اقبالیات کشمیری مصنفین نمبر سرپرست: عرفان صدیقی ( مشیر وزیر اعظم برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ) رئیس ادارت: محمد سہیل مفتی مدیر: ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نائب مدیر: ارشاد الرحمن مجلس ادارت پروفیسر فتح محمد ملک، افتخار عارف، ڈاکٹر عبد الخالق، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر معین نظامی، ڈاکٹر نعیم احمد، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، ڈاکٹر خالد ندیم، ڈاکٹر بقائی ماکان (ایران)، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم (مصر)، سویامانے یاسر (جاپان)، ڈاکٹر خلیل طوق آر (ترکی)، ڈاکٹر عبدالحق (بھارت) مجلس مشاورت منیب اقبال، بیرسٹر ظفر اللہ خان، ڈاکٹر محمد اکرم اکرام، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی، ڈاکٹر ایوب صابر، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر سید جاوید اقبال، ڈاکٹر محمد عمر میمن (امریکہ)، ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ (جرمنی)، ڈاکٹر مستنصر میر (امریکہ)،ڈاکٹر جلال سوئیدان (ترکی)، ڈاکٹر تاش میرزا (ازبکستان)، ڈاکٹر عبد الکلام قاسمی (بھارت) اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) ISSN: 0021-0773 اقبالیات جنوری - مارچ ۲۰۱۴ئ- طباعت: اپریل ۲۰۱۶ء بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، ایجرٹن روڈ، لاہور Tel: [+92-42] 3631-4510 [+92-42] 9920-3573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com مندرجات خ مسئلہ تصوف- اسلامی تہذیب و تمدن اور فکر اقبال کے آئینے میں ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی ۵ خ اخلاق،عشق رسالت مآبؐ اور علامہ اقبال ڈاکٹر علی محمد بھٹ ۱۹ خ فکرِ اقبال میں زمان و مکاں کی اہمیت ایس۔ اقبال قریشی ۳۱ خ اقبال کا نظریہ سیاست ڈاکٹر پیر نصیر احمد ۳۷ خ کلام اقبال میں معاشی افکار ڈا کٹر علی محمد ۵۳ خ اقبال اور رجال کشمیر ڈاکٹر محمد صابر آفاقی ۶۷ خ پروفیسر بشیر احمد نحوی اقبال شناسی نظریہ تصوف کے تناظر میں گلزار احمد ڈار ۷۳ خ رسالۃ الخلود أو جاوید نامہ إحدی إبداعات إقبال ڈاکٹر فیض اللہ ۸۱ خ اقبالیاتی ادب حسنین عباس ۱۰۵ قلمی معاونین ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی اسسٹنٹ پروفیسر،اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی سرینگر ڈاکٹر علی محمد بھٹ اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ علوم اسلامیہ، آئی یو ایس ٹی، عوانتی پورہ، پلواما، سرینگر، جموں و کشمیر ۱۹۲۱۲۲ ڈاکٹر پیر نصیر احمد اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات، کشمیر یونیورسٹی، سرینگر ڈاکٹر علی محمد انچارج اسلامک ریسرچ اکیڈمی،براکپورہ، اسلام آباد ، اننت ناگ، جموں و کشمیر، ۱۹۲۲۰۱ ایس-اقبال قریشی ٹیچنگ اسسٹنٹ، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، سرینگر گلزار احمد ڈار بجبہارہ، اننت ناگ، جموںو کشمیر،۱۹۲۱۲۴ ڈاکٹرفیض اللہ گاؤں ہزاری، تحصیل و ڈاکخانہ برنالہ، ضلع بھمبر، آزاد کشمیر مسئلہ تصوف اسلامی تہذیب وتمدن اور فکر اقبال کے آئینے میں ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی تصوف اسلام کے تصور احسان کا تسلسل یا اداراتی صورت ہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور میں جن بہترین انسانوں کو آپؐ کا فیضانِ صحبت نصیب ہوا، وہ ’’صحابہ‘‘ کہلائے۔ پھر جو لوگ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت سے فیضاب ہوئے وہ تابعین کہلائے اور اُن سے رہنمائی کا شرف حاصل کرنے والے تبع تابعین کے نام سے معروف ہوئے۔ خلافت راشدہ کے بعد دین سے نہایت شغف اور انہماک رکھنے والے عبادت گزاروں کے لیے زہاد اور عباد کی اصطلاحیں رائج ہوئیں۔ ابتدائے اسلام میں مومنین صادقین کے لیے مثالی زندگی تقویٰ، تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن سے عبارت تھی۔ تصوف یا صوفی کا لفظ دوسری صدی ہجری کے وسط تک مستعمل نہیں تھا۔ تصوف کا مادہ دراصل صفا ہے،جس کے معنی پاکیزگی کے ہیں۔ لفظ صوفی کے مادّے کی مختلف تعبیریں کی گئی ہیں۔ اکثریت کی رائے میں یہ لفظ ’’صوف‘‘(اون یا پشم) سے مشتق ہے۔ صوفیہ یونانی لفظ ہے جس کے معنی حکمت الٰہی کے ہیں۔ صوفہ -ایک قدیم قبیلہ کا نام بھی ہے جو کعبہ کا خادم تھا۔۱؎بہت سی احادیث مبارکہ سے یہ حقیقت بھی ثابت ہے کہ رسول اکرمؐ نے اونی لباس زیب تن کیاہے۔ پرانے ادوار میں صوف کالباس سادگی اور درویشی کی علامت سمجھاجاتا تھا اور یہ لفظ زہد وتقویٰ اختیار کرنے والے ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جنھوں نے سادگی کودنیوی عیش وعشرت پرترجیح دی تھی۔ ایک نظریے کے مطابق تصوف کو اہل صفہ سے نسبت ہے۔ اہل الصفہ وہ درویش صفت زاہد تھے جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں مسجد نبوی کے شمال میں صفہ یا چبوترے پر زندگی گزارتے تھے اور ہمہ وقت یا دِ الٰہی میں مشغول ومصروف رہتے تھے۔ اب سوال پیداہوتاہے کہ اصحابِ علمِ روحانی یا معر فت سے لبریز شخصیات کو کیوں صوفی کہاگیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان کا نصب العین باطنی صفات سے اپنے آپ کو مزین کرنا تھا، اس لیے وہ صوفی کہلائے جانے لگے۔ دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور بیشتر صحابہ کرام ؓ کے عمل کے مطابق وہ حضرات اکثر صوف یا اون کا کپڑا پہنتے تھے، اس نسبت سے وہ صوفی کے نام سے معروف ہوگئے۔ ان تمام ظاہری وجوہ سے قطع نظر تصوف کی اصل ’’احسان ‘‘ ہے جو رسول اکرمؐ کی اس حدیث پاک پر مبنی ہے جو حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے معرو ف ہے۔ اَنْ تعبد اللّٰہ کانکَ تراہ، فان لم تکن تراہ فا نہ یراک۔ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرکہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔اگر تواسے نہیں دیکھ سکتا تو بے شک وہ تجھے دیکھتاہے۔ اس حدیث رسولؐ سے یہی حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ دل کو پاک وصاف رکھنا اور محبوب حقیقی یعنی اللہ کے سوا کسی کو اپنے دل میں جگہ نہ دینا سرمایۂ احسان ہے۔ یہی حقیقت تقویٰ ہے۔ گویا تصوف مجموعۂ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت ہے۔ جیسا کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے شرح مثنوی رومی میں ایک حدیث نقل کی ہے: الشریعۃ اقوالی، والطریقۃ افعالی والحقیقۃ احوالی و المعرفۃ سرّی۔ شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا، حقیقت میری باطنی کیفیت ہے اور معرفت میرا رازہے۔ شیخ الاسلام زکریا انصاری نے تصوف کی تعریف بیان کرتے ہوئے رقم کیا ہے : التصوف ھوعلم تعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس وتصفیۃ الاخلاق وتعمیر الظاہر والباطن لنیل السعادۃ الابدیۃ، موضوعہ التزکیۃ والتصفیۃ والتعمیر وغایتہ نیل السعادۃ۔۲ ؎ تصوف وہ علم ہے جس سے تزکیہ نفس، تصفیۂ اخلاق، تعمیر ظاہر وباطن کا علم حاصل ہوتاہے تاکہ ابدی سعادت حاصل کی جاسکے۔ اس کا موضوع بھی تزکیہ وتصفیہ اخلاق اور تعمیر ظاہر و باطن ہے اور اس کی غایت سعادت ابدی کا حاصل کرناہے۔ شیخ عبدالقادرجیلانی صوفی اور تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں : الصوفی من کان صافیا من اٰفات النفس خالیاً من مذموماتھا سالکاً بحمید مذھبہ ملازماً للحقائق غیر ساکن بقلبہ الی احدٍ من الخلایق۔۳ ؎ صوفی و ہ شخص ہے جس کو حق تعالیٰ نے صاف کردیا ہو۔ یعنی جو شخص نفس کی آفتوں او ربرائیوں سے صاف ہو اور نیک راستہ پر چلے او راس کا دل بجز اللہ کے، کسی اور چیز سے آرام وراحت نہ پائے۔ شیخ ابوالنصر سراج نے تصوف کی اپنی معروف کتاب کتاب اللمع میں یہ بتایا ہے کہ جب نبی اکرم ؐ نے صدیق اکبرؓ سے دریافت کیا کہ اہل وعیال کے لیے کیا چھوڑا؟ تو انھوں نے برجستہ جواب دیا کہ اللہ اور رسولؐ کو۔ یہ فقر ہ توحید کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا او ریہی پہلا صوفیانہ ارشاد تھا جو انسانی زبان سے ادا ہوا۔۴؎ بعض لوگ تصوف کے بالکل انکاری ہیں۔ اُن کا کہناہے کہ قرآن وحدیث میں نہ کہیں صوفیہ کا ذکرآیاہے، نہ تصوف کا، اس لیے اس مسلک یا اس نظریہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اکثر راسخ العقیدہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ قرآن وحدیث میں تصوف کا لفظ کہیں موجود نہیں ہے لیکن قرآن حکیم میں صادقین، قانتین، خاشعین، مومنین اور مخلصین وغیرہ الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔ ان الفاظ سے دراصل اہل تصوف ہی مراد ہیں۔۵؎ تصوف کے معترضین کا ایک گروہ کہتاہے کہ عہدرسالت میں کوئی شخص صوفی کے لقب سے ملقب نہیں تھا۔ ان کے نزدیک یہ اصطلاح بہت بعد کی ایجاد ہے۔ اس لیے اسے دینی حلقوں میں کوئی وقعت نہیں دی جانی چاہیے۔ کتاب اللمع کے فاضل مصنف نے اس کا جواب یوں دیاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے کوئی دوسرا تعظیمی لفظ اس دور میں متحمل ہوہی نہیں سکتا تھا کیونکہ ان کے جتنے بھی فضائل تھے، سب سے اشرف واعظم ان کی فضیلت صحابیت تھی کہ صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام بزرگیوں اورفضیلتوں سے بڑھ کر ہے۔ صحابہ کرامؓ کا زہد، فقر، توکل، عبادت، صبر ورضا، غرض جو کچھ بھی ان کے فضائل تھے، ان سب پر ان کا شرف صحابیت غالب تھا۔پس جس شخص کو لفظ صحابی سے ملقب کردیا گیا، اس کے فضائل کی انتہا ہوگئی اورکوئی محل ہی باقی نہیں رہاکہ اسے صوفی یا کسی دوسرے تعظیمی لفظ سے یاد کیا جاتا۔۶؎ ابوالنصر سراج کے مطابق تصوف کی اصطلاح قطعاً بغدادیوں کی یا متاخرین کی رائج کردہ اختراع نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک یہ لفظ حسن بصری کے زمانے میں رائج تھا درآں حالیکہ حسن بصری کا زمانہ بعض صحابیوں کی معاصرت کا تھا۔چنانچہ ان کے اور سفیان ثوری کے اقوال میں لفظ صوفی استعمال ہواہے بلکہ کتاب اخبار مکہ کی ایک روایت کے بموجب یہ لفظ عہد اسلام سے پیشتر بھی رائج تھا اور عابد وبرگزیدہ اشخاص کے لیے مستعمل تھا۔ اس موضوع کے ایک اور مقتدر محقق سید علی ہجویری جوداتاگنج بخش کے نام سے دنیائے اسلام میں مقبول ومعروف ہیں، اپنی شہرۂ آفاق تصنیف کشف المحجوب میں کہتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام اور سلف صالحین کے زمانے میں اگرچہ یہ نام موجود نہ تھا لیکن اس کی حقیقت ہرشخص پر جلوہ گر تھی ‘‘۔۷؎ خلفائے راشدین کے دورِ سعادت کے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوا۔اب جو لوگ مسلمانوں کے حکمران بنے وہ یا تو ایسے لوگ تھے جن میں جاہلیت عرب کی روح نمایاں طور پر کارفرما تھی یا وہ لوگ جن پر عجمی رنگ غالب تھا۔ چنانچہ اکسٹھ ہجری (۶۱ھ) میں کربلا میں جو دلخراش واقعہ رونما ہوا اوراہل بیت رسولؐ کے غم میں ہزاروں بلکہ لاکھوں گھرانے خون کے آنسو بہاتے رہے۔ اس عظیم سانحے نے بڑی حد تک ملی وحدت کو منتشر کرکے رکھ دیا اور اموی خاندان کے خلاف انتقام کی آگ اندرہی اندر بھڑکتی رہی۔ ملوکیت اورخانہ جنگی کی وجہ سے بہت سارے متقی اور پرہیزگارمسلمان سیاسیات سے کنارہ کش ہوکر خانقاہوں میں زندگی بسر کرنے لگے اور ان کے اردگرد ارادت مندوں اور معتقدین کی ایک کھیپ تیار ہوگئی۔ یوں مسلم سماج میں خانقاہی سلسلوں کی داغ بیل پڑ گئی۔ ان صوفیوں اور بزرگوں نے اسی انداز میں اسلامی تعلیم وتربیت کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلم اقوام کو بھی متاثر اور مشرف بہ اسلام کیا۔ پھر جب یونانی فلسفے کا سیلاب اُمڈآیاتو یہ لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس طرح رفتہ رفتہ ہندوستانی تہذیب وتمدن اور مذہب بھی اس انداز میں واردِ اسلام ہونے کے سبب تصوف اسلامی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ شروع میں نوافلاطونیت (Neo-Platonism) کے زیر اثر تصوف کے فلسفیانہ عقائد کی تشکیل ہوئی تھی۔۸؎ رفتہ رفتہ اس میں ویدانت، بدھ مت او ربعض ایرانی فلسفوں کے وہ عناصر بھی شامل ہوگئے جو اس کے مزاج سے ہم آہنگ تھے۔ صوفیائے متقدمین صوفیہ کے طبقہ اوّل کا زمانہ ۶۶۱ء سے۸۵۰ء تک مقرر کیا گیا ہے۔ اس میں حضرت اویس قرنی، حضرت حسن بصری،حضرت مالک بن دینار، حضرت رابعہ بصری، حضرت محمد بن واسع ازدی اور حضرت حبیب عجمی وغیرہم شامل ہیں۔ اس دور کے صوفیہ کرام نے حکومت وقت کے ساتھ کبھی نزدیکی روابط یا مراسم قائم نہیں کیے بلکہ یہ حضرات بادشاہوں کو ان کی غلط روش پر برملا ٹوکتے تھے اور نتائج سے بے پروا ہوکر کلمۂ حق کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ صوفیائے کرام کا دوسرا گروہ اس وقت سامنے آیا جب یونان کے عقلیت پسند فلسفہ (Rationalistic Philosophy) نے شریعت اسلامیہ کی بنیادوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ بہت سارے علماء اس فلسفے کی بظاہر شیرینی او راثرآفرینی کے فریب میں آچکے تھے، اور ایک طرح کی آزاد خیالی نے روپ دھارنا شروع کردیا تھا۔ دراصل فلسفۂ یونان کی اس گرم بازاری کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھاجب ہارون الرشید نے بغداد میں ایک ’’بیت الحکمت‘‘ قائم کیا جس میں غیر زبانوں کی تصانیف کو عربی میں ترجمہ کرانے کا انتظام کیا گیا۔ شبلی نعمانی کے مطابق اس موقع پر مامون الرشید نے قیصر روم کو خط لکھاکہ ارسطو کی جس قدر کتابیں مل سکیں وہ بغداد بھیج دی جائیں۔ قیصر نے کافی تلاش وجستجو کے بعد ایک بڑے ذخیرے کا پتہ لگایا لیکن بھیجنے میں ذرا تامل کیا اور ارکانِ حکومت سے مشورہ کیا کہ کیا کتابیں بغداد بھیج دی جائیں یا نہیں ؟ انھوں نے یک زبان ہوکر کہا ’’کچھ مضائقہ نہیں اگر فلسفہ مسلمانوں میں پھیلا تو ان کے مذہبی جوش وجذبے کو بھی ٹھنڈا کرکے رکھے گا۔۹؎ کہاجاتاہے کہ پانچ سو اونٹوں پر فلسفہ کی کتابیں لاد کر مامون کے پاس بھیج دی گئیں۔ مامون نے یعقوب بن اسحاق کندی کو ترجمے پر مامور کیا۔ مسلمان فلسفے کی کتابیں پڑھ کر، جواب اُن کی زبان عربی میں تھیں، اسلام کے اصول او رمبادیات کی حقانیت پر شک و شبہ میں پڑنے لگے۔ قرآن کی عجیب وغریب تاویلات ہونے لگیں۔ معاد جو عقائد اسلام میں بنیادی حیثیت رکھتاہے اور جس پر اسلامی عبادات ومعاملات کا انحصار ہے، اس پر عقل ووجدان کے نقطہ نگاہ سے باتیں ہونے لگیں۔ جنت وجہنم، ملائکہ، انبیاء کے معجزات، واقعہ معراج ؐغرض ہرچیز کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہونے لگے اور اقبال کے بقول ’’درحرم خطرے از بغاوت خرداست‘‘ والا معاملہ اپنی انتہا کو پہنچنے لگا۔ ان حالات میں اُس وقت کے اوالوالعزم صوفیہ ومشائخ نے ہی اس نام نہاد عقلیت پسندی اور آزاد خیالی کا طلسم توڑا جو فلسفۂ یونان کے اثرات کی وجہ سے مسلمانوں میں سرایت کرنے لگا تھا۔ ان عظیم الشان صوفیہ میں حضرت بایزیدبسطامی، حضرت معروف کرخی اور حضرت ذوالنون مصری وہ معروف نام ہیں جنھوں نے اس سیلاب عقلیت پر بند باندھنے کی مؤثر کوششیں کیں۔ صوفیائے کرام کا تیسرا گروہ دسویں صدی عیسوی سے متعلق ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان فقہی مسائل ومعاملات کی پیچیدگیوں میں اُلجھ کراپنی منزل اور اپنے اصل مقصد وہدف کو بھول چکے تھے۔ اس دور کے نمائندہ صوفیہ میں شیخ ابو سعید، ابن عربی، شیخ ابومحمد الخلدی، شیخ ابوالنصر سراج، شیخ ابوطالب مکی، شیخ ابوبکر وغیرہ ہیں۔ ان مکرم صوفیہ نے علمی اور اصلاحی کام انجام دے کر عامۃ المسلمین کے زنگ آلود قلوب کو صیقل کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ ابن عربی کو قدر ت نے اس دور کے تمام صوفیہ میں وسعت نظر عطا کی تھی۔ فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ سپردقلم کرکے ابن عربی نے تصوف اور راہِ سلوک کی دنیا میں ایک انوکھا انقلاب بپا کیا۔ محی الدین ابن عربی کے فلسفۂ وحدت الوجود کے ضمن میں اس کی شدت کے ساتھ مخالفت کرنے والے آٹھویں صدی ہجری کے معروف عالم و مصلح ملت ابن تیمیہ نے ابن عربی کے مسلک وحدت الوجود کی کھلم کھلا تردید اورتنقیدکی۔ حالانکہ متعدد علماء ابن عربی کی علمی تحقیق وتدقیق اور ان کی بلند مشربی سے متاثر تھے اور انھیں شیخ اکبر مانتے تھے لیکن ابن تیمیہ کا خیال ان سب علماء کے برعکس ہے۔ فلسفۂ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بحث قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے اور عصر حاضر میں بھی ہندوستانی علماء بشمول شیعہ وسنی فلسفہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ مجدد الف ثانی یعنی شیخ احمد سرہندی (متوفی۱۵۳۴ئ) وحدت الوجود کے برعکس وحدت الشہود کے قائل ہیں۔ مجدد الف ثانی نے حضرت محمدؐ سے وابستگی کو دین قرار دیاہے۔ اُن کے نزدیک تصوف فقط تزکیۂ اخلاق میں مدد دیتا ہے اور ایمان بالغیب ہی حق ہے۔ اتباعِ سنت ہی ارتقائے روحانی کی منزلِ آخر ہے۔ اہل شریعت کے یہاں وحدت الشہود ہی درست فلسفہ قرار دیا گیا ہے اور دونوں نظریوں کا مفہوم یوں ہے : (۱)- وحدت الوجود کا مطلب ہمہ اوست یعنی ہرشئے اللہ کا وجود ہے۔ (۲)- وحدت الشہود کا مطلب ہمہ از اوست یعنی ہرشے اسی (اللہ) کی ذات کی تخلیق ہے او راسی کی صفات کا مظہرہے۔ وحدت الوجود کا عقیدہ آٹھویں صدی ہجری (چودھویں صدی عیسوی)میں جب ہندوستان آیاتو اس کو یہاں پھلنے پھولنے کے لیے زرخیز زمین اور ماحول ملا کیونکہ زمانۂ قدیم سے اس سرزمین کے لوگ وحدت الوجود اور وحدت ادیان کے قائل رہے ہیں بلکہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ متصوفین اسلام نے (جوایران وعراق وغیرہ ممالک میں پیداہوئے) ’’ہمہ اوست ‘‘ کا سبق ہندوستان ہی سے حاصل کیا تھا۔ یہاں آکر اس فلسفے نے مقامی مزاج سے ہم آہنگ ہوکر نیا جوش اور نیا مکتبہ فکر پیدا کیا۔ دسویں اور گیارہویں صدی ہجری کے سلسلۂ چشتیہ صابریہ کے مشائخ شاہ عبدالقدوس گنگوہی (م ۹۴۴ھ) سے لے کرمحب اللہ الٰہ آبادی (م۱۰۵۸ھ) تک خصوصی طور سے اس مسلک کے لذت چشیدہ اور داعی تھے۔ ہندوستان میں صوفیہ نے اسلام کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے اپنے صوفیانہ انداز سے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو سلاطین اپنی سیاسی قوت کے باوجود انجام نہ دے سکے۔ صوفیہ نے یہاں اخلاق، روحانیت، معاشرت اور سیاست کے پیچ وخم بھی سنوارنے کی کامیاب کوششیں جاری رکھیں۔ بیسویں صدی کے معروف عالم دین مولانا سید ابوالحسن ندوی ہندوستان کے صوفیائے کرام اور ہندوستانی معاشرہ پر ان کے اثرات میں لکھتے ہیں کہ ’’تصوف کے مشہور ومعروف سلسلے اگرچہ ہندوستان سے باہر پیدا ہوئے لیکن اس کی مقبولیت ہندوستان کے مخصوص حالات اور ہندوستان کے ضمیر و مزاج کی وجہ سے ہندوستان میں ہوئی ‘‘۔ مشہور سلاسل تصوف طریقہ قادریہ، طریقہ چشتیہ، طریقہ نقشبندیہ، طریقہ سہروردیہ ہیں جنھوں نے ہندوستان میں آکر بڑی ترقی کی۔ اس کے علاوہ ایسے سلاسل بھی ہیں جو خاص ہندوستان کی پیداوار ہیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کے دور کا آغاز صوفیائے کرام ہی کی ذات سے ہوا، خاص طور پر خواجہ معین الدین اجمیری کے ہاتھو ں یہاں چشتی سلسلے کی مضبوط بنیاد پڑی اور اس کے بعد اس براعظم کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک خانقاہوں اور روحانی مراکز کا جال پھیلا۔ روحانی مصلحین نے مطلق العنان سلاطین اور شہنشاہوں کے خلاف آواز اٹھائی اور برے انجام سے انھیں آگاہ کرتے رہے۔ اشاعت علم او ربھائی چارے کے درس میں خانقاہیں بڑی اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ مولانا ابوالحسن ندوی کے بقول یہ انسانیت کی پناگاہیں ہیں جہاں انسانوں کو بلاتفریق مذہب وملت او ربلاتخصیص نسل وذات محبت اور یگانگت کا درس حاصل ہوتاہے۔ ڈاکٹر عابد حسین ہندوستانی روح کا بحران میں ہنگامہ آرائیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مرض ہندوستانی سماج کومدتوں بعد لاحق ہواہے کہ یہ آپس میں دست وگریباں ہوگئے ہیں جس سے ہمارا وجود بحیثیت قوم خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جب دوتہذیبوں کا ایک دوسرے سے سابقہ پڑتاہے تو ان میں صحت مند، فعال تہذیب کی قوتیں اُبھرتی ہیں مگر کوئی تہذیب حصار میں کھڑی رہے تو جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔ اسلام نے جس بلند وبالا تہذیب کی بنیاد ڈالی تھی،اس کا سابقہ متعدد تہذیبوں مثلاً یونانی، رومی، ایرانی، بودھ او رہندوتہذیب سے رہا۔ اسلام کا حقیقی پیغام اور جذبہ مسلمانوں میں تازہ رہا۔ اس لیے ان میں نئی حرکت پیدا ہوئی اور جستجوبرابر جاری رہی۔ اسلام کے اثرات کے نتیجے میں ہندوفکر پر بھی توحید کے گہرے اثرات پڑے۔ یہاں کی تہذیب، معاشرت، آرٹ اور فکر میں ہمیں جوامتزاج نظر آتاہے وہ اس مٹی کی خوشبو کا نتیجہ ہے۔ قرنوں سے یہاں مختلف قومیں ایک دوسرے کے ساتھ شیر وشکربن کر رہتی آئی ہیں۔ اس ضمن میں سید صباح الدین عبدالرحمان جدید فکر اسلامی کی تشکیل میں تصوف کا حصہ میں رقم طراز ہیں : جس دور میں حضرت ابوالحسن علی ہجویری کاتفکر، خواجہ معین الدین چشتی کاپیغام حق، حضرت بختیارکاکی کی حُب رسول ؐ، حضرت فرید الدین گنج شکر کی صلاحیت ِدل، شیخ نظام الدین اولیاء کا حقوق العباد، حضرت شرف الدین یحییٰ منیری کا ادراک تقویٰ اور معرفت نفس، حضرت سید اشرف جہاںگیر سمنانی کی تسلیم ورضا، حضرت خواجہ گیسو دراز کا تزکیۂ اخلاق، حضرت مجدد الف ثانی کی دعوت وعزیمت اور خود اقبال کے عشق کی نوائے زندگی کا زیر وبم او رسوز دم بدم جمع ہوجائیں اس سے ہندوستان میں اسلامی طرز فکر کی ایسی نئی تشکیل ہوسکتی ہے جس سے نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ اس ملک کی معاشرتی، اخلاقی، روحانی حتیٰ کہ سیاسی زندگی میں بھی ایک نئی روح اور نئی زندگی پیدا ہوسکتی ہے۔۱۰؎ انھی موروثی اثرات کی وجہ سے برصغیر کے بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر اور صوفی شاعر علامہ محمداقبال (۱۸۷۷-۱۹۳۸ئ) نے جب ایران میں مابعد الطبیعیات کے ارتقا یعنی The Development of Metaphysics in Persia کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ سپرد قلم کرنا چاہا تو انھیں تصوف کے موضوع پر خاص طور پر گہری تحقیق کرنی پڑی۔ اپنے مذکورہ مقالے کے علاوہ انھوں نے انگریزی خطبات اور دیگر مضامین میں تصوف کے ماخذ اور اثرات کا نہایت گیرائی اور گہرائی سے جائزہ لے کر اسلامی اور غیر اسلامی تصوف کو پوری تفصیل سے سمجھانے کی تحقیقی کاوشیں کیں۔ اس موضوع کے تعلق سے انھوں نے مستشرقین (Orientalists) خاص طور پر جان کریمر، ڈوزی، براؤن اور نکلسن وغیرہ کے نظریات سے برملااختلاف کرکے اپنے مخصوص اسلامی نظریۂ تصوف کی وضاحت کی ہے۔۱۱؎ فان کریمر اور ڈوزی نے تصوف کا ماخذ ہندومذہب کے فلسفۂ ویدانت کو قرار دیاہے جبکہ نکلسن کی رائے میں تصوف کا سرچشمہ نوفلاطونیت (Neoplatonism) ہے۔ ان سب کے برعکس ایک اور اہم مستشرق براؤن نے تصوف کو ایک غیر جذباتی سامی مذہب (Semitic Religion)کے خلاف آریائی ردعمل (Arian Reaction) قرار دیا۔ ان مستشرقین کی آرا کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے علامہ نے اپنے انگریزی تحقیقی مقالہ The Development of Metaphysics in Persia میں تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل ان دانشوروں اور محققین نے اپنے نظریات کی تشکیل میں اس بنیادی اصول کو نظر انداز کردیاہے کہ کسی قوم کے ذہنی ارتقا کا مکمل ادراک صرف اُن کے فکری، سیاسی اور اجتماعی حالات کے پس منظر میں ممکن ہے۔ اس سلسلے میں آپ فلسفۂ عجم میں یوں رقم طراز ہیں : میری رائے میں یہ نظریات ایک ایسے تشبیہی تصور کے تحت تشکیل پائے ہیں جو بنیادی طور پر غلط ہے۔۱۲؎ علامہ اقبال کے یہاں مسئلہ تصوف کے سلسلے میں ارتقا Evolutionنظر آتا ہے۔ ان کے ۱۹۰۵ء تک کے کلام پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اس زمانے میں اُن کے سامنے وحدت الوجود کا کوئی متعین نظریہ اپنی تفصیل اور عقلی توجیہوں (Rationalistic interpretations) کے ساتھ نہ تھا بلکہ اُن منتشر معلومات پر مبنی تھا جومختلف ماخذوں اور مکاتب سے ماخوذ تھا۔ اس میں نہ ناقدانہ انتخاب ہے او رنہ عالمانہ ترتیب۔اس دور میں آپ زیادہ ترشنکراچاریہ، فلاطینوس اور کسی حد تک شیخ اکبر سے متاثر نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال جب۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپس لوٹے تو ان کے خیالات میں ایک نمایاں تبدیلی آئی۔ انھیں مسلمانوں کی پستی کا زبردست احساس ہوا او رانھوں نے وحدت الوجود کی مخالفت شروع کی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۲ء تک علامہ کے کلام میں وجودی تصوف کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی اسی دور کی مثنویاں ہیں۔ اوّل الذکر ۱۹۱۵ء اور آخرالذکر ۱۹۱۷ء میں شائع ہوئی۔ اسرارِ خودی کا دور گویا وحدت الوجود کی مخالفت کا دورہے۔ اس دور میں اقبال نے نہ صرف نظریۂ وحدت الوجود کی مخالفت کی بلکہ بعض وجودی حضرات مثلاً مولانا روم اور منصور حلاج کے نظریات کی نئی تشریح وتوضیح کرکے انھیں دائرہ وجودیت سے باہر لانے کی کوشش کی۔۱۳؎ دراصل علامہ اقبال نے جب اسرارِ خودی میں فلسفہ خودی کو ایک مربوط اور منظم شکل میں پیش کیا تو انھوں نے تصوف کے بعض رائج الوقت تصورات کے خلاف نہایت سختی کے ساتھ اختلاف کیا اور حافظ شیرازی کے کلام کو جسے عارفوں کے حلقے میں نہایت مقبولیت حاصل تھی، مورد تنقید ٹھہرایا۔ اس کے نتیجے میں انھیں بہت سے لوگوں کے غیظ وغضب کا شکار ہوناپڑا اور نتیجے کے طور پر علامہ کو اسرارِ خودی کے دوسرے ایڈیشن سے ان اشعار کو حذف کرنا پڑا۔ ۱۱؍جون ۱۹۱۸ء میں آپ نے اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہوئے اکبر الہ آبادی کے نام اپنے خط میں بڑی صراحت کے ساتھ رقم کیا کہ : اسرارِ خودی میں جو کچھ لکھا گیا وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا، اس وقت یہ غیرمفید ہی نہیں بلکہ مضر ہے۔… چونکہ حافظ ولی اور عارف تصورکیے گئے ہیں، اس واسطے ان کی شاعرانہ حیثیت عوام نے بالکل ہی نظر انداز کردی ہے اور میرے ریمارک تصوف اور ولایت پر حملہ کے مترادف سمجھے گئے۔… عجمی تصوف سے لٹریچر میں دلفریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتاہے مگر ایسا ہے کہ یہ طبائع کوپست کرنے والا ہے۔ اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتاہے او راس کا اثر لٹریچر پر ہوتاہے۔۱۴؎ درج بالا خط کے علاوہ علامہ اقبال نے خطبات میں تصوف کے حصے بیان کیے ہیں، یعنی عجمی تصوف اور اسلامی تصوف۔ دونوں کو انھوں نے ایک دوسرے کے متضاد قرار دیاہے۔ وہ عجمی تصوف کے اس لیے خلاف ہیں کہ یہ طبائع میں پستی پیداکرتاہے او راسلامی تصوف ایک انسان کو ہمہ وقت مستعداورمتحرک رکھتاہے اس لیے وہ اسی تصوف کے علمبردار ہیں۔ چنانچہ ایک خط میں علامہ اقبال خودی او رتصوف کی نہایت پُرمعنی اوربلیغ تعریف کرتے ہوئے مسئلہ فناوبقا پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں : غلام قوم مادیات کو روحانیت پرمقدم سمجھنے پر مجبور ہوجاتی ہے او رجب انسان میں خوئے غلامی راسخ ہوجاتی ہے تو وہ ہر ایسی تعلیم سے بیزاری کے بہانے تلاش کرتاہے جس کا مقصدقوت نفس اور روح انسانی کا ترفع ہو۔ بہرحال حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے او رشریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکام الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کرجائیں کہ خودی کے پرائیوٹ امیال وعواطف باقی نہ رہیں اورصرف رضائے الٰہی اس کا مقصودہوجائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلا م نے فنا کہاہے۔ بعض نے اس کا نام بقا رکھاہے لیکن ہندی اور ایرانی صوفیہ میں سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر فلسفہ ویدانت او ربدھ مت کے زیراثر کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ محض ہے۔ میرے عقیدے کی روشنی سے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں میری تمام تر تحریریں اسی تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں۔۱۵؎ تصوف وطریقت کے سلسلے میں یہاں اس حقیقت کو بھی ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ علامہ نے اپنے کلام میں طریقت یا تصوف کو فقر کے نام سے یاد کیا ہے اور اس مسلک کے علمبردار کو فقیر سے تعبیر کیاہے مگر یہ وہ فقیر ہے جو اقوام وملل کو دلگیری او رافسردگی کے بجائے جہانگیری کے آداب سکھاتاہے۔ جس فقر میں ضعف وناتوانی کے بجائے قوت اورعجزونیاز کے بجائے بے نیازی کی شان نمایاں ہوتی ہے۔ اس کی بے نیازی کا یہ عالم ہوتاہے کہ فقیر اپنے خرقہ کو بھی باردوش سمجھتاہے۔ پس چہ باید کرد میں علامہ یوں اس پر روشنی ڈالتے ہیں: خرقہ خود بار است بردوش فقیر چوں صبا جز بوے گل ساماں مگیر۱۶؎ علامہ کا تصور فقر خودشناسی کا پیغامبر ہے اور فرد اور ملت کو اپنی اصلی حقیقت سے آشنا ہونے کی تلقین کرتاہے۔ اس طرح اقبال اپنے فلسفہ زندگی کا محور ومرکز خودی اور عشق کوقرار دیتے ہیں کیونکہ فقر ان دونوں خصوصیات کا حامل ہے۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں اس بارے میں یوں کہتے ہیں: فقر کار خویش را سنجیدن است بر دو حرف لاالہ پیچیدن است فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست ما امینیم ایں متاع مصطفیؐ است۱۷؎ یعنی علامہ کے مرد فقیر کی زندگی خودشناسی اور ذوق وشوق سے عبارت ہے۔ اس سوز وساز اور ذوق وشوق کا محور ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ ایسا ہی مردفقیر لا الہ کی حقیقت سے بخوبی واقفیت رکھتاہے اس لیے اللہ کے بغیر اس کے دل میں کسی کا خوف طاری نہیں رہتا: ما سوا اللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست۱۸؎ ایسا ہی مرد قلندر سلاطین وقت کے سامنے لاملوک کا نعرہ بلند کرکے کمزوروںاورناتوانوں کو اُس ظالم حکمران کے جبر وقہر سے رہائی دلواتاہے اور شکستہ پروں کو ذوق پرواز بخشتاہے۔ زبورِ عجم میں اقبال ایسے قلندروں کے متعلق یوں نغمہ سنج ہوتے ہیں: چوں بہ کمال می رسد فقر دلیل خسروی است مسند کیقباد را در تہ بوریا طلب عشق بسر کشیدن است شیشۂ کائنات را جام جہان نما مجو دستِ جہاں کشا طلب۱۹؎ ایسا فقر علامہ کے نزدیک اقوام وملل کی تقدیر سنوارنے کے لیے انھیں اُبھارتا ہے اس لیے کہ جس قوم و ملت میں ایسے اولوالعزم فقیر ودرویش پیداہوتے ہیں وہ مٹ نہیں سکتی۔ علامہ ملت اسلامیہ کی آبرو کا سبب ایسے ہی بے نیاز مردِ فقیر ودرویش کو ٹھہراتے ہیں کیونکہ ایسے فقر ہی سے دین کے حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ اسی استغنا و بے نیازی سے اُس قوم کے افراد میں قوت و شوکت اور اعلیٰ تفکر پیدا ہوسکتاہے۔ پس چہ باید کرد میں اقبال کی یہی بازگشت یوں سنائی دیتی ہے: حکمت دیں دلنوازی ہائے فقر قوت دیں بے نیازی ہائے فقر۲۰؎ علامہ کو وہ فقر ہرگز قبول نہیں جو قوت وتخیل سے انسان کو محروم کردے اور اندھی تقلید پر لوگوں کو گامزن رہنے کا درس دے۔ نہ وہ رہبانیت اور دنیا بیزاری کے فقر کو پسند کرتے ہیں۔ آپ قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ ’’ولا تنس نصیبک من الدنیا‘‘ کو مشعل راہ بناتے ہوئے انسانوں کو دنیا مسخر کرنے کا درس بصیرت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے ابن عربی اور حافظ شیرازی کے برعکس مولانا رومی ،مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور جمال الدین افغانی کے متحرک فلسفۂ دین اور وحدت الشہود پر اپنی فکری اساس قائم کی۔ ان کے نزدیک تین منفی قوتوں کی وجہ سے مسلم سماج میں من حیث الملت تنزل آیا۔ یہ تین منفی قوتیں ان کے نزدیک مطلق العنان ملوکیت، ملائیت اور غیر اسلامی تصوف ہے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: باقی نہ رہی تیری وہ روشن ضمیری اے کشتۂ سلطانی و مُلائی و پیری۲۱؎ علامہ اپنے مضمون Islam and Ahmadism میں مذکورہ تینوں قوتوں کو شکست وریخت کی قوتیں (Disintegrated Forces)کا نام دیتے ہوئے مذکورہ بالا مسلم علماء اور دانشوروں کے اصلاحی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : Mysticism had fallen down to a mere means of exploiting the ignorance and credulity of the people.....the nineteenth century reformers rose in revolt against this mysticism and called Muslims to the broad day light of the modern world ...this mission was to open the eye of the muslim to the spirit of Islam which aimed at the conquest of matter and not flight from it".؎22 ایک دوست کے نام خط میں علامہ اقبال تحریر کرتے ہیں : تصوف سے اگراخلاص فی العمل مراد ہے اور یہی مفہوم قرونِ اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتاہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظامِ عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کرکے کشفی نظریہ پیش کرتاہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے ۔ علامہ اقبال کے نزدیک وجودی نظریہ پر یقین رکھنے والوں نے مسلمانوں میں ضعف، ترک دنیا اور تقلیدی ذہن پیدا کیا اس کے برعکس اقبال ترک دنیا کو کافرکاشعار سمجھتے ہیں۔ مومن کے لیے زندگی مرگ باشکوہ میں پنہاں ہے۔ وہ دنیا کو اپنی قوت آزمائی کی آماجگاہ سمجھتاہے۔ اس سے بھاگنا اس کا شیوہ نہیں۔ اس کے نزدیک رقص اور موسیقی سے انسانوں میں سکتہ طاری ہوتاہے اور دنیا ومافیہا سے غافل رہنے کے لیے یہی کا رگر صورت ہے۔ مسلمان کے لیے عالم دنیا ہست وبود کے احتساب کا نام ہے۔ جب مسلمان فقر سے بہرہ ور ہوجاتاہے تو اس سے ماہ و مہر لرزنے لگتے ہیں۔ ماضی میں فقر عریاں ہی سے مسلمان کا شکوہ جلال تھا او راس ذوق وشوق کے زائل ہونے سے اس کا جلال وجمال ختم ہوا۔ اقبال مسلمانوں کو فقر قرآن اختیار کرنے کا درس دیتے ہوئے انھیں موسیقی اور رقص وسرور دکی محفلوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں: فقر قرآں احتساب ہست و بود نے رباب و مستی و رقص و سرود فقر مومن چیست؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیر او مولا صفات فقر کافر خلوتِ دشت و در است فقرِ مومن لرزۂ بحر و بر است! فقر چوں عریاں شود زیر سپہر از نہیب او بلرزد ماہ و مہر فقر عریاں گرمی بدر و حنین فقر عریاں بانگ تکبیر حسینؓ فقر را تا ذوق عریانی نماند آں جلال اندر مسلمانی نماند۲۳؎ حاصل بحث یہ ہے کہ اقبال عجمی تصوف یعنی غیر اسلامی تصوف جو رہبانیت اور ترک دنیا سکھاتا ہے، کو رد کرتے ہوئے دورِ حاضر میں دینی فقر اوراسلامی تصوف کو عام کرناچاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ مولانا جلال الدین رومی کو اپنا مرشد قراردیتے ہوئے اپنے آخری فارسی کلام ارمغانِ حجاز جو اُن کی وفات کے بعد شائع ہوئی، فرماتے ہیں کہ جس طرح رومی اپنے دور میں روحانی قدروں اور اسلامی تصو ف کو عام کرنا چاہتے تھے اسی طرح میں بھی دورِحاضر میں وہی فریضہ انجام دے کر تمام دنیا کو بیداری کا پیغام دیتاہوں: چو رومی در حرم دادم اذاں من ازو آموختم اسرار جاں من بہ دورِ فتنۂ عصر کہن، او بہ دور فتنہ عصر رواں، من۲۴؎ عصر حاضر کے مادی سیلاب نے تمام انسانوں کو ذوق عمل سے محروم کرکے درندگی اور حیوانیت کی انتہا پر پہنچایا ہے۔ ہر ایک مادی منفعت کی دوڑ میں کسی بھی طریقے سے دوسرے کا گلا کاٹنے پر تیار بیٹھا ہے۔ علامہ اقبال اس مرض کا بہترین علاج روحانی بیداری کو قرار دے رہے ہیں۔ آپ اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے پوری نوع انسانی سے یوں مخاطب ہوتے ہیں : Humanity needs three things today. Spiritual interpretation of the Universe. Spiritual emancipaton of the individual and basic principles of a universal import directing the evolution of human society on a spiritual basis.؎25 علامہ اقبال کے نزدیک مایوس انسانیت کے امراض کوآج نہ عہد وسطیٰ کا تصوف دورکرسکتاہے، نہ قومیت اور نہ خدا بیزار اشتراکیت کے نظریات بلکہ صرف مذہبی بیداری اور اخوت اسلامی ہی یہ کام کر سکتی ہے۔ عہد حاضر کا انسان اگرپھر سے وہ اخلاقی ذمہ داری اٹھانے کا متحمل ہوسکتا ہے جو علوم جدید ہ نے اس پر ڈالی ہے تو صرف مذہب کی بدولت۔ اسی سے اس کے اندرایمان ویقین پیدا ہوگا اور ایمان ویقین کی اس کیفیت کا احیا ہوگا جس کی بدولت وہ اس زندگی میں اپنی شخصیت کی تعمیر کرتے ہوئے آگے چل کر بھی اسے محفوظ اور برقرار رکھ سکے گا۔ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱- ڈاکٹر بشیر احمد نحوی ، مسائل تصوف او راقبال، ادارہ علم وادب، بیج بہارہ کشمیر ۲۰۰۱ئ، ص۲۔ ۲- ڈاکٹرمیرولی الدین، قرآن اور تصوف، ادارہ علم وادب، سرینگر کشمیر، ۲۰۰۲ئ، ص ۱۱۔ ۳- سید عبدالقادرجیلانی،غنیۃ الطالبین (مشمولہ) اسمٰعیل سنبھلی، مقامات تصوفتاج کمپنی، بمبئی ۱۹۷۰ئ، ص۷۲۔ ۴- ابو النصر سراج، کتاب اللمع (مشمولہ) تصوف اسلام از عبدالماجد، طبع ثانی ۱۳۴۸ھ، ص۴۲۔ ۵- عبد الماجد، تصوف اسلام ، ص ۹۱۔ ۶- ایضاً، ص۲۹۱۔ ۷- سید علی ہجویری، کشف المحجوب، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی ۱۹۷۷ئ، ص۲۱۱۔ ۸- اسکندریہ کے عظیم پیشوا پلوٹائنسی کی تعلیمات کو نو افلاطونیت (Neo-Platonism)کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ ۹- علامہ،شبلی نعمانی، المامون، جلد دوم، آگرہ ۱۹۷۷ئ،، ص ۷۷۔ ۱۰- یوسف اعظمی ’’عصر حاضر کا بحران ‘‘(مشمولہ) ہندوستان میں تصوف، از آل احمد سرور، ۱۹۸۷ئ، ص ۰۴-۴۱۔ ۱۱- علامہ اقبال کے تحقیقی مقالہThe Development of Metaphysics in Persiaکا ترجمہ اردو زبان میں پہلی بار ۱۹۲۷ء میں میر حسن الدین نے اُنھی کی اجازت کے بعد فلسفۂ عجم کے نام سے شائع کیا۔ ۱۲- میر حسن الدین، فلسفۂ عجم، مترجم ، قادری پبلی کیشنز ، ۲۸۴۷ترکمان گیٹ دہلی، ۲۰۰۶ئ، ص ۹۵۔ ۱۳- علامہ اقبال ایک خط میں خواجہ حسن نظامی سے یوں مخاطب ہوتے ہیں : حضرت میں نے مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی کوبیداری میں پڑھاہے اور باربار پڑھاہے۔ آپ نے شاید اس کو سُکر کی حالت میں پڑھا ہے کہ اس میں آپ کو وحدت الوجود نظر آتاہے۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سے پوچھیے۔ وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں۔ میں اس بارے میں انھی کا مقلد ہوں۔ (اسرارِ خودی اور تصوف، اخبار وکیل، مورخہ ۹؍فروی۱۹۱۶ئ)۔ ۱۴- جریدہ اقبال نامہ، ص۴۵ (مشمولہ) دائرہ معارف اقبال، جلد اول شعبہ اقبالیات، پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور، جنوری ۲۰۰۶ئ، ص۵۱۵۔ ۱۵- ایضاً، ص ۶۸۵۔ ۱۶- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص ۸۰۵۔ ۱۷- ایضاً، ص ۸۱۶۔ ۱۸- ایضاً، ص ۱۱۱۔ ۱۹- ایضاً، ص۵۰۷۔ ۲۰- ایضاً، ص۸۱۷۔ ۲۱- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص ۷۲۷۔ 22- S. A. Vahid, Thoughts and Refelections of Iqbal, London, 1964, p.278. اس اقتباس میں اقبال جمال الدین افغانی کو اسی سلسلے میں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی جمال الدین افغانی کے تصور کی زبرست تعریف وتوصیف کی ہے۔ ۲۳- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۸۱۸۔ ۲۴- ایضاً، ص ۹۳۸۔ 25- Allam M. Iqbal, The Reconstruction of Relegious Thought in Islam, Kitab Bhawan, New Delhi, 1974, p. 110 . ـئ…ئ…ء عشق رسالت مآبؐ ، اخلاق اور علامہ اقبال ڈاکٹر علی محمد بھٹ عشق محبت کی ارفع ترین کیفیت کا دوسرا نام ہے اس سے انسان کے اندر محبوب کی لافا نی حقیقت سما جاتی ہے البتہ محبوب کا ہر طرز عمل جب اخلاقیات ، پاکیزگی اور حقیقت پسندی پر مبنی ہو تو عاشق بھی پاکیزگی کے کیف سے سرشار ہو جاتاہے۔ اخلاق جب والہانہ ہو تو اس سے پیدا ہونے والی بے خودی سے فرد ہی نہیں بلکہ قومیںمعراج پاتی ہیں۔ اس لیے لفظ اخلاق کوجاننا ضروری ہے اس کا اصلی منبع کیا ہے، عاشقانہ زندگی کے ساتھ اس کا کیاتعلق اور حقیقی زندگی سے اس کا کیا واسطہ ہے۔ اخلاقیات کا یونانی لفظ ایتھاس سے گہرا تعلق بیان کیا گیا ہے جس کا معنٰی عادی یا مروجہ طرز عمل کے ہیں۔ اخلاقیات معیارات اور اصولوں کے نظام کو کہا جاتا ہے۔ لغت کے لحاظ سے اس کو انسانی کردار میں اچھائی اور بھلائی کی سائنس سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ نیکیوں اور اچھائیوں کے ایسے اصولوں پر مشتمل نظام ہے جو کسی فرد کے مناسب اور موزوں کردار کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے۔ اخلاقیات انسانی قدروں کا معیار ہوتاہے جس سے انسان کی اہمیت، صداقت اور اصلیت کے اسرار کھل جاتے ہیں ایسی شخصیت مجموعی طور پر نیکی اور پاکبازی کا وہ آئینہ ہوتا ہے جو دوسروںکو اپنے گردو پیش میں ضم کر دیتا ہے۔ اس طرح کی طرزِ زندگی عاشقوں کے جُھرمٹ میں ایک تابناک سورج کی طرح چمکنے لگتی ہے۔ جس ہستی کے اندر یہ اوصاف پائے جاتے ہیں اُس پرعاشقانِ دنیا فدا ہونے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے اور یہ بات اظہر مِن الشمس ہے کہ پیغمبر آخرالزمانؐ ایسی با وصف ہستی ہیں جن کے عاشق ہر وقت اُن کی اخلاقی قدروں پر سرخم کرکے اطاعت گذاری کا ثبوت فراہم کرتے ہیں اور اُن کی اداؤں پر مر مٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب کسی کے اوصاف دیکھ کر انسان مغلوب ہو جاتا ہے تووہ اس کے اندر مقناطیسی کشش کی طرح کھچاؤ پیدا کرتے ہیںاور عشق کے اس آگ میں پروانے جلنے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ محبت جب فروغ پاتی ہے تو محبوب کی طلب میں انسان دیوانہ ہو جاتا ہے،اسے شب و روز محبوب کے خیال میں سرفرازی اور سر شاری نصیب ہونے لگتی ہے ۔تن من اور دھن کا ہوش نہیں رہتا اور جب محبوب کا درجہ خالق نے خود بلند کیا ہے تو عاشق اس کی رضا میں اپنی رضا، اُس کے خیال میں اپنا خیال، اس کی پسند میں اپنی پسند اور اُس کی ذات میں اپنی ذات گم کر دیتا ہے اور کمال محبت یعنی ولولہ عشق کی نعمت سے سرفراز ہوجاتا ہے۔ عشق کی اسی کیفیت کو امیر خسرو نے یوں بیان کیا: من تو شدم تو من شُدی من تن شُدم توجان شُدی تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری عشق کی تعریف کرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے جو قابلِ قدر روحانی یا وجدانی وضاحتیں فرمائی ہیں اُن قابل ذکر اشخاص میںسے حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: المحبۃ دخول صفات المحبوب علی البدل من صفات المحب۔ محبت یہ ہے کہ محبوب کی صفات محِبّ میں داخل ہو جائیں۔ حضرت حُسین بن المنصور حلاجؒ کا قول ہے: حقیقۃ المحبۃ قیامِک مع محبوب بخلع اوصافک۔ محبت کی حقیقت یہ ہے کہ تو اپنے اوصاف کو چھوڑ کر محبوب کی ذات سے قائم ہوجائے۔ حضرت ابو عبد اﷲ قریشیؒ نے محبت کو کچھ ایسے انداز میں بیان کیا ہے: محبت کی حقیقت یہ ہے کہ محب اپنا کُل محبوب کے سپرد کر دے اور اپنے لئے کچھ نہ چھوڑے۔ حضرت ابو علی روباریؒ نے محبت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: محبت یہ ہے کہ اطاعت کو اختیار کرے اور حاجت کو ترک کرے۔ اﷲ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت کا درجہ عطا کیا: من یطع الرسول فقد اطاع اﷲ۔ جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کی بے شک اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔ شبلیؒ کا قول ہے: المحبۃ اختیار ما یحب المحبوب وان کرہتہ وکراہۃ ما یکرہ المحبوب وان احببت۔ محبت، اس چیز کو اختیار کرنا ہے جس کو محبوب دوست رکھتا ہے اگر چہ وہ ناپسند ہو اور اس چیز کو مکروہ سمجھنا ہے جس کو محبوب مکروہ سمجھے اگر چہ وہ چیز تجھے پسند ہو۔ عشق کی شدت سے عاشق کو بے پناہ قوت حاصل ہو تی ہے اور وہ ہر اُس رُکاوٹ کو پاؤں تلے روند دیتا ہے جو محبوب کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ سانسیں کششِ عشق کے زیر نگیں ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے عشق کی قوت کو محسوس کیا تو فرمایا: عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں۱؎ علامہ اقبال کے عشق کا محور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے خالق و مخلوق اور عبد و معبود یا انا ئے کبیر اور انائے صغیر یا اُن کے الفاط میں انائے مطلق اور انائے محدود کے مابین اصل رشتہ باہمی عشق اور محبت کا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس کسی کو عشق کی حقیقی لذّت حاصل ہو جاتی ہے وہ اس کے دوام و بقا کا خواہشمند ہو گا اس لئے بقائے عشق بقائے ذات پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر میں اُن کی زبان تر رہتی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجنے میں مصروف رہتے ہیں۔ علامہ اقبال کے فارسی اور اردو کلام میں عشق کا بیان نمایاں ہے۔ اثبات ذات اور دوام عشقِ الہٰی اُن کے فلسفہ خودی کے نمایاں اصول ہیں: میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حُسن دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی۲؎ نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طُغیان مشتاقی۳؎ علامہ کے کلام سے یہ ظاہر ہے تو عشق الٰہی کا عکس عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ اس لیے یہ امر بالکل واضح ہے کہ اطاعت و محبت دونوں کے اعتبار سے اﷲ کی اطاعت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت و محبت ہے ۔ یہ پیغام کلام اقبال میں جا بجا نظر آتاہے: ہر کہ عشق مصطفٰی سامانِ اوست بحر و بر در گوشۂ دامان اوست۴؎ -------------------------------- بمصطفٰیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نر رسیدی، تمام بو لہبی است۵؎ حیات اقبال اس امر کی مظہر ہے کہ طریقہ محمدیؐ اقبال کی زندگی میں اس طرح سرایت کر گیا تھا کہ ایک دن کسی شخص نے اُن سے پوچھا کہ آپ حکیم الامت کیسے بنے،انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بے شمار درود بھیجا تم بھی درود وِرد زبان رکھو تو تم بھی حکیم الامت بن جاؤ گے: ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی۶؎ علامہ اقبال ؒ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی کو کائنات کارنگ اور سرور قرار دیا ہے اوروہ اُن کی ذاتِ اقدس کو مقصودِ حیات سے تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محبت اِلٰہی کا حاصل ہی اطاعت نبویؐ ہے دوسرے لفظوں میں محبت کا حاصل نسبتِ نبی آخر زماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے: ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو بزم توحید بھی دنیا بھی نہ ہو تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے۷؎ علامہ اقبال پر یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ تمام تر کامیابیوں کا دار و مدار عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر منحصر ہے۔ جس ہستی کی ذات کے ساتھ محبت ہے اُس کی ادائیں یا اسوۂ حسنہ کے ساتھ محبت لازمی ہے کیونکہ ذات مقصود ہے صفات کا۔ اس لیے جس ذات کی صفات انسان کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں تو وہ ذات انسانی وجود میں سرایت کر جاتی ہے۔ دنیا نے طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ کہیں قولاً تو کہیں قولاً و فعلاً اطاعت قبول کی۔ علامہ اقبال اسی ہستی کی محبت کا دم بھرتے ہوئے اور اپنی تمام تر نیاز مند یوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں میں نچھاور کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ دنیاو آخرت کی ساری کامیابیاں اور سر فرازیاں اس ذاتِ کریم کی بے لوث وفا داری اور محبت سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ محور ہے جس کے گرد اقبال کا کلام گھومتا ہے۔ علامہ اقبال پر یہ حقیقت عیاں تھی کہ اُمت مسلمہ کی ترقی اور سلامتی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پوشیدہ ہے: مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہِ مصطفٰی رَو۸؎ اقبال نے اپنی شاعری کے ہر دور میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی زندگی کا رہبر مانا کیونکہ علامہ اقبال کا دل عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روشن اور دماغ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ کاملہ کا قائل تھا۔ علامہ اقبال کو یقین کامل تھا کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی عشق الٰہی کا ذریعہ ہے۔ ان کی شاعری میں عشق ، روح ِ حیات اور روحِ اسلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس محبت کا اثر ہی تھا جس نے اقبال کو شاعرِ مشرق اور حکیم الامت بنا دیا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ میں کس طرح وضاحت کروں کہ عشق کیا ہے جس نے ایک خشک لکڑی کو بے قرار کردیا تو ایک عاقل کی حالت کیا ہوگی: می ندانی عشق و مستی از کجا ست؟ ایں شعاعِ آفتابِ مصطفی است۹؎ -------------------------------- من چہ گویم از تولایش کہ چیست خشک چوبے در فراقِ او گریست۱۰؎ اقبالؒ کی ذات میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جذبہ سب سے نمایاں اور والہانہ تھا، جب کبھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر خیر ہو تاتھا علامہ اقبال پر جذبات کی شدت طاری ہو جاتی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کسی بھی پہلو پر گفتگو شروع کرتے تھے توبے خود ہو جاتے۔ علامہ کے خطوط، اشعار اور خطبات، عشق رسولؐ کے مظہر تھے۔ علامہ اقبال کو اس بات کا یقین تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا عملاً محبت رسولؐ کا ثبوت ہے۔ آپ نے جو حد مقرر کی ہے اس سے باہر جانا یا اس پر عمل نہ کرنا عشق رسولؐ نہیں بلکہ کھلی بغاوت ہے: شکوہ سنجِ سختی آئیں مَشو از حدودِ مصطفی بیروں مرو۱۱؎ حقیقی محبت میں محبوب سے منسلک ہر چیز سے محبت ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے جب بھی علامہ اقبال کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ اور مدینہ طیبہ کی بات چھڑ جاتی تھی تووہ اِن میں بھی اسی محبت کی حدت محسوس کرتے تھے۔ اقبال کو مدینہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس قدر عقیدت اور محبت ہے کہ دو جہانوں پر خاکِ یثرب کو اہمیت دیتے ہیں: خاکِ یثرب از دو عالم خوشتراست اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است۱۲؎ علامہ مرحوم کوکس حد تک مدینہ سے محبت ہے وہ اُن کے کلام سے بخوبی واضح ہے۔ اُن کو مدینہ کی خاک میں جنت اور لو ح و قلم عیاں دِکھائی دیتے ہیں۔ وہ اسی خاکِ مقدس میں دفن ہو نا چاہتے ہیں۔ اس آرزو کو انہوں نے بار گاہِ اِلٰہی میں عرض یوں پیش کیا: ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اقبال اُڑا کے مجھ کو غُبارِ رہ حجاز کرے۱۳؎ عشق رسولؐ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے ہر پست کو بالا کر دیا،زندگی کو متحرک کر دیا، اس نے خاموش سمندروں کے اندر طغیانی پیدا کی، برف جیسے جسموں کو حرارت اور کمزور دلوں کو ایمان کی طاقت عطا کی۔ یہ عشق ِ رسولؐ کاہی معجزہ ہے کہ اس نے مردہ ضمیروں کو جگایا اور اُن کے آنکھوں سے تاریکی کا پردہ ہٹایا ۔ یہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ہے جس نے خانہ بدوشانہ زندگی بسر کرنے والوں کے لیے قیصر و کِسریٰ کے خزانوں کے دروازے کھول دئیے اور خاکی کو نور سے منور کیا: دل ز عشق او توانا می شود خاک ہم دوشِ ثریا می شود۱۴؎ علامہ اقبال کو جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ انداز بیان عطا کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شمائل، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت کو جس حسین پیرائے میں علامہ نے بیان کیا اس کی نظیر کم ہی ملے گی: وہ دانائے سبل ختم الرّسول مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا نِگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ۱۵؎ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رہنمائی نہ فرمائی ہو دنیا میں معیشت، معاشرت، حکومت اور عدل و انصاف کے وہ زرّیں اصول بتائے کہ ان سے بہتر کوئی انسانی دماغ پیش نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال ؒ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کائنات کا حاصل بیان کیا: اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی۱۶؎ قرآن کریم میں واضح طور حکم دیا گیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات تمام ایمان والوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ محبت اور عشق رسولؐ کے زبانی دعوے کوئی معنٰی نہیں رکھتے بلکہ زندگی عمل کا نام ہے۔ علامہ اقبال کو اس بات کا پورا پورا ادراک تھا کہ محبت عمل کا تقاضا کرتی ہے اس لئے اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کا دعویدار ہو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوہ ٔحسنہ کے بجائے غیروں کی اطاعت کرتا ہو تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔ اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ زبان سے محبت کے دعوے کئے جائیں اور عملاً دوسروں کی غلامی کی جارہی ہو۔ اس کے علاوہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمان کو چھوڑ کردوسروں کی فرمانبرداری کررہا ہو اور آپؐ کے اسوہ کے بجائے رسم و رواج کی پابندی کرتا ہو۔ اس طرز زندگی کوعلامہ اقبال نے موت سے تعبیر کیا ہے: دامنش اَز دست دادن مردن است چوں گل از بادِ خزاں افسردن است۱۷؎ علامہ اقبالؒ کو حُب رسولؐ وراثت میں ملی تھی وہ ایسے شخص کے اولادتھے جو طریقہ محمدیؐ کے آئینہ میں اپنے آپ کو پہچانتاتھا۔ وہ عشقِ مصطفی میں ایسے رنگے ہوئے تھے کہ اُن کو دنیا و آخرت کی کا میابی حُبِ رسولؐ میں ہی نظر آتی تھی۔ یہی وجہ ہے آخری سانس تک عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم علامہ اقبال کے وردِ زبان رہا ۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ جذبہ ابتدائی تربیت سے اقبال کی شخصیت کا حصہ بن گیا۔ اقبال نو عمر تھے جب بحالتِ مجبوری دروازے پر سائل نے بڑی کرختگی سے نِدا دی جوانہیں پسند نہ آئی۔ ڈنڈا لے کر غصّے کی حالت میں اس سائل کے سر پر مارا۔ اس نے علامہ کے والد سے شکایت کی۔ جب والد صاحب نے پورا قصہ سُنا تو آنکھیں آنسو سے بھر آئیں اور ناراضگی کا اظہار کر تے ہوئے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن ساری دنیا موجود ہو ، پیغمبروں، صدیقوں، شہیدوں اور صالح لوگوں کا مجمع ہو اور اس گداگر کی شکایت پر تمہارا باپ سفید داڑھی لے کر بحیثیت مجرم کھڑا ہو اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھ سے پوچھیں : اے اقبال کے والد! میں نے تیرے سپرد ایک امانت رکھی تھی کہ تو اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے تاکہ یہ صحیح مسلمان بن کر میرے سامنے پیش ہومگر تم نے اس کی یہ تربیت کی کہ غریبوں کو ستائے۔ خدا را مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے رسوا نہ کرنا۔ میں اپنے خدا اور آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا۔ علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ میرے ہوش اُڑ گئے اور آئندہ زندگی میں ایسی نازیبا حرکت کرنے سے توبہ کر لی اس صدمے کا نتیجہ یہ ہوا کہ والد سے رو کر معافی مانگی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے رسوائی سے بچنے کا سبق اِن کے والد صاحب نے اس انداز سے دیا کہ وہ اسے عمر بھر بھُلا نہ سکے۔ آخری عمر میں رب العزت کی بار گاہ میں التجا کرتے ہیں کہ: تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روزِ محشر عذر ہا ئے من پذیر ور حسابم را تو بینی ناگزیر از نِگاہ مصطفی پنہاں بگیر اقبال ادب و احترام کو عشق کی پہلی کڑی قرار دیتے ہیں کیونکہ احترام اور سچائی ہی صحیح منزل تک رہنمائی کرتی ہے۔ اس منزل کا آخری پڑاؤ محبت ہے اور یہاں انسان اپنی ذات کو فنا کرکے محبوب کی اداؤں کو اپنے لیے پسند اور اُس کے طریقہ زندگی کو اپنا طریقہ قرار دیتا ہے اس طریقہ پر عمل پیرا ہو کر اپنے وجود کو ابدی کامیابی سے جوڑتاہے۔ علامہ اقبال نے محبت کے اس سمندر کو اِن دو اشعار میں قلم بند کیا ہے کہ عشق کی برکت سے عاشق کو بے پناہ قوت حاصل ہو جاتی ہے اور انفس و آفاق اس کے زیر نگین ہو جاتے ہیں : عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں۱۸؎ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لَوح و قلم تیرے ہیں۱۹؎ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں پیدا کیا ہے۔ ہماری عزت و تکریم حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے ہے اس لئے ہمیں آپ کا دامن مضبوطی کے ساتھ پکڑنا چائیے حقیقت میں ہماری زندگی کا راز اس پاک دامن سے وابستگی میں مضمر ہے۔ اگر کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کا دعویدار ہو تو وہ عمل کسی اور طریقہ زندگی پر کر رہا ہو تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹا متصور ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمان کو اپنا کر، سنت کا اتباع کرکے اور رسم و رواج کو چھوڑنے کے بعدہی محبت رسولؐ کا اظہار بارگاہِ الٰہی میںقابل قبول ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا راستہ یا طریقہ شریعت ہے۔ مسلمان کے لیے یہی آئین ہے اور دونوں جہانوں کی کامیابی کا ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عشق ِ رسولؐ پر مرنے والے زندہ رہتے ہیں۔ علامہ اقبال کے لیے جب عشق رسولؐ کے چشمے کھل گئے تو انہوںنے اپنے آپ کو اُس میں فنا کر دیا ۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ عشق رسولصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کو امر کر دیا۔ انہوں نے قلب و روح کو عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منور کر کے یہ دعا کی: اے امیر خاور اے مہر منیر می کنی ہر ذرّہ را روشن ضمیر پرتو تو ماہِ را مہتاب داد لعل را اندر دلِ سنگ آب داد نرگساں صد پردہ را برمی درد تا نصیبے از شعاعِ تو برد خوش بیا صبحِ مرا آوردۂ ہر شجر را نخل سینا کردۂ تو فروغ صُبح و من پایانِ روز در ضمیرِ من چراغے برفروز تیرہ خاکم را سراپا نور کن در تجلّی ہائے خود مستور کن۲۰؎ اﷲ اپنے پیروکاروں سے خالص اطاعت کی توقع رکھتا ہے اورمعاشرے میں ایسا نظام چاہتا ہے جو اخوت، انسانیت اور اِخلاقیات پر مبنی ہے۔ ایسے طریقہ زندگی سے انصاف اور عدل کا ماحول پیدا ہوتا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب انسان سچے دل سے اسوہ حسنۂ پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو۔ علامہ اقبال اگرچہ عشق رسولؐ میںغرق تھے مگرادب کا عالم یہ تھا کہ گول میزکانفرنس سے واپس آئے تو ان کے ایک قریبی دوست کافی عرصہ کے بعد ملنے آئے۔ بعد از گفتگو کانفرنس اور اس کے احوال جاننے کے بعد عرض کیا کہ آپ یورپ سے ہو کر آئے ہو واپسی پر روضہ اطہر کی زیارت بھی کر لیتے۔ علامہ اقبالؒ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور روتے ہوئے دوست سے فرمانے لگے کہ میں شرم کے مارے نہیں گیا آخر اپنے آقاؐ کے سامنے کیا منہ لے کر جاتا۔ یہی سچے اور کھرے عشق کی علامت ہے کیونکہ عاشق جب اپنے معشوق کی محبت میں حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو اُس کو ایسا لگتا ہے کہ اسے ابھی حقیقتاً محبت کا مقام حاصل نہیں ہوا۔ ایسے ہی عالم میں اقبالؒ فرماتے ہیں: از جدائی گرچہ جاں آید بلب وصل او کم جو رضاے او طلب۲۱؎ یہ حقیقت ہے کہ اگر انسانیت اس ضابطۂ حیات کی پابند ہو جائے جو اﷲ تعالیٰ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل کیا تو دنیا میںلوگ محتاجی اور غلامی سے نجات ضرور حاصل کریں گے۔ ا س لئے یہ امر اب عیاں ہو گیا کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات سے عشق کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ان کے لائے ہوئے نظامِ حیات کو عملاً نافذ کرکے انسانوں کو تاریکی سے روشنی اور گمراہی سے ہدایت کی طرف لانے کی جدوجہد نہیں کرتا ہے اس کا عشق کامِل نہیں ہے۔ اس لئے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق کا دعویٰ کرنے والے مردمومن کا فرض ہے کہ وہ اس نصب العین کو عام انسان تک پہنچانے کے لیے اپنے منصب کا صحیح ادراک کرے تاکہ پستی میں گرے ہوئے انسان بلندیوں پر فائز ہو سکیں: قوّتِ عِشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے۲۲؎ اقبال ملت اسلامیہ کا وقار، آبرو اور عظمت و سرفرازی صرف نسبت رسالتؐ کی بحالی اور عملاً آپؐ سے وابستگی میں دیکھتے ہیں: در دِل مسلم مقام مصطفی است آبروئے ما ز نامِ مصطفی است۲۳؎ -------------------------------- در خصومات جہاں گردد حکم تابع فرمانِ او دارا و جم۲۴؎ -------------------------------- عشق از سوزِ دل ما زندہ است از شرارِ لااِلٰہ تابندہ است۲۵؎ -------------------------------- علم و دولت نظمِ کارِ ملّت است علم و دولت اعتبارِ ملّت است۲۶؎ ـئ…ئ…ء حوالہ جات و حواشی ۱- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص ۳۵۵۔ ۲- ایضاً، ص ۱۲۸۔ ۳- ایضاً، ص ۳۸۶۔ ۴- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص ۱۹۰۔ ۵- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۷۵۴۔ ۶- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۸۴۶۔ ۷- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۲۳۶۔ ۸- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۹۴۷۔ ۹- ایضاً، ص ۸۶۴۔ ۱۰- ایضاً، ص ۲۱۔ ۱۱- ایضاً، ص ۴۱۔ ۱۲- ایضاً، ص ۲۱۔ ۱۳- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۱۳۲۔ ۱۴- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۹۔ ۱۵- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص۳۶۳۔ ۱۶- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص۱۶۶۔ ۱۷- ایضاً، ص ۱۰۱۔ ۱۸- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص۳۵۵۔ ۱۹- ایضاً، ص۲۳۷۔ ۲۰- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص۸۰۶۔ ۲۱- ایضاً، ص۸۲۷۔ ۲۲- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۳۶۔ ۲۳- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص۱۹۔ ۲۴- ایضاً، ص۲۵۔ ۲۵- ایضاً، ص۱۲۰۔ ۲۶- ایضاً، ص۱۸۹۔ ـئ…ئ…ء فکرِ اقبال میں زمان و مکاں کی اہمیت ایس۔ اقبال قریشی اقبال کی پہچان ان کے فلسفہ خودی کی وجہ سے ہے اور تصور خودی اقبال سے اس حد تک وابستہ ہے کہ اُن کی شخصیت اور اُن کے پیغام کا جزولاینفک بن گیا ہے۔ اقبال کی پوری توجہ تصور خودی کی تشریح و توضیح پر ہے اور اُن کے دوسرے تمام تصورات تصور خودی کے تابع ہیں۔ ڈاکٹر ایس۔ عالم خوند میری رقمطراز ہیں: The world, for him (Iqbal), consists of living-willing egos, who are continuously and unceasingly struggling to rise to higher stages of life and will. The universe is an ordered system of egos or individualities and the continuation of individuality depends upon the strengthening of the ego of self.؎1 مگر حیرت ہے کہ کہیں کہیں خودی زمان و مکاں کے تابع ہوجاتی ہے۔ اقبال نے خودی کے فلسفے کو پیش کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے۔ لیکن اُن کی تحریروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ خودی سے کہیں زیادہ زمان و مکاں کے تصورات نے اقبال کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جیسا کہ مختلف صوفیہ یا فلسفیوں کے ساتھ ہوا ہے: It is to be kept in mind that the problem of time has always attracted the attention of philosophers and mystics. This is because according to the Qur'an the alternation of day and night is one of the greatest signs of God.؎2 ان تصورات کو اپنے نقطۂ نگاہ سے پیش کرنے کے لئے اقبال نے حتی الامکان اپنا پورا زور صَرف کیا۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں: اقبال نے اپنے فلسفیانہ نظریات میں جو اہمیت تصورِ زمان و مکاں کو دی ہے، وہ شاید اپنے کسی اور نظریے کو نہیں دی۔۳؎ اُن کے خطوط شاہد ہیں کہ زمان و مکاں کے نظریہ کو اپنانے اور پیش کرنے کے لئے ماخذ کی تلاش میں اُنہوں نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اُس دور کے تمام علماء سے وہ رجوع کرتے رہے۔ کچھ خطوط کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔ مولانا سیّد سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: کیا حکمائے صوفیائے اسلام میں سے کسی نے زمان و مکاں کی حقیقت پر بحث کی ہے؟۴؎ ایسے ہی علامہ اقبال نے سیّد سلیمان ندوی کو ایک خط میںمُلا محمود جونپوری کی مشہور کتاب شمس بازغہ کے بارے میں لکھا : شمس بازعہ یا صدرا میں جہاں زمان کی حقیقت کے متعلق بہت سے اقوال نقل کئے گئے ہیں، ان میں ایک قول یہ ہے کہ ’زمان خدا ہے‘ بخاری میں ایک حدیث بھی اس مضمون کی ہے: لا تسبّوا الدّھر کیا حکمائے اسلام میں سے کسی نے یہ مذہب اختیار کیا ہے، اگر ایسا ہو تو یہ بحث کہاں ملے گی۔۵؎ ایک اور خط میں اقبال نے سیّد سلیمان ندوی کے نام لکھا: (۱) حضرت محی الدین ابن عربی کی فتوحات یا کسی اور کتاب میں حقیقتِ زمان کی بحث کس کس جگہ ہے، حوالے مطلوب ہیں۔ (۲) حضراتِ صوفیہ میں کسی اوربزرگ نے بھی اس مضمون پر بحث کی ہو تو اس کے حوالہ سے بھی آگاہ فرمائیے۔ (۳) متکلمین کے نقطۂ خیال سے حقیقتِ زمان یا آن سیّال پر مختصر اور مدلّل بحث کون سی کتاب میں ملے گی۔۶؎ سیّد سلیمان ندوی سے ایک اور خط میں پوچھتے ہیں: نورالاسلام کا عربی رسالہ بابتِ مکان، جو رام پور میں ہے کس زبان میں ہے، قلمی ہے یا مطبوعہ، نورالاسلام کا زمانہ کون سا ہے۔۷؎ ایک اور خط میں علامہ رقمطراز ہیں: مسئلہ زمان کے متعلق ابھی تک مشکلات باقی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلاسفہ پر جو اعتراضات ہمارے متکلمین نے کئے ہیں وہ مسئلہ زمان کے متعلق خود ان کے افکار پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ مولوی سیّد برکات احمد مرحوم نے دہر اور زمان میں امتیاز کرکے کسی قدر مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ مسئلہ نہایت مشکل ہے۔ ممکن ہے حضرت ابن عربی اس پر روشنی ڈال سکیں۔۸؎ ان خطوط کے علاوہ کئی مقامات پر علامہ نے اپنے خطوط میں تصورِ زمان و مکاں کا ذکر کیا۔ مثلاً مختلف خطوط میں انہوں نے خواجہ غلام السیّدین ، سیّد مہر علی شاہ گولڑوی اور سیّد نذیر نیازی کے ساتھ بھی اُن کی خط و کتابت رہی۔ یہ دوسری بات ہے کہ علماء اس مسئلہ میں اُن کی رہنمائی نہ کرسکے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس فلسفۂ حیات کے لئے وہ مضطرب تھے وہ یہی نقطۂ نظر ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ بیسویں صدی میں اس تصور نے انسانی ذہن کو جس طرح جھنجھوڑا اور بے چین کیا تھا اُس کا تقاضا تھا کہ اقبال بھی ان حقائق کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہے۔ ڈاکٹر رضی الدین کے مطابق: اقبال نے اپنے کلام، خطبات میں دوسری تحریروں میں جن بنیادی مسئلوں پر غوروفکر کیا ہے، اُن میں زمان و مکاں کا سائنسی اور فلسفیانہ مسئلہ بھی شامل ہے جو ان کے زیرِ نظر بہت زیادہ رہا ہے، حتیٰ کہ خطبات کا بیشتر حصہ محض اسی مسئلے کی توضیح و تشریح اور اس کے اطلاقات پر مشتمل ہے۔ اس کی روشنی میں انہوں نے مذہب اور الٰہیات کے مختلف اصولوں پر غائر نظر ڈالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ زمان و مکاں کا مسئلہ مسلمانوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔۹؎ اگر یہ کہا جائے کہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی فلسفیانہ یافت یہی ہے کہ تو بے جا نہ ہوگا۔ ارسطو اور افلاطون سے لیکر اُنیسویں صدی کے آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت نے زمان و مکاں کے تصور کو ایک نئے نقطۂ نگاہ سے پیش کیا۔ اقبال اپنی ابتدائی فلسفیانہ تصنیف اسرارِ خودی سے ہی اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ خودی جب بے اماں، بے زماں اور بے مکاں ہوجائے تو پھر اُس کا وجود اور اُس کے حدود پر گفتگو آسان نہیں ہوتی: مکانی ہوں کہ آزادِ مکاں ہوں جہاں بیں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست مجھے اتنا بتادیں میں کہاں ہوں!۱۰؎ خودی کا یہ تصور بڑا پیچیدہ اور ماورائی حیثیت کا حامل ہے اور یہاں انسانی فکر کی حیرات بڑھ جاتی ہے۔ اقبال نے خودی اور بے خودی کی تشکیل میں اسلامی فلسفے اور فکر کا سہارا لینا چاہا۔ علامہ اقبال نے خودی اور بے خودی کو اپنے آئینہ خانے میں ڈھالنا چاہا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسرار خودی میں ’’الوقتُ سیف‘‘ کے قول سے اسے مربوط کرنا چاہا۔ پروفیسر ایم ایم شریف لکھتے ہیں: Iqbal takes a dictum of Imam Shafi's الوقتُ سیف(time is sword) and writing under the title poem of sixty one couplets in Asrar-e-Khudi.؎11 اقبال نے جب گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد واپسی پر برگساں سے ملاقات اور گفتگو کی تو اس سے اُن کے تفکر میں حیرت انگیز انقلاب پیدا ہوا۔ Iqbal paid a visit to Bergson who was very pleased to see him.؎12 اور اُس ملاقات کے بعد اقبال کی تشنگی اور زیادہ بڑھ گئی۔ راقم کا خیال ہے کہ شاید اس ملاقات کے ہی سبب اُن کی اہم تصنیف بال جبریل میں ہمیں زماں کے مباحث ملتے ہیں: Following Bergson Iqbal makes a distinction between pure time and serial time, pure time for him is not unreal as Zeno and Plato... like Bergson he holds that pure duration is identical with life and is an unceasing flow or a continual change, as perpetual flux.؎13 بالِ جبریل اُن کے عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ اُن کی افکار کی ارتقائی صورت پیش کرتا ہے۔ گویا۱۹۲۴ء سے لیکر ۱۹۳۵ء تک اقبال نے پوری توجہ کے ساتھ اس خیال کو مستحکم کرنے کے لئے کوشش کرتے رہے۔ برگساں معمولی فکر کا فلسفی نہ تھا ۔ اگر بیسویں صدی کے فلسفیانہ تصورات کا اُسے حامل کہا جائے تو بے جانہ ہوگا، جس سے اقبال بہت متاثر ہوئے: Iqbal's poetry and thought are so indebted to Bergson that one cannot miss the Bergsonean note in his works. Leaving aside the influences and impressions from Bergson, one might feel attracted to discover the raison d'etre for the Bergsonean note in him. What seems to have appealed to Iqbal most is the poetic language that Bergson has used in all his works.؎14 یہی سفرہے کہ مسولینی سے ملاقات نے اقبال کے فلسفۂ قوت کو نیا استحکام یا طاقت بخشی۔ان دونوں فلسفیانہ تصورات میں یعنی زمان و مکاں اور قوت میں ایک باریک رشتہ بھی ہے، جس کی طرف بڑا لطیف اشارہ مسجد قرطبہ والی نظم میں موجود ہے جو ہمارے ناقدین کی نظر سے اوجھل ہے۔ ’مسجد قرطبہ‘ کے پہلے بند میں وہی زمان و مکاں ہے جو حادثات کا تسلسل ہے جس کی زد سے دنیا کی کوئی شئے محفوظ نہیں ہے۔ مگر’ مسجد قرطبہ‘ کیوں محفوظ اور باقی ہے اس لئے کہ مردِ خدانے اس کی تخلیق کی ہے۔ اقبال کی نظر میں مردِ خدا لازوال قوت کا سرچشمہ ہے جو بڑے سے بڑے طوفان کو روک دیتا ہے۔ فنا ہر تخلیق کا مقدر ہے لیکن مردِ خدا کی تخلیق کو زوال نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی بے پناہ قوت سے تخلیق کو لافانی شاہکار میں تبدیل کرتا ہے۔ ’’عشق خود اِک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام‘‘۱۵؎ یہاں زمانے کی رَو اس تخلیق کو فنا نہیں کرپاتی، یہ بات بڑے غوروفکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور مردِ خدا کا یہ سرچشمۂ قوت فیضانِ الٰہی کا حامل ہوتا ہے۔ اسی نظم میں ہے: ’’مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ‘‘۱۶؎ دوسرے لفظوں میں اقبال کا مردِ مومن زمان و مکاں کے حدود کا پابند نہیں ہے۔ اس نظم میں زمان و مکاں اور سرچشمۂ قوت پر جو توجہ ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسولینی کی جن آنکھوں کی چمک نے اقبال کو بہت متاثر کیا وہ بے سبب نہیں ہے۔ اقبال نے اپنے فلسفیانہ خطبات میں بعض اہم نقطوں کی طرف اشارہ کیا ہے اُن میں وہ وقت کی ابدیت اور مکان کے حدود کو اس مادّی دنیا سے ماورا حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال کے کلام میں قوت کے سرچشمے کی علامت حضرت علیؓ کو قرار دیا ہے۔ جنہیں بار بار اسداللہ، خیبر شکن، یداللہ اور بازوئے حیدرؓ سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری طرف زمان و مکاں کو سمجھنے کے لئے اقبال نے معراج نبویؐ کے واقعہ کو بار بار دہرایا ہے: دے ولولۂ شوق جسے لذتِ پرواز کرسکتا ہے وہ ذرّہ مہ و مہر کو تاراج تو معنیٔ والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مدوجزر ابھی چاند کا محتاج۱۷؎ اس سے زیادہ واضح لفظوں میں زمان و مکاں کو سمیٹنے اور سر کرنے کا بہت ہی واضح تصور اس شعر میں ہے سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں۱۸؎ ان اسلامی واقعات کی مدد سے اقبال نے زمان و مکاں کو سمجھنے اور سمجھانے کی بڑی کوشش کی۔ سورۃ والعصر کی بھی فکر انگیز تعبیر اُن کے یہاں ملتی ہے اور لا تسبّوا الدّھر کی حدیثِ پاک کا بھی حوالہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اقبال کے زمان و مکاں کو ایک نئے امکانی فلسفے کی صورت میں دیکھا جائے۔ چنانچہ اقبال کے بیشتر نقادوں نے ان کے اس تصور کو سمجھنے اور سمجھانے کی اپنی بساط بھر کوشش کی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ صرف ادبی نقاد اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اُن اقبال شناسوں نے بڑی جگرکاوی کی ہے اور اس میں فلسفے کے بیشتر پہلوئوں کو بروئے کار لانے میں اپنی پوری قوت صَرف کی ہے۔ خواہ وہ خلیفہ عبدالحکیم ہوں یا رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر نصیر احمد ناصر یا پروفیسر ایم ایم شریف۔ یہ حضرات صرف ادب کے عالم نہ تھے بلکہ فلسفے کے عالم بھی تھے۔ ان بزرگوں کے ساتھ ساتھ جناب شبیر احمد خان غوری نے بھی بڑی فکر انگیز گفتگو کی ہے اور اقبال کے تصورِ زمان و مکاں کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرنا چاہا ہے۔ اگرچہ اُنہیں اقبال کے کئی پہلوئوں سے اختلاف بھی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ ابھی تک اقبال کے ان فلسفیانہ پہلوئوں کا احاطہ نہیں ہوسکا ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اقبال ایک عبقری ذہن کے مالک تھے اور اُن کے فلسفہ و فکر کی باز آفرینی کے لئے وہی ذہن درکار ہے، شاید کوئی ایسا نابغہ پیدا ہو جو اس کا احاطہ کرسکے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مشرقی ادب اور فکر میں اقبال پہلے شخص ہیںجنہوں نے اس اہم تفکیری تصور کی تفہیم پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ وہ اس لئے بھی ناگزیر ہیں کہ انہوں نے بیسویں صدی کے اس عظیم الشان فلسفیانہ فکر کو کما حقہ سمجھا ہے۔ اقبال نے ہندوستانی ادبیات میں عالمی مسائل پر غوروفکر کرنے کی طرح ڈالی۔ ان کے معاصر ادب میں کسی زبان میں بھی کائناتی حوادث کا منظر نامہ کجا محض جائزہ بھی نہیں ملتا۔ اسی طرح فکر کے اہم میلانات کو فکروشعر سے ہم آہنگ کرنے میں اور ہندوستان کے رہنے والوں کے دلوں کو درد آشنا بنانے میں انہوں نے پہل کی ہے اور اسی طرح یہ صرف اقبال کا کلام ہے یا تحریریں جن میں زمان و مکاں کی پوری سنجیدگی اوربازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ فلسفہ ان کے لئے حیرت و استعجاب کا سبب بھی تھا اور ان کی تخلیقی فعالیت کا سرچشمہ بھی بنارہا۔ ـئ…ئ…ء حوالہ جات و حواشی 1. Dr. S. Alam Khundmiri, Some Aspects of Iqbal's Poetic Philosophy, Iqbal Institute, March 2000, p.31. 2. Syed Latif Hussain Kazmi, Philosophy of Iqbal, A. P. M. Publishing Corporation, New Delhi, 1997, p.18. ۳۔ جگن ناتھ آزاد، اقبال اور مغرب، مرتبہ آل احمد سرور، مضمون ’’آئن سٹائن اور برگساں کے نظریاتِ زمان اور اقبال‘‘، اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی، ۱۹۹۷ئ، ص ۲۲۔ ۴۔ کلیات مکاتیب اقبال ، جلد دوم،مرتبہ سیّد مظفر حسین برنی، اُردو اکادمی دہلی، ۱۹۹۳ئ، ص ۲۷۹۔ ۵۔ ایضاً، ص ۶۹۰-۶۹۲۔ ۶۔ ایضاً، جلد سوم، ص ۳۶۷۔۳۶۸۔ ۷۔ ایضاً، ص ۳۸۱۔ ۸۔ ایضاً، ص ۳۹۸۔ ۹۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی،اقبال کا تصورِ زمان و مکاں، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۳ئ، ص ۸۳۔ ۱۰۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص ۴۰۶۔ 11. Prof. M.M. Sharief, Iqbal on the Nature of Time, Selection from the Iqbal Review by Dr. Waheed Qureshi, April 1983, p.377. 12. Anwar Beg, The Poet of the East, Lahore, Sh. Md. Ashraf, 1961,p. 77. 13. Prof. M.M. Sharief, Iqbal on the Nature of Time, Selection from the Iqbal Review by Dr. Waheed Qureshi, April 1983. p. 376. 14. T.C. Rastogi, Western Influence on Iqbal, Ashish Publishing House, New Delhi,1987, p.93. ۱۵۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۲۰۔ ۱۶۔ ایضاً۔ ۱۷۔ ایضاً، ص۵۲۹۔ ۱۸۔ ایضاً، ص ۳۶۴۔ ـئ…ئ…ء اقبال کا نظریہ سیاست ڈاکٹر پیر نصیر احمد انیسویں صدی کے نصف آخر میں برصغیر نے کئی نابغۂ روزگار شخصیات کو جنم دیا، جنھوں نے منصہ شہود پر آکر فکر کا دھارا بدل دیا اور جن کی فکری بوقلمونیوں نے مذہب، عمرانیات اور ادبیات کے علاوہ سیاسیات کے روایتی عناصر کو بھی ایک خاص طرح دے دی۔ چونکہ غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی استعمار کی ایک صدی بیت چکی تھی مگر آزادی کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر ہونا باقی تھا۔ ہندوستان میں غدر کے آثار طول و عرض میں نظر آتے تھے۔ عوام الناس من حیث القوم بُری طرح غلامانہ نفسیات کا شکار ہوچکے تھے۔ ذات پات، طبقاتی کشمکش، جاگیردارانہ نظام اور جدلیاتی سیاست گرد و نواح میں پروان چڑھ رہی تھی۔ مذہب کے نام پر غریبوں اور ناداروں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ انگریز یہاں کے حریت پسند عوام کو تختۂ دار پر چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کررہا تھا۔ ہر سو بے چینی اور اضطراب کا عالم تھا، جبر و ظلم کا بول بالا تھا مگر پھر بھی خوش آئند بات یہ تھی کہ انسانی ذہن میں تحفظِ ذات کے جذبے کے متحرک ہونے کے آثار دیکھنے کو ملتے تھے۔ سیاسی اور سماجی کشمکش اور کشاکش کے اسی دور میں سیالکوٹ میں ایک عبقری شخصیت اقبال پیدا ہوئی۔ ضروریاتِ وقت کا ادراک کرنے اور حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمہ وقت کوشاں اقبال کو بچپن سے ہی اللہ نے ، علمی، ادبی اور سیاسی و تمدنی خوبیوں کے علاوہ ایک حساس ذہن عطا کیا تھا۔ اسی وجہ سے عصر حاضر کی تاریخ ساز شخصیات میں ان کا ایک منفرد مقام ہے۔ فکری اظہارِ خیال کے لیے آپ نے شاعری کو اپنا سب سے بڑا وسیلہ اظہار بنایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے شہکار نثر پاروں، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اپنے بلند خیالات اور اصولوں کو کھل کر بیان کیا ہے۔ تمنائے انقلاب کے علمبردار، اقبال ایک ایسا انقلاب چاہتے تھے جو ملتِ اسلامیہ کو نہ صرف مغربی سیاست کے آہنی پنجے سے، بلکہ مغربی مادیت، وطنیت اور اتحاد سے نجات دلا سکے۔ نظام کہن کو برقرار رکھنے کے آرزو مندوں کو اقبال حرارتِ حیات سے محروم قرار دیتے تھے۔ اقبال کا نظریۂ حیات ارتقائی ہے۔ آپ کے نزدیک زندگی ایک مسلسل جدو جہد اور تخلیق کا نام ہے۔ آپ اس بات کے آرزو مند ہیں کہ جس طرح مغرب نے گذشتہ تین سو سال سے زائد عرصے کے دوران سائنس، علم و ہنر اور سیاسیات میں ترقی کی ہے مسلمان بھی اسی طرح ترقی کی یہ منازل طے کرنے میں پہل کریں۔ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی دنیا کو سنوراتے سنوارتے اپنی خودی اور اپنے خدا سے غافل ہوجائیں۔ آپ کا مقصد اپنی قوم میں ایک ایسا بلند نظریۂ حیات پیدا کرنا تھا جو نوع انسان کے لیے باعثِ خیر ہو۔ چوں کہ مشرق ہمیشہ ادیان کا گہوارہ اور روحانیت کا سرچشمہ رہا ہے اس لیے اقبال جیسے حساس انسان کے لیے مشرقی پاکیزہ اثرات سے محروم رہ جانا قطعاً ممکن نہ تھا۔ ان کی نظر آغاز محققانہ تھی۔ علامہ نے یورپ کے سطحی جلوؤں کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے باطن پر بھی اپنی محققانہ نظر سے اس بات کا انکشاف کیا کہ یورپی علم و فن کا جھکاو زیادہ تر تن کی طرف ہے نہ کہ من کی طرف۔ اس سے دماغ کی تربیت تو ہوسکتی ہے لیکن دل تشنہ رہ جاتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کے عمل کا محاذ مشرق تھا اور ان کی فکر کا افق پورا عالم۔ وہ ہمہ گیر انقلاب کے آغاز کے لیے مشرق کی سرزمین کو موزون ترین جگہ تصور کرتے تھے۔ اظہار خیال کے علاوہ اقبال کے ہاں عملی جدوجہد ایک ناقابلِ تردید اور بین حقیقت کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس حقیقت سے بھی شاید ہی کسی کو انکار ہوگا کہ اسلامی فکر، ہندوستانی فکر اور مغربی فکر اقبال کے ہم سفر رہے ہیں لیکن منزل مقصود تک پہنچنے میں ان کا مکمل ساتھ صرف اور صرف اسلامی فکر نے دیا ہے۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے، ان کے سارے اردو کلام اور فارسی کلام کے علاوہ ان کی سبھی نثری تصانیف اور خطوط کو ذہن میں رکھنے سے منزل تک پہنچنے میں واقعی بڑی آسانی ہوتی ہے۔ ان کے افکار کا رشتہ آج بھی حالاتِ حاضرہ سے وابستہ نظر آتا ہے۔ یہی ان کی بلند نگاہی اور دور اندیشی کی دلیل ہے۔ اقبال تنگ نظر اور متعصب دل و دماغ کے بجائے جدید ذہن کے مالک تھے۔ وہ فرسودہ نظاموں کے بالکل خلاف تھے۔ وہ مشرق و مغرب کی قید سے بے نیاز ایک ایسے آفاقی انسان تھے جس میں خود بخود آفاق گم ہو جاتے ہیں۔ برصغیر کی سیاست کے متعلق بہت سے لوگ اس کردار سے پوری طرح واقف نہیں ہیں جو اقبال نے ادا کیا ہے۔ اگرچہ اکثر اہل قلم اور صاحبانِ علم و بصیرت، سیاست کی خار زار وادی میں قدم نہیں رکھتے کیوں کہ سیاست میں بے شمار قباحتیں ہیں مگر اقبال کے ہاں سیاست عبادت کے ہم معنی ہے۔ اقبال کی نظر میں سیاست کو قوم و ملّت سے وہی نسبت و مطابقت ہے جو جسم سے جان کو ہے۔ ان کے ہاں سیاست آزادی ہے، اقدام ہے۔ سیاست ان کے نزدیک حیات ملی کے شعور کا نام ہے اس لیے سیاسی بصیرت سے ہی اس نصب العین کی جد و جہد کی جاسکتی ہے جس سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اقبال جس دین کو سیاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں وہ مُلا کا دین نہیں ہے بلکہ اقبال کا تصورِ دین وسیع معنی رکھتا ہے۔ وہ روا داری کا قائل ہیں۔ آپ کے نزدیک ’’توحید‘‘ کا مطلب انسانی اتحاد، مساوات اور رواداری کی بنیادوں پر زمان و مکان کے اندر ایک مثالی معاشرہ وجود میں لانا ہے۔ اسی بنا پر ۱۹۳۰ء کے خطبۂ الٰہ آباد میں آپ نے فرمایا تھا کہ مجھ پر اقلیتوں کی عبادت گاہوں، قوانین اور تمدن کے تحفظ کا فرض عاید کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں آپ نے کہا ہے کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ آپ کی یہ روحانی جمہوریت دراصل ’’میثاق مدینہ‘‘ سے ماخوذ ہے یا سورۂ بقرہ آیت ۱۱۳ اور سورۂ آل عمران آیت ۶۴ سے۔ جس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو تلقین کی گئی ہے کہ ایک دوسرے سے نیک کام انجام دینے میں سبقت حاصل کریں اور یہ کہ جب تم سب اللہ کے روبرو حاضر کئے جاؤ گے تو وہ بتائیں گے کہ تمہارے آپس میں کیا اختلاف تھے۔ بعض اقبال شناس آپ کے اس تصورِ روحانی جمہوریت کو صرف مسلم فرقوں میں رواداری تک ہی محدود رکھتے ہیں اور اس میں غیر مسلموں کو شریک نہیں کرتے۔ حالانکہ جب یہ اصطلاح استعمال کی گئی آپ مقتدر مسلم ریاست کے اندر ’’روحانی جمہوریت‘‘ کے قائم ہونے کا ذکر اپنے چھٹے انگریزی خطبہ میں کر چکے تھے۔ اقبال اس قسم کی جمہوریت کے مخالف ہیں جس میں لا دین سیکولرزم کا خمیر شامل ہو۔ اقبال اسلامی جمہوریت کے حق میں ہیں جسے وہ ’’روحانی جمہوریت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس قسم کی جمہوریت میں ایک طرف حاکمیت اللہ کی ذات میں تسلیم کی جاتی ہے اور دوسری طرف تمام انسان بغیر کسی امتیازِ مذہب و ملّت اس جمہوری حکومت میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گذارنے کے اہل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ربِ کائنات نے قرآن حکیم میں واضح انداز میں ارشاد فرمایا ہے: لکم دینکم و لی الدین (اے رسول! ان کافروں سے کہہ دیجیے کہ آپ کے لیے آپ کا دین اور میرے لیے میرا دین)۔ جاوید اقبال جدید اسلامی ریاست کے لیے درج ذیل تین بنیادی اصول وضع کرتے ہیں: پہلا اصول ہے اتحادِ انسانیت یعنی (Human Solidarity) دوسرا اصول مساوات ہے یعنی (Equality) اور تیسرا اصول حریت یعنی (Freedom)۔ ۱؎ اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اقبال مسلمانوں کے اتحاد کے برعکس ’’اتحاد انسانی‘‘ پر کیوں زیادہ زور دیتے ہیں۔ دراصل اس کی وجہ یہی ہے کہ اقبال کے یہاں مذہبی روا داری کا تصور بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ اسی کو وہ اپنے معروف خطبے "The Principle of movement in the structure of Islam" میں روحانی جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں، جس روحانی جمہوریت میں اتحادِ انسانی کے حوالے سے ہر انسان کو اپنے مذہب او رعقیدے کے مطابق زندہ رہنے کا پورا پورا حق ہے اور یہی صحیح اسلامی ریاست یا صحیح اسلامی حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔ کیونکہ اقبال کے مطابق جہاں تک مذہبی رواداری کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ذریعے مسلمانوں پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ کریں۔ یعنی قرآنی تعلیمات کے مطابق ضرورت پڑنے پر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ جاوید اقبال اس لامثال مذہبی رواداری کی مزید تشریح و توضیح کرتے ہوئے کہتے ہیں: جب اقبال مذہبی روا داری کے پس منظر میں اتحادِ انسانیت کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ایک ایسی ریاست جہاں مسلمانوں میں اشتراکِ ایمانی ہو اور غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اشتراکِ وطنی کی بنیاد پر رشتہ استوار ہو۔ پس ان کے نزدیک اشتراکِ ایمانی اور اشتراکِ وطنی کی بنیاد پر ہی تو اتحادِ انسانیت قائم ہوسکتا ہے۔ ۲؎ درحقیقت اقبال کا متذکرہ بالا تصور قرآنِ حکیم ہی سے اخذ کردہ ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے: و لو لا دفع اﷲ الناس بعضہم ببعض لہدمت صوامع و بیع و صلوٰت و مساجد یذکر فیہا اسم اﷲ کثیرا۔ ۳؎ اگر اللہ نے طاقت ور حملہ آوروں کا تدارک بعض دوسرے لوگوں کے ذریعے نہ کرتا تو عیسائیوں کے کلیسا، یہود کے عبادت خانے، خانقاہیں اور مساجد جن میں اﷲ کی پرستش بکثرت کی جاتی ہے سب منہدم ہو جاتے۔ اس آیت مبارکہ پر غور و فکر کرنے کی زبردست ضرورت ہے کہ اس میں مساجد کی اصطلاح سب سے آخر میں آئی ہے۔ پہلے عیسائیوں کے کلیسا کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہود کے عبادت خانے کا نام لیا گیا ہے جب کہ مسجد کا ذکر سب سے آخر میں آیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فقہا نے یہاں کس اصول کی پیروی کی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال یوں رقمطراز ہیں: عام طور پر ابتدائی ایام کے فقہا اس آیت کی تعبیر اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں صرف اہل کتاب ہی شامل ہیں جن کی حفاظت کرنا مسلم ریاست کا فرض ہے۔ لیکن جب ایران فتح ہوا تو فقہا نے پارسیوں یا زرتشتی مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اس تحفظ میں شامل کیا اور ان کے عبادت خانوں کی حفاظت کی۔ ۔۔۔۔۔ یہی صورت ہندوستان میں ہوئی۔ جس وقت ہندوستان پر مغل بادشاہوں کی حکومت تھی تو یہاں بھی بعض فقہا نے ہندؤوں کو کمثل اہلِ کتاب کے زمرے میں شامل کر کے مسلم ریاست پر یہ فرض عائد کردیا کہ وہ غیر مسلموں کا تحفظ کرے۔ ۴؎ اس طرح اقبال کی سیاسی بصیرت سے ہمیں عصر حاضر میں اسلامی ریاست کے اہداف (Ultimate goal) کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ اللہ نے انھیں واقعی اس سلسلے میں صلاحیت و صلابت سے نوازا تھا۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ عام معنوں میں کوئی سیاسی شخصیت یعنی (Politician) نہیں تھے یعنی وہ پیشہ ور سیاست دان نہیں تھے۔ جو آج کل یا اقبال کے عصر میں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں یا تھے، جو حالات اور ہوا کے رُخ کو جدھر چلتے دیکھتے، اسی طرف اپنے آپ کو چلا کر اپنے حقیر مفادات حاصل کرتے ہیں یا تھے۔ اس کے برعکس اقبال ایک عظیم مفکر، فلسفی اور اعلیٰ پایہ کی سیاسی بصیرت کی حامل شخصیت تھے۔ اس بارے میں عاشق حسین بٹالوی کی یہ رائے نہایت معقول ہے کہ: میری رائے میں ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر ایک مفکر، ایک فلسفی اور ایک شاعر تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ہمہ گیر فکر کی پہنائی میں سیاست اسلامی کو بھی بڑا نمایاں مقام حاصل تھا۔ ۵؎ اقبال نے مسلم لیگ کے خطبۂ صدارت میں اس سلسلے میںخود اپنے متعلق یہ شہادت پیش کی ہے کہ: میں نے اپنی زندگی کا پیشتر حصّہ اسلام اور اسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسلسل اور متواتر تعلق کی بدولت جو مجھے تعلیماتِ اسلامی کی رُوح سے، جیسا کہ مختلف زمانوں میں اس کا اظہار ہوا ہے، رہا ہے میںنے اس امر کے متعلق ایک خاص بصیرت پیدا کر لی ہے کہ ایک عالم گیر حقیقت کے اعتبار سے اسلام کی حیثیت کیا ہے۔ ۶؎ لہٰذا ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اقبال ایک معتبر سیاسی مفکر تھے، وقتی سیاست سے اقبال کو کوئی واسطہ نہ تھا۔ انھیں ایک ہنگامی لیڈر یا عملی کارکن کے بجائے ایک مثالیت پسند یعنی آئیڈیلسٹ کا مرتبہ حاصل ہے۔ اس حقیقت کے آئینے میں انھوں نے برسوں پہلے اپنی بصیرت سے یہ محسوس کرلیا تھا کہ براعظم ہند کے لوگوں کو کس طرح بدیشی حکمرانوں سے نجات حاصل ہو گی۔ اس سلسلے میں انھوں نے عام لوگوں کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاً اپنی سیاسی دور اندیشی سے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اقبال ایک عملی سیاست دان کی حیثیت سے دو مختلف موقعوں پر تسلسل سے سیاست کے کار زار میں کام کرتے رہے۔ پہلے موقعہ پر انھوں نے بحیثیت عملی سیاست دان کام کا آغاز اس وقت کیا جب وہ ۱۹۲۷ء میں پنجاب لجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے اور دوسرا موقعہ وہ تھا جب انھیں ۱۹۳۱ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن مدعو کیا گیا۔ اگر چہ اپنے بے لوث جذبۂ خلوص سے انھوں نے موقع کو غنیمت جان کر اپنے عوام کی خدمت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی لیکن اس دوران انھیں شدت سے اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ اللہ نے انھیں مروّجہ سیاسیات کے ادنیٰ اور معمولی کاموں کے لیے پیدا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کونسل کی سہ سالہ میعاد ختم ہوئی تو انھوں نے دوبارہ ممبر بننے کا خیال تک ترک کردیا اور گول میزکانفرنس سے تو وہ اس قدر برگشتہ خاطر ہوئے کہ کانفرنس ختم ہونے سے پہلے ہی وہ واپس چلے آئے۔ اس سلسلے میں عاشق بٹالوی کا یہ تبصرہ بالکل بجا لگتا ہے جس میں وہ یوں اظہار خیال کرتے ہیں: جس شخص کی ساری عمر اس طرح بسر ہوئی کہ: اسی کش مکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تابِ رازی اور جس شخص کا اپنے متعلق یہ دعویٰ ہو کہ: سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خداوندی اس سے یہ توقع رکھنا کہ مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات کے تحت قائم کی ہوئی پنجاب لجسلیٹو کونسل کی مضحکہ خیز فضا میں جہاں قبائلی عصبیت کا زور و شور تھا اور جہاں طاقت و اقتدار کا سرچشمہ، ایک طرف گورنر اور دوسری طرف دیہات کے چند بڑے بڑے ناخواندہ زمینداروں کے ہاتھ میں تھا، کوئی انقلاب برپا کردے گا گویا جان بوجھ کر حقائق سے چشم پوشی کرنے اور اپنے نفس کو فریب دینے کے مترادف تھا۔۷؎ عاشق حسین بٹالوی لندن کی گول میز کانفرنس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اقبال کو جب ہم نے گول میز کانفرنس میں بھیجا تو ہم یہ پیش پا افتادہ حقیقت نظر انداز کرگئے کہ اس قسم کی کانفرنس میں سازش، ریشہ دوانی، خوشامد اور منافقت کا دور دورہ ہوتا ہے، وہاں بلاوجہ ہنس ہنس کر باتیں کرنے اور بوقت ضرورت جھوٹ بول دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اس ماحول میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکا اور واپس آگیا۔ ۸؎ بہر حال اقبال نے عملی سیاسیات میں تمام اذہان اور رویوں کا بچشم خود مشاہدہ کیا۔ انھوں نے پنجاب لجسلیٹو کونسل کے اندر رہ کر وہاں کے مسلمانوں کی قبائیلی عصبیت کی غلط کاریوں کا بھی مشاہدہ کیا۔ خود غرض رہنماؤں نے پنجاب کے مسلمانوں کو جس بے دردی سے شہری اور دیہاتی طبقات میں تقسیم کر کے ملّی مفاد کو نقصان پہنچایا تھا، اسے بھی اقبال نے اس کونسل میں رہ کر سمجھ لیا۔ حالات نے اقبال کی طبیعت میں ایک انقلاب پیدا کردیا اور اس لیے وہ اتنے مضطرب ہوئے کہ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ اس نازک گھڑی میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں قطعاً پیچھے نہ رہے اور اس طرح عملی طور پر تمام دنیا کے امن کے لیے بالعموم اور برصغیر کے امن کے لیے بالخصوص اپنے تصورات لوگوں کے سامنے رکھے۔ ان کے تصورات عام فلسفی اور مفکر کی طرح محض تصورات ہی نہ رہے بلکہ ان پر عملی اقدامات بھی قوم نے اٹھائے۔ اقبال نے ہر نازک مرحلے پر قوم و ملت کے سامنے درست راستے کی نشاندہی کر کے انھیں صحیح فکر و منزل کی طرف گامزن کیا اور قوم و ملت کی صحیح رہبری کا فریضہ انجام دیا۔ چنانچہ خلافت اور ترکِ موالات کی تحریک نے ہندؤں اور مسلمانوں میں جو بیداری پیدا کی، اقبال نے اسے انقلاب کہا ہے اور اس کی تعریف بھی کی ہے۔۹؎ اقبال نے اپنی بے پناہ سیاسی بصیرت سے تحریکِ خلافت پر بہت پہلے جو تبصرہ کیا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا اورتحریک ترکِ موالات کے خاتمے، شدھی اور سنگٹھن کے اجرا اور ہندو مسلم فسادات کے باعث متحدہ ہندوستانی قومیت کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ یہاں یہ حقیقت بھی مد نظر رہنی چاہیے کہ اقبال خلافت کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ خلافت کے ادارے کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں ’’خضر راہ‘‘ کا یہ شعر ان کے موقف کو صحیح طور پر ظاہر کرتا ہے: تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر۱۰؎ اس کے علاوہ خطبات میں اقبال نے خلافت کے اختیارات پارلیمان کو سونپنے کی حمایت کی ہے۔ تاہم بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اقبال خلافت کے ادارے کواسلامی سیاسی نظام کی بنیاد تصور کرتے ہیں۔ اقبال ہندو مسلم اتحاد کے صدق دلی سے حامی تھے لیکن یہ حمایت مسلم حقوق کے تحفظ کے ساتھ مشروط تھی۔ تاہم وہ ہندی قومیت کے روادار قطعاً نہیں تھے۔ وہ سرسید احمد خان کی طرح مسلمانوں کو اسلامی عقیدے کی بنیاد پر الگ قوم تصور کرتے تھے۔ اس لیے انھوں نے مولانا حسین احمد مدنی جیسے شہرت یافتہ عالم کے موقف پر بھی تنقید کی جب انھوں نے ہندو مسلم قومیت کی یکسانیت کی بات کی۔ دراصل کسی ایسی تحریک کا ساتھ دینا یا اس کے لیے جیل جانا جو ہندوستانی متحدہ قومیت کو پروان چڑھا رہی تھی اقبال کے لیے محال تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کی روایت کا آغاز تحریک خلافت اور ترکِ موالات سے ہوا۔ اس کا تمام تر فائدہ ہندو قائدین نے اٹھایا اور مسلمان کسی حقیقی اور دیرپا فائدے سے محروم رہے۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ اگر محمد علی کچھ عرصہ اور زندہ رہتے تو اپنے استاد اقبال کے موقف کو پوری طرح اپنا لیتے۔ وہ اسی لیے ۱۹۳۰ء میں کانگریس کی عدم تعاون کی تحریک سے الگ رہے۔ یہاں پر یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ اقبال اگرچہ سیاسیات کے موضوع پر کوئی مستقل کتاب ضبطِ تحریر میں نہیں لائے لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی اکثر تصانیف، تحریریں، بیانات اور سب سے بڑھ کر ان کا شاعرانہ کلام علم سیاسات کے بلند حقائق سے لبریز ہے۔ اس لیے ان کی شاعری کو صرف جمالیاتی لذت کی خاطر نہیں پڑھا جاسکتا بلکہ اس پر اس حیثیت سے بھی نظر ڈالنی چاہیے کہ شاعری کے علاوہ اس کا کوئی اور بلند تر اخلاقی اور سیاسی مفہوم بھی ہے دراصل ان کی شاعری اور سیاسی فکر باہم اس طرح آمیختہ ہیں جس طرح دانتے کی شاعری اور فلارنس کی سیاسیات۔ غرض ہمہ وقتی سیاسیات سے براہ راست متعلق نہ ہونے پر بھی ان کی شاعری، نثر، بیانات، تحریریں اور تقاریر سیاسیات سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ اقبال کے متعلق دو اقوال نہایت مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک معروف قول ’ہرمین ہیس‘ (Herman Hess) کا ہے جس نے کہا تھا کہ اقبال تین اقلیموں کا فرماں روا ہے، ایک ہندوستان کا، دوسرے یورپ اور تیسرے عالم اسلام کا۔ دوسرا قول، اقبال سنگھ کا ہے۔ اقبال سنگھ نے اپنی انگریزی کتاب The Ardent Piligrim میں نہایت پتے کی بات کہی ہے کہ اقبال کو حال کا ایک کرب کے ساتھ احساس تھا۔ اس کے الفاظ اس بارے میں یوں ہیں: Agonizingly aware of the present. اقبال نے جب علمی اور سیاسی بیداری کے سلسلے میں آنکھ کھولی تو مشرق و مغرب میں زندگی اور اس کے مختلف شعبوں میں عجیب و غریب انقلاب نے جنم لیا تھا۔ مشرق کی جہاں گیریاں ختم ہو چکی تھیں۔ اس کے مقابلے میں مغرب کی سیاسی فتح مندیاں اپنا سکہ جما چکی تھیں۔ اہل مشرق علی الخصوص مسلمانوں کی آنکھیں مغربی افکار سے چندھیا گئی تھیں اور انھیں پستی اور مایوسی نے آ گھیرا تھا۔ ذہنی مرعوبیت کی حد یہ تھی کہ ہر شعبۂ حیات میں مغرب کی تقلید ناگزیر سمجھی جارہی تھی۔ اقبال اگر چہ خود بھی یورپی علو م و فنون سے فیضیاب ہوچکے تھے مگر انھوں نے خود اس تہذیب کی ریشہ دوانیوں کا مشاہدہ یورپ میں کیا تھا۔ لہٰذا ان کے ذہن میں اس تہذیب کے خلاف ناقدانہ ردِ عمل ترقی پذیر ہوتا گیا۔ اسی طرح کی صورت برگساں وغیرہ کو بھی پیش آئی تھی۔ اقبال کو اسی لیے ان مغربی، ہندوستانی اور اسلامی مفکرین کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا کیوں کہ وہ ہمیشہ متحرک اور چوکنا رہتے تھے۔ مشرق کی بے چارگی و درماندگی کے احساس نے رفتہ رفتہ اقبال کو نئے سیاسی عقائد کی تشکیل پر آمادہ کیا۔ یہ نتیجہ تھا در حقیقت مشرق و مغرب کے افکار کے آزادانہ مقابلہ و موازنہ اور امتزاج و اختلاط کا۔ یہ ایک نیا فلسفہ سیاست تھا جو اقبال کے ساتھ خاص تھا۔ یہ فلسفۂ سیاست افلاطون، ارسطو، کانٹ، روسو اور کارل مارکس وغیرہ کے تصورات پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس کی تعمیر و ترتیب میں قرآن و حدیث، غزالی و رازی اور ابن خلدون وغیرہ کے اسلامی خیالات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی تشکیل و ترکیب میں ان سب باتوں نے مل کر حصّہ لیا ہے۔ اقبال کا تصورِ سیاست دراصل روحانی بنیادوں پر استوار ہے۔ ان کی نظر مغرب کے سیاسی استیلا اور ملک گیری پر بھی رہتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ رنج انھیں مغرب کی روحانی علالتوں اور اس تہذیب میں اخلاقی عنصر کی کمی دیکھ کر ہوتا ہے اور جب یہ دیکھ کر سادہ لوح مشرق بھی مغرب کے ان ہی روحانی امراض سے متاثر ہوتا ہے تو اقبال کو اس سے زبردست دکھ پہنچتا ہے۔ لہٰذا اقبال کے پیغامِ سیاست کے مقاصد دوگانہ ہیں۔ اولاً یہ کہ وہ مشرق کو مغرب کی روحانی بیماریوں سے بچانے کی فکر میں لگے ہوئے تھے۔ دوم یہ کہ وہ یورپ کو بھی اس مرضِ مہلک سے آگاہ اور خبردار کرتے رہتے تھے۔ پیام مشرق کے باب ’نقش فرنگ‘ سے یہی حقیقت اچھی طرح یوں نکھر کر سامنے آتی ہے: از من اے بادِ صبا گوے بدانائے فرنگ عقل تابال کشاد است گرفتار تراست برق را ایں بجگر می زند آں رام کند عشق از عقلِ فسوں پیشہ جگر دار تراست چشم جز رنگ و لالہ نہ بیند ورنہ آنچہ در پردئہ رنگ است پدیدار تر است عجب آں نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب ایں است کہ بیمار تو بیمار تراست دانش اندوختہ دل زکف انداختہ آہ زاں نقد گرانمایہ کہ در باختہ۱۱؎ میری طرف سے اے باد صبا یورپ کے دانا کو یہ کہہ کہ عقل نے جتنے پر پھیلائے ہیں اتنی ہی گرفتار ہو کر رہ گئی ہے۔ یعنی یورپ کے داناؤں کی عقل جتنی ترقی کرتی ہے اتنی ہی تنزل کی طرف جاتی ہے۔ بجلی کو یہ جگر پر مارتا ہے اور وہ اسے قابو میں کرتی ہے۔ عشق جادو کے پیشہ والی عقل سے زیادہ حوصلہ مند ہے کیوں کہ عقل بجلی کو تسخیر کرتی ہے، عشق خود آدمی کو بجلی بنادیتا ہے۔ آنکھ گلاب اور لالہ کے پھولوں کے رنگ کے سوا کچھ نہیں دیکھتی ورنہ جو کچھ رنگ کے پردہ میں ہے وہ اس سے بھی زیادہ ظاہر ہے (اس میں پردہ جلوہ کو دیکھنے کے لیے جس نے یہ رنگ نمودار کئے ہیں ایک اور آنکھ کی ضرورت ہے جو عقل نہیں عشق پیدا کرتا ہے)۔ عجیب بات یہ نہیں کہ تو حضرت مسیح علیہ السلام کا معجزہ شفا رکھتا ہے عجب بات یہ ہے کہ تیرا علم شفا بیماروں کو تندرست کرنے کی بجائے اور بیمار کرتا ہے۔ مراد ہے اہل یورپ کی عقل، علم، فلسفہ، شعر، سائنس، سیاست، تہذیب، ثقافت غرض کہ ہر چیز بظاہر آدمی کی ترقی کے لیے ہے۔ لیکن ان سے مادی ترقی تو حاصل ہورہی ہے روحانی ترقی ختم ہوچکی ہے۔ اور آدمی فرشتہ تو کیا بنتا آدمی بھی نہیں رہا۔ شیطان سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں اہل یورپ نے اصلاح کے لیے جو قدم اٹھایا ہے اس سے اصلاح کے بجائے خرابی پیدا ہوئی ہے۔ تو نے عقل تو جمع کی ہے لیکن دل گنوادیا ہے۔ آہ! اس بہت قیمتی دولت پر جو تو نے ہار دی ہے۔ اقبال نے مشرق و مغرب کو محض سیاسی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ عمرانی اور فکری زاویۂ نگاہ سے بھی جان لیا تھا۔ ان کی فکر کے دائرے میں صرف مشرق و مغرب ہی نہیں بلکہ تمام نوع انسان ہیں۔ اقبال کی شعری و نثری تصانیف اور ان کے مکاتیب و مقالات کو موضوع گفتگو بنا کر یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ شاعری ان کے نزدیک ایک ذریعہ اظہار تھی۔ ان کے علمی و ادبی اثاثے کا اصل مقصد قوم کی اصلاح و فلاح تھا۔ اقبال انسان کو سیاسی غلامی، ذہنی غلامی، تعلیمی اور معاشی غلامی، غرض ہر طرح کی غلامی سے نجات پانے کا سبق پڑھاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے اپنے ہنر کے صحیح استعمال کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ پروفیسر ریاض پنجابی، ’’اقبال اور مملکت‘‘ کے زیر عنوان موضوع پر بحث کرتے ہوئے، اقبال کی شاعری و افکار کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں: اقبال کی شاعری و افکار کو سیاسی، مذہبی اور اخلاقی اصولوں کے معیاروں پر جانچ کر جتنی تفسیرات و توجیہات پیش کی گئی ہیں، اتنی برصغیر کے کسی بھی شاعر کے کلام کی نہیں کی گئی ہے۔ میرے خیال میں پروفیسر موصوف کی متذکرہ نشاندہی عظمت اقبال کا احساس دلا کر مختلف زاویہ ہائے نظر رکھنے والوں کو اس بات کی طرف نہ صرف دعوت دیتی ہے بلکہ آمادہ بھی کرتی ہے کہ اگر اقبال کے سیاسی فلسفے کو سمجھنا ہے تو ان کی شاعری اور فلسفے کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ہوگا، نہ کہ صرف چند ایک منتشر خیالات و افکار کو ان کے سیاسی فلسفے کی بنیاد بنا کر ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا جائے۔ کیوں کہ اقبال جیسے بڑے شاعر یا مفکر کے سیاسی خیالات کا، اس کے مجموعی افکار سے الگ کر کے اندازہ تک لگانا نا انصافی کے مترادف ہوگا۔ کلام اقبال میں ہمیں عہد جدید کے تصورات کی وسعتوں اور فکری بلندیوں کا سبق ملتا ہے۔ مطالعہ اقبال سے پتہ چلتا ہے کہ قیام یورپ کے دوران اقبال نے مغربی تہذیب کے مختلف پہلوؤں کا بالمشافہ مشاہدہ کر کے یہ بات اخذ کی کہ یورپی تہذیب کی ظاہری چمک دمک، مادی ترقی اور سائنسی انقلاب نے انسان کو روحانی اور ذہنی سکون سے محروم کیا ہے۔ نئے سائنسی حالات نے ذہنوں میں مایوسی پیدا کی ہے اور انسانی قدروں کو پامال کردیا ہے۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ مادی سیاست گری کے نتیجے میں پوری انسانیت کی حالت بگڑ گئی ہے۔ ضبطِ تحریر میں لائی گئی ان سطور پر، اقبال ہی کا یہ شعر صادق آتا ہے: ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۱۲؎ اقبال کے ان ہی مشاہدات کے حوالے سے یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اقبال شناس مرغوب بانہالی کے یہ کلمات ان پر صادق آتے ہیں: اقبال کی نظر میں پوری دنیا کے کرب و اضطراب کا علاج فقط اس بات میں مضمر ہے کہ مزید تاخیر کئے بغیر قرآنی محکمات کی بنیاد پر ایک عالم نو تعمیر کرنے کا تقاضا پورا کیا جائے کیوں کہ مشرق و مغرب میں نافذ کئے جانے والے سارے نظریے یکے بعد دیگرے اپنے کھوکھلے پن کا اعلان کرتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ بظاہر بہت امید افزا لگنے والا تازہ دم کمیونزم بھی اپنی باہری چمک دمک کے باوجود دکھی انسانیت کا مداوا نہ بن سکے گا۔ ۱۳؎ مشہور جرمن مستشرق پروفیسر پی۔ ای۔ کہلی (P. E. Kahle) اقبال کی ہمہ گیر فطانت اور ذہنی صلاحیت سے متاثر ہو کر ان کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں: سرسید احمد خان کے انتقال کے بعد ہندو مسلم تجدیدیت کی قیادت کی باگ ڈاکٹر محمد اقبال نے سنبھالی۔ اپنے چھ خطبات میں انھوں نے اپنے نتائج فکر بڑے فلسفیانہ اور سائنسی اصول سے کئے ہیں۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے ساتھ عالم اسلامی کی سیاسی کمزروی اور روحانی جمود پر بھی پردہ پڑگیا… اس کا خاص سبب یہ تھا کہ مغربی اقوام نے ان سائنسی علوم کا جو مسلمانوں کے ذریعے سے ہی ان تک پہنچے تھے، پورا استفادہ کیا۔ ۱۴؎ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول: ڈاکٹر صاحب (اقبال) کی ذات میں سرسید احمد خان کی سیاسی قدامت پرستی،علامہ شبلی کی انتہا پسندی اور جمال الدین افغانی کے تصور عالم اسلامی کے تقاضے مجتمع نظر آتے ہیں… انھوں نے لا دینیت پر مبنی سیاسی نظام کی مذمت کی لیکن دستوریت اور اشتراکیت (Constitutionlism and Socialism) کی تشریح اسلامی اصول و عقائد کی روشنی میں کی۔ انھوں نے اسلامی ہند کے سیاسی اور تاریخی واقعات کی رو کو نئے رُخ پر موڑنے کی سعی کی… حریت پسندی اور رواداری کی جو تشریح و توضیح فرمائی، اسی اساس پر موجود جمہوریہ پاکستان کا دستور مرتب کیا گیا ہے۔ ۱۵؎ ایک مشہور جرمن صحافی ایف۔ ڈبلیو۔ فرناو (F. W. Fernau) اپنی تصنیف مسلمان ترقی کی راہ پر (Muslims on the March) میں لکھتے ہیں: وہ (اقبال) اس کے قائل نہ تھے کہ انتہا پسندانہ مغربیت مشرقی تحریک کے لیے ناگزیر ہے… ان کی یہ کوشش تھی کہ ملّت اسلامیہ کے ابتدائی جمہوری حکومت کا نظارہ زندہ کر کے اس کو جدید سیاسی مقتضیات سے ہم آہنگ کرنے کے وسائل بہم پہنچائے جائیں۔ یہ جمہوری نظام وہی ہے جو اقبال کی رائے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں صحیح اور خالص طور پر رائج تھا… ہندوستان کی سیاسی تحریک نے مسلمانوں کے دلوں میں جداگانہ قومیت کے احساس کا قومی جذبہ پیدا کر کے بڑی سیاسی اہمیت حاصل کرلی۔ اقبال کو بجا طور پر علیحدہ اسلامی حکومت، ہندوستان میں قائم کرنے کا محرک سمجھا جاتا ہے وہ اپنے سیاسی تصورات کی تشکیل اور تکمیل کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہ سکے۔ ۱۶؎ ہیکٹر بالیتھو (Hector Bolitho) اپنی کتاب سوانح مسٹر جناح میں اقبال کی وفات پر لکھتے ہیں: ان کے (اقبال کے) سیاسی تصورات بھی ان کی علمی فضیلت اور ٹھوس تاریخی سوجھ بوجھ کے مرہون تھے۔۱۷؎ مولانا سعید احمداکبر آبادی کے بقول: اقبال نے کبھی محض ایک فلسفی یا مفکر ہونے کی حیثیت سے دنیا کی موجودہ سیاسی و معاشی مشکلات پر غور نہیں کیا بلکہ وہ ہر چیز پر ایک زبردست اسلامی مفکر کی حیثیت سے نگاہ ڈالتے تھے۔ ۱۸؎ تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی سیاسی جدو جہد ذات پات، گروہی سیاست، رنگ و نسل کے امتیاز اور پیشہ ورانہ اور طبقاتی تفریق کے خلاف ایک پُر خلوص جنگ تھی۔ انھوں نے ۱۹۰۸ء اور ۱۹۳۸ء کے درمیان بہت سی سیاسی تنظیموں کو اپنایا۔ اس لیے یہ کہنا قطعاً درست نہیں کہ اقبال سیاست دان نہیں تھے۔ میرے خیال میں اقبال بہ یک وقت ایک کامیاب شاعر بھی ہیں اور اعلیٰ پایہ کے فلسفی، مفکر اور سیاستدان بھی۔ برصغیر کی فکری، فنی اور سیاسی تاریخ میں آپ نے بلاشبہ انمٹ نقوش چھوڑے اور کئی نئی جہتیں متعین کیں۔ آپ نہ تو مغربی علوم و فنون سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی روایاتی مشرقی فکر کو آنکھیں بند کر کے قبول کیا۔ بلکہ جہاں سے علم و حکمت کی روشنی پائی، وہاں سے اسے دل و جان سے قبول کیا اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب و تحریک دلائی۔ اقبال بنیادی طور ایک دینی یا مذہبی شخصیت کے حامل شاعر اور مفکر ہیں۔ مگر مذہب ان کی نظر میں کوئی جامع اصطلاح نہیں ہے وہ مذہب کو محدود مغربی تصور کی حامل اصطلاح قرار دیتے ہیں اس کے برعکس وہ ’’دین‘‘ کی اصطلاح کو ایک عمرانی (سوشل) نظام قرار دیتے ہیں۔ جو حریت اور مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ اپنے نثری پاروں مثلاً خطبات اور متعدد مکتوبات میں بھی انھوں نے مذہب (Religion) کا استعمال درحقیقت عربی کے وسیع و عریض لفظ ’’دین‘‘ کے معنی میں کیا ہے۔ کیوں کہ یہاں اس کا مقصد مسلمان کی رائج الوقت مذہبی رسوم و روایات کی روایتی تشریح و تعبیر نہیں بلکہ ایک کامل نظریۂ حیات اور نظام زندگی کی حیثیت سے اسلام کا ایک حکیمانہ مطالعہ ہے۔ اس میں ان کی سیاسی بصیرت ٹپکتی نظر آتی ہے۔ آپ کے نزدیک شوکت کے بغیر اسلام کا تصور نا ممکن ہے اور شوکت یا طاقت کے مظاہر میں سب سے اہم مظہر ریاست ہے جسے اقبال اسلام کا علاقائی تشخص قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے تصورِ ریاست کے پہلے بنیادی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے مسلم استحکام کے بجائے ’’استحکام انسانیت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ظاہراً ایسی ریاست میں مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد اشتراکی ایمان پر ہوگی اور غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اتحاد کی بنیاد اشتراکِ وطنی پر ہوگی کیوں کہ ایسی ریاست میں استحکام انسانیت کا آئیڈل انسان ہی ہے اس لیے وہ اسلام کو اپنے سیاسی نظریہ میں انسانیت یا انسان دوستی کی دریافت قرار دیتے ہیں غرض اقبال فکری اور فنی اعتبار سے سیاسیات میں عمر بھر گہری دلچسپی لیتے رہے۔ ۱۹۲۶ء میں انھوں نے برصغیر کی سیاست میں عملی حصّہ لینا بھی شروع کیا۔ اقبال حق کا ادراک کرتے ہوئے کبھی ولیم جیمز کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی عملی سیاست کے میدان میں اُترنے کے لیے برگساں اور میک ٹیگریٹ کو بھی اپنا استاد ماننے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں اقبال کی نظر میں کائنات کے خارجی وجود کا مشاہدہ کرنے کے لیے حق کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ فلسفہ بھی عملی سیاست کے بغیر پژمردہ ہے یا مردہ۔ عملی سیاست اقبال کے مطمحِ نظر کی روح ہے۔ برصغیر میں علی گڑھ تحریک، تحریک احرار، مسلم لیگ، آریہ سماج کے اصلاحی پہلو اور انڈین نیشنل کانگریس نے بھی اقبال کے فکر و فلسفہ کو ہی بنیاد بنا کر ملکی اور بین الاقوامی سیاسی معرکے سر کئے اور محمد علی جوہر سے لے کر ڈاکٹر بھیم راو امبید کر تک، نے آئینی و سیاسی بصیرت اور فکری شذرات کی جس طرح شیرازہ بندی کی، و ہ دراصل اقبال کی سیاسی بصیرت کی صدائے باز گشت تھی۔ اقبال کی تصانیف میں The Development of Metaphysics in Persia، کلیات اقبال (فارسی)، کلیات اقبال (اردو) اور The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں اسلامی فکر کا احیاء کرنے کے حوالے سے سیاست اور مذہب کے باہم دیگر روابط کو اولیت نظر آتی ہے۔ اقبال کی صحرائے گوبی سے نکلنے والے تمونچن (چنگیز خان) کی خونین داستان پر بھی پوری نظر تھی اور ہلاکو خان کے بغداد کی دلدوز داستان بھی ان کی نظروں کے سامنے تھی لہٰذا وہ سیاسی بصیرت کے لیے دین فہمی کو ہی پہلا زینہ گردانتے تھے۔ اقبال کی ایک اور منفرد ادا یہ ہے کہ انھوں نے عجمی فلسفہ اور الٰہیات اسلامیہ کے عجمی تصورات کے منفی پہلوؤں سے آگاہی دلا کر برصغیر کے مسلمانوں کے قلوب و اذہان کو جھنجھوڑا اور ان کو اپنی عظمتِ رفتہ کا احساس دلایا۔ مسلمانوں کو وطنیت و قومیت کے تنگ دھارے سے نکال کر آفاقیت اور عالم گیریت سے روشناس کیا۔ مجموعی طور پر یوں کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اقبال سے ہمارا تعارف ایک ایسے ذہنی اور فکری تناظر میں ہوتا ہے جہاں اقبال کا تہذیبی اور سیاسی شعور، کسی خارجی قانون کی اطاعت کرنے کے بجائے اسلام کی آفاقی اقدار کے تابع نظر آتا ہے۔ جس کی بدولت ان کے محسوسات اور ان کے نظام کی غیر مشروط سچائیاں ہمارے سامنے جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ اقبال کی شعری و نثری تصانیف یا ان کے مکاتیب و مقالات محققین کو نہ صرف ایک فکری اساس فراہم کرتے ہیں بلکہ اقبال کو مشرق و مغرب کی ذہنی و فکری تحریکوں کا وارث قرار دے کر عالمی سیاست کے منظر نامے پر ایک منفرد طرزِ احساس اور ایک منفرد حیثیت کے سیاست دان کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ بلا شبہ اقبال جدید ذہن کے مالک ہوتے ہوئے فرسودہ نظاموں کے خلاف تھے۔ ہم جس دور سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے عظیم الشان ماضی کے پس منظر میں ایک ایسی دنیا کی تعمیر کا متمنی ہے جو انسانیت کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کا متلاشی ہو۔ یا یوں کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ایسی دنیا جو اخوت، مساوات، عدل و محبت، شرافت، رواداری اور انسانیت کی عظیم اقدار سے تعلق رکھتی ہو اور ایسی دنیا کی تعمیر کے لیے اقبال کی فکر میں ہمارے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ ـئ…ئ…ء حوالہ جات و حواشی ۱۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’اقبال اور عصر جدید میں اسلامی ریاست کا تصور‘‘، مشمولہ: جعفری حسین محمد، فکر اسلامی کی تشکیل جدید ، دہلی، اسلامک بک فاونڈیشن، ۱۹۹۵ئ، ص ۹۹۔ ۲۔ ایضاً ص ۱۰۰۔ ۳۔ قرآن حکیم سورۃ الحج، آیت ۴۰۔ ۴۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’اقبال اور عصر جدید میں اسلامی ریاست کا تصور‘‘، مشمولہ: جعفری حسین محمد، فکر اسلامی کی تشکیل جدید ، دہلی، اسلامک بک فاونڈیشن، ۱۹۹۵ئ، ص ۱۰۱۔ ۵۔ عاشق حسین بٹالوی ، اقبال کے آخری دو سال ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ئ، ص ۱۴۔ ۶۔ ایضاً، ص ۱۴۔ ۷۔ ایضاً، ص ۱۷- ۱۶۔ ۸۔ ایضاً، ص ۱۷۔ ۹۔ پروفیسر ڈاکٹرایوب صابر ، اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ، انسٹی ٹیوٹ آف اقبال اسٹیڈیز، بیت الحکمت،لاہور، ۲۰۰۳ئ، ص ۱۶۔ ۱۰۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص ۲۹۵۔ ۱۱۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص۳۵۸۔ ۱۲۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص۴۳۵۔ ۱۳۔ پروفیسر مرغوب بانہالی، کلام اقبال کے روحانی، فکری اور فنی سرچشمے، سرینگر، ۲۰۰۴ئ، ص:۵۲۔ ۱۴۔ پروفیسر ضیا الدین احمد، اقبال کا فن اور فلسفہ، لاہور، بزم اقبال کلب روڈ، ۲۰۰۱ئ، ص ۴۰۔ ۱۵۔ ایضاً ص ۴۲-۴۱۔ ۱۶۔ ایضاً ص ۴۲۔ ۱۷۔ ایضاً ص ۳۹۔ ۱۸۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، اقبال سب کے لیے، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، ص ۲۶۵۔ ـئ…ئ…ء کلام اقبال میں معاشی افکار ڈا کٹر علی محمد معاشیات کا علم مادی ضروریات اور اس کی تکمیل کے ہر پہلو کو اُجا گر کرتاہے۔ معاشیات نے دورِ حاضر میں انسان کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے یوںمحسوس ہو تا ہے کہ زندگی کا حقیقی مقصد ہی معاشیات میں مضمر ہے۔ اسلامی سماج میں معیشت اگرچہ بذاتِ خود مقصد نہیں ہے مگر مقصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ضرور ہے۔ یہ اسلامی سماج کے اہداف میں سے ایک ہدف ہے جو ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ عصرِ حاضر میں معیشت ہی ایسا محورقرارپایا ہے جس کے گرد انفرادی اور اجتماعی زندگی چکر کاٹتی نظر آتی ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی کے وسط کی عام بیداری کے بعد رونما ہونے والے صنعتی انقلاب نے ساری معنوی واخلاقی قدروں کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور لوگوں نے نئی نئی اقتصادی قدریں ڈھونڈھ نکالیں۔ مسیحیت کے علم برداروں نے مذہبی قدروں کو من مانی طرز پر اپنانے کی ٹھان لی۔ مسیحیت، حکمران اور مالدار طبقوں کی آلہ کار بن گئی۔ سیاسی حالات میں اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے انہوں نے کمزوروں کو طاقتوروں اور غریبوں کو امیروں کا غلام بنانے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی ۔ ا س طرح وہ دنیاوی آسائشیں سمیٹنے میں جُت گئے۔۱؎ ایسے حالات نے لوگوںمیں مذہب کے خلاف نفرت پیدا کی اور ردِعمل کے طور پر فکری انقلاب رونما ہوا۔ وہ ان نئے افکار و خیالات سے دینی عقائد اور تصورات کے خلاف بغاوت کا درس دینے لگے۔ اس معاملے میں کارل مارکس، الفرڈمارشل اور جوزف شوبینر کے علاوہ اور بھی یورپی آزاد خیال اسکالر ہم آواز ہوئے۔ اُنکاکہنا ہے کہ دولت کا اطلاق ان تمام چیزوں پر ہوتا ہے جو کسی معاشی منفعت کے حصول کا ذریعہ بنیں اور معاشی فائدے کی تعریف یہ قرار پائی کہ انسانی خواہش اور دِلی تسکین جن چیزوں سے پوری ہو جائے اور جن کی مادی حیثیت سے کوئی فائدہ ہو وہی پاک اور حلال چیزیں ہیں۔۲؎ مثال کے طور پر شراب اُن کے درمیان حلال اور جائز اس لئے ہے کہ اس سے انسان کے اندرونی خواہشات کو سکون حاصل ہوتاہے۔ عورتوں کی نمائش بھی تجارت میں زیادہ نفع بخش چیز قرار پائی کیونکہ اُس سے کشش پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح اچھے اور بُرے کا معیار منفعت کا وجود اور عدم وجود قرار پایاہے۔ ۳؎ علمی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دورِجدید کے بعض ماہرین معاشیات کے نزدیک منفعت دراصل وہ ہے جو سماج اور معاشرے کے لیے سودمند ثابت ہو اگر چہ عملی زندگی میں اس نظریہ کا اطلاق عمل میں نہ آسکے۔ مارکس کے فکری انقلاب کے بعد معاشی فراوانی اور معاشی خوشحالی کوکامیابی کا معیار قرار دیا گیا۔ اس نظریہ کو مدِ نظر رکھ کرمختلف یورپی اسکالرز نے معیشت کی تعریف کی ہے۔ مارشل نے اپنی کتاب معاشیات کے اصولمیں جو تعریف کی ہے شاید ہی اس سے بہتر کوئی کر سکے۔ وہ رقمطراز ہیں: سیاسی معیشت یا علم معاشیات انسانی زندگی کے روز مرّہ کے معمولات کے مطالعہ کا نام ہے۔ یہ فرد اور جماعت کے ان کاموں سے بحث کرتا ہے جن کا تعلق مادی فلاح و بہبود کی خاطر مادی ضروریات کے حصول اور ان کے طریقہ استعمال سے ہے۔۴؎ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: دنیا میں انسانی زندگی پر دو اہم امور اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک تو اس کے معاشی معاملات وحالات اور دوسرا اس کا مذہبی عقیدہ۔ لیکن ان دونوں میں موازنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان مذہبی عقیدے کے مقابلے میں اپنے معاشی حالات سے زیادہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ انسانی اخلاق و عادات پر روز مرّہ کے معمولات اور مادّی منفعت کے حصول سے گہرا اثر پڑتا ہے۔۵؎ عصرِ حاضر میںمعاشی انقلاب سے انسانی قدریں یکسر بدل گئیں۔ اس وقت انسان ایک دوسرے کو ڈالر کے پیمانے سے ناپنے لگا اور سماج کا طریقہ یہ بن گیا کہ سماج میں سب سے بہترین اور اہم وہ انسان ہے جو سب سے زیادہ مالدار ہے۔ بلکہ افلاطون کے الفاظ کے مطابق فضلیت کا معیار معرفت الٰہی کے بجائے معاشی خوشحالی بن گئی۔ اس وقت جو اعلیٰ قدریں جاری و ساری ہیں وہ مکمل طور معاشی قدروں کے گرد گھومتی ہیں۔ مادی زندگی کے لیے انسان ہر اُس راستے پر چلنے کو تیار ہے جس سے یہ رتبہ حاصل ہو۔ اس کے برعکس وہ راستے جو فطرتِ سلیم اور صحیح عقائد سے ہم آہنگ ہیں آج کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ماہر ِمعاشیات سیلوہ جیزیل جو اپنے طرزِ فکر میں بے حد معتدل اور اسلام سے قریب تر ہے اپنی کتاب فطری نظامِ معیشت کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: جب کسی شخص کے اعمال اس کے دینی خیالات سے متصادم ہوں حقیقتاً وہ روشن ضمیر ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اِن خیالات پر نظرثانی کرے کیونکہ ایک خراب درخت بہترین پھل نہیں دے سکتا اس بِنا پر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس انجام بد سے بچنے کی کوشش کریں جس سے ایک مسیحی غربت اور فقرو فاقہ کی شکل میں دوچار ہو تا ہے اور جو اسے عقائد پر عمل کرنے کی وجہ سے معاشی قوتوں اور محرکات سے نِپٹنے کی صلاخیت سے محروم کر دیتا ہے۔۶؎ اٹھارویں اور اُنیسویں صدی میں معیشت کے بارے میں مخصوص نظریات رائج تھے اُس وقت معاشیات کو معیشت کہا جاتاتھا۔ یہ وہ وقت تھا جب معاشیات کو ابھی علیحدہ مضمون کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ معاشی نظریات یہ تھے کہ معیشت کومنڈیاں چلاتی تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ ہر چیز کی ایک قدریا قیمت ہے جس کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور صرف پیداوارطلب و رسد سے جنم لیتی ہے۔ ۷؎ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں اشیاء کی پیدا وار نمایاں حد تک بڑھ چکی تھی۔ اس کے لیے منڈیاں درکار تھیں۔ اس بڑھوتری کی وجہ سے مغربی ملکوں میں کشمکش جاری ہوئی جس نے بعدمیں نو آبادیاتی نظام کی شکل اختیار کر لی۔ صنعتی انقلاب میں سر مایہ دار طبقہ کو سیاست اور معیشت دونوں میں بالا تر پوزیشن حاصل ہوگئی تھی صنعت و حرفت کے تناظر میں یہ دور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلم مصلحین نے بڑی باریک بینی سے اس کا مشاہدہ کیا اور اس کے تدارک کی تدبیریں بھی کیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب علم الاقتصاد قلم بند کی۔ یہ کتاب اُس دور میں لکھی گئی جب کلاسیکل دور زوال پذیر تھا اور جدیدیت نے اپنے پنجے گا ڑدیئے تھے اس وجہ سے علامہ کی کتاب میں ان حالات کی بہت گہری چھاپ دِکھائی دیتی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ عہد بڑی اہمیت کاحامل تھا۔ خصوصاً ۱۹۲۰ء کے بعد جب تجارت،صنعت و حرفت اور حکومتی اداروںپر ہندوؤں نے غلبہ حاصل کیا اور مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات اُجاگر ہو گئی کہ اُن کا بحیثیت قوم متحد ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں میں معاشی قومیت کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا اور بیک وقت مختلف سمتوں سے کوششیں شروع ہوئیں۔۸؎ اس معاملے میںعلامہ اقبال ایک کثیر الجہات شخصیت کی حیثیت سے سامنے آئے اور انہوں نے معاشی مسائل و نظریات و خیالات پر گہری اور ناقدانہ نظر سے تحقیق شروع کی۔ ۹؎ اقبال نے اپنی کتاب علم الاقتصاد کی زیادہ اہمیت نہیں دی مگر انہوں نے اپنی نظم ونثر دونوں میں مختلف معاشی حوالوں سے اظہار خیال کیا ہے۔ اُن میں بعض خیالات شاہ ولی اﷲ کی معاشی فکر سے جاملتے ہیں اورتعلیمی نظریات سر سید کے فکر کے حامل تھے بلکہ یوں کہیے کہ انہوں نے اس کی ایک مزید نکھری ہوئی شکل ترتیب دی۔ علامہ جن معاشی موضوعات کو زیر بحث لائے ہیں وہ بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلم کی ابتر حالت کے لیے چار بنیادی عوامل کو ذمہ دار ٹھہرایا (۱) مسئلہ غربت (۲)تصور فقر (۳) مسئلہ ملکیت زمین (۴) سرمایہ داری یااشتراکیت۔ علامہ اقبال نے کی بالخصوص مسلمانانِ ہند کی معاشی بدحالی کو مد نظر رکھ کر مسئلہ غربت کی وجہ اور حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہندوستان میں پھیلی غربت معاشی فکر کا سب سے اہم پہلو رہا ہے۔ یوں تو غربت ہندوستان کی عام پہچان ہے اور مسلمانوں کی عمومی اقتصادی حالت بہت ہی زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ عام غریب مسلمان بہت قلیل اُجرت پرکام کے لیے تیار ہوجاتے تھے مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے۔۱۰؎ مسلمانوں کی اقتصادی حالت کن اسباب و علل کی وجہ سے تباہ ہوئی اس کے پیچھے بین الاقوامی اقتصادی قوتوںکا کتنا ہاتھ ہے اور کس حد تک اہل وطن کی اپنی کمزوریاں ذمہ دار ہیں علامہ نے ان تمام امور پر گہرا غور و خوض کرنے کے بعد اُن کے تدارک کا بھی حل بتا دیا۔۱۱؎ اقتصادی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مسلمانوں میں رائج معاشی تفاوت کو ختم کرنا ضروری تھا ۔۱۲؎ اگرچہ اقتصادی حالت بہتر بنانے میں سر کاری ملازمتوں میں مسلمان کے حصّے میں اضافہ بھی ضروری ہے۔۱۳؎ لیکن اجتماعی خوش حالی اُسی وقت ممکن ہے جب اقتصادی آزادی نصیب ہو۔ ۱۴؎ اقتصادی بدحالی کا واحد علاج تعلیم کا فروغ ہے اس نئی صورتِ حال میں اقبال نے اپنے ہم وطنوں کے لیے ایک نئی راہ تجویز کی ہے جو بقائے اصلح کے تصور سے ملتی جُلتی ہے۔ ۱۵؎ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم کا فروغ انتہائی ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشی بد حالی کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ تعلیم اور اقتصادی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔۱۶؎ اس لئے اصل غربت جدید صنعتی اثاثوں کی نہیں بلکہ ذہنی قوتوں کی قلت ہے۔ تعلیم، تجربہ، تکنیکی مہارت،دلائل اور مشاہدات کا استعمال اور فرائض کو ٹھیک طرح انجام تک پہچانے کا جذبہ ایسے عوامل ہیں جو بغیر کسی خارجی سہارے کے معاشرے کو خودبخود سیدھی راہ پر لے جاتے ہیں۔ تعلیم سے جدو جہدکی کارکردگی اور استعداد کار بہترہوتی ہے اور نئی ایجادات و اختراعات کی راہ کھلتی ہے۔ اس کے ذریعے قدرتی وسائل سے بھر پور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ وسائل کی موجودگی بھی بے معنی ہو جاتی ہے جب اُن سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تکنیکی مہارت اور اعلیٰ تجربہ کار موجود نہ ہو۔۱۷؎اقبال کے نظر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ صنعت و حرفت کی یکساں ترقی بھی ضروری ہے اس کے برعکس ترقی اور خود انحصاری نا ممکن ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ صنعت و حرفت ہی معاشی ترقی کو مضبوط اور معنی خیز بناتی ہے۔ ۱۸؎ معاشی آزادی پر زور دینے کی وجہ یہ تھی کہ علامہ اقبال کی نظریے میں اقتصادی اورصنعتی ترقی ہی سیاسی آزادی کی راہ فراہم کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے انہوں نے تجویز پیش کی کہ ادب اور فلسفے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے تکنیکی علم سیکھنا انتہائی ناگزیر ہے: بدست او اگر دادی ہنر را ید بیضا است اندر آستینش۱۹؎ معاشی ترقی محض سرمایہ میں اضافے کا نام نہیں ہے اورنہ ہی محض جزوی تبدیلیوں کا نام ہے بلکہ حقیقت پسندانہ اور انقلابی تبدیلیوں ہی معیشت کی ضرورت پوری کر سکے گی۔۲۰؎ اس حوالے سے اسلام کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال کو یہ یقین تھا کہ اسلام ہی دنیا کے کسی بھی طبقے کو بدل سکتا ہے اسی وجہ سے اقبال نے کہا: تم اپنے اندر جو اعتقاد رکھتے ہو وہ فرد کی اہمیت کا قائل ہے اس کے بر عکس انسان اس بات کے لیے کوشش کرے کہ انسانیت کی خدمت کرسکے اس لیے مسلمان جس تقدیر کی بات کرتا ہے اس کے امکانات ابھی پوری طرح وجود میں نہیںآئے وہ اب بھی ایک نئی دنیا پیدا کر سکتا ہے جہاں ذات ، رنگ یا دولت کے پیمانے سے اس کی عظمت کو ناپا نہیں جاتا بلکہ اس طرزِ زندگی سے جہاں غریب و امیر پر ٹیکس اُس کی معیار کے مطابق لگا تے ہیں جہاں انسانی سو سائٹی شکم کی مساوات پر نہیں بلکہ روح کی مساوات پر قائم ہے۔ ۲۱ ؎ اقبال نے بر صغیر کے مسلمانوں میں جس اقتصادی جدوجہد کا جذبہ پیدا کر نے کی کوشش کی وہ روایتی اقتصادی تصور کو منہدم کر دیتی ہے۔ کیونکہ اُس کو تقدیر کا نوشتہ سمجھا جاتاتھا، کاہلیت کو تقدیر سمجھ کر مسلمانانِ ہند نے فقر و افلاس کو مقدر مان رکھا تھا۔ اس لئے اقبال نے تقدیر کے جدا گانہ تصور سے یہ پیغام دیا کہ: ہم زمانے کی حرکات کا تصور ایک پہلے سے کھنچے ہو ئے خط کی شکل میں نہیں کریں گے کیونکہ یہ خط ابھی کھینچا جا رہاہے اور اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ امکانات جو ہو سکتے ہیں ممکن ہے وقوع میں آئیںیا نہ آئیں۔۲۲؎ اس تقدیری نظریہ کو اقبال اشعار کے طرز پر بیان کر کے اس انداز سے وضاحت کرتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز طے شدہ نہیں ہے جس کو تبدیل نہ کیا جا سکتا ہو : گرزیک تقدیر خوں گردد جگر خواہ از حق حکم تقدیر دِگر تو اگر تقدیر نو خواہی رواست زانکہ تقدیرات حق لا انتہا است۲۳؎ اگر انسان میں جدوجہد کا حوصلہ اور جذبہ زندہ ہے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے نعمتوں کو کہیں بھی پاسکتا ہے۔ وہ جمود کا شکار نہیں ہو سکتا وہ لا تعداد تقدیرات اور حکمتِ خداوندی سے جو چاہے طلب کر سکتا ہے: تو اپنی سر نوشت اب اپنے قلم سے لکھ خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تیری جبیں۲۴؎ جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے اے مرد خدا ملکِ خدا تنگ نہیں ہے۲۵؎ اسلام کے معاشی نظام کے مثبت معاشی مقاصد میں غربت کا انسداد اور تمام انسانوں کو معاشی جدوجہد کے مساوی مواقع فراہم کرنا شامل ہے۔ اسلام سب کے لیے حصول رزق کے مواقع فراہم کرتاہے اور مثبت طور پر ایسی حکمت عملی بنانے کی تاکید کر تا ہے جس سے غربت و افلاس ختم ہواور انسان کی بنیادی ضروریات لازماً پوری ہوں۔ اسلام افلاس، غربت ، معیار زندگی کے گرنے کے خطرات اور قلت ِ وسائل کے طریقے اپنانے والی پالیسی کی اجازت نہیں دیتا ہے بلکہ حالات کو بدلنے کے لیے یہ شرط بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ انسان کو مسئلہ غُربت ختم کرنے کے لیے اپنی ذہنی کاہلیت کو بدلنا از حد ضروری ہے۔ اسی لیے اقبال کویہ پختہ یقین تھا کہ انسان اگر خود بدل گیا تو وہ اپنی دنیا تبدیل کر سکتاہے: رمز باریکش بحرفے مضمر است تو اگر دیگر شوی او دیگر است۲۶؎ دوسرا اہم پہلو جو برصغیر کے مسلمانوں کو اندر ہی اندر کاٹ رہا ہے وہ معاشی تنگ دستی اور پریشان حالی ہے جس کو تصور فقر کہہ دیا جاتا ہے۔ اقبال کے ذہن میں فقر اور استغناء ہم معنی الفاظ ہیں وہ اس سے بے رغبتی سے مراد لیتے تھے جو ارادی ہے اضطراری نہیں۔۲۷؎ اقبال کے تصور فقر کے علمبردار سوشلسٹ اور مادہ پرست لوگ نہیں کیونکہ وہ اصلیت سے ہٹ کر دنیا پرستی کے متلاشی ہیں بلکہ وہ لوگ اس کے علمبر دار ہیں جو حُب اﷲ کے متلاشی ہیں وہ دنیا میں روزگار کو زندگی کا اصلی مقصد نہیں مانتے بلکہ اصلی مقصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ یہی تصور سکونِ قلب اُجا گر کرتا ہے جو سر مایہ دارانہ نظام میں نا پید ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت دونوں اخلاقی احساس سے محروم ہیں۔ اخلاقی اقدار کی عدم موجودگی میں اعلیٰ مقاصد نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور پست مقاصد بالخصوص مال اور دولت کا لالچ و ہوس انسان کا مقصد بن جاتا ہے اور اس کا ہدف حصول زر کے سوائے کچھ نہیں رہتا۔ اسی لئے اقبال معاشرے کو اس معاشی انارکی سے بچانے کے لیے خودی کا درس دیتے تھے وہ زر یعنی دولت کی اندھی ہوس اور اس کے لیے دوڑ کا خاتمہ چاہتے تھے۔۲۸؎ انسان میں رزق کمانے کی صلاحیت ایک بدیہی حقیقت ہے۔ تاہم یہ ناسور تب بنتا ہے جب دولت کمانے کے مواقع اور دولت کی گردش کو روک کر بالائی طبقہ تک محدود کی جاتی ہے تو اس طرز سے معاشرہ دو حصّوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک دولتمند طبقہ اور دوسرا مفلس طبقہ۔ اگر اہل دولت اپنی دولت کو راہِ خدا میں خرچ کر دیں تو اس سے معاشرے میں مساوات پیدا ہوتی ہے اور بہت سی اخلاقی بُرائیاں جڑ سے ناپید ہو جاتی ہیں ۔ اس طرز عمل سے کمزور طبقہ میں مضبوط سوچ اُجاگر ہو جاتا ہے۔ وہ جدوجہد کو اپنا شعارِ زندگی تصور کرتا ہے اور وہ زر کی طلب کو چھوڑ کر حق پرستی کی زندگی اختیار کر لیتا ہے: اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات جو فقر سے ہے میسر، تونگری سے نہیں۲۹؎ محروم خودی سے جس دم ہوا فقر تو بھی شہنشاہ میں بھی شہنشاہ۳۰؎ جب ہم پاک یعنی حلال زر کا نفاذ عمل میں لائیں گے تو زمیں کی ملکیت کے اسلامی قانون کا نفاذ بھی عمل میں لانا ضروری ہے۔ اس وجہ سے زمین کی ملکیت کا شرعی تصور کا ادراک بھی ضروری ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے زیادہ اہمیت نجی ملکیت کو دی جاتی ہے جب کہ اشتراکیت میں ریاستی ملکیت کا تصور کارفرما ہے۔ ایک تصورہوس و حرص کا مادہ انسان کے اندر پیدا کرتا ہے تو دوسرا کاہلیت کا مادہ پیدا کرتا ہے اس سے کام کی صلاحیت انسانی طرز بنیادوں پر ممکن نہیں ہے اس لئے اسلام جس طرز عمل کو اپنا نا چاہتا ہے وہ انسانی بقاکے لیے ایک جامع اور صحیح طریقہ ہے۔ متعدد احادیث سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ زمین کی ملکیت اُس وقت بر قرار رہے گی جب انسان جس کے تصرف میں وہ ہے اُس کو کاشت کے لیے استعمال کرے گا اور معاشرے کواُس سے فائدہ ہو سکتا ہے حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس زمین ہو وہ یا تو کاشت کرے یا اپنے بھائی کو بِلا معاوضہ دے دے۔‘‘ لیکن دوسری حدیث میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ابو سعید الخدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے مزابنہ اور محاقلۃ سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ سے مراد درختوں پر کھجوروں کی خریداری اور محاقلۃ سے مراد زمین کا کرایہ ہے۔ جہاں تک زمین کی نجی ملکیت کا تعلق ہے شریعت اسلامی اس بات میں بالکل واضح ہے کہ جو شخص مردہ زمین کو زندہ کرے تو یہ اس کی ملکیت ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے صحیح طریقے سے زمین خریدی تو یہ بھی اس کی ملکیت ہے مگر کسی بھی شخص کے لیے زمین کی ملکیت بنیادی طور پر اس بنا پر قرار پائے گی کہ وہ اس میں پیدواراُگا کر اس سے انتفاع کر رہا ہے نہ کہ محض اس وجہ سے کہ وہ اس کا مالک ہے۔ اگرغور کیا جائے تو اسے بالکل آزادانہ تصرف حاصل نہیں ہے بلکہ اسے اسلامی نظام اور اس کے مقررہ اصول و ضوابط کا پابند ہونا پڑے گا اس تناظر میں بر صغیر کی زمین کی نجی ملکیت کے بارے میں متعدد علمائے کرام نے ہندوستان میں فتویٰ صادر کرکے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اراضی ہند اشخاص کی ملکیت نہیں بلکہ وقف للمسلمین کی حیثیت میں ملکیت خداداد ہے اسی زمین کو فقہی اصطلاح میں ارض الحوازہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تواریخی شواہد موجود ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ارض عراق کے متعلق ایسا فیصلہ کیا تھا کہ یہ ملکیت وقف للمسلمین ہے اور شیخ جلال الدین تھا نسیری نے اپنے رسالہ تحقیق اراضی ہند میں اراضی ہند کو بیت المال کی ملکیت قرار دیا تھا اس کے بعد بہت سے علماء کرام جن میں بالخصوص شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنے فتاویٰ میں وضاحت کرتے ہوئے کہااراضی ہند بیت المال کی ملکیت ہے اوراس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے۔۳۱؎ اس انداز سے دیکھا جائے تو علامہ اقبال ان اسلاف کی فکر کے امین ہیںجو زمین کو نجی ملکیت کے بجائے اراضی المملکۃ قرار دیتے ہیں: دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، میری نہیں! تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں میری نہیں۳۲؎ علامہ اقبال کا مدعا سمجھنے کے لیے ملکیت اور متاع میں فرق کرنا از حد ضروری ہے۔ اگر تصور ملکیت کو اپنی اصل میں دیکھا جائے تو یہ اپنے قبضہ اختیار میں لینے کے ہیں اور متاع کی معنٰی دراصل سامان گزربسر اور پونجی کے ہیں تو قرآنی تصور متاع درحقیقت زندگی گزارنے کے لیے سامانِ ضرورت ہے ۔۳۳؎ اس لیے قرآن حکیم کے آفاقی اصولوں پر نظر ڈالی جائے تو ملکیت در حقیقت اﷲ کی حاکمیت کلی ہے اور انسان کو جو حق جائداد عطاکیا گیا وہ امانت ہے۔ اقبال نے اپنی شہر آفاق کتاب جاوید نامہ کی ایک نظم ’’ارض ملک خدا است‘‘ میں اس تصور کی بہت خوبی سے وضاحت کی ہے۔ اس میں موجود تمام چیزیں اﷲ کی عطا کردہ ہیں تو انسان محض تمتع کا حق رکھتا ہے: ہم چناں ایں بادوخاک و ابر وکشت باغ و راغ و کاخ و کوے و سنگ و خشت اے کہ می گوئی متاع مازماست مردِ ناداں ایں ہمہ ملک خداست ارض حق را ارض خود دانی بگو چیست شرح آیۂ لا تفسدوا؟ ابن آدم دل بابلیسی خود نبرد اے خوش آں کو ملک حق با حق سپرد۳۴؎ سرمایہ دارانہ معیشت کی بنیاد لا محدود نجی ملکیت اور منافع کے حق،کھلی منڈی کے تحت مقابلے اور حکومت کی کم سے کم مداخلت کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ نظام ہر قسم کی اخلاقی قدروں سے ماورا اور جہد للبقا کے اصول پر استوا ر ہے۔ اقبال کی نظم و نثر دونوں اس امر کے شاہد ہیں کہ انہیں یہ نظامِ فاسد پسند نہیں ہے۔ کیونکہ اس نظام سے امیر لوگ غریبوں کو غلام بنا دیتے ہیں۔ ہر شعبے کے بالا دست افراد دیگر لوگوں کا گلہ گھونٹتے ہیں۔ جاگیر دار، دہقان کو ا پنا غلام سمجھتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ اُس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح سرما یہ دار مزدور کا استحصال کرتا ہے۔ اس طرز زندگی سے غریب طبقہ مختلف آقاؤں کے درمیان پستا رہتا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد محض تن کی خاطر جدوجہد کا نام رہ جاتا ہے: عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے قبض کی روح تری دے کے فکرِ معاش۳۵؎ سرمایہ دارانہ نظام جس قسم کے حالات پیدا کر تا ہے اس کی خدو خال اقبال یوں پیش کر تا ہے: حکمتِ ارباب کیں مکر است و فن مکر و فن؟ تخریب جاں تعمیر ِتن! حکمتے از بندِ دین آزادۂ از مقام شوق دور افتادۂ مکتب از تدبیر او گیرد نظام تا بکامِ خواجہ اندیشد غلام! ملتے خاکستر او بے شرر صبحِ او از شام او تاریک تر ہر زماں اندر تلاشِ ساز و برگ کارِ او فکرِ معاش و ترسِ مرگ۳۶؎ سرمایہ درانہ نظام میں انسان دوسروںکے خوابوں کا خون کرکے بغیر پرواہ کئے آگے نکل جا تا ہے۔ وہ انسان کے جسم کے ہر قطرہ زندگی کو چوس کر کے خالی ڈھانچہ چھوڑ دیتا ہے۔ اس نظام کی مثال شہدکی مکھی کی طرح ہے وہ پھول سے اس کا رس چوس لیتی ہے جس کے نتیجے میں پھول کی شاخ، رنگ، پتے وغیرہ تو رہتے ہیں لیکن جسم سے روح خالی رہتی ہے: ہم ملوکیت بدن را فربہی است سینہ بے نور او از دل تہی است مثل زنبورے کہ برگل می چرد برگ را بگذارد و شہدش برد مرگ باطن گرچہ دیدن مشکل است گُل مخوان او را کہ در معنی گِل است۳۷؎ اقبال دنیائے انسانیت کوجدید تثلیث کے استحصالی نظام سے نجات دِلانا چاہتے ہیں۔ اس میں سرمایہ داری، مذہبی پیشوایت اور اربابِ حکومت شامل ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے ہی کے نہیں بلکہ عام ومکمل صورت حال میں تبدیلی کے خواہاں ہیں: اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امرا کر در دیوار ہِلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کنجشکِ فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مِٹا دو کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیران کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو۳۸؎ اقبال اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اشتراکیت کا سہارا لینے کی بجائے اسلام سے رہنمائی لینے کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ اشتراکی نظام میں وہ دم خم نظر نہیں آتا ہے جو وہ اسلام کے طریقہ جدوجہد میں دیکھتے ہے۔ چونکہ اقبال سرمایہ داری نظام کے خلاف تھے اور وہ ملوکیت کو سر مایہ دار ی کی بنیاد قرار دیتے تھے ان کا کہنا ہے کہ جب تک ملوکیت ختم نہیں ہو جاتی دنیا سے غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے جن لوگوں کے ذہن میں یہ بات سرایت کر گئی کہ علامہ اقبال اشتراکیت کے حامل ہیں اور وہ اس کا عملی نفاذ چاہتے ہیں وہ صراحتاً غلط فہمی کے شکار ہیں۔ اقبال نے جاوید نامہ میں اشتراکیت کے علم بر داروں کو بذریعہ افغانی یہ پیغام دیا ہے کہ اشتراکیت کی طرح اسلام بھی ملوکیت، قیصریت، کلیسائیت،مذہبی اجارہ داری، سر مایہ داری ، جاگیر داری اور زمینداری کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسلام ابتدا سے مساوات کا حامل ہے جیسے آج اشتراکیت مساوات کی دعوے دار ہے۔ دونوں مفلسوں، ناداروں اورغریبوں کی کفالت چاہتے ہیں اس مساوات کے بعد جو بات اہمیت کی حامل ہے وہ روسیوں کو خطاب کر کے اُن کو ہمت دِلانا ہے کہ اس مساوات کے لیے وہ ایک قدم آگے بڑھیں اور سچے خُدا پر ایمان لے آئیں تاکہ دنیا کو ایک مستحکم نظام فراہم ہو جائے ۔ اس لئے اگر تم لا اِلٰہ کے بعد اِلاَّ اللّٰہ کے قائل نہیں ہو تو کوئی مستحکم نظام دینے سے عاری رہو گے: اے کہ می خواہی نظام عالمے جُستہ او را اساسِ محکمے؟۳۹؎ اس نظام کے حصول کے لیے اقبال نے روسیوں کو قرآن کریم سے تعلیمات حاصل کرنے کے لیے کہا۔ کیونکہ اسلام سود خوری اور سر مایہ داری کے حق میں پیغام مرگ اور مزدوروں کے حق میں ایک نئی اُمید ہے۔ اقبال پر قرآنی تعلیمات کا اتنا زیادہ اثر تھا کہ انہوں نے کھل کر سر مایہ داری اور جاگیر داری کو انسان دوستی ، مساوات اور تقوٰی و نیکی کے خلاف قرار دیا: چیست قرآن؟ خواجہ را پیغامِ مرگ دستگیرِ بندۂ بے ساز و برگ ہیچ خیر از مردکِ زرکش مجو لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا۴۰؎ اقبال کے نزدیک وہ معاشرہ قائم کرنا درکار ہے جہاں کاشت کار، زمینداروں کے جبروظلم سے محفوظ رہے، سائنسی ترقی کا مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود اور مکمل امن و امان ہو۔ ہر شخص کو فکر و عمل کی آزادی حاصل ہو، فرد اور معاشرے کے حقوق و فرائض میں بے مثال ہم آہنگی ہو، اخوت و بھائی چارہ معاشرے کی پہچان ہو۔ یہ خصوصیات صرف اور صرف اسلامی بنیادوں پر قائم ہو نے والے معاشرے اور معیشت میں ممکن ہیں۔ علامہ اقبال زندگی کو اسلامی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر چہ ہیگل کی طرح اقبال کا تصور زندگی بھی ارتقأ پذیر ہے تاہم ایک ازلی فرق دونوں کی زاویہ نگاہ میں ہے۔ ہیگل تاریخ عالم ِ روح مطلق کو نمائش گاہ کی مانند بتاتے ہیں۔ اُن کے نزدیک انسانی صلاحتیں یہاں تک کہ تمام انسان روحِ مطلق کے آلہ کار ہیں۔ اس کے علاوہ ہیگل کے نزدیک اس کشمکش کا نتیجہ بقائے اصلح ہے۔ اس کے برعکس اقبال کے نزدیک کشمکش کی اصل بنیاد حق و باطل کی کشمکش ہے۔ اقبال کے نزدیک انقلاب کا بنیادی مقصد انسانوںکو غلامی سے نجات دِ لانا ہے نہ کہ حکمرانوں کی تبدیلی یعنی اﷲ کے قانون کی حکمرانی ہے۔ جس کا نتیجہ اللہ کی حلال و حرام کردہ حدود کا نفاذ ہے: تا ندانی نکتۂ اکلِ حلال بر جماعت زیستن گردد وبال۴۱؎ اسی قانون کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان معاشی لحاظ سے کسی کامحتاج نہیں ہو گا: کس نہ گردد در جہاں محتاج کس نکتۂ شرع مبیں ایں است و بس۴۲؎ اخلاقی قدروں سے جب انسان آراستہ ہو گا جو کہ خُدا کو تسلیم کرنے کا لازمی نتیجہ ہے تو معیشت انفاق فی سبیل اﷲ کے معاشی اثرات کی بدولت مالامال ہو گی: جو حرف قل العفو میںپوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!۴۳؎ ہندوستانی مسلم سماج کو اُنیسویں صدی کے وسط میں جو معاشی مشکلات در پیش تھیں وہ آج بھی ہندوستانی مسلم سماج کو درپیش ہیں۔ علامہ اقبال اس حوالے سے جس تدبر ، تفکر اور محققانہ انداز سے اس کی بنیادی وجوہات کو عام مسلم کے سامنے لائے وہ قابل تحسین ہے۔ وہ معاشی اصلاح کو کلیدی اہمیت دے رہے تھے۔ اُن کا ایمان تھا کہ جب تک مسلم قوم معاشی بد حالی سے نجات حاصل نہیں کرتی، مسلمان سیاسی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ انگریزوں کے سفاک طریقے اور بعد ازاںہم وطنوں کے طریقہ کار نے مسلم سماج کو معا شی بد حالی کے بد ترین اندھیرے میں دھکیل دیا۔ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مسلم سماج سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے خلاف یک جان ہو کرکام کرے۔ ان کے لیے انفاق فی سبیل اﷲ کی طرز پر معاشی تصور کے لیے کام کرنا موت و حیات کی حیثیت رکھتاہے۔ ـئ…ئ…ء حواشی و حوالہ جات ۱۔ محمود ابو السعود، اسِلامی معیشت کے بنیادی اصول، الاتحاد الاسلامی العالمی للمنظمَات الطلابیۃ ، کویت،ص ۱۵-۱۸۔ ۲۔ ایضاً، ۲۰-۲۱۔ 3- M Aziz, An Islamic Perspective of Political Economy, The Views of (late) Muhammad Baqir al-Sadr, al Tawhid Islamic Journal, Vol. X, No. 1 Qum, Iran, p.6. 4- Alfered Marshall, Principles of Economy, Cosmic Ins. USA, 2006 , V:1, p.10. ۵۔ ایضاً، ص ۱۵۔ 6- Silvio, Gesell, Natural Economic Order, San Antinio, Tex, Free-economy Publishing Co., 1936, p.36. ۷۔ محمود ابو السعود، اسِلامی معیشت کے بنیادی اصول، الاتحاد الاسلامی العالمی للمنظمَات الطلابیۃ، کویت،ص: ۱۹-۳ 8- Nureen Tahla, Economic factore in the Making of Pakistan,Oxford University Press, Karachi, 2000, p.90-91. ۹۔ علامہ محمد اقبال، علم الاقتصاد، دیباچہ از انور اقبال قریشی، ص iv- xi۔ ۱۰۔ سید عبد الواحد معینی ، مقالات اقبال، مرتبین، طبع دوم، آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۲ئ، ص ۱۸۔ ۱۱۔ ایضاً، ص ۸۲ا-۱۸۰۔ ۱۲۔ ایضاً ، ص ۱۸۱۔ ۱۳۔ ایضاً، ص ۸۲-۱۸۱۔ ۱۴۔ ایضاً، ص ۱۶۴۔ ۱۵۔ قاضی جاوید، سرسید سے اقبال تک، تخلیقات، لاہور، ۱۹۹۸ء ، ص ۲۱۴۔ ۱۶۔ علامہ محمد اقبال: علم الاقتصاد، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ئ، ص ۵۹-۱۵۸۔ ۱۷۔ ایضاً،ص ۵۹۔ 18- Meier Baldwin,Et.al, Economic Development: Theory, History and Policy, Asia Publishing House, Bombay, 1962, p.12 ۱۹- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص۹۸۲۔ 20- E.D. Domer, Economic Growth: An Economic Approach, American Economic Review, Vol. XVII, No.2, May 2591, p.18. ۲۱۔ لطیف احمد خان شیروانی؛ حرفِ اقبال، علامہ اقبال، اوپن یونیور سٹی، اسلام آباد، ۱۹۸۴ئ، ص۶۶-۶۵۔ ۲۲۔ خطبات اقبال کا اردو ترجمہ از نذیر نیازی، تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، ص ۸۴۔ ۲۳- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۶۹۵۔ ۲۴- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص۶۸۹۔ ۲۵- ایضاً، ص ۵۶۶۔ ۲۶- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص۶۹۵۔ ۲۷۔ پرفیسر اسلوب احمد انصاری، مطالعہ اقبال کے چند پہلو، کاروانِ ادب، ملتان، ۱۹۸۶ئ، ص ۶۳۔ ۲۸- فاروق عزیز، اقبال کے معاشی افکار، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ۱۹۹۴ئ، ص ۲۸۔ ۲۹- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۵۳۲۔ ۳۰- ایضاً، ص ۶۷۷۔ ۳۱۔ مولانہ حفظ الرحمٰن سیوہاردی، اسلام کا اقتصادی نظام، طبع دوم، ادارہ فروغ اسلام، لاہور، ۱۹۷۴ئ، ص۱۴-۴۱۱۔ ۳۲- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۴۷۔ ۳۳۔ رحیم بخش شاہین، اقبال کے معاشی نظریات، گلوب پبلیشرز، لاہور، ۱۹۷۴ئ، ص ۸۵۔ ۳۴- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۶۹۷۔ ۳۵- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۵۹۶۔ ۳۶ - علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۸۱۱۔ ۳۷- ایضاً، ص ۶۵۲۔ ۳۸- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۳۷۔ ۳۹- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۶۶۷۔ ۴۰۔ ایضاً، ص۶۶۸۔ ۴۱- ایضاً، ص ۸۲۶۔ ۴۲- ایضاً، ص ۸۲۸۔ ۴۳- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۶۴۸۔ ـئ…ئ…ء اقبال اور رجال کشمیر ڈاکٹر صابر آفاقی شاہ ہمدان: امیر کبیر سید علی ہمدانی شاہ ہمدان کے نام سے بھی مشہور ہیں ۔ آپ ۷۱۴ ھ میں ہمدان میں پیداہوئے اور۷۸۶ھ میں فوت ہوئے۔ اپنے دور کے زبردست عالم، صوفی، مصنف، مصلح اور سیاح تھے۔ آپ تقریباً سات سو ایرانی علمائ، صوفیاء اور ہنر مندوں کے ہمراہ۷۷۴ھ میں کشمیر تشریف لائے۔ ان ایرانیوں کو وادی میں آباد کر دیا اور خود بدستور سیر و سیاحت کرتے رہے۔ آپ نے تین مرتبہ کشمیر کی سیاحت کی۔ آپ ہی کی کوششوں سے وادی میں ۳۷ہزار افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ سری نگر میں آپ کی خانقاہ ’’خانقاہ معلیٰ‘‘ آج تک کشمیری مسلمانوں کا علمی و روحانی مرکز چلی آئی ہے۔ کشمیر کے باشندے آپ سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ نے سو کے قریب تصانیف عربی و فارسی میں یادگار چھوڑی ہیں۔ ذخیرۃ الملوک ان کی اہم تصنیف ہے جس میں جہاں بانی و حکمرانی کے اصول بیان کیے گئے ہیں ۔ علامہ کو شاہ ہمدان سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اور آپ نے جہاں جاوید نامہ میں ملت کشمیر کو شاہ ہمدان کی زبانی جہاں بانی کا پیغام دیا وہاں ان کو زبردست خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ علامہ نے شاہ ہمدان کو مرشد کشور مینو نطیر کہا ہے اوران کو میر، درویش، اورمشیر سلاطین قرار دیا ہے۔ حق یہی ہے کہ کشمیر میں علم، صنعت، تہذیب اور دین حضرت امیر کبیر ہی کی کوششوں سے پھیلا: خطہ را آں شاہ دریا آستیں داد علم و صنعت و تہذیب دیں [اقبال] شیخ نور الدین ولی: شیخ نور الدین کا صوفیائے کشمیر میں بہت بڑا مقام ہے۔ آپ کشمیری شاعری کے بانیوں میں سمجھے جاتے ہیں ۔۷۷۹ھ کو قصبہ کمبوہ کشمیر میں پیدا ہوئے اور ۸۴۲ھ میں وفات پائی ۔ علامہ کے مورث اعلیٰ بابا لولی حج کے مرشد بابا نصر الدین متوفی ۸۵۵ھ ؍۴۵۱ء شیخ نورالدین کے خلیفہ مجاز تھے۔ یہ تفاصیل تو نہیں مل سکیں کہ حضرت علامہ نے شیخ نور الدین ولی سے کس حد تک استفادۂ معنوی کیا۔ البتہ علامہ کے اپنے بھائی کے نام خط سے معلوم ہوتا کہ آپ حضرت شیخ کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیا عجب اگر علامہ نے خودی و خود شناسی کا نظریہ بھی اسی درویش کشمیر اور مرشد روشن ضمیر سے لیا ہو۔ کیونکہ علامہ کا خودی سے متعلق سارا کلام شیخ نور الدین ولی کے اس شعر کی تفسیر و تشریح معلوم ہوتا ہے۔ شیخ نورالدین ولی فرماتے ہیں: سیدہ وندہ رہتھ صاحب گورم ادہ پرزہ نو وم پنن روہ میں نے علائق کی سب الجھنیں چھوڑ کر خدا کی تلاش کی پھر اپنی حقیقت پہچان لی۔ ملا محمد طاہر غنی: حضرت ملا سرینگر کے باشندہ اور علوم متداولہ میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ فارسی غزل کا غنی جیسا بڑا شاعر کشمیر نے آج تک پیدا نہیں کیا۔ فلسفہ میں انھوں نے ملا محسن فانی(متوفی ۱۰۸۲ھ) کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا۔ غنی کی تاریخ پیدائش تخمیناً ۱۰۱۹ھ۔۱۰۱۵ھ کے درمیان مقرر کی جا سکتی ہے۔ ۱۰۸۲ھ میں فوت ہوئے۔ ان کا فارسی کلام برصغیر پاک و ہند کے علاوہ افغانستان، ایران، ترکی اور سویت یونین میں بھی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ اقبال غنی کے ہمیشہ مداح رہے۔ وہ ان کی شخصیت، کردار، اور فن سے زبردست متاثر تھے۔ آپ نے جا بجا اپنے کلام میں اشعار غنی کو استعمال کیا ہے۔ اور غنی کشمیری کے عنوان سے ایک مستقل نظم میں ان کو خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے۔جاویدنامہ میں علامہ نے غنی کی زبان سے اہل کشمیر کو انقلاب کا پیغام بھی دیا ہے۔ گرامی کے نام اپنے خط میں علامہ مزار غنی کشمیری پر حاضری دینے کا اشتیاق بھی بیان کرتے ہیں۔ مجھے کسی کتاب سے تو شہادت نہیں ملی لیکن یقین ہے کہ ۱۹۲۱ء کے سفرکشمیر کے موقع پر علامہ نے اپنے محبوب و پسندیدہ کشمیری شاعر غنی کے مزارپر حاضری دی ہوگی۔ میاں محمد بخش: آپ مشہور صوفی اورپنجابی کے قادر الکلام شاعر تھے۔ میاں صاحب کا تعلق گوجروں کی گوت پسوال سے تھا۔ وہ میرپور آزادکشمیر کے نزدیک کھڑی شرف میں ۱۸۲۶ء میں پیداہوئے۔ ان کے والد میاں شمس الدین پیرا شاہ غازی (معروف دمڑی والا) کے خلیفۂ مجاز تھے۔ والد کی وفات کے بعد میاں محمد بخش سجادہ نشیں ہوئے۔ میاں صاحب چھوٹی بڑی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ لیکن ان کی صوفیانہ مثنوی سیف الملوک کو پوٹھو ہاری زبان کی مثنوی معنوی سمجھنا چاہیے۔ یہ مثنوی پنجاب، سرحد، کشمیر میں بے حد مقبول ہے۔ آپ ۱۹۰۷ء میں فوت ہوئے اور کھڑی شریف میں دفن ہوئے۔ یہاں ان کا عرس ہوتا ہے۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔ علامہ کی کسی تحریر سے شہادت نہیں مل سکی کہ ان کو حضرت میاں صاحب سے عقیدت تھی۔ البتہ صاحب زادہ میاں محمد سکندر کی تصنیف عارف کھڑی میں دو واقعے درج ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت میاں محمد بخش نے علامہ کے بڑا آدمی بننے کی بشارت دی تھی۔ اور یہ کہ علامہ سیف الملوک کو سن کر اکثر اشکبار ہو جایا کرتے تھے اورمیاں صاحب کے ولی کامل اور شاعر عظیم ہونے کا اقرار فرمایا کرتے تھے۔ میاں محمد بخش نے علامہ کو دیکھ کر کیا کہا تھا۔ اس کی تفصیل ہمعارف کھڑی سے نقل کرتے ہیں: ایک مرتبہ آپ شہر لاہور میں قیام پذیر تھے کہ حضرت علامہ اقبال کے والد، جو اولیاء اللہ خاص طورپر حضرت میاں صاحب کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے تھے اقبال کو جو اس وقت بچے تھے، لے کر دعا و برکت کے لیے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حصرت میاں صاحب نے اقبال کے سر پر نہایت شفقت و پیار سے ہاتھ پھیرا اور ان کے والد کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: یہ بچہ امت محمدی کا ایک نہایت درد منددل ہوگا۔ اورمسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوگا۔ یہ انتہائی ذہین اورقابل ہوگا اور شعر و سخن کے افق پر آفتاب بن کر چمکے گا۔ اس لیے لازم ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ اقبال کے والد محترم نے حضرت میاں صاحب سے عرض کی: یا حضرت یہ بہت ضدی ہے۔ اس پر حضرت میاں نے فرمایا: بڑے لوگ عموماًضدی ہوا کرتے ہیں۔ آپ لوگ جس چیز کو ضد کہتے ہیں دراصل یہ دوسروں سے اپنی بات منوانے کا جوہر ہوتا ہے۔ یہ ملکہ انھیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے اور آپ لوگ اسے ضد کا نام دیتے ہیں۔ بچے کی اس بات پر آپ فکرمند نہ ہوں۔ یہ بچہ ایک دن بڑا آدمی بنے گا اور تمام خاندان بلکہ ملت اسلامیہ کی عزت و وقار کا باعث ہوگا۔ آپ اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں۔ اورحضرت اقبال کو کچھ شیرینی دے کر رخصت کیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ پیشگوئی کس طرح حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ دوسرا واقعہ یہ ہے۔ میاں محمد سکندر صاحب لکھتے ہیں: تحصیل گوجر خاں علاقہ پوٹھوہار کے (ایک) صاحب جو اب کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں۔ایام جوانی میں بڑے خوش الحان نعت خواں تھے اور اب بھی حضرت میاں صاحب کا کلام نہایت شوق و درد سے پڑھا کرتے ہیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ایک دفعہ لاہورمیں جب کہ وہ وہاںملازمت کے سلسلے میں قیام پذیر تھے ایک جلسے میں نعت خوانی کے لیے بلائے گئے۔ جب وہ سٹیج پر آئے تو دیکھا کہ اقبال بھی وہاں تشریف فرما ہیں۔ ایک اردو نعت پڑھنے کے بعد میں نے حضرت میاں صاحب کی تصنیف سیف الملوک کا کلام پڑھنا شروع کیا....... وہ کہتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب کا کلام پڑھنے کے دوران میں نے دیکھا کہ تمام جلسے پر وجد طاری تھا۔ جب میں نے حضرت اقبال کی طرف نظر کی تو دیکھتاہوں کہ وہ نہایت غور سے حضرت میاں صاحب کا کلام سن رہے ہیں اوران پر رقت طاری تھی۔ جب میں نے سیف الملوک پڑھنا ختم کیا تو حضرت اقبال نے مجھے پاس بلا کر فرمائش کی کہ تھوڑا اورسیف الملوک سناؤ۔افسوس مصنف سیف الملوک اب اس دنیا میں موجود نہیں ورنہ میں ان کے ہاتھ چومتا۔ جب میں نے حضرت علامہ اقبال پر حضرت میاں صاحب کے کلام کا یہ اثر دیکھا تو ہمت کرکے آپ سے عرض کی۔ جناب اگر پسند کریں تو کچھ اور شعر سیف الملوک کے سناؤں۔ اس پر حضرت علامہ اقبال نے فرمایا کہ ضرورضرور سناؤ۔ اس کے بعد جب میں نے اہل جلسہ کی طرف نگاہ کی تو میں نے محسوس کیا کہ اہل جلسہ کے دلوں میں بھی حضرت میاں صاحب کے کلام سے ایک عجیب تڑپ پیداہوگئی ہے اور ان کی تشنگی ابھی باقی ہے۔ پھر میں نے حضرت میاں صاحب کے مزید اشعار پڑھے۔ اشعار پڑھنے کے بعد میں نے حضرت اقبال کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں پرنم تھیں اور پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے فرما رہے تھے کہ حضرت میاں صاحب کے کلام میں انتہا کا سوز ہے۔ علامہ اورمیاں صاحب دونوں مولانا رومی کو اپنا مرشد معنوی مانتے ہیں۔ دونوں نے ہمت وشجاعت کا پیغام دیا ہے اورسعی و کوشش کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اگرکلام اقبال اورسیف الملوک کا تقابلی مطالعہ کی جائے تو بعض اشعار کا مفہوم میاں صاحب کے بعض اشعار کے مفہوم سے ملتا جلتا ہے۔ چونکہ دونوں صاحب دل بزرگ تھے اس لیے اگران کی پرواز تخیل میں یکسانیت پائی جاتی ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ بطورمثال یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے : بال چراغ عشق دا میرا روشن کر دے سیناں دل دے دیوے دی روشنائی جاوے وچ زمیناں [میاں محمد بخش] عشق کا چراغ جلا کر میرا سینہ روشن کر دے۔ میرے دل کے چراغ کی روشنی دور دور تک پھیلے۔ خدایا آرزو میری یہی ہے میرا نور بصیرت عام کر دے [اقبال] دل وچ کرے دلیل شہزادہ کی کم کر سن تارے آپ تخت تو ڈھیندے جاندے ہو غریب پیجارے [میاں محمد بخش] شہزادہ دل میں سوچ رہا تھا کہ تارے مجھے کیا نفع پہنچا سکتے ہیں۔ وہ تو خود ہی مجبور اور بے بس ہو کر ٹوٹتے اور گرتے ہیں۔ ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فرانی افلاک میں ہے خوار و زبوں [اقبال] مولانا محمد انور شاہ کشمیری: لولاب کشمیر کا مشہور خطہ ہے۔ علامہ نے وادی لولاب کو مخاطب کرکے ایک نظم کہی ہے۔ مولانا انور شاہ اسی وادی کے گاؤںودوان میں ۱۸۷۵ء میں پیداہوئے۔ ابتدائی اسلامی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے احادیث کی کتابیں پڑھیں۔ آپ نابغۂ روزگار تھے اور قابل رشک ذہانت کے مالک تھے۔ آپ دیوبند میں دس سال تک صدر المدرسین رہے۔ عربی میں کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں اور متعدد کتب پر حواشی تحریر کیے ہیں۔ مغلوں کے بعد کشمیر نے اتنا بڑا عالم و مصنف پیدانہیں کیا۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۳ء میں ہوا۔ علامہ اقبال کو مولانا انورشاہ سے بڑی ارادت تھی۔ آپ نے دو بار مولانا سے ملاقات کی تھی اور خط و کتابت کے ذریعے بھی آپ فلسفہ کے مشکل مسائل سے متعلق استفسار کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی روایت ہے کہ جب ۱۹۲۱ء میں جمعیت علمائے ہند کا جلسہ لاہورمیں منعقد ہوا تو حسن اتفاق سے اس جلسے میں راقم کی معرفت اقبال کا تعارف حضرت انور شاہ سے ہوا۔ ۱۹۲۵ء میں انجمن خدام الدین (لاہور) کا جلسہ ہوا تو مولانا نے بھی اسی میں شمولیت فرمائی۔ علامہ نے اس موقع پر آپ کے دوستوں کو کھانے پر مدعو کیا تھا۔ علامہ کا اصل رقعہ یہ ہے: مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا: السلام علیکم و رحمۃ اللہ مجھے ماسٹر عبداللہ سے ابھی معلوم ہوا ہے کہ آپ انجمن خدام الدین کے جلسے میں تشریف لائے ہیں اورایک دو روز قیام فرمائیں گے۔ میں اسے اپنی سعادت تصور کروں گا اگر آپ کل شام اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں ....... مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرف قبولیت بخشیں گے۔ آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لیے سواری یہاں سے بھیچ دی جائے گی۔ معلوم نہیں مولانا علامہ کے ہاں کھانا کھانے تشریف لے گئے یا نہیں تاہم اس رقعہ سے ایک تو علامہ کی کیفیت کا بخوبی اظہار ہوجاتا ہے اور دوسرے کہ دونوں عظیم فرزندان کشمیر کے پہلے سے ہی تعلقات استوار ہو چکے تھے۔ علامہ نے مولانا سے مشکلات فلسفہ خاص کرکے زمان و مکان اور حدوث و قدم کے مباحث میں خاطر خواہ استفادہ کیا تھا۔ نفحۃ العنبر کے مولف مولانا محمد یوسف بنوری کا کہنا ہے کہ علامہ نے ۱۳۴۸ھ (۱۹۲۹ئ) میں لاہورمیں ملاقات کی اورمشکلات قرآن اوردقائق فلسفہ پر سوال کرکے اطمینان بخش جواب سنے تھے۔ مولانا محمد قادری لائل پوری لکھتے ہیں کہ مولانا محمد انور شاہ نے ان سے فرمایا کہ کسی مولوی نے مجھ سے اقبال سے بڑھ کر استفادہ نہیں کیا۔ ـئ…ئ…ء پروفیسر بشیر احمد نحوی کی اقبال شناسی نظریہ تصوف کے تناظر میں گلزار احمد ڈار اردو ادب میںجس ہستی پر سب سے زیادہ تحقیقی و تنقیدی کام ہوا ہے اور ہنوز شد و مد سے جاری ہے وہ اقبال ہیں۔ برصغیر ہند وپاک میں اس ہستی سے متعلق جو تحقیقی و تنقیدی مواد جمع ہوا ہے وہ شاید ہی کسی اور کے حوالے سے ملے۔ برصغیر میں جتنے بھی اقبالیاتی ادارے اور ان سے منسلک اہل علم ہیںوہ اس کام میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں۔ ان میں ریاست جموں و کشمیر بھی ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ کشمیر میں اقبال چیئر کی بنیاد ۱۹۷۵ ء میں رکھی گئی جسے بعد میں ایک باضابطہ ادارے کی شکل دی گئی۔ ابتدا میں اسے پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر کبیر احمد جائسی، پروفیسر شکیل الرحمان اور پروفیسر محمد امین اندرابی جیسے اکابر کی سرپرستی نصیب ہوئی۔ بعد میں اس ادارے کو پروفیسر بشیر احمد نحوی جیسے عاشق اقبال کی سرپرستی ملی۔ پروفیسر بشیر احمد نحوی ایک ایسے محقق اور نقاد ہیں جن کی ساری زندگی اسی دشت کی سیاحی میں گزری۔ انہوں نے جو کچھ لکھا اس کا اہم حصہ ان کی تحقیقی وتنقیدی تصانیف پر مشتمل ہے ، جو اقبالیات کے حوالے سے ہیں۔ان کی تصانیف اور تالیفات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے: تصانیف:نظریہ تصوف اور اقبال ، اقبال عرفان کی آواز، اقبال ایک تجزیہ ، وحدت الوجود اور اقبال، اقبال افکار واحوال ، محسوسات، احساس وادراک۔ تالیفات: اقبالیات مجلہ شمارہ ۱۲تا ۲۰، دانائے سبل ختم الرسلؐ، نفحات اقبال، اقبال بحر خیال، حکیم مشرق، اقبال کی تجلیات، بیاد شوریدہ کاشمیری، اقبال گزشتہ دس سال، بیاد خواجہ امین بچھ، تاریخ الانبیاء ، فکر آزاد، ارمغان نحوی، Iqbal's Religious Philosophical Ideas, Iqbal's Multiformity, Iqbal's Ideas of Self۔ بشیر احمد نحوی کی تصنیف نظریہ تصوف اور اقبال ان کا پی۔ ایچ۔ ڈی مقالہ ہے جو وہ پروفیسر آل احمد سرور اورر ضیاء الحسن فاروقی کی مشترکہ نگرانی میں ضبط تحریر میں لائے۔ ڈاکٹر پیر نصیر احمد اس مقالے کے حوالے سے لکھتے ہیں: گیارہ ابواب پر مشتمل اس پر مغز مقالے میں تصوف سے متعلق مختلف نظریات بالخصوص وجودوشہود کے نظریہ پر ایک تسلی بخش بحث کی گئی ہے۔ تصوف کے حوالے سے اقبال کے وقتاً فوقتاً کئے گئے شدید ردعمل کا بھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔۱؎ اس مقالے کا پہلا ایڈیشن مسائل تصوف اور اقبال کے عنوان سے مئی ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا۔ جب کہ اسی مقالے کو میزان پبلی شرز بٹہ مالو سرینگر کشمیر نے نظریہ تصوف اور اقبال کے زیر عنوان دوبارہ شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے حرف آغاز میں پروفیسر بشیر احمد نحوی یوں رقمطراز ہیں: نظریہ تصوف اور اقبال کی اشاعت پراس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ اقبال کی ہمہ پہلو شخصیت اور اس شخصیت سے وابستہ افکار وتصورات میں نظریہ تصوف اپنی انفرادیت کا حامل موضوع ہے۔ متعدد اصحاب علم وقلم نے اس موضوع پر اپنے اپنے منفردانداز میں وضاحت کی ہے لیکن موضوع اس قدر سنجیدہ اور ہمہ گیر ہے کہ اس پر مزید غور فکر کرنے کے امکانات موجوود ہیں ۔ اقبال خالص اسلامی تصوف کے حامی تھے اور تصوف میں تمام غیر اسلامی عناصر کو زائل کرنے میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں۔ راقم نے اس کتاب میں ان تمام امور کو زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں اقبال کا ردعمل کیا رہا ہے اس پر اظہار رائے کیا گیا ہے۔۲؎ اس کتاب کی طبع اول میں شامل بشیر احمد نحوی کا لکھا ہوا پیش لفظ ہے ۔اس میں بشیر احمد نحوی اس موضوع کی اہمیت اور پیچیدگی پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تصوف کے کثیر الابعاد موضوع پر مشرق و مغرب کے علماء اور صوفیاء نے مدلل اور مفصل کتابیں سپرد قلم کی ہیں۔ مذکورہ موضوع دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے پیچیدہ بھی ہے۔ اس موضوع کو اقبال کے فکری اور شعری سفر میں اہم سنگ راہ کی حیثیت حامل ہے۔ چنانچہ اقبال نے اپنے نظم ونثر میں تصوف کے بطن سے جنم لینے والے بیشتر مسائل و امور اور اطراف وجہات کی بالتفصیل وضاحت کی ہے ۔ میں نے اس کتاب میں تصوف سے متعلق ان مختلف نظریات بالخصوص وجود وشہود کے نظریے سے تفصیلی بحث کی ہے اور اس سلسلے میں علماء و صوفیاء کی گراں بار آرا کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ چنانچہ جزئیات میں الجھنے سے بچ کر اقبال کے اس شدید رد عمل کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جو انہوں نے تصوف کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ظاہر کیا ہے۔ اقبال کے دل و دماغ میں صوفیا کی کس شاخ یا سلسلے کا احترام موجزن تھا اور اس کے کیا اسباب و محرکات تھے اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تصوف میں کئی امور متنازعہ رہے ہیں جن پر علماء کے درمیان بڑی تلخ نوائی ہوتی رہی ہے۔ میں نے ان امور میں صرف وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے تعلق سے حضرت ابن عربی اور حضرت مجدد الفِ ثانی کے خیالات کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔۳؎ واضح رہے کہ یہ پیش لفظ اس کتاب کے طبع اول میں شامل ہے،جب کہ طبع دوم اس سے خالی ہے۔ اس کتا ب میں بشیر احمد نحوی نے سب سے پہلے تصوف کی تعریف میں مختلف علماء و فضلاء کی آراء سے مدد لی ہے اور اس کے تاریخی پس منظرکا جائزہ پیش کرتے ہوئے صوفیاء کرام کے مختلف گروہوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ان گروہوں کے حوالے سے پروفیسر بشیر احمد نحوی لکھتے ہیں: خلافت راشدہ اور سانحہ کربلا کے بعد جو دوسرے واقعات ظہور پذیر ہوئے، ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے امت میں ایسے علماء اور صوفیاء کا ایک گروہ پیدا کیا … صوفیائے کرام کا دوسرا گروہ اس وقت سامنے آیا، جب یونان کے عقلیت پسند فلسفے نے شریعت اسلامیہ کی بنیادوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی … صوفیائے کرام کا تیسرا گروہ دسویں صدی عیسوی سے متعلق ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان فقہی مسائل ومعاملات کی پیچیدگیوں میں الجھ کر اپنی منزل اور اصل کو بھول چکے تھے۔ ۴؎ پروفیسر بشیر احمد نحوی نے اس کتاب میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح تحریک تصوف نے، کن کن حالات اور کن کن منزلوں سے گزر کر نشوونما پائی۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ تحریک کس طرح اپنی اصلیت کو مسخ کر کے نقطہ انحراف میں پڑ جاتی ہے۔ اپنے بیان کے تائید میں بشیر احمد نحوی لکھتے ہیں: تصوف تصفیہ اخلاق، تزکیہ باطن کی صفات پیدا کرنے اور انہیں پروان چڑھانے کے لئے وجود میں آیا تھا،رفتہ رفتہ اپنی اصلیت اور حقانیت سے ہٹ کر نقطہ انحراف کی طرف بڑھنے لگا۔تصوف کے ساتھ ایسے لوگ بھی وابستہ ہوگئے جو علم و عمل اور تقویٰ و طہارت سے عاری تھے اور انہوں نے ایسی اصطلاحات گھڑ لیں جو براہ راست قرآن مجید اور سنت نبویؐ کے ساتھ متصادم تھیں اسلام نے عبادات کے جو قاعدے مقرر کرلئے ہیں ان لوگوں نے ان قاعدوں کا ہی تمسخر اڑانا شروع کیا اور اس طرح شریعت کے فرائض و احکام سے لاتعلقی کا ماحول پیدا ہونے لگا۔۵؎ بشیر احمد نحوی نے اپنی کتاب میں فارسی کتاب کشف المحجوب اور صوفیاء کے مختلف فرقوں کے بارے میں سیر حاصل تفصیل دی ہے۔ دراصل یہ کتاب کشف المحجوب پانچویں صدی کے ایک بزرگ سید ابوالحسن علی ہجویریؒ کی تصنیف ہے۔ بشیر احمد نحوی اپنی کتاب میں سلاسل تصوف کا تعارف کراتے ہیں۔تصوف وطریقت نے جب ایک فکری نظام اپنایا اور متعدد صوفیاء ومشائخ نے اپنی مخلصانہ کوششوںکے ذریعے اس نظام کی بنیادوں کو استواری عطا کی، تو آہستہ آہستہ تصوف کے کئی سلسلے وجود میں آنے لگے اور ہر سلسلہ اپنے مخصوص طریقہ عمل ونصاب میں شریعت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوئے لوگوں کی مذہبی واخلاقی رہنمائی کا فریضہ حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتا رہا۔بشیر احمد نحوی لکھتے ہیں: سلاسل جو معرض وجود میں آگئے ان میں پانچ سلسلوں کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی۔ وہ پانچ سلسلے حسب ذیل ہیں: سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ قادریہ ، سلسلہ چشتیہ ، سلسلہ سہروردیہ اور سلسلہ کبرویہ۔۶؎ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے پروفیسر بشیر احمد نحوی تصوف سے متعلق غلط فہمیوں اور شبہات کے سلسلے میں اکابرین کی آراء اور مباحث اور اس سے جڑی غلط فہمیوں کے ضمن میں ایک سیر حاصل جائزہ پیش کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں،کہ اسلامی نظریہ توحید کے مطابق بھی حق تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور کائنات کی ہر چیز ذات میں شامل ہے اور اسلامی نظریہ وحدت الوجود کی رو سے بھی ذات حق ہر جگہ موجود ہے اور کوئی چیز اس سے علیحدہ نہیں ہے ۔ اس لئے نظریہ وحدت الوجود اور اسلامی نظریہ توحید کے مابین کوئی نزاع یا اختلاف نہیں ہے ۔ اسلامی نظریہ توحید (Monothesim) کے خلاف جو نظریہ وحدت الوجود ہے وہ غلط قسم کا عیسائی اور ہندوانہ نظریہ وحدت الوجود ہے جس میں جزو کو بھی کل کا درجہ دے دیا گیا ہے اور قطرہ کو بھی سمندر بنا دیا گیا ہے حالانکہ قطرہ اگر چہ سمندر کا ایک ادنیٰ حصہ ہے، سمندر ہرگز نہیں کہلایا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ کتاب اپنے اصل موضوع کو بیان کرتی ہے یعنی ’’اقبال اور نظریہ وحدت الوجود‘‘۔ اس کے ذیل میں پروفیسر موصوف تصوف کے روایتی نمونے پیش کرتے ہوئے اقبال کے اجتہادی نظریہ تصوف تک پہنچتے ہیں۔چنانچہ اقبال نے جو وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا ہے اس سے اکثر علماء نے اختلاف ہی ظاہر کیا ہے۔اس حوالے سے پروفیسر نحوی لکھتے ہیں: الغرض علامہ کے یہاں کہیں وحدت الوجود کا انتہائی نظریہ نہیں ملتا۔ان کے کلام میں اگر کہیں کہیں وحدت الوجود ی رنگ نظر آتا ہے تو اس میں ایک اعتدال ہے اور یہ توحید خالص یا وحدت شہودی کے منافی نہیں،بلکہ موافق ہے۔ ۷؎ پروفیسر قدوس جاوید اس حوالے سے لکھتے ہیں: تصوف سے متعلق اقبال کے اجتہادی تصورات سے علماء نے اگر اتفاق سے زیادہ اختلاف کیا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقبال شاعر اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق خصوصاً برصغیر کی بیداری اور تعمیر نو کے شاعر بھی ہیں اور تصوف سمیت جتنے بھی مذہبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی نکات پر اقبال نے خیال آرائی کی ہے اپنی اس ہمہ جہت حیثیت سے کی ہے ایک منفرد اور اجتہادی انداز کے ساتھ ۔البتہ یہ منفرد رویہ اور اجتہادی انداز اس غیر معمولی تاریخی، عمرانی ، ثقافتی اور فنی شعور سے عبارت ہے جو اقبال کے یہاں اسلامی ہندستان اور یورپی نظریات ، حیات اور اقدار وروایات علم وفن کے بصیرت مندانہ تجزیہ وتحلیل کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔۸؎ علامہ اقبال نے تصوف کے روایتی تصورات کے خلاف جو شدید ردعمل ظاہر کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ غیر اسلامی اور توحید خالص کے منافی تھا۔ حالانکہ اقبال ابتدا میںوجودی تھے لیکن قرآنِ مجید پر تدبر کرنے سے ان کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ بعض اکابر صوفیاء کے عقائد و مسائل قطعاًغیر اسلامی ہیں جیسیمسئلہ وحدت الوجود۔ یہ اسلامی مزاج یا قرآنی نقطہ نگاہ سے توحید کے منافی ہے۔ یہی خرابی وجودی یا روایتی تصوف کے دیگر عقائد و مسائل میں بھی ہے۔پروفیسر بشیر احمد نحوی اس ضمن میں لکھتے ہیں: اقبال موحد ہے اور توحید میں کسی قسم کے اشتراک کو گوارہ نہیں کرتا۔ مسلمانوں میں جو بعد میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بحثیں چھڑ گئیں اقبال کے نزدیک یہ بحثیں دینی بحثیں نہیں بلکہ فلسفیانہ مسائل و مباحث ہیں۔ اسلام میں توحید کے مقابلے میں فقط شرک ہے۔ وحدت وکثرت کی بحث اسلامی بحث نہیں اور نہ ہی اشاعرہ اور معتزلہ کے یہ کلامی مباحث اصل اسلام سے کچھ تعلق رکھتے ہیں۔وحدت ذات کے اندر کثرت صفات الٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات۔اس کے نزدیک خدا ایک نفس کلی یا ایک انا ہے، انائے کامل و مطلق خدا ہے۔ اس کی عینی اور اساسی صفت خلاقی ہے ۔کل یوم ھو فی شان کے معنی اقبال کے نزدیک یہی ہیں کہ اس کی خلاقی مسلسل اور لامتناہی ہے۔ کن فیکون کی صدا ہر لمحے میں آرہی ہے۔۹؎ پروفیسر بشیر احمد نحوی نے اپنی تصنیف نظریہ تصوف اور اقبال میں مستند اور معتبر حوالوں سے اقبال کے اس شدید ردعمل کو ظاہر کیا ہے جس کا کھلا اظہار انہوں نے ’شمع اور شاعر‘ میں اور بعدمیں اسرار خودی میں واضح طور پر کیا ہے ۔چنانچہاسرار خودی عجمی تصوف کے خلاف اعلان بغاوت تھی اور احیاء شریعت اسلامیہ کے لئے ایک نیک کوشش۔چنانچہ اقبال اس ضمن میں خود لکھتے ہیں: ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین سے آشنائی نہیں۔ ان کے لٹریری آئیڈل بھی ایرانی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں جس کی اشاعت رسول اللہؐ کے منہ سے ہوئی۔۱۰؎ اقبال فطری طور پر ملت اسلامیہ اور مشرق کے جد وجہداور عمل پر ہی متوجہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وحدت الوجود کی مخالفت اور وحدت الشہود کی حمایت کی۔ کیونکہ ان کے نزدیک وحدت الوجودی نظریے میں رہبانیت اور بے عملی تھی۔ پروفیسر بشیر احمد نحوی لکھتے ہیں: رہبانیت دنیا کی ہر مستعد قوم میں اس کے عملی زوال کے وقت پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مٹانا ناممکن ہے کہ بعض رہبانیت پسند طبائع ہر وقت موجود رہتی ہیں ۔جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ صرف اسی قدر ہے کہ اپنے دین کی حفاظت کریں اور اس کو رہبانیت کے زہریلے اثر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔۱۱؎ پروفیسر بشیر احمد نحوی نے مسائل وجودی و شہودی کے سلسلے میں بیشتر حوالے ابن عربی اور مجدد الف ثانی سے لئے ہیں اور انہی عمائدین کے تقابل میں فکر اقبال کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اقبال نے خود بھی وجودی و شہودی مسائل پر خصوصی توجہ دی ہیں۔ اقبال کے یہاں ان عمائدین کے اثرات نمایاں ہیں۔ اقبال ابتدا میں جہاں مولانا رومی سے متاثر تھے وہیں مجدد الف ثانی کے خیالات اور اقبال کے خیالات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ بہرحال پروفیسر بشیر حمد نحوی نے اس کتاب میں اپنی محنت شاقہ اور تحقیقی وتنقیدی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظریہ تصوف اور اقبال کے حوالے سے مستند اور معتبر حوالوں سے اس کتاب کو مزین کیا ہے۔ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے یہاں میںسید رسول پونپر کا یہ اقتباس بھی درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس کتاب کی اہمیت و افادیت پر دلالت کرتا ہے: بشیر احمد نحوی نے مثالی دقتِ نظری اور عرق ریزی سے تصوف کے مسائل کو ممکنہ اور مختلف مآخذ کو کھنگال کر اجاگر کیا ہے۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود یا ہمہ اوست اور ہمہ از اوست کو تاریخی شواہد کی روشنی میں اس طرح بحث کا موضوع بنایا گیا کہ شکوک و شبہات کے بادل از خود چھٹ جاتے ہیں اور طمانیت و تیقن کا سورج ظلمات کے اندھیروں پر ضوفگن ہوتا ہے۔ بشیر احمد نحوی نے شائستگی، باسلیقہ، ہنرمندی اور سرفراز نیاز مندی سے قرآن و حدیث کی روشنی میں تصوف کے موضوع سے مربوط بنیادی اصطلاحات کے چہرے سے نقاب الٹ کر اصل حقائق سے شائقین محترم کا رشتہ باندھا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے جس کے لئے وہ لائق صد تحسین وآفرین ہیں۔۱۲؎ ـئ…ئ…ء حوالہ جات و حواشی ۱۔ ڈاکٹر پیر نصیر احمد، کشمیر میں اقبال شناسی کا سفر، ص ۴۷۔ ۲۔ بشیر احمد نحوی، نظریہ تصوف اور اقبال، حرف آغاز طبع دوم، ۲۰۱۱ئ۔ ۳۔ ایضاً۔ ۴۔ ایضاً، ص ۱۰-۱۴۔ ۵۔ ایضاً، ص ۳۳۔ ۶۔ ایضاً، ص ۳۴۔ ۷۔ ایضاً، ص ۶۹۔ ۸۔ بشیر احمد نحوی، اقبالیات گزشتہ دس سال، ص ۶۹۔ ۹۔ بشیر احمد نحوی، نظریہ تصوف اور اقبال، ص ۱۶۱۔ ۱۰۔ بحوالہ ایضاً، ص ۱۶۱۔ ۱۱- ایضاً، ۱۲۰۔ ۱۲۔ سید رسول پونپر، پیش آہنگ، ص ۱۲۸-۱۲۹۔ ـئ…ئ…ء رسالة الخلود أو جاويد نامه إحدى إبداعات إقبال د/ فیض اللہ إنّ منظومة $جاويد نامه# من أروع أعمال إقبال بالفارسيّة، يمزج فيها التّصوّف بالفلسفة والتّاريخ. وفيها يقوم جلال الدين الرّومي بدور المرشد والدّليل، ويقود إقبالا ممثلا في $زنده رود: النّهر الحيّ)، ويعرج به في عدّة سماوات، ثم يشرف بالقرب الإلهي ويصبح على صلة بالأنوار الإلهيّة. وفي خلال زياراته إلى فلك القمر، ووادي الطّواسين وسماوات الأفلاك: عطارد والزّهرة والمريخ والمشتري وزحل، وتلك الأماكن فيما وراء الأفلاك، يلتقي بعدد من الشّخصيّات المرموقة من الفلاسفة والصّوفيّة والشّعراء والملوك والسّاسة القدامى والمعاصرين، ويتحدّث إليهم في العديد من المشاكل المعقّدة التي يواجهها العالم. ويتّخذ من ذلك سبيلا لتقديم التّوجيهات والإرشادات التي تحلّ هذه المشاكل أو تعين على حلّها. وفي نهاية المثنوي يخاطب ابنه جاويد رمزًا للشّباب عامّة، ويقدّم من النّصح إلى $الجيل الجديد# ما يناسب تطلّعاته وحاجاته ودوافعه. التّعريف برسالة الخلود يُعتبر هذا الدّيوان التّحفة الأدبيّة لمحمّد إقبال، وهو عبارة عن شعرِ $مثنوي# للفلسفة الدّينيّة، ويحتوي على نحو ألفي مقطع شعريّ مزدوج، طبع عام 1932م، وأنّه يبرز قُوى الشّاعر الفكريّة وذراها الرّفيعة، وفيه تورية إلى جاويد ابن الشّاعر، ويشتمل هذا الدّيوان على ثمانية أقسام، وفيها يحكي الشّاعر قصّة سفر في الأفلاك كقصّة دانتي الشّاعر الإيطالي، تبدأ القصّة بمقدمة فيها مناجاة وفصول أخرى، إلى أن تظهر روح جلال الدّين الرّوميّ، فيشرح أسرار المعراج، وهو دليل الشّاعر في هذه الرّحلة، ثم يأتي $زورابه# وهو روح الزّمان والمكان، فيحمل الشّاعر ودليله جلال الدّين الرّوميّ إلى العالم العلويّ. وقد نظم إقبال هذه المنظومة الشّعريّة الرّائعة في ألف وتسعمائة وتسعة وخمسين بيتًا من الشّعر، وتعدّ من أروع أعماله، بل وتعدّ كوميديا إلهيّة شرقيّة، حيث استطاع إقبال من خلالها أن يعبّر عن آرائه المختلفة المتعلّقة بالمجتمع الإسلاميّ الذي يعيش فيه. وهذه المنظومة عبارة عن عمل متكامل مستقلّ يتناول قصّة معراج روحيّ عبر الأفلاك يتناول من خلاله الشّاعر ماهيّة حقيقة الخلود للنّفس البشريّة بإبداع رائع أكسبها الخلود مثل اسمها. وقد حظيت هذه المنظومة منذ أن نُشرت بالفارسيّة عام 1932م بمكانة عاليّة على مستوى الشّرق والغرب. وقد تُرجم هذا المثنوي من الفارسيّة إلى الإيطاليّة اليساندرو باوزاني (Alessandro Bausani) تحت عنوان Poema Celeste أي $الشّعر الخالد# ونشر في روما في 1952م، وفي باري في 1965م. حيث ضمّت الطّبعة الثّانية فضلا عن $جاويد نامه# منتخبات وفيرة من منظومات $بيام مشرق#، $ضرب كليم#، $أرمغان حجاز#، $بانك درا#، و$زبور عجم#. وترجمته انا مارية شيمل (Annemarie Schimmel) إلى الألمانيّة والتّركيّة، ونُشرت التّرجمة الألمانيّة في مينشين (Miinchen) بعنوان Das Buch der Ewigket في 1957م. ونُشرت التّرجمة التّركية في آنقرة في 1958م، بعنوان Cavid Name وبالاشتراك مع الدّكتور محمّد مقيم ترجمته الدّكتورة ايفامايروفيتش تحت عنوان Eternite, Le Livre de I. ونُشر في باريس، عام 1962م. وإلى الإنجليزية ترجمه نظمًا الشّيخ محمود أحمد، ونُشر بعنوان Pilgrimage of Eternityبلاهور في 1961م ثم في 1964م، كما ترجمه آرثر آربري بعنوان JavidNama، ونشر في لندن في 1966م. ولم تقتصر التّرجمات على اللّغات الأوروبيّة، فقد ترجم هذا المثنويّ إلى السّنديّة لطف الله بدوي، ونُشر في كراتشي، عام 1959م. وترجمه إلى الأردو نظمًا إنعام الله خان ناصر وأصغر حسين خان نظير، ونُشر في لاهور 1966م. وترجمه مرّة أخرى إلى الأردو نظمًا أيضًا، رفيق خاور، لاهور، 1976م. وإلى البشتو ترجمه أمير حمزة شنواري، ونشر مع مقدمة بقلم مولانا عبد القادر، كراتشي، 1967م. وترجمه إلى البنجابيّة لأوّل مرّة الدّكتور مهر عبد الحق، ملتان، 1973م، ثم ترجمه مرّة أخرى بروفيسر شريف كنجاهي، لاهور، 1977م. وقد ترجم الكتاب إلى العربيّة الزّميل الدّكتور محمّد السّعيد جمال الدّين ضمن رسالته التي نال بها درجة الدّكتوراه من قسم اللّغات الشّرقيّة في كلّيّة الآداب في جامعة عين شمس، في سبتمبر 1972م، ونشر الترجمة في كتاب بعنوان $رسالة الخلود أو جاويد نامه# في القاهرة في 1974م. كذلك ترجمه إلى العربيّة شعرًا الأستاذ الدّكتور حسين مجيب المصريّ بعنوان $في السّماء#، ونشر في القاهرة، 1973م. وقد اهتمّ بشير أحمد دار بالقسم الأخير من $جاويد نامه# المعنون $خطاب به جاويد# فترجمه إلى الإنجليزيّة، وطبعه في كراتشي في 1971م مع حواشي المترجم بعنوان :Address to Javid (A word to the new generation). فحوى رسالة الخلود أمّا بالنّسبة لملخّص الرّسالة أو فحواها فيقول الدّكتور حسين مجيب المصريّ في هذا الصّدد: $وهو الجاعل من جلال الدّين الرّوميّ عظيم الصّوفيّة شيخًا له مرشدًا، وتأثّره به ونقله عنه ممّا يتّضح في كثير من المواضع. ويحمل كتاب $في السّماء# من وجوه الشّبه بينه وبين كلّ ما أسلفنا التّعريف به في صدر الكلام، ما ينهض دليلا على أنّ إقبالا ظاهر التّأثّر بمن سبقوه إلى هذا اللّون من التّأليف، مشابههم في جزئيّات وكلّيّات، وإن خالفهم في كثير من الأصول والفروع وواضح السّمات. فإذا صعد إلى القمر صادف من يعبر برموز عدّة أديان ولكن عن مضامين أفكار إقبال. وفي عطارد يلتقي بجمال الدّين الأفغانيّ المصلح الإسلاميّ الكبير، والصّدر الأعظم سعيد حليم باشا صاحب الرّأي السّديد، ليجري على لسانها كلامًا هو التّعبير عن مبادئه السّياسيّة التي ترسو على أساس ممّا جاء في القرآن. ويجمعه كوكب الزّهرة بآلهة الأقدمين، ثم يفضي به الكلام إلى ذكر بحرين سخرهما الله لإهلاك عاهلين من الظّالمين الباغين هما فرعون ولورد كتشنر ، وقد قرن الماضي بالحاضر، وتحدّث عن ثورة المهديّ في السّودان ليبديه واعظًا حكيمًا داعيًا إلى الوحدة الإسلاميّة سدًّا يدفع عن المسلمين جور المستعمرين. وفي المريخ مساواة وحرّيّة، وساكنوه لا يتكالبون على التّملّك، وهم قوم دائبون في عملهم، مداومون في اجتهادهم، وفي قدرتهم ومكنتهم أن يغيّروا ما شاءوا من مصيرهم. أمّا الفتاة الأوروبيّة المذكورة في هذا الفصل من الكتاب، فقد أراد الشّاعر بها أن يرمز إلى حضارة الغرب الغارقة في المادية الخاوية من الرّوحانيّة. وهو مذكرنا بأبي العلاء المعرّيّ في رسالة الغفران حين يلتقي في المشتري بأرواح بعض الشّعراء من مختلف الأجناس، وكلّ منهم يشرح سرّ الوجود والألوهيّة والنّبوّة بكيفيّته الخاصّة. وفي زحل حيث يموج بحر الدّماء حديث يدور على بعض الخونة الذين قدموا الهند إلى المستعمرين البريطانيّين. أمّا ما وراء الأفلاك ففيه يبدو نيتشه الفيلسوف الألماني الذي خلب لبّه الجمال الإلهيّ، بيد أنّه لم يتجاوز بمعرفته الإنسان إلى الله، وما الإنسان إلا عبد لربّه. ثم تسمت روح إقبال نحو الجنّة، وقد سمى روحه باسم نهر زنده رود. وفي الجنّة تشاهد الشّعراء والملوك وقد تباينوا في جنسهم ودينهم.# وأمّا بالنّسبة ذيل هذا الكتاب والذي هو موسوم باسم $إلى جاويد# فيقول الدّكتور حسين مجيب المصريّ: $وللكتاب ذيل بعنوان $إلى جاويد# وجاويد اسم ابنه الذي نُسب إليه كتابه فسمّاه $جاويد نامه# بمعنى كتاب جاويد في الفارسية... وقد أراد إقبال أن يعظ ابنه ويسدي إليه النّصح على أنّه من أبناء الجيل الجديد، لا على أنّه ابنه ليس إلا. ورغب إليه أوّل ما رغب أن يستوصي خيرًا بأمّه، وهذا صدى في نفسه لقوله تعالى: ﴿﴾، وذكره للأمّ أخصّ ممّا لو كان للأدب، لأنّ الأمّ تقوم على تربية الجسم وتسوية النّفس في وقت معًا. ثم يوصيه بتقوى الله قائلا: $إنّ لا إله إلا الله في يده سيف حسام#. وقد أراد الرّمز بذلك إلى أنّ الدّين الحنيف يحثّ على الجهاد والعمل، وينهى عن الخمول والكسل. وبادر إلى القول بضرورة أن تكون التّقوى من الرّوح في صميمها، ثم حتم أن يكون الجهاد والحجّ من مفروض الواجبات على المؤمن، وإلا فالصّلاة والصّيام جسد فارقته روحه. والتفت إلى آسيا وهي أرض الشّمس المشرقة، فأحزنه أن تنظر إلى غيرها وتحتجب عن ذاتها. وشاعرنا وهو من هو في إكرامه للذّات واهتمامه بها، لا يكتفي بمثل تلك الإيماءة إليها، بل يجب لولده أن يدور حول ذاته كالفرجار، لأنّه يعدّ منكر ذاته من الكافرين، وإن كان الكافر ينكر وجود الله عند أئمّة الدّين. وهو يربأ به أن يكون طائرًا من طيور العطّار الثّلاثين التي طارت إلى العنقاء لتنفى ذاتها فيها، وأراد به أن يجد متعة الحياة محلقًا كالصّقر الذي يبحث عن رزقه في الشّمس والبدر، وزجره عن أن يتلبّد بالعش، وينظر إلى ما في التّراب كالغراب. وليس إقبال بناس شيخه جلال الدّين الرّوميّ في خواتيم الكلام، فتحدّث طويلا عن رقص مريديه رغبة منهم في إثارة نشوتهم الرّوحية به، وهو يتصدّى لتصويب مفهومه ويقول: إنهم توهّموه جسمانيًا، ولو خبروا حقيقته لما عرفوه إلا روحانيًّا. وهذا كلّه من نصائحه لولده بخاصّة والجيل الجديد بعامّة، أوضح من أن يدلّ عليه بوصف.# ويقول يوسف سليم جشتي: $إنّ الجزء الأخير لهذا الكتاب مشتمل على خلاصة كلام ورسالة إقبال. وكتب إقبال هذا الجزء لكي يستيقظ في شبّان الأمّة الإسلاميّة إحساس الطّلب.# لقد عالج إقبال فکرة المعراج في ديوانه $جاويدنامه# الذي يُعدّمن أروع دواوينه بالفارسيّة، مزج فيه التّصوّف بالفلسفة والتأريخ. يبدأه بالمناجاة للرّب، ونجده يشکو إلى اﷲ حرمان الإنسان في هذه الدّنيا من الصّديق المماثل في الفکر والذّهن، ويتمنّى أن يرز ق بمثله.وفي منظومة $التّمهيد السّمائي# تعير السّماء الأرض وتعيبها بأنّها بدون النّور، فتکاد تذوب حياء، فتتوجّه إلى اﷲ خجلة مطرقة رأسها شاکية بثّها وحزنها، فيأتي النّداء من السّماء بأنّک لا تقدرين قيمتک، إنّک تحملين على ظهرک النّور الحقيقيّ أي الإنسان، إنّه رأس مالک بل رأس مال کلّ العالم، ثم في منظومة $نغمةملايک$# أي $أنشودة الملائکة# تکشف الملائکة عن هذا السّرّ بأنّ ذلک اليوم الذي تحسد فيه السّماء الأرض بسب برقي آدم ليس ببعيد، وهذا هو سبب معراج الشّاعر إلى الأفلا ک العليا. إنّا لشّاعر في بحثه عن الخلوة يذهب إلى نهر والشّمس غاربة والنّهار مدبر، فيعجبه جمال الطّبيعة ورقّة الهواء وخرير الماء في هدوء الصّحراء، فيزيد قلقًا على الفراق عن خالقه، فيذرف دموعًا غزارًا، ويبدأ إنشاد القصيدة الغزليّة الشّهيرة للشّاعر جلال الدّين الرّوميّ التي مطلعها: بکشاے لب کہ قندِ فراوانم آرزوست بنماے رخ کہ باغ وگلستانم آرزوست $أيها المحبوب، تحدث إليّ، فإنّ سعادتي إنّما تكمن في حديثك، وأن نظري إلى وجهك يفضل عندي النظر إلى الرياض الجميلة الغناء.# فتظهر روح $الرّومي# من خلف تلّ، وتتحدّث إليه طويلا، وتُلقي الضّوء على الموجود وغير الموجود، والمحمود وغير المحمود، والعقل والعشق، والجسد والرّوح، والزّمان والمکان، وعلى فلسفة المعراج، کما تُلقّبه $زندهرود# فيحنّ قلب الشّاعر إلى سير الأفلاک ويبکي لفر اق ربّه، ولا يستطيع الصّبر. بينما هو في هذه الحال إذ يظهر $زروان# الذي هو روح الزّمان والمکان، وله وجهان: أحدهما مظلم والثّاني مضيء، ويقول له: إن قرأت $لي مع اﷲ# من أعماق روحک تحرّرت منّي، أي من قيود الزّمان والمکان. ثم بغتة يغيب عن الشّاعر هذا العالم المادّيّ، ويتمثّل أمامه عالم جديد يرحّب به فيه الملائکة، فيعرج الشّاعر في صحبة مرشده الرّومي ّإلى العالم العلويّ. وفي القسم الأوّل يزور الشّاعر $القمر# وهنا قدّمه الرّوميّ إلى الحكيم الهنديّ المعروف باسم $جهان دوست# أي $محبّ الدّنيا# يجلس تحت شجرة يأكل ويشرب في تأمّل وتفكّر على طريقة $اليوجا# الهنديّة، وحديثه مع الرّومي واضح، وهو يبيّن للإنسان أنّ الطّريق إلى التّقدّم يمكن خلال المزج بين الثّقافة الشّرقيّة والغربيّة، فالشّرق قد ركّز على الرّوحانيات مهملا المادّيات، بينما الغرب قد ركّز على المادّيات مهملا الرّوحانيات. ويوافق الحكيم الهنديّ على ملاحظات الرّوميّ، لكنّه ينقل إلى الشّاعر أخبارًا مشجعة، وهي أنّ الشّرق النّائم الكسلان هو مع هذا كلّه في طريقة إلى اليقظة من النّوم والانشغال. فيقدّم $جهان دوست# نکاته التّسعة الزّاخرة بالحِکَم، ثم ينظر الشّاعر $الطّواسين الأربعة# أي طس لغوتم وطس لزرتشت، وطس للمسيح، وطس لمحمّد عليهما السّلام، ويلتقي هناک $بزن رقاصة# أي $المرأة الرّاقصة# وأهرمن وطالسطائيّ وأبي جهل، وإن ّفي نياحة أبي جهل الذي کان من أشدّ النّاس حماسة في الدّفاع عن الجاهليّة لعبرة. إنّه لماّ رأى أنّ الجاهليّة تطرد من عاصمتها ومهدها طردًا شنيعًا هاجت في نفسه نخوة الجاهليّة، وحنقت روحه، وشوهد متعلّقًا بأستار الکعبة يستغيث آلهته على محمّدص وينوح قائلا: باز گو اے سنگ اسود باز گوے آنچہ ديدم از محمّد باز گوے اے ہبل، اے بنده را پوزش پذير خانۂ خود را ز بے کيشان بگير گلۂ شاں را بگرگاں کن سبيل تلخ کن خرماے شاں را بر نخيل! صرصرے ده با ہواے بادیہ •    اے منات اے لات ازين منزل مرو گرز منزل مى روى از دل مرو اے ترا اندر دو چشم ماوثاق مہلتے إن کنت أزمعت الفراق $أعد علينا أيها الحجر الأسود، أعد علينا حديث ما لاقيناه على يد محمّد، يا هبل، يا من يقبل الاعتذار من عباده، اسلب بيتک من أيدي هؤلاء الزّنادقة، سق غنمهم إلى الذّئاب واجعل تمرهم مرًّا على نخلهم. أرسل عليهم صرصرًا من ريح القيافي، تجعلهم أعجاز نخل خاوية، يا مناة، ويا لات، لا ترحلا عن منازلنا، وإذا کان لا بدّ من الرّحيل فلا ترحلا عن قبولنا، وما دام لک $يالات# في عيني الوثاق فأمهلي، وإن کنت أزمعت الفراق#. وفي القسم الثّاني ينتقل الشّاعر بعد ذلك إلى $عطارد# حيث يقابل جمال الدّين الأفغانيّ، وسعيد حليم باشا، وهنا يقدّم الرّومي الشّاعر على أنّه $زنده رود# أو $النّهر الحيّ# وهو الاسم الذي يستخدمه الشّاعر من هنا فصاعدًا خلال الكتاب. وفي إجاباته عن أسئلة الأفغانيّ، فإنّ الشّاعر يصف الأخطاء التي ترتكبها أمم الشّرق خاصّة التّرك، والفرس، والعرب، في تغريبهم لأنفسهم، ويقارن سعيد حليم باشا بين الشّرق والغرب، ويبيّن أنّ إنقاذ وخلاص الجنس البشريّ يكمن في المزج والتّأليف بين كلتا الثّقافتين، أو كما يعبّر الشّاعر في تزاوج العقل بالعشق. ويحكي سعيد حليم باشا بعد ذلك للنّهر الحيّ $زنده رود# أنّ دين الله قد أصابه الفساد من جرَّاء تعصب $الملاَّ# فقد اقتصرت وظيفته على خلْق المتاعب. فيدور الحوار بينهم حول الدّين والوطن والاشتراکيّة والملوکيّة، فکلمات الشّيخ الأفغانيّ بهذا الصّدد زاخرة بلآلي الحکمة، وتستحقّ أن تُکتب بماء الذّهب، فممّا قاله: غريباں گم کرده اند افلاک را درشکم جويند جانِ پاک را! رنگ وبو از تن نگيرد جان پاک جز بہ تن کارے ندارد اشتراک دینِ آں پيغمبرِ حق ناشناش بر مساواتِ شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخِ او در دل نہ در آب وگل است! $إنّ الغربيّين فقدوا القيم السّماويّة، وذهبوا يبحثون عن الرّوح في المعدة، إنّ الرّوح ليست قوتها وحياتها من الجسم، ولکن الشّيوعيّة لا صلة لها إلا بالجسم المادّيّ. وديانة هذا الرّسول الذي فاته الحقّ مؤسسة على مساواة البطون. إنّ الأخوة الإنسانيّة لاتقوم على وحدة الأجسام والبطون، إنّما تقوم على محبّة القلوب وألفة النّفوس# وقال: ہر دو را جاں ناصبور وناشکيب ہر دو يزداں ناشناس، آدم فريب! زندگی ايں را خروج آں را خراج درميان ايں دو سنگ آدم زجاج! اين بہ علم ودين وفن آرد شکست آں برد جان رازتن، نان رازدست غرق ديدم ہر دو را در آب وگل ہر دو را تن روشن وتاريک دل! $إنّ الملوکيّة والشّيوعيّة تشترکان في القلق والسآمة، والجهل باﷲ والخداع للإنسانيّة، الحياة عند الشّيوعيّة $خروج# وعند الملوکيّة $خراج#، والإنسان البائس بين هذين الحجرين قارورة زجاج، إنّ الشّيوعيّة تقضي على العلم والدّين والفنّ، والملوکيّة تنـزع الرّوح من الأجسام وتسلب القوت من أيدي الفقراء، لقد رأيتهما غارقتين في المادّة، جسمهما مضيء ناضر، وقلبها مظلم فاجر.# كما أنّه يحكي انتقاد الأمير سعيد باشا للثّورة التي قام بها $أتاتورك# في تركيا ويذكر تفاهتها، كما يذكر أنّ زعيمها وقائدها محروم من كلّ إبداع وابتكار، ومن كلّ إصالة في التّصميم والتّخليط، وأنّه ليس إلا مقلّدًا أعمى لأوربا، إنّه يقول: $إنّ مصطفى كمال تغني بالتّجديد في حياة تركيا، ودعا إلى محو كلّ أثر قديم وتراث مأثور، ولكنّه جهل أنّ الكعبة لا تجدّد ولا تعود إلى الحياة والنّشاط إذا جلبت لها من أوربا أصنام جديدة، إنّ زعيم تركيا لا يملك اليوم أغنية جديدة في قيثارته، إنمّا هي كلّها أغان مردّدة معادة تتغنّى بها أوروبا من زمان، إنّ الجديد عنده هو القديم الأوربيّ الذي أكل عليه الدّهر وشرب، وليس في صدره نفس جديد، وليس في ضميره عالم حديث، فاضطرّ إلى أن يتجاوب مع العالم الموجود المعاصر، إنّه لم يستطع أن يقاوم وهج العالم الحديث فذاب مثل الشّمعة وفقد شخصيّته.# وعلى فلك الزّهرة يمرّ الشّاعر بواد يرى به الآلهة القديمة التي عبدتها أمم الجاهليّة، ونحتت أصنامها وتماثيلها، وبنت عليها هياكل ومعابد، وعكف عليها السّدنة والكهان، كبعل، واللات، ومناة، كلّها وجلة مشفقة من الوحي المحمّديّ – على صاحبه ألف تحية وتسليم– الذي أحدث ثورة كبيرة عليها، ونقّي الدّنيا منها، وخلق عالما جديدًا، قائمًا على نبذ الأصنام، يقوم أساسه على عقيدة التّوحيد، إلا أنّها ترى في هذا العصر الرّاهن الأفرنجيّ أملا لعودة الحياة إليها وبعثا من مرقدها. ثم يطّلع الشّاعر على نهر من أنهار فلك الزّهرة فيجد في قعره أرواح فرعون وكتشنر. ثم تظهر روح المهدي السّوداني محرضّة العرب على العلم مؤدّية إليهم رسالة اليقظة قائلة: $يا روح العرب، استيقظي من نومك العميق، وأوجدي عصورًا جديدة كما فعل السّلف. يا فؤاد، ويا فيصل، ويا ابن سعود، إلى متى الانطواء على النّفس كالدّخان، أحرقوا قلوبكم بالحرقة الإسلاميّة الماضيّة وأحيوا للعالم الأيّام السّالفة، يا تراب بطحاء $أرض مكة# أنجب خالدا $بن الوليد# جديدًا وأسمعنا أنشودة التّوحيد مرّة أخرى. يا أرض العرب، أنبت الله النّخل في صحاريك نباتًا حسنًا، أليس من الممكن ظهور الفاروق $عمر بن الخطاب# من ترابك مرّة آخرى؟