اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل مفتی مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) ISSN: 0021-0773 بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، ایجرٹن روڈ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com مندرجات خ متون اقبال میں بعض مشاہیر افاغنہ کا تذکرہ ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی خ حکمت ما را بہ مدرسہ کہ برد؟" تاثیر مکتب شیراز در دانشمندان ھندی محمد سہیل عمر خ کلام اقبال ’’زبور عجم‘‘ کے خوش نویس محمد صدیق الماس رقم ڈاکٹرمحمد اقبال بھٹہ خ آزادی کے بعد اقبال کی شاعرانہ اور فنی قدر و قیمت کے جائزے زبان و بیان ڈاکٹر نور فاطمہ خ روح اقبال میں متنی ترامیم اور اضافے ڈاکٹریاسمین امین خ فیض - رنگ و صوت کی پیکر آفرینی ڈاکٹر طاہر حمید تنولی خ اقبالیاتی ادب حسنین عباس قلمی معاونین ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی مکان نمبر ۲۲۱-۲۲۰/۲۱-۸، کاسی روڈ، کوئٹہ محمد سہیل عمر سابق ناظم اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر اقبال بھٹہ ۱۱۲-اے، بی او آر کالونی، جوہر ٹائون، نزد جوہر شادی ہال، لاہور ڈاکٹر نور فاطمہ اسسٹنٹ پروفیسر، مولانا آزاد انٹرنیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس، لکھنؤ، انڈیا ڈاکٹر یاسمین امین لیکچرر، گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین، قصور ڈاکٹرطاہر حمید تنولی معاون ناظم ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور حسنین عباس معاون، ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور متون اقبال میں بعض مشاہیر افاغنہ کا تذکرہ ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی علامہ چونکہ افغان قوم سے خاصے متاثر تھے چنانچہ ان کے کلام میں جا بجا افغان مشاہیر کے لئے توصیفی و تعریفی نکات ملتے ہیں۔ ذیل میں حروفِ تہجی کے ترتیب سے ان مشاہیرِ افاغنہ کا مختصر سوانحی تذکرہ اور ان سے منسوب پہلے اقبال کا اردو کلام اور بعد میں فارسی کلام درج کیا جاتا ہے۔ احمد شاہ ابدالی ؔ: نام: ا حمد خان مشہور بہ احمد شاہ درانی ابدالی ولدیت: زمان خان سدوزئی تاریخ و مقامِ پیدائش: ۱۱۳۵ھ ق / ۱۷۲۳ء ہرات وفات تاریخ و مقام: ۲۰ رجب المرجب ۱۱۸۶ھ ق بمقام توبہ اچکزی درہ کوڑک ضلع قلعہ عبداللہ تدفین بمقام قندھار۔ دورانیہ حکومت: ۲۵ سال و فاتح پانی پت آثار و تالیفات: (۱): دیوان احمد شاہ ابدالی (پشتو) مطبوعہ قندہار،کابل،پشاور، کوئٹہ۔ (۲): علم گنج ( موضوع تصوف)۔ (۳): احمد شاہ بابا کے فارسی و عربی اشعار۔ ۱؎ کلام اقبال میں تذکرہ احمد شاہ ابدالی:۔ نادر ابدالی سلطان شہید حصہ ابدالی: مرد ابدالی و جودش آیتی داد افغان را اساس ملتی آن شہیدان محبت را امام آبروی ہند و چین وروم و شام نامش از خورشید و مہ تابندہ تر خاکِ قبرش از من و تو زندہ تر عشق رازی بود بر صحرا نہا توندانی جاں چہ مشتاقانہ داد از نگاہِ خواجۂ بد رو حنین فقر و سلطان وارثِ جذبِ حسین۲؎ ابدالیــ رنہادِ ماتب و تاب از دل است خاک رابیداری و خواب از دل است تن زمرگِ دل د گر گوں می شود درمسا ماتش عرق خون می شود از فسادِ دل بدن ہیچ است ہیچ دیدہ بردل و جز بردل مپیچ آسیا یک پیکر آب و گل است ملتِ افغان درا?ن پیکر دل است از فسادِ او فسادِ آسیا درکشاد او کشادِ آسیا تادل آزاد است آزاداست تن ورنہ کا ہی در رہِ باد است تن ہمچو تن پابندِ آئین است دل مردہ از کین زندہ از دین است دل قوتِ دیں از مقامِ وحدت است وحدت از مشہود گردد ملت است۴؎ برمزار حضرت احمد شاہ بابا علیہ الرحمۃ موسس ملتِ افغانیہ ابدالیــ تربتِ آں خسرو روشن ضمیر از ضمیرش ملتی صورت پذیر گنبدِ او را حرم داند سپہر بافروغ از طوفِ او سیمائی مہر مثلِ فاتح آن امیر صف شکن سکہ بئی زد ھم با قلیم سخن ملتی را داد ذوقِ جستجو قدسیاں تسبیح خواں برخاکِ او از دل و دست، کہر ریزی کہ داشت سلطنت ہابر دو بی پروا گذاشت نکتہ سنج و عارف و شمشیرزن روحِ پاکش بامن آمد درسخن گفت می دانم مقام تو کجا ست نغمہ? تو خاکیاں را کیمیا ست خشت و سنگ از فیض تو دا رائے دل روشن از گفتارِ تو سینای دل پیشِ ما ای آشنا ی کوی دوست یک نفس بنشین کہ داری بوی دوست اے خوش آں کو از خودی آئینہ ساخت وندر آن آئینہ عالم را شنا خت پیر کردید این زمین و این سپہر ماہ کور از کور چشمیہائی مہر گرمئی ہنگامۂ ئی می باید ش تا نخستین رنگ و بو باز ا?یدش بندۂ مومن سرافیلی کند بانگِ او ہر کہنہ را برھم زند اے ترا حق داد جانِ ناشکیب تو ز سرِّ ملک و دیں داری نصیب فاش گو باپورِ نادر فاش گوی باطنِ خود را بہ ظاہر فاش گوی۵؎ از تو ای سرمایۂ فتح و ظفر تختِ احمد شاہ را شانی دگر۶؎ مولانا جلال الدین بلخی رومی:۔ نام: جلال الدین محمد، ترکی میں مولانا اور ایران میں مولوی سے مشہور ہیں۔ ۷؎ ولدیت:بہائو الدین سلطان العلماء تاریخ و مقامِ پیدائش: ۶۰۴ھ / ۱۲۰۷ء بمقام بلخ تاریخ و مقام وفات: ۵ جماد ی الآخر ۶۷۲ھ/ ۱۷دسمبر۱۲۷۳ء بمقام قونیہ آثار و تالیفات: (۱): دیوان، فارسی و ترکی اشعار غزلیات و رباعیات۔ (۲): مثنوی معنوی۔ چھ دفاتر پر مشتمل اخلاقی منظوم تصنیف۔ (۳): فیہ مافیہ۔ مولانا کے اقوال کا مجموعہ عنوان ابن العربی کے ایک شعر سے ماخوذ۔ (۴): مواعظ مجالس سبعہ۔ مولانا تک مے اغودو دور دو زلتن احمد رمزی آقیوزق۔ (۵): مکتوبات۔ ۸؎ کلامِ اقبال میں علامہ کے روحانی مرشد رومی کا تذکرہ:۔ جولانگہ سکندررومی تھا ایشیا گردوں سے بھی بلندتر اس کا مقام تھا۹؎ گفت رومی ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند می ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند۱۰؎ نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گلِ ایراں ،وہی تبریز ہے ساقی۱۱؎ اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی ،کبھی پیچ و تاب رازی!۱۲؎ علاجِ آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں!۱۳؎ صحبتِ پیر ؔروم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب ،ایک کلیم سر بکف!