اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) ISSN: 0021-0773 بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، ایجرٹن روڈ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com مندرجات خ فکر اقبال کا ماخذ… قرآن کریم ڈاکٹر محمد اکرم چودھری ۱۶ خ اقبال کی شاعری: ایک سلسلۂ گفتگو احمد جاوید؍محمد سہیل عمر ۲۶ خ زندگی مضمر ہے تیری شوخیِ تحریر میں ڈاکٹر طاہر حمید تنولی ۲۰ خ اسلام اور اصولِ حرکت ڈاکٹر خضر یاسین ۱۴ خ اقبال کے اصولِ خودی اور ان کا اطلاق مسز شگفتہ شہناز ۱۰ خ جاوید نامہ: ایک مثنوی، ایک داستان سلیم سہیل ۶ خ اقبال، ماورائے شاعر عامر رئوف خان ۶ خ اقبال اور اقبالیات… ایک مطالعہ ڈاکٹر خالد ندیم ۶ خ اقبال کا تصورِ خودی اور لائبنز کا تصورِ موناد قمر سلطانہ ۱۰ خلاصے قلمی معاونین احمد جاوید نائب ناظم (ادبیات)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور محمد سہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر محمد اکرم چودھری وائس چانسلر، سرگودھا یونیورسٹی، سرگودھا ڈاکٹر طاہر حمید تنولی معاون ناظم (ادبیات)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور انجینئر مختار فاروقی مدیر ماہنامہ حکمتِ بالغہ ، جھنگ ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی، کشمیر یونیورسٹی، سرینگر حیات عامر حسینی استاذ شعبۂ فلسفہ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، انڈیا مسز شگفتہ شہناز صدر شعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج برائے خواتین، اٹک سلیم سہیل لیکچرر شعبہ اُردو، ایف جی قائداعظم ڈگری کالج، چکلالہ، راولپنڈی عامر رئوف خان ملٹری کالج، سرائے عالمگیر، جہلم ڈاکٹر خالد ندیم اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اُردو، سرگودھا یونیورسٹی، سرگودھا فکرِ اقبال کا ماخذ… قرآنِ کریم ڈاکٹر محمد اکرم چودھری حضرت علامہ اقبال نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بھر پور شاعری کی۔ غزل اور خاص طور پر پابند نظم کی متعدد اصناف کو اوجِ کمال تک پہنچایا۔ حضرت علامہ کی مختصر زندگی میں شاعری کا زمانہ تقریباً چالیس برسوں پر محیط ہے جسے ناقدین ان کے فکرو فن کو سمجھنے کے لیے مختلف ادوار میں بانٹتے ہیں، جو ہمارا موضوع نہیں ہے۔ علامہ نے اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے کی، جو زیادہ تر روایتی اور غزل کے کلاسیکی انداز سے عبارت ہے، تاہم یہ آغاز بھی بڑے بڑے شعرا کے عروج کی شاعری سے کہیں بہتر دکھائی دیتاہے۔ یہی ایک بڑے شاعر کا وصف ہے کہ آغاز ہی میں فن اور مہارت کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ حضرت علامہ نے جلد ہی غزل سے نظم کی طرف سفر کیا اور ہمالہ جیسی نظم لکھی۔ قومی اور ملی شعور حضرت اقبال کے یہاں شروع ہی سے دکھائی دیتا تھا۔ شان دار ماضی کے زوال کا غم، مسلمانوں کی زبوں حالی، ابنائے وطن کو لگے ادبار اور جہالت کی بیماری اور نوآبادکاروں (colonial powers) کی دنیا میں من مانی نے اقبال کو جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ اسلامی تاریخ ، مسلمانوں کے علمی ورثے ، اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی، مسلمانوں کی فکری تحریکوں، مغربی تہذیب کے socio-cultural dynamics اور مغرب کے فلسفے کے عمیق مطالعے نے حضرت علامہ کو قرآن کریم کی دہلیز پر لاکھڑا کیا۔ کسی کتاب یا مصنف سے شعوری طور پر متاثر ہونا ایک بات ہے اور اسے تحت الشعور کے اندر جذب کرنا دوسری بات۔ تحت الشعور کی سطح پر کسی کتاب یا انسان کا اثر جب جزوشخصیت بن جاتا ہے تو یہ اثر قبول کرنے والے کے انداز فکرونظر کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے تو اسی زاویہ نگاہ سے اور دیکھتا ہے تو اسی عینک سے۔ اس کے سانچے اور پیمانے اور حسن و قبح اور خوب نا خوب کے معیار بھی اسی منبع فیضان سے بر آمد ہوتے ہیں اور اگر وہ شاعر اور ادیب ہے تو اس کا نظریہ شعر، اس کی لفظیات، اس کا اسلوب، اس کی علامتیں اور اس کے استعارے بھی اسی رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ قرآن کے ساتھ اقبال کا تعلق اسی نوع کا ہے۔۱؎ ہماری تاریخ میں قرآنی مطالب کو السنہ شرقیہ میں نثر اور نظم دونوں صورتوں میں پیش کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ مولانا روم کی مثنوی معنوی کو قرآن درزبان پہلوی کہا گیا۔ ہر چند قرآن کریم کے باقاعدہ ترجمے کا کام اسلامی تاریخ کے پہلے ساڑھے گیارہ سو سال تک نہیں ہوا اور اولین تراجم میں سورۃ یوسف کا پنجابی زبان میں ترجمہ اور سورۃ یوسف کی منظوم پنجابی تفسیر، حافظ برخوردار رانجھا (متوفی ۱۷۵۸ئ) نے کی،۲؎ اور پہلا فارسی ترجمہ، کیونکہ اس وقت برصغیر میں فارسی ہی علمی زبان تھی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (متوفی۱۷۶۲ئ) نے کیا۔ بہت سے صلحاء اور دردمند مسلمانوں نے چیدہ چیدہ آیات قرآنی کے منظوم اردو تراجم کیے، جنھیں تداول بھی نصیب ہوا۔ اس ضمن میں بہت شاندار، مگر مختصر تذکرہ محترم بریگیڈیر حامد سعید اختر نے اپنے بیش قیمت مضمون ’قرآن اور اقبال‘ میں پیش کیا ہے، جو اقبال اکادمی پاکستان کے مجلے اقبالیات کے شمارے جنوری -مارچ ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا۔۳؎ قرآنی آیات، مثلاً: اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمِ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ (سورہ رعد:۱۱) [ترجمہ: اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا ، جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلے] اور قرآنی آیت: ُیرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ (سورہ توبہ: ۳۲) [ترجمہ: یہ (کفار) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کواپنی پھونکوں سے بجھا دیں] مشہور اشعار میں صورت میں ہماری زبان پر ہیں۔ حضرت علامہ نے قرآنی متن کا براہ راست منظوم یا منثور ترجمہ نہیں کیا، شاید اس لیے کہ حضرت علامہ اقبال کے نزدیک قرآن محض ایک کتاب نہیں، بلکہ الکتاب ہے۔ اقبال کائنات میں موجود حکمت و دانائی، نظم و ضبط، ہم آہنگی اور حسن وجمال کو سرودِ ازلی سے تعبیر کرتے ہیں۔۴؎ آپ کے یہاں پوری کی پوری کائنات قرآن تکوینی اور مجلد کی صورت میں (ما بین الدفتین) کتاب اللہ، کتاب تدوینی ہے: آں کتاب زندہ، قرآن حکیم حکمت او لا یزال است و قدیم۵؎ صد جہاں تازہ در آیات اوست عصر ھا پیچیدہ در آنات اوست۶؎ چوں بجا در رفت جاں دیگر شود جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود۷؎ قرآن کریم وہ زندۂ جاوید کتاب ہے، جس کی حکمت و دانش قدیم بھی ہے اور دائمی و لازوال بھی۔ اس کی آیات کریم میں سیکڑوں نئی دنیائوں کے بے انتہا امکانات پوشیدہ ہیں اور اس کے آنات و لمحات میں ان گنت صدیاں اور لا تعداد زمانے بند ہیں۔ جب یہ کتاب قلب و جان پر اترتی ہے تو انہیں زیر و زبر کر کے رکھ دیتی ہے اور جب یہ انقلاب آتا ہے تو آدمی کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ کلام اقبال کے عمیق مطالعے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اقبال نے قرآنِ تکوینی پر غور و خوض کے ساتھ ساتھ قرآنِ تدوینی کو اپنے تفکر کا جزو لاینفک بنا لیاتھا۔ بقول غلام رسول ملک: ان کا فکر قرآنی فکر ہے اور ان کی نظر قرآنی نظر ہے اور جب وہ اپنے نتائج فکرونظر کو الفاظ کا جامہ پہنا لیتے ہیں تو غیر ارادی طور پر قرآنی اسلوب و آہنگ کی شان نمودار ہوتی ہے۔۸؎ کیا تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں بھی حضرت علامہ کا فکری ماخذ قرآن کریم ہی ہے، جس کی بنیاد پر حضرت علامہ فلسفہ دین کی تشکیل نو یا بالفاظ دیگر ایک نئے علم الکلام کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے؟ تشکیل جدید کا بنیادی ماخذ تو قرآن کریم ہی ہے اور وہ علوم و فنون بھی جو اس کتاب حکیم کے مندرجات کی تفہیم کے لیے عصری تقاضوں کے پیش نظر ازخود منصہ شہود پر آگئے۔ یہ درست ہے کہ خطبات میں مخاطب لوگوں کی رعایت سے حضرت علامہ کو نسبتاً مشکل انداز بیان اختیار کرنا پڑا۔ حضرت علامہ کی آرا اور خطبات کے مندرجات کے بارے میں بے شمار تبصرے کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں محترم ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب خطبات اقبال: تسہیل و تفہیم میں برصغیرکے گذشتہ صدی کے بے شمار مشاہیر کی آرا اور اعتراضات بلاکم و کاست بڑی فراخ دلی کے ساتھ نقل کر دیے ہیں۔ ان میں سے متعدد تنقیدات تو ایسی بھی ہیں جو درحقیقت درخورِ اعتنا بھی نہیں تھیں مگر ڈاکٹر جاوید اقبال نے ان کو اپنی بلند حوصلگی کے سبب درج کر دیا ہے ، علاوہ ازیں دور حاضر کے جید عالم سید حسین نصر اور متعدد مستشرقین کی نکتہ چینی کو بھی من و عن بیان کر دیا ہے۔۹؎ میں ان اعتراضات میں سے صرف دو ایک کا تذکرہ کر کے دوبارہ اپنے موضوع پر آئوں گا۔ میں نے اپنے استاد مکرم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی مرحوم کو ہمیشہ ہی حضرت اقبال کے دیوانہ اور بہت بڑے مداح کے طور پر دیکھا، تاہم اس بات پر وہ ہمیشہ چیں بجبیں رہے کہ حضرت علامہIntuition اور Revelation میں کوئی qualitative differenceنہیں دیکھتے تھے اور ان میں محض quantitative defference کا پایا جانا خیال کرتے تھے۔ گویا وحی اور وجدان میں کیفیت کا اختلاف نہیں ہے۔ صرف کمیت کا اختلاف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح استاذ محترم فرماتے تھے، اُس طرح حضرت علامہ نے کہیں نہیں لکھا۔ ہاں، البتہ حضرت علامہ اپنے religious experience کے نتائج کو ذریعہ علم کا درجہ ضرور دیتے ہیں۔ میں اپنی کم مائیگی کے سبب استاذ محترم کو کبھی باور نہ کراسکا کہ ہر مظہر اور phenomenon کی کئی ایک dimensions ہو سکتی ہیں۔ اقبال کے ہاں مذہبی تجربہ (Religious Experience) ایک نبی کے یہاں اور ایک صوفی کے یہاں وقوع پذیر تو ہوسکتا ہے ، مگر دونوں کے تجربات Identical نہیں ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب کو پیش آمدہ التباس کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ڈاکٹر فاروقی کی نگاہ میں اقبال کے خیالات میں الجھائو کا سبب پیغمبرانہ وحی کو صوفیانہ واردات اور شاعرانہ القاپر قیاس کرنے سے پیدا ہوا، لیکن ان کا اعتراض درست نہیں۔ اقبال وحی، کشف اور القاکو ان معنوں میں مذہبی تجربہ قرار دیتے ہیں کہ اس علم سے انسان کی حقیقت مطلقہ تک رسائی ممکن ہے، مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ درجات کے اعتبار سے اقبال پیغمبر ، ولی اور شاعر کو ایک ہی سطح پر کھڑا دیکھتے ہیں، قطعی غلط ہے۔۱۰؎ دوسرا اعتراض ، جو الطاف احمد اعظمی نے پانچویں خطبے، اسلامی ثقافت کی روح(The spirit of Muslim Culture) پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ حضرت علامہ نے واقعہ معراج پر شاہ جہاں کے زمانے کے مشہور صوفی حضرت عبدالقدوس گنگوہی کا یہ ارشاد نقل کیا تھا:۱۱؎ Muhammad of Arabir ascended the highest Heaven and returned. I swear by God that if I had reached that point, I should never have returned.12 ترجمہ: محمد عربیﷺ آسمان کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ گئے اور واپس آگئے۔ خدا کی قسم! اگر میں اس بلندی تک گیا ہوتا تو کبھی زمین پر واپس نہ آتا۔۱۳؎ اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے الطاف احمد اعظمی حضرت علامہ کے ماحصل کے بارے میں رقم طرازہیں کہ ایک پیغمبر اور صوفی کے شعوری تجربے میں نفسیاتی اعتبار سے جو فرق ہے، وہ عبدالقدوس گنگوہی کے مذکورہ الفاظ سے بالکل واضح ہے۔ صوفی روحانی تجربے کی جن بلندیوں تک پہنچتا ہے اور وہاں فراغ خاطر کی جس نعمت سے بہرہ اندوز ہوتاہے، اس حالت اور مقام سے وہ کبھی جدا ہونا پسند نہیں کرتا۔ اس کے بر خلاف پیغمبر روحانی تجربے کی انتہائی بلندیوں تک جانے کے باوجود واپس آتا ہے اور اس کی یہ واپسی تمام ترتخلیقی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس کا پیغام انقلاب انگیز ہوتا ہے، وہ تاریخ کا رخ بدلتا ہے اور دنیا کو نئے تصورات سے آشنا کرتا ہے۔ وہ چاہتاہے کہ اپنے روحانی تجربے کو اپنے ایک زندہ اور متحرک عالم گیر قوت میں تبدیل کرے…الطاف احمد اعظمی مزید لکھتے ہیں کہ اس تحریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک روحانی اعتبار سے نبی اور ولی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ فرق جو ہے، وہ نفسیاتی اعتبار سے ہے، یعنی ولی کا روحانی تجربہ انفرادی نوعیت کا ہے۔جب کہ نبی کا روحانی تجربہ غیر انفرادی اور عالم گیر ہوتاہے۔۱۴؎ اعظمی صاحب کے اعتراض ہی میں خود جو اب بھی شامل ہے۔ حضرت علامہ ایک نبی اور صوفی کے بنیادی وظیفے کے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک صوفی کے لیے حقیقت مطلقہ سے اتحاد اور ملن اس کے لیے آخری منزل ہے، مگر انبیا اپنے روحانی تجربے کو عالم گیر وقت کی شکل عطا کر کے اسے social phenomena بناتے ہیں۔ نبی اس منزل سے واپسی پر عامۃ الناس کے ساتھ محلوں اور آبادیوں میں رہتا ہے اور اپنے آپ کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرتا ہے اور پھر اپنے conductاور طریقہ حیات کے بارے میں لوگوں سے فقد لبثت فیکم عمرا (سورۃ یونس: ۱۶)کہہ کر تصدیق طلب کرتا ہے کہ میری تعلیمات قابل عمل ہیں، گویا نبی کا اصل وظیفہ یہ ہے کہ وہ جو نظریہ پیش کرتا ہے، خود اسے demonstrate کرکے دکھاتا ہے۔ اسی لیے اقبال اسلام کی آمد کو Inductive Intellect کا ظہور قرار دیتے ہیں۔ الطاف احمد اعظمی، اقبال پر ایک اور اعتراض یہ کرتے ہیں کہ عربی میں ان کی استعداد ناکافی تھی، یہ اعتراض اس لیے بھی غلط ہے کہ یورپ جانے سے قبل اقبال چار سال تک پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج میں میکلوڈعربک ریڈر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس پر مستزادیہ کہ وہ یورپی یونیورسٹیوں میں مستشرقین کے ساتھ عربی زبان کے استادرہے۔ پوسٹ گریجویٹ سطح پر عربی زبان و ادب کے معلم کو عربی زبان سے نابلد قرار دینا، اعتراض براے اعتراض کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ حضرت علامہ کے بارے میں ایک بہت بڑی شخصیت کا comment، جو میرے لیے ہمیشہ ہی حیرت کا باعث رہا، وہ حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا بیان ہے، جو سب سے پہلے جامعۃ ملیۃ اسلامیہ، دہلی کے مجلہ جوہر کے شمارہ مئی-جون ۱۹۳۸ء کو حضرت علامہ کی وفات کے فوراً بعد چھپا تھا۔ اس کے بعد ۱۹۶۹ء میں ہفت روزہ ایشیا میں چھپا تھا اور اسی پرچے کے نومبر ۲۰۱۲ء کے ایک شمارے میں دوبارہ سامنے آیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ و ہ فقط اعتقادی مسلمان تھے۔ عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی افتادِ طبع کا بھی بہت کچھ دخل ہے۔ ان میں کچھ فرقہ ملامتیہ کے میلانات تھے۔ جن کی بنا پر اپنی رِندی کے اشتہار دینے میں انھیں کچھ مزہ آتا تھا، ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاص شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، مگر اخیر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ تلاوت کے دوران روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑی خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے، مگر چھپ کر ، ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ میں نرِاگفتار کا غازی ہوں۔۱۵؎ پھر مولانا، اقبال کا یہ شعر نقل کرتے ہیں: اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتارکا یہ غازی تو بنا،کردار کا غازی بن نہ سکا۱۶؎ حیران کن بات ہے کہ وہ فلسفی شاعر، جسے ہمیشہ ہی vitalist اور قوت پرست کہا گیا ہے، جو امت مسلمہ کی عروق مردہ میں زندگی کے خون کی روانی اور عظمت رفتہ کی بازیافت کے لیے تڑپتا رہا، مولانا نے اس میں ملامتیہ میلانات کیسے ڈھونڈلیے۔ میری رائے میں مولانا کو اقبال کی کسر نفسی اور فروتنی کے اظہار سے شاید یہ مغالطہ ہوا ہے اور مولانا نے یہاں poetic stair کے احتمال کو بھی نظر انداز فرما دیا۔ قرآن کریم سے اقبال کے شغف کی جڑیں تلاش کرنا ہوں تو ان کی زندگی کاہر لمحہ گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ قرآن ہی کے جلو میں چلے۔ انھوں نے بہت بچپن ہی میں محسوس کر لیا کہ گویا قرآن ان کے اپنے قلب پر اتر رہا ہے اور جب اقبال کے قلب پر قرآن باقاعدہ نازل ہونے لگا تو وہ کہہ اٹھے: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گِرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف۱۷؎ جب اقبال نے فکری زندگی میں بلوغت حاصل کی اور انھیں احساس ہوا کہ اب وہ زندگی کے اسرار کو سمجھنے کے، کسی حد تک، اہل ہیں تو خود ان کا دل بول اٹھا کہ وہ دانش ، جو قرآن کے سراج منیر سے فیض حاصل نہیں کرتی،، ناقص ہے اور اس لیے ناقص ہے کہ وہ دانش محدود ذہن اور فانی فکر رکھنے والے فانی وجود کی سوچ ہے۔ اولادِ آدم کی ہم جہتی اور فلاح فقط قرآنی ہدایت ہی کی مدد سے ممکن ہے۔۱۸؎ اسی کامل یقین کی بنا پر ۱۹۱۵ء میں مثنوی اسرارِ خودی میں بحضور رسالت مآبﷺ التجا پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اور امت محمدیہ کی خدمت میںپیش کر رہا ہوں، وہ قرآن کی روشنی میں پیش کر رہا ہوں۔ اگر ایسانہ ہو تو وہ اپنے لیے رسول اللہ کے حضور خود تجویز کرتے ہیں: گر دلم آئینہ بے جوہر است ور بحرفم غیر قرآں مضمر است پردۂ ناموس فکرم چاک کن ایں خیابان راز خارم پاک کن تنگ کن رخت حیات اندر برم اہل ملت را نگہدار از شرم روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا۱۹؎ ترجمہ: اگر میرا دل جوہر آبدار نہیں اور میرے اشعار میں قرآن کے علاوہ کچھ اور تحریر ہے تو اے اللہ کے رسولﷺ! آپ میرے فکر کے شرف کا پردہ چاک کر دیجیے اور خیابانِ (دنیا) کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجیے۔ میرے افکار کی حرمت ختم کر دیجیے اور اس گلشن کو میرے وجود کے کانٹے سے پاک کر دیجیے۔ لباس زندگی کو مجھ پر تنگ کر دیجیے اور ملت کو میری شاعری کے شر سے محفوظ رکھیے۔ مجھے قیامت کے روز خوار و رسوا کیجیے اور اپنی پابوسی سے محروم رکھیے۔ مظفر حسین لکھتے ہیں کہ اس زور دار اور واشگاف اعلان کے بعد یہ بات محتاج بیان نہیں رہتی کہ علامہ اقبال کے کلام اور فلسفے کو سمجھنے کے لیے قرآن سے رجوع کس قدر ضروری ہے۔ چونکہ قرآن ہی علامہ اقبال کے افکار و نظریات کا اصل جوہر ہے، اس لیے فکر اقبال کے فہم کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ ان خیالات و افکار کے اصل سرچشمے، یعنی قرآن کی طرف رجوع کیا جائے۔ … ہمیں علامہ اقبال کی فکر کو قرآن اور اسلامی روایات ہی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے ہٹ کر جو کوشش بھی ہو گی، وہ ہمیں کسی اور ہی سمت میں لے جائے گی، جو علامہ اقبال کا مقصود نہیں۔۲۰؎ ۱۹۲۷ء میں اقبال نے زبورِ عجم میں بھی اپنی اس روش کا اعادہ کیا ۔ فرماتے ہیں: نہ پنداری کہ من بے بادے مستم مثال شاعراں افسانہ بستم نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ بر من تہمت شعروسخن بست بہ جبریل امیں ہم داستانم رقیب و قاصد و درباں ندانم۲۱؎ ترجمہ: یہ نہ سمجھ کہ میں بغیر شراب کے مست ہوں اور شاعروں کی مانند محض افسانہ گوئی کر رہا ہوں، میں تو جبریل امیں کا ہم داستاں ہوں۔ میرا کوئی رقیب، قاصد یا دربان نہیں [بلکہ میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست فیض یاب ہوں] ظاہر ہے، وہ داستان جو حضرت جبریل نے سنائی تھی، وہ قرآن کریم تھا۔ اقبال کے بیشتر اشعار ایسے ہیں جن میں بلاواسطہ طور پر ، کسی آیت قرآنی یا حدیث نبوی کی طرف اشارہ ہے اور شاید ہی کوئی شعر یا نظم ایسی ہو، جس میں بالواسطہ طور پر قرآن، سنت یا تاریخ اسلام کا تذکرہ نہ ہو۔ قلب را از صبغۃ اللہ رنگ دہ عشق را ناموس و نام و ننگ دہ۲۲؎ ترجمہ: اپنے دل کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے اور عمل سے اپنے عشق کی عزت و وقار میں اضافہ کرلے۔ یہ قلب و ضمیر کو اللہ کے رنگ میں رنگنا صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَ مَنْ اَحَسْنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً (سورۃ بقرہ: ۱۳۸) [ترجمہ: رنگ اللہ کا چاہیے، اس سے زیادہ حسین و جمیل رنگ اور کیا ہو سکتا ہے] اور یہ اللہ کے نور سے دیکھنا کہ جس کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے ابن کثیر کی روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق ارشاد فرمایا: مومن کی فراست سے ڈرو، اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔۲۳؎ ایک مجلس میں ایف سی کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے اقبال سے پوچھا کہ تم جیسا پڑھا لکھا آدمی بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قرآن لفظ و معانی کے ساتھ محمدﷺ پر نازل ہوتا تھا؟ اقبال نے جواب دیا کہ یہ یقین کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ میرا تجربہ ہے۔ مجھ پر پورا شعر اترتا ہے تو پیغمبر پر پوری عبارت کیوں نہیں اتری ہوگی۔۲۴؎ قرآن سے استفادے کی صورتیں کلام اقبال میں قرآن سے استفادے کی تین صورتیں ہیں: اول: قرآنی آیات یا ان کے اجزا کو نظم کرنا، دوم: قرآنی مفاہیم کا براہ راست استعمال اور سوم: قرآنی مفاہیم سے اخذ و اکتساب۔ سب سے پہلے اقبال کے کلام میں قرآنی آیات یا ان کے اجزا کو دیکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اردو اور فارسی کلام سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں: جواب شکوہ کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے، جس میں قوت عشق سے دنیا کو زیر و زبر کرنے اور زمانے میں اسم محمد سے اجالا کرنے کا پیغام دیتے ہوئے اقبال سورۃ انشراح کی چوتھی آیت کے ذریعے اپنے خیال کو یوں منور کرتے ہیں: چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعتِ شانِ ’رَفَعْنَالَکَ ذِکرَْک‘ دیکھے۲۵؎ ضرب کلیم کی ایک نظم لاہور و کراچی، میں مسلمانوں کو اللہ پہ نظر رکھنے اور غیر اللہ سے منہ موڑنے کا درس دیتے ہوئے اقبال نے سورۃ قصص کی آیت ۸۸ کا ایک حصہ نظم کیا ہے ۔ دیکھیے: آہ! اے مردِ مسلماں تجھے کیا یاد نہیں حرفِ ’لا تَد￿عُ مَعَ اﷲِ الٰھاً آخر‘۲۶؎ اردو اشعار کی طرح اقبال نے فارسی کلام میں بھی قرآن سے براہ راست استفادے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سورۃ بقرہ کی آیت ۶۲ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْف عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo اقبال آیت ربانی کے مختلف الفاظ کو یوں استعمال کرتے ہیں کہ ہر جگہ ایک طرف آیات کی تفہیمی سطح بلند ہوتی ہے اور دوسری جانب خود اقبال کے اشعار جگمگا اٹھتے ہیں۔ رموزبے خودی کے ایک شعر اور بال جبریل کی ایک رباعی سماعت فرمائیے: قوت ایماں حیات افزایدت ورد لا خوف علیھم بایدت۲۷؎ عطا اسلاف کا جذبِ دُروں کر شریکِ زمرئہ ’لَا یحْزَنُوْں‘ کر خرد کی گُتھیاں سُلجھا چُکا مَیں مرے مَولا مجھے صاحِب جُنوں کر!۲۸؎ سورۃ آل عمران کی آیت ۹۲ (لن تنالوا البر حتی تنفقوا) کے دو الفاظ کو اقبال نے اسرار خودی کے ایک شعر میں اس خوبی سے باندھا ہے کہ شعر کی قرأت میں دو زبانوں کے صوتی امتیازات کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اقبال کہتے ہیں: دل ز حتی تنفقوا محکم کند زر فزائد الفت زر کم کند۲۹؎ بعض اوقات اقبال کسی مصرع کو ایک آیت سے بھی مزین کر دیتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ وہ مصرع بحرو قوافی کے اعتبار سے قطعاً اجنبی دکھائی نہیں دیتا۔ جاوید نامہ میں فلک قمر کے آخری بند کا شعر ملاحظہ فرمائیے اور داد دیجیے کہ ایک فارسی مصرع اور دوسرا عربی اور وہ بھی قرآنی زبان میں ، لیکن مجال ہے کہ شاعرانہ حسن یا حسن خیال پر کوئی گرد پڑی ہو: صرصری دہ با ہوائے بادیہ انھم اعجاز نخل خاویہ۳۰؎ اقبال کا فن شاعری پر دسترس کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے بعض ظریفانہ اشعار کو مزید پر اثر بنانے کے لیے بھی مناسب مواقع پر قرآنی آیت سے خوب خوب استفادہ کیا ہے، مثلاً سرمایہ داروں اور اشتراکیوں کے مابین کشمکش کو واضح کرنے کے لیے تین اشعار پر مشتمل ایک قطعہ کے دوسرے شعر میں سورۃ یونس کی آیت ۵۱ اور تیسرے شعر میں سورۃ انبیا کی آیت ۹۶ میں ایک لفظ کو بھر پور انداز میں استعمال کیا ہے: محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہو گئے دیکھیے ہوتا ہے کس کس کی تمنائوں کا خُون حکمت و تدبیر سے یہ فتنۂ آشوب خیز ٹل نہیں سکتا، وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنْ، ’کُھل گئے، یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ’یَنْسِلُوْنْ‘۳۱؎ اقبال کبھی مختلف سورتوں کے نام لے کر ان کے مفاہیم مراد لیتے ہیں، جیسے: گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں یہ سبھی سورۂ والشمس کی تفسیریں ہیں۳۲؎ طلسمِ ظلمتِ شب سُورۂ والنُور سے توڑا اندھیرے میں اُڑایا تاجِ زر شمعِ شبستاں کا۳۳؎ اور کبھی مکمل، نا مکمل آیات اور کبھی محض آیت کے کسی لفظ کو استعمال کر کے قرآن سے اپنے فکر کے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں محض چند آیات اور اس کے الفاظ درج کیے جاتے ہیں: لا یخلف المیعاد، (سورہ آل عمران:۹)، لیس للانسان الا ماسعی (سورۃ والنجم: ۳۹)، لا تخف (سورۃ طٰہٰ: ۶۸)، لا تذر (سورۃ نوح: ۲۶)، لا تقنطوا (سورۃ زمر: ۵۳)، قل العفو (سورۃ بقرہ: ۲۱۹)، یوم نحس مستمر (سورۃ قمر: ۲۶)، اٰتی الرحمن عبداً (سورۃ مریم:۹۳) اقبال کی شاعری میں قرآن سے استفادے کی دوسری صورت قرآنی مفاہیم کا براہ راست استعمال ہے۔ اقبال کی شاعری کا اکثر حصہ قرآنی مقاصد کی ترجمانی کرتا ہے، لیکن بعض اشعار مفاہیم قرآن سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں، مثلاً سورۃ فتح کی آخری آیت میں ارشاد ربانی ہے: مُحَمَّد رسول اللّٰہ، والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھی جو ہیں ، وہ کافروںپر سخت ہیںا ورآپس میں نرم دل۔ اقبال نے اس آیہ مبارکہ کو مختلف مقامات پر زیر نظر رکھا اور چار مقامات پر مختلف اندا ز میں اس سے اپنے مضمون کو مزین کیا۔ ملاحظہ فرمائیے چاروں اشعار: نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز۳۴؎ ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۳۵؎ جس سے جگَرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم دریاؤں کے دِل جس سے دہَل جائیں، وہ طوفان ۳۶؎ مَصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا۳۷؎ ایک اور شعر دیکھیے، جس میں سورۃ انفال کی آیت ۱۷ (وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی) کے مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔ ہاتھ ہے اﷲ کا بندئہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز۳۸؎ یا سورۃ رحمن کی آیت ۲۶ کے مفہوم…… کل من علیھا فان…… کو اس شعر میں ملاحظہ کیجیے۔ اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزِل آخر فنا۳۹؎ قرآن سے استفادے کی تیسری صورت قرآنی مفاہیم سے اخذ و اکتساب ہے۔ا یسی صورت میں وہ قرآنی آیات کا ہو بہو مفہوم دینے کے بجائے اپنے موضوع سے متعلق واقعے کو چن لیتے ہیں، جس کے ذریعے وہ اپنے خیال کو تقویت دیتے ہیں۔ چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں، جو اگرچہ قرآنی مطالب کے براہ راست حامل نہیں ہیں، لیکن ان اشعار کی دل کشی میں قرآنی واقعات و قصص کا وافر حصہ ہے۔ شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو۴۰؎ اے شمع! انتہائے فریبِ خیال دیکھ مسجودِ ساکنانِ فلک کا مآل دیکھ۴۱؎ کُنویں میں تُو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا ارے غافل! جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے ۴۲؎ جلوۂ یوسفِ گُم گشتہ دِکھا کر ان کو تپش آمادہ تر از خُونِ زلیخا کر دیں۴۳؎ پروانے کو چراغ ہے، بُلبل کو پُھول بس صِدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس۴۴؎ رہِ یک گام ہے ہمت کے لیے عرشِ بریں کَہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات۴۵؎ وہ سکُوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب جس سے روشن تر ہُوئی چشمِ جہاں بینِ خلیلؑ۴۶؎ خُونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی مُوسیٰ طلسمِ سامری۴۷؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر۴۸؎ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہَوس چُھپ چُھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں ۴۹؎ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی۵۰؎ عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل۵۱؎ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی۵۲؎ رہے ہیں، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا۵۳؎ کب تلک طُور پہ دریُوزہ گری مثلِ کلیم اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر۵۴؎ کرتی ہے ملوکیت آثارِ جنُوں پیدا اﷲکے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز۵۵؎ ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیِ شوق نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں۵۶؎ قلندر جُز دو حرفِ لا اِلہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہائے حجازی کا۵۷؎ صنم کدہ ہے جہاںاور مردِ حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے جو پوشیدہ لا الٰہ میں ہے۵۸؎ یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں ، لَا اِلٰہَ اِلاَ اﷲ۵۹؎ وہ علم اپنے بُتوں کا ہے آپ ابراہیم کِیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم۶۰؎ تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سِحرِ قدیم گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم۶۱؎ رِشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہَمن کا طِلسم عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد۶۲؎ کُھلتے نہیں اس قُلزُمِ خاموش کے اسرار جب تک تُو اسے ضربِ کلیمی سے نہ چِیرے ۶۳؎ خشک سازد ہیبت او نیل را می بد از مصر اسرائیل را۶۴؎ ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پُھوٹے خودی میں ڈُوب کے ضربِ کلیم پیدا کر۶۵؎ یہی ہے سِرِ کلیمی ہر اک زمانے میں ہَوائے دشت و شعیب و شبانیِ شب و روز!۶۶؎ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- غلام رسول ملک ، سرودِ سحر آفریں، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۷ئ۔ ص۱۴۳۔ ۲- خالد، جاوید اقبال، ’’حافظ برخودار رانجھا : حیاتی، فن تے فکر‘‘، مقالہ برائے پی ایچ ڈی پنجابی، پنجاب یونیورسٹی لاہور۔ ۲۰۰۲ئ۔ ، ص۵۳۳۔ ۳- بحوالہ حامد سعید اختر، ’’قرآن اور اقبال‘‘، مطبوعہ اقبالیات، جنوری-مارچ۲۰۰۲ئ۔ ۴- غلام رسول ملک ، سرودِ سحر آفریں، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۷ئ۔ ص۱۴۴۔ ۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۱۲۱۔ ۶- ایضاً، ص ۶۴۱۔ ۷- ایضاً، ص ۶۶۹۔ ۸- غلام رسول ملک ، سرودِ سحر آفریں، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۷ئ۔ ص۱۴۴۔ ۹- ڈاکٹر جاوید اقبال ، خطباتِ اقبال: تسہیل و تفہیم، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۷ئ۔ ص۵-۲۵۔ ۱۰- ایضاً، ص۴۷۔۴۸۔ ۱۱- مرحوم سید نذیر نیازی نے اپنے ترجمے میں یہ الفاظ لکھے ہیں: محمد عربی برفلک الافلاک رفت و باز آمد، واللّٰہ اگر من رفتے ہرگز باز نیامدے، دراصل یہ الفاظ ممتاز صوفی ابو سلیمان الدارانی (متوفی: ۲۱۵ھ) کے ہیں، جو اس طرح ہیں: لو و صلوا ما رجعوا۔ خود سید نذیر نیازی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انھیں حضرت گنگوہی کے اصل الفاظ نہیں ملے۔ انھوں نے انگریزی الفاظ کا فارسی میں محض ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ اعجاز الحق نے محولہ بالا اصل الفاظ بھی درج کردیے ہیں، جن کا حضرت گنگوہی نے ابوسلیمان الدارانی کے محولہ بالا عربی الفاظ سے اکتساب کیا۔ (وحید عشرت: تجدید فکریاتِ اسلام۔ لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۷ئ، دوم) 12- Iqbal, Muhmmad: The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Ed by M. Saeed Shaikh, p-99. ۱۳- بحوالہ الطاف احمد اعظمی ، خطباتِ اقبال: ایک مطالعہ، لاہور: دارالتذکیر، ۲۰۰۵ئ۔ ص۱۸۱۔ ۱۴- ایضاً، ص۱۸۱-۱۸۲۔ ۱۵- مولانا ابوالاعلیٰ مودودی: ’’حیاتِ اقبال کا سبق‘‘: سید ابواعلیٰ۔ مطبوعہ ہفت روزہ ، ایشیا، لاہور، ۱۵؍نومبرتا ۲۱؍نومبر ۲۰۱۲ئ۔ ۱۶- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۳۲۴۔ ۱۷- ایضاً، ص ۴۰۲۔ ۱۸- محمد منور، پروفیسر: مقامِ قرآن، علامہ اقبال کی نظر میں، مشمولہ ، محور، ۱۹۷۲ئ۔ ۱۹۷۳ئ۔ ص۳۰۔ ۱۹- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۱۶۸۔ ۲۰- مظفر حسین ، اساسِ فکرِ اقبال، لاہور: آل پاکستان اسلامک ایجوکیشنل کانگرس، س ن۔ ص۶۲-۶۳،۶۸۔ ۲۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۵۳۸۔ ۲۲- ایضاً، ص ۶۲۔ ۲۳- غلام رسول ملک ، سرودِ سحر آفریں، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۷ئ۔ ص۱۴۴۔ ۲۴- فقیر سید وحیدالدین ، روزگارِ فقیر، لاہور، ۱۹۶۶ئ۔ ص۲۱،۲۲۔ ۲۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۲۳۶۔ ۲۶- ایضاً، ص ۵۶۹۔ ۲۷- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۹۵۔ ۲۸- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۴۱۲۔ ۲۹- ایضاً، ص ۴۳۔ ۳۰- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۶۴۴۔ ۳۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۳۲۲۔ ۳۲- ایضاً، ص ۸۶۔ ۳۳- ایضاً، ص ۸۸۔ ۳۴- ایضاً، ص ۴۲۴۔ ۳۵- ایضاً، ص ۵۵۸۔ ۳۶- ایضاً، ص ۵۷۳۔ ۳۷- ایضاً، ص ۳۰۴۔ ۳۸- ایضاً، ص ۴۲۴۔ ۳۹- ایضاً، ص ۴۲۰۔ ۴۰- ایضاً، ص ۲۳۲۔ ۴۱- ایضاً، ص ۷۷۔ ۴۲- ایضاً، ص ۱۰۱۔ ۴۳- ایضاً، ص ۱۵۸۔ ۴۴- ایضاً، ص ۲۵۳۔ ۴۵- ایضاً، ص ۲۷۸۔ ۴۶- ایضاً، ص ۲۸۶۔ ۴۷- ایضاً، ص ۲۹۰۔ ۴۸- ایضاً، ص ۲۹۵۔ ۴۹- ایضاً، ص ۳۰۲۔ ۵۰- ایضاً، ص ۳۱۰۔ ۵۱- ایضاً، ص ۳۹۱۔ ۵۲- ایضاً، ص ۳۵۳۔ ۵۳- ایضاً، ص ۳۶۲۔ ۵۴- ایضاً، ص ۳۱۱۔ ۵۵- ایضاً، ص ۳۶۳۔ ۵۶- ایضاً، ص ۳۶۴۔ ۵۷- ایضاً، ص ۳۶۸۔ ۵۸- ایضاً، ص ۳۹۵۔ ۵۹- ایضاً، ص ۵۲۷۔ ۶۰- ایضاً، ص ۵۳۸۔ ۶۱- ایضاً، ص ۳۸۹۔ ۶۲- ایضاً، ص ۳۹۶۔ ۶۳- ایضاً، ص ۴۹۷۔ ۶۴- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۴۵۔ ۶۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۵۰۳۔ ۶۶- ایضاً، ص ۵۸۹۔ ـئ…ئ…ء اقبال کی شاعری: ایک سلسلۂ گفتگو ’’بال جبریل‘‘ غزل- ۲ مقرر احمد جاوید اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟ اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟ اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر مجھے معلوم کیا، وہ رازداں تیرا ہے یا میرا؟ محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی، زیاں تیرا ہے یا میرا؟ بال جبریل کے آغاز میں اقبال نے تین بڑے مضامین، تین موضوعات کو انسان مرکزی کے تصور کے ساتھ سیر کیا ہے۔ یہ بڑے مفاہیم کیا ہیں: خدا، کائنات اور انسان۔ یہ گویا تقدیری مضامین ہیں۔ بعض لوگ باقی دو اقلیموں کی سیر خدا مرکزی کے ساتھ کرتے ہیں، بعض لوگ کائنات کو مرکز بنا کر بقیہ دو کو دیکھتے ہیں۔ اقبال جہاں بھی ان تینوں اقالیم کو یکجا حالت میں بیان کریں گے، ہمیشہ انسان مرکزی کے زور کے ساتھ کریں گے، لیکن انسان مرکزی کا یہ زور انسان پرستی کے مکتب فکر والوں کی طرح نہیں ہو گا جن کے ہاں انسان تمام حقائق کی کسوٹی ہے۔ اقبال کے ہاں انسان مرکزی ان معنوں میں نہیں ہے، بلکہ انسان مرکزی ایک محفوظ مابعدالطبیعی، روایتی معنی میں ہے کہ انسان کو اپنی تکمیل کے لیے حق بھی درکار ہے، خلق بھی درکار ہے۔ اقبال اس تناظر میں اور اس بنیاد پر کلام کرتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد تکمیل آدم ہے۔ تکمیل آدم کے لیے دو چیزیں لازم ہیں: تصورِ حق اور تصورِ خلق۔ اقبال تصور حق میں کوئی کمی کیے بغیر اور تصور خلق میں کوئی بیشی کیے بغیر، دونوں کو انسان کی آدرشی صورت گری یا اس کے تصور کی تکمیل میں صرف کرتے ہیں۔ یہ اقبال کا مستقل انداز ہے جس میں کہیں کوئی استثنیٰ نہیں ملے گا۔ اس کا ایک نمونہ یہ غزل بھی ہے۔ پہلی غزل میں انسان اپنی حقیقت سے جڑ کے ظاہر ہوا ہے، دوسری غزل میں انسان اپنی حقیقت کو اپنی فعلیت سے جوڑ رہا ہے۔ انسان اپنی آدرشی حیثیت، اپنی حقیقت کے بیان کے ساتھ پہلی غزل میں ظاہر ہوا ہے۔ انسان اپنی idealization اور actualization کے ساتھ اس غزل میں آ رہا ہے۔ حقیقت اور واقعیت یا مثالی، آدرشی اور واقعی، عملی … ان دو چیزوں کو جوڑ دیں تو اقبال کی فکر کو محسوس کرنا اور سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ وہ انسان کا مثالیہ بنانے کے عمل میں اس کے عملی اور تاریخی وجود کو بھی شامل رکھتے ہیں۔ یہ غزل اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ غور فرمائیے کہ پچھلی غزل میں کائنات، انسان، خدا، تینوں اپنی مثالی صورت میں ہیں، اس غزل میں انسان، کائنات، اور خدا کا سہ گانہ بیان بہ اعتبارِ واقعیت ہے۔ پچھلی غزل میں جس کائنات کو آپ نے دیکھا وہ مثالی، آدرشی کائنات ہے۔ انسان مثالی ہے، بہ اعتبار حقیقت ہے، خدا کا بیان حقیقت الٰہیہ کا بیان ہے۔ یہاں تینوں اپنی صورتِ واقعی میں ہیں۔ اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا کسی اچھے نقاد نے اس غزل کے بارے میں ایک اچھی بات کہی ہے۔ وہ بات اگرچہ اس غزل کے حوالے سے کہی ہے مگر وہ اور چیزوں پہ بھی منطبق ہوتی ہے کہ اقبال کا ایک تو مخاطب بہت بڑا ہوتا ہے، اور دوسرے یہ کہ انہیں کسی بھی چیز سے کلام کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہوتا۔ کبھی پیڑ سے خطاب شروع کر دیتے ہیں، کبھی چاند سے، کبھی بچے کو مخاطب بنا لیتے ہیں، کبھی خدا سے تخاطب پیدا کر لیتے ہیں۔ یعنی جتنے موجودات ہیں، جتنے مراتب ہستی ہیں، اقبال سب کو اپنا مخاطب بنانے کا مزاج رکھتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے ایک مستقل مزاج کو سمجھنے کے لیے یہ بڑا اچھا نکتہ ہے۔ اس کے کچھ معانی ہیں جو ادبی تنقید کی محدودیت کی وجہ سے ہمارے ادبی نقاد بیان نہیں کر پاتے۔ یہ دریافت بڑی اچھی ہے، بہت معاون اور مددگار ہے کہ اقبال خدا کو بھی بے تکلفی سے مخاطب کر لیتے ہیں، لیکن اس اچھی دریافت کے ایک معنی ہیں۔ یہ مخاطبہ، خطاب کی ایک بہت بڑی روایت کا تسلسل ہے۔ اس کی اصل یہ ہے کہ اللہ، کائنات کے ساتھ کلام سے متعلق ہے۔ انسان بھی کلام ہی کے ذریعے سے متعلق ہے خدا کے ساتھ۔ یعنی کلام، خدا کی طرف سے بنایا ہوا وہ پل ہے جو دو چیزوں کو ان کے امتیاز کے ساتھ جوڑتا ہے۔ سوائے کلمے کے، سوائے کلام کے، دو چیزوں کو متعلق کرنے کا کوئی ایسا وسیلہ نہیں ہے جس میں ان کا امتیاز بھی محفوظ رہے۔ کیونکہ کلام امتیاز ہی کی اصل پر کلام بنتا ہے۔ اگر امتیاز حقیقی نہ ہو تو کلام وجود ہی نہیں حاصل کر سکتا۔ اقبال ایسے لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا اللہ! جس وسیلے کو آپ نے برتا ہے مجھ سے تعلق کے لیے، میں بھی اسی وسیلے کو ایجاد کر کے آپ سے تعلق کے لیے استعمال کروں گا یا اپنے غیر سے تعلق میں برتوں گا۔ یہ اس کی بڑی معنویت ہے۔ اس غزل میں دوسری چیز جو ملحوظ رکھنا درکا ر ہے، وہ معنی کی جمالیاتی تشکیل ہے۔ معنی کی جمالیاتی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ بعض معانی مستقل ہوتے ہیں، آفاقی ہوتے ہیں۔ ایسے مستقل آفاقی معانی میں طرح طرح کے لباس سے ملبوس ہونے کی صلاحیت اور گنجائش پائی جاتی ہے۔ جو چیز جتنی واحد و کامل ہو گی اتنا ہی اس میں تنوع کی سمائی پیدا ہو گی، اتنا ہی اسے دیکھنے کے مختلف تناظر قائم ہوں گے۔ چونکہ خدا، انسان، ان کے درمیان مکالمہ، زمینِ مکالمہ، یہ کائنات، یعنی اس بیانیے کے تمام بنیادی عناصر آفاقی اور مستقل معانی ہیں یا آفاقی معانی کے لیے ظرف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسان، خدا، کائنات۔ ان معانی میں اور ان کے درمیان تعلق کی بلند سطحوں پر اتنی آفاقیت اور مستقل پن پایا جاتا ہے کہ اس کے لیے مختلف تناظر کا قیام ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یعنی آفاقیت کے لیے وحدتِ تناظر، یک رخی نظر نا ممکن ہے۔ اگر معنی کلی کا تناظر کلی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ معنی اور تناظر ایک ہی ذات کا حصہ ہیں۔ اس سے اس غزل میں کچھ الجھنیں پیش آئیں گی ۔ یعنی یہ غزل اپنے لحن اور اپنے مزاج میں’’شکوہ‘‘ کی تکمیل ہے۔ وہ شکوہ مسلمان بن کے تھا، یہ شکوہ انسان بن کے ہے۔ تو اس میں آگے کہیں یہ الجھن پیش آئے گی کہ بندہ خدا سے اس طرح کیونکر مخاطب ہو رہا ہے! اس الجھن کو رفع کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ یہ نظر میں رکھا جائے کہ اللہ اور انسان کے درمیان تعلق کی بعض معنویتیں ایسی ہیں جن کے لیے زاویۂ نگاہ کوئی دوسرا بھی ہو سکتا ہے، جن کو تصور میں لانے کے لیے ایک دوسرا تناظر اور اس تناظر کا ایک نیا اظہار درکار ہے۔ یہ غزل ہمیں یہ سمجھا دیتی ہے کہ اقبال کے بعض مضامین اور مفاہیم کو اسی غزل میں کار فرما تناظر کی روشنی میں دیکھنا ہو گا، کسی اور تناظر کو اس پہ عائد اور وارد نہیں کیا جانا چاہیے، ورنہ غلط نتیجے تک پہنچیں گے۔ اس کی ایک عملی مثال لیجیے، کیونکہ یہ ایک نازک موضوع ہے اور اسے اچھی طرح ہماری گرفت میں آنا چاہیے۔ عملی مثال یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں۔ گویا ایک چیز گونج رہی ہے، میرے وجود کی سب سے قیمتی آواز یہ ہے کہ لا موجود الا اللہ۔ میرے علم کا منتہا یہ ہے کہ لا موجود الا اللہ۔ یعنی اس ایک خاص روایت میں رہ کر دیکھا جا رہا ہے، سوچا جا رہا ہے، لیکن اگر ہم اس بنیادی حال کو اس کی اخلاقی صورتوں میں استعمال کرنے لگیں، اور یہ کہیں کہ فلاں صاحب تو موجود نہیں ہیں، یعنی لا موجود الا اللہ پرتیقن کی ہر صلاحیت سے زیادہ یقین رکھتے ہوئے بھی ہم یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں صاحب موجود نہیں ہیں یا قرآن موجود نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم موجود نہیں ہیں۔ کیونکہ ہماری نظر میں موجود نہ ہونا ایک سطح، ایک مرتبے پر فضیلت ہے، لیکن اس موجود نہ ہونے کو آپ اگر دوسرے معیار و میزان پر رکھنا چاہیں گے تو وہاں یہ نقص ہو جائے گا۔ یعنی جس سطح موجودیت پر، جس مرتبۂ حقیقت میں اللہ موجود ہے، اس سطح پہ کوئی اور موجود نہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ ایک سطح وجود ہے جہاں ہمارا موجود نہ ہونا، ہماری حقیقت اور ہمارے لیے فضیلت ہے، لیکن جیسے ہی ہم مراتب میں خلط کرتے ہوئے کسی دوسرے مرتبے پر اپنے موجود نہ ہونے پر اصرار کریں گے، وہاں غلطی ہو گی۔ یہی وہ نقص ہے جسے مولانا جامی نے کہا: ہر مرتبہ در وجود حکمے دارد گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی۱؎ تو کہا یہ جا رہا ہے کہ ایک مرتبۂ مفاہیم پہ یہ باتیں بندگی کی انتہا ہیں، لیکن اگر ہم اس پر دوسرا قانونِ تصورات نافذ کر دیں گے، اور اسے ان باتوں کا معیار بنا لیں گے تو غلط نتائج تک پہنچیں گے، اور کہا جائے گا کہ یہ گستاخی ہے۔ محبوب ایسا ہو کہ اسے چھوڑنے یا بدلنے کا تصور بھی محال ہو تو اس محبت میں اگر شکوہ شامل نہ ہو تو وہ محبت نہیں ہے۔ شکوہ منتہائے وفاداری ہے۔ آپ محبوب ہیں اور میرے پاس یہ وسعت انتخاب ہے کہ آپ کی جگہ کسی اور کو محبوب بنا لوں، تو مجھے آپ سے کیا شکایت ہو گی! لیکن اگر میری تقدیر ہی یہ ہو کہ آپ ہی سے محبت کرنی ہے، تو اب شکوہ اگر نہ پیدا ہو تو میں نے آپ سے محبت کی ہی نہیں، اور شکوے میں بھی بنائے شکایت کیا ہے! یہ نہیں کہ تم بدل جائو۔ بنائے شکایت یہ ہے کہ مجھے تو بدلو! تو اس معاملے کو سرسری نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ’’انما اشکو بثی وحزنی الی اﷲ واعلم من اﷲ ما لا تعلمون‘‘۔ اور حزن بندگی کے احوال کی ماں ہے۔ کیفیت کے طور پر حزن کا قیام شکوے کی لہر میں بھیگے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسی اور باتیں بھی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ان معاملات کو بالکل نچلی سطحوں پر نہیں دیکھنا چاہیے، اس میں کچھ معنی ایسے آئیں گے جہاں معنی کی معروف تشکیل درکار نہیں ہو گی۔ وہاں معنی کی جمالیاتی تشکیل ضروری ہو گی۔ بعض لوگ شاید یہ کہیں کہ یہ غیر متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسا جان بوجھ کے کیا جاتا ہے، مقصود اظہار معلومات نہیں ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ بڑی چیزیں اپنا علم کم دیتی ہیں، اپنے علاوہ کا علم زیادہ دیتی ہیں۔ بڑی چیز کی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنا علم کم دے گی، اپنے ماسوا کا علم زیادہ دے گی۔ تو چونکہ یہ بہت بڑی چیزیں ہیں تو ان سے اگر ہمیں ان کے ماسوا کا علم بھی حاصل ہو رہا ہو تو اس کی ناقدری نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ وہ علم ان بڑی چیزوں کے ساتھ ہمارے متعلق رہنے کے لیے ضروری ہے۔ اب اس شعر کی طرف لوٹیے: اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا اگر کائنات میں فساد وجودی، اخلاقی اور تاریخی سطح پر غالب ہے تو اس کائنات پر اختیار کسے ہے؟ اے اللہ، تجھے یا مجھے! یہ دنیا زوال کی طرف لڑھکتی جا رہی ہے، اس زوال کو روکنے کی طاقت تو نے اپنے پاس رکھی ہے یا مجھے بھی دی ہے! مجھے تو نہیں دی، سو اب جس کے پاس زوال روکنے کی طاقت ہے، زوال بھی اسی کی طاقت سے پیدا ہو گا۔ جو ستاروں کی چال سیدھی رکھنے پہ قادر ہے، ستاروں کی چال میں ٹیڑھ بھی اس کی اسی قدرت سے پیدا ہو گی۔ اس شعر کو ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھیے۔ یہ جو ہم نے کہا تھا کہ بڑی شاعری بڑا اظہار ہے۔ بڑے اظہار کا ایک مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ تاثر کو تعقل سے زیادہ بامعنی بنا دے، اقبال کے الفاظ میں: دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے خاتمِ دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں۲؎ چونکہ یہ انہوں نے ابتدائی زمانے میں کہا تھا تو اس میں جیسے نظریہ سازی کی فضا زیادہ ہے، شاعری کم ہے۔ لیکن یہاں اس غزل میں تو انہوں نے برت کے دکھا دیا۔ اس غزل میں خصوصاً مطلع میں، تاثر کو تعقل سے زیادہ بامعنی بنا دیا گیا ہے ۔ اس میں احساس کو فہم سے زیادہ بامعنی بنا دیا گیا ہے ۔ بڑا اظہار فہم پر احساس کی فتح ہے، محسوس کا معقول پر غلبہ ہے۔ تو اس غزل کو اس نظر سے نہ دیکھیے کہ اس بات کا دوچار فقروں میں بیان ہو جانے والا مطلب کیا ہے۔ اس شعر کو اگر اس نظر سے دیکھیں گے تو دو چار فقروں سے آگے پھر آپ چل نہیں پائیں گے۔ اس شعر کو آپ دیکھیں کہ اس کے دو فقروں میں بیان ہو جانے والے معانی کی حسی شدت کتنی ہے۔ اس کی المیاتی معنویت کتنی ہے۔ شکوے کا پہلو تو ہے ہی۔ مثال کے طور پر میں آپ کو ایک مفہوم یا خیال بتاتا ہوں جو مضمون ہے، ایک بہت ہی بڑا مضمون ہے، جسے انسان عقلاً اور شرعاً رد کرنے کے باوجود اس سے پیچھا نہیں چھڑا پایا، یعنی جس کو رد کرنے کے لیے اس کے پاس قرآن ہے، اس کے پاس عقل ہے، اس کے پاس فلسفے ہیں، سب کچھ اس کے رد کرنے میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہے ہیں، لیکن اس کی استدلالی تردید اس مضمون یا تصور کے تاثراتی رسوخ پر غالب نہیں آئی۔ وہ مضمون ہے ’’انسان مجبور محض ہے‘‘ یعنی عقیدۂ جبر۔ اس کو آدمی اپنے اندر سے آج تک نکال نہیں سکا، اور نہ کبھی نکال پائے گا۔ یہ اس احساسِ جبر کا بیان ہے جس کو بیان کرنے والا بھی طرح طرح سے رد کرنے پر قادر ہے لیکن اس کو وہ اپنے اندر سے خارج نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اس کے وجود کی بناوٹ میں داخل ہے۔ انسان کی خلقت میں گندھا ہوا یہ احساس اس کے عقل کے فراہم کردہ تصورات سے کہیں زیادہ بامعنی ہے۔ اس طرح کے احساس زیادہ کلی نوعیت کے اور کہیں زیادہ گہرے اور شدید ہوتے ہیں۔ تو اس غزل میں اصل ٹکرائو یہ ہے کہ احساسِ جبر، عقیدۂ اختیار سے ٹکرا رہا ہے۔ اب اس ٹکرائو کو جتنا آپ محسوس کرنے کے قابل ہوں گے، اتنا اس غزل میں مزید غواصی کرنے کی صلاحیت پیدا کریں گے۔ اس کو سمجھیں کہ یہ معنی کی جمالیاتی تشکیل ہے، اور یہ غزل ایک علوی المیہ ہے، اعلیٰ سطح کا المیہ۔ اس غزل کی تمام معنویت المیے کے اس احساس میں ہے جو ذہن سے زیادہ ہماری خلقت کا حصہ ہے۔ آپ خود سوچیں اگر اقبال سے کہا جاتا کہ اس شعر سے جو جبر نظر آ رہا ہے، اس جبر سے نجات پانے کا کوئی ذہنی راستہ ہمیں بتا دیں، تو جو تین، چار، دس راستے ہیں وہ آخر تک ہمیں بتا دیتے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ وہ راستے اندھیرے سے دور تو کر دیتے ہیں، اندھیرے کی کشش ختم نہیں کرتے۔ وہ خود یہ بات جانتے ہیں اگر آپ نے اس بحث کو اس معنی میں لے لیا کہ یہ ایک غلط عقیدے کی ترجمانی ہے، تو وہ یہ عقیدہ رکھتے ہی نہیں۔ وہ تو پورے اختیار پہ کھڑے ہوئے تصورات رکھتے ہیں اور جبر میں گندھے ہوئے احساسات رکھتے ہیں۔ یہ اس آدمی کی غزل ہے جو اختیار پہ یقین رکھتا ہے اور جبر کو چکھے جا رہا ہے۔ اس ٹکرائو کو اس پہلو سے دیکھیے۔ بہرحال شعر کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کی بناوٹ میں بھی انتشار غالب آ رہا ہے اور انسان کا تاریخی وجود بھی زوال کی لپیٹ میں ہے۔ یعنی ایک خرابی ہے جو کائناتی پیمانے سے انسانی پیمانے تک مشترک ہے۔ اب اللہ کا فرمان تویہ ہے کہ اے بندے یہ خرابی تو دور کر۔ بندہ کوشش کرنے کے بعد اب اللہ میاں سے کہہ رہا ہے کہ مجھ سے تو نہیں ہو رہی۔ مجھے تو یہ سمجھ میں آیا کہ جہاں تیرا ہے یا میرا، آسماں تیرا ہے یا میرا، یعنی جو منبع ہے تغیر کا (آسمان روایت میں تغیر کا اصول ہے) وہ تغیر کا مصدر تیرے قبضے میں ہے، اور یہ دنیا، اپنے تغیرات کو قبول کرنے کی صلاحیت سمیت، تیری دی ہوئی ہے تو میں بیچ میں کہاں سے آ گیا؟ یہ رہی دنیا اور اس دنیا کی تقدیر و تاریخ، اس کو ازراہ کرم میرے ذمے نہ ڈال، کیونکہ تُو نے مجھے وہ سب صلاحیتیں دی ہی نہیں ہیں۔ مجھے اس امتحان سے نکال کے اس کو خود درست کرنا چاہے تو کر دے ورنہ جو تیری مرضی! یہ ہے اس شعر کا مطلب۔ اس مطلب کی بڑائی یہ ہے کہ یہ سب کچھ کا احاطہ کرتا ہے، یہ اپنے تمام کرداروں کا پورا احاطہ کرتا ہے، کائنات کا، خدا کا اور انسان کا، لیکن یہ احاطہ فکاہیہ، نشاطیہ نہیں ہے، المیہ ہے کہ چیزیں مکمل ہو کر زیادہ المیاتی ہوتی ہیں، نشاطیہ کم ہوتی ہے۔ اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟ یہ دو شعر جوڑے کی طرح ہیں، جیسے جڑواں بچے۔ ان دونوں میں تعلق یہ ہے کہ مکان میں ساری خرابی اور سارے نقائص اس لیے ہیں کہ اس میں تو نہیں ہے۔ یہاں ایک جملہ معترضہ عرض کر دوں کہ جو بڑی فکر اور قدرت کلام رکھنے والا آدمی ہوتا ہے، وہ تکے میں کچھ نہیں کہتا۔ اس کی افتاد ذہنی بن جاتی ہے کہ چیزوں کو بہت بڑے پیمانے پر مربوط انداز سے بیان کرے، اور یہ اقبال کا خاص الخاص امتیاز ہے کہ ان کے یہاں نظم اور ترتیب کی منطقی ضرورتیں بھی تخلیق کے اعلیٰ مظاہر میں کارفرما نظر آتی ہیں۔ یہ دو شعر ہیں جن کا جوہری مضمون ہے مکان اورلامکان۔ ایک زاویے سے اگر ہم دیکھیں تو مکان کو بھی انھوں نے مکان کہنے پہ اکتفا نہیں کی، مکان کی دونوں قوسیں بیان کی ہیں۔ مکان ایک دائرے کا نام ہے جس کی ایک قوس سماوی ہے اور دوسری قوس ارضی۔ سماوی: آسمان تیرا ہے یا میرا، ارضی: جہاں تیرا ہے یا میرا! مکان کا پورا احاطہ ہو گیا، مکان پورا آ گیا۔ دوسری طرف لامکاں اس دائرے کی طرح ہے جو قوسوں سے بنا ہوا نہیں ہے۔ تو اس میں تجزیہ نہیں ہے، لامکاں کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اب ان دونوں شعروں کا منظم حالت میں، مربوط حالت میں ایک مطلب ہے۔ اس مطلب کو ذہن میں حاضر رکھنے سے ایک بلندی پیدا ہو گی۔ وہ مطلب یہ ہے کہ مکان میں بھی کمی رہ گئی ہے، مکان بگاڑ اور فساد کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے، وہ اس لیے کہ اس میں تو نہیں ہے۔ اور لامکاں ایک اکتا دینے والی یکسانی اور ٹھہرائو میں بدل گیا ہے اور اس لیے کہ وہاں میں نہیں ہوں۔ آپ سمجھے نا کتنا نفیس مطلب ہے کہ مکاں کی کمی ہے کہ اس میں خدا نہیں ہے۔ لامکاں میں سناٹا ہے اس لیے کہ وہاں میں نہیں ہوں۔ یہاں کا ہنگامہ اس لیے ہے کہ یہاں خدا نہیں ہے، مکان کی قسمت بری ہے کہ یہاں ہنگامے ہی ہنگامے ہیں اور لامکاں کے ساتھ بھی کچھ اچھی نہیں ہوئی کہ وہاں سناٹا ہی سناٹا ہے۔ یہ ہے جمالیاتی شعور کا شعور حق میں بدل جانے کا عمل۔ جمالیاتی شعور جب مجموعی شعور کی تمام ضروریات کو مکمل کرنے کے در پے ہو جائے تو یہ دو شعر نکلتے ہیں۔ شعور کی ہر قسم کا ایک بنیادی حال ہوتا ہے، جمالیاتی شعور کا بنیادی حال ہے ’وفور‘۔ یعنی بند توڑنا۔ یہ وفور بعض مرتبہ شعر کی دوسری قسموں یعنی اخلاقی شعور، مذہبی شعور، عقلی شعور کے وہ تقاضے پورے کرنے میں جت جاتا ہے جن تقاضوں کو پورا کرنے سے وہ شعور عاجز آ چکے ہیں۔ جمالیات کہتے کسے ہیں؟ جمالیات کہتے ہیں Science of Presence، علم الحضور کو۔ جمالیات کی اس سے بہتر تعریف نہیں ہے۔ یعنی ’حضور‘ جمالیاتی شعور کا مرکزی اقتضا ہے۔ تو اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں حضور باری نہیں ہے، تو یہ گڑ بڑ ہو گئی ہے، اور وہاں حضور انسان نہیں ہے سو وہاں بھی حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ یہاں ’لامکاں‘ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اور لامکاں اسے کہتے ہیں جس میں ظرف میں بھی تفصیل نہ ہو، یعنی مکان بھی اجزاء سے مل کر نہ بنا ہو، اس کا تجزیہ نہ ہو سکے اور جس کا مکین بھی واحدِ محض ہو۔ یعنی جہاں مکانیت غیریت کے اصول پہ نہ ہو اور جہاں مکینیت کثرت کے اصول پہ نہ ہو، اس کو کہتے ہیں لامکاں، یعنی ذات الٰہیہ کا عالم۔ لامکاں کے یہ تو ہوئے نیم عرفانی معنی۔ لامکاں کا فلسفیانہ مطلب ہے زمان اور مکان اور نسبت و علاقات سے ماورا ہونا۔ زمان اور مکان کہہ دیا تو نسب و علائق سب خودبخود آ گئے۔ تو لامکاں وہ ہے جہاں ’غیر‘ موجود نہ ہو، جہاں دوسرا حاضر نہ ہو، جہاں دوسرا امکان ہی نہ رکھتا ہو۔ اب ’شوق‘ کسے کہتے ہیں۔ شوق کے لیے دوئی شرط ہے۔ تو کہتے ہیں کہ اللہ اپنے مکان میں جس یکسانی میں ہے وہ یکسانی اس کے غیر کے نہ ہونے سے پیدا ہوئی ہے۔ وہ غیر میں ہی ہوں جو اس یکسانی کو توڑ سکتا تھا۔ اے اللہ آپ کا اصطلاحی حب، آپ کی حسِ محبوبیت کی تسکین نہیں کرتا۔ وہ حب جو ہے نااللہ کا، کہ اللہ چاہتا ہے کہ لوگ مجھے پہچانیں، لوگ مجھے دیکھیں، تو کہہ رہے ہیں کہ وہ آپ کا جو اصطلاحی حب ہے وہ آپ کے جذبۂ محبوبیت کی تسکین اسی وقت کر سکتا ہے جب آپ لامکاں میں اپنے عاشق کو داخلے کی اجازت دیں۔ یہ دوسری منزل ہے اس شعر کے معنی کی۔ تیسری جو منزل ہے اس شعر کے معنی کی، وہ شوق کی معرفت ہے۔ شوق یعنی محبوب کی طرف لپکنے کا واحد اور قوی ترین جذبہ۔ شوق، حضور سے بھی تسکین نہیں پاتا۔ شوق وہ جذبۂ حصول ہے جو حصول پر بھی قانع نہیں رہتا۔ حصول سے اس کی نفی ہو جاتی ہے۔ اس میں ایک باریک بات یہ ہے کہ شوق حاصل تک پہنچ کر اس میں مراتب حصول ایجاد کرتے رہنے کا نام ہے، کہ اے اللہ آپ تو ابھی بہت کچھ چھپے رہ گئے اس وجہ سے کہ آپ نے مجھے شوق فی الحضور کا موقع ہی نہیں دیا۔ اگر آپ شوق فی الحضور کو اذن باریابی دے دیتے تو پھر آپ اتنا چھپے نہ رہتے، پھر میں اپنے آپ کو بھی دکھاتا کہ آپ کو پا کر بھی آپ کو پانے کے کتنے مراتب خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں! اور یہ بڑی باریک بات ہے، اس کو سمجھنا چاہیے کہ پا لینا، پانے کی امنگ کو بڑھائے گا تو پانے کی آرزو سچی ہے اور پا لینا اگر پانے کی امنگ کو ختم کرے گا تو وہ آرزو سچی نہیں ہے۔ لامکاں وہ ہے جہاں ’اور‘ ہمیشہ واقع ہو ’اور‘ کی ہمیشہ گنجائش ہو۔ لامکاں اصطلاح میں کہتے ہیں لاتعین کو۔ بنیادی اصطلاح ہے لاتعین۔ لاتعین جسے کسی طرح متعین، اسیر حدود اور پابند قیود نہ کیا جا سکے۔ یا اللہ! اپنا عشق دیا ہے اور اس تعین میں محدود اور محبوس اور محصور کر کے دیا ہے، جس تعین کو آپ نے خود فرما دیا ہے کہ یہ میں نہیں ہوں۔ تو میرے ساتھ کیا المیہ واقع ہوا۔ اس کو ذرا محسوس کریں تو اعصاب چٹخ جائیں گے۔ اے اللہ! مجھ سے شوق طلب کیا ہے، مجھ سے محبت طلب کی ہے اور میری محبت کو چند تعینات کا پابند رکھا ہے، اور ان تمام تعینات کے بارے میں مجھے یہ بھی بتا دیا ہے کہ میں یہ نہیں ہوں! اس سے بڑا المیہ ہو سکتا ہے کوئی۔ المیہ اصل میں کسے کہتے ہیں؟ المیہ وہ ہے جو واقعاتی اور کسی خاص صورت حال پر مبنی نہ ہو بلکہ وجودی ہو، اساس ہستی پر استوار ہو۔ تو یہ ہستی انسانی کا المیہ ہے۔ یا اللہ یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا، یہ میرے ہی ساتھ نہیں ہوا ہے یااللہ! یہ تو آپ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ یعنی المیہ ہی ایک قانون ہے۔ المیہ ادھر بھی ہوا ہے لامکاں میں بھی۔ کیوں ہوا لامکاں میں! کیونکہ اللہ کی محبوبیت کے غیر متعین رہنے کا دروازہ بند ہو گیا۔ اے اللہ اس وجہ سے آپ کی محبوبیت غیر متعین نہ رہی، آپ کی محبوبیت جو آپ کی ذات کا بہت ہی بڑا اقتضا ہے، اس کے غیر متعین ہونے کے راستے بند ہو گئے ہیں، تو اب بھی مہربانی فرمائیے اور میرے شوق کو اپنے لاتعین سے ہم آہنگ رکھنے کا کوئی سامان فرما دیجیے۔ یہ کوئی اس طرح کی احمقانہ بات نہیں کہ یا اللہ لامکاں کا دروازہ کھول کے اندر آنے کی اجازت دیجیے۔ یہ نہیں کہا جا رہا ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یا اللہ اپنی محبوبیت کے لاتعین ہونے کا ماحول پیدا کیجیے۔ میرے شوق کو اپنی ذات کے لاتعین کا حضور دے کر پوچھا جا سکتا ہے کہ تعین ہی سے تو تیرا میرا پیدا ہو رہا ہے، اگر لاتعین ہو جائے گا تو پھر میرا تیرا کہاں رہ گیا! اقبال کہہ یہ رہے ہیں کہ لاتعین کی، خود میرے اندر غیر متعین ہونے کی گنجائش موجود ہے، یعنی جو ماحول آپ کی ذات کا ہے وہی ماحول میں اپنی ذات کے لیے چاہتا ہوں، میں خود بھی غیر متعین ہونا چاہتا ہوں۔ آخری مطلب شعر کا یہ ہے کہ یا اللہ خود ہی غیر متعین نہ رہیے مجھے بھی غیر متعین کر دیجیے تاکہ ہمارے درمیان تعلق اپنی حقیقت کے ساتھ پیدا ہو جائے۔ اس کو ذرا دھیان سے پڑھیے گا تنہائی میں۔ رونا نہ آئے تو اس شعر کو آپ نہیں سمجھے۔ اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب، لامکاں تیرا ہے یا میرا اچھا، اس میں خطا کا لفظ بہت اہم ہے، اس سے خاصی الجھن بھی جنم لے سکتی ہے۔ عام ذہن فوراً یہ سمجھے گا اس سے کہ گویا ذات باری تعالیٰ کو خطاکار کہا جا رہا ہے (نعوذ باللہ)۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہاں اقبال نے ایک عجیب و غریب کمال دکھایا ہے۔ یہ لفظ جس معنی کے لیے وضع ہوا ہے، اس معنی کو اس لفظ میں سے خارج کر دیا گیا ہے، اور یہ لفظ جس تاثر کا ذریعہ ہے، اس تاثر کو برقرار رکھا گیا ہے۔ خطا کا لفظ جو ہے وہ ایک معنی رکھتا ہے غلطی کے، اور اس کی ایک تفصیل یہ ہے کہ جو غلطی کرے، وہ کامل نہیں۔ خطا کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ خطا سے ایک شکایت پیدا ہوتی ہے، اس شکایت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ خطا کے معنی کو رد کر کے، ختم کر کے اس لفظ کو استعمال کیا گیا تو یہاں یہ لفظ اپنے معنی اور مفہوم میں نہیں ہے، اپنے تاثر میں ہے۔ کسی شاعر کے لیے اس سے بڑا تمغا ممکن نہیں ہے کہ وہ لفظوں کو ان کے معروف معنی سے الگ کر دے یا معروف معنی سے متضاد معنی میں استعمال کر کے ان کے اصلی تاثر کو برقرار رکھے۔ جیسے اللہ سے شکوہ، یہاں شکوے کے معنی بدل گئے ہیں، تاثر برقرار ہے، تو خطا بھی اسی طرح استعمال کیا گیا ہے۔ مطلع کے پہلے مصرع میں ایک بڑا نادر جمالیاتی کمال پایا جاتا ہے جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ اس کی نشاندہی کر کے پھر آگے چلتے ہیں۔ ’’اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا‘‘ ---- اس کے جمالیاتی محاسن کی ایک اجمالی فہرست یوں ہے: پہلے تو اس تمثیل کی ندرت اور تازگی پر نظر کیجیے۔ یہ تمثیل سامنے کی چیزوں پر مبنی ہے لیکن اس کے باوجود تازہ کاری کی مثال ہے۔ یہ شاعر کا بہت بڑا کمال ہوتا ہے کہ دیکھی ہوئی چیزوں کو نئے انداز سے دکھا دے۔ ستارے اور آسمان ہزار مرتبہ کی شاعرانہ نگاہوں سے دیکھی ہوئی چیزیں ہیں۔ ہمارے شعر و ادب نے اپنی بہترین روایتِ تمثیل سازی میں ستاروں اور آسمان کو صرف کیا ہے۔ تو اتنی قوی اور رفیع الشان روایت میں شامل رہتے ہوئے، انھی اشیاء و عناصر میں کوئی انفرادیت اور تازگی پیدا کر دینا ہے جن پہ حافظ جیسے لوگوں نے کام کیا ہو، یہ بہت بڑی بات ہے۔ اب یہ جو پوری تصویر بن رہی ہے، اسے دیکھیے۔ انجم کا کج رو ہونا اور آسمان کا بساطِ رفتارِ انجم ہونا، اس کی جس انداز میں تصویر کشی ہوئی ہے، اس طرح پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ آپ ستاروں کا یہ تمثیلی ددروبست شاید کہیں اور نہیں دکھا سکتے۔ تمثیل سازی میں ندرت کا سب سے پہلا تقاضا ہوتا ہے تازگی۔ یہ تقاضا اس میں اعلیٰ درجے پہ پورا ہوا ہے۔ محاسن کلام میں سے دوسرا ہے، مناسبات لفظی میں قوتِ ایجاد سے کام لینا۔ مطلب یہ کہ تمثیل میں قوتِ اختراع سے کام لے کر دکھایا ہے اور مناسبات لفظی میں طاقت ایجاد صرف کر کے دکھائی۔ ایجاد سے یہ مراد ہے کہ نئی وضع و ترتیب سے نیا نتیجہ نکالنا۔ اس کو شاعری میں ایجاد کہتے ہیں کہ چیزوں میں نئے انداز کا تال میل پیدا کر کے اس سے نیا نتیجہ نکال دینا۔ یہ ایجاد ہے۔ تو اب آپ دیکھیے کہ ستارے اور آسمان شروع سے تقدیر کے مبحث میں کلیدی کردار رکھتے چلے آ رہے ہیں۔ اس میں ستاروں اور آسمان کے بیچ میں کسی نئی لفظی نسبت اور مناسبت کی کارفرمائی دکھا دینا بہت مشکل کام ہے۔ اس میں وہ کر دکھایا ہے۔ کس طرح دکھایا گیا ہے؟ ستارے گویا ایک نظامِ تقدیر کے کارکن ہیں، ایک عالم تقدیر ہے جس میں آسمان مرکزی حیثیت رکھتا ہے یعنی آسمان بساط تقدیر ہے اور ایک مزید مرکزی حیثیت یہ رکھتا ہے کہ وہ ستاروں کا مربی ہے۔ وہ تقدیر جو انسانوں کے لیے ایک تاریخ بنتی ہے، وہ ستاروں کی آسمان سے تربیت حاصل کر لینے کے نتائج ہیں۔ اب آپ دیکھیں یہ بات کہاں کسی نے کہی ہے؟ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ستارے گویا آسمان کے بچے ہیں۔ ستارے تاریخ کے اجزائے تعمیر ہیں اور آسمان کے تربیت یافتہ اور اس کے بچے ہیں۔ ان ستاروں کو چلنے کی مشق آسمان کرواتا ہے۔ تو ستارے آسمان سے تربیت پا کر زمین پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ستاروں کو سیدھا چلنا آسمان سکھاتا ہے۔ دوسرا پہلو اور ہے جو صرف لفظوں سے ایسا پیدا ہوتا چلا جاتا ہے کہ آپ کو ہرگز یہ احساس نہیں ہوتا کہ آپ یہ معنی لفظ میں ڈال رہے ہیں۔ اسے فنی اصطلاح میں کہتے ہیں کسی کردار کا ایک مربوط متوازیت پیدا کرنا۔ یہ خلاقی کا معجزہ کہلاتا ہے، یعنی ایک شعر میں اگر کچھ عناصر و کردار کارفرما ہو کر اس کے معنی کا سبب بنیں تو ان میں سے کسی کردار میں ایک ایسا دوہرا پن دکھا دیا جائے جو آپس میں غیر متعلق نہ ہو بلکہ مربوط ہو۔ ایسا دوہرا پن کہ جس کے دونوں اطراف ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حیثیت رکھتے ہوں، ایک دوسرے کو کاٹتے، رد کرتے ہوئے نہ ہوں۔ یہ دہرا پن متضاد ہو گا تو اس کے لیے اصطلاح ہے، ایہام۔ تو یہاں تکمیلی متوازیت پیدا کرنا، یہ بڑے شاعر کے علاوہ کسی شاعر کے بس کی بات نہیں۔ تو آسمان میں کیا مربوط متوازیت پیدا کی ہے۔ ایک طرف آسمان کو مربی بنایا ہے اسباب تکوین و تقدیر کا، یعنی ستاروں کا۔ دوسری طرف آسمان کو ستاروں کے لیے بساط رفتار بنایا ہے۔ یعنی آسمان ستاروں کا معلمِ رفتار بھی ہے اور بساطِ خرام بھی ہے۔ یہ دو اطراف یا کنارے ہیں اور آپس میں مربوط ہیں، ان کے درمیان وجہ ربط کیا ہے، ستاروں کی رفتار۔ ستاروں کی رفتار ہی سے اس کا معلم ہونا ثابت ہوا۔ ستاروں کی رفتار سے اس کا بساط ہونا ثابت ہو گا۔ یہ وجہِ ربط ہے۔ تو یہ فنی نکتہ ہے، لیکن اچھا ہے کیونکہ اقبال بڑی بات کہنے تک محدود نہیں ہیں، بڑی بات کو بڑائی کے اسلوب سے کہتے ہیں۔ تو جو شخص بڑائی کے اسلوب کی تحسین نہیں کر پائے گا، وہ اس بڑی بات تک ایک مفہومی رسائی حاصل کر لینے کے باوجود اس بات کے جوہر، یعنی اس کے کمالِ اظہار سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہے گا۔ تیسرا یہ کہ انھوں نے تقدیر کی روایتی مابعدالطبیعیاتی درجہ بندی یا مراتب کو بہت جیسے چلتے چلتے بیان کر دیا ہے، کسی طرح کا زور لگائے بغیر،کسی طرح کی تاکید پیدا کیے بغیر، اس کو گویا چلتے چلتے ایک ضمن میں بیان کر دیا۔ یعنی پورے عالم تقدیر میں کارفرما قانون کو گویا بہت سہولت سے ظاہر کر دیا۔ وہ یہ ہے کہ خدا، آسمان، ستارے، یہ تقدیر کے درجات ہیں۔ خدا آسمان کو پیدا کرتا ہے بنائے تقدیر کے طور پہ، آسمان، ستاروں کو جنم دیتے ہیں اسبابِ تاثیر کے طور پہ، اور ہم اور زمین اور ہماری دنیا ستاروں کے تحتِ تاثیر ہیں۔ یہ نظامِ مراتب ہے روایتی۔ اس شعر میںکیسی سہولت سے اس کو گویائی دے دی گئی ہے۔ یہ بھی ایک بڑی نشانی ہوتی ہے بڑی بات کی کہ اس کے بعض بہت بڑے نکات بیان کا منتہا اور مقصود نہیں ہوتے بلکہ بیان کے ضمن میں حاصل ہو جاتے ہیں۔ اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر مجھے معلوم کیا، وہ رازداں تیرا ہے، یا میرا یہاں کلیدی الفاظ دو ہیں: ’’صبحِ ازل‘‘ اور ’’راز داں‘‘۔ صبحِ ازل اس لمحے کو کہتے ہیں، اس عالم کو کہتے ہیں جہاں خیر و شر کو مستقل اقدار کے طور پر خلق کیا گیا۔ زیادہ واضح اور زیادہ مکمل لفظوں میں کہا جائے تو صبحِ ازل وہ ساعت ہے جس میں اقدارِ وجود کی تخلیق کی گئی۔ یعنی وجود کی تخلیق سے پہلے اقدارِ وجود خلق ہوئے ہیں۔ تو نفسِ وجود یعنی خود وجود کی تخلیق جن اصولوں پر ہوئی ہے، ان کی تشکیل صبحِ ازل میں ہوئی ہے، اور وہ اصول ہیں خیر و شر کے۔ یعنی بنائے وجود ان دو ستونوں پر ہے: خیر اور شر۔ تو یہاں کہا یہ جا رہا ہے کہ جب اصلِ شر کو ظہور دیا جا رہا تھا یا قائم کیا جا رہاتھا یا خلق کیا جا رہا تھا تو اس کے پیچھے جو مصلحتیںبھی کار فرماہوں گی، وہ تو میں نہیں جانتا لیکن اس اصل کے جو نتائج مجھے بھگتنے پڑرہے ہیں، وہ میںجانتا ہوں۔ دوسرا جو اس میں بہت مشکل لفظ ہے وہ ہے ’راز داں‘۔ یہ بہت مشکل کلمہ ہے۔ اس کو ہمیں خاصی گہرائی میں دیکھنا پڑے گا کہ شر کو ابلیس کی شکل میں متشکل کر کے فعال بنا دیا گیا۔ صبحِ ازل میں ابلیس کو مصدرِ شر یا اصولِ شر بنانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ کا راز داں تھا۔ یعنی حق نے اپنے اظہار، اپنے ادراک، اپنے اثبات کے دو راستے بنائے ہیں، دو اصول بنائے ہیں، وہ ہیں خیر اور شر۔ خیر کو جس کردار میں مجسم کیا گیا ہے، وہ بھی رازداں ہے تیرا، اور شر کو جس کردار میں ڈھالا گیا ہے، وہ بھی رازداں ہی ہونا چاہیے۔ کیونکہ حق، ادراک، اثبات یا تعلق کی کسی بھی قسم میں اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک آپ شر کا اصول realize نہیں کریں گے، جب تک آپ یہ دریافت نہیں کریں گے کہ حق کی شر کے ساتھ کیا نسبت ہے، اس وقت تک آپ کا حق کے بارے میں ہر تناظر غلط ہونے کی حد تک نامکمل رہے گا۔ یعنی خدا کا کوئی بھی تصور اس وقت تک لائق اعتبار نہیں جب تک اصول شر کو بھی اس کی طرف رسائی کا یقینی راستہ نہ بنایا جائے۔ یعنی اللہ کے اثبات اور ادراک کی یہ دو شرطیں ہیں۔ جس طرح ہمارے موجود ہونے کی یہ دو بنیادیں ہیں، اسی طرح اللہ کے ادراک اور اثبات کی بھی یہ دو شرطیں ہیں کہ ہم شر کو بھی اس کی طرف نسبت دینے کا شعور رکھتے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں رکھتے تو ہم شعورِ حق نہیں رکھتے۔ یعنی حق کا شعور اس جامع شعور کو کہا جائے گا جو حق کو بنیاد بنا کر شر کی تعریف متعین کر سکے۔ اس کو دوسری طرح میں کہتا ہوں کہ اللہ نے اصولِ وجود یا اقدارِ ہستی جو بنائی ہیں وہ مکمل انفعال کی بنیاد پر بنائی ہیں یعنی وجود کی اولین اقدار اور بنیادی اصول دراصل اللہ کے حضور میں مکمل انفعال کی نسبت رکھتے ہیں کیونکہ فعلیت کا ظہور، اقدار کی تشکیل کے بعد ہوتا ہے۔ یعنی اصول جیسے ہی وجود میں آتا ہے وہ انفعال کی حالت ہی میں وجود میں آئے گا۔ وجود میں آ کر اس میں فعلیت پیدا ہو گی۔ یہ بالکل سامنے کا مسئلہ ہے۔ تو اب یہ کہہ رہے ہیں کہ حق کے حضور میں جس قدر کو، جس کردار کو بھی مکمل انفعال نصیب ہے، وہ حق کا رازداں ہے۔ یہ ذرا مشکل ہے اس لیے اس کو طرح طرح سے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی مسئلہ یہ ہے کہ شیطان نے انکار کیا ہی کیوں؟ حکم کو ماننے سے شیطان نے انکار کیا ہی کیوں۔ کیونکہ شیطان تو اصولِ شر کو مجسم کرنے والا کردار ہے، وہ اصولِ شر جو تقدیر وجود ہے، جو وجود کے قیام میں اتنا ہی ضروری ہے جتنا خیر۔ تو اس نے یہ انکار کیوں کیا۔ مذہبی ذہن کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تو علامہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ انکار بھی اس نے نہیں کیا۔ وہ انکار اس نے جس سطح پر پہنچ کے کیا ہے، وہ سطح فعل کی نہیں، انفعال کی ہے۔ وہ انکار اس سے کروایا گیا ہے، وہ اس نے کیا نہیں ہے۔ تو اب رازداں کسے کہتے ہیں۔ دیکھیے ایک پہلو کیسا چمک کے نکلے گا اس میں سے۔ رازداں اُسے کہتے ہیں جو اپنے دوست کی اصل بات کو چھپا لے، خواہ اپنی بدنامی کی قیمت پر سہی۔ اسی کو رازداں کہتے ہیں۔ ایک مطلب رازداں کا یہ ہوا کہ اس نے حق کے امر وجودی کو چھپا لیا اور امر اخلاقی کی نافرمانی کر کے مطعون ہونا قبول کر لیا۔ حق کی حکمت امر میں یہ ہے کہ اے ابلیس تو امرِ وجود کو امرِ فعلی یا امرِ اخلاقی پر غالب رکھنا۔ یہ رازدانی ہے، کیونکہ حق نے اپنا یہ راز اسے بتا دیا تھا کہ میرے چھپے ہوئے امر کو، بیان کیے ہوئے امر پہ غالب رکھنا، اور خبردار اس کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے چاہے تجھے کتنا ہی مطعون اور مصیبت زدہ ہونا پڑے۔ تو شیطان نے کیا ایثار کیا۔ شیطان نے حق کے امرِ حقیقی کو راز کے طور پر محفوظ رکھا اور حق کے امرِ ظاہر کی نافرمانی اسی چھپے ہوئے امر سے مامور ہو کر کی اور اپنی بدنامی اور رسوائی اور تکلیف اور ہلاکت اور ملعونیت کی قیمت پہ کی۔ دوسرا پہلو رازداں کا یہ ہے کہ جو ہر حال میں حقیقت کو صورت پر ترجیح دے۔ صورت کے حقیقی ہونے کا انکار کیے بغیر وہ حقیقت کو صورت پر غالب رکھے، یعنی چھپی ہوئی مستقل بات کو ظاہر ہو جانے والی عارضی صورت پر ترجیح دے۔ تو آدم کا مسجود بنانا ایک عارضی واقعہ ہے۔ اللہ کا مسجود ہونا ایک دائمی حقیقت ہے۔ یعنی اللہ کا مسجود ہونا اتنا دائمی ہے کہ سجدہ کرنے والا نہ ہو تو بھی وہ مسجود ہے، لیکن آدم کا مسجود ہونا وقتی، ایک خاص صورتحال میں اور عارضی ہے۔ تو حقیقت یہ ہوئی کہ مسجودیت اللہ کی ازلی ابدی شان ہے۔ اور آدم کو ملنے والی مسجودیت عارضی ہے اور اس کی ملکیت نہیں ہے۔ تو اس کردار، یعنی ابلیس نے حقیقی مسجودیت یعنی مسجودیت کی حقیقت کو ترجیح دی مسجودیت کی عارضی صورت پر۔ یہ رازداں ہوا۔ رازداں کو آپ کھولتے چلے جائیں تو ہمارے تجربات، ہمارے اخلاقِ تعلق اس پہ دلالت کرتے چلے جائیں گے۔ تیسرا مطلب رازداں کا ہے کہ جو اپنے مالک کی ان کہی مرضی کو اس قانونی مرضی پر بھی غالب کر دے جو ظاہر کی گئی ہو۔ اور وہ اتنے ہی یقینی انداز سے اسے حاصل ہو، یعنی اس تک پہنچی ہوئی ہو، جتنے یقینی انداز سے بولی ہوئی مرضی ہے۔ تو شیطان نے اللہ کی ان کہی مرضی کو پورا کیا ہے۔ رازداں کون ہوتا ہے جو آپ کے اندر کی خواہش کو جانے، آپ کے لفظوں کا پیچھا نہ کرے۔ اب ہم یہ سب اسی شعر کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، مطلب یہ کوئی بیانِ عقائد کے انداز سے بات نہیں کر رہے۔ تو تیسرا مطلب رازداں کا یہ ہوا کہ جو خواہشِ ذات کو امر پر ترجیح دے۔ جو ذات کو امر پہ ترجیح دے، وہ رازداں ہے۔ کیونکہ رازداں ذات کا ہوتا ہے، ابلیس عارفِ ذات تھا، اس نے اپنے عرفانِ ذات کو امر، حکم پر ترجیح دی۔ مجموعی بات عرض کرتا ہوں کہ اللہ کا نظام کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کے امر کو اس کے فعل پر ترجیح دیتے چلے آتے ہیں، یعنی پوری بندگی نام کس چیز کا ہے؟ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ بندگی کیا ہے تو ہم کہیں گے اللہ کے امر کو اس کے فعل پر غالب رکھنا۔ یعنی فعل یہ ہے کہ اللہ نے شر بھی پیدا کیا، کفر بھی پیدا کیا، فسق بھی پیدا کیا، اس کے اسباب پیدا کیے۔ حکم یہ ہے کہ ان سے بچو! یعنی میری ہی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بچو۔ اس کو کہتے ہیں امر کو فعل پر ترجیح دینا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کا کوئی تصور ایسا ہے جو اسے صرف آمر اور فاعل تک محدود رکھے، کیا اللہ محض آمر اور فاعل ہے؟ تو اس کا جواب آئے گا کہ نہیں۔ اللہ ذات ہے، اور آمر و فاعل ہونا اس ذات کے دو اوصاف ہیں۔ تو ابلیس کیونکہ رازداں تھا اور ذات سے متعلق رہنے کا تجربہ رکھتا تھا، اور اس کے سارے احوال وہ تھے جو ذات کے حضور سے پیدا ہوتے ہیں، تو اس نے اپنے عقیدۂ حق کو آمر اور فاعل کی متوازیت تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس نے امر اور فعل دونوں پر ذات کو ترجیح دے کے دکھائی۔ یعنی اس کے انکار کا موضوع اللہ کا انکار نہیں تھا۔ اس نے اللہ کا انکار نہیں کیا، اس نے اللہ کے ایک حکم کا انکار کیا کہ وہ حکم اس کے اندر موجود الٰہِ مسجود کی شان میں رخنہ پیدا کر سکتا تھا۔ اس کو اللہ کی مسجودیت کی فضا میں اتنا تعطل بھی درکار نہیں تھا۔ اسے اللہ کی طرف یکسو ہو جانے کی حالت میں اتنا سا وقفہ بھی درکار نہیں تھا کہ وہ آدم یعنی غیر اللہ کی طرف رخ کر کے ایک سجدہ کر کے پھر یکسو ہو جاتا۔ یہ ساری باتیں ہم اس شعر کے بنائے ہوئے دائرے میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں۔ اس پہ ٹھیٹھ مذہبی نقطہ نظر فی الحال وارد نہ کیا جائے۔ اگر عقیدہ شعور کی بلند تر سطح پر اپنی مرکزیت رکھنا چاہتاہے تو اس کو فطری مذہبی شعور کے تمام مطالبات کو پورا کرنا پڑے گا۔ فطری مذہبی شعور کا جوہر ہے خیر و شر کیا ہے، تقدیر کیا ہے؟ یہ دو مسائل اعلیٰ مذہبی دانش کے دو بنیادی ترین مسائل ہیں۔ اور اگر مذہبی شعور اپنے عقیدے کو اپنی برترین سطحوں پر نہیں رکھے گا تو ان مسائل کے نتیجے میں اس کے اندر ایک ایسا انتشار پیدا ہو سکتا ہے جو عقائد کو خود اس کے لیے جبر بنا دے گا۔ اقبال کا عام انداز یہ ہے کہ وہ دینی مسلمات کو فطری مذہبی شعور کی اعلیٰ ترین سطحوں تک پہنچا کے دکھاتے ہیں اور وہاں بھی اسے اطمینان بخش بنا دیتے ہیں۔ تو یہ خیر و شر کا مسئلہ، یا ذرا عامیانہ لفظوں میں کہیں تو، شیطان کی حقیقت کا مسئلہ، یہ مذہبی شعور کا مستقل حصہ ہے۔ اس کو پستی میں ڈال کے حل کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ آپ کے عقائد کو خود آپ کے لیے کوئی قابل قدر چیز نہیں رہنے دے گا۔ تو اب یہ شعر اصل میں یہاں سے کہا گیا ہے۔ یہاں ابلیس کو کسی غیر مذہبی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جا رہا بلکہ ایک فطری مذہبی تناظر کے منتہا پہ پہنچ کر ابلیس کی حقیقت کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ ابلیس کو یہ قدرت کہاں سے حاصل ہوئی کہ وہ انکار کرے۔ اس کا ایک جو سرسری جواب ہے وہ یہ ہے کہ امر کے ساتھ ہی عالم ’’تکلیف‘‘ پیدا ہو گیا تھا۔ ابلیس کو کیونکہ عالمِ ’’تکلیف‘‘ یعنی فرمانبرداری کا تجربہ نہیں تھا، قانونی فرمانبرداری کا تجربہ نہیں تھا، اس لیے اس نے انکار کیا۔ اللہ نے اس کو امر دیا، مطلب ایک عالمِ تکلیف پیدا کر دیا۔ ’’تکلیف‘‘ ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے کسی حکم کو پورا کرنے کی صلاحیت، حقوق اللہ ادا کرنے کے لیے درکار ذمہ داری، اور اس ذمہ داری کو اٹھانے کی قوت۔ تو اللہ کا امر تعمیل کی دنیا کو پیدا کر چکا تھا۔ یہ ایک عامیانہ جواب ہے، لیکن اس کا جو دوسرا اشکال ہے وہ حل نہیں ہو سکتا، کہ اتنے بڑے پیمانے پہ جا کے جہاں سب اساسیاتِ وجود متعین کی جا رہی تھیں، وہاں شیطان نے اس ذات کے امر کا انکار کر دیا جس ذات کے حضور کا اسے فرشتوں کی طرح تجربہ تھا، اور اللہ نے اس کو یہ منصب دیا کہ فرشتوں کے لیے دیے جانے والے حکم کی تعمیل کے لیے اسے بھی مخاطب بنایا۔ اب اس سے کیا نکتہ نکلا کہ فرشتوں کو وسیلے کے طور پر مخاطب بنایا گیا۔ فرشتوں کو جو بھی خطاب ہو گا وہ تکلیفی نہیں ہو گا، تکوینی ہو گا۔ فرشتوں میں مادۂ نافرمانی نہیں پایا جاتا۔ تو فرشتوں کو ہر خطاب لزومِ تعمیل رکھے گا، ان کی ساخت کے مطابق ہو گا۔ تو اشکال یہ ہوا کہ شیطان کو کیوں پھر اس سے نکالتے ہو، جب تم فرشتوں کو وسیلہ مانتے ہو تو شیطان کو وسیلہ ماننے میں کیا چیز مانع ہے؟ یعنی فرشتوں کا جواب بھی، اللہ کی طرف سے طے کردہ تھا، شیطان کا انکار بھی اللہ کی طرف سے طے کردہ تھا۔ فرشتوں کو اس کے مطابق اس امر کے اقرار پہ ڈھالا گیا تھا، اسی امر کے انکار پر شیطان کی تخلیق ہوئی تھی۔ یعنی دونوں کا انکار اور اقرار ایک جیسی بے اختیاری کے ساتھ تھا۔ رازداں تو فرشتے بھی ہیں۔ تو پھر مخاطبوں کی جو جماعت مکلف نہیں تھی، تو شیطان کو اس غیر مکلف جماعت میں داخل کر کے ایک ہی خطاب کا مخاطب بنانا کچھ معنی رکھتا ہے۔ اس میں سے ایک مطلب یہ ہے کہ شیطان بھی امر کے ساتھ تعلق کی وہی نہج اور وہی ماہیت رکھتا تھا جو فرشتے رکھتے تھے، یعنی بے اختیاری، یعنی تسلیمِ محض۔ شیطان کا انکار ایک وہمِ ختیار سے پیدا ہوا۔ اسے اللہ نے فرشتوں کے مزاجِ بندگی کے ساتھ مناسبت پیدا کر لینے کا ایک انتہائی موقعہ دیا لیکن وہ اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھا سکا اور اپنی خلقت پر ایسا اصرار کرنے لگا کہ فرشتوں کو حاصل تسلیم و تعمیلِ محض تک پہنچنے کا راستہ اس پر بند ہو گیا، لیکن یہ بندش بھی اس کے اختیار سے نہیں پیدا ہوئی تھی بلکہ وہ حکم سے روگردانی پر جبر کی لطیف تعبیر کے مطابق مجبور تھا۔ یہاں ایک اور نکتہ بھی ہے جو میرے استاذِ گرامی مولانا محمد ایوب دہلویـؒ نے نکالا تھا۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ ابلیس نے فعل کو ترجیح دی امر پر۔ مولانا ایوب دہلوی فرماتے تھے کہ شیطان کا اصل جرم یہ ہے کہ اس نے فعل الٰہی کو امر الٰہی پر غالب کیا کہ مجھے آپ نے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ اور پھر اُس نے انکار کا سبب احترامِ توحید کے بجائے اپنی فضیلتِ خلقی کو بنایا۔ یہاں یہ خیال رہے کہ اس شعر میں ابلیس کو کسی اخلاقی نظر کا موضوع نہیں بنایا جا رہا۔ اس شعر میں ابلیس کو تقدیر کا فہم حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے کہ یااللہ ابلیس ہی سے میری تقدیرِ ہستی بنائی گئی ہے تو یہ جو ابلیس نے انکار کیا تھا، اس کی نوعیت کیا ہے؟ اس نے خود کیا تھا یا آپ نے کروایا تھا؟ اگر تقدیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو ابلیس کے انکار کو اس کی طرف منسوب نہ کرنے کا ایک مضبوط قرینہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ پورا نظامِ ہدایت اللہ کو آزمائش کی بنیاد پر بنانا تھا، اور ظاہر ہے اس کے لیے اصولِ خیر و شر کو فعال حالت میں تشکیل دینا ضروری تھا۔ شیطان کا انکار اس سکیم کو عمل میں لانے کے لیے درکار تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس کی ایک ایسی فرمائش پوری کر دی جو موجودات کی سب سے بڑی تمنا ہے، یعنی حصولِ بقا۔ یہاں یہ راز بھی کھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کائنات دو نظاموں پر چل رہی ہے: نظامِ تقدیر اور نظامِ عمل۔ شیطان نظامِ عمل کا تارک تھا لیکن نظامِ تقدیر کا عارف۔ وہ یہ جانتا تھا کہ میرا مالک جو دنیا پیدا کرنے جا رہا ہے اس میں میری حیثیت بہت مرکزی اور بنیادی ہو گی۔ ’راز داں‘ کے لفظ میں اس معنی کی طرف بہت واضح اشارہ موجود ہے۔ یعنی شیطان اللہ کی اس مرضی کو بھی جانتا تھا جو تقدیری اور تکوینی تھی، قانونی اور تشریعی نہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اصولِ آزمائش کے ساتھ ساتھ یہ دنیا ظہورِ حق کے ایک نظام پر بھی بنے گی۔ اس نظام میں بھی اس کا کردار بہت کلیدی ہو گا، اسے پہچانے بغیر حق کو نہیں پہچانا جا سکے گا۔ شیطان کے یہ سارے ’معارف‘ اس کے انکار کو قابل فہم بھی بنا دیتے ہیں اور یہ سمجھنے کا سامان بھی فراہم کر دیتے ہیں کہ خدا کی scheme of creation کو جاننے والا یہ وجود خود بھی اس سکیم کا ایک کردار تھا جس کے تمام حدود پہلے سے طے شدہ تھے، یہاں تک کہ جس عمل نے اسے مردود اور ملعون ٹھہرایا، س پر بھی وہ مجبور زیادہ تھا اور مختار کم۔ بہرحال، ’راز داں‘ کے کلمے کو ایک ذوقی وفور کے ساتھ بھی کھولنے کی ضرورت ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ اس کردار کو ’راز داں‘ یعنی راز دانِ حق بتایا جا رہا ہے جو منتہائے قرب پر بھی رہا اور انتہائے دوری پر بھی آ گیا۔ یہ متضاد انتہائیں ابلیس کے سوا کہیں اور جمع نہیں ہوئیں۔ ایسا تضاد، ذرا غور سے دیکھا جائے تو اللہ کے ساتھ تعلق کی تمام قسموں کا تقریباً احاطہ کر لیتا ہے کہ منتہائے قرب کا بھی حسی تجربہ ہو اور پھر دوری کی انتہا کو بھی بھگت رہا ہے۔ قرب کا تجربہ فراق سے گزرتے ہوئے بھی حسی تجربہ ہو اور پھر دوری کی انتہا کو بھی بھگت رہا ہو۔ قرب کا تجربہ فراق سے گزرتے ہوئے بھی اس پر غالب رہے گا۔ ابلیس ان معنوں میں راز داں ہے کہ اس میں گزشتہ احوالِ قرب موجودہ حالاتِ دوری پر غالب ہیں۔ تو اس شعر کا خلاصہ یہ ہوا کہ شیطان کے مقابلے میں کمزور اور بے بس ہو جانے والا آدمی اللہ سے ایک حالتِ اضطرار میں عرض کر رہا ہے کہ شیطان پر تیرے حکم نے اثر نہیں کیا تو میری کوششوں کا کیا اثر ہو گا۔ اس بات کو ایک بہت بڑے سوال کی شکل دے دی گئی ہے، ایسے سوال کی جس میں پورا جواب پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس جواب کی کچھ تفصیل ہم بیان کر چکے ہیں۔ اللہ کا حکم، ابلیس نے اللہ ہی کی مرضی سے توڑا تھا۔ یہ وہ نکتہ ہے جو انسانی شعور میں آ تو جاتا ہے مگر شعور اس کی توجیہ، تعلیل اور تجزیہ نہیں کر سکتا۔ محمدؐ بھی تیرا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں، ترجماں تیرا ہے یا میرا یہ شعر اس لحاظ سے بہت عجیب ہے کہ صراحت بھی پوری ہے اور ابہام بھی غضب کا ہے۔ اس میں زور ایسا ہے کہ پوری بات گویا قاری کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کے معنی ہمارے اندر ذہن کو ذریعہ بنائے بغیر جذب ہو رہے ہیں، لیکن دوسری طرف جب ذہن خود کو اس شعر کا مخاطب بناتا ہے اور اس سے وارد ہونے والی کیفیات کو کسی معنوی تنظیم اور مفہومی دروبست میں لانے کی کوشش کرتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ شعر میں کہی گئی بات کا اول و آخر پکڑ میں نہیں آ رہا۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس شعر کے احساساتی بہاؤ کو بھی دیکھیں اور اس مشکل کو بھی کھولنے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے یہ شعر واضح طریقے سے سمجھ میں نہیں آ رہا۔ سمجھ میں نہ آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس شعر میں بیان ہونے والی بات دماغ کے پلّے ہی نہیں پڑ رہی اور وہ اس سے کوئی مفہوم اخذ کرنے سے قاصر ہے۔ یہاں مشکل یہ ہے کہ یہ بات ذہن، خصوصاً مذہبی ذہن کے لیے پہلی نظر میں ایک اجنبی بات ہے جس سے وہ مانوس نہیں ہے۔ معنی میں اجنبی پن پیدا ہو جائے تو اس کی وجہ سے بھی ذہن کو غیر معمولی مشکل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اشکال ہے جو معنوی سے زیادہ لفظی ہے۔ اور وہ ہے ’حرفِ شیریں‘ اور پھر ’ترجماں‘ کے الفاظ۔ خاص طور پر ’حرفِ شیریں‘ کی مراد کو پانا خاصا مشکل لگتا ہے۔ تو گویا یہ دو مشکلیں ہوئیں، ایک لفظی نوعیت کی ہے اور دوسری معنوی۔ ان دونوں کو حل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ معنی کا اجنبی پن تو اس طرح دور ہو سکتا ہے کہ اس پورے بیان کو، اور اس بیان سے برآمد ہونے والے فوری معنی کو ایک سیاق و سباق فراہم کر دیا جائے، اس کو contextualize کر لیا جائے۔ اس سے امید ہے کہ ذہن کو اس معنی کے ساتھ مانوس ہونے کا راستہ مل جائے گا۔ اسی طرح لفظی دشواری کو حل کر لیا جائے تو معنی بالکل متعین اور صاف ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ شعر میں جس کیفیت کا وفور ہے اسے بھی یکسوئی کے ساتھ محسوس کر لینا آسان ہو جائے گا۔ ہم پہلے چھوٹی مشکل لیتے ہیں، بڑی کی طرف بعد میں جائیں گے۔ ’’حرفِ شیریں‘‘ یعنی عاشقانہ نفاست اور عارفانہ جذب سے وجود پانے والا کلام، نغمۂ محبت جس کی اٹھان کے ساتھ ساتھ محبوب کے اظہار میں بھی اضافہ ہوتا رہے اور عشق و عاشق کی تکمیل کا عمل بھی جاری رہے۔ ان معنوں میں ’’حرفِ شیریں‘‘ ایک پہلو سے خدا کے حضور میں عشق کا بیان ہے، اور دوسرے رخ سے خود اقبال کا کلام۔ اگر ’’میرا‘‘ نوعی ہے تو پہلا مطلب ٹھیک ہے، اور اگر اس شعر میں ’’میرا‘‘ انفرادی ہے، یعنی اقبال کا، تو دوسرا مفہوم درست ہو گا۔ ویسے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کلامِ اقبال، عشق کا اظہار ہی تو ہے۔ ’’یہ حرفِ شیریں‘‘ میں ’’یہ‘‘ کی ضمیر سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ اس بیان یا کلام کی نسبت انسان یا اقبال کی طرف ہے۔ اس ترکیب کو سمجھنے کی کنجی ’’یہ‘‘ میں ہے، اسے نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اس شعر کا معنوی اشکال جسے ہم نے بڑی مشکل کہا ہے، اس کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اور خدا اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں اقبال کے بنیادی تصورات کو پیش نظر رکھا جائے، انہی کی روشنی میں اس شعر کے مجموعی معنی طے ہو سکتے ہیں۔ اس باب میں اقبال کے تصورات کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کا وجود حقیقی ہے اور اس کی سند پر انسان کی ہستی بھی حقیقی ہے۔ وجود کے حقیقی ہونے کی دو ضروری بنیادیں ہیں: انفرادیت اور اس کا اظہار یا دوسرے لفظوں میں، خودی اور اس کی نمود۔ یہاں یہ خیال رہے کہ اظہار corresponding ضرور ہوتا ہے، اس کا کوئی مخاطب بھی ہوتا ہے، یعنی ایک کے اظہار کے لیے دوسرے کا ہونا ضروری ہے۔ ہاں، اظہار کا ایک مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے جہاں الگ سے کسی دوسرے کی حاجت نہیں ہوتی، صاحبِ اظہار خود ہی شاہد ہوتا ہے اور خود ہی مشہود۔ لیکن یہ درجۂ اظہار اس شعر سے غیر متعلق ہے، لہٰذا اس کی طرف نہیں جاتے۔ تو خیر، ہم یہ کہہ رہے تھے کہ خدا کا وجود حقیقی ہے اور اسی لیے انسان کا وجود بھی حقیقی ہے۔ خدا بھی اپنے غیر پر اپنا اظہار کرتا ہے اور اس کے لیے مستقل مظاہر بناتا ہے، اسی طرح انسان بھی خود کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے مظاہر تراشتا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو نظر آئے گا کہ خدا کے اظہار کا بڑا نظام انسان کے لیے ہے۔ اللہ نے انسان کی وجودی، ایمانی اور اخلاقی تکمیل اور رہنمائی کے لیے ایک مستقل نظامِ تعلق و ہدایت بنایا ہے تاکہ انسان اللہ کے ساتھ تعلق میں تسکین اور تکمیل کے مسلسل احوال میں رہے۔ اس نظام کے بنیادی کردار تین ہیں: محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، جبریلؑ اور قرآن مجید۔ اس نظام میں جو ایک طرح سے ظہورِ حق کا نظام ہے، انسان کے لیے ایک جگہ رکھی گئی ہے جہاں وہ ظہورِ حق میں تربیت پا کر خود اپنا اظہار کر سکتا ہے، اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو خود سے زبان دے سکتا ہے۔ تعلق باﷲ کے اس لا محدود دائرے میں انسان کی بندگی کا اظہار، انسانی خودی کی رونمائی بھی ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی خودی اس دائرے میں داخل ہوئے بغیر قابلِ اثبات ہو ہی نہیں سکتی۔ اس مقام تک پہنچ کر انسان ظہورِ حق کو اپنا جوہرِ اظہار بنانے کے لائق ہوتا ہے۔ اور یہی انسانی خودی کے لازمۂ اظہار کی واحد شرط اور اکیلی صورت ہے۔ اس مجموعی تناظر میں اس شعر کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ نے خود کو ان تین ذرائع سے انسان تک پہنچایا تو انسان نے بھی انہی تین ذرائع کو اپنی متاعِ ہست و بود بنا کر خدا تک رسائی کا ایک منفرد بیانیہ بنا کر دکھا دیا۔ یہاں آدمی کہتا ہے کہ یااللہ ان تین عظیم نعمتوں کے نتیجے میں آپ نے خود کو مجھ پر ظاہر کیا یا آپ نے خود کو ظاہر کیا۔ ایک دریچہ میں نے بھی اپنے اظہار کا کھولا ہے۔ اس دریچے کو بھی قبولیت عطا فرمائیے۔ جس طرح تین ذرائع سے آپ نے خود کو ظاہر فرمایا اسی طرح ایک ذریعے سے میں نے اپنے آپ کو اظہار دے رکھا ہے، میں نے اپنے آپ کو بندے کے طور پر اظہار دے رکھا ہے جس طرح آپ نے اپنی معبودیت کے مظاہر اور ذرائع اور وسائل بنائے اور مجھ تک پہنچائے، اسی طرح میں نے اپنی بندگی کے اظہار کا بھی ایک وسیلہ، ایک ذریعۂ اظہار بنایا ہے تو ازراہ کرم اسے قبول فرمائیے۔ اپنی معبودیت کے اظہار کے ساتھ میری بندگی کے اظہار کو بھی قبول فرمائیے۔ آپ نے تین کھڑکیاں کھولیں اور تینوں سے خود جلوہ فرما یا، میں نے بھی اسی طرح آپ کو دیکھ دیکھ کر ایک کھڑکی کھول لی ہے جس سے خود کو دکھا رہا ہوں، تو ازراہ کرم اس کھڑکی کی طرف آپ دیکھیے باقی تینوں کھڑکیوں سے میں نظر نہیں ہٹائوں گا۔ تیسرا انداز اس کا یہ ہے کہ یا اللہ میرے اور آپ کے درمیان تعلق کلماتی ہے یعنی کلام پر مبنی ہے۔ کلام کے اجزائے کلام ہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، جبریل اور قرآن۔ لیکن ایک تعلق ہے جس کا مصدر میں ہوں، جو مجھ سے شروع ہو کے آپ پہ ختم ہوتا ہے۔ وہ بھی کلمہ ہے۔ اس کلمے کا خالق میں ہوں۔ آپ کا کلام جس طرح اتر کے مجھے آپ سے متعلق رکھتا ہے اسی طرح میرا کلام عروج کر کے آپ کو مجھ سے متعلق رکھتا ہے۔ یہ ہے اس کا مطلب، کیفیاتی خلاصہ۔ شعر کے معنی یہ ہیں۔ اب اس کے لفظوں کو کھولیں تو اس میں علامتی تفصیلات زیادہ ہیں۔ ایک تو کلام والی بات یاد رکھیے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، جبریل اور قرآن، تینوں کلمے ہیں، اور اساس وجود ہیں … لیکن پہلے جو ایک لفظ غلط سمجھا جاتا رہا ہے جس کا مجھے تجربہ بھی ہے کہ اس لفظ کو غلط فہمی کی نذر کیا جاتا رہا ہے، وہ ہے ’’یہ حرف شیریں‘‘۔ بعض لوگوں نے یہاں تک اناڑی پن اور زبردستی دکھائی ہے کہ انہوں نے ’’حرف شیریں ترجماں‘‘ کو ایک ترکیب بنا لیا جو مہمل ہے۔ کیونکہ یہ ترکیب بن ہی نہیں سکتی۔ ’’شیریں ترجماں‘‘ کیا چیز ہوتا ہے؟ یہاں شیریں کے بعد وقف ہے، ’’مگر یہ حرفِ شیریں، ترجماں تیرا ہے یا میرا‘‘ کہ یہ حرفِ شیریں تیری ترجمانی کرتا ہے یامیری ترجمانی۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی آپ ہی کی ترجمانی فرماتے تھے، جبریل بھی آپ ہی کی ترجمانی فرماتے تھے، قرآن بھی آپ ہی کا ترجمان ہے، مگر یہ حرفِ شیریں جس سے میں کبھی فغاں کے رنگ میں، کبھی نشاطیہ آہنگ میں، کبھی شعور کی رو میں بہتے ہوئے، کبھی مجذوبیت کی لہرمیں تیرتے ہوئے نغمہ سرائی کرتا رہتا ہوں، یعنی کہ جو میرا کل مایۂ ہستی، اور جوہر اظہار ہے، یہ حرفِ شیریں ان تین سے الگ ہے۔ یہ حرفِ شیریں جو مجھے آپ کے حضور میں رکھتا ہے یہ حرفِ شیریں آپ کا ترجمان ہے یا میرا۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے آپ ظاہر، جبریل سے آپ ظاہر، قرآن سے آپ ظاہر، لیکن یہ جو نعرۂ عشق ہے اس سے میں ظاہر ہوں یا آپ! تو یہاں حرفِ شیریں کا مطلب ہے عشق، اظہار عشق۔ یہاں ایک اور بات سامنے آ رہی ہے جو پچھلی باتوں پر اضافہ ہے، حرف صرف اظہار نہیں ہوتا، جیسے کلمہ صرف اظہار نہیں ہوتا۔ کلمہ اس پیڑ کی طرح ہے جس کی جڑ بقیہ پیڑ سے بڑی ہوتی ہے۔ آپ اس کو ایسا پیڑ تصور کر لیں جس کی جڑ باقی پیڑ سے بڑی ہو۔ اللہ اپنے کلام سے جتنا مخفی ہے، اتنا ظاہر نہیں ہے۔ اس کا کلام اس کے اخفا کی پوری حفاظت کرتا ہے۔ تو حرف بھی اسی طرح کا ہے کہ حرف میں اخفا اور اظہار دونوں ملحوظ ہیں۔ تو یہ حرفِ شیریں ٹھیٹھ ترجمہ یا ایک نئی تعبیر ہے عشق کی۔ یہ جو میں عشق رکھتا ہوں اس عشق میں ترجمانی آپ کی ہے یا میری ہے۔ آپ جو جمال رکھتے ہیں وہ آپ کا ترجمان ہے، میں جو عشق رکھتا ہوں وہ میرا ترجمان ہے۔ اس بحث میں تو لوگوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر حرفِ شیریں کو انسان کی قوت گویائی، نطق وکلام کا مصداق کہنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی گنجائش بھی نکل سکتی ہے۔ ہم نے اس کے مختلف اظہارات بیان کیے، حزنیہ، نشاطیہ، فغاں، لیکن خود اس کی تہہ میں جو نفس کلام یا صفت کلام کا اعلیٰ ترین ظہور تمام کائنات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف انسان ہی کو نصیب ہوا ہے، بعض لوگوں نے حرفِ شیریں سے اُسے بھی مراد لیا ہے۔ لیکن نطق کہنے سے بات تھوڑا سا سکڑ جاتی ہے اور اس میں حق مرکزی باقی نہیں رہتی۔ اور اقبال خدا مرکزی کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔ حرفِ شیریں تیرے حضور میں کہ یہ جو میرا اظہار عشق تیرے حضور میں ہے اس کو بھی تو کچھ اہمیت دی جائے۔ تو یہ بات واضح ہے تا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، جبریل علیہ السلام کا میں خادم، قرآن کا میں تابع، میں ان حدود سے باہر موجود ہونے پر لعنت بھیجتا ہوں، لیکن انہی حدود میں جس وفور بندگی کے ساتھ میں کھڑا ہوں وہ وفور بندگی ایک حرف شیریں میں ڈھل گیا ہے۔ وہ حرفِ شیریں تو میرا اظہار ہے نا۔ کیا آپ نے اپنے ظہور کو مجھے ملیا میٹ کرنے کے لیے جاری فرمایا ہے۔ آپ کے ظہور کا ایک بہت قیمتی منشا یہ ہے کہ اس کا دوسرا سرا بھی ظاہر ہو جائے۔ تو آپ نے یہ سب کچھ مجھے چھپانے کے لیے نہیں بھیجا۔ دیکھ لیجیے میں نے ان تینوں سے آپ کی مراد اور منشا کے مطابق فائدہ حاصل کر کے یہ حرفِ شیریں ایجاد کیا ہے۔ اب تک کی گفتگو کا خلاصہ یہ نکلا کہ اللہ کے اظہار کے جو مستقل اور اٹل چینلز ہیں وہ نفسِ عبدیت کی تکمیل اور حقیقتِ بندگی کے اظہار کی بھی کلی اور ابدی بنیادیں ہیں۔ بندہ ان بنیادوں پر خود کو اپنی تمام جہتوں کے ساتھ ایک طرف تو اللہ کے ظہورِ ہدایت کو اپنے وجودِ بندگی میں جذب کرنے کے احوال سے روشناس ہو جاتا ہے تو دوسری طرف حق کے ان تین اصولِ ظہور کو جو اپنے اپنے تشخص کے ساتھ خود بھی ظاہر ہیں، اپنی بنائے اظہار اور نہایتِ اظہار بنانے کے بھی قابل ہو جاتا ہے۔ یعنی حق کے یقینی حضور میں رہتے ہوئے اپنا شعور اور اظہار بھی حاصل کر لیتا ہے، اور اس طرح خود کو نمودار اور حاضر رکھتے ہوئے بالواسطہ مظہرِ حق بن جاتا ہے۔ بالواسطہ سے مراد ہے کہ قرآن و سنت کو اپنا مادۂ تشکیل بنا کر اپنی معرفت اور اظہار کرنے والا بندہ درحقیقت حق کا مظہر بننے کے غیر متناہی مراحل طے کرنے کے عمل میں رہتا ہے۔ اس عمل کو جاری رکھنے والی قوت، یعنی وفورِ عشق، خود کو جس صورت میں اظہار دیتی ہے، وہ یہی حرفِ شیریں ہے ---- محبوب کو خوش کرنے اور رکھنے کی کاوش سے وجود پانے والا ایسا کلام جس میں خود عاشق بھی اپنی تمام آرزؤں اور احوال سمیت پورا سمایا ہوا ہے۔ اقبال اسی حرفِ شیریں کے باے میں اللہ سے التجا کر رہے ہیں کہ اسے سند دے دی جائے کہ یہ اسی طرح میرا ترجمان ہے جس طرح مثلاً قرآن اللہ کا ترجمان ہے۔ یوں میرا ہونا بھی حقیقی ہو جائے گا۔ اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا پہلے تو دیکھیے کہ تمثیل (image) میں کیسی تازگی ہے اور الفاظ میں کتنی چمک دمک ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کبھی کسی شاعر نے یہ کہا ہو کہ کوکب کی تابانی سے سارا جہان روشن ہے۔ یہ پورا منظر، اور اسے بیان کرنے کا اسلوب اردو شاعری کی روایت میں نایاب ہے۔ یہ ہماری روایت میں ایک ایسا اضافہ ہے جس کی اردو زبان محتاج تھی۔ اس طرح کے بیانیے سے زبان کی تخلیقی اور معنوی سکت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ بڑی چیز ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں زبان سے تشکیل پانے والے ذہنی prespective اور احوال و احساسات کے structures میں بھی بلندی اور پھیلاؤ پیدا ہوتا ہے۔ اس شعر کو پڑھتے یا سنتے ہی آدمی ایک ندرت، رفعت اور وسعت کے تجربے سے گزرتا ہے۔ کوکب یعنی بڑے ستارے کی تابانی سے کائنات کا روشن ہونا، اول تو یہی ہمارے ذہن میں کائنات کی پہلے سے بنی ہوئی تصویر کو بالکل مرکز میں جا کر بدل دیتا ہے، اور پھر یہ image لفظوں کے جس در و بست کے ساتھ بیان ہوئی ہے، وہ بھی ایک نئی چیز ہے۔ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے عرض کیا جا رہا ہے کہ یا اللہ! تو نے ساری کائنات مجھے یعنی انسان کو مرکز بنا کر ایجاد کی ہے۔ یہ پورا کارخانۂ ہستی میری مرکزیت پر چل رہا ہے اور میری مرکزیت کے قیام کے لیے ہی سارا جہان خلق ہوا ہے۔ مجھے ایسی مرکزی حیثیت دینے کے بعد اگر مجھے زوال کی نذر کر دیا گیا تو اس کا نقصان کسے ہو گا؟ تیرا بنایا ہوا یہ جہان میری ہی روشنی سے روشن ہے، اگر مجھی کو بجھا دیا گیا تو کس کی دنیا اندھیر ہو گی؟ اللہ کی جناب میں کی جانے والی اس عاجزانہ مگر زور دار عرض سے اقبال کا مدعا یہ ہے کہ اللہ انسان کی وجودی مرکزیت کو پھر سے سندِ قبول دے کر اسے زوال کی تاریکی میں گرنے سے روک لے اور قانونِ فنا کو، چاہیے تاریخی ہو یا تقدیری یا فطری، انسان پر بے اثر کر دے۔ یہ اس طرح کا شعر نہیں ہے جس میں مشکلات ذہنی ہوں۔ ذہن اس شعر سے جو مفہوم اخذ کر سکتا ہے وہ ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب اس میں خوبصورتی دیکھیے۔ ’کوکب‘ اور ’خاکی‘ میں تضاد ہے، اس تضاد کو انھوں نے استعارے سے رفع کیا ہے۔ استعارہ یعنی metaphor کی سب سے بڑی قسم وہ ہوتی ہے جہاں تضادات وحدت میں ڈھل جائیں۔ استعارہ کسے کہتے ہیں؟ کسی چیز کو دوسری چیزکہنا، کوئی تشبیہی لفظ اور کلمہ بیچ میں لائے بغیر۔ جیسے فلاں چیز پھول کی طرح ہے، یہ تشبیہ ہے، فلاں چیز پھول ہے، یہ استعارہ ہے۔ تو بعض مرتبہ دو چیزوں میں نسبت تضاد کی ہوتی ہے یعنی زمین اور آسمان۔ کوئی شخص اگر آ کر یہ کہنے کو قابل قبول بنا دے کہ زمین آسمان ہے یا آسمان زمین ہے، تو گویا اس نے استعارے کی بہترین صلاحیت کو استعمال میں لا کے دکھا دیا۔ اور ویسے بھی انسان کا سب سے بڑا کمال اور حاصل حلِ تضادات ہے۔ تو آدم خاکی ہے مگر کوکبِ کائنات ہے۔ اس کا خاکی ہونا اسی طرح ہے جیسے ایک دائرے کا مرکز دائرے کی سطح سے نیچے واقع ہوتا ہے، لٹو کی طرح۔ یعنی کائنات میں مرکزیت لٹو کی شبیہ میں ہے کہ لٹو کی گولائی اوپر ہے، دائرہ اوپر ہے اور اس کا مرکز یعنی جس پہ وہ کھڑا ہوتا ہے، وہ نیچے ہے دائرے سے۔ تو آدم خاکی ان معنوں میں مرکز کائنات ہے کہ یہ واقعے میں دائرے سے نیچے موجود ہے لیکن یہ نیچے اس لیے موجود ہے کہ اس دائرے کو تھامے۔ یہ کوکب کہہ کے انہوں نے بتا دیا۔ اس میں ایک اور معنوی حسن ہے ----- آپ مطلعے کے نجوم اور اس کوکب کو ملا کر دیکھیں۔ کوکب کا لفظی مطلب ہوتا ہے بڑا ستارہ۔ تو اوپر ’نجوم‘ جو ہیں وہ آلاتِ تقدیر تھے، یہاں یہ کوکب تقدیر گر ہے۔ یعنی ستارہ تقدیر گری کی قوت اخذ کرتا ہے آسمان سے۔ یہ بندۂ خاکی جو ہے وہ تقدیر سازی کرتا ہے۔ کوکب تقدیرات اخذ نہیں کرتا، تقدیرات پیدا کرتا ہے۔ اور اس معنی کو اور تاکیدی بنا دیا ’آدم خاکی‘ کہہ کے کہ اس کا آسمان یعنی مربی نجوم سے محتاجی کا تعلق نہیں۔ یہ تقدیر گری سیکھتا نہیں ہے، کرتا ہے۔ ایک بات اور کہہ دوں کہ کائنات کی وجودی واقعیت نظامِ تقدیر سے ہے لیکن کائنات کی وجودی حقیقت اور رفعت انسان سے ہے۔ اس کائنات کی پرورش یا اس کائنات کی فنا و بقا کے محرک یا بانی اور موجد کے طور پر اللہ کی تقدیرات دو طرح کی ہیں۔ ایک تقدیر واقعاتی ہے کہ یہ چیز ابھی تھی اور ٹوٹ گئی، اور ایک ہے، موجود کو اس کی حقیقت تک پہنچانے والا نظام۔ یعنی ایک نظام ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ موجودات کی صورت کو برقرار رکھا جائے یا فنا کر دیا جائے، یعنی اس نظام کا تعلق موجود کی صورت سے ہے، جبکہ دوسرے نظام تقدیر یعنی اندازۂ وجود کا تعلق موجود کی حقیقت سے ہے۔ تو تقدیرِ صورت میں مرکز آسمان اور ستارے ہیں، تقدیرِ حقیقت میں مرکز انسان ہے۔ تو یااللہ اگر میں نہ رہا تو کائنات اگر صورت میں برقرار بھی رہی تو حقیقت سے تو خالی ہو جائے گی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی چیز حقیقت سے خالی رہ جائے گی تو اس کا مطلب ہوتا ہے اللہ سے منسوب ہونے کے قابل نہیں رہے گی۔ یہیں سے ایک نکتہ پیدا ہوتا ہے: کائنات ہو یا انسان، ان کے وجود کے دو قوانین اور حدود ہیں۔ ستارے وغیرہ وجود کے تقدیری نظم کے کارکن ہیں، لیکن وجود کا ایک تحقیقی جوہر یا مصرف بھی ہے، جو اس کی اصل ہے، یعنی حق سے نسبت کی صلاحیت اور حالت۔ اسے تحقیق کہتے ہیں، یعنی حق کا اصلِ وجود بن جانا۔ تو اس شعر سے ایک معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ اگر انسان زوال کی لپیٹ میں آ گیا تو وجود اپنے مدارِ تحقیق سے ہٹ جائے گا۔ اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن۔ یعنی کہ یہ انسان ہی ہے جو تیرے جہان کو تیری علامت اور تیرا مظہر بننے کے قابل رکھتا ہے۔ اس سے پھیلنے والی روشنی ہر شے کو تیرا مظہر بناتی ہے، یعنی ہر شے کے ادراک کو تیری معرفت کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔ اگر یہ روشنی بجھ گئی تو اس کائنات کی تحقیقی بنیاد ڈھ جائے گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ آدمی، کائنات اور خالقِ کائنات کے درمیان ایک فعال برزخ کا کردار ادا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس کردار میں اگر کوئی خلل آ گیا تو کائناتی شعور میں بھی اندھیرا پھیل جائے گا اور وجود کی فضا بھی بے حقیقتی کی دھند سے بھر جائے گی۔ آپ دیکھیں نا کہ تابانی کوکب، نجوم، آسمان، آدم خاکی، جہان، کتنے سارے لفظ ہو گئے ہیں ان چند شعروں میں۔ یہ سب لفظ اقبال کی ٹکسال میں ڈھل گئے ہیں۔ اب یہ لفظ سنتے ہی جس آدمی کا تصور سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے وہ اقبال ہے۔ زبان پر ایسی حکومت کرنا، خیالات پر حکومت کرنے سے بڑی چیز ہوتی ہے، کیونکہ لفظ میں ایک عمومیت ہے، خیالات تو ذاتی بھی ہوتے ہیں۔ تو ذاتی باتوں میں کچھ ندرت پیدا کر کے ان کو اپنا مال بنا لینا آسان ہے، لیکن جس چیز پر سب کے ہاتھ پڑتے ہوں، اس پر اپنے ہاتھ کو سب پہ غالب کر دینا، یہ بہت بڑی بات ہے۔ جس پیڑ پہ ایک دنیا کے دستخط ہوں، اس پیڑ کو اپنے نام سے منسوب کر لینا، یہ بہت بڑی قدرت ہے۔ اب آپ دیکھیں کتنے لفظ ہیں، کتنے سارے لفظ ہیں جو آپ جہاں بھی سنیں گے اقبال کی طرف ذہن جائے گا۔ اور خدا، کائنات اور انسان تینوں کے بارے میں جو بنیادی الفاظ ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد گویا اقبال کی ٹکسال سے نکلے ہوئے سکوں کی طرح ہیں۔ ’’خدائے زندہ‘‘ اب یہ سنتے ہی آپ کو اقبال کا تصور ذہن میں آئے گا۔ ’’آدم خاکی‘‘ سن کر فوراً اقبال ذہن میں آئیں گے۔ اسی طرح بہت سارے لفظ ہیں کائنات، جہان رنگ و بو، عالم دیر و زود اب یہ سب کہاں ہیں کسی کے پاس۔ تو جو ہماری بنیادی چیزیں ہیں ان کے بارے میں اصطلاحات کے ایک انبار کواپنی ملکیت بنا لینا، یہ بہت بڑی بات ہے۔ تدوین: محمد سہیل عمر فرہنگ کج رو: ۱۔ ٹیڑھی چال والا۔ ۲۔ سیدھی راہ نہ چلنے والا۔ ۳۔جو کسی ضابطے کی پابندی نہ کرے۔ ۴۔ بگاڑ پیدا کرنے والا۔ ۵۔ سرکش۔ انجم: ۱۔ستارے۔ ۲۔ ستارے جن کی چال دُنیا پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ۳۔ نظامِ تکوین کے فعال عناصر۔ لامکاں: ’مکاں‘ کی ضد جو جہات سے پاک ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کا عالم۔ اُسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا یعنی: ۱۔ اللہ کے حکم کے باوجود ابلیس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ اُس میں یہ ہمت کہاں سے آئی؟ یہ ایک ایسا راز ہے جسے اللہ جانتا ہے یا خود ابلیس۔ آدم بچارہ متاثرہ فریق ہونے کے باوجود بے خبر ہے۔ ۲۔ شیطان کو اللہ کا رازداں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ: ا) اللہ کی معرفت رکھتا ہے۔ ب) تقدیر کے اسرار سے آگاہ ہے۔ ج) تخلیقِ آدم کے پورے منصوبے میں ایک فعال کردار رکھتا ہے۔ د) اللہ کے قرب کا طویل تجربہ رکھتا ہے۔ ر) معتوب ہونے کے باوجود موحد ہے اور اللہ کی رضا پر راضی۔ ز) بندوں کے احوال‘ افعال اور انجام کا خداداد علم رکھتا ہے۔ س) اختیار کی حقیقت کا عالم اور معلّم ہے۔ محمدؐ بھی ترا‘ جبریل بھی‘ قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا یعنی: ۱۔ تیری ترجمانی کے لیے تو محمد ﷺ بھی ہیں‘ جبریل بھی ہیں اور قرآن بھی۔ آخر میرا بھی تو کوئی ترجمان ہونا چاھیے! سو یہ نوائے شوق اور جذبۂ عشق ہی وہ چیز ہے جو تیری جناب میں میری ترجمانی کرتی ہے۔ ۲۔ رسول ﷺ‘ جبریل اور قرآن سے‘ تو ظاہر ہے‘ اور یہ نغمہ محبت جو میرے سینے سے بلند ہو رہا ہے‘ میرا اظہار ہے۔ ۳۔ وحی تیرا پیغام ہے میری طرف اور یہ حرفِ شیریں جو میرے دل سے برآمد ہوا ہے‘ میرا جوابی پیغام ہے تیرے حضور میں۔ ۴۔ مانا کہ پورا عالمِ وجود تیرا ہی مظہر ہے‘ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جذبۂ عشق میں جو میرے حرف حرف میں سمایا ہوا ہے‘ کس کا ظہور ہے؟ تیرا یا میرا یا دونوں کا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ محبت ہی نے تجھے بھی ظاہر کیا ہو اور مجھے بھی! محمد (ﷺ): ۱۔ رسولِ اکرم ﷺ۔ ۲۔ خدا کا آخری‘ ابدی اور عالم گیر پیغام لانے والے پہلے اور آخری نبی۔ ۳۔ آپ ﷺ کی ذات سے حق کا تفصیلی اور حتمی ظہور ہوا۔ حق کی کوئی ایسی صورت یا معنی جس کی سند آپ ﷺ سے نہیں ملتی‘ وہمِ باطل ہے۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ پر ایمان لائے بغیر توحید کا دعویٰ بھی ناقص ہے چاہے وہ گزشتہ شرائع کی بنیاد پر ہو یا عقلی دلائل کی اساس پر۔ ۴۔ تمام مکلف مخلوقات کے لیے مستقل مدارِ نجات و وصول الی اللہ۔ جبریل: ۱۔ انبیاء علیہم السلام پر وحی لانے والے اللہ کے مقرب ترین فرشتے۔ ۲۔ اللہ کا آخری پیغام‘ آخری نبی کو پہنچانے والے۔ ۳۔ ’’قرآنِ مجید نے جبریلِ امین کو روح القدس (پاک روح)‘ روح الامین (فرشتۂ معتبر)‘ ]الروح[‘ رسولِ کریم (پیغام برگرامی قدر)‘ ذومرّۃ (زور آور یا حسین)‘ ذی قوۃ (صاحب ِ طاقت)‘ شدید القویٰ (سخت قوتوں والا)‘ مکین (مرتبے والا)‘ مطاع (سب کا مانا ہوا)‘ امین (با امانت) جیسے گراں قدر اوصاف سے متصف کیا ہے اور ان سے عداوت کو خدا سے عداوت کا سبب بتاتا ہے۔‘‘ (’’لغات القرآن‘‘، مولانا محمد عبد الرشید نعمانی‘ جلد دوم‘ ص ۲۴۱‘ ندوۃ المصنّفین دہلی‘ طبع اوّل ستمبر ۱۹۴۵ئ) حرفِ شیریں: ۱۔ میٹھا کلام۔ ۲۔ نوائے شوق‘ نغمہء محبت‘ ترانۂ عشق۔ ۳۔ عاشق کا خطاب جو محبوب کو خوش کر دے۔ ۴۔ جمالِ محبوب کی حکایت۔ ۵۔ کلامِ اقبال۔ ـئ…ئ…ء زندگی مضمر ہے تیری شوخیِ تحریر میں ڈاکٹر طاہر حمید تنولی زندگی کی اساس ریاضیاتی نہیں بلکہ امکاناتی ہے یعنی زندگی تعینات کا نہیں امکانات کا نام ہے۔ فلسفہ و حکمت ہو یا جدید سائنسی انکشافات(۱)، یہ ہمیں زندگی کے اس پہلو کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ’تقدیراتِ حق لاانتہا‘ ہیں(۲)۔ ایک با بصیرت شخص زندگی کے مخفی اور ان گنت امکانات کو دریافت کرتا اور انہیں بروئے کار لاتا ہے۔ غالب جیسا نابغہ اس وصف سے بکمال متصف ہے کہ زندگی کو جتنی دقت نظری اور جامعیت سے غالب نے دیکھا یہ اس کا امتیاز ہے۔ غالب کے ’فردوسِ تخیل‘ میں ان دنیاؤں کا وجود ملتا ہے جو ’قدرت کی بہار‘ کا منظر پیش کرتے ہیں۔(۳) غالب زندگی کے مختلف اور متنوع پہلوؤں پر نظر رکھتا ہے اور پھر زندگی کی اس جہت کو سب پر غالب کر دیتا ہے جو زندگی کو زندگی بنا دے۔ مسرت و غم، کامرانی و ناکامی، حیات و موت سب زندگی کے رخ ہیں، مگر غالب نے اپنی ندرت فکر اور خلاق طبیعت سے زندگی کے روشن رخ کو نمایاں کرنے کی سعی کی ہے۔ حتی کہ اگر کہیں زندگی کے تاریک رخ کا تذکرہ بھی کیا تو اسے بھی قابل رشک بنا دیا: آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا، غالبؔ! کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد؟(۴) غالب کی شاعری ’زندگی مضمر ہے تیری شوخیٔ تحریر میں‘(۵) کی مظہر ہے۔ قوت فکر کا یہ عالم ہے کہ زندگی کے مظاہر ہی نہیں بلکہ خود زندگی کے وجود ،کنہ اور اصلیت کے بارے میں اس کے وجود و عدم، یعنی ہستی و نیستی دونوں کے بے حقیقت ہونے کے موقف کا حامل ہونے کے باوجود اس کے عدمِ وجود یا نیستی کو بھی درجہ وجود دے دیا: ہستی ہے، نہ کچھ عدم ہے، غالبؔ آخر تو کیا ہے، اے ’نہیں ہے!‘(۶) یہ امر طے ہے کہ زندگی کے امکانات پر نظر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خود زندگی اور اس کے عناصر ترکیبی پر نظر ہو۔ غالب کے ہاں اس پہلو پر وافر اور کافی مواد ملتا ہے کہ غالب، زندگی کی بصیرت رکھنے والا شاعر ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اس ـ’دیوار‘ میں بھی ’در‘ تلاش کر لیتا ہے جو دوسروں کو سد راہ نظر آ رہی ہو: بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے کشایش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا(۷) درماندگی میں غالبؔ! کچھ بن پڑے تو جانوں جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا(۸) دل ہوا، کش مکش چارۂ زحمت میں، تمام مٹ گیا، گھسنے میں اس عقدہ کا وا ہو جانا(۹) غالب کی شخصیت اور فکر کے وہ پہلو جو امکاناتِ حیات کو اس کے سامنے منکشف کرتے ہیں، یہ ہیں: ۱۔ تصورِ کائنات، ۲۔ وسعت مشاہدہ، ۳۔ زندگی کے مثبت پہلو پر نظر، ۴۔اسبابِ تخریب سے تعمیر کی استعداد ۱۔ تصورِ کائنات غالب کا تصورِ کائنات اس روایت سے ماخوذ ہے جو شعری اور صوفیانہ وسائل سے غالب تک پہنچی۔ وجود و شہود کا مسئلہ ہماری عارفانہ شاعری کی روح رہا ہے اور اردو غزل بھی حقیقت ہو یا مجاز، دونوں حوالوں سے اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے اسے وسیلہ بناتی رہی ہے۔ غالب کا امتیاز یہ ہے کہ گو غالب اس روایت کے تحت ’عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے‘ کا قائل ہے مگر غالب نے اس دام خیال کی تعبیر پر تعیین کی قدغن نہیں لگائی بلکہ اسے تعبیر کے لیے کھلا چھوڑ کر انسانی شعور کی آزادی کو تسلیم بھی کیا اور اسے ’باوجود‘ ہونے کا احساس بھی دلایا۔ غالب جب حقیقت عالم پر غور کرتا ہے تو کہتا ہے: ہاں کھائیو مت فریب ہستی ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے(۱۰) ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے(۱۱) نسیہ و نقد دو عالم کی حقیقت معلوم لے لیا مجھ سے مری ہمت عالی نے مجھے کثرت آرائی وحدت ہے پرستاریٔ وہم کر دیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے(۱۲) کیوں کہ غالب کے نزدیک اس عالم کی تمام انجمن آرائی وہمی، اعتباری اور خیالی ہے: شاہد ہستیٔ مطلق کی کمر ہے عالم لوگ کہتے ہیں کہ ’ہے‘ پر ہمیں منظور نہیں(۱۳) ہے مشتمل نمود صور پر وجودِ بحر یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں(۱۴) اور غالب کا یہ نقطہ نظر بیدل اور محمود شبستری کے اس موقف کا ترجمان نظر آتا ہے۔ بیدل کہتا ہے: صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما چوں حباب آئینہ بر طاق داریم ما(۱۵) محمود شبستری کے بقول: ہر آں کس را کہ اندر دل شکے نیست یقیں داند کہ ہستی جز یکے نیست(۱۶) غالب حقیقت عالم پر غور کرتے ہوئے جب اسے وہمی، خیالی یا اعتباری تصور کرتا ہے تو یہاں وہ اپنے موقف کو حتمی یا ناقابل اعتراض قرار دے کر بابِ تحقیق و استفسار بند نہیں کرتا بلکہ خود سوال کرتے ہوئے اس پر مزید تفکر کے راستے کھولتا ہے: جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟ شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے؟ نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے؟ سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟(۱۷) دوسری جگہ کہتا ہے: چو پیدا تو باشی نہاں ہم توئی اگر پردہ باشد آں ہم توئی بہر پردہ دمساز کس جز تو نیست شناسندہ راز کس جز تو نیست چہ باشد چنیں پردہ ہا ساختن شگافے بہر پردہ انداختن بدیں روئے روشن نقاب از چہ رُو چو کس جز تو نبود حجاب از چہ رُو(۱۸) پھر غالب خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: کنی ساز ہنگامہ اندر ضمیر چو نم دریم ورشتہ اندر حریر ظہور صفات تو جز در تو نیست نشانہائے ذات جز در تو نیست(۱۹) چونکہ جہاں اللہ کی اپنی آگاہی کا آئینہ ہے اور اس آئینے میں سب وجہ اللہ کا منظر ہے سو اگرچہ عالم خیال کی ہی آفرینش ہے مگر یہ خیال خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ کیونکہ یہ خیال دھوکا کھائے ہوئے انسان کا خیال نہیں ہے بلکہ خود خدا کا خیال ہے۔ جب عالم کو صحیح طو ر پر صفات الٰہیہ کا مظہر سمجھا جائے اور ہر جزو میں کل اور ہر جلوہ صفت میں ذات مطلق کی شان نظر آئے تو اس تجلی کو خدا کی اپنی خیال آفرینی ہی تصور کیا جائے گا۔ اس طرح جب خدا اپنے خیال سے جہان کی تخلیق کرے گا تو گو وہ جہان خدا کے خیال کے باہر موجود نہ ہوگا مگر اس جہان کا خدا کے خیال میں موجود ہونا خود اتنا زیادہ حقیقی ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا: گل و بلبل و گلستاں نیز ہم مہ و انجم و آسماں نیز ہم نمودیست کاں را بود بود ہیچ زیاں ہیچ و سرمایہ و سود ہیچ بعرض شناسائی ہرچہ ہست بوہم است پیدای ہرچہ ہست نہ ہرگہ کہ تنہا نشینی بجائے بخاطر کنی طرح بستاں سرائے بہ آرائش باغ او آوری دراں باغ از دجلہ جو آوری دمانی گل و نرگس از روے خاک نشانی بطرفِ چمن سرو و تاک نوا گر کنی مرغ برشاخسار بموج آوری آب در جوئبار بخویش ارچہ داری گمانے ز باغ بروں از تو نبود نشانے ز باغ در اندیشہ پنہاں و پیداتوی گل و بلبل و گلشن آرا توی(۲۰) عالم کی اسی ماہیت اور اساس کا ذکر آگے بڑھاتے ہوئے غالب کہتا ہے: خیالے در اندیشہ دارد نمود ہماں غیبِ غیب است بزم شہود نشانہائے راز خیالِ خودیم نواہائے ساز خیالِ خودیم(۲۱) گویا یہاں انسان کے خیال کی اہمیت اور باوجود ہونے کے بیان کا آغاز ہو گیا۔ انسانی خیال کا یہی وہ کردار اور فعالیت ہے جو اس کارخانہ ہست و بود میں انسان کو مرکزیت اور اختیار عطا کرتاہے۔ باوجود ان گنت مشکلات اور عدم آگہی کے یہ وہ روزن امکان ہے جو انسان کو تفکر اور عمل کا راستہ عطا کرتا ہے اور وہ ان دیکھے امکانات کی دریافت اور انہیں بروئے کار لانے کی طرف بڑھتا ہے۔ عالم معنی میں غالب عقل فعال سے اسرار حیات کے بارے میں چند سوالات کرتا ہے۔ وہ اپنا دل و دین اس کی نذر کر کے اس سے استفسار کرتا ہے: دوش در عالم معنی کہ ز صورت بالاست عقل فعال سرا پردہ زد و بزم آراست خو انداز دیدہ وری دیدہ وراں رابہ بساط تابہ بینند کہ اسرار نہانی پیداست چوں کس از ہم نفساں زخمہ برآں تار نزد من کہ آزادیم انداز ورم از خویش اداست رفتم آشفتہ و سرمست و پس از لالہ ولاغ گفتم اینک دل و دیں، گفت خوشت باد کجاست(۲۲) جب دل و دین کی نذر قبول ہو گئی تو اس کے بعد اسرار کے متعلق سوال و جواب شروع ہو گئے لیکن عقل فعال نے شروع ہی میں کہہ دیا کہ کہ محرمیٔ ذات جو بے چون و چرا ہے، اس کے متعلق نہ پوچھنا، باقی جو چاہو پوچھو: گفتم اسرار نہانی ز تو پر سش دارم گفت جز محرمیٔ ذات کہ بیچون و چراست گفتمش چیست جہاں؟ گفت سرا پردۂ راز گفتمش چیست سخن؟ گفت جگر گوشۂ ماست(۲۳) پوچھا کہ جہان کیا ہے؟ جواب ملا کہ سرا پردۂ راز۔ اس کے بعد اپنے دل پذیر شغل یعنی سخن کے متعلق دریافت کیا۔ خوف تھا کہ کہیں یہ بے حقیقت چیز نہ ہو لیکن جواب سے تسلی ہو گئی۔ جب عقل فعال نے کہا کہ سخن تو ہمارا لخت جگر ہے۔ جواب درست بھی تھا۔ عقل اور سخن ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ انسان کو ناطق اسی لیے کہتے ہیں کہ نطق کا لفظ عقل اور سخن دونوں معنی پر حاوی ہے۔ خدا نے بھی کائنات کو ایک کلمہ کے ذریعے سے پیدا کیا۔ پھر میں نے وحدت و کثرت کی باہمی نسبت کے بارے میں دریافت کیا کہ اصل مصدر حیرت یہی مسئلہ ہے۔ اس کا جواب ملا کہ موج و حباب و گرداب وہی دریا ہی ہے۔ یہ سب دریا کی ذات کے مظاہر ہیں۔ کثرت اشیا کی کوئی مستقل حیثیت نہیں: گفتم از کثرت و وحدت سخنے گوی برمز گفت موج و کف و گرداب ہمانا دریاست(۲۴) اسی خیال کو غالب نے اردو شعر میں بھی بیان کیا ہے: ہے مشتمل نمود صور پر وجودِ بحر یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں(۲۵) اس کے بعد عقل فعال سے اور سوالات بھی کیے گئے لیکن افسوس ہے کہ جو مسئلہ حقیقت میں حل طلب ہے اس کے جواب کو یونہی ٹال دیا گیا۔ پڑھنے والے کو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ شاعر کے پاس نتائج اور وجدان ہی ہوتا ہے۔ اگر توجیہ پوچھو تو وہاں بھی عجز ہی ہے۔ مثلاً یہ سوال کہ اگر سب کچھ وحدت ہی کا ظہور ہے تو کثرت کا وحدت سے تعلق تو کسی قدر قابل فہم ہوجاتا ہے۔ اور اکثر وجودی فلسفیوں نے اس بارے میں کچھ تسلی بخش استدلال بھی کیا ہے۔ لیکن قضیہ یہ ہے کہ ایک ہی وحدت کی کثرت میں باہمی تضاد اور کشاکش اور رد و قبول کہاں سے پیدا ہوگیا یہ تنا قض کہاں سے آگیا۔ اس کی بابت غالب عقل فعال سے پوچھتا ہے تو وہ بھی آہ بھرتی ہے اور کہتی ہے افسوس ہے کہ یہ رشتہ دست قضا میں ہے اور اس مشیت تک میری رسائی نہیں: گفتم آیا چہ بود کشمکش رد و قبول گفت آہ ازسر ایں رشتہ کہ در دست قضاست(۲۶) وجودی تشبہیات میں ایک عام تشبیہ خورشید اور ذرہ کی نسبت سے بھی اخذ کی گئی ہے۔ ہر ہستی ایک ذرہ کے مشابہ ہے جو آفتاب ذات سے مستنیر ہوتا ہے: پر تو سے آفتاب کے ، ذرے میں جان ہے(۲۷) سوال یہ ہے کہ ذرہ ذرہ ہی رہتا ہے یاہمہ تن آفتاب بھی بن سکتا ۔ جس ذات کے پر تو سے وہ قائم ہے اس سے ہم کنار ہو سکتا ہے یا نہیں۔ بعض صوفیہ اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور بعض نفی میں۔ یہ فنا اور بقا کا مسئلہ ہے کہ ذات الٰہی میں فنا ہو کر کسی قسم کی انفرادی بقا رہتی ہے یا نہیں۔ مولانا روم نے اس مسئلے کو لوہے اور آگ کے تعلق سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ لوہا آگ میں رہ کر اس کے ہم رنگ اور ہم صفت ہو جاتا ہے۔ اس کا ذرہ ذرہ آتش بجان ہو کر انا النار کا نعرہ لگا سکتا ہے۔ لیکن صفات کو اخذ کرنے کے باوجود بھی اس کی ذات اور آگ کی ذات ایک نہیں ہو جاتیں، غالب عقل فعال سے پوچھتا ہے کہ ذرے کی پوری رسائی خورشید کی ذات تک ہوسکتی ہے یا نہیں؟ جواب ملتا ہے کہ یہ امر محال ہے۔ البتہ اس رسائی کی کوشش جائز بلکہ فرض ہے۔ کیونکہ اس کوشش سے تمام حرکت اور ارتقاء حیات ہے اور یہی وہ جواب ہے جو غالب کو کار گہ حیات میں نو بہ نو امکانات کے دریافت کی سبیل فراہم کرتا ہے: گفتمش ذرہ بخورشید رسد، گفت محال گفتمش کوشش من در طلبش، گفت بجاست(۲۸) ۲۔ وسعت مشاہدہ غالب کا کلام اور علمی آثار اس امر کے گواہ ہیں کہ اسے زندگی کے حقائق اور جزئیات کا وسیع مشاہدہ حاصل تھا۔ مختلف متداول علوم و فنون سے آگاہی اور دراک طبیعت کا حامل ہونے کے باعث غالب نے جہاں حقائق حیات کو جامعیت سے بیان کیا، ان میں ایک ندرت بھی پیدا کر دی۔ علوم متداولہ اور اپنی فکری روایت سے غالب کی آگاہی حالیؔ کے اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے: مرزا حقائق و معارف کی کتابیں اکثر مطالعہ کرتے تھے اور ان کو خوب سمجھتے تھے۔ نواب ممدوح فرماتے تھے کہ میں شاہ ولی اللہ کا ایک فارسی رسالہ جو حقائق و معارف کے نہایت دقیق مسائل پر مشتمل تھا۔ مطالعہ کر رہا تھا؛ اور ایک مقام بالکل سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اتفاقاً اسی وقت مرزا صاحب آنکلے۔ میں نے وہ مقام مرزا کو دکھایا۔ انھوں نے کسی قدر غور کے بعد اس کا مطلب ایسی خوبی اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ شاہ صاحب بھی شاید اس سے زیادہ نہ بیان کرسکتے۔(۲۹) جب غالب کے فن پر معترضین نے اعتراضات کیے تو لطائف کی صورت میں ان کا جواب دیا گیا۔ لطائف غیبی کی جملہ تفصیلات غالب کی وسعت علم اور فنون پر کمال دسترس کی مظہر ہیں۔ یہاں صرف ایک مبحث ’’پل صراط‘‘ سے بطور مثال کچھ بیان کیا جاتا ہے: منشی جی ۴۴ صفحے میں پل صراط کی بحث میں لغز شہائے پے در پے کے سبب پل کے ادھر جا رہے ہیں۔ خدا کرے بہشت میں گرے ہوں۔ دعا دینے کے بعد کہا جاتا ہے کہ نجم الدولہ نے قاطع برہان مطبوعہ کے ۴۱ صفحے میں جو اس کا ذکر کیا ہے تو یہ لکھا ہے کہ اہل اسلام کے سوا کسی اور مذہب و ملت میں پل صراط کا ہونا ثابت نہیں۔ جیسا کہ عیسائیوں میں اور موسائیوں میں اور ہنود میں کہیں عالم آخرت میں پل کے وجود کا پتا نہیں۔ ہر فریق میں معاد کی صورت جداگانہ ہے۔ پارسیوں کے کیش میں تناسخ بیشتر ہے بحسب درجات خیر و شر۔ نکو کار کم آزار اچھی صورت پائیں گے اور بدکاروں کو بری صورت ملے گی۔ نفوس کاملہ آواگون سے چھٹ جائیں گے، کواکب بن جائیں گے۔ ظاہراً ہنود کے دھرم میں اور پارسیوں کے کیش میں معاد کا بیان ایک ہی نہج پر ہے۔ تفاوت اگر ہے تو کمتر ہے۔ منشی جی ان دقایق کو کیا جانیں؟ روئے سخن اہل علم و عقل کی طرف ہے۔ دساتیر کے ۱۴ صحیفے ہیں کہ بہ اوقات مختلفہ ۱۴ پیمبران پارس پر نازل ہوئے ہیں۔ ان میں سے ساتواں یا آٹھواں صحیفہ زردشت پر نازل ہوا ہے اورعقیدہ پارسیوں کا یہ ہے کہ کلام خدا اہل زمین کی زباں میں نہیں ہوتا۔ وہ آسمانی زبان ہے، السنہ معشر بشر سے الگ۔ سا سان پنجم، کہ وہ اپنے کو خاتم پیمبران پارس ظاہر کرتا ہے، ان صحیفوں کا زبان دری میں مترجم ہوا ہے۔ نماز کے ارکان اور حبس نفس جو ان کے مذہب میں گزیدہ ترین عبادات ہے اس کے قواعد ، کواکب ہفتگانہ کی پرستش کے رسوم، باہم معاش کے قوانین، میراث کی تقسیم کے اطوار، ثواب و عتاب اخروی کے اخبار، مفصل اور مشرح مضبوط و مرقوم ہیں۔ فشار قبر اور پرسش نکیرین اور حشر اجساد اور میزان و نامۂ اعمال اور عبور پل کا کہیں ذکر نہیں۔ صحیفۂ موسومۂ زردشت بھی ان نقوش سے سادہ ہے۔ ہاں بہشت و دوزخ کا ذکر ہے، لیکن نہ اس طرح جس طرح اہل اسلام میں ہے، بلکہ لذائذ روحانی کو بہشت اور آلام روحانی کو دوزخ کہتے ہیں۔ جب ان صحائف میں جو زردشت سے پہلے نازل ہوئے ہیں اور زردشت کے صحیفے میں بھی پل کا ذکر نہیں تو ژند میں کہ وہ سات صحیفوں سے متاخر اور خود آٹھواں، معہذا ور صحیفوں کے مطابق ہے، چینود اور خنیور کہاں سے آگیا؟ پارس کے منافقوں نے بعد استیلائے عرب، کیش اسلام ازراہ فریب اختیار کیا۔ زردشت کی عظمت کے اظہار میں معراج اور نظارئہ خلد و سقر مع اخبار معاد جیسا عظمائے اسلام سے سنا، ہر شے کا ایک اسم وضع کر لیا۔ ’نبی‘ اور ’کراسہ‘ اور چینود و خنیور، یہ الفاظ سوائے نماز کے گھڑے ہوئے ہیں اور یہ صنعت عرب و عجم کے اختلاط کے تھوڑے دنوں کے بعد بروئے کار آئی۔ چنانچہ خلیفۂ ثانی کی خلافت میں ایک پارسی کی فتنہ انگیزی کتب سیر و اخبار میں مندرج ہے۔ اب یہاں غور کرنی چاہیے کہ شعر فارسی کا چرچا مایۂ ثالثہ ہجریہ میں ہوا ہے۔ چنانچہ رودکی مداح امیر اسماعیل سامانی اسی سنہ ۳ میں تھا۔ عسجدی و عنصری و دقیقی و فردوسی، یہ سب سلطنت محمود غزنوی میں کہ مایہ رابعہ، ہجریہ شروع ہو گیا تھا، بروئے کار آئے۔ کتب عربیہ سے آداب شعر و عروض و قافیہ و میزان بحور اخذ کر کے زبان پارسی میں شعر کہنا اختیار کیا۔ وہ الفاظ مستحدث اکثر درج منظومات کرتے رہے۔ چونکہ ان لغات کے واضع بطرف فرہنگ لکھنے کے متوجہ نہ ہوئے تھے، جیسا جس نے سنا، ویسا لکھ دیا۔ جیسا جس نے لکھا ہوا دیکھا، ویسا سمجھ لیا۔ الفاظ حقیقی فارسی قدیم میں بھی بحسب ضرورت یا ازراہ اظہار قدرت لفظاً و معناً تصرف کیا، جیسا کہ ’خاور‘ بمعنی مغرب و ’باختر‘ بمعنی مشرق۔ پھر شعرائے عہد محمود غزنوی کے بعد بدعتیں اٹھتی گئیں اور الفاظ غریبۂ موضوعہ ترک ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ چینود و خنیور فردوسی و اسدی یا شاذ اور نادر اور شعرا کے کلام میں ایک آدھ جگہ کے سوا کہیں پایا نہیں جاتا اور یہ جو متاخرین میں فرزانہ بہرام وغیرہ تلامذئہ آدرا کیوان نے اپنی نظم میں ان الفاظ کا استعمال یا صراط کا ذکر لکھا ہے، یہ لوگ تو واضعین لغات کے اخلاف و اعقاب میں سے تھے اور اپنے اسی عقیدئہ زردشتیہ پر ثابت قدم تھے، کیوں نہ لکھتے۔ کلام ان علمائے عجم میں ہے جو عظمائے اہل اسلام میں سے تھے۔ انھوں نے ’باختر‘ اور ’خاور‘ کا اضداد میں سے ہونا متروک اور لغات موضوعۂ حادث کا استعمال یک قلم ترک کیا۔ خاقانی اور ناصر خسرو علوی کی نظم میں ’کراسہ‘ اور ’نبی‘ کہیں کہیں نظر آتا ہے۔ بعد ان کے یہ لغات یک قلم متروک ہو گئے۔ نظامی و سعدی و جامی اور ان کے مابعد مجموع ناظمین اور تاثرین نے اس طرف منہ نہ کیا۔ رہے یہ فرہنگ لکھنے والے، نہ ان کے پاس کوئی ماخذ نہ ان کی بات میں کوئی میزان۔ اشعار قدما میں لغات دیکھ دیکھ کر موافق محل و مقام، وہ بھی محض ازروئے قیاس، معنی لکھتے گئے۔ تین سو برس یعنی خلیفۂ ثالث کے عہد سے محمود غزنوی کے وقت تک نقل در نقل ہونے میں کیا کیا تصحیف و تحریف واقع ہو گئی ہو گی۔ اس سے بڑھ کر چھ سات سو برس میں کیا صورت ہو گئی ہو گی۔(۳۰) مندرجہ بالا اقتباس علم لغت، تاریخ الفاظ و فرہنگ، لسانیات، تاریخ مذہب اور اکابر شعراء کے کلام و فن سے غالب کی آگاہی پر دال ہے۔ غالب کے کلام کا اس نقطہ نظر سے جائزہ بھی غالب کی اس استعداد کو نمایاں کرتا ہے کہ شاعری میں بھی غالب نے کئی علوم اور فنون کے بنیادی تصورات اور اصطلاحات کو اس طرح استعمال کیا ہے جو ان علوم و فنون میں بغیر کمال مہارت کے ممکن نہیں۔ چند اشعار بطور مثال یہاں دیے جاتے ہیں: تصوف وجودی: اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں(۳۱) ہمارے ذہن میں، اس فکر کا ہے نام وصال کہ گر نہ ہو، تو کہاں جائیں؛ ہو، تو کیوں کر ہو(۳۲) از مہرِ تابہ ذرہ دل و دل ہے آینہ طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آینہ(۳۳) اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو آگہی گر نہیں، غفلت ہی سہی(۳۴) عرفان: ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے(۳۵) فلسفہ: نسیہ و نقد دو عالم کی حقیقت معلوم! لے لیا مجھ سے، مری ہمتِ عالی نے مجھے(۳۶) ہستی ہماری، اپنی فنا پر دلیل ہے یاں تک مٹے کہ، آپ ہم اپنی قسم ہوئے نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے جو واں نہ کھچ سکے، سو وہ یاں آ کے دم ہوئے(۳۷) علمیات: کثرت آرائیِ وحدت، ہے پرستاریِ وہم کر دیا کافر، ان اصنامِ خیالی نے مجھے(۳۸) ماہیت زماں: تیری فرصت کے مقابل، اے عمر! برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں(۳۹) رفتارِ عمر، قطعِ رہِ اضطراب ہے اس سال کے حساب کو، برق آفتاب ہے(۴۰) کیمیا: آگ سے، پانی میں بجھتے وقت، اٹھتی ہے صدا ہر کوئی، درماندگی میں، نالہ سے ناچار ہے(۴۱) فزکس: ہے تجلی تری سامانِ وجود ذرہ بے پر توِ خورشید نہیں(۴۲) ہوا چرچا جو مریے پانو کی زنجیر بننے کا کیا بیتاب کاں میں، جنبشِ جوہر نے، آہن کو(۴۳) ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے پرتَو سے آفتاب کے ، ذرہ میں جان ہے(۴۴) کشاکش ہاے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی ہوئی زنجیر، موجِ آب کو، فرصت روانی کی(۴۵) حیاتیات: کہ زمیں ہو گئی ہے، سر تا سر رُو کشِ سطح چرخِ مینائی سبزہ کو جب کہیں جگہ نہ ملی بن گیا رُوے آب پر کائی(۴۶) طب: اہل تدبیر کی واماندگیاں! آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں(۴۷) چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا ہے دل پہ بار، نقشِ محبت ہی کیوں نہ ہو(۴۸) پی، جس قدر ملے، شبِ مہتاب میں شراب اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے(۴۹) نہ پوچھ نسخۂ مراہم، جراحبِ دل کا کہ اس میں ریزۂ المساس جزوِ اعظم ہے(۵۰) نفسیات: رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں(۵۱) بے اعتدالیوں سے، سبک سب میں ہم ہوئے جتنے زیادہ ہو گئے، اتنے ہی کم ہوئے(۵۲) ہے وصل ہجر، عالم تمکین و ضبط میں معشوق شوک و عاشق دیوانہ چاہیے(۵۳) فلکیات: کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے(۵۴) علم نجوم: پیکر عشاق، سازِ طالعِ ناساز ہے نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے(۵۵) قاطعِ اعمار، ہیں اکثر نجوم وہ بلاے آسمانی اور ہے(۵۶) گوہر کو عقدِ گردنِ خوباں می دیکھنا! کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے(۵۷) پامسٹری: جاں فزا ہے بادہ، جس کے ہاتھ میں جا آ گیا سب لکیریں ہاتھ کی، گویا، رگِ جاں ہو گئیں(۵۸) تاریخ: ہیں آج کیوں ذلیل؟ کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں(۵۹) قید میں یعقوبؑ نے لی، گو، نہ یوسفؑ کی خبر لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں(۶۰) خطابت: دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے(۶۱) سیاست و آمریت: لکھتے رہے، جنوں کی حکایاتِ خونچکاں ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے(۶۲) قانون: پھر کھلا ہے درِ دعدالتِ ناز گرم بازارِ فوجداری ہے(۶۳) مصوری: آنکھ کی تصویر سرنامہ پہ کھیچی ہے، کہ تا تجھ پہ کھل جاوے کہ، اس کو حسرتِ دیدار ہے(۶۴) نقش کو اس کے، مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں! کھینچتا ہے جس قدر، اتنا ہی کھنچتا جائے ہے(۶۵) خطِ عارض سے، لکھا ہے زلف کو الفت نے، عہد یک قلم منظور ہے، جو کچھ پریشانی کرے(۶۶) جمالیات و حسن آرائی: خطِ عارض سے، لکھا ہے زلف کو الفت نے، عہد یک قلم منظور ہے، جو کچھ پریشانی کرے(۶۷) لباس: نہیں ہے زخم کوئی بخیہ کے در خور، مرے تن میں ہوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ، چشم سوزن میں(۶۸) موسمیات: کوئی کہے کہ شبِ مہ میں کیا برائی ہے بَلا سے، آج اگر دن کو ابر و باد نہیں(۶۹) کان کنی: ہوا چرچا جو مریے پانو کی زنجیر بننے کا کیا بیتاب کاں میں، جنبشِ جوہر نے، آہن کو(۷۰) درس و تدریس: ہے کشادِ خاطر وابستہ در، رہنِ سخن تھا طلسم قفل ابجد، خانۂ مکتب مجھے(۷۱) موسیقی: جاں مطربِ ترانۂ ہل من مزید ہے لب پردہ سنجِ زمزمۂ الاماں نہیں(۷۲) پُر ہوں میں شکوہ سے یوں، راگ سے جیسے باجا اک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے، کیا ہوتا ہے(۷۳) خطاطی: یا رب! زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟ لوح جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں(۷۴) ہوں منحرف نہ کیوں، رہ و رسم ثواب سے! ٹیڑھا لگا ہے قط، قلم سرنوشت کو(۷۵) لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع، غالبؔ! جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو(۷۶) خطِ عارض سے، لکھا ہے زلف کو الفت نے، عہد یک قلم منظور ہے، جو کچھ پریشانی کرے(۷۷) ۳۔ زندگی کے مثبت پہلو پر نظر غالب کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ زندگی کے مثبت پہلو پر نظر رکھتا ہے اور تصویر کتنی ہی یاس انگیز کیوں نہ ہو، غالب اس سے بھی کوئی مثبت پہلو ضرور نکال لے گا۔ ایک روز دوپہر کا کھانا آیا، دستر خوان بچھا، برتن تو بہت تھے مگر کھانا کم تھا۔ غالب نے مسکرا کر کہا: اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجیے تو میرا دستر خوان یزید کا دستر خوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار دیکھیے تو بایزید کا۔(۷۸) غالب کی زندگی مسائل، مشکلات اور پریشانیوں میں گزری۔ مگر زمانے کی تلخ روش کو بھی غالب نے یوں دیکھا: زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسدؔ وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں(۷۹) محبوب سے تعلق میں بھی غالب کا یہی رنگ نظر آتا ہے: اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا غیر نے کی آہ! لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا(۸۰) عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنا، مت پوچھ عیدِ نظارہ، ہے شمشیر کا عریاں ہونا(۸۱) ہنوز، اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے دلِ فسردہ، گویا، حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا(۸۲) وہ آ رہا مرے ہمسایہ میں، تو سائے سے ہوئے فدا در و دیوار پر، در و دیوار(۸۳) ہم دیکھتے ہیں کہ جب شاہراہ حیات میں ایسے حالات کا سامنا ہو کہ اچھے اور برے حالات در پیش ہوں تو غالب کی نگاہ ہمیشہ اچھے حالات پر ہو گی، اور اگرظاہراً اچھے حالات کا امکان نہ بھی ہو تو ناموافق ماحول سے بھی غالب موافقت کا امکان پیدا کر لیتا ہے: کم نہیں ہے وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم دشت میں، ہے مجھے وہ عشق کہ، گھر یاد نہیں(۸۴) رات کے وقت مے پیے، ساتھ رقیب کو لیے آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ، یوں(۸۵) محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے، ساز کا(۸۶) گھر میں تھا کیا کہ، ترا غم اسے غارت کرتا وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر سو ہے(۸۷) سو غالب کے ہاں راہ حیات کی مشکلات، آسانی کا امکان اور فراق یار میں بہنے والا لہو تاریکی شب فراق کے تدارک کا سامان نظر آتے ہیں: جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں(۸۸) یہ غالب کی وسعت فکر، قوت پرواز اور بلندیٔ تخیل ہے کہ وہ ہجر و فراق میں وصال، یاس و الم میں مسرت و شادمانی کا امکان تلاش کر لیتا ہے۔ ہے آدمی بجائے خود، اک محشر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو(۸۹) ۴۔ اسباب تخریب سے تعمیر کی استعداد غالب کے ہاں ’’تخیل کی فکر کامل سے ہم نشینی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ وہ ندیم دوست سے بوئے دوست اور قبلہ کی قبلہ نمائی سے مقصود قبلہ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ خود کہتا ہے: قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے، اور جزو میں کل کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہوا(۹۰) قوت مشاہدہ اور حقائق کی معرفت کی یہی خوبی غالب کو اسباب تخریب سے تعمیر کی استعداد عطا کرتی ہے۔ کیونکہ جب خیر و شر سب ایک ہی ہستی کی طرف سے ہیں تو یاس و غم ہو یا مسرت و شادمانی ہر صورت میں بندے کے پیش نظر احوال نہیں بلکہ مصدرِ احوال اور صفات نہیں بلکہ ذات رہتی ہے: یعنی، بہ حسب گردش پیمانۂ صفات عارف ہمیشہ مست مے ذات چاہیے(۹۱) اور جب عارف مست مے ذات ہو گا تو اس کے لیے نیستی سے ہستی کے امکان تلاش کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا کیونکہ نیستی و ہستی دونوں کی اصل ایک ہے: نشوونما ہے اصل سے غالب فروع کو خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے(۹۲) زندگی اور نظام کائنات کے بارے میں غالب کا یہی تصور ہے جو غالب کو وہ استعداد عطا کرتا ہے کہ وہ اسباب تخریب سے بھی تعمیر کا سامان پیدا کر لے۔ وہی اسباب جو زندگی میں سد راہ نظر آتے ہوں، حصولِ مقصود کا امکان بھی بن سکتے ہیں، زندگی کے بارے میں اس طرح کا رویہ تبھی پیدا ہوتا ہے جب زندگی کے بارے میں اساسی نظریہ یہ ہو کہ: لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن، زنگار ہے آئینہ بادِ بہاری کا(۹۳) غالب کے ہاں ایسے بیسیوں نظائر موجود ہیں کہ وہ کس طرح ان حالات میں امید اور حصول مقصود کے امکان کو دریافت کر لیتا ہے جب عام شعور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ موجود نہیں پاتا۔ آگ سے دوچار ہونا ور اس کا عذاب ایک ایسی تکلیف ہے جس میں سوائے اذیت کے کچھ نہیں تلاش کیا جا سکتا۔ مگر غالب کے ہاں یہ بھی راحت کے نئے امکانات رکھتی ہے: ملتی ہے خوئے یار سے نار، التہاب میں کافر ہوں، گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں(۹۴) مشکلات جب انسان پر ٹوٹ پڑیں تو مشکلات ہی رہتی ہیں مگر غالب انہیں ایک بالکل نئے انداز سے دیکھتا ہے: رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں(۹۵) غالب کو اپنے زمانے سے اپنی فنی عظمت کے اعتراف کے باب میں ہمیشہ گلہ رہا اور زمانے کی قدر ناشناسی کا سامنا رہا۔ غالب کی زندگی اور شخصیت کے اس پہلو کے بارے میں حالیؔ لکھتے ہیں: وہ اس خیال سے کہ ان کے کلام کی قدر کرنے والے بہت کم تھے اکثر تنگ دل رہتے تھے۔ چنانچہ اس بات کی انھوں نے فارسی اور اردو نظم و نثر میں جا بجا شکایت کی ہے ایک روز قلعے سے سیدھے نواب مصطفی خاں کے مکان پر آئے؛ اور کہنے لگے کہ ’’آج حضور نے ہماری بڑی قدر دانی فرمائی۔ عید کی مبارکباد میں قصیدہ لکھ کر لے گیا تھا؛ جب میں قصیدہ پڑھ چکا تو ارشاد ہوا کہ ’’مرزاتم پڑھتے بہت خوب ہو‘‘ اس کے بعد نوب صاحب اور مرزا زمانے کی نا قدر دانی پر دیر تک افسوس کرتے رہے۔(۹۶) مگر جب اس المیے کو بیان کیا تو اسے یوں ایک خوشگوار رخ دے دیا کہ: ہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ میرے دعوے پر یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں(۹۷) الغرض غالب کے کلام میں ہمیں غالب کی شخصیت اور فن کے اس پہلو کی کئی مثالیں ملتی ہیں: نہ لٹتا دن کو، تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو(۹۸) درماندگی میں غالبؔ! کچھ بن پڑے تو جانوں جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا(۹۹) تنگی دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا(۱۰۰) سراپا رہن عشق و نہ گزیر الفت ہستی عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا(۱۰۱) اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ، ویرانی تماشا کر مدار، اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا(۱۰۲) ہے خیال حسن میں، حسن عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا(۱۰۳) وفور اشک نے کیا کاشانہ کا یہ رنگ کہ ہو گئے مرے دیوار و در، در و دیوار(۱۰۴) نہ پوچھ بے خودیٔ عیشِ مقدمِ سیلاب کہ ناچتے ہیں پڑے، سربسر، در و دیوار(۱۰۵) گردش رنگ طرب سے ڈر ہے غم محرومی جاوید نہیں(۱۰۶) ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے، راہ کو پرخار دیکھ کر(۱۰۷) نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانئے بے صدا ہو جائے گا، یہ ساز ہستی ایک دن(۱۰۸) رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں(۱۰۹) آج ہمارے معاشرے میں جب یاسیت، افراتفری اور دہشت زدگی کے ماحول میں زندگی بند گلی کی مثل نظر آنے لگے ، غالب کی شاعری تازہ ہوا کا وہ جھونکا ہے جو ہمیں زندگی کے ان امکانات کی طرف متوجہ کرتا ہے جو امید، تعمیر نو، اور آج سے بہتر کل کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ زندگی کے نو بہ نو امکانات کی دریافت جہاں غالب کے رفعت تخیل، قوت فکر اور فنی عظمت کے مرہونِ منت ہے وہاں اس میں ایک بڑا حصہ غالب کی شخصیت میں مذہب کے کردار کا بھی ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جو غالب کی شخصیت کو وہ قوت عطا کرتا ہے کہ مایوسی کے گہرے دھندلکوں میں بھی امید کی کرن اس کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہوتی: اس کی امت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بند؟ واسطے جس شہؐ کے غالب گنبد بے در کھلا(۱۱۰) ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- ہیزن برگ کا نظریہ عدم تیقن نظامِ کائنات میں تعینات کی بجائے امکانات کو بیان کرتا ہے۔ خود ہیزن برگ کے بقول: In quantum mechanics, the uncertainty principle is any of a variety of mathematical inequalities asserting a fundamental limit to the precision with which certain pairs of physical properties of a particle, such as position x and momentum p, can be known simultaneously. The more precisely the position of some particle is determined, the less precisely its momentum can be known, and vice versa. (Paraphrase of Heisenberg's uncertainty paper of 1927) اسی طرح کوانٹم نظریات کے تحت ہونے والی تحقیقات کے مطابق یہ کائنات ایک سے زیادہ دنیاؤں پر مشتمل ہے: MWI's main conclusion is that the universe (or multiverse in this context) is composed of a quantum superpositionof very many, possibly even non-denumerably infinitely many, increasingly divergent, non-communicating parallel universes or quantum worlds. i. Everett, Hugh (1957). "Relative State Formulation of Quantum Mechanics". Reviews of Modern Physics 29: 454-462 ii. Steven Weinberg, Dreams of a Final Theory: The Search for the Fundamental Laws of Nature (1993), ISBN 0-09-922391-0, pg 68-69 iii. Steven Weinberg Testing Quantum Mechanics, Annals of Physics Vol 194 #2 (1989), pg 336-386 iv. Osnaghi, Stefano; Freitas, Fabio; Olival Freire, Jr (2009). "The Origin of the Everettian Heresy" (PDF). Studies in History and Philosophy of Modern Physics 40: 97-123.doi:10.1016/j.shpsb.2008.10.002. v. Bryce Seligman DeWitt, R. Neill Graham, eds, The Many-Worlds Interpretation of Quantum Mechanics, Princeton Series in Physics, Princeton University Press (1973), ISBN 0-691-08131-XContains Everett's thesis: The Theory of the Universal Wavefunction, pp 3-140. ۲- اقبال، کلیات (فارسی)، جاوید نامہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ص ۶۹۵۔ ۳- اقبال، کلیات (اردو)، بانگ درا، نظم ’مرزا غالب‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۵۵۔ ۴- غالب، دیوان غالب (مالک رام)، غزل: ۵۸۔ ۵- اقبال، کلیات (اردو)، بانگ درا، نظم ’مرزا غالب‘، ص ۵۵۔ ۶- غالب، دیوان غالب (مالک رام)، غزل: ۱۹۷۔ ۷- ایضاً، غزل: ۸۔ ۸- ایضاً، غزل: ۳۲۔ ۹- ایضاً، غزل: ۴۹۔ ۱۰- ایضاً، غزل: ۱۹۷۔ ۱۱- ایضاً، غزل: ۱۴۲۔ ۱۲- ایضاً، غزل: ۱۵۵۔ ۱۳- ایضاً، غزل: ۱۰۱۔ ۱۴- ایضاً، غزل: ۹۹۔ ۱۵- بیدل، دیوان غزلیات (اکبر بھداروند)، موسسہ انتشارات نگاہ، تہران، ۱۳۸۶، ج ۱، ص ۲۰۰۔ ۱۶- محمود شبستری، گلشن راز، مرکز تحقیقات فارسی، ایران و پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ، ص ۸۰۔ ۱۷- غالب، دیوان غالب (مالک رام)، غزل: ۱۶۳۔ ۱۸- غالب، مرزا اسد اللہ، کلیات فارسی، شیخ مبارک علی تاجر و ناشر کتب، لاہور، ۱۹۶۵ئ، ص ۱۵۳۔ ۱۹- ایضاً، ص ۱۵۴ ۲۰- ایضاً، ص ۱۹۹- ۲۰۰ ۲۱- ایضاً، ص ۲۰۰ ۲۲- ایضاً، ص ۲۷۵-۲۷۶ ۲۳- ایضاً، ص ۲۷۶ ۲۴- ایضاً ۲۵- غالب، دیوان غالب (مالک رام)، غزل: ۹۹۔ ۲۶- غالب، کلیات فارسی، ص ۲۷۶ ۲۷- غالب، دیوان غالب (مالک رام)، غزل: ۱۳۹ ۲۸- غالب، کلیات فارسی ص ۲۷۶ ۲۹- حالی، یادگارِ غالب، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ۱۹۸۶ئ، ص ۶۶ ۳۰- غالب، لطائف غیبی، ص ۵۱-۵۴ ۳۱- غالب، دیوان غالب (مالک رام)، غزل: ۹۹ ۳۲- ایضاً، غزل: ۱۲۶ ۳۳- ایضاً، غزل: ۱۲۹ ۳۴- ایضاً، غزل: ۱۴۹ ۳۵- ایضاً، غزل: ۱۹۷ ۳۶- ایضاً، غزل: ۱۵۵ ۳۷- ایضاً، غزل: ۱۶۸ ۳۸- ایضاً، غزل: ۱۵۵ ۳۹- ایضاً، غزل: ۱۰۹ ۴۰- ایضاً، غزل: ۱۵۳ ۴۱- ایضاً، غزل: ۱۴۴ ۴۲- ایضاً، غزل: ۹۶ ۴۳- ایضاً، غزل: ۱۲۱ ۴۴- ایضاً، غزل: ۱۳۹ ۴۵- ایضاً، غزل: ۱۶۶ ۴۶- ایضاً، غزل: ۱۸۲ ۴۷- ایضاً، غزل: ۱۰۹ ۴۸- ایضاً، غزل: ۱۲۰ ۴۹- ایضاً، غزل: ۱۴۱ ۵۰- ایضاً، غزل: ۱۹۸ ۵۱- ایضاً، غزل: ۱۱۲ ۵۲- ایضاً، غزل: ۱۶۸ ۵۳- ایضاً، غزل: ۱۸۹ ۵۴- ایضاً، غزل: ۱۳۹ ۵۵- ایضاً، غزل: ۱۴۸ ۵۶- ایضاً، غزل: ۱۶۱ ۵۷- ایضاً، غزل: ۱۷۰ ۵۸- ایضاً، غزل: ۱۱۲ ۵۹- ایضاً، غزل: ۹۹ ۶۰- ایضاً، غزل: ۱۱۲ ۶۱- ایضاً، غزل: ۱۵۸ ۶۲- ایضاً، غزل: ۱۶۸ ۶۳- ایضاً، غزل: ۱۶۵ ۶۴- ایضاً، غزل: ۱۴۴ ۶۵- ایضاً، غزل: ۱۵۴ ۶۶- ایضاً، غزل: ۱۹۳ ۶۷- ایضاً ۶۸- ایضاً، غزل: ۱۱۴ ۶۹- ایضاً، غزل: ۱۰۸ ۷۰- ایضاً، غزل: ۱۲۱ ۷۱- ایضاً، غزل: ۲۰۴ ۷۲- ایضاً، غزل: ۹۲ ۷۳- ایضاً، غزل: ۱۷۸ ۷۴- ایضاً، غزل: ۱۱۱ ۷۵- ایضاً، غزل: ۱۱۹ ۷۶- ایضاً، غزل: ۱۲۴ ۷۷- ایضاً، غزل: ۱۹۳ ۷۸- حالی، یادگارِ غالب، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ۱۹۸۶ئ، ص ۶۹ ۷۹- غالب، دیوان غالب (مالک رام)، غزل: ۱۱۰ ۸۰- ایضاً، غزل: ۲۹ ۸۱- ایضاً، غزل: ۱۸ ۸۲- ایضاً، غزل: ۱۰ ۸۳- ایضاً، غزل: ۵۹ ۸۴- ایضاً، غزل: ۱۰۲ ۸۵- ایضاً، غزل: ۱۱۷ ۸۶- ایضاً، غزل: ۱۳ ۸۷- ایضاً، غزل: ۱۳۶ ۸۸- ایضاً، غزل: ۱۱۲ ۸۹- ایضاً، غزل: ۱۲۰ ۹۰- ایضاً، غزل: ۲۳ ۹۱- ایضاً، غزل: ۱۳۲ ۹۲- ایضاً ۹۳- ایضاً، غزل: ۴۸ ۹۴- ایضاً، غزل: ۹۸ ۹۵- ایضاً، غزل: ۱۱۲ ۹۶- حالی، یادگارِ غالب، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ۱۹۸۶ئ، ص ۹۰۔ ۹۷- غالب، دیوان غالب (مالک رام)، غزل: ۱۰۱۔ ۹۸- ایضاً، غزل: ۱۲۱ ۹۹- ایضاً، غزل: ۳۱ ۱۰۰- ایضاً، غزل: ۳۲ ۱۰۱- ایضاً، غزل: ۱۲ ۱۰۲- ایضاً، غزل: ۱۰ ۱۰۳- ایضاً، غزل: ۱۴ ۱۰۴- ایضاً، غزل: ۵۹ ۱۰۵- ایضاً ۱۰۶- ایضاً، غزل: ۹۶ ۱۰۷- ایضاً، غزل: ۶۱ ۱۰۸- ایضاً، غزل: ۹۱ ۱۰۹- ایضاً، غزل: ۸۸ ۱۱۰- ایضاً، غزل: ۱۴ ئ…ئ…ء اسلام اور اصولِ حرکت ڈاکٹر خضر یاسین حکم وضع کرنے کے عمل اور احکامِ موضوعہ کے تعین ِمراتب کو ’’اجتہاد‘‘ کہا جاتا ہے۔ احکام موضوعہ کے تعین مراتب کی صورت یہ ہوتی ہے کہ پہلے سے موجود کسی حکم کی طلب میں پائی جانے والی شدت کا تعین کرتے ہوئے یہ بتایا جائے کہ اس سے فرض ثابت ہورہا ہے یا واجب یا استحباب یا ندب کا کوئی درجہ ثابت ہوتاہے۔ کتاب و سنت کے نصوص سے ثابت شدہ احکام پر اس نوع کے اجتہادات تمام مضمرات سمیت اب تک مکمل ہوچکے ہیں، مزید اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔ اب اس کا کوئی امکان نہیں کہ کسی شرعی حکم سے ثابت ہونے والی حلّت یا حرمت کے مدارج میں تبدیلی کی جا سکے، یعنی اجتہاد کے ذریعے سے حرام قطعی کو مکروہ اور حلال کو حرام کیا جا سکے یا وہ حکم جس سے جواز ثابت ہو اس سے وجوب ثابت کردیا جائے۔ اجتہاد کی یہی نوع ہے جس کے دروازے ابدالآباد تک بند ہوچکے ہیں۔ اوّل الذکر نوع کا اجتہاد یعنی ’’حکم وضع کرنے کا عمل‘‘ نہ پہلے کبھی بند ہوا تھااور نہ آیندہ بند ہوگا اور نہ ہو سکتاہے۔ یہ ایک ارادی عمل کا فطری پہلو ہے، اس سے اعراض ممکن نہیں ہے۔ اجتہاد کی اس نوع کے تفہیم وادراک کی کمی اور اس کی ضرورت و اہمیت اور مضمرات و غایت سے بے اعتنائی نے یہ واہمہ پیدا کردیا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ کے تصور پر بحث و تمحیص سے قبل یہ سمجھ لینا چاہیے کہ’’ اجتہاد‘‘ انسان کے بہت سے دیگر فکری اعمال سے مماثلت رکھنے کے باوجود اپنی ایک متمیز صورت اور منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس لیے ہمیں ’’اجتہاد‘‘ کو دیگر علمی تحقیق و تدقیق کی نکتہ سنجی سے الگ رکھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی صاحب علم قرآن مجید پر غور و خوض کے نتیجے میں قرآن حکیم کی تفسیر کرنے میں مصروف ہے تو وہ ’’ اجتہاد‘‘ نہیں کر رہا۔ متون حدیث میں صحت حدیث کے لیے روایت اور درایت کی شرائط وضع کرنے والا محدث ہے، مجتہد نہیں ہے۔ اجتہاد کرنے والے مجتہد کا وظیفہ احادیث کی صحت دریافت کرنا نہیں ہے۔ لسانیاتی علم وادب کے علوم و فنون میں ابداع و اختراع کرنے والا ادیب ہے مجتہد نہیں ہے۔ کائنات کی ماہیت اصلی کے فہم کا آرزو مند فلسفی ہے، حکیم ہے۔وہ اپنے مقصود کے حصول کے لیے منہاج کی تشکیل کرنے سے مجتہد نہیں کہلا سکتا۔ ذاتِ حق کے قرب کی جستجو میں مصروف سالک ہے، اپنے فہم و ادراک کی باریکیوں کے باوجود ’’مجتہد‘‘ نہیں ہے۔ علم فقہ کا ماہر استاد ہو یا فقہ کا ذہین ترین طالب علم، اصول فقہ کا ماہر ہو یا اصول فقہ کا معلم، ان میں سے نہ کوئی ایک مجتہد ہے اور نہ مسلمانوں کی تاریخ فکر میں ’’مجتہد‘‘ کے لقب سے اسے نوازا گیا۔ انتہا یہ ہے کہ مفتی جس کا وظیفہ احکام موضوعہ کی روشنی میں کسی مخصوص صورت حال کے بارے میں فتویٰ دینا ہے، اس نے دیکھنا ہے کہ ’’حکم شریعی‘‘ جن شرائط کے ساتھ کسی صورتِ حال کو اپنا موضوع بناتا ہے وہ شرائط اس مخصوص صورت حال کا احصا کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر چہ یہ انتہائی زیرکی اور ژرف نگاہی کا تقاضا کرنے والا کام ہے اور وضع حکم سے بڑی مشابہت رکھتا ہے بایں ہمہ مفتی ،قاضی یا قاضی القضاۃ کواس وظیفے کی انجام دہی کے باعث ’’مجتہد‘‘ نہیں کہا گیا۔ مفتی اور قاضی کو مجتہد نہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ’’مجتہد‘‘ کا وظیفہ احکام اطلاق بتانا نہیں ہے بلکہ احکام وضع کرناہے ۔’’ مجتہد‘‘ ممکن ہے کہ مفتی بھی ہو تاہم ہر مفتی ’’مجتہد‘‘ نہیں ہوتا۔ مذکورہ بالا تصریحات و توضیحات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ’’ وضع احکام‘‘ کا عمل ہی ’’اجتہاد‘‘ ہے، اسے دیگر فکری اعمال سے الگ کرنا ضروری ہے ورنہ غوروفکر کا ہر عمل ’’اجتہاد‘‘ قرار پائے گا جیسا کہ ہمارے اس دور میں یہ عموم بلویٰ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اجتہاد کی غایت جس طرح ہر انسانی عمل میں غایت اساس العمل ہوتی ہے اسی طرح اجتہاد یعنی وضع احکام میں غرض و غایت کو مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اجتہاد کے اغراض و مقاصد کو مصالحِ شریعہ یا مقاصد الشریعہ کہا جاتا ہے۔ نئے احکام انھی اغراض و مقاصد کے پیش نظر وضع کیے جاتے ہیں۔ اجتہاد کے مقاصد بالکل واضح اور عیاں ہوتے ہیں، ان کا حصول احکام کے ذریعے ہوتا ہے، لہٰذا احکام بذاتِ خود مقصود نہیں ہوتے بلکہ ان مصالح کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ وضع احکام میں مصالح و مقاصد بنیادی محرک نہ ہوں تو احکام کی وضع و تشکیل کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ مزید برآں مصالح و مقاصد بھی مقصود بالذات نہیں ہوتے بلکہ ان مصالح و مقاصد کی مقصدیت انسانی ہیئت اجتماعیہ کی حفاظت اور بقا کے ساتھ مشروط ہے، لہذا نئے احکام وضع کرنے کی احتیاج فقط اسی وقت پیش آتی ہے جب پہلے سے فعال احکام ہیئت اجتماعیہ کے تحفظ و بقا کی ضمانت فراہم کرنے سے قاصر ہوجائیں۔ گویا’’اجتہاد‘‘ کسی مجہول غایت کے حصول کی جدوجہد کا نام ہے اور نہ وضع احکام کے بے وجہ شوق کا نتیجہ ہے۔ اس کے بر عکس انسان کی ناگزیر ضرورتیں جدید احکام کو وضع کرنے اور قدیم احکام کا جائزہ لینے پر مجبور کرتی ہیں تو ’’اجتہاد‘‘ کیا جاتا ہے۔ اجتہاد کی تفہیم اور تعمل کا درست ادراک فقط اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم انسانی ہیئتِ اجتماعیہ کا صحیح اور مکمل ادراک حاصل کرلیں۔یہ امر بہرحال طے ہے کہ’’ اجتہاد‘‘ عمرانی ہیئت کی ناگزیر ضرورت کا پیدا کردہ ’’مظہر‘‘ ہے۔ معاشرہ اپنی عمرانی ہیئت کو ’’اجتہاد‘‘ کے بغیر برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ وضع احکام کا عمل یعنی اجتہاد ہیئت اجتماعیہ کی ضرورت کے بغیر کوئی معانی رکھتا ہے۔ انسانی معاشرے کی عمرانی ہیئت انسانیت اجتماعیہ مبنی براقدار فضیلت ہے۔ نظامِ اقدار حسی حقائق کی طرح محسوس شے تو نہیں ہوتا مگر عمرانی حسّیات میں سب سے زیادہ مؤثر کردار نظام اقدار کا ہوتا ہے۔نظام اقدار کی غیر مرئی حدود کا تحفظ اورلحاظ کو معاشرے میں فضیلت یا نیکی خیال کیا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ سوال کریں کہ ایک معاشرہ دوسرے معاشرے سے کیونکر مختلف ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نظامِ اقدار میں اختلاف ہے۔ ایک معاشرے کے موضوعہ قوانین دوسری نوعیت کی عمرانی ہیئت کو کبھی سہار نہیں دے سکتے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے بلکہ اس کے برعکس اجنبی قوانین ہیئت اجتماعیہ کی اساسیات کو مضمحل کردیتے ہیں اور پورا معاشرہ انتشار و انارکی کی زد میں آجاتا ہے۔ ایک متمدن معاشرہ اپنی اقدار سے مختلف اور متصادم نظم و اجتماع کے اصول نہ قبول کرتا ہے اور نہ ان سے مثبت تبدیلی کی توقع رکھ سکتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہیئت اجتماعیہ کو نئے نئے تجربات کے لیے تختہ مشق نہیں بنایا جاسکتا، اگر ایک معاشرتی نظم مضمحل ہوجائے تو اس کو سنبھلنے میں پوری ایک نسل ختم ہونے کا اندیشہ ہے، بایں ہمہ اس امر کی کوئی ضمانت نہیںدی جا سکتی کہ اضمحلال کے اثرات سے تسلی بخش نجات میسر آسکے گی ۔ تہذیب و تمدن کا خوگر معاشرہ اپنی اندرونی ساخت اور بیرونی وضع کو نظم وضبط کے اجتماعی اصول و قواعد کے ذریعے محفوظ رکھنے کی سعی کرتاہے۔ جب مہذب واقعتا ایسی کسی مشکل سے دوچار ہوجائے جس میں تہذیبی اقدار کی حفظ و بقا مروج قوانین سے ممکن نہ رہے تو عمرانی ہیئت کی حفاظت کے لیے جدید قانون سازی کرتا ہے جسے فقہ اسلامی میں ’’اجتہاد‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہیئت اجتماعیہ کا نظامِ اقدار فرقِ مراتب کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ یہ اصول ہر اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نظام اقدار میں فرق مراتب کا شعور فنا ہوجائے تو انفرادی اقدار باقی رکھنے کے امکانات معدوم ہونا شروع ہوجاتے ہیں چہ جائیکہ ہیئت اجتماعیہ کے فضائل و اقدار کو قائم رکھاجا سکے۔ نظامِ اقدار میں فرقِ مراتب کے شعور کو اصل الاصول یا فضیلت الفضائل یا قدر الاقدار کا درجہ حاصل ہے۔ اجتماعی زندگی میں جب تک فرقِ مراتب کا شعور باقی ہے اس سے نہ صرف ہیئت اجتماعیہ مضمحل ہونے سے محفوظ رہتی ہے بلکہ اس کا مرکزی اصول بگاڑ کا شکار ہونے سے بچا رہتا ہے جس کا کم ترین اثر یہ ہوتا ہے کہ قانون سازی یعنی اجتہاد کی سمت متعین رہتی ہے۔ فضائل و اقدار میں فرق مراتب کا شعور مضمحل ہوجائے تو پورا عمرانی ڈھانچا ایک ایسے ناقابل تلافی نقصان میں مبتلا ہوجاتا ہے جسے ’’اجتہاد‘‘ کے ذریعے سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ ’’اجتہاد‘‘ یا قانون سازی کی ایسی صورتیں جو نظامِ اقدار میں فرقِ مراتب کے شعور کو خاطر میں لائے بغیر تشکیل پاتی ہیں وہ درحقیقت عمرانی ہیئت کے تحفظ و بقا اور مفاد کی ضامن ہونے کے بجائے ان کی مکمل تباہی کا سامان ہوتی ہیں۔ اس نوع کا ’’اجتہاد‘‘ در حقیقت معاشرے کے مفاد پرست غالب طبقے کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ کی مذکورہ صورت سے معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ عارضی طور پر آسودہ ہوجاتا ہے مگر معاشرہ اپنی پوری عمرانی ہیئت میں ناآسودگی اور بے چینی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جس ہیئت اجتماعی میں ’’انسان‘‘ بحیثیت انسان اعلیٰ ترین فضیلت ہونے کے بجائے محض وسیلے کی حیثیت رکھتا ہو، اس کی قانون سازی ہمیشہ مخصوص افراد فوری مفادات قیام و بقا کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ عمرانی ہیئت اجتماعیہ کی اسلامی اساس اسلامی معاشرہ اپنی عمرانی ہیئت میں بلاشبہ نظام اقدار کی اساس پر قائم ہوتا ہے اور رہتا ہے۔ اصولِ دین ہوں یا اصول سیاست ہر ایک میں اقدار کے نظم و ترتیب کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اجتماعی نظم سے لے کر انفرادی کردار تک عمرانی ہیئت کی اسلامی اساس کے قوانین میں فرق مراتب کے اصول کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اصولوں میں سب سے اعلیٰ درجہ ’’وحی‘‘ کو حاصل ہے، ’’وحی‘‘ سب سے بڑی قدر بلکہ قدر الاقدار ہے۔ ’’وحی‘‘ سے ثابت شدہ منصوص علیہ’’ احکام‘‘دیگر ذرائع سے وضع کیے جانے والے احکام سے ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے افضل اور ارفع ہیں۔وحی شدہ احکام خدا تعالیٰ کاخطاب ہیں اس لیے یہ احکام زمین و زمان کی ہر قید اور ہر شرط سے ماورا ہیں، ہر حالت میں’’ واجب التعمیل‘‘ ہیں۔ ان کا واجب التعمیل ہونا اور رہنا ہی سب سے بڑی مصلحت ہے۔ مصالح میں سے کوئی مصلحت، مقاصد میں سے کوئی مقصد اور غایات میں سے کوئی غایت ان کے علو مرتبت سے متصادم ہوکر اسلامی عمران کی ہیئت اجتماعیہ میں کوئی مقام نہیں رکھتی۔وحی شدہ احکام ہرقسم کے تغیر و تبدل سے پاک ہیں، جس طرح خیر القرون میں ان پر عمل کرنا واجب تھا بالکل اسی طرح مابعد کے ادوار میں تاقیامت واجب رہے گا۔ اگر ’’حکم‘‘ کے تصور پر غور کیا جائے تو یہ بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ اصلاً ’’حکم‘‘ کا تحقق اسی وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب ’’حکم‘‘ کی غیر مشروط اتباع کی جائے۔ حکم کو مراتب ِفضائل کے تناظر میں ملاحظہ کیا جائے تو وہ اعلیٰ ترین فضیلت ہے۔ ’’وحی‘‘ فی نفسہ ام الفضائل ہے اور اس سے ثابت شدہ حکم اپنے اندر دہری تعظیم و تکریم رکھتا ہے۔ ایک طرف ’’وحی‘‘ ہونے کی حیثیت سے مقدس ہے تو دوسری طرف ’’حکم ‘‘ ہونے کی وجہ سے وہ اعلیٰ ترین فضیلت ہے۔ ’’حکم‘‘ درحقیقت صاحب ِحکم کی طلب ہے جس کا تقاضا ’’کرو‘‘ اور ’’نہ کرو‘‘ کی صورت میں متشکل ہوتا ہے۔ ’’حکم‘‘ رائے نہیں ہے، ’’رائے‘‘ اپنی پوری صحت اور شدت کے باوجود ’’طلب‘‘ کے عنصر سے عاری ہوتی ہے۔ صحیح ترین رائے بھی ’’حکم‘‘ نہیں بن سکتی، نہ رائے کا حسن اسے ’’قانون ‘‘ کا درجہ دلا سکتا ہے۔ اسی طرح ’’حکم‘‘ تمنا اور آرزو کے تصور سے بھی بالا تر فضیلت ہے، آرزو اور تمنا میں طلب کا عنصر تو ہے مگر اس طلب میں موجود تقاضا ’’کرو‘‘ اور ’’نہ کرو‘‘ کا درجہ کبھی اختیار نہیں کرتا۔ یہ فقط ’’حکم‘‘ ہے جو اپنی طلب کے تقاضے کو یہ شدت عطا کرتا ہے کہ مخاطَب ِحکم اپنی ہستی کو اس کے علوشان اور استعلا مرتبت کے سامنے ہیچ اور بے وقعت پاتا ہے۔ حکم کی طلب یا موضوعِ حکم ’’حکم‘‘ کے عناصر ترکیبی میں ایک اہم شے اس کی ’’طلب‘‘ ہے۔ حکم کی طلب صاحبِ حکم اور مخاطَب حکم ہر دو پر یکساں منکشف ہوتی ہے۔ طلب حکم کا مبدا محض شعورنہیں بلکہ خود شعوری کا حامل شعور ہے ۔ صاحب حکم کے شعور میں ’’طلب‘‘ متعین ہوتی ہے اور مخاطَب حکم کے شعور پر بعینہٖ منکشف ہوتی ہے۔ اگر اس تعین اور تکشف میں ناقابل عبور خلیج واقع ہوچکا ہو تو ’’حکم‘‘ کا واقعی اور خارجی تحقق امکان کی حدود سے خارج ہوجاتا ہے۔ اگرچہ مذکورہ امکانی خلیج کی بیشتر صورتیں فرضی اور موہوم ہوتی ہیں تاہم ممکن الوجود ہونے کی بناپر اس کے ازالے کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔دو اذہان کے مابین مکالمہ کی صورت میں دوئی یقینی نقص کا ثبوت ہے۔ حکم کرنے والا اور جسے حکم دیا جا رہا ہے دونوں کے مابین ’’حکم‘‘ کا شعور مشترک نہ ہو تو حکم کیا مکالمے کی ہر صورت باطل ہو جاتی ہے۔ ’’شعور‘‘ کے امتیازی اوصاف میں اضداد کا اجتماع و ارتفاع پایا جاتا ہے، اسی وجہ سے مکالمے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ متکلم اور مخاطب میں ظاہری ربط فاعل اور قابل (قبول کرنے والا) کا ہے۔ بایں ہمہ دونوں انتہاؤں پر شعور ہی فعال ہوتا ہے۔ شعور کی اسی خوبی کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ ’’طلب ِحکم‘‘ کافاعل صاحب ِحکم اور طلب حکم کا قابل مخاطَب ِحکم قابل ہے۔ طلب حکم کو نئی معنویت دینے کا استحقاق مخاطب حکم کے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ’’حکم‘‘ موجود ہو اور اس کی طلب کو حالاتِ حاضرہ سے متعین کیا جائے۔ حکم کی منطق اس تعین کے جواز میں مانع ہے۔ منصوص علیہ موضوعات نہ کبھی محلِ اجتہاد ہوتے ہیں اور نہ بن سکتے۔ منصوص علیہ احکام کی طلب کا مبدا حالات سے وابستہ یاSituational نہیں ہوتا۔ اسلام کی اساس پر قائم عمرانی ہیئت میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ گروہ اسی کو سمجھا جاتا ہے جو حالات کے تغیّر کے تقاضوں کے تحت کتاب و سنت کے احکام میں تغیر کا متمنی ہو۔ اس گروہ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ’’حکم‘‘ درحقیقت حالات کے مقابل ہوتا ہے اور اُن کے مطابق یا اُن سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ ’’حکم‘‘ کے وجود کا تحقق جن شرائط کا متقاضی ہے ان میں اولین شرط حالات اور حکم کے مابین ناساز گاری ہے۔ بہرحال مدعا یہ ہے کہ ’’طلب حکم‘‘ یا موضوع حکم کے تعین کی ذمہ داری کسی طور پر مخاطَبِ حکم کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ حالاتِ حاضرہ کے پیش نظر یا مخاطب کی استعدادِ فہم و عمل کے باعث حکم کے موضوع کا تعین صاحب ِحکم کے فرائض سے نکل کر مخاطب حکم کی دسترس میں نہیں آجاتا ۔ ’’اجتہاد‘‘ کا رخ احکام منصوصہ کی جانب ہو تو تعمیل حکم کے لیے مطلوبہ فطری عجزو انکسار میں فساد پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ فقط علمی یا نظری مشکل نہیں ہے یہ انسان کی فطرت کا فساد ہے جو اسے اللہ کے حکم کے سامنے نڈر بنا دیتا ہے۔ یہ نفسی میلان کی ایسی بے راہ روی ہے جو مخاطب حکم کی سرکشی اور تمرد کا مظہر ہے۔ حکم کی ’’متمیز صورت‘‘ میں دوسری اہم ترین جہت مخاطب حکم کی اپنی ہستی ہے۔ احکام منصوصہ کی سطح پر ’’اجتہاد‘‘ کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے حکم کی اس جہت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ’’مخاطَب ِحکم‘‘ پر حکم کے واجب التعمیل ہونے کی اولین شرط ’’طلب ِحکم‘‘ سے اسی طرح آگہی ہے۔ جس حکم کے موضوع سے مخاطب حکم بالکل اسی طرح آگاہ نہیں جیسے خود صاحب حکم ہے اس کی تعمیل کی ذمہ داری سے وہ بری ہے۔ ’’طلب ِحکم‘‘ صاحب حکم اور مخاطب حکم دونوں پر یکساں منکشف ہونی ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ صاحب حکم نے جن مصالح کے حصول کے لیے حکم وضع کیا ہے مخاطَب حکم کا ان مصالح سے آگاہ ہونا اسی طرح ضروری ہے جس طرح صاحب حکم آگاہ ہے؟یا مخاطب حکم کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ طلب حکم یا موضوع حکم سے اسی طرح باخبر ہو جس طرح صاحب حکم ہے؟ ظاہر ہے مخاطَب حکم ہونے کے لیے جس اہلیت کی ضرورت ہے وہ فقط اسی قدر ہے کہ وہ طلب حکم سے پوری طرح باخبر ہو اور اس طلب کی تعمیل میں مضمر مصالح سے آگاہ ہوناقطعاً ضروری نہیں ہے۔ مخاطب حکم کی ذمہ داری فقط تعمیل حکم ہے۔ حکم کی تعمیل کے ممکنہ محرکات مخاطب حکم کے پیش نظر دو ہوسکتے ہیں۔ اولاً ’’مخاطَب ِحکم‘‘ حکم کی تعمیل محض صاحب حکم کا احترام اور علوشان کی بنیاد پر کرے۔ دوسرا ممکنہ محرک مخاطَب حکم کی ذاتی مصلحت، مسرت یا دیگر کوئی مفاد ہو سکتا ہے۔ موخرالذکر صورت میں حکم کی حیثیت مقصود بالذات فضیلت کی نہیں ہے بلکہ مقصود بالغیرفضیلت کی ہوتی ہے۔ اس صورت میں ’’حکم‘‘ کا کردار محدود ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اجتماعی فضیلت نہیں بن سکتا۔ البتہ مذکور ماقبل صورت میں حکم مقصود بالذات فضیلت قرار پاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ہیئت اجتماعیہ کی غیر متنازع فضیلت کے طور پر معیار بن جاتا ہے۔جب ’’حکم‘‘ مقصود بالذات فضیلت ہوتا ہے تو مخاطَب حکم فقط طلب حکم کو ہی اپنی غایت سمجھ کر اس پر عمل کرتا ہے۔ صاحب حکم کااحترام اور علوشان کے محرک ہونے کے علاوہ ہر دوسرا محرک حکم کی تعمیل کو فاسد کردیتا ہے۔ گویا مخاطَب ِحکم کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ صاحبِ حکم کی طلب کو سامنے رکھے اور عمل کر گزرے۔ اگر مخاطَب حکم حکم کی طلب کو اپنی ذاتی طلب بنادے تو عمل چاہے حکم کی تعمیل کے عین مطابق ہی کیوں نہ ہو حکم کا اتباع نہیں کہلاسکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ حکم اپنے مخاطب سے فقط تعمیل کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ وہ ایسی تعمیل کا متقاضی ہے جو ’’اتباع حکم‘‘ کہلا سکے۔ ’’اتباع حکم‘‘ تعمیلِ حکم کی صفت ہے وہ تعمیل جس کا محرک فقط حکم فی نفسہ ہو اور کوئی شے نہ ہو اسے ’’اتباع‘‘ کہا جائے گا۔ حکم اپنے مخاطَب سے غیر مشروط اتباع کا خواہاں ہے اور بس، کیوں اور کس لیے کا خواہاں نہیں ہے۔ مذکورہ بالا تجزیے سے عیاں ہے کہ منصوص احکام پر اجتہاد عقلاً محال ہے اور نقل سے ثابت نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے کہ حکم ِالٰہی مصلحت سے خالی نہیں ہوتا لہٰذا اس مصلحت کی جستجو کرنا ضروری ہے تو یہ خیال بے خبری اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ حکم الٰہی میں مصالح ِعباد کا کون منکر ہوسکتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ بندے کا محرکِ عمل حکم میں مضمر مصلحت ہے یا تعمیل حکم کے لیے فقط یہی کافی ہے کہ یہ حکم الٰہی ہے؟ اگر حکم پر عمل حصول مصلحت کے لیے کیا جائے تو یہ صاحب حکم کے مرتبے کے خلاف ہی نہیں بلکہ ایک طرح توہین آمیزاور اہانت خیز رویہ بھی ہے۔ جب حکم کی تعمیل کا محرک صاحب حکم کی تعظیم ہو تو یہ حکم کا اصلی تقاضا اور مخاطب کے علوشان کے عین مطابق ہے۔ ’’وحی‘‘ کو ام الفضائل قرار دینے والے نظامِ اقدار میں حکم کا وہی معنی و مطلب ہے جو قبل ازیں بیان کیا گیا ہے۔ منصوص علیہ احکام کے محل اجتہاد نہ ہونے کی ایک اور اہم وجہ حکم میں تغیر و تبدل کے امکان کی شرائط ہیں۔ قانون یا حکم کی منطق کا شعور رکھنے والے حضرات کے لیے اسے سمجھنا زیادہ مشکل نہیں مگر جو لوگ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں انھیں اسے سمجھنے میں ممکن ہے دیر لگے۔ حکم میں تغیر کے تقاضے یہ امر طے ہے کہ حکم میں تغیر و تبدل کے امکان کا تقاضا ہے کہ حکم کا مبدا جس علومرتبت سے تعلق رکھتا ہے تغیر و تبدل کی علت بننے والا مبدا بھی اسی درجے کی تعظیم و تکریم کا حامل ہو یا پھر اس سے بلند تر ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مبدائے تغیر مبدائے حکم کی عظمت میں مساوی تو نہ ہو مگر بایں ہمہ علتِ تغیر بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی حکم جس کو ماتحت ادارے یا افراد نے وضع کیا ہو اس سے برتر ادارہ یا افراد اس کی تعمیل کے پابند نہیں ہوتے، بلکہ وہ اس میں ترمیم و اضافہ کرنے یا اسے بالکل ہی منسوخ کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ چنانچہ حکم وضع کرنے والا یا قانون بنانے والا ہی قانون میں ترمیم و اضافہ کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ قانون یا حکم کا مخاطب اس میں ترمیم و اضافے کا اہل ہے نہ مجاز ہے۔ ’’وحی‘‘ کے مساوی کوئی فضیلت ہے نہ حقیقت ہے۔ اسلام کے تصور کائنات میں ختم ِنبوت کے عقیدے سے نزولِ وحی کا امکان ختم ہوچکا ہے، مبنی بروحی احکام کا مبدا ختم ہوچکا ہے، اب اس کے اجرا کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ’’وحی‘‘ حصول علم کے باب میں انسان کی معمول کی استعداد نہیں ہے۔ ’’وحی‘‘ کے اتمام یافتہ ہوجانے کے بعد ’’وحی‘‘ سے پوری ہونے والی ضرورت بھی اتمام یافتہ ہو چکی، ’’وحی‘‘ کے لیے غیروحی سے کوئی مدد مل سکتی ہے نہ لی جا سکتی ہے۔ ’’وحی‘‘ کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ پیداہو چکی ہے کہ ’’ وحی‘‘ جس ضرورت کی تکمیل کرتی رہی ہے ختم نبوت کے دور میں اسی ضرورت کی تکمیل دوسری کسی فضیلت سے پوری کی جا سکتی ہے۔گویا وہ ضرورت جس کی تکمیل نزول وحی سے پوری کی جاتی رہی ہے وہ اب تک باقی ہے۔ ختم نبوت کے عقیدے کے لیے یہ انتہائی مضرت رساں خیال ہے۔ ’’وحی‘‘ انسان کی کسی عارضی ضرورت کی تکمیل کے لیے عارضی حل کے ساتھ نازل نہیں کی گئی ہے۔ گویا نزول وحی ایک ایسی عارضی ضرورت کے لیے نازل کی گئی تھی جو مخصوص طرح کے تمدنی نظام اور تہذیبی اقدار کی زمانی و مکانی جہات نے پیدا کردی تھی۔ حالانکہ ’’وحی‘‘ انسان کی دائمی اور ابدی فطرت سے خداوندِ کریم کا دائمی اور ابدی خطاب ہے۔ انسان کی حقیقی فطرت میں خیر و فلاح اور شر و فساد کی صورتیں ہمیشہ ایک رہتی ہیں۔ عارضی اور وقتی مصلحتوں کو نزول وحی کی وجہ قرار دینے کا مطلب ہے کہ وہ ’’عقل‘‘ کے مساوی کوئی شے ہے۔ ’’وحی‘‘ اور عقل، انسانیت کی ہدایت کے دو یکساں رہنما نہیں ہیں۔ یہ عقلی نظامات کی خوبی ہے کہ وہ حالات حاضرہ کی پیداوار ہوتے ہیں اور ان میں وضع ہونے والے احکام ابداً و دائماً تغیر پذیر رہتے ہیں۔ اگر ختم نبوت کے بعد مبنی بروحی احکام اپنے اندر تغیر و تبدل کا امکان رکھتے ہوں تو’’ وحی‘‘ کا تصور ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ وحی شدہ احکام میں تغیر و تبدل کے اس امکان کے جواز کو ایک لمحے کے لیے بھی قبول کرلیا جائے تو اسلام کی عمرانی ہیئت کا تصور محو ہوجائے گا۔ اس نکتہ نظر سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید تاریخ کے متن کی ایسی کتاب ہے جس کی افادیت ہمارے زاویۂ نگاہ کی محتاج ہے۔ جب ہم اپنی کسی مصلحت کو اس کے احکام کی خلاف ورزی سے حاصل کرنا چاہیں تو ہمارے پاس گویا یہ حق محفوظ ہے۔ عقل بطور واضعِ احکام وحی کے بعد وضعِ احکام عقل کا وظیفہ ہے۔ ’’وحی‘‘ بہ حیثیت مبدائے احکام اعلیٰ ترین درجے پر فائز فضیلت ہے۔ وحی وہب محض ہے، انسان کی کسی موجود استعداد کی ترقی یافتہ شکل نہیں ہے۔ وحیِ خداوندی کسبی شے نہیں ہے۔ عقل نہ ’’وحی‘‘کے مساوی ہے اور نہ اس سے ایک درجہ کم حصول علم کی نچلی سطح ہے۔ ان دونوں فضائل میں ماہیت کا ہی نہیں فطرت کا بھی اختلاف ہے۔ عقل بلند ترین درجے پر ’’وحی‘‘ نہیں بن سکتی اور ’’وحی‘‘ کا ادنیٰ درجہ عقل کی صورت اختیارنہیں کرسکتا۔ عقل’’ وحی‘‘ نہیں ہے اور نہ’’ وحی‘‘ عقل ہے۔ عقل ’’وحی‘‘ کا جزو ہے اور نہ کل ہے، ظہور ہے نہ کمون ہے اور نہ بروز ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی ضروری ہے کہ عقل کی حیثیت ’’وحی‘‘ کو قبول کرنے کی استعداد و اہلیت کی ہے۔ انسان کے درجہ وجود پر عقل ’’وحی‘‘ سے اخذ و قبول کی ایک ناگزیر شرط ہے۔ ایسے تمام احکام جن کو عقل نے ’’وحی‘‘ سے اخذ و قبول کے طور پر وضع کیا ہے وہ مبنی بروحی احکام کے مساوی کبھی نہیں ہوسکتے۔ ائمہ مجتہدین کے مابین اختلاف رائے کا سبب تجزیہ و تحلیل کی استعداد کا تفاوت ہو یا احکام منصوصہ کی تعلیل و توجیہہ کے فہم و ادارک میں نقص و کمال کا فرق ہو دونوں صورتوں میں ان کی حیثیت ماخوذاتِ ذہنیہ کی ہے ،اخذ شدہ احکام کا انکار’’ وحی‘‘ کے انکارکے مساوی نہیں ہے۔ احکام کی ان دو انواع میں ایک کا مبدا ’’وحی‘‘ اور دوسرے کامبدا عقل ہے۔ مبدا کی بقا و قیام تعمل کی بقا و قیام کو مستلزم ہے، اس لیے عقل پر مبنی احکام وضع ہوتے رہتے ہیں اور اخذوقبول کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ چنانچہ یہ خیال کہ وضع احکام یعنی اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے عملاً اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اجتہاد اسلامی عمران میں کبھی بند نہیں ہوا ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس سلسلے میں غلط فہمی کی بنیاد قانون کے مزاج اور تقاضوں سے بے اعتنائی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’قانون سازی‘‘ بلاضرورت کبھی نہیں کی جاتی۔حالات کی تبدیلی، جدید آلات کی آمداورعمرانی اختلافات کے ظہور وغیرہ میں کوئی شے قانون سازی کی وجہ نہیں بن سکتی۔ نئی صورت حال کا وجود لازماً قانون سازی کا تقاضا نہیں کرتا۔ قانون سازی کا عمل فقط اس وقت ہوتا ہے جب ہیئتِ اجتماعیہ کے نظام اقدار میں خلل واقع ہونے لگے اور اقدار و احکام کی تعمیل میں افراد مشکلات کا شکار ہورہے ہوں یا مقاصد الشریعہ میں سے کسی ایک یا تمام مقاصد کے حصول میں مشکلات پیدا ہورہی ہوں اور اس کا حل قانون سازی سے ہی ممکن ہو تو اجتہاد کیا جاتا ہے۔قانون سازی کے ذریعے سے عمرانی اقدار کو تحفظ، افراد معاشرہ کو متحرک اور مقاصد شریعت کو محفوظ و مامون بنایا جاتا ہے۔ جہاں پر ایسی مشکلات ظہور پذیر نہ ہوں وہاں قانون سازی ایک لایعنی عمل کے طور پر تو ممکن ہے مگر یہ ’’اجتہاد‘‘ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ قانون سازی کا عمل شوقیہ ہوسکتا ہے مگر بامقصد اجتہاد کسی ٹھوس ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے۔ شوقیہ قانون سازی کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں، ان میں سے ایک مثال ان طبقات کی قانون سازی ہے جو نہ تو معاشرے میں نیک نامی کے حامل ہیں اور نہ قوت نافذہ ان کی حامی ہے۔ مذکورہ دونوں صورتوں سے محرومی کے باوجود قانون سازی سے دست کش نہ ہونا ایک ایسا طرز عمل ہے جس کی لا یعنیت کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہے۔ ہمارے ایسے مضمحل معاشرے میں قانون سازی کے ذریعے سے اسلامی اقدار کی حفاظت کرنے والے مذہبی زعما حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی سعی میں مصروف ہیں اور اس قبیح عمل کو ’’اجتہاد‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اجتہاد اور تشکیل حکم کی دو سطحیں اجتہاد کی حقیقی اہمیت کے ادراک اور اس کے وقوع کے امکانات کے بھرپور احاطے کے لیے ضروری ہے شعور ِقانون کی روشنی میں ’’حکم‘‘ کی دو سطحوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا جائے۔ تشکیل ِ حکم کی ایک سطح ’’وضع حکم‘‘ کہلاتی ہے۔ اس سطح پر حکم یا قانون مقاصد کے حصول کے لیے وضع کیا جاتا ہے یعنی شارع یا واضع حکم یا قانون کو مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے حکم وضع کرتا ہے۔نظری اعتبار سے یہ سطح ’’حکم‘‘ کو ذریعہ یا وسیلہ بناتی ہے اور اسی طرح حکم کی تعمیل کی حیثیت بھی نظری مفروضے کی ہے۔ شارع یا واضع ِحکم یہ خیال کرتا ہے کہ اس حکم پر عمل کرنے سے فلاں فلاں مقاصد حاصل ہوجائیںگے۔ اس مفروضہ صورت حال میں حکم حصول مقاصد کا ذریعہ متصور ہوتا ہے۔ مگر یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ سطح حکم کی تعمیل یا بالفعل متحقق ہونے کی نہیں ہے۔ یہ سطح وضع و تشکیل حکم کا ایک مرحلہ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ دوسری سطح حکم کی تعمیل یا بالفعل متحقق ہونے کا مرحلہ ہے۔ حکم اس مرحلے پر اپنے مخاطَب سے متعلق ہوجاتا ہے۔ شارع یا واضع حکم اس مرحلے پر بالفعل موجود نہیں ہوتے۔ اس مرحلے پر حکم کی تعمیل درکار ہوتی ہے اور حکم جن مقاصد کے لیے وضع کیا گیا ہے وہ یہاں موضوع بحث نہیں ہوتے۔ اس مرحلے پر حکم بذاتہٖ مقصود ہے اور حکم اپنے سوا یا اپنے سے باہر کسی مقصد کے حصول کا قطعاً ذریعہ نہیں ہے۔حکم کا مخاطَب ان مقاصد کو اسی حکم سے حاصل کرنے کے سوا اپنے اختیار میں کچھ نہیں رکھتا۔ مخاطَب حکم کا متمیز کردار ہی یہ ہے کہ تعمیل حکم سے اپنی نظر کو متجاوز نہ ہونے دے۔ اگر مخاطب حکم کی توجہ کا مرکز ’’حکم‘‘ کی تعمیل کے سوا کچھ اور بن جائے تو بے شک عمل حکم کے مطابق ہو مگر حکم کی اتباع نہیں ہے۔ اس امر پر غور کریں تو مذکورہ بالا نکتہ آسانی سے سمجھ آ سکتا ہے، ’’حکم‘‘ ایک بار وضع ہوجائے اور ایک مطالبے کی صورت اختیار کرلے تو خود اس ’’مجتہد‘‘ یا ’’واضع ِحکم‘‘ پر بھی اسی طرح واجب التعمیل ہو جاتاہے جیسے کسی اور کے لیے اس کے اوپر عمل کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں ہے ’’ان الحکم الا اللّٰہ‘‘ صاحب حکم ہونا ایک منصب ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔ اسلام کی عمرانی ہیئت میںیہ منصب اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے اس لیے تمام انسان بلا استثنا مخاطب حکم ہیں۔مخاطب حکم کا منصب انسان کے ساتھ اسی طرح سے خاص ہے جس طرح سے صاحب حکم کا منصب اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔ کوئی بھی نہ قانون سے بالا ہے، نہ قانون کے واضع کا منصب رکھتا ہے۔ جس نے اپنی ہستی کو قانون سے بالا فرض کیا وہ صاحب حکم ہونے کا دعویدار ہوا، وہ اسلام کے تصور کائنات میں شرک کا مرتکب ہوا اور اسلام کے تصور خیر و شر میں جس طرح ایمان رأس الحسنات ہے اسی طرح شرک رأس السیئات ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ [المائدہ: ۴۴] ہیئت اجتماعیہ اور اصولِ حرکت پیغمبر علیہ السلام کی حدیث ہے :’’خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم…‘‘ [بخاری و مسلم] ترجمہ: ’’ادوار میں سب سے بہتر میرا دور ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس سے ملے ہوں اور پھر ان لوگوں کا جو ان سے ملے ہوئے ہوں۔‘‘ مذکورہ بالا حدیث میں کسی دور کی بہتری کو افراد سے وابستہ کیا گیا ہے۔ جس دور میں جیسے لوگ ہوں گے اس دور کا درجہ خیر و شر کے اعتبار سے انھی لوگوں سے متعین ہوگا۔ زمانہ فی نفسہٖ اپنے اندر نہ برائی رکھتا ہے نہ اچھائی کا حامل ہوتا ہے۔ پیغمبر علیہ السلام کا وجود مسعود حیات ظاہری میں وقت یا زمانے کے جس جوہر پر قائم تھا وہ اب بھی اسی طرح قائم ہے اور تاقیامت اسی طرح قائم رہے گا۔ ہیئت اجتماعیہ کی حرکت فی الزمان اس کی زندگی کی علامت ہے جو ظاہراً کسی اندرونی یا بیرونی اصول کی محتاج نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب تک وہ زمانی اصول برقرار رہے گا تو حرکت برقرار رہے گی اور جب وہ اصول باقی نہیں رہے گا تو حرکت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہیئت اجتماعیہ کو نامی وجود کے مماثل فرض کیا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہیئت اجتماعیہ واقعتا کوئی نامی وجود ہے اور اس کے اصولِ نمو میں زمانی حرکت کو وہی دخل ہے جو نامی وجود میں زمانی حرکت کو ہوتا ہے۔ ہیئت اجتماعیہ میں کارفرما اصولِ نمو فطری نہیں ہوتا بلکہ ارادی ہوتا ہے جبکہ نامی وجود میں نمو کے تمام امکانات فطری ہوتے ہیں۔ ہم اگر ہیئت اجتماعیہ کو نامی وجود سے تعبیر کرتے ہیں تو محض سہولت فہم کے لیے ایسا کرتے ہیں، ورنہ عمرانی ہیئت اجتماعیہ نامی وجود کی طرح مختلف عناصر کی وحدت سے بننے والی اکائی نہیں ہے۔ عمرانی ہیئت اجتماعیہ ایک شعوری وحدت ہے جو عملاً اور حقیقتاً نامی وحدت سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ شعور کی سطح پر ارتقائی حرکت کا جائزہ نامی حرکت کے معیار پر لینا علمی اعتبار سے کوئی خوش آیند طرزعمل نہیں ہے۔جو دانشور عمرانی ہیئت اجتماعیہ کے نامی ہونے کے مفروضے کو حقیقت نفس الامری سمجھتے ہیں انھیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ خارجی مظاہر میں حیاتیاتی تحرک اور شعوری تحرک میں نوعی امتیاز ہے۔ دونوں مظاہر کے اصولِ نشوونما کبھی ایک نہیں ہوسکتے۔ حیاتیاتی نمو اختیاری نہیں ہوتا بلکہ فطری اور جبری نمو ہے۔ اس کے برعکس شعوری نمو کا بنیادی اصول اختیار ہے۔ اختیار کے اصول پر قانون قائم ہے اور سزا و جزا کا جواز بھی اسی اصول پر معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ درحقیقت عمرانی ہیئت اجتماعیہ کی نامی ضرورت نہیں ہے بلکہ شعوری ضرورت ہے، یہ ایک اختیاری عمل ہے اور فطری یا غیرارادی اور جبری حرکت نہیںہے۔ عمرانی ہیئت اجتماعیہ کو نامی وحدت خیال کرنے والے مفکرین یہ بتاتے ہیں کہ ہیئت اجتماعیہ کا ایک دور طفولیت کا ہے بہ الفاظ دیگر ہیئت اجتماعیہ یا معاشرہ جس اجتماعی اصول پر قائم ہے، جس اصول وحدت کے شعور سے باہم پیوست ہے وہ نادانی اور فہم سے عاری طفولیت کا دور ہے۔ معاشرے کے وجود کو بازیچۂ اطفال خیال کرنے والے ان مفکرین کے لیے ’’اجتہاد‘‘ میں یہ سہولت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اجتماعی شعور کے نقص کو کام میں لاکر ان احکام میں بھی تصرف کی راہ پیدا کرلیتے ہیں جن میں تصرف کا تصور کفر کے مترادف ہے۔ ان کے نزدیک دوسرا دور شباب کا دور ہے یہ گویا معاشرے کی اجتماعی نفسیات میں سب سے زیادہ کارآمد دور ہے اور تیسرا دور کہولت کا دور ہے۔ اس موقف کے پیش نظر اجتماعی زندگی کی عمرانی ہیئت کی تشکیل معاشرے کے ارتقائی مراحل سے وابستہ ہے۔ ہر دور لازماً اور جبراً دوسرے دور سے مختلف قسم کے تمدنی اور تہذیبی تقاضوں سے دوچار ہوتا ہے لہٰذا ’’اجتہاد‘‘ ان کے موقف کے پیشِ نظر درحقیقت معاشرے کی ایسی اندرونی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہے جو اس وقت کے مرحلۂ ارتقا نے پیدا کی ہے گویا ہیئت اجتماعیہ کے لیے مستقل بالذات اور دائمی اصول ممکن نہیں ہیں۔ دور طفولیت کی ذمہ داریاں عہد شباب میں اور عہد شباب کے اصول و ضوابط دور کہولت میں کارآمد نہیں ہوسکتے۔ عہد طفولت اور دور کہولت میں ذمہ داریاں خودبخود گھٹ جاتی ہیں اور یہ وظیفہ’’ اجتہاد‘‘ سے ہی انجام پاسکتا ہے۔ اس موقف کی رو سے معاشرہ اپنی طبعی اور خلقی کمزوری اور نقص کے باعث ایسے اقدامات کے لیے معذور خیال کیا جائے گا جو درحقیقت عہدِ شباب کی ناگزیر ضرورت تھے۔ ہر دور کے لیے قانون سازی کے بنیادی اصول بدل جائیں گے۔ ایک دور کی سعادت دوسرے دور میں شقاوت بن جائے گی اور اس کا برعکس بھی ممکن ہے۔ ہیئت اجتماعیہ کا یہ تصور تعبیر و تشریح اور تحلیل و توجیہ کے نام پر ’’مبنی بروحی احکام‘‘ میں تصرف کو ’’اجتہاد‘‘ کا نام دے سکتا ہے بلکہ دیتا ہے۔ مذکور بالا صورت کے پیش نظر اس موقف کے حامی دانشور یہ نہیں سمجھ سکتے کہ زمانے کا تغیر’’ اجتہاد‘‘ کا محرک بننے کا اہل نہیں ہوتا۔ وقت کے بہاؤ سے پیدا ہونے والی شکست و ریخت ’’اجتہاد‘‘ یا جدید قانون سازی کا محرک نہیں بن سکتی۔ ہیئت اجتماعیہ کے لاشعور میں خارج میں واقع ہونے والے واقعات کے لیے قانون سازی کی تمنا یا آرزو پیدا ہونے کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ معاشرہ اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے سے اعراض کے مرض میں مبتلا ہوگیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہیئت اجتماعیہ کی بقا و قیام کا انحصار دائمی اصول پر ہر طرح کی سودے بازی سے گریز کرنے میں مضمر ہے۔ اگر وقت کے پیدا کردہ تقاضے دائمی احکام میں تغیر پر مجبور کردیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہیئت اجتماعیہ اپنا وجود برقرار رکھنے میں مطلوبہ ہمت اور حمیّت سے محروم ہوچکی ہے۔ ہیئت اجتماعیہ کی تعاملی حرکت علم و فن اور فہم و ذکا کے اعتبار سے ترقی یافتہ معاشرہ ہی نہیں بلکہ ہر اعتبار سے ناقص معاشرہ بھی اپنے قرب و جوار میں بسنے والی دوسری اجتماعی ہیئتوں کو جس طرح اپنے رسوم و رواج اور اقدار و فضائل سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بعینہٖ اسی طرح ان سے متأثر ہونے کی اہلیت سے کبھی محروم نہیں رہتا۔ اجتماعی ہیئتو ں کے تعامل سے پیدا ہونے والی صورت حال چاہے ارتقا کا سبب بنے یا زوال کو مستلزم ہو ہر دو صورتوں میں معاشرے کی تعاملی حرکت ہوتی ہے۔ ہیئت اجتماعیہ کے قیام و بقا کا ایک اصول ’’عصبیت‘‘ ہے۔ اس اصول کے ہوتے ہوئے بھی اجتماعی ہیئتوں کے باہمی تعامل کا انکار ممکن نہیں ہے۔ مکانی قرب کے باعث وقوع پذیر ہونے والے اثرات اجتماعی اقدار کے منافی ہوں تو ان سے محفوظ رہنے کے لیے یاباہمی تعامل کے اثرات کو کم کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کے برعکس صورت میں بھی قانون سازی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے یعنی تعامل کے اثرات کو یقینی اور مؤثر انداز میں ہیئت اجتماعیہ کے اندر جاگزیں کرنے کے لیے’’ اجتہاد‘‘کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ اس تعامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تغیرات اس وقت غیر مؤثر ہوجاتے ہیں جب یہ تغیرات معاشرے کی اعلیٰ اقدار سے متصادم ہورہے ہوں۔ عمرانیات کے طلبہ کے لیے اس سلسلے میں ترکی یا دیگر مسلم معاشروں کا معاملہ دل چسپی سے خالی نہیں ہے جہاں پر تعامل کے اثرات کو معاشرے کی نفسی کیفیات کا حصہ بنانے میں قانون سازی حیران کن حد تک غیرمؤثر رہی ہے۔ قانون کی قوت نافذہ پورے قہر و جبر کے ساتھ متحرک ہونے کے باوجود مغربی تہذیبی اقدار ترکوں کی اسلامی اقدار کی جگہ نہیں لے سکیں۔ مؤثراتِ حیات میں تغیر مؤثراتِ حیات میں تغیر سے پیدا ہونے والی حرکت جوہری نوعیت کی ہوتی ہے۔ یہ حرکت مذکور ماقبل دونوں طرح کی حرکات سے بہت مختلف اور پیچیدہ ہوتی ہے۔ مؤثراتِ حیات کی تبدیلی کے مظہر کو سمجھنے کے لیے ہمیں اقدار کے تصور پر غور کرنا ہوگا۔ اقدار عملاً تصورات اور حقیقتاً محرکاتِ عمل ہیں۔ عمل اپنی ظاہری صورت میں’’ رسم‘‘ کہلاتا ہے اور اپنے محرک کے حوالے سے اس میں معنویت کی فضیلت یا قدر کی روح سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم انسانی عمل کی ظاہری صورت پر حکم لگاتے ہیں اور اس کے محرک کے حوالے سے اس کی قدر و قیمت متعین کرتے ہیں۔ انسانی عمل اپنی ظاہری صورت میں قدر و قیمت کا حامل کبھی نہیں ہوتا اور محرک کے حوالے سے درست یا غلط ہونے کا ’’حکم‘‘ نہیں لگایا جاسکتا۔ انسانی اعمال کی قدر و قیمت کا تعین اقدار کے تناظر میں اور ظاہری صورت کو اوامر و نواہی کے حوالے سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کا امکان موجود ہے کہ ’’عمل‘‘ ظاہری صورت میں حکم کے مطابق ہو اور اپنے محرک کے حوالے سے ’’حکم‘‘ کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو تو مؤثرات حیات میں تغیر کی یہی صورت ہے کہ ظاہراً ایک شے قانون کے مطابق ہو اور روحاً قانون کے خلاف ہو۔ اقدار درحقیقت حقائق ، اعمال اور خیالات کو پرکھنے اور کام میںلانے کے لیے زاویۂ نگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر زاویۂ نگاہ بدل جائے تو حقائق و اعمال اور خیالات اپنی ظاہری صورت کو نہ بھی بدلیں تو بھی ان میں جوہری تغیر رونما ہوچکا ہوتا ہے۔ ہیئت اجتماعیہ میں ایسی تبدیلی پورے نظام اقدار کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ تغیر فکری نوعیت کا ہے۔ یہ شعور کے بنیادی اوضاع میں انقلاب سے واقع ہونے والی تبدیلی ہے۔ اس شعوری انقلاب نے خارج کی دنیا کو ایک غیرمانوس تناظر کا عادی بنانا ہوتا ہے۔ اس تغیر نے نہ صرف موجود اقدار کو منقلب کرنا ہوتا ہے بلکہ اقدار کے مرکزی تصور کو نئے سرے سے وضع کرنا ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کے باعث نہ صرف اصول اجتہاد بدلتے ہیں بلکہ خود تصورِ اجتہاد ہی بدل جاتا ہے۔ ہیئت اجتماعیہ کی اس جوہری تبدیلی کا عملی مظاہرہ مؤثراتِ حیات کے بدلنے سے ہوتا ہے۔ اس پیچیدہ تصور کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی عملی صورتوں کی وقوع پذیری پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مؤثراتِ حیات میں معاشرت، معیشت، سیاست، تعلیم، تہذیب اور تمدن شامل ہیں۔ یہ وہ مظاہر ہیں جو اجتماعی زندگی کے مؤثرات کہلاتے ہیں۔ ان مظاہر کی ایک ظاہری صورت ہے اور دوسری قدری سطح ہے جو ظاہری صورت کے لیے معیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ عمرانی مطالعات میں ’’معاشرت‘‘ افراد کے باہمی تعلق سے پیدا ہونے والے رویوں سے عبارت ہے۔ افراد کے باہمی تعلقات کے دو محرکات ہیں۔ یہ خیر و شر کے عنوان سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔ ہم یہاں ان کے خیر و شر کو قبول کرنے کے باوجود ان کی شر و خیر کی حیثیت پر بات نہیں کررہے بلکہ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ یہ معاشرت پر کیسے مؤثر ہوتے ہیں۔ اب ایک ’’عمران‘‘ یا معاشرہ ایسا ہے جس میں باہمی تعلق کی اساس خود پسندی، جاہ طلبی اور نسلی تفاخر ہے۔ اس اساس کی بنیاد پر ایک معاشرت وجود میں آجائے گی۔ اس کے مقابلے میں اسی مؤثر حیات میں ایک دوسری اساس پیدا ہوجاتی ہے یعنی باہمی تعلق اسلامی اخوت پر قائم ہو: لا یومن احدکم حتیٰ یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ یعنی اس وقت تک تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔ پہلی صورت میں مؤثر حیات اور ہے اور دوسری صورت میں بالکل مختلف ہے ۔ اسلام کی عمرانی ہیئت میں معاشرت کی سطح پر یہ تبدیلی واقع ہوجائے کہ باہمی معاشرتی تعلق ’’اخوت‘‘ پر قائم نہ رہے تو’’اخوت‘‘ پر مبنی معاشرت کے’’ اقدار‘‘ کی حفاظت پر جو قانون مامور تھا وہ اس تبدیلی کے بعد ناقابل عمل ہوجائے گا اور جب تک اس قانون کو نہ بدل لیا جائے اس وقت تک عمرانی سطح پر رونما ہونے والی بے چینی کا ازالہ نہیں ہوسکے گا۔ اس موثر حیات کی تبدیلی نے ’’اجتہاد‘‘ کی ضرورت کو پیدا کیا ہے۔ یہ بالکل ہی ایک نئی جہت ہے جس کا اسلام کی ہیئت اجتماعیہ کو اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ تجربہ کرنا پڑرہا ہے۔ یہ’’ اجتہاد‘‘ اسلام کی عمرانی ہیئت کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے عمل میں نہیں لایا جارہا ہے بلکہ ہیئت اجتماعیہ میں ایک جوہری تغیر رونما ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ’’اجتہاد‘‘ اسلام کے مقاصد حیات کے بجائے اس عمرانی تبدیلی کے لیے ایسے قانون وضع کرے گا جس کی غایت ’’اخوت‘‘ کا دفاع نہیں بلکہ خود پسندی، جاہ طلبی اور نسلی تفاخر ایسے عمرانی رذائل کا قیام و بقا اور دفاع ہے۔ اسے جو چاہے نام دے دیں کہ یہ وقت کا تقاضا ہے، حالات کی تبدیلی کا جبرہے وغیرہ مگر یہ بات طے ہے کہ ’’اجتہاد‘‘ کی ضرورت اپنے جوہر میں اسلام کے تصور قانون سازی کے زمرے سے باہر ہوگئی ہے۔ اسی طرح وہ معیشت جس میں دولت یا ملکیت کے ساتھ انفاق، ایثار اور احسان کا رویہ اساس العمل تھا۔ فرد یا اجتماع میں انفاق، ایثار اور احسان کی معاشی اقدار کو محفوظ رکھنے کے لیے ’’اجتہاد‘‘ کی ضرورت پڑتی توقانون وضع کیا جاتا۔ لیکن اب معیشت میں یہ تبدیلی آگئی ہے کہ انفاق، ایثار اور احسان کی جگہ حرص، لالچ اور بخل نے لے لی ہے۔ مؤثر حیات بدلنے سے معیشت کا بنیادی رویہ بدل گیا ہے۔ وہ قانون جو انفاق، ایثار اور احسان کی معیشت کے لیے وضع کیا گیا تھا وہ حرص، لالچ اور بخل کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں حائل ہوجاتا ہے، اس لیے نئے قانون کی ضرورت پڑتی ہے جس میں مؤثر حیات میں رونما ہونے والی تبدیلی کو پیش نظر رکھ کر قانون سازی کی جائے۔ اب اسی طرح سیاست، تعلیم، تہذیب و تمدن میں بھی ایک جوہری تبدیلی آچکی ہے۔ اس لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق قانون بنانے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ مگر یہ ’’اجتہاد‘‘ اسلام کی عمرانی ہیئت کے امتیازی وصف کی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ وہ ’’اجتہاد‘‘ اسلام کی عمرانی ہیئت کے لیے ایک متحرک عضو کا کام کرتا ہے جس کی اساس اسلامی اقدار ہوتی ہیں۔ سود کی مختلف صورتوں کو جواز کا لبادہ پہنایا جا سکتا ہے مگر یہ اسلام کے معاشی تصورات سے دور ہی نہیں بلکہ اس کے سرتاسر منافی ہے۔ حرص، لالچ اور بخل کو فروغ دینے والی معیشت میں ’’سود‘‘ یا ’’ربو ٰ ‘‘ حلال کرنے کے لیے ’’اجتہاد‘‘ کیا جا سکتا ہے مگر یہ’’ اجتہاد‘‘ اسلام کے معاشی مقاصد سے متعلق کبھی نہیں ہو سکتا۔ ’’اجتہاد‘‘ اسلام کی عمرانی ہیئت میں ایک مؤثر حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا ’’مدعا‘‘ اسلام کے اقدار حیات کی حفاظت ہے اور اگر اقدارِ حیات میں ایسی تباہ کن تبدیلی واقع ہوجائے تو ’’اجتہاد‘‘ پر اصرار کرنے والے دانشوروں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ انسان کی حیاتِ اجتماعی کا زیادہ بصیرت سے مطالعہ کرنے کی سعی کریں۔ سطحی مطالعوں سے حاصل ہونے والی معلومات ’’علم‘‘ کا درجہ نہیں پاسکتیں۔ بالخصوص ’’اجتہاد‘‘ ایسے اہم اور ناگزیر مؤثر حیات کے فہم اور عمل کے لیے ہمیں اپنے تجزیے، تبصرے اور نتائج پر بار بار غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ صورت حال یہ ہوگی کہ اسلام کے ایک اجتماعی اصول سے کافرانہ اقدار کی حفاظت کا کام لیا جارہا ہوگا۔ پردہ داری می کند در قصرِ قیصر عنکبوت بوم نوبت می زند بر گنبد افراسیاب ـئ…ئ…ء اقبال کے اصولِ خودی اور ان کا اطلاق مسز شگفتہ شہناز یوں تو علامہ اقبال کا تمام فلسفہ اور کلام سراسر عملی اور ادب برائے مقصد کی خوبصورت تصویر ہے لیکن ان کی مثنویاں (اسرار و رموز) تو خاص طور پر افراد و اقوام کو ایک ایسا لائحہ عمل مہیا کرتی ہیں جن پر بتدریج عمل کر کے افراد و اقوام عروج کے افق کو چھو سکتے ہیں اور ہر مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتا ہے۔ ہرمسلم ریاست ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی عظمت رفتہ کو پا سکتی ہے۔ مثنوی اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں بیان کردہ ان کے نظریات اور فلاسفی دراصل علامہ اقبال کے افکار میں مرکزی نکتہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس فلسفے کی تشکیل کے بعد ان کی تمام عمر اسی فلسفے کی علمی اور عملی توضیح و تشریح میں گزری۔ان کے فلسفہ خودی کے عملی ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس فلسفے کا یہ اثر تو انھوں نے اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیا تھا کہ اس کے باعث برصغیر کے مسلمانوں میں ایک انقلاب برپا ہو گیا تھا اور وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنے تشخص کے لیے پوری طرح روبہ عمل ہو گئے تھے۔ برصغیر سے باہر عام اسلامی دنیا میں بھی ان کے اس فلسفے کے اثرات پہنچ گئے۔ ملت اسلامیہ نے اس سے اثر قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔ مثنوی اسرارِ خودی کی تصنیف کے محرکات میں بھی یقینا ملت اسلامیہ کی بقا اور استحکام کا جذبہ تھا۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی لکھتے ہیں: قیام یورپ کے زمانے میں جب انھوں نے فلسفۂ عجم پر اپنا علمی مقالہ لکھا اور اس ضمن میں فارسی ادب اور تصوف کا گہرا مطالعہ کیا تو انھوں نے محسوس کیا کہ دنیا میں مسلمانوں کی کمزوری اور انحطاط کا ایک بڑا سبب عجمی تصوف اور نفی خودی کا وہ تصور ہے جو انسانی وجود کو موہوم سمجھتا ہے یا بس قنوطیت کی تعلیم دیتا ہے اور سعی و عمل کی بجائے یہ سکھاتاہے کہ دوڑنے سے لے کر چلنے، کھڑا رہنے، بیٹھنے، سونے اور مرنے تک سکون کی ہر منزل میں زیادہ راحت ہوتی ہے۔ ……اقبال کو یقین تھا کہ اس شدید کش مکش حیات کے زمانے میں مسلمان اگر اسی تصورِ حیات کو لیے رہیں اور اپنی انفرادی و اجتماعی قدرو قیمت نہ جانیں تو ان کا جو حشر ہونے والا ہے اس کی پیش قیاسی بلقان اور طرابلس کی جنگوں سے ہو سکتی ہے۔۱؎ علامہ اقبال وقتاً فوقتاً اپنی اردو نظموں کے ذریعے ملت اسلامیہ خصوصاً برصغیر کے مسلمانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے رہے۔ اس کا بہترین ثبوت ان کی نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ ہے جو ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی۔چند اشعار ملاحظہ کیجییـ: آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے ۲؎ شاید علامہ اقبال نے یہ محسوس کیا کہ نظمیں اس مقصد کے لیے کافی نہیں ہیں، بلکہ اس کے لیے کوئی تفصیلی کتاب لکھنی چاہیے جس میں فلسفہ خودی اور تصور حیات کی تشریح دل آویز پیرائے میں ہو سکے۔ جو مسلمانانِ عالم کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل کا کام دے۔ اس کے لیے انھیں ناگزیر طور پر اردو کو چھوڑ کر فارسی کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ ایک تو کم عمر اردو زبان کی تنگ دامنی مدنظر تھی تو دوسری طرف وہ یہ پیغام خودی صرف برصغیر کے مسلمانوں کوہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے فارسی زبان ہی زیادہ موزوں تھی۔ مثنوی اسرارِ خودی اس مشہور عربی مقولے کی تفسیر و تشریح ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ ان کے خیال میں نظام عالم کی بنیاد ’’خودی ‘‘ پر ہے اور جو کچھ نظر آرہا ہے وہ صرف خودی کا کھیل ہے۔ انفرادی زندگی کا تسلسل خودی کو مستحکم کرنے سے ہے اور زندگی کا باقی رہنا تخلیق اور تولید مقاصد کی بناپر ہے۔ عشق الٰہی اور محبت رسول ﷺ سے خودی مضبوط و مستحکم ہوتی ہے۔ اغیار سے سوال کرنے یا ان کے دست نگر اور محتاج ہونے سے خودی کمزور اور ضعیف ہو جاتی ہے۔ اس لیے خود دار انسان کو کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہیے۔ علامہ اقبال کے نزدیک زندگی کا ثبوت ہی یہ ہے کہ ہم اپنی دنیا خود پیدا کریں۔فطرت اور ماحول سے ہم کو جو کچھ ملتا ہے اس پر قانع اور مطمئن ہو کر نہ بیٹھ رہیں بلکہ اپنے لیے ایک نئی دنیا تخلیق کریں: اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے۳؎ علامہ اقبال کے خیال میں نفیِ خودی کا اصول مغلوب اور مفتوح قوموں کا یجاد کیا ہوا ہے ۔ یہ مفتوح و مغلوب قومیں چاہتی ہیں کہ وہ غالب اور فاتح قوموں کو کمزور کر دیں تاکہ ان کے ظلم و ستم سے نجات پائیں اس لیے وہ بے خودی اور فنائیت کے مسلک کا پرچار کرتی ہیں۔ اس دلیل کو وہ ایک مثال بلکہ ایک حکایت سے بیان کرتے ہوئے ’’بکریوں‘‘ کے ایک گروہ کا ذکر کرتے ہیں جو شیروں کے ظلم و ستم سے قطعی بے بس اورتنگ آکر ایک زیرک ’’بھیڑ‘‘ سے اس مسئلے کا حل چاہتا ہے۔ دانا اور زیرک بھیڑ کئی ہفتوں کی سوچ بچار اور غور و فکر کے بعداس نتیجے پر پہنچی کہ بکریوں کی بزدل اور بے حوصلہ جماعت میں تو شیروں کی خوبو پیدا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ البتہ شیروں میں بزدلی اور بے حوصلگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کا ذہن رسا تھا اور یوں بھی غلامی اور محکومی میں جب جذبہ انتقام پختہ ہو جائے تو عقل حیلہ گری اور فتنہ انگیزی میںتیز ہو جاتی ہے لہٰذا اس نے ایک مکمل منصوبہ تیار کیا۔ کچھ عرصے کے بعد اس بھیڑ نے اعلان کر دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیروں کے لیے پیغمبر مقرر ہو کر آئی ہے اور ایسا آئینِ حیات لائی ہے جس سے بے نور آنکھوں کو نور اور محروم مسرت دلوں کو مسرت میسر آئے گی ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اس نے طاقت کے حصول اور استعمال کے خلاف اپنے تصورات کی اشاعت موثر انداز میں شروع کردی اور شیروں کو آمادہ کر لیا کہ وہ خون خواری اور گوشت خوری سے باز آجائیں۔ شیروں پر عجز و انکسار پر مبنی نفیِ خودی کی خواب آور تعلیم کا گہرا اثر ہوا۔ وہ تن آسان اور آرام طلب ہو کر گھاس پات پر گزران کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی آنکھوں سے ہیبت و جلال کی روشنی ختم ہو گئی، ان کے آہنی پنجے بے زور ہو گئے، ان کے دل افسردہ اور بدن ہڈیوں کے پنجر نظر آنے لگے۔ الغرض ایک انتقام پسند بھیڑ کی حیلہ گری اور فسوں کاری سے جیتے جاگتے شیر بھیڑوں کا گلہ بن کر رہ گئے۔ پروفیسر محمد عثمان اس حکایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حکایت کا موضوع اقبال کے نظام فکر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ نطشے اوربعض دوسرے مغربی مفکرین کی طرح وہ بھی ہر اس تحریک اور فلسفہ کے جانی دشمن ہیں جو انسانوں کے قوائے عمل کو مضحمل اور ان کے ارادوں کو کمزور اور بے جان بنا دے۔…اقبال کے نزدیک وہ تصورات جو دنیا کو موہوم اور دنیوی جدوجہد کو بے سود ٹھہراتے ہیں اور جن کی بدولت انسانوں میں مسکینی و دل گیری پیدا ہوتی ہے، خودی کے لیے انتہائی زہر ناک ہیں۔۴؎ علامہ اقبال نفیِ خودی اور فنا کی اس تعلیم کو ’’مسلک گو سفندی‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ مسلک افلاطون کا پیش کردہ ہے چونکہ افلاطون کا اثر مسلم صوفیہ اور مفکرین پر خاصا زیادہ تھا اس لیے مسلمان بھی اس مسلک گوسفندی کے پیرو کار ہو گئے اور اپنی کمزوری اور انحطاط کو تہذیب کی علامت سمجھنے لگے۔ پھر وہ شعر کی حقیقت بیان کر کے اسلامی ادبیات کی اصلاح چاہتے ہیںاور ادب و فن کو عجمیت اوربے عملی سے خودی اور زندگی کی طرف واپس لانا چاہتے ہیں۔ وہ خودی کے تربیتی لائحہ عمل پر وضاحت سے روشنی ڈالتے ہوئے اس کے تین مرحلے متعین کرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ’’اطاعت‘‘ ہے، کیونکہ اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اعلیٰ اور حقیقی حریت اطاعت الٰہی یعنی پابندی فرائض ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ بقول عزیز احمد: اطاعت کے معنی ہیں اپنے فرائض سے سرتابی نہ کرنا، جبر سے اختیار پیدا ہوتا ہے،مہ و پروین کی تسخیر سے پہلے اپنے آپ کو کسی نہ کسی آئین کا پابند بنانا ضروری ہے۔۵؎ تربیت خودی کے لیے دوسرا مرحلہ ’’ضبط نفس‘‘ کا ہے یعنی اپنے نفس پر قابو حاصل کرنے کا ۔ کیونکہ جس شخص کا حکم اپنی ذات پر نہیں چلتا وہ لازماً دوسروں کا محکوم ہو جاتا ہے۔ ملک حسن اختر اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں: اقبال کے نزدیک اپنے نفس کو قابو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خوف دنیا، خوف عقبٰی، خوف جان اور خوف آلام زمین سے نجات حاصل کرے۔ اس طرح اسے بعض چیزوں کی محبت سے بھی احتراز کرنا چاہیے مثلاً حب مال و دولت ، حب وطن، حب خویش و اقربا، حب زن، یہ محبتیں انسان سے ایسے کام کرواتی ہیں جو خودی کے لیے مضر ہیں ۔ ان محبتوں اور خوف سے بچنے کے لیے۔ ۱: لاالہ کی تلوار ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ ۲: نماز سے اپنے دل کو قوی کر لیا جائے۔۳: روزہ کی مدد سے تن پروری سے نجات حاصل کر لی جائے۔ ۴: حج سے وطن پرستی ختم کی جائے اور ہجرت کا سبق سیکھا جائے۔ ۵: حب دولت کو زکوٰۃ سے ختم کیا جائے۔ یہ پانچ چیزیں انسان کے نفس کو قابو میں کرتی ہیں اوروہ نفس کے اونٹ پر سواری کے قابل بن جاتا ہے۔ …وہ خدا کا نائب کہلاتا ہے اس کی خودی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ عناصر پر اس کی حکمرانی ہوتی ہے۔ وہ کائنات کی روح ہوتا ہے۔ اور اس کی ہستی اسم اعظم کی طرح مشکل کشاہوجاتی ہے۔۶؎ تربیت خودی کا تیسرا مرحلہ ’’نیابت الٰہی‘‘ کا ہے۔ اس مرحلے پر من و تو کے فاصلے سمٹ جاتے ہیں اللہ کا ہاتھ بندۂ مومن کا ہاتھ بن جاتا ہے، مختصر یہ کہ علامہ اقبال اس مثنوی اسرارِ خودی کے ذریعے مسلمانوں میں احساس بیداری پیدا کر کے انھیں عمل پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شکست خوردہ، تنزل و پستی، ذلت و نکبت اور احساس کمتری میں گرفتار مسلمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اگرچہ تخت و تاج آج مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں اور وہ اغیار کی نگاہوں میں زیاں کار اور ذلیل و خوار ہیں لیکن وہ اب بھی توحید کے علم بردار اور رحمتِ کو نینﷺ کے محافظ ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر کی نظروں میں وہ سرمکنون ہیںاور دنیا کی خلافت انھی کے لیے ہے۔ چاند اور سورج انھی کے نور سے روشن ہیں کیونکہ ان کی ذات، ذات حق کا مظہر ہے ان کی ہستی خدا کی نشانی ہونے کے باعث کبھی فنا پذیر نہیں ہوسکتی۔ پروفیسر محمد قاسم بن حسن اس مثنوی کے فلسفے پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں:ـ زندگی ایک بدیہی قوت ہے اس کا سر چشمہ یہ ہے کہ غلبہ پانے اور برتر ہونے کا ذوق ہو۔ یعنی جب تک دل میں بڑے کارنامے انجام دینے اور ہر مشکل سے پنجہ آزما ہونے کی تڑپ موجود نہ ہو، قوت کہاں سے آئے گی؟ جو فرد ذلت کی گہرائی میں پڑا ہوتا ہے وہ اپنی کمزوری و ناتوانی کو صبر و قناعت کا نام دیتا ہے۔ حالانکہ کمزوری اور ناتوانی زندگی کے راستے کے قزاق اور راہزن ہیں۔ ان کے بطن سے ڈر اور جھوٹ پیدا ہوتے ہیں۔۷؎ مطلب یہ کہ جووجود کمزور ہوگا وہ سب سے ڈرے گا۔ جب اسے کوئی نازک موقع پیش آئے گا تو جھوٹ بول کر نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ بقول علامہ اقبال: زندگانی قوت پیداستے اصل او ذوق استیلاستے ہر کہ در قعر مذلت ماندہ است ناتوانی را قناعت خواندہ است۸؎ الغرض علامہ اقبال مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ جو بار امانت (خلافتِ الٰہی) تو نے اٹھا رکھا ہے اسے منزل تک پہنچانے کے لیے جو قاعدے اور ضابطے ہیں تو ان سے بے خبر نہ ہوجا، بلکہ اس کے لیے صحیح صلاحیت پیداکر اوریہ صلاحیت اس طرح پیدا ہو سکتی ہے کہ تو اپنی ذات کو دونوں جہانوں سے بہتر سمجھے اور ماسوا سے ماورا ہو کر اپنے آپ کو صرف خدائے لم یزل کے کاموں کے لیے وقف کر دے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ ’’خودی کا کردار‘‘ کے عنوان سے تحریر کرتے ہیں: وجود اور تخلیق کے مسلسل عمل کو بڑھانے میںخودی کا جو حصہ ہے وہ یہ ہے کہ خودی کی غایت نہائی یہ نہیں کہ وہ کوئی چیز دیکھے بلکہ یہ ہے کہ وہ کچھ بن جائے۔ خودی کی کچھ بن جانے کی یہ کوشش ہی انسان کو اس قابل بناتی ہے کوہ وہ معروضیت کو صیقل کرنے کا آخری موقع حاصل کر لے اور اس طریقے سے…… بنیادی حقیقت ’’میں ہوں‘‘ کو حاصل کر لے۔ وہ اپنی حقیقت کا ثبوت ڈیکارٹ کے ’’میں سوچتا ہوں‘‘ میں نہیں بلکہ کانٹ کے ’’میںکر سکتا ہوں ‘‘ میںتلاش کر لے…… دنیا نہ تو محض دیکھنے کی چیز ہے اور نہ تصورات کے ذریعے سے ماننے کی ، بلکہ ایسی شے ہے جسے تخلیق اور تخلیق نو کے مسلسل عمل سے گزرناہے۔۹؎ خودی کی کاملیت یہ ہے کہ مرد مومن خدائے لم یزل کا دست قدرت اور زبان بن جاتا ہے۔ اس کی تدبیر ہی اس کی تقدیر بن جاتی ہے وہ لوح و قلم کا مالک بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارسکتا۔ وہ لازماً کسی معاشرے، کسی قوم وملت کا فرد ہوتا ہے اور یقینا فرد اور ملت کے درمیان رابطے اور تعلقات کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں۔ فرد و ملت کے اس رشتے اور تعلق کو علامہ اقبال نے اپنی دوسری مثنوی رموزِ بے خودی میں بیان کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس مثنوی میں فرد و ملت کے رابطے کو واضح کرنے کے لیے تصوف کی مشہور اصطلاح قطرہ و دریا استعمال کی ہے۔ بقول پروفیسر محمد جلیل نقوی: اردو و فارسی کے صوفی شعرا نفس انسانی کو قطرے سے اور ذات ایزی (اللہ تعالیٰ) کو دریا سے تشبیہ دیتے آئے ہیں ان کا عقیدہ رہا ہے کہ ’’عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا ہے ‘‘لیکن علامہ اقبال اس تمثیل کو فرد و ملت کے درمیان رابطے و تعلق کے لیے استعمال کر تے ہیں۔۱۰؎ ان کے خیال میں قطرہ (فرد) دریا (ملت) میں مل جانے سے فنا نہیں ہو جاتا بلکہ مزید مستحکم ہو جاتا ہے اپنی ذات میں اور اس طرح قطرہ(فرد) بلند اور دائمی مقاصد سے آشنا ہو جاتا ہے۔ اور اس کی خودی لازوال اور پائیدار ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال اپنی ایک اورنظم میں افراد و ملت کے تعلق کو ایک ددرخت کی طرح قرار دیتے ہیں۔ ملت درخت کا ایک تنا ہے تو افراد اس درخت کی شاخیں ۔ ان کے خیال میں اگر شاخ درخت سے ٹوٹ کر الگ ہو جائے تو اس کا وجود ختم ہو جاتاہے۔ اگر وہ درخت سے وابستہ رہے تو خزاں کے بعد اس پر بہار کا موسم بھی آتا ہے اور اس کا خالی وجود برگ و بار سے سج جاتا ہے۔ فرماتے ہیں: ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے کچھ واسطہ نہیں اسے برگ و بار سے ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۱۱؎ ایک اور جگہ فرد و ملت کے رشتے کواس طرح اجاگر کرتے ہیں: فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۱۲؎ فرد اور معاشرے کے تعاون اور ملاپ ہی سے تمدن کی تخلیق ہوتی ہے۔ معاشرتی اور تمدنی پابندیاں اور ذمہ داریاں ہی ایک فرد کو کمال ذات کی طرف لے جاتی ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین رقم طراز ہیں: پابندیاں ہی انسانی اخلاق و تمدن کی جان ہیں اس لیے کہ بغیر اس کے حقیقی آزادی کا تصور ممکن نہیں۔ اقبال کے نزدیک انسان میں احساس ذات کے ساتھ عمرانی ذمے داریوں کا شعور پیدا ہوتا ہے، جن کو جانے اور برتے بغیر تارحیات بے نغمہ رہتے ہیں۔۱۳؎ علامہ اقبال کا تمام فلسفہ اور تربیتی اصول و قواعد اسی محور کے گرد گھومتے ہیں کہ مسلمان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمام انسانیت کا پیشوا اور رہنما ہے اور یہ کہ وہ ایک عالم گیر برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسلام کا مقصود نوعِ انسان کی وحدت ہے۔ مغرب کی قومیت پروری اور وطن پرستی نے جغرافیائی حدود کے اِدھر اوراُدھر رہنے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔…… مسلمانوں نے بھی اگر اس کی تقلید کی تو وہ بھی دین سے بیگانہ ہو جائیںگے۔۱۴؎ اسرار و رموز میں وحدت ملت کے تمام اصول اسلامی احکامات کے مطابق ہیں، اس سلسلے میں ڈاکٹر سید عبداللہ اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فرد کی خودی جب ملت میں گم ہو جاتی ہے تو بڑی برکتوں کا باعث بنتی ہے اس کے لیے اقبال نے تطہیر و تکمیل کا ایک نصاب تجویز کیا ہے مثلاً یاس و حزن و خوف کا ازالہ، سوال کی ممانعت، مساوات واخوتِ بنی آدم کا عقیدہ، آئین کی اطاعت، آرزو کی تربیت اور سب سے آخر میں عشق اور ضبط نفس۔ تاآنکہ فرد نیا بت الٰہی تک پہنچ جاتا ہے۔۱۵؎ علامہ اقبال نے یہ فلسفہ اس وقت پیش کیا جب یورپ میں سرمایہ داریت، فسطائیت، اشتراکیت، قومیت وو طنیت کی بحثیں ہو رہی تھیں اور انسانیت جنگ و جدل کی دلدل میں پھنسی حیران و پریشان تھی چونکہ ان تمام ازموں کی بنیاد مادیت پر تھی جبکہ علامہ اقبال نے بقول ڈاکٹر عبدالسلام ندوی: اپنے فلسفہ بے خودی کی بنیاد روحانیت پر رکھ کر ان تمام جھگڑوں کو ختم کرنا چاہاہے… افراد کا یہ روحانی ربط ایک ایسی ملت پیدا کر دیتا ہے جس کے حدود قوم ونسل ، رنگ ونسب، یا وطن کی رائج الوقت اصطلاحوں سے متعین نہیں ہوتے بلکہ روحانی افکار و خیالات سے اس کی حدبندی ہوتی ہے۔۱۶؎ علامہ اقبال کی مثنویاں (اسرار و رموز) جن نظریات کو پیش کرتی ہیں ان کی بنیاد قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ ہے۔ ان کا مقصد ملت اسلامیہ کے افراد و اقوام میں اعتماد پیدا کرنا ہے تاکہ دنیا اسلام کے ثمرات سے فیض یاب ہوسکے۔ محمد حنیف شاہد لکھتے ہیں: شیخ محمد اقبال نے … اس زمانہ انحطاط میں ملت اسلامیہ کو مثنوی اسرارِ خودی کے ذریعے پیغام عمل دیا ہے اور رموزِ بے خودی میں مژدہ حیات سنایا ہے۔۱۷؎ چونکہ علامہ اقبال کا سارا فلسفہ ہی اسلامی روح سے لبریز ہے اور ان کا اصل خطاب مسلمانوں ہی سے ہے اس لیے بقول عبدالرحمان: اقبال کا واضح مقصد فوق البشر کی ایک ایسی نسل تیار کرنا ہے جو عقل کے ذریعے عناصر پر لا محدود غلبہ و اقتدار حاصل کر لے اور ساتھ ہی بوسیلہ وجدان یا تعلق باللہ خدائی مقاصد سے بھی سرشار ہو، وہی انسان اس زمین پر خدا کی خلافت کے مستحق ہوںگے بلکہ زمین و آسمان ان کی میراث بن جائیں گے۔۱۸؎ اگرچہ علامہ اقبال نے یہ مثنویاں مسلمانوں کا لائحہ عمل متعین کرنے کی غرض سے تحریر کیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی قوم جب ان اصولوں پر عمل پیرا ہوگی تو یقینا وہ فلاح پائے گی اور عروج حاصل کرے گی۔ اس حقیقت پر بحث کرتے ہوئے مرزا سلطان لکھتے ہیں:ـ ملتیں اسی حالت میں زندہ رہ سکتی ہیںجب ان کی اجتماعی خودی اور خود داری زندہ رہے۔… جس طرح افراد سے قومیں بنتی اور ترکیب پاتی ہیں اسی طرح انفرادی خودی سے اجتماعی خودی بنتی ہے اور ہستی پذیر ہوتی ہے ان دونوں قسموں کی خودیوں سے… قومیں اور شخصیتیں ترقی کرتی اور مدارج علیا تک پہنچتی ہیں۔۱۹؎ الغرض اس ساری تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی مثنویاں (اسرار و رموز) کی عمارت قرآنی اصولوں پر تعمیر کی ہے اور سنت رسولﷺ کے بیش بے بہا خزانے سے موتی چن کر اس کو سجایا ہے کیونکہ تمام انسانیت کی بھلائی اسی نظام اسلام میں مضمر ہے اس لیے علامہ اقبال نے اس فلسفے کو آفاقی رنگ دیا ہے۔ کیونکہ یہ صرف دین اسلام ہے جو ساری دنیاکے انسانوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے پھر ان کو اخوت اور محبت کی زنجیر میں باندھ کر ایک دوسرے کا رفیق بنا دیتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے پہلی مثالی اسلامی ریاست ’’مدینۃ النبیﷺ‘‘ میں اسلام کی عملی تصویر پیش کی۔ اسرار و رموز اسی دور کی تفسیریں پیش کرتی ہیں۔ خلفائے راشدین کے دور میں خصوصاً حضرت عمر فاروقؓ کے دورمیں افراد و ملت کی تربیت انھی اصولوں پر ہوتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ خود داری و آبروئے ملت کے لیے سر فروشی کی مثالوں اور داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم مملکت خدا داد پاکستان کو اسلام کی ایک تجربہ گاہ اور اسلام کا قلعہ اسی وقت بنا سکتے ہیں جب اس کے افراد زیور خودی سے آراستہ ہوںگے۔ یہ کام پاکستان کی ہر ہر حکومت کا ہے کہ وہ اسکولوں سمیت تمام تعلیمی اداروں میںنہ صرف تعلیمات اقبال اور تعلیمات اسلام کو عام کرے بلکہ علامہ اقبال کی اسرار خودی کی روشنی میں افراد کی تعمیر سازی اور تربیت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے ۔ افراد کی اس طرح کی تربیت سے ملت اسلامیہ کی وحدت و یگانگت ، ہمدردی و تعاون باہمی کے جو تقاضے ہیں وہ پورے کرنے خودبخود آسان ہوجائیںگے۔ علامہ اقبال کی مثنویوں (اسرار و رموز) کا اصل مقصد یہی ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد جو ملت کے مقدر کے ستارے ہیں، خودی کی تربیت سے اپنے اندر سچی چمک اور روشنی پیدا کریں اور پھر (اجتماعی خودی کی شکل میں) مل کر ملت کے آسمان پر اس شان سے طلوع ہو جائیں کہ زمانے بھر کے اندھیرے اجالوں میں بدل جائیں اور انسانیت کو سکھ اور چین نصیب ہوسکے۔ اسلامی آفاقی وحدت کے وجود میں آنے کے اعجاز سے ان شاء اللہ باقی تمام ازم تاریکیوں کی گود میں سو جائیں گے۔ بقول پروفیسر محمد منور: باقی سارے ازم مشق خاک بازی ہیں… پھر کوئی وجہ نہیں کہ باطل نظریات ایک روز جھڑ نہ جائیں اور اسلام کی ہمہ جہتی مساوات اور عدالت کا دو ر دورہ نہ ہو، وہ مساوات و عدالت جو قرآن و سنت کی روشنی میں خلافت راشدہ نے قائم کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی تھی۔ ان شاء اللہ یہ ہو کر رہے گا۔۲۰؎ اور یہ اس لیے ہو کر رہے گا کہ مملکت خدا دار پاکستان میں اقبال شناسی کے نئے دور کا آغاز ہو گا اور افراد و اقوام کی تربیت سے ہم زمانے میں رخشندہ آفتاب بن کر ابھریں گے۔ علامہ اقبال نے بھی باعمل مسلم فرد و قوم کو درخشاں مستقبل کا امین کہا ہے۔ فرماتے ہیں: جہانگیری بخاک ما سرشتند امامت در جبین ما نوشتند درون خویش بنگراں جہاں را کہ تخمش در دل فاروق کشتند۲۱؎ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- محمد رضی الدین صدیقی، اقبال کا تصور زماں ومکاں اور دوسرے مضامین، مجلس ترقی ادب ۱۹۷۳، ص۶۸، ۶۹۔ ۲- اقبال ، کلیاتِ اقبال، اُردو، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۸۶، ص۱۹۲۔ ۳- ایضاً، ص۲۰۹،۲۶۰۔ ۴- محمد عثمان، پروفیسر، اسرار و رموز پر ایک نظر ، اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۶۱، ص۳۶-۳۷۔ ۵- عزیز احمد، اقبال: نئی تشکیل، کتاب خانہ تاج آفس کراچی، ص۴۲۶۔ ۶- حسن اختر ملک، اطراف اقبال، مکتبہ میری لائبریری لاہور، ۱۹۷۲، ص۱۳۶۔ ۷- نعیم صدیقی، (مدیر اعلیٰ) مجلہ ماہنامہ سیارہ ، اقبال نمبر۱۹۹۲، لاہور۔ ۸- اقبال، محمد، اسرار و رموز، شیخ غلام اینڈ سنز۱۹۸۵، ص۵۰۔ ۹- سید عبداللہ، ڈاکٹر، متعلقات خطبات اقبال، اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۷۷، ص۱۴،۱۵۔ ۱۰- محمد جلیل نقوی، مطالعۂ اقبال، علمی کتب خانہ لاہور، ص۵۹۔ ۱۱- اقبال، بانگِ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۸۶، ص۲۴۸۔ ۱۲- ایضاً، ص۱۹۱۔ ۱۳- یوسف حسین خان، روح اقبال، آئینہ ادب لاہور، ۱۹۶۵، ص۲۰۹۔ ۱۴- خلیفہ عبدالحکیم، فکرِ اقبال، بزم اقبال کلب روڈ ۱۹۸۳، ص۵۴۰۔ ۱۵- سیدعبداللہ، مسائل اقبال، مغربی پاکستان اردو اکادمی۱۹۷۴، ص۱۵۔ ۱۶- عبدالسلام ندوی، اقبال کامل، مکتبہ ادب اردو لاہور، ۱۹۶۷، ص۲۸۳۔ ۱۷- محمد حنیف شاہد، نذر اقبال، بزم اقبال۲کلب روڈ لاہور۱۹۷۲، ص۲۱۔ ۱۸- بزم اقبال (مرتبہ)، فلسفہ اقبال،بزم اقبال لاہور۱۹۸۴، ص۳۱۴۔ ۱۹- گوہر نوشاہی (مرتب)، مطالعہ اقبال، بزم اقبال۲کلب روڈ لاہور۱۹۸۳، ص۴۳۴۔ ۲۰- محمد منور، ایقانِ اقبال، اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۸۴، ص۱۶۵۔ ۲۱- اقبال، ارمغانِ حجاز، (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور۱۹۸۵، ص۹۰۔ ـئ…ئ…ء جاوید نامہ : ایک مثنوی ،ایک داستان سلیم سہیل جاوید نامہ ہیئت کے اعتبار سے مثنوی ہے اور موضوعاتی ساخت کے اعتبار سے داستان۔ داستان کی پہچان یہ ہے کہ اس میں ایک ہیرو ہوتا ہے۔ جو خیر کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں ولن جو شر کی نمائندگی کرتا ہے۔ طلسمات، مہمات، حقیقی دنیا، تخلیقی دنیا، داستان نویس اپنے تخیل کی مدد سے خیر اور شر کی ان طاقتوں کو دستاویزیں بناکر قاری کی باطنی تہذیب کا سامان کرتا ہے۔ ہیرو کی ذات تر فع کی علامت بن جاتی ہے۔ ہم ان داستانی خصائص کی موجودگی جاوید نامہ میں دیکھتے ہیں۔ بڑی فکر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے اظہار کا بڑا پیمانہ منتخب کرتی ہے۔ ایک اچھوتا راستہ جس پر پہلے کوئی چل نہیں سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرز کا تخلیق کار ایک سوال بن جاتا ہے۔ ایک زندہ سوال جو زمانی و مکانی حدود سے ماوراء ہو کر ہر عہد کے قاری کے دامن گیر رہتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری بھی ایسا ہی ایک سوال ہے جو تعبیرات کے جنگل میں اپنی محکم ہیئت میں قائم ہے۔ وہ کبھی مجرد تعبیرات کی پکڑ میں نہیں آسکے گا۔ تعبیرات کی کثرت سے اقبال کے قاری کی سیرابی نہیں ہوتی۔ وہ آج بھی ایسی تعبیر کی تلاش میں ہے جس کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہو۔ جاوید نامہ ایسی ہی ایک کتاب ہے۔ یہ کتاب ایسا ناقہ ہے جس کی راہ وار عشق کے ہاتھ میں ہے۔ ہم عشق کو اس داستان کا ہیرو کہہ سکتے ہیں۔ عشق اقبال کی نظر میں ایسا عمل کیمیا ہے جو اکسیر کا درجہ رکھتا ہے: عشق ہم خاکستر و ہم اخگر است کارِ او از دین و دانش برتر است عشق سلطان است و برہانِ مبیں ہر دو عالم عشق را زیرِ نگیں لازمان و دوش و فردائے ازو لامکان و زیر و بالائے ازو [شرح جاوید نامہ، ص:۳۷] اقبال نے اس کتاب سے ایک جرس کا کام لیا ہے۔ ایسی گھنٹی جو امت مسلمہ کے سوئے ہوئے وجود پر کچوکے لگا کر اسے بیدار کر سکتی ہے۔ ظاہر، باطن، جلوت، خلوت، افلاس، زمین ، نور، تاریک، عشق ، ہوس، اس کتاب کی ایسی علامتیں ہیں جو اپنے پڑھنے والے کو تصویر کے دونوں رخ دکھاتی ہیں۔ عشق اگر جملہ امراض کی دوا ہے تو ہوس ان بیماریوں کی آماجگاہ ۔ جب خودی کمزور ہو جائے تو شر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ ابلیس شر کا نمائندہ ہے۔ اگر داستانی علامتوں میںا بلیس کو رکھیں تو یہ عشق یعنی شریفی ولن کا کردار ادا کرنا ہے۔ ابلیس ہمہ وقت اس کشمکش میں مصروف ہے کہ کس طرح اس فرد کو شکست دے کر اس پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ جاوید نامہ میں حقیقت اور تخیل نیم آمیز ہو کر معجزات کی سرحدوں میں داخل ہو گیا ہے۔ علامہ فرد کی کایا کلپ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کایا کلپ بھی داستانی ادب کا بڑا موضوع ہے۔ جاوید نامہ میں علامہ کا تخیل نکھر کر سامنے آیا ہے۔ اس میں افلاک کا بیان بھی ہے جو ایک اعتبار سے ماورائیت کی علامت ہے۔ ہفت افلاک کی سیاحت بھی داستانوں میں مل جاتی ہے۔ جاوید نامہ میں علامہ افلاک پر مولانا روم کی روح سے ملتے ہیں اور ان کے سامنے اپنا عجز اور خلقت کی باطنی کدورتوں کا ذکر کرتے ہیں: تمہیدِ زمینی آشکار امی شود روحِ حضرتِ رومیؒ و شرح می دہد اسرارِ معراج را عشقِ شور انگیز و بے پروائے شہر شعلہ او میرد از غوغائے شہر خلوتِ جوید بہ دشت و کوہسار یا لبِ دریائے ناپیدا کنار اقبال دریافت کرتے ہیں کہ بشر مکانی حدود سے ماوراء ہو کر کس طرح عالم بقا میں اپنا وجود ممکن بنا سکتا ہے۔ اس استفسار کے بعد ارواح کا ظہور ہوتا ہے جو ایک سطح پر حقیقت کا ایک رخ ہے جب کہ دوسری سطح پر داستان کا ایک پہلو۔ یہ زمانی و مکانی روحیں ایک فرشتے کی صورت میں مجسم ہوتی ہیں۔ ایسا فرشتہ جس کے چہرے دو ہیں۔ ایک چہرہ روشن جو خیر کی علامت بنتا نظر آتا ہے: جلوۂ سروش مردِ عارف گفتگو را در بہ بست مستِ خود گردید و از عالم گسست ذوق و شوق او را ز دستِ او ربود در وجود آمد ز نیرنگ شود جبکہ دوسرا تاریک جو شر کی نشانی ہے۔ طاسینِ زر تشت آزمایش کردن اہرمن زر تشت را اہرمن از تو مخلوقاتِ من نالاں چونے از تو مارا فرودیں مانندِ دے یہ روحیں شاعر کا رخ افلاک کی طرف کر دیتی ہیں۔ مولانا رومی اور اقبال کی ارواح افلاک پر ان لوگوں کے لیے گیت سنتی ہیں جنھوں نے اپنی خودی کی پرورش کی اور افلاک کو اپنی جستجو کے دائرے میں رکھا۔ یہ ایک طرح کی ماورائیت ہے جس کی مدد سے اقبال تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایسی تبدیلی جو اولاد آدم کے لیے خیر ہو۔ ادب ہے ہی عمل خیر کا تسلسل۔ اقبال نے جاوید نامہ میں دکھایا ہے کہ روئیدگی کے ساتھ ابتری چمٹی ہوئی ہے کسی آکاس بیل کی طرح۔ جس طرح ریاکاری سے خودی بھی بر سر پیکار ہے۔ اقبال نے جہاں مشرق کے نمائندے دکھائے ہیں وہاں مغرب کی بھی تصویر دکھائی ہے۔ ایک طرف مسلمان کرداروں کی صورت میں تو دوسری طرف ہندوئوں کے رہنما و شواید۔ ایسا نظر آتا ہے اقبال ساری تہذیبوں کے نمائندوں کو اکٹھا کرنے کے بعد کسی ایک نقطے پر لانا چاہتے ہیں۔ یعنی توحید کا راستہ، جس میں فلاح ہے: طاسینِ گوتم گوتم مَے دیرینہ و معشوقِ جواں چیزے نیست پیشِ صاحب نظراں حورِ جناں چیزے نیست زرتشت: طاسینِ زر تشت آزمایش کردن اہرمن زر تشت را اہرمن در جہاں خوار و زبونم کردہ ای نقشِ خود رنگیں ز خونم کردہ ای حضرت عیسیٰ: طاسینِ مسیح درمیانِ کوہسارِ ہفت مرگ وادیِ بے طائر و بے شاخ و برگ حضرت محمدؐ : طاسینِ محمدؐ سینۂ ما از محمدؐ داغ داغ از دمِ اوؐ کعبہ را گل شد چراغ سید جمال الدین افغانی:جاوید نامہ میں چراغ ہدایت ہیں۔ فلکِ عطارد مشتِ خاکے کارِ خود را بردہ پیش در تماشائے تجلی ہائے خویش سعید حلیم پاشا: سعید حلیم پاشا غربیاں را زیرکی سازِ حیات شرقیاں را عشق راز کائنات احمد شاہ ابدالی: ابدالی آن جواں کو سلطنت ہا آفرید باز در کوہ و قفارِ خود رمید سلطان ٹیپو: سلطانِ شہید بازگو از ہند و از ہندوستان آں کہ با کاہش نیرزد بوستاں حضرت شاہ ہمدان: در حضورِ شاہِ ہمدان از تو خواہم سرِ یزداں را کلید طاعت از ما جست و شیطاں آفرید شرف النسا کا محل: قصرِ شرف النسا گفتم ’’ایں کاشانۂ از لعلِ ناب آں کہ می گیرد خراج از آفتاب جنت کی فضا: زندہ رود رخصت می شود از فردوسِ بریں و تقاضائے حورانِ بہشتی شیشۂ صبر و سکونم ریز ریز پیرِ رومیؔ گفت در گوشم کہ خیز علامہ اس ساری فضا میں انسانی ترفع کی تلاش میں ہیں۔ جستجو، تجسس، تحیر، ان کے دامن گیر ہے۔ داستان بھی تحیر اور تجسس سے تعبیر ہوتی ہے۔ اقبال کا پیرا یہ بیان تمثیلی ہے۔ بالکل ایک کہانی کہنے کے انداز میں وہ سارا ماجرا بیان کرتے ہیں۔ کردار بدلتے رہتے ہیں۔ منظر تبدیل ہو رہے ہیں۔ زمان، مکان غرض ایک بڑے اڑن قالین پر بٹھا کر وہ قاری کو فنا اور بقا کے اس جہان سے واقف کرواتے نظر آتے ہیں۔ اقبال نے جاوید نامہ میں اپنا آپ خرچ کیا ہے۔ اس چراغ کی لو سے ایک عالم روشن ہو گا۔ یہ چراغ خانہ ہے۔ ایک داستان، ایک فنٹسی ، ایک حیرت کدہ ایک متجسس روح کا سفر جو آرائش محفل میں حاتم طائی کی منازل کی طرح ہے۔ وہ سفر بھی خیر کا سفر ہے جس میں دستگیری ہی دستگیری ہے۔ مگر اقبال کا جاوید نامہ کا سفر روح کی شر پر فتح کا سفر ہے۔ جاوید نامہ کھلی آنکھوں دیکھی ہوئی دنیا کی عکاسی ہے۔ یہ کتاب مسلم امہ بلکہ عالم انسانی کے لیے ایک دعا کی مانند ہے۔ ایسی دعا جس میں سوز ہے، جس میں درد مندی ہے۔ اقبال کا پیغام ہر اس بشر کے لیے ہے جو اپنی زندگی کی بنیاد عشق پر رکھتا ہے۔ جاوید نامہ خیر کی داستان ہے۔ جس کے کردار داستانی کرداروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ مشابہت عمل کی مشابہت ہے۔ بے عملی کا اس مشابہت سے تعلق نہیں۔ اس کا اپنا الگ مقام ہے۔ اقبال کا پیغام زندگی ہے اور جاوید نامہ زندگی کی داستان۔ ـئ…ئ…ء اقبال، ماورائے شاعر عامر رئوف خان اقبال شاعر بھی ہے اور فلسفی بھی، تحریکِ آزادی کا مجاہد بھی ہے اور مصورِ پاکستان بھی۔ اقبال مجتہد بھی ہے اور دانائے راز بھی، ایسے دانائے راز اس قحط الرجال میں خال خال ہی ملا کرتے ہیں۔ اب مزید کوئی دانائے راز شائد ہی ایسی فکری بلندی کا حامل کا اس قوم میں آئے۔ کسی ادب کی یہ خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اسے ایک ایسا فنکار میسر آجائے، جس کا فن زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر آفاقیت کا درجہ حاصل کر لے۔ ایسا فنکار جہاں اپنے لیے شہرتِ دوام حاصل کر تا ہے وہاں وہ اپنی زبان کے ادب سے بھی عالم کو روشناس کراتا ہے۔ اقبال بلاشبہ اردو ادب کے افق پر چمکنے والا ایسا ہی ایک ستارہ ہے۔ ان کے شاعرانہ معجزے کسی سے پوشیدہ نہیں۔اپنی پرسوزشاعری سے انھوں نے برِ صغیر کے مسلمانوں میں آزادی کا ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔ تاہم شاعری اقبال کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک پہلو ہے،وہ ایک ایسے مجتہد کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں جو امتِ مرحوم کی از سر نو تشکیل اور سربلندی کا خواہاں ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے دانشور، فلاسفر اور سکالر آئے ہیں انھوں نے اس دنیا اور اپنے اردگرد کے معاشرے کو اپنی منفرد سوچ اور اپنے الگ نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ فی الحقیقت جب ہم اپنی دنیا، اپنے معاشرے یا اردگرد کے ماحول سے مطمئن نہیں ہو پاتے تو ہماراشعور اور لاشعور ہمیں ایک نئی تصوراتی دنیا بسانے پر آمادہ کرتا ہے۔جس میں سب کچھ ہماری آرزوؤں کے عین مطابق ہوتا چلا جاتا ہے اور اس دنیا میں ہم جس چیز کی کمی محسوس کرتے ہیں، وہ کمی ہم اپنی تصوراتی دنیا میں پوری کر لیتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے کئی نامور فلاسفہ نے اپنی تصوارتی دنیا یا نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ ان میں بعض نے پوری ریاست کا نظریہ پیش کیا ہے تو بعض نے صرف ایک فرد کا پروگرام۔ یعنی کہیں ہمیںکل کا تصور ملتا ہے تو کہیں صرف جز دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے افلاطون نے کل کی شکل میں ہمیںاپنی مثالی ریاست Republic کا تصور دیا۔ ارسطو نے ہمیں جز کی صورت میں مثالی انسان (deal man i)کا تصور دیا۔ عبدالکریم جیلی نے مرد کامل کا تصور دیا۔ سر تھامس مور نے یوٹوپیا (Utopia ) کا تصور دیا۔ مولانا روم کے ہاں بھی ہمیں کامل انسان کا تصور ملتا ہے۔نطشے نے ہمیں فوق البشر (Supper Man) کا تصور دیا۔ اسی طرح علامہ محمد اقبال نے بھی مردِ مومن کی اصطلاح سے متعارف کرایا۔ علامہ کے اپنے معاشرے اور حالات سے غیر مطمئن ہونے کے حوالے سے پروفیسر وقار عظیم لکھتے ہیں: یہ جستہ جستہ شعر کسی نہ کسی انداز میں چند حقیقتیں ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ایک تو یہ کہ شاعر کے موجودہ ماحول میں اس کے لیے گھبراہٹ، پریشانی اور افسردگی کے مختلف اسباب موجود ہیں۔ یہ گھبراہٹ، پریشانی اور افسردگی اس کے دل میں اس ماحول سے گریزاں ہونے کی خواہش کو جنم دیتی ہے۔۱؎ جب علامہ مردِ مومن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو کیا اس سے ہمیں محض تحریک دینا مقصود ہے؟ کیا اس سے مراد معاشرے کے کسی ایک شخص کو تحریک دے کر اسے خود آگاہی کے بلند ترین مدارج تک پہنچانا مقصود ہے؟ یا پھر ان کے ذہن میں بھی کسی تصوراتی دنیا کا نقشہ موجود تھا۔یہ بات تو طے ہے کہ اقبال محض چند کلیوں پر قناعت کرنے والے مرد دانا نہیں، بلکہ وہ ایک ایسے دانشور ہیں جو آنے والے دور کی نبض پر ہاتھ رکھے اس کے مسائل کا حل بتاتے ہیں۔بقول ڈاکٹر تحسین فراقی: حقیقت یہ ہے کہ اپنی انگلیوں کے پوروں تک مجسم التہاب و انقلاب اقبال زمانے کے گہرے نبض شناس تھے۔۲؎ کسی بھی کلام کا نفسیاتی مطالعہ کرنے سے ہم اس کے مصنف کے ذہن کی مختلف پرتیں کھولنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ پہلے علامہ کے کلام میں سے چند اشعار ملاحظہ ہوں تا کہ ان کی تصوراتی ریاست کی فلاسفی پر مزید بحث کی جا سکے۔ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد بانگِ درا میں ماہ نو کے عنوان سے نظم میں وہ لکھتے ہیں: نور کا طالب ہوں، گھبراتا ہوں اس بستی میں میں طفلکِ سیماب پا ہوں مکتب ِ ہستی میں میں اسی طرح بانگِ درا میں نظم ’نیا شوالا‘ میں لکھتے ہیں : سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی آ، اک نیا شوالا اس دیس میں بنا دیں پھر بانگِ درا میں ہی نظم’’ شمع اور شاعر‘‘ میں کہتے ہیں: کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر بانگِ درا ہی کی ایک غزل میں کہتے ہیںـ: نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں اسی طرح فرمایا: تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے اور اسی نوع کے متعدد مقامات ہمیں اقبال کے اردو و فارسی کلام میں مل جاتے ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کے ذہن میں ایک مثالی ریاست کا ایک تصور موجود تھا البتہ انھوں نے کل کو پیش کرنے کے بجائے جز کی مدد سے اپنے اس تصور کی وضاحت کی ہے۔ اور وہ جز کا تصور بلا شبہ ان کا تصور ِ مردِ مومن ہے۔علامہ نے انسانِ کامل کے لیے جہاں مردِ مومن اور مردِ حر کی تراکیب استعمال کی ہیں وہاں انھوں نے کاملیت کے تصور کو اجاگر کرنے کے لیے دیگر تراکیب بھی استعمال کی ہیں۔بقول ڈاکٹر وحیدقریشی: ایک مردِ مومن اور مردِ حر ہی نہیں، بلکہ کلامِ اقبال میں انسانی فضیلت کے جتنے عنوانات پائے جاتے ہیںوہ دراصل ان کے تصور ِ انسان کی جزئیات و تفصیلات ہیںجو تنوع کے باوجوداصولی وحدت رکھتے ہیں۔مثلاََ مردِ مسلماں، مردِ آفاقی، مردِ بزرگ، مردِحق، مردِ خدا، مردِ خود آگاہ و خدا مست،مردِ درویش، مردِ رازداں،مردِ روشن دل،مردِ غازی،مردِ مجاہد۔۔۔۔۔۔کسی خاص جز پر زور دے کر ایک ہی کل پر دلالت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔عملی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اقبال مردِ مومن کی صورت میں امتِ مسلمہ کے نئے راہنما کی تصویر کشی کرتے ہیں جو قومی زندگی کی تمام اقدار اور مقاصد کو حقیقی اسلامی تناظر میں متعین کر سکے۔۳؎ یہاں یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب علامہ مرد ِ مومن کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد مردِ مومن کی سی خصوصیات کا حامل ہو۔یہ ان کی وہ مثالی ریاست ہے جہاں پر ہر سحر مردِ مومن کی اذاں سے پیدا ہوتی ہے۔ جہاں کا ہر فرد اس قابل ہے کہ اس کی نگاہوں سے تقدیر بدل جائے، جہاں کا ہر فرد ایک طرف عقابی شان کا حامل ہے تو دوسری جانب شاہیں کی درویشی کی جھلک بھی اس میں نظر آتی ہے۔علامہ کی اس مثالی ریاست کا ہر فرد وہ غازی ہے جس کی ٹھوکر سے دریا و صحرا دو نیم ہو جاتے ہیں۔ اس ریاست کے ہر فرد کی جوانی بے داغ اور اس کا وجود الکتاب ہے۔اس ریاست کا ہر فرد اپنی ذات میں آفاق کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ایک طرف وہ بریشم کی طرح نرم ہے تو دوسری جانب فولاد کی طرح مضبوط۔ ایک طرف وہ عجز و خاکساری کا پیکر ہے تو دوسری جانب حیدر کرار بھی ہے اور خالد جانباز بھی۔ غرض علامہ کی اس ریاست کا ہر فرد حقیقی معنوں میں قرآن کی تفسیر نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ خالق اس کے ہاتھ کو اتنی توفیق عطا کر دیتا ہے کہ وہ کار کشا و کار ساز، اور کار آفریں بن جاتا ہے۔ علامہ اقبال کا تصورِ خودی اور تصورِ بے خودی بھی اسی بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کے ذہنِ رسا میں ایک مثالی ریاست کا نقشہ موجود تھا، اور وہ ریاست ایک عظیم مثالی ریاست تھی، جہاں تمام تر نظام اسلامی اصولوں اور اسلامی قوانین کے تابع تھا۔یہی وجہ تھی کہ انھوں نے قومیت کی مخالفت کی اور ملت کے رشتے پر زور دیا۔ بتانِ رنگ و خوں توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی۱۰؎ ان کی یہ شدید خواہش تھی کہ عالم اسلام آپس میں متحد ہو کر ایک مضبوط قوت کی شکل میں سامنے آئے۔اور اس خواہش کا محرک بلاشبہ خلافتِ عثمانیہ تھی جس کو ان کے سامنے زوال آیا۔وہ چاہتے تھے کہ ایک بار پھرعثمانیہ خلافت کی مانند مسلمان دنیا پر چھا جائیں۔ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کو ملت کے رشتے میں پرونے کی کوشش کی۔ البتہ جب انھوں نے محسوس کیا کہ جنگِ عظیم کے بعد بدلتی ہوئی صورتحال میں تمام عالمِ اسلام کا ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوناقدرے مشکل ہو گیا ہے تو انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی اور ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کا تصور دیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ایک ایسا پاکستان جس میںکم از کم برصغیر ہند و پاک کے رہنے والے مسلمان ایک خطے میں یکجا ہو کر ایک مثالی ریاست قائم کریں اور وہاں کا ہر فرد مردِ مومن کی سی خصوصیات کا مالک بنے۔اسی حوالے سے ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں: دسمبر۱۹۳۲ء تک علامہ اقبال اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اب الگ ملک کے مطالبے کے سوا کوئی حل نہیں رہا۔ یہ نیا ملک کس انداز کا ہونا چاہیے؟ اس کا نقشہ علامہ اقبال کی نظر میں کیا تھا؟ ۱۹۳۲ء سے وفات تک وہ اسی نقشے میں رنگ بھرتے رہے۔۱۱؎ بحیثیت قوم ہمارا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے اقبال کے دیگر آفاقی تصورات و نظریات کو پسِ پشت ڈالے رکھا اور جب بھی اقبال پر نظر ڈالی تو ان کے اس ایک محدودتصور پر بات کی جس کا تعلق تحریکِ پاکستان سے تھا۔ بنیادی طور پر یہ اقبال کا ایک ایسامشن تھاجس کی تکمیل کی خاطر انھوں نے مسلمان قوم کو حرکت سے لے کر قائد کی شکل میں مردِ حر تک فراہم کرنے کی کوشش کی۔ بے شک یہ اقبال کا بہت بڑا حوالہ ہے مگر اقبال کی فکری اساس یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کے نزدیک : ان کی دور رس نگاہوں نے نہ صرف برِ عظیم کے مسلمانوں کے لیے الگ خطہ ء وطن کا مطالبہ کیا بلکہ چینی ترکستان میں برپا ہونے والی شورش، مسئلہ فلسطین، مظلومی کشمیر، افغانستان، وسطِ ایشیا اور امت ِ عربیہ کے افتراق جیسے موضوعات و مسائل پر بھی اپنے حکیمانہ اور دردمندانہ خیالات کا اظہار کیا۔ ۱۲؎ وہ محض کسی ایک خطے میں اسلام کی سربلندی کے بجائے تمام عالم میں اسلام کا بول بالا چاہتے ہیں۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر۱۳؎ اور بتان رنگ و خوں توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی، نہ افغانی نہ ایرانی۱۴؎ گویا اقبال حکیم الامت ہیںاور حکیم الامت ہونے کے ناتے سے انھوں نے پوری امت سے رابطہ استوار رکھا ہے۔ اس حوالے سے ۲۱ مارچ ۱۹۳۲ء کے خطبہ صدارت میں خود فرماتے ہیں: 'The problem of ancient indian thought was how the one became many with out sacrificing its oneness. Today this problem has come down from its ethical heights to the grosser plane of our political life, and we have to solve it in its reversed form. i.e.. how the many can become one without sacrificing its plural charachter.15 رہا پاکستان کا سوال تو وہ بھی اسی مسلم امت کا ایک مسئلہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کوجغرافیائی وسیاسی شناخت بہر حال چاہیے تھی اور اس کے لیے اقبال نے ہند کے مسلمانوں کو تحریک دی۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے پوری امت کو مستقبل کے چیلنجز سے نبر آزما ہونے کے لیے جو نظریات دیے ہیں وہ اصل میں اقبالیات کی روح ہیں۔ پروفیسر آرنلڈ نے ان کے بارے میںدرست کہا تھا کہ He is a man ahead of his age، جب کہ اقبال کو خود بھی اس کا ادراک تھااسی لیے تو کہہ گئے ہیں کہ منِ نواے شاعرِ فرداستم۔ جغرافیائی و سیاسی لحاظ سے تو ہند کے مسلمانوں کو ایک الگ شناخت مل گئی لیکن پاکستان بننے کے بعد ہم نے عملی طورپر اقبال کا فلسفہ ترک کر دیا۔ ریاست تو بن گئی لیکن اقبال کی مثالی ریاست کا خواب آج بھی ادھورا ہے۔ بلا شبہ اقبال امام غزالی جیسے مفکر، مجدد الف ثانی جیسے روحانی مجدد اور شا ہ ولی اللہ جیسے مذہبی وسیاسی مبصر کے روپ میں ہمارے سامنے ہیں لیکن مقامِ تاسف ہے کہ ہم ان کی ہمہ گیر شخصیت کے دیگر پہلوؤں کو نہ خود اپنا رہے ہیں اور نہ نئی نسل کے سامنے لا رہے ہیں۔ تحریک ِپاکستان سے لے کر حصولِ پاکستان کا ایک مرحلہ طے ہوچکا، لیکن فکر اقبال یہاں پرآ کر ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کو اقبال کی مثالی ریاست بناناباقی ہے۔ اقبال کے نظریات کو اس کی اصل روح کے ساتھ پاکستان میں لاگو کرنے سے ہی اقبال کی اس مثالی ریاست کی تشکیل ممکن ہے۔ ایک ایسی قوم بننا جو صداقت، شجاعت اور عدالت کا سبق پھر پڑے، جو آگے جا کر قوموں کی امامت سنبھالے۔ ہمیں اقبال کو نصابی حیثیت سے نہیں بلکہ عملی حیثیت سے زندگی میں لانا پڑے گا۔ آج اقبال کی تعلیمات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے،آج ہمیں الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کی انفرادی ترقی کے لیے اسرارِ خودی اور بحیثیت قوم و ملت کے رموزِ بے خودی کی پہلے سے کہیں بڑھ کر ضرورت ہے۔ آج نگہ بلند، سخن دل نواز اور جان پر سوز رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں ملکی سلامتی، سیاسی نظام کی بحالی، فرقہ واریت کے سدباب اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے لیے علامہ کے نظریات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ آج ہمارے نظریات کے بطن سے اقتصادی اور مادی چیلنجز جنم لے رہے ہیں۔ ہمیں درپیش مسائل کے اسبا ب کو ختم کرنا ہوگا اور اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنی فہم و فراست کو صورتِ فولاد بنائیں، جہاں شمشیر کی ضرورت ہی نہ ہو۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آج ہماری احسا سِ کمتری میں گرفتار نوجوان نسل اس احساس سے نکلے اور قوم کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد ہو، جن میں عقابی روح ہو، دریا و صحرا جن کی ٹھوکر میں ہو، جن کی نظر آسمانوں پر ہو اور جن کے ارداے پختہ ہوں۔ اقبال نے جس ارضِ پاک میں ایک مثالی ریاست کا تصور ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ آج پاکستان کو ترقی دینا اور اسے ایک مضبوط علمی، سیاسی، اقتصادی اور عسکری قوت بنانا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے،تعمیرِ پاکستان سے تکمیل ِ پاکستان کے تمام مراحل ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ آج پاکستان واحد مسلم نیوکلیئر پاور ہونے کے سبب اغیار کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔جس طرح سے ترکی کو اس کے عروج سے خائف ہو کر مردِ بیمار بنایاگیا، آج پاکستان کو افغانستان کی مانند غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج ایک بار پھر ہم پر وہی حربہ جدید طرز پر آزمایا جا رہا ہے جو ایک دور میں ترکی اور افغانستان پر آزمایا گیا۔ اقبال ایک ایسا صاحب ِ نظر تھا جس کی آج پہلے سے بڑھ کر ضرورت ہے۔ افسوس کہ وہ صاحبِ نظر اب ہم میں نہیں لیکن اطمینان اس بات کا ہے کہ اپنے کلام کی بنیاد پر اقبال زندہ ہیں،جس سے آئندہ کی نسلیں استفادہ کرتی رہیں گی۔ آج ہمیں اقبال کی تفہیم کی از سر نو ضرورت ہے۔ان کی شاعری ہمیں ایک ایسا آفاقی پیغام دے رہی ہے جس پر عمل کر کے ہم دورِ حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اقبال کے نظریات کو اپنی سیاسی، علمی، معاشرتی، مذہبی اور عسکری زندگی میں عملی طور پر لاگو کریں اور اپنے ملک اور معاشرے کو ان کی مثالی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ سر آمد روزگارِ ایں فقیرے دگر داناے راز آید کہ ناید؟۱۶؎ ئ……ئ……ء حواشی ۱- ڈاکٹر سید معین الرحمن، اقبالیات کا مطالعہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۱۰۵۔ ۲- ڈاکٹر تحسین فراقی، جہاتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۵۰۔ ۳- کلیاتِ اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۳۹۶۔ ۴- ایضاً، ص۸۶۔ ۵- ایضاً، ص۱۱۵۔ ۶- ایضاً، ص۲۱۸۔ ۷- ایضاً، ص۱۲۷۔ ۸- ایضاً، ص۱۳۳۔ ۹- ڈاکٹر وحید قریشی، اساسیاتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، ص۱۰۹۔ ۱۰- کلیاتِ اقبال (اردو)، ص۳۹۶۔ ۱۱- ڈاکٹر وحید قریشی، اساسیاتِ اقبال،ص۱۰۹۔ ۱۲- ڈاکٹر تحسین فراقی، جہاتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۵۰۔ ۱۳- کلیاتِ اقبال (اردو)، ص۳۹۶۔ ۱۴- ایضاً، ص۱۳۰۰۔ 15- Latif Ahmed Sherwani, Speeches, Writings & Statements of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore. ۱۶- کلیاتِ اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص۸۹۴۔ ـئ…ئ…ء اقبال اور اقبالیات…ایک مطالعہ ڈاکٹر خالد ندیم بھارتی صوبے اترپردیش کے علاقے پہاڑ پور (مچھلی شہر، ضلع جون پور) میں پیدا ہونے والے عبدالحق کی ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول، مچھلی شہر میں ہوئی۔ میٹرک کے بعد پی ایچ ڈی تک ان کی ساری تعلیمی منزلیں گورکھ پور میں طے ہوئیں۔ ملازمت کی ابتدا دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ہوئی اور صدرِ شعبہ کی حیثیت سے وہ یہیں سے سبک دوش ہوئے۔ مذہبیات اور کلاسیکی شعر و ادب سے شغف رکھنے والے عبدالحق کو ابوالاعلیٰ مودودی، حافظ، شاہ حاتم، مرزا غالب، علامہ اقبال، شبلی نعمانی اور رشید احمد صدیقی کی تخلیقات سے خصوصی رغبت ہے؛ البتہ اقبالیات سے انھیں جنون کی حد تک دلچسپی ہے۔ اس سلسلے میں تصنیف و تالیف کے علاوہ بین الاقوامی اقبال کانفرنس کا اہتمام بھی کر چکے ہیں۔ اقبالیاتی حوالے سے ان کی تصانیف و تالیفات میں اقبال: ابتدائی افکار (۱۹۶۹ئ)، تنقیدِ اقبال اور دوسرے مضامین (۱۹۷۶ئ)، فکرِ اقبال کی سرگذشت (۱۹۸۹ئ)، اقبال کے شعری اسالیب (۱۹۸۹ئ)، اقبال کی شعری و فکری جہات (۱۹۹۸ئ)، اقبال اور اقبالیات (۲۰۰۶ئ، ۲۰۰۹ئ) اور اقبال: شاعرِ رنگیں نوا (۲۰۰۹ئ) شامل ہیں ؛ جب کہ Stray Reflections کا اردو ترجمہ بکھرے خیالات (۱۹۸۸ئ، ۱۹۹۱ئ) بھی قابلِ ذکر ہے۔ اس وقت ان کی قابلِ قدر اور وقیع تصنیف اقبال اور اقبالیات زیرِ مطالعہ ہے۔ کتاب میں ان کے مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین شامل ہیں، جو بیدل، سرسید، غالب، انیس، آزاد، کیفی، تصوف یا تحقیق کے موضوعات پر منعقدہ مذاکروں میں پیش کیے گئے تھے۔ ’’اقبال اور مقامِ شبیری‘‘ کتاب کا پہلا مضمون ہے۔ انیس و دبیر کے بعد شخصی مرثیوں کو مصنف نے حالی کا شعری اجتہاد قرار دیا ہے، جس کی تقلید و توسیع میں اقبال نے داغ، والدئہ مرحومہ اور راس مسعود کے مرثیوں اور شبلی، حالی اورسوامی رام تیرتھ سے متعلق مرثیہ نما نظموں کے ذریعے کئی تازہ امکانات کی نشان دہی کی۔ نظم ’’فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ میں شوقِ شہادت کی نشان دہی کرتے ہوئے، مصنف نے مرثیے کو فکری بلندی عطا کرنے پراقبال کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مصنف کے خیال میںاقبال نے مرثیے کے مروّجات کو نظر انداز کرکے اسما و اماکن کے ساتھ حادثے کی سنگینی اور پیغامِ شہادت کو نفس موضوع بنایا ہے۔ حضرتِ حسین کی شخصیت اقبال کے تصورِ مردِ مومن کو بنیاد فراہم کرتی ہے، چنانچہ مصنف نے اقبال کے قلب و نظر پر اس شہادت سے مرتبہ اثرات کا جائزہ لیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اقبال کو مناظر فطرت کا وہی شاہ کارمحبوب ہے، جو حسینی نسبت رکھتا ہے؛ چنانچہ کلامِ اقبال میں اس عظیم شخصیت اور ان کے شعارِ زندگی کا ذکر ناگزیر طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ مضمون اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے جذباتی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ ’’اقبال کے عمومی اثرات‘‘ میں مصنف نے اقبال کو ایک ایسی ہستی قرار دیا ہے، جو عصری میلانات پر قدرت حاصل کرکے مروّجہ دھاروں کا رُخ موڑ دیتی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اقبال کی طرف سے شعر و فلسفہ کے امتزاج کو جذبہ و احساس کی زبان میں ڈھال دینے کو اعجوبہ قرار دیا ہے۔ مصنف کا یہ کہنا بجا ہے کہ عوامی سطح پر اقبال کے بہت سے اشعار ضرب الامثال بن گئے ہیں اور زبان زدِ عام اشعار میں سب سے زیادہ تعداد کلامِ اقبال سے ہے؛ چنانچہ ان کے خیال میں صحائف کے بعد، سب سے زیادہ پڑھے جانے والے تخلیقی ادب کا تعلق اقبال سے ہے۔ (ص۱۸) اقبال کے ہاں شعری اظہار فکرِ خالص کو جذبے کی زبان بخش دیتا ہے، چنانچہ اقبال کے مخالف بھی ان کی شاعری کی سحر آفرینی سے نہیں نکل پاتے۔ مصنف نے شعری اعتبار سے جوش، فیض اور فراق؛تنقیدی شعبے سے مجنوں گورکھ پوری، ڈاکٹر گیان چند جین، مشفق خواجہ، رشید حسن خاں، محمد حنیف نقوی اور کلیم الدین اور اجتہادی حوالے سے سید سلیمان ندوی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ابوالحسن علی ندوی، عبدالماجد دریابادی اور علامہ خمینی جیسے بالغ نظر علما کا ذکر کیا ہے۔ مصنف کے خیال میں، بیسویں صدی میں برعظیم کے مسلم دانش وروں کی بڑی تعداد اقبال کے نیاز مندوں کی ہے۔ مصنف نے لیبیا، ماریشس، پاکستان، کشمیر اور بھارت کی سرکردہ شخصیات پر اقبال کے اثرات کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ یہ مضمون بھی اپنے اختتام تک آتے آتے جذباتی رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ ’’اقبال کا شعری آہنگ‘‘ میں مصنف نے اقبال کے ہاں فلسفہ و فکر کی گہرائی اور لطافتِ فن سے ہم آہنگی، پھر اس امتزاج سے پھوٹنے والے غیر محسوس سوز و گداز کے حامل نغمات اور جلال و جبروت کی پُروقار آوازوں کے تین زاویوں کی نشان دہی کی ہے، گویا اقبال نے خیال کی فکر انگیزی کو الفاظ کی صورت میں ڈھال کر صوت و صدا سے آراستہ کیا ہے۔ مصنف نے بیش بہا کلاسیکی ادب پر گہری نظر اور اس کے اسالیب و اظہار کے بھرپور عرفان کے باعث اقبال کے آہنگ کو جدید اردو شعرامیں سب سے زیادہ کلاسیکی قرار دیا ہے۔ اس کلاسیکی آہنگ میں فارسی اور عربی ادب کے کرداراور ان کے شعری آہنگ کے دیگر عناصر کی پردہ کشائی کرکے بجا طور پر کہا ہے کہ اقبال کے اکتسابات اور عظیم تخلیقی سرچشمے نے نغمہ و آہنگ کی بے کراں دُنیا کو شاعری میں سمو دیا ہے۔ ’’سرسید __مصدرِ اقبال‘‘ میں مصنف نے اقبال کو سرسید کے مشن کی تجدید اور توسیع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرسید کے علم و عمل نے افکار کی آویزش کا جو سیل پیدا کیا تھا، اسے مربوط اور منظم فکر کی صورت اقبال نے دی۔(ص۴۹) دراصل یہ سارا مضمون اسی بیان کی وضاحت میں لکھا گیا ہے۔ ’’اقبال کی غالب شناسی‘‘ میں مصنف نے اقبال و غالب کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے ہمارے شعر و ثقافت کو آفاقی اساس بخشی ہے اور ہمیں دنیا کی بڑی تخلیقات کے رُو برُو ایک تفاخر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔(ص۶۰) اقبال کے ہاں کلاسیکی شعرا سے اخذ و استفادے کے احساس سے، ڈاکٹر عبدالحق کے خیال میں، یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کا کلام مستعار و مستفاد فن کا مجموعہ ہے، [بلکہ] استنباط اور استفادے کی یہ بے کراں بوقلمونی ان کے مطالعے و مشاہدے اور امعانِ نظر کی شہادتیں پیش کرتی ہے۔ (ص۶۷)اقبال کے ہاں غالب کے اعترافِ عظمت کا اظہار ابتدا سے آخری ایام تک محیط ہے۔ شاعری، خطوط، مضامین، خطبات، ملفوظات، غرض اقبال ہر مقام اور ہر موقعے پر غالب سے قریب محسوس ہوتے ہیں۔ مصنف نے الطاف حسین حالی (یادگارِ غالب) اور عبدالرحمن بجنوری(محاسنِ کلامِ غالب) کے درمیان اقبال کو ایک سنگِ میل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اقبال سے بڑھ کر نہ کوئی غالب شناس ہے اور نہ ہی غالب کی صحیح منزلت سے آگاہ۔ (ص۷۷)یہ مضمون اپنی تقریری اساس کی بنا پر موضوع کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ دیگر ابعاد میں بھی وسعتوں کا امین ہے اور اس ایک مضمون میں کئی ایک موضوعات کو نبھانے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم ہر جانب نگاہ دَوڑانے کے باوجود مصنف مرکزی خیال سے جڑے رہے اور اس کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ’’اقبال کی بیدل شناسی‘‘ پچھلے مضمون کا پیرایہ اپنائے ہوئے ہے۔ تمہیدی گفتگو کے بعد مصنف نے اقبال کی شاعری، روزنامچے اور خطوط میں اذکارِ بیدل کے تسلسل کے باعث اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بیسویں صدی میں برعظیم میں رومی کے ساتھ بیدل شناسی، اقبال کی مرہونِ مطالعہ ہے۔ (ص۹۳) ڈاکٹر صاحب نے اقبال کے بعض تصورات کے پس منظر میں افکارِ بیدل کی روشنی محسوس کی ہے۔ اقبال کی فکری تشکیل میں مختلف و متضاد سرچشموں کی کارفرمائی کسی سے مخفی نہیں، چنانچہ ان کے ہاں مارکس و مسولینی سے بھی عقیدت کا اظہار ملتا ہے، مگر اقبال ان شخصیات کے اُنھی پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں، جن سے ان کے افکار کو تقویت ملتی ہے۔ یہی بات بیدل کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ اُن کے بعض تصورات سے اقبال کو سروکار نہ ہونے کے باوجود کچھ پہلوؤں سے ان کی والہانہ وابستگی ہے۔ (ص۹۸) ’’اقبال اور تصوف‘‘میںمصنف نے تصوف اور شعر کے تعلق، نوجوانی میں اقبال کی وجودی تصوف سے وابستگی اور قیامِ یورپ کے دَوران عجمی تصوف کی حقیقت سے آگہی پر روشنی ڈالی ہے۔ ناتمام کتاب تاریخ تصوف اور اسرارِ خودی میں، نیز ہم عصروں کے نام متعدد خطوط میں اقبال نے وجودی تصوف کے بارے میں اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا ہے۔ اسرارِ خودی کی اشاعت پر اقبال کی مخالفت میں لکھے گئے مضامین کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ صوفیا کے مزعومات باقی رہے اور نہ ان کے قیل و قال، جب کہ اقبال کی صداقتیں صدیوں محفوظ رہیں گی۔(ص۱۰۷) ڈاکٹر صاحب نے فلسفہ وحدت الوجود کے ساتھ ساتھ ابن عربی سے متعلق اقبال کے ناقدانہ خیالات کو مثالوں کے ساتھ پیش کیا ہے، تاہم ان کے نتائج سے ان کے مطالعے کی وسعت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ مضمون ’اقبال کی تحریروں میں تحریف و تغیر کی تشویش ناک صورتیں‘ میں مصنف نے تحریر کی تقدیس اور انسانی مزاج کے باعث متن میں ہونے والی تحریف و تغیر پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ متن کی ناگزیریت کے اعتراف اور اس کی توصیف و تقدیس کے احترام سے انکار نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں کوائف حیات، فکر و نظر کی باز آفرینی اور تخلیق کے تناظر، اقبالیاتی تحقیق کے تین زاویے متعین کیے جا سکتے ہیں۔ حیاتِ اقبال سے تعلق کو بوجوہ نظر انداز کرتے ہوئے یہاں نظم و نثر کی باز آفرینی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے مکاتیب میں در آنے والی تحریفات کا ذکر کیا ہے اور اس کی دو صورتیں بیان کی ہیں:اوّل، اصل متون کے پڑھنے اور نقل کرنے میں غفلت اور دوم، دانستہ طور پر جعل اور تحریف۔ شیخ اعجاز احمد اور ملک اشفاق بعض خطوط میں تحریف و تغیر کے مرتکب ہوئے اور لمعہ حیدرآبادی کے خطوط وضع کرکے شائع کرتے رہے۔ مصنف نے کلیاتِ مکاتیبِ اقبال میں مرتب (مظفر حسین برنی) کی سہل پسندی کے خوف ناک نتائج پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فسادِ متن کی ایسی مکروہ مثالیں شاید ہی کہیں ملیں۔ (ص۱۱۶)حالاں کہ مرتب نے خود کو ’’حریف ِ میِ مرد افگنِ تحقیق‘‘ کہا ہے۔ مصنف نے اقبال کے متروک و منسوخ کلام پر مشتمل بعض مجموعوں سے الحاق و اضافے کی کئی مثالیں پیش کی ہیں، بالخصوص کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال میں پائی جانے والی سنگین متنی غلطیوں پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔(ص۱۲۰)اسی طرح بعض منظومات، غزلیات یا اشعار کے غلط زمانی انتساب نے بھی اقبال کے افکار کی تعیین میں ناقدین کو گم راہ کیا ہے۔ جہاں تک اقبال کے متداول کلام میں در آنے والی تبدیلیوں کا تعلق ہے، وہ بھی تشویش ناک ہیں۔ اقبال کے اردو اور فارسی کلیات میں منشاے مصنف کے خلاف، املائی صورتوں کی تبدیلیوں اور ترتیبِ کلام میں تغیرات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے اسے تدوین کی گم راہ کن صورتِ حال قرار دیا ہے۔ (ص۱۲۴) کتاب کا یہ پہلا سنجیدہ اور تحقیقی مقالہ ہے، جس کا مطالعہ، قاری کے جذبات پر نہیں، بلکہ فہم پر اثر انداز ہوتا ہے۔مصنف نے مصادر کی فہرست دے کرمزید تحقیق کے در وا کر دیے ہیں۔ ’’اقبال اور نقدِ فراق کی نارسائی‘‘میں مصنف نے فراق کی شاعرانہ عظمت کو یہ کہہ کر تسلیم کیا ہے کہ فراق بشری محسوسات کی برگزیدگی کے لیے یاد کیے جائیں گے۔ شعری اظہار میں آدمِ خاکی کے لطیف جمالیاتی احساس اور اس کے مؤثرات کی بعض کیفیات کا ایسا دل نشیں اجتماع ماسواے فراق ہماری روایت میں عمومیت سے خالی ہے۔ (ص ۱۲۷) اور اردو خدمات کو اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ فراق اُسی ذہنی پس ماندگی اور جذباتی درماندگی کے دَور کی یادگار ہیں، جب اردو سے انحراف ہی نہیں، استہزائی تنگنائی کے ساتھ اسے مسلمانوں سے وابستہ کیے جانے کی ہر امکانی سازش رچی جا رہی تھی۔ (ص۱۲۸) لیکن وہ انھیں تنقید کا مردِ میدان نہیں سمجھتے۔ (ص۱۳۰) چنانچہ مصنف نے اقبال پر فراق کی تنقیدی آراکے پیش نظرراے دی ہے کہ فراق کے انتقادی تصورات تعدیل و توازن سے خالی ہی نہیں، تحقیر آمیز ہیں۔(ص۱۲۹) اس سلسلے میں مصنف نے فراق کے ذاتی تصورات، اخذِ نتائج کی عدم صحت، جذباتی مغلوبیت، معاصرانہ چشمک، سیاسی نقطہ نظر کی تنگ دامانی اور مصلحت کوشی کو مثالیں دے کر پیش کیا ہے اور نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ذوق و مصحفی اور عشقیہ شاعری پر فراق کی انتقادی اہمیت کے اقرار و اعتراف کا دائرہ کم نہ ہو گا، مگر اقبال پر ان کی تنقید ایک بہت ہی محدود فکر کا واہمہ کہلائے گی، جو نقائص کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ (ص۱۳۹) ’’کرتا ہے تِرا جوشِ جنوں تیری قبا چاک‘‘ میں مصنف، اقبال کو مقبولِ عام بنانے میں جگن ناتھ آزاد کی تصانیف کو اہم قرار دیتے ہیں، لیکن فکرِ اقبال کی تفہیم میں ان کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے۔ آزاد کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ہے کہ وہ مقدور بھر ہر مقام اور ہر لمحے کا احتساب اور منافع حاصل کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے، چنانچہ وہ شاعری میں مقام حاصل کر سکے اور نہ انتقادی ادب میں جگہ پیدا کر سکے۔ مصنف کا یہ کہنا بجا ہے کہ آزاد نے مصلحتوں اور مجبوریوں کی بِنا پر اقبال شناسی کے کوچے میں قدم رکھا تھا۔ اس کے ثبوت میں کشمیر جانے سے پہلے اور کشمیر سے رخصتی کے بعد اقبالیات سے ان کی عدم دلچسپی کو پیش کیا ہے۔ کشمیر میں اقبال شناسی کے محرکات اور ان کی تمام ’’علمی و ادبی‘‘ سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد مضمون نگار لکھتے ہیں: کہ اقبال اور اس کا عہد سے لے کر اقبال اور کشمیر تک آزاد کی جملہ تصانیف شرر سے شعلہ تک رسائی میں ہماری مدد نہیں کرتیں؛ تاہم مصنف نے اقبال کو متعارف کرانے میں آزاد کی ناقابلِ فراموش خدمات کا اعتراف کیا ہے، بالخصوص اُس دَور میں، جب اقبال کے نام سے برادرانِ وطن کے ساتھ ترقی پسند طبقہ بھی نالاں و گریزاں تھا۔ ’’گذشتہ دہائی میں اقبالیات: ۱۹۹۲ئ-۲۰۰۲ئ‘‘میں مصنف نے دو صفحات پر محیط تمہیدی گفتگو کے بعد اقبالیات کو ضمنی عنوانات میں تقسیم کر کے باری باری ان پرتنقیدی نظر ڈالی ہے، لیکن اسے تنقیدی سے زیادہ سرسری کہا جانا چاہیے، کیوںکہ اس مختصر مضمون میں دس برسوں کی اقبالیاتی کاوشوں کو سمیٹنا، مصنف کے خیال میں ’صرفِ حرفِ تمنا‘ ہے۔ بہرحال ان کے بقول: اس عشرے کے تخلیق و تجزیے سے مطالعہ اقبال کی مقبولیت اور معنویت صاحب نظر کے مشاہدہ و ادراک کو نُور و حضور بخشتی ہے۔ یہ حقیقت ماہ و سال کی ہر دہائی سے مربوط ہی نہیں، بلکہ افزونی اور توسیع کی طلب گار رہتی ہے۔ تفہیم و تجزیہ کا یہ تسلسل ماوراے اقبالیات محدود ہے اور مفقود بھی۔ یہ مطالعہ مرکزِ پُرکار کی مانند ہے۔ اس بدیہی حقیقت کی بنیاد پر موضوعِ سخن کو زمان و مکاں کے تعینات میں مستحضر نہیں کہا جا سکتا۔ (ص۱۶۲) یہ مضمون تحقیقی بنیادوں پر نہیں، تنقیدی آرا پر مشتمل ہے اور وہ بھی زیادہ تر تاثراتی، چنانچہ بعض مقامات خطابیہ لب و لہجے کے حامل ہیں اور بعض مقامات پر تقریر کی رَو میں بہہ جانے کی کیفیت بھی ظاہر ہوئی ہے۔ ’’علی گڑھ میں اقبالیات‘‘ کو مصنف نے ’’سرسید یا علی گڑھ تحریک سے اقبال کی فکری و ذہنی قربت، اقرار و اعتراف اور استفادے‘‘، ’’علمی و عملی طور پر علی گڑھ سے اقبال کی وابستگی اور اشتراک و تعاون‘‘ اور ’’علی گڑھ کے احباب و اساتذہ کی اقبال شناسی اور باز آفرینی‘‘ میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دو مقدمات پر چند اشارے دینے کے بعد مصنف نے علی گڑھ میں اقبالیاتی سرگرمیوں اور تصنیف و تالیف کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ مصنف نے تقسیم ہند کے بعد مطالعہ اقبال کے حوالے سے نامساعد حالات میں رشید احمد صدیقی اور آلِ احمد سرور کی اقبالیاتی خدمات کو سراہا ہے اور ساتھ ساتھ مجنوں گورکھ پوری اور علی سردار جعفری جیسے نقادوں کا بھی ذکر کیا ہے، جن کا سفر اقبال کی مخالفت اور انجام اعتراف کے ساتھ ہوا۔ علی گڑھ میں جدیدیت، ساختیات، مصطلحات اور تخلیقی وفور کے باعث فکرِ اقبال پر عدم توجہی پر مصنف کو افسوس ہے، لیکن وہ اس صورتِ حال سے مایوس نہیں۔ ’’ابلیس کی شورائی مجلسیں‘‘کا بنیادی خاکہ ’’گذشتہ دہائی میں اقبالیات‘‘ میں دیا جا چکا ہے۔ فکر و فلسفہ سے قطع نظر اقبال کے شعری اکتسابات کی حدود کے احاطے کی مشکلات کے ذکر کے بعد مصنف نے اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ (۱۹۳۶ئ)کی طرز پر لکھی گئی اردو کی دیگر نظموں کا تعارف کرایا ہے۔ ان نظموں میں کیفی اعظمی(۶۰؍اشعار)، پروفیسر محمد حسن(۳۱؍اشعار)، سید غلام سمنان (۱۳۰؍اشعار) اور فنا پرتاب گڑھ(۱۹؍اشعار) کی نظموں کا فکری جائزہ لیا ہے۔ مصنف نے ان چار نظموں کے ذکر کے بعد مفروضہ قائم کیا ہے کہ اقبال ہر دَور کے شعر و فن کی سیرابی کرتے رہیں گے اور تخلیق کے امکانی جہات کی نشان دہی میں چراغِ راہ گزر کام کام انجام دیں گے۔ (ص۱۸۰) ڈاکٹر عبدالحق کی یہ قابلِ ذکر کتاب اگرچہ بہت سی خوبیوں کی حامل ہے، مگر چند ایک مقامات پر مصنف کی بعض معلومات محل نظر ہیں، مثلاً صفحہ ۱۵۱ پر Stray Reflection کے ترجمے کو ڈاکٹر تحسین فراقی سے منسوب کرتے ہوئے اس کی اشاعت کی اطلاع دینا اور کتاب کے تین صفحات ۱۱۳، ۱۵۷ اور ۱۶۹ پر خطوطِ اقبال کی تعداد بالترتیب : سولہ سو سے زائد، تقریباً چودہ سو اور تیرہ سو سے زائد بتانا۔ کتاب کا اسلوب گاڑھی علمیت سے مملو ہے اور قاری مصنف کے خیالات سے زیادہ عبارت کی رنگینی سے مرعوب ہوتا ہے۔ چونکہ یہ مضامین مذاکروں اور سیمیناروں کے لیے لکھے گئے تھے، لہٰذا ان میں سامعین کی توجہ حاصل کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ کتابی صورت دینے سے پہلے ان تحریروں پر سامعین کی بجاے قارئین کے نقطہ نظر سے توجہ دی جاتی تو اس کی افادیت میں اضافہ ہوسکتا تھا۔ البتہ اقبال کے بارے میں مصنف کی دردمندی قابلِ تحسین ہے اور ان کی وسعتِ معلومات حیران کن۔ اپنے مطالعے کو منضبط صورت میں پیش کرنے کا ہُنر انھیں اُن دیگر اقبال شناسوں کے مقابلے میں منفرد بنا دیتا ہے،جو قارئین کو خام معلومات تو فراہم کر دیتے ہیں، لیکن ان کے قلب و رُوح میں افکارِ اقبال کی حرارت پیدا نہیں کر سکتے۔ ـئ…ئ…ء ABSTRACTS OF THIS ISSUE The Holy Quran - Origin of Iqbal's Thought Dr. Muhammad Akram Choudhary It has been the tradition of oriental languages that the teachings of Holy Quran have been elaborated and discussed in both prose and poetry. Though the Holy Quran was not translated in any other language till early eleven centuries. The early translations of Holy Quran were in poetical form in different languages like Urdu, Persian and Punjabi. The verses of Holy Quran were not the direct subject of these poetical translations. However, the major themes and teachings were described in these poetical works. In Iqbal's poetry we find three different patterns of quoting from Holy Quran. The verses or some parts of verses, the themes of Holy Quran or inference from the themes of Holy Quran. This article describes the detail of all these patterns. Iqbal's Poetry - a Discussion Ahmed Javid Iqbal's poetry describes universal themes and ideas so it becomes an intellectual treasury for humanity. In the beginning of Bal e Jibreel Iqbal has given three major themes: the Creator, the universe and the man. When Iqbal discusses these three themes, whether in his prose or poetry, he describes it with man as its center. However it is different from the approach of those who declare man as the only standard when they take their world view as anthropocentric. According to Iqbal man needs both Haq and khalq for his perfection. It is the perfection of man which is the major objective of Iqbal's poetry and two elements are necessary for it: concept of Haq and the concept of khlaq. This article describes the detail of these themes in the light of second ghazal of Bal e Jibreel. Life is concealed in the humour of your verse! Tahir Hameed Tanoli Mirza Ghalib is one of the founders of modern Urdu ghazal. His poetry has an irresistible charm and beauty. It has wit, irony and a wealth of human experience. His diction with a sweet, simple and sometimes complex and pregnant with meaning style leads its reader to multiple interpretations. The idea that life is a continuous struggle which can end only when life itself ends is a recurring theme in his poetry. Ghalib was not only a poet, but he was also a keen observer of life which reflects in his prose. His letters are a description of the political and social environment of his time. Similarly different shades of life described in his poetry make him poet of all times. This article explains this aspect of Ghalib's poetry in the light of a verse of Iqbal. Islam and the Principle of Movement Dr. Khizr Yaseen According to Iqbal, Ijtehad is the principle of movement in Islam. The social needs of a Muslim society, in context with the time and space, are when brought to some legal framework for a legitimate fulfillment, this procedure is called Ijtehad. Such legislation at individual level is Ijtehad and at collective level is Ijma. This article describes the essential pre-requisites which are necessary for a legitimate Ijtehad and Ijma. The Quran and Sunnah are Divine values while Ijthad and Ijma are human values. It is not possible that the purpose of one value is achieved by the other or vice versa. This article elaborates the limitations and essentials which make the Ijtehad and Ijma acceptable in the dogmatic and legal structure of Islam. Iqbal's principles of Khudi and their application Mrs. Shagufta Shahnaz The concept of self is the pivotal idea in the Iqbal's thought. His poems Secrets of the Self and Secrets of the Selflessness describe the significance, meaning, and stages of the development of self. Iqbal says that the development of self is the need of both individual and the nation. The individual and collective life of a nation can flourish, sustain and succeed only through development of the self. This article describes the details of the concept of self and possibilities of the application of this concept in collective life. The development of self ensures the successful future of a nation. Javidnama: a Poem and a Tale Salim Sohail Iqbal's poetry is of its own kind with its variety of interpretations based on firm foundation and format. The reader of Iqbal does not exhaust form the multiplicity of his interpretations. He remains in the search of such interpretation of Iqbal's poetry which is based of Love. The Javidnama is a tale where Love is the hero. Iqbal has been searching human dignity in this atmosphere. Search, curiosity and remained dominating him. We can say that the Javidnama is narration of a world which was seen with opened eyes by the poet. Iqbal the Meta Poet Amir Rouf Khan The poetry is a reflection of multidimensional personality of Iqbal. He has used the medium of poetry for reconstruction and restoration of dignity of Muslim nation. The analysis of his poetical themes shows that he discusses various aspects of the renaissance of Muslim nations. His thought contains the themes of creation of an ideal Islamic state, an ideal Muslim, the unity of Muslim world and a deep desire of raise and dignity of Ummah. It is imperative that the thoughts of Iqbal must be a part of educational curriculum if we want to translate his dreams into reality. Awareness of his thought for young generation is inevitable for integrity and development of our country. Iqbal's Concept of Ego In Perspective of time Qamar Sultana This research paper is related to view, Iqbal's pure islamic concept of Ego in the perspective time theory.Iqbal's fame as philosopher poet is indisputable.In the perspective of modern thought and adopting the method of expression of western thought, Iqbal has presented such a concept of Islamic Metaphysics which is matchless. Iqbal declares ego and knowledge of ego,the basis of his philosophy. To him, time is an effective reality from universal point of view. But the limits of time and space,whose objects are limited to two forms,cannot be applied to ego. After determining the nature of time, Iqbal discussing the problem of fate, talks about individual survival(eternity) that life after death is not an external incident but a completion of biological process.