# وفي فلک المريخ يزور إقبال الشّاعر الحکيم المريخيّ ويسير معه في بلد مثالي ّيسمّى $مرغدين# ويتناقش معه حول مسألة القدر، فأقواله المزدحمة بالمعاني القيّمة وآراؤه الحصيفة تدل ّعلى سمو تفکيره وعصارة تجاربه، منها: رمز باريکش بحرفے مضمر است تو اگر ديگر شوى، او ديگر است! $إنّ کنهه الدّقيق کامن في قول وجيز وهو أنّک إن تغيّر ما بک، تغيّر الحظّ المکتوب حسب تغيّرک.# وفي ميدان واسع بالمريخ يجد الشّاعر نبية مريخ، تلقي خطابًا تحثّ فيه النّسوة على الثّورة ضدّ الرّجال، وتحرضّهن على نيل الحرّيّة من مخالبهم، وخطابها ممتع ومرير يمثّل ضربة قاسية على الحضارة الغربيّة والمدنيّة الحديثة التي جنت على الإنسانيّة جناية عظيمة، من حيث أنّها جرفت جميع القيّم الرّوحيّة والخلقيّة. وأسهل طريقة للحصول على هذه الغاية- حسب رأيها- هو دسّ الأفکار الغربيّة في مجتمعهم، کما قال إقبال في موضع آخر: وه فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو فکر عرب کو دے کے فرنگی تخيلات اسلام کو حجاز ويمن سے نکال دو $ذلک الفقير المعدم الجائع $أي المسلم الخالص# الذي لا يهاب الموت، يجب أن تسلوا من جسده روح محمّد–ص- وعليکم أن تفسدوا فکر العرب بتغريس الأفکار الغربيّة فيه، وحينئذ تتمکّنون من طرد الإسلام من الحجاز واليمن بکل ّسهولة.# وعلى فلک المشتري ّيلتقي الشّاعر بأرواح الحلاّج وغالب والمبلّغة الإيرانيّة والشّاعرة الشّهيرة قرّة العين طاهرة ممّن فضّلوا المکوث في $گردش جاودان# أي $ الجولان السّرمديّ# على الجنّة ونعيمها، ويناقش معهم فلسفة الحياة والموت، بينما تستمرّ هذه المحادثة يظهر الشّيطان على مسرح الأحداث، ووصف الشّيطان هنا رائع، ويحتاج إلى دراسة مفصّلة. يتمتّع الشّاعر بکلام کلّ واحد منهم ويتلذّذ به، ثم يسأل صاحبنا إقبال الشّاعر $غالب# عن شعره: قمری کف خاکستر وبلبل قفس رنگ اے نالہ نشاں جگر سوختہ چيست $ليست الحمامة إلا قبضة من الرماد، وليس البلبل إلا قفسا من اللون، فهل هناک شيء سوى البکاء والتعويل، يدلّ على حرقة الکبد.# کما يسأله إقبال عن بيت آخر من شعره قاله في مدح النّبيّ –ص: ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمۃ للعالمينیہم بود! $فأينما جرت غوغاء عالم فلا بدّ من أن يوجد معها من يکون رحمة للعالمين.# ولکن المعنى لا يتّضح بشرح الشّاعر فيوضّحه الحلاّج توضيحًا مليئًا بالمعاني والمعارف، ثم يظهر إبليس ويشتکي. وعلى فلک $الزّحل# يعرض على الشّاعر بحر الدّم، وفيه سفينة عليها غادران معروفان أي $جعفر# من بنغال و$صادق# من دکن اللّذان لم تقبلهما الجحيم، ولا يأتيهما الموت، وهما في عذاب شديد. ثم تظهر روح الهند في صورة حوراء وتشتکي. وفي القسم السّابع يصل الشّاعر إلى $ما وراء الأفلاك#، وأوّل من يلتقي، يلتقي الشّاعر بروح نيتشه الفيلسوف الألمانيّ الشّهير الذي لقّبه إقبال بـ $حلاّجعصره# والذي ظلّ طوال حياته يحاول البحث عن الله، لكنّه فشل، لأنّه اعتمد أساسًا على العقل الذي لا يؤدّي إلى شيء. وبعد نيتشه يطير الشّاعر إلى قصر عبد الصّمد حاكم بنجاب، ثم يقابل أخيرًا الشّاعر الشّيخ سيّد علي همداني ، والشّاعر غني من كشمير، ويشير بعد ذلك إلى بيع البريطانيّين. ويقابل الشّاعر كذلك نادر شاه، وأحمد شاه، والشّاعر الهنديّ بهرتري هري ، وبينما هو يستعدّ لمغادرة إقليم ما وراء الأفلاك يسمع الصّوت الإلهيّ المقدّس يوضّح له أنّ السّرّ الحقيقيّ للتّقدّم والتّطوّر يكمن في نموّ، وتطوّر الفرديّات، والمجتمعات، وهنا تنتهي الرّحلة. وفي النّهاية يدخل الشّاعر جنّة الفردوس فيمر ّمن أمام قصر شامخ للسيّدة شرف النّساء ثم يلتقي بالسّيّد علي الهمداني وملا طاهر غني الکشميريّ فيتحاورون حول کشمير وماضيها وحالها ومستقبلها. ثم يلتقي بالشّاعر الهنديّ الشّهير $برتري هري# الذي بشعره يجوش خاطر إقبال وتثور عواطفه، ويشعر بدبيب المعاني والأحاسيس في نفسه، وبحرکة للحماسة الإسلاميّة فيعروقه. ثم يرتفع في صحبة الرّوميّ- مرشده- إلى العلى ويصل إلى مجلس الملوک کنادر شاه وأحمد شاه والسّلطان تيبو فيقدّم السّلطان تيبوآراءه الحصيفة وأفکاره القيّمة حول الحياة والموت. وحور الجنّة يطلبن من الشّاعر إنشاد شعره، ثم تترکه روح الرّوميّ ويصل إقبال إلى جوار الجمال الإلهيّ، فيتکلّم بما شاء اﷲ أن يتکلّم به، ثم يتجلّى ربّه فجأة بجلاله، فيعمّ النّور الأرض والسّماء فلا يستطيع الشّاعر التّکلّم مزيدًا ويخرّ صعقًا، وهنا تنتهي رحلته الخياليّة، فيعود إقبال إلى دنياه، ويقدّم للجيل الجديد الفلسفة التي جاء بها من وراء الأفلاک في صورة خطاب يخاطب به نجله $جاويد#، ويجعله رمزًا للجيل النّاشئ. وفي القسم الثّامن الذي هو الأخير يخاطب فيه الشّاعر الشّباب عن طريق ابنه جاويد فينصحهم بتجنب الرّفقة الشّريرة، وأن ينمّوا شخصياتهم وذاتياتهم عن طريق الجهاد والكفاح المستمرّ. سبب نظم هذه المنظومة وكان الدّافع للشّاعر محمّد إقبال إلى نظم منظومته جاويد نامه هو أنّه طاف بلدان العالم الإسلاميّ، ورآه قد سقط في براثن الاستعمار والشّيوعيّة، وفتنه بريق الغرب، فأصبح أسير المادّة ونسي خالقه، ممّا أدّى إلى فقدان التّآخي والتّضامن بين أفراد المجتمع الإسلاميّ، فسيطر عليه الشّعور بالغربة وسط مجتمعه والأسر في هذا الزّمان، فتاقت نفسه إلى الدّعوة من أجل إنقاذ الإسلام والمسلمين في هذا العالم الصّاخب. لذا قام بنظم منظومته الرّائعة $جاويد نامه# أي $رسالة الخلود# وذلك من خلال قصّة معراج للرّوح الإنسانيّة إلى الله‏ تعالى بعد أن اقتنع بأنّ على المؤمن أن يرضى بالذّات الإلهيّة دون هذا العالم، وأن يتّخذ الرّسول محمّدًا صقدوة، الذي غادر الكون وما وراؤه متّجهًا إلى الله ‏ عزّ وجلّ، وذلك ليتلقّى من الحقّ تعالى، فيعود إلى الأرض وينظم حديثًا إلى شباب الأمّة الإسلاميّة ممّثلا في ابنه جاويد- أي الخالد- حيث أنّ الشّباب هو الذي يعقد عليه الأمل والمستقبل من أجل تصحيح مسار الأمّة الإسلاميّة. وكان ذلك نابعًا من إيمان إقبال العميق بأنّ الرّوح المسلمة وأمّة الإسلام لا بدّ لهما من الخلود رغم كلّ فساد العالم. من هنا كان سبب تسمية الشّاعر إقبال لمنظومته باسم رسالة الخلود. ويقول الدّكتور حسين مجيب المصريّ عمّا تنطوي عليه هذه المنظومة: $ينطوي هذا الكتاب على وصف غيبه في الخيال إلى آفاق عالم آخر لعظيم من أهل الشّعر والفكر. وقد أراد بصنيعه هذا أن يسلك سبيلا قربيًا إلى بعيد من غايته، وهي التّعبير بالتّخييل والتّمثيل عن الشّعور والتّفكير، كما يجري على مألوف شعراء الفرس والتّرك والهند في فرط الولوع بالكلام يتجاذبه المحسوس والمعقول والحقيقة والمجاز، لأنّ كلامًا يتّسم بتلك الصّفة يفسّر الواقع بالخيال ويكشف الأغوار والأسرار، ويهيّىء الفكر لقطع الشّكّ باليقين.# ولم يكن هذا الكتاب أي منظومة $جاويد نامه# بدعًا من الكتب التي تتحدّث عن الرّحلة السّماويّة لأصحابها بل كانت توجد مثله كتب تتحدّث عن نفس الموضوع الذي تحدّث به هذا الكتاب. ويقول الدّكتور حسين مجيب المصريّ في هذا الصّدد: $نقول: إنّ ذلك الكتاب الذي بين يدينا لم يخرجه صاحبه على غير مثال، بل إنّ له أشباهًا عدّة، وكافينا هنا أن نشير إلى بعض منها في الشّرق، على ما بينها من تخالف ومماثلة واتّفاق.# ثم يذكر الدّكتور المصريّ بعض الكتب التي تتحدّث عن نفس الموضوع التي تتحدّث به رسالة الخلود، والتي سبقت هذه الرّسالة، وبسط القول فيها إلى حدّ ما. فذكر منها كتابًا يُسمّى $أرداويراف نامه#، والذي هو مجهول المؤلّف، ورسالة الطّير للغزالي، ومنطق الطّير لفريد الدّين العطّار، ورسالة الغفران لأبي العلا المعرّيّ. وحسب رأي الدّكتور حسين مجيب المصريّ اتّبع إقبال في هذا الكتاب خطوات شعراء التّصوّف، حيث يقول: $وإقبال في كتابه هذا الذي بين يدينا، يتلو تلو شعراء التّصوّف في استخدام ألفاظ خاصّة بهم لها معنيان: قريب غير مقصود وبعيد هو المقصود. كما يستنهج سبيلهم في شدّة تأثّرهم بالقرآن وأخذهم عنه، فإنّ الكثير من مصطلحاتهم مستعار من القرآن، وهم يدركون من باطنه ما لا يتأتّى إدراكه لغيرهم من ظاهره. ويبدو الكتاب عروجًا صوفيًا، والله في نهايته جمال خالد، وعند الصّوفيّة أنّ الإنسان يشاهد الله في جماله المتجلّى.# هل فكرة جاويدنامه مأخوذة من الكوميدية الإلهيّة لدانتي؟ يرى أهل شبه القارّة الهنديّة والباكستانيّة الذين يرغبون في الشّعر الأردويّ والفارسيّ وكلام إقبال خاصّة بأنّ إقبالا استعار تصوّر رسالة الخلود $أو منظومة جاويد نامة# من الكوميديّة الإلهيّة لدانتي. كتب إقبال رسالة إلى $خواجة ايف ايم شجاع# في بداية عام 1931م، عندما كانت رسالة الخلود في مراحل التّكميل، توجد فيها إشارة خفيفة إلى التّشابه بين رسالة الخلود والكوميديّة الإلهيّة. وفي هذه الرّسالة يكتب إقبال مانحًا رسالة الخلود والكوميديّة الإلهيّة درجة التّعادل: $المنظومة الأخيرة $جاويد نامه# التي يكون لها ألفا بيت، لم تنته لحدّ الآن وربّما ينتهي في شهر مارس. هذه المنظومة نوع من الكوميديّة الإلهيّة، وكُتبت على نمط مثنوي مولانا الرّوم. ويكون تمهيدها شائقًا جدًّا، ويكون فيه على الأغلب للهند وإيران بل لجميع العالم الأحاديث الجديدة. ويأتي فيها من الإيرانيّين ذكر منصور الحلاج، قرّة العين ، ناصر خسرو العلويّ . وتكون فيها رسالة جمال الدّين الأفغاني على اسم المملكة الرّوسيّة. وفي هذا الصدد يكتب إقبال معرّفًا برسالة الخلود: $تصنيفي الجديد: رسالة الخلود... في الحقيقة كوميدية إلهيّة لآسياء كما تصنيف الدّانتي كوميدية إلهيّة لأوروبا. ومنهجها هكذا: إنّ الشّاعر يلتقي بأرواح مختلف المشاهير ويتحدّث معها خلال قيامه بسياحة الكواكب المختلفة، ثمّ يذهب إلى الجنّة وفي نهاية المطاف يحضر أمام الله سبحانه تعالى. وفي هذا التّصنيف، تذكر جميع المسائل الجماعيّة، والاقتصاديّة، والسّياسيّة، والدّينيّة، والأخلاقيّة، والإصلاحيّة.# هذه الرّسائل لا تدلّ على أنّ إقبالا أراد بكتابة رسالة الخلود بعد أن رأى الكوميديّة الإلهيّة. وفي الواقع كان في قلب إقبال منذ فترة طويلة أن يكتب عن أسرار وحقائق المعراج النّبويّ. وكان من الممكن أنّ رسالة الخلود لا تتمثّل بمنظومة خياليّة ولكن في تلك الأيام نفسها جاء مقال $تي ايس ايليت#: $مقال عن الدّانتي#(Essay on Dante) إلى منصّة الشّهود، الذي تسبّب لالتفات الأدباء والنّقّاد إلى ما كتبه $كالرج# و$نارتن# عن الدّانتي، ورفعت شهرة الكوميديّة الإلهيّة إلى الأوساط الأدبيّة من جديد. ومن ثم ما كان ممكنًا بأنّ هذه التّحريرات لم تلتفت إقبالا إليها وبخاصّة عندما كان يفكّر في الكتابة عن المعراج النّبويّ. لذا حسب قول $جكن ناته آزاد#: $لو أخذ إقبال فكرة رسالة الخلود من الكوميديّة الإلهيّة لما افتضحت عظمة إقبال الشّعريّة والفكريّة لأنّ رسالة الخلود ليست بنقل عن الكوميديّة الإلهيّة بل عمل عبقريّ حقيقيّ الذي تبيّنت فيه علميّة إقبال ومشاهداته، وخبراته، وأحاسيسه بصورة فنّيّة عجيبة. وبنية المنظومة نفسها دليل على عظمة إقبال.# والدّكتور سيد عبد الله يقول بأنّ رسالة الخلود تصنيف متكامل الأبعاد مثل الكوميديّة الإلهيّة. ويقول شفيع بلوش بعد أن عرض مقارنة مفصّلة بين رسالة الخلود والكوميديّة الإلهيّة: $إنّ رسالة الخلود ليست بنقل عن الكوميديّة الإلهيّة ولا محاولة تقليديّة أو صدى لنوع من التّصانيف مثلها. ولو توجد هناك التّواردات والتّشابهات في هذين الكتابين ولكن أهداف ومقاصدهما مختلفة.# وفي نهاية مقاله يقول محمّد شفيع بلوش: $لو يقرّ النّقّاد الغربيّون للأدب بسعة ما تحتوي عليه الكوميديّة الإلهيّة من الأفكار ويعطونها درجة فنّ في عالم الشّعر، فشأن رسالة الخلود ليست بأقلّ منها في أيّ ناحية من الأدب والفكر والخيال.# الحواشي والهوامش اقبالیاتی ادب پروفیسر عبدالمغنی ، اقبال اور عالمی ادب - اقبال اقبال اور ملٹن، ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہور، جولائی ۲۰۱۳ئ، ص ۳۰ - ۳۲۔ پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر، ’’ اقبال کا تصور ملت اور جدید دنیائے اسلام‘‘، علم و عمل ، اسلام آباد، جولائی - ستمبر، ۲۰۱۳ئ، ص ۱۹ - ۲۰۔ پروفیسر محمد خلیل اللہ، ’’ اقبال اور ملت اسلامیہ ‘‘، علم و عمل، اسلام آباد، جولائی - ستمبر، ۲۰۱۳ئ، ص ۳۹- ۴۲۔ پروفیسر منیر احمد یزدانی، ’’ علامہ اقبال کا نظریہ تعلیم ‘‘ ، سروش، گورنمنٹ کالج میر پور آزاد کشمیر، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۲۹ - ۴۶۔ پروفیسر فتح محمد ملک، ’’ اقبال اور تحریک آزادی کشمیر‘‘ ، سروش، گورنمنٹ کالج میر پور آزاد کشمیر، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۶۵ - ۶۹۔ ڈاکٹر سعدیہ طاہر، ’’ اقبال اور ہمارا مستقبل ‘‘ سروش، گورنمنٹ کالج میر پور آزاد کشمیر، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۷۰ - ۷۲۔ آصف حمید، ’’ کشمیر سے اقبال کا تعلق ‘‘ ، سروش، گورنمنٹ کالج میر پور آزاد کشمیر، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۷۳ - ۸۲۔ محفوظ حسین، ’’ اقبال اور مغربی استعمار ‘‘ ، سروش، گورنمنٹ کالج میر پور آزاد کشمیر، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۲۹ - ۴۶۔ پروفیسر عبد المغنی، ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘، ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہور، اگست ۲۰۱۳ئ، ص۳۰-۳۲۔ پروفیسر عبدالمغنی ، ’’ اقبال اور عالمی ادب‘‘ ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہور، ستمبر ۲۰۱۳ئ، ص۳۰-۳۲۔ عبدالمجید ساجد ، ’’ اقبال کی زندگی کے چند اہم خدو خال ‘‘ ، ماہنامہ تہذیب اور اخلاق، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۳ئ، ص ۷ -۹۔ جسٹس ( ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’ سن ۲۰۱۳ء [۲] ‘‘ ، ماہنامہ الحمراء ، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۳ئ، ص۹-۱۲۔ پروفیسر عبد المغنی ، ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘، ماہنامہ ضیائے آفاق، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۳ئ، ص۳۰-۳۲۔ ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی، اقبال اور بمبئی (تبصرہ)، سہ ماہی اردو بک ریویو، نئی دہلی، اکتوبر - دسمبر ۲۰۱۳ء ، ص ۴۳ - ۴۴۔ ابو عدیل، اقبالیاتی مکاتیب (اول ) بنام رفیع الدین ہاشمی از ڈاکٹر خالد ندیم (تقریط) ، سہ ماہی اردو بک ریویو، نئی دہلی، اکتوبر - دسمبر ۲۰۱۳ء ، ص ۶۱۔ ابو عدیل، اقبال کے سیاسی افکار از ظفر اقبال، (تقریط) ، سہ ماہی اردو بک ریویو، نئی دہلی، اکتوبر - دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۶۳۔ مدثر رشید ، ’’ تعمیر خودی ‘‘ ، سہ ماہی حکمت قرآن، لاہور، اکتوبر - دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۶۹ - ۸۷۔ امن احسن صلاحی، ’’ علامہ اقبال ‘‘، ماہنامہ اشراق، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۴۴ - ۴۷۔ ڈاکٹر صفدر محمود، ’’اقبال کا پاکستان ‘‘، ماہنامہ فیض الاسلام، انجمن فیض الاسلام، راولپنڈی، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۴۴ - ۴۶۔ مولانا سید محمد حسنی ندوی، ’’اقبال کا مرد مومن‘‘، ماہنامہ الحسن، جامعہ اشرفیہ، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۶۵ - ۶۷۔ حافظ ذوہیب طیب، ’’تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا‘‘، (اداریہ)، ماہنامہ جنون، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۷۔ یاسر ذیشان، ’’علامہ اقبال ، حضرت بابا تاج الدین ناگپوری کی خدمت میں‘‘، ماہنامہ قلندر شعور، کراچی، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۱۲۳ - ۱۲۹۔ ڈاکٹر محمد ہارون قادر، ’’اقبال اور نوجوانان ملت اسلامیہ‘‘، ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۹۰ - ۹۲۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’ والد صاحب کی یاد میں ‘‘، ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص۹۳ -۱۰۲۔ دانیال ریحان، ’’ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے‘‘، قومی ڈائجسٹ، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۱۰۴ - ۱۰۶۔ نوید حسن ملک، ’’کلام اقبال کا عہد حاضر میں اطلاق ‘‘، قومی ڈائجسٹ ، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۱۰۷ - ۱۲۲۔ حافظ عاکف سعید، ’’ موجودہ ملکی و ملی مسائل کا حقیقی و پائیدار حل - کلام اقبال کی روشنی میں‘‘، ماہنامہ میثاق، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۵۷ - ۶۴۔ پروفیسر مرزا محمد منور، ’’ علامہ محمد اقبال - ایک تاریخ ساز شخصیت‘‘، ماہنامہ نظریہ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۵ - ۹۔ پروفیسر محمد علی عثمان، ’’ شاعر عظمت انسانی، علامہ محمد اقبال ‘‘، ماہنامہ نظریہ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۱۰ - ۱۳۔ ڈاکٹر صدیقہ ارمان، ’’ قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کا مرد مومن ‘‘، ماہنامہ نظریہ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۴ ۱ - ۲۰۔ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، ’’ علامہ محمد اقبال آفاقی شاعر‘‘، ماہنامہ نظریہ پاکستان، لاہور، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۲۱ - ۲۴۔ پروفیسر فتح محمد ملک، ’’اقبال کی حکمت اور حکمت عملی‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۲ - ۳۔ ڈاکٹر راشد حمید ، ’’اقبال اور اسلامی عقائد و عبادات‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۴- ۵۔ ڈاکٹر شائستہ حمید، ’’اقبال کی اردو نثر‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۶ - ۸۔ سمیرا مبین، ’’ اقبال کا مرد کامل اور آج کا انسان ‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص۹۔ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ، ’’ علامہ محمد اقبال اور شیخ سر عبدالقادر‘‘، ماہنامہ قومی زبان ، کراچی، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۵ - ۲۷۔ محمد شفیق اعوان، ’’ علامہ اقبال اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ ‘‘، ماہنامہ قومی زبان ، کراچی، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۲۸ - ۳۵۔ سید طاہر حسین رضوی، ’’اقبال کی ایک لافانی نظم لا الہ الا اللہ‘‘، ماہنامہ قومی زبان ، کراچی، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۳۶ - ۳۸۔ ڈاکٹر یار محمد گوندل ، ’’اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ‘‘، ماہنامہ قومی زبان ، کراچی، نومبر ۲۰۱۳ء ، ص ۳۹ - ۴۳۔ روحی طیبی ، ’’شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ‘‘، ماہنامہ قومی زبان ، کراچی، نومبر ۲۰۱۳ء ، ص ۴۴ - ۵۳۔ پروفیسر عبدالمغنی، ’’ اقبال اور عالمی ادب‘‘، ماہنامہ ضیائے آفاق ، لاہور ، نومبر ۲۰۱۳ئ، ص ۳۰-۳۲۔ پروفیسر عبدالمغنی ، ’’ اقبال اور عالمی ادب‘‘، ماہنامہ ضیائے آفاق ، لاہور ، دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۳۰-۳۲۔ جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’ اقبال کے گوہر شہوار‘‘ (تبصرہ)، ماہنامہ ادب لطیف، لاہور، دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۳۰۸ - ۳۰۹۔ پروفیسر صاحبزادہ محمد عبدالرسول، ’’خزینہ اقبال ‘‘ (تبصرہ)، ماہنامہ ادب لطیف، لاہور، دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۳۱۰ - ۳۱۱۔ ڈاکٹر طالب حسین سیال، ’’اقبال اور دانش حاضر ‘‘، ماہنامہ حکمت بالغہ ، قرآن اکیڈمی جھنگ، دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۲۹ - ۴۰۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی، ’’غزوہ خیبر اور عصر حاضر کے عملی تقاضے (فکر اقبال کی روشنی میں)‘‘، ماہنامہ مراۃ العارفین، لاہور، دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۲۱ - ۲۸۔ سعید بدر، سید ہجویر علامہ اقبال کی نظر میں ‘‘، ماہنامہ دلیل راہ ، اتفاق اسلامک سنٹر، لاہور، دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۴۴ - ۴۶۔ انور سدید، ’’ اقبال شناس - ڈاکٹر صدیق جاوید مرحوم ‘‘، ماہنامہ الحمراء ، لاہور، دسمبر ۲۰۱۳ئ، ص ۲۳-۲۷۔ ABSTRACTS OF THIS ISSUE Mysticism in the light of Islamic and Indian Civilization and the thought of Allama Muhammad Iqbal Dr. Musthaq Ahmad Ganai The word tasawuf which is used for mysticism and Islamic traditions. Though, is not found in early Muslim literature but it is the synonym of term ehsan. Later on when the followers and the compilers of ehsan chapter were organized in the form of community they adopted the word tasawuf for it. There are many sources and origins which are linked with this word. The features like tawaqul, raza, tafweez, toba, sabar, ebadat, zohad and many others were essential to be achieved as a permanent character traits by the Muslim mystics. Tasawuf remains an important and significant part of society when it struggles to develop the purity of intention and action in life. But when it tries to transform into philosophy, this is the point where Iqbal differs. Iqbal also says that the spiritual need of modern mind can be fulfilled by Muslim mysticism if it is adopted in modern perspective. Love of the Holy Prophet (SAW), Ethics and Allama Muhammad Iqbal Dr. Ali Muhammad Bhatt In this article the writer has described relationship between ethical development and the love of Holy Prophet (SAW). He elaborates this concept in the light of Iqbal's thought and poetry. Narrating that ethics is derived from Greek word Ethos he says that this term consists of moral values, principles and attitudes. Human ethics or morality is a reflection of higher values like truthfulness and other features of human character. It is evident that the personality of a person is imbued in the personality of beloved. Iqbal says that the love of the Holy Prophet (SAW) is a source of inspiration for superior ethical values and development of character for the followers. It is only love of the Holy Prophet (SAW) that can enable us to develop of our personality and to achieve the exalted status of spirituality as well as development of character. Significance of Time and Space in the Thought of Iqbals S. Iqbal Qureshi Philosophy of Khudi is the central theme in the thought of Iqbal. His concept of khudi dominates all those concepts which have been discussed in his poetical and prose works. Iqbal is the first Muslim philosopher who discussed the philosophy of time and space in his poetical works. He had developed a keen interest in understanding and discussing the philosophy of time. His letters show that he has contacted and written to many scholars of his time to discuss various dimensions of concept of time. Iqbal also met Henri Bergson during his visit to Europe and he discussed the problem of time with him. His extra ordinary interest in the concept of time gave new dimensions to his poetical and prose works. Iqbal's Concept of Politics Dr. Pir Naseer Ahmad Iqbal the poet, philosopher and visionary has also contributed as statesman for the Muslims of sub-continent. His political role was aimed at eradication of colonial ties from the life of Muslim community. He negated the contemporary political concepts like nationalism or secularism thos؎e were not in accordance with the ideology of Islam. According to Allama Muhammad Iqbal three fundamental principles of modern Islamic state are: human solidarity, equality and freedom. Iqbal gave the idea of spiritual democracy, which according to him can ensure these ideals. Economic Concepts in the Poetry of Allama Muhammad Iqbal Dr. Ali Muhammad Economic concepts with its various dimensions are found in the poetry of Allama Muhammad Iqbal. Iqbal's first book Ilmul Iqtisad reflects the interest of Iqbal in Economics. In his other prose writings too the issues of property, ownership of land and capitalism are discussed. In Iqbal's poetry also we can find the discussion about these issues. Economic development is of key importance for prosperity. Industry and other social projects are also instrumental for it. In interpreting the economic teachings of Islam, Iqbal is unique in his approach. Iqbal says that the principle of Qul-el-Afv can be helpful to solve the economic problems of this age. Iqbal & Important Personalities of Kashmir Dr. Muhammad Sabir Afaqi The study of important historical personalities has been a subject of Iqbal studies. In this article five personalities of Kashmir are discussed who have a relevance with Allama Muhammad Iqbal: Shah Hamdan, Sheikh Noorudin Wali, Mullah Muhammad Tahir Ghani, Mian Muhammad Bakhsh and Muhammad Anwar Shah Kashmiri. Allama Iqbal has mentioned these personalities in his poetical or prose works except Mian Muhammad Bakhsh. However, Sheikh Noor Muhammad was in contact with Mian Muhammad Bakhsh. On an occasion when he met with Mian Muhammad Bakhsh along with Iqbal, Mian Muhammad Bakhsh predicted the historical role of Iqbal in future. These personalities influenced the poetical & prose works of Iqbal. Prof. Bashir Ahmad Nahvi and Iqbal Studies Gulzar Ahmad Dar Bashir Ahmaed Nahvi is a renowned Iqbal Scholar of Kashmir. He has contributed in Iqbal studies in various dimensions. Iqbal's concept of mysticism has been an area of special interest for him. His books and many of his articles describe this topic in detail. As tasawuf has been debating topic in our history, similarly Iqbal and tasawuf remained a point of debate in Iqbal studies. Dr. Bashir Ahmad Nahvi has well addressed this topic in his writings. He not only described that role of taswauf but also explained the relationship and perspective of tasawuf in Iqbal Studies. This article describes the details of the contribution of Dr. Bashir Ahmad Nahvi in Iqbal Studies. Javidnama- A Creative Contribution of Allama Iqbal Dr. Faizullah Javidnama is the magnum opus of Allama Muhammad Iqbal. This book reflects all aspects of Iqbal's thought including political, social, philosophical and religious dimensions. This article explains the historical significance, introduction of important themes and other artistic and figurative features of Javidnama. Iqbal has visited the various spheres of heaven during his spiritual entourage and met many poets, thinkers, philosopher and mystics. All these meetings have made the wisdom of all these people a part of Javidnamah. The article explains these aspects in contemporary perspective.