۱۴؎ عطار ہو، رومی ہو ،رازی ہو ،غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی!۱۵؎ یا حیرتِ فارابی،ؔ یا تاب وتبِ رومی یا فکرِ حکیمانہ، یا جذبِ کلیمانہ۱۶؎ نے مْہرہ باقی، نے مہرہ بازی جیتا ہے رومی،ؔ ہارا ہے رازی!۱۷؎ ملتِ رومی نڑاد کہنہ پرستی سے پیر لذتِ تجدیدہ سے وہ بھی ہوئی پھر جواں۱۸؎ بالِ جبریل میں نظم پیر و مرید میں مولانا رومی اور اقبال کا طویل مکالمہ ۱۹؎ ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار اک بحرِ پْر اشوب و پر اسرار ہے رومی! تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال!ؔ جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومیؔ اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام؟ کہتے ہیں چراغِ راہِ احرا ر ہے رومیؔ۲۰؎ جبکہ فارسی کلام میں علامہ نے مولانا روم کو پیرِ روم ، پیرِ حق سرشت، پیرِ یزدانی، پیر عجم ، مرشد روم وغیرہ القابات سے یاد فرمایا ہے۔ ۷۶ صفحات پر کلیات اقبال فارسی میں مولانا کا تذکرہ آیا ہے۔ بعض درج ذیل ہیں۔ پیر رومی خاک را اکسیر کرد از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد۲۱؎ ذرہ کشت و آفتاب انبار کرد خرمن از صد رومی و عطار کرد۲۲؎ مرشدِ رومی چہ خوش فرمودہ است آنکہ ہم در قطرہ اش آسودہ است۲۳؎ مرشدِ رومی حکیم پاک زاد سرِّ مرگ و زندگی بر ما کشاد۲۴؎ بوعلی اندر غبارِ نا قہ گم دستِ رومیؔ پردئہ محمل گرفت این فروتر رفت و تاگوہر رسید آں بگر دا بی چوخس منزل گرفت حق اگر سوزی ندارد حکمت است شعر میگردد چو سوز ازدل گرفت۲۵؎ شراری جستہ ئی گیراز درو نم کہ من مانندِ رومی گرم خونم۲۶؎ رازِ معنی مرشدِ رومی کشود فکرِ من بر آستانش در سجود ۲۷؎ روحِ رومیؔ پردہ ہا را بر درید از پسِ کۂ پارہ ئی آمد پدید!۲۸؎ رومی آں عشق و محبت را دلیل تشنہ کاماں را کلامش سلسبیل۲۹؎ پیرو رومی مرشد روشن ضمیر تشنہ کاماں را کلامش سلسبیل۳۰؎ نکتہ ہا از پیرِ روم آموختم خویش را درحرف او وا سوختم۳۱؎ عطا کن شورِ رومے، سوزِ خسرو عطا کن صدق و اخلاصِ سنائے چناں با بندگی درسا ختم من نہ گیرم گرمرابخشے خدائی۳۲؎ چورومے در حرم دادم اذاں من از و آموختم آسرارِ جان من بہ دورِ فتنۂ عصرِ کہن او بہ دورِ فتنۂ عصرِ روان من۳۳؎ سید جمال الدین افغانی :ؔ۔ نام: سید جمال الدین افغانی ولدیت: سید صفدر تاریخ و مقامِ پیدائش: اسعد آباد کنڑ ننگرہارافغانستان ۱۲۵۴ھ ق / ۱۸۳۹ء تاریخ و مقام وفات: استنبول ترکی ۵ شوال ۱۳۱۴ھ ق / ۹مارچ ۱۸۹۷ء حال کابل آثار و تالیفات: (۱): ’’الردعلی الدھریین‘‘۔ محمد عبدہ نے فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ (۲): العروۃ الوثقیٰ۔ پیرس سے آپ کا جریدہ جس کے ۱۸ شمارے شائع ہوئے۔ (۳): تمیۃ البیان فی تاریخ الافغان (۴): ضیاء الخافقین۔ مقالات (۵): ’’مصر ‘‘اور التجارہ جرائد میں ا?پ کے مطبوعہ مقالات (۶): فرانس کے جریدے ’’الدیبا‘‘ میں ا?پ کا مقالہ (۷): مکتوبات وغیرہ ۳۴؎ سید جمال الدین افغانی پان اسلام ازم نظرئیے کا بانی، عالمگیر اسلامی سیاسی وحدت کا علم بردار علامہ اقبال کا سیاسی پیشرو۔ کلامِ اقبال میں سید جمال الدین افغانیؔ کا تذکرہ:۔ جاوید نامہ میں فلک عطارد پر پیر رومی کی رہنمائی میں زیارتِ ارواح جمال الدین افغانی و سعید حلیم پاشا نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ۲۴ صفحات پر مشتمل اس پوری نظم کا حوالہ باعثِ طوالت ہوگا۔ البتہ چیدہ چیدہ اشعار درج ذیل ہیں۔ رفتم و دیدم دومرد اندر قیام مقتدی تاتار و افغانی امام پیر رومی ہر زمان اندر حضور طلعتش برتافت از ذوق و سرور گفت ’’مشرق زین دو کس بہتر نزاد ناخنِ شان عقدہ ہائے ما کشاد سید السادات مولانا جمال زندہ از گفتارِ او سنگ و سفال ترک سالار آں حلیم دردمند فکرِ او مثلِ مقامِ او بلند با چنین مردان دو رکعت طاعت است ورنہ آں کاری کہ مزدش جنت است‘‘۳۵؎ افغانی زندہ رود ! از خاکدان ما بگوی از زمین و آسمان ما بگوی خاکی و چون قدسیاں روشن بصر از مسلمانان بدہ ما را خبر۳۶؎ افغانی (دین و وطن) لْردِ مغرب آں سراپا مکر و فن اہل دین را داد تعلیم وطن او بفکر مرکز و تودر نفاق بگذر از شام و فلسطین و عراق تواگر داری تمیز خوب و زشت دل نہ بندی باکلوخ و سنگ وخشت چیست دیں برخاستن از روی خاک تاز خود آگاہ گردد جان پاک مینگنجد آنکہ گفت اللہ ھْ در حدودِ ایں نظامِ چار سْو پرِکہ از خاک و بر خیزد زخاک حیف اگر درخاک مرد جان پاک گرچہ آدم برومید از آب و گِل رنگ ونم چوں گْل کشید از آب و گِل حیف اگر در آب و گل غلطد مدام حیف اگر برتر نپرد زین مقام گفت تن در شو بخاکِ رہگذر گفت جان پہنا ی عالم رانگر! جاں نگنجد در جہات اے ہوشمند مردِ حْر بیگانہ از ہر قید و بند حْر ز خاکِ تیرہ آید در خروش زانکہ از بازاں نیا ید کارمْوش۳۷؎ حکیم سنائی ؔغزنوی:۔ نام : کنیت و لقب: ابوالمجد مجدود بن آدم سنائی غزنوی ولدیت: آدم سنائی غزنوی تاریخ و مقامِ پیدائش: حدود ۴۶۴ ھ ق/ ۱۰۷۱ء غزنین تاریخ و مقامِ وفات: حدود ۵۴۵ھ ق/ ۱۱۵۰ء غزنین ۳۸؎ آثار و تالیفات: (۱): مثنوی حدیقۃ الحقیقہ باالہی نامہ یا فخری نامہ۔ (۲): دیوان حکیم سنائی۔ مشتمل قصائد، غزلیات ، مقطعات، رباعیات وغیرہ۔ (۳): سیرالعباد الی المعاد۔ (۴): کارنامہ بلخ یا (مطائیہ نامہ)۔ (۵): تحریمۃ القلم۔ (۶): مجموعہ نامہ ہائی او۔ سنائی سے منسوب آثار : (۱): مثنوی بہرام و بھرور یا ارم نامہ۔ (۲): مثنوی طریق التحقیق۔ (۳): عشقنامہ۔ (۴): مثنوی عقل نامہ۔ (۵): مثنوی سنائی آباد۔ ۳۹؎ کلامِ اقبال میں تذکرہ سنائی:ؔ۔ اقبال نومبر ۱۹۳۳ء میں سفرِ غزنی کے دوران زیارت حکیم سنائی سے مستفیض ہوئے۔ بالِ جبریل میں ان کے مشہور قصیدے کے تبتع میں ایک طویل غزل لکھی۔ ۴۰؎ جو سنائی سے عقیدت کا ا?ئینہ دار ہے۔سنائی کے اس قصیدے کا مطلع و مقطع درج ذیل ہے: مکن در جسم و جان منزل کہ ایں دون است و آن ولا قدم زین ھہر دو بیرون نہ نہ اینجا باش و نی ا?