہنم ہے جو نہایت خوبی کے ساتھ وہاں موجود ہے۔ جہنم کا داخلی تجربہ ییٹس کے یہاں بھی ملتا ہے (مثلاً جہاں وہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ مرنے کے بعد پھر انسانی یا فطری صورت میں واپس آنے کی بجائے غیر ذی روح ہو جائے)اور دلچسپ بات ہے کہ فیض کی طرح ییٹس کو بھی اِس کا اعتراف نہیں کہ جہنم میں پہنچ چکا ہے مگر سادہ سے سادہ الفاظ میں زیادہ سے زیادہ پیچیدہ کیفیات کا تجربہ کروانے اور مکروہ ترین افعال اور اقدار کو زیادہ سے زیادہ دلکش بنانے میں فیض کا نمایاں امتیاز اُردو زبان کے امکانات کو بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ جدید ادب میں صرف پسندیدہ ہی نہیں بلکہ ناپسندیدہ موضوعات بھی اہمیت رکھتے ہیں: جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ِ ہجراں ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے ئ……ئ……ء استفسارات احمد جاوید استفسار محترمی، السلام علیکم! شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب (’’ذوق و شوق‘‘، بال جبریل) اس شعر میں ’شوق ترا‘ سے کیا مراد ہے؟ نیز اگر اس شعر کو بانگ درا کے اس شعر کے تناظر میں دیکھیں: ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری تو ’شوق ترا‘ کا مفہوم کیا ہوگا؟ [محمد فاروق رانا، لاہور] جواب: آپ نے ذوق و شوق کے جس شعر کا حوالہ دیا ہے اس میں بعض حضرات نے ایک مصنوعی اشکال پیدا کرکے اقبال کی شاعری پڑھنے والوں کے لیے ایسے خلجان کا سامان کردیا ہے جس کی وجہ سے ہمارا شعور اس شعر کی مراد اور اس سے پیدا ہونے والی معنوی اور احوالی تاثیر کو قبول کرنے میں رکاوٹ اور تذبذب محسوس کرتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ذوق و شوق ایک نعتیہ نظم ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتہاے طلب بناکر ایک طالبِ صادق کے سفر کی انفسی اور آفاقی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس نظم میں صیغۂ تخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور اس میں کہیں کوئی استثنا روا نہیں رکھا گیا۔ جہاں بھی ’تُو‘ کا کلمہ آیا ہے وہاں مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اس شعر میں ’شوق ترا‘ سے ایک مراد تو یہ ہوسکتی ہے کہ ’تیرا شوقِ عبودیت و عبادت ___ اور دوسرا مفہوم یہ بھی ممکن ہے کہ ’وہ شوق جو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل کرنے کے لیے رکھتا ہوں۔‘ پہلا مطلب پیش نظر ہو تو اس شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ شوقِ بندگی جو آپؐ کی شخصیت میں ہی راسخ تھا اور اعمال سے بھی ظاہر تھا، اگر نماز میں امامت کی تاثیر کے ساتھ قبلۂ توجہ نہ رہے تو نماز کی حقیقت ہی غائب رہے گی اور صورت بھی مسخ ہو جائے گی۔ گویا بندگی شروع سے آخر تک آپؐ کو واحد نمونۂ کامل کی حیثیت سے مستحضر رکھنے کا نام ہے۔ ’حجاب‘ کا لفظ بھی بہت معانی خیز ہے ___ یعنی اللہ کا حضور مشروط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد سے۔ آپؐ کا استحضار ہی اللہ کے حضور کو واقعی بناتا ہے۔ یہ نہ ہو تو یہ سارا حضور ایک واہمے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ’شوق ترا‘ میں شوق کی نسبت متکلم کی طرف کی جائے تو شعر کا مضمون یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو آخر تک رہنما بنائے بغیر بندہ نہ ایمان کے حقائق تک پہنچ سکتا ہے اور نہ مظاہر تک ___ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبتِ حُبی کو مدار بنائے بغیر اللہ سے تعلق کی کوئی باطنی یا ظاہری اصل باقی نہیں رہتی۔ ’امام‘ کے لفظ کی معنویت اس مفہوم کی تشکیل میں بہت بنیادی کردار رکھتی ہے۔ یعنی آپؐ کی کامل اقتدا اور اتباع نصیب نہ ہو تو آدمی اس راستے پر نہیں چل سکتا جو اللہ تک پہنچاتا ہے۔ اور یہ اقتدا و اتباع اسی محبت سے میسر آتی ہے جسے اس شعر میں ’شوق‘ کہا گیا۔ میں ’شوق تِرا‘ کو عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی میں لیتا ہوں۔ یہ بند اور اس سے پہلے کا بند دونوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس عارفانہ یکسوئی اور عاشقانہ انہماک کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت کو بندگی کی ایک بنیادی قدر اور عبودیت کے ایک مستقل مقصود کے طور پر برقرار رکھا جائے۔ ’شوق‘ کی نسبت اگر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کردی جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محبوب کے مرتبے سے عاشق کے درجے پر آجائیں گے اور منتقلی کا یہ عمل کسی تمہید کے بغیر ایک ناگوار جھٹکے کی طرح محسوس ہوگا۔ یہ بیان کا وہ نقص ہے جو اس سطح کے مضمون میں کم از کم اقبال کے ہاں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شعر جس بند میں آیا ہے، اس کا سرسری سا تجزیہ بھی یہی بتاتا ہے کہ اس شعر میں اقبال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص الخاص امتیازات اور مقامات میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آپؐ اپنی حقیقت کے اعتبار سے کائناتِ وجود اور اس کے تمام مراتب میں ایک فعال مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالمِ امر ہو یا عالمِ خلق ہو یا عالمِ حق، وجود کے یہ تینوں مراتب تین دائروں کی طرح ہیں جن کا مرکز واحد ہے، یعنی حقیقت محمدیہ ___ تفصیل کا موقع نہیں ہے، مختصراً اتنا سمجھ لیجیے کہ اقبال کے تصورِ وجود کے مطابق ہر مرتبۂ ہستی ایک خاص نظامِ حرکت سے بھی عبارت ہے جو اُس مرتبے کو دیگر مراتب کے ساتھ مربوط رکھتا ہے۔ یہ اُصولِ حرکت مراتب کے امتیاز سے متاثر نہیں ہوتا اور اپنی ماہیت میں واحد ہے۔ اقبال کی نظر میں حقیقتِ محمدیہ اسی اُصولِ حرکت کا نام ہے۔ گو کہ حقیقتِ محمدیہ کی یہ شان ہماری عرفانی روایت میں طرح طرح سے بیان ہوئی ہے لیکن حضرتِ مجدد الف ثانی کے زیراثر اقبال اس حقیقت کو ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی میں لیتے ہیں۔ گویا حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشتر اعتبارات، یعنی مابعد الطبیعی معانیِ، اقبال کے ہاں ذاتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بن جاتے ہیں۔ علامہ کے اس امتیاز کو نظرانداز کر دینے سے بعض حضرات نے اس شعر یا اس بند کا فوقِ انسانی شکوہ دیکھ کر اس غلط فہمی میں پڑنا قبول کرلیا کہ یہ کلام حمد ہے، نعت نہیں ہے۔ ذرا پورے بند کا تجزیہ کرکے دیکھیے۔ اقبال نے وجود کے تینوں دائروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت اور ذات کی فعال مرکزیت کو کیسی جمالیاتی رفعت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ پہلا شعر یعنی ’’لوح بھی تُو قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب‘‘ میں دائرۂ امر اور اس کی مرکزیت کا بیان ہے… دوسرے اور تیسرے شعر میں دائرۂ خلق اور اس کے مرکز کا ذکر ہے… اور چوتھے اور پانچویں شعر میں دائرۂ حق میں حقیقتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبے اور اُس مرتبے کے ظہور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آپ نے بانگ درا سے جو شعر نقل کیا ہے وہ اقبال نے نوجوانی میں کہا تھا۔ اسی لیے مضمون بھی خام ہے اور اظہار میں بھی پختگی نہیں ہے۔ ’ذوق و شوق‘ تک آتے آتے اقبال تصور سازی اور قدرتِ کلام میں اپنے منتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، وہی مضمون بالآخر درست اور کامل ہوکر زیرنظر شعر میں بیان ہوگیا ہے۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثل عظمت کاجو احساس بانگ درا کی نظم ’بلال‘ میں ظاہر ہوا تھا، اسی نے شعور کی بلند ترین سطح سے گزر کر ’ذوق و شوق‘ کے اس شعر میں ظہور کیا ہے۔ ژ…ژ…ژ استفسار علامہ اقبال کے کچھ موضوعات طویل اور مسلسل مطالعے کے باوجود اچھی طرح میری سمجھ میں نہیں آسکے۔ نثر میں زبان کا مسئلہ اور شاعری میں رومی کی روحانی اور فکری امامت کا مسئلہ___ ان کے علاوہ بھی کچھ باتیں گرفت سے باہر معلوم ہوتی ہیں لیکن ان دو معاملات میں ذہن کہیں ٹکنے نہیں پاتا۔ اقبال کے تصورِ زمان پر تو میں باقاعدہ سوالات قائم کرکے بعد میں ارسال کروں گا، اس وقت آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اقبال نے رومی کے ہاں ایسی کیا چیزیں دیکھی تھیں کہ انھیں اپنا مرشد بنانے پر راضی ہوگئے؟ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ضرب کلیم میں ایک جگہ رومی سے دوری کو گویا ہمارا وجودی اور روحانی نقص قرار دیا ہے: غلط نِگر ہے تری چشمِ نیم باز اب تک ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک گُسَستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک! [رومی، ضربِ کلیم، ص۶۳۳] رومی کے بارے میں یہی معتقدانہ جوش اقبال کی شاعری میں جابجا نظر آتا ہے۔ مجھے خدانخواستہ اس پر اعتراض نہیں بلکہ محض مولانا روم کے وہ نظریات جاننا چاہتا ہوں جنھوں نے اقبال ایسے تقلید دشمن مفکر اور شاعر کو اپنا اسیر بنا لیا۔ آپ کی بڑی نوازش ہوگی اگر اس گتھی کو سلجھانے میں میری راہنمائی فرمائیں۔ [ارشاد المجیب ، لاہور] جواب رومی سے اقبال کی پُرجوش ارادت کے ٹھوس اسباب جاننے کی کوئی سنجیدہ کوشش واقعی نہیں کی گئی۔ دیگر مفکرین کے ساتھ اقبال کی حقیقی یا فرضی نسبت کو کھنگالا جاتا رہا ہے لیکن اس سوال پر گہرائی میں جاکر کم ہی غور کیا گیا ہے کہ آخر رومی سے چلنے والی وہ روایت کیا ہے جس کا اقبال اپنے آپ کو ایک نمایندہ کہتے ہیں۔ میرے خیال میں ہماری عارفانہ روایت میں مولانا روم اس اعتبار سے بھی منفرد اور ممتاز ہیں کہ انھوں نے مابعد الطبیعی حقائق اور معارف کے وسیع ترین دائرے کو ایک خاص مفہوم میں انسان مرکز بنا کر دکھایا۔ ان کی بے مثل عرفانی اور عشقیہ قوتوں کا رُخ ہمیشہ تعمیر آدم کی طرف رہا۔ غالباً یہی وہ وصف ہے جس نے اقبال کو رومی کا مرید بنا دیا اور ان کے سب سے بنیادی تصور یعنی تصورِ خودی کی تشکیل ایک وسیع تر مابعد الطبیعی سیاق و سباق میں ممکن بنا دی۔ مثنوی مولانا روم دراصل انسان کی مابعد الطبیعی سرگذشت ہے جس میں حقیقت کے تمام مراتب کا بیان بھی سمٹ آیا ہے۔ اسی طرح دیوان شمس حقیقتِ انسانی کی کائنات کا ایسا سفرنامہ ہے جس میں خدا کے عالم در عالم کی سیر بھی ہوجاتی ہے۔ بالفاظ دیگر اقبال کی نظر میں شاید رومی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ وجود اور حقیقت کے دائرے کو انسان کے نقطے سے شروع کرتے ہیں اور اسی پر تمام کر دکھاتے ہیں۔ رومی شناسی کی روایت میں اندیشہ ہے کہ یہ قبول نہیں کیا جائے گا کہ مولانا کے حقائق و معارف انسان مرکز ہیں یا وہ وجودِ انسان کو مابعد الطبیعی منتہا پر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اُس روایت کی تفصیل میں نہیں جائیں گے کیونکہ سردست ہمیں اقبال کے رومی سے سروکار ہے، یہ تحقیق ضروری نہیں کہ اقبال کا رومی، روایتی رومی سے مختلف کیوں ہے اور اس اختلاف میں رومی فہمی کے زیادہ قابلِ اعتماد اور مستند مظاہر کہاں پائے جاتے ہیں۔ اقبال کے نقطۂ نظر سے مولانا روم کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے مقامات پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ گویا اقبال کا کلام ہے جو ان کے معلوم کلام کے مقابلے میں صورتاً مختلف ہے اور باعتبارِ معنی بلندتراور عمیق تر۔ اپنی نظم ’’ پیرو مرید‘‘ میں اقبال نے رومی کی مثنوی سے بعض فلسفیانہ اور تہذیبی سوالات کے جواب نکالے ہیں۔ ان میں سے بعض مسائل فکرِ اقبال کی تشکیل میں بہت بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان مسائل کی طرف ہم بعد میں جائیں گے، فی الحال مولانا روم کی عارفانہ اور عاشقانہ شاعری کے معنوی نظام اور اس کے امتیازی پہلوئوں کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ رومی کا معنوی نظام شعور کی کسی خاص نوع یا علم کے کسی مخصوص شعبے میں محدود نہیں ہے۔ ابن عربی کی طرح رومی بھی اس مجموعی شعور کے مرکز سے کلام کرتے ہیں جہاں حقائق کو دوچار میں سے ایک روزن سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ وہ کلی تناظر عمل میں لایا جاتا ہے جو حقائق کو کسی علمی مطالبے کی تسکین کا ذریعہ بنانے کے بجائے انھیں ہمارے مجموعی شعور کی تحویل میں دے دیتا ہے۔ یہ مجموعی شعور حقیقت کو تصور بنانے کاکام نہیں کرتا بلکہ اس کی روبروئی کو عقل وغیرہ کے لیے واجب القبول بناتا ہے۔ حقیقت یہاں معلومیت کی زد سے ماورا ہوکر اپنی شانِ وجود کے ساتھ منکشف ہوتی ہے اور یہ انکشافات شعور کی تمام انواع کو اس چشمے کی طرح سے سیراب کرتا ہے جو زمین پر نہیں ہے مگر زمین کی شادابی اُسی پر منحصر ہے۔ شعور کے تمام مطالبات کی تکمیل کا ماخذ ہمیشہ اس سے باہر ہوتا ہے۔ اس ماخذ سے ایک تخلیقی اور مؤثر نسبت پیدا کرنے کے لیے شعور اپنی مختلف قوتوں کو ان سے ماورا لے جاکر ایک ہیئتِ وجدانی میں ڈھل جاتا ہے جو اسے وہاں تک پہنچنے کے قابل بنادیتی ہے جہاں صورت اور علم کے اعتباری ہونے کا اور معنی اور وجود کے حقیقی ہونے کا مشاہدہ میسر آتا ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ صوفیا کی مشہور اصطلاح ’’حیرت‘‘ اسی مشاہدے سے پیدا ہونے والا وہ حال ہے جہاں وجود اپنا غلبہ قائم رکھتے ہوئے علم کو خود میں سمو لیتا ہے۔ رومی کا ہر سخن اسی مقام سے ہے۔ ان کا ہر بیان اپنے فوری مدلولات کا احاطہ کرتے ہوئے ان گہرائیوں میں جذب ہوجاتا ہے جو شعور میں حقائق کا مسکن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رومی کے کینڈے کا Symbolist کسی عرفانی اور حکیمانہ روایت میں کم ہی نظر آتا ہے۔ سمبل ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ صورت کا مکمل احاطہ کرتے ہوئے حقیقت کی طرف محکم اشارہ ہوجائے۔ یہی مجموعی شعور کا خاصہ ہے جس سے عقل وغیرہ کے وہ تقاضے پورے ہوتے ہیں جن کی تکمیل کا کوئی سامان ان کے پاس نہیں ہے۔ رومی کے بے مثال سمبل ازم ہی کا کرشمہ ہے کہ حقیقت کی طرف مظاہری انداز سے پیش رفت کرنے والے لوگ بھی ان کی اقتدا کا دم بھرتے ہیں اور حقیقت کی ماوراے ظہور بلندیوں کی طرف پرواز کرنے والے حضرات بھی انھیں اپنا امام مانتے ہیں۔ ذہن کی جتنی بھی قسمیں ہوسکتی ہیں، آپ کرلیجیے___ اس کے بعد رومی کو پڑھیے تو صاف محسوس ہوگا کہ یہ شخص ہر ذہن کو اس کے مسلمات فراہم کررہا ہے۔ اسی بلاقید فیاضی نے اقبال کو بھی ان کا مرید بنا دیا ۔ جاوید نامہ اس لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں ایک تو اقبال کی فکر مکمل صورت میں اظہار پاگئی ہے اور دوسرے اقبال کے ان مطالبات کی فہرست بھی بن گئی ہے جن کی تکمیل رومی کی راہنمائی میں ہوئی۔ اقبال پر رومی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ جاوید نامہ کو بنیادی حوالہ بنایا جائے۔ اس کتاب میں رومی کے معنوی فیضان کی پوری تفصیل موجود ہے مگر اس پر کچھ پردے پڑے ہوئے ہیں جنھیں اُٹھانا ہوگا۔ اور یہی نہیں، جاوید نامہ کا دروبست بھی رہ رہ کر مثنوی مولانا روم کی یاد دلاتا ہے۔ مثلاً جاوید نامہ کا آغاز ہی مثنویکے نقش قدم پر ہے۔ پہلا شعر ہی واضح طور پر مثنوی کے مطلع کی باز گشت ہے۔ اس کے علاوہ ’’مناجات‘‘ کا پہلا بندمثنوی کے ابتدائی اشعار کی برنگ دیگر تفسیر ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: آدمی اندر جہاں ہفت رنگ ہر زماں گرم فغاں مانندِ چنگ آرزوے ہم نفس می سوزدش نالہ ہاے دل نواز آموزدش [مناجات، جاوید نامہ] بِشنو از نے چوں حکایت می کند و ز جدائیہا شکایت می کند [مثنوی مولانا روم] رومی کے شعر کو اس کے عرفانی سیاق و سباق سے ذرا دیر کے لیے نکال دیجیے تو اس میں عین وہی کچھ کہا گیا جو جاوید نامہ کے ان دو شعروں میں بیان ہوا ہے۔ رومی نے آدمی کو ’نَے‘ کہا ہے اقبال نے اسے ’چنگــ‘ سے بدل دیا۔ جس ’ہم نفس‘ کی آرزو اقبال کررہے ہیں رومی بھی اُسی کے طالب ہیں مگر اقبال کے لیے یہ ’ہم نفس‘ دنیا میں اُتارے گئے انسان کی وجودی عظمت کے اسرار جاننے والا کوئی ایسا وجود ہے جو اس کی وہ تنہائی بانٹ سکے جو ہستی کے منتہا پر ہونے کی وجہ سے اسے لاحق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود رومی کو ایسا ہم نفس مطلوب ہے کہ نہیں۔ سرِ دست یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اقبال کی ’فغاں‘ رومی کی شکایت و حکایت سے کس حد تک ماخوذ ہے۔ میرے خیال میں اس کا جواب یہ ہے کہ مکمل طور پر۔ ژ…ژ…ژ  ماہنامہقومی زبان میں ذخیرۂ اقبالیات ۱۹۵۰ ء --- ۲۰۰۸ء سمیع الرحمن ’’اقبالیاتی ادب‘‘ کا ایک قابلِ لحاظ حصہ، حوالہ جاتی مواد (reference material) پر مشتمل ہے اس میں کتب، رسائل اور فہارس وغیرہ شامل ہیں۔ اقبالیاتی تحقیق و تنقید کی پیش رفت میں اس طرح کا لوازمہ اہم ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان میں کشف الابیات، کلیدیں اور اشاریے بھی شامل ہیں۔ رسائل و جرائد میں اقبالیات سے متعلق مختلف موضوعات پر ہزارہا مقالات محفوظ ہیں۔ بعض رسائل کی مکمل اور نامکمل فہارس شائع ہوچکی ہیں۔ اس ضمن میںماہنامہ قومی زبان کراچی نے بھی قابل قدر کام کیا ہے۔ بہت سے اقبال نمبر اور بیسیوں مضامین عمومی شماروں میں شائع کیے۔ اقبالیات کے زیر نظر شمارے میں قومی زبان میں شائع شدہ اقبالیاتی ادب کا اشاریہ شائع کیا جارہا ہے۔ انجمن ترقی اُردو پاکستان کے ترجمان پرچے کے طور پر پاکستان میں ماہنامہ قومی زبان کا اجرا ۱۹۴۸ء میں ہوا۔ اس پرچے میں دیگر شعرا و ادبا کی طرح علامہ اقبال کی خدمات کا اعتراف بھی بطریق احسن کیا گیا۔ دوسرے علمی مجلات کی طرح قومی زبان نے بھی علامہ کے صدسالہ جشن ولادت کے موقع پر خصوصی طور پر اقبال نمبر شائع کیے، جن میں علامہ اقبال کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ قومی زبان نے دیگر رسائل کی طرح علامہ کے افکار و نظریات پر بھی اقبال نمبروں اور عمومی شماروں میں اقبالیاتی مضامین اور دیگر لوازمے کی اشاعت کا مسلسل اہتمام کیا۔ ماہنامہ قومی زبان کی مجلس ادارت میں جمیل الدین عالی، شبیر علی کاظمی، ادا جعفری، قدرت اللہ شہاب، مشفق خواجہ، امرائو طارق اور ادیب سہیل وغیرہ شامل رہے ہیں۔ آج کل اس کے مدیر ڈاکٹر ممتاز احمد خاںہیں۔ علامہ اقبال کی تحریریں مصنف مقالات ماہ و سال صفحات اقبال،علامہ زمانہ نومبر۱۹۹۷ ۸ اقبال،علامہ میلاد النبیؐ اپریل۱۹۷۴ ۴-۵ تحسین سروری علامہ اقبال کی ایک تحریر مئی۱۹۶۳ ۲۱-۲۲ مکاتیبِ اقبال: تحقیق و دریافت آفاق صدیقی مکتوبات اقبال بنام سیّد سلیمان ندوی نومبر۱۹۸۳ ۲۰-۲۳ اخلاق اثر مکاتیب اقبال‘ حصہ اوّل -ایک سرسری جائزہ اپریل۱۹۹۰ ۲۹-۳۵ اکبر رحمانی علامہ اقبال کی مکتوب نگاری اپریل۱۹۹۸ ۶۰-۷۵ بشیر احمد ڈار اقبال کے کچھ نئے خطوط [بنام سر فضل حسین] نومبر۱۹۷۷ ۲۱۳-۲۲۲ تبسم کاشمیری اقبال کا نظریہ شاعری‘ خطوط کی روشنی میں اپریل۱۹۷۹ ۱۳-۱۶ جلیل قدوائی خطوط سیّد راس مسعود بنامِ اقبالؒ اپریل۱۹۷۵ ۷-۱۱ چراغ حسن حسرت فلسفۂ سخت کوشی[مکتوبِ اقبال بنام نکلسن کا اُردوترجمہ] نومبر۲۰۰۰ ۲۹-۳۴ رفیع الدین ہاشمی اقبال کے خطوط اپریل۱۹۷۴ ۲۹-۴۰ سعید اختر درانی اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط بنام مس ویگے ناسٹ اپریل۲۰۰۱ ۱۴-۴۲ شائستہ خاں اقبال کا ایک نادر خط نومبر۱۹۹۴ ۱۷-۲۴ شاہدہ یوسف علامہ اقبال کی مراسلت بنام جناح دسمبر۱۹۹۷ ۲۱-۳۷ فتح خاں ملک راس مسعود کا علامہ اقبال کے نام مکتوب جولائی۱۹۹۹ ۱۹-۲۳ محمد جہانگیر عالم علامہ اقبال کے قائداعظم کے نام دو اور خط اپریل۱۹۸۱ ۲۰-۲۲ محمد صدیق جاوید مکاتیب اقبال بنام سرولیم روتھن اسٹائن[ایک تحقیقی مقالہ] اپریل۱۹۹۱ ۱۹-۲۸ وحید عشرت مکاتیبِ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۵۳-۲۶۲ اقبال، معاصرینِ اقبال اور اقبال شناس آفتاب احمد ردولوی اقبال اور یارانِ اقبال نومبر۱۹۷۹ ۱۵-۲۱ // // اقبال اور یارانِ اقبال دسمبر۱۹۷۹ ۴۸-۵۰ آل احمد سرور اقبال اور اس کے نکتہ چیں اپریل۲۰۰۲ ۴۹-۶۹ آئن اسٹیفن اقبال کے ساتھ ایک شام کی یادیں [مترجم: محسن احسان] نومبر۱۹۹۹ ۱۱-۱۴ // // اقبال کے ساتھ ایک شام کی یادیں [مترجم: محسن احسان] اپریل۲۰۰۳ ۵-۹ ابوسلمان شاہ جہاں پوری مولانا محمد علی بحیثیتِ ماہر اقبالیات جنوری۱۹۸۵ ۹-۱۴ ابومحمد مصلح علامہ اقبال سے دو ملاقاتیں اپریل۱۹۶۶ ۹-۱۴ اختر حامد خان اسلوب احمد انصاری اور علامہ اقبال نومبر۲۰۰۵ ۲۶-۳۳ ادارہ علامہ اقبالؒاور بابائے اُردو [مولوی عبدالحق کا ایک خطاب] نومبر۱۹۸۲ ۵-۷ // // قرۃ العین حیدر کا اقبال سمان جنوری۱۹۸۸ ۹۱ ادیب سہیل علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر ستمبر۱۹۹۳ ۷۶ اشرف کمال عبدالحق، قائداعظم اور اقبال- اُردو کے بہی خواہ اگست۲۰۰۱ ۵۳-۵۹ افضل زاہد؍نوید احمد خلیلی اور اقبال نومبر۲۰۰۶ ۲۷-۳۸ اقبال محسن،سیّد علامہ اقبال ایرانی دانش وروں کی نظر میں ستمبر۲۰۰۵ ۳۷-۳۸ اکبر رحمانی اقبال، ٹیگور اور ڈاکٹر لمعہ حیدرآبادی جنوری۱۹۷۸ ۲۹-۳۲ // // بابا تاج الدین ناگپوری سے علامہ اقبال اور شاد کی عقیدت جولائی۱۹۹۹ ۳۴-۴۸ // // علامہ اقبال اور لمعہ حیدرآبادی کے مراسم اپریل۱۹۷۹ ۲۹-۳۱ انکسار علی پاکستانی کلامِ اقبال پر اکابرِ ملت کے افکار نومبر۱۹۹۳ ۹-۱۴ این پریگرین غالب اور اقبال اپریل۱۹۹۷ ۳۹-۴۶ بقائی ماکان اقبال اور شریعتی اور نعرۂ انا الحق نومبر۲۰۰۵ ۶۰-۶۷ // // اقبال اور ہنسے جون۲۰۰۶ ۲۵-۳۳ ثناء الرحمن اقبال اور نطشے نومبر۲۰۰۴ ۳۹-۴۲ جمیل زبیری علامہ اقبال اور ممنون حسن خاں مارچ۱۹۸۶ ۲۱-۲۷ جوش ملیح آبادی بیادِ اقبال، کلام اکبر بنامِ اقبال اپریل۱۹۶۷ ۱۱-۱۴ حبیب اللہ رشدی اقبال اور سر اکبر حیدری اپریل۱۹۷۴ ۱۵-۱۸ حسن اختر،ملک اقبال اور الجیلی نومبر۱۹۷۷ ۱۱۴-۱۲۸ // // اقبال اور غزالی نومبر۱۹۷۸ ۹-۲۶ حنیف فوق قائداعظم، اتاترک، علی برادران اور رومی واقبال کے بعض متوازی نقوش نومبر۱۹۸۵ ۵-۸ خالد اقبال یاسر اقبال، جمال الدین افغانی اور ’’اتحادِ عالم اسلامی‘‘ اپریل۱۹۹۳ ۷-۱۲ دردانہ جلیل اقبال ، مشاہیر عالم کی نظر میں نومبر۱۹۸۰ ۲۸-۳۱ رحمت فرخ آبادی بالِ جبریل، ایک سندھی ادیب (احسان احمد بدوی) کی نظر میں اپریل۱۹۷۸ ۳۵-۴۱ رفیع الدین ہاشمی اقبال اور ممتاز حسن اپریل۱۹۷۵ ۱۸-۲۳ // // ڈاکٹر محمد ریاض ایک ہمہ جہت اقبال شناس مئی۱۹۹۷ ۶۰-۶۳ // // سیّد وقار عظیم سے اقبالیات پر ایک مصاحبہ اپریل۱۹۸۸ ۳۷-۴۶ // // عبدالقوی دسنوی- ایک اقبال شناس مارچ۱۹۹۹ ۳۸-۴۲ شاہدہ یوسف اقبال، ڈکنسن اور خواجہ حسن نظامی نومبر۲۰۰۰ ۶۵-۷۳ // // قرۃ العین حیدر کا فن اپریل۱۹۹۵ ۴۳-۵۴ شفیق عجمی اقبال شناسی اور ڈاکٹر محمد رفیع الدین نومبر۱۹۹۹ ۳۹-۴۱ صادق امام زیدی علامہ اقبال اور سر علی امام اپریل۱۹۸۵ ۲۱-۲۴ صدیقہ ارمان قائداعظم اور اقبال کا مردِ مومن دسمبر۱۹۷۶ ۱۷۶-۱۸۷ ظہور الدین احمد؍نوید احمد گل پیروان اقبال(اکبر منیر، غلام غوث، غلام اعظم) نومبر۲۰۰۰ ۵۵-۶۴ عبداللہ قریشی اقبال اور معاصر شعرا جون۱۹۶۷ ۱۵-۲۶ علیم صدیقی اقبال اور ظفر علی خاں اپریل۱۹۸۳ ۱۲-۲۳ // // اقبال اور ورڈزورتھ نومبر۱۹۸۱ ۱۷-۳۱ فتح خان ملک علامہ اقبال اور سر راس مسعود نومبر۱۹۹۹ ۴۲-۴۹ قدرت نقوی،سیّد علامہ اقبال اور سرتیج بہادر سپرو نومبر۱۹۸۳ ۱۴-۱۹ کبیر احمد جائسی حافظ اور اقبال نومبر۱۹۷۰ ۵۱-۵۶ کیفی حسنی فکرِ اقبال کا وارث… رحمن کیانی نومبر۲۰۰۸ ۴۹-۵۵ گلزار حسین سیّد اکبر، اقبال اور مغربی تہذیب نومبر۱۹۹۷ ۳۲-۳۷ محمد ایوب صابر علامہ اقبال پر محمد علی جوہر کے اعتراضات اپریل۱۹۹۸ ۸۳-۹۰ محمد پرویش شاہین خوشحال واقبال نومبر۱۹۷۹ ۲۲-۲۶ محمد ریاض امیر خسرو اور اقبال دسمبر۱۹۷۵ ۱۳-۱۶ محمد ریاض؍نذیر احمد مولانا رومی اور علامہ اقبال فروری۱۹۷۷ ۵۹ // // حلاج کی کتاب الطواسین اور اقبال اکتوبر۱۹۷۵ ۲۷-۲۹ محمد صادق،میاں اقبال کے دو اساتذہ [علامہ میر حسن اور آرنلڈ] اپریل۱۹۸۲ ۲۶-۳۱ محمد صالح طاہر عاشق اقبال [مرتضی احمد خان میکش ] اپریل۲۰۰۰ ۵۱-۵۶ محمد صدیق جاوید اقبال اور راڈویل اپریل۲۰۰۲ ۵-۱۳ محمد عثمان ڈاکٹر محمد رفیع الدین بطور اقبال شناس فروری۱۹۷۰ ۳-۶ محمد علی صدیقی اقبال شناسی اور نیاز فتح پوری وماہنامہ۔ نگار جولائی۱۹۹۹ ۳۱-۳۳ // // علامہ اقبال اور قرۃ العین طاہرہ نومبر۲۰۰۱ ۱۲-۱۷ // // علامہ اقبال اور ن-م-راشد کی مشترک دنیا اکتوبر۲۰۰۲ ۵-۱۲ // // مجدد الف ثانی، اقبال اور تصوف نومبر۱۹۹۹ ۵-۱۰ محمد مصطفیٰ اقبال اور سیموئیل راجرس اکتوبر۱۹۶۶ ۶۰-۶۴ مظفر حسین،سیّد غالب اور اقبال- ایک تقابلی تجزیہ فروری۱۹۹۳ ۲۷-۳۴ // // غالب اور اقبال مئی۱۹۹۵ ۲۹-۳۴ معراج نیر،سیّد بابائے اُردو اور علامہ اقبال کا اشتراک عمل نومبر۲۰۰۵ ۵۶-۵۹ معین الدین دروائی علامہ اقبال کے ایک ہم عصر شاعر (فضل حق) عظیم آبادی نومبر۱۹۷۴ ۵-۱۶ معین زلفی منصور حلاج اور اقبال نومبر۱۹۸۱ ۴۲-۴۸ ممتاز حسن اقبال اور مولوی عبدالحق فروری۱۹۷۵ ۲۹-۴۳ // // گاہے گاہے باز خواں [اقتباساتِ اقبال اور مولوی عبدالحق] اپریل۱۹۸۳ ۱۰- ۱۱ نثار احمد قریشی علامہ اقبال کا مصری مترجم الشیخ الصاوی علی شعلان اگست۲۰۰۶ ۸۰-۸۳ نثار احمد مرزا غالب اور اقبال فروری۱۹۹۳ ۴۳-۵۴ نجم الہدیٰ اقبال کی پانچ پسندیدہ شخصیات اپریل۲۰۰۴ ۶۱-۶۸ نربھے رام جوہر حالی، اکبر اور اقبال اپریل۱۹۶۷ ۲۵-۲۸ نسیم عباس چودھری قرۃ العین حیدر کی نظر میں علامہ اقبال اپریل۲۰۰۴ ۴۵-۵۴ نسیم نیشوفوز جدید نطشے، جدید تر اقبال اپریل۱۹۸۷ ۷۹-۸۴ نظیر صدیقی ڈاکٹر رضی الدین صدیقی- ایک اقبال شناس اپریل۲۰۰۰ ۲۷-۳۶ نعیم الدین،سیّد تصورِ جبر و اختیار- رومی و اقبال نومبر۱۹۸۱ ۵-۱۰ // // رومی و اقبال کا تصورِ انسان اپریل۱۹۸۱ ۵-۱۲ وحید الرحمن خان اقبال اور جامی اپریل۲۰۰۸ ۵-۱۰ دیگر مقالات آصف اسلم فرخی جاوید نامہ [خصوصیات] نومبر۱۹۷۷ ۳۷-۴۷ // // مجھے گھر یاد آتا ہے [حالات و تاثرات/ اقبالیات] اپریل۱۹۸۸ ۴۷-۵۱ آصف راز دہلوی اقبال اور مسئلہ تقدیر ستمبر۱۹۷۷ ۳۳-۳۴ // // اقبال کا معیارِ ایمان و مومن اپریل۱۹۷۷ ۳۲-۳۵ // // اقبال کی غزل نومبر۱۹۷۷ ۴۸-۵۴ آفتاب احمد ردولوی اقبال کا پیغام اکتوبر۱۹۷۶ ۲۷-۳۰ آفتاب احمد صدیقی اقبال اور ہم نومبر۱۹۸۱ ۱۱-۱۵ // // اقبال کا پیغام جون۱۹۶۸ ۹-۱۲ // // جمہوریت اقبال کی نظر میں اپریل۱۹۸۱ ۱۳-۱۹ آفتاب احمد نقوی اقبال- احیائے ملّی کا نقیب اکتوبر۱۹۷۷ ۲۳-۲۹ // // فنونِ لطیفہ اقبال کی نظر میں نومبر۱۹۷۷ ۹۹-۱۰۴ احمد خان اقبال اور اُردو نومبر۱۹۷۸ ۴۸-۵۰ احمد رفاعی اقبال اور نئے دور کے تقاضے اکتوبر۱۹۷۷ ۱۸-۲۲ // // کلامِ اقبال کے بعض منظوم تراجم نومبر۱۹۷۷ ۲۲۵-۲۴۶ احمد سجاد اقبال- آہنگ اور انفرادیت نومبر۱۹۸۰ ۵-۱۰ احمد عبداللہ احمد میرا پسندیدہ شاعر- اقبال اپریل۱۹۸۷ ۳۱-۳۴ احمد میاں اختر اقبال کی غیر مطبوعہ و مجوزہ تصانیف اکتوبر۱۹۵۵ ۹-۱۰ احمد ہمدانی اقبال، فکرِ اقبال اور اسلام کی تشکیل جدید نومبر۱۹۸۹ ۱۱-۱۸ // // تصورِ حرکت و تغیر اپریل۱۹۹۲ ۵-۱۰ // // خودی اکتوبر۱۹۹۰ ۲۳-۳۹ // // علامہ اقبال اور جدید کلچر اپریل۱۹۹۱ ۱۳-۱۸ اختر حسین طالب علم اقبال اپریل۱۹۸۴ ۱۱-۱۳ ادارہ اقبال شناسی اپریل۱۹۶۶ ۲۱-۲۴ // // بزمِ اقبال جون۱۹۶۸ ۶۵-۷۶ ادارہ علامہ اقبال کی لوحِ مزار پر غلط تاریخ یکم؍مئی۱۹۶۲ ۶۲ // // فکرِ اقبال اپریل۱۹۷۵ ۳-۴ // // فکر اقبال اور اقبال نمبر اپریل۲۰۰۷ ۳ // // فکر اقبال اور اقبال نمبر نومبر۱۹۹۹ ۳ // // کلامِ اقبال کا تھائی ترجمہ یکم؍مئی۱۹۶۲ ۶۲ ارم سحر آفتاب اقبال کا فلسفۂ عقل و عشق اپریل۲۰۰۸ ۴۲-۴۹ اسلوب احمد انصاری اقبال اور فنونِ لطیفہ نومبر۱۹۹۶ ۵-۲۰ // // اقبال کی شاعری میں ’لالہ‘ کی علامت نومبر۱۹۹۰ ۱۵-۲۲ اشرف کمال اقبال اور قومی تشکیل کی تعمیروتکمیل نومبر۲۰۰۲ ۴۰-۴۸ // // اقبال - عشق اور نظریۂ تحریک فروری۲۰۰۲ ۴۰-۴۸ // // اقبال - عشق اور نظریۂ تحریک اپریل۲۰۰۲ ۴۳-۴۸ // // اقبال - عشق اور نظریۂ تحریک نومبر۲۰۰۷ ۵-۱۲ اشفاق احمد اعظمی مسجد قرطبہ اور خونِ جگر اکتوبر۱۹۸۰ ۸ اظفر رضوی،سیّد علامہ اقبال اور نوجوان نومبر۲۰۰۶ ۶۷-۷۱ // // اقبال کا تصورِ اسلام نومبر۲۰۰۷ ۳۵-۴۳ // // اقبال کا تصورِ اسلام نومبر۲۰۰۸ ۳۷-۴۵ اظہر صدیقی مثنوی اسرار و رموز [فارسی/ خصوصیات] نومبر۱۹۷۷ ۲۰-۳۱ اعظم رضوی،سیّد اقبال- عاشق رسول ا نومبر۱۹۷۹ ۳۳-۴۱ اعظم نوید اقبال کا تصورِ عظمتِ انسانی اپریل۲۰۰۸ ۱۱-۱۸ // // علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد نومبر۲۰۰۶ ۴۵-۵۲ // // مغرب کا نظریاتی، ثقافتی اور سیاسی غلبہ ختم کرنے کے لیے اقبال کی کاوشوں کا تفصیلی جائزہ اپریل۲۰۰۷ ۱۹-۲۹ افتخار اجمل شاہین اقبال، ایک نئی آواز اپریل۲۰۰۸ ۳۴-۳۷ افتخار احمد عدنی اقبال اور خاصانِ خدا نومبر۱۹۹۸ ۹-۱۲ // // علامہ اقبال کے فارسی کلام کا منظوم اُردو ترجمہ اپریل۱۹۹۹ ۹-۱۲ اکبر حیدری کاشمیری اقبال کا ایک نایاب شعر نومبر۲۰۰۶ ۶۳-۶۶ اُمِ سلمیٰ اقبال کی نگاہ میں عورت نومبر۱۹۹۴ ۵-۱۶ اُمِ عمارہ اقبال کی شاعری میں عورت کا تصور جون۱۹۶۸ ۱۳-۱۶ انجم بانو کاظمی علامہ اقبال کے تعلیمی نظریات نومبر۱۹۹۹ ۵۵-۶۳ انور خالد کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد [عظمتِ اقبال] نومبر۱۹۷۷ ۲۰۸-۲۱۲ اوصاف احمد اقبال کی شاعرانہ شخصیت نومبر۲۰۰۱ ۳۱-۴۳ این میری شمل اقبال اور عشق رسول ا یکم؍مئی۱۹۶۲ ۳۸-۴۴ بدر الزماں بدر تیئس مارچ اور دو قومی نظریہ مارچ۱۹۸۶ ۷۱-۷۶ بشریٰ لطیف اقبال اور اجتہاد اپریل۲۰۰۳ ۶۰-۶۵ بشیر احمد ڈار اقبال کے فلسفے میں تضاد و توافق اپریل۱۹۷۴ ۶-۹ بشیر الدین،سیّد اقبال کا تصور زماں نومبر۲۰۰۱ ۵-۱۱ بصیرہ عنبرین اقبال کی مذہبی اور صوفیانیہ تلمیحات نومبر۲۰۰۷ ۲۷-۳۴ // // اقبال کی تلمیحی علامات نومبر۲۰۰۸ ۵-۱۵ تبسم کاشمیری اقبال کا نظریہ شاعری‘ خطوط کی روشنی میں اپریل۱۹۷۹ ۱۳-۱۶ تحسین فراقی اقبال کی اُردو شاعری کا مختصر فنی جائزہ نومبر۲۰۰۳ ۳۱-۴۶ تنویر کوثر علامہ اقبال کا مسلک و تصوف اپریل۱۹۷۴ ۴۳-۵۶ توقیر صدیقی اقبال اور عشق اپریل۱۹۷۹ ۵۸-۵۹ // // علامہ اقبال اپنے افکار کے آئینے میں اپریل۱۹۷۶ ۲۶-۲۷ // // علامہ اقبال اور تعلیم اپریل۱۹۷۷ ۳۷-۳۹ تیمور حسین،خواجہ اقبال کا ’’حرفِ شیریں‘‘ مئی۱۹۷۳ ۲۳-۲۵ ثمینہ محبوب اقبال کی شاعری میں علامات و اصطلاحات جنوری۱۹۹۹ ۵۹-۶۸ ثناء الحق صدیقی نزولِ قرآن و بعث رسول ا کا مقصد اگست۱۹۹۴ ۸۹ ثناء الرحمن مشرق و مغرب اقبال کی نظر میں اپریل۲۰۰۵ ۴۷-۵۴ جاوید منظر علامہ اقبال اور جدید اُردو غزل اپریل۲۰۰۸ ۳۰-۳۳ جگن ناتھ آزاد توقیت اقبال اپریل۲۰۰۱ ۵-۱۳ جلیل الرحمن شامی اقبال اور آزاد شاعری اپریل۱۹۷۶ ۲۲-۲۵ // // اقبال اور بحروں کا انتخاب جون۱۹۷۳ ۲۳-۳۰ جلیل الرحمن شامی اقبال کی ایک نظم (رومی بدلے، شامی بدلے…) اور اس کی بحر اپریل۱۹۷۹ ۱۷-۲۲ جلیل قدوائی اقبال کے وظیفے کے بارے میں ایک یادداشت اپریل۱۹۷۶ ۴-۷ // // یادِ اقبال اپریل۱۹۶۶ ۱۵-۲۰ جمیل احمد انجم اقبال کا اثر اُردو شاعری پر اپریل۲۰۰۷ ۵-۱۸ حبیب الرحمن اقبال کا فلسفۂ زمان و مکان اپریل۱۹۷۷ ۱۸-۲۶ // // مسلم کلچر کی روح اقبال کی نظر میں نومبر۱۹۷۷ ۹۲-۹۸ حبیب اللہ رشدی اقبال نے اُردو ادب کو کیا دیا؟ اپریل۱۹۷۷ ۲۷-۳۷ حسرت کاسگنجوی اقبال کا پیغام نومبر۱۹۷۷ ۱۳۹-۱۴۲ حسن اختر،ملک طالب علم اقبال اپریل۱۹۸۴ ۱۱-۱۳ حمایت علی شاعر علامہ اقبال نومبر۲۰۰۰ ۵۱-۵۴ حمید یزدانی،خواجہ اقبال کی فکری میراث کے حوالے سے مئی۱۹۹۸ ۱۷-۲۲ حنیف فوق اقبال اور تماشائے نیرنگ صورت اپریل۱۹۸۹ ۵-۹ خالد اقبال یاسر اقبال اور تصور پاکستان نومبر۱۹۹۳ ۵-۸ خان رشید اقبال اور تعلیم نومبر۱۹۷۶ ۵-۹ // // مجھے ہے حکم اذاں… اپریل۱۹۷۶ ۲۰-۲۱ خورشید خاور اقبال کا درسِ آزادی اپریل۱۹۷۵ ۲۴-۲۶ خیرات محمد ابن رسا اقبال اور سائنس فروری۱۹۸۱ ۲۵ دردانہ جلیل اقبال، اسلام اور اشتراکیت نومبر۱۹۷۹ ۴۷-۵۲ دلشاد کلانچوی اقبال اور زبانِ اُردو نومبر۱۹۸۳ ۱۰-۱۳ دولت بانو حیدر علی اقبال کے شعورِ تخلیق کا ابلاغ و اظہار نومبر۱۹۷۷ ۱۹۵-۲۰۴ رابعہ سرفراز اقبال کے اجتہادی تصورات نومبر۲۰۰۸ ۱۶-۰ا۲ // // اقبال … نظریۂ فن نومبر۲۰۰۵ ۳۴-۴۷ // // پیامِ مشرق کا مقدمہ اپریل۲۰۰۶ ۴۷-۵۰ // // کلامِ اقبال میں فکری و فنی ہم آہنگی نومبر۲۰۰۷ ۴۴-۴۹ راحیلہ طیب علامہ اقبال اور عورت نومبر۱۹۸۲ ۴۴-۴۷ راغب احسن اقبال پر ایک محققانہ نظر اور ان کی نفسیاتی تشریح نومبر۲۰۰۰ ۳۵-۴۲ رسول رسا،سیّد اقبال کا تصورِ زمان اپریل۱۹۷۹ ۵-۱۲ رضوان عنایتی مخمس پر غزل حضرت علامہ اقبال نومبر۲۰۰۲ ۴ رضی الدین صدیقی روحِ اقبال اپریل۱۹۸۳ ۷-۸ // // قوموں کا عروج و زوال [خطاب] مئی۱۹۶۰ ۱۴-۲۰ رعنا اقبال اقبال اور نسائی حقوق کا تصور نومبر۲۰۰۰ ۸۲-۸۵ // // علامہ اقبال اور جمہوریت نومبر۱۹۹۱ ۲۷-۳۰ رفاقت علی شاہد اُردو غزل اور بالِ جبریل نومبر۱۹۹۴ ۲۵-۲۹ رفعت سروش اقبال شاعر رنگ و بو اپریل۲۰۰۸ ۱۹-۲۹ رفیع الدین ہاشمی اقبال اور احیائے اسلام ربیع الاوّل ۱۴۰۱ھ ۷۱ // // اقبال… شاعر و فلسفی مئی۱۹۷۲ ۳-۷ // // سیّد مصلح الدین … ایک اقبال شناس اپریل۲۰۰۵ ۵۵-۵۶ رفیع عالم اقبال اور عظمتِ انسانی اپریل۱۹۸۵ ۶۷-۶۹ // // اقبال- ایک تنقیدی جائزہ نومبر۱۹۸۴ ۱۱-۱۸ // // علامہ اقبال اپریل۱۹۸۵ ۶۷-۷۲ رفیق خاور اقبال اور مغرب اپریل۱۹۸۲ ۵-۱۰ رفیق محمد خاں علامہ اقبال بحیثیتِ ماہر تعلیم جولائی۱۹۸۷ ۷۷-۷۹ ریاض الحسن اقبال کا ایک شعر (ہوئے مدفون دریا…) اور پہلی جنگ ِعظیم نومبر۱۹۸۰ ۳۲-۳۳ ریاض صدیقی ارتقائے حیات اور اقبال نومبر۱۹۷۷ ۷۶-۸۰ // // اقبال کا سائنسی شعور اپریل۱۹۷۶ ۳۷-۴۱ // // اقبال … زمان سے لازمانیت تک نومبر۱۹۷۹ ۲۷-۳۲ // // ورقِ تازہ اپریل۱۹۸۰ ۱۵-۱۷ زاہدہ پروین اقبال بحیثیتِ متکلم نومبر۱۹۹۸ ۵۲-۶۱ // // فکرِ اقبال میں خدا، خودی اور کائنات اپریل۱۹۹۹ ۵۵-۶۲ سجاد نقوی اقبال کا ’’حرفِ شیریں‘‘ جون۱۹۷۳ ۳۱-۳۲ سرور اکبر آبادی اقبال کا فلسفۂ خودی نومبر۱۹۸۵ ۹-۱۴ سرور اکبر آبادی ’’شکوہ‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا پس منظر نومبر۱۹۷۷ ۳۲-۳۶ سرور انبالوی علامہ اقبال کی ظرافت نومبر۱۹۸۳ ۳۶-۴۱ سعدیہ نسیم اقبال کا تصورِ خودی نومبر۱۹۷۷ ۱۰۵-۱۱۳ // // اقبال کا نظریۂ تعلیم جون۱۹۷۸ ۲۳-۴۴ // // کلامِ اقبال کی ایک اصطلاح جون۱۹۷۷ ۳۱-۴۷ شائستہ خاں اسرارِ خودی کا ایک فراموش شدہ اڈیشن اپریل۱۹۸۹ ۱۰-۲۲ شاہد اقبال کامران اقبال کا تصورِ عظمتِ انسانی اپریل۱۹۹۹ ۳۴-۴۵ // // اقبال کے تصورِ ملت کی انفرادیت و جامعیت جولائی۲۰۰۴ ۱۴-۲۶ // // اقبال کے تصورِ ملت کی انفرادیت و جامعیت جون۲۰۰۵ ۳۳-۴۴ // // اقبالیات میں تحقیق، مسائل اور امکانات اپریل۲۰۰۳ ۱۳-۱۸ // // تصوف اور اقبال اپریل۲۰۰۶ ۵-۲۱ // // تصوف پر اقبال کے انتقاد کا مطالعہ نومبر۲۰۰۲ ۵-۲۲ // // مثنوی اسرار خودی کی اشاعت دوم اپریل۲۰۰۵ ۲۰-۲۹ شاہدہ چودھری علامہ اقبال کے تعلیمی افکار دسمبر۱۹۷۹ ۴۵-۴۷ شاہدہ یوسف اسلامی قانون کے منابع و مصادر [افکارِ اقبال کے آئینے میں] اپریل۲۰۰۰ ۳۷-۴۸ // // اقبال کا انٹرنیشنل میرٹ اپریل۱۹۹۷ ۵-۱۵ // // اقبال کا ذوقِ محاربت نومبر۱۹۹۸ ۳۸-۵۱ // // اقبال کی انسان دوستی اپریل۲۰۰۲ ۳۵-۴۲ // // اقبال کی شاعری کی صوتی فضا نومبر۱۹۹۵ ۲۷-۳۸ // // اقبال کی شاعری میں فطرت کا وژن نومبر۲۰۰۲ ۲۳-۳۹ // // اقبال کی شخصیت کی اہم کلید نومبر۱۹۹۶ ۲۱-۲۸ // // اقبال کے تفکر کی معاشی و عمرانی جہتیں نومبر۲۰۰۱ ۲۱-۳۰ // // اقبال کے شعری اور فکری وجدان پر تاریخ کا عمل و تعامل نومبر۱۹۹۷ ۹-۳۱ // // اقبالیاتی تحقیق کے مسائل اور اُن کے حل کی تجاویز نومبر۲۰۰۳ ۴۷-۵۲ // // انسانم آرزوست [عصرِ اقبال میں اقبال کے تصورِ انسان کی ضرورت] نومبر۱۹۹۹ ۱۵-۲۵ // // جدید علوم کی اسلامائزیشن، فکر اقبال کے تناظر میں اپریل۱۹۹۶ ۵-۲۱ شجر نقوی علامہ اقبال کی معنی آفرینی نومبر۱۹۷۷ ۲۰۵-۲۰۷ شعیب النصر اقبال- ایک آفاقی شاعر اپریل۱۹۹۵ ۳۹-۴۲ شفیق احمد اقبال کا تصورِ علم اپریل۱۹۹۱ ۲۹-۳۴ شفیق عجمی اقبال کا تصور بقائے دوام اپریل۱۹۹۳ ۱۳-۱۵ // // تحقیق اور اقبالیاتی تحقیق نومبر۱۹۹۲ ۹-۱۲ // // مطالعۂ بیاض اقبال نومبر۱۹۹۱ ۱۹-۲۶ شکیلہ خانم مسجد قرطبہ کا فکری اور فنی جائزہ اپریل۲۰۰۴ ۶۹-۷۸ شمس الدین صدیقی اقبال اور خیالِ امروز نومبر۱۹۸۶ ۹-۱۳ شمیم حنفی اقبال کا حرفِ تمنا اپریل۱۹۹۰ ۹-۱۴ شیر محمد گریوال اقبال اور تاریخ نومبر۱۹۷۷ ۸۸-۹۱ // // اقبال کا تصور تاریخ اپریل۱۹۷۸ ۱۸-۲۲ // // اقبال کا تصورِ تاریخ اپریل۱۹۷۶ ۲۸-۳۰ شیراز زیدی فلسفۂ خودی و بے خودی اور معاشرتی انقلاب اپریل۲۰۰۵ ۳۹-۴۶ // // یورپ میں قیام کے دوران اقبال نومبر۲۰۰۵ ۴۸-۵۵ صابر آفاقی ایک تنقیدی جائزہ جولائی۲۰۰۰ ۱۲-۱۸ صابر حسین جلیسری بچے کی دعا- تاریخی اور نفسیاتی تجزیہ نومبر۲۰۰۵ ۶۸-۷۰ // // فکرِ اقبال کا ایک پہلو نومبر۱۹۸۷ ۱۷-۲۴ // // فکرِ اقبال کا ایک پہلو نومبر۱۹۸۸ ۱۹-۲۴ // // فکرِ اقبال کے ارتقا کے روشن زاویے نومبر۲۰۰۴ ۲۹-۳۸ صادق حسین طارق اقبال اور نسل نو نومبر۲۰۰۲ ۷۵-۸۰ // // اقبال کا مردِ مومن اپریل۲۰۰۱ ۷۲-۷۳ صدیقہ ارمان اقبال کے کلام میں تعلیمی عناصر نومبر۱۹۷۷ ۱۶۱-۱۸۲ صوفیہ رفعت اقبال کا نظریہ علم اپریل۱۹۷۹ ۴۸-۵۷ طاہر تونسوی فکرِ اقبال کے ترقی پسند زوایے نومبر۲۰۰۷ ۵۰-۵۴ عابد حسین،سیّد اقبال کا تصورِ خودی نومبر۲۰۰۰ ۵-۲۸ عابدہ ریاست رضوی اقبال- ایک مستقبل شناس اپریل۱۹۸۲ ۱۹-۲۵ عابدہ ریاست رضوی اقبال کا پیغام اور عصر حاضر اپریل۱۹۷۶ ۴۲-۴۶ عارفہ بخاری عصر حاضر خاصۂ اقبال گشت نومبر۲۰۰۳ ۵۶-۶۲ عبدالحق،مولوی اقبال کی عظمت نومبر۱۹۷۷ ۹-۱۲ // // اقبال مرحوم اپریل۱۹۷۶ ۵ // // اقبال [خطاب] نومبر۱۹۸۳ ۶-۹ عبدالحمید ارشد اقبال کا ملتِ اسلامیہ کے لیے حیاتِ نو کا پیغام نومبر۱۹۷۷ ۱۵۱-۱۵۳ عبدالحمید،قاضی اقبال، شخصیت اور اس کا پیغام نومبر۲۰۰۳ ۵-۲۲ عبدالرشید فاضل اقبال اور تصوف اپریل۱۹۶۷ ۱۵-۲۴ // // اقبال اور تصوف مئی۱۹۶۷ ۶۳-۷۲ // // اقبال اور قرآن اپریل۱۹۷۶ ۸-۱۸ // // اقبال کا نظریۂ ادب نومبر۱۹۷۷ ۵۵-۷۰ عبدالرشید،شیخ اقبال کا تصورِ تاریخ نومبر۱۹۹۷ ۴۴-۵۰ // // فلسفۂ اقبال اور فکر مغرب اپریل۱۹۹۷ ۱۶-۱۸ عبدالستار ساحر اقبال کا شعری کردار …بالِ جبریلکی روشنی میں نومبر۲۰۰۲ ۶۰-۶۷ عبدالغفار شکیل اقبال کی تاریخ گوئی اپریل۱۹۹۰ ۱۵-۲۰ عبدالغفار کوکب اقبال کیسا نظام حکومت چاہتے تھے؟ اپریل۲۰۰۱ ۴۳-۵۰ عبداللہ شاہ ہاشمی فکرِ اقبال کا ایک آفاقی پہلو اپریل۱۹۸۹ ۲۳-۲۶ عبداللہ،سیّد اقبال کے فوراً بعد اپریل۱۹۶۷ ۷-۱۰ عبدالمجید اقبال کی شخصیت اور اُس کا پیغام نومبر۲۰۰۳ ۵-۲۲ عصمت ناز اکیسویں صدی اور پیغامِ اقبال اپریل۲۰۰۱ ۵۱-۶۰ عطاء الرحمن میو اقبال کی شاعری کے ابتدائی نقوش نومبر۲۰۰۰ ۷۴-۸۱ // // فکرِ اقبال کی خوشبو اپریل۲۰۰۳ ۳۵-۴۱ عطاء الرحمن،سیّد کیا اقبال فلسفی تھے؟ اپریل۲۰۰۰ ۴۹-۵۶ عظمیٰ عزیز خاں مثنوی پس چہ باید کرد… تعارف و اہمیت نومبر۲۰۰۸ ۲۱-۲۸ عظمیٰ گیلانی اقبال کا نظریۂ علم نومبر۲۰۰۶ ۵۳-۶۲ // // اقبال، اُن کی شاعری اور عہدِ جدید نومبر۱۹۹۸ ۶۲-۷۰ عقیلہ کیانی اقبال اور عمرانی افکار اپریل۱۹۷۸ ۵-۸ علی اکبر شاہ کاظمی مفکرومصورِ پاکستان علامہ اقبال تقویم کے آئینہ میں نومبر۱۹۷۹ ۵-۱۴ غلام احمد بدوی اقبال- شخصیت اور پیغام جولائی۱۹۷۴ ۲۹-۳۱ فرمان فتح پوری دنیائے اسلام اور اقبال نومبر۲۰۰۶ ۵-۲۶ فروغ احمد اقبال کا عوامی پیغام نومبر۲۰۰۱ ۴۴-۴۷ فضل القدیر ندوی سبوچۂ اقبال [فارسی شاعری] اپریل۱۹۸۰ ۵-۸ فضل حق فاروقی اقبال کی غزل اپریل۱۹۹۶ ۲۲-۳۱ // // اقبال کی غزل نومبر۱۹۹۶ ۲۹-۳۶ // // توحیدورسالت اور اقبال نومبر۲۰۰۳ ۵۳-۵۵ فلک شیرلیل اقبال اور اُردو اپریل۲۰۰۱ ۶۵-۷۱ فہمیدہ عتیق تعلیم اور اقبال جولائی۸۶ ۱۹ ۶۹-۷۴ قدرت نقوی،سیّد خودی اپریل۱۹۷۵ ۱۲-۱۷ کلثوم طارق برنی اقبال اور نظریۂ فن نومبر۱۹۹۷ ۶۵-۷۰ // // اقبال کا سفر وطنیت سے ملت کی طرف نومبر۲۰۰۱ ۴۸-۵۷ کیفی حسینی اقبال پھر اقبال ہے نومبر۲۰۰۷ ۵۵-۶۱ گیسل مینود تحریک خلافت کے دور کی سیاسی شاعری جون۱۹۷۷ ۱۸-۲۱ ماجدہ عثمانی ساقی نامہ نومبر۲۰۰۳ ۶۳-۶۵ ماہ طلعت زاہدی رباعیات اقبال کے خاص نکات اپریل۱۹۹۵ ۳۵-۳۸ مبارز الدین رفعت اقبال کا ’’حرفِ شیریں‘‘ اپریل۱۹۶۸ ۱۵-۲۰ مجیب ظفر انوار اقبال کا نور بصیرت نومبر۲۰۰۳ ۶۸-۷۱ // // علم الاقتصاد اقبال، تجزیاتی مطالعہ نومبر۲۰۰۶ ۷۲-۷۳ محسنہ نقوی اقبال- شاعر فطرت نومبر۲۰۰۱ ۵۸-۶۴ محمد آصف اعوان اقبال کا تصور، شعوری ارتقا اور ختم نبوت اپریل۲۰۰۴ ۵۵-۶۰ // // اقبال کا پہلا خطبہ [تحقیقی و تنقیدی جائزہ] اپریل۲۰۰۵ ۵-۱۹ // // اقبال کا دوسرا خطبہ [تحقیقی و تنقیدی جائزہ] نومبر۲۰۰۴ ۱۳-۲۸ // // اقبال کا تیسرا خطبہ[تحقیقی و تنقیدی جائزہ] نومبر۲۰۰۵ ۵-۲۵ محمد آصف اعوان دیباچہ بانگ درا پر ایک نظر اپریل۲۰۰۷ ۳۴-۴۲ محمد آصف اعوان فکرِ اقبال میں زندگی کا حرکی اور ارتقائی تصور اپریل۲۰۰۳ ۱۹-۲۷ محمد اقبال جاوید وحدت الوجود اور خودی نومبر۱۹۸۲ ۳۴-۴۲ محمد اقبال شاہد علامہ اقبال اور قدیم ایرانی مذہب فروری۲۰۰۷ ۳۵-۳۹ محمد السعیدجمال الدین علامہ اقبال، مصر میں [مترجم: عارف نوشاہی] نومبر۱۹۷۸ ۲۷-۲۸ محمد امتیاز صدیقی اقبال کا نظریۂ فن اپریل۱۹۸۰ ۹-۱۴ محمد ایوب شاہد اسبابِ زوال اُمت، اقبال کی نظر میں نومبر۱۹۷۸ ۳۶-۴۷ // // ’’ساقی نامہ‘‘ کا فکری و فنی تجزیہ اپریل۱۹۷۸ ۲۳-۲۸ محمد ایوب صابر اقبال کی فارسی گوئی پر اعتراضات کا جائزہ نومبر۱۹۹۸ ۳۱-۳۷ // // اقبال متکلم ہیں یا فلسفی بھی؟ اپریل۲۰۰۲ ۱۴-۳۴ // // روایتی تنقید پر ایک نظر نومبر۲۰۰۴ ۵-۱۲ // // علامہ اقبال کی فکری اساس نومبر۱۹۹۷ ۳۸-۴۳ // // فکرِ اقبال، محدود یا آفاقی اپریل۲۰۰۰ ۴-۲۶ // // کیا اقبال کا تصور عشق غلط اور مبہم ہے؟ جون۲۰۰۳ ۱۹-۳۵ محمد ایوب قادری اقبال کا سفر دہلی۱۹۰۵ء [بسلسلہ لندن روانگی] اپریل۱۹۷۴ ۵۷-۶۱ // // اقبال کا سفر دہلی۱۹۰۵ء [بسلسلہ لندن روانگی] اپریل۱۹۸۳ ۲۴-۲۸ محمد پرویش شاہین اقبال اور پختون نومبر۱۹۸۰ ۲۳-۲۷ محمد جان عالم علامہ اقبال کا ایک منفرد انداز نومبر۲۰۰۸ ۳۴-۳۶ محمد رضا کاظمی اقبال غزل خواں ہو نومبر۱۹۹۹ ۵۰-۵۴ محمد ریاض اقبال کا ایک شعر (ہوئے مدفون دریا… ) اور… اپریل۱۹۸۱ ۲۳-۲۴ // // اقبال کا ’’حرفِ شیریں‘‘ فروری۱۹۷۴ ۴۳-۴۴ // // اقبال کی اُردو شاعری کے چند پہلو جولائی۱۹۷۷ ۵-۱۳ // // اقبال کی تلقین سخت کوشی اکتوبر۱۹۷۳ ۳-۸ // // اقبال کی چند نکتہ آفرینیاں اپریل۱۹۷۷ ۵-۱۷ // // اقبال کی مدحتِ آزادی اور مذمتِ غلامی نومبر۱۹۷۸ ۲۹-۳۵ // // اقبال کے اُردو کلام میں فارسیت نومبر۱۹۷۷ ۱۳۸-۱۹۴ // // اقبال - مسلمانوں کی وحدت کا داعی اپریل۱۹۷۴ ۱۹-۲۴ محمد ریاض کلامِ اقبال میں تکریم انسانی کا عنصر اپریل۱۹۷۳ ۱۹-۳۰ محمد سلیم اختر ملّی وحدت کی نشات الثانیہ کا علم بردار اقبال نومبر۱۹۷۷ ۱۵۴-۱۶۰ محمد سلیم خالد اقبال اور محبت رسول ا اپریل۲۰۰۰ ۶۶-۷۶ محمد صادق،میاں اقبال اور تحریک پاکستان نومبر۱۹۸۶ ۱۵-۲۰ محمد صدیق جاوید اقبال اور اقتدارِ اعلیٰ کا عمرانی زاویہ نومبر۱۹۹۰ ۲۳-۲۹ // // اقبال اور خطبۂ علی گڑھ ۱۹۱۱ئ نومبر۱۹۹۸ ۱۳-۳۰ // // اقبال کی ایک صدی پرانی نظم اپریل۱۹۹۸ ۷۶-۸۲ // // اقبال کی ایک غزل کا تحقیقی جائزہ نومبر۱۹۹۱ ۷-۱۸ // // اقبال کی نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا جائزہ اپریل۱۹۹۹ ۱۳-۲۲ // // اقبال کے ایک شعر کے تخلیقی محرک کا پس منظر ستمبر۱۹۹۹ ۲۹-۴۲ // // تصریحات [بر مضمون ’’ اقبال کی غزل۔۔۔‘‘ شمارہ نومبر۹۱] اپریل۱۹۹۲ ۱۷-۱۹ محمد صدیق شاد اقبال کا تصور فرد و ملت اپریل۱۹۷۹ ۴۳-۴۷ محمد علی داعی الاسلام علامہ اقبال اور ان کی فارسی شاعری [مترجم: ڈاکٹر محمد ریاض] نومبر۱۹۸۲ ۸-۳۳ محمد علی صدیقی کیا اقبال واقعتا وحدت الوجودی تھے؟ نومبر۲۰۰۰ ۴۳-۵۰ محمد عمر شاعری اور فلسفۂ اقبال کے اقوام عالم پر اثرات نومبر۲۰۰۵ ۷۱-۷۴ محمد مبین حسنی ابو العلیٰ معری… اقبال کی نظر میں اپریل۲۰۰۵ ۵۷-۶۲ محمد یوسف،سیّد اقبال کی سیاسی بصیرت ۱۶؍جون۱۹۶۰ ۱۱-۱۳ محمود حسین مسلمانوں کی بیداری میں اقبال کا حصہ نومبر۲۰۰۶ ۳۹-۴۴ مرتضیٰ اختر جعفری اقبال اور حق گوئی نومبر۱۹۷۸ ۵-۸ مشکور علی برق قرآن، مسلمان اور اقبال نومبر۱۹۷۷ ۱۴۳-۱۵۰ مظفر عباس اسلامی ریاست کی تشکیل اور علامہ اقبال کا نقطۂ نظر جولائی۱۹۷۸ ۳۲-۳۹ // // اقبال کے ہاں مردِ مومن کا تصور اپریل۱۹۷۶ ۳۱-۳۴ معصومہ میر فکرِ اقبال اپریل۱۹۹۷ ۱۹-۲۴ معین الدین عقیل اسرارِ خودی [نکلسن کے انگریزی ترجمے کی تدوینِ نو کا مطالعہ] اپریل۲۰۰۳ ۱۰-۱۲ // // اقبال اور سرگزشت الفاظ- احمد دین کی نادر کتب مارچ۱۹۹۴ ۲۰-۲۴ // // اقبال اور سنوسی تحریک نومبر۱۹۷۷ ۸۱-۸۷ معین الدین عقیل دو نوادر- بسلسلہ اقبال نومبر۱۹۹۲ ۵-۸ // // نجدی (وہابی) تحریک اور اقبال نومبر۱۹۸۱ ۳۲-۴۱ // // نظم روزگار فقیر- باقیاتِ اقبال [اقبال کا منسوخ شدہ کلام ] نومبر۱۹۹۲ ۵-۷ // // ہمارا نصابِ تعلیم اور فکرِ اقبال کے تقاضے نومبر۲۰۰۱ ۱۸-۲۰ منظر عباس نقوی بالِ جبریلکی غزلیں اپریل۱۹۹۰ ۲۱-۲۸ م-خ بزمِ اقبال اپریل۱۹۶۸ ۲۱-۳۴ // // بزمِ اقبال مئی۱۹۶۸ ۵۹-۶۸ نادم سیتاپوری حیات اقبال کا ایک دلچسپ پہلو اپریل۱۹۶۳ ۱۲-۱۶ ناصر عباص نیئر اقبال اور جدیدیت نومبر۲۰۰۷ ۱۳-۲۰ ناہید افشاں صدیقی اقبال کا فلسفہ خودی اپریل۱۹۷۹ ۳۵-۴۲ نثار احمد مرزا اقبال اور فرنگ نومبر۱۹۹۲ ۱۳-۲۳ // // علامہ اقبال کی ظرافت اپریل۱۹۹۷ ۳۱-۳۸ نسیم انجم علامہ اقبال عظیم شاعر، عظیم مفکر اپریل۲۰۰۸ ۳۸-۴۱ نسیم نیشوفوز علامہ اقبال اور مسلم نشاۃ ثانیہ اپریل۲۰۰۱ ۶۱-۶۴ // // علامہ اقبال کا ثقافتی نظریہ اپریل۱۹۸۴ ۱۵-۱۸ نصیرالدین اقبال سے میری وابستگی اپریل۱۹۷۹ ۳۲-۳۴ نظیر حسنین زیدی اقبال اور پیغامِ انسانیت نومبر۱۹۸۰ ۱۷-۲۲ نظیر صدیقی اقبال کا نظریہ تقدیر اپریل۱۹۹۹ ۲۳-۲۷ // // اقبال کی شاعری میں انسان کا تصور اور اس کا مقام اپریل۱۹۷۴ ۲۵-۲۸ نفیس مظہر،بیگم اقبال اور ذوقِ جمال نومبر۱۹۷۷ ۱۲۹-۱۳۸ // // اقبال کی شاعری اور پیغام اکتوبر۱۹۷۷ ۳۰-۳۵ نورینہ تحریم بابر ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق اقبال کا موقف اپریل۱۹۹۹ ۴۶-۵۴ // // اقبال کا تغزل- ایک مطالعہ نومبر۱۹۹۷ ۵۱-۵۷ // // اقبال کی بے مثال نظم مسجد قرطبہ- ایک مطالعہ نومبر۲۰۰۲ ۴۹-۵۹ نوشاد نوری اقبال- تاریخی عظمت جون۱۹۶۸ ۱۷-۲۰ نوید احمد گل اقبال کے رنگ سیمین کے سنگ اپریل۲۰۰۳ ۴۲-۵۹ // // لطف تغزل در شعر اقبال [اقبال کی فارسی غزل میں تغزل] نومبر۱۹۹۹ ۲۶-۳۸ نوید ظفر اقبال اور تعلیم نومبر۱۹۷۹ ۴۲-۴۶ نیرنگ نیازی اقبال جمالیات کے آئینہ میں اپریل۱۹۷۶ ۳۵-۳۶ // // اقبال جمالیات کے آئینے میں نومبر۱۹۸۳ ۲۸-۳۵ نیلم سیّد اقبال کی شاعرانہ عظمت نومبر۱۹۹۴ ۳۱-۳۴ وحیدالرحمن خان فیضانِ اقبال، ایک روشن مثال نومبر۲۰۰۷ ۲۱-۲۶ وزیر آغا اقبال کا تصور عشق نومبر۲۰۰۳ ۲۳-۳۰ // // اقبال جدیداُردو نظم کا پیش رو اپریل۲۰۰۸ ۵۰-۵۴ وسیم الدین،سیّد ڈاکٹر اقبال کی زندگی کے اہم پہلو نومبر۲۰۰۸ ۴۶-۴۸ وقار احمد رضوی اقبال کی غزل نومبر۱۹۷۸ ۵۱-۵۳ // // پیامِ مشرق [فارسی] نومبر۱۹۷۷ ۱۳-۱۹ ولید انور اقبال شناسائی و ناشناسی اپریل۲۰۰۴ ۲۵-۴۴ یوسف عزیز اقبال بحیثیتِ معلم دسمبر۱۹۷۷ ۳۶-۴۹ // // کلامِ اقبال میں طنزومزاح نومبر۱۹۷۷ ۲۴۷-۲۵۲ یونس حسنی اقبال شاعر معجز بیاں اپریل۱۹۹۹ ۲۸-۳۳ // // اقبال کا تصورِ خودی اپریل۲۰۰۵ ۳۰-۳۸ // // اقبال کا حرفِ شریں [محمدبھی، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا…] اپریل۱۹۷۴ ۴۱-۴۲ [درج ذیل مقالات جن شماروں میں شائع ہوئے وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔ اس لیے ان کے مصنفین کے نام اور صفحات نہیں دیے جا سکے۔ عنوانات اور سنین کی معلومات مختلف اشاریوں اور کتب سے دستیاب ہوئی ہیں] ……… اصلاحات اقبال ستمبر۱۹۵۱ …… // // اقبال اور تصوفِ ایران جولائی۱۹۶۰ …… // // اقبال اور زبانِ اُردو جون۱۹۵۰ …… // // اقبال اور عشق رسول مئی۱۹۶۶ …… // // اقبال کا تصورِ معاشرت نومبر۱۹۵۸ …… // // اقبال کا سیاسی نظام دسمبر۱۹۵۷ …… ……… اقبال کا لب و لہجہ …۱۹۵۱ …… // // اقبال کا نظریہ تعلیم مئی۱۹۷۷ …… // // اقبال ماہر نفسیات کی نظر میں فروری۱۹۵۸ …… // // اقبال نامہ اگست۱۹۵۱ …… // // اقبالیات کا تنقیدی جائزہ اکتوبر۱۹۵۵ …… // // اُردو ادب کی تشکیل نو جولائی۱۹۶۰ …… // // اُردو ادب میں اقبال کی شاعری کا حصہ جولائی۱۹۵۸ …… // // باتصویر اقبال ستمبر۱۹۶۰ …… // // جہانی رادگرگون کرد یک مرد خود آگاہی …۱۹۵۵ …… // // دانائے راز اپریل۱۹۶۰ …… اقبالیات ، بلاد و اماکن کے اعتبار سے ادارہ اقبال اور بھوپال اگست۱۹۷۳ ۱۵-۱۷ اسد فیض ملتان میں اقبال شناسی کی روایت اپریل۱۹۹۷ ۲۵-۳۰ // // ملتان میں اقبال کے ملاقاتی اپریل۱۹۹۹ ۶۳-۶۶ اشرف کمال اقبال اور بھوپال اپریل۲۰۰۴ ۷۹-۸۱ آصف اسلم فرخی ہائیڈل برگ میں آثارِ اقبال نومبر۱۹۸۷ ۹-۱۴ جلال متینی اقبال اور ایران [مترجم: گوہر نوشاہی] اپریل۱۹۷۸ ۱۰-۱۷ حبیب اللہ رشدی اقبال اور حیدرآباددکن نومبر۱۹۸۳ ۲۴-۲۷ حنیف فوق ترکی میں مطالعۂ اقبال اپریل۱۹۸۵ ۷-۱۴ دولت بانو حیدرعلی جنوبی ایشیا کے عمرانی کوائف اور اقبال اپریل۱۹۷۷ ۴۱-۴۲ شفیق عجمی پاکستان میں اقبال شناسی اپریل۲۰۰۳ ۲۸-۳۴ صابر آفاقی اقبال اور کشمیر نومبر۱۹۷۷ ۷۱-۷۵ عبدالحق،مولوی بیا بہ مجلس اقبال اپریل۱۹۶۶ ۳-۸ عبدالقوی دسنوی اقبال بھوپال میں اپریل۱۹۶۸ ۳۵-۷۴ عمال سلجوقی اقبال اور جنوب مشرقی ایشیا اپریل۱۹۷۹ ۲۳-۲۵ عنایت حسین عیدن اقبال اور موریشس اپریل۱۹۸۵ ۱۵-۲۰ کلیم سہسرامی تہران میں علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت اپریل۱۹۸۶ ۵۳-۵۶ محسن احسان اقبال اور ترک اپریل۲۰۰۷ ۳۰-۳۳ محمد پرویش شاہین اقبال اور سرحد اپریل۱۹۸۲ ۱۱-۱۸ محمد جہانگیر عالم اقبال اور پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نومبر۱۹۷۸ ۵۱-۵۴ مشفق خواجہ اقبال یادگار بھوپال اپریل۱۹۸۶ ۱۳-۱۵ // // اہلِ ہند اور اقبال مئی۱۹۵۰ …… // // ایران میں اقبال کی مقبولیت اپریل۱۹۶۰ …… رپورتاژ ادارہ روئیداد جلسہ بسلسلہ یومِ اقبال ۱۶؍مئی۱۹۶۰ ۹ // // یومِ اقبال پر صدر محمد ایوب کا پیغام یکم؍مئی۱۹۶۲ ۵۰ // // یومِ اقبال مئی۱۹۶۳ ۴۶-۴۸ جگن ناتھ آزاد اقبال نمائش سری نگر اپریل۱۹۷۴ ۱۰-۱۴ // // حیدرآباد میں اقبال صدی نومبر۱۹۷۳ ۴۱-۴۳ // // علی گڑھ میں اقبال سیمی نار جنوری۱۹۷۴ ۶-۹ خورشید بانو شمع یومِ اقبال جنوری۱۹۸۸ ۹۲ محمد حنیف شاہد اقبال انٹرنیشنل سمپوزیم نومبر۱۹۸۷ ۷۳-۷۵ // // پاکستان میں یومِ اقبال …۱۹۵۷ …… اشاریے ابوسلمان شاہ جہاں پوری اشاریہ اقبال [مختلف رسائل میں اقبالیاتی ادب] اپریل۱۹۷۸ ۴۹-۶۴ // // // // // ستمبر۱۹۷۷ ۵۰ // // // // // نومبر۱۹۷۸ ۶۱-۶۳ انور نذیر علوی ماہنامہ نگار پاکستان اور اقبالیات نومبر۱۹۹۶ ۴۵-۵۲ شمیم حیات سیال اقبالیات اور خواتین [کتابیات مقالات ،جو خواتین نے اقبال کے بارے لکھے] اپریل۱۹۷۸ ۲۹-۳۴ عبدالحنان ماہنامہ قومی زبان اور اقبالیات نومبر۱۹۹۶ ۳۷-۴۴ محمد علی صدیقی اقبال شناسی اور نیاز فتح پوری وماہنامہ۔ نگار جولائی۱۹۹۹ ۳۱-۳۳ نثار احمد فیضی ماہنامہ قومی زبان اور اقبالیات نومبر۱۹۹۸ ۷۱-۸۰ وسیم الدین صدیقی اشاریہ اقبال [انجمن ترقی اُردو میں موجوداقبال نمبروں کا اشاریہ] اپریل۱۹۷۷ ۴۵-۶۳ وسیم انجم اقبالیاتِ نیرنگ خیال [اشاریہ] اپریل۲۰۰۶ ۲۲-۴۶ نظمیں احسان مراد آبادی مردِ قلندر نومبر۱۹۷۷ ۲۷۰ احسن مارہروی نذرِ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۶۳ افسر امروہوی اقبال عطیہ الٰہی نومبر۱۹۷۷ ۲۶۵ انصار اللہ مجلہ انسان امرتسر میں اقبال کی تین نظمیں اپریل۱۹۹۲ ۱۱-۱۶ جان کاشمیری اقبال کا پیام نومبر۱۹۸۳ ۴۲ جلیل الرحمن شامی شاعر مشرق سے نومبر۱۹۷۷ ۲۶۸ حامد علی خاں اقبال اپریل۱۹۸۵ ۵-۶ خاطر غزنوی شاعر مشرق کے حضور نومبر۱۹۸۶ ۹ خان رشید اے مدعیانِ حبِ اقبال! اپریل۱۹۷۸ ۹ // // روحِ اقبال سے نومبر۱۹۷۷ ۲۶۶-۲۶۷ ساقی جاوید حکیم الامت نومبر۱۹۸۱ ۱۶ شرف الدین احمد وفا شاعر مشرق نومبر۱۹۷۷ ۲۷۱ شیر افضل جعفری اقبالیہ نومبر۱۹۸۲ ۴۳ // // اقبالیہ نومبر۱۹۷۷ ۲۶۴ // // بحضورِ اقبال اپریل۱۹۸۲ ۳۲ عبدالحمید ارشد اقبال کا پیغام اپریل۱۹۷۶ ۱۹ عبدالغنی شمس نذرِ عقیدت نومبر۱۹۸۳ ۴۳ قمر ہاشمی مزارِ اقبال پر اپریل۱۹۸۴ ۱۹-۲۰ مبارک مونگیری علامہ اقبال سے خطاب نومبر۲۰۰۳ ۶۶-۶۷ نفیس مظہر،بیگم بنامِ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۲۶۹ ہاشمی فرید آبادی سر محمد اقبال [قطعہ تاریخ وفات] اپریل۱۹۸۳ ۶ تبصرے مبصر کتاب مع مصنف ماہ و سال صفحات ابوسلمان شاہ جہاں پوری اقبالیات از مولانا غلام رسول مہر [مرتب: امجد سلیم علوی] مارچ۱۹۸۹ ۷۵ // // اقبالیات کے تین سال از رفیع الدین ہاشمی جون۱۹۹۴ ۷۶ // // سہ ماہی ’اقبال‘لاہور کا عبداللہ قریشی نمبر[مدیر: وحید قریشی] دسمبر۱۹۹۰ ۸۵-۸۶ // // شکوہ اقبال اور اس کی صدائے بازگشت از قمقام حسین جون۱۹۷۳ ۵۰-۵۱ // // مطالعہ اقبال کے چند پہلو از میرزا ادیب نومبر۱۹۸۵ ۷۹ // // مطالعۂ اقبال ،مرتب:گوہر نوشاہی جولائی۱۹۷۱ ۳۵-۳۶ احمد سبزواری اقبال کے کرم فرما (تنقید) از ماسٹر اختر نومبر۱۹۸۹ ۸۱ ادارہ اقبال اور بزمِ اقبال (حیدرآباددکن) از عبدالرئوف عروج جون۱۹۷۹ ۵۰ // // اقبال اور پاکستان از عزیز احمد [مرتب: طاہر تونسوی] جون۱۹۷۸ ۴۵ // // اقبال اور معاصر ادبی تحریکیں از خالد اقبال یاسر جنوری۱۹۹۵ ۸۶ // // عمل چغتائی[اقبال پر مصور اڈیشن] اگست۱۹۶۸ ۸۵-۸۶ // // اقبال‘ اقبال ہے از ریاض صدیقی مارچ۱۹۸۱ ۴۷ // // حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے از محمد حمزہ فاروقی اگست۱۹۸۸ ۹۵-۹۶ // // سفرنامہ اقبال از محمد حمزہ فاروقی اپریل۱۹۸۹ ۷۸-۷۹ // // عروجِ اقبال از افتخار احمد صدیقی اپریل۱۹۸۹ ۷۶ // // علامہ اقبال از ڈاکٹر اسرار احمد [کتابچہ] جون۱۹۷۵ ۵۰ // // علامہ اقبال از سیّد نذیر نیازی[کتابچہ] جون۱۹۷۵ ۵۰ // // علامہ اقبال اور عرضِ حال از سجاد باقر رضوی جنوری۱۹۹۵ ۸۷ // // علامہ اقبال اور مولانا محمد علی ،مرتب ابوسلمان شاہ جہاں پوری ستمبر۱۹۹۳ ۷۶ // // قرآنی تصوف اور اقبال از محمد عبدالغنی نیازی یکم؍جولائی۱۹۶۱ ۴۴ // // ماہنامہ ’برگِ گل‘لاہور کا اقبال نمبر [مدیر: ظفر حجازی] جولائی۱۹۸۸ ۸۴ // // ماہنامہ ’ساغر‘ کراچی کا اقبال نمبر [مدیر: ف-م-ساقی] جون۱۹۷۵ ۵۱ ادارہ ماہنامہ ’سب رس‘لاہور کا اقبال نمبراوّل و دوم [مدیر: حمید الدین شاہد] جون۱۹۷۸ ۴۶ ادیب سہیل اقبال اور کشمیر از جگن ناتھ آزاد نومبر۲۰۰۲ ۸۳-۸۴ // // اقبال اور گجرات از منیر احمد سلیچ اپریل۱۹۹۹ ۸۸-۸۹ // // اقبال ایک صوفی شاعر از ڈاکٹر سہیل بخاری مارچ۱۹۸۸ ۸۱-۸۲ // // اقبال کا تیسرا خطبہ، تحقیقی و توضیحی مطالعہ از محمد آصف اعوان ستمبر۲۰۰۶ ۸۴-۸۵ // // اقبال کا شعری و فکری منظرنامہ از شاہدہ یوسف نومبر۱۹۹۹ ۹۲ // // اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ از ایوب صابر دسمبر۲۰۰۴ ۸۱-۸۲ // // اقبال نامے ، مرتب: اخلاق احمد اثر جون۱۹۹۳ ۸۵ // // پرتو اقبال ، مرتب سجاد مرزا نومبر۱۹۹۷ ۸۳-۸۴ // // پروفیسر ڈاکٹر سردار احمد خاں از سیّد محمد میر سوز جون۲۰۰۵ ۸۶-۸۷ // // تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ از رفیع الدین ہاشمی اکتوبر۲۰۰۲ ۹۰-۹۱ // // تضمیناتِ اقبال از بصیرہ عنبرین نومبر۲۰۰۳ ۸۲-۸۳ // // تفہیمِ اقبال از فروغ احمد دسمبر۱۹۸۶ ۷۵ // // تلاشِ اقبال از ڈاکٹر محمد علی صدیقی نومبر۲۰۰۴ ۹۱-۹۳ // // جہاتِ اقبال از تحسین فراقی مارچ۱۹۹۴ ۶۱ // // شاخِ نہالِ غم از رئیس فاطمہ دسمبر۲۰۰۴ ۷۸-۷۹ // // علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان از محمد جعفر بلوچ مارچ۱۹۹۶ ۷۱ // // فیض کی شاعری میں رنگ کی اہمیت از شاہین مفتی نومبر۲۰۰۲ ۸۱-۸۳ // // مسائل اقبال از سیّد عبداللہ اپریل۱۹۹۰ ۸۰ // // مطالعہ اقبال از حسرت کاس گنجوی نومبر۲۰۰۰ ۸۸ // // مظلوم اقبال از اعجاز احمد جولائی۱۹۸۶ ۷۷ // // مکاتیب سرمحمد اقبال بنام سیّد سلیمان ندوی ،مرتب شفقت رضوی ستمبر۱۹۹۳ ۷۷ // // ملتان میں اقبال شناسی از اسد فیض ستمبر۲۰۰۰ ۸۳ // // منظوم ترجمہ کلیات اقبال فارسی از عبدالعلیم صدیقی جون۲۰۰۵ ۹۴-۹۶ انور سدید مکاتیب اقبال ، مرتب سیّد مظفر برنی نومبر۱۹۹۳ ۷۵-۷۷ توقیر صدیقی ماہنامہ ’الغزالی‘ لاہور کا اقبال نمبر [مدیر: احمد شمیم] فروری۱۹۷۹ توقیر صدیقی ماہنامہ ’کتاب‘لاہور کا اقبال نمبر فروری۱۹۷۸ ۵۱ جمال پانی پتی اقبال ایک شاعر …ایک زندہ کتاب اپریل۱۹۹۸ ۴۹-۵۹ حسن چشتی علامہ اقبال کی مشہور تصنیف بالِ جبریل کا پہلا انگریزی ترجمہ [مترجم: نعیم صدیقی] نومبر۱۹۹۷ ۷۱-۷۲ خان رشید ماہنامہ ’صریر خامہ‘ کا اقبال نمبر ۱۹۷۷ء [مدیر: محمد نعیم ندوی] ستمبر۱۹۷۸ ۴۳-۴۴ رفیع الدین ہاشمی اقبال اور انجمن حمایت اسلام از محمد حنیف شاہد مارچ۱۹۷۷ ۴۹ رئوف احمد شاہ ۱۹۸۵ء کا اقبالیاتی ادب از رفیع الدین ہاشمی جنوری۱۹۸۸ ۸۹ رئوف نیازی اقبالیاتی تحقیق از محمد وسیم انجم مارچ۲۰۰۸ ۸۴ زیب النسائ اقبال شناسی اور نوید صبح از زاہد منیر عامر نومبر۱۹۹۰ ۷۳ سلیم احمد اقبال از احمد دین[مرتب: مشفق خواجہ] مئی۱۹۸۲ ۲۷-۲۸ سلیم قدوائی اقبال از احمد دین [مرتب: مشفق خواجہ] نومبر۱۹۸۲ ۵۶ شان الحق حقی اقبال- ایک مطالعہ از غلام حسین ذوالفقار جولائی۱۹۸۷ ۸۱ شبیر علی کاظمی اقبال اور بھوپال از صہبا لکھنوی اگست۱۹۸۴ ۷۱ شہاب قدوائی خدوخال اقبال از محمد امین زبیری ستمبر۱۹۸۶ ۷۸-۷۹ صابر کلوروی تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ از رفیع الدین ہاشمی اپریل۱۹۸۶ ۵-۱۲ // // کتابیاتِ اقبال ، مرتب رفیع الدین ہاشمی نومبر۱۹۸۰ ۱۱-۱۶ طارق عزیز اقبال شناسی اور محور ، مرتب رفیع الدین ہاشمی دسمبر۱۹۸۹ ۷۹-۸۰ عبداللہ شاہ ہاشمی اقبال کی طویل نظمیں از رفیع الدین ہاشمی مارچ۱۹۸۲ ۵۲-۵۳ محمد ایوب قادری سرگزشت اقبال از غلام حسین ذوالفقار اگست۱۹۷۹ ۵۶ // // معارفِ اقبال از غلام مصطفیٰ خاں جون۱۹۷۸ ۴۹ ممتاز احمد خان کلیاتِ اقبال [علامہ کی زندگی میں شائع ہونے والانسخہ/ مرتب: مولوی عبدالرزاق] جون۲۰۰۸ ۸۰-۸۱ وحید قریشی خطباتِ اقبال پر ایک نظر از محمد شریف بقا نومبر۱۹۷۷ ۲۲۳-۲۲۴ وفا راشدی اقبال اور تعلیم از محمد فاروق جوبش مئی۱۹۸۴ ۶۸ وقار احمد اورینٹل کالج میگزین کا جشن اقبال نمبر[مدیر: عبادت بریلوی] اکتوبر۱۹۸۰ ۴۸-۴۹ یونس حسنی سفرنامہ اقبال از حمزہ فاروقی جون۱۹۷۳ ۴۹-۵۰ اقبال نمبر ادارہ تحریر ماہ و سال صفحات جمیل الدین عالی؍ شبیر علی کاظمی اپریل۱۹۶۷ ۱۱۲ // // // اپریل۱۹۷۴ ۶۴ // // // اپریل۱۹۷۵ ۶۴ جمیل الدین عالی؍ شبیر علی کاظمی اپریل۱۹۷۶ // // // اپریل۱۹۷۷ ۶۴ // // // نومبر۱۹۷۷ // // // اپریل۱۹۷۸ ۶۴ // // // نومبر۱۹۷۸ ۶۴ // // // نومبر۱۹۷۹ ۶۴ // // // اپریل۱۹۸۰ // // // نومبر۱۹۸۰ ۶۴ // // // اپریل۱۹۸۱ ۶۴ // // // نومبر۱۹۸۱ ۶۴ // // // اپریل۱۹۸۲ ۶۴ // // // نومبر۱۹۸۲ ۶۴ // // // اپریل۱۹۸۳ ۶۴ // // // نومبر۱۹۸۳ ۶۴ جمیل الدین عالی؍ شبیر علی کاظمی؍ ادا جعفری اپریل۱۹۸۴ ۶۴ قدرت اللہ شہاب؍ جمیل الدین عالی؍ ادا جعفری اپریل۱۹۸۵ ۱۰۲ // // // // نومبر۱۹۸۵ ۹۶ // // // // اپریل۱۹۸۶ ۹۶ // // // // نومبر۱۹۸۶ ۹۶ جمیل الدین عالی؍ شبیر علی کاظمی مدیر: ادیب سہیل نومبر۱۹۸۷ ۱۰۴ // // // // اپریل۱۹۸۸ ۱۰۴ جمیل الدین عالی؍ شبیر علی کاظمی // اپریل۱۹۸۹ ۹۶ // // // // اپریل۱۹۹۰ ۹۶ // // // // اپریل۱۹۹۱ ۹۶ // // // // نومبر۱۹۹۱ ۹۶ ادا جعفری؍ جمیل الدین عالی؍ مشفق خواجہ // نومبر۱۹۹۴ ۹۶ // // // // اپریل۱۹۹۵ ۹۶ ادا جعفری؍ جمیل الدین عالی؍ مشفق خواجہ // نومبر۱۹۹۶ ۹۶ // // // // اپریل۱۹۹۷ ۹۶ // // // // نومبر۱۹۹۷ ۹۶ // // // // اپریل۱۹۹۸ ۱۱۲ // // // // نومبر۱۹۹۸ ۱۰۴ // // // // اپریل۱۹۹۹ ۹۶ // // // // نومبر۱۹۹۹ ۱۰۴ // // // // اپریل۲۰۰۰ ۱۰۴ // // // // نومبر۲۰۰۰ ۱۰۴ // // // // اپریل۲۰۰۱ ۹۶ // // // // نومبر۲۰۰۱ ۹۶ // // // // اپریل۲۰۰۲ ۹۶ // // // // نومبر۲۰۰۲ ۹۶ // // // // اپریل۲۰۰۳ ۹۶ // // // // نومبر۲۰۰۳ ۹۶ // // // // اپریل۲۰۰۴ ۹۶ // // // // نومبر۲۰۰۴ ۹۶ // // // // اپریل۲۰۰۵ ۹۶ // // // // نومبر۲۰۰۵ ۹۶ // // // // اپریل۲۰۰۶ ۹۶ ادا جعفری؍ جمیل الدین عالی؍ امرائو طارق // نومبر۲۰۰۶ ۹۶ ادا جعفری؍ جمیل الدین عالی؍ امرائو طارق // اپریل۲۰۰۷ ۹۶ // // // // نومبر۲۰۰۷ ۹۶ // // // // اپریل۲۰۰۸ ۹۶ ادا جعفری؍ جمیل الدین عالی مدیر: ممتاز احمد خاں نومبر۲۰۰۸ ۹۶ ئ……ئ……ء اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ محمد شفیع بلوچ، ’’اقبال اور تصوف‘‘ ، پیغام آشنا، اسلام آباد، اپریل-جون۲۰۰۸ئ، ص ۱۰۰-۱۰۹۔ بعض حلقوں میں یہ اظہار خیال کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال تصوف کے مخالف تھے۔ قیامِ یورپ سے واپسی کے بعد انھوں نے عجمی تصوف اور وحدت الوجود پر بڑی تنقید کی اور آخری عمر میں وہ پھر سے تصوف کی طرف مراجعت کرتے نظرآئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ مسخ شدہ تصوف اور صوفیائے خام کے خلاف تھے۔ وہ اس تصوف کے خلاف تھے جس کا خمیر عجمی خیالات و فلسفے کی آمیزش سے تیار کیا گیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اسرار خودی میں اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ اس سلسلے میں جہاں اُن کی مخالفت ہوئی وہاں حمایت میں بھی دانشوروں نے قلم اُٹھایا۔ علامہ شروع ہی سے یونانی، رہبانی یا مسیحی، عجمی اور ہندی تصوف کے خلاف تھے۔ بعد میں انھوں نے حقیقی اسلامی تصوف کو تمام غیر اسلامی رسوم و قیود سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ علامہ اقبال نے صوفیہ کی تصوف میں خدمات کا اعتراف کیا۔ وہ رومی جیسے وحدت الوجودی صوفی کو اپنا روحانی مرشد مانتے تھے۔ حلاج جیسا معتوب صوفی جاوید نامہ میں ایک عاشق صادق کی علامت قرار پایا۔ رومی کو اقبال ہر مفسر اور ہر فقیہ سے افضل سمجھتا ہے خود اس سے فیض اور دوسروں کو اس کی مریدی کی دعوت دیتا ہے۔ علامہ اگرچہ اصطلاحی معنوں میں صوفی یا ولی نہ تھے لیکن ان کے افکار میں صوفیانہ رجحان موجود تھا۔ اقبال نے ذکروفکر، عشق اور ذوق و شوق، جذب و مستی اور حال و کیف جیسی صوفیانہ اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔ خودی علامہ اقبال کے فلسفے کی بنیاد ہے، جو اصل میں عشق کا پرتو ہے اور یہی عشق صوفیہ اور اقبال کی مشترکہ میراث ہے۔ جاوید نامہ سے لے کر ارمغان حجاز تک علامہ نے فقر کی توصیف میں جس قدر لکھا اس کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر غایت انسانی ہے۔ اقبال کہتے ہیں اسلام کو دین فطرت کے طور پر محسوس اور اختیار کرنے کا نام تصوف ہے، اور ایک اخلاص مند مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کی اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر این ماری شمل، ’’ابلیس : اقبال کی شاعری میں‘‘ ، احیائے علوم،لاہور، جولائی۲۰۰۸ئ، ص ۳۲-۳۳۔ اقبال کے کرداروں میں سب سے دلچسپ کردار شیطان یا ابلیس کا ہے۔ شیطان اسلامی روایت میں ہمیشہ ہی سے ایک اہم کردار رہا ہے۔ شیطان کے بارے میں مختلف مسیحی و اسلامی رویوں کا تانابانا کلامِ اقبال میں انتہائی خوبصورتی سے بنا گیا۔ شیطان کے کردار سے دلچسپی اُن کے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے میں بھی نظرآتی ہے لیکن اس کا اہم ترین مظہر جاوید نامہ ہے۔ شیطان سے متعلق اقبال کے یہ تصورات حلاج اور اس کے مشہور شارح روزبہان بقلی (متوفی ۱۲۰۹ئ) سے مستنبط ہیں جن کے ہاں شیطان ایک ایسے عاشق کے روپ میں نظر آتا ہے جو فعال اور متحرک رہنے کے لیے ہجرو فراق کو وصال پر ترجیح دیتا ہے۔ کلامِ اقبال میں شیطان محض عقل پرست یا مادہ پرست یا تقدیر پرست یا آدم دشمن نہیں ہے۔ شیطان ایک ایسی طاقت ہے جس کے خلاف مزاحمت انسان کے ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ہر اعتبار سے شیطان انسان کا ایک ناگزیر رفیق ہے۔ جسے انسان زیر کرکے انسان کامل کے مقامِ عالی پر فائز ہوسکتا ہے اور انسان کامل کا نمونہ ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ ٭٭٭ ڈاکٹر عظمیٰ سلیم، ’’فکر اقبال، نصابِ تعلیم اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ ، اخبار اُردو، اسلام آباد، اگست۲۰۰۸ئ، ص ۸-۱۰۔ آج کے پاکستان کے شہری علامہ اقبال کو قومی شاعر کی حیثیت سے جانتے ضرور ہیں مگرپہچانتے نہیں۔ آج سے ایک نسل قبل اسکول کھلنے کے ساتھ ہی ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ گاتے ہوئے بچے کم ازکم اپنے دن کی ابتدا علامہ اقبال کی نظم کے ساتھ کرتے۔ یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے ہوئے اب اس حد تک آپہنچا کہ قومی ترانے کے الفاظ بھی غائب ہوگئے۔ اور طلبہ محض دھن کی حد تک قومی ترانے سے واقف ہیں۔ دعا سے قطع نظر اقبال کے اشعار سے واقفیت نئی نسل میں افسوسناک حد تک کم ہے۔ نصابِ تعلیم کے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ صوبائی سطح پر نصابِ تعلیم یکساں نہیں، جس کے لیے ضروری ہے اقبال کے فکروفن کو طلبا کی ذہنی سطح کے مطابق نصاب میں تقسیم کیا جائے۔ اقبال کو نئی نسل میں بحیثیت قومی شاعر متعارف کرانے کے لیے کسی ایک متفقہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ انفرادی حیثیات میں کی گئی کوششیں اس قدر مؤثر نہیں ہوسکتیں۔ بحیثیتِ قوم ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ قوم کا ہر بچہ نہ صرف حیاتِ اقبال بلکہ فن و فکر اقبال سے پوری طرح آگاہ ہو۔ تاکہ جس مسلمان قوم کو اقبال خوابِ غفلت سے بیدار کرنا چاہتے تھے اس کی نوجوان نسل آج بھی اسی پیغام سے تازہ دم اور چوکنا اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے باخبر اور ان کی اصل امین ہو۔ ٭٭٭ ڈاکٹر تحسین فراقی، ’’اقبال کے شعر وفلسفہ پررومی کے اثرات‘‘ ، مخزن، لاہور، شمارہ۱۵، ص ۷۸-۸۸۔ اقلیم شعروفکر میں روشن نگری و رجائیت کے دو نہایت پرجوش اور انقلاب آفریں علم بردار رومی اور اقبال کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اقبال کے شعری اور نثری سرمایے کو کلیتہً نگاہ میں رکھا جائے تو ان کے یہاں متعدد فارسی شعرا و ادبا اور مشرقی و مغربی فلاسفہ و ادبا سے ربط فکری کے شواہد ملتے ہیں۔ اقبال کے اُردو اور فارسی کلام میں رومی کا نہایت تسلسل سے ذکر ملتا ہے۔ ان کی پہلی شعری تصنیف اسرار خودی سے آخری شعری مجموعہ ارمغان حجاز تک میں رومی کا تواتر سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ اقبال اور رومی کے یہاں محض اسلوب شعری ہی میں نہیں، موضوعات شعری میں بھی کمال مشابہت نظر آتی ہے۔ دونوں کے تصورِ انسان، تصورِ حیات اور تصورِ عشق نیز ان تصورات کے تحت ذیلی تصورات میں حیرت انگیز مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے دائرے میں بے مثال مفکر شاعر کہے جاسکتے ہیں۔ فکر رومی سے اقبال کی تاثیر پذیری کا ایک ثبوت رومی کے متعدد اشعار کی تضمینات اور رومی کی زمینوں میں کہی گئی غزلیں ہیں۔ نہ صرف شاعری میں بلکہ اقبال نے اپنے اہم ترین نثری کارنامے تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں بھی کئی جگہ رومی کا ذکر کمال شیفتگی سے کیا ہے۔ یورپ اور خصوصاً امریکہ میں رومی کی روز افزوں اور حیرت انگیز مقبولیت کا سبب یہی ہے کہ روحانی طور پر بنجر اور باطنی سطح پر کھوکھلی تہذیب کے فرزندوں کو رومی کی صورت میں ایک ایسا نجات دہندہ مل گیا، جو اُن کے اندر کی تشنگی کو بجھانے کا سروسامان کرسکتا ہے۔ اور ان کے باطن میں آتش کی چنگاری روشن کرسکتا ہے کہ یہی کام روشن ضمیر لوگ تہذیبوں کے بجھتے چراغوں کو سہارا دینے کے لیے ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔ ٭٭٭ عظمیٰ عزیز خان، ’’مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق- تعارف و اہمیت‘‘ ، قومی زبان، کراچی، نومبر۲۰۰۸ئ، ص ۲۱-۲۷۔ مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کا شمار بجا طور پر اقبال کی اہم ترین مثنویوں میں ہوتا ہے۔ یہ وہ مثنوی ہے جس میں اقبال کی فکریات کا اختصار اور جامعیت کے ساتھ بھرپور اظہار اور ابلاغ ہوا ہے۔ اس مثنوی کا سبب تالیف اقبال کا وہ خواب ہے جو انھوں نے ۱۳؍اپریل ۱۹۳۶ء کو بھوپال میں دیکھا جہاں وہ علاج کی غرض سے گئے تھے۔ اس خواب میں ان کی ملاقات سرسید احمد خاں سے ہوئی جنھوں نے اقبال سے کہا کہ وہ بارگاہِ رسالت میں اپنی بیماری کا ماجرا پیش کرکے استغاثہ کریں۔ اقبال خواب سے بیدار ہوئے تو یہ شعر ان کی زبان پر جاری تھا: با پرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز اقبال نے اپنے اس خواب اور مثنوی کا ذکر سر راس مسعود کے نام خط میں بھی کیا۔ مثنوی پس چہ باید کرد کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اقبال کا روئے سخن محض کسی فرد یا ایک قوم کی طرف نہیں بلکہ ان کا خطاب پورے عالم مشرق سے ہے۔ ایسے حساس موضوع کے ابلاغ کے لیے اقبال جیسے صاحب بصیرت مصلح نے بڑا حکیمانہ انداز اپنایا۔ اقبال نے اس مثنوی میں مشرق کو حرکت و عمل اور مبارزت کا درس دیا۔ مشرقی اقوام کو مغرب کے حیلہ و فریب سے خبردار کیا اور استعماری سیاست کا اعلیٰ انسانی اور اسلامی حکومت سے تقابل کیا ہے۔ اس مثنوی میں اقبال نے اقوام مشرق کو حقیقی فقر و درویشی کا راستہ دکھایا۔ یہی مصطفائی فقر انھیں پستی اور زبونی سے نجات دلا سکتا ہے۔ اقبال کو تصوف اور روحانیت سے جو لگائو تھا اس کا اظہار ان کی ہر تحریر سے ہوتا ہے۔پس چہ باید کرد میں بھی عرفان و روحانیت کی ذوق افروز لہریں موجزن ہیں۔ اس طرح وہ اپنی اسلامی ذہنی ساخت کی بنا پر کلام کو آیات و احادیث، اقوال اور ضرب الامثال سے بھی مزین کرتے ہیں اور یہ سارا عمل کامل طور پر فنکارانہ بے ساختگی سے رُو پذیر ہوتا ہے۔ ٭٭٭ سیّد اظفر رضوی، ’’اقبال کا تصورِ اسلام‘‘ ، قومی زبان، کراچی، نومبر۲۰۰۸ئ، ص ۳۷-۴۵۔ علامہ اقبال کے تصورِ اسلام سے عقل و فکر کے تحریکی جذبے اُجاگر ہوتے ہیں جس سے شاعری کی ہستی کا شعلہ دراصل اس کے فن کو بقائے دوام بخش دیتا ہے۔ شعروادب کے بقائے دوم میں کسی بھی فنکار یا تخلیق کار کا شعلہ خُو ہونا، شعلہ رُو ہونا، شعلہ فشاں ہونا یقینا اس کی ہستی کے اضطراب، بے چینی اور بے قراری کا مظہر ہوتا ہے۔ علامہ کی شعری اور نثری تحریریں ان کی علمی کاوشوں کا نچوڑ ہیں۔ وہ خودداری، مساوات، انکسار، وسعتِ نظر، رجائیت اور ضبطِ نفس کا درس دیتے ہیں۔ اقبال کا ’’تصورِ اسلام‘‘ جدید دور کے لیے ایسا دلکش پیغام ہے جس سے ہر عام و خاص رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ اقبال کے تصورِ اسلام کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے کلام کی نورانی کیفیت اور ان کی تقاریر و مضامین کی دانش برہانی کو اپنے فکروخیال میں جگہ دینا ہوگی تاکہ ہم نوعِ انسانی کی بقا کی جنگ میں کامرانی حاصل کرسکیں۔ اقبال ہمیں انسانیت، محبت، یگانگت، عدمِ تشدد، بھائی چارہ اور پُرامن زندگی گزارنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ اور اگر ہم اقبال کے تصور اسلام سے فیض یاب نہیں ہوں گے تو اس کا انجام بھی مزید پریشانیوں اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ ٭٭٭ رابعہ سرفراز، ’’اقبال کے اجتہادی تصورات‘‘ ، قومی زبان، کراچی، نومبر۲۰۰۸ئ، ص ۱۶-۲۰۔ اقبال ایسے دور میں پیدا ہوئے جو مسلمانوں کے انحطاط اور پستی کا دور تھا۔ مایوسی اور بے یقینی کی کیفیات میں گھرے ہوئے مسلمان اسلام کی زندگی بخش تعلیمات سے دور ہوتے جارہے تھے۔ اقوامِ مغرب کی مادی ترقی نے اہل اسلام کو مادیت پرستی کی طرف راغب کر دیا تھا۔ اقبال کے فکری اور ذہنی ارتقا میں ان کے اجتہادی تصورات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے انسانی زندگی کے اہم مسائل کے حوالے سے مختلف پہلوئوں کو دیانت داری، صداقت، مکمل خلوص اور ذہانت کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا۔ ابتدا میں اقبال نے اپنے زمانے کے حالات کے پیش نظر اجتہاد کے مقابلے میں تقلید کو ترجیح دی تھی جو اس دور کی مصلحت آمیز حکمت عملی تھی۔ لیکن بعد میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کیا اور فرمایا کہ اگرچہ قومی شیرازہ بندی کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی بھی قوم کی زندگی کا دارومدار مادیت یا مصنوعی شیرازہ پر نہیں ہوتا بلکہ اس سلسلے میں افراد کی ذہنی اور جسمانی نشوونما بہت اہم ہے۔ اقبال اجتہاد کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو اجتہاد کی طرف توجہ دینی چاہیے ورنہ قرآن کی تعلیمات ہمارے زمانے کے لیے بے کار ثابت ہوں گی۔ اقبال کی رائے میں جو شخص قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے جو رس پروڈنس یعنی اُصولِ فقہ پر تنقیدی نگاہ ڈال کر قرآنی احکام کی ابدیت کو ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہوگا، بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم ہوگا۔ موجودہ حالات میں اگر اجتہاد کا کام افراد کی بجائے مجالس کے سپرد کردیا جائے تو یقینا ہمارے قانون کے ارتقا کا باعث ہوگا۔ کسی قانون کے کتاب وسنت کے موافق یا مخالف ہونے کے فیصلے کے بارے میں اقبال کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں جب مسلمان ممبران مجالس اسلامی قوانین سے مکمل طور پر واقف نہیں ہیں، اس اہم سوال کا جواب ان ممبران پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کا صحیح حل یہی ہے کہ موجودہ قانونی تعلیم کی اصلاح کی جائے اور اسے زمانۂ حال کی روح سے تطبیق دی جائے۔ لیکن ابتداً یہی ہے کہ اس قسم کے تمام فیصلے عدالت عالیہ کے سپرد کر دیے جائیں۔ اسلامی فقہ کی حرکت پذیری، اسلام کی آفاقی تعلیمات اور اسلامی آئین کے چار اہم اور بنیادی ماخذوں کے ذکر اور مذہب اور فلسفے کے تقابلی جائزہ میں مذہب کو فلسفہ پر ترجیح دیتے ہوئے اقبال نے اپنے اجتہادی تصورات پر مکمل روشنی ڈالی ہے اور مدلل انداز میں اسلام کی تشکیل جدید کا تصور پیش کیا ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’اقبال کی تلمیحی علامات‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر۲۰۰۸ئ، ص ۵۔ علاماتِ اقبال کا ایک اختصاصی پہلو تاریخی تلمیحوں کو علامتی رنگ و آہنگ سے ہم کنار کرکے انھیں حسن و معنویت عطا کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اپنے مطمح نظر کی ترسیل کرتے ہوئے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں اور جو تاریخی کردار یا واقعہ انھیں اس ضمن میں قریب تر محسوس ہوتا ہے اسے کمال درجے کی مہارت سے علامتی پیکر میں ڈھال دیتے ہیں۔ خصوصاً قرآنی تلمیحوں کی علامتی حیثیت قابل تحسین ہے۔ کلامِ اقبال میں تلمیحی علامتیں عہدحاضر کے مسلمانوں کی قوتِ عمل کو مہمیز کرتی نظرآتی ہیں۔ قرآنی تلمیحات پر مبنی علامتوں ہی کے ذیل میں ابلیس کی علامتی معنویت کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ کلامِ اقبال میں یہ تلمیح زیادہ تر شعری کردار کی حیثیت رکھتی ہے تاہم اس کے رمزی ابعاد بھی لائق اعتنا ہیں۔ شعراقبال میں تلمیحی علائم و رموز میں بعض مقامات پر دنیائے علم و فلسفہ کی مؤقر شخصیات کو بطور علامت پیش کرنے کا رجحان بھی ملتا ہے۔ خاص طور پر ایسی علمی و فلسفیانہ شخصیات کو وجدان اور عشق کے نمایندہ اشخاص مثلاً حضرت بلالؓ، جنید بغدادی، عطار اور رومی وغیرہ کے ساتھ لاکر بڑے مؤثر طور پر نمایاں کیا گیا۔ اقبال فارابی، بوعلی سینا، رازی اور غزالی جیسے مسلم فلاسفہ کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ فنی و ادبی تاریخ کی تلمیحوں میں بہزاد، خضر، آبِ حیات، لیلیٰ مجنوں اور سعدیٰ بلخی خاص طور پر نئی معنوی تعبیرات لیے ہوئے ہیں۔ شعر اقبال میں تلمیحی علامات کے یہ متنوع اَبعاد اس حقیقت سے باخبر کراتے ہیں کہ علامہ کے علامتی نظام میں تلمیحیں خواہ قرآنی ہوں یا اسلامی و غیراسلامی، علمی وفلسفیانہ ہوں یا فنی و ادبی تمام صورتوں میں ترسیل مطلب مقدم ہے۔ علامہ کے تلمیحی علائم و رموز اس لحاظ سے بھی لائق ستایش ہیں کہ آفاقی خصائص کے حامل ہونے کے سبب ان کا اطلاق بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی اور مذہبی منظرنامے پر بآسانی کیا جاسکتا ہے، جو یقینا نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔ ٭٭٭ ظفر حجازی، ’’فکر اقبال کا ماخذ، قرآن مجید‘‘ ، افکار معلم، دسمبر، ۲۰۰۸ئ، ص ۱۷-۲۹۔ قرآن مجید نے بنی نوع انسان کو علم کا وہ راستہ دکھایا جس پر چل کر مسلمانوں نے علوم وفنون میں حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے۔ یہ علمی سرگرمیاں، تحقیق و تفتیش کی لگن اور علوم وفنون کی گہرائیوں تک پہنچنے کا ذوق قرآن مجید کی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔ قرآن مجید نے جہاں مسلمانوں کو مظاہر فطرت پر غوروخوض کی تعلیم دی وہاں اقوام و ملل کے عروج و زوال اور اجتماعی حیات و ممات کی حقیقتوں تک پہنچایا۔ قرآن مجید کا علم و فکر سے کام لینے کا مطالبہ ہر انسان سے ہے اور ہرچند خاص لوگوں ہی کاکام نہیں بلکہ یہ ایک رویہ ہے زندگی بسر کرنے کا جس کا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک بنی نوع انسان کی پوری تاریخ قرآنی حقائق و معارف کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ قرآن سے زیادہ کسی اور ارضی و سماوی کتاب نے انسان کو اس بلند مقام پر نہیں پہنچایا جس کی قرآن نے اطلاع دی۔ انسانی خودی کا حقیقی عرفان قرآن سے پہلے ہمیں نظر نہیں آتا۔ اقبال کے نزدیک ایک مسلمان کے لیے قرآنی تعلیمات پر عمل کیے بغیر مسلمان رہنا ممکن نہیں۔ اس کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، مسلمانوں کے لیے قرآن کو نظرانداز کرنا تقاضائے ایمان کے منافی ہے۔ مسلمانوں کا سیاسی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی، تجارتی اور عدالتی نظام قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔ قرآن کی تعلیمات ہی مسلمانوں کو اجتہاد کی اجازت دیتی ہیں۔ قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے اس کی تعلیمات قدیم اور لازوال ہیں جن لوگوں نے قرآن مجید کی تعلیمات کو قبول کیا اور اسے اپنی زندگی کا مرکز و محور بنایا وہ دنیا میں سرفراز ہوئے۔ اقبال اپنے عمر بھر کے غوروفکر اور علومِ اسلامیہ پر تدبر وتفکر کا حاصل، قرآن مجید سے متعلق تشریح و تفسیر کی صورت میں قلم بند کرنا چاہتے تھے، انھوں نے زندگی بھر قرآن، علومِ دینیہ اور مسلمانوں کے فکری اثاثے پر غوروفکر کیا۔ان کا اُردو اور فارسی کلام اور تقاریر و خطبات (انگریزی) اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ان کے فکری منابع میں قرآن مجید کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ٭٭٭ عبدالمحی، ’’اقبال کا تصورِ تعلیم: چند اساسی نکات ‘‘ ، کتاب نما، نئی دہلی، نومبر۲۰۰۸ئ، ص ۳۹-۴۶۔ بنیادی طور پر اقبال کے نزدیک علم کا مقصد فرد کی ذہنی اور فکری تربیت ہے۔ وہ علم جو فرد میں احترامِ آدمیت اور مقامِ آدمیت کا شعور بیدار کرے اور وہ اِنی جاعل کے مصداق ہوسکے معاشرے کے لیے رحمت بن جائے۔ ہمیں نہ صرف ظاہری اشیا کا علم حاصل کرنا چاہیے بلکہ اپنے وجود اور اپنی خودی کا عرفان حاصل کرنا بھی اشد ضروری ہے، کیونکہ خودی کے عرفان کے بغیر آفاق کا مطالعہ نامکمل رہے گا۔ ایسا قطعی نہیں کہ اقبال صرف روحانی تربیت کے حامی ہیں اور حصول معاش یا دنیوی زندگی کے منکر ہیں بلکہ اقبال روحانی اور مادی زندگی میں مطابقت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جدید علوم اور صنعتی ترقی کی حمایت کرتے ہیں۔ اقبال ایسے نظامِ تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں جس میں عورت کے منصب امومت کا احترام نہیں۔ مرگ امومت کو اقبال حضرتِ انسان کی موت قرار دیتے ہیں۔ اقبال کے ذہن میں ایک ایسی یونی ورسٹی کا خاکہ موجود تھا جہاں لڑکیوں کو ان کے فطری تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جائے۔ اقبال نے علم وتعلیم کے میدان میں عملی اقدام بھی اُٹھائے۔ اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج میں تدریس بھی کی۔ لندن یونی ورسٹی میں چھے ماہ تک عربی کا درس بھی دیا۔ میٹرک سطح کی کچھ درسی کتابوں کی تدوین بھی کی۔ اور ایک یونی ورسٹی کے قیام کا ارادہ بھی اقبال کے ذہن میں تھا، لیکن زندگی اور وسائل کی بے وفائی کے باعث ان کا یہ منصوبہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔جو لوگ بھی اقبال سے دلی لگائو رکھتے ہیں ان کے افکار و نظریات کے معتقد ہیں انھیں چاہیے کہ اقبال کے اس منصوبے کا احترام کریں اور اس کے مطابق ایک ادارہ قائم کرنے کی سعی کریں۔ اقبال کے لیے اس سے زیادہ مخلص اور بامقصد خراج عقیدت اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ٭٭٭ حامد کاشمیری، ’’اقبال کا ایک گم نام نقاد: احمد دین ‘‘ ، کتاب نما، نئی دہلی، نومبر ۲۰۰۸ئ، ص ۵-۱۰۔ علامہ اقبال کی وفات کے بعد ان کی حیات، شخصیت، عقائد و نظریات اور کلام پر سیکڑوں تنقیدی کتابیں اور مقالے لکھے گئے۔ ایک ضخیم اور وقیع تنقیدی کتاب بعنوان اقبال ان کے ایک معاصر نقاد مولوی احمد دین نے ان کے جیتے جی شائع کی۔ احمد دین کے علامہ اقبال سے تعلق خاطر کے چند در چند اسباب تھے جن کا ذکر مشفق خواجہ اور دیگر محققین مثلاً عبداللہ قریشی، حکیم احمد شجاع اور احمددین کے بیٹے خواجہ اعجاز نے کیا۔ اقبال اور احمد دین کشمیری الاصل تھے۔ دونوں انجمن کشمیری مسلمانان کے سرگرم رکن تھے۔ دونوں وکالت سے وابستہ تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقبال بعض قانونی معاملات میں احمد دین سے مشورہ کرتے تھے۔ احمد دین کی متعدد تصانیف اور ادبی مشاغل ان کے ایک پختہ کار ادیب ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ نیز اقبال سے وابستگی اور ان کی شاعری اور عقائد کے لیے جذبہ احترام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کلامِ اقبال سے گہرے طور پر متاثر تھے۔ چنانچہ انھوں نے اقبال کے کلام جو وہ نجی صحبتوں میں علامہ سے سنتے تھے یا ادبی محفلوں اور مشاعروں میں سنتے تھے یا جو مختلف رسائل میں شائع ہوتا تھا، کو مرتب کرکے اور اس پر ایک گہری تنقیدی نظر ڈال کر ۱۹۲۳ء میں کتابی صورت میں شائع کیا۔ اتفاق سے یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال اپنے پہلے مجموعہ کلام کی طباعت پر غور کررہے تھے اسی دوران احمد دین کی کتاب ان کی نظر سے گزری۔ انھوں نے احمد دین کی توقعات کے خلاف کتاب کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور وجہ یہ بتائی کہ احمد دین نے لگ بھگ وہ سارا کلام جمع کر دیا ہے جو وہ خود بانگ درا کے لیے منتخب کررہے تھے۔ اقبال نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ احمد دین کی کتاب بانگ درا کو متاثر کر سکتی ہے۔ احمد دین نے اقبال کے اس فوری ردعمل سے واقف ہوتے ہی فی الفور اپنی کتاب کی ساری جلدیں اپنے صحن میں نذرِ آتش کردیں۔ یہ واقعہ احمد دین کے دل میں اقبال کی قدردانی اور عقیدت کا غماز ہے۔ اتفاق سے اس کتاب کی ایک دو جلدیں آگ میں ضائع ہونے سے بچ نکلی تھیں۔ ۱۹۲۶ء میں احمد دین نے علامہ کی تحریک پر ۱۹۲۳ کی مطبوعہ کتاب میں ترمیم و تبدیلی اور حک و اضافہ کے ساتھ طبع کرایا اور تنقیدی نظر سے اقبال شناسی میں اولیت کا درجہ حاصل کیا۔ احمد دین کی کتاب کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہوتی ہے کیونکہ اقبال کی وفات کے بعد بیشتر نقادوں نے اپنے اپنے پیرایہ بیان میں انھی سوانحی حالات اور شعری محاسن کا ذکر کیا ہے جو احمد دین نے نشان زد کیے ہیں۔ احمد دین نے اقبال کے کلام کا جائزہ ان کے سماجی اور تاریخی پس منظر میں لیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح عبدالحق نے بعض شعرا مثلاً میر تقی میر کا جائزہ لیا ہے۔ ظاہر ہے احمد دین نے مسلمہ تنقیدی عمل سے کام لیا ہے، اس لیے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اقبال شناسی کے تاریخی سفر میں احمد دین کی کتاب کو ایک اہم اور بلند درجہ حاصل ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’شاہین… اقبال کی ایک کلیدی علامت ‘‘ ، اُردو نامہ، لاہور،ص ۱۱۳-۱۲۱۔ شاہین اقبال کی محبوب علامت ہے جسے وہ باز، عقاب اور شہباز کے ناموں سے بھی ظاہر کرتے ہیں۔ شعر اقبال میں یہ رمز انسان کامل کے لیے موزوں ہوئی ہے اور علامہ نے اس پرندے کے اوصافِ عالیہ کی وساطت سے اپنے اس مرکزی تصور کی توضیح و تصریح کا فریضہ احسن طور پر انجام دیا ہے۔ شاہین کی علامت کے ضمن میں اقبال کے ہاں مختلف اَبعاد ملتے ہیں۔ اولاً تو یہاں اس بے مثل پرندے کے ان اوصاف سے آگاہی ہوتی ہے جو اس کا امتیازِ خاص ہیں۔ ثانیاً اقبال اسے افراد ملت خصوصاً نژاد نو کی نمایندگی کے لیے برتتے ہیں اور ثالثاً کرگس یا گدھ جیسے طاقتور اور قمری کبک اور کبوتر وغیرہ کی قبیل کے کمزور پرندوں کے ساتھ اس کا تذکرہ کرکے تضاد و تقابل کی فضا تشکیل دیتے ہیں۔ جس سے ان کا مقصد شاہین کی رمزی معنویت اُجاگر کرنا ہے۔ شاہین کی رمزی شان ان کے کلام میں عقابی روح کی تشکیل پر منتج ہوئی ہے۔ اقبال نے شاہین کی علامتی معنویت اُجاگر کرنے کے لیے مذکور کمتر درجے کے پرندوں کی متعین خصوصیات سے حیرت انگیز کام لیا ہے۔ وہ بلبل اور شاہین کا تقابل کرکے اس میں شاہین کی اَدا دیکھنا چاہتے ہیں اور کنجشک یا عصفور کو کمتری کے علائم قرار دے کر عقاب کی ان پر برتری ثابت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تیتر یادراج اس لیے لائق مذمت ہے کہ وہ شاہین کے برعکس فطرت کے اشارات سمجھنے سے قاصر ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ مرگِ مفاجات سے دوچار ہوتا ہے۔ دراصل اقبال سمجھتے ہیں کہ اگر نفس ’’سینہ دراج‘‘ پُر سوز ہوتو معرکہ باز ہرگز مشکل نہیں ہے۔ اقبال کی شاہین کی علامت ایک آفاقی تقویت کی علامت ہے۔ شاہین سامراج کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے جو تیسری دنیا کے اقوام میں یقین محکم اور آزادی و حریت کے عمل پیہم کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ نئے عالمی تناظر میں شاہین کی علامت تیسری دنیا کی حریت پسندی کی علامت ہے۔ اس لیے شاہین کی علامت میں ان کو وہ خودداری، قلندری اور غیرت مندی نظر آئی جو انسان کی ہمت مردانہ کو اس بلندی پر پہنچا سکتی ہے، جو ستاروں سے آگے والے جہان سے تارے بھی توڑ کر لانا ممکن بنا سکتا ہو۔ یہ علامت اقبال کی شاعری کا مزاج بن گئی اور اسے کردار کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ٭٭٭ ظفر حجازی، ’’عصر حاضر کا علم اور تہذیب و ثقافت اقبال کی نظر میں ‘‘ ، افکار معلم، لاہور، نومبر۲۰۰۸ئ، ص ۲۵-۳۲۔ علامہ اقبال نے اگرچہ علم کو قدیم و جدید کے خانوں میں تقسیم کرنے کو غلط قرار دیا ہے تاہم انھوں نے جدید علوم و فنون کی تباہ کاریوں اور اس کے انسانی ترقی پر مہلک اثرات کا بہ بانگ دہل اظہار کیا۔ مغربی تہذیب و ثقافت اور مغربی افکار کی عملی صورت سے بنی نوع انسان کو پہنچنے والے نقصان کا بغور مشاہدہ کیا۔ مغربی علوم نے انسان کو جس ذہنیت کا مالک بنایا ہے اس کے مظاہر مغربی قوموں کی فتوحات اور نوآبادیاتی نظام کے تحت ان پسماندہ ممالک کی سیاسی، معاشی، تہذیبی حالت میں دیکھے جاسکتے ہیں کہ یہ بے دین نظامِ فکر دنیا کے جس خطے میں بھی پہنچا وہاں دین و اخلاقیات کی اعلیٰ اقدار ختم ہوگئیں۔ مغرب نے عقل و دانش کی بنیاد پر حقیقت تک رسائی کی کوشش میں خود ساختہ نظریات و افکار کی بنیاد پر جو علوم پیدا کیے اور ان علوم نے جو ذہنیت پیدا کی اس نے انسانیت کو اصل جوہر سے محروم کر دیا ہے۔ آج دنیا بھر میں سیاست، معیشت، تعلیم، عدالتی، تہـذیبی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار میں اسی لادینیت کا زہرکار فرما نظر آتا ہے۔ قیامِ یورپ کے دوران ہی میں اقبال کو علم حاضر کی تباہ کاریوں سے واسطہ پڑا۔ مغربی فکر اور مغربی علوم کی لادینیت پر علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں جابجا تنقید کی ہے۔ اب یہ مسلمان اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ اس کے لیے وحی کے یقین افروز علم کی ضرورت ہے۔ اقبال اسی علم کی روشنی کو دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ مغرب اپنے قائدانہ کردار میں ناکام ہوگیا ہے۔ وہ بنی نوع انسان کو سکون و اطمینان اور اس کے مسائل کا حل نہیں دے سکا۔ اب یہ کام ملت اسلامیہ کا ہے۔ اقبال ملت اسلامیہ کو ان اوصاف کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں جو دنیا کی امامت کے لیے ضروری ہے۔ ٭٭٭ خیال آفاقی، ’’کلامِ اقبال کی شعری لفظیات- تشبیہ و استعارہ کا جہان معانی ‘‘ ، الاقربا، اسلام آباد، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۸ئ، ص ۹۲-۱۰۰۔ اقبال نے اُردو میں جس قدر شاعری کی ہے وہ اپنے موضوع کے اعتبار سے متنوع ہے اور اپنی ڈکشن کے لحاظ سے بھی منفرد ہے۔ اقبال کی شاعری میں استعمال ہونے والی تراکیب اقبال کی اپنی اختراع ہیں۔ یہی دعویٰ ان استعاروں کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے جو اقبالیات کی شناخت اور کلامِ اقبال کی روح ہیں۔ جلوہ، کلیم، طور سینا، تجلی اور چشم بینا یہ سارے الفا ظ علامت ہیں اس بات کی کہ اقبال کے لاشعور میں شاعری کے حوالے سے مستقبل کا نقشہ ہی اور تھا جیسا کہ بعد میں انھوں نے بحیثیت شاعر اسلام پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اقبال خارج سے بھی زیادہ باطن کے مصور ہیں۔ وہ اپنے اندرونی ماحول اور فضا کی تصویریں بنانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ تمام نظمیں خوبصورت تراکیب اور حسین استعاروں سے مزین ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے شاعر کے اندر حسن اور ذوقِ جمالیات کے چشمے زمزمہ خوانی کررہے ہیں۔ اقبال نے ملت اسلامیہ کو جو کچھ دیا وہ عشق رسولؐ کی عطا تھی اور یہ فیضان رسول عربیؐ ہی تو ہے کہ اقبال نے اپنی فکرحجازی کے ذریعے جہاں دلِ مسلم کو ایک ولولۂ تازہ بخشا و ہیں عشق رسولؐ کو ایک نئے اُسلوب اور نئے عنوان کے ساتھ امت میں متعارف کرایا۔ وہ نیا عنوان کیا ہے؟ ’’وفائے محمدؐ‘‘جس کو اقبال نے رب اکبر کی طرف سے اعلان کی صورت بیان کیا ہے۔ ٭٭٭ نغمہ زیدی، ’’اقبال کا فلسفۂ بے خودی ‘‘ ، الاقربا، اسلام آباد، اکتوبر تادسمبر۲۰۰۸ئ، ص ۷-۹۔ علامہ محمد اقبال نے جہاں اپنے عالمگیر فلسفۂ خودی کو موضوعِ کلام بنایا وہاں اس فلسفے کی تکمیل رموز بے خودیلکھ کر کی کیونکہ صرف انفرادیت ہی انسانیت کا منتہائے کمال اور آخری نصب العین نہیں بلکہ تشکیل انفرادیت دراصل تمہید ہے تعمیر اجتماعیت کی۔ اسرار و رموز میں انفرادیت کو خودی سے اور اجتماعیت کو بے خودی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ دونوں مثنویاں ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ اسرار خودی میں جہاں افراد کے لیے خودی اور خودداری ذریعۂ استواری ہے، وہیں افراد کااپنی ہستی، اور اپنی انفرادی زندگی کے جزو کو قومی زندگی کے کل میں شامل کردینا قومی ترقی کے لیے لازم ہے اور اسی کو بے خودی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اقبال کا نصب العین یہ تھا کہ افراد اور قوم کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کرکے ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید کی جائے۔ اور انسانیت کی تکمیل کا معیار کسی خاص ملت کو بنایا جائے۔ رموز بے خودی میں اقبال نے ’’ارکان اساسی ملیۂ اسلامیہ‘‘ کے عنوان کے تحت توحید، رسالت اور اخوت جیسے موضوعات کی تشریح کی ہے۔ کلمہ توحید ہی ملت بیضا کے تن کی جان ہے۔ رسالت کی بدولت لاتعداد انسان ہم نوا اور ہم مدعا ہوجاتے ہیں۔ اسلامی اخوت کی بنا پر قوموں کو عروج حاصل ہے۔ چنانچہ رموز بے خودی میں ’’در معنی این کہ مقصود رسالت محمدیہؐ تشکیل و تاسیس حریت و مساوات بنی نوع آدم است‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال نے تمام نوع انسانی کے لیے آزادی اور برابری کا پیغام دیا ہے۔ ٭٭٭ محمد منیر، ’’علامہ اقبال، اکیسویں صدی کا شاعر فلاسفر ‘‘ ، اخبار اُردو، اسلام آباد، دسمبر۲۰۰۸ئ، ص ۲-۱۰۔ علامہ اقبال سے پہلے اردو شاعری میں شاعر فلاسفر کا ذکر نہیں ملتا۔ اگرچہ فلسفہ کا علم نہایت اہمیت کا حامل ہے مگر لوگ عام طور پر اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ فلسفی لوگوں کو معاشرے سے الگ تھلگ کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کے فلسفہ پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس مروجہ سوچ کی وضاحت کی جائے کہ علامہ اقبال کے اکثر خیالات مغربی فلاسفر خاص طور پر ہنری برگساں اور فریڈرک نیٹشے سے ماخوذ ہیں۔ اقبال کا اندازِ فکر نیٹشے سے ماخوذ نہیں، چند ابتدائی مماثلتوں سے قطع نظر اقبال کا فلسفہ نیٹشے سے بہت آگے ہے۔ اقبال کا فلسفہ رہنمائی کا فلسفہ ہے جو آج بھی اپنی تب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ جبکہ نیٹشے کے تصورات آج کے دور میں خاصے مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔ انھی خیالات کی بنیاد پر علامہ اقبال نے نیٹشے کو مجذوب فرنگی کہا ہے۔ برگساں کے فلسفے میں چار چیزیں بہت اہم ہیں: ۱-تخلیقی ارتقا ۲-جوش حیات ۳-وجدان ۴-زمان۔ اقبال بھی جوش حیات کے قائل ہیں۔ انسانی زندگی میں تغیر و تبدیلی جو ایک ارتقا کی علامت ہے اس کو مانتے ہیں۔ لیکن اقبال کے ارتقائی سفر میں ایک خاص مقصد ہے اور پھر منتہائے مقصد ہے جو کہ انسانیت کی تکمیل ہے۔ نیٹشے اور برگساں کے خیالات کی جھلک علامہ اقبال کی شاعری میں بھی ملتی ہے۔ نیٹشے تو علامہ اقبال سے پہلے کا فلاسفر ہے برگساں اقبال کا ہم عصر ہے۔ مگر اقبال کا اندازِ فکر ان دونوں فلاسفروں سے بہت آگے ہے، اقبال کا بطور فلاسفر شہرت کا آغاز ان کی مثنوی اسرار خودی سے ہوتا ہے۔ جس میں انھو ں نے خودی کے تین مراحل (۱)دستور الٰہیہ کی اطاعت (۲)ضبط نفس اور (۳)نیابت الٰہی بیان کیے۔ اقبال کا فلسفہ ارتقائی عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پہلے مرحلے میں خودی کی پہچان سے ترقی کے سفر کا آغاز، دوسرے مرحلے میں خودی کی پہچان سے جوش آرزو اور جستجو،تیسرے مرحلے میں یہ آرزو و جستجو زندگی میں ہیجان برپا کردیتی ہے، چوتھے مرحلے میں جب انسان تین حالتوں سے گزر جاتا ہے تو کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور پانچویں مرحلے میں عقل کی حکومت کے بعد عشق کی حکومت ہے یہ انسانی ترقی کی انتہائی حالت ہے۔ اس میں احترامِ آدمیت اور عظمتِ انسانیت ہے۔ یہی فلسفہ ہے جو انسانی زندگی کی رہنمائی کرتا ہے اور یہی بیانات ہیں جو ایک شاعر کو انسانی زندگی کا شاعر فلاسفر بنا دیتے ہیں۔ ٭٭٭ طاہر حمید تنولی، ’’علامہ اقبال کا تصورِ زمان و مکان ‘‘ ، پیغام آشنا، اسلام آباد، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۸ئ، ص ۱۲۵-۱۳۳۔ اشیا اور واقعات کے فہم کے لیے زمان و مکان بنیادی شرائط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہر دور کے اہلِ علم و فکر نے حقیقت زمان و مکان کو سمجھنے کے لیے غوروفکر کیا۔ تاہم واقعات و اشیا کی معرفت کو پانے کے لیے زمان و مکان کے اساس ہونے کے باعث اس کی کئی جہات ضرور غوروفکر کے نتیجے میں منکشف ہوئیں۔ جدید نظریات جن میں اہم سٹرنگ تھیوری ہے نے دس سے پچیس تک جہات تجویز کی ہیں۔ اس طرح اہم تھیوری نے کائنات کی تعبیر کے لیے گیارہ جہات بیان کی ہیں۔ جن میں دس کا تعلق مکان اور ایک کا تعلق زمان سے ہے۔ تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ چار سے زیادہ جہات کی موجودگی کا اطلاق صرف ذیلی اجسام کی دنیا میں ہی ہوسکتا ہے۔ زمان و مکان کا فہم بدلنے سے کائنات کے بارے میں تصور، نقطۂ نظر اور ماہیت فہم میں تبدیلی وقوع پذیر ہونے کے باعث زمان و مکان کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اقبال کے نزدیک زمان و مکان کا تعلق حیات کے ساتھ بڑا قریبی اور گہرا ہے اور جب تک اس تعلق کو نہ سمجھا جائے اس وقت تک زندگی کی حقیقت آشکار نہیں ہوسکتی۔ اقبال کے تصور زماں کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں: ۱- وجود حقیقی یعنی ذاتِ باری تعالیٰ کے مقابل زمان کی حیثیت نیستی کی ہے۔ ابعاد ثلاثہ اعراض ہیں اور اعراض اپنے وجود کے لیے کسی جوہر کے محتاج ہوتے ہیں۔ جوہر قائم بالذات، واجب لذاتہٖ، موجود بوجہ ذاتی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے نہیں۔ ۲- زمان کا دوسرا مفہوم جسے اقبال نے زمان مسلسل کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے جسے عرف عام میں ماضی، حال اور مستقبل کہتے ہیں، اقبال کی رائے میں غیرحقیقی ہے اور اس کا تعلق ہماری خودی کے اس پہلو سے ہے جسے اقبال نے فعال خودی سے تعبیر کیا ہے۔ ۳-زمان کا تیسرا مفہوم وہ ہے جسے اقبال حقیقی زمان سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا تعلق ہماری قدر آفریں خودی کے ساتھ ہے۔ یہ وہ زمان ہے جو ہمارے انفس میں پوشیدہ ہے یہی دورانِ خالص ہے۔ اقبال کے تصورِ زمان کا خلاصہ یوں ہوگا: زمانِ خالص یا حقیقی زمان جس کا احساس ہمیں اپنے شعوری تجربات کے تجزیے سے ہوتا ہے آفات کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نامیاتی کل ہے جس میں ماضی حال سے منقطع نہیں ہوتا۔ اسی زمان خالص کو قرآن حکیم نے تقدیر سے تعبیر کیا ہے۔ تخلیق پر مبنی حرکت کا مظاہرہ زمان و مکان میں ہی ہوتا ہے۔ علامہ نے زمان کو مکان سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ وہ زمان کو مکان کا ذہن کہتے ہیں۔ اقبال اپنے تصور زمان کو شعر اور فلسفے سے گزارتے ہوئے اس اعلیٰ تصرف کے دائرے میں لے آتے ہیں جہاں خبرکی بجائے نظر، آثارِ قلم کی بجائے آثارِ قدم اور عقل محض کی بجائے ذوق و وجدان ہی رہنما اور ممدو معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، ’’اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح ‘‘ ، الاقربا، اکتوبر تا دسمبر۲۰۰۸ئ، ص ۷۰-۹۱۔ اسلامی ثقافت کے مظاہر انسان کو کائنات کی مرکزی اکائی بنا کر اعتماد کی بے پناہ دولت سے مالامال کرتے ہوئے لاانتہا امکانات سے روشناس کراتے ہیں۔ اسلامی ثقافت کے ان داخلی محرکات کے مطالعہ کا ہمارا ماخذ اقبال کے مجموعۂ خطبات تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں شامل پانچواں خطبہ ’اسلامی ثقافت کی روح‘ ہے۔ اقبال نے اس خطبے میں اسلامی ثقافت پر اثرانداز ہونے اور اس کی سمت متعین کرنے والے حسب ذیل محرکات پر بحث کی ہے: ۱- شعورِ نبوت، ۲-عقیدہ ختم نبوت، ۳-سرچشمہ علم و حکمت، ۴-یونانیت کی تردید، ۵-قرآن حکیم کا تصورِ تاریخ۔ شعور نبوت میں اقبال نبی کی روحانی واردات اور ولی کی روحانی واردات کی ہیئت اور نتائج سے بحث کرتے ہوئے دونوں میں فرق واضح کرتے ہیں۔ عقیدۂ ختم نبوت کے دو نمایاں پہلو ہیں: اول یہ کہ اب انسان کو ہدایت کے لیے غیبی سرچشمے سے رہنمائی کی ضرورت نہیں، اب اسے اپنے شعورِ ذات کی تکمیل کے لیے اپنے وسائل سے کام لینا ہوگا۔ جس کے لیے باطنی مشاہدہ، مطالعہ فطرت اور تاریخ بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ دوم یہ کہ اگرچہ باطنی واردات اور روحانی مشاہدات کا تجربہ اب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اب کسی کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ کسی ایسی روحانی واردات کا دعویٰ کرے جس کا انکار کفر ہو۔ لہٰذا اب بھی کسی قسم کی باطنی واردات اور روحانی مشاہداتِ باطن اور ان کی نبوت جیسے مضبوط ادارے کی حیثیت سے تہذیبی قدروقیمت کا جائزہ لینے کے بعد ہم اسلام کے تصورِ علم کی تہذیبی قدروقیمت کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔ یونانیت کی تردید، حیات و کائنات سے متعلق حرکی نظریات، ابن مسکویہ کا تصورِ ارتقا، عراقی کا تصورِ زمان و مکاں اور ان کے اسلامی ثقافت پر اثرات، قرآن حکیم کا تصور تاریخ، ابن خلدون کا نظریہ تاریخ، اشپنگلر کے اسلامی تحریک و تہذیب کے متعلق غلط تصورات۔ یہ وہ چیدہ چیدہ عوامل ہیں جو اسلامی ثقافت میں کارفرما اس حقیقی روح کی ہیئت و حرکت کے ادراک میں ہماری مدد کرتے ہیں جو پیغمبر اسلامؐ کے انسانیت ساز پیغام کی پیدا کردہ ہے۔ اقبال کے نزدیک شعورِ نبوت، سر چشمہ علم و حکمت، یونانیت کی تردید وہ محرکات ہیں جو داخلی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔خطبہ کے آخر میں اقبال مغربی مستشرق اشپنگلر کی اسلام کی مبادیات اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے متعلق ان غلط فہمیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا اظہار اس نے اپنی تصنیف زوال مغرب میں کیا ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ اشپنگلر نہ تو اسلام کی ایک مذہبی تحریک کے طور پر ماہیت کو سمجھ سکا اور نہ اس نے ان عملی سرگرمیوں علیٰ ہذا فکری رویوں کو سمجھنے کی کوشش کی کہ تہذیب و تمدن کی دنیا میں جن کا آغاز اسلام کی بدولت ہوا۔ اشپنگلر کی یہ لاعلمی یا جاہلانہ تعصب مغرب کی عمومی نفسیات کی غمازی کرتا ہے۔ اقبال اس ناواقفیت یا تجاہل عارفانہ کے جملہ نفسی و علمی محرکات سے بحث کرتے ہوئے ان حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں جن کی دانستہ یا نادانستہ عدمِ تفہیم اشپنگلر، علیٰ ہٰذا مغرب کے تعصب یا غلط فہمی کا باعث بنی۔ ٭٭٭ تبصرۂ کتب اقبال کا پہلا خطبہ: علم اور مذہبی تجربہ … تحقیقی وتوضیحی مطالعہ، ڈاکٹر محمد آصف اعوان۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۸ئ، صفحات۲۲۲، قیمت ۔؍۲۵۰ روپے۔ ہماری قومی و ملی زندگی پر اقبال کے ہمہ گیر اثرات نے اقبال شناسی کی ایسی روایت کو جنم دیا جو ہمارے علمی و فکری ورثے کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ اس روایت کے تحت اقبال کے شعری و نثری آثار کی تشریح کی گئی۔ اقبال کے نثری آثار میں ’ـخطباتـ‘ کو اہم ترین مقام حاصل ہے۔ خطبات اپنے منظم انداز بیان، فکری مباحث اور متعین ابلاغ کے باعث اقبالیاتی ادب کا مرکز و محور ہیں۔ خطبات کی تشریح و توضیح کے حوالے سے کئی کتب تصنیف کی گئی ہیں۔ حال میں پہلے خطبے کی تشریح و توضیح پر مشتمل کتاب اقبال کا پہلا خطبہ: علمی و مذہبی تجربہ … تشریحی و توضیحی مطالعہ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا تعلق خطبات کے کلیدی مباحث سے ہے جو قارئین کی اقبال فہمی کو ایک خاص جہت دے سکتی ہے۔ نیز یہ خطبات کے بارے میں کوئی نقطہ نظر قائم کرنے میں بھی ممد ہو سکتی ہے۔ پہلے خطبے کو سہل اور سلیس انداز میں قارئین تک منتقل کرنے کی یہ کاوش قابل تحسین ہے۔ تاہم اس کتاب میں پیش کی گئی تفصیل و توضیح درج ذیل پہلوؤں سے محلِ نظرہے: ا- اکثر تصورات کی توضیح درست موقف سے انحراف پر مبنی ہے۔ ب- بعض مباحث ادھورے اور نامکمل ہیں جس سے قاری التباس کا شکار ہو سکتا ہے۔ ج- بعض مقامات پر اقبال کے اپنے بیان کردہ موقف کے برعکس نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے۔ د- اس خطبے پر اٹھنے والے سوالات کا جواب نہیں دیا گیا۔ ہ- تحقیق کے تقاضوں کے برعکس کئی اہم مقامات پر بنیادی ماخذوں کی بجائے ثانوی ماخذ پر انحصار کیا گیا جس سے غلط نتائج مستنبط ہوتے ہیں۔ ان نکات کی تفصیل یہ ہے: ا- تصورات کی غلط توضیح اس خطبے کا اہم مبحث ’علم‘ ہے، جسے علامہ نے مذہبی تجربے کے ساتھ بیان کیا ہے۔ علم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا گیا ہے: علم دراصل ذہنِ انسانی کی اُس کاوش کا نام ہے جو وہ اپنی ذات اور اپنے اِردگرد پھیلے ہوئے ماحول یا بالفاظِ دیگر مادی کائنات کے بارے میں صحیح صحیح فہم پیدا کرنے کے لیے کرتا ہے۔ (ص: ۱) سوال یہ ہے کہ کیا علم ذہنی کاوش ہے یا ذہنی کاوش کا حاصل۔ نیز کیا یہ تعریف علم کے ان تمام محتویات کو محیط ہے جو اس خطبے کے دوران حضرت علامہ کے پیش نظر تھے۔ اسی طرح مذہب کے بارے میں جہاں علامہ نے مذہب کی ترقی یافتہ صورت کا ذکر کیا ہے، اس کی تشریح کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ جب انسان مذہب کی طرف رُخ کرتے ہوئے فکر ِانسانی کے بعض بنیادی سوالات کا جواب مذہب سے طلب کرتا ہے تو مذہب کا ان سوالات کے حوالے سے جواب فکر ِانسانی میں مذہب کی ترقی یافتہ صورتوں کے ساتھ وابستہ ملتا ہے۔ (ص: ۴) نیز جس قدر انسانی علم و تجربہ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اُسی قدر انسان پر مذہب کے باطنی حقائق منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں اور یوں مذہب فکرِ انسانی پر ’’زیادہ ترقی یافتہ صورت‘‘(More Advanced form) میں نمودار ہوتا ہے۔ (ص: ۴) کیا علامہ کے ہاں مذہب کی ترقی یافتہ صورت سے یہی مراد ہے؟ اگر یہ مفہوم لیا جائے تو مذہب کی ترقی یافتہ صورت تک پہنچے کو مصنف کے بیان کردہ اسباب و وسائل سے وابستہ کر دینے سے جو نتائج برآمد ہوں گے وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں! اسی طرح مصنف کے نزدیک فلسفہ مذہبی ما بعد الطبیعیاتی حقائق کو سمجھنے کا وسیلہ ہے: اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مابعدالطبیعیاتی حقائق عقل و شعور کی حد سے باہر ہیں۔ دراصل مابعدالطبیعیاتی حقائق کی پرکھ فلسفہ کا موضوع ہے۔ فلسفہ وہ نظامِ عقل و خرد اور سلیقہ عطا کرتا ہے کہ جس کے ذریعے مذہبی مابعدالطبیعیاتی حقائق کی ایسی عقلی و شعوری توجیہ فراہم ہوتی ہے جس کی بنا پر مابعدالطبیعیاتی مباحث بھی طبیعیاتی حقائق کی مانند مدرک اور مانوس حقیقتیں بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔(ص: ۱۰) جبکہ اس کے ساتھ ہی مصنف نے مذہبی ما بعد الطبیعیاتی مباحث کو فلسفہ کی ترویج و ترقی کا باعث قرار دیا ہے: گویا دوسرے لفظوں میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ مذہبی مابعدالطبیعیاتی مباحث کا ہی اعجاز ہے کہ یہ انسانی عقل و خرد کو حرکت دیتے ہیں اور سوچ اور فکر کے لیے وجۂ تحریک بنتے ہیں، جس سے علم و حکمت کے نئے دَر وا ہوتے ہیں۔ (ص: ۱۰) حالانکہ مذہب و فلسفہ کی تاریخی آویزش اس کی تصدیق نہیں کرتی بلکہ ہمارے سامنے اس کے برعکس مشاہدات پیش کرتی ہے۔ یہ سارا خلط مبحث شاید پروفیسر وائٹ ہیڈ کے اس قول کے باعث پیدا ہوا ہے:ـ The ages of faith are the ages of rationalism.(p.10) گو اس قول کی شرح میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب کا دور عقلیت کا دور رہا ہے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ rationalism کا دور faith کا دور بھی ہوتا ہے۔ مذہب و فلسفہ کے مباحث کے باہمی تعلق کے بارے میں اس خلط مبحث ہی کا نتیجہ ہے کہ کتاب میں جا بجا اس بارے میں باہم متناقض و متضاد بیانات نظر آتے ہیںمثلاً: چنانچہ اِن مباحث کو عقلی بنیادیں فراہم کرنے کے لیے فلسفیانہ عقلی و شعوری مساعی عمل میں آتی ہے تاکہ مابعدالطبیعیاتی حقائق کو عقل و خرد کے دائرے میں داخل کیا جا سکے۔ اس عمل کو عقلی مابعدالطبیعیات (Rational Metaphysics)کہتے ہیں۔ (ص: ۱۱) نیز فلسفے کا یہی عقلی مابعدالطبیعیاتی عمل ہے جس کی بدولت فلسفہ نہ صرف ہمارے دِینی و دنیوی تجربے کے اضدادی پہلوئوں میں تطبیق پیدا کرتا ہے ،بلکہ اُس ماحول کی بھی توجیہ کرتا ہے جس میں انسانیت اپنے آپ کو موجود پاتی ہے یوں فلسفہ عقیدہ و ایمان کو عقلی رنگ عطا کر کے ایک بہت بڑی خدمت انجام دیتا ہے۔ (ص:۱۱) اب ان بیانات کے برعکس موقف ملاحظہ ہو: امام غزالی کی اِس سعی سے مسائل کے عقلی حل اور معاملات کے منطقی جواز کی پائیدار حیثیت مشکوک ہو کر رہ جاتی ہے اور اِس فکروخیال کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے کہ کسی بھی معاملے میں عقلی اور فلسفیانہ توجیہ کو حتمی حیثیت حاصل نہیں۔ اس طرح امام غزالی نے فلسفہ کے اندر تشکیک کے پہلو کو نمایاں کیا اور فلسفیانہ تشکیک (Philosophical Scepticism) کا ایک ایسا نیا نظریہ پیش کیا جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ فلسفہ کسی بھی صورت تشکیک کے عنصر سے رہائی نہیں پا سکتا۔ فلسفیانہ تشکیک (Philosophical Scepticism) کے اِسی نظریے کو بنیاد بنا کر امام غزالی نے اپنے تصورِ دین کی بنیاد رکھی اور ثابت کیا کہ بنیادی دِینی عقائد کی محض عقلی یا فلسفیانہ بنیاد پر تعمیر کرنا خود بے راہرو ہونے کے مترادف ہے۔ (ص: ۲۱) نیز معتزلہ نے خالصتاً منفی طرزِعمل اختیار کرتے ہوئے مذہب کو محض منطقی تصورات کا ایک نظام بنا کر رکھ دیا اور حقیقت ِمطلق(خدا) تک رسائی کے اُن تمام غیرعقلی طریقوں، تصوف اور وجدان وغیرہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی جن کا تعلق باطنی تجربے سے ہے اور جو صوفیا کے نزدیک عرفانِ ذاتِ حق کے سب سے مؤثر ذرائع ہیں۔ (ص: ۲۷) مزید یہ کہ: اس ماحول کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقل و خرد اور فلسفہ ہی ہر چیز کے حسن و قبح کا معیار بن گیا، یہاں تک کہ دِینی عقائد و نظریات بھی اِس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ ایمان و ایقان سے تعلق رکھنے والے ہر اُس پہلو کو جس کی عقلی لحاظ سے تصدیق ممکن نہ تھی یا تو چھوڑ دیا گیا اور یا پھر اُس کی فلسفیانہ توجیہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح فلسفہ دِینی عقائد و نظریات میں خلل پیدا کرنے کا باعث بن گیا۔(ص: ۲۸) اسی طرح حسی علم کے غیر حتمی ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں: چونکہ اشیا میں ہرلحظہ تبدیلی واقع ہوتی ہے چنانچہ حسی ادراک ان سے متعلق جومعلومات فراہم کرتا ہے اُس میں بھی ہر لمحہ تبدیلی آتی ہے۔ حسی اشیا کے متعلق دو افراد کے علم کا یکساں ہونا تو ایک طرف، کسی ایک فرد کے علم کا بھی ہر لحظہ ایک سا رہنا یقینی نہیں ہوتا، لہٰذا کسی بھی شے کے متعلق حسی علم کو حتمی یا حقیقی علم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (ص: ۱۹) مگر یہاں سوال یہ ہے کہ اشیا میں کیا تبدیلی ہوتی ہے؟ شے تو شے ہی رہتی ہے تبدیلی کے بعد بھی تو وہ شے ہو گی یعنی کوئی اور شے۔ حسی تجربے کی غیر حتمیت کے بارے میں معتزلہ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: دراصل معتزلہ کسی بھی قسم کے حسی تجربے کے نتائج پر اعتماد نہ کرتے تھے، چاہے اِس حسی تجربے کا تعلق خارجی دُنیا سے ہو یا شخصیت کے باطنی پہلو سے۔ (ص: ۲۸) حالانکہ معتزلہ نے کائنات کے متعلق کئی نظریات پیش کیے۔ ان کے نظریہ جواہر کا تذکرہ خود علامہ نے خطبات میں فرمایا۔ سو یہاں ان کے کسی بھی قسم کے حسی تجربے پر اعتماد نہ کرنے کا حوالہ یا مثال آنا چاہیے تھی۔ اس خطبے کی مختلف اصطلاحات کا بیان بھی کئی طرح کے خلط مبحث کا حامل ہے، مثلاً صفحہ ۵۸ پر Ideal اور Real کی بحث اور صفحہ ۶۱ پر موضوع و معروض کے باہمی تعلق کے ریاضیاتی کی بجائے حیاتیاتی ہونے کی بحث۔ دیکھیے: درج بالا جملے میں اقبال نے آئیڈیل(Ideal) اور ری اَل(Real) دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ آئیڈیل کے لفظی معنی ’’مثالی‘‘ کے ہیں اور اِسی طرح ری اَل (Real) کے لفظی معنی ’’حقیقی‘‘ کے ہیں تاہم اقبال نے اِن دونوںالفاظ کو ایک ہی ہستی یعنی ہستیِ باری تعالیٰ کے لیے استعمال کیا ہے۔ دراصل آئیڈیل (Ideal) اور رِی اَل (Real)ہستیِ باری تعالیٰ کی پہچان کے دو پہلو ہیں، چونکہ ہستی کا ایک پہلو اپنی تمام ترکا ملیت کے باوجود محض فکری یا زیادہ سے زیادہ احساساتی نوعیت کا ہے اس لیے اِسے حواس سے پہچانا نہیں جا سکتا، لہٰذا اِسے آئیڈیل (Ideal) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم جب وہی ہستی مادی مظاہر میں جلوہ فرما نظر آئے تو یہ اُس ہستیِ لاشریک کا رِی اَل (Real) یا حقیقی پہلو ہے۔ (ص: ۵۸) علامہ کی اصطلاح نامیاتی کلیت (Organic whole) کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اقبال کہتے ہیں کہ آئیڈیل (Ideal) کی حیات ری اَل(Real)یعنی خارجیت سے ایسے مکمل قطع تعلق پر مشتمل نہیں کہ جس سے حیات کی نامیاتی کلیت (Organic Wholeness)بکھر کر تضادات کا شکار ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ حیات کی نامیاتی کلیت (Organic Wholeness) سے کیا مراد ہے؟ … گویا حیات کی نامیاتی کلیت (Organic Wholeness) سے مراد ایسی کلیت ہے جو کسی شے کے ایک پہلو کی دوسرے پہلو کے ساتھ باہمی ربط سے جنم لیتی ہے۔ ایک تار پر روشن کئی قمقموں کے لیے برقی رو کا تعلق ان کے اور برقی رو کے مابین ایسا نامیاتی ربط ہے جو سب کی حیات کو ایک کلیت کی صورت دے دیتا ہے۔ یہی کلیت ہے جسے قمقموں کے لیے حیات کی نامیاتی کلیت (Organic Wholeness) کا نام دیا جا سکتا ہے۔ (ص: ۵۹۔ ۶۰) اسی طرح مصنف نے دل کی مشاہدہ کی صلاحیت کو بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم کی آیت کو جس طرح بیان کیا ہے وہ اپنے محل سے بالکل ہٹ گئی ہے: اقبال قرآن کو گواہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ دِل نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اِس کی فراہم کردہ معلومات کی اگر صحیح تشریح و توضیح کی جائے تو وہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوتیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰیo اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰیo جو کچھ اُس نے دیکھا یہ دِل کی خیال آرائی نہیں ہے، تو کیا تم اُس سے اِس چیز پر جھگڑتے ہو جس کا وہ مشاہدہ کر رہا ہے۔ (ص: ۹۷) حالانکہ یہ آیت مبارکہ واقعہ معراج کے بارے میں ہے اور قلبی مشاہدہ کا یہ بیان ذات رسالت مآب کی خصوصیت کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے جبکہ آیت کا ترجمہ حقیقت سے ایک عجیب بُعد پیدا کر رہا ہے۔ ب۔ ادھورے اور نامکمل مباحث فلسفہ و مذہب کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: چنانچہ فلسفہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا کہ وہ فکری و نظری تالیف اور ترکیب میں مذہب کو اساسی اور مرکزی حیثیت دے۔ (ص: ۱۲- ۱۳) لیکن کیا کوئی ایسا معروف نظام فلسفہ موجو دہے جس میں مذہب کو مرکزی حیثیت دی گئی ہو؟ امام غزالی کی تشکیک کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام غزالی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ’’علّت و معلول کے باہمی رشتے کے بارے میں کوئی منطقی دلیل نہیں دی جا سکتی۔۔۔ عقل تو یہی کہتی ہے کہ آگ ہے تو وہ ضرور جلائے گی مگر یہ سوال کہ آگ کیوں جلاتی ہے اور کیا وہ ہمیشہ جلائے گی؟ اس کا جواب عقل کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (ص: ۲۱) مگر یہاں امام کے بیان کا حوالہ موجود نہیں۔ مصنف کا یہ بیان زیادہ وقیع ہوتا اگر وہ اسے ہیوم (۱۷۷۶-۱۷۱۱)کے تصور تشکیک کے تناظر میں بیان کرتے اور ہیوم پر اس حوالے سے غزالی (۱۱۱۱-۱۰۵۸) کی تقدیم کو پیش کرتے۔ اقبال کے اس موقف کہ ابن رشد کا فلسفہ ’عقل فعال کا بقائے دوام‘ قرآنی تصور کے خلاف ہے، مصنف نے اس کی توضیح میں جو تفصیلات دی ہیں وہ وہی ہیں جنھیں علامہ نے اپنے خطبے میں بالاجمال بیان کیا ہے۔ بہتر ہوتا اگر مصنف ابن رشد کی تحریروں سے اس کی توضیح کرتے۔ ابن رشد کا فلسفہ بقائے دوامِ عقل فعال کس طرح قرآنی تصورات کے منافی ہے، اس حوالے سے مصنف لکھتے ہیں: گویا فلسفۂ عقلِ فعال کا بقاے دوام (Immortality of Active Intellect) پیش کرنے کی وجہ سے ابنِ رشد کی نگاہوں سے اسلام کا ایک نہایت عظیم اور مفید خیال اوجھل رہا۔ (ص: ۲۶) یہ ’عظیم خیال‘ کیا ہے؟ اور یہ خیال ابن رشد کے فلسفہ عقل فعال سے کس طرح متصادم ہے، اس کی کوئی تشریح نہیں ملتی۔ ج- اقبال کے بیان کردہ موقف سے انحراف اس توضیح و تشریح کے دوران کئی مقامات پر اقبال کے نقطہ نظر کو ایسے پیرایے میں بیان کیا ہے جو اقبال کے بیان کردہ مدعا سے مناسبت نہیں رکھتا۔ مثلاً انسان کی عقل و دانش کے حوالے سے اقبال کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اقبال کے نزدیک اِس حیرت کی وجہ یہ ہے کہ انسان اِس حقیقت سے آگاہ نہ ہو سکا کہ انسانی عقل و دانش کی دوسطحیں ہیں: اک دانش نورانی، اک دانش برہانی (ص: ۲) جبکہ یہاں علم کی دو سطحیں مراد نہیں ہیں بلکہ دو الگ الگ درجے مراد ہیں۔ جو ایک دوسرے کے متوازی و متقابل بلکہ بعض اوقات متضاد و متخالف بھی ہوتے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں: اقبال کے نزدیک ’’دانش برہانی‘‘ کا تعلق ظاہری حقائق کی پرکھ اور اُس سے حاصل ہونے والے علم کے ساتھ ہے جبکہ ’’دانش نورانی‘‘ کا واسطہ باطنی حقائق کی پرکھ اور اُس سے حاصل ہونے والے علم کے ساتھ ہے۔ (ص: ۲) حالانکہ یہ فرق کسی سے تعلق کا نہیں بلکہ منہج، طریق کار اور نوعیت کا ہے۔ ہر ایک کا تعلق ان دونوں سے ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اقبال نے ’حکمت کلیمی‘ اور ’حکمت فرعونی‘ کے ذیل میں اس کی وضاحت کی ہے۔ غالباً اسی طرزِ استدلال کے تحت کہ جاوید نامہ میں علامہ کے شعر: علم اگر کج فطرت و بد گوہر است پیش چشم ما حجاب اکبر است سے یہ استنباط کیا گیا کہ : اقبال عقل کو ’’حجابِ اکبر‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ (ص: ۲) جبکہ شعر سے صاف ظاہر ہے کہ ہر علم نہیں بلکہ صرف کج فطرت اور بد گوہر علم ہی حجاب اکبر ہوتا ہے۔ اس طرح پہلے خطبے کے عنوان کی معنویت کو یہ بیان کرنا کہ: اقبال نے اپنے خطبے کا نام ’’علم اور مذہبی تجربہ‘‘ رکھ کر’’دانشِ برہانی‘‘ کے مقابلے میں ’’دانشِ نورانی‘‘کے مطالعے کو اس خطبے کا خاص موضوع بنایا ہے۔ (ص: ۲) بھی مغالطے کا باعث ہے کیونکہ اس خطبے کا موضوع دانش برہانی و نورانی دونوں ہیں بلکہ اس خطبے میں دانش نورانی کے محتویات کی برہانی تصدیق و توثیق فراہم کی گئی ہے۔ صوفیانہ تجربہ کی توضیح میں لکھتے ہیں: اقبال کے خیال میں صوفیانہ تجربہ بھی عمومی تجربے کی قسم کا ایک تجربہ ہے۔ جس طرح عمومی تجربات میں حسی مواد کی تشریح و تعبیر سے خارجی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں، اِسی طرح صوفیانہ تجربے کی تشریح و تعبیر سے خداشناسی کا حقیقی علم حاصل ہوتا ہے۔ (ص: ۱۱۰) حالانکہ اقبال نے یہ نہیں کہا کہ صوفیانہ تجربے عام تجربہ کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی عام تجربے سے مماثلت صرف immediacy کے پہلو کے حوالے سے ہے۔ لہٰذا مصنف خود ہی اپنے بیان کا آگے چل کر رد کر دیتے ہیں: لیکن جہاں تک متصوفانہ تجربے کا تعلق ہے، اِس کا عقل و فکر سے ربط نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اِس لیے متصوفانہ تجربہ کی کلیت کا تجزیہ ممکن ہی نہیں۔ (ص: ۱۱۲) مزید یہ کہ : اقبال اِس بات کے قائل ہیں کہ صوفیانہ تجربہ اور عمومی شعوری تجربہ میں فرق ہے۔ عمومی تجربہ شعوری سطح پر ہوتا ہے جبکہ صوفیانہ تجربہ تحت الشعوری ذات (Subliminal Self) کا عمل ہے، اس لیے صوفیانہ کیفیت میں صاحب ِحال کا شعور سے ربط و تعلق برائے نام رہ جاتا ہے تاہم پروفیسر ولیم جیمز کا یہ کہنا کہ صوفیانہ کیفیت میں صاحب ِحال کا شعور سے ربط و تعلق بالکل ہی منقطع ہو جاتا ہے، درست بات نہیں ہے۔ (ص: ۱۱۳) صوفیانہ تجربے کی کیفیت کی توضیح میں لکھتے ہیں: صوفیانہ کیفیت ہمارا رابطہ حقیقت کے ایسے مکمل رازونیاز سے کرا دیتی ہے کہ جس میں مختلف النوع محرکات ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں اور ایک ایسی ناقابلِ تجزیہ وحدت (Unanalysable Unity)کی صورت اختیار کر لیتے ہیں کہ جس میں موضوع (Subject) اور معروض (Object) کا عمومی امتیاز مٹ جاتا ہے۔ (ص: ۱۱۴) جبکہ اقبال حقیقت (Reality) کے تجربے کی وحدت کی بات کر رہے ہیں نہ کہ ناظر اور منظور کی وحدت کی۔ اگر اس سے علامہ کی مراد ناظر و منظور کی وحدت ہی ہے جیسا کہ توضیح میں لکھا گیا ہے: صوفیانہ کیفیت میں موضوع (Subject) اور معروض (Object) کے بیچ عمومی امتیاز کے مٹ جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح روزمرہ مشاہدہ میں ایک شے دوسری شے سے الگ اور اُس کے مد ِمقابل نظر آتی ہے صوفیانہ کیفیت میں بندہ اور خداکے بیچ بظاہر یہ دوئی نہیں رہتی تاہم اِس سے مراد یہ بھی نہیں کہ قطرہ دریا میں اپنی ہستی کھو بیٹھتا ہے اور یوں انفرادی خودی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ دراصل اِس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کی انفرادی خودی، خودیِ مطلق کی برتر خودی کے مقابل سپردگی اور بے خودی کا رُوپ دھار لیتی ہے اور یہ وہ بے خودی ہے جو خودی کی پختگی سے ہویدا ہوتی ہے۔ (ص: ۱۱۴) تو کیا اس سے وحدت الوجودی موقف کی تائید نہیں ہوتی؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ اسی طرح صوفیانہ کیفیت کی توضیح میں لکھتے ہیں: صوفی پر صوفیانہ کیفیت مستقل صورت اختیار نہیں کرتی بلکہ بہت جلد ختم ہو جاتی ہے تاہم اِس موقع پر اقبال اِس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ صوفیانہ کیفیت جاتے جاتے صاحب تجربہ کی ذات پر، اعتماد اور اپنی ذات کی وقعت (Authority) کے احساس کے گہرے نقوش مرتب کر دیتی ہے۔ (ص: ۱۳۲) جبکہ یہاں بھی علامہ کا اشارہ صوفی کی ذات کی طرف نہیں بلکہ صوفیانہ تجربے کی طرف ہے۔ اس انحراف سے بیان کی پوری معنویت تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ د- اعتراضات کا جواب پہلے خطبے کی توضیح و تشریح پر مشتمل کتاب اس امر کی متقاضی تھی کہ اس خطبے پر اُٹھنے والے اعتراضات کا یہاں جواب بھی دیا جاتا۔ مگر اس پہلو کو کلیتاً نظر انداز کر دیا گیا ہے، مثلاً اقبال کے تصور زمان کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس طرح یہ بات بڑی آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ وقت ہی ہر حرکت کا خالق ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ: This is why the Prophet said, "Do not vilify time, for time is God.(p.71) جبکہ یہ مضمون قرآنی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ (الجاثیۃ، ۴۵: ۲۴) اور وہ کہتے ہیں ہماری دنیوی زندگی کے سوا (اور) کچھ نہیں ہے ہم (بس) یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانے کے (حالات و واقعات کے) سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا۔ ضروری تھا کہ یہاں اس مشکل کو حل کیا جاتا مگر مصنف اسے زیر غور نہیں لائے۔ صوفیانہ کیفیت میں شیطانی پہلو کی آمیزش کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں: کشف و الہام میں شیطان کی دراندازی یا شیطانی وسوسوں کی آمیزش کے حوالے سے قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّیٰٓ اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖج فَیَنْسَخُ اﷲُ مَا یُلْقِیْ الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اﷲُ اٰیٰتِہٖط وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo (اور ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اُس نے آرزو کی تو شیطان نے اُس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈالا۔ پس شیطان جو ڈالتا ہے اللہ مٹا دیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو مضبوط کر دیتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔) رُوحانی تجربے کی حامِل صوفیانہ کیفیت میں شیطانی وسوسوں کی دخل اندازی سے رُوحانی و مذہبی تجربے کا تقدس مجروح ہوتا ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اگر رُوحانی تجربے میں شیطانی پہلو در آئے تو اِس کی الگ سے پہچان ہو اور اُن وجوہات کا کھوج لگایا جائے جو رُوحانی تجربے میں شیطانی وسوسوں کی آمیزش کا باعث بنتی ہیں۔ (ص: ۱۴۰) یہاں اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا کہ یہ آیت مبارکہ وحی اور ذات نبوت سے متعلق ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبوی تجربے اور وحی سے متعلق آیت کا بعینہٖ صوفیانہ تجربے پر اطلاق کس طرح ممکن ہے؟ اس کی کوئی توضیح نہیں کی گئی۔ ہ- بنیادی کی بجائے ثانوی ماخذوں پر انحصار کئی مقامات پر ثانوی ماخذوں پر انحصار بھی خلط مبحث کا باعث بنا ہے۔ مثلاً امام غزالی کے بارے میں لکھتے ہیں: اِس ضمن میں امام غزالی کی کتاب تھافۃ الفلاسفۃ سب سے اہم ہے۔ اس کتاب میں امام صاحب نے یونانی فلسفیوں کے افکار کا تنقیدی جائزہ لیا اور یہ رائے پیش کی کہ فلسفہ سواے تشکیک کے اور کوئی مثبت نتائج پیش نہیں کرتا۔ (ص: ۲۰) اگر امام غزالی کے افکا رکو بنیادی ماخذوں کی روشنی میں بیان کیا جاتا اور معاصر فلسفیانہ تصورات کو بھی پیش نظر رکھا جاتا تو امام غزالی کے نظریہ تشکیک کی زیادہ بہتر توضیح اور فلسفیانہ تاریخ میں اس کی اہمیت زیادہ نکھر کر سامنے آتی۔ ابن رشد کے حوالے سے لکھتے ہیں: یہی عقلِ فعال (Active Intellect) انسانیت کا اصل جوہر ہے اور اِسی سے ’’انسانیت کی حیاتِ ابدی اور مدنیت کا استمرار ہے۔‘‘ (ص: ۲۳) یہاں بھی ہمیں ابن رشد کا موقف بالواسطہ ہی معلوم ہو رہا ہے اور اقبال نے کیوں اسے روح قرآن سے متصادم قرار دیا۔ اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ بایں ہمہ یہ کتاب قارئین کے لیے خطبات اقبال کی تفہیم میں ممد ہو گی۔ اقبال کے پہلے خطبے کی توضیح کے حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال نے بہت اہم بات لکھی ہے: آخری بات جس کی وضاحت نہ تو اقبال نے کی اور نہ اس خطبہ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس کا ذکر کیا ہے، یہ ہے: اگر اقبال کا استدلال کہ مذہبی تجربہ دیگر علوم کی طرح بجائے خود ایک علم ہے اور اسے محض اس لیے رد نہ کیا جائے کہ اس کا ذریعہ ’’وجدان‘‘ ہے، کو درست تسلیم کر لیا جائے تو سوال پیدا ہو گا کہ بحیثیت علم اس کی تدریس کے لیے اب کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے! (خطبات اقبال: تسہیل و تفہیم، ص: ۵۳-۵۴) ___طاہر حمید تنولی ٭٭٭ Man and Destiny ، عبدالرشید صدیقی، ناشر: اسلامک فائونڈیشن، مارک فیلڈ کانفرنس سنٹر، رَیٹبی لین، ما ل میں معاون ثابت ہوگا۔ قارئین کو اقبال کی شاعری سے مانوس کرنے اور اس طرح انھیں مفکر شاعر سے قریب تر لانے کے لیے جابجا اشعارِ اقبال کی مثالیں دی ہیں۔ مولف نے بڑی کاوش سے اردو؍ فارسی شعروں کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔ اپنے موضوع پرہر اچھی اور معیاری کتاب کی طرح، اس کتاب میں بھی کتابیات، توضیح الفاظ اور اشاریوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ___ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ٭٭٭ Problem of Eevil in Muslim Philosophy :A Case Study of Iqbal ڈاکٹر محمد معروف شاہ۔ ناشر: انڈین پبلشرز، ڈسٹری بیوٹرز، ۱۵۶،ڈی کملانگر، دہلی، بھارت ۔ ۲۰۰۷ئ، صفحات۱۹۴، قیمت ۔؍۳۹۵روپے۔