اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) ISSN: 0021-0773 بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، ایجرٹن روڈ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com مندرجات خ وہ کام جو اقبال اُدھورے چھوڑ گئے ڈاکٹر جاوید اقبال ۵ خ نثرِ اقبال کا تنوع ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۳ خ تصوّف اور خوف کی نفسیات حیات عامر حسینی ۳۹ خ خروج: کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ محمد عمار خان ناصر ۶۵ [فکر اقبال کی روشنی میں] خ معاصر تہذیبی فکر اور اقبال طاہر حمید تنولی ۸۹ خ ہن ٹنگٹن اور اقبال کا تصور تہذیب ڈاکٹر محمد آصف ۱۰۹ خ سر شیخ عبدالقادر کی اُردو کے دفاع کے لیے مساعی محمد حنیف شاہد ۱۲۷ خ اقبال کی ایک پرستار: سیّدہ اختر حیدرآبادی ڈاکٹر معین الدین عقیل ۱۴۳ خ علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کے روابط محمد حمزہ فاروقی ۱۵۳ خ جوانانِ مصر… تشنہ لب، خالی ایاغ ڈاکٹر زاہد منیر عامر ۱۷۳ خ مکاتیبِ اقبال کا اسلامی تناظر سیّد طالب حسین بخاری ۱۷۹ خ استفسار ڈاکٹر جاوید اقبال ۱۸۹ خ اقبالیاتِ مجلہ سیارہ لاہور سمیع الرحمن ۱۹۱ خ Abstract ادارہ ۲۰۹ قلمی معاونین ڈاکٹر جاوید اقبال ۶۱؍بی، مین گلبرگ، لاہور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۲۸؍ڈی، منصورہ، لاہور ڈاکٹر معین الدین عقیل بی۲۱۵، بلاک۱۵، گلستانِ جوہر، کراچی محمد حنیف شاہد ۱۷۰؍ جہانزیب بلاک، گلی نمبر ۲، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور محمد حمزہ فاروقی ڈی۸۶، بلاک۴، کلفٹن، کراچی ڈاکٹر محمد آصف اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اُردو، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان حیات عامر حسینی استاذ شعبہ فلسفہ، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، انڈیا محمد عمار خان ناصر مدیر ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر پروفیسر و صدر مسند ظفر علی خاں، ادارہ علومِ ابلاغیات، جامعہ پنجاب،لاہور طاہر حمید تنولی معاون ناظم (ادبیات)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سیّد طالب حسین بخاری پرنسپل، برٹش ماڈل سکول، جہلم سمیع الرحمن رُکن، مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹-جے ماڈل ٹائون، لاہور وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے٭ ڈاکٹر جاوید اقبال بعض اہم موضوعات پر علامہ اقبال نے شعر یا نثر میں کچھ نہ کچھ تحریر کرنے کے منصوبے تو بنائے مگر زندگی نے وفا نہ کی، اس لیے اُن کی تکمیل نہ ہو سکی۔ مثلاً مہاراجہ کشن پرشاد کو خط میں بھگوت گیتا کا اردو اشعار میں ترجمہ کرنے کے ارادے کا ذکر کرتے ہیں۔صوفی غلام مصطفی تبسم کو خط میں انگریزی میں ایسی کتاب لکھنے کا ذکر کرتے ہیں جس کا عنوان ہوگا ’’اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے‘‘۔ نذیر نیازی فرماتے ہیں کہ حادثہ کربلا پر ہومرکے اوڈیسے کی طرز پر ایک طویل نظم لکھنا چاہتے تھے۔ جاوید نامہ میں اضافی ارواح سے ملاقاتوں کے بارے میں لکھنے کا سوچتے تھے۔ انگریزی میں ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب تحریر کرنے کا منصوبہ تھا۔ آخری ایام میں نواب بھوپال سے وعدہ کیا کہ ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھیں گے۔ اس سلسلے میں میاں محمدشفیع(م ۔ش) سے انگریزی میں کچھ ابتدائی نوٹس بھی لکھوائے گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خط محررہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء میں فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں اُس کے آئندہ ارتقا میں حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور محتاط مطالعہ سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ ضابطۂ قانون صحیح طور پر سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو ہر ایک کے لیے کم از کم زندہ رہنے کا حق محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قانونِ شریعت کا نفاذ اور ارتقا اس سر زمین میں ناممکن ہے جب تک کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ اسلام کے لیے ’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ کو کسی مناسب شکل میں جو اسلامی قانون کے اصولوں کے مطابق ہو، قبول کر لینا’’ انقلاب‘‘ نہیں بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف واپس جانا ہے۔ ان منصوبوں میں بعض تو ادبی نوعیت کے ہیں، بعض کا تعلق فلسفہ، مابعد الطبیعیات یا دینیات سے ہے اور بعض خالصتاً عنقریب وجود میں آنے والی مسلم ریاست(پاکستان) کی عملی ، سیاسی اور معاشی ضروریات سے متعلق ہیں۔ مثلاً بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ، حادثۂ کربلا پر ہومر کے اوڈیسے کی طرز پر نظم لکھنا یا جاوید نامہ میں اضافی ارواح شامل کرنا، ایسے ادبی منصوبے تھے جو شاعر کے تخیلی سمندر میں مضطرب لہروں کی طرح ابھرے اور ڈوب گئے ۔ لیکن باقی منصوبوںکے بارے میں ایسا گمان کرنا درست نہ ہوگا ۔ ’’اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے‘‘ یا ’’ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب‘‘ جیسی کتب تحریر کرنے کا اگر اُنھیں موقع مل جاتا تو تخلیقی سوچ کے اعتبار سے وہ خطبات اسلامی فکر کی تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ اسی طرح ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ اور ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘ کے موضوعات پر اگر وہ کتب تحریر کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اُن کے افکار مسلمانان پاکستان کی مزید فکری رہبری کا باعث بن سکتے تھے۔ خطبات تشکیل نو کن کے لیے تحریر کیے گئے؟ علامہ اقبال فرماتے ہیں: ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفہ سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے خیالات میں خامیاں ہیں تو اُن کو رفع کیا جائے۔ جب یہ لیکچر علی گڑھ یونی ورسٹی کے طلبہ نے سنے تو صدر شعبۂ فلسفہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن نے علامہ اقبال سے کہا: جناب والا! آپ نے اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو کی بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلیں اس کے لیے آپ کی ممنونِ احسان ہیں۔ آپ کی فکر افزا مثال اور لوگوں کی بھی ہمت بندھائے گی۔ خطبات کے ایک مبصر سلیم احمد تحریر کرتے ہیں: اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا چیلنج ایک نئی الٰہیات کی تشکیل کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اقبال کی نئی الٰہیات کی کوشش کا حقیقی مقصد مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان مشترکہ عناصر کی جستجو ہے۔ اگر ہمیں مغربی تہذیب کو قبول کرنا ہے یا اسے اپنے اندر جذب کرکے فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں مغربی اور اسلامی تہذیب کی روح میں اتر کر اُن کی ہم آہنگی کو الٰہیاتی بنیادوں پر ثابت کرنا پڑے گا۔تشکیل جدید ان ہی معنوں میں ایک زبردست کارنامہ ہے جسے جدید اسلام کی بائبل کہنا چاہیے۔ یہ سب اپنی جگہ درست۔ حقیقت یہی ہے کہ خطبات علامہ اقبال کی ایسی تصنیف ہے جسے علماء نے اگر پڑھنے کی کوشش کی تو اُسے ناپسند فرمایا۔ جہاں تک مسلمانوں کی ’’مغرب زدہ‘‘ نئی نسل کا تعلق ہے ، انھوں نے خطبات کو ، جس توجہ کے وہ مستحق تھے، نہیں دی۔لہٰذا علامہ اقبال کی ’’فکر افزائی‘‘ اوروں کی ہمت نہ بندھا سکی۔ خطبات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنھیں تحریر کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔پہلی یہ کہ علامہ اقبال کو احساس تھا کہ دنیائے اسلام ہر طور پر مغرب کی طرف جھکتی چلی جا رہی ہے۔ وہ اس تحریک کے مخالف نہ تھے کیونکہ یورپی تہذیب عقل و دانش کے اعتبار سے اُنھی نظریات کی ترقی یافتہ صورت پیش کرتی ہے جن پر اسلام کی تمدنی تاریخ کے مختلف ادوار میں غور و فکر کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں وہ یورپی تہذیب کو ایک طرح سے اسلامی تہذیب ہی کی توسیع خیال کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کی نئی نسل کے اس مطالبے کو جائز سمجھتے تھے کہ اسلامی عقائد اور نظریۂ حیات کا ایک بار پھر جائزہ لے کر ایسی نئی تعبیر یا تشریح کی ضرورت ہے جو وقت کے جدید تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو۔ اُنھیں خدشہ صرف اس بات کا تھا کہ مادہ پرست یورپی کلچر کی ظاہری چمک دمک ہمیں اتنا متاثر نہ کر دے کہ ہم اس کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچ سکنے کے قابل نہ رہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بقول اقبال انسان مختلف قسم کے رشتوں کے ذریعے خدا اور کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا مطالعۂ فطرت یا سائنسی تحقیق بھی اپنی طرح کی عبادت ہے۔ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کی توجہ سائنسی علوم کی طرف مبذول کرنے کی خاطر اُن پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ اسلام روحانی دنیا کے ساتھ مادی دنیا کو بطور حقیقت تسلیم کرتا ہے اور انسان کو مشاہداتی یا تجربی علوم کی تحصیل سے تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ علامہ اقبال کے نزدیک روحانی (یا مذہبی) تجربہ بھی ایک نوع کا علم ہے جسے دیگر علوم کی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے خطبات میں فکری نقطۂ نگاہ سے اسلام کو بطور ارفع مذہب پیش کیا اور بعض آیات کی تعبیر سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مابعد الطبیعیات ، طبیعیات یا مادے اور زمان و مکان سے متعلق فکری یا تجربی علوم کے نئے انکشافات کی تصدیق قرآن سے کی جا سکتی ہے۔ خطبات کا مطالعہ مختلف جہتوں سے کیا جا سکتا ہے اور اُنھیں تحریر کرنے کی اور وجوہ بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔ جس طرح پہلے کہا جا چکا ہے ، اگر علامہ اقبال ’’ اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے‘‘ یا ’’ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب ‘‘ لکھنے میں کامیاب ہو جاتے تو یقینا وہ خطبات تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ یہ کام صرف علامہ اقبال خود ہی انجام دے سکتے تھے۔ اس میدان میں اُن کی ’’فکر افزا‘‘ مثال نے پہلے کسی کی ہمت نہ بندھائی تو اب کیا بندھائے گی۔ اب علامہ اقبال کے ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھنے کے ارادے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ کے مطالبے میں علامہ اقبال نے پہل نہیں کی ۔ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و تمدنی زوال و انتشار کے عالم میں دراصل شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے کو اٹھایا اور اپنے وضع کردہ فقہی اصول’’ تلفیق‘‘ کے تحت اہل سنت والجماعت فرقے کو اُن کے چار مدرسہ ہائے فقہ (حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی) میں سے ہر کسی معاملے میں سب سے سہل راہ اختیار کرنے کی تلقین کی ۔ یہ صحیح معنوں میں اجتہاد تو نہ تھا، مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ سنیوں کے چاروں فقہی مذاہب کے علماء ایک دوسرے پر کفرکے فتوے صادر کرتے رہے۔ شاید اسی بنا پر بعد میں سر سید احمد خان نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں نے اگر’’تقلید‘‘ کو نہ چھوڑا تو برصغیر میں اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ علامہ اقبال نے ۱۹۲۴ء میں جب ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر اپنا پہلا خطبہ دیا تو اُن پر کفر کے فتوے لگے تھے۔ بعد ازاں اسی خطبے کو بہتر صورت میں خطباتِ تشکیل نو میں شامل کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے ’’اجتہادِ مطلق‘‘ پر اصرار کے اسباب کیا تھے؟ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے عالمی دینی ، سیاسی ، تہذیبی، معاشرتی زوال کی جو وجوہ بیان کی ہیں اُن میں نمایاں تین ہیں: ملوکیت، ملائیت اور خانقاہیت۔ اُن کے خیال میں اسلام کا ’’نزول‘‘ اس وقت ہوا جب انسان کی عقلِ استقرائی بالغ ہو چکی تھی اور اُسے نبیوں، مذہبی پیشوائوں اور بادشاہوں جیسے سہاروں کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اسلام نے اعلان کیا کہ نبوت ختم ہو گئی۔ اسلام میں پرانے مذاہب کی مانند کسی قسم کی پاپائیت یا مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں۔ مسلمانوں نے ابتدا ہی میں ساسانی اور رومن سلطنتوں کا خاتمہ کرکے ثابت کر دیا کہ ملوکیت کا تعلق عہدِ جاہلیت سے تھا۔ بقول علامہ اقبال اسلام کا پیغام سلطانیِ جمہور کا قیام ہے اور یہ کہ اب شعور کی بلوغت کے سبب انسان وحی اور اُس کے احکام کی تعبیر و تشریح خود کر سکتا ہے اور اُس کی بقا اسی میں ہے کہ کرتارہے۔ علامہ اقبال ’’اجتہاد مطلق‘‘ پر اس لیے بھی زور دیتے ہیں کہ اُن کے مطابق اسلام مسلمانوں کو ’’ثبات فی التغیر‘‘کے اصول پر زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآنی احکام جو عبادات سے متعلق ہیں اُن میںکسی ردو بدل کی گنجائش نہیں، انھیں ثبات حاصل ہے۔ لیکن جن احکام کا تعلق ’’معاملات‘‘ سے ہے وہ اصولِ تغیر کے تحت ہیں اور وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق اُن میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اسی سبب علامہ اقبال کی رائے میں ’’اجتہاد‘‘ بطور عمل اسلام کی ابتدا ہی کے ساتھ جاری ہو گیا تھا۔ علامہ اقبال ’’اجتہاد‘‘ کی تعریف ’’اصولِ حرکت‘‘کے طور پر کرتے ہیں۔ اس بنا پر فرماتے ہیں کہ جو اجتہادات ماضی میں کیے گئے وہ اپنے اپنے زمانوں کے مطابق درست تھے۔ مگر وہ حال کی ضروریات کے مطابق صحیح قرار نہیں دیے جا سکتے۔ جو کوئی بھی اجتہاد کی تاریخ اور ارتقا کے موضوع پر مستند کتاب لکھنے کا اہل ہو گا، وہ اپنے وقت کا مجدد قرار پائے گا۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ شاید یہ ایک شخص کاکام نہ ہو بلکہ اسے انجام دینے کے لیے فقہاء کا ایک بورڈ قائم کرنا پڑے۔ اور اُس کی تکمیل کے لیے خاصی مدت لگے۔ اگر سوال کیا جائے کہ علامہ اقبال کی سوچ کا ’’عطر ‘‘ کیا ہے؟ تو اس کا جواب اُن کے جاوید نامہ کے اُن چند اشعار سے دیا جا سکتا ہے، جب وہ خدائے اسلام کے حضور میں کھڑے ہیں اور خدا وند تعالیٰ کے منہ ہی سے کہلواتے ہیں: ہر کہ او را قوتِ تخلیق نیست پیش ما جز کافر و زندیق نیست از جمالِ ما نصیبِ خود نبرد از نخیلِ زندگانی بر نخورد (ہر وہ جو تخلیقی سوچ کی قوت نہیں رکھتا، ہمارے نزدیک اصل کا فر اور منافق ہے۔ اُس نے ہمارے جمال میں سے اپنا نصیب حاصل نہیں کیا اور وہ زندگانی کے درخت کا پھل کھانے سے محروم رہا۔) علامہ اقبال کو اس المیے کا بخوبی احساس تھا کہ تحریکِ پاکستان سے پیشتر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تحریکیں، یعنی تحریک مجاہدین اور اُس کے بعد تحریک خلافت، جو اسلام کے نام پر چلیں، اس لیے ناکام ہوئیں کہ اُن کے پیچھے سوچ ’’تقلیدی ‘‘تھی۔ تحریکِ پاکستان بھی اسلام ہی کے نام پر چلی، لیکن اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اس لیے کہ اُس کے پیچھے سوچ ’’اجتہادی ‘‘ تھی۔علامہ اقبال نے ’’علاقائی قومیت‘‘ کے مغربی تصور کو ’’اسلامی یا مسلم قومیت‘‘ کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ یعنی اگر مشترک علاقہ، زبان یا نسل کی بنیاد پر انسانوں کا گروہ ایک قوم بن سکتا ہے تو مشترک روحانی مطمحِ نظر کی بنیاد پر مسلمان ایک قوم کیوں نہیں کہلا سکتے؟۱۹۳۰ء میں خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے’’ مسلم قومیت‘‘کے اسی اصول کی بنیاد پر علیحدہ ’’ریاست‘‘کا مطالبہ کیا۔ اُس سے پیشتر ۱۹۳۰ء میں وہ اپنا خطبہ ’’اجتہاد بطور اصولِ حرکت ‘‘ دے چکے تھے۔ وفات سے چند روز قبل اسی موضوع پر علامہ اقبال کا مناظرہ دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوا۔ مولانا کا موقف تھا کہ برصغیر کے مسلمان، قوم کے اعتبار سے ہندوستانی ہیں مگر ملت کے اعتبار سے مسلمان۔ علامہ اقبال نے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک ’’قوم و ملت‘‘ میں کوئی امتیاز نہیں، دونوں کے ایک ہی معانی ہیں۔ پس بالآخر اسی اجتہادی سوچ کے نتیجے میں برصغیر کے مسلم اکثریتی صوبوں نے پاکستان کو وجود میں لا کر سیاسی و تہذیبی آزادی حاصل کی۔ اگر پاکستان اجتہادی سوچ کا نتیجہ ہے تو اسلامی قانون سازی کے معاملے میں اجتہاد ہی کے ذریعے زندہ رہ سکتا ہے۔ اسی بنا پر علامہ اقبال آئین کے تحت جمہوری طور پر منتخب پارلیمنٹ(اجماع یا شوریٰ) کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک آئندہ کے مجتہد وہ قانونی ماہرین یا وکلاء ہونے چاہییں جنھوں نے ’’اسلامی فقہ‘‘ اور ’’جدید جو رسپروڈنس‘‘ کے تقابلی مطالعہ کے موضوع پر اعلیٰ تربیت حاصل کی ہو۔ ایسے قانونی ماہرین کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ کے رکن بن سکتے ہیں اور اسلامی قانون سازی میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ برصغیرمیں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی ۔ اس دوران بادشاہوں نے قلعے بنائے تو اپنی حفاظت کے لیے، محل بنائے تو اپنی عیش و عشرت کے لیے ، مقبرے بنائے تو اس لیے کہ یاد رکھے جائیں اور مساجد تعمیر کرائیں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے گناہ معاف کر دے۔ لیکن نہ کوئی دارالعدل کی عمارت نظر آئے گی نہ دارالعلم کی۔ بادشاہوں کی تاریخ کتب سے ہم اتنا جانتے ہیں کہ فیروز تغلق کے زمانے میں آئین فیروز شاہی لاگو ہوا یا اورنگ زیب کے عہد میں فتاویٰ عالمگیری کی روشنی میں انصاف کیا جاتا تھا۔ ایسی کتب جن سے معلوم ہو سکے کہ اس دوران عدل گستری کے لیے نافذ قوانین کی نوعیت کیا تھی؟ اسی طرح ایسی کتب موجود نہیں جو اس دوران ہمیں اپنے تہذیبی ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم کر سکیں۔ یعنی کیا اس مسلم دور کے ہندوستانی مدرسوں نے علم الکلام، فلسفہ یا تجربی علوم میں کوئی اہم یا قابلِ ذکر ہستیاں پیدا کیں؟ اگر علامہ اقبال قیام پاکستان کے بعد زندہ رہتے تو ایسے سب میدانوں میں تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے۔ ’’فلاحی ریاست کے قرآنی تصور‘‘ کے بارے میں علامہ اقبال نے کوئی مستند مقالہ یا خطبہ تو تحریر نہیں کیا۔ شعر و نثر میں چند اشارے موجود ہیں۔ البتہ وہ مارکسنرم، کمیونزم یا اشتراکیت کے اتنے ہی خلاف تھے جتنے سرمایہ داری یا جاگیرداری کے۔ اُن کے خیال میں انسانی بہبود یا فلاح کا ہر وہ نظام جو روحانیت سے عاری ہو، انسان کے لیے صحیح سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتا۔ شاید اسی بنا پر انھوں نے خطبات میں شامل اپنے خطبہ ’’اجتہاد‘‘ میں فرمایا کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی‘‘ جمہوریت کا قیام ہے۔ علاوہ اس کے پیش گوئی کی تھی کہ سویٹ روس میں کمیونزم بطور نظام ختم ہو جائے گا، جو بالآخر درست ثابت ہوئی۔ مغربی تہذیب کے روحانیت سے عاری سرمایہ دارانہ نظام کے استبداد کے بارے میں بھی وہ سمجھتے تھے کہ شاخِ نارک پر بنا یہ آشیانہ نا پائیدار ہو گا۔ علامہ اقبال کی تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ سرمایہ اور محنت کے درمیان توازن کو اسلامی نظامِ معیشت قرار دیتے ہوئے اُسے ’’اقتصاد‘‘ کا نام دیتے ہیں یعنی درمیانے طبقے کی فلاحی ریاست ۔بہرحال یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اگرچہ علامہ اقبال نے ابتدائی زمانہ میں ’’پولیٹکل اکانومی‘‘ پر کتابچہ تحریر کیا اور قیام انگلستان کے دوران ’’اکانومکس‘‘ کی کلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے،لیکن وہ صحیح معنوں میں تربیت یافتہ اکانومسٹ یا اقتصادیات کے ماہر نہ تھے۔ ۱۹۲۶ء میں علامہ اقبال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اُس زمانہ میں ’’انڈسٹری‘‘ کے میدان میں تو مسلمانوں کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ البتہ ’’جاگیرداری‘‘ کا مسئلہ تھا۔ لہٰذا اس موضوع پر کونسل میں اُن کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کو زمین کا مالک سمجھتے تھے۔ یعنی اُن کے نزدیک چار بنیادی عنصر جن سے کائنات تشکیل کی گئی۔ آگ ، پانی، ہوا اور زمین، سب خدا کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا انسان اصولی طور پر زمین کا مالک نہیں، محض ’’ٹرسٹی‘‘ہے تاکہ اُس کے ذریعے روزی کما سکے۔ اس اصول کا اطلاق وہ ’’کرائون ‘‘ یا ’’سٹیٹ‘‘ پر بھی کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ’’کرائون‘‘ (اسٹیٹ) کے تصرف میں جو اراضی ہے وہ آسان قسطوں پر بے زمین کاشتکاروں میں بانٹ دی جائے۔ نیز جاگیردار کے پاس اتنی اراضی رہنے دی جائے جو وہ خود کاشت کرتا ہو۔ گویاعلامہ اقبال جاگیردار کے ’’ٹیننٹ‘‘ سے ’’بٹائی ‘‘ (مخابرہ )لینے کے بھی خلاف تھے ۔ اسی طرح اُس زمانہ میں بڑے زمینداروں پر ’’ایگریکلچرل‘‘ ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی، جو ٹیکس، عشر اور زکاۃ کی وصولی کے علاوہ تھا ۔ علامہ اقبال مسلم جاگیرداروں پر اسلامی قانونِ وراثت کے سختی کے ساتھ اطلاق سے بھی سمجھتے تھے کہ یوں چند نسلیں گزرنے کے بعد جاگیرداری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال ’’لینڈ ریفارم‘‘ کے بارے میں مخصوص نظریہ رکھتے تھے۔ تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو مسلم معاشرہ کی معیشت کی بنیادیں دراصل ابتدا ہی سے ’’فیوڈل‘‘ (جاگیرداری) نظام پر قائم ہونے کی بجائے ’’مرکنٹائیل‘‘ (تجارتی) نظام پر قائم تھیں۔ اسی لیے اسلامی فقہ میں ’’مال ‘‘ سے مراد ’’سرمایہ‘‘ (ویلتھ) بھی ہے اور ’’اراضی‘‘ (اسٹیٹ)بھی ۔ نیز تجارت کے ذریعے پیداوار بڑھانا یا منافع کمانا اخلاقی طور پر عمدہ اسلامی خصائل سمجھے جاتے تھے۔ ’’تجارتی معیشت’’ (مارکیٹ اکانومی)کے لیے ’’سرمایہ‘‘ کی فراہمی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اس لیے اگرچہ اسلامی قانون کے مطابق ربا حرام ہے ، لیکن ایسے لین دین کو مختلف ’’حیلوں‘‘ کے ذریعے جاری رکھا گیا ۔ بقول ناصر خسرو گیارھویں صدی اصفہان میں’’تبادلہ سرمایہ‘‘ (منی ایکسچینج) کی خاطر دوسو کے قریب کاروباری ادارے موجود تھے یہی کاروبار کرتے تھے ۔ علامہ اقبال معاشرہ میں ’’سرمایہ‘‘ (کیپٹل) کی قوت کو بالکل ختم کرنا نہیں چاہتے بلکہ ’’مارکیٹ اکانومی‘‘ کے فروغ کے لیے اس کی موجودگی کو اہم خیال کرتے ہیں۔ اسی سبب مولانا شبلی کی طرح بنک کے سود کو ’’منافع‘‘ قرار دیتے ہیں کیوںکہ اس میں استحصال کا ویسا امکان نہیں جو ربا کی وصولی میں ہے۔ پرانے زمانے کی اسلامی ریاست کی آمدنی کے ذرائع مختصراً یہ تھے : ذمیوں سے ’’جزیہ‘‘ اور اگر اراضی کے مالک ہوں تو ’’خراج‘‘کی وصولی۔ ’’غینمہ‘‘ مسلمانوں سے ، اگر اراضی کے مالک ہوں تو ’’عشر‘‘ اور اُس کے علاوہ ’’ زکاۃ‘‘ کی وصولی (اگر رضاکارانہ طور پر ادا نہ کی گئی ہو تو)۔ ریاست کو ’’تجارتی معیشت‘‘ کے ذریعے منافع پر مختلف نوعیت کے ٹیکسوں کی آمدنی بھی ہوتی تھی۔ معاشیات کے بارے میں تحریر کرنے والوں میں امام ابو یوسف کی کتاب الخراج معروف ہے مگر ابن خلدون ، البیرونی ، ابن تیمیہ، ناصر طوسی، ابن مسکویہ اور اخوان الصفا نے بھی اپنی کتب میں ایسے مسائل پر بحث کی ہے۔ جہاں تک انسان کے بنیادی حقوق کا تعلق ہے، قرآن کی سورۃ طٰہٰ آیات ۱۱۸،۱۱۹ میں اللہ تعالیٰ آدم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: اے آدم، تمھارے لیے یہاں انتظام ہے۔ نہ بھوکے ننگے رہو گے، نہ گرمی تمھیں ستائے گی۔‘‘ ان آیات کے ساتھ اگر ترمذی کی بیان کردہ حدیث پڑھی جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: آدم کے بیٹے کے تین حقوق ہیں: رہنے کو مکان، ننگاپن چھپانے کو کپڑا اور کھانے پینے کو روٹی اور پانی۔‘‘ تو اسلامی فلاحی ریاست کے ارباب بست و کشاد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر شہری کو یہ سہولتیں فراہم کریں۔ اور اب تو اُن میں دو مزید حقوق، یعنی بلا معاوضہ تعلیم اور مفت طبی امداد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا مناسب ہے کہ علامہ اقبال خاندانی منصوبہ بندی کے اس طرح قائل تھے کہ اگر بیوی اولاد پیدا نہ کرنا چاہے تو خاوند اُسے مجبور نہیں کر سکتا۔ علامہ اقبال جب قائد اعظم کو اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ اسلامی قانون کے طویل مطالعے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’جدید نظریات‘‘کی روشنی میں اس کے ارتقا کے ذریعے قابل قبول’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ قائم کی جا سکتی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے: وہ اپنے اس دعویٰ کی بنیاد کن قرآنی آیات پر استوار کرتے ہیں، عین ممکن ہے انھوں نے فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کی بنیاد سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹ اور سورۃ الذاریات آیت ۱۹ پر رکھی ہو۔ سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹ میں حکم ہے : ’’پوچھتے ہیں اللہ کی راہ میں کیا خرچ کیا جائے ؟ قل العفو (کہو جو ضرورت سے زاید ہے)!!‘‘اس ضمن میں علامہ اقبال کے اشعار قابل غور ہیں: قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار جو حرف ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار ’’قل العفو‘‘کے بارے میں ’’تقلیدی‘‘ سوچ تو یہی ہے کہ انسان رضا کارانہ طور پر جو اپنی ضرورت سے زاید یا فالتو سمجھے خدا کی راہ میں دے دے۔ مگر ’’جدت کردار‘‘ سے علامہ اقبال کی کیا مراد ہے؟ کیا یہ طے کرنے کے لیے کہ ضرورت سے زاید یا فالتو کیا ہے، ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ سورۃ الذاریات آیت ۱۹ میں ارشادہوتا ہے ’’دولت مندوں کے مال میں ناداروں اور محروموں کا حصہ ہے۔‘‘ کیا علامہ اقبال کے نزدیک اس حصے کا تعین کرنے کی خاطر بھی ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ علامہ اقبال کے ارشادات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کے قرآنی تصور اور دولت مندوں کی ذمہ داری سے متعلق قرآنی احکام کے تحت ’’روحانی‘‘ بنیادوں پر قائم ’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ یا ’’اسلامی فلاحی ریاست ‘‘ وجود میں لائی جا سکتی ہے۔ بہر حال خصوصی طور پر ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ اور ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘ کے موضوعات پر کتب تحریر کرنا ایسے کام تھے جو علامہ اقبال تو ادھورے چھوڑ گئے مگر علامہ اقبال کے نام پر قائم سرکاری یا غیر سرکاری ادارے انجام دے سکتے ہیں۔ یہی امید ہمیں اس ادارے سے رکھنی چاہیے جو میاں اقبال صلاح الدین اور اُن کے رفقاء نے علامہ اقبال کے نام پر قائم کیا ہے۔ شاید ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ پر کوئی مستند کتاب تحریر کرنے کی خاطر علماء و فقہاء کا بورڈ قائم کرنے کی ضرورت پڑے ۔ اسی طرح ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘کے موضوع پر کچھ تحریر کرنے کی خاطر ماہرین اقتصادیات کی خدمات حاصل کرنی پڑیں۔ علامہ اقبال احیائے اسلام کے شاعر ہیں۔ انھوں نے فرما رکھا ہے کہ وہ ’’حرف آخر ‘‘ نہیں ۔ اگر اُن کا شروع کردہ عملِ احیا واقعی جاری ہے تو بقول اُن کے، اُن کے پیش کردہ نظریات سے بہتر نظریات سامنے آ سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اُن کے اس شعر کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے: ہر کہ او را قوّت تخلیق نیست پیشِ ما جز کافر و زندیق نیست ـئ…ئ…ء نثرِ اقبال کا تنوع ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی علامہ محمد اقبال بنیادی طورپر ایک شاعر ہیں۔ ان کی بلندپایہ، خوب صورت اور دل نشیں شاعری میں ایسی کشش ہے کہ اس کا قاری یاسامع’’سبحان اللہ‘‘اور ’’واہ واہ‘‘کہتے ہوئے اس کی داد دینے پر خود کو مجبور پاتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال کے شیدائی، ان کے مداح، ان کے قارئین وسامعین اور ان کی شاعری پر سر دُھننے والے، حتیٰ کہ بعض واجب الاحترام بلند پایہ اقبال شناس بھی اقبال کی شاعری کے دائرے سے نکل کران کی نثر کودرخورِاعتنانہیں سمجھتے۔ اگرنثرکی طرف متوجہ ہوتے بھی ہیں تو اس طرح نہیں، جیسا ہونا چاہیے۔ ہم اقبال کو کم ہی پڑھتے ہیں اور اس نثر میں جو اقبال کی دل نواز شخصیت کے پہلوموجودہیں، ان سے ناواقف ہی رہتے ہیں۔ شخصیت کے علاوہ ان کے فکر کی قوس ِقزح، ان کے ذہنی ارتقا کے نشیب و فراز اور بحیثیت مجموعی اس میںجواقبال کے سوز و سازِ رومی اور پیچ و تابِ رازی ملتے ہیں، ہم اسے جاننے سے محروم رہتے ہیں ___ نثرِاقبال کے قارئین کم کم ہیں، اس لیے جہاں اقبال کی شاعری کے مجموعے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں چھپے ہیں، وہاں ان کی نثری کتابیں بہت کم شائع ہونے کی نوبت آئی ہے اور یہی وجہ (اور غالباً ان کی نثر سے اسی اِعراض و اغماض ہی کا نتیجہ) ہے کہ اقبالیاتی تنقید اور تجزیے کا ننانوے فیصد بلکہ شایداس سے بھی زیادہ اقبال کی شاعری سے بحث کرتا ہے اور ان کی نثرجو فکر اقبال کی دوٹوک، غیر مبہم اور واضح صورت ہے، اس کا حوالہ کم، بہت ہی کم دیا جاتا ہے۔ اقبال کی نثرپرگنتی کے چندتنقیدی مضامین ملتے ہیں، مگروہ بھی نثراقبال کاکامل احاطہ نہیں کرتے۔ اقبال کی نثری تحریروں میں سب سے زیادہ توجہ ان کے انگریزی خطبات(The Reconstruction) پر دی گئی ہے۔ خطبات سے دل چسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ خطبات سے اِعتنا کے نتیجے میںکیسے کیسے مبحث سامنے آئے، اور اندازہ ہوا کہ علامہ نے کیا کیا نکتہ افروزی کی ہے، جس سے علم و دانش کے نئے نئے دریچے وَا ہو ئے ہیں۔ پون صدی سے خطبات پر مذاکرے ہو رہے ہیں، مضمون لکھے جارہے ہیں، کتابیںچھپ رہی ہیں، خطبات کے بعض نکات پراعتراضات ہوئے ہیں، ان کے جوابات بھی دیے گئے ہیں، غرض بحث و مباحثہ جاری ہے، گویاصاحبانِ فکر و نظر کے لیے خطبات کے موضوعات آج بھی ترو تازہ ہیں ( اوریہ امراس کتاب یعنی Reconstructionکے سدا بہار ہونے کاثبوت ہے۔ )اسی طرح کیایہ نہ ہونا چاہیے تھا کہ اقبال کی باقی انگریزی اور اردو نثر کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کیا جاتا، اقبالیاتی تحقیق وتنقید میں شاعری کی طرح اسے بھی کام میں لایاجاتامگر ایسا نہ ہو سکا، یہ اقبالیات کی بد قسمتی ہے__اسی خیال سے راقم اس نظر انداز کردہ، مگر اہم موضوع پر چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ نثرِاقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اقبالیات کی یہ کمی کو تاہی سامنے آتی ہے کہ ماسوا انگریزی خطبات کے، ان کی دیگر نثری کتابیں، مضامین، خطوط اور بیانات وغیرہ خاطرخواہ طریقے سے مدون نہیں ہو سکے۔ (کجا یہ کہ نثری کلیات اصولِ تحقیق کے مطابق مرتّب و مدون ہوکر شائع ہوجاتی۔ ) چنانچہ ایک آدھ مجموعے کے علاوہ، نثرِ اقبال کا کوئی ایسا مجموعہ نہیںملتا جو بہ لحاظِ صحتِ متن کلی طورپراطمینان بخش ہو۔ اقبال کی شاعری کے سلسلے میں تویہ امرباعثِ اطمینان ہے کہ کلیات اقبال اردو کاایک(اقبال اکادمی پاکستان کا مرتّبہ وشائع کردہ)نسخہ متن کی غلطیوںسے پاک ہے۔ اگرچہ اس میں بھی کلامِ اقبال کی ترتیب وہ نہیں جو خودعلامہ اقبال نے قائم کی تھی۔ رہافارسی کلیات، تو اس کا غلام علی اڈیشن گذشتہ ۳۹برس سے پروف اوراملاکی اغلاط کے ساتھ چھپ رہاہے ___ دوسرا نسخہ اقبال اکادمی کا ڈی لکس اڈیشن ہے جو ۱۹۹۰ء میں ایک بار چھپ کر ختم ہوگیا اور اب دستیاب نہیں ہے۔ مگر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری اردو کی ساڑھے تین اورفارسی کی ساڑھے پانچ یعنی کل نوکتابوں پر مشتمل ہے۔ اس کے مقابلے میں ان کی اردو اور انگریزی نثر کی کتابوں کی تعدادپندرہ بنتی ہے جن میں علم الاقتصاد، انگریزی خطبات، پی ایچ ڈی کا مقالہ ‘اردو مضامین اور متفرق تحریروں کا ایک مجموعہ، انگریزی مضامین اور خطبات و بیانات کا ایک مجموعہ شامل ہیں۔ بہت سی غیر مدوّن نگارشات اس کے علاوہ ہیں۔ نثرِاقبال کی یہ مقدار ان کی شاعری سے زیادہ ہے۔ بلاشبہہ فقط مقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اصل چیز تومعیار ہے۔ اگر علامہ کی نثر کا، فکر وفن کے اعتبار سے مطالعہ کیاجائے اور اس کی جانچ پرکھ کرکے اس کی تعیینِ قدرکی جائے تو بھی مایوسی ہرگز نہیں ہوتی بلکہ نثراقبال، ان کے سوانح، شخصیت، افکارو تصورات، ان کے ذوق علمی، ان کے دینی وسیاسی تفکر اور’’شخص اورشاعر‘‘ کے بہت سے پہلوؤں کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ فکرِاقبال کے متعدد عنوانات کے بارے میں جس قدر تفصیل ان کی نثر میں ملتی ہے، وہ شاعری میں موجود نہیں۔ ذیل میں ہم مختصراً چند پہلوؤںکاذکر کرتے ہیں: ۱- سوانح: بے شک علامہ کے حالات پر بہت سی قابل قدر سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں اور بعض نہایت اہم سوانحی مضامین بھی ملتے ہیں، جو قدروقیمت میں کتابوں سے کم نہیں لیکن بشمول زندہ رود، اس سارے سوانحی ذخیرے کی تحریروتصنیف میں اقبال کی نثر سے، جو ان کی سیرت وسوانح کاایک بنیادی اوراولین ماخذ ہے، پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔۱؎ یہ نثر ہمیں ان کے بارے میں بہت صحیح اورنادر معلومات مہیا کرتی ہے۔ اقبال کی نثر میں ان کی ولادت سے لے کربڑھاپے تک کی نادر معلومات ملتی ہیں۔ ان کی صحت اور بیماریوں اور علاج معالجے پرچوں مرگ آید۲؎ کے نام سے جو کتاب دستیاب ہے، وہ بیشتراقبال کی نثر اور خطوںہی سے تیا ر کی گئی ہے۔ اسی طرح حیاتِ اقبال کے دیگر پہلو بھی نثرِ اقبال کے ذریعے سامنے آتے ہیں، مثلاًحصول تعلیم کے لیے انگلستان وجرمنی کا سفر، والدین سے ملاقات کے لیے سیال کوٹ کے سفر، بڑے بھائی شیخ عطاء اللہ سے ملاقات کے لیے ایبٹ آباد، کیمبل پور اور کوئٹے کے سفر، وکالت کے سلسلے میں سری نگر، جھنگ، لکھنؤاور متعدد دوسرے شہروں کے سفر، گول میز کانفرنسوں میں شرکت اور ضمناً پیرس، ہسپانیہ، روم، مصر اور بیت المقدس کے سفر، افغانستان کا سفر، سرہند شریف کا سفر اور علاج معالجے کے لیے دہلی اور بھوپال کے اسفارکی تفصیلات نثر کی مددکے بغیر مکمل نہیں کی جا سکتیں۔ نثر میں ہمیں اقبال کے اپنے حالات کے ساتھ ساتھ ان کے وابستگان اور متعلقین(آباء واجداد، والدین، اساتذہ، اعزہ، بیگمات اور بچوں کے حالات)کے بارے میںبھی بہت کچھ معلومات ملتی ہیں۔ ایک خط میں سفرکوئٹہ کی مشکلات کا ذکر ہے اور پتا چلتا ہے کہ علامہ نے اپنے بھائی شیخ عطا محمد کی محبت میں کتنی تکلیف اٹھائی، لکھتے ہیں: گھوڑے کا سفر اورگھوڑے سے اکتائے تواونٹ کاسفر، خدا کی پناہ، پہلے روز۳۷ میل کا سفر گھوڑے پر کیا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مجھے کس قدر تکلیف ہوئی ہو گی لیکن جو تکلیف محبت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو، وہ لذیذ ہوجاتی ہے۔۳؎ یہبھی اقبال کی ایک نثری تحریرہی سے پتاچلتا ہے کہ سرداربیگم اس قدر نیک، وسیع القلب اور فراخ حوصلہ تھیں کہ جب ان کے سوتیلے بیٹے آفتاب نے والدسے رقم کاجائز یا ناجائز مطالبہ کیا، اور علامہ نے رقم دینے سے معذوری ظاہر کی تو سردار بیگم آفتاب کو رقم بھیجنے کے لیے اپنا زیوربیچنے پر تیار ہوگئیں۔۴؎ یہ معلوم ہے کہ علامہ کے بڑے فرزندآفتاب اقبال بعض وجوہ سے علامہ اقبال سے دور رہے۔ اقبال کی نثر سے ان وجوہ کااندازہ ہوتاہے۔ آفتاب ایک زمانے میں علامہ کے نام پر ان کے ایک قدردان سراکبرحیدری سے کچھ رقوم لیتے رہے۵؎ مثلاً اپنے لندن کے زمانۂ طالب علمی میں آفتاب نے سراکبر حیدری سے ۱۹۰؍پونڈکی رقم بطورقرض حاصل کی، بعدازاں مہاراجا کشن پرشادشادؔ کے دستخطوں سے اس قرض کو عطیہ (donation)قرار دے کر معاف کردیاگیا۔ آفتاب نے پھر اپنی مالی مشکلات اوروالد کے عدم التفات کا ذکرکرتے ہوئے اکبر حیدری کو لکھا کہ وہ[سراکبر]میرے والدکو اپنے بیٹے کی مالی امداد پر آمادہ کریں۔ سراکبر نے اقبال کو ایک محتاط سا خط لکھا، تب انھیں اندازہ ہواکہ صورت ِحال کیا ہے؟ علامہ نے سراکبر کو بتایا: یہ کہانی بڑی لمبی اور تکلیف دہ ہے اور اگر آپ کو صحیح صورت ِحال کا علم ہوتا تو شاید آپ مجھے خط نہ لکھتے۔ میں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کرآفتاب کی مالی مدد کی ہے، حالانکہ مجھ سے اور خاندان کے دوسرے افراد سے اس کا رویہ نہایت قابل ِاعتراض رہاہے۔ لکھتے ہیں: No father can read with patience the nasty letters which he has written to us and which he is doing now, is only the part of the black-mailing scheme.۶؎ مزیدلکھا: It is impossible for me to describe how he has behaved in all these years.۷؎ علامہ اقبال جرمن زبان سیکھنے کے لیے چندماہ ہائیڈل برگ میں مقیم رہے، جہاںانھوں نے اپنی استانی ایماویگے ناسٹ سے جرمن زبان وادب کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ اس کے ساتھ قلب ونظر کے معاملات بھی پیش آئے مگر ان کی نوعیت اوراصلیت صرف خطوں سے پتا چلتی ہے اوراندازہ ہوتاہے کہ ایما کے رویے نے اقبال کواس قدر متاثر کیا کہ وہ محسوس کرنے لگے: ایما ہی ’’میری زندگی کی حقیقی قوت‘‘ ہے اور جرمنی میرا ’’دوسرا روحانی وطن‘‘ہے۔ اقبال کچھ عرصہ ایما کے سلسلے میں ذہنی کشمکش کا شکار رہے، اس کی تفصیل نثر اقبال مہیا کرتی ہے۸؎ (یہ اقبال کی مضبوط باطنی قوت تھی کہ وہ اس کش مکش سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے۔ ) علامہ نے اردو، فارسی کلام میںکئی جگہ اپنے فرزندجاویداقبال سے براہ راست خطاب کیاہے وہ جاوید کے مستقبل کے بارے میں بہت فکرمندرہتے تھے۔ اس کے مستقبل کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے انھوں نے کیاکیا؟اس کاپتا اُن کے نثری وصیت نامے اور راس مسعود کے نام، ان کے متعدد خطوط سے چلتاہے جن میں انھوںنے تین چار نہایت قابل اعتماد دوستوں اور عزیزوں کوجاویداور منیرہ کا Guardian (سرپرست) مقرر کیا۔۹؎ ۲۔ شخصیت: تاریخ میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جب کسی شاعر کی شاعری کو پڑھ یا سن کر قارئین یا سامعین اس کے معتقد اور گرویدہ ہوگئے لیکن جب سفر وحضر میں اسے قریب سے دیکھنے کاموقع ملا تو ان کی عقیدت اور گرویدگی، تنفر اورذہنی دوری میں بدل گئی۔ ہمیں یہ دعویٰ نہیں کہ علامہ اقبال نہایت عملی مسلمان (Practicing Muslim) یا ایک متحرک اور فعال سیاسی کارکن (Activist)تھے۔ گو ان کے معتقدین کی خواہش ضرور تھی کہ کانگریس یامسلم لیگ کے کارکنوں کی طرح وہ بھی میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہوں، ان کے شانہ بشانہ آزادیِ ہندکی تحریکوں میں حصہ لیں اور نعروں کی گونج میں سامراج برطانیہ کے خلاف دھواں دھار تقریریں کریں۔ اس سلسلے میں اقبال سے مولانامحمد علی جوہرکابے تکلفانہ مطالبہ اور اقبال کاتفنن بھرا جواب بہت معروف ہے۔۱۰؎ درحقیقت اقبال جیسے شاعر سے، ایک سیاست دان کی سی مستعدی یاایک متقی شخص کے زہدوتقویٰ کی توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی اور نہ رکھنی چاہیے۔ علامہ کاایک مخصوص مزاج تھا، مگر یہ ضرور ہے کہ جیسا ہمیں نثرِ اقبال سے معلوم ہوتاہے، وہ شخصی طور پر بہت نیک خو، معتدل اور متحمل مزاج، وضع دار، نمودونمائش اور بناوٹ سے گریزاںاور ملنسار شخص تھے۔ آسانی سے غصے میں آتے اور نہ مشتعل ہوتے تھے۔ بطورِ انسان اقبال میں کیا خوبیاں تھیں؟اسی طرح ان میں کیا کمزوریاں اور کوتاہیاں تھیں؟ والدین، دوست، احباب، اساتذہ، عزیزوں، رشتہ داروں، شاگردوں اور خردوں سے ان کا رویہ اور سلوک کیساتھا؟ اس طرح کے سوالوں کے جواب بھی ان کی نثرسے ملتے ہیں۔ اور یہی جوابات اقبال کی حقیقی شخصیت کوسامنے لاتے ہیں۔ شاعروں کو عموماً یہ غَرّہ ہوتاہے کہ جو کچھ وہ لکھ دیں، حرفِ آخر ہے اور کسی کو حق نہیں کہ وہ ان کی کسی فنی خامی یا فکری کجی وکمی کی نشان دہی کرے۔ علامہ اقبال اوّل تو تسلسل کے ساتھ اپنے شاعر ہونے کی تردید کرتے رہے، اور جب ان کے کلام پر کچھ لوگوں نے اعتراضات کیے توعلامہ نے اس کا برا نہیںمانا۔ اعتراضات بھی بڑے طنزیہ اندازمیںکیے گئے تھے مثلاً بالکل ابتدائی دور میں ’’تنقید ِہمدرد‘‘ نے ان کی شاعری پر سخت گرفت کی اور انھیں فنِ شعر سے نابلدٹھہرایا۔ اقبال کی ایک غزل انھی دنوں شائع ہوئی تھی، اس کے حوالے سے ’’تنقید ِہمدرد‘‘ نے لکھا:’’ہم سمجھتے تھے کہ پروفیسر اقبال صاحب اردو میں غزل نہیں کہتے۔ آج ان کی ایک غزل نظرآگئی۔ اس غزل کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسرصاحب ذہین اور طبیعت دار تو ہیں لیکن بے استادے اور بے گُرے ہیں۔ اگر دہلی یا لکھنؤ کے کسی کہنہ مشق شاعر کو اپنا کلام دکھلایا کرتے تو یہ خامیاں نہ رہتیں‘‘۔۱۱؎ علامہ اس اعتراض اور معترض کے استہزائیہ اورطنزیہ لب ولہجے سے بے مزہ نہ ہوئے___ بلکہ بڑے حوصلے اورتحمل سے اپنی شاعری کے بعض اسقام تسلیم کیے۔ پھر قدماء کی اسناد کے ساتھ تنقیدِ ہمدرد کے اعتراضات کا ایک ایک کرکے تفصیلی جواب دیا۔ انھوں نے اپنی ’’بے علمی اورکم مایگی‘‘ کا اعتراف کیا اوریہ کہا کہ ’’مجھے زبان دانی کا دعویٰ ہے نہ شاعری کا‘‘۔۱۲؎ ’’تنقیدِہمدرد‘‘ کے لب ولہجے کے برعکس اقبال کا اندازعلمی تھاا وران کے جوابات میں کہیں بھی غصے کاشائبہ تک نہ تھا۔ مزید برآں ان جوابات سے ان کی علمیت اور زبان وبیان پران کی گرفت کااندازہ ہوتاہے اوریہ بھی پتاچلتاہے کہ وہ متقدمین کی اردو اور فارسی شاعری کانہایت وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ خطوط اقبال سے پتا چلتاہے کہ اقبال ایک طالبِ علم کی طرح اپنے دوستوں کو دعوت دیتے تھے کہ انھیں ان کے کلام کی لغزشوں سے آگاہ کیا جائے مثلا:نواب حبیب الرحمن خاں شروانی نے اقبال کی کسی نظم پر اپنی رائے لکھی تو جواباً علامہ نے کہا:’’نظرثانی کے وقت آپ کی تنقیدوں سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ اگر میری ہر نظم کے متعلق آپ اس قسم کا ایک خط لکھ دیاکریںتو میں آپ کانہایت ممنون ہوں گا‘‘۔۱۳؎ سید سلیمان ندوی نے رموزبے خودی پرریویولکھا تو نہ صرف ان کا شکریہ ادا کیا بلکہ لکھا:’’ اگر آپ ان لغزشوںکی طرف بھی توجہ فرماتے تومیرے لیے آپ کا ریویوزیادہ مفیدہوتا۔ اگرآپ نے غلط الفاظ ومحاورات نوٹ کررکھے ہوں، تو مہربانی کرکے مجھے ان سے آگاہ کیجیے کہ دوسرے اڈیشن میں ان کی اصلاح ہوجائے‘‘۔۱۴؎ سید سلیمان ندوی اور مولاناحبیب الرحمن خاں شروانی سے اپنی لغزشوں کی نشان دہی کے لیے درخواست کرنا اقبال کے حد درجہ انکسار کی دلیل ہے۔ وہ جو بار بار اپنے شاعر ہونے سے انکار کرتے ہیں تو یہ بھی ان کا طبعی انکسار ہے، ورنہ ایک بے مثل شاعرہونے کااعزازان سے کوئی نہیںچھین سکتا۔ نثرِاقبال میں ان کے شخصی انکسار کی بہت سی مثالیں ملتی ہیںمثلاً:شاکر صدیقی نے اصلاح کے لیے انھیں اپنام کلام بھیجا تو علامہ نے جواباً لکھا’’اردو زبان میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا کہ آپ کے کلام کو اصلاح دوں‘‘۔۱۵؎ مگر انھی کے نام، ایک اور خط میں بعض الفاظ وتراکیب کی صحت اور استعمال کے بارے میں ایسی وضاحتیں کرتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی مہارت زبان کو(وہ خودلاکھ انکار کرے) تسلیم کرنا چاہیے۔ اصلاح کلام کا ذکر آیا تو بتانے کی بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص علامہ سے اپنی کتاب پر رائے مانگتا یا کوئی شاعر اپنا مجموعۂ کلام ان کی خدمت میں بھیجتااورتقریظ کے لیے اصرار کرتاتو اس کا دل رکھنے کے لیے تقریظ لکھ دیتے‘خواہ دو چار سطریں ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کے کلماتِ تقریظ عموماًحوصلہ افزا ہوتے، مثلاً: ’’آپ کی کتاب عام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا مرقع ثابت ہوگی‘‘۔۱۶؎ فتح قسطنطنیہ کے مصنف حاجی بدرالدین احمد کو لکھا :’’آپ کی کتاب… نہایت دلچسپ اور مفیدمعلومات کا خزینہ… ہے۔ آپ نے یہ کتاب لکھ کراردولٹریچر میں ایک مفید اضافہ کیا‘‘۔۱۷؎ منشی پریم چند کو ان کی کتاب پریم پچیسی پریہ رائے دی: آپ نے اس کتاب کی اشاعت سے اردو لٹریچر میں ایک نہایت قابل ِقدر اضافہ کیاہے۔ ان کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف انسانی فطرت کے اسرار سے خوب واقف ہے اور اپنے مشاہدات کو ایک دل کش زبان میں ادا کر سکتا ہے۔۱۸؎ شاعری اورنثری کتابوں پرتقاریظ سے قطع نظر، کئی طرح کے حاجت مند ان کے پاس آتے تھے۔ کسی کو ملازمت کی تلاش ہوتی، کسی کو داخلے کے لیے ان کی سفارش مطلوب ہوتی تو کسی کو اپنی کسی صنعت یا اپنے فن کے بارے میں ان کی راے درکار ہوتی۔ علامہ ان سب کی حوصلہ افزائی کے لیے اچھے الفاظ اور مناسب انداز میںتحسینی کلمات یارقعہ لکھ دینے میں تامل یابخل نہ کرتے۔ انھوں نے مختلف اوقات میں بنگلور کی معسکرلائبریری، کاسموپولیٹن کمیٹی، محمد عاشق جراح کی جراحی، حکیم ظفر یاب علی کے یونانی دواخانے اور اردومرکزلاہور وغیرہ کے لیے تحسینی کلمات لکھ کر دیے۔۱۹؎ نثرِاقبال میں حوصلہ افزائی کے ایسے واقعات بیسیوں کی تعداد میں ملتے ہیں جو ان کی فیاضانہ طبیعت کی دلیل ہیں۔ علامہ اقبال نے سراج الدین پال کے نام ایک خط میںلکھاہے:’’حدیث میں آتاہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتاہے‘‘۔۲۰؎ اقبال کی نثر کوپڑھیں تو اندازہ ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بھلائی کی تھی۔ وہ بیسیوں دینی مسائل پر گفتگو کرتے اور اپنی راے دیتے نظرآتے ہیں۔ ماسواچند امورکے، ان کا فہم دین مثبت اور راست فکرہے۔ مولانا غلام رسول مہرکوبرسوں سفروحضر میں علامہ کی صحبت میں رہنے کااتفاق ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت مجھے علامہ اقبال کے قریب لے آئی اور اسی وجہ سے مجھے دین کو سمجھنے کا موقع ملا۔ لکھتے ہیں: چند روز حضرت کی خدمت میں گزارکراندازہ ہواکہ دین ِ حق کیا ہے؟ اور ا س کا مقصود کیاہے؟۔۔۔۔ اگر میں کہوں کہ ازسرنواسلام میں داخل ہوا تو اس پر حیرت نہ ہونی چاہیے۔ پہلا اسلام رسمی تھا۔ حقیقی اسلام یا روح اسلام کی چاشنی سے اب ابتدائی لذت اندوزی کی نوبت آئی۔۲۱؎ مگر علامہ اقبال کا انکسار ملاحظہ ہو کہ وہ کہتے ہیں۔ ’’میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے۔۲۲؎ بڑے آدمیوں کی طرح یہ انکسار ان کی شخصیت اور کردار کا نمایاں وصف تھا۔ اوپر کی سطور میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ جب’’تنقید ہمدرد‘‘نے ان کے کلام پر اعتراضات کیے تو علامہ نے اپنی ’’بے علمی اور کم مایگی ‘‘کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ :’’مجھے زبان دانی کا دعویٰ ہے نہ شاعری کا‘‘۔ یہ بھی ان کا انکسارتھا۔ اسی طرح جب وہ شاکر صدیقی کو لکھتے ہیں، ’’اردوزبان‘ میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا‘‘۲۳؎ اسی طرح جب وہ باباے اردو مولوی عبدالحق کو لکھتے ہیں کہ’’میں اردو زبان کی بحیثیتِ زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا‘‘۔۲۴؎ تو یہ سب ان کے حددرجہ منکسرالمزاج ہونے پر دلالت کرتاہے۔ علامہ اقبال ایک لحاظ سے روحانی شخصیت کے مالک تھے۔ لفظ’’روحانیت‘‘سے ذہن تصوف کی طرف نہیں جانا چاہیے کیونکہ اقبال کے ہاں روحانیت کی سب سے پہلی نشانی تعلق باللہ ہے جسے وہ انسان کی بنیادی ضرورت سمجھتے تھے۔ اکبرالٰہ آبادی کو لکھتے ہیں:’’مومن کوچاہیے کہ خداہی کاہورہے‘‘۔۲۵؎ علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد پنشن پا کر گھر آچکے تھے، لیکن پھرکسی ملازمت کی تلاش کرنے لگے۔ جھنگ ڈسٹرکٹ بورڈ میں انجینئر کی اسامی کے لیے اس خیال سے انٹرویو دینے گئے کہ دفتر میں بیٹھے کام کرتے رہیں گے۔ پتاچلا فرائض منصبی میں وقتاًفوقتاً پورے ضلعے کا دورہ کرنابھی شامل ہے۔ بڑھاپے میں یہ ان کے بس کی بات نہ تھی، واپس آگئے۔ علامہ کو پتا چلا تو انھیں لکھا: ضرورتوں کا احساس بعض اوقات آپ کے دل کو ملازمت پر انگیختہ [کذا]کرتاہے مگر خدا پر بھروساکرنا چاہیے۔ ان شاء اللہ خودبخود سامان ان کے پورا ہونے کے نکل آئیں گے۔ آپ اطمینان فرمائیں، مجھے اس کی ذات پر بھروسا ہے۔۲۶؎ ایک ڈیڑھ برس بعد اسی تسلسل میں انھیں پھر لکھا:’’آپ اپنے تمام معاملات خدا کے سپرد کرکے اپنے قلب کو افکار سے فارغ کرلیں۔ اللہ تعالیٰ غیر متوقع سامان کردے گا مجھے اس کا پورا یقین ہے‘‘۔۲۷؎ اقبال خود بھی اللہ سے اپنے مضبوط تعلق کی وجہ سے کسی غلط کاری یاناجائز مقصد کے حصول بلکہ جائزمقاصد کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع اور طریقوں سے اجتناب کرتے تھے۔ ۱۹۲۶ء میں جب وہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑرہے تھے توکچھ لوگوں نے برادری کی عصبیت سے فائدہ اٹھانے کی بات کی۔ علامہ نے محض اپنے کشمیری ہونے کی حیثیت سے فائدہ اٹھانے سے دوٹوک انکار کردیا۔ اس موقعے پر ان کے جذبات کیا تھے۔ ملاحظہ کیجیے: جو لوگ مجھے کشمیری سمجھ کرپرچیاں(ووٹ)دینے کے آرزو مند ہوں، وہ پرچیاں نہ دیں، جو لوگ فرقہ بندی کی بنا پر میری امداد کے خواہاںہوں، وہ اس امداد سے بصدخوشی دست کش ہوجائیں۔ میںمسلمان ہوںاورکلمہ گوکاخادم ہوں، مسلمانوں کی نمائندگی کرناچاہتاہوں۔ جو شخص میری اس حیثیت کو پسند کرے، وہ میری امداد کرے۔ میں اسلام کے سوا کسی دوسرے رشتے کا معتقد نہیں۔۲۸؎ یوں معلوم ہوتاہے کہ ان کی شخصیت دنیاوی پیمانوں، رواجوں اور رجحانات سے ماوراتھی۔ ان کی سوچ کا انداز ہی مختلف تھا۔ زندگی کے مقاصد بھی کچھ اور تھے۔ دو ایک اقتباسات دیکھیے۔ سیدنذیرنیازی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ایک مسلمان کے لیے رضائے الٰہی ہی ہر شے پر مقدم ہے اور صبرمسلمان کے لیے سب سے بڑی سعادت ہے‘‘۔۲۹؎ اپنے والد شیخ نور محمدکے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’دعا کریں کہ اللہ ہمارے ساتھ انصاف نہ کرے کیوں کہ ہم اس کے انصاف کے متحمل نہیں ہوسکتے البتہ وہ ہم پر اپنا فضل ورحم کرے‘‘۔۳۰؎ بعض جرأت مندلوگ آخری عمرمیں اپنے ’’اعترافات‘‘قلم بند کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کچھ لوگوں نے روسوکی پیروی کرنے کی کوشش کی ہے۔ دراصل’’اعتراف‘‘شخصیت کوناپنے کا ایک ذریعہ ہے۔ علامہ اقبال کو دیکھیے، ان کا اعتراف کس نوعیت کا ہے۔ لکھتے ہیں: میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتاہوںتو مجھے بہت افسوس ہوتاہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ پڑھنے میں گنوائی۔ خداتعالیٰ نے مجھ کو قواے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے اگریہی قوا دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسولؐ کی میں کوئی خدمت کر سکتااور جب مجھے خیال آتاہے کہ والد مکرم مجھے علوم دینی ہی پڑھانا چاہتے تھے تو مجھے اور بھی قلق ہوتاہے کہ باوجود اس کے کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی، توبھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا۔ بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھاہوااورمجھ سے بھی ہوسکا، میں نے کیا۔ لیکن دل چاہتاہے کہ جو کچھ ہوا، اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا اور زندگی تمام وکمال نبی کریم کی خدمت میںبسر ہونی چاہیے تھی۔۳۱؎ اقبال نے جو یہ کہا ہے کہ ’’میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ پڑھنے میں گنوائی‘‘تو یہ بات محلِ نظر ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ’’گنوانے‘‘ میں بھی انھوں نے بہت کچھ پالیا مثلاً جب وہ کہتے ہیں کہ ’’یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کردیا‘‘۔۳۲؎ تو انھیں یورپ سے، ایمان کی اس دولت سے زیادہ قیمتی چیز کیا مل سکتی تھی۔ اوپر کے اقتباس میں اقبال نے ’’نبی کریمؐ کی خدمت ‘‘ کی بات کی ہے۔ اس ضمن میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’نبی کریمؐ پر درودبھیجنا چاہیے، کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس امّت کی دعاسن لے اوراس کی غریبی پر رحم فرمائے‘‘۔۳۳؎ علامہ اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد سے خاص تعلق رکھتے تھے، ایک طرح سے وہ، اس کے سرپرست تھے۔ اعجازنے اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں چچاسے بعض پریشانیوں کا ذکر کیا تو اُسے نصیحت کرتے ہوئے لکھا: تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کردیناچاہیے اور ہر طرح کا فکر دل سے نکال دینا چاہیے۔ خداتعالیٰ کارساز ہے اور انسان کا فکر ہی اس کے لیے باعثِ آزارہے۔ غرض یہ ہے کہ انسان کو اپنی صحت کی حالت کے مطابق اپنے فرائض کی ادا میں کوتاہی نہ کرناچاہیے اور نتائج خدا کے سپرد کردینے چاہییں۔۳۴؎ کچھ عرصے بعد، اعجاز کو زندگی کی اونچ نیچ سمجھاتے ہوئے لکھا: میرے نزدیک صحت ِجسمانی کی سب سے بڑی ضامن مذہبی زندگی ہے۔ میں نے تم کو لکھا بھی تھا کہ قرآن پڑھا کرواور جہاں تک ممکن ہو، نمازمیں بھی باقاعدہ ہوجاؤتو سبحان اللہ مگرقرآن پڑھنے پرمیںزیادہ اصرار کرتاہوںکہ اس کے پڑھنے کے فوائد میرے تجربے میں آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا اِکسیرہے۔ باقی جہاں تک ممکن ہو، زندگی کو سادہ بنانے کی کوشش کرو۔ تم نے مجھ سے مسواک کے متعلق سوال کیاتھا۔ میری مراد اس سے دیسی مسواک تھی، نہ انگریزی طرز کے منجن۔ یورپ کی بنی ہوئی چیز خوب صورت ضرورہوتی ہے مگراس میں ایک اخلاقی زہر ہوتا ہے۔ جس کا اثر آج کل کے مادی طبیعت والے انسان فوراًمحسوس نہیں کر سکتے۔۳۵؎ یہ پندونصیحت اور یہ تلقین فقط دوسروں کے لیے نہیںتھی۔ نثر اقبال سے معلوم ہوتاہے کہ علامہ نے خودبھی اپنی زندگی کے پانچ پریشان کن اورتکلیف دہ برسوں میں فقط اللہ پربھروساکرتے ہوئے نہایت صبروضبط سے کام لیا۔ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۴ء تک کا زمانہ ان کی ازدواجی زندگی کے بحران کا زمانہ تھا۔ اس زمانے کی، ان کی اندرونی کشمکش اور اضطراب کا اندازہ عطیہ فیضی کے نام خطوں سے لگایا جا سکتا ہے جن میں انھوں نے شدیدذہنی کوفت اور مایوسی کے نتیجے میں سپیرابن جانے، خود کشی کرلینے یا شراب نوشی میں پناہ لینے کاارادہ کیا، لیکن یہ ان کے وقتی جذبات واحساسات تھے جن پر ان کا، رضائے الٰہی کو ہر شے پر مقدم سمجھنے اور تمام معاملات اللہ کے سپرد کردینے کا یقین، غالب آیا۔ وہ رموزبے خودی کے حوالے سے تربیتِ خودی کے دوسرے مرحلے’’ضبط ِ نفس‘‘ کی کیفیت کو اپنے اندرپختہ کرچکے تھے۔ ان کی ذہنی پریشانیاںاردوفارسی شاعری سے اور نہ ۱۹۱۰ء کی ڈائریStray Reflections سے آشکارہوتی ہے۔ مزیدبرآں اس زمانے میں علامہ قومی اورملکی و ملی مسائل میں بھی برابر دل چسپی لیتے رہے۔ بالآخر ان کے اپنے قول کے مصداق کہ’’تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کردینا چاہیے‘‘ اور’’خداتعالیٰ کارساز ہے‘‘، پانچ سال کے بعد وہ بحران ختم ہوا اور ان کی ازدواجی زندگی ہموار ہوگئی۔ یہ معلوم ہے کہ علامہ اقبال اوران کی پہلی بیگم( یعنی والدہ آفتاب اقبال) میں ذہنی اور طبعی ہم آہنگی نہ تھی۔ طبائع کے اختلاف نے اقبال کوبیگم سے دور رکھا۔ اس طرح کی صورت حال میں فَاعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ یعنی انصاف کوہاتھ سے نہ جانے دیناخاصامشکل ہوتاہے مگر علامہ ممکنہ حد تک والدہ آفتاب اورآفتاب کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایک معاہدے کے تحت، جو علامہ کے والد اور غالباًوالدہ کی موجودگی، اور ان کی رضا مندی سے طے ہوا تھا، علامہ اپنی بیگم یعنی والدہ آفتاب کو۳۵؍ روپے ماہواربھیجتے رہے۔ بعدازاں یہ رقم بڑھاکرپچاس روپے کردی گئی جو اس زمانے میں ایک خاتون کے اخراجات کے لیے ایک معقول رقم تھی۔ اسی طرح سینٹ اسٹیفنزکالج دہلی میں زیرتعلیم آفتاب اقبال کو بھی۳۵؍روپے ماہوار بھیجے جاتے تھے۔ بھتیجے اعجازاحمدکولاکالج کے اخراجات کے لیے ۳۰روپے ماہواراورسیالکوٹ ایک سوروپے ماہواربھیجے جاتے تھے۔۳۶؎ ۳۔ ذوقِ مطالعہ وتحقیق : علامہ اقبال ایک بہت بڑے عالم تھے۔ آج کل کی اصطلاح میں اونچے درجے کے ’’سکالر‘‘۔ وہ اعلیٰ درجے کا علمی وتحقیقی ذوق رکھتے تھے۔ ان کا مطالعہ صرف شعروادب تک محدود نہ تھا بلکہ قرآن، حدیث، فقہ، تصوف، تاریخ، معاشیات، فلسفہ، نفسیات، عمرانیات اور فزکس وغیرہ کا بھی خاصا مطالعہ رکھتے تھے، اس کی تفصیل ہمیں ان کی نثری تحریروں سے ملتی ہے۔ ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے لیے ایک تو وہ دوستوں اور کتب خانوں سے کتابیں مستعار لے کر پڑھتے، مثلاً:سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں: ’’مولوی نور الحق صاحب کی مدد سے مباحثِ مشرقیہ دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد شرحِ مواقف دیکھنے کا قصد ہے۔۳۷؎ بغرض علاج بھوپال میں مقیم تھے تو لکھا :’’یہاں حمیدیہ لائبریری اور بعض پرائیویٹ احباب سے کتابیں منگوا کردیکھتارہا‘‘۔۳۸؎ سید سلیمان ندوی ہی کے نام خطوط سے پتاچلتا ہے کہ جب انھیں کسی علمی یا فقہی مسئلے میں اشکال پیدا ہوتاتو سب سے پہلے لاہور کے علماء سے رجوع کرتے۔ سید سلیمان ندوی کے بیشتر خطوط علمی اور دینی مسائل سے متعلق استفسارات پر مشتمل ہیں۔ کہیں کسی حدیث کی تحقیق کررہے ہیں۔ کہیں توہین رسالت کی تعزیر پر سوالات لکھ کر بھیج رہے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: مولانا حکیم برکات احمدبہاری ثم ٹونکی کا رسالہ تحقیق زمان مطبوعہ ہے یاقلمی؟ اگر قلمی ہے تو کہاں سے عاریتاً ملے گا؟ علیٰ ہٰذا القیاس مولانا اسمٰعیل شہید کی عبقات، قاضی محب اللہ کی جوہرالفرد اور حافظ امان اللہ بنارسی کی تمام تصانیف کہاں سے دستیاب ہوں گی؟۔۳۹؎ اگر ضروت کی کتاب لاہور سے نہ ملتی توجہاں سے بھی دستیاب ہونے کا امکان ہوتا، خریدنے کی تدبیر کرتے، مثلاًسیدسلیمان کولکھتے ہیں: سید نجیب اشرف صاحب نے اپنے مضمون میں محمد دارابی کے لطیفۂ غیبیہ کاذکر کیا ہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب ہے اورمیں نے ایران سے منگوائی ہے۔ اگر وہ آپ دیکھنا چاہیں تو بھیج دوں۔ ندوے والے اسے دیکھیں گے توکوئی نہ کوئی بات پیداکریں گے‘‘۔ اسی خط میں تفہیماتِ الٰہیہ کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ چھپ گئی ہے یا نہیں؟۔۴۰؎ سیدسلیمان ندوی کے شاگردِ عزیز مولانا مسعود عالم ندوی عربی رسالے الضیاء کے اڈیٹرتھے، انھیں لکھا: فضل الرحمن انصاری کی اے نیو مسلم ورلڈ اِن میکنگ پر آپ کاریویونظر سے گزرامگراس سے یہ نہ معلوم ہوا کہ کتاب کہاں دستیاب ہو سکتی ہے ؟اگر زحمت نہ ہوتومہربانی کرکے جو نسخہ آپ کے پاس ہے قیمتاً ارسال فرمادیجیے یا جہاں سے کتاب مذکورہ دستیاب ہو سکتی ہے، وہاں لکھ دیجیے کہ مجھے ایک نسخہ بذریعہ ویلیو[وی پی پی]ارسال کردیں۔۴۱؎ سیدسلیمان اور مسعودعالم کے نام خطوں میں ایسی کتابوں کا ذکر ملتا ہے جو علامہ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ کبھی مصرکے بیرسٹرمحمدلطفی جمعہ کی حیات الشرق کا ذکرکرتے ہیں، کبھی نواب صدیق حسن خاں کی عربی تصانیف کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگر صرف خطوں کی مدد سے، علامہ کی زیرمطالعہ کتابوں کی فہرست بنائی جاے تو اس میں علوم وفنون کاحیرت انگیز تنوع نظرآئے گا۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عربی اور فارسی مآخذ پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان سے براہ راست استفادہ کیا کرتے تھے۔ جب کوئی اشکال پیدا ہوتا تو علماء سے استفسار کرنے میںکسی طرح کاتامّل نہ کرتے۔ اگر مقامی علماء سے استفسار کرنے سے مسئلہ حل نہ ہوتا تو بیرون لاہورکے کسی عالم سے مراسلت کرتے۔ علامہ اقبال مختلف علوم وفنون کی تازہ ترین علمی تحقیق سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے بلکہ خود بھی تحقیق کرتے۔ جب کسی علمی مسئلے پر قلم اٹھاتے توخوب تحقیق کرکے اور چھان پھٹک کرکے لکھتے۔ گویا آج کل کی اصطلاح میں وہ ایک ریسرچر بھی تھے۔ ۱۹۳۵ء میں جب انھوں نے قادیانیت کے مسئلے پر قلم اٹھایاتو جو کچھ لکھا، پوری تحقیق کرکے لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی سے ان کا جواب نہ بن پڑا۔ سید سلیمان ندوی کے نام ان کے خطوط شاہدہیں کہ انھیںقادیانی مسئلے کا صحیح اِدراک اسی مطالعے اورتحقیق کے بعدہوا۔۴۲؎ علامہ نے علوم شرق وغرب کا مطالعہ کیاتھا جن میںمستشرقین کی تصانیف، بطور خاص علوم اسلامیہ کے متعلق مغربیوں کی تحقیقات شامل ہیں۔ پورپ کے سہ سالہ قیام کے دوران میں متعدد مستشرقین سے ملاقاتیں اور شخصی ربط وضبط بھی رہا۔ اسی زمانے میں، اور بعد ازاں یورپ کے دو سفروں میں انھوں نے برطانیہ، جرمنی، ہسپانیہ اوراٹلی کے تعلیمی، علمی اورتحقیقی اداروں کا مشاہدہ کیا۔ علامہ اس نتیجے تک پہنچے کہ:’’جہاں تک اسلامی ریسرچ کا تعلق ہے فرانس، جرمنی، انگلستان اور اٹلی کی یونی ورسٹیوں کے اساتذہ کے مقاصد خاص ہیں جن کو عالمانہ تحقیق اور احقاقِ حق کے ظاہری طلسم میں چھپایا جاتاہے‘‘۔۴۳؎ ایک اورخط میں لکھا:’’میں یورپین مستشرقین کاقائل نہیں کیوں کہ ان کی تصانیف سیاسی پراپیگنڈے یا تبلیغی مقاصدکی تخلیق ہوتی ہیں‘‘۔۴۴؎ علامہ اپنے استاد پروفیسرآرنلڈ اور نامورمستشرق پروفیسر براؤن کے مقاصدِتحقیقات کے بارے میںبھی کسی قدرتحفظات رکھتے تھے۔۴۵؎ علامہ اقبال نے اپنے علمی اور تحقیقی ذوق کی مناسبت سے متعدد علمی مسائل وموضوعات پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایااور اس طرح ان کے قلم سے بعض شاہ کار تحریریں وجود میں آئیں۔ انھوں نے اردو انگریزی میں بہت سے مقالات لکھے، ان سے ان کے تحقیقی ذوق اورصلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال کے یہ سارے علمی اور تحقیقی مضامین مقالاتِ اقبال۴۶؎ اور Speeches Writings and Statments of Iqbal۴۷؎ کی صورت میں مدوّن ہوکر دستیاب ہیں۔ (اگرچہ اردو مقالات کی تدوین خاصی ناقص ہے)۔ علامہ کی بعض علمی کاوشیں ایسی ہیں جنھیں ان کے ’’باقیاتِ نثر‘‘ میںشمارکرنا چاہیے، مثلاً:تصوف کے موضوع پرجوکچھ لکھناچاہتے تھے، اس کے فقط دوباب لکھ کررہ گئے۔ (یہ ابواب ڈاکٹر صابر کلوروی نے تاریخِ تصوف کے نام سے شائع کردیے ہیں۔)۴۸؎ آخر عمر میں وہ رائج الوقت تصوف سے شدید بے زاری کا اظہارکرنے لگے تھے چنانچہ اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے سے ہاتھ اٹھا لیا۔ مطالعہ ٔ بیدل برگساں کی روشنی میں کے نام سے ان کاایک طویل غیر مطبوعہ انگریزی مقالہ محمد سہیل عمر صاحب نے دریافت کیا اور ڈاکٹر تحسین فراقی نے اس کا اُردو ترجمہ ایک فاضلانہ مقدمے اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع کر دیا ہے۔۴۹؎ علامہ نے ایک اور طویل مضمون The Problem of Time in the Muslim Philosophy کے عنوان سے لکھاتھا۔ یہ علامہ کی زندگی میں چھپانہیں، ان کے ترکے سے ان کا دست نوشت صرف ایک ورق دستیاب ہوسکا، اسے بھی فراقی صاحب نے ترجمے اورتوضیحات کے ساتھ مرتب کرکے شائع کر دیا۔۵۰؎ اقبال کی نثر سے ان کے متعدد تحریری منصوبوں کا انکشاف ہوتاہے۔ خطوںمیںانھوں نے زیادہ تراپنے ایسے علمی منصوبوں کا ذکرکیاہے جو ’’بسے گفتنی ہا کہ ناگفتہ ماند‘‘ کے مصداق اقبال کے ذہن سے صفحہ ٔ قرطاس پر منتقل نہ ہوسکے۔ ہم انھیں ’’اقبال کی موعودہ تصانیف‘‘کانام دے سکتے ہیں، مثلاً: الف۔ دل ودماغ کی سرگذشت:اقبال کی نثر میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں:’’میں اپنے دل ودماغ کی سرگذشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتاہوں‘‘۔۵۱؎ ایک اورجگہ کہاہے کہ اگر کبھی فرصت ہوئی تویہ اس لیے لکھوں گاکہ (میرے )خیالات کا تدریجی انقلاب اور وں کے لیے سبق آموزہوگا۔۵۲؎ ب۔ مقدمۃ القرآن:اس موعودہ کتاب میں علامہ اپنے مطالعہ ٔ قرآن کے نتائج بیان کرناچاہتے تھے۔ آخری زمانے میں قرآن حکیم پر کچھ لکھنے کی خواہش شدید تر ہوگئی تھی اور اس ضمن میں ان کے عزائم بلند تھے، مثلاً:’’کچھ مدت کے لیے مقدمۃ القرآن کے لیے اپنے آپ کو وقف کردوں گا۔ باقی اب زندگی میں مجھ کو کوئی دلچسپی نہیں رہی‘‘۔۵۳؎ اسی سلسلے میں ایک بار یہ کہا:’’ان شاء اللہ یورپ کی تمام Theoriesکو توڑپھوڑ کررکھ دوں گا۔ ارادہ ہے قانون کی تمام کتب بیچ کر فقہ، حدیث اور تفاسیر خریدکروں گا۔ ‘‘۵۴؎ ج۔ اسلامی فقہ کی تاریخ:علامہ، اسلامی فقہ کی تاریخ اور اوراس کی تدوین ِنو سے بہت دل چسپی رکھتے تھے۔ ایک خط میںلکھتے ہیں:’’فقہ ِ اسلام میںاس وقت ایک مفصل کتاب بزبانِ انگریزی زیر ِتصنیف ہے۔ جس کے لیے مَیںنے مصروشام سے مسالہ جمع کیا ہے‘‘۔۵۵؎ لیکن غالباًوہ کچھ نہ لکھ سکے۔ ان کے ادبی ترکے میں ایسے کسی مسوّدے کا سراغ نہیں ملا۔ بعض علمی و تحقیقی اداروں کے قیام سے ان کی دل چسپی کا پس منظر تدوینِ فقہ کی یہی دیرینہ آرزو ہے۔ انھوں نے پٹھان کوٹ کے چودھری نیاز علی خاںکے ادارے دارالاسلام کی مجلس میں باقاعدہ شمولیت بھی اسی لیے اختیارکی تھی۔ د۔ فصوص الحکم پر تنقید:۱۹۱۶ء میں سراج الدین پال کے نام خط میں لکھتے ہیں:’’جہاں تک مجھے علم ہے فصوص میں سواے الحاد وزندقہ کے اور کچھ نہیں۔ اس پرمیں ان شاء اللہ مفصل لکھوں گا‘‘۔۵۶؎ ہ۔ Songs of Modern David:۱۹۲۴ء کی ایک نثری تحریر سے ہمیںیہ اطلاع ملتی ہے :’’ایک چھوٹی سی کتاب لکھ رہاہوں۔ نامSongs of Modern David ہوگا‘‘۔۵۷؎ و۔ گیتاکاترجمہ:۱۹۲۱ء کے خط میں مہاراجاکشن پر شاد کو لکھتے ہیں:’’زمانے نے مساعدت کی تو گیتا کے اردو ترجمے کاقصدہے۔ ‘‘۔۵۸؎ متذکرہ بالا اوربعض دیگرموعودہ تصانیف کی تحریر وتصنیف کے بارے میں علامہ، دوستوں کے ساتھ گفت گوؤں میں اپنا عزم برابر تازہ کرتے رہے مگر افسوس کہ اپنے سارے تصنیفی موعودات کو ناتمام ہی چھوڑ گئے۔ ۴۔ تفہیم و شرحِ اشعار: خطوں میں، علامہ نے اپنے بعض اشعاراور افکار و نظریات کی وضاحت کی ہے، بعض استفسار کنندگان کوآئندہ کے لیے تفہیم ِ اشعارو افکار کا راستہ بھی بتایاہے، مثلاً :پروفیسر آل احمد سرور کے ایک استفسار کے جواب میں انھوں نے لکھا :’’میرے نزدیک فاشزم، کمیونزم یا زمانۂ حال کے اور اِزم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے نزدیک صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسا ن کے لیے ہر نقطہ ٔ نگاہ سے موجبِ نجات ہوسکتی ہے‘‘۔۵۹؎ ایک اعتبار سے علامہ کی یہ وضاحت ان کے حسب ذیل اشعار کی شرح ہے: ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب ہر دو یزداں ناشناس، آدم فریب زندگی ایں را خروج، آں را خراج درمیانِ ایں دو سنگ، آدم زجاج۶۰؎ دراصل ’’خضرِ راہ‘‘ اور پیام مشرق کے بعض اشعار پڑھ کر کسی کامریڈ نے اخبار میںلکھ دیا تھا کہ: ’’علامہ اقبال یقینا ایک اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کے مبلِّغِ اعلیٰ بھی ہیں۔ ‘‘ اس کی تردید میں اقبال نے فوراً روزنامہ زمیندار میں ایک خط چھپوایا، جس میں وضاحت کی کہ (کسی نے) میری طرف بالشویک خیالات منسوب کیے ہیں…بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے کے مترادف ہے۔…میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ سرمایہ داری کی قوت جب حدِّ اعتدال سے تجاوزکرجائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے… قرآنِ کریم نے اس قوت کو مناسب حدود میں رکھنے کے لیے قانونِ میراث، حرمتِ ربا اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے۔ [اس کے ساتھ یہ بھی لکھا :] ’’روسی بالشوزم یورپ کی عاقبت نااندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردِ عمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔۶۱؎ علامہ کی یہ تفصیلی وضاحت نہ صرف ان کے مذکورہ بالا اشعار کی شرح ہے، بلکہ اس سے سرمایہ داری اور کمیونزم کے بارے میںان کے دوٹوک خیالات واضح ہوتے ہیں۔ اوپرذکرہواپروفیسر آلِ احمد سرور کے استفسارکا۔ علامہ نے اسی خط میں انھیں دومشورے دیے یا نصیحتیں کیں : آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میرے کلام کابھی بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا۔ اگر میرا یہ خیال صحیح ہے تو میں آپ کو یہ دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس طرف بھی توجہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی باتیں خودبخود آپ کی سمجھ میں آجائیں گی۔ اسی خط میں سرورصاحب کے لیے دوسری نصیحت یہ تھی کہ : میرے کلام پر ناقدانہ نظرڈالنے سے پہلے حقائق ِاسلامیہ کامطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ انھی نتائج تک پہنچیں جن تک میں پہنچا ہوں۔۶۲؎ علامہ اقبال نے مسولینی پر ایک نظم لکھی جو مجموعی طور پر اس کی تعریف میں جاتی ہے۔ (بال جبریل، ص۵۰۔ ۵۱) لیکن جب مسولینی نے حبشہ پر حملہ کیا تو علامہ نے ’’ابی سینیا‘‘کے عنوان سے دوسری نظم لکھ کر، مسولینی اوراطالیہ کی مذمت کی۔ ایسی نظموںکے حوالے سے کہا گیا کہ علامہ کے کلام میں تضاد اور تناقض ہے۔ اس کی وضاحت علامہ نے نثر میں اس طرح کی ہے: مسولینی کے متعلق جو کچھ میں نے کہا ہے‘ اس میں آپ کو تناقض نظر آتا ہے۔ آپ درست فرماتے ہیں، لیکن اگر بندۂ خدا میں Devilاور Saint دونوں کی خصوصیات جمع ہوں تو میں اس کا کیا علاج کروں۔ مسولینی سے اگر کبھی آپ کی ملاقات ہوتو آپ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس کی نگاہ میں ایک ناممکن البیان تیزی ہے جس کو شعاعِ آفتاب سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ کم از کم مجھ کو اسی قسم کا احسا س ہوا۔ ۶۳؎ نظم ’’خضر راہ ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی نے لکھا تھا:’’نظم خضر راہ جوشِ بیان میں اقبال کی پچھلی نظموں سے کم ہے‘‘۔۶۴؎ علامہ نے جواباً ۲۹؍مئی۱۹۲۲ء کے خط میں’’جنابِ خضر کی پختہ کاری‘‘۶۵؎ ان کے تجربے، واقعات وحوادث عالم پر ان کی نظراورسورہ کہف کی روشنی میں ان کے اندازِطبیعت کے حوالے سے جوشِ بیان میں کمی کی وضاحت کی۔۶۶؎ حکیم محمد حسن عرشی نے اقبال کے اس شعر: اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے۶۷؎ کے حوالے سے پوچھا کہ ’’مجذوبِ فرنگی‘‘ کون ہے ؟ علامہ نے انھیں لکھا : ’’مجذوبِ فرنگی‘‘ سے مراد حکیم نٹشا ہے‘‘۔ عرشی صاحب نے پوچھا: ضربِ کلیم کا ’’محراب گل‘‘ کون ہے ؟ علامہ نے وضاحت کی کہ ’’یہ فرضی نام ہے‘‘۔۶۸؎ ’’فلسفۂ غم‘‘ بانگِ درا کی معروف نظم ہے مگراس کا پس منظر کیا ہے ؟ اس کی وضاحت اقبال نے ایک شذرے میں کی ہے۔ بتا یا کہ یہ اشعار اپنے دوست اور ہم جماعت میاں فضل حسین صاحب بیرسڑ ایٹ لاکی خدمت میں، ان کے والد ِ بزرگوار کی ناگہانی رحلت کے موقع پر بطور تسلی نامہ کے لکھے تھے۔