نجا بھرجہ از اولیا گورندار زفتی و وفقنی بہجہ از انیسا گویند امنا و صدقنا۴۱؎ اقبال کا مطلع و مقطع درج ذیل ہے: سما سکتا نہیں پنہائے فطر ت میں مرا سودا غلط تھا اے جنون شاید ترا اندازۂ صحرا! سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوے لالا! ۴۲؎ سفر بہ غزنی و زیارتِ مزار حکیم سنائی آہ غزنی آں حریمِ علم وفن مرغزارِ شیر مردان کہن دولتِ محمود را زیبا عروس از حنانبدانِ او دانائی طوس خفتہ در خاکش حکیم غزنوی از نوای او دل مردان قوے آں ’’حکیمِ غیب‘‘ آن صاحب مقام ’’ترک جوش‘‘ رومی از ذکرش تمام من ز’’پیدا‘‘اوز’ پنہاں‘ در سرور ہر دورا سرمایہ از ذوقِ حضور او نقاب از چہرۂ ایمان کشود فکرِمن تقدیرِ مومن وانمود ہر دو را از حکمتِ قرآن سبق اوز حق گوید من از مردانِ حق در فضای مرقدِ او سوختم تا متاع نالہ ئی اندوختم گفتم ای بینندۂ اسرار جان بر توروشن این جہاں و آن جہاں عصرِ ما وا رفتۂ آب و گل است اہلِ حق را مشکل اندر مشکل است مومن از فرنگیان دید آنچہ دید فتنہ ہا اندر حرم آمد پدید تا نگاہِ او ادب از دل نخورد چشمِ او راجلوۂ افرنگ برد اے حکیمِ غیب امام عارفان پختہ از فیضِ تو خامِ عارفان آنچہ اندر پردۂ غیب است گوی بوکہ آبِ رفتہ باز آید بجوی۴۳؎ اس کے بعد ۳۰ ابیات میں حکیم سنائی کا جواب ’’روحِ حکیم سنائی از بہشت بریں جواب می دہد‘‘ زینتِ مثنوی مسافر ہے۔ عطاکن شورِ رومے، سوزِ خسرو عطا کن صدق و اخلاص سنائے چناں بابندگی در ساختم من نہ گیرم گرمرابخشی خدائی۴۴؎ مئے روشن زتاکِ من فرو ریخت خوشامر دی کہ درد امانم آویخت نصیب از آتشی دارم کہ اول سنائی از دلِ رومی بر انگیخت۴۵؎ خوشحال خان خٹک:۔ نام: خوشحال خان خٹک ولدیت: شہباز خان خٹک تاریخ و مقامِ پیدائش: ربیع الثانی ۱۰۲۲ھ ق / مئی جون ۱۶۱۳ء اکوڑہ ضلع نوشہرہ تاریخ و مقامِ وفات: ۲۸ربیع الثانی ۱۱۰۰ھ ق/ فروری ۱۶۸۹ء دْمبرہ تیراہ آثار و تالیفات: (۱): دیوان خوشحال خان خٹک( پشتو و فارسی)۔ (۲): باز نامہ۔ باز سے متعلق ان کی افزائش نسل، شکار، بیماریوں اور علاج سے متعلقہ۔ (۳): ھدایہ۔ مشہور فقہی کتاب کا پشتو ترجمہ۔ (۴): آئینہ۔ فقہی کتاب کا پشتو ترجمہ۔ (۵): فضل نامہ۔ منظوم ، فقہی و دیگر مذہبی امور۔ (۶): سوات نامہ۔ سوات کی منظوم تاریخ۔ (۷): طب نامہ۔ منظوم طبی اصول۔ (۸): فرخنامہ۔ تلوار اور قلم کا مناظرہ۔ (۹): فراقنامہ۔ قید کے زمانے کا منظوم اثر۔ (۱۰): دستار نامہ۔ قبائلی سرداری اور رہبری کے اصولوں سے متعلق نثری اثر، (۱۱): بیاض۔ منثور سوانحی و خاندانی تذکرہ۔ (۱۲): زنٔحیری۔( پشتو شارٹ ہینڈ) ۴۶؎ کلامِ اقبال میں تذکرہ خوشحال خان خٹک:۔ خوشحال خان کی وصیت قبائل ہوں ملت کی وحدت میںگم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیںکمند! مغل سے کسی طرح کمتر نہیں کہستان کا یہ بچۂ ارجمند کہوں تجھ سے اے ہم نشین دل کی بات وہ مدفن ہے خوشحالؔ خان کو پسند اڑکر نہ لائے جہاں بادِ کوہ مغل شہسواروں کی گردِ سمند۴۷؎ خوش سرود آں شاعرِ افغان شناس آنکہ بیند ،باز گوید بے ہراس! آں حکیمِ ملت افغانیان آن طبیب علتِ افغانیان! رازِ قومی دید و بے باکانہ گفت حرفِ حق با شوخیٔ رندانہ گفت! ’’اشترے یا بد اگر افغانِ حْر یا براق و ساز و با انبارِ دْر ہمتِ دونش ازاں انبارِ دْر می شود خوشنود بازنگِ شتر‘‘!۴۸؎ سلطان محمود غزنویؔ:۔ نام : لقب و کنیت: یمین الدولۃ امین الدولۃ ابوالقاسم محمود بن ابو منصور سبکتگین غزنوی ولدیت: ابو منصور سبکتگین غزنوی تاریخ و مقامِ پیدائش: ۱۰محرم الحرام ۳۶۱ھ ق/ ۲ نومبر۹۷۱ء غزنہ تاریخ و مقامِ وفات: ۲۳ ربیع الثانی ۴۲۱ھ ق/ ۳۰اپریل ۱۰۳۰ء غزنہ ۴۹؎ وجہ? شہرت: فاتح سومنات، ہندوستان پر سترہ حملے اور معروف مسلمان فرمانروا۔ کلامِ اقبال میں تذکرہ سلطان محمود غزنوی?:۔ سن اے طلب گارِ دردِ پہلو ! میں ناز ہوں تو نیاز ہوجا میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہوجا۵۰؎ آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوتی قومِ حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے! تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!۵۱؎ درِ حکام بھی ہے تجھ کو مقامِ محمود پالسی بھی تری پیچیدہ تر از زلفِ ایاز۵۲؎ جادو ئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں ساز دلبری۵۳؎ کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی نفس ہندی، مقامِ نغمہ تازی! نگہ آلودۂ اندازِ افرنگ! طبیعت غزنوی قسمت ایازی!۵۴؎ کیا نہیں اور غزنوی کار گۂ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات! (۵۵) فرو فالِ محمود سے درگذر خودی کو نگہ رکھ، ایازی نہ کر۵۶؎ وہ کچھ اور شے ہے، محبت نہیں ہے سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی!۵۷؎ چوں زیاں پیرایہ بنددسود را می کند مذموم ہر محمود را۵۸؎ جملہ عالم ساجد و مسجود عشق سومناتِ عقل را محمود عشق۵۹؎ مملکتِ را دینِ او معبود ساخت فکرِ او مذموم را محمود ساخت۶۰؎ بر ہمنے بہ غزنوی گفت کرامستم نگر تو کہ صنم شکستۂ بندہ شدی ایاز را۶۱؎ بمتاعِ خود چہ نازی کہ بہ شہر درد مندان دلِ غزنوی نیر زد بہ تبسم ایازے۶۲؎ محمودِ غزنوی کہ صنم خانہ ہا شکست زْناری بتانِ صنم خانۂ دل است۶۳؎ یکے کار فرما، یکے کار ساز نیا ید ز محمود کارِ ایاز۶۴؎ ایں خراباتِ فرنگ است و زتاثیر مئیش ا?نچہ مذموم شمارند نماید محمود۶۵؎ من بیسمائے غلامان فرِّ سلطان دیدہ ام شعلۂ محمود از خامِ ایاز آید بروں!