اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، ایجرٹن روڈ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com مندرجات خ اقبال اور آج کا پاکستان ڈاکٹر محمد خالد مسعود ۱ خ اقبال کا تصور ملت---- عہد ھاضر کے تناظر میں ڈاکٹر نعیم احمد ۷ خ علامہ اقبال کے خطبات میں فلسفۂ زمان و مکان ڈاکٹر محمد سلیم ۳۵ خ مکالمات معنوی در ابیات مثنوی احمد جاوید ۴۵ خ علم حق اول حواس آخر حضور ڈاکٹرطاہر حمید تنولی ۶۱ خ جمال کی واقعیت اور جمالیاتی قضایا کی صحت خضر یاسین ۸۵ خ کلام اقبال (اردو)۔ فرہنگ و حواشی احمد یاسین ۹۷ خ استفسارات احمد یاسین ۱۱۵ اقبالیاتی ادب خ علمی مجلات میں شائع شدہ مقالات کی فہرست ادارہ ۱۲۳ خ اشاریہ مجلہ اقبالیات سری نگر محمد سمیع الرحمٰن ۱۲۹ تبصرۂ کتب خ علامہ اقبال: شخصیت اور فن از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر خالد ندیم ۱۴۱ خ اقبال- روح دین کا شناسا از سید علی گیلانی حافظ محمد شاہد ۱۴۷ قلمی معاونین ڈاکٹر محمد خالد مسعود چیئرمین، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، اسلام آباد ڈاکٹر محمد نعیم ایچ۔ای۔سی پروفیسر، انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل اسٹڈیز، جامعہ پنجاب لاہور ڈاکٹر محمد سلیم سابق ڈین، فیکلٹی آف سائنس، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور احمد جاوید نائب ناظم (ادبیات)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور طاہر حمید تنولی معاون ناظم (ادبیات)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور خضر یاسین ریسرچ سکالر، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سمیع الرحمٰن رُکن مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹ جے ماڈل ٹائون لاہور ڈاکٹر خالد نعیم استاد شعبۂ اردو، سرگودھا یونی ورسٹی حافظ محمد شاہد ۵۰ صدیق کالونی، ٹمبر مارکیٹ راوی روڈ، لاہور اقبال اور آج کا پاکستان ڈاکٹر محمد خالد مسعود چند سال پہلے امرتا پریتم نے وارث شاہ کو دہائی دی تھی: اج اکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول اج فیر کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے وین اج لکھاں دھیاں روندیاں وارث شاہ نوں کہن اٹھ درد منداں دیا دردیا اٹھ تک اپنا پنجاب اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب جی میں آتا ہے کہ امرتاپریتم کی طرح آج میں بھی اقبالِ درد مند تک اپنی نوائے غم آلود پہنچائوں اور مغل شہنشاہ کی مسجد کے زیر سایہ آرام گاہ میں خوابیدہ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے پیام بر شاعرِ مشرق سے کہوں کہ اٹھ اور اپنے پاکستان کو دیکھ۔ آج اس مملکتِ خدا داد میں غموں کے سائے پھیل رہے ہیں۔ مایوسیوں کے اندھیرے بڑھتے آ رہے ہیں، شہر خاموش ہیں، قصبوں پر سکوت طاری ہے۔ بچے خوف زدہ ہیں۔ بڑے طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا، عبادت گزاری سنگینوں کے پہروں کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ مسجدیں ، امام بار گاہیں، مدرسے، سکول اور یونی ورسٹیاں نفرت و انتقام کی بارود سے لہو لہو ہیں تو ہسپتالوں اور بازاروں میں عفت مآب خواتین اور معصوم بچوں کی لاشیں بکھری ہیں۔ نہ نمازی محفوظ ہیں، نہ امام ، نہ عورتیں مامون ہیں نہ بچے نہ بزرگ، نہ قبروں کو اماں ہے نہ مدفونوں کو۔ ایسا کیوں ہے؟ جی چاہتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے محرم راز سے پوچھوں کہ ایسا کیوں ہے کہ باسٹھ برس گذرے وطن کی جستجو میں جو کاروان جادہ پیما ہوا تھا وہ آج بھی خون کی ندیاں تیر رہا ہے۔ ضرب کلیم کے پیام بر سے سوال کروںکہ آج کا فرعون تیری ضرب کلیم سے کیوں خوف زدہ نہیں۔ خودی کی بلندی خود غرضی کی پستی میں کیوں ڈھونڈی جا رہی ہے۔ اس قدسی الاصل کی نظر اب صرف رفعتِ اقتدار کی طرف کیوں ہے ---- تاکہ ہر انقلاب سے پہلے خداے سیاست ان سے ان کی رضا پوچھے۔ بندگان پُر تقصیر کو ابھی تک وعدۂ حور کا گلہ کیوں ہے۔اغیار کے قصور و ظہور پہ شکایات کیوں ہیں۔ اغیار و کفار کے ایوانوں پر رحمتوں سے ملول کیوں ہیں اور مسلمانوں کے کاشانوں پر برق کی خیرہ گری ہمارے یقین، نظم اور اتحاد کو کیوں پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ جی چاہتا ہے اقبالِ حق شناس سے پوچھوں کہ اب تو اس مملکت خداداد کی فضائیں پانچوں وقت اذان کی آوازوں سے گونجتی ہیں، نمازیوں کی وہ کثرت ہے کہ مسجدیں کم پڑ رہی ہیں، فرقہ واریت کی خون آشامی اور دہشت گردی کے باوجود مسجدوں کی رونق میں کمی نہیں آئی ہے۔ پھر بھی اس کشورِ حسین کی مسجدیں کیوں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے۔ اب تو احترام رمضان نے قانونی اور شرعی روزہ داروں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب آئین وفاداری سے گریز کا الزام کیوں۔ ہم تو پہلے ہی اس بات کے قائل تھے کہ قوم مذہب سے ہے۔ ہمارا تو عقیدہ ہے کہ مذہب نہیں تو ہم بھی نہیں۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ ملّتِ رسولِ ہاشمی اپنی ترکیب میں خاص ہے کہ اس کا جذب باہم مذہب سے ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ یہ جذب باہم فرقہ واریت اور مسلکی عصبیت میںمحدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ مسلک سے باہر کیوں کار فرما نہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ یہ جذب باہم نفرت اور عناد کے سوا کسی جذبے کی آبیاری نہیں کرتا۔ ایسا کیوں ہے کہ اس جذب باہم نے ہر خرمن کو برق آسودہ بنا دیا ہے، آباء پرستی کو شعار بنا دیا ہے اور اسلاف کے مدفنوں کی مجاوری کو پیشہ۔ ایسا کیوں ہے کہ اس جذب باہم کو پرواے نشیمن نہیں رہی۔ جی چاہتا ہے کہ اقبالِ فردا بیں سے پوچھوں کہ ہم آزاد ہو کر بھی خود کو غلام سمجھنے پر کیوں مصر ہیں۔ محکومیت سے ہمارا رشتہ اتنا اٹوٹ کیوں ہے۔ ہم حاکموں کے انتظار میں کیوں رہتے ہیں۔ ہم نت نئے آقائوں کی تلاش میں ہاتھ پر ہاتھ کیوں دھرے بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہونے سے کیوں خوف زدہ ہیں۔ ہمیں خود پر بھروسا کیوںنہیں۔ ہم اپنی تاریخ پر نادم کیوں ہیں۔ ہم اپنے جغرافیے سے شرمندہ کیوں ہیں۔ ہم اپنے آباء سے شاکی کیوں ہیں۔ ہم اپنی ہی زمین سے وفا پیمانی میں متذبذب کیوں ہیں، ہم اپنا مستقبل ماضی میں تلاش تو کرتے ہیں لیکن ہم میں سے ہر ایک اس ماضی کی نئی تاریخ کیوں رقم کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے امیر مال مست اور ہمارے فقیر حال مست کیوں رہتے ہیں۔ خواجہ روز بروز بلند بام کیوں ہوتا جاتا ہے اور کوچہ گردی بندہ کا مقدر کیوں ہے۔ رندو فقیہ اور میر و پیر سب خلقِ خدا کی گھات میں کیوں رہتے ہیں۔ شریعتِ محمدی کے سوختہ ساماں پروانے ذوقِ خود افروزی میں خود کشی کو شیوہ کیوں بنا بیٹھے ہیں۔ ایک وعدۂ حور پر جنتِ ارضی کو جہنم بنانے پر کیوں تلے ہیں۔ چراغِ مصطفوی کے پروانے دنیا بھر کو بولہبی کی آگ سے کیوں جھلس رہے ہیں۔ غیوری اور خود داری کی داستانیں کیوں فسانہ ہو گئی ہیں۔ لوگ اخوت سے گریزاں کیوں ہیں۔ آپس میں غضب ناک، خطابیں اور درپے آزار کیوں ہیں۔ ہمارے واعظ سراپا گفتار اور شعلہ مقال کیوں ہو گئے ہیں۔ ہمارے ناصح فرقہ بندی اور کافرگری کی دھن میں تارکِ آئینِ رسولِ مختار کیوں ہوتے ہیں۔ پوری ملتِ ختم رسل شعلہ بہ پیراہن کیوں ہے۔ ارض پاک کی حرمت پر کٹ مرنے والے نفرت کی فصل کیوں کاٹ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے قلب سوز سے محروم ہیں اور ہماری روح زیاں کار اور سود فراموش ہے۔ بلبل کے نالے بھی اس کی خاموشی کے سکوتِ مرگ کو کیوں نہیں توڑتے۔ کہیں ایسا تو نہیں پھر سوچتا ہوں کہ میں کہیں عجلت پسند تو نہیں۔ میں بے صبری کا اظہار تو نہیں کر رہا۔ قومیں تو کرب و بلا کے امتحانوں سے گذرتی ہی رہتی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری درس گاہوں نے سچ اور سوچ کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ سکولوں میں دونی دونی کے پہاڑوں کے شور میں، مدرسوں میں ضَرَبَ یَضْرِبُ کی گردانوں کی تکرار میں، خانقاہوں میں اللہ ہو کی ضربوں کی گونج میں لا الہ الا اللہ کی صدا سنائی نہیں دے رہی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی اندیشۂ سود و زیاں سے برتر ہے۔ اسے پیمانۂ روز و فردا سے نہیں ناپا جا سکتا ۔ گردشِ صبح و شام کو زمان کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی تو جاوداں ہے، پیہم دواں ہے۔ زندگی تو سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی کا جوہر عشق ہے اور عشق کا جوہر خودی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جب تک عشقِ گرہ کشا کا فیض عام نہ ہو دانش و دیں اور علم و فن تمام کے تمام بندگیِ ہوس میں مبتلا رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آج قیس حجابِ رخِ لیلیٰ کا طالب ہے کہ اب اس میں زحمت کشیِ تنہائیِ صحرا کی تاب نہیں رہی۔ شہر کی ہوا کیا لگی کہ اب بادیہ پیمائی قیس کے بس کی بات نہیں رہی۔ وہ گلۂ جور اور شکوۂ بے داد کے طعنے نہیں سن سکتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ قیس لیلیٰ کو دنیا کی تمام زحمتوں سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ وہ لیلیٰ کے عشق میں کبھی سکولوں پر تالے لگاتا ہے،کبھی دفتروں کے دروازے بند کرتا ہے، کبھی مینا بازار زیر و زبر کرتا ہے، کبھی ہسپتالوں کو نذر آتش کرتا ہے۔ اس کی برقِ غیرت ہر خرمن کو جلائے دیتی ہے، کوئی صحرا کوئی گلشن ایمن نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم محکومیت پسندی کی آرام طلبی کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ خود حاکمیت کے تصور سے بھی ہول آتا ہے۔ مردِ غیب کے انتظار میں خود انضباطی کے خیال سے بھی ڈرتے ہیں۔ ہماری یہ محکومیت پسندی کہیں کاہلی کا بہانہ تو نہیں۔ حاکمیت کی نااہلی کا اعتراف تو نہیں۔ اعتذار کی عادت تو نہیں، خودداری اور خود اختیاری سے فرار تو نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ غلامی نے فطرت کو اس قدر پست کر دیا ہے کہ ہم آزادی کو مجبوری کا نام دے رہے ہیں اور اپنے شعلۂ سوزاں کو دود قرار دے رہے ہیں۔ کہیں ایسا تونہیں کہ جو قوم اپنی خودی سے انصاف نہ کرے محکومی اور مظلومی اس کی تقدیر بن جاتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ قانونِ فطرت افراد سے تو اِغماض کر لیتا ہے لیکن ملت کے گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ زندہ قومیں اپنی دنیا آپ پیدا کرتی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ محکومیت اور بندگی کا احساس زندگی کو گھٹا کر جوئے کم آب بنا ڈالتا ہے۔ آزادی کا یقین ہو تو یہی زندگی بحر بے کراں ہو جاتی ہے۔ آزادی پر ایمان ہوتو انسان مستعار زمین و آسمان کو پھونک کر ان کی خاکستر سے اپنے لیے نیا جہان پیدا کر لیتا ہے لیکن محکومیت کی دنیا میں عقل بے زمام رہتی ہے اور عشق بے مقام۔ اقبال سے معذرت اقبال سے معذرت کہ ہم پر خود فریبی کی نیند طاری ہے۔ اس کی بانگ درا اس قافلے کو بیدار نہیں کر پا رہی۔ اس کی بال جبریل ہمارے انفس و آفاق میں کہیں گم ہو گئی ہے۔ اس کے پر تو موجود ہیں لیکن طاقت پرواز نہیں رہی۔ یہ فریب خوردہ شاہین اب چٹانوں سے اتر آیا ہے۔طائر لاہوتی کی نگاہ دور بین کمزورہو چکی ہے۔اب کسی بھی رزق سے نہ موت کا ڈر ہے نہ پرواز میں کوتاہی کا خوف ۔ ارمغان حجاز میں نہ نغمہ ہندی سنائی دیتا ہے نہ حجازی لے۔ نہ عرب ہمارا رہا ہے نہ چین۔ ہم توحید کی امانت سینوں میں لیے منتظر فرداے امریکہ ہیں۔اس امید پر کہ امریکی تہذیب ایک نہ ایک دن اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی۔ ہمارا سیل رواں پاسپورٹ بدست مغرب کی وادیوں میں اذان کے لیے بے تاب ہے۔ ہمارے گو امریکہ گو کے نعروں میں امریکہ چلو کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ گرین کارڈ کی تمنا بار بار لب پہ دعا بن کے آتی ہے۔ میں اقبال سے معافی مانگنا چاہتا ہوں کہ نہ اب میرا نالہ بے باک رہا ہے نہ اس میں آسماں چیر نے کی ہمت ہے۔ میرے شکووں پر نہ گردوں توجہ دیتا ہے، نہ چاند اور ستارے۔ اب تو اس جنت سے نکالے کو نہ رضواں پہچانتا ہے نہ فرشتے۔ ان کے تبسم ہائے پنہاتی سے طنز نمایاں ہے کہ اس مسجودِ ملائک کو خلافت راس نہیں آئی۔ یہ بھی مخلوقِ قدیم کی طرح خون خوار اور فسادی بن گیا۔ خاک کی چٹکی میں آگ اور بارود کا خمیر شامل ہو چکا ہے۔ عجز کے اَسرار سے نامحرم مٹی کا یہ پتلا اپنی طاقت گفتگو سے خود ہی مسحور ہو چکا ہے۔ نعروں کی توپوں کی گھن گرج میں سرمست ، خود کشی کی بے خودی میںمخمور ، خلافتِ ارضی کا یہ وارث نفرت اور تکفیر کے ہتھیاروں سے فتح عالم پر مصر ہے۔ ہمارے خطیب اور مقرر تیرے اشعار سے تقریر میں جوش تو پیدا کرتے ہیں لیکن گرمیِ اندیشۂ افکار کے قائل نہیں رہے۔ تیرے پیغام کو اپنی اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کی چھینا جھپٹی میں اقبال تقسیم در تقسیم ہو گیا ہے۔ اشعار کا رشتہ پیغام سے کٹ گیا ہے۔ اقبال کے ہر دعویدار نے الگ سے اپنا اقبال تخلیق کر لیا ہے۔ رجعت پسندوں کا اقبال الگ ہے، ترقی پسندوں کا الگ ، جمہوریت پسندوں کا اقبال الگ ہے، ملوکیت پسندوں کا الگ، صوفیہ کا اقبال الگ ہے فقہاء کا الگ، غزل کا اقبال الگ ہے، نظم کا الگ، اردو کا اقبال الگ ہے، فارسی اور انگریزی کا الگ۔ یوں اقبال ہر دلعزیز تو ہو گیا ہے لیکن اتنے سارے اقبالوں میں یہ ڈھونڈنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ میرا اقبال کون ہے۔ آج میں اس کنفیوژن پر اقبال سے بے حد شرمندہ ہوں۔ خخخ علامہ اقبال کا تصورِ ملت --- عہدِ حاضر کے تناظر میں ڈاکٹر نعیم احمد مسلمان کون ہیں؟ وہ کونسا اصول ہے جو انھیں ایک سماجی وحدت میں مربوط کرتا ہے؟ ان کی سرزمین اور وطن کونسا ہے؟ وہ اہم خدو خال کیا ہیں جو بحیثیت قوم اور ملت انھیں دیگر اقوام و ملل سے ممتاز و متبائن کرتے ہیں؟ملتِ اسلامیہ کا مختلف اقوام عالم سے کیا تعلق ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں ہم فکر اقبال کا مرکز و محور قرار دے سکتے ہیں۔ جب علامہ اقبال حصولِ تعلیم کے لیے یورپ گئے تو فطری طور پر یہ سوالات ان کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ کوئی بھی شخص جب اپنے جمے جمائے ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر سے نکل کر کسی نئی سرزمین، نا مانوس تہذیب و ثقافت اور اجنبی معاشرت میں بود وباش اختیار کرتا ہے تو اسے مغائرت(Alienation) کا ایک شدید ترین احساس ہوتا ہے جسے ماہرین عمرانیات ثقافتی جھٹکا (Cultural Shock) کہتے ہیں۔ علامہ کو بھی اس ثقافتی جھٹکے کا تجربہ ہوا جس کے نتیجے میں ان کے ذہن میں یورپی تہذیب و ثقافت کے بارے میں متعدد سوالات ابھرے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں اور اپنی قوم (یعنی مسلمانوں) کے بارے میں بھی کئی سوالات پیدا ہوئے۔ مبدا فیض سے انھیں اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیتیں، بے پناہ قوتِ مشاہدہ اور انتہائی حساس طبیعت عطاہوئی تھی۔ چنانچہ انھوں نے گہری نظر سے یورپی تہذیب کے حسن و قبح کا جائزہ لیا اور علمی انداز میں اس کا تجزیہ کیا۔ نہ صرف یورپی تہذیب بلکہ اپنے آپ کے توسط سے انھوں نے پوری ملت اسلامیہ کی صورتِ حال کا جائزہ بھی لیا۔ وہ تہذیبِ فرنگ کے علمی و تحقیقی حاصلات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں قابلِ تقلید سمجھتے ہیں ۔ لیکن ان کے قوم پرستانہ جذبات اور لسانی و نسلی تعصبات کو انتہائی مہلک اور ضرر رساں سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں مغرب کی تقلید کو ملت اسلامیہ کے لیے خطرئہ عظیم قرار دیتے ہیں۔ علامہ نے ایک طویل عرصے تک مغربی وطنیت اور جمہوریت کا مطالعہ کیا اور اس کے مضمرات کا تفصیلی اور تنقیدی جائزہ لیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی عمر کا نصف حصہ اسلامی قومیت اور ملت کے اسلامی نقطۂ نظر کی تشریح و توضیح میں گذارا ہے محض اس وجہ سے کہ مجھ کو ایشیا کے لیے اور خصوصاً اسلام کے لیے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ خطرۂ عظیم محسوس ہوتا تھا۔۱؎ فرد اور ملت کے تعلق اور ملت کی ہیئت و اساس کے بارے میں علامہ کے نظریات ان کے مجموعی فکر میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی شاعری اور نثر میں ہمیں جگہ جگہ انھی کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔ علامہ ایک ایسے فلسفی ہیں جنھوں نے خدا، حیات اور کائنات کے بارے میں ایک مربوط نظریہ پیش کیا ہے۔ یہ نظریہ ایسا ہے کہ اس میں حیات اور ارادے کی اولیت کو پیش کیا گیاہے۔ فلسفیانہ اصطلاح میں اسے ارادیت پسندی (Voluntarism)کہا جا سکتا ہے۔ علامہ اگرچہ خدا کو ہی تمام کائنات کا اساسی اصول سمجھتے ہیں، تاہم وہ روایتی وحدت الوجود کو اس لیے پسند نہیں کرتے کہ اس میں فرد کی نفی ذات ہو جاتی ہے اور وہ وحدتِ مطلقہ میں یوں گم ہو جاتا ہے جس طرح قطرہ دریا میں۔ اس کے برعکس علامہ اقبال فرد کی تمام تر انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے، اسے حقیقت مطلقہ کے اندر شامل کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم مختصراً ان کے مابعد الطبیعیاتی نقطۂ نظر کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں کیونکہ اس سے ہم علامہ کے فرد اور ملت کے نظریے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔ ----- (۱) ------ حقیقت مطلقہ کی کُنہ تک پہنچنے کے لیے علامہ اقبال شعوری تجربے کا تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شعوری تجربہ تین سطحوں پر اپنا اظہار کرتا ہے۔ مادے کی سطح پر ، حیات کی سطح پر اور شعور کی سطح پر! یہ تینوں سطحیں علی الترتیب طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کے موضوعاتِ مطالعہ ہیں۔۲؎ مادے کے بارے میں شروع سے ہی یہ نظریہ عوام و خواص کے لیے بدیہی اور ناقابلِ تردید حیثیت کا حامل رہا ہے کہ یہ خارجی فضاے بسیط میں معروضی طور پر موجود ہے۔ مادے کی طرح مکان (Space)کو بھی معروضی حیثیت دی جاتی رہی ہے۔ مادے کو چھوٹے چھوٹے ٹھوس اور جامد اجزائے لا یتجزّیٰ پر مشتمل سمجھا جاتا تھا جو خلا یا مکان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اشیاء انھی مادّی جواہر پر مشتمل ہیں اور یہ جواہر ہی حقیقی وجود رکھتے ہیں۔ انھی جواہر یا مادّی اجزاء کے مجموعوں کا مطالعہ طبیعیات کرتی ہے۔ طبیعیات کے لیے حسی تجربے کی اطلاعات ہی حرف اوّل و حرف آخر ہیں۔ مادّی عالم کا یہ وہ تصور ہے جو کہ ارسطو کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ یعنی کہ یہ تکمیل شدہ اور ناقابلِ نشو و نما شئے ہے جو کہ مکان کے اندر واقع ہے۔ لیکن مادّی عالم کا یہ تصور اس وقت سطحی اور مصنوعی محسوس ہونے لگتا ہے جب ہم تحسّسات کی نوعیت و ماہیت پر غور کرنا شروع کرتے ہیں۔ اکثر تحسّسات موضوعی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ہمارے مخصوص نظامِ ادراک اور ذہن کے آفریدہ ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر برکلے اور ہیوم نے بڑی مفصل اور مدلل بحثیں کی ہیں۔ جس طرح مادّی کائنات کا تصور موضوعی اور ذہنی ہے، اسی طرح خلا یا مکان بھی ہمارے ذہن کی پیداوار ہے جس کی کوئی معروضی حیثیت نہیں۔ چنانچہ آئن سٹائن کی طبیعیات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مادّی کائنات دراصل ’’باہم دگر مربوط حوادث یا وقوعات کا ایک نظام ہے‘‘۔۳؎ وہائٹ ہیڈ کہتا ہے کہ کائنات عضویہ یا نامیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ کائنات کا مادّی تصور غلط ہے تاہم وہ خارجی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں یعنی عالم او رمعلوم یا شاہد و مشہود کی دوئی ضرور پائی جاتی ہے۔۴؎ اس خارجی حقیقت کا کشف نہ حِسی ادراک سے ممکن ہے اور نہ عقل سے بلکہ اس تک رسائی صرف وجدان سے ہو سکتی ہے۔ تجربے کا دوسرا درجہ حیات ہے۔ حیات کو علامہ حرکت قرار دیتے ہیں جو کہ ہر لمحہ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے نت نئی شکلوں کی تخلیق کر رہی ہے۔ اس کا تخلیقی سفر میکانکی نہیں بلکہ سرا سر تخلیقی ہے۔ یہ ایک ایسی حرکت ہے جو کسی پہلے سے کھنچے ہوئے خط پر جاری و ساری نہیں اور نہ ماضی کٹ کر اس کے پیچھے رہ جاتا ہے بلکہ ماضی حال کے لمحے میں جمع ہو کر اسے فزوں تر کرتا جاتا ہے اور مستقبل اس کے سامنے ایک کھلے امکان کی صورت میں ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ پیش گوئی کرنا کہ حیات آیندہ کونسی شکل اختیار کرے گی ممکن نہیں۔ حیات دراصل ایک ارادہ یا مشیت ہے جو کہ حرکتِ محض یا دورانِ خالص(Pure Duration) کی صورت میں آزادانہ طور پر ارتقا پذیر ہے۔ تجربے کا تیسرا درجہ شعور ہے جو کہ حیات ہی کا ایک مظہر ہے۔یہ درحقیقت ایک روحانی اصول ہے جو حیات کی تخلیقی پیش قدمی کے لیے چراغِ راہ کا کام کرتا ہے۔ بعض فلسفے شعور کو مادّی اورمیکانکی اعمال کا ایک پس مظہر(Epiphenomenon) قرار دیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ اس طرح شعور کی آزاد اور تخلیقی حیثیت ختم ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے علم کا بھی ابطال ہو جاتا ہے کیونکہ علم دراصل شعور کا ہی ایک منظم اورمربوط اظہار ہے۔ اس لیے شعور کو ایک روحانی اصول اور حیات کا پیدا کردہ ایک نقطہ ٔ نور سمجھنا چاہیے جو کہ میکانکی تشریحات اور مادّی حدود و قیود سے بالا تر ہے۔ اب علامہ کہتے ہیں کہ حقیقت مطلقہ میں مادّہ ، حیات اور شعور باہم دگر مدغم اور متحد ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اسے ایک بابصراور خلاق مشیت یا ارادہ کہا جا سکتا ہے۔ بابصر اس لیے ہے کہ یہ غایات و مقاصد سے عاری نہیں اور یہ غایات و مقاصد اس کے اندر موجود ہیں، باہر نہیں۔اس بابصر، آزاد اور خلاّق مشیت کو علامہ اناے مطلق (Supreme Ego) کا نام دیتے ہیں۔ اناے مطلق کو اپنی انا اور اپنے نفس کے حوالے سے دیکھناہماری ایسی مجبوری ہے جس سے کوئی مفر نہیں۔ ’’انسان عالم کو اور خدا کو اپنے اوپر قیاس کرتا ہے اور اس سے گریز محال معلوم ہوتا ہے‘‘۔۵؎ اناے مطلق سے انائیں ہی ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ جس طر ح سورج سے کرنوں اور شعاعوں کا فیضان ہوتا ہے،اسی طرح اناے مطلق سے انائوں کا فیضان یا صدور ہوتا ہے۔ علامہ کہتے ہیں: حقیقت مطلقہ کا تصور بطور ایک انا ہی کے کرنا چاہیے اور اس لیے میرے نزدیک انیتِ مطلقہ سے انیتیں (یعنی خودیاں یا Ego )ہی ظہور پذیر ہو سکتی ہیں یا پھر دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ انیتِ مطلقہ کی تخلیقی قدرت کا اظہار جس میں عمل کو فکر کا مترادف سمجھنا چاہیے، ان وحدتوں کی شکل میں ہی ہوتا ہے جن کو ہم ’انا‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا کائنات کا ہر عمل، خواہ اس کا تعلق مادّی جواہر کی میکانکی حرکت سے ہو، یا ذاتِ انسانی میں فکر کی آزادانہ کار فرمائی سے ، سب کی حقیقت ایک عظیم اور برتر انا کے انکشافِ ذات کے سوا اور کچھ نہیں۔ لہٰذا قدرت الٰہیہ کا ہر جوہر خواہ اس کا درجۂ ہستی پست ہو یا بلند، اپنی ماہیت میں ایک ’انا‘ ہے یہ الگ بات ہے کہ انیت یا خودی کا بھی ایک درجہ ہے، بڑا اور چھوٹا! بہ ایں ہمہ بزم ہستی میں ہر کہیں خودی ہی کا نغمہ لحظہ بہ لحظہ تیز ہو رہا ہے اور ذاتِ انسانی میں اپنے معراجِ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی تو اسی لیے حقیقتِ مطلقہ کو انسان کی رگِ جاں سے بھی قریب تر ٹھہرایا ہے کیوں کہ یہ حیاتِ الٰہیہ کا سیل رواں ہے جو ہمارے وجود کا سرچشمہ ہے اور جس میں ہم موتیوں کی طرح پیدا ہوتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔۶؎ علامہ کے نزدیک پوری کائنات انائوں سے عبارت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس انا یا خودی کو اپنے ہونے کا وجدان جس درجے کا ہوتا ہے یا وہ جس شدت سے اپنا ادّعاے ذات کرتی ہے، اسی تناسب سے مراتب ہستی میں اس کا درجہ بلند یا پست ہوتا ہے۔ وجود کے پست ترین درجے پر مادّی جواہر ہیں جن کی حرکت میکانکی ہے اور جن میں اپنے ہونے کا وجدان انتہائی خفیف سا ہوتا ہے۔۷؎ ان سے اوپر نباتات اور پھر حیوانات ہیں جن میں شعورِ ذات بتدریج بڑھتا جاتا ہے اور پھر انسانی خودی کے مقام پر آ کر مکمل آزادیِ فکر و شعور کا اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح علامہ کہتے ہیں کہ انسانی خودی دراصل اناے مطلق یا خدا کا ہی اظہار ذات ہے: خودی را از وجودِ حق وجودے خودی را از نمودِ حق نمودے وہ اگرچہ اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی خودی کا ظہور ذاتِ الٰہیہ سے ہوتا ہے ، تاہم وہ روایتی وحدت الوجود سے پہلو بچاتے ہوئے کہتے ہیں ایک دفعہ وجود پذیر ہونے کے بعد انسانی خودی خدا سے متغائر و منفصل ہو کر ایک بالکل منفرد اور ذاتی حیثیت اختیار کر لیتی اور خود مختار فعلیت کی حامل بن جاتی ہے۔ خدا اور انسانی خودی کے باہمی تعلق کی وضاحت کے لیے وہ ایک خوبصورت اور نادر تشبیہ استعمال کرتے ہیں جس سے ان کا فلسفیانہ اور مابعد الطبیعیاتی موقف بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ صدف کے اندر پانی کا قطرہ ٹپکتا ہے تو موتی بن جاتا ہے۔۸؎ موتی اپنی اصل میں پانی ہے۔ تاہم قطرۂ آب سے گوہرِ تاب دار بننے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد یہ پانی سے منفصل، متغائر اور متقابل وحدت بن جاتا ہے۔ یہی وحدت انسانی خودی ہے جو اپنی اصل میں الوہی اور روحانی ہے تاہم وجود پذیر ہونے کے بعد آزاد اور خود مختار بن جاتی ہے۔ وہ موتی کی طرح ذاتِ الٰہیہ کے سیلان رواں میں زندگی بسر کرتی ہے تاہم وہ قطرئہ آب کی طرح اپنی نفی کرکے پانی کے سیلان میں مدغم نہیں ہو جاتی بلکہ اپنے آپ کو مزید مستحکم کرکے بقائے دوام حاصل کر لیتی ہے۔ چنانچہ علامہ کے نظریہ میں انسانی خودی کی آفرینش ایک مخصوص لمحۂ زمانی میںہوتی ہے، تاہم ایک دفعہ وجود پذیر ہونے کے بعد یہ فنا نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم ہو جاتی ہے۔ مسلسل جدو جہد اور پیہم کاوش خودی کو ایسا استحکام بخشتی ہے کہ موت کا صدمہ بھی اسے متاثر نہیں کر سکتا اور خودی نہ صرف مادّہ پر بلکہ زمانہ پر بھی غالب آ جاتی ہے۔ استحکامِ خودی کے حوالے سے علامہ تین مراحل کا ذکر کرتے ہیں : (۱) دستور الٰہی کی اطاعت (۲) ضبطِ نفس (۳) نیابت الٰہی ۔ عشق کی قوتِ محرکہ نہ صرف خودی کو جادۂ ارتقا پر مسلسل مصروف عمل رکھتی ہے بلکہ صفات الٰہیہ کے انجذاب کا باعث بھی بنتی ہے جس سے خودی مستحکم تر ہوتی جاتی ہے اور اس کے سامنے نت نئے امکانات ابھرتے رہتے ہیں۔۹؎ علامہ کہتے ہیں کہ خودی دو سطحوں پر اپنی زندگی بسر کرتی ہے۔ ایک سطح اس کی خلوت کی ہے اور دوسری اس کی جلوت کی۔ خلوت میں خودی اپنی اصل یعنی حقیقت مطلقہ یعنی انائے مطلق سے رابطہ قائم کرتی ہے اور دورانِ خالص(Pure Duration) کا تجربہ کرتی ہے جس میں تمام ماضی سمٹ کر ایک نقطہ میں جمع ہو جاتا ہے اور مستقبل پہلے سے کشیدہ خط نہیں بلکہ کھلا امکان بن جاتا ہے اسے علامہ اپنی اصطلاح میں نفسِ بصیر (Appreciative Self) کہتے ہیں۔ جلوت میں خودی ریاضیاتی زمان (Mathematical Time) کی سطح پر سرگرم ہوتی ہے اور منطقی سوچ اپناتی ہے۔ یہ وہ دنیائے آب و گل کی مظہری سطح ہے جس کی تشکیل خودی کے مقولات فکر (Categories of Tought) کرتے ہیں۔ اس کو علامہ نفسِ فعال (Efficient Self) کہتے ہیں۔ خودی جب مستحکم اور پختہ ہو جاتی ہے یعنی جب قطرہ گہر بن جاتا ہے یا زغال الماس بن جاتا ہے تو پھر اسے موت کا صدمہ بھی متاثر نہیں کر سکتا اور یہ انائے مطلقہ کی حقیقی نمائندہ بن جاتی اور نیابت الٰہیہ کا استحقاق حاصل کر لیتی ہے۔ یہاں پہنچ کر دائرہ ہستی مکمل ہو جاتا ہے۔ ----- (۲) ------ ایغو یا خودی علامہ کے نزدیک اپنی اصل کے لحاظ سے ایک روحانی وحدت ہے جو کہ حیات الٰہیہ کے سیلانِ رواں میں موتی کی طرح وجود پذیر ہوتی ہے۔ حیات، شعور اور مادّہ اس کے اندر گھلے ملے ہوئے ہیں اور غایات و مقاصد اس کے اندر سے ابھرتے ہیں۔ یہ کسی خارجی مقصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل نہیں ہوتی بلکہ اپنے داخلی مقاصد کے حصول اور اپنی خفتہ صلاحیتوں کے اظہار کے لیے فعال و متحرک رہتی ہے۔ جس طرح زندگی پرندوں میں پر، درندوں میں دانت اور پنجے اور دیگر ذی روح مخلوقات میں حسبِ ضرورت اعضاء وجوارح تخلیق کرتی ہے اسی طرح انسانی خودی نے عالمِ آب وگل میں اپنے رہنے کے لیے جسم و دماغ اور دیگر عضویاتی نظام تخلیق کیے ہیں۔ کیا انسانی خودی اپنی داخلی غایات اور باطنی امکانات کی تکمیل اور ان کا حصول خود اپنے طور پر یعنی کسی سماجی تناظر یا گروہی پس منظر کے بغیر کر سکتی ہے؟ کیا ایک فرد اپنی جماعت سے کٹ کر اپنی جسمانی ، ذہنی اور نفسی تربیت کر سکتا ہے؟ علامہ اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اپنی جمعیت یا گروہ سے کٹا ہوا فرد ایک تجرید ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا میں ایسے رشی منی اور تارک الدنیا اشخاص بھی ہوتے ہیںجو اپنی زندگیاں غاروں اور گپھائوں کی تنہائی میں بسر کر دیتے ہیں۔ ۰ ۱؎ لیکن ایسے افراد اپنی خودی کی تربیت کرنے یا اسے استحکام دینے کی بجائے اپنی ذات کی نفی کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں لہٰذا انسانیت اور حیاتِ اجتماعی کے لیے ان کا وجود بے معنی ہوتا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ خودی کا استحکام ملت یا جمعیت کے بغیر ناممکن ہے۔ایک فرد سماجی تناظر میں ہی اپنی خفتہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ استحکام خودی کا اصل مقصد بھی یہ ہے کہ یہ ملت کے اندر ضم ہو کر اجتماعیت کے استحکام کا سبب بنے۔ ایک اینٹ اپنے طور پر خواہ کتنی ہی پختہ اور مضبوط کیوں نہ ہو، یہ اگر دیوار میں چنی نہ جائے تو یہ بے کار اور بے مصرف ہے۔ لیکن اگر یہ دیوار کا حصہ بن جائے تو اسے بنیان مرصوص بنا دیتی ہے۔ واضح رہے کہ علامہ کے نزدیک جماعت یا ملت کی ایک اپنی زندگی اور انفرادیت ہوتی ہے۔ افراد یا انائوں کاملت میں ادغام ملت کے استحکام کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں افراد یا انائیں بھی مستحکم اور پائیدار ہو جاتی ہیں، تاہم یہ ضروری نہیں کہ کسی خودی یا انا کے ذاتی اغراض و مقاصد ملت کے اجتماعی اغراض و مقاصد سے ہم آہنگ یا ان کے غماز ہوں۔ بعض اوقات خودی کی انفرادی غایات، ملت کی اجتماعی غایت سے متصادم اور متخالف ہو سکتی ہیں۔ علامہ حیات یا ارادے کی اولیت کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حیات نے ہی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عضویہ اور ا س کے مختلف اعضاء و جوارح تخلیق کیے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی بیماری یا روگ عضویہ کو لاحق ہوتا ہے تو عضویہ اپنے اندر ہی سے اس کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے اور بعض عصبی اور جسمانی تبدیلیاں پیدا کر لیتا ہے اور اکثر اوقات اس روگ یا بیماری سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ سوسائٹی یا معاشرہ بھی عضویہ کی طرح اپنا ایک مستقل بالذات وجود رکھتا ہے جو کہ اس کے اجزائے ترکیبی یعنی افراد و اشخاص سے ماورا اور بالا تر ہوتا ہے۔ معاشرہ افراد کا ایک میکانکی مجموعہ نہیں جس میں اشخاص خرمن کے دانوں کی طرح ڈھیر ہوں۔ افراد و اشخاص معاشرے سے نامیاتی طورپر مربوط و منسلک ہوتے ہیں۔ تاہم ’’معاشرتی خودی‘‘ یا ’’حیات اجتماعیہ‘‘ اپنا ایک علیحدہ اور مستقل بالذات وجود رکھتی ہے جس کے اپنے مقاصد و غایات ہیں جو کہ موجودہ صورتِ حال کے علاوہ مستقبل کے امکانات سے بھی تعلق رکھتے ہیں: فرد اس جماعت کی زندگی میں جس کے ساتھ اس کا تعلق ہے بمنزلہ ایک عارضی اور آنی لمحہ کے ہے، اس کے خیالات ، اس کی تمنائیں، اس کا طرزِ ماند و بود، اس کے جملہ قواے دماغی و جسمانی ، بلکہ اس کے ایام زندگانی کی تعداد تک ، اس جماعت کی ضروریات و حوائج کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے جس کی حیات اجتماعی کا وہ محض ایک جزوی مظہر ہے ، فرد کے افعال کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ بر سبیل اضطرار و بلا ارادہ کسی ایک خاص کام کو جو جماعت کے نظام نے اس کے سپرد کیا ہے، انجام دے دیتا ہے اور اس لحاظ سے اس کے مقاصد کو جماعت کے مقاصد سے تخالفِ کلی بلکہ تضادِ مطلق ہے جماعت کی زندگی بلحاظ اپنے اجزائے ترکیبی یعنی افراد کی زندگی کے بالکل جداگانہ ہوتی ہے اور جس طرح ایک جسم ذوی اعضاء مریض ہونے کی حالت میں بعض دفعہ خود بخود بلا علم و ارادہ اپنے اندر ایسی قوتوں کو برانگیختہ کر دیتا ہے جو اس کی تندرستی کا موجب بن جاتی ہیں، اس طرح ایک قوم جو مخالف قوتوں کے اثرات سے سقیم الحال ہو گئی ہو بعض دفعہ خود بخود رد عمل پیدا کرنے والی قوتوں کو پیدا کر لیا کرتی ہے۔ مثلاً قوم میں کوئی زبردست دل و دماغ کا انسان پیدا ہو جاتا ہے یا کوئی نیا تخیل نمودار ہوتا ہے یا کوئی ہمہ گیر مذہبی اصلاح کی تحریک بروئے کار آتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قوم کے قوائے ذہنی و روحانی تمام باغی و سرکش قوتوں کو اپنا مطیع و منقاد بنانے اور اس موادِ فاسد کو خارج کر دینے سے جو قوم کے نظام جسمانی کی صحت کے لیے مضر تھا ، قوم کو نئے سرے سے زندہ کر دیتے ہیں اور اس کی اصلی توانائی اس کے اعضاء میں عود کر آتی ہے۔ اگرچہ قوم کی ذہنی اور دماغی قابلیت کا دھارا افراد کے دماغ میں سے ہو کر بہتا ہے مگر پھر بھی قوم کا اجتماعی نفسِ ناطقہ جو مدرکِ کلیات اور جزئیات اور خبیر و مرید ہے بجائے خود ضرور موجود ہوتا ہے۔ ’’جمہوری رائے اور قومی فطنت‘‘ وہ جملے ہیں جن کی وساطت سے ہم موہوم و مبہم طور پر اس نہایت ہی اہم حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ قومی ہستی ذوی العقل اور ذوالارادہ ہے۔ ازدحامِ خلائق، جلسۂ عام ، جماعتِ انتظامی، فرقۂ مذہبی اور مذہبی مشاورت، وہ مختلف ذرائع ہیں جن سے قوم اپنی تدوین و تنظیم کا کام لے کر وحدت ِ ادراک کی غایت کو حاصل کرتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ قومی دماغ تمام ان مختلف خیالات کی خبر یا علم رکھتا ہو جو ایک وقتِ خاص میں افراد کے دماغوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ خود افراد کا دماغ بھی کامل طور پر اپنی ادراکی حالتوں سے آگاہ نہیں ہوتا۔ اجتماعی یعنی قومی دماغ میں بہت سے احساسات و مقامات و تخیلات قومی حاسہ کی دہلیز سے باہر رہتے ہیں ۔ قوم کی ہمہ گیر دماغی زندگی کا فقط ایک جزو محدود دروازہ کے اندر قدم رکھتا ہے اور قومی ادراک کی تابناک شعاعوں سے منور ہوتا ہے۔ اس انتظام کی بدولت مرکزی اعضاء کی توانائی کی ایک بہت بڑی مقدار غیر ضروری جزئیات پر صرف ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ ۱۱؎ علامہ کے اس اقتباس سے ان کے مخصوص عمرانی نظریے کا مرکزی نقطہ وضاحت سے سامنے آ جاتا ہے۔ فرد اور معاشرے کا تصور دراصل ان کے مجموعی نظام فکر کا ہی ایک حصہ ہے جس میں حیات اور ارادے کو اولیت حاصل ہے اور جو تخلیق و ارتقا کی نئی نئی شکلیں پیش کرتا مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ متناہی اور انفرادی خودی استحکام اور تربیت کے بعد قومی یا اجتماعی خودی میں ضم ہو جاتی ہے۔ اجتماعی خودی کا حافظہ اس کی تاریخ ہے جو اس کا تشخص برقرار رکھتی ہے۔ آنے والی نسلوں اور ان کے ارتقا کے امکانات اس کے اندر ہی مضمر ہوتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں: قوم ایک جداگانہ زندگی رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔ قوم اپنے موجودہ افراد کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اس سے بہت کچھ بڑھ کر ہے ۔۔۔۔۔ یہ غیر محدود اور لا متناہی ہے ۔۔۔۔۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں وہ کثیر التعداد آنے والی نسلیں بھی شامل ہیں جو اگرچہ عمرانی حد نظر کے فوری منتہا کے پر لی طرف واقع ہیں، لیکن ایک زندہ جماعت کا سب سے زیادہ اہم جزو متصور ہونے کے قابل ہیں۔۔۔۔۔ مجموعی حیثیت سے اگر نوع پر نظر ڈالی جائے تو اس کے وہ افراد جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، اس کے موجودہ افراد کے مقابلے میں شاید زیادہ بدیہی الوجود ہیں ۔۔۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اقوام کے لیے سب سے مہتم بالشان عقدہ فقط یہ عقدہ ہے(خواہ اس کی حیثیت تمدنی قرار دی جائے، خواہ اقتصادی، خواہ سیاسی) کہ قومی ہستی کا سلسلہ بلا انقطاع کس طرح قائم رکھا جائے۔ کٹنے یا معدوم ہو جانے کے خیال سے قومیں بھی ویسے ہی خائف ہیں جیسے افراد! ۱۲؎ علامہ کے بیان کردہ عمرانیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں تاریخ کے اوراق اور صحف مقدسہ میں بے شمار ایسی قوموں اور ملتوں کا ذکر ملے گا جو اپنی اجتماعی خودی میں در آنے والی بیماریوں اور مفاسد کی اصلاح نہ کر سکیں اور منصہ شہود سے ابدا لآباد کے لیے معدوم ہو گئیں۔ قدیم بابلیوں ، قبطیوں، سمیریوں اور یونانیوں وغیرہ کا وجود اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ تاہم ایسی اقوام بھی ہیں جو جابر و قاہر قوموں کی غلامی کا شکار ہوئیں اور صدیوں تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہیں۔ مگر اپنے تمام تر زوال و انحطاط کے باوجود اپنے وجود ملی کے تشخص کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں ۔ ان میں ایک قوم بنی اسرائیل کی ہے جس نے پہلے مصر میں حکمرانی کی اور پھر چار سو سال تک فراعنہ کی بدترین غلامی کی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام انھیں مصر سے نکال لائے ورنہ وہ بھی قبطیوں میں مدغم ہو کر قصۂ پارینہ بن جاتے۔ چینی قوم ایک طویل عرصے تک مختلف اخلاقی و روحانی امراض کا شکار ہو کر ذلت کی زندگی گذارتی رہی لیکن پھر صحت اور سلامتی کے راستے پر گامزن ہو گئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی مثال بھی عبرت انگیز ہے جنھوں نے ایک ہزار سال تک یہاں حکومت کی لیکن اپنے وجود ملی میں پلنے والی بیماریوں کا تدارک نہ کر سکے۔ جب اکبر نے دین الٰہی کے نفاذ کی صورت میں مسلمانوں کا تشخص ہی مٹا ڈالنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کی حیاتِ اجتماعیہ نے شیخ احمد سرہندیؒ جیسی شخصیت پیدا کی جس نے مسلمانوں کے اجتماعی تشخص کی حفاظت کی۔ یہی کام شاہ ولی اللہؒ نے جاری رکھا۔ لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد تو ہندوستانی مسلمانوں کا وجود پوری طرح سے خطرے میں پڑ گیا کیونکہ ہندوستانی مسلمان ہی انگریزوں کے اصل رقیب تھے اور انھیں مٹانے کی وہ ہر سطح پر کوششیں کر رہے تھے ۔ ایسے میں مسلمانوں کے وجود ملی نے اپنی بقا اور دوام کے لیے ایسی نابغۂ روزگار ہستیاں پیدا کیں جنھوں نے دشمن قوتوں کے ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے ناموس ملی کی حفاظت کی۔ ----- (۳) ------ عمرانیات میں عموماً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ فرد کو معاشرے پر اولیت اور تفوق حاصل ہے یا معاشرے کو فرد پر ! مشہور فرانسیسی ماہر عمرانیات ایمائل ڈرخائم(Emile Durkheim) سوسائٹی کو ایک مستقل اکائی (Sui Generi) قرار دیتا ہے اور فرد کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھتا۔ معاشرے کے فرد پر تفوق اور بالا دستی کی دلیل یہ دیتا ہے کہ معاشرتی اصول و ضوابط اور قوانین افراد پر حکومت کرتے ہیں اور افراد ہر حال میں معاشرے کے زیر اثر رہتے ہیں ۔مذہب کی رو سے دیکھا جائے تو بظاہر فرد معاشرے پر تقدم رکھتا ہے کیونکہ معاشرہ فرد سے ہی وجود پذیر ہوتا ہے۔ کہا گیا کہ سب انسانوں کو نفسِ واحد سے پیدا کیا گیا۔ ۱۳؎ لیکن علامہ کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو آنے والی تمام نسلِ انسانی نفس واحد کے اندر حیاتیاتی امکان کی صورت میں بالقوہ (Potentially) موجود تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تخلیق کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور نسل انسانی بالفعل (Actually) وجود میں آ گئی۔ اس نقطۂ نظر سے اوّلیت اور تقدم کا سوال ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ نفس واحد کی تخلیق کے ساتھ ہی انسانی معاشرے کی تخلیق بھی ہو گئی تھی۔بیج موجود ہو تو درخت بھی موجود ہوتا ہے اگرچہ ایک امکان کی صورت میں اس کے اندر بالقوہ مستور ہوتا ہے۔ رہا سوال تفوق اور اہمیت کا تو علامہ کا موقف اس بارے میں بڑا واضح ہے۔ وہ معاشرے اور سوسائٹی کو افراد پر اہمیت دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنے والی نسلیں منطقی امکان کے طور پر ہنگام آفرینش سے ہی نفس واحد میں مضمر تھیں اور نفس واحد کی ارتقائی حرکت کا تعین کر رہی تھیں۔ علامہ لکھتے ہیں: اگر (قوم) کی ماہیت پر نظر غائر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ غیر محدود اور لا متناہی ہے۔۔ علم الحیات کے اکتشافاتِ جدیدہ نے اس حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھایا ہے کہ کامیاب حیوانی جماعتوں کا حال ہمیشہ استقبال کے تابع ہوتا ہے، مجموعی حیثیت سے اگر نوع پر نظر ڈالی جائے تو اس کے وہ افراد جو ابھی پیدا نہیں ہوئے زیادہ بدیہی الوجود ہیں، موجودہ افراد کی فوری اغراض ان غیر محدود و نامشہود افراد کی اغراض کے تابع بلکہ ان پر نثار کر دی جاتی ہیں جو نسلاً بعد نسل بتدریج ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ ۱۴؎ ارسطو کہتا ہے کہ انسانی معاشرے کی خشتِ اوّل خاندان یا کنبہ کی اکائی ہے جو کہ خاوند، بیوی اور غلام پر مشتمل ہے۔ (ارسطو کے نزدیک ایک خاندان کے لیے غلام کا وجود بہت ضروری ہے)۔ ایک خاندان جب پھیلتا ہے تو کئی خاندان وجود میں آتے ہیں ۔ متعدد خاندانوں سے ایک قبیلہ یا گائوں بنتا ہے اور متعدد قصبات اور دیہات مل کر ایک شہری ریاست(City State) کی تشکیل کرتے ہیں۔ یوں انسانی معاشرے اور ریاست کی تشکیل ہوتی ہے۔ حیات نے تمام ذی روح مخلوقات کے اندر دو جبلتیںپیدا کیں جو انھیں شاہراہِ ارتقا پر سرگرم سفر رکھتی ہیں۔ یہ جبلتیں ہیں تحفظِ ذات (Self-Preservation) اور اشاعتِ ذات (Self-Propagation) ۔ ہر زندہ فرد اپنے جیسے متعدد افراد کو معرضِ وجود میں لاتا ہے اور اپنے اور اپنی نسل کے تحفظ کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ان دو جبلتوں کے علاوہ ایک اور اہم جبلت مخلوقات میں پائی جاتی ہے اور وہ ہے غول پسندی (Gregariousness)۔ چیونٹیاں، شہد کی مکھیاں، تمام چرند پرند، حیوان اور انسان مل جل کر جھنڈ، جتھے یا جماعت کی صورت میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔گروہی زندگی بسر کرنے کا رجحان نہ صرف حیوانوں میں بلکہ نباتی سطح پر بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ جہاں گھاس کی ایک جڑ اگ آتی ہے وہاں رفتہ رفتہ اردگرد کی ساری زمین گھاس سے بھر جاتی ہے۔ جہاں ایک درخت اگتا ہے اس کے آس پاس کئی درخت اگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ماہرین عمرانیات غول پسندی کے جبلی رجحان کو انسان کی سماجی زندگی کی اساس قرار دیتے ہیں۔ شروع شروع میں گروہ کی صورت میں مل جل کر رہنا انسان کی مجبوری تھی۔ علامہ اس دور کا نقشہ بڑے خوبصورت انداز میں کھینچتے ہیں: از چہ رو بر بستہ ربطِ مردم است رشتۂ ایں داستاں سردر گم است (کچھ معلوم نہیں کہ انسانوں میں اوّل اوّل میل جول کیونکر پیدا ہوا۔ اس کہانی کا ابتدائی رشتہ بالکل غائب ہے۔) در جماعت فرد را بینم ما از چمن او را چو گُل چینم ما (ہم فرد کو جماعت میں دیکھتے ہیں اور باغ سے اسے پھول کی طرح چن لیتے ہیں۔) فطرتش وارفتۂ یکتائی است حفظِ او از انجمن آرائی است (اس کی فطرت انفرادیت کی دلدادہ ہے ۔ لیکن اس کی حفاظت کا تقاضا یہ ہے کہ انجمن آراستہ کرکے زندگی بسر کرے۔ یعنی بہت سے افراد مل جل کر گروہ کی صورت میں رہیں۔) سوزدش در شاہراہِ زندگی آتشِ آوردگاہِ زندگی (زندگی کے میدان جنگ کی آگ فرد کو شاہراہِ حیات میں جلا دیتی ہے۔ یعنی زندگی بسر کرنے کے لیے انسان کو جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے وہ اتنی مصیبت خیز ہوتی ہے کہ وہ تنہا اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ جماعت میں ہی یہ جدوجہد ممکن ہے۔) مردماں خوگر بیک دیگر شوند سفتہ در یک رشتہ چوں گوہر شوند (انسان اسی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور موتیوں کی طرح ایک رشتے میں پروئے گئے۔) در نبردِ زندگی یار ہم اند مثل ہم کاراں گرفتار ہم اند (وہ زندگی کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ جس طرح ایک پیشے کے مختلف آدمی اکٹھے کام کرتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اکٹھے ہو گئے۔) منزل دیو و پری اندیشہ اش از گمانِ خود رمیدن پیشہ اش (اس کے فکر و خیال پر دیو و پری اور بھوت پریت چھائے ہوئے تھے اور وہ اپنے ہی اوہام سے جو چیزیں تراشتا تھا، انھی سے ڈر کر بھاگتا تھا۔) تنگ میدانِ ہستی خامش ہنوز فکرِ او زیرِ لبِ بامش ہنوز (انسان کی زندگی ناپختہ تھی، اس کا میدان بہت تنگ تھا اور اس کی سوچ بچار نارسا تھی۔) بیم جاں سرمایۂ آب و گلش ہم ز بادِ تند می لرزد دلش (جان کا خوف انسان کی آب و گل کا سرمایہ تھا، یعنی اس کے اجزاے ترکیبی نے خوفِ جاں کے سوا کوئی چیز پیدا نہ کی تھی۔ تیز ہوا بھی چلتی تو اس کا دل لرز جاتا۔) ہرچہ از خود می دمد برداردش ہرچہ از بالا فتد برداردش (رموز بے خودی) (جو کچھ زمین سے خود بخود اگ آتا یا اوپر سے گرپڑتا، اسی کو اٹھا کر گذارا کر لیتا یعنی کھیتی باڑی یا کسی دوسرے ذریعۂ معاش کا انتظام نہیں ہوا تھا، جہاں کوئی چیز مل جاتی وہ سبزی ہوتی یا کسی درخت یا جھاڑی کا پھل ، اس پر انسان قانع تھا۔) اس شعر میں حوالہ شکار کرنے اور اکٹھا کرنے والے معاشرے (Hunting and gathering society) کی طرف ہے جس میں مرد شکار وغیرہ کرکے لاتے اور عورتیں جنگل سے خود رو سبزیاں اور پھل وغیرہ اکٹھا کرکے لاتیں، لیکن رہتے سب مل جل کر تھے۔ علامہ کہتے ہیں کہ ہمیں معاشرے کے آغاز کا سراغ نہیں ملتا۔ اتنا پتا چلتا ہے کہ شروع شروع میں انسانی زندگی بڑی پسماندہ تھی اور ہر وقت اس پر اپنی جان کا خوف طاری رہتا تھا۔ وہ اپنے ہی اوہام میں گرفتار اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرتا تھا اور کھانے پینے کے لیے بھی جانوروں کی سطح سے بلند نہ ہوا تھا۔ ایسے میں صرف ایک ہی اصول تھا جو اس کی بقا کا ضامن تھا اور وہ یہ تھا کہ گروہ کے ساتھ چمٹا رہے۔ گروہ سے یہ وابستگی رفتہ رفتہ عصبیت کے ایک شعوری اور نفسیاتی رجحان میں بدل گئی جس کے ساتھ قبائلی زندگی کے سماجی، معاشی اور مذہبی خد و خال واضح ہوناشروع ہو گئے۔ قبائلی زندگی کے استحکام سے انسانی زندگی بہت بہتر ہو گئی۔ متعدد رسوم و رواج متشکل ہوئے اور ثقافت و تمدن کی داغ بیل پڑ گئی۔ عصبیت وہ ارتباطی اور قوت ناظمہ تھی جس سے قبیلے کا تشخص واضح ہوا اور طوطمیت(Totemism) کی صورت میں مذہبی اور دیگر سماجی روایات کا آغاز ہوا۔ طوطم (Totem) کوئی جانور یا پرندہ ہوتا تھا جسے کوئی اپنی نشانی قرار دے کر اس کی پرستش کرتا تھا اور اس کے لیے کوئی معبد یا مندر وغیرہ تعمیر کرتا تھا ۔ بھارت میں آج بھی ہنومان (بندر) گنیش (ہاتھی) اور ناگ (سانپ) کی پوجا کی جاتی ہے۔ ناگ پور کے نام سے تو ایک شہر بھی موجود ہے۔ طوطمیت سے قبائلی عصبیت کو بلند ترین سماجی اور مذہبی قدر و منزلت حاصل ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ عصبیت کی وجہ سے قبیلے میں استحکام، یکجہتی اور نظم پیدا ہوا تاہم اس کا منفی پہلو یہ تھا کہ دیگر قبائل سے نفرت کی جاتی تھی اور ان کے ساتھ تصادم اور پیکار کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا۔ مفتوحہ قبیلے کے جنگجوئوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ بعض قبائل عصبیت کی آنچ کو دھیما کرکے طاقت ور قبیلے کے ساتھ ’’تحالف‘‘(Confideration) بھی کر لیتے یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مختلف قسم کے معاہدے کر لیتے۔ رفتہ رفتہ مختلف قبائل نے مل کر ایک ریاست کی شکل اختیار کر لی اور ایک مخصوص خطۂ ارض اس ریاست کا وطن قرار پایا۔ ارضِ وطن کی محبت نے قبائلی عصبیت کی جگہ لے لی۔ قبائلی عصبیت یا حب وطنی کے معائب اور برے پہلو اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ سماجی تنظیم و ارتقا میں اس نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ----- (۴) ------ اب تک جو تاریخی اور ارضیاتی شواہد دستیاب ہوئے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ انسان اس کرئہ ارض پر گذشتہ پانچ لاکھ سال سے آباد ہے۔ ۱۵؎ انسان کا ابتدائی دور کیسے گذرا اس کے بارے میں تفصیلی شواہد میسر نہیں تاہم پچاس ہزار ق م میں شکار کرنے اور اکٹھاکرنے والا معاشرہ وجود میں آ چکا تھا جس میں مرد شکار کرتے اور عورتیں جنگل سے پکے ہوئے پھل وغیرہ اکٹھا کرتیں۔ ۱۲ ہزار قبل مسیح تک شکاری معاشرہ کھیتی باڑی کے اسرار و رموز اور مویشی پالنے کے طور طریقوں سے آگاہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ ۱۲۰۰۰ ق م سے چرواہوں اور کاشتکاروں کے معاشرے(Pastoral and Agrarian Society) کا آغاز ہوتا ہے۔ چرواہے عموماًخانہ بدوش ہوتے تھے اور اپنے ریوڑوں سمیت مختلف چراگاہوں کی طرف نقل مکانی کرتے رہتے تھے۔ ان کے برعکس کاشتکاروں نے مخصوص قطعات اراضی پر کھیتی باڑی شروع کی جس سے سکونت پذیر معاشرے اور دیہات وغیرہ وجود میں آئے۔ ۶۰۰۰ ق م میں فنِ تحریر ایجاد ہوا جس سے بکھرے ہوئے دیہات اور قبائل شہری ریاستوں اور مملکتوں میں منظم ہونا شروع ہو گئے کیونکہ لکھنے کے فن کی ترویج سے ریاستوں اور مملکتوں کے انتظام و انصرام میں بڑی سہولت پیدا ہو گئی تھی۔ اس لیے ماہرین عمرانیات کے نزدیک فن تحریر(Art of writing) کی ایجاد سے ہی تمدن (Civilization) کا آغاز ہوتا ہے۔اس سارے ارتقائی عمل میں عصبیت اور خطۂ ارض سے محبت ایک ارتباطی معاشرتی اصول کی حیثیت سے کارفرما رہی ۔ لیکن جب طاقتور حکمرانوں نے اردگرد کے کمزور علاقوں کو اپنی قلمرو میں شامل کرنا شروع کیا تو سماجی یگانگت کا یہ اصول بھی کمزور پڑنا شروع ہو گیا۔ تجارت اورجنگ دو ایسے ذرائع ہیں جن سے تہذیبوں اور ثقافتوں کا باہمی اختلاط اور امتزاج ہوتا ہے۔ تاجر جب دور دراز کے علاقوں میں اپنا مال فروخت کرنے جاتے ہیں تو نئے طرز ِ زندگی، نئی معاشرت اور نئے رسم و رواج سے آشنا ہوتے ہیں اور اپنے وطن واپس آ کر انھیں اپنے لوگوں میں متعارف کرواتے ہیں۔ اسی طرح فاتح عسا کرکے جلو میں ثقافتی اور تہذیبی عوامل بھی سفر کرتے ہیں اور نئی سرزمین پر جا کر جڑیں پکڑ لیتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فاتح عساکر مفتوحہ علاقوں کی ’’ثقافتی چھوت‘‘سے نہ بچ سکے اور وہ فاتح ہوتے ہوئے بھی مفتوحین سے متاثر ہوئے۔ شہنشاہوں کی سلطنتوں کی حدود جب وسعت پذیر ہوئیں اور متعدد کمزور علاقے ان کے زیر نگیں آ گئے تو ’’علاقے سے پیوستگی‘‘(Ethnocentrism) کے رجحان میں بھی ضعف پیدا ہو گیا۔ اب حب وطنی اور قبائلی عصبیت سماجی ہم آہنگی اور معاشرتی یگانگت کا مؤثر اصول نہ رہی ۔ چنانچہ ایک اور اصول وضع کیا گیا۔ یہ تاج و تخت سے وفاداری اور شاہوں کے الوہی حق(Divine Right of King) کا اصول تھا۔ یہ اصول کچھ دیر تک کام کرتا رہا مگر جب شہنشاہوں نے جغرافیائی اور ثقافتی طور پر مختلف اور متفرق اور متعدد علاقوں کو اپنی قلمرو میں شامل کرکے بڑی بڑی عظیم الشان سلطنتیں(Empires) قائم کیں تو سماجی وحدت و یگانگت کا یہ اصول بھی ناکارہ ہو گیا۔ ایک بڑی ایمپائر میں جب کئی ثقافتوں ، رنگوں ، نسلوں اور زبانوں پر مشتمل علاقے شامل ہوتے تھے تو ان کا مؤثر انتظام و انصرام کرنا بڑا مشکل ہو جاتا۔ مزید برآں انھیں محض تخت و تاج سے وفاداری کے تصور کے تحت متحد رکھنا بھی ممکن نہ تھا۔ علامہ اقبال نے شہنشاہ جولین کی مثال دی ہے جو اپنی ایمپائر کے سیاسی و سماجی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے کسی اصول کی تلاش میں مسیحیت کی طرف راغب ہوا، لیکن جلد ہی مسیحیت کی راہبانہ تعلیمات سے دل برداشتہ ہو کر قدیم رومی دیوتائوں کی طرف لوٹ گیا۔ ۶ ۱؎ اس صورتِ حال کی توضیح و تشریح کے لیے علامہ نے مشہور مؤرخ ڈینی سن(Denison)کی کتاب Emotion as the Basis of Civilization سے ایک اقتباس دیا ہے جو درج ذیل ہے: It seemed then that the great civilization that it had taken four thousand years to construct was on the verge of disintegration, and that mankind was likely to return to that condition of barbarism where every tribe and sect was against the next, and law and order were unknown . . . The old tribal sanctions had lost their power. Hence the old imperial methods would no longer operate. The new sanctions created by Christianity were working division and destruction instead of unity and order. It was a time fraught with tragedy. Civilization, like a gigantic tree whose foliage had overarched the world and whose branches had borne the golden fruits of art and science and literature, stood tottering, its trunk no longer alive with the flowing sap of devotion and reverence, but rotted to the core, riven by the storms of war, and held together only by the cords of ancient customs and laws, that might snap at any moment. Was there any emotional culture that could be brought in, to gather mankind once more into unity and to save civilization? This culture must be something of a new type, for the old sanctions and ceremonials were dead, and to build up others of the same kind would be the work of centuries.17 ڈینی سن نے بڑی وضاحت اور صدق دل سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عین اس وقت جب انسانی تمدن تباہی کے کنارے پہنچ چکا تھا، اسلام کا ظہور ہوا اور اس کی روحانی تعلیمات نے دنیا کو سماجی تنظیم کا ایک نیا آئیڈیل عطا کیا۔ یہ نیا آئیڈیل عقیدئہ توحید تھا۔ اسلام نے انسانوں کی وفاداری کو رنگ و نسل اور قبیلہ و وطن سے ہٹا کر ایک ان دیکھے خدا کے ساتھ مشروط کر دیا۔ خدا کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہی بہت سے عقائد اور ذہنی رویوں کا از خود ابطال ہو جاتا ہے۔ انسان سب سے پہلے ہر قسم کی الوہیت سے انکار کرتا ہے۔ نہ وہ اصنام و اوثان کو خدا مانتا ہے نہ قبیلے ، وطن یا نسل کو الوہیت کے رنگ میں رنگتا ہے۔ پھر وہ ایک خدا کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ یہ عقیدئہ توحید انسانیت کو اللہ کی طرف سے عطا ہوا اور اس کا بیج ایک صاحب دل (نبی) نے دلوں کے اندر بویا ہے: تا خدا صاحب دلے پیدا کند کو ز حرفے دفترے املا کند اور نکتۂ توحید باز آزمودش رسم و آئینِ نیاز آموزدش (رموز بے خودی) (نبی ان کے دل میں نکتۂ توحید بٹھاتا ہے اور خدا کے سامنے جھکنے، اس کی عبادت کرنے اور اس کے احکام کی تعمیل کا طریقہ سکھاتا ہے۔) علامہ کے نزدیک عقیدۂ توحید فرد کی انفرادی زندگی میں اتنا بڑا انقلاب لاتا ہے کہ اس سے ایک بالکل مختلف اور نئی شخصیت پیدا ہوتی ہے: نوعِ دیگر آفریند بندہ را نظریۂ توحید کو وہ روح قرار دیا جا سکتا ہے جس کے گرد امتِ مسلمہ کا پیکر تیار ہوتا ہے اور اس روح کو رسول اپنی رسالت کے ذریعے لوگوں کے اندر پھونکتا ہے۔ ملت کا وجود رسول کے دم سے ہوتا ہے، اگر رسول نہ ہو تو ملت بھی نہیں ہو سکتی۔ علامہ کے نزدیک نظریۂ توحید سے وابستہ ہونے والے افراد مل کر ایک ایسی جماعت تشکیل دیتے ہیں جو رنگ، نسل ، زبان یا وطن کے اشتراک کے باعث وجود میں نہیں آتی بلکہ ایک خالص روحانی نظریہ کے اشتراک کی وجہ سے ابھرتی ہے اور جس میں کسی بھی خطے کا، کوئی بھی زبان بولنے والا اور کسی بھی رنگ و نسل کا انسان شامل ہو سکتا ہے۔علامہ اقبال لکھتے ہیں: ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراکِ وطن، نہ اشتراکِ اغراضِ اقتصادی، بلکہ ہم لوگ اس برادری میں جو جناب رسالتمآب نے قائم فرمائی تھی، اس لیے شریک ہیں کہ مظاہرِ کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سر چشمہ ایک ہے اور جو تاریخی روایات ہم سب کو ترکہ میں پہنچی ہیں وہ بھی ہم سب کے لیے یکساں ہیں۔ اسلام تمام مادّی قیود سے بے زاری ظاہر کرتا ہے اور اس کی قومیت کا دارو مدار ایک خاص تہذیبی تصور پر ہے جس کی تجسیمی شکل وہ جماعتِ اشخاص ہے جس میں بڑھتے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت طبعاً موجود ہے۔ ۸ ۱؎ علامہ کے نزدیک سماجی تنظیم اور تمدنی ارتقا کا یہ نیا آئیڈیل عین اس وقت انسانیت کو عطا ہوا جب کہ تمام گذشتہ Sanctions فرسودہ ہو چکی تھیں اور پارہ پارہ ہوتے ہوئے انسانی تمدن کو حیاتِ نو کی اشد ضرورت تھی۔ قبائلی عصبیت ، لسانی اور وطنی وابستگی، تخت و تاج سے وفاداری جیسے اصول اب انسانی گروہوں اور جمعیتوں کو متحد رکھنے کے لیے غیر مؤثر ہو چکے تھے۔ اب یہ ضروری ہو چکا تھا کہ ایک خطے کی ثقافت اور علم و فن کا امتزاج اور تعامل دوسرے خطے کی ثقافت اور علم و فن سے بھی ہو، تاکہ سماجی رشتے اور انسانی روابط مستحکم ہو سکیں۔ عرب کے لوگ اپنی طبیعت کے لحاظ سے سادہ اور طرزِ بود و باش میں فطرت کے قریب تر تھے۔ اسی لیے پیغام توحید نے بڑی جلدی ان کے ذہنوں کو مسخر کر لیا اور وہ اس روحانی پیغام کے بندھن میں بندھ گئے۔ اب ان کی گروہ بندی یا انجمن آرائی رنگ و نسل یا وطن و قوم کے اشتراک کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ نظریۂ توحید سے وابستگی کی وجہ سے تھی ۔ مختلف رنگوں، زبانوں ، نسلوں، وطنوں اور قوموں کے افراد و اشخاص گویا ایک پارٹی کے منشور پر اکٹھے ہو گئے اور امتِ مسلمہ کہلائے۔ ۹ ۱؎ اس امت کے لیے تمام کرئہ ارض مسجد قرار پایا اور پیغام توحید کو دنیا کے چپے چپے پر پھیلانا فرض! عربوں نے اسلام کی اشاعت اور اسلامی تعلیمات کی تبلیغ میں شاندار خدمات انجام دیں۔لیکن علامہ کے نزدیک اسلامی علوم و فنون بالخصوص اسلامی فلسفہ و حکمت کے فروغ کے سلسلے میں دیگر اقوام نے ہی اپنا مخصوص کردار ادا کیا۔ بالخصوص فتح ایران سے اسلامی تہذیب و ثقافت میں نہایت دلآویز رنگ شامل ہو گئے اور اس میں حد درجہ گہرائی پیدا ہو گئی۔ ۰ ۲؎ علامہ فرماتے ہیں کہ اسلام نے انسانیت کو ایک ایسا ارفع و اعلیٰ آئیڈیل فراہم کیا ہے جس کی بدولت تمام انسانیت متحد اور منظم ہو سکتی ہے۔ توحید یہ آئیڈیل ہے اور اس سے وابستگی انسانوں کو لسانی ، نسلی اور علاقائی حد بندیوں سے نجات دلا کر ارتقا کی اگلی منزلوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مقصد نہ صرف افراد و اشخاص کی انفرادی اصلاح ہے بلکہ ایک ایسے سماجی نظام کی تشکیل بھی ہے جس میں تمام انسان متحد و مربوط ہو سکیں۔ توحید کو اپنانے کی تلقین کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگ رنگ و نسل اور وطن و قوم جیسے بتوں سے جان چھڑا کر ایک مجرد اور روحانی اصول سے وابستہ ہو جائیں تاکہ وحدتِ بشری کا نصب العین حاصل ہو سکے اور ایک عالمی روحانی جمہوریت کا قیام عمل میں آ سکے جس میں تمام انسان امن و سکون اور باہمی اشتراک و تعاون سے زندگی بسر کر سکیں اور اللہ کی ان نعمتوں سے متمتع ہو سکیں جو اس نے ان کے لیے پیدا کر رکھی ہیں۔ علامہ نے اس کا ذکر اسرار خودی کے اس اجمالی خاکے میں کیا ہے جو انھوں نے ڈاکٹر نکلسن کی فرمایش پر خود تحریر کیا تھا: تربیت خودی کے تین مراحل ہیں (۱) دستور الٰہی کی اطاعت (۲) ضبطِ نفس --- اور (۳) نیابت الٰہی۔ نیابت الٰہی دنیا میں انسانی ارتقا کی آخری منزل ہے۔ جو شخص اس منزل پر پہنچ جاتا ہے وہ اس دنیا میں خلیفۃ اللہ ہو جاتا ہے۔ وہ کامل خودی کا مالک اور انسانیت کا منتہاے مقصود ہوتا ہے۔ روح اور جسم دونوں کے لحاظ سے حیات کا بلند ترین مظہر ہوتا ہے۔ یعنی اس کی زندگی میں آ کر حیات اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ کائنات کے پیچیدہ مسائل اس کی نظر میں سہل معلوم ہوتے ہیں اور اعلیٰ ترین قوت اور برترین علم دونوں کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میںفکر اور عمل، جبلّت اور ادراک ایک ہو جاتے ہیں۔ چونکہ وہ سب سے آخر میں ظاہر ہو گا۔ اس لیے وہ تمام صعوبتیں جو انسانیت کو ارتقاے منازل طے کرنے میں لاحق ہوتی ہیں، بر محل ہیں۔ اس کے ظہور کی پہلی شرط یہ ہے کہ بنی نوع آدم جسمانی اور روحانی دونوں پہلوئوں سے ترقی یافتہ ہو جائیں۔ فی الحال اس کا وجود خارج میں موجود نہیں۔ لیکن انسانیت کی تدریجی ترقی اس امر کی دلیل ہے کہ زمانہ آیندہ میں افراد کاملہ کی ایسی نسل پیدا ہو جائے گی جو حقیقی معنوں میں نیابت الٰہی کی اہل ہو گی۔ زمین پر خدا کی بادشاہت کے یہ معنی ہیں کہ یہاں یکتا افراد کی جماعت جمہوری رنگ میں قائم ہو جائے۔ ان کا صدرِ اعلیٰ وہ شخص ہوگا جو ان سب پر فائق ہو گا اور اس کا نظیر دنیا میں نہیں مل سکے گا۔ نیٹشے نے بھی اپنے تخیل میں افرادِ یکتا کی ایسی جماعت کی ایک ایسی ہی جھلک دیکھی تھی لیکن اس کے نسلی تعصب نے اس تصویر کو بھونڈا کر دیا تھا۔ ۲۱؎ ----- (۵) ------ کرئہ ارض پر انسان کی آمد اور انسانی معاشرے کے ارتقا پذیر ہونے کے بارے میں متعدد نظریات پائے جاتے ہیں۔ کوئی نظریہ اس بات کا پرچار کرتا ہے کہ انسان نچلے درجے کے حیوانات سے ارتقا پذیر ہو کر موجودہ سطح تک پہنچا ہے اور انسانی معاشرے پر بھی انھی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جن کے تحت حیوانات کا ارتقائی عمل جاری ہے۔اس نظریہ کے حامی ڈارون، لامارک اور اسپنسر وغیرہ ہیں جو انسانی معاشرے کے ارتقا میں قانون بقائے اصلح (Survival of the Fittest) اور ماحول سے مطابقت (Adaptation to the Environment) کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ہنری برگساں کے نزدیک جوششِ حیات (Elan Vital) ارتقا کی نت نئی شکلیں پیش کرنے کا ایک ایسا رجحان ہے جو تخلیقی عمل میں مسلسل پیچیدہ اور خطرناک راستے اختیار کر رہا ہے۔ قرآن کریم کی رو سے آدم کی تخلیق اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ملائکہ جو کہ پہلے سے ہی احکام الٰہی کی بجا آوری میں مصروف تھے اور ہر لمحہ اللہ کی تحمید و تقدیس میں منہمک رہتے تھے حیران ہوئے کہ اس مخلوق کو پیداکرنے کیا ضرورت تھی جو زمین پر دنگا فساد اور کشت و خون کا باعث بننے والی تھی۔ ملائکہ کا یہ سوال کوئی سرکش یا تمرد نہ تھا بلکہ صرف استعجاب تھا جس کے جواب میں اللہ نے فرمایا جو میں جانتا ہوںوہ تم نہیں جانتے۔ پھر اللہ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے، پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ’’کہ اگر تمھارا خیال صحیح ہے ( کہ کسی خلیفہ کے مقرر کرنے سے دنگا و فساد اور کشت و خون کا بازار گرم ہو گا اور نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو۔‘‘ملائکہ نے عرض کیا ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ۔ ہم کو تواتنا ہی علم حاصل ہے جتنا آپ نے عطا کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ہی سب کچھ جاننے والے اور حکمت والے ہیں۔‘‘ اللہ نے فرمایا ’’اے آدم!تم انھیں ان اشیاء کے نام بتائو۔‘‘ جب اس نے ان کو ان سب چیزوں کے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا کہ میں ہی آسمانوں اور زمین کے چھپے ہوئے بھید جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو وہ بھی جانتا ہوں۔‘‘ پھر اللہ نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر ابلیس نے انکار کر دیا اور اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔ پھر اللہ نے آدم اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے اور حسب منشا کھانے پینے کی اجازت دے دی۔ تاہم اللہ نے آدم و حوا کو ایک مخصوص درخت کے قریب جانے سے منع کر دیا۔ مگرشیطان نے انھیں بہکایا اور انھیں اللہ کے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا۔ اس حکم عدولی کی پاداش میں اللہ نے ان سب کو جنت سے نکال دیا اور انھیں ایک دوسرے کا دشمن (یعنی شیطان کا دشمن انسان اور انسان کا دشمن شیطان) بنا دیا۔ بعدازاں آدم نے استغفار کی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی۔ ۲۲؎ زمین پر اتارا جانا بطور سزا نہ تھا۔ بلکہ زمین پر انھیں اپنا خلیفہ بنانا شروع سے ہی مشیت الٰہیہ میں شامل تھا ورنہ معافی کے بعد انھیں جنت میں ہی رہنے دیا جاتا ۔ انسان اور شیطان دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر زمین پر اتار دینے کی کیا مصلحت تھی؟ یہ صرف اللہ کو ہی معلوم تھا۔ قرآن میں تخلیق آدم کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے وہ ’’عہد نامۂ عتیق‘‘ (Old Testament) کے بیان کردہ قصے سے قدرے مختلف ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم میں قصوں کا تذکرہ کسی تاریخی صورت حال کو اجاگر کرنے کے لیے نہیں بلکہ کسی عالمگیر اخلاقی سبق کی وضاحت کے لیے کیا جاتا ہے۔ علامہ کے نزدیک آدم اور حوا کا باغِ عدن یہ دنیابھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ قرآن نے زمین کو انسان کی آرام گاہ بتایا ہے جہاں اللہ نے اسے بااختیار بنا کر بسایا ہے۔ اس قصے میں بیان کردہ جنت سے مراد حیاتِ انسانی کا وہ دَور لی جاسکتی ہے جس میں وہ ابھی اپنے ماحول سے پوری طرح شناسا نہ ہوا تھا اور اسے اپنی کمزوری و محتاجی کا بھی شعور نہ تھا۔ علامہ کے خیال میں آدم کا شیطان کے بہکاوے میں آنا اور شجر ممنوعہ کا پھل کھانا وہ پہلا اختیاری عمل تھا جو اس نے اپنی مرضی اور اختیار سے کیا اور اسی وجہ سے یہ معاف بھی کر دیا گیا۔ ملائکہ کو اللہ کی طرف سے جو علم عطا کیا گیا تھا وہ محدود تھا اور ان کے کارہائے مفوضہ تک ہی محدود تھا مزید برآں ملائکہ آزادی اور اختیار بھی نہ رکھتے تھے۔ اس کے برعکس آدم کو جو علم عطا کیا گیا اس میں وسعت اور جامعیت تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اسے آزادی اور اختیار بھی ملا تھا۔ اس طرح بنی نوع آدم نے علم اور اختیار کے ساتھ اس کرئہ ارض پر اپنے ارتقا کا آغاز کیا اور تہذیب و ثقافت کی داغ بیل ڈالی۔ کرئہ ارض پر ہمیشہ سے اتنے وسائل اور اللہ کی نعمتیں موجود رہی ہیں کہ اولاد آدم نہایت آرام و سکون سے یہاں زندگی بسر کر سکتی تھی۔ لیکن پوری تاریخ انسانی کشت و خون، دنگا فساد اور ظلم و جور کی لرزہ خیز داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ فرشتوں کا استعجاب و استفسار غلط نہ تھا۔ ان کی توقعات کے عین مطابق انسان نے یہاں فساد بپا کیا اور خونریزی کی ۔ ابلیس انسان کا ازلی دشمن ہے۔ اس نے آدم کو جنت میںبہکایا اور زمین پر بھی اسے گمراہ کیا۔ اس نے شروع سے ہی انسان میں زیادہ سے زیادہ کی ہوس ، کمزوروں کا استحصال، فتنہ و فساد اور جنگ وجدل کے شعلے بھڑکائے۔ اس کی خباثت کے ساتھ ذہانت بھی ملی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس نے ذہین و فطین انسانوں کے ذریعے سے ایسے فلسفوں اور مسلکوں کو ایجاد کیا کہ بھائی بھائی کا گلاکاٹنے لگا اور طاقتور کمزور کو کچلنے لگا۔ ملوکیت ، اشتراکیت، فسطائیت، حتیٰ کہ جمہوریت بھی اس کے پیدا کردہ فتنے ہیں جن سے امن کی بجائے فساد پیدا ہوتا آیا ہے۔ انھی فتنوں میں سے ایک فتنہ وطنیت بھی ہے۔ وطن سے محبت، اس کی ترقی اور حفاظت نہایت مستحسن جذبہ ہے۔ لیکن جب وطن معبود کا درجہ اختیار کر لیتا ہے اور حب الوطنی پرستش کی حدوں کو چھونے لگتی ہے تو یہ ابلیسی مقاصدکو پوراکرنے لگتی ہے۔ کیونکہ ایک قوم اپنی برتری کے گھمنڈ اور تعصب میں اندھی ہو جاتی ہے اور دوسری اقوام کو تباہ و برباد کر دینے پر تل جاتی ہے۔ نسلی برتری اور قومی تعصب کا سبق تاریخ کے ہر دورمیں ابلیس اپنے پیرو کاروں کو پڑھاتا آیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمیشہ سے ہی انسانی گروہوں کے مابین دنگا فساد اور قتال وجدال کا بازار گرم رہا۔ لا تعداد مرد و عورتیں اور بچے ناحق قتل ہوتے رہے اور بچ جانے والے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جاتے رہے۔ مظلوم انسانوں کی ہڈیوں پر عالیشان قصر تعمیر ہوتے رہے جن میںظالم فاتحین عیش و عشرت کی ہر حد کو پھلانگتے رہے۔ بقول ڈینی سن انسانی تہذیب و تمدن کا وقیع الشان درخت اندر سے مکمل طور پر دیمک خوردہ ہو چکا تھا۔ عین ممکن تھا کہ انسانیت ابلیسی انتقام کا نشانہ بن کر ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی کہ اسلام کا ظہور ہوا اور دم توڑتے شرفِ انسانیت میں زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ طاغوتی قوتیں انگشت بدنداں رہ گئیں اور ملائکہ کے اندیشے غلط ثابت ہو گئے۔ حضرت محمد نے جزیرۃ العرب میں ایک ایسی ریاست قائم کی جس کی بنیاد ایک روحانی اصول یعنی کلمۂ توحید تھا۔ مختلف رنگوں، نسلوں ، علاقوں اور زبانوں کے لوگ اس عالمگیر برادری اور روحانی اخوت کا حصہ تھے جسے نیابت الٰہیہ کا شرف حاصل ہوا۔ چونکہ اسلامی ریاست میں تخلیقِ آدم کا اصل مقصد (استخلاف فی الارض) پورا ہوا اس لیے اس کا نام بھی ’خلافت‘رکھا گیا۔ حضور ؐکی حیات طیبہ میں اسلامی ریاست کا نظام براہِ راست آپؐ کے زیر نگرانی رہا جس کی تین اہم جہتیں تھیں: دفاعی و فوجی جہت، انتظامی و شرعی جہت اور روحانی و تبلیغی جہت۔ آپؐ کی وفات کے بعد نیابت الٰہیہ کا منصب خلفاے راشدین کی طرف منتقل ہو گیا۔ یہ ایسے حکمران تھے جو حضورؐ کے خلیفہ یا جانشین تھے، اس لیے ان کا دور حکومت ’’خلافۃ علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کہلایااور اس میں حکمرانی کی تینوں مذکورہ جہتیں برقرار رہیں۔۲۳؎ یعنی حکمران مسلمانوں کے دفاعی معاملات اور فوجی مہمات کا سر براہ بھی ہوتا تھا، داخلی انتظامی معاملات اور عدالتی و شرعی امور کا نگران بھی ہوتا تھا اور دین کی تبلیغی اور روحانی سرگرمیوں کی حفاظت و نگہداشت بھی اس کے ذمہ ہوتی تھی۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں اسلامی مملکت کا دائرہ بڑا وسیع ہو گیا تھا۔خلافتِ راشدہ کے بعد اموی اور عباسی خلفاء آئے۔ حکمرانی کی تینوں جہتیں جدا جدا ہو گئیں۔ حکمرانی مطلق العنان ملوکیت کا رنگ اختیار کر گئی۔ مال و دولت کی فراوانی نے حکمرانوں کو عیش پرست بنا دیا۔ صالح اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ بتدریج حصول اقتدار کی سازشوں اور منافقتوں سے پہلو بچا کر گوشہ نشین ہو گئے۔ زمام حکومت فاسق فاجر افراد کے ہاتھ میں چلی گئی۔ علامہ نے زوال امت کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی گنوایا ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد اعلیٰ فکری صلاحیتوں کے حامل اور شفاف سیرت و کردار رکھنے والے لوگ بتدریج دنیاوی امور اور کاروبار جہانبانی سے الگ ہو کر تصوف کی طرف مائل ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی قیادت عام (اور بعض حالات میں کم ظرف اور بدکار) لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ۔۲۴؎ خلافت صرف سیاست رہ گئی اور اس کی روحانی جہت کا خاتمہ ہو گیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ انتظامی امور بھی نائبین اور وزراء نے سنبھال لیے اور خلفاء کا کام قصر خلافت میں داد عیش دینا رہ گیا۔ اموی اور عباسی خلفاء میں بعض ایسے بھی آئے جنھوں نے خلافت راشدہ کے ماڈل کو اپنانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ تاہم ان میں ایسے بھی تھے۔ جنھوں نے برملا قرآن و سنت سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اسلام کی ابتدائی چند صدیوں میں اردگرد کے متعدد ممالک خلافت اسلامیہ کے زیرنگیں آ گئے۔ سندھ کے علاوہ اسلامی سلطنت کی حدود اندلس اور مغرب اقصیٰ سے لے کر بلخ، سمرقند اور فرغانہ تک پھیل چکی تھیں۔خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں وسط ایشیا کے بے شمار قبائل اور بڑی بڑی آبادیاں بغیر فوجی دبائو کے از خود اسلام قبول کرنے لگی تھیں۔ افغانستان اور ترکستان کے ترک خانوں اور سرداروں کو خلافتِ اسلامیہ میں خوش دلی سے قبول کیا گیا۔ پھر انھی ترکوں کی اولاد نے ہندوستان میں وسیع اسلامی مملکت قائم کی جس کی سرحدیں بنگال بلکہ برما کے اضلاع تک اورجنوب میں ہندوستان کے آخری گوشے راس کماری تک پہنچ گئیں۔ امویوں کے دور تک خلافتِ اسلامیہ کا انتظام ایک ہی مرکز کے تحت ہوتا تھا۔ عباسیوں کے دور میں دور دراز کے صوبوں اور ولایتوں میں وراثتی حاکم مقرر کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس سے مرکز کمزور ہوتا گیا اور مختلف ولایتوں میں حصول اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔ تاہم کوئی صوبہ یا ولایت اپنے طور پر خود مختار بننے کے بعد بھی خلافتِ اسلامیہ سے تعلق توڑتی نہیں تھی۔ ان میں سے بعض تو باقاعدہ دربارِ خلافت کی با جگزار تھیں۔ علامتی طور پر ہی سہی، دربار خلافت سے اپنے لیے سند یا منظوری حاصل کرتی تھیں۔ عباسیوں کے بعد خلافت ترکوں کے ہاتھ میں آگئی اور وہ تبرکات نبویؐجن کا خلیفۃ المسلمین محافظ اور امین متصور ہوتا تھا، استنبول منتقل کر دیے گئے۔ اس طرح مسلمان شروع سے لے کر خلافت عثمانیہ کے اختتام تک تقریباً تیرہ سو سال تک خلافت کے نظام کے تحت زندگی بسر کرتے رہے۔ اگرچہ خلافت اسلامیہ کے مختلف ادوار میں خانہ جنگیوں، سازشوں ، فتنوں اور قتال و جدال کا بازار گرم رہا، تاہم مجموعی طور پر مسلمانوں کی عزت و ناموس محفوظ رہا اور وہ اپنے شعائر دینی کے مطابق زندگی بسر کرتے رہے۔ حتیٰ کہ تاتاریوں کی یلغار، سقوط بغداد اور زوال اندلس جیسے عظیم سانحے بھی وقتی بحران پیدا کرکے ختم ہو گئے،صلیبی جنگوں کے دھچکے بھی مملکتِ اسلامیہ میں دراڑیں نہ ڈال سکے۔ اگر بعض مسلمان حکمران نااہل اور ناعاقبت اندیش تھے جنھوں نے خلافت کے روحانی اور تبلیغی فرائض کی طرف سے آنکھیں بند کیے رکھیں تو دوسری طرف ہر دور میں علماء ، فقہاء ، صالحین اور صوفیہ کی جماعتیں موجود اور فعال رہیں جن کی مساعی سے اسلام کی تعلیمات کی ضو پاشی میں اضافہ ہوتا رہا اور روحانی و اخلاقی فیوض و برکات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح ایک عالمی ریاست، وحدتِ بشری اور عالمگیر انسانی اخوت کا وہ تصور کبھی بھی نہ دھندلایا جو آدم کی تخلیق کے وقت منشائے الٰہی تھا اور جسے’’استخلاف فی الارض‘‘ سے موسوم کیا گیا تھا۔ ابتدا میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ علامہ کے فلسفۂ خودی اوربے خودی کا یہی مرکزی نقطہ ہے۔ وہ انفرادی خودی کی تعمیر اور اس کے استحکام پر زور دیتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ زور وہ افراد کے وجودِ ملی میں مدغم ہونے پر دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسی عالمی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں جس کے تمام افراد کامل و یکتا ہوں اور وہ سب ایک روحانی جمہوری نظام میں رہ رہے ہوں۔ ان کا وطن زمین کا ایک خطہ نہ ہو بلکہ پورا کرئہ ارض ان کا وطن ہو۔ ----- (۶) ------ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا کی داستان نامکمل رہے گی اگر اُس کردار کا ذکر نہ کیا جائے جس کے لہو نے بقول علامہ ’’قصۂ آدم کو رنگین کر دیا۔‘‘ مشیت الٰہیہ سے سرکشی کرنے والا یہ کردار ابلیس کا ہے جو خود کو آدم اور ملائکہ سے برتر سمجھتا تھا۔ اس نے خدا کے فیصلے کو غلط ثابت کرنے اور انسانوں کو بہکانے کے لیے مہلت اور اختیار طلب کیا جو کہ اسے دے دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابلیس آسمانی مخلوقات میںسب سے زیادہ ذہین اور چالاک تھا۔ آدم کے ساتھ اسے بھی باغِ عدن سے نکال دیا گیا۔ اپنی ذہانت اور چالاکی سے وہ آسمانی مخلوقات کی ایک کثیر تعداد کو بہکا کر اپنے ساتھ زمین پر لے آیا جسے ہم ذریت ابلیس کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ابلیس کا خیال تھا کہ کائنات کے نظام کو چلانے کا جو منصوبہ اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا وہ قابل عمل نہ تھا۔ اس کا یہ نقطۂ نظر اس مفروضے پر قائم تھا کہ اگر کسی مخلوق کو اختیار اور طاقت سے نواز دیا جائے تو وہ اللہ کی طرف راغب نہیں ہو گی۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان محض خدا کی عظمت و جلالت کے پیش نظر اور اس سے محبت و عقیدت کے جذبے کے تحت اس کی اطاعت کرے۔ ابلیس کی آئیڈیالوجی یہ تھی کہ صرف طاقت ہی حق و صداقت ہے اور کمزوروں پر طاقتور ہی حکمرانی کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اپنے اسی دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے اس نے زمین پر بنی نوع انسان کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا مشن شروع کیا۔ ابلیس اور اس کے چیلوں نے پہلے دن سے اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے شروع کر دیے تھے۔ بھائی کو بھائی سے مروا دیا۔ اولاد کو باپ سے باغی کر دیا۔ انسانی گروہوں کے درمیان معمولی تنازعات پر کشت و خون کا بازار گرم کروایا۔ اشرف المخلوقات کو جمادِ لا یعقل کے آگے سجدہ ریز کروایا اور اصنام و اوثان کی پرستش کے لیے باقاعدہ مندر اور بت کدے تعمیر کروائے۔ الغرض شیطانی قوتوں نے انسانوں کو اللہ کے راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن انبیاء علیہم السلام مسلسل فریضۂ رشد و ہدایت سر انجام دیتے رہے اور حق کی روشنی طاغوتی ظلمتوں میں بہت زیادہ نہ سہی، لیکن برقرار ضرور رہی تاآنکہ حضرت محمدؐ کی حیاتِ مبارکہ میں استخلاف فی الارض کا منشاے الٰہی عملاً پورا ہو گیا اور ابلیس کا مفروضہ کہ خالصتہً رضائے الٰہی کے لیے اللہ کی اطاعت ممکن نہیں، غلط ثابت ہو گیا۔ ابلیس کا طریقِ کار یہ تھا کہ وہ ہر دور کے ذہین ترین انسانوں کا انتخاب کرتا اور ان پر اپنا سحر پھونک کر ان کے جسم و جاں پر قابض ہو جاتا اور انھی کے ذریعے سے وہ اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہناتا۔ ایسے خفیہ معبد اور لا جز ہمیشہ موجود رہتے ہیں جنھیں شیطانی منصوبہ بندیوں اور سازشوں کے مراکز کہا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسی قدیم اور خفیہ دستاویزات ’’پروٹوکولز‘‘ کے نام سے دستیاب ہوئی ہیں جن سے شیطان کی اس بین الاقوامی سازش کا سراغ ملا ہے جس کا مقصد ساری دنیا کی حکومتوں اور مذاہب کی تباہی اور ایک عالمی شیطانی حکومت کا قیام ہے۔۲۵؎ ۱۷۸۴ء میں Ingoldstandt یونی ورسٹی کا قانون کا ایک پروفیسر آدم وائزہاپٹ (Adam Weishaupt) مسیحیت سے منحرف ہو کر اس شیطانی فرقے کا رکن بن گیا۔ اس نے ’’عہد قدیم‘‘ کے ’’پروٹوکولز‘‘ کی تدوین نو کی اور کرئہ ارض پر شیطان کی حکومت کے قیام کے جدید طریق ہائے کار وضع کیے۔ وائزہاپٹ نے حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کا بہانہ بنا کر دوہزار کے قریب اعلیٰ ترین ذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد کو خطیر مشاہروں پر بھرتی کیا۔ یہ بہترین دماغ سائنس،طب، انجینئرنگ، آرٹس، معاشیات ، انڈسٹری اور بزنس جیسے شعبوں سے تعلق رکھتے تھے اور دنیا میں ان کی ٹکر کے لوگ ملنا مشکل تھے۔ ان لوگوں کو خفیہ مراکز اور لاجز سے وابستہ کرکے ان کی اس طرح برین واشنگ کی کہ شیطانی آئیڈیالوجی ان کے رگ و پے میں رچ بس گئی۔ ان کو ’’ایلیو میناٹی‘‘(Alluminati) کا نام دیا گیا جس کا معنی ہے ’’روشنی والے یا مشعل بردار‘‘! ایلیومیناٹی کے قلب و نظر میں یہ عقیدہ راسخ کر دیا گیا کہ صرف وہی اس دنیا پر حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ وہ ذہنی اور فکری طور پر ساری دنیا کے انسانوں پر فائق ہیں۔ ایلیومیناٹی کے علاوہ باقی ساری دنیا کے لوگ ’’گویم‘‘ (Goyim) یعنی ’’انسانی مویشی‘‘ (Human Cattle) ہیں جن کا جان و مال ایلیومیناٹی پر حلال ہے۔ ایلیومیناٹی جس طرح چاہیں ساری دنیا کے وسائل پر قابض ہو سکتے ہیں، گویم کو غلام بنا سکتے ہیں، ان کی املاک اور وسائل پر قابض ہو سکتے ہیں، ان کا قتلِ عام کرکے یا بیماریاں پھیلا کر ان کی بڑی بڑی آبادیوں کو محدو د اور مختصر کر سکتے ہیں۔ ایک عالمی حکومت کے قیام کے سلسلے میںجو منصوبہ تیار کیا گیا وہ کچھ یوں تھا: (۱) تمام حکومتوں کے اہم اور صاحبِ اختیار و اقتدار افراد کو اپنی مٹھی میں کیا جائے۔ اس کے لیے خطیر رقوم بطور رشوت پیش کی جائیں۔ حسین اور ذہین عورتیں انھیں اپنے حسن و جمال کے جال میں پھنسا کر ان سے حساس اور اہم نوعیت کے راز حاصل کریں۔ جہاں ضروری ہو انھیں سیاسی اور سماجی طور پر بلیک میل کیا جائے، معاشی طور پر تباہ و برباد کر دینے کی دھمکی دی جائے یا موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ (۲) یونی ورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ایسے خصوصی طور پر ذہین اور طبّاع طلبہ کا انتخاب کیا جائے جنھیں ایک عالمی حکومت کا خواب دکھا کر انھیں شیطانی منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ انھیں قائل کیا جائے کہ دنیا میں مسلسل جنگ و جدل ، ناانصافی ، غربت، جہالت اور پسماندگی کا خاتمہ صرف ایسی عالمی حکومت ہی کر سکتی ہے جو سائنسی ، فنی، سماجی ، سیاسی ، اخلاقی اعتبار سے اہل ترین ہو۔ ایسے طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے پرکشش وظائف اور دیگر مراعات مختص جائیں۔ (۳) ایلیومیناٹی، پریس اور دیگر تمام ایسی ایجنسیوں کا مکمل کنٹرول حاصل کریں جو عوام الناس تک اطلاعات پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ (۴) تمام ممالک میں ایسے ماہرین، فنی معاونین اور مشیر بھیجے جائیں جو بظاہر اس ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے کام کریں، لیکن در پردہ وہ عالمی سازشوں کا تانا بانا تیار کریں۔ اس بین الاقوامی تنظیم اور اس کے اغراض و مقاصد کا بعض حکومتوں کو پتا چل گیا۔ چنانچہ ان کے خفیہ مراکز پر چھاپے مارے گئے، ان کے اہم افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خفیہ ریکارڈ کو قبضے میں لے لیا گیا۔ لیکن ایلیومیناٹی اتنے طاقت ور اور با اثر ہو چکے تھے کہ حکومتوں کی کارروائیاں ان پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ انھوں نے زیر زمین رہ کے خفیہ طور پر اپنی سرگرمیاں تیز تر کر دیں۔ راتھ شائلڈ(Roth Schild)نے سرمایہ دارانہ معیشت اور سودی بنکنگ کو اتنا فروغ دیا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسی حکومتیں بھی ایلیومیناٹی کی غلام بن کر رہ گئیں۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ صرف فری میسن اور صہیونی (Zionists) ہی ایلیومیناٹی کے معیار پر پورے اترے اور ان کے نمایندے بنے۔ ۲۶؎ مذکو رہ ’’پروٹوکولز‘‘ میں صہیونی اژدہے کی ایک تصویر دی گئی ہے جو پورے کرئہ ارض کو اپنی کنڈلی میں لے رہا ہے۔ وہ جن جن ممالک میں سے گذر رہا ہے وہاں کی معیشت کو تباہ کرتا اور امن و امان برباد کرتا جا رہا ہے۔ عالمی حکومت کے قیام کے سلسلے میں ہی بڑے بڑے انقلابات برپا کیے گئے اور دنیا پر عالمی جنگیں مسلط کی گئیں۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں زارِ روس کی قوت کو توڑا گیا۔ خلافتِ عثمانیہ ختم کرکے مسلمانوں کی متعدد ’’نیشن اسٹیٹس‘‘ بنائی گئیں۔ شریف مکہ کو عرب ریاستوں کا شہنشاہ بنانے کا جھانسہ دیا گیا تھا، بعد میں اسے حجاز کی بادشاہی پر ٹرخا دیا گیااور اس کے بیٹے کو عراق کا کٹھ پتلی حکمران بنا دیا گیا۔ ترکی، جرمنی اور آسٹریا کو ایسے معاہدوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جن کی شرائط انتہائی توہین آمیز تھیں۔ مصر، برطانیہ کی تحویل میں چلا گیا۔ شام و لبنان فرانس کی عمل داری میں دے دیے گئے ۔ سلطنت آسٹریا کے حصے بخرے کرکے زیکو سلواکیا، ہنگری اور یوگوسلواکیا کی نئی مملکتیں پیدا کی گئیں۔ ترکی ، بلغاریہ اور جرمنی کے اہم مقامات پر قبضہ کرکے ان کے وسائل پر تصرف حاصل کر لیا گیا اور ان ممالک پر بھاری جرمانے اور تاوان عاید کیے گئے ۔ دوسری جنگ عظیم میں وہ مقاصد پورے کیے گئے جو جنگ عظیم اوّل میں ادھورے رہ گئے تھے۔ ان میں دو مقصد نمایاں تھے۔ نازی ازم کا خاتمہ اور اسرائیل کی صہیونی ریاست کا قیام! پھر دنیا تقریباً پون صدی تک سرد جنگ کا شکار رہی جس کا خاتمہ سوویت یونین کے انہدام پر ہوا۔ دنیا میں ایک ہی عالمی قوت رہ گئی۔ اس کے مقابل کوئی حریف قوت نہ تھی جس سے یہ نبردآزما ہو سکتی۔ چنانچہ نائن الیون کا ڈراما کرکے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کا ہوّا کھڑا کیا گیا جسے جواز بنا کر امریکہ دنیا کے کسی ملک میں بھی اپنی فوجیں اتار سکتا ہے۔ یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں انھوں نے مختلف جگہوں پر اپنی فوجی کارروائیاں شروع کر دیں اور اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کیا۔دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کا پہلا مقصد اسرائیل کی ریاست کا تحفظ اور اس کی توسیع ہے۔ دوسرا مقصد وسط ایشیا اور عرب ریاستوں کے وسائل پر قبضہ ہے۔ اس کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ چھوٹی نیشن اسٹیٹس کے مابین تضادات کو ہوا دے کر انھیں آپس میں لڑایا جائے تاکہ وہ معاشی ، اخلاقی اور نفسیاتی طور پر اتنی کمزور اور مضمحل ہو جائیں کہ ان کے اندر سر اٹھانے کی سکت ہی نہ رہے۔ اس جنگ کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ چین اور روس کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ یہ وہ ابلیسی منصوبہ ہے جس پر بڑے سوچے سمجھے اور ماہرانہ انداز میں عمل کیا جا رہا ہے۔ علامہ نے بڑی تفصیل سے ان فتنوں کا ذکر کیا ہے جو شیطانی قوتوں نے سرمایہ داری ، ملوکیت ، اشتراکیت، جمہوریت، فاشزم وغیرہ کے نام پر دنیا میں پھیلائے ہیں۔ علامہ نے ارمغان حجاز میں ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘میں ابلیس کے رد عمل کا ذکرکیا ہے۔ ابلیس دنیا میں پھیلائے ہوئے اپنے فتنوں کا جائزہ لیتا ہے اور اطمینان کا اظہار کرتا ہے لیکن آنے والے وقت میں وہ اپنے اندیشوں کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے مستقبل میں صرف اسلام سے خطرہ ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی عالمی حکومت قائم ہو گئی تو وہ صرف اسلام کی ہو گی جو دنیا پر شیطانی حکومت کے خواب کا تاروپود بکھیر دے گی۔ علامہ نے وطنیت اور قوم پرستی کو اسلام کی روح کے منافی قرار دیا ہے کیونکہ اس سے ایک طرف وطن اور قوم انسان کے لیے معبود کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں تو دوسری طرف اس سے تمام بنی نوع انسان کی ہدایت اور فلاح کا نصب العین ناممکن الحصول بن جاتا ہے۔ تاریخ اسلام پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ علاقائی، گروہی ، نسلی اور لسانی تعصبات نے مسلمانوں کو اکثر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ خلافت عثمانیہ کو پارہ پارہ کرکے چھوٹی چھوٹی قومی ریاستیں بنانے میں دشمنوںنے اسے ایک خصوصی حربے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ علامہ اس امر سے پوری طرح آگاہ تھے کہ قوم پرستی کے اندھے جذبے نے ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اسلامی خلافت کی ٹھوس اور زندہ حقیقت کو ماضی کاخواب بنا دیا ہے۔ لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلامی خلافت کا احیا اس کی روایتی شکل میں ممکن نہ ہو سکے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ استخلاف فی الارض کا منصوبۂ الٰہی ناکام ہو گیا ہے۔ زمین پر حکومت الٰہیہ کا قیام اور وحدتِ بشری کا آسمانی منصوبہ تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ اب بھی قابل عمل ہے اور شاید مشیت الٰہیہ بھی یہی ہے کہ اب یہ اس نئے انداز میںتکمیل پذیر ہو ۔۲۷؎ علامہ اپنے دور کے سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی تقاضوں کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ چنانچہ وہ اردگرد کے حالات پر مجتہدانہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلافت یا امامت ضروری نہیں کہ فردِ واحد کو سونپی جائے ۔ خلافت یا امامت کے اختیارات و فرائض نیک صالح اور قابل افراد کے ایک گروہ کو بھی تفویض کیے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ علامہ کے خیال میں ری پبلکن طرزِ حکومت نہ صرف یہ کہ موجودہ دور میں ازبس ضروری ہے بلکہ یہ اسلامی رو ح کے عین مطابق بھی ہے۔ اب جب کہ ملتِ اسلامیہ چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں منقسم ہو چکی ہے، اسے ایک واحد مرکزی پرچم تلے متحد کرنا ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہر اسلامی ریاست اپنا قومی تشخص برقرار رکھتے ہوئے دوسری اسلامی ریاستوں کے ساتھ ممکنہ حد تک اپنے لسانی ، علاقائی اور سیاسی اختلافات کا تصفیہ کرے اور اپنی پوری توجہ اپنے داخلی استحکام پر مرکوز کر دے۔ اس کے بعد وہ سب مل کر اپنا ایک اتحاد تشکیل دیں۔ اس طرح خلافت کی بجائے ایک ’’لیگ آف مسلم نیشنز‘‘ وجود میںآئے گی جو اسلامی اتحاد اور اخوت کی ایک زندہ مثال ہو گی۔۲۸؎ اسی میں ماضی کی خلافت اور ملت اسلامیہ کا احیا ایک نئے انداز میں ہو گا۔ خخخ حواشی وحوالہ جات ۱- بی۔ اے۔ ڈار(مرتب)، انوار اقبال، کراچی، ۱۹۶۷ئ، ص ۱۷۶-۱۷۸۔ 2- Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, ed. M. Saeed Sheikh, Institute of Islamic Culture, Lahore, P.26. ۳- ایضاً۔ ۴- کانٹ جب Phenomenon اور Noumenon کا ذکر کرتا ہے تو یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ شئے فی نفسہٖ یا Noumenon موجود ضرور ہے جو پر اسرار علت کی حیثیت سے تحسّسات کا غیر مربوط شیرازہ ذہن میں پیدا کرتا ہے جس سے مظاہر Phenomena کی دنیا وجود پذیر ہوتی ہے۔ ۵- خلیفہ عبدالحکیم، فکر اقبال، بزم اقبال، لاہور،۲۰۰۵ء ، ص ۶۴۔ ۶- علامہ محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، (مترجم: نذیر نیازی)، بزم اقبال، لاہور، ص ۱۰۹-۱۱۰۔ 7- Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.57. ۸- قطرہ چوں حرفِ خودی ازبر کند ہستیِ بے مایہ را گوہر کند ۹- علامہ اس بات کے قائل نہیں کہ فرد اپنی ذات کی نفی کرکے حقیقت مطلقہ میں گم ہو جائے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ حقیقت مطلقہ یعنی صفات الٰہیہ (یا صبغتہ اللہ) کو اپنے اندر جذب کر لو۔ مومن وہ نہیں جو آفاق میں گم ہو بلکہ آفاق مومن میں گم ہوتے ہیں۔ ایسے تمام مذاہب اور فلسفے جو ذات ، خودی یا انا کو موہوم یا ’مایا‘ قرار دیتے ہیں، باطل ہیں۔ ان کے نزدیک اثباتِ ذات اور استحکام خودی سب سے اہم صداقت ہے۔ البتہ صوفیانہ واردات میں جب صفاتِ الٰہیہ کا غلبہ ہوتاہے تو انسانی خودی بہت حد تک دب جاتی ہے، تاہم معدوم نہیں ہوتی۔ رومی کے الفاظ میں لوہے کا بد رنگ اور زنگارآلود ٹکڑا جب آگ میں ڈالا جاتا ہے تو وہ اس حد تک تپ جاتا ہے کہ لپٹیں دینے لگتا ہے اور زبانِ حال سے ’’من آتشم! من آتشم ‘‘ پکارتا ہے۔ لیکن اس حالت میں بھی بطور لوہا اس کی انفرادیت برقرار رہتی ہے اور جب اس پر سے آگ کا غلبہ ختم ہو جاتا ہے تو لوہے کا ٹکڑا اسی طرح برقرار رہتا ہے۔ تاہم اس ’’آتشی تجربے‘‘ سے اس کی قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے۔ اس کا زنگ اور بدرنگی ختم ہو جاتی ہے اور وہ پہلے سے زیادہ ٹھوس اور صیقل ہو جاتا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ صوفیانہ واردات میں صفات الٰہیہ کا غلبہ وا ستیلا خودی کو معدوم نہیں کرتا بلکہ اسے استحکام بخشتا ہے اور اس کے اندر مثبت اور تخلیقی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ ۱۰- دنیا میں کئی طرح کے فلسفے اور طرز ہائے حیات پائے جاتے ہیں۔ بدھ فلسفہ زندگی اور اس کے تمام متعلقات کو غیر حقیقی اور ظنی قرار دیتا ہے اور نفی ذات کی تلقین کرتا ہے جس سے وہ نروان کی کیفیت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ مسیحی رہبانیت بھی نفیِ ذات کی تلقین کرتی ہے۔مسیحی مذہب کی ابتدائی صدیوں میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے کہ سچے عیسائیوں نے اپنے مخالفین کے جو رو جبر سے بچنے کے لیے شہروں کی سکونت ترک کر دی اور پہاڑوں کی غاروں اور گپھائوں میں سکونت اختیار کر لی۔ اصحاب کہف کا واقعہ بھی ایسے ہی حالات کے تحت پیش آیا۔ (دیکھیے ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد اوّل بذیل تفسیر سورۂ کہف)۔بعدازاں رہبانیت کے باقاعدہ ادارے بن گئے اور یورپ کی اکثر آبادیوں میں ایسی الگ تھلگ عمارات تعمیر کی جانے لگیں جن میںعیسائی راہب اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک معتکف اور گوشہ نشین رہتے تھے۔ ایسی عمارتوں کو Logette کہا جاتا تھا۔ کھدائی کے دوران اس طرح کی عمارات بھی ملی ہیں جو چاروں طرف سے بند کمرے کی طرح تھیں اور ان میں صرف ایک چھوٹی کھڑکی ہوتی تھی۔ کوئی تارک الدنیا خود کو ایسے کمرے میں بند کر دیتا ۔ کھڑکی کے راستے ہوا اندر آتی اور لوگ کچھ کھانے پینے کی اشیاء اندر ڈال دیتے۔ وہ شخص اس کمرے میں زندگی کے بقیہ ایام گذار دیتا۔ ان مقابر سے ایسے ڈھانچے بھی ملے ہیں۔ جو رکوع یا سجود کی حالت میں ہیں۔ ایسے لوگوں کا مشن اپنی ذات کی نفی تھا جس کی آخری شکل موت تھی۔ایسے فلسفوں کا آغاز افلاطون کی تعلیمات سے ہوا جن کی رو سے انسانی جسم روح کا پنجرہ ہے جس سے نجات کی کوشش سب سے بڑی فضیلت ہے۔ پھر یہ فلسفے بدھ مت اور مسیحی تعلیمات میں مقبول ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ میں ایسے سیاہ ادوار بھی آئے جب صالحین کے لیے عزلت اور گوشہ نشینی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا تھا۔ دورِ حاضر میں دو عالمی جنگوں کی ہولناک تباہی اور لاکھوں انسانوں کی ہلاکت و بربادی کے ردِ عمل کے طور پر یورپ میں جو فلسفہ ابھرا اور مقبول ہوا اسے وجودیت(Existentialism) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس فلسفے نے ایسے تمام نظریات کا ابطال کر دیا جو کلیت پسند (Totalitarian) تھے اور فرد کے وجود پر حقیقت مجردہ یا ماہیت (Essence) کو مقدم سمجھتے تھے۔ وجودیت فرد کو اہمیت دیتی ہے اور اس ضمن میں فرد کی وجودی صورت حال (Predicament) پر زور دیتی ہے مثلاً خوف، دہشت، کرب، تنہائی، فرد کا فیصلہ وغیرہ۔ علامہ اقبال ایسے فلسفوں کی حمایت نہیں کرتے کیوں کہ ان سے زندگی کے حرکی اور تخلیقی تصور کی نفی ہوتی ہے۔ ۱۱- علامہ محمد اقبال، ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘، مقالات اقبال، مرتبہ: ایس اے واحد معینی، شیخ محمد اشرف ، لاہور، ۱۹۶۳ئ، ص ۱۱۸-۱۱۹۔ ۱۲- ایضاً۔ ۱۳- یَا اَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوُا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً کثیراً و نِسآئً (النسائ:۱) ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں‘‘ ایک جان سے مراد ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا میں مِنْھَا سے وہی ’’جان‘‘ یعنی حضرت آدم علیہ السلام مراد ہیںیعنی حضرت آدم علیہ السلام سے ان کی زوج (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم علیہ السلام سے کس طرح پیدا ہوئیں اس بارے میں حدیث ہے اِنَّ الْمَرْاۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ (صحیح بخاری، کتاب دء الخلق)یعنی حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ ۱۴- مقالات اقبال ، ص ۱۱۸-۱۱۹ 15- Giddens Anthony, Sociology, 4th ed. 2004, Polity Press Cambridge C B2 I.U.R UK, P. 40. 16- Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.116. ۱۷- ایضاً۔ ۱۸- مقالاتِ اقبال، ص ۱۲۰۔ ۱۹- امتِ مسلمہ کے اسی کردار کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: لَاتجِدُ قَوْماً یُّوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوا دُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَ لَوْ کَانُوْا آبَآئَ ھُمْ اَوْ ابْنآئَ ھُمْ اَوْ اِخْوانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَ تَھُمْ اُوْلٰئِک حِزْبُ اللّٰہِ ألَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الغٰلِبُونَ (المجادلہ :۲۲) ’’تم ایسا ہر گز نہ پائو گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یوم آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور رسول کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھے خواہ وہ اس کے باپ بیٹے یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں یہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں … اور جان رکھو کہ آخر کار اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ خدا کے دین کے دشمن خواہ وہ نصاریٰ ہوں، یہود ہوں، ہنود ہوں یا کسی اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، اللہ کے نزدیک وہ شیطان کی ہی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں: اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشّیْطٰنُ فَانَسٰھُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُوْلٓئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلَا اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ھُمُ الخٰسِرُوْنَ (المجادلہ:۳) ’’شیطان ان پر غالب آ گیا اور اس نے انھیں خدائی یاد سے غافل کر دیا۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں اور جان رکھو کہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہی بالآخر ناکام و نامراد رہنے والے ہیں۔‘‘ قرآن حکیم کے مطابق دنیا میں صرف دو ہی جماعتیں ہیں جو ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار رہی ہیں۔ ایک حزب اللہ جس کا مابہ الامتیاز نظریہ توحید ہے اور دوسری حزب الشیطان جو توحید کی منکر ہے۔ علامہ اقبال نے انھی دونوں پارٹیوں کو شاعرانہ علامتوں ’’چراغِ مصطفوی‘‘ اور ’’شرار بولہبی‘‘ سے تعبیر کیا ہے جن کی ستیزہ کاری ازل سے جاری ہے۔ ۲۰- مقالاتِ اقبال، ص ۱۲۰۔ ۲۱- چشتی ، محمد یوسف خاں سلیم، شرح اسرارِ خودی، اقبال اکیڈیمی ،ظفر منزل، تاج پورہ ،لاہور، سنہ ندارد۔ ۲۲- قرآن مجید، سورہ البقرہ :۳۹-۳۰۔ ۲۳- اسی خلافت کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا تھا: خِلَافَۃُ النُّبُوَّۃ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃُٗ ’’یعنی خلافت علی منہاج النبوت تیس سال تک ہو گی۔‘‘ (ابوداؤد :السنن، ۴:۲۱۱، طبع قاہرہ) 24- Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam,P.119. ۲۵- ۱۷۸۴ء میں بویریا کی حکومت کے ہاتھ یہ خفیہ دستاویزات آئیں جن سے اس ابلیسی منصوبے کا انکشاف ہوا۔ ان دستاویزات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ کسی طرح ابلیس اور اس کے مقلدین صدیوں سے ایسی حکومت کے قیام کے لیے مرحلہ وار کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان دستاویزات کا مطالعہ انٹرنیٹ پر اس عنوان کے تحت کیا جا سکتا ہے: Protocols of the Learned Elders of Zion. ۲۶- اس ابلیسی منصوبے ، عالمی حکومت کے قیام کے لیے بین الاقوامی سازشوں اور عالمگیر جنگوں کے پس پردہ کار فرما محرکات و عوامل کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے ملاحظہ کیجیے : Car, William Guy, "Pawus in the Game". 1958, specially printed and bound for inclusion in American and European libraries. 27- Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.124. ۲۸- ایضاً ، ص ۱۲۶۔ علامہ نے ’’لیگ آف مسلم نیشنز‘‘کے قیام کو جدید اسلام کا ایک اہم تقاضا قرار دیا ہے۔ اس کی (علامتی اور غیر فعال سہی) ایک شکل او۔ آئی۔ سی ۔ کی صورت میں موجود ہے۔ مزید برآں ایسے بین الاقوامی اتحاد تشکیل دینا عصرِ حاضر میں اقوام عالم کی ضرورت بھی ہے اور چلن بھی۔ مثال کے طور پر آر۔ سی ۔ ڈی۔ یورپین یونین اور شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ خخخ علامہ اقبال کے خطبات میں فلسفۂ زمان و مکان آئن سٹائن کے خصوصی نظریۂ اضافیت کی روشنی میں ڈاکٹر محمد سلیم انسان نہ معلوم کب سے یہ سوچ رہا ہے کہ زمان و مکان کی ماہیت کیا ہے۔ ہم تاریخ کے جھروکے سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ارسطو یہ کہتا ہوا سنائی دیتا ہے کہ وقت تبدیلی کو ناپتا ہے۔دن رات کے یکے بعد دیگرے آنے، موسموں کے اپنے آپ کو دہرانے وغیرہ سے افلاطون نے یہ نتیجہ نکالا کہ وقت ایک دوری شے ہے۔ اس کا ایک آغاز ہوتا ہے اور وہ چکر کاٹ کر پھر اپنی پہلے والی حالت میں آ جاتا ہے۔ سترہویں صدی میں بیکن(Bacon) نے سیدھی سمت والے(Linear) وقت کا تصور پیش کیا اور سائنس دانوں اور فلاسفروں، مثلاً نیوٹن(Newton) ، لائبنز(Leibnitz)اور کانٹ(Kant) کے زیرِ اثر انیسویں صدی میں سیدھی سمت والے(Linear) وقت کا تصور سائنس اور فلسفہ دونوں میں غالب تھا۔ نیوٹن نے آخر کار یہ کہا کہ زمان بغیر کسی خارجی حوالے کے مطلق اور حقیقی ہے اور یکساں رفتار سے بہتا ہے۔ زمان ایک قائم بالذات (Self-Subsistent) شے ہے۔ چنانچہ دو واقعات کے درمیان وقفہ خواہ اسے کہیں سے بھی ناپا جائے ایک ہی ہوگا۔ اسی طرح مادہ (matter) بھی ایک قائم بالذات شے ہے۔ وہ اپنی ہیئت تو بدل سکتا ہے لیکن کائنات کے ہر مقام سے اس کی ماہیت ایک ہی نظر آئے گی۔ چنانچہ دو واقعات کا درمیانی فاصلہ وہی رہے گا خواہ اسے کہیں سے بھی ناپا جائے۔ اس دور میں جبریت (determinism) ذہنوں پر چھائی ہوئی تھی اور جو لوگ اپنی سوچ کی قندیلیں، سائنس سے روشن کرتے تھے، انھیں کسی اور بات پر قائل کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز تک ماہرین طبیعیات (physics) اور فلسفیوں کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ زمان اور مکان دونوں مطلق ہیں اور ان کا اپنا اپنا وجود ہے۔ لیکن فزکس میں نئے نئے تجربات کی تشریح میں کلاسیکی طبیعیات کی ناکامی نے حالات کا رخ بدل دیااور وہ لوگ جو جبریت کے شجر کے سائے تلے اپنی علمی زندگی گذار رہے تھے، اب نئے تجربات کی روشنی میں معاملات کا جائزہ از سر نو لینے پر مجبور ہو گئے ۔ اس کا اعزاز آئن سٹائن کو جاتا ہے۔ اپنے خطبات میں علامہ اقبال نے زمان و مکان کے مختلف نظریات پر بحث کی ہے ۔ لیکن اس مضمون میں ہم خطبات کے صرف اس حصے پر غور کریں گے جس میں علامہ نے آئن سٹائن(Einstein)کے نظریۂ اضافیت کی روشنی میں زمان و مکان پر بحث کی ہے۔ اس صورت میں فلسفۂ زمان و مکان پر غور کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بعض اصطلاحات کی وضاحت کر دی جائے تاکہ عام قاری کو اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔ سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں گے کہ مکانِ مطلق (absolute space) سے کیا مراد ہے۔ ہم اسے ایک مثال سے واضح کریں گے۔ فرض کریں کہ ایک گاڑی ایک ہی سمت میں یکساں رفتار (uniform velocity) کے ساتھ اسٹیشن کے متوازی چل رہی ہے(ایک ہی سمت میں یکساں رفتار کا مطلب ہے کہ نہ تو گاڑی کی رفتار بدلتی ہے اور نہ اس کی سمت) اور اسٹیشن پر ایک سیدھی چھڑی گاڑی کی حرکت کی سمت کے متوازی رکھی ہوئی ہے۔ آپ اسٹیشن پر کھڑے اس چھڑی کی لمبائی ناپتے ہیں اور وہ ۲ فٹ آتی ہے۔ اس یکساں رفتار سے ایک ہی سمت میں چلتی ہوئی گاڑی میں بیٹھا کوئی شخص اسی چھڑی کی لمبائی ناپتا ہے، وہ کتنی ہوگی؟ بیسویں صدی کے آغاز تک انسان ہمیشہ یہ سمجھتا رہا اور اس وقت تک کی طبیعیات (physics) کا بھی یہی دعویٰ تھا کہ اس چلتی گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کی پیمائش کے مطابق بھی اس چھڑی کی لمبائی۲ فٹ ہی ہو گی۔ دراصل روز مرہ کے تجربات بتاتے ہیں کہ دونوں صورتوں میں لمبائی برابر ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر کسی شے کی لمبائی اس پر منحصر نہیں ہے کہ اسے کس مقام سے ناپا جاتا ہے۔ آپ خواہ اسٹیشن پر کھڑے ہوں خواہ یکساں رفتار سے ایک سمت میں چلتی ہوئی گاڑی میں ہوں دونوں صورتوں میں چھڑی کی لمبائی ایک ہی آئے گی۔ اس تجرباتی حقیقت کو فلسفے کی زبان میں یوں کہیں گے کہ مکان مطلق ہے۔ ہر وہ مقام جہاں سے لمبائی ناپی گئی ہے ، مثلاً اسٹیشن یا چلتی ہوئی گاڑی، فریم آف ریفرنس یا فریم کہلاتا ہے۔ چنانچہ چھڑی کی لمبائی فریم کے انتخاب پر منحصر نہیں ہے۔ یہ نظریہ آئن سٹائن سے پہلے تک طبیعیات کی دنیا پر چھایا رہا۔ بعد میں جب نئے نئے تجربات کے نتائج سامنے آئے تو پتا چلا کہ کلاسیکی طبیعیات (Classical Physics) ان نئے تجربات کی وضاحت سے قاصر ہے۔ آئن سٹائن وہ ماہر طبیعیات تھا جس نے ان تجربات کی وضاحت کے لیے ۱۹۰۵ء میں ایک نیا نظریہ پیش کیا جسے ’’خصوصی نظریۂ اضافیت‘‘(Special Theory of Relativity) کہتے ہیں۔۱؎ یہاںیہ بات کھل کر کہہ دی جائے کہ نئے نظریے سے آئن سٹائن کا مقصد زمان و مکان کے بارے میں نئے خیالات کا اظہار نہیں تھا۔ وہ تو (پرانے تجربات کے ساتھ ساتھ) طبیعیات کے ان نئے تجربات کی وضاحت کرنا چاہتا تھا جو کلاسیکی فزکس کے قابو میں نہیں آ رہے تھے۔ لیکن اس نئے نظریے نے نہ صرف ان سب تجربات کی وضاحت کر دی بلکہ اس سے ایسے نتائج سامنے آئے جن سے یہ بھی پتا چلا کہ زمان و مکان مطلق نہیں ہیں۔ چنانچہ اس نظریے کے مطابق مندرجہ بالا مثال میں چھڑی کی لمبائی فریم کے انتخاب پر منحصر ہو گی۔ اس نئے نظریے کے مطابق اگر ہم اس چھڑی کی لمبائی کو (جسے ہم نے اسٹیشن پر گاڑی کی حرکت کی سمت میں رکھا ہوا ہے) اسٹیشن پر کھڑے ہو کر ناپیں اور وہ ۲ فٹ آئے تو چلتی گاڑی سے پیمائش میں اس چھڑی کی لمبائی ۲ فٹ سے کم آئے گی۔ کتنی کم؟ یہ اس پر منحصر ہو گا کہ گاڑی کی رفتار کیا ہے۔ عام رفتار سے چلتی گاڑی کی صورت میں یہ فرق اتنا تھوڑا ہوتا ہے کہ موجودہ آلات سے اس فرق کو براہ راست ناپنا یا اس کا احساس ہونا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئن سٹائن سے پہلے انسان کو کبھی اس کا اندازہ نہیں ہوا تھا اور اگر نئے تجربات کے نتائج کی وضاحت میں کوئی دقت پیش نہ آتی تو آئن سٹائن کو بھی اس کا اندازہ نہ ہوتا۔ بہرحال جوں جوں گاڑی کی رفتار بڑھتی جائے گی یہ فرق بھی بڑھتا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں (گاڑی کی رفتار کی سمت میں) چھڑی کی لمبائی کم ہوتی جائے گی۔ گویا آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے مطابق چھڑی کی لمبائی اس پر منحصر ہوگی کہ اسے کس فریم سے ناپا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے کہ مکان مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چھڑی کی لمبائی کبھی صفر نہیں ہو گی یعنی یہ ناممکن ہے کہ چھڑی غائب ہو جائے ! وجہ اس کی یہ ہے کہ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے مطابق چھڑی کی لمبائی اس وقت صفر ہو سکتی ہے اگر گاڑی کی رفتار خلا میں روشنی کی رفتار کے برابر ہو جائے۔ (یاد رہے کہ خلا میں روشنی کی رفتار ۱۸۶۰۰۰ میل فی سیکنڈ ہے) ۔ لیکن اسی نظریے کے مطابق کسی شے کی رفتار خلا میں روشنی کی رفتار سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور کسی مادی شے کی رفتار بڑھا کر روشنی کی رفتار کے برابر بھی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے اس چھڑی کی لمبائی خواہ وہ کتنی ہی کم ہو جائے، صفر نہیں ہو پائے گی۔ یہاں یہ بات زور دے کر کہنے کی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ چھڑی کی لمبائی کم نظر آتی ہے بلکہ چھڑی کی لمبائی اس کی اضافی حرکت (relative motion) کی سمت میں ہوتی ہی کم ہے:لمبائی مطلق نہیں بلکہ ایک اضافی شے ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں لمبائی میں یہ کمی معلوم یا محسوس نہیں ہوتی کیونکہ عام زندگی میں کسی مادی شے کی رفتار روشنی کی رفتار کے مقابلے پر بہت ہی کم ہوتی ہے۔ لمبائی میں یہ کمی اتنی خفیف ہوتی ہے کہ نظر آنا توکجا اسے موجودہ سائنسی آلات کی مدد سے بھی براہ راست ناپا نہیں جا سکتا ۔ خلا میں روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے جبکہ، مثال کے طور پر ہوائی جہاز کی رفتار چند سو گز فی سیکنڈ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ روشنی کی رفتار کے مقابلے پر اس رفتار کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب ہم کسی شے کی قیمت (value) کے اضافی ہونے کی ایک ایسی مثال دیں گے جس سے ہم روز مرہ کی زندگی میں واقف ہیں۔ فرض کریں کہ ایک آدمی ساحلِ سمندر پر کھڑا ہے اور وہ یہ دیکھتا ہے کہ ایک جہاز سیدھے ساحل کے متوازی ایک ہی سمت میںیکساں رفتار (مثلاً ۴۰ میل فی گھنٹہ) کے ساتھ جا رہا ہے۔ جہاز کے ایک کمرے میں جہاں کوئی کھڑکی نہیں جہاں سے جہاز کے باہر نظر پڑ سکے ایک آدمی میز کے سامنے بیٹھا چائے پی رہا ہے اور چائے کی کیتلی اس کے سامنے میز پر پڑی ہے۔ اگر جہاز smoothly جا رہا ہے تو کمرے کے اندر بیٹھے ہوئے شخص کو یہ معلوم ہوگا کہ جہاز کھڑا ہے کیونکہ اس کے سامنے رکھی کیتلی سے اس کا فاصلہ تبدیل نہیں ہو رہا۔ چنانچہ وہ جہاز کو ساکن کہے گا یعنی اس کی رفتار کو صفر! ان دونوں میں سے کون سا جواب صحیح ہے؟ جہاز کی رفتار ۴۰ میل فی گھنٹہ ہے یا صفر؟ ہم سب جانتے ہیں کہ دونوں جواب صحیح ہیں کیونکہ رفتار مادے (matter)کی مطلق خصوصیت نہیںبلکہ ایک اضافی شے ہے۔ اس کی قیمت اس پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس فریم سے ناپتے ہیں۔ اضافی نیچر کی چیزوں کے لیے اصل قیمت کا کوئی مفہوم نہیں۔ بے شک یہ تمام اضافی چیزوں کی خصوصیت(characteristic)ہے۔ انسان ہزاروں برس تک یہ سمجھتارہا کہ مادے کی لمبائی ایک مطلق شے ہے۔ لیکن آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت نے ہمیں بتایا کہ یہ مطلق شے نہیں بلکہ اضافی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کسی فریم میں ناپنے پر اس کی قیمت اس فریم کی رفتار پر منحصر ہو گی۔ کلاسیکی طبیعیات کے مطابق مکان ہی نہیں، زمان بھی مطلق ہے۔ اگر ہم کسی دو واقعات کے درمیاں زمانی وقفہ معلوم کریں تو وہ اس پر منحصر نہیں ہوگا کہ ہم کس فریم سے نوٹ کر رہے ہیں ۔ اسٹیشن ہو یا یکساں رفتار سے ایک ہی سمت میںچلتی گاڑی ، دونوں صورتوں میں زمانی وقفہ برابر ہوگا۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت نے بتلایا کہ یہ بات بھی غلط ہے۔ مکان کی طرح زمان بھی اضافی ہے اور دو واقعات زمان کے درمیان زمانی وقفہ بھی اس امر پر منحصر ہوگا کہ یہ وقفہ کس فریم سے نوٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ اہم بات پیش نظر رہے کہ مکان اور زمان اضافی ہیں اور آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے مطابق ایک فریم میں کسی واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کا وقت دوسرے فریم کے زمان اور مکان دونوں کے ساتھ نسبت رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک فریم میں مکان (یعنی واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کی جگہ) دوسرے فریم میں مکان اور زمان دونوں کے ساتھ نسبت رکھتا ہے۔ چنانچہ کسی واقعہ کو متعین کرنے کے لیے ہمیں نہ صرف اس کی جائے وقوع بلکہ اس کے وقتِ ظہور کا بھی حوالہ دینا ہوگا۔ آئن سٹائن نے نظریۂ اضافیت ۱۹۰۵ء میں پیش کیا تھا۔ کچھ مدت بعد ایک جرمن ریاضی داں منکائوسکی(Minkowski) نے بتایاکہ ریاضی کے لحاظ سے سہ اَبعادی (3-dimensional) مکان اور یک بُعدی (1-dimensional) کے زمان کو مشترکہ طور پر چار اَبعادی زمان و مکان(space-time) کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔اس پر خوب دھوم مچی اور بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جوں جوں سائنس ترقی کرے گی، وقت اپنی اہمیت کھو دے گا اور صرف مشترکہ زمان و مکان کا تصور باقی رہ جائے گا اور اس چار اَبعادی دنیا میں ایک بُعد(dimension) وقت ہوگا اور تین اَبعاد مکان کے ہوں گے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں۲؎ کہ روسی مصنف اوس پنسکی(Ouspensky) نے اپنی کتاب نظام ثالث میں چوتھے بُعد کا تصور اس طرح کیا ہے کہ یہ ایسی سمت ہے جو سہ اَبعادی مکان میں نہیں لیکن سہ اَبعادی شکل اس سمت میں حرکت کرتی ہے۔ جس طرح دو ابعادی سطحوں کی اس سمت میں حرکت سے جو ان کے اندر موجود نہیں، مکان کے ابعادِ ثلاثہ پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح جب کوئی سہ بعدی شکل اس سمت میں حرکت کرتی ہے جو اس کے اندر موجود نہیں تو اس سے مکان کے چوتھے بُعد کا ظہور ہونا چاہیے۔ یہ سمت مکان کی تینوں سمتوں کے عمود میں واقع ہو گی۔ (ہم اس کا تصور نہیںکر سکتے مگر ریاضی کے لحاظ سے یہ ممکن ہے)۔یہاں تک تو یہ بات درست ہے لیکن اس دلیل سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ بُعدِ رابع زمان ہی ہے۔ یہ ایک نئی سمت ضرور ہے لیکن جیسا کہ ریاضی کی مدد سے ہمیں پتا چلتا ہے یہ زمان نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے ریاضی کے علم کے بغیر اس بات کو شدت سے محسوس کیا اور صاف صاف لکھ بھی دیا کہ چوتھا بعد زمان نہیں ہو سکتا ورنہ وقت غیر حقیقی ہو جائے گا۔ یہ اس لیے کہ واقعات وقوع پذیر نہیں ہوں گے بلکہ ہم ان سے دو چار ہوں گے۔ علامہ اقبال کے خیال میں۳؎ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت سے ایک زبردست مشکل رونما ہوتی ہے اور وہ یہ کہ زمان غیر حقیقی ہے۔ کیونکہ اگر زمان چوتھا بُعد ہے زمان و مکاں کا،تو اس صورت میں یہ ماننا لازم آئے گا کہ اس نظریے میں ماضی کی طرح مستقبل کا وجود بھی پہلے ہی سے قائم ہے اور اس لیے متعین ۔ لہٰذا زمانے کی کوئی آزاد تخلیقی حرکت ممکن نہیں۔ وہ گزرتا نہیں۔ حوادث رونما نہیں ہوتے ہم ان سے صرف دوچار ہوتے ہیں۔ گویااگر ہم وقت کو زمان و مکاں کاچوتھا بُعد تصور کریں تو وہ وقت نہیں رہتا۔ علامہ اقبال کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے۔ ریاضی داں نہ ہونے کے باوجود یہ نتیجہ نکالنے پر علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ درحقیقت یہ اعتراض آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت پر نہیں بلکہ ان لوگوں کی سوچ پر ہے جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت میں چار اَبعادی زمان و مکاں کا ذکر کرتے ہوئے، بعض لوگ اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ ریاضی کے مطابق بننے والی اس چار اَبعادی دنیا میں زمان کی حیثیت وہ نہیں ہے جو مکان کی ہے۔ علیحدہ علیحدہ سہ اَبعادی مکان اور یک بُعدی زمان دونوں حقیقی ہیں لیکن چار اَبعادی زمان و مکاں میں چوتھا بعد زمان نہیں ہے بلکہ ایک غیر حقیقی (pure imaginary) شے ہے۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جسے نظر انداز کرنے سے کئی ایک لوگوں کو معاملات زمان و مکاں سمجھنے میں سخت دشواری پیش آئی۔ علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا کہ حقیقی وقت زمان و مکاں کا چوتھا (حقیقی)بُعد ہو ہی نہیں سکتا اور وہ ہے بھی نہیں! اپنی کتاب میں اوس پنسکی لکھتے ہیں۴؎ کہ ہماری حسِ زمانی دراصل ایک مبہم سی حسِ مکانی ہے۔ وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ذہنِ انسانی کی ساخت کے لحاظ سے ایک۔ دو۔ یا تین اَبعادی ہستیوں کو چوتھا بُعد زمان ہی محسوس ہو گا۔ بھلا کیوں؟ اس قسم کے دلائل اپنے غیر منطقی ہونے کا خود ثبوت ہیں۔ یہاں یہ ذکر بھی کر دیا جائے کہ علامہ اقبال چار اَبعادی زمان و مکاں کو (چار اَبعادی) مکان بھی لکھ دیتے ہیںجس سے غلط فہمی پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ علامہ محمد اقبال اپنے خطبات میں لکھتے ہیں۵؎ آئن سٹائن کے نزدیک مکان کا وجود حقیقی ہے لیکن ناظر کے لحاظ سے اضافی۔ وہ نیوٹن کے مکانِ مطلق کے نظریے کو مسترد کر تے ہیں کیونکہ ہم جس شے کا بھی مشاہدہ کریں، ناظر (یا فریم آف ریفرنس) کے لحاظ سے وہ بدلتی جائے گی۔ جیسے جیسے ناظر کامقام اور اس کی رفتاربدلے گی، اسی کے مطابق شے کی کمیت (mass)، شکل اور جسامت میں بھی تبدیلی آتی جائے گی۔ اس لیے کلاسیکی طبیعیات کا یہ عقیدہ صحیح نہیں کہ مادہ ایک قائم بالذات (Self-subsistent) شے ہے۔ حرکت اور سکون بھی ناظر کے لحاظ سے اضافی ہیں۔ (فرض کریں کہ اسٹیشن پر کھڑے ایک ناظر کے لحاظ سے ایک گاڑی یکساں رفتار سے ایک سمت میں چل رہی ہے۔ اس گاڑی میں بیٹھے ہوئے ناظر کے لیے یہی گاڑی ساکن ہو گی۔ اگر گاڑی بغیر کسی رگڑ کے چل رہی ہو (جو عملی طور پر ممکن نہیں) اور ناظر گاڑی سے باہر نہ دیکھے تو اسے گاڑی کی حرکت کا احساس تک نہ ہوگا)۔ چنانچہ کلاسیکی طبیعیات کی مادیت کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ نظریۂ اضافیت قدرت کی معروضیت کو نہیں بلکہ مادے کے متعلق اس تصور کا خاتمہ کرتا ہے کہ کوئی شے مکان میں صرف کسی مقام پر پڑی ہے۔ یہی وہ تصور تھا جس نے مادیت کی طرف کلاسیکی طبیعیات کی رہنمائی کی تھی۔ جدید اضافیتی طبیعیات میں مادہ کوئی مستقل شے نہیںہے کہ جس کی صرف حالتیں بدلتی رہتی ہیں بلکہ یہ باہمی تعلق رکھنے والے واقعات کا ایک نظام ہے۔ آئن سٹائن نے مادے کے تصور پر سب سے کاری ضرب لگائی ہے۔ ان کے انکشافات نے انسانی فکر کی پوری مملکت میں دور رس انقلاب کی بنیاد رکھی ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی کر دیا جائے کہ لفظ ’ناظر‘ کے استعمال سے ولڈن کار (Wildon Carr) نے یہ غلط نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اضافیت میں ناظر کے لیے زندہ اور صاحبِ شعور ہونا لازمی ہے۔ لیکن پروفیسر نن (Nunn) نے بجا طور پر بتایا کہ زمان و مکاں کا فریم ناظر کی سوچ پر نہیں بلکہ مادی دنیا کے اس مقام پر منحصر ہے جس سے ناظر کا جسم وابستہ ہے۔ اس لیے ایک ریکارڈنگ آلہ بھی جیتے جاگتے ناظر کا کام سر انجام دے سکتا ہے۔ جب آئن سٹائن نے اپنا خصوصی نظریۂ اضافیت پیش کیا تو اس وقت زمان و مکاں کو علیحدہ علیحدہ (independently) لیا گیا تھا۔ بعد میں آسانی، synthesis (یعنی انفرادی واقعات سے کلیات بنانے کے عمل)اور نظریۂ کو آگے بڑھانے کے لیے یہ تجویز کیا گیا کہ اگر ریاضی میں غیر حقیقی سمت کوچوتھابُعد لے لیا جائے تو اس تکنیک سے نتائج حاصل کرنے میں بہت آسانی ہو گی۔ اس وقت بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ شاید وقت اپنی حیثیت کھو چکا ہے یا کھو رہا ہے اور تو اور خود منکائوسکی کا بھی یہ خیال تھا کہ آزادانہ حیثیت سے مکان اور زمان محض سایوں کے طور پر رہ جائیں گے اور آخر کار ان دونوں کا اتحاد، زمان و مکاں (space-time) ہی باقی رہے گا۔ یہ سوچ درست نہیں۔ وقت کی منفرد حیثیت آج بھی قائم ہے! چوتھا بُعد غیر حقیقی ہے جبکہ مکان کے تینوں اَبعاد حقیقی ہیں۔ جسمانی طور پر(physically) ایک حقیقی بُعد سے ایک غیر حقیقی بُعد میں جانا ممکن نہیں۔ علامہ اقبال مزید لکھتے ہیں۶؎ کہ وقتِ متسلسل(serial time)کانٹ(Kant) کے اصولِ علت و معلول(causality)کی جان ہے۔ علت(cause) اور معلول(effect)کو ایک دوسرے سے جو نسبت ہے اس کے مطابق وقت کے لحاظ سے علت ہمیشہ معلول سے پہلے ہو گی۔ اس طرح اگر علت نہیں ہو گی تو معلول بھی نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وقت متسلسل ہے تو ناظر اور نظام کے ایک خاص انتخاب سے معلول علت سے پہلے واقع ہو سکتا ہے۔ کانٹ کے زمانے تک یہ بات صحیح تھی۔ علامہ اقبال سمجھتے ہیں کہ نظریۂ اضافیت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے متسلسل وقت کی صورت میں کانٹ اور آئن سٹائن کے نظریے قبول نہیں کیے جا سکتے۔ ان میں معلول (effect) علت (cause) سے پہلے ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ صحیح صورت حال نہیں۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے مطابق کسی مادی شے کی رفتار، بڑھاکر، خلا میں روشنی کی رفتار سے زیادہ تو کیا، اس کے برابر بھی نہیں کی جا سکتی۔ یہ ایک ایسی رکاوٹ ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا اور اس کی وجہ سے معلول (effect) علت (cause) سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ ہم ایک مثال سے اس کو واضح کریں گے۔ ایک آدمی ہاتھ میں بندوق لیے کھڑا ہے اور روشنی میں ایک انسانی ہدف پر گولی چلاتا ہے۔ (یاد رہے کہ کوئی شے ہمیں اس وقت نظر آتی ہے جب روشنی اس سے منعکس (reflect) ہو کر ہماری آنکھوں تک پہنچے۔ ورنہ وہ شے ہمیں نظر نہیں آئے گی)۔ جب روشنی گولی سے منعکس ہو کر ہدف کی آنکھوں تک پہنچے گی، تب ہدف کو گولی بندوق سے نکلتی دکھائی دے گی اور چونکہ روشنی کی رفتار بہت زیادہ تیز ہے، وہ روشنی بہت ہی کم وقت میں ہدف تک پہنچ جائے گی۔ کچھ وقت کے بعد ، گولی بھی(جس کی رفتار خلا میں روشنی کی رفتار سے بہت ہی کم ہے) اپنے ہدف تک پہنچ جائے گی۔ اس طرح علت یعنی گولی کا بندوق سے نکلنا اور معلول یعنی گولی کا ہدف سے ٹکرانا، وقت کے لحاظ سے اسی ترتیب میں نظر آئیں گے۔ لیکن اگر گولی کی رفتار خلا میں روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے تو اس سے پہلے کہ گولی کے بندوق سے نکلتے وقت روشنی منعکس ہو کر ہدف کی آنکھوں تک پہنچے، گولی ہدف تک پہنچ چکی ہو گی۔ بعد میں روشنی کے ہدف تک پہنچنے پر، گولی بندوق سے نکلتی دکھائی دے گی۔ اس طرح علت اور معلول کی ترتیب بدل جائے گی۔ یہ ترتیب صرف اس وجہ سے بدلی ہے کہ مادی شے (بندوق کی گولی) کی رفتار خلا میں روشنی کی رفتار سے بڑھ گئی ہے۔ یہ ہے نتیجہ کانٹ کے فلسفۂ وقت کا ! تاہم ، علت اور معلول کی ترتیب بدل جانے والی خامی خود بخود دور ہو جاتی ہے اگر مادے کی رفتار خلا میں روشنی کی رفتار سے کم ہو کیونکہ اس صورت میں گولی کی رفتار ہمیشہ روشنی کی رفتار سے کم رہے گی اور علت و معلول کی ترتیب نہیں بدل سکے گی۔ یہ ہے وقتِ متسلسل کا منطقی نتیجہ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی روشنی میں! معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے اس نقطۂ نظر سے اس موضوع پر غور نہیں کیا۔ ورنہ یہ بات واضح ہو جاتی کہ وقتِ متسلسل کا اصول علت و معلول اور نظریۂ اضافیت میں کوئی تضاد نہیں۔ علامہ اقبال نے ’’عمومی نظریۂ اضافیت‘‘ کی بنا پرحاصل کردہ نتائج پر بھی لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں۷؎ کہ فلسفیانہ اعتبار سے دیکھا جائے تو نظریۂ اضافیت(خصوصی اور عمومی) کی دو خصوصیات ہیں: ایک یہ کہ اس نظریہ نے اس خیال کی نفی کر دی ہے کہ کسی شے کی حیثیت مکان میں اس کے وقوع (location) سے زیادہ نہیں۔ یہ وہی نظریہ تھا جس کے تحت قدیم طبیعیات کو مادیت کا قائل ہونا پڑا تھا۔ دوسری بات اس نظریے کے مطابق یہ ہے کہ مکان کا دارو مدار مادے پر ہے۔ آئن سٹائن کے نزدیک کائنات کا یہ تصور کہ وہ ایک لامتناہی (infinite) میں واقع جزیرے کی طرح ہے، صحیح نہیں۔ نظریۂ اضافیت کے مطابق مکان خود متناہی (finite) ہے گو بغیر سرحدوں کے (boundless) ۔ مثلاً ایک کرے کی سطح کو لیجیے۔ یہ متناہی ہے کہ اس پر کسی دو نقاط کا فاصلہ معین ہے اور بغیر سرحدوں کے ہے کہ اس کی سطح پر چلتے ہوئے کوئی کنارہ نہیں آئے گا۔ اس کے ماورا ،مکانِ محض کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر مادے کا وجود ہی نہ ہوتا تو کائنات سمٹ کر ایک نقطے پر آ جاتی۔ علامہ اقبال آئن سٹائن کے بڑے مداح تھے۔ چنانچہ پیام مشرق میں نظریۂ اضافیت کے حوالے سے انھوں نے آئن سٹائن پر ایک نظم لکھی ہے۔ اس کے چند اشعار درج ذیل ہیں: جلوئہ می خواست مانند کلیمِ ناصبور تا ضمیر مستنیر اور کشود اسرارِ نور (وہ(آئن سٹائن) کلیم ناصبور کی طرح اس کے جلوہ کا خواہاں ہوا، حتیٰ کہ اس کے ضمیرِ روشن نے نور کے اسرار کھولے) از فرازِ آسماں تا چشمِ آدم یک نفس! زود پروازے کہ پروازش نیاید در شعور! (وہ (روشنی) آسمان کی بلندیوں سے انسان کی آنکھ تک ایک لمحے میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ اتنی تیز رفتار ہے کہ اس کی رفتار سمجھ میں نہیں آتی) بے تغیر در طلسم چون و چند و بیش و کم برتر از پست و بلند و دیر و زود و نزد و دور (یہ (روشنی) کیوں اور کیسے اور کم و بیش کے طلسم میں بے تغیر ہے، یہ پست و بالا (مکان) ، دیرو زود (زمان) اور نزدیک و دور (مسافت) سے بالاتر ہے) وقت کے بارے میں علامہ اقبال نے ایک بے مثال نظم ’’نوائے وقت‘‘ بھی لکھی ہے۔ اس کے دو بند درج ذیل ہیں: خورشید بدامانم، انجم بگریبانم در من نگری ہیچم، در خود نگری جانم در شہر و بیابانم ، در کاخ و شبستانم من دردم و درمانم ، من عیشِ فراوانم من تیغِ جہاں سوزم ، من چشمۂ حیوانم (سورج میرے دامن میں ہے، ستارے میرے گریبان میں ہیں، تو اگر مجھ میں دیکھے تو میں کچھ بھی نہیں، اپنے اندر دیکھے تو میں تیری جان ہوں، میں شہر اور بیابان میں ہوں، محل اور شبستان میں ہوں، میں درد ہوں اور درماں (بھی)، میں عیشِ فراواں ہوں۔ میںجہاں کو جلا دینے والی تلوار ہوں، میں چشمۂ آبِ حیات ہوں) چنگیزی و تیموری، مشتے زغبارِ من ہنگامۂ افرنگی یک جستہ شرارِ من انسان و جہانِ او از نقش و نگارِ من خونِ جگرِ مرداں، سامانِ بہارِ من من آتشِ سوزانم، من روضۂ رضوانم (چنگیزی و تیموری، میرے غبار کی ایک مٹھی ہیں، افرنگی کا ہنگامہ، میرے شعلے کی ایک بھڑک ہے، انسان اور اس کا جہان، میرے نقش و نگار سے ہیں، مردوں کے جگر کا خون، میرے لیے سامانِ بہار ہے۔ میںجلانے والی آگ ہوں، میں جنت کا باغ ہوں) ہم نے دیکھا کہ علامہ اقبال کے نزدیک: ۱- زمان ، مکانی سمتوں کی طرح کی، زمان و مکاں کی چوتھی سمت نہیں ہو سکتا کیونکہ زمان و مکاں کے تین مکانی اَبعاد حقیقی ہیں اور چوتھا بُعد غیر حقیقی۔ انھوں نے یہ نتیجہ اپنی ذہانت اور منطقی سوچ سے نکالا۔ ۲- وقتِ متسلسل، کانٹ کے نظریے یا آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت سے ہم آہنگ (consistent) نہیں۔کانٹ کے نظریے کی حد تک یہ اعتراض بجا ہے لیکن نظریۂ اضافیت کے لیے صحیح نہیں کیونکہ اس نظریے میں کسی مادی شے کی رفتار بڑھا کر خلا میں روشنی کی رفتار سے زیادہ تو کیا، اس کے برابر بھی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے علت و معلول اپنی ترتیب نہیں بدل سکتے۔ اس طرح کانٹ کے نظریے والا اعتراض دور ہو جاتا ہے۔ ۳- عمومی نظریۂ اضافیت کے مطابق ہماری کائنات متناہی اور بغیر سرحدوں کے ہے۔ ان خطبات میں علامہ اقبال کا اندازِ تحریر یہ ہے کہ وہ بات کرتے کرتے دُور نکل جاتے ہیں اور پھر اپنے مقام پر واپس آ کر بات آگے بڑھاتے ہیں گویا کہ حیراں ہے یہ خامہ کہ کس کس کو میں باندھوں بادل سے چلے آتے ہیں مضموں میرے آگے ان خطبات سے علامہ اقبال کے علم، فکر اور بے پناہ ذہانت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اُس دور میں کہ اچھے بھلے سائنس داں بھی نظریۂ اضافت کی اہمیت کو سمجھ نہیں پا رہے تھے، ریاضی کے علم کے بغیر ایک فلسفی شاعر کا اتنی دور بینی سے اس نقطۂ نظر سے زمان و مکاں کے موضوع پر اتناعبور حاصل کرنا بڑی غیر معمولی بات ہے، ایسی شخصیت صدیوں کے بعد پیدا ہوتی ہے اور زمانہ اسے ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ خخخ حواشی ۱- خصوصی نظریۂ اضافیت سے متعلق نکات کی وضاحت کے لیے محمد سلیم اور محمد رفیق کی کتاب Special Relativity ملاحظہ کریں۔ 2- Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Istitute of Islamic Culture, 2 Club Road, Lahore. P. 32. 3- Ibid, P.31. 4- Ibid, P.32. 5- Ibid, P.27,30-31. 6- Ibid, P.31-32. 7- Ibid, P.31. خخخ مکالماتِ معنوی در ابیاتِ مثنوی احمد جاوید اقبال کے ممدوحین سے تفصیلی شناسائی پیدا کرنے کے لیے کوئی پچیس برس پہلے چار چھ احباب نے مثنوی مولانا رومؒ پڑھنی شروع کی تھی۔ اس دوران میں جو گفتگو ہوتی تھی اُسے ضبط کر لیا جاتا تھا۔ یوں کئی کیسٹیں تیار ہو گئیں۔ چونکہ مکالمات کی اشاعت کی ایک روایت پہلے سے موجود چلی آ رہی ہے اس لیے ہم نے بھی ہمت کی اور اس گفتگو کو کاغذ پر اُتار لیا۔ اس کا ایک حصہ جو اپنے طور پر ایک معنوی وحدت رکھتا ہے، پیشِ خدمت ہے۔ان مجلسوں میں مسئولیت کا بار چونکہ مجھ پر ڈالا گیا تھا لہٰذا مکالمات کو نقل کرتے وقت یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ دیگر حضرات کے لیے اُن کے ناموں کی بجائے ’ ا‘ کی علامت استعمال ہوئی ہے اور میرے لیے ’ج‘ کی۔ (۱) قصۂ دیدنِ خلیفہ لیلیٰ را گفت لیلیٰ را خلیفہ کآں توئی کز تو مجنوں شد پریشان و غوی از دگر خوباں تو افزوں نیستی گفت: خامش! چوں تو مجنوں نیستی (خلیفہ نے لیلیٰ سے کہا کہ اچھا تو وہ توُ ہے! جس کے لیے مجنوں آوارہ و بے حال ہو گیا۔ تو دوسرے حسینوں سے بڑھ کر تو نہیں ہے۔ لیلیٰ بولی: تُو چپ رہ ! کیونکہ تو مجنوں نہیں ہے۔) ج: پہلے ایک سوال صاف کرتے چلیں تاکہ آگے کوئی دقت نہ پیش آئے۔ روایتی معنوں میں ’جنوں‘ کا سبب کیا ہوتا ہے؟ ہماری روایت اور خاص طور پر روایتی شعریات میں یہ اصطلاح کس حوالے سے آتی ہے؟ ا: جذب (Attraction) ! ربّانی یا انسانی؟ ج: بلاشبہ ----- لیکن یہ بیچ کی بات ہے۔ یوں دیکھیں گویا ’جنوں‘ ایک جہتِ انفعال یاPassive pole ہے، فاعلی جہت یا Active poleکون ہے؟ ا: وہ تو محبوب ہی ہوا۔ ج: زیادہ صحت اور وضاحت سے کہیں تو محبوب کی شانِ جمال! ’جنوں‘ کا سبب ’جمال‘ ہے اور ’حیرت‘ کا ’جلال‘۔ ا: اچھا ! اب سراج اورنگ آبادی کا وہ مشہور شعر زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے: خبرِ تحیّرِعشق سُن ! نہ جنوں رہا نہ پری رہی نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی ج: یہاں معاملہ تعینِ جمال یعنی ’پری‘ سے بھی اوپر اُٹھ گیا ہے جس کے نتیجے میں ’جمال‘ سے پیدا ہونے والا ’جنوں‘ بھی محو ہو گیا۔ ا: جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی ‘، تو یہاں ’بے خبری‘کیا ہے؟ ج: حیرت اور فنا! اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’من و تو‘ کا امتیاز اُٹھ گیا، بلکہ یہ ہے کہ محبوب تعینِ جمال سے بلند ہو گیا اور عاشق تعینِ جنوں سے ----- خیر! یہ تو بیچ میں ایک بات آ گئی تھی…ہم یہاںسے چلے تھے کہ ’جنوں‘ کی اصل ’جمال‘ ہے۔ مجنوں، صاحب جنوں ہوا تو مشاہدئہ جمال کی بدولت ہوا۔ اب ’جمال‘ بلکہ تصورِ جمال کی ایک جہت وہ ہے جس پر بادشاہ کھڑا ہے -----یہاں بادشاہ کو کردار بنانا رومی کا ایک کمال ہے ----- بادشاہ کا مطلب ہے: متصرف بر ظواہر۔ اس کے تصورِ جمال میں بھی حُسن ظواہرِ جمال کی قبیل سے ہو گا نہ کہ مظاہرِ جمال کے سلسلے سے۔ گویا اس کردار کے ذریعے ظواہر بمقابلہ مظاہر کے اصول کو مجسم کرکے دکھا دیا۔ ظواہر کی راہ چلنے والا تو یہی کہے گا کہ ارے لیلیٰ یہ ہے! نک چپٹی، بھینگی، کالی! آخر مجنوں نے اس میں کیا دیکھا کہ حال سے بے حال ہو گیا -----!لیلیٰ کا جواب یہ ہے کہ تو مجھے اپنے تصورِ حُسن کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے جبکہ مجنوں کا تصورِ جمال مجھے دیکھ کر قائم ہوا ہے۔ توُ ظاہر سے پیچھے نہیں جھانک سکتا اسی لیے مجنوں نہ بن سکا۔ ا: یہاں جمالیات کا ایک عام مبحث ذہن میں آتا ہے کہ جمال حقیقۃً کہاں ہوتا ہے؟ ناظر میں یا منظور میں؟ یا پھر دونوں میں؟ اب ایک سطح پر دیکھا جائے تو بادشاہ ناظر ہے اور لیلیٰ منظور۔لیکن اس کے باوجود یہاں ناظر کو وہ چیز نظر نہیں آ رہی جو ایک دوسرے ناظر کو آ رہی ہے! اس اشکال کو ذرا حل ہونا چاہیے۔ ج: ظاہر، شے کو ایک مفہوم اور ایک View پر متعین کر دیتا ہے۔ان لوگوں نے ظاہر میں محدود رہنے کے باوجود ظاہر ہی کے اصول کو نہیں سمجھا۔ دراصل یہ حضرات جمال کو ایک وصف عارضی بتا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے یہ خیال کام کر رہا ہے کہ جمال ایک اضافی چیز ہے ----- یعنی آپ کچھ سمجھ سکتے ہیں، میں کچھ سمجھ سکتا ہوں۔ جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ جمال ایک شانِ مستقل ہے نہ کہ وصفِ اضافی ----- اس طرح کی بعض دیگر تعریفوں سے یہ سمجھ میںآتا ہے کہ گویا جمال ایک کیفیتِ ذہنی کا نام ہے۔ ا: یہ حسن کی انسانی سطح ہے۔ ایسی تعریفوں کا تعلق انسانی جمال سے ہے۔ جمال کی ایک سطح وہ بھی ہے جس کے بارے میں کیٹس (Keats) نے کہا ہے کہ صداقت، حسن ہے اور حُسن ، صداقت! … یہاں کیٹس نے جمال کا رشتہ صداقت سے قائم کر دیا ہے۔ ج: اگر کیٹس کو ان معانی کا علم تھا جن پر یہ الفاظ دلالت کر رہے ہیں، یعنی حق، جمال ہے اور جمال، حق----- مجھے شبہ ہے کہ وہ یہی بات کہہ رہا ہے! الفاظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ اصل میں زبان کے باطن میں ایک معنوی نظام ہوتا ہے جو مابعد الطبیعی تصورات پر استوار ہوتا ہے۔ وہ تصورات غائب ہو جائیں تو بھی اُن کے اظہاری سانچے بہرحال موجود رہتے ہیں ۔ بعد میں کچھ لوگ انھی کو ایک خلا میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ رومانویوں (Romantics) کے یہاںیہ کام بہت ہے۔ یہ لوگ مابعدالطبیعی جمال کو حسیات یا خیالِ محسوس کی سطح پر گھسیٹ لائے ہیں۔ ا: اس کی ایک مثال خود ہمارے یہاں کے رومانویوں میں دیکھی جا سکتی ہے جنھوں نے جمال کو فطرت میں محدود کر دیا جس کے نتیجے میں یہاں بھی فطرت پرستی کا ایک Cult پیدا ہو گیا۔مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اجزاء میں موجود صداقت تو تلاش کر لی لیکن ان اجزا سے جمال کی جو کلیت مرتب ہو سکتی تھی، میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کوئی شخص اُس تک پہنچا ہے۔ ج: ہمارے یہاں جمال ایک معروضی حقیقت ہے، موجود فی الخارج حیثیتِ مستقل کا حامل ہے۔ ا: گویا ہم جمال کو مظاہرِ حق میں شمار کر رہے ہیں! ج: حق، انسانی شعور کی ہر سطح میں راسخ اوّلیات میں سے ہے۔انسان کی فطرت میں انتہائی گہرائی میں جا کر جو تصورات نقش ہیں، اُن میں حق اور وجود کا تصور سب سے زیاہ بدیہی اور سریع الفہم ہے۔ کیٹس (Keats) نے حق کا لفظ استعمال کرکے اپنی رومانوی جمال پرستی کو دانستہ نا دانستہ ایک آڑفراہم کی ہے۔ہمارے یہاں حق ایک وجودِ خارجی ہے جو اپنے احکام و اطلاقات کے ساتھ موجود ہے۔ وہاں حق ایک مشترک نفسی مفہوم کا نام ہے۔ فطرت سے نیچے بہت نیچے انسانی نفس میں کچھ مشترک مفہومات ہوتے ہیں، حق اُن مفہومات میں وجود کے بعد سب سے بڑا اور سب سے پہلا مفہوم ہے۔ کیٹس نے جمال کو اُس سے نسبت دے کر ایک التباس پیدا کر دیا۔ دوسری طرف جمال، جیسا کہ آپ نے فرمایا، مظاہرِ حق میں سے ہے! یہ بات نہیں ----- ’جمیلِ مخلوق‘ مظاہرِ حق میں سے ہے، جمال ظہورِ حق ہے۔ عرفانی اصطلاح میں کہا جائے تو جمال کا اصول ’تشبیہ‘ ہے اور اس کے مقابل جلال کا ’تنزیہہ‘۔ اس دائرئہ ظہور میں جتنی سطحیں ہیں، اُن سب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر ہم جمال کی تعریف کریں تو وہ تعریف ہے: ’شے کا ظہورِ کامل‘ ----- لیکن اس ’ظہورِ کامل‘ کی دلالت مختلف درجات میں بدل جاتی ہے۔ اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ جیسے انسان کا جمال، انسان کا ظہورِ کامل ہے یعنی ، ابن عربی کے الفاظ میں، اس کے اقتضائے ثبوتی و وجودی کا ظہورِ کامل ----- مگر کیا انھی معنوں میں ’ظہورِ کامل‘ کا لفظ ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ہر گز نہیں! کیونکہ اگر ہم نے اس کا خفیف سا امکان بھی روا رکھا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ذات جیسی ہے، ویسی ہی ظاہر بھی ہو گئی۔ یوں اس کی جہت تنزیہہ غائب ہو جائے گی۔ یہاں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیرِ حق کا ظہور اصولی طور پر اس کے اختیار سے ماورا ہے جبکہ حق کا ظہور اُس کے اختیار کا نتیجہ ہے۔ اسی کو ہم شانِ جمال کہتے ہیں۔ حق کے بطون و خفا کی نسبت اُس کے جلال سے ہے۔ گو کہ جلال بھی ایک جمال ہے مگر اس کا ناظر خود اللہ ہے۔ یہ غیر متعلق بات ہے مگر چونکہ ہم سب ایسی باتیں قریب قریب بھول چکے ہیں اس لیے عرض کیے دیتا ہوں کہ جمال کی جو تعریف بیان ہوئی ہے، اُس کی روشنی میںدیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ظہورِ حق کی دو بنیادی قسمیں ہیں: حق کا ظہور خود حق کے لیے اور حق کا ظہور غیرِ حق کے لیے۔ دونوں جمال ہیں البتہ ہماری تعریف دوسرے ظہو ر تک محدود ہے… یہاں سے پھر اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ جب ہم جمال کی اس تعریف پر پہنچے کہ جمال، ظہورِ شے ہے تو اس میں ایک نازک فرق اور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ماسوی الحق کے مراتب میں ظہور شے کا مطلب ہے: شے کی حقیقت کا ظہور ----- لیکن مراتبِ ذاتیہ میں یوں نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ذات تو خود ہی حقیقت الحقائق ہے۔ وہاں اُ س کا جو بھی ظہور ہے وہی جمال ہے۔ جس دائرے میںیہ گفتگو ہو رہی ہے وہاں ہمیں یہ تعریف کفایت کرتی ہے۔ البتہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقتِ شے کا ظہور شرائطِ مظاہر پر نہیں ہوگا۔ کچھ شرائط ، کچھ معیارات مظاہر کے قانون سے مقرر ہوتے ہیں، ایسے قوانین سے جو مظاہر پر Base کرتے ہیں -----اُن سے نفسِ انسانی میں ایک عادت اورمجموعی حالت سی پیدا ہو جاتی ہے جسے ہم مثلاً تہذیبی یا اجتماعی ذوق کہہ سکتے ہیں ۔ حقیقتِ شے کا ظہور اُس ذوق کا پابند نہیں ہو گا۔ ا: یہاں وہ بات ہو سکتی ہے جو انھی مباحث میں اضافیت کے مدعی کہتے ہیں کہ حبشیوں کا تصورِ حُسن ہم سے بالکل مختلف ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حُسن اضافی ہے۔ ج: یہ سب تصورات مظاہر کے قوانین سے پھوٹے ہیں۔ بہرحال جو اب اس کا یہ ہے کہ حُسن نہیںبلکہ تصورِ حُسن اضافی ہے۔ جن لوگوں پر حقیقت منکشف ہو جائے اُن کا تصورِ جمال مظاہر کی قید سے نکل جاتا ہے، جو لوگ اس انکشاف سے محروم ہوں اُن کا تصورِ حُسن نفسی کیفیت و حالت تک محدود رہتا ہے۔ ہمارے اکثر شعری تصوراتِ جمال حقیقتِ متصل کے ظہور پر قائم ہیں۔ ہر شے کی ایک ماہیت اور متصل حقیقت ہوتی ہے جواس کی نوع سے متعلق ہوتی ہے۔ ا: اب تک ہم نے جتنی گفتگو کی ہے اُس کے بعد ’دیدئہ مجنوں‘ کو بھی کھولنا ہوگا ورنہ ؎ ’دیدئہ مجنوں اگر بودے ترا‘ کی وہ تشریح بھی کی جا سکتی ہے کہ حسن درنگاہِ ناظر ----- یہاں ’دیدئہ مجنوں‘ سے پھر کیا مراد ہو گی؟ مجنوں کی اصل جمال تک پہنچ یا اُس کوPercieveکرنے کی استعداد؟ ج: شاعری میں تشبیہی رنگ غالب ہوتا ہے، تشبیہہ پیدا ہوتی ہے حس سے ۔ جو چیز حس کے معمولات میں ہو اُس کو بیان کیا جاتا ہے۔ جمال کا حسی معمول ’آنکھ‘ ہے، اور اگر ہم روایت کو جانتے ہیں تو آنکھ کی مختلف دلالتیں ہمارے علم میں ہونی چاہییں۔ یہاں ’دیدہ‘ سے مراد ’دیدئہ باطن‘ ہے ؎ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدئہ دل وا کرے کوئی اقبال نے ہمارے تصورِ جمال کو اس شعر میں بند کر دیا ہے۔ جمال ہر سطح پر دیکھنے کا موضوع ہے۔ ’دیدئہ مجنوں اگر بودے ترا‘ ۔ یعنی اگر تجھے اصل جمال سے کوئی نسبت حاصل ہوتی تو ’ ہر دو عالم بے خطر بودے ترا‘ ۔ یہاں مولانانے تمام مظاہر کو دو عالم میں حصر کیا ہے -----یعنی تمام مظاہر تیری نظر میں ہیچ ہوتے۔ ا: یہاں وہ مشہور حکایت یاد آتی ہے کہ رابعہ بصری ؒ پانی کا کوزہ اور ایک مشعل لیے چلی جا رہی تھیں۔ کسی نے پوچھا کہ بی بی ! کیا کرنے جا رہی ہیں؟ تو بولیں کہ اس پانی سے جہنم کو ٹھنڈا کروں گی اور مشعل سے جنت کو آگ لگائوں گی تاکہ لوگ جنت کی طمع اور دوزخ کے خو ف سے اللہ کی عبادت نہ کریں بلکہ اخلاص کے ساتھ صرف اور صرف اُس کی طرف متوجہ ہو جائیں -----ایک تو یہ تصور ہے جو ایک عظیم صوفی خاتون کا پیش کردہ ہے اور دوسری طرف قرآن کا قانونِ سزا و جزا ہے جس میں ایک سے ڈرایا گیا ہے اور ایک کی بشارت دی گئی ہے…یہاں ان دونوں میں تطبیق کیسے کریں گے؟ ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ جنت حاصل کرنے اور دوزخ سے بچنے کے لیے عبادت کر رہے ہیں وہ بھی اچھے ہیں۔ امر سے تعلق بھی اچھا ہے اور آمر سے تعلق بھی اچھا ہے۔باقی حضرتِ رابعہؒ کی اس حکایت سے بعض لوگ یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ اس میں انعامِ الٰہی اور عذابِ خداوندی کی اک گونہ تحقیر کی گئی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جنت ہو یا دوزخ، دونوں انسان سے کمتر ہیں۔ وہ ان پر بحیثیتِ انعام و عتاب الٰہی کے کلام نہیں فرما رہیں بلکہ بحیثیت ایک موجود چیز کے ----- ور نہ اگر ہم قدم قدم پر چیزوں میں کارفرما نسبت الٰہیہ دیکھنا شروع کر دیں تو کوئی بھی عمل ممکن نہیں رہے گا۔ O باخودی تو لیک مجنوں بے خود است در طریقِ عشق بیداری بد است (تو ہوش میں ہے لیکن مجنوں بے ہوش ہے۔ عشق کی راہ میں بیداری بُری ہے۔) ا: خودی کو جن معنوں میں اقبال نے استعمال کیا ہے، ظاہر ہے یہ اُن معنوں میں تو نہیں ہے۔ ج: بالکل ۔ البتہ آپ اجازت دیں تو یہاں میں اقبال کے تصورِ خودی پر تفصیل سے کچھ عرض کروں۔ بیچ میں حضرت مجدد صاحبؒ کا بھی حوالہ آ جائے گا جو میرے خیال میں ناگزیر ہے۔ اقبال کے نظریۂ خودی پر گفتگو کرتے ہوئے عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ حضرت مجدؒد کو اس مبحث میں ایک کلیدی حوالے کی حیثیت سے پیش کرنے کی بجائے اُن کا ذکر سرسری سے انداز میں کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ نظریۂ خودی اور وحدت الوجودی تصورِ وجود کے درمیان پایا جانے والا اصولی فرق اور اختلاف مجدد صاحبؒ کو نظر انداز کرکے پوری طرح سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ علامہ کا تصورِ خودی اپنے جوہر میں حضرتؒ کے تصورِ عبدیت سے ماخوذ ہے۔ فی الوقت ہمیں اجمالاً ہی سہی مگر وحدت الوجودی موقف اور اس کے بالمقابل مجدد صاحبؒ کے جوابی موقف کا جائزہ ضرور لیناچاہیے تاکہ اقبال کے نظریۂ خودی کی بہتر اور کامل ترتفہیم میسر آ سکے۔ اربابِ وحدت الوجود، خصوصاً ان کے سرخیل شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کے عقیدے میں وجود کی دو جہتیں ہیںجنھیں واجب و ممکن ، حقیقی و اعتباری یا اصلی و ظلی جو چاہیں کہہ لیں۔ واجب اور حقیقی کی تعریف یہ ہے کہ وہ قائم بالذات ہے، قدیم ہے، بالارادہ ہے اور لا شریک۔ جبکہ ممکن اور اعتباری کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ اپنے وجود میں غیر کا محتاج ہے، حادث ہے، اس کی موجودگی میں اس کے ارادے کو کوئی دخل نہیں اور یہ مشترک الوجود ہے۔ بعض وجودیوں کے خیال میں جو شے قائم بالذات نہ ہو اُس کی یکسر نفی عقلاً جائز ہے۔ ابن عربی نے بھی بس یہی بات کی ہے کہ خالق اور مخلوق کے وجود میں لفظی مناسبت کے علاوہ کوئی مناسبت نہیں پائی جاتی۔ مخلوق، بالذات موجود نہیں بلکہ معدوم ہے۔ خالق، بالذات موجود ہے لہٰذا وجود کے ساتھ حقیقی انتساب فقط ذاتِ حق کو زیبا ہے۔ اس مقام پر یہ نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس مبحث میں وجود اور موجودگی میں فرق ہے۔ وحدت الوجود میں غیر اللہ کے وجود کا تو اس معنی میں انکار کیا جاتا ہے کہ اس کا منبع و مرجع عدم ہے، مگر اس کی موجودگی کو ’شے کے عارضی اتصافِ وجود‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مسئلہ تقدیر میں حضراتِ وجودی جبر کا انکار کرتے ہیں۔ حضرتِ مجددؒ نے وحدت الوجود کی حقیقت کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کے کائناتی اطلاق پر کلام فرمایا ہے۔ ان کے ارشاد کے مطابق، ’اعتبار‘ اپنی اصولی جہت سے لائق نفی نہیں بلکہ واجب الاثبات ہے، کیونکہ ’اعتبار‘ امرِ عدمی نہیں،امرِوجودی ہے۔ اس مقام پر آ کے شیخ سرہندیؒ نے وہ بے مثال اصول بیان کیا جس نے وحدت الوجود کی مابعد الطبیعی ہیئت اور اس کے عرفانی استناد کو بدل کر رکھ دیا۔ آپ نے بتایا کہ باری تعالیٰ وجود سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے موجود ہے۔ وجوبِ وجود ہو یا سلبِ عدم، دونوں اس بارگاہِ بلند کے ادنیٰ چاکر ہیں۔ حضرتِ مجددؒ کا منشا یہ ہے کہ چونکہ وجود عینِ ذات نہیں، زائد بر ذات ہے لہٰذا غیرِ خدا میں اس کا اثبات غلط یا خلاف حقیقت نہیں ۔یہ تو ٹھیک ہے کہ ممکنات ، وجود کے ساتھ عارضی اتصاف رکھتے ہیں مگر یہ عارضی اتصاف اپنے دورانِ اطلاق میں حقیقی ہے… اب یہاں سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امکان و وجوب دو مستقل الگ دائرے ہیں جو آپس میں کوئی ربط نہیں رکھتے؟ یا ان کے درمیان کوئی تعلق پایا جاتا ہے؟ ----- مجدد صاحبؒ کے نزدیک دائرہ امکان مکمل ہو کر دائرہ وجوب کے قابل ادراک رابطے میں آ جاتا ہے اور چونکہ وجوب و امکان دونوں’وجود‘ پر استوار ہیں لہٰذا ان کے بیچ ایک وجودی وحدت منکشف ہوتی ہے جسے لوگوں نے غلطی سے وحدتِ ذاتی سمجھ لیا، حالانکہ یہ حقیقتِ عبدیت کا ظہور ہے۔ وجوب و امکان کی اس ربطی یکجائی کو وحدت الوجودی حضرات ’توحید وجودی‘ حضرت مجددِ الف ثانی ’ظہورِ عبدیت‘ اور اقبال ’خودی‘ کہتے ہیں۔ ا: اسرار خودی میں اقبال نے اپنا تصورِ خودی خاصی تنظیم و ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مناسب ہوگا اگر ہم اس کے حوالے سے اپنی گفتگو کو آگے بڑھائیں۔ ج: جی ہاں! اس طرح بہت آسانی ہو جائے گی۔اسرارو رموز کے حوالے سے جو باتیں ذہن میں آتی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ خودی، ذاتِ حق کی شناخت کے علاوہ اس کی تقدیری و تخلیقی فعلیت کی اصل بھی ہے۔ اس مطلق خودی نے اپنے ذوقِ نمود اور وجود آفرینی سے انسان کی شکل میںخودی کے بے شمار مقید مراکز خلق کیے۔ مطلق خودی اور مقید خودی کا ربطِ باہم، تماثل اور تقابل دونوں بنیادوں پر قائم ہے۔ تماثل کا اصول فعلیت میں جاری ہے اور تقابل کا ذات میں۔ انسان کے لیے ماہیتِ خودی کاعرفان، عرفانِ نفس اور عرفانِ رب دونوں کو محیط ہے۔ چونکہ کائنات کا خارجی پھیلائو بظاہر عرفانِ نفس و رب کے لیے ایک آڑ سی بنا ہوا ہے لہٰذا مقصد آفرینی اور مقصد کوشی، خودی کا وظیفہ ہے تاکہ یہ بوقلمونی اور یہ بکھرائو اپنی اصل سے مخالف رُخ نہ پکڑ لے۔ لیکن چونکہ مقاصد کی فراہمی کسی خود کار نظام کے تحت نہیں، اس لیے تماثل کے اصول پر ’’تخلقوا باخلاق اللّٰہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق انسان تخلیقِ مقاصد کے ذریعے اپنی خودی کی پہنچ، سمائی اور اشیا و حقائق پر اس کی گرفت کو بڑھاتا چلا جاتا ہے ؎ زندگانی را بقا از مدّعاست کاروانش را درا از مدّعاست ا: اسرارِ خودیہمارے سامنے رکھی ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم تھوڑی دیر کے لیے اس کی طرف رُجوع کریں اور اسے اور رموزِ بے خودی کو ملا کر دیکھیں تاکہ خودی و بے خودی کے معاملے میں علامہ کا موقف ذرا تفصیل سے سامنے آ جائے؟ ج: اگر آپ یہی بہتر سمجھتے ہیں تو بسم اللہ ! ا: اسرارسے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خودی ذو جہتین ہے۔ اس کی جہت ِ اوّل ربانی ہے اور جہتِ ثانی انسانی ---- البتہ اس کا مفہوم دونوں جہات میں ایک ہے یعنی مؤثرِ حقیقتِ وجود ----- خودی اپنی الوہی جہت میں غیر متغیر اور اکمل ہے مگر انسانی جہت میں متغیر اور متحرک ----- لہٰذا انسانی خودی کو تربیت کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ----اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔ذرا ان مراحل کی وضاحت کر دیں! ج: اطاعت ، خودی کو بے مہار اور مطلق العنان اندھی عملیت سے روکتی ہے۔ انسانی خودی کی صحیح کارکردگی ایک بالاحقیقت کے آگے اس کی مسئولیت سے مشروط ہے، اور یہی اطاعت ہے۔ اطاعت، اقبال کے نزدیک ’جبر‘ نہیں بلکہ اختیار کی اعلیٰ صورت ہے۔ اس کی مختصر توضیح یہ ہے کہ کائنات میں انسان کا بڑا ہدف حصولِ بقا ہے۔ جو چیزیں اس کے ارادے کی فیصلہ کن شمولیت کے ساتھ حصول بقا میں معاونت کرتی ہیں، انھیں ان کے قوانین سمیت اختیار کرنا روحِ اختیار ہے۔ چونکہ اطاعتِ خداوندی انسان کے وجود کی تشکیل و تکمیل میں لازمی شرط ہے لہٰذا اپنے وجودی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خودی کو پہلے ہی قدم پر اطاعت کوشی لازم ہے کیونکہ خودی قوسِ وجود کی تکمیل کا واحد آلہ ہے۔ نفس ، انائے سفلی کی اصل ہے جو انائے حقیقی سے بیگانہ ہے۔ اس کی تمام تر تگ و دو حفظِ بدن تک محدود ہے۔ اگر اس پر پابندیاں نہ عاید کی جائیں تو انسان کا تصورِ خویشتن، تصورِ کائنات اور تصورِ الٰہ بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ اس بگاڑکی وجہ سے اس کے مقاصد اور اہداف ایک اسفل سطح پر ہی رہ جاتے ہیں، نتیجۃً انسان اپنے وجود کی حقیقت سے بے خبر اس کے امکانات بروے کار نہیں لا سکتا۔ گویا اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نفس کی بے لگامی انسان کو ایک طرف اپنے آپ سے اور دوسری طرف خدا سے دور رکھتی ہے۔ یہ دوری خودی کی نشوو نما میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ----- غلبۂ نفس دراصل اختیارِ انسانی کی ضد ہے جو خود اُس کو اپنے ہی اختیار سے خارج کر دیتا ہے: ؎ ہر کہ بر خود نیست فرمانش رواں می شود فرماں پذیر از دیگراں تربیتِ خودی کا مرحلہ اوّل یعنی اطاعت اپنی حد میں ایک کلیت گیر مطالبہ ہے جس کی تکمیل اس کی ضد یعنی غلبۂ نفس کے انسداد پر منحصر ہے۔ انسانی خودی جب اپنی تربیت کے پہلے دو مراحل سر کر لیتی ہے تو اس کے ثمرے کے طور پر اسے نیابت الٰہی کا فریضہ عطا ہوتا ہے۔ یہ خودی کی اصلی فعالیت کا مرحلہ ہے۔ نیابت الٰہی کیا ہے؟ کائنات کو اس کی اصل سے واصل کرکے اسے منشائے ربانی کے مطابق چلانا! … انسان کی فاعلی مداخلت کے بغیر اشیا اپنی حقیقت سے منقطع رہتی ہیں۔ وہ نائب حق ہے جو اس کائنات صورت میںمعنی پیدا کرتا ہے: ؎ نائب حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است نائب حق ہمچو جانِ عالم است ہستیِ او ظلِ اسم اعظم است از رموزِ جزو و کل آگہ بود در جہاں قائم بامراللہ بود ا: اس گفتگو سے خودی کی ماہیت و حقیقت تو بیان ہو گئی مگر اس کی فعلیت کس اصول پر مبنی ہے؟ اس پر بھی کچھ بات ہونی چاہیے۔ ج: نہیں! خودی کی ماہیت و حقیقت کا بیان ابھی آگے چل کر ہوگا۔ پہلے اس سوال کو دیکھتے ہیں کہ اس کی فعلیت کس اصول پر مبنی ہے؟ -----دائرہ انسانیت میں خودی کی فعلیت اصولِ تسخیر پر مبنی ہے۔ تسخیر کے لیے وجودِ غیر، ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ غیر بھی فی الاصل خودی ہی سے مستفاد ہے مگر اس کا اظہار عینیت کی نہیں بلکہ غیریت کی سطح پر ہوا ہے ----- اب ذرا ہم خودی کی ماہیت کی طرف چلتے ہیں! اقبال کے یہاں خودی،ہستی کے تمام مدارج اور وجود کے کُل تعینات کو محیط ہے۔ ہر مرتبے میں اس کا اطلاق یکساں ہے اگرچہ اظہار میں فرق ہے۔ اپنے پہلے درجے میں خودی تشخصِ شے ہے۔ چونکہ تمام ماسوی اللہ موجودات اپنے تشخص میں دو جہتوں پر قائم ہیں لہٰذا ان کی حقیقت کی درست تفہیم کے لیے یہ دونوں جہتیں ساتھ ساتھ پیش نظر رہنی چاہییں۔ پہلی جہت ’سماوی‘ہے جہاں شے کا تشخص مستقل ہے لیکن انفرادی نہیں ----- اور دوسری جہت ’ارضی‘ ہے جہاں یہی تشخص انفرادی ہے مگر مستقل نہیں۔ اس کے برعکس خدا کا تشخص ایک جہت سے حقیقی اور دوسری سے اعتباری نسبت رکھنے کے باوجود ہر پہلو سے مستقل بھی ہے اور انفرادی بھی۔ وہاں یہ دونوں جہات جہت ذاتی اور جہتِ صفاتی ہیں۔ جہتِ ذاتی میں یہ تشخص مستقل ، لاشریک اور انفرادی ہے، جبکہ جہت صفاتی میں بھی یہ مستقل ہے مگر حرکیت کے ساتھ ، لاشریک ہے مگر نسبتوں کے ظہور کے ساتھ، اور انفرادی ہے لیکن انفرادِ محض کی بجائے انفرادِ مطلق کے ساتھ… عرفانی اسلوب میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ خودی یا انا کے تین مراتب ہیں: مرتبۂ محضیت، مرتبۂ اطلاق اور مرتبۂ تقیید ----- مرتبۂ محضیت میں خودی، انائے محض ہے، وراء الوراء ثم وراء الوراء اور دائرئہ تعلق سے بالکل منزّہ۔ مرتبہ اطلاق میں اناے مطلق ہے، موصوف بہ صفات ہے اور اقلیم تعلق میں تجلی فرما ----- اور مرتبۂ تقیید میں خودی اناے مقید ہے جو قائم الی الغیرہے۔ اوپر کے دو مراتب الوہی ہیں اور تیسرا امکانی اور انسانی۔ خودیِ محض تو ذاتِ خداوندی ہے، وہ تو اس مبحث میں آتی ہی نہیں ----- البتہ خودیِ مطلق جو خدا کا صفاتی تشخص ہے، اپنے مظاہررکھتی ہے جن کا اثبات اسی صورت میں ممکن ہے جب ان میں مطلق کا ظہور ہو ----- مقید اس وقت تک موجود ہی نہیں ہے جب تک اس میں مطلق کے ساتھ خود مطلق کی جہت سے جزوی اور اپنی جہت سے کلی اتصاف نہ پیدا ہو جائے۔ یہیں سے خودی کا دوسرا درجہ شروع ہوتا ہے، یعنی اس کی فعلیت۔ یہ فعلیت دائرہ در دائرہ ہے۔ چھوٹا دائرہ شخصی ہے اور بڑا اجتماعی ----- فرد، خودی کی حقیقت کامیڈیم ہے اور جماعت اس کی غایت کا۔ جماعت، انفرادی خودی کے لیے اہداف فراہم کرتی ہے۔ فرد ان مقاصد سے بیگانہ ہو کر اپنی خودی کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ اجتماعی خودی دراصل انفرادی خودی ہی کا وسعت پذیر ظہور ہے، بس اتنا ہے کہ اس میں فرد یا تو محو ہو جاتا ہے یا پھر ثانوی رہ جاتا ہے۔ اسی چیز کو اقبال نے ’بے خودی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ گویا خودی اپنی حقیقت میں تو شخصی ہی رہے گی مگر اپنی فعلیت میں اجتماعی ہو جائے گی۔ خودی اوربے خودی کی اس باہمی نسبت کو ’نفیِ بعض براے اثباتِ کل‘ کے کلیّے کی روشنی میں سمجھنا چاہیے، یعنی انفرادی خودی کا فعلی تشخص اجتماعی خودی کے ذاتی تشخص میں گم ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے رومی سے خاصی بے وفائی کر لی۔ اب اُن کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ا: رومی کے مُرید کے ساتھ کچھ وقت گزار لینا اُن سے بے وفائی نہیں بلکہ عین وفاداری ہے! اگر اس گفتگو کو یونہی آزاد رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ بہت سی کام کی باتیں آ جائیں گی۔ چلیں اب یہ دیکھیں کہ روایتی مفہوم میں خودی و بے خودی آیا صحوو سکر ہیں یا ان کے کچھ اور معنی ہیں؟ ج: روایتی مفہوم میں خودی و بے خودی، صحو و سُکر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تعینِ انسانی ہی میں محدود رہو گے تو حقائق کو سمجھ سکتے ہو نہ اُن تک پہنچ سکتے ہو۔ حق کو اپنے تعین سے نکل کر دیکھو، اُسے اپنے تعین میں محدود کرنے کی سعی مت کرو۔ کسی بھی حقیقت تک پہنچنے کے لیے اُس سے نچلے تعینات کو توڑنا چاہیے۔ بے خودی کسے کہتے ہیں؟ اپنے تعین سے نکل کر حقائق کاخود انھی کی شرائط پر عرفان حاصل کرنا! ----- حقائق ، ظاہر ہے کہ ماوراے ناسوتی جہت رکھتے ہیں، ان کی اس جہت سے علماً یا حالاًواصل ہو جانا بے خودی ہے ----- اقبال جب ان چیزوں کو رد کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان مباحث میں اُن کے پیشِ نظر الفاظ کی ظاہری دلالتیںہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اُن کا مقصود مردِ عمل تھا۔ مردِ عمل کا مطلب ہے ظاہری دلالتوں پر چلنے والا۔ اُن کا بیشتر کام حقائق کو ٹھوس انسانی صورتِ حال اور اس کے معیار پر لانا ہے۔ یہ رویّہ ایک لحاظ سے مفید بھی تھا۔ مسلمانوں کو اُن کے تاریخی زوال سے نکالنے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ ا: جس شعر کے حوالے سے یہ گفتگو ہو رہی ہے، اُس میں مجنوں کے لیے کہا جا رہا ہے کہ خودی سے نکل کر بے خود ہو گیا تو اُس کی چشم حقیقت بیں کھل گئی۔ گویا تعین ناسوتی کا اسیر نہ رہا۔دوسری طرف اقبال کا موقف یہ ہے کہ بے خودی اس لیے مذموم ہے کہ اس میںتعینِ ناسوتی محو ہو جاتا ہے جبکہ وہ محلِ احکام ہے۔ یہ اعتراض اسی صورت میں رفع ہو سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ بے خودی احکام کا اطلاق زائل نہیں کرتی۔ ج: اس میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ احکام کی جہتِ صادرہ نہیں بلکہ جہتِ قابلہ ناسوتی ہے۔ احکام صادر ہو رہے ہیں مطلوب کی طرف سے۔ تو جب رجوع الی المطلوب ہو رہا ہے اُس وقت احکام کی قبولیت کسی بھی صورت میں کم یا غائب نہیں ہو گی بلکہ اور مستحکم ہو جائے گی۔ بس اتنا ہے کہ وہ جہت ِ قابلہ، جہت غالبہ نہیں رہے گی۔ اسی کو کہتے ہیں انہدام خودی۔ یہاں روایتی اصطلاحات میں اقبال کی تائید میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تعین اُس کی حقیقت بھی تو ہے! اقبال کے نزدیک خودی یہ ہے کہ انسان اپنے پورے شعور کے ساتھ اپنی حقیقت سے واصل ہو جائے ----- ٹھیک ہے!انسان کا اپنے تعین حقیقی سے شعور و عمل کے ساتھ واصل ہو جانے کا نام خودی ہے ----- لیکن یہ بھی کافی نہیں۔ خودی کا روایتی تصور اوّل تو تعین ناسوتی تک محدود ہے، تاہم اگر اس کے مابعد الطبیعی مدلولات پر بھی گفتگو کی جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہو گا کہ حقیقتِ انسانیہ پر اساس رکھتے ہوئے آدمی حقائق الٰہیہ کو اپنے اندر سمو نہیں سکتا۔ حقیقتِ انسانی، حقائق ربانیہ کو Contain نہیں کر سکتی۔ ا: درست ۔ اب ذرا ’مجنوں‘ کی اصطلاحی معنویت پر بھی غور کرنا چاہیے! ہماری عرفانی شعری اصطلاحات میں ایک اصطلاح ’جنوں‘ بھی ہے، جس پر ہم پچھلی نشست میں گفتگو کر چکے ہیں۔ اس گفتگو میں ہم نے ’جنوں‘ کا سبب کشفِ جمال قرار دیا تھا۔۔۔۔ ج: بلاشبہ جنوں کا سبب کشفِ جمال ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ جمال سے اشیاء کو وجود بخشتا ہے اور جلال سے اُنھیں معدوم کر دیتا ہے۔ تو گویا ایک وجود دہندہ شان سے اپنے اختیار کو ساقط کرکے جو ربط پیدا ہوتا ہے، اُس کے حال کو ’جنوں‘ کہتے ہیں۔ وجود دہندگی کا وہ قانون ایک جہت سے شعورِ انسانی میں ہے۔ شعورِ انسانی میں ہونے کا مطلب ہے کہ وہاں انسان کی شرائط کار فرما ہیں۔ اسی کی دوسری جہت وہ ہے کہ جہاں فی الوجود ایسی نشو و نما ہوتی ہے کہ موجود اپنی اصل سے واصل یا مقابل ہو جاتا ہے۔ وہاں جو عارضی ظرفِ وجود ہے اُس کا زائل ہونا ضروری ہے۔ وہ عارضی ظرفیت کیا ہے؟ انسانی شعورِ وجود یا انسانی تعین وجود ----- تو گویا ہستی کو لاحق انسانی تعینات کا زائل ہو کر حقیقتِ وجود سے واصل ہو جانا یا اُس کے مقابل آ جانا ، اس سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اُسے ’جنوں‘ کہتے ہیں۔ ا: وجود کے ناسوتی تعینات کا زائل ہو جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر حقیقتِ وجود کے مقابل آجانا!! کیا مطلب ہوا؟ تقابل میں تو دونوں قائم رہے نا! ج: میں نے احتیاطاً واصل یا مقابل کہا تھا، کیونکہ واصل کہہ کر ہم محفوظ پوزیشن پر نہیں رہتے۔ ہمارا وصل کیا ہے؟ حقیقت سے تقابل ۔ اب جنوں کی ایک اور تعریف جس میں ہم کچھ اوپر جائیں گے، یہ ہے کہ آدمی شرائطِ ظہور سے حالاً باہر نکل جائے، یعنی اُس کی نظر لیلیٰ کے ظہورِ عام پر نہ ہو بلکہ اس ظہورِ عام سے جو شعور ساخت ہوا ہے، محو ہو جائے۔ حقیقت کا آخری حجاب کیا ہے؟ ظہورِ حقیقت ----- جیسے ذات کا ظہور بواسطہ ٔ صفات ہے، صفات ، ذات کا آخری حجاب ہے۔ مطلب یہ کہ جنوں ہر دو حجابات سے بلند کر دیتا ہے۔ ا: بیدل کا ایک مصرع ہے: ’اے نکہت گل اند کے از رنگ بروں آی‘۔ یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے! ج: جی ہاں ہے تو مگر ادھورا۔ کیونکہ نکہت خود ظہورِ گل ہے۔ ا: کیا ’جنوں‘ کی یہ تعریف کسی درجے میں ’جذب‘ کے قریب المعنی ہو جاتی ہے؟ ج: جی ہاں! جذب و جنوں ایک ہی خاندان کی چیزیں ہیں۔ ’جذب‘ یعنی ’کشش‘ اللہ کا فعل ہے اور ’جنوں‘ اُس کا اثر۔ ا: ؎ باخودی تو لیک مجنوں بے خود است۔ ہم لوگ ’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ پر گفتگو کی نشست میں انیت پر بات کر رہے تھے۔ اُسے یہاں کام میں لانا چاہیے۔ ج: انیت کی دو قسمیں ہیں: انیت ِ عالیہ اور انیت سافلہ۔ ایک کے زوال کانام فنا ہے اور دوسری کے قیام کا بقا۔ اب دیکھیے کہ یہ خودی کون سی انیت ہے؟ ا: انیتِ سافلہ ۔ ج: جی۔ یہاں نفیِ خودی، انیتِ سافلہ کی نفی ہے۔ یہ انیتِ سافلہ ہی ہے جو آدمی کو اس دُنیا سے مبالغے کے ساتھ متعلق رکھتی ہے۔ اب انیتِ سافلہ یعنی اس شعر میں آنے والی خودی کی کیا تعریف ہو گی؟ انسان اگر اپنے آپ کو حقائق اور اُن کے مظاہر کا واحد معیار یقین کر لے تو یہ اُس کی انیتِ سافلہ کی کار فرمائی ہے۔ ا: جیسے Humanism میں ہے! ج: یہاں بادشاہ، انیتِ سافلہ کا نمایندہ ہے جو اپنے خود ساختہ معیارِ حسن کو لیلیٰ پر حَکم جانتا ہے۔ انیتِ سافلہ اپنے معلومات، محسوسات یا موضوعات کے تقابل میں اپنا تعین برقرار رکھتی ہے ----- جبکہ انیتِ عالیہ اپنے سے بلند تر متقابلات کے آگے اپنا تعین تج دیتی ہے۔ تصوف میں جہاں جہاں نفیِ خودی کا ذکر آتا ہے وہاں اسی انیت کی نفی مراد ہے، کیونکہ انیتِ عالیہ کی نفی تو تحصیل حاصل ہے۔ اقبال کا اصرار ہے کہ نہیں! انیتِ عالیہ کو بھی اپنا تشخص قائم رکھنا چاہیے۔ مجدد صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ انیتِ عبد زائل نہیں ہونی چاہیے، لیکن اُن کا مطلب یہ نہیں کہ انیتِ عالیہ و سافلہ دونوں ہی اپنی اپنی حد میں برقرار رہیں، بلکہ یہ ہے کہ ان دونوں کا مجموعہ ہے انیتِ عبد ----- اس انیتِ عبد کو بہر حال برقرار رہنا چاہیے۔ ا: اقبال جہاں ’سر الفراق‘ اور ’سر الوصال‘ کی بحث چھیڑتے ہیں، وہاں حوالہ تو مجدد صاحب ہی کا ہے۔ ’گسستن‘ اور ’پیوستن‘کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مجدد صاحب نے ’گسستن‘ کو ’پیوستن‘ پر ترجیح دی ہے! ج: آپ نے یہ بہت بر محل حوالہ دیا۔ مجدد صاحب ’’کے یہاں گسستن کا فاعل انسان نہیں ہے جبکہ اقبال ایسا ہی سمجھتے ہیں، جبھی تو اُنھوں نے ابلیس کو ’خواجۂ اہلِ فراق‘ کہا کیونکہ اپنے لیے ’گسستن‘ کا فاعل وہ خود ہے۔ ا: لیکن یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بڑے بڑے صوفیہ نے ابلیس کی مدح کی ہے اور اُسے بہت بڑا توحید پرست قرار دیا ہے۔ ج: جس نے بھی ایسا کیا، غلط کیا۔ ابلیس نے مفہوم ذات کو امرِ ذات پر مقدم رکھا، یہی اتنی بڑی سرکشی اور جہالت تھی جو اُسے مردود کروانے کے لیے کافی تھی۔ مفہومِ ذات، امرِ ذات سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ مفہومِ ذات وہی تھا جو اُس نے سمجھا مگر یہ نہ جان سکا کہ عبدیت مفہوم کی نہیں، امر کی تابع ہے۔ ا: اچھا وہ جو ’الامر فوق الادب‘ کہا جاتا ہے، اُس کا بھی یہی مطلب ہے؟ ج: ادب کیا ہے؟ مفہوم ذات ہے۔ مفہوم کی نسبت میری طرف اور امر کی نسبت اُس کی طرف جس کا میں ادب کرتا ہوں یعنی ذات… تو اب کس چیز کو فوقیت حاصل ہے؟ میری نسبت کو یا اُس کی نسبت کو؟ ادب کا فاعل میں ہوں اور امر کی وہ ذات ۔شیطان نے یہ بات نہیں سمجھی۔ ا: یہاںتھوڑی سی تفصیل اس بات کی درکار ہے کہ انیتِ عالیہ اپنے سے بلند تر متقابلات کے سامنے اپنے تشخص کو زائل کر دیتی ہے! ج: جی ہاں! یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اپنے موجودہ تعین اور تشخص کو زائل کر دیتی ہے۔ اس کی ایک حسی مثال ہے شمع اور آفتاب۔اس کی ذرا سی تفصیل یہ ہے کہ بالفرض آپ خارج اعلیٰ میں پہنچے جبکہ آپ کا وجودِ خارجی منحصر ہے خارجِ اسفل پر، اور لامحالہ آپ کی انیت بھی اسی پر منحصر ہے۔ تو خارج اعلیٰ میں پہنچ کر آپ کی انیت اس درجے پر تو زائل ہو گئی کہ خارجِ اسفل میں واقع ہے مگر اب اُس پرانحصار نہیں رکھتی…جیسا کہ ہم پہلے عرض کر آئے ہیں کہ یہاں خودی ، انیتِ سافلہ ہے اور بیداری، اس کی فعلیت۔ یہ تو اپنی فعلیت ہی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، تعین تشخص تو دور کی بات ہے۔اور ’وصال‘ کا مطلب ہے ’فنا‘ ----- کمالِ فنا یہ ہے کہ تعین ’من‘ اُٹھ جائے اور ایک لاتعین پھیلائو کے ساتھ بس ’تو‘ یا ’او‘ رہ جائے۔ ’در طریقِ عشق بیداری بد است‘یعنی طریق عشق میں غیر کی خبر، غیر کا تصور بُرا ہے۔ اور یہ عاشق خود کیا ہے؟ غیر ہی تو ہے! عشق، غیریت کے اثبات سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی فنا پر کمال کو پہنچتا ہے ۔یہاں فناے غیریت کا مطلب قیام عینیت نہیں کہ ’من و تو‘ ایک ہو جائیں، بلکہ محبوب کی وحدت ذاتی کا اثبات ہے جو تعینِ عاشق کی نفی سے مشروط ہے۔ ا: معافی چاہتا ہوں۔ بس ایک چیز اور واضح ہو جائے، پھر اُٹھ جائیں گے! یہاں ’بیداری‘ ،’ہشیاری‘ کے معنی میں نہیں؟ یعنی طریقِ عشقی میں طریقِ عقلی کی آمیزش بُری ہے! ج: اگر بیداری و ہشیاری ہم معنی ہوتے تو یہ مصرع یوں ہونا چاہیے تھا: ’در طریق عشق ہشیاری بداست‘۔ ’بیداری‘ میں تو معنی کی ایک مثبت رو بھی موجود ہے، ’ہشیاری‘ اس کے مقابلے میں بدی کا صحیح مصداق ہے۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود رومی نے ’ہشیاری‘ کا لفظ جو بالکل سامنے کا تھا، استعمال نہ کیا؟ جناب ! یہ کسی نرے شاعر کا نہیں، ایک عارفِ کامل کا کلام ہے جس کا حرف حرف گنجینۂ معنی ہے۔ مولانا نے لفظوں کے استعمال میں بعض اوقات فنی ضابطوں کو اُن کی تنگ دامنی کی وجہ سے نظر انداز کر دیا مگر اُس نظامِ معنی پر کبھی آنچ تک نہ آنے دی جو ہر پہلو سے کامل ہے۔ اب یہیں دیکھ لیں کہ ’ہشیاری‘کا لفظ استعمال نہ کرنے کا پہلا سبب تو یہی نظر آتا ہے کہ موضوع ’جمال‘ ہے۔ ’جمال‘ اپنی کسی بھی سطح پر ’ہشیاری‘ کی حالت و کیفیت سے مناسبت نہیں رکھتا، جبکہ ’بیداری‘ کے ساتھ اس کا گہرا میل ہے۔ ایک تو بیداری میں آنکھ کی رعایت ہی ایسی ہے جو اس مکالمے کو نہایت بامعنی بنا دیتی ہے۔ بادشاہ کا تصورِ جمال ’آنکھ‘ کا مرہون منت ہے اور بیداری کے بغیر آنکھ کس کام کی! باقی معنویتوں پر ہم پہلے ہی گفتگو کر چکے ہیں۔ اُنھیںدُہرائے بغیر اتنا البتہ کہا جا سکتا ہے کہ طریقِ عشق میں بیداری اس لیے بُری ہے کہ یہ شہود کو غیب پر غالب کر دیتی ہے۔ بس اب مزید غوطہ خوری نہ کروائیں، دم گھٹ جائے گا! ژژژ علم کی منزل سے گذرتے ہوئے حقیقت تک رسائی اقبال کی ایک بنیادی آرزو ہے۔ وہ مشرق و مغرب کے علمی سرچشموں سے فیضیاب ہوئے مگر انہیں ایسے باخبر دل کی آرزو تھی جو حرف میں تاثیر اور بادہ میں نشہ کا مشاہدہ کر سکتا ہو۔۱؎ زندگی بھر کے علمی سفر سے اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسا علم جو کشاد دل سے بہرہ ور ہو سکے، روایتی ذرائع علم سے حاصل ہونا ممکن نہیں۔۲؎ روایتی علم کے حصول کا ذریعہ عقل ہے مگر عقل کے مقدر میں حضوری نہیں، اس کی مثال ایسی جنت کی سی ہے جس میں حور نہ ہو۔ ۳؎ جبکہ زندگی حضوری میں ہے۴؎ اور عقل حضوری تک نہیں لا سکتی۔ یہ ایسی آگاہی تک ہی لا سکتی ہے جو حیرت کی حامل ہے۔۵؎ چونکہ عقل صرف چراغ رہ گذر ہے۶؎ اس لیے اہل خرد کا مقام حضوری نہیں اعراف ہوتا ہے۔۷؎ اگر عقل حضوری تک رسائی حاصل کرنے سے معذور ہے، تو متبادل ذریعہ علم کیا ہو؟یہاں اقبال عقل سے حاصل ہونے والے علم ’دانش برہانی‘ کے مقابل ’دانش نورانی‘ کا ذکر کرتے ہیں۔۸ ؎ دانش برہانی اگر ’شرع مسلمانی‘ سے آشنا کرتی ہے تو دانش نورانی ’جذبِ مسلمانی‘ سے بہرہ ور کرتی ہے۔۹؎ کیونکہ عقل صرف ’فکر حکیمانہ‘ کی حامل ہے جبکہ منزل ’فکر حکیمانہ‘ میں نہیں ’جذبِ حکیمانہ‘ میں ہے۔۱۰؎ یہیں سے علم اور فقر میں فرق نمایاں ہو جاتا ہے کہ دونوں کا مقصود اور منتہا ایک دوسرے سے جدا اور الگ ہے۔۱۱؎ علم کا سرچشمہ عقل اور فقر کا دل ہے۔ راست علم اور درستی نگاہ دل کی کارفرمائی کے آغاز کی بنیاد ہیں۔۱۲؎ اقبال کے نزدیک ہمیں صرف صاحب ادراک ہی نہیں بنایا گیا بلکہ اس کے ساتھ ذوق تجلی سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔۳؎۱ ہماری نگاہ اگرچہ بالعموم توہمات میں گرفتار رہتی ہے مگر اسے دلِ وجود تک رسائی کی صلاحیت بھی دی گئی ہے۔۱۴؎ حقیقت کا اظہار عینِ فطرت ہے مگر اس کا مشاہدہ کرنے کے لیے ’نگاہ‘ درکار ہے۔۱۵؎ اس نگاہ کے حصول کے لیے علامہ ذکر و فکر کی یکتائی۱۶؎ اور ’کیمیائے نفس‘۱۷؎ کو لازمی تقاضا قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس سے ہی وہ جذب و جنون میسر آتا ہے جو صاحب ادراک ہے۔۱۸؎ اسی جذب مسلمانی کو علامہ خلقِ خلّاق۱۹؎ قرار دیتے ہیں جسے وہ حقیقت تک رسائی اور ضرب کے کاری ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔۲۰؎ علم حصولی سے حضوری کی منزل تک رسائی کا امکان کیا ہے؟ علامہ فرماتے ہیں کہ مسلمان کے لیے صرف علم کو ہی منزل قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کے لیے نعمت دیدار بھی رکھی گئی ہے۔۲۱؎ حضوری کا حصول انسان کے لیے فطری بھی ہے کہ انسان ایک ایسا خدنگ جستہ ہے جو جستگی کے باوجود کماں سے دور نہیں ہوا۔۲۲؎ حضوری کا حصول اس لیے بھی ضروری ہے کہ انفرادی سطح پر اسی میں دل کی زندگی ہے۲۳؎ اور یہ اجتماعی سطح پر معاصر فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قوت بھی ہے۔۲۴؎ اس کے حصول کے لیے وہ تربیت نفس درکار ہے جو ہمارے ضمیر کو معانی قرآن کے نزول کے لیے ہموار کر دے۔۲۵؎ تاہم اقبال دور حاضر کے صوفیانہ طرق کو اس منزل حضوری کے حصول کے لیے موثر اور کارگر تصور نہیں کرتے۔۲۶؎ تیری طبیعت ہے اور، تیرا زمانہ ہے اور تیرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ علامہ نے علم کی انہی دو حیثیتوں کو بیان کرتے ہوئے اس کی ایک جہت کو حواس اور دوسری کو حضور قرار دیا ہے۔ حواس سے حضور تک رسائی کا عمل ’سوزِ حیات‘ سے ہی ممکن ہے: علم تا سوزی نگیرد از حیات دل نگیرد لذّتی از واردات علم جز شرح مقامات تو نیست علم جز تفسیر آیات تو نیست سوختن میباید اندر نار حس تا بدانے نقرۂ خود را ز مس علم حق اوّل حواس آخر حضور آخر او مے نگنجد در شعور۲۷؎ علم حق کیا ہے؟ اس کی تین جہات ہو سکتی ہیں: ۱۔ ایسا علم جو صرف ظن و تخمین پر مبنی نہ ہو بلکہ مبنی بر حقیقت ہو اور پھر وہ انفرادی و اجتماعی حال میں بدل چکا ہو، یعنی صرف فکر نہ رہے بلکہ اجتماعی نظام میں بدل جائے۔۲۸؎ ۲۔ ایسا علم جو حق کی طرف سے عطا کیا گیا ہو۔۲۹؎ ۳۔ ایسا علم جو حق سے متعلق ہو یعنی وہ حق کی معرفت اور حضوری پر منتج ہو۔۳۰؎ یہی وہ علم ہے جو انسانی شخصیت کو ایسی تبدیلی سے آشنا کرتا ہے جو اسے حقیقت سے قریب تر کرتی ہے بصورت دیگر علم، علم ہو کر جہل کے زمرے میں ہی رہتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: وَلَوْ اَنَّـنَا نَزَّلْنَـآ اِلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰی وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْئٍ قُبُـلًا مَّا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلآَّ اَنْ یَّشَآئَ اﷲُ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُوْنَ۔۳۱؎ اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور ان سے مُردے باتیں کرنے لگتے اور ہم ان پر ہر چیز (آنکھوں کے سامنے) گروہ در گروہ جمع کر دیتے وہ تب بھی ایمان نہ لاتے سوائے اس کے جو اﷲ چاہتا اور ان میں سے اکثر لوگ جہالت سے کام لیتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں علم کا سفر جن مراحل سے گزرا، حواس اور عقل کی حقیقت کے ادراک میں معذوری ثابت ہوتی گئی۔ عقلیت (Rationalism) کے مطابق صرف حواس سے علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس سے حاصل ہونے والے تصورات مبہم اور ژولیدہ فکری کے حامل ہوتے ہیں۔ صرف عقل یا فکر ہی حقیقت کا ادراک کر سکتی ہے۔ سو علم حقیقت کا ذریعہ عقل نظری ہی ہے۔ مگر عقلیت نے جس طرح حقیقت کے تعین کا سفر طے کیا اس کا نتیجہ متضاد حاصلات کے طور پر سامنے آیا۔ اس طرح عقل کا ذریعہ علم حقیقت ہونا از خود بے یقینی اور ژولیدہ فکری میں بدل گیا۔ اس کا لازمی نتیجہ حسیت کا ذریعہ علم حقیقت ہونا قرار پایا۔ اس کے مطابق عقل نہیں صرف حواس ذریعہ علم ہیں۔ مگر اس کے تحت بھی انسانی فکر کبھی مادیت، کبھی ذہن تک پہنچی اور متضاد نتائج فکر کے باعث یہاں بھی علم حقیقت کا حصول غیر یقینی ہو گیا۔ عقل اور حواس دونوں ہی ذریعہ علم ہیں مگر اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر۔ کانٹ (Immanuel Kant, (۱۸۰۴-۱۷۲۴ نے اس امر کا انکشاف کیا کہ حواس اور عقل دونوں انسانی علم کی استعدادیں ہیں۔ حواس علم کا خام مواد فراہم کرتے ہیں، عقل اس مواد کو اپنے مقولات (Categories) کے تحت منظم کر کے علم میں بدلتی ہے۔ حواس سے یہ یقین میسر آتا ہے کہ معلوم خارج میں وجود رکھتا ہے اور حاصل شدہ علم میں عقل سے وجوب اور کلیت پیدا ہوتی ہے۔ کانٹ کے مطابق ہمارے ریاضیاتی اور طبیعیاتی علم کو قضایا ترکیبی درکار ہیں۔ مزید یہ کہ یہ وہبی طور پر قابل ادراک (Knowable apriori) ہیں، سو یہ کسی بھی آزادانہ تجربے سے ماورا ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی خاص تجربہ ان قضایا کی کلی اور وجوبی صحت کو ثابت نہیں کر سکتا۔۳۳؎ عقل خالص کا عمومی مسئلہ یہ ہے کہ وہبی قضایا ترکیبی (Synthetic apriori judgements) کا امکان کیا ہے۔ کانٹ کے مطابق اس کے لیے بالکل ایک نیا شعبہ علم درکار ہے۔۳۴؎ کانٹ نے اس نئی سائنس کو Transcendental Doctrine کہا ہے۔ یہ سائنس براہ راست حسی شعور (Empirical Cognition) کے معروض (Objects) سے بحث نہیں کرتی بلکہ معروض کے تجربہ کے امکانات کی شرائط دریافت کرتی ہے اور اس ذہنی استعداد کا کھوج لگاتی ہے جو معروض کا تجربہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔۳۵؎ کانٹ، لاک (Locke) کے اس خیال سے متفق ہے کہ ہمیں کوئی خلقی علم نہیں دیا گیا۔ یعنی کسی قضیے سے متعلق کوئی علم اﷲ یا فطرت کی طرف سے ہم میں ودیعت نہیں کیا گیا بلکہ اس کا آغاز ہمارے انفرادی تجربے سے ہوتا ہے۔۳۶؎ تاہم تجربہ دو بنیادی عوامل کا ثمر ہے۔ اولاً بیرونی اشیاء ہماری قوتِ احساس (Sensibility) کو متاثر کرتی ہیں اور اس متاثر کرنے کے عمل کے نتیجے میں ہماری وقوفی صلاحیت (Cognitive faculty) رو بہ عمل ہوتی ہے۔۳۷؎ کانٹ کے مطابق ہم ثانی الذکر کو اول الذکر کی نسبت زیادہ یقینی طور پر محسوس کر سکتے ہیں۔ یعنی ہمیں اپنی شعوری صلاحیتوں کی طرف سے اس تجربے کے دوران کردار (Contribution) کا خالص (Pure) یا وہبی (apriori) شعور (Cognition) ہو سکتا ہے نہ کہ اس امر کا شعور کہ اس تجربے کے دوران خارجی اشیاء یا منظور کا اثر کیا تھا۔۳۸؎ کانٹ کے مطابق ہماری استعداداتِ شعور (Cognitive Capacities) دو عوامل پر مشتمل ہیں۔ ایک یہ کہ خارجی اشیاء کے ہم پر ہونے والے اثرات کو قبول کرنا (Receptivity) اور ان اثرات کا احساس (Sensation) جس سے یہ اشیاء ہمارے حسی وجدان (Empirical Intuition) کو متاثر کرتی ہیں۔ دوسرا تفہیم (understanding)، یعنی وجدان (Intuition) کے اس مواد کو سوچ کے ذریعے باہم مربوط کرنا اور پھر ان کے بارے میں قضایا (Judgements) ترتیب دینا۔۳۹؎ یوں کانٹ نے ہماری Sensitivity کی Receptive Faculty کی طرف سے شعور (Cognition) کو Contribution اور منظور کی طرف سے ہم پر اثر (Effect) میں امتیاز کو واضح کیا ہے۔۴۰؎ اس طرح کانٹ نے اس امر کی توضیح کی ہے کہ زمان و مکاں تمام وجدان کی Forms ہیں۔ جنہیں ہماری استعدادِ احساس (faculty of sensibilty) نے وضع کیا ہے۔ لہٰذا یہ ہر اس شے کی forms ہیں، جن کا ہمیں قبل تجربی علم ہو سکتا ہے۴۱؎ نیز مقولات (Categories) ادراک میں اس وقت ممد ہوں گے جب ان کا اطلاق اشیاء کے ظاہر (Phenomena) پر کیا جائے، تاہم ان کے ذریعے حقیقت اشیاء (Noumens) کے بارے میں سوچا تو جا سکتا ہے، جانا نہیں جا سکتا۔۴۲؎ یہی سبب ہے کہ تمام روایتی مابعد الطبیعیات واہموں (Illusions) پر مشتمل ہے۔ کیونکہ یہ اس امر کے لیے تو کوشاں ہے کہ صرف عقل پر انحصار کرتے ہوئے تمام اشیاء بشمول روح، کائنات اور خدا کا علم حاصل کر لے مگر یہ حواس کی حدودِ کار کا تعین نہیں کرتی۔۴۳؎ گویا حواس علم تک رسائی کے لیے ایک سنگ میل کا درجہ تو رکھتے ہیں مگر یہ اس علم کے حصول کی حتمی ضمانت نہیں دیتے جو تابع معلوم بھی ہو۔ حسیت اور عقلیت کے بعد دور تنقید نے عقل کی حدود کو واضح اور نمایاں کر دیا۔ اس باب میں کانٹ کے فکری حاصلات وقیع درجہ رکھتے ہیں: ۱۔ ادراک حواس سے مدد لینے والے حسی شعور کا عمل ہے۔ اشیاء کے ظاہر سے حواس جو اثر لیتے ہیں اسی حد تک ان کا ادراک ہوتا ہے۔ تا ہم جب یہ حسی شعور سے خالص شعور کی طرف منتقل ہوتا ہے تو اول الذکر میں حقیقت کا کوئی ادراک نہیں ہو سکتا جبکہ موخر الذکر میں اس کا وہبی شعور باقی رہتا ہے: Perception is empirical consciousness, that is, a consciousness in which sensation is to be found. Appearances, as objects of perception, are not pure, merely formal, intuitions, like space and time. For in and by themselves these latter cannot be perceived. Appearances contain in addition to intuition the matter for some object in general (whereby something existing in space or time is represented); they contain, that is to say, the real of sensation as merely subjective representation, which gives us only the consciousness that the subject is affected, and which we relate to an object in general. Now from empirical consciousness to pure consciousness a graduated transition is possible, the real in the former completely vanishing and a merely formal a priori consciousness of the manifold in space and time remaining. ؎44 ۲۔ حواس کی قوت حس کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق ادراک بھی کم و بیش ہوتے ہوئے متاثر ہو گا: Consequently there is also possible a synthesis in the process of generating the magnitude of a sensation from its beginning in pure intuition = 0,up to any required magnitude. Since, however, sensation is not in itself an objective representation, and since neither the intuition of space nor that of time is to be met with in it, its magnitude is not extensive but intensive. This magnitude is generated in the act of apprehension whereby the empirical consciousness of it can in a certain time increase from nothing = 0 to the given measure. Corresponding to this intensity of sensation, an intensive magnitude, that is, a degree of influence on the sense [i.e. on the special sense involved], must be ascribed to all objects of perception, in so far as the perception contains sensation.؎45 ۳۔ انسانی شعور میں حقیقت کا ادراک کلی نہیں ہو گا بلکہ حسی شعور کی حواس کے ساتھ مناسبت کے لحاظ سے ضرور کم و بیش ہوتا رہے گا۔ لہٰذا حقیقت کا ادراک جہاں تک اس کے ظہور پذیری کے شعور کا تعلق ہے کمی و بیشی کا شکار ہوتا رہے گا: Apprehension by means merely of sensation occupies only an instant, if, that is, I do not take into account the succession of different sensations. As sensation is that element in the [field of] appearance the apprehension of which does not involve a successive synthesis proceeding from parts to the whole representation, it has no extensive magnitude. The absence of sensation at that instant would involve the representation of the instant as empty, therefore as = 0. Now what corresponds in empirical intuition to sensation is reality (realitas phaenomenon); what corresponds to its absence is negation = 0. Every sensation, however, is capable of diminution, so that it can decrease and gradually vanish. Between reality in the [field of] appearance and negation there is therefore a continuity of many possible intermediate sensations, the difference between any two of which is always smaller than the difference between the given sensation and zero or complete negation. In other words, the real in the [field of] appearance has always a magnitude. But since its apprehension by means of mere sensation takes place in an instant and not though successive synthesis of different sensations, and therefore does not proceed from the parts to the whole, the magnitude is to be met with only in the apprehension. The real has therefore magnitude, but not extensive magnitude. ؎46 ۴۔ حواس عام طور پر حقیقت کا جزوی یا ادنیٰ درجے پر شعور حاصل کرتے ہیں جو درجات کے لحاظ سے متنوع نوعیت کا ہو سکتا ہے: Every sensation, therefore, and likewise every reality in the [field of] appearance, however small it may be, has a degree, that is, an intensive magnitude which can always be diminished. Between reality and negation there is a continuity of possible realities and of possible smaller perceptions. Every colour, as for instance red, has a degree which, however small it may be, is never the smallest; and so with heat, the moment of gravity, etc. ؎47 ۵۔ حقیقت کا مظاہری اظہار درجہ بدرجہ ہوتا ہے۔ اس اظہار میں شعور کے لیے ایک تسلسل ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی اظہار بھی کلی ہے: All appearances, then, are continuous magnitudes, alike in their intuition, as extensive, and in their mere perception (sensation, and with it reality) as intensive. If the synthesis of the manifold of appearance is interrupted, we have an aggregate of different appearances, and not appearance as a genuine quantum. Such an aggregate is not generated by continuing without break productive synthesis of a certain kind, but through repetition of an ever-ceasing synthesis. If I called thirteen thalers a quantum of money, I should be correct, provided my intention is to state the value of a mark of fine silver. For this is a continuous magnitude in which no part is the smallest, and in which every part can constitute a piece of coin that always contains material for still smaller pieces. But if I understand by the phrase thirteen round thalers, so many coins, quite apart from the question of what their silver standard may be, I then use the phrase, quantum of thalers, inappropriately. It ought to be entitled an aggregate, that is, a number of pieces of money. But as unity must be presupposed in all number, appearance as unity is a quantum, and as a quantum is always a continum. ؎48 ۶۔ ادراک میں حقیقت کے انکشاف کے لاتعداد درجات ہیں۔ لہٰذا شعور کو حسب استعداد منکشف ہونے والی حقیقت پر اعتماد کرنا ہو گا۔ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا: If all reality in perception has a degree, between which and negation there exists an infinite gradation of ever smaller degrees, and if every sense must likewise possess some particular degree of receptivity of sensations, no perception, and consequently no experience, is possible that could prove, either immediately or mediately (no matter how far-ranging the reasoning may be), a complete absence of all reality in the [field of] appearance. In other words, the proof of an empty space or of an empty time can never be derived from experience. For, in the first place, the complete absence of reality from a sensible intuition can never be itself perceived; and, secondly, there is no appearance whatsoever and no difference in the degree of reality of any appearance from which it can be inferred. It is not even legitimate to postulate it in order to explain any difference. For even if the whole intuition of a certain determinate space or time is real through and through, that is, though no part of it is empty, none the less, since every reality has its degree, which can diminish to nothing (the void) through infinite gradations without in any way altering the extensive magnitude of the appearance, there must be infinite different degrees in which space and time may be filled. Intensive magnitude can in different appearances be smaller or greater, although the extensive magnitude of the intuition remains one and the same. ؎49 ۷۔ اسی طرح حواس کا ادراک کرنا بھی تجربے کا محتاج ہے۔ یہ قبل تجربی یا وہبی نہیں ہے۔ اور حسی شعور کا صفر سے لا متناہی درجے تک ارتقا ممکن ہے۔ حقیقت کے ادراک کے بارے میں شعور کے تسلسل کے وہبی یا قبل تجربی ہونے کے علاوہ شعور کا سارا عمل تجربے پر منحصر ہے: The quality of sensation, as for instance in colours, taste, etc. , is always merely empirical, and cannot be represented a priori. But the real, which corresponds to sensations in general, as opposed to negation = 0, represents only that something the very concept of which includes being, and signifies nothing but the synthesis in an empirical consciousness in general. Empirical consciousness can in inner sense be raised from 0 to any higher degree, so that a certain extensive magnitude of intuition, as for instance of illuminated surface, may excite as great a sensation as the combined aggregate of many such surfaces has illuminated. [Since the extensive magnitude of the appearance thus varies independently], we can completely abstract from it, and still represent in the mere sensation in any one of its moments a synthesis that advances uniformly from 0 to the given empirical consciousness. Consequently, though all sensations as such are given only a posteriori, their property of possessing a degree can be known a priori. It is remarkable that of magnitudes in general we can know a priori only a single quality, namely, that of continuity, and that in all quality (the real in appearances) we can know a priori nothing save [in regard to] their intensive quantity, namely that they have degree. Everything else has to be left to experience. ؎50 ۸۔ تجربے سے مراد کسی شے کے بارے میں ادراک کے ذریعے علم کا حاصل ہونا ہے۔ ادراک اپنے عمل تالیف کے ذریعے حواس سے حاصل ہونے والی اطلاعات کو علم میں بدلتا ہے۔ گویا ادراک کے مختلف اعمال کے باہمی ربط سے ہی تجربہ وجود پذیر ہو سکتا ہے: Experience is an empirical knowledge, that is, a knowledge which determines an object through perceptions. It is a synthesis of perceptions, not contained in perception but itself containing in one consciousness the synthetic unity of the manifold of perceptions. This synthetic unity constitutes the essential in any knowledge of objects of the senses, that is, in experience as distinguished from mere intuition or sensation of the senses. In experience, however, perceptions come together only in accidental order, so that no necessity determining their connection is or can be revealed in the perceptions themselves. For apprehension is only a placing together of the manifold of empirical intuition; and we can find in it no representation of any necessity which determines the appearancesthus combined to have connected existence in space and time. But since experience is a knowledge of objects through perceptions, the relation [involved] in the existence of the manifold has to be represented in experience, not as it comes to be constructed in time but as it exists objectively in time. Since time, however, cannot itself be perceived, the determination of the existence of objects in time can take place only through their relation in time in general, and therefore only through concepts that connect them a priori. Since these always carry necessity with them, it follows that experience is only possible through a representation of necessary connection of perceptions. ؎51 ۹۔ حواس کی نارسائی ہی ہے کہ ہم کسی شے یا واقعہ کو اپنے تجربے کے تسلسل سے ہی جانتے ہیں: I render my subjective analysis of apprehension objective only by reference to a rule in accordance with which the appearances in their succession, that is, as they happen, are determined by the preceding state. The experience of an event (i.e. of anything as happening) is itself possible only on this assumption. ؎52 ۱۰۔ حقیقت شے تک رسائی محال ہے۔ کیونکہ ہماری عقل کو وہ خاص استعداد نہیں دی گئی جو حقیقت شے کے ادراک کی متحمل ہو سکے: If by 'noumeuon' we mean a thing so far as it is not an object of our sensible intuition, and so abstract from our mode of intuiting it, this is a noumeuon in the negative sense of the term. But if we understand by it an object of a non-sensible intuition, we thereby presuppose a special mode of intuition, namely, the intellectual, which is not that which we possess, and of which we cannot comprehend even that possibility. This would be 'noumenon' in the positive sense of the term. ؎53 ۱۱۔ یہی سبب ہے کہ انسانی شعور اپنی تنگ دامانی کے باعث کوئی بھی ادراک کچھ لازمی شرائط کے پورا ہونے پر ہی حاصل کر سکتا ہے: For that categories have meaning only in relation to the unity of intuition in space and time; and even this unity they can determine, by means of general a priori connecting concepts, only because of the mere ideality of space and time. ؎54 ۱۲۔ اور یہ کہ زمان و مکاں میں حواس کا ہر ادراک کچھ شرائط کا پابند ہوتا ہے: For in our sensibility, that is, in space and time, every condition to which we can attain in the exposition of given appearances is again conditioned. ؎55 عقل کی فعالیت کی تحدید کے باعث ہی کانٹ نے تنقید عقل محض کو عقل نظری کے فیصلہ کرنے کے لیے ایک جامع نظام قرار دیا ہے۔ جو اس کے مطابق مستقبل میں ناقابل تغیر رہے گا: Now, as regards this second edition, I have, as is fitting, endeavoured to profit by the opportunity, in order to remove, wherever possible, difficulties and obscurity which, not perhaps without my fault, may have given rise to the many misunder- standings into which even acute thinkers have fallen in passing judgment upon my book. In the propositions themselves and their proofs, and also in the form and completeness of the [architectonic] plan, I have found nothing to alter. This is due partly to the long examination to which I have subjected them, before offering them to the public, partly to the nature of the subject-matter with which we are dealing. For pure speculative reason has a structure wherein everything is an organ, the whole being for the sake of every part, and every part for the sake of all the others, so that even the smallest imperfection, be it a fault (error) or a deficiency, must inevitably betray itself in use. This system will, as I hope, maintain, throughout the future, this unchangeableness. It is not self-conceit which justifies me in this confidence, but the evidence experimentally obtained through the parity of the result, whether we proceed from the smallest elements to the whole of pure reason or reverse-wise from the whole (for this also is presented to reason through its final end in the sphere of the practical) to each part. Any attempt to change even the smallest part at once gives rise to contradictions, not merely in the system, but in human reason in general. ؎56 اور یہی کانٹ کا امتیاز ہے کہ اس نے عقل کی ان حدود کا تعین کر دیا ہے جن میں رہتے ہوئے عقل اپنا وظیفہ انجام دے سکتی ہے اور ان سے ماوراء اس کی کارفرمائی کا کوئی امکان نہیں۔ The critique of pure reason can be regarded as the true tribunal for all disputes of pure reason; for it is not involved in these disputes -- disputes which are immediately concerned with objects -- but is directed to the determining and estimating of the rights of reason in general, in accordance with the principles of their first institution. In the absence of this critique reason is, as it were, in the state of nature, and can establish and secure its assertions and claims only through war. The critique, on the other hand, arriving at all its decisions in the light of fundamental principles of its own institution, the authority of which no one can question, secures to us the peace of a legal order, in which our disputes have to be conducted solely by the recognised methods of legal action. In the former state, the disputes are ended by a victory to which both sides lay claim, and which is generally followed by a merely temporary armistice, arranged by some mediating authority; in the latter, by a judicial sentence which, as it strikes at the very root of the conflicts, effectively secures an eternal peace. The endless disputes of a merely dogmatic reason thus finally constrain us to seek relief in some critique of reason itself, and in a legislation based upon such criticism. As Hobbes maintains, the state of nature is a state of injustice and violence, and we have no option save to abandon it and submit ourselves to the constraint of law, which limits our freedom solely in order that it may be consistent with the freedom of others and with the common good of all. ؎57 The critique of pure reason can be regarded as the true tribunal for all disputes of pure reason; for it is not involved in these disputes- which are immediately concerned with objects -but is directed to the determining and estimating of the rights of reason in general, in accordance with the principles of their first institution. ؎58 اقبال جب علم کی معراج ’’حضور‘‘ تک رسائی کو قرار دیتے ہیں تو حواس اور حضور میں ربط کو بھی بیان کرتے ہیں۔ حواس ظاہری اور عقل کے حضور سے ربط کو الفاظ کے پیرائے میں بیان کرنا ’حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ‘ کے مصداق ہے۔ حضور سے سرفراز کرنے والی عقل کی رسائی حقیقت تک ہے جبکہ عقل نظری کی رسائی صرف ظاہری صورت تک ہوتی ہے۔ مولانا روم اس فرق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: طفلِ رہ را فکرت مردان کجاست؟ کو خیال او و، کو تحقیقِ راست؟ فکرِ طفلان دایہ باشد، یا کہ شیر یا مویز و جوز، یا گریہ و نفیر آن مقلد ہست چون طفلِ علیل گرچہ دارد بحثِ باریک و دلیل آن تعمق در دلیل و در شکیل از بصیرت میکند او را گسیل مایہ ای، کان سرمۂ سِرّ وی است برد و، در اشکال گفتن، کار بست ای مقلد، از بخارا باز گرد رو بہ خواری، تاشوی تو شیر مرد تا بخارای دگر بینی درون صف در آن در مجلسش لا یفقھون۵۹؎ عقل نظری اور حضور سے سرفراز کرنے والی عقل میں وہی فرق ہے جو اندھیرے اور روشنی میں ہوتا ہے۔ عقل حضوری ایک طویل مجاہدے کا ثمر ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں عقل کو حقیقت کی قربت میسر آتی ہے اور اس سے مشاہدے میں وہ امتیاز پیدا ہوتا ہے جس سے مشاہدے سے پیدا ہونے والے تصورات، مفاہیم حتیٰ کہ نتائج و اثرات تک بدل جاتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں: ہست آن، از بعدِ سی سالہ جہاد عقل اینجا ہیچ نتواند فتاد ہست ز آن سوی خرد صد مرحلہ عقل را یاوہ مکن اینجا ہلہ آنچہ او بیند، نتان کردن مساس نز قیاسِ عقل و، نز راہِ حواس شب گریزد چونکہ نور آید ز دور پس چہ داند ظلمتِ شب، حالِ نور؟ چون قدیم آید حدث گردد عبث پس کجا داند قدیمی را حدث؟ بر حدث، چون زد قدم، دنگش کند چونکہ کردش نیست، ہمرنگش کند این ’’الف لام میم‘‘ و، ’’حا میم‘‘ این حروف چون عصای موسی آمد در وقوف این ’’الف لام میم‘‘ و، ’’حا میم‘‘، ای پدر آمدست از حضرتِ مولی البشر ہر الف، لامی، چہ میماند بدین؟ گر تو جان دری بدین چشمش مبین ہمچنان ترکیب ’’حا میم‘‘ و الکتیب ہست بر بالا و، دیگرھا نشیب اژدھا گردد، شکافد بحر را چون عصا ’’حا میم‘‘ از دادِ خدا چونکہ ظاہرھا گرفتند احمقان آن دقایق ماند از ایشان بس نہان لا جرم محجوب گشتند از عرض کہ دقیقہ فوت شد در مفترض۶۰؎ اقبال نے اس عقل کو انسان کے باطن میں موجود ایک نور قرار دیا ہے جو اس کے لئے حضور تک رسائی کے پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کو ایسا نور ودیعت کیا گیا ہے جو اپنے اوصاف و کمالات کے باعث وہ غیب کو حضور میں بدل سکتا ہے۔ برہان و دلیل اور نفس جبرئیل سے مستنیر ہونے کے باعث یہ نور ثبات و تغیراور زمان و مکاں کی قیود سے ماوراء ہے۔ چونکہ اسے غیب کو حضور میں بدلنے کے وصف سے متصف کیا گیا ہے، سو واقعہ دریا و چوبِ کلیم اور سینہ دریا کے دونیم ہونے میں اسے مرکزی کردار حاصل ہے۔ جہان ظلمت و نور اور صور و مرگ و آخرت سے کوئی بھی ایسی حقیقت نہیں جو اس پر منکشف نہ ہو۔ تاہم ضروری ہے کہ انسان کو اس نور کا شعور میسر ہو۔ اس شعور کو حاصل کرنے کے لیے انفس کے اس عالم کی تسخیر ضروری ہے۔ اس کا عرفان خدا کا عرفان اور اس کی تسخیر آفاق کی تسخیر کا سنگ میل ہے۔ خلوت و جلوت میں اس کی کارفرمائی کو یقینی بنانے سے ہی اس کی کامل تسخیر ممکن ہے۔ تفکر کا جوہر جب اس کمال کو پا لے تو اس کا مرتبہ کائنات میںایک ناظر کا نہیں رہتا بلکہ یہ کمند حیات کی کارفرمائی کی اساس اور ذریعہ ظہور روزگار قرار پاتا ہے۔ درون سینۂ آدم چہ نور است چہ نور است این کہ غیب او حضور است من او را ثابتِ سیّار دیدم من او را نور دیدم نار دیدم گہی نارش ز برہان و دلیل است گہی نورش ز جان جبرئیل است چہ نوری جان فروزی سینہ تابی نیرزد با شعاعش آفتابی بخاک آلودہ و پاک از مکان است بہ بندِ روز و شب پاک از زمان است شمار روزگارش از نفس نیست چنین جویندہ و یابندہ کس نیست گہی واماندہ و ساحل مقامش گہی دریای بی پایان بجامش ہمین دریا ہمین چوب کلیم است کہ از وی سینہ دریا دو نیم است غزالی مرغزارش آسمانی خورد آبی ز جوی کہکشانی زمین و آسمان او را مقامی میان کاروان تنھا خرامی ز احوالش جہانِ ظلمت و نور صدای صور و مرگ و جنّت و حور ازو ابلیس و آدم را نمودی ازو ابلیس و آدم را کشودی نگہ از جلوۂ او ناشکیب است تجلّی ہای او یزدان فریب است بہ چشمی خلوتِ خود را ببیند بہ چشمی جلوتِ خود را ببیند اگر یک چشم بر بندد گناہی است اگر با ہر دو بیند شرط راہی است ز جوی خویش بحری آفریند گہر گردد بہ قعر خود نشیند ہمان دم صورت دیگر پذیرد شود غوّاص و خود را باز گیرد درو ہنگامہ ہای بی خروش است درو رنگ و صدا بی چشم و گوش است درون شیشۂ او روزگار است ولی بر ما بتدریج آشکار است حیات از وی بر اندازد کمندی شود صیّاد ہر پست و بلندی ازو خود را بہ بند خود در آرد گلوی ماسوا را ہم فشارد دو عالم می شود روزی شکارش فتد اندر کمند تابدارش اگر این ھر دو عالم را بگیری ہمہ آفاق میرد ، تو نمیری منہ پا در بیابان طلب سست نخستین گیر آن عالم کہ در تست اگر زیری ز خود گیری زبر شو خدا خواہی بخود نزدیک تر شو بہ تسخیر خود افتادی اگر طاق ترا آسان شود تسخیر آفاق خنک روزی کہ گیری این جہان را شکافی سینہ نُہ آسمان را گذارد ماہ پیش تو سجودی برو پیچی کمند از موج دودی درین دیر کہن آزاد باشی بتان را بر مراد خود تراشی بکف بردن جہان چار سو را مقام نور و صوت و رنگ و بو را فزونش کم کم او بیش کردن دگرگون بر مراد خویش کردن بہ رنج و راحت او دل نبستن طلسم نُہ سپہر او شکستن فرورفتن چو پیکان در ضمیرش ندادن گندم خود با شعیرش شکوہ خسروی این است این است ہمین ملک است کو توام بدین است۶۱؎ انسان کو حضوری تک ’حیات پر نفس‘ پہنچاتی ہے۔ حیات پر نفس کی مثال ایک بحر رواں کی ہے۔ شعور و آگہی اس بحر رواں کا ایک کنارا ہے۔ ظاہر و حقیقت کے وجود و ظہور کی اساس یہی ہے۔ کیونکہ ناظر و منظور کی بات ایک راز ہے اور ہر ذرے کا دل یہ عرض کر رہا ہے کہ اے شاہد! تو مجھے مشہود بنا، اپنی ایک نظر کے فیض سے مجھے موجود بنا۔ گویا کسی شے کی ذات کا کمال موجود ہونا ہے اور یہ ہمارے شاہد ہونے پر موقوف ہے۔ کسی شے کا زوال یہ ہے کہ وہ ہماری نظر میں نہ ہو اور ہمارے شعور سے منور نہ ہو۔ اس کی مدد سے کثرت میں احد کا نظارہ کیا جا سکتا ہے اور کنعان میں (یعنی غیب میں) رہتے ہوئے پیرہن کی خوشبو سے مصر میں موجود (حضور) کا نشان معلوم کیا جا سکتا ہے۔ حیات پر نفس کے نور سے یہ جہان منور و موجود ہے۔ اس کا حامل آگ کی طرح ہے، جو زمان و مکاں کو خاکستر کر کے اس سے ماوراء رسائی پا سکتا ہے۔ حیات پر نفس بحر روانی شعور آگہے او را کرانی چہ دریائی کہ ژرف و موج داراست ہزاران کوہ و صحرا بر کنار است مپرس از موجہای بیقرارش کہ ہر موجش برون جست از کنارش گذشت از بحر و صحرا را نمی داد نگہ را لذّت کیف و کمی داد ہر آن چیزی کہ آید در حضورش منّور گردد از فیض شعورش بخلوت مست و صحبت ناپذیر است ولی ہر شی ز نورش مستنیر است نخستین می نماید مستنیرش کند آخر بہ آئینی اسیرش شعورش با جہان نزدیک تر کرد جہان او را ز راز او خبر کرد خرد بند نقاب از رخ کشودش ولیکن نطق عریان تر نمودش نگنجد اندرین دیر مکافات جہان او را مقامی از مقامات برون از خویش می بینی جہان را در و دشت و یم و صحرا و کان را جہان رنگ و بو گلدستۂ ما ز ما آزاد و ھم وابستۂ ما خودی او را بیک تار نگہ بست زمین و آسمان و مہر و مہ بست دل ما را بہ او پوشیدہ راہی است کہ ہر موجود ممنون نگاہی است گر او را کَس نبیند زار گردد اگر بیند ، یم و کہسار گردد جہان را فربہی از دیدن ما نہالش رستہ از بالیدن ما حدیث ناظر و منظور رازی است دل ہر ذرّہ در عرض نیازی است تو ای شاہد مرا مشہود گردان ز فیض یک نظر موجود گردان کمال ذاتِ شی موجود بودن برای شاہدی مشہود بودن زوالش در حضور ما نبودن منّور از شعور ما نبودن جہان غیر از تجلّی ہای ما نیست کہ بی ما جلوۂ نور و صدا نیست تو ہم از صحبتش یاری طلب کن نگہ را از خم و پیچش ادب کن ’’یقین میدان کہ شیران شکاری درین رہ خواستند از مور یاری‘‘ بیاری ہای او از خود خبر گیر تو جبریل امینی بال و پر گیر بہ بسیاری کشا چشم خرد را کہ دریابی تماشای احد را نصیب خود ز بوی پیرہن گیر بہ کنعان نکہت از مصر و یمن گیر خودی صیّاد و نخچیرش مہ و مہر اسیرِ بند تدبیرش مہ و مہر چو آتش خویش را اندر جہان زن شبیخون بر مکان و لامکان زن۶۲؎ اگر حواس تک محدود رہیں تو زمان و مکاں کے قیدی ہوں گے، اگر حقیقت انفس کو پا لیں تو حضوری تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ کیونکہ حواس کی دنیا ابعاد ثلاثہ کی دنیا ہے جسے طوسی و اقلیدس کے ضابطوں سے سمجھا جاتا ہے۔ اس کے زمان و مکاں اعتباری ہیں جبکہ حقیقت مطلق صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ اگر زمان و مکاں کی حیثیت اعتباری نہ ہوتی تو ’کم لبثتم‘ نہ فرمایا جاتا۔ کائنات کی اضافی ہونے میں حقیقت یوں ہی مضمر ہے جسے ارتباط حرف و معنی یا اختلاط جان و تن۔ جب انسان اعداد و شمار سے نکل کر ذرا اپنے اندر نگاہ ڈالے تو اس پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ ظاہراً جزو نظر آنے والا انسان کل یعنی کائنات سے بڑھ کر ہے۔ شب و روز کے فریب سے رہائی پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ یہ کائنات جو ایک مشت خاک ہے، ذاتِ الٰہی کی سرگذشت کا ایک لمحہ ہے۔ اس سے آشنا نہ ہونے کے باعث اہل خرد و حکمت ید بیضا و دم عیسیٰ سے محروم ہیں، ان کی مثال مردہ بدن کی آرائش کرنے والوں کی سی ہے کیونکہ وہ دانش نورانی سے محروم ہیں: سہ پہلو این جہان چون و چند است خرد کیف و کم او را کمند است جہان طوسی و اقلیدس است این پی عقل زمین فرسا بس است این زمانش ہم مکانش اعتباری است زمین و آسمانش اعتباری است کمان را زہ کن و آماج دریاب ز حرفم نکتۂ معراج دریاب مجو مطلق درین دیر مکافات کہ مطلق نیست جز نور السّمٰوات حقیقت لازوال و لامکان است مگو دیگر کہ عالم بیکران است کران او درون است و برون نیست درونش پست ، بالا کم فزون نیست درونش خالی از بالا و زیر است ولی بیرون او وسعت پذیر است ابد را عقل ما ناسازگار است ’’یکی‘‘ از گیر و دار او ہزار است چو لنگ است او سکون را دوست دارد نبیند مغز و دل بر پوست دارد حقیقت را چو ما صد پارہ کردیم تمیز ثابت و سیّارہ کردیم خرد در لامکان طرح مکان بست چو زنّاری زمان را بر میان بست زمان را در ضمیر خود ندیدم مہ و سال و شب و روز آٖفریدم مہ و سالت نمی ارزد بیک جو بحرف ’’کم لبثتم‘‘ غوطہ زن شو بخود رس از سر ہنگامہ بر خیز تو خود را در ضمیر خود فرو ریز تن و جان را دو تا گفتن کلام است تن و جان را دو تا دیدن حرام است بجان پوشیدہ رمز کائنات است بدن حالے ز احوال حیات است عروس معنی از صورت حنا بست نمود خویش را پیرایہ ہا بست حقیقت روی خود را پردہ باف است کہ او را لذّتی در انکشاف است بدن را تا فرنگ از جان جدا دید نگاہش ملک و دین را ہم دو تا دید کلیسا سبحۂ پطرس شمارد کہ او با حاکمی کارے ندارد بکار حاکمے مکر و فنی بین تن بیجان و جان بی تنی بین خرد را با دل خود ہمسفر کن یکی بر ملّت ترکان نظر کن بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند میان ملک و دین ربطی ندیدند ’’یکی‘‘ را آنچنان صد پارہ دیدیم عدد بھر شمارش آفریدیم کہن دیری کہ بینی مشت خاکست دمی از سر گذشت ذات پاکست حکیمان مُردہ را صورت نگارند ید موسیٰ دم عیسٰی ندارند درین حکمت دلم چیزی ندید است برای حکمت دیگر تپید است من این گویم جہان در انقلابست درونش زندہ و در پیچ و تابست ز اعداد و شمار خویش بگذر یکی در خود نظر کن پیش بگذر در آن عالم کہ جزو از کل فزون است قیاس رازی و طوسی جنون است زمانی با ارسطو آشنا باش دمی با ساز بیکن ھم نوا باش و لیکن از مقامشان گذر کن مشو گم اندرین منزل سفر کن بہ آن عقلی کہ داند بیش و کم را شناسد اندرون کان و یم را جہان چند و چون زیر نگین کن بگردون ماہ و پروین را کمین کن و لیکن حکمت دیگر بیاموز رہان خود را از این مکر شب و روز مقام تو برون از روزگار است طلب کن آن یمین کو بی یسار است ۶۳؎ حضوری کی اس منزل کو پانے کے لیے ’محبت‘ نسخہ کیمیا ہے۔ حضور تک رسائی کا مطلب فنا اور بقا کو اکٹھا کرنا ہے اور یہ خودی کو اپنی گرفت میں لانے سے ممکن ہوتا ہے۔ اس مشکل منزل تک رسائی کی کلید محبت ہے۔ محبت کا مطلب طے مقامات کا ایک ایسا سفر ہے جس کی کوئی نہایت نہیں۔ اس سفر میں ہر مقام سے گذرنے کا مطلب بقا کی ایک نئی منزل کی طرف بڑھنا ہے۔ حقیقت مطلق کا حضور، اس سمندر میں فنا ہو جانا نہیں بلکہ اسے اپنا لینا ہے، اور یہی کمال خودی ہے: خودی را تنگ در آغوش کردن فنا را با بقاہم دوش کردن محبّت در گرہ بستن مقامات محبّت در گذشتن از نہایات محبّت ذوق انجامی ندارد طلوع صبح او شامی ندارد براہش چون خرد پیچ و خمی ہست جہانی در فروغ یکدمی ہست ہزاران عالم افتد در رہ ما بپایان کی رسد جولانگہ ما مسافر جاودان زی جاودان میر جہانی را کہ پیش آید فراگیر بہ بحرش گم شدن انجام ما نیست اگر او را تو در گیری فنا نیست خودی اندر خودی گنجد محال است خودی را عینِ خود بودن کمال است ۶۴؎ حضوری کو پانے کا ایک اہم مرحلہ ’سفر در خویش‘ ہے۔ جان و تن کا تعلق کیا ہے؟ اور انسان میں حضوری تک رسائی پانے والا تفکر کس طرح جاگزیں ہے، اس کے لیے اپنے اندر سفر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی سے ہی ’میں‘ کی حقیقت کھل سکتی ہے۔ اپنے اندر سفر کرنے کا مطلب انسان کی نشاۃ نو ہے۔ حقیقت کی قربت سے ایک لمحہ کے اضطراب سے ابد کو پا لینا ہے۔ یہی مقام ہر خوف سے آزادی اور ضربِ کلیم کی طرح عناصر جہاں پر حکمرانی کو ممکن بناتا ہے۔ ’’میں‘‘ میں کیا مضمر ہے، اس کا اشارہ انا عرضنا میں بھی موجود ہے۔ یہی انسان کے سینے میں چراغ کی طرح روشن ہے اور اگر وہ آئینہ ہو تو اس سے یہی نور منعکس ہو کر حضور سے دوری کی ظلمت کو دور کر دیتا ہے: ترا گفتم کہ ربطِ جان و تن چیست سفر در خود کن و بنگر کہ ’من‘ چیست سفر در خویش زادن بی اب و مام ثرّیا را گرفتن از لب بام ابد بردن بیک دم اضطرابی تماشا بی شعاعِ آفتابی ستردن نقش ہر امید و بیمی زدن چاکی بہ دریا چون کلیمی شکستن این طلسم بحر و بر را ز انگشتی شکافیدن قمر را چنان باز آمدن از لامکانش درونِ سینہ او در کف جہانش ولی این راز را گفتن محال است کہ دیدن شیشہ و گفتن سفال است چہ گویم از ’’من‘‘ و از توش و تابش کند اناّ عرضنا بی نقابش فلک را لرزہ بر تن از فرِ او زمان و ہم مکان اندر برِ او نشیمن را دلِ آدم نہاد است نصیبِ مشتِ خاکی او فتاد است جدا از غیر و ہم وابستۂ غیر گم اندر خویش و ہم پیوستۂ غیر خیال اندر کف خاکی چسان است کہ سیرش بی مکان و بی زمان است بزندان است و آزاد است این چیست کمند و صید و صیّاد است این چیست چراغی در میان سینۂ تست چہ نور است این کہ در آئینۂ تست مشو غافل کہ تو او را امینی چہ نادانی کہ سوی خود نبینی۶۵؎ ’آخر او می نگنجد در شعور‘ کی وضاحت تشکیل جدید کے اس بیان سے ہوتی ہے: The incommunicability of mystic experience is due to the fact that it is essentially a matter of inarticulate feeling, untouched by discursive intellect. It must, however, be noted that mystic feeling, like all feeling, has a cognitive element also; and it is, I believe, because of this cognitive element that it lends itself to the form of idea. In fact, it is the nature of feeling to seek expression in thought. It would seem that the two - feeling and idea - are the non-temporal and temporal aspects of the same unit of inner experience. But on this point I cannot do better than quote Professor Hocking who has made a remarkably keen study of feeling in justification of an intellectual view of the content of religious consciousness: ‘What is that other-than-feeling in which feeling may end? I answer, consciousness of an object. Feeling is instability of an entire conscious self: and that which will restore the stability of this self lies not within its own border but beyond it. Feeling is outward-pushing, as idea is outward-reporting: and no feeling is so blind as to have no idea of its own object. As a feeling possesses the mind, there also possesses the mind, as an integral part of that feeling, some idea of the kind of thing which will bring it to rest. A feeling without a direction is as impossible as an activity without a direction: and a direction implies some objective. There are vague states of consciousness in which we seem to be wholly without direction; but in such cases it is remarkable that feeling is likewise in abeyance. For example, I may be dazed by a blow, neither realizing what has happened nor suffering any pain, and yet quite conscious that something has occurred: the experience waits an instant in the vestibule of consciousness, not as feeling but purely as fact, until idea has touched it and defined a course of response. At that same moment, it is felt as painful. If we are right, feeling is quite as much an objective consciousness as is idea: it refers always to something beyond the present self and has no existence save in directing the self toward that object in whose presence its own career must end!’؎66 صوفیانہ مشاہدات کے ناقابل ابلاغ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر احساسات ہیں جن میں عقلی استدلال کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ مگر مجھے اس بات کا یقین ہے کہ صوفیانہ محسوسات میں بھی دیگر محسوسات کی طرح ادراکی عنصر موجود ہوتا ہے۔ اورمحسوسات میں ادراک کا یہ عنصر ان صوفیانہ مشاہدات کو تصورات علم میں متشکل کر سکتا ہے۔ درحقیقت احساس کی فطرت میں ہے کہ وہ فکر میں ڈھل جائے۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ احساس اور فکر دونوں داخلی مشاہدے کی وحدت کے علی الترتیب غیر زمانی اور زمانی پہلو ہیں۔ مگر یہاں میں اس ضمن میں بہتر ہو گا کہ پروفیسر ہاکنگس کا حوالہ دوں‘ جنہوں نے نہایت فاضلانہ طور پر مذہبی شعور کے مشمولات کے عقلی جواز میں محسوسات کے کردار کا مطالعہ کیا ہے: احساس سے سوا وہ کیا ہے جہاں احساس ختم ہو سکتا ہے‘ میرا جواب ہے ’کسی معروض کا شعور‘۔ احساس مکمل طور پر کسی با شعور ہستی کی بے قراریت ہے جس کا قرار اس کی اپنی حدود میں نہیں بلکہ اس سے ماورا ہے۔ احساس کا دبائو خارج کی طرف ہے جیسا کہ فکر باہر کی خبر دینے والا ہے۔ احساس اتنا اندھا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ہی معروض کے بارے میں فکر سے عاری ہو۔ احساس پیدا ہوتے ہی ذہن پر حاوی ہو جاتا ہے۔ احساس کے ایک اٹوٹ جزو کی حیثیت سے فکر وجہ تسکین بنتا ہے۔ احساس کا بے سمت ہونا اسی طرح ممکن ہے جیسے کسی عمل کا بے سمت ہونا۔ اور سمت کا مطلب ہے کوئی مقصود یا مطلوب۔ شعور کی کچھ ایسی مبہم حالتیں بھی ہیں جہاں ہمیں مکمل بے سمتی نظر آتی ہے مگر ایسے معاملات میں یہ بات غور طلب ہے کہ احساس بھی حالت التوا میں رہتا ہے۔ مثال کے طور پر میں کسی گھونسے سے حواس کھو دوں اور اس بات کا شعور نہ ہو کہ کیا ہوا ہے اور نہ مجھے کوئی درد محسوس ہو مگر اتنا شعور ہو کہ کچھ ہوا ضرور ہے۔ تجربہ میرے شعور میں ایک حقیقت کے طور پر تو موجود ہو مگر اس کا مجھے احساس نہ ہو حتیٰ کہ کوئی خیال اسے اپنا لے اور وہ ایک ردعمل کی صورت اظہار پائے۔ اس لمحے اس کا تکلیف دہ ہونا ظاہر ہوگا۔ اگر میں اس بات کے اظہار میں درست ہوں تو احساس بھی فکر کی طرح معروضی شعور ہے۔ اس کا اشارہ ہمیشہ کسی ایسی چیز کی طرف ہو گا جو صاحب احساس کی ذات سے ماورا ہے اور جس کی طرف گویا رہنمائی کر رہا ہے اور جہاں پہنچ کر اس کا اپنا وجود ختم ہوجاتا ہے۔۶۷؎ اقبال کے ہاں حضور محض تصور نہیں بلکہ ایک ممکن الحصول مقام ہے۔ تاہم اس کا حصول محض عقل نظری سے ممکن نہیں۔ اس کے حصول کے لیے عقل نظری کی معذوری کو عقل کے ان مدارج کے حصول سے دور کرنا ہو گا جو عشق سے میسر آتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں: غیر این معقولھا، معقولھا یابی اندر عشق، با فروبھا غیر این عقلِ تو، حق را عقلھاست کہ بدان تدبیرِ اسبابِ شماست تا بدین عقل آوری ارزاق را ز آن دگر مفرش کنی اطباق را عشر امثالت دہد یا ہفت صد چون ببازی عقل در عشقِ صمد آن زنان چون عقلھا در باختند بر رواقِ عشقِ یوسف تاختند عقلشان یک دم ستد ساقی عمر سیر گشتند از خرد، باقی عمر اصلِ صد یوسف جمالِ ذوالجلال ای کم از زن، شو فدای آن جمال عشق برد بحث را، ای جان و، بس کاو ز گفت و گو شود فریاد رس حیرتی آید ز عشق آن نطق را زہرہ نبود کہ، کند او ماجرا۶۸؎ عشق جب عقل کو نقائص سے منزہ کر کے اس کی تکمیل کرتا ہے تو عقل حقیقت کی اس قربت سے بہرہ ور ہوتی ہے جو اسے حقیقت کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ اب اس کا مشاہدہ اعتماد کے قابل قرار پاتا ہے: معنی قرآن ز قرآن پرس و بس وز کسی کاتش زدست اندر ہوس پیشِ قرآن گشتہ قربانی و پست تاکہ عینِ روحِ آن قرآن شدست رو غنی کاو شد فدای گُل بہ کُل خواہ روغن بوی کُن، خواہی تو گل گر نمیدانی، بجو تاویل آن تا بتابد بر دلت آن را عیان علامہ حضور تک رسائی کے لیے عقل نظری کی اس تربیت پر زور دیتے ہیں کہ فغاں صبحگاہی اور ذکر کے ذریعے خرد حواس سے ماوراء پرواز کرنے کے قابل بنایا جائے کیونکہ خرد جزو اور عشق کل کا احاطہ کرتا ہے۔ خرد ممکنات تک محدود ہے اور عشق ناممکنات کو ممکنات میں بدلتا ہے۔ اگر عشق اور فغان سے محرومی ہو تو وہ ایک ایسی موت کے مشابہ ہے گویا انسان کی قبر اس کے اندر ہی کھود دی گئی ہو: چہ پرسی از طریق جستجویش فرو آرد مقام ہای و ہویش شب و روزی کہ داری بر ابد زن فغان صبحگاہی بر خرد زن خرد را از حواس آید متاعی فغان از عشق می گیرد شعاعی خرد جز را فغان کل را بگیرد خرد میرد فغان ہرگز نمیرد خرد بہر ابد ظرفے ندارد نفس چون سوزن ساعت شمارد تراشد روز ہا شب ہا سحر ہا نگیرد شعلہ و چیند شرر ہا فغان عاشقان انجام کاریست نہان در یکدم او روزگاریست خودی تا ممکناتش وا نماید گرہ از اندرون خود گشاید از آن نوری کہ وا بیند نداری تو او را فانی و آنے شماری از آن مرگی کہ میآید چہ باک است خودی چون پختہ شد از مرگ پاک است ز مرگ دیگری لرزد دل من دل من جان من آب و گل من ز کار عشق و مستی برفتادن شرار خود بہ خاشاکی ندادن بدست خود کفن بر خود بریدن بچشم خویش مرگ خویش دیدن ترا این مرگ ہر دم در کمین است بترس از وی کہ مرگ ما ہمین است کند گور تو اندر پیکر تو نکیر و منکر او در بر تو۷۰؎ جب فغان صبحگاہی سے خرد کی تربیت ہو گی تو اس سے وہ تفکر وجود پائے گا جو ’میں‘ میں مضمر حقیقت کو اپنی گرفت میں لا سکے۔ اگر یہ خیال گزرے کہ ’میں‘ تو محض وہم و گمان ہے اور اس کی نمود بھی این و آن کی نمود کی طرح ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ’میں‘ کے بارے میں وہم و گمان کرنے والا کون ہے؟ وہ بے نشاں جو اس گماں کا سرچشمہ ہے، ’میں‘ سے باہر تو موجود نہیں بلکہ ’میں‘ کے اندر ہی ہے۔ گویا اگرچہ عالم ظاہر کے لیے میسر دلائل کی طرح اس کے لیے دلائل تو نہیں دیئے جا سکتے مگر اس کا وجود اتنا واضح ہے کہ یہ محتاجِ دلیل نہیں ٹھہرتا۔ اس کی اصل حی و قیوم سے ہے۔ اس کی تحقیق و تصدیق سے تلاش حق ممکن ہو سکتی ہے: اگر گوئی کہ ’’من‘‘ وہم و گمان است نمودش چون نمود این و آن است بگو با من کہ دارای گمان کیست یکی در خود نگر آن بی نشان کیست جہان پیدا و محتاج دلیلی نمیآید بہ فکر جبرئیلی خودی پنہان ز حجت بی نیاز است یکی اندیش و دریاب این چہ رازست خودی را حق بدان باطل مپندار خودی را کشت بی حاصل مپندار خودی چون پختہ گردد لازوالست فراق عاشقان عین وصالست شرر را تیز بالی میتوان داد تپیدِ لایزالی میتوان داد دوامِ حق جزای کار او نیست کہ او را این دوام از جستجو نیست دوام آن بہ کہ جان مستعاری شود از عشق و مستی پایداری وجود کوہسار و دشت و در ہیچ جہان فانی خودی باقی دگر ہیچ دگر از شنکر و منصور کم گوی خدا را ھم براہ خویشتن جوی بخود گم بہر تحقیق خودی شو انا الحق گوی و صدیق خودی شو ۷۱؎ علامہ کے نزدیک حضور تک رسائی کا طریق صرف فکری ہی نہیں عملی بھی ہے جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ راہ اہل ہنر کی کتب سے نہیں بلکہ اہل نظر سے میسر آتی ہے۔ اہل نظر کی تعلیم کم خوراکی، کم خواب و کم گفتار اختیار کرنا، اور تاویل کی راہ چھوڑ کر احکامِ الٰہی پر سختی سے کاربند ہونا ہے۔ ذکر و فکر بے حساب سے ہی جان و تن کی حفاظت و تربیت کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ اہل نظر کی راہ کا مسافر اخلاص کا حامل اور لذتِ پرواز کا مظہر ہوتا ہے: صد کتاب آموزی از اہل ہنر خوشتر آن درسی کہ گیری از نظر ہر کسی زان می کہ ریزد از نظر مست می گردد بانداز دگر از دم باد سحر میرد چراغ لالہ زان باد سحر ، می در ایاغ کم خور و کم خواب و کم گفتار باش گرد خود گردندہ چون پرکار باش منکر حق نزد ملاّ کافر است منکر خود نزد من کافر تر است آن بہ انکار وجود آمد عجول این عجول و ھم ظلوم و ہم جہول شیوۂ اخلاص را محکم بگیر پاک شو از خوفِ سلطان و امیر عدل در قہر و رضا از کف مدہ قصد در فقر و غنا از کف مدہ حکم دشوار است تاویلی مجو جز بہ قلب خویش قندیلی مجو حفظ جانہا ذکر و فکر بی حساب حفظ تنہا ضبط نفس اندر شباب حاکمی در عالم بالا و پست جز بہ حفظ جان و تن ناید بدست لذّت سیر است مقصود سفر گر نگہ بر آشیان داری مپر ماہ گردد تا شود صاحب مقام سیر آدم را مقام آمد حرام زندگی جز لذّت پرواز نیست آشیان با فطرت او ساز نیست رزق زاغ و کرکس اندر خاک گور رزق بازان در سواد ماہ و ہور ۷۲؎ علم و تفکر کی حتمی منزل ’حضور‘ کے حصول میں کردار کی اہمیت کیا ہے، اس باب میں علامہ صدق مقال اور اکل حلال کو کلیدی اہمیت دیتے ہیں۔ اگر خلوت و جلوت میں ’حضور‘ کو یقینی بنانا ہے تو اس کے لیے صدق مقال اور اکل حلال اولیں شرط ہے۔ کیونکہ دین طلب حق کے لیے سراپا سوختن بننے کا نام ہے۔ جس کا آغاز ادب سے اور انتہا عشق پر ہوتا ہے۔ ادب اور عشق میں معنویت تب ہی پیدا ہو گی جب راہِ دیں پر استقامت اور صدقِ مقال و اکل حلال کو اختیار کیا جائے گا: سرِ دیں صدق مقال، اکل حلال خلوت و جلوت تماشا بے جمال در رہ دیں سخت چوں الماس زی دل بحق بند و بے وسواس زی دیں سراپا سوختن اندر طلب انتہایش عشق و آغازش ادب۷۳؎ دین کے ظاہر پر کاربند ہونے تک محدود رہنے کو علامہ رقص تن اور روح دین کو اپنی جان میں سمو لینے کو رقص جان سے تعبیر کرتے ہیں۔ رقص جاں بندے اور حقیقت میں بعد کو ختم کر دیتا ہے اور اسے صاحبِ جذب کلیم بنا دیتا ہے۔ مگر رقص جاں کے حصول میں وہ تمام امور حائل رہتے ہیں جو انسان کے اسفل و ارذل مقاصد سے متعلق ہوتے ہیں، چاہے یہ حرص ہو، یا غم۔ کیونکہ یہ قوتِ ایمانی کو کمزور اور انسان کو اعلیٰ مقاصد کی راہ سے متزلزل کر دیتے ہیں۔ اقبال علم کو حضور تک پہنچانے (رقص جاں) اور اس کے عملی طریق کو ’سر دین مصطفی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اقبال کے ہاں اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ نہ صرف اقبال نے مسلمانوں کو زندگی میں اس کی تعلیم دی بلکہ ان کی تمنا ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ قوم کو یہی پیغام دیں: رقص تن در گردش آرد خاک را رقص جان برھم زند افلاک را علم و حکم از رقص جان آید بدست ہم زمین ہم آسمان آید بدست فرد ازوی صاحب جذب کلیم ملّت ازوی وارث ملک عظیم رقص جان آموختن کاری بود غیر حق را سوختن کاری بود تا ز نار حرص و غم سوزد جگر جان برقص اندر نیاید ای پسر ضعف ایمانست و دلگیریست غم نوجوانا! ’’نیمہ پیری است غم‘‘ می شناسی؟ حرص ’’فقر حاضر‘‘ است من غلام آنکہ بر خود قاہر است ای مرا تسکین جان ناشکیب تو اگر از رقص جان گیری نصیب سرّ دین مصطفٰےؐ گویم ترا ہم بہ قبر اندر دعا گویم ترا۷۴؎ ژژژ حوالے و حواشی ۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، جاوید نامہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۲۰۰۴، ص۳۹۶۔ ۲- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۵۹۲۔ ۳- ایضاً، ص۳۷۵۔ ۴- ایضاً، ص۳۷۶۔ ۵- ایضاً، ص۴۰۰۔ ۶- ایضاً، ص۴۱۰۔ ۷- ایضاً، ص۴۰۲۔ ۸- ایضاً، ص۳۵۶۔ ۹- ایضاً، ص۳۷۴۔ ۱۰- ایضاً، ص۳۹۴۔ ۱۱- ایضاً، ص۴۰۱۔ ۱۲- ایضاً، ص۳۹۹۔ ۱۳- ایضاً، ص۳۶۹۔ ۱۴- ایضاً، ص۳۴۵۔ ۱۵- ایضاً، ص۳۵۹۔ ۱۶- ایضاً، ص۳۶۳۔ ۱۷- ایضاً، ص۳۸۴۔ ۱۸- ایضاً، ص۳۹۴۔ ۱۹- ایضاً، ص۳۹۵۔ ۲۰- ایضاً، ص۳۷۱۔ ۳۷۲۔ ۲۱- ایضاً، ص۳۹۲۔ ۲۲- ایضاً، ص۳۸۰۔ ۲۳- ایضاً، ص۳۸۸۔ ۲۴- ایضاً، ص۳۸۹۔ ۲۵- ایضاً، ص۴۰۲۔ ۲۶- ایضاً، ص۳۹۸، ۵۹۲، دیباچہ تشکیل جدید۔ ۲۷- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، جاوید نامہ، ص۷۹۱۔ ۲۸- ایضاً، ص۵۴۷۔ ۵۴۸، کلیاتِ اقبال، (اردو)، ص۵۵۲۔۵۵۳۔ ۲۹- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اردو)، ص۵۵۱۔ ۳۰- ایضاً، ص۵۳۲۔ ۵۳۳۔ ۳۱- الانعام، ۶: ۱۱۱ 33. Immanuel Kant, Critique of Pure Reason (CPR), Tr. by Norman Kemp Smith, MaCmillan and Co. Ltd. London, p-52, B15 34. CPR, p-55, B19, B24-30 35. CPR, p-60, A14, B28 36. CPR, p-41, AI, BI 37. CPR, p-41, AI, BI 38. CPR, p-42, B2 39. CPR, p-65, A19, B33 40. CPR, p-66, A21-2, B36 41. CPR, p-67-76, A22-5, B37-41 to A30-2, B46-9 42. CPR, p-170, B160-1 43. CPR, p-297-300, A293-8, B350-5 44. CPR, p-201, B208 45. CPR, p-201-202, B208 46. CPR, p-202-203, A168, B210 47. CPR, p-203-204, B211 48. CPR, p-204, A171 49. CPR, p-205-206, B214, A173 50. CPR, p-207-208, A176, B218 51. CPR, p-208-209, B219 52. CPR, p-223, A195 53. CPR, p-268, B307 54. CPR, p-269, B308 55. CPR, p-450, A509, B537 56. CPR, p-33-34, Bxxxviii 57. CPR, p-601-602, A752, B780 58. CPR, p-601, A751, B779 ۵۹- مثنوی معنوی، دفتر پنجم،بیت: ۱۲۸۷۔ ۱۲۸۳۔ ۶۰- ایضاً، بیت: ۱۳۰۶ ۔۱۳۳۲۔ ۶۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، ص۵۴۰ ۔۵۴۲۔ ۶۲- ایضاً، ص۵۴۳ ۔۵۴۵۔ ۶۳- ایضاً، ص۵۴۶ ۔۵۴۸۔ ۶۴- ایضاً، ص۵۵۱۔ ۶۵- ایضاً، ص۵۵۳۔ ۵۵۴۔ 66- Allama M. Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, IIC, 2-Club Road, Lahore, 2006, p-17 ۶۷- تجدید فکریات اسلام، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ،ص ۳۷،۳۸۔ ۶۸- مثنوی معنوی، دفتر پنجم، بیت: ۳۲۳۳۔ ۳۲۴۱۔ ۶۹- ایضاً، بیت: ۳۱۲۸۔ ۳۱۳۱۔ ۷۰- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، ص۵۵۶ ۔۵۵۷۔ ۷۱- ایضاً، ص۵۶۲۔ ۵۶۳۔ ۷۲- ایضاً، ص۷۹۱۔ ۷۳- ایضاً، ص۷۹۲۔ ۷۴- ایضاً، ص۷۹۶۔ ئئء جمال کی واقعیت اور جمالیاتی قضایا کی صحت خضر یاسین حسن و جمال نظری اعتبار سے ایک فضیلت ہے اور عملی لحاظ سے ایک حقیقت ہے۔ حقیقت ہونے کی حیثیت سے حسن و جمال شے کی ایک صفت ہے اور فضیلت ہونے کی حیثیت سے اس کا شمار ان اقدار میں ہوتا ہے جو مقصود بالذات ہیں۔ ہم جمال کا ایسا کوئی تصور نہیں رکھتے جو قائم بالذات ہو یعنی حسن تو موجود ہو مگر صاحب حسن یا حسین و جمیل موجود نہ ہو۔ گویا حسن و جمال شے کے اَعراض میں سے ایک عرض ہے۔ جب ہم شے کا لفظ بولتے ہیں تو ہمارے پیش نظر شے کی وہ نمود مراد ہوتی ہے جس سے ہم اس شے کو تعبیر کرتے ہیں۔ شے کی نمود سے مراد کیا ہے؟ شے کے لامحدود محسوسات میں سے کوئی ایک محسوس مظہر----- حسن و جمال بھی اسی طرح شے کے مظاہر یا محسوسات میں سے ایک مظہر یا محسوس ہے۔ حسن و جمال اسی معنی میں حق یا حقیقت ہے۔ جہاں تک حق کا تعلق ہے تو وہ حسن و جمال میں محدود ہے نہ منحصر ہے۔ حق یا حقیقت کا مقام و مرتبہ اپنے ہر مظہر سے بلند و بالا ہے۔ حسن و قبح کی واقعیت کا انکار ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ وہ دونوں ناقابل انکار مشاہدے پر مبنی ہیں۔ جس طرح قبح موجود ہے اسی طرح حسن موجود ہے اور جس طرح حسن شے کی صفت ہے اسی طرح قبح بھی شے کے اَعراض میں شامل ہوتا ہے۔ جب یہ بات طے ہو چکی کہ حسن و جمال شے کے ساتھ قائم ایک عرض ہے اور اپنا مستقل وجود نہیں رکھتا کہ ہم اس کا مشاہدہ یا ملاحظہ محض اس کی ذات سے کر سکیںتو یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ حسن و جمال کے بارے کوئی بھی قضیہ اس وقت تک کسی قسم کا کوئی عقلی تصور نہیںدے سکتا تاوقتیکہ وہ اپنا واقعی معروض نہ رکھتا ہو، جس پر وہ قضیہ بالذات صادق آتا ہو۔ اب ہم اس قضیے کی ایک اور اہم شرط کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یعنی حسن و جمال کی اپنے ناظر کے حوالے سے واقعیت و معنویت۔ حسن و جمال کو جب ناظر کے حوالے سے پرکھا جاتا ہے تو وہ ایک فضیلت ہے، ایک قدر ہے، ایک معیار ہے۔ فضیلت ، قدر یا معیار ہونے کی حیثیت سے یہ ایک داخلی اور موضوعی عنوان ہے۔ اگر اس کو فضیلت بالغیر قرار دیں تو اس کا معنی کچھ اور ہو گا اور اگر فضیلت بالذات کہیں تو اس کی معنویت بالکل ہی مختلف ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان حسن و جمال سے متاثر ہوتا ہے اور تاثر پذیری ایک ایسی شے ہے جو نفس انسانی میںجیسی نفسیاتی اساس رکھتی ہے ویسی ہی شدید نفسانی بنیادیں بھی رکھتی ہے۔ اس لیے حسن و جمال کا تاثر دونوں صورتوں میں بالکل ہی بدل جاتا ہے۔ نفسانی تاثر پذیری کے دوران میں نفس انسانی درحقیقت خواہش کے داعیے سے پیدا ہونے والے اطناب سے آسودگی پا رہا ہوتا ہے تو اسے ایک راحت و سکون اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ نادان اسے بھی جمالیاتی مسرت یا حظ سمجھ لیتے ہیںحالانکہ اس نفسانی لذت کو جمالیاتی حظ سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ نفسانی لذت انسان کے لیے اپنے اندر بڑی کشش رکھتی ہے اور انسان کے بیشتر اعمال کا حقیقی اور جائز محرک ہوتی ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ انسان کے لیے فقط دو عملی فضیلتیں ہیں ایک نفسانی مسرت و تسکین ہے جس کا محرک خواہش ہے اور دوسری روحانی تسکین و انبساط ہے جو اقدار کو عملی صورت دینے سے میسر آتی ہے۔ فضائل کی تعمیل سے جو تسکین وابستہ ہے اس کا تجربہ نفسانی تسکین کی راہ سے کبھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ نفسانی محرکات کے نتیجے میںحاصل ہونے والی شادمانی کے ذریعے سے روح انسانی کی گہرائیوں میں اترا جا سکتا ہے۔ ان دونوں میں جوہری فرق ہے جس کا لحاظ نہ رکھا جائے تو دونوں میں توارد کا واقع ہونا غیر معمولی بات نہیں ہو گی۔ انسان بطور ناظر حسن و جمال اس کا فقط مشاہدہ ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی قدر بھی کرتا اور اس سے محظوظ بھی ہوتا ہے۔ حسن و جمال کی قدر سے تنقید وجود میں آتی ہے اور اس کی حظ فنون لطیفہ کی تخلیق کا باعث بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ناظر کے اندر حسن و جمال کی تاثیر کا اظہار تین صورتوں میںہوتا ہے۔ بطور ناظر اس سے محظوظ ہوتا ہے، بطور ناقد اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتا ہے اور بطور فن کار اس کی تخلیق کرتا ہے۔ حسن و جمال کے ناظر کی حیثیت سے انسان پر لازم ہے کہ وہ جمالیاتی تسکین کو خالص اور پاک رکھنے کی بھرپور سعی کرے اور دوسری نوع کی مختلف تسکینات کو اس میں مخلوط نہ ہونے دے ورنہ انسان اور حیوان میں فرق ختم ہو جائے گا۔ انسان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ مماثل فضائل میں امتیاز کا شعور برقرار رکھے۔ اگر یہ شعور باقی نہ رہے تو انسانی برتری یعنی اشرف المخلوقات ہونے کی صفت اپنا مفہوم کھو دیتی ہے۔ جمالیاتی تسکین کی سب سے نمایاں نشانی یہ ہے کہ وہ کبھی ذریعہ نہیں ہو گی ہمیشہ مقصودبالذات ہو گی یعنی حسن و جمال سے وابستہ لذت و تسکین سے اور کوئی خواہش وابستہ نہیںہو گی اور نہ جمالیاتی حظ و تسکین کسی دوسری تسکین کا سامان بنے گی۔ اگرچہ اس امر کا شدید ترین امکان ہمہ وقت موجود رہتا ہے کہ جمالیاتی حظ و تسکین کسی دوسری نوع کی تسکین میں بدل جائے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پر ناقد کی تنقید رہنمائی کرتی ہے اور حسن و جمال کے معنوی وجود کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ دراصل حسن و جمال کے سامنے انسان ہمیشہ منفعل ہو جاتا ہے، انسان حسن و جمال سے متاثر ہوتا ہے اور یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ انفعالیت کے دوران میں انسان کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ اپنے فعال قویٰ سے آسانی کے ساتھ کام لے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جمالیاتی تسکین آسانی کے ساتھ کسی دوسری تسکین میں بدل جاتی ہے اور مقصود کے بجائے ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس صورت حال میں اپنے شعور کی کارکردگی کی درست سمت برقرار رکھنا کارے دارد ہوتا ہے۔ برکفے جام شریعت برکفے سندان عشق ہر ہوس ناکے نہ داند جام و سندان باختن حسن و جمال کے ناظر کی حیثیت سے انسان کا شعوری رویہ نظری نہیں ہو سکتا یعنی حسن و جمال کے روبرو انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اس کی نظری تشکیل کرنے میں مصروف ہو جائے۔ اگر انسان ایسا کرنے میں مصروف ہو تو اس کی سب سے پہلی قیمت جو ادا کرنی پڑتی ہے وہ جمالیاتی حظ سے دستبردار ہونا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی شعور کی فطرت ہے کہ وہ آن واحد میں خارج کی جانب دو ایسی آرزئووں سے کبھی متوجہ نہیں ہو سکتا جو اپنی اساس میں شعور کی مختلف صورتوں سے اٹھی ہوں۔ گویا حسن و جمال کا معروض یا تو جمالیاتی وجود کا مظہرہو گا یا کسی دوسرے مطالبے کی تسکین کا سامان فراہم کرے گا۔ دوسری صورت میں ظاہر ہے کہ وہ حسن و جمال کا مظہر ہونے کی حیثیت کا حامل نہیں ہوگا۔ حسن و جمال کے ناظر ہونے کی حیثیت سے ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ انسان حسن و جمال کا خالق کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے نہ تو وہ اس معروضی حسن و جمال کو وجود عطا کرتا ہے اور نہ اس کی ہستی میں کوئی اضافہ ہی کرتا ہے۔ حسن و جمال جس معروض کی صفت ہے وہ اپنی اُسی صفت کے ساتھ ناظر کی ہستی سے باہر اپنی الگ حیثیت میں موجود ہے۔ یہ ناظر کی استعداد ہے جو اس صفت جمال کو دریافت کر تی ہے۔ اگر ناظر کی استعدادِ ادراک کی نفی کر دی جائے تو حسن و جمال کے ہونے کی نہ تو کوئی دلیل ہو گی اور نہ کوئی سبیل۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حسن و جمال کی ہستی کا انحصار جن شرائط کے ساتھ مشروط ہے وہ دو گونہ مشکلات سے گھری ہوئی ہیں۔ ایک طرف ناظر کی استعداد قبول کی مشکل ہے تو دوسری طرف منظور کے اندر حسن و جمال کے حامل ہونے کا مسئلہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حسن و جمال کی ہستی کو ناظر کے اضافات میں شامل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ رجحان ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ حسن و جمال انسان کو متاثر کرنے کی فقط ایک ہی راہ نہیں رکھتا بلکہ وہ انسان کو طرح طرح سے متاثر کرتا ہے۔ اس مضمون میں ناظر کا لفظ ’حسن و جمال سے متاثر ہونے والے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ انسان حسن و جمال کا ادراک صرف مشاہدے ہی سے کر سکتا ہے اور فقط اسی راہ سے اس تک رسائی رکھتا ہے۔ انسان جیسے حسن و جمال کا ناظر ہے اسی طرح سامع وغیرہ بھی ہے ۔ حسی قویٰ کے علاوہ قوائے عقلیہ میںبھی حسن و جمال کی تاثیر کو قبول کرنے کا ملکہ موجود ہے۔ قوائے عقلیہ میں نہ صرف تاثیر جمال کو قبول کرنے کا ملکہ پایا جاتا ہے بلکہ حسن و جمال کے خلق و جعل کی بھی استعداد موجود ہے۔ اس لیے قوائے عقلیہ کے خلق و جعل سے جو حسن و جمال متشکل ہوتا ہے انسان اس سے غیر معمولی حد تک متاثر ہوتا ہے اور اس کے ذریعے سے متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قوائے عقلیہ کا مجعول حسن و جمال کسی واقعی حقیقت کی نہ صفت ہوتا ہے اور نہ خود کوئی واقعی حقیقت ہوتا ہے۔ لیکن انسان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اس مجعول عقلی کو ایک اور عقلی مفروضے کے ساتھ ملا کر اسے واقعیت کا حامل بناتا ہے کہ یہ مجعول نہیں بلکہ خارجی طور پر موجود ہے، تب وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ مجعول حسن و جمال کی تاثیر درحقیقت خیال در خیال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فنکار کے فن ، شاعر کی شاعری، خطیب کے خطبے اور اسی طرح کے دیگر مظاہر سے انسان متحرک یا مضمحل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ فرض کیجیے فنکار کا فن دیکھتے ہوئے ہمیں یہ خیال نہ رہے کہ یہ واقعی حقیقت ہے بلکہ یہ ایک مظاہرہ ہے یا شہودِ محض ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم فن کار کے فن سے ہر طرح کی تاثر پذیری سے اپنے آپ کو خارج محسوس کریں گے۔ یہاں پر انسان ایک نفسیاتی الجھن کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس الجھن کو ’نرگسیت‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس الجھن میں پڑا ہوا انسان خیال کی واقعیت کا قائل ہو جاتا ہے۔ جمالیاتی تاثیر میں یہ کمال پایا جاتا ہے کہ خیال کی واقعیت غالب ہونے کے باوجود انسان نرگسیت گزیدگی سے محفوظ رہتا ہے۔ خیال کی واقعیت کا احساس ایک الگ شے ہے اور خیال کی واقعیت کا قائل ہو جانا دوسری بات ہے۔ نرگسیت میں انسان خیال کی واقعیت کا قائل ہو جاتا ہے۔ جمالیاتی تاثیر کے دوران میں انسان خیال کی واقعیت کو محسوس کرتا ہے، اس کی واقعیت کا قائل نہیں ہوتا۔ ایک اہم اور عام مشکل جمالیاتی مظاہر کے مشاہدے کے دوران میں ان کے مظہر جمال ہونے کو نظر انداز کرتے ہوئے ان میں کسی دوسرے معانی کی جستجو ہے۔ جمالیاتی مظاہر کو کریدنے کا یہ عمل ان میں کوئی واقعی حقیقت دریافت کرے یا نہ کرے مگر اس کو مظہر جمال ہونے سے ضرور محروم کر دیتا ہے۔ بالعموم ایسے حضرات جمالیاتی مظاہر کو حسن وجمال کے تناظر میں رکھنے کے بجائے ان کی نظری صورت گری میں پڑ جاتے ہیں۔ یعنی ان کے وجود کے جواز کی عقلی توجیہ کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ حسن و جمال کو اپنے وجود کے جواز کی سند، اپنی ذات کے علاوہ کسی اور سے مستعار لینے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خود اپنے وجود کے جواز کی بہت بڑی سند ہے بلکہ بعض اوقات تو حسن و جمال کے بغیر اشیاء کے وجود کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کا طرز عمل درحقیقت مجعول حسن و جمال کی ماہیت سے صرف نظر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر یہ بات سمجھ لی جائے کہ مجعول حسن و جمال کی ماہیت خیال در خیال کی ہے تو اس میں جمالیاتی معانی کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ڈھونڈا جائے۔ بالعموم وہ افراد جن کا طبعی رجحان جمالیات کی طرف ہوتا ہے، ان کے مزاج کا یہ ایک ناگزیر پہلو ہے کہ وہ حقیقت کو جمالیاتی تحسین سے سرفراز کرنے کے لیے اسے خیال در خیال کا موضوع بناتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقت نفس الامری خیال سے آزاد اپنی ہستی رکھتی ہے۔ چنانچہ یہ حضرات حقیقت کے ایک ایسے ادراک کے متمنی ہوتے ہیں جس کی بنیاد کلیت ہو۔ اس صورت میں حقیقت اپنی دیگر تمام صفات سے معرا ہو کر فقط جمال ہی جمال نظر آنے لگتی ہے۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو اپنی نہاد میں جمالیاتی ہونے کے بجائے فسطائیت کی پیداوار ہے۔ اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی خیال در خیال کا ایک مظاہرہ ہے۔ بحث کے اس مرحلے پر ہمیں ایک اہم مقدمے کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ وہ مقدمہ یہ ہے کہ علم اور خیال میں ایک بنیادی فرق ہے، اگر ہم اس فرق کی ماہیت کو نہیں سمجھ سکتے یا نہیں سمجھتے تو اقدار و فضائل پر کی جانے والی ساری بحث کی حیثیت لا حاصل طومار سے زیادہ کی نہیں ہو گی۔ علم کبھی تخلیق نہیںہوتا، ہمیشہ دریافت ہوتا ہے اور خیال کبھی دریافت نہیں ہوتا ہمیشہ تخلیق ہوتا ہے۔ علم ہمیشہ محدود اور متعین ہوتا ہے، اس لیے کہ علم کے حصول کے وسائل اور پیرایہ اظہار و بیان محدود اور متعین ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس خیال کے وسائلِ حصول اس کی ذات سے باہر نہیں ہوتے بلکہ وہ خود آپ اپنا ذریعۂ حصول ہے۔ یعنی خیال اپنے ہیولے کا خود ہی صورت گر ہوتا ہے۔ صاحب خیال اور صاحب علم میں یہی فرق ہے کہ صاحب علم ، علم کو تخلیق کرتا ہے نہ کہ معلوم کو ۔ علم اس کے قواے علمیہ سے صادر ہوتا ہے اور معلوم نفس الامر میں موجود ہے۔ جبکہ صاحب خیال جس طرح نفسِ خیال کی تخلیق کرے گا بعینہٖ اسی طرح موضوعِ خیال کو بھی خلق کرے گا بلکہ درست بات تو یہ ہے کہ خیال کی تخلیق کا مطلب ہی موضوع خیال کی تخلیق ہے۔ اس کا مطلب ہے صاحب خیال کو خیال تخلیق کرنے میں ان رکاوٹوں کا سامنا نہیں ہے جو ایک صاحب علم کو حصول علم میں بطور شرائط علم ملحوظ رکھنی پڑتی ہیں۔ علم اور خیال کے فرق و امتیاز پر مبنی مذکورہ بالا مقدمے کو سامنے رکھیے تو انسان کے ناظر حسن وجمال ہونے کی معنویت کا ادراک قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ حسن و جمال کا ایک فطری مظہر ہے جس میں انسان کے خلق کو دخل ہے نہ جعل کو، جبکہ حسن و جمال کا دوسرا مظہر مکمل طور پر انسان کی تخلیق اور اس کا مجعول ہے۔ فطرت کے حسن و جمال میں انسان اضافہ کر سکتا ہے نہ کمی۔ البتہ فطرت کے حسن و جمال سے فیض یاب ہونے کے لیے جمالیاتی تحسین کے ملکے کو صیقل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بعض اوقات جمالیاتی تحسین کا ملکہ بعض نفسیاتی وجوہ کی بنا پر نشو و نما پانے سے رہ جاتا ہے یا اس کی مطلوبہ حد تک نشو و نما نہیں ہو پاتی یا پھر ہوتی تو ہے مگر درست سمت میں نہیں ہو پاتی۔ ایسا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور نہ یہ بات فقط اسی ایک ملکے کا مسئلہ ہے بلکہ تمام ملکات کے لیے اسی قسم کی مشکلات سے دو چار ہونا ممکن ہے۔ فطرت کے حسن و جمال میں انسان کو متاثر کرنے کی صلاحیت کا انحصار انسان کی اہلیت تحسین پر ہے۔ جس قدر کسی کی اہلیت تحسین ترقی و تربیت یافتہ ہے فطرت کے حسن وجمال میں وہ اسی قدر شدید تاثر انگیزی پاتا ہے۔ فطرت کے جمالیاتی مظاہر کی عمومیت اور وسعت کا احصا و بیان ناممکن ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان ایسی محدود ہستی خاک سے لے کر افلاک تک فطرت کے کسی ایک مظہر میں مضمر جہات حسن و جمال کا اندازہ لگانے اور اس سے فیض یاب ہونے کی پوزیشن میں ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لیے یہ امکان ہر وقت موجود رہتا ہے کہ کسی بھی مظہر فطرت میں مضمر حسن و جمال کاکوئی سا جلوہ کسی وقت بھی انسان پر عیاں ہو کر اس کی شخصیت کے تار و پود کو ہلا کر رکھ دے۔ مظاہر فطرت میں حسن و جمال کے تعین کا معیارناظر فطرت کی اہلیت سے مشروط ہے۔ اس سے ایک غلط فہمی عام ہوئی ہے کہ انسانوں میں حسن و جمال کے معیار یکساں نہیں ہیں حالانکہ اس عدم مساوات کا تعلق ناظر کی اہلیت کے تربیت یافتہ ہونے اور نہ ہونے سے ہے۔ فطرت حسن و جمال کی اتنی ہی نمایندگی کرتی ہے جتنی انسان کی اہلیتِ تحسین ارتقا یافتہ ہے۔ انسان فطرتاً مائل بہ جمال ہستی ہے تاہم اگر اس کا یہ میلان جبلت کی سطح پر رہے اور شعور کا داعیہ نہ بن سکے تو اس کے نزدیک حسن و جمال کی معنویت حسیات کے حصار سے کبھی خارج نہیں ہوگی۔ اس طرح انسان جس شے سے محظوظ ہوتا ہے وہ حقیقت خود اس کی اپنی ہستی کا خول ہے جس سے وہ خارج نہیں ہو سکتا ، گویا اس نے فطرت میں موجود حسن و جمال تک رسائی ہی حاصل نہیں کی۔ فطرت کے حسن و جمال کی تحسین کے لیے انسان کو اپنی ہستی کے خول سے ترفع کرنا پڑتا ہے جبکہ حسیات سے لطف اندوز ہونے کے لیے اسے خارج سے منقطع ہونا پڑتا ہے۔ یعنی حسیات سے لطف اندوز ہونے کے لیے انسان کو فطرت میں موجود حسن و جمال سے منہ موڑ کر فقط اپنے وجود میں مقید ہونا پڑتا ہے۔ حسن و جمال کی تحسین کے دوران میں انسان پر ایک طرح کی خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوتیہے۔ اگرچہ توجہ کا ہر عمل ایک نوع کی خود فراموشی کو لازم کرتاہے، اس لیے یہ کوئی جمالیاتی تحسین کا خاصہ نہیں ہے، تاہم جمالیاتی تحسین کا نمایاں وصف یہ ہے کہ اس میں توجہ کا عمل کسی ایک نقطے پر قائم نہیں رہتا بلکہ بار بار ارتکاز کے حصول میں ناکامی کے تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔ شعور کا عدم ارتکاز شعورِ جمالی کو التباس گزیدہ بنا دیتا ہے، اس لیے جمالیاتی تحسین کا کوئی بھی عمل التباس کے عنصر سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔عدم تعین اور شعور دو متضاد چیزیں ہیں کیونکہ شعور نام ہے تعین کا، اس کے برعکس حسن و جمال سے ربط و اتصال کیف کی ایک صورت ہے، کیف کا خاصہ یہ ہے کہ وہ بے معانی صورتوں اور بے صورت معانی کی تحت شعور کی حرکت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شعور میں کسی کے حضور ہونے کا تصور کار فرما تو رہے مگر وہ یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ وہ کیا ہے۔ کیف کے حوالے سے جو بیان کیا گیاہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شعور کے پاس اپنی اس حالت کے لیے کوئی پیرایہ اظہار نہیں اور نہ کیف کا بیان کبھی کیف کا بدل بن سکتا ہے۔ اس لیے کیف کی ایسی تعریف ممکن نہیں جس کے نتیجے میں کیف کو تجربے سے نکل کر الفاظ میں محصور ہونا پڑے۔ بہر حال مدعا یہ ہے کہ جمالیاتی تحسین اور شعور نظری کے تحقیق میں واضح امتیاز پایا جاتا ہے۔ حسن و جمال کی تاثیر کے وقت شعور نظری موقوف رہتا ہے اور اسی طرح شعور نظری کے دوران میں حسن و جمال کی کارفرمائی معطل رہتی ہے۔ حسن و جمال کے بعض ناقدین اس مرکزی نکتے کو نظر اندازکر دیتے ہیں اور جمالیات کو پورے عالم وجود پر نافذ اور کار فرما ظاہر کرنے کے شوق میںجمالیات کے وجود کو بے معنی بنا دیتے ہیں۔ جمالیات میں التباس کا وظیفہ انتہائی مثبت اور بامقصد ہوتا ہے۔ التباس یہاں ایک خوبی ہے ۔ ایک ایسی خوبی جس کی عدم موجودگی نقص نہیں بلکہ بہت بڑا نقص ہے حتیٰ کہ بعض صورتوں میں تو اس کے بغیر حسن و جمال کا پورا تصور ہی معرض خطر میں پڑ سکتا ہے۔ فطرت کے اندر موجود حسن وجمال کی خوبی یہ ہے کہ وہ مظاہر فطرت کی چگونگی کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ہر ایک مظہر میں اس کی جلوہ نمائی اور کشش کی کیفیت ایک جیسی نہیں رہتی بلکہ بدل بدل کر سامنے آتی یا دکھائی دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مظاہر فطرت مسلسل ہیں اور نوبہ نو ہیں۔ فطرت کا حسن و جمال انسان کے قواے ادراک و تفہیم کے لیے اپنے پاس بھرپور مواد رکھتا ہے ۔ یہاں تک کہ قواے حسیہ و عقلیہ میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے لیے فطرت کا دامن خالی ہو، مثلاً اعمال کا حسن ، اقدار کا حسن ، تصورات کا حسن، شخصیت کا حسن، منظر کا حسن۔ مذکورہ بالا مظاہر میں جیسے ذوات کا اختلاف ہے ویسے ان میں حسن و جمال کے معنوی مصداقات بھی مختلف ہیں۔ اسی طرح اگر محسوس مناظر کے حسن و جمال پر غور کیا جائے تو ان میں چگونگی کا تجربہ اور زیادہ وفور سے ہوگا۔ جمادات ہوں یا نباتات، حیوانات ہوں یا انسان، ہر ایک میں جمالیاتی رنگ و آہنگ کا علیحدہ انتظام و انصرام پایا جاتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ناظر کو قصد جمال کرنا ہے اور فطرت نے اس کے سامنے اس کثرت سے مظاہر جمال لا کھڑے کرنے ہیں کہ لاتعد و لاتحصیٰ ۔ حسن و جمال کے نظارے کا قصد ناظر کی ایسی خاصیت ہے جس پر حسن و جمال کا وجود تو منحصر نہیں مگر حسن و جمال کی تحسین کا تجربہ فقط اسی ایک شرط سے مشروط ہے۔ فطرت کے حسن و جمال کے ناظر کی حیثیت سے انسان مظاہر کو کسی اور رنگ میں دیکھنے کا قصد کر سکتا ہے اور ان میں جمالیاتی جہت کے بجائے اخلاقی، علمی اور مذہبی معانی کی جستجو کر سکتا ہے یا ان میں اپنی مرضی کا کوئی بھی رنگ بھر سکتا ہے۔ بہرحال یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جمالیات کی اپنی ایک مستقل شناخت اور حیثیت ہے۔ مستقل بالذات اقدار کے بغیر زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اخلاق اور مذہب کی اپنی انفرادی حیثیت کو دائو پر لگا کر ہم ان کی کوئی خدمت نہیں کرتے اور نہ اس طرح جمالیات کی قدر وقیمت کا کوئی بہتر اندازہ مقرر کر سکتے ہیں۔ اقدار کا وجود ان کی اپنی ہستی سے باہر ہو تو سکتا ہے مگر وہ کبھی خالص اور پاک نہیں ہوتا، آلودہ اور مکروہ ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انسان آلودہ اور مکروہ ماحول سے سمجھوتا کرلے اور اپنے آپ کو اس پر قانع کر لے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اقدار کی پاس داری کر رہا ہے۔ مذہب اور اخلاق ایسی اقدار کے اظہار کے لیے جمالیاتی قضایا کو کام میں لانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی سچے خدا کو چھوڑ کر موہوم یا مجسم خدا کی پوجا کرنا شروع کر دے۔ مذہب اور اخلاق کی اپنی جمالیات ہے۔ مذہب کا جمال صورت اور معنی کے اعتبار سے دیگر فضائل کے حسن و جمال سے مختلف ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دیگر اقدار و فضائل کی صفاتِ حسن و جمال مذہبی معنی میں حسن و جمال کی حامل نہیںہیں۔ انسان کی نفسیات یہ ہے کہ اپنے مطلوب کو ہر حقیقت پر فائق رکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سب کچھ دائو پر لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اپنی اسی نفسیاتی الجھن کے باعث فضائل عالیہ کے حقیقی مقام و مرتبے کا ادراک کیے بغیر اس خیال میں گھرا رہتا ہے کہ وہ جو کر رہاہے درست ہے۔ جمالیات میں یہ مشکل اس لیے دو چند ہو جاتی ہے کہ تعظیم و تقدس اور فرض و حکم کے مطالبات کے ساتھ احساسِ حسن و جمال شامل جو جاتا ہے۔ یوں گویا شعور کے تمام ملکات اور ہر استعداد اپنی اپنی تسکین کو پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک خاصی پیچیدہ مشکل ہے حتیٰ کہ نرگسیت سے بھی زیادہ پیچیدہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں مقدس جذبات کی مشاطگی نے ان کے ذاتی حسن و جمال پر توسع اور افزونی کے احساس کا اضافہ کر دیا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس صورت حال سے انسان کو خدا نکالے تو انسان نکل سکتا ہے ورنہ جہاں تک اس کی اپنی ذات کا تعلق ہے تووہ اسی عالم میں دنیا سے گذر جانے کو ترجیح دے گا۔ بایں ہمہ انسان کی حد تک اس مشکل سے نبرد آزما ہونے کا منہاج فقط ایک ہے اور وہ ہے معیار کے شعور کی نشو و نما یعنی تنقید ۔ تنقید کا یہی فرض ہے کہ وہ ہمارے شعور کی تربیت کرے۔ اگر تنقید کا فرض انجام دینے والا خود اس نوع کی نفسیاتی الجھن میں مبتلا ہو تو وہ تنقید کے بجائے افسانہ پردازی کرے گا۔ تنقید نام ہے شعور کے معیار اور معیار کے شعور کا۔ فطرت میں موجود حسن و جمال کے علاوہ دوسرا مظہر جمال وہ ہے جسے اس مضمون میں مجعول حسن و جمال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی وہ حسن و جمال جسے انسان اپنی قوت تخلیق سے وجود عطا کرتا ہے۔ یہ حسن و جمال فطرت میں موجود مظاہر جمال سے کئی اعتبارات سے متمیّز ہے۔ مجعول حسن و جمال کی نمایاں خاصیت نظم و ربط کا مخصوص انداز ہے جو فطرت میں موجود حسن و جمال میں کہیں نظر نہیں آتا۔ مجعول حسن و جمال کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے جاعل و خالق کے وجود کا علامتی اظہار ہوتا ہے اور اس اظہار میں اپنے جاعل و خالق کے وجود کے تمیز و تفرد کا دفاع کرتا ہے اور اس کے تشخص کو نمایاں رکھتا ہے۔ تیسری قابل لحاظ خاصیت یہ ہے کہ اس کی کشش ہمیشہ مشق و مزاولت سے مشروط ہوتی ہے۔ ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اس کی جمالیاتی معنویت اور تحسین تربیت یافتہ افراد اور عامتہ الناس کے لیے یکساں نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں مجعول حسن و جمال کے وجود کا انحصار انسانی ملکے پر ہوتا ہے اس لیے میلان طبع اس میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ میلان طبع کے اختلاف کی وجہ سے فنون کی کثرت نظر آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک میدان کاشہ سوار ممکن ہے دوسرے میدان فن میں بعض اوقات غیر معمولی حد تک نابلد نظر آئے یا مضحکہ خیز معلوم ہونے لگے۔ اسی سے یہ بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ انسان جمالیات میں ہمیشہ یک بعدی رہتا ہے، ایک معنی میں یہ بھی مجعول حسن و جمال کے خصائص میں سے ایک ہے۔ مجعول حسن و جمال اولاً بطورِ خیال وارد ہوتا ہے اور اس کے بعد اظہار کے سانچوں میں نمودار ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر مجعول حسن و جمال خیال کی مرئی صورت ہے یا اس کی قابل مشاہدہ تجسیم ہے۔ خیال کی واردات کا مبدا خیال ہی میں مضمر ہوتا ہے۔ خیال کیا ہے ؟ انسانی ذہن کے قوائے ادراکیہ کی ایک ایسی آماج گاہ جہاں انسانی ذہن ادراک کے ہر عمل کی صورتوں کا اوّلین نقش محفوظ کر لیتا ہے ۔ صور و معانی کے اس خزانے میں خارج کے ادراک کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہوتا۔ جب ذہن کی توجہ کا ارتکاز صور و معانی کے اس جہان کی طرف ہوتا ہے تو انسان عالم خارجی سے کٹ جاتا ہے۔ ایک تخلیق کار ذہن ان صور و معانی کی تالیف کرتے ہوئے ان کی تجسیم و تبیین کرتا ہے تو حسن و جمال کی وہ صورت وجود میں آتی ہے جسے ہم نے مجعول حسن و جمال کا نام دیا ہے اور بالعموم اسے فن کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسان کے پاس صور و معانی کے مذکورہ خزانے کے مقابل و سائل اظہار و بیان بہت ہی قلیل ہیں۔ مگر انسان اس کے اظہار و بیان کی آرزو سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا۔ اپنے اس فطری نقص کی تلافی بالعموم وہ حدود سے تجاوز کی صورت میںکرتا ہے۔ یہ تجاوز کبھی خیال کو حقیقت اور کبھی حقیقت کو خیال بنا دینے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس تجاوز سے حقیقت تو خیر کیا بدلے گی البتہ اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ انسان اپنے نقص کو کمال سمجھنے کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس سے نجات پانے کی ہر سبیل کو مسدود کرتا چلا جاتا ہے۔ انسان اپنے وہبی تصورات کو خارجی صورت کبھی نہیں دے سکتا۔ اس لیے وہبی مقولات کا جمالیاتی اظہار ممکن ہی نہیں، وہبی تصورات ایسے صور و معانی ہیں جن کا ادراک تو مشکل نہیں مگر ان کا وجودی علو و عظم اس قدر رفیع الشان ہوتا ہے کہ ان میں اور جمالیاتی اظہار و ابلاغ میں امتیاز کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمالیات سے وابستہ افراد اپنے بیان میں زور پیدا کرنے کے لیے انھی مقولات کا سہارا لیتے ہیں جن کی خارجی واقعیت امکان کی حدود سے بہت دور ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس سے مخصوص نوعیت کی جمالیاتی تسکین و تحسین کی ضرورت پوری ہو جاتی ہو اور اس وجہ سے اس پر کوئی قابل ذکر اعتراض بھی نہ ہو سکے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ مجعول حسن و جمال کی کارفرمائی کا یہ میدان نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی فن کار وہبی تصورات کے تعاقب میں رہے تو اسے جلد یا بدیر معلوم ہو جائے گا کہ وہ ایک کار عبث کے پیچھے اپنے فن اور صلاحیت کو صرف کر رہا ہے۔ مذکورہ صورت کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب کوئی فنکار اپنی قدر و قیمت کا مظاہرہ مذہب کے ماورائی حقائق کی صورت میں کرنے لگتا ہے۔ جب ایک شاعر ، ادیب ، مصور اور خطیب وغیرہ اپنے آپ کو اصلاح معاشرہ کا مکلف فرض کرنے لگتا ہے اور ایک الہامی پیغام بردار کی طرح اپنے خیال کی پونچی کو عمرانی پیچیدگیوں کا حل بنا کر پیش کرتا ہے تو ایسا کرتے وقت وہ یہ بالکل بھول جاتا ہے کہ اس کا سارا ساز و سامان اس کے خیال کا وہ فریب ہے جس کا مبداو معاد خارج کی دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے شاعر ی کو’ تقول‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ سخن سازی مبنی برحقیقت نہیں ہوتی، اس کا قابل قدر پہلو یہ نہیں کہ وہ حقیقت کی ترجمان ہے، بلکہ اس کی قدر و قیمت کا انحصار، اس پیرایۂ اظہار کی تازگی اور حسن معنی میں ہے، جس میں اسے پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک اس کے ترجمان حق ہونے کا تعلق ہے تو وہ ایسا خیال ہے جس کو ایک اور خیال نے پیدا کیا ہے۔ مجعول حسن و جمال کی رفعت و عظمت یہ نہیں کہ وہ مجعول ہونے کی صفت سے نکل جائے اور انسانی وسائل ادراک و اظہار سے ماورا ہو جائے، اس کے برعکس اس کی عظمت اور شوکت اس میں ہے کہ انسانی حدود و قیود میں پوری طرح سے ملفوف رہے۔ الوہیت انسان کے لیے باعث افتخار نہیں ہے بلکہ اس کے لیے وجہ تذلیل ہے۔ الوہیت و انسانیت میں فرق و امتیاز اپنے اندر ایک حسن و جمال رکھتا ہے۔ جس طرح انسانی حسن و جمال الوہیت کے باب میں نقص و کوتاہی کو ظاہر کرتا ہے، بالکل اسی طرح الوہی حسن و جمال انسان کی صفت نہیںبن سکتا اور نہ اس کے لیے کسی کمال کو ظاہر کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ انسان کا شاعرانہ تخیل انسانی حدود کو کبھی نہیں پھلانگ سکتا، اس لیے جب بھی اس نے الوہی وجود کو اپنا موضوع بنایا ہے، اس کے نتیجے میں الوہیت کے جوہر کو ضائع کیا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ الوہیت کو فتح کر لینے کے زعم میں گرفتار ہو جائے۔ انسان کا وجود کیا ہے؟ ایک ایسی ناکام و ناتمام ہستی جس کی ہر آرزو اور ہر تمنا اپنے سے باہر اپنی تکمیل کا سامان تلاش کرتی ہے۔ ناکامی و نامرادی کا ہر تجربہ اسے اپنے وسائل کے بارے میں عدم اطمینان کو شدید سے شدید کر دیتا ہے۔ اسی کیفیت سے اس کا شعور نشو و نما پاتا ہے اور متخیلہ کا خزانہ بھرتا ہے۔ انسان کے اندر حسن و جمال کی کوئی صورت ، اس زیست کے تجربے کو نظر انداز کرتے ہوئے متشکل نہیں ہوتی جس کو واقعتا وہ بھوگ رہا ہوتا ہے۔ ناکامی و نامرادی پر غالب آنے کی امید انسان کو زیست میں حسن و جمال کی وضع و تشکیل کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ یہی امید مجعول حسن و جمال کا محرک بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجعول حسن و جمال زیست کی امید ہے اور امید کی زیست ہے۔ مذہب کی آرزو کا محرک بھی زیست کی ناکامی و نامرادی ہی ہے مگر مذہب جس ناکامی و نامرادی کی تلافی کرنے کا دعویدار ہے، وہ انسان کے کسی ایسے عمل سے پوری نہیں ہو سکتی جس کا جاعل و خالق وہ خود ہو۔ اس کے برعکس مجعول حسن و جمال انسان کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ مذہبی حقائق انسان کے وضع کردہ تصورات نہیں ہیں اگر ایسا ہوتا تو انسان ان کو بھی وضع و تشکیل کے ذریعے خارجیت عطا کرنے کی کوشش کرتا اور انھیں بھی متحجر کرنے کی سعی کرتا۔ مبنی بر وثنیت تہذیبوں میں حسن و جمال کا شعور جس دائرے میں مقید ہوتا ہے وہ انسان کی ہستی سے کبھی باہر نہیں جاتا اور الوہیت و انسانیت ، جمالیاتی شعور ہونے کے بجائے مذہبی شعور کی تحریف و ترمیم پر مبنی وہ نظری تحسین ہوتا ہے، جس کی اساس فکری التباس ہے اور یہ اسی قسم کا التباس ہے جو جمالیات میں باعث تسکین و تحسین ہوتا ہے۔ ایک زیرک اور ذکی الفہم ناقد کے لیے شعور مذہبی اور شعور جمالی کے بنیادی مطالبات کی روشنی میں ان دونوں میں فرق کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ مجعول حسن و جمال کی حیثیت ایک قدر و فضیلت کی ہے اور اقدار کے ہر نظام میں فرق مراتب کا اصول خود ایک قدر ہے اور ایک فضیلت ہے۔ فضائل و اقدار کے مراتب کا شعور درحقیقت حدود و قیود کا شعور ہے، اس لیے اظہار و معنی میں مجعول حسن و جمال حدود و قیود سے معرا نہیں ہو سکتا ۔ فنکار کا فن اخلاقیات کا درس نہیں ہے اور نہ علمی نکات پر مبنی حقائق کا بیان ہے بلکہ شعور جمالی کی پوشیدہ آرزو کے مناسب اور موزوں اظہار و بیان کی حیثیت سے فن کی عظمت اس وقت تک متاثر نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے سے ارفع و اعلیٰ اقدار کے وجود کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کر دیتا۔ لیکن اگر فضائل و اقدار میں فرق مراتب کو قدر کا درجہ حاصل نہ ہو تو بے قیود و حدود فنون، جمالیات کی نازک حس کو فروغ دینے کے بجائے اسے پامال کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ارفع و اعلیٰ اقدار پر غیر معمولی اصرار نہ صرف حس جمال کو فنا کر دیتا ہے بلکہ خود جمالیاتی اظہار و بیان کے تخلیقی رجحان کو بھی روک دیتا ہے، جس سے فن کے عمدہ مظاہر وجود میں آنے بند ہوجاتے ہیں۔ مذہبی معاشرت میں فن کی ہر نوع کے عمدہ مظاہر ملنے اسی لیے محال ہوتے ہیں کہ اس میں اقدار کے فرق مراتب کو بطور ایک قدر کے ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ یہی نہیں کہ فرق مراتب کو ایک قدر بالذات کا درجہ نہیں دیا جاتا اس سے بھی زیادہ مشکل اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب فن کو جمالیاتی شعور کی کارکردگی کے بجائے الوہی اظہار کا درجہ دے دیا جاتا ہے یا پھر محض شیطنت تصور کر لیا جاتا ہے۔ مجعول حسن و جمال نہ تو الوہی مظہر ہے اور نہ شیطانی القا کا انسانی مظاہرہ ۔ مجعول حسن و جمال انسان کے اپنے وسائل سے پیدا ہونے والا عارضی مظہر ہے جس میںماورا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے وہ القا ہے نہ الہام ہے، وحی ہے نہ اس کا تبیان۔ لہٰذا اس کے اندر کوئی آسمانی مطالب و مفاہیم پوشیدہ نہیں۔ وہ ماضی کا ترجمان ہے نہ مستقبل کا محافظ اور نہ حال کا نگہبان۔ لہٰذا اس میں تاریخیت کو تلاش کرنا عبث ہے۔ زمان و مکان کو اس میں یہ دخل حاصل ہے کہ وہ اس کے ظہور کی ناگزیر شرائط ہیں۔ حسن و جمال کا کوئی حوالہ اس کی ذات سے باہر نہیںہوتا اور نہ اس کے علاوہ کوئی شے اس کے حوالے کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ئئء کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔ حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ الف:۔ اعلام اور تلمیحات: یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات اور مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ ب:۔ مشکلات.۔.... یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح، توضیح اور تفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہلِ علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہوسکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جاسکتا، مجروح نہ ہو۔ ج:۔ تکنیکی اور فنی محاسن: یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص مقام پر اقبال کے پیشِ نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آجائیں گے۔ ک صفحات ذیل میں فرہنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جارہے ہیں۔ کلیاتِ اقبال (اردو) احمد جاوید ص کلیات۔۴۰۰ غزل:۵۷ شبانی: ۱- گلّہ بانی۔ ۲- اشارہ ہے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اُس دور کی طرف جب آپ نے حضرت شعیب علیہ السّلام کی بھیڑ بکریوں کی گلہ بانی کی ۔ اس کے بعد اُن کے داماد بنے۔ بیوی کو لے کر مصر کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں کوہ طور پر نبوت سے سرفراز ہوئے۔ ۳- بھٹکی ہوئی منتشر اور بدحال قوم کی رہنمائی کے لیے کسی مرد کامل کی نگرانی میں ریاضت اور تربیت کے مرحلے طے کرنا۔۴- فقر، سادگی و درویشی۔ نیز دیکھیے: ’’اگر کوئی شعیب آئے میسر شبانی سے کلیمی دو قدم ہے‘‘ ص کلیات۔ ۴۰۰ تمہید کلیم اللٰہی: ۱- کلیم اللہ یعنی اللہ سے کلام کرنے والا بننے کی تیاری؍ آغاز۔ ۲- اللہ سے تعلق جوڑ کر براہ راست ہدایت لینے اور اس ہدایت کو اپنی قوم میں پھیلانے کی تمہید۔ ۳- احکام الٰہیہ کو اپنی ذات اور اپنی قوم پر نافذ کرنے کی صلاحیت کا آغاز۔ ص کلیات۔ ۴۰۰ لذّتِ نغمہ:۱-گیت گانے کی لذت ، چہچہانے کا مزا۔ ۲-دل کی ترنگ کو زبان پر لانے کی کیفیت۔ ۳-حُسن اور خیر کے ترانے بلند کرنے کی لگن۔ ۴-اظہارِ شوق میں سرشار رہنے کی حالت۔۵-شاعری کے ذریعے جمال کی صورت گری اور اُس سے حاصل ہونے والی راحت اور آسودگی۔ ص کلیات۔ ۴۰۰ مُرغِ خوش الحاں: ۱- خوش آواز پرندہ۔۲- خوش نوا شاعر۔ ۳-حُسن ، محبت اور خیر کے گیت گانے والا۔ ص کلیات۔ ۴۰۰ اس باغ میں: یعنی اس دُنیا میں:۱-جو خیر، محبت اور حُسن سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ ۲- جو احوالِ دل کے ذرا سے اظہار کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ۳- جو دل کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے۔ ۴- جس میں آدمی اپنے اندر کی روشنی کو پوری طرح منعکس نہیں کر سکتا۔۵- جو ایک ایسے باغ کی طرح ہے جس پر وہ بہار نہیں آئی جو قلب و روح کو شاداب رکھتی ہے۔ یہاں کا رنگ روپ دھوکا ہے اور فضا ایسی کہ دم گھٹنے لگے۔ ص کلیات۔ ۴۰۰ … کرتا ہے نفس کوتاہی : ۱- دم گھٹتا ہے ، سانس رُکتا ہے۔ ۲- آواز نہیں نکلتی۔ ۳- وقت تنگ ہے۔ ص کلیات۔ ۴۰۰ سر مستی و حیرت: یہاں سر مستی و حیرت کے کئی معنی ہیں مثلاً:۱- سر مستی، وہ حال ہے جو اپنے مقصود اور منتہا تک رسائی کے مراحل طے کرتے ہوئے، طاری رہتا ہے، جبکہ ’حیرت‘ اس سفر کے اختتام پر میسر آتی ہے۔ یعنی ایک کا تعلق راستے سے ہے اور دوسری کا منزل سے۔ ۲- ’سر مستی‘ مقصود کے تصور سے پیدا ہوتی ہے اور ’حیرت‘ مشاہدے سے۔ ۳- ’سر مستی‘ حس کی انتہا ہے اور ’حیرت‘ عقل کی ۔۴- تصوف کی اصطلاح میں ’سرمستی‘ حبّ عشقی کا اور ’حیرت‘ حبّ عقلی کا انتہائی حال ہے۔ اقبال نے اسی سرمستی و حیرت کو تمام آگاہی کہا ہے۔ ۵- ’سرمستی‘ پانے کی کیفیت ہے، اور ’حیرت‘ جو پایا ہے اُسے سمجھ سکنے کی۔۶- غفلت اور نادانی جو ’’سراپا تاریک‘‘ ہے۔ ۷- محسوس اور معقول میں منہمک ہو کر حقیقت سے بے خبر رہ جانا۔ نیز دیکھئے : ’’ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی‘‘ ص کلیات۔ ۴۰۱ غزل :۵۹ سریر:تختِ شاہی علم کا مقصود ہے پاکیِ عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ علم کی بناوٹ ذہنی و استدلالی ہے اور فقر کی روحانی و اخلاقی۔ علم کا مطالبہ بس اتنا ہے کہ عقل ، فہم اور استدلال میں غلطی نہ کرے، جبکہ فقر کے پیش نظر یہ ہے کہ سینہ روشن اور نفس پاک ہو جائے۔ نیز دیکھیے : ’پاکی عقل و خرد‘، ’عفتِ قلب و نگاہ‘۔ ص کلیات۔ ۴۰۱ پاکیِ عقل و خرد: ۱- عقل اور ذہن کی جلا اور صفائی۔۲-ذہن کی لطافت جو ادراکِ حقائق کے لیے ضروری ہے۔۳- عقل کا حواس کے غلبے سے نکل کر حقیقت کو پانے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ ص کلیات۔ ۴۰۱ عفّتِ قلب و نگاہ: ۱- دل اور نگاہ کی پاکیزگی۔ ۲- تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن، شر سے حفاظت اور خیر سے وابستگی، رذائل کا خاتمہ اور فضائل کا حصول۔ ۳- قلب کی عفت یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کی طرف سے غافل نہ ہو، اور نگاہ کی عفت یہ ہے کہ شر کے مظاہر سے بچی رہے تاکہ گناہ کا داعیہ اُبھرنے نہ پائے ---- گویا ’عفّتِ قلب و نگاہ‘ کا مطلب یہ ہوا کہ غفلت اور معصیت کے تمام راستے بند کر دیے جائیں۔ ص کلیات۔ ۴۰۱ علم فقیہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم علم ہے جویاے راہ، فقر ہے داناے راہ اس شعر کو سمجھنے کے لیے کچھ مراحل سے گذرنا ضروری ہے: ۱- علم سے مراد ہے عقلی علم، جس کی روح ’ڈھونڈنا‘ ہے۔ یعنی عقل کسی بھی مرحلے پر تلاش و جستجو سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔ ۲-عقل کی خوے جستجو کا تقاضا ہے کہ وہ قطعیت کا اثبات نہ کرے۔ اس لیے عقل سے حاصل ہونے والا علم قطعی نہیں ہو سکتا اور اس سے یقین کا میسر آنا محال ہے۔ ۳- حصولِ یقین ، عقل کی سب سے بڑی تمنا ہے جس کی تکمیل میں واحد رکاوٹ وہ خود ہے۔ ۴- عقل، مذہبی ہو تو کلام اللہ کے محکمات و متشابہات کی علت و حقیقت دریافت کرنے کے درپے ہو جاتی ہے اور اس طرح معلوم کو ایک واحد الاصل کُل بنانے کی سعی کرتی ہے جو اس کا یعنی عقل کا ذاتی اقتضا ہے۔۵- محکم یعنی حکم کی علت دریافت کرنے کا عمل فقہ ہے جس کا مدار قیاس پر ہے اور متشابہ یعنی عقدے کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش حکمت ہے ، یعنی کلام اور مابعد الطبیعی فلسفہ۔ چونکہ علّتِ حکم اور حقیقتِ ایمان کو قطعیت سے متعین نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ان تک پہنچنے کی ہر کوشش نارسائی کے ادراک سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے۔ فقیہ احکام کی علّت کو پانے کا دعویٰ کر سکتا ہے نہ حکیم ، ایمانیات کی حقیقت کو۔۶- ’حکیم‘ کو فلسفی کے معنی میں لیا جائے تو یہ عقل کے غیر مذہبی کردار کا مظہر ہو گا۔ ہستی کی حقیقت کو عقلِ محض پر انحصار کرکے جاننے کی مسلسل کوشش جو کہیں ختم نہیں ہوتی، فلسفے کی اساس ہے۔ یہاں تک ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس شعر میں علم سے کیا مراد ہے اور اسے فقیہ و حکیم اور جویاے راہ کیوں کہا گیا ہے؟ اب فقر کے مسیح و کلیم اور داناے راہ ہونے کی وضاحت درکار ہے تاکہ علم و فقر کے موازنے کا وہ اصول سمجھ میں آ جائے جو اس شعر میں بلکہ پوری غزل میں کار فرما ہے: ۱- فقر ، تکمیل بندگی کا وہ نقطہ ہے جس میں محبت ، خشیت اور معرفت اپنے انتہائی کمال کے ساتھ ایک ہو گئے ہیں۔ یہاں عشق اور تقویٰ ہم معنی ہیں ۔ [دیکھیے ’عفت قلب و نگاہ‘] ۔ ۲- فقر ، عقل کے برعکس، حق اور حقائق کا متلاشی نہیں بلکہ اُن کا مظہر ہے۔ ۳- عقل ، حق تک پہنچنے کے لیے جس راہ کی تلاش میں سرگرداں ہے فقر نہ صرف یہ کہ اُس راہ یعنی صراط مستقیم سے آگاہ ہے بلکہ اُسے دوسروں کے لیے بھی کھول دیتا ہے۔ ۴- فقر کو مسیح و کلیم کہنے کی کئی و جہیں ہیں۔ مثلاً : ا- فقر، حق پر یقین کا نام ہے۔ حق کا مکمل ترین اظہار خود اس کا کلام ہے۔ حق پر یقین کا آخری درجہ یہ ہے کہ بندہ، کلام حق کا براہ راست مخاطب اور مظہر بن جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں، یعنی حق سے مخاطبت کاشرف رکھتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ ہیں، یعنی کلام حق کا مظہر ہیں۔ ب۔ فقر ، کمالِ بندگی ہے۔ کمالِ بندگی کے دو پہلو ہیں ----- ایک تو یہ کہ بندہ اللہ کی الوہیت کی نشانی بن جاے، اور دوسرا یہ کہ بندگی کے قوانین و آداب کا عملی نمونہ اور معلم بن جائے۔ پہلے وصف کے نمایندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور دوسرے کے حضرت موسیٰ علیہ السلام۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ذات میں روحانیت کا کمال ہے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ہاں قانون و شریعت کا۔ صوفیوں کی اصطلاح میں عیسیٰ علیہ السلام مجسم ولایت تھے اور موسیٰ علیہ السلام سراپا نبوت ۔ ایک معجزے دکھاتے تھے اور دوسرے سے دکھائے جاتے تھے۔ ج ۔ فقر ، معرفت ہے۔ معرفت کے دو نتیجے ہیں: محبت اور اطاعت ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاں محبت کا غلبہ ہے، اور موسیٰ علیہ السلام کے ہاں اطاعت کا۔ د۔ فقر ، محبت ہے۔ محبت کا تقاضا ہے کہ ماسوی اللہ کو دل میں جگہ نہ دی جائے۔ اس تقاضے کی تکمیل کے دو طریقے ہیں: ترکِ دُنیا ماسوا سے دور ہوجانا اور تسخیرِ دُنیا یعنی ماسوا پر غالب آ جانا۔ پہلا طریقہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے اور دوسرا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا۔ ۵- فقر اور علم دونوں کا مقصود حصولِ یقین ہے۔ فقر اس مقصود تک پہنچ گیا جبکہ علم محروم رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقر کا مدار وحی پر ہے اور علم کا عقل پر ۔ اس لیے فقر کے لیے یقین حضور اور حال ہے اور علم کے لیے حصول اور استدلال ، فقر تصدیق ہے اور علم تصور ------ فقر کا ہدف ’ماننا‘ ہے ، قلب سے ، جبکہ علم کا ہدف ’جاننا‘ ہے ، ذہن سے۔۶- فقر اور علم کے موازنے کو مسیح و کلیم اور فقیہ و حکیم کا موازنہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ فقیہ و کلیم میں شریعت، اور مسیح و حکیم میں حقیقت مشترک ہے۔ ص کلیات۔ ۴۰۲ غزل: ۶۱ شعور و ہوش و خرد :یہ تینوں ’انا‘ کی تعمیر اور تحفظ کرتے ہیں ------- شعور ’مَیں‘ کو ’وہ‘ پرغالب رکھتا ہے، ہوش اس کو اپنے مقصود پر نثار نہیں ہونے دیتا اور ’خرد‘ اسے کسی ایسے امتحان میں پڑنے سے روکتی ہے جس میں اس کے تصور کردہ نقصان کا اندیشہ ہو۔ ص کلیات۔ ۴۰۲ صاحب کشاف: تفسیر الکشاف عن حقائق التنزیل کے مصنف یعنی جار اللہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمخشری (۲۷؍ رجب ۴۶۷-۵۳۸/۸ ؍ مارچ ۱۰۷۵- ۱۱۴۴ئ) ص کلیات۔ ۴۰۲ سرور و سوز:۱- مستی اور حرارت۔ ۲- شراب کی تاثیر۔ ۳- کسی خاص تہذیب کی علمی و فنی روایت کے نتائج اور فوائد۔ ۴- انسان اور کائنات کے بارے میں کسی تہذیب کے بنیادی تصورات کا مجموعی حاصل۔۵- انسان کے انتہائی احوال و کیفیات جن کی حیثیت ان کے محرک، موضوع اور مقصود سے متعین ہوتی ہے۔ یعنی یہ حال کسی چیز سے اور کسی چیز کے لیے پیدا ہوتا ہے ، اگر وہ چیز دائمی اور روحانی ہے تو یہ بھی دائمی اور روحانی ہوگا ورنہ وقتی اور نفسی جو جسم، ذہن اور دُنیا کی ترکیب سے تشکیل پاتا ہے۔ ص کلیات۔ ۴۰۲ مئے فرنگ: ۱- مغرب کی شراب۔ ۲- مغربی علوم ، مغرب کی علمی روایت۔ ۳- عقل پرستی۔ ۴- انسان اور کائنات کی حقیقت کا وہ تصور جو مغربی فلسفے ، سائنس اور تہذیب کی بنیاد ہے۔ ۵- مغرب کے دُنیاوی علوم و فنون جنھیں رد نہیں کیا جا سکتا۔ دُنیا کی سطح پر اُن کا صحیح اور مفید ہونا ہر طرح سے ثابت ہے۔ ص کلیات۔ ۴۰۲ تہ جُرعہ :۱- شراب کی تلچھٹ جو عام طور پر گدلی ہوتی ہے۔۲- بالکل نچلے درجے کے علوم ، کسی علمی روایت کا ادنیٰ اور معمولی حصہ۔ ص کلیات۔ ۴۰۵ رباعیات نا محرمانہ: ۱- غیروں؍ اجنبیوں ؍ نا واقفوں ؍ بیگانوں کا سا۔ ۲- یہ لفظ ’حرم‘ کی مناسبت سے بھی استعمال ہوا ہے۔ یہاں محرم سے مراد ہے: حرم سے باہر والا؍جسے حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہو؍حرم سے روحانی نسبت نہ رکھنے والا؍ اسلام سے دور؍ دین کا مخالف ؍ اسلام کی روح سے بے خبر وغیرہ۔ ص کلیات۔ ۴۰۵ ظلامِ بحر:سمندر کی گہرائی میں چھائے ہوئے اندھیرے۔ [ظلام = ’ظلمت‘ کی جمع، اندھیرے + بحر] ص کلیات۔ ۴۰۵ یقیں :کسی چیز کے مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہونے والی کیفیت جو اُس چیز کے اثبات کی مضبوط ترین بنیاد اور محکم ترین دلیل ہے۔ یقین کے تین ذرائع ہیں: خبر، مشاہدہ اور تجربہ۔ ایمانیات میں مشاہدہ اور تجربہ صرف نبی کو ہوتا ہے، امتیوں کے لیے خبر ہی ہے جس سے وابستگی درجۂ کمال پر پہنچ کر وہ حال پیدا کرتی ہے جس کے لیے مشاہدے اور تجربے کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہی کمالِ ایمان جو خبر کے تقاضوں کی تکمیل کرنے سے میسر آتا ہے اور اس کاموضوع اسی طرح قابلِ وثوق اور لائقِ تصدیق ہوتا ہے جس طرح کہ سامنے کی چیزیں۔ اس سطح یقین کا ایک جامع و مانع بیان ابن عربی کے ہاں ملتا ہے:’’الحق محسوس‘‘،حق محسوس ہے یعنی ہر تجربہ اور مشاہدہ اسی پر دلالت کرتا ہے اور اسی پر تمام ہوتا ہے۔ کوئی چیز محسوس اور معلوم ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ حق کے احساس اور معرفت کا وسیلہ نہ بنے۔ ص کلیات۔ ۴۰۶ آزاد مکاں: زمان و مکاں سے آزاد کائنات کے دائرے سے باہر ، غیر محدود ۔ ص کلیات۔ ۴۰۶ مکانی:۱- ’مکان‘ سے منسوب ، وجودِ محدود۔۲- جس کا وجود جسمانی اور مادّی ہو۔۳- فانی، محدود اور مخلوق ہستی۔ کیونکہ جو مکانی ہو گا ، وہ زمانی بھی لازماً ہوگا۔[نیز دیکھیے:زمان و مکاں‘،’مکاں‘ کے اندراجات] ص کلیات۔ ۴۰۶ مثل خلیل آتش نشینی: ۱- حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی طرح آگ میں براجمان ہو جانا۔ اس واقعے کے لیے دیکھیے : سورۂ انبیاء ۲- حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی طرح ایمان کو محسوسات پر اور غیب کو شہود پر غالب جاننا اور اس یقین کو اپنے عمل سے ثابت کرنا۔۳- حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا سا ایمان، بندگی، توکل، تسلیم و رضا اور حق کی گواہی ۔ ص کلیات۔ ۴۰۶ اللہ مستی: ۱- اللہ میں مست رہنا۔ ۲- اللہ کی محبت اور معرفت میں ڈوبے رہنا۔ ۳- اللہ کے سوا کسی طرف متوجہ نہ ہونا، اللہ کی یاد میں سب کچھ بھول جانا۔ ۴- اللہ کے لیے خود کومٹا کر اسے اپنی پہچان بنا لینا، اُن لوگوں کی طرح بن جانا جنھیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔۵- اللہ کے انتہائی قرب کی کیفیت۔ ۶- ایمان کا یقین بن جانا۔ ص کلیات۔ ۴۰۶ خود گُزینی: ۱- اپنے آپ کو چن لینا، خود کو پا لینا۔ ۲- اپنی ذات کو کسی اور میں ضم نہ ہونے دینا، خودی کو محفوظ اور برقرار رکھنا۔ ۳- اپنی ذات کے جوہر یعنی اللہ کی بندگی اور ماسوی اللہ پر غلبے کو دریافت کرکے اپنی واحد پہچان بنا لینا۔ ۴- شرف انسانی کی معرفت اور اس کا عملی اثبات اور اظہار۔ ص کلیات۔ ۴۰۷ ہر اک ذرّے میں شاید مکیں دل اسی جلوت میں ہے خلوت نشیں دل اسیرِ دوش و فردا ہے ولیکن غلامِ گردشِ درواں نہیں دل ۱- یہاں دل ، روح، عشق اور حقیقتِ انسانی یعنی خودی کے معنی میں ہے۔۲-وجود کے دو اصول ہیں: زمان و مکاں ۔ پہلے دو مصرعوں میں دل اور مکاں کا تقابل کرکے اس کی مکانی یا کائناتی جہت بیان کی گئی ہے کہ دل وجود کی اس شرط یعنی مکانیت کو خود مکان سے بڑھ کر پورا کرتا ہے۔ وہ کائنات کے ذرّے ذرّے میں سمایا ہوا ہے اور اس سے بلند اور ممتاز بھی ہے: ؎ اسی جلوت میں ہے خلوت نشیں دل یعنی دل ، وجودکی اُس مکانی وسعت کا بھی احاطہ کرتا ہے جو کائنات یا آفاق کے حدود ہستی میں نہیں سماتی۔۳- آخری دو مصرعوں میں دل کو زمانے کے مقابل رکھا گیا ہے کہ وہ زمانی تو ہے مگر زمانیت کے لوازم یعنی تغیر اور فنا سے آزاد ہے۔ اُس کا زمانی ہونا اس وجودی مماثلت کی وجہ سے ہے جو وہ کائنات کے ساتھ رکھتا ہے، لیکن چونکہ یہ مماثلت کلی نہیں بلکہ جزوی ہے اور دل کے بعض احوال وجود کائنات میں نہیں پائے جاتے لہٰذا اس پر زمانہ اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا جس طرح دیگر موجودات پر ہوتا ہے۔ ۴۔ یوسف سلیم چشتی نے اسیر اور غلام کا فرق بہت اچھی طرح واضح کیا ہے: ’’اسیر وہ ہے جو بذات خود تو آزاد ہو لیکن کسی وجہ سے گرفتار ہو گیا ہو، غلام وہ ہے جو اپنی آزادی سے محروم ہو چکا ہو اور غلامی اس کی زندگی بن گئی ہو ۔۔‘‘ (شرح بال جبریل، ص ۴۶۶)۔نیز دیکھیے: Reconstruction کا چوتھا خطبہ : The Human Ego, his Freedom and Immortality ص کلیات۔ ۴۰۷ عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے یعنی :۱- عرب اور غیر عرب اسلام کی بنیاد پر ایک ہیں۔۲- عرب کے احساس کی حرارت ، سادگی اور گہرائی ، اور ایرانی کے تخیل کی چمک دمک، رنگینی اور بلندی کو اسلام نے ایک کر دیا ہے۔۳- اسلام نے عقل کو قلب میں سمو دیا ہے اور احساس و تخیل کا فرق مٹا دیا ہے۔ ۴- انسانی طبائع کے اختلاف کو دینِ محمدی نے ایک دوسرے کی معاون قوت بنا دیا ہے۔ عرب کے سوز کے بنیادی اجزاء یہ ہیں: حق ، خیر، قلب، احساس، سادگی، اطاعت، خشیت، محبت۔ سازِ عجم کے بنیادی اجزاء یہ ہیں:جمال ، تخیل، رنگارنگی، معرفت ، تمدن ۔ ص کلیات۔ ۴۰۷ کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی نفس ہندی، مقامِ نغمہ تازی نگہ آلودئہ اندازِ افرنگ طبیعت غزنوی، قسمت ایازی ۱- اس رباعی میں اقبال نے انتہائی اختصار کے ساتھ اپنی پوری زندگی بیا ن کر دی ہے۔ یعنی میں ہندوستان میں پیدا ہوا، جو پیغام دیتا رہا وہ عربی تھا۔ یورپی علوم حاصل کرنے کے باعث میری نظر میں یورپ کا اثر کم و بیش باقی رہا اور طبیعت غنا اور بے نیازی کے اعتبار سے شاہانہ تھی لیکن قسمت ایسی پائی کہ کسب معاش کے لیے جو کچھ کرتا رہا وہ اگرچہ کتنا ہی خود دارانہ تھا تاہم اس میں دوسروں سے کامل بے نیازی میسر نہ آ سکی، لہٰذا اسے ایازی ہی سمجھنا چاہیے۔ (مطالب، ص ۱۰۵) ا- اقبال نے ایک ایک مصرعے میں اپنی شاعری،فکر اور شخصیت کو کھولا ہے ---- میری شاعری گویا بانسری بجانے کا عمل ہے۔ پھونک ہندی ہے جو عربی نغمے میں ڈھل کر نکلتی ہے۔ یعنی میری تخلیقی قوت ہندوستانی رنگ رکھتی ہے لیکن اس کا اظہار عربی آہنگ میں ہوتا ہے۔ ’نفس‘ ان لفظوں میں سے ہے جو اقبال کے ہاں بار بار آتے ہیںاور کبھی کسی ایک معنی تک محدود نہیں ہوتے۔ اس کے کئی معنی ہیں جن میں مرکزی اور فوری مفہوم ’سانس‘ کا ہے جو’نفس‘ کا اصلی مطلب ہے، باقی معانی اس مطلب سے پھوٹتے ہیں اور اسی کے حوالے سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ’نفس‘ جس معنوی کثرت اور تدریج کا حامل ہے اس کا ایک خاکا بنایا جائے تو کچھ یوں بنے گا: نفس سانس (پھونک) سانس (حیات) آواز تخلیقی قوت حروف مایۂ احساس ا لفاظ زبان گویا نفس کی معنوی جہات اپنی اپنی اندرونی تدریج کے ساتھ ایک مشترک نقطے پر تمام ہوتی ہیں۔ لفظ اور زبان ایک خفیف سے فرق کے باوجود ہم معنی ہیں۔ وہ فرق یہ ہے کہ لفظ اور زبان دونوں کی حقیقت ایک ہے :معنی ----- تاہم لفظ کو معنی سے براہ راست نسبت ہے جبکہ زبان کو یہ نسبت لفظ کے واسطے سے میسر آتی ہے۔ اس توضیح کے مطابق ’نفس ہندی‘ کا مطلب ہوگا: ’لفظ اور زبان میں ہندوستانی ‘۔ یہاں اس مطلب کے حصول کا پورا سفر بھی ذہن میں رکھنا چاہیے ورنہ یہ ناقص رہ جائے گا۔ ’نفس‘ ، بمعنی لفظ کی مناسبت سے ’مقام‘ کا مطلب متعین کرنا آسان ہو گیا ہے۔ آواز کی لہر میں اُتار چڑھائو پیدا کرکے بعض صوتی تشکیلات وجود میں آتی ہیں جو مختلف معانی، تاثرات اور احساسات پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں سے ہر تشکیل ایک مقام ہے یعنی وہ بنیاد جس پر نغمہ اپنی انفرادی اور مخصوص حیثیت کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ موسیقی کی اصطلاح میں ’مقام‘ سر اور آہنگ ہے، جو کسی خاص معنی و کیفیت کا اظہار کرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہاں ’مقام‘ کو معنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’نفس‘ ، قوتِ اظہار ہے اور ’مقام‘ روحِ اظہار۔ ’نغمۂ نَے‘ ان دونوں کا مرکب ہے یعنی اقبال کی شاعری میں لفظ تو ہندوستانی ہے مگر معنی ، عربی۔ یا بالفاظ دیگر، اس کی زبان تو غیر قرآنی ہے لیکن پیغام سراسر قرآنی۔ ب- تیسرے مصرعے میں اقبال نے اپنی فکری ماہیت بیان کی ہے کہ میرا چیزوں کو دیکھنے کا انداز مغربی ہے۔ یعنی میرا فکری سانچا مغربی علوم کے زیر اثر تیار ہوا ہے لہٰذا نہ چاہنے کے باجود دینی اور مابعد الطبیعی حقائق کو بھی اسی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہوں جو میں نے مغرب کے فلسفے، سائنس، نفسیات وغیرہ سے اخذ کیا ہے۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام اپنے ایک خط میں اقبال نے یہی بات لکھی ہے:’’… میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعے میں گذری ہے اور یہ نقطۂ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائقِ اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں۔‘‘(کلیات مکاتیب اقبال، ج ۲،ص۸۹۹) اقبال نے یہ بات خود کو جس طرح نشانۂ تحقیر و ملامت بنا کر کی ہے، اس کی مثال بڑے لوگوں ہی میں مل سکتی ہے۔ ہماری نظر میں فکر اقبال نتائج کے اعتبار سے دینی اور استدلال کے لحاظ سے جدید ہے اور یہ اجتماع کسی بڑے ذہن ہی میں ہو سکتا ہے۔ ج- طبیعت غزنوی ، قسمت ایازی ، یہ علامہ کی شخصیت کے ایک گوشے کا بیان ہے جس کی مولانا مہر نے اچھی شرح کی ہے۔ اس کا اقتباس اوپر دیا جا چکا ہے۔ دیکھیں : شق ۱۔ ٭ ۳- اس رباعی کے فنی اور معنوی محاسن۔۱:۳: نَے نوازی، بمعنی ’بانسری بجانا‘، ’نفس‘ بمعنی ’بانسری بجانے والے کا سانس‘ اورمقامِ نغمہ بمعنی ’بانسری کے سوراخ‘ میں ظاہری مناسبت ہے۔ ۲:۳: نَے نوازی ’بمعنی شاعری ، ’نفس‘ بمعنی ’لفظ‘ اور مقامِ نغمہ‘ بمعنی ’معنی و کیفیت ‘ میں داخلی مناسبت ہے۔۳:۳: نَے نوازی، بمعنی ’شاعری‘، ’نفس‘، بمعنی تخلیقی رَو اور ’مقامِ نغمہ ’بمعنی تخلیقی رو کا سر چشمہ‘ ایک ہی کل کے اجزاء ہیں۔۳:۳: ’نے نوازی‘ بمعنی ’ فنِ شعر‘ ،’ نفس‘ بمعنی ’فنی ریاضت‘ اور ’مقامِ نغمہ‘ بمعنی مقصدِ فن‘ سے بھی ایسے معنی نکلتے ہیں جو اقبال کی شاعری سے مطابقت رکھتے ہیں۔۴:۳: ’نَے نوازی‘ سے رومی کا تصور بھی اُبھرتا ہے یعنی اصل نَے نواز تو رومی تھے، میں تو اُن کی تان میں تان ملانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ مطلب، کوئی دیکھے تو، کے استہزائیہ انداز سے نکلتا ہے۔۵:۳: ’نفس ہندی‘: ’مقامِ نغمہ تازی‘، اور ’انداز افرنگ‘ نفس ، روح اور عقل کے باہمی تضادات ہیں جو ایک شخصیت میں جمع ہو گئے ہیں۔ ۶:۳: ’نَے نوازی‘ اور ’ایازی‘ کا تضا واضح ہے۔۷:۳: اصل تضاد ’نفس‘ اور ’مقام ‘ میں ہے۔ ’نفس‘ یعنی سانس دلی حرکت اور فنا ہے اور یہ سفر ، طبیعت، جسم ، نسل اور وطن کا مظہر ہے۔ جبکہ ’مقام‘ کا اصول استقلال اور دوام ہے اور یہ منزل، مقصد ، روحانیت ، قلب ، وحدت اور آفاقیت پر دلالت کرتا ہے۔یہ دونوں اپنے ہر جزو میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ص کلیات۔۴۰۸ زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی ----------- یہاں دو باتیں سمجھنی ضروری ہیں:۱- خدائی کا لفظ خدا کی صفت کے طور پر نہیں بلکہ کائنات یا زیادہ صحیح لفظوں میں عالم خلق اور عالم امر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عالم خلق= زمین و آسمان+ عالم امر = کرسی و عرش۔۲- ان دو مصرعوں میں ’خودی‘ کی الوہی اور انسانی دونوں جہتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ’کرسی و عرش‘ الوہی خودی کی اور ’زمین و آسمان‘ انسانی خودی کی زد میں ہیں۔ نیز دیکھیے: خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی ص کلیات۔ ۴۰۸ مصطفائی :۱- محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف مبارکہ ۔۲- اللہ کی طرف سے چُن لیے جانے کی قابلیت ، محبوب الٰہی ہونے کا وصف۔۳- خلافت الٰہیہ ، اللہ کی نیابت کا مرتبہ۔ ۴-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ، اتباع سنت جس کی بدولت مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی وارث اور مظہر بن جاتا ہے۔ نیز دیکھیے: خودی کو جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میںکبریائی ص کلیات۔ ۴۰۸ صید زبوں: گرا پڑا شکار، معمولی شکار۔ ص کلیات۔ ۴۰۸ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی ۱- محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خودی کا ظہور اپنے منتہا کو پہنچا اور یہ خودی وہی ہے جس کی حقیقت خدا ہے یعنی خودی کی حقیقت ، اللہ ہے اور مظہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۲- خودی کی جلوتوں کا مطلب ہے: عالم موجودات جس میں ہر شے خودی کا ایک ناقص یا کامل مظہر ہے۔ ’مصطفائی‘ یعنی چُن لیے جانے کا وصف۔ اس سے مراد ہے خودی کے مظہر اکمل کی حیثیت سے منتخب ہونے کا شرف جو فقط محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے۔۔ ۳- خودی کی اصل وحدت ہے۔ یہ وحدت ، کثرت سے ماورا اور ذاتی ہو تو خودی الوہی ہے اور کثرت کے درمیان اور وصفی ہو تو انسانی ۔ اس رباعی میں خودی کی خلوتوں سے اس کی وحدت کے الوہی مراتب مراد ہیں جو ذاتی ہیں اور ماوراے کثرت جلوتوں سے اس کے انسانی مدارج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں اس کی وحدت ، اشتراک اور کثرت کو قبول تو کرتی ہے مگر اپنے تمام اوصاف و کمالات کے ساتھ ایک ہی وجود یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدیم النظیر ذات میں ہمیشہ کے لیے مجسم ہو گئی ہے۔(دیکھیں اس اندراج کی شق ۲)۔نیز دیکھیے: ’خودی‘ (تمام اندراجات) ، ’مصطفائی‘۔ زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی ص کلیات۔ ۴۱۲ کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبوت ملنے سے پہلے غار حرا میں کئی کئی دن خلوت نشین رہا کرتے تھے، یہاں تک کہ پہلی وحی آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تنہائی کا وہ معمول ترک فرما دیا جو تلاشِ حق کی خاطر اختیار کیا تھا۔ اس مصرعے میں اُسی دور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دراصل اسلام کا پہلا مرحلہ تھا۔۲- باہر کی دُنیا میں حق کو پانے کا راستہ بند دیکھ کر اُسے بالکل تنہا اور یکسو ہو کر اپنے اندر ڈھونڈنے کا عمل۔ ۳- عشق کا پہلا مرحلہ مراقبۂ محبوب ہے جو تنہائی میں ہی ممکن ہے۔۴- عبدو معبود کے تعلق میں معبود کی شانِ تنزیہ کا غلبہ بندے پر۔ ۵- اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ انفس میں۔ ص کلیات۔ ۴۱۲ کبھی سوز و سرور و انجمن عشق عشق، مقصودِ حقیقی سے شدید تعلق اور اس تک رسائی کا نام ہے جس میں وہ دوسروں کو بھی شریک کرتا ہے۔ ۲- عاشق ، بندہ ہے اور اللہ ، محبوب ---- اس تعلق میں اللہ کی شانِ جلال کا احساس غالب ہو تو بندے کی بنیادی کیفیت، سوز ہو گی، اور اللہ کی شانِ جمال کا احساس غالب ہو تو بندے کا مرکزی حال ’سرور‘ ہو گا۔ جب یہ دونوں احوال اپنے کمال کو پہنچ کر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو ان سے وابستہ داخلیت اور تنہائی کا رنگ بدل جاتا ہے اور اللہ کی محبت اس عاشق کامل کے ذریعے اپنے تمام احوال سمیت دوسروں میں بھی منتقل ہونے لگتی ہے ---- یہ ’انجمن‘ ہے۔۳-اس مصرعے میں عشق کے تین درجے بیان ہوئے ہیں: طلب(سوز)، حصول (سرور) اور حضور (انجمن)۔ ۴-عبدو معبود کے تعلق میں معبود کی شانِ تشبیہ کا غلبہ بند ے پر۔ ۵- اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ انفس میں بھی اور آفاق میں بھی۔۶- دعوتِ دین پوری گہرائی اور پھیلائو کے ساتھ۔ ص کلیات۔ ۴۱۲ کبھی سرمایۂ محراب و منبر بندے کا اللہ سے تعلق دو بنیادوں پر استوار ہے: عبادت اور اطاعت۔ عبادت ، دین کی حقیقت ہے جس کا اظہار اطاعت کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ باطن ہے اور وہ ظاہر۔ ’محراب‘ عبادت کا استعارہ ہے جس میں امامت بھی شامل ہے اور منبر اطاعت کا استعارہ ہے جس میںخلافت بھی شامل ہے۔یعنی دین کا ظاہر و باطن اور حقیقت و غایت عشق پر قائم ہے بلکہ عشق ہی ہے۔۲- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی دو جہتیں : اللہ سے تعلق (محراب) اور مخلوق سے تعلق (منبر)۔ ۳- مسلمان کے باطن یعنی بندگی اور ظاہر یعنی پیغمبر علیہ السلام کی نیابت کی اساس عشق ہے۔۴-عشق ہی سے مسلمان بندہ بھی ہے اور حاکم بھی۔ ص کلیات۔ ۴۱۲ کبھی مولا علیؓ خیبر شکن عشق عشق روحِ جہاد ہے جو شیر خدا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کی شکل میں مجسم ہو گئی۔ ۲- عشق حق کی شانِ جلال ہے جس کا مظہر سیدنا علیؓ ہیں۔ ص کلیات۔۴۱۳ دم عارف نسیم صبحدم ہے اس سے ریشۂ معنی میں نم ہے اگر کوئی شعیب آئے میسر شبانی سے کلیمی دو قدم ہے بنیادی خیال یہ ہے کہ حصولِ کمال کے لیے کسی مرد کامل کی صحبت اور رہنمائی شرط ہے۔ نیز دیکھیے: ’دمِ عارف‘،’نسیمِ صبحدم‘،’ ریشۂ معنی‘، ’کوئی شعیب‘، ’شبانی‘، ’کلیمی‘۔ ص کلیات۔۴۱۳ دمِ عارف:۱- اللہ کی معرفت رکھنے والے کا روحانی فیض؍ کلام۔ ۲- اللہ کی معرفت اور نفس کی پہچان رکھنے والے مردِ کامل کا وہ عمل جس کے ذریعے سے وہ اپنی باطنی حالت کو اُس شخص میں منتقل کرتا ہے جو کمال کی سچی طلب اور ضروری استعداد رکھتا ہو۔۳- صاحبِ معرفت کی توجہ ، تصرف اور تربیت۔۴- خدا رسیدہ بزرگ کی ذات سے پھیلنے والی تاثیر۔ ص کلیات۔۴۱۳ نسیمِ صبحدم:۱- صبح کی ٹھنڈی ہوا جسے کھا کر پھول کھل اُٹھتے ہیں اور سبزے میں جان پڑ جاتی ہے۔ ۲- بہار کا پیغام۔ ۳- غیبی فیض جس سے دل زندہ اور روح شاداب ہو جاتی ہے۔۴- زندگی ، سیرابی اور نشو و نما کا سرچشمہ۔ ۵- روح کی پرورش کا سامان۔ ۶- ہدایت جس سے مردہ دل جی اُٹھتے ہیں۔۷- قربِ حق کا جھونکا۔ ۸- فیضانِ الٰہی جو روح، نفس اور عقل میں معرفت کا حال پیدا کر دیتا ہے۔۹- حق کو محسوس کرو ادینے والا مرشد، معلم اور مربی۔ ص کلیات۔ ۴۱۳ کوئی شعیب : یعنی کوئی خدا رسیدہ مرشد جو فطرت کی تہ تک رسائی رکھتا ہو۔ ص کلیات۔ ۴۱۳ ریشۂ معنی: یہاں ’ریشہ‘ رگ حیات کے معنی میں ہے ، یعنی وہ رگ جس پر زندگی کا دارومدار ہوتا ہے، اور اسی سے چیزیں نشو ونما حاصل کرتی ہیں۔ ’معنی‘ سے مراد ہے: ۱- انسانی فطرت جو حق کی امین اور حقیقتِ بندگی کی حامل ہے۔۲- انسان کا باطن جو فطرت ، عقل ، محبت اور ارادے کی ہم آہنگی سے تشکیل پاتا ہے۔۳- حقیقت کا وراے ذہن حصول۔ ص کلیات۔ ۴۱۳ کلیمی: ۱- اللہ سے ہم کلامی کا مرتبہ جو حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو حاصل تھا۔۲- معرفت کا آخری درجہ ، بندگی کا منتہا۔ ص کلیات۔ ۴۱۳ شبانی: ۱- گلّہ بانی، چوپانی۔۲- حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کئی برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کے ریوڑ کی دیکھ بھال کرنا۔۳- اپنے مقصود تک پہنچنے کے لیے مجاہدہ دریافت کرنا۔۴- ظاہری اعتبار سے زندگی کا نہایت معمولی درجہ ، ایک عام آدمی کی سطح۔ خخخ استفسارات احمد جاوید استفسار: میں اقبال کی شہرہ آفاق نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کو ایک عظیم نظم سمجھتا ہوں اور اُس کا عاشق اور حافظ ہوں۔ البتہ تصوف کا علمی پس منظر رکھنے کی وجہ سے اس کے ابتدائی تین اشعار میرے لیے کچھ الجھن پیدا کر دیتے ہیں۔ جتنا غور کرتا ہوں اُتنا ہی یہ خیال مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے کہ ذات الٰہیہ اور زمانے کے تعلق کا یہ بیان مذہبی ذہن اور صوفیانہ ذوق کے لیے یا تو ناقابل فہم ہے یا ناقابل قبول۔ یوں لگتا ہے کہ ان اشعار میں ذاتِ حق کی حقیقی شان کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اور اُس میں زمانیت کا عنصر داخل کر دیا گیا ہے۔ میرا یہ احساس یقینا غلط ہو گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھ پر اپنی غلطی ابھی واضح نہیں ہے۔ یہ واضح ہو جائے تو میں اپنی اصلاح کر لوں۔ آپ کو اسی لیے زحمت دے رہا ہوں۔ [سجاد معین الدین] جواب: آپ اگر وضاحت سے بتا دیتے کہ ان اشعار میں فرداً فرداً آپ کو کیا مشکلات پیش آ رہی ہیں تو جواب دینے میں زیادہ آسانی ہو جاتی۔شاید آپ کے اشکالات یہ ہیں کہ: ۱۔ زمانے کو ’’نقش گرِ حادثات‘‘ کیوں کہا گیا ہے؟ ۲۔ اسے ’’اصلِ حیات و ممات‘‘ قرار دینے کا کیا مطلب ہے؟ ۳۔ زمانے کو یہ حیثیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے ذاتِ الٰہیہ اپنی ’’قبائے صفات‘‘ بناتی ہے؟ ۴۔ ’’سلسلۂ روز و شب‘‘ کو ’’ساز ازل کی فغاں‘‘ کہہ کر اُسے یہ مرتبہ کیسے دیا گیا کہ اس کے ذریعے سے ذاتِ حق ’’زیر و بم ممکنات ‘‘ دکھاتی ہے؟ اگر میں ٹھیک سمجھا ہوں تو ان مشکلات کو اس طرح حل کیا جا سکتا ہے: ۱۔ ’’حادثات‘‘ کو چاہے واقعات کے معانی میں لیں، خواہ عارضی وجود رکھنے والی چیزیں سمجھیں، زمانہ ان دونوں کا نقش گر ہے۔ یہ بات ہر لحاظ سے درست ہے ۔ کسی خیال کے صحیح یا غلط ہونے کے تمام معیارات پر یہ تصور یکسر درست ہے کہ حدوث کا مادہ اور اس کے تمام مظاہر وقت کی اصل پر قائم اور اس کے دائرے میں محصور ہیں۔ زمانہ نہ ہوتا تو ہستی کا یہ اصول ناپید رہ جاتا۔ یہ وقت ہی ہے جو اس اصول اور اس کی تمام صورتوں کی پیدائش اور اظہار کا سبب ہے۔ ہستی اور تاریخ کا پورا خاکا اسی کے ہاتھوں بنتا اور بگڑتا ہے۔ اگر کسی ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ یہ تو ایک خدائی وصف ہے،اسے زمانے سے کیونکر منسوب کیا جا سکتا ہے! تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ ایک مصنوعی شبہ ہے جو اپنا کوئی جواز نہیں رکھتا۔ کسی وصف کے حدودِ معنی اور معنویت کا انحصار ہمیشہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کا موصوف کون ہے۔ موصوف بدل جائے تو ایک ہی وصف کا مطلب اور مرتبہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ شعر کے الفاظ ہی سے واضح ہے کہ’’ نقش گر‘‘ کو اسی مفہوم میں لیا جائے گا جو وقت کے ساتھ مناسبت رکھتا ہو۔ یہ نہ کیا جائے تو لفظ و معنی کی کوئی بھی نسبت برقرار نہیں رہ سکتی اور انسانی اوصاف کا ہر ادراک و اظہار ممنوع ہو کر رہ جائے گا۔ ۲۔ زمانہ ’’اصلِ حیات و ممات‘‘ ہے ------اس بات کو بھی اوپر بیان ہونے والے استدلال کے ساتھ سمجھنا چاہیے ۔ انسان کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک زمانی وجود ہے، اس کی زندگی بھی وقت کی پابند ہے اور موت بھی۔ان معنوں میں وقت حیات و ممات کی اصل ہے۔ اسی بات کو اور بڑھا کر کہیںتو مخلوق میں موت و حیات کا پورا نظام وقت کی اصل پر چل رہا ہے، وقت نہ ہو تو مرگ و زیست کا پایا جانا تو دور کی بات ہے ان کے تصور کی تشکیل بھی محال ہو جائے۔ کسی شے کی اصل کا اس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شے اس اصل سے جُدا ہو کر نہ وجود پا سکتی ہے نہ تصور کی جا سکتی ہے۔ باقی یہ کہنا کہ ’’اصل حیات و ممات‘‘ امرِ ربی ہے، یہاں ایک خلط مبحث سے زیادہ کچھ نہیں، کیونکہ زمانے کو اس مفہوم میں اصل نہیں کہا جا رہا جس مفہوم میں امر ربی کا اصلِ کل ہونا ثابت ہے۔ وہ علت فاعلہ ہے جبکہ وقت کی حیثیت اس سبب کی سی ہے جو خود اپنے لیے بھی کسی بنیاد اور محرّک کا محتاج ہے۔ ۳۔ ’’قبائے صفات‘‘ کا مطلب ہے آثارِ صفات جو ذات کو ظاہر بھی کرتے ہیں اور مخفی بھی رکھتے ہیں۔ کائنات میں اللہ کا ظہور اس کی مختلف صفات کے حوالے سے ہے اور اس ظہور کے سلسلے کو متحرک رکھنے کے لیے اللہ نے زمانے کو پیدا فرمایا ہے۔ صرف یہی نہیں ، صفات کی کثرت کا اظہار اگر زمانہ ایجاد نہ ہوا ہوتا تو محال تھا۔ لیکن چونکہ یہ کثرت غیر متعلق اور منتشر اکائیوں کا انبار نہیں ہے بلکہ ہر صفت اپنے ظہور میں دیگر صفات سے جڑی ہوئی ہے لہٰذاآثارِ صفات کی اسی باہم پیوستگی کو اقبال نے ’’قبائے صفات‘‘ سے تعبیر کیا ہے ------ یعنی صفات الٰہیہ اور ان کے انفسی و آفاقی مظاہر کثیر ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر ذاتِ الٰہیہ کی طرف ایسا اشارہ کر رہے ہیں جن سے اس کا الظاہر ہونا لائق ادراک ہو جاتا ہے اور الباطن ہونا قابل اثبات ۔ غور سے دیکھیں ’’قبا‘‘ کے لفظ میں یہ دلالت موجود ہے کہ صفات ذات کو ظاہر بھی کرتی ہیں اور چھپائے ہوئے بھی ہوتی ہیں۔ بہرکیف یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے کائنات اپنے ظہور کے لیے تخلیق کی اور چونکہ کائنات زمانیت کی اصل پر خلق ہوئی ہے لہٰذا اس میں برپا ظہور کا سارا سلسلہ بھی ایک زمانی رنگ اور آہنگ رکھتا ہے، اور ظہور کی غایت یعنی معرفتِ حق جس شعور کا موضوع ہے خود وہ شعور زمانیت کے قوام سے بنایا گیا ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ ظہور بھی زمانے میں ہے اور شعور بھی زمانے میں ہے، تو اس صورتِ حال میں وقت کو قماشِ ظہور کا تانا بانا قرار دینا حسنِ اظہار اور کمال ادراک کی بات ہے، اس کی تحسین ہونی چاہیے اسے اشکال کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔ ۴۔ ’’سلسلۂ روز و شب‘‘ کو ’’سازِ ازل کی فغاں‘‘ کہہ کر اقبال نے گویا زمانے کی حقیقت کو مجسم کر دیا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی بڑے سے بڑے شاعر نے بھی وقت کے لیے ایسی مکمل تشبیہ اختراع کی ہو جو ایک طرف تو عارفانہ منتہاکو چھو رہی ہے اور دوسری جانب جمالیاتی شعور کی رسائی کی آخری حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ زمانہ پہلی حرکتِ کونی کا نام ہے جو وجود کو اس کی اصل سے دور لے جا رہی ہے۔ اقبال کے ذوق کے مطابق اس بات کو یوں کہنا چاہیے کہ مخلوقات کے وجود کو اپنے قیام اور تکمیل کے لیے جس جوہر فراق کی ضرورت ہے وہ وقت سے فراہم ہوتا ہے۔ البتہ یہ ٹھیک ہے کہ ’’ممکنات ‘‘ کے بارے میں اگر ذہن صاف نہ ہو تو اس شعر کو سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ خود اقبال نے متعدد مقامات پر یہ اصطلاح چونکہ امکانات اور استعدادات کے معنی میں استعمال کی ہے لہٰذا اس بات کا پورا امکان پایا جاتا ہے کہ کوئی صاحب یہاں بھی ممکنات کو ذاتِ الٰہیہ میں پوشیدہ امکانات کے معانی میں لے لیں اور پھر یہیں رُک جائیں۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ خاصی مشکل پیدا ہو سکتی ہے اور شعر کا ایسا مطلب سامنے آ سکتا ہے جو بقول آپ کے ، مذہبی شعور اور صوفیانہ ذوق کے لیے ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہو۔ کیونکہ ذاتِ الٰہیہ میں امکانات کی کار فرمائی کا خفیف سے خفیف تصور بھی ذات کی ہر تعریف سے متصادم ہے۔ اگر ’’ممکنات‘‘ کو معروف معنی کے مطابق مخلوقات سمجھا جائے اور فکرِ اقبال کی رعایت سے اس میں مخلوقات کے ذاتی امکانات اور ذاتِ حق کی لا متناہی خلاّقی کو بھی شامل کر لیا جائے تو شعر کا مفہوم یہ بنے گا کہ وقت تخلیق کے سلسلے کا آغاز ہے جس کے ذریعے سے اللہ کی شانِ خلاّقی کا مسلسل ظہور ہوتا رہتا ہے اور انسان و کائنات کے وجودی امکانات کا اظہار بھی جاری رہتا ہے۔ اس شعر میں کچھ اور معنوی کمالات و محاسن بھی ہیں لیکن ان کی نشان دہی غالباً آپ کو درکار نہیں ہے۔ ئئء استفسار : ضرب کلیم کی نظم بعنوان ’’وحی‘‘ میری سمجھ میں بالکل نہیں آ رہی۔ بہت کوششیں کر چکا ہوں لیکن یہ تین اشعار کی نظم گرفت میں نہیں آتی۔ عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات فکر بے نور ترا، جذبِ عمل بے بنیاد سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِ حیات خُوب و نا خُوب عمل کی ہو گرہ وا کیونکر گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرارِ حیات اس نظم میں سب سے زیادہ مشکل ’’حیات‘‘ کو سمجھنے میں پیش آ رہی ہے۔ مہربانی فرما کر ان اشعار کی ایسی تشریح کر دیں کہ ’’حیات‘‘ کے معانی بھی واضح ہو جائیں۔ [احمد سیف الرحمن ] جواب: اگر عنوان پر غور نہ کیا جائے تو یہ نظم واقعی مشکل ہے۔ ہم عنوان ہی سے شروع کریں گے ۔ اللہ نے عالم وجود کو دو اصول پر خلق فرمایا ہے ------ ایک فطرت اور دوسرا ہدایت ۔ فطرت ہو یا ہدایت، دونوں کا قیام جس خدائی امر پر ہے وہ وحی ہے۔ انسان حق کے ساتھ تعلق کی ان دونوں اقلیموں کا مرکز ہے، یعنی انسان کو خدا کے ساتھ جو نسبت حاصل ہے اس میں فطرت اور ہدایت دونوں ایک ہیں اور ان کا امتیاز حقیقی نہیں ہے بلکہ لفظی ۔ گویا انسان وحی کی کلیت کا مخاطب ہے اور اس کے نظامِ ہستی کو شعور اور عمل کی سطح پر جس الوہی رہنمائی کی ضرورت ہے اُس میں فطرت اور ہدایت ہم معنی ہیں، کیونکہ ان دونوں کی اساس ایک ہی امر یعنی ایک ہی وحی پر ہے ------یہاں یہ خیال رہے کہ فطرت سے مُراد صرف خارجی فطرت نہیں ہے بلکہ اس میں انفس و آفاق دونوں شامل ہیں۔ اب نظم کے دیگر اہم الفاظ کا بھی تجزیہ کر لیتے ہیں، اُمید ہے کہ اس طرح کسی رسمی شرح کی ضرورت نہ رہے گی: عقلِ بے مایہ : عقل کو بے مایہ اس لیے کہا ہے کہ یہ اپنا کچھ نہیں رکھتی۔ فطرت کے بارے میں اس کا سارا علم حواس کا محتاج ہے اور ہدایت کے باب میں بھی اس کی کل پونجی وہ تصورات ہیں جن کی تصدیق کا کوئی یقینی ذریعہ اسے میسر نہیں اور جن کی تغیر پذیری کی وجہ سے خود عقل ان پر اعتماد نہیں کرتی۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عقل ان حقائق سے محروم ہے جو فطرت اور ہدایت کی بنیاد ہیں۔ امامت: یعنی رہنمائی کا وہ منصب جس پر فائز ہو جانے والا فطرت کے حقائق اور ہدایت کے اصول پر پہنچا دیتا ہے اور ان دونوں کی اصلِ واحد کو دوسروں پر منکشف کروا دیتا ہے۔ امامت کا کام یہ ہے کہ انسان کو حقائق کے روبرو کرکے مستقل یقین کی جگہ پر کھڑا کر دے۔ ظن و تخمیں:گمان اور اندازہ جو عقل کا مدارِ کار ہے۔ غیب ہو یا شہود، عقل گمان اور تصور کی حد سے آگے نہیں جا سکتی۔ کارِ حیات: زندگی کا نظام جو ہدایت اور فطرت کی ہم آہنگی پر ہی چل سکتا ہے۔ فکر بے نور ترا: یقین حضور سے پیدا ہوتا ہے جو عقل کے نصیب میں نہیں ہے۔ اس لیے اس کے تدبّر اور تخیل کا ہر عمل گویا اندھیرے میں ہوتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عقل کا ہر کام اگر وحی سے بے نیاز ہو کر ہو تو وہ تاریکی کا سفر ہے۔ اس کامعلوم بھی غیر حقیقی ہے اور مجہول بھی۔ جذبِ عمل : جذبۂ عمل ------ ’جذب‘ یہاںجذبے کے علاوہ اس کشش کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جو بڑے مقاصد کے روبرو ہو کر انسان کے تجربے میں آتی ہے۔ مقصود کی یہی کشش عمل کی اصل محرک ہے، یہ نہ ہو تو آدمی کا ہر فعل و عمل چند عارضی ضروریات کی تکمیل تک محدود رہ جاتا ہے اور حیاتیاتی سطح سے اوپر ہو کر انسانی معیار تک نہیں پہنچتا۔جذبِ عمل کو بے بنیاد کہہ کر اقبال یہ بتا رہے ہیں کہ ’بے مایہ عقل‘ پر انحصار کرنے والی شخصیت محض ذہنی خلا کی اسیر نہیں رہتی بلکہ اس کا پورا نظام العمل ہدایت اور فطرت پر مبنی مقاصد اور اقدار سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ’بنیاد‘ وہی بنیادی قدر اور حقیقی نصب العین ہے جو وحیِ ہدایت اور وحیِ فطرت سے میسر آتا ہے۔ بلکہ صاف کہنا چاہیے کہ بنیاد خود وحی ہے۔ شبِ تار حیات: یعنی انسانی زندگی کی اندھیری رات جو اس لیے روشن نہیں ہو رہی کہ انسان کا فکر و عمل ہدایت اور فطرت یعنی وحی سے غیر متعلق ہو گیا ہے۔ خوب و ناخوب: اچھا اور بُرا جس کا تعین خیر و شر کی ان مستقل اقدار سے ہوتا ہے جو عقل کی تخلیق نہیں ہو سکتیں بلکہ اُن کی ’بنیاد‘ اصولِ ہدایت اور قانون فطرت کے نقطۂ یکجائی پر ہوتی ہے۔ یہاں خوب و نا خوب کا دائرہ اخلاقیات سے لے کر جمالیات تک پھیلا ہوا ہے ۔ یعنی خیر کا قیام حسن کے بغیر ممکن نہیں ہے اور حُسن کی تشکیل خیر کو منہا کر کے نہیں ہو سکتی۔ اور خیر ہو یا حسن، دونوں حق پر اور حق سے قائم ہیں۔ جو امر اس قیام کو ممکن بناتا ہے وہ یہی وحی ہے۔ حیات : وحی جو ہدایت اور فطرت دونوں کا ماخذ ہے۔ اسرارِ حیات : انسان اور کائنات کے حقائق، انفس و آفاق کے بھید، نظامِ ہستی کے اصول۔ آخری مصرعے میں ’حیات‘ کا لفظ دو جگہ آیا ہے۔ ایک ’حیات‘ ہدایت یا وحی ہدایت ہے، اور دوسری فطرت یا وحیِ فطرت ۔ دونوں ادغام کے درجے کو پہنچی ہوئی ہم آہنگی رکھتی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے حقائق کا اظہار ہیں اور ایک کا اجمال دوسرے میں تفصیل کے ساتھ ظاہر ہے۔ ژژژ استفسار: شعر و ادب کے طالب علم کی حیثیت سے میں جب اقبال کی شاعری پڑھتا ہوں تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ شاعر اقبال پر ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ ہم نے ان کی شاعرانہ عظمت کو الگ سے خاطر خواہ اہمیت نہیں دی بلکہ شاعری کو اُن کے نظریات کا خوبصورت بیان سمجھ لیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہم اقبال کی مقصدیت کو پوری اہمیت دینے کے باوجود اُن کی شاعری کو اس کا تابع نہ بنائیں۔ کچھ لوگوں نے ایسا کیا ہے لیکن اُن کی آواز ابھی اتنی بلند نہیں ہے کہ مقصدیت پسندی کے شور پر غالب آ جائے۔ اس پس منظر میں آپ سے درخواست ہے کہ میری اس معاملے میں رہ نمائی فرما دیں کہ اقبال کی بہترین اردو نظمیں کون سی ہیں اور اُن کی بنیادی خوبیاںکیا ہیں ؟ آپ کے جواب سے مجھے اپنے ایک منصوبے کی تکمیل میں مدد ملے گی۔ شکریہ [ارشاد المجیب] جواب : اقبال کی بہترین نظموں کا انتخاب آسان نہیں ہے۔ شاعری میں انتخاب کے کئی زاویے ہوتے ہیں۔ اور عین ممکن ہے کہ ایک پہلو سے جو نظم بہترین کہلانے کی مستحق ہو، دوسرے رُخ سے اُس کی حیثیت معمولی ہو۔ مثال کے طور پر ’’خضرِ راہ‘‘ ، ’’طلوعِ اسلام ‘‘ ، ’’شمع اور شاعر‘‘، ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ وغیرہ موضوعاتی یا مقصدی شاعری کے شہ پارے ہیں، لیکن خالص شاعری کی روایت میں انھیں اتنے اونچے درجے پر نہیں رکھا جائے گا۔ اس مشکل کا سرِ دست ایک ہی حل سمجھ میں آتا ہے کہ اقبال کی ایسی نظمیں منتخب کی جائیں جو ہر زاویہ ٔ انتخاب سے بہترین قرار دی جا سکیں۔ اس صورت میں منتخب نظموں کی تعداد تو کم ہو جائے گی لیکن یہ اطمینان ضرور رہے گا کہ ان نظموں میں اقبال کے شعری جوہر کی تقریباً تمام جہتیں مجتمع ہو کر اپنی بہترین حالت میں ظاہر ہوئی ہیں ۔ میرے خیال میں ’’مسجد قرطبہ‘‘، ’’ذوق و شوق‘‘، ’’لالۂ صحرا‘‘، ’’ساقی نامہ ‘‘ اور ’’جبریل و ابلیس‘‘ اقبال کی بہترین نظمیں ہیں۔ شاعری کے تمام اصناف میں کچھ باتیں مُشترک ہوتی ہیں اور کچھ انفرادی۔ ایک ایک نظم کا جائزہ لینا تو فی الوقت ممکن نہیں ہے ، ان کی مجموعی خوبیوں کی طرف اشارہ کر دینا بھی امید ہے کہ کافی ہو گا۔ ان نظموں کے مشترکہ اوصاف یہ ہیں: اظہار کی دونوں بنیادیں یعنی آواز اور تمثال ، آخری حد تک مکمل ہیںاور ایک دوسرے سے اتنی برابری کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں کہ معانی کی تشکیل میں ذہن کو کوئی ضروری عنصر باہر سے نہیں لانا پڑتا۔ ان سب لفظوں میں ایک صوتی او رتصویری نظام اس طرح کار فرما ہے کہ لفظ اور معنی کے درمیان نئی نئی نسبتیں پیدا ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ان نظموں میںشرافتِ معنی (Nobility of the content) اپنے منتہا پر نظر آتی ہے۔ ان کے موضوعات بھی ایسے ہیں کہ معمولی تخیل اُن کی طرف رُخ نہیں کر سکتا، اور مضامین کی بلندی بھی ایسی ہے کہ عام ذہن اور طرزِ احساس کی رسائی سے بالکل باہر ہے۔ اور پھر ان نظموں میں جن تصورات کو کمالِ اظہار دیا گیا ہے، وہ محض شاعرانہ نہیں ہیں بلکہ انسان کے مجموعی شعور کے مرکز سے پھوٹے ہیں۔ ہر تصور مابعد الطبیعی بناوٹ رکھنے کے ساتھ ساتھ تخیل، تفکر اور تعقل کی بہترین روایات سے بھی اعلیٰ درجے کی مناسبت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان نظموں میں تقدیری شکوہ رکھنے والے ان تصورات کو جس طرح محسوسات میں بدلا گیا ہے وہ ایک جمالیاتی کارنامہ ہے جو بڑا شاعر ہی انجام دے سکتا ہے۔ یہ کارنامہ بتاتا ہے کہ بڑی شاعری، بڑے تصورات کی تشکیل اور تکمیل میں اُن حدود کو توڑ دیتی ہے جو عقلی علوم کی رسائی کا دائرہ بنانے کے لیے عمل میں آتے ہیں۔ بڑا شاعر عقل کے بعض ایسے مطالبات پورے کر دیتا ہے جن کی تکمیل سے خود عقل عاجز ہے۔ مثال کے طور پر ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں وجود اور وقت کے مختلف مراتب کو جوڑ کر جو ہیئتِ وحدانی بنائی گئی ہے ، وہ عقلی شعور کی سیرابی کا بھی سامان رکھتی ہے۔ اسی طرح ’’لالۂ صحرا‘‘ میں کائناتی وجود کی جس جدلیاتی وحدت کو انسان میں برسرِ کار دکھایا گیا ہے، اُس کی طرف فلسفیانہ پیش قدمی تو بہت ہوئی ہے مگر اس نظم کی پہنچ کہیںآگے تک ہے۔ ’’جبریل و ابلیس‘‘ کی بھی یہی شان ہے۔ اس میں خیر و شر کو کائناتِ ہستی کے قطبین کی حیثیت سے جس طرح دو منتہائی کرداروں میں ڈھال کر متصادم کروایا گیا ہے، اُس کے نتیجے میں اصولِ وجود کا ساکن مابعد الطبیعی سٹرکچر ہل کر رہ گیا ہے اور یہ جاننے کا راستا کھل گیا کہ شر نہ ہوتا تو حقیقتِ وجود فعال نہ ہوتی ۔ فلسفیانہ معیار سے بھی یہ ایک گہری معرفت ہے جس کی گہرائی عام عقل کی استعدادِ غوّاصی سے زیادہ ہے۔ آپ ذرا سا غور کر لیں تو یہ بات خاصی حد تک واضح ہو جائے گی کہ یہ نظمیں بڑی شاعری کے قریب قریب تمام ہی معیارات پر پوری اترتی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ معیارات اپنی طرف سے قائم بھی کرتی ہیں۔ ژژژ اقبالیاتی ادب علمی مجلات میں شائع شدہ مقالات کی فہرست ادارہ - ڈاکٹر انعام الحق کوثر، ’’بلوچستانی ماحول اور کلامِ اقبال‘‘ [قسط ۱]، دعوۃ ، اسلام آباد، جولائی ۲۰۰۹ئ، ص ۴۲-۵۴۔[قسط ۲]، اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۵۱-۷۳۔ - پروفیسر محمد جان عالم، ’’علامہ اقبال کا ایک منفرد انداز‘‘، معارف فیچر سروس، کراچی، ۱۶؍اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۲۰۱۔ - غلام حیدر وائیں، ’’اقبال کا خواب اور آج کا پاکستان‘‘، قومی ڈائجسٹ، لاہور، اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۷۶-۷۸۔ - ڈاکٹر تحسین فراقی، ’’جمہوریت اقبال کی نگاہ میں‘‘،[۱]،ضیائے آفاق،لاہور،ستمبر ۲۰۰۹ئ، ۳۰-۳۲۔ [۲]، اکتوبر ۲۰۰۹ئ، ص ۳۰-۳۳۔ - محمد سرور چہل، ’’ہمالہ‘‘، اردو ڈائجسٹ، لاہور، اگست۲۰۰۹ئ، ص ۷۶-۷۹۔ - ڈاکٹر وقار عظیم،’’اقبال اور سوز غم‘‘، ضیائے آفاق، لاہور، اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۳۰-۳۳۔ بحوالہ اقبالیات کا مطالعہ، مرتبہ، ڈاکٹر سید معین الرحمن، اقبال اکادمی پاکستان، ص ۷۷-۷۹۔ - ڈاکٹر سید محمد سلیم، ’’علامہ اقبال اور اکبر الہ آبادی‘‘، قومی ڈائجسٹ، لاہور، ستمبر ۲۰۰۹ء ، ص ۲۲۲-۲۳۰۔ - ڈاکٹر سید تقی عابدی، ’’اقبال اور عشق علیؓ ‘‘، حکیم الامت، سری نگر، جون- جولائی ۲۰۰۹ئ، ص ۴-۷۔ - پروفیسر ضیاء احمد بدایونی، ’’اقبال اور محبتِ رسول و آلِ رسولؐ ‘‘، حکیم الامت، سری نگر، جون - جولائی ۲۰۰۹ئ، ص ۸-۱۲۔ - سید احسن عمرانی ، ’’فیض اقبال ہے، اسی در کا‘‘، حکیم الامت، سری نگر، جون - جولائی ۲۰۰۹ئ، ص ۱۳-۱۵۔ - مرتضیٰ صاحب فصول، ’’فلسطین اقبال کی نظر میں‘‘، پیغام آشنا، اسلام آباد، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۱۵-۱۲۱۔ - پروفیسر داور خان دائود، ’’کلام اقبال کے پشتو تراجم‘‘، پیغام آشنا، اسلام آباد، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۹ء ، ص ۱۲۲-۱۲۷۔ - ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’علامہ اقبال اور جمہوریت‘‘، حکیم الامت، سری نگر، اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۵-۷۔ - دائود اشرف، ’’اقبال- ایک وطن پرست‘‘، حکیم الامت، سری نگر، اگست ۲۰۰۹ء ، ص ۸-۱۰۔ - ڈاکٹر تسکینہ فاضل، ’’اقبال ایک آفاقی شاعر کی حیثیت‘‘، حکیم الامت، سری نگر، اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۱۱-۱۳۔ - ڈاکٹر عطیہ سید، ’’شاعر مشرق - علامہ اقبال‘‘،[روداد، استنبول یونی ورسٹی کانفرنس اپریل ۲۰۰۹ئ]، ارتباط، استنبول، ترکی، جولائی -ستمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۵۷-۶۲۔ - ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’اے روحِ اقبال‘‘، حکیم الامت ، سری نگر، ستمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۵-۹۔ - ڈاکٹر سید تقی عابدی، ’’شاعر مشرق کا وقت آخر‘‘، حکیم الامت، سری نگر ، ستمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۰-۱۱۔ - پروفیسر نثار احمد فاروقی، ’’علامہ اقبال عالمِ عرب میں‘‘[۱]، حکیم الامت، سری نگر، ستمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۲-۱۵۔ - پروفیسر نثار احمد فاروقی، ’’علامہ اقبال عالمِ عرب میں‘‘،[۲] حکیم الامت، سری نگر، جون-جولائی ۲۰۰۹ئ، ص ۸۹-۹۴۔ - پروفیسر اکبر حیدری، ’’اقبال کا انسان کامل‘‘[۱]، حکیم الامت، سری نگر، اگست۲۰۰۹ئ، ص ۱۴-۱۹۔ - پروفیسر اکبر حیدری، ’’اقبال کا انسان کامل‘‘[۲]، حکیم الامت، سری نگر، ستمبر۲۰۰۹ئ، ص ۱۶-۱۹۔ - محمد منیر احمد، ’’افکار اقبال‘‘، اردو ڈائجسٹ، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۱۸-۱۲۴۔ ماخوذ از اقبالیات، اقبال اکادمی پاکستان، جولائی -ستمبر ۲۰۰۸ئ۔ - اختر راہی، ’’نوادرِ اقبال‘‘، افکار معلم، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۶۷-۷۳۔ - ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ’’اقبال کا تصور قومیت‘‘، افکار معلم، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۵۴-۶۶۔ - ڈاکٹر آغا یمین، ’’اقبال اور پاکستانی نوجوان‘‘، افکار معلم، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۴۶-۵۳۔ - ڈاکٹر سید محمد اکرم اکرام، ’’علامہ اقبال اور سلطان ٹیپو شہید‘‘، افکار معلم، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۳۶-۴۵۔ - سید ابوالاعلیٰ مودودی، ’’حیات اقبال کا سبق‘‘، افکار معلم، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۳-۱۷۔ - نعیم قریشی، ’’فکر اقبال اور ہمارا نظامِ تعلیم‘‘، تہذیب الاخلاق، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۸-۲۳۔ - ڈاکٹر مقبول الٰہی،’’علامہ اقبال بحیثیت مردِ استقلال‘‘،(مترجم:منور علی خان)، تہذیب الاخلاق، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۲۴-۳۰۔ - ڈاکٹر اختر شمار،’’حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کی یاد میں‘‘، تہذیب الاخلاق، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۳۵-۳۷۔ - قاری محمد عزیر، ’’اقبال ایک پیغمبر کی حیثیت سے‘‘،محدث، نومبر ۲۰۰۹ء ، ص ۱۴۷-۱۴۸۔ - سید علی گیلانی، ’’اے لا الہ کے وارث‘‘، ترجمان القرآن، نومبر ۲۰۰۹ء ، ۵۹-۶۸۔ ماخوذ از اقبال: روح دین کا شناسا، منشورات ، لاہور ، ۲۰۰۹ئ۔ - ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن عبد،’’پیام مشرق:ہیئت اور تکنیک کے نئے تجربے‘‘، تخلیقی ادب، لاہور، شمارہ ۶، ص ۲۹۹-۳۰۵۔ - ڈاکٹر افضال احمد انور، ’’ڈاکٹر ابو سعید نور الدین کی اقبال شناسی‘‘، اسلامی تصوف اور اقبال کے تناظر میں، تخلیقی ادب، لاہور، شمارہ ۶، ص ۳۰۲-۳۱۴۔ - ڈاکٹر شفیق احمد؍ طالب حسین سیال، ’’اقبال اور صوفیاء کی انسان دوستی‘‘، تخلیقی ادب، لاہور، شمارہ ۶، ص ۳۲۲-۳۲۸۔ - ڈاکٹر محمد آصف، ’’عصر حاضر میں فکرِ اقبال کی ضرورت‘‘،تخلیقی ادب، لاہور، شمارہ ۶، ص ۳۲۹-۳۳۴۔ - ثاقب اکبر، ’’احترامِ قرآن اور اقبال‘‘، پیام ، اسلام آباد، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۵-۶۔ - پروفیسر غلام حیدر چشتی، ’’علامہ محمد اقبال اور تصوف ---- ایک ہمہ جہتی جائزہ‘‘[۱]، ضیائے آفاق، لاہور، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۳-۳۲۔ [ ۲]: دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۳۰-۳۱۔ - عظمیٰ عزیز خان، ’’مطبوعہ مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘، کا مسودۂ اقبال سے متنی تقابل، تحقیق نامہ-۶، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ص ۱۰۸-۱۲۰۔ - طاہرہ صدیقہ، ’’ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا فکر اقبال کے حوالے سے اقبال شناسی میں مقام و مرتبہ‘‘، ادب لطیف، لاہور، اکتوبر ۲۰۰۹ئ، ص ۳۹-۴۸۔ - پروفیسر ڈاکٹر محمد معزالدین ، ’’اقبال کے اسلامی نظام فکر میں اقتصادی معنویت‘‘، الاقربائ، اسلام آباد، جولائی -ستمبر۲۰۰۹ئ، ص ۹- ۱۸۔ - محمد موسیٰ بھٹو، ’’اقبال کا فلسفۂ عشق- اور اس کے اسرار و رموز‘‘، بیداری ، حیدر آباد، اکتوبر ۲۰۰۹ئ، ص ۶۰-۷۹۔ - پروفیسر ڈاکٹر شیخ اقبال، ’’علامہ اقبال کا تصور زماں‘‘، اخبار اردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۲-۱۱۔ - ڈاکٹر شفیق عجمی، ’’اقبال ، خودی اور آرٹ‘‘،تحقیق نامہ -۶، جی سی یونی ورسٹی، لاہور، شمارہ ۶، ۲۰۰۹ئ، ص ۵۴-۷۷۔ - محمد موسیٰ بھٹو، ’’اقبال کا فلسفہ عشق اور اس کے اسرار و رموز‘‘، بیداری، حیدر آباد، دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۷۲-۷۹۔ - ڈاکٹر محمد سلیم، ’’قائد اعظم اور علامہ اقبال‘‘، قومی ڈائجسٹ، لاہور، دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۷۸-۹۴۔ - ڈاکٹر محمد فخر الدین نوری، ’’ایران میں اقبال شناسی کا ابتدائی دور اور ن۔ م ۔راشد‘‘، اورینٹل کالج میگزین، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۲۰۰۹ء ، ص ۱۲۵-۱۳۶۔ - ڈاکٹر معین الدین نظامی،’’اقبال: تہذیبوں کے مابین مکالمے کا علم بردار‘‘، اورینٹل کالج میگزین، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص ۱۳۷-۱۵۴۔ - ڈاکٹر بصیرہ عنبرین،’’کلام اقبال میں شعری آہنگ کے تشکیلی عناصر‘‘، اورینٹل کالج میگزین، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص ۱۵۵-۱۸۰۔ - ڈاکٹر خالد علوی، ’’علامہ اقبال اور مسلم تشخص‘‘، دعوۃ ، اسلام آباد، دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۸۴-۱۱۲۔ - حیران خٹک، ’’علامہ اقبال کی قرآن فہمی‘‘، دعوۃ ، اسلام آباد، اکتوبر ، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۱۳-۱۲۳۔ - ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’اقبال کی تاریخی تلمیحات‘‘، قومی زبان، کراچی ، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۵-۱۴۔ - وحید الرحمن، ’’اقبال اور جامی‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۵-۱۹۔ - طاہرہ صدیقہ، ’’اقبال شناسی میں خواتین کا کردار‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۲۰-۳۰۔ - ثاقب اکبر، ’’علامہ اقبال کا تحرک انگیز نظریہ اور نوجوان نسل‘‘، پیام، اسلام آباد، دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۲-۱۴۔ - اللہ دتا کمال، ’’آثارِ کربلا اور فکر اقبال‘‘، پیغام آشنا، اسلام آباد، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۸۹-۱۰۱۔ - ڈاکٹر زرین حبیب مرزا، ’’اقبال اور رومی‘‘، پیغام آشنا، اسلام آباد، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۰۲-۱۰۷۔ - ڈاکٹر اسلم انصاری، ’’اقبال اور اخلاقیات کی نئی فکری اساس‘‘، الاقربائ، اسلام آباد، اکتوبر-دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۵-۲۵۔ - ڈاکٹر سید وسیم الدین، ’’تحریک آزادی میں اقبال اور قائداعظم کے خطوط کی افادیت‘‘، قومی زبان، کراچی، دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۷-۲۴۔ - ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی، ’’بچوں کے شاعر ----اسماعیل میرٹھی اور علامہ اقبال‘‘، قومی زبان، کراچی، دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۲۵-۳۵۔ - سید ظفر زیدی، ’’علامہ اقبال اور نوجوان ‘‘، قومی زبان، کراچی، دسمبر ۲۰۰۹ئ، ص ۳۶-۳۸۔ - یوسف سلیم چشتی، ’’حضور اکرمؐ سے علامہ اقبال کی محبت‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۵-۸۔ - ڈاکٹر ایم اے صوفی، ’’علامہ اقبال اور آزادیِ وطن‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۹-۱۰۔ - ایم رمضان گوہر، ’’پاکستان کے نصب العین تک رسائی میں فکر اقبال سے استفادہ‘‘، نظریۂ پاکستان،لاہور، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۱۱-۱۴۔ - اداریہ، ’’فکر اقبال کی روشنی میں سفر نو کا آغاز‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۰۹ئ، ص ۳۔ ژژژ اشاریہ مجلہ اقبالیات سری نگر ۱۹۸۱ء ------ ۲۰۰۷ء سمیع الرحمن اقبال انسٹی ٹیوٹ جب مارچ۱۹۷۹ء میں قائم ہوا تو یہ طے کیا گیا تھا کہ سیمیناروں، توسیعی لیکچروں، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے تربیت اور اقبال کی زندگی اور فکر و فن پر تحقیق کے علاوہ اِس ادارے کی طرف سے ایک رسالہ بھی اقبالیات کے نام سے جاری کیاجائے۔ اقبالیات کا پہلا شمارہ ستمبر۱۹۸۱ء میں منظرِعام پر آیا تھا اور اب تک اس کے مختلف سالوں میں ۱۸شمارے منظرِعام پر آچکے ہیں۔ اس دوران معروف اقبال شناس آل احمد سرور، ڈاکٹر محمد امین اندرابی، ڈاکٹر بشیر احمد نحوی، ڈاکٹر تسکینہ فاضل مختلف شماروں کے مدیر کی ذمہ داری ادا کرتے رہے ہیں۔ جبکہ اس کی مجلسِ ادارت میں پروفیسر عبدالحق، محمد اعجاز اشرف، شہناز اقبال قریشی وغیرہ شامل رہے ہیں۔ اقبالیات پر مخصوص یہ رسالہ اپنے محتویات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ زیر نظر سطور میں اس رسالے کا مصنف وار اشاریہ پیش کیا جارہا ہے۔ مقالات آصف نعیم اقبال کی فارسی شاعری کی معنویت ۱۹۸۲/۱۲۵۱۱۸ آصف نعیم اقبال کے علایم فارسی میں ۱۹۸۶/۱۹۰۱۸۲ آصف نعیم Iqbal as an Artist ۱۹۹۱/۱۲۱-۱۲۸ آفاق احمد اقبال… ایک آفاقی شاعر ۱۹۹۶/۹۶۸۷ آل احمد سرور اقبال انسٹی ٹیوٹ اور شمارے کا آغاز[پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۸۱/۸۵ آل احمد سرور اقبال اور فانیؔ [دو دنیائوں کا موازنہ اور فانیؔ کی اہمیت] ۱۹۸۲/۱۵۵۱۲۹ آل احمد سرور اقبال کا فن… ایک عمومی جائزہ ۱۹۸۶/۲۶۹ آل احمد سرور اقبال کی سیاسی فکر… ایک طائرانہ نظر ۱۹۸۹/۹-۲۰ آل احمد سرور اقبال کی معنویت ۱۹۸۲/۲۲۱۱ آل احمد سرور ضرب کلیم کا اُسلوب ۱۹۸۱/۳۹۲۸ ادارہ اقبال کے دو غیر مطبوعہ خطوط بنام بی بی آمنہ صاحبہ ۱۹۸۶/۳-۷ اعجاز اشرف شاہ فکرِ اقبال میں تصورِ شعر ۲۰۰۵/۱۳۳-۱۴۷ افضل جلالی،سیّد اقبال اور علی شریعتی کی فکر ۱۹۹۴/۱۰۸-۱۱۵ اکبر حیدر اقبال کا نظریۂ زبان ۱۹۸۱/۶۷۴۰ ایس اقبال قریشی ازاں مے فشاں قطرئہ برکشیری [اقبال اور کشمیر] ۲۰۰۵/۱۴۸-۱۵۹ ایس اقبال قریشی اقبال کا تصورِ زمان و مکان ۲۰۰۶/۱۱۰-۱۱۹ ایم-اے شیدا اقبال اور معاصر نظامِ تعلیم ۲۰۰۲/۶۸-۸۱ اُسلوب احمد انصاری اقبال کا اُسلوب بیان ۱۹۸۱/۲۷۹ بشیر احمد غمگین اقبال کی شاعری کے کشمیری تراجم … ایک مطالعہ ۲۰۰۳/۹۵-۱۰۰ بشیر احمد نحوی نئی صدی میں شاعرِ مشرق کی معنویت ۲۰۰۶/۲۹-۳۵ بشیر احمد نحوی اسرار و رموز میں قرآنی آیات ۱۹۹۹/۱۳۷ بشیر احمد نحوی رہا صوفی‘ گئی روشن ضمیری [اقبال اور تصوف] ۱۹۹۸/۱۱۵۱۰۹ بشیر احمد نحوی علامہ اقبال اپنے بیانات اور تقاریر کی روشنی میں ۲۰۰۳/۶۴-۷۱ بشیر احمد نحوی گلے ز خیابان جنت کشمیر [فکرِ اقبال کے حوالے سے] ۲۰۰۰/۲۵-۳۱ بلراج پوری Basic Politicale Thought of Iqbal ۱۹۹۱/۱۳۹-۱۴۸ پی این پشپ Iqbal and Democracy ۱۹۹۱/۱۲۹-۱۳۸ پی این پشپ ساقی نامہ… ایک اُسلوبیاتی جائزہ ۱۹۸۱/۶۸-۷۲ تسکینہ فاضل اقبال کی اُردو شاعری کا استعاراتی مطالعہ ۱۹۹۸/۶۲۵۰ تسکینہ فاضل بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل [اقبال کی شاعری] ۱۹۹۹/۴۲۱۷ تسکینہ فاضل زیر پای اُمہات آمد جناں [فکرِاقبال اور عورت] ۱۹۹۶/۸۶۷۲ تسکینہ فاضل زیرنظر شمارہ اور فکرِ اقبال [پیش لفظ/اداریہ] ۲۰۰۳/v-i تسکینہ فاضل قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان ۲۰۰۷/۱۱۵-۱۲۸ ٹی سی راستوگی Iqbal and the Religions other than Islam ۱۹۹۱/۹۹-۱۰۸ جگن ناتھ آزاد اقبال اور جوش ۱۹۸۹/۱۱۳-۱۳۴ جگن ناتھ آزاد کیا اقبال صرف مسلمانوں کے شاعر ہیں؟ ۱۹۸۲/۵۸۴۲ جگن ناتھ آزاد مفتاح اقبال از عبداللہ خاور[تبصرہ] ۱۹۹۷/۱۴۷۱۴۵ جگن ناتھ آزاد مناظرِ فطرت اور اقبال ۱۹۸۱/۱۰۰۹۳ جلال الدین،مفتی اقبال کے مذہبی افکار کے متعلق میرے افکار ۱۹۸۲/۱۰۲۸۹ جلال الدین،مفتی شاعری، قرآن اور اقبال ۱۹۸۱/۱۴۰۱۲۱ حامدی کا شمیری اقبال کی ایک غزل… تجزیاتی مطالعہ ۱۹۸۱/۱۰۷۱۰۱ حامدی کاشمیری ابلیس ۔ اقبال اور گوئٹے کی نظر میں ۱۹۸۹/۸۹-۹۵ حامدی کاشمیری اقبال اکیسویں صدی میں ۱۹۹۹/۶۱ حامدی کاشمیری اقبال اور مقامِ آدمیت ۲۰۰۲/۹-۱۷ حامدی کاشمیری اقبال کا شعری لہجہ ۱۹۸۹/۳۳-۳۷ حامدی کاشمیری اقبال کی شاعری اور پیکر تراشی ۱۹۸۲/۴۲۳۳ حامدی کاشمیری اقبال کی شاعری کا استعاراتی نظام ۱۹۹۸/۱۳۷ حامدی کاشمیری اقبال کی شعری زبان ۱۹۸۶/۱۵۰۱۴۲ حامدی کاشمیری فکرِ اقبال کی تخلیقی بازیافت ۲۰۰۰/۱۴۷ حسن زینہ گیری اکیسویں صدی میں فکرِ اقبال کی معنویت ۲۰۰۱/۱۱۵-۱۴۳ حکیم منظور اقبال… عالم گیر انسانی قدروں کا امین ۲۰۰۲/۸۲-۹۲ حکیم منظور بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا [اقبال کی شاعری] ۱۹۹۸/۱۰۸۹۷ حمید نسیم رفیع آبادی خطباتِ اقبال پر اُردو میں لکھی گئی بعض تصانیف کا تنقیدی جائزہ ۱۹۹۷/۷۶۴۰ حیات عامر حسینی استعارہ اور علمیات ۱۹۹۸/۷۲۶۳ حیات عامر حسینی اقبال… تشکیلِ نو کے تقاضے ۱۹۹۷/۸۳۷۷ حیات عامر حسینی فلسفیانے کا عمل … ایک بحث ۱۹۹۹/۵۱۴۳ داراب کاشمیری شورشِ قیامت [ترکیب بند در مرثیہ علامہ اقبال/منظوم] ۲۰۰۷/۱۲۹-۱۴۲ رام دھاری سنگھ سر محمد اقبال تمدن کے چار ابواب [مسلم نشاۃ ثانیہ اور اقبال/ مترجم: نظام الدین] ۲۰۰۷/۶۳-۱۱۳ رحمن راہی تسخیرِ فطرت … ایک مختصر جائزہ ۱۹۸۲/۶۷۵۹ رحمن راہی اقبال کے ہیئتی تجربے ۱۹۸۶/۱۸۱۱۷۳ رسول پونپر حیات… دستور العمل اور علامہ اقبال ۲۰۰۵/۸۴-۹۷ رشید نازکی فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں اور روحِ ارضی … ۱۹۹۶/۵۹۳۵ رفیع الدین ہاشمی اقبالیاتی ادب (اُردو) ایک مختصر مطالعہ ۲۰۰۵/۱-۱۰ ریاض الرحمن شیروانی اقبال اور آزاد [سیاسی افکار و اعمال کے آئینے میں] ۱۹۸۹/۲۱-۳۲ ریاض توحیدی پیامِ اقبال… نالہ مرغ سحر ۲۰۰۷/۱۹۵-۲۰۴ زبیر رضوی آبلہ پا فانی ۱۹۸۲/۱۹۸۱۹۳ سلیم قدوائی Iqbal and Socialism ۱۹۹۱/۱۴۹-۱۵۴ سی ایل راعنا Iqbal and Kashmir Shaivism ۱۹۹۱/۱۰۹-۱۲۰ سیفی رسول پوری اقبال کا استعاراتی نظام ۱۹۹۷/۹۰۸۴ شبیر احمد کلام اقبال کے چند اعلام و مشاہیر… ایک جائزہ ۲۰۰۰/۸۲-۱۴۰ شفیع شوق اقبال کی شاعری میں فاصلے کا استعارہ ۱۹۹۸/۴۹۴۴ شکیل الرحمن اقبال …استعارہ ، امیج، علامت ۱۹۸۶/۱۴۱۹۳ شکیل الرحمن اقبال اور مذہبی حسیت ۱۹۸۲/۳۲۲۳ شکیل شفائی اکیسویں صدی میں فکرِ اقبال کی معنویت ۲۰۰۱/۵۷-۷۲ شمس الرحمن فاروقی اقبال کا عروضی نظام ۱۹۸۶/۴۶۲۷ شمس الرحمن فاروقی Iqbal and the Romantic Dilemma ۱۹۹۱/۸۵-۹۸ شمیم حنفی اقبال کے علایم ۱۹۸۶/۶۹۴۷ شوریدہ کاشمیری علامہ اقبال کی بہترین اُردو غزل [مری نوائے شوق سے…] ۱۹۸۸/۵۱-۶۰ شہناز پروین ،سیّد مکاتیبِ اقبال کا ایک مطالعہ ۲۰۰۳/۱۱۲-۱۲۳ صورت جہاں اقبال کی فطرت نگاری ۲۰۰۰/۴۸-۶۵ صورت جہاں مناظرِ فطرت اور اقبال ۲۰۰۱/۱۴۴-۱۵۸ ظہور الدین اقبال اور تعمیرِ انسانیت ۲۰۰۲/۳۳-۵۶ عارف بیگ، مرزا دائود ثانی حضرت اقبال ۲۰۰۵/۲۵-۲۷ عبدالباری بیسویں صدی میں اسلامی نشاۃ ثانیہ اور اقبال ۲۰۰۵/۵۱-۷۳ عبدالحق کرتا ہے ترا جوشِ جنوں تیری قبا چاک [اقبال شناسی اور ہمارا کردار] ۲۰۰۶/۳-۱۳ عبدالحق نعیمی فکرِ اقبال کا مختصر جائزہ ۱۹۹۷/۱۴۴۱۳۷ عبدالقادر،سر اُردو ادب پر اقبال کے اثرات [مترجم: تسکینہ فاضل] ۲۰۰۵/۹۸-۱۰۶ عبداللہ خاور اقبال پر خصوصی شمارے … ایک اشاریہ ۱۹۹۹/۹۸۶۶ عبداللہ خاور شمارہ وار اشاریہ المعارف لاہور [جنوری۶۸ء تا مئی ۷۸/ جنوری۸۳ء تا دسمبر۸۳ئ] ۱۹۹۶/۱۳۵۹۷ عبیدالرحمن ہاشمی تعمیرِ آدمیت کا مطالعہ(شعر اقبال کی اقداری جہات کے حوالے سے) ۲۰۰۲/۱۸-۳۲ علی احمد فاطمی اقبال کی آفاقیت پر چند باتیں ۲۰۰۶/۱۴-۲۸ علی محمد میر اقبال اور تصوف ۲۰۰۱/۴-۱۷ علی محمد میر اقبال اور مروّت ۲۰۰۲/۵۷-۶۸ غلام رسول ملک جاوید نامہ کی تکنیک ۱۹۸۶/۱۷۲۱۵۱ غلام رسول ملک اقبال کی مذہبی فکر کی معنویت ۱۹۸۲/۱۱۷۱۰۳ غلام رسول ملک ذوق و شوق [اقبال کی شاعری میں] ۱۹۹۶/۳۴۱۹ غلام رسول آزاد اکیسویں صدی میں فکرِ اقبال کی معنویت ۲۰۰۱/۳۲-۵۶ غلام محمد خان اقبال کا فلسفہ تعلیم و تربیت ۲۰۰۲/۱۶۲-۱۷۶ غلام محمد خان اکیسویں صدی میں فکرِ اقبال کی معنویت ۲۰۰۱/۷۳-۱۱۴ غلام محمد اقبال کی ایک تکنیک… مسجد قرطبہ کی روشنی میں ۱۹۸۱/۱۱۲۱۰۸ قدوس جاوید اقبال ا ور ہیومنزم ۲۰۰۰/۲۴۱۵ قدوس جاوید اقبال اور انسان کے امکانات کی بلندی ۲۰۰۲/۹۳-۹۹ قدوس جاوید اقبال کا استعاراتی نظام ۱۹۹۸/۴۳۳۳ قدوس جاوید اقبال کی تخلیقیت ۲۰۰۷/۱۹-۴۶ قدوس جاوید اقبال… متن اور بین المتونیت ۲۰۰۳/۵۰-۶۳ قدوس جاوید ’’ساقی نامہ‘‘ ۱۹۸۸/۳۲-۳۷ کبیر احمد جائسی رمزیت… اقبال کا فن ۱۹۸۶/۹۲۷۹ کبیر احمد جائسی عصرِ حاضر کے ایران میں اقبال کی معنویت ۱۹۸۲/۸۸۶۸ کمال الدین شیدا علامہ اقبال کا نعتیہ کلام ۱۹۸۱/۱۹۳۱۸۶ گوپی چند نارنگ اُسلوبیاتِ اقبال… نظریۂ اسمیت و فعلیت کی روشنی میں ۱۹۸۱/۲۳۷۲۱۶ مجید اندرابی ،سیّد گونجتا ہے ترے دم سے نغمۂ ساز خلیلؑ [اقبالیات] ۲۰۰۳/۱۰۱-۱۱۱ مجید اندرابی،سیّد ’’زشرر ستارہ جوئیم، ز ستارہ آفتابے‘‘ [اقبال کی زندگی کے مختلف ادوار] ۲۰۰۶/۸۱-۹۴ مجید اندرابی،سیّد اقبال… داعی امنِ عالم ۲۰۰۲/۱۴۲-۱۶۱ مجید اندرابی،سیّد چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں [باقیاتِ اقبال کے حوالے سے] ۲۰۰۵/۱۱۱-۱۲۲ محمد اعجاز اشرف اقبال کی شخصیت اور مختلف مکاتبِ فکر کی آمیزش ۲۰۰۶/۹۵-۱۰۹ محمد افضل اللہ اقبال اور تصورِ ولایت… ایک مطالعہ ۲۰۰۵/۱۰۷-۱۱۰ محمد امین اندرابی اقبال کی مذہبی فکر کی معنویت [فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کی روشنی میں] ۱۹۸۹/۶۷-۷۸ محمد بدیع الزماں اقبال فہمی کی مشکلات ۱۹۹۷/۳۰۹ محمد بدیع الزماں اقبال کی چند جغرافیائی اصطلاحات ۲۰۰۷/۴۷-۶۲ محمد بدیع الزماں اقبال کے کلام میں ’’حیدرؓ‘‘ اور اس سے وضع کی گئی اصطلاحیں [تاریخ اسلام کے پس منظر میں] ۲۰۰۵/۴۱-۵۰ محمد بدیع الزماں اقبال کے کلام میں ’’دل‘‘ سے وضع کی گئی چند اصطلاحیں ۲۰۰۶/۳۶-۴۹ محمد سعید قادری استعارہ اور اقبال ۱۹۹۸/۹۶۸۳ محمد شمیم بٹ اقبال اور مناظرِ فطرت ۲۰۰۷/۱۸۱-۱۹۴ محمد عبداللہ شیدا اقبال اور معاصر نظامِ تعلیم ۲۰۰۳/۴۰-۴۹ محمد معروف شاہ اقبال کا مثالی تصورِ کردار: بالِ جبریل کے حوالے سے ۲۰۰۷/۱۶۹-۱۸۰ مرغوب بانہالی اقبال اور رواداری کا نظریہ ۲۰۰۵/۲۷-۴۰ مسعود حسین خان علامہ اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط ۱۹۸۲/۲۷۴۲۷۳ مشتاق احمد گنائی بیسویں صدی میں علامہ اقبال کا اہم ترین اجتہادی کارنامہ [حقوقِ نسواں] ۲۰۰۷/۱۵۳-۱۶۸ مشتاق احمد گنائی تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کا تعارف اور دورِ حاضر میں اس کی اہمیت ۲۰۰۰/۶۶-۸۱ مشتاق احمد گنائی حیاتِ اقبال کے چند اہم متنازعہ پہلوئوں پر ایک تحقیقی نظر ۲۰۰۶/۶۶-۸۰ مشتاق احمد گنائی عصرِ حاضر خاصۂ اقبال گشت ۲۰۰۵/۱۲۳-۱۳۲ مشتاق احمد گنائی عصرِ جدید میں فکرِ اقبال کی معنویت ۲۰۰۲/۱۲۸-۱۴۱ مشتاق احمد گنائی عہدِجدید میں اقبال کے نظریۂ اجتہاد کی معنویت ۲۰۰۳/۷۲-۸۷ مظفر حسین ندوی فنِ استعارہ سے متعلق بعض تصریحات ۱۹۹۸/۸۲۷۳ مظہر امام شاعری… اقبال کی پہلی شناخت ۱۹۸۹/۳۹-۵۰ منظر اعظمی فکرِ اقبال کا امتیاز‘ تصورِ ’’اَنا‘‘ کی روشنی میں ۱۹۹۷/۳۹۳۱ منظور،حکیم شکوہ کہ فریاد؟ [شکوہ اور جوابِ شکوہ کا منظوم کشمیری ترجمہ از جاوید ماٹجی] ۲۰۰۶/۱۵۷-۱۷۳ مہدی غروی اقبال کا نقش باز آفرینی اور ترقی میں [مترجم: آصف نعیم] ۱۹۸۱/۱۸۰۱۷۵ نذیر احمد ملک استعارہ… تعریف و تجزیہ ۱۹۹۸/۳۲۲۴ نصرت اندرابی پیامی (یا مقصدی) شاعری اور اس کے امکانات ۱۹۹۷/۱۲۲۹۱ وارث علوی شعرِ اقبال کی تفہیم میں ہیئتی طریقۂ کار کی اہمیت ۱۹۸۱/۹۲۷۳ اقبالیاتی نظموں کا جائزہ آصف نعیم اقبال کی نظم ’’بوئے گل‘‘ کا تجزیہ ۱۹۸۱/۱۶۵۱۶۱ آل احمد سرور اقبال کی بہترین اُردو نظم ’’ساقی نامہ‘‘ ۱۹۸۸/۹-۱۷ آل احمد سرور نظم ’’جبریل اور ابلیس‘‘ … ایک جائزہ ۱۹۸۱/۱۴۶۱۴۱ تسکینہ فاضل بانگ درا میں مشاہیر پر نظمیں ۲۰۰۰/۳۲-۴۷ جلال الدین،مفتی نظم ’’سلطان‘‘… ایک جائزہ ۱۹۸۱/۱۷۰۱۶۶ حامدی کاشمیری اقبال کی نظم ’’دعا‘‘… ایک مطالعہ ۱۹۹۶/۱۸۸ حامدی کاشمیری ’’شعاعِ آفتاب‘‘ [اقبال کی ایک نظم] ۱۹۸۸/۲۶-۳۱ رحمان راہی نظم ’’تنہائی‘‘… ایک سرسری جائزہ ۱۹۸۱/۱۵۳۱۴۷ شکیل الرحمن ’’جبریل و ابلیس‘‘ [اقبال کی ایک نظم] ۱۹۸۸/۱۸-۲۵ عالم خوندمیری نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘… تنقیدی جائزہ ۱۹۸۱/۲۱۵۲۱۰ غلام رسول ملک محاوروہ مابین خدا و انسان [اقبال کی مختصر فارسی نظم] ۱۹۸۸/۳۸-۴۹ غلام رسول ملک نظم ’’بزمِ انجم‘‘… ایک تجزیہ ۱۹۸۱/۱۲۰۱۱۳ محمد بدیع الزماں بانگ درا کی نظم’’سیر فلک‘‘ قرآن کی روشنی میں ۲۰۰۳/۲۰-۲۹ مرغوب بانہالی استعاراتی نظام اور اس کی رومانی بنیاد [اقبال کی نظم ’’شاعر‘‘ کے حوالے سے] ۱۹۹۸/۲۳۱۴ مرغوب بانہالی اقبال کی کثیر الجہت مقصدیت [نظم ’’فنونِ لطیفہ‘‘ کے آئینے میں] ۱۹۸۹/۵۱-۵۶ مرغوب بانہالی پیام مشرق کی ایک نظم ’’لالہ‘‘ میں نکتہ سوز کا مطالعہ ۱۹۸۱/۱۶۰۱۵۴ مسعود حسین خاں کافر ہندی ہوں میں … [نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا ایک شعر] ۲۰۰۳/۱-۱۸ مسعود حسین نظم ’’شعاعِ اُمید‘‘… تنقیدی جائزہ ۱۹۸۱/۲۰۹۲۰۱ اقبال اور دیگر شخصیات آل احمد سرور جوش کی شخصیت اور شاعری ۱۹۸۹/۹۹-۱۱۱ آل احمد سرور حسرت… شخصیت اور شاعری ۱۹۸۲/۲۲۳۲۱۳ آل احمد سرور شیخ محمد عبداللہ کشمیری کی وفات [پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۸۲/اتاح آل احمد سرور A tribute to Goethe ۱۹۹۱/۹-۱۶ ادارہ پروفیسر سیّد سراج الدین کی وفات ۲۰۰۷/۲۰۵ ادارہ پروفیسر عبدالمغنی کی وفات ۲۰۰۷/۲۰۵ ادارہ خواجہ غلام حسن نحوی کی وفات ۲۰۰۷/۲۰۵ ادارہ Goethe's perception of Oriental Culture: Quest for a secular identity of culture-Pramod Talgeri ۱۹۹۱/۳۵-۴۴ اسداللہ آفاقی علم دارِ کشمیر (شیخ نورالدین ولی) اور اقبال… فکری ہم آہنگی ۱۹۹۹/۱۶۱۴ ایس ایل پنڈت Wolfgang von Goethe-General Estimate ۱۹۹۱/۴۵-۴۸ بدرالدین بٹ احمد امین کے افکار پر اقبال کا اثر ۱۹۸۹/۵۷-۶۶ بشیر احمد نحوی پروفیسر سیّد سراج الدین … چند یادیں چند باتیں ۲۰۰۷/۱۴۳-۱۵۲ بشیر احمد نحوی حکیم منظور… شعلہ بھی اور شبنم بھی ۲۰۰۶/۱۴۸-۱۵۲ بشیر احمد نحوی شورش کاشمیری کی شاعری پر فکرِ اقبال کے اثرات ۲۰۰۵/۷۴-۸۳ بشیر احمد Shariati's critique of the concept of Modernization ۱۹۹۴/6to19 بشیر حسین زیدی مکتوب بنام آل احمد سرور ۱۹۸۱/۱۹۵۱۹۴ تسکینہ فاضل اسد ملتانی … اقبال کے ایک ہم عصر ۱۹۹۷/۱۳۶۱۲۳ تسکینہ فاضل اقبال اور ان کے معاصر شعرا اور ادبا ۲۰۰۳/۱۴۱-۱۶۰ تسکینہ فاضل خونِ دل و جگر سے ہے تیری نوا کی پرورش [آل احمد سرور کی اقبالیاتی تحریریں] ۲۰۰۶/۵۰-۶۵ تسکینہ فاضل فراق کی غزل … ایک مطالعہ ۱۹۸۸/۱۲۱-۱۳۸ جگن ناتھ آزاد حسرت موہانی اور اقبال ۱۹۸۲/۲۳۸۲۳۰ جگن ناتھ آزاد ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر سر محمد اقبال… قربتیں اور فاصلے ۲۰۰۳/۵-۱۹ جگن ناتھ آزاد کچھ فراق (گورکھپوری) کے بارے میں ۱۹۸۸/۷۱-۹۴ حامدی کاشمیری اقبال کا نظریۂ مغرب ڈاکٹر علی شریعتی کی نظر میں ۱۹۹۴/۱۳-۲۰ حامدی کاشمیری حسرت کا تصورِ عشق ۱۹۸۲/۲۲۹۲۲۴ حامدی کاشمیری فانیؔ کا تخلیقی ذہن ۱۹۸۲/۱۶۴۱۵۶ حامدی کاشمیری فراق کا شعری اِدراک ۱۹۸۸/۱۰۵-۱۱۳ حمید نسیم رفیع آبادی جان پال سارتر کی وجودیت پر علی شریعتی کی تنقید ۱۹۹۴/۷۸- ۱۰۷ حمید نسیم رفیع آبادی عاشقِ اقبال… پروفیسر سیّد وحیدالدین ۱۹۹۹/۶۵۵۹ حیات عامر حسینی A note on Dr. Ali Shariati's conception of Reconstruction ۱۹۹۴/20to33 سعید الظفر مولانا ابوالحسن علی ندوی کی اقبال شناسی ۲۰۰۳/۱۲۴-۱۴۰ شبنم حنفی فانیؔ کا شعری کردار ۱۹۸۲/۱۹۲۱۶۵ شکیل الرحمن روپ کی عشقیہ شاعری [بیاد فراق گورکھپوری] ۱۹۸۸/۹۵-۱۰۴ شمس الرحمن فاروقی Iqbal the Riddle of Lectures and Ghalib ۱۹۹۱/۶۳-۸۴ طاہر مسعود سر سیّد اور اقبال…ذہنی ارتباط کے خدوخال ۲۰۰۲/۱۰۰-۱۲۷ عبدالحق اقبالیاتی تحقیق میں پروفیسر گیان چند جین کی نارسائیاں ۲۰۰۷/۷-۱۸ عبدالرحمن ہاشمی اقبال اور علی شریعتی کے تصورات فن و ادب:ایک تقابلی مطالعہ ۱۹۹۴/۲۱-۳۷ عبدالرحمن ہاشمی علامہ اقبال اور علی شریعتی کے تصوراتِ فن و ادب:ایک تقابلی جائزہ ۲۰۰۵/۱۱-۲۴ عبدالغنی مدہوش Ali Shariati's Concept of Society A systems approach ۱۹۹۴/1-5 عبداللہ خاور پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے ساتھ چند مہینے ۱۹۹۹/۵۸۵۲ غلام رسول ملک جوش۔۔۔ شاعر یا صحافی ۱۹۸۹/۱۴۵-۱۱۵ غلام رسول ملک فانی کی غزل گوئی… ایک نفسیاتی مطالعہ ۱۹۸۲/۲۱۲۱۹۹ غلام رسول ملک Goethe's Faust and Iqbal ۱۹۹۱/۴۹-۶۲ غلام محمد شاد قاضی غلام محمد صاحب چند معاصرین کی نظر میں ۲۰۰۱/۱۸-۳۱ غلام محمد،قاضی زمان و مکان‘ غالب اور اقبال کی ایک قدرِ مشترک ۱۹۹۶/۷۱۶۰ غلام محمد حسرت کے چند اشعار ۱۹۸۲/۲۶۶-۲۶۸ فضل اللہ،سیّد حکیم منظور… جدت کا شاعر ۲۰۰۶/۱۵۳-۱۵۶ قدوس جاوید اقبال ، شریعتی اور اعتقاد کی تعمیرِ نو ۱۹۹۴/۵۶-۶۵ قدوس جاوید ’’سخن ثقافت زاد‘‘ [حکیم منظور کی غزل کا جائزہ] ۲۰۰۶/۱۲۶-۱۴۷ کبیر احمد جائسی غیر متوازن، متوازن شاعر… فراق گورکھپوری ۱۹۸۸/۱۱۴-۱۲۰ کبیر احمد جائسی محشرِ عمل …حسرت موہانی ۱۹۸۲/۲۴۸۲۴۰ محمد امین اندرابی پیش گفتار [ڈاکٹر علی شریعتی اور اقبال نمبر/ اداریہ] ۱۹۹۴/۵-۱۲ محمد امین اندرابی پروفیسر سیّد وحیدالدین کا انتقال[پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۹۹/الف محمد امین اندرابی پروفیسر قاضی غلام محمد کا انتقال[پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۹۹/ب محمد صدیق نیاز مند ڈاکٹر علی شریعتی اور علامہ اقبال کا نظریۂ وحدتِ ملّی ۱۹۹۴/۶۶-۷۷ محمد کمال الدین میر سیّد علی ہمدانی کی مدح‘ علامہ اقبال کے قلم سے ۱۹۸۱/۱۸۵۱۸۱ مرغوب بانہالی اقبال اور علی شریعتی کے چند ملتے جلتے افکار و عقائد کا ایک منظر نامہ ۱۹۹۴/۳۸-۵۵ مرغوب بانہالی اقبال شناس، غزل گو حکیم منظور ۲۰۰۶/۱۲۰-۱۲۵ مسعود حسین خان اقبال اور گوئٹے ۱۹۸۹/۷۹-۸۷ مسعود حسین خان مقامِ فراق (گورکھپوری) ۱۹۸۸/۶۱-۷۰ مظہر امام جوش کی شاعری ۱۹۸۹/۱۳۵-۱۴۴ مظہر امام حسرت کی غزل کا نشانِ امتیاز ۱۹۸۲/۲۶۵۲۴۹ وحیدالدین،سیّد The Mystic Dimensions of Goethe's Thought ۱۹۹۱/۱۷-۳۴ اداریے آل احمد سرور زیر نظر شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۸۲/۹۶ آل احمد سرور زیر نظر شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۸۶/ا-د محمد امین اندرابی Preface [پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۹۱/۵-۸ محمد امین اندرابی زیر نظر شمارہ اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیاں[پیش لفظ] ۱۹۹۶/۷۵ محمد امین اندرابی شذرات [اداریہ] ۱۹۹۷/۸۵ محمد امین اندرابی [پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۹۸/۶۵ محمد امین اندرابی زیر نظر شمارہ[پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۹۹/الف بشیر احمد نحوی زیر نظر شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۲۰۰۰/۶۵ بشیر احمد نحوی پیش گفتار … زیر نظر شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۲۰۰۱/۱-۳ بشیر احمد نحوی زیر نظر شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۲۰۰۲/۱-۸ تسکینہ فاضل زیرنظر شمارہ اور فکرِ اقبال [پیش لفظ/اداریہ] ۲۰۰۳/v-i بشیر احمد نحوی زیر نظر شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۲۰۰۵/I بشیر احمد نحوی زیر نظر شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۲۰۰۶/۰-۲ بشیر احمد نحوی زیر نظر شمارہ [حرفِ آغاز/اداریہ] ۲۰۰۷/۵-۶ غزلیں اسداللہ آفاقی غزل ۲۰۰۰/۱۰۹ حامدی کاشمیری غزل ۲۰۰۰/۱۰۵ حکیم منظور غزل ۲۰۰۰/۱۰۶-۱۰۷ رحسانہ جبیں غزل ۲۰۰۰/۱۱۱ عبداللہ منتطر طرحی غزل ۲۰۰۰/۱۱۴ غلام محمد دو غزلیں ۱۹۸۱/۱۹۷۱۹۶ غلام نبی ناظر طرحی غزل ۲۰۰۰/۱۱۰ محمد یاسین ساگر غزل ۲۰۰۰/۱۱۳ مشتاق کشمیری غزل ۲۰۰۰/۱۱۵-۱۱۶ مشعل سلطان پوری غزل ۲۰۰۰/۱۰۸ نذیر آزاد غزل ۲۰۰۰/۱۱۲ رپورتاژ ادارہ اقبال انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچ کی رفتار ۱۹۸۲/۲۷۰۲۶۹ ادارہ تقاریب کی چند تصاویر ۲۰۰۰/۱۱۷-۱۲۲ ادارہ چند تصاویر ۱۹۸۸/۸؍الف-د ادارہ چند تقاریب کی تصاویر ۲۰۰۲/۱۷۷-۱۸۰ ادارہ منزل بہ منزل [اقبال انسٹی ٹیوٹ ‘ کشمیر یونی ورسٹی‘ سری نگر کی سرگرمیاں] ۲۰۰۳/۱۶۱-۱۶۴ عبداللہ خاور اقبال لائبریری‘ کشمیر یونی ورسٹی‘ سری نگر کے چند اُردو نوادرات ۲۰۰۳/۸۸-۹۴ محمد امین اندرابی زیر نظر شمارہ اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیاں[پیش لفظ] ۱۹۹۶/۵-۷ مدیر اقبال انسٹی ٹیوٹ کی خدمت اور موجودہ شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۸۸/۵-۸ مدیر موجودہ شمارہ [پیش لفظ/اداریہ] ۱۹۸۹/۵-۷ مرغوب بانہالی دانش گاہ کشمیر میں اقبال انسٹی ٹیوٹ [علامہ اقبال کو آبائی وطن کا ایک شایان شان ٹری بیوٹ] ۲۰۰۳/۳۰-۳۹ شماروں کی ترتیب اقبالیات کا ہر شمارہ عمومی طور پر سال بعد شائع ہوتا ہے۔ لیکن اِس معمول میں کچھ تعطل بھی رہا ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ذیل میں شماروں کی ترتیب اور سالِ اشاعت درج کیا جارہا ہے۔ شمارہ نمبر۱:ستمبر۱۹۸۱ء شمارہ نمبر۲:۱۹۸۲ئ شمارہ نمبر۳:اپریل۱۹۸۶ء ءشمارہ نمبر۴:اپریل ۱۹۸۸ئ شمارہ نمبر۵:اپریل ۱۹۸۹ئ شمارہ نمبر۶:۱۹۹۱ء ءشمارہ نمبر۷:ستمبر۱۹۹۴ئ شمارہ نمبر۸:۱۹۹۶ئ شمارہ نمبر۹:جنوری۱۹۹۷ء ءشمارہ نمبر۱۰:مارچ۱۹۹۸ئ شمارہ نمبر۱۱:مارچ۱۹۹۹ئ شمارہ نمبر۱۲:مارچ۲۰۰۰ء ءشمارہ نمبر۱۳:جنوری۲۰۰۱ئ شمارہ نمبر۱۴:فروری۲۰۰۲ئ شمارہ نمبر۱۵:اگست۲۰۰۳ء ءشمارہ نمبر۱۶:فروری۲۰۰۵ئ شمارہ نمبر۱۷:فروری۲۰۰۶ئ شمارہ نمبر۱۸:فروری۲۰۰۷ء ئئء تبصرۂ کتب علامہ اقبال: شخصیت اور فن، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۰۸ئ، صفحات۲۸۲، قیمت ۔؍۳۲۰ روپے مجلد۔ علامہ اقبال کی شخصیت اور فن پر لکھی جانے والی کتب کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اب اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’علامہ اقبال پر دو ہزار سے متجاوز چھوٹی بڑی کتابوں میں سے ایک سو ایسی ضرور ہوں گی، جو کاملاً یا جزواً اقبال کی سوانح اور شخصیت سے بحث کرتی ہیں‘‘-----لیکن جب تحقیقی اعتبار سے ان تالیفات کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے اس موضوع پر مزید اور مستند کام کی ضرورت ابھی پوری نہیں ہوئی۔چنانچہ اقبال کی سوانح و شخصیت کے حوالے سے ملفوظات، یاد داشتوں اور ملاقاتوں پر مشتمل بعض اہم کتب اور جزوی سوانحی تالیفات کے علاوہ ذکرِ اقبال از عبدالحمید سالک (۱۹۵۵ئ)سرگذشت اقبال از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید (۱۹۷۷ئ)، دانائے راز از سید نذیر نیازی (۱۹۷۹ئ)، مفکرِ پاکستان از محمد حنیف شاہد (۱۹۸۲ئ)، حیاتِ اقبال از ایم ایس ناز (۱۹۷۷ئ)،یادِ اقبال از صابر کلوروی (۱۹۷۷ئ)، زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال (۸۴-۱۹۷۹ئ)، محمد اقبال: ایک ادبی سوانح از جگن ناتھ آزاد (۱۹۸۵ئ)، جیسی باقاعدہ سوانح عمریاں منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔ علامہ اقبال:شخصیت اور فن ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحقیقی کاوشوں کا نچوڑ ہے۔ ہاشمی صاحب ماہرِ اقبالیات ہونے کی حیثیت سے اپنی اقبالیاتی تصانیف کی بنا پر بخوبی نمایاں ہیں۔ان کی جستجو کے نتائج کی صداقت کا بالعموم اعتراف بھی کیا جاتا رہا ہے۔ خطوطِ اقبال، کتابیاتِ اقبال، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ اور اقبالیات: تفہیم و تجزیہ جیسی کتاب سے انھوں نے اقبالیاتی ادب میں وقیع اضافہ کیا ہے۔ ہاشمی صاحب کا ابتدائی میلان، خالص تحقیق کی جانب تھا اور وہ زیادہ تر اقبالیات کے ماخذات کی طرف متوجہ رہے؛ لیکن پھر ان کا وقت فکرِ اقبال کے بعض تاریک گوشوں کو منور کرنے میں صرف ہونے لگا، چنانچہ اب انھوں نے تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کے امتزاج سے اقبال کی ایک مستند سوانح عمری قارئینِ اقبالیات کے لیے پیش کی ہے۔ ان کا یہ ارشاد، ان کے انکسار کا پتا دیتا ہے کہ’’ یہ کتاب محققوں ، دانشوروں اور نقادوں کے لیے نہیں؛ اقبال کے عام قاری کے لیے ہے۔ اُس قاری کے لیے، جو اقبال کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا‘‘۔ کتاب کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد برملا کہا جا سکتا ہے کہ ’عام قاری‘ کے لیے تحریر کی گئی اقبال کی یہ سوانح اپنے مندرجات کی سند، محقق کی جستجو اور جہد مسلسل کا احساس دلاتی ہے اور مستقبل کے سوانح نگار کے لیے اسلوب اور معیار کی قابلِ تقلید مثال پیش کرتی ہے، غرض یہ کہ استنادِ واقعات اور اخذ نتائج کے اعتبار سے اس تالیف کو بہت سی علمی کاوشوں پر تفوق حاصل ہے۔ اقبال کی نظم و نثرکو بالعموم الگ الگ اکائیوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، لیکن ڈاکٹر ہاشمی نے ایک جانب ، اقبال کے سوانح اور ان کے کلام میں مطابقت تلاش کرنے کی ذمہ داری نبھائی ہے تو دوسری طرف کلامِ اقبال، خطباتِ اقبال اور مکاتیبِ اقبال کو ایک ساتھ پیش نظر رکھ کر حیاتِ اقبال کو زیادہ مستند انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت جو فوری طور پر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے، ابواب کے عناوین ہیں۔ اقبال کے اردو فارسی مصرعوں یا اُن کے اجزاء پر مشتمل یہ عناوین بے حد جاذبِ نظر ہیں۔ ’آبامِرے لاتی و مناتی‘، ’وہ شمع بارگہِ خاندانِ مرتضوی‘، ’ سوداے علم‘،’ دیدئہ بیناے قوم‘، آسودگی نہیں ملتی‘، ’شرابِ علم کی لذت…‘، ’آخر مل گیا وہ گُل مجھے‘، ’اور آزادی میں بحرِبے کراں ہے زندگی‘،’ الیکشن، ممبری ، کونسل…‘،’حرفِ تہ دارے باندازِ فرنگ‘،’رفتم بہ تماشاے خراباتِ فرنگ‘، ’کہ ایں زمیں ز طلسم فرنگ آزاد است‘،’ نغمہ در گولے من شکست‘ اور ’کہ من دارم ہواے منزلِ دوست‘ سے ڈاکٹر ہاشمی کی اپج کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ کتاب کو چوبیس ابواب میں تقسیم کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ قاری مختصر وقت میں اقبال کی زندگی کے کسی ایک گوشے سے شناسا ہو جائے اور ہر باب کا اختتام اگلے باب کے مطالعے کی ترغیب دے۔ اکثر ابواب کے آغاز میں تمہیدی نوٹ دیا گیا ہے، جسے اُس باب کے مندرجات کا ملخص کہا جا سکتا ہے۔ پھر ہر باب کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے حیاتِ اقبال کے مختلف پہلوئوں کو نمایاں کیا ہے۔ محقق نے نہایت وسیع موضوع کو اختصار و جامعیت کے ساتھ یوں پیش کیا ہے کہ کتاب کے مطالعے کے بعد قاری کو کسی تشنگی کا احساس نہیں رہتا۔ محقق کا یہ کہنا کہ [اس کتاب میں] قارئین کو بعض ایسے واقعات و بیانات بھی ملیں گے، جو سوانح اقبال کی عام کتابوں میںنظر نہیں آتے، کچھ غلط بھی نہیں۔ مثلاً [اقبال کی پہلی بیوی] کریم بی بی اور [بیٹے] آفتاب اقبال کے حوالے سے بعض ایسی تحریریں منظر عام پر آئی ہیں، جن سے اقبال کی نا انصافیوں کا رونا رو دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ہاشمی نے قوی دلائل کے ساتھ ایسے انکشافات کا رَد کیا ہے۔ کیمبرج کے زمانے طالب علمی میں کالج سے باہر اقبال کا زیادہ وقت ڈاکٹر سید علی بلگرامی کے ہاں پُر لطف مجالس میں گذرتا۔ ڈاکٹر ہاشمی نے ان واقعات کو عطیہ فیضی کے حوالے سے بیان کرنے کے باوجود حاشیے میں یہ صراحت بھی کر دی ہے کہ سید علی بلگرامی کی مجالس اور لندن میں اقبال کے شب و روز ، ان کی سرگرمیوں اور مصروفیات کے بارے میں عطیہ بیگم کی یہی کتاب (اقبال) سب سے بڑا ماخذ ہے،اگرچہ عطیہ بیگم کے بیانات کو من و عن قبول نہیں کیا جا سکتا (ص ۷۱) ۔ ان کے خیال میںعطیہ بیگم مجلسی ہنگاموں اور تفریحی مشاغل کی دلدادہ تھیں۔ (ص ۹۲) اس سلسلے میں انھوں نے ماہر القادری اور جگن ناتھ آزاد کی بعض تحریروں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ صہبا لکھنوی کے خیال میں اقبال نے دوسری بار قیامِ بھوپال کے دوران میں فتنۂ قادیانی پر اپنے مشہور مضامین لکھے (اقبال اور بھوپال ، ص ۱۵۴)۔ڈاکٹر ہاشمی نے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آخری انگریزی مضمون Islam and Ahmadism کے علاوہ قادیانیت پر سب مضامین وہ دوسری بار جانے سے پہلے مئی جون میں لکھ چکے تھے۔ (ص ۲۳۷) محقق کایہ بھی کہنا ہے کہ اس کتاب میں سوانح اقبال کے بعض بیانات و نکات کی تصحیح اور بعض غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ مثال کے طور رپر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ہندوستان واپسی کی تاریخ مختلف اقبال شناسوں کے ہاں مختلف رہی ہے اور بالعموم یہ لکھ دیا گیا ہے کہ اقبال جولائی کے پہلے ہفتے میں واپس ہندوستان روانہ ہو گئے، لیکن مصنف کتاب نے اقبال اور ان کے وابستگان کی مختلف تحریروں کی مدد سے درست تاریخ کا تعین کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں[ اقبال کی ] لندن سے روانگی اور پیرس آمد: ۸؍جولائی؛ پیرس میں قیام دو روزہ: ۹، ۱۰؍جولائی (ایماویگے ناسٹ کو ۲۷؍جون ۱۹۰۸ء کے خط میں لکھتے ہیں: چند روز پیرس میں رُکوں گا، جہاں مجھے کچھ کام ہے۔ اقبال یورپ میں، ص ۲۰۱)؛پیرس سے روانگی :۱۱؍جولائی (دُرّانی صاحب کے خیال میں پیرس سے بمبئی تک کے سفر میں بحری جہاز میں ۱۱ تا ۱۳ دن لگتے تھے ۔ اس لیے) بمبئی آمد: ۲۴؍جولائی کی شب یا ۲۵؍جولائی کی صبح (ص ۹۰)۔ جاوید اقبال کے خیال میں بیرون موچی دروازہ منعقدہ جلسے میں ’جواب شکوہ‘ پڑھنے کا سنہ ۱۹۱۳ء ہے،لیکن ڈاکٹر ہاشمی کے تحقیقی بیان کے مطابق: اسی زمانے کے مطبوعہ ’جواب ِ شکوہ‘ پر ’نومبر ۱۹۱۲ئ‘ درج ہے؛ دیگر شواہد بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔(ص ۱۱۱) محقق نے آکسفرڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر ایڈورڈ تھامپسن کی پھیلائی ہوئی اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کیا ہے، جس میں تھامپسن نے اقبال کے ایک خط سے ایک جملے (پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے) کو سیاق و سباق سے الگ کرکے کہا تھا کہ اقبال پاکستان کے خلاف تھے۔ ڈاکٹر ہاشمی کی راے میں حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جس منصوبۂ پاکستان سے لا تعلقی ظاہر کی ، وہ چودھری رحمت علی کا منصوبہ تھا، جس کی تصدیق علامہ کے اسی مذکورہ بالا خط سے ہوتی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں: اس منصوبے کی پیدائش کیمبرج میں ہوئی تھی۔ اس منصوبے کے خالق یہ سمجھتے ہیں کہ گول میز کانفرنس کے ہم مسلمان نمائندوں نے مسلم قوم کوہندوئوں یا نام نہاد ہندستانی قومیت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے۔(علامہ اقبال: چند جہتیں، ص ۱۵۸) ڈاکٹر صاحب کے خیال میں یہ واضح طور رپر چودھری رحمت علی کے خیالات اور ان کی سرگرمیوںکی طرف اشارہ ہے۔ (ص ۱۶۰) اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہوئے تو بذریعہ خط مفصل سفری حالات لکھ بھیجے، جو ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کے روز نامہ انقلاب میں شائع ہوئے۔مدیر نے حوالے کے طور پر صرف یہ لکھا کہ اقبال نے یہ خط اپنے ایک دوست کے نام تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر ہاشمی لکھتے ہیں کہ غلام رسول مہر کی روایت کے مطابق مکتوب الیہ: منشی طاہر الدین ہیں، لیکن اس خط کی جو عکسی نقل گورنمنٹ کالج ، لاہور کے مجلہ تحقیق نامہ (شمارہ :۵) میں شائع ہوئی ہے، اس کے مطابق مکتوب الیہ: چودھری محمد حسین ہیں۔ (ص۱۷۱) علامہ نے بال جبریل کے حصہ دوم کی پہلی غزل کے وضاحتی بیان میں لکھا ہے کہ نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف [شاعر] کو حکیم سنائی غزنویؒ کے مزارِ اقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔ہاشمی صاحب کی تحقیق کے مطابق اقبال نے نومبر میں نہیں، بلکہ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو حکیم سنائی کے مزار کی زیارت کی تھی۔ (ص۲۰۷) مولانا حسین احمد مدنی کی جانب سے قومیت کے وطنی تصور پر اقبال نے اعتراضات کیے تھے اور اس سلسلے میں علمی مجادلے کی سی صورت پیدا ہو گئی تھی، لیکن جب حسین احمد نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نظریۂ وطنیت کا ذکر بطور امرِ واقعہ کے کیا تھا؛ یہ نہیں کہا کہ ’تم کو ایسا‘ کرنا چاہیے۔ تو علامہ نے طالوت کو ایک خط میںلکھا کہ مولانا کے اس اعتراف کے بعد مَیں مولانا پر کسی قسم کے اعتراض کا حق نہیں رکھتا۔ اس طرح گویا علامہ اقبال نے وفات سے چوبیس دِن پہلے اس بحث کو ختم کر دیا۔ ڈاکٹر ہاشمی لکھتے ہیں کہ علامہ کی وفات کے بعد مولانا مدنی نے اپنی ’انتہائی عدیم الفرصتی‘ کے باوجود علامہ کے جواب میں ایک طویل مضمون قلم بند کرنا ضروری سمجھا اور انھیں ’ساحرینِ برطانیہ کے سحر میں مبتلا‘ قرار دیا۔ یہاں محمد احمد خاں کا ایک بیان بھی درج کیا گیا ہے، جس کے مطابق : یہ بات قابلِ گرفت ہے کہ مولانا نے اس مسئلے کو دوبارہ اُس وقت چھیڑا ، جب علامہ اقبال ان کا جواب دینے کے لیے اس دنیا میں موجود نہ تھے اور اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ناشر اور خود مولانا نے اس کتابچے میںعلامہ مرحوم پر طنز و تعریض کی۔ (اقبال کا سیاسی کارنامہ، ص ۵۹۹) چناں چہ ڈاکٹر ہاشمی کا یہ کہنا بجا ہے کہ اس صورت میں مولانا کے بعض عقیدت مندوں کی یہ راے کیسے صائب قرار دی جا سکتی ہے کہ ’حسین احمد ‘ نامی قطعہ ارمغان حجاز میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ محقق نے حیاتِ اقبال سے متعلق بعض مسلّمات پر سوال بھی اٹھائے ہیں، مثلاً اقبال کے تمام سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ میٹرک میں کامیابی کی اطلاع اقبال کو بذریعہ تار ۴؍مئی کوملی۔ سوال یہ ہے کہ [یہ] تار کس نے دیا تھا اور کہاں سے بھیجا تھا؟ (ص۳۶) ڈاکٹر ہاشمی بعض مواقع پر غیر شعوری طور پر محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی بصیرت کا موازنہ کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ لکھتے ہیں: تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ فروری ۱۹۳۸ء اقبال’جناح سکندر پیکٹ‘ کی تنسیخ اور سکندر حیات کے خلاف فوری کار روائی کے خواہش مند تھے، مگرقائدا عظم نے اسے بوجوہ مناسب خیال نہیں کیا، لیکن سات برس تک نونینسٹوںکے رویّے کا مشاہدہ کرنے کے بعد بالآخر جناح بھی اسی نتیجے پر پہنچے اور ۱۹۴۴ء میں انھوں نے ’جناح سکندر پیکٹ‘ کو بے حیثیت قرار دے کہ خضر حیات ٹوانہ کو مسلم لیگ سے خارج کر دیا۔ چناں چہ ڈاکٹر ہاشمی نے اقبال کی سیاسی بصیرت کو قابلِ داد قرار دیا ہے۔ ایک دوسرے مقام پر ڈاکٹر ہاشمی نے لکھا ہے کہ اقبال کے خلوص کے اعتراف کے باوجود جناح نے کئی مواقع پر اقبال کی تجاویز کو نظر انداز کیا۔ قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ ہاشمی صاحب کے خیال میں جناح کی مجبوریاں یہ تھیں کہ ان کے یمین و یسار میں بیشتر ’کھوٹے سکے‘ تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ مجھے انھی سے کام چلانا ہے۔(ص ۲۳۷) بعض مقامات پر، جہاں واقعات کی سند نہیں ملتی، محقق نے اپنے تخیل کی مدد سے اس منظر کو پیش کیا ہے، چناں چہ ایسے میں وہ ایک انشاپرداز کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ اقبال اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ میٹرک کا امتحان دینے گجرات کا سفر کرتے ہیں۔ ہاشمی صاحب ایسے موقع پر تصور کی آنکھ سے دیکھے گئے مناظر پیش کرتے ہیں، لکھتے ہیں: تمام طلبہ بشمول محمد اقبال، مارچ ۱۸۹۳ء کے تیسرے ہفتے گجرات پہنچے۔ بہار کے خوش گوار موسم میں گندم کی لہلہاتی فصلوں کے درمیان ریل کا یہ سفر لڑکوں کو اچھا لگا ہوگا… امتحان ختم ہوا اور لڑکے دِل و دِماغ کا سارا بوجھ اتار چکے تو واپسی کا سفر ان کے لیے بالکل ایک تفریحی سفر ثابت ہوا۔ دلچسپ اور پُر لطف۔ ہنستے، مسکراتے ، گیت گاتے اور ایک دوسرے سے چہلیں کرتے واپس آئے ہوں گے۔ (ص۳۳) یورپ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اقبال کے سیالکوٹ پہنچنے پر ان کے والدین کا کیا رویہ ہو گا، ڈاکٹر ہاشمی کے خیال میں: گھر پہنچتے ہی والدہ نے انھیں لپٹا لیا اور منہ چوما ہو گا۔(ص ۸۳) ہمارے یہاں اقبال کے بارے میں متضاد رویے پائے جاتے ہیں، لیکن مصنف کتاب نے کسی مقام پر بھی اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ انھوں نے اقبال کے ’روحانی‘ مقام و مرتبے کا تعین کرنے یا محض ایک ’عامی‘ کی حیثیت سے پیش کرنے کے بجاے مختلف روایات کو درایت کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے بیان کیا ہے؛ چناں چہ محقق کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی اس کتاب میں ’اصل اقبال‘ کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر ہاشمی نے جہاں تحقیقی معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا، وہیں اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ چونکہ قارئین کی اکثریت کو تحقیقی موشگافیوں اور حوالوں کے انبار سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ مستند اور مصدقہ معلومات سے غرض رکھتے ہیں، چناں چہ ان کے استفاضے کے پیش نظر، مجموعی طور پر بیانیہ اندازِ تحریر کو ترجیح دیتے ہوئے ایسے تمام مباحث کو حواشی و تعلیقات میں جگہ دی ہے۔ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے ایک علمی شان اوربے ساختگی و شگفتگی کی حامل ہے۔ کتاب کے پیش لفظ سے احساس ہوتا ہے کہ محقق نے اپنی یہ کاوِش مرحوم ڈاکٹر صابر کلوروی کے نام معنون کی ہے، لیکن غالباً ناشر کی کی بعض مجبوریوں کے باعث کتاب اس انتساب کے تحریری اظہار سے محروم رہی ہے تکنیکی اعتبار سے اس کتاب پر مزید محنت کی ضرورت تھی،کیوں کہ کمپوزنگ کی غلطیوں کی عدم موجودگی کے باوجود بعض مقامات پر لفظ ٹوٹ کر دو سطروں میں تقسیم ہو گئے، کئی ایک مقامات پر بین الالفاظ وقفے آگئے، خط نسخ میں کمپوز حروف بے طرح پھیل کر بد وضع ہو گئے اور حد یہ کہ مختلف ابواب میں سطروں کے درمیان فاصلہ بھی یکساں نہیں رہ سکا۔ اسی طرح باب ۲۱ کے حاشیے ۲۲پر دی گئی وضاحت بظاہر اسی باب کے حاشیہ ۴۴ کے مندرجات کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ غالباً کمپوزر کے تساہل سے یہ عبارت اصل مقام پر کتابت نہیں ہو سکی یا اور کوئی وجہ ہے؟ تکنیکی امور کو خصوصی اہمیت دینے والے مصنف کی کتاب میں اس طرح کی بے اختیاطی کیوں ہے سمجھ نہیں آ سکی۔ تحقیقی اعتبار سے یہ کتاب اپنی پیش رَو سوانحی تالیفات کے مقابلے میں کئی امتیازات کی حامل ہے، اس کے باوجود محقق کا عجز لائق ستائش ہے کہ انھوں نے اسے اقبالیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی ایک معمولی ، ناتمام اور ناقص کاوش قرار دیا ہے۔ (ص ۱۲) اپنے تحقیقی معیار کی وجہ سے یہ تالیف بیک وقت دانشوروں، محققوں، ادیبوں ، مؤلفوں ، استادوں، طالب علموں ، بلکہ عام قارئین کی علمی و ادبی پیاس بجھانے کا سامان رکھتی ہے۔ زیر تبصرہ تالیف کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان نے اس کے علمی مقام و مرتبے اور استناد کے پیش نظر اردو زبان کے ساتھ ساتھ اسے سرائیکی ، پشتو ، بلوچی، سندھی اور انگریزی تراجم کی صورت میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب نہ صرف شائقین اقبال سے داد وصول کرے گی، بلکہ جامعات کے مختلف شعبوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرے گی۔ ------ ڈاکٹر خالد ندیم ژژژ اقبال ---- روح دین کا شناسا، سید علی گیلانی۔ ناشر:منشورات،ملتان روڈ،لاہور،۲۰۰۹ئ، صفحات۳۰۴، قیمت ۔؍۳۵۰ روپے مجلد۔ علامہ اقبال انسان کی انفرادی و اجتماعی آزادی کے حامی اور غلامی، جبر اور تسلط کے مخالف ہیں۔ اقبال کی شاعری میں اس اجمال کی تفصیل بے شمار پہلوئوں سے سامنے آتی ہے۔ ایک پہلو ’’قومی ‘‘ یا ’’اجتماعی‘‘ سطح پر انسان کے انسان پر ناروا تسلط سے نجات کا ہے۔ اقبال کے زمانے میں بہت سے دوسرے خطوںکی طرح برعظیم میں بھی یہ تسلط تہہ در تہہ صورت میں موجود تھا۔ اقبال جنت نظیر خطۂ کشمیر سے وابستگی (نسلی، روحانی اور ملی) رکھتے تھے۔ انھوں نے اس سر سبز و شاداب خطے کو حکمرانوں کی بوالہوسی کا شکار دیکھا تو دعا گو ہوئے ؎ توڑ اس دستِ جفاکیش کو یا رب جس نے روحِ آزادیِ کشمیر کو پامال کیا [کلیات باقیاتِ شعر اقبال،۳۱۴] افسوس ہے کہ آج ایک سو سال بعد بھی ہم اقبال کی اسی دعا کو دہرانے پر مجبور ہیں۔ کشمیر کے جو باشندے نصف صدی سے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اُن میں ایک معتبر اور معزز نام سید علی گیلانی حفظہ اللہ کا ہے۔سید علی گیلانی کی پرورش اور پرداخت ایسے ماحول میں ہوئی جو اہل کشمیر کے لیے بے کسی، بے چارگی اور غلامی کا دور تھا۔ وہ شعور و پختگی کی عمر کو پہنچے تو اسلامی انقلاب کے پیغام کی اشاعت اور بھارتی سامراج سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو انھوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ٹھہرایا۔ ان کے بے باک لہجے کو دبانے کی غرض سے انھیں متعدد بار پس دیوارِ زنداں دھکیل دیا گیا۔ وہ حکومتی سطح پر زبردست دھاندلی کے باوجود ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۹ء کے دوران میں مقبوضہ جموںو کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ سید علی گیلانی ’’جہاد زندگانی‘‘ میں عزم ، جوش ، استقامت اور حق گوئی کے ساتھ اور بڑے تسلسل سے حریت کشمیر کا مقدمہ لڑ رہے ہیں، یقینایہ ایک کٹھن ، صبر آزما اور اعصاب کو شل کر ڈالنے والی جدوجہد ہے۔اب تک موصوف قلم و قرطاس سے اپنے مضبوط رشتے کا اظہار متعدد تصانیف کی صورت میں کر چکے ہیں۔ وہ چھوٹی بڑی ۴۳ کتب کے مصنف ہیں۔ ایک بہترین مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مصنف کی حیثیت سے بھی داد پا چکے ہیں۔ حریت کشمیر کی جس جدوجہد سے آپ وابستہ ہیں اس میں ربع صدی سے زاید عرصہ پابند سلاسل رہے۔ اس اسیری کے دوران اپنے اوپر ہونے والے تعذیب و تشدد کو انھوں نے اپنی تصنیف رودادِ قفس میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سید علی گیلانی بہت اچھے مقرر و مصنف تسلیم کیے جا چکے ہیں لیکن اب وہ ایک بہت اچھے اقبال شناس کی حیثیت سے بھی سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے اقبال کے افکارکی جس عالمانہ اور ماہرانہ انداز میں ترجمانی کی ہے یقینا یہ اقبالیات میں ایک بہت اچھا اضافہ ہے۔سید علی گیلانی کو اقبال کے ساتھ جو عقیدت و محبت اور ان کے افکار کے ساتھ جو تعلق اور وابستگی ہے اس کا اظہار اُن کی تحریر اور تقریر میں ہر جگہ پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ اُن کی تقریریں اقبال کے اشعار سے مزین اور تحریریں افکارِ اقبال کی ترجمانی سے لبریز ہوتی ہیں۔ اُن کی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اقبال کی فکر کے حوالے سے باقاعدہ کوئی تحریری یادگار چھوڑیں، سو اُن کی یہ تمنا اور خواہش اقبال ---- روح دین کا شناسا کی صورت میں پوری ہو گئی۔ وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہ یُوتِیہِ مَن یَشَائُ! سید علی گیلانی کا اقبال سے اولین تعلق ہائی سکول سوپور (کشمیر) میں حصول تعلیم کے دوران اقبال کی نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ پڑھ کر قائم ہوا۔ یہ نظم اُن کو ازبر ہو گئی۔ اس کے باوجود اقبال کے بارے میں انھیں کچھ معلوم نہ تھا۔ بعدازاں حصولِ تعلیم کے مراحل کے دوران لاہور میں انھیں بادشاہی مسجد میں تربتِ اقبال کی زیارت سے قلبی سکون اور طمانیت حاصل ہوتا رہا۔ گھنٹوں مزار اقبال کا دیدار ہوتا حالانکہ اقبال کے کلام، اُن کے مقام و مرتبے سے وہ بے خبر تھے۔ مصنف نے اس کشش اور وابستگی کو ایک معما قرار دیا ہے۔ وہ اس کی کوئی متعین وجہ بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ بعدازاں اقبالیات سے آگاہی آقا بیدار بخت کے کالج میں حصول تعلیم کے دوران ہوئی ----- یہاں سے وہ بنیاد مستحکم تر ہونا شروع ہوئی جو ’’پرندے کی فریاد‘‘ نظم یاد کرنے سے استوار ہوئی تھی۔ تحریک آزادیِ کشمیر کے رہنما اور کارکنان کا اقبال کی فکر پر اعتماد کا ہونا ایک فطری امر ہے، اقبال اُن بنیادی انسانی اخلاقیات کا درس دیتے ہیں جو نہ صرف مسلم قوم بلکہ دنیا کے ہر انسان کے نزدیک قابل احترام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسّی کی دہائی کو پہنچے ہوئے مجاہدِ آزادی نے اپنی زندگی کے نقوشِ تاباں پر ان موتیوں کو بکھیرنے کا عزم کیا جو اقبال کی شاعری میں جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے عنوانات نے اپنے اندر محفوظ کر رکھے ہیں۔ مصنف نے یہ کتاب دو اڑھائی ماہ کے قلیل عرصے میں مرتب کرکے مجاہدینِ آزادی کے لیے ایک بہت بڑی اخلاقی کمک فراہم کی ہے۔ مصنفِ کتاب اُن گنے چنے دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں جن کو اپنے نقطۂ نظر اور نظریۂ عمل پر کبھی نظر ثانی کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ وہ اوّل روز سے جس یقین اور اعتماد کے ساتھ شامل کارواں ہوئے تھے اُسی اعتقاد بلکہ اس سے بڑھ کر یقین کی دولت کے ساتھ سالارِ کارواں کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اُن کی مجاہدانہ مساعی کے خدو خال بہت جامع انداز میں ’’اظہار تشکر‘‘ کے زیر عنوان یوں درج ہیں: ’’تحریک حریت کے اہداف: اسلام، آزادی اور اتحادِ ملت‘‘(ص ۱۱) یہ اہداف کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟ سید علی گیلانی بتاتے ہیں: تحریک حریت کے کارواں کا ہر فرد موجودہ دور پر آشوب میں روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن سب کو سیرت و کردار کی تعمیر میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی جدید جاہلیت کے اندھیروں کو دور کرنے کا چیلنج قبول کرکے مردانہ وار اس جدوجہد میں ہراول دستے کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ اللہ غالب و قا ہر اپنی مدد و نصرت سے ضرور نوازے گا۔(ص ۱۱،۱۲) کتاب کا تعارف ’’چہرہ‘‘ کے عنوان سے معروف کشمیری دانشور ڈاکٹر شفیع شریعتی نے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے اقبال کی بلیغ و بُلند فکر اور نوجوان نسل کے لیے اس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے جامع انداز میں چند نکات پیش کیے ہیں۔ ’’اظہارِ تمنا کا سبب ‘‘ وہ عنوان ہے جس کے تحت مصنف نے اقبال کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کو مختصر الفاظ میں بیان کرکے بات کا آغاز کیا ہے۔ چھ صفحات [۲۲-۲۸] میں ’’پرندے کی فریاد‘‘ کے تحت مصنف نے اقبال سے قائم ہونے والے اپنے اوّلین تعلق اور اس کی افزایش کے مراحل کو بہت مختصر الفاظ میں سمیٹا ہے۔ کتاب کا آغاز ایک توضیحی ابتدائیے ’’فکر اقبال کے ترکیبی عناصر‘‘ سے ہوتا ہے جس میں مصنف نے علامہ محمد اقبال کی فکری تشکیل میں کارفرما عناصر کو بہت مربوط انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ فریضہ اقبال کے شعری سرمایے سے اخذ و استفادے کی صورت میں انجام دیا گیا ہے۔ اس تحریر کے اختتام پر مصنف نے اپنے عزم و ارادے کا اظہار بھی فرمایا ہے اور بہت بر محل توجہ کے ساتھ اپنے الفاظ کو یوں درج کیا ہے: جس طرح اقبال کو اپنے دور کے حالات نے مایوس نہیں کیا۔ اُسی طرح حالات کی سخت ترین نامساعدت کے باوصف میں بھی مایوس اور نا امید نہیں ہوں۔ لیکن مایوس نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پرہاتھ رکھ کر غفلت کی چادر تان کر بیٹھ جائیں، بلکہ جتنی تاریکی چھا چکی ہے، اسی قدر دیے جلانے کی ضرورت ہے اور رہنمائی کے سر چشموں کی طرف رجوع کرکے اقبال کی طرح سوزِ جگر پیدا کرکے ملت کو جگانے اور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وَمَا ذَالِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیز! (ص ۳۴) اقبال کا ذکر کسی بھی عنوان سے کیا جائے، ان کے مرشد مولانا روم کا حوالہ بھی آئے گا ۔مصنف نے اشعار اقبال کی روشنی میںفکر اقبال کے تشکیلی عناصرپر مختصر بحث کے بعد ’’اسرار انسانیت سے آگاہ پیر رومی‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ یہ بیان جاوید نامہ کے بجائے دیگر شعری مآخذ کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے اور اختتام جاوید نامہ کے اس شعر پر ہے: ہر کہ از تقدیرِ خویش آگاہ نیست خاکِ اُو با سوزِ جہاں ہمراہ نیست (جو بندہ اپنی تقدیر سے آگاہ اور باخبر نہیں ہے، اس کا جسم اُس کی روح کے سوزو گداز سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ چلتا پھرتا انسان نظر آتا ہے، مگر اُس میں انسانی روح اور انسانیت کے اوصاف و اطوار ناپید ہوتے ہیں) تذکرۂ رومی کے بعد دراصل کتاب کا آغاز ہوتا ہے جسے ’’جہاں دوست کا استفسار‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ گذشتہ اوراق میں رومی کے جن روح پرور خیالات کا ذکر ہوا ان کے جواب میں جہاں دوست بھی اپنے قلبی تاثرات کا اظہار کرتا اور رومی سے کچھ سوالات کرتا ہے۔ رومی جہاں دوست کے ان سوالات کے جواب دیتے ہیں، درمیان میں زندہ رود کے بھی کچھ سوالات آ جاتے ہیں جن کو رومی کی فکر سے جواب مرحمت ہوتے ہیں۔ رومی کے ان افکار میںجذبات کی افزونی اور خرد کی نمایندگی نے بہت سے پیچیدہ مسائل پر رہنمائی فرمائی ہے اور امید ہی نہیں یقین کی شمع کو روشن تر انداز میں پیش کیا ہے۔ ’’صدائے سوز ناک‘‘ کے تحت زندہ رود اور رومی ----- نوائے غالب ، نوائے طاہرہ اور حلاج کی زبانی علم و معرفت اور عشق ومحبت کی حقیقی روح کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہاں جلالِ ربانی اور زیارت نبوی کی ایمان افروز کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اقامتِ دین کا عقدہ بھی زیر بحث آیا ہے۔ مؤلف نے اقبال کے اس شعر کو بنیاد بنا کر بات آگے بڑھائی ہے: نقشِ حق را در جہاں انداختند من نمی دانم چساں انداختند؟ (اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے دین کی کلیت اور عظمت کا نقش دنیا پر ثابت اور غالب کرنے کی بات توسامنے آ گئی لیکن مجھے معلوم نہیں کہ کیسے اس کو قائم و غالب کیا جائے؟) اقامت دین کا تصور قرآن حکیم کے کئی مقامات پر بیان ہوا ہے مصنف نے اسے سورۂ شوریٰ کی آیت ۱۳ کی روشنی میں واضح کیا ہے اور اس سوال کا جواب کہ دین کیسے قائم ہو، مختصراً بیان کر دیا ہے۔ ’’صدائے سوز ناک‘‘ کے بعد ’’صحبتِ آدم سے عاجز ابلیس کی فریاد‘‘ کے زیر عنوان اقبال نے ابلیس کی زبانی ہمارے شب و روز کی صورتِ حال کی عکاسی کرکے متنبہ کیا ہے کہ ہم ایک طرف تو ابلیس سے نجات کی دعائیں مانگتے ہیں،اور دوسری طرف عملی دنیا اور عملی زندگی اُسی ابلیس کی خواہشات اور منشا و مرضی کی تابع داری میں گزارتے ہیں۔ زندگی کے اس تضاد اور تناقص کو جب تک ہم دور نہیںکریں گے، ہماری موجودہ صورتِ حال میں تبدیلی نہیں آ سکتی ہے۔ ’’عالم افلاک کا لرزہ خیز سفر‘‘ اور ’’قلزم خونیں سے ایک غدار کی فریاد‘‘ کے عنوانات غداری کے بیان پر مشتمل ہیں۔ اس حوالے سے مصنف نے جاوید نامہ کے اشعار کی جو ترجمانی کی ہے وہ اس بات کی غماز ہے کہ مصنف میر جعفر و میر صادق کے کرداروںسے کس قدر آزردئہ خاطر ہیں ۔ افسوس بھرے لہجے میں مصنف کا بیان ہے کہ غداری کا یہ تسلسل کبھی ٹوٹنے نہیں پاتا۔ ایک غدار مر جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ انھوں نے اس تمنا کا اظہار بھی کیا ہے کہ کاش ! وقت کا مسلمان اتنا باشعور اور دین شناس ہو کہ وہ ایسے فریب کاروں کو ببانگِ دہل کہہ سکے کہ یہ کوئی بھی رنگ اختیار کر لیں میں انھیں پہچان لوں گا۔ مصنف نے اس تأسف کا اظہار بھی کیا ہے کہ علامہ اقبال جعفر اور صادق کی غداریوں پر آتش زیر پا تھے مگر آج ۵۷ مسلمان ملکوں کے عوام ’’جعفرانِ ایں زماں‘‘ کے نرغے میں ہیں۔ اس کے بعد مصنف جاوید نامہ سے ذرا صرفِ توجہ کرتے ہوئے پیام مشرق میں غوطہ زنی کرتے ہیں۔’’ شاعر مشرق کا شکوئہ شرر بار‘‘ اور ’’افغانستان میں اقبال کی آہ و فغاں‘‘کے عنوانات قائم کرکے کارِ جہاں بانی اور انداز حکمرانی کے اُن اسرار و رموز کو کھولنے کی سعی کرتے ہیں جو علامہ نے پیام مشرق کی پہلی نظم ’’پیش کش بحضور اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان‘‘میں بیان کیے ہیں۔ مثنوی مسافر کے گوہر ہائے آب دار بھی انھی سطور میں چمکتے ہیں۔ان صفحات میں حکیم الامت نے امت مسلمہ کے حوالے سے جن تاریخی اور زندہ حقائق کی نشاندہی کی ہے مصنف نے اُن کو دور اندیشی اور قائدانہ بصیرت کے ساتھ گوشۂ تاریخ سے نکال کر زمانۂ حال کے اسلامی تناظر کے ساتھ مربوط کرکے بیان کیا ہے۔ مسلم امہ کی اندرونی ناگفتہ بہ صورت حال کو بھی مصنف نے بڑے درد مندانہ انداز میںبیان کرکے امید اور بیداری کی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سطور میں فرمان شہِ نادر، خطاب بہ اقوام سرحد، پیر روم کا پیغام، کابل میں شاہِ افغان اور اقبال ، مغل بادشاہ بابر کے مقبرے پر ، غزنی میں مزار حکیم سنائی پر حاضری ، حکیم سنائی کی روح کا بہشت سے جواب، فریاد مردِ شوریدہ، اور ظاہر شاہ کے دربار میں ----- جیسے ذیلی عنوانات قائم کرکے ہندوستان کی اُس زمانے اور آج کی صورت حال پر سیر حاصل تبصرہ بھی کیا ہے اور رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ حکومت و سیاست اور حکمرانی و جہانبانی کے اسرار بیان ہوئے تو مصنف نے ضروری خیال کیا کہ اگر یہاں ایسی شاندار تہذیب کے رنگ و روپ کا تذکرہ کرکے بات کو چھوڑدیا جائے تو مناسب نہ ہو گا لہٰذا انھوں نے اس صورت حال کی زوال پذیری کے اسباب کو بھی بیان کر دیا۔ عنوان ہے: مسلمانوں کا تنزل اور اس کے اسباب ----- تفریق دین و سیاست اور لا دین تہذیب کو اس تنزل کا اوّلین سبب قرار دیا گیا ہے۔ چند چیدہ نکات پر مشتمل اس اہم بحث کو مصنف نے مسلم حکمرانوں کے لیے لائحہ عمل کے طور پر پیش کیا ہے۔ لا الٰہ الّا اللّٰہ کو اس گفتگو میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اس بحث کا اختتام والیِ افغانستان ظاہر شاہ کے پیغام کی صورت میں کیا گیا ہے۔ یہ پیغام مسلمان عوام اور مسلمان حکمرانوں کے لیے ہے کہ وہ اسلام کی مبادیات پر اپنے کردار و عمل کی تعمیر کریں تو وہ دنیا میں اپنے گمشدہ مقام کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیںاور اسلام دنیا کے لیے وہ حیات قرار پا سکتا ہے جس کی تلاش میں دنیا سرگرداں ہے۔ عالم افلاک کی یہ سیر جار ی ہے اور اقبال اپنے پیر و مرشد مولانا روم کی رہنمائی میں جنت الفردوس کی سیر پر ہیں۔ بہت سی آسودئہ خاک ہستیوں کی ارواح سے ملاقات و مکالمہ ہوتا ہے۔ لاہور میں شرف النساء خاتون کا محل دیکھتے ہیں اور قرآن و تلوار کے ساتھ اس کے محکم ترین رشتے اور تعلق کو تحسین کی خراج پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد سید علی ہمدانی اور طاہر غنی کشمیری کی زیارت کا احوال بیان کیا جاتا ہے۔ ان پاکیزہ ارواح سے مکالمے کے دوران جن حقائق کا انکشاف ہوتا ہے ان کے اظہار کا سبب بننے والے زندہ رود (اقبال) کا کردار بھی بہت اہم ہے جونئے سے نئے طرزِ تکلم اور اندازِ استفسار کے ذریعے حقائق کی گرہ کشائی کراتے ہیں۔ کشمیر کا تذکرہ ہوا تو کشمیر کی درد بھری تاریخ کا ذکر اندوہناک صورت اختیار کر گیا۔ ۱۸۴۶ء سے بات شروع ہوئی ، راجا گلاب سنگھ کے ہاتھ ، آزادی پسند انگریز نے جموں وکشمیر کے ۷۵ لاکھ مظلوم ، بے بس، نہتے اور بے سرو سامان انسانوں کو جس قیمت پر بیچا، اس میں ایک آدمی کی قیمت صرف سات روپے بنتی ہے۔ اس کریہہ صورت کے بیان کا آغاز ہو تو بات کیسے ادھوری چھوڑی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ۱۸۴۶ء سے شروع ہونے والی داستان ۱۹۳۸ء تک پہنچی اور مزید مختلف منزلوں مرحلوں کو عبور کرتی ہوئی ظلم کے نئے ابواب رقم کرتی چلی گئی۔ کہیں پڑائو آ جاتا تو شاید اس مظلوم قوم کو سسکنے کا موقع مل جاتا مگر جبر کے تسلسل نے ایسا نہ ہونے دیا اور معاملہ انگریز کی جمہوریت پسندی سے ہندستان کی مقامی قیادت کو منتقل ہوا تو کشمیر کی سیاہ بختی پر ایسی مہر ثبت ہو گئی جس کے نشانات مدھم پڑنے میں نہیں آ رہے۔ مصنف چونکہ ظلم کی اس تاریک رات کے خلاف کی جانے والی جدوجہد کے سرخیل ، سالارِ کارواں اوررحیلِ قافلہ ہیں اس لیے انھوں نے اس موقع پر بجا طور پر حقیقتِ حال کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ اس بحث کو جسے ’’دردِ ملت کا درماں ---- اقبال‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، بڑے بلیغ اور پُرتاثیر انداز میں اختتام تک پہنچایا ہے اور ایک درس بھی چھوڑا ہے جو اقبال کے اشعار ہی کی صورت یوں ثبت ہے : ملتے را ہر کجا غارت گرے است اصل او از صادقے یا جعفرے است الاماں از روحِ جعفر الاماں الاماں از جعفرانِ ایں زماں (جہاں کوئی ملت تباہ و برباد ہوتی ہے تو اس تباہی کی تہہ میں ہر کوئی صادق اور جعفر جیسا غدار ضرور ہوتا ہے۔ اے میرے اللہ! تو ہمیں جعفر کی روح سے اپنی پناہ میں رکھ، تو ہمیں جعفر جیسے غداروں سے بچا۔) تاریخ کشمیر کی یہ اندوہناک داستان ختم ہوتی ہے تو ’’اقبال بارگاہ الٰہی میں ‘‘ کا عنوان قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بہشت بریں کے سفر میں دیدار الٰہی کا شوقِ فراواں لیے اقبال افکار کے دریا بہائے چلے جاتے ہیں۔ کہیں علم کا ذکر آتا ہے تو کہیں عشق کا ، بارگاہ ایزدی میں حاضری کے وقت کی کیفیات ، احساسات اور مشاہدات کو زبان ملی توشاعر کو اپنی عرض داشت پیش کرنے کا موقع بھی میسر آ گیا۔ رب کے حضور رب کی دنیا کی بات شروع ہوئی تو دراز ہوتی گئی۔ جذبات چونکہ تعمیرِ دنیا کے امڈ رہے تھے لہٰذا ناگزیر تھا کہ تخریب کا بھی تجزیہ کیا جائے ۔ اس کے عناصر کو متعین کرکے بات آگے بڑھائی جائے۔ یہاں جن چار قوتوں کے منفی کردار کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ علامہ نے ان کو سود خور و والی اور ملا و پیر کے ناموں سے موسوم کیا ہے۔ حکیم الامت نے جس گہرائی میں اتر کر مغربی اور مشرقی دنیا کے ان کرداروں کی نبض شناسی کا کارنامہ انجام دیا ہے یہ انھی کا حصہ ہے۔ مصنف نے بھی اس بحث کو نہ اختصار کی نذر کیا ہے نہ تشنگی سے دوچار ہونے دیا ہے۔ بہت جامع و مانع انداز میں ان چاروں کرداروں پر بھرپور اور جرأت مندانہ اظہار خیال کیا ہے۔ مصنف کا یہ خداداد ملکہ پوری کتاب میں ہر جگہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب بھی نیا شعر سامنے آتا ہے اُن کے قلم کی جولانی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ مصنف نے کم و بیش پون صدی قبل معرض وجود میں آنے والی شاعری کو بڑی کامیابی کے ساتھ قومی، ملی، اور بین الاقوامی تناظر سے ہم آہنگ کرکے مسلم امہ کو حالت زار سے نکلنے کی راہ دکھائی ہے۔ مصنف نے جہاں ضروری سمجھا ہے قرآن و حدیث سے بھی رہنمائی پیش کی ہے۔ اس سے دینی مباحث پر مصنف کی گہری اور وسیع نظر کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔یوں یہ حصہ کتاب کے اہم ترین مبحث کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ابوجہل کے نوحے کو ’’چراغ راہ بنائو، بڑا اندھیرا ہے‘‘ کے زیر عنوان مختصر طور پر بیان کرکے مسلمان کو متوجہ کیا گیا ہے کہ ہمارے اعمال سے کیا ابوجہل کی آرزو پوری ہوتی ہے یا اطاعتِ رسول کا فریضہ ادا ہوتا ہے؟ اس کے بعد ایک اور اہم مبحث ’خطاب بہ جاوید‘ کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جس کو نئی نسل کے لیے مشعل راہ قرار دیا گیا ہے۔ اس بحث میں بھی زوالِ امت کا تذکرہ ہوا جس میں غداری کو بنیادی دخل حاصل ہے۔ کچھ مسلمانوں کی بے عملی کا ذکر ہے۔ کچھ ایمان سے تہی ہونے کا بیان ۔ چونکہ خطاب نوجوان سے تھا اس لیے رنگ ناصحانہ اور درد مندانہ ہے۔ جہاں نوجوانوں کو ایمان و یقین اور علم و ہنر کی دولت کے حصول کے لیے آمادہ کیا گیا ہے وہاں بیدار دلی، جہاں بینی اور خود داری وغیرت مندی کا درس بھی دیا گیا ہے۔ آخری عنوان ’’اقوامِ مشرق کے لیے نسخۂ کیمیا اثر‘‘ کا آغاز اردو کلام سے منتخب کیے گئے متفرق اشعار سے ہوتا ہے مگر جلد ہی رخ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے اشعار کی طرف مڑ جاتا ہے۔ یہ وہ اشعار ہیں جو ’’خطاب بہ مہر عالم تاب‘‘ کے زیر عنوان فکر اقبال کی ترجمانی کرتے ہیں۔ علامہ مرحوم ان اشعار میں تطہیرِ فکر کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ بعدازاں ’حکمت کلیمی ‘کے ذیلی عنوان کے تحت نظامِ رسالت کی وضاحت کی گئی ہے۔صحبت انبیاء کی تاثیر بیان کی گئی ہے۔’حکمت کلیمی‘ کے متضاد و متقابل ’حکمتِ فرعونی‘ کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ حکمت لی گئی ہے جو خالق و مالک ، حاکم و رازق اللہ کی حاکمیت کے انکار اور بغاوت پر مبنی ہو۔ جو انسانی ذہن، سوچ اور خواہشاتِ نفسانی کی بنیاد پر تعمیر ہو رہی ہو۔ یہ ذیلی عنوان بھی اپنے اندر بھرپور بلاغت اور جامعیت رکھتا ہے۔ بہت سی ناگفتہ باتیں بڑے سلیقے سے گفتہ بنا دی گئی ہیں۔ اسی تسلسل میں اگلا ذیلی عنوان لا الٰہ الاّ اللّٰہ ہے۔ چند حروف کے اس کلمے کی جو تشریح و تفسیر کی گئی ہے اسے قرآن مجید کی آیات سے استشہاد فراہم کرکے انتہائی وقیع بنا دیا گیا ہے۔ اسی عنوان کے اندر مسلم امہ کی زبوں حالی کو بیان کرنے کے بعد اس کے لیے نجات کی راہ کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ لا الٰہ الاّ اللّٰہ کے بعد فقر کا ذیلی عنوان مومنانہ اوصاف و کمالات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ آخر میں مصنف امت مسلمہ کو اپنی زبوں حالی سے نکلنے پر ابھارتے ہیں اور امید کا دیا مؤمن کے ہاتھ میں تھماتے ہیں کہ حق کو بالآخر غالب آکر رہنا ہے اور باطل کو پسپا ہونا ہے۔ اس مبحث کا اختتام چونکہ کتاب کا بھی اختتام ہے جو بہت بامعنی ہے۔ یہ اُن دو اشعار پر مبنی ہے جو علامہ مرحوم کی آخری رباعی کے اشعار ہیں اور ان میں علامہ نے اپنی زندگی کے اختتام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سید علی گیلانی نے شروع سے آخر تک کتاب کے اندر جہاں ضروری اور مناسب سمجھا قرآن حکیم اور حدیثِ نبویؐ سے بھی رہنمائی لینے کی بھرپور سعی کی ہے جس سے کتاب کی وقعت اور افادیت میںبہت اضافہ ہو گیا ہے۔ مصنف نے اقبالیات کے اس سلسلے کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ سے مہلت زندگی مانگی ہے اللہ نے ان کی اس خواہش کو پورا کر دیا اور وہ اگلی کتاب بھی مکمل کر چکے ہیں جو عن قریب منظر عام پر آ جائے گی۔ ڈاکٹر شفیع شریعتی کتاب کے تعارف بعنوان ’’چہرہ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں: سید علی گیلانی فکر اقبال کا آئینہ سامنے رکھ کر مایوسی ، شکست خوردگی، مرعوبیت، گروہ بندی، مغرب زدگی، دنیا پرستی، آخرت فراموشی، تن آسانی اور اس طرح کے بے شمار بدنما داغ اور دھبوں سے ملت اسلامیہ اور مردِ مسلمان کو اپنا چہرہ صاف کرنے کی تحریک دے رہے ہیں۔(ص ۱۶) ڈاکٹر شریعتی نے کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس امید اور یقین کا بھی اظہار کیا ہے کہ : گیلانی صاحب نے اقبال کی فارسی شاعری سے چیدہ چیدہ نظم پاروں کے حسنِ انتخاب اور ترجمے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور تشریحی عبارات میں اپنے احساسات اور جذبات کی عطربیزی اور رنگ آمیزی کرکے ایک روح پرور، کیف آور، نظر نواز اور انقلاب آفریں سماں پیدا کیا ہے۔ سید علی گیلانی صاحب اقبالیاتی ادب میں اپنا قیمتی حصہ ڈال کر نوخیز نسل کو اقبال مرحوم کی چھوڑی ہوئی فکری میراث کو دامنِ دل میں سمیٹنے کی ترغیب دیتے ہیں: گر نیابی صحبت مردِ خبیر از اب و جد آنچہ من دارم بگیر [جاوید نامہ] اقبال :روح دین کا شناسا اسلامی تہذیب، تاریخ، ادب، سیاست، مسئلہ کشمیر اور اقبالیات میں دلچسپی رکھنے والے حلقوں کے لیے ایک مفید، معلوماتی اور دلچسپ کتاب ہے۔ مسلمان نوجوانوں کے لیے گیلانی صاحب کی اس کتاب کو ایک گنجینۂ گراں مایہ کی حیثیت حاصل ہے۔ امید ہے کہ کہنہ مشق سیاست دان، انقلابی راہ نما، صاحبِ طرز مصنف، روح دین کے رمز شناس اور اقبال کے شیدائی سید علی گیلانی صاحب کی یہ گراں قدر تصنیف علمی، ادبی اور تحریکی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرے گی۔ ان شاء اللہ! (ص ۱۶،۱۷) کتاب کا دیباچہ جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: علامہ اقبال بھی کشمیری نژاد تھے اور کشمیر سے ایک گہری وابستگی رکھتے تھے۔ وہ غلامی سے کشمیریوں کی نجات کے عمر بھر خواہاں رہے۔ سید علی گیلانی بھی علامہ اقبال کی طرح اسی جذبے اور مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کی انھی کاوشوں کا ایک حصہ ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال کی شخصیت، احیاے ملتِ اسلامیہ کے لیے ان کی کاوشوںاور آزادیِ کشمیر کے لیے اُن کی دیرینہ تمنائوں کو اس کتاب میں باہم دگر مربوط کیا ہے، اور اس بحث میں بڑی حد تک جاوید نامہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فہمِ اقبال میں وہ موجودہ دور کے بہت سے اقبال شناسوں سے کہیں بہتر فکری اور عملی شعور رکھتے ہیں۔ میں ان کو اس فکر انگیز کتاب اقبال: روح دین کا شناسا کی تالیف پر مبارکباد دیتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ یہ کتاب تفہیم اقبال میں معاون اور مفید ثابت ہو گی۔ نئی نسل، اساتذہ اور دانش ور حضرات کے لیے خصوصاًاس میں ایک بھرپور پیغام ہے۔(ص ۸) کتاب دیدہ زیب سرورق کے ساتھ عمدہ کاغذ پر طبع کی گئی ہے۔ تدوینی اعتبار سے بڑی دقت اور مہارت سے کام لیا گیا ہے مگر پھر بھی کمپوز کاری میں کئی فروگذاشتیں رہ گئی ہیں خصوصاً اشعار میں۔ بہر حال مجموعی اعتبار سے کتاب کی پیش کش اس کے شایانِ شان دکھائی دیتی ہے۔ ------حافظ محمد شاہد ژژژ