۶۹؎ اسی طرح علامہ کی نثر کامطالعہ کرتے ہوئے بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی کسی شعر کا مفہوم بیان کررہے ہیں۔ نثرِ اقبال میں اس طرح کی متعدد مثالیں مل جائیں گی۔ ۵۔ شرحِ افکاروتصورات: اشعار کی تشریح ایک اعتبار سے افکار وتصورات کی تشریح ہے۔ علامہ نے اپنے بعض معروف افکاروتصورات کی وضاحت مضامین اور خطوں میںکی ہے جسے شرح نویسوں یا نقادوں کی تشریحات سے زیادہ مستند اور قابل ترجیح سمجھناچاہیے۔ اسرار خودی(طبع اوّل) کے دیباچے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی شا ید اس لیے کہ وہ بعد کے اڈیشنوںسے نکال دیا گیا۔ علامہ نے اس دیباچے میں بڑی خوبی سے اور عالمانہ لب ولہجے میں فلسفۂ خودی، اس کے پس منظراوراس کی ضرورت واہمیت سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں: لفظ خودی سے متعلق ناظرین کو آگاہ کردینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پراردومیں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساسِ نفس یا تعیین ِ ذات ہے‘‘۷۰؎ یہ دیباچہ اور اسرارِ خودی کے معترضین کے جواب میں علامہ کے متعدد مضامین۷۱؎ تصورخودی کی بخوبی تشریح کرتے ہیں۔ مسئلہ ملکیت ِزمین، معاشیات کا ایک اہم موضوع ہے۔ زمین کامالک کون ہے؟ جاگیردار اور زمیں دار یاکسان اور کاشت کار، یاحکومت اور پارٹی؟پھر یہ کہ ملکیت محدود ہے یا لامحدود؟ ہمیشہ کے لیے ہے یا کچھ عرصے کے لیے؟ اقبال برعظیم کے ایک بڑے اہم قومی، سیاسی لیڈر تھے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک مفکر تھے۔ فلسفی مفکر، اس لیے ملکیت ِزمین کے باب میں ان کے خیالات اور ان کے نقطہ نظر کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ خوش قسمتی سے انھوں نے اس موضوع پر کلام منظوم ومنثور دونوں جگہ اظہار خیال کیا۔ شاعری میں بال جبریل کی نظم’’الارض للہ‘‘میں، جاویدنامہ کی نظم’’ارض مِلک ِ خداست‘‘ میںاور ارمغان حجاز کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘میں علامہ اقبال نے اپنا نقطۂ نظرواضح کردیا۔ ’’بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ سرزمیں‘‘۔ اس کی تائیدووضاحت ان کے بعض خطوں سے ہوتی ہے، مثلاً خواجہ عبدالرحیم کے نام ۱۷؍جنوری ۱۹۳۲ء کے خط میںلکھتے ہیں:’’اسلام کے نزدیک زمین وغیرہ امانت ہے۔ ملکیت ِ مُطلقہ جس کوقدیم وجدیدقانون تسلیم کرتے ہیں، میری ناقص راے میں اسلام نہیں ہے۔ ‘‘۷۲؎ ایک اورخط میں لکھتے ہیں:’’اسلام کے نزدیک ملکیت صرف اللہ کی ہے۔ مسلمان صرف اس کا امین ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔ میری راے میں اگر کوئی مسلمان اپنی پرائیویٹ زمین وغیرہ کاغلط استعمال کرے تو حاکمیت ِاسلامیہ کا حق ہے کہ وہ اس سے بازپرس کرے‘‘۔ علامہ اقبال ابتدائی زمانے میں تصوف کے قائل تھے لیکن بعد ازاں جب انھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں نسبتاً وسیع مطالعہ کیاتو انھیں اندازہ ہوا کہ تصوف خصوصاً تحریکِ تصوف، اسلام جیسے عملی مذہب سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی، نہ روحِ دین سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ شاعری میں وہ اس کا اظہارعمر بھر کرتے رہے مثلاً : رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوزِ مشتاقی فسانہ ہاے کرامات رہ گئے باقی۷۳؎ ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا۷۴؎ تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی۷۵؎ تمدن، تصوف، شریعت، کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام۷۶؎ یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں۷۷؎ مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں بہانہ بے عملی کا بنی شرابِ الست۷۸؎ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری۷۹؎ گویااس قابلِ مذمت تصوف نے مسلمانوں کے زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگرکیسے؟ اس کی وضاحت نثر میں ملتی ہے۔ علامہ اسرارخودی طبع اوّل کے دیباچے میں بتاتے ہیں کہ زوال و انحطاط میں شنکر اچاریہ، ابن عربی اور وجودی ایرانی شعراء کے نظریات اور شاعری نے بھی اپنا حصہ ادا کیا اور اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر تقریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کردیا۔۸۰؎ مزیدبرآںاقبال کانظریۂ تصوف کیا ہے؟اوروہ تصوف کے خلاف کیوں ہیں؟ اس کی بہتر تشریح اور وضاحت شاعری سے زیادہ ان کی نثر کرتی ہے، مثلاً: تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے(اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتاتھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا، ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتاہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتاہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔۸۱؎ ۱۹۱۷ء میں انھوں نےIslam and Mysticismکے عنوان سے ایک مختصر سامضمون لکھا جس میں وہ کہتے ہیں: The present-day Moslem prefers to roam about aimlessly in the dusky valleys of Hellenic-Persian Mysticism, which teaches us to shut our eyes to the hard Reality around, and to fix our gaze on what it describes as "Illuminations"__blue, red and yellow Reality springing up from the cells of an overworked brain. To me this self-mystification, this Nihilism, i.e.. seeking Reality in quarters where it does not exist, is a physiological symptom which gives me a clue to the decadence of the Muslim world. The intellectual history of the ancient world will reveal to you this most significant fact that the decadent in all ages have tried to seek shelter behind self-mystification and Nihilism.82 (آج کل کا مسلمان یونانی وعجمی تصوف کی ان تاریک وادیوں میں بلا مقصد ومدّعابھٹکنا چاہتا ہے جس کی تعلیم یہ ہے کہ گردوپیش کے حقائق ِثابتہ سے آنکھیں بند کرلی جائیں اور توجہ اس نیلی پیلی اور سرخ روشنی پر مرکوزکردی جائے جسے’’تجلّیات‘‘ کانام دیاگیاہے۔ یہ حقیقتاًدماغ کے ان خانوں سے پھوٹ پھوٹ کرنکلتی ہے جو ریاضت کی کثرت وتواتر کے باعث ماؤ ف ہوچکے ہیں۔ میرے نزدیک یہ خود ساختہ تصوف اورفنائیت یعنی حقیقت کو ایسے مقام پر تلاش کرنا جہاں اس کا وجود ہی نہ ہو، دراصل ایک بدیہی علامت ہے جس سے عالم اسلام کے رو بہ انحطاط ہونے کا سراغ ملتاہے۔ ) اس مضمون میں وہ ایک جگہ اس امر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ تصوف کے حامی نبیﷺ کی زندگی کے باطنی پہلو کے بھی قائل تھے، چنانچہ شریعت اور طریقت کی تقسیم اسی بے بنیاد نظریے کا شاخسانہ ہے۔ اقبال کہتے ہیں: Do not listen to him who says there is a secret doctrine in Islam which cannot be revealed to the uniniatied. Herein lies the power of this pretender and your thraldom.83 (اس آدمی کی بات پر دھیان نہ دیجیے جو یہ کہتا ہے کہ ا سلام کا ایک باطنی پہلو یا مخفی اصول بھی ہے جسے غیرمحرموں یا ناشناساؤں پر ظاہر نہیں کیاجاسکتا)۔ وحدت الوجود، تصوف کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اس کے متعلق علامہ اقبال کے خیالات محتاجِ وضاحت نہیں ہیں، مثلاًوحدت الوجود کے سب سے بڑے مبلغ شیخ اکبر ابن عربی کی معروف تصنیف فصوص الحکم کے بارے میں لکھتے ہیں:’’فصوص میں سواے الحادوزندقہ کے اور کچھ نہیں۔‘‘۸۴؎ اسی طرح سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’تصوفِ[ وجودیہ] سرزمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے، جس نے عجمیوں کی دماغی آب وہوا میں پرورش پائی ہے۔ ‘‘۸۵؎ علامہ اقبال نہایت سنجیدگی سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کے زوال وانحطاط اور جمود کا بنیادی سبب رائج الوقت یا عجمی تصوف ہے۔ رموزبے خودی میں وہ اسے’’برفابِ عجم‘‘ قرار دیتے ہیں: شل ز برفابِ عجم اعضاے اُو سرد تر از اشکِ او صہباے اُو۸۶؎ چنانچہ علامہ نے۱۹۱۷ء کے مذکورہ بالامضمون میں مسلم نوجوانوں کو متصوفین سے دور رہنے کی تلقین ہے: Moslem youngmen! Beware of the mystifier. His noose has now been too long round your neck. The regeneration of the Moslem world lies in the strong uncompromising, ethical Monotheism which was preached to the Arabs thirteen hundred years ago. Come, then, out of the fogs of Persianism and walk into the brilliant desert sunshine of Arabia.87 (مسلم نوجوانو!اس[تصوف کی] شعبدہ بازی سے خبردار رہو۔ شعبدہ بازوں[صوفیہ] نے اپنی کمند سے تمھاری گردنوں کوجکڑلیا ہے۔ دنیاے اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا انحصار اس پرہے کہ لگی لپٹی رکھے بغیر اُس [خالص]توحید کووثوق کے ساتھ اپنا لیا جائے جس کی تعلیم تیرہ سوسال پیشتر عربوں کو دی گئی تھی[میری نصیحت ہے کہ] عجمیت کے دھندلکے سے باہر نکلو اور عرب کے درخشاں صحرا کی روشن فضا میں آجاؤ۔ ) علامہ کے نزدیک زوال مسلم کا بنیادی سبب تصوف تھا۔ کئی جگہ وہ تصوف اور اس کے ساتھ ہی فلسفے سے بھی بیزاری کا اعلان کرتے ہیں، مثلاً علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے پروفیسر عمرالدین کو ایک خط میں لکھتے ہیں: I have however, lost much of my interest in Muslim Philosophy and Mysticism. To my mind the fiqh of Islam, i.e. the law relating to what is called muamilat is far more important in the Economic and cultural history of the world than mere speculation which has been unconscious cause of split in Islam.88 (فلسفہ وتصوف سے میری دل چسپی ختم ہو چکی ہے۔ یہ تو محض قیاس آرائیاں ہیں اور انھوں نے اسلام میں تفرقے کے لیے غیر شعوری کردار ادا کیاہے۔ دنیا کی معاشی اور تہذیبی تاریخ میں فلسفہ و تصوف کی نسبت، اسلامی فقہ، یعنی وہ قوانین کہیں زیادہ اہم ہیںجن کا تعلق زندگی اور معاشرے کے روز مرہ مسائل ومعاملات سے ہے۔ ) اس طرح کے خیالات کااظہار علامہ نے اپنی نثر میں کئی جگہ کیا ہے مگر تصوف کے بارے میں علامہ کی راے بالکل یک طرفہ نہیںہے۔ وہ ’’اسلامی تصوف‘‘ کے فروغ کو سوسائٹی کے لیے مفید سمجھتے ہیں اور قدیم صوفیہ کی خدمات کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل بھی ان کی نثری تحریروں میں ملتی ہے۔ ۶۔ سیاسی تفکر: اقبال کی نثرسے معلوم ہوتاہے کہ وہ عملی سیاسیات کا مزاج نہ رکھتے تھے چنانچہ وہ ہندستان کی ’’بے ڈھب اور بے اصولی سیاست سے بیزار‘‘ اورزیادہ تر اس سے ایک فاصلے پررہے۔ پنجاب اسمبلی کی سہ سالہ رکنیت کے سوا، انھوں نے عملی سیاسیات میں شامل ہو کر کوئی مستقل سرگرمی نہیں دکھائی۔ آخری زمانے میں مسلم لیگ پنجاب نے انھیں صدر بنایا، مگر یہ وہ زمانہ تھا جب اپنی خراب صحت کی وجہ سے ان کے لیے کہیں آناجانابھی ممکن نہ تھا۔ البتہ سیاسی تفکر ان کی گھٹی میں پڑاہواتھا۔ وہ سیاست کے اتارچڑھاؤ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ کانگریس، مسلم لیگ، یونینسٹ پارٹی اور دیگر گروہوں کی پالیسیوں، ا ن کے رہنماؤں کی سرگرمیوں اور ان کی سیاسی قلابازیوں سے بخوبی واقف تھے مگر ان تمام باتوں کو نظر میں رکھتے، اور بعض اوقات انھیں نظر انداز کرتے ہوئے ان کی توجہ ہندستانی مسلمانوں کی فلاح وبہبوداوراُن کے سیاسی مستقبل پر مرکوز رہی۔ ۱۹۲۹ء میں وہ پنجاب اسمبلی کی رکنیت سے سبک دوش ہوچکے تھے لیکن مسلمانوں کے مسائل سے غافل نہ تھے۔ ان کے مستقبل کو بہتر بنانے اور سنوارنے کے بارے میںبرابر سوچتے رہتے اور طرح طرح کی تدابیرپرغور کرتے مثلاً۱۹۳۰ء میں نارتھ انڈیاکانفرنس کی تجویزیابرکت علی محمڈن ہال میں ۲۳؍نومبر کواکابرین لاہور کا اجلاس جس میں طے پایاکہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے مسلم زعماء پر مشتمل کانفرنس منعقد کی جائے۔ اس طرح کی ساری تجاویز اور کاوشیں ان کے سیاسی تفکر کا نتیجہ تھیں اور ان کاوشوں کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحدکے مسلمان سوچیں کہ ان کے لیے جائز مراعات و حقوق کے لیے کیاکیا اقدامات کیے جانے چاہییں اور اس پر بھی غور کریں کہ مستقبل میں ہندستان کا نقشہ کیا صورت اختیار کرنے والاہے؟ اگر ہندستان متحدہ صورت میں آزاد ہونے والا ہے تو شمال مغربی حصے میں مسلم اکثریتی علاقے اندرونی خود مختاری کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ خطبۂ الٰہ آبادعلامہ کے اسی سیاسی تفکر کا نتیجہ تھا اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ خطبہ ان کی سیاسی بصیرت کا شاہ کار ہے اوریہ شا ہ کار نثرمیں ہے۔ اگر آپ ذرا پیچھے چلیں تو معلوم ہوگا کہ اقبال۱۹۰۸ء سے۱۹۳۰ء تک قریباً ۲۳؍ سال مسلمانوں کے ملی تشخص اور اپنے نظریہ ٔ ملت کی وضاحت کرتے رہے لیکن ہندستان میں اس نظریے کے متشکل ہونے کی کیاصورت ہوسکتی تھی؟ اس کی تفصیل ان کی شاعری میں نہیں، ان کی نثر(خطبۂ الٰہ آباد)میںملتی ہے۔ یقینا سیاسی تفکر کا اظہارجس خوبی سے خطبۂ الٰہ آباد میں ہوا، شاعری میں ایسا واضح اور دوٹوک اظہارنہیں ملتا۔ علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد یعنی نثرکے ذریعے ۱۹۳۰ء میں ہندی سیاست میں ایک علیٰحدہ مسلم مملکت کا بیج بویاتھا۔ گوانھوں نے خطبے میںواضح طورپرالگ ملک کا مطالبہ نہیں کیاتھا، لیکن خطبۂ الٰہ آباد ہی‘قراردادِ پاکستان اورپھرحصولِ پاکستان کے لیے جدوجہدکی بنیاد بنا۔ آج ہم اسی بیج سے اُگے ہوئے درخت(پاکستان) کے سائے میں بیٹھے ہیں۔ اسی کا پھل( اور پتانہیں کیاکچھ) کھا رہے ہیں۔ بھارت میں رہنے والے اقبال کے بہت سے ہندواورمسلم مدّاح وقتاًفوقتاً کہتے ہیں کہ پاکستان کا تصوّر زبردستی اقبال کے سرمنڈھ دیاگیاہے، درحقیقت وہ تقسیم کے حامی نہیں تھے مگر بھارت ہی کے ایک دانش وَر اور معروف نقاد پروفیسر اسلوب احمدانصاری نے اسی سلسلے میںایک بار لکھا تھا کہ اگرچہ اقبال کی شاعری سے پتا نہیں چلتاکہ وہ ایک مسلم مملکت قائم کرنے کے حامی تھے لیکن خطبۂ الٰہ آباد سے یہ بالکل واضح ہے کہ انھوں نے ہندی مسلمانوں کوایک علیٰحدہ مملکت کا تصور دیا۔ اسی طرح جگن ناتھ آزاد بھی علامہ کو پاکستان کے بنیادگزاروں میں خیال کرتے تھے۔ یہ ہے خطبۂ الٰہ آباد کی معنویت جو نثر اقبال کی معنویت بھی ہے۔ خطبہ الٰہ آباد سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ علامہ اقبال کی مجوزہ اسلامی ریاست کے مقاصد کیاتھے؟ جب وہ کہتے ہیں کہ اسلام جملہ امور زندگی پر محیط ہے اور یہ دین وہ دین نہیں جسے مسیحیت نے امور سیاست سے جدا کردیاتھا، تواظہر من الشمس ہے کہ وہ مجوزہ پاکستان میں دین کی عمل داری اور خدا کی(نہ کہ عوام کی)حاکمیت چاہتے تھے۔ تفکر، اقبال کے مزاج کا ایک نمایاں جزو، بلکہ جزوِلاینفک ہے۔ تفکر، سیاست کے سلسلے میں ہویا دین کے بارے میں، اقبال کے نزدیک اس کی غایت فقط یہ تھی کہ نہ صرف ہندی بلکہ کُل عالم کے مسلمانوں کا مستقبل مامون ومحفو ظ ہوجائے۔ دینی تفکر نے ایک طرف تو ان کے انگریزی خطبات کی شکل اختیار کی اورفکر اسلامی کی تشکیل جدید کی راہ ہموار کی، دوسری طرف اسی دینی تفکرکے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے مستقبل کے سلسلے میں طرح طرح کی تجاویزپیش کرتے رہے اور اس کاپتا ان کی نثر سے چلتاہے۔ ۱۹۳۱ء میں انھوں نے تجویز پیش کی کہ اس نازک زمانے میں اسلام کی حفاظت کے لیے ایک ٹرسٹ کی شکل میں قومی فنڈ قائم کیا جائے کیونکہ: بغیر اس کے اسلام کے سیاسی ودینی مقاصد کی تکمیل و اشاعت ناممکن ہے۔ مسلمان اخباروں کو قوی کیاجائے، نئے اخباراور نیوزایجنسیاں قائم کی جائیں، مسلمانوں کو مختلف مقامات میں دینی اور سیاسی اعتبار سے منظم کیاجائے۔ قومی عساکر بنائے جائیں اور تمام وسائل سے اسلام کی منتشرقوتوں کو جمع کر کے اس کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے۔۸۹؎ ان کی نثر میں اس طرح کی کئی تجاویز ملتی ہیں۔ اب تک کی گزارشات میں چھے نکتوں کے تحت، اقبالیات میںنثر اقبال کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسے’’مشتے نمونہ ازخروارے‘‘ہی خیال کرناچاہیے کیوں کہ اس وضاحت کے لیے، ا سی طرح کے دس بارہ مزیدنکات پیش کیے جاسکتے ہیں۔ چونکہ ’’بیانِ مسئلہ‘‘خاصی حد تک واضح ہوچکا، اس لیے فی الوقت انھی چھے نکات پراکتفامناسب ہے۔ البتہ نثرِاقبال پر بات کرتے ہوئے ایک اہم سوال یہ سامنے آتاہے کہ جس طرح اقبال ایک صاحبِ اسلوب شاعر ہیں، اسی طرح کیاوہ ایک صاحب ِاسلوب نثرنگار بھی ہیں؟ہمارے متعدد نام وَرنقادوں اور اقبال شناسوں نے اس موضوع پرگفت گوکی ہے اوربیشترنے اقبال کوصاحب ِطرزنثرنگارقراردیاہے۔ بلاشبہہ اقبال کی نثر میں خلوص وصداقت، وضاحت وصراحت، استدلال اورتوانائی اورتاثیر سبھی کچھ ہے مگرمیری ناقص رائے میں انھیں صاحبِ طرزنثرنگارکہنامشکل ہے۔ وہ صاحبِ اسلوب شاعرتوہیں، اگر ان کانام لیے بغیر ان کے اشعار پڑھے جائیں توفوراً پتاچل جاتاہے کہ یہ اقبال کی شاعری ہے یعنی اقبال کاایک خاص رنگ ہے۔ اگر کوئی شاعر کوشش کرکے ان کے رنگ میں کہے تواس پر بھی اقبال کے شعرکاگمان ہونے لگتاہے، مثلاًاقبال کے ایک معاصر صادق حسین شاہ کایہ شعر: تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے باربارکی وضاحتوں کے باوجوداقبال کے ساتھ چپکاہواہے۔۹۰؎ جس بنا پر اقبال کوصاحبِ اسلوب نثر نگار کہنے میں مجھے تامّل ہے، وہ یہ ہے کہ سینتیس برس کی مدّت پر پھیلی ہوئی اقبال کی نثر نگاری۹۱؎ یک رنگ نہیں بلکہ کئی رنگوں کا نگار خانہ ہے مثلاً مخزن کے مضامین اور علم الاقتصاد کا ایک خاص رنگ ہے۔ اس میں استدلال کی قوت تو ہے مگرانشاپردازی کمزور ہے۔ البتہ مولوی انشاء اللہ خاں کے نام انگلستان سے لکھے ہوئے خطوط خوب صورت نثر کانمونہ پیش کرتے ہیں۔ اس میں مکتوب نگار کا مشاہدہ خوب صورت الفاظ میں ڈھل جاتاہے۔ اس میں منظرنگاری کے عمدہ نمونے بھی ہیں۔۹۲؎ جناب ممتازحسن نے شاید انھیں خطوں کے پیش نظر لکھاتھا کہ اقبال ’’کہیں کہیں تو نثرمیں شاعری کرجاتے ہیں‘‘۔۹۳؎ اقبال کی نثر میں مخزن کی رومانوی نثر کا اثر بھی نظر آتاہے۔ وہ اچھی نثر کے بہترین عناصر (تشبیہ، استعارہ، محاورہ، روزمرہ اور علمی اصطلاحات)کاخیال رکھتے ہیں۔ علم الاقتصاد اپنے دور میںاردو نثر کا ایک اچھانمونہ تھی لیکن بعد ازاں جب یہ دور گزر گیا تو علامہ کی نثر نے بھی قدرے دوسرا رنگ اختیار کیا۔ نثرِاقبال کے موضوعات مختلف ہیں، اس لیے اسلوب بھی یکساںنہیں ہے۔ علامہ کی نثر کا بڑا حصہ ان کے خطوط پر مشتمل ہے۔ خطوں کے بہت سے مجموعے ملتے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار خطوں میں اقبال نے طرح طرح کے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے اور ان کے مکتوب الیہان بھی مختلف ہیں چنانچہ خطوط میں اسلوب برابر کچھ نہ کچھ تبدیل ہوتارہتاہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ علامہ اقبال کو صاحبِ طرزنثرنگار قرار دینا آسان نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ان کاپورانثری ذخیرہ گہرے مطالعے اورتامّل کا تقاضاکرتاہے۔ اپنی بات ختم کرنے سے پہلے اقبال کا ایک نثر پارہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ علامہ نے ’’من نواے شاعرفرداستم‘‘ کَہ کر خود کوآنے والے زمانوں کا شاعر قرار دیا ہے۔ شاعری کی طرح ان کی نثر کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی محسوس ہوتاہے کہ اقبال کی چشم نگراں ہمارے شب و روز کے احوال دیکھ دیکھ کر ہماری قومی زندگی پرتبصرہ کررہی ہے۔ بڑی صحیح باتیں کہی ہیں اس صاحب ِ بصیرت نابغۂ عصرنے۔ موجودہ حالات کے تناظرمیں اقبال کی نثرہمیں کیاپیغام دے رہی ہے، سنیے! If today you focus your vision on Islam and seek inspiration from the ever-vitalising idea embodied in it, you will be only reassembling your scattered forces, regaining your lost integrity, and thereby saving your self from total destruction.94 (اگر آج آپ اپنی نظریں اسلام پر جما دیںاور اس کے زندگی بخش تخیل سے تقویت حاصل کریںتو آپ اپنی پراگندہ قوتوں کو از سرنوجمع کرلیں گے اوراپنے کھوئے ہوئے صلابتِ کردارکو دوبارہ حاصل کرلیں گے، اسی طرح آپ اپنے آپ کو مکمل تباہی سے بچالیں گے۔ ) اقبال کی نثرکامطالعہ کرکے، ہم اپنی بقااورسلامتی کے طریقے دریافت کرسکتے ہیں۔ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- تفصیل کے لیے دیکھیے، زندہ رودکا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ از راشدحمید پورب اکادمی اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ۔ ۲- ازڈاکٹرتقی عابدی، ناشر:اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۷ئ۔ ۳- خطوط اقبال، مرتبہ رفیع الدین ہاشمی۔ مکتبہ خیابانِ ادب لاہور، ۱۹۷۶ئ، ص۶۷۔ ۴- اعجاز احمد، مظلوم اقبال۔ مکتوب۹؍جون ۱۹۱۴ء بنام شیخ اعجاز احمد، کراچی، ۱۹۷۵ئ، ص۲۴۰۔ ۵- تفصیل کے لیے دیکھیے، اقبال: نئی تحقیق: سیدشکیل احمد۔ اقبال اکیڈیمی حیدرآباددکن، ۱۹۸۵ئ، ص ۴۶-۵۸۔ ۶- ایضاً، ص ۵۲۔ ۷- ایضاً، ص ۵۵۔ ۸- تفصیل کے لیے دیکھیے، اقبال یورپ میں از ڈاکٹرسعیداختردرّانی۔ فیروزسنزلاہور، ۱۹۹۹ئ۔ ۹- ڈاکٹرجاویداقبال، زندہ رود، سنگ میل پبلی کیشنزلاہور، ۲۰۰۴ئ، ص۶۱۴-۶۱۵۔ نیزاقبال نامے، مرتب: ڈاکٹراخلاق اثر۔ مدھیہ پردیش، اردواکادمی، بھوپال، ۲۰۰۶ئ، ص۲۱۸۔ ۱۰- مولانامحمد علی جوہرایک بارلاہورآئے اوراقبال سے اپنے بے تکلفانہ اندازمیں کہنے لگے:’’ظالم! ہم تو تمھارے شعر پڑھ پڑھ کرجیل جاتے ہیں، لیکن تم دُھسااوڑھے، حقے کے کش لگاتے رہتے ہو‘‘۔ اقبال نے برجستہ جواب دیا:مَیںتوقوم کاقوال ہوں اورقوال خودوجدوحال میں نہیں ہوتا، ورنہ قوالی ختم ہوجائے۔ [آثاراقبال، مرتب:غلام دستگیر رشید، سیدعبدالرزاق حیدرآباد دکن، ۱۹۴۶ئ، ص۲۸۔] ۱۱- اقبال کی صحت زبان، مرتب وناشر:ڈاکٹراکبرحیدری کشمیری لکھنؤ، ۱۹۹۸ء ص۲۴۔ ۱۲- مخزن لاہور، اکتوبر۱۹۰۲ء بحوالہ:مقالات اقبال، مرتبین:عبدالواحد معینی+محمدعبداللہ قریشی۔ القمرانٹرپرائزز لاہور، ۲۰۱۱، ص۷۳۔ ۱۳- اقبال نامہ، مرتب:شیخ عطاء اللہ۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۸ئ، ص۷۰۔ ۱۴- ایضاً، ص۱۱۴۔ ۱۵- انواراقبال، مرتب:بشیراحمد ڈار۔ اقبال اکادمی پاکستان کراچی، ۱۹۶۷ئ، ص۱۱۰۔ ۱۶- بنام محمد عبدالقادربدایونی، اقبالیات لاہور، جنوری تامارچ۱۹۸۸ء ص۲۸۔ ۱۷- انواراقبال، ص۲۴۲۔ ۱۸- ایضاً، ص۲۔ ۱۹- تفصیل کے لیے دیکھیے: نگارشاتِ اقبال، مرتبہ:زیب النسائ۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۳ئ۔ ۲۰- اقبال نامہ، ص۸۸۔ ۲۱- غلام رسول مہر، اقبالیات، مرتب:امجدسلیم علوی۔ مہرسنزلاہور۱۹۸۸ئ، ص۲۰۔ ۲۲- بنام صوفی تبسم، اقبال نامہ، ص۹۶۔ ۲۳- انواراقبال، ص۱۱۰۔ ۲۴- اقبال نامہ، ص۴۰۲۔ ۲۵- ایضاً، ص۴۰۱۔ ۲۶- مظلوم اقبال، ص۳۰۴۔ ۲۷- ایضاً، ص۳۳۳۔ ۲۸- روزنامہ زمیندار، ۵؍دسمبر۱۹۲۶ئ، بحوالہ علامہ اقبال اور روزنامہ زمیندار، مرتب:ڈاکٹر اخترالنسائ۔ بزم اقبال لاہور، ۲۰۱۱ئ، ص۱۸۳۔ ۲۹- مکتوبات اقبال، مرتب:سیدنذیرنیازی۔ اقبال اکادمی پاکستان کراچی، ۱۹۵۷ئ، ص۷۲۔ ۳۰- مظلوم اقبال، ص۲۵۳۔ ۳۱- ایضاً، ص۲۸۱، ۲۸۲۔ ۳۲- انوارِاقبال، ص۱۷۶۔ ۳۳- مظلوم اقبال، ص ۲۸۱۔ ۳۴- ایضاً، ص۳۲۴۔ ۳۵- ایضاً، ص۳۲۴۔ ۳۶- ایضاً، ص۳۰۳۔ ۳۷- اقبال نامہ، ص۱۴۳۔ ۳۸- ایضاً، ص۱۸۸۔ ۳۹- ایضاً، ص۱۴۳۔ ۴۰- ایضاً، ص۱۴۱۔ ۴۱- ایضاً، ص۲۹۷-۲۹۸۔ ۴۲- ایضاً، ص۱۸۶۔ ۴۳- ایضاً، ص۲۹۶۔ ۴۴- ایضاً، ص۴۱۵۔ ۴۵- مکتوباتِ اقبال، ص ۹۷۔ ۴۶- مرتبین:سیدعبدالواحدمعینی+محمد عبداللہ قریشی۔ ۴۷- مرتب: لطیف احمد شروانی۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۹ئ۔ ۴۸- علامہ محمد اقبال، تاریخ تصوف، مرتب:صابرکلوروی۔ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور، ۱۹۸۵ئ۔ ۴۹- ناشر:یونی ورسل بکس، لاہور، ۱۹۸۸، طبع دوم، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۵ئ۔ ۵۰- مشمولہ:جہات اقبال:ڈاکٹرتحسین فراقی۔ بزم اقبال لاہور، ۱۹۹۳ئ، ص۱۲ -۲۹۔ ۵۲- ایضاً، ص۱۳۳۔ ۵۲- ایضاً، ص۳۱۳۔ ۵۳- انواراقبال، ص ۲۰۶۔ ۵۴- ملفوظات، مرتب:محمودنظامی۔ امرت الیکٹرک پریس لاہور، س ن، ص۲۲۷۔ ۵۵- شاداقبال، ص ۴۶۔ ۵۶- اقبال نامہ، ص۹۵۔ ۵۷- مکاتیب اقبال بنام خان نیازالدین خاں، مرتب:عبداللہ شاہ ہاشمی۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۲ء ص۱۲۳ ۔ ۵۸- اقبال بنام شاد، ص۲۵۷ ۔ ۵۹- اقبال نامہ ، ص۵۷۹-۵۸۰۔ ۶۰- اقبال، کلیاتِ اقبال فارسی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص۶۵۔ ۶۱- روزنامہ زمیندار، ۲۳؍جون۱۹۲۳ء بحوالہ: خطو ط اقبال، ص ۱۵۸۔ ۱۵۶۔ ۶۲- اقبال نامہ ،ص۵۸۰۔ ۶۳- ایضاً، ص۵۸۰۔ ۶۴- معارف،مئی۱۹۲۲ بحوالہ اقبال:سید سلیمان ندوی کی نظر میں، مرتب:اخترراہی۔ بزم اقبال لاہور، ص۶۳۔ ۶۵- اقبال نامہ، ص ۱۴۰۔ ۶۶- ایضاً، ص ۱۴۰۔ ۶۷- اقبال، کلیاتِ اقبال فارسی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص۳۸۵۔ ۶۸- اقبال نامہ، ص۸۸۔ ۶۹- مخزن، لاہور، جولائی ۱۹۱۰ئ، ص۵۵، بحوالہ نگارشات اقبال، ص ۷۹۔ ۸۰۔ ۷۰- اسرار خودی، طبع اول، ص ’’ل‘‘۔ ۷۱- مشمولہ:مقالاتِ اقبال حوالہ نمبر۱۲۔ ۷۲- انوارِ اقبال، ص۲۴۵۔ ۷۳- اقبال، کلیاتِ اقبال اردو، ص۳۹۳۔ ۷۴- ایضاً، ص۶۸۶۔ ۷۵- ایضاً، ص۴۰۰۔ ۷۶- ایضاً، ص۴۵۱۔ ۷۷- ایضاً، ص۵۴۷۔ ۷۸- ایضاً، ص۵۵۱۔ ۷۹- ایضاً، ص۷۴۱۔ ۸۰- اسرارخودی طبع اوّل، بحوالہ مقالات اقبال، ص۱۵۵، ۱۵۶۔ ۸۱- اقبال نامہ، ص۱۰۰۔ ۸۲- Speeches، ص۱۵۴۔ ۸۳- ایضاً، ص۱۵۴۔ ۸۴- اقبال نامہ، ص۹۵۔ ۸۵- ایضاً، ص۱۱۲۔ ۸۶- اقبال، کلیاتِ اقبال فارسی، ص۱۷۲۔ ۸۷- Speeches، ص۱۵۶۔ ۸۸- Letter of Iqbal، مرتب:بی اے ڈار۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۷۸ئ، ص۲۲۴۔ ۸۹- اقبال نامہ، ص۶۲۶۔ ۹۰- یہ شعرصادق حسین شاہ کے مجموعۂ کلام برگِ سبز میں شامل ہے۔ اس موضوع پرگورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہورکے مجلہ فاران۲۰۰۶ء میں’’ناصرزیدی:گمان کی لغزشیں‘‘کے عنوان سے پروفیسر سیف اللہ خالد کا دل چسپ مضمون قابل مطالعہ ہے۔ ۹۱- پروفیسرمحمدعثمان نے لکھاہے کہ اقبال کی نثری تحریروں کاآغاز۱۹۰۴ء سے ہوتاہے۔ (حیاتِ اقبال کاایک جذباتی دور:مکتبہ جدیدلاہور، ۱۹۷۵ئ، ص۱۴۶)غالباًانھوں نے’’قومی زندگی‘‘(مخزن، اکتوبر ۱۹۰۴ئ)کو اقبال کاپہلانثری مضمون خیال کیاہے۔ درحقیقت اقبال ’’قومی زندگی‘‘ سے پہلے کم ازکم دواردو(’’بچوںکی تعلیم و تربیت‘‘مخزن جنوری ۱۹۰۲ئ، اور ’’اردوزبان پنجاب میں‘‘ مخزن اکتوبر۱۹۰۲ء اور ایک انگریزی مضمون The Doctrine of Absolute Unity as Expounded by Abdul Karim al-Jilani. (Speeches، ص۷۷-۷۹) لکھ چکے تھے۔ ۹۲- خطوطِ اقبال:ص۷۶-۱۰۳۔ ۹۳- اقبال اورعبدالحق، مرتب:ممتازحسن۔ مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص۲۶۔ ۹۴- Speeches، ص۲۹۔ ـئ…ئ…ء تصوف اور خوف کی نفسیات حیات عامر حسینی عام بول چال میں جب ہم خوف کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے سامنے محض ایک کیفیت یا اس کیفیت کا تصور ہوتا ہے اور اس سے مراد کسی شے کا ڈر ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے اس کے مختلف معانی، وجوہات و اثرات ،مدعاو مقصد اور ان کا حاصل یا نتیجہ نہیں ہوتا۔اگرکبھی کبھی ایسا ہوتا بھی ہے تو اس کی حیثیت محض ایک موہوم اور ہلکے ذہنی یا جذباتی اثر، خیال یا نقش کی سی ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمارے سامنے اس کے مختلف گہرے معانی، اثرات و کیفیات، تعلقات ، وجوہ اورنتائج و مضمرات نہیں ہوتے۔ خوف ایک یک رخی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں اور علوم سے ہے۔ اس کی جڑیں بہت گہری اور اس کے مضمرات بہت وسیع ہیں، جن کا رشتہ مابعد الطبیعیات، اخلاقیات، مذہبیات، سماجیات، قانون اور سماجی ،معاشی اور تعلیمی شعبوں سے ہے۔ اسے محض ایک نفسیاتی مسئلہ ،قضیہ اور رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وسیع تر فہم کے لیے ہمیں انسان کی ما بعد الطبیعی بنیادوں،اس کے وجودی قضایا، اور اس کی جسمانی و روحانی کشمکش، روحانی و نفسیاتی اتھل پتھل اور ارتقا کی گہرائیوں میں جانا پڑے گا۔ زندگی اور زندگی کے حقائق اور اسرار و رموز جتنے پیچیدہ اور گہرے ہیں اتنا ہی پیچیدہ اور گہرا یہ تصور بھی ہے۔ محض یہ کہنے سے کہ خوف (۱) ایک اتفاقی اور اچانک تباہی کا ڈر ہے (۲) کسی خطرے کا احساس ہے (۳) کسی تکلیف دہ جذبہ جو کسی قریب الوقوع خطرے یا شر کی وجہ سے پیدا ہوتاہے کا نام ہے۔ (۴) ایک دہشتناک حالت یا دہشت کا احساس ہے (۵) ایک ایسی خوف زدہ کردینے والی دہشت ہے جس میں خوف و دہشت اور خدا یا کسی قانونی اور اعلیٰ قوت اختیار کی تعظیم و تکریم ملی جلی ہو (۶) ایک شے یا شخص کی حفاظت کے لیے تشویش یا فکر ہے (۷) کسی وقوع الپذیر حادثہ یا واقعہ کا احساس و ادراک (۸) یا دہشت، ہیبت، یا الہامی و تخلیقی تکریم کا نام ہے ۔اس کی مختلف جہتوں کی نشاندہی تو ہوتی ہے لیکن اس کی کلی حیثیت کا ادراک نہیں ہوتا۔ خوف تو ایک کلی احساس و عمل کا نام ہے جو انسانی وجود کو جھنجوڑکے رکھ دیتا ہے اور اسے مختلف نفسیاتی، انسانی، عملی اور روحانی عوامل، اعمال اور کیفیات اور ان کے ممکنہ مضمرات سے جوڑ دیتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات کا ادراک و احساس ہونا ضروری ہے کہ انسانی برتائو کی تہ میں محض بنیادی حیاتیاتی طریق عمل کی اساسی اہمیت نہیں ہے ، بلکہ اس سے آگے بھی کچھ ایسے حقائق اور رموز ہیں جنھیں محض یہ کَہ کر کہ یہ انتہائی پراسرار، مشکل و مبہم اور ناقابل ادراک یا دریافت یا ناقابل فہم ہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی فہم کے لیے ہمیں مابعد الطبیعیات، مذہبیات، روحانیات، فنون لطیفہ، ادب اور شاعری اور تہذیب انسانی کے جملہ ارتقائی پہلوؤں کو نظر میں رکھنا پڑے گا۔ انسان کو کہانیاں کہنے اور سننے کا بڑا شوق ہے اور یہ شوق اس کے تخلیقی کرب کا نہیں بلکہ اس کی مابعد الطبیعی بنیادوں کی تلاش کی نشاندہی کرتا ہے۔ میں کہانی اور اسطور کو ایک ہی چیز اور حقیقت نہیں مانتا کیونکہ یہ دو مختلف چیزیں اور حقائق سے متعلق دو مختلف رویوں کے عکاس ہیں۔ کہانی محض ایک تخلیقی عمل ہے، جب کہ اسطور کہانی کے پردے میں شرک اور انسانی وکائناتی تخریب کی سیاہ داستان ہے۔تخلیقی عمل اور منفی اسطور گری دونوں کے ساتھ خوف کا تصور بھی جڑا ہوا ہے جو مختلف انسانی اور نفسیاتی حقائق کو سامنے لاتا ہے۔ خوف کی سائنسی تحلیل و تشریح کے لیے جدید نفسیات نے دو طریقے اختیار کر لیے ہیں یا یوں کہیے کہ جدید نفسیات میں ان کا استعمال ہوتا ہے: (الف)اس طور و طریق ، برتاؤ یا کردار جس کا اظہار انسان کرتا ہے کی تاریخی بنیادوں اور وجوہ کی تلاش و تحلیل۔ (ب) اور اس برتاؤ یا کردار کی حقیقی تنظیم کی تحقیق۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں طریقے ایک دوسرے سے وابستہ وپیوستہ ہیں اور انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ کون سے حالات یا وجوہ ہیں جو خوف کو پیدا کرتے ہیں اور ان حالات کی وجہ سے جو خوف کی حالت پیدا ہوجاتی ہے وہ کس طرح کے کوائف اور کردار کو سامنے لاتی ہے۔ یہ حالات، کوائف اور کردار، مابعدی، اخلاقی،سماجی ، مذہبی، سیاسی اور روحانی ہو سکتے ہیں جن کا ادراک سائنسی منہاج سے ممکن نہیں، کیونکہ سائنس کا عملی دائرہ کار محض مشاہدات ہیں اور اس کے علمیاتی حدود محض حواس، عقل اور لیبارٹری کے تجربات تک محدود ہیں۔ اور ایسے کوائف جو مابعدی، مذہبی، اخلاقی، وجودی یا نظریاتی ہوں کا کسی سائنسی رصدگاہ میں مشاہدہ نہیں ہو سکتا اور نہ سائنس ان کے مشاہدات کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اس بات کا تذکرہ میں نے اس لیے کیا کہ میں خوف کو محض ایک رویہ اور حالت نہیں سمجھتا اور نہ میرے لیے خوف کی وجوہات محض مادی، حیاتیاتی، حسی یا اسطوری عوامل ہیں۔ خوف کا ان سے پرے اور ان سے اعلیٰ ایک درجہ ہے، جو تمام خوف کو ختم کر دیتا ہے اور وہ وجود اعلیٰ یا واجب الوجود کا خوف یا اس کی محبت ہے جو ایک حرکی وجودی اخلاقیات اور اقدار کو تعمیر کرتے ہوئے نفسیات کے جملہ عوامل یا ایک انسان کی کلی نفسیات، یا اس کی ذہنی و عملی دنیا کو یکسر بدل دیتی ہے۔ اس انسانی رویے اور حالت کی ایک کلی طور پر بدلی ہوئی اعلیٰ حیثیت کا ادراک تصوف کے مقام اور حال سے کیا جا سکتا ہے جو محض نفسیاتی کیفیات نہیں ہیں، کیونکہ یہ انسان کی کل نفسیات کو متغیر کر دیتے ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک رویے کو بنانے میں ماحول کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن جس خوف کا میں نے تذکرہ کیا اس میں ماحول کوئی کردار ادا کرتا ہی نہیں، کیونکہ یہ تو ماحول کو از خود بدل دیتا ہے اور اس کی طرف آنے والی تمام رکاوٹوں یا کیفیتوں کو بھی مٹا دیتا ہے۔ اس کی سب سے اعلیٰ اور بہترین مثال اسوۂ پیغمبرؐ ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ خوف ایک منفی پہلو لیے ہوئے ہے۔ یا یوں کہیے کہ خوف ایک منفی قدر ہے، یا یوں کہیے کہ خوف ایک ایسا منفی مانع ہے، جو ایک انسان کو حالت مجبوری میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔ لیکن جس خوف کی ہم بات کر رہے ہیں وہ تو ایک کلی مثبت تعمیری مانع ہے، جو از خود تمام امتناعات کو نظر انداز کر دیتا ہے اور اسوۂ پیغمبر کو گلے لگاتا ہے۔ اس کی تفصیلی کیفیات کا آگے تصوف کے حوالے سے تذکرہ ہوگا۔ خوف کی شدت اور گہرائی کو کسی میکانیکی طریقے سے نہیں ناپا جا سکتا اور وہ بھی وہ خوف جس کا محرک کوئی مادی وجود نہ ہو بلکہ ایک ایسا وجود یا تصور ہو جو اپنے آپ میں لاحد ولافانی ہے۔ ہم تھرمامیٹر کا استعمال بخار کی شدت ناپنے کے لیے کر سکتے ہیں، لیکن کیا کوئی ایسا آلہ ہے جو محبت کی شدت کو ناپ سکے یا اس آرام یا تکلیف کی شدت کو ناپ سکے جو انسان کو کسی آرام یا تکلیف کی حالت میں ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر ہمارا مفروضہ hypothesis ہی غلط ہے۔ ہم کسی حیوان، پرند یا درند پر ہوئے تجربات کو ایک کل یا حتمی نتیجہ مان کر چلتے ہیں، جن کے احساسات کی سطح کا انسانی احساسات کی سطح سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ان کی کوئی وجودی، مابعد الطبیعی، اخلاقی، سماجی، مذہبی اور تہذیبی سطح ہی نہیں اور نہ ان کے پاس حواس کے سوا کوئی دوسرے اعلیٰ علمی ذرائع ہیں اور نہ ان کی طبیعی ساخت ایسی ہے، جیسی کہ انسان کی۔ ایک مشرک یا اواگون اور اسطور کے قائل اس طرح کی لغویات کا شکار تو ہو سکتے ہیں اور ایسا ہونا ان کے لیے ضروری ہے کیونکہ وہ ہر شے میں ایک مخصوص روح کی موجودگی کے قائل ہیں۔ حد تو یہ کہ وہ مختلف جانوروں اور انسانوں میں خداکی روح کی موجودگی یا ’اوتار‘ کے قائل ہیں۔ یہ تجسیمیت کا فلسفہ خدا کو جو واجب الوجود اور تمام آلائشوں اور کمزوریوں سے منزہ ہے ایک مذاق بنا دیتا ہے۔ یہ بات ماننے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ حیوانوں کے کچھ حسی قویٰ تیز ہو سکتے ہیں یا ہو تے ہیں، جیسا، کتے کی حس شامہ، چیتے یا شیر کی حس بصارت، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان کی کوئی علمیاتی سطح اور ڈھانچا ہی نہیں ہوتا اور نہ ان کی کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ وہ تو محض جاندار معروض ہیں، روحانی معروض نہیں۔ یہ حیثیت یا مذکورہ بالا حیثیتیں ان میں قطعی وحتمی طور پر مفقود ہیں۔ اسی لیے ان کے خوف کا احساس بھی ان کے حواس تک محدود ہے، اس سے آگے انھیں کسی خوف کا کوئی احساس ہی نہیں اور نہ وہ کسی تجربے کے اہل ہیں۔ میں اس مقالے میں خوف کی توجیہ اللہ کے مقدس کلام اور صوفیہ کی تعبیرات سے کرنے کی کوشش کروںگا، تا کہ اس کی بنیادی، اور اعلیٰ حیثیتوں کو سمجھا جا سکے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ قرآن پاک کی یک رخی یا سطحی فہم و تعبیر کے بجائے اس کی آیات کے مختلف تناظرات اور پہلوؤں کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ تصوف اور اسلام کی نفسیات اور ان کی انسانی نفسیات کو سمجھنے اور بنانے اور اسے بدلنے کے پورے عمل کو سمجھا جا سکے۔ خوف انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے اور تصور بھی۔ انسانی زندگی ، انسانی نفسیات اور رویوں اور طریق زندگی سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ یہ انسان کو زندگی کے مختلف شعبہ جات، صلاحیات، فطری و موروثی ذہنی رویوں سے جوڑتا بھی ہے اور ان سے الگ بھی کرتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ خوف ایک وجودی، نفسیاتی، سماجی، سیاسی، قانونی، مذہبی اور تہذیبی قضیہ ہے۔ یہ انسانی زندگی کے کلی طور پر مختلف حقائق کو نہ صرف توڑنے بلکہ جوڑنے کا بھی کام کرتا ہے۔ ان حقائق یا قضایا کے بغیر نہ صرف زندگی بلکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور حقائق کا تصور ہی نا ممکن ہے جیسے جھوٹ کے بغیر سچ، بدی کے بغیر نیکی، برائی کے بغیر اچھائی، بدصورتی کے بغیر خوبصورتی ،خاموشی کے بغیر شور یا آواز، اندھیرے کے بغیر روشنی، ٹھنڈ کے بغیر گرمی کا ادر اک ہی ناممکن ہے۔ قلب ماہیت یا اچانک تبدیلی و تغیر، یا ایک شے کا دوسری شے میں تبدیل ہونا، یا ایک ترتیب و کیفیت کا دوسری ترتیب و کیفیت، یا موقف و حیثیت میں تبدیلی خوف کے بغیر ناممکن ہے۔ یوں خوف محض ایک نری حقیقت نہیں رہتا بلکہ تبدیلی کا ایک استعارہ بن جاتا ہے، جس کے مختلف رنگ، روپ اور کوائف ہیں، اور یہی انسانی زندگی، نفسیات اور رویوں اور لطائف کا گہرا راز بھی ہے اور قول متناقض Paradox بھی۔ اولین صوفیہ نے اپنے نظریات و فلسفہ کی بنیاد تصورِ خوف پر ہی استوار کی۔ ان حضرات میں حسن بصری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بعد کے صوفیہ اس کی مختلف جہتوں اور تشریحات کو سامنے لائے۔ امام غزالی نے اس تصور کو ایک فلسفیانہ اصول و تصور میں محکم کردیا۔ اس تصور کو سامنے لانے میں ان کی غایت، مقصدو مدعا اور نیت یہ تھی کہ قلب انسانی میں اس کو اس طرح اتار دیا جائے تاکہ وہ تمام برائیوں سے اجتناب کر کے اعلیٰ حقائق کے ادراک کے قابل ہو سکے۔ حقیقت اعلیٰ یا حقائق اعلیٰ کا ادراک تصفیہ و تزکیۂ قلب کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کی بنیاد ایک وسیع روحانی و اخلاقی نظام ہے۔ یہ روحانی نظام یا روحانیت توحید میں پیوستہ ہے۔ توحید کا عملی اطلاق ایک اخلاقی نظام یا نظام اقدار کو سامنے لاتا ہے۔یوں توحید جو اسلام کی کلی مابعد الطبیعیات کی بنیاد ہے ایک حرکی اور پرزور سماجی، سیاسی، تعلیمی، مذہبی، روحانی اور اقتصادی نظام یا کلی طور پر ایک تہذیب کو پیدا کرتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کو جانور کی طرح آزادانہ چھوڑ کر اسے بدی کے بھنور میں نہ دھکیلا جائے۔ اپنے مربوط تہذیبی نظام کے قیام ،نفاذ اور دوام کی لیے قرآن انسان کے اندر نہ صرف اس کی داخلی یعنی ضمیر یا وجود کی آواز کو حرکی اور تخلیقی طور پر زندہ رکھنے کے اصول فراہم کرتا ہے۔ بلکہ تمام انحرافات سے بچنے کے لیے ایک تادیبی قانونی نظام کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں اللہ قادر مطلق کے سامنے جوابدہی اور اس کے عذاب سے بچنے کے لیے، اس کے خوف کو اس کے دل میں جاگزیں کرتا ہے۔ یوں خوف کا یہ تصور اس کی مذہبیت، فن، فکر و فہم اور زندگی کو کلی طور پر محکم حرکی اصولوں پر چلانے کے لیے اْسے ایک خارجی و داخلی قوت فراہم کرتا ہے۔ یہ محض ایک قوت نہیں بلکہ ایک تخلیقی قوت بھی ہے، کیونکہ اس خوف کی محض کوئی خارجی بنیاد ہی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مضبوط داخلی بنیاد بھی ہے جو محبت الٰہی، کہلاتی ہے۔ یہ خوف یک رنگ نہیں متنوع ہے اور اس کا تنوع ان اثرات کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے جو انسانی روح کی تابانی و درخشانی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ روح کی تابانی اسی وقت ممکن ہے، جب اس کا تعلق اللہ سے جڑ جائے جو تمام روحوں کا خالق و مالک ہے۔ اس تعلق کی بنیاد اس کی محبت ہے جس میں اس کا خوف یعنی اس سے علیحدگی اور دوری کا خوف بھی پوشیدہ ہے۔ خوف الٰہی وہ آگ ہے جو قلب کی تمام کثافتوں کو جلا دیتی ہے اور اسے اس نور کے حصول کے قابل بناتا ہے جو محبت الہٰی میں پوشیدہ ہے۔ یہ محبت جتنی گہری ہوتی جائے گی، اللہ کا خوف بھی اتنا ہی گہرا اور متنوع ہوتا جائے گا۔ اس حقیقت کا اظہار حضور کی حیات طیبہ سے ملتا ہے۔ آپ کے خوف پر اللہ کی محبت غالب آتی تھی اور محبت پر خوف۔ یوں یہ دونوں چیزیں یکساں و مماثل ہیں۔ حضرت حسن البصری نے جب خوف کا تصور دیا تو انھوں نے دراصل قلب انسانی کی تطہیر کے بیج بوئے، یہ الگ بات ہے کہ اپنے زمانے کے حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھوں نے محبت پر زیادہ زور نہیں دیا، اور ایسا کرنا ضروری تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ کام حضرت رابعہ بصری نے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں لالچ یا خوف سے اللہ کی عبادت نہیں کرتی بلکہ اس کی محبت کی وجہ سے اس کی عبادت کرتی ہوں۔ علماء اور صوفیہ کی ان دو تصورات کی توضیح و تشریح میں بعد الطرفین کا فاصلہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زندگی کو سمجھنے اور برتنے میں دونوں طبقوں کی سوچ ،فکر، رویوں اور توضیحات واطلاقات میں کلی فرق ہے۔ ایک الفاظ کے ظاہری معانی پر زور دیتا ہے اور دوسرا ان کے مختلف الجہت معانی اور اعمال پر زور دیتا ہے۔ ظاہر بینی ایک کا شیوہ ہے اور درون بینی دوسرے کا وصف۔ علماء جس خوف کو دلوں میں پیدا کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر جسم کو عذاب ملنے کا خوف ہے اور یہ عذاب مختلف اشیاء جیسے جہنم، سانپ،آگ یاکھولتے ہوئے پانی کے ذریعے دیا جائے گا۔ یہ آرام اور عزت کے چھن جانے کا بھی خوف ہے۔ لیکن بنیادی طور پر اس خوف کا تعلق جسم اور اس کے متعلقات کی تباہی سے ہے یوں یہ خوف ایک پست درجے کا خوف ہے۔ لیکن صوفیہ جس خوف کا ذکر کرتے ہیں اس میں اشیاء Objects یا جسم کی تکلیف کوئی مسئلہ ہی نہیں اور نہ اسے کوئی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بلکہ اس خوف کا تعلق روح سے ہے، روح کی ناآسودگی اس کا معروض ہے جسم کی تکلیف نہیں۔ یوں یہ خوف معروضی کے بجائے موضوعی ہے۔ یہ خدا سے دوری کا خوف ہے۔ مادی، جسمانی اور فانی لذات سے محرومی یا سزاؤں سے اس خوف کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق اس واحدویکتا ذات سے ہے جو کمال اور حسن و جمال و جلال کا منبع اور تمام نعمتوں کو عطا کرنے والی ہے۔ خوف اس سے مہجوری کا نام ہے۔ اس سے بڑا درد ناک عذاب کیا ہے کہ ایک روح اس سے دور جا پڑے۔ یہی دوری سب سے بڑی رسوائی ہے۔ جو لوگ اس کی محبت میں ڈوب جاتے ہیں، یا جن کا وجود اس کی محبت کا مرکز بن جاتا ہے ان کے لیے تمام چیزیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ قرآن حکیم کے یہ الفاظ کہ ان کے لیے کوئی غم اور حزن نہیں، اس حقیقت کو سامنے لاتی ہیں۔خوف اور حزن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوف کی عام سطح کسی دنیا وی شے یا دنیاوی لذات کے چھن جانے اور اس کا تعلق کسی طاقتور شخص یا ادارے کے جبر سے ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ ہے جنسی اور ذہنی لذات و عیاشیوں کا چھن جانا یا ان کے غیر قانونی وغیراخلاقی حصول کے نتیجے میں ذلت و رسوائی اور سزا کا ڈر۔ لیکن جس خوف کا ذکر یہ آیت کرتی ہے اس کا تعلق اولیاء سے ہے۔ ایمان اور ولایت کا پہلا زینہ ہی دنیاوی لذات سے دور ی ہے۔ اس لیے ان کا چھن جانا ان کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ جب ان چیزوں کے چھن جانے کا کوئی غم ہی نہیں ہے تو لازماً کسی مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مایوسی اور غم تو ذہنی و روحانی کیفیات ہیں، ان کا جسم سے کوئی تعلق نہیں۔ اولیاء تو خدا کی محبت میں ہر شے کی محبت کو تج دیتے ہیں اور ان کا یہ فیصلہ کسی جبر یا خوف کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ان کا وجودی و مذہبی فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ انھیں ہر غم اور مایوسی سے بلند کر دیتا ہے اور اسی فیصلہ کے نتیجے میں ان کا ہر عمل خدا کے لیے ہوتا ہے، یا بالفاظ دیگر خدا کا عمل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی اس کی مرضی ہوتی ہے اور جس کی مرضی اور جس کا عمل خدا کی مرضی اور عمل ہے اس کے لیے کسی چیز کا کیا ڈر اور کیسی مایوسی۔ خوف اور مسرت دو حالتیں ہیں، قرآن حکیم کسی شے یا عمل کے حالات و کوائف و نتائج کی توجیہ اس کی دو مختلف جہتوں یعنی خیر اور شر یا منفی و مثبت پہلوؤں سے کرتا ہے۔ خوف یا شر کا تعلق محض برے اعمال یا اشیاء سے ہی نہیں، اچھے اعمال اور اچھی اشیاء سے بھی ہے اور ان کی کسوٹی نیت ہے۔ جیسے کسی مسکین یا بھوکے کو کھانا کھلانا اک عمل خیر ہے جو وجہ مسرت ہے لیکن اگریہ عمل کوئی اس نیت سے کرے کہ لوگ اسے نیک سمجھیں اور اس کی عزت و توقیر کریں تو یہ برا اور قبیح عمل ہے اور غم و حزن کا مخزن ہے۔ لیکن اگر یہی عمل خدا کی رضا کے لیے کیا جائے تو یہ ایک نیک عمل ہے۔ اس کا مقصد خدا کی رضا کاحصول ہے جو تمام مسرتوں اور سعادتوں سے بڑھ کر ہے۔ لیکن اس عمل میں خوف کا ایک نازک سا عنصر ہمیشہ موجود رہتا ہے اور وہ اس بات کا خوف ہے کہ نیت یا عمل میں کوئی ایسا عنصر شامل نہ ہو جائے جو خدا کی ناراضی اور اس سے دوری کی وجہ بن جائے۔ مسرت کا جو عنصر برے کاموں میں موجود ہوتا ہے، وہ محض ایک دھوکہ اور واہمہ ہے۔ وہ عارضی ہے اور ایک بڑے خوف ، سزا اور ذلت ورسوائی کی بنیاد ہے۔ جیسے زنا کاری میں جو لذت ہے وہ ایک کریہہ عمل کی عارضی لذت ہے۔ اسی طرح کسی کے مال یا عزت پر ڈاکازنی سے ایک مسرت یا فتح یابی کا جو احساس ہوجاتا ہے وہ بہت ہی عارضی ہے۔اس احساس و عمل کو ہمیشہ خوف ،مایوسی، غم اور افسوس گھیرے رہتے ہیں۔ وجودِ انسانی اور اس کے مختلف رو یے ایک بہت ہی مربوط مگر پیچیدہ اور مختلف الجہت نظام فکر و عمل ہے کوئی نراحیاتیاتی یا مشینی نظام نہیں۔ایک انسان زندگی جیتا ہے، وہ احساسات و اعمال کا مجموعہ ہے، وہ محبت کرتا ہے، نفرت کرتا ہے، وہ پسند و ناپسند کرتا ہے، وہ اشیاء و اعمال میں انتخاب کرتا ہے، وہ خوش ہو تا ہے اور رنجیدہ بھی۔ اس کے مختلف اعمال اور رویوں کے پیچھے اس کے فیصلے ہوتے ہیں… اور یہی فیصلے اور یہی اعمال اور رویے اس کی امیدوں، آرزوں، خوف اور مسرت، نفرت و محبت اور امید و نامیدی اور رنج و غم کو پیدا بھی کرتے ہیں اور ان کی پرورش بھی۔ امید، خوف اور محبت انسانی زندگی کے تین غیرمعمولی پہلو ہیں جو ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے ایک دوسرے کو سنوارتے ہیں یا زائل کردیتے ہیں۔تینوں کی سطح بہت پست بھی ہو سکتی ہے اور بہت شدید اور اعلیٰ بھی اور تینوں کے درمیان کبھی کبھی بعد الطرفین کا فاصلہ بھی ہو جاتا ہے۔ عام یا سطحی خوف کسی شے کے چھن جانے یا کسی معمولی سزا یا تکلیف یا غم کا خوف ہے۔ اسی طرح ایک چھوٹی سی امید کسی معمولی شے کے حصول کے متعلق ہوتی ہے۔ اور ادنی محبت کسی معمولی شے، مسرت یا لذت سے ہوتی ہے۔ محبت کے معنی ہیںوابستگی، وارفتگی اور کشش، دلکشی، گرویدگی، قوت تسخیر و جذب کے بھی، وابستگی اور گروید گی جتنی گہری ہوگی، وارفتگی بھی اتنی ہی گہری ہوگی۔ جس شے یا تصور یا حقیقت نے انسان کو اپنی طرف کھینچا، اس جیسا ہونے، اور اس کے قریب رہنے کے شوق کوبھی محبت کہتے ہیں۔ اس سے دوری یا اس کو پانے میں ناکامی کا نام خوف ہے، یہی احساس محرومی و ناکامی، تکلیف ،رنج و غم اور روحانی وجسمانی انتشار اور پراگندگی اور نتیجتاً تباہی کو پیدا کرتی ہے۔ لیکن تصور یا حقیقت اعلیٰ کی محبت ایک ایسی دلکشی، وابستگی اور وارفتگی کو پیدا کرتی ہے کہ جس کی ہر سطح پر اور ہر پہلو میں ایک خوف کا عنصر ہمیشہ قائم رہتا ہے لیکن یہ خوف کا عنصر مثبت وجود کا حامل ہے۔ یہ تباہی و بربادی اور پراگندگی پیدا نہیں کرتا، بلکہ ایک مہمیز کا کام کرتے ہوئے محبوب سے اور زیادہ نزدیک کر دیتا ہے۔ یوں ہم کَہ سکتے ہیں کہ محبت اپنے اندر خوف کو پالتی ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک مہیج ہے اور یہ عنصر اس سے کبھی الگ نہیں ہو سکتا، سوائے مرحلہ دیدار خداوندی کے۔ اس طرح ہم محبت کے بارے میں یہ کَہ سکتے ہیں کہ اس کے وجود اور اس کی بنیاد میں خوف موجود ہے، جسے ہم ’فطری خوف کَہ سکتے ہیں اور وہ خوف جو محبت کے ساتھ مزید گہرا اور طاقتور ہوتا جاتا ہے اسے ہم فروعی یا دوسرے درجے کا خوف کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ ہمیشہ محبت کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔ فلسفیانہ مکاتب فکر میں وجودیت نے تصورِ خوف پر توجہ کی لیکن وجودی مفکرین کا تصور خوف اس مذکورہ ’فطری خوف‘ کے مماثل نہیں ہے۔ اسے ہم فروعی خوف کے درجے میں ڈال سکتے ہیں۔ وجود یین کے تصور خوف کی دو جہتیں ہیں۔ (الف) و ہ خوف جس کا تعلق اشیا یا دنیا سے محرومی سے ہے۔ اسے وجودیین خوف fear کہتے ہیں۔ اور (ب) موت کا خوف، یا موت کے نتیجے میں انسانی وجود کے خاتمے کا شدید احساس اور خوف۔ اسے وجودیین بے نام خوف Angst یا Dread کہتے ہیں۔ ہیڈیگراسی خوف کے حوالے سے اپنے فلسفہ وجود Dasein اور تاریخیت Historicity کی تشریح کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں طرح کے خوف کسی روحانی تابانی و تابندگی کو نہ تو افزوں کر سکتے ہیں اور نہ ان کے ذریعے انسان اپنی روحانی بنیاد یا خدا سے رابطہ قائم کر سکتا ہے، کیوں کہ ان ہر دو میں محرومیِ دنیا اور محرومیِ جان کے سواکچھ نظر نہیں آتا۔ خوف الٰہی کے پیچھے جو بنیادی مقصد اور تصور کا رفرما ہے وہ ہے خدا کی طرف سفر، یا خوف الٰہی کے ذریعے خدا سے اپنے آپ کو جوڑنا اور اس کی رضا یا موت کے بعد ایک نئی زندگی میں روحانی ارتفاع وکامیابی اور دیدار خداوندی کا حصول، لیکن وجودیین کے تصور خوف میں ایسی کوئی شے نہیں ملتی۔ عیسائی عقاید ان کے کل فلسفہ کی بنیاد یا ان کا فلسفہ ان عقاید کی نئی تشریح ہے جیسا کہ کیر کے گارڈ ،ٹلچ اور دوسرے مفکرین کے فلسفے میں نظر آتا ہے۔اس فلسفہ و تشریح کی کل اساس انسان کا ازلی گنہگار ہونا ہے۔ یہ نظریہ قرآن پاک کے تصور خلافتِ انسانی اور اس کی عظمت و آزادی سے کلی طور پر ٹکراتا ہے۔ یوں وجود یین کے ہاں اس خوف یا محبت کی کہیں کوئی رمق نظر نہیں آتی جو صوفیہ کے تمام فکر اور اعمال کی جان ہے اور جس کی اصل قرآن پاک کی تعلیمات ہیں۔ رہا مشرکانہ مذاہب اور دیومالا کا معاملہ تو ان کا کل وجود جنس اور جنسی اعمال اور جنسی آوارگی میں پیوستہ ہے۔ اس لیے ان میں پاکیزہ اور لطیف تصورات کا تصور کرنا ہی عبث ہے۔ قرآن پاک کا تصور خوف و محبت اس کے اساسی اصولِ توحید میں پیوستہ ہے۔ ویسے بھی قرآن پاک کا ہر حکم کسی نہ کسی صورت میں اسی تصور سے وابستہ ہے۔ توحید کا اساسی اصول اسلامی ما بعد الطبیعیات کو چار بنیادی اصولوں رسالت، معاد، وحدت انسان اور امربالمعروف ونہی عن المنکر پر استوار کرتے ہوئے ایک واضح نظریۂ حیات اور انسانی تہذیب کی پرداخت کرتا ہے، جسے ہم توحیدی یا پیغمبرانہ تہذیب کہتے ہیں۔ قرآن کے ’تصور خوف‘ کو سمجھنے کے لیے کئی حقائق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ (الف)اللہ تمام کائنات کا خالق و مالک، رزاق ،حاکم اور ربّ ہے۔ وہ تمام علم، حکمت، قوت ، عزت اور شرف کا مالک ہے۔اس سے زیادہ تمام اشیاء کے حقائق ورموز اور کیفیات سے کون واقف ہو سکتا ہے؟ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اْسے تمام علم کے ذرائع سے نوازا۔ وہ علیم و خبیر ہے اور دل کی انتہائی تہوں میں اٹھنے والے خیالات ، جذبات و احساسات سے واقف ہے۔ اس سے زیادہ انسان کی نفسیات سے کون واقف ہو سکتا ہے؟ (ب) تمام اسماء و صفات اسی کو زیب دیتے ہیں۔ وہ رحیم و کریم بھی ہے اور غفور و ودود بھی، علیم و خبیر بھی ہے اور بصیر بھی، تمام جہانوں کا مالک بھی ہے اور پالن ہار بھی۔ (ت) وہ کوئی ظالم و جابر حکمران نہیں۔ اس کی ہر بات میں حکمتوں کا خزانہ موج زن ہے۔ اس کی سزا بھی اس کے لطف و کرم کا ہی حصہ ہے۔ اس لیے یہ اسی کا حق ہے کہ اس سے محبت بھی کی جائے اور اسی سے ڈرابھی جائے۔ اس کا خوف اس کی محبت اور اس کی محبت اس کی خوف کا لازمہ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ محبت نہ تو لایعنی باتوں اور حرکتوں کا مجموعہ ہے اور نہ خوف کسی ایسے وجود کا خوف جو محض ایک واہمہ ہے۔ (ث)اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے بڑے ہی رحیم و کریم اور شفیق پیغمبر بھیجے اور سب عظیم و شفیق پیغمبر ختمی مرتبت حضرت احمد مجتبیٰ ﷺہیں جو رحمت للعالمین بھی ہیں او ر شفیع المذنبین بھی، قاسم بھی ہیں اور جواد بھی۔ پیغمبرانِ کرام کا یہ سلسلہ بھی اللہ کی رحمت و رحیمیت کا حصہ ہے۔ (ج)کتاب الٰہی کی مختلف آیات میں جہاں انسان کو اللہ سے ڈرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہیں اس ہدایت سے پہلے جو بات بڑی ہی حکمت کے ساتھ بیان ہوئی ہے وہ اس کی مختلف صفات جیسے ربوبیت، نور، علم، انصاف و عدل، دانش و حکمت، انعامات،ہدایت اور احسان کا ذکر ہے۔ (ح) اسی لیے دین حق کے اخلاقی نظام کی بنیاد بے دیکھے اللہ کا خوف ہے۔ جو جبار و قہار ہی نہیں رحمن و رحیم بھی ہے اور اس کا رحم و کرم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے۔ ایمان اور ہدایت ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ’’یہ کتاب (الٰہی) اس میں ذرا بھی شبہہ نہیں! ہدایت ہے (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے۔‘‘(۲:۲) اور ہدایت ،مغفرت اور اجر ان لوگوں کو عطا ہوتے ہیں جو بے دیکھے ربّ پر ایمان لاتے ہیں۔ ’’جو لوگ بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں۔ یقیناً ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر۔‘‘ (۲۷:۱۲) ’’اور اللہ سے ڈرو ! جان لو کہ اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔‘‘ (۲:۲۳۱) ’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سب کا موں کو جو تم کرتے ہو دیکھ رہا ہے۔‘‘ (۲:۲۳۳) اللہ کے فرمان عالی شان یعنی قرآن پاک کی حقیقت ، ماہیت اور فطرت صرف ہدایت ہے۔ یہ نور، رہنما اور حق کو واضح کرنے والی کتاب ہے۔ ایمان کی اصل اور شناخت تقویٰ یعنی خوف خدا ہے۔ اسی خوف سے دل کے تالے کھل جاتے ہیں اور اس کی سیاہی دور ہوجاتی ہے۔ اور یہی تقویٰ دل کو کتاب الٰہی کی ہدایت کے حصول کے لیے تیار کرتا ہے۔ دل کی صفائی کے معنی ضمیر اور شعور کا صاف و شفاف ہونا ہے اور تقویٰ کے معنی اس دائمی خوف کے ہیں جو دل کو تزکیہ و تطہیر سے منور کرتا ہے اور انسان کو پاکیزہ زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا ہے۔ (خ) متقین کی پہلی علامت شعوری، ایجابی، عملی اور فعلی وحدت ہے۔ ایسی وحدت جو ان کے نفوس میں ایمان بالغیب، فرائض کی ادائیگی، تمام رسولوں پر ایمان اور آخرت پر ایمان کو یکجا کر دیتی ہے۔ متقین محسوسات پر ست نہیں ہوتے۔ وہ خدا پر بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور یہی ایمان بالغیب حیوانات اور انسانی ارتقا کے درمیان حد فاصل ہے۔ (د) ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ تمام شرائط کے بغیر خدا پر ایمان لایا جائے۔ اور اسی کو محبت بھی کہتے ہیں، کیونکہ محبت میں کوئی شرط نہیں ہوتی۔ شرطیں توسودا بازی کا خاصہ ہیں ایمان و محبت کا نہیں، یہی تقویٰ بھی ہے، کیونکہ تقویٰ یعنی خوف الٰہی قلب کا ایک شعور اور وجدان کا ایک احساس ہے۔ اسی سے تمام صالح افکار پھوٹتے ہیں۔ باطنی احساسات اور ظاہری اعمال و حرکات کے مابین وحدت رونما ہوتی ہے۔ ظاہر و باطن میں اللہ سے انسان کا تعلق قائم ہو جاتا ہے اور روح ہلکی ہو جاتی ہے اور اس پر سے تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں۔ یہ اسے اطمینان عطا کرتا ہے۔ جس کی آخری صورت راضیہ المرضیہ ہے۔ (ذ) تقویٰ ہی متقین میں اتفاق پیدا کرتا ہے اور اسی سے ان میں بہترین انسانی روابط اور انسانی اخوت اور انسانی ہمدری کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ یوں تقویٰ بہترین انسانی سماج کی تعمیرو ترویج کرتا ہے۔ انفاق کی جڑ تقویٰ ہے اور تقویٰ کی بنیاد ایمان۔ یوں یہ تینوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایمان نور ہے، تقویٰ اس کا ارتکاز اور انفاق اس کا اظہار اور پھیلاؤ اور قلب ان کا مقام، مصدر وارتکاز وانتشار۔ ’’ایمان وہ نور ہے جب یہ نور مومن کے دل سے پھوٹتا ہے تو اس سے مومن کا پورا وجود منور ہو جاتا ہے۔ اس کی روح منور اور شفاف ہو جاتی ہے اور وہ اپنے گردوپیش روشنی بکھیرتی ہے۔ اس نور سے اشیا، اقدار، پیمانوں اور تصورات کے حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ اور مومن کا دل کسی پردے اور اشتباہ کے بغیر انھیں واضح طور پر دیکھتا ہے۔ ان میں سے جس حقیقت کا جو مقام ہوتا ہے کسی فرق کے بغیر اسے وہی مقام دیتا ہے اور ان میں سے جن حقائق کو چاہتا ہے سہولت، طمانیت ، اعتماد اور سکون و قرار کے ساتھ لیتا ہے اور جنھیں چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ نور کائنات میں جاری قانون کی طرف مومن کی رہنمائی کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مومن کی حرکت و اعمال اور اس کے گردوپیش اور خود اس میں نافذ کائناتی قوانین کے عمل میں پوری مطابقت ہو جاتی ہے۔ وہ راہ خدا پر بہت ہی سہولت اور نرم روی کے ساتھ گامزن ہوتا ہے۔ نہ وہ راہ سے بھٹکتا ہے اور نہ اس کا راہ کی رکاوٹوں سے تصادم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا راستہ اسے معلوم اور اس کے لیے واضح ہے‘‘۔(فی ظلال القرآن جلد اول ، دوم) (ر) اس نور کے مقابل قوت کفروشرک ہے جو مجسم تاریکی ہے جو مختلف صورتوں اور شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس تاریکی کی پہلی صفت خدا سے سرکشی اور بغاوت ہے اور یہی حجاب قلب ہے جو انسان کی فطرت کو مسخ کر کے اْ سے حد درجہ سرکش بنا دیتی ہے اور وہ زمین پر فساد پھیلا دیتا ہے۔ اللہ سے بے خوفی اور سرکشی انسان کو ہزاروں خداؤں کا غلام بنا دیتی ہے اور اسے انتہا درجہ بزدل، کم مایہ ، دروغ گو، بخیل، حاسد، کینہ پرور، شکست خوردہ اور کمینہ اور ارزل یعنی جملہ سیئات یا شقاوتوں اور برائیوں کا مجموعہ بنا دیتی ہے۔ کفر و شرک کی واضح صفت جھوٹ ہے۔ کیونکہ ان سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں۔ اسی جھوٹ کے زعم میں ایک کافر و مشرک ہر شقاوت اور سیاہی کا شکار ہو جاتاہے۔ قلب کی سیاہی اسے ہدایت سے محروم کر دیتی ہے اور اس کے حواس و عقل پر مہر لگ جاتی ہے۔ یعنی وہ حقیقت کو سمجھنے اور پرکھنے کی شدبد کھو دیتا ہے۔ اسی لیے وہ حکمت و دانش اور بصیرت سے محروم ہو جاتا ہے اور ایسا ہونا ضروری ہے کیونکہ حکمت اعلیٰ اخلاق اور دانش مندی، فیاضی، نیک خوئی، نرم روی، فراخ دستی، بردباری، عفودرگزر، شکر گزاری، صبر ،توکل اور انصاف پسندی یعنی جملہ حسنات و اخلاق و اقدار عالیہ تو مومن کا زیور ہے۔ ’’پس (اے نبی) بشارت دے دومیرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی اور یہی دانش مند ہیں۔‘‘ (۳۹:۱۸) ’’سنو جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیارکیا ان کے لیے کسی خوف ورنج کا موقع نہیں۔‘‘ (۱۰:۶۳، ۶۲) اللہ کا خوف حکمت، دانش مندی، اعتدال، تدبر و تفکر، بصیرت اور فہم و ادراک اور امورات کی صالح انجام دہی کی بنیاد ہے۔ قرآن حکیم میں حکمت کا لفظ گہری بصیرت و دانائی اور اعلیٰ اخلاق و کردار دونوں کے لیے آیاہے۔ اسی لیے اللہ کے پیغمبر کی ایک واضح صفت حکمت ہے۔ اسی لیے اس کا ایک نام حکیم بھی ہے۔ اس لیے جو بھی لوگ آپ کا اتباع کرتے ہیں صاحب حکمت و فراست ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی غفلت میں نہیں پڑتے اور نہ وہ کسی گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ تاریخ اور دنیا کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں اسی لیے وہ صاحب بصیرت ہیں۔ ان مباحث اور تصوف کے ابتدائی دور علی الخصوص حضرت حسن بصری اور حضرت رابعہ بصری کے فلسفہ خوف و محبت کو سمجھنے کے لیے ہمیں امام غزالی کے تصور خوف ورجا کی طرف مراجعت کرنی پڑے گی۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ امام غزالی سے پہلے اور آپ کے بعد بھی کسی مفکر یا صوفی نے ان تصورات کی فلسفیانہ تشکیل و تحلیل نہیں کی۔ امام غزالی کے تصور خو ف و رجا کی صحیح فہم کے لیے اس کے تصور علم اور محبت الٰہی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا اور بندے کے درمیان محبت کا کوئی تعلق یا رشتہ ہو سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے کلام پاک کی ان آیات کریمہ کو ذرا سا ذہن میں رکھ کر آگے بڑھیں تو بہت سی گتھیاں خود بخود سلجھتی نظر آئیں گی۔ ارشاد خدا وندی ہے : ’’یقینا اللہ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو زیادہ سے زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے محبت کرتاہے جو خوب پاک صاف رہنے والے ہیں۔‘‘ (۲:۲۲۲) ’’اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔‘‘ (۳۰:۲۱) ’’تمھارے رفیق تو حقیقت میں صر ف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔‘‘ (۵:۵۵) ’’اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔‘‘ (۲:۲۲۲) ’’اور خاص اپنے پاس سے (حنان) سوزو گذار اور پاکیزگی۔‘‘ (۹۱:۵۱) کئی مفکرین و علماء کا یہ خیال کہ محبت کا تعلق ایک جیسی نوع کے افراد کے درمیان ہی ممکن ہے اور یہ کہ خدا کی محبت کے معنی محض اس کی اطاعت کے ہیں، اپنے آپ میں ایک عملی مغالطہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انسانوں اور جانوروں کے درمیان کسی قسم کا تعلق ہی ممکن نہ ہوتا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان جانوروں، پرندوں، پھولوں اور ہزاروں قسم کی نباتات اور جمادات کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ کتنے ہی جانور ایسے ہیں جو اپنے پالن ہار کی محبت و حفاظت میں اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک سطحی دلیل ہے۔ معاملہ ایک جیسی نوع کا نہیں تعلق و کشش و انجذاب کا ہے۔ ایک ہی نوع کے افراد ایک دوسرے سے انتہائی حد تک نفرت بھی کرتے ہیں۔ خدا اور بندوں کے درمیان محبت اسی تعلق و کشش و انجذاب کی وجہ سے ہے۔ انسان کے دل میں ان اشیاء کی طرف ایک فطری میلان ہے جو اسے خوشی و مسرت دیتی ہیں۔ یا جوا سے پسند آتی ہیں۔ یا جن کا وہ گردیدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے نفرت اس فطری میلان کا نام ہے جو چیزوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتا یا پھینکتا ہے۔ وہ چیزیں جو انسان کو تکلیف پہنچاتی ہیں وہ ان سے فطری طور پر دور بھاگتا ہے لیکن اس فطری تعلق کو سمجھنے کے لیے جیسا کہ ہم نے پہلے ہی ذکر کیا ہے ان اشیاء کے خواص کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ سانپ کی کھال بہت ہی جاذب نظر ہوتی ہے لیکن اس کا زہر قاتل ہوتا ہے۔ اگر انسان کو سانپ کے زہر کا علم نہ ہو تو وہ اس کے زہر کا شکار بن سکتا ہے۔ مخبوط الحواس یا معصوم بچوں کو چونکہ اشیاء اور ان کے خواص کا علم ہی نہیں ہوتا لہٰذا وہ ان سے نہیں ڈرتے اور ان کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح خدا کی محبت خدا کے علم میں پیوستہ ہے۔ اگر کسی شخص کو خدا کا علم یا اس کی صفات کا ادراک ہی نہ ہوتو وہ اس سے محبت کرہی نہیں سکتا۔ لیکن اس علم کے حصول کے لیے تصفیہ قلب بنیادی شرط ہے۔ جس طرح جب تک ایک سلیٹ صاف ستھری نہ ہو اس پر لکھا نہیں جا سکتا ، یا اس پر الفاظ واضح ہو کر ابھر نہیں سکتے، ٹھیک اسی طرح جب تک قلب تمام آلائشوں اور شہوات سے پاک نہ ہو اس پر خدا کے علم کا پر توتک نہیں پڑ سکتامحبت تو بہت دور کی بات ہے ،لیکن جس طرح خدا کی محبت کوئی عام محبت نہیں، ٹھیک اسی طرح اس کا علم بھی کوئی عام علم نہیں ہے۔ قلب انسانی جتنا صاف ہوتا جائے گا، علم خدا وندی کی شعاعیں اتنی ہی اس پر اثر انداز ہوں گی، اور علم خدا وندی کی گرفت قلب پر جتنی مضبوط ہوگی، محبت خدا وندی بھی اتنی ہی گہری ہوتی جائے گی۔ انسانوں اور انسانوں یا حیوانوں اور دیگر چیزوں کے درمیان محبت کی بنیاد حواس کے ادراک یا علم پر منحصر ہے۔ لیکن خدا کا علم ماورائے ادراک حسی ہے۔ اس کا تعلق عام عقل یا منطق سے بھی نہیں۔ اس علم کا حصول علم المکاشفہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ علم المکاشفہ کی بنیاد تصفیہ و تزکیہ قلب کے ساتھ ساتھ صفاتِ خدا وندی پر غور فکر بھی ہے۔ اس علم کو ہم وجدان کہتے ہیں۔ اس کی صفت فوری، صریح، قطعی اور بلاواسطہ آگہی و ادراک ہے۔ خدا ہماری محبت کا انتہائی مطلوب ہے کیونکہ وہی ان تمام اشیائ، اور ان تمام وجوہ کا خالق ہے جن سے محبت پیدا ہوتی ہے، یا جن سے محبت ہوتی ہے۔ غزالی نے چار علتوں کو محبت کی وجہ بیان کیا ہے (الف) محبت ذات (ب) محبت محسن و مربی (ج) محبت حسن (د) دوروحوں کے درمیان انسیت۔ انسان ہر قیمت پر اپنا تحفظ اور اپنی بقا چاہتا ہے۔ انسان اپنے آپ یا اپنے وجود سے محبت کرتا ہے۔ وہ ہر سطح اور ہر قیمت پر اپنے تحفظ، بقا اور کمال کا خواہاں ہے اسی لیے وہ اس ہر شے سے محبت کرتا ہے جوا س عمل میں اس کی ممدد معاون ہے، جیسے اپنے اعضاء ، اپنی قوت، دولت، اولاد، خاندان، دوست واحباب وغیرہ۔ اسی لیے وہ ہر اس شے سے محبت کرتا ہے جو اسے فائدہ پہنچاتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ بھی ایک طرح کی محبت ذات ہی ہے۔ کیونکہ وہ کسی شے سے اسی لیے محبت کرتا ہے کہ اس سے اس کی ذات کو فائدہ اور استحکام مل رہا ہے۔ محبت حسن و فوائد سے مبرا ہے۔ حسن اپنے آپ میں محبت کا مرکز ہے۔ یہ انسانی وجود کو جمالیاتی احساسات کے ذریعے مسرت سے سرشار کر دیتا ہے۔ حسن کے معنی ہیں اجزاء میں حسن ترتیب اور ہم آہنگی۔ یہی ہم آہنگی چیزوں کو کمال سے آراستہ کرد یتی ہے۔ حسن محض اشیاء میں نہیں ہوتا۔ یہ تصورات و احساسات میں بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے جتنے بھی تصوراتی تشکیلات یا اقدار ہیں، جیسے اخلاق و کردار، نیکی، علم وہ بھی حسن ہی ہیں۔ اسی لیے ہم ان صفات کی حامل اشیاء اور شخصیات سے بھی محبت کرتے ہیں جو حسین ہوں۔ ان چار وجوہ کی صحیح معرفت انسان کو معرفت حقیقی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ کیونکہ ان چاروں علل کو خدا نے پیدا کیا۔ وہی سب سے بہترین حفاظت اور زندگی عطا کرنے والا بھی ہے اور سب سے بہترین منعم بھی۔ وہی جمیل و حسین ہے اور تمام جمال اسی کی تخلیق ہے۔ اسی نے تمام ارواح کو پیدا کیا اور ان کے درمیان محبت ڈال دی۔ وہ اپنی ذات میں خالق کل، منعم اور حسن کل ہے۔ تمام کائنات اسی کی پیدا کردہ ہے۔ لہٰذا اس کی ذات حقیقت میں اس لائق ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ انسان کے لیے صحیح راہ یہی ہے کہ وہ اللہ کے رنگ میں رنگ جائے،یعنی اس کی صفات کو ایک ممکنہ حد تک اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ نے ارواح کو پیدا کیا۔ انسان کے اندر روح پھونکی اور اسے اپنا خلیفہ بنایا۔ لہٰذا اللہ اور انسان (یعنی بندوں) کے درمیان ایک فطری تعلق ہے، لیکن اس تعلق کو صرف علم المکا شفہ یا وجدان کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اللہ اور بندوں کے درمیان محبت کے معنی وہ نہیں جس کا اطلاق بندوں کے درمیان محبت یا بندوں اور کائنات کی دیگر اشیا کے درمیان محبت پرہے۔ کیونکہ اللہ کا مل ذات ہے وہ تمام ضرورتوں اور مجبوریوں سے بالا وماوریٰ ہے۔ جب کہ تمام اشیاء محض مخلوق اور محتاج ہیں۔ اللہ کی محبت کی دو جہتیں ہیں (الف) اللہ کی اپنے بندوں سے محبت (ب) بندے کی اللہ سے محبت۔ اللہ کی محبت کے معنی اپنی تخلیق سے محبت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہی ایک واجب الوجود ذات حقیقی ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ فانی اور اس کی مخلوق ہے۔ محبت الہی کے معنی انسان کے قلب پر سے تمام سیاہی کے پردوں کو ہٹا کر اسے اللہ کا قرب اس کی معرفت اور رضا و دیدار عطا کرنا ہے۔ اللہ کی محبت اس کی مرضی ہے جو ازلی وابدی ہے۔ اللہ تمام تغیرات سے معریٰ ہے۔ تغیر کائنات کی صفت ہے خدا کی نہیں۔ تصفیہ قلب سے انسان کے اعمال اور اس کے علم و معرفت کی سطحیں بدل جاتی ہیں اور جتنا اس کا علم کمال کی طرف بڑھتا ہے اتنا ہی اس کی معرفت ذات میں شفافیت آجاتی ہے۔ اور جتنا اس کا دل جملہ شہوات و خواہشات سے پاک ہوتا ہے، اتنا ہی وہ خدا کی حفاظت و نگرانی میں آجاتا ہے اور جتنا یہ رشتہ مضبوط ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کی مرضی اور اعمال اللہ کی مرضی کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ اور اس عمل کا انتہائی نقطہ یہ ہے کہ اس کی مرضی اللہ کی مرضی بن جاتی ہے۔ جب وہ اللہ کے جلال و جمال و کمال کا علم المکا شفہ کے ذریعے مشاہدہ کرنے لگتا ہے تو اس کے دل میں اس سے مہجوری کے تصور سے ہی خوف پیدا ہونے لگتا ہے۔ اللہ کی رضااور اس کے انس اور شوق کی بنیاد اللہ کا علم یا معرفت ہے۔ لوگوں کے درجات اللہ کی معرفت یا اس کے علم اور ان کے تصفیۂ قلب اور محبت کی شدت و گہرائی کے مطابق ہیں۔ غزالی نے لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ (الف) اصحاب یمین وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے اسماء و صفات کے متعلق سْنایا پڑھا۔ انھیں ان کی معرفت نہیں ہوتی۔ (ب) گمراہ لوگ جو راہ مستقیم پر نہیں اور جن کا علم جھوٹا اور گمراہ کن ہے۔ (ج) صدیقون، جن کا علم سچا اور جن کی معرفت گہری ہے وہ اللہ کے قریب ہیں۔ امام غزالی سے بہت پہلے ذوالنون مصری نے لوگوں کی درجہ بندی علم کی بنیاد پر کی، لیکن یہ درجہ بندی غزالی سے ذرا مختلف ہے۔ ذوالنون کے خیال میں لوگوں کے تین درجے ہیں جن کا تعلق ان کے درجہ علم اور ایمان سے ہے (الف) عام لوگ جو خدا پر اس لیے ایمان لاتے ہیں کہ انھوں نے خدا کے بارے میں سنا۔ یا وہ اس ماحول میں پیدا ہوئے جہاں خدا کو مانا جاتا ہے۔(ب) علما و مفکرین جو منطقی دلائل اور علمی معلومات و استدلال کی بنا پر خدا پر ایمان لاتے ہیں۔ (ج) عرفائ، جن کا ایمان معرفت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک شخص کے علم اور معرفت میں جتنی گہرائی، شدت اور کمال آتا جائے گا، اتنا ہی اللہ سے اس کا تعلق گہرا ہوتا جائے گا۔ تعلق اور قربت جتنی بڑھتی جائے گی ، اللہ کے خوف میں اتنی ہی شدت پیدا ہوگی۔ اللہ کا خوف انسان کے علم کے مطابق ہے۔ معرفت الٰہی انسان کی محبت کو مضبوط کرتی جاتی ہے اور محبت جتنی گہری ہوگی، خوف بھی اتنا ہی شدید ہوگا۔ غزالی کے خیال میں کمال کے لیے، علم خداوندی اولین شرط ہے، کیونکہ اس کے بغیر خدا کی محبت ممکن نہیں۔ لیکن خدا کاعلم ہر حال میں خدا کی محبت نہیں ہوتا۔ محبت علم سے زیادہ اعلی و ارفع معیار مطلوب ہے۔ شہاب الدین سہروردی مقتول نے کہا ہے کہ محبت خاص اور منفرد ہے۔ یہ انسیت سے بہت ارفع ہے۔ کیونکہ جملہ محبت انسیت ہے لیکن ہر انسیت محبت نہیں ہوتی۔ لیکن انسیت علم سے اعلیٰ ہے کیونکہ کل انسیت علم ہے لیکن سارا علم انسیت نہیں۔ علم کا تعلق جسم یا روح سے موافقت سے ہے۔ جب اس کا تعلق روح سے ہوتو یہ خیرا علیٰ کہلاتا ہے اور خیر اعلیٰ کی بنیاد علم اور انسیت ہے۔ خوف خدا کا تعلق جہالت سے نہیں کیونکہ جہل یا لا علمی خوف خدا پیدا نہیں کرتی۔ خوف علم سے پیدا ہوتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ علم خوف کی بنیاد ہے۔ علم جتنا وسیع اور گہرا ہوگا خوف کی شدت بھی اتنی ہی ہوگی۔ محبت کا انتہائی مطلوب ذات خدا وندی ہے کیونکہ وہ ان تمام علل کا منبع ہے جو محبت کی بنیاد ہیں۔ محبتِ خدا ہی سے تمام اخلاقی و سماجی اقدار پیدا ہوتی ہیں۔ انتہائی خوف کا تعلق عرفانِ ذات الٰہی سے ہے۔ اس لیے یہ اس کی محبت سے جڑا ہوا ہے۔ غزالی نے مسئلہ خوف پر بہت طویل بحث کی ہے۔ اس کے معانی اور حقیقت کا بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ خوف درد دل اور سوز درونی کا نام ہے جو زمان آئندہ کی کسی بری توقع کے سبب ہوتا ہے۔ واسطے کے حوالے سے وہ اسے خدا اور بندے کے درمیان حجاب کہتے ہیں۔ خوف کی حالت اور شدت کا احساس کسی شے کی خاصیت کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جس قدر یہ خاصیتیں اور ان کا علم کم ہو، خوف بھی اتنا ہی کم ہوگا۔ برے اسباب کے علم سے دل میں جو سوزش اور درد پیدا ہوتا ہے، وہ خوف ہے۔ خدا کا خوف اس کی معرفت اور اس کی صفات کے علم سے پیدا ہوتا ہے۔ احساس گناہ سے بھی خوف پیدا ہوتا ہے۔ کائنات کی ہر شے اپنے خواص اور قوت میں یکساں نہیں۔ ہر شے اپنے آپ میں اپنے خواص اور قوت میں محدود ہے۔ اس لیے ان کا خوف بھی مطلق نہیں ہوتا۔ مطلق خوف کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذات جس کی وجہ سے یہ خوف پیدا ہو جائے مطلق قوت کی حامل اور کامل ہو۔ لیکن ایسی کوئی شے ہے ہی نہیں، صرف اللہ کی ذات ہے جو اپنے آپ میں مطلق اور کامل ہے۔ لہٰذا اس کا خوف بھی انتہائی شدید ہوگا۔ اور یہ خوف صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک شخص کو اپنے نفس اور خدائے تعالیٰ کی کامل صفات کا علم ہو۔ عرفانِ نفس اور خدا کی ذات و صفات کا علم، انسان کو گناہوں سے روکتا ہے اور یہی خوف اسے نیک اعمال کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان کے نیک اعمال، مراقبہ، محاسبہ اور مجاہدہ اسی قدر قوی ہوں گے جتنا قوی اور شدید خوف ہوگا۔ اسی علم اور خوف کی وجہ سے انسان نہ صرف گناہوں سے رکتا ہے، بلکہ ان تمام اعمال سے بھی رک جاتا ہے جس میں حرمت کا امکان پیدا ہوجائے۔ اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ ورع حرام چیزوں سے باز رہنے کو کہتے ہیں۔ شبہات کے خوف سے حلال چیزوں کو چھوڑ دینے کا نام صدق فی التقویٰ ہے اور دنیا سے التفات نہ کرنے اور اس سے علیحدہ ہونے کو صدق کہا جاتا ہے۔ یہ روحانی مراتب ہیں، جو خوف کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ غزالی نے خوف کی جو تطبیق اور درجہ بندی کی ہے اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے۔ (الف) ایسی شے کا علم جو بذاتہ خوف زدہ کرنے والی ہو جیسے درندوں کی صفات و قوت کا علم۔ (ب) اپنے اعمال اور گناہوں کا شعور یا معرفت اور نتیجتاً خدا کی ناراضی کا خوف۔ (ت) خدا سے مہجوری کا خوف۔ غزالی کے خیال میں تیسرا درجہ یعنی خدا سے مہجوری کا خوف صرف صدیقین کو ہوتاہے۔ انسان کے دل میں خدا کے خوف کی شدت و گہرائی اس کے علم و آگہی کے مرتبے کے مطابق ہوتی ہے۔ خوف اس وقت مذموم اور ناپسندیدہ کیفیت اور عمل بن جاتا ہے جب اس کی شدت انسان کو اعمال صالحہ سے روک دے۔ خوف کی اعلیٰ اور پسندیدہ قسم وہ ہے جس سے کمال معرفت پیدا ہو جائے۔ غزالی کے خیال میں وہ خوف سب سے اعلیٰ ہے جس کا مصداق خدائے کریم ہے۔ گناہ سے ڈرنا صالحین کا خوف ہے، لیکن خدا سے ڈرنا موحدین اور صدیقین کا خوف ہے اور یہ خوف معرفت ذات الٰہی اور معرفت صفات الٰہی سے پید اہوتا ہے۔ خوف کے مختلف احوال اور اس کی مختلف کیفیات اور درجے ہیں، لیکن سب سے اعلیٰ درجہ عارفین کا ہے جن کو خوف فراق یعنی خدا تعالیٰ سے محجوب رہنے کا خوف ہو۔ انسان کا منتہائے مطلوب سعادت یعنی رضا ودیدار خدا وندی ہے۔ ہر شے کی فضیلت اس کے منتہائے مطلوب سے قربت سے ہے۔ جو چیز اس کے حصول میں جتنی مددگار ہو وہ اتنی ہی افضل ہے۔ خوف چونکہ شہوات کو جلاتا، گناہوں سے بچاتا اورطاعات کی ترغیب دیتا ہے اس لیے یہ افضل بھی ہے اور مطلوب بھی۔ اسی کی وجہ سے عفت، ورع، تقویٰ اور مجاہدہ حاصل ہوتے ہیں جو منتہائے مطلوب کے حصول میں مدد کرتے ہیں۔ اہل جنت کے چار مقام ہیں، ہدایت، رحمت، علم اور رضا۔ یہ چاروں مقام خائفین کے ہیں جس کا خوف الٰہی جتنا شدید ہوگا، اتنا ہی وہ اپنے ربّ کے قریب ہوگا۔ اسی لیے ان کو علماء یعنی علم والے بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی مومن کا دل خوف سے خالی نہیں ہوتا۔خوف کی شدت، ایمان و معرفت کی شدت کو ظاہر کرتی ہے اور خوف کی کمی ایمان اور معرفت کی کمی کو ثابت کرتی ہے۔ امن اور بے خوفی صرف ان کو حاصل ہوتی ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں۔ جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اس کا دل نرم، محبت پختہ اور عقل درست ہوجاتی ہے۔ خوف خدا کے ساتھ رجا کا ہونا لازمی ہے، کیونکہ رجا وہ حالت نفسی ہے جو انسان کو رحمت خداوندی کے قریب کر دیتی ہے۔ رجا کا منبع خدا کی رحمت ہے جو محبت خدا وندی کو پیدا کرتی اور جلا بخشتی ہے۔ نہ تو مطلق رجا اچھی شے ہے اور نہ مطلق خوف۔ دونوں کے درمیان تطبیق لازمی ہے۔ خوف نیک اعمال کی ترغیب دیتا ہے اور رجا ان کے نتیجے میں خدائے قدوس کی رضاو دیدار کی اْمید ہے۔ قرآن کی آیات کریمہ کے مطابق خدا کی رحمت سے نا اْمیدی کا فروں کا شیوہ ہے، اْمید دل کو تقویت دیتی ہے۔ اور اللہ کی محبت کو دل میں راسخ کرتی ہے۔ یوں خوف، رجا اور محبت ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ معرفت الٰہی کی بنیاد محبت الٰہی اور دنیا سے دوری ہے۔ ان تینوں سے مختلف روحانی مراتب کا حصول ہوتا ہے۔ مقام صبر خوف ورجا سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سے مقام مجاہدہ، ذکر الٰہی اور فکر دائمی کا حصول ہوتاہے۔ دوام ذکر سے انس اور دوام فکر سے کمال معرفت ملتی ہے اور کمال معرفت وانس سے محبت کا مقام ملتا ہے اور یہی سالک کو مقام رضا و توکل پر لے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی مقام نہیںکیونکہ محبت کے لیے ضروری ہے کہ محبوب کے فعل پر راضی رہے اور اس کی عنایت پر اعتماد رکھے۔ جبھی تو اس کا ہر عمل خدا کی مرضی کے مطابق اور اسی کا عمل بن جاتا ہے۔ خوف ورجا قلب انسانی سے تمام کثافتوں کو دور کرتے ہیں اور اسے معرفت ذات کے لیے تیار کرتے ہیں۔ رجا کا مرتبہ خوف سے بلند ہے، کیونکہ اس کا منبع خدا کی رحمت ہے۔ جبکہ خوف کا منبع خدا کی صفت غضب ہے۔ لہٰذا مرتبہ اس کا بلند ہے جو خدا کی محبت میں نہ کہ اس کے خوف سے اعمال صالحہ انجام دیتا ہے۔ رجا یا امید انسان کی محبت کو گہری اور مضبوط کرتی ہے اور اسے اس قابل بناتی ہے کہ اسے معرفت خداوندی حاصل ہو۔ اس لیے محبت سب سے بلند ہے، لیکن محبت محبوب کے خوف کو اپنے اندر پالتی ہے۔ کیونکہ عاشق کے لیے سب سے بڑا عذاب اس کے محبوب سے دوری کا خوف ہے۔ یوں خوف وہ مہمیز ہے جو اس کی محبت کو جلا بخشتی ہے اور اسے اس کے اور قریب کرتی ہے۔ تخلیق کائنات کو اللہ نے ایک با مقصد عمل بتایا ہے۔ کوئی کھیل یا لیلا نہیں۔اس کائنات میں اللہ نے انسان کو سب سے معزز تخلیق بنایا۔ اللہ نے ان دونوں کے مقصد تخلیق کا بیان قرآن پاک میں کئی جگہ پر فرمایا۔ان تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ : (۱) یہ ساری تخلیق ایک مقصد کے تحت بنائی گئی ، یہ کوئی کھیل نہیں۔ (۲) انسان کو اللہ نے سب سے اعلیٰ مرتبہ عطا کیا۔ اسے عزت و شرف سے نوازا۔ اسے اپنا خلیفہ بنایا اور اسے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ (۳) ساری کائنات اس کا میدان عمل ہے۔ اس کی تسخیر اور اس کی حقیقت اور اسرار اور رموز کو سمجھنے کے لیے اسے علم عطا کیا۔ (۴) اسے حواس خمسہ، عقل، وجدان اور وحی کی قوتیں عطا کیں۔ (۵) ان ہی قوتوں کے جائز اور تخلیقی عمل اور استعمال کے ذریعے وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ (۶) اللہ کے قرب کے معنی اس کی عبادت کے ذریعے اس کی رضا کا حصول ہے۔ (۷) اور عبادت کے معنی محض فرائض کی ادایگی نہیں بلکہ اللہ ، کائنات اور انسان کے حقوق کی فہم اور ان کی ادایگی ہے۔ (۸) اور اس کے معنی ایک ایسے تہذیبی و انسانی نظام کی پرداخت اور اس کا نفاذ ہے، جسے اللہ نے اپنے پیغامبروں کے ذریعے بھیجا۔ (۹) یہ تعلیمات اقدار اعلیٰ کا وہ مجموعہ ہے جو انسان کوتمام مخلوق میں احسن بناتی ہیں اور اسے اللہ کی صفات کی فہم عطا کرتی ہیں۔ (۱۰) ان تمام اعلیٰ اقدار کا سب سے اعلیٰ نمونہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ ہیں جنھیں رہتی دنیا تک انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا۔ (۱۱) انسان کو آزادی کی قوت دی گئی تاکہ وہ اپنے اعمال انجام دے سکے۔ (۱۲) اسی آزادی اور اعمال کی بنیاد پر اسے قیامت کے دن اللہ کے سامنے حساب دینا ہوگا۔ (۱۳) اس کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار، رسول کی غیر مشروط اطاعت اور محبت پر ہے۔ (۴ا) اللہ کی رضا اسے دائمی کامیابی یعنی سعادت یا دیدار و قرب خداوندی اور ناکامی یعنی شقاوت یا خدا سے دوری یعنی عذاب خداوندی سے ہم کنار کر دے گی۔ جنت و ہ مقام ہے جہاں پہ اسے دیدار خداوندی ہوگا اور جہنم وہ جگہ ہے جہاں وہ ہمیشہ خدا کی ناراضی اور اس سے مہجوری اور دوری کی آگ میں جلتا رہے گا اور اسے کبھی دیدار خدا وندی نصیب نہیں ہوگا۔ صوفیہ کرام کی تمام تعلیمات کا نچوڑ اور مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے۔ (۵ا) تصوف کے ایک مکتبہ عملی و فکری کی حیثیت سے اس کی نشوونما پر بحث ہمارے دائرہ کار سے خارج ہے۔ ہم صرف اس نقطے پر بحث کریں گے کہ ابتدائی صوفیہ علی الخصوص حضرت حسن بصری نے خوف کے تصور کو بنیادی فکری و عملی اصول کے طور پر آگے کیوں بڑھایا۔ اور اسے حجت الاسلام امام غزالی نے کیوں اسلام کے فلسفۂ اخلاق و تصوف کا ایک کلیدی اصول مان کر اس کی فلسفیانہ و فکری جہتوں کی تدوین و ترویج و تشریح کی اور اسے ایک کلی قضیہ کے طور پر پیش کیا۔ صوفیۂ کاملین نے ملت اسلامیہ کی صورت حال پر غور کیا اور امت مرحومہ کو خرابیِ حالات، ظالم و جابر بادشاہوں، فوجی قوتوں اور معاشی و سماجی استحصال کرنے والی قوتوں اور دین و مذہب کے جھوٹے ٹھیکیداروں اور علمائے سوء سے نجات دلانے کے لیے انھوں نے ’خوف خدا‘کا تصور و فلسفہ پیش کیا اور اسے اپنی تعلیمات و تبلیغ کے ذریعے دلوں میں بہت گہرا اتار نے کی کوششیں کیں کیونکہ خوف خدا کے سوا اب اور کوئی مزاحم قوت تھی ہی نہیںجو انسانیت کو ظالموں اور جابروں سے بچا سکتی۔ اس فلسفہ و تصور کو پیش کرنے والے پہلے صوفی حضرت حسن بصری تھے، جن کی مذہب، فقہ، تفسیر، سیاست، حدیث اور امت کے تمام حالات پر گہری نظر تھی۔ ان کی بے باک آواز جبر کے فلسفہ کے رد میں اٹھی اور ان کے درمند دل نے انسانیت کو بچانے اور اسے خدا کے نزدیک لانے اور اس سے اپنا رشتہ استوار کرنے کے لیے ’خوف‘ کا تصور پیش کیا۔ یوں اسلامی تصوف اور روحانیت جبر کے خلاف ایک منظم آواز تھی اور اس کا مقصد انسانوں کو تمام استحصالی قوتوں سے آزاد کر کے خدا سے اس کا تعلق قائم کرنا تھا۔ جبر جملہ ، اخلاقی، روحانی ، سماجی ، سیاسی بگاڑ، تشدد اور مطلق العنان حکمرانی اور استحصال کا دوسرا نام ہے۔ یہ ایک غیر اخلاقی، غیر جمہوری ،غیر اسلامی اور ظالمانہ رویہ ہے جو زندگی کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور انسان سے اس کی اخلاقیت،عظمت و وقار وشرف اور آزادی کو چھین کر اسے بہت ہی غلیظ وادنی سطح پر گرا دیتا ہے۔ جبر کی ہر شکل فساد و مفاد کی ترجمان ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ خوفِ خدا کے سوا اب کوئی اور چیز بچی ہی نہ تھی جو انسانی قلوب اور نفسیات کو بدل سکتی۔ خوف کے اس تصور اور فلسفے کی بنیاد قرآن پاک کی آیات بینات ہی تھیں۔ قرآن پاک نے بار بار انسانی نفسیاتی کو تبدیل کرنے کے لیے ’خوف‘ کا تصور پیش کیا۔ اس خوف کی انتہا خدا کی ناراضی اور اس سے دوری و مہجوری ہے۔ انسان کی عارضی زندگی، جس کے بعداسے سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، اگر وہ برائیوں سے نہ بچا اور ان سے توبہ نہ کی۔ دائمی رسوائی و عذاب کا خوف بجائے خود ایک ایسی مزاحم قوت ہے جو بڑے بڑے جابروں کے دلوں کو بدل دیتی ہے، سوائے ان کے جن کے قلوب پر اللہ نے سیاہی و بدنصیبی کی مہر کردی۔ حضرت حسن بصری نے ’خوف‘کی تبلیغ کر کے انسانی دلوں کو جھنجھوڑ دیا، انھیں اس عارضی دنیا اور یہاں کی عیاشیوں اور مظالم کی حقیقت سمجھا دی اور انھیں یہ بتا دیا کہ اگر وہ اس سے نہ ہٹے تو دائمی تباہی و ذلت ان کا انتظار کررہی ہے۔ خوف انسانی سماج کے تانے بانے کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ حکومت کا خوف، قانون کا خوف، سزا کا خوف، ماں باپ کا خوف وغیرہ، اگر خوف کی یہ مزاحم قوت یا تصور نہ ہو تو شاید انسانی سماج اور وجود بکھر کے رہ جائے۔یہ تمام خوف تو عارضی اور کم پایہ ہیں اور یہ کسی شخص کو دائمی زندگی کی رسوائی سے نہیں ڈرا سکتے اور نہ کسی ایسے ظالم و جابر کا ہاتھ روک سکتے ہیں، جو خود ایک جھوٹا اور خود ساختہ قانون ہوتا ہے اور جس کی ہر بات حتمی ہوتی ہے۔ اس لیے ایک ایسے 'خوف' کی ضرورت ہے جو ان تمام قوتوں سے بڑھ کر ہو اور یہ خوف ایک ایسی ذات ہی کا ہو سکتا ہے جو تمام کائنات کی خالق و مالک و حکمران ہے، جسے ذرے ذرے کی دھڑکنوں کا علم ہے اور جس کی گرفت سے کوئی نہ بچ سکے۔ یہی خدا کا خوف ہے۔ لیکن خدا کے خوف میں ایک بہت قیمتی موتی پوشیدہے وہ ہے خد ا کی ربوبیت و رحیمیت کا احساس، جسے محبت کہہ سکتے ہیں۔ انسان خدا کی محبت میں ہر شے سے خوف کھاتا ہے تا کہ خدا اس سے ناراض نہ ہو جائے اور وہ اس سے دور نہ جا پڑے اوریوں ایک دائمی مہجوری و ذلت کا شکار نہ بن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ حسن بصری اپنے زمانے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ’محبت‘ کے تصور کو سامنے نہیں لا ئے۔ ورنہ وہ تو ہر عظیم صوفی کی طرح اس سے واقف بھی تھے اور سرشار بھی۔ یہ کام اس عظیم صوفیہ نے کیا، جس کے مرتبہ کی دوسری ولیہ عالم اسلام آج تک پیدا نہ کر سکا۔ یہ تھیں جناب رابعہ بصری، جس نے خوف ولالچ سے مبرا و منزہ ’محبت خدا وندی‘ کے تصور کو پیش کیا ، آپ نے فرمایا کہ خدا ہی محبت کے لائق ہے اور میں اس کی عبادت اس کی محبت میں کرتی ہوں نہ کہ جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے۔ یہ تو پاکیزگی قلب اور محبت کی انتہا ہے لیکن عام انسانیت کی نفسیات بدلنے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ا س کے دل میں خوف و محبت کو بسا دیا جائے اور کبھی خوف کے تصور کو آگے بڑھا دیا جائے اور کبھی محبت کے تصور کو۔ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جاہل صوفیہ کی طرح وہ محبت کا کوئی ایسا کھیل رچائے جو اْسے خدا اور اس کی محبت سے ہی دور کر دے۔ انسانی نفسیات اور اعمال کو بدلنے کے دو ہی طریقے ہیں یا تو اس پر خوف مسلط کر دیا جائے اور اسے طاقت کے ذریعے دبا دیا جائے یا غلط اعمال و حرکات سے رکنے کے لیے مجبور کیا جائے۔یا اس کے دل میں اچھے کاموں ،اصولوں اور شخصیات کی محبت پیدا کی جائے، تا کہ وہ برے اعمال سے دورر ہے۔ یہی کام صوفیۂ کرام نے کیا۔ انھوں نے خوف کا تصور پیش کیا، اس کی تبلیغ کی اور قلوب و اذہان میں خوف ڈال دیا اور یوں انھیں برائیوں سے اجتناب کرنے پر مجبور کیا اور جب ان کی عادتیں بدل گئیں اور ان کی نفسیات میں ایک مضبوط تبدیلی آگئی تواس میں محبت کے بیج بو دیے تا کہ وہ محض خوف سے دبے نہ رہیں، بلکہ اس ذات عظیم و کریم کی محبت میں اس کا قرب بھی حاصل کریں اور تمام برائیوں سے اجتناب بھی کریں۔ انسانی نفسیات کا ایک لازمی پہلو یہ ہے کہ جب انسان کسی سے محبت کرنے لگتا ہے تواس کی مرضی کے خلاف جانے کی سوچ بھی نہیں پاتا، چہ جائے کہ اس سے دوری و مہجوری کو برداشت کر لے۔صوفیہ کے فلسفہ و تعلیمات میں یہ دونوں تصورات پہلو بہ پہلو چلتے رہے لیکن ان کی مربوط و مضبوط فکری بنیاد، تحلیل اور توضیح و تشریح، امام غزالی نے اپنی عظیم کتاب احیاء علوم الدین میں پیش کی۔ آپ نے ان دونوں اصولوں کو صرف مزاحم قوتوں کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ انھیں مابعد الطبیعیا تی،مذہبی، سماجی، اخلاقی، روحانی اور علمی اصولوں کی حیثیت سے وسیع فلسفیانہ تناظرات میں پیش کیا۔آپ کے بعد تمام آنے والے صوفیہ و حکماء کی تعلیمات میں غزالی کا تتبع واضح نظر آتا ہے اور اس حقیقت سے کسی صوفی نے انکار بھی نہیں کیا۔ غزالی کی عظمت اور جملہ فلاسفہ پر اس کی فوقیت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ اس نے جملہ نظریات و تصورات کو پیش کرنے ،ان کی صحیح تصویر کشی اور ان کی توضیح و تشریح کے لیے واضح علمی بنیادیں یا علمیاتی طریقہ کار اور ڈھانچا فراہم کیا۔ ہر تصور کو علمیات کے چوکھٹے میں ڈالا اور اس کی علمیاتی بنیادیں تشکیل دیں اور حدود واضح کیے۔ یوں اس کی مابعد الطبیعیات، سماجیات اور اخلاقیات اور روحانیت کی بنیادیں علمیات میں پیوستہ ہیں اور اس سے ہٹ کر ان کی تشریح و توضیح ایک منطقی و فلسفیانہ مغالطہ سازی ہوگی۔ غزالی نے خوف و رجا کو ایک عنوان کے تحت لاکر ان کے تعلق اور کوائف کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ خوف کی حقیقت ، حدود اور نتائج پر بھرپور بحث کی ہے۔ یہ ساری بحث فلسفیانہ سے زیادہ نفسیاتی اور علمیاتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کا فلسفہ خوف وجودیین کے فلسفۂ خوف سے زیادہ مربوط، منظم، واضح اور بصیرت افروز ہے اور اس حیثیت سے کہ اس نے خوف کو مستقبل سے جوڑ دیا ہے اور اس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں اور تعلقات کو واضح کیا ہے۔ وہ بہت ہی ارفع فلسفیانہ طرازی سے وجودیین سے سبقت لے گئے ہیں۔ خوف کی اس علمیات کی بنیاد قرآن پاک کی آیات مبارکہ اور حدیث مبارکہ ہیں، جن کا حوالہ بار بار غزالی نے خوف پر بحث میں دیا ہے۔ غزالی نے رجا کے ساتھ خوف کو مربوط کر دیا اور اس کی بنیا دبھی قرآن پاک کی آیات ہیں، جن میں اللہ کی رحمت سے ناامیدی سے منع کیا گیا ہے۔ کسی بھی شے یا کیفیت کا ادراک وحصول علم کے بغیر ناممکن ہے خوف و رجا کے وجود یا ان کے کوائف کا ادراک بھی علم کے بغیر ناممکن ہے۔ خوف کسی شے کی مختلف کیفیات ، حالات اور قوتوں اور ان کے مطلوبہ نتائج کے علم سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ایک شخص جانتا ہے کہ آگ جلاتی ہے، زہر مارتا ہے، زلزلہ زمین کو ہلا دیتا ہے، پانی ڈبو دیتا ہے وغیرہ وغیرہ، اسی لیے وہ ان سے خوف کھاتا ہے۔ کسی مخبوط الحواس شخص یا بہت ہی چھوٹے بچے کو کسی شے کا خوف ہی نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اشیاء کے خواص سے واقف نہیں ہوتے۔ خوف کی پہلی شرط حواس و عقل کا قائم ہونا اور دوسری شرط اشیاء کے خواص کا علم ہے۔ ہم جس ان دیکھے اور مختلف الجہت خوف کو کبھی کبھی محسوس کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے حواس اور عقل و فہم کے مختلف ادراکات کی کارفرمائی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارا ذہن مختلف حالات اور صورتوں کو ملا کر ایک نئی کیفیت یا کیفیات کی شکلیں ترتیب دیتا ہے یا ان کا تصور کرتا ہے لیکن محض تصور ہی کسی خوف کی وجہ نہیں بنتا، بلکہ اس کے پیچھے مختلف حالات و کیفیات اور عوامل و عوالم خوف کی وجہ بن جاتے ہیں۔ تصوف کی نظریاتی تشکیل میں حضرت رابعہ بصری کو ایک کلیدی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا اندازہ ان نظریات اور عقائد سے ہو سکتا ہے جن کے حوالے ابوطالب مکی، القشیری اور امام غزالی ایسے صوفیہ ومفکرین نے اپنی تحریروں میں دیے ہیں۔ تصوف تطہیر قلب و نفس اور زہد ہے۔ اس راہ میں مختلف مقامات آتے ہیں۔ تمام خواہشات اور گناہوں کو مٹانے کے بعد سالک مختلف مقامات واحوال سے گزرتا ہے۔ یہ روحانی ارتقا کی ایک طویل اور مشکل داستان ہے جس کی انتہا معرفت الٰہی ہے۔ان مقامات و احوال پر ابو طالب مکی نے رسالہ قشیریہ اور امام غزالی نے احیاء میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ توبہ اس کی ابتدا اور رضا اس کی انتہا ہے۔ صبر، شکر، فقر، زہد، توحید، توکل ، محبت اور رضا اس کے مختلف مقامات ہیں۔ کچھ صوفیہ بشمول غزالی نے فکر، ذکر، مراقبہ اور احتساب نفس کو بھی ان مقامات میں شامل کیا ہے۔ محبت الٰہی ان مقامات کی انتہا اور مغز ہے۔ محبت میں سالک خدا کے سوا ہر شے اور ہر حال و مقام کو بھلا دیتا ہے اور یوں خدا ہی اس کے ہر عمل کی ابتدا اور انتہا بن جاتا ہے۔ توبہ کے معنی بھی یہی ہیں کہ ہر شے سے منہ موڑ کر خدا سے لولگائی جائے۔ حسن بصری اور رابعہ بصری کو گناہوں کے نتائج کا شدید احساس تھا اسی لیے ان کی تعلیمات میں توبہ کو ایک بنیادی مقام حاصل ہے۔ رابعہ کے بارے میں عطا ء کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ مغموم اور گریہ کی حالت میں ہوتی تھی اور جب اس سے اس بارے میں پوچھا گیا، تو اس نے جواب دیا کہ میں اس چیز سے ڈرتی ہوں کہ میں اس سے الگ اور دور نہ جاپڑوں جس سے میں بندھی ہوئی ہوں اور وقت مرگ کہیں یہ آواز نہ آئے کہ میں کسی لائق نہیں۔ محبت کا یہی تصور توبہ، توجہ اور خوف سے مربوط ہے ، گناہ ہر وہ عمل ہے جو بندے کو خدا سے الگ کر دے، جو روح اور اس کے محبوب (یعنی خدا) میں تفریق ڈال دے۔ رابعہ اسی لیے گناہ سے نفرت کرتی تھی کہ یہ اسے خدا سے دور کرتا ہے، نہ کہ اس لیے کہ اس پر سزا دی جائے گی۔ ایک سالک یا معشوق کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا عاشق اس سے نظریں پھیرلے اور اسے اپنے سے الگ اور دور کردے۔ توبہ اس کے خیال میں عنایت خدا یا اس کا تحفہ ہے، نہ کہ کو ئی ایسی شے جو انسان اپنی محنت سے حاصل کر سکے، ہر انعام اور ہر کمال اسی کی عطا ہے۔ یہی معاملہ شکر کا بھی ہے۔ رابعہ کی زبان پر ہر وقت اللہ کا شکر ہوتا تھا اور شکر کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہر حال میں اس کا شکرادا کیا جائے۔ خوف اور مصائب و آلام سے شکر کی کیفیت اور زیادہ مستحکم ہونی چاہیے کیونکہ یہ بھی اسی کے عطا کردہ ہیں۔ خوف اور رجا ایمان کی دو بنیادیں اور ایمان کی عمارت کے ستون ہیں۔ ہجویری کے خیال میں سالک جو خدا سے ڈرتا ہے وہ محض اس وجہ سے ڈرتا ہے کہ کہیں وہ خدا سے دور نہ جا پڑے اور جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور امید لگائے رہتے ہیں ان کی آرزو اس سے اتحاد ہے۔ ابو علی رودباری کا خیال ہے کہ خوف اور رضا ایک پرندے (سالک) کے دو پر ہیں۔ اگر ان میں ایک ٹوٹ جائے تو پرندہ گر جاتا ہے اور اڑنے سے قاصر رہ جاتا ہے اور اگر دونوں ٹوٹ جائیں تو وہ مر جاتا ہے۔ خوف کے معنی یہ ہیں کہ خوفِ خدا سالک کے نفس کو ہر شے اور ہر خوف سے آزاد کردے۔ایک صوفی کا قول ہے کہ خدا سے ڈرنے والا مجسم خوف بن جاتا ہے۔ ہر شے اسے ڈراتی ہے، لیکن یہ خوف اسے برباد نہیں کرتا بلکہ یہ اس کے قلب کا تزکیہ کر کے اسے اس کے خالق و مالک ومحبوب کی رضا و قرب عطا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جسے کوئی آگ جلا نہیں سکتی۔ خوف حکمت کی روح ہے اور حکیم وہ ہے جو حکیم میں مل جائے نہ کہ اس سے دور جا پڑے۔ امام غزالی نے بھی خوف کو مہمیز قرار دیا جو سالک کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ خوف خدا کا ایک عطیہ ہے جس کا ارشاد ہے کہ سالک اس سے ڈریں۔ یہ روح کو جلا بخشتا ہے کیونکہ یہ خدا کی صفت عدل پر فکر کا نتیجہ ہے۔ خوف، امید اور محبت ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ محبت خوف کے بغیر خالص اور مکمل نہیں اور نہ خوف امید کے بغیر اور نہ امید خوف کے بغیر۔ خوف اور امید صوفیہ کی معادی تعلیمات اور تصور جنت و جہنم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں جہنم ایک دارالعذاب کے بجائے خدا سے دوری اور جدائی ہے اور جنت جائے مسرت کے بجائے دیدار خداوندی اور اس کے ساتھ اتصال کا نام ہے۔ رابعہ بصری کی تعلیمات میں خوف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے چالیس سال عظمت خدا کے احترام میں آسمان کی طرف آنکھیں نہیں اٹھائیں۔ اکثر یہ فرمایا کرتیں کہ جب میں اذان کی آواز سنتی ہوں مجھے روز محشر کی آوازیاد آتی ہے اور جب برف دیکھتی ہوں تو مجھے نامۂ اعمال کے اوراق سر سراتے ہوئے نظر آتے ہیں خوف اور محبت کے متعلق اس کی تعلیمات کا نچوڑ ہے کہ جہنم کے خوف سے یا جنت کی امید میں خدا کی عبادت اولیاء کے لیے بے معنی عمل ہے۔ اس کے خیال میں صرف خدا کی مکرم اور تقدیس مآب ذات اس لائق ہے کہ اس سے ڈراجائے۔ تمام امید وں کا مرکز بھی اسی کی ذات اقدس ہے۔ اس کے خیال میں جنت حسی مسرتوں کے حصول کی جگہ نہیںبلکہ یہ خدا کے دیدار کی حالت ہے۔ جب اس سے جنت کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے کہا پہلے ہمسایہ، یعنی خدا اس کے بعد رہنے کی جگہ۔ امام غزالی کے مطابق اس کے دل میں محبت خدا کے سوا کسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی تعلیمات کا نچوڑ خدا کی بے لوث محبت ہے۔ اور بے لوث محبت کے معنی ہیں مکمل خود سپردگی۔ کیونکہ خودسپردگی نہ ہو تومحبت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ جو شخص محبت کرتا ہے وہ اپنے محبوب سے محبت کے لیے شرائط طے نہیں کرتا،بلکہ اس کے رنگ میں رنگ جانا چاہتا ہے۔ اس کی کسی بات یا حکم سے انحراف کرنے کا خیال بھی اس کے دل میں نہیں آسکتا، اس کے لیے اس کے محبوب کے سوا سب کچھ بے کار و بے معنی ہے۔ یہی حقیقت ’زہد‘ سے بھی سامنے آتی ہے۔ زہد انسان کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ پاکیزگی انسان کو زہد کی طرف لے جاتی ہے اور زہد محبت خدا کی طرف۔ القشیری نے زہد کے معنی ہر اس شے کو جو روح کو خدا سے الگ کردے، بیان کیے ہیں۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ زہد دنیا اور اس کی ہر شے سے نفرت ہے۔امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ زہد کی تین قسمیں ہیں (الف) حرام کو چھوڑ دینا (ب) حلا ل کوچھوڑ دینا (ج) اور ہر اس شے کو خدا کے لیے چھوڑدینا جو روح کو خدا سے دور کر دے۔ ترکِ دنیا توحید کی متقاضی ہے۔ کیونکہ خدا کے بغیر کسی بھی شے کو حقیقی ماننا یا اسے دل میں جگہ دینا ہی شرک ہے جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ توحید کے معنی محض خدا کو ایک ماننے کے نہیں ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک توحید کے معنی اپنی ذات اور مرضی کو خدا کی مرضی میں گم کر دینا ہے۔ یہی محبت بھی ہے، کیونکہ ہر عاشق اپنی مرضی کو معشوق کی مرضی میں ڈھال دیتا ہے اور اس کا ہر عمل وہی ہوتا ہے جو محبوب چاہتا ہے اور یہی تو بہ کی روح ہے کیونکہ سالک اس کے ذریعے اپنے قلب سے ہر شے کو مٹا دیتا ہے۔ طہارت کے معنی بھی یہی ہیں کہ انسان اپنے جسم اور روح سے ہر گندگی کو دور کر دے۔ اور وہ لوگ جن کے جسم اور دل نجاست سے آلودہ ہیں، وہ توحید، زہد، توبہ اور خوف و محبت خدا سے محروم ہیں۔ اسی لیے اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ یہی حقیقت توکل ہے۔ اسی لیے صوفی توکل کو توحید کے مماثل قرار دیتے ہیں۔ یہی حضرت رابعہ بصری کی زندگی اور تعلیمات کی اصل ہے۔ اس نے دنیا کو مکمل طور پر تج دیا تھا۔ اس کے خیال میں یہ انتہائی حقیر ہے۔ سفیان نے جب اس سے پوچھا کہ خدا سے قربت کے لیے کیا عمل کیا جائے۔ اس نے فرمایا کہ دونوں جہانوں سے کنارہ کش ہو کر خدا کے ہو جائو۔ اس نے فرمایا کہ اگر ساری دنیا کی دولت ایک انسان کو دی جائے جب بھی وہ دولت مند نہیں، کیونکہ دنیا کی ہر شے فانی ہے۔ خدا کی محبت میں وہ اس بات سے بھی خائف تھی کہ اس کا شہرہ بزرگ یا ولیہ کی حیثیت سے ہو جائے، کیونکہ اس سے اس کے دل میں خدا کے سوا یہ دوسری شے بھی سما جائے گی۔ وہ فرماتی تھیں کہ اپنی نیکیوں کو برائیوں کی طرح چھپا دو ورنہ یہ تمھارے دل کو آلودہ کر دیں گی۔ یہی حقیقی محبت ہے اور اس کی انتہا خدا کی ذات سے اتصال ہے۔ اسی لیے صوفیہ کے نزدیک محبت سب مقامات میں سے انتہا درجے کی غایت اور سب میں بلند مرتبے کی حامل ہے۔ باقی سب مقامات اس کے مقدمات ہیں۔ محبت ہی شرط ایمان ہے اور محبت ہی انتہائے ایمان۔ اسی لیے ہرم بن حیان نے فرمایا کہ صاحب ایمان جب اپنے ربّ کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے اور جب محبت کرتا ہے تو اسی کی طرف متوجہ ہو تا ہے اور جب اس توجہ کا مزہ پاتا ہے تو دنیا کی طرف خواہش کی نظرسے نہیں دیکھتا نہ آخرت کی طرف کاہلی کی نظر سے۔ اپنے جسم سے تو دنیا میں رہتا ہے اور روح سے آخرت میں۔ اسی لیے حضرت رابعہ بصری نے ایمان کو خدا کی بے لوث محبت سے مشروط کر دیا۔ جب آپ سے جنت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا الجارثم الدار، یعنی اول صاحب خانہ پھر خانہ۔ یعنی میری محبت مالک جنت سے ہے جنت سے نہیں اور مالکِ جنت سے محبت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے سوا ہر شے دل سے معدوم ہو جائے۔ یہ خوف کی وہ باریک شکل ہے جو محبت کی روح ہے۔ تصوف کے نظری ارتقا پہ بہت ہی سنجیدگی، متانت، غیر جانبداری اور گہرائی سے غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اسلام کی روحانی تعلیمات کے تحفظ، انسانیت کے بقا اور جبر کے خلاف ایک مربوط آواز تھی اور تمام حقیقی صوفیہ کی انسانی تاریخ اور نفسیات پر بہت ہی گہری نظر تھی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوفی نفسیات کی جڑیں قرآن اور سنت نبوی میں بہت گہرے طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ انھوں نے انسانی نفسیات کو سمجھنے اور برتنے اور اسے صحیح نہج پر ڈالنے کے لیے جو بھی رویہ اختیار کیا وہ قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی سے مربوط ہے۔ حضرت حسن بصری نے خوف کی نفسیات اور حضرت رابعہ بصری نے محبت کی نفسیات کو پیش کیا اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ خوف کی بنیاد ہمیشہ محبت میں پیوستہ ہوتی ہے اور محبت ہمیشہ خوف کو پیداکرتی ہے اور اسے بڑھاوا دیتی ہے۔ اس زمانے کی اسلامی دنیا کے سیاسی و سماجی حالات ، تہذیبی رفتار اور اس کی تنظیم واقدار جو اسلام کی روح اور اساسی اصولوں سے بہت دور جا پڑے تھے میں ایک مثبت اور حرکی تبدیلی کے لیے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ اسلامی فلسفۂ حیات، اس کی اقدار اور تصورات کی از سر نو ایک زندہ فلسفیانہ اور نفسیاتی توجیہ و تشریح کی جائے، تاکہ اسلامی تہذیب کو اس تباہی سے بچا یا جا سکے جومسلمان حکمرانوں اور امت کی بداعمالیوں کا نتیجہ تھی اور جرائم و مظالم کی اس لمبی اور تاریک داستان پر قدغن لگائی جا سکے، جو عذاب الٰہی کو دعوت دے رہی تھی۔ اس عظیم کام کا سہراحسن بصری کے سر ہے، جنھوں نے اسلامی دنیا کے حکمرانوں اور ان کے کارندوں کوجو اپنے حقیر سیاسی و معاشی مفادات کے حصول کے لیے انسانیت اور اسلامی اقدار کو روند رہے تھے اور فلسفۂ جبر جس کی تبلیغ کے ذریعے وہ اپنے جرائم کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، کو روکنے کے لیے، اللہ کے خوف کا تصور پیش کیا تا کہ اس کے ذریعے ان کی روح کو جھنجھوڑ ا جا سکے اور انھیں ان کی بد اعمالیوں سے بچایا جا سکے۔ حضرت رابعہ بصری کا کردار اس حیثیت سے بڑا اہم ہے کہ انھوں نے محبت کے تصور کو پیش کر کے، خوف کی نفسیات کو نئی زندگی، گہرائی اور جہتیں عطا کیں۔ کیونکہ یہ محبت ہی ہے جو ابراہیمؑ کو آگ میں کودنے، محمدؐ کو بدر میں جانے اور حسینؓ کو اپنے اہل بیت کے ساتھ کربلا میں اتار دیتی ہے۔ محض خوف انسان کو حتمی اقدامات اٹھانے پر مجبور نہیں کرتا لیکن جس خوف کی جڑیں محبت الٰہی میں پیوستہ ہوتی ہیں وہ محبت کی ایک نئی، قوی اور مثبت شکل ہوتی ہے۔ بقول اقبال: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی صوفیہ کی انسانی نفسیات پر بڑی ہی گہری نظر تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو وہ انسانوں کے قلوب کی تسخیر نہ کرتے۔ کیونکہ ایک انسان کو بڑے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کے لیے تیار کرنا، اسے تمام برائیوں سے روکنا اور نیکیوں کی طرف راغب کرنا کسی ایسے شخص کے لیے ممکن ہی نہیں جس کی انسانی نفسیات اور زمانے کے حالات پر گہری نظر نہ ہو اور جوانھیں اپنے نظریات کے مطابق ڈھال نہ سکے۔ تصوف کے بنیادی تصورات میں خوف اور محبت کو ایک کلیدی اور اساسی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تصورات حضرت حسن بصری اور حضرت رابعہ بصری جیسی عبقری شخصیات نے پیش کیے۔ ان کو یوں ہی نہیں لیا جا سکتا جیسا کہ اب تک کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں تصورات کی اپنی دینیاتی، الہٰیاتی، مابعد الطبیعی، اخلاقی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی اہمیت ہے۔ ان کا تعلق انسان کی بنیادی نفسیات سے بھی ہے اور نفسیاتی کوائف و عوالم سے بھی۔ ان تصورات کو سطحی طور پر دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام غزالی کی محبت اور خوف سے متعلق فلسفیانہ آراء پر اب تک گہرائی سے غور ہی نہیں ہوا۔ ان دونوں تصورات کی جڑیں کلام الٰہی اور حدیث نبوی میں پیوستہ ہیں۔ کلام پاک کا سارا ابتدائی یا مکی حصہ خوف اور مدنی دور کا محبت اور خوف کے تصور کو نہ صرف ایمان اور دین کی بنیاد بنا کر پیش کر رہا ہے، بلکہ انھیں انسان کی دونوں جہانوں میں کامیابی کی شرائط کے طور پر سامنے لا رہا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ تصورات محض فرد یا انفرادی زندگی کی تطہیر و تزئین نہیں کرتے بلکہ اس کی پوری مدنی زندگی کو آراستہ اور ایک فلاحی اورتخلیقی تہذیب کی صورت گری کرتے ہیںاور اس طرح اس کے خدا کا حقیقی خلیفہ بننے کی راہ استوار و متعین کردیتے ہیں۔ ـئ…ئ…ء خروج -- کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ فکر اقبال کے تناظر میں٭ حمد عمار خان ناصر ریاست وحکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں ’’خروج‘‘ کے موضوع کو زیر بحث لانا بظاہر عجیب دکھائی دیتا ہے، اس لیے کہ ’’خروج‘‘ کی بحث بنیادی طور پر ایک فروعی اور اطلاقی فقہی بحث ہے جبکہ اس نوعیت کی بحثیں عام طور پر اقبال کے غور وفکر کے موضوعات میں داخل نہیں۔ تاہم ذرا گہرائی سے موضوع کا جائزہ لیا جائے تو اس بحث کے ضمن میں فکر اقبال کی relevance اور اہمیت بہت نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ فقہ اسلامی میں ’خروج‘ کی اصطلاح اس مفہوم کے لیے بولی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں بسنے والا کوئی گروہ اپنے کسی مذہبی تصور کی بنیاد پر، جس میں وہ اپنے آپ کو برحق اور اپنے مخالفین کو باطل پر سمجھتا ہو، یا حکمرانوں کے واقعی ظلم وجبر یا فسق وفجور کے تناظر میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے خلاف ہتھیار اٹھا لے اور طاقت کے زور پر نظام حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ اس بنیادی نکتے کے لحاظ سے ’خروج‘ کے مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا اور دور جدید میں ریاستی نظم کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں پر یہ اصطلاح اسی طرح قابل انطباق ہے جس طرح دور قدیم میں تھی۔ تاہم فکری پس منظر اور عملی محرکات اور اسباب کے اعتبار سے دور قدیم کے ’خروج‘ اور دور جدید کے ’خروج‘ میں بعض بنیادی نوعیت کے فرق پائے جاتے ہیں جن کا درست فہم حاصل کیے بغیر اس بحث کی تنقیح نہیں کی جا سکتی۔ کلاسیکی دور میں ’خروج‘ کی بحث اسلامی ریاست کے داخلی دائرے میں علم سیاسیات کے اس سوال کا جواب دینے تک محدود تھی کہ اگر حکمران اپنی ان ذمہ داریوں سے گریز کی روش اختیار کر لیں جن کی ادایگی کے لیے انھیں اس منصب پر فائز کیا گیا ہے تو کیا ان کا حق حاکمیت برقرار رہتا ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو پھر انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس اصول کا ذکر تو بہت وضاحت سے ملتا ہے کہ عوام پر حکمرانی کا حق اسی طبقے اور انھی لوگوں کو حاصل ہے جنھیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو اور وہ انھیں اپنے اوپر حکمران دیکھنا چاہتے ہوں، چنانچہ آپ نے اپنے بعد جزیرئہ عرب میں قائم ہونے والی ریاست میں حکمرانی کے حق کو اسی بنیاد پر قریش کے لیے مخصوص قرار دیا کہ اہل عرب اس وقت کے مخصوص تمدنی اور تاریخی پس منظر کے لحاظ سے اس منصب پر انھی کو فائز دیکھنا چاہتے تھے اور ان کے علاوہ کسی اور گروہ کی قیادت وسیادت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تاہم، اسلامی سیاست کے اس بنیادی اصول کی وضاحت سے آگے بڑھ کر، شرعی نصوص میں حکمرانوں کے طریق انتخاب اور خاص طور پر انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کے ضمن میں کوئی متعین راہ نمائی نہیں ملتی۔ منصب اقتدار پر فائز ہونے کے بعد کسی صاحب منصب کو اس کی زندگی میں معزول کرنے کی ظاہری صورتیں تین ہی ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حکمران کے عزل ونصب کے لیے اس سے بالاتر کوئی اتھارٹی ہو جس کا فیصلہ اس پر قانوناً نافذ العمل ہو۔ مسیحیت میں یہ اختیار خدا کی براہ راست نمائندگی کے تصور کے تحت پوپ کو حاصل تھا، لیکن اسلام میں نہ صرف یہ کہ ایسا کوئی ادارہ تجویز نہیں کیا گیا، بلکہ اس تصور کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ حکمران ازخود اقتدار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہو جائے جو ظاہر ہے کہ ایک نادر الوقوع صورت ہے۔ تیسرے یہ کہ خود رعایا کو اپنے حکمرانوں کو معزول کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اسلام کے مزاج اور اس کے تعلیم کردہ سیاسی تصورات سے ہم آہنگی رکھنے والی صورت یہی تھی، تاہم عوام کے اپنے اس اختیار کو پرامن انداز میں مؤثر طور پر بروے کار لانے کے لیے ریاستی قوت کے بالمقابل جن اجتماعی اداروں کی ضرورت تھی، وہ اس وقت کے حالات میں دست یاب نہیں تھے اور چونکہ تمدنی اور تہذیبی احوال میں کوئی جوہری تبدیلی چند دنوں یا سالوں میں پیدا نہیں کی جا سکتی، اس لیے مستقبل قریب میں بھی اس کی بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیںدیتی تھی۔ اس تناظر میں راہ راست سے ہٹ جانے والے حکمرانوں کی معزولی کا طریقہ جو عملی طور پر مؤثر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہو، یہی بچتا تھا کہ لوگ ہاتھ میں تلوار لے کر حکمرانوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں اور بزور قوت انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کی کوشش کریں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے کے نتیجے میں مسلمانوں کے معاشرے میں خون خرابے اور فساد کی جس صورت حال کا رونما ہونا یقینی تھا، اس کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی اور ’کم تر برائی‘ (lesser evil) کے اصول پر اس کی جگہ حکمرانوں کے بگاڑ کو گوارا کرنے کو قابل ترجیح قرار دیا۔ آپ نے اپنے متعدد ارشادات میں اس صورت حال کو موضوع بحث بنایا اور یہ واضح فرمایا کہ اگر مسلمانوں کے حکمران اصولی طور پر اسلام کے ساتھ وابستگی کا اظہار کریں لیکن اپنے طرز عمل، فیصلوں اور پالیسیوں میں دین کی تعلیمات سے انحراف کا طریقہ اختیار کریں تو ان کی اطاعت سے دست کش ہونا جائز نہیں، البتہ حق بات کسی خوف کے بغیر ہر حال میں کہی جائے اور اگر کسی شخص کو کوئی غیر شرعی امر بجا لانے کا حکم دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صرف معروف میں حکمرانوں کی اطاعت کرے جبکہ معصیت میں ان کی اطاعت سے انکار کر دے۔ اس سے آگے حکمرانوں کے دائرئہ اختیار میں مداخلت کرنے یا ان کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کی آپ نے سخت حوصلہ شکنی کی اور فرمایا کہ تم پر ایسے بدترین حکمران مسلط ہو جائیں جن سے تم شدید نفرت کرتے ہو اور ان پر لعنت بھیجتے ہو، تب بھی ان کی بدعملی سے نفرت کرنا، لیکن ان کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ اس کے باوجود اسلامی تاریخ کے صدر اول میں بعض نہایت نمایاں مذہبی شخصیات کی طرف سے نظم اجتماعی کی اطاعت قبول نہ کرنے یا اس کے خلاف خروج کرنے یا ایسا کرنے والوں کی تائید کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں سیدنا حسین، عبد اللہ بن زبیر، زید بن علی اور نفس زکیہ کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کا زاویہ نظر یہ تھا کہ امام کی اطاعت کا حکم اور اس کے خلاف خروج کی حرمت اس صورت میں ہے جب اس کی حکومت حقیقتاً مسلمان عوام کی تائید اور مشورے سے قائم ہوئی ہو اور اسے راے عامہ کا اعتماد حاصل ہو۔ مذکورہ واقعات میں ان حضرات کے فہم کے مطابق یہ صورت نہیں پائی جاتی تھی، چنانچہ وہ اس بات کی گنجائش سمجھتے تھے کہ منصب اقتدار پر فائز افراد کی اطاعت سے نکل جایا جائے۔ مثلاً سیدنا علی کی خلافت کے انعقاد پر مسلمانوں کا اتفاق تام نہیں ہوا تھا اور جن حالات میں ان کی بیعت کی گئی، اس میں قاتلین عثمان کے ان کے کیمپ میں شامل ہو جانے سے ابتدا ہی سے شبہے کی ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی کہ سیدنا معاویہ اور ان کی قیادت میں اہل شام ان کی بیعت کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور باہمی قتل وقتال کے بعد یہ سلسلہ بالآخر مسلمانوں کی دو متوازی حکومتوں کے قیام پر منتج ہوا۔ پھر جب سیدنا معاویہ نے اپنی عمر کے آخری حصے میں سیاسی اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تو بظاہر اس پر عمومی اتفاق رائے دکھائی دینے کے باوجود یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ موروثی جانشینی کا یہ طریقہ عوام الناس کے حقیقی اعتماد اور تائید کی شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے۔ خاندان نبوت کی جن شخصیات نے بنو امیہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج کیا، وہ اسی اساس پر تھا کہ ارباب حل وعقد کو عوام کی حقیقی تائید اور حمایت حاصل نہیں اور ان کا اقتدار محض طاقت اور جبر کے زور پر قائم ہے، چنانچہ ان شخصیات نے یہ دیکھتے ہوئے کہ راے عامہ حکمرانی کے منصب پر انھیں فائز دیکھنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں جدوجہد کی کامیابی کے امکانات بھی بظاہر موجود ہیں، خروج کا فیصلہ کر لیا۔ ان میں سے سیدنا حسین، زید بن علی، نفس زکیہ اور محمد بن الاشعث وغیرہ اپنی کوشش میں ناکام ہوئے جبکہ عبد اللہ بن زبیر کو حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ گویا راے عامہ کی حقیقی تائید اور اعتماد کا نکتہ ان حضرات کے نزدیک بنیادی تھا اور وہ خروج کی ممانعت کو اس صورت میں قابل اطلاق نہیں سمجھتے تھے جب حکمران عوام کے حقیقی اعتماد سے محروم ہوں۔ مذکورہ نکتے کی روشنی میں ان حضرات کے اقدامات کے لیے ایک اجتہادی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور انھیں شریعت کے کسی صریح حکم کی دیدہ ودانستہ خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ جمہور صحابہ واہل علم نے ان اقدامات میں نہ صرف یہ کہ ان حضرات کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں باہمی خوں ریزی اور فتنے کی جو صورت حال پیدا ہوئی، اس پر سخت اور تیز وتند تبصرے کیے۔ پھر تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ارباب حل وعقد کے خلاف خروج اور بغاوت کے نتیجے میں مسلم معاشرے کو جس قتل وغارت اور انتشار وافتراق کا سامنا کرنا پڑا، اس کے پیش نظر ائمہ اہل سنت کا اس بات پر ایک عمومی اتفاق ہو گیا کہ غیر عادل حکمرانوں کے خلاف خروج حرام ہے۔ چنانچہ فقہ حنبلی کی معروف کتاب الانصاف میں ہے: ونصوص الامام احمد رحمہ اللہ ان ذالک لا یحل وانہ بدعۃ مخالف للسنۃ وآمرہ بالصبر وان السیف اذا وقع عمت الفتنۃ وانقطعت السبل فتسفک الدماء وتستباح الاموال وتنتہک المحارم۔۱؎ امام احمد کی تصریحات یہ ہیں کہ خروج حلال نہیں اور یہ کہ یہ بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں ایسی صورت حال میں صبر کی تلقین کرتا ہوں۔ تلوار جب ایک دفعہ نکل آتی ہے تو فتنہ عام ہو جاتا ہے، راستے بے امن ہو جاتے ہیں، خون بہائے جاتے ہیں، اموال مباح کر لیے جاتے ہیں اور اللہ کی قائم کردہ حرمتیں پامال کی جاتی ہیں۔ ــــــــــــــــــــــــــــــ دور جدید میں ’خروج‘ کے فکری اسباب میں ایک خاص dimension کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے مسلم معاشروں پر مغربی فکر وتہذیب اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے نظام سیاست ومعیشت کا غلبہ اور استیلا۔ مغربی فلسفہ وتہذیب کے غلبے نے مسلم معاشروں کے فکر واعتقاد، داخلی معاشرتی ساخت اور بین الاقوامی سطح پر ان کے سیاسی کردار کو اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی تیزی سے تبدیل کر دیا ہے کہ مذہبی ذہن اگر اس سے اجنبیت اور وحشت محسوس نہ کرتا تو یہ بات خود غیر فطری اور تعجب خیز ہوتی۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر مسلم اقوام کی معاشرت، قانون اور سیاست میں در آنے والے تغیرات کا منظرنامہ کچھ یوں بنتا ہے: - اسلامی تاریخ میں دنیا کے تمام مسلمانوں کے ’خلافت‘ کے عنوان سے ایک مرکزی سیاسی ادارے کے تحت منظم ہونے کے تصور کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں جنگ صفین کے بعد مسلمانوں کی دو الگ الگ اور متوازی حکومتیں وجود میں آ گئی تھیں اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ حکومتوں کے قیام کا تسلسل مختلف علاقوں میں بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا اور خاص طور پر ہندوستان میں ایک ایسی مسلم سلطنت بھی قائم رہی جو کسی بھی اعتبار سے ’خلافت‘ کے ادارے کے تحت یا اس سے وابستہ نہیں تھی، تاہم مسلم سیاسی مفکرین اس سیاسی مرکزیت کو اسلام کے سیاسی نظام کی ایک مثالی شکل کے طور پر بیان کرتے رہے ہیں اور کم از کم اسلام کے زیر نگیں مرکزی علاقے (جزیرئہ عرب اور اس کے گرد ونواح کے خطے) کسی نہ کسی رنگ میں پہلے عرب اور پھر بعد میں ترکی خلافت کے زیر سایہ ایک مرکزی سیاسی نظام سے مربوط رہے ہیں۔ خلافت کا یہ ادارہ بہت سی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ غیر مؤثر اور غیر مفید ہوتا چلا گیا اور آخری دور میں اس کی حیثیت بالکل علامتی رہ گئی، تاہم سیاسی سطح پر اس علامتی وحدت کی بھی اپنی ایک اہمیت تھی، چنانچہ ۱۹۲۴ء میں ’خلافت‘ کے ادارے کے بالکلیہ خاتمے کے بعد نیشنل ازم کے سیاسی تصور کے تحت مسلمان ممالک کی سیاسی پالیسیوں نے جو الگ الگ اور بسا اوقات باہم متصادم رخ اختیار کر لیا، وہ فطری طور پر روایتی مذہبی ذہن کے لیے بے چینی اور اضطراب کا موجب ہے۔ - کلاسیکی دور میں دنیا کی غیر مسلم طاقتوں اور مسلم ریاستوں کے مابین تعلقات اور معاہدات اصلاً سیاسی مصلحت پر مبنی ہوتے تھے، جبکہ پوری دنیا کے لیے مشترک اور آفاقی اخلاقی یا قانونی ضابطوں کو معیار ماننے کا پہلو اُن میں موجود نہیں تھا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کی اساس یہ تھی کہ دنیا دار الاسلام اور دار الحرب کے دو حصوں میں تقسیم ہے اور مسلم وغیر مسلم ممالک کے مابین اصل اور مستقل تعلق ’جنگ‘ کا ہے، تا آنکہ غیر مسلم قومیں مسلم ریاست کا حصہ نہ بن جائیں یا ان کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے انھیں خراج ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو جائیں۔ یہ مقصد حاصل ہونے تک درمیانی عرصے میں وقتی اور عارضی نوعیت کے صلح کے معاہدے کیے جا سکتے ہیں، لیکن جیسے ہی حالات و امکانات اور عملی مصالح اجازت دیں، ان معاہدات کو ختم کر کے کفار کے ساتھ جنگ کرنا اور انھیں محکوم بنا لینا اسلامی ریاست کا استحقاق بلکہ اس کی ذمہ داری ہے۔ دور جدید کا عالمی نظام ، جس کے تحت اور جس کی پابندی کو قبول کرتے ہوئے جدید مسلم ریاستیں قائم ہوئی ہیں، اس کے بالکل برعکس ممالک اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کے ضمن میں اصل ’امن‘ کو قرار دیتا اور باہمی تنازعات کو نمٹانے کے لیے جنگ کے طریقے کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اس صورت حال سے مذہبی ذہن دو پہلووں سے اجنبیت محسوس کرتا ہے۔ ایک یہ کہ کلاسیکی تصور کے مطابق دار الاسلام اور دار الحرب کی تقسیم کو ’جہاد‘ کے مذہبی حکم کی تائید بھی حاصل ہے جس کی رو سے اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے لیے قوت وطاقت کا استعمال ایک مطلوب اور معیاری طریقہ ہے۔ دوسرے یہ کہ جدید عالمی نظام میں ’امن‘ کے جس تصور کو بین الاقوامی تعلقات کی اساس قرار دیا گیا ہے، دنیا کی غالب طاقتیں خود دیانت داری سے اس کی پابندی نہیں کرتیں اور ان کی طرف سے اپنے سیاسی ومعاشی مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی پالیسیاں بکثرت اپنائی گئی ہیں جن کا نتیجہ دنیا کے مختلف حصوں میں کمزور اور مغلوب مسلمانوں پر ظلم وستم اور ان کے حقوق غصب کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔ اس بنا پر مذہبی ذہن میں اس احساس کا بیدار ہونا ایک فطری بات ہے کہ موجودہ عالمی نظام کوئی غیر جانب دار نظام نہیں، بلکہ اس کا مقصد فی الحقیقت غالب مغربی اقوام کے حاکمیت کے ایجنڈے کو تحفظ دینا اور قانون و نظام کی پابندی کے عنوان سے کمزور قوموں کے ہاتھ پاؤں باندھ دینا ہے۔ - موجودہ بین الاقوامی سیاسی نظام بنیادی طور پر انسانی حقوق کے مغربی فلسفے پر مبنی ہے جو کئی اہم حوالوں سے اسلام کے تصور حقوق وفرائض سے متصادم ہے۔ مسلم ریاستیں بین الاقوامی معاہدوں، اداروں اور قوانین کے ایک مضبوط جال میں جکڑی ہوئی ہیں جن کا مقصد انسانی حقوق کے ضمن میں مغربی تصورات اور اقدار کا تحفظ ہے اور یہ چیز بہت سے شرعی احکام پر عمل میں رکاوٹ بھی بنتی ہے ۔ مثال کے طو رپر پاکستان کے دستور میں ایک طرف شریعت کی بالادستی کی بات کی گئی ہے اور دوسری طرف مروجہ تصورات کے مطابق ’انسانی حقوق‘ کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ اس تضاد کا نتیجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ایک مقدمے میں مجرم کو کھلے عام پھانسی دینے کے فیصلے کو انسانی حقوق کے منافی ہونے کی بنیاد پر کالعدم قرار دے چکی ہے، حالانکہ اسلام میں سزا کا فلسفہ یہ ہے کہ مجرم کو نشان عبرت بنانے کے لیے اسے کھلے بندوں سزا دی جائے۔ انسانی حقوق کے اسی فلسفے کی بنیاد پر عالمی قانونی اداروں کا یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان میں جو بہت سے شرعی قوانین نافذ ہیں، وہ انسانی حقوق سے متصادم ہیں، اس لیے انھیں منسوخ کیا جائے۔ - یہی معاملہ عام معاشرتی سطح پر مذہب، مذہبی اقدار اور اہل مذہب کو حاصل اثر ورسوخ کا ہے۔ مذہبی ذہن صدیوں سے جس صورت حال کا خوگر اور جس طرز معاشرت سے مانوس رہا ہے، وہ یہ تھی کہ مذہب ایک اعلیٰ روحانی واعتقادی سرچشمے کی حیثیت سے معاشرے میں ایک مسلمہ معیار کی حیثیت رکھتا تھا، معاشرتی واخلاقی قدروں پر عمومی طور پر اس کی گرفت قائم تھی اور مذہبی علم واخلاق کی نمائندگی کرنے والے طبقات یعنی علما اور صوفیا کو نہ صرف عزت واحترام کا مقام حاصل تھا، بلکہ تھیاکریسی کا کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہ ہونے کے باوجود، دین وشریعت کی تعبیر میں علمی سطح پر انھی کو مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ ایسا نہیں کہ فرد اور سماج کی سطح پر منکرات کا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ معاشرتی خرابیاں ہر دور میں رہی ہیں، تاہم دین وشریعت کو ایک مسلمہ معیار کی حیثیت حاصل ہونے اور مذہبی طبقے کے لیے مختلف حیثیتوں میں ایک باعزت اور باوقار کردار ادا کرنے کے مواقع نے اسے معاشرے سے اجنبیت کے احساس میں مبتلا نہیں ہونے دیا، جبکہ نئے ماحول میں صورت حال بدیہی طور پر مختلف ہے۔ - مسلم ریاست کے سیاسی ڈھانچے میں رونما ہونے والی بہت سی اہم تبدیلیاں بھی مذہبی ذہن کے لیے غیر مانوس ہیں۔ مثال کے طور پر حکمران کے انتخاب کو براہ راست عام لوگوں یا ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ووٹ پر مبنی قرار دینے کا طریقہ اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا۔ اسی طرح کلاسیکی فقہ میں حاکم کے انتخاب کے لیے اہل حل وعقد کے مشورے کے ساتھ ساتھ ولی عہدی کو بھی ایک مستقل طریقے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جبکہ بالجبر منصب اقتدار پر مسلط ہو جانے والوں کے حق حکمرانی کو بھی بالفعل تسلیم کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص کے حاکم بن جانے کے بعد کفر یا کھلم کھلا فسق جیسی انتہائی صورتوں کے علاوہ اس کو اقتدار سے الگ کیے جانے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور تاحیات حق حکمرانی کو مثالی طریقہ گردانا گیا ہے۔ پھر حکومتی مناصب کے لیے اہلیت کے ضمن میں بہت سی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’خلیفہ‘ یعنی پوری ملت اسلامیہ کے سب سے اعلیٰ منصب حکمرانی کے لیے قبیلہ قریش کا فرد ہونا ضروری یا کسی نہ کسی درجے میں مطلوب ہے۔ سیاسی، عدالتی اور انتظامی مناصب کے لیے خواتین کو بالعموم اہل نہیں سمجھا گیا۔ اسی طرح ایک مسلم ریاست کے غیر مسلم باشندوں کے لیے بھی ایسے مناصب پر تقرری کا استحقاق تسلیم نہیں کیا گیا۔ دور جدید کی جمہوری مسلم ریاستوں میں بالعموم مذکورہ شرائط وضوابط کی پابندی قبول نہیں کی گئی اور ریاست کی سیاسی پالیسیوں، قانون سازی کے عمل اور قانون کی تعبیر وتشریح اور تنفیذ جیسے معاملات میں شرکت کو بلا لحاظ مذہب و جنس اصولی طور پر ریاست کے تمام باشندوں کا حق مانا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی جوہری تبدیلیوں کے ساتھ ریاستی نظام کا ناک نقشہ اس سے بالکل مختلف بن جاتا ہے جو ہمیں کلاسیکی فقہ میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ - شریعت کے نفاذ میں یہ سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ ریاست کی سطح پر اس کی کس تعبیر کو اختیار کیا جائے گا اور اس ضمن میں عملی طور پر فیصلہ کن اتھارٹی کس کے پاس ہوگی؟ اسلام میں تھیاکریسی کا کوئی وجود نہیں اور دین وشریعت کی تعبیر وتشریح کا حق کسی مخصوص ادارے یا گروہ کے لیے تسلیم نہیں کیا گیا، تاہم یہ کام چونکہ بدیہی طور پر ایک مخصوص علمی مہارت اوربصیرت کے ساتھ ساتھ فقہ وقضا کے ساتھ ایک عملی ممارست کا تقاضا کرتا ہے جس کی توقع فطری طور پر علما اور فقہا ہی سے کی جا سکتی ہے، اس لیے اسلامی تاریخ میں اس ضمن میں مرجع کی حیثیت عمومی طورپر علما ہی کو حاصل رہی ہے۔ معاصر مسلم ریاستوں میں سے سعودی عرب اور ایران میں بھی شرعی قانون کی تعبیر وتشریح کی حتمی اتھارٹی علما ہی ہیں۔ تاہم دور جدید کی بیشتر مسلم ریاستوں میں اور خاص طور پر پاکستان میں قرآن وسنت کی قانونی تعبیر وتشریح کا حتمی اختیار کسی مخصوص طبقے کے بجائے منتخب جمہوری اداروں کے لیے تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ قانون کی ترتیب وتدوین اور ان پر نظر ثانی کے لیے قائم کیے جانے والے قانونی اداروں، مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں بھی علما کے علاوہ دوسرے ماہرین قانون کو باقاعدہ شریک کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال بھی مذہبی ذہن کے لیے عدم اطمینان اور تشویش کا باعث ہے۔ اس تجزیے سے واضح ہے کہ دور جدید میں مسلمان ریاستوں میں ’خروج‘ کا مسئلہ ایک بالکل مختلف پس منظر میں پیدا ہوا ہے جو ماضی کے مقابلے میں سادہ نہیں، بلکہ پیچیدہ ہے اور اس کی تہہ میں دنیا کی تہذیب، تاریخ اور سیاست میں رونما ہونے والی نہایت گہری اور دور رس تبدیلیاں کارفرما ہیں۔ آج اس مسئلے پر محدود فقہی دائرے میں غور کرنا کافی نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کی جڑیں بنیادی طور پر کسی فقہی حکم کی تفہیم وتعبیر میں نہیں، بلکہ دنیا کے منظر نامے پر رونما ہونے والی جوہری تبدیلیوں کے فہم اور تجزیے میں پائی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے بعض طبقات نے اپنے فہم وبصیرت کی حد تک کلاسیکی اسلامی ریاست کے خط وخال کو معیار مانتے ہوئے اس صورت حال کا جو تجزیہ کیا، اس نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ دور جدید کے جمہوری تصورات کے تحت مسلمانوں کی جو ریاستیں اس وقت قائم ہیں، وہ نہ صرف اسلامی ریاست کی تمام بنیادی خصوصیات سے محروم ہیں، بلکہ الٹا معاشرے کی تشکیل میں ان مغربی اقدار اور تصورات کو تحفظ اور تقویت فراہم کر رہی ہیں جو خیر وشر کے اسلامی پیمانے سے مختلف اور متصادم ہیں۔ ان کا فہم انھیں یہ بتاتا ہے کہ اسلامی نظام سیاست کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ قانونی وتشریعی سطح پر حاکمیت کا حق صرف اللہ کے لیے تسلیم کیا جائے اور شرعی مآخذ میںمنصوص یا ان سے مستنبط احکام وقوانین کے علاوہ، جنھیں فقہ اسلامی میں بیان کیا جاتا ہے، انسانوں کے لیے اپنے فہم وبصیرت اور تجربات کی روشنی میں قانون سازی اور تشریع کا حق تسلیم نہ کیا جائے، جبکہ جدید جمہوری نظام قانون سازی میں بنیادی سرچشمہ عوام کی پسند وناپسند کو قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے ریاست کے نظام میں ان غیر نظریاتی عناصر، مثلاً غیر مسلموں اور لادین وسیکولر طبقات کو بھی شریک کرنا پڑتا ہے جو سرے سے شریعت کی حاکمیت پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ خارجی سطح پر ان کے تجزیے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ دنیا میں امت مسلمہ کے غلبے اور سربلندی کی ضمانت ’جہاد‘ کا شرعی حکم تھا جس سے روگردانی کے نتیجے میں مغربی طاقتیں اور ان کی لادینی تہذیب ہر سطح پر مسلمانوں پر غالب آ گئی ہے۔ ان دو مقدمات کی روشنی میں ان حضرات نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کے مقتدر طبقات نے اپنے شخصی وطبقاتی مفادات کی خاطر مغربی تہذیب کے غلبے اور مغربی جمہوری نظام کے سامنے نہ صرف سر تسلیم خم کر دیا ہے بلکہ غلبہ اسلام اور جہاد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے حلیف کا کردار بھی قبول کر لیا ہے تو اس کا حل انھیں اس کے علاوہ کچھ نہ دکھائی دیا کہ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے اور اس کی جگہ خالص اسلامی وشرعی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور چونکہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا کرنا ممکن نہیں، اس لیے مطلوبہ تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ان کے طرز فکر کا منطقی نتیجہ قرار پایا۔ ظاہر ہے کہ اس ذہنی رویے کو فکری اور نفسیاتی بنیادوں پر مخاطب بنانے کے لیے فقہی بحثیں کافی نہیں، اس لیے کہ فقہی بحثیں کبھی گروہوں اور قوموں کے اجتماعی ذہنی رویے کو تشکیل نہیں دیتیں اور نہ ان میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ بحثیں پہلے سے طے شدہ ذہنی رویوں کے زیر اثر پیدا ہوتی اور قانونی زبان میں انھی رویوں کے عملی اظہارات کی توجیہ کی خدمت انجام دیتی ہیں۔ جو ذہن اس وقت ہمارا مخاطب ہے، اس کے لیے محرک کا کردار کسی فقہی نوعیت کے تصور یا بحث نے نہیں، بلکہ ذہن وفکر اور نفسیات کی سطح پر مؤثر چند دوسرے عوامل نے ادا کیا ہے، اس لیے اس کے لیے فقہی اصول اور حدود وقیود بھی وہی قابل قبول ہوں گے جو اس کے بنیادی فکری احساس کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ ــــــــــــــــــــــــــــــ اب آئیے، یہ دیکھتے ہیں کہ ا س پوری صورت حال میں فکر اقبال ہماری کیا راہ نمائی کرتی ہے: ۱- اقبال مغربی تہذیب کے لادینی تصورات اور الحاد پرستانہ واباحیت پسندانہ رجحانات کے سخت ناقد تھے اور انھیں دین اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے، تاہم دو حوالوں سے ان کا رجحان مغربی تہذیب سے متعلق مثبت دکھائی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ اہل مغرب نے تہذیبی ارتقا کے نتیجے میں اپنے مذہبی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں جو تبدیلیاں کی ہیں، ان کے زیر اثر مسلمانوں کے طرز فکر اور انداز معاشرت پر ملوکیت اور ملائیت کے زیر سایہ صدیوں سے طاری جمود کو توڑنے اور فکر وعمل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ رعایا اور حکمرانوں کے حقوق واختیارات کے باہمی توازن کے حوالے سے مغرب نے جمہوریت کے عنوان سے جو سیاسی نظام اور جو سیاسی ادارے متعارف کروائے ہیں، ان سے مسلمان معاشرے بھی استفادہ کر سکتے ہیں اور انھیں ایسا کرنا چاہیے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اقبال کے ہاں متضاد رویے پائے جاتے ہیں۔ کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کے تہذیبی تجربات اور حاصلات کو اس کے مخصوص فکری اور فلسفیانہ پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور جمہوریت کا نظام بھی چونکہ ایک مخصوص فکری رو کا نتیجہ اور اس کی پیداوار ہے جو اسلام کے نظام فکر سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے مغربی طرز کے جمہوری سیاسی نظام میں اسلام کی اجتماعی اقدار کی حقیقی عمل داری قائم کرنا ممکن نہیں۔ بہرحال یہ گفتگو کا ایک مستقل موضوع ہے۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اقبال مغربی تہذیب کو کلیتاً مسترد کر دینے کے بجائے اس سے اخذ واستفادہ کے قائل تھے اور اہل مغرب کے تہذیبی وتمدنی تجربات کو اسلامی تصورات کے قالب میں ڈھالے جانے کو ایک قابل عمل اور مفید امکان خیال کرتے تھے۔ ۲- اقبال کے طرز فکرکی ایک خصوصیت یہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ مسلم امہ کے مسائل کے درست تجزیے اور ان کا حل تجویز کرنے کے ضمن میں کسی ایک مخصوص طبقے کو اجارہ دار نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ مختلف ومتنوع زاویہ ہاے نظر رکھنے والے، امت کے سارے طبقات کا مشترک مسئلہ ہے اور وہ سب کی فکری ونظری کاوشوں کو امت کا مجموعی اثاثہ تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے خطبہ اجتہاد میں انھوں نے ترکی کے مسلمانوں کے ہاں فکری بیداری کے بعض نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اصولی طور پر اس رجحان کے پیدا ہونے کی تحسین کی اور لبرل طبقات کے ہاں ممکنہ فکری کجی کے حوالے سے خدشات ظاہر کرنے کے باوجود اسلام اور امت مسلمہ کی تشکیل نو کے ضمن میں ان سے اہم اور بنیادی کردار کی توقع وابستہ کی ہے۔ ۳- دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں اقبال نے بڑی صراحت کے ساتھ ’اجتہاد مطلق‘ کی دعوت دی اور اس حوالے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آزادیِ فکر کو بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں: The question which confronts him to-day, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future is whether the Law of Islam is capable of evolution--a question wich will require great intellectual effort, and is sure to be answered in the affirmative, provided the world of Islam approaches it in the spirit of Umar--the first critical and independent mind in Islam who, at the last moments of the Prophet, had the moral courage to utter these remarkable words: 'The Book of God is sufficient for us.2 ...since things have changed and the world of Islam is confronted and affected to-day by new forces set free by the extraordinary development of human thought in all its sections, I see no reason why this attitude should be maintained any longer. Did the founders of our schools ever claim finality for their reasonings and interpretations? Never. The claim of the present generation of Muslim liberals to reinterpret the foundational legal principles, in the light of their own exprerience and the altered conditions of modern life is, in my opinion, perfectly justified. The teaching of the Qur'an that life is a process of progressive creation necessitates that each generation, guided but unhampered by the work of its predecessors, should be permitted to solve its own problems.3 ۴۔ اقبال مسلم ریاست میں اسلامی قانون کی تعبیر وتشریح کے حق کو مذہبی علما تک محدود رکھنے کے بجائے جدید قانون اور دیگر شعبہ ہاے زندگی کے ماہرین کو شریک کرنے کے قائل ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے تھیاکریسی کے تصور کی مکمل نفی کرتے ہوئے اجتہاد کا حق مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کو دینے اور پارلیمنٹ کی راہ نمائی کے لیے مذہبی علما کو اس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی جسے پاکستان میں عملی طور پر اختیارکر لیا گیا۔ ۵۔ عالمی سطح پر امت مسلمہ کی سیاسی وحدت کو رو بہ عمل کرنے کے لیے اقبال نے ’خلافت‘ کے قدیم سیاسی نظام کے بجائے معروضی حقیقتوں سے ہم آہنگ ایک نیا قابل عمل اور مفید طریقہ تجویز کیا ہے۔ لکھتے ہیں: For the present, every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A true and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truely manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members.4 مذکورہ چند نکات سے دور جدید میں ریاست سے متعلق بنیادی سوالات ومسائل کے حوالے سے اقبال کا فکری رخ بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــ ریاست سے متعلق عصری مسائل پر فکر اقبال کی روشنی میں غور وفکر کی یہ بحث ادھوری اور تشنہ رہے گی اگر ہم اس سوال پر اپنی توجہ مرکوز نہ کریں کہ جن سوالات کا جواب اقبال نے آج سے پون صدی قبل مسلم ریاستوں کی آزادی سے بھی پہلے سوچ لیا تھا، ہم ابھی تک انھی سوالات سے کیوں نبرد آزما ہیں؟ ہمارے نزدیک اس ضمن میں درج ذیل نکات اہل علم ودانش کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں: ۱۔فکر اقبال سے راہ نمائی لیتے ہوئے سب سے اہم پہلو جو بطور خاص ہماری توجہ کا مستحق ہے، وہ ہے اس ساری صورت حال میں سیکولر عناصر کا طرز فکر اور رویہ جو ہمارے خیال میں مذہبی شدت پسندی کی پیدائش کے اسباب وعوامل میں سے ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ جدید تہذیبی وسیاسی تبدیلیوں اور اہل مغرب کے سماجی تجربات سے بھرپور استفادے کا قائل ہونے کے باوجود اقبال نے سیکولرزم یعنی ریاستی واجتماعی معاملات سے مذہب اور اہل مذہب کی بے دخلی کے نظریے کی کبھی تائید نہیں کی، بلکہ اس پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں سیکولر طرز فکر کے زیر اثر تربیت پانے والے مقتدر طبقات کا فکری وعملی رویہ دین اور ریاست کی جدائی ہی کے تصور کا مظہر رہا ہے جو بجائے خود جمہوریت کی اصل روح کے منافی اور معاشرہ وریاست کی تشکیل کی بنیاد اکثریت کی خواہش اور اعتقاد کے برعکس ایک محدود مگر مقتدر اقلیت کے خیالات وتصورات پر رکھنے کے مترادف ہے۔ ہمارے نہایت بلند پایہ سیکولر دانش ور بھی اس زمینی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں یا خود کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں کر پاتے کہ مذہبی جماعتوں اوران کے مطالبات(ـــــچاہے وہ بظاہر کتنے ہی خیالی، فرسودہ، غیر حقیقت پسندانہ اور عملی تقاضوں سے دور سمجھے جاتے ہوں) کو حاصل اثر ورسوخ کا اصل راز عوام کی اسلام کے ساتھ گہری جذباتی اور اعتقادی وابستگی میں ہے۔ مذہبی طبقات اسی وابستگی کو معاشرتی اور سیاسی سطح پر اظہار بخشتے اوراس کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس کے مطالبات ومظاہر کا اپنے فہم کے لحاظ سے تعین کرتے ہیں۔ سیکولر حلقۂ دانش یہ چاہتا ہے کہ معاشرے اور ریاست میںمذہب او رمذہبی طبقات کے کردار کو محدود کرنے کے جس نقطہ نظر کا وہ قائل ہے، اسے فکری بنیادوں پر اس ملک کے عوام سے تسلیم کرائے بغیر، جس کی کامیابی کا اگر امکان بھی ہو تو ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت طویل اور صبر آزما کام ہے، اس تصور کو زبردستی معاشرے پر ٹھونس دے اور اگر یہ نہ کر سکے تو کم از کم ریاستی قوانین اور پالیسیوں میں مذہبی عنصر کے نمایاں اور مؤثر ہونے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی زندگی اور معاشرت میںمذہب کے کردار کی یہ تحدید عوام الناس نے قبول کر لی ہے اور کیا وہ مذہب کے اپنے سابقہ تصورات سے دست بردار ہو کر سیکولر حلقے کی فکری دریافتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی راہنمائی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بالبداہت واضح ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ایسا ہونا ممکن بھی نہیں، اس لیے کہ مذہب بنیادی طور پر انسان کے جس ذہنی وفکری اضطراب کو address کرتا ہے اور جس سے مطمئن ہو کر انسان اس دنیا میں اس کی راہنمائی کو ایک نہایت گہری نفسیاتی اور اعتقادی سطح پر قبول کرتا ہے، وہ دنیا کی مادی زندگی کے مسائل ومشکلات نہیں، بلکہ کائنات کی حقیقت ومعنویت، انسان کے مقصد وجود اور موت کے تصورات ہیں جن کا کوئی تشفی بخش جواب کسی غیر مذہبی مادی فلسفے کے پاس نہیں ہے۔ ایسا کوئی بھی فلسفہ ان سوالات کو انسان کے ذہن سے محو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کی ساری تگ وتاز کا ہدف بس یہ ہے کہ انسان اپنی توجہ ان سوالات سے ہٹا دے اور زندگی کے فوری نوعیت کے مسائل (immediate concerns) پر قانع ہو جائے۔ فرض کر لیجیے کہ مذہب، انسان کے توہم اور اس کی نفسیاتی ضرورتوں کی پیداوار ہے، لیکن وہ مادی کائنات سے ماورا ایک دنیا اور اس کے ایک مقتدر خالق اور پھر حیات بعد الموت کا تصور پیش کر کے بہرحال انسان کے نفسیاتی تقاضوں کا ایک ایسا جواب فراہم کرتا ہے جو چاہے غیرحقیقی اور خیالی کیوں نہ سمجھا جائے، انسان کے لیے اطمینان بخش ہے جبکہ محض مادی زندگی کے دائرے میں محدود کوئی بھی فلسفہ اس صلاحیت سے یکسرمحروم ہے۔ پھر یہ کہ عملی طور پر کائناتی قوتوں کے علم اور ان کی تسخیر او ر اس کے نتیجے میں انسان کے ذہنی اضطرابات اور پریشانیوں کے دور ہو جانے کا تصور ایک elitist تصور ہے جس سے بہت آسودہ حال اور مادی پریشانیوں سے بے نیاز افراد یا طبقے ہی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مادی وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل معاش کی منصفانہ تقسیم کا سوال ابھی تک انسان کے لیے حل طلب ہے اور جمہوری اصولوں اور آزاد معیشت کے خود کار جادوئی کرشموں کا منظر ہر چند سال کے بعد پوری دنیا کو دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوال لبرل حلقے کی طرف سے بے حد سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے کہ وہ زندگی اور اس کے مسائل کی توجیہ غیر مذہبی اساس پر کرنے اور مذہبی روایت اور اس کے نمائندوں کے کردار کو محدود ترکرنے کا جو نسخہ کیمیا (panacea) تجویز کر رہا ہے، ایک مسلمان معاشرے میں اس کی قبولیت کے عملی امکانات کتنے پائے جاتے ہیں۔ ہم پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ لبرل حلقے کے تمام تر جائز اور ناجائز تحفظات بلکہ کسی قدر تعصبات کے باوجود مذہبی شدت پسندی کا حل مذہب اور مذہبی عناصر کے معاشرتی کردار کو محدود کرنے اور انھیں غیر مؤثر بنانے میں نہیں، بلکہ انھیں ایک حقیقی جمہوری فضا میں معاشرے اور اس کے مسائل کے حوالے سے مذہبی نقطہ نظر پیش کرنے اور معاشرے کی تعلیم وتربیت اور ملک وقوم کی اجتماعی پالیسیوں کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دینے میں ہے۔ مذہبی عناصر کا فہم اسلام یقینا اس وقت قابل رشک نہیں اور وہ ملک وقوم کے حقیقی مسائل کے بارے میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے، لیکن صورت حال ان طبقوں کے ہاں بھی زیادہ مختلف نہیں جو اس وقت طاقت واقتدار کے سرچشموں پر قابض ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ، ذرائع ابلاغ اور مختلف معاشرتی طبقات کے بارے میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ جمہوری عمل کے تسلسل کے نتیجے میں ان کے فہم وادراک میں بہتری آتی جائے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے لگیں گے تو مذہبی عناصر کے لیے اس سے مختلف معیار وضع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ مذہبی عنصر کے لیے معاشرت، قانون اور سیاست کے میدان میں مؤثر کردار ادا کرنے اور ان دائروں میں ملکی وقومی پالیسیوں میں اس کی نمائندگی یا اثرات کو قبول کرنے سے انکار ایک خاص متعصبانہ اور تنگ نظر ذہنیت کی غمازی کرتا ہے جو کسی طرح بھی قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے اور معاشرے میں رواداری اور انسانی وجمہوری قدروں کے فروغ میں مددگار نہیں، بلکہ اس کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ ۲۔ موجودہ نظام سیاست ومعیشت پر کلی عدم اطمینان اور اس کے خلاف بغاوت کا ذہنی رویہ دنیا پرمغرب کے عمومی استیلا اورمسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال سے پیدا ہونے والے احساس محرومی، عدم تحفظ اور فرسٹریشن کی پیداوارہے۔ اقتدار اور اختیار، انسان کے لیے ایک نفسیاتی اطمینان کا موجب ہوتا ہے اور یہ ذہنی سہارا موجود ہو تو افراد اور طبقات مختلف نوع کے خطرات اور چیلنجز درپیش ہونے کے باوجود frustration کی کیفیت میںمبتلا نہیں ہوتے بلکہ یہ چیزیں بالعموم ان کے جذبہ عمل کو انگیخت کرنے کا باعث بنتی ہیں، لیکن طاقت اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ایک طرف احساس محرومی اور دوسری طرف اپنی پوزیشن کی کمزوری کا احساس خارجی خطرات کے حوالے سے انسان کو نہایت شدید طو رپر حساس بنا دیتا ہے اور ایسی صورت میں انسان عام طور پر نئی صورت حال کے امکانات اور مواقع کا مثبت طور پر جائزہ لینے کی صلاحیت سے کام لینے کے بجاے ہر معاملے کو تحفظاتی زاویہ نگاہ سے دیکھنے اور معمولی اوربعض اوقات غیر حقیقی خطرہ سامنے آنے پر بھی لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ دنیا کے سیاسی اور تہذیبی حالات میں تغیر آنے کے بعد مسلمانوں کے جو طبقات اس کے ساتھ ذہنی اور نفسیاتی ہم آہنگی پیدا کر چکے ہیں ـــــ (اور یقینا بعض اوقات ایسا اپنی مذہبی اور تہذیبی روایت اور اپنے آزاد تشخص کی قیمت پر ہوا ہے)ان کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جو طبقات اپنے مذہب اور اپنی تہذیب سے وابستگی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں جدید طرز معاشرت میں اپنے لیے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کے امکانات اورمواقع دکھائی نہیں دیتے، ان میں مزاحمت اور بغاوت کے رجحان کا پیدا ہونا ایک قابل فہم بات ہے۔ اس ذہنی کیفیت میں کوئی پائیدار تبدیلی لانے کے لیے تاریخ وتہذیب کے وسیع تر تناظر میں بعض بنیادی سوالات کو موضوع بحث بنانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اہل مذہب کو آسمانی صحائف اور انسانی تاریخ کی روشنی میں دنیا میں قوت واقتدار اور سربلندی کے خدائی قوانین کا نیا فہم حاصل کرنا ہوگا۔ قریش، جنھیں خود خدا کے پیغمبر کی زبان نے حکومت واقتدار کی زمام سپرد کی تھی، ان کی قیادت وسیادت بھی اس بات کے ساتھ مشروط تھی کہ وہ دینی اوراخلاقی اعتبار سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیے رکھیں گے۔ قرآن مجید کے صریح بیان (ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمہا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسہم) کی رو سے مسلم اقوام کا زوال ان کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اسباب کے درجے میں یقینا اس میں اغیار کی سازشوں نے بھی پورا پورا کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ سازشیں خدا کی نصرت سے محرومی کا سبب نہیں بن سکتی تھیں جب تک کہ خود مسلمان اپنے اعمال سے اس کا جواز مہیا نہ کرتے۔ اب اگر مسلمانوں کو دنیا میں دوبارہ غلبہ نصیب ہوگا تو خدا کی اس سنت کے برخلاف نہیں بلکہ اس کے تحت ہی ہوگا۔ احادیث میں بیان ہونے والی پیش گوئیاں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن یہ مفروضہ، جس کا ہمیشہ کی طرح ان دنوں بھی مذہبی حلقوں میں بہت چرچا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی حالت کا لحاظ کیے بغیر محض ان کی زبوں حالی پر ترس کھا کر کسی ظاہر ہونے والے کو ظاہر اور کسی نازل ہونے والے کو نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، نہایت تباہ کن ہے۔ اپنی نااہلیوں کا مداوا خدائی فیصلوں میں ڈھونڈنے کا رویہ نہ پہلے کوئی نتیجہ پیدا کر سکا ہے اور نہ اب اس کا کوئی امکان ہے۔ دنیا میں سرفرازی اور سربلندی کسی قوم کا استحقاق نہیں، بلکہ خدا کا انعام ہے۔ اس باب میں بنی اسرائیل کی نفسیات اور مسلمانوں کی موجودہ مذہبی نفسیات کے مابین جو حیرت انگیز مشابہتیں پائی جاتی ہیں، ان کی طر ف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ تصور بھی، جو درحقیقت ہماری کمزور اور بیمار نفسیات کی پیداوار ہے، بے حد نظر ثانی کا محتاج ہے کہ اسلام بحیثیت ایک عالمی مذہب کے صرف اسی صورت میں زندہ رہ سکتا اور مسلمان اس کی تبلیغ واشاعت کا فرض تبھی ادا کر سکتے ہیں جب انھیں دنیا میں سپر پاور کی حیثیت حاصل ہو۔ مسلمانوں کو دنیا کی تاریخ میں اور خود ان کی اپنی تاریخ میں وہ مثالیں بہ تکرار یاد دلانے کی ضرورت ہے جب علم واستدلال، اعلیٰ انسانی ومذہبی اخلاق، صبر وحوصلہ اور حکمت وتدبیر نے سیاسی طاقت کا سہارا لیے بغیر دشوار سے دشوار تر حالات میں یہ مقصد کامیابی سے حاصل کیا۔ صدیوں تک اسلام اور عالمی اقتدار کا باہمی تعلق ایک تاریخی واقعہ ہے نہ کہ کوئی مذہبی فریضہ۔ اللہ تعالیٰ نے آج تک دنیا میں کسی قوم کے ساتھ، حتیٰ کہ اپنی چنیدہ اور برگزیدہ قوم، ذریت ابراہیم کے ساتھ بھی ابد ا لآباد تک سیاسی سربلندی اور عالمی اقتدار کا اجارہ نہیں کیا۔ تاریخ بدلتی رہتی ہے اور خدا اپنی حکمتوں کے تحت یہ منصب دنیا کی مختلف قوموں کو دیتا رہتا ہے، چنانچہ دنیا میں اسلام کے کردار کو ایک مخصوص تاریخی سانچے سے نکال کر جدید تہذیبی حقائق کی روشنی میں ازسرنو دریافت اور متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسلمانوں کی فکری اور مذہبی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ قوموں کے عروج وزوال کے بے لاگ قوانین کی روشنی میں نئی عالمی صورت حال کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات اور ان سے نبرد آزما ہونے کی حکمت عملی سے ایسے اسلوب میں آگاہ کرتی کہ مذہبی ذہن بے فائدہ ٹکراؤ کے بجاے خود اعتمادی کے ساتھ نئی طرز معاشرت اور سیاسی انتظام میںمثبت طور پر حصہ لینے پر آمادہ ہوتا۔ یقینا ایک محدود سطح پر ایسی کوششیں ہوئی ہیں، لیکن عملی نتائج بتاتے ہیں کہ عظمت رفتہ کی بازیابی کے نفسیاتی محرک کو انگیخت کرنے اور عملی حقائق کا ادراک کر کے حکمت عملی کو اس سے ہم آہنگ بنانے کے مابین توازن پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا جا سکا اور نفسیاتی تحریک غلبہ پا کر عجلت پسندی، فرسٹریشن اور desperation پیدا کرنے کا موجب بن گئی ہے۔ پھر یہ کہ نئے ماحول کے عملی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر فکری راہنمائی کرنے والی احیائی تحریکوں کا دائرئہ اثر بنیادی طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقات تک محدود رہا ہے، جبکہ مختلف اسباب کے تحت روایتی مذہبی ذہن اس سے مستفید نہیں ہو سکا۔ یہ ذہن اب بھی دو صدی پہلے کے عالمی ماحول، قدیم طرز معاشرت اور ماضی کے فقہی تصورات کی دنیا میں رہتا ہے۔ وہ حالات کے تغیر کو بطور ایک واقعہ کے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور حالات کے اتار چڑھاؤ میں مسلسل ایسے امکانات دیکھتا رہتا ہے جن کے نتیجے میں زمینی حقائق اور تاریخ کے dynamics کو نظر انداز کر کے، تکوینی طور پر مسلمانوں کے اقتدار کی بحالی کی راہ دوبارہ ہموار ہو جائے۔ ۳۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اقبال کے اجتہادی فکر کی روشنی میں ریاست پاکستان کی تشکیل جن خطوط پر ہوئی ہے، ہر سطح پر ان کی فکری اور شعوری تفہیم کو اہتمام کے ساتھ موضوع بنایا جائے اور خاص طو رپر مذہبی طبقات کو فکری ابہام اور ذہنی الجھاؤ کی اس کیفیت سے باہر نکالنے کی کوشش کی جائے جس سے وہ اس وقت دوچار ہیں۔ جہاں تک اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت کا تعلق ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کا بنیادی فریم ورک متعین کرنے میں اس نے کسی rigidity کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ پیش نظر صورت حال کے لحاظ سے نہایت اہم معاملات میں اجتہادی زاویہ نگاہ اختیار کیا اور نئے اجتہادی تجربات کو قبول کیا ہے۔ اس ضمن میں بنیادی نوعیت کے چند اہم اور نمایاں اجتہادات کا حوالہ دینا مناسب ہوگا: ٭ قرارداد مقاصد اور علما کے مرتب کردہ ۲۲ دستوری نکات میں بادشاہت اور موروثی اقتدار کے بجائے عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر جمہوری طرز انتخاب کی تائید کی گئی۔ ٭ ملک کے قانونی ڈھانچے کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کے لیے عملی مشکلات کے تناظر میں ’تدریج‘ کی حکمت عملی کو قبول کیا گیا۔ ٭ قدیم فقہی تصورات کے مطابق غیر مسلموں کو ’ذمی‘ قرار دے کر ان پر جزیہ عائد کرنے کے بجائے انھیں معاہد کے طور پر ریاست کے یکساں درجے کے شہری قرار دیا گیا اور اعلیٰ ترین سیاسی عہدوں کے علاوہ ان کے لیے ہر سطح کے حکومتی مناصب پر خدمات انجام دینے کا حق تسلیم کیا گیا۔ ٭ قادیانیوں کے بارے میں قدیم فقہی موقف پر اڑے رہنے کے بجائے علامہ محمد اقبالؒ کے تجویز کردہ حل کو قبول کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر اکتفا کیا گیا۔ ٭ مغل سلطنت اور انگریزی دور اقتدار سے چلی آنے والی روایت کے برعکس، جس میں ملک کے عمومی قانون کی بنیاد فقہ حنفی پر تھی، ریاستی سطح پر کسی مخصوص فقہ کی پابندی پر اصرار کے بجاے وسیع تر دائرے میں شریعت کی تعبیر وتشریح کی گنجایش کا نہ صرف امکان تسلیم کیا گیا بلکہ عملی قانون سازی کے مرحلے پر اسے قبول بھی کیا گیا۔ ٭ پارلیمنٹ کے لیے شریعت کے دائرے میں قانون سازی کا حق تسلیم کیا گیا، جبکہ تعبیر شریعت کے ضمن میں ذیلی قانونی اداروں میں علما کے ساتھ ساتھ جدید قانون دانوں اور معاشرے کے دیگر طبقات کی شرکت قبول کی گئی۔ ٭ قانون سازی کے عمل میں کلاسیکی فقہی ذخیرے کی بے لچک پابندی کے بجائے بہت سے اہم معاملات (مثلاً عورت کی دیت اور گواہی جیسے مسائل) میں ماضی کی اجماعی یا اکثریتی فقہی آراء سے اختلاف کرتے ہوئے نئی اجتہادی آراء کو اختیار کیا گیا۔ مذہبی علما نے یہ اجتہادات صرف عملی مجبوری کے تحت قبول نہیں کیے، بلکہ اسلامی سیاست کے تصورات کو جدید قالب میں ڈھالنے کے حوالے سے باقاعدہ علمی بحثیں بھی کی ہیں اور نئے حالات کے تناظر میں قدیم فقہی ذخیرے پر کلی انحصار کے رویے پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مختصر مگر جامع اقتباس یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا جو ممتاز مذہبی عالم اور دانش ور جناب مولانا زاہد الراشدی کی ایک تحریر سے ماخوذ ہے۔ خلافت کے موضوع پر ایک کتاب پر ناقدانہ تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: کتاب قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے علمی ذخیرے کی بنیاد پر لکھی گئی ہے اورآج کے عالمی حالات اور معروضی ۱۔ حقائق کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے میری رائے یہ ہے کہ اگر خلافت کا نظام آج سے دوسوسال قبل کے ماحول میں قائم کرنا ہے تو اس کے لیے یہ کتاب کافی ہے، لیکن اگر آج کی دنیا میں خلافت کے نظام کی بحالی مقصود ہے تو یہ مواد اور تجزیے قطعی طور پر ناکافی ہیں اوریہ موجودہ مسائل کا حل پیش نہیں کرتے۔ ۲۔ خلافت کے لیے سنت کے حوالے سے معیار قائم کرنے میں جو حوالہ پیش کیاگیاہے، وہ بہت بہتر ہے، لیکن اس کے لیے مسلم شریف کی یہ روایت بھی شامل کر لی جائے تو زیادہ بہتر ہوگی کہ ’’تمھارے اچھے حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور تمھارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں‘‘۔ میرے نزدیک اس ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہونا اور باقی رہنا ضروری ہے اور اس کے لیے عملی طور پر حالات کے تحت کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ۳۔ انعقاد خلافت کا ایک صورت میں صرف ’’ارباب حل وعقد‘‘کو ذریعہ قرار دیاگیاہے جو درست نہیں ہے۔ امامت وخلافت کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع کا بنیادی اختلاف ہی یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ منصوص ہے جو نامزدگی اور خاندان کی بنیاد پر طے ہوتاہے جبکہ ہمارے نزدیک خلافت نہ منصوص ہے اور نہ ہی خاندانی ہے، بلکہ اسے امت کی صوابدید اور اختیار پر چھوڑ دیا گیا ہے اور امت سے مراد امت ہے، صرف ’’اہل العقد والحل ‘‘نہیں ہیں۔ آپ نے خود حضرت عمرؓ کے ارشاد میں ’’عن غیر مشورۃ من المسلمین‘‘ کا جملہ نقل کیاہے، اس لیے خلیفہ کا انتخاب پوری امت کا حق ہے۔ حضرت عمر ؓ کے اس خطبہ کو بخاری شریف میں دیکھیں تو اس میں یہ جملہ بھی ملے گا کہ جو لوگ مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کے حقوق اور اختیارات کو غصب کرنا چاہتے ہیں۔ ۴۔ خلافت کے نظام میں صرف شوریٰ نہیں، بلکہ نمائندگی بھی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے قیدیوں کی واپسی کے لیے بارہ ہزار پر مشتمل اسلامی لشکر کی اجتماعی رائے کو کافی نہیں سمجھا تھا، بلکہ ’’نقبائ‘‘ کے ذریعہ ان کی رائے الگ الگ طور پر معلوم کی تھی، اس لیے جہاں عوامی مسائل کی بات ہوگی، وہاں شورائیت کے نظام میں وہ تمام افراد حصہ دار ہوں گے جن کے حقوق حکومتی فیصلوں اور اقدامات سے منسلک ہوں گے۔ .. ۵۔خلافت کے لیے تسلط کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت ذریعہ تسلیم کیا گیاہے کہ اگر کسی وقت ایساہوجائے تو فتنہ وفساد سے بچنے کے لیے اسے قبول کر لیا جائے گا، لیکن اسے ایک مستقل طریق انتخاب اور انعقاد خلافت کے ایک باقاعدہ ذریعہ کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے۔ بالخصوص آج کے دور میں ایک مستقل ’’طریقہ انعقاد وخلافت‘‘ کے طور پر پیش کریں گے تو اس سے کسی متفقہ خلیفہ کا انتخاب تو ممکن نہیں رہے گا، البتہ عالم اسلام میں اس حوالے سے سو ڈیڑھ سو مقامات پر خانہ جنگی ضرور ہو جائے گی۔ ۶۔میرے نزدیک آج کے دور میں خلافت کے انعقاد کی صرف ایک ہی صورت عملاً ممکن ہے کہ عالم اسلام میں آٹھ دس مقامات پر اسلامی امارتیں قائم ہوں جن کی بنیاد شوریٰ اور نمائندگی پر ہو۔ وہ انہی دو بنیادوں پرآپس میں کنفیڈریشن قائم کرکے اپنے اوپر خلافت کا ادارہ قائم کرلیں اور ا س کے حق میں ضروری اختیارات سے دست برداری اختیار کر کے باہمی مشورہ سے امیرا لمومنین کا انتخاب کرلیں۔ اس کے سوا آج کے دور میں اسلامی خلافت کے قیام کی کوئی صورت عملاً ممکن نہیں ہے ۔......... ۹۔ اقوا م متحدہ عالم اسلام پر( غلط یا صحیح )جو حکمرانی کررہی ہے، وہ یک طرفہ اور جبری نہیں ہے بلکہ ایک معاہدہ کے تحت ہے جس میں ہم باضابطہ طورپر شریک ہیں اور اس سے نکلنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں، اس لیے اس کی ساری ذمہ داری اقوام متحدہ پر ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔ ۱۰۔ نیز بین الاقوامی معاملات کے بارے میں بھی ہمیں کوئی اصول قائم کرناہوگا۔ جو بین الاقوامی معاہدہ ہمارے اقتدار اعلیٰ اور قرآن وسنت کے منصوص احکا م کے منافی ہے، اسے ہمیں کلیتاً مسترد کردینا چاہیے بلکہ اس میں شامل ہونا بھی غلط ہے، لیکن جو معاملات ہماری خود مختاری کی نفی نہیں کرتے اور قرآن وسنت کے کسی صریح اور منصوص حکم کے منافی بھی نہیں ہیں، انھیں یکسر مسترد کردینا درست نہیںہوگا۔۵؎ مذکورہ اجتہادات بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں کے گہرے شعور کی غمازی کرتے ہیں، لیکن مذہبی حلقے کے فکری جمود کا عالم یہ ہے کہ خود اس کے اکابر علماء نے عملی طور پر جو اجتہادی فیصلے کیے، دینی مدارس کی سطح پر ان کی شعوری تفہیم اور اس کے عملی مضمرات اور تقاضوں سے طلبہ کو آگاہ کرنے کا سرے سے کوئی اہتمام موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم سے فیض یاب ہونے والا عالم دین آج بھی معاشرہ، شریعت اور قانون کا وہی تصور ذہن میں رکھتا اور اسی کو نفاذ اسلام کی معیاری صورت تصور کرتا ہے جو اس نے صدیوں پہلے لکھی گئی فقہی کتابوںمیں پڑھی ہے۔ اسے نہ تہذیب وتمدن کے ارتقا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عملی تغیرات سے کوئی آگاہی ہوتی ہے اور نہ اس بات کا ہی پتا ہوتا ہے کہ خود نفاذ اسلام کی جدوجہد کی قیادت کرنے والے علماء نے عملاً کیا کیا اجتہادات کیے ہیں۔ چنانچہ اگرچہ مذہبی طبقات کی نمائندگی کرنے والی باقاعدہ سیاسی جماعتیں سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں، لیکن اس تبدیلی کا کوئی شعوری فہم حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ باقاعدہ سوچ پائی جاتی ہے جو دن بدن بڑھ رہی ہے کہ آیا جمہوری عمل کے ذریعے سے نفاذ اسلام ممکن بھی ہے یا نہیں اور یہ کہ مذہبی اکابر نے اگر کسی خوش فہمی کی بنا پر اس عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تو اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہمارے نزدیک اس صورت حال کی ذمہ داری بنیادی طور پر ہماری مذہبی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کا مرکز نہیں اور نہ مدارس کے ارباب حل وعقد بحیثیت مجموعی دہشت گردی کی ذہنیت پیدا کرنے یا اسے فروغ دینے میں کوئی دلچسپی رکھتے یا اس صورت حال کو اطمینان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے ایسا کرناممکن ہی نہیں، کیونکہ ارباب مدارس جدید معاشرہ اور اس کے مسائل وضروریات سے کتنے ہی باخبر کیوں نہ ہوں، وہ خود اپنے تحفظ وبقا کے جذبے سے تہی دامن اور اس کے بنیادی تقاضوں سے ناواقف نہیں ہو سکتے، چنانچہ کسی بھی سماجی ادارے کے لیے ایسے کسی زاویہ نظر کا فروغ جو معاشرے کے امن اور اطمینان کو غارت کرنے اور مآل کار خود ان اداروں کی تباہی پر منتج ہو، سماجی نفسیات کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ مدارس کا جرم یہ نہیں کہ وہ دہشت گردی کی تربیت دیتے یا اس کے لیے فضا ہموار کرتے ہیں۔ ان کی سادگی یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے سے لاشعوری طور پر وہ تمام فکری اور نفسیاتی لوازمات فراہم کر رہے ہیں جس کے بعد اسے دہشت گردی کا روپ دینے کے لیے بس کسی خارجی محرک، کسی استعمال کرنے والے ہاتھ اور ایک جرات رندانہ کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک خاص ماحول میں طلبہ کی ذہنی تربیت کر کے ان کے اور معاشرے کے دوسرے طبقات کے مابین اجنبیت کی دیوار کھڑی کر دینا، جدید معاشرت اور تمدن کے عملی تقاضوں سے روشناس کرانے کے بجاے قدیم فقہی سانچے کو ان کے سامنے واحد معیار اور آئیڈیل کے طو رپر پیش کرنا، حالات کے معروضی تناظر میں نفاذ اسلام کی حکمت عملی اور اس کے تقاضوں کا شعور دینے کے بجاے محض ایک جذباتی نعرہ ان کو دے دینا، دو عالمی طاقتوں کے ٹکراؤ میں مدارس کے طلبہ کو جذبہ جہاد کے زیر سایہ مسلح تربیت کے مواقع فراہم کرنا اور پھر جب یہ سارا انتظام واہتمام انڈے بچے دینے لگے تو اکابر علماء کا جمع ہو کر یہ فتویٰ دے دینا کہ خود کش حملے اور مسلح جدوجہد افغانستان میں تو کی جا سکتی ہے لیکن پاکستان میں نہیں، ایک ایسی سادگی ہے جس پر صرف مرا جا سکتا ہے۔ اگر علماء وقتاً فوقتاً پاکستان میں خود کش حملوں کے عدم جواز کے فتوے جاری کرنے کے بجاے صرف ایک دفعہ یہ اعتراف کر لیں کہ پاکستانی قوم کی ایک پوری نسل کو عالمی سیاست کی بچھائی ہوئی بساط میں احیاے اسلام کے خواب دکھانا ان کی غلطی تھی تو یہ درجن بھر فتوے جاری کرنے سے زیادہ مؤثر خدمت ہوگی، لیکن ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے لیے جو حقیقت پسندی اور اخلاقی جرأت درکار ہوتی ہے، موجودہ مذہبی قیادت سے اس کی توقع کرنا شاید خود فریبی ہو۔ ۴۔ مذہبی طبقات کے مابین ا س نکتے کو بھی بطور خاص غور وفکر کا موضوع بنانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ سطحی مذہبی دانش نے یہاں نفاذ اسلام کے لیے جمہوری جدوجہد کا راستہ کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ پوری طرح سوچ سمجھ کر اور علیٰ وجہ البصیرت اختیار کیا تھا اور یہ کہ موجودہ نسل کو اس ضمن میں کوئی نیا اور جذباتی راستہ اختیار کرنے سے پہلے اپنے ان اکابر کے زاویہ نظر اور فیصلوں کا سنجیدگی اور دقت نظر سے جائزہ لے لینا چاہیے جن میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام مسلسل شریک چلے آ رہے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں جمہوری نظام کے دائرے میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والے علماء اور قائدین کے نقطہ نظر کی ترجمانی کے طو رپر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی بعض اہم تصریحات کو یہاں نقل کر دینا مناسب ہوگا۔ مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟‘‘ اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا: فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ برا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج پچیس سال ]؟[ بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔ اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختار کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسر اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟ میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ .... آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔۶؎ مزید فرماتے ہیں: بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جا سکے تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے انھیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ ..... کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرماؤں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد وافکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (Values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔۷؎ مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں فرمایا: یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آ رہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میںلگے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔۸؎ میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ .... یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔۹؎ ۵۔ معاصر تناظر میں خروج کی بحث کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ عالم عرب میں اور ہمارے ہاں، دونوں جگہ بعض طبقات کے لیے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا بنیادی محرک حکمران طبقات کا جابرانہ، مستبدانہ اور منافقت پسندانہ طرز عمل بنا ہے، جبکہ شرعی وفقہی استدلال نے محض ثانوی طور پر خروج کے طرز عمل کو نظری جواز فراہم کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ دیکھیے، اسلام کے فلسفہ جہاد کی تشریح وتوضیح کے حوالے سے مولانا مودودی اور الاخوان المسلمون کے راہ نماؤں مثلاً سید قطب شہید کے طرز استدلال میں بہت بنیادی اشتراکات پائے جاتے ہیں جنھیں بعض حوالوں سے فکری توارد کی حیرت انگیز مثال کے طورپر پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود اخوان نے بحیثیت مجموعی ایک تشدد پسند تحریک کی صورت اختیار کر لی جبکہ مولانا مودودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حاکمیت الٰہیہ اور اسلامی شریعت کے غلبے کا تصور فی نفسہ ایسا نہیں کہ اس کے نتیجے میں جمہوری طرز حکومت سے تنفر، مسلم حکمرانوں کی تکفیر اور نظم ریاست کے ساتھ تصادم جیسے تشدد پسندانہ فکری رجحانات کا پیدا ہونا ناگزیر ہو، بلکہ اس کے اسباب اس خارجی ماحول میں تلاش کرنے چاہییں جس میں یہ رجحانات پیدا ہوئے۔ اخوان کے حلقوں میں یہ رجحانات اس ظلم وستم اور تشدد کے جواب میں رد عمل کے طور پر پیدا ہوئے جو مصر اور شام کے قوم پرست سیکولر حکمرانوں کی طرف سے ان کے خلاف روا رکھا گیا، چنانچہ الہجرۃ والتکفیر، اسلامی جہاد اور حزب التحریر جیسے تمام گروہوں کی تاریخ پیدائش اخوان کے خلاف کیے جانے والے ان اقدامات کے بعد کی ہے۔ عالم عرب، خاص طو رپر مصر اور شام میں حکمرانوں کے جبر واستبداد کا شکار ہونے والے جن تحریکی اور انقلابی عناصر میں بغاوت اور تشدد کا جذبہ پیدا ہوا، ظاہر ہے کہ انھیں اپنے طرز عمل کے لیے ایک ’’شرعی‘‘ جواز درکار تھا۔ چونکہ حکمرانوں کے محض ظلم وجبر کی بنیاد پر ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی صریح ممانعت شرعی نصوص میں بیان ہوئی ہے، اس لیے ’’مسلم‘‘ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو justify کرنے کا راستہ انھیں یہی دکھائی دیا کہ وہ مسلم حکمرانوں کو سرے سے ’’مسلمان‘‘ تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیں اور یوں بظاہر حاکمیت الٰہیہ کے مخصوص تصور جبکہ بباطن مزاحمت ومقاومت کو شرعی جواز مہیا کرنے کی عملی ضرورت کے بطن سے جمہوریت کے ’’کفر‘‘ اور مسلم حکمرانوں کے ’’کافر‘‘ ہونے کے انتہا پسندانہ فلسفے نے جنم لیا۔ اس فلسفے کو کتنا ہی اصولی اور نظری استدلالات کی مخمل میں لپیٹ کر پیش کیا جائے، حالات وواقعات کی ترتیب پر نظر رکھنے والا کوئی شخص اس کے ’’عملی‘‘ محرکات سے صرف نظرنہیں کر سکتا۔ یہی صورت حال ہمارے یہاں بھی پیدا ہوئی۔ ہمارے عسکری پالیسی سازوں نے اس معاملے میں سب سے پہلا ’’ظلم‘‘ یہ کیا کہ افغان جنگ کے دوران میں پہلے تو دنیا بھر سے جہادی جذبہ رکھنے والے افراد کے لیے یہاں آکر روس کے خلاف جنگ میںحصہ لینے کا راستہ ہموار کیا اور ایک ایسی جنگ میں جو پاکستانی پالیسی سازوں کے نقطہ نظر سے خالصتاً پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لیے مقامی طور پر ایک محدود اور متعین ہدف کے لیے لڑی جا رہی تھی، ’’جہاد‘‘ جیسے مذہبی جذبے کو عنوان بنا کر جہادی عناصر میں یہ توقع اور امید پیدا کی کہ شاید روس کی شکست اس جنگ کا خاتمہ نہیں، بلکہ خلافت اسلامیہ کے قیام اور عالمی سطح پر جہاد کے عمل کا نقطہ آغاز بن جائے گی۔ تاہم روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد جب دنیا بھر سے جمع ہونے والے ان مجاہدین کی ضرورت باقی نہ رہی تو انھیں ایک خطرے کے طور پر ’’ڈیل‘‘ کرنا شروع کر دیا گیا اور بہت سے افراد کو خود پکڑ پکڑ کر ان کی حکومتوں کے حوالے کیا گیا۔ پھر نائن الیون کے نتیجے میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستانی پالیسی سازوں نے fair طرز عمل اختیار کرنے کے بجائے دوغلی پالیسی کے تحت ایک طرف بین الاقوامی فورم پر یوٹرن لیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا جبکہ دوسری طرف جہادی عناصر کے ساتھ درون خانہ موافقت کا رویہ بھی اپنائے رکھا، البتہ جہاں ضرورت پڑی، اپنی سیاسی مجبوریوں کے تحت ان کے خلاف اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ جب جہادی عناصر کی ایک بڑی تعداد نے اس دوغلی پالیسی پر بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے خود پاکستانی افواج کو بھی دشمن کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تو ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیے گئے۔ یہ طرز عمل بدیہی طور پر ’خرق اعتماد‘ (breach of trust) کی نوعیت رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں جہادی عناصر میں اس رجحان کا پیدا ہونا فطری تھا کہ افواج پاکستان ان کو کچلنے کے لیے امریکہ کی چھیڑی ہوئی جنگ کا حصہ بن چکی ہیں، چنانچہ ان کے خلاف مسلح کارروائیاں کرنے کا پورا شرعی جواز موجود ہے۔ اس صورت حال سے افغان جہاد کے دور میں عالم عرب سے درآمد کی جانے والی اس فکر نے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا جو دور جدید میں حکمرانوں کی تکفیر اور خروج جیسے تصورات کی اصل موجد ہے اور آج پاکستان کا نوجوان مذہبی ذہن ریاست سے متعلق ان بنیادی سوالات کا جواب ازسر نو متعین کرنے میں مصروف ہے جن کے حوالے سے قیام پاکستان کے بعد اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت نے ایک واضح اور متعین موقف اختیار کرتے ہوئے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو جمہوری نظام کے دائرے میں محدود رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر مذکورہ تمام سوالات اور نکات پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور معاملے کے تمام فریق (ریاستی ادارے، سیکولر طبقات، مذہبی قیادت اور خروج کے مؤیدین) فکر اقبال سے راہ نمائی لیتے ہوئے اپنے رویوں اور طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر لیں تو یقینا پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس بحران سے نکالا جا سکتا ہے جس میں وہ اس وقت مبتلا ہے۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ! ـئ…ئ…ئ؎ حوالہ جات ۱- ابو الحسن علی ابن سلیمان المرداوی، الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ج ۱۰، ص ۳۱۱۔ 2- Muhammad Iqbal ,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Institute of Islamic Culture, 2-Club Road Lahore, p. 129. 3- Ibid, pp.133, 134. 4- Ibid, p.126. ۵- زاہد الراشدی، ماہنامہ الشریعۃ، دسمبر ۲۰۱۱، ص ۴۹-۵۱۔ ۶- سید ابوالاعلیٰ مودودی، تصریحات، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص ۲۵۸،۲۵۷۔ ۷- ایضاً، ص ۳۲۰-۳۲۲۔ ۸- ایضاً، ص ۳۴۰۔ ۹- ایضاً، ص ۹۲۔ ـئ…ئ…ء معاصر تہذیبی فکر اور اقبال طاہر حمید تنولی دورِ حاضر میں تہذیب کے تصور پر اظہار خیال کرنے والے نمایاں مفکرین ایڈورڈ گبن، ایمائیل ڈرفائیم، میکس ویبر، ایلفرڈ ویبر، ایلفرڈ کروئبر، اوسولڈ سپنگلر، کرسٹو فر ڈاوسن، آرنلڈ ٹائن بی، فرنینڈ براڈل، کیرول کوئگلی، برنرڈ لیوس، ولیم ہارڈی میک نیل، شیموئیل آئزن سٹاٹ، سموئیل ہن ٹنگٹن، نوام چومسکی، پیٹریم سوروکن، ایڈورڈ سعید اور فرانسس فوکویاما ہیں۔ تاہم سموئیل ہن ٹنگٹن کو تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کرنے کے باعث غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ معاصر علمی دنیا تہذیبوں کے تصادم کے تصور سے اس وقت آشنا ہوئی جب ۱۹۹۳ء میں امریکی جریدے Foreign Affairs نے سیموئل ہن ٹنگٹن (۱۹۲۷ئ- ۲۰۰۸ئ) کا مضمون ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ شائع کیا اور پھر آنے والے تین برسوں میں اس مضمون پر اس قدر بحث ہوئی کہ سرد جنگ کے بعد یہ سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا مضمون قرار پایا۔۱؎ یہ امر جدید علمی دنیا کی آگہی اور جہالت دونوں کا مظہر تھا ۔ آگہی کا بایں معنی کہ اس مضمون کو بحث و تمحیص کا مرکز بنایاجانا مستقبل میں اس نظریے کی اہمیت سے آگہی کا غماز تھا اور جہالت کا بایں معنی کہ تہذیبی تصادم کا تصور محض سیموئیل ہن ٹنگٹن نے ہی پہلی مرتبہ پیش نہیںکیا تھا بلکہ تاریخ کے ہر دور میں یہ تصور عملاً کار فرما رہا ہے۔ تہذیبوں کی باہمی کشمکش ہر دور میں جا ری رہی۔ ہر قابل ذکر تہذیب کی کوشش رہی کہ وہ فروغ پذیر ہو اور دوسری تہذیبوں پر غلبہ حاصل کرے۔ سموئیل ہن ٹنگٹن امریکی سیاسی مفکر ہے جسے ما بعد سرد جنگ نئے عالمی نظام کے بارے میں تہذیبوں کے تصادم کے نظریے سے شہرت ملی۔ اس سے قبل اس کی علمی شہرت کا باعث فوج اور سول حکومت کے درمیان عملی تعلقات کا تجزیہ اور فوجی مداخلتوں (Coups D'etat) کے بارے میں تحقیق تھا۔ مزیدبرآں امریکہ میں ترکِ وطن کر کے آنے والوں کے باعث امریکہ کو درپیش خطرات کا تجزیہ بھی اس کے علمی کارناموں کا حصہ ہے۔ ۱۹۶۸ء میں جبکہ ویتنام میں امریکہ کی جنگ اپنے عروج پر تھی ہن ٹنگٹن نے اپنا مقالہ Political Order in Changing Societies شائع کیا جو کہ جدیدیت کے نظریے پر تنقید تھا جس نے اس سے پچھلی دہائی میں ترقی پذیر ممالک میں امریکی حکمتِ عملی کے خدوخال کو تشکیل دیا تھا۔ہن ٹنگٹن کے مطابق جیسے ہی معاشرے جدیدیت اختیار کرتے ہیں تو وہ زیادہ پیچیدہ اور بدنظمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر ان معاشروںمیں سماجی جدیدیت کے عمل اور اس سے پیدا ہونے والی بدنظمی کو سیاسی اور اداراتی جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ نہ کیا جائے، یعنی ایک ایسا عمل کہ جس سے سیاسی اداروں کو جدیدیت سے پیدا ہونے والے دباؤ کو کنٹرول کرنے کی اہلیت دی جاتی ہے، تو اس کا نتیجہ تشدد کی صورت میں سامنے آ سکتاہے۔۲؎ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہن ٹنگٹن نے اپنی نظریاتی دانش کو حکومتی مشیر کے طور پر جمہوری اور آمرانہ دونوں حکومتوں پر منطبق کیا۔ ۱۹۷۲ء میں وہ برازیل میں حکومت کے نمائندوں سے ملا جس کے ایک سال بعد اس نے اپنی رپورٹ Approaches to Political Decompression شائع کی۔ اس میں اس نے سیاسی آزادیوں کے تیزترین عمل کے خطرات سے متنبہ کیا اور اس کے بجائے بتدریج آزادی دینے کے عمل اور ایک ایسی مضبوط ریاستی جماعت کی تجویز دی جو میکسیکو کی Institutional Revolutionary Party PRI کے مطابق ہو۔ ایک طویل تبدیلی کے عمل کے بعد برازیل ۱۹۸۵ء میں جمہوری ملک بن گیا۔۳؎ ہن ٹنگٹن نے اکثر برازیل کو اپنی کامیابی کے طور پر بیان کیا اور اس میں اس نے اپنے کردار کا ذکر American Political Science Association سے اپنے ۱۹۶۸ء کے خطبے میں کیا اور کہا کہ علمِ سیاسات نے اس عمل میں انتہائی قابلِ تحسین کردار ادا کیا ہے۔ اس کے نقاد مثلاً برطانوی سیاسی مفکر Alan Hooper خیال کرتے ہیں کہ اس وقت برازیل میں غیر مستحکم جماعتی نظام ہے۔ جبکہ وہاں بہترین منظم جماعت ڈیسلوا (Lula da Dilva) کی ورکرز پارٹی ہے جو محدود تبدیلی کی مخالفت کے ساتھ سامنے آئی۔ مزید برآں ہوپر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ برازیل کی موجودہ صورت حال میں عوام کی عدم شمولیت کا سبب وہاں سیاست میں عوامی شمولیت کی تبدیلی کا نزولی عمل ہے۔۴؎ ۱۹۹۳ء میں پروفیسر ہن ٹنگٹن نے اپنا نظریہ ’تہذیبوں کاتصادم‘ پیش کر کے جو سوالیہ نشان کے ساتھ تھا، بین الاقوامی تعلقات کے حلقوں میں نئے مباحثے کا آغاز کر دیا۔ یہ Foreign Affairs میگزین میں چھپنے والا اس کا ایک مضمون تھا۔ اس میں مابعد جنگ اور جیوپالیٹکس کے بارے میں بیان کردہ تصورات فرانسس فوکویاما کے نظریہ اختتامِ تاریخ سے بالکل متضاد تھے۔ ہن ٹنگٹن نے اپنے اس تصور کو ۱۹۹۶ء میں کتابی شکل میں The Clash of the Civilizations and the Remaking of World Order کے نام سے پیش کیا۔ مضمون اور کتاب دونوں یہ بیان کرتے ہیں کہ ما بعد سرد جنگ تنازعات اکثر و بیشتر نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ ثقافتی بنیادوں پر سامنے آئیں گے۔ سرد جنگ کے دوران تنازعات اکثر و بیشتر سرمایہ دارانہ مغرب اور کیمونسٹ مشرق کے درمیان تھے مگر اب یہ دنیا کی بڑی تہذیبوں کے درمیان ہوں گے جن کی نشاندہی کرتے ہو ئے اس نے سات مکمل اور آٹھویں ممکن تہذیب کا ذکر کیا جو یہ ہیں: مغربی، لاطینی، اسلامی، سینی، ہندی، آرتھوڈکس، جاپانی اور افریقی۔۵؎ یہ ثقافتی تنظیم اور جماعت بندی معاصر دنیا سے بالکل مختلف ہے جہاں دنیا خود مختار ریاستوں کی صورت میں منقسم ہے۔ معاصر اور مستقبل کے تنازعات کو سمجھنے کے لیے ثقافتی اختلافات کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ مستقبل میں جنگوں کا مرکز و محور ریاستیں نہیں بلکہ ثقافت ہو گی۔ لہٰذا مغربی قومیں اگر ثقافتی تنازعات اور تناؤ کی ناقابلِ مفاہمت نوعیت کو سمجھ نہ سکیں تو وہ اپنا غلبہ کھو دیں گی۔۶؎ ہن ٹنگٹن کے نقاد مثلاً Le Monde Diplomatique میں چھنے والے مضامین کے مصنفین کے مطابق اس نظریے کا مقصد چینی اور مسلم دنیا کی ثقافتوںپر امریکی رہنمائی میں ہونے والے مغربی حملوں کو نظریاتی اساس و جواز فراہم کرنا ہے۔ اس کے مطابق مابعد سرد جنگ کے زمانے میں عالمی سیاست کے ڈھانچے میں تبدیلی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ مغرب اپنے آپ کو ثقافتی طور پر مضبوط کرے اور اپنی مثالی جمہوری آفاقیت کو دنیاپر نافذ کرنے اور دنیا بھر کے ممالک میں مسلسل عسکری مداخلت کرنے سے باز رہے۔ بہت سے نقادوں کا موقف یہ ہے کہ ہن ٹنگٹن کے نظریے کی بُنت بہت سادہ مگر تحکمانہ ہے اور یہ تہذیبوں کے مابین ہونے والے مختلف حالات و واقعات، محرکات اور موجود تنازعات کو درخود اعتنا نہیں سمجھتا۔ مزیدبرآں ہن ٹنگٹن اہل علم کی طرف سے نظریاتی تحریک پیدا کرنے کے عمل اور کسی بھی تنازعے کے پیدا ہونے کے حوالے سے عوام الناس کی سماجی اور معاشی ضروریات کے کردار کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔ وہ عملی مثالیں دیتے ہوئے دنیا میں موجود اِن تنازعات کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے جو اس کی متعین کردہ تہذیبی رخنوں کی سرحدوں کے مطابق موزوں نہیںٹھہرتے۔ ہن ٹنگٹن پر یہ الزام بھی ہے کہ اس کا نیا پیراڈائم صرف ایک ایسی فکر ہے جس میں صرف ریاستوں کی جگہ تہذیبوں کو رکھ دیا گیا ہے۔۷؎ ہن ٹنگٹن کا امریکی پالیسی پر اثر برطانوی مؤرخ ٹائن بی کے متنازع مذہبی نظریات سے مماثل قرار دیا گیا ہے۔ ہن ٹنگٹن کے انتقال پر The New York Times نے اپنے تعزیتی شذرے میں لکھا کہ عالمی تنازعات کے اسباب کے طور پر ریاست یا نسلی شہروں کی بجائے اس کا قدیم مغربی سلطنتوں پر زور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد زیادہ مرکزِ توجہ بنا۔۸؎ Los Angeles Times کے کالم نگار جونا گولڈ برگ (Jonah Goldberg) نے ہن ٹنگٹن کے بارے میں لکھا کہ وہ بیسویں صدی کے سماجی علوم کا سرخیل تھا جو نئے رجحانات وضع کرنے اور مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں کرنے سے نہیں ہچکچاتا تھا۔ بلکہ اس نے یہ سارا کام ٹھوس حقائق کی بنیاد پر کیا۔۹؎ گولڈ برگ نے ہن ٹنگٹن کی کتاب The Clash of Civilizations کے بارے میں لکھا: ........ was deeply, and often willfully, misunderstood and mischaracterized by those who didn't want it to be true. But after 9/11, it largely set the terms for how we look at the world. In it, he argued that culture, religion and tradition are not background noise, as materialists of the left and the right often argue. Rather, they constitute the drumbeat to which whole civilizations march. This view ran counter to important constituencies. The idea that man can be reduced to homo economicus has adherents among some free-market economists, most Marxists and others. But it's nonsense on stilts. Most of the globe's intractable conflicts are more clearly viewed through the prisms of culture and history than that of the green eyeshade. Tensions between India and Pakistan or Israel and the Arab world have little to do with GDP.؎10 ہن ٹنگٹن کی آخری کتاب Who Are We? The Challenges to America's National Identity مئی ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی۔ اس میں امریکہ کی قومی شناخت کے مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے اور بڑے پیمانے پر ترکِ وطن کر کے امریکہ آنے والے لوگوں کی طرف سے اسے درپیش ثقافتی خطرات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ان خطرات کے باعث ہن ٹنگٹن کے مطابق امریکہ کے لوگ مستقبل میں دو حصوں، دو ثقافتوں اور دو زبانوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔۱۱؎ ہن ٹنگٹن نے ایک نئی اصطلاح Davos Man بھی وضع کی جو ان عالمی شخصیات کے بارے میں ہے، جنھیں قومی وفاداری کی کم ہی ضرورت پڑتی ہے بلکہ وہ مختلف ممالک اور اقوام کی سرحدوں کو ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں اور انھیں ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق قومی حکومتیں ماضی کی باقیات میں سے ہیں جن کا واحد مقصد چند شخصیات کو عالمی سطح پر اپنے اہداف کے حصول میں سہولت دینا ہے۔ ’ڈیوس مین‘ کی اصطلاح ہن ٹنگٹن نے ورلڈ اکنامک فورم کے لوگوں کے لیے استعمال کی جس کے لیڈر ڈیوس میں آئے ہوتے ہیں۔۱۲؎ سرد جنگ کے بعد کے حالات میں دنیا کی عالمی سیاست کی توضیح و تشریح کے لیے مفکرین نے کئی نظریات پیش کیے۔ بعض کے مطابق دنیا کی عالمی سیاست غیر مستحکم کثیر قطبی رقابتوں اور تنازعات سے عبارت ہو گی جبکہ کچھ کے نزدیک اب ریاستی طاقت مسلسل کمزور ہوتی جائے گی جس کے نتیجے میں لاقانونیت اور عمومی سماجی انحطاط کے ایک نئے دور کاآغاز ہو گا۔ سموئیل ہن ٹنگٹن کی کتاب The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order ان دونوں نظریات کا تجزیہ پیش کرتی ہے۔ سرد جنگ کی دہائیوں کے دوران بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں روش انتہائی تنگ نظر اور مقابلتاً جامد نوعیت کی تھی۔ ہن ٹنگٹن نے بین الاقوامی سیاست میں روایتی طریق تفکر سے مختلف انداز اختیار کرتے ہوئے نئی جہات متعارف کروائیں۔ ہن ٹنگٹن کی ما بعد جنگ پیراڈائم کی تفصیلات کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: ۱- ما بعد سرد جنگ کی دنیا میں بڑی اصولی سیاسی تقسیم کا مرکز وہ رخنہ سرحدیں ہوں گی جو تہذیبوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں۔ اب دوست اور دشمن کی تمیز کا معیار نظریہ یا قومی شناخت کے بجائے کلچر اور ثقافت ہو گا۔۱۳؎ ۲- اگرچہ عالمی سیاست کے مرکزی کردار ریاستیں ہی ہوں گی لیکن ریاستوں کے درمیان اتحاد کی بنیاد تہذیبی سیاست کے رویے طے کریں گے۔ ایسے ممالک جن میں ایک جیسی ثقافتی اقدار اور وابستگیاں موجود ہیں ان میں اتحاد کے نتیجے میں تہذیبی سرحدوں کے آر پار تنازعات پیدا ہوں گے۔ وہ سرحدیں جہاں تہذیبیں ایک دوسرے کے ساتھ ملتی ہیں ان پر موجود رخنوں پر ایک نئے بین الاقوامی عمل جسے ہن ٹنگٹن نے Kin Country Ralling کہا ہے، کے نتیجے میں دنیا کو نئے خطرات کا سامنا کرنا ہو گا۔ جبکہ ریاستیں بدستور بین الاقوامی سیاست کا اہم کردار رہیں گی۔ تہذیبیں بین الاقوامی سیاست کے تجزیے کی بنیادی اور اصولی اکائی ہوں گی۔۱۴؎ ۳- اگرچہ تہذیبوں کا تصادم کثیر جہتی ہو گا تاہم اہم ترین تقسیمی خط مغربی معاشروں کو دنیا کی بقیہ سات تہذیبوں سے جن کاذکر ہن ٹنگٹن نے کیا ہے، الگ کر دیں گے۔ مغرب کے ثقافتی نفوذ اور سیاسی غلبے نے دنیا کے دوسرے حصوں اور غیر مغربی ثقافتوں میں بہت زیادہ غیظ و غضب اور غیر ملکی ثقافتوں میں خود وابستگی پیدا کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغرب کی مقابلتاً کمزور ہوتی ہوئی معاشی اور آبادیاتی طاقت کو مغرب کی حلیف تہذیبوں کی نمائندہ ریاستوں کی طرف سے مغربی قبضے اور غلبے کے لیے سیاسی چیلنج کے طور پر سامنے آئے گا۔۱۵؎ ۴- ان حالات کے ردعمل میں مغربی معاشروں کواپنے آپ کو مضبوط کرنے اور ممکنہ داخلی اور خارجی چیلنجوں سے، جو اس کی اساسی اقدار اور مفادات کو درپیش ہیں،عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنی تہذیب کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغرب کو اپنے آفاقی ہونے کے تصورات اور اپنی تہذیب و کلچر دوسرے معاشروں کو منتقل کرنے کے عمل، کہ وہ بھی مغربی نمونے پر ڈھل جائیں، سے احتراز کرنا چاہیے۔ نیز مغرب کو ان ممالک اور معاشروں میں جو مغربی مفادات کے لیے واضح خطرہ نہیں ہیں، مداخلت اور ان کے ساتھ تنازعات سے بھی محترز رہنا چاہیے۔ مستقبل میں امن کا قیام باہم حریف تہذیبوں کی نمائندہ اہم ریاستوں کے درمیان طاقت کے توازن کے استحکام پر ہے۔۱۶؎ ۵- اہم مسئلہ ہن ٹنگٹن کا تصورِ تہذیب ہے۔ تہذیب کی تعریف ایک سماجی مظہر کے طور پر کی گئی ہے جو انسانی زندگی کے سیاسی اور سماجی معاملات کا احاطہ کرتی ہے۔ تہذیب کی ایک اہم خصوصیت وہ یکساں کلچر ہے جس کی وہ نمائندہ ہوتی ہے تاہم کلچر ایک کثیر الجہتی مفہوم کا حامل تصور ہے۔ یہاں ہن ٹنگٹن اکثر و بیشتر مذہب پر انحصار کرتا ہے۔ اس کا یہ انحصار مربوط انداز کا حامل نہیں۔ زبان، نسل اور مشترکہ تاریخ کلچر کے دوسرے بڑے اجزائے ترکیبی ہیں۔ بالعموم ہن ٹنگٹن تہذیبوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے حوالے سے واضح معیار پیش نہیں کرتا۔ بین الاقوامی سیاست میں موجود تقسیم کو سمجھنے کے لیے کلچر کے ایک بنیادی تنظیمی اصول ہونے کے بارے میں ابہام ہن ٹنگٹن کی پوری پیراڈائم میں بہت نمایاں ہے۔ مغرب میں ہن ٹنگٹن نے یورپ اور اس کی سابقہ نوآبادیوں مثلاً امریکہ، کینیڈا، آسڑیلیا، نیوزی لینڈ اور لاطینی امریکہ وغیرہ کو شامل کیا جن کو اہل یورپ نے فتح اور پھر آباد کیا۔ انھیں ایک الگ تہذیب قرار دیا گیا ہے جبکہ بہت سے لاطینی امریکی سپینی، پرتگیزی اور انگریزی بولتے ہیں اور بطور عیسائی عیسائیت کے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح سے سلیو آرتھوڈکس، روس، یوکرائن اور بلقان کے کچھ حصوں کو ایک الگ تہذیب قرار دیا گیا ہے اگرچہ وہ بقیہ یورپ کے ساتھ بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ ان کے یورپ کے ساتھ تعلقاتِ کار اور قربت کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور مزید یہ کہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ عیسائیت کے پیروکار بھی ہیں۔۱۷؎ ۶- ہن ٹنگٹن نے Foreign Affairs (1993) میں چھپنے والے اپنے مضمون میں چین اور اس کے زیرِ اثر کچھ دیگر چھوٹے ممالک کو ایک الگ کنفیوشس تہذیب کا عنوان دیا مگر چین میں اب شاید ہی کوئی اپنے آپ کو کنفیوشس کا پیروکار کہتا ہو۔ کیونکہ چین نے سابقہ صدی کا بڑا حصہ کنفیوشس ازم اور اپنے روایتی کلچر کے خلاف بغاوت میں گزار دیا۔ جبکہ ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب میں دنیا کے اس حصے کو چینی تہذیب کا انتہائی مبہم عنوان دیا۔ ہن ٹنگٹن جاپان کو بھی ایک الگ تہذیب تصور کرتا ہے حالانکہ جاپان کی تاریخ اور کلچر پر چین کا بہت گہرا اثر ہے اور جاپان نے پچھلی نصف صدی کے دوران اپنے سیاسی اداروں کو مغربی انداز پر ڈھال لیا ہے۔ گویا ہن ٹنگٹن ثقافتی خصوصیات کے ادراک حوالے سے ابہام کا شکار ہے اور مبینہ طور پر جاپان کو بقیہ تہذیبوں سے ایک الگ تہذیب تصور کرتا ہے۔۱۸؎ ۷- مسلم دنیا جو شمالی افریقہ سے مشرق وسطیٰ تک اور ایشیا کے جنوب سے جنوب مشرق تک پھیلی ہوئی ہے، کا تعارف ایک مشترک مذہب کا حامل ہونے کی حیثیت سے کروایا گیا ہے۔ اس میں رہنے والے لوگوں کی زبان، جغرافیہ، نسل، تاریخ اور روایات کے فرق کو ہن ٹنگٹن نے قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی۔ ہندوستان کو الگ ہندو تہذیب کا عنوان دے دیا گیا ہے تاہم وہ ممالک جن کے لوگ بدھ مت کے پیروکار ہیں انھیں کوئی تہذیبی حیثیت نہیں دی گئی اورپھر ہن ٹنگٹن اس بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ نیم صحرائی افریقہ میں موجود ثقافتی تنوع کو کیا عنوان دیا جائے۔ نتیجتاً وہ انتہائی غیر مطمئن انداز سے ان ممالک کو نصف تہذیب کا حامل قرار دے دیتا ہے۔۱۹؎ ۸- ہن ٹنگٹن نے انتہائی تحکمانہ انداز سے جن تہذیبی اور ثقافتی اکائیوں کا تعین کیا ہے وہ کسی طرح سے بھی دنیا کی سیاست میں لائق تحسین حیثیت نہیں رکھتیں۔ تاہم وہ اس کے ہم صورت کردار (Isomorphic Players) ضرور ہیں۔ اگر ہم ثقافت کی اصطلاح کو کھولیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی تہذیب ثقافتی طور پر خالص، بے مثل یا باہم ہم جنس و ہم آہنگ نہیں ہوتی۔ مذہب، زبان، تاریخ، روایات سب ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور جڑے ہوئے ہیںاور یہ سب ہن ٹنگٹن کی بتائی ہوئی تہذیبوں کی اقسام میں بھی مایوس کن حد تک پیچیدہ انداز سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ عالمگیریت کے اس زمانے میں بین الثقافتی مستعاریت اور ثقافتی نفوذ جس انداز سے سرعت اختیار کر چکا ہے اس میں واضح اور ٹھوس ثقافتی امتیازات تلاش کرنا بے معنی ہو چکا ہے۔ گو ثقافت اب بھی مقامی اور عالمی سطح پر سیاست کی تفہیم کے لیے اہم ہے تاہم ضروری یہ ہے کہ ثقافت یا تہذیب کی بنیاد پر عالمی سیاست کو سمجھنے اور تہذیبوں اور ثقافتوں کے باہمی ارتباط کی پیچیدہ نوعیت کا تجزیہ کرنے کا آغاز چھوٹی سطح سے ہو نہ کہ ان کی بنیاد پر گمراہ کن اور ہمہ گیر نمونے وضع کرنے شروع کر دیے جائیں۔ ۹- ما بعد سرد جنگ کی دنیا کی صورت گری کرنے والی مخفی قوتوں کی تفہیم کی کوشش کرتے ہوئے بہت سے مبصرین نے تین رجحانات کو مرکز توجہ بنایا ہے: ۱- ترقی پذیر دنیا کے کچھ حصوں میں تیز رفتار معاشی جدیدیت ، ۲- بین الاقوامی انحصارِ باہمی یا عالمگیریت میں اضافہ، ۳- جمہوری سیاسی اداروں کا فروغ۔ بہت سے مفکرین کے نزدیک یہ تینوں رجحانات ایک اچھے مستقبل کے غماز ہیں جس میں امن، خوشحالی اور باہمی تعاون فروغ پذیر ہوں گے۔ جدیدیت اور عالمگیریت دونوں معاشی بہبود میں اضافہ کرتے ہیں اور ایک محفوظ اور پرامن دنیا کی تشکیل کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی تجارت اور سرمایہ کاری کے باہمی فوائد، ریاستوں کے رویوں پر امن افزا اثرات مرتب کرتے ہیں۔تصورات، افکار اور اطلاعات کے فروغ سے لوگوں میں باہمی افہام وتفہیم بڑھتی ہے اور اس سے اقدار، اداروں اور مفادات میں ارتکازیت پیدا ہوتی ہے۔ جمہوریت کے فروغ سے توسیع پسندانہ اور بے ہنگم خارجہ پالیسوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ایسے مختلف معاشروں میں باہمی اعتماد بڑھتا ہے جو ایک جیسے سیاسی اصولوں پر آگے بڑھ رہے ہوں۔ تاہم ہن ٹنگٹن ان دلائل کو بالکل الٹ دیتا ہے۔ اس کے نزدیک جدیدیت، عالمگیریت اور جمہوریت کا عمل امن و تعاون کو فروع دینے کے بجائے تہذیبی آویزش کی بنیاد بنتا ہے۔۲۰؎ ہن ٹنگٹن کے مطابق جدیدیت اور مغربیت دو بالکل مختلف حقائق ہیں۔۲۱؎ کوئی معاشرہ اپنی اساسی اقدار کو بدلے بغیر بھی جدید ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ تیسری دنیا کی جدیدیت مغرب مخالف یا مغرب دشمنی کے احساس کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ جدیدیت کے عمل سے وسائل میں اضافہ ہوتا ہے وہ پھر ایک ایسے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے خرچ ہوتے ہیں جو مغرب مخالف ہوتے ہیں۔۲۲؎ ۱۰- ہن ٹنگٹن کے مطابق ریاستوں کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھنے سے ارتکازیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے بجائے ان کے درمیان موجود اختلافات کے بارے میں آگاہی بڑھ جاتی ہے۔ جب اس طرح کے باقاعدہ روابط پیدا ہوں گے تو مختلف اقوام ایک دوسرے کے متضاد نظامِ اقدار سے آگاہ ہوں گی جس سے ان میں تصادم اور تنازع پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ لہٰذا ریاستوں کا ایک دوسرے پر باہمی انحصار کرنا مزاحمت اور نفرت کو فروغ دے گا۔ خصوصاً اس وقت جب کسی ایک معاشرے کی اقدار کسی ایسے معاشرے میں نفوذ کر رہی ہوں جن کے لیے وہ اقدار ناموافق اور ناقابلِ قبول ہوں۔ اسی وجہ سے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے نتیجے میں ریاستیں اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو ایک نیا رخ دیں گی اور جہاں ممکن ہو گا یہ تعلقات ان ریاستوں کے ساتھ قائم ہوں گے جن میں بنیادی ثقافتی اقدار مشترک ہیں اور آنے والے برسوں میں معاشی انحصارِ باہمی ایسی تہذیبوں میں ہی قائم ہو سکے گا۔ جبکہ بین التہذیبی تبادلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سطحی اور کم ہوتا چلا جائے گا۔۲۳؎ ۱۱- ہن ٹنگٹن اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ جمہوریت کے ساتھ مشترکہ وابستگی کے نتیجے میں مغربی ممالک کے درمیان تو دوستانہ تعلقات مزید پختہ ہوں گے لیکن غیر مغربی ممالک میں جمہوریت کے فروغ سے مذہبی بنیاد پرستوں یا مقامی ثقافتی تحریکوں کے لیے اقتدار تک پہنچنے کے لیے راستے کھل جائیں گے۔ یہ گروہ ایسی اقدار کے پیروکار ہوتے ہیں جو مغربی جمہوری معاشروں کی اقدار سے بالکل مختلف ہیں۔ لہٰذا بعد میں ایسے لوگ اقتدار میں واپس آ کر ایسی خارجہ پالیسیاں اختیار کرتے ہیں جن کے نتیجے میں مغرب کے ساتھ تنازعے پیدا ہونے لگتے ہیں۔۲۴؎ المختصر ہن ٹنگٹن کے نزدیک جدیدیت، انحصارِ باہمی اور جمہوریت کاعمل کسی تہذیبی ارتکازیت کا باعث نہیں بنتا نہ اس سے مختلف قوموں کے درمیان تعاون فروغ پذیر ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے تہذیبی تنازعات اور انحراف ہی جنم لیتا ہے۔ ۱۲- ہن ٹنگٹن کا دعویٰ ہے کہ مغرب نے اپنے کمال کا نقطۂ عروج دیکھ لیا ہے اور اب وہ دوسری ترقی پذیر تہذیبوں کے مقابلے میں زوال کی طرف گامزن ہے۔۲۵؎ ہن ٹنگٹن کے ہاں صرف چینی تہذیب جو چین کے ارد گرد موجود ہے واضح طور پر امریکہ اور مغربی یورپ کے مقابل ترقی کی طرف گامزن ہے۔ افریقہ ناامیدی کی حد تک غربت، سیاسی انتشار اور نسلی فسادات کی زد میں ہے اور یہی کچھ ہندوستان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ لاطینی امریکہ نے حال ہی میں قرضوں سے متاثرہ دہائی اور اقتصادی بدحالی سے نجات حاصل کرنے کے بعد بحالی کی طرف سفر شروع کیا ہے۔۲۶؎ جاپان نے ۱۹۸۰ء کی دہائی ہی میں اپنا عروج حاصل کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کی معیشت کم و بیش جمود کا شکار اور سیاست بھی تقریباً مفلوج ہے۔ مزیدبرآں جاپان کی سیاسی اور عسکری قوت بھی محدود ہے۔ سویت یونین باقی نہیں رہا۔ روس اور اس کے ساتھ آزاد ہونے والی دوسری ریاستیں، جو ہن ٹنگٹن کے ہاں آرتھوڈکس سلیو تہذیب سے تعلق رکھتی ہیں، سیاسی اور معاشی انحطاط سے نکلنے کے لیے کئی صدیاں لیں گی۔۲۷؎ ۱۳- اگرچہ ہن ٹنگٹن اسلامی دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کو قوت کا سرچشمہ بھی قرار دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اسے مسلم دنیا کی کمزوری کی بنیاد بھی بناتا ہے۔۲۸؎ مزید برآں اسلامی دنیا کی امیر ترین ریاستیں جو تیل کی بڑی برآمد کنندگان ہیں انھیں بھی جب سے تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں، برآمدی ریونیو میں کمی کا سامنا ہے۔۲۹؎ خلیجی جنگ کے دوران اسلامی دنیا حتیٰ کہ عراق پر بھی مغرب کی وسیع فوجی برتری سامنے آئی جہاں عراق امریکہ اور اس کی اتحادی قوتوں کے سامنے معمولی سی مزاحمت بھی نہ کر سکا۔ اگرچہ ہن ٹنگٹن یہ بات کہنے میں تو صائب ہے کہ مغرب حالیہ برسوں کے دوران اکثر و بیشتر اسلامی دنیا کے کئی حصوں کے ساتھ تنازعات میں الجھا رہا ہے لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ ان تنازعوں میں مغرب کے اسلامی حریف نہیں بلکہ خود مغرب ہی غالب رہا ہے۔ ۱۴- بغیر کسی مؤثر استدلال کے ہن ٹنگٹن اپنی کتاب کا خاتمہ ایک اور عالمی جنگ کی پیغمبرانہ انداز سے پیشین گوئی پر کرتاہے۔ اب یہ جنگ ایسی ریاستوں کے درمیان ہو گی جو تہذیبی سطح پر ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں۔ حیران کن حد تک یہ خوفناک جنگ ان رخنہ سرحدوں پر شروع نہیں ہو گی جن کی نشاندہی ہن ٹنگٹن نے مختلف تہذیبوں کے درمیان کی ہے بلکہ اس کا آغاز چین اور ویتنام کے درمیان، جو ایک ہی تہذیب کے حامل ہیں، تنازع سے ہو گا جو جنوبی چین کے سمندر پر تسلط کے لیے شروع ہو گا۔۳۰؎ یہ تصور ہن ٹنگٹن کے نظریے میں موجود عملی کمزوری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے ہن ٹنگٹن کو یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ تنازعے نہ صرف تہذیبوں کے درمیان رخنہ سرحدوں پر بلکہ بہت سی ایسی تہذیبوں کے مابین بھی ہو سکتے ہیں جو ایک جیسی تہذیبی یا ثقافتی روایات رکھنے والے معاشروں اور ریاستوں پر مشتمل ہو۔ اس کے لیے مشرقی ایشیا کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں ہن ٹنگٹن کی عالمی جنگ ابتدائی طور پر شروع ہو گی۔ چینی تہذیب میں چین، تائیوان، ویتنام اور کوریا شامل ہیں۔ لیکن ان کی اس ثقافتی ترکیب میں بھی وحدت کم ہی موجود ہے۔ کم و بیش پچاس سال سے کوریا کے لوگ منقسم اور ایک دوسرے کے ساتھ شدید تناؤ کی حالت میں رہے ہیں بلکہ ایک مرتبہ تو واضح جنگ کے امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے۔ یہ حقیقت کہ چینی اور تائیوانی ثقافتی حلیف (Cultural Cousin) ہیں، اس کی بنیاد پر ان کے درمیان افہام و تفہیم یا اتحاد باہمی کے امکانات کم ہی پیدا ہوئے ہیں۔ گو ویتنام نے بہت سی چینی ثقافتی روایات کو درآمد کیا ہے لیکن وہ اپنی پوری تاریخ میں چین کے سیاسی غلبے کے خلاف لڑتا رہا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت دشمن اور حریف رہے ہیں باجودیکہ ان میں نظریاتی اشتراکات موجود ہیں۔ وسیع تر تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے شدید ترین اور طویل ترین تنازعات ایسے ممالک کے درمیان ہوئے ہیں جن میں بہت سی ثقافتی اقدار مشترک ہیں اور اکثر و بیشتر انھوں نے ایسی ریاستوں سے امداد لی ہے جو ان کی ثقافتی روایات اور اقدار سے بہت دور ہیں۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں ہن ٹنگٹن کی سطحیت واضح ہو جاتی ہے۔ سرد جنگ کے بعد کا دور اب ختم ہو رہا ہے اس کی جگہ دنیا میں مایوسی اور فرسٹریشن جنم لے رہی ہے کیونکہ تنازعات کی فضا اب بھی قائم ہے۔ ہن ٹنگٹن کا دنیا کے تصادم کا نظریہ جو باہم مخالف اور غیر موافق تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان ہو گا اس احساس عدم تحفظ کے لیے بالکل موزوں ٹھہرتا ہے جو اس وقت مغربی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ تبدیلی کا وہ دور جس سے اب دنیا گزر رہی ہے اکثر و بیشتر غیر یقینیت اور مایوسی کو جنم دیتا ہے۔ لہٰذا ایسے زمانے میں مایوسی اور قنوطیت کی باتیں کرنے والوں کو قبولِ عام ملنا یقینی ہے۔ تاہم موجودہ عالمی نظام میں کار فرما مخفی عوامل مثلاً جدیدیت، ایک دوسرے پر انحصارِ باہمی اور جمہوریت کے رجحانات اس قنوطی منظر نامے کی تائید نہیں کرتے۔ تاہم معاملات کی تفہیم اور ابلاغ کے حوالے سے انداز فہم اور انداز نظر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر پالیسی ساز اور عوام اپنی توقعات اور لائحہ عمل کا انحصار ہن ٹنگٹن کی ان قنوطی اور مایوس کن پیشین گوئیوں پر رکھیں تو ان کے سچ ہو جانے کے امکانات موجود ہیں۔ تاہم سماجی علوم کے دانشوروں کے لیے لازم ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ حقائق کا اس انداز سے تجزیہ اور تفہیم کریں جس سے ایک اچھی دنیا کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ اگر سیموئیل ہن ٹنگٹن کی فکر کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں کئی تسامحات اور تضادات سامنے آتے ہیں جو یا تو ہن ٹنگٹن کے حقائق پر نظر نہ ہونے کے باعث پیدا ہوئے یا اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے حقائق کو مسخ کر کے بیان کرنے کا نتیجہ ہے۔ ہن ٹنگٹن کی فکر کے نمایاں اور بنیادی نقائص یہ ہیں: ۱- سیموئیل ہن ٹنگٹن کے نزدیک ثقافتی ارتکازیت کی ممکنہ صورت مغربی ثقافت کی فتح اور مکمل غلبہ ہے۔ حالانکہ ثقافتی اور تہذیبی ارتکاز باہمی کی تاریخ مکمل غلبے کی تائید نہیں کرتی بلکہ یہ تو بنیادی طور پر باہمی استعاریت کا عمل ہے جس کے نتیجے میں مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں ایک دوسرے سے اخذ و قبول کرتی اور نئی تہذیب کو جنم دیتی ہیں۔۳۱؎ ۲- سیموئیل ہن ٹنگٹن کے مطابق ایسے ممالک جن کی ثقافتیں اور تہذیبی اقدار ایک دوسرے سے مختلف ہیں ان میں کثیر الجہات معاشی ارتباط نہیں ہو سکتا مگر آسیان (Asian) اور اوپیک (OPEC) کا قیام اور ان کا عالمی معاشی سرگرمیوں میں کردار ہن ٹنگٹن کے اس تصور کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے جسے نہ صرف ہن ٹنگٹن نے نظر انداز کیا بلکہ اس کی مثال بھی پیش نہیں کی۔۳۲؎ ۳- ہن ٹنگٹن کے نزدیک میکسیکو، لاطینی امریکہ سے ایک امریکہ اصغر بننا چاہتا ہے۳۳؎ اور ہر حوالے سے متحدہ امریکہ کی پیروی کی طرف گامزن ہے لیکن اگر ہم NAFTA کے کردار کو دیکھیں تو وہ ہن ٹنگٹن کے اس بیان کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے اگر مکیسیکو میں ایسا کوئی احساس موجود بھی ہے تو وہ صرف سیاسی رہنماؤں کے خطیبانہ اظہار کی حد تک محدود ہے۔ ۴- دنیا بھر میں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے حامل ممالک کے درمیان اقتصادی ارتباط اور انحصارِ باہمی کی ایک مثال WTO کا کردار بھی ہے جسے ہن ٹنگٹن نے نظر انداز کیا ہے۔ ۵- ہن ٹنگٹن نے مسلم ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ان کی قوت قرار دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مسلم ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ان کی کمزوری سمجھتا ہے۔۳۴؎ مغرب کو وہ مسلم ممالک کے خطرے سے متنبہ کرتا ہے اور اس بات کو مغربی دنیا کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے کہ مغرب اکثر مسلم ممالک کے ساتھ تنازعات میں الجھا ہوا ہے۔ ہن ٹنگٹن یہاں اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتا ہے کہ ان تنازعات میں تمام مقامات پر غلبہ مغرب ہی کو حاصل ہوا ہے۔ ۶- تہذیبی اور ثقافتی ارتباط کے باب میں ہن ٹنگٹن کی دی ہوئی مثالیں بھی اس کے نظریے کی تائید نہیں کرتیں۔۳۵؎ بوسنیا میں جب مقامی آبادی نے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی تو باوجودیکہ ان میں نسل در نسل ثقافتی اشتراکات موجود تھے لیکن یہ اشتراکات مسلمانوں کی نسل کشی کو نہ روک سکے۔ دوسری طرف اگر مسلمانوں کی مسلم دنیا کے ساتھ مماثلت کی بنیاد پر پوری مسلم دنیا کی طرف سے تائیدی ردعمل دیکھیں تو وہ سوائے رسمی رد عمل کے کچھ نظر نہیں آتا۔ بلکہ اکثر و بیشتر بوسنیا کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے مغرب ہی کی طرف دیکھتے رہے۔ یہی صورتحال عراق میں صدام حسین کی ہے کہ جب امریکہ کی طرف سے عراق پر یلغار کی گئی تو باوجود ثقافتی اور تہذیبی اقدار کے اشتراک کے عالمِ عرب نے صدام حسین کا ساتھ نہیں دیا بلکہ باہر سے آنے والی حملہ آور قوت یعنی مغربی دنیا کا ساتھ دیا۔ ۷- سیموئیل ہن ٹنگٹن کے تصورات میں تضاد بھی نمایاں ہے کہ ہن ٹنگٹن نے مختلف ممالک کے درمیان وحدت کی اساس ثقافتی اور تہذیبی اشتراک کو قرار دیا جبکہ دوسری جگہ کئی مسلم ممالک اور غیر مغربی اقوام کے درمیان مقصد و ہدف کی وحدت کو اتحاد کی بنیاد بنایا۔۳۶؎ ۸- گو مغربی دنیا کو ہن ٹنگٹن جنگ سے بچنے کی حکمت عملی کی تعلیم دیتا ہے لیکن خود انتہائی تحکمانہ انداز سے اپنے بیان کا اختتام ایک عالمی جنگ پر کرتا ہے اور مزید برآں یہ جنگ بھی اس کی اپنی متعین کردہ رخنہ سرحدوں پر نہیں بلکہ ایک ہی تہذیب میں یعنی چین اور ویتنام کے درمیان ہو گی۔۳۷؎ ۹- ہن ٹنگٹن کے نزدیک مستقبل میں کسی بھی تصادم کی بنیاد تہذیبی اور ثقافتی فرق ہو گا لیکن چینی تہذیب جس میں تائیوان، چین، ویتنام اور کوریا شامل ہیں، ان میں موجود باہمی تنازعات ہن ٹنگٹن کے اس تصور کی نفی کرتے ہیں۔۳۸؎ ۱۰- ہن ٹنگٹن نے تہذیبوں کی اقسام بیان کرتے ہوئے بھی کوئی واضح پیمانہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی تہذیبوں کا صحیح اور جامع انداز سے تعارف کروایا ہے۔۳۹؎ مثلاً اسلام کا ذکر کرتے ہوئے اسلام کی تاریخ اور تہذیبوں کی تاریخ میں اسلام کے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہی صورت کنفیوشس تہذیب کی بھی ہے۔ چین جو کنفیوشس ازم کو ترک کر چکا ہے اسے کنفیوشس تہذیب قرار دینا اور افریقہ کی تہذیبی حیثیت کو کماحقہ بیان نہ کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ۱۱- جمہوریت کے بارے میں بھی ہن ٹنگٹن کے بیانات متضاد حقیقتوں کے علمبردار ہیں۔۴۰؎ ۱۲- مذہب کو بھی ہن ٹنگٹن نے کہیں مثبت اور کہیں منفی انداز سے پیش کیا ہے۔۴۱؎ ۱۳- ہن ٹنگٹن کے پورے نظریے میں یہ خوف غالب نظر آتا ہے کہ مغرب کہیں غیر مغربی اقوام سے مغلوب نہ ہو جائے!۴۲؎ ۱۴- سیموئیل ہن ٹنگٹن کا تصور کلیتاً قنوطی افکار پر مبنی ہے اور کسی طور پر بھی یہ ہمارے سامنے انسانی ترقی کا کوئی ایجنڈا یا پروگرام پیش نہیں کرتا۔ اقبال کا تصور تہذیب اپنی جامعیت، مقصدیت اور تہذیبی محتویات کے احاطے کے لحاظ سے ہن ٹنگٹن اوردیگر مفکرین کے مقابل امتیازی شان کا حامل ہے۔ تہذیب کی مختلف جہات پر اقبال کے افکار ملی حیات افروزی کے مظہر ہیں۔ اقبال کے ہاں تہذیب کا مطالعہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اقبال نے نہ صرف اس تصور کو اپنے غور و فکر کا موضوع بنایا بلکہ اس پر اظہار خیال بھی کیا۔ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: انگلستان میں مَیں نے اسلامی مذہب و تمدن پر لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ایک لیکچر ہوچکا ہے۔۴۳؎ اقبال قوم کو افراد کے علاوہ ایک نامی وجود قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں فرماتے ہیں: قوم ایک جداگانہ زندگی رکھتی ہے یہ خیال کہ اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ یہ اپنے موجودہ افراد کا محض ایک مجموعہ ہے۔ اصولاً غلط ہے۔ اور اس لیے تمدنی اور سیاسی اصلاح کی تمام تجاویزجو اس مفروضے پر مبنی ہوں بہت ہی احتیاط کے ساتھ نظر ثانی کی محتاج ہیں۔ قوم اپنے موجودہ افراد کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بہت کچھ بڑھ کر ہے۔۴۴؎ یہی سبب ہے کہ اقبال کسی قوم یا تہذیب کوایک ایسا نامیاتی کل تصور کرتے ہیں جس کے ایک حصے کی بقا کا انحصار دوسرے حصوں کی کارکردگی پر ہے۔ علم الحیات کے انکشافات جدیدہ نے اس حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھایا ہے کہ کامیاب حیوانی جماعتوں کا حال ہمیشہ استقبال کے تابع ہوتا ہے۔ … علم الحیات کی اس حیرت انگیز حقیقت کو وہ شحص بہ نگاہ استغناء نہیں دیکھ سکتا جس کے پیش نظر سیاسی یا تمدنی اصلاح ہے۔ میں اپنی قوم کی موجودہ عمرانی حرکت پر اسی پہلو سے نظر ڈالنا چاہتا ہوں یعنی اس کی تنقید استقبالی طور پر کرنا چاہتا ہوں۔۴۵؎ اقبال کے ہاں قوم یا تہذیب کا وجود حکمرانوں سے ماورا حقیقت ہے۔ بادشاہ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور اس حیثیت سے صرف اہل ملک ہی غیر فانی ہیں۔۴۶؎ اقبال کے نزدیک کسی قوم یا تہذیب کے عروج و زوال کا عمل قانون قدرت کے تابع ہوتا ہے: قانون انتخاب فطری کے انکشاف عظیم کی بدولت انسان اپنے خانوادہ کی تاریخ کا عقلی تصور قائم کرنے کے قابل ہو گیا۔ حالانکہ پہلے اس تاریخ کے واقعات کی حیثیت اس کے نزدیک حوادث کے ایک فوق الادراک سلسلے سے زیادہ نہ تھی جو بلا کسی اندرونی ترتیب یا غایت کے فرداً فرداً مادر ایام کے سراپا بطن سے پیدا ہو کر گہوارۂ شہود میں نظر آیا کرتے تھے۔۴۷؎ اقبال تہذیبی زندگی کی اساس قومی طرز عمل کی حیات بخشی کو قرار دیتے ہیں: پردۂ استعداد جو مبدء فیاض نے فطرت انسانی میں ودیعت کی ہے اور پردۂ توانائی جو انسان کے دل و دماغ کو بخشی گئی ہے ایک مقصد وحید اور ایک غایت الغایات کے لیے وقف ہے یعنی قومی زندگی جو آفتاب بن کر چمکے قوت سے لبریز ہو ، جوش سے سرشار ہو اور ہر انسانی صنعت اس غایت آخریںکے تابع اور مطیع ہونی چاہیے اور ہر شے کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہونا چاہیے کہ اس میں حیات بخشی کی قابلیت کس قدر ہے۔۴۸؎ اقبال کے ہاں قومی زندگی کی اساس مادی نہیں بلکہ مابعد الطبیعی ہے۔ اس فرق کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا: میرے اور نیٹشے کے نقطۂ نظر میں بنیادی فرق ہے۔ نیٹشے کی طبیعت پر مادیت پسندی کا غلبہ تھا۔ اس نے ہستیِ باری تعالیٰ کا انکار کیا اور اس انکار سے خودی کا انکار لازم ٹھہرا۔ وہ خودی کا منکر ہے۔ خودی اس کے نزدیک کوئی مابعد الطبیعی حقیقت نہیں۔ اس کا فوق البشر بھی قدیم یونانی سورمائوں کا نمونہ ہے۔ وہ ہمیشہ کسی آنے والے کا خواب دیکھتا ہے۔ یہ مجوسی خیالات کا اثر ہے گو تعجب ہے کہ مجوسیت سے اثر پذیری کے باوجود اسے زمانے کی حقیقت سے کیوں انکار ہے۔ ہندوؤں اور یونانیوں کی طرح زمانے کی حرکت بھی اس کے نزدیک دوری ہے اور نتیجہ یہ کہ ہر چیز بار بار آتی رہتی ہے۔۴۹؎ مختلف تہذیبوں میں ارتباط باہمی ایک ایسی حقیقت ہے جو تہذیبوں کی بقا اور تسلسل کا تعین کرتی ہے: زمانہ حال میں کسی جماعت کا محض مقامی قوتوں کے ذریعے نشونما پانا محال ہے۔ ریل اور تار نے زمان اور مکان کے پردے کو درمیان سے اٹھا دیا ہے۔ دنیا کی مختلف قومیں جن میں پہلے بعد المشرقین حائل تھا اب پہلوبہ پہلو بیٹھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس ہم نشینی کا نتیجہ یہ ہونے والا ہے کہ بعض قوموں کی حالت بدل کر ہو جائے گی اور بعض قومیں بالکل ہی ملیامیٹ ہو جائیں گی۔۵۰؎ تہذیبیں ہمیشہ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہتی ہیں: قوموں میں تبدیلیاں دفعتاً نہیں، بلکہ چپ چاپ اور بتدریج رونما ہوا کرتی ہیں۔ یہ ایک عمل ہے جو آپ ہی آپ شروع ہوتا اور آپ ہی آپ جاری رہتا ہے۔۵۱؎ تاہم تبدیلی کے اس عمل کا بامقصد انداز سے جاری رہنا ہی تہذیبی زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے: قوموں کی زندگی تحریکوں سے ہے۔ تحریکیں ہیں تو قومیں بھی زندہ ہیں۔ وہ زندگی کے تقاضوں کو سمجھتی اور ان کے پیشِ نظر مختلف سمتوں میں قدم اٹھاتی ہیں۔ یوں ان کے مستقبل کا رخ متعین ہو جاتا ہے۔ تحریکیں گویا وہ اقدامات ہیں جو زندگی کی پیش رَو حرکت کے باعث ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ لیکن تحریک جب ہی تحریک ہے کہ اس سے قوم کی وحدت میں فرق نہ آئے، بلکہ جس انداز سے بھی آگے بڑھے، اس سے حیاتِ ملّی کو تقویت پہنچے۔ افراد سمجھیں کوئی منزل ہے جو ان کے سامنے ہے اور جس کو انھیں طے کرنا ہے۔ کوئی کام ہے جسے سرانجام دینا ہے۔ زندگی یہ نہیں کہ ہم کسی عقیدے یا نظریے پر قناعت کرکے بیٹھ جائیں اور بے عملی کو عمل قرار دیں۔۵۲؎ اقبال کے تصور تہذیب کا امتیاز یہ ہے کہ علامہ نے اپنے تصور تہذیب کی اساس محکمات پر مبنی اصولوں کو قرار دیا ہے۔ نہ صرف مسلم تہذیب بلکہ عالمی تہذیبی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے اقبال قرآن حکیم سے براہ راست رہنمائی لیتے ہیں۔ یہ مغربی فکر کی بہت بڑی کوتاہی ہے کہ اسلامی تہذیب کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہوئے نہ کسی مفکر نے قرآن حکیم سے استفسار کیا اور نہ قرآن حکیم کے بیان کردہ قانون عروج و زوال کو پرکھا، بلکہ اس اساسی ماخذ کو نظر انداز کر کے علمی غفلت اور تجاہل کا مظاہرہ کیا۔ مثلاً سپنگلر اور ٹائن بی جیسے مفکرین نے قرآن حکیم کا ذکر تک نہیں کیا جبکہ ہن ٹنگٹن نے صرف منفی انداز سے کیا۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق قرآن حکیم تشدد کی تعلیم دینے والی کتاب ہے جس میں امن سے متعلق کوئی تعلیم موجود نہیں۵۳؎ اور دنیا میں مسلمان پر تشدد جدوجہد قرآن سے متاثر ہو کر اور اس پر حلف اٹھا کر شروع کرتے ہیں۵۴؎ جبکہ اقبال کے ہاں دیگر تہذیبوں کے بارے اس طرح کا کوئی اندھا تعصب نہیں پایا جاتا۔ اقبال کے تصور تہذیب کادیگر افکار سے تقابل اقبال کے ان امتیازات کو نمایاں کرتا ہے: ۱- اقبال کے ہاں تہذیب کی اساس روحانی اقدار پر استوار ہے۔ یہ مرتبہ صرف اسلامی تہذیب کوحاصل ہے کہ یہ اعلی اور ابدی روحانی اقدار پر مبنی ہے: کلمہ لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پر مسلمانوں کی قومیت قائم ہے جب مسلمانوں کے اس قومی اصول کا دوسروں کی قومیت کے اصول سے تقابل کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی قومیت غیر مرئی ہے جو نہ ہاتھ سے چھوئی جا سکتی ہے اور نہ آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے بلکہ وہ دل کی چیز ہے۔ دوسروں کا اصول قومیت مادی چیز ہے جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں ایک مسلمان تاتاری ہے، ایک مسلمان کشمیری ہے، ایک مسلمان افغانی ہے مگر جب وہ لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کہتے ہیں تو ان کا تمام اختلاف و امتیاز اس کلمہ کی آتش سے جل کر خاک سیاہ ہو جاتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو یہ نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کہنے سے ہی کوئی شخص مسلمان نہیں ہو جاتا جب تک وہ اسلام کے معاشرت اور تمدن کو اپنے اندر جذب نہ کرے۔ کیونکہ محض عقیدے کے مسلمان معزز ثابت نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان کی عملی زندگی بھی اسلامی تمدن کے مطابق نہ ہو۔۵۵؎ ۲- یہی سبب ہے کہ مسلم امہ کی وحدت کی بنیاد بھی دینی ہو گی۔ کبھی بھی مسلم امہ مادی اقدار یا مادی اساس پر متحد نہ ہو سکے گی: کسی قوم کا اتحاد ختم ہوجائے تو اس کی قدرتاً آرزو ہوتی ہے کہ اپنی کھوئی ہوئی وحدت پھر سے حاصل کرلے۔ یوں ہی اس کی ہمت بندھتی ہے اور یوں ہی اس کا زوال و انتشار، طاقت اور جمعیت سے بدل سکتا ہے۔ بغیر اس کے نہ اس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ ہے، نہ سلامتی کا۔ لیکن یہ وحدت پھر سے پیدا ہوگی تو اسی اصول کی بدولت جس پر اول اول اس کی اساس رکھی گئی اور جس کا اظہار حیاتِ ملی کی مخصوص شکل میں ہوا۔ یہ بڑی غلطی ہوگی اگر ہم اس کے لیے کوئی دوسری اساس تلاش کریں، جیسا کہ ہمارے اربابِ سیاست کر رہے ہیں۔ ناممکن ہے مسلمان اس طرح متحد ہوسکیں۔۵۶؎ ۳- مسلم تہذیب کی سیاسیات کی اساس بھی روحانی نوعیت کی ہو گی۔ اسی پہلو کے باعث علامہ نے مسلم معاشرے کے لیے روحانی جمہوریت کا تصور بھی دیا تھا۔ سیاسیات کی روحانی اساس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سیاسیات کی جڑ انسان کی روحانی زندگی میں ہوتی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلام ذاتی رائے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک سوسائٹی ہے یا پھرسوک چرچ (Civic Church) سیاسیات میں میری دلچسپی بھی دراصل اسی وجہ سے ہے۔۵۷؎ ۴- مسلم تہذیب کی روحانی اساس اس کے رجعت پسند ہونے کی نہیںبلکہ اس کے اقدامی مزاج کی مظہر ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: مسلمانوں کے مذہبی تفکر کی تاریخ میں احمدیت کا وظیفہ ہندوستان کی موجودہ سیاسی غلامی کی تائید میں الہامی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ خالص مذہبی امور سے قطع نظر سیاسی امور کی بنا پر بھی پنڈت جواہر لال نہرو کے شایانِ شان نہیں کہ وہ مسلمانان ہند پر رجعت پسند اور قدامت پسند ہونے کا الزام لگائیں۔۵۸؎ ۵- اقبال مسلم معاشرے کے مختلف مظاہر کی تہذیبی اہمیت اور ثقافتی معنویت کے قائل ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات میں مسلم معاشرے کے مختلف مظاہر سے کس طرح استفادہ ممکن ہے، علامہ فرماتے ہیں: زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے انسانوں کی طبائع، ان کے افکار کے نکتۂ نگاہ بھی زمانے کے ساتھ ہی بدلتے رہتے ہیں اور ان سے استفادے کے طریق بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے مقدس دنوں کے مراسم پر غور کریں اور جو تبدیلیاں افکار کے تغیرات سے ہونی لازم ہیں ان کو مدنظر رکھیں۔ منجملہ ان مقدس ایام کے جو مسلمانوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں ایک میلاد النبیؐ کا مبارک دن بھی ہے۔۵۹؎ ۶- اقوام کی تہذیبی زندگی میں ایسے فکری اور مذہبی رجحانات بھی جنم لیتے رہتے ہیں جن سے اس قوم کا تہذیبی تشخص متاثر ہو سکتا ہے۔ مسلم تہذیب کے حوالے سے علامہ فرماتے ہیں: مسلمانوں کی ذہنی تاریخ میں عجیب قسم کی عقلی اور مذہبی تحریکوں کا نشان ملتا ہے۔ یہ بات کچھ اسلامی تہذیب کی تاریخ سے خاص نہیں بلکہ دنیا کی ہر تہذیب کی تاریخ میں ایسی تحریکیں پیدا ہوا کرتی ہیں اور مرور زمانہ سے ان تحریکوں میں ایسے عناصر کی آمیزش بھی ہو جاتی ہے جو اس تہذیب کی خاص روایات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔۶۰؎ ۷- تہذیبی فکر کے باب میں اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ اقبال کے ہاں تہذیبی افکار صرف افکار نہیں بلکہ خود اقبال کی ذات کا حصہ ہیں۔ مسلم تہذیب کی جامعیت اور مثالی ہونے پر اقبال کے یقین کا اندازہ ان کے اس بیان سے ہوتا ہے: میں مسلمان ہوں اور ان شاء اللہ مسلمان مروں گا! میرے نزدیک تاریخِ انسانی کی مادی تعبیر سراسر غلط ہے۔ روحانیت کا میں قائل ہوں مگر روحانیت کے قرآنی مفہوم کا… باقی رہا سوشلزم، سو اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے جس سے مسلمان سوسائٹی نے آج تک بہت کم فائدہ اْٹھایا ہے۔۶۱؎ تہذیبوں اور اقوام کے زوال کے باب میں اقبال کی فکر دیگر مفکرین سے کئی حوالوں سے امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔ تہذیبوں کے عناصر ترکیبی اور اجتماعی اوصاف میں تنوع و تفریق کے باعث اقبال مختلف تہذیبوں کے زوال کے اسباب مختلف قرار دیتے ہیں۔ اقبال نے ’تقدیرامم دیدم پنہاں بکتاب اندر‘۶۲؎ کہہ کر یہ واضح کردیا ہے کہ انھوں نے اقوام کے عروج و زوال کے ضابطے براہ راست قرآن حکیم سے اخذ کیے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کی اس حیثیت کو بیان کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں، ’ اندر و تقدیر ہائے غرب و شرق‘۶۳؎ ۔ قرآن حکیم نے کئی گزشتہ اقوام کے احوال بیان کر کے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اہل فکر و دانش اس بنیادی سوال پر غور کریں کہ اقوام ماسبق کن اوصاف کے باعث عروج و ترقی کی راہ پر گامزن رہیں اور کن معائب کے باعث زوال کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں کہ آج ان کا تذکرہ صرف آثار قدیمہ میں ہی باقی ہے۔ قرآن حکیم میں موجود اقوام ما سبق کے تذکرے سے تہذیبوں اور اقوام کے زوال کے عمل کے درج ذیل تین نکات سامنے آتے ہیں: ۱- تہذیبوں کے زوال کا باعث بننے والے ہر واقعہ کا کوئی سبب اس تہذیب کی اجتماعی زندگی میں موجود تھا۔۶۴؎ ۲- اقوام عالم اور تہذبیوں کو بتدریج زوال آشنا واقعات سے گزارا جاتا ہے تاکہ وہ اصلاح احوال کر کے زوال کے حال سے نکل سکیں۔۶۵؎ ۳- اگر کسی قوم اور تہذیب پر زوال کی کیفیت طاری ہوجائے تو وہ قوم اپنے انفس اور اعمال و احوال میں تبدیلی پیدا کرکے اس کیفیت کا ازالہ کر سکتی ہے۔۶۶؎ قرآن حکیم اقوام عالم کو اپنی تہذیبی زندگی کے تسلسل، ارتقا اور بقا کے لیے جو رہنمائی فراہم کرتا ہے اس کا منہج یہ ہے: ۱- اقوام اور تہذیبوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے واضح اصول بیان کیے جاتے ہیں۔۶۷؎ ۲- ان اصولوں کے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مؤثر ہونے کے لیے اقوام ماسبق کے احوال سے نظائر پیش کیے جاتے ہیں تاکہ یہ اصول صرف پند و موعظت نہ رہیں بلکہ کائناتی اہمیت کے حامل قانون بن جائیں۔۶۸؎ ۳- ان اصولوں کے قابل عمل ہونے کا طریق بیان کیاجاتا ہے۔۶۹؎ ۴- ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے پر ان کی اثر انگیزی اور نتیجہ خیزی کی ضمانت دی جاتی ہے۔۷۰؎ ۵- ان اصولوں کو نظر انداز کرنے کی صورت میں اُن عواقب سے آگاہ کیا جاتا ہے جو کہ زوال اور مکمل تباہی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔۷۱؎ قرآن حکیم نے انفرادی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اجتماعی زندگی کی ان اقدار کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جو کسی تہذیب کی حیات اجتماعی کے لیے نا گزیر ہیں۔۷۲؎ قرآن حکیم کے مطابق کسی بھی قوم یا تہذیب کا زوال یا خاتمہ محض تاریخی حادثہ نہیں تھا،۷۳؎ کیونکہ بغیر واضح اسباب اور جواز کے کسی تہذیب یا قوم کو تباہ کردینا سنت الٰہی کے خلاف ہے۔۷۴؎ بلکہ ہر قوم اور تہذیب نے کائناتی قوانین بقا سے رو گردانی کی اور اس طرح اپنے زوال اور تباہی کا جواز خود فراہم کیا۔۷۵؎ تہذیبوں کے زوال کے بارے میں اقبال کا تصور رجائی اور حیات افروز نوعیت کا حامل ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ ہر قوم کے زوال کا ایک لمحہ مقرر ہے جسے ’اجل‘۷۶؎ کہا گیا ہے اور ہر ’اجل‘ کے نفاذ اور رو بہ عمل ہونے کا ایک ضابطہ ہے جسے ’کتاب‘۷۷؎ کہا گیا ہے۔ مگر ملت اسلامیہ اور اسلامی تہذیب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ملت محمدیہ نہایت زمانی ہم ندارد کہ دوام ایں ملت شریفہ موعود است۔ رموز بے خودی میں فرماتے ہیں: گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد از اجل فرماں پذیرد مثل فرد امت مسلم ز آیات خداست اصلش از ہنگامہ قالوا بلیٰ ست از اجل ایں قوم بے پروا ستے استوار از نحن نزلنا ستے ذکر قائم از قیام ذاکر است از دوام او دوام ذاکر است تا خدا ان یطفؤا فرمودہ است از فسردن ایں چراغ آسودہ است۷۸؎ ـئ…ئ…ء حوالہ جات 1- Stracke, Christian, (1997), The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, Journal of International Affairs, Columbia Universtiy School of International Public Affairs, Vol. 51(11), pp. 302-303. 2- Huntington, Samuel P., The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, Rochefeller Center, 1230 Avenue of the Americas, NY 10020, New York: Touchstone, 1996: p.76 -78. 3- Crandall R., Mexico's Domestic Economy, (Mexico's Democracy at Work: Political and Economic Dynamics, Crandall, Paz and Roett ed.), United States, USA, Boulder: Lynne Reiner Publishers., 2004, p.113. 4- Hooper, Alan, and Potter, John, Intelligent Leadership --- Creating a Passion for Change, London: Random House, 2000, p.139. 5- Huntington, Samuel P., The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, Rochefeller Center, p.45. 6- Ibid, p.121. 7- Rubenstein, Richard E. and Crocker, Jarle, Challenging Huntington, Foreign Policy, No. 96, autumn, 1994, pp. 113-128. 8- The New York Times, Samuel P. Huntington of Harvard Dies, December 2008, p.81. 9- Los Angeles Times, 2008, Dec 30. 10- Ibid. 11- Huntington, Samuel P., Who Are We? The Challenges to America's National Identity, USA, NY: Simon & Schuster, 2004, p.55. 12- The Guardian, Davos man's death wish, Feb. 3, 2006. 13- Huntington, Samuel P., The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, Rochefeller Center, pp￿. 207-8, 245, 246-65, 266-98. 14- Ibid, pp. 208, 217, 272-92. 15- Ibid, pp. 102, 103, 116-120. 16- Ibid, pp. 232, 235. 17- Ibid, pp. 36-39, 41-42, 208. 18- Ibid, pp. 32, 33, 44-49, 203, 228. 19- Ibid, pp. 45-51, 61, 67. 20- Ibid, pp. 68-78, 88, 95-99. 21- Ibid, pp. 20, 47, 68, 72. 22- Ibid, pp. 76, 116, 125, 129. 23- Ibid, pp. 73, 92-93, 170, 177, 185. 24- Ibid, pp. 93-96. 25- Ibid, pp. 53-54, 81-101, 193-98. 26- Ibid, pp. 127, 131-132, 134, 192-196. 27- Ibid, pp. 183, 198, 219, 247, 259,262. 28- Ibid, pp. 102-109, 116-120, 259-61. 29- Ibid, pp. 251-52. 30- Ibid, pp. 313-316. 31- Ibid, pp. 50-53, 81-82, 301-8. 32- Ibid, pp. 318-21. 33- Ibid, pp. 46, 109, 134-6. 34- Ibid, pp. 102-109, 116-120, 259-61. 35- Ibid, pp. 73, 92-93, 170, 177, 185. 36- Ibid, pp. 242, 243. 37- Ibid, pp. 313-316. 38- Ibid, pp. 45-47. 39- Ibid. 40- Ibid, pp. 150-153, 212-14, 237. 41- Ibid, pp. 21, 64-66, 139. 42- Ibid, pp. 312-318. ۴۳- اقبال، اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال، شیخ عطاء اللہ(مرتب)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص۶۰۸۔ ۴۴- عبدالغفار شکیل، (مرتب)، اقبال کے نثری افکار، ص ۲۲۳۔ ۴۵- ایضاً۔ ۴۶- لطیف احمد خان شیروانی، (مرتب)، حرفِ اقبال، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، ۱۹۸۴ئ، ص ۷۳۔ ۴۷- عبدالغفار شکیل، (مرتب)، اقبال کے نثری افکار، ص ۲۲۱۔ ۴۸- ایضاً، ص ۱۳۲۔ ۴۹- سید نذیر نیازی، (مرتب)، اقبال کے حضور، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص ۶۵۔ ۵۰- عبدالغفار شکیل، (مرتب)، اقبال کے نثری افکار، ص ۲۳۸۔ ۵۱- سید نذیر نیازی، (مرتب)، اقبال کے حضور، ص ۱۳۴۔ ۵۲- ایضاً، ص ۲۸۶۔ 53- Huntington, Samuel P., The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, Rochefeller Center, p.263. 54- Ibid, p.268. ۵۵- عبدالغفار شکیل، (مرتب)، اقبال کے نثری افکار، ص ۳۰۴۔ ۵۶- سید نذیر نیازی، (مرتب)، اقبال کے حضور، ص ۳۱۴۔ ۵۷- لطیف احمد خان شیروانی، (مرتب)، حرفِ اقبال، ص ۵۳۔ ۵۸- ایضاً، ص ۱۳۳۔ ۵۹- عبدالغفار شکیل، (مرتب)، اقبال کے نثری افکار، ص ۱۷۵۔ ۶۰- ایضاً، ص ۹۳۔ ۶۱- اقبال، اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال، ص ۲۴۳۔ ۶۲- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، ص ۶۳۰۔ ۶۳- ایضا، ص ۶۶۹۔ ۶۴- القرآن، ۱۱:۱۱۷۔ ۶۵- القرآن، ۹: ۱۲۶۔ ۶۶- القرآن، ۱۰: ۹۸۔ ۶۷- القرآن، ۲: ۳۸۔ ۶۸- القرآن، ۲۰: ۹۹۔ ۶۹- القرآن، ۷: ۹۶۔ ۷۰- القرآن، ۱۷: ۹۔ ۷۱- القرآن، ۲۳: ۷۷۔ ۷۲- القرآن،۲: ۸۳، ۵۷: ۲۷۔ ۷۳- القرآن، ۴:۱۴۷۔ ۷۴- القرآن، ۲:۵۷، ۳:۱۱۷، ۶:۱۳۱، ۷:۱۶۰، ۹:۷۰، ۱۰:۴۴، ۱۱:۱۰۱، ۱۱:۱۱۷، ۱۶:۱۱۸، ۲۶:۲۰۸، ۲۸:۵۹، ۲۹:۴۰، ۳۰:۹۔ ۷۵- القرآن، ۳:۱۳۷، ۳:۱۸۲، ۵:۶۶، ۶:۴۷، ۷:۹۶، ۱۸:۵۹، ۲۷:۶۹، ۳۰:۴۲، ۳۶:۳۵، ۴۰:۲۱، ۴۴:۳۷، ۴۷:۱۰۔ ۷۶- القرآن، ۷:۳۴، ۱۰:۴۹۔ ۷۷- القرآن، ۱۳:۳۸۔ ۷۸- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، طبع پنجم، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۱۱۹۔ ئ…ئ…ء ہَن ٹِنگ ٹَن اور اقبال کا تصور تہذیب ڈاکٹر محمد آصف ’’تہذیبی تکثیریت‘‘، ’’تہذیبی آفاقیت‘‘، ’’تہذیبی تصادم‘‘، ’’تہذیبی ہم آہنگی‘‘، ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘، ’’نیا عالمی نظام‘‘ عصر حاضر کے اہم ترین مسائل اور مباحث کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مغرب کے جدید سیاسی افکار کا تجزیہ کیا جائے تو پوری مغربی سیاسی فکر ہمارے عہد کے دو مغربی سیاسی مفکرین کے افکار و تصورات کے گرد گردش کرتی نظر آتی ہے۔ یعنی فوکویاما(Fukuyama) اور ہَن ٹِنگ ٹَن (Huntington)۔ بالخصوص ہَن ٹِنگ ٹَن نے اپنے نظریے (Theory) تہذیبوں کے تصادم (The clash of civilizations) کی بدولت پوری دنیا کو سیاسی، معاشی اور تہذیبی حوالوں سے ایک نئے رخ پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیموئیل پی ہَن ٹِنگ ٹَن (Sammuel P. Huntington) ہارورڈ یونیورسٹی میں البرٹ جے ویدرہیڈ تھرڈ یونیورسٹی پروفیسر (Albert J.Weatherhead III University Professor)، جان ایم اولن انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز ڈائریکٹر (Director of the John M. Olin Institute for strategic studies)، کارٹر انتظامیہ میں نیشنل سیکورٹی کونسل کا ڈائریکٹر(Director of security planning for national security council in carter administration ،فارن پالیسی (Foreign Policy) کا بانی اور شریک مدیر اور امریکن پولٹیکل سائنس ایسوسی ایشن کا صدر (President of the American Poltical Science Association) کے مناصب پر فائز رہا ہے۔۱؎ ہَن ٹِنگ ٹَن کا مضمون ’’تہذیبوں کا تصادم؟‘‘ (The clash of civilizations?)، سب سے پہلے ۱۹۹۳ء میں موسم گرما کے جریدے Foreign Affairs میں شائع ہوا تھا جس پر بہت زیادہ متنازع مباحث وجود میں آئے۔ اسی موضوع کو زیادہ بھرپور، گہرائی اور مفصل دستاویزات سے آراستہ کرکے اس نے اپنی کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیلِ نو‘‘(The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order) میں ۱۹۹۷ء میں پیش کیا۔ اس کتاب میں موجود تصورات سے اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر حقیقت یہی ہے کہ یہ کتاب گزشتہ ۱۵ برسوں میں شائع ہونے والی مشہور ترین اور متنازع کتابوں میں سے ایک ہے۔ چنانچہ یہاں اگر اس کتاب میں موجود تصورات کا مختصر تعارف (اور اس طرح ہَن ٹِنگ ٹَن کے نظریات سے سرسری آگاہی) حاصل کرلیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کتاب میں کیمونزم کی شکست وریخت کے بعد پیدا ہونے والی نئی عالمی سیاسی صورتحال پر گہری نظر ڈالی گئی ہے۔ہَن ٹِنگ ٹَن کے نزدیک عصرِ حاضر کی عالمی سیاست میں اقوام اور نظریات کی جگہ تہذیبوں نے لے لی ہے۔ مابعد سرد جنگ کی دنیا میں تاریخ میں پہلی عالمی سیاست کثیر قطبی اور کثیر تہذیبی ہوگئی ہے۔ اقوام کے درمیان اہم ترین امتیازات اب نظریاتی سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ تہذیبی و ثقافتی ہیں اب اہمیت تہذیبوں کے تصادم کی ہے۔ دراصل سرد جنگ کے بعد فوکو یاما (Fukuyama) نے ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کے روپ میں مغربی تہذیب کی آفاقیت کو پیش کیا تھا۔ اس کے برخلاف ہَن ٹِنگ ٹَن (Huntington) نے تہذیبی تکثیریت اور تہذیبوں میں تصادم کا نظریہ پیش کیا۔ اس کے نزدیک سرد جنگ کے بعد تہذیبی شناخت دنیا میں انتشار اور تصادم کے تانے بانے بن رہی ہے۔ مغرب دوسری تہذیبوں بالخصوص اسلام اور چین سے زیادہ سے زیادہ متصادم ہو رہا ہے۔ اس کے نزدیک اسلام اور کنفیوشین تہذیبیں چونکہ مغرب سے مختلف روایات کی حامل ہیں۔ انسان دوستی اور آزاد خیالی ، جمہوریت پسندی، انسانی حقوق کی برتری، کلیسا اور ریاست کی علیحدگی اسلامی اور چینی تہذیبوں میں نہیں پائی جاتیں اس لیے مغربی تہذیب کا تصادم چینی بالخصوص اسلامی تہذیب سے ہونا ناگزیر ہے۔ اس کے نزدیک چین علیحدگی پسندی، سکون اور ٹھہرائو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ اسلام میں تشدد، بنیاد پرستی، دہشت گردی، تنگ نظری اور احیا کے شدت پسندانہ جذبات کارفرما ہیں، اس لیے چینی تہذیب سے بھی زیادہ اسلام مغرب کے لیے خطرہ ہے۔ اگرچہ اس نے انتہائی مدلل انداز میں تاریخی و سیاسی تناظر میں مغرب کے عروج کے ساتھ اس کے زوال پر تبصرہ کیا ہے۔ مشرق کے اثبات اور اسلامی احیا پر روشنی ڈالی ہے اور مغرب کی دوغلی ، منافقانہ اور سامراجی نوعیت کی پالیسیوں اور تہذیبی غرور پر تنقید کی ہے، مغربی آفاقیت کو ملوکیت کا ایک روپ قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ تہذیبوں کے مشترک خواص کی بنا پرایک بین التہذیبی ہم آہنگی اور امن وامان کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس کے نزدیک امن قائم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام تہذیبیں دوسری تہذیبوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے افہام و تفہیم اور تعاون کی راہ اختیار کریں لیکن اس سے زیادہ وہ تصادم کا نقشہ کھینچتا ہے اور اپنے کثیر تہذیبی نظریے کو تصادم کا نظریہ بنا دیتا ہے۔ اس طرح اس کی تہذیبی تکثیریت ہم آہنگی کے بجائے تصادم کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے زوال اور مشرق کی بیداری سے خوفزدہ ہے۔ اس کے نزدیک مغربی تہذیب اس وقت سب سے مختلف، منفرد اور طاقتور تہذیب ہے لیکن وہ خوفزدہ ہے کہ مغرب عروج پر ہونے کے باوجود زوال پذیر ہے کیونکہ اب طاقت ایشیا کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ ان حالات میں مغرب کی بقااس میں ہے کہ اہلِ مغرب اپنی تہذیبی شناخت کا اِدّعا کریں، وہ اپنی تہذیب کو آفاقی نہیں منفرد سمجھیں۔ غیر مغربی معاشروں بالخصوص (چین اور اسلام) کے خلاف متحد ہو جائیں۔ اپنے معاشی اور عسکری وسائل کا اظہار، دھمکیوں کا مہارت سے استعمال، چینی غلبے اور اسلامی احیا کا مقابلہ متحد ہو کر کریں۔ دوسری قوموں کے درمیان اختلافات کی پالیسی کو اختیار کریں۔ اگرچہ ہَن ٹِنگ ٹَن نے ’’آفاقی تہذیب‘‘کے بجائے ’’تہذیبی تکثیریت‘‘ کا نظریہ پیش کیاہے۔امن وامان اور ہم آہنگی کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے لیکن اس کے بے شمار بیانات مغرب کی اسی سامراجی ذہنیت، تہذیبی تکبر اور تعصب کا اظہار کرتے ہیں جو ’’سفید آدمی کے بوجھ‘‘کی اصطلاح اور ’’آفاقی تہذیب‘‘کی اصطلاح سے مترشح ہوتی ہے۔ کثیر تہذیبی دنیا میں رواداری،اعتدال اور انسانی حقوق کی پاسداری اور بے تعصبی کی ضرورت ہوتی ہے جو کم ازکم اسلام کے حوالے سے اس کے ہاں مفقودنظر آتی ہے۔ گویا یہ بھی ایک نیا ڈسکورس ہے جو طاقتور قوم کی طرف پسماندہ اقوام کی نفسیات کے عین مطابق استعمال ہوا ہے۔ ان کی نفسیات و خواہشات کے مطابق ان کے تہذیبی وجود کو تسلیم کرلیا گیا ہے لیکن عالمی سکون اور امن وامان کے لیے نہیںبلکہ مغرب کو متحد کرنے، مستحکم کرنے اور کئی کمزور تہذیبوںکے وجود پر مغرب کی تہذیبی برتری کو قائم رکھنے کے لیے کیونکہ اس کے نزدیک اس کثیر تہذیبی دنیا میں مغربی تہذیب ہی ارفع واعلیٰ ہے ۔ اس نے اس کتاب کو مستقبل کی پالیسی کے لیے مفید قرار دیا ہے۔ چنانچہ سرد جنگ کے خاتمے اور پھر ۱۱/۹ کے بعد سے مغرب بالخصوص امریکہ کی جو پالیسی مسلمانوںکے بارے میں ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔۲؎ ابتدا میں ذکر کیا گیا ہے کہ موجودہ مغرب کی سیاسی فکر ہَن ٹِنگ ٹَن اور فوکویاما کے نظریات کے گرد گردش کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ہَن ٹِنگ ٹَن نے فوکویاما کے تصور ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ کے بعد بلکہ اس کے ردِ عمل میں اپنے تصورات کو پیش کیا ہے لہٰذا ہَن ٹِنگ ٹَن کے اس تناظر یعنی فوکویاما کے تصورات سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ سرد جنگ میں بالآخر لبرل جمہوریت فتح یاب ہوگئی۔ تخلیقی عمل اور سیاسی ،معاشی، عسکری، تنظیمی سطح پر اس مقام پر پہنچ گئی جہاں مغرب نے کامیابی کے نشے میں سرشار ہوکر تاریخ کے خاتمے کے حوالے سے آفاقی تہذیب کا نیا فلسفہ پیش کردیا۔ فرانسس فوکو یاما (Francis Fukuyama)نے ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘(End of History۔۱۹۹۲ئ)میں اس موقف کا اظہار کیا کہ انسان فطری طورپر آزادی، برابری اور خود توقیری کا خواہش مند ہے۔ دنیا میں جتنی جنگیں ہوئیں وہ اسی خواہش کا مظہر ہیں ۔ انسان کی یہ خواہش ’’آزاد جمہوری نظام‘‘ اور ’’انفرادی خوشحالی‘‘ میں مضمر ہے۔ جیسے جیسے لبرل (آزاد) جمہوریت اورمعیشت کا نظام قائم ہوتا جائے گا۔ قوموں کے درمیان جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔ انسان انسان کی حیثیت سے پہچانا جائے گا اور یہ تاریخ کا اختتام ہوگا۔ انسان آزادی کا متمنی ہے۔ یہ اسے لبرل (آزاد) جمہوریت میں ملے گی۔ انسان معاشی ضرورت کے ہیجان میں پریشان ہوتا ہے، یہ پریشانی آزادانہ بین الاقوامی تجارت سے دور ہو جائے گی۔ لبرل جمہوریت کی فتح کے روپ میں انسان تاریخ کے ایسے ہی مقام پر پہنچ چکا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ کہ لبرل جمہوریت ہی انسان کا آفاقی مقدر ہے۔’’انسانیت کی تاریخ اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔ انسان نے اپنے اس مقام کی تلاش میں کئی خونریز لڑائیاں لڑی ہیں مگر اب تاریخ کی آخری حد یہ ہے کہ وہ ایک آفاقی اور یک نوعیتی ریاست کے قیام میں باہمی مطابقت سے آفاقی موافقت میں ڈھل گیاہے۔ اب اسے اپنے مقام کی پہچان کے لیے کسی تگ و دو کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘ اب انسان مطمئن ہے وہ آزاد جمہوری سیاست اور آزاد منڈیوں میں آزادانہ تجارت کے اصولوں پر پابند رہ کر سیاسی آزادی اور خوشحالی کی نعمتوں سے مستفید ہو رہاہے۔ لہٰذا اب اسے کسی تاریخ ساز جدوجہد کی ضرورت نہیں رہی۔ جس راہ پر اب ریاستیں چل پڑی ہیں وہ انسان کی ترقی کا آخری راستہ ہے جس میں ’’سیاست اور معیشت اپنے باہمی تعلق کی بنا پر‘‘ قومی زندگی کو استوار کر رہی ہیں ۳؎ ’’ہوسکتا ہے ہم تاریخ کا خاتمہ دیکھ رہے ہوں۔ یعنی بنی نوعِ انسان کے نظریاتی ارتقا کا آخری نقطہ اور مغربی لبرل جمہوریت کا انسانی حکومت کی حتمی شکل میں آفاقی حیثیت اختیار کرلینا۔‘‘۴؎ یہ مغرب کا آفاقی تہذیب کا تصور ہے۔ ہَن ٹِنگ ٹَن نے (بظاہر) اس کو رد کرتے ہوئے اس کے ردعمل میں اپنا تہذیبی تکثیریت اور تہذیبی تصادم کا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے: سامراجیت آفاقیت کا لازمی ومنطقی نتیجہ ہے۔ یہ عمل صرف مغربی طاقت کی توسیع، اطلاق اور اثرات کے نتیجے میں ہوگا‘‘ ۔’’آفاقی تہذیب کا تصور مغربی تہذیب کی مخصوص پیداوار ہے ۔انیسویں صدی میں ’’سفید فام آدمی کے بوجھ ‘‘کے تصور نے غیر مغربی معاشروں پر مغرب کے سیاسی اور معاشی غلبے کا جواز فراہم کیا۔ بیسویں صدی کے اختتام پر آفاقی تہذیب کا تصور دوسرے سماجوں پر مغربی ثقافتی بالادستی اور ان سماجوں کے مغربی رواجوں اور اداروںکی نقالی کرنے کی ضرورت کا جواز فراہم کر رہاہے۔ آفاقیت غیر مغربی ثقافتوں سے محاذ آرائی کے لیے مغرب کا نظریہ ہے۔۵؎ کیا واقعی ہَن ٹِنگ ٹَن آفاقی تہذیب کے تصور کو رد کرتا ہے یا ایک نئے ڈسکورس میں (تہذیبی تکثیریت کے روپ میں) اسی تصور کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس سوال کا جواب درج ذیل بحث میں موجود ہے۔ ہَن ٹِنگ ٹَن سمیت اکثر مؤرخین اور ماہرین موجود دنیا میں اور دنیا کی تاریخ میں تہذیبی تکثیریت کے قائل ہیں۔ مختلف مؤرخین نے تاریخ میں بڑی بڑی تہذیبوں کی نشاندہی کی ہے۔ اسپینگلر (Spengler)، ٹائن بی (Toynbee)، کوئیگلی (Quigley) ، مک نیل(Mc Neill)،بیگ بے (Bagby)، برائوڈل (Braudal)، روسٹووانی(Rostovanyi)،میلکو(Melko) وغیرہ کثیر تہذیبی تصور کے قائل ہیں۔ خود ہَن ٹِنگ ٹَن نے موجودہ دور میں آٹھ بڑی تہذیبوں کی نشاندہی کی ہے۔ ۱-صینی/چینی/ کنفیوشسی۔ ۲-جاپانی۔ ۳-ہندو۔ ۴-اسلامی۔ ۵-مغربی۔ ۶-آرتھو ڈوکس ۔۷-لاطینی امریکی۔ ۸۔افریقی (ممکنہ)۔۶؎ گویا ہر دور میں بیک وقت مختلف تہذیبیں موجود رہی ہیں۔ آج جبکہ مغربی تہذیب عروج پر ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اسلامی، چینی، جاپانی تہذیبیں بھی مسلسل اپنا اثبات کر رہی ہیں ماضی میں جبکہ اسلامی تہذیب عروج پر تھی تو اس کے ساتھ مغربی تہذیب بھی موجود تھی چینی بھی، جاپانی بھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تاریخی اعتبار سے کثیر تہذیبی صورتحال رہی ہے اور آج بھی موجود ہے تو کیا کسی تہذیب کی آفاقیت ممکن ہے؟ بالعموم ’’آفاقی تہذیب‘‘کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ تمام تر بنی نوع انسان تہذیبی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ پوری دنیا میں اقوام ایک جیسی اقدار، ایک جیسی رسومات و رواج، ایک جیسے خیالات و عقائد، ایک جیسے اداروں گویا ایک ہی تہذیب کو قبول کرتے ہیں۔ آفاقیت کے بارے میں ہَن ٹِنگ ٹَن کا وہ بیان جو اس سے قبل درج کیا گیا ہے اس سے آفاقیت کے پس منظر، نوعیت اور مقاصد پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ آفاقی تہذیب کا تصور مغربی تہذیب کا پیدا کردہ ہے۔ انیسویں صدی میں یورپ کے نو آبادیاتی سامراج کے تصور ’’سفید آدمی کا بوجھ‘‘نے استعماری فتوحات اور سیاسی و معاشی غلبے کی توسیع کا جواز فراہم کیا، بیسویں صدی میں امریکی سرمایہ داری نے لبرل ازم، جمہوریت اور ٹیکنالوجی کے نام پراس ’’مشن‘‘ کو آگے بڑھایا اور اب عہد جدید میں ایک عالمی نظام یا عالمی تہذیب کا تصور مغربی ثقافتی بالا دستی کا جواز فراہم کر رہاہے۔ تہذیبی آفاقیت دوسری تہذیبوں، دوسرے معاشروں اور دوسرے ملکوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے مغرب کا نظریہ ہے۔ حقیقت میں اس کی جڑیں دو صدیوں پہلے یورپی سامراج کے تصور میں موجود ہیں۔ انیسویں صدی میں یورپی سامراج کے نوآبادیاتی نظام کے تصور اور اس کی فتوحات کا مقصد بھی یہی تھا ۔ بیسویں صدی میں امریکی سرمایہ داری کا مطمحِ نظر بھی یہی تھا اور اب نیو ورلڈ آرڈر یا عالمی تہذیب کا نقطۂ نظر بھی یہی سامراجی تسلط ہے۔ جب مغرب عالمی تہذیب یا عالمی نظام کی بات کرتا ہے تو وہ اپنی تہذیب کی بات کرتا ہے، اپنی تہذیب کے رواج اور تسلط کی بات کرتا ہے جو جدید مغربی سامراج کی ایک بھیانک شکل ہے۔۷؎ انیسویں صدی میں جب کپلنگ(Kipling) نے ’’سفید آدمی کے بوجھ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۸؎ اس وقت بھی تیسری دنیا پر حکومت کے لیے مغربی سامراج کی راہوں کو ہموار کرنا مقصود تھا ، آج جب فوکو یاما (Fukuyama) ’’تاریخ کے خاتمہ‘‘ کی بات کرتا ہے کہ نظریاتی کشمکش ہی انسانی تاریخ کے ارتقا کی حقیقی محرک ہے اور مغرب نے سویت یونین کو شکست دے کر مغربی لبرل جمہوریت کی فتح کو ثابت کردیا ہے، گویا آج مغربی لبرل جمہوریت اپنی آفاقی شکل میں سامنے آ گئی ہے۔ دنیا کے سامنے اب ایک ہی راہِ نجات ہے ۔ امریکی اسلوبِ زیست کا راستہ۔۹؎ تو اس کا مقصد بھی مغربی سامراج کی راہوں کو ہموار کرنا ہے۔ گویا آفاقی تہذیب کایہ تصور مغرب کا سامراجی تصور ہے اور اسی تہذیبی مشن کا حصہ ہے جو مغرب نے نو آبادیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے وضع کیا۔ آفاقی تہذیب کایہ ملوکانہ تصور انسانی اور تہذیبی نفسیات کے خلاف ہے کیونکہ ہر تہذیب اپنا اثبات چاہتی ہے۔ عہد جدید میں فوکویاما نے تاریخ کی پختگی کے تصور کے تحت مغربی لبرل جمہوریت کی آفاقیت کا جو تصور پیش کیا ہے کہ اب مغرب کی آزاد جمہوریت اور آزاد تجارت ہی انسانی فلاح ونجات کا واحد راستہ ہے، اگر ہَن ٹِنگ ٹَن کے ڈسکورس کا تجزیہ کیا جائے تو اس کا تہذیبی تکثیریت کا نظریہ بھی بالآخر اسی مغربی آفاقی تہذیب کے تصور میں بدل جاتا ہے۔ اس کے نزدیک چینی، جاپانی، ہندی، افریقی، لاطینی ، امریکی اور اسلامی سب تہذیبیں جس اکیلی توانا اور طاقتور تہذیب سے ٹکرا رہی ہیں وہ جدید مغربی تہذیب ہے۔ وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فی الوقت مغرب (یعنی انسانیت) کو سب سے بڑا خطرہ بنیاد پرستی ، تنگ نظری، تشدد، جہالت اور آمریت کی وجہ سے اسلامی تہذیب سے ہے۔ چنانچہ آج اگرچہ مغربی تہذیبوں کی بنیادوں میں زوال کے آثار دکھائی دے رہے ہیں تاہم مغربی تہذیب آج بھی دنیا کی تمام تہذیبوں میں اپنی روشن خیالی، سائنسی ترقی، جمہوری اقدار، انفرادیت پسندی، سائنسی ترقی اور سیکولر ازم کی وجہ سے سب سے منفرد اور طاقتور تہذیب ہے اور ایک مہذب اور ترقی یافتہ تہذیب ہونے کی وجہ سے یہ مغرب کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اسلامی تہذیب کو بلکہ تمام دنیا کو مہذب اور ترقی یافتہ بنائے۱۰؎بالفاظ دیگر مغربی مفکرین و سیاسیین کے نزدیک مغرب ہی دنیا کا واحد نجات دہندہ ہے اور انسانیت کی شرفِ عظمت کا واحد معیار مغربی تہذیب ، مغربی لبرل جمہوریت ہے جس کی قیادت کاالوہی و تہذیبی فریضہ (مشن) یورپ کے بعد اب امریکہ کو سونپا گیا ہے۔ بین الاقوامی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو صاف محسوس ہوجاتا ہے کہ مغربی تہذیب آج امریکہ کی قیادت میں ایک زبردست تہذیبی تکبر’’ خبط ِ عظمت‘‘ اور آفاقیت کے جنون میں مبتلا ہے اور اس کے سامنے ہَن ٹِنگ ٹَن کا فکری زاویہ رہنمااصول کے طور پر موجود ہے جس میں تہذیبی تکثیریت کا نظریہ تہذیبوں کے تصادم اور بالآخر مغربی سامراجیت کے غلبے پر دلالت کرتا ہے اور اس کی بنیاد فوکو یاما کے آفاقی تصور نے مہیا کی ہے۔ گویا ہَن ٹِنگ ٹَن نے فوکویاما کی فکری بنیاد پر ہی اپنا تہذیبی تکثیریت اور تہذیبی تصادم کا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ اپنی بات تہذیبی آفاقیت کے ردعمل میں شروع کرتا ہے لیکن سامراجی عزائم کے تحت بین السطور گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں فوکویاما پہنچا تھا۔ اس طرح دونوں مفکرین کے نزدیک مغرب ہی دنیا کا واحد نجات دہندہ ہے۔ آفاقیت کا یہ مغربی سامراجی نظریہ باقاعدہ نظریے کے طور پر اب سامنے آیا ہے لیکن اس کی جڑیں مغربی تہذیبی مشن کی طویل تاریخ میں پیوست ہیں۔ (جیسا کہ گذشتہ صفحات میں ذکر ہوا) عالمگیریت پر مبنی اِس سامراجی آفاقی نظریہ کا سب سے زیادہ شدید حملہ جدید دنیائے اسلام پر ہوا ہے۔ مثلاً ڈینیل پائپس (Daniel Pipes)لکھتا ہے کہ ’’اسلام جدید بننے کے لیے کوئی متبادل طریقہ فراہم نہیں کرتا‘‘۱۱؎ ہَن ٹِنگ ٹَن کی کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ دراصل انہی نئی پرانی عصبیتوں کو ابھارنے کی ایک مذموم کوشش ہے جو جدید ترین پوشیدہ ڈسکورس میں کی گئی ہے مثلاً اسلام کو متشدد قرار دیتے ہوئے وہ لکھتا ہے: اسلام کی سرحدیں خونیں ہیں‘‘۔ ’’ مسلمانوں کا جھگڑا لوپن اور تشدد بیسویں صدی کے حقائق ہیں جن سے مسلمان انکار کرسکتے ہیں نہ غیر مسلم‘‘۔’’اسلام ابتداہی سے تلوار کا مذہب رہاہے‘‘۔ ’’قرآن اور مسلم عقائد کے دوسرے بیانات میں تشدد کے امتناع کے بارے میں بہت کم احکامات ہیں اور عدم تشدد کا تصور مسلم عقائد اور عمل میں نہیں پایا جاتا۔۱۲؎ عالم انسانیت جس میں بیک وقت کئی تہذیبیں موجود ہوں اس کی تہذیبی، تاریخی، سیاسی، نفسیاتی، معاشی ضروریات آفاقی تہذیب کا وہ تصور پورا نہیں کرسکتا جو مغرب کی فاشسٹ اقتدار کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ البتہ دنیائے انسانیت کو ایسی آفاقی اور عالمگیر تہذیب کی حاجت ضرور ہے جو تہذیبی تکثیریت کو برقرار رکھتے ہوئے تمام تہذیبوں کو ایک رشتہ اخوت میں منظم ومتحد کردے۔ کیا مغربی تہذیب یہ تمام تقاضے پورے کرتی ہے؟کیا مغربی تہذیب ، لبرل جمہوریت یا مغرب کا عالمی نظام موجودہ دنیا کے مسائل کا واحد حل ہے؟ مغربی تہذیب کے عناصر ترکیبی، ’’تہذیبی مشن‘‘ اور ’’ملوکانہ نفسیات‘‘ کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ مغربی تہذیب، مغربی لبرل جمہوریت ہی دنیا کی نجات کا واحد راستہ ہے؟ اقبال کے نزدیک تو یہ ’’سرمایہ داروں کی جنگ ِ زرگری‘‘ ہے۔ لبرل جمہوریت ’’نیلم پری‘‘ کے روپ میں ایک ’’دیو استبداد‘‘ ہے جس کا ’’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘ ہے۔اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے مغربی سائنس کی ترقی اور لبرل جمہوریت اجتماعی فلاح وبہبود کی بجائے ’’ملوکانہ اغراض‘‘ ، ’’حکمت ِ فرعونی‘‘ اور ’’حکمت ِ اربابِ کیں‘‘ کا نمونہ بن کر رہ گئی ہے۔ حکمتِ اربابِ کیں مکر است و فن مکر و فن ؟ تخریبِ جاں تعمیر تن!۱۳؎ چنانچہ ’’American way of life‘‘،’’A multipolar, multicivilizational world‘‘، ’’Universal civilization‘‘،’’Justice‘‘ اور ’’Liberalism‘‘کی جو تکرار بُش اور اوباما کے بیانات میں ، فوکو یاما کی’’ تاریخ کے خاتمے ‘‘میں اور ہَن ٹِنگ ٹَن کے ’’تہذیبی تصادم‘‘ میں ملتی ہے۔ اور اسلامی ممالک کو مہذب ، ترقی یافتہ اورجمہوری بنانے کا جو عزم مغربی بالخصوص امریکی سیاسی اور فکری قیادت کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے مغرب کے اس سامراجی نو آبادیاتی ’’تہذیبی مشن‘‘ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جس کی بنیادوں پر مغربی تہذیب اورجمہوریت کی عمارت تعمیر ہوئی ہے اور آج جس کے پس منظر میں کپلنگ کا نظریہ ’’سفید آدمی کا بوجھ ‘‘کار فرما ہے۔ اس ’’ملوکانہ نفسیات‘‘ اور ’’تہذیبی مشن‘‘ کے تحت یہ عزائم سراسر فریب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے استعماری سیاست، ذاتی اقتصادی مفادات اور عالمگیر یت کے روپ میں جدید ترین نو آبادیاتی نظام کے ذریعے عالمِ اسلام بلکہ دنیا کا ثقافتی و معاشی استحصال تہذیبوں کی ترقی کا ذریعہ تو نہیں بن سکتا، نئے عالمی نظام (New World Order)کے پردے میں تمام عالمِ انسانیت کے نظام کو اپنے قبضے میں لینا حقیقی لبرل جمہوریت کا مقصد تو نہیں ہوسکتا۔ اقبال نے بھی مختلف تہذیبوں، اسلام اور مغرب کے مطالعے اور ان میں افتراق و اتصال پر غیر معمولی گہرائی، توازن اور غیر جانب دارانہ رائے کا اظہار کیاہے۔ ظاہر ہے تہذیبی تصادم اور تہذیبی یگانگت کی باقاعدہ تھیوری تو اقبال کے دور میں وجود میں نہیں آئی تھی تاہم انھوں نے ان مباحث پر اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں پوری فکری بصیرت اور تاریخی تناظر میں تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس لیے باقاعدہ تھیوری پیش نہ کرنے کے باوجود ہم اقبال کے نظریات کا تجزیہ آج کے تناظر اور آج کے مفکرین کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اقبال نے اسلامی اور مغربی تہذیبوں کا تجزیہ سیاسی یا ہنگامی بنیادوں پر یا کسی سامراجی اقتدار کی سیاست سے وابستہ ہو کر نہیں کیا بلکہ غیرجانبداری کے ساتھ انسانی اور اصولی و فکری بنیادوں پر کیا ہے(درج ذیل مباحث میں اس کا تجزیہ ملاحظہ کیجیے)۔ آج جبکہ عالمی اقتصادی اور سیاسی بحرانوںنے پوری دنیا کواپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے دنیا کے انسانیت نواز مفکرین اور سیاسی مبصرین ایسے سیاسی و معاشی عالمی نظام پر زور دے رہے ہیں جس کی بنیاد احترامِ آدمیت پر ہو۔ جس میں مختلف تہذیبیں اور ان سے وابستہ اقوام مل جل کر رہیں۔ جہاں تصادم کی بجائے اشتراکِ عمل کی فضا قائم ہو۔ آج نہ صرف اسلام اورمغرب میں موجود تنائو کی کیفیت کا حل بلکہ تمام انسانیت کی بقا کا حل اتحادِ انسانیت میں مضمر ہے۔یہ وہی خیالات ہیں جو نصف صدی پیشتر اقبال نے پیش کر رکھے ہیں۔ آدمیّت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی۱۴؎ یہ احترامِ آدمیت اور وحدتِ انسانی وہ ہے جسے مغرب کی سامراجی سیاست اور نو آبادیاتی آفاقیت و عالمگیریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ انسانی اتحاد و آفاقیت تہذیبی تصادم، انسانی وحدتوں کی تخریب و تباہی اور اسلامی و مغربی تہذیبی بحران پر دلالت نہیں کرتی بلکہ صحیح معنوں میں انسانیت اور احترامِ آدمیت کی بنیادوں پر ایک مشترکہ بین الاقوامی برادری کی تشکیل کرتی ہے۔ آج نہ صرف اسلام اورمغرب کے درمیان مکالمے اور یگانگت و اشتراک کے لیے، بلکہ تمام اقوامِ عالم کے لیے اس انسانی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے نہ کہ مغرب کے مادی اور سرمایہ دارانہ نقطۂ نظر کی۔ اس سلسلے میں ’’اقبال کا سالِ نو کا پیغام‘‘ (یکم جنوری ۱۹۳۸ئ) ان کی تہذیبی فکر کا نچوڑ ہے۔ اسے اگر آج کے عالمی واقعات ، اسلام اور مغرب کے حالات و حادثات اور بین الاقوامی تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ اس کا ایک ایک لفظ صداقت اور انسانیت پر مبنی ہے۔اس تقریر میں مغرب کے سامراجی عالمی نظام کے مقابلے میں ایک انسانیت نواز نئے عالمی نظام کے اشارے پوشیدہ ہیں۔ اس تقریرسے واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال مشرق و مغرب اور اسلامی و مغربی تہذیبوں کے درمیان ایک مکالمہ اورتوازن کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا تصادم سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ ان کے افکار میں خفیف ترین سطح پر بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جسے اسلام اور عیسائیت یا اسلامی اور مغربی تہذیب کی جنگ یا تصادم کا نام دیا جاسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اسلامی اورمغربی تہذیبوں کے تقابلی مطالعے کاہر زاویہ بین التہذیبی ہم آہنگی، اتحاد، اشتراک ، ایک دوسرے سے استفادے اور مکالمے کی طرف رُخ کرتا ہے۔وہ ایک ایسی عالمی تہذیب کی بات کرتے ہیں جس میں تہذیبوں کی جنگ کی بجائے تہذیبوں کے اشتراک و اتحاد کا روشن اور وسیع المشرب تصور اُبھرتا ہے اور اسی تصور کے پس منظرمیں اقبال کے افکار کو اور اقبال کے افکار کے حوالے سے اسلام کے افکار کو سمجھا جاسکتا ہے۔اسی تصور کے پس منظر میں اقبال کے معاشرتی و تہذیبی افکار کی اور اقبال کے حوالے سے اسلام کے تہذیبی افکار کی معنویت اُبھرتی ہے۔ یہاں اس پیغام کا یہ اقتباس نقل کیا جاتا ہے: تمام دنیا کے ارباب فکر دم بخود سوچ رہے ہیں کہ تہذیب وتمدن کے اس عروج اور انسانی ترقی کے اس کمال کا انجام یہی ہونا تھا کہ انسان ایک دوسرے کے جان ومال کے دشمن بن کر کرۂ ارض پر زندگی کا قیام ناممکن بنادیں۔ دراصل انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے اور جب تک تمام دنیا کی عالمی قوتیں اپنی توجہ کو احترامِ انسانیت کے درس پر مرکوز نہ کردیں یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی…وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوعِ انسان کی وحدت ہے جو رنگ ونسل و زبان سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت، اس ناپاک قوم پرستی، اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے ’’الخلق عیال اللہ‘‘ کے اصول کا قائل نہ ہوجائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اوررنگ ونسل کے اعتبارات کو مٹایا نہ جائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکیں گے۔ اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندۂ تعبیر نہ ہوں گے۔۱۵؎ اقبال کے نزدیک آدمیت یہی ہے کہ آدمی کا احترام کیا جائے۔ وہ اس تمام کرۂ ارض کو امن وسلامتی کا گہوارہ اور تمام انسانوں کے لیے ایک کشادہ اور خوبصورت گھر کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق ومغرب اور اسلامی و مغربی تہذیب دونوں میں ایک توازن کے قائل ہیں نہ کہ تصادم کے۔ انہوں نے اسلام کے آفاقی اصولوں اخوت، مساوات اور حفظ نوع انسانی کے حوالے سے کوشش کی ہے کہ ایک طرف تو یہ تہذیبیں اپنی اپنی انفرادیت برقرار رکھیں دوسری طرف ہر قسم کی غلط فہمیوں اور تنگ نظری و تعصب سے نکل کر امن ومحبت، باہمی رواداری، انسانی حقوق کی بالادستی، بین المذاہب ہم آہنگی، تہذیبی سنگم اور بقائے باہمی کی طرف لوٹ آئیں اور اس کا حل یہی ہے کہ انسان انسان کے احترام کو اپنا شعار بنالے۔چنانچہ یکم جنوری ۱۹۳۸ء کی مندرجہ بالا تقریر میں جہاں اقبال نے یورپی اقوام کی وحشت و بربریت کا پردہ چاک کیا ہے وہاں نسلِ انسانی کی نجات کے لیے اخوت و حریت پر مبنی انسانی نظام کی طرف بھی اشارے کیے ہیں۔۱۶؎ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ اقبال نے اسلامی اورمغربی تہذیبوں کا تجزیہ سیاسی یا ہنگامی بنیادوں پر یا کسی سامراجی اقتدار کی سیاست سے وابستہ ہو کر نہیں کیا بلکہ غیر جانبدارانہ انداز میں اصولی وفکری بنیادوں پر کیاہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے مسلمان ہونے کے ناتے مغرب کی ہر قدر کو قابل نفرت ٹھہرایاہو بلکہ انہوں نے اسلام کی موجودہ تہذیب اور مغرب کی جدید تہذیب دونوں کے معائب اور محاسن کو واضح کیا ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں: بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صبا۱۷؎ اقبال نے دراصل دونوں کی خوبیوں اور خامیوں کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے کو آئینہ دکھایا ہے۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ اہل مغرب اور اہل اسلام دونوں ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھ کر ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے، ایک دوسرے سے مکالمے کے ذریعے استفادہ کریں تاکہ انسانی تہذیب کے یہ دونوں حصے انسانی زندگی کی فلاح وبہبود کے لیے ایک ہی وحدت کے طور پر کام کریں۔حقیقت یہ ہے کہ اقبال تمام کرۂ ارض کو امن وسلامتی کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ فساد چاہے مغرب میں ہو یا مشرق میں، مسلمانوں کی وجہ سے ہو یا غیر مسلموں کی وجہ سے، وہ اس کے سخت مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے جہاں مغرب کی استعماری اغراض ،سائنس اور حکمت کے پنجۂ خونیں پر زبردست تنقید کی ہے وہاں پسماندہ اقوام کی جہالت، کم علمی اور بے عملی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے جہا ں مغرب کو آدم شناسی اور حقوقِ انسانی کی پاس داری کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں پسماندہ اقوام کو بھی خود داری و بیداری کا درس دیا ہے۔ جہاں انھوں نے کمزور اقوام کو مغرب کی سائنسی ترقی سے استفادے کی تلقین کی ہے وہاں مغرب کے لیے بھی مشرق کی الہامی بنیادوں سے استفادے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ایک دوسرے سے استفادے اور افہام و تفہیم کا یہی لچک داررویہ اتحادِ انسانیت کی فضا پیدا کرسکتا ہے اور ایک ایسے مشترکہ اور منصفانہ عالمی نظام کی تخلیق کرسکتا ہے جس کی بنیاد اخوت ومساوات اور وحدت انسانی پر ہو اور جس میں اقوام اپنے مسائل کو مکالمے کے ذریعے حل کرسکیں۔ اقبال کا یہی وہ عالمی نظام ہے جس میں کرۂ ارض کے تمام انسان ایک وحدت میں ڈھل کر اجتماعی فلاح وبہبودکے لیے کوشش کرسکتے ہیں اور ایسا عالمِ نو وجود میں لا سکتے ہیں جہاں کسی بھی فساد کا حل مل جل کر نکالا جاسکے۔بقول اقبال: مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر۱۸؎ اقبال جس تہذیبی تکثیریت کے قائل ہیں اس میں مختلف تہذیبیں تصادم اورمناقشت کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ ایک دوسرے سے استفادے کے ذریعے ایک ایسی آفاقی تہذیب کو جنم دیتی ہیں جس کی بنیاد اخوت اور انسانی وحدت پر ہے۔اقبال کو معلوم ہے تہذیبی اکثریت قوموں کی فطری اور نفسیاتی ضرورت بھی ہے اور کائناتی ارتقا کا وسیلہ بھی۔ لیکن ایسی تہذیبی تکثیریت ہی انسانی وحدت کو جنم دے سکتی ہیں جس میں نفرت اور رقابت کی بجائے اشتراکِ عمل اورمکالمے کا پہلو پایا جائے ۔ ہَن ٹِنگ ٹَن (مغرب) تہذیبی تکثیریت کی جو صورت پیش کرتا ہے وہ بالآخر مغرب کی سامراجی آفاقیت میں ڈھل جاتی ہے اور اقبال کے نزدیک یہ سامراجی آفاقیت فتنہ و فساد ، تنازع اور تصادم کو ہوا دیتی ہے ۔ اقبال نے اپنے خطبات میں مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا ہے۔۱۹؎ اس طرح دراصل مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کی توسیع قرار دے کر وہ مغرب اور اسلام کے درمیان ایک پل یا رابطہ استوار کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔۲۰؎دوسرے لفظوں میں اقبال اسلام اور مغرب کے مابین ایک رشتۂ مطابقت استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا اشتراکِ عمل جس میں دونوں تہذیبوں کی فطری امتیازی خصوصیات بھی برقرار رہتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے قریب بھی آجاتی ہیں اور اس طرح دونوں کے مابین ایک اصولی اور پُر امن مکالمے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ اِس دو طرفہ عمل کے ثبوت کے لیے محض پیامِ مشرق کا سرورق (للّٰہ المشرق والمغرب) اور دیباچہ ہی کافی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اسلام اورمغرب میں تنازع کے نہیںبلکہ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘، ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کے تحت ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو پرامن لین دین کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک اہل اسلام اور اہل مغرب دونوں کے مستقبل کا انحصار افہام وتفہیم پر ہے کہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کو کچھ سکھاتے ہوئے آگے بڑھیں۔ یہی تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کا مقصود ہے۔ ہَن ٹِنگ ٹَن نے لیسٹرپیئرسن (Lester Pearson)کے حوالے سے چند سطور نقل کی ہیں جن کا ترجمہ یہاں پیش ہے۔ ان کے حوالے سے اقبال کے پیغام کی اہمیت ہمارے زمانے میں اور بھی نکھر کر سامنے آتی ہے: ۱۹۵۰ء کی دہائی میں لیسٹر پیئر سن نے خبردار کیا کہ انسان ایک ایسے زمانے میں داخل ہو رہاہے جہاں مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو پرامن لین دین کے ساتھ ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے ، ایک دوسرے کی تاریخ اور آدرشوں اور فن وثقافت کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی زندگیوں کو زرخیز بناتے ہوئے زندگی بسر کرنا سیکھنا ہوگا۔ اِس پرہجوم چھوٹی سی دنیا میں دوسرا راستہ کشیدگی، تصادم اور آفات کا ہے۔ امن اور تہذیب دونوں کے مستقبل کا انحصار دنیا کی بڑی تہذیبوں کے سیاسی و روحانی اور علمی رہنمائوں کے درمیان افہام وتفہیم اور تعاون پر ہے۔۲۱؎ کیا یہ وہی باتیں نہیں ہیں جو اقبال نے ۱۹۵۰ء سے پہلے کہی تھیں، یعنی تہذیبی تکثیریت اور تعاون و اتحاد کا نقطۂ نظر۔ ہَن ٹِنگ ٹَن نے تو اسلام کو تشدد، تنگ نظری، بنیاد پرستی، قدامت پسندی اور تلوار کا مذہب قرار دیا ہے لیکن اقبال کے نزدیک حقیقی تکثیریت و آفاقیت، مکالمے اور پُر امن لین دین کے لیے آج اسلام ہی اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے اس لیے کہ اسلام میں سب انسان برابر ہیں۔ اسلام انسانی مساوات، اخوت اور حریت کی بنیادوں پر قائم ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جو ’’نہ قومی ہے نہ نسلی نہ انفرادی نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے‘‘ اور جس کا ’’مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد ومنظم کرنا ہے۔‘‘۲۲؎ بالفاظِ دیگر یوں کہیے کہ بنی نوع انسان کے اقوام کو باوجود شعوب وقبائل اور الوان والسنہ کے اختلافات کو تسلیم کرنے کے ان کو ان تمام آلودگیوں سے منزہ کیا جائے جو زمان، مکان، وطن، قوم، نسل، نسب، ملک وغیرہ کے ناموں سے موسوم کی جاتی ہیں۔ اور اس طرح سے اس پیکر خاکی کو وہ ملکوتی تخیل عطا کیاجائے جو اپنے وقت کے ہر لحظہ میں ابدیت سے ہمکنار ہو۔۲۳؎ اور اسی لیے اقبال نے نکلسن کے نام لکھا ہے: …مقصود اسلام کی وکالت نہیں ہے بلکہ میری قوت ِ طلب و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشری نظام تلاش کیا جائے، اور عقلاً یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اِس کو شش میں ایک ایسے معاشری نظام سے قطع نظر کرلیا جائے جس کا مقصدِ وحید ذات پات،رتبہ و درجہ، رنگ ونسل کے تمام امتیازات مٹا دینا ہے۔ اسلام دنیوی معاملات میںنہایت ژرف نگاہ بھی ہے اور پھر انسان میں بے نفسی اور دنیوی لذائذ ونعم کے ایثار کا جذبہ بھی پیدا کرتاہے اور حسنِ معاملت کا تقاضایہی ہے کہ اپنے ہمسایوں کے بارے میں اسی قسم کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یورپ اِس گنج گراں مایہ سے محروم ہے اور یہ متاع اسے ہمارے ہی فیضِ صحبت سے حاصل ہوسکتی ہے۔۲۴؎ اگر عالمِ بشریت کا مقصد اقوامِ انسانی کا امن، سلامتی اور ان کی موجودہ اجتماعی ہیئتوں کو بدل کر ایک واحد اجتماعی نظام قرار دیا جائے تو سوائے نظامِ اسلام کے کوئی اور اجتماعی نظام ذہن میں نہیں آسکتا۔ اس کی رُو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں۔ بلکہ عالمِ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اورنسلی نقطۂ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔۲۵؎ اسلامی تعلیمات کی روح کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے۔ اسلام تو کائنات ِ انسانیت کے اتحادِ عمومی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے تمام جزوی اختلافات سے قطع نظر کرلیتا ہے اور کہتا ہے:’’تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوأٓئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ… …دراصل خدا کی ارضی بادشاہت صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسان اِس میں داخل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ نسل اور قومیت کے بتوں کی پرستش ترک کردیں اور ایک دوسرے کی شخصیت کو تسلیم کرلیں۔۲۶؎ اس طرح اسلام تہذیبوں کی اکثریت کو قبول کرتا ہے اور اکثریت کے باوجود انھیں انسانی بنیادوں پر اس طرح متحد کرتا ہے کہ ایک صحیح آفاقی انسانی عالمی نظام وجود میں آجاتا ہے۔ یہی اقبال کی ’’روحانی جمہوریت‘‘۲۷؎ ہے۔ اقبال اسلامی اصولوں کی روشنی میں تہذیبی تکثیریت اور اس تکثیریت میں اتحاد و اتفاق کے ذریعے تہذیبی آفاقیت کے قائل ہیں، اسی بنیاد پر وہ اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمہ چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلام اورمغرب بلاشبہ اپنے فطری امتیازات یا (خودی) کوقائم رکھیں لیکن غیر ضروری امتیازات اور اختلافات بات چیت کے ذریعے دور کرکے پرامن بقائے باہمی اور احترامِ آدمیت کے اصولوں کومدنظر رکھتے ہوئے مل جل کر زندگی گزاریں۔ اسی میں ان کی بقا اور ترقی ہے۔ اپنے اپنے امتیازات اور انفرادیت قائم رکھتے ہوئے ایک آفاقی تہذیب کی تخلیق عہد ِ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہے ، اسلامی ومغربی تہذیبوں کی لازمی ضرورت بھی اور اقبال کے تصورِ خودی کے عین مطابق بھی۔ آفاقیت کا یہ تصور مغربی آفاقیت کے تصور سے بہت مختلف ہے جو تمام تہذیبوں کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے اورجس کا نتیجہ آج بالخصوص اسلام سے تنائو کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ گذشتہ صفحات میں پیش کردہ ہَن ٹِنگ ٹَن، فوکویاما، پائپس وغیرہ (غرض مغرب) کے خیالات کو مدنظر رکھا جائے تو مغربی سیاست اور مغربی تہذیب کسی دوسری تہذیب کو ـ(یا اسلامی تہذیب کو) اپنا تشخص قائم رکھتے ہوئے آزادانہ طور پر زندہ رہنے کی اجازت نہیں دیتی۔ بلکہ مکمل طور پر مغربی ماڈل اپنانے پر زور دیتی ہے جو اس کی ملوکانہ اغراض کی دلیل ہے لیکن اسلام نہ صرف مغربی تہذیب کو بلکہ دوسری تمام تہذیبوں کے تشخص کو تسلیم کرتا ہے۔ خدا کی ارضی بادشاہت ایک طرف تو تمام قوموں کی تہذیبی انفرادیت کو برقرار رکھتی ہے بلکہ حریت ومساوات کے تحت تمام قوموں میں اتحادِ انسانیت ، باہمی رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی ، امن ومحبت، انسانی حقوق کی بالادستی اور تہذیبی سنگم کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ یوں ہر تہذیب، ہر مذہب اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی اخلاقی اصولوں کی وجہ سے اسلام کی ارضی بادشاہت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر اس اتحاد یا آفاقیت کا مقصد کسی علاقے، کسی قوم، کسی تہذیب کو تسخیر کرنا یا مطیع بنانا نہیں یعنی اسلام کو مغربی ملوکیت کی طرح سامراجی مقاصد سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ وہ تو تمام انسانوں کو، تمام تہذیبوں کو برابری کی بنیاد پر انسانی حقوق اور مؤاخات کے رشتے میں پروتا ہے۔ اس طرح اسلام ایک کثیر الجہتی عالمی نظام یا عالمگیر نظام قائم کرتا ہے۔ یہ آفاقی یا عالمی نظام مغرب کے یک سمتی (یک قطبی) نظام کی طرح ظالمانہ نہیں ہے بلکہ وسیع النظر ہے۔ اس میں سب کو برابر کے مواقع حاصل ہیں۔اسلام کی اساسی دعوت یہ ہے کہ دنیا کی تمام قومیں اور سارے انسان رنگ ونسل، ملک وملت کے امتیازات ختم کرکے بھائی بھائی بن کر ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر کاربند ہوجائیں۔ اسلام کا تصور مذہبی گروہ بندی کا نہیں ہے بلکہ یہ تمام بنی نوع انسانی کی آزادی اور برابری کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ یہ عالمگیر اور آفاقی دین ہے۔ اس کی بنیاد انسانی مساوات، ذات پات اور رنگ ونسل کی نفی، بھائی چارے کا فروغ، تمام قوموں کے درمیان عدل وانصاف کے قیام پر ہے اور اس کا بنیادی مقصد ایک ایسے عالمگیر انسانی معاشرے کی تشکیل ہے جس میں تمام دنیا کی قومیں اتحاد ویکجہتی کے ساتھ رہتے ہوئے پرامن طورپر زندگی بسر کریں۔ اور ہر قوم دوسری قوم کے مذہبی اورتہذیبی امور میں رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان میں کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرے بلکہ ہر ایک پرامن طور پر اپنے مذہب کا پرچار کرے تاکہ جسے جو مذہب پسند آئے وہ اسے اختیار کرسکے۔۲۸؎ یوں اسلام کا آفاقی تہذیب کا تصور بھی تہذیبی تکثیریت پر مبنی ہے جو مغرب کی طرح تصادم یا آفاقی سامراجیت و استعماریت کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ انفرادیت و امتیاز قائم رکھتے ہوئے بھی اقوام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرکے ایک عالمگیر معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام کو ایک مذہب کی بجائے ایک قوت یا روحانی نظام کا لقب دیتے ہیں اور اس کی ازلی اور ابدی بنیادوں پر وہ انسانیت کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔۲۹؎ اس سلسلے میں ایک اور پہلو کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ مغربی تہذیب کے سلسلے میں تین رویے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ ۱…ایک تو مغربی تہذیب کے مکمل استرداد کا رویہ۔ یہ رویہ منفی ہے اور قدامت پرستی و تنگ نظری پر مبنی ہے ۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے مغربی تہذیب کو کلیتہً رد کرنے کی بجائے اس سے نہایت احتیاط کے ساتھ استفادہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اسلام کی آفاقیت کے دعوے کوثابت کرنے کے لیے یہ تہذیبی امتزاج اور بھی ضروری ہے۔ ۲…دوسرا رویہ مغربی تہذیب کی اندھی نقالی کا ہے یعنی مغربی ماڈل کو بجنسہٖ اختیار کرنا۔ مغربی کلچر کو اپنی پوری زندگی پر حاوی کرنا۔ اقبال نے تجدد کے انتہا پسند علمبرداروں پر قدامت پرستوں کی طرح کڑی تنقید کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ تہذیبی خودی کی نفی ہے ۔ اس رویے نے اقبال کے نزدیک نہ صرف مسلمانوں کی معنوی روح کو کچل دیا ہے بلکہ مغربی تہذیب کی برتری کا یقین پیدا کرکے اس کی ملوکانہ اغراض اور سامراجی تہذیبی مشن کو بھی آگے بڑھانے میں مدد دی ہے۔ پس مغربی تہذیب کا یہ ردعمل بھی استرداد کی طرح ناکام ہے۔ ۳…ان دونوں رویوں کے درمیان ایک تیسرا رویہ ابھرتا ہے جسے اصلاح پسندی یا آفاقیت کا رویہ کہا جاسکتا ہے۔ یعنی اپنی تہذیب کے بنیادی مزاج اور بنیادی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے مغربی تہذیب کے صحت مند اور زندہ (سیاسی، تکنیکی، سائنسی، معاشی) عناصر کو قبول کرنا۔ چنانچہ سیّد جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ‘، سرسیّد، شبلی، سیّد امیر علی، نامق کمال، مفتی عالم جان اور اقبال جیسے روشن خیال مفکرین نے بڑی جرأت کے ساتھ اس رویے کو قبول کرتے ہیں۳۰؎ اور اسی رویے کے تحت مغرب کے ان عناصر کو اپنی تہذیب میں جذب کرکے تہذیبی ہم آہنگی، پُر امن بقائے باہمی اور مکالمے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مغرب کی برابری بلکہ مقابلہ اسی طرح کیا جاسکتا ہے۔ اِن اصلاح پسند مفکرین کے ہاں جدیدیت اور مغربیت کا واضح فرق ملتا ہے۔ مغربیت یہ ہے کہ مغربی تہذیب اور مغربی تہذیب کی اقدار کو جوں کا توں قبول کرلیا جائے یعنی اندھی تقلید۔اور جدیدیت یہ ہے کہ اپنی بنیادی اقدار بھی قائم رہیں اور مغربی تہذیب کے زندہ اجزاء بھی جذب کرلیے جائیں۔۳۱؎ یہ نظریۂ عاریت (Borrowing Theory) ہے۔جس میں تہذیبیں دوسری تہذیبوں سے چیزیں مستعار لیتی ہیں اور ان کو ڈھال کر، بدل کر، جذب کرکے اپنی تہذیب کی اساسی اقدار کو مستحکم کرتی ہیں اور دوسری تہذیبوں کی بقاکی ضمانت دیتی ہیں۔۳۲؎ یہ اصلاح پسند مفکرین جدیدیت اورمغربیت میں فرق کی بنیاد پر اسی نظریۂ عاریت کے قائل ہیں چنانچہ جمال الدین افغانی ہوں، سرسیّد ہوں یا اقبال ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسی ’’ثقافتی مستعاریت‘‘ کو مدنظر رکھتے ہیں۔ تہذیبی تکثیریت کا یہ وہ تصور ہے جس میں اپنی تہذیبی خودی بھی برقرار رکھی جاتی ہے اور دوسری تہذیب کی خودی یا پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ دوسری تہذیب کے بعض اجزاء کو قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور بعض اجزاء کو رد بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اِس رد میں اختلاف اصولی ہوتا ہے نہ کہ ذاتی اور متعصبانہ ۔ اس لیے کسی تہذیب کے استحصال کی نوبت نہیں آتی بلکہ دوسری تہذیبوں کے ساتھ مسلسل ایک ڈائیلاگ کی کیفیت برقرار رہتی ہے اور بنیاد ی فکری امور میں اختلافات کے باوجود ایک ہم آہنگی کی فضا قائم رہتی ہے۔ اس طرح تہذیبی تکثیریت کا یہ نظریہ آفاقی تہذیب کے ایسے نظریے میں ڈھل جاتا ہے جس میں دیگر تہذیبیں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں اور اپنا وجود رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ انسانی بنیادوں پر ہم آہنگ ہو جاتی ہیں۔ تہذیبی کشمکش کے اِس دور میں اسلام اور مغرب کو اِسی ’’ثقافتی مستعاریت‘‘ کی ضرورت ہے۔ غرض اقبال کے افکار کا مطالعہ کیا جائے تو ایسی تہذیبی تکثیریت ایسے عالمی نظام اور ایسی آفاقی تہذیب کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو ہَن ٹِنگ ٹَن کے مغربی نظام کے برعکس تمام انسانیت کو امن و سلامتی ، فلاح وبہبود اور ترقی و خوشحالی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ یہ نظام ، یہ سوسائٹی اور یہ تہذیب اسلام ہے۔ اتحادِ انسانیت اورجمہوری مساوات پر مبنی عالمی نظام اور آفاقی تہذیب کے لیے اقبال کی نظریں اسلام کی آفاقی اقدار کی جانب اٹھتی ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام ہی وہ دین ہے جو جزوی اختلافات سے قطع نظر کرلیتا ہے، جو فطری بشری امتیازات کو قائم رکھتے ہوئے عالم بشریت کو مشترک انسانی قدروں کی بنیاد پر متحد ومنظم رکھتا ہے اور اس تہذیبی تکثیریت کا نتیجہ ہَن ٹِنگ ٹَن کے تصور تکثیریت کی طرح تہذیبی تصادم اورمغرب کی استعماری آفاقیت کی صورت میں نہیں نکلتا بلکہ اس کی بنیاد پر تو خدا کی اس ارضی بادشاہت میں تمام تہذیبیں اور تمام انسان ایک دوسرے کے تشخص کو تسلیم کرتے ہوئے داخل ہوسکتے ہیں اورمل جل کر امن وسکون اور تہذیبی ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام مغرب کے سامراجی آفاقی تصور کے برعکس تمام تہذیبوں ، اقوام اور مذاہب کے تحفظ کا ضامن ہے اور مغرب کی منافقانہ و ملوکانہ پالیسیوں کی بجائے حقیقی عدل اور مساوات پر یقین رکھتا ہے۔ یہی اقبال کا ’’عالمِ قرآنی‘‘ ہے جو احترامِ آدمیت سے عبارت ہے ، جو ’’بے امتیاز خون ورنگ‘‘ ہے لیکن یہ عالم ابھی تک وجود میں نہیں آسکا اور ہم ابھی تک ایک ’’فرسودہ عالم‘‘ میں مقیم ہیں۔۳۳؎ یہ عالم وجود میں آسکتا ہے اور آج جبکہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے یہ کام اقبال کے افکار کی روشنی میں بہت اچھے طریقے سے سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ اس بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ہَن ٹِنگ ٹَن بھی تہذیبی تکثیریت کا قائل ہے اور اقبال بھی لیکن ہَن ٹِنگ ٹَن کی تہذیبی تکثیریت سامراجی اقتدار کی سیاست سے وابستہ ہوکر تہذیبی تصادم کو جنم دیتی ہے اور سامراجی آفاقیت میں ڈھل جاتی ہے جبکہ اقبال کی تہذیبی تکثیریت انسانیت سے وابستہ ہوکر تہذیبی ہم آہنگی کو جنم دیتی ہے اور بین الاقوامی انسانی آفاقیت کو وجود میں لاتی ہے۔ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات 1. Flap, The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order by S.P. Hungtington, Touch Stone, New York, 1997 ۲- ان بیانات کی تصدیق اور ہَن ٹِنگ ٹَن کے خیالات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: Huntington, The Clash of Civilizations, especially pp.19 to 21, 28, 29, 102 to 124, 183, 209 to 218, 254 to 258, 308 to 312, 318 to 321. 3. Francis Fukuyama, The End of History and the Last Man, (Book), The Hearst Corporation, New York, 1992, pp.288, 125. 4. Francis Fukuyama, The End of History? (Article), The National Interest 16, (Bi-monthly Journal), Washington D.C., Summer 1989, pp.4, 18. 5- Huntington, The Clash of Civilizations, pp.310, 66. ۶- تفصیلات جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے: Huntington, The Clash of Civilizations, pp.44 to 48 ۷- ملاحظہ کیجیے مضمون ’’تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ:فکرِ اقبال کی روشنی میں‘‘،ازڈاکٹر عبدالمغنی،سہ ماہی مجلہ اقبال، جلد ۴۹،شمارہ۱،۲، جنوری،اپریل ۲۰۰۲ئ،ص۱۳،۳۲۔ ۸- کپلنگ کی نظم’’White Man's Burden‘‘(سفید آدمی کا بوجھ)،کے لیے دیکھیے: Rudyard Kipling, The Works of Rudyard Kipling ,Edited and published by WordsWorth poetry library, Hertfordshire, 1994 (Reprinted), pp.323, 324. 9. Francis Fukuyama, The End of History?, (Article), p.4,18; Francis Fukuyama, The End of History and the Last Man, (Book), pp.283, 215 10. Huntington, The Clash of Civilizations, See Part iv, pp.20,21,109 to 124, 311, 31. 11. Denial Pipes, In the path of God, Basik Books, New York, 1983, pp.197, 198. 12. Huntington, The Clash of Civilizations, pp.258, 263. ۱۳- اقبال، کلیاتِ اقبال فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ص۱۵/۸۱۱۔ ۱۴- ایضاً، ص۲۰۵/۷۹۳۔ ۱۵- اقبال، حرفِ اقبال،مرتبہ ، لطیف احمد شروانی،ایم ثناء اللہ خاں، انشا پریس، لاہور، ۱۹۵۵ئ،ص۲۲۴،۲۲۵۔ ۱۶۔ ایضاً۔ ۱۷- اقبال، کلیاتِ اقبال اردو، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص۳۶/۳۶۰۔ ۱۸- ایضاً، ص۱۲۱/۶۲۱۔ ۱۹- اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ترجمہ، سیّد نذیر نیازی، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص۱۱۔ ۲۰- ڈاکٹر جاوید اقبال،’’اقبا ل اور تہذیبوں کے مابین مکالمے کی اہمیت‘‘،مشمولہ، اقبال مشرق ومغرب کی نظر میں، مرتبہ، سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور،ص۱۰۹،۱۱۰۔ 21- Huntington, Clash of Civilizations, pp.321; Lester Pearson, Democracy in world Politics, Princeton University Press, Princeton, 1955, p.83.84 ۲۲- اقبال،مقالاتِ اقبال(جغرافیائی حدود اورمسلمان)،مرتبہ: عبدالواحد معینی،آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۸ئ، ص ۲۶۶ ۔ ۲۳- ایضاً،ص۲۷۶ ۲۴- اقبال۔ اقبال نامہ،مرتبہ شیخ عطاء اللہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص۳۴۹،۳۵۰۔ ۲۵- اقبال، مقالاتِ اقبال(’’جغرافیائی حدود اورمسلمان‘‘)،مرتبہ، عبدالواحد معینی، ص۲۶۵،۲۶۶۔ ۲۶- اقبال، اقبال نامہ،مرتبہ، شیخ عطاء اللہ، ص۳۵۷،۳۴۷۔ ۲۷- اقبال،تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ(خطبہ ششم)،ترجمہ، سیّد نذیر نیازی، ص۲۷۵تا ۲۷۷۔ ۲۸- مولانا محمد شہاب الدین ندوی، ’’عصرحاضر اور اسلام کی عالمگیر تعلیمات‘‘، مشمولہ ’’مجلہ اقبال (سہ ماہی)،بزمِ اقبال، لاہور، ۲۰۰۰،ص۳۷۔ ۲۹- ڈاکٹر قاضی عبدالحمید، ’’اقبال کی شخصیت اور اس کا پیغام‘‘، مشمولہ اقبال کا تنقیدی مطالعہ، عشرت پبلشنگ ہائوس، لاہور،ص۲۴۰۔ ۳۰- ان مباحث کے لیے دیکھیے: i) ڈاکٹر جاوید اقبا ل، زندہ رود، شیخ غلام علی اینڈ سنز ،لاہور، ۱۹۸۷ئ،ص۱۵۹،۱۶۰،۱۹۶ ii) ڈاکٹر جاوید اقبال، مضمون ’’اقبال اور تہذیبوں کے مابین مکالمے کی اہمیت‘‘،مشمولہ ،اقبال مشرق و مغرب کی نظرمیں،مرتبہ، سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ، لاہور، ۲۰۰۲ئ، ص۱۰۹۔ iii) اقبال ، حرفِ اقبال، مرتبہ: لطیف احمد شیروانی، ص۱۴۸،۱۴۹،۱۵۱۔ iv) John,L. Esposito, Islamic Threat: Myth or Reality, Oxford University Press ,New York, 1992, p.55; v) Pipes, In the Path of God, p.114-120. vi) L.S. Stoddard, The New World of Islam, Oxford University Press, New York, 1922, p.54. ۳۱- ڈاکٹر جاوید اقبال، مضمون ’’اقبال اور تہذیبوںکے مابین مکالمے کی اہمیت‘‘،مشمولہ، اقبال مشرق ومغرب کی نظر میں،ص۱۰۹۔ آل احمد سرور، مقالہ ’’اقبال اور نئی مشرقیت‘‘، مشمولہ، دانشور ِاقبال الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ئ،ص۵۱،۵۲۔ 32. i)Spenglar,"Decline of the West",(Vol.II)A.A.Knopf,New York,1928, p.50. ii) Bozeman, "Civilization under Stress", Virginia Quarterly Review51, (Winter 1975), pp.5. iii) Huntington, The Clash of Civilizations, pp.76. ۳۳- ’’عالمِ قرآنی‘‘ کے لیے ملاحظہ کیجیے: کلیاتِ اقبال فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۵ئ، ص۶۷تا۷۵/۶۵۵تا۶۶۳۔ ـئ…ئ…ء  سر شیخ عبدالقادر کی اُردو کے لیے مساعی محمد حنیف شاہد اردو زبان نے مغلیہ عہد حکومت میں پھلنا پھولنا شروع کیا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زبان اپنی حیثیت منواتی چلی گئی۔ یہ زبان مختلف بولیوں کے امتزاج سے معرض وجود میں آئی اور اس میں خود ہندی کے بے شمار الفاظ شامل تھے۔ مسلمان اس زبان کو اپنے ساتھ بیرون ملک سے نہیں لائے تھے بلکہ اس زبان نے اسی برصغیر میں جنم لیا تھا۔ مگر ہندوئوں نے ہمیشہ اس زبان کو مسلمانوں کی زبان سمجھا اور اس کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔۱؎ فرانس کے مشہور مستشرق گار سان دتاسی نے ہندوئوں کے بارے میں کہا تھا کہ:’’ہندو اپنے تعصّب کی وجہ سے ہر اُس امر میں مزاحم ہوتے ہیں جو اُن کو مسلمانوں کے عہد کی یاد دلائے‘‘۔۲؎ ہندوئوں کا اُردو زبان کے بارے میں بھی یہی رویہّ تھا جس کے نتیجے میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہو گئی جس کو پاٹنا ناممکن ہو گیا۔ بدقسمتی سے ہندو اردو کی مخالفت میں ہمیشہ سرگرمِ عمل رہے اور اس لسانی مسئلے نے سیاسی حیثیت حاصل کر لی۔ اردو ہندی تنازع سرسید احمد خاں کے زمانے میں شروع ہوا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ سر سید احمد خاں کے زمانے میں اس تحریک کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوا اور اردو زبان جسے ۱۸۳۵ء سے باقاعدہ طور پر سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا اس کو مٹانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ ۱۸۶۷ء میں بنارس کے ہندوئوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں اردو زبان اور فارسی رسم الخط کی بجائے ایک مردہ زبان ’بھاشا‘ رائج کی جائے جس کا رسم الخط دیوناگری تھا۔ سرسید احمد خاں کہتے تھے’’ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لئے مشترک کوشش کرنا محال ہے‘‘____ ان کا بیان ہے کہ ’’ان ہی دنوں جبکہ یہ چرچا بنارس میں پھیلا، میں ایک روز مسٹر شیکسپیئر سے جو اس وقت بنارس میں کمشنر تھے مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں کچھ گفتگو کر رہا تھا اور وہ متعجب ہو کر میری گفتگو سن رہے تھے‘‘۔ آخر انھوں نے کہا کہ ’’آج پہلا موقع ہے کہ میں نے تم سے خاص مسلمانوں کی ترقی کا ذکر سنا ہے۔ اس سے پہلے تم ہمیشہ عام ہندوستانیوں کی بھلائی کا خیال ظاہر کرتے تھے۔‘‘ میں نے کہا کہ’’ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہو سکیں گی۔ ابھی تو بہت کم ہے آگے آگے اس سے بھی زیادہ مخالفت اور عناد ان لوگوں کے سبب جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں بڑھتا نظر آتا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ’’ اگر آپ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی تو یہ ایک افسوسناک امر ہو گا۔ میں نے کہا مجھے بھی اس پر افسوس ہو گا۔ تاہم مجھے اپنی پیشین گوئی پر پورا یقین ہے۔‘‘۳؎ سرسید احمد خاں اردو زبان کی بقا کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کس قدر اہم تصور کرتے تھے اس بات کا اندازہ اس واقعے سے بھی ہو سکتا ہے جب وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ لندن میں مقیم تھے تو انہیں معلوم ہوا کہ بابو شیو پرشاد نے تجویز کیا ہے کہ سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام کتابیں اردو کی بجائے ہندی میں ترجمہ ہوں۔ یہ بات معلوم ہونے پر انھوں نے نواب محسن الملک کو مندرجہ ذیل خط ۲۹؍ اپریل ۱۸۷۰ء کو لندن سے تحریر کیا: ایک اور خبر مجھے ملی ہے جس کا مجھ کو کمال رنج و فکر ہے کہ بابو شیو پر شاد صاحب کی تحریک سے عموماً ہندو لوگوں کے دلوں میں جوش آیا ہے کہ زبانِ اردو و خطِ فارسی جو مسلمانوں کی نشانی ہے مٹا دیا جائے۔ میں نے سنا ہے کہ انھوں نے سائنٹیفک سوسائٹی کے ہندو ممبروں سے تحریک کی ہے کہ اخبار بجائے اردو کے ہندی میں ہو تو ترجمہ کتب بھی ہندی میں ہو۔ یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ ہندو مسلمانوں میں کسی طرح اتفاق نہیں رہ سکتا۔ مسلمان ہرگز ہندی پر متفق نہ ہوں گے اور اگر ہندو مستعد ہوئے اور ہندی پر اصرار کیا تو وہ اردو پر متفق نہ ہوںگے اور نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ ہندو علیٰحدہ اور مسلمان علیٰحدہ ہو جاویں گے۔۴؎ سرسید کی وفات کے بعد نواب محسن الملک ایم اے او کالج علی گڑھ کے سیکرٹری منتخب کیے گئے۔ ان کے زمانے میں اُردو ہندی تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔ یوپی کے گورنر انٹونی میکڈانل نے ۱۸ ؍اپریل ۱۹۰۰ء کو احکامات جاری کیے کہ دفاتر اور عدالتوں میں اُردو کی بجائے ہندی استعمال کی جائے۔ مسلمانوں نے حکومت کے اس فیصلے پر زبردست غم و غصے کا اظہار کیا اور انھوں نے اس کو اپنی قوم کے خلاف ایک حملہ تصور کیا، چنانچہ ۱۳ مئی ۱۹۰۰ء کو علی گڑھ کے ٹائون ہال میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں نواب محسن الملک نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’ہم بذریعہ ایک معزز وفد کے ایک میمورنڈم گورنر صاحب کو پیش کریں اگر ہم کامیاب ہو گئے تو فہوالمراد، اگر ناکام رہے تو ہمارا دل اس خیال سے مطمئن رہے گا کہ ہم نے اپنا حق ادا کیا۔انھوں نے فرمایا: ’’ اے مسلمانو! آئو خدا کے کرم سے اور گورنمنٹ کے انصاف پر بھروسا کر کے اس قومی کام میں بلا اس خیال کے تم جیتو یا ہارو یہ آخری کوشش کر لو تاکہ یہ بات کہنے کو رہ جائے: شکست و فتح نصیب سے ہے ولے اے میر مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا نواب محسن الملک نے اردو زبان کی حفاظت کی غرض سے ’’اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کی جس کے تحت مختلف مقامات پر حکومت کے اس فیصلے کے خلاف جلسے منعقد ہوئے۔ چنانچہ انھوں نے لاٹ صاحب کی ناراضی کا خطرہ تک مول لے کر لکھنؤ میں ۱۷،۱۸ ؍اگست ۱۹۰۰ء کو ایک جلسہ منعقد کیا۔ اس جلسے کے متعلق سرعبدالقادر فرماتے ہیں: ۱۹۰۰ء میں جب یوپی کے گورنر انٹونی میکڈانل نے اُردو کے خلاف مہم شروع کی تو نواب محسن الملک نے اس مہم کا جواب دینے کے لیے لکھنؤ میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا۔ جس میں مَیں بھی شریک تھا۔ نواب محسن الملک نے اس جلسہ میں جس جوش و خروش سے تقریر کی اس کی نظیر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ یوں سمجھیے کہ الفاظ کا لاوا تھا جو ابل ابل کر پہاڑ میں سے نکل رہا تھا۔ آخر میں نواب محسن الملک نے یہ کہتے ہوئے کہ اگر حکومت اردو زبان کو مٹانے پر ہی تل گئی ہے تو بہت اچھا۔ ہم اردو کی لاش کو دریائے گومتی میں بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی والہانہ انداز میں مندرجہ ذیل شعر پڑھا: چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے اس پر تحسین و آفریں کا وہ شور اٹھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا چھت اڑ جائے گی۔۵؎ نواب محسن الملک کی یہ کارروائی لاٹ صاحب کو سخت ناگوار گزری۔ انھوں نے فوراً علی گڑھ کالج کے ٹرسٹیوں کا اجلاس بلوایا اور یہ دھمکی دی کہ اگر نواب صاحب نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن کی رکنیت کوترک نہ کیا تو حکومت کالج کی مالی امداد بند کر دے گی۔ گورنر نے نواب محسن الملک کو یہ کہا کہ وہ یا تو کالج کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیں یا اُردو کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔ اس نازک مرحلے پر نواب صاحب نے اپنا فیصلہ اُردو کے حق میں دیا اور انھوں نے ۲۶؍ اگست ۱۹۰۰ء کو کالج کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب میں نواب محسن الملک پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے گورنر کی دھمکی سے ڈر کر اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ مگر مولوی صاحب کا یہ کہنا بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب نواب صاحب نے ایم اے او کالج علی گڑھ کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دیا توبہت سے مسلم زعماء نے ان پر زور دیا کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے مولانا حبیب الرحمن شروانی کو لکھا ’’نواب محسن الملک کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لیں۔ ورنہ پبلک میں کالج کی جانب سے بہت بے چینی پیدا ہو جائے گی۔‘‘ سرمزمل اللہ خاں نے نواب محسن الملک پر زور ڈالتے ہوئے لکھا کہ’’ اس وقت حضور کا سیکرٹری شپ سے علیحدہ ہو جانا کالج کی موت اور قومی مصیبت ہے اور اس کا مؤاخذہ حضور کے اوپر خدائے ذوالجلال کے حضور میں ہو گا، نیز میَں یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس وقت خود حضور نے کالج کی سیکرٹری شپ کو چھوڑ دیااور ہمارے اصرار و الحاح پر توجہ نہ فرمائی تو میَں بھی جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دوںگا۔‘‘۶؎ نواب وقار الملک کی سوانح حیات وقار حیات میں اس واقعے کے متعلق درج ہے کہ ’’انٹونی میکڈانل نے کالج کے پرنسپل سَر تھیوڈر ماری سن کے ذریعے نواب محسن الملک کو متنبہ کیا کہ وہ اس ایجی ٹیشن (اُردو زبان کی حفاظت) میں حصہ نہ لیں۔ اس نے ان الفاظ میں اپنی برہمی کا اظہار کیا: استعفیٰ (کالج کی سیکرٹری شپ سے) منظور کرنا یا نہ کرنا ٹرسٹیوں کا کام ہے لیکن گورنمنٹ اور مدرسہ کے درمیان جو تعلقات قائم ہیں یہ امر ٹرسٹیوں کے معتمد اور نمائندہ کے مناسب نہیں کہ بغیر اس کے کہ ٹرسٹیوں کی رائے سے گورنمنٹ کو مطلع کیا جائے وہ ایک باضابطہ ایجی ٹیشن کا بانی مبانی ہو جو گورنمنٹ کی ایک تجویز کے خلاف کی گئی ہو۔۷؎ گورنر نواب صاحب کی سرگرمیوں پر اس قدر برہم ہوا کہ اس نے ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء کو انھیں اپنا خطاب ’’محسن الملک‘‘ استعمال کرنے کی ممانعت کر دی۔ یاد رہے کہ یہ خطاب انھیں ۱۸۸۷ء میں ملا تھا۔ سوال ہے کہ اگر نواب صاحب نے بقول مولوی عبدالحق میکڈانل کی حسب خواہش اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن سے استعفیٰ دے دیا تھا تو مختلف مسلم زعماء نے انھیں مندرجہ بالا خطوط کس سلسلے میں لکھے، نیز نواب صاحب اور گورنر کے درمیان تعلقات اس حد تک کیوں خراب ہو گئے کہ اس نے خطاب کے استعمال پر بھی پابندی عاید کر دی۔ خان بہادر سر شیخ عبدالقادر نے اس نازک صورت حال کے پیش نظر نواب وقار الملک ، مولوی مشتاق حسین (۱۸۳۹ء - ۲۸ جنوری ۱۹۱۷ئ) کے نام ۹؍ستمبر ۱۹۰۰ء کو شملہ سے مندرجہ ذیل مکتوب ارسال کیا: جو تفصیل نواب محسن الملک بہادر کے استعفی کی وجوہات کی آپ نے تحریر فرمائی اس کا شکریہ۔ نواب صاحب بہادر کا اپنا خط بھی اس سے پہلے اس مضمون کا پہنچ چکا تھا۔ مگر نواب محمد حیات خاں صاحب نے پھر زور سے ان کو تاکید واپسی استعفیٰ کی لکھی ہے۔ انھوں نے آنریبل مسٹر رواز ممبر کونسل عالیہ سے اس باب میں مشورہ کیا تھا اور صاحب موصوف نے جواب میں کہا کہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے گورنمنٹ آف انڈیا سیکرٹری کالج کی جانب سے بدستور مطمئن ہے اور شاید مسٹر انٹونی ویسے ہی سیکرٹری صاحب اُردو ڈیفنس کی وجہ سے ناراض ہوں۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ وہ اس سبب سے کالج کو نقصان پہنچائیں نیز یہ کہا کہ ان کی رائے میں نواب محسن الملک کی تقریر اور جو تجاویز اس میں پیش کی گئی ہیں، معقول معلوم ہوتی ہیں۔ ان سب باتوں کی اطلاع نواب صاحب کو دے دی گئی ہے۔ اب یہ بھی قرار پایا ہے کہ آنریبل نواب محمد حیات خاں صاحب دو سوال اُردو کے متعلق ۵؍اکتوبر کی کونسل عالیہ میں کریں جن کا مضمون حسب ذیل ہو: ۱- کیا گورنمنٹ آف انڈیا کو اس اضطراب سے آگاہی ہے جو ممالک مغربی و شمالی کے مسلمانوں میں لوکل گورنمنٹ کے ریزولیوشن ۱۸ ؍ اپریل ۱۹۰۰ء کے نفاذ سے پیدا ہوا ہے جس کے ذریعہ سے ناگری کا رواج عدالتوں میں جائز قرار دیا گیا ہے اور جس کی ترمیم میں عدالتی عہدوں کے لیے ہندی زبان کا جاننا لازمی ٹھہرایا گیا ہے۔ ۲- کیا گورنمنٹ آف انڈیا الفاظ ’’عرضی و استغاثہ‘‘ کی تشریح کی بابت ہائی کورٹ الہ آباد اور عدالت جوڈیشل کمشنر اودھ میں اختلاف ہوا ہے تاکہ اس تشریح سے ناگری حروف کے استعمال کی اجازت ایسے لوگوں تک کر دی جائے جو سوائے ناگری حروف کے اور کوئی حروف نہیں جانتے اور جو اپنی عرائض بلاواسطہ اصحاب قانون پیشہ کے اپنے ہاتھ سے پیش کریں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سوالات عین آپ کی منشا کے مطابق ہوں گے۔ رقعہ نواب محسن الملک بہادر واپس ارسالِ خدمت ہے۔ نواب محمد حیات خاں نے ہوم سیکرٹری گورنمنٹ آف انڈیا مسٹر رواز سے نواب محسن الملک کے مستعفی ہونے کا ذکر کیا تو انھوں نے اظہار افسوس کیا نیز کہا کہ’’ وہ ہرگز سر انٹونی میکڈانل سے اس قسم کے رویّے اور سلوک کی توقع نہیں رکھتے۔‘‘ نواب صاحب کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ شیخ عبدالقادر نے نواب وقار الملک کے نام ایک دوسرا خط شملہ ہی سے ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۰ء کو تحریر کیا جس میں لکھا: تقریر آپ کی آبزرور میں چھپ گئی ہے۔ آخیر کے حصہ میں مَیں نے کسی قدر اختصار کر لیا ہے۔ معاف فرمائیے! اگر آبزرور کی کاپیاں جس میں وہ تقریر درج ہے آپ کو نہیں ملیں تو عنقریب مل جائیں گی۔ میں نے نواب محمد حیات خاں کو آپ کے دونوں خطوط کے پیغام دے دیے تھے۔ وہ جواب میں سلامِ شوق عرض کرتے ہیں اور یاد آوری کے ممنون ہیں مگر آپ نے جو ٹرسٹیانِ پنجاب میں کسی کے سیکرٹری ہونے کی نسبت تحریر فرمایا ہے اگر نواب محسن الملک صاحب استعفیٰ پر مُصر ہیں، اس کی توقع نہیں ہو سکتی۔ نواب محمد حیات خاں صاحب اپنے کاروبار میں اس قدر منہمک ہیں کہ ان کا چھٹکارہ مشکل ہے۔ آپ کو معلوم ہے پنجاب کی کونسل کے ممبر ہیں۔ راولپنڈی میں آنریری ڈسٹرکٹ جج اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہیں۔ دو تین ضلعوں میں زمینداری کرتے ہیں اور کئی جھگڑے ہیں جو وہ اپنے ذمے لیے ہوئے ہیں وہ جب تک ان سب کو خیرباد نہ کہہ دیں علی گڑھ میں نہیں آ سکتے اور اس قدر ایثار اس زمانہ میں کس سے ہو سکتا ہے۔ خان بہادر برکت علی خاں صاحب کی نسبت آپ خود ہی تحریر فرماتے ہیں کہ وہ بہت بوڑھے ہیں۔ نواب محمد حیات خاں صاحب نے محسن الملک بہادر کے استعفیٰ کا ذکر آنریبل مسٹر رواز سے جو گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم سیکرٹری ہیں، کیا ہے۔ انھوں نے نہایت افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ ہم ہرگزسر انٹونی میکڈانل سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ رزولیوشن کی مخالفت کی ناراضگی کا کالج پر کچھ اثر ہونے دیں اور کم از کم گورنمنٹ آف انڈیا کو نواب محسن الملک سے کوئی ناراضگی نہیں۔ انھیں اپنے کام پر بدستور رہنا چاہیے، اس لیے نواب محسن الملک صاحب کو یہاں سے زور کا خط استعفیٰ واپس لینے کے لیے لکھا گیا ہے۔ شیخ عبدالقادر کے مذکورہ بالا مکتوب سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ سرسید احمد خاں کے رفقائے کار کی تحریریں پنجاب آبزرور (بعد میں آبزرور) کی زینت بنتی رہتی تھیں جن میں ملّی اور ملکی مسائل پر بحث ہوتی تھی۔ نیز یہ کہ نواب وقار الملک نے نواب محمد حیات خاں اور خان بہادر برکت علی خاں کے نام تجویز کیے کہ نواب محسن الملک اگر ایم اے او کالج کی سیکرٹری شپ سے مستعفی ہو جائیں تو ان میں سے کسی ایک کا تقر ر عمل میں لایا جائے ۔ شیخ عبدالقادر نے اپنے جواب میں نواب وقار الملک کو صحیح صورت حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان میں سے کسی کا تقرر بھی ممکن نہیں نیز یہ کہ ہوم سیکرٹری حکومت ہند چاہتے ہیں کہ نواب محسن الملک استعفیٰ واپس لے لیں۔ دوسر ی جانب مسلمانوں کو علیحدہ سیاسی جماعت کے قیام پر زور دینے کے لیے اخبارات اور رسائل میں مضامین اور مراسلات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس ضمن میں نواب محمد اسماعیل خاں (اگست ۱۸۸۴ء تا ۱۹۵۸ء ) پیسہ اخبار، نواب محسن الملک (۱۸۳۷ء تا ۱۹۰۷ئ) (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ) مولوی مہدی علی خاں اور سید رضا علی (۱۸۸۲ء تا ۱۹۴۹ئ) پائنیر نے مسلمانوں کی الگ سیاسی تنظیم کے لیے مضامین لکھے۔ مسلم اخبارات نے جن میں شفاء الملک، عصر جدید، قلقل، ذوالقرنین، العزیز اور اردوئے معلی شامل تھے۔ لیجسلیٹو کونسل اور دیگر مقامات پر اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کے قیام کی اہمیت کا احساس دلایا۔ سر فضل حسین (۱۴؍ جون ۱۸۷۷ء تا ۱۹۳۶ئ) نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے ایک جلسے میں سیاسی جماعت کے قیام کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی۔ اگرچہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں صوبائی سطح پر مسلمانوں کی سیاسی انجمنیں مثلاً محمڈن پولیٹیکل ایسوسی ایشن (یو پی) پروونشل محمڈن ایسوسی ایشن آف ایسٹرن بنگال وغیرہ موجود تھیں۔ شیخ عبدالقادر نے اپریل ۱۹۰۱ء میں انھی ناساز حالات اور واقعات کے پیش نظر اردو زبان کے دفاع اور بقا کے اعلیٰ عزم اور اس کی ترویج و اشاعت کی خاطر اپنا مجلہ مخزن نکالا۔ قابل ذکر یہ بات ہے کہ مندرجہ ذیل نقشہ پہلے شمارے سے لے کر مولانا تاجور نجیب آبادی کے زمانے تک سرورق پر چھپتا رہا۔ اس کی تفصیل اگلے صفحے پر پیش کی جار ہی ہے: عکس مخزن ۱۹۰۹ء میں ایک مرتبہ پھر اس فتنے نے سر اٹھایا۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ آگے بڑھی اور اس نے اردو زبان کی حفاظت اور ترویج کی خاطر مختلف قراردادیں پاس کیں۔ جنوری ۱۹۱۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے تیسرے اجلاس منعقدہ دہلی میں مندرجہ ذیل قرار داد پاس کی: آل انڈیا مسلم لیگ کچھ حلقوں کی جانب سے اردو زبان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں پر اظہار افسوس کرتی ہے اور اردو زبان اور ادب کی ترقی اور بقا کو اس ملک کی عام بھلائی کے لیے ضروری خیال کرتی ہے۔ سر عبدالقادر نے مندرجہ بالا قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ اُردو زبان کے علاوہ کوئی اور زبان ایسی نہیں جس کو ہندوستان کے تمام لوگ بآسانی سمجھ سکتے ہوں۔‘‘ سر عبدالقادر نے اُردو زبان کی موجودگی میں کسی اور زبان کو مشترکہ زبان کا درجہ دینے کی کوشش کو دریا کی موجودگی میں پانی کے لیے کنواں کھودنے کی کوشش کے مترادف قرار دیا۔۸؎ جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہوا انجمنِ دفاعِ اُردو کا ایک نمائندہ اجلاس ۱۸؍ اگست ۱۹۰۰ء کولکھنؤ میں نواب محسن الملک کی صدارت میں ہوا جو انجمنِ دفاعِ اُردو کے صدر تھے۔ اس اجلاس کا مقصد حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا تھاجو وہ ہندی زبان کی شناخت اور سرپرستی کے لیے کر رہی تھی۔ اس اقدام کی واپسی کا مطالبہ سرفہرست تھا۔ نواب محسن الملک نے اردو کا دفاع کرتے ہوئے کہا: اگرچہ قلم ہمارے قبضۂ اختیار میں نہیں ہے اور ہمارا قلم کچھ زیادہ طاقتور نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اعلیٰ مناصب پر فائز بھی نظر نہیں آتے لیکن ہم میں یہ قدرت ضرور ہے کہ تلوار کو اپنے قبضہ اختیار میں لائیں۔ ہمارے قلوب میں بھی ملکہ کی محبت ہے ہم ایک ثانیے کے لیے بھی یہ تصور نہیں کر سکتے کہ حکومت ہم سے قطع تعلق کرے گی یا ہمیں نظر انداز کر دے گی یا پھر جن باتوں پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے انھیں تباہ و برباد ہونے دے گی اور ہمیں مصائب میں مبتلا کر دے گی۔ میَں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ حکومت ہماری زبان کو مرنے دے گی بلکہ یہ اسے زندہ رکھے گی۔ یہ کبھی نہیں مرے گی۔ تاہم اس اَمر میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ فریق ثانی کی طرف سے اگر ہماری زبان کو قتل کرنے کے اقدامات جاری رہتے ہیں تو وہ مستقبل میں کسی وقت اس کی ترقی اور بالیدگی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان خدشات نے ہمیں اپنی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کرنے کے لیے چوکنا کر دیا ہے اور اگر ہم کچھ نہیں کر سکتے تو پھر اس کا جنازہ بڑی دُھوم دھام سے نکال سکتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ ایک پوری قوم کو آزارا ور پریشانی میں مبتلاکر دیتا ہے تو پھر کسی احتجاج کو منظم کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی لوگوں کو آمادہ عمل کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ایسے وقت میں ہمارا فرض ہے کہ رائے عامہ کو معتدل کریں اور لوگوں کے دلوں میں حکومت کی نیّت اور عزائم کے بارے میں فاسد خیالات کا خاتمہ کریں۔۹؎ سر شیخ عبدالقادر مخزن کے اجرا کا مقصدِ وحید اور بنیادی وجوہات بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ہر زمانہ اپنی ضرورت کے مطابق ہر کام کے لیے آدمی پیدا کرتا ہے اور ہمارے آج کل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بہت سے جوہر قابل موجود ہیں اور وہ اگر زبانِ اردو سے تغافل نہیں برتیں گے تو مخزن نئی زندگی پا سکتا ہے۔ افراد کی طرح قوموں میں بھی زندگی اور موت ہوتی ہے لیکن مر مر کے جینا افراد کو تو یہاں نصیب نہیں ہوتا بلکہ قوموں کا بھی بسا اوقات یہی حال ہے کہ مر کرمٹ جاتی ہیں۔ مگر بعض قومیں یا جماعتیں اور ان کے اصول و عقائد ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے لیے زوال ہے مگر فنا نہیں۔ اسلام ان عقائد اور اصولوں کا نمونہ ہے اور مسلمانوں کی قوم ایسی قوم ہے کہ جو گر گر کر سنبھلتی ہے اور مر کر زندہ ہوتی ہے۔ یہی حال زبانِ اُردو کا ہے جو پیدا تو مسلمانوں کی خاطر نہیں ہوئی تھی بلکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے ملاپ اور مشترکہ کوشش کا نتیجہ تھی مگر مدت سے ہندوئوں کا ایک طبقہ اس فکر میں تھا کہ اسے مسلمانوں کی خاص زبان قرار دیا جائے اور اس حد تک فی الحال وہ طبقہ کامیاب ہوا ہے کہ اس نے ہندوستان کے بہت سے حصوں میں سرکاری دفاتر سے اس زبان کو نکال دیا ہے۔ اس سبب سے مسلمانوں پر علی الخصوص اور اردو کے حامیوںپر علی العموم اردو کی حمایت اور بھی زیادہ واجب ہو گئی ہے باوجود اس دشمنی کے جو طبقۂ مذکورہ کی طرف سے اردو کے خلاف ظاہر کی جا رہی ہے مجھے یقین ہے کہ اردو زبان ہندوستان میں بھی بہت حد تک باقی رہے گی اور بیرونی دنیا میں جمع ہوگئی ہے۔ یہ اب ہر قسم کے خیالات اور مطالب کے اظہار پر قدرت رکھتی ہے اور ان کو خوبی اور عمدگی سے بیان کر سکتی ہے۔ اردو زبان کی وہ قوت جس سے ’’زخموں سے چُور‘‘ ہو جانے کے باوجود یہ سخت جانی سے ’’ہر زد کا مقابلہ‘‘ کر رہی ہے اور نئی زندگی کی علامات دکھا رہی ہے، اس کے ادبی رسالوں میں بھی موجود ہے اورمخزن کے نام سے اسی رنگ کے ایک نئے رسالے کا مخزنکی ابتدا سے تقریباً نصف صدی اور جاری ہونا اس کا مر کر جی اٹھنا ہے۔ اس تحریک میں جو احباب شامل ہیں ان میں دو خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ایک جناب حمید نظامی صاحب مدیر نوائے وقت اور دوسرے جناب ’’حامد علی خان صاحب‘‘ جو ایک مدتِ مدید تک رسالہ ہمایوں لاہور کو مرتب کرتے رہے، یہ دونوں صاحبان اس وقت اردو کے جوان ادیبوں کی صفِ اوّل میں ہیں۔ ان کے ہاتھ میں اس نئے پودے کے سرسبز اور بار آور ہونے کی وثوق سے امید کی جا سکتی ہے۔ ان کی جانب سے یہ قدیم مخزن کی قدردانی کا ثبوت ہے کہ انھوں نے اپنے نئے رسالے کا نام مخزن ہی رکھا۔ میں نے جب ۱۹۰۱ء میں اس نام سے رسالہ جاری کیا تو بہت سے ناموں کو سوچنے کے بعد اس کے حق میں فیصلہ اس خیال سے کیا کہ یہ لفظ جامع تھا اور مختصر انگریزی ڈکشنری سے مجھے یہ پتا چلا کہ لفظ میگزین جو انگریزی میں رسالوں وغیرہ کے لیے مستعمل ہے وہ دراصل عربی لفظ مخزن سے مشتق ہے۔ اس لیے اردو رسالے کے لیے موزوں معلوم ہوا اور اختیار کیا گیا۔ بعد ازاں قبولِ عام نے اپنی مہر اس پر لگا دی۔ مخزن کے اجرا کا خیال مجھے اردو کی حمایت کے ایک بڑے تاریخی جلسے میں بیٹھے ہوئے آیا جو مدت ہوئی لکھنؤ میں ہوا تھا۔ ان دنوں اردو کی مخالفت جو صوبجات متحدہ میں پنڈت مدن موہن مالوی نے شروع کی تھی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر ایک برطانوی لیفٹیننٹ گورنر سرانٹنی میکڈانل نے پہلے ایک ’’ضرب کاری اردو کے جسم‘‘ پر لگائی اور ہندی کوا س کی جگہ دینی چاہی۔ مسلمانوں میں اس پر بہت اضطراب پیدا ہوا اور ’’اردو کے بچائو‘‘ کے لیے لکھنؤ میں ایک اہم جلسہ طلب کیا گیا جس کی صدارت نواب محسن الملک مرحوم نے کی۔ میَں اور میرنیَرنگ صاحب اور میرزا اعجاز حسین مرحوم پنجاب سے جا کر اس جلسے میں شریک ہوئے۔ لکھنؤ کے مشہور بیرسٹر حامد علی خان صاحب مرحوم سیکرٹری اردو ڈیفنس کمیٹی کے ہاں ہم لوگ ٹھہرے۔ مگر ہمیں جاتے ہی معلوم ہوا کہ اودھ کی حکومت ہم تینوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نگرانی کر رہی ہے۔ میکڈانل صاحب کا مزاج ان دنوں سخت برہم تھا اور وہ مسلمانوں کے بہت مخالف ہو گئے تھے۔ انھیں یہ تعجب تھا کہ پنجاب سے تین آدمی لکھنؤ کے جلسے میں شرکت کے لیے کیوں آئے ہیں؟ میں نے ایک مختصر سی تقریر میں جس کا مجھے اس جلسے میں موقع ملا۔ لاٹ صاحب کے استعجاب کا جواب یہ دیا تھا کہ اردو کا مسئلہ صرف صوبجات متحدہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ سارے ملک کے ان حصوں سے متعلق ہے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اور ہم ’’مجروح اردو کی پکار‘‘ سن کر آئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہر جگہ کی اردو کے لیے ایک’’ دعوتِ جنگ ‘‘ہے۔ مجھے اس جلسے میں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ لکھنؤ جیسے شہر میں جس میں اردو ہندوئوں اور مسلمانوں کے گھروں میں بولی جاتی ہے اور جہاں اردو کے کئی مشہور شاعر اور نثر نگار ہندوئوں میں بھی موجود ہیں وہاں صرف ایک دو ہندو شریک جلسہ تھے۔ ان میں ایک بنارس کا بوڑھا وکیل تھا اس نے اتنی ہمت کی کہ وہ جلسے میں شریک بھی ہوا اور اس نے بعض تجاویز کی بحث میں بھی حصہ لیا۔ یہ تو ظاہر تھا کہ اس کی وجہ وہ دبائو تھا جو ہندی کے حامیوں اور حکومت کے کارکنوں نے مل کر ان ہندوئوں پر ڈالا ہو گا جو دوسری صورت میں کم از کم جلسہ دیکھنے کو تو آئے لیکن میَں نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان کی اس کم توجہی میں کچھ قصور مسلمانوں کا بھی ہے۔ بہت سے مسلمان شعراء نے اپنے اشعار میں تعلی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے شعر لکھے ہیں جن سے یہ مُترشحّ ہوتا ہے کہ زبان کے اصلی مالک یا اجارہ دار وہی ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ بولتے یا لکھتے بھی ہیں تو ان سے مستعار لیتے ہیں۔ اس سے کئی اردو لکھنے والے ہند و اردو سے علیحدگی اختیار کرنے لگے۔ اس لیے میَں نے ارادہ کیا کہ ایک ایسا رسالہ جاری کیا جائے جو مذہبی اور سیاسی بحثوں سے جو عموماً جھگڑے کا سبب بنتی ہیں الگ رہ کر صرف ادبی خدمات تک اپنی مساعی محدود رکھے اور ہندو مضمون نگاروں کو شرکت کار کے لیے صلائے عام دے اور اس طرح اپنے ناظرین میں بھی ہندو مسلمان دونوں کو شامل کرنے کی کوشش کرے۔ میں نے اس خیال کا تذکرہ اپنے دونوں ہمسفر رفیقوں سے کیا تو انھوں نے اسے پسند کیا اور قلمی امداد کا پرجوش وعدہ کیا جو وہ ہمیشہ دیتے رہے۔ لاہور واپس آ کر شیخ محمد اقبال صاحب مرحوم سے جو ان دنوں گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے، مَیں نے اس تجویز کا ذکر کیا، انھوں نے بھی اسے پسند فرمایا اور اپنا کلام مخزن میں وقتاً فوقتاً شائع کرنے کا وعدہ فرمایا۔ اس کے بعد دیگر احباب سے خط و کتابت کے ذریعہ وعدے حاصل کیے گئے۔۱۰؎ زیر نظر غزل انجمن دفاع اُردو کے نمائندہ اجلاس منعقدہ ۱۸ اگست ۱۹۰۰ء بمقام لکھنؤ سے متعلق ہے جس میں شیخ عبدالقادر، میر غلام بھیک نیرنگؔ، میرزاا عجاز حسین و دیگر بزرگوں نے شرکت کی تھی۔ غزل اگست ۱۹۰۰ء میں نیرنگؔ و اعجاز کو بہ ہمراہی جناب ایڈیٹرمخزن بہ تقریب جلسہ حمایت اردو لکھنؤ جانے اور وہاں مسٹر حامد علی خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لا کی خاص مہمان نوازی سے بہرہ اندوز ہونے کا موقع ملا۔۱۱؎ ذیل کی غزل کا اہم حصہ واپسی پر لکھا گیا تھا مگر ایک گو نہ تامل کی وجہ سے یہ غزل آج تک نیرنگؔ و اعجازؔ ہی تک رہی۔ اب بہ مصداق ؎ حیف برجانِ سخن گر بہ سخن داں نرسد۔ آخر کار اعجاز صاحب کو اس کی اشاعت پر مجبور کیا گیا۔ چنانچہ اب مصنف سے نظر ثانی کرا کر ہدیۂ احباب کی جاتی ہے۔ (نیرنگ) خندہ زن ہے یاس میرا شوقِ ساماں دیکھ کر مُسکرا دیتی ہے حسرت دل کے ارماں دیکھ کر رحم کر صیّاد رہنے دے قفس ہی میں مجھے بال و پر یاد آئیں گے صحنِ گلستاں دیکھ کر یہ کہیں پردہ شکایت ہائے پنہاں کا نہ ہو دل دھڑکتا ہے تبسّم ہائے پنہاں دیکھ کر کیسے ذرّے شوق نظارہ کی آنکھیں ہیں بچھی اپنے کوچے میں قدم رکھیو مری جاں دیکھ کر گرمیاں آخر دلِ اُلفت کی ٹھنڈی پڑ گئیں زمہریر سرد نہری ہائے یاراں دیکھ کر کب تراشیں یوں زنانِ مصر اپنی انگلیاں گر نہ ہوں دیوانہ رُوئے ماہِ کنعاں دیکھ کر پاسبان و حاجب و درباں کی حاجت یاں نہیں ہوش اُڑ جاتے ہیں وہ حُسنِ نگہباں دیکھ کر بہر تاثیرِ فُغاں لازم ہے تحفیظِ فغاں نالہ زن کچھ سیکھ انجام نیستاں دیکھ کر اس قدر کم مایگی پر خود نمائی کا یہ حال داغہائے دل، ہَنسے سرور چراغاں دیکھ کر اے زلیخا سوچ تو لینا تھا کچھ انجامِ کار پھاڑنا تھا حضرتِ یوسفؑ کا داماں دیکھ کر یادگارِ صد تمنا داغِ دل یاد آ گیا شمع افسردہ سرگورِ غریباں دیکھ کر شوقِ گل میں ہر روش پر دوڑتی پھرناکہاں تھک گئے ہم وسعتِ صحنِ گلستاں دیکھ کر جوششِ نظارہ نے گلشن بنائی ہے نگاہ لکھنؤ دیکھا کہ آئے باغِ رِضواں دیکھ کر کیا ہوا گر کہہ دیا ہم نے اُسے خُلدِ بریں وہ چمن وُہ آبِ جُو وُہ قَصرو اِیواں دیکھ کر لکھنؤ اور لکھنؤ والوں کی ساری خوبیاں آ گئیں باور ہمیں حامدؔ علی خاں دیکھ کر ہو سخن کو ناز جتنا اپنی خُوبی پر بجا وہ سخن فہم و سخن سنج و سُخنداں دیکھ کر جنّتِ گوش و نظر تھی اس کی بزم مختصر لطفِ جاں حاصل ہوا وہ سازو و ساماں دیکھ کر خوانِ یغما کا سماں آنکھوں کے آگے پھر گیا میز پر اُس کی ہجومِ میہماناں دیکھ کر چشم و دل اعجازؔ احسان و تماشا دوست ہیں آئیں گے پھر لکھنؤ اور اس کے اعیاں دیکھ کر۱۲؎ آل انڈیا مسلم لیگ کا دوسرا اجلاس ۳۰ اور ۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ء کو امرتسر میں سید علی امام کی زیر صدارت ہوا۔ خواجہ یوسف شاہ نے خطبۂ استقبالیہ پڑھا جب کہ میاں محمد شفیع، صاحبزادہ آفتاب احمد خان، مولوی رفیع الدین احمد، سید نواب علی، مولانا محمد علی، شیخ عبدالقادر اورنواب سلیم اللہ خان نے تقریریں کیں۔ اس اجلاس میں بہت سی قراردادیں پیش ہوئیں جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں۔ نواب وقار الملک نے اردو کے حق میں ایک قرارداد پیش کی۔ مسلم لیگ کے باقی اراکین نے اس کی پُرجوش حمایت کی اس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔ مسلم لیگ بھی اس بات کی قائل ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی کوششوں کی ہمت افزائی کی شدید ضرورت اور اردو میں صحیح تعلیم کی اہمیت کے پیشِ نظر، جو ہندوستانی سلطنت کی ’’لِنگوافرنکا‘‘ ہونے کے علاوہ، بمبئی پریذیڈنسی کے مسلمانوں کی بلاشبہ ورنیکلر بھی ہے۔ دکن مسلم لیگ اردو ٹریننگ کالج کے قیام کے لیے درخواست کو اور اردو سکولوں کے لیے مستند معائنہ افسروں کی تقرری کو انتہائی اہم قرار دیتی ہے اور یہ ایک ہمدرانہ نظر ثانی کی مستحق ہے۔۱۳؎ ٭٭٭ آل انڈیا مسلم لیگ کا تیسرا اجلاس۲۹ اور ۳۰ جنوری ۱۹۱۰ء کو سنگم تھیٹر میں دہلی کے شاہانہ شہر میں منعقد ہوا۔ حکیم محمد اجمل خان، مجلس استقبالیہ کے صدر تھے، ہزہائی نس آغا خان نے افتتاحی تقریر کی۔ اس اجلاس کے صدر سر غلام محمد علی خان بہادر، شہزادہ ارکوٹ نے اپنے صدارتی خطبے میں اس امر پر زور دیا کہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ ورنیکلر کی حیثیت سے اُردو کی توسیع کی جائے ان کے اپنے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں: Urdu as a Common Vernacular A third way of bringing about the desired regeneration of the community is the extension of Urdu as the common vernacular of all the Mussalmans in the country. Community of language is universally admitted to be a powerful factor in securing the unity of a people, and Urdu, which is already spoken by considerable numbers and which is generally understood in all parts of this continent, is pre-eminently fitted to serve this purpose. Moreover, Urdu has preserved all the good features of an Oriental language and has not been contaminated by the disturbing influences which, though foreign to our soil, have unfortunately begun to make inroads into the other vernaculars. The loyal and respectful tone towards the Government which the Urdu press has maintained in the hands of the Mussalmans, even during the most stirring period in recent times, illustrates clearly what I mean. Assuredly, a language which possesses such inherent capacity and virtues deserves the solid support of the community. It is encouraging to remember that, day by day, the sphere of the influence of Urdu is extending. Even in such a distant part of the Empire as Madras, people whose mother tongue is Tamil, Telugu, Malayalam or Canarese, are increasingly adopting Urdu for all practical purposes and are founding schools in which Urdu forms the medium of instruction. I trust that all lovers of the country and all lovers of peace and progress will try their best to strengthen this tendency and strenuously strive to make Urdu the common language of all India.14 یہ اجلاس پانچ نشستوں پر مشتمل تھا۔ حکیم محمد اجمل خاں صدر استقبالیہ کمیٹی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جبکہ افتتاحی خطبہ سر آغا خاں نے دیا اور سرسید امیر علی نے آخر میں تقریر کی۔ دوسری نشست قراردادوں کے لیے مخصو ص تھی۔ چنانچہ’’ ریفارمز سکیم‘‘ کے حوالے سے میاں محمد شفیع، سید نواب علی چودھری، سید یعقوب حسن، سید وزیر حسن، مسعود الحسن ، فضل بھائی اور صاحبزادہ آفتاب احمد خاں نے تقاریر کیں۔ اس کے بعد پبلک سروسز کے موضوع پر میاں محمد شفیع، سید یعقوب حسن، مولوی محبوب عالم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تیسری نشست میں عہدیداران اور اراکین کا انتخاب عمل میں آیا۔ آخری دو نشستیں قراردادوں کے لیے مختص تھیں جن میں ’’فرقہ وارانہ نمائندگی‘‘ اور ’’اُردو‘‘ کے بارے میں قرار دادیں خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس تاریخی اجلاس میں کتنی قدآور اور نابغۂ روزگار شخصیات جلوہ افروز تھیں لیکن ’’اردو ہندی تنازع‘‘ کے حوالے سے اردو کے بارے میں قرار داد پیش کرنے کی سعادت شیخ عبدالقادر مدیر مخزن کے حصے میں آئی۔ہم اس اجلاس کی رپورٹ کے متعلقہ حصے کا اصل انگریزی متن پیش کر رہے ہیں: URDU The League then passed the following resolution on Urdu as a Vernacular of India: "The All-India Muslim League deplores the attempts made in certain quarters to damage the importance of Urdu as the principal vernacular of India and regards the preservation and advancement of the Urdu language and literature as essential for the general progress of the country." Sheikh Abdul Qadir, in proposing the resolution, said: "that no single factor had contributed more largely to the formation of national sentiments and ideas than the Urdu language." It is, he said, "the only language which is understood by the educated classes all over India. The search after another common language looks like the digging of a well for a drinking water when the Ganga flows by and laves your feet. The need for Urdu has been felt on a wide scale by travellers and merchants in every part of India. Any practical step to be taken in the direction of supplying the need must depend upon the number of persons who feel the need. No one would think of learning a language if he could make no use of it except once in a pilgrimage, twice or thrice in a life-time, or to write a few letters in a year to a merchant in a neighbouring province. Urdu is in evidence not only in Government offices, in markets where articles of foreign manufacture are sold, but is also depended upon for inter-provincial business transaction. Even foreing language are daily borrowing the names of commercial stuffs from Urdu. In a way Urdu is widening the circle of its operation and enriching foreign literature. Even in pure and faultless Hindi, Urdu words are largely adopted because no other vernacular can take the place of Urdu as the common language of India. Very often words used in newspapers and books written in pure Hindi are so out of the way that they are intelligible only to those who know Sanskrit. Urdu is the only language which is read and spoken both by Hindus and Mussalmans. Any attempt to damage its importance, he said in conclusion, would be suicidal to the best interests of the progress of India. Kazi Kabiruddin, in seconding the resolution, said that the study of Urdu should be encouraged and all attempts to damage its utility should be boldly faced. It was highly desirable, on both patriotic and sentimental grounds, to encourage Urdu, the common medium of communication, by holding periodical conferences and creating competent bodies to look after its progress. The resolution was also supported by Moulvi Mahbub Alum, who remarked that Urdu was the Lingua Franca of India, a fact which its most determined opponents could not deny. He observed that the development of the Muslim community was synonymous with the preservation of the Urdu language." The resolution was put to the vote and adopted unanimously. The meeting was then adjourned to the afternoon.15 ترجمہ: شیخ عبدالقادر نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُردو زبان کے علاوہ کوئی اور ایسا واحد عامل نہیں ہے جس نے قومی احساسات اور خیالات کی تشکیل میں بڑھ چڑھ کر اتنا کثیر حصہ لیا ہو۔‘‘ انھوں نے کہا کہ’’ یہی وہ واحد زبان ہے جس کو پورے ہندوستان میں تعلیم یافتہ طبقہ سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مشترکہ زبان کی تلاش تو بالکل ایسی بات ہے کہ پینے کے پانی کے لیے اس جگہ کنواں کھودا جائے جہاں پہلے ہی گنگا بہہ رہی ہے اور ہمارے پائوں دھو رہی ہے۔ اردو کی ایک نہایت وسیع پیمانے پر ضرورت تو سیاّح اور سوداگر بھی محسوس کرتے ہیں اور ہندوستان کے گوشے گوشے میں محسوس کرتے ہیں۔ کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے رسد کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ضرورت مندوں کی تعداد کتنی ہے۔ کوئی بھی آدمی کوئی ایسی زبان سیکھنے کا تصوربھی نہیں کر سکتا جس کا مصرف محض اتنا ہو کہ وہ مقامات مقدسہ کی زیارت کے دنوں میں کام آنے والی ہو جس کا موقع زندگی میں دو تین بار ہی آتا ہے یا پھر پڑوسی صوبے کے کسی تاجر کو سال میں دو تین بار خط لکھنے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہو۔ اردو نہ صرف یہ کہ سرکاری دفاتر اور بازاروں میں مستعمل ہے جہاں غیر ملکی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں بلکہ یہ تو بین الصوبائی کاروباری لین دین میں بھی نمایاں ہے حتیٰ کہ یہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ غیر ملکی زبانیں بھی آئے دن، تجارتی اشیاء کے نام اردو زبان سے مستعار لے رہی ہیں۔لہٰذا ایک طرح سے اردو اپنا دائرہ عمل وسیع کر رہی ہے اور غیر ملکی ادب کے سرمائے میں بھی اضافہ کر رہی ہے حتیٰ کہ خالص اور بے عیب ہندی میں بھی اردو الفاظ ماخوذ کیے جارہے ہیں اس لیے کہ کوئی اور ورنیکلر ایسی نہیں ہے جو ہندوستان کی مشترکہ زبان اردو کی جگہ لے سکتی ہے۔ اکثر اوقات اخباروں اور کتابوں میں خالص ہندی زبان کے جو الفاظ لکھے جاتے ہیں وہ اس قدر مہمل اور بے تکے ہوتے ہیں کہ انہیں صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھیں سنسکرت آتی ہے۔ اردو ہی وہ واحد زبان ہے جس کو ہندو اورمسلمان دونوں لکھتے اور پڑھتے ہیں۔‘‘ انھوں نے تقریر کے اختتام پر کہا کہ’’ اردو کی قدر و قیمت کو گھٹانے کی کوئی بھی کوشش، ہندوستان کی ترقی کے بہترین مفاد میں انتہائی مہلک ہو گی۔‘‘ قاضی کبیر الدین نے قرارداد کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مطالعہ اردو اور اس کی تعلیم و تدریس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اس کی افادیت کو خسارہ رساں اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ اردو کی حوصلہ افزائی جذباتی اور حب الوطنی، دونوں بنیادوں پر اشد لازمی ہے، اردو جو کہ ایک مشترکہ ذریعۂ ابلاغ ہے اس کی ترقی و نگرانی اور جائزہ لینے کے لیے وقتاً فوقتاً کانفرنسیں منعقد کرنی چاہییں اور صاحب الرانے تنظیمیں بھی قائم ہونی چاہییں۔ اس قرارداد کی مزید حمایت اور تائید مولوی محبوب عالم نے کی اور کہا کہ’’ اردو تو ہندوستان کی’’ لنگوا فرانکا‘‘ ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اس کے ازلی دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’مسلم قوم کی ترقی اردو زبان کی حفاظت کے مترادف ہے۔‘‘ اس کے بعد قرارداد پر رائے شماری ہوئی اور اس کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔۱۶؎ آخر میں ہم بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ محمدعلی جناح کا ’’اردو ہندی تنازع‘‘ کے حوالے سے بے لاگ تبصرہ اور وہ ایمان افروز اور روح پرور تجزیہ پیش کرتے ہیں جس کا نچوڑ انھوں نے کانگریسی وزارتوں یا ہندوراج کے قیام کے نتیجے کے طور پر ملتِ مسلمہ کی آنکھیں کھولنے اور صحیح راہ پر کاربندہونے کے لیے پیش کیا اور صاف اور واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ’’مسلمانوں کے پاس مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن کریم فرقان حمید ہے‘‘ انھیں کسی دوسرے لائحہ عمل یا پروگرام کی ضرورت نہیں۔ زبان انسانی دل و دماغ پر کیا اثر کرتی ہے اس سلسلے میں انھوں نے اپنی مثال پیش کی ہے جو ہمارے لیے مشعلِ راہ بھی ہے اور قابلِ عمل بھی! میمن چیمبرز آف کامرس اور میمن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سپاسنامے کے جواب میں ۱۰؍ جون ۱۹۳۸ء کو’’ اردوہندی تنازع‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ: زبان کا اثر قوم کے تمدن، معاشرت، مذہب اور تعمیر کردار پر پڑا کرتا ہے۔ میں اپنی ہی مثال پیش کرتا ہوں کہ مجھے شروع شروع میں گجراتی کی تعلیم دی گئی۔ اس کے بعد انگریزی پڑھائی گئی اور انگلستان بھیج کر انگریزی زبان کی انتہائی تعلیم دلوائی گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری رگ رگ میں انگریزیت سما گئی۔ میں اپنی اس کمزوری کا احساس کرتا ہوں اور اس سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہوں لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا۔ میں اپنے پرقیاس کرتا ہوں کہ قوم کی تمدنی، معاشرتی اور مذہبی اصلاح و تعمیر پر زبان کا بہت زیادہ اثر مرتب ہوا ہے۔ اس چیز کو ملحوظ رکھ کر مسلمانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی مادری زبان اردو کو جاری رہنے دیا جائے لیکن کانگریس نے ہماری ایک نہ سنی۔ وہ عمداً ہندی یا ہندوستانی کو سب کے لیے لازمی کر رہی ہے اور صرف پبلک سکولوں میں نہیں بلکہ تمام سرکاری سکولوں میں بھی ہندی کو لازمی قرار دے رہی ہے۔ اب سوچیے کہ جب مسلمان بچے ہندی زبان پڑھیں گے، ہندو فلسفہ پڑھیں گے، ہندو لٹریچر کا مطالعہ کریں گے تو ان کی تمدنی، معاشرتی اور مذہبی حالت کیسی ہو جائے گی؟ کیا وہ برائے نام بھی مسلمان رہ جائیں گے؟ ہرگز نہیں! اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اُردو زبان مٹ جائے گی اور مسلمان اپنی تمام اسلامی خصوصیات کھو بیٹھیں گے۔۱۷؎ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- احمد سعید، حصول پاکستان، ایجوکیشنل ایمپوریم، لاہور،۱۹۸۳ئ، ص ۵۴۔ ۲- بحوالہ مولانا الطاف حسین حالی، حیات جاوید، لاہور، ۱۹۶۶ئ، ص ۱۴۲۔ ۳- ایضاً، ص ۱۶۳-۱۶۲۔ ۴- سر سید احمد خاں، خطوط سر سید (مرتبہ : سر راس مسعود)، بدایوں، ۱۹۳۱ئ،ص۶۶۔ ۵- عاشق حسین بٹالوی، چند یادیں، چند تاثرات، لاہور، ۱۹۷۰ئ، ص ۴۴، ۴۳۔ ۶- شیخ محمد اکرام، موج کوثر، لاہور، سنہ ندارد، ص ۱۴۔ ۷- اکرام اللہ ندوی،وقارِ حیات، علی گڑھ، ۱۹۲۵ء ص ۹۱۔ 8- Syed Sharif ul Deen Pirzada, Foundations of Pakistan, Karachi, 1970, p. 132 . ۹- محمد حنیف شاہد،آل انڈیا مسلم لیگ اور اردو (دسمبر ۱۹۰۶ء تا دسمبر ۱۹۴۷ئ)، انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ریاض (سعودی عرب) ،۱۹۹۲ئ، ص ۱۷۔ ۱۰- رسالہ مخزن، جنوری ۱۹۴۹ئ، ص ۳ تا ۸۔ ۱۱- نیرنگ اور اعجاز سے مراد میر غلام بھیک نیرنگ، میرزا اعجاز حسین اور ایڈیٹر مخزن سے مراد شیخ عبدالقادر ہیں۔ بیرسٹر حامد علی خان انجمن دفاع اردو کے سیکرٹری تھے۔ ۱۲- ماہنامہ مخزن اپریل۱۹۰۴ئ، جلد۷، نمبر ۱،ص ۵۸ تا ۵۹ ۔ ۱۳- محمد حنیف شاہد،آل انڈیا مسلم لیگ اور اُردو،ص ۱۸۔ 14- Evolution of Muslim Political Thought in India: Volume One. Ed. A. M. Zaidi, S. Chand and Co., 1975, pp. 207-208. 15- Ibid, pp. 240-241. ۱۶- محمد حنیف شاہد،آل انڈیا مسلم لیگ اور اردو،۱۹۹۲ئ،ص ۱۸ تا۲۱ ۔ ۱۷- احمد سعید، گفتار قائداعظمؒ، قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت، اسلام آباد،۱۹۷۶ئ،ص۲۱۲ تا۲۱۴۔ ـئ…ئ…ء اقبال کی ایک پرستار : سیدہ اختر حیدر آبادی ڈاکٹر معین الدین عقیل کلام اقبال کی مقبولیت خود ان کے اپنے زمانے میں ایک مثالی حیثیت اختیار کر چکی تھی کہ اس کے مظاہر اور اس کی مثالیں، بالخصوص اقبال کی ملی اورقومی موضوعات پر تحریر کردہ نظموں کے تعلق سے متنوع ہیں۔ مسلمانان جنوبی ایشیا کی سیاسی اور قومی تحریکوں کے فروغ اور سیاسی و سماجی بیداری کے عرصے میں تو اقبال کی متعدد نظمیں ان تحریکوں اور جذبات و احساسات کا سہارا بھی رہی ہیں۔ اس ضمن میں کم از کم بلکہ محض ایک نظم ’’ شکوہ‘‘ اور ساتھ ہی ’’جواب شکوہ‘‘ کی مثال کافی ہے۔۔۔۔ جس کے زیر اثر بھی اور رد عمل و جواب میں بھی متعدد نظمیں لکھی گئیں۔۱؎ یہ کلام اقبال کی مقبولیت ہی تھی کہ جس کے نہ صرف موضوعات و مضامین نے مسلم عوام کو متاثر کیا اور اپنی جانب کھینچا بلکہ اس کے اسلوب اور لب و لہجے نے عام شاعروں کو بھی متاثر کیا اور یہی نہیں بلکہ انھیں کلام اقبال کی مختلف صورتوں میں اور متنوع ہیئت میں تضمین پر بھی مجبور کر دیا۔ چنانچہ اقبال کے اسلوب اور لب و لہجے کو، خصوصاً معاصر شعراء نے، اس طور پر اختیار کرنے کی کوشش کی کہ جو نہ صرف موضوعات، پیرایۂ اظہار، لب و لہجے اور ہیئت سے بڑھ کر طباعت کے لحاظ سے بھی شعری مجموعوں کے اس صوری انداز اور جسامت میں بھی نظر آیا جس کے مطابق اقبال کے شعری مجموعے چھپتے رہے۔ یعنی متعدد شعراء نے اسلوب اور لب و لہجے اور موضوعات ہی نہیں اپنے مجموعوں کی طباعت اور ا ن کے صوری حسن کو وہی انداز دینے کی کوشش کی، جو اقبال کے شعری مجموعوں بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم ، پیام مشرق اور ارمغان حجاز وغیرہ کا رہا ۔ تضمیناتِ اقبال کے ضمن میں محققینِ اقبال کے لیے یہ ایک بڑا موضوعِ مطالعہ و تحقیق ہے کہ اقبال کے اپنے عہد سے اب تک اقبال کا کلام یا اس کی جزئیات نے کن کن شاعروں کو اور کس کس مرتبے کے شاعروں کو ان پر تضمین لکھنے پر آمادہ یا مجبور کر دیا اور ایسی تضمینات کی نوعیت، ہیئت اور معیار کیا رہا؟۲؎ اس حوالے سے تخلیقی سطح پر ایک نمایاں اور منتخب مثال اقبال کی ایک قریبی معاصر، بلکہ پرستار سیدہ اختر حیدر آبادی کی ہے، جن کی تخلیق کردہ تضمیناتِ اقبال کا ایک مکمل مجموعہ اختر و اقبال (یعنی تضمین بر کلام اقبال) ۱۹۴۸ء میں نسیم بک ڈپو، لکھنؤ سے شائع بھی ہوا تھا۔ اختر و اقبال کم یاب ہے اور راقم الحروف کو ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز(ٹوکیو، جاپان) کے مرکزی کتب خانے میں دستیاب ہوا تھا۔ اس نسخے کو سیدہ اختر نے ممتاز محقق سید نصیر الدین ہاشمی کو مورخہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۵۱ء کو دستخط کے ساتھ تحفتاً پیش کیا تھا۔ یہ مجموعہ بہ اہتمام زہرۂ سخن اکاڈیمی، فردوس اختر، ٹپکا پور (کان پور) اور زہرۂ سخن اکاڈیمی سبزہ زار اختر، السور (بنگلور) مرتب ہوا تھا۔ اس مجموعے پر سیدہ اختر کے نام کے ساتھ ’’زہرۂ سخن‘‘،۳؎ ’’ناہیدِ سخن‘‘ اور ’’خطیبۂ ہند‘‘ لکھا جانا ان کی سماجی مقبولیت اور سرگرمیوں کا ایک مظہر ہے۔ ’’خطیبۂ ہند‘‘ کا خطاب انھیں مولانا عبدالحامد بدایونی نے ۱۹۳۷ء میں صوبائی مسلم لیگ کے ایک جلسے میں ان کی ایک تقریر سن کر دیا تھا۔۴؎ معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ اختر نے بھرپور ادبی اور سماجی زندگی گزاری ہے۔ وہ بحیثیت شاعرہ اور سماجی و سیاسی کارکن بہت نمایاں اور ممتاز رہیں اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش تھیں۔ ان کا پیدائشی نام سیدہ نواب سردار بیگم تھا، لیکن سیدہ اختر حیدرآبادی کے نام سے معروف ہوئیں۔ ان کا آبائی وطن لکھنؤ تھا، لیکن ان کی پیدائش ۱۹۱۰ء میں حیدرآباد دکن میں ہوئی۔۵؎ چنانچہ وہ اپنے نام کے ساتھ حیدرآبادی بھی للھتی رہیں۔۶؎ شاعری کے ساتھ ساتھ خطابت میں بھی ممتاز رہیں، جو مذکورہ صدر خطاب، ’’خطیبۂ ہند‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ سماجی سرگرمیوں کے ذیل میں وہ سول ڈیفنس کونسل کی بھی رکن رہیں اور قومی و سیاسی سرگرمیوں کے تحت آل انڈیا مسلم لیگ کی سنٹرل سب کمیٹی کی رکن منتخب ہوتی رہیں۔۷؎ اور بالآخر زنانہ مسلم لیگ کی صدر بھی نامزد ہوئیں۔۸؎ ان کی شادی خان بہادر عبدالغنی، گورنمنٹ آرمی کنٹرکٹر اور مالک فرم شمس الدین اینڈ سنز، رئیس نصیرآباد، راجپوتانہ سے ہوئی تھی، جو بہت بااثر اور ذی حیثیت تھے۔ چنانچہ ان کے روابط معروف و ممتاز شعراء و نقادوں سے استوار تھے، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کے مجموعے اختر و اقبال کے آغاز میں ان کی شخصیت و شاعری کے بارے میں جو ش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، نیاز فتح پوری، ماہر القادری، سیماب اکبر آبادی وغیرہ کی آراء شامل ہیں۔ چونکہ ان اکابر ادب کی آراء غیر مدون ہیں اور توجہ کی مستحق ہیں اس لیے ان میں سے جوش، جگر اور ماہر کی تحریروں کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ جوش لکھتے ہیں: ناہیدِ سخن خطیبۂ ہند، ناہیدۂ سخن سیدہ اختر صدر ’’آل انڈیا زنانہ مسلم لیگ‘‘ کو میں ان کے بچپن سے جانتا ہوں اور میں ان کا ایک دیرینہ نیاز مند ہوں اور ان کو اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہ ادب کے افق پر ستارہ بن کر طلوع نہیں ہوئی تھیں۔ اختر کے اندر ایک ایسی بے تاب روح کارفرما ہے جو عورتوں میں تو کیا ہزاروں مردوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اور ان کے جذبات اس قدر تندوتیز ہیں کہ معلوم ہوتا ہے ’’نپولین‘‘ کی روح ان کے اندر حلول کیے ہوئے ہے۔ وہ شعر وادب کے ساتھ ساتھ ’’قومی خدمات‘‘ کا بھی شدید جذبہ رکھتی ہیں اور جب کسی کام کا بیڑا اُٹھاتی ہیں تو اسے انجام دیے بغیر دم نہیں لیتیں۔ ایک عورت ہو کر و ہ خدمتِ خلق کے معاملات میں شدید سے شدید محنت کرتی ہیں لیکن تھکتی نہیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے۔ اختر صاحبہ کی شاعری میں تصنع مطلق نہیں پایا جاتا۔ وہ جو کچھ محسوس کرتی ہیں اسی کو شعر کا پیکر دیتی ہیں۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ غزل کہتے ہیں وہ نظم نہیں کہہ سکتے اور جو نظم پر قادر ہوتے ہیں انھیں نثر پر قدرت نہیں ہوتی۔ لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ اختر صاحبہ غزل، نظم اور نثر ان تینوں اصناف پر قادر ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایک خاص دل کش اور کام کی صفت ان میں اور بھی ہے یعنی وہ ایک نہایت شیریں بیان اور جذبات انگیز خطیبہ بھی ہیں اور خطابت کے وقت ان کے الفاظ کی روانی، چہرے کی شگفتگی، آنکھوں کی شعلہ پرور چمک او رلہجہ کا پُرجوش بہائو سامعین کو ایک دوسرے عالم میں لے جاتا ہے۔ موصوفہ کا دل کش کلام سیدہ اختر و اقبال (تضمین بر کلام اقبال) آپ کے سامنے ہے۔ اسے ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ اس شاعرۂ نادرہ گفتار کے قلم نے رنگینیوں اور لطافتوں کے کیسے دریا بہائے ہیں اور اختر کے سینے میں کتنے جواہر جگمگا رہے ہیں۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ ہندوستان کے ارباب ادب اس صحیفۂ درخشاں کو سرآنکھوں پر لیں گے اور ان کے آسمان شاعری پر یہ نجم درخشاں جو طلوع ہوا ہے اس کے نظارے سے اپنی آنکھوں کو روشن کریں گے۔ جوش (ملیح آبادی) بصد ہزار عجلت۹؎ جگرمراد آبادی نے لکھا ہے: کلامِ اختر موجودہ اردو شعر وادب نہایت ہی نازک دور سے گذر رہا ہے۔ مغربی استیلا و تسلط نے ہماری داخلی شاعری کا رخ قطعاً یا زیادہ سے زیادہ خارجی شاعری کی جانب پھیر دیا ہے۔ کتنی ہی عمدہ حسن کی شرح و تفصیل کرتے جائیے، حسن باقی نہیں رہے گا۔ اسی لیے اشارہ و کنایہ شعر کی جان سمجھے جاتے ہیں۔ جب کوئی قوم اپنی خصوصیات سے اِبا کرنے لگے اور دوسری اقوام کی اندھا دھند تقلید ، تو اندازہ کیجیے کہ وہ قوم ہلاکت کی طرف جارہی ہے یا زندگی کی جانب؟ یاد رکھیے! آپ کی زندگی آپ کی خصوصیاتِ ملی و ملکی میں ہے نہ کہ تقلید وتائید میں۔ ایک بین الاقوامی کریٹک بہت آسانی کے ساتھ آپ کے شعر و ادب کا تجزیہ کرکے بتادے گا کہ آپ کے شعر و ادب میں کہاں تک آپ کی انفرادیت ہے اور کہاں تک دوسروں کی۔ آپ کا شعر و ادب زبان کے اعتبار سے آپ کا سہی لیکن اندازِ بیان، خیالات و جذبات کے اعتبار سے آپ کا نہیں بلکہ اس قوم یا اقوام کا ہے جن کے آپ ’’ہز ماسٹرس وائس‘‘ بنے ہوئے ہیں یا بنتے جارہے ہیں۔ ہماری جماعتِ ناقدین کو بے حد وسعتِ فکرونظر کے ساتھ گرم و سرد ممالک کے اثرات کے ماتحت مشرقی و مغربی شعراء کا مزاج دریافت کرنا چاہیے! اور شعر و ادب کے متعلق ایک صراط مستقیم قوم وملک کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ یہاں یہ موقع نہیں کہ زیادہ تحلیل و تفصیل سے بحث کی جائے۔ اس قدراجمال و تفصیل یا تمہید کے بعد اصل موضوع یعنی خطیبۂ ہند، زہرۂ سخن سیدہ نواب سردار بیگم صاحبہ اختر کے متعلق کچھ کہنا ہے۔ شعر حقیقتاً شاعر کی ظاہر و باطن صورت کا آئینہ ہوتا ہے۔ اگر آپ دیکھ سکتے ہیں تو اس آئینہ میں شاعر کا ایک خدوخال واضح طور پر نظر آجائے گا۔ تمام ادبی دنیا میں عام طور پر یوپی کی دنیا میں خاص طور پر بیگم صاحبہ سیدہ اختر کی شخصیت نہایت درجہ نمایاں اور باوقعت ہے۔ آپ کی سیاسی، ادبی، مذہبی اور قومی سرگرمیاں شاہد ہیں کہ آپ نے ہر موقع پر ایک غیرفانی شجاعت، عزت و بہادری، خودداری کا ثبوت دیا ہے جو قابلِ تحسین و آفریں ہی نہیں، قابلِ رشک بھی ہے۔ موصوفہ نہایت ہی شریف، نڈر، پاکیزہ اخلاق، باعصمت خاتون ہیں۔ گویا صحیح معنوں میں ’’مشرقی خاتون‘‘۔ شعر و ادب کی تعریف میں دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ اور پھر بھی شعر و ادب اپنی جگہ اسی طرح تشنۂ تعریف ہے۔ ’’گشت راز دگر آں راز کہ افشا می کرد‘‘ رد و قبول کا معیار طلسم وہم سے زیادہ کچھ نہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی نور و ظلمت اعتباری سہی لیکن اس میں تو شک نہیں کہ یہ وہمِ اعتبارِ یا اعتبار وہم ہی ہے جس نے ایک کائناتِ حسن و جمال ہمارے سامنے لاکر کھڑی کردی ہے۔ ردو قبول کا معیار بھی اگر کوئی ہوسکتا ہے تو یہی ظلمت و نور کی تقسیم! میں صنفِ نازک کو شاعر کے لباس میں دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ وہ ایک شعرِ مجسم ہے، ایک نغمۂ سراپا۔ اس کی شعریت، جسے حقیقت میں شعریت کہا جاتا ہے، اس کی عظمت و پاکیزگی میں ہے۔ حسن عبارت ہے تناسبِ اعضا سے لیکن اگر تناسبِ باطنی بھی شامل ہوجائے تو یہ ایک ایسی قوت بن سکتا ہے جس سے اگر صحیح معنوں میں کام لیا جائے تو دنیا زیر و زبر ہوسکتی ہے۔ صنفِ نازک کی مثال ایک نہایت ہی نازک پھول سے دی جاسکتی ہے۔ اگر آپ اس کی حیاتِ جمال تادیر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ اسے چھوئیے نہیں۔ اسے زیادہ گہری نگاہوں سے نہ دیکھیے ورنہ وہ جلد اپنی عمرِ طبعی کھو بیٹھے گی اور اس وقت آپ یا تو ایک بوالہوس کی طرح اس کے اوراقِ پریشاں کو پامال کرتے ہوئے گزرجائیں گے یا پھر آپ کو تمام زندگی قدرت کے ایک عطیہ یعنی مسرت سے کنارہ کش ہوکر اس کے دوسرے عطیۂ غم ہی تک محدود رہ جانا پڑے گا۔ عورت، شعر ونغمہ کی قوتوں کا مقابلہ کرنے میں اکثر و بیشتر اپنی خصوصیات کو بھول بیٹھتی ہے، بجز استثنا کے بہت کم مثالیں ایسی مل سکیں گی کہ عورت شاعرہ یا مغنیہ بن کر اپنی حقیقی شرافت و عظمت، عصمت و حرارت کو برقرار رکھ سکے۔ جہاں تک مجھے علم ہے خطیبۂ ہند، زہرۂ سخن، سیدہ اختر ان مغتنم ہستیوں میں سے ہیں جنھوں نے مغربی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مشرقی خصوصیات کو اپنی جگہ قائم و دائم رکھا۔ میں نے اختر صاحبہ کو دیکھا ہے اور انھیں جانتا ہوں، انھیں کی زبانی ان کے اشعار، ان کے مضامینِ تازہ بتازہ اکثر مشاعروں اور کانفرنسوں میں سنے ہیں۔ میں اپنے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ موصوفہ نہایت درجہ پاک طبیعت و استعداد لے کر آئی ہیں۔ موصوفہ نہ صرف نظم نگاری و غزل گوئی پر پوری قدرت رکھتی ہیں بلکہ نثر میں بھی ان کے مضامین کا معیارِ فکرونظر بہت بلند اور وسیع ہے۔ وہ صرف قافیہ اور ردیف کی تعریف نہیں کرتیں بلکہ حقیقتاً وارداتِ قلبیہ ہوتی ہیں جو قوائے شعریہ سے متصل ہوکر از خود صورتِ شعری اختیار کرلیتی ہیں۔ دورِ حاضرہ میں شعراء کی بہتات وبا کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ مبتدیوں کو چھوڑیے اساتذہ کی زندگی اور ان کے شعر و ادب کو جانچیے! آپ کو شاید ہی کچھ حضرات ایسے مل سکیں گے جن کی زندگی اور جن کے شعروادب میں کوئی تناقض اور تضاد نہ پایا جائے! اختر صاحبہ کے لیے یہ شرف کچھ کم نہیں کہ ان کی زندگی اور ان کے شعروادب میں بڑی حد تک یک رنگی و ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی ہی زندگی پیدا کرسکتی ہے۔ اگر شاعر کے شعروادب میں شاعر کی زندگی موجود ہوتو وہ کبھی فنا نہ ہوسکیں گے اور اگر ایسا نہیں تو ممکن ہے محض کمال کی بنا پر کچھ خصوصیات باقی رہ جائیں۔ ورنہ حقیقت میں جس کا نام زندگی ہے وہ کہاں؟ سیدہ اختر و اقبال (تضمین بر کلامِ اقبال) آپ کے سامنے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ان کے کلام سے میرے بیان کی خود ہی تصدیق کرلیں گے۔ میں شعروادب کو نقدونظر کے ماتحت نہ مجروح کرسکتا ہوں اور نہ دیکھ سکتا ہوں، ورنہ موصوفہ کے اشعار کی خصوصیات نمایاں کرکے ثابت کرتا کہ ان کا درجہ شعروادب میں کس قدر بلند ہے؟ مخلص جگر مرادآبادی ۱۰؎ ماہر القادری نے اس مجموعے کے بارے میں لکھا: کلامِ اختر کی روانی و سادگی غزل کے لغوی معنی عورتوں سے بات چیت کرنے کے ہیں۔ اس لیے تمام اصنافِ سخن کے مقابلہ میں غزل زیادہ لطیف اور نرم و نازک جذبات کی حامل ہوتی ہے لیکن اس غزل کی بے پناہی اور قیامت آفرینی کا کون اندازہ کرسکتا ہے جو خود صنفِ نازک کے جذبات و محسوسات کی ترجمان ہو۔ علامہ شبلی نعمانی نے عورت کو چہرۂ کائنات کا غازہ اور آب و رنگ کہا ہے، تو اسی آب و رنگِ کائنات کی طرف سے جب یہ کہا جائے کہ: روداد غم بیان تو کیا کر رہی ہوں میں؟ اک فرض ناگوار ادا کر رہی ہوں میں! (اختر) تو اس اثرانگیزی کی بھلا کوئی حدبندی ہوسکتی ہے؟ محترمہ خطیبۂ ہند، زہرۂ سخن سیدہ سردار بیگم اختر کو کون نہیں جانتا۔ تمام ہندوستان میں اخباروں اور رسالوں کے اوراق سے لے کر جلسوں اور کانفرنسوں کے پلیٹ فارموں تک ان کی خطابت وسخن سنجی کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ وہ بیک وقت آتش بیان مقررہ بھی ہیں، ڈسپلن قائم رکھنے والی کمانڈر بھی، شیریں مقال شاعرہ بھی، شعلہ وشبنم کی یکجائی۔۔۔۔ پھولوں اور انگاروں کا اجتماع۔ خصوصیاتِ کلام: اختر صاحبہ کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیات ترنم، روانی اور سادگی ہے۔ وہ شعر کو فیثا غورث کا نظریہ نہیں بناتیں، سیدھی سادی بات کہتی ہیں جو اندازِ بیان کی پاکیزگی اور دل کشی کے بعد سحرِحلال بن جاتی ہے۔ اختر کی غزل میں جدید تغزل کے قریب قریب تمام رجحانات پائے جاتے ہیں۔ الفاظ کو اپنے محل اور موقع سے برتنے کا بھی ان کو سلیقہ ہے، مفہوم ادا کرنے پر ان کو پوری قدرت حاصل ہے، اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس دور کے بے راہرو شاعروں کی طرح نامانوس، مغلق، خود تراشیدہ ترکیبوں سے ان کی غزلیں پاک ہوتی ہیں۔ ماہر القادری ۱۱؎ مملکت حیدرآباد میں اقبال کی ستائش و مطالعے کے لیے قائم ’بزمِ اقبال‘ کی شاخ واقع رائچور نے ۱۹۴۶ء میں ایک ’ہفتہ اقبال‘ کا اہتمام کیا اور ۱۱؍مئی کو اہم تقریبات کا انعقاد کیا جس میں مقامی اور دور دراز سے مدعو کیے گئے متعدد مہمانوں واکابر نے شرکت کی۔ بیگم اختر کو بھی ان تقریبات میں مدعو کیا گیا تھا، جس کے ایک اجلاس کی صدارت بھی ان کے سپرد کی گئی تھی۔ اپنے صدارتی خطاب میں بیگم اختر نے کہا: اقبال اور ان کے بارے میں اتنا لکھا جاچکا ہے کہ شاید ہندوستان میں یہ شرفِ بلند کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہوا ہو۔ اردو ، انگریزی اور دیگر زبانوں میں بے شمار مقالے اور کتابیں منصۂ وجود میں آچکی ہیں۔ اقبال نے اسلام کی تعلیمات میں جدید روح پھونکی ہے۔ اس کا فلسفۂ تدبیر انسان کی تقدیر اور اس کی کامیابی کے تمام امکانات پر حاوی ہے۔ وہ ایک ایک نقطۂ حیات کی عقدہ کشائی کرتا ہے۔ ہندوستان کا جذبۂ بقا دراصل نتیجہ ہے اس تصادم کا جو انگریزی اقتدار اور ہندوستان کے درمیان گزشتہ چھے سال سے ہو رہا ہے۔ یہ تصادم محض سیاسی نہیں بلکہ فکری اور ذہنی بھی ہے۔ اقبال کا کلام ہر گھر میں ہونا چاہیے تاکہ ہماری نئی نسل اس کو پڑھے اور قومی مستقبل تابناک ہو۔۱۲؎ مجموعہ اختر واقبال تمام تر کلامِ اقبال کی تضامین پر مشتمل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ اختر شاعری میں نظم کو ترجیح دیتی تھیں۔ اس مجموعے کے تمام مشمولات نظم میں ہیں، پھر ان نظموں کی ہیئت بھی زیادہ تر مخمس میں ہے اور کچھ مسدس اور رباعی ہیں۔ شاعرہ کو فارسی زبان میں بھی درک تھا چنانچہ اقبال کے فارسی کلام پر بھی تضمینیں تخلیق کی ہیں اور بعض منظومات یا ان کے اجزاء بھی فارسی میں تخلیق کیے ہیں۔ تضامین میں جہاں سیدہ اختر نے اقبال کے مصرعے استعمال کیے ہیں، وہیں کچھ کوشش اقبال کے اسلوب کو اختیار کرنے کی بھی نظر آتی ہے اور کہیں عنوانات بھی اقبال کے مصرعوں یا تراکیب سے اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ مجموعہ کل۳۳ منظومات پر مشتمل ہے۔ یہ عنوانات درج ذیل ہیں: ’’مناجات‘‘، ’’آہ دلی‘‘، ’’ناز و نیاز‘‘، ’’تمنائے انجم‘‘، ’’بارگاہِ شہود‘‘، ’’نورِ مطلق‘‘، ’’مجذوباتِ شیخ‘‘، ’’حرم و دیر‘‘، ’’گدازِ دل‘‘، ’’نغمۂ دائود‘‘، ’’نغمہ ہائے الست‘‘، ’’زخمِ کرم‘‘، ’’مرگِ خودی‘‘، ’’شکروقند‘‘، ’’مناصبِ حیات‘‘، ’’سحر‘‘، ’’صبح کا تارا‘‘، ’’حکومت‘‘، ’’علم دین‘‘، ’’پیرِحرم سے‘‘، ’’اشارۂ فطرت‘‘، ’’کارگہِ شیشہ گراں‘‘، ’’قندِمکرر‘‘، ’’لوحِ قرآنی‘‘، ’’فکرِراہ‘‘، ’’نوائے سوز‘‘، ’’مرغِ نوا طراز‘‘، ’’شاعر اور حور‘‘، ’’نئے دور کا آغاز‘‘، ’’فرمانِ ابلیس‘‘، ’’ماہِ تمام‘‘۔ دو نظمیں ’’اختر واقبال‘‘ اور ’’سیدہ اختر و اقبال‘‘ بھی شامل ہیں۔ مگر ان کا جواز بظاہر واضح نہیں ہے۔ مختلف منظومات سے چند بند ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں تاکہ نمونۂ تضمینات ملاحظہ ہوسکے: ہر اک ذرہ دردِ تمنا سے مضطر ہر اک گام ہے تازہ سامانِ محشر قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر نگاہوں سے پوشیدہ لاکھوں ہیں منظر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں۱۳؎ اگر چاک ہے گل کا دامن تو کیا غم ہے نذرِ خزاں تیرا گلشن تو کیا غم اگر چھن گیا تیرا مامن تو کیا غم ’’اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں‘‘۱۴؎ لٹا کے سرمایۂ خودی کو زمانے میں سرفراز ہو جا قتیلِ تیغِ نگاہ بن جا، شہیدِ حسنِ مجاز ہو جا اٹھ اے حریصِ غمِ محبت، ہمہ غمِ جاں گداز ہو جا ’’سن اے طلب گارِ دردِ پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہوجا میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہوجا‘‘۱۵؎ یقین ہے دولتِ نایاب کو کھوتا تو ہے لیکن یہ مانا یادِ ماضی میں بہت روتا تو ہے لیکن اثر تیری نوائے تیز کا ہوتا تو ہے لیکن ’’شرارے وادیِ ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن نہیں ممکن کہ پھوٹے اس نوا سے تخمِ سینائی‘‘۱۶؎ مژدہ بادا کہ کنوں دیدہ ورے پیدا شد نورِ خورشید بہ شکلِ شررے پیدا شد محرمِ صدق و صفاے دگرے پیدا شد نورِ مطلق بہ لباسِ بشرے پیدا شد ’’نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد‘‘۱۷؎ وہ دن بھی تھا کہ ہاتھ میں تھے تیرے روم و رے پر اب نہیں ہے جز کفِ افسوس کوئی شے آخر یہ سجدۂ درِ بت خانہ تا بہ کے ’’باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول‘‘۱۸؎ وہ سحر جس نے کیا ختم زمانے کا جمود وہ سحر جس کی تجلی ہے دو عالم کی نمود وہ سحر ختم ہوئی جس سے شب زنگ آلود ’’وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا‘‘ ۱۹؎ تمام عالمِ ہستیِ بے ثبات بھی ایک صفات و ذات بھی ایک اور ممکنات بھی ایک ہے غزنوی بھی یہاں ایک سومنات بھی ایک ’’زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم‘‘۲۰؎ تعمیر ہوئے مدرسے فردوسِ بریں کے تعلیم ہی ناقص ہو تو کیسے کوئی جاگے اس خاک سے کس طرح ستارہ کوئی چمکے ’’ممکن نہیں تعمیرِ خودی خانقہوں سے اس شعلۂ نمناک سے ٹوٹے گا شرر کیا‘‘ ۲۱؎ ہر شاخ شاخِ تاک ہے، ہر غنچہ بادہ ریز ہر برگِ سبز اب نظر آتی ہے تیغِ تیز اختر کی فکرِ نو سے ہے ذروں میں جست و خیز ’’اقبال کی نوا سے ہے لالہ کی آگ تیز ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو‘‘۲۲؎ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- جن کا ایک نمائندہ مجموعہ قمقام حسین جعفری کے مرتبہ انتخاب: شکوہ اور جواب شکوہ، مطبوعہ کراچی ۱۹۷۳ء میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ۲- اس ضمن میں ایک مثالی اور جامع کاوش کا نمونہ بصیرہ عنبریں نے پیش کیا ہے: تضمیناتِ اقبال، مطبوعہ لاہور ۲۰۰۷ئ۔ ۳- ’’زہرۂ سخن‘‘ کا خطاب انھیں سیماب اکبرآبادی نے ۹؍نومبر ۱۹۴۲ء کو اردو کانفرنس و مشاعرہ، منعقدہ بنگلور کے جلسے میں دیا تھا۔ ان کے الفاظ یہ تھے: ’’اگر میں ریاست میسور کا فرمان روا ہوتا تو (اس کانفرنس و مشاعرے کے انعقاد پر) آج اختر صاحبہ کو اپنی حکومت کی طرف سے ’’زہرۂ سخن‘‘ کا تابناک خطاب دیتا، جس کی وہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں۔‘‘ سیماب اکبرآبادی، مشمولہ اخترواقبال ،ص۸۔ ۴- محمد جمیل احمد، تذکرہ شاعرات ہند، بریلی، ۱۹۴۴ئ، ص۲۲۱۔ ۵- فصیح الدین بلخی، نسوانِ ہند، پٹنہ، سن ندارد، ص۱۳۸۔ ۶- ایضاً، ونیز محمد جمیل احمد، تصنیف مذکور، ص۲۲۱۔ ۷- سرفراز حسین مرزا، Muslim Women's Role in Pakistan Movement لاہور۱۹۶۹ئ، ص۴۲، ۵۵، ۶۴۔ ۸- بحوالہ: جوش ملیح آبادی ’’ناہید سخن‘‘ مشمولہ: اختر و اقبال، ص۹۔ ۹- اختر و اقبال، ص۷،۸۔ ۱۰- ایضاً، ص۹،۱۳۔ ۱۱- ایضاً، ص۱۴،۱۵۔ ۱۲- عبدالرئوف عروج،اقبال اور بزمِ اقبال حیدرآباد دکن، کراچی ۱۹۷۸ئ، ص۱۳۰، ۱۳۹؛ رات کے دو بجے سیدہ اختر صدارتی تقریر کے لیے کرسیِ صدارت سے اٹھ کر مائک پر تشریف لائیں۔ پورالان ’’خطیبۂ ہند، زندہ باد‘ اور ’زہرۂ سخن‘‘، زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ عوام ان کی انقلابی نظموں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سیدہ اختر کی شاعری نے ملک کے نوجوانوں میںکس طرح بیداری کی لہر پیدا کی ہے۔ ایضاً، ص۱۳۹۔ ۱۳- ایضاً، ص۷۵۔ ۱۴- ایضاً۔ ۱۵- ایضاً، ص۲۴۔ ۱۶- ایضاً، ص۲۸۔ ۱۷- ایضاً، ص۳۲۔ ۱۸- ایضاً، ص۴۰۔ ۱۹- ایضاً، ص۵۲۔ ۲۰- ایضاً، ص۵۶۔ ۲۱- ایضاً، ص۵۹۔ ۲۲- ایضاً، ص۷۸۔ ـئ…ئ…ء علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کے روابط محمد حمزہ فاروقی انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے طویل مدت تک مسلمانوںکے نہایت اہم اجتماع تصور کیے جاتے تھے۔ یہ عموماً تین سے چار دن تک جاری رہتے اور ہر روز تین چار نشستیں منعقد ہوتیں۔ ملک کے طول و عرض سے جید علمائ، بزرگ، صوفیہ، ماہرینِ تعلیم اور شعراء ان میں شرکت کرتے۔ اقبال ۱۹۰۵ء میں یورپ جانے سے قبل ان سالانہ جلسوں میں اپنی نظمیں نذرِ سامعین کرتے تھے۔ آپ نے ۱۹۰۴ء میں ’’تصویر درد‘‘ نامی نظم پڑھی تھی۔ اس سے قبل کے جلسوں میں آپ ’’نالۂ یتیم‘‘، ’’یتیم کا خطاب، ہلالِ عید سے‘‘، ’’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘‘، ’’ابرِ گہربار‘‘ معروف بہ ’’فریادِ امت‘‘ سنا چکے تھے۔۱؎ مہر کے اسلامیہ کالج کے زمانۂ تعلیم کے دوران اپریل ۱۹۱۱ء میں انجمن کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ اقبال کئی برس کے وقفے کے بعد اس میں شرکت فرما رہے تھے۔ خواجہ دل محمد کے روابط اقبال سے تھے۔ جس زمانے میں اقبال ’’شکوہ‘‘ تحریر کررہے تھے، خواجہ صاحب مجالسِ اقبال میں شریک ہوتے تھے اور ’’شکوہ‘‘ کے اشعار مہر کو سنایا کرتے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ ’’شکوہ‘‘ کا مندرجہ ذیل شعر مہر کے سامنے پڑھا ؎ آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں زندگی مثلِ بلالِ حبشیؓ رکھتے ہیں مہر چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ مولانا ظفر علی خاں سے ملنے گئے۔ مولانا اس زمانے میں مولانا شاہ محمد غوث کے پاس ایک نو تعمیر عمارت کی دوسری اور تیسری منزل پر رہتے تھے۔ یہ منزلیں انھوں نے کرایے پر لی تھیں۔ مہر اور ان کے رفقاء مغرب اور عشا کے درمیانی وقت میں ملنے گئے۔ مولانا سے تھوڑے فاصلے پر اقبال تشریف فرما تھے۔ گرمی کا موسم تھا۔ اس زمانے میں اقبال انارکلی میں رہتے تھے۔ آپ شلوار، سفید قمیص، چھوٹے کوٹ میں ملبوس تھے۔ سر پر لنگی بندھی تھی اور ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اقبال نے ظفر علی خاں سے فرمایا۔ ’’ظفر علی خاں آپ کے اخبار میں کان پور کے فلاں صاحب کی جو لمبی لمبی نظمیں چھپتی ہیں، بعض اوقات خیال آتا ہے کہ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لوں اور کان پور پہنچ کر ان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ اس شخص کو ختم کرنے کے لیے کان پور کا تھرڈ کلاس کا کرایہ خرچ کرنا بھی روپے کا ضیاع ہوگا۔‘‘ مہر نے اس روایت میں شاعر کا نام حذف کردیا تھا۔۲؎ انجمن کا جلسہ ریواز ہاسٹل کے صحن میں ہوا تھا۔ صحن بہت وسیع تھا اور اس کے چار حصے تھے۔ ایک پختہ راستہ شمالی پھاٹک سے جنوبی پھاٹک تک جاتا تھا۔ اس سے آگے باورچی خانہ، ڈائننگ ہال، اور دودھ، دہی، مٹھائی اور پھلوں کی دکانیں تھیں۔ دوسرا راستہ شرقاً غرباً تھا۔ اسٹیج صحن کے جنوبی ومغربی حصے میں سجایا گیا تھا اور صحن لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہاسٹل کے برآمدوں میں بھی آدمی تھے بلکہ چھتوں پر بھی لوگ بیٹھے تھے۔۳؎ مہر نے اس تقریب کے متعلق لکھا ہے: حضرت علامہ تشریف لائے۔ میں نے دور سے تو پہلے بھی دو تین مرتبہ دیکھا تھا، قریب سے دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ وہ شلوار اور چھوٹا کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ سر پر ترکی ٹوپی تھی۔ خاصی مدت تک اُن کا یہی لباس رہا، بعد میں ترکی ٹوپی کی بجائے وہ ٹوپی پہننے لگے جسے ابتدائی دور میں مصطفیٰ کمال کیپ کہا جاتا تھا۔ علامہ نے سب سے پہلے ایک قطعہ تحت اللفظ پڑھا جس کا آخری شعر یہ تھا ؎ ڈھب مجھے قوم فروشی کا نہیں یاد کوئی اور پنجاب میں ملتا نہیں اُستاد کوئی۴؎ سب سے پہلے نظم کی رونمائی کا سوال پیدا ہوا۔ نظم جن کاغذوں پر لکھی گئی اس کے لیے مختلف اصحاب نے مختلف رقمیں پیش کیں۔ آخر نواب سر ذوالفقار علی خاں نے ایک سوروپے کی رقم کا اعلان کیا۔ یہ رقم ادا کرنے کے بعد نواب صاحب نے اصل نظم انجمن کی نذر کردی۔ ہر طرف سے شور اٹھا کہ نظم گاکر سنائی جائے۔ اقبال نے فرمایا کہ ’’میں خود ہی بہتر سمجھتا ہوں کہ نظم گاکر پڑھنی چاہیے یا تحت اللفظ۔ یہ نظم ایسی ہے کہ جو گاکر پڑھی نہیں جاسکتی۔ یعنی اس کے پڑھنے کا حق اس طرح ادا نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس کے بعد نظم شروع ہوگئی۔ ایک بند سن لینے کے بعد سب کو یقین ہوگیا کہ حضرت علامہ کا ارشاد درست تھا۔۵؎ لوگ اس خاموشی سے اقبال سے ’’شکوہ‘‘ سن رہے تھے کہ جیسے یہ انجمن کا سالانہ جلسہ نہ تھا، نہایت مقدس اجتماع تھا جس میں قدوسی ایسی چیز سن رہے تھے جس کی نظیر اردو زبان میں نہ تھی۔ اس کا ہر بند بیک وقت تین فرائض انجام دے رہا تھا۔ اول بارگاہِ باری تعالیٰ میں شکوہ کہ مسلمان پہلے کی طرح اس کی نگاہِ لطف کے سزاوار نہ سمجھے گئے۔ دوم، مسلمانوں کے غیرمعمولی بنیادی کارناموں کی نہایت دل کش داستان پیش کی گئی۔ سوم، مسلمانوں کو دعوتِ عمل تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ جو قوم اللہ کے آخری دین کی حامل تھی اس کا طرزِ عمل اور شانِ جہد کیا ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کے کارنامے اس انداز سے پیش کیے گئے جن سے شکوے کا حق خودبخود ادا ہوگیا۔ پوری نظم میں ایک مصرع بھی ایسا نہ تھا جو مسلمانوں میں یاس یا شکست کی خفیف سے کیفیت پیدا کرتا۔۶؎ اقبال جب ’’شکوہ‘‘ کے بند پڑھ رہے تھے تو ہزاروں کا مجمع سحرزدہ تھا۔ مہر نے لکھا تھا کہ ’’دل سے اس بابرکت وجودِ گرامی کے لیے دعائیں نکلتی تھیں، جسے مسلمانوں کی حیات ملی کے ایک نہایت نازک دور میں زندگیِ نو کی داغ بیل ڈال دینے کاکام سپرد کیا تھا۔‘‘ اقبال نے مندرجہ ذیل شعر پڑھا ؎ کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے آپ آخری مصرعے کے ساتھ ہی اپنے اصل مقام سے آگے بڑھ گئے اور اس حسن ادا سے کہ پوری مجلس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ پوری نظم اکیس بندوں پر مشتمل تھی اور اس کے پڑھنے میں خاصا وقت صرف ہوا لیکن مجمع سحرزدہ ہوکر یہ نظم سنتا رہا اور انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔۷؎ ۱۹۱۲ء کے انجمن کے سالانہ جلسے میں اقبال نے ’’شمع و شاعر‘‘ سنائی۔ یہ نظم مولانا ظفرعلی خاں نے اپنے پریس میں چھپوا کر اس کی قیمت آٹھ آنے رکھی تھی۔ مولانا نے اعلان کیا کہ ’’یہ نظم دس ہزار کی تعداد میں چھاپی گئی تھی اور مقصود یہ ہے کہ اس سے کم ازکم پانچ ہزار روپے وصول ہوجائیں اور یہ رقم اقبال کی خدمت میں پیش کرکے عرض کیا جائے کہ وہ جاپان جاکر تبلیغ اسلام کریں۔‘‘ مولانا کی یہ تجویز روپیہ کے حصول کی حد تک تو کامیاب رہی لیکن جاپان میں تبلیغ اسلام کا منصوبہ دھرا رہ گیا۔ ۱۹۱۲ء کا سالانہ جلسہ بہت دھوم دھام سے منعقد ہوا تھا۔ اس کا اہتمام اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں کیا گیا تھا۔ حبیبیہ ہال کے ساتھ اسٹیج آراستہ کیا گیا۔ آگے خاصی دور تک قناطیں اور شامیانے لگے تھے۔ مختلف اطراف میں دکانیں تھیں اور لوگ حسب ضرورت ٹہل لیتے تھے۔ برانڈرتھ روڈ کی طرف سے جلسہ گاہ کے اندر آنے کا دروازہ تھا۔ اس گوشے سے اسٹیج تک راستہ بنا ہوا تھا اور اقبال اسی راستے سے نظم پڑھنے کے لیے آئے تھے۔ آپ سفید شلوار، سفید قمیص ، سیاہی مائل گرم کوٹ اور سر پر ہارڈ ترکی ٹوپی میں ملبوس تھے۔ سالانہ جلسے کے دوران مختلف اجلاس کے لیے ان اصحاب کو صدر منتخب کیا جاتا تھا جن سے ممکنہ حد تک زرآفرینی کی امید ہوسکتی تھی یا ان سے زرطلبی میں مدد مل سکتی تھی۔ اتفاقاً دو اصحاب نظم اقبال کی صدارت پر مصر تھے۔ دونوں سے بڑی رقوم ملنے کی امید تھی اس لیے انجمن کسی ایک کوبھی ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ’’شمع اور شاعر‘‘کے بارہ بند تھے۔ اقبال پہلے چھ بند ایک صدر کی موجودگی میں پڑھیں۔ اس کے بعد نمازِ عصر کا وقفہ ہو، پھر دوسرا صدر کرسیِ صدارت پر براجمان ہو اور بقیہ چھ بند اس کی صدارت میں پڑھے جائیں۔ اقبال نے ابتدا میں مندرجہ ذیل قطعہ پڑھا: ہم نشینِ بے ریایم از رہِ اخلاص گفت کاے کلامِ تو فروغِ برنا و پیر درمیانِ انجمن معشوق ہرجائی مباش گاہ بہ سلطان باشی گاہ باشی بہ فقیر گفتمش اے ہم نشیں معذور می دارم ترا در طلسمِ امتیازِ ظاہری ہستم اسیر من کہ شمعِ عشق در بزمِ جہاں افروختیم سوختم خود را و سامانِ دوئی ہم سوختم یہاں سلطان سے مراد مرزا سلطان احمد تھے جو پہلے اجلاس کے صدر تھے اور فقیر سے مراد فقیر افتخار الدین تھے۔ یہ نظم بہت زیادہ مقبول ہوئی۔ اس دفعہ مجمع ’’شکوہ‘‘ والے ہجوم سے زیادہ تھا۔۸؎ ’’شمع اور شاعر‘‘ میں اقبال نے مستقبل کے بارے میں کچھ پیش گوئیاں کی تھیں جو بعد میں پوری ہوکر رہیں۔ اقبال نے یہ نظم فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی تھی۔ ذیل میں وہ اشعار درج ہیں جن میں اقبال نے الہامی انداز میں مستقبل کی جھلکیاں دکھائی تھیں ؎ راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ! آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل موجِ مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے چند سال بعد پہلی جنگِ عظیم یورپ کی بربادی کا سامان لے کر آگئی۔ اقبال کے انتقال کے بعد دوسری جنگِ عظیم سے یورپی سامراجی قوتوں کا کمزور پڑنا اور اسلامی ممالک کا آزاد ہونا اور پاکستان قائم ہونا۔ یہ تمام جھلکیاں مندرجہ بالا نظم میں ملتی تھیں۔ اقبال نے ’’خضرراہ‘‘ میں ایک مقام پر پہلی جنگِ عظیم کے بعد کے حالات کے متعلق فرمایا تھا ؎ تم نے دیکھا سطوتِ رفتار کا مآل موجِ مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ ۹؎ مہر نے ایک خط میں لکھا ہے: ’’شمع اور شاعر‘‘ باہر گرائونڈ میں پڑھی گئی تھی۔… ’’شمع اور شاعر‘‘ کے لیے جو اسٹیج بنی تھی وہ اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال کے ساتھ تھی۔ وہاں اس سال مَیں نے بھی ایک نظم پڑھی تھی جس کا عنوان ’’فریادِ امت بحضور سرورِ کائناتؐ‘‘۔ اس میں حضرت علامہ کی نظم ’’ابرِ گہربار‘‘ کے تمام بندوں پر بند لکھے تھے اور وہ اب تک میرے پاس موجود ہے۔ انجمن کی کارروائی میں بھی چھپ گئی تھی۔ حضرت علامہ نے ’’شمع اور شاعر‘‘ پوری کی پوری گا کر پڑھی تھی۔۱۰؎ اقبال نے ’’جوابِ شکوہ‘‘ موچی دروازے کے باہر ایک عظیم الشان اجتماع میں پڑھی تھی۔ مہر کے دورِ طالب علمی میں اقبال نے ایک اجلاس میں مختلف قطعات کے علاوہ مزاحیہ شاعری نذرِ سامعین کی تھی۔ ان مزاحیہ قطعات کا اقبال نے ’’رگڑا‘‘ نام تجویز کیا تھا لیکن بعد میں یہ ’’اکبری اقبال‘‘ کے نام سے معروف ہوئے کیونکہ ان قطعات میں آپ اکبر الٰہ آبادی کی پیروی کررہے تھے۔ اقبال نے بعد میں یہ رنگ سرے سے ترک کردیا۔ یہ قطعات ’’اکبری اقبال‘‘ نامی کتابچے کی صورت میں شائع ہوئے تھے۔ ایک قطعہ غلام قادر روہیلہ کے متعلق تھا جس کا آخری شعر یہ تھا ؎ مگر یہ راز کھل گیا سارے زمانے پر حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے دوسرے قطعہ میں یورپ پہنچنے والے بیش بہا اسلامی مخطوطات کا ذکر تھا اور اس میں مُلّا طاہر غنی کاشمیری کے شعر کی تضمین کی گئی تھی۔ غنی روزِ سیاہ پیرِ کنعاں را تماشا کن کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را۱۱؎ مہر جب بی اے کے آخری سال میں تھے تو انجمن کے سالانہ جلسے میں اقبال نے نظم خوانی سے قبل تقریر کی تھی۔ اس کے بعد وہ نظم پڑھی جس کا مطلع یہ تھا ؎ کبھی اے حقیقتِ مُنتَظَر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں اقبال نے ’’مُنتَظَر‘‘ کے ظ کے مفتوح ہونے پر خاص زور دیا تھا اور فرمایا کہ اسے ’’مُنتَظِر‘‘ نہیں ’’مُنْتَظَر‘‘ پڑھا جائے۔ یعنی وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جارہا ہے۔ آخر میں آپ نے مثنوی اسرارِ خودی کے تمہید مطالب میں سے پندرہ بیس اشعار پڑھے۔ اس وقت تک یہ مثنوی منظرعام پر نہیں آئی تھی۔۱۲؎ جس زمانے میں مہر زمیندار سے وابستہ ہوئے انھی ایام میں مہر کی اقبال سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات جن عجیب حالات میں ہوئی، وہ اس بات کی متقاضی تھی کہ ان حضرات کا تعلق ایک خاص حد سے بڑھنے نہ پاتا لیکن ان حضرات کا خلوص باہمی پایدار تعلقات کی بنیاد بنا۔ مہر اسلامیہ کالج کے زمانے سے اقبال کے کلام آشنا تھے۔ ان کے ذہن پر انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں، جن میں اقبال التزاماً شریک ہوتے تھے اور اپنا کلام سنایا کرتے تھے اثرات زندگی بھرمرتسم رہے۔ چنانچہ مہر نے ان جلسوں کا ذکر کئی مقامات پر کیا تھا۔ مہر کے اسلامیہ کالج کے ساتھی چودھری محمد حسین تھے۔ مہر جب فروری ۱۹۲۲ء میں مستقلاً لاہور آگئے اور زمیندار سے وابستہ ہوئے تو چودھری صاحب سے ملاقات کے مواقع میسر آنے لگے اور وہ مہر کی اقبال سے ملاقات کا وسیلہ بنے۔ اس زمانے میں مہر زمیندار کے دفتر ’’جہازی بلڈنگ‘‘ میں رہتے تھے۔ مہر سحرخیز تھے اور صبح یا شام کے وقت لازماً سیر کے لیے نکلتے تھے۔ مہر نے اس ملاقات کے بارے میں ایک خط میں لکھا: میں ۱۹۲۲ء میں اخبار نویسی کے لیے زمیندار سے وابستہ ہوا۔ چودھری محمد حسین مرحوم کالج کے زمانے سے میرے دوست تھے۔ ان سے ملاقاتیں اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ شام کو میں، شفاعت اللہ خاں مرحوم اور میکش مرحوم سیر کے لیے نکلے۔ گول باغ (شہر کے اردگرد کا باغ جو خندق کی جگہ لگایا گیا) کی حالت بہت اچھی تھی۔ راستے میں چودھری صاحب مل گئے۔ موچی دروازے کے قریب پہنچ کر ہم نے اصرار کیا کہ ڈاکٹر صاحب کی کوئی ایسی چیز سنائیے جو کہیں نہ چھپی ہو۔ انھوں نے چار شعر سنائے۔ وہ اپنے گھر (واقع گوجر سنگھ) کی طرف گئے۔ ہم زمیندار کے دفتر پہنچ گئے جو دہلی دروازے کے باہر جہازی بلڈنگ میں تھا۔ شفاعت اللہ خاں مرحوم نے اصرار کیا کہ ’’جو شعر چودھری صاحب سے سنے، وہ لکھ دو۔‘‘ میں نے دو تین منٹ میں یاد کرکے لکھ دیے۔ وہ اخبار میں چھپ گئے۔۱۳؎ مہر نے ایک مضمون میں وہ اشعار بھی نقل کیے تھے۔ اشعار مندرجہ ذیل ہیں: یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا ہے دور وصالِ بحر ابھی تو دریا میں گھبرا بھی گئی عزت ہے محبت کی قائم اے قیس! حجابِ محمل سے محمل جو گیا عزت بھی گئی، غیرت بھی گئی، لیلیٰ بھی گئی کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی آوارگیِ فطرت بھی گئی اور کش مکشِ دریا بھی گئی نکلی تو لبِ اقبال سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی اس کا پہلا شعر یعنی: اے بادِ صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی۱۴؎ یا تو اس وقت چودھری صاحب کو یاد نہ آیا یا اُنھوں نے سنانا ضروری نہ سمجھا۔ موچی دروازے سے آگے بڑھے تو چودھری صاحب چلے گئے، ہم دفتر زمیندار میں پہنچ گئے۔۱۵؎ اگلے دن یہ اشعار زمیندار میں نمایاں مقام پر چھپ گئے۔ یہ مہر کے بے مثل حافظے کا کمال تھا۔ آگے کی داستان مہر کی زبانی پڑھیے: دوسرے روز دوپہر کے وقت چودھری محمد حسین مرحوم دفتر زمیندار میں آئے اور مجھ سے پوچھا ’’تم نے یہ شعر کہاں سے لیے؟‘‘ میں نے کہا کہ آپ ہی نے تو کل شام کو سنائے تھے۔ شفاعت اللہ خاں کے اصرار پر میں نے لکھ دیے۔ چودھری صاحب نے فرمایا ’’چلو میرے ساتھ۔‘‘ میں ان کے ساتھ ہولیا اور ہم حضرت علامہ مرحوم کے دولت کدے پر پہنچ گئے۔ وہ اس وقت انارکلی میں رہتے تھے جہاں وہ ۲۳؍جولائی ۱۹۰۸ء سے مقیم تھے۔ میں اس مکان میں پہلی مرتبہ گیا تھا۔ خاصا گھبرایا ہوا تھا، اس لیے کہ آشکار ہوگیا تھا۔ اس کی حیثیت ایک لحاظ سے پیشی کی ہے۔ سیڑھیاں چڑھ کر ہم جس کمرے میں پہنچے تھے، حضرت علامہ وہاں ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ سیڑھیوں کے قریب جو کرسی تھی، اس پر مجھے بٹھایا گیا۔ چودھری صاحب میرے بائیں جانب ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر حضرت علامہ مرحوم سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’مجرم کو پکڑ لایا ہوں۔‘‘ یہ سن کر حضرت علامہ نے مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ نے یہ شعر کہاں سے لیے؟‘‘ میں نے پورا واقعہ من وعن بیان کردیا۔ یعنی کل شام کے وقت اتفاقیہ چودھری صاحب گول باغ میں مل گئے تھے۔ شفاعت اللہ خاں نے ایسے شعر سننے کی فرمائش کی جو کہیں چھپے نہ ہوں۔ چودھری صاحب نے چار شعر سنا دیے۔ ہم دفتر پہنچے تو شفاعت اللہ خاں نے کہا کہ جو شعر ابھی سنے ہیں، انھیں کاغذ پر لکھ دو۔ میں نے لکھ دیے۔ اس کے سوا میری کوئی قصور نہیں۔ یہ سن کر حضرت علامہ مرحوم نے فرمایا۔ ’’آپ سچ کہتے ہیں؟‘‘ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ غالباً حضرت علامہ کو میری گزارش کا یقین نہیں آیا۔ میں نے عرض کیا کہ ’’واقعہ تو یہی ہے، میں اچھا شعر سن لیتا ہوں تو مجھے عموماً نہیں بھولتا۔ میں اور تو کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتا۔ آپ چاہیں تو اور شعر سنا کر میرا امتحان لے لیں۔ یہ جواب سن کر حضرت علامہ کے چہرۂ مبارک پرتبسم کی ہلکی ہلکی لہریں نمودار ہوگئیں اور صرف یہ فرمایا۔ ’’یہ حافظہ تو بڑا خطرناک ہے۔‘‘۱۶؎ مہر اقبال کے انارکلی والے مکان میں دوسری مرتبہ سالک کے ساتھ گئے۔ اقبال نے ایک رجسٹر ہاتھ میں لے کر پیامِ مشرق کی بعض نظمیں سنائیں۔ نظمیں سناتے وقت اقبال کی آنکھوں پر عینک تھی۔۱۷؎ ۱۹۲۲ء میں اقبال انارکلی کے مکان سے اٹھ کر میکلوڈ روڈ کی ایک کوٹھی میں منتقل ہوگئے۔ مہر نے بھی اپنی رہائش گاہ تبدیل کرلی۔ مہر فلیمنگ روڈ اور بیڈن روڈ کے چوک پر رہتے تھے۔ یہاں سے اقبال کی رہائش گاہ خاصی قریب تھی۔ آبادی کم تھی۔ شاہ ابوالمعالی سے میکلوڈ روڈ تک خالی میدان تھا۔ دن میں دھوبی یہاں کپڑے سکھاتے تھے اور شام کو میدان خالی ہوتا۔ مہر پانچ سات منٹ میں اپنے گھر سے نکل کر اقبال کی کوٹھی میں پہنچ جاتے۔ مہر نے لکھا ہے: چودھری محمد حسین مرحوم نے قلعہ گوجر سنگھ میں مکان کرایے پر لے لیا تھا، جو بعد میں انھوں نے خرید کر ازسرِنو بنوا لیا تھا۔ وہ بھی آجاتے تھے۔ اس طرح روزانہ قریباً دو دو تین تین گھنٹے کی نشست ہوجاتی تھی۔ حضرت علامہ مرحوم گفتگو فرماتے۔ چودھری صاحب اس میں کبھی کبھی دخل دیتے۔ میں چپ چاپ گفتگو سنتا رہتا۔ مجھ سے کچھ پوچھا جاتا تو جواب دیتا۔۱۸؎ محافلِ اقبال کے ایک راوی ملک غلام حسین تھے۔ ان کا بیان تھا کہ ۲۴-۱۹۲۳ء میں روزانہ شام کے چاربجے ملک صاحب اور ملک لال دین قیصر پرانی کوتوالی کے چوک سے مہر کی رہائش گاہ واقع فلیمنگ روڈ پہنچتے تھے۔ یہاں کسی زمانے میں میوہ منڈی تھی۔ مہر صاحب کو ساتھ لے کر دل محمد روڈ کے نکڑ پر سالک صاحب کے مکان پر حاضری دیتے اور میکلوڈ روڈ کی جانب یہ قافلہ رواں دواں ہوتا۔ منزلِ مقصود اقبال کی کوٹھی تھی۔ اقبال کوٹھی سے باہر آرام کرسی پر حقہ کی معیت میں بیٹھے ہوتے۔ پاس ہی چند کرسیاں پڑی ہوتیں۔ سالک کسی نہ کسی موضوع پر بات کرتے، مہر نکات اٹھاتے، اقبال اس دوران مختصر سا تبصرہ فرماتے۔ ملک غلام حسین تھوڑی مدت تک ان محافل میں شرکت فرماتے رہے۔ پھر لاہور سے باہر چلے گئے۔ ایک روز انھیں دیر ہوگئی تو محفلِ اقبال میں شرکت کی بجائے مہر کے گھر چلے گئے۔ یہاں مہر عالم تنہائی میں انتہائی جذب کے عالم میں پُرسوز آواز میں اپنے اشعار پڑھ رہے تھے۔ مہر کی اقبال سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ وہ گھر آکر روزانہ گفتگو کا خلاصہ لکھ لیتے تھے۔ زبورِ عجم کے اشعار انھوں نے حافظے کی مدد سے لکھے تھے۔ مہر نے ایک مضمون میں لکھا ہے: اسی زمانے میں زبورعجم کا آغاز ہوا تھا اور حضرت علامہ مرحوم عموماً زبور کے تازہ اشعار تنہائی میں مجھے اور چودھری صاحب کو سنایا کرتے تھے۔ میں گھر پہنچتا تو حافظے پر زوردے کر سنے ہوئے اشعار لکھ لیتا۔ جو یاد نہ رہتے ان کی جگہ نقطے لگا لیتا۔ یہ کاپی بھی اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔ اس میں ایک فائدہ یہ ہے کہ ہر کلام پر تاریخ درج ہے۔ وہ لازماً اسی روز یا دو ایک روز پیشتر لکھا گیا۔ نیز بعض اشعار کے متعلق حضرت علامہ جو کچھ فرماتے وہ بھی نوٹ کرلیتا۔۱۹؎ مہر نے ایک خط میں ان محفلوں کا ذکر کیا ہے: جس زمانے میں زبورِعجم زیرتصنیف تھی، مرحوم ڈاکٹر صاحب تقریباً روزانہ ایک دو غزلیں سنایا کرتے تھے۔ یا دوسرے تیسرے دن یا تو وہ خود بلا لیتے تھے، کیونکہ میں اُن کے دولت کدے (واقع میکلوڈ روڈ) سے قریب رہتا تھا یا میں اور چودھری محمد حسین مرحوم روزانہ شام کے وقت حاضر ہوجاتے تھے۔ جب کوئی غزل ہوجاتی تو فرما دیتے کہ ’’تم لوگ ذرا ٹھہر جائو کام ہے۔‘‘۲۰؎ محفل اقبال کے متعلق مہر نے ایک خط میں لکھا: پہلے کشمیری چائے کا دور چلتا۔ خود حضرت علامہ رات کو کچھ نہیں کھاتے تھے۔ دو خطائیاں اور ایک پیالی کشمیری چائے پیتے تھے۔ یہ پُرکیف مشروب اور لذیذ ماکول ہمیں بھی مل جاتا تھا اور ہم مشربی کا شرف ہمیں حاصل ہوجاتا۔۲۱؎ محافلِ اقبال کا ایک لازمی جزو حقہ نوشی تھی۔ اقبال گفتگو کے دوران اس ’’ہم دم دیرینہ‘‘ کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کرتے تھے۔ باتوں کے درمیان حقہ کی نَے ہاتھ میں رہتی۔ وقفہ ہوتا تو ایک دوکش لگالیے جاتے۔ مہر بھی حقہ نوش تھے لیکن محفلِ اقبال میں ان کے لیے الگ حقے کا اہتمام ہوتا تھا۔ مہر نے ایک مضمون میں لکھا ہے۔ ’’حضرت علامہ اقبال سیگریٹ بہت کم پیتے تھے اور عموماً مجبور ہوکر۔ حقہ بہت پیتے تھے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو فوراً دوسرا حقہ بھروا کر میرے لیے رکھوا دیتے۔ ان کے پاس تمباکو بہت عمدہ جگہ جگہ سے آتا۔ میاں نظام الدین مرحوم رئیس لاہور اور ان کے بھتیجے میاں امیرالدین کا شیوہ یہ تھا کہ جب حضرت علامہ کے ہاں سے خالی بوری پہنچ جاتی۔ اس میں عمدہ تمباکو بھروا کر بھیج دیتے۔ میرے لیے بھی میاں امیرالدین صاحب نے سال ہاسال تک یہی دستور قائم رکھا۔ تقسیم کے بعد ان کی زمینیں آبادی میں زیادہ آگئیں تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔۲۲؎ مہر نے ایک مضمون میں ان محفلوں کے بارے میں لکھا ہے: ایک دو مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت پلنگ پر تکیے کے سہارے بیٹھے ہوئے تھے کہ اشعار سناتے سناتے بجلی بند ہوگئی۔ حضرت بھی خاموش ہوگئے اور ہم بھی خاموش بیٹھے رہے۔ پانچ دس منٹ بعد بجلی ازسرِنو روشن ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہیں۔ میرے لیے یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ جو شعر سنا رہے تھے ان میں خطاب رسول پاک ﷺ کی طرف تھا۔۲۳؎ ایک مرتبہ مجھے فراغت تھی اور صبح ہی خدمتِ والا میں پہنچ گیا۔ پھر میں اور حضرت علامہ مسلسل گیارہ گھنٹے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ جن اصحاب نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی دیکھی ہے، انھیں اندازہ ہوگا کہ اس کا برآمدہ خاصا وسیع تھا۔ اس برآمدے میں کرسیاں تو ادھر ادھر ضرور کھسکاتے رہے لیکن اٹھے نہیں۔ کھانا بھی وہیں کھایا اور اتفاق یہ کہ اور کوئی شخص آیا ہی نہیں جس سے صحبت اور گفتگو میں خلل پڑتا، حالانکہ ان کے یہاں لوگ بکثرت آتے رہتے تھے۔۲۴؎ جس زمانے میں مہر اسلامیہ کالج میں زیرتعلیم تھے، ان دنوں ان کی دوستی شیخ مبارک علی سے ہوگئی تھی۔ یہ مہر سے دوسال بڑے تھے۔ ان کی رفاقت کا آغاز ۱۹۱۲ء میں ہوا تھا اور زندگی بھر برقرار رہا۔ جن دنوں اقبال کی رموزِ بے خودی چھپی، شیخ مبارک علی کے عزیز دوست مولوی بشیر احمد تھے۔ یہ مولوی احمد دین وکیل کے صاحبزادے تھے اور اقبال سے ان کے مراسم تھے۔ مولوی بشیر احمد شیخ مبارک علی کو ساتھ لے کر اقبال سے ملے اور تین ماہ میں قیمت ادا کرنے کے وعدے پر رموزِ بے خودی کی چودہ سو کاپیاں اپنی دکان پر لے آئے۔ پھر مرغوب ایجنسی سے اقبال اور دیگر شعراء کی نظمیں لے کر دکان میں سجا دیں۔ رموزِ بے خودی کا پہلا ایڈیشن تھوڑے عرصے میں فروخت ہوگیا تو شیخ مبارک علی نے ’’نالۂ یتیم‘‘ اور ’’فریادِ امت‘‘ شائع کرنے کی اجازت طلب کی۔ ایک دن شیخ عبدالقادر شیخ مبارک علی کی دکان پر آئے اور دریافت کیا۔ ’’مبارک علی آپ ہی کا نام ہے اور آپ ہی علامہ اقبال کی کتابیں فروخت کررہے ہیں؟‘‘ جواب اثبات میں ملا تو فرمایا۔ ’’میرے پاس کچھ کتابیں ہیں، آپ لے آئیں اور رفتہ رفتہ فروخت کرکے قیمت مجھے دے دیں۔‘‘ مبارک علی نے ان کتابوں سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اس حد تک اعتبار جمایا کہ بعد میں اقبال نے جس قدر کتابیں چھاپیں وہ عموماً شیخ مبارک علی کے ذریعے فروخت کیں۔۲۵؎ مہر کے روزنامچے میں اقبال سے ملاقاتوں کا احوال اور ان سے حاصل کردہ معلومات کے نکات کا ذکر ۱۳؍جولائی ۱۹۲۵ء سے ۱۴؍اکتوبر ۱۹۲۵ء میں ملتا ہے۔ مہر نے اس ڈائری میں خلافِ عادت بہت اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ان مکالمات میں موضوعات کا تنوع اور وسعت اس قدر تھی کہ انھیں شرح و بسط سے فوراً لکھنا ممکن نہ تھا۔ مہر کی صحافیانہ مصروفیت انھیں وضاحت کا موقع نہ دے سکی۔ محافلِ اقبال میں فلسفہ، شاعری، تاریخ اور سیاسی موضوعات عام تھے۔ مہر نے اقبال کے معمولات کا ذکر ایک مقام پر کیا ہے۔ آپ نے لکھا : حقیقت یہ ہے کہ علامہ مرحوم کی طبیعت ابتدا ہی سے غوروفکر میں انہماک و استغراق کی طرف مائل تھی۔ رفتہ رفتہ یہ انہماک بڑھتا گیا اور نقل و حرکت بارِخاطر ہونے لگی، حالانکہ بالکل ابتدائی دور میں وہ پہلوانوں کے اکھاڑے میں جاتے اور ورزش کرتے تھے۔ ایک زمانے میں سیر بھی باقاعدہ کرتے رہے تھے۔ پھر نقل وحرکت کم ہوتی گئی۔ اس وجہ سے ان کے جسم کا نچلا حصہ کمزور ہوگیا تھا، اگرچہ عام ملاقاتیوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ وہ بیٹھنے کے لیے جو کرسی استعمال فرماتے تھے، وہ بھی ایک حد تک آرام کرسی ہی تھی۔ آپ اسے ’’نیم آرام کرسی‘‘ سمجھ لیں۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں تھے تو عموماً برآمدے میں بیٹھتے۔ گرمیوں میں تپش کے باعث برآمدے میں بیٹھنا دشوار ہوجاتا تو ڈرائنگ روم میں صوفے پر جا بیٹھتے۔ دھسا کندھوں پر ہوتا، لحاف سینے تک اوڑھ کر گائو تکیے سے ٹیک لگا لیتے۔۲۶؎ اقبال اور مہر کا تعلق مرشد اور مرید کا سا تھا۔ اقبال اپنے مرید کی ذہنی تربیت فرماتے تھے۔ ادبیات اور فلسفہ میں رہنمائی کرتے تھے۔ ان محافل میں اقبال نے اپنے خاندان کے متعلق جو کچھ فرمایا، اُس کا کچھ حصہ سالک کی ذکرِ اقبال کا حصہ بنا۔ اس کے علاوہ روزمرہ کے واقعات بھی ان اذکار کا حصہ تھے۔ اقبال بعض شخصیات کے بارے میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے تھے۔ مثلاً ۲۳؍ستمبر ۱۹۲۵ء کو جب مہر سفرِحجاز کا پروگرام بنا رہے تھے، اس وقت اقبال نے وائین کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر محمد علی پاشا نجدی قوت کو ملیا میٹ نہ کرتا تو دنیا آج سے سو سال پیشتر وہی منظر دیکھتی جو حضرت عمرؓ کے زمانے میں رونما ہوا تھا۔ عرب تمدن کی راحتوں سے استفادہ کے بعد پھر صحرا میں جاکر قوت حاصل کرلیتا ہے اور دوسری قوموں کی طرح تباہ نہیںہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی صحیح قوت سے کام لیا جائے اور اسے سمجھا جائے۔۲۷؎ اول الذکر اقبال دراصل مہر کی دریافت تھا اور ان کی وہابی تحریک سے دلچسپی کا مظہر تھا۔ روزنامچے کے اندراجات ۱۴؍اکتوبر ۱۹۲۵ء کی تاریخ پر ختم ہوگئے تھے۔ اس کے بعد مہر سفرِحجاز کے انتظامات میں اس قدر منہمک رہے کہ روزنامچہ نگاری پر متوجہ نہ ہوسکے۔ مہر نے ۶؍جنوری ۱۹۲۷ء کو روزنامچہ میں لکھا ہے: حجاز جانے سے پیشتر روزنامچہ کی تحریر صرف پیرومرشد کی ملاقاتوں تک محدود ہوگئی تھی۔ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۲۵ء کو میں حجاز گیا۔ ۱۲؍فروری ۱۹۲۶ء کو واپس لاہور پہنچا اور دوبارہ اخبارکا کام سنبھالا۔ ۱۹۲۶ء کا سارا سال بحثوں میں گزرا… اب یکم جنوری ۱۹۲۷ء سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ مستقلاً روزنامچہ لکھوں۔۲۸؎ مہر کا یہ روزنامچہ یکم جنوری سے ۷؍فروری ۱۹۲۷ء تک محدود ہے۔ ۲۴؍جنوری ۱۹۲۷ء کو زبورِ عجم کی اشاعت کے انتظام کی اطلاع۔۲۹؎۲۷؍جنوری ۱۹۲۷ء اور ۲۹؍جنوری کو زبورِ عجم کے مختلف حصوں کے ناموں پر غور کیا گیا۔۳۰؎ ۳۰؍جنوری ۱۹۲۷ء کو محفلِ اقبال میں حاجی دین محمد کاتب اور چودھری محمد حسین موجود تھے۔ چودھری صاحب نظموں کی تبییض میں مصروف تھے۔ اس کے بعد اقبال ’’گلشن رازِ جدید‘‘ اور ’’بندگی نامہ‘‘ ایک گھنٹہ تک سناتے رہے۔۳۱؎ اقبال نے دین محمد سے زبورِ عجم کتابت کروائی تھی لیکن باکمال خطاط ہونے کے علاوہ من موجی طبیعت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ گھر سے دہی خریدنے نکلے اور حج کو چلے گئے۔ کتاب کی تکمیل کے لیے اقبال نے عبدالمجید پروین رقم سے رجوع کیا۔ ان کا خط نہایت عمدہ اور خوب صورت تھا۔ پھر انھی سے لکھواتے رہے۔ اگرچہ وہ آخر میں خاصی تاخیر سے کتاب مکمل کرتے تھے۔ زبورِ عجم جون ۱۹۲۷ء کو شائع ہوئی تھی۔ مہروسالک اس زمانے میں اپنا روزنامہ انقلاب جاری کرچکے تھے۔ انھوں نے ۱۷؍جولائی ۱۹۲۷ء کو انقلاب کا زبورِ عجمنمبر شائع کیا۔۳۲؎ اس کی اشاعت سے قبل مدیرانِ انقلاب نے ۱۶؍جولائی ۱۹۲۷ء کو اس نمبر کی اطلاع ان الفاظ میں دی تھی: کل روزنامہ انقلاب کا زبورِ عجم نمبر نہایت آب و تاب سے شائع ہوگا۔ جس میں حضرت علامہ اقبال مدظلہُ العالی کی نظم کے علاوہ ز-خ-ش مرحومہ کی ایک نظم بھی ہوگی اور زبورِ عجم اور ’’اقبال کے فلسفہ پر‘‘ نہایت عالمانہ مضامین شائع ہوں گے۔ مہتمم۔۳۳؎ اس نمبر میں زبورِ عجم سے ایک نظم ’’دستِ جہاں کشا طلب‘‘ شائع ہوئی تھی۔۳۴؎ ۱۰؍جولائی ۱۹۲۷ء کے انقلاب میں قارئین کو مطلع کیا گیا تھا کہ اگلے ہفتے زبورِ عجم نمبر شائع ہوگا لیکن اس روز سرورق پر زبورِ عجم کی نظم ’’از خوابِ گراں خیز‘‘ شائع کی گئی۔۳۵؎ یہ سلسلہ یہیں پر تمام نہ ہوا ۲۴؍جولائی ۱۹۲۷ء کے انقلاب میں ’’دگر آموز‘‘ شائع ہوئی۔۳۶؎ انقلاب ۲؍اپریل ۱۹۲۷ء کو وجود میں آیا تھا۔ اسے ابتدا ہی سے اقبال کا تعاون میسر آیا تھا۔ آپ کی ایک نظم ’’مکافاتِ عمل‘‘ نیرنگِ خیال کے ’’عید نمبر‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم انقلاب کی ۹؍اپریل ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں شائع ہوئی۔۳۷؎ انقلاب ابتدا میں زمیندارکے وضع کردہ انداز میں چھپتا رہا تھا۔ زمیندار میں عموماً سرورق پر مولانا ظفر علی خاں کی نظم ہوتی تھی۔ ظفر علی خاں ارتجالاً شعر کہتے تھے ، ان کی بیشتر شاعری ہنگامی اور سیاسی نوعیت کی ہوتی تھی۔ مہر اور سالک، ظفر علی خاں کی قادرالکلامی کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے اس لیے کچھ عرصے تک کلام اقبال کی اشاعت سے زمیندار کا مقابلہ اور انقلاب کی زندگی کا سامان کرتے رہے۔ ۱۳؍اپریل۱۹۲۷ئ، کو انقلاب نے ’’نوائے تہذیب حاضر‘‘ شائع کی۔۳۸؎ اقبال نے ایک نظم ’’سوراج زیر سایۂ برطانیہ‘‘ تحریکِ ترکِ موالات کے زمانۂ عروج میں شملہ (نوبہار) میں کہی تھی۔ مسلمان مطالبہ کررہے تھے کہ مکمل آزادی کو نصب العین قرار دیا جائے جبکہ مہاتما گاندھی سوراج کی مبہم اصطلاح پر مصر تھے۔ انقلاب نے پہلے یہ نظم ۱۴؍اپریل ۱۹۲۷ء کو شائع کی۔ نہرو رپورٹ میں کانگرس نے برطانیہ کے زیرسایہ درجۂ مستعمرات کو اپنا نصب العین قرار دیا تو انقلاب نے یہ نظم دوبارہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۲۸ء کو شائع کی۔۳۹؎ انقلاب نے ۱۰؍جون ۱۹۲۷ء کو ’’عیدنمبر‘‘ شائع کیا تو اس میں اقبال کی نظم ’’دینِ ابراہیم علیہ السلام‘‘ شائع کی۔۴۰؎ کلامِ اقبال کسی روزنامے کی ضروریات کے لیے کافی نہ تھا اس لیے اقبال کی نظموں کی انقلاب میں اشاعت خاصی کم ہوتی گئی۔ دوسرے اقبال اپنی نظموں کی اخبارات اور رسائل میں اشاعت کے سلسلے میں خاصے محتاط تھے، اس لیے نظم اقبال بعد میں خاص مواقع پر اخبار کی زینت بنی۔ اواخرِ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں مولانا الطاف حسین حالی کی صد سالہ یادگاری تقریب منائی گئی تو اقبال نے ’’تاج دار بھوپال اور حالی مغفور کے حضور میں‘‘ کے عنوان سے چند اشعار کہے تھے۔ انقلاب میں یہ اشعار غلط درج ہوئے تو اقبال نے سالک کے نام ایک خط لکھ کر ان غلطیوں کی نشاندہی کی تھی۔۴۱؎ اقبال اور مہر کو افغانستان سے بہت دلچسپی تھی۔ انقلاب نے ۱۱؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو ’’غازی نمبر‘‘ (امیر امان اللہ خاں) نکالا تو اس میں اقبال کی نظم ’’کوش در تہذیبِ افغانِ غیور‘‘ شائع ہوئی۔ ۱۵؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو ’’ہدیہ بحضورِ شہریار غازی‘‘ اور ۱۶؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو ’’نذرِ شہریار غازی‘‘ شائع ہوئیں۔ یہ تینوں نظمیں دراصل پیامِ مشرق کی نظم ’’پیش کش بحضورِ اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خاں فرماں روائے مستقلہ افغانستان‘‘ کے تین اجزاء تھے جو مختلف نظموں کی شکل میں انقلاب میں چھپیں۔۴۲؎ امیر امان اللہ خاں نے ۱۹۱۹ء میں افغانستان کو مکمل خودمختاری دلائی تھی اس لیے وہ ملتِ اسلامیہ کی آنکھ کا تارا بنے لیکن برطانوی حکمرانوں کے دل میں وہ کانٹے کی طرح چبھ رہے تھے۔ انھوں نے امیر کے خلاف بغاوت کے شعلوں کو ہوا دی اور ہر ممکن امداد بہم پہنچائی جس کے نتیجے میں بچہ سقا نامی ڈاکو ۱۷؍جنوری ۱۹۲۹ء کو کابل کے تخت پر قابض ہو گیا۔ امان اللہ خاں شکست کھانے کے بعد جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ امیر فروری ۱۹۲۹ء میں یورپ جانے سے قبل ہندوستان آئے تھے۔ اس موقع پر اقبال نے فارسی میں ایک نظم ’’افغان و امان‘‘ کہی تھی۔ ۲؍فروری ۱۹۲۹ء کو انقلاب میں مدیر نے قارئین کو مطلع کیا: حضرت علامہ اقبال مدظلہُ العالی کی ایک فارسی نظم کل سنڈے ایڈیشن میں درج کی جائے گی۔ اس نظم کے دو حصے ہیں۔ حصہ اول میں ملتِ افغانیہ سے خطاب کیا گیا ہے اور حصہ دوم میں اعلیٰ حضرت شہریار غازی کی خدمت میں چند نکات پیش کیے گئے ہیں۔ قارئینِ کرام منتظر رہیں۔۴۳؎ ۳؍فروری ۱۹۲۹ء کے انقلاب میں ’’خطاب بہ ملتِ افغانیہ‘‘ شائع ہوئی۔۴۴؎ ۹؍فروری ۱۹۲۹ء کے انقلاب میں مدیر انقلاب نے درج ذیل تعارفی کلمات تحریر کیے: حضرت علامہ اقبال کی ایک نظم گزشتہ سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوچکی ہے، جو دو حصوں پر مشتمل تھی۔ اول خطاب بہ ملتِ افغان۔ دوم خطاب بہ امان اللہ۔ کل سنڈے ایڈیشن میں اس سلسلے میں حضرت علامہ اقبال کی دوسری نظم شائع ہوگی۔ اس کے دو حصے ہیں۔ اول خطاب بہ علمائے سو، دوم خطاب بہ علمائے حق۔ اس کے بعد ان شاء اللہ دو نظمیں اور آئیں گی۔ ایک خطاب بہ اقوامِ شرق، دوم خطاب بہ اقوامِ غرب۔ ان پر افغانستان کے متعلق حضرت علامہ اقبال کے افکارِ عالیہ کا سلسلہ مکمل ہوجائے گا۔ یہ نظمیں نہایت اہم دینی و ملّی حقائق سے لبریز ہیں۔ ان میں مذہب اور ملت کے وہ اساسی اصول واضح کیے گئے ہیں جو دائمی، اٹل اور غیر متبدل ہیں اور جنھیں مدنظر رکھ کر کوئی مسلمان دینی، مذہبی اور جماعتی معاملات میں غلطی نہیں کرسکتا۔ ہم عام مسلمان بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان نظموں کو غور سے پڑھیں اور ان میں جو حقائقِ عالیہ بیان کیے گئے ہیں، ان سے مستفید و متمتع ہوں۔۴۵؎ ’’خطاب بہ علمائے حق‘‘ ۱۰؍فروری ۱۹۲۹ء کے انقلاب میں شائع ہوئی۔۴۶؎ اقبال کی تیسری نظم کی اشاعت سے قبل مدیر انقلاب نے ۱۶؍فروری ۱۹۲۹ء کو مندرجہ ذیل تعارفی کلمات تحریر کیے: افغانستان کے موجودہ حالات سے متاثر ہوکر حضرت علامہ اقبال نے جو نظمیں لکھنی شروع کی ہیں، ان میں سے دو پہلے شائع ہوچکی ہیں۔ پہلی ’’خطاب بہ ملتِ افغان‘‘ اور ’’خطاب بہ امان اللہ خاں‘‘ دوسری ’’خطاب بہ علمائے حق‘‘ جس میں ضمناً علماء سو کا ذکر بھی آگیا تھا۔ تیسری نظم ’’خطاب بہ اقوامِ شرق‘‘کے عنوان سے تازہ سنڈے ایڈیشن میں چھپے گی۔ یہ چھبیس اشعار پر مشتمل ہے اور نہایت اہم حقائق حیات ملّی و اجتماعی سے لبریز ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد سلسلۂ افغانیہ کی صرف ایک نظم باقی رہ جائے گی۔ یعنی ’’خطاب بہ اقوامِ غرب۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال رہا تو انقلاب اگلے سنڈے ایڈیشن میں اسے بھی چھاپ سکے گا۔۴۷؎ ’’خطاب بہ اقوامِ شرق‘‘ ۱۷؍فروری ۱۹۲۹ء کے انقلاب میں چھپی لیکن چوتھی نظم انقلاب میں شائع نہ ہوسکی۔۴۸؎ جنوری ۱۹۳۱ء میں مولانا محمد علی کے انتقال کے بعد انقلاب نے ۱۸؍جنوری ۱۹۳۱ء کو ’’رئیس الاحرار‘‘ نمبر چھاپنے کا فیصلہ کیا۔ یہ نمبر ۲۷؍جنوری ۱۹۳۱ء کو شائع ہونے والا تھا اور اس کے صفحہِ اول پر اقبال کے اشعار چھپنے والے تھے۔۴۹؎ ۲۳؍جنوری ۱۹۳۱ء کو اس نمبر کے بارے میں دوبارہ اشتہار شائع ہوا۔ اقبال کی نظم ’’محمد علی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ ۲۴؍جنوری ۱۹۳۱ء کے انقلاب میں چھپی تھی۔۵۰؎ کلامِ اقبال انقلاب کی مختلف اشاعتوں میں چھپتا رہا لیکن وہ نظمیں جو صرف اس اخبار کے لیے مخصوص تھیں، ان کا ذکر گزشتہ صفحات میں کیا جاچکا ہے۔ مدیرانِ انقلاب نے یہ اصول وضع کیا تھا کہ تصانیفِ اقبال کے منظرعام پر آنے سے قبل، ان کاجامع اور مبسوط تعارفی مضمون شائع کرتے تھے۔ مہر اور سالک کو افکارِ اقبال تک جو رسائی حاصل تھی اس کی وجہ سے گمانِ غالب ہے کہ ان بے نامی مضامین کی تصنیف مہر یا سالک کے قلم سے ہوئی تھی۔ اس ضمن میں ایک مضمون ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ’’ایک مبصر کے قلم سے‘‘ ۱۵؍مئی ۱۹۳۰ء کو شائع ہوا تھا۔۵۱؎ کتاب کی قیمت پانچ روپے تھی اور اس کے تقسیم کنندہ مہر کے دوست شیخ مبارک علی تھے۔ اس کتاب کے متعلق ۳۰؍اپریل ۱۹۳۰ء کے انقلاب میں قارئین کو مطلع کیا گیا تھا۔ لیکن یہ مئی ۱۹۳۰ء کے آخری ہفتے میں منظرِعام پر آئی۔۵۲؎ گمان غالب ہے کہ انقلاب کا ’’مبصر‘‘ مہر کی ذات میں پوشیدہ تھا کیوں کہ تصنیفِ اقبال کے مندرجات سے بازار میں آنے سے پہلے آشنائی اور افکارِ اقبال تک رسائی مہر کے لیے ممکن تھی۔ اقبال نے ۱۹۲۹ء میں جاوید نامہ کی تصنیف کا آغاز کیا تھا۔ ستمبر ۱۹۳۱ء میں جب اقبال نے دوسری گول میز کانفرنس کے لیے رختِ سفر باندھا تو جاوید نامہ کتابت کا مرحلہ طے کرنے کے بعد طباعت کی منزل میں تھا۔ ۲۶؍اپریل ۱۹۳۱ء کو جب جاوید نامہ نامی مضمون انقلاب میں چھپا تو یہ کتاب کاتبوں کے زیرِ مشق تھی۔ مضمون کے راقم کا نام ’’خبرش بازنیا مد‘‘ درج تھا جو درحقیقت مہر کا قلمی نام تھا۔ اس مضمون میں نہ صرف جاوید نامہ بلکہ اقبال کی دیگر تصانیف کا مختصر جائزہ لیا گیا تھا۔۵۳؎ فروری ۱۹۳۲ء میں اقبال نے جاوید نامہ میر قدرت اللہ پرنٹر کے زیراہتمام کریمی پریس لاہور سے چھپوایا۔ ۸؍فروری ۱۹۳۲ء کو مہر نے تفصیلی مضمون لکھ کر انقلاب میں شائع کیا اور آخر میں قارئین کو یہ اطلاع بہم پہنچائی۔ ’’کتاب مصنف کے پتے سے مل سکتی ہے۔ قیمت ۳؍روپیہ ہے‘‘۔ مہر نے اس مضمون کا عنوان ’’گم کردہ راہ مشرقی اقوام کے لیے مشعلِ ہدایت‘‘ تجویز کیا تھا۔۵۴؎ اقبال نے ۱۹۳۶ء میں ضربِ کلیم اپنے خرچ پر شائع کی تھی۔ طباعت اور کتابت مکمل ہونے کے بعد آپ نے تاج کمپنی سے معاملہ طے کیا اور کمیشن کاٹ کر کچھ کاپیاں ان کے حوالے کردیں۔ اسی زما نے میں سید نذیر نیازی جامعہ ملیہ دہلی سے مستعفی ہوکر لاہور آگئے اور ۲۵؍میکلوڈ روڈ لاہور پر ’’کتب خانہ طلوعِ اسلام‘‘ قائم کیا۔ اقبال نے دیرینہ روابط کے پیشِ نظر بقیہ ایڈیشن ان کے ہاتھ پر فروخت کردیا۔ ضربِ کلیم کی ضخامت ۱۸۲ صفحات اور قیمت تین روپے تھی۔ مہر نے ۲۳؍اگست ۱۹۳۶ء کو ایک اداریہ ضربِ کلیم کے عنوان سے انقلاب میں شائع کیا تھا۔۵۵؎ اقبال کے حلقۂ احباب میں میاں نظام الدین شامل تھے۔ ان کے یہاں علم و سیاست کے اکابرین آتے رہتے تھے۔ لاہور کے رئیس تھے لیکن سادگی پر عمل پیرا تھے۔ معمولی شرعی وضع کا پاجامہ، گرمیوں میں ململ کا کرتا اور سردیوں میں اس پرپٹی کے کوٹ اور ململ کی پگڑی کا اضافہ ہوجاتا تھا۔ ان کے دیوان خانے میں کچھ تخت، چارپائیاں اور کرسیاں بچھی ہوتیں، وہیں اقبال، میاں فضلِ حسین، شیخ عبدالقادر وغیرہ ان سے ملنے آتے تھے۔ آموں کا موسم جب آتا تو وہ دوستوں کو ایک یا دو مرتبہ دعوت دیتے۔ اقبال کو جب دعوت دی جاتی تو ان کے نیاز مندوں مثلاً، سالک، مہر، ماسٹر عبداللہ چغتائی، چودھری محمد حسین اور دیگر شخصیات کو بھی ’’دعوتِ آم‘‘ دی جاتی۔ اس روز یہ حضرات میاں صاحب کے دولت کدے پر صبح پہنچ جاتے۔ وہاں انھیں ایک ایک گلاس دودھ پلایا جاتا۔ باغ میں جانے کے لیے سواریاں تیار ہوتیں۔ باغ میں مختلف کنووں کے چوبچے قسم قسم کے آموں سے بھرے ہوتے۔ اقبال کے لیے چارپائی بچھی ہوتی۔ بقیہ حضرات ’’آم خوری‘‘ کے لیے آزاد ہوتے۔ میاں نظام الدین اور اقبال اپنے ساتھیوں کو ’’انبہ خوری‘‘ کا مقابلہ کرتے دیکھ کر خوش ہوتے۔ جب یہ تھک جاتے تو ہر ’’انبہ خور‘‘ کو ایک ٹوکرا تھما دیا جاتا تا کہ اُن کے اہلِ خانہ بھی ’’انبہ خوری‘‘ کرلیں۔۵۶؎ میاں نظام الدین کی ’’محافلِ انبہ‘‘ کا تفصیلی ذکر سالک نے ’’افکار وحوادث‘‘ میں کیا ہے۔ پروفیسر محمد دین تاثیر نے ۶؍جولائی ۱۹۲۹ء کو سالک کو ٹیلی فون کیا کہ اگلے روز صبح چھ بجے میاں صاحب کے گھر پہنچ جائیں۔ شام کے وقت سالک نے مہر سے اس دعوت کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا۔ ’’خدا کے لیے اس دعوت کو کسی طرح پرسوں پر ٹال دو۔ میں کل صبح جانے سے معذور ہوں کیوں کہ مجلسِ عاملہ خلافت پنجاب کا اجلاس میرے ہی مکان پر ہورہا ہے۔‘‘ سالک نے کہا۔ ’’دعوت تو ٹل نہیں سکتی‘‘ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اکیلے صبح آم کھانے چلے جائیں اور آپ کے لیے کسی آئندہ دعوت کی سفارش کرآئیں۔‘‘ اس دعوت میں اقبال کی خدمت میں ایک خاص قسم کا آم پیش کیا گیا جس کا رنگ خونِ شہداء سے ملتا جلتا تھا۔ اقبال نے اس کی شیرینی، باصرہ نوازی اور سرخی دیکھ کر فرمایا کہ اس کا نام ’’ٹیپوسلطا ن‘‘ رکھا جائے۔۵۷؎ ۱۱؍جولائی ۱۹۲۹ء کو میاں نظام الدین نے دوبارہ ’’دعوتِ آم‘‘ دی۔ اس میں اقبال، چودھری محمد حسین، سالک و مہر، مجید ملک مدیر مسلم آؤٹ لک اور ماسٹر عبداللہ چغتائی شریک تھے۔ جاوید اقبال اس وقت پانچ سال کے تھے۔ انھوں نے فالتو کپڑے اتار کر چوبچے میں چھلانگ لگا دی۔ اقبال کھرّی چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ ان حضرات نے پیٹ بھر کر ’’انبہ نوشی‘‘ کی لیکن انبہ خوری میں ماسٹر عبداللہ چغتائی اور چودھری محمد حسین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ ماسٹر صاحب اس تیزی سے آم کھاتے تھے کہ ایک منٹ بعد آم ان کے ہاتھ میں کھل جاتا تھا۔ آم کی قاشیں گٹھلی کے گرد ترتیب سے لگی ہوتیں۔ اقبال نے یہ صورت دیکھ کر فرمایا کہ ’’جب درزی درویشوں کی چوگوشہ ٹوپی کو سینے سے پہلے قطع کرتا ہے تو اُس کی صورت ہوبہو ماسٹر عبداللہ کے چوسے ہوئے آم کی سی ہوتی ہے۔۵۸؎ ۲۴؍جولائی ۱۹۳۲ء کو میاں نظام الدین نے اپنے باغ میں احباب کو ’’دعوتِ آم‘‘ دی جس میں مندرجہ ذیل خواص نے شرکت کی۔ خان صاحب میاں امیر الدین، میاں محمد اسلم، تاثیر اور میاں امین الدین میزبانوں میں شامل تھے۔ اقبال، مہر، سالک، خان بہادر چودھری حبیب اللہ، چودھری عبدالکریم، چودھری محمد حسین اور ماسٹر عبداللہ چغتائی اس دعوت کے مہمان تھے۔ اقبال نے ماسٹر صاحب کی انبہ خوری پر ارتجالاً یہ شعر کہا ؎ انبہ را کہ دریں باغ ندارد نگاہ جائے او باد بہ نارِ شکم عبداللہ۵۹؎ اس ’’موسم آم‘‘ کے بعد اقبال کی طبیعت ناساز رہنے لگی اور میاں نظام الدین کی دعوتیں قصۂ پارینہ بن گئیں۔ اقبال کے یہاں جب عمدہ آم آتے تو آپ سالک و مہر کو مدعو کرتے۔ مہر اور شیخ مبارک علی کے مراسم اس نوعیت کے تھے کہ جب مہر نے ’’غالب‘‘ تصنیف کی تو اس کی فروخت شیخ صاحب کے سپرد کر دی۔ شیخ صاحب اکثر مہر کو ’’دعوتِ آم‘‘ دیتے اور جب مہر اچھے خاصے میٹھے آموں کو ترش بتاتے اور فوراً کھا بھی لیتے تو شیخ صاحب انھیں طنزومزاح کی سان پر کستے۔۶۰؎ مہرنے اقبال کے بارے میں ایک خط میں لکھا ہے: میں نے زندگی میں صرف دو شخص دیکھے ہیں جنھیں تصنع ، بناوٹ اور ملمع سازی سے کبھی دل بستگی نہ ہوئی۔ ایک مولانا (آزاد) اور دوسرے اقبال غفراللہ لہ‘۔ یہ نہیں کہ دونوں اپنے عیوب کی تشہیر کے لیے ڈھنڈورچی ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ ہاں احباب کی محفل میں ہنسنے کی کبھی کوشش نہ کی۔ ان کی فطرت تصنع کی عادی ہی نہ تھی۔ اور لطف یہ کہ دونوں کا یہ شیوہ ان کے عقیدت مندوں کے سامنے تھا، جو کوئی ایسی بات سنتے بھی تو اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے۔۶۱؎ مہر اور سالک نے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ (احمدیہ بلڈنگ) سابق پنشنر سول سرجن سے مسلم ٹائون میں پانچ پانچ کنال زمین خریدی۔ ان کی رجسٹری اکتوبر یا نومبر ۱۹۳۱ء میں ہوئی تھی۔ ۱۹۳۲ء کے آخر میں مہروسالک کی کوٹھیاں بن گئی تھیں اور یہ حضرات بل روڈ اور فلیمنگ روڈ کے مکانوں سے ان کوٹھیوں میں منتقل ہوگئے۔ اس وقت یہ علاقہ شہر سے باہر تصور کیا جاتا تھا۔۶۲؎ مسلم ٹائون میں مہر کی منتقلی سے اقبال اور مہر کے تعلقات کا ایک دور تمام ہوا کیوں کہ مسلم ٹائون تک جانا آسان نہ تھا۔ پہلے مہر، اقبال کی قیام گاہ واقع میکلوڈ روڈ سے بہت قریب رہتے تھے۔ جب جی چاہتا پیدل وہاں پہنچ جاتا یا اقبال علی بخش کو بھیج کر بلوا لیتے۔ اب ان کو یہ سہولت میسر نہ تھی، لیکن اس کے بعد بھی دوچار دن کے وقفے سے مہروسالک محفلِ اقبال میں شرکت کرلیتے تھے۔ اقبال اور مہر میں اس قدر اشتراکِ فکروعمل تھا کہ مہر نے دسمبر ۱۹۳۰ء کے خطبۂ الٰہ آباد کا ترجمہ اقبال کی الٰہ آباد روانگی سے قبل مکمل کرلیا تھا اور یہ ترجمہ ۲؍جنوری ۱۹۳۱ء کے انقلاب میں شائع ہوا تھا۔۶۳؎ اس کے بعد مہر نے اس خطبے کی حمایت میں کئی اداریے لکھے اور دیگر مصنّفین کے مضامین انقلاب میں شائع کیے۔ جبکہ ہندو اخبارات نے نہ صرف افکارِ اقبال کی شدید مخالفت کی بلکہ بعض اخبار نویس تو گالیوں پر اُتر آئے تھے۔۶۴؎ مہر نے ایک اداریے میں تحریر کیا ہے: اگر مسلمانوں کے تمام مطالبات جو اقل قلیل ہیں، منظور کرلیے جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ پنجاب، صوبۂ سرحد، بلوچستان اور سندھ میں وہ اپنی اکثریت کی وجہ سے غالب رہیں گے اور ہندوستان بھر کی ہندو اکثریت ان کے اس غلبہ و اقتدار میں دست اندازی نہ کرسکے گی۔ علامہ اقبال بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے۔ انھوں نہ صرف اتنا اضافہ فرمایا ہے کہ یہ اسلامی صوبے متحد ہو کر ایک اسلامی سلطنت کے قیام کا نصب العین اپنے سامنے رکھیں اور اکثریت کی صورت میں یہ نصب العین کسی طرح بھی غیرحق بہ جانب قرار نہیں دیا جاسکتا۔۶۵؎ مہر نے شمال مغربی صوبوں کی مردم شماری کی مدد سے مسلم اور غیرمسلم آبادی کا تعین کیا اور ضلع انبالہ کی عدم شمولیت کے نتیجے میں مسلم آبادی اس خطے میں ۶۷ فی صد ہوئی اور ہندوآبادی کی شرح ۲۸ فی صد سے کم ہوکر ۲۲ فی صد رہ جاتی جبکہ سکھوں کی شرح ۱۰فی صدرہتی۔ اگر دریائے ستلج کو پنجاب کی آخری حد قرار دیا جاتا جیسا کہ سکھ عہد میں تھا تو مسلم آبادی کا تناسب بڑھ جاتا اور پنجاب کو بھی قدرتی سرحد میسر آتی۔۶۶؎ مہر اور اقبال کے روابط اس وقت عروج پر تھے جب یہ حضرات دوسری گول میز کانفرنس کے لیے لندن سدھارے۔ ابتدا میں ان کا پروگرام اکٹھے سفر کرنے کا تھا لیکن یکم ستمبر ۱۹۳۱ء کو جب اقبال عازمِ سفر ہونے والے تھے، بخار میں مبتلا ہوگئے اور ایک ہفتہ کے لیے روانگی ملتوی کرنی پڑی۔ اس دوران میں مہر ۵؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ اقبال ۸؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور میں فرنٹئیر میل میں سوار ہوئے۔ اقبال ۲۷؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو لندن پہنچے اور یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء کو مہر لندن تشریف لائے۔ اس کے بعد بقیہ سفر ان حضرات نے اکٹھے کیا۔ آپ حضرات ۳۰؍دسمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور واپس آئے تھے۔ انقلاب کے صفحات اقبال کی تقاریر اور مختلف علمی، ادبی اور سیاسی نوعیت کی سرگرمیوں کے لیے وقف تھے لیکن اقبال کے انتقال پر مہر نے ۲۷؍اپریل ۱۹۳۸ء سے یکم مئی ۱۹۳۸ء کے دوران پانچ اداریے اور مضامین تحریر کیے جن کے ہر لفظ سے بے پناہ عقیدت اور بزرگِ قوم کے اٹھ جانے کا غم جھلکتا ہے۔۶۷؎ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- غلام رسول مہر، غیر مطبوعہ آپ بیتی، ص۱۰۱۔ ۲- غلام رسول مہر، اقبالیات ، مرتب: امجد سلیم علوی، ص۹تا۱۱، مہر سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور، ۱۹۸۸ئ۔ ۳- غیر مطبوعہ آپ بیتی، ص۱۱۹- ۱۱۸۔ ۴- ایضاً، ص۱۱۹۔ ۵- ایضاً، ص۱۲۰۔ ۶- ایضاً، ص۱۲۰۔ ۷- اقبالیات، ص۱۲۱۔ ۸- ایضاً، ص۱۳-۱۱۔ ۹- غیر مطبوعہ آپ بیتی، ص۱۲۲۔ ۱۰- مکتوب مہر بنام محمد عالم مختارِ حق، مورخہ یکم نومبر ۱۹۶۹ئ؛ گنجینۂ مہر، جلد دوم، ص۲۱۵، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور۔ اگست ۲۰۰۸ئ۔ ۱۱- غیر مطبوعہ آپ بیتی، ص۱۲۳۔ ۱۲- اقبالیات، ص۱۳۔ ۱۳- مکتوب مہر بنام محمد عالم مختارِ حق، مورخہ ۲۸؍جنوری ۱۹۶۶ئ، ماہنامہ الرشید، ص۴۰، اگست ۲۰۰۲ئ۔ ۱۴- کلیاتِ اقبال اردو،بانگِ درا، ص۳۱۰-۳۰۹، اشاعتِ دوم، ۱۹۹۴ئ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۱۵- اقبالیات، ص۱۵۔ ۱۶- ایضاً، ص۱۶-۱۵۔ ۱۷- ایضا، ص۱۷۔ ۱۸- ایضا، ص۱۷۔ ۱۹- ایضا، ص۱۸۔ ۲۰- مکتوبِ مہر بنام محمد عالم مختار حق، مورخہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۶۱ئ، ماہنامہ الرشید، لاہور، ص۱۱۲، مارچ ۱۹۹۲ئ۔ ۲۱- خطوط،ص۲۳۰، مکتوبِ مہر بنام انیس شاہ جیلانی۔ ۲۲- حاشیہ از مہر دستۂ گل (مرتبہ محمد عالم مختار حق)، ماہنامہ الرشید، لاہور، ص۸۹-۸۸، مئی ۱۹۹۴ئ۔ ۲۳- اقبالیات، ص۱۸۔ ۲۴- ایضاً، ص۱۹۔ ۲۵- انھی سے رنگِ گلستاں، ص۶۳۲-۶۳۱۔ ۲۶- اقبالیات، ص۲۴۱-۲۴۰۔ ۲۷- روزنامچۂ مہر، ص۲۷۔ ۲۸- اقبالیات، ص۲۶۴۔ ۲۹- ایضاً، ص۲۶۶۔ ۳۰- ایضاً، ۲۶۷۔ ۳۱- ایضاً، ص۲۶۹۔ ۳۲- انقلاب، جلد۲،شمارہنمبر۱۱، یک شنبہ، ۱۷؍جولائی ۱۹۲۷ئ، زبورِ عجم نمبر۔ ۳۳- انقلاب، جلد۲،شمارہ نمبر۱۰، شنبہ، ۱۶؍جولائی ۱۹۲۷ئ۔ ۳۴- اقبال ،زبورِ عجم ، ص۱۱۵۔ ۳۵- انقلاب، جلد۲،شمارہنمبر۶، ۹؍محرم الحرام ۱۳۴۶ھ، ۱۰؍جولائی ۱۹۲۷ئ، زبورِ عجم، ص۸۳-۸۱۔ ۳۶- انقلاب، جلد۲، شمارہ نمبر۷، یک شنبہ، ۲۴؍جولائی ۱۹۲۷ئ، زبورِ عجم، ص۸۰-۷۹۔ ۳۷- انقلاب، جلد۱، شمارہ نمبر۳، شنبہ، ۹؍اپریل ۱۹۲۷ئ۔ ۳۸- انقلاب، جلد۱،شمارہ نمبر۶، چہار شنبہ، ۱۳؍اپریل ۱۹۲۷ئ۔ ۳۹- انقلاب، جلد۱،شمارہنمبر۷، پنج شنبہ، ۱۴؍اپریل ۱۹۲۷ئ۔ انقلاب، جلد۱،شمارہنمبر۹۶، جمعہ، ۱۲؍اکتوبر ۱۹۲۸ئ۔ ۴۰- انقلاب، جلد۱،شمارہنمبر۵۶، جمعہ، ۱۰؍جون ۱۹۲۷ئ، عید نمبر۔ ۴۱- انقلاب، جلد۱۰،شمارہنمبر۱۷۶، پنج شنبہ، ۲۱؍نومبر ۱۹۳۵ئ۔ انقلاب، جلد۱۰،شمارہ نمبر۱۷۸، شنبہ، ۲۳؍نومبر ۱۹۳۵ئ۔ نظموں کے متن کے لیے ملاحظہ کیجیے: حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے، مرتبہ: محمد حمزہ فاروقی، ص۵۰-۴۹، ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، دانش گاہِ پنجاب، لاہور، مارچ ۱۹۸۸ئ۔ ۴۲- انقلاب، جلد۲،شمارہنمبر ۱۳۴، یک شنبہ، ۱۱؍دسمبر ۱۹۲۷ئ، غازی نمبر (امیر امان اللہ خاں)۔ انقلاب، جلد۲،شمارہنمبر۱۳۷، پنج شنبہ، ۱۵؍دسمبر ۱۹۲۷ئ۔ انقلاب، جلد۲،شمارہنمبر۱۳۸، جمعہ، ۱۶؍دسمبر ۱۹۲۷ئ۔ اقبال ، پیامِ مشرق، ص۲۱-۱۸۔ ۴۳- انقلاب، جلد۳،شمارہ نمبر۱۸۸، شنبہ، ۲؍فروری ۱۹۲۹ئ۔ ۴۴- انقلاب، جلد۳، شمارہ نمبر۱۸۹، یک شنبہ، ۳؍فروری ۱۹۲۹ئ۔ ۴۵- انقلاب، جلد۳، شمارہ نمبر۱۹۴، شنبہ، ۹؍فروری ۱۹۲۹ئ۔ ۴۶- انقلاب، جلد۳، شمارہ نمبر۱۹۵، یک شنبہ، ۱۰؍فروری ۱۹۲۹ئ۔ ۴۷- انقلاب، جلد۳، شمارہ نمبر۱۹۹، شنبہ، ۱۶؍فروری ۱۹۲۹ئ۔ ۴۸- انقلاب، جلد۳، شمارہ نمبر۲۰۰، یک شنبہ، ۱۷؍فروری ۱۹۲۹ئ۔ نظموں کے متن کے لیے ملاحظہ کیجیے سرودِ رفتہ، مرتبہ مہر، ص۸۰-۷۴۔ ۴۹- انقلاب، جلد۵ ،شمارہ نمبر۱۸۳، یک شنبہ، ۱۸؍جنوری ۱۹۳۱ئ۔ ۵۰- انقلاب، جلد۵ ،شمارہ نمبر۱۸۹، یک شنبہ، ۲۵؍جنوری ۱۹۳۱ئ، رئیس الاحرار نمبر۔ نظم کے لیے ملاحظہ کیجیے، سرودِ رفتہ، ص۱۹۲۔ ۵۱- انقلاب، جلد۴نمبر۲۷۲، پنج شنبہ، ۱۵؍مئی ۱۹۳۰ئ۔ ۵۲- انقلاب، جلد۴نمبر۲۶۱، چہار شنبہ، ۳۰؍اپریل ۱۹۳۰ئ۔ ۵۳- انقلاب، جلد۵نمبر۲۶۴، یک شنبہ، ۲۶؍اپریل ۱۹۳۱ئ۔ ۵۴- انقلاب، جلد۶نمبر۲۱۵، دو شنبہ، ۸؍فروری، ۱۹۳۲ئ۔ ۵۵- انقلاب، جلد۱۱نمبر۱۲۱، یک شنبہ، ۲۳؍اگست ۱۹۳۶ئ۔ ۵۶- انھی سے رنگِ گلستان، ص۲۴۸-۲۴۶۔ ۵۷- انقلاب، افکار وحوادث، جلد۴نمبر۲۳، چہار شنبہ، ۱۰؍جولائی ۱۹۲۹ئ۔ ۵۸- انقلاب، افکار وحوادث، جلد۴نمبر۲۷، یک شنبہ، ۱۴؍جولائی ۱۹۲۹ئ۔ ۵۹- انقلاب، افکار و حوادث، جلد۸نمبر۷۳، پنج شنبہ، ۲۸؍جولائی ۱۹۳۳ئ؛ انوارِ اقبال میں یہ شعر اس طرح درج ہوا تھا ؎ امبہ کہ نہ کردند دریں باغ نگہ جائے او باد بہ شکمِ عبداللہ انوارِ اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، ص۳۱۳۔ ۶۰- انقلاب، جلد۱۲نمبر۱۱۲، چہار شنبہ، ۴؍اگست ۱۹۳۷ئ، افکار وحوادث۔ ۶۱- مکتوبِ مہر بنام محمد عالم مختارِ حق، مورخہ ۲۶؍جنوری ۱۹۶۵ئ، گنجینۂ مہر، جلداول، ص۲۳۸۔ ۶۲- انھی سے رنگِ گلستان، ص۲۰۹۔ ۶۳- انقلاب، جلد۵نمبر۱۷۱، جمعہ، ۲؍جنوری ۱۹۳۱ئ۔ ۶۴- انقلاب، جلد۵نمبر۱۷۵، جمعہ، ۹؍جنوری ۱۹۳۱ئ۔ ۶۵- انقلاب، جلد۵نمبر۱۷۷، یک شنبہ، ۱۱؍جنوری ۱۹۳۱ئ۔ ۶۶- انقلاب، اداریہ، جلد۵نمبر۱۹۷، سہ شنبہ، ۴؍فروری ۱۹۳۱ئ۔ ۶۷- محمد حمزہ فاروقی، حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے، ص۵۷۷-۵۵۱۔ ـئ…ئ…ء جوانانِ مصر۔۔۔ تشنہ لب، خالی ایاغ ڈاکٹر زاہد منیر عامر عرب دنیا کے پاس تیل کے بعد دوسرا بڑا خزانہ اس کی نوجوان نسل ہے۔ مصر کے پاس یوں تو سیاحت،سویز،تیل اور قدرتی گیس ایسے بڑے ذرائع آمدن موجود ہیںلیکن اگر بنیادی حقوق، احترام اور روزگار کے ذرائع میسر ہوںتو اس کی نوجوان نسل ان سب پر فائق ہوسکتی ہے ۔بعض ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں،جن کی بیشتر آبادی کہن سال ہوچکی ہے ،مصر کوبہ کثرت نوجوان افرادی قوت میسر ہے۔ مصری عوام پہلے ایک طویل عرصے تک ملوکیت کا شکار رہے پھر انھیں سوشلزم کاسبز باغ دکھایا گیالیکن یہ خواب تعبیر پانے سے پہلے ہی بکھر کر رہ گیا۔پھر مصری ،سوشلزم کے آسمان سے سرمایہ دارانہ نظام کی کھجور میں جا کر گرے۔ اس نظام سے تو انھیں کوئی خیر نہ مل سکی البتہ مسلسل فوجی آمریتوں کے ہاتھوں وہ ایک طویل عرصے سے بنیادی حقوق سے بھی محروم چلے آرہے ہیں ۔مصر کی آبادی آٹھ کروڑ کے قریب ہے جو ۲۰۵۰ء تک ساڑھے بارہ کروڑ ہوجائے گی۔ اس میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے یہ اندازہ لگانے کے لیے کسی بقراط کی ضرورت نہیں کہ اس وقت تک نوجوانوں کی تعدادکیا ہو گی ؟ان نوجوانوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر ہوں تو یہ مصر کے لیے غیر مختتم توانائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔سرِدست تو یہ نوجوان اپنی محرومیوں کے ہاتھوںزندگی سے مایوس اور بغاوت پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔عرب دنیا میں تبدیلی کی حالیہ لہر کا آغاز بھی ایک ایسے ہی مایوس نوجوان سے ہو ا۔ تیونس کا چھبیس(۲۶) سالہ سبزی فرو ش بو عزیزی بارش کا پہلا قطرہ تھاجس نے حصولِ انصاف میں ناکامی پر خود کو آگ لگا کر اپنی شمعِ حیات کو خاکستر کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد اس آگ کے شعلے مصر تک پہنچ گئے اور مصر کے تن بہ تقدیراورمایوس نوجوان قاہرہ کے میدان ِتحریر میں جبر و قہر کے خلاف نئی داستان تحریر کرنے لگے۔ مصر میں سہ سالہ قیام کے دوران مجھے وہاں کے نوجوانوںکو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا…یونی ورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان ،ٹیکسی ڈرائیور،شام ہوتے ہی قہوہ خانوں کی رونق بن جانے والے، رقص و موسیقی کے دلدادہ نوجوان اور رمضان المبارک میں مساجد میں معتکف ہوجانے والے نوجوان۔یہ مختلف طبقات ،نوجوانوں ہی کی نہیں بلکہ مصری معاشرے کی تقسیم کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔یونی ورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان بالعموم مایوسی کا شکار تھے۔ رقص وموسیقی کی محفلوں کے دلدادہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے رویے پر عامل تھے۔ رمضان المبارک میں مساجد کی رونق بڑھانے والے قدرے ڈرے ہوئے اور اظہار خیال میں محتاط لیکن اپنی ملکی صورت حال سے ناخوش تھے… یونی ورسٹیوں کے نوجوان اپنے ملک کے مقابلے میں دوسرے ممالک کی زندگیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے اور کسی نہ کسی طرح مصر سے نکل جانے کی تمنا رکھنے والے تھے۔ خود میرے ازہری شاگردوںمیں بھی ایسے تھے جو مختلف سفارت خانوں کے چکر لگاتے، ان کی تقریبات میں شرکت کرتے اور کسی نہ کسی طرح سفارت خانوں کے ملازمین کے توسط سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کرتے تھے ۔ان کے نزدیک مصر سے باہرکی دنیا کی زندگی پُر آسائش اور قابلِ رشک ہے ۔اس احساس میں صرف تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہی نہیں بلکہ ان کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ جامعہ الازہر کے جن نوجوان اساتذہ یا طلبہ سے میرا مکالمہ رہتا تھا اور میں جنھیں ملازمتوں کی سطح سے اوپر اٹھ کر زندگی میں کچھ کرنے اور روزوشب کو تسخیر کرنے کی ترغیب دیتا ان کا ردعمل مایوسی پر مبنی ہوتا تھا۔ وہ اپنی معاشی صورت حال کو اپنی تمام بے عملی ،ناکامیوں، محرومیوں اور مایوسیوں کا سبب قرار دیتے تھے۔ یونی ورسٹیوں سے باہر نوجوانوں کی ایک دنیا وہ تھی جو مصر میں ہر گلی کوچے میں قائم قہوہ خانوں میں دھویں کے مرغولوں کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ یہ شام ہوتے ہی گھروں سے نکل آتے ہیں۔ دریاے نیل کی مختلف شاخوں پر یہاں وہاں جھولتے پلوں پر اپنی دوستوں کی بانہوں میں جھولتے ہیں جس میں پولیس یا معاشرے کا کوئی دوسرا فرد مخل نہیں ہوتا۔ایک طبقہ نائٹ کلبوں یا دریائے نیل کے سینے پر ڈولتے کشتی گھروں میں چلا جاتا ہے جہاں انھیںحسب ِطلب واستطاعت سب کچھ میسر ہوتا ہے ،جنھیں شب باشی کے لیے مناسب جگہ نہیں ملتی وہ قہوہ خانوں میں آجاتے ہیںاور بعض اوقات تمام تمام رات شیشہ پیتے اور گپیں لگاتے گزار دیتے ہیں قہوہ خانوں میں ذکورو اناث اکٹھے آتے اوربیٹھتے ہیں ان کے لیے وقت کی رفتار تھم جاتی ہے اور وہ گویارخِ روشن کے آگے’’ شیشہ ‘‘رکھ کر کہتے ہیں ؎ ع ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر آتا ہے پروانہ ’’شیشہ ‘‘جو اب پاکستان کے ماڈرن شہروں میں بھی اجنبی نہیں رہا، حقے کو کہا جاتا ہے یہ ماڈرن وضع کے مختلف اور زیبا حقے ہوتے ہیں جنھیں قہو ہ خانوں کے ملازم، گرم رکھتے ہیںاور لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں جن کا شوق کرتی ہیں۔ شیشے سے لگائو صرف نوجوانوں ہی میں نہیں پایا جاتا خواتین و حضرات سبھی شیشہ پسند واقع ہوئے ہیں۔قاہرہ کے جس علاقے میں میری رہائش تھی وہ ایک ماڈرن اور مہنگا علاقہ یعنی زمالک تھا۔ یہاں قدم قدم پر شیشہ گھر تھے، نائٹ کلب اور پب بھی تھے، اونچے ہوٹل بھی تمام صفات سے متصف تھے۔ نیل کنارے قطار اندر قطار نادی تھے۔ ’’نادی‘‘ بھی کلب کو کہاجاتا ہے۔ ان نوادی (کلبوں) کے ماحول کا اندازہ ایک نادی کے دروازے پر لگے اس اعلان سے کیا جاسکتا ہے جس میں لکھا ہوا تھا ممنوع الدخول للنقاب والجلباب و ذوی اللحیۃ یعنی نقاب پوش خواتین، قدیم مصر ی طرز کا لباس جلباب جو ایک لمبی عبا ہوتی ہے ، پہننے والے اور داڑھیوں والے حضرات نادی میں داخل نہیں ہوسکتے۔بعض نوادی کی رکنیت لینے کے لیے باقاعدہ انٹرویو ہوتا ہے جس کاوقت رات گیارہ بارہ بجے کے بعد ہوتا ہے اور انٹرویو کی تاریخ لینے کے لیے رجسٹریشن کروائی جاتی ہے ۔امیدوار کے پیشے اور حلیے کو دیکھ کر اس کی رجسٹریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قیامِ مصر کے تین سالوں میں راقم نے قاہرہ کی سڑکوں پر پانی کی طرح دوڑتی ٹیکسیوں کو ذریعہ سفر بنائے رکھا۔ان ٹیکسیوں کے ڈرائیور بیشتر نوجوان تھے۔ ٹیکسیاں چلانے والے اکثر نوجوان گریجویٹ ہیں۔ کوئی جامعہ قاہرہ کا پڑھا ہوا ہے، کو ئی الازہرکا، کوئی جامعہ عین شمس کا بلکہ الازہر کے تو بعض اساتذہ بھی ٹیکسیاں چلاتے ہوئے ملے۔ نوجوانوں کی بے روزگاری ،مصر میں بے روزگاری کا سب سے بڑا مظہر ہے ۔ملک کے نوے فی صد بے روزگار وں کی عمر تیس سال سے کم ہے ۔اور ایک بڑی تعداد کم تر روزگار کے مسائل کا سامنا کررہی ہے۔مصر کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پچیس فیصد مصریوں کی عمراٹھارہ سے انتیس سال کے درمیان ہے اور چالیس فیصد کی عمر دس سے انتیس برس کے درمیان ہے ۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مصر کی قریباً بیس فیصد آبادی کو غریب کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ راقم کو مصر کے بعض دیہات میں جانے کا موقع بھی ملا۔ ان کا منظر نامہ پاکستانی دیہات سے مختلف نہیں۔ پاکستان میں تو پھر بھی بڑے شہروں سے جڑے دیہات میں شہری زندگی کے ثمرات پہنچے ہوئے ہیں لیکن مصری دیہات شہری زندگی کے ثمرات سے محروم ہی دکھائی دیے ۔مصری معاشرے کا ایک طبقہ تو وہ ہے جو نائٹ کلبوں میں شب بسری کی استطاعت رکھتا ہے دوسری طرف اسی معاشرے کی دیہی آبادی جو کل آبادی کا اسّی فیصد ہے، کی بیاسی فیصد لڑکیاں غربت کے باعث سکول نہیں جاسکتیں۔ٹیکسیاں چلانے والے گریجویٹ ڈرائیوروں سے جب میں کہتا کہ آپ نے بی اے کرنے کے بعد کوئی ملازمت کیوں نہیں کی تو وہ بتاتے کہ سرکاری ملازمت کرنے والوں کو جوتنخواہ ملتی ہے اس سے مہنگائی کے آسیب کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔پرائیویٹ سیکٹر کی ملازمتیں سرکاری ملازمتوں کے مقابلے میں بہتر ہیں لیکن ان کا حصول آسان نہیں۔بعض مصری یونی ورسٹیوں میں فنادق و سیاحت کی فیکلٹی (Faculty of hoteling and tourism) بھی موجود ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے نوجوانوںکا میلان اس کی طرف ہے کیونکہ اس طرح وہ مصر کے بڑے ذریعہ آمدن سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہو سکیں گے اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہوجاناگویا سونے کی چڑیا ہاتھ آجانا ہے۔ سیاح چونکہ عام طور سے اجنبی اور مقامی نرخوں سے ناواقف ہوتا ہے اس لیے اس سے وابستگی جائز و ناجائزجلب زر کا موقع فراہم کردیتی ہے۔ اس چیز نے عام مصری اخلاق و کردار پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مصر کا مذہبی خیالات رکھنے والا نوجوان سماج کو اپنے ہی زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ایک ایسے ہی نوجوان سے جب نجیب محفوظ کے افسانوں اور ناولوں میں پائے جانے والے سماجی منظر نامے پر گفتگو ہوئی تو اس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نجیب محفوظ کا قلم ،مساجد سے بلند ہوتی تکبیر کی صدائوں اور یہاں کی رونق بننے والے نوجوانوں سے ناآشنا ہے۔ اسے صرف کلبوں میں شب بسری کرنے والے ،آوارہ گردیا غربت کے مارے نوجوان ہی دکھائی دیتے ہیں…راقم نے اپنے تین سالہ قیام مصر میں اس طبقے کو بھی قریب سے دیکھا۔مساجد کی رونق عام طور سے اسی قدر ہے جس قدر کہ ہمارے ہاں دکھائی دیتی ہے ۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مساجد کی رونق زیادہ ترنوجوان بنتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتانا چاہیے کہ مصر میں ہر مسجد میں اعتکاف کی اجازت نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے ایک منطقے میں ایک مسجد نامزد کی جاتی ہے۔ اس ایک مسجد میں پورے منطقے سے لوگ معتکف ہوتے ہیں۔ان نوجوانوں میں یونی ورسٹیوں کے طالب علم ،مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے اور تجارت پیشہ ہر طرح کے نوجوان شامل ہوتے ہیں یہاں بعض بہت باخبر اور ہوشمند نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی بلکہ وائل غنیم نامی وہ نوجوان جس نے فیس بک (Face Book) میں اکائونٹ بناکر مصر کی تاریخ بدل دی گزشتہ رمضان میںاسی مسجد میں معتکف تھا جہاں راقم ۔میں دس روز تک اس خاموش طبع اور گہرے نوجوان کو دیکھتا رہا۔دوسرے مصری نوجوانوں کی طرح سیاسی موضوعات پر گفتگو سے وہ بھی گریز کرتا تھا۔یہ ان نوجوانوں میں شامل تھا جنھوں نے فیس بک اور ٹوئٹرکے ذریعے ۲۵ جنوری۲۰۱۱ء کے یوم الغضب کی راہ ہموار کی جس میں تیس ہزار لوگ جمع ہوئے اور پھر یہ تعداد بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ حسنی مبارک کا تیس سالہ اقتدار اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ ملکی نظام سے مصری نوجوان کی ناراضی اتنی واضح تھی کہ وہ چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ ان کی مایوسی ان کی گفتگو سے جھلکتی بلکہ چھلکتی تھی۔ تعلیم مکمل کر کے قاہرہ کی عدالت میں تعینات ہوجانے والے ایک جج صاحب سے بھی میرا رابطہ رہا،اپنی شادی کے حوالے سے ان کی پریشانی بھی ختم ہونے میں نہ آئی، جب ان سے کہا گیا کہ عالم اسلام ایک روشن مستقبل کے لیے مصر کے کردار کا منتظر ہے تو ان کا فوری جواب تھا کہ آپ خاطر جمع رکھیںمصر اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا۔ایک ایسے نوجوان سے بھی ملاقات ہوئی جو پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھتا تھا اور جسے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں سے بھی خاصی واقفیت تھی لیکن یہ غالباً ایک استثنا تھا کیونکہ مصر میں پاکستان سے واقفیت اور دل چسپی عام نہیں ہے بلکہ مساجد میں ائمہ کرام جب عالم اسلام کے لیے دعائیں کرواتے ہیں تو ان میں بھی پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ۔راقم نے بعض ائمہ سے مل کر انھیں پاکستان اور عالم اسلام میں اس کی اہمیت اور یہاں کے عوام کو درپیش عالمی چیلنجز سے آگاہ کیا اور کشمیر کے انسانی مسئلے کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ پاکستانی عوام کے دل کس طرح عالم اسلام کے لیے دھڑکتے ہیں اور ہماری مساجد میں فلسطین اور عربوں کے لیے کس طرح التزام سے دعائیں مانگی جاتی ہیں تو انھوںنے اپنی دعا میں پاکستان کا اضافہ کیا… پرانی نسل کے لوگ اقبال سے واقف ہیں لیکن نوجوان نہیں۔ یونی ورسٹیوں میں اردو یا جنوبی ایشیا کے تعلق سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اقبال کو جانتے ہیں لیکن اقبال سے ان کی واقفیت ایک زندہ پیغام کی حیثیت سے نہیں ایک اکیڈیمک موضوع کی حیثیت سے ہے جس کے امکانات پورے ہوچکے ہیں۔ راقم نے الازہر میں اردو کی تدریس کے لیے اقبال کے متن کو بنیاد بناناچاہا تو ایم اے کی طالبات نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اقبال اقبال بہت ہوچکی اب کسی نئے موضوع پر بات ہونی چاہیے اس پر راقم نے پیغام ِاقبال کے، ان کی موجودہ زندگی سے، تعلق کو واضح کیا تو وہ اس پر آمادہ ہوگئیں اور یوں یہ سلسلہ شروع ہوسکا ۔راقم نے اس مقصد کے لیے امِ کلثوم کے حدیث الروح سے بھی مدد لی ۔کلاس روم میں اس کا ریکارڈ سنانے پر کچھ طالبات نے ڈرکر دروازے بند کرلینے کا مشورہ دیااور راقم کو یاددلایا کہ ’’یہ جامعہ الازہر ہے‘‘۔ اس رویے کا سبب اقبال سے آگاہی کے مدعی وہ اساتذہ ہیں جواقبال کو ایک زندہ اور توانا فن کا ر کی حیثیت سے نہیں محض ڈگریوں کے حصول کا سبب بننے والے ایک موضوع کی حیثیت سے جانتے ہیں اور اقبال کے پیغام میں پنہاں حرکت و حریت کے جوہر سے محض ناواقف ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے اساتذہ کی پاکستان میں بھی کمی نہیں۔ بعض جامعات کے اساتذہ سے بھی اسی قسم کے خیالات سننے کو ملے جیسے جامعہ الازہر کی ایم اے اردو کی طالبات کے تھے۔ مصر کے ایک نام ور’ اقبال شناس ‘نے بھی ، تحقیق کے لیے اقبال کے موضوع کو’ ختم شدہ ‘قرار دیا ۔اس صورت حال کے علی الرغم راقم تین برس تک مختلف فورمز پر اور مصری اخبارات کے ذریعے بنی نوع انسان کے نام بالعموم اور عالم عرب کے نام بالخصوص اقبال کے فراموش شدہ پیغام کو یاددلاتا رہاجس کے خاطر خواہ نتائج دیکھنے میں آئے۔ گزشتہ برس مصر کی ہیومن ڈیویلپمنٹ کونسل نے مصر کی نوجوان نسل کے مسائل کے حوالے سے YOUTH IN EGYPT BUILDING THE FUTUREکے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں بے روزگاری ،تاخیر سے شادی اورغربت کومصری نوجوان کے تین بڑے مسائل قرار دیاگیا۔ وزیراعظم کی سطح پر جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرمصر ی نوجوانوں کو اچھااحساس، اچھی تعلیم، معاشرے میںشائستہ اور تعمیری کردار ادا کرنے اور ایسی شادیوں کے جو وہ افورڈ کرسکتے ہوں، مواقع دیے جائیں تو وہ ترقی کی دوڑ میں ایک مؤثر قوت کا کردا رادا کرسکتے ہیں ۔ مصر میںمستقل ملازمتوں کے فقدان کا مسئلہ مستقلاًغربت کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔غریب نوجوانوں کو جو بھی ملازمت ملتی ہے وہ اسے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں چاہے وہ موسمی ہو یاعارضی کیونکہ ان کے لیے طویل عرصے تک مسلسل بے روزگار رہنا ممکن نہیں ہوتا۔حکومتی دعویٰ یہ تھا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیںجن سے معلوم ہوتا ہے کہ بے روزگاری کا گراف کم ہورہا ہے اور ۲۰۰۹ء میں اس کے گراف میں ۲۴ فیصد کمی ہوئی ہے لیکن جنوری ۲۰۱۱ء میںعوامی قوت کے سیلاب نے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ راقم نے اکثرمصری نوجوانوں کو شادی کے لیے مضطرب اور پریشان دیکھا الازہر کے طالب علم پاکستان میں شادی کے طریق کار سے آگاہ ہونے پر پاکستان میں شادی کی تمنا کرتے تھے بعض ادارے تیسیر للزواج یعنی شادی میں سہولت کے پروگرام جاری کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنی شادی کے لیے کہنا بھی معیوب نہیں سمجھاجاتا۔ ایک لڑکی نے میر ی موجودگی میں ایک کاغذ پر اپنا اور اپنے والد کانام لکھ کریہ درخواست مسجد میں بھیجی کہ اس کے لیے زوج صالح اور ذریّت صالحہ کی دعا کی جائے۔حقیقت میںمصری نوجوانوں کے لیے شادی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ معاشرہ شادی سے پہلے لڑکی کے لیے آزادانہ رہائش کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ لڑکے کے لیے ،بے روزگاری کے باعث، جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہوتا ہے کجا کہ وہ لڑکی کو دان کرنے کے لیے کوئی فلیٹ خرید سکے۔غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مصر میں ۹ملین سے زیادہ نوجوان ایسے ہیںجو پینتیس سال کی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود شادی نہیں کرسکے اور نوجوان جوڑوں میں طلاق کی شرح باون(۵۲) فی صد ہے۔ بیالیس(۴۲) فی صد جوڑے شادی کے پہلے چار سال میں ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں۔ خراب معاشی اور سماجی صورت حال نے بعض اخلاقی خرابیوں کو بھی جنم دیا ہے جن میں ’’زواج عرفی‘‘ بھی شامل ہے ۔ اس طریق ِازدواج میں لڑکا اور لڑکی کسی گواہ کے بغیر، ایک کاغذ پر معاہدہ کرکے، میاں بیوی بن جاتے ہیں اوران کے والدین یا معاشرے کو اس کی خبر نہیں ہوتی ۔دونوں اپنے اپنے والدین کے ہاں مقیم رہتے ہوئے کسی تیسرے مقام پرتعلقات زناشوئی قائم کرلیتے ہیں۔ معاشرے کو اس وقت پتا چلتا ہے جب اس تعلق میں کوئی بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور معاملہ عدالت تک جا پہنچتا ہے۔ مصر میں زواج عرفی کا تجربہ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد ۲۴ فی صد ہوچکی ہے۔ اگرچہ ازہری علماء اس طریق ازدواج کے خلاف ہیں لیکن عدالتیں عام طور سے ایسے مقدمات میںنرمی کا رویہ اختیار کرتی ہیں۔ گزشتہ سطور میں جس رپورٹ کا ذکر ہوا اس میں مصری نوجوان کو مایوسیوں سے نکالنے کے لیے نو ایریاز کی نشان دہی کی گئی جن میں تعلیم کی ناکامی پر قابو پانا،غربت کے چکر کو توڑنا،نئی ملازمتوں کی تخلیق، حسنِ انتظام اور نقل ِمکانی۔ تعلیمی اداروں کی آئوٹ پٹ اور مارکیٹ کے مطالبوں میں توازن پیدا کرنا۔ فنی تعلیم کا معیار بڑھانا اور نصابات کو بہتر بنانا۔نوجوانوں کو رضاکارانہ بنیاد پر کام کے لیے تیار کرناشامل ہیں۔ مصر کی نئی حکومت ان نو ایریازپر قابو پاسکتی ہے یا نہیں یہ تو ایک الگ سوال ہے ایریاز کی نشاندہی بجائے خودبہت اہم ہے جس سے مصرکے تشنہ لب، خالی ایاغ نوجوان کے المیے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ـئ…ئ…ء مکاتیب اقبال کا اسلامی تناظر سید طالب حسین بخاری اقبال کے والدین اور ابتدائی زمانہ طالب علمی کے اساتذہ (جن میں سید میر حسن کا کردار نمایاں دکھائی دیتا ہے) کی شخصیات کا جائزہ لیا جائے تو حیاتِ اقبال کے پس منظر میں تصوف کی کارفرمائی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ مکاتیب اقبال کے مطالعہ سے علامہ اقبال کے فطری رجحان اور شخصیت کے کئی دوسرے پہلوئوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مکاتیب سے اُن کے اسلامی افکار اور دنیائے اسلام کے لیے اُن کے چھوڑے ہوئے فکری سرمایے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابو محمد مصلح کے نام مکتوب میں علامہ اقبال لکھتے ہیں:ـ …قرآنی تحریک کا پروگرام مبارک ہے۔ اس زمانہ میں قرآن کا علم ہندوستان سے مفقود ہوتا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں نئی زندگی پیدا کی جائے۔ کیا عجب کہ آپ کی تحریک بارآور ہو اور مسلمانوں میں قوت عمل پھر عود کر آئے…۱؎ اس مکتوب کے حاشیے میں درج ہے کہ جنوری ۱۹۲۹ء میں جب علامہ اقبال حیدرآباد دکن پہنچے تو ابومحمد مصلح نے نواب نذیر جنگ بہادر کے ہمراہ علامہ سے ملاقات کی اور انھیں اپنی ’’تحریک قرآن‘‘ کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعد میں قیام حیدرآباد کے دوران میں علامہ اقبال نے ’’تحریک قرآن‘‘ کا لٹریچر بھی دیکھا اور ابومحمد مصلح کو مذکورہ خط لکھا۔ علامہ اقبال کی نگاہ میں مشاہیر اسلام کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ وہ سلطان فتح علی ٹیپو شہید جیسے فرزندانِ اسلام کی عظمتوں کے معترف تھے۔ اُنھوں نے اپنے تخیل سے سلطان ٹیپو شہید کے افکار کی ترجمانی کرتے ہوئے انھیں منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے جو اُن کے مجموعۂ کلام ضربِ کلیم میں شامل ہے۔۲؎ علامہ اقبال کے نام پر ایک سکول قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تو آپ نے اسے قبول نہ فرمایابلکہ ٹیپو سلطان شہید کے نام پر یہ سکول بنانے کی تجویز دی۔ آپ نے میجر سعید محمد خان کو ایک مراسلے میں لکھا: ایک معمولی شاعر کے نام فوجی سکول کو موسوم کرنا کچھ زیادہ موزوں نہیں معلوم ہوتا۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ اس فوجی سکول کا نام ’’ٹیپو فوجی سکول‘‘ رکھیں۔ ٹیپو ہندوستان کا آخری مسلمان سپاہی تھا جس کو ہندوستان کے مسلمانوں نے جلد فراموش کردینے میں بڑی ناانصافی سے کام لیا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں جیسا کہ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے اس عالی مرتبت مسلمان سپاہی کی قبر زندگی رکھتی ہے بہ نسبت ہم جیسے لوگوں کے جو بظاہر زندہ ہیں یا اپنے آپ کو زندہ ظاہر کرکے لوگوں کو دھوکا دیتے رہتے ہیں۔۳؎ اسلامی ثقافت کی خصوصیات کے متعلق ایک خط میں سیّد نذیر نیازی کو لکھتے ہیں: خالدہ خانم کے متعلق آپ کی رائے درست ہے۔ مشرق کی روحانیت اور مغرب کی مادّیت کے متعلق جو خیالات اُنھوں نے ظاہر کیے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی نظر بہت محدود ہے۔ اُنھوں نے انھیں خیالات کا اعادہ کیا جن کو یورپ کے سطحی نظر رکھنے والے مفکرین دہرایا کرتے ہیں۔ کاش اُن کو معلوم ہوتا کہ مشرق و مغرب کے تصادم میں (کلچرل) اُمّیؐ عرب کی شخصیت اور قرآن نے کیا کام کیا ہے۔ مگر یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کیونکہ مسلمانوں کی فتوحات نے اسلام کے کلچرل تاثرات کو دبائے رکھا نیز خود مسلمان دو ڈھائی سوسال تک یونانی فلسفے کے شکار رہے۔۴؎ ۱۸؍فروری ۱۹۲۹ء کو ایک خط محمد عبدالجلیل بنگلوری کو لکھا گیا: اب باوجود مالی مشکلات کے ایران و ترکی کے سفر کی تیاری میں مصروف ہوں۔ خداوندتعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس سفر کے لیے جو میں محض اسلام اور مسلمانوں کی بہتری و بلندی کے لیے اختیار کررہا ہوں، زادراہ میسر آجائے گا۔ مجھے اس اطلاع سے بے حدمسرت ہوئی کہ میرا سفرِ میسور مسلم نوجوانوں میں تاریخی تحقیق کے شوق و ذوق کا باعث ہوا… اسلام کی خدمت کے لیے ان کے ذوق و جوش نے میرے دل پر ایک ایسا اثر کیا ہے جو کبھی محو نہ ہوگا۔۵؎ ظاہر ہوتا ہے کہ باوجود مالی مشکلات کے حضرت علامہ اقبال اسلام اور مسلمانوں کی بہتری اور سربلندی کے لیے دوردراز کے سفروں کی صعوبات برداشت کرنے کے لیے تیار تھے۔ اور جہاں بھی کوئی شخص اسلام کی سربلندی کے لیے عمل پیرا ہوتا اس سے آپ کو قلبی مسرت ہوتی تھی۔ محمد عبدالجلیل بنگلوری کو لکھے گئے اسی مکتوب کے آخری حصے میں یہ عبارت ہے: … اسلام کے ثقافتی اور فلسفیانہ پہلو پر ابھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جرمن زبان میں چند کتابیں ہیں۔ جن کا حال ہی میں کلکتہ کے صلاح الدین خدا بخش صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ لیکن وہ کتابیں بھی کچھ یونہی سی ہیں۔ اقبال کی علمیت اور مطالعۂ اسلام کے بارے میں خواتین کے حلقے بھی باخبر تھے۔ آپ کا فقہی مسائل کے متعلق بھی گہرا مطالعہ تھا۔ ایک مکتوب میں اُنھوں نے ایک نہایت ہی اہم فقہی مسئلے پر روشنی ڈالی ہے جس کاتعلق بیوی خاوند کی خانگی زندگی سے ہے۔ ایڈیٹر انقلاب اخبار کو لکھے گئے مراسلے میں یہ الفاظ دکھائی دیتے ہیں: … خواتین مدراس کے سپاس نامے کے جواب میں جو تقریر میں نے کی تھی، وہ آج آپ کے اخبار میں میری نظر سے گزری ہے۔ افسوس ہے کہ جن صاحب نے تقریر مذکور کے نوٹ لیے ان سے بعض ضروری باتیں چھوٹ گئیں… فقہ اسلامی میں بیوی، بچوں کو دودھ پلانے کی اجرت طلب کرسکتی ہے نہ کہ بچہ جننے کی… میں نے تقریر میں اسی کا ذکر کیا تھا۔۶؎ اقبال محمد عبدالجلیل بنگلوری کو اپنے ترکی اور مصر کے سفر کے پروگرام سے آگاہ کررہے ہیں۔ سارے متمول لوگ اسلام کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اقبال کو یہی شکوہ ہے وہ چاہتے ہیں کہ دین اسلام کی تبلیغ کے مناسب ذرائع اختیار کیے جائیں تو اسلام میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسری غیر مسلم اقوام پر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ اس طرح کی سعی سے اسلام زور پکڑ سکتا ہے۔ محمد عبدالجلیل بنگلوری کو ایک او رمکتوب میں لکھا: …میں ترکی اور مصر کے سفر کی ہر ممکن کوشش کررہا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، زرمی طلبد والا معاملہ ہے اور ہندوستان کے مسلمان امراء اسلام کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت و اہمیت سے قطعاً ناآشنا ہیں۔ تاریخ اسلام میں یہ دور نہایت نازک ہے۔ اگر مناسب ذرائع اور طریق اختیار کیے جائیں تو اسلام اقوام عالم کو اب بھی مسخر کرسکتا ہے۔ مجھ سے جو خدمت ممکن ہوئی بجالائوں گا۔۷؎ اپنی بہن کریم بی بی سے خط میں دل کی کیفیت اور آرزو ظاہر کی ہے: … مسلمان کی بہترین تلوار دعا ہے سو اسی سے کام لینا چاہیے۔ ہر وقت دعا کرنا چاہیے اور نبی کریم پر درود بھیجنا چاہیے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس امت کی دعا سن لے… میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسول کی مَیں کوئی خدمت کرسکتا… بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھا ہوا اور مجھ سے بھی جو کچھ ہوسکا میں نے کیا۔ لیکن دل چاہتا ہے… زندگی تمام و کمال نبی کریمﷺ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔۸؎ سرراس مسعود کو لکھے گئے مکتوب میں یہ عبارت دیکھیے: … اس طرح میرے لیے ممکن ہوسکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہدِحاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کرلیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں۔ لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیش کش مسلمانانِ عالم کو نہیں کرسکتا۔۹؎ تعلیماتِ قرآنی میں حضرت علامہ اقبال کو منزل آخریں دکھائی دیتی ہے۔ وہ مطالعۂ قرآن کو ہی راحتِ جاں اور بخشش کا ساماں سمجھتے ہیں۔ وہ تبلیغِ تعلیماتِ قرآنی کے آرزو مند ہیں۔ اُن کی یہ آرزو ہنوز پوری نہیں ہوسکی۔ وہ اسی مراسلہ میں لکھتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اُن کے مقدر میں اس آرزو کی تکمیل لکھی ہے تو وہ یہ کام کرلیں گے۔ محمد عبدالجلیل بنگلوری کو لکھے گئے مراسلہ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں: مجھے اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوئی کہ جنوبی ہندوستان میں یوم النبی(ﷺ) کی تقریب کے لیے ایک ولولہ پیدا ہوگیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں ملتِ اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے لیے رسول اکرم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس ہی ہماری سب سے بڑی اور کارگر قوت ہوسکتی ہے۔ مستقبل قریب میں جو حالات پیدا ہونے والے ہیں، اُن کے پیش نظر مسلمانانِ ہند کی تنظیم اشد لازمی ہے (عبدالمجید صاحب قریشی) بانی تحریک (سیرت) آج تشریف لائے ہوئے تھے میں نے انھیں بتایا ہے کہ کس طرح اس تحریک کو ہندوستان میں خدمتِ اسلام کے لیے مفید و مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔۱۰؎ علامہ اقبال کو سرکار دوعالم حضرت محمدﷺ سے گہری عقیدت تھی۔ ’’طلوع اسلام‘‘ ان کے مجموعۂ کلام بانگِ درا میں شامل ایک طویل نظم ہے جو مسلمانانِ عالم کے لیے ایک تحریک کی صورت میں جلوہ گر ہے۔ آپ فرماتے ہیں: بہ مشتاقاں حدیثِ خواجۂ بدروحنین آور تصرف ہائے پنہانش بچشمِ آشکار آمد۱۱؎ اقبال مسلمانانِ عالم کو فرمارہے ہیں کہ خواجۂ بدروحنین حضرت محمدﷺ کا طرز عمل اور آپﷺ کے ارشادات اُن کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ایک بہت ہی اہم مراسلہ مولانا غلام مرشد، مولانا احمد علی، مولانا ظفر علی خان، سیّد حبیب، مولوی نورالحق، سیّد عبدالقادر اور مولانا مہر کے نام لکھا گیا۔ لکھتے ہیں: …ایک نہایت ضروری امر میں مشورہ کرنے کو آج آٹھ بجے شام غریب خانہ پر تشریف لا کر مجھے ممنون فرمائیے۔ مشورہ طلب امر نہایت ضروری ہے۔۱۲؎ مولانا غلام مرشد کافی عرصے تک بادشاہی مسجد کے خطیب رہے۔ مولانا احمد علی نے انجمن خدام الدین کی بنیاد رکھی۔ وہ مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم کے داماد اور شاگرد تھے۔ مولانا ظفر علی خان روزنامہ زمیندار کے مالک و ایڈیٹر تھے۔ سیاسی راہنما اور ادیب تھے۔ سید حبیب روزنامہ سیاست لاہور کے ایڈیٹر تھے۔ مولوی نور الحق روزنامہ مسلم آؤٹ لک لاہور کے مالک تھے۔ سید عبدالقادر اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر تاریخ اور صاحبِ دل بزرگ تھے۔ مہر صاحب کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ مشورہ مسلمانوں کے فقہی مسائل کے متعلق تھا۔۱۳؎ مسلمانانِ عالم کی زبوں حالی اور بے راہ روی پر اقبال کی نظر تھی۔ لہٰذا اُنھوں نے جید علماء اور اہلِ بصیرت کو مشورے کے لیے دعوت دی۔ خان محمد نیاز الدین خاں کے نام ایک مکتوب میں جو لاہور سے ۱۸؍مارچ ۱۹۲۰ء کو لکھا گیا، اُنھیں مشورہ دیتے ہیں: … آپ کے سوال کا جواب اس میں آجاتا ہے۔ ابنِ خلکان نہیں دیکھ سکا لیکن سب سے زیادہ معتبر طبقات ابنِ سعد ہے۔ مجھے یقین ہے خالد بن ولید کا ذکر اس میں ضرور ہوگا۔ علی گڑھ کالج کے کتب خانہ میں ہے وہاں کسی کو لکھ کر دریافت کیجیے…۱۴؎ طبقات ابنِ سعد علامہ ابو عبداللہ محمد بن سعد البصری کی آٹھ جلدوں پر مشتمل تصنیف ہے۔ اس کے حصہ اول میں سیرتِ کونینﷺ کا بطریق احسن تذکرہ کیا گیا ہے۔ اقبال، خان محمد نیازالدین خان کو طبقات ابنِ سعد کے مطالعہ کا مشورہ دیتے ہیں۔ حضرت اقبال نے اپنے مکاتیب میں جن کتب کا ذکر کیا ہے یا کسی کو پڑھنے کا مشورہ دیتے یا خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، اُن میں زیادہ تر اسلامی کتب ہیں۔ ۱۸؍مئی ۱۹۲۰ء کو ایک مکتوب خان محمد نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں: … مَیں نے نبی کریمﷺ کو مخاطب کرکے ایک قصیدہ لکھنا شروع کیا ہے جس میں یہ سب مضامین ان۔شائاللہ آئیں گے۔ خدا کرے یہ ختم ہوجائے… ابھی چند اشعار ہی لکھے ہیں مگر ان کے لکھتے وقت قلب کی جو حالت ہوئی اس سے پہلے عمر بھر کبھی نہ ہوئی تھی۔۱۵؎ سرکار خاتمی مرتبتﷺ سے علامہ اقبال کو گہری عقیدت تھی۔ آپ کے کلام میں جگہ جگہ اس کا اظہار دکھائی دیتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہِ مصطفی رو۱۶؎ ترجمہ: اگر تو اس زمانے میں کوئی مقام حاصل کرنے کی آرزو رکھتا ہے تو پھر اپنا دل اللہ کریم سے لگا اور حضور سرکار دوعالم محمد مصطفیﷺ کا راستہ اپنا لے۔ اقبال نبی پاکﷺ کی سیرتِ پاک کی روشنی میں راہِ ہدایت کے متلاشی تھے۔ وہ حضوراکرمﷺ کی عادتِ کم خوری کو اپنا کر صحت کو برقرار رکھنے کے متمنی تھے اور یہی بات وہ اپنے والد شیخ نورمحمد کو لکھتے ہیں۔ وہ دنیا کی نجات بھی اسوۂ رسول اکرمﷺ میں دیکھتے تھے۔ اقبال نے اپنے والد بزرگوار شیخ نور محمد کے نام ایک مکتوب ۳؍جون ۱۹۲۰ء کو لکھا: … روحانی کیفیات کا سب سے بڑا ممدومعاون یہی کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط ہے۔ نبی کریمﷺ کی ساری زندگی اس بات کا ثبوت ہے۔ مَیں خود اپنی زندگی کم ازکم کھانے پینے کے متعلق اسی طریق پر ڈھال رہا ہوں… یہ زمانہ انتہائی تاریکی کا ہے لیکن تاریکی کا انجام سفید ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور بنی نوع انسان کو پھر ایک دفعہ نورمحمدی عطاکرے۔ بغیر کسی بڑی شخصیت کے اس دنیا کی نجات نظر نہیں آتی…۱۷؎ منشی طاہر الدین کے نام ایک طویل مکتوب لکھا گیا جس میں کہتے ہیں: … جہاز کی روزمرہ کی زندگی کی داستان نہایت مختصر ہے۔ میں اپنی قدیم عادت کے مطابق آفتاب نکلنے سے پہلے ہی تلاوت سے فارغ ہوجاتا ہوں…۱۸؎ قرآن کی روشنی میں اپنی منزل مقصود کی راہوں کا تعین کرتے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے: بہ بند صوفی و مُلاّ اسیری حیات از حکمتِ قرآں نگیری بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست کہ از یٰسین او آساں بمیری۱۹؎ ترجمہ: اے بندے (مسلمان) تو صوفی اور مُلاّ کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ تو قرآن کی حکمت تلاش کرکے زندگی کا مقصد حاصل نہیں کررہا۔ اس (قرآن کریم) کی آیات سے تیرا تعلق اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اس کی سورۃ یٰسین پڑھنے سے تیری جان آسانی سے نکل جائے۔ اقبال مسلمانوں کو حکمتِ قرآن اور تعلیماتِ قرآن سے آشنا کرنے کے متمنی ہیں۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی کتاب میں درج ہے: … اب رہا ماخذ تشریح کا معاملہ تو عرض ہے کہ علامہ اقبال کے نزدیک قرآن مجید تو ایک ناگزیر ماخذ ہے وہ دوسرا مسلّم ماخذ حدیث کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔۲۰؎ مختار احمد کو تحریر فرماتے ہیں: …طاہر دین نے بنکوں کے متعلق فکر کا اظہار کیا تھا اس سے کہہ دینا چاہیے کہ کوئی فکر کی بات نہیں۔ میرے تمام معاملات جان و مال اور روپیہ اللہ کے سپرد ہے۔ جب سے مَیں نے ایسا کیا ہے مجھے کوئی تردد نہیں ہوتا۔ سب کچھ اُسی کا ہے اُس کی مرضی میری مرضی ہے۔۲۱؎ اقبال اللہ کریم کی ذات پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ انھیں سود و زیاں کی فکر نہیں ہے۔ آپ کا ارشاد ہے: لا دیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بڑھ کر ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک۲۲؎ سر راس مسعود کے نام مکتوب میں اپنی خواہش کا اظہار فرماتے ہیں: میری خواہش ہے کہ اعلیٰ حضرت خود مجھے اپنی ریاست سے پینشن منظور کردیں تاکہ میں اس قابل ہوجائوں کہ قرآن پاک پر اپنی کتاب لکھ سکوں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ایک بے نظیر کتاب ہوگی اور مَیں شیخی نہیں بگھار رہا ہوں…۲۳؎ علامہ اقبال قرآن کریم کی صرف تلاوت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے معانی و مطالب پر غور فرماتے تھے اور راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ دولتِ قرآنی جو اُن کے سینے میں تھی اُس کا اظہار انھوں نے اپنے اشعار اور نثری تحریروں میں فرمایا۔ فرماتے ہیں: کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی۲۴؎ علامہ اقبال ۱۳؍مئی ۱۹۳۵ء کو سرراس مسعود کو ایک خط میں لکھتے ہیں: … مجھے یہ احساس ہے کہ میں زندگی کے آخری دن گزار رہا ہوں اور میری دلی تمنا ہے کہ میں قرآن کے بارے میں اپنے افکار کو اس دنیا سے جانے سے پہلے قلم بند کردوں۔ جو تھوڑی سی توانائی مجھ میں باقی ہے اُسے اب اسی خدمت کے لیے وقف کردینا چاہتا ہوں۔ تاکہ (قیامت کے دن) آپ کے جدامجد (حضور نبی کریمﷺ) کی زیارت مجھے اس اطمینانِ خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور نے ہم سب تک پہنچایا، کوئی خدمت بجا لاسکا…۲۵؎ چونکہ علامہ اقبال حضور خاتمی مرتبت سے قلبی عقیدت رکھتے ہیں اس لیے اُن کی خواہش ہے کہ وہ روزِ قیامت جب حضورﷺ کے سامنے آئیں تو قرآن کریم سے اُن کا عشق ثابت ہو اور وہ اپنے آقاﷺ سے شرمندہ نہ ہوں اور وہ خدمت دین کا کوئی ثبوت فراہم کرسکیں۔فرماتے ہیں: ما کہ توحید خدا را حجتیم حافظ رمز کتاب و حکمتیم۲۶؎ ترجمہ: ہم وہ ہیں جو خداوند تعالیٰ کی توحید کی حجت ہیں۔ اس لیے ہم کتاب (قرآن پاک) اور حکمت کی رمزوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ۱۹۳۵ء میں حضرت علامہ اقبال نے ایک مراسلہ مدیر اسٹیٹسمین کو بھیجا۔ یہ ایک طویل مراسلہ تھا جس میں مذہب پر کافی کچھ لکھا گیا۔ ایک اقتباس درج ذیل ہے: … اول یہ کہ اسلام لازمی طور پر ایک مذہبی فرقہ ہے جس کی حدود کی مکمل طور پر نشاندہی ہوچکی ہے یعنی آنحضرت محمدﷺ کے خاتم المرسلین ہونے پر ایمان۔ یہ ایمان فی الحقیقت مسلمانوں اور غیرمسلموں کے مابین صحیح حدفاصل قائم کرتا ہے اور کسی کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے کہ آیا کوئی فردِ واحد یا گروہ مسلم فرقہ کا جز ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر برہمو سماج والے ذاتِ الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں… تاہم ان کو اسلام کا فرقہ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ قادیانیوں کی طرح پیغمبروں کے ذریعہ وحی الٰہی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور محمدﷺ پر بحیثیت نبی آخرالزماں ایمان نہیں لاتے۔۲۷؎ آپ نبی پاکؐ سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: در آں دریا کہ او را ساحلے نیست دلیلے عاشقاں غیر از دلے نیست تو فرمودی رہِ بطحا گرفتیم وگرنہ جز تو ما را منزلے نیست۲۸؎ ترجمہ: اُس دریا میں جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے، عاشقوں کی دلیل دل کے سوا کوئی نہیں ہے۔ تو نے فرما دیا تو ہم نے بطحا کا راستہ اختیار کیا۔ وگرنہ تیرے سوا ہمارے لیے کوئی منزل نہیں ہے۔ حضرت اقبال وادیِ بطحا کا راستہ رسولﷺ کا راستہ قرار دیتے ہیں اور اللہ کریم تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ اُن کے نزدیک نبی پاکﷺ کا راستہ ہے۔ مولوی صالح محمد ادیب تونسوی سے اقبال اپنے دل کی بات کہتے ہیں۔ زیارت مدینہ کی بات ہوتی ہے: مدینۃ النبیﷺ کی زیارت کا قصد تھا۔ مگر میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ دنیوی مقاصد کے لیے سفر کرنے کے ضمن میں حرم نبوی کی زیارت سوئِ ادب ہے۔۲۹؎ شاعر مشرق قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی قرآن کریم کو مشعل راہ بنانے کی ہدایت فرماتے تھے۔ ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ حیدرآبادی نے آپ کو قرآن کریم کا تحفہ بھیجا تو آپ نے شکریے کا خط لکھا: قرآن شریف کا تحفہ جو آپ نے بہ کمال عنایت ارسال فرمایا ہے ابھی موصول ہوا اس مقدس تحفے کے لیے مَیں آپ کا نہایت شکرگزار ہوں۔ ان شاء اللہ یہی نسخہ استعمال کیا کروں گا۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔۳۰؎ سید نذیر نیازی کو ایک طویل خط لکھا گیا۔اس میں نبوت اور اتباع رسولﷺ پر بحث کی گئی ہے۔ ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے: … یا یوں کہیے کہ ایک کامل الہام ووحی کی غلامی قبول کرلینے کے بعد کسی اور الہام و وحی کی غلامی حرام ہے۔ بڑا اچھا سودا ہے کہ ایک غلامی سے باقی سب غلامیوں سے نجات ہوجائے اور لطف یہ کہ نبی آخرالزماںﷺ کی غلامی، غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے کیونکہ ان کی نبوت کے احکام دینِ فطرت ہیں یعنی فطرت صحیحہ ان کو خودبخود قبول کرتی ہے۔ فطرت صحیحہ کا انھیں خود بخود قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوتے ہیں اس واسطے عین فطرت ہیں۔ اسلام کو دین فطرت کے طور پر Realise کرنے کا نام تصوف ہے اور ایک اخلاق مند انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے…۳۱؎ حکیم الامت اپنی شاعری میں بھی یہی صدا بلند کرتے سنائی دیتے ہیں: کشودم پردہ را از روئے تقدیر مشو نومید و راہ مصطفیٰؐ گیر اگر باور نداری آنچہ گویم زدیں بگریز و مرگِ کافرے میر۳۲؎ مَیں نے تقدیر کے چہرے سے پردہ اٹھایا۔ ناامید نہ ہو اور حضرت محمد مصطفیﷺ کا راستہ اختیار کرلو۔ تو اگر اس پر یقین نہیں رکھتا جو کچھ مَیں نے کہا ہے تو دین سے بھاگ اور کافر کی موت مر۔ ایک خط میںاپنے والد شیخ نور محمد کو لکھتے ہیں: … حقیقی شخصیت یہی ہے کہ انسان اپنی اصلی حقیقت کا خیال کرکے تمام تعلقات سے آزاد ہوجائے یعنی بالاتر ہوجائے۔ نبی کریمﷺ کی زندگی میں بھی اس کی مثال ملتی ہے۔ ان سے زیادہ اپنے عزیزوں سے محبت کرنے والا بلکہ ساری دنیا کو اپنا عزیز جاننے والا اور کون ہوگا… یہ کتاب ایک زبردست آواز ہے جو مسلمانوں کو محمدﷺ اور قرآن کی طرف بلاتی ہے اور اس آواز میں صداقت کی آواز ایسی ہے کہ ہم اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔…۳۳؎ ذیل میں نعیم صدیقی کے ایک مضمون ’’الوداع اے اقبال‘‘ سے اقتباس پیش کیا جاتا ہے جو مندرجہ بالا تحریر کی تائید کرتا ہے: … تو نے ہمیں تمیز رنگ و نسب اور مغرب کی وطنی قومیت کے طلسم سے نکال کر دنیا میں واحد قوم بنانا چاہا تھا۔ مگر ہم نے چھوٹے چھوٹے علاقوں اور صوبوں اور علاقائی بولیوں کی عصبیتوں کے جھنڈے اُٹھا کر باہم آویزی کا معرکۂ جہاد شروع کردیا ہے۔۳۴؎ ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں: … اگر کوئی شخص فلسفی کے لفظ ہی کو اہمیت دینا چاہتا ہے تو مجھے یہ لفظ بھی منظور ہے۔ صرف اتنی احتیاط ملحوظ رہے کہ علامہ کو مغربی طرز کا فلسفی نہ کہا جائے بلکہ مسلم روایت کا فلسفی۔ یا حکیم مشرق۔۳۵؎ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- سید مظفر حسین برنی (مرتب)، کلیاتمکاتیب اقبال جلد سوم، دہلی بھارت، اردو اکادمی ۱۹۹۳ئ، ص۴۹۔ ۲- اقبال، کلیات اقبال اردو، لاہور، اقبال اکادمی ۱۹۹۴ئ، ص۸۶۔ ۳- مکاتیب اقبال جلد سوم، ص۵۱،۵۲۔ ۴- مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۶۱،۶۲۔ ۵- مکاتیب اقبالجلد سوم، ص۵۳،۵۴۔ ۶- ایضاً، ص۵۵۔ ۷- ایضاً، ص۶۳۔ ۸- مکاتیب اقبال جلد دوم، ص۱۵۷۔۱۵۸۔ ۹- مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۱۰۸۔ ۱۰- مکاتیب اقبالجلد سوم، ص۷۵۔ ۱۱- اقبال،کلیات اقبال اردو، ص۲۹۰؍۳۰۶۔ ۱۲- مکاتیب اقبال جلد سوم، ص۷۶،۷۷۔ ۱۳- مکاتیب اقبال جلد سوم، حاشیہ، ص۷۷۔ ۱۴- مکاتیب اقبال جلد دوم، ص۷۰۔ ۱۵- ایضاً، ص۱۷۹۔ ۱۶- اقبال، کلیات اقبال فارسی، لاہور، شیخ بشیر اینڈسنز، سال اشاعت ندارد، ص۶۳؍۴۸۔ ۱۷- مکاتیب اقبالجلد دوم، ص۱۸۱،۱۸۲۔ ۱۸- مکاتیب اقبالجلد سوم، ص۲۴۴۔ ۱۹- کلیات اقبال فارسی، ص۷۷۱؍۵۶۔ ۲۰- ڈاکٹر سید عبداللہ، مطالعہ اقبال کے چند نئے رخ، لاہور، بزم اقبال، جون ۱۹۸۴ئ، ص۱۳۵۔ ۲۱- مکاتیب اقبال جلد سوم، ص۲۵۴۔ ۲۲- کلیات اقبال اردو، ص۴۱؍۵۴۱۔ ۲۳- مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۱۱۔ ۲۴- کلیات اقبال اردو، ص۴۴؍ ۵۴۴۔ ۲۵- مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۱۱۸۔ ۲۶- کلیات اقبال فارسی، ص۴۰۸؍۱۹۲۔ ۲۷- مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۱۳۵۔ ۲۸- کلیات اقبال فارسی، ص۷۴۹؍۳۴۔ ۲۹- مکاتیب اقبالجلد سوم، ص۲۷۰۔ ۳۰- ایضاً، ص۲۸۷۔ ۳۱- مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۲۱۴۔ ۳۲- کلیات اقبال فارسی، ۷۶۵؍۵۰۔ ۳۳- مکاتیب اقبال جلد دوم، ص۲۲۴۔ ۳۴- نعیم صدیقی، اقبال کا شعلہ نوا، لاہور، ادارہ معارف اسلامی منصورہ، ۱۹۹۱ئ، ص۸۳۔ ۳۵- مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ، ص۲۳۴۔ ـئ…ئ…ء استفسار ڈاکٹر جاوید اقبال علامہ محمد اقبال پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور مسلمانوں کی بیداری کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں مگر خود اسلامی قوانین پر کما حقہ عمل پیرا نہ رہے۔ مثلاً انھوں نے اپنی جائداد اور وراثت شرعی قانون کے تحت تقسیم نہیں کی۔ جاوید اقبال کو جاوید منزل کا واحد وارث بنا دیا اور بیٹی منیرہ کو اس کا شرعی حصہ نہیں ملا۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اقبال کے صاحبزادے آفتاب اقبال کے تعلقات اگرچہ والد کے ساتھ اچھے نہیں تھے مگر شریعتِ اسلامیہ میں نالائق سے نالائق اور نافرمان سے نافرمان اولاد کو بھی وراثت کے حصے سے محروم رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ علامہ کی ایسی غلطی تھی جس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔ براہِ کرم اس اعتراض کے درست یا غلط ہونے کی وضاحت فرما دیجیے کیونکہ آپ ہی اس سلسلے میں واحد فرد ہیں جو ان امور کے قانونی اور تاریخی پہلوؤں پر جامع روشنی ڈال سکیں گے۔ اس اعتراض کا جواب اقبال کے بے شمار قارئین ،محققین اور محبّین کے لیے تسلّی کا باعث ہوگا۔ [احمد معین اشرف، لاہور] جواب علامہ اقبال میوزیم اور اقبال اکادمی لاہور میں رکھی اقبال کی تحریرہ کردہ بعض اہم رجسٹری شدہ دستاویزات دیکھنے سے اس مسئلے کے بارے میں مندرجہ ذیل حقائق واضح ہوتے ہیں: ہبہ نامہ مورخہ ۲۱؍مئی ۱۹۳۵ء بحق جاوید اقبال جس کے تحت والدہ اور والدہ نے جاوید منزل کا قبضہ مجھے دیا۔ اس دستاویز میں سات کنال اراضی کی قیمت خرید ۰۲۵،۲۵روپے درج ہے اور عمارت کی تعمیر پر ۰۰۰،۱۴روپے خرچ کیے جانے کا ذکر ہے۔ یعنی قیمت جائیداد اندازً ؍۰۰۰،۴۰روپے بنتی ہے۔ (یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ شرعی قانون کے تحت ‘‘جائیداد‘‘ اور ‘‘زر’’ میں تمیز نہیں کی جا تی بلکہ ہر قسم کی ملکیت کو ‘‘مال‘‘ یا ‘‘زر’’ہی سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ اس کے وراثت کی تقسیم کا اصول یہی ہے کہ بیٹا بیٹی سے دگنا حصہ لیتا ہے۔) ہبہ نامہ مورخہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۳۶بحق منیرہ بانومیں علامہ اقبال تحریر کرتے ہیں کہ آج تک میں نے قریباً ؍۰۰۰،۱۸روپے کی رقم نیشنل بنک پنجاب میں اپنی دختر منیرہ بانو کے نام جمع کرائی ہے۔ اس رقم کا سود یااصل کا کوئی حصہ کبھی میں نے بنک سے نکال کر اپنی ذات کے لیے خرچ نہیں کیا۔شرعی حیثیت سے یہ ہبہ مکمل ہے کیونکہ رقم مذکورہ بالا پر نابالغہ مذکورہ قابض ہے۔(واضح ہو کہ مارچ ۱۹۴۹ء میں جب منیرہ بانو کی شادی ہوئی تو اْن کے نام یہ اکاؤنٹ۰۰۰،۲۰روپوں سے تجاوز کر چکا تھا۔ ان دستاویزات سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال نے اگر بیٹے کو ۰۰۰،۴۰روپوں کی مالیت کا گھر ہبہ کے طور پر دیا تو ۰۰۰،۲۰روپوں سے زاید رقم بیٹی کو بھی ہدیہ کی صورت میں دی۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا کہ انھوں نے بیٹے کو واحد وارث اور بیٹی کو اس کے شرعی حق سے محروم رکھا، کیونکر درست قرار دیا جا سکتا ہے؟ تملیک ناموں مورخہ ۲۴اگست ۱۹۳۴اور۱۴مارچ ۱۹۳۸ سے عیاں ہے کہ علامہ اقبال نے کتب وغیرہ کی رایلٹی بھی اپنی حیات میں اسی طرز سے تقسیم کر دی تھی۔ مثلاًسات کتب کی رایلٹی بیٹے کے نام اور تین کتب کی ریلٹی بیٹی کے نام، جو دونوں وصول کرتے رہے۔ دستاویز مورخہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۳۶ء میں علامہ اقبال تحریر کرتے ہیں کہ سردار بیگم مرحومہ کی خواہش کے مطابق اْن کا ذاتی ترکہ جو بیٹے اور بیٹی میں برابر تقسیم ہونا ہے، کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: ۱- کیش سرٹیفیکیٹ چار عدد مالیت۔۲۰۰۰روپے ۲- آٹھ پاؤنڈ سٹرلنگ ۳- ایک ترکی طلائی پاؤنڈ ۴- ایک عدد گھڑی ۵- زیورات، پارچات اور چند نقرئی ظروف جو ایک صندوقچی میں بند نیشنل بنک لاہور میں محفوظ ہیں۔ (واضح ہو کہ مارچ ۱۹۴۹ء میں منیرہ بانو کی شادی کے موقع پر بھائی نے اپنا حصہ نہ لیا لہٰذا ماں کا ترکہ بیٹی کو ملا۔) شریعت اسلامیہ میں کسی نالائق یا نافرمان بیٹے کو وراثت سے محروم رکھنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ والد مذکورہ حصہ جائیدا د کو اپنی زندگی میں کسی اور وارث (یہاں تک کہ کسی غیر وارث ) کے نام تحریر ی ہبہ نامہ کی صورت میں منتقل کرکے قبضہ اْسے دے دے۔ علامہ اقبال نے ایسا کرکے ایسی کونسی غلطی کر دی جس کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ علامہ اقبال صرف شاعر اور فلسفی ہی نہ تھے، وکیل کی حیثیت سے قانون کے ماہر بھی تھے۔ جاوید اقبال ـئ…ئ…ء اقبالیاتِ مجلہ سیارہ لاہور ۱۹۶۲ء ------ ۲۰۱۱ء سمیع الرحمن علمی و اَدبی مجلہ سیارہ کا آغاز ۱۹۶۲ء میں معروف شاعر و ادیب جناب نعیم صدیقی مرحوم نے کیا۔ اس پرچے میں دینی اور علمی و ادبی مضامین کے ساتھ اقبالیات سے متعلق مختلف موضوعات پر مقالات اور منظومات شائع ہوتی رہیں۔ ذیل میں اس اقبالیاتی مواد کا اشاریہ پیش کیا جارہا ہے۔ جناب نعیم صدیقی مرحوم، فروغ احمد، فضل من اللہ، طاہر شادانی، حفیظ الرحمن احسن اور خالد علیم جیسے نامور ادیب اس کی مجلسِ ادارت میں شامل رہے ہیں۔ اب جناب حفیظ الرحمن احسن اس کے مدیر ہیں۔ پیامِ اقبال ……… الوداع اے اقبال [اداریہ] اپریل۷۱ئ/۹-۱۰ اقبال،علامہ یثرب [نظم] فروری۷۸ئ/۱۷ ؍؍ ؍؍ بحضورِ رسالت مآبﷺ [نظم] فروری۷۸ئ/۱۶-۱۷ ؍؍ ؍؍ پیامِ اقبال اگست۰۴ئ/۸ ؍؍ ؍؍ پیامِ اقبال جنوری۰۵ئ/۸ ؍؍ ؍؍ پیامِ اقبال جولائی۰۵ئ/۷ ؍؍ ؍؍ پیامِ اقبال دسمبر۰۵ئ/۹ ؍؍ ؍؍ پیامِ اقبال مارچ۰۲ئ/۵ ؍؍ ؍؍ چند اشعار [مترجم: بادشاہ گل] جون۷۸ئ/۶۶ ؍؍ ؍؍ چند نظمیں جون۹۲ئ/۱۸-۲۴ ؍؍ ؍؍ دُعا [نظم] جون۹۲ئ/۱۷ ؍؍ ؍؍ شاعر [نظم] دسمبر۰۵ئ/۱۴۵ اقبال،علامہ عکس در عکس (زبورِ عجم) [منظوم ترجمہ از نعیم صدیقی] فروری۷۸ئ/۱۵۱-۱۵۷ ؍؍ ؍؍ قوت اور دین [نظم] مارچ۰۷ئ/۹۵ ؍؍ ؍؍ یدِ بیضا مئی۶۳ئ/۵-۶ نوادرا تِ اقبال اقبال،علامہ مکتوب بنام چودھری نیاز علی خاں مارچ۰۷ئ/۹۶-۹۷ اکبر رحمانی عکسی مکتوبِ اقبال بنام لمعہ حیدرآبادی کا تنقیدی جائزہ دسمبر۹۶ئ/۸۳-۸۸ تحسین فراقی دو نوادر جون۹۲ئ/۴۲۹-۴۳۳ جعفر بلوچ اقبال کے چند نوادر جون۹۲ئ/۴۳۴-۴۳۸ غلام رسول مہر مکتوب بنام جعفر بلوچ [اقبال کے ایک شعر کی تشریح] مارچ۸۷ئ/۲۷۵ ……… علامہ اقبال کے خطوط میں تحریف کی ایک بدترین مثال جون۰۰ئ/۴۱۹ سوانح اور فکر وفن آباد شاہ پوری حیاتِ اقبال کی چند جھلکیاں [چند کتابوں سے اقتباسات] مئی۶۳ئ/۱۰۱-۱۱۳ آسی ضیائی اقبال اور اقبالیات جون۶۳ئ/۷۷-۸۹ ؍؍ ؍؍ اقبال اور اقبالیت نومبر۶۳ئ/۱۰۱-۱۰۳ ؍؍ ؍؍ ضیائی اور ضیائیت فروری۶۴ئ/۸۷-۸۸ ابنِ فرید اقبال اور اقبالیات [آسی ضیائی کی حمایت میں] دسمبر۶۳ئ/۱۰۱-۱۰۲ ؍؍ ؍؍ اقبال کا عمرانیاتی مطالعہ جون۹۲ئ/۹۸-۱۱۲ ؍؍ ؍؍ کلامِ اقبال میں عمرانی حرکیت دسمبر۹۵ئ/۳۱-۳۴ ابوالاعلیٰ مودودی،سیّد اقبال کی ایک تصویر مئی۶۳ئ/۱۴۰-۱۴۱ ؍؍ ؍؍ اقبال کا اصل کارنامہ [خطاب] اپریل۸۰ئ/۳۷۷-۳۸۵ ؍؍ ؍؍ حیاتِ اقبال کا سبق [خطاب] اپریل۸۰ئ/۳۸۶-۳۸۹ احمد علی رجائی خودی کے اجزاء اور ضمیرِ اقبال میں اس نظریہ کے متشکل ہونے کی کیفیت [مترجم: محمد ریاض] مئی۸۵ئ/۲۳۰-۲۴۱ ادارہ مطالعۂ اقبال اور ماہنامہ سیارہ فروری۷۸ئ/۴۳۰-۴۳۲ اسد الحق شیدائی اقبال کا فلسفۂ عقل و عشق اپریل۶۸ئ/۲۷-۳۰ اسد الحق شیدائی اقبال کا مسئلہ تقدیر مئی۶۶ئ/۳۶-۴۱ ؍؍ ؍؍ اقبال کا نظریۂ سخت کوشی اپریل۶۷ئ/۳۱-۳۳ اسرار احمد سہاروی علامہ اقبال اور مسئلہ تقدیر اگست۸۳ئ/۶۹-۷۲ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال کا نظریۂ ابلیس اپریل۶۷ئ/۲۵-۳۰ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال کا نعتیہ آہنگ فروری۷۸ئ/۱۲۰-۱۲۸ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال کی قنوطیت اور رجائیت مئی۶۳ئ/۱۴۲-۱۵۱ اسعد گیلانی،سیّد تصورِ پاکستان اور اقبال اکتوبر۷۶ئ/۱۶۸-۱۷۶ ؍؍ ؍؍ تعلیمی نظریات، علامہ اقبال اور دار الاسلام کی تعلیمی اسکیم فروری۷۸ئ/۳۲۱-۳۲۹ افتخار احمد صدیقی اقبال اور ’’جستجوئے گل‘‘ اپریل۸۶ئ/۱۹۰-۲۰۸ ؍؍ ؍؍ مضامین : فکرِ اقبال کی امتیازی خصوصیات جون۹۲ئ/۲۵-۷۶ افضال احمد انور علامہ اقبال کے بعض ابتدائی افکار کا اساسی خاکہ جون۰۰ئ/۱۱۹-۱۳۱ ؍؍ ؍؍ اقبال اور صقرِ قریش جون۸۹ئ/۱۰۹-۱۱۶ ؍؍ ؍؍ اقبال اور مسئلہ قادیانیت کے معاشرتی اور سیاسی عوامل مئی۹۰ئ/۱۳۰-۱۳۵ ؍؍ ؍؍ عروجِ اقبال کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ مئی۹۰ئ/۱۵۲-۱۶۸ ؍؍ ؍؍ مدینۃ الزہرا یا منیۃ الرّصافہ : ایک تحقیق[بسلسلہ نظم ’’عبدالرحمن اوّل…‘‘] ستمبر۸۷ئ/۱۱۸-۱۲۲ امان اللہ خان علامہ اقبال اور سائنسی منہاج فروری۷۸ئ/۳۱۷-۳۲۰ انوار ظہوری،سیّد اقبال کا شعورِ فن فروری۷۸ئ/۱۶۴-۱۷۲ انور سدید فکرِ اقبال کا سیاسی پس منظر مارچ۸۲ئ/۱۵۱-۱۵۵ انور محمود خالد ’’تصویر درد‘‘ کا فکری و فنی تجزیہ جون۷۷ئ/۱۲۷-۱۴۴ انیس احمد اعظمی اقبال، شاعری اور پیغام اپریل۶۵ئ/۷۲-۸۰ ؍؍ ؍؍ عروجِ اقبال پر ایک نظر مئی۹۰ئ/۱۴۶-۱۵۱ ایڈورڈ مورگن فاسٹر محمد اقبال [مترجم: فضل من اللہ] اپریل۶۶ئ/۴۴-۴۷ ایس اے رحمن خطبۂ صدارت [اقبال اردو کانفرنس، لاہور] فروری۷۸ئ/۲۰۰-۲۰۵ ایوب صابر علامہ اقبال اور اُن کے خاندان کی کردار کشی کی مذموم کوشش مئی۹۸ئ/۱۱۷-۱۲۳ اُمِ عمارہ اقبال کی شاعری میں عورت کا تصور اپریل۷۱ئ/۱۱-۱۴ بشارت علی قریشی اقبال اور اصلاحِ معاشرہ اپریل۶۹ئ/۴۱-۵۱ بشیر ساجد علامہ اقبال…چند واقعات،چند تاثرات جون۹۲ئ/۴۶۱-۴۷۳ بصیرہ عنبرین علامہ اقبال کے اُردو کلام کی تضمینات کا جائزہ مارچ۹۷ئ/۵۹-۸۹ پاشا رحمن شیطان بحوالہ ملٹن و اقبال فروری۷۸ئ/۱۷۳-۱۷۷ تاج صدیقی اقبال اور نوجوان نومبر۸۰ئ/۹۵-۹۹ تحسین فراقی اقبال کا تصورِ تہذیب مارچ۰۷ئ/۱۳۳-۱۳۸ ؍؍ ؍؍ اقبال نامہ [ازشیخ عطاء اللہ] چند گزارشات، چند تصحیحات جون۹۲ئ/۲۹۶-۳۳۷ ؍؍ ؍؍ عصری مسائل اور کلامِ اقبال مئی۹۰ئ/۱۲۳-۱۲۹ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال اور ثنائے خواجہﷺ جون۷۹ئ/۱۱۳-۱۳۸ ؍؍ ؍؍ مسلم فلسفہ میں زمان کا مسئلہ [اقبال کی نایاب تحریر کا تعارف و ترجمہ] مارچ۸۷ئ/۷۰-۸۱ ثاقبہ رحیم الدین دائمی تحرک اور اجتہاد و فکر وعمل کا شاعر جون۸۹ئ/۱۰۳-۱۰۸ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال کا ذہنی ارتقا ستمبر۸۷ئ/۱۲۳-۱۳۵ جاوید اقبال،خواجہ اقبال کا نظریۂ اَدب مارچ۷۹ئ/۱۱۶-۱۱۹ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال اور اسلامی تحقیقاتی موضوعات اکتوبر۸۲ئ/۱۷۴-۱۸۲ ؍؍ ؍؍ فکرِ اقبال اور ہماری قیادت مئی۶۳ئ/۱۷۹-۱۸۳ جعفر بلوچ اقبال کی نظم ’’ماں کا خواب‘‘ کیا یہ نظم بچوں کے لیے ہے؟ دسمبر۹۶ئ/۷۹-۸۲ ؍؍ ؍؍ بیاد شاعرِ مشرق جون۷۹ئ/۲۷۶ جگن ناتھ آزاد اقبال اور نٹشے نومبر۷۱ئ/۲۹-۳۰ حسرت کاسگنجوی عورت، اسلام اور اقبال اپریل۶۹ئ/۵۲-۶۱ حسن اختر ملک اقبال کا مردِ مومن مارچ۶۴ئ/۲۹-۳۴ حسین احمد پراچہ اقبال اور علمِ کلام نومبر۸۰ئ/۱۰۰-۱۰۵ ؍؍ ؍؍ اقبال اور علمِ کلام نومبر۸۵ئ/ حفیظ الرحمن احسن چند اہم سوالات بسلسلہ فکرِ اقبال اور مشاہیر کے جوابات بعنوان ’’سالِ اقبال کی سرگرمیوں کا جائزہ‘‘ [شرکائ: محمد معزالدین، خواجہ محمد زکریا، رفیع الدین ہاشمی، تحسین فراقی، نعیم صدیقی، طاہر شادانی] فروری۷۸ئ/۱۰۵-۱۱۹ ؍؍ ؍؍ سیارہ کی اشاعتِ خاص نمبر۳۲ بر اقبال نمبر جون۹۲ئ/۱۲-۱۵ حمید احمد خاں صحبتیں جو گزر گئیں مئی۶۳ئ/۳۱-۳۲ خاطر غزنوی اقبال اور پشتون شخصیات و روایات فروری۷۸ئ/۲۵۹-۲۶۶ خالد بزمی اقبال کیا تھے؟ اور کیا نہیں تھے؟ جنوری۸۹ئ/۱۳۰-۱۳۵ خیرات محمد ابنِ رسا مطالعۂ سائنس اور اقبال فروری۷۸ئ/۳۱۳-۳۱۶ رحیم بخش شاہین جاوید نامہ اور شہر مرغدین کی سیر فروری۷۸ئ/۱۷۸-۱۸۷ رشید حسن خاں کلامِ اقبال کی تدوین ستمبر۹۶ئ/۲۵-۳۸ رشید کوثر فاروقی اقبال اور اقبالیات ستمبر۶۳ئ/۹۶-۱۰۲ رفیع الدین ہاشمی اقبال اور مظلومیِ نسواں دسمبر۹۱ئ/۱۷۴-۱۷۷ ؍؍ ؍؍ اقبال اور نظامِ عالم کی تشکیلِ جدید جون۹۲ئ/۱۴۲-۱۵۲ ؍؍ ؍؍ اقبال کی ایک نادر تحریر بسلسلہ جاوید نامہ مئی۸۵ئ/۲۴۲-۲۴۷ ؍؍ ؍؍ اقبالیات پر نئی کتب [۱۱؍کتب کا تعارف] نومبر۸۰ئ/۱۱۱-۱۱۷ ؍؍ ؍؍ اقبالیات پر نئی کتب [۱۴؍کتب کا تعارف] مارچ۷۹ئ/۱۲۰-۱۷ ؍؍ ؍؍ اقبالیاتی اَدب کا عروج: عروجِ اقبال مئی۹۰ئ/۱۴۰-۱۴۵ ؍؍ ؍؍ تصانیفِ اقبال کا اشاعتی معیار جون۹۲ئ/۴۵۷-۴۶۰ ؍؍ ؍؍ خدوخالِ اقبال از امین زبیری مارچ۸۷ئ/۲۸۹-۲۹۴ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال اور اجتہاد مارچ۰۷ئ/۱۳۱-۱۳۲ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال پر کتابیات فروری۷۸ئ/۳۵۵-۳۵۸ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال سے ’’عناد‘‘ کی ایک مثال فروری۹۱ئ/۸۴-۸۶ ؍؍ ؍؍ کلامِ اقبال کی تدوین: چند معروضات ستمبر۹۶ئ/۳۹-۴۶ ؍؍ ؍؍ کیا ہمیں اقبال کی ضرورت ہے؟ ستمبر۷۱ئ/۲۶-۳۱ روبینہ جعفری کلامِ اقبال میں ’’آگ‘‘ کا استعارہ دسمبر۹۵ئ/۶۵-۷۶ رئوف خیر اقبال کے اُسلوب کا ارتقا دسمبر۸۵ئ/۱۹۷-۲۱۵ سرو سہارنپوری،حکیم جناب بشیر احمد کی کتاب اقبال اور قادیانیت مارچ۰۷ئ/۱۳۹-۱۴۶ سعید اختر درانی علامہ اقبال کی پی ایچ ڈی کی ڈگری کے مراحل [مع عکسی دستاویزات] جون۹۲ئ/۲۴۹-۲۹۵ سعید اختر اقبال کے تعلیمی افکار فروری۷۸ئ/۳۳۱-۳۴۰ سیف اللہ خالد اقبال کی عقلیت، پس منظر اور محرکات جون۹۲ئ/۱۵۹-۱۹۲ شاہد حسین رزاقی اسلامی سیاسی تصورات، اقبال کی نظر میں جون۹۲ئ/۸۶-۹۷ شبیر احمد اقبال اور دہریت اپریل۶۴ئ/۳۱-۴۵ شوکت سبزواری اقبال اور دہریت [شبیر احمد کے جواب میں] مئی۶۴ئ/۹۵-۹۶ ؍؍ ؍؍ خدا اور خودی مئی۶۳ئ/۱۸۴-۱۸۵ صبا اکبر آبادی ذرّہ، برائے آفتاب [اقبال کی زمین میں ایک غزل] فروری۷۸ئ/۲۸۱-۲۸۳ صدیق جاوید بالِ جبریل کی نظموں کا فنی مطالعہ مارچ۸۷ئ/۸۲-۹۰ صغیرہ نسیم شاعرِ مشرق جولائی۶۶ئ/۲۹-۳۴ طیب عثمانی ندوی اقبال اور عالمی اَدب مارچ۸۳ئ/۱۰۷-۱۱۷ عارف رضا اقبال ایک مردِ مومن مارچ۷۷ئ/۱۰۹-۱۲۱ عاصم قادری،سیّد اقبال کے فکروفن کا حقیقی سرچشمہ اپریل۸۶ئ/۲۰۹-۲۱۴ عاصی کرنالی کچھ علاج اس کا بھی… [فکرِ اقبال] جون۷۶ئ/۱۳۳-۱۳۸ عباد اللہ فاروقی کلامِ اقبال کا تقابلی مطالعہ مئی۶۳ئ/۵۹-۶۱ ؍؍ ؍؍ اقبال اور سوشلزم [مکتوب] جون۶۸ئ/۳۱-۳۴ ؍؍ ؍؍ اقبال اور شاخِ نبات جولائی۶۹ئ/۴۳-۴۶ ؍؍ ؍؍ اقبال اور شعورِ نفس اپریل۶۵ئ/۸۱-۸۶ ؍؍ ؍؍ اقبال کا ایک الہامی شعر اگست۶۳ئ/۹۸-۱۹۱ ؍؍ ؍؍ اقبال، ابلیس کے حریمِ ناز میں اپریل۶۸ئ/۳۷-۴۷ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال کا تصورِ ابلیس جون۶۷ئ/۴۳-۴۹ عبدالحق ابلیس کی شورائی مجلسیں مارچ۰۷ئ/۱۲۴-۱۳۰ ؍؍ ؍؍ گذشتہ دہائی میں اقبالیات دسمبر۰۵ئ/۳۳-۴۱ عبدالرحمن بزمی اقبال کی زمین میں چند اشعار ستمبر۸۶ئ/۱۱۴-۱۱۵ عبدالرحمن عبد اقبال مدینے میں دسمبر۹۶ئ/۷۰-۷۴ عبدالرشید فاضل اقبال اور دردِ ملت-۱ اگست۸۳ئ/۵۵-۶۸ ؍؍ ؍؍ اقبال اور دردِ ملت-۲ مارچ۸۴ئ/۲۴۵-۲۵۸ عبدالرئوف فاطمی مسلمانانِ برصغیر اور اقبال دسمبر۶۸ئ/۴۷-۵۱ عبدالرئوف نوشہروی اقبال اور سائنس… تسخیرِ فطرت جون۷۸ئ/۱۱۷-۱۲۴ عبدالغنی فاروق اقبال کا خراجِ عقیدت، شہداء اور جذبۂ شہادت کے حضور فروری۷۸ئ/۲۹۸-۳۰۷ عبدالقیوم اقبال کی ایک علمی انجمن فروری۷۸ئ/۳۱۱-۳۱۲ عبداللہ شاہ ہاشمی علامہ اقبال اور قیامِ پاکستان جنوری۸۹ئ/۱۳۶-۱۳۸ عبداللہ،سیّد ہماری درسیات میں اقبال کی نمایندگی مئی۶۳ئ/۸۳-۸۶ عبدالمغنی اقبال اور اقبالیات ستمبر۶۳ئ/۸۷-۹۳ ؍؍ ؍؍ اقبال اور دہریت جون۶۴ئ/۸۵-۹۲ ؍؍ ؍؍ اقبال اور سپوٹنک مارچ۰۷ئ/۱۰۹-۱۱۳ ؍؍ ؍؍ اقبال کا شعری رویہ جون۹۲ئ/۱۲۱-۱۳۰ ؍؍ ؍؍ اقبال کا نظریۂ انسانیت اپریل۶۷ئ/۳۹-۴۲ ؍؍ ؍؍ عالمی اَدب میں اقبال کا پیغام مارچ۰۷ئ/۹۸-۱۰۸ ؍؍ ؍؍ کلامِ اقبال میں سائنس کے اشارے جون۹۲ئ/۱۱۳-۱۲۰ عمر حیات خان غوری اقبال کی نظم ’’حسین احمد‘‘ کا تحقیقی مطالعہ اکتوبر۸۴ئ/۱۷۴-۱۷۹ عنوان چشتی اقبال کے شعری تجربے جون۹۲ئ/۱۳۱-۱۴۱ غلام حسین اظہر دورِ اقبال ایک نظر میں[ماہ و سال کی روشنی میں واقعات] مئی۶۳ئ/۴۹-۵۴ ؍؍ ؍؍ دورِ اقبال ایک نظر میں [ماہ و سال کی روشنی میں واقعات] فروری۷۸ئ/۱۸ غلام حسین ذوالفقار اقبال اور سوشلزم فروری۷۸ئ/۲۸۶-۲۹۳ غلام رسول ازہر باتوں کی باتیں … اقبال کے احباب فروری۷۸ئ/۲۷۳-۲۷۹ غلام قادر آزاد کلامِ اقبال میں ’غم‘ کا مطالعہ-۱ اپریل۶۴ئ/۴۶-۵۱ ؍؍ ؍؍ کلامِ اقبال میں ’غم‘ کا مطالعہ-۲ مئی۶۴ئ/۴۸-۵۴ فروغ احمد اقبال پر بعض جرائد کی خصوصی اشاعتیں فروری۷۸ئ/۳۷۲-۳۷۷ فروغ احمد اقبال سے خالد تک نومبر۶۹ئ/۲۳-۳۰ ؍؍ ؍؍ اقبالیات میں تازہ ترین اضافہ [اقبال نمبروں کا تعارف] ستمبر۷۸ئ/۱۳۶-۱۴۰ ؍؍ ؍؍ منزل ہے کہاں تیری [ایک اقبالیاتی تمثیل جو اسٹیج نہ ہوسکی] مئی۶۳ئ/۱۱۵-۱۳۸ ؍؍ ؍؍ نوائے وقت: ایک غنائی تمثیلچہ [اشعارِ اقبال کے جواب میں اشعار] فروری۷۸ئ/۱۸۹-۱۹۹ ؍؍ ؍؍ آئینہ کیوں نہ دوں [نقوش،اقبال نمبر ۲] فروری۷۸ئ/۳۶۵-۳۷۱ فضلِ معبود علامہ اقبال اور اخبار و رسائل کے خاص نمبر فروری۷۸ئ/۳۵۹-۳۶۳ فیروز اثر گیلانی مولانا مودودی اور اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ اکتوبر۸۲ئ/۷۳-۷۵ قاضی نذیر احمد اقبال کا تصورِ مذہب مئی۶۳ئ/۱۵۳-۱۶۰ گوہر ملسیانی علامہ اقبال اور اسلامی ثقافت جون۹۲ئ/۱۹۳-۲۰۳ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال اور اتحادِ عالم اسلامی ستمبر۷۷ئ/۲۶۷-۲۷۲ گیان چند ’’ترانہ ہندی‘‘ کی کہانی جنوری۸۹ئ/۱۱۰-۱۱۹ ماہر القادری اقبال کی نثر نگاری فروری۷۸ئ/۱۵۹-۱۶۳ محمد الدین شوق اقبال اور اقبالیت [آسی ضیائی کے جواب میں] ستمبر۶۳ئ/۱۰۴ محمد ایوب شاہد اقبال اور آفاقیت جون۹۲ئ/۱۵۳-۱۵۸ محمد رفیع الدین سوالنامہ اقبال نمبر ۱۹۶۳ء کے مزید جواب جون۶۳ئ/۹۵-۹۶ محمد ریاض اقبال اور افغانستان ستمبر۸۱ئ/۱۶۱-۱۷۴ ؍؍ ؍؍ اقبال اور روایاتِ خضر ستمبر۷۸ئ/۱۲۱-۱۳۲ ؍؍ ؍؍ اقبال اور سیرتِ رسولِ اکرمﷺ مارچ۸۴ئ/۲۲۱-۲۳۰ ؍؍ ؍؍ بصیرتِ اقبال کی رُو سے تقدیر اُمم فروری۷۸ئ/۱۲۹-۱۵۰ ؍؍ ؍؍ خریطۂ جواہر اور اقبال جون۹۲ئ/۳۳۸-۳۴۴ محمد زکریا،خواجہ اقبال کا اَدبی مقام اکتوبر۷۶ئ/۱۶۲-۱۶۷ محمد شمس الدین صدیقی اقبال اور عام قارئین نومبر۶۷ئ/۲۴-۲۷ محمد صلاح الدین اقبال اور اجتہاد دسمبر۹۱ئ/۱۶۹-۱۷۳ محمد ضیاء اللہ ضیا نذرِ اقبال بیادش [اقبال کی وفات کی تاریخیں خود علامہ کے مصرعوں سے] نومبر۸۰ئ/۱۰۶-۱۱۰ محمد عبداللہ ٹیگور اور اقبال کی شاعری میں کائنات کا ارتقا ستمبر۶۶ئ/۳۱-۳۸ محمد علی،چودھری مَیں اور اقبال مئی۶۳ئ/۲۹-۳۰ محمد قاسم حسن اقبال کے تصورِ خودی کے حوالے سے حصولِ قوت کی تلقین جون۹۲ئ/۲۰۴-۲۱۳ محمد محیط طباطبائی جاوید نامہ اقبال… قرۃ العین طاہر یا طاہرہ کاشانی دسمبر۹۶ئ/۷۵-۷۸ محمد مسعود احمد اسرارِ خودی کا اجمالی جائزہ جولائی۷۱ئ/۱۷-۲۰ محمد منور،مرزا اقبال اور حیات بعد الموت مارچ۷۷ئ/۹۳-۱۰۰ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال اور آدم کی خود گریزی جون۹۲ئ/۷۷-۸۵ ؍؍ ؍؍ مرگِ مجازی… اور علامہ اقبال جون۷۶ئ/۲۰۳-۲۱۹ محمد نیاز اقبال اور اقبالیت [آسی ضیائی کے جواب میں] ستمبر۶۳ئ/۱۰۳ محمد نیاز تبلیغِ دہریت کا الزام اور علامہ اقبال دسمبر۶۳ئ/۹۹-۱۰۰ ؍؍ ؍؍ شبیر احمد کے مضمون ’’اقبال اور دہریت‘‘ کے جواب میں جون۶۴ئ/۷۳-۸۴ محمد یعقوب شاہق عندلیبِ باغِ حجاز جون۷۷ئ/۱۴۵-۱۵۸ مظفر حسین رزمی اقبال کی مقصدی شاعری جولائی۷۱ئ/۱۵-۱۶ ؍؍ ؍؍ روزگارِ فقیر اگست۷۱ئ/۲۹-۳۲ مظفر علی سیّد ’’دو آتشہ‘‘ [مصنف گل بادشاہ] کا تنقیدی جائزہ مارچ۸۳ئ/۱۱۸-۱۲۰ معراج نیر اقبال… شاعرِ نفسیات فروری۷۸ئ/۳۰۸-۳۱۰ معین الدین عقیل دُنیائے اسلام میں اشتراکیت کا مسئلہ اور اقبال مارچ۸۴ئ/۲۳۱-۲۴۴ مقبول الٰہی اقبال اور اقتصادیات مارچ۹۷ئ/۴۴-۵۸ مقبول الٰہی؍منور علی علامہ اقبال بحیثیت مردِ استقبال مارچ۰۷ئ/۱۱۴-۱۲۳ منظور احسن عباسی اقبال اور اقبالیت [آسی ضیائی کے جواب میں] ستمبر۶۳ئ/۹۴-۹۵ ؍؍ ؍؍ اقبال کے دانا دُشمن [’’اقبال اور دہریت‘‘ کے ضمن میں] جولائی۶۴ئ/۷۵-۹۴ ؍؍ ؍؍ مقامِ خودی مئی۶۴ئ/۳۵-۴۷ منظور طارق اقبال … کچھ اِدھر سے، کچھ اُدھر سے مئی۶۳ئ/۱۶۱-۱۷۲ مودود صابری ایک یاد گار ملاقات مئی۶۳ئ/۱۷۳-۱۷۷ میرزا ادیب اقبالیات میں شاندار اضافہ: عروجِ اقبال مئی۹۰ئ/۱۳۸-۱۳۹ ؍؍ ؍؍ ’’ذوق و شوق‘‘ [اقبال کی نظم کی ڈرامائی تشکیل] فروری۷۸ئ/۴۰۱-۴۱۴ نادم سیتا پوری سوالنامہ اقبال نمبر ۱۹۶۳ء کے مزید جواب جون۶۳ئ/۹۷-۹۸ نظر زیدی،سیّد اقبال اور ہماری عملی زندگی اپریل۶۵ئ/۸۷-۹۰ نظیر صدیقی اقبال کی شاعری میں انسان کی تجلیل فروری۷۸ئ/۲۹۴-۲۹۷ نعیم صدیقی اقبال اور نظریۂ پاکستان مئی۶۳ئ/۱۸۷-۲۲۹ ؍؍ ؍؍ اقبال اور ہم [اداریہ] مئی۶۳ئ/۱۹-۲۴ ؍؍ ؍؍ اقبال کا نفسیاتی تجزیہ ، چہ معنی دارد؟ مارچ۷۹ئ/۹۹-۱۱۵ ؍؍ ؍؍ اقبال کو ’’قاتلوں‘‘ سے بچائو اپریل۷۰ئ/۱۳-۳۲ ؍؍ ؍؍ اقبال، افغانستان اور اشتراکیت ستمبر۸۱ئ/۱۷۵-۱۸۰ ؍؍ ؍؍ اقبال، تہذیب فرنگ اور احیاے تہذیبِ اسلامی[ اداریہ] جون۹۲ئ/۹-۱۱ نعیم صدیقی چہ گفت و باکہ گفت و از کجا بود … ایک گفتگو جون۹۲ئ/۴۵۲-۴۵۶ ؍؍ ؍؍ ’’زمان و مکاں اور بھی ہیں‘‘ [اقبال کی نظم کی ڈرامائی تشکیل] فروری۷۸ئ/۴۱۵-۴۲۷ ؍؍ ؍؍ سوشلزم اقبال کی نظر میں اپریل۶۸ئ/۳۱-۳۵ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال کے متعلق ناروے کی ناروا بحث مئی۸۸ئ/۳۷۲-۳۷۳ ؍؍ ؍؍ مقامِ اقبال اپریل۶۹ئ/۳۴-۴۰ ؍؍ ؍؍ مقامِ اقبال دسمبر۹۱ئ/۱۷۸-۱۸۲ ؍؍ ؍؍ یومِ اقبال [اداریہ] مئی۶۷ئ/۷ نور محمد قادری کلامِ اقبال اور ان کے خاندان کی کردار کشی کی مذموم کوشش دسمبر۹۵ئ/۶۲-۶۴ نیر واسطی،حکیم اقبال کی مقبولیت، تورکیہ (ترکی) میں فروری۷۸ئ/۲۴۷-۲۵۲ واجد نگینوی اقبال بحیثیتِ مصلح قوم جنوری۷۲ئ/۲۴-۲۶ وارث سرہندی افکارِ اقبال کی عملی تشکیل جون۷۸ئ/۱۲۵-۱۲۸ وحید قریشی ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کی تصنیف عروجِ اقبال مئی۹۰ئ/۱۳۶-۱۳۷ وزیر آغا اقبال اور اردو فروری۷۸ئ/۲۰۶-۲۰۸ وفا راشدی بنگلہ ادب کی ترویج میں اقبال کا حصہ فروری۷۸ئ/۲۵۳-۲۵۸ وقار عظیم،سیّد اقبال کی بعض نظموں کا لہجہ مئی۶۳ئ/۸۷-۹۳ اقبال و دیگر شخصیات آسی ضیائی حالی اور اقبال اکتوبر۷۶ئ/۱۷۷-۱۸۲ اسعد گیلانی،سیّد اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ اور مودودی کا ’’مردِ صالح‘‘ اپریل۸۰ئ/۱۸۲-۱۸۷ اکبر رحمانی اقبال،ٹیگور اور لمعہ حید آبادی جون۹۲ئ/۴۲۴-۴۲۸ انور سدید تحریکِ اقبالیات اور سیّد عبداللہ فروری۷۸ئ/۳۴۱-۳۵۰ انور مسعود پروفیسر بخشی علی انور کی علامہ اقبال سے ملاقاتیں جون۹۲ئ/۴۷۴-۴۷۶ ؍؍ ؍؍ قصیدہ در مدح رُومی و اقبال جون۹۲ئ/۲۳۲-۲۳۳ ایم اسلم علامہ شیخ محمد اقبال اور مَیں فروری۷۸ئ/۲۶۷-۲۷۱ ایوب صابر علامہ اقبال پر مجنوں گورکھ پوری کا ایک اعتراض: ایک جائزہ مئی۹۸ئ/۱۰۵-۱۱۶ پریشان خٹک اقبال اور خوش حال خان خٹک فروری۷۸ئ/۲۲۵-۲۳۰ تحسین فراقی علامہ اقبال کے غیرمطبوعہ دو خط بنام پروفیسر فضل شاہ گیلانی مع تعارف اکتوبر۸۲ئ/۱۸۳-۱۸۸ جان محمد علامہ اقبال سے میری چند ملاقاتیں جون۹۲ئ/۴۷۷-۴۸۰ جاوید اقبال،خواجہ خواجہ حافظ اور علامہ اقبال مارچ۸۲ئ/۱۳۹-۱۵۰ جعفر بلوچ اقبال اور ظفر علی خاں، اشتراک فکر و عمل کے چند پہلو جون۹۲ئ/۳۶۹-۳۹۹ جعفر حسن جعفر اقبال اور اسد ملتانی فروری۷۸ئ/۲۳۱-۲۴۵ رحیم بخش شاہین مکاتیبِ اقبال بنام سیّد محمد سعید الدین جعفری جون۹۲ئ/۴۰۹-۴۲۳ رفیع الدین ہاشمی قائداعظم اور علامہ اقبال اکتوبر۷۶ئ/۱۹۰-۱۹۸ طاہرہ ناز نسیم حجازی… فکرِ اقبال کی روشنی میں ستمبر۹۶ئ/۱۱۷-۱۲۲ عبدالباری،سیّد اجتہاد، بیسویں صدی میں… علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے تناظر میں جون۰۰ئ/۴۱-۵۶ عبدالسلام خورشید حضرت علامہ سے چند مختصر ملاقاتیں ستمبر۷۸ئ/۱۳۳-۱۳۵ عبدالغنی فاروق سلطان ٹیپو شہید اور اقبال اکتوبر۷۶ئ/۱۸۳-۱۸۹ عبدالمغنی اقبال اور کارل مارکس جنوری۸۹ئ/۱۲۰-۱۲۹ علیم ناصری اقبال اور ظفر علی خاں: ایک مطالعہ ستمبر۹۶ئ/۲۲۴-۲۲۷ غلام حسین ذوالفقار اقبال اور ظفر علی خاں جون۹۲ئ/۳۵۹-۳۶۸ محمد سہیل عمر ابنِ عربی اور اقبال دسمبر۹۵ئ/۳۵-۶۱ محمد عبداللہ ٹیگور اور اقبال کی شاعری میں فلسفۂ موت اپریل۶۶ئ/۳۴-۴۳ ؍؍ ؍؍ زندگی کے شاعر… ٹیگور اور اقبال جون۶۵ئ/۳۹-۵۰ ؍؍ ؍؍ فطرت، ٹیگور اور اقبال کی نظر میں فروری۶۵ئ/۵۱-۵۸ مصباح دیسنوی اقبال اور سیّد سلیمان ندوی فروری۷۸ئ/۲۲۱-۲۲۴ معین الدین عقیل فروغِ بادۂ اقبال… ماہر القادری مئی۸۸ئ/۱۶۲-۱۶۶ معین الرحمن ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی … اقبالیات کے ایک ممتاز معلم فروری۷۸ئ/۳۵۱-۳۵۴ مقبول الٰہی اقبال، ایلیٹ اور روایت جون۹۲ئ/۴۰۰-۴۰۸ مقبول بیگ بدخشانی اقبال اور ملک الشعراء بہار فروری۷۸ئ/۲۱۷-۲۲۰ ممتاز صادق اقبال اور غنی کاشمیری جولائی۰۵ئ/۶۵-۷۰ منیر احمد سلیچ علامہ اقبال کے تین معالج [حکیم محمد حسن قرشی، ڈاکٹر محمد یار، ڈاکٹر الٰہی بخش] مئی۹۸ئ/۱۲۴-۱۳۵ نعیم صدیقی اقبال، قلندر جلال آبادی اور دوسرے لوگ [تازہ اہم ملاقاتیں] جون۹۲ئ/۴۳۹-۴۵۱ پیغامات؍ انٹرویوز؍مذاکرے ابوالاعلیٰ مودودی پیغام بسلسلہ اقبال نمبر فروری۷۸ئ/۸ اختر حسین پیغام بسلسلہ اقبال نمبر فروری۷۸ئ/۱۴ ادارہ بہ بارگاہِ قارئین [پیغام بر فکرِ اقبال] فروری۷۸ئ/۶-۷ انڈونیشین ناظم الامور پیغام بسلسلہ اقبال نمبر [انگریزی] فروری۷۸ئ/۱۱-۱۲ انعام اللہ خاں پیغام بسلسلہ اقبال نمبر فروری۷۸ئ/۱۳ ایرانی سفیر پیغام بسلسلہ اقبال نمبر فروری۷۸ئ/۹-۱۰ تحسین فراقی انٹرویو مولانا مودودی بسلسلہ فکرِ اقبال فروری۷۸ئ/۳۷-۴۴ رفیع الدین ہاشمی اقبالیات پر محمد عبداللہ قریشی کے ساتھ ایک مصاحبہ [انٹرویو] مئی۸۸ئ/۱۷۲-۱۸۳ غلام حسین اظہر انٹرویو مولانا مودودی بسلسلہ فکرِ اقبال فروری۷۸ئ/۲۴-۲۶ غلام حسین اظہر رُوحانی سہارا [انٹرویو مولانا مودودی بسلسلہ فکرِ اقبال] مئی۶۳ئ/۳۳-۳۶ ماہر القادری زمانہ ستیز پیغام مئی۶۳ئ/۶۲-۶۴ محمد انور علوی انٹرویو مخدوم الملک میراں شاہ بسلسلہ فکرِ اقبال فروری۷۸ئ/۴۵-۴۹ میاں طفیل محمد پیغام بسلسلہ اقبال نمبر فروری۷۸ئ/۱۵-۱۶ نعیم صدیقی انٹرویو مولانا مودودی بسلسلہ فکرِ اقبال فروری۷۸ئ/۱۹-۲۳ ؍؍ ؍؍ صحبتِ روشن دلاں [انٹرویو مسز این میری شمل بسلسلہ فکرِ اقبال] مئی۶۳ئ/۳۷-۴۸ ……… قلمی مذاکرہ ’’بر فکرِ اقبال‘‘: [شرکائ: حکیم محمد سعید، یونس حسنی، حافظ نذر احمد، آفتاب احمد نقوی، خواجہ اسرار احمد، نصیر الدین، سردار احمد خان، پاشا رحمن، قمر تابش، امین اللہ و ثیر، غلام جیلانی برق، معین الدین عقیل، عبدالباری عباسی، ایوب صابر، محمد سلیمان دانش، جلیل عالی، محمدیعقوب ہاشمی، کرم حیدری، افتخار حسین شاہ، حبیب کیفوی] فروری۷۸ئ/۵۹-۹۰ ……… قلمی مذاکرہ ’’کیا اُردو اَدب نے اقبال کو فراموش کردیا ہے؟‘‘: [شرکائ: سیّد اسعد گیلانی، شیخ امتیاز علی، وزیر آغا، مرزا محمد منور، احسان رشید، ریاض صدیقی] جون۷۶ئ/۱۲۵-۱۳۲ …… چند اہم سوالات اور مشاہیر کے جوابات بعنوان ’’قلمی مذاکرہ (اقبال، اُس کا فکروپیغام اور ہم)‘‘ [شرکائ: شبیر بخاری، میاں بشیر احمد، محمد باقر، رئیس احمد جعفری، یونس حبیب، حمید احمد خاں، وحید قریشی، ہوش ترمذی، رحمن مذنب، نظر زیدی، صلاح الدین احمد، جلیل قدوائی، عبدالسلام خورشید اور آسی ضیائی] مئی۶۳ئ/۶۵-۸۲ [+۲۳۰-۲۴۲] منظومات آثم میرزا اقبال فروری۷۸ئ/۲۱۴-۲۱۵ ابرار احمد صدیقی اقبال مارچ۷۷ئ/۳۶ احسان دانش اقبال فروری۷۸ئ/۲۷ اسرا ر احمد سہاروی اقبال کی یاد میں فروری۷۸ئ/۵۰ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال جون۹۲ئ/۲۳۴ اسلم ارشاد حضورِ اقبال میں نذرانۂ عقیدت فروری۷۸ئ/۵۸ اعجاز رحمانی شاعرِ مشرق جون۹۲ئ/۲۳۹-۲۴۰ افتخار فخر،حکیم نذرِ اقبال جون۹۲ئ/۳۵۳ الٰہی بخش عدیم علامہ اقبال کے حضور میں فروری۷۸ئ/۱۰۴ انوار ظہوری،سیّد اقبال جون۹۲ئ/۲۳۸ ایوب ندیم نذرِ اقبال مئی۸۵ئ/۲۴۹ تبسم رضوی روشن وجود فروری۷۸ئ/۲۱۱-۲۱۲ جعفر بلوچ اقبال مارچ۸۲ئ/۱۳۷ جعفر بلوچ رُوحِ اقبال جون۹۲ئ/۲۴۴-۲۴۵ جعفر حسن جعفر اُداس اقبال فروری۷۸ئ/۹۶-۹۷ جلیل حشمی شعلۂ نوا فروری۷۸ئ/۲۰۹ جمیل عظیم آبادی اے شاعرِ عظیم! فروری۷۸ئ/۵۶-۵۷ حافظ لدھیانوی علامہ اقبال کے حضور نذرانۂ عقیدت جون۹۲ئ/۲۳۱ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال جون۹۲ئ/۲۲۹-۲۳۰ حبیب ارشد اقبال میرا دُشمن مارچ۸۴ئ/۲۱۰ حسین سحر شاعرِ مشرق فروری۷۸ئ/۱۰۲ حفیظ الرحمن احسن تعبیر دسمبر۹۶ئ/۹۱ ؍؍ ؍؍ فکرِ اقبال جون۹۲ئ/۳۵۸ حفیظ جالندھری کہنہ و نَو [وفاتِ اقبال پر نظم] مئی۶۳ئ/۵۸ حیرت جلال پوری نذرِ اقبال فروری۷۸ئ/۵۴ خالد بزمی اقبال کی پروازِ خیال کے ساتھ ساتھ جون۷۸ئ/۶۲ ذکی آذر اقبال ’’دگر دانائے راز آیدکہ ناید‘‘ فروری۷۸ئ/۵۱ ذوقی مظفر نگری شاعرِ مشرق فروری۷۸ئ/۱۰۳ راز کاشمیری شاعرِ مشرق فروری۷۸ئ/۱۰۲ رشک ترابی اقبال اور ملتِ اقبال فروری۷۸ئ/۱۰۰-۱۰۱ رشید محمود،راجا افکارِ اقبال فروری۷۸ئ/۱۰۳ ریاض احمد پرواز مصورِ پاکستان مارچ۸۲ئ/۱۳۸ زکی زاکانی اقبال جون۹۲ئ/۲۱۵-۲۱۶ سعید اکرم قطعات جون۹۲ئ/۳۵۴ سلیم بے تاب مردِ قلندر فروری۷۸ئ/۵۵ ضیا محمد ضیا اقبال فروری۷۸ئ/۳۴ طاہر شادانی بحضورِ اقبال دسمبر۸۵ئ/۲۱۶-۲۱۷ طاہر شادانی بحضورِ اقبال فروری۷۸ئ/۵۲-۵۳ ؍؍ ؍؍ لٹ گیا ہے رحلتِ اقبال سے صبر و سکوں دسمبر۹۱ئ/۱۸۳-۱۸۴ طفیل ہوشیار پوری استفسار [نظم بر اقبال] جون۹۲ئ/۲۲۱-۲۲۳ ؍؍ ؍؍ اے جوانانِ وطن جون۹۲ئ/۲۱۹-۲۲۰ عبدالرحمن بزمی اقبال اپریل۶۴ئ/۲۹ عبدالعزیز خالد اقبال فروری۷۸ئ/۲۹ عبدالکریم ثمر پیامِ اقبال فروری۷۸ئ/۹۳-۹۴ علیم ناصری اقبال اپنا فروری۷۸ئ/۹۱-۹۲ ؍؍ ؍؍ غبارِ خاطر جون۹۲ئ/۲۳۵-۲۳۶ غافل کرنالی یومِ اقبال کی تقریب منانے والو! فروری۷۸ئ/۹۸ غلام رسول ازہر اقبال فروری۷۸ئ/۳۲-۳۳ فریدہ راحت اے حضرتِ اقبال جون۹۲ئ/۲۴۸ قاضی عبدالرحمن مرثیہ اقبال [۲۲؍اپریل ۱۹۳۸ء کو لکھا گیا] جون۹۲ئ/۲۱۷-۲۱۸ قمر یزدانی حکیم الامت کے حضور میں فروری۷۸ئ/۱۰۴ کلیم سہسرامی پیامِ اقبال جون۹۲ئ/۲۳۷ گفتار خیالی اُخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی [نذرِ اقبال] دسمبر۸۵ئ/۲۱۸-۲۱۹ ؍؍ ؍؍ نذرِ اقبال فروری۷۸ئ/۲۱۰ گل بادشاہ اعتراف بحضورِ اقبال جون۹۲ئ/۲۴۱ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال فروری۷۸ئ/۱۵۸ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال فروری۷۸ئ/ گوہر ملسیانی صدائے درد فروری۷۸ئ/۹۵ لیث قریشی اقبال فروری۷۸ئ/۳۰-۳۱ مائل کرنالی ہمارا اقبال جون۹۲ئ/۲۴۷ ماہر القادری اقبال فروری۷۸ئ/۲۸ ؍؍ ؍؍ اولیاء اللہ [در آہنگِ اقبال] مئی۶۳ئ/۵۷ محمد الیاس چیمہ اقبال جون۹۲ئ/۲۴۶ محمد ذاکر علی اقبال اکتوبر۷۶ئ/۴۹ مظفر حسین رزمی نذرِ اقبال مئی۸۵ئ/۲۴۸ منیر احمد بہ فیضِ اقبال دسمبر۰۵ئ/۱۰۲ ناصر زیدی بحضورِ اقبال جون۹۲ئ/۲۴۳ نسیم لیہ اقبال اور الوہیت ستمبر۷۸ئ/۸۸ نظر زیدی،سیّد اقبال جون۹۲ئ/۲۲۴-۲۲۸ ؍؍ ؍؍ بحضورِ حضرتِ اقبال فروری۷۸ئ/۳۵ نعیم صدیقی ایک ورق فروری۷۸ئ/۵ ؍؍ ؍؍ پھر پی کے مئے خیالِ اقبال فروری۷۸ئ/۳۶ نقش ہاشمی شاعرِ مشرق کے حضور جون۹۲ئ/۲۴۲ نورالعین نوید نذرِ اقبال مئی۸۵ئ/۲۴۹ نیر واسطی یومِ اقبال مئی۶۳ئ/۵۵ یعقوب طاہر کاش اقبال آکے دیکھ سکے! فروری۷۸ئ/۹۹ تضمینات بر کلامِ اقبال آسی ضیائی تضمین بر اشعارِ اقبال جون۹۲ئ/۳۴۷-۳۴۸ ؍؍ ؍؍ حقیقتِ منتظر [تضمین بر غزلِ اقبال] اپریل۶۵ئ/۳۸ ؍؍ ؍؍ حقیقتِ منتظر [تضمین بر غزلِ اقبال] مارچ۰۷ئ/۱۴۸ اسرار احمد سہاروی نعت [’’جوئے آب‘‘ کے تتبع میں لکھی گئی] جون۹۲ئ/۳۴۵ ایم یوسف ایم جے اے ایک تضمین بر غزلِ اقبال مئی۶۳ئ/۱۱۴ تاج سعید فکرِ اقبال [تضمین بر غزلِ اقبال] فروری۷۸ئ/۲۱۳ حسرت حسین حسرت تضمین بر غزلِ اقبال جون۹۲ئ/۳۵۱ خالد بزمی ’’لوح و قلم تیرے ہیں‘‘ اقبال کے ایک نعتیہ شعر کی تضمین فروری۷۸ئ/۲۸۴ ؍؍ ؍؍ ’’لوح و قلم تیرے ہیں‘‘ اقبال کے ایک نعتیہ شعر کی تضمین جون۹۲ئ/۳۵۲ خالد علیم دُعا …تضمین جون۹۲ئ/۳۵۶-۳۵۷ خورشید انصاری اقبال کی ایک مشہور غزل کی تضمین فروری۷۸ئ/۲۸۲-۲۸۳ ریاض حسین چودھری تضمین بر کلامِ اقبال فروری۷۸ئ/۲۸۵ شرر رام پوری تضمین بر کلامِ اقبال دسمبر۹۶ئ/۸۹-۹۰ محمد خان کلیم تضمین بر اشعارِ اقبال جون۹۲ئ/۳۴۹-۳۵۰ نزہت اکرام تضمین بر غزلِ اقبال مارچ۰۷ئ/۱۴۷-۱۴۷ تبصرے ابوذر عثمانی حدیثِ اقبال از طیب عثمانی جولائی۶۷ئ/۲۹-۳۴ اسرار احمد سہاروی(مبصر) خدوخالِ اقبال از امین زبیری ستمبر۸۶ئ/۳۲۵-۳۲۶ اشفاق احمد وِرک(مبصر) اقبال شناسی اور سیارہ [مرتب: جعفر بلوچ] جون۸۹ئ/۳۴۱-۳۴۲ ؍؍ ؍؍ گلشنِ اقبال از اسرار احمد سہاروی جون۸۹ئ/۳۴۵-۳۴۶ انور سدید(مبصر) تصوراتِ عشق و خرد از وزیر آغا فروری۷۸ئ/۳۸۰-۳۸۹ بصیرہ عنبرین(مبصر) اقبال: چند نئے مباحث از تحسین فراقی مئی۹۸ئ/۲۵۴-۲۵۶ تحسین فراقی(مبصر) اقبالیاتِ اسد ملتانی از جعفر بلوچ مئی۸۵ئ/۴۲۱-۴۲۳ ؍؍ ؍؍ تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ از رفیع الدین ہاشمی اکتوبر۸۴ئ/۱۹۱-۱۹۶ تحسین فراقی(مبصر) کلیاتِ مکاتیبِ اقبال‘ جلد سوم… ایک جائزہ فروری۹۴ئ/۳۹۴-۴۴۰ ؍؍ ؍؍ مسائلِ اقبال از سیّد عبداللہ جنوری۸۹ئ/۳۹۴-۳۹۶ جعفر بلوچ(مبصر) اقبالیات از غلام رسول مہر [مرتب: امجد سلیم علوی] مئی۹۰ئ/۴۸۹-۴۹۰ ؍؍ ؍؍ اقبالیات کے تین سال از رفیع الدین ہاشمی فروری۹۴ئ/۳۵۷-۳۵۸ ؍؍ ؍؍ مجلہ اقبال ریویو شمارہ جنوری تا مارچ۸۵ [مدیر: مرزا محمد منور] مئی۸۵ئ/۴۳۸ جعفر حسن جعفر(مبصر) اقبال اور پاکستانی ادب از عزیزاحمد [مرتب :طاہر تونسوی] فروری۷۸ئ/۳۷۸-۳۷۹ ؍؍ ؍؍ اقبال کے خطوط، قائد اعظم کے نام [مرتب، مترجم: جہانگیر عالم] فروری۷۸ئ/۳۹۰-۳۹۱ حفیظ الرحمن احسن(مبصر) بلوچستان میں تذکرہ اقبال از انعام الحق کوثر دسمبر۰۵ئ/۲۲۷-۲۲۸ ؍؍ ؍؍ کتابیاتِ اقبال از رفیع الدین ہاشمی فروری۷۸ئ/۳۹۲-۳۹۳ خالد بزمی(مبصر) مجلہ راوی کا اقبال نمبر اور سالنامہ مئی۷۰ئ/۷۶-۷۸ رفاقت علی شاہد(مبصر) جہاتِ اقبال از تحسین فراقی دسمبر۹۴ئ/۱۸۶-۱۹۲ رفیع الدین ہاشمی(مبصر) افکارِ اقبال [مترجم: محمد ریاض] دسمبر۹۱ئ/۵۰۱ رفیع الدین ہاشمی(مبصر) اقبال اور مودودی از ابو راشد فاروقی فروری۷۸ئ/۳۹۴-۳۹۵ ؍؍ ؍؍ اقبال شناسی اور نویدِ صبح [مرتب: زاہد منیر عامر] دسمبر۹۱ئ/۴۹۴ ؍؍ ؍؍ اقبال کا ذہنی و فنی ارتقا از عبدالمغنی دسمبر۹۱ئ/۴۸۸ ؍؍ ؍؍ اقبال کے کلاسیکی نقوش از انور سدید فروری۷۸ئ/۳۹۶ ؍؍ ؍؍ تاریخِ تصوف از علامہ اقبال [مرتب: صابر کلوروی] اپریل۸۶ئ/۴۱۶ ؍؍ ؍؍ علامہ اقبال اور تصوف از عبدالرشید فاضل جولائی۶۸ئ/۸۵ ؍؍ ؍؍ مجلہ ’برگِ گل‘ سمندری کا ’اقبال نمبر‘ [مدیر:ظفر حجازی] ستمبر۸۷ئ/۴۵۲-۴۵۳ زاہد منیر عامر(مبصر) اقبالیاتی جائزے از رفیع الدین ہاشمی جون۰۰ئ/۳۵۹-۳۶۰ زکی زاکانی (مبصر) تفہیم اقبال: ایک مطالعہ [مرتب: فروغ احمد] ستمبر۹۵ئ/۶۴-۶۷ ؍؍ ؍؍ تفہیم اقبال از فروغ احمد ستمبر۸۷ئ/۴۰۳-۴۰۵ سالار مسعودی(مبصر) اقبال آثار از رابعہ سرفراز مارچ۰۷ئ/۳۶۵ عبدالغنی فاروق(مبصر) اقبال کی طویل نظمیں از رفیع الدین ہاشمی اکتوبر۸۲ئ/۲۷۱-۲۷۲ ؍؍ ؍؍ خطوطِ اقبال [مرتب: رفیع الدین ہاشمی] مارچ۷۷ئ/۲۸۴-۲۸۵ عبداللہ شاہ ہاشمی(مبصر) اقبال شناسی اور جرنل آف ریسرچ [مرتب: رفیع الدین ہاشمی] جون۸۹ئ/۳۴۷ ؍؍ ؍؍ اقبال شناسی اور محور [مرتب: رفیع الدین ہاشمی] جون۸۹ئ/۳۴۸ ؍؍ ؍؍ اقبالیاتی جائزے از رفیع الدین ہاشمی دسمبر۹۱ئ/۴۹۹ ؍؍ ؍؍ تنویر اقبال از عبدالمغنی فروری۹۱ئ/۴۹۲ ؍؍ ؍؍ ۱۹۸۵ء کا اقبالیاتی اَدب از رفیع الدین ہاشمی مارچ۸۷ئ/۳۱۰ عبدالمغنی(مبصر) تصانیفِ اقبال از رفیع الدین ہاشمی فروری۹۱ئ/۴۷۱-۴۷۲ علی ظہیر منہاس(مبصر) اقبال کی طویل نظمیں از رفیع الدین ہاشمی اکتوبر۷۶ئ/۲۹۲ علیم ناصری(مبصر) اقبال کا مردِ مومن از طفیل دارا دسمبر۹۱ئ/۴۸۲ ؍؍ ؍؍ اقبالیات کے چند خوشے از انعام الحق کوثر دسمبر۹۶ئ/۱۴۵ فروغ احمد(مبصر) اقبال کے معاشی نظریات از رحیم بخش شاہین مارچ۷۷ئ/۲۹۳-۲۹۵ ؍؍ ؍؍ اقبال، قائداعظم، مودودی اور تشکیلِ پاکستان از سیّد اسعد گیلانی جون۷۷ئ/۲۸۳ فضل معبود،سیّد(مبصر) دو آتشہ (ارمغانِ حجاز کے فارسی حصے کا منظوم اُردو ترجمہ) از گل بادشاہ نومبر۸۰ئ/۲۴۳-۲۴۸ فضل من اللہ(مبصر) ماہنامہ ’اَدبی دُنیا‘ کا اقبال نمبر [مدیر: محمد عبداللہ قریشی] اگست۶۷ئ/۸۴ ؍؍ ؍؍ ماہنامہ ’تحریک‘ کا اقبال نمبر اگست۶۷ئ/۸۵ محمد ارشد خاں(مبصر) ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی اَدب از رفیع الدین ہاشمی جنوری۸۹ئ/۴۳۹ محمد ایوب(مبصر) اقبالیات: تفہیم و تجزیہ از رفیع الدین ہاشمی جولائی۰۵ئ/۲۷۱-۲۷۲ محمد ریاض(مبصر) اقبال ایک مطالعہ از کلیم الدین احمد اکتوبر۸۴ئ/۱۸۰-۱۹۰ محمد سعید عابد(مبصر) اپنا گریباں چاک: ایک مطالعہ جولائی۰۵ئ/۲۴۲-۲۴۵ محی الدین چودھری(مبصر) اقبال پر دو کتب از ساحل احمد [تبصرہ/ مکتوب] فروری۹۱ئ/۵۱۲ نزہت حنیف(مبصر) مجلہ ’’اقرا‘‘ ایم اے او کالج، لاہور کا ’’اقبال نمبر‘‘ [مدیر: میرزا ادیب] مارچ۷۹ئ/۲۹۵ /…/…/ نیچے والے نئے چیک تحسین فراقی مسلم فلسفہ میں زمان کا مسئلہ [اقبال کی نایاب تحریر کا تعارف و ترجمہ] …۷۰ئ/ غائب صفحات فروری۷۸ئ/۳۲۲-۳۲۸ جعفر بلوچ بیاد شاعرِ مشرق از ناصر زیدی جون۷۹ئ/۲۷۶ خالد بزمی ’’لوح و قلم تیرے ہیں‘‘ اقبال کے ایک نعتیہ شعر کی تضمین جون۹۲ئ/۳۵۲ عنوان چشتی اقبال کے شعری تجربے جون۹۲ئ/۱۳۱-۱۴۱ Abstract Islamic Worldview in Iqbal's Letters Allama Muhammad Iqbal maintained a vast correspondence. He exchanged letters with scholars, political leaders, religious figures and lay people in different domains of life. Collections of his letters have been compiled in several volumes. Iqbal has touched upon a wide range of issues in his letters. The primary thing which is found in all his letters as an essential and continuing feature is his love for Islam. This article brings out this aspect of Iqbal's personality and elucidates this intellectual dimension through his letters. Sir Sheikh Abdul Qadir's Contributions for the Promotion of Urdu Linguistic prejudice was an important issue in prepartition India. The Urdu was the natural lingua franca in the pluralistic Indian society after Persian withered away. But Hindus started a movement to introduce Hindi in place of Urdu which continues till now. The scholars and men of letters who were striving for development of Urdu language were not only Muslims but also Hindus. Sir Sheikh Abdul Qadir, editor Makhzan, played a key role in the promotion of Urdu language. This article covers his valuable contribution to our cultural and literary history. The Egyptian Youth - Intellectually Starved and Abandoned Egypt is a country saturated with prospects and problems. After an autocratic rule of thirty years Egypt has seen the dawn of democracy. It is impossible for the new government to solve all the problems instantly, yet, it stands as a challenge. The most important problem is the unseen future of the Egyptian youth, coupled with the issues of unemployment, poverty, economic stagnation, moral degeneration and the failure of education system. This article covers this pre-revolution period. If the present government gets proper time it may become able to solve these problems. Sayyida Akhtar Hyderabadi - Iqbal's Admirer Sayyida Akhtar Hyderabadi was a social and literary personality. She was a poetess and orator and a political leader. She was famous for her speeches in the processions of All India Muslim League. She wrote many poems in resemblance of the poems of Dr. Iqbal. These Tazminat were much appreciated by renowned critics and literary personalities. In this article the figurative and literary significance of those poems is described of course. These poems are a novel addition in our literature. Iqbal and Mehr - A Narrative Ghulam Rasul Mehr was a proponent of the thoughts of Allama Muhammad Iqbal. The age of Iqbal was ending when Mehr began his practical life. So, the relationship of Mehr with Iqbal was natural. Mehr's relationship with Iqbal resulted in an addition to the literature of Iqbaliyat. His works made many aspects of Iqbal's life visible to us. This article describes many aspects of Iqbal and Mehr's relation, which is of historical significance. Concept of Civilization in Iqbal and Huntington In the 19th century the European colonization paved the way for political, social and economic dominance on the World. America continued the same in the 20th century under the banner of liberalism, democracy and technology. In modern times West is striving for cultural dominance with a concept of world order or world civilization. The concept of universal civilization was given by Islam fourteen centuries ago, but it is not the dominance of man over man with power and wealth. Iqbal presents it in the context of fundamental human values. This article describes the concept of universal civilization in the context of Iqbal and Huntington. Diversity of Iqbal's Prose Writings Iqbal's prose writings reflect many aspects of his personality. His prose narrates the details of his intellectual development, how he passed through the stages of Rumi's "love" and Razi's "enquiry". Various aspects of Iqbal's life, his characteristics features, his areas of interest and his domains of research all can be found in his prose. His prose helps in interpreting his poetry and his philosophical concepts. Iqbal's prose carries immense significance in understanding various aspects of Iqbal's life, intellectual contribution and thought. This significance is elaborated in this article. Unfinished Tasks of Iqbal Many unfinished works can be found in the life of Iqbal about which he wrote both in prose and poetry. There were many topics on which he wanted to write more. He started or mentioned such issues in his letters and other writings. This article talks about the detail of such unfinished works of Iqbal which are waiting the efforts of our scholars for completion. Khur?j (Armed Conflict with the Government) An Analysis of the Classical and Contemporary Islamic Views Khar?j or revolt means the effort of a group of Muslim community to destabilize and overthrow the established government of a Muslim state provided that in the light of its religious vision, the government turns unislamic by rejecting the Divine injunctions. History of Muslim political thought gives vast details about it. This issue is explained in the light of Iqbal's thought in this article. This discussion is extremely important in the context of Pakistan and other Muslim states in a contemporary perspective. Sufism and the Psychology of Fear Fear and love are two key and fundamental concepts of mysticism. These key concepts are not limited to intellectual or spiritual domains, but have religious, metaphysical, moral, political, social and civilizational significance. These have a relation with the primary human psychology. A keen observation and serious study of these concepts shows that these concepts play an important role in the moral elevation of individuals and communities and helps to forge a creative society through their social efficacy. This article describes these various dimensions of fear and love. Contemporary Civilizational Thought and Iqbal The clash of civilizations debate was initiated in the early nineties and later on Samuel Huntington, a political thinker and writer of the West came out as its proponent. It is a view that all later political strategic developments which took place around the world were under the influence of this thesis. The post war paradigm of Huntington revolves around the civilizational and cultural clashes of nations and an urge to see the western culture dominant in the world. But a detailed analysis of Huntington thought shows that he did not develop his thesis on facts and an unbiased approach, rather it was driven by a hidden agenda. This article gives the analysis of Huntington's thesis and Iqbal's approach to civilizational conflict in contemporary. ـئ…ئ…ء