۶۶؎ کسے این معنی ٔ نازک نداند جز ایاز اینجا کہ مہر غزنوی افزوں کند دردِ ایازی را۶۷؎ کافری را پختہ تر ساز د شکستِ سومنات گرمیٔ بتخانہ ہنگامۂ محمود نے۶۸؎ چہ گوئیمت کہ چہ بودی چہ کردئی چہ شدی کہ خوں کند جگرم را ایازیٔ محمود۶۹؎ بطرزِ دیگر از مقصود گفتم جوابِ نامۂ محمود گفتم۷۰؎ آہ غزنی آں حریم علم و فن مرغزارِ شیر مردانِ کہن دولتِ محمود را زیبا عروس از حنا بندانِ او دانائے طوس۷۱؎ برمزارِ سلطان محمود علیہ الرحمۃ خیزد از دل نالہ ہا بے اختیار آہ! آں شہرے کہ این جابود پار آں دیار و کاخ و کو ویرانہ ایست آں شکوہ و فال و فر افسانہ ایست گنبد ے! در طوفِ او چرخِ بریں تربتِ سلطان محمود است ایں! آنکہ چوں کودک لب از کوثر بشست گفت در گہوارہ نامِ او نخست! برقِ سوزاں تیغ بے زنہارِ او دشت و در لرزندہ از یلغارِ او زیر گردوں آیت اللہ رائتش قدسیاں قرآن سرا بر تربتش شوخیٔ فکرم مرا از من ربود تانبودم درجہاںِ دیر و زود رخ نمود از سینہ ام آں آفتاب پردگیہا از فروغش بے حجاب مہر گردوں از جلالش در رکوع از شعاعش دوش می گردد طلوع وار ہیدم از جہاںِ چشم و گوش فاش چوں امروز دیدم صبح دوش شہر غزنین ! یک بہشتِ رنگ و بو آبجو ہا نغمہ خواں در کاخ و کو حقہ ہائے ا و قطار اندر قطار آسماں باقبۂ ہایش ہم کنار نکتہ سنجِ طوسؔ را دیدم ببزم لشکرِ محمودؔ را دیدم برزم آں ہمہ مشتاقی و سوز و سرور در سخن چوں رند بے پروا جسور تخمِ اشکے اندراں ویرانہ کاشت گفتگوہا باخدائے خویش داشت تانبودم بے خبر از رازِ او سوختم از گرمیٔ اوازِ او۷۲؎ شیر شاہ سوریؔ:۔ نام و لقب: فرید الدین خان شیرشاہ سوری ولدیت: حسن خان تاریخ و مقامِ پیدائش: بہار سہسرام تاریخ و مقامِ وفات: ۲۲مئی ۱۵۴۵ء کانجر ۷۳؎ وجہ شہرت: سوری افغان خاندان کا بانی ،ہندوستان کا حکمران اور جدید مواصلاتی نظام کا بانی۔ کلامِ اقبال میں تذکرہ شیر شاہ سوریؔ:۔ یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری عزیز ہے انہیں نامِ وزیری و محسود ابھی یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری وہی حرم ہے وہی اعتبارِ لات و منات خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری!۷۴؎ درفنِ تعمیر مردانِ آزاد یک زمان با رفتگان صحبت گزیں صنعتِ آزاد مرداں ہم بہ بیں خیز و کار ایبکؔ و سوریؔ نگر وانما چشمے اگر داری جگر خویش را از خود بروں آوردہ اند ایں چنیں خود را تماشا کردہ اند سنگ ہا با سنگ ہا پیوستہ اند روزگارے را بآ نے بستہ اند دیدنِ او پختہ تر سازد ترا در جہاں دیگر اندازد ترا نقش سوئے نقشگرمی آورد از ضمیرِ او خبر می آورد ہمت مردانہ و طبعِ بلند دردلِ سنگ ایں دو لعل ارجمند سجدہ گاہِ کیست ایں از من مپرس بے خبر! رودادِ جاں از تن مپرس وا ئے من از خویشتن اندر حجاب از فراتِ زندگی ناخوردہ آب وائے من از بیخ وبْن برکندئہ از مقامِ خویش دور افگندئہ محکمی ہا از یقینِ محکم است وائے من شاخِ یقینم بے نم است درمن آں نیروے الا اللہ نیست سجدہ ام شایانِ این درگاہ نیست۷۵؎ ۸۔علی ہجویری حضرت داتا گنج بخشؔ:۔ نام وکنیت: شیخ علی ہجویریؒ ابوالحسن الجلابی الغزنوی ثم الہجویری ولدیت: عثمان ابنِ علی یا بوعلی تاریخ و مقامِ پیدائش: حدود ۴۰۰ھ / ۱۰۱۰ء ہجویر غزنی تاریخ ومقامِ وفات: حدود ۴۵۶ھ یا ۴۶۴ھ لاہور آثار: (۱): کشف المحجوب۔ (۲): دیوان۔ (۳): منہاج الدین۔ (۴): اہلِ صفہ۔ (۵): منصور حلاج۔ (۶): رسالۃ اسرار الخرق والمؤنات۔ (۷): کتاب فناو بقا۔ (۸): کتاب الابیان لاہل العیان۔ ۷۶؎ (۹): بحرالقلوب۔ (۱۰): الرعایۃ الحقو ق اللہ کلام اقبال میں علی ہجویریؒ کا تذکرہ:۔ حکایتِ نوجوانے از مرو کہ پیشِ حضرت سید مخدوم علی ہجویری? ا?مدہ از ستم اعد افر بہ یاد کرد سید ہجویر مخدوم اْمم مرقدِ او پیر سنجر را حرم بند ہائے کوہسار آساں گسیخت در زمینِ ہند تخم سجدہ ریخت عہدِ فاروق از جمالش تازہ شد حق زحرف او بلند آوارہ شد پاسبانِ عزت اْم الکتاب از نگاہش خانۂ باطل خراب خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت صبح ما از مہر او تابندہ گشت عاشقِ و ہم قاصدِ طیار عشق از جنبش آشکار اسرارِ عشق داشتے از کمالش سرکنم گلشنے در غنچۂ مضمر کنم نوجوانے قامتش بالا چو سرو واردِ لاہور شد از شہر مرو رفت پیشِ سید والا جناب تار باید ظلمتش را آفتاب گفت محصورِ صفِ اعداستم درمیانِ سنگہا میناستم بامن آموز اے شہہ گردوں مکان زندگی کردی میانِ دشمنان پیرِ دانائے کہ در ذاتش جمال بستہ پیماںِ محبت با جلال گفت اے نامحرم از راہِ حیات غافل از انجام و ا?غاز حیات فارغ از اندیشۂ اغیار شو قوتِ خوا بندۂ بیدار شو سنگ چوں بر خود گمانِ شیشہ کرد شیشہ گردید و شکتن پیشہ کرد ناتواں خود را اگر رہر و شمرد نقد جانِ خویش با رہزن سپرد تاکجا خود را شماری مائوطین از گلِ خود شعلۂ طور آفریں بہ عزیزاں سرگرداں بودن چر شکوہ سنج دشمناں بودن چرا راست میگویم عدو ہم یار تست ہستی او رونقِ بازار تست ہر کہ دانائے مقاماتِ خودی است فضلِ حق داند اگر دشمن قوی است کشتِ انسان راعدو باشد سحاب ممکناتش رابر انگیزد زخواب سنگ رہ گردد فسانِ تیغ عزم قطعِ منزل امتحانِ تیغِ عزم مثلِ حیواں خوردن آسودن چہ سود گر بخود محکم نہ بودن چہ سود خویش راچوں از خودی محکم کنی تو اگر خواہی جہاں برہم کنی گرفنا خواہی از خود آزاد شو گر بقا خواہی بخود آباد شو چیست مردن از خودی غافل شدن توچہ پنداری فراق جان و تن؟ در خودی کن صورتِ یوسف مقام از اسیری تا شہنشاہی خرام از خودی اندیش و مردِ کار شو مردِ حق شو حاصلِ اسرار شو شرحِ راز از داستانہا می کنم غنچہ از زورِ نفس و امی کنم ’’خو شتر آں باشد کہ سرِّ دلبران گفتہ آید درحدیثِ دیگران‘‘۷۷؎ امام فخرالدین رازیؔ:۔ نام ، کنیت و لقب: محمد ابو عبداللہ ابوالفضل فخرالدین الرازی ولدیت: ابوالقاسم ضیا ء الدین تاریخ و مقامِ پیدائش: ۲۵ رمضان ۵۴۳ ھ یا ۵۴۴ ھ بمقام رے تاریخ و مقامِ وفات: ۶۰۶ھ ق بمقام ہرات ۷۸؎ آثار : (۱): تفسیرِ کبیر (مفاتح الغیب)۔ (۲): اسرار التنزیل و انوار التاویل۔ (۳): تفسیر سورۃ الفاتحہ۔ (۴): تفسیر سورۃ البقرہ۔ (۵): تفسیر سورۃ الاخلاص۔ (۶): لوامع البنات۔ (۷): محصل۔ (۸): معالح۔ (۹): الاربعین فی اصول الدین۔ (۱۰): الحمنین فی اصول الدین۔ (۱۱): نہایۃ العقول۔ (۱۲): کتاب القضائوالقدر۔ (۱۳): اساس التقدیس۔ (۱۴): لطائف الغیاثیہ۔ (۱۵): عصمۃ الانبیائ۔ (۱۶): مطالب العالیہ۔ (۱۷): رسالہ فی النبوت۔ (۱۸): الریاض المؤنقۃ (۱۹): کتاب الملل و النحل۔ (۲۰): عقیل الحق۔ (۲۱): کتاب الزیدہ وغیرہ آثار کی تعداد ۸۰۔ ۷۹؎ کلامِ اقبال میں امام رازیؒ کا تذکرہ:۔ اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومیؔ کبھی پیچ و تابِ رازی!