اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت بین الصوبائی رابطہ) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com مندرجات خ پس جدیدیت: چند غور طلب سوالات پروفیسر غلام رسول ملک ۱ خ … از خدا گیرد طریق محمد سہیل عمر ۱۳ خ علامہ محمد اقبال کا ڈرامائی طرز سخن ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ۲۳ خ اقبال اور تحریک آزادیِ ہند پروفیسر عبدالحق ۵۵ خ اقبال اور دارالمصنّفین ڈاکٹر الیاس اعظمی ندوی ۶۵ خ حافظ اور اقبال ڈاکٹر علی رضا طاہر ۸۱ خ اقبال اور مولانا عبدالمجید سالک ڈاکٹر محمد سلیم ۹۳ خ اقبال کا تصورِ تشکیلِ نو شگفتہ بیگم ۱۰۳ خ ملاّ صدرا کے فلسفۂ وجود میں تشکیک الوجود خضر یاسین ۱۱۷ اقبالیاتی ادب خ اقبالیاتِ مجلہ المعارف لاہور سمیع الرحمن ۱۲۹ خ علمی مجلات میں شائع شدہ مقالات کی فہرست ادارہ ۱۳۷ قلمی معاونین پروفیسر غلام رسول ملک سابق صدر، شعبۂ انگریزی، کشمیر یونی ورسٹی سری نگر محمد سہیل عمر ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اُستاد، شعبۂ اُردو اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور پروفیسر عبدالحق سابق صدر ،شعبۂ اُردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی، انڈیا ڈاکٹر الیاس اعظمی ندوی رفیقِ علمی، دارالمصنّفین، اعظم گڑھ، انڈیا ڈاکٹر علی رضا طاہر اُستاد، شعبۂ فلسفہ، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ڈاکٹر محمد سلیم سابق ڈین، فیکلٹی آف سائنس، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ڈاکٹر شگفتہ بیگم اُستاد ،شعبۂ فلسفہ، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور خضر یاسین ریسرچ سکالر، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سمیع الرحمن رُکن، مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹جے ماڈل ٹائون، لاہور پس جدیدیت: چند غور طلب سوالات پروفیسر غلام رسول ملک لفظ ’پس جدید‘کا استعمال پہلی دفعہ آرنلڈ۔ ٹوائن۔ بی نے ۱۹۴۷ء میں کیا تھا۔ انھوں نے ’پوسٹ ماڈرن‘ اصطلاح مغربی تہذیب کے چوتھے اور بقول ان کے آخری دور۱؎ کے لیے وضع کی تھی جس کی نمایاں خصوصیات تھیں: پریشان خاطری، ذہنی تنائو، احساس بے بسی اور غیر عقلیت(irrationalism) ۔ پس جدیدیت ٹوائن۔ بی کے خیال میں جدیدیت ہی کی توسیع تھی اس لیے کہ جدیدیت کے مخصوص عناصر ترکیبی ------ وجودیت(existentialism) یعنی وجود کے کسی جوہر اصلی (essence) سے انکار، لایعنیت (absurdism) اور اخلاقی اضافیت (ethical relativism) پس جدیدیت میں بھی شدید تر صورت میں موجود ہیں۔ ٹوائن ۔ بی کو کیا معلوم تھا کہ جو اصطلاح انھوں نے بیانِ حقیقت کے لیے وضع کی ہے وہی ایک نعرے میں تبدیل ہو گی اور ایک ایسے انتشارِ فکر کی سرِ عنوان بن جائے گی کہ جس کی نظیر گذشتہ تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ ’انتشار‘ فکر کی ترکیب کا استعمال میری مخصوص مشرقی ذہنیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ورنہ پس جدید مغرب میںجو کچھ پیش آ رہا ہے اس میں مغربی ذہن کے لیے کوئی انوکھا پن نہیں ہے۔ وہ اس فکری عمل کا واحد منطقی نتیجہ ہے جس کی ابتدا قدیم یونان میں ہوئی تھی اور جو رومی تہذیب میں روبہ عمل رہا اور پھر نشاۃ ثانیہ کے بعد ایک نئی اور بھرپور قوت، جامعیت اور آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔۲؎ اس فکری عمل کا محور کیا تھا۔ اگر ہم مغربی تصوریت (idealism) کی اس کمزور لہر کو نظر انداز کریں جس کا بہر صورت مغرب کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر بہت کم اثر رہا ہے تو بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ مغرب کے اس متواتر فکری عمل کا محور یہ تھا کہ مادی اور ظاہری حقیقت سے ماورا حیات و کائنات اور انسانی فکر و سعی کے لیے کسی بھی محور، مرکزیا مرجع کا کوئی وجود نہیں۔ ہم ادب کے طلبہ کی ایک عجیب کمزوری یہ ہے کہ ہم تلخ حقائق سے گریز کی بنا پر نہ کہ کسی تصوریت سے وابستگی کے باعث، مغرب کی تصوریت کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور افلاطون، کانٹ، اسپنوزا، فخٹے اور برکلے سے جی بھر کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ سوچنے کی ذرا کم ہی تکلیف کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی عمارت بنانے میں ان جیسے عینیت پسندوں کا زیادہ حصہ رہا ہے یا ارسطو، میکیا ولی، بیکن، لاک، ڈے کارٹ، ایڈم اسمتھ، بینتھم، کارل مارکس، ہٹلر اور بُش کا ------ جہاں تک مؤخرالذکر زمرۂ شخصیات کا تعلق ہے تو تفصیلات میں باہم مختلف الخیال ہونے کے باوجود ان شخصیات کے نزدیک جو چیز بحیثیت مجموعی سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے ظاہری حقیقت۔ اس لیے وہ ظاہر سے آگے اور سطح کے نیچے کسی پوشیدہ حقیقت یا کسی ماہیت و مرکزِ وجود کی تلاش و جستجو سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ اب اگر کسی مرکز و محور یا ماہیت اصلی کا کوئی وجود نہیں تو سوائے ذہنی انتشار اور فکری الجھائو کے ہمارے پاس کیا باقی رہ جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا بنجر انتشار (chaos) ہے کہ جس کی کوکھ سے کوئی کائنات جنم نہیں لے سکتی اس لیے کہ کائنات نام ہے نظم و ضبط اور نامیاتی وحدت کا جب کہ پس جدید دنیا کا طرئہ امتیاز ہے بے ضابطگی، بد نظمی اور پریشان حالی (panic) ------ کرو کر اور کک کے الفاظ میں پس جدید دنیا نام ہے: پریشان خاطری سے لبریز کتاب (panic book) کا، پریشان خاطری سے لبریز جنسی تعلق کا، پریشان خاطری سے لبریز فن کا، پریشان خاطری سے لبریز نظریاتِ فکر کا، بکھرے ہوئے جسموں کا، پریشان کُن شور و شغب اور پریشان حال نظریہ سازی کا۔ کرو کر اور کک کے اصل انگریزی الفاظ ملاحظہ ہوں: Panic book, panic sex, panic art, panic ideology, panic bodies, panic noise and panic theory.4 جدیدیت کی اساس چند مفروضوں پر قائم تھی جن میں سے ترقی پسندانہ روشن خیالی (progressive enlightenment) اور عقلیت (rationalism) کو اہم ترین مقام حاصل تھا۔ لا یعنیت اور عدمیت (nihilism) کے ڈراؤنے خوابوں سے اس کو بھی سابقہ تھا مگر وہ انھیں چیلنج کے طور پر قبول کرکے ان سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کرتی تھی اور انھیں کسی نہ کسی نوع کے معانی کے چوکھٹے میں فِٹ کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ ادب کی دنیا میں کچھ تو ایسے تھے جنھوں نے معاشرتی اور سیاسی پروگراموں کے واسطے سے اور ان پروگراموں کو اپنی تخلیقات میں سمونے کے واسطے سے ان چیلنجوں کا سامنا کیا۔ کچھ ایسے تھے جنھوں نے نئے اساطیر (myths) کو جنم دے کر یا پرانے اساطیر کا سہارا لے کے ایک بہ ظاہر بے معنی وجود اور صورتِ حال کو معنی بخشنے کی کوشش کی اور کچھ ایسے بھی تھے کہ جنھوں نے انفرادی اور داخلی خول میں سمٹنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور اپنی تخلیقات کو دنیائے باطن کی ایک ایسی واردات کا آئینہ دار بنایا جو دوسروں کے لیے بالعموم معما بن کے رہ جاتی ہے مگر ان میں سے ہر کسی کا یقین تھا کہ ابھی ہم اپنا سب کچھ نہیں کھو چکے ہیں اور کچھ ہے کہ جس کے سہارے ہم اور ہمارے خواب ابھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ ایک مبہم سا احساس باقی تھا کہ مہیب عدم یقینیت میں یقین کی ایک ایسی کھونٹی کہیں موجود ہے کہ جس کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ ہمہ گیر اور تہ در تہ لایعنیت کی گہرائیوں میں کہیں نہ کہیں معنویت و مقصدیت کی کوئی پرت ابھی موجود ہے لیکن پس جدیدیت نے اب افسانویت (fictionality) ،طعن (irony) اور عارضیت و حدوث (contingency) کے حق میں یقینیت، کلیت اور اطلاقیت کے خلاف ایک ہمہ جہت جنگ چھیڑ دی ہے۔ سکون و قرار ناپید ہے اور اس کی جگہ ایک شعوری شک اور اضطراب نے لے لی ہے۔ اب یہ یقین کیا جاتا ہے کہ دنیا کے بارے میں علم کو دنیا کے اندر موجود ہونے کی حقیقت سے اس طرح جدا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا کہ گویا ہم اسے باہر سے دیکھ رہے ہیں اور ایسے موقف (standpoint) سے دیکھ رہے ہیںجو معروضی ، آفاقی اور قائم بالذات ہے۔ ایک الجھائو ہے کہ جس کا ہمیں سامنا ہے، (implication is all) ۔اس صورتِ حال میں قدروں کا تعین نا ممکن اور علم کا یقینی ہونا مشکوک ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ احساسِ اجنبیت (alienation) اور لایعنیت کے جس کرب سے جدیدیت دو چار تھی، پس جدیدیت کے الجھائو والے نظریے سے اس میں کوئی تخفیف نہیں ہوئی ہے۔ جدیدیت سے وابستہ تخلیقی فنکار، علامتیت اور ہیئت و ساخت کی پیچیدگی اور رنگارنگی کے ذریعے اس کر بناک صورتِ حال سے کچھ نہ کچھ معنی برآمد کرنے کی کوشش کرتے تھے اور سطح سے نیچے دیکھنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ پس جدیدیت سے وابستہ ادیب سطح سے نیچے دیکھنا بے کار سمجھتا ہے اور سطحیت پر بخوشی قانع ہے۔ وہ مسخرانہ لا تعلقی اور لاابالی پن کے ساتھ لایعنیت اور لغویت سے کھیل تماشے کی طرح حظ اٹھا رہا ہے۔ کُلی اور ہمہ گیر تو جیہات اس کے نزدیک مشکوک اور غیر معتبر ہیں۔ اس لیے کہ ان سے بقول لیوتارڈتکثیریت اور کثرتی فکر و نظر (pluralistic point of view) کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی۔ پھر جیسا کہ فریڈرک جیمزن نے کہا ہے کہ دور آخر کی سرمایہ داری کی تہذیبی منطق(cultural logic of the late capitalism) نے مختلف اطراف و ابعاد میں اپنے پر پھیلائے ہیں جن میں سے ایک اہم پہلو معلومات و اطلاعات کی وہ دھماکہ خیز توسیع ہے جس نے ایک طوفانی ریلے کی طرح اس ثبات و قرار کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو چند مزعومات و مفروضات پر قائم تھا۔ بادرِی لارد نے اپنی کتاب Simulations (۱۹۸۳ئ)میں بجا طور کہا ہے کہ دور حاضر میں ذرائع اطلاعات جس غلبے کے ساتھ دنیا پر مسلط ہو گئے ہیں اس سے حقیقت دب کے رہ گئی ہے اس لیے کہ حقیقت اور افسانہ اس طرح سے باہم مدغم ہو گئے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیںکیا جاسکتا۔ گویا حقیقت خرافات میں کھو گئی ہے۔ ہم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جو برتر از حقیقت (hyper-real) ہے اور جہاں ہم چارونا چار ذرائع ابلاغ کے رحم و کرم پر ہیں جو حقیقت کو جس طرح چاہیں بدل سکتے ہیں۔ حقیقت کو مسخ کرنے کے اس عمل میں یا پھر یوں کہیے کہ حقیقت کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے کے اس عمل میں مغربی ذرائع ابلاغ اس چابک دستی سے اپنا کام کر رہے ہیں کہ ان کی تراشیدہ تعبیریں، بالخصوص ان ممالک کے بارے میں ان کی تعبیریں عین حقیقت تسلیم کی جاتی ہیں جنممالک کو تیسری دنیا کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ تعبیریں عام طور پر حقیقت کے برعکس ہوتی ہیں۔فی الحال عراق اور افغانستان اس تعبیر نو کی زد پر ہیں، اس کے بعد لگتا ہے کہ ایران کی باری آئے گی اور پھر … جدیدیت سے پس جدیدیت کی طرف انتقال (transition) کی ممتاز ترین خصوصیت یہ ہے کہ پس جدید دور میں اُن بنیادی مزعومات پر یقین یا تو ڈھلمل ہو گیا ہے یا بالکل ختم ہو کے رہ گیا ہے جن کے سہارے جدیدیت کی عمارت قائم تھی لیکن ان کی جگہ لینے کے لیے کوئی نئی مزعومات نہیں آئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پس جدید دنیا ایک صحرائے بے پایاں ہے کہ جس میں نہ کوئی سنگ میل ہے نہ جادہ، نہ منزل، نہ کسی کو منزل کے سراغ کی فکر۔ میں اپنے آپ کو اس صحرا کی پہنائیوں میں حیران و سرگشتہ پا تاہوں اور سراپا سوال ہوں۔ آئیے میرے اندر فطری طور پر ابھرنے والے ان سوالات میں آپ بھی شریک ہو جائیے۔ اگر معانی متعین نہیں ہیں بلکہ بغیر کسی حد اور قید کے آزاد ہیں، اگر معانی پیدا ہوتے ہیں تنوع اور اضطراب تلون (differance) کے بطن سے، اگر معانی کا وجود منحصر ہے علاماتِ معانی (signifiers) کی کھلی اور آزادانہ اچھل کود پر، پھر معانی کی اس مخصوص تعبیر کو ہم فلسفہ و ادب ہی تک کیوںمحدود رکھیں۔ کیوں نہ ہم اسے علوم فطری (natural sciences) مثلاًسیاسیات یا پھر روز مرہ زندگی کے معاملات میں بھی اتار دیں۔ اس سے اگر ان علوم میں یا عام زندگی میںتباہی کا اندیشہ ہے تو پھر اس طریقِ علم و تحقیق کو کیوں معتبر تصور کیا جائے گا؟ اگر آپ اسے فلسفہ تک اس لیے محدود رکھتے ہیں کہ یہ شعبۂ علم قیاسی ہے، تلپٹ ہوتا ہے تو ہونے دو، کسی بڑے نقصان کا اندیشہ نہیں تو پھر مجھے خدارا یہ بتائیے کہ یہ ذہنی عیاشی نہیں تو اور کیا ہے۔ پس جدیدیت میں کیا کچھ روا نہیں؟ اس طریق علم و تحقیق کا اطلاق اگر ادب پر اس لیے کیا جاتا ہے کہ ادب کا طرئہ امتیاز کثیر المعنویت (pluristignation) تہ داری اور ابہام ہے تو پھر اس میں نئی بات کیا ہے۔ تہ داری اور ابہام کو اگر رولاں بارتھ کے الفاظ میں تہ بہ تہ کثریت (stereographic) کے نام سے پکاریں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بین المتونیت (intertextuality) کیا ہے؟کیا یہ وہی چیز نہیں کہ جسے کلاسیکی زبان میں تاثیر و تاثر(influence) کہا جاتا ہے یا جسے تلمیح کا نادر اورلطیف استعمال کہا جاتا ہے یا جسے ٹی، ایس ایلیٹ نام دیتا ہے تمام ادب کی ہمہ وقت اور بیک وقت موجودگی یعنی روایت (tradition) کا؟ اگر مصنف موت سے ہمکنار ہو چکا ہے اس معنی میں کہ متن ہی سب کچھ ہے اور اسے کسی مخصوص حوالے سے منسلک کیے بنا پس جدید طریقِ مطالعہ سے پڑھا جا سکتا ہے اور اب کوئی سفوکلینر، کوئی شیکسپیئر ، کوئی حافظ، کوئی کالیداس، کوئی غالب، کوئی اقبال کہیں موجود نہیں ہے، نہ ان کی موجودگی کوئی معنی رکھتی ہے۔ اب صرف مطلق المعنی اور بے معنی متون (texts) کا وجود ہے تو پھر ہمارا معیار قدر (standard evaluation) کیا ہو گا؟کون ہمارے اساتذئہ فن ہوں گے اور کون اطفال مکتب؟ کن کو ہم بڑے تخلیقی فن پارے تصور کریں گے اور کن کو کم درجے کے ؟ کیا ابدیت و دوام کے تصورات عنقا ہو گئے ہیں؟ پس جدید یا، اس سوال کو غیر متعلق قرار دے کر مسترد کرے گا مگر اس سوال سے کیسے پیچھا چھڑائے گا کہ تمام متون (Text) کیوں زندہ نہیں رہے ہیں یا رہتے ہیں، صرف وہی متون کیوں زندئہ و پائندہ رہتے ہیں جنھیں ہم شہ پارے کہتے ہیں۔ اگر مصنف محض کاتب یا منشی (scriptor) کی حیثیت رکھتا ہے (مثلاً آف گراما ٹالوجی، کا تب ژاک دریدا) تو اسے بحیثیت وسیلہ (medium) کے کون استعمال کرتا ہے؟جواب ہوگا، زبان۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنف ایک بے اختیار وسیلہ ہے، محض ایک بچہ جمورا؟ اور ہاں، اگر ہر چیز متن کا درجہ رکھتی ہے تو ادب ۔۔۔ تخلیقی ادب ۔۔۔ کا نشان امتیاز کیا ہے؟ تعریف و تعین (definition) کا مطلب ہوتا ہے چیزوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنا، مناسب خطوط امتیاز کھینچنا، اگرچہ وہ ناقابل تغیر قطعیت کے حامل نہ ہوں۔ تعریف و تعین کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ امتیاز کے تمام خطوط محو کیے جائیں۔ آخر ہمیں کیا پڑی ہے کہ بیٹھے بٹھائے چینی کے برتنوں کی دکان میں بے لگام بیل کو دندنا تاپھرتا چھوڑ دیں۔ اگر قاری خود مصنف ہے، اس معنی میں کہ جو متن وہ پڑھتا ہے اسے وہ خود خلق کرتا ہے تو چونکہ آپ کے خیال میں مصنف معدوم ہو چکا ہے تو اس ایک مصنف کو زندہ رکھنے پر آپ بضد کیوں ہیں؟ واضح رہے کہ میں انہدام یا لا تشکیل سے کام نہیں لے رہا ہوں بلکہ طفلانہ ۔۔۔ بچگانہ نہیں، معصومانہ ۔۔۔ استعجاب اور استفسار سے کام لے رہا ہوں ____اُس بچے کا استعجاب و استفسار جس نے کہا تھا کہ راجا ننگا ہے۔ قاری کا خود مصنف ہونا کس طرح اس نظریۂ تنقید سے مختلف ہے جس کو ہم قاری کا رد عمل (reader response theory) یا’ قاری اساس تنقید‘ کے نام سے جانتے ہیں سوائے اس کے کہ پس جدید طریقِ نقد تمام توازن سے مبرا ہے۔ اگر پس ساختیاتی تنقیدی بصیرتوں کو ژاک لاکان کی نفسیاتی بصیرتوں کے ساتھ ملا کر دیکھیں اور دونوں کا باہم گہرا تعلق ہے تو ہر قاری کسی متن (Text) کا مطالعہ کرتے ہوئے خود اپنے نامعلوم امراض کی شبیہ دریافت کرتا ہے گویا متن ایک ایساآئینہ ہے جس میں قاری کو خود اپنا عکس نظر آتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پڑھنادراصل ایک نرگسی عمل (Narcissistic activity) ہے یا پھر جیمز اسٹریچی کے الفاظ میں آنکھوں کے راستے سے غذائے مطلوبہ حاصل کرنے کا عمل۔ لا چارگی اور مایوسی میں اگر آدمی بوکھلاہٹ پر اتر آئے تو اسے معذور سمجھنا چاہیے اس لیے کہ بے بسی میں آدمی کر بھی کیا سکتا ہے مگر بوکھلاہٹ میں اگر آدمی سچائی، حقیقت، معانی، علم ۔۔۔ سب کی دھجیاں بکھیر دے تو بھلا اس کی معذرت کیسے کی جا سکتی ہے۔ یہ تو مجنونانہ خوداذیتی (mad masochism) ہے۔ کشمیری کا ایک لطیفہ ہے کہ کسی صاحب کا سر چھت سے ٹکرا گیا اس لیے کہ چھت نیچی تھی۔اس نے بوکھلاہٹ میںچھت کو اس زور سے دانتوں سے کاٹا کہ دانت ٹوٹ گئے۔ پس جدید انسان مطلب و معانی کے تمام مدارج سے اپنا رشتہ منقطع کرکے انتشار فکر کے دوزخ میں پہنچ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بیسویں صدی کے عظیم انگریزی شاعر ڈبلیو۔ بی ۔ یے ٹس نے بہت پہلے اپنی چشم تصور سے یہ بھیانک منظر دیکھ لیا تھا: Turning and turning in the widening gyre The falcon cannot hear the falconer; Things fall apart; the centre cannot hold; Mere anarchy is loosed upon the world.5 پس جدید تنقیدی رویے کو ہم لایعنی اور مہمل (absurdist) طرزِ نقد کا نام دے سکتے مگر یہ ایک قدم اس سے بھی آگے جاتا ہے۔ مثلاًاگر آپ پس جدیدیت کے سامنے ایک مہمل ٹیکسٹ رکھتے ہیں تو یہ فوراً اس کے بطن سے ، یعنی بے معنیت کے بطن سے معنی بر آمد کرنے کی سعی لا حاصل میں مگن ہو جاتی ہے۔ یہ تو بڑی ہی کڑوی ستم ظریفی ہے۔ آپ اگر یہ کہتے ہیں کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں تو جواب ملے گا کہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں۔ آپ واپس مڑ کر التماس کرتے ہیں کہ ’’جی ہاں دو اور دو پانچ ہوتے ہیں‘‘ تو جھٹ سے جواب ملتا ہے ’’نہیں جناب، دو اور دو چار کی حقیقت تو مسلمہ ہے۔ ‘‘ آپ مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں ’’آپ تو مسلمات کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔‘‘ ادھر سے جواب با صواب ملتا ہے ’’تو کیا ہوا۔ ضرورت پڑے تو ہم جو پیمانہ چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘ لفظ میں معنی کی تہیں اور ارتسامات (traces) بہت خوب اور ہر حیثیت سے مسلّم، لیکن الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اگر ایک مصنف کے ذہن میں یہ تمام ارتسامات یا ان میں بیشتر شعوری طور پر مستحضر نہ ہوں سوائے ان کے جو اس کے مفید مطلب ہوں تو آپ کے نظریۂ ارتسام کا کیا ہو گا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی مصنف لفظ کو ایسے معنوں میں استعمال کر رہا ہو جو اسی کے ساتھ مخصوص ہوں۔ اگر آپ اس سے یہ حق چھین لیں تو آپ کا نظریۂ ارتسام سازی (trace formation) دھڑام سے نیچے آ گرے گا: لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا اور ذرا یہ بتانے کی بھی زحمت گوارا کریں کہ مرکوز بہ نطق (logocentric) اور مرکوز بہ تحریر (graphocentric) میں اصولاً کونسا فرق ہے جب تک کہ مرکز کا وجود مسلم ہے۔ آپ تو مرکز کے وجود ہی کے منکر ہیں اور اگر تمام نظام ہائے تو جیہ مشکوک ہیں تو اس کلیے سے پس جدید نظامِ توجیہ کو کیونکر مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے؟ پس جدیدیت کے بے نشان صحرا میں کبھی کبھی ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہم کسی پاگل خانے میں پہنچ گئے ہیں جہاں بے شمارپاگلوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ جیسے چاہیں، حکمت و دانائی کے خزینوں پر قابض ہو جائیں۔ ایک طرف حال یہ ہے کہ افسانوی ادب کے مصنف کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اسی طرح موت سے ہمکنار ہوا ہے جیسے کہ نطشے کی کائنات کا خدا۔ دوسری طرف تاریخ پر لکھی گئی کتابوں کے مصنفین کو زندہ کیا جاتا ہے اس لیے کہ تاریخ کو تخیل کی کارفرمائی اور افسانوی ادب کی ایک صنف کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ حاصل= صفر جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا پس جدید تنقیدی نظریہ ہمیں کوئی ایسا معیارِ نقد فراہم نہیں کرتا جس سے تخلیقی ادب کی تعیینِ قدر کی جائے۔ ہر شے ایک متن (text) ہے اور ہر پڑھنے والا بیک وقت مصنف، مفسر، شارح اور آزاد کھلاڑی ہے۔ لغو اور بیہودہ تحریر کی بھی وہی حیثیت اور قیمت ہے جو انتہائی پر مغز، بامعنی اور اعلیٰ ادبی شہ پارے کی ہے۔ بارتھ کا قاریانہ متن (readerly text) اور مصنفانہ متن (writerly text) میں امتیاز کرنا ایک سعی بعد از وقت اور تلافی مافات کے قبیل کی کوشش ہے مگر یہ اس قدر مبہم اور خود سرانہ (arbitrary) ہے کہ اس سے ہمیں درپیش مشکل کا حل ڈھونڈنے میں کوئی مدد نہیں ملتی جب تک کہ ہم اسے اس مطلب پر محمول نہ کریں کہ بارتھ اب اپنے ہی وضع کردہ اس امتیاز پر خطِ تنسیخ پھیر رہا ہے جو اس نے متن (text) اور کام (work) میں روا رکھاتھا۔ ایک طرف یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہمہ گیر اور کلیاتی نظام ہائے توجیہ کو رد کرنے سے تکثیریت (pluralism) کو فروغ ملے گا کیونکہ چھوٹے چھوٹے توجیہی نظاموں (small narratives) کو قدم جمانے کے لیے جگہ ملے گی۔ یہ لیونارڈ صاحب کی رعایت ہے۔بادری لارد، سرے سے ہی تمام نظام ہائے توجیہ کو مسترد کرتا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پس جدیدیت ایک نوع کی تکثیریت کے لیے موقع فراہم کرتی ہے پھر بھی یہ تکثیریت منفی قسم کی ہے۔ ایک ایسا ذہنی انتشار کہ جس کی رو سے تخلیق آدم کے متعلق ڈارون کا نظریۂ حیاتیاتی ارتقا، فان ڈنکنہائم کی یہ افسانہ طرازی کہ کسی زمانے میں ہمارے سیارے پر سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے آدمی خلا سے اتر آئے تھے، اور آدم کی خصوصی تخلیق کا عقیدہ سب یکساں طور پر معتبر ہیں۔ آخری تجزیے میں پس جدیدیت کے نزدیک معنی (sense) اور بیہودگی (non-sense) دونوں متون ہیں اور دونوں یکساں اہمیت کے حامل۔ای۔ ایم فوسٹر نے اپنے گرانقدر ناول، A Passage to India میں مارا بارغاروں والے باب میں فنا و نیستی کا جو خوفناک منظر پیش کیا ہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے میرے مفید مطلب ہے کہ اسے دیکھ کر ایک ’پس جدید یا‘ کبھی آفاقی اور عالمگیر ادب اور لغو اور لایعنی خامہ فرسائی میں امتیاز کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں ۸۰ سال پہلے لکھے گئے فوسٹر کے الفاظ مستعار لیتا ہوں: whatever is said, the same monotonous noise replies, and quivers up and down the walls until it is absorbed into the roof. Boum is the sound as far as the human alphabet can express it, or 'bou-oum' or 'ou-boum', utterly dull. Hope, politeness the blowing of a nose, the squeak of a boot, all produce 'boum'.6 ایک اور اقتباس: Pathos, piety, courage - they exist but are identical, and so is filth everything exists, nothing has value; if one had spoken vileness in the place, or quoted lofty poetry, the comment would have been the same. 7 حق یہ ہے کہ پس جدیدیت کے دائرے میں ادب کی قدر و قیمت کے مسئلے کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی حالانکہ مشرق و مغرب کا پورا ذخیرئہ نقد ہمیشہ اسی اہم سوال میں الجھا رہا ہے۔ جب سے ارسطو نے اپنے نظریۂ تطہیر (catharsis) کے ذریعے افلاطون کے تخلیقی ادب پر اعتراضات کا جواب دیا یہ مسئلہ ہر بڑے ناقدِ ادب کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ خود افلاطون ادب کی تاثیر، طاقت اور قدر و قیمت کا قائل تھا اگرچہ اس کے نزدیک ادب بحیثیت مجموعی علمی اور اخلاقی نقطہ ہائے نظر سے مضرت رساں ہے نہ کہ نفع بخش۔ پس جدید نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ ادب خود اپنا جواز ہے، اس لیے یہ اپنے وجود و قیام کے لیے اپنے سے بالاتر کسی نظام توجیہ (metanarrative) کا محتاج نہیں۔ ایسے کسی بالاتر نظام توجیہ کا پس جدیدنقطۂ نگاہ سے بہر کیف کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ ادب کا ادب سے الگ کوئی مقصد و مدعا نہیں، اس کا مقصد صرف اس کا وجود ہے۔ بعینہٖ یہی وہ چیز ہے جو میرے اندر،مزاج مشرق کے حامل انسان کے اندر، زبردست احساس کراہت پیدا کرتی ہے۔ میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ تمام حسب و نسب سے مبرا، مادر پدر آزاد کسی شے کے ساتھ مصالحت کر سکوں۔ میرا تو یقین ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کو پورے شعور کے ساتھ یہ انتخاب کرنا ہے اس لیے کہ یہ کوئی تفنن طبع کے نوع کا کوئی اکیڈیمک معاملہ نہیں بلکہ اس کا ہماری زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ پس ساختیات کو گلے لگانے سے پہلے جے۔ ہلس ۔ ملر نے یہ پتے کی بات کہی تھی: A critic must choose either the tradition of presence or the tradition of defferance, for their assumptions about language, about literature, about history, and about the mind both cannot be made compatible.8 ایک ناقدِ ادب کے لیے لازم ہے کہ وہ دو روایتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ سکونِ وجود یا اضطراب ِتلون ------- اس لیے کہ زمان، ادب، تاریخ اور ذہن انسانی کے بارے میں دونوں کے مزعومات و مفروضات میں تطابق قائم کرنا ممکن نہیں۔ رولاں بارتھ اس سے زیادہ صفائی اور صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ انتخاب دراصل انتشار اور عدم انتشار کے درمیان ہے: To refuse to fix meaning is, in the end, to refuse God and his hypostates--- reason, science, law.9 معنی کی موجودگی اور معنی کی تلاش سے انکار دراصل خدا اور ان مبادی کا انکار ہے جن پر تصور خدا قائم ہے یعنی عقل، سائنس اور قانون۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ راجعُون۔ ہمارے یہاں پس جدید طرز نقد کو گلے لگانے والے یا تو مغالطے کا شکار ہیں یا پھر مغرب کے نام نہاد سیکولر ہیومنسٹ فکر سے اس طرح وابستہ ہو چکے ہیں کہ یہ جہاں بھی جائے وہ غلامانہ تابعداری کے ساتھ ادھر ہی کا رُخ کرتے ہیں۔ کل کو اگر یہ فکر ترقی کرتے کرتے خود اپنے آپ کو مسترد کرتی ہے تو یہ اس استرداد کو بھی بسر و چشم قبول کریں گے۔ معانی اور عدم معانی سے قطع نظر، کسی نظام توجیہ کے وجود و عدم وجود سے قطع نظر ’پس جدید طرزِ نقد‘ میں خود ہی پہلا شکار (casualty) بن جاتا ہے چاہے یہ فن پارہ کوئی لغو اور لا یعنی متن (tex) ہی کیوں نہ ہو۔ ہر طرز نقد کی اپنی قوت اور کمزوری ہوتی ہے اور ہر طرز نقد اس وقت تک جائز اور قابل قدر ہے جب تک کہ یہ ہمیں فن پارے کے قریب لے جائے، اس کے عرفان میں ہماری مدد کرے اور اس سے ہمیں جذبہ و احساس کی بیداری اور زندگی کے لیے فیضان حاصل کرنے کے قابل بنائے۔ پس جدید تنقیدوں کا حال تو یہ ہے کہ ان کا آغاز ہی فن پارے سے گریز سے ہوتا ہے۔ وہ تو فن پارے کو لفظی بازیگری کی ایک بے انت دنیا میں چھلانگ مارنے کے لیے (springboard) کی حیثیت سے استعمال کرتی ہے اور یہ لفظی بازیگری اپنا مقصد آپ ہے، کسی مقصد کا ذریعہ نہیںچاہے وہ مقصد فن پارے کی تفہیم، اس کا تجزیہ یا اس کی تعیین قدر ہی کیوں نہ ہو۔ میری یہ بحث ایک عملی تنقیدی نمونے کے بغیر نا مکمل اور تشنہ رہے گی، اس لیے میں اپنے معروضات کے آخر پر اپنی اور آپ کی ایک نہایت ہی پسندیدہ نظم کو دو طرح سے دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ پہلے اُس طرح جس طرح ہم آپ شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں اور اس سے ایک نئی زندگی کا فیضان حاصل کرتے ہیں اور پھر پس جدید طرز نقد و مطالعہ کے زاویے سے ، اس اعتذار کے ساتھ کہ میں نہ تو اس میدان کا مرد ہوں اور نہ ہونا چاہتا ہوں۔یہ میدان اپنے ہی مردانِ کار کو مبارک ہو۔میں نے اس فرض کے لیے جس نظم کا انتخاب کیا ہے وہ ہے فیض کی مختصر مگر عظیم نظم ’’یاد‘‘: دشتِ تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے کھِل رہے ہیں ترے پہلو کے سمن اور گلاب اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدہم، مدہم دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ، قطرہ گر رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات۱۰؎ فیض کی یہ نظم جدائی کے کرب اور محبوب کی حسین یاد کے وسیلے سے کرب سے نجات کا دلکش تخلیقی اظہار ہے۔ چونکہ یاد حبیب بحیثیت وسیلۂ نجات اس نظم کا مرکزی نقطہ ہے اس لیے بجا طور پر اس کے لیے ’یاد‘ کا عنوان اختیار کیا گیا ہے۔ جدائی اگر دشت خموشاں ہے تو اس کی مہیب خاموشی کو توڑنے کے لیے محبوب کی آواز کے حسین سائے حرکت میںآتے ہیں۔ اگر یہ تپتا ہوا ریگزار ہے تو محبوب کے ہونٹوں کی یاد سراب کی طرح جھلملانے لگتی ہے اور فراق کے مارے عاشق کی ڈھارس بندھا لیتی ہے۔ تنہائی کا دشت اگر خس و خاشاک کا انبار ہے تو اسی کے بطن سے محبوب کے پہلو کی یاد سمن اور گلاب کے پھول کھلا دیتی ہے۔ پھول ویسے بھی خس و خاک ہی سے نمودار ہوتا ہے اور حسن قبح ہی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے: کہ آب چشمۂ حیواں درونِ تاریکی ست شاعر کو محبوب کی یاد کے توسط سے اس کے سانسوں کی گرمی محسوس ہونے لگتی ہے جو چاروں طرف خوشبوئوں کے ڈھیر بکھیر دیتی ہے۔ اسے اپنے وجود کی گہرائیوں میں اس شبنم کی ٹھنڈک بھی محسوس ہوتی ہے جو دور افق کے اُس پار محبوب کی نظروں سے چمکتی ہوئی ، قطرہ قطرہ گر رہی ہے۔ یہ نظم کا نقطۂ عروج ہے: اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات یوں یاد، ہجر کو وصل میں مبدل کر دیتی ہے۔ آپ ’یاد‘ کو شاعری کی علامت (symbol) کے طور پر لیجیے تو اس کی اصل قدر و قیمت یہی ہے کہ یہ ہمیں زندگی پر ایمان لانا سکھاتی ہے،زندگی کی تلخیوں کو گوارا کرنا سکھاتی ہے۔ زندگی کو گلے لگانا اور اس سے پیار کرنا سکھاتی ہے۔ یہ مختصراً وہ فیضان ہے جو مجھے اس نظم سے حاصل ہوتا ہے اور یہ فیض کا عام رجائی رجحان ہے: یادِ غزال چشماں، ذکرِ سمن عذاراں جب چاہا کر لیا ہے، کنجِ قفس بہاراں۱۱؎ اب دیکھ لیجیے کہ پس جدید طرزِ نقد اس نظم کا پوسٹ مارٹم کس طرح کرے گا۔ فیض کی نظم’یاد‘ دراصل ایک اعترافِ شکست ہے۔ کسی کی یاد لُغوی حیثیت سے بھی اور علامتی حیثیت سے بھی ایک ڈھکوسلا ہے۔ نظم کا کلیدی نقطہ ہے ’تنہائی‘ جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے شاعر کھلونوں کی تلاش میں ہے۔ آواز کے سائے ؟ بھلا آوازوں کے بھی کہیں سائے ہوتے ہیں۔ ہونٹوں کے سراب کی ترکیب غیر شعوری طور پر شاعر کی پوشیدہ نفسیات کی غمازی کرتی ہے۔ سراب آخر سراب ہے، اس سے بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ آگے کے شعر اور اس کے بعد کے اشعار میں ’خس و خاک‘ہی حقیقت ہے باقی سب سمن اور گلاب ، سانسوں کی آنچ، نظر کی شبنم، سراب کے قبیل کی چیزیں ہیں۔ ’گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق‘ حقیقت حال کی صحیح تعبیر ہے۔ ’گرچہ ‘ دل بہلائی کے لیے استعمال کیا گیاہے۔ اصل حقیقت فراق کا تلخ دن ہے اور زندگی کی دل شکن آزمائشیں۔ اس لیے نظم کی لے رَجائی نہیں’ قنوطی‘ہے جسے آپ چاہیں تو حقیقت پسندانہ (realistic) بھی کَہ سکتے ہیں۔ یہ نمونے کی خاطرنظم کا بس ایک قسم کا پس جدیدی مطالعہ ہے۔ آپ کئی اور طرح سے بھی اسے تختۂ مشقِ مطالعۂ پس جدیدی بنا سکتے ہیں۔ اس لیے کہ پوسٹ ماڈرن طرزِ مطالعہ کوئی متعین چیز تو ہے نہیں کُھل کھیلنے کا نام ہے۔ یہ شخص بہ شخص بدلتا ہے، ایک ہی شخص کے ایک ہی فن پارے کے دو مطالعے مختلف اور متضاد ہو سکتے ہیں۔ اس معنی میں نہیں کہ ہر نیا مطالعہ معنی کی کوئی نئی جہت سامنے لاتا ہے (معنی کا سوال تو اٹھتا ہی نہیں) بلکہ اس معنی میں کہ ہر نئے مطالعہ میں آپ معنی سے بھاگنے کا نیا گر وضع کر لیتے ہیں۔ اس طرز نقد کے برتنے میں صرف ایک شرط ملحوظ رہنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ پوسٹ ماڈرن تمسخر و استہزا کا دامن کہیں ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ فانی مرحوم سے معذرت اور تصرف کی اجازت کے ساتھ : اک معماّ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا پوسٹ ماڈرن کیا ہے، خواب ہے دیوانے کا اس کے بعد سوائے خاموشی کے کیا باقی رہ جاتا ہے۔ شیکسپیئر کے الفاظ میں The rest is silence اور اقبال کے الفاظ میں: خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری۱۲؎ خخخ حواشی وحوالہ جات ۱- کچھ لوگ پس جدید کو زمانی اعتبارات سے دیکھنے کے روادار نہیں لیکن اسے زمانی علاقے سے بالکل ہی جدا کرنا درست نہیں ہوگا اگرچہ امریکی ماہرِ فنِ تعمیر، چارلس جنکس (Charles Jencks) کی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی بے جا ہوگا کہ پس جدیدیت کا آغاز ۱۵؍جولائی ۱۹۷۲ء کو اس وقت ہوا تھا جب سینٹ لوئس مسوری میں پروٹ ایگو تعمیراتی اسکیم کو ایک منصوبہ بند دھماکے سے مسمار کیا گیا تھا۔ عظیم تاریخی واقعات اچانک حادثاتی طور پر رونما نہیں ہوتے بلکہ ایک ارتقائی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ چارلس جنکس کے نقطۂ نظر کے مقابلے میں دوسری انتہا ہے اہاب حسن کی ولیم بلیک، مارکوئی ڈی کے، اور آخری دور کے جیمز جوائس کے یہاں پس جدید عناصر کی تلاش اور امبرایکو کا یہ دعویٰ کہ پس جدیدیت ایک ایسی طرز تعبیر ہے جو ہر زمانے میں موجود ہوتی ہے۔ ۲- مغربی تاریخ کی یہ تعبیر شاید سب کے لیے قابل قبول نہ ہو۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس بد یہی حقیقت کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ یونانی اور رومی دور تاریخ اور مابعد نشاۃ ثانیہ مغرب میں عہدِ وسطیٰ کا عیسائی دور حائل ہے اس کا جواب خود مغربی سوچ نے عہود وسطیٰ کو عہود مظلمہ(dark ages) کہہ کر دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عہد فی الاصل قدیم یونان و روما اور جدید مغرب کے بیچ میں ایک غیر متعلق اور غیر ضروری وقفہ تھا۔ ۳- ایک اور حاملِ جواز نقطۂ نگاہ یہ کہ پس جدیدیت نہ تو کوئی فکری بغاوت ہے اور نہ فکر مغرب کے مقابلے میں کسی بنیادی انفصال (departure) کی نشاندہی۔ چنانچہ ضیاء الدین سردار لکھتے ہیں: جیسا کہ ہیبر ماس نے کہا ہے جدیدیت کا مقصد ہے سائنس ، اخلاقیات، فن اور ادب کو ان کی داخلی منطق کے مطابق پروان چڑھانا۔ پس جدیدیت نے اس بات پر زور دے کر کہ ہر فن خالص اور ہر تہذیب قائم بالذات ہے، جدیدیت کو اپنے منطقی اختتام تک پہنچایا ہے۔ پس جدیدیت بظاہر کلی اور ہمہ گیر توجیہی نظاموں کو مسمار کرتی نظر آتی ہے چاہے وہ عقل اور سائنس ہو، مذہب اور روایت ہو یا مارکسزم جیسے نظریات ہوں مگر حق یہ ہے کہ پس جدیدیت صرف ایک ہی نظام توجیہ کے حق میں ہے اور وہ ہے آزاد مشرب سیکولرزم۔ بورژوا لبرل سیکولرزم کی چھتر چھایا ہی میں دوسرے نظریات و خیالات کو جینے کا مساوی حق ملتا ہے۔ (اورینٹلزم : بکنگ ہم یو۔ کے ، اوپن یونی ورسٹی پریس، جنوبی ایشیا ایڈیشن ووا، نئی دہلی ۲۰۰۲ئ، ص ۹۱) ۴- اکبر۔ ایس،احمد، Postmodernism and Islam ،ہارمنڈس ورتھ انگلینڈ، پینگوئن، ۱۹۹۳ئ، ص ۱۰۔ ۵- ڈبلیو۔ بی۔یے ٹس، The Collected Poems of W. B Yeats ،لندن، میکملن اینڈ کمپنی، ۱۹۳۳ئ،ص۲۱۰۔ ۶- ای۔ ایم ۔فوسٹر، A Passage to India ،ہارمنڈس ورتھ انگلینڈ۔ پینگوئن، ۱۹۳۶ئ، ص۱۴۵۔ ۷- ایضاً۔ ۸- ونسینٹ۔ بی،لیچ، Deconstructive Criticism: An Advanced Introduction ،لندن، ہیچن سن اینڈ کمپنی، ۱۹۸۳ئ،ص ۴۹ ۔ ۹- ایضاً۔ ۱۰- فیض احمد فیض، دست صبا، سنٹرل بک ڈپو اردو بازار،دہلی ،۱۹۵۳ء ، ۱۰۷-۱۰۸۔ ۱۱۔ ایضاً ، ص ۱۰۹۔ ۱۲- محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو) ایجوکیشنل بک ہائوس،علی گڑھ، ۱۹۷۵۔ خخخ ’’… از خدا گیرد طریق‘‘ اسلام میں رحمت اور انسانی ہمدردی کے تصور پر کچھ خیالات محمد سہیل عمر حرفِ بد را برلب آوردن خطاست کافر و مومن ہمہ خلقِ خداست! آدمیت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی! …………………… …………………… بندئہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق!۱؎ ’’بری بات زبان پر لانا گناہ ہے ، کافر ہو یا مومن سب خدا کی مخلوق ہے۔ آدمیت احترامِ آدمی ہے، آدمی کا مقام پہچان۔ بندئہ عشق اپنی راہ خدا سے پاتا ہے اور کافر و مومن سب پر شفیق ہوتاہے۔‘‘ شاعرمشرق، مردِ دانا، علامہ محمد اقبال نے اپنے شعر و حکمت کے شاہکار جاوید نامہ میں یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ اسلام میں رحمت و مہربانی، اخوت اور ہمدردی کا جو اصول کار فرما ہے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علامہ اپنے مخاطبین کے سامنے کوئی انوکھی بات نہیں پیش کر رہے تھے۔یہ اصول تو ہر الہامی دین کی طرح اسلام کی نہادو بنیاد میں شامل ہے۔اسے پیرایۂ شعر میں بیان کرنے سے علامہ کی غرض یہ تھی کے شعر کے دلنشیں وسیلے سے اسلامی تہذیب کے اس اساسی عنصر کی اہمیت از سر نو اجاگرکی جا سکے اور یوں مسلمانوں کو بالخصوص اور انسانوں کو بالعموم یہ بھولتا ہوا پیغام پھر یاد دلایا جائے تاکہ ان میں احساسِ زیاں بیدار ہو سکے۔ اس اصول کو فراموش کرنے ، حق سے منہ موڑنے، مذہب سے روگردانی کے نتیجے میں انسانی معاشرے کو، مسلمانوں کو جو نقصان پہنچ رہا تھا وہ ہر سوچنے والے ذمہ دار انسان کے لیے سنگین مسئلہ ہے۔ ایک مرتبہ حق سے روگردانی کا رویہ غالب آ جائے تو پھر صرف دنیا پر نظر کرنے کا اسلوب ہی نہیں بدلتا، فقط فکری تناظر ہی متغیر نہیں ہوتا بلکہ باقی سب چیزیں بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہیں کیونکہ زندگی کے سارے شعبے ---- سیاست، معیارِ زیست، بودوباش، ماحول، انسانی تعلقات، باہمی روابط، علوم و فنون ---- سبھی آخر الامر، اس اندازِ نظر پر، اس روزنِ دید پر اپنا دارومدار رکھتے ہیں۔ رحمت اور مہربانی ، اخوت اور ہمدردی کے اصول کا ایک تقاضا مذہبی رواداری بھی ہے اور عہد جدید میں داخل ہو کر زوال کا شکار ہونے سے پہلے تک تاریخی طور پر یہ رویّہ اسلامی تہذیب کا خاصہ اور طرّۂ امتیاز رہا ہے۔مغربی استعماریت، اندھا دھند نقالی پر مبنی صنعت کاری اور صارفیت کی پیدا کردہ ذ ہنی شکست و ریخت نے زوال و انحراف کے اس تیز رو سفر کی رفتار اور بھی بڑھا دی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی روایت کا روحانی ’’قوام‘‘ درست نہیں رہا، اس کے عناصر ترکیبی میں ایک خلل آ چلا ہے، اس کی روحانی جہت میں ایک ضعف واقع ہو رہا ہے اور اسی نسبت سے رحمت ، مہربانی اور روا داری کے اخلاقی اصولوں کی پاسداری میں بھی کمزوری اور غفلت غالب آتی جا رہی ہے۔ خدا بیزار اور خدا گریز جدیدیت کے آخری دور میں جب اقبال اپنے عہد کے اساسی مسائل پر غور کر رہے تھے اور ’’عصرِ ما وارفتۂ آب و گل است‘‘۲؎ (ہمارا زمانہ تو مٹی پانی پر مرمٹا ہے) قرار دے رہے تھے توان کے زمانے کا اجتماعی ذہنی رویہّ، اس کا موڈ، مزاج یا سیت اور بیزاری سے عبارت تھا۔دنیائے جدید کو اس کے فکری تناظر، اس کے افتادِ ذ ہنی کے لحاظ سے جانچا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا اس عہد میں جی رہی ہے جو ہر اعتبار سے ’’دورِ اضطراب‘‘ ہے۔ زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، اس کی نبض شناسی۳؎ ضروری تھی اور اقبال علاماتِ مرض سے آگے بڑھ کر اسبابِ مرض کی تشخیص کے لیے کوشاں تھے، اپنے عہد پر چھائے ہوئے فکری ادبار کی علت جاننا اور بیان کرنا چاہتے تھے۔ عہدِ جدید اور اس کے فکری بحران کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجزیہ کرتے ہوئے علامہ اس بات کا ادراک کر چکے تھے کہ یہ بحران سطحی عوامل سے پیدا نہیں ہوا، اس کی تَہ میں حقیقت کو دیکھنے کے بنیادی زاویۂ نظر اور فکری تناظر کی ایک کجی کار فرما ہے۔ جدید انسان نے اپنا فکری تناظر قائم کرنے میں ایک بڑی غلطی کر دی ہے اور ایک ایسے زاویۂ نگاہ کا اسیر ہو گیا ہے جس نے حقیقت پر نگاہ کرنے کے پورے انداز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ من از ہلال و چلیپا دگر نیندیشم کہ فتنۂ دگری در ضمیر ایام است۴؎ ’’میں ہلال اور صلیب کے جھگڑے پر مزید نہیں سوچتا کیونکہ ایک اور بڑا فتنہ زمانے کے باطن میں پروان چڑھ رہا ہے۔‘‘ مسلمان کے قلب و نگاہ ، دل و دماغ دو تصورات سے ہدایت پاتے ہیں ۔ مسلم ذہن پر توحید کا تصور حاکم ہے اور رحمت کا اصول قلبِ مسلم کو روشن اور زندہ رکھتا ہے۔ وحدت اور رحمت میں وہی تعلق ہے جو آفتاب اور نورِ آفتاب میں ہے۔ منبع نور اور شعاعِ نور کی باہمی نسبت وحدتِ خداوندی، رحمت ایزدی ہی کے وسیلے سے اس کائنات میں اپنے پورے کمال کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے اور اپنی فطرتِ اساسی کا اظہار کرتی ہے۔ رحمت کا مبداء وحدت ہے، اسی سبب رحمتِ خداوندی کاملہ اور شاملہ ہی نہیں ہوتی، صرف ہر شے کا احاطہ ہی نہیں کر تی بلکہ اسی کے وسیلے کائنات کی ہر شے دوبارہ اپنی اصل سے جڑجاتی ہے۔ کثرتِ ظاہری اسی کی کشش سے اپنی وحدتِ اصلی کی جانب لوٹ جاتی ہے، ’’وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ‘‘۵؎ (اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے) انگریزی، لاطینی کا لفظ Compassion دو اجزاء سے مرکب ہے؛ com ، بمعنی ساتھ، شریک اور passio بمعنی در دو غم، مصائب۔ اردو میں ہمدردی عین اسی مفہوم سے عبارت ہے یعنی وہ جو آپ کے دکھ سکھ میں شریک ہو، آپ کا درد محسوس کرے، مصیبت کا احساس کرے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو انسانی سطح پر ہمدردی صرف ایک جذباتی بات، ایک انسانی داعیہ نہیں ہے بلکہ ایک روحانی محرکِ فکر و عمل اور روحانی داعیہ ہے۔ شفقت و رحمت اور مہربانی اور ہمدردی کا محرکِ اوّل وہ خِلقی احساسِ اشتراک ہے جو ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ’’بنی آدم اعضائے یک دیگر ند‘‘ (آدم کی اولاد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں) کیوں کہ یہ اپنی تخلیق و آفرینش میں ’’یک جوہر‘‘ ہیں، ایک ہی جوہر سے خلق ہوئے ہیں۔ ’’کافر و مومن ہمہ خلقِ خداست‘‘، ساری نوعِ انسانی کا خالق ایک ہے۔ مجھ میں اور دوسرے انسانوں میں فرق و امتیاز کی دیواراس وقت منہدم ہو جاتی ہے جب نوعِ انسانی کی خلقی وحدت کا احساس بیدار ہو جائے اور نوعِ انسانی کی یہ وحدت خود وحدتِ خداوندی کا عکس ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے اور عہد جدید کی سنگین غلطی کی جڑ یہ ہے کہ تاریخ میں اس عہد سے پہلے کوئی معاشرہ کوئی تہذیبی منطقہ اس اصولِ وحدت سے ایسے اجتماعی اعراض و اغماض، ایسی گہری اور ہمہ گیر روگردانی کا مرتکب نہیں ہوا۔ توحید اور اصولِ وحدت (Transcendence) کے خلاف جیسی باضابطہ اور منظم بغاوت جدیدیت کے فکری تناظر میں ابھری، اس کی کوئی مثال تاریخِ فکرِ انسانی میں نظر نہیں آتی۔عہد جاہلیت کے عرب معاشرے میں بہت سی خامیاں تھیں مگر ان کے ہاں اصول باقی تھا گو اس سے غفلت عام ہو چکی تھی۔ ان میں کئی اخلاقی محاسن اور فضائل پائے جاتے تھے مگر خوابیدہ اور بالقوۃ حالت میں۔ اس معاشرے کی نظر اس اصول کی عمودی جہت سے ہٹ کر صرف افقی رخ تک محدود ہو گئی تھی۔ ان کے حیطۂ فکر سے یہ شعور مفقود ہو گیا تھا کہ انسانی خوبیوں، محاسنِ اخلاق اور صفاتِ خداوندی میں ایک خلقی ربط پایا جاتا ہے، انسانی خوبیاں اور اوصاف صفاتِ الٰہیہ کا عکس ہیں جنھیں غفلت و نسیان نے دھندلا دیا ہے۔ بایں ہمہ کائنات کا ہر وصف ، انسان کی ہر استعداد، خوبی اور صفت اپنے موجود ہونے کے لیے اپنی الوہی اور علوی اصل و اساس کی مرہونِ منت ہے۔ یہ سب اوصاف و صفات اصل میں صفاتِ خداوندی کے آثار و افعال سے عبارت ہیں۔ بہ الفاظ دگر جاہلی عرب معاشرے کے افراد میں صفاتِ خداوندی اور انسانی اوصافِ حمیدہ کا باہمی ربط و تعلق بظاہر مفقود تو تھا مگر یہ اصل میں معدوم نہیں ہوا تھا، صرف دب گیا تھا، خوابِ غفلت کا شکار تھا اور یہ غفلت بھی سب افراد میں یکساں نہیں تھی، درجاتِ غفلت متفاوت تھے۔ کچھ لوگوں کے قلب سخت ہو چکے تھے جبکہ بہت سے نفوسِ انسانیہ کے انگارئہ قلب پر جمی ہوئی خاکستر کو صاف کرنے کے لیے پیغامِ خداوندی کی بادِ جان فزا کا جھونکا کافی تھا۔ رسولِ خداؐ کی زبان سے پیغام ہدایت سن کر اور آپ کی مجسم ہدایت شخصیت کے روبرو ہوتے ہی ان کے اعماقِ جان میں جاگزیں یہ شعور بیدار ہو جایا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات اپنی نشانیوں اور آیات کے مجموعے کے طور پر تخلیق فرمائی ہے۔ یہ آیات و آثار اللہ تعالیٰ کی صفات اور فطرتِ خداوندی کی جانب اشارہ کرتے ہیں، انھی سے حقیقت خداوندی ظاہر ہوتی ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی آگہی عطا کرتا ہے۔ یہ آیات اور نشانیاں اللہ کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟ یہ کہ ذات خداوندی الحی، العلیم، القدیر، المتکلم، اور فعال لما یرید ہے، یعنی صفاتِ علم و حیات و قدرت و ارادہ و کلام سے موصوف ہے، بہ الفاظ دگر صاحبِ شعور، ذی حیات، صاحبِ ارادہ و قدرت ہستی ہے۔ ان صفاتِ خداوندی کے مشترکہ آثارِ فعلی کے نتیجے میں لا محدود تنوع کا حامل عالَمِ کثرت اور طرح طرح کی مخلوقات وجود میں آتی ہیں اور یوں سارا عالمِ مخلوقات انھی صفاتِ خداوندی کی علامتیں اور نشانیاں ہیں۔ خود یہ صفات ذاتِ حق سے نسبت رکھتی ہیں، اس میں قائم ہیں، عالمِ خلق سے اس کے تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔ کائنات کی جملہ زمانی اور مکانی پہنائی اور وسعت، ماسوی اللہ کا سارا عالَم، صفاتِ خداوندی کا ظہور ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمِ خارجی ، یہ ساری کائنات عکسِ خداوندی ہے، فطرتِ الٰہیہ کا مظہر ہے۔ انسان کو بھی صورتِ الٰہیہ پر خلق کیا گیا اور وہ سب صفاتِ خداوندی کے پرتو اپنے اندر رکھتا ہے۔ باقی مخلوقات اور کائنات کے دیگر مظاہر اور انسان میں فرق یہ ہے کہ کائنات میں تو آیاتِ خداوندی ہر سو بکھری ہوئی ہیں جبکہ انسان میں یہ نشانیاں ایک جامعیت کے ساتھ یکجا ہو گئی ہیں۔ انسان کے سوا اور ہر مخلوق اللہ کی ایک ایسی نشانی ہے جس میں صفاتِ خداوندی میں سے کچھ صفات ایک معین، محدود اور مخصوص صورت میںمنعکس ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس انسان خدا کا پورا مظہر ہے۔ دوسری مخلوقات میں چند صفاتِ خداوندی مستقلاً ظاہر ہیں اور دوسری صفات مستقلاًمخفی اور غائب ہیں۔ انسانوں میں سبھی صفاتِ خداوندی موجود ہیں اور بشرطِ سازگاری اپنا ظہور کر سکتی ہیں۔ انجیل کی معروف آیت کی ہم معنی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نوعِ انسانی کی اسی امتیازی خصوصیت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ انجیل کی اس آیت نے عیسائیت اور یہودیت کے تصورِ انسان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں، ’’خلق اللّٰہ الآدم علی صورتہٖ۶؎ (اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق فرمایا)۔ بہت سے علماء اور مفسرین کی نظر میں ’’وَ عَلَّمَ الاَْسْمَآئَ کُلَّھَا‘‘ ۷؎ (اور سکھائے آدم کو نام سارے) کی آیت کا مفہوم بھی یہی ہے۔ اگر انسانوں میںسبھی صفاتِ خداوندی بالقوۃ موجود ہوتی ہیں تو پھر ان کا ظہور ، ان کا بالفعل اظہار کیسے ہوتا ہے یا اقبال کے الفاظ میں ’’بندہ ٔ عشق‘‘ کیونکر ’’از خدا گیرد طریق‘‘؟ انسانیت زوال سے دو چار ہے اور جیسے جیسے حقیقتِ انسانی سے دوری بڑھتی جار ہی ہے دنیا ہماری گرفت سے پھسلتی جا رہی ہے۔ شیخ عیسی نور الدین کا قول ہے کہ : The world is miserable because men live beneath themselves: the error of modern man is that he wants to reform the world without having either the will or the power to reform man, and this flagrant contradiction, this attempt to make a better world on the basis of a worsened humanity, can only end in the very abolition of what is human, and consequently in the abolition of happiness too. Reforming man means binding him again to Heaven, re-establishing the broken link; it means tearing him away from the reign of the passions, from the cult of matter, quantity and cunning, and reintegrating him into the world of the spirit and serenity.8 ہمارے زمانے میں چند لوگ بے راہ ہوئے اور ہدایت خداوندی سے روگردانی کرکے ایسے رویے اپنائے، ایسی حرکتوں کا ارتکاب کیا جس نے اسلام کی نہاد میں موجود اصولِ رحمت و اخوت کو غبار آلودہ کر دیا۔ بایں ہمہ اس امر سے کوئی مفر نہیں کہ رحمت کو غضب پر سبقت حاصل ہے اور یہ اصول فطرتِ خداوندی کے لیے بھی درست ہے اور اقلیمِ انسانی پر بھی پوری طرح وارد ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے کہ رحمتِ خداوندی غضب ِ ایزدی پر غالب ہے تو پھر نفسِ انسانی اس اصول سے کیونکر باہر ہو سکتا ہے! اس کے اوصاف و اخلاق اور احوال و کیفیات کی سطح پر بھی یہی اصولی ترجیح قائم کرنا لازم ہوگا۔ نفسِ انسانی کے مطلوبہ کمال اور مکارمِ اخلاق کے آدرشی درجے میں بھی وہی انسان بہتر اور فائق شمار ہوگا جس کا غضب اور غصہ اس کے جذبۂ رحمت و موَدّت سے مغلوب ہو، اس کے تحت حرکت میں آئے۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت ورأفت کو اپنے اندر زندہ و بیدار رکھنا ، اسے منعکس کرنا قرآن مجید میں پوری صراحت سے بیان ہوا ہے۔ جہاں جہاں بھی ذاتِ خداوندی کو رؤف و رحیم ، خیر و سلام،رحمن و ودود کے طور پر بیان کیا گیا ہے وہاں ہم سے یہ تقاضا بالکل واضح ہے کہ انسان کو بھی اپنے اندر یہ اوصاف راسخ کرنا درکار ہے، خود کو رنگِ خداوندی میں رنگنا چاہیے، اخلاقِ الٰہی کا اپنے اندر تخلّق کرنا چاہیے، ان کا عکس بننا چاہیے۔ جو اسماء و صفات اللہ تعالیٰ سے نسبت رکھتے ہیں وہی نفسِ انسانی کی امتیازی خصوصیات اور اوصاف کا معیار فراہم کریں گے، جو وہاں سو یہاں۔ جو بات اللہ کے لیے ایک مطلق معنی میں ثابت ہے وہی انسان کے لیے اضافی طور پر درست ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو صفاتِ خداوندی ہی انسان کے اخلاقِ پسندیدہ یا اوصافِ حمیدہ کی اصل اس کی انسانی خوبیوں کا منبع، اساس اور مایۂ وجود قرار پاتی ہیں۔ لا الہ الااللہ کا اقتضا یہ ٹھہرتا ہے کہ محاسن و فضائل میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ، انسانی خوبیوں کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی صفتِ خداوندی کا عکس نہ ہو، اس کے نورِ صفات سے مستنیر نہ ہو۔ ہماری گفتگو کا تناظر اللہ تعالیٰ کی صفات جلالیہ کے انکار سے عبارت نہیں ہے بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کے گناہ اور بدعملی کا حتمی نتیجہ غضبِ خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔ لیکن چونکہ معصیتِ انسانی از روئے تعریف ایک امر اضافی ہے ، ایک محدود چیز ہے اس لیے وہ صفاتِ خداوندی جو ایک امرِ اضافی کی نسبت سے اپنے آثار کو ظاہر کریں انھیں اُن صفاتِ اصلیہ اور اسمائے ذاتیہ کی سطح پر نہیں رکھا جا سکتا جو حقیقتِ الٰہیہ اور ذاتِ مطلق کی فطرتِ اساسی سے متعلق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے فرمان ’’وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیئٍ‘‘۹؎ (اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے)کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی‘‘ ۱۰؎ (میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے)۔ اضافی اور مقید وجود رکھنے والی ہستیوں کی عصیان کاری سے جو اعتدال اور توازن زائل ہوتا ہے اسے بحال کرنے کے لیے ایک سختی اور سزا درکار ہوتی ہے جس کا تعلق غضبِ خداوندی اور صفاتِ جلالیہ سے ہے۔ دوسری طرف ان پاک باطن نفوسِ انسانیہ کو المطلق کی رحمانی فطرت کی آغوشِ رحمتِ میں سمیٹ لیا جاتا ہے جو تزکیہ یافتہ ہوں۔وہ اسمائے خداوندی جن کا تعلق جمال و رحمتِ خداوندی سے ہے وہ بسملہ کے جملے میں سب سے زیادہ وضاحت سے مذکور ہوئے ہیں جو اسلام میں ہر اہم کام سے پہلے ادا کیا جاتا ہے اور جس سے قرآن مجید کی ہر سورت کا آغاز ہوتا ہے:۱۱؎ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ دونوں اسماء الرحمن اور الرحیم کا مادہ ایک ہی ہے: ر۔ ح۔ م اور دونوں رحمت کو ظاہر کرتے ہیں اور رحمت کے معانی میں مہربانی ، عنایت، شفقت، درگذر اور پیار محبت سبھی شامل ہیں۔ ’’قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ‘‘ ۱۲؎ (اے نبیؐ! ان سے کہو اللہ کَہ کر پکارو یا رحمان کَہ کر) قرآن کا ارشاد ہے۔ یہاں یہ دیکھیے کہ ’’الرحمن‘‘ اور ذاتِ الٰہی کو ایک برابر کہا جا رہا ہے اور اشارہ یہ ہے کہ وہ ورائے ظہور ذاتِ احدیت عین رحمت ہے۔ حقیقتِ الٰہیہ رحمت سے عبارت ہے، سو ’’اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی‘‘۱۳؎ (جس نام سے بھی پکارو اُس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں)۔ رحمتِ خداوندی میں انسانی شرکت، نفسِ انسانی میں اس کے تخلق کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کا تعلق سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ رسالت سے ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو بار بار، رحمن و کریم ، رؤف و ودود، عفو و غفار کہا جا رہا ہے تو یہی صفات رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں کہ وہ ساری انسانیت کے لیے نمونۂ کمال اور چراغِ ہدایت ہیں۔ ’’وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘۱۴؎ (اے نبیؐ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے)۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجسم رحمت تھے، اپنی ہستی اور اپنے طرزِ عمل ہر دو میں تمام مخلوقات کے لیے سراسر ’’رحمت‘‘ تھے تو پھر یہ امر ہر اس مسلمان پر بھی صادق آئے گا جو قرآنی ہدایت کی مخلصانہ پیروی کرتے ہوئے اپنے سیرت و کردار کو پوری طرح آپ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرتا ہے، ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا‘‘۱۵؎ (در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے)۔ رسول خدا ؐ کی سنت پر عمل کرنا ہو، آپؐ کے اسوئہ حسنہ کا اتباع مطلوب ہو تو انسان کو اور ہر شے سے پہلے اپنی بساط کے مطابق اور اپنے دائرہ عمل میں دنیا کے لیے ’’رحمت‘‘ کا نمونہ بننا چاہیے۔ اسوئہ رسول کی پیروی کی دیگر تمام جہات کی قدر و قیمت اس اساسی بلکہ کونیاتی منصب کی روشنی میں متعین ہوتی ہے اور یہ بنیادی منصب، یہ بابرکت کام کیا ہے؟ اس رحمت کو عام کرنا ، اس رحمت کا مظہر بننا جو عین فطرتِ الٰہیہ ہے۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین امن و آشتی اسلام کا مطمح نظر رہا ہے۔ تاریخ اس کی وافر شہادت دیتی ہے۔ ان کے باہمی تعلقات پر اسی اصولِ رحمت کا اطلاق ہوتا ہے جو ذاتِ الٰہیہ کی خیرہ کن اور کائنات گیر تجلیاتِ ظہور میں خلقی طور پر موجود ہے۔ اسلام نے اپنی تاریخ میں مذہبی رواداری اور اختلافِ نظر برداشت کرنے کی جو بے نظیر مثالیں قائم کی ہیںاس غیر معمولی کارنامے کی قدر و قیمت کا ابتدائی جائزہ بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا، جب تک کہ رحمتِ خداوندی کے اس اصول کے نو بہ نو صورتوں میں ظہور کو سمجھا نہیں جائے گا ۔ یہ ’’سب چلتا ہے‘‘ قسم کی کوئی جذباتی نعرے بازی نہیں ہے، اسلام میں رواداری کا منبع ایک اصول ہے اور اسی اصول کی بنیاد پر اسلام دوسرے مذاہب، اپنے سے غیر افراد کے عقاید کے بارے میں اس مبنی بر رحمت رویے کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ دوسرے مذہب کا منبع و مأخذ بھی وہی ذاتِ الٰہیہ اور اس کا پیغام وحی ہے جو اسلام کی تہ میں کار فرما ہے۔ یہاں یہ اعتراض وارد کیا جا سکتا ہے کہ ہم قرآنی پیغام کا صرف ایک پہلو سامنے لا رہے ہیں اور اس کی جلال و غضب کی جہت سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ اس طرح جو مجموعی تصویر ابھرتی ہے وہ گمراہ کن ہے۔ یہ اعتراض کسی حد تک درست کہا جا سکتا ہے۔ قرآن کو اس کی کلیت میں بیان کرنا چاہیے اور یہ اَمر پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ خود قرآن مجید میں وعد اور وعید، امید و بیم، جلال و جمال دونوں پہلوئوں کے درمیان ہمیشہ ایک توازن موجود ہوتا ہے۔ اگر کسی ایک پہلو کو دبا کر ، ایک عنصر کو ترجیحاً معرضِ بیان میں لایا جائے، اسلامی تعلیمات کے سخت اور جلالی حصے کو یک طرفہ طورپر پیش کیا جائے تو اس سے پیغام اسلام کی جامعیت اور ہمہ گیری پر حرف آتا ہے اور نفسِ انسانی پر اس صحیفۂ خداوندی کا جو مجموعی نفسیاتی اثر ہونا چاہیے اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ ایسی ہر پیش کش، ہر ادھورے بیان کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ’’می شود برکا فرو مومن شفیق‘‘ بننے کی راہ مسدود ہو جائے گی، رسول خداؐ کے اسوۂ حسنہ کی بامعنی طور پر پیروی کرنے میں روک آ جائے گی اور آخر الامر آنحضرتؐ کے مکارمِ اخلاق کے اہم ترین پہلوئوں میں سے ایک جہت کے آثار کا زندہ اور مجسم نمونہ بننے کی سعادت سے محرومی اٹھانا پڑے گی۔ یاد رکھیے کہ ’’لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘‘ ۱۶؎ (دین کے معاملے میں زور زبردستی نہیں ہے) کا لازمی تقاضا ہے کہ اختلاف رائے کو دبایا اور مٹایا نہ جائے، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ یہ نکتہ رحمتِ خداوندی سے غیر متعلق نہیں ہے۔ جس طرح رحمتِ خداوندی کو ’’وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ‘‘۱۷؎ (ہر چیز کو عام ہے) فرمایا گیا ہے اسی طرح وحی کے وسیلے سے ہدایتِ ربانی بھی تمام انسانی معاشروں کے لیے عام ہے۔ رسولِ خداؐ کو’’رحمۃ للعالمین‘‘ ۱۸؎ کہا گیا ہے اور قرآن مجید آپ کو رؤف و رحیم اور صاحبِ خُلقِ عظیم قرار دیتا ہے۔۱۹؎ روایتی تاریخی مآخذ میں آپ کی شخصیت کا جو سب سے نمایاں وصفِ اساسی بیان کیا گیا ہے وہ ہے ’’حلم‘‘ یعنی ایسا تحمل اور برداشت جو دانائی اور نرم مزاجی سے مرکب ہو۔ رسول خداؐ کی ذات میں ہمیں غیر مذہب والوں کے لیے جو تحمل اور رواداری نظر آتی ہے وہ صرف اس امر کا اظہار نہیں ہے کہ آپ وحیِ خداوندی کے کائناتی اور عالم گیر ہونے کا علم رکھتے تھے۔ بلاشبہ یہ بات تو ہے ہی لیکن اس سے سوا ایسے رویے کی بنا ان اوصافِ رحمت، رأفت، محبت اور خیر خواہی پر ہے جو آپ کی ذات میں مجسم ہو گئے تھے اور جو مشیتِ خداوندی کے اس پہلو کا ظہور ہے جو سارے انسانوں کی ہدایت اور ان کے لیے وسیلۂ نجات فراہم کرنے سے متعلق ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو اسلام میں مذہبی رواداری کی روح میں ایک زیادہ گہری بات پوشیدہ ہے۔ یہ صرف غیر مذہب والے کے لیے ظاہری برداشت کا معاملہ نہیں ہے۔ ظاہر میں جو شے رواداری اور برداشت کے اخلاقی رویے میں ڈھل کر سامنے آتی ہے وہ اصل میں انسان کے باطن میں اخلاق الٰہی کے تخلّق، فطرتِ خداوندی کے عکس و آثار کو اپنے اندر راسخ کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے، وہ فطرتِ الٰہیہ جس نے اپنی ’’رحمت اور علم‘‘ سے ہر شے کو گھیر رکھا ہے۔ ’’رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃًوَّعِلْمًا‘‘ ۲۰؎ (اے ہمارے ربّ، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے)۔ اسی طرح یہ رویہ رسول خداؐ کے اسوئہ حسنہ ، آپؐ کے سیرت و اخلاق کے اتباع سے بھی عبارت ہے، ’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘۲۱؎ (اے نبیؐ! لوگوں سے کَہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے)۔ رسول خداؐ کا اتباع کرنے میں یہ چیز شامل ہے کہ دیگر امور میں آپؐ کی پیروی کرنے کے علاوہ مسلمان ہر کس و ناکس کے لیے شفیق اور مہربان ہو، ’’می شود برکافر و مومن شفیق‘‘۔ آنحضرتؐ کی ذات جس ’’حلم‘‘ کا کامل نمونہ تھی یہ رویہ اس کے عین مطابق ہے، ’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ‘‘۲۲؎ ([اے پیغمبرؐ]یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے)۔ سو غیر مذہب کے پیروکاروں سے برتائو کے لیے مسلمان کو ہدایت یہ ہے کہ ان کو ضرر نہ پہنچائے، انھیں ان کی راہ پر چھوڑ دے، ان کو اپنے ’’دین‘‘ کو ماننے دے: ’’قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَO لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَO وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُOوَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْO وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُO لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِO‘‘۲۳؎ (اے نبیؐ! کَہ دو کہ اے کافرو میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو، نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں، اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین)۔ دوسری جانب دعوت دین کے پہلو سے نظر کیجیے تو مسلمان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق پیغامِ حق پہنچا دے اور بس ۔ اس ضمن میں متعدد آیات قرآنی واضح ہدایات دیتی ہیں، مثلاً ’’فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ‘‘۲۴؎ (اگر اُنھوں نے اللہ کی بندگی قبول کرلی تو وہ راہِ راست پا گئے اور اگر اُس سے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی) اور ’’فَاِِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا اِِنْ عَلَیْکَ اِِلَّا الْبَلٰغُ‘‘۲۵؎ (اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبیؐ، ہم نے تم کو ان پر نگہبان بناکر تو نہیں بھیجا ہے، تم پر تو صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے)۔ ہمارے زمانے کو ایسی تحریروں، پیغامات اور اقدامات کی ضرورت ہے کہ جن میں امن و آشتی، محبت، رحمت اور ہمدردی کا پہلو اُجاگر کیا گیاہوکہ انھی سے قرآن مجید کے اساسی اور ہر اعتبار سے مرکزی پیغامِ رحمت اور امن ، محبت، بھائی چارے اور خیر خواہی کے اصولوں کی جانب تو جہ دلانے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر اللہ کی رحمت اس کے غضب سے بڑھی ہو ئی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ’’وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ‘‘۲۶؎ (اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے) اور ’’کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ‘‘ ۲۷؎ (تمھارے ربّ نے اپنے اُوپر رحمت کو واجب کرلیا ہے)۔ اور جب سب کچھ سمٹ کر مٹ جائے گا تو رحمت کا سایہ ہی آخری پناہ ہوگا۔ /…/…/ حواشی و حوالہ جات ۱- اقبال، کلیات اقبال ، فارسی،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۱۹۹۴، ص ۶۷۳- ۶۷۲۔ ۲- ایضاً ، ص ۷۳۶۔ ۳- اقبال نامہ، شیخ عطاء اللہ (مرتب)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۵،ص۳۰۳۔ ۴- اقبال، کلیات اقبال، فارسی، ص ۳۸۷۔ ۵- قرآن مجید، ۱۵۶:۷۔ ۶- ر ۔ ک، صحیح بخاری، ’’استئذان‘‘ ،۱ ، بحوالہ الکتب الستہ، دارالسلام،ریاض، ۲۰۰۰،ص۵۲۴۔ ۷- قرآن مجید، ۳۱:۲۔ 8- F. Schuon, Understanding Islam, reprinted, Suhail Academy, Lahore, 2004, p. 26. ۹- قرآن مجید، ۱۵۶:۷۔ ۱۰- حدیث قدسی جو بخاری و مسلم دونوں میں صحیح کے طور پر آئی ہے۔ ۱۱- سوائے سورۂ التوبہ کے۔ ۱۲- قرآن مجید ۱۱۰:۱۷۔ ۱۳- ایضاً ۱۴- ایضاً، ۱۰۷:۲۱۔ ۱۵- ایضاً ، ۲۱:۳1۳۔ ۱۶- ایضاً، ۲۵۶:۲۔ ۱۷- ایضاً، ۱۵۶:۷۔ ۱۸- ایضاً، ۱۰۷:۲۱۔ ۱۹- ایضاً، ۱۲۸:۹۔ ۲۰- ایضاً، ۷:۴۰۔ ۲۱- ایضاً، ۳۱:۳۔ ۲۲- ایضاً، ۱۵۹:۳۔ ۲۳- ایضاً،۶-۱:۱۰۹۔ ۲۴- ایضاً، ۲۰:۳۔ ۲۵- ایضاً، ۴۸:۴۲۔ ۲۶- ایضاً، ۱۵۶:۷۔ ۲۷- ایضاً، ۵۴:۶۔ /…/…/ علامہ محمد اقبال کا ڈرامائی طرزِ سخن___ اُردو کلام پر ایک نظر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عناصر اس حد تک دخیل ہیں کہ یہ اندازِ بیان اُن کے اُسلوب کی نمایاں صفت قرار پاتا ہے۔ اُن کے فارسی اور اُردو کلام میں اس طرزِ شعر نے تازگی اور پُر کاری پیدا کردی ہے۔ خصوصاً فارسی میں اس حوالے سے جاوید نامہ ان کا ادبی شاہکار ہے جب کہ اُردو شاعری میں بانگ ِ درا میں ایسی منظومات کی تعدادسب سے زیادہ ہے، جو ایک طرف تمثیلی رنگ سے مزیّن ہیںتو دُوسری طرف ان میں ڈرامائی اوصاف نے ندرت و تنوع کی خاصیتیں اُبھار دی ہیں۔ کلامِ اقبال (اُردو) میں ڈرامائی عناصر پر مبنی طویل و مختصر منظومات بانگ ِ درا میں کم و بیش ۶۵، بالِ جبریل میں ۲۶، ضربِ کلیم میں ۱۵ اور ارمغانِ حجاز میں ۶ ہیں۔ ان نظموں میں اقبال نے ڈرامائی طرزِ سخن کے بنیادی لوازم یا عناصر کو دیگر محاسنِ شعری کے تال میل سے رونق بخشی ہے اور ان کے ذریعے معنی آفرینی کا فریضہ بہ طریقِ احسن نبھایا ہے۔ اقبال کا اس قبیل کا کلام شعریت ، ڈرامائیت اور متجسّسانہ فضا سے اس حد تک عبارت ہے کہ بہت سی نظموں کو قدرے ڈراما ئی مفاہمتوں کے ساتھ اسٹیج پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے موضوعات کے چناؤ ، کرداروں کے انتخاب ، مکالموں کی تخلیق ، لہجے کے اُتار چڑھاؤ ، مناظر کی تشکیل اور اُسلوب کی ندرت کاری سے اپنی شاعری میں ڈرامائیت کے وصف کو تقویت دی ہے۔ ایسی نظموں میں اقبال کے موضوعات بھی نئے ا ور چونکادینے والے ہیں۔ شعری کردار اس حد تک مکمل ، جان دار اور توانا ہیں کہ بعض کردار ان کی پہچان بن گئے ہیں۔ مکالمات سادہ، رواں اور بے ساختہ ہونے کے باعث پُر کشش ہیں اور لہجے کے سلسلے میں خصوصاًاُنھوں نے لحنِ انسانی کے تمام تر انداز سمیٹ لیے ہیں۔ مزید یہ کہ ڈرامائی فضا بندی کرتے ہوئے بعض تمثیلی و اساطیری حوالوں کو پیشِ نظر رکھ کر عجیب و غریب متجسّسانہ فضا تخلیق ہوتی نظر آتی ہے۔ علامہ کی مخصوص لفظیات نے حقیقت و تخیّل کی آمیزش سے تشکیل پانے والے ان تمام تر ڈرامائی عناصر کو پوری جاذبیت کے ساتھ پیش کیا ہے، جو ـ ’ سبکِ اقبال‘ کا ایک دل پذیر زاویہ ہے۔ اقبال نے جس مہارت فنی سے اپنے نقطئہ نظر کی توضیح کے لیے خشک اور فلسفیانہ موضوعات کو ڈرامائی عناصر کی شمولیت سے گوارا بنا دیا ہے، اسے صاحبانِ نقد ونظرنے نگاہِ ستائش سے دیکھا ہے، سید وقار عظیم لکھتے ہیں: ڈرامائی اندازِ تخاطب، خودکلامی، مکالمہ اور فضابندی یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں جن سے ڈراما نگار اپنی بات کہنے، اپنی کہانی سنانے، اسے آگے بڑھانے، اُس میں اتار چڑھائو اور انتہا کی کیفیتیں پیدا کرنے، کرداروں کو متعارف کرنے، اُن کی شخصیتوں کو ابھارنے اور مکمل کرنے کا کام لیتا ہے اور بہ حیثیت مجموعی ان سب چیزوں کے ملے جلے تاثر سے اسے اپنے مقصد کو دوسروں تک پہنچانے یا اس کے نقش کو ان کے دلوں میں جاگزیں کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اقبال کی نظموں میں کہیں ان میں سے ایک چیز سے، کہیں دو مختلف چیزوں کے ملاپ اور امتزاج سے اور کہیں بہ یک وقت ان میں سے کئی چیزوں کے باہمی ربط اور تعلق سے، تاثرات پیدا کیے گئے ہیں اور ان بے شمار نظموں کے مطالعے سے اندازہ بلکہ یقین ہوتا ہے کہ اقبال نے اپنے احساسات اور تاثرات اور بعض اوقات اپنے گہرے فلسفیانہ تخیلات کے اظہار و ابلاغ کے لیے نہ صرف ڈرامائی عناصر سے مدد لی ہے بلکہ انھیں ان فنی وسائل کی فہرست میں نمایاں جگہ دی ہے جو ان کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ ۱؎ حاتم رام پوری کے مطابق تو اقبال کی پوری شاعری میں ڈرامائیت موجود ہے اور یہ کیفیت اس کی شاعری کے ابتدائی دور سے ہی نمایاں ہے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کے اُسلوب کا سب سے نمایاں وصف اس کا ڈرامائی اندازِ بیان ہی ہے۔ ۲؎ اسی طرح ڈاکٹر محمد اسلم انصاری کا ذیل کا اقتباس لائقِ مطالعہ ہے، لکھتے ہیں: ڈرامائی اندازِ تخاطب ، خود کلامی، مکالمہ، کردار نگاری ، تجسیم و تمثیل اور علامت گری ڈرامائی ہیئت کے وہ اجزاء ہیں کہ اگر شاعرانہ ہیئت میں شامل ہو جائیں تو شاعری میں ڈرامائیت پیدا کر دیتے ہیں اور یہ بات خاصی حیرت انگیز ہے کہ اُردو میں منظوم ڈرامے (یا محض ڈرامے) کی کسی بہت بڑی اور زندہ روایت کی عدم موجودگی کے باوجود اقبال نے اپنی بہت سی شاعرانہ ہیئتوں کی تکمیل کے لیے ڈرامے کے ان اجزاء سے بہت کام لیا ہے۔ ڈرامائی خطابت کاایک خاص انداز، تخاطب میں لہجے کا اُتار چڑھاؤ ، آہنگ کا مجموعی تاثر ، متکلم اور مخاطب کے باہمی تعلق کا تعین ، مکالمے کے ذریعے گفتگو کرنے والے کرداروں کی سیرت اور اُن کی باطنی شخصیت کا انکشاف___ وہ خصوصیات ہیں جو اقبال کی ڈرامائی صلاحیتوں اور ان صلاحیتوں کے حیرت انگیز اظہار پر پوری پوری روشنی ڈالتی ہیں۔ ۳؎ دلچسپ امر یہ ہے کہ اقبال نے ڈرامے ، اس کے اجزاے ترکیبی ، طریقِ کار اور ڈرامائی تاثیر سے مکمل واقفیت کے باوصف منظوم ڈراما لکھنے کی جانب توجہ نہ دی۔ حال آنکہ وہ یونانی و انگریزی اور عربی و فارسی شاعری کی اُس روایت سے بھی آگاہ تھے جس کے تحت بیش تر تخلیقات منظوم ڈراموں کی صُورت میں سامنے آئیں۔ ناقدین نے اس امر کی توجیہ پیش کرتے ہوئے زیادہ تر اس کا رشتہ اقبال کے مخصوص تصورِ خودی کے ساتھ مربوط کر کے اُن کی ضرب کلیم میں شامل نظم ’’تیاتر‘‘ کا حوالہ دیا ہے جس میںعلامہ نے ڈرامے کے فن کی نفی کرتے ہُوئے کہا کہ یہ فن فرد کی خودی کے لیے سمِ قاتل ہے، کیوں کہ فرد اپنی ذات کو نظر انداز کر کے خود کو ڈراما نگار کے وضع کردہ کردار میں مُدغم کر لیتا ہے۔ نظم کچھ یُوں ہے: حریم تیرا خودی غیر کی ! معاذ اللہ دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات! یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تُو نہ رہے! رہا نہ تُو، تو نہ سوزِ خودی ، نہ سازِ حیات! ۴؎ ؎ ڈاکٹر اسلم انصاری نے شعرِ اقبال میں ڈرامے کی عدم موجودگی کی توجیہ اپنے ِ مضمون ’’ اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عناصر‘‘ میں پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: اس قطعی فنی رویّے کا تعلق یقینا اُن کے مخصوص نظریۂ فن کے ساتھ ہے۔ (ان کے نزدیک ) ہر وہ فن یا فنی عمل جو انسان کو خود فراموشی کی طرف لے جائے___انسانی خودی کی تکمیل میں مانع ہے، جس فن میں خودی کا آزادانہ ظہورنہ ہواقبال کے نزدیک قطعی طور پر قابلِ تر ک ہے___اور ڈراما اقبال کی نظر میں اداکار اور ناظر دونوں کی خودی کی نفی کرتا ہے، کیوں کہ اداکار اور ناظر دونوں کو ڈراما نگار کی فنی مشیت کا پابند ہونا پڑتا ہے اور اپنی خودی کو بھول کر کسی خیالی یا حقیقی غیر کی خودی کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ بہ حیثیت ایک تخلیقی فن کے ڈرامے کی عظمت اپنی جگہ پر، لیکن اقبال کی تحلیلی منطق اسے کسی اور ہی نقطئہ نظر سے دیکھتی ہے۔ ڈراما حقیقی ہوتے ہوئے بھی غیر حقیقی___اور غیر حقیقی ہوتے ہوئے بھی حقیقت کا اعتبار قائم کرتا ہے___ڈرامے کے فن پر اقبال کی یہ تنقید ایک اعتبار سے انتقادِ عالیہ کا درجہ رکھتی ہے۔ فن کی دنیا میں یہ نظریہ اقبال___اورصرف اقبال ہی سے مخصوص ہے ___کون کہہ سکتا ہے کہ اگر اقبال نے ڈراما لکھا ہوتا تو وہ مشرق میں شیکسپیئر اور گوئٹے کے مثیل نہ ہوتے! ۵؎ اقبال کے اُردو کلام میں بہت سی نظموں کے ساتھ ساتھ مختلف غزلیات، سنجیدہ و مزاحیہ قطعات اور دو بیتیوں میں بھی ڈرامائی عناصر جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ خصوصاً ان کی غزلیں اور دو بیتیاں لہجے کے حوالے سے بڑا تنوع رکھتی ہیں۔ اگر صرف ڈرامائی شاعری کے اجزاے ترکیبی کو مدّ نظر رکھا جائے تو اس قادرِ سخن شاعر نے اپنا اعجاز ِ خاص مکالماتی رنگِ شعر میں دکھایا ہے اور اپنی خداداد صلاحیت سے ایسے بے مثل مکالمے رقم کیے ہیں کہ پڑھنے والا ان سحرانگیز گفت گوؤں کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لہجوں کے تنوع اور کرداروں کی پیش کش نے اپنا جادو جگایا ہے اور ان سب کے پس منظر میں اقبال کی اعلیٰ قوتِ متخیّلہ ہر لحظہ کار فرما رہتی ہے۔ دیگر اجزاء میں انھوں نے ڈرامائی تاثر انگیزی ، نقطئہ عروج اور نقطئہ اختتام ، استفہام و استعجاب، امرونہی کے استعمال ، عمل اور ردِّعمل، صورتِ واقعہ کے بیان اور منظر کشی ، توازن و تناسب ، علامت گری اور ایمائیت ، موازنہ و تقابل ، ترغیب و تحریص ، تجسیم و تمثیل ، مؤثر و دلچسپ تمہیدوں ، معنی خیز حرکات و سکنات ، متکلم اور مخاطب کے باہمی تعلق یا ربط، ڈرامائی قول محال، کرداروں کی داخلی شخصیت اور سیرت کی تشکیل و دریافت اور صیغئہ واحد متکلم کی بھر پور شرکت سے اپنے کلام کو ڈرامائیت کے اعتبار سے نادر بنا دیا ہے___علاوہ ازیں زبان و بیان کی خوبیاں اس ڈرامائی و مکالماتی طرزِ سخن کو جدت و جو دت اور نئی تب و تاب سے نواز دیتی ہیں جس کے باعث ان کے ہاں اس اندازِ اظہار سے صرفِ نظر کرنا مُحال ہو جاتا ہے ___اقبال کے ان ڈرامائی منظوموں پر اوّل سے آخر تک حکایتی و داستانی رنگ چھایا ہوا ہے۔ جس کے باعث یُوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں کہنے یا بتانے کی بڑی اہمیت ہے اور اس انداز کے ذریعے وہ اپنے قاری کو اپنی تشکیل کردہ مخصوص ڈرامائی فضا میں بہ سہولت لے جاتے ہیں۔ کلامِ اقبال (اُردو) میں اقبال کے ڈرامائی طرزِ سخن کے بنیادی عناصر کا جائزہ لیں تو بانگ درا سے ارمغانِ حجاز تک ایسی بہت سی شعری مثالیں ملتی ہیں جن میں ڈرامائیت کی تمام تر خصوصیات پوری جامعیت کے ساتھ مجتمع ہو گئی ہیں۔ بانگ درا کی نظموں میں ’’ابرِ کہسار‘‘ میں علامہ نے ڈرامائیت کے تجسیمی پہلو کو مدِّنظر رکھا ہے۔ یہاں واحد کردار ابرِ کہسار ہی کا ہے جو خود کلامی کے لہجے میں گویا ہے اور واحد متکلم کی پُوری شان لیے ہوئے ہے۔ شاعر کے پیش نظر فطرت کے اس عنصر کی اہمیت مسلمہ ہے، جسے قطعاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چناں چہ اُس نے نظم کا تمام منظرنامہ اسی نسبت سے تشکیل دیا ہے۔ انداز کچھ یوں ہے: چشمۂ کوہ کو دی شورشِ قلزم میں نے اور پرندوں کو کیا محوِ ترّنم میں نے سر پہ سبزہ کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے غنچۂ گل کو دیا ذوقِ تبسّم میں نے فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے جھونپڑے دامنِ کہسار میں دہقانوں کے۶؎ ’’ ایک مکڑا اور مکھی ‘‘ ، ’’ ایک پہاڑ اور گلہری ‘‘ اور ’’ ایک گائے اور بکری ‘‘ بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں اور ان کے داستانی یا حکایتی اُسلوب کو تمثیل کی ایک نوع ’’ Fable‘‘ کے تناظر میں زیادہ مؤثر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ فرضی و قائع کو پیش کرتے ہوئے ان نظموں میں ڈرامے کے عناصر پُور ی طرح دخیل محسوس ہوتے ہیں، جن کے باعث انھیں بعض ڈرامائی مفاہمتوں کے ساتھ اسٹیج پر پیش بھی کر سکتے ہیں۔ ان منظومات میں مکالماتی حُسن فطری انداز میں جلو ہ گر ہو اہے اور ڈرامائی تاثیر عمدہ ہے، مثلاً ایک گائے اور بکری ‘‘ کا آغاز ایک فطرت کے منظرنامے سے آغاز پذیر ہے جہاں بھرپور چہک مہک ہے۔نظم ’’ہمدردی ‘‘ دو حقیقی کرداروں بلبل اور جگنو پر مبنی ہے اور اخلاقی نتیجے پر منتج ہوتی ہے۔ اقبال نے قصے کی مناسبت سے کرداروں کے مابین سادہ و رواں مکالمے رقم کیے ہیں جو اُن کے مخصوص تصورات کی ترسیل میں بڑی حد تک معاون ٹھہرے ہیں۔’’ ماں کا خواب ‘‘ کی ڈرامائی فضا ایک ماں کی خوف اور بے چینی پر مبنی نفسیات کا نقشہ پیش کرتی ہے ، جسے شاعر نے ماں ہی کی زبان سے بیان کیا ہے۔ دوسرا کردار بچے کا ہے جو ماں کے جدائی میں رونے پر سخت نالاں ہے۔ ڈرامائی تاثیر اور نقطئہ عروج اور نقطئہ اختتام کے ساتھ ساتھ اس نظم کے تمہیدی اشعار لائقِ داد ہیں ۔’’ پرندے کی فریاد‘‘ میں ایک ہی کردار (پرندے) کی زبانی اسیری کی حالت (Situation) کا بیان ملتا ہے جو ناسٹیلجیائی انداز میں فریاد کناں ہے اور یوں ماضی کا نقشہ بڑی اثر انگیزی سے ایک پرندے کی زبانی پیش کر دیا گیا ہے۔ نظم ’’ خفتگانِ خاک سے استفسار ‘‘ کا موضوع چوں کہ ہنگامۂ عالم سے دُور اور یہاں کی رعنائیوں کو چھوڑ کر پیو ندِ خاک ہو جانے والوں سے مختلف سوالات پر مشتمل ہے ، لہٰذا اس کے تمہیدی شعروں میں شاعر نے اپنے داخلی اضطراب کی جھلک یوں دکھائی ہے کہ قاری اس منظر کا اسیر ہوتا چلا جاتا ہے۔ خود کلامی کے لہجے نے نظم کی پُر اسراریت بڑھا دی ہے۔ استفہام و تضاد کی کیفیات بھی موضوع کو جان دار بناتی اور اس کی ڈرامائی تاثیر میں اضافہ کرتی نظر آتی ہیں۔ خصوصاً اس کا ابتدائیہ متاثر کن ہے اور تمثالی اوصاف اس سے سوا ہیں ، اقبال لکھتے ہیں: مہرِ روشن چھپ گیا، اُٹھیّ نقابِ رُوئے شام شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوے شام یہ سیہ پوشی کی تیاّری کسی کے غم میں ہے محفلِ قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے کر رہا ہے آسماں جادو لبِ گفتار پر ساحرِ شب کی نظر ہے دیدئہ بیدار پر غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موجِ ہوا ہاں، مگر اک دُور سے آتی ہے آوازِ درا دل کہ ہے بیتابیٔ اُلفت میں دُنیا سے نفور کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دور منظرِ حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں ہم نشینِ خفتگانِ کُنجِ تنہائی ہوں میں۷؎ ’’ شمع و پروانہ ‘‘ میں ان دونوں بے جان و جان دار کردار وں کی فطری محبت و موانست کو پیش نظر رکھ کر موضوعِ مطلوب کی ترسیل کی گئی ہے جس کے مطابق ’’ذوقِ تماشاے روشنی ‘‘ مقدم ہے___ نظم کا بنیادی آہنگ خطابیہ ہے اور مخاطبت کے اسلوب میں شاعر شمع سے مختلف سوال اس طرح کرتا ہے کہ اُردو کی شعری روایت کے ان دونوں کرداروں کی خصوصیات نئے انداز سے اُبھرتی چلی جاتی ہیں۔نظم ’’ عقل و دل ‘‘ سر تا سر مکالماتی ہے اور تعقل پسندی پر عشق کی افضلیت اُجاگر کرتی ہے۔ یہاں بھی تضادو تقابل سے ڈرامائی رنگ کو قوت دینے کا رجحان غالب نظرآتا ہے جب کہ ’’ شمع ‘‘ کے زیر عنوان رقم کی گئی نظم میں بھی خطابیہ پہلو نمایاں ہے اور اقبال بڑی مہارت سے آدم سے متعلق مختلف تلمیحی و قائع کو تازہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس نظم میں صیغۂ واحد متکلم کی شمولیت سے ڈرامائی فضا بندی کو تقویت ملی ہے اور شمع سے شاعر کا خطاب لہجے کے اتار چڑھاؤ کے اعتبار سے لائق مطالعہ ہے جب کہ تقابل و تخاطب اور تلمیح و تصلیف کے عناصر کی آمیزش سے نظم میں حیرت خیز ڈرامائیت پیدا ہوتی ہے۔’’انسان اور بزمِ قدرت ‘‘ میں ’’ بزمِ معمورئہ ہستی ‘‘ کو مجسّم و جود تصور کر کے اس سے چند استفسارات کیے گئے ہیں اور یہاں بزمِ قدرت کی رعنائی ، شان اور رتبے کو سراہتے ہوئے تمثالی اُسلوب سے خصوصی استفادے کا رجحان ملتا ہے۔ شاعر کا داخلی اضطراب بالآخر اس استفہامیہ شعر پر منتج ہوتا ہے: نور سے دُور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں کیوں سیہ روز، سیہ بخت ، سیہ کار ہوں میں؟ ۸؎ اس پر بزمِ قدرت کی جانب سے ’’ بامِ گردوں‘‘ یا ’’ صحنِ زمیں ‘‘ سے جو آواز آتی ہے وہ بھرپور ڈرامائی تاثیر کی حامل ہے اور ندائیہ و فجائیہ لہجے کی گھُلاوٹ سے ایسا عمدہ مکالمہ تشکیل پایا ہے جو سرتا سر عظمتِ انسانی سے عبارت ہے ، اس کا آخری شعر دیکھیے: تُو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے پھر، نہ سیہ کار رہے۹؎ ’’پیامِ صبح ‘‘ میں صبح کی تجسیم (Personification) ملتی ہے اور تمثیلی و تمثالی پیرایۂ بیان نے نظم کے ڈرامائی ابعاد کو نکھار دیا ہے۔ شاعر اپنے موضوع یعنی صبح کی آمد کا نقشہ کھینچتے ہوئے نظم کے مختلف کرداروں سے متعارف کروا دیتا ہے___ مکالمات کی روانی اور برجستگی کے اعتبار سے صبح کا کردار بڑا توانا اور جاں دار ہے اور تقریباً ہر شعر میں حرکی تمثالوں (Kinetic Images) کی وساطت سے اسے تقویت دی گئی ہے ۔ نظم ’’ عشق اور موت ‘‘ میں اس کے ان دونوں مرکزی کرداروں کی آمد سے قبل ایک دل فریب منظر نامہ پیش کیا گیا ہے جو زندگی کی تمام تر رعنائی اور تروتازگی سے بھر پور ہے۔ چوں کہ شاعر کو عشق پر موت کی افضلیت دکھانا مطلوب ہے، لہٰذا نظم کا ابتدائیہ زندگی کے تحرک سے عبارت ہے۔ مکالماتی آہنگ اور لہجے کے اُتار چڑھاؤ نے ڈرامائیت کو مزید نکھار دیا ہے۔ یہاں آغاز کا تمثالی حصہ ملاحظہ کیجیے جوقاری کو پوری طرح اُس خاص فضا میں لے جاتا ہے جہاں مجرد تصورات کی تجسیم ہوتی ہے اور وہ آفاقی کرداروں کی صورت میں ڈھل کر سامنے آتے ہیں: سُہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی تبسّم فشاں زندگی کی کلی تھی کہیں مہر کو تاجِ زر مل رہا تھا عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی سیہ پیرہن شام کو دے رہے تھے ستاروں کو تعلیمِ تابندگی تھی کہیں شاخِ ہستی کو لگتے تھے پتّے کہیں زندگی کی کلی پھُوٹتی تھی فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا ہنسی گُل کو پہلے پہل آرہی تھی عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو خودی تشنہ کامِ مئے بیخودی تھی اُٹھی اوّل اوّل گھٹا کالی کالی کوئی حُور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی زمیں کو تھا دعویٰ کہ میں آسماں ہُوں مکاں کہہ رہا تھا کہ میں لا مکاں ہُوں۱۰؎ ’’ زہد اوررندی‘‘ میں ڈرامائیت کا واقعاتی پہلو نمایاں نظر آتا ہے اور شاعر نے خود کو ایک کردار کے طور پر متعارف کروا کے اپنی داخلی شخصیت کے اسرار سے پردہ اُٹھایا ہے۔ (اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے + کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے۔ ۱۱؎ ) ’’ موج ِ دریا ‘‘ میں موج کی تجسیم و تشخیص نے ڈرامائی رنگ کی صورت اختیار کر لی ہے جب کہ ’’رخصت اے بزمِ جہاں‘‘ میں بلا کی ڈرامائی تاثیر ہے اور شاعر کے کردار کی شمولیت سے اس میں خاصی دل کشی پیدا ہو گئی ہے۔ خصوصاً آغاز ہی کا شعر: رخصت اے بزمِ جہاں ! سوئے وطن جاتا ہوں میں + آہ! اس آباد و یرانے میں گھبراتا ہوں میں۱۲؎ ___توڈاکٹر اسلم انصاری کے نزدیک لائقِ داد ہے کہ اس میں آباد ویرانے کا قولِ محال(Paradox) ڈرامائی حیرت خیزی کا ایک ذریعہ بن گیا ہے ۱۳؎ مزید برآں استفہامیہ لب و لہجے نے ڈرامائی معنویت دوچند کر دی ہے: ہے جنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں مَیں ڈھونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں مَیں شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے ؟ اور چشموں کے کناروں پر سُلاتا ہے مجھے؟۱۴؎ ’’ طفلِ شیر خوار‘‘ بہ ظاہر شاعر کی شیر خوار بچے سے مکالمت پر مبنی ہے جو چاقو سے کھیلنا چا ہتا ہے اور منع کرنے پر چلاّنے لگتا ہے مگر شاعر نے بڑی مہارت سے طفلِ شیر خوار کے کردار کو اپنی ذات میں مُدغم کر لیا ہے۔ اس موقعے پر متکلم اور مخاطب دونوں ایک ہی کردار میں ڈھل گئے ہیں اور موازنہ و مماثلت کے اس حُسن سے شعری اور ڈرامائی تاثیر بڑھ جاتی ہے (میری آنکھوں کو لُبھا لیتا ہے حُسنِ ظاہری+ کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری + تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں میں بھی ہوں + دیکھنے کو نوجواں ہوں ،طفلِ ناداں میں بھی ہُوں)۱۵؎ مزید برآں لہجے کے تنوعات کے ضمن میں یہ نظم بے مثل ہے ، جس میں مماثلثی و تقابلی ، استفہامیہ و استفساریہ ، حکیمانہ ومفکرانہ اور حزنیہ و ندائیہ لہجوں سے ڈرامائی تاثر کو گہر ا کیا گیا ہے۔ ’’سرگذشت ِ آدم ‘‘ حکایتی و تلمیحی رنگ میں لکھی گئی وہ نظم ہے جس میں واحد متکلم بلند بانگ لہجے میں گویا ہے اور انسان کی تمام تر انقلابی کا وشیں اس کی زبان سے بیان کر دی گئی ہیں۔ اپنے موضوع کی مناسبت سے اقبال نے موزوں منظر نامہ تشکیل دے کر عشق پر عقل کی فوقیت ظاہر کی ہے اور اس مقصد کے لیے ہر لحظہ ڈرامائی تاثیر کو مقدم رکھا ہے (مگر خبر نہ ملی آہ! رازِ ہستی کی +کیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے+ ہوئی+ جو چشمِ مظاہر پرست و اآخر + تو پایا خانۂ دِل میں اُسے مکیں میں نے)۱۶؎ ، ’’ صبح کا ستارہ‘‘ تمثیلی و تجسیمی عناصر رکھتی ہے اور اس مظہر فطرت کی آدرشوں کا احاطہ کرتی ہے، جو ’’ تاروں کی بستی ‘‘ میں رہنے کے بجاے ’’ عشق کے سوز‘‘ کا تمنائی ہے___ (خاک میں مل کے حیاتِ ابدی پا جاؤں + عشق کا سوز زمانے کو دکھاتا جاؤں)۱۷؎ ، ’’ایک پرندہ اور جگنو ‘‘ میں تضادو تقابل کے ڈرامائی وصف کو برتتے ہوئے تمثیلِ حیوانی کے پیرایے میں اخلاقی سبق کا استخراج کیا گیا ہے۔ (ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی + اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی)۱۸؎ ، ’’ بچہ اور شمع ‘‘ میں ڈرامائی تاثیر بہ تدریج بڑھتی نظرآتی ہے۔ یہ نظم شاعر کی بچے سے مخاطبت پر مبنی ہے جو شمع کے شعلے کو حیرانی سے تکتا رہتا ہے۔ بچے کی یہ ادا اُس کی سوچ کا رخ کا ئنات کے مختلف عناصر کی جانب موڑ دیتی ہے جن کا حُسن فرد کو اسیر کر لیتا ہے اور وہ استعجاب و استفہام کے انداز میں بات کو سمیٹتا ہوا منظر نامے سے رخصت ہو جاتا ہے (روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس + ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرس؟ + حُسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے + زندگی اس کی مثالِ ماہی بے آب ہے)۱۹؎ ، صیغۂ واحد متکلم میں رقم کی گئی نظم ’’ التجاے مسافر‘‘ ڈرامائیت میں لہجے کی خوب صورتیوں سے عبارت ہے اور یہاں خطابیہ ، مدحیہ اور دعائیہ لہجے کی آمیز ش ملتی ہے۔ نظم کا پس منظر ذیلی عنوان (بہ درگاہِ حضرتِ محبوبِ الٰہی ، دہلی) سے بیان کر دیا گیا ہے جو نہ صرف متکلم اور مخاطب کے باہمی تعلق یا ربط کی نشا ن دہی کرتا ہے بلکہ اس سے مرکزی کردار (واحد متکلم ) کی داخلی شخصیت اور سیرت کی تشکیل و دریافت کی جانب رہ نمائی ہو جاتی ہے۔ نقطئہ آغاز ، ارتقا اور نقطئہ اختتام کے اعتبار سے بھی نظم لائقِ ستائش ہے اور اقبال کی التجا حضرتِ محبوب الٰہی کی مدح سے آغاز پذیر ہو کر مختلف دعاؤں کے قالب میں ڈھل جاتی ہے اور بالآخر قبولیت کی دُعا پر منتج ہوتی ہے جس سے نظم طمانیت بخش ، قابل قبول اور حقیقی انجام سے ہم کنار ہو جاتی ہے۔ (شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے! + یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے!)۲۰؎ ، ’’ محبت ‘‘ نامی نظم میں جذبۂ محبت کی تخلیق میں کائنات کے تمام تر عناصر کی شرکت بڑے ڈرامائی انداز میں دکھائی گئی ہے۔ یہاں تجسیم کی نادرہ کاری دیدنی ہے۔ اس آفاقی جذبے کی عد م موجودگی اور موجودگی کے مناظر اقبال نے یوں کھینچے ہیں کہ قاری پوری یکسوئی کے ساتھ ان شعری تصویروں میں منہمک ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ نظم ڈرامائی منظرنامے کی تشکیل کے سلسلے میںایک منفرد مثال پیش کرتی ہے، مثلاً محبت کے عدم و وجودکی متضاد ، صورتوں کو آئینہ کرتے ہوئے ، علامہ لکھتے ہیں: عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے قمر اپنے لباسِ نو میں بیگانہ سا لگتا تھا نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلّم سے ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے اُبھری ہی تھی دُنیا مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پہناے عالم سے کمالِ نظمِ ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا ہویدا تھی نگینے کی تمنّا چشمِ خاتم سے۲۱؎ نظم ’’ حقیقت حُسن ‘‘ کا پس منظر پہلے شعر ہی سے واضح ہو جاتا ہے ، جہاں حُسن ایک مجسّم کردار کے رُوپ میں بارگاہِ خدا میں فریادکناں ہے کہ اُسے دوام کیوں کر حاصل نہیں؟ اقبال نے حُسن کی عرض داشت اور خدا کے جواب کو بڑی عمدگی سے شعروں میں سمو دیا ہے۔ مکالماتی حُسن قابلِ داد ہے۔اس رواں ، بے ساختہ اور دل چسپ مکالمے کے بعد عناصر فطرت پر مبنی کرداروں قمر، اخترِ سحر، سحر، شبنم، پھول اور کلی کی بھر پور ڈرامائیت کے ساتھ نظم میں آمد ہوتی ہے جو دُنیا کی بے ثباتی پر نالاں ہیں۔ قصّے کی بُنت ، کرداروں کی آمد ، ان کے مکالمات ، لہجے کے اُتار چڑھاؤ، توازن و تناسب اور ڈرامائی تاثر انگیزی کے لحاظ سے یہ مختصر نظم بلاشبہہ اقبال کی ڈرامائی منظومات میں سر فہرست ہے۔ خصوصاً اس میں علامہ کی فکری استعداد ڈرامائی تاثیر کی آمیزش سے بڑی متاثر کن ہو گئی ہے۔ ’’ اخترِ صبح ‘‘ ایک مختصر نظم ہے جسے ہیئت کے اعتبار سے دو حصوں میں اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے کہ دونوں سے حقائق کی دو طرفہ اضدادی معنویت کا دل کش اظہار ہوتا ہے۔ پہلے شعری ٹکڑے میں صبح کا ستارہ اس امر پر تاسف کا اظہار کرتا ہے کہ اُس کی بساط نہایت عارضی ہے اور یہ ظاہرکرتے ہوئے اس کا لہجہ رقت آمیز ہو جاتا ہے (بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی + نفس حباب کا ، تابندگی شرارے کی)۲۲؎ ،جب کہ دُوسرا جزوبے بسی و بے چارگی کے مقابلے میں زندگی کی تروتازگی سے لبریز ہے، جہاں شاعر جواب میں یُوں گویا ہوتا ہے کہ موضوعِ مطلوب کا حصول بہ طریقِ احسن ہو جاتا ہے : ٹپک بلندیِ گردوں سے ہمرہِ شبنم مرے ریاضِ سخن کی فضا ہے جاں پرور میں باغباں ہوں محبت بہارہے اس کی بنا مثالِ ابد پائدار ہے اس کی۲۳؎ نظم ’’ حُسن و عشق‘‘ میں شاعر کا کردار ایک عاشق کے رُوپ میں نظر آتا ہے جو حُسن کے دربار میں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر کے منظر نامے سے رخصت ہو جاتا ہے۔ ڈرامائی عناصر کے سلسلے میں یہاں موضوع کی مناسبت سے ابتدائیہ بڑا دل کش اور تمثالی اوصاف سے عبارت ہے جو پڑھنے والے کو فوری طور پر متوجہ کر لیتا ہے، لکھتے ہیں: جس طرح ڈوبتی ہے کشتیٔ سیمینِ قمر نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر جیسے ہو جاتا ہے گُم، نور کا لے کر آنچل چاندنی رات میں مہتاب کا ہمرنگ کنول جلوئہ طور میں جیسے یدِ بیضائے کلیم موجۂ نکہتِ گلزار میں غنچے کی شمیم ہے ترے سیلِ محبت میں یونہیں دل میرا۲۴؎ ’’۔۔۔کی گود میں بلی دیکھ کر ‘‘ میں جذبۂ عشق کی افضیلت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ شاعر بلی کی ’’دزدیدہ نگاہوں ‘‘ میں ’’رمزِ محبت ‘‘ کو محسوس کرتا ہے اور استفسار اور تحیّر کے ملے جُلے جذبات نے واقعاتی انداز میں رقم کی گئی اس نظم کو ڈرامائی تاثیر سے ہم کنار کر دیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے لہجے کا اُتار چڑھاؤ قابلِ مطالعہ ہے اور شاعر کے دِلی جذبات کا عکاس ہے۔نظم ’’کَلی ‘‘ شاعر کے عاشقانہ جذبات کی داستان سُناتی ہے۔ کلی کا چٹکنا اُس کی ’’ جانِ مضطر کی حقیقت کو نمایاں‘‘ کر دیتا ہے اور وہ اپنے ’’ دل کے پوشیدہ خیالوں کو عریاں‘‘ کر دینے کا متمنی نظر آتا ہے۔ یوں ایک خارجی منظر پوری ڈرامائیت کے ساتھ داخل کی دُنیا کا نقشہ دکھانے لگتا ہے۔ ’’ چاند اور تارے‘‘ میں سماوی منظر نامے کے ذریعے اقبال نے اپنے حرکی تصور کو پیش کیا ہے اور یہاں چاند اور تاروں کے مابین مکالمے کی تشکیل بہت دل چسپ اور پیش کردہ کرداروں کے عین مطابق ہے۔ مثلاً چاند کی زبانی انھوں نے اپنی منفرد فکر کا اظہار مکمل ڈرامائی تاثیر کے ساتھ کیا ہے۔’’ عاشقِ ہر جائی‘‘ سرتا سر خود کلامی ہے جو شاعر کے شخصی اسرار سے پردہ اُٹھاتی ہے جب کہ نظم ’’ صقلیّہ ‘‘ اجتماعی نوحے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں اقبال نے جزیرئہ سسلی کے روشن ماضی کو ڈرامائی منظر نامے کے طور پر پیش کر کے اسے مجسم وجود میں ڈھال دیا ہے۔ وہ بہ یک وقت حزنیہ اور المیہ لہجہ اپنا کر تہذیب حجازی کے اس مزار کو قصۂ غم سنانے اور اُس کا درد سُننے کے متمنی نظر آتے ہیں۔نظم ’’ ستارہ‘‘ شاعر کا یک طرفہ مکالمہ ہے اور اُس نے لہجے کے اُتار چڑھاؤ سے فطرت کے اس سماوی عنصر کی بے ثباتی کا نقشہ بہ خوبی جما دیا ہے۔ (سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں + ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں! )۲۵؎ ، ’’دو ستارے‘‘ کے تجسیمی و تمثیلی پیرایے میں مضمونِ فراق پنہاں ہے۔ یہاں دونوں ستاروںکے مابین ایک بے حد مختصر مکالمہ ہے جو’’ وصلِ مدام‘‘ کی خواہش پر مبنی ہے (تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو+ ہم دونوں کی ایک ہی چمک ہو)۲۶؎ ،مزید طول دینے کے بجاے اقبال یہیں سے اپنے مطمحِ نظر کی ترسیل کر دیتے ہیں، جو یہ ہے: ہے خواب ثباتِ آشنائی آئین جہاں کا ہے جدائی!۲۷؎ ’’ گورستانِ شاہی ‘‘ وہ نظم ہے جس میں ڈرامائیت کے بنیادی عناصر یعنی کردار اور مکالمے تو نظر نہیں آتے لیکن شاہی گورستان کا نقشہ جس ڈرامائی تاثیر کے ساتھ جمایا گیا ہے، وہ تعریف کے قابل ہے۔ یُوں لگتا ہے کہ اسٹیج پر فنا کا منظر نامہ بھر پور تمثالی و تمثیلی اوصاف کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور پس منظر سے ابھرنے والی ایک آواز پوری ڈرامائی شان سے دنیا پر موت کی ابدیت کی حکمرانی کی کہانی سُنا رہی ہے___ علامہ کا تشکیل کردہ یہ ماورائی لہجہ ملاحظہ ہو: سلسلہ ہستی کا ہے اک بحرِ نا پیدا کنار اور اس دریائے بے پایاں کی موجیں ہیں ہزار اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار یہ شرارے کا تبسّم، یہ خسِ آتش سوار چاند، جو صُورت گرِ ہستی کا اک اعجاز ہے پہنے سیمابی قبا محوِ خرامِ ناز ہے چرخِ بے انجم کی دہشتناک وسعت میں مگر بیکسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقتِ سحر اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے، جو مہتاب تھا آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا۲۸؎ ’’ تضمین بر شعرِ انیسی شاملو‘‘ میں نظم ’’ التجاے مُسافر ‘‘ ہی کے انداز کی ڈرامائی فضا قدرے تفاوت کے ساتھ ملتی ہے کہ دیارِ پیرِ سنجر میں پہنچ کر شاعر ذاتی و شخصی مدعا کے بجاے ملتِ اسلامیہ کے لیے نوحہ کناں ہونا چاہتا ہے اور مرقد سے آنے والی ’’صدا‘‘ اُسے زوال ملت کا سبب سُجھا جاتی ہے۔ (ہوئی ہے تربیت آغوشِ بیت اللہ میں تیری + دلِ شوریدہ ہے لیکن صنم خانے کا سودائی)۲۹؎ ، ’’ پھول کا تحفہ عطا ہونے پر ‘‘ تمثیلی وصف رکھتی ہے اور ڈرامائی عناصر کے سلسلے میں یہاں شاعر کا کلی سے مختصر مکالمہ اور اُس کی اہتزازی کیفیت سے اپنی حرماں نصیبی کا موازنہ و مقابلہ بھر پور تاثیر کا حامل ہے۔’’ ایک حاجی مدینے کے راستے میں ‘‘ مُسافر ت کی فضا لیے ہوئے ہے جس میں مدینے کا یہ مسافر اپنے ساتھیوں کی راستے کی کٹھنائیوں کے ہاتھوں بربادی کا نقشہ پیش کرتا ہے اور اس کے اپنے دل میں عشق و عقل کے جذبے بر سرِپیکار ہیں، بالآخر جذبۂ عشق فائق ٹھہرتا ہے (گو سلامت محملِ شامی کی ہمراہی میں ہے + عشق کی لذّت مگر خطروں کی جانکا ہی میں ہے )۳۰؎ جب کہ ’’ قطعہ ‘‘ کے زیر عنوان ایک شوریدہ خاطر کو خواب گاہِ نبیؐ پر روتے ہوئے دکھایا گیا ہے ، جو صرف اپنے جذبات ملی کا اظہار کر کے رخصت ہو جاتا ہے۔ ڈرامائیت کے سلسلے میں اس مجموعے کی بہترین نظموں میں ’’ شکوہ ‘‘ کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظم عمدہ ڈرامائی عناصر سے مزین ہے اور تلمیحی و تاریخی ابعاد نے اسے ایک مسلسل اور طویل تاریخی ڈرامے کی صورت دے دی ہے۔ خاص طور پر ’’ جوابِ شکوہ‘‘ کے ساتھ متعلق کر کے اس نظم کا ڈرامائی حُسن نکھر کر سامنے آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تناظر میں ان دونوں نظموں کا مطالعہ نئے فکری وشعری باب وا کرتا ہے۔ ’’شکوہ‘‘ اور ’ ’ جواب شکوہ‘‘ اپنے اپنے طور پر شاعر یا بندے کا شوخ و گستاخانہ اور خدا کا خدایانہ و تحکمانہ طویل مکالمہ بھی ہیں اور ان کے الگ الگ بند بھی مختصر مکالموں کے طور پر تفہیم کیے جا سکتے ہیں کہ ایک طرف بندہ معصومانہ و طفلانہ اعتراض کرتا ہے تو دوسری طرف خدا کی جانب سے حقیقی و واقعی جواب دیے جا رہے ہیں۔ یہاں دونوں نظموں میں دو کرداروں کی بُنت سے ڈرامائی تاثیر پیدا کی گئی ہے لیکن ان کے مابین سوال و جواب کے دوران میں تاریخ کے اوراق سے بے شمار کردار اُبھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ نظمیں مکالمہ نگاری کا اعجاز ہیں۔لہجے کے جس قدر تنوعات یہاں ملتے ہیں، وہ اس طرح کسی ایک نظم میں ملنا محال ہیں۔ اقبال نے کمال درجے کی روانی و بے ساختگی سے استفہامیہ و اثباتیہ ، طنزیہ و استحقاریہ ، تحکمانہ و عاجزانہ ، حکیمانہ و فلسفیانہ ، تخیلاتی و ماورائی ، فخریہ و حزنیہ، دعائیہ و ندائیہ، اور مماثلتی و تقابلی لہجوں سے مکالماتی حُسن کو دوام بخش دیا ہے، ان دونوں نظموں کے کرداروں کی مناسبت سے مکالماتی و’ لہجاتی‘ خوبیاں تشکیل ہوئی ہیں۔’’ شکوہ‘‘ اور ’’ جواب شکوہ‘‘کی ڈرامائی فضا بندی بھی بہت جاندار ہے۔ ’’شکوہ‘‘ کی فضا سرتا سر اضطرابی و اضطراری ہے اور نظم کے بنیادی کردار نے دفترِ شکایت وا کرنے سے قبل ایسے جذبات کا اظہار کیا ہے جو ہر مسلمان کے احساسات کا حصہ بن جاتے ہیں۔جب کہ ’’ جواب شکوہ‘‘ میں عناصر فطرت پر مشتمل کرداروں کی شمولیت سے ڈرامائی فضا کو جان دار بنایا گیا ہے۔نقطئہ آغاز ، ارتقا اور انجام کے سلسلے میں بھی ان نظموں کا مطالعہ نہایت دل چسپ ہے۔ ’’ شکوہ ‘‘ کے ابتدائی بند ڈرامائی نقطئہ آغاز کی عمدہ مثال ہیں جس کا خاتمہ بالآخر ’’جواب شکوہ‘‘ کے اختتامی ٹکڑوں میں بہ خوبی ہو جاتا ہے۔ درمیان کی تمام کڑیاں دونوں منظومات میں تناسب و توازن قائم کر دیتی ہیں۔ آغاز و اختتام کے یہ بند ملاحظہ کیجیے: شکوہ: ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر؟ تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟ قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا!۳۱؎ جوابِ شکوہ: دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی گُل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے!۳۲؎ نظم ’’ چاند ‘‘ میں شاعر کا اس مظہر فطرت کے ساتھ یک طرفہ مکالمہ حُسنِ ازل کی نمود کائنات کے ہر ذرے میں محسوس کراتا ہے اور اس ضمن میں کبھی وہ استفساریہ لہجہ اپناتا ہے تو کبھی استعجابیہ___(صحرا و دشت و در میں ، کہسار میں وہی ہے+ انساں کے دل میں، تیرے رخسار میں وہی ہے)۳۳؎ ،جب کہ ’’ رات اور شاعر‘‘ دو طرفہ مکالمات پر مبنی ہے جس میں شاعر نے رات کی تجسیم کر کے اسے شاعر سے ہم کلام دکھایا ہے۔ رات کا مکالمہ اقبال نے تمثالی خوبیوں سے مرصع کر کے پیش کیا ہے جس سے ڈرامائی تاثیر میں اضافہ ہُوا ہے، اس کا استفساریہ لہجہ بھی متاثر کُن ہے جب کہ شاعر کا جواب اُس کے داخلی کرب کا آئینہ دار اور بھر پور ڈرامائی لہجے کاحامل ہے: مُجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سُناؤں کس کو؟ تپشِ شوق کا نظّارہ دکھاؤں کس کو؟ برقِ ایمن مرے سینہ پہ پڑی روتی ہے دیکھنے والی ہے جو آنکھ، کہاں سوتی ہے؟۳۴؎ ’’ بزمِ انجم‘‘ کا موضوع اتفاق، اتحاد اور جذبِ باہمی ہے ، جسے مؤثر اور کارگر بنانے کے لیے اقبال کی نظر ستاروں کی جانب اُٹھتی ہے جو اس نکتے سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ تاہم تلقینِ عمل کی غرض سے وہ براہ ِ راست اُسلوب اپنانے کے بجاے ڈرامائی طرزِ سخن پر انحصار کرتے ہوئے نظم کا آغاز دل کش ڈرامائی منظر نامے سے کرتے ہیں: سُورج نے جاتے جاتے شامِ سیہِ قبا کو طشتِ افق سے لے کر لالے کے پھول مارے پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے محمل میں خامشی کے لیلائے ظُلمت آئی چمکے عروسِ شب کے موتی وہ پیارے پیارے۳۵؎ یہاں ’’ ملک ‘‘ کا کردار محض ایک آواز ہی پر مبنی ہے ، جو ستاروں سے ہم کلام ہو کر ایسا سُرود چھیڑنے کی درخواست کرتا ہے جس سے اہلِ زمیں میں تحرک پیدا ہو جائے۔ جواباً ستاروں کا مکالمہ حرارتِ زیست کے جذبات پر مبنی ہے اور ان کی زبانی اقبال یہ پیغام دے جاتے ہیں: ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں۳۶؎ نظم ’’ سیرِ فلک‘‘ تمثیلی و تخیلاتی پیرایے میں رقم کی گئی ہے جس میں واحد کردار شاعر کا ہے جو عالمِ تخیل میں سیر فلک کے مختلف مناظر بیانیہ رنگ میں سُناتا چلا جاتا ہے اور جنت کے مقابل میں جہنم کا نقشہ بھی پیش کرتا ہے۔ یہاں وہ یہ نادر نکتہ بتاکر منظر نامے سے اوجھل ہو جاتا ہے: اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں!۳۷؎ نظم ’’ نصیحت‘‘میں خود کلامی کا انداز ہے اور یہ خود کلامی اقبال نے خود کو ایک کردار فرض کر کے تشکیل دی ہے جو ’’ عاشقِ ہر جائی ‘‘ ہی کے انداز میں انھیں ’’ مجموعۂ اضداد‘‘ کے طور پرپیش کرتی ہے۔ نظم ’’ موٹر‘‘ دو واقعی کرداروں ’جگندر‘ اور ’شاعر‘ پر مبنی ہے جس میں ایک مختصر مکالمے کے علاوہ کوئی ڈرامائی عنصر نظر نہیں آتا۔ البتہ ’’ شمع و شاعر ‘‘ اس مجموعے کی ایک اہم ڈرامائی نظم قرار دی جا سکتی ہے___ یہاں شمع مجسم کردار کی صورت میں جلوہ گر ہو تی ہے اور سواے ابتدائی بند کے نظم کے تمام تر حصے اُسی کی زبانی بیان ہُوئے ہیں۔ ’شاعر‘ تو مختصر مکالمے کے بعد یہ کہہ کر رخصت ہو جاتا ہے کہ: از کجا ایں آتشِ عالم فروز اندوختی؟ کرمکِ بے مایہ را سوزِ کلیم آموختی!۳۸؎ مگر ’’ شمع ‘‘ اس کے جواب میں متنوع لہجوں میں مُسلمانوں کے ماضی و حال کا نقشہکھینچ کر رکھ دیتی ہے جو نہایت اثر انگیز اور ڈرامائی ہے ، مثلاً آخری بند سے جو سرتا سر رجائی ہے۔نظم ’’ حضورِ رسالت ؐمآب میں‘‘ عالمِ تخیل کا منظر نامہ پیش کرتی ہے جس میں شاعر کو ’’ عندلیبِ باغِ حجاز ‘‘ قرار دیتے ہوئے حضورِ رسالتؐ مآب میں تحفہ پیش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ وہ طرابلس کے شہیدوں کے لہوکو’’ اُمت کی آبرو‘‘ قرار دیتے ہوئے بہ صد نیاز نذرِ حضورؐ کر دیتا ہے۔ یوں تخیل اور مکالمے کی آمیز ش نے نظم کو خاصا ڈرامائی رنگ بخش دیا ہے۔ اس کے برعکس نظم ’’ شفاخانۂ حجاز‘‘ میں بھی شاعر کے احساسات کو جدہ میں شفا خانۂ حجاز کھلنے پر مختصر مکالمے کی صورت میں بیان کیا گیا ہے تا ہم دیگر ڈرامائی عناصر یہاں مفقود ہیں۔ ’’ عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں ‘‘ موسمِ گل کے راز دار برگِ زرد کی تجسیم کرتے ہوئے شاعر کے قلبی واردات مکالماتی اسلوب میں اس سے مربوط ہو جاتے ہیں۔ ’’ شبنم اور ستارے ‘‘ میں شبنم ، ستاروں ، زہرہ اور مَلک کی تجسیم ملتی ہے، یہاں دُنیا کے کشورِ دل کش کی بابت ستاروں اور شبنم کے مابین مکالمہ تشکیل دے کر ایک حقیقت پسندانہ نتیجے کا استخراج کیا گیا ہے(بنیاد ہے کاشانۂ عالم کی ہوا پر! +فریاد کی تصویر ہے قرطاسِ فضا پر!)۳۹؎، ’’غلام قادر رہیلہ ‘‘ میں اقبال حقیقی و تاریخی شخصیت کو بنیاد بنا کر پور ی ڈرامائی تاثیر سے اس سے متعلق واقعے کو پیش کر دیتے ہیں، نظم ’’ ایک مکالمہ‘‘ میں ڈرامے سے زیادہ تمثیل کے عناصر ملتے ہیں، البتہ اس کا مکالماتی پہلو اسے ڈرامائی تاثیر سے ضرور ہم کنار کر دیتا ہے۔ ’’ شبلی و حالی‘‘ میں ان بلند پایہ اشخاص کے سُوے فردوس رہ نورد ہونے پر اقبال کا ایک فرضی کردار ’’ مسلم‘‘ سے مکالمہ دکھایا گیا ہے اور دونوں کی گفت گو سے ملتِ اسلامیہ کے لیے کرب انگیز جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’ صدیق ‘‘ کے زیر عنوان تاریخی قصیّ کو ڈرامائی شان سے موزوں کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ ’’ شعاعِ آفتاب‘‘ تمثیلی و حکایتی اُسلوب کے ساتھ ساتھ مکالماتی خوبیوں سے بھر پور ہے اور اس کے دو بنیادی کردار ’’شاعر‘‘ اور ’’ شعاعِ آفتاب ‘‘ کی گفت گو سے ’’ ذوقِ بیداری‘‘ کا سبق ملتا ہے۔ ’’ عرفی‘‘ نامی نظم میں اقبال نے اپنے پسندیدہ ڈرامائی رنگ یعنی تخیلاتی مکالمے کو اختیار کر کے تحرک کا پیغام دیا ہے جو عرفی کی تُربت سے آنے والی صدا کی صورت میں نمود کرتا ہے۔ کم و بیش یہی انداز ’’کفرو اسلام‘‘ (تضمین بر شعرِ میررضی دانش) میں ملتا ہے، جہاں ’’اقبال‘‘ ’’ کلیم طور‘‘ سے مخاطب ہو کر سوزِ کہن کی تمنا کرتے ہیں جس کے جواب میں صاحبِ سینا سے وادیِ فاراں میں خیمہ زنی کا پیغام ملتا ہے۔ نظم ’’ پھولوں کی شہزادی ‘‘ ہے تو تمثیلی مگر مکالماتی عنصر نے اس میں ڈرامائی رنگ کو تقویت دی ہے۔ مزید برآں تجسیم کی خاصیت اسے کرداری اوصاف سے جوڑ دیتی ہے۔ فردوس میں ایک مکالمہ‘‘ اقبال کے محبوب ڈرامائی انداز یعنی تخیلاتی مکالمے کا احاطہ کر تی ہے جس سے مقصود حالی ؔ اور سعدیِ شیراز کی زبان سے اصلاحِ احوال کی کاوش کرنا ہے جب کہ ’’جنگِ یرموک کا ایک واقعہ ‘‘ تاریخی واقعے کی مکالماتی پیرا یے میں بازیافت ہے، گویا مذکورہ منظومات میں ڈرامائی عناصرجُزوی طور پر بھی اپنی پہچان کراتے ہیں اور ان کے ذریعے اقبال نے کمال درجے کی معنی آفرینی کا حصول کیا ہے۔ البتہ بانگِ درا کی آخری مکمل ڈرامائی نظم ’’خضرِ راہ‘‘ کو کسی طور پر بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پُرتاثیر ڈرامائی فضا بندی، کردار آفرینی ، مکالمہ سازی، لہجے کے اُتار چڑھاؤ، توازن و تناسب ، تجسیم و تمثیل ، عمل اور ردِ عمل اور صیغۂ واحد متکلم کی شمولیت نے اس نظم کو تحیر خیز ڈرامائیت سے نواز دیا ہے۔ ’ ’خضرراہ ‘‘ کی ڈرامائی فضا بڑی شعریت و پُراسراریت رکھتی ہے اور اقبال کو چوں کہ ایک تلمیحی کردار کو متعارف کرانا تھا ، لہٰذا یہاں آغاز اس تلمیح سے متعلق تلازمات سے بھر پور ہے، نیز تمثالی خوبیاں لطفِ مزید کا ساماں کر گئی ہیں۔ کردار نگاری کے ضمن میں یہاں ’شاعر‘ اور ’خضر‘ ہی کے دو کردار تخلیق کیے گئے ہیں مگر دونوں ایسے جان دار ہیں کہ کسی مرحلے پر اکتاہٹ محسوس نہیںہوتی__’’ شاعر‘‘ کا کردار مجسم سوال ہے اور وہ خضر سے کچھ استفسارات کرتا ہے۔خضر ان سوالات کا ’’صحرانوردی‘‘، ’’زندگی‘‘، ’’سلطنت‘‘، ’’سرمایہ و محنت‘‘ اور ’’دنیاے اسلام‘‘ کے زیر عنوان تفصیلی جواب دیتا ہے۔’شاعر‘ کا لہجہ اضطرابی ہے جب کہ خضر کے ہاں جوش کے بجاے ہوش اور بے چینی کی جگہ ٹھہرائو ہے۔ خضر کی متانت اور اس کے مکالمات میں تندی و تیزی کے فقدان کے ضمن میں سید سلیمان ندوی نے اعتراض بھی کیا تاہم علاّمہ کا ان کے نام مکتوب ان کے کرداری و مکالماتی شعور کو نمایاں کرتا ہے جس کے مطابق وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نظم میں متکلم کو اس کی شخصیت کے مطابق پیش کرنا ضروری ہے۔ چناں چہ یہ خضر کی طبیعت کا تقاضا تھا کہ ان کی زبانی ادا کیے جانے والے مکالمات میں سنجیدگی، متانت اور گہرائی ہو مگر جوش و حرارت میں کمی ہو۔ اس خط میں اقبال لکھتے ہیں کہ : جوشِ بیان کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ، صحیح ہے۔ مگر یہ نقص اس نظم کے لیے ضروری تھا ( کم از کم میرے خیال میں)۔ جنابِ خضر کی پختہ کاری، اُن کا تجربہ اور واقعات و حوداثِ عالم پر اُن کی نظر، ان سب باتوں کے علاوہ اُن کا اندازِ طبیعت جو سورئہ کہف سے معلوم ہوتا ہے ، اس بات کا مقتضی تھا کہ جوش اور تخیل کو اُن کے ارشادات میں کم دخل ہو۔ اس نظم کے بعض بند میں نے خود نکال دیے اور محض اس وجہ سے کہ اُن کا جوشِ بیان بہت بڑھا ہوا تھا اور جنابِ خضر کے اندازِ طبیعت سے موافقت نہ رکھتا تھا۔۔۴۰؎ خضر کے کردار کی تشکیل کرتے ہوئے اقبال کے سامنے ’’سورۃ الکہف‘‘ کے قرآنی حوالے کے ساتھ ساتھ اساطیری اور ادبی روایات بھی ہیں جس سے یہ کردار زیادہ جاذب اور پُرکشش ہو گیا ہے۔ ۲ بالِ جبریل کی ڈرامائی منظومات میں ’’ طارق کی دعا‘‘ (اندلس کے میدانِ جنگ میں) ، طارق بن زیاد کے تاریخی کردار کو ڈرامائی تاثیر کے ساتھ پیش کرتی ہے اور مکمل طور پر دعائیہ لہجے سے عبارت ہے۔ ’’لینن‘‘ (خدا کے حضور میں ) کا انداز یہی ہے ، البتہ یہاں خدا کی بارگاہ کا تصوراتی منظر نامہ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ڈرامائی تکنیک کے اعتبار سے یہ نظم ایک سہ بابی ڈراما بھی قرار دی جا سکتی ہے جس کے ہر حصے میں نئے کردار کی آمد اور جاری موضوع کی مناسبت سے عمدہ مکالمے رقم کیے گئے ہیں۔ پہلا ایکٹ ’’لینن، خدا کے حضور میں‘‘ ہی کے زیر عنوان ہے جس میں لینن خدا کا منکر ہونے کے باعث خدا کی عدالت میں ایک مجرم کے طور پر شریک ہوتا ہے جہاں فرشتے بھی خدا کے روبرو دست بستہ شریک ہیں۔ اس موقعے پر پوری ڈرامائی شان کے ساتھ مارکسی نظریات کا حامل یہ تاریخی و سیاسی کردار خدا سے طویل مکالمہ کر کے اسٹیج سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اُس کے لہجے میں انقلابیت اور تُندی و تیزی ہے اور کہیں کہیں تو یہ محسوس ہوتاہے کہ تہذیب حاضر اور عصری سیاست کی بابت وہ علامہ ہی کے خیالات کی ترجمانی کرنے لگتا ہے۔’’لینن‘‘ کا مکالمہ اس اعتبار سے قابلِ ستائش ہے کہ وہ ہر لحظہ خداے بزرگ و برتر کی تکریم کو مدِنظر رکھتاہے___اس کا طرزِتخاطب بہ تدریج شکا یتی رنگ اختیار کر لیتا ہے ، مثلادو بدو مکالمے کی کیفیت میں لہجے کا اُتار چڑھاؤ دیکھیے کس قدر عمدہ ہے: اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پایندہ تری ذات میں کیسے سمجھتا کہ تُو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیّر تھے خرد کے نظرّیات۴۱؎ اس کے بعد وہ اپنے اضطرابی خیالات کا اظہار بڑی روانی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے اور یوں سماوی منظر نامے میں تشکیل پانے والا یہ یک طرفہ مکالمہ بھر پور ڈرامائی تاثر لیے اختتام پذیر ہوتا نظر آتا ہے۔ (کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟+ دنیا ہے تری، متنظرِ روزِ مکافات!)۴۲؎۔ ’’ فرشتوں کا گیت ‘‘ دُوسرا ایکٹ ہے، جس میں فرشتے دست بستہ کھڑے منفرد اور قدرے دھیمی لے میں لینن کے بیان کی تائید کرتے ہیں اور پوری نیاز مندی کے ساتھ ’نقش گرِ ازل‘ سے نقش (فرد) کی نا تمامی کا گلہ کرتے ہیں۔تیسرا ایکٹ ’’فرمانِ خدا‘‘ (فرشتوں سے)خدا کی طرف سے جواب ہے، جو جلال، ہیبت اور تمکنت کے خدایانہ لہجے میں رقم کیا گیا ہے اور اس کے ایک ایک شعر سے علامہ کی اپنی انقلابی فکر کا اظہار ہوتا ہے۔نظم ’’ پروانہ اور جگنو‘‘ میں اقبال نے صرف دو شعروں میں مکالماتی فضا تخلیق کر دی ہے جس میں پروانہ جگنو کو ’’آتشِ بے سوز‘‘ پر مغرور ہونے پر طعنہ زن ہے جب کہ جگنو اسی امر کو مثبت زاویے سے متعلق کرتے ہوئے کہتا ہے: اللہ کا سو شکر، کہ پروانہ نہیں میں دریوزہ گرِ آتشِ بیگانہ نہیں میں۴۳؎ انوری سے ماخوذ ، نظم’’ گدائی‘‘ واقعاتی پیرایہ رکھتی ہے اور اس میں ایک ’’ رندِزیر ک‘‘ کے خیالات کو مکالمے کی شکل دی گئی ہے جس میں اقبال طنزیہ و استفساریہ لہجے کی گھلاوٹ سے حُسن پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ ’’مُلا اور بہشت ‘‘ میں یہی انداز قدرے تمثیلی پیرایے میں جھلکتا ہے۔ شاعر اس مختصر نظم میں واحد متکلم کے طور پر شریک ہے اور ڈرامائی منظر نامہ زمینی وارضی نہیں بلکہ سماوی ہے جس میں وہ بار گاہِ حق سے مُلاّ کو حکم بہشت ملنے پر نالاں ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ملاّ بحث و تکرار کا رسیا اور بد آموزی اقوام و مللِ کا قائل ہے۔ لہٰذا اسے کیوں کر حورو شراب وکشت خوش آسکیں گے ، حقیقت یہ ہے کہ اس نظم میں ایک طنزیہ موضوع کی بُنت ڈرامائی فضا بندی کی وساطت سے کی گئی ہے اور منظر عالم بالا کا ہے۔نظم ’’ نصیحت ‘‘ حکایتی اُسلوب سے عبارت ہے اور ڈرامائی عناصر کے سلسلے میں یہاں کرداری و مکالماتی اوصاف اپنی نمود کرتے ہیں۔ مکالمہ بھی صرف عقاب سال خورد کی زبانی موزوں ملتا ہے جو بچۂ شاہین کو سخت کوشی سے تلخیِ زندگانی کو انگبیں بنانے کی نصیحت کرتا ہے۔ ’’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘‘ اور ’’ روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ بہ ظاہر دو مختلف منظومے ہیں لیکن اپنے موضوع کی مناسبت اور ڈرامائی آہنگ کے باعث انھیں دو مختلف عنوانات کے تحت رقم کی گئی ایک مسلسل نظم کے طور پر تفہیم کرنا زیادہ مناسب ہے۔ فرشتوں کی زبانی جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، وہ مروج تصور کے برخلاف خاصے رجائی اور عظمتِ انسانی کے جذبے سے مملو ہیں۔ گویا اس مکالمے کی رُو سے آدم کا جنت سے رخصت ہونا بہ طورِ سزا نہیں بلکہ جزا کے طور پر ہے، جبھی تو فرشتے اُسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے جذبات کی ترسیل کرتے ہیں۔دُوسرے حصے میں اقبال نے ’’ روحِ ارضی‘‘ کے تجسیمی کردار سے متعارف کرایا ہے جو جنت سے زمین پر قدم رکھنے والے انسان کا اپنے تمام تر مظاہر کے ہمراہ استقبال کر رہی ہے۔ ’’روحِ ارضی‘‘ کایہ مکالمہ چشم کشا ہے اور اس سے علامہ کے تصورِ انسان کی بڑی عمدگی سے ترجمانی ہوتی ہے۔ یہاں انھوں نے خاصے رواں اور بے ساختہ اُسلوب اور ماورائی لہجے میں ’’ روح ِ ارضی‘‘ کے جذبات کو زباں بخش دی ہے۔ نظم ’’ پیرو مرید‘‘ مکالماتی حسن و خوبی سے مزّین ہے___ پیر رومی (مولانا روم) اور مرید ہندی (اقبال) کے مابین تشکیل پانے والے یہ ذو لسانی مکالمے بھر پور ڈرامائیت کے حامل ہیںاور دونوں کرداروں کی شخصیت و سیرت کی عکاسی کرنے میں معاونت کرتے ہیں___مریدِ ہندی کے قلب وذہن میں اُبھرنے والے چُست اور دقیق سوالات کاجواب پیر رومی کی زبان سے بڑی اثرانگیزی سے دیاگیاہے۔اسلوب احمد انصاری کایہ کہناہے کہ ’’ پیر ومرید ‘‘ میں اقبال نے اپنے شکوک وشبہات اور اپنی اُلجھنوں کی کشاد کے سلسلے میں رومی سے رجوع کیاہے۔اوریہ اُس استفہامیہ انداز کی باز گشت ہے جو ’’ خضرراہ‘‘ میں ملتاہے۔یہ پُوری نظم ایک طرح کامحاسبۂ ذہنی ونفسی ہے ،کردار بہ ظاہر دونوں غیر مشخص ہیں اور سوال وجواب کایہ طریقہ ایک طرح کے ایقان و اطمینان حاصل کرنے کے لیے برتاگیاہے۔ ۴۴؎ نظم مذکور میں بہت سے فکر انگیز مکالماتی ٹکڑے ملتے ہیں جن میں لہجے کے تنوعات نے عجیب وغریب رنگ بھر دیے ہیں،مثلاً:نظم مذکور سے ایک فکرانگیز مکالماتی ٹکڑا دیکھیے جس میں لہجے کے تنوعات بہ خوبی نمود کر گئے ہیں: مریدِ ہندی: اے امامِ عاشقانِ دردمند! یاد ہے مجھ کو ترا حرفِ بلند ’خشک مغز و خشک تار و خشک پوست از کجا می آید ایں آوازِ دوست‘ دورِ حاضر مستِ چنگ و بے سرور! بے ثبات و بے یقین و بے حضور! کیا خبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا! دوست کیا ہے، دوست کی آواز کیا آہ یورپ! با فروغ و تاب ناک نغمہ اس کو کھینچتا ہے سُوے خاک! پیرِ رومی: بر سماعِ راست ہر کس چیر نیست! طعمۂ ہر مرغکے انجیر نیست!۴۵؎ وسیع ڈرامائی کینوس کی حامل نظم ’ ’ جبریل و ابلیس ‘‘ میں اقبال نے ڈرامائیت کے کلیدی عنصر یعنی مکالمہ نگاری سے اس کی اثر انگیزی میں اضافہ کر کے خود اپنی قدرتِ سخن کا اعجاز دکھایا ہے۔ جبریل اور ابلیس کی زبانی ادا ہونے والے مکالمات اس قدر بے ساختہ ، بھر پور اور برجستہ ہیں کہ ان دونوں اساطیری کرداروں کی شخصیات تمام تر ڈرامائی امکانات کے ساتھ آئینہ ہو جاتی ہیں۔ شعرِ اقبال سے مترشح ہے کہ علامہ کو ان دونوں تلمیحی کرداروں سے خاص دل چسپی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے ہاں ابلیس بعض ایسی صفات رکھتا ہے جس سے نوری محروم ہیں جب کہ جبریل تو سرتاسر خیر اور حق کا نمایندہ ہے۔ ’’ جبریل و ابلیس‘‘ میں تو یہ دونوں کردار اپنی پوری شناخت کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور اس ضمن میں اُنھوں نے ہبوطِ آدم کے قصے کو پیش نظر رکھا ہے۔ علامہ نے اپنے ان دونوں محبوب کرداروں کی وساطت سے جس طرح اس نظم کو ماورائی و سماوی آہنگ بخش دیا ہے۔اس نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے خواجہ منظور حسین نے خوب لکھا ہے کہ ’’ اقبال کے جذب و فکر کے گوناگوں پہلو سمٹ آئے ہیں۔‘‘۴۶؎ اقبال نے جبریل کے تینوں مکالمات استفساریہ پیرایے میں یوں رقم کیے ہیں کہ اُس کے بلند تر اخلاقی شعور کاسراغ ملتا ہے، وہ کہتا ہے: مکالمہ۱: ہمدمِ دیرینہ ! کیسا ہے جہانِ رنگ و بُو؟ مکالمہ۲: ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو؟ مکالمہ۳: کھو دیے انکار سے تو نے مقاماتِ بلند چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!۴۷؎ ان تینوں مکالموں کو مربوط کر کے دیکھیں تو جبریل کی عاجزانہ شخصیت سامنے آتی ہے، جو ابلیس کی سرکشی کے باوصف اُس کی اصلاح کا خواہاں ہے تا کہ وہ پھر سے مقاماتِ بلند پا سکے۔ اس کے مقابلے میں ابلیس کے جوابی مکالموں سے اُس کے کرّو فر اور غرور و نکبت کا احساس ہوتا ہے، مثلاً تیسرے سوال کے جواب میں وہ یوں گویا ہوتا ہے: ہے مری جرأت سے مثتِ خاک میں ذوقِ نمو میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو ! دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے؟ میںَ کہ تو؟ خضر بھی بے دست وپا، الیاس بھی بے دست وپا میرے طوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو! گر کبھی خلوت میسّر ہو تو پوچھ اللہ سے قصّۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟ میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط! اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو!۴۸؎ یہ درست ہے کہ ’’ جبریل و ابلیس ‘‘ میں مکالماتی حسن زیادہ نمایاں ہے مگر بہ غور دیکھیں تو ڈرامائیت کے تمام تر عناصر یعنی موضوع کی مناسبت سے منظر نامے کی تشکیل ، کرداروں کے متنوع لہجوں کی خصوصیات، عمل اور ردِّ عمل، کرداروں کی سیرت و شخصیت کی عکاسی اور واضح نقطئہ آغاز و انجام کی موجودگی نے اس نظم کو ایک مختصر ڈرامے کی صورت عطا کر دی ہے۔ نظم ’’ اذان ‘‘ زیادہ ترتمثیلی خوبیوں سے آراستہ ہے، البتہ کردار نگاری اور مکالمہ سازی کے اعتبار سے اس میں ڈرامائی عناصر کی شمولیت محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہاں کرداروں کے ضمن میں عناصرِ فطرت کی تجسیم ملتی ہے جب کہ حسنِ مکالمت بھی قابل مطالعہ ہے۔ کہیں کہیں لہجے کے زیروبم سے ڈرامائیت کا رنگ گہرا ہو گیا ہے۔’’ ستارے کاپیغام ‘‘ میں صرف خطابیہ لہجے کی نمود ہوئی ہے جب کہ مختصرنظم ’’ سوال ‘‘ ایک مفلس کاخدا سے یک طرفہ مکالمہ ہے جو ایک شکایتی سوال کااس طرح احاطہ کرتاہے کہ نادر فکریات کے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔’’ نادر شاہ افغان ‘‘ میں تجرید کی تجسیم ،حُسنِ مکالمت اور علامتی ورمزی پیرایے کی وساطت سے ڈرامائی تاثیر کاحصول ممکن بنایاگیاہے۔اقبال نے اس نظم میں حضور حق سے ’’ لولوے لالہ‘‘ (قیمتی موتیوں کاخزانہ ) لے کر روانہ ہونے والے ’’ ابر ‘‘ کو ایک علامتی کردار (نادر شاہ افغان )کے طور پر متعارف کرایاہے جو بہشت کے حُسن کو دیکھ کر وہیں برسنے کاشائق ہے۔اسی اثنا میں بہشت سے آنے والی صدااُسے ہرات وکابل و غزنی کے سبزۂ نورس (نوجوانانِ ملت) کی طرف متوجہ کردیتی ہے تاکہ ابر (نادرشاہ افغانی) اپنے قطرات (قوم کے لیے درد مندی کے آنسو) ’’ گلِ لالہ ‘‘ پر چھڑک کر اس کی حدّت بڑھادے۔(بیداری کاکیاخوب استعارہ ہے ؟ )’’ تاتاری کاخواب‘‘ اپنے موضوع کی مناسبت سے تاریخی وتلمیحی پیرایہ رکھتی ہے اور اس میں ایک حزن آمیز خواب کے منظر سے بات شروع ہوکر بالآخر احساسِ ذات،عرفانِ خودی اور تحرک وانقلاب کے پیغام پر منتج ہوجاتی ہے۔خواب کامنظر نامہ کچھ یوں ہے : کہیں سجادہ و عمامہ رہزن کہیں ترسا بچوں کی چشمِ بیباک! رداے دین و ملّت پارہ پارہ قبائے ملک و دولت چاک در چاک!۴۹؎ اس کے بعد بڑے ڈرامائی انداز میں خاکِ سمرقند میں دفن تیمور کی تربت سے نُور اُٹھتاہے اور ’’ روح تیمور‘‘ میں مبدّل ہوکر ایک پیغام سُناجاتاہے جو علامہ کے دل کی آوازہے: خودی را سوز و تابے دیگرے دہ جہان را انقلابے دیگرے دہ۵۰؎ نظم ’’ ابو العلا معرّی ‘‘ میں حکایتی پیرایے میں کرداری ومکالماتی وصف اُبھاراگیاہے جس کے تحت ’’صاحب ِ غفران ولزومات ‘‘ (معرّی ) بُھنے ہوئے تیتر سے مخاطب ہوکر بلند حوصلگی کاسبق دیتاہے۔یہاں لہجے کی کاٹ دیدنی ہے ۔’’ ُپنجاب کے پیرزادوں سے ‘‘ میں اقبال کا محبوب اُسلوب یعنی کسی صاحبِ اسرار کی درگاہ پر حاضر ہو کر اس سے رہ نمائی لینا نئے رنگ سے جھلکتا ہے۔ نظم کے آغاز ہی سے ڈرامائی انداز میں’شاعر‘ کی شیخِ مجدد کی لحد پر حاضری دکھائی گئی ہے اور وہ انھیں’’سرمایۂ ملت کا نگہباں ‘‘ قرار دیتے ہوئے ان سے فقر و درویشی اور بیداری قلب کا اُمیدوار ہوتا ہے، جواباً شیخ مجدّد کا مکالمہ (بصورت صدا) طنزیہ لہجے سے عبارت ہے، اور یوں ہے: عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہّ کہ جس میں پیدا کلہِ فقر سے ہو طُرّئہ دستار! باقی کلہِ فقر سے تھا ولولۂ حق طرّوں نے چڑھایا نشۂ ’خدمتِ سرکار‘!۵۱؎ ’’ ابلیس کی عرضداشت ‘‘ میں اقبال نے عزازیل (ابلیس ) کو خداوندِ جہاں کے حضور یہ گزارش کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ اب اُس کی ضرورت تہِ افلاک باقی نہیں رہی لہٰذا اُسے واپس بُلا لیا جائے۔ کیوں کہ: جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک!۵۲؎ نظم ’ ’پرواز ‘‘ اپنے کہانی پن اور اخلاقی نتیجے کے اعتبار سے ایک تمثیل کی حیثیت رکھتی ہے تا ہم کرداروں کی شمولیت اور مکالمت کے زاویے سے اس میں ڈرامائیت کا حُسن بھی جھلکتا ہے۔ خصوصاً ’’درخت ‘‘ اور ’’ مرغِ صحرا‘‘ کی گفت گو کے دوران میں اقبال نے تضادو تقابل کے عنصر کو پیش نظر رکھ کر ڈرامائی تاثیر میں اضافہ کر دیا ہے ___ یہی انداز ’’ شاہین‘‘ کے زیر ِعنوان لکھی گئی نظم میں نظر آتا ہے جہاں شاہین کو علامتی کردار کے طور پر متعارف کرا کے اس کی زبان سے اس کے اوصاف گنوائے گئے ہیں___’’ہارون کی آخری نصیحت ‘‘ میں ڈرامائیت میں واقعاتی رنگ پیدا کیا گیا ہے اور علامہ نے اس تاریخی کردار کو وقتِ رحیل اپنے پسر کو یہ نصیحت کرتے دکھایاہے: پوشیدہ ہے کافر کی نظر سے ملک الموت لیکن نہیں پوشیدہ مُسلماں کی نظر سے!۵۳؎ ’’ شیراور خچر ‘‘ اور ’’ چیونٹی اور عقاب ‘‘ تمثیلی رنگ میں رقم کی گئیں ہیں تا ہم مکالماتی پہلوئوں کے پیش نظر ان میں ڈرامائی حُسن کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مزیدبرآں کرداروں کی پیش کش کے لحاظ سے انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۳ ضرب کلیم کی ڈرامائی منظومات میں ’’ علم و عشق ‘‘ وہ نظم ہے جس میں ان دونوں تصورات کی تجسیم کر کے ان کی شاعر کے ساتھ گفت گو کی فضا تشکیل دی گئی ہے۔ یہاں بانگِ درا کی مکالماتی نظم ’’عقل و دل ‘‘ کے اثرات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں تا ہم زیر نظر نظم میں اختتام تک مکالمہ نہیں چلتا بلکہ پہلے بند کے بعد صرف عشق ہی کی صفات گنوائی گئی ہیں۔ ’’ عشق ‘‘ کی زبان سے اُس کے اپنے اوصاف بتاتے ہوئے لہجے کا اُتار چڑھائوقابلِ مطالعہ ہے،عشق کہتا ہے: عشق کے ہیں معجزات، سلطنت و فقر و دیں! عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں! عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں! عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح یاب!۵۴؎ ’’ شکر و شکایت ‘‘ میں شاعر، خدا سے ہمکلام ہے اور اپنی ذات کے حوالے سے بہ یک وقت شکر اور شکوے کا لہجہ اپناتا ہے۔نظم ’’ کافر و مومن‘‘ میں اقبال نے بڑے ڈرامائی انداز میں ساحلِ دریا پر خضر سے اپنی ملاقات کا احوال سنایا ہے جو اُس سے استفسار کرتا ہے کہ کیا تو سمِ افرنگ کا تریاق ڈھونڈ رہا ہے، اور پھر خود ہی اس کا یہ حل بتا کر منظر نامے سے اوجھل ہو جاتا ہے کہ: کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!۵۵؎ مردِ مومن کا ایک ڈرامائی نقشہ ’’ مومن‘‘ کے زیرِ عنوان لکھی گئی نظم میں ملتا ہے، جسے علامہ نے دو ذیلی عنوانات ’’ دُنیا میں ‘‘ اور ’’جنت میں ‘‘ کے تحت تشکیل دیا ہے۔ ان دونوں حصوں سے اقبال کے اس پسندیدہ اور نمایندہ شعری کردار کی بہ خوبی تفہیم ہو جاتی ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے موازنہ و مقارنہ کے اسلوب کا دل کش استعمال کیا ہے۔’’ محمد علی باب‘‘ میں حقیقی و واقعی بیان کو مکالماتی و کرداری پیرا یے میں بڑی بلاغت سے موزوں کیا گیا ہے۔ اس مختصر نظم کی ڈرامائی تاثیر ،مکالمات کی بر جستگی اور لہجے کی تندی نمایاں ہے۔نظم ’’تقدیر ‘‘ ، ابلیس ویزداں کے مابین مکالمہ ہے جس میں ابلیس ملتجیانہ لہجے میں خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ دراصل ابلیسیت میری ہی قسمت میں تھی ورنہ آپ چاہتے تو آدم کو سجدہ کرنے سے میں کیوں کر انکار کر سکتا تھا؟ اقبال نے یہ خیال محی الدین ابنِ عربی (الفتوحات المکیہ ) سے اخذ کیا ہے مگر ڈرامائی اندازِ سخن کے ذریعے پیش کش نے اس کی تاثیر دو چند کرد ی ہے۔ مثلاً دیکھیے ابلیس اپنے انکار کی تاویل گھڑتے ہوئے کس طرح گویا ہوتا ہے: اے خدائے کن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بَیر آہ! وہ زندانیٔ نزدیک و دُور و دیر و زُود حرفِ’ استکبار‘ تیرے سامنے ممکن نہ تھا ہاں مگر تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود!۵۶؎ ’’مقصود‘‘ کے زیر عنوان لکھی گئی نظم سپنوزا اور افلاطون کے مختصر مکالمات پر مبنی ہے جو دراصل اُن کے فلسفیانہ خیالات کی تلخیص ہیں۔ ’’ امتحان ‘‘ نام کی نظم میں تمثیلی آہنگ میں ’’ پہاڑ کی ندّی‘‘ اور ’’ سنگ ریزے‘‘ کے مابین مکالماتی فضا قائم کی گئی ہے۔ دونوں کرداروں کی تجسیم نے ڈرامائیت کے رنگ کو کمال دلکشی سے گہرا کر دیا ہے۔ اسی انداز کی نظم ’’’شعاعِ اُمید‘‘ بھی ہے جس میں سورج، شعاعوں اور خاص طور پر ’’ ایک شوخ کرن‘‘ کی تجسیمی صورتیں مکمل مکالماتی حسن کے ساتھ لہجہ بدل بدل کر نمود کرتی نظر آتی ہیں یہ نظم تین حصو ں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں سورج کا شعاعوں سے خطاب ہے جو محبت و موانست کے لہجے سے عبارت ہے اور وہ شعاعوں سے یہی اصرار کرتا ہے کہ بے مہریِ ایّام بڑھتی چلی جاتی ہے، لہٰذا: پھر میرے تجلّی کدئہ دل میں سما جاؤ چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام!۵۷؎ دوسرے ڈرامائی جزو میں شعاعیں کلام کرتی ہیں اور سُورج کے ساتھ ان کی گفت گو کو موزوں فضا بندی اور عصری شعور کی آمیزش سے موثر بنا دیا گیا ہے۔جب کہ تیسرے حصے میں ان کم ہمت شعاعوں کے برعکس ایک ’’ شوخ کرن‘‘ کے مشرِق کے ہر ذرّے کو جہان تابی عطا کرنے کے عزم کا اظہار ہوا ہے اور اس کے اس قبیل کے خیالات پر یہ ڈرامائی منظومہ اختتام پذیر ہوتا ہے: چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردانِ گراں خواب! خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب! … … … … … … … … مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر!۵۸؎ ’’ نسیم و شبنم ‘‘ بھی بنیادی طور پر تمثیلی نظم ہے اور ڈرامائی عناصر کے سلسلے میں یہاں لہجے اور مکالمے سے متعلق خوبیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ، مثلاً ’’ نسیم‘‘ کی ’’ شبنم ‘‘ سے گفتگو بے حد رواں، بے ساختہ اور فطر ی ہے۔اسی نوع کی ایک نظم ’’صبح چمن‘‘ ہے جو’ پھول‘ ،’ شبنم‘ اور’ صبح‘ کے تجسیمی کرداروں کی مؤثر طور پر پیش کش کرتی ہے۔ اسی طرح ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ خطابیہ لہجے میں رقم کی گئی وہ نظم ہے جو کلّی طور پرابلیس کے انتقامی خیالات سے عبارت ہے ، جو کچھ یوں ہیں: وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو! فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو! افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو! … … … … … … … … اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھین لو آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو۵۹؎ کردار آفرینی اور مکالمہ سازی کا یہی رنگ ’’نصیحت ‘‘ نام کی نظم میں ملتا ہے، جہاں ایک ’’ لردِ فرنگی‘‘ اپنے پسر کو حکمرانی کے ’’آداب‘‘ سکھارہا ہے اور طنزیہ و استہز ائیہ لہجے میں کہتا ہے: سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر! تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر!۶۰؎ ’’ ایک بحری قزاق اور سکندر‘‘ میں مکالماتی پیرایے میں طنزیہ لہجے کی کارفرمائی ملتی ہے ، جہاں سکندر، رہزن کو زنجیر یا شمشیر میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کو کہتا ہے۔ جواباً قزاق استہز ائیہ و طعن آمیز لحن میں اُسے آئینہ دکھاتے ہوئے یوں گویا ہوتا ہے: سکندر! حیف تو اس کو جوانمردی سمجھتا ہے ! گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی؟ ترا پیشہ ہے سفّاکی، مرا پیشہ ہے سفّاکی کہ ہم قزّاق ہیں دونوں، تو میدانی، میں دریائی!۶۱؎ ’’ غلاموں کی نماز‘‘ میں ایک حقیقی و واقعی بیان کی ڈرامائی پیش کش ملتی ہے___اقبال نے ترکی وفد ہلالِ احمر کی لاہور میں آمد کا ایک واقعہ موزوں کیا ہے ، جس کے مطابق نماز کی ادائی کے بعد ’ مجاہدِ ترکی‘ نے علامہ سے تحیّر آمیز لہجے میں دریافت کیا کہ: ع طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام؟۶۲؎ جواباً علامہ ڈرامائی خود کلامی کا انداز اپناتے ہوئے لکھتے ہیں: طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے ورائے سجدہ غریبوں کو اور کیا ہے کام! خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو وہ سجدہ جس میں ہے ملّت کی زندگی کا پیام!۶۳؎ نظم ’’ محراب گل افغان کے افکار‘‘ میں ایک فرضی کردار ’ محراب گل‘ کی زبان سے فکر انگیز نظریات کا اظہار کیا گیا ہے۔ خصوصاً تمہید کے انقلابی لہجے میں مرقوم اشعار نے نظم کی ڈرامائی فضا کو جان دار بنا دیا ہے۔آگے کے ۱۹قطعات میں محراب گل کی زبانی ملتِ اسلامیہ کے لیے خطابیہ لہجے میں بے مثل افکا ر نظم کیے گئے ہیں اور اس ضمن میں یہ فرضی و تخیلاتی کردار کہیں تلقینی و اصلاحی لہجہ اپناتا ہے تو کہیں طنزیہ و استہزائیہ، کہیںحزنیہ و ندائیہ ، تو کہیںدعائیہ واستعجابیہ ، کہیں دھیما لہجہ ہے، تو کہیں پُرجوش اور بعض مقامات پر تو وہ علامتی آہنگ میں تحرک و حرارت کا پیغام دینے لگتا ہے جس سے ڈرامائیت کی لَے تیز تر ہو جاتی ہے، جیسے: زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پَر شپّرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر لیکن اے شہباز یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر! ان کو کیا معلوم اُس طائر کے احوال و مقام روح ہے جس کی دمِ پرواز سر تا پا نظر!۶۴؎ ۴ ارمغانِ حجازکی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شورٰی ‘‘ ڈرامائی عناصر کے عمدہ تال میل سے وجود میں آئی ہے اور یہاں اقبال نے اپنے پسندیدہ کردار ابلیس کی پیش کش مؤثر طور پر کر دی ہے۔ نظم کی ڈرامائی فضا عمدہ ہے اور ہر لحظہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ ابلیس اور اس کے مشیروں کے مابین عصری سیاسی منظر نامے پر ہونے والی یہ گفت گو باضابطہ طور پر ایک اسٹیج پر پیش کی جا رہی ہے۔ نظم کے آغاز ہی میں ابلیس کا تحکمانہ مکالمہ نظم کے اس منفرد موضوع کے تعارف نامے کے طور پر سامنے آتا ہے، جب وہ یہ کہتا ہے کہ: میَں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیّت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں! کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں؟۶۵؎ زیر نظر نظم چھے کرداروںپر مبنی ہے اور ہر کردار کو علامہ نے ایک مخصوص پہچان عطا کی ہے۔ خصوصاً ابلیس کے مکالمات ڈرامائی خطابت کے ضمن میں قابلِ تعریف ہیں۔ یہ نظم ابلیس اور اس کے مشیروں کے درمیان مکالمت پر مبنی ہے۔ اسلوب احمد انصاری کہتے ہیں: ’’ اس نظم کی بساط، ارضی نہیں بلکہ سماوی ہے، یہاں حُسن کی گریز پائی اور لمحاتی وجود کے برعکس سیاست ِ عالم کا نقشہ پھیلا ہوا ہے اور یہ مسئلہ در پیش ہے کہ اس عالمِ کون و فساد میں سرمایہ داری ، ملوکیت اور نسل و قوم کے جو بُت انسانی ذہن نے تراشے ہیں اور انھیں اپنی تنگ ذاتی اغراض اور انسانیت کی آبرو ریزی کے لیے جس طرح استعمال کیا گیا ہے اور استحصال کی جتنی مختلف شکلیں اس وقت نظروں کے سامنے ہیں، ان کے اسباب و محرکات پر غور کیا جائے۔ قدرتی طور پر اس ضمن میں مسلمانوں کا طرزِ فکرو عمل اور اسلامی تعلیمات کی روح بھی معرضِ بحث میں آتی ہے۔ ابلیس کے پانچوں حاشیہ نشیں، مسائل کو مختلف زاویہ ہاے نظر سے دیکھ کر اُسے مشورہ دیتے ہیں۔ ابلیس خود بھی ان مسائل میں کچھ نہ کچھ بلکہ خاصی بصیرت رکھتا ہے اور اس مذاکرے میں حرفِ آخر اُسی کا ٹھہرتا ہے۔ وہ اپنے تاثرات اور محاکمے کو جس طرح پیش کرتا ہے، اس میں اس تمام بحث کی تلخیص سمٹ آئی ہے۔‘‘۶۶؎ اس فکر انگیز موضوع کو بھر پور ڈرامائیت سے موزوں کرتے ہوئے علامہ کے ہاں مختلف کرداروں کے لہجوں کا اُتار چڑھاؤ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، نیز کرداروں کی آمد و رفت ، نقطئہ آغاز و انجام ، متکلم اور مخاطب کے باہمی تعلق کی توضیح ، ترغیب و تحریص اور معنی خیز حرکات و سکنات نے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ ‘‘ کو ایک مختصر ڈرامے کا درجہ دے دیاہے۔ ’’ بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ‘‘ ایک خطابیہ ہے اور اس میں خطابیہ اُسلوب قابلِ مطالعہ ہے___ ’’تصویر و مصور‘‘ بنیادی طور پر تمثیلی رنگ میں رقم کی گئی ہے تا ہم مکالماتی حُسن اسے ڈرامائی اوصاف سے متصّف کر دیتا ہے۔ ’’ عالمِ برزخ ‘‘ میں بھی کم و بیش یہی انداز ہے اور ’ مردے‘ اور’ قبر‘ کی گفتگو ڈرامائیت کی تشکیل میں معاون ٹھہری ہے۔ دونوں کی مکالمت کے دوران اقبال نے لہجے کی خوبیوں کا اعجاز دکھایا ہے۔ خاص طور پر ڈرامائیت کی فضا اُس وقت بہت گہری، بامعنی اور پُر اسرار ہو جاتی ہے، جب ان کے مکالموں کے مابین مزید کرداروں ’ صداے غیب‘ اور’ زمین‘ کی آمد ہوتی ہے۔ ’مردہ‘ اپنی قبر سے قیامت کی بابت دریافت کرتا ہے تو ’ قبر‘ اس صد سالہ مُردے کو مطلع کر تی ہے کہ قیامت ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے ، جس پر ’مردہ‘ تندو تیز لہجے میں پُکار اُٹھتا ہے: جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں ہر چند کہ ہوں مُردئہ صد سالہ ولیکن ظلمت کدئہ خاک سے بیزار نہیں میں ہو روح پھر اک بار سوارِ بدن زار! ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں۶۷؎ اس موقعے پر نظم کے منظر نامے پر پوری ڈرامائیت کے ساتھ ’ صداے غیب‘ نمودار ہوتی ہے جو اس حقیقت سے پردہ اُٹھاتی ہے کہ صرف محکوم قومیں ہی مرگِ ابد کی سزا وار ہیں جب کہ مر کے جی اُٹھنا آزاد مَردوں کا کام ہے۔ اس صدا کے سنتے ہی ’قبر‘ اپنے مُردے سے مخاطب ہو کر کہتی ہے: آہ، ظالم! تو جہاں میں بندئہ محکوم تھا؟ میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز ناک تیری میّت سے مری تاریکیاں تاریک تر تیری میّت سے زمیں کا پردئہ ناموس چاک! الحذر محکوم کی میّت سے سو بار الحذر اے سرافیل ! اے خدائے کائنات! اے جانِ پاک!۶۸؎ دوسری مرتبہ ’ صداے غیب‘ کی آمد ایک اور بصیرت افروز نکتے سے آشنا کردیتی ہے ( ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب ِ تمام+ ہے اسی میں مشکلاتِ زندگانی کی کشود)۶۹؎ اس مرحلے پر اقبال نے ’ زمین‘ کے تجسیمی کردار کی مدد سے پورے ڈرامائی منظر نامے کا نچوڑ پیش کر دیا ہے اور نظم کے آخر میں ’’ زمین‘‘ اضطراب واضطرار اور استعجاب و استفسار کے لہجے میں یوں مخاطب ہوتی ہے: آہ یہ مرگِ دوام! آہ یہ رزمِ حیات! ختم بھی ہو گی کبھی کشمکشِ کائنات! عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات! عارف و عامی تمام بندئہ لات و منات! خوار ہوا کس قدر! آدمِ یزداں صفات! قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات! کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت ِ انساں کی رات؟۷۰؎ سماوی منظر نامے کی پیش کش کرتی ہوئی یہ نظم بلاشبہہ اپنے کرداروں کی بُنت ، مکالمات کے اچھوتے پن، لہجے کے تنوّع او ر موضوع کی مناسبت سے زبان و بیان کی خوبیوں سے ہم کنار ہونے کے باعث اقبال کی ڈرامائی نظموں میں سرفہرست ہے، جسے نظر انداز کرنا نا انصافی ہو گی۔ اسی مجموعے کی ایک نظم ’’ دوزخی کی مناجات ‘‘ ہے جو منا جاتی و التجائیہ رنگ و آہنگ رکھتی ہے اور اس میں زمینی دُنیا کے ملوکانہ استبداد کا نقشہ ایک دوزخی کی زبانی بیان ہوا ہے جو کبھی خود اسی منظر نامے کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اب وہ دوزخ میں ہونے کے باوصف تشکر آمیز لہجے میں اس قبیل کے خیالات کا اظہار کرتا ہے: اللہ! ترا شکر کہ یہ خطۂ پُرسوز سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد!۷۱؎ ’’ آوازِ غیب‘‘ ڈرامائی لہجے کے سلسلے میں اہم ہے اور اس کا بنیادی آہنگ خطابیہ ہے۔ غیب سے آنے والی آواز انقلاب آفریں پیغام دیتی نظر آتی ہے: تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟ مہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں؟ کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک؟۷۲؎ اس مجموعے کی آخری واضح ڈرامائی نظم ’’ ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘‘ ہے جس میں اقبال نے ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ کی طرح خطابیہ اور نصیحت آمیز لہجے پر مشتمل ۱۹قطعات رقم کیے ہیں۔ اس کے اشعار میں زیادہ تر لہجے کے تنوعات ملتے ہیں تا ہم اس کا نواں قطعہ ڈرامائی طرزِ سخن کے ایک سے زائد عناصر رکھتاہے۔ ۵ یوں شعرِ اقبال میں ڈرامائی طرز سخن کی نمود بانگِ درا سے ارمغانِ حجاز تک متنوّع اندازمیں ہوئی ہے۔ اقبال نے ان ڈرامائی عناصر کو پورے رچائو کے ساتھ برتا ہے اور ان کی وساطت سے ان کے پیش کردہ موضوعات اثر آفریں ابعاد سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ ڈرامائیت کے مختلف اجزا کے ضمن میں اولاً توعلامہ کے ہاں موضوع کی مناسبت سے ترتیب پانے والی ڈرامائی فضا قابلِ توجہ ٹھہرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈرامائی تاثیر کے سلسلے میں انھوں نے اس عنصر کو خاص اہمیت دی ہے۔ مذکورہ مختصر تجزیوں سے ظاہر ہے کہ اقبال کی ڈرامائی فضائیں نو بہ نو رنگوں سے عبارت ہیں۔ اکثر مقامات پر یہ فضائیں کہانی پن کا انداز لیے ہوئے ہیں اور وہ ان میں ایک قصہ گو کی طرح مختلف کرداروں اور ان کے مکالمات کے ذریعے اپنے مطمحِ نظر کی ترسیل کرتے چلے گئے ہیں۔ چناں چہ بہت سی ڈرامائی نظمیں ایسی ہیں جن کا آغاز ’’ایک دن‘‘، ’’ایک روز‘‘ یا ’’ایک رات‘‘ جیسے حکایتی پیرایے میں ہوتا ہے۔ بانگِ درا کی بعض منظومات میں تمثیلی انداز میں بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر ڈرامائی فضا بندی کی گئی ہے یا بعض مقامات پر شاعر یا دیگر کرداروں کے داخلی واردات پر نظر رکھ کر انسانی نفسیات پر گرفت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ تاہم جہاں کہیں انھوں نے اپنے افکارونظریات کی ترسیل کو مقدم رکھا ہے ،وہاں ان کے ہاں موضوع کی مناسبت سے ڈرامائی فضائوں کی تشکیل بڑی متاثر کن ہے۔ چوںکہ ان کی توجہ پیغام رسانی کی جانب زیادہ ہے، لہٰذا وہ اس مقصد کے حصول کے لیے طرح طرح کے ڈھب اپناتے ہیں۔ اس سلسلے میں جہاں کہیں وہ خالص دینی و اسلامی موضوعات کا ابلاغ کرنا چاہتے ہیں، وہاں انھوں نے خالص تلمیحی و تاریخی منظرنامہ کھینچ دیا ہے۔ چناں چہ ڈرامائیت کے اس عنصر کے تحت کہیں خوابناک اور تخیلاتی فضا ملتی ہے تو کہیں حقیقی و واقعی نقشے ہیں، کہیں عالم بالا کے مظاہر کے مابین گفت گوئیں ہیں تو کہیں ارضی کرداروں کے مکالمات سے معنی خیز نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ جن منظومات میں اقبال نے تلمیحی و اساطیری کرداروں کے ذریعے اصلاحِ احوال کی کاوش کی ہے، وہاں تو عجیب و غریب ماورائی اور تخیلاتی فضا کا احساس ہونے لگتا ہے۔ کہیں اچانک پن، خوف، بے چینی اور اضطراب کی فضائیں ہیں تو کہیں تحرک، جوش اور رجائیت و اہتزازپر مبنی نقشے ملتے ہیں۔ شعرِ اقبال میں ڈرامائی فضائیں اس طور بھی اپنی جھلک دکھاتی ہیں کہ ان میں موجود کردار اپنا تعارف خود کراتے ہیں، اپنے ارضی، سماوی یا تخیلاتی ہونے کا سراغ دیتے ہیں اور اقبال ان کے وسیلے سے امراض ملت کی تشخیص کرتے ہیں۔ علامہ کی پیش کردہ ڈرامائی فضائوں میں جہاں کہیں شاعر کے ذاتی تجربات و احساسات اور داخلی واردات متشکل ملتے ہیں، وہاں تاثیر و عذوبت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسی طرح جن مواقع پر وہ نفسیاتی قرائن کو مدنظر رکھ کر کرداروں کی تخلیق اور مکالمات کی بنت و تعمیر کرتے ہیں، وہاں ان کی مہارت کی داد دینا پڑتی ہے۔ کلامِ اقبال کی ڈرامائی فضا بندی میں تجسیمی عناصر کا اہم حصہ ہے۔ ان سے شعر پارے کی تمثیلی معنویت ابھرتی ہے اور ثقیل سے ثقیل موضوع بھی بڑی جاذبیت کے ساتھ قلوب و اذہان کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہاں ڈرامائی عناصر کی حامل منظومات کے تمہیدی اشعار کا تذکرہ ضروری ہے۔ اقبال نے اپنی رومانوی، عشقیہ، استدلالی، مفکرانہ اور منظر یہ تمہیدوں سے ڈرامائی فضائوں کو مزید دل کش، قابلِ مطالعہ اور متاثر کن بنا دیا ہے۔ یہ تمہیدیں بڑی عمدگی سے قاری کی رہ نمائی موضوع مطلوب کی جانب کرتی ہیں اور وہ ان فضائوں کو بڑی سہولت سے قبول کرتا چلا جاتا ہے۔ یاد رہے بعض اوقات اقبال کی ڈرامائی تمہیدوں کا منشا و مقصود مخصوص تصورات و نظریات کا مؤثر طور پر ابلاغ ہی ٹھہرا ہے۔ ان کی تشکیل شاید ہوئی بھی اس لیے ہے کہ پڑھنے والا موضوعات کی سنجیدگی اور ثقالت کو محسوس کیے بغیر ان مباحث کی تفہیم کر سکے۔سچ تو یہ ہے کہ ان ڈرامائی منظرناموں اور تمہیدوں سے دو طرفہ فوائد حاصل ہوئے ہیں،یعنی ان سے کلام کی شعریت و رنگینی کے ساتھ ساتھ شعرپارے کی توضیح و صراحت میںخاصی مدد ملی ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے حسن ترتیب اور تناسب و توازن کے اجزا کو مقدم رکھا ہے اور وہ جس موضوع کا ابلاغ چاہتے ہیں، اس کی تمام تر جزئیات کو مکمل واقعاتی ترتیب سے بیان کر دینا ان کی ڈرامائی شاعری کا لازمۂ خاص ہے۔ یوں قصے اور پلاٹ دونوں کے بنیادی تقاضوں کی جانب ان کی توجہ یکساں طور پر رہتی ہے، جس سے کسی بھی ڈرامائی عنصر پر مبنی یہ منظومے قطعاً جھول یا کمی سے دوچار نہیں ہوتے۔ اقبال نے اپنے پیش کردہ کرداروں کی سیرت نگاری (Characterization) کو بھی خصوصیت کے ساتھ اہمیت دی ہے۔ وہ مختلف کرداروں کی تصویر کشی کرتے ہوئے ان کے فطری اور ذاتی اوصاف کو ابھارتے ہیں اور کبھی کبھار حلیہ بیانی سے کام لے کر، کرداروں کے بھرپور نقشے اتار دیتے ہیں۔ اقبال کے ہاں حقیقی و واقعی یا انسانی کرداروں (مثلاً ہیگل، مسولینی، لینن، کارل مارکس، رومی، طارق بن زیاد، ابوالعلا معری، نپولین، محمد علی باب، غلام قادر رہیلہ، ٹیپوسلطان، نادرشاہ افغان، ہارون رشید، جاوید وغیرہ) کی تخلیق اور فرضی یاتخیلی کرداروں کی پیش کش (مولوی صاحب، دوزخی، باباے صحرائی، ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری، فلسفہ زدہ سید زادہ اور محراب گل افغان وغیرہ) کے ہمراہ بعض کرداروں کی تجسیمی (خدا، دل، روحِ ارضی، حسن، عشق، موت، عقل، فرشتے، رات، صبح اور خفتگانِ خاک وغیرہ)،مادی (ہمالہ، شمع، لوحِ تربت، ابرِ کہسار، پہاڑ، موجِ دریا، ستارہ، چاند، شبنم، آفتاب، شعاعِ آفتاب، اختر صبح وغیرہ)،تلمیحی و اساطیری (خضر،ابلیس، جبریل، اسرافیل وغیرہ)اور نباتی و حیوانی (مکڑا، مکھی، گلہری، گائے، بکری، شاہین، پروانہ، جگنو، شیر، خچر، چیونٹی، عقاب وغیرہ) صورتیں بھرپور طور پر اپنی نمود دکھاتی ہیں۔ [یہ سچ ہے کہ] ’’اقبال نے اپنے پیغام کو دلچسپ اور قابلِ قبول بنانے کے لیے جس قدر کردار پیش کیے ہیں، اس کا دسواں حصہ بھی دوسرے شاعروں کے ہاں نہیں ملتا۔ انھوں نے مختلف مذاہب و مسالک کے رہ نمایان و پیغمبران، عالمی سطح کے فاتحین و سلاطین، قدیم و جدید مشرقی و مغربی فلسفہ و علم الکلام کی یگانہ و یکتاے روزگار ہستیوں، مختلف زبانوں کے شعراء و ادباء اور سیاست و تصوف کی عدیم النظیر شخصیات ہی کو نہیں بلکہ حیوانات و جمادات اور طبیعیاتی و مابعدالطبیعیاتی کرداروں اور ان کے مکالموں کے ذریعے نہ صرف ترسیل و ابلاغ کی منزل کو سر کیا ہے بلکہ اردو شاعری کا رشتہ عالمی ادبی قدروں سے بھی استوار کیا ہے۔‘‘۷۳؎ بسااوقات اقبال خود اپنے کردار کی واحد متکلم کے طور پر شعری تشکیل سے شعرپارے کو گراں قدر مرتبہ عطا کر دیتے ہیں۔ محمود ہاشمی نے اپنے مضمون ’’اقبال کا شعری کردار‘‘ میں اس امر کی عمدگی سے وضاحت کی ہے، ان کے اشارات ملاحظہ کیجیے: اقبال اپنے محسوسات یا ذاتی تجربات کو تخلیق کا خام مواد تصور نہیں کرتے بلکہ ہر احساس اور تجربے کو فکر کے آلات سے اپنے شعری کردار کی تعمیر کا وسیلہ بناتے ہیں۔ اس تمام شعری حکمت عملی کا محور، اقبال کا شعری کردار، متکلم، مخاطب اور غائب کے صیغوں میں سربسر قائم و دائم رہتا ہے۔ اس شعری کردار کی تخلیق میں اقبال کا فن ’کن فیکون‘ والی قوت سے نہیں بلکہ تعمیر، تخریب اور تصادم کے وسیلے سے اپنا عمل جاری رکھتا ہے۔ اقبال کی شاعری کے مختلف ادوار، اس کردار کی ابتدا، اس کی حرکی قوت، اس کے تصادم، اس کے معرکے اور اس کے عروج کی تدریجی منازل کا محور ہیں۔۷۴؎ اقبال نے (اپنے) اس شعری کردار کے ماحول یا کائنات یا مظاہر کو دو مختلف صورتوں میں پیش کیا ہے۔ ایک صورت وہ ہے، جو ابتدائی عہد کی نظموں میں موجود ہے۔ ان نظموں کی کائنات اور مظاہر اقبال کے شعری کردار کی بصیرت اور بصارت کی علامت ہیں___ دوسری صورت وہ ہے جس میں اقبال کے شعری کردار نے اپنی دنیا، اپنے مظاہر، اپنے دشت وجبل اس طرح تخلیق کیے ہیں کہ اس کردار کی فکر اور محسوسات کا مفہوم، ان مرئی عناصر کے وسیلے سے نمایاں ہو اور شعری کردار کی عظمت و وسعت کا اظہار ہو سکے۔۷۵؎ داخلی کائنات اور ذات کی یہ کش مکش، فریب نگاہ سے رازِ قدرت کی حقیقت سے ہم کنار ہونے تک، اقبال کے شعری کردار کو شعلہ صفت سوالات کا محور بنا دیتی ہے۔ مظاہر اور مناظر کی خاموشی صف آرائی کے منظرنامے کو اور زیادہ بامعنی بنا دیتی ہے۔ اقبال اپنے شعری کردار کو سوالات کے بھنور سے نکال کر موازنے اور ہم سری کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔(یوں) اقبال کی شاعری میں اس شعری کردار کا مربوط اور منطقی ارتقا جاری و ساری رہتا ہے۔۷۶؎ مختلف شعری کرداروں کی تخلیق کے سلسلے میں علامہ کے اس امتیاز سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے کردار اپنی پہچان رکھتے ہیں اور ہم بہت سے کرداروں کے ہجوم میں انھیں بہ آسانی پہچان سکتے ہیں۔ یہ کردار اپنے خالق کی انگلیوں پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں ہرگز نہیں ہیں بلکہ یہ بھرپور انفرادیت کے حامل ہیں اور اپنی فطرت کے مطابق دوسرے کرداروں کے تصادم یا تعاون سے شعرپارے میں اپنا راستہ بناتے ہیں۔ ان کرداروں کا ماحول، وقت اور واقعات و حوادث سے متاثر ہو کر تبدیل ہونے یا غیر متاثر رہ کر تبدیل نہ ہونے کا جواز کہانی کے واقعات کے علاوہ ان کی فطرت اور شخصیت میں موجود ہوتا ہے۔ شعرِ اقبال میں کرداروں کی تخلیق سے اپنے نقطۂ نظر کی ترسیل کا پہلو اس حد تک فائق نظر آتا ہے کہ ان کے ہاں نمایاں طور پر خطابیہ عنصر کے ساتھ ساتھ ایلیٹ کی بیان کردہ تیسری آواز یعنی ڈرامائی کرداروں کے مابین مکالماتی فضا کی تشکیل کا عنصر پوری قوت کے ساتھ ابھر آیا ہے، بہ قول نورالحسن نقوی: وہ جو کچھ کہتے ہیں بہ آوازِ بلند کہتے ہیں۔ ان کی شاعری دوسری اور تیسری آواز کی شاعری ہے۔ تیسری آواز کا مطلب یہ ہے کہ شاعر، تاریخ یا روایت سے کردار مستعار لیتا ہے یا خود نئے کردار کی تخلیق کرتا ہے اور اپنی بات اس کی زبان سے کہلواتا ہے۔۷۷؎ جہاں تک مکالمات کی تشکیل اور لہجے کے اتار چڑھائو کا تعلق ہے، اس سلسلے میں اقبال کے کلام میں خودکلامی (Soliloquy) یا ڈرامائی خود کلامی(Dramatic monologue) یا جسے ’’یک شخصی مکالمہ‘‘ (Monologue) سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، کے ساتھ ساتھ ’’دوشخصی مکالمے‘‘ (Dialogue) کی صورتیں پیدا کی گئی ہیں۔ بانگِ درا میں ایک شخصی مکالمہ اور خود کلامی کی کیفیات زیادہ ہیں جب کہ بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں دو شخصی مکالموں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ لہجے کے تنوعات بانگِ درا کے طنزیہ و مزاحیہ قطعات اور طویل منظومات، بالِ جبریل کی غزلیات اور دوبیتیوں،ضربِ کلیم کے قطعات اور ارمغانِ حجاز کی دوبیتیوں میں دل کش ابعاد اختیار کرتے ہیں۔ خصوصاً آخری دو مجموعوں میں خطابیہ لہجہ پوری قوت کے ساتھ نمایاں ہوا ہے۔ علامہ نے منظر یا Scene کے حصے پر توجہ دی ہے اور یوں بھی ہوا ہے کہ وہ اپنی بعض منظومات کے لیے کسی مخصوص منظرنامے (Scenario) کا اہتمام کرکے قاری کو اس مخصوص فضا میں پورے طور پر شریک کر لیتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ گاہے گاہے قوسین کا استعمال کرکے مختصر اشارے درج کر دیتے ہیں، جس کے باعث ڈرامائی تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نقطۂ عروج ،نقطۂ اختتام، تناسب و توازن، عمل اور ردّعمل، علامت گری و ایمائیت، تضاد و تقابل، تحریص و ترغیب اور تجسیم و تمثیل کے عناصر کے رچائو نے شعراقبال کی ڈرامائیت میں اس قدر اضافہ کر دیا ہے کہ ڈرامائی طرزِ سخن علامہ کے فنی حربوں میں سے ایک اہم اور مؤثر پیرایہ قرار پاتا ہے جس کی وساطت سے فکرِ اقبال کے متنوع موضوعات کمال درجے کی تاثیر اور بھرپور معنویت کے ساتھ پذیرائی کے بلند درجے پر فائز ہو سکے ہیں۔ حواشی وحوالہ جات ۱۔ سید وقارعظیم،’’اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عناصر‘‘ (مضمون) مشمولہ اقبال، شاعر اور فلسفی، ادارہ تصنیفات، لاہور، ۱۹۶۷ئ، ص ۱۰۹تا ۱۱۳۔ ۲۔ ڈاکٹر حاتم رامپوری، ’’اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عناصر‘‘ (مضمون)مشمولہ اقبال آشنائی، دی آرٹ پریس سلطان گنج،پٹنہ، س ن، ص۸۷ تا ۸۹۔ ۳۔ ڈاکٹر اسلم انصاری، ’’اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عناصر‘‘ (مضمون) مشمولہ اقبالِ عہد آفریں، کاروانِ ادب، ملتان، طبع اول ۱۹۸۷ئ، ص ۲۲۷ تا ۲۲۹۔ ۴۔ اقبال ، ضربِ کلیم مشمولہ کلیاتِ اقبال (اردو)، شیخ علام علی اینڈ سنز،لاہور،۱۹۷۲ئ،ص۱۰۶۔ ۵۔ اقبال عہد آفریں، ص ۲۳۸۔۲۳۹۔ ۶۔ علامہ محمد اقبال ،بانگِ درا،مشمولہ کلیاتِ اقبال (اردو)،ص۲۸۔ ۷۔ ایضاً،ص۳۹۔ ۸۔ ایضاً،ص ۵۵۔ ۹۔ ایضاً،ص ۵۵۔ ۱۰۔ ایضاً،ص۵۷۔ ۱۱۔ ایضاً،ص۶۰۔ ۱۲۔ ایضاً،ص۶۳۔ ۱۳۔ اقبالِ عہد آفریں،ص۲۳۱۔ ۱۴۔ بانگِ درا،ص۶۴،۶۵۔ ۱۵۔ ایضاً،ص۶۷۔ ۱۶۔ ایضاً،ص۸۲۔ ۱۷۔ ایضاً،ص۸۶۔ ۱۸۔ ایضاً،ص۹۲۔ ۱۹۔ ایضاً،ص۹۴۔ ۲۰۔ ایضاً،ص۹۷۔ ۲۱۔ ایضاً،ص۱۱۱۔ ۲۲۔ ایضاً،ص۱۱۵۔ ۲۳۔ ایضاً،ص۱۱۵۔ ۲۴۔ ایضاً،ص۱۱۶۔ ۲۵۔ ایضاً،ص۱۴۸۔ ۲۶۔ ایضاً،ص۱۴۸۔ ۲۷۔ ایضاً،ص۱۴۸۔ ۲۸۔ ایضاً،ص۱۵۱۔ ۲۹۔ ایضاً،ص۱۵۵۔ ۳۰۔ ایضاً،ص۱۶۱۔ ۳۱۔ ایضاً،ص۱۶۴۔ ۳۲۔ ایضاً،ص۲۰۵۔ ۳۳۔ ایضاً،ص۱۷۱۔ ۳۴۔ ایضاً،ص۱۷۳۔ ۳۵۔ ایضاً،ص۱۷۳،۱۷۴۔ ۳۶۔ ایضاً،ص۱۷۴۔ ۳۷۔ ایضاً،ص۱۷۶۔ ۳۸۔ ایضاً،ص۱۸۳۔ ۳۹۔ ایضاً،ص۲۱۶۔ ۴۰۔ علامہ محمد اقبال: مکتوب بنام سید سلیمان ندوی مورخہ ۲۹؍ مئی ۱۹۲۲ء مشمولہ اقبال۔ سید سلیمان ندوی کی نظر میں (مرتبہ) اختر راہی، بزم اقبال، لاہور، طبع اوّل ۱۹۷۸ئ، ص ۱۶۲۔ ۴۱۔ علامہ محمد اقبال، بالِ جبریل مشمولہ کلیاتِ اقبال (اردو)،ص۱۰۶۔ ۴۲۔ ایضاً،ص ۱۰۸۔ ۴۳۔ ایضاً،ص ۱۱۵۔ ۴۴۔ اسلوب احمد انصاری،’’اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عناصر‘‘(مضمون) مشمولہ مطالعہ اقبال کے چند پہلو، کاروانِ ادب،ملتان، ۱۹۸۶ء ص۸۷۔ ۴۵۔ علامہ محمد اقبال، بالِ جبریل،ص۱۳۴،۱۳۵۔ ۴۶۔ خواجہ منظور حسین، اقبال اور بعض دوسرے شاعر، نیشنل بک فائونڈیشن،لاہور، ص ۴۴۹ تا ۴۵۳۔ ۴۷۔ علامہ محمد اقبال، بالِ جبریل،ص۱۴۳،۱۴۴۔ ۴۸۔ ایضاً،ص۱۴۴۔ ۴۹۔ ایضاً،ص۱۵۵۔ ۵۰۔ ایضاً،ص۱۵۵۔ ۵۱۔ ایضاً،ص۱۵۹۔ ۵۲۔ ایضاً،ص۱۶۲۔ ۵۳۔ ایضاً،ص۱۶۷۔ ۵۴۔ علامہ محمد اقبال، ضربِ کلیم مشمولہ کلیاتِ اقبال(اردو)، ص۲۱۔ ۵۵۔ ایضاً،ص۴۴۔ ۵۶۔ ایضاً،ص۴۶،۴۷۔ ۵۷۔ ایضاً،ص۱۰۷۔ ۵۸۔ ایضاً،ص۱۰۸،۱۰۹۔ ۵۹۔ ایضاً،ص۱۴۶۔ ۶۰۔ ایضاً،ص۱۵۴۔ ۶۱۔ ایضاً،ص۱۵۵۔ ۶۲۔ ایضاً،ص۱۵۸۔ ۶۳۔ ایضاً،ص۱۵۹۔ ۶۴۔ ایضاً،ص۱۷۰۔ ۶۵۔ علامہ محمد اقبال، ارمغانِ حجاز مشمولہ کلیاتِ اقبال(اردو)،ص۵،۶۔ ۶۶۔ اسلوب احمد انصاری،مطالعۂ اقبال کے چند پہلو، کاروانِ ادب،ملتان، ۱۹۸۶ئ،ص۹۱۔ ۶۷۔ علامہ محمد اقبال، ارمغانِ حجاز،ص۱۹،۲۰۔ ۶۸۔ ایضاً،ص۲۰،۲۱۔ ۶۹۔ ایضاً،ص۲۱۔ ۷۰۔ ایضاً،ص۲۱،۲۲۔ ۷۱۔ ایضاً،ص۲۳۔ ۷۲۔ ایضاً،ص۲۷۔ ۷۳۔ سید صادق علی،اقبال کے شعری اسالیب۔ ایک جائزہ، نازش بک سینٹر، ٹونک،دہلی، طبع اوّل ۱۹۹۹ئ، ص ۵۵۔ ۷۴۔ محمود ہاشمی،’’اقبال کا شعری کردار‘‘(مضمون) مشمولہ اقبال کا فن (مرتبہ) گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی، ۱۹۸۳ئ، ص۲۶۱-۲۶۲۔ ۷۵۔ ایضاً،ص۲۶۲۔ ۷۶۔ ایضاً،ص۲۶۲-۲۶۳۔ ۷۷۔ ڈاکٹر نورالحسن نقوی،اقبال کا فن اور فلسفہ، ایجوکیشنل بک ہائوس،علی گڑھ،طبع اوّل ۱۹۷۸ئ،ص۲۱۔ خخخ اقبال اور تحریک آزادیِ ہند پروفیسر عبدالحق اقبال کی شاعری کے دو ایسے منفرد پہلو ہیں جس کی نظیر عالمی ادب میں شاید ہی ملے۔ ان کا کلام عصری واقعات اور حادثات کاجامِ جہاں نما ہے جس میں رنج و راحت کے کئی پہلو بہت نمایاں ہیں۔ دوسری انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے شعر و تخلیق کو عالمی معاملات و مسائل کی آگہی بخشی۔ اردو آفاقی وسعتوں سے ہم کنار ہوئی جبکہ ملک کے دوسرے ادب محدود تصورات میں بند رہے۔ ان کی تخلیقات میں تیرہ سو سے زائد آثار و اسما ء و اماکن کے حوالے ہیں۔ ایشیائی ملک و ملت کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک کے نام بھی کلام میں موجود ہیں۔ جیسے امریکہ، اندلس، انگلستان، جاپان، جرمنی، فرانس، مصر، ولایت، ہسپانیہ، یورپ، یونان وغیرہ کے ساتھ متعدد شہروں و مقامات کے ساتھ شعرائ، سیاست دانوں، مفکرین و مصلحین کے نام درج ہیں۔ ان ملکوں اور شہروں کی تاریخ و تحریک نیز عصری کوائف پر اقبال کی نظر ہمیں حیرت میں مبتلا کرتی ہے۔ ان کے بیانات کا یہ عالمی منظر نامہ بھی ان کی بصیرت کے یقین کے لیے کافی ہے۔ یہ ان کی وسعتِ نظر ہے کہ وہ پوری کائنات سے سروکار رکھتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان کے قلب و نظر کو اس برصغیر سے جو شیفتگی ہے وہ کسی دوسرے خطۂ ارض سے نہیں ہے۔ یہ بدیہی بات ہے کہ اقبال اور ان کے اسلاف کا مسکن و مدفن ہونے کے ساتھ ان کے تاریخ و تہذیب کا عروج و زوال بھی اسی خاک و خمیر سے وابستہ رہا ہے۔ براعظم کی بیداری کے نقیب کے لیے ناممکن تھا کہ وہ برصغیر سے بے نیاز ہوتے اور ہندوستان کے متعلقات سے بے خبر رہتے۔ یہ ملک اپنی وسعتوں اور درپیش مسائل کی پیچیدگیوں کے اعتبار سے ایشیائی مسائل سے کم نہ تھا۔ بلکہ اس ملک کے مسائل سے برا عظم براہ راست جڑا ہوا تھا۔ بہت سے ممالک کی طرح یہ بھی مغرب کی غلامی کے لیے مجبور تھا۔ استبداد اور استحصال میں بھی کمی نہ تھی۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں اس کے حدود اور آبادی کے ساتھ مسائل زیادہ سنگین تھے۔ انگریزی اقتدار کی ستم رانیاں بھی کم نہ تھیں۔ یہاںکی غلامی اور بے بسی نے ہی اقبال کو بڑے تناظر میں سوچنے کے لیے مجبور کیا۔ برصغیر کی بدحالی نے براعظم کی کسمپرسی کی طرف توجہ دلائی اور اقبال کے شعور کو عالمی زاویۂ نگاہ بخشا۔ بالفاظِ دیگر سفالِ ہند کے چھوٹے سے پیمانے میں شامل تھوڑی سی شراب نے رند کو راز گنبدمینا سمجھنے کا موقع دیا۔ یہ نکتہ بھی پیش نگاہ رہے کہ اس دور کے بعض اکابرین کو بصیرت آفریں نظر حاصل تھی جوہندوستان کی آزادی کے لیے ایشیائی ممالک کی آزادی کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔ یہ ایک سیاسی اور دفاعی حکمتِ عملی تھی وہ جبل طارق کے چودہ کلومیٹر چوڑے آبی راستے اور ایک سونوے کلو میٹر سویز کی حاکمیت سے انگریزی حکومت کی شہ رگ کو کاٹنا چاہتے تھے۔ اس فکر کی دانائی سے بعض دانشوروں کو اتفاق نہ تھا۔ گاندھی جی کی خلافت تحریک کی حمایت کرنے پر خود ان کی جماعت کے کچھ لوگ معترض تھے۔ یہ حضرات جغرافیائی، دفاعی اور اقتصادی آ گہی سے زیادہ باخبر نہ تھے۔ مگر اقبال کی دروں بینی شفاف آئینے کی طرح دیکھ رہی تھی۔ پنڈت نہرو کی گوا پر قبضے کی کامیابی میں جمال عبدالناصر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، جس نے پرتگالی لشکر اور فوجی ساز و سامان سے لیس بحری جہازوں کو سویز نہر سے گزرنے نہیں دیا۔ اقبال کی حکیمانہ تخلیق کی معنویت کو اس سیاق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فکر و تدبر کے سلیقے کا تقاضا ہے کہ ان کے جہانِ معنی سے سرسری نہ گذرا جائے۔ اقبال نے بارہا تاکیدکی ہے کہ انھیں صرف نوائے پریشاں کی شاعری کا ترجمان ہی نہ سمجھا جائے۔وہ جہاں داری کے بھی محرم راز ہیں۔ اقبال نے ملکی اور بین الاقوامی صورتِ حال یا سیاسی کشاکشوں کے دل دوز تذکرے سے اردو کو روشناس کرایا اور شعری اظہار کو عالم گیر مسائل کا متحمل قرار دیا۔ ایک دوسرے زاویۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال نے اقتصادیات پر صرف پہلی کتاب ہی نہیں لکھی تھی بلکہ یہ مسئلہ ان کی فکر میں اساسی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک کی ابتر معاشی صورت حال سے اقبال باخبر تھے۔ ہندوستان کے معاشی استحصال پر ان کے فکر انگیز خیالات کو بھی اسی تحریک آزادی کے سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انگریز کی تاجرانہ عیاری سے یہاں کے تخت و تاج کے مالک بنے تھے: تختۂ دکاں شریکِ تخت و تاج از تجارت نفع و از شاہی خراج ۱؎ قالی از ابریشم تو ساختند باز او را پیش تو انداختند ۲؎ سرما کی ہوائوں میں عریاں ہے بدن اس کا دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دوشالہ ۳؎ اس معاشی استحصال سے کشت دہقاناں خراب ہے۔ کشت و کسان ہو یا خرمن و خوشۂ گندم اقبال نے بڑی پر سوز انقلابی اور باغیانہ آوازیں بلند کی ہیں: اس کے آب لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا۴؎ اقبال ہر دورمیں ہندوستان کا اکرام و احترام کرتے رہے اور بھولے سے بھی وہ کبھی غافل نہ ہوئے۔ یہاں کے ذروں سے قلبی وابستگی فکری عقیدت کی حد تک پہنچ چکی تھی۔ ۱۹۰۴ء میں ’سارے جہاں سے اچھا‘ اور ’خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے‘ کہنے والے اقبال ہیں۔ پھر ۱۹۳۲ء میں جاوید نامہ میں رودِکاویری کو جو خراج پیش کیا ہے اس کی مثال کہیںنہیں ملتی۔ سر زمین ہند سے ایسی والہانہ محبت کرنے والا تاریخ ادبیات میں ناپید ہے: اے مرا خوشتر ز جیحون و فرات اے دکن را آبِ تو آبِ حیات۵؎ ہندیاں بے گانہ از ناموسِ ہند۶؎ یا پھر ۱۹۳۶ء میں اس عقیدت کے الفاظ دیکھیے: خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب۷؎ ہندوستان کی بدحالی اور باشندوں کی بے حسی کا سب سے الم ناک منظر ملاحظہ کرنا ہو تو جاوید نامہ کے فلک زحل سے رجوع کیجیے۔ ملک سے غداری کرنے والوں کے ذکر سے ہی اس سیاحت کی شروعات ہوتی ہے۔ ارواحِ رذیلہ کا ذکر ہے جنھیں دوزخ نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ غدارانِ قوم کا یہ نفرت نامہ ہے، جو ہماری شعری روایات میں پہلی بار منظر پر آیا۔ روح ہند کے ہونٹوں پر مسلسل نالہ ہائے درد مند کی صدائیں کراہ رہی ہیں: گفت رومی روح ہند است ایں نگر۸؎ جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ آدم ننگ دیں ننگ وطن۹؎ دوسرے اشعار میں ہندیوں سے تخاطب ہے: شمع جاں افسرد در فانوس ہند ہندیاں بیگانہ از ناموسِ ہند۱۰؎ جاوید نامہ ۱۹۳۲ء کی تخلیق ہے: ملّتے را ہر کجا غارت گرے است اصل او از صادقے یا جعفرے است الاماں از روحِ جعفر الاماں الاماں از جعفرانِ ایں زماں۱۱؎ آخری تخلیق ارمغانِ حجاز میں ہندوستان کا ذکر ہوتا رہا، اس ملک کی آزادی میں دوسرے ایشیائی ممالک سے غلامی کے خاتمے کا اعلان موجود تھا۔ تاریخ نے ثابت بھی کر دیا کہ برصغیر کے آزاد ہوتے ہی کئی ملکوں میں صبح درخشاں کا آفتاب طلوع ہوا۔ بڑے سے بڑا ملک چین ہو یا چھوٹے سے چھوٹا سری لنکا، سب ۱۹۴۷ء کے معاً بعد آزاد ہوئے۔ اقبال کی بصیرت بہت پہلے بتا چکی تھی کہ ہندوستان ہی ایشیائی ممالک کے مقدر کی سر نوشت لکھنے میں پہل کرے گا۔ دوسرے اکابرین کی فکری بصیرتوں کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔جمال الدین افغانی ، مولانا شبلی، مولانا محمود حسن، مولانا محمد علی، مولانا آزاد وغیرہ کی نظروں میں یہ نکتہ رازِ درونِ فکر بن کر پرورش پاتا رہا۔ اس خطۂ زمین کی خوش حالی دوسرے تمام ملکوں کی آزادی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ فکر و فلسفہ کی سطح پر بھی اقبال کی نظر آفاقی وسعتوں پر محیط تھی اور کائناتی انسان ہی ان کا محور تھا۔ وہ جاوید نامہ میں آفتاب کے استعارے سے اپنی انتہائی فکر انگیز بات کَہ چکے تھے کہ گرچہ سورج یورپ سے نکلتا ہے مگر پوری کائنات کو روشن کرتا ہے۔ ہر انسان بھی مثلِ آفتاب ہے۔اس کی نسبت جائے پیدائش سے ضرور ہے مگر اس کی نگاہ میں ارض و سما کی پہنائیاں ہوتی ہیں۔ اقبال کے نزدیک غلامی کے خلاف بغاوت کے لیے تین راستے بھی تھے۔ سب سے پہلے وطن عزیز سے بے پناہ محبت کا جذبہ پیدا کرنا۔ دوسری سطح پر تمام قوموں کے درمیان مضبوط رشتۂ اتحاد کا قائم ہونا ’’سارے جہاں سے اچھا … ‘‘، ’’سارے پجاریوں کومے پیت کی پلادیں‘‘۔ اور پھر انگریزی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا۔ تحریک آزادی کے یہی تین ارکان تھے، جن سے اقبال کی شاعری معمور ہے۔ اقبال کی نشو و نمائے فکر تحریکِ آزادی کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ عمر کے پچیس سال گزرے تھے کہ سیاسی فکر پختگی کی دہلیز پر دستک دینے لگی۔ ۱۹۰۴ء کے اشعار آج بھی ہماری ہر تحریک و تنبیہ کا محاورئہ روز و شب ہیں اور سچ یہ ہے کہ اس وقت تک کسی بھی زمان یا ادب میں ہندوستانیوں کے لیے یہ تخاطب یا تاکیدی کلمات نہیں ملتے۔ اس میں آگہی اور پیامبری کے ساتھ جاں سوز انجام کے خلاف شمشیر بدست ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی آرزو بھی شامل ہے۔ شعری زبان میں اسے سب سے پہلی انقلابی آواز اور فرمانِ آزادی کا اعلانیہ کہنا چاہیے: رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں۱۲؎ یہ غیر معمولی درد مندی کا اظہارتھا جو اردو شاعری کے توسط سے ہندوستانی سیاست کا نقیب آزادی بن کر نمودار ہوا۔ اس سے قبل ایسی آواز ہماری سماعتوں میںنہ تھی۔ غلامی کے خلاف باغیانہ احتجاج کا یہ آغاز تھا جو آزادی کا صور پھونکنے میںآتشِ فروزاں کا کام دے رہا تھا۔ ابھی آزادی کے خد وخال ابھرنے میں تاخیر تھی اور شاعر کی بصیرت دیکھیے کہ ۱۹۰۴ء میں ہی باشندوں کی بے ضمیری کو للکار رہا ہے۔ حمیت و عزیمت کو نفسِ گرم سے آشنا کرنے میں اقبال نے جو حق ادا کیا وہ سیاسی بساط پر بھی ابھی تک نمودار نہ ہو سکا تھا۔ آزادی کی علم بردار جماعت نیشنل کانگریس بھی کوئی ایسا نعرہ نہ دے سکی تھی: نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۱۳؎ وطن کی فکر کر ناداں، تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں اور عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں ، لذتِ فریاد پیدا کر، اور تیری صدا ہو آسمانوں میں، جیسی باغیانہ اور غیرت کو للکارنے والی آوازیں اقبال سے ہی منسوب کی جائیں گی۔ اردو کیا ملک کی تمام لسانی تخلیقات میں باغیانہ لہجے کی یہ شاعری نظر نہیں آتی۔ اس ابتدائی نظم میں تینوں زاویے موجود ہیں۔ یعنی ہندوستان کی عظمت کا اعتراف، انگریزی حکمرانی کے خلاف بغاوت اور باشندگانِ ہند کے مابین محبت و اخوت کا پیغام۔ نظم کے اختتامی دو اشعار ملاحظہ ہوں: محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے۱۴؎ محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے۱۵؎ جس طرح اقبال اٹھ کھڑے ہونے کی بار بار تاکید کرتے ہیں وہ کہیں نہیں ملتا: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر۱۶؎ اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے۱۷؎ اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو۱۸؎ دل و جاں کی قربانی اور سپردگی کا یہ پیغام غلامی کے خلاف صدائے درد ناک تھی، جو رحیلِ کارواں کے لیے ضروری تھی۔ اقبال کی شاعری میں ’ستیزی‘ اور ’رستاخیزی‘ کے الفاظ کے محل استعمال اور معنویت پر غور کیجیے تو یقین آئے گا کہ وہ پوری قوم کے کمر بستہ ہونے کے لیے مضطرب ہیں اور ان لفظوں کو چن چن کر استعمال کرتے ہیں جن میں جگرتابی اور جاں سوزی کے مفاہیم موجود ہیں۔ وہ بیداری کے پہلے نقیب ہیں، جنھوں نے صدیوں کی خواب آوری اور ناکردہ کاری کے خلاف بغاوت بر پا کی۔ ان ترانوں کو دیکھیے جن میں للکار نے اور لائحہ عمل کو متعین کرنے کی تڑپ موجود ہے۔ پوری شاعری میں یہ پہلی آواز تھی : خواب سے جاگو، اٹھو، تیار ہو، چلو اور پھونک ڈالو، برہم کردو، لہو گرم کرو، خونی کفن پہنو، تیشہ و تبر سے کام لو، شمشیر و سناں باندھو، مردانہ وار نہیںجی سکتے تو موت کو مردانگی سے قبول کرو جیسے شور انگیز خطابات ان کی شاعری میں ہی دستیاب ہیں۔ ان لفظوں کو دیکھیے جو قیامت خیز طوفان برپا کرنے والی شاہ کار تخلیق ہیں: از گرمیِ ہنگامۂ آتش نفساں خیز از خوابِ گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز! از خواب گراں خیز!۱۹؎ خیز، بر خیز، رستاخیز، برانگیز، برفشاں، پیہم دواں، ہردم جواں، ہشیار، بیدار، بے قرار جیسے سیکڑوں الفاظ صرف شعری تلازمے نہیں ہیں بلکہ اقبال کی انقلابی فکر اور احتجاجی اظہار کے ترجمان ہیں، جو آزادی کے فراواں احساس اور استحضار کی علامت ہیں۔ آخری بند میں انگریزی جابریت کے خلاف جنگ جوئی کو عمرِ رواں کا حاصل قرار دیا گیا ہے۔ اس آمریت کے خاتمے کے لیے بیدار بختی کی بشارت بھی دی گئی ہے: فریاد ز افرنگ و دلآویزیِ افرنگ فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ معمارِ حرم باز بہ تعمیرِ جہاں خیز! از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز از خوابِ گراں خیز!۲۰؎ اسی زبورِ عجم کی دوسری تخلیق میں ’انقلاب‘ کے لفظ کو پہلی بار پر اسرار معنویت دی گئی۔ انقلاب ہو یا احتجاج، اعتراض ہو یا انتقام،شاعری ہو یا سر کشی، بغاوت ہو یا خطابت سب اقبال کے دیے ہوئے نعرئہ انقلاب کے مرہونِ منت ہیں: جانِ محکوماں ز تن بردند و محکوماں بخواب انقلاب! انقلاب اے انقلاب!۲۱؎ کیسی پتے کی بات کہی ہے کہ فریب دے کر میر و سلطاں نے ہندی غلاموں کے جسم سے روح غصب کر لی ہے اور محکوم محو خواب ہے۔ انقلاب کو آواز دو کہ شورشِ سلاسل برپا ہو۔ نو بند کی اس نظم میں نظامِ حکومت کو دَرہم کرنے کا پیغام ہے۔ اقبال نے ۱۹۰۷ء میں ہی یہ شور انگیز پیغام سر زمین یورپ سے سنایا تھا۔ مغربی تہذیب کے خلاف کسی ہندوستانی کی یہ پہلی آواز تھی جو بانگ درا اور بانگِ رحیل بن کر نمودار ہوئی تھی: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائدار ہوگا۲۲؎ اقبال ابھی اسپنگلر کی کتاب زوالِ مغرب سے آشنا نہیں ہوئے تھے۔ ۱۹۰۷ء کی یہ احتجاجی آواز چالیس سال بعد اذانِ آزادی ثابت ہوئی۔ اقبال کی آرزو تھی کہ اگر وہ صبحِ آزادی کا نغمۂ نوبہار نہ بن سکیں تو کم سے کم سوزِ اقبال کو یہ توفیق ملے کہ بہار سے پہلے آنے والے پرندوں کی طرح آزادی کی خبر دے سکیں۔ ان کی دعا مستجاب ہوئی۔ خلافت تحریک زوروں پر تھی۔ ملک کا ہرپیرو جواں خلافت پر جان دینے کے لیے آمادئہ پیکار تھا۔ اقبال کیسے خاموش رہ سکتے تھے ؟ انھیں دریوزہ گری سے نفرت تھی۔ ان کا قول سنیے: خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی۲۳؎ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد۲۴؎ ان مصرعوں میں ایک آسمانی آواز شامل تھی۔ اس کے مخاطب بھی ہندوستانی ہی تھے، جن کے خاکستر کی چنگاری سے مشرقی ممالک میں صور اسرافیل سنی جا رہی تھی۔ اب سرمایہ دار اور مزدور کی کشاکش بھی شامل ہو گئی ۔ کیوں کہ تلاطم ہائے دریا سے ہی گوہر کی سیرابی ممکن ہے۔تبھی کبوتر کے تنِ نازک میں شاہینی جگر پیدا ہوگا اور فرنگی مدنیت کا خاتمہ ہو گا، کیونکہ: تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا۲۵؎ انھیں انجام تک پہنچانا بھی ہے۔ محکوم قوم کا لہو گرم ہو چکا ہے جس سے جہانِ چار سو کانپ رہا ہے۔ اب سرمایہ داری یعنی انگریزی سامراج کا نظام ختم ہونے کو ہے اور اقبال ان کے سفینے کے ڈوبنے کے منتظر ہیں۔ زمین و آسماں کو خاکستر بنا دینے کا عزم اقبال دیتے ہیں۔ ان بیانات کے بعد یقین کے ساتھ باور کرنا چاہیے کہ برصغیر کی بیداری و آزادی کی جدوجہد میں ان کے انقلاب آفریں پیغام کی صدائے بازگشت ہر سوسنائی دیتی ہے۔ شاید ہم ابھی تک ان آوازوں کی سماعت کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں یا اقبال کے فروغ فکر کی تجلیات تک رسائی میں ہماری دانش و بینش کے پر جلتے ہیں۔ یا ہم بے بنیاد توہمات میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ہم برملا اقرار و اعتراف کریں یا نہ کریں درونِ دل اقبال کی ان آوازوں کے مؤثرات سے متاثر اور معترف ہیں۔ پس از مرگ بھی ان کی لحد اہل عزم و ہمت کے لیے زیارت گاہ ہے۔ انھوں نے خاک نشینوں کو اسرار سلطانی اور رازِ الوندی سکھائے ہیں۔ یہ عرفان بھی توجہ طلب ہے کہ اگر وہ چہرئہ افکار کے دبیزپردوں کو چاک کر دیں تو ان نوائوں کی تاب و تپش اہلِ فرنگ کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گی۔ کیوں کہ: دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا۲۶؎ یا لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب۲۷؎ فرنگ سے اس حد تک خطاب کہیں نہیں ملے گا۔ اقبال پہلے شاعر ہیں جو عملی سیاست میں بھی شریک ہوئے۔ پنجاب لجسلیٹو کونسل کے انتخاب اور ۱۹۳۱ء کو گول میز کانفرنس میں ’گرمیِ گفتار اعضائے مجالس الاماں‘ کا مشاہدہ کر چکے تھے۔ یہ ایک عمومی تذکرہ ہے جس میں عہدِ اقبال کی سیاسی صورتِ حال اور اقبال کے فکری ردِ عمل کے ساتھ ان کی پیامبرانہ شاعری پر سرسری نظر ڈالی گئی ہے۔ اقبال نے محکوم اقوام کے استحصال کے خلاف جس شدت سے نفرت کا اظہار کیا اور انھیں جنگ کے لیے آمادہ کیا، اس کی مثال برصغیر ہی نہیں بلکہ کرئہ ارض پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔ اقبال اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ وہ پیش گوئی کے قائل نہ تھے لیکن ان کی بصیرتوں میں وجدان و الہام کے مشاہدات اور کرشمہ ساز فکر کسی طرح کم نہ تھی: مرے گلو میں ہے اک نغمۂ جبرئیل آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے۲۸؎ اقبال نے اپنے جس جہاں آشوب نغمے کو لامکاں کے لیے سنبھال کر رکھا تھا اسے انتہائی درد مندی سے براعظم کی بیداری کے قافلے میں لٹا دیا۔ ان کی بصیرت انجم شناسی کو مات دے کر تاروںکی گردش تیز کرنے کے ساتھ دلِ ہر ذرہ کو رست خیزی کے لیے سامانِ سفر فراہم کر گئی۔ آیندہ بیداری بخشنے والی آوازیں اقبال سے ہی منسوب کی جائیں گی: پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق باز روشن می شود ایامِ شرق در ضمیرش انقلاب آمد پدید شب گذشت و آفتاب آمد پدید۲۹؎ خخخ حواشی وحوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال ،فارسی،(پس چہ باید کرد …) ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ص ۸۴۲۔ ۲- ایضاً ، ص ۸۴۳۔ ۳- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال ،اردو،(ارمغان حجاز) ،اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،۲۰۰۷ء ، ص۷۵۰۔ ۴- ایضاً ، ص ۴۴۴۔ ۵- کلیات اقبال ،فارسی،ص ۷۷۱۔ ۶- ایضاً، ص ۷۳۲۔ ۷- کلیات اقبال ،اردو،ص ۶۲۱۔ ۸- کلیات اقبال ،فارسی،ص ۷۳۱۔ ۹- ایضاً ، ص ۷۳۰۔ ۱۰- ایضاً ، ص ۷۳۲۔ ۱۱- ایضاً ، ص ۷۳۳۔ ۱۲- کلیات اقبال، اردو، ص ۹۹۔ ۱۳- ایضاً ، ص ۱۰۰۔ ۱۴- ایضاً ، ص ۱۰۳۔ ۱۵- ایضاً ، ص ۱۰۲۔ ۱۶- ایضاً ، ص ۱۵۸۔ ۱۷- ایضاً ، ص ۲۹۲۔ ۱۸- ایضاً ، ص ۴۳۷۔ ۱۹- کلیات اقبال، فارسی، ص ۴۷۳۔ ۲۰- ایضاً ، ص ۴۷۵۔ ۲۱- ایضاً ، ص ۴۸۶۔ ۲۲- کلیات اقبال، اردو، ص ۱۶۷۔ ۲۳- ایضاً ، ص ۲۸۱۔ ۲۴- ایضاً ، ص ۳۹۶۔ ۲۵- ایضاً ، ص ۷۱۴۔ ۲۶- ایضاً ، ص ۶۴۹۔ ۲۷- ایضاً ، ص ۴۲۸۔ ۲۸- ایضاً ، ص ۳۸۰۔ ۲۹- کلیات اقبال، فارسی، ص ۸۳۹۔ خخخ علامہ اقبال اور دارالمصنّفین ڈاکٹر الیاس الاعظمی علامہ شبلی نعمانی (۴؍جون ۱۸۵۷ء - ۱۸؍نومبر۱۹۱۴ئ) کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ایسے افراد کی علمی تربیت اور ذہن سازی کی جو ان کے مشن کو جاری رکھ سکیں،اسلام پر ہونے والے ناروا اعتراضات کا رد کر سکیں ، یورپ بالخصوص مستشرقین کے مسکت جوابات دے سکیں۔ چنانچہ وہ اسی مقصد کے حصول کے لیے تحریک ندوہ سے وابستہ ہوئے، اسی مقصد سے انھوں نے ماہنامہ الندوہ جاری کیا اور اسی مقصد کے تحت دارالمصنّفین قائم کیا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ علم و فن، شعر و ادب اور تعلیم و سیاست کے میدان میں ہم خیال علماء و فضلاء اور دانشوروں کی ایک مؤثر جماعت تشکیل دینے میں کامیاب رہے۔ ان کے تلامذہ میں مولانا حمیدالدین فراہیؒ، مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا عبدالسلام ندوی، مولانا عبدالباری ندوی، مولوی اقبال احمد خاں سہیل ، مولوی مسعود علی ندوی، مولوی شبلی متکلم ، مولانا ضیاء الحسن ندوی اور مولانا عبدالرحمن نگرامی وغیرہ وہ نمایاں نام ہیں جنھوں نے فکر شبلی کو زندگی بھر سینے سے لگائے رکھا۔ ان کے علاوہ شبلی کے مستفیدین نے جن میں ، مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خاں، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی ، حسرت موہانی، خواجہ غلام الثقلین اور بابائے اردو مولوی عبدالحق ،کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ یہ مذہب و سیاست، درس و تدریس ، شعر و ادب اور تحقیق و تدقیق کے میدان کے ایسے نام ہیں جنھیں ہماری تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک ایسا کاروانِ علم و ادب بھی وجود میں آیا جس نے شبلی سے اگرچہ براہ راست استفادہ نہیں کیا تھا تاہم ان کے افکار و خیالات سے ہم آہنگ ،مؤید اور متبع تھا ۔ اس طبقہ میں سب سے نمایاں نام حکیم الامت علا مہ محمد اقبال (۹؍نومبر۱۸۷۷ئ-۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ئ) کاہے۔ ڈاکٹر محمد ریاض نے اقبال کے پیش رو بزرگوں کے ذکر میں لکھا ہے کہ : انیسویں صدی کے پیش رؤں جیسے سرسید احمد خاں(م:۱۸۹۸ئ)، چراغ علی(م:۱۸۹۵ئ) اور اپنے جملہ بزرگ معاصرین مثلاً خواجہ الطاف حسین حالی (م:۱۹۱۴ئ)، اکبر الہ آبادی (م:۱۹۲۱ئ)، غلام قادر گرامی (م:۱۹۲۰ئ) اور سید امیر علی (م:۱۹۲۸ئ) وغیرہم سے اقبال نے گوناگوں تاثر لیا ہے مگر بحیثیت مجموعی شمس العلماء محمد شبلی نعمانی(م:۱۹۱۴ئ) کی تصانیف کے بارے میں ان کا تاثر زیادہ گہرا اور متنوع نظر آتا ہے۔۱؎ سید افتخار حسین شاہ نے لکھا ہے: میں شبلیات اور اقبالیات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اقبال اپنی زندگی اور نظریات کے اعتبار سے مجموعی صورت میں اردو و فارسی کے اپنے پیش رو شاعروں اور نثرنگاروں میں سب سے زیادہ جس کے قریب نظر آتے ہیں وہ مولانا شبلی ہیں ۔۲؎ علامہ شبلیؒ علامہ اقبال (۹؍نومبر ۱۹۷۷ئ) عمر میں شبلی ( ۴؍جون ۱۸۵۷ئ) سے بیس سال چھوٹے تھے۔ ان کے دور طالب علمی میں شبلی کے علم و فضل اور ان کی عظیم الشان تصنیفات و تحقیقات: مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم، المامون، سیرۃالنعمان، الجزیہ، کتب خانۂ اسکندریہ اور الفاروق کا ہر طرف ڈنکابج رہا تھا۔ سرسید احمد خاں ، ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ دہلوی، مولانا الطاف حسین حالی اور عبدالحلیم شرر وغیرہ نے شبلی کے ذوق علم و تحقیق، وسعت مطالعہ اور اسلوب نگارش کا برملا اعتراف کرکے عظمت شبلی سے پورے ملک کو روشناس کرا دیا تھا۔ شبلی کے روم و مصر و شام کے سفر اور سفرنامے کی اشاعت سے انگریزی حکومت شبلی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئی تھی اور وہ شبلی کو ترکوں کا ایجنٹ اور اور جمال الدین افغانی کا ہم نوا خیال کر رہی تھی اور ترکی حکومت سے ملے تمغۂ مجیدیہ کے استعمال پر پابندی لگادی تھی۔۳؎ شبلی کے جذبہ اتحاد اسلامی کے سبب مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جو حریت پسند اور قوم پرور خیالات کا حامل تھا ان کا والہ و شیدا ہو گیا تھا۔ غالباً یہی زمانہ ہے جس میں اقبال علامہ شبلی سے متاثر ہوئے اور ان کے قریب آئے۔ انھوں نے پہلی کوشش یہ کی کہ علامہ شبلی کو مستقل طور پر پنجاب بلالیں۔ تاکہ ان کے علم و فضل سے اہل پنجاب مستفید ہوسکیں مگرمسلمان امراء کی کم ذوقی کے سبب ان کی یہ کوشش بار آور نہ ہو سکی۔۴؎ ۱۹۰۴ء میں علامہ اقبال نے اپنی پہلی کتاب علم الاقتصاد لکھی۔ علامہ اقبال کی خواہش پر شبلی نے علم الاقتصاد کا مطالعہ کیا اور اس کے بعض حصوں کی زبان و بیان کی تصحیح کی۔۵؎ اس سے یہ واضح ہے کہ علامہ اقبال ۱۹۰۳ء سے پہلے ہی علامہ شبلی کے علم و فضل اور ادب و انشا کے معترف تھے۔ ۱۹۰۱ء میں علامہ شبلی حکومت حیدرآباد کے سر رشتہ علوم و فنون سے وابستہ ہوئے۔ یہاں انھوں نے سلسلہ کلامیہ کا آغاز کیا اور الغزالی، علم الکلام،الکلام اور سوانح مولانا روم جیسی اہم کتابیں ان کے قلم سے نکلیں جو ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۶ء کے درمیان شائع ہوئیں۔ ۱۹۰۷ء میں علامہ اقبال نے ڈاکٹریٹ کا مقالہ The Development of Metaphysics in Parsia لکھا۔یہ مقالہ ۱۹۰۸ء میںلوزک اینڈ کمپنی لندن نے شائع کیا۔ اس میں شبلی کی دو کتابوں الغزالی اور علم الکلام کاعلامہ اقبال نے حوالہ دیا ہے ۶؎ یعنی ان کی نظر میں شبلی کی یہ کاوشیں اس لائق تھیں کہ انہیں مآخذ و مراجع کے طور پر استعمال کیا جا ئے۔ علامہ اقبال ، مولانا روم ، مثنوی معنوی اور ان کے فکر و فلسفے کے بڑے مداح تھے۔ یقین ہے کہ اقبال نے سوانح مولانا روم کا جو اردو میں مولانا روم کی پہلی سوانح عمری ہے ضرور مطالعہ کیا ہوگا ۔ اس لیے کہ علامہ شبلی کی یہ کتاب اس عام خیال سے کہ مولانا روم کی شخصیت محض تصوف و سلوک سے عبارت تھی ہٹ کر لکھی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ مولانا روم علم کلام کے بڑے ماہر تھے اور ان کی مثنوی معنوی علم کلام کی بھی کتاب ہے۔۷؎ سوانح مولانا روم سے اقبال کی دلچسپی ان کے ذوق و مزاج کی آئینہ دار ہے تاہم ان کی اس ذوق آفرینی میں شبلی کی کتاب نے بقول اینامیری شمل غیر معمولی کردار ادا کیا۔۸ ؎ شبلی نے جبر و قدر، تجدد امثال اور دیگر کلامی مباحث پر روشنی ڈالی ہے چونکہ اقبال کو ان موضوعات سے گہرا شغف تھا اس لیے قیاس ہے کہ اقبال نے ان کی تحریروں سے ضرور استفادہ کیا ہوگا۔ ۱۹۰۳ء میں علامہ شبلی انجمن ترقی اردو کے پہلے سکریٹری نامزد ہوئے، انھوں نے انجمن کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کی۔ انھی کی تحریک پر اخبارات کے ایڈیٹر انجمن کے رکن بنے، اردو کی بہترین کتاب پر انعام دینے کا سلسلہ انھی نے شروع کیا ۔ ان کا اس سلسلے کا سب سے اہم کام اردو کتابوں کے ترجمے کا ہے ۔ انھوں نے ۱۴؍ کتابوں کو ترجمے کے لیے منتخب کیا جس میں دو کتابیں فلسفہ تعلیم اور رہنمایان ہند شائع ہو سکیں۔ فلسفہ تعلیم کا ترجمہ خواجہ غلام الحسنین پانی پتی نے کیا ہے ۔ علامہ شبلی نے اسے جن چار اہل علم کے پاس ان کی رائے کے لیے بھیجا تھا ان میں ایک علامہ اقبال بھی تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے یورپ جانے سے پہلے شبلی ان کی خوابیدہ صلاحیتوں سے واقف اور فلسفہ تعلیم کے ساتھ انگریزی و اردوپر ان کی مشاقانہ نظر کے قائل ہو چکے تھے۔ چنانچہ انھی چاروں اہل علم جن میں علامہ اقبال کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد بھی شامل تھے، کے اتفاق آراء سے یہ ترجمہ اشاعت کے لیے منظور ہوا۔ ۹؎ ۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۲ء کے درمیان شبلی کی شعرالعجم کی چار جلدیں شائع ہوئیں۔ پانچویں جلد شبلی کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ اقبال نے یقینی طور پر ان کا مطالعہ کیا تھا اور وہ ان کے مداح تھے۔ ظہورالدین مہجور نے کشمیر کے شعرائے فارسی کا تذکرہ لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا اور ایک خط میں علامہ اقبال سے اس کا ذکر کیا تواقبال نے مشورہ دیا کہ یہ تذکرہ ضرور لکھیے مگر حروف تہجی کے اعتبار سے نہ لکھیے بلکہ شعرالعجم کی طرح شعراء فارسی کی شاعری کا ناقدانہ جائزہ ہونا چاہیے۔۱۰؎ یہ اقبال کی زبان سے عظمت شبلی کے اعتراف کا ایک نمونہ ہے۔ چنانچہ ۱۹۱۱ء یعنی بیسویں صدی کے دوسرے دہے کے آغاز میں جب شبلی کے علم و کمال کا شہرہ نصف النہارپر تھا اور عظمت اقبال کے اعتراف کا سلسلہ قائم ہو چکا تھا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس دہلی میں دونوں کی پہلی اور غالباً آخری ملاقات ہوئی۔ اس اجلاس کی صدارت مولانا شاہ سلیمان پھلواروی نے کی تھی۔ علامہ اقبال اس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ایک اجلاس کی صدارت بھی کی، ایک مختصر تقریر اور اپنی نظم ’بلاد اسلامیہ‘ کا وہ حصہ جو مدینہ منورہ سے متعلق ہے پڑھ کر سنایا۔ اسی اجلاس میں علامہ اقبال کو کانفرنس کی طرف سے ’’ترجمانِ حقیقت‘‘ کا خطاب دیا گیا ۔۱۱؎ اس موقع پر سجاد حیدر یلدرم جو علی گڑھ میں علامہ شبلی کے شاگرد رہ چکے تھے، ان کی خواہش پر علامہ شبلی نے علامہ اقبال کو پھولوں کا ہار پہنایا۱۲؎ اور ایک مختصر تقریر کی۔ یہی وہ پہلا موقع ہے جب شبلی نے اقبال کو دوسرے غالب ہونے کی بشارت دی تھی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ: یہ رسم کوئی معمولی رسم نہیں ہے اور اس کو محض تفریح تصور نہ کرنا چاہیے، ہم مسلمانوں کا یہ شعار رہا ہے کہ ہم جس قدر قوم کی دی ہوئی عزت اور خطابات کی قدر کرتے رہے ہیں اتنی کسی اور عزت کی شہرت ہمارے ناموں کی نہیں ہوئی۔ محقق طوسی وغیرہ کو اس زمانے کے سلاطین نے بڑے بڑے خطابات دیے لیکن آج سو کتابوں کے اوراق کسی زبان پر نہ چڑھ سکے لیکن قوم کی طرف سے محقق کا جو خطاب دیا گیا تھا وہ آج تک زبان زد خاص و عام ہے۔ جو عزت قوم کی طرف سے آج ڈاکٹر اقبال کو دی جاتی ہے وہ ان کے لیے بڑی عزت و توقیر کی بات ہے اور حقیقت میں وہ اس عزت کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر اقبال کا علم ، ادب اور ان کی شاعری کا مقابلہ غالب کی شاعری سے کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوسکتا۔۱۳؎ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اپنے عہد کے اردو کے سب سے بڑے ادیب اور نقاد نے علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ایک مجمع خواص میں کیا۔ اس سے جہاں اقبال کے اندر اعتماد پیدا ہوا ہوگا وہیں یقینا اقبال کی شیفتگی شبلی میں بھی اضافہ ہوا ہوگا۔ اس سے ایک اور بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ علامہ شبلی نے جس طرح مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا حمیدالدین فراہی، مولانا عبدالسلام ندوی اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ کی موقع بہ موقع حوصلہ افزائی اور تربیت کی اسی طرح انھوں نے علامہ اقبال کا بھی حوصلہ بڑھایا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ : مولانا شبلی مرحوم نے اقبال کو اسی وقت پہچانا تھا جب ہنوز ان کی شاعری کے مرغ شہرت نے پر و بال نہیں پیدا کیے تھے ۔ چنانچہ انھوں نے پیشین گوئی کی تھی کہ حالی و آزاد کی جو کرسیاں خالی ہوں گی ان میںسے ایک اقبال کی نشست سے پر ہو جائے گی۔۱۴؎ ۱۹۱۲ء میں جب علامہ شبلی نے وقف علی الاولاد کے لیے قانون بنانے کی تحریک چلائی ، مختلف شہرو ںکا دورہ کیا اور ملک کے ممتاز اہل علم و دانش اور قانون دانوں سے رابطہ قائم کیا تو ڈاکٹر اقبال سے بھی خط کتابت کی ۔ وائسرائے سے ملاقات کے لیے جو وفد تجویز ہوا تھا شبلی نے اس میں اقبال کو بھی شامل کیا تھا۔اس سلسلے میں علامہ شبلی نے اقبال کو جو خط لکھا وہ محفوظ نہیں رہا ۔ البتہ اس کے جواب میں علامہ اقبال نے جو خط لکھا تھا وہ محفوظ ہے۔۱۵؎ اس خط کے علاوہ علامہ اقبال کی کسی اور تحریر بلکہ علامہ شبلی کی وفات (۱۸؍نومبر۱۹۱۴ئ) تک دونوں کے درمیان ربط و تعلق کی کوئی تفصیل دستیاب نہیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جب علامہ شبلی سیرۃالنبیؐکی تالیف و تدوین میں ہمہ وقت مصروف تھے۔ یہ کتاب ان کی وفات کے بعد ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ تصنیفات شبلی میںسیرۃالنبی ؐشاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ اردو کی وہ مایہ ناز کتاب ہے جس کا جواب اردو تو کیا عربی و فارسی میں بھی مفقودہے ۔ شبلی کے اس معجزہ علمی کا سارا زمانہ معترف ہے۔ علامہ اقبال بھی شبلی کے اس اعجاز کمال کے بڑے معترف و مداح تھے۔ انھوں نے ایک خط میں لکھا ہے کہ ’’ مولانا مرحوم نے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے جس کا صلہ دربار نبویؐ سے عطا ہوگا۔ ‘‘۱۶؎ الکلام میں علامہ شبلی نے جبر و قدر کے موضوع پر جو بحث کی ہے اس کا پرتو جاوید نامہ میں بالکل صاف دکھائی دیتا ہے۔علامہ اقبال نے الکلام (جدیدعلم کلام) کا کس قدر گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ اس کا اندازہ مولانا سید سلیمان ندوی کے نام ان کے ایک خط سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: الکلام کے صفحہ ۱۱۳-۱۱۴ پر مولانا شبلیؒ نے حجۃاللہ البالغہ ص ۱۲۳ کا ایک فقرہ عربی میں نقل کیا ہے جس کے مفہوم کا خلاصہ انھوں نے اپنے الفاظ میں دیا ہے۔ اس عربی فقرہ کے آخری حصہ کا ترجمہ یہ ہے: اس بنا پر اس سے بہتر اور آسان طریقہ کوئی نہیں کہ شعار ، تعزیرات اور انتظامات میں خاص اس قوم کے عادات کا لحاظ کیا جائے جس میں یہ امام پیدا ہوئے۔ اس کے ساتھ آنے والی نسلوں پر ان احکام کے متعلق چنداں سخت گیری نہ کی جائے۔ مہربانی کرکے یہ فرمائیے کہ مندرجہ بالا فقرہ میں لفظ شعار سے کیا مراد ہے اور اس کے تحت کون کون سے مراسم یا دستور آتے ہیں۔ اس لفظ کی مفصل تشریح مطلوب ہے، جواب کا سخت انتظار رہے گا۔۱۷؎ مولانا سید سلیمان ندوی نے اس کے جواب میں کیالکھا اس کا علم نہیں لیکن اقبال کے دوسرے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب نے شعار کا جو مفہوم بیان کیا تھا، علامہ اقبال کو اس سے تشفی نہیں ہوئی ۔۱۸؎ اردو میں مذہبی ، تاریخی، سیاسی اور واقعاتی نظم گوئی کے آغاز کا افتخار شبلی کے سر ہے جس کی علامہ اقبال نے بڑی تحسین کی ہے اور زور دیا ہے کہ یہ سلسلہ قائم رہناچاہئے ۔۱۹؎ دانستہ نہ سہی شبلی کی اس روایت کو خود اقبال نے بڑی ترقی دی، شبلی کے ایک اور یگانہ روزگار شاگرد اقبال احمد خاں سہیل نے شبلی کی مذہبی اور تاریخی نظموں کے سلسلے کو شعوری طور پر ارتقا کی منزلوں سے ہم کنار کیا۔ اور بقول آل احمد سرور ’’ شبلی نے اپنی سیاسی نظموں میں جس شگفتگی اور حسن کاری سے کام لیا ، وہ مولانا سہیل کے یہاں اور نکھری ہوئی ہے۔ ‘‘۲۰؎ شبلی کی اس روایت کو مولانا سید سلیمان ندوی نے بھی ترقی دینے کی کوشش کی ، وہ خود لکھتے ہیں : ۱۹۱۲ء میں جب مولانا شبلی نے نئی اردو شاعری کی طرح ڈالی تو دل نے اس میں بھی استاذ کی پیروی کا حق ادا کرنا چاہا۔ متعدد نظمیں اس رنگ میں لکھیں جن کا خاتمہ استاذ کے ماتم پر ہوا جو نوحہ استاذ کے نام سے ۱۹۱۵ء میں پونا میں چھپا ۔ جہاں میں ان دنوں دکن کالج میں فارسی لکچرر تھا ۔ میں نے جب یہ نوحہ لکھا تو اکبر الہ آبادی، ڈاکٹراقبال، عزیز لکھنوی، مولانا شروانی وغیرہ اور استاذ مرحوم کے اکثر دوستوں اور قدردانوں کے پاس اس تحفہ کو بھیجا ۔ سب نے تعریفیں کیں اور دل بڑھایا۔۲۱؎ ڈاکٹر محمد ریاض لکھتے ہیں: اسلامی تاریخی واقعات کو نظم کرنے اور ہنگامی و وقتی واقعات کے بارے میں قطعات لکھنے کے نقطۂ نظر سے اقبال کے پیش رو شبلی ہی نظر آتے ہیں۔ اقبال کی ایسی نظموں اور قطعوں کے نمونے باقیات اقبال اور بانگ درا میں خصوصاً دیکھے جا سکتے ہیں۔۲۲؎ ۱۸؍ نومبر ۱۹۱۴ء کو علامہ شبلی نے ۵۷؍ سال کی عمر میں وفات پائی تو ہر طرف صف ماتم بچھ گئی، رسائل و اخبارات میں ان کے سانحہ وفات کو ملت کا ایک بڑا حادثہ اور پر نہ ہونے والا خلا بتایا گیا۔ متعدد اہل قلم نے شبلی کے علم و فضل اور ان کے عظیم الشان کارناموں پر مضامین لکھے۔ ان کے احباب اور ملک کے نامور شعراء نے بڑے دلدوز مضامین اور مرثیے لکھے۔ اسی زمانے میں مولانا حالی نے بھی داغ مفارقت دی۔ علامہ اقبال ان سانحوں پر تڑپ اٹھے اور انھیں ایک نظم میں خراج عقیدت پیش کیا جو ان کے مجموعۂ کلام بانگ درا میں ’شبلی و حالی‘ کے نام سے شامل ہے ۔ علامہ اقبال نے ایک مصرع میں شبلی کی تاریخ بھی کہی ہے جو اگر چہ اقبال کے متروک کلام کا حصہ ہے تاہم اس سے اقبال کی نظر میں شبلی کی عظمت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ امام الہند والا نژاد شبلی طاب ثراہ ۱۳۳۲ھ ۲۳؎ دارالمصنّفین دارالمصنّفین علامہ شبلی کی آخری یادگار ہے۔ اسے انھوں نے ۱۹۱۴ء میں قائم کیا ۔ ابھی وہ پورے طور پر اس ادارے کو مستحکم بھی نہ کر سکے تھے کہ وفات پا گئے۔ ان کے بعد ان کے تلامذہ نے دارالمصنّفین کو قائم رکھنے اور ترقی دینے کی غرض سے مجلس اخوان الصفا قائم کی جس کے صدر مولانا حمیدالدین فراہی ، سکریٹری مولانا سید سلیمان ندوی اور ممبر کی حیثیت سے مولانا عبدالسلام ندوی ، مولوی مسعود علی ندوی اور مولوی شبلی متکلم آگے بڑھے اور استاذ مرحوم کے فکر و خیال کے مطابق دارالمصنّفین کو اس قدر ترقی دی کہ وہ عالم اسلام کا مایہ ناز علمی و تحقیقی ادارہ تسلیم کیا گیا۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد مصنّفین اور اہل قلم کی تربیت ، بلند پایہ کتابوں کی تصنیف و تالیف و ترجمہ اور ان کے طبع و اشاعت کا سامان کرنا تھا۔۲۴؎ بلاشبہ دارالمصنّفین کے اہل قلم اور مصنّفین نے مختلف اسلامی علوم و فنون پر دو سو سے زائد بلند پایہ علمی و تحقیقی کتابیں لکھیں ۔ تصنیف و تالیف کے لیے کئی اہل علم کی تربیت کی اور متعدد اہل قلم اس کے گوشہ عافیت میں پل کر جوان ہوئے اور ملک کے مختلف حصوں میں علم و ادب کے چراغ روشن کیے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۱۴ء سے اب (۲۰۱۰ئ) تک کے نہ صرف پاک وہند ، بنگلہ دیش بلکہ عالم اسلام کے ممتاز علماء و فضلاء اور دانشوروں نے دارالمصنّفین اور اس کے علماء و مصنّفین کی زبردست پذیرائی کی، اس کی کتابوں کو سراہا، اسے سند و اعتبار کا درجہ دیا اور اس کے رسالہ معارف کو علمی دنیا کا گل سرسبد قرار دیا۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے بھی دارالمصنّفین سے پوری دلچسپی لی ۔ اس کی مطبوعات ان کے مطالعے میں رہیں خاص طور سے مجلس دارالمصنّفین کے ماہوار رسالہ معارف سے انھیں بڑی دلچسپی تھی اور وہ اس کے مشتاق رہتے تھے۔ مولانا سید سلیمان ندوی کے نام ان کے متعدد خطوط میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی شبلی ہی کی طرح اقبال کی عظمت شناسی میں مولانا سید سلیمان ندوی (م:۱۹۵۴ئ)کا بھی کردار بہت اہم ہے ۔ اقبال ان کے معاصر اور ان کے استاذ کے ممدوح تھے۔ خط کتابت کا سلسلہ ۱۹۱۴ء میں قائم ہوا۔ دونوں ایک دوسرے کے علم و فضل کے بھی بڑے معترف و مداح تھے۔ ماہنامہ معارف کے متعدد شذرات میں سید صاحب نے اقبال کا ذکر ان کی زندگی ہی میں کیا ۔ رموز بے خودی کا تعارف و تجزیہ سب سے پہلے انھی کے قلم سے نکلا۔ نادرشاہ کی دعوت پر تعلیمی اصلاحات کے لیے دونوں افغانستان گئے،سر راس مسعود بھی اس وفد کے رکن تھے۔ مولانا سید سلیمان ندوی کے سفرنامہ سیر افغانستان میں اس کی تفصیل موجود ہے۔۲۵؎ مولانا سید سلیمان ندوی سے اقبال کی دلچسپی جانشین شبلی کی حیثیت سے ہوئی۔انھوں نے لکھا کہ ’’مولانا شبلیؒ کے بعد آپ استاذالکل ہیں، اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہوگا۔‘‘۲۶؎ پھر ان کے علم و فضل کے وہ بڑے قائل ہوتے چلے گئے۔ سید صاحب کے نام علامہ اقبال کے ۷۰؍خطوط اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ میں شامل ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سید صاحب کے فضل و کمال سے بے حد متاثر تھے۔ علامہ نے متعدد علمی امور میں ان سے استفسار اور استفادہ کیا اور ان کے علم و فضل اور شکوہ سلیمانی کی زبردست تحسین و ستائش کی۔ ایک جگہ لکھا کہ: آج سید سلیمان ندوی ہماری علمی زندگی کے سب سے اونچے زینے پر ہیں ۔ وہ عالم ہی نہیں امیر العلماء ہیں، مصنف ہی نہیں رئیس المصنّفین ہیں ان کا وجود علم و فضل کا ایک دریا ہے جس سے سیکڑوں نہریں نکلی ہیں اور ہزاروں سوکھی کھیتیاں سیراب ہوئی ہیں۔۲۷؎ ایک دوسرے خط میں لکھا کہ : ’’ علوم اسلامیہ کی جوئے شیر کا فرہاد آج ہندوستان میں سوائے سید سلیمان ندوی کے اور کون ہے‘‘۔۲۸؎ علامہ اقبال نے نہ صرف سید سلیمان ندوی کی عظمت کا اعتراف کیا بلکہ ان کی کتابوں کی بھی بڑی تحسین و ستائش کی۔ سیرت عائشہؓ کے بارے میں لکھا کہ : سیرت عائشہؓ کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ یہ ہدیۂ سلیمانی نہیںبلکہ سرمۂ سلیمانی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے میرے علم میں بہت مفید اضافہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔۲۹؎ اسی طرح عمر خیام کے بارے میں لکھا کہ : عمر خیام پر آپ نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کر سکے گا، الحمدللہ کہ اس بحث کا خاتمہ آپ کی تصنیف پر ہوا۔۳۰؎ اگر علامہ اقبال نے سید صاحب کے اعتراف کمال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو سید صاحب نے بھی اقبال کی شاعرانہ عظمت و بصیرت اور ان کے افکار و نظریات کی زبردست تحسین و ستائش کی ۔ اقبال کے نام مولانا سید سلیمان ندوی کے خطوط محفوظ نہیں رہے ورنہ اس کی پوری تفصیل سامنے آجاتی ۔ تاہم اقبال کے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ سید صاحب نے بھی ان کی تعریف و تحسین اپنے خطوط میںکی تھی۔ علاوہ ازیں معارف کے شذرات تحسین اقبال سے پر ہیں۔ سید صاحب نے شذرات کے علاوہ اقبال سے متعلق اولاً انگریزی مضامین کے ترجمے شائع کیے۔ رموز بے خودی پر تبصرہ کیا،۳۱؎ جسے اقبال نے بے حد پسند کیا۔۳۲؎ اسی طرح ان کی نظم ’خضر راہ‘ پر بھی اظہار خیال کیا۔۳۳؎ زبان و بیان کی طرف ابتداء ً سید سلیمان ندوی ہی نے انھیں متوجہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں اقبال نے متعدد استفسارات کیے اور سید صاحب نے ان کے جوابات دیے۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال نے وفات پائی تو ماتم اقبال میں معارف کے صفحات غمگین اور سوگوار ہوگئے۔ ان جلیل القدر شخصیات میں جس قدر جذباتی تعلق تھا، ماتم اقبال بھی اسی قدر جذباتی ہے۔ سید صاحب لکھتے ہیں: وہ (اقبال) ہندوستان کی آبرو ، مشرق کی عزت اور اسلام کا فخر تھا۔ آج دنیا ان ساری عزتوں سے محروم ہوگئی۔ ایسا عارف فلسفی، عاشق رسول شاعر، فلسفۂ اسلام کا ترجمان اور کاروانِ ملت کا حدی خواں صدیوں کے بعد پیدا ہوا تھا اور شاید صدیوں کے بعد پیدا ہو۔ اس کے دہن کا ہر ترانہ بانگ درا، اس کی جان حزیںکی ہر آواز، زبور عجم، اس کے دل کی ہر فریاد، پیام مشرق، اس کے شعر کا ہر پر پرواز بال جبریل تھا۔ اس کی فانی عمر گو ختم ہوگئی۔ لیکن اس کی زندگی کا ہر کارنامہ جاوید نامہ بن کر انشاء اللہ باقی رہے گا۔۳۴؎ اقبال کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: اقبال صرف شاعر نہ تھا وہ حکیم تھا، وہ حکیم نہیں جو ارسطو کی گاڑی کے قلی ہوں یا یورپ کے نئے فلاسفروں کے خوشہ چیں بلکہ وہ حکیم جو اسرار قدرت کا محرم اور رموز فطرت کا آشنا تھا۔ وہ نئے فلسفہ کے ہر راز سے آشنا ہو کر اسلام کے راز کو اپنے رنگ میں کھول کر دکھاتا تھا یعنی بادۂ انگور کو نچوڑ کر کوثر و تسنیم کا پیالہ تیار کرتا تھا۔۳۵؎ اس نثری مرثیے کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوتا ہے:- اقبال ہندوستان کا فخر اقبال، اسلامی دنیا کاہیرو اقبال ، فضل و کمال کا پیکر اقبال، حکمت و معرفت کا دانا اقبال، کاروانِ ملت کا رہنما اقبال! رخصت، رخصت۔ الوداع۔ الوداع۔ سلام اللہ علیک و رحمۃ الی یوم التلاق۔۳۶؎ اسی مضمون میں مولانا سید سلیمان ندوی نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ: اقبال کی تصنیفات زمانہ میں یاد رہیں گی ۔ وہ اسلام کا غیر فانی لٹریچر بن کر ان شا اللہ رہے گا۔ ان کی شرحیں لکھی جائیں گی۔ نظریے ان سے بنیں گے۔ ان کا فلسفہ تیار ہوگا۔ اس کی دلیلیں ڈھونڈھی جائیں گی۔ قرآن پاک کی آیتوں ، احادیث شریفہ کے جملوں ، مولانا رومی اور حکیم سنائی کے تاثرات سے ان کا مقابلہ ہوگا اور اس طرح اقبال کا پیام اب دنیا میں ان شاء اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور اقبال زندہ جاوید۔۳۷؎ سید صاحب کے یہ خیالات کس قدر سچ ثابت ہوئے اقبالیات کے وسیع ذخیرے سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی مولانا عبدالسلام ندوی بھی علامہ شبلی کے عزیز شاگرد اور دارالمصنّفین کے معماروں میں سے تھے ۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی دارالمصنّفین کی خدمت میں صرف کی ۔ اسوۂ صحابہ، اسوہ ٔ صحابیات ، شعرالہند، حکمائے اسلام، ابن خلدون، طبقات الامم، ابن یمین، تاریخ الحرمین الشریفین، فقرائے اسلام ، فطرت نسوانی وغیرہ کتابیں ان کی اہم کاوشیں ہیں۔ وہ آخری سانس تک دارالمصنّفین سے وابستہ رہے اور اسی کی خاک کا پیوند ہوئے۔ مولانا عبدالسلام ندوی شبلی کے ان شاگردوں میں سے تھے جن پر علامہ شبلی کو ناز تھا۔ وہ نہ صرف دارالمصنّفین کے بلکہ ہندوستان کے بڑے ماہر اقبالیات تھے ۔ آزاد ہندوستان میں اقبال پر پہلی کتاب اقبالِ کامل انھی کے قلم سے نکلی۔ اس میں انھوں نے علامہ اقبال کے حالات و سوانح، اخلاق و عادات اور ان کی تصنیفات اور مجموعۂ کلام پر نقد و تبصرہ کیا ہے اور علامہ اقبال کے ان کارناموں کا بھی ذکر ہے جسے وہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ اس کے بعد ان کی شاعرانہ عظمت اور بلندی کی سرگذشت ہے جس کے مختلف ادوار قائم کرکے ہر دور کے کلامِ اقبال کا تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔ اردو کے ساتھ ان کے فارسی کلام پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالی ہے اور کلام اقبال کے محاسن و نقائص دونوں دکھائے۔ علامہ اقبال کی شہرت و مقبولیت اور اس کے اسباب اور ان کے کلام کے تراجم کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔ فلسفہ خودی اور اس کے اجزاء و عناصر بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ملت، تعلیم، سیاست، صنف لطیف، فنون لطیفہ اور نظام اخلاق وغیرہ سے متعلق نظریات اقبال کا تنقیدی تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔ آخر میں نعتیہ کلام پر نقد و تبصرہ ہے۔۳۸؎اس طرح اقبال کامل علامہ اقبال کی ہمہ گیر شخصیت اور فکر و فن پر ایک جامع اور مبسوط تصنیف قرار پاتی ہے۔ اقبال پر جو چند اہم کتابیں مرجع تسلیم کی جاتی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: اقبال پر درجنوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور بے شمار تقریریں اس پر ہو چکی ہیں لیکن یہ سلسلہ نہ ختم ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اقبال پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں محققانہ تصانیف بہت کم ہیں۔ میرے نزدیک اقبال پر دو کتابیں نہایت عالمانہ ، نہایت بلیغ اور نہایت جامع ہیں ۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی روحِ اقبال اور مولانا عبدالسلام ندوی کی اقبالِ کامل۔ ان دونوں کتابوں کو ملا کر پڑھیں تو اقبال کے کلام اور ان کی تعلیم کا کوئی پہلو ایسا نہیں دکھائی دیتا جومحتاج تشریح اور تشنہ تنقید باقی رہ گیا ہو۔۳۹؎ اس کے علاوہ مولانا عبدالسلام ندوی نے اقبال کے فلسفۂ خودی پر ایک مفصل مقالہ لکھا ہے جو ماہنامہ معارف میں آٹھ طویل قسطوں میں شائع ہوا۔ اسے ہم دانائے راز کے فلسفہ خودی کا پہلا بھرپورمطا لعہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کا کچھ حصہ اقبال کامل میں شامل ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی کے حصے میں علامہ اقبال کی دو خواہشوں کی تکمیل کی سعادت بھی آئی۔ علامہ اقبال نے ایک خط میں مولانا سید سلیمان ندوی کو لکھا کہ: اس وقت سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اسلامی کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے اس مبحث پر مصر میں ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی تھی جو میری نظر سے گذری ہے مگر افسوس ہے کہ بہت مختصر ہے اور جن مسائل پر بحث کی ضرورت ہے مصنف نے ان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اگر مولانا شبلی زندہ ہوتے تو میں ان سے ایسی کتاب لکھنے کی درخواست کرتا ۔ موجودہ صورت میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا۔۴۰؎ اسی طرح ایک اور خط میں لکھتے ہیں: دارالمصنّفین کی طرف سے ہندوستان کے حکمائے اسلام پر ایک کتاب نکلنی چاہیے اس کی سخت ضرورت ہے۔ عام طور پر یورپ میں سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی فلسفیانہ روایات نہیں ۔۴۱؎ سید صاحب نے یہ کتابیں تو نہیں لکھیں البتہ مولانا عبدالسلام ندوی کے قلم سے ان دونوںموضوعات پر کتابیں نکلیں۔ تاریخ فقہ اسلامی پر کتاب لکھنے کا اقبال کا مشورہ ۱۸؍مارچ ۱۹۲۶ء کا ہے ۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے محمد الخضری کی کتاب التشریع الاسلامی کا ترجمہ ۱۹۲۷ء میں تاریخ فقہ اسلامی کے نام سے دارالمصنّفین سے شائع کیا۔ اسی طرح حکمائے اسلام کے لکھنے کا مشورہ علامہ اقبال نے سید صاحب کو ۴؍ستمبر ۱۹۳۳ء کو دیا تھا۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے حکمائے اسلام کے نام سے دوجلدوں میں کتاب لکھی۔ پہلی جلد ۱۹۵۳ء میں اور دوسری ۱۹۵۶ء میں دارالمصنّفین سے شائع ہوئی۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے ان دونوں کتابوں کے مقدموں میںیہ صراحت تو نہیں کی ہے کہ یہ کتابیں علامہ اقبال کی خواہش پر لکھی گئیں مگر چونکہ دارالمصنّفین کے علمی منصوبے مولانا سید سلیمان ندوی بنایا کرتے تھے اس لیے قیاس ہے کہ ان دونوں کتابوں کے منصوبے علامہ اقبال کی خواہش پر بنائے گئے ۔ انقلابِ روس کے بعد وہاں کے مسلمانوں کے حالات سے بہت کم آگاہی تھی۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے اس خیال کے پیش نظرروسی مسلمانوں کے حالات پر ماہنامہ معارف میں ایک سلسلہ مضامین شروع کیاجو چھ قسطوں میں پورا ہوا۔ اس مضمون کی ابتدائی تین قسطیں ’’مسلمانانِ روس‘‘کے عنوان سے شائع ہوئیں۔۴۲؎ جبکہ آخری تین قسطیں ’’اسلام اور نصرانیت کی کشمکش روس میں‘‘ کے عنوان سے اپریل- جولائی -اگست ۱۹۱۸ء کے شماروں میں چھپیں۔علامہ اقبال کو یہ مضامین پسند آئے تو انھوں نے سید صاحب سے اسے رسالہ کی صورت میں علیٰحدہ شائع کرنے کی خواہش کی۔۴۳؎ مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ شاہ معین الدین احمد ندوی مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ندوہ کے نامور فرزند اور مولانا سید سلیمان ندوی کے دست گرفتہ تھے۔ ۱۹۲۴ء میں دارالمصنّفین سے وابستہ ہوئے اور سید صاحب کے بعد دارالمصنّفین کی نظامت کا بار انھی کے کاندھوں پر آیا چنانچہ وہ دارالمصنّفین کے کاموں کو آخری سانس تک انجام دیتے رہے۔ متعدد کتابیں ان کے قلم سے نکلیں جس میں سیرالصحابہ ، تاریخ اسلام ، حیات سلیمان ، خریطہ جواہر، تابعین اور دین رحمت وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ان کا ادبی مذاق بڑا پختہ اور اسلوب نگارش بڑا شستہ و شگفتہ تھا۔ان کے ادبی مضامین کا مجموعہ ادبی نقوش کے نام سے شائع ہواہے ۔ انھوں نے علامہ اقبال پر دو اہم مضامین لکھے اور کئی مضامین میں اقبال کا ضمناً ذکر کیا ہے۔ بعض ناعاقبت اندیشوں نے اقبال پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کیا تو شاہ صاحب نے ایک تنقیدی مقالہ ’’کیا اقبال فرقہ پرست شاعر تھے؟‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ معارف جنوری-فروری ۱۹۵۰ء میں لکھا اور اس بے حقیقت الزام کی پورے طور پر تردید کی ۔ یہ مقالہ ان کی اقبال سے شیفتگی اور اقبالیات پر گہری نظر کا غماز ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اقبال کی شاعری کا موضوع بہت پامال ہو چکا ہے اور اس پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ اس کا کوئی پہلو مشکل سے تشنہ باقی ہوگا اور اب اس پر لکھنے کی بہت کم گنجائش ہے لیکن جن لوگوں کی نظر ان کے پورے کلام اور اس کی غرض و غایت پر نہیںہے ، ان کی جانب سے ان پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ فرقہ پرست شاعر تھے۔ ان کا دل اپنی قوم اور اپنے وطن کی محبت سے خالی تھا، انھوں نے قومیت اور وطنیت کی مخالفت کی ہے، ان کی تعلیمات اور ان کے پیام میں عالم گیریت نہیں ہے۔ انھوںنے عالم انسانیت یا کم از کم ہندوستانی قوم کومخاطب بنانے کے بجائے صرف مسلمانوں سے خطاب کیا ہے اور اپنی شاعری میں صرف اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی ہے، وہ اسلامی حکومت کے قیام کے داعی اور صرف مسلمانوں کا غلبہ و اقتدار چاہتے تھے۔ ان کی فرقہ پرستی کے ثبوت میں اور بھی اسی قبیل کے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ تمام اعتراضات اقبال کے افکار و تصورات ، ان کے نصب العین ، ان کے مقصد شاعری ، یورپ کی سیاست، مذہب اسلام، مشرقی قوموں خصوصاً مسلمانوں کے زوال کی تاریخ سے ناواقفیت اور کلام اقبال پر قصورِ نظر کا نتیجہ ہیں اگر ان امور کی روشنی میں اقبال کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سارے اعتراضات خود بخود رفع ہو جائیں۔۴۴؎ پھر خود شاہ صاحب نے انھی امور کی روشنی میں کلامِ اقبال اور نظریۂ اقبال کا مفصل جائزہ لیا ہے اور معترضین کے خیالات کو بے بنیاد ثابت کیاہے۔ شاہ صاحب کی اقبال شناسی کا اصل نمونہ ان کا مقالہ ’’اقبال کی تعلیمات پر ایک نظر‘‘ ہے جو ماہنامہ معارف اکتوبر تا دسمبر ۱۹۷۱ء و جنوری ۱۹۷۲ء کے شماروں میں شائع ہوا ہے۔ دراصل یہ ایک مکمل کتاب ہے جو اب تک کتابی صورت میں شائع نہ ہوسکی۔ اس میں شاہ صاحب نے اقبال کی تعلیمات کا مفصل مطالعہ و جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کا سبب تحریر بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں: - اقبال مفکر اور فلسفی بھی تھے اور راسخ العقیدہ مسلمان بھی ۔ ارکان اسلام کے بارے میں ان کے عقائد بالکل ایک ٹھیٹھ مسلمان کے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے کلام میں جا بجا حکمائے اسلام پر طنز و تعریض کی ہے لیکن ان کے مخاطب عوام و خواص دونوں تھے۔ ان کا مقصد مذہب کے متعلق مغربی افکار و تصورات کے طلسم کو توڑنا اور مسلمانوں کی مغرب زدہ نئی نسل میں خصوصیت کے ساتھ اسلامی روح پیدا کرنا تھا۔ اس لیے انھوں نے دونوں کی زبان میں گفتگو کی ہے، ٹھیٹھ اسلام بھی پیش کیا ہے اور اس کی تعلیمات کی حکیمانہ تعبیریں بھی کی ہیں۔ ان کی حکیمانہ تعلیمات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ٹھیٹھ اسلامی تعلیمات پر کم لکھا گیا ہے۔اس لیے اس مقالہ میں ان کی دوسری تعلیمات کے ساتھ اسلام کے بنیادی ارکان توحید، رسالت، وحی قرآن اور اسلامی شریعت وغیرہ کے متعلق ان کے خیالات خصوصیت کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔۴۵؎ اس کے بعد شاہ صاحب نے اقبال کی ٹھیٹھ اسلامی تعلیمات و نظریات کی کلام اقبال کی روشنی میں تشریح و توضیح کی ہے۔ سید صباح الدین عبدالرحمن شاہ صاحب کے بعد دارالمصنّفین کی باگ ڈور سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کے ہاتھوں میں آئی۔ وہ بھی عظمت اقبال کے بڑے قائل اور ان کے ایک بڑے شیدائی تھے۔ علامہ کے صد سالہ یوم وفات پر اسلام آباد میںمنعقدہ کانگریس میں دارالمصنّفین کی نمائندگی کی اور معارف میں اس کی مفصل روداد قلم بند کی۔ ایک بہت اہم مقالہ ’’کیا علامہ اقبال یورپ کے فلسفہ سے متاثر تھے‘‘ لکھا۔۴۶؎ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبالیات پر ان کی بھی بڑی گہری نظر تھی۔ طاہر تونسوی کی کتاب اقبال اور سید سلیمان ندوی پر انھوں نے جو دیباچہ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے استاذ مولانا سید سلیمان ندوی کی طرح انہیں بھی اقبال سے بڑی عقیدت تھی۔ ۱۹۸۱ء کے اقبال انسٹی ٹیوٹ سری نگر کشمیر کے سیمی نار میں انھوں نے شرکت کی اور اس کی مفصل روداد معارف میں لکھی۔۴۷؎ مگر اس کے علاوہ کوئی اور کام اقبال پر نہ کر سکے۔ ماہنامہ معارف علامہ شبلی دارالمصنّفین سے ایک رسالہ جاری کرنا چاہتے تھے ۔ اس کا نام معارف انھی کا تجویز کیا ہوا ہے ۔ اس کا خاکہ بھی وہ بنا گئے تھے ۔ ان کی وفات کے بعد جولائی ۱۹۱۶ء میں مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے استاذ کی خواہش کی تکمیل میں یہ رسالہ جاری کیا تو اقبال نے اس سے بھی پوری دلچسپی لی۔ اس کا مطالعہ وہ بڑی دلچسپی سے کیا کرتے تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی کے نام ان کے خطوط سے اس کی تفصیلات کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ایک خط میں معارف کے متعلق لکھا ہے کہ : ’’یہی تو ایک رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہوتی ہے۔۴۸؎ اسی طرح ایک اور خط میں لکھا ہے کہ معارف مجھے خاص طور پر محبوب ہے۔۴۹؎ معارف اور اس کے فاضل مدیروں نے اقبال اور اقبالیات کو ہمیشہ اہمیت دی۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ مطالعہ اقبال کا آغازصحیح معنوں میں ماہنامہ معارف ہی سے ہوا۔معارف کی اقبال شناسی کے کئی پہلو ہیں۔[۱] کلام کی اشاعت [۲] مکتوبات اقبال کی اشاعت [۳] تجاویز اور مشورے [۴] تصانیف اقبال اور فکر اقبال پر مضامین و مقالات کی اشاعت وغیرہ۔ [۱] علامہ اقبال نے مدیر معارف مولانا سید سلیمان ندوی کی خواہش پر کئی تازہ تخلیقات معارف میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ ان کی پہلی غزل جو ترانۂ اقبال کے عنوان سے جون ۱۹۱۸ء میں معارف میں شائع ہوئی بانگ درا میں ’میں اور تو‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اقبال کا دوسرا کلام جو ماہنامہ معارف (اکتوبر ۱۹۱۹ء ) میں شائع ہوا ، وہ ان کی ایک چھوٹی سی نظم ’’پولٹیکل گداگری‘‘ ہے۔ نظم کا یہ نام علامہ اقبال کی خواہش پر مولانا سید سلیمان ندوی کا دیا ہوا ہے جسے اقبال نے اولاً پسند کیا مگر بانگ درا میں جب شامل کیا تو عنوان بدل کر ’’دریوزۂ خلافت‘‘ کر دیا ۔ اور پہلا شعر بھی بدل دیا۔ اس کے بعد اگست ۱۹۲۳ء میں اقبال کی مشہور فارسی غزل جس کا آغاز اس مصرع سے ہوا ہے: درہم و دینار من دولت بیدار من ’’نغمہ ساربان حجاز‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اسی طرح فروری ۱۹۲۴ء کے معارف میں ’’خلافت اور ترک و عرب‘‘ کے عنوان سے گرامی کی غزل پر اقبال کی تضمین شائع ہوئی ہے۔ چار اشعار پر مشتمل اس تضمین کا پہلا شعر یہ ہے: سخنے راندہ کہ جز قرشی بر سر مسند نبی نہ نشست [۲] علامہ اقبال نے مدیر معارف مولانا سید سلیمان ندوی کے نام متعدد خطوط لکھے جن کی تعداد ستر ہے۔ معارف نے اقبال کے جو خطوط شائع کئے ہیں ان کی تعداد ۶۲ ہے۔ یہ خطوط معارف میں اپریل ۱۹۵۴ء سے مارچ ۱۹۵۵ء کے درمیان شائع ہوئے ہیں، اس کے بعد دارالمصنّفین نے مشاہیر کے خطوط میں انھیں شامل کرکے شائع کیا۔ چونکہ اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ میں مولاناسید سلیمان ندوی کے نام ستر خطوط شامل تھے۔ اس لیے طاہرتونسوی نے اپنی کتاب اقبال اور سید سلیمان ندوی میں انھیں شامل کیا۔ وہ آٹھ خطوط دارالمصنّفین نے اپنے مجموعہ میں کیوں شامل نہیں کیے اب تک واضح نہیں ہو سکا۔ معارف میں اقبال کا ایک اہم خط جو نکلسن کے نام انگریزی میںلکھا گیا تھا اس کااردو ترجمہ اکتوبر ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا ہے۔ مترجم کا ذکر نہیں البتہ یہ اہم خط ڈکنسن کے اعتراضات کے جواب میں ہے۔ رموز بے خودی کے مطالعہ و جائزہ میں اس خط کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ اقبال نے اس میں متعدد وضاحتیں کی ہیں۔ [۳] معارف کے شذرات میں معارف کے مدیروں نے وقتاً فوقتاً علمی،ادبی اور تاریخی موضوعات پر مفید آراء و تجاویز پیش کی ہیں۔ اقبال کے سلسلے میں محض ایک تجویزکا ذکر جنوری ۱۹۲۲ء کے شذرات میں ملتا ہے۔ اس زمانے میں مسلم یونیورسٹی نے شہزادہ ولی عہد برطانیہ، گورنر صوبہ متحدہ ، ممبر تعلیمات حکومت ہند، مہاراجا گوالیار اور نواب صاحب رام پور کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے اس پر سخت تنقید کی اور مشورہ دیا کہ اصلاً اس اعزاز کے مستحق سید امیر علی، عماد الملک سید حسین بلگرامی، ڈاکٹر اقبال ، جسٹس عبدالرحیم اور عبدالحلیم شرر وغیرہ ہیں۔ دسمبر ۱۹۲۴ء میں مسلم یونیورسٹی نے سید امیر علی اور ڈاکٹر محمد اقبال کو اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تو اس پر جنوری ۱۹۲۵ء کے معارف میں مسرت کا اظہار کیا گیا کہ ابتداء ً معارف ہی نے یہ تجویز پیش کی تھی ۔ واضح رہے کہ جنوری ۱۹۲۵ء کے معارف کے شذرات مولانا عبدالسلام ندوی کے قلم سے ہیں۔ ۱۹۲۳ء میں ڈاکٹر اقبال کو ’’سر‘‘ کا خطاب ملا۔ معارف میں اس کا بھی ذکر ہے۔ [۴] افکار اقبال کے مطالعہ کا آغاز معارف کی ابتدائی جلدوں میں ہی ہو گیا تھا۔ اپریل ۱۹۱۸ء میں مولانا سید سلیمان ندوی نے رموز بے خودی پر تبصرہ کیاپھر نکلسن اور ڈکنسن کے مضامین کا اردو ترجمہ شائع کیا ۔’ خضر راہ‘ اور بعض دوسری نظموں پر مولانا سید سلیمان ندوی نے نوٹ لکھے اور یہ کوشش کی کہ اقبال کے افکار پر بحث و تحقیق کا آغاز ہو ۔ چنانچہ ان کی ان کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ خود اقبال نے وضاحتی و تشریحی خطوط مدیر معارف کو لکھے۔ یوں معارف کے ذریعے فکر وفلسفہ اقبال کے مطالعے کا ایک دور شروع ہوا۔ ماہنامہ معارف نے عہد سلیمانی سے لے کر اب تک اقبال کی سوانح، شاعرانہ عظمت اور ان کے فکر و فلسفہ پر سیکڑوں مضامین و مقالات شائع کیے ہیں ۔۵۰؎ خ خ خ حواشی و حوالہ جات ۱- طاہر تونسوی،اقبال اور مشاہیر۔اعتقاد پبلشنگ ہائوس، سوئیوالاں، دہلی، ص ۱۲۶۔ ۲- سید افتخار حسین شاہ، اقبال اور پیروی شبلی، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی ، ۱۹۷۸ئ،ص ۱۰-۱۱۔ ۳- مولوی عبدالرزاق کان پوری، شبلی معاصرین کی نظر میں، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ ، ۲۰۰۵ئ، ص ۷۶۔ ۴- مشاہیر کے خطوطبنام مولانا سید سلیمان ندوی،مطبوعہ دارالمصنّفین ،اعظم گڑھ، ص ۹۶۔ ۵- علامہ اقبال ، علم الاقتصاد،خادم التعلیم سٹیم پریس، لاہور،ص۷ ۔ ۶- بحوالہ اقبال اور مشاہیر، ص ۱۲۷۔ ۷- علامہ شبلی، سوانح مولانا روم، دارالمصنّفین ،اعظم گڑھ ، ۲۰۱۰ء ، ص ۸۱۔ ۸- اقبال اور مشاہیر، ص۲۷۔ ۹- خواجہ غلام الحسنین پانی پتی، مقدمہ فلسفۂ تعلیم، انسٹی ٹیوٹ پریس ،علی گڑھ، ۱۳۳۹ھ، طبع دوم، ص ۳-۴ ۔ ۱۰- بحوالہ اقبال اور پیروی شبلی، ص ۳۳۔ ۱۱- ضیاء الدین برنی، عظمت رفتہ، ادارہ علم و فن، کراچی، ۲۰۰۰ء ، ص۲۷۰۔ ۱۲- نسیم عباس چوہدری، اقبالیات اور قرۃالعین حیدر، اقبال اکادمی، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص ۳۷ ۔ ۱۳- سید افتخار حسین شاہ، اقبال اور پیروی شبلی، ص ۴۲ ۔ ۱۴۔ مولانا سید سلیمان ندوی، یاد رفتگاں، دارالمصنّفین ، اعظم گڑھ، ۱۹۹۳ء ، ص ۱۸۳۔ ۱۵- کلیات مکاتیب اقبال، حصہ اوّل، اردو اکادمی، دہلی ، ۱۹۹۱ئ، ص ۲۳۹ ۔ ۱۶- مشاہیر کے خطوط، ص ۹۹ ۔ ۱۷- ایضاً، ص ۱۳۲-۱۳۳۔ ۱۸- ایضاً، ص ۱۳۳ ۔ ۱۹- ایضاً، ص ۹۶ ۔ ۲۰- محمد حسن ،انٹر کالج میگزین، سہیل نمبر،جون پور، مرتبہ: نیاز احمد صدیقی،ص ۴۲۔ ۲۱- ماہنامہ، معارف، اعظم گڑھ ، جولائی ۱۹۵۰ئ، ص ۱۰ ۔ ۲۲- اقبال اور مشاہیر ، ص ۱۳۰۔ ۲۳۔ کلیات باقیات شعرِ اقبال، مرتبہ :صابر کلوروی، اقبال اکادمی، لاہور ،ص ۵۱۵۔ ۲۴- محمد الیاس الاعظمی، دارالمصنّفین کی تاریخی خدمات،خدا بخش اورینٹل پبلک لائبری، پٹنہ ،۲۰۰۲ء ۔ ۲۵- مولانا سید سلیمان ندوی، سیر افغانستان، نفیس اکیڈمی کراچی۔ ۱۹۴۵ئ، ص ۱۰،۲۹،۳۰ ،۸۱، ۱۲۸، ۱۲۹، ۱۷۸، ۱۸۰،۲۰۲-۲۰۳ وغیرہ ۔ ۲۶- مشاہیر کے خطوط، ص ۹۸ ۔ ۲۷- طاہر تونسوی، اقبال اور سید سلیمان ندوی، مکتبہ عالیہ، لاہور، ۱۹۷۷ء ، ص ۱۹۔ ۲۸- مشاہیر کے خطوط، ص ۱۳۴ ۔ ۲۹- ایضاً، ص ۱۱۲ ۔ ۳۰- ایضاً، ص ۱۳۹ ۔ ۳۱- ماہنامہ، معارف، اپریل ،۱۹۱۸ء ۔ ۳۲- مشاہیر کے خطوط، ص ۹۸ ۔ ۳۳- ماہنامہ، معارف، مئی ۱۹۲۲ء ۔ ۳۴- سید سلیمان ندوی، یاد رفتگاں، ص ۱۸۱۔ ۳۵- ایضاً، ص ۱۸۲-۱۸۳۔ ۳۶- ایضاً، ص ۱۸۳ ۔ ۳۷۔ ایضاً، ص ۱۸۲۔ ۳۸- مولانا عبدالسلام ندوی، اقبال کامل، دارالمصنّفین ،اعظم گڑھ، ۲۰۱۰ء ۔ ۳۹- خلیفہ عبدالحکیم ، فکر اقبال ،ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۷۷ئ، ص ۱۴۔ ۴۰- مشاہیر کے خطوط، ص۱۲۴۔ ۴۱- ایضاً، ص۱۳۴۔ ۴۲- ماہنامہ، معارف ، جولائی تا ستمبر ۱۹۱۸ء ۔ ۴۳- مشاہیر کے خطوط، ص ۱۰۶ ۔ ۴۴- ماہنامہ، معارف، جنوری ۱۹۵۰ء ، ص ۴۳ ۔ ۴۵- ماہنامہ، معارف، اکتوبر ۱۹۷۱ء ۔ ص ۲۴۵ ۔ ۴۶- ماہنامہ، معارف، فروری ۱۹۸۴ء ۴۷- ماہنامہ معارف، نومبر ۱۹۸۱ء ۴۸- اقبال نامہ، حصہ اوّل، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ، ص۸۰۔ ۴۹- مشاہیر کے خطوط، ص ۱۱۸۔ ۵۰- مضمون نگار نے اقبالیات معارف کی فہرست منسلک کی ہے جس کے مطابق معارف میں اقبال پر ۱۵۸ مضامین، ۹۴ تبصرئہ کتب اور ۱۲ منظومات شائع ہوئیں۔ یہ فہرست قدرے جامعیت کے ساتھ ہمارے مجلے کی جنوری ۲۰۰۷ کی اشاعت میں شائع ہو چکی ہے،اس لیے مکرر یہ فہرست نہیں دی جا رہی ہے۔ (مدیر) خ خ خ حافظ اور اقبال ڈاکٹرعلی رضا طاہر حافظ ایک بلند پایہ عالم، عارف، حافظ قرآن، مفسر، عظیم شاعر اور نابغہ انسان گذرے ہیں۔ ان کے اشعار بہت اعلیٰ پائے کی عرفانی شاعری میں شمار کیے جاتے ہیں۔ حافظ کے حامی اور ناقد ہر دور میں رہے ہیں۔ حافظ کے مداح اس بات کے داعویدار ہیں کہ اُس نے تصوف میں بہت سے عملی مدارج طے کیے تھے۔ لوگ اُس کے دیوان سے فال نکالا کرتے تھے۔ مشرق و مغرب کے نامور شعراء حامی و ناقد، ہر دو نے حافظ کی شاعرانہ عظمت ، نکتہ آفرینی، دقتِ نظر، تخلیقی تخیل، بے مثل و منفرد اسلوب سخن اور مؤثر لہجے کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ برصغیرپاک و ہند کے نامور شعراء اور اساتذہ کے کلام میں حافظ کے رنگِ تغزل کی جھلک اور ان کے تخیل ، طرز سخن اور تراکیب و تشبیہات کا استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔ حافظ کی بلند خیالی اور معنی آفرینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعض نامور شخصیات نے حافظ کے صرف ایک شعر کی تشریح و تفسیر پر مکمل کتابیں تحریر کی ہیں۔ مثلاً نویں صدی ہجری کے نامور فلسفی، ماہر اخلاق اور عارف علامہ جلال الدین دوانی نے حافظ کے مندرجہ ذیل شعر پر ایک مکمل رسالہ تحریر کیا: پیر ما گفت خطا بر قلم صنع نرفت آفرین بر نظر پاک خطا پوشش باد۱؎ استاد سعید نفیسی کے مطابق: In the eighth/ fourteenth century Hafiz, the great immortal poet of Iran, while following the naturalist school which had reached its highest point of glory in Rumi's poetry (606/1200-691/1292) laid the foundation of impressionism in poetry.2 میر سید شریف ایران کے نامور مدرس، متکلم، فلسفی اور عارف تھے۔ اُن کے مطابق حافظ کی شاعری الہام، احادیث قدسی، حکیمانہ لطائف اور نکاتِ قرآنی سے مملو ہے۔ ۳؎ خواجہ حافظ اور علامہ اقبال کا شعری و فکری اشتراک اور اختلاف برصغیر پاک و ہند کی ادبی روایت کا ایک دلچسپ باب ہے ۔ علامہ اقبال جہاں حافظ کے ناقد ہیں وہیںحافظ کی لَے میں بات کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بقول:’’اقبال نے پیرایۂ بیان کی حد تک حافظ کا تتبع کیا اور شعوری طور پر رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘‘ ۴؎ اقبال کی اردو شاعری میں چار مقامات پر حافظ کے حوالے سے اقبال کا یہ نقطۂ نظر ملتا ہے: ۱- حافظ کے اشعار کو اپنے موقف کی تائید میں بطور تضمین استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۵؎ ۲- بانگ درا کی نظم ’’قربِ سلطان‘‘ میں اپنے موقف کی حمایت میں ’’مرشد شیراز‘‘ کا پیغام ذکر کرتے ہیں۔ ۶؎ ۳- بانگ درا کی نظم ’’ایک خط کے جواب میں‘‘ سلاطین کی محافل کو مردہ دلی کی علامتیں قرار دیتے ہوئے اپنے موقف کی تائید میں حافظ کا ایک شعر ذکر کرتے ہوئے حافظ کو ’’حافظ رنگیں نوا‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ۷؎ ۴- ضرب کلیم میں ’’ایجادِ معانی‘‘ کے عنوان کے تحت محنت پیہم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ’’میخانہ حافظ‘‘ کی تعمیر کے لیے ’’خونِ رگِ معمار‘‘ کی گرمی کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ ۸؎ ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۷ء اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں رہے۔اس دوران انھوں نے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ The Development of Metaphysics in Persia تحریر کیا۔اس تحقیقی مقالے کے باب پانچ میں علامہ اقبال ’’حقیقت کو بطور جمال‘‘ سمجھنے والے صوفیہ کے مکتب کی وضاحت کرتے ہوئے اُس دور میں نمو پانے والی تحریکوں کے تذکرے میں تیرھویں صدی عیسوی کی ایک تحریک ’’واحد محمود کا تکثیری رد عمل‘‘ کا تذکرہ کرتے ہیں اور اسی تحریک کے تسلسل میں حافظِ شیراز کا ذکر کرتے ہیں: Speaking from a purely philosophical standpoint, the last movement is most interesting. The history of thought illustrates the operation of certain general laws of progress which are true of the intellectual annals of different people. The German systems of monistic thought invoked the pluralism of Herbart; while the pantheism of Spinoza called forth the monadism of Leibniz. The operation of the same law led Wahid Mahmud to deny the truth of contemporary monism, and declare that reality is not one, but many, long before Leibniz he taught that the Universe is a combination of what he called "Afrad"__essential units, or simple atoms which have existed from all eternity, and are endowed with life. The law of the Universe is an ascending perfection of elemental matter, continually passing from lower to higher forms determined by the kind of food which the fundamental units assimilate. Each period of his cosmogony comprises 8,000 years, and after eight such periods the world is decomposed, and the units re-combine to construct a new universe. Wahid Mahmud succeeded in founding a sect which was cruelly persecuted, and finally stamped out of existence by Shah Abbas. It is said that the poet Hafiz of Shiraz believed in the tenets of this sect.9 اقبال تصوف پر ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے لیکن بوجوہ ایسا نہ کر سکے البتہ انھوں نے ابتدائی نوعیت کے نکات اپنی ڈائری میں تحریر کیے۔ ان نکات کو معروف محقق اور اقبال شناس صابر کلوروی نے مرتب کرکے تاریخ تصوف کے نام سے شائع کیا ہے۔ تاریخ تصوف کے باب ۵ کے نکات میں اقبال نے حافظ کے تقریباً آٹھ شعر نقل کیے ہیں۔ ان اشعار کے عنوانات ’’فضیلت عجم و عرب‘‘ ، ’’حقیقت گناہ‘‘،’’آئین حیات‘‘،’’تقدیر ‘‘،’’اسلامی بہشت حور و قصور‘‘ وغیرہ قائم کیے گئے ہیں۔ انھی اشعار میں حافظ کا وہ شعر بھی ہے جو ’’تقدیر پرستی‘‘ کے متعلق ہے اور جس کو بعدازاں دیگر باتوں کے ساتھ حافظ کی روش پر تنقید کے لیے اقبال نے بطور دلیل پیش کیا۔ وہ شعر درج ذیل ہے: در کوئے نیک نامی ما را گذر نہ دادند گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را۱۰؎ (کوچۂ نیک نامی میں کوئی ہمیں جانے نہیں دیتا ،اگر تجھے یہ پسند نہیں تو ، تو ہماری تقدیر بدل دے۔) باب ۵ ’’تصوف اور شاعری‘‘ کے نکات میں اقبال نے جو اشعار نقل کیے ہیں ان کے بیان سے پہلے اس کتاب کے مرتب پروفیسر صابر کلوروی نے یہ نوٹ دیا ہے:’’علامہ نے تصوف کے ضمن میں اپنے نظریات کی تائید میں صوفی شعراء کے چند اشعار بھی منتخب کیے تھے جو اس باب میں پیش کیے جا رہے ہیں۔‘‘۱۱؎ تاریخ تصوف کی تحریر میں اقبال کے پیش نظر کیا موقف تھا اور اس کا دورانیہ کیا بنتا ہے، اس پر تاریخ تصوف کے پیش گفتار میں ڈاکٹر محمد ریاض کی رائے سے راہنمائی ملتی ہے۔۱۲؎ تاریخ تصوف میں حافظ کے حوالے سے علامہ اقبال کے نقطۂ نظر کو مختصر الفاظ میں ناقدانہ کہا جا سکتا ہے جس میں وہ عامۃ الناس میں پیدا ہونے والی غفلت، تن آسانی اور راہبانی انداز کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ پیام مشرق کے دیباچے میں اقبال نے دیگر عجمی شعراء کے ساتھ حافظ کا ذکر بھی کیا ہے۔ دیباچے میں جتنے مقامات پر بھی حافظ کا ذکر ہوا ہے وہ سب تو صیفی انداز میں ہے۔ جرمن ادبیات میں مشرقی تحریک کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے نامور جرمن شعراء گوئٹے ، فان ہیمر، ڈومر، ہرمن سٹال، لوشکے، سٹائگ لٹز، لنٹ ہولڈ اور فان شاک وغیرہ پر حافظ کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔۱۳؎ پیام مشرق کے دیباچے میں اقبال نے گوئٹے کے سوانح نگار بیل سو شکی کا یہ اقتباس نقل کیا ہے: بلبل شیراز کی نغمہ پر دازیوں میں گوئٹے کو اپنی ہی تصویر نظر آتی تھی۔ اُس کو کبھی کبھی یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ شاید میری روح ہی حافظ کے پیکر میں رہ کر مشرق کی سر زمین میں زندگی بسر کر چکی ہے۔ وہی زمینی مسرت وہی آسمانی محبت، وہی سادگی، وہی عمق، وہی جوش و حرارت، وہی وسعتِ مشرب، وہی کشادہ دلی اور وہی قیود و رسوم سے آزادی، غرضیکہ ہر بات میں ہم اُسے حافظ کا مثیل پاتے ہیں۔ جس طرح حافظ لسان الغیب و ترجمان اسرار ہے اسی طرح گوئٹے بھی ہے اور جس طرح حافظ کے بظاہر سادہ الفاظ میں ایک جہانِ معنی آباد ہے اسی طرح گوئٹے کے بے ساختہ پن میں بھی حقائق و اسرار جلوہ افروز ہیں۔ دونوں نے امیر و غریب سے خراجِ تحسین وصول کیا۔ دونوں نے اپنے اپنے وقت کے عظیم الشان فاتحوں کو اپنی شخصیات سے متاثر کیا (یعنی حافظ نے تیمور کو اور گوئٹے نے نپولین کو) اور دونوں عام تباہی اور بربادی کے زمانے میں طبیعت کے اندرونی اطمینان و سکون کو محفوظ رکھ کر اپنی قدیم ترنم ریزی جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔۱۴؎ خواجہ حافظ کے گوئٹے اور جرمنی کی مشرقی تحریک پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: ۱۸۱۲ء میں فان ہیمر نے خواجہ حافظ کے دیوان کا پورا ترجمہ شائع کیا اور اسی ترجمے کی اشاعت سے جرمن ادبیات میں مشرقی تحریک کا آغاز ہوا۔ گوئٹے کی عمر اس وقت ۶۵ سال کی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا جب کہ جرمن قوم کا انحطاط ہر پہلو سے انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ ملک کی سیاسی تحریکوں میں عملی حصہ لینے کے لیے گوئٹے کی فطرت موزوں نہ تھی اور یورپ کی عام ہنگامہ آرائیوں سے بیزار ہو کر اُس کی بے تاب اور بلند پرواز روح نے مشرقی فضا کے امن و سکون میں اپنے لیے ایک نشیمن تلاش کر لیا۔ حافظ کے ترنم نے اس کے تخیلات میں ایک ہیجان عظیم برپا کر دیا جس نے آخر کار ’’مغربی دیوان‘‘ کی ایک پائیدار اور مستقل صورت اختیار کر لی مگر فان ہیمر کا ترجمہ گوئٹے کے لیے محض ایک محرک ہی نہ تھا بلکہ اس کے عجیب و غریب تخیلات کا ماخذ بھی تھا۔ بعض بعض جگہ اُس کی نظم خواجہ کے اشعار کا آزاد ترجمہ معلوم ہوتی ہے۔۱۵؎ پیام مشرق کی اشاعت ۱۹۲۳ء میں ہوئی ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اقبال یورپ سے واپسی کے بعد اسرار خودی اور رموز بے خودی شائع کر چکے تھے اور حافظ کے حوالے سے اسرار خودی کے اشعار پر جو علمی ہنگامہ شروع ہوا تھا وہ بھی خاصا سرد پڑ چکا تھا۔ اس سے قبل اقبال کی اس مسئلے پر خواجہ حسن نظامی سے خط کتابت اور وکیل امرتسر میں مضامین کی اشاعت بھی ہو چکی تھی۔ اس تمام معاملے سے ہمیں اس بات کی طرف راہنمائی ملتی ہے کہ اقبال جہاں کہیں جوہر دیکھتے ہیں اس کی ستائش کرتے ہیں اور وہ جس ستائش اور توجہ کے قابل ہوتا ہے اتنا ہی سراہتے ہیں جیسا کہ گذشتہ سطور میں حافظ اور گوئٹے کے بیان میں ہم حافظ کے بارے میں اقبال کے نقطۂ نظر کو پڑھ آئے ہیں۔ اقبال ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے تو وہاں مس بیک (لندن) کے ہاں عطیہ بیگم کے ساتھ اقبال کی پہلی ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات میں دیگر موضوعات کے علاوہ جب حافظ کے متعلق باہمی گفت و شنید ہوئی تو اقبال نے حافظ کے متعلق اپنی رائے کا ان الفاظ میں اظہار کیا:’’جب میرا ذوق جوش پر آتا ہے تو حافظ کی روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں۔‘‘۱۶؎ اس زمانے میں عطیہ بیگم سے اقبال کی ملاقاتوں کے دوران، حافظ کے تذکرے اور ان کے خوبصورت اشعار کے برجستہ اور برمحل استعمال کے متعلق کئی شواہد ملتے ہیں۔۱۷؎ اقبال نے یورپ سے واپسی کے بعد مختلف اوقات میں مختلف حوالوں سے جو خطوط لکھے ان میں بھی خواجہ حافظ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔سراج الدین پال کے نام ۱۰؍جولائی ۱۹۱۶ء کو اقبال کے محررہ ایک خط میں حافظ کے متعلق ان کے نقطۂ نظر کا خلاصہ یوں ملتا ہے: حافظ کی شاعری دور انحطاط کی شاعری ہے۔ دور انحطاط کی شاعری نے نہ صرف یہ کہ ملت کو تحرک و جہد مسلسل کی بجائے اضمحلال و سستی اور خود فراموشی کا درس دیا بلکہ شعائر اسلام کی وحدت الوجودی اساسات پر بظاہر دلفریب طریقوں سے تشریح کرکے اسلام کی ہر محمود شے کو مذموم بنا دیا جس کا لا محالہ نتیجہ یہ نکلا کہ ملت ذوق عمل سے محروم ہو گئی۔۱۸؎ سراج الدین پال کے نام اپنے دو خطوط محررہ ۱۶ اور ۱۹؍جولائی ۱۹۱۶ء میں انھیں حافظ کے متعلق مضمون لکھنے کے لیے اشارات دیتے ہوئے، حافظ کے متعلق لوگوں کی مختلف آراء ، بعض کے نزدیک ’’ولی کامل‘‘ اور بعض کے نزدیک اُس کا کلام پڑھنے والوں پر جنون طاری ہونے کا تذکرہ کرتے ہیں۔۱۹؎ اقبال نے اپنی فارسی مثنوی اسرار خودی میں جب خواجہ حافظ کی شاعری سے ملت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا تذکرہ کیا اور اُن کی شاعری کے نصب العین پر تنقید کی تو جہاں ہندوستان بھر سے دیگر بہت سے افراد نے اقبال کو مورد الزام ٹھہرایا وہاں اقبال کے مداح، دوست اور ممدوح خواجہ حسن نظامی نے بھی اقبال پر شدید نکتہ چینی کی۔ خواجہ حسن نظامی کی اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کے نام اپنے ۴؍فروری ۱۹۱۶ء کے ایک خط میں اقبال کہتے ہیں: میں تصوف کی تاریخ پر ایک مبسوط مضمون لکھ رہا ہوں جو ممکن ہے ایک کتاب بن جائے چونکہ خواجہ (حسن نظامی) نے عام طور پر اخباروں میں میری نسبت یہ مشہور کر دیا ہے کہ میں صوفیائے کرام سے بدظن ہوں اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف اور واضح کرنی ضروری ہے ورنہ اس طویل مضمون کے لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ چونکہ میں نے خواجہ حافظ پر اعتراض کیا ہے اس واسطے ان کا خیال ہے میں تحریک تصوف کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہوں۔۲۰؎ اکبر الٰہ آبادی کے نام ہی اپنے ۱۱؍جون ۱۹۱۸ء کے ایک خط میں خواجہ حافظ کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں نے خواجہ حافظ پر کہیں یہ الزام نہیں لگایا کہ اُن کے دیوان سے مے کشی بڑھ گئی میرا اعتراض حافظ پر بالکل اور نوعیت کا ہے۔ اسرار خودی میں جو کچھ لکھا گیا وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا،اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہے۔ خواجہ حافظ کی ولایت سے اس تنقید میں کوئی سروکار نہ تھا نہ اُن کی شخصیت سے، نہ اُن اشعار میں ’’مے‘‘ سے مراد وہ ’’مے‘‘ ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں بلکہ اس سے وہ حالت سکر (narcotic) مراد ہے جو حافظ کے کلام میں بحیثیت مجموعی پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ حافظ ولی اور عارف تصور کیے گئے ہیں اس واسطے اُن کی شاعرانہ حیثیت عوام نے بالکل ہی نظر انداز کر دی ہے اور میرے ریمارک تصوف اور ولایت پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھے گئے۔۲۱؎ حافظ محمد اسلم جیراجپوری کے نام اپنے ۷؍مئی ۱۹۱۹ء کے ایک خط میں بھی خواجہ حافظ پر اسرار خودی میں کی گئی تنقید کے حوالے سے اپنی پوزیشن یوں واضح کرتے ہیں: خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے اُن کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا اُس کے معتقدات سے سروکار نہ تھا مگر عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اُس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حُسن، حُسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں خواہ مضر، تو خواجہ دنیا کے بہترین شعراء میں سے ہیں ۔ بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور اُن کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔۲۲؎ علامہ اقبال نے ’’اسرار خودی اور تصوف ‘‘کے عنوان کے تحت ایک مضمون لکھا جو ۱۵؍جون ۱۹۱۶ء کے وکیل امرتسر میں شائع ہوا۔ یہ مضمون خاصا طویل ہے۔ اس میں اقبال نے حافظ کے بارے میں اپنے تفصیلی نقطۂ نظر کو بیان کیا۔ اس مضمون کے اہم نکات درج ذیل ہیں: ۱- خواجہ حافظ پر میری تنقید ہر دو اعتبار سے ہے : (۱) بحیثیت صوفی (۲) بحیثیت شاعر۔ ۲- بحیثیت صوفی اُن کا نصب العین یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں اور دوسروں میں اپنے اشعار کے ذریعے وہ حالت پیدا کریں جس کو تصوف کی اصطلاح میں حالت سکر کہتے ہیں۔ ۳- سکر کی حالت اسلامی تعلیم کا منشا نہیں ہے۔ ۴- ایک مسلمان قلب کی مستقل کیفیت بیداری ہے نہ کہ خواب یا سکر۔ ۵- کسی شاعر پر تنقید کے لیے اُس کے عام نصب العین کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ۶- شاعرانہ اعتبار سے حافظ اس قدر بلند ہیں کہ جو مقصد شعراء پوری غزل میں بھی حاصل نہیں کر سکتے خواجہ حافظ ایک لفظ میں حاصل کر لیتے ہیں۔ ۷- خواجہ کی شاعری کا جو نصب العین ہے وہ زندگی کے منافی ہے۔ زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتا ہے اور قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔ ۸- مجھے حافظ کی پرائیویٹ زندگی سے کوئی سروکار نہیں مجھے صرف اُس نصب العین پر تنقید کرنا مقصود ہے جو بحیثیت ایک صوفی شاعر ہونے کے اُن کے پیش نظر ہے۔۲۳؎ جب خواجہ حسن نظامی نے ۱۹۱۶ء میں اقبال کی مثنوی اسرار خودی (پہلا اڈیشن جس میں علامہ اقبال نے حافظ کے نام کے ساتھ اشعار لکھے اور اُس پر تنقید کی) پر اپنے اعتراضات ’’سر اسرار خودی‘‘ نامی مضمون کی صورت میں ۳۰؍جنوری ۱۹۱۶ء کے خطیب میں شائع کیے تو اقبال نے بھی اسی عنوان (سرِ اسرار خودی) سے ایک مضمون لکھ کر خواجہ حسن نظامی کے اعتراضات کے جواب دیے۔ اقبال نے لکھا: ’’حافظ کے متعلق میرا عقیدہ یہ ہے کہ اُن کی شاعری نے مسلمانوں کے انحطاط میں بطور ایک عنصر کے کام کیا ہے۔‘‘۲۴؎ مثنوی اسرار خودی کے دوسر ے اڈیشن کے دیباچے میں اقبال لکھتے ہیں: اس مثنوی کی پہلی ایڈیشن ۱۹۱۵ء میںشائع ہوئی تھی۔ اس دوسری ایڈیشن میں جو اَب ناظرین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے بعض جگہ لفظی ترمیم ہے بعض جگہ اشعار کی ترکیب میں فرق ہے اور ایک آدھ جگہ تشریح مطالب کے لیے اشعار کا اضافہ ہے لیکن سب سے بڑی ترمیم یہ ہے کہ اس ایڈیشن سے وہ اشعار خارج کر دیے گئے ہیں جو خواجہ حافظ پر لکھے گئے تھے۔ اگرچہ اُن سے محض ایک ادبی نصب العین کی تنقید مقصود تھی اور خواجہ حافظ کی شخصیت سے کوئی سروکار نہ تھا تاہم اس خیال سے کہ یہ طرز زبان اکثر احباب کو ناگوار ہے میں نے اُن اشعار کو نکال کر اُن کی جگہ نئے اشعار لکھ دیے ہیں جن میں اس اصول پر بحث کی ہے جس کی رو سے میرے نزدیک کسی قوم کے لٹریچر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا چاہیے۔ پہلے ایڈیشن کے اردو دیباچے کی اشاعت بھی ضروری نہیں سمجھی گئی۔۲۵؎ حافظ اور مولانا روم سے اقبال کے قرب و اشتراک اور اکتساب کو ڈاکٹر یوسف حسین خاں یوں بیان کرتے ہیں: حافظ کے تغزل میں حسنِ ادا اور ہیئت اپنی معراج کو پہنچ گئی جس کی مثال فارسی اور اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ بلاشبہ مولانا روم کو طرز ادا اور ہیئت میں وہ بلند مقام نہیںملا جو حافظ کو حاصل ہے۔ مولانا روم کے معانی اور موضوع نہایت بلند اور اخلاقی افادیت کے حامل ہیں لیکن، اُن کی مثنوی اور غزلیات جو شمس تبریز کے دیوان میں شامل ہیں، ڈھیلی ڈھالی اور ناہموار زبان میں پیش کی گئی ہیں۔ اُن کے کلام کی ہیئت حافظ کے مقابلے میں جاذب نظر نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے برعکس اقبال کا پیرایۂ بیان مولانا روم کے مقابلے میں حُسنِ ادا کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اقبال نے پیرایۂ بیان کی حد تک حافظ کا تتبع کیا اور شعوری طور پر رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کی۔۲۶؎ حافظ اور اقبال کے قرب و بُعد کی اس داستان کو مزید یوں آگے بڑھایا جا سکتا ہے کہ ’’حافظ اور اقبال دونوں کے یہاں عشق فنی محرک ہے۔ حافظ کا عشق مجاز و حقیقت کا ہے اور اقبال کا مقصدیت کا۔‘‘۲۷؎ دونوں اپنے اپنے عہد کے انتشار و زوال پر دل گرفتہ تھے مگر ’’اقبال کی تنقید کا نشانہ مغربی سامراج تھا اور حافظ کی تنقید کا رُخ اُن کی طرف تھا جو دین و تمدن کی پیشوائی کے دعوے دار تھے اور اپنے اخلاقی عیوب کو ریا کاری کے لبادے میں چھپاتے تھے۔۲۸؎ ’’دونوں کا جمالیاتی تجربہ جذبہ و وجدان سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔۲۹؎ دونوں کے یہاں اور خاص کر حافظ کے یہاں ہیئت، موضوع اور جذبہ شیر و شکر ہیں‘‘۔۳۰؎ ڈاکٹر یوسف حسین خاں اپنی کتاب حافظ اور اقبال کے دیباچے میں کہتے ہیں: بہت سے امور میں حافظ اور اقبال میں مماثلت ہے اگرچہ شروع میں اقبال نے حافظ پر تنقید کی تھی لیکن بعد میں اُس نے محسوس کیا کہ اپنی مقصدیت کو مؤثر بنانے کے لیے حافظ کا پیرایۂ بیان اختیار کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ اُس نے حافظ کے طرز و اسلوب کا شعوری طور پر تتبع کیا اور بعض اوقات جیسا کہ اُس نے کہا ہے اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ حافظ کی روح اُس میں حلول کر آئی ہو یہی وجہ ہے کہ طرز و اسلوب میں وہ حافظ سے بہت قریب ہے۔۳۱؎ اس حوالے سے مذکو رہ بالا کتاب کے ابواب چہارم اور پنجم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ باب ۴ ’’حافظ اور اقبال میں مماثلت اور اختلاف‘‘کے زیر عنوان ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے تقریباً ۴۰ کے قریب موضوعات اور تراکیب کا ذکر کیا ہے جن کے استعمال و انتخاب میں دونوں میں اشتراک ہے اور پھر خلاّقی طبع کے باعث جہاں ان دونوں میں اختلافِ نظر ہے اُس کو بھی بیان کیا ہے۔ اسی طرح باب ۵ ’’محاسن کلام‘‘ میں مصنف نے کلام اور ادب کی ان اصناف و صنائع کو بیان کیا ہے جن کے استعمال میں دونوں مشترک ہیں۔ پروفیسر مرزا محمد منور کی کتاب علامہ اقبال کی فارسی غزل کے ’’مقدمہ‘‘ میں ڈاکٹر محمد صدیق شبلی رقمطراز ہیں: اس کتاب میں حافظ و اقبال کی تقریباً دو درجن ہم زمین و ہم طرح غزلیں دی گئی ہیں۔ پیام مشرق کی وہ غزلیں اس کے علاوہ ہیں جو حافظ کے رنگ و اسلوب میں ہیں بلکہ ’’مئے باقی‘‘ کا عنوان بھی حافظ ہی سے ماخوذ ہے۔ ضرب کلیم ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی اس میں ’’ایجاد معانی‘‘ کے زیر عنوان ایک نظم میں حافظ کے فنی کمال کا ذکر تعریفی انداز میں آیا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود علامہ اقبال اور خواجہ حافظ کے راستے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس سے قارئین اقبال کو تھوڑی سی الجھن ضرور ہوتی ہے کہ علامہ اقبال خود کلام حافظ سے اس قدر متاثر ہیںلیکن دوسروں کو اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ حافظ فارسی غزل کا نقطۂ کمال ہیں اور علامہ اقبال حافظ کے اس مرتبے کو تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے حافظ کے طرز و اسلوب کی تعریف بھی کی ہے اور تقلید بھی لیکن جہاں تک حافظ کے افکار کا تعلق ہے ابتدائی زمانے کو چھوڑ کر علامہ اقبال نے کہیںاُن کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا۔ حافظ کی غزل کو علامہ اقبال حسن بیان کا معجزہ ضرور جانتے ہیں لیکن اقبال صرف شاعر نہیں حکیم الامت بھی تھے۔ شاعر اقبال تو حافظ کے زیر اثر رہے مگر حکیم الامت، اُمت کے وسیع تر مفاد میں حافظ کے ساتھ نہیں چل سکے۔۳۲؎ علامہ اقبال کا حافظ پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ حافظ کے اشعار تحریک کے منافی ہیں، افراد و اقوام کو قوتِ عمل سے محروم کرتے ہیں،جدوجہد کے عزم کو کمزور کرنے کا رجحان پیدا کرتے ہیں جس سے اسلامی تہذیب کی بنیادیں متزلزل ہونے کا سامان پیدا ہوتا ہے۔اس حوالے سے پروفیسر مرزا محمد منور نہایت خوب صورتی کے ساتھ حافظ کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں : علامہ اقبال نے حضرت حافظ کو اسرار خودی کی اشاعت سے قبل اور بعد بھی زوروں کی داد دی۔ اختلاف کی بنا مختلف تھی اور وہ خواجہ حافظ کے اشعار کا سطحی المزاج اور زوال پذیر افراد معاشرہ کے قلوب و اذہان پر منفی اثر تھا۔ عوام عموماً ظاہر پرست واقع ہوئے ہیں۔ وہ رمز و ایما کی گہرائیوں میں اترنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے۔ لہٰذا اکثر اوقات وہ شاعر کے اصل مقصود سے دور جا پڑتے ہیں۔علامہ اقبال نے قوم میں مقاومت کی روح پیدا کرنی چاہی اور جلترنگ کے بدلے لہو ترنگ اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ وہ زجاج کو حریفِ سنگ بنانا چاہتے تھے۔ ایسے عالم میں خانقاہوں اور زاویوں میں اورمنبروں پر خواجہ کے ایسے خاص اشعار کی تلحین اور قوالی جو حالات سے نبردآزما ہونے کی تعلیم دینے کے بجائے حالات سے ساز باز کرنے اور قانع ہو رہنے کی ترغیب دے، علامہ اقبال کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔۳۳؎ اس ساری صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتیں پیش نظر رکھنی چاہییں: ۱- حافظ کے دیوان سے اشعار کا انتخاب کرنے والے لوگ کون تھے؟ ان کی سطحِ فکر کیا تھی؟ نیز ان کے مقاصد کیا تھے؟ ۲- دیوانِ حافظ میں زندگی آموز اور انقلاب آفریں غزلیں موجود ہیں جو سامنے نہیں لائی گئیں۔ ۳- حافظ کے اشعار کا سیاق و سباق، ماحول، پس منظر و پیش منظر نیز سن تحریر موجود نہ ہونا جس سے منشائے شاعر تک راہنمائی ہو سکے۔ ۴- حافظ کے مفصل حالات، سوانح حیات، ملفوظات اور مکتوبات وغیرہ کا مہیانہ ہونا، جن کی روشنی میں اُس کے کلام نیز استعارات و تشبیہات ، نکات و اصطلاحات اور رموز و علائم کی حقیقی روح کو سمجھا جا سکے۔ مرزا صاحب کے نزدیک یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے حافظ کے کلام، اُس کی شخصیت اور اُس کے ادبی مقاصد کے حوالے سے اشتباہات پیدا ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مرزا محمد منور نے کلام اقبال اور کلام حافظ کی کئی حوالوں سے صوری، صوتی، ترکیبی، ہیئتی اور فنی مشابہتوں کا نہایت عمدگی سے ذکر کیا ہے۔اس ضمن میں وہ خلیفہ عبدالحکیم کی رائے ذکر کرنے کے بعد اُس کا نہایت متوازن تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں: اس اعتبار سے خلیفہ عبدالحکیم صاحب کی یہ رائے حقیقت سے کوئی زیادہ بعید نہیں معلوم ہوتی کہ اقبال کی کئی فارسی غزلیں ایسی ہیں کہ اگر اُن کو دیوان حافظ میں داخل کر دیا جائے تو پڑھنے والے حافظ کے کلام سے اُن کا امتیاز نہ کر سکیں۔۳۴؎ خلیفہ عبدالحکیم کی اس رائے میں مرزا صاحب یوں ترمیم و اضافہ کرتے ہیں: میں خلیفہ صاحب کے بیان میں اتنی تبدیلی ضرور چاہوں گا کہ کئی فارسی غزلیں ایسی ہیں جن کے بیشتر اشعار کو دیوانِ حافظ میں شامل کیا جا سکتا ہے پوری کی پوری غزلیں دیوان حافظ میں نہیں سما سکتیں اس لیے کہ شاید ہی کوئی غزل ایسی ہو جو ایک آدھ خالص ’’اقبالی‘‘ مضامین کی مالک نہ ہو۔۳۵؎ ڈاکٹر انماری شمل The Genius of Shiraz: Sadi and Hafiz میں کلام حافظ کے حوالے سے پیدا ہونے والے اشتباہات کے ضمن میں یوں اظہار نظر کرتی ہیں: Hafiz is not a romantic poet, it is the clear-cut, polished quality of his verse that is so fascinating, and at the same time so difficult to assess for a Western reader who is used, at least from the eighteenth century, to Erlebnis-Kyrik that is, the poetry that translates a real experience of the writer into verse ----- and who no longer understands the "learned", and intellectual character of most of Persian poetry in which many sentiments are filtered, as it were, through the mind until one perfect line contains their quintessence.36 حافظ کے کلام کے معانی اور تفسیر و تشریح کے حوالے سے پیدا ہونے والے اشتباہات اور غلط فہمیوں کا مستند دلائل کے ساتھ نہایت عمدہ محاکمہمحمد سہیل عمر نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔اُنھوں نے یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ حافظ کی تفہیم کے سلسلے میں اقبال کے اپنے ذرائع کیا تھے۔ اس سلسلے میں محمد سہیل عمر نے مندرجہ ذیل اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے: ۱- اقبال نے کلام حافظ کی بلاوسطہ تفہیم کی۔ ۲- اقبال نے دیوان حافظ کے مختلف تراجم کے ذریعے اُس کے کلام کی تفہیم کی۔ ۳- کلام حافظ کے مترجمین میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جنھوں نے کلام حافظ کی تشریح انتہائی سطحی اور عامیانہ انداز سے کی اور اُس کے اشعار میں استعمال ہونے والے رموز و ایما کو انتہائی سطحی انداز سے لیا۔ ۴- ترک روایت میں "Sudi" ایسے ہی شارحین حافظ میں سے ہے۔(علامہ اقبال کے خطوط میں "Sudi" کے ترجمۂ دیوان حافظ اور پھر اُس کے ترجمہ کے جرمن زبان میں منتقل ہونے کا ذکر موجود ہے) ۵- Joseph Von Hammer-Purgstalls کا دیوانِ حافظ کو جرمن زبان میں ترجمہ کرنا اور انیسویں صدی کے اوسط درجے کے جرمن شعراء کا حافظ کے اشعار و تراکیب اور نام کو اپنی سطحی فکر اور تفہیم کے لیے استعمال کرنا۔۳۷؎ ان مباحث کو سمیٹتے ہوئے محمد سہیل عمر لکھتے ہیں: In view of the foregoing facts, are we justified to feel ourselves inclined to find here traces of an unconcious influence of J.Von Hammer--Purgstall at work, carried over from his stay in Germany? It is hard to believe but there remains the possibility of these background influences that might have surfaced during his quest for identifying the causes of our decline in a concrete manner.38 ان نکات کی روشنی میں ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ حافظ کے حوالے سے علامہ اقبال کی آراء کا جائزہ لیتے وقت جہاں ہمیں اُن کے کلام حافظ کے بلاواسطہ مطالعے کے پہلو کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے وہیں اُن کے بالواسطہ مطالعے و تفہیم (Sudi کا ترجمہ و شرح اور جرمنی میں ترجمے کی روایت) کے پہلو کو بھی ضرور زیر بحث لانا چاہیے۔ بہرحال حافظ کی شاعری کو جیسے بھی سمجھا جائے، اُس کے مترجمین اُس کو جس بھی رنگ میں آگے منتقل کریں، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مشرق و مغرب کی اعلیٰ شاعری اور نامور شعراء پر خواجہ حافظ کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ آٹھویں صدی ہجری؍چودھویں صدی عیسوی کے بعد کی ایرانی فارسی شاعری ہو یا برصغیر پاک و ہند کی فارسی اور اردو شاعری، اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی میں جرمن شعر و فکر کا مجدد گوئٹے ہو یا بیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کے شعر و فلسفہ و الٰہیات کا مغز متفکر اقبال، کسی نہ کسی رنگ میں چمنستان حافظ کے گل چیں نظر آتے ہیں۔ خخخ حواشی وحوالہ جات ۱- مرتضیٰ مطہری، خدماتِ متقابل اسلام و ایران، انتشارات صدرا، تہران، ۱۳۴۲، ص ۴۴۰۔ 2- M.M.Sharif (ed), A History of Muslim phylosophy, Vol-II, Royal Book Company, Karachi, 1983, p.105. ۳- مرتضیٰ مطہری، خدماتِ متقابل اسلام و ایران،ص۵۷۵۔ ۴- اقبالیات کے سو سال (منتخب مضامین)، مرتبین: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر، ڈاکٹر وحید عشرت، اکادمی ادبیات، اسلام آباد، ۲۰۰۲، ص ۸۹۱۔ ۵- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال(اردو)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص ۲۸۸۔ ۶- ایضاً ،ص ۲۱۰۔ ۷- ایضاً ،ص ۲۳۹۔ ۸- ایضاً ،ص ۵۹۵۔ 9- Allama Muhammad Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia, Bazam-e-Iqbal, Lahore,1964, p.92. ۱۰- علامہ محمد اقبال، تاریخ تصوف، مرتبہ: صابر کلوروی، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۱۰۵-۱۰۸۔ ۱۱- ایضاً ، ص ۱۰۵۔ ۱۲- ایضاً ، ص ۱۲۔ ۱۳- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی) ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۱۷۸-۱۸۱۔ ۱۴- ایضاً ، ص ۱۷۹۔ ۱۵- ایضاً ، ص ۱۷۸-۱۷۹۔ ۱۶- علامہ محمد اقبال، اقبال نامہ، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، حصہ دوم، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۵۱ئ، ص ۱۰۶۔ ۱۷- ایضاً،ص ۱۰۸۔ ۱۸- ایضاً،ص ۳۴۔ ۱۹- ایضاً،ص۳۸، ۴۸۔ ۲۰- ایضاً،ص ۵۱-۵۲۔ ۲۱- ایضاً،ص۵۴۔ ۲۲- ایضاً،ص۵۲-۵۳۔ ۲۳- علامہ محمد اقبال، مقالات اقبال، مرتبہ : سید عبدالواحد معینی، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۶۳ئ، ص ۱۶۴-۱۶۸۔ ۲۴- ایضاً ، ص ۱۷۳۔ ۲۵- ایضاً ، ص ۱۹۳۔ ۲۶- اقبالیات کے سو سال، ص ۸۹۱۔ ۲۷- ایضاً ، ص ۸۸۵۔ ۲۸- ایضاً ، ص ۸۸۷۔ ۲۹- ایضاً ، ص ۸۸۸۔ ۳۰- ایضاً ۔ ۳۱- یوسف حسین خاں، حافظ اور اقبال، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ۱۹۷۶ئ، ص ۷۔ ۳۲- پروفیسر محمد منور مرزا، علامہ اقبال کی فارسی غزل گوئی(دیباچہ از ڈاکٹر صدیق شبلی) ایوان اردو، نارتھ ناظم آباد کراچی، ۱۹۷۷ئ، ص ۱۳-۱۴۔ ۳۳- ایضاً ، ص ۶۲۔ ۳۴- ایضاً ، ص ۵۹۔ ۳۵- ایضاً ، ص ۵۸۔ 36- A. Schimmel, The Genius of Shiraz..... In Persian Literature, Ed. Ehsan Yarshater, State University of N.Y. Press, Albany; 1998, p. 224. 37- Muhammad Suheyl Umar,"Contours of Ambivalence: Ibn Arabi and Iqbal---Historical Perspective" part III, Iqbal Review, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1994, p. 47-51. 38- Ibid, p. 49. خخخ علامہ اقبال اورمولانا عبدالمجید سالک ڈاکٹر محمد سلیم علامہ محمداقبال نابغۂ روزگاراورہمہ گیرشخصیت تھے۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم مسلم مفکر، شاعرِ مشرق اورصاحب بصیرت سیاسی رہنما تھے۔ قدرت نے ان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ تاریخ کے اوراق ان کی بصیرت ، فراست ، معاملہ فہمی اور دور اندیشی نیز قوم سے ان کی خیر خواہی کی روشنی سے جگمگارہے ہیں۔ ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ شاعر مشرق اور مفکر اسلام تو تھے لیکن زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو ان کے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے بلکہ سیاست میںبھی بھر پور حصہ لیتے رہے۔ درحقیقت سیاست ان کی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔ انھوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاداسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ مولانا عبدالمجید سالک ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ان کی نثرطنزو مزاح کے گلشن کا ایسا سدابہار پھول ہے جس کی خوشبوسے ساری فضا مہکتی ہے۔شوخی ان کا مزاج ہے۔و ہ بذلہ سنجی میں باکمال اور بے مثال تھے۔ ممتاز صحافی، فکاہات کی سلطنت کے بے باک حکمران، مترجم اورشاعربھی،لیکن ان کے کالم ’’افکار و حوادث‘‘ کی غیر معمولی شہرت سے ان کی باقی ادبی خوبیاں ثانوی حیثیت اختیار کرگئیں۔ ’’افکار و حوادث‘‘ میں شگفتگی ، سوچ کی انفرادیت اور زبان کی سادگی و سلاست کا امتزاج ان کی غیر معمولی ادبی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔البتہ سیاسی معاملات میںوہ صرف اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر رکھتے تھے اور کسی قسم کی اخلاقی قدروں کے پابند نہیں تھے۔ عبدالمجید سالک۱۳یا ۱۴دسمبر۱۸۹۴ء کو بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کانام (منشی) غلام قادر تھا۔ابتدائی تعلیم پٹھان کوٹ میں حاصل کی۔انھوں نے اپنی چند ابتدائی غزلیں ۱۹۱۰ء میں (عمر۱۶سال) مرزا داغ دہلوی کے ایک شاگردرسا رام پوری کو دکھائیں۔۱۹۱۲ء کے آغاز میں رسا کا انتقال ہو گیا۔اس کے بعد کسی اور سے اصلاح نہیں لی۔۲۲جون۱۹۱۱ء کو لندن میں شاہنشاہ جارج پنجم کی تاج پوشی ہوئی۔ اسی دن ہندوستان میں بھی جلسے ہوئے۔ تحصیلدار کی فرمائش پر اس سلسلے میںپٹھان کوٹ کے جلسے میں انھوں نے بھی ایک نظم پڑھی۔ ۱۰مئی۱۹۱۲ء کو ان کی شادی ہوگئی۔ اس وقت ان کی عمر ساڑھے سترہ سال تھی۔۱۹۱۵ء میں لاہورآئے اورمولوی سید ممتاز علی کے جرائد پھول اور تہذیبِ نسواںکے ایڈیٹربن گئے۔ ۱۹۲۰ء میں اخبار زمیندارسے منسلک ہوگئے۔۴؍نومبر۱۹۲۱ء کو تحریکِ عدم تعاون کے سلسلے میں گرفتار کرلیے گئے اور سال بھر جیل میں رہے۔نومبر۱۹۲۲ء میں رہا ہوکر پھر ادارہ زمیندار میں شامل ہوگئے۔ مولانا ظفر علی خاں سے اختلاف کی وجہ سے، وہ اور مولانا غلام رسول مہر،۱۹۲۷ء میں میندار سے الگ ہوگئے اوراپنا اخبار انقلاب جاری کیا جو پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے تک قائم رہا۔انھوں نے بہت سی کتابیں تصنیف و ترجمہ کی ہیں۔اپنی سوانح حیات سرگزشت کے نام سے لکھی ہے اورعلامہ اقبال کی سوانح حیات ذکرِ اقبال کے نام سے تحریر کی ہے۔۱؎ شفیع عقیل کے ساتھ ایک انٹرویو میں مولانا عبدالمجید سالک نے کہا:۲؎ فنونِ لطیفہ سے مجھے مصوری، موسیقی، سنگ تراشی کسی کا شوق نہیں رہا۔ شاعری کے ساتھ بھی یوں ہی سا تعلق رہا۔ صحافت ہر چیز پر غالب آگئی۔ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد دونوں نظم و نثر کے امام تھے۔ انھوں نے میرے ذوق پر بھی اثر ڈالا اور حسیات اسلامی کو بھی تقویت بخشی۔میں ادب میں جمود کا قائل نہیں۔ وہ۲۷؍دسمبر۱۹۵۹ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔۳؎ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:۴؎ ڈاکٹر اقبال سے تو روز بروز تعلقات بڑھ رہے تھے ۔ اگرچہ ۱۹۱۳ء میں بھی مَیں متعدد بار ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن اس کے بعد دو سال پٹھان کوٹ میںقیام کی وجہ سے انقطاع ہوگیا۔۱۹۱۵ء کے اواخر میں تجدید ہوئی اور خوب صحبتیں رہنے لگیں۔ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:۵؎ حضرتِ علامہ ۱۹۲۲ء میں انارکلی بازار کے بالا خانے سے اُٹھ کر میکلوڈ روڈ کی ایک پرانی کوٹھی میں منتقل ہوگئے۔ یہ کوٹھی پربھات سینما اور رتن سینما کے درمیان واقع تھی ۔راقم الحروف جب تحریکِ خلافت میں ایک سال کی قید کاٹ کر واپس آیا اور حسبِ عادت علامہ سے ملنے کے لیے انارکلی کو چلا تو احباب نے بتایا کہ وہ میکلوڈ روڈ کے فلاں مکان میں چلے گئے ہیں۔جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میکلوڈ روڈ سے اندر جاکر ایک فرسودہ مکان ہے اور دائیں ہاتھ اس مکان کا ایک چھوٹا سا ’’ضمیمہ‘‘ بھی ہے۔یہاں علی بخش بیٹھا تھا۔مجھے دیکھ کر اچھل پڑا اور جھٹ علامہ کو اطلاع دی۔میں اسی ’’ضمیمے‘‘ کے ایک کمرے میں جس کو علامہ نے اپنا دفتر بنا رکھا تھا، داخل ہوا ہی تھا کہ علامہ اپنے معمول کے خلاف اُٹھ کر لپکے اور مجھے سینے سے لگالیا۔اس کے بعد بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔مجھ سے جیل کی زندگی کی تفصیلات دریافت کیں اور یہ سن کر کہ وہاں صبح سے شام تک ایک ضبط و نظم کی شدید پابندی کرنی پڑتی ہے، فرمایا: الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافرکاغالباً یہی مطلب ہے۔جس طرح قیدی ہر کام مقررہ وقت پر انجام دیتا ہے، محنت مشقت میں مصروف رہتا ہے اور روکھی سوکھی کھا کر اور موٹا جھوٹا پہن کر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور ہمیشہ نیک نامی کے ساتھ جیل سے نجات پانے کی دعائیں کرتا ہے، اسی طرح مومن دنیا میں پابندی، محنت، سادگی، فرض شناسی کی زندگی بسر کرتا ہے، تعیش سے مجتنب رہتا ہے اور آبرو کے ساتھ اس تیرہ خاک داں سے رخصت ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے دربار میں حاضر ہونے کا خواہاں رہتا ہے۔کافر کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے اسی قسم کی بصیرت افروز باتیں ہوتی رہیں۔پھر میں نے عرض کیا : حضرت!کیا لاہور میں اس سے بہتر کوٹھی نہ ملتی تھی؟یہ تو بہت ہی پرانی ہے۔ ہنس کر فرمانے لگے:جی ہاں۱ یہ تو صرف میری دعاؤں کے سہارے کھڑی ہے ورنہ اس میں قائم رہنے کی کوئی بات باقی نہیں۔ ۱۹۲۷ء میں اصغر حسین خاں نظیر لدھیانوی نے ــ’’نذرِ اقبال‘‘ کے عنوان سے ایک فارسی نظم لکھی تھی جو ۲۴ستمبر۱۹۲۷ء کے روزنامہ انقلاب میں شائع ہوئی۔اس میں ایک شعر تھا: اے کہ سینا ذرّۂ از تابِ تو نعرۂ ارنی زنم بر بابِ تو (ترجمہـ:اے وہ کہ( کوہِ )سیناتیری تجلّی کاایک ذرّہ ہے،میں تیرے دروازے پر ارنی (اپنا جمال دکھا )کا نعرہ لگارہا ہوں۔) مدیر انقلاب نے یہ نظم شائع کرتے ہوئے یہ نوٹ لکھ دیا:’’ارنی کی را متحرک ہوتی ہے ، نہ جانے نظیر صاحب نے ساکن کیوں باندھی‘‘۔اس پر علامہ اقبال نے عبدالمجید سالک کویہ خط لکھاجو ۲۸؍ستمبر۱۹۲۷ء کے انقلاب میںچھپا: ڈیر سالک ٹیک چند بہار نے ابطالِ ضرورت میں رب ارنی پر مفصّل بحث کی ہے۔ افسوس اس وقت ابطالِ ضرورت کا کوئی نسخہ میرے پا س موجود نہیں۔ بہر حال یہ صحیح ہے کہ اساتذۂ عجم نے رب ارنی کی رائے ثانی کو بسکون بھی استعمال کیا ہے۔سالک لاہوری، سالک یزدی کا شعر ملاحظہ فرمائیں: مرغِ ارنی گو زشوقِ لن ترانی پرزند پیشِ موسیٰ خارخارِ وادی ایمن گل است (ترجمہ:ارنی کہنے والا پرندہ،شوقِ لن ترانی میں پھڑپھڑارہاہے، موسیٰ کے لیے وادی ایمن کا ہر ایک کانٹا پھول ہے۔) اصغر حسین صاحب کے شعر میں کوئی غلطی نہیں۔ والسلام محمد اقبال۶؎ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:۷؎ جب ڈاکٹر (اقبال)صاحب کی طبیعت ناساز ہوگئی تو انھوں نے اپنے معالج حکیم عبدالوہاب نابینا سے صرف ایک آم روزانہ کھانے کی اجازت حاصل کرلی۔ایک دن میں گیا تو ڈاکٹر صاحب کے سامنے ایک پلیٹ میں سیر بھر کا الفانسو(آم کی ایک قسم) پڑا تھا۔ میں نے کہا :آپ نے پھر بدپرہیزی شروع کردی۔ کہنے لگے: حکیم صاحب نے ایک آم روزانہ کی اجازت دے رکھی ہے۔ آخر یہ ایک آم ہی تو ہے!میں یہ لطیفہ سن کر دیر تک ہنستا رہا۔ عبدالمجید سالک رقم طراز ہیں:۸؎ (جب زمیندار سے علیحدہ ہوکر ہم نے اپنا اخبار نکالنے کا ارادہ کیاتو)ایک شام علامہ اقبال کے ہاں بیٹھے تھے کہ اخبار کا نام انقلاب تجویز ہوا اور علامہ نے اس کے پہلے پرچے کے صفحہ اول کے لیے نظم لکھی جس میں سرمایہ دار و مزدور کی کشمکش کا ذکر بھی کیاجو حقیقت میںانقلاب کے اجرا کا باعث ہوئی: خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب انقلاب، انقلاب، اے انقلاب حکومت برطانیہ اپنی سلطنت میں سیاسی‘ فوجی‘علمی‘ادبی خدمات کے لحاظ سے ہر سال خطابات عطا کرتی تھی۔ یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو حکومت نے علامہ اقبال کے علمی مقام کے پیش نظر انھیں سر کا خطاب دیا۔ لیکن مسلم عوام نے اسے پسند نہ کیا۔ ان کے دلوں میں اقبال کا جو مقام تھا وہ ایسے خطابات کا محتاج نہ تھا۔جاوید اقبال لکھتے ہیں۹؎ مولانا عبدالمجید سالک نے فور ی ردعمل کے طور پر چند اشعار بھی زمیندار میں شائع کردیے : لو مدرسۂ علم ہوا قصرِ حکومت افسوس کہ علامہ سے سر ہوگئے اقبال پہلے تو سرِ ملت بیضا کے وہ تھے تاج اب اور سنو تاج کے سر ہوگئے اقبال سر ہوگیا ترکوں کی شجاعت سے سمرنا سرکار کی تدبیر سے سر ہوگئے اقبال عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:۱۰؎ راقم الحروف نے جو اس سے دو ماہ قبل ترکِ موالات میں سال بھر کی قید کاٹ کر واپس آیا تھا ، زمیندارمیں چند اشعار شائع کیے اور ایک دو کالم ’’افکار و حوادث‘‘ کے بھی لکھ دیے۔وہ اشعار زبان زدِ عام ہو گئے۔ لیکن وہ ایک فوری جذبہ تھا۔اشعار چھپ جانے کے بعد راقم پر ندامت کا غلبہ ہوا اور چند ہفتے علامہ کی خدمت میں حاضری کی جرأت نہ کر سکا۔لیکن جب آخر ڈرتے ڈرتے حاضر ہوا تو علامہ کے طرزِ تپاک اور محبت آمیز سلوک میں کوئی فرق نہ آیا تھا بلکہ وہ شاکی تھے کہ اتنی مدت تک ملنے کیوں نہ آئے۔ علامہ کوخطاب ملنے پر ان کے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے انھیں لکھا کہ شاید اب آپ آزادی سے اپنے خیا لات کا اظہار نہ کر سکیں۔ اس پر علامہ اقبال نے یہ جواب تحریر کیا:۱۱؎ قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و بر تر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں‘ دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ انشا اللہ۔ اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اس کا دل مومن ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ خطاب حاصل کرنے کے بعد اقبال کی آزادیِ اظہار میں اضافہ ہی ہوا۔ اقبال کو سر کا خطاب ملنے پر ان کے دوست اور فارسی کے معروف شاعر گرامی نے انھیں لکھا:۱۲؎ ’’اقبال کو سر کا خطاب ملا۔ ایک جہان شور در سر ہے۔بے معنی شورہے۔ اس شور سے بوئے حسد آرہی ہے۔ گویاآپ کے سر نے خیرہ سروں کو سربہ زانو کردیا۔‘‘ پھریہ رباعی بھی کہی: ہر نکتۂ علامہ وفا آہنگ است ہر حرف کلید حکمت و فرہنگ است اقبال سر اقبال شد از جوہرِ علم حاسد عو عو کند علاجش سنگ است (ترجمہ: علامہ کا ہر نکتہ وفا سے ہم آہنگ ہے اور ہر حرف علم و حکمت کی کنجی ہے۔ اقبال اپنے جوہر علم کی بدولت سر اقبال ہوگئے۔ حاسد بھونکتا ہے تو اس کا علاج پتھر ہے۔) حزیں کاشمیری لکھتے ہیں:۱۳؎ روزنامہ انقلابکی پالیسی یونینسٹ نواز پالیسی تھی اور اُدھر سے ان کی مالی اعانت بھی ہوتی تھی۔یہ اخبار حکومتِ افغانستان کی ،جو اکثر و بیشتر پاکستان کے خلاف زہر اگلتی رہتی تھی، مدح سرائی بھی کرتا تھا ۔جب رفتہ رفتہ روزنامہ انقلاب کی مالی معاونت میں کمی آتی گئی تو دو تین بار شیخ مبارک علی نے بھی اس اخبار کی مالی معاونت کی۔ مولانا سالک جب کبھی دکان پر تشریف لاتے تو مجھ پر ان کے آنے کامقصدفی الفور واضح ہو جاتا۔ پھر ادھر ادھر سے بھی پتا چل جاتا کہ ان کے آنے کی غرض و غایت کیا تھی۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں:۱۴؎ اور باتوں کے علاوہ، ’’افکار و حوادث‘‘ میں کانگریس اور اس کے زعما پر پھبتیاں کسی جاتیں یا ان لوگوں پر چوٹیں ہوتیں جو کانگریس کے قریب اور سرکار کے حریف تھے۔انقلاب کے اس کردار کا دفاع نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا مزاج حکومت کے نزدیک رہا۔لیکن زبان کا ذائقہ جو اُن کے ہاں تھا اور کہیں بھی نہیں تھا۔وہ الفاظ سے مزاح کو پیدا نہیں کرتے تھے بلکہ ظرافت ان کے دماغ سے اگتی تھی۔ شورش کاشمیری یہ بھی لکھتے ہیں:۱۵؎ جب خواجہ ناظم الدین وزیرِ اعظم ہوئے، تو مجید ملک (پرنسپل انفرمیشن آفیسر) کی تحریک پر حکومت پاکستان کی وزارت اطلاعات سے منسلک ہو کر اٹھارہ سو روپے ماہوار پرکراچی چلے گئے۔(یاد رہے کہ ان دنوں یونیورسٹی لیکچرر کی تنخواہ تقریباً ۲۵۰روپے ماہوار تھی)۔ وہاں فرضی ناموں سے حکومت کی پالیسیوں کے حق میں مضامین لکھتے رہے۔ بعض سرکاری مطبوعات کے ترجمے کیے۔خواجہ ناظم الدین کی تقریریں لکھیں۔ملک غلام محمد کا زمانہ آیا تو اسی خدمت پر مامور رہے۔چارسال بعد وہاں سے لَوٹے۔شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک! سیدنذیرنیازی لکھتے ہیں:۱۶؎ ۶؍فروری۱۹۳۸ء کو نواب شاہنواز ممدوٹ تشریف لائے۔ میں نے دیکھا کہ باہر صحن میں حضرات سالک و مہر کھڑے ہیں جیسے کسی کا انتظار ہو۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں ایک گاڑی صحن میںداخل ہوئی اور نواب مظفر خاں، سید محمد علی جعفری، سید محسن شاہ اور دو ایک اور حضرات گاڑی سے نکل کر برآمدے میں داخل ہوئے۔معلوم ہوا کہ شہید گنج کے سلسلے میں اپیل کا مسئلہ مشورہ طلب ہے۔ حضرت علامہ اٹھے اور نشست گاہ میں تشریف لے گئے۔ اگلے دن ارشاد ہوا:کل یہ لوگ بہت دیر تک بیٹھے رہے۔ان کا خیال پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کا ہے۔ لیکن میں نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔میں نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں اس کے خلاف ہوں۔ اتنے میں چودھری (محمد حسین)صاحب آگئے۔وہ بڑے برافروختہ معلوم ہوتے تھے۔ السلام علیکم کے بعد انھوں نے انقلاب اور زمیندار تپائی پر رکھ دیے اور کہنے لگے:ذرا دیکھیے تو،انقلاب نے کیا خبر شائع کردی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کل کا مشورہ ایک چال تھا اور وہ یہ کہ جاوید منزل کی اس ملاقات کو جلسے کا نام دے کر یہ ظاہر کیا جائے کہ آپ بھی پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کے حق میں ہیں۔ اس پر حضرت علامہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے:ھذا بہتان عظیم۔فرمایا :چودھری صاحب! اس خبر کی فوراً تردید ہو جانی چاہیے۔ میں ہرگز اپیل کے حق میں نہیں ہوں۔اس میں کوئی شک نہیں یہ حضرات دیر تک بیٹھے آپس میں مشورہ کرتے رہے لیکن میں نے معذرت کردی تھی۔میں تو جلد ہی اٹھ کر پلنگ پر آلیٹا تھا۔ پھر جب یہ حضرات گئے تو اتنا ضرور کہتے گئے کہ ہماری رائے اپیل کرنے کی ہے۔لیکن میں نے مکرر اپنی رائے کا اظہار کردیا تھا کہ میں اس کے خلاف ہوں۔ حضرت علامہ نے بات ختم کی تو ہمارے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انقلاب اور زمیندارنے ایسی غلط بیانی کس لیے کی۔یہ بڑی غیر ذمہ داری کی بات تھی۔زمیندار کی طرف سے تو خیر کہا جاسکتا تھاکہ اسے جیسی اطلاع ملی شائع کردی لیکن انقلاب نے ایسا کیوں کیا؟مدیرانِ انقلاب تواس مشورے میں شامل تھے۔انھیں معلوم تھا کہ حضرت علامہ اپیل کے خلاف ہیں۔بالآخر طے پایا کہ جو ہوا سو ہوا، اب مصلحت یہ ہے کہ حضرت علامہ کی طرف سے فوراً ایک تردیدی بیان شائع کردیا جائے۔لہٰذامیں نے پھر قلم دان اٹھایا اور حضرت علامہ اور چودھری صاحب کے باہم مشورے سے ایک مختصر سا بیان لکھا۔بیان صاف ہوگیا تو حضرت علامہ نے مجھ سے فرمایا کہ آج ہی حضرات سالک و مہر سے ملوں اور ان سے کہہ دوں کہ اس خبر کی تردید شائع کردیں۔ حضرت علامہ کو رنج تھا کہ ان حضرات نے جو کل مشورے کے لیے آئے تھے، محض اپنی مصلحت جوئی اور مفاد پسندی کی خاطر ایک ایسی بات ان سے منسوب کردی جس پر انھوںنے ہرگز ہرگز رضامندی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ انھوں نے ایسی غلط بیانی کیوں کی؟اس جھوٹ سے فائدہ؟ حضرت علامہ بار بار فرماتے:’’افسوس ہے ایک تو اس فریق پر جو برسراقتدار ہے اور جس نے مسجد کو گرتے ہوئے دیکھا اور چپ چاپ خانۂ خدا کی بے حرمتی برداشت کی۔مگر پھر جب مسلمانوں کی غیرتِ ملّی نے جوش ماراتو اس نے بھی بہ تقاضائے مصلحت محسوس کیا کہ انہدامِ مسجد پر احتجاج لازم ہے اور عدالت کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔اب عدالت سے کورا جواب ملا ہے تو پریوی کونسل میں اپیل کی سوجھی ہے۔مطلب یہ ہے کہ وقت گزرتا جائے اور معاملہ ٹلتا رہے۔ دوسرے ان لوگوں پر جو ایک بیمار کے یہاں مشورے کے لیے آئے اور جنھوں نے یہ جانتے ہوئے کہ اس کی رائے اپیل کے خلاف ہے، یہاں تک کہ وہ ان کے مشورے میں شریک بھی نہیں ہوا، اعلان کردیا کہ وہ بھی اپیل کے حق میں ہے۔یہ بڑی لغو اور ناروا بات ہے۔سر تا سر جھوٹ اور اتہام۔ پھر ستم یہ ہے کہ انھوں نے اس ملاقات کو جو صرف نجی گفتگو تک محدود تھی باقاعدہ مشورے کا رنگ دے دیااور یوں مجھے دو گونہ ایذا دی جس کی ان سے ہرگز توقع نہیں تھی۔میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے۔ یہ کیسی بے دردی ہے! انھوں نے مجھ پر ظلم کیا اور اپنے اس فیصلے سے کہ اپیل کرنا چاہیے مسلمانوں پر بھی ظلم کر رہے ہیں۔ افسوس کہ جو لوگ مسلمانوں کی بہی خواہی کا دم بھرتے ہیں ان کے کردار میں دیانت ہے نہ صداقت۔آج کل کے دل سوز سے خالی ہیں۔ چونکہ مجھے حضرات سالک و مہر سے ملنا تھا،میں نے حضرت علامہ سے اجازت طلب کی۔ میں انقلاب کے دفتر پہنچا تو اول سالک مرحوم سے ملا ۔انھوں نے کہا:میرا تعلق ان معاملات سے نہیں۔ مہر صاحب سے ملیے۔(حالانکہ دونوں حضرات علامہ صاحب کے گھر گئے تھے اورسر سکندر حیات کے کہنے پر جھوٹی خبربنانے میں برابر کے شریک تھے)۔مہر صاحب سے ملا تو انھوں نے کہا:اچھا اگر حضرت علامہ اپیل کے حق میں نہیںہیںتو کیا ان کا ارادہ قانون شکنی کا ہے؟ میں نے کہاـ آپ کی اس بات کا جواب تو حضرت علامہ ہی دے سکتے ہیں۔ مجھے تو صرف اتنا کہنا ہے کہ یہ ان کا بیان ہے اور آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ اسے شائع کردیںتاکہ اس غلط خیال کا ازالہ ہوجائے کہ حضرت علامہ پریوی کونسل میں اپیل کرنے کے حق میں ہیں۔ پھر یہ بات آپ کے علم میں بھی ہے۔مہر صاحب نے کہا:یہ ٹھیک ہے کہ حضرت علامہ کی رائے اپیل کے خلاف ہے لیکن بیان کا شائع کرنا قرینِ مصلحت نہیں۔ میں واپس آگیا۔ اس سلسلے میں لطف کی بات یہ ہے کہ باوجود اپیل کا شاخسانہ کھڑا کرنے کے یونینسٹ پارٹی کے اربابِ حل و عقد نے اپیل دائر نہیں کی۔لہٰذا حضرت علامہ کا یہ کہنا کیا غلط تھا کہ ان لوگوں کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ وقت گزرتا رہے، یہ نہیں کہ کچھ کریں۔ میں جب دفتر انقلاب سے نکلا تو( انگریزی اخبار) ٹریبیون کا رخ کیا۔ حضرت علامہ کا ارشاد تھا کہ انگریزی میں بھی ان کے تردیدی بیان کی اشاعت ہو جانی چاہیے۔ اس زمانے میں ہمارے ترکِ موالات اور جامعہ کے ساتھی جنگ بہادر سنگھ ٹریبیون کے عملۂ ادارت میں شامل تھے۔ ٹریبیونتو یوں بھی اس بیان کی اشاعت کرتا لیکن مدیر مذکور کی وجہ سے اسے بڑی نمایاں جگہ دی گئی۔ دوسرے روز احساناور شاید زمیندار نے بھی تردید شائع کردی۔ شام کے قریب پھر (حضرت علامہ کے پاس) حاضر ہوا۔حضرات سالک ومہر سے ملاقات کی کیفیت بیان کی۔ عرض کیا کہ انھیں تردیدی بیان شائع کرنے سے انکار ہے۔وہ کہتے ہیں ایسا کرنا مناسب نہ ہوگا اور پھر ان سے ملاقات کی ساری کیفیت بیان کردی۔حضرت علامہ نے جیسے جیسے میرا بیان سنا، ان کی کبیدگی خاطر بڑھتی چلی گئی۔انھیں رنج تھا کہ مدیرانِ انقلاب نے باوجود دیرینہ روابط اور دعوٰی مودت کے ایک تردیدی بیان کیوں شائع نہیں کیا۔وہ ایک جھوٹ کو کیوں فروغ دے رہے ہیں۔ اگلے دن۸؍فروری کو جب حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہواتو انھیں اطمینان تھا کہ ٹریبیون میں اس کی اشاعت تمام و کمال ہوگئی، لہٰذا قوم کو اس باب میں کوئی غلط فہمی نہیں رہے گی۔ حضرت علامہ کی کبیدگی خاطر بھی بڑی حد تک دور ہوچکی تھی۔ سید نذیر نیازی لکھتے ہیں:۱۷؎ ۱۰؍مارچ کو سالک صاحب ،مہر صاحب آئے۔ حضرت علامہ کی خیریت مزاج دریافت کی۔لیگ، یونینسٹ پارٹی اور کانگریس کی سیاسی روش کے پیشِ نظر سرسری سی گفتگو ہوئی۔حضرت علامہ نے فرمایا مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے اوریہ اتحاد لیگ ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ ۲۱؍مارچ کو حضرت علامہ نے فرمایا:۱۸؎ صبح مہروسالک آئے تھے۔جب تک بیٹھے رہے ،یہی کوئی بیس پچیس منٹ، لیگ اور یونینسٹ پارٹی کی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے ان سے کہا:ہمارے مسائل کا حل صرف ایک ہے۔ یونینسٹ پارٹی توڑ دی جائے۔ لیگ جو متحدہ محاذ قائم کررہی ہے سب اس میں شامل ہوجائیں، سب اس کو تقویت پہنچائیں۔مسلمانوں کی زمامِ قیادت صرف لیگ کے ہاتھ میں رہے۔ ہمیں جناح سے بہتر کوئی آ ّدمی نہیںمل سکتا۔جناح ہی ہماری قیادت کے اہل ہیں۔ آپ نے نوٹ کیا کہ اپنی ساری باتوں کے باوجود ، علامہ اقبال کی فراخ دلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے،سالک و مہر نے چند ہفتے بعد ہی علامہ اقبال کے گھر جاکر ان سے گفتگو کرنے میں کسی قسم کی جھجک اور شرم محسوس نہیںکی!یعنی جو کچھ کیا تھا اس پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیںکیا۔ علامہ اقبال نے اپنی کشادہ دلی کی وجہ سے مولانا عبدالمجید سالک کو ان کی آمد پر ہمیشہ خوش آمدید کہا لیکن مولانا سالک نے علامہ اقبال کی زندگی کے آخری دنوں تک ان کی عظمت کوٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور اور اپنی حرکتوں کے باوجود علامہ اقبال کے گھر آنا جانا قائم رکھا تاکہ سر سکندر حیات کو ان کے بارے میں مسلسل اطلاع دیتے رہیں: ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو پتا نہیں علامہ اقبال نے’’ مخلص منافقین ‘‘کی اصطلاح کن کے لیے استعمال کی تھی؟ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:۱۹؎ علامہ آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ ترغیب دے رہے تھے کہ وہ اپنا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد کرے۔ لیکن علامہ کو ناکامی ہوئی اس لیے کہ سر سکندر حیات خاں حتی الوسع صوبے کو فرقہ وار کشیدگی کے مزید مظاہر سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے ہائی کمان کو سر سکندر نے اس امر کا قائل کرلیا کہ موجودہ فضا میں لیگ کا جلسہ لاہور میں نہ ہونا چاہیے۔چنانچہ ہائی کمان نے مقامِ اجلاس کلکتہ قرار دیاجہاں شہید گنج کی کوئی گونج تک سنائی نہ دے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں حقائق کو چھپانے میں مولانا عبدالمجید سالک نے کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کی۔ حقیقت میں ان کے سرپرست سر سکندر حیات نے ملک برکت علی کے توسط سے علامہ اقبال کی بیماری کابہانہ بناکران کی جگہ اپنے حواری نواب شاہنواز ممدوٹ کو پنجاب مسلم لیگ کا صدر بنا لیا تھا۔نواب ممدوٹ نے سر سکندر حیات کے حکم کی تعمیل میں آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ خط لکھا کہ مسلم لیگ کا جلسہ لاہور میں نہیں ہونا چاہیے۔جب پنجاب مسلم لیگ کا صدر یہ بات کہہ رہا ہو، توجلسہ لاہور میںکیسے ہوسکتا تھا؟ سر سکندر کے دفاع میں سالک ومہر سرتاپا دروغ گوئی کا حجاب اوڑھ لیتے تھے ۔ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:۲۰؎ علامہ اقبالؒ نے جس دن سے خارزارِ سیاست میں قدم رکھا، اپنے نصب العین کے معاملے میں ذرہ بھر مفاہمت بھی گوارا نہیں کی۔وہ اول و آخر ظاہرو باطن مسلمان تھے اور مسلمانوں کی جداگانہ ملّی حیثیت کے سوا اور کسی لائن پر سوچنے کے عادی ہی نہ تھے۔چنانچہ۱۹۲۶ء سے لے کر جب وہ پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوئے، تا دمِ آخر مسلمانوں کے ملّی مطالبات اور جداگانہ انتخاب کے حامی رہے۔ اس راستے پر اقبالؒکا قدم کبھی نہ ڈگمگایا۔ انھوں نے نہرو رپورٹ کی مخالفت کی، سائمن کمیشن سے تعاون کیا، آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے انعقاد کا بندوبست کیا، دونوں لیگوں کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے کوشش کی۔ ان تمام اقدامات کا مطلب صرف یہ تھا کہ مسلمان اپنی علیحدہ اور جداگانہ ملّی ہستی کو محفوظ کرنے کے لیے یک سو اور متحد ہو جائیں اور قومیتِ متحدہ کے دامِ فریب میں گرفتار نہ ہونے پائیں۔ پھر آخر میں۱۹۳۰ء کے اجلاس مسلم لیگ میں مسلمانوں کو ایک نصب العین بھی دے دیا جس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں ظاہر ہے۔ حواشی وحوالہ جات ۱- شفیع عقیل،ادب اور ادبی مکالمے ، اکادمی بازیافت ، اردو بازار ، کراچی ،۲۰۰۲،ص۱۸،۲۰؛ حزیں کاشمیری، کہاں گئے وہ لوگ، اردو کتاب گھر، اردوبازار، لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص۲۹۲؛ سید مظفر حسین برنی (مرتب)، کلیات مکاتیبِ اقبال،جلد دوم، اردو اکادمی ، دہلی، ۱۹۹۳ء ص۸۹۵؛ عبدالمجید سالک، سرگزشت،قومی کتب خانہ، ریلوے روڈ، لاہور،۱۹۵۵ء ،ص ۲۲،۲۸،۴۰؛ چراغ حسن حسرت ، مقدمہ سرگزشت ،ص۷۔ ۲- عبدالمجید سالک بحوالہ ادب اور ادبی مکالمے، ص۲۱،۲۲،۲۶،۲۷۔ ۳- کلیات مکاتیبِ اقبال،جلد دوم،ص۸۹۵۔ ۴- عبدالمجید سالک،سرگزشت:ص۴۹،۵۰۔ ۵- عبدالمجید سالک، ذکرِ اقبال، بزم اقبال، کلب روڈ، لاہور، ۱۹۵۵ء ، ص۱۱۳،۱۱۴۔ ۶- کلیاتِ مکاتیب اقبال ،جلد دوم ،ص ۶۷۸،۶۷۹۔ ۷ - عبدالمجید سالک،سرگزشت،ص۳۴۸۔ ۸- ایضاً،ص۲۳۴۔ ۹- جاوید اقبال، زندہ رود، جلد دوم، شیخ غلام علی اینڈ سنز، چوک انارکلی،لاہور،۱۹۸۷ء ،ص۲۶۳۔ ۱۰- عبدالمجید سالک، ذکرِ اقبال،ص۱۱۶،۱۱۷۔ ۱۱- کلیات مکاتیب اقبال ،جلد دوم،ص،۴۱۶۔ ۱۲- غلام قادر گرامی بحوالہ کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم ،ص۴۱۹۔ ۱۳- حزیں کاشمیری، کہاں گئے وہ لوگ،ص۵۷۹۔ ۱۴- شورش کاشمیری، نو رتن، مطبوعاتِ چٹان، میکلو ڈ روڈ، لاہور، ص ۴۲،۴۳۔ ۱۵- ایضاً،ص۵۶۔ ۱۶- سید نذیرنیازی، اقبال کے حضور، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور،۲۰۰۰ء ، ص ۱۵۲،۱۵۶،۱۶۵،۱۶۶،۱۷۱۔ ۱۷- ایضاً،ص۳۱۳۔ ۱۸- ایضاً،ص۳۹۴۔ ۱۹- عبدالمجید سالک،ذکرِ اقبال،ص۲۰۷،۲۰۸۔ ۲۰- ایضاً،ص۱۵۰،۱۵۱۔ خخخ اقبال کا تصورِ تشکیلِ نو (فکری منابع اور تاریخی پس منظر) ڈاکٹرشگفتہ بیگم یونانی اور ایرانی تہذیبوں کی بربادی کے بعد جب مسلمانوں کو عروج نصیب ہوا تو انھوں نے بغداد کو اپنا مرکز بنایا۔مصر ، شام اور ترکی کی فتح کے بعد مسلمانوں کو غیر تہذیبوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کا آپس میں میل ملاپ ہوا تو اسلام کو نئے نئے سوالات سے سابقہ پڑا۔ اسکندریہ کی فتح کے بعد وہاں کے علوم و فنون سے جب مسلمان آشنا ہوئے تو ان سب سوالوں سے بھی سابقہ پڑا جو یہودی اور عیسائی علم الکلام میں زیر بحث تھے۔ مسلم حکمرانی کی حدود وسیع ہوتی گئیں۔ نئی تہذیب و تمدن اور زبان کی وجہ سے جہاں کئی اور لسانی سوالات پیدا ہوئے وہاں پر کئی الہیاتی اور کلامی مسائل نے بھی جنم لیا۔ اموی دور خلافت میں جب ظلم و جور عروج کو پہنچا اور خلافت ملوکیت میں بدل گئی تو اس وقت کے حکمرانوں نے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ موقف اختیار کیا کہ خدا کی مرضی کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہل سکتا، اس لیے جو کچھ ہم کر رہے ہیں یا ہم سے ہو رہا ہے وہ خدا کی مرضی سے ہو رہا ہے لہٰذا ہم کسی سزا کے مستحق نہیں ہیں۔ جب جبر یہ کا موقف سامنے آیا تو قدریہ نے جبریہ کے موقف کو غلط قرار دیا ۔ اس بحث سے معتزلہ اور اشاعرہ کی تحریکیں وجود میں آئیں۔ جب المامون اور منصور کے دور حکومت میں معتزلہ کے نظریات کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہو گئی تو انھوں نے اپنے عقائد عقلی استدلال کے ذریعے منوانے کی بجائے بالجبر عوام پر نافذ کرنے شروع کر دیے۔ ان تحریکوں نے مذہب، فلسفے اور سائنس کے درمیان جو تطبیق پیدا کی وہ فلاطینوس کے فلسفے کی صورت میں پہلے ہی سے موجود تھی۔کلیسا بہت لمبے عرصے تک حاکم کا کردار ادا کرتا رہا۔ اس زمانے میں سائنس اور فلسفہ میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ مغرب میں اصلاح کلیسا کی تحریک (جس کا لیڈر مارٹن لوتھر تھا) نے مذہب اور سائنس کو دو الگ الگ خانوں میں بند کر دیا۔ مذہب کو انسان کا ذاتی مسئلہ قرار دیا اور اس طرح سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید علوم کے لیے راہیں نہ صرف کھول دیں بلکہ ان کے پیہم ارتقا کی راہیں ہمیشہ کے لیے ہموار کر دیں۔ دوسری طرف اسلامی مدارس پر امام غزالی (۱۰۵۹ء - ۱۱۱۱ئ) کی تعلیمات کا اثر ایک لمبی مدت تک رہا اور اسلامی فکر پر جمود کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔غزالی نے مذہب کو سائنس اورمابعد الطبیعیات سے الگ سمجھا۔انھوں نے حقیقت من حیث الکل کا مشاہدہ صوفیانہ واردات کے ذریعے کیا، اس لیے ان کو یقین ہو گیا کہ فکر متناہی اور نارسا ہے۔ غزالی نے عقل دشمنی کی وجہ سے فلسفہ اور فلاسفہ دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جبکہ اقبال کا خیال ہے کہ: فکر اور وجدان میں ایک نامی رشتہ کام کر رہا ہے۔ علیٰ ہذا یہ کہ فکرسے اگر متناہیت اور نارسائی کا اظہار ہوتا ہے اور ہم اسے بے نتیجہ ٹھہراتے ہیں تو اس لیے کہ فکر زمان متسلسل سے وابستہ ہے بایں ہمہ یہ خیال کہ فکر بالطبع متناہی ہے اور اس لیے ممکن نہیں لا متناہی تک پہنچ سکے، اس غلط نظریے پر مبنی ہے جو علم کے باب میں ہم نے فکر کے طریق ادراک کے متعلق قائم کر رکھا ہے۔۱؎ اس علمی و فکری زوال کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا سیاسی زوال بھی شروع ہو گیا۔ یورپ اندلس سے علم کی شمع لے کر فیض یاب ہوا۔ اس نے نہ صرف علمی، فکری اور سائنسی سطح پر مسلمانوں کو مرعوب کرلیا بلکہ سیاسی طور پر بھی ان پر قابض ہو گیا۔ مسلمانوں کے سامنے اب دو راستے تھے کہ یا تو وہ یورپ کے ہاتھوں مکمل طور پر اپنی شکست تسلیم کرکے اپنی انفرادیت کھو دیتے یا اپنے علمی، فکری اور عمرانی ورثے کو جس پر بہت عرصے سے جمود طاری تھا پھر سے اس قابل بناتے کہ وقت کے بدلتے ہوئے رخ کے ساتھ سفر کر سکتے۔ مسلمان علمی، فکری اور سیاسی لحاظ سے تو یورپ سے مات کھا ہی چکے تھے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی حالت بھی ناگفتہ بہ ہو گئی تھی۔ مذہب سے دوری اور آیات قرآنی کی نت نئی تاویلوں سے اختلافی مسائل اتنے زیادہ پیدا ہو گئے تھے کہ عام آدمی فکری اور ذہنی انتشار کا شکار تھا۔ اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے حسن الاعظمی لکھتے ہیں: مسلمانوں کی اجتماعی، اخلاقی اور فکری زندگی افسوسناک اور درد انگیز حالت میں تھی۔ ان میں بہت سی بیماریاں جڑ پکڑ چکی تھیں۔ وہ ایسی بے شمار ناشائستہ رسوم و عادات کے غلام ہو چکے تھے جن کا اسلام سے کوئی لگائو نہیں، بلکہ یہ صحیح اسلام کے مقابلے میں جہل و گمراہی کی پیداوار اور اسلامی احکام و اصول سے مسلمانوں کی بے خبری اور ان کی پیروی سے بے چارگی کا نتیجہ تھے۔۲؎ ان حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ان پسماندہ اقوام میں زندگی کی لہر دوڑا دی جائے اور ان میں باہمی اتحاد و الفت کا رنگ پیدا کر دیا جائے۔ وہ ایک وحدت میں منظم ہو کر اخوت اسلامیہ کی قوت اجتماعیہ کا شعور حاصل کریں۔ محمد عبدہٗ کے نزدیک ان مسائل کا حل یوں ممکن تھا: اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنے کی ضرورت کا احساس جو جدید علم کی شکل و صورت سے مشابہت رکھے، اس امر کو بھی لازمی قرار دیتا ہے کہ اسلام کے جوہری اصولوں کا اعادہ کیا جائے --- خاص طور سے نظام شریعت (قانون) میں جو اسلام کا ایک جزو ہے دوبارہ نظر دوڑانے کی ضرورت دامن گیر تھی۔۳؎ اندھی تقلید کے خلاف احتجاج، جدو جہد اور کشمکش مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ کچھ لوگ اندھی تقلید کے حامی تھے اور کچھ تقلید کے سخت خلاف۔آخر کار عقل کی اہمیت کو تسلیم کرکے اسلامی عقائد کی تشریحات کی گئیں۔ مصر میں محمد عبدہٗ نے کہا کہ عقل کی روشنی میں ہی اسلامی عقائد کی تشریحات قابل قبول اور قابل عمل ہو سکتی ہیں۔ محمد بن عبدالوہاب (۱۷۰۳ء - ۱۷۹۲ئ) صحرائے عرب میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اسلامی علوم و فنون سیکھنے کے بعد اپنی تمام تر توجہ مسلمانوں کے احیا اور نشاۃ ثانیہ کی تحریک پر صرف کر دی۔ وہ مسلمانوں کی اخلاقی، سیاسی اور علمی بدحالی پر رنجیدہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان اپنے مذہب سے دوری کی وجہ سے اس پستی میں گرے ہوئے ہیں۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ مسلمانوں کو اس پستی سے نکال کر ہی دم لیں گے۔ محمد بن عبدالوہاب کے بعد عالم اسلام میں جہاں جہاں بھی احیائے دین کے لیے کوششیں ہوئیں وہاں محمد بن عبدالوہاب کے نظریات کے اثرات ضرور پہنچے۔ ان کے نظریات میں نظریۂ توحید سب سے اہم ہے۔ وہ اس بات پر بہت زور دیتے تھے کہ خدا کی ذات وصفات کو جن معنوں میں دوسروں کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے وہ شرک اور کفر ہے۔ انھوں نے غلط قسم کے رجحانات پیر پرستی، قبر پرستی وغیرہ کے خلاف مہم چلائی اور خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے سوا ہر قسم کے سجدہ کونا جائز قرار دیا۔ وہ اندھی تقلید کے سخت مخالف تھے اور نئے حالات اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلامی عقائد کی تشریح پر زور دیتے تھے۔ محمد بن عبدالوہاب کے نزدیک حیات کوئی جامد اور ساکن چیز نہیں ہے اور علامہ اقبال بھی قرآن کے حوالے سے فرماتے ہیں:’’قرآن مجید کی رو سے کائنات میں اضافہ ممکن ہے۔ گو یا وہ ایک اضافہ پذیر کائنات ہے‘‘۔۴؎ علامہ اقبال کے نزدیک کائنات میں ارتقا ہو رہا ہے۔ تصور حرکت اقبال کے فلسفے کا اصل جوہر ہے۔ اسی تصور کی بنیاد پر اجتہاد کا اصول کام کرتا ہے اور اسلامی فکر کی تشکیل نو میں بھی یہی اصول مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اقبال فکر کے حرکی ہونے کا تصور رکھتیہیں۔۵؎ علامہ اقبال کے حیات و کائنات کے حرکی فلسفے کا مخالف وحدت الوجود کا عقیدہ تھا۔ وحدت الوجود کے عقیدے کی بنیاد افلاطون کے نظریہ اعیان ثابتہ پر تھی۔ آگے چل کر یہی تصور نو فلاطونیت میں متصوفانہ رنگ ’ترک دنیا‘ کے ایک جامد رویے کی صور ت میںجلوہ گر ہوا۔ نتیجتاً اسلام کے اندر ترکِ دنیا کے رویے نے جنم لیا اور پوری اسلامی دنیا بے عملی، بے حرکتی اور دنیا فراموشی جیسی کیفیت کا شکار ہو کر بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی۔ جہاں گیری اور جہاں بانی محکومیت میں بدل گئی اور مسلمان دوسری اقوام کے محکوم ہو کر رہ گئے۔ نجلا عزالدین اس صورت حال کا تجزیہ یوں کرتا ہے: جو عذاب یا وبال عربی معاشرے پر باہر سے نازل ہوئے، ان سے بھی زیادہ تباہ کن مصیبت یہ تھی کہ اس معاشرے کی اندرونی قوتِ تخلیق اور جوش مہمات سرد پڑ گیا۔ پُر جوش ذہنی شوقِ تجسس جو عہد ما سبق کی خصوصیت بنا ہوا تھا اور اس کے ساتھ حوصلہ مندی کی مسرت، مذہبی عقاید اور مرکزیت کے سخت دبائو سے گُھٹ کر رہ گئی، آزاد خیالی کو دیس نکالا نصیب ہوا اور اُس کی جگہ روایت پرستی حکومت کرنے لگی، صداقت کی بے روک ٹوک جستجو پر الحاد و بے دینی کی مہر لگ گئی۔ اس سے پہلے عہد کے زیادہ بے باک اور جرأت مند اشخاص گوشۂ گمنامی میں جلا وطن کر دیے گئے۔ لوگوں کے دماغ بجائے اس کے کہ اپنی اصلاحیتوں کو علمیت کی نئی راہیں نکالنے کے کام میں لاتے انھی مسائل کی شرحیں اور خلاصے تیار کرنے میں منہمک ہو گئے جو پہلے سے لوگوں کے علم میں تھے۔۶؎ اقبال مسلمانوں کے تنزل کا ایک سبب ملائیت اور تصوف کو بھی ٹھہراتے ہیں۔ فرماتے ہیں: علما ہمیشہ اسلام کے لیے ایک قوت عظیم کا سر چشمہ رہے ہیں لیکن صدیوں کے مرور کے بعد خاص کر زوال بغداد کے زمانے سے بے حد قدامت پرست بن گئے، اور آزادی اجتہاد (یعنی قانونی امور میں آزاد رائے قائم کرنے) کی مخالفت کرنے لگے۔۷؎ انیسویں صدی عیسوی میں ایک طرف دنیائے اسلام پر ہر طرح سے ابتری اور بدحالی کے بادل چھائے ہوئے تھے تو دوسری طرف یورپی اقوام معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی طور پر ترقی کر رہی تھیں۔ مسلمان اقوام چاروں اطراف سے انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی افواج کے گھیرے میں تھیں۔ خلافت عثمانیہ منتشر ہو رہی تھی۔ اس وقت کے خلفاء لہو و لعب میں غرق تھے۔ اسلام کی سادہ سی تعلیمات میں بدعات اس حد تک داخل ہو چکی تھیں کہ اسلام کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ ایسے میں کسی ایسی تحریک کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی جو مسلمانوں کو ایک طرف سیاسی طور پر جمع کرکے ایک قوت بنا دے اور دوسری طرف اخلاقی اور ذہنی پستی کا علاج دریافت کرکے اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگہی دے۔ شمالی افریقہ میں ایک تحریک سید محمد علی سنوسی (۱۷۸۷ء -۱۸۵۹ئ) نے شروع کی جس کا مقصد مسلمانوں کو اسلام کی صحیح صورت دکھانا اور ان کے تنزل کے اسباب جاننا تھا۔ انھوں نے کافی غور و خوض کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ مسلمانوں کے تنزل کا باعث اس دور کا نظام تعلیم اور صوفیہ کی غیر ارتقا پذیر تعلیمات ہیں۔ اسلام کے اندر جو بدعات داخل ہو گئی تھیں انھوں نے ان کے خاتمے اور جمود و سکون کے عناصر سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انھوں نے شروع میں تو یہ کوشش کی کہ خلافت عثمانیہ کو ہی بحال رکھا جائے لیکن جب اس بات کا احساس ہو گیا کہ خلافت کی بنیادیں اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں اور اب ایسا ممکن نہیں ہے کہ دوبارہ خلافت پنپ سکے تو انھوں نے شمالی افریقہ میں ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ ابتدا میں سنوسی تحریک کے تمام تر انداز صوفیانہ نوعیت کے تھے مگر بعد میں اس نے مسلمانوں کو مذہبی اور سیاسی طور پر بیدار کرنے کی کوششیں کیں۔ سید جمال الدین افغانی(۱۸۳۸ء - ۱۸۹۸ئ) جنھوں نے مسلمانوں کی بے حرکت زندگی میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ بیک وقت مفکر و حکیم بھی تھے اور عالم و رہنما بھی۔ وہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے خواہش مند تھے۔ وہ عالم اسلامی کا اتحاد چاہتے تھے۔ انھوں نے تمام عمر مسلمانوں کو اغیار سے نجات دلانے اور عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے وقف کر دی۔ بقول محمد عبدہٗ : وہ بلند حوصلہ اور زبر دست قوت ارادی کے مالک تھے۔ وہ ہمیشہ ایسے کاموں کے لیے آمادہ رہتے تھے، جو عزم و ہمت و جرأت و دریا دلی کے متقاضی ہوتے۔ وہ علم و حکمت کے شیدائی، مادیت سے گریزاں اور روحانیت کے دلدادہ تھے۔۸؎ جمال الدین افغانی نے فرانس کے مشہور مصنف ارنسٹ رینان کو ایک ملاقات میں اپنی شخصیت سے اس قدر متاثر کیا کہ اس نے اپنے تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے: ان کی آزادی فکر اور ان کے شریف اور وفا شعار کردار نے گفتگو کے دوران میں مجھے ایسا تاثر دیا کہ گویا ان قدیم شناسائوں یعنی ابن سینا، ابن رشد یا ان مسلمانوں میں سے کوئی ایک زندہ ہو کر میرے سامنے موجود ہے جنھوں نے انسانی جذبات کی پانچ صدیوں تک ترجمانی کی۔۹؎ جمال الدین افغانی ایک روشن خیال عقلیت پسند مسلمان تھے۔ ان کے نزدیک بنی نوع انسان کی بقا اور اس کی سعادت و مسرت کا انحصار مذہب پر ہے۔ صرف مذہب ہی معاشرے کے استحکام و سلامتی اور قوموں کی قوت کی ضمانت دے سکتا ہے جبکہ لا دینی مادیت انحطاط و زوال کا سبب ہے۔۱۰؎ وہ اسلامی اجتماعیت کو مادی اشتراکیت اور اشتمالیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اسلام کے عقلی اصولوں کے قائل تھے اور اسلام کے اندر عقلیت کو اس کی امتیازی خوبی سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام کبھی عقلیت کا مخالف نہیں ہو سکتا بلکہ اسلام میں تو عقلی تحقیق و جستجو کی طرف راغب کیا گیا ہے۔ وہ احیائے دین کے داعی تھے انھوں نے اشاعرہ کے عقیدۂ جبر کے خلاف معتزلہ کے عقیدۂ قدر کو اپنایا۔ انھوں نے مسلمان قوم کے اندر جمود اور بے حسی کا علاج عقلی اصولوں پر چل کر مذہب کی تشریح و تعبیر میں دریافت کیا کیونکہ دوسری اقوام کی ترقی ان کے سامنے تھی۔ اس لیے انھوں نے اسلام کی عقلی توجیہ اور دین کو عام لوگوں کے لیے آسان بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ تمام اسلامی ممالک آزادانہ طور پر آزادی کے حصول کے لیے کوشش کریں۔ ترکی، ایران ،برصغیر پاک و ہنداور مصر میں انھوں نے اسلام کے احیا کی کوشش کی۔ علامہ اقبال نے بھی جمال الدین افغانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے زمانہ حال کی نشاۃ ثانیہ کا موسس قرار دیا ہے۔ محمد عبدہٗ (۱۸۴۹ء - ۱۹۸۰ئ) مصر کی ایک نامور شخصیت ہیں۔ ان کو مذہب سے گہری وابستگی تھی۔ شروع شروع میں مذہب کے صوفیانہ پہلو کی طرف رغبت تھی۔ لیکن جمال الدین افغانی سے ملاقات کے بعد آپ کی توجہ فلسفہ ، سیاست، اخلاقیات اور دوسرے جدید علوم کی طرف ہو گئی۔ ان کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ فلسفیانہ تفکر سے ہم شعور و تجربہ سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد کاروبار حیات میں سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ انسان اپنے اندر اعلیٰ تفکرات، تعقل اور تخیل کی مدد سے مختلف برائیوں سے نجات پا سکتا ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرے۔ محمد عبدہٗ نے مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتہاد پر بھی زور دیا۔ اُن کے نزدیک عقل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کوئی اخلاقی اور عمرانی معاشرہ عقل کے مرکزی کردار کو نظر انداز کرکے نشو ونما نہیں پا سکتا۔ اُن کے نزدیک نئے انسانی معاشرے کی عالمگیر طور پر تعمیر اور تشکیل میں عقل اور اخلاق بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ اخلاقی نظام کو عقلی بنیادوں پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک اخلاقی قوانین کے اطلاق کا سب سے مؤثر ذریعہ مذہب ہے۔ انھوں نے مذہب کو جدیدتقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک تحریک چلائی اور اس طرح سے اسلام کی عالمگیریت کو مستحکم کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کے مسلمان خصوصاً اور عالم اسلام عموماًجمود و خمود کا شکار تھے۔ اندھی تقلید، تنگ نظری اور جہالت امت مسلمہ پر بری طرح مسلط تھی۔ افغانستان میں مسلمان تقلید، تعصب، جہالت ، رسوم پرستی میں سب سے آگے تھے۔ سیاسی طور پر انگریز کے غلام تھے۔ ترکستان کے عوام روس کے زیر نگیں تھے اور علوم و فنون اور ترقی سے کوسوں دور تھے۔ ایران میں مسلمان آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہ تھے۔ وہ ملوکیت اور مذہبی پیشوائیت کے شکنجے میں بری طرح جکڑے ہوئے تھے۔سلطنت ترکی بھی بیسویں صدی کے آغاز میں عاجز اور نادار ہو چکی تھی۔۔۔ ترکی کے علماء نے قرآن مجید کے ترجمہ کو کفر کا ہم پلہ قرار دے دیا تھا۔ ان علماء کی نظر میں قرآن حکیم اس لیے نازل نہیں ہوا تھا کہ اس کے معانی اور مطالب سے آگاہی حاصل کی جائے۔۱۱؎ مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں: شہنشاہ اکبر کے عہد کے اختتام اور عہد جہانگیری کے اوائل میں کیا ہندوستان علماء اور مشائخ سے بالکل خالی ہو گیا تھا؟ کیسے کیسے اکابر موجود تھے لیکن مفاسد وقت کی اصلاح و تجدید کا معاملہ کسی سے بھی بن نہ آیا۔ صرف مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کا وجود گرامی ہی ’’تن تنہا‘‘ اس کاروبار کا کفیل ہوا۔۱۲؎ اس وقت مسلمان جن مشکلات سے دو چار تھے وہ ہندو مت کی جارحانہ احیائیت کی پیدا کردہ تھیں۔ دارالسلطنت میں تو ان مشکلات کا احساس تک نہ تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی نے ان کی طرف توجہ دلائی۔ امراء اور اراکین سلطنت کو ان کے فرائض یادد لائے اور شعائر اسلام کو بجا لانے پر زور دیا ۔ انھوں نے جمہور علماء اور صوفیہ کے خیالات کی بھی اصلاح کی۔ آپ نے طریقت کے مقابلے میں شریعت کی اہمیت واضح کی۔ ان کا ایک اہم کارنامہ عقیدئہ وحدت الوجود کی نئی توجیہ اور وحدت الشہود کا نظریہ پیش کرنا ہے۔ انھوں نے مسلمان صوفیہ اور علماء کے اختلافات رفع کیے اور اسلام کا عام احیا کیا۔ پہلے سے موجود صوفیانہ روایت کو نئے انداز میں پیش کیا تاکہ وہ اس وقت کے مسلمانوں کے لیے آسانی سے قابل قبول ہو۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں برِ صغیر کے مسلمانوں کی حالت دگرگوں تھی۔ معاشرتی نظام فرسودہ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے سلطنت زوال پذیر تھی۔ ایسے میں شاہ ولی اللہ (۱۷۰۲ء - ۱۷۶۲ئ) نے مسلمانوں کے زوال وانحطاط کے بنیادی اسباب پر غور و فکر کیا۔ شاہ ولی اللہ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ اسلام سے ناواقف ہیں۔ انھوں نے عام مسلمانوں کی تفہیم کے لیے قرآن کی عام اشاعت کی۔ قرآن کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا۔ انھوں نے اجتہاد کے منصب کی بھی تشریح کی۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ معاشرتی نظام فطرتاً ساکن نہیں ہے، معاشرہ جوں جوں ترقی کر کے آگے جائے گا اس میں ضرور پیچیدگی پیدا ہو گی۔ ان پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے اسلامی فکر کی نئی تشکیل وتعبیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ماضی کے مفکرین کی آراء کا احترام کرتے تھے، اس طرح جدید تفسیر و تشریح کے ذریعے نئے اختلافات کا بھی سدِ باب ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ شاہ ولی اللہ کے دور سے ہی برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور علمی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوتا ہے۔ مسلمانوں کا زوال اور انحطاط جو علمی اور سیاسی ہر دو طرح سے اپنے بدترین عہد میں داخل ہو چکا تھا، مسلمانوں کو اس میں سے نکالنا، سارے اسباب و علل دریافت کرنا جن کی وجہ سے یہ عظیم الشان قوم زوال کا شکار ہوئی، وہاں کے لوگوں کو انھی میں رہ کر وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور مذہب کی تعلیمات سے بیک وقت روشناس کرانا شاہ ولی اللہ کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ سر سید احمد خان (۱۸۱۷ئ- ۱۸۹۸ئ) اور ان کے رفقائے کار نے اسلامی مذہب و فلسفہ کو سائنس اور فطرت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’مصطفوی شریعت کے لیے وقت آ گیا کہ برہان اور دلیل کے پیراہنوں میں ملبوس ہو کر ظاہر ہو‘‘۔۱۳؎ انیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں سر سید نے قرآن کے تمام اندراجات کو عقل اور سائنس کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی اور جہاں کہیں سائنس کی معلومات اور کلام خدا کے درمیان اختلاف دکھائی دیا وہاں معتزلہ کے طریقے سے آیات کی نئی تاویلیں کرکے اس اختلاف کو دور کیا ہے۔ سر سید احمد خاں نے آیات قرآنی کی دو مشہور اقسام ’بینات‘ اور ’متشابہات‘ کی نئی تعریف ’’لازمی ‘‘ اور ’’اشاراتی‘‘ کی ہے۔ پہلی میں اسلامی عقیدے اور مسلک کی خفیف سے خفیف تعلیل بھی روا نہیں رکھی گئی اور دوسری میں دو یا دو سے زیادہ تشریحات کی کھلی اجازت تھی اور اس کی بھی گنجائش رکھی گئی تھی کہ ساتویں صدی کی ابتدا میں عرب کے حالات سے بالکل مختلف حالات اور زمانوں میں ماحول کے مطابق استنباط کیا جا سکتا ہے۔ سر سید احمد خاں اور دیگر مصلحین کا اسلام کی صداقت پر مکمل یقین تھا۔ وہ اسلام کو ہر زمانے میں قابل عمل مذہب جانتے تھے لیکن اس کے لیے بنیادی شرط یہ تھی کہ اسلام کو تمام فکری آلائشوں ، غیر اسلامی خیالات اور بدعات سے پاک کرکے خالص اور اصل شکل میں مسلمانوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ انھوں نے اسلام کے صحیح العمل ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ دیگر مصلحین اسلام کی طرح اقبال نفاذ اسلام اور احیائے دین کی خاطر مغربی نظام تمدن کے خلاف صف آرا تھے۔ مغربی نظام تمدن اپنی تمام خرابیوں کے باوجود مسلمانوں پر سیاسی طور پر غلبہ حاصل کیے ہوئے تھا۔ چنانچہ اقبال نے علامہ سید جمال الدین افغانی کی پیروی کرتے ہوئے بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری: مسلمانوں کو مغربی تمدن کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا۔ ساتھ ہی انھیں شاندار ماضی کی داستان سنا کر ان میں ایک طرح کا جوش و ولولہ بھی پیدا کیا۔۱۴؎ علامہ محمد اقبال نے بھی سید جمال الدین افغانی کی طرح مسلمانوں کی داخلی زندگیوں سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے خلاف نہ صرف جہاد کیا بلکہ ان پر باہر سے مسلط ہونے والے مغربی نظام تمدن کے بُرے اثرات سے نجات حاصل کرنے کی تلقین کی۔ اقبال فرماتے ہیں: But inspite of all these developments, tyranny of imperialism struts abroad, covering its face in the masks of Democracy, Nationalism, Communism, Fascism and heaven knows what else besides. Under these masks, in every corner of the earth, the spirit of freedom and the dignity of man are being trampled under food in a way of which not even the darkest period of human history presents a parallel. The so-called statesmen to whom government had entrusted leadership have proved demons of bloodshed, tyranny and oppression. The rulers whose duty it was to promote higher humanity, to prevent man's oppression of man and to elevate the moral and intellectual level of mankind, have in their hunger for dominion and imperial possession, shed the blood of millions and reduced millions to servitude simply in order to pander to the greed and avarice of their own particular groups, After subjugating and establishing their dominion over weaker peoples, they have robbed them of their possessions, of their religions, their morals, of their cultural traditions and their literatures. Then they sowed divisions among them that they should shed one another's blood and go to sleep under the opiate of serfdom, so that the leech of imperialism might go on sucking their blood without interruption.15 اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے علماء اسلامی معاشرے میں تقلید، جمود اور رجعت پسندی کی علامت بن گئے۔ اسلام جس مقصد کے لیے آیا تھا وہ مقصد ہی فوت ہو گیا۔ اقبال کا خیال ہے کہ روحانی طور پر ہم ایسے خیالات و جذبات کے قید خانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جنھیں ہم نے صدیوں کے دوران میں اپنے گردا گرد اپنے ہی ہاتھوں سے بن لیا ہے۔ اقبال مسلمانوں کو اس ’’قید خانے‘‘ سے رہائی دلانے اور جمود کے قفل توڑ نے کے لیے اجتہاد کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ اقبال کے کثیر الجہات مابعد الطبیعیاتی انداز فکر کی وجہ سے موجودہ زمانے کی اقدار کے مطابق اسلام کی تعبیر نو ایک درمیانی راہ کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اسلامی فکر کی تشکیل نو کے اس تاریخی پس منظر میں اقبال کے لیے قدرتی طور پر ایک راہ متعین ہو گئی تھی۔ آپ احیائے دین کی تحریکوں سے متاثر ضرور ہوئے لیکن نہ تو انھوں نے کسی تحریک کی بنیاد ڈالی اور نہ کسی تحریک میں شامل ہوئے۔ وہ خود اپنی ذات میں ایک پوری تحریک ہیں۔ انھوں نے شاعری اور نثر کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کے مخاطب کسی ایک خطے کے عوام نہیں بلکہ پوری انسانیت ہے۔ قرآن مجید دانائی و حکمت کی وہ کتاب ہے جس سے اقبال پر نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ہے۔ اقبال اس سے نیا یقین، نئی روشنی اور نئی قوت و توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اقبال نے ساری زندگی اپنی فکر کی بنیاد قرآن حکیم کو ہی بنائے رکھا۔ وہ قرآن کو عام لوگوں کے طریقے سے نہیں پڑھتے تھے بلکہ مطالب و معانی پر غور کرتے تھے: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف۱۶؎ اقبال کے فکری منابع پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکر اقبال کا واضح منبع قرآن پاک ہے: گر دلم آئینہ بے جوہر است ور بحرفم غیر قرآن مضمر است پردہ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں را ز خارم پاک کن روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا۱۷؎ اقبال کے فکری پہلوئوں کو ان کے شخصی پہلوئوں سے جدا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ تمام زندگی اقبال نے جن چیزوں کا درس دیا ہے خود اس کا تجربہ کیا ہے۔ تجربے کے بعد اس کے ثمرات سے وہ دوسروں کو آشنا کرتے ہیں۔ جن عناصر نے اقبال کی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے کا کام کیا ہے وہی عناصر بہت حد تک فکر اقبال کو متعین کرنے میں راہنما اور رہبر ثابت ہوئے ہیں۔ خودی کی تربیت اور عرفان نفس پر اقبال بہت زور دیتے ہیں۔ خودی یا انا کا تصور انسان، کائنات اور حتیٰ کہ خدا کی ذات کو بھی موضوع بحث بنا لیتا ہے۔ ذات کے عرفان سے ہی ہم اصل حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔ خود شناسی اور خود آگاہی سے انسان پر شہنشاہی کے اسرار کھلتے ہیں۔ اقبال کی شخصیت کی تربیت میں سحر خیزی کی عادت کے ساتھ ساتھ مثنوی مولانا رومی کا مطالعہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وحید عشرت لکھتے ہیں: قرآن حکیم کی حکیمانہ تفہیم اور اُس کی غایات کو جاننے میں اقبال کو سب سے زیادہ تحریک مثنوی رومی سے ملی، چنانچہ مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی جسے پہلوی زبان میں قرآن سے نسبت دی گئی فکر اقبال کا ایک اساسی ماخذ ہے۔۱۸؎ قرآن حکیم اور مثنوی مولانا رومی اقبال کے فکر کے معروضی اور باقی تین یعنی یقین و ایمان، عرفان نفس اور سحر خیزی موضوعی عناصر ہیں۔ سید نذیر نیازی تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے مقدمے میں لکھتے ہیں: دراصل اس فکر کا حقیقی سر چشمہ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کر دیا گیا تھا، قرآن مجید ہے اور قرآن مجید سے ہمیں ان سب مسائل یا مشکلات میں جو اس کی تشریح و توضیح میں پیدا ہوں، رجوع کرنا پڑے گا۔۔۔۔ صاحب خطبات نے اگر عہد حاضر کے الفاظ اور مصطلحات سے کام لیا تو، ہم ’’گرفتار ان فرنگ‘‘ کی خاطر، اس لیے کہ ان کا خطاب دراصل ہمیں سے ہے اور ہماری وساطت سے جدید علمی دنیا سے۔۱۹؎ اسلام سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ تاریخ نہ صرف اقوام کے قصے سناتی ہے بلکہ گہرے غور و خوض کی دعوت بھی دیتی ہے۔ یہ قوموں کے عروج و زوال، ان کے اخلاق و کردار اور عقل و دانش کی ایک ایسی داستان ہے جو حقیقت تک پہنچا سکتی ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے زماں کو ایک حقیقت قرار دیا ہے۔ اس طرح زندگی کا تصور ایک مسلسل اور مستقل حرکت سے بنتا ہے۔ ابن خلدون کے نظریہ تاریخ میں بھی زمانے کا یہی تصور ملتا ہے۔ … گویا ہمیں ابن خلدون کے نظریۂ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابن خلدون کا وہ تصور ہے جو اس نے تغیر کے باب میں قائم کیا۔ یہ تصور بڑا اہم ہے، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ چونکہ ایک مسلسل حرکت ہے زمانے کے اندر، لہٰذا یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اس کی نوعیت فی الواقع تخلیقی ہے۔۲۰؎ قرآن سے جہاں ہمیں تاریخ کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے وہیں پر مطالعہ قرآن کی بدولت کائنات اور اہل کائنات کے بارے میں مخصوص نظریہ اور رویہ بھی سامنے آتا ہے۔ قرآن بہت سارے علوم کا سرچشمہ ہے۔ علامہ اقبال تمام فلسفہ و حکمت ، اقتصادیات، مذہب و تاریخ و غیرہ کا سر چشمہ قرآن کو قرار دیتے ہیں۔ وحید الدین فقیر لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرما تھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقاتی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اتنے میں انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال کر دیا۔ کہنے لگے ’’آپ نے مذہب ، اقتصادیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں ان میں سب سے بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کون سی گذری ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی میں سے اٹھے اور نو وارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں، یہ کَہ کر وہ اندر چلے گئے، دو تین منٹ میں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ اس کتاب کو انھوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا ’’قرآن مجید‘‘۔۲۱؎ یہ درست ہے کہ علامہ اقبال کے فکر و فلسفے کا بنیادی منبع قرآن مجید ہے لیکن انسان کو علم حاصل کرنے کے لیے عقل کے علاوہ اندرونی اور بیرونی حسّیات فراہم کی گئی ہیں۔ ان حسّیات میں سے اندرونی حِس سے جس کو بصیرت بھی کہیے تو بے جا نہ ہو گا، چند لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔علامہ اقبال فرماتے ہیں: قلب کو ایک طرح کا وجدان یا اندرونی بصیرت کہیے کہ جس کی پرورش مولانا روم کے دلکش الفاظ میں نور آفتاب سے ہوتی ہے اور جس کی بدولت ہم حقیقت مطلقہ کے ان پہلوئوں سے اتصال پیدا کر لیتے ہیں جو ادراک بالحواس سے ماورا ہیں۔ قرآن مجید کے نزدیک قلب کو قوت دید حاصل ہے اور اس کی اطلاعات بشرطیکہ ان کی تعبیر صحت کے ساتھ کی جائے، کبھی غلط نہیں ہوتیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی پر اسرار قوت ہے، اسے دراصل حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کا وہ طریق ٹھہرانا چاہیے جس میں باعتبار عضویات، حواس کا مطلق دخل نہیں ہوتا، بایں ہمہ اس طرح حصول علم کا جو ذریعہ پیدا ہوتا ہے ایسا ہی قابل اعتماد ہو گا، جیسے کسی دوسرے مشاہدے سے۔۲۲؎ مشاہدۂ باطن انسانی علم کا ایک ذریعہ ہے۔ اقبال فرماتے ہیں: لیکن مشاہدات باطن صرف ایک ذریعہ ہیں علم انسانی کا، قرآن پاک کے نزدیک اس کے دو سرچشمے اور ہیں: ایک عالم فطرت ، دوسرا عالم تاریخ، جن سے استفادہ کرنے میں عالم اسلام کی بہترین روح کا اظہار ہوا۔ قرآن پاک کے نزدیک یہ شمس و قمر، یہ سا یوں کا امتداد، یہ اختلاف لیل و نہار ، یہ رنگ اور زبان کا فرق اور یہ قوموں کی زندگی میں کامیابی اور ناکامی کے دنوں کی آمد و شد، حاصل کلام یہ کہ سارا عالم فطرت جیسا کہ بذریعہ حواس ہمیں اس کا ادراک ہوتا ہے حقیقت مطلقہ کی آیات ہیں اور اس لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ان میں غور و تفکر سے کام لے۔۲۳؎ قرآن پاک کی یہ دعوت کہ محسوس اور ٹھوس حقائق پر توجہ دی جائے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کائنات میں حرکت ہے۔ قرآن حکیم کی یہ تعلیم کہ کائنات میں حرکت بھی ہے اور ارتقا بھی، سراسر یونانی تعلیم کے مخالف ہے۔ علم کی ابتدا مشاہدہ سے ہوتی ہے۔ جب تک ہمارا ذہن محسوس کو اپنی گرفت میں نہ لے آئے فکر انسانی میںیہ صلاحیت ہی پیدا نہیںہو سکتی کہ وہ اس سے آگے جا سکے یعنی محسوس سے غیر محسوس کی طرف۔ ہمارا ذہن متناہی کا صرف تصور ہی کر سکتا ہے اور اسی تصور نے انسانی ذہن کو حرکت سے باز رکھا ہوا ہے۔ فکر اسلامی میں تہذیب و ثقافت کی تاریخ کا پہلو ہو یا تصوف، دونوں کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ لامتناہی سے آشنائی حاصل کی جائے۔ لامتناہی تک سفر کا نقطہ آغاز اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ جب انسان کو یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ اپنی ذات سے پوری طرح آگاہ ہے تو اس کا مقام بہت بلند ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گونا گوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان ہیں۔ قرآنی تعلیم کا یہ وہ بنیادی پہلو ہے جس کے پیش نظر گوئٹے نے باعتبار ایک تعلیمی قوت اسلام پر من حیث الکل تبصرہ کرتے ہوئے ایکرمن سے کہا تھا، تم نے دیکھا اس تعلیم میں کوئی خامی نہیں، ہمارا کوئی نظام اور ہمیں پر کیا موقوف ہے، کوئی انسان بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔۲۴؎ اقبال نے قرآن کے مطالعہ کے ذریعے زندگی کے ہر پہلو پر غور کیا ہے۔ اس نے وجود باری تعالیٰ ، ذات، خودی کی حیثیت ، حیات بعد الموت، حتیٰ کہ تمام الٰہیاتی مسائل پر بحث کی ہے۔ اقبال کا فلسفہ بنیادی طور پر مذہبی ہے۔ اسلام میںمذہب اور فلسفے کو ہم آہنگ کرنے کی سعی بیسویں صدی میں شائد اقبال کا ہی کارنامہ ہے۔ بقول ڈاکٹر سید ظفر الحسن: بالفاظِ دیگر فلسفے اور اسلام کو ہم آہنگ کرنے اور تطبیق دینے کو جیسی بے مثل لیاقت ان میں پائی جاتی ہے اس نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اس کام کو دوبارہ انجام دیں جو صدیوں پہلے یونانی فلسفہ و سائنس کے رُوبرو ہمارے عظیم علما، مثلاً نظام اور (ابوالحسن) اشعری نے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔۲۵؎ مسلم علمی روایت میں معتزلہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ عقلیت پسند تھے۔ انھوں نے عربی میں ترجمہ کی گئی یونانی فلاسفہ کی کتابوں کامطالعہ کیا اور علوم طبیعیات کے تصورات اور مناہج کو اسلامی الٰہیات میں استعمال کیا۔ جب انھوں نے مذہبی اورالٰہیاتی مسائل میں عقل کا استعمال کیا اور قرآن کی تعبیر و تاویل میں انتہا پسندی سے کام لیا تو اس کے رد عمل کے طور پر ایک دوسرا مکتب فکر ، ’’اشاعرہ‘‘ وجود میں آیا۔ ان کا بنیادی تصور یہ تھا کہ وحی ایک معتبر ذریعۂ علم ہے۔اشاعرہ کی زیادہ تر دلچسپی الٰہیاتی مسائل سے تھی لیکن انھوں نے علمی میدان میں بھی بڑا مقام حاصل کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے خطاب میں اس علمی تحریک کا وقتاً فوقتاً تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔اقبال لکھتے ہیں: … اشاعرہ میں البتہ جن مفکرین کا دل و دماغ نسبتاً تعمیری تھا، صحیح راستے پر گامزن تھے اور انھوں نے فلسفہ عینیت کی بعض جدید ترین شکلوں کی داغ بیل بھی ڈالی۔۲۶؎ اشاعرہ ایک طرف تو اسلامی تعلیمات کو غیر اسلامی عناصر سے پاک کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں میں صحیح مذہبی شعور بیدار کرنا چاہتے تھے۔ ان کی فکر کی بنیادیں معتزلی عقلیت کی بجائے سلف کے علم الکلام اور اسلامی الٰہیات کے ان تصورات پر قائم تھیں جن کا رشتہ وحی سے تھا۔ ان کا بنیادی مقصد وحی کا دفاع تھا۔ انھوں نے دوسرے راسخ العقیدہ روایتی مکتب فکر کے عقائد کا ردّ کیا اور مسلمانوں کے عقائد کی فلسفیانہ تعبیر و تشریح کی۔ انھوں نے عقل کی اولیت کو رد کرتے ہوئے وحی کی اولیت اور قطعیت پر زور دیا۔ بنیادی طور پر اشاعرہ الٰہیاتی مسائل سے دلچسپی رکھتے تھے تاہم انھوں نے مابعد الطبیعیاتی مسائل میں بھی قابل قدر کام کیا۔ اقبال نے اشاعرہ کی علمی اور فکری فتوحات کی تعریف کی ہے اور عہد جدید کی فکری اساس کی تشکیل میں مسلمانوں کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے اشاعرہ کے چند بنیادی تصورات اور نظریات کو بیان کیا ہے۔ اقبال اشاعرہ کو اسلامی معتقدات کا شارح تصور کرتے تھے۔ اسلامی فکر کی تشکیل نو کی روایت میںاشاعرہ کا اہم مقام ہے اور اقبال نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ تاہم جدید علوم کی روشنی میں آپ نے تنقیدی رویہ بھی اختیار کیا ہے لیکن اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوتی کیونکہ اقبال کا تعلق جس دور سے ہے اس دور میں علوم جدیدہ کی بدولت فکر نے بہت ترقی کر لی تھی۔ اقبال کہتے ہیں: ہم مسلمانوں کو ایک بہت بڑا کام درپیش ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کیے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر از سر نو غور کریں۔۲۷؎ دوسری جگہ لکھتے ہیں: ان خطبات میں میرا یہی ارادہ ہے کہ اسلام کے بعض اساسی افکار کی بحث فلسفیانہ نقطۂ نظر سے کروں تاکہ اور نہیں تو بہت ممکن ہے ہم اس حقیقت ہی کو آسانی سے سمجھ سکیںکہ بحیثیت ایک ایسے پیام کے جس کا خطاب ساری نوع انسانی سے ہے، اسلام کے معنی کیا ہیں۔۲۸؎ اقبال کامخاطب انسان ہے۔ یہ درست ہے کہ انھوں نے بہت سی جگہوں پر صرف مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے۔ لیکن فلسفیانہ مباحث میں ان کے سامنے بنی نوع انسان ایک وحدت کے طور پر رہے ہیں۔ بنی نوع انسان آج جس مایوسی اور دل گرفتگی کا شکار ہیں اور جس کی بدولت تہذیب انسانی کو ایک شدید خطرے کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کا یہی طریقہ ہے کہ حیاتیاتی اعتبار سے دنیا زندہ ہو اور وہ اقبال کے الفاظ میں صرف اس طرح ممکن ہے: عصر حاضر کا انسان اگر پھر سے وہ اخلاقی ذمہ داری اٹھا سکے گا جو علوم جدیدہ کے نشو و نما نے اس پر ڈال رکھی ہے تو صرف مذہب کی بدولت۔ یونہی اس کے اندر ایمان و یقین کی اس کیفیت کا احیا ہوگا جس کی بدولت وہ اس زندگی میں ایک شخصیت پیدا کرتے ہوئے آگے چل کر بھی اسے محفوظ اور برقرار رکھ سکے گا۔۲۹؎ حواشی و حوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، (مترجم : سید نذیر نیازی )، بزم اقبال، لاہور،۲۰۰۰ئ، ص۴۲۔ ۲- حسن الاعظمی، محمد عبدہ اور پان اسلامزم، فاران لمیٹیڈ، ۱۹۴۸ئ، ص ۱۹۴۔ ۳- ایضاً، ص ۱۹۵۔ ۴- اقبال نے اس آیت قرآنی کا حوالہ دیا ہے: یزید فی الخلق مایشاء ان اللہ علی کل شی ء ٍقدیر:(فاطر:۱) ’’وہ اپنی مخلوق میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ ۵- دیکھیے: تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۴۲۔ ۶- سید علی عباس جلالپوری، اقبال کا علم کلام، مکتبہ فنون، لاہور، ۱۹۹۹ئ، ص ۷۔ ۷- بشیر احمد ڈار، اقبال اور احمدیت، آئینۂ ادب، لاہور،۱۹۸۴ئ، ص ۹۷۔ ۸- اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد ۷، لاہور، دانش گاہ پنجاب، لاہور، ۱۹۷۸ئ، ص ۳۷۲۔ ۹- ایضاً۔ ۱۰- ایضاً، جلد ۷،ص ۳۷۴۔ ۱۱- پروفیسر یوسف سلیم چشتی، شرح اسرار خودی، عشرت پبلشنگ ہائوس، لاہور، (س ۔ ن) دیباچہ ۔ ۱۲- مولانا ابوالکلام آزاد، تذکرہ، مکتبہ جدید، لاہور، ۱۹۴۰ئ، ص ۲۳۷۔ ۱۳- شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغۃ، قومی کتب خانہ، لاہور، ۱۹۵۳ء ،ص ۳۔ ۱۴- فرمان فتح پوری، اقبال سب کے لیے، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص ۱۷۲۔ 15- A. R. Tariq, Speeches & Statements of Iqbal, Ghulam Ali & Sons Lahore, 1973, pp. 226, 227. ۱۶- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ۷۸۔ ۱۷- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ۱۶۸۔ ۱۸- وحید عشرت، ’’فلسفۂ اقبال کے مآخذ و مصادر‘‘، اقبالیات ،۱۹۸۸ئ، ص۴۰۳۔ ۱۹- مقدمہ، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۳۳۔ ۲۰- ایضاً، ص ۲۰۹۔ ۲۱- فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر، فقیر سپننگ ملز، کراچی، ۱۹۴۶ئ، ص ۹۲،۹۳۔ ۲۲- علامہ محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۵۳۔ ۲۳- ایضاً، ص ۱۹۴۔ ۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔ ۲۵- علامہ اقبال کے خطبات تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ کی علی گڑھ (نومبر ۱۹۲۹ئ) میں پیشکش کے موقع پر صدر شعبہ فلسفہ، علی گڑھ یونی ورسٹی ڈاکٹر سید ظفر الحسن کا خطبۂ صدارت، بحوالہ خطباتِ اقبال،نئے تناظر میں از محمد سہیل عمر، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۸ئ، ص۱۷۵۔ ۲۶- علامہ محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۴۰۔ ۲۷- ایضاً، ص۱۵۵۔ ۲۸- ایضاً، ص ۴۵۔ ۲۹- ایضاً، ص۲۷۲۔ خخخ ملا صدرا کے فلسفۂ وجود میں تشکیک الوجود خضر یاسین صدر الدین شیرازی معروف بہ ملاّ صدرا کے نزدیک دیگر ارباب وجود کی طرح لفظ وجود کے دو مصداق ہیں ’’وجود ذہنی‘‘ اور ’’وجود عینی‘‘۔ وجود عینی کو وہ حقیقی، اصلی اور مبدائے اول وغیرہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔تصور تشکیک کا تعلق وجود عینی سے ہے، وجود ذہنی سے نہیں ہے۔ تشکیک الوجود سے مراد وجودعینی کے ایسے مدارج ہیں جن میں وجہ امتیاز و تفاوت وجود کا بہ اعتبار قوت و ضعف اور نقص وکمال ایک دوسرے سے متفاوت اور متمیز ہونا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ وجود کا ایک درجہ دوسرے درجے سے ممتاز اس لیے ہوا ہے کہ ایک میں وجودکا ظہور دوسرے سے کم ہے یا زیادہ ہے۔مدارج وجود میں وجود کی بتدریج کمی ناقص سے ناقص تر درجۂ وجود کے نظامِ ظہور کی تشکیل کرتی ہے اور اسی طرح مدارج وجود میں بتدریج بیشی کامل سے کامل تر وجود کے نظام ظہور کو بیان کرتی ہے۔ملا صدرا نے اسی چیز کو ’’تشکیک الوجود‘‘ کا نام دیا ہے۔ملا صدرا کی الحکمۃ المتعالیۃ میں عالم خارجی میں کثرت اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والے امتیازات کی وجہ اشیاو حوادث کی ماہیات نہیں ہیں بلکہ وجود کے ظہور میں نقص و کمال کا فرق ہے۔گویا عالم خارجی میں اگر غیر نامی مظہر کو نامی سے اور نامی کو شعوری سے اور پھر شعوری کو خودشعوری مظہر سے ممتازکیا جاتا ہے تو اس کی وجہ خود ’’وجود‘‘ کا نقص و کمال اور شدت وضعف ہے ۔ ملاصدرا تشکیک کو خالصتاًمابعد الطبیعی مقولے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ان کے خیال میں عالم خارجی میں رونما ہونے والے ایسے امتیازات جو حسی اعتبار سے قابل مشاہدہ ہیں’’ تشکیک الوجود‘‘ کا حقیقی موضوع نہیں ہیں،تشکیک الوجود کا حقیقی موضوع مابعد الطبیعی نظام کائنات ہے۔مبدأ اوّل سے لے کر مادی مظاہر تک کئی مدارجِ وجود پائے جاتے ہیں۔ہر درجۂ وجود اپنے سے ماقبل درجۂ وجود سے ’’نورِ وجود‘‘ کے حامل ہونے میںناقص اور ضعیف ہوتا ہے۔صدرا کہتے ہیں جیسے جیسے مراتب نزول بڑھتے چلے جاتے ہیں ، مبدا و منبع وجود سے دوری ہوتی جاتی ہے وجود کے نور میں کمی اور عدمی ظلمتوں میں وجودی رنگ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ لکھتے ہیں: کلما کان مراتب النزول اکثر و عن منبع الوجود ابعد کان ظہور الاعدام والظلمات بصفۃ الوجود۔۱؎ جیسے جیسے نزول کے مراتب بڑھتے جاتے ہیں اور منبع ِوجود سے دور ہوتے جاتے ہیں ،اعدام اور ظلمتیں وجود کی صفت اختیار کرتے جاتے ہیں۔ مبداے وجود سے دوری کے باعث دو باتیں سامنے آتی ہیں:ایک یہ کہ نور وجود میں کمی آجاتی ہے اور دوسرا یہ کہ اعدام کا ظہور وجودی رنگ میں ہونے لگتا ہے۔ صدرا کے شارحین نے اس مشکل کی طرف توجہ نہیں دی کہ مبدائے وجود سے دوری کیا معنی رکھتی ہے؟ اس لیے کہ صدرا نے وجود کو نور پر قیاس کیا ہے اور نور میں ظلمت کا اثر منبع نور سے دوری ہی ہوتی ہے مگر یہ دوری خالصتاً مکانی دوری یا مکانی بعد ہوتا ہے، منبع نور مکان کے کسی ایک نقطے پر واقع ہوتا ہے اور مکان میں اصلاً ظلمت کا راج ہوتا ہے، منبع نور اس ظلمت کو محو کرتے ہوئے نور کی شعاعوں کو مکان کی ہر سمت پھیلا دیتا ہے، نتیجے کے طور پر نور کے محدود ذرات مکان کی لا محدود وسعت میںایک دوسرے سے جدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ مکان کی لا محدود پہنائیوں میں محو ہو جاتے ہیں۔گویا منبع نور سے نور کے ذرات کی فنا کا سامان مکان کی وسعتوں میں رکھا ہوتا ہے۔ تو کیا صدرا کے نزدیک وجود کے نور کے محو ہونے کی وجہ بھی مکان کی لا محدودیت ہے؟ صدرا کہتے ہیں کہ نورِ وجود میں اعدام کی شمولیت سے مدارج وجود میں وجود کی کمی ہوتی ہے،جس کا واضح مطلب ہے کہ نورِ وجود مکان کی پہنائیوں میں محو ہونے کے امکان سے بالا تر نہیں ہے۔ جیسے جیسے مکان کی وسعتیں بڑھتی جاتی ہیں نورِ وجود بھی اپنے مبدا سے دوری کی وجہ سے ضعف اور نقص میں مبتلا ہوتا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ صدرا کے نزدیک منبع ِ وجود سے قرب و بعد مکانی نہیں رتبی ہے، تو مذکورہ مشکل حل ہوجاتی ہے لیکن رتبی قرب و بعد کے موقف کو قبول کرنے سے ایک اور شدید تر مشکل پیدا ہوجاتی ہے ۔ رتبی قرب و بعد اپنی ماہیت میں خارجی نہیں ہوتا ،اعتباری ہوتا ہے۔فضائل کی ہستی کا انحصار ناظر کے زاویہ نگاہ پر ہوتا ہے ۔قدر و منزلت کاوجود اس مقام سے تخلیق ہوتا ہے جہاں سے تناظر وضع کیا جاتا ہے۔ فضائل و اقدار اشیا و حوادث کی ہستی میں نہیں ہوتے بلکہ یہ اس ذہن کے اضافات ہیں جو انہیں موضوعِ شعور بناتا ہے ۔ تو کیا صدرا یہ قبول کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں کہ’’ وجود ‘‘کے افراد میں تفاوت یا تشکیک کا منبع نفس الامر نہیں بلکہ ناظر کے شعور کا موضوعی اعتبارہے ؟ صدرا ’’وجود حقیقی‘‘ یا ’’وجود عینی ‘‘ میں ہر نوع کی خارجی مداخلت کے امکان کو پوری شدت کے ساتھ رد کرتے ہیںاور تشکیک الوجود ان کے نزدیک وجود حقیقی میں پائی جاتی ہے اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم صدرا کے مدراج وجود کو رتبی قرار دے سکیں ۔ تشکیک الوجود کے موقف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جیسے صدرا کے نزدیک اصل عالم’’ وجود‘‘نہیں بلکہ عدم ہے، اس لیے کہ اعدام نے وجود کا احاطہ کر رکھا ہے ، جو وسعت اور تسلط عدم کو حاصل ہے وہ وجود کو نہیں ہے۔وجود در اصل عدمی ظلمتوں میں گھِرا ہوا ایک جزیرہ ہے ، جیسے ہی نورِ وجود میں انتشار یا منبعِ نورسے بعد کی وجہ سے کمی واقع ہوتی ہے، اعدام کی ظلمتیں اس میں در آتی ہیں۔اعدام کی ظلمتیں بھی اسی طرح اپنی کمی اور بیشی کو ظاہر کرتی ہیں جیسے خودنور ِ وجود اپنی کمی اور بیشی سے مختلف افراد کے ظہور کا باعث بنتاہے۔البتہ وجود کا ایک منبع ہے جس سے وہ پھوٹتا ہے اور پھیلتا ہے، اسی کے حوالے سے وجود کے افراد کے قرب و بعد کا تعین ہوتا ہے۔ جب کہ عدمی ظلمتوں کاکوئی منبع نہیں ہے ، جہاں سے وہ منتشر ہوں اور ان کے افراد میں کمی اور بیشی سے تشکیک العدم کے نظام کا تعین ہو سکے۔مگر جس حد تک نورِ وجود میں کمی آتی ہے اسی نسبت سے ظلمت عدم میں بیشی ہوتی ہے اور جس نسبت سے نورِ وجود میں اضافہ ہوتا ہے اسی حساب سے ظلمت عدم میں کمی آجاتی ہے۔ صدرا کی الحکمۃ المتعالیۃ کے مطالعے کے دوران میں اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جانا چاہیے،کہ ’’ وجود‘‘ کا حصول اور تحقق ’’عدم‘‘ کی نفی سے ممکن ہوتا ہے جس طرح عدم کے کوئی معنی وجود کی مخالف سمت میں قیام کے بغیر ممکن نہیں ہوتے بالکل اسی طرح’’ وجود‘‘ کے معنوی تعین کا ادراک ہو یا وجود کے خارج میں متحقق ہونے کا امکان ہو’’ عدم‘‘ اس کی ہستی کا آخری سہارا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ صدرا کا ’’وجود‘‘ ایک منطقی تصور ہے جس کے دو پہلو ہیں ایک ایجاب اور دوسرا سلب، ایجاب کے معنی میں وہ ’’وجود‘‘ ہے اور سلب کے معنی میں وہی حقیقت ’’عدم‘‘ کہلاتی ہے۔صدرا کے نظام افکار میں’’ عدم‘‘ کو’’ وجود‘‘ سے باہر کسی مستقل حیثیت سے دیکھنے اور سمجھنے کی گنجائش نہیں ہے، مگر یہ ممکن ہے کہ ’’عدم‘‘ کو نظر انداز کردیں اور’’ وجود‘‘ مستقلاً دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ منطقی تصورات کے قیام میں اس نوع کا تسامح نادانستہ نہیں ہوتا بلکہ مکمل طور پر شعوری ہوتا ہے۔صدرا ’’عدم‘‘ کو دانستہ مطلع شعور سے خارج رکھنا چاہتے ہیں اور ’’وجود‘‘ کو دانستہ اپنے نظام افکار میں مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ صدرا ’’وجود ذہنی‘‘ اور ’’وجود عینی‘‘کو دو الگ الگ چیزیںقرار دیتے ہیںلہذا ان میں خلط مبحث نہیں ہونا چاہیے۔ہم’’ وجود کے مفہوم‘‘ پر بات کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم وجود کی حقیقت یا ’’وجود عینی ‘‘سے متعلق بات نہیں کر رہے، اسی طرح جب وجود کی حقیقت یا ’’وجود عینی‘‘ موضوع بحث ہوگا تو مفہوم ِوجود یا ’’وجود ذہنی‘‘ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔صدرا کہتے ہیں کہ حقیقتِ وجود کا مفہوم کوئی نہیں ہے۔ اس کا ایک ہی وجود ہے اور وہ حقیقی وجود ہے، وہ وجود کی حقیقت ہے، اس کا ذہنی وجود ممکن نہیں ہے۔ یہ’’ وجود ‘‘کے علاوہ میں تو ممکن ہے کہ ایک وجود خارجی ہو اور ایک وجود ذہنی ہو مگر جہاں تک ’’حقیقی وجود‘‘ یا ’’وجود عینی ‘‘کا تعلق ہے، تواس کے دو وجود نہیں ہیں،یعنی خارجی وجود اور ذہنی وجود’’فلیس للوجود وجود ذہنی‘‘ ۲؎ یعنی وجود کا وجود ذہنی نہیں ہوتا۔ان کا کہنا ہے کہ ’’ مفہوم ِ وجود‘‘ جو ہمارے ذہن میں پایا جاتا ہے، یہ دراصل معقولات ثانیہ میں سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عقل انسانی نے موجودات کے تصورات سے اسے اخذ کیا ہے، ایسے تصورات جن کو معقولات ثانیہ قرار دیا جاتا ہے ان کے مدمقابل یا متوازی خارج میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی جس کی طرف ان کو منسوب کیا جاسکے۔عقل انسانی اشیاء سے مثلاً شیئیت ، ممکن سے ممکنیت اور رنگ سے رنگت اخذ کرتی ہے تو یہ ایسے تصورات ہیں جن کے متوازی خارج میں شیئیت، ممکنیت اور رنگت نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے، ایسے عقلی ماخوذات ’’معقولات ثانیہ‘‘ اس لیے کہلاتے ہیںکہ ان کا انحصار معقولات اوّلیہ پر ہوتا ہے ۔صدرا کہتے ہیں ’’وجود‘‘ کا عقلی مفہوم بھی اس طرح کا ایک تصور ہے جسے عقل نے موجودات سے انتزاع کرلیا ہے ۔ وہ اپنے اس دعوے کی اپنے رسالے المشاعر میںخود نفی بھی کردیتے ہیں ، جہاں وہ خبر دار کرتے ہیں کہ ’’مفہوم وجود‘‘ کو دیگر معقولات ثانیہ کی طرح نہ سمجھا جائے اس لیے کہ وجود کے عقلی مفہوم کے متوازی ایسے حقائق موجود ہیں جن کو وہ ’’ امور متاصلہ ‘‘ کہتے ہیں ۳؎۔ یہ عجیب طرح کا تضاد اور اضطراب ہے۔ ’’مفہوم ِ وجود‘‘ کو حقیقتِ وجود سے جدا کرنے کا مدعا ایک اور مقام پر بھی اضطراب اور تضاد سے دو چار ہوتا ہے۔ صدرا الاسفار کے ابتدائی مباحث میں’’ مفہوم وجود‘‘ کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں ، اس میں’’ مفہوم وجود‘‘ کی طرف ایسی تین صفات منسوب کرتے ہیںجن کو کسی طور بھی وجود ذہنی کی طرف بیک آن منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ ایک صفت یہ ہے کہ ’’مفہوم ِوجود ‘‘مشترک معنوی ہے اور مشترک لفظی نہیں، دوسری یہ کہ وجود کے حقیقی افراد پر اس کا اطلاق بالتشکیک ہوتا ہے اور بالتواطی نہیں ہوتا، تیسری یہ کہ یہ ’’مفہوم وجود‘‘ افراد وجود کا مقوم نہیںہے۔ ’’مفہوم ِوجود‘‘ کی نسبت یہ تینوں دعاوی نہ صرف ایک دوسرے سے متصادم ہیں بلکہ ان دعاوی کا انتساب ’’مفہوم‘‘ ایسے مظہر کی طرف کرنا بھی محل ِ نظر ہے۔ سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مشترک معنوی ہونے اور مشترک لفظی ہونے میں کیا فرق ہے؟ اس کے بعد دیگر دو صفات کاجائزہ لیں گے اور آخر میں اس بات کا، کہ ان تینوں صفات کا انتساب’’ مفہوم وجود ‘‘ کی طرف کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ۔ ’’مشترک معنوی ‘‘ ایک ایسی حقیقت ہوتی ہے جو مدرک بن کر اشتراک اور افتراق کے امتیاز کا موضوع بن سکے۔ اگر وہ معنی کی سطح تک ہمارے شعور میں رسائی نہ رکھتی ہو تو یہ تصور ہی محال ہوگا کہ اس میں معنوی اشتراک ہے یا نہیںہے۔یہ ایک بہت حیران کن بات ہے کہ ہمارے بعض دانشور اس بنیادی ضرورت کو نظر انداز کرکے اشتراک لفظی اور اشتراک معنوی کے مباحث میں اپنی ذہنی صلاحیتوں کو کھپاتے رہے ہیں۔ذرا سوچیے کہ ایک تصور ہے جس کا خارج میں کوئی حسی مصداق موجود ہی نہیںہم اس کے مصداقات کو ایک دوسرے سے کس بنیاد پر ممتاز اور متمیز کر سکتے ہیں؟اگر ان میں اشتراک معنوی ہے تو ان کے مابین امتیاز کی کوئی سبیل موجود ہی نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا اپنا مدار ہستی فقط معنویت ہے اورکچھ بھی نہیں۔مثلاً ’’وجود‘‘ کو لیں ، یہ ایک معنی ہے، جو فقط ذہن ہی میں موجود ہے، خارج میں ہم اس کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ موجود ہے ورنہ وجود کا حسی ادراک ممکن ہی نہیں ہے، خارج میں فقط موجود کی ہستی پائی جاتی ہے، جو بہت سی صفات کے ساتھ موجود ہے۔ جسے ہم وجود کہتے ہیں وہ فقط ایک ذہنی تصور ہے یا یوں کہیے کہ ایک معنی ہے جس کا ادراک عقل کرتی ہے۔ہم جب واجب الوجود کو ممکن الوجود سے الگ کرتے ہیں تو ان میں وجود کا لفظ مشترک ہے ،معنی کی سطح پر ان دونوں میں اختلاف بھی ہے اور تضاد بھی۔ ممکن الوجود اور واجب الوجود میں بھی اگر معنوی اشتراک ہے تو ان میں فرق و امتیاز کا مبدا کیا ہے؟ اگر ہم معنی کی سطح پر ان میں فرق و امتیاز کا ادراک نہیں کرتے تو کیا حسی تجربے میں یہ فرق و امتیاز ہمارے شعور پر منکشف ہوتا ہے؟۴؎ ’’وجود‘‘ کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مشترک معنوی ہے اور مشترک لفظی نہیں ہے، ایک ایسی مشکل کو بھی پیدا کر دیتا ہے جس کا حل عقلی سطح پر ممکن نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ ’’معنوی وجود‘‘ کے ادراک کو ممکن بنانے والا عنصر کیا ہے؟ اگر ہم معنی کی سطح پر ایک شے کو دوسری سے ممتاز کرتے ہیں تو اس امتیاز کا ملاکِ ہستی کیا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ معنی کی سطح پر ایک ایسا امتیاز لازماً موجود ہے جو ایک معنی کو دوسرے معنی سے ممتاز کرتا ہے۔ اگر ہم ممکن الوجود کو واجب الوجود سے ممتاز کرتے ہیں تو یہ امتیاز اپنی ماہیت میں خالصتاً معنوی ہوگا۔ہم اس امتیاز کاصحیح تصور ایجاب میں کر سکتے ہیں مگر ایجاب سے حدود صحت کی نشاندہی نہیں ہوتی لہٰذا ہم اس فرق و امتیاز کی ماہیت کے درست ادراک کے لیے ایجاب سے نکل کر سلب میں آجاتے ہیں۔ سلب کا معاملہ اس باب میں بہت اہم ہے ، اس لیے کہ سلب کے ذریعے سے ہم ہر ایک معنی کی حدود صحت کا تعین کرنے اور اسے ممتاز حیثیت میں دیکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔اب اگر معنوی اشتراک کا حامل تصور دوسرے تصور کی نفی سے ختم ہو سکتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ معنوی اشتراک رکھتا ہے اور اگر ایک کی نفی دوسری کی نفی متصور نہ ہو سکے تو معنوی اشتراک کا دعویٰ بے معنی ہو گا۔ مذکورہ معیار کو پیش نظر رکھیے توسوال یہ ہے کہ کیا واجب الوجود کی نفی سے ممکن الوجود کی نفی لازم آتی ہے؟ یا ممکن الوجود کی نفی سے واجب الوجود منتفا ہو سکتا ہے؟ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کی نفی دوسرے کے سلب کو مستلزم نہیں ہے تو یہ بالکل واضح ہو گیا کہ ان میں اشتراک معنوی کی کوئی صورت نہیںہے لہٰذا یہ کہنا کہ’’ وجود ‘‘ کا لفظ مشترک معنوی ہے ، وجود کے تصور کے ناکافی فہم پر مبنی دعویٰ ہے۔ وجود بذاتہٖ ایک معنی ہے، جو اپنی نسبتوں سے تشکیل پاتا ہے، اگر وہ نسبتیں قائم نہ ہو سکیں تو ’’وجود‘‘ اور’’ عدم ‘‘ ہمارے لیے ایسے الفاظ ہیں جیسے ایجاب و سلب ، کلی و جزئی اور مطلق و مقید ہیں ، یہ عقل کے لیے قابل فہم تو ہیں مگر خارج میں ان کا تحقق علی الاستقلال ناممکن ہے۔ صدرا نے وجود کے مختلف مدارج کے بارے میں جو کچھ کہاہے اس کے پیش نظر یہ کہنا ممکن نہیں رہتاکہ وجود مشترک معنوی ہے ۔صدرا نے مدارج وجود کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہوئے لکھا: فالوجود الواقع فی کل مرتبۃ من المراتب لا یتصور وقوعہ فی مرتبۃ اخری لا سابقۃ ولا لاحقۃ ، ولا وقوع وجود آخر فی مرتبۃ لا سابق ولا لاحق۔۵؎ ’’چنا نچہ جو وجود مراتب وجود میں سے جس مرتبے میں واقع ہے اس کے سوا کسی پہلے یا بعد کے مرتبے میں اس کا وقوع تصور نہیں کیا جاسکتااور نہ پہلے اور بعد کے کسی دوسرے وجود کا وقوع اس کے مرتبے میں ہو سکتا ہے ۔‘‘ وجود کے مراتب کا تمیز اس حد تک مستحکم اور مستقل ہے کہ ایک درجۂ وجود کا وقوع دوسرے درجۂ وجود میں عملاًممکن ہے اور نہ علماً جائز ہے ۔ایسی صورت تو’’ وجود‘‘ کا تصور کلی متواطی کی ایک ایسی نوع متصور ہوتا ہے جس ہر فرد نوع مستقل منحصر فی فردہٖ ہوتا ہے۔ یہ نوع کی خاصیت ہے کہ وہ دوسری انواع سے علماً اور عملاً متمیز ہوتی ہے کیونکہ نوع کا ملاکِ ہستی اپنی اسی خاصیت کی بنیاد پر منحصر ہے اور یہی وہ امتیازی شان ہے جس کی بنیاد پر معنوی حقیقتوں میں انفرادیت اور تشخص پیدا ہوتاہے۔۶؎ ہم دیکھتے ہیں کہ صدرا کے ہاں اگرچہ ’’وجود ‘‘بنیادی مقولہ ہے، ان کے پورے نظام فکر میں ’’تصور وجود‘‘ ہی متحرک نظر آتا ہے بایں ہمہ’’ وجود‘‘ کے بارے میں صدرا کے ہاں تضادات و تخالفات کی صورت میں پائے جانے والے تسامحات اس طرح سے پائے جاتے ہیں کہ اسے نظام فکر کہنا مشکل ہوجاتا ہے۔معنوی اشتراک رکھنے والے حقائق میں ایسا تخالف اور تضاد ممکن ہی نہیں ہوتا کہ ایک کے متصور ہونے سے دوسرا ممنوع التصور ہو جائے۔ مذکورۃ الصدر عبارت میںصدرا نے اس مشکل کی جانب توجہ ہی نہیں دی کہ لاحق اور سابق کا ایسا امتیاز معنوی اشتراک کے حامل مظہر میں ناممکن ہے، اس لیے کہ معنوی وجود کے تحقق کی اولین شرط شعوری ارتکاز ہوتا ہے ، جس شعوری ارتکاز سے حقیقت کا دائرئہ محیط اپنی ہستی کو متمیز کر لے وہ معنوی اشتراک سے خارج ہو کر معنوی افتراق میں آجاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حقیقت کے اشتراک کی ہر نسبت محض نمائشی اور نمودی ہے اور اگر یہی بات ہے تو صدرا کا یہ کہنا کہ وجود مشترک معنوی ہے ،بالکل لا یعنی ہوجاتا ہے۔ صدرا بڑی سہولت کے ساتھ اس نوع کی فکری پیچیدگیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں ۔ صدرا کے نظام فکر میں وجودی تشکیک مقولہ’’ کیف‘‘ کے تحت حرکت سے تشکیل پاتی ہے مگر وہ اپنی وضع و تکمیل میں مقولہ’’ کیف ‘‘کا موضوع ہونے کے بجائے مقولہ’’ کم ‘‘کا مظہر بن جاتی ہے۔ صدرا کے نزدیک ’’کیف‘‘ ہو یا ’’کم‘‘ ہر دو مقولوں کی حرکت کے متحقق ہونے کے لیے’’ وجود‘‘ موضوع بن سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں : کل من الاشتداد و التضعف حرکۃ فی الکیف، کما ان کلا من التزاید و التنقص حرکۃ فی الکم۔۷؎ ہر طرح کی شدت اور ضعف مقولہ ’’کیف‘‘ کے تحت حرکت ہے جیسا کہ ہر طرح کی کمی اوربیشی مقولہ ’’کم‘‘ کے تحت حرکت ہوتی ہے۔ صدرا نے تشکیک کے مباحث میں’’ وجود ‘‘ کے شدت و ضعف اور کمال و نقص کا ذکر کیا ہے ، جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حرکت چاہے مقولہ ’’کیف‘‘ کے تحت ہو یا مقولہ ’’کم‘‘ کے ضمن میں واقع ہو ’’وجود‘‘ بہرحال اپنے تشکیکی مظاہر میںدونوں طرح کی حرکات کا موضوع ہے۔ مقولہ ’’کیف‘‘ اور مقولہ’’کم‘‘ دونوںاپنے مطلق تصور Absolute Concept کے درجے پر ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے نقیض ہیں۔ اس لیے کہ’’کیف‘‘کا مقولہ زمان کی حرکت کے ساتھ مشروط ہے اورحواس ظاہری میں زمان کو اپنی گرفت میں لینے کی اہلیت موجود ہی نہیں۔دوسری جانب مقولہ’’کم‘‘ ہے جو مکان کے سکون کے ساتھ مشروط ہے اور حواس باطنی میں مکان کو گرفت میں لانے کی استعداد موجود ہی نہیں۔ ان دونوں مقولات کی حقیقت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے نہ ایک دوسرے پر منحصر ہے،یہ دونوں اپنی ہستی کی حقیقی جہت میں ایک دوسرے کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کریں تو دونوں میں بنیادی فرق ماہیت کا نہیں ہوگا بلکہ دونوں کی ہستی کا ہوگا۔ صدرا کے نزدیک ’’وجود ‘‘ ایک ایسا منبع یا مبدا ہے جس سے ہر شے منتزع ہوجاتی ہے ، چاہے پہلے یا بعد میں انتزاع شدہ شے نفی ہو ، موافق ہو ، مخالف ہو، مساوی ہویا کوئی اور نسبت رکھتی ہو، ’’وجود‘‘ اوّلین متصور حقیقت ہے ، اس لیے مخالف ، متضاد،مساوی اور معکوس و مستوی کے مصداقات کا انحصار نفس وجود پر ہونے کے بجائے مظاہر وجود یا جسے صدرا مدارجِ وجود کہتے ہیں ان پر ہے۔ فکر کی فلسفیانہ سطح پر’’ مبدائے اوّل ‘‘کے اثبات کی جدوجہد نہیں کی جاتی، اس لیے کہ ’’الاوّل‘‘ایک مسلمہ ہونے کی حیثیت سے ثابت الذات ہے، وہ کسی فکری جدوجہد کا نتیجہ نہیںہوتا، اس کے بر عکس ہر فکری جدوجہد کا مبدا و معاد وہی ہوتا ہے۔اس کی نسبت سے جو بھی موقف اختیار کیا جاتا ہے وہ دراصل استدلال کا مرزبوم ہوتا ہے، آنے والا ہر استدلال اسی کی کوکھ سے پھوٹتا ہے۔ فلسفے کے طالب علم کو اس صورت حال کو پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ وہ استدلال اور مسلّمہ کی تقریر کو ایک دوسرے سے الگ کر سکے۔ صدرا کے فکر و فلسفے میں وجود اور اس کے تمام متعلقات اور مباحث میں ایک سنجیدہ مشکل یہ ہے کہ ’’مسلّمہ‘‘ اور ’’استدلال‘‘ ایک دوسرے میں متوارد ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً تشکیک الوجود کے مباحث کسی طرح سے فلسفیانہ استدلال کے معیار پر پورے نہیں اترتے لیکن اگر ہم ان مباحث کو صدرا کے فکری مسلّمات کے طور پر قبول کرتے ہیں تو ان پر اعتراضات کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ صدرا اپنے مسلّماتِ فکر کو فلسفیانہ استدلال کے نتائج کے طور پر پیش کرتے ہیں۔وجود کے بارے میں کہتے ہیں: لانی اقول ان تصور الشیٔ عبارۃ عن حصول معناہ فی النفس مطابقا لما فی العین، فھذا یجری فیما عدا الوجود من المعانی و الماہیات الکلیۃ التی توجد تارۃ بوجود عینی اصیل و تارۃ بوجود ظلی مع انحفاظ ذاتہا فی کلا الوجودین ، لیس للوجود وجود آخر یتبدل علیہ مع انحفاظ معناہ خارجاً و ذھناً۔ فلیس لکل حقیقۃ وجودیۃ الا نحو واحد من الحصول ، فلیس للوجود وجود ذہنی۔۸؎ میں کہتا ہوں شے کا تصور نفس میں عین کے مطابق معنی کے حصول سے عبارت ہوتا ہے۔یہ اصول وجود کے علاوہ دیگر معانی اور ماہیات کلیہ میں کارگر ہے، جو کبھی وجود عینی اصلی میں اور کبھی وجود ظلی میں پایا جاتا ہے ، جبکہ دونوں وجودوں میں اس کی ذات محفوظ رہتی ہے۔وجود کا دوسرا وجود نہیں ہوتا کہ خارج اور ذہن میں اس کے معنی محفوظ رہیں ۔پس ہر حقیقت وجودیہ کے حصول کی فقط ایک قسم ہے، اس لیے وجود کا وجود ذہنی نہیں ہوتا۔ مذکورہ بالا عبارت میںمندرجہ ذیل مفاہیم بالکل عیاں ہیں: ۱- معنی کا تحقق تصور اور خارج میں الگ الگ ہوتا ہے۔ ۲- معنی کی ذات خارجی اور ذہنی مصداق سے ہٹ کر اپنا وجود قائم رکھتی ہے۔ ۳- کلی معنی اور ماہیات کلیہ کی ذوات اور ان کے مصداقات الگ الگ ہوتے ہیں۔ ۴- ’’وجود‘‘ کے معنی کے مصداق اور نفس وجود میں کوئی فرق نہیں۔ ۵- اس لیے ’’وجود‘‘ کا وجود ذہنی نہیں ہوتا۔ مذکورۃ الصدر عبارت سے جو مفاہیم اخذ ہوتے ہیں وہ عقلی منطقی شعور کا تقاضا بالکل ہی نہیںہیں۔ اس لیے کہ فکر و فلسفے کا طالب علم خوب جانتا ہے کہ معنی کا اطلاق فقط تصور پر ہوتا ہے اور خارج میں معنی کا وجود کہیں نہیں ہوتا۔خارج میں شے کا معروضی وجود ہوتا ہے ، ذہن میں شے کا معنوی وجود ہوتا ہے۔ معنی کی ذات کی حفاظت کا کوئی تصور ایسا نہیں جو فقط ذہن میں نہ ہوتا ہو۔ جہاں تک مفروضہ ’’وجود‘‘ کا تعلق ہے جس کے بارے میں صدرا کا زعم ہے کہ اس کے دو وجود نہیں ہو سکتے، تو یہ بات نا قابل فہم ہے کہ’’ وجود‘‘کے اثبات کے لیے جس ذہنی تصور کو اساس کے طور پر قبول کیا جارہا ہے ، اس کی نفی کی جائے۔ صدرا نے تشکیک کے مباحث کو درست ثابت کرنے کے لیے یہ مفروضہ وضع کیا ہے کہ وجود کا ذہنی وجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہنی حقیقتوں کے لیے تشکیک ممکن ہی نہیں ہوتی۔ذہنی وجود ہمیشہ کامل اور مکمل ہوتا ہے، جبکہ تشکیک کا تقاضا ہے کہ ناقص وجود اپنے اندر ناقص تر اور ناقص ترین ہو سکنے کا بالقوہ حامل ہو اور کامل وجود کامل تر اور کامل ترین ہونے کے امکان کا حامل ہو، یہ صورت حال ایسی ہے جو ذہنی وجود کی طبیعت کے مخالف ہے۔ ذہنی وجود اپنے اندر امکان نہیں رکھتا ۔صدرا نے وجود کی تشکیک کے بارے میں مفہوم وجود سے استدلال کرنے سے اعراض کیا ہے اور کہا ہے کہ الوجود العام البدیہی اعتبار عقلی غیر مقوّم لافراد الوجود۔۹؎ وجود کا عام بدیہی تصور عقلی اعتبار ہے اور وجود کے حقیقی افراد کا مقوم نہیں ہے۔ گویا تشکیک کا تصور نفس وجود سے آیا ہے اور تشکیک کے تصور سے وجود کے مراتب و مدارج نہیں بنے بلکہ وجود کے حقیقی افراد کا بلاواسطہ کشف و شہود۱۰؎ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ وجود کا ظہور کامل سے ناقص اور ناقص سے ناقص ترمیں ظاہر ہوا ہے، یا اس سے برعکس صورت میںناقص سے کامل اور کامل سے کامل تر اور پھر کامل ترین مظاہر میں ہوتا ہے۔وجود کے ان مراتب کا شعور نفس وجود سے تعلق پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔ صدرا کے تصور تشکیک میں بعض مقامات پر یہ اندیشہ لاحق ہوتا ہے جیسے وہ تشکیک کا انتساب وجودی حقائق کے بجائے مفہوم وجود کی طرف کر رہے ہیں اور کبھی تشکیک کو نفس وجود کا لازمہ خیال کرتے ہیں۔ صدرا سمجھتے ہیں کہ واجب الوجود کی ہستی ایسی ہے جس میں جہت امکان ہے اور نہ اس میں کوئی حالت منتظرہ ہے۔ ان الواجب الوجود لیس فیہ جھۃ امکانیۃ … انہ لیس لہ حالۃ منتظرۃ۱۱؎ واجب الوجود میں جہت امکان نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔ نہ اس میں کوئی حالت منتظر ہوتی ہے۔ عجیب اور حیران کن بات یہ ہے کہ واجب الوجود میں امکانی جہت نہ ہو تو وہ تشکیک کے نظام کا حصہ کیونکر بن سکے گا ؟ اگر وجوب اور امکان میں شدت اور ضعف کے درمیان ہر طرح کی نسبت معدوم ہو یعنی وجوب میں جہتِ امکان مکمل طور پر معدوم ہو اور امکان میںجہتِ وجوب نہ ہو تو ان دونوں کے مابین تشکیک کی نسبت کا امکان بھی معدوم ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ تشکیک کا تقاضا یہ ہے کہ تشکیک کے ہر دومدارج میں ایک کی استعداد دوسرے میںبالفعل نہ سہی مگر بالقوۃ موجود ہو۔لیکن اگر دونوں کے بالفعل اور بالقوۃ امکانات ایک دوسرے کے لیے بالکل ہی اجنبی ہوں اور ہمارا ہر شعوری تجربہ وجوب اور امکان میں فقط امتیازات کی حقیقت کو یقینی بناتا ہو تو وجودات کے مابین تواطی کی نسبت ہوگی اور تشکیک کی نہیںہو گی ۔ شیخ اشراق نے اگر چہ تشکیک الوجود کے بجائے تشکیک النور کی اصطلاح پر توجہ دی ہے اور نور کی تشکیک پر اصرار کیا ہے مگر وجود کے بارے میں ان کا موقف بہت ہی دلچسپ ہے، صدرا اور ان کے تابعین نے شیخ کی ایک اہم اصطلاح پر توجہ نہیں دی ورنہ تشکیک الوجود کے بارے میں پائی جانے والی مذکورہ مشکل کو حل کرنے میں بہت آسانی محسوس کرتے ۔ شیخ اشراق نے امکان کے بارے میں بتایا ہے کہ اس کی دو جہتیں ہیں ، ایک ’’امکانِ اشرف‘‘ اور دوسرا ’’امکانِ اخس‘‘۔ امکان میں اشرف اور اخس کے اضافے سے ممکن کو تشکیک کے مدارج کا محل ہونا قابل فہم ہو جاتاہے۔مگر واجب الوجود کے تعلق میں ’’امکان اشرف‘‘ اور’’امکانِ اخس‘‘ کی اصطلاح بے معنی ہے، اس لیے شیخ اشراق نے اللمعات میں لکھا: ھی انہ اذا وجد الامکان الاخس من واجب الوجود، یکون الامکان الاشرف وجود منہ و الا یستدعی الامکان الاشرف عند فرضہٖ، جھۃ اشرف مما علیہ واجب الوجود۔۔۔۱۲؎ واجب الوجود اور ممکن الوجود کے مابین تشکیک کے امکان کی یہی قابل فہم صورت ہے، اگرچہ یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ شیخ اشراق کے موقف سے واجب الوجود اور ممکن الوجود کے مابین تشکیک کی نسبت قائم ہوگئی ہے۔ اسی طرح صدرا کے لیے عدم کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’عدمِ خاص ‘‘، ’’عدم عام‘‘ سے مختلف ہوتا ہے کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ تاہم شیخ اشراق کی اصطلاح ملا صدرا کے موقف سے زیادہ مکمل معلوم ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ امکان کے ساتھ اشرف اور اخس کا اضافہ تشکیک الوجود کو زیادہ قابل فہم بنادیتا ہے۔۱۳؎ صدرا کہتے ہیں کہ مفارقاتِ وجودیہ اور مقارناتِ مادیہ میں وجود کے ایسے افراد پائے جاتے ہیں جن میں وجود اور عدم دونوںمیں کمی ،بیشی اور توازن کی نسبت ہوتی ہے۔ مفارقاتِ وجودیہ میں نور وجود کا غلبہ ہے اور مقارناتِ مادیہ میں ظلمت عدم کا غلبہ ہے جبکہ دونوں کے درمیان وجود و عدم میں توازن پایا جاتا ہے۔۱۴؎ اصل بات یہ ہے کہ صدرا کے نزدیک’’ وجود‘‘ فقط وہی نہیں جو عقلی مقولات میں آجاتا ہے۔ان کے نزدیک وجود مفارقات اور مقارنات میں محدود نہیں ہے بلکہ ان سب کا احصا کیے ہوئے ہے۔حتیٰ کہ عدم بھی وجود کے شمول میں داخل ہے، یعنی وجود کا اشتمال اس حد تک پھیلا ہوا ہے کہ عدم اگر چہ وجود کی نفی ہے تاہم وجود کے انسلاب سے فیض یاب ہوکر منصہ شہود پر آیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صدرا کے فکر کی وہ جہت جسے زیر نظر مضمون میں موضوع بحث بنایا گیا ہے ، اس کی حیثیت سوا ئے ایک توضیح الامر کے کچھ نہیں ہے۔ تشکیک کا تصور ایک ایسے نظام الوجود کی نشاندہی کرتا آیا ہے جس میں حسی حقائق کا ایک مشترک عنصر کم سے کم تر اور زیادہ سے زیادہ تر ہونے کی نشاندہی کرتا ہو ۔ جس معنی میں تشکیک کی اصطلاح صدرا نے استعمال کی ہے وہ کبھی ان معنوں میں استعمال نہیں ہوئی ۔ خخخ حواشی و حوالہ جات ۱- صدر الدین شیرازی المعروف ملاصدرا، الاسفار،دار احیاء التراث العربی ،بیروت۲۰۰۶ئ، ج،۱، ص ۹۰،۸۶۔ ۲- ملا صدرا، رسالۃ المشاعر، بہ تصحیح جلال الدین اشتیانی،مؤسسۂ انتشاراتِ امیر کبیر، تہران ۱۳۷۶، ص ۲۷۔ ۳- یہ ایک عجیب تصور ہے جس کے بارے میں صدرا کے فکر و فلسفے میں حیران کن تضاد اور انتشار پایا جاتا ہے، ایک طرف تو انہیں اس پر اصرار ہے کہ مفہوم وجود عقلی انتزاع ہے پھر ساتھ ہی انہیں یہ معقولات ثانیہ میں ہونے کے باوجود اپنے متوازی خارجی حقائق کا اور امور متاصلہ کا حامل بھی نظر آتا ہے۔وہ رسالۃ المشاعر میں اس پر باقاعدہ تنبیہ کرتے ہیں کہ اسے معقولات ثانیہ میں ہونے کے باوجود معقولات ثانیہ کی طرح نہ سمجھا جائے’’الا ان بازاء ھذا المفہوم امور متأصلۃ فی التحقق و الثبوت بخلاف الشیئیۃ والماہیۃ و غیرھما من المفہومات‘‘رسالۃ المشاعر، ص ۵۲۔(ترجمہ) ’’خبر دار اس مفہوم کے متوازی امور متاصلہ کا تحقق اور ثبوت پایا جاتا ہے، بخلاف شیئیت اور ماہیت اور ان دونوں کے علاوہ مفہومات میںایسا نہیں ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم وجود معقولات ثانیہ میں بھی ہے اور امور متاصلہ کا تحقق اور ثبوت بھی اس متوازی خارج میں پا یا جاتا ہے۔ یہ ایک لا یعنی بات ہوجاتی ہے، اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صدرا کے شعور پر معقولات ثانیہ کا مفہوم اور اطلاق بالکل ہی غیر واضح ہے۔ ۴- اس بحث کے لیے دیکھیے آثار شہید مطہری جس میں شرح منظومہ مبسوطمیں مطہری نے ملا ہادی سبزواری کی منظومہ کی تشریح کرتے ہوئے اس مشکل کی طرف توجہ ہی نہیں کی کہ مشترک معنوی ہونے کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ حسی اور عقلی ادراک میں جو فرق و امتیاز پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں جو تقسیم بنتی ہے وہ اس کو درخور اعتنا ہی نہیں کرتے۔ اس کے باوجود مشترک لفظی اور مشترک معنوی کی طویل بحث کرتے چلے گئے ہیں۔ بحث میں لایعنی مسائل پر طویل اور بے مقصد گفتگو کرنا تو فکر و فلسفے کی خدمت نہیں ہے۔اسی طرح اشتراک معنوی کے لیے صالح القسمۃ ہونا دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں جس مرکزی نکتے کو نظر انداز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’وجود‘‘ کی واجب اور ممکن ہونے کی تقسیم کا انحصار’’ وجود ‘‘ کے تصور پر نہیں ہے بلکہ واجب اور ممکن کی اضافت پر ہے۔ واجب اور ممکن کے الفاظ وجود کے بطن سے نہیں نکلے یہ اپنا ایک ایسا مفہوم رکھتے ہیں جس سے وجود کو تشخص اور تخصص میسر آتا ہے یعنی’’ وجود‘‘ ہمارے شعور میں کسی معنی کا حامل بنتا ہے۔ورنہ وجود کا لفظ انسانی شعور کے لیے عدم کے مساوی ایک تصور ہے۔ ۵- الاسفار ،سفر اوّل، فصل دوم، ص۶۲۔صدرا نے یہاں وجود کے متعلق جو تصور پیش کیا ہے وہ کم از کم مفہوم وجود کے متعلق ان کے تصورات سے کسی طرح لگا نہیں کھاتا، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وجود کے ہر ہر فرد کے لیے مستقل تشخص موجود ہے، لہٰذا ہر فرد وجود کے متوازی ذہن میں ایک نیا مفہوم تشکیل پائے گا۔ اگر بات یہی ہے تو مفہوم وجود کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ مشترک معنوی ہے ، بالکل بے معنی ہوجاتا ہے۔ ۶- نصیرالدین الطوسی ، اساس الاقتباس،چاپخانہ دانشگاہ، ایران، ۱۳۲۶، ص ۲۹،اصلاً نوع کی بحث منطق کے فن میں کی جاتی ہے۔ ہر نوع کا فوقانی تصور جنس کہلاتا ہے ، ہر جنس کا تحتانی تصور نوع کہلاتا ہے، مگر عملاً نوع ہی وہ تصور ہے جس کا شعور حضوری مشاہدے میں بیدار ہوتا ہے۔اگر انسان کا تصور جنس کا حکم رکھتا ہے تو مرد اور عورت اس کے ماتحت دو اجناس ہیں۔ مرد اور عورت کے مابین واقع امتیاز کا شعور ہی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ان دونوں کے مابین علمی اور عملی توارد کا امکان موجود ہی نہیں ہے۔ ۷- الاسفار، ج ۱، ص ۳۹۸۔ ۸- صدرا ، کتاب المشاعر، شرح از جلال الدین اشتیانی، مؤسسہ انتشارات امیر کبیر،تہران،۱۳۷۶، ص۲۷۔ ۹- الاسفار، ج ۱ ، ص ۶۳۔ ۱۰- صدرا نے وجودی حقائق کے عرفان و ادراک کے لیے دو راستے بیان کیے ہیں، ایک مشاہدۂ حضوری اور دوسرا وجودی حقائق کے آثار و لوازمات کے ذریعے سے استدلال کرنا ۔الاسفار میں وہ کہتے ہیں : فالعلم بھا اما ان یکون بالمشاھدۃ الحضوریۃ او بالاستدلال علیھا بآثارھا و لوازمھا، فلا تعرف بھا الا معرفۃ ضعیفۃ ، (الاسفار، ج ۱، ص ۷۶)۔ یعنی وجودی حقائق کا علم یا تو حضوری مشاہدے سے ممکن ہوگا یا پھر ان کے آثار اور لوازمات سے استدلال کیا جا سکتا ہے، بہر حال ان کی معرفت ناقص ہی رہتی ہے۔ ۱۱- ایضا، ص ۱۳۸۔ ۱۲- شیخ اشراق، اللمعات ، مشمولہ سہ رسالہ، تہران ۱۳۹۷، ص ۱۵۶؛ شیخ اشراق نے امکان اشرف اور امکان اخس پر اپنی دیگر تصنیفات میں بحث کی ہے،ان کے موقف کی وضاحت کے لیے دیکھیے،مجموعہ مصنفات شیخ اشراق، التلویحات، ص ۵۱، نیز المشاعر، ص ۴۳۴،۴۳۵، تدوین ، ہنری کربین، تہران ۱۳۷۳۔ ۱۳- ایضاً، الالواح العمادیۃ، ۳۹۔ ۱۴- ایضاً، ص ۳۳۰ - ۳۳۵؛ اس مسئلہ کی پوری وضاحت کسی ایک مقام پر صدرا نے درج نہیں کی، تشکیک کے مباحث کے لیے ان کے پورے نظام فکر کو دیکھنا ضروری ہے۔ عدم کے مباحث میں بہت سے ایسے مسائل بیان کرتے ہیں جن سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عدم کے بارے میں بھی وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ یہ بھی وجود کے پھیلاؤ کا ایک رنگ ہے مثلاً’’ فانظر الی شمول نور الوجود و عموم فیضہ کیف یقع علی جمیع المفہومات و المعانی حتی علی مفہوم اللاشی والعدم المطلق و الممتنع الوجود بما ہی مفہومات متمثلات ذھنیۃ لا بما ھی سلوب‘‘ الاسفار ،ص ۳۳۲۔ یعنی : نور وجود کے شمول کا مشاہدہ تو کرو، اور اس کے عموم فیض کو دیکھو تو سہی، کس طرح سے تمام مفاہیم اور معانی کا احاطہ کرتا ہے، یہاں تک کہ لا شے اور عدم مطلق اور ممتنع الوجود کو بھی شامل ہے،بایں طور کہ یہ ذہنی تمثلات ہیں نہ کہ سلبیت کی حامل واقعی اشیا۔ صدرا کے تصور وجود کو یہاں سے حاصل کرنا قدرے آسان ہے۔ان کے نزدیک ہر وہ شے وجود ٹھہرتی ہے،جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں، سلبی اور منفی تصورات جن کا ملاکِ ہستی ہی یہ ہے کہ ان کے متوازی خارج میں کچھ نہیں ہے ، وہ بھی وجود کے زمرے میں آجاتے ہیں ،بطور مفہوم و معنی نہ کہ نفس واقعہ کی حیثیت سے کسی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خخخ اقبالیاتِ مجلہ المعارف لاہور ۱۹۵۵ء ------ ۲۰۱۰ء سمیع الرحمن ادارہ ثقافت اسلامیہ کے زیر اہتمام ثقافت کے نام سے علمی مجلے کا اجرا ہوا۔ بعد میں اُس کا نام المعارف رکھ دیا گیا۔ اس پرچے میں دینی اور علمی و ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ اقبالیات سے متعلق مختلف موضوعات پر بہت سے مقالات شائع ہوتے رہے ہیں۔ اُن اقبالیاتی مقالات کا اشاریہ پیش کیا جارہا ہے۔ علامہ خلیفہ عبدالحکیم، سراج منیر، مولانا محمد حنیف ندوی، محمد سہیل عمر، محمد اسحاق بھٹی اور ڈاکٹر رشید احمد جالندھری جیسے نامور علماء و محققین اس کے مدیر رہے ہیں۔ آج کل قاضی جاویداس کے مدیر ہیں۔ سوانح اور فکر وفن آغا شاعر قزلباش علامہ ڈاکٹر سر اقبال اکتوبر۱۹۸۳/۴۵-۴۸ آفتاب اقبال اقبال: ایک عظیم مفکر شاعر دسمبر۱۹۷۷/۴۱-۴۹ احسان الٰہی سالک(مرتب) اقبال… آزادیِ ملت کا ہیرو [علم الدین سالک] اپریل۱۹۸۴/۲۷-۳۶ احتشام حسین اقبال کی شاعری اور انقلاب رُوس اگست۱۹۶۵/۵۵-۶۲ احمد علی رجائی اقبال کا ایک شعر اپریل۱۹۷۲/۱۸-۲۶ احمد ندیم قاسمی اقبال کا نظریہ شعر ستمبر۱۹۷۷/۳۶-۴۱ اختر راہی اقبال اور تاثیر نومبر۱۹۷۷/۴۳-۵۳ ادارہ فکرِ اقبال جنوری۱۹۵۸/۷۲ افتخار حسین شاہ تاریخ ساز اقبال، معلم تاریخ اور مورخ کی حیثیت سے اپریل۱۹۸۰/۵-۲۶ اقبال،علامہ اسلام کا اخلاقی اور سیاسی مطمح نظر اپریل۱۹۸۲/۲۵-۳۶ ؍؍ ؍؍ پیام آخریں جنوری۱۹۷۸/۳-۷ ؍؍ ؍؍ حکمرانی کا خدا داد حق ستمبر۱۹۷۷/۳-۷ اکرام چغتائی پیامِ مشرق [چند تصریحات] جولائی۲۰۰۲/۲۹-۶۰ بختیار حسن صدیقی جدید نظریاتِ تعلیم اور اقبال اپریل۱۹۸۰/۲۷-۳۸ بدیع الزمان فروز مثنوی معنوی، اقبال کے پسندیدہ اشعار کی شرح مارچ۱۹۷۴/۱۷-۳۴ بشیر احمد ڈار اقبال کا نصب العینی معاشرہ اور اقتصادی مسائل اپریل۱۹۷۴/۷-۲۷ ؍؍ ؍؍ مسئلہ اجتہاد، اقبال کی نظر میں جنوری۱۹۵۸/۱۸-۳۱ پروین شوکت علی اقبال اور تصورِ قومیت جون۱۹۷۶/۳۷-۴۲ توقیر سلیم بالِ جبریل کا ایک شعر اکتوبر۱۹۸۳/۳۳-۴۴ جان سلمپ Sir Muhammad Iqbal and Christian Theologians اکتوبر۱۹۹۹/1-19 جمیلہ شوکت اقبال اور حبِ رسول ﷺ نومبر۱۹۷۷/۴-۱۵ حامد خان حامد زندگی اقبال کی نظر میں جنوری۱۹۸۴/۳۵-۴۰ ؍؍ ؍؍ اقبال اور فارسی شاعری کی روایات نومبر۱۹۶۸/۳۸-۴۹ حسین ایم جعفری اقبال اور انسانی تہذیب[مترجم: محمد سہیل] نومبر۱۹۹۲/۶۳-۷۹ حمید یزدانی اقبال اور ایرانی ادب نومبر۱۹۸۲/۳۹-۴۸ خالد حسن قادری علامہ اقبال کا ایک شعر[اعتراضات کا جائزہ] اپریل۱۹۹۸/۱۳-۱۸ رحیم بخش شاہین اتحادِ اسلامی اور علامہ اقبال جولائی۱۹۷۶/۳۳-۵۵ ؍؍ ؍؍ اقبال کا پسندیدہ معاشی نظام ستمبر۱۹۷۷/۵۰-۶۵ رشید احمد اقبال کے سیاسی افکار نومبر۱۹۵۹/۱۴-۳۱ رشید احمد جالندھری تہذیبوں کی حیات و موت کا مسئلہ اور مسلم سوسائٹی [افکار ِ اقبال کی روشنی میں] اکتوبر۱۹۹۵/۷-۲۲ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال کا یومِ ولادت نومبر۱۹۹۲/۹-۱۴ ؍؍ ؍؍ علامہ محمد اقبال کے افکار اپنی ہی سرزمین میں اجنبی کیوں؟ جنوری۲۰۰۲/۷-۱۵ ؍؍ ؍؍ فقہ اسلامی‘ ہمارے مسائل اور علامہ اقبال اکتوبر۱۹۹۷/۴۷-۶۳ ؍؍ ؍؍ قیام پاکستان اور اقبال اپریل۱۹۹۳/۷-۹ ؍؍ ؍؍ کشمیر کی خوں چکاں داستاں اور اقبال اپریل۱۹۹۳/۹-۱۰ ؍؍ ؍؍ لندن ۱۹۳۱ء میں کشمیر کانفرنس اور ڈاکٹر اقبال اپریل۱۹۹۹/1-5 رئیس احمد جعفری فکرِ اقبال اگست۱۹۵۷/۵-۶ ریاض حسین علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے علامہ اقبال کی مالی امداد جون۱۹۸۳/۲۹-۳۲ سعید احمد رفیق اقبال اور اہمیت اخلاق ستمبر۱۹۶۰/۹-۲۸ سلیم اختر اقبال اور نظریہ پاکستان کی اساس ستمبر۱۹۷۷/۶۶-۷۴ سلیم خاں گمی اقبال اور تہذیبِ حاضر اکتوبر۱۹۸۳/۱۵-۲۰ سمیع الحق وضعِ اسلامی میں تغیر کا اصول[اقبال کے چھٹے خطبے کا ترجمہ وتشریح] جنوری۲۰۰۲/۶۱-۹۵ شاہد حسین رزاقی اقبال اور اسلامی سیاسی تصورات اپریل۱۹۶۰/۴۵-۵۶ ؍؍ ؍؍ اقبال کا نظریۂ مقصودِ ہنر اپریل۱۹۷۳/۱۷-۲۸ ؍؍ ؍؍ تصوف، اقبال کی نظر میں ستمبر۱۹۷۷/۹۷-۱۱۵ شباب و نہاروی اقبال بحیثیتِ تعلیمی مفکر فروری۱۹۷۱/۱۳-۲۲ شبیر احمد خاں غوری علامہ اقبال اور خطوطِ متوازی کا مصادرہ-۱ اکتوبر۱۹۵۸/۱۳-۲۶ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال اور خطوطِ متوازی کا مصادرہ-۲ نومبر۱۹۵۸/۷-۲۴ شبیر احمد اقبال کا تصورِ زمان و مکان اپریل۱۹۶۴/۳۳-۵۰ طفیل دارا اقبال اورحیدرآباد (دکن) کی ملازمت کامسئلہ-۱ نومبر۱۹۸۱/۱۶-۲۸ ؍؍ ؍؍ اقبال اور حیدرآباد (دکن) کی ملازمت کا مسئلہ-۲ دسمبر۱۹۸۱/۳۱-۴۴ عارف سیالکوٹی اقبال کا نظریہ تعلیم ستمبر۱۹۷۷/۱۱۶-۱۲۱ عالم خوندمیری اقبال اور تشخص اور تنوع کا مسئلہ اکتوبر۱۹۹۵/۵۹-۷۲ ؍؍ ؍؍ انسانی تقدیر اور وقت … اقبال کی نظر میں جنوری۱۹۹۶/۲۳-۴۰ ؍؍ ؍؍ جاوید نامہ- فکری پس منظر جولائی۱۹۹۴/۸۵-۱۰۵ ؍؍ ؍؍ فکرِ اقبال میں شخصیت، تقدیر اور وقت مئی۱۹۹۳/۳۹-۵۴ ؍؍ ؍؍ ’’زماں‘‘ اقبال کے شاعرانہ عرفان کے آئینے میں اپریل۱۹۹۵/۶۵-۹۲ ؍؍ ؍؍ A Study of the Concept of Transfromation, Leadership and Freedom in the Political Philosophy of Iqbal اکتوبر۲۰۰۰/1-19 عباد اللہ فاروقی اُردو شاعری میں اقبال کا مرتبہ اپریل۱۹۷۷/۱۸-۲۶ عبدالحکیم،خلیفہ اقبال کا تصورِ الٰہ دسمبر۱۹۶۸/۳-۷ ؍؍ ؍؍ اقبال کی زندگی مئی۱۹۵۸/۹-۱۸ ؍؍ ؍؍ جاوید نامہ مارچ۱۹۵۷/۷-۱۲ عبدالحمید یزدانی(مترجم) ملی حیاتِ نو اور ترقی میں اقبال کا کردار [سیّد مہدی غروی] جنوری۱۹۸۰/۳۳-۳۹ عبدالسلام خورشید اقبال اور فلسطین ستمبر۱۹۷۷/۷۵-۸۱ عبدالواحد بنگلہ میں اقبالیات جنوری۲۰۰۶/۳۵-۴۶ عطش درانی علامہ اقبال اور سائنسی فکر نومبر۱۹۸۱/۲۹-۳۸ علم الدین سالک اقبال… آزادیِ ملت کا ہیرو [مرتب: احسان الٰہی سالک] اپریل۱۹۸۴/۲۷-۳۶ غلام جیلانی برق اقبال عالمِ بالا میں-۱ ستمبر۱۹۷۷/۲۵-۳۵ ؍؍ ؍؍ اقبال عالمِ بالا میں-۲ جنوری۱۹۷۸/۸-۱۵ فتح محمد ملک نظم ’ذوق و شوق‘ کو سمجھنے کے لیے [اقبالیات] جنوری۲۰۰۲/۹۷-۱۰۴ محمد اجمل اقبال… ایک ترقی پسند کی حیثیت سے جنوری۲۰۰۱/۳۷-۴۲ ؍؍ ؍؍ علم اور مذہبی واردات [اقبال کے پہلے خطبے کا ترجمہ وتشریح] جنوری۲۰۰۲/۴۵-۵۹ ؍؍ ؍؍ Two kinds of Thinking in Iqbal's Philosophy جولائی۲۰۰۴/1-24 محمد جعفر شاہ پھلواروی سرمایہ داری اقبال کی نظر میں جولائی۱۹۷۲/۲۷-۳۷ محمد سہیل(مترجم) اقبال اور انسانی تہذیب [حسین ایم جعفری] نومبر۱۹۹۲/۶۳-۷۹ محمد حنیف ندوی خطباتِ اقبال کا توضیحی تجزیہ دسمبر۱۹۶۲/۷-۱۸ ؍؍ ؍؍ خطباتِ اقبال کا توضیحی تجزیہ اکتوبر۲۰۰۷/۳۷-۴۸ محمد خالد مسعود اجتہاد اور اکیسویں صدی [اجتہادیات اقبال و خلیفہ عبدالحکیم] اپریل۱۹۹۹/۲۹-۵۹ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال‘ اسلامی قانون اور عصری تقاضے اپریل۱۹۹۷/۱۷-۴۶ محمد ریاض ارمغانِ حجاز ستمبر۱۹۷۷/۸۲-۹۶ ؍؍ ؍؍ اقبال افغانستان میں مئی۱۹۷۷/۲۵-۳۲ ؍؍ ؍؍ اقبال اور معاشرہ کی تعمیرِ نو جون۱۹۷۲/۳۸-۴۶ ؍؍ ؍؍ اقبال اور معاشرتی انصاف نومبر۱۹۷۴/۳۵-۴۱ ؍؍ ؍؍ اقبال اور نژادِ نو دسمبر۱۹۷۲/۴۲-۵۰ ؍؍ ؍؍ اقبال کا عسکری آہنگ اپریل۱۹۸۲/۱۳-۲۴ ؍؍ ؍؍ اقبال کی اُردو شاعری کے چند پہلو اپریل۱۹۸۰/۳۹-۴۹ ؍؍ ؍؍ اقبال کی شاعری میں مکالماتی حسن-۱ مئی۱۹۸۰/۲۲-۳۴ ؍؍ ؍؍ اقبال کی شاعری میں مکالماتی حسن-۲ جون۱۹۸۰/۳۷-۵۱ ؍؍ ؍؍ اقبال، نظریہ پاکستان اور نفاذِ شریعت اپریل۱۹۸۴/۱۷-۲۶ ؍؍ ؍؍ تصانیف اقبال- دیباچے اور سرنامے نومبر۱۹۸۲/۲۱-۳۸ ؍؍ ؍؍ جاوید نامہ کے اصلی کردار جولائی۱۹۷۷/۳۸-۴۵ ؍؍ ؍؍ کلام اقبال میںتغزل مارچ۱۹۸۰/۴۵-۵۲ ؍؍ ؍؍ کلامِ اقبال کے چند نکات جون۱۹۷۷/۱۱-۱۶ ؍؍ ؍؍ مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے علامہ اقبال کی دُعائیں اکتوبر۱۹۸۳/۲۱-۳۲ محمد سعید شیخ اسلام کا شارح عظیم- علامہ اقبال اکتوبر۱۹۸۳/۵-۱۴ محمد صدیق اقبال اور میسی نون اپریل۱۹۷۹/۳۱-۳۷ محمد عبداللہ قریشی پنجاب کونسل کی نیابت اور اقبال ستمبر۱۹۷۷/۱۲۲-۱۳۳ ؍؍ ؍؍ تاثرات [اقبال اور ’اقبال نمبر‘ / اداریہ] ستمبر۱۹۷۷/۲ محمد عثمان اقبال اور قرآن مئی۱۹۵۹/۱۳-۲۲ محمد فیروز فاروقی اقبال کاتصورِ توحید نومبر۱۹۷۵/۱۷-۳۱ محمد منور،مرزا جہانِ اقبال… ستمبر۱۹۷۷/۸-۲۴ مظفر عباس اسلامی ریاست کی تشکیل اور علامہ اقبال کا نقطۂ نظر جون۱۹۷۸/۳۵-۴۴ مظفر ملک ڈاکٹر اقبال بحیثیتِ مرثیہ گو ستمبر۱۹۶۰/۳۹-۵۰ معین الدین عقیل اقبال اور وہابی تحریک نومبر۱۹۷۷/۱۶-۲۶ ؍؍ ؍؍ دنیائے اسلام میں تحریک مغربیت اور اقبال جولائی۱۹۸۷/۱۲۳-۱۵۴ منظور الحق صدیقی علامہ اقبال کا اخبار ایمان میں ذکر مئی۱۹۸۱/ ۴۶-۴۸ ؍؍ ؍؍ ’رفیقِ نبوت‘… کلامِ اقبال میں اپریل۱۹۷۹/۲۴-۳۰ مہدی غروی،سیّد ملی حیاتِ نو اور ترقی میں اقبال کا کردار [مترجم: عبدالحمید یزدانی] جنوری۱۹۸۰/۳۳-۳۹ میرزا ادیب علامہ اقبال اور مغربی تہذیب ستمبر۱۹۷۷/۴۲-۴۹ نذیر احمد،چودھری اقبال کی اسلامی اور عربی تشبیہات -۱ جون۱۹۷۳/۲۳-۳۸ ؍؍ ؍؍ اقبال کی اسلامی اور عربی تشبیہات -۲ جولائی۱۹۷۳/۴۲-۵۶ ؍؍ ؍؍ قدیم تشبیہات میں اقبال کے تصرفات اگست۱۹۷۵/۳۳-۴۶ وفا راشدی اقبال کا نظریہ زندگی نومبر۱۹۷۷/۴۰-۴۲ ……… فکرِ اقبال پر مغربی اثرات اکتوبر۱۹۶۱/۴۱-۴۶ اقبال شناس اختر راہی ایک اقبال شناس… مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ستمبر۱۹۷۹/۳۰-۳۶ ؍؍ ؍؍ مولانا غلام رسول مہر… ایک اقبال شناس فروری۱۹۸۱/۳۴-۴۸ رئوف نیازی اقبال شناسی- ڈاکٹر منظور احمد کی نظر میں جولائی۲۰۰۳/۶۷-۷۵ اقبال ،مولانا رُوم اور نطشے عبدالحکیم،خلیفہ رُومی اور اقبال کا تصورِ محبت جولائی۱۹۷۴/۵-۱۴ ؍؍ ؍؍ رُومی اور اقبال اپریل۱۹۶۲/۷-۱۲ ؍؍ ؍؍ رُومی، نطشے اور اقبال-۱ دسمبر۱۹۵۸/۷-۱۶ ؍؍ ؍؍ رُومی، نطشے اور اقبال-۲ جنوری۱۹۵۹/۷-۲۰ ؍؍ ؍؍ رُومی، نطشے اور اقبال-۳ فروری۱۹۵۹/۷-۱۸ محمد ریاض مولانا رُومی اور اقبال-۱ اپریل۱۹۷۶/۲۵-۳۶ ؍؍ ؍؍ مولانا رُومی اور اقبال-۲ مئی۱۹۷۶/۴۵-۵۵ ؍؍ ؍؍ مولانا رُومی اور اقبال-۳ اگست۱۹۷۶/۵۳-۵۷ اقبال و دیگر شخصیات اختر راہی علامہ اقبال اور نادر شاہ اگست۱۹۷۵/۴۷-۵۵ ادارہ ڈاکٹر سر محمد اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور مسئلہ کشمیر اپریل۱۹۹۳/۱۳-۲۸ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال کے خطبات پر سیّد ظفر الحسن کا خطبۂ صدارت شمارہ خاص نمبر۳/۳۱۷-۳۲۰ اکبر رحمانی محمد علی جوہر کے بارے میں اقبال کا ایک اہم مکتوب جولائی۱۹۸۸/۲۱۷-۲۴۲ الطاف جاوید اقبال‘ علی شریعتی کی نظر میں اکتوبر۱۹۹۶/۱۰۹-۱۳۸ بشیر احمد ڈار اقبال اور حلاج جون۱۹۵۵/۳۶-۴۳ رشید احمد جالندھری تعارفِ مضمون ’’Iqbal and Tagore ‘‘ از اکرام چغتائی جنوری۲۰۰۱/1-2 سمیع الحق مسئلہ ارتقاسے متعلق اقبال اور مولانا آزاد کی تحقیق اکتوبر۱۹۹۶/۱۳۹-۱۶۰ شاہ احمد سعید ہمدانی سلطان باہو اور اقبال کا نظریہ فقر اگست۱۹۷۳/۵-۱۴ عالم خوند میری سرسیّد سے اقبال تک ’ذہنی سفر‘ [دانش وری کی ایک روایت] نومبر۱۹۹۲/۳۷-۶۲ ؍؍ ؍؍ سرسیّد سے اقبال تک ’ذہنی سفر‘ [دانش وری کی ایک روایت] اپریل۱۹۹۹/۱۲۳-۱۴۷ ؍؍ ؍؍ سرسیّد سے اقبال تک ’ذہنی سفر‘ [دانش وری کی ایک روایت] اکتوبر۲۰۰۶/۱۴-۳۷ فضل الرحمن Iqbal, The Visionary; Jinnah, The Tecnician; and Pakistan, The Reality جنوری۲۰۰۶/1-12 ؍؍ ؍؍ Muhammad Iqbal and Ataturk's Reforms اکتوبر۲۰۰۷/12-24 کلیم اختر اقبال اور مولانا انور شاہ کشمیری نومبر۱۹۷۷/۲۷-۳۹ محمد اکرام چغتائی اقبال اور ٹیگور [تقابلی مطالعے کی نئی جہتیں] جولائی۲۰۰۱/۴۳-۶۴ ؍؍ ؍؍ اقبال کا ایک نایاب مکتوب گرامی بنام شیخ الازہر‘ قاہرہ نومبر۱۹۹۲/۱۵-۳۶ ؍؍ ؍؍ Iqbal and Tagore جنوری۲۰۰۱/3-27 محمد جعفر شاہ پھلواروی اکبر اور اقبال جنوری۱۹۷۵/۳۹-۴۵ محمد حنیف شاہد اقبال اور غازی علم الدین شہید ستمبر۱۹۷۷/۱۳۴-۱۴۴ محمد خالد مسعود اجتہاد اور اکیسویں صدی [اجتہادیات اقبال و خلیفہ عبدالحکیم] اپریل۱۹۹۹/۲۹-۵۹ محمد صدیق اقبال اور ابوالخیر عبداللہ ستمبر۱۹۷۹/۴۶-۵۴ نسرین اختر اورنگ زیب عالم گیر، اقبال کی نظر میں نومبر۱۹۷۹/۲۳-۳۰ ہیری ایس میری Martin Buber and Muhammad Iqbal:Tow Poets of East and West جنوری۲۰۰۲/1-18 تبصرے ادارہ(مبصر) اقبال کے نزدیک مسلم ثقافت کا تصور از مظہرالدین صدیقی جولائی۱۹۷۰/۵۳-۵۹ ب-۱(مبصر) کتابیات اقبال از بزمِ اقبال مارچ۱۹۵۵/۷۹ ب-۱(مبصر) مکاتیب اقبال از بزمِ اقبال مارچ۱۹۵۵/۷۹ رفیع الدین ہاشمی(مبصر) کشف الابیات اقبال از محمد صدیق شبلی؍ محمد ریاض ستمبر۱۹۷۸/۵۲-۵۳ رئیس احمد جعفری(مبصر) اقبال کا سیاسی کارنامہ از محمد احمد خاں دسمبر۱۹۵۸/۷۱-۷۲ شیر محمد گریوال(مبصر) پنجاب یونیورسٹی اور اقبال از جمیل احمد رضوی فروری۱۹۷۸/۵۲-۵۳ ش-ح-ر(مبصر) اقبال اور فلسفہ ارادیت از بشیر احمد ڈار دسمبر۱۹۵۶/۷۰-۷۱ محمد اسحاق بھٹی(مبصر) اقبال اور سیّد سلیمان ندوی از طاہر تونسوی اگست۱۹۷۸/۵۴ ؍؍ ؍؍ اقبال کا علم الکلام از علی عباس جلالپوری جولائی۱۹۷۳/۶۷-۶۸ ؍؍ ؍؍ اقبال کے صنائع بدائع از نذیر احمد فروری۱۹۷۴/۶۲ ؍؍ ؍؍ اقبال کے ممدوح علما از قاضی افضل حق قرشی جون۱۹۷۸/۵۲-۵۳ ؍؍ ؍؍ حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں از عبداللہ قریشی جنوری۱۹۸۳/۵۳ ؍؍ ؍؍ ماہنامہ ’برگِ گل‘ کا اقبال نمبر از امتیاز حسین مفتی مئی۱۹۷۹/۵۵ ؍؍ ؍؍ معارفِ اقبال از غلام مصطفیٰ خان جولائی۱۹۷۹/۵۶ م(مبصر) Concept of Muslim Culture in Iqbal از مظہر الدین صدیقی جولائی۱۹۷۰/۴۳-۵۹ /…/…/ اقبالیاتی ادب علمی مجلات میں شائع شدہ مقالات کی فہرست ادارہ - ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، ’’اقبال کے ابتدائی موضوعاتِ سخن اور قومی زندگی‘‘، ماہنامہ الاقرباء ، اسلام آباد ، جولائی۔ ستمبر ۲۰۱۰ء ، ص ۴۱- ۲۱۔ - سیدہ نغمہ زیدی، ’’ساقی نامہ ---- اقبال کی ایک دلفریب نظم‘‘ماہنامہ الاقرباء ، اسلام آباد ، جولائی۔ ستمبر ۲۰۱۰ء ، ص ۹۰- ۷۹۔ - رشید احمد ارشد، ’’علامہ اقبال کی غزل‘‘، اردو نامہ، لاہور،[مجلس زبانِ دفتری پنجاب کا مجلہ]، اپریل تا ستمبر ۲۰۱۰ئ، ص ۸۰- ۷۶۔ - ڈاکٹر محمد آصف، ’’ مستشرقین کے بارے میں ایڈورڈ سعید اور اقبال کا نقطۂ نظر‘‘، ماہنامہ قومی زبان، کراچی، ستمبر ۲۰۱۰ئ، ص ۱۹ - ۱۳۔ - خواجہ محمد زکریا، ’’تفہیمِ بالِ جبریل‘‘، ماہنامہ ادب دوست، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۰ئ، ص ۱۲-۸۔ - ڈاکٹر محمد سلیم، ’’علامہ اقبال اور سر اکبر حیدری‘‘، ماہنامہ تہذیب الاخلاق، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۰ئ، ص ۵۵ - ۴۹۔ - ڈاکٹر شاداب احسانی، ’’اقبال کی اردو شاعری اور اکیسویں صدی‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۲۴-۵۔ - ڈاکٹر شفیق عجمی، ’’سابق سوویت یونین میں اقبالیاتی تحقیق‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۳۲-۲۵۔ - ساجدہ بانو ثمین شریف، ’’اقبال کا رموز بے خودی کا منظوم اردو ترجمہ، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۳۸-۳۳۔ - ڈاکٹر اسد فیض، ’’قطعاتِ تواریخِ وفاتِ اقبال‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۴۳-۳۹۔ - ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ، ’’اقبال اور قومی زندگی‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۴۹-۴۴۔ - ڈاکٹر سید وسیم الدین، ’’اقبال کی تصانیف کا مطالعہ‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۵۶- ۵۰ ۔ - احمد ندیم قاسمی، ’’ڈاکٹر اقبال سے پہلی اور آخری ملاقات‘‘، ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۷۱-۶۸۔ - // // ، ’’علامہ اقبال کی تربیت‘‘، ماہنامہ کوثر، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۳۱-۲۷۔ - // // ، ’’اقبال کا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، ماہنامہ کوثر، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۳۵-۳۲۔ - پروفیسر مرزا محمد منور،’’ مقام قرآن: علامہ اقبال کی نظر میں‘‘،ماہنامہ کوثر، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۵۰-۴۰۔ - // // ، ’’ شرح کلامِ اقبال‘‘،ماہنامہ کوثر، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۵۷-۵۱۔ - // // ، ’’ علامہ کی زندگی کے چند واقعات‘‘،ماہنامہ کوثر، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۶۰-۵۸۔ - خواجہ محمد زکریا، شرح بالِ جبریل، ماہنامہ ادب دوست، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۱۰ - ۶۔ - سید حسین عارف نقوی، ’’کتاب شناسیِ اقبال‘‘، ماہنامہ پیام، اسلام آباد، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۵۲ - ۴۵۔ - غلام احمد پرویز، ’’اقبال کی کہانی خود اقبال کی زبانی‘‘، ماہنامہ طلوع اسلام، لاہور، نومبر۲۰۱۰ئ، ص ۲۴- ۴۔ ۔ ایم۔ ایس۔ ناز، ’’غلام احمد پرویز سے علامہ اقبال کے متعلق خصوصی انٹرویو‘‘،ماہنامہ طلوع اسلام، لاہور، نومبر۲۰۱۰ئ، ص ۳۲- ۲۵۔ - اداریہ، ’’افکارِ اقبال اور پاکستانی قوم‘‘، ماہنامہ نظریۂ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۳۔ - ڈاکٹر الف ۔دال۔ نسیم، شرح پیام مشرق،ماہنامہ نظریۂ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۴۔ - ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی، ’’بانی پاکستان اور شاعر مشرق‘‘،ماہنامہ نظریۂ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۷-۵۔ - پروفیسر یوسف عرفان، ’’علامہ اقبال ، جہاد اور یہودیت‘‘، ماہنامہ نظریۂ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۹ -۸۔ - حلیمہ سعدیہ، ’’علامہ اقبال کے مذہبی عقائد۔ ایک جائزہ‘‘، ماہنامہ نظریۂ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۱۳- ۱۰۔ - اشفاق نیاز، ’’اقبال منزل کا احوالِ واقعی‘‘، ماہنامہ تہذیب الاخلاق، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۲۱- ۲۰۔ - ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘، ماہنامہ المعارف، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۳۰- ۲۰۔ - ڈاکٹر محمد آصف، ’’اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے مابین مکالمے کی اہمیت و ضرورت‘‘(اقبال کے افکار کی روشنی میں) ،ماہنامہ المعارف، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۳۴- ۳۱۔ - ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ’’علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ‘‘[منظوم خراج تحسین]،ماہنامہ المعارف، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، نومبر ۲۰۱۰ئ، ص ۷۷- ۷۲۔ - پروفیسر یوسف حسن، ’’ عصری آگہی اور اقبال کی آگہی‘‘، اخبار اردو، اسلام آباد، دسمبر ۲۰۱۰ئ، ص ۳،۲۔ - ڈاکٹر احسان اکبر،’’ عصر حاضر اور اقبال‘‘ ، اخبار اردو، اسلام آباد، دسمبر ۲۰۱۰ئ، ص۵، ۴۔ - ڈاکٹر اقبال آفاقی، ’’علامہ اقبال: عہدِ حاضر کے تناظر میں‘‘، اخبار اردو، اسلام آباد، دسمبر ۲۰۱۰ئ، ص ۷، ۶۔ - پروفیسر فدا حسین بخاری،’’ذوقِ خدا طلبی:بحوالہ رومی و اقبال‘‘، فاران، لاہور، شمارہ ۵۹، ۲۰۱۰ئ، ص ۶۰-۵۷۔ - پروفیسرسلیم الرحمن،’’غزلیاتِ اقبال: نادر تشبیہات و استعارات سے مزین‘‘، فاران، لاہور، شمارہ ۵۹، ۲۰۱۰ئ، ص ۶۵-۶۱۔ - پروفیسریوسف عرفان،’’اقبال کا درسِ حریت‘‘، فاران، لاہور، شمارہ ۵۹، ۲۰۱۰ئ، ص ۶۹-۶۶۔ - ڈاکٹر خالد الماس،’’فن کے بارے میں اقبال کا موقف‘‘، فاران، لاہور، شمارہ ۵۹، ۲۰۱۰ئ، ص ۷۶-۷۰۔ - ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ’’علامہ اقبال اور سید مودودی کا ایک خواب‘‘، ماہنامہ سیارہ، لاہور، اشاعتِ خاص ۵۷(سالنامہ)، ص ۵۰-۴۳۔ - ڈاکٹر تحسین فراقی، ’’اسلامی ادب کی ترویج میں اقبال کا کردار‘‘، ماہنامہ سیارہ، لاہور، اشاعتِ خاص ۵۷(سالنامہ)، ص ۵۰-۴۳۔ - اظہر نیاز، ’’اقبال اور بندئہ مزدور‘‘، ماہنامہ دعوۃ، اسلام آباد، نومبر - دسمبر،۲۰۱۰ئ، ص ۱۰۱-۷۸۔ - ڈاکٹر محمد معزالدین، ’’اسلام میں اتحاد اور اخوت و مساوات‘‘، ماہنامہ الاقربائ، اسلام آباد، اکتوبر-دسمبر، ص ۸۵-۷۶۔ - سیدہ نغمہ زیدی، ’’اقبال اور مرد مومن‘‘، ماہنامہ الاقربائ، اسلام آباد، اکتوبر-دسمبر، ص ۹۷-۸۶۔ ۔ مسرت پروین نیلم، ’’اقبال، اشتما لمیت اور ’’قل العفو‘‘ کی معیشت‘‘، سہ ماہی پیغام آشنا، اسلام آباد، اکتوبر- دسمبر ۲۰۱۰ئ، ص ۱۲۵-۱۱۱۔ - سید انصر اظہر، ’’پیام مشرق۔ ایک تعارفی جائزہ‘‘، سہ ماہی پیغام آشنا، اسلام آباد، اکتوبر- دسمبر ۲۰۱۰ئ، ص ۱۴۰-۱۲۶۔ - ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’اقبال کی تاریخی تلمیحات‘‘، مخزن[قائد اعظم لائبریری کا ششماہی مجلہ]، لاہور، شمارہ،۲، ص ۴۲-۳۲۔ ژژژ