۸۰؎ علاجِ ضعفِ یقین ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق!۸۱؎ عطا رؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالی ؔـہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی!۸۲؎ نے مْہرہ باقی، نے مْہرہ بازی جیتا ہے رومیؔ ہارا ہے رازیؔ!۸۳؎ تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحبِ کشّاف۸۴؎ جمال عشق و مستی نے نوازی جلالِ عشق و مستی بے نیازی کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدر زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی!۸۵؎ ذوقِ جعفر، کاوش رازی نماند ا?بروئے ملتِ تازی نماند۸۶؎ ز رازی معنیٔ قرآن چہ پرسی ضمیر ما بآیاتش دلیل است خرد آتش فروزد، دل بسوزد ہمیں تفسیرِ نمرود خلیل است۸۷؎ بہر نرخے کہ ایں کالا بگیر سود مندافتد بزورِ بازوئے حیدر ؓبدہ ادراک رازیؔ را۸۸؎ دراں عالم کہ جزو از کل فزون است قیاسِ رازیؔ و طوسیؔ جنوں است۸۹؎ تر سم کہ تومے دانی زورق بسراب اندر زادی بہ حجاب اندر میری بہ حجاب اندر چوں سْرمۂ رازیؔ را از دیدہ فروشتم تقدیرِ امم دیدم پنہاں بکتاب اندر۹۰؎ ز رازی حکمتِ قرآن بیا موز چراغے از چراغِ او بر افروز ولے ایں نکتہ را از من فرا گیر کہ نتواں زیستن بے مستی و سوز۹۱؎ خرد بیگانۂ ذوقِ یقین است قمارِ علم و حکمت بد نشین است دو صد بوحامدؔ و رازی نیرزد بنا دانے کہ چشمش را ہ بین است۹۲؎ محمد نورالدین جامیؔ:۔ نام : محمد نورالدین عبدالرحمن جامیؔ ولدیت: نظام الدین احمد دشتی بن شمس الدین محمد تاریخ و مقامِ پیدائش: ۲۳ شعبان ۸۱۷ھ خرجِرد جام (خراسان) تاریخ و مقامِ وفات: ۱۸ محرم الحرام ۸۹۸ھ / ۹ نومبر ۱۴۹۲ء ہرات آثار: ہفت اورنگ جامی، شواہد نوبت اشعۃ اللمعات شرح فصوص الحکم، لوامع، لوائح، مناقب خواجہ عبداللہ انصاری، شرح لا اِلہَ اِ لاّ اللہ ، تحفۃ الاحرار، سجتہ الاحرار، رسالہ کبیر، نفحات الانس، آثار کی تعداد ۴۹ بتائی جاتی ہے۔ ۹۳؎ کلامِ اقبال میں تذکرہ مولانا جامیؔ:۔ نایاب نہیں متاعِ گفتار صد انوری و ہزار جامی۹۴؎ خاکِ یثرب از دو عالم خوشتر است اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است کشتۂ انداز ملا جامیم نظم و نثرِ او علاجِ خامیم شعر لب ریز معانی گفتۂ است در ثنائے خواجہ گوہر خفتہ است ’’نسخۂ کونین را دیباجہ اوست جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست‘‘ ۹۵؎ گہے شعرِ عراقیؔ را بخوانم گہے جامیؔ زند آتش بجانم ندا نم گرچہ آہنگِ عرب را شریکِ نغمہ ہاے ساریا نم(۹۶) مرا از منطق آید بوے خامی دلیلِ او دلیلِ ناتمامی! برویم بستہ درہا راکشاید دوبیت از پیرِ رومیؔ یا ز جامیؔ (۹۷) ـئ…ئ…ء ماخذات وحوالی ۱- شکرستان روہ دکتور عبدالرئوف رفیقي،ادارہ تحقیقات دوکتور رفیقي کاسي رود کوئتہ ،۲۰۱۰ع ص ۱۳ - ۱۷۔ ۲- محمداقبال علامہ، جاوید نامہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، یاز دھم، اگست ۱۹۸۶ء ص ۱۷۲۔ ۳- ایضا، ص ۱۷۶۔ ۴- ایضا، ص ۱۷۷ - ۱۷۸ ۵- محمد اقبال علامہ، مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق مع مسافر، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع نہم، ۱۹۸۵ء ، ص ۷۹ - ۸۰۔ ۶- ایضا، ص ۸۱ ۷- محمد ریاض ڈاکٹر پروفیسر، مکتوبات و خطباتِ رومی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ،۱۹۸۸ء ، ص ۱۔ ۸- دائرہ المعارف اسلامیہ، جلد۷، دانش گاہ ، پنجاب لاہور، ۱۹۷۱ء ، ص ۳۲۴ - ۳۲۷۔ ۹- محمد اقبال علامہ، بانگِ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۹ء ، ص ۲۴۱۔ ۱۰- ایضاً، ص ۲۶۴۔ ۱۱- محمد اقبال علامہ، بالِ جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور،۱۹۹۱ئ، ص ۱۱۔ ۱۲- ایضاً، ص ۱۷۔ ۱۳- ایضا، ص ۲۸۔ ۱۴- ایضا، ص ۳۹۔ ۱۵- ایضا، ص ۵۶۔ ۱۶- ایضا ، ص ۶۷۔ ۱۷- ایضا، ص۷۱۔ ۱۸- ایضا، ص۹۹۔ ۱۹- ایضا، ص۱۳۴ تا ۱۴۲۔ ۲۰- ایضا، ص ۱۴۸ تا ۱۴۹۔ ۲۱- محمد اقبال علامہ، اسرار خودی ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع چہاردھم، ۱۹۹۰ئ، ص ۹۔ ۲۲- ایضاً، ص ۱۱۔ ۲۳- محمد اقبال علامہ، رموزِ بیخودی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع چہاردھم، ۱۹۹۰ئ، ص ۱۳۱ ۲۴- محمد اقبال علامہ، پیامِ مشرق، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، نوزدھم، ۱۹۸۹ئ، ص ۲۰۔ ۲۵- ایضا، ۱۰۶۔ ۲۶- محمد اقبال علامہ، زبورعجم، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، یاز دھم، ۱۹۸۹ئ، ص ۱۷۵۔ ۲۷- ایضا ، ص۱۸۵۔ ۲۸- جاوید نامہ، ص ۱۹۔ ۲۹- ایضا، ص۴۳۔ ۳۰- مثنوی پس چہ باید کرد، اقوامِ شرق، ص ۷ ۳۱- ایضاً، ص۲۹۔ ۳۲- محمد اقبال علامہ، ارمغانِ حجاز، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع پانز دھم، ۱۹۹۱ئ، فارسی، ص ۱۵ ۳۳- ایضا، ص۵۶۔ ۳۴- سعید افغانی دکتور، د شرق نابغہ ،پشتو ،وزارت اطلاعات و کلتور،بہقی کتاب خپرولومؤسسہ،کابل، ۱۳۵۵ھ ش، ص ۲۱۷ تا ۲۲۱۔ ۳۵- جاوید نامہ، ص ۶۰۔ ۳۶- ایضاً، ص ۶۱۔ ۳۷- ایضاً، ص۶۳۔ ۳۸- دائرہ المعارف اسلامیہ، جلد۱۱، دانش گاہ ، پنجاب لاہور، ۱۹۷۲ئ، ص ۳۱۴ - ۳۱۷۔ ۳۹- محمد حسین نہفت، مرتب گزیدہ اشعار سنائی، وزارت اطلاعات و کلتورمؤسسہ نشرات بیہقی، کابل، ۱۳۵۶۱ھ ش ،ص ۳۰ - ۳۱۔ ۴۰- بہاء الدین اورنگ، یادنامۂ اقبال، خانہ فرہنگ ایران، لاہور، ۱۳۵۷ھ ش، ص ۷۵۔ ۴۱- علی اصغر بشیر، مرتب، کلیات اشعار حکیم سنائی غزنوی، وزارت اطلاعات و کلتور، مؤسسہ نشرات بیہقی، کابل، ۱۳۵۶ھ ش ، ص ۲۹۷ - ۲۹۹۔ ۴۲- بالِ جبریل، ص ۲۲ - ۲۶۔ ۴۳- مثنوی مسافر، ص ۶۶ - ۷۶۔ ۴۴- ارمغانِ حجاز فارسی، ص ۱۵۔ ۴۵- ایضا، ص۷۸۔ ۴۶- خوشحال خان - د خوشحال خان خٹک کلیات، جلد اول، د افغانستان د علومو اکادمی، کابل، ۱۳۵۸ھ ش ص ۲۹ تا ۳۵۔ ۴۷- بالِ جبریل ، ص۱۵۴۔ ۴۸- جاوید نامہ، ص ۱۷۷۔ ۴۹- خلیل اللہ خلیلی استاد ، سلطنت غزنویان، مطبع عمومی،کابل، ۱۳۳۳ھ ش، ص ۲۰ و ۱۱۷۔ ۵۰- بانگِ درا، ص ۱۲۹۔ ۵۱- ایضاً، ص۱۶۵۔ ۵۲- ایضاً، ص۱۷۶۔ ۵۳- بانگِ درا، ص۲۶۱۔ ۵۴- بالِ جبریل، ص ۸۲۔ ۵۵- ایضاً، ص۱۱۲۔ ۵۶- ایضاً، ص ۱۲۸۔ ۵۷- ایضاً، ص ۱۴۶۔ ۵۸- اسرارِ خودی، ص ۳۷۔ ۵۹- ایضاً، ص۶۹ ۶۰- رموزِ بیخودی، ص ۱۱۶۔ ۶۱- پیامِ مشرق، ص ۱۴۹۔ ۶۲- ایضاً، ص۱۵۰۔ ۶۳- ایضاً، ص۱۷۲۔ ۶۴- ایضاً، ص۲۰۴۔ ۶۵- ایضاً، ص۲۱۳۔ ۶۶- زبورِ عجم،ص ۷۳۔ ۶۷- ایضاً، ص۱۰۴۔ ۶۸- ایضاً، ص۱۱۰۔ ۶۹- ایضاً، ص۱۱۸۔ ۷۰- ایضاً، ص۱۴۵۔ ۷۱- مثنوی مسافر، ص ۶۶۔ ۷۲- ایضاً، ص۷۱ - ۷۲۔ ۷۳- دائرہ المعارف اسلامیہ، جلد ۱۱، ص ۸۸۰ - ۸۸۱۔ ۷۴- محمد اقبال علامہ، ضربِ کلیم، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور،۱۹۹۲ئ، ص ۱۷۷ ۷۵- زبورِ عجم، ص ۱۹۳ - ۱۹۴۔ ۷۶ دائرہ المعارف اسلامیہ، جلد۹، دانش گاہ ، پنجاب لاہور، ۱۹۷۲ء ،جلد ۹، ص ۹۱ تا ۹۶۔ ۷۷- اسرارِخودی، ص ۵۱ تا ۵۳۔ ۷۸- عبدالسلام ندوی مولانا، حکمائے اسلام، جلد ۲، نیشنل بک فائونڈیشن ، اسلام آباد،۱۹۸۹ئ، جلد دوم ، ص ۲۰۹ - ۲۱۳ ۷۹- عبدالسلام ندوی مولانا، امام رازی، نیشنل بک فائونڈیشن ، اسلام آباد،۱۹۹۳ء ، ص ۲۷ تا ۴۳۔ ۸۰- بالِ جبریل، ص ۱۷۔ ۸۱- ایضاً، ص۳۴۔ ۸۲- ایضاً، ص۵۶۔ ۸۳- ایضاً، ص۷۱۔ ۸۴- ایضاً، ص ۷۸۔ ۸۵- ایضاً، ص ۸۳۔ ۸۶ رموزِ بیخودی، ص ۱۲۵۔ ۸۷- پیامِ مشرق، ص ۴۲۔ ۸۸- زبورِ عجم، ص ۱۰۴۔ ۸۹- ایضاً، ص۱۵۶۔ ۹۰- جاوید نامہ، ص ۴۲۔ ۹۱- ارمغانِ حجازفارسی ، ص ۶۹۔ ۹۲- ایضاً، ص ۱۳۷۔ ۹۳- دائرہ المعارف اسلامیہ، جلد ۷، ص ۵۸ تا ۶۱۔ ۹۴- ضربِ کلیم، ص ۸۸ ۹۵- اسرارِ خودی، ص ۲۱۔ ۹۶- ارمغانِ حجاز فارسی، ص ۲۸۰۔ ۹۷- ارمغانِ حجاز فارسی، ص ۱۳۲۰۔ ـئ…ئ…ء کلام اقبال ’’زبور عجم‘‘ کے خوش نویس محمد صدیق الماس رقم لاہور شہر کا شمار جہاں دیگر علوم و فنون کی سرپرستی کے سلسلے میں ہوتا ہے وہاں خوشنویسی اور فن خطاطی میں بھی اس شہر کی ایک معتبر تاریخ ہے۔ جس کا آغاز بالخصوص سلطان ابراہیم غزنوی (۴۵۱ھ-۴۹۲ھ ؍ ۱۰۵۹ئ-۱۰۹۸ئ)کے زمانہ میں لاہور علمی سرگرمیوں کا گہوارہ بن چکا تھا اور بقول عوفی لاہور اس وقت علم و فضل کا بڑا مرکز تھا۔ ابراہیم کا ایک وزیر ابونصر فارسی جو ادبی دلچسپیوں کی وجہ سے ادیب مشہور تھا۔ اس نے لاہور میں ایک خانقاہ قائم کی جو اہل علم اور دوسرے بزرگوں کی جائے پناہ تھی اور آہستہ آہستہ کاشغر، بلخ، بخارا، عراق، خراسان، ثمرقند، غزنی اور دوسرے ممالک سے اہل علم کھچ کر یہاں آنے لگے۔ ۱؎ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری رہا اور اٹھارہویں، انیسویں صدی عیسوی میں لاہور شہر دیگر علوم و فنون کے علاوہ خطاطی کا مرکز بھی تھا۔ اسی دوران بڑے بڑے شعراء اور ادیب یہاں مقیم تھے۔ صحافتی حوالے سے لاہور درجہ کمال پر فائز تھا اور تمام اخبارات میں کتابت ایک خاص اہتمام سے ہوا کرتی تھی جہاں سرکردہ خطاط فن کتابت سے وابستہ عملہ مہیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں کہ اس شہر میں فن خطاطی کا عروج یہاں سے نکلنے والے روزناموںکی وجہ سے تھا۔ ۲؎اس زمانے کے ادیب اور شعراء زیڈ کی نِب اور سیاہی کا استعمال کرتے تھے اور غالب سے لے کر اقبال تک بہت اچھے شکستہ نویس تھے۔ ۳؎اور اس طرح وہ خطاطی کے اسرار و رموز کو بھی بخوبی سمجھتے تھے۔ اسی طرح علامہ اقبال شکستہ میں باکمال تھے۔ ان کے خط کے بارے میں راقم نے پہلے ہی ایک مضمون لکھا جو اقبال ریویو میں ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا۔ اس میں نہ صرف علامہ اقبال نے پرویں رقم جیسے استاد خطاط کو ایک رباعی لکھتے ہوئے اصلاح کی اور خطاطی کے زاویے کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کی جس کا عکس اسی مضمون میں دیا گیا ہے۔۴؎ خطاطی کے حوالے سے شعراء کا کلام بطور ذریعہ ترسیل خط اور اقبال کی پیدائش کے وقت تعلیم و فنی ماحول نے بھی علامہ اقبال کے کلام کی خطاطی کے لئے ایک اہم کردار ادا کیا۔ علامہ کے کلام کے پہلے کاتب منشی فضل الٰہی مرغوب رقم تھے جو اپنے پریس مرغوب ایجنسی سے علامہ اقبال کی نظمیں کتابت کر کے شائع کرنے کا اہتمام کرتے اور پھر انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں فروخت کرتے۔ ۵؎ جب کہ پوسٹر نویسی کے لئے حاجی دین محمد لاہوری علامہ اقبال کے پوسٹر ڈیزائن کرتے اور ۱۹۲۶ء میں پنجاب لیجسلیٹیو کونسل کے انتخابات کے سلسلے میں علامہ اقبال کی طرف سے نہایت جلی پوسٹر لکھنے پر ’کاتب کن فیکون‘ کا خطاب دیا۔ حاجی دین محمد بھی علامہ اقبال کی مجلسوں میں اکثر حاضر رہتے۔ ۶؎ ان دنوں تاج الدین زریں رقم اور عبدالمجید پرویں رقم لاہور میں خطاطی کے حوالے سے نیا باب رقم کر رہے تھے۔ ان میں سے تاج الدین زریں رقم نے علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق نظم ’شکوہ جواب شکوہ‘ کو خوبصورت انداز میں کتابت کیا جس کی ایک کاپی آج بھی علامہ اقبال میوزیم میں موجود ہے۔ ۷؎ جبکہ علامہ کی زیادہ تر شاعری کی کتابت منشی عبدالمجید پرویں رقم نے کی جو نستعلیق کی لاہوری طرز کے بانی بھی ہیں۔ اس کتابت کے سلسلے میں علامہ اقبال کے تین خطوط جو علامہ اقبال میوزیم میں زیر نمائش ہیں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ جن سے پرویں رقم اور علامہ اقبال کے کتابت کی اُجرت کے سلسلہ میں اختلافات کا اشارہ ملتا ہے۔ ۸؎ ان اختلافات کی وجہ سے علامہ اقبال نے ’زبور عجم‘ کی کتابت محمد صدیق الماس رقم سے کروائی جو ان کی کوٹھی واقع میکلور روڈ لاہور میں ہوئی اور کتابت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کتابت علامہ اقبال کی نگرانی میں ان کے گھر میں ہوئی۔ محمد صدیق الماس رقم جامکے چیمہ میں ۱۳۲۵ھ؍۱۹۰۷ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے بہنوئی مولوی محمد اعظم اچھے خوش نویس تھے جو انہیں حکیم محمد عالم کے پاس گھوڑیا لہ لے گئے جہاں انہوں نے مشق خطاطی کی۔ پھر لاہور آکر روزنامہ ’زمیندار‘ کے ہیڈ کاتب مولوی محبوب عالم کے پاس قیام پذیر ہوئے جہاں انہوں نے حاجی دین محمد اور عبدالحمید پروین رقم کی خطاطی کو دیکھا اور مشق جاری رکھی۔ الماس رقم کا خطاب انہیں ’زمیندار‘ اخبار کا بورڈ لکھنے پر مولانا ظفر علی خان کی تجویز پر ’زمیندار‘ کے نامور ایڈیٹر اظہر امرتسری نے دیا اور یہ خطاب پھر ان کے نام کا ایسا جزو بنا کہ لوگ اس کے بغیر ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ۹؎ الماس رقم کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھا اور ’زبور عجم‘ کی کتابت کے لئے شاید اس تعلق نے بھی یاوری کی ہوگی۔ ۱۰؎ اگرچہ علامہ اقبال کا کلام مختلف اخبارات کی زینت بھی بنا کرتا تھا جسے اس وقت کے معروف خوشنویس منشی عبدالقدوس کتابت کیا کرتے تھے۔ ۱۱؎ الماس رقم نام کے صرف یہی کاتب گزرے ہیں۔ ۱۹۳۴ء میں جب علامہ اقبال اور پرویں رقم میں کتابت کی اُجرت پر اختلافات پیدا ہو گئے۱۲؎ تو الماس رقم نے ’زبور عجم‘ کی کتابت علامہ اقبال مرحوم کی زیر نگرانی میکلورروڈ والی کوٹھی میں بیٹھ کر کی۔ لاہور میں قیام پاکستان سے قبل انہوں نے ۱۹۴۰ء میں فیروزسنز کے مطبوعہ عکسی قرآن پاک کی کتابت کی۔ اس کے علاوہ تاج کمپنی لمٹیڈ کا بورڈ لکھا۔ یہ بورڈ ایک عرصہ دراز تک اڈا کراؤن بس کے قریب آویزاں رہا اور اہل فن سے داد ووصول کرتا رہا۔ قیام پاکستان سے قبل لاہور میں نامور ادیبوں اور شاعروں کے اجتماع کے لئے انہوں نے کرشن چندر، سعادت حسن منٹو کی کتابیں تاجور نجیب آبادی مرحوم کے (ادبی دنیا) اور مولانا ظفر علی خان کے مجموعہ کلام اور علامہ مشرقی کی ایک کتاب ارشادات کی کتابت کی۔ اس دوران انہوں نے جگر مراد آبادی کے کلام ’شعلہ طور‘کے سرورق کو اپنے فن سے جلا بخشی۔ حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کی کتابت کی۔۱۹۴۶ء میں برکت علی اسلامیہ ہال میں ان کی تاجپوشی کی گئی اور انہیں ’خطاط العصر‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ اسی سال آپ خوشنویس یونین کے صدر بھی بنے۔ موصوف حضرت قطب العالم عمر بریلوی کے مرید تھے۔ شاد باغ جاتے ہوئے ان کے عزیزوں کے مکان پر ’فاضل منزل‘ کے جلی حروف ان کے موئے قلم کا نتیجہ ہیں۔ سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگ حضرت طاہر بندگی کے مزار کا کتبہ لکھا تو متولی سے درخواست کی کہ مجھے یہیں دفن کرنا۔ یہ گفتگو ۱۹ مارچ ۱۹۷۲ء کو ہوئی اور ۳۰ مارچ ۱۹۷۲ء کو الماس رقم دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور حضرت طاہر بندگی کے جوار میں دفن ہوئے۔ آپ نے فن خطاطی کی آبیاری خوشنویس یونین کے صدر کی حیثیت سے تو کی مگر فن خطاطی میں اپنے جیسے کئی شاگرد پیدا کئے۔ آپ کا شمار نستعلیق کے چوٹی کے خطاطوں میں کیا جاتا تھا۔ موصوف جامعہ ملیہ دہلی سے بھی وابستہ رہے۔ مختلف جرائد کی الواح اور کتب کے سرورق آپ کے فن کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کی بیٹھک اردو بازار میں موجود تھی جہاں مشتاق احمد بھٹہ، محمود احمد، محمد جمیل تنویر رقم، محمد سدید، خواجہ محمد شفیع، محمد اقبال عباسی اور منیر احمد بھٹی مرحوم نے آپ سے خطاطی میں کسب فیض کیا۔ آپ نے مختلف قبروں کے کتبوں کے علاوہ شیخ طاہر بندگی کے مزار کے کتبے کتابت کئے۔ آپ کا مزار شیخ طاہر بندگی کے مزار کے دروازے سے دس میٹر جانب مغرب سڑک کے کنارے ہے۔ جس کا کتبہ جمیل احمد تنویر رقم نے لکھا۔ الماس رقم نے اخبارات میں خوشنویسی کے لئے عملہ بھی مہیا کیا۔ ۱۳؎ ـئ…ئ…ء حوالہ جات ۱- شیخ محمد اکرام، آب کوثر، ایڈیشن چہارم، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۹۰ئ، ص ۳۹ ۲- ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، خطاطی، ۱۷۰۷ئ-۱۹۷۲ئ، تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند، فارسی ادب سوم، جلد۵، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ۱۹۹۲ئ، ص ۳۴۲ 3- Muhammad Iqba Bhutta, Iqbal - The Connoiseur of Calligraphy, Iqbal Review, October 1998, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, p 77 4- Ibid, p 77 ۵- محمد اقبال بھٹہ، کلام اقبال کے پہلے کاتب منشی فضل الٰہی مرغوب رقم، زبان و ادب، ششماہی، نمبر ۱۷، جنوری ۲۰۱۶ء ۶- محمد اقبال بھٹہ، کاتب کن فیکون حاجی دین محمد خوشنویس، اقبال ریویو، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، اپریل ۲۰۰۲ئ، ص۱۳۹ ۷- علامہ اقبال، شکوہ جواب شکوہ، کتابت از تاج الدین زریں رقم، سلسلہ نوادرات نمبر ، علامہ اقبال میوزیم لاہور ۸- خطوط اقبال بنام پرویں رقم، سلسلہ نوادرات نمبر ، علامہ اقبال میوزیم لاہور ۹- میاں محمد یعقوب ایڈووکیٹ، محمد صدیق الماس رقم، روزنامہ امروز، لاہور، اشاعت خاص، صفحہ آخر ۱۰- ڈاکٹر محمد اقبال بھٹہ، کلام اقبال کے خطاط،نیشنل میموریل میوزیم لائبریری، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ، ص ۶۶ ۱۱- ڈاکٹر محمد اقبال بھٹہ، کلام اقبال کے خطاط،نیشنل میموریل میوزیم لائبریری، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ، ص ۵۵ ۱۲- محمد اقبال بھٹہ، لاہور اور فن خطاطی، علم و عرفان پبلشرز، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص ۲۲۴ ۱۳- محمد اقبال بھٹہ، خطاطی کے فروغ میں لاہور کا حصہ، شعبہ تاریخ، ۱۹۹۸ئ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ص ۵۱۴، ۶۶۱، ۸۰۷ ـئ…ئ…ء کلامِ اقبال میں ہیئت کے تجربات - آہنگ (دورِ حاضر کے تناظر میں) ڈاکٹر نور فاطمہ انگریزی زبان میں ہیئت کے لیے فارم (Form) اور صنف کے لیے فرانسیسی لفظ (Genre) استعمال کیا جاتا ہے، مگر عام معنوں میں ہیئت اور صنف دونوں کے لیے ایک ہی لفظ یعنی (Form) استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ اردو میں ہیئت اور صنف کے الفاظ کو الگ الگ معنی میں استعمال کیا جاتاہے۔ ہیئت، نظم کی ظاہری شکل کو کہا جاتا ہے، جب کہ صنف میں ظاہری اور داخلی دونوںخصوصیات شامل ہوتی ہیں۔ حامدی کاشمیری اپنے مضمون ’’نظم موضوع اور ہیئت‘‘ میں ہیئت کے لفظ کو نسبتاً وسیع معنی میں اس طرح بیان کرتے ہیں: الفاظ کی ایک ایسی ترتیب و تنظیم جو معانی کی خالق ہو، ہیئت کے نام سے یاد کی جاتی ہے، ہیئت نظم کا طبعی عنصر ہے ۔۔۔۔۔ ہیئت کی کامیابی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ شعری تجربے کے ابلاغ و ترسیل کا ایک مؤثر ذریعہ بنے۔۱؎ اس کے علاوہ وارث علوی نے اپنے مضمون ’’شاعری، فلسفیانہ شاعری اور اقبال‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ: اقبال کی اردو نظموں میں ہیئت کا کوئی Organic تصور نہیں۔۲؎ ۱؎ جدید اردو نظم اور یورپی اثرات۔ڈاکٹر حامدی کاشمیری،ص:۳۸۔۳۹، مجلسِ اشاعت ادب، دہلی، مارچ ۱۹۶۸ء ۲؎ مشمولہ اقبال کا فن۔ مرتبہ:گوپی چند نارنگ، ص:۲۵۷، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۱۹۸۹ء وارث علوی کے اس خیال میں دراصل مغرب کی جدید نظم کے لیے عضویاتی کل (Organic Whole) کا جو تصور رائج رہا ، اس کے نقطۂ نظر سے ان کا کہنا ہے کہ اقبال کی نظموں میںہیئتی نمو کی کیفیت کم ملتی ہے۔ اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ نظم جدید کی ہیئت کے بارے میں علامہ اقبال مغربی تصور کی پوری طرح عملی تقلید نہیںکرتے۔ علامہ اقبال نے اردو زبان کو نئے خیالات، نئے جذبات، نئی لفظیات اور نئی تراکیب سے مالا مال کیا۔ کیوںکہ اقبال کو اردو زبان اور موضوعات پر غیرمعمولی دسترس حاصل تھی۔ اس لیے اپنے اظہار کے لیے انھوںنے معیاری زبان کا استعمال بھی کیا اور زبان کو بعض تبدیلیوں سے بھی آشنا کیا۔ ان کی زبان میں جذبہ و تخیل کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ لفظ و معنی کا رشتہ ان کے یہاں اتنا گہرا ہے کہ دونوں کو الگ الگ کرکے دیکھنا ناممکن ہے۔ فنی رموز اور فکری توانائیاں کلامِ اقبال میں بلندیوں کو چھورہے ہیں۔ بقول رشید احمد صدیقی: اقبال کی شاعری اور ان کے افکار کے سمت و رفتار کے مطالعے سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اقبال نے فن کے رموز، زبان کی اہمیت اور شاعری میں فکر، جذبہ اور تخیل کے مقامات پہچاننے میں کتنا ریاض کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شاعری نے اقبال کو اقبال بنانے میں اپنی ساری آزمائشیں ختم کردی ہوں۔ اور ان کے بعد ان پر اپنی ساری نعمتیں بھی تمام کردی ہوں۔ جیسے اردو شاعری کا دین اقبال پر مکمل ہوگیاہو۔۱؎ ۱۔ اقبال شخصیت اور شاعری۔ رشید احمد صدیقی، ص:۱۱۹، اقبال صدی پبلی کیشنز، نئی دہلی ۱۹۷۷ء گو زبان کے معیار و اسالیب ہردور میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور لسانی مباحث میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ انقلابات آتے رہتے ہیں۔ مگر جو شاعری بنیادی لسانی مسلمات پر مبنی ہو اس کی فنّی اور فکری بلندی آنے والے زمانوں میںاپنی معنویت برقرار رکھتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری بھی اسی تقاضے کو پورا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کلام پر مختلف ادوار میں اٹھنے والے اعتراضات وقت گزرنے کے ساتھ فراموش کرتے گئے اور کلامِ اقبال آج بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ یوں تو ہیئت کے مسائل اور تجربات کے بارے میں اقبال کی کوئی ذاتی رائے نہیں ملتی، مگر جو خط انھوںنے ڈاکٹر لمعہ کو اپریل ۱۹۳۴ء میںلکھا تھا۔ اس میں اصناف نظم اور فن عروض کے بابت اظہار خیال ضرور ملتاہے۔ اس خط سے پتہ چلتا ہے کہ ہیئت کی جزئیات سے زیادہ کلی طورپر ان کا اپنا ایک روایتی تصور ہے جس کے نمونے ان کی نظموں میں تلاش کیے جاسکتے ہیں: شاعری کی جان تو شاعر کے جذبات ہیں۔ جذباتِ انسانی اور کیفیاتِ قلبی اﷲ کی دین ہے۔ ہاںیہ ضرور ہے کہ طبع موزوں اس کے ادا کرنے کے لیے پُراثر الفاظ کی تلاش کرے۔ نظم کے اصناف کی تقسیم جو قدیم سے ہے ہمیشہ رہے گی اور انسانی جذبات ماحول کے تابع رہیںگے۔ بس یہ سمجھ لیا جائے کہ جس شاعر کے جذبات ماحول سے اثر پذیر ہوں وہ شاعر جدید رنگ کا حامل متصوّر ہوسکتا ہے کہ نہ نفسِ شعری۔ اگر ہم نے پابندیِ عروض کی خلاف ورزی کی تو شاعری کا قلعہ ہی منہدم ہوجائے گا اور اس نقطۂ خیال سے یہ کہنا پڑے گا اور یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ شعرا کا کام تعمیری ہونا چاہیے نہ کہ تخریبی۔۱؎ اسی خط میںاقبال نے کلی طورپر ایسی نظموں کے مستقبل سے جن کو ہم نظم معریٰ کہہ سکتے ہیں یا پھر جنھیں ہم بغیر قافیہ کی نظم کا نام دیتے ہیں، ان سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نزدیک نظموں کے لیے قافیہ اور ردیف کا التزام ضروری ہے۔ چوںکہ اس کے بغیر شاعری میں آہنگ پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اقبال نہ صرف پابندیٔ عروض کے قائل تھے بلکہ بالخصوص قوافی اور جگہ جگہ ردیفوں کی موجودگی کو بھی آہنگ اور توازن کے لیے ضروری تصور کرتے تھے: غزل اور رباعی کے لیے قافیہ کی شرط تو لازمی ہے، اگر ردیف بھی بڑھا دی جائے تو سخن میںاور بھی لطف بڑھ جاتا ہے۔ البتہ نظم ردیف کی محتاج نہیں، قافیہ تو ہونا چاہیے۔ اب کچھ عرصے سے بلاردیف اور قافیہ نظمیں لکھی جاتی ہیں اور یہ انگریزی نظموں کی تقلید ہے۔ جس کا نام انگریزی میںبلینک ورس ہے جس کو (نثرمرجز) کہنا چاہیے۔ اگرچہ پبلک میں مذاق کچھ ایسا ہوچلا ہے مگر میرے خیال میں یہ روش آئندہ مقبول نہ ہوگی۔۲؎ جہاں تک اقبال کے کلام میں ہیئت کے تجربے کا سوال ہے تو اس سلسلے میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اقبال ہیئت میںباغیانہ تبدیلیوں کے حامی تو نہیں تھے، مگر آہنگ اور موسیقی پیدا کرنے کی غرض سے نت نئی ہیئتی اور صوبیاتی جدت کی طرف مائل ضرور تھے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کے قیامِ یورپ کے دوران ہی اقبال کی ابتدائی نظموں میں رائج ہیئتوں میں تبدیلی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ حالاںکہ اقبال نے اپنی نظموںکے حوالے سے ہیئت کے تصورات کے بارے میں کہیں اظہار خیال تو نہیں کیا، مگر ابتدا ہی سے انھوںنے انگریزی شعرا کا مطالعہ بہ خوبی کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کچھ نظمیں مواد، موضوع اور اسلوب وغیرہ کی سطح پر انگریزی نظموں سے ماخوذ معلوم ہوتی ہیں۔ دراصل وہ انگریزی نظموں کے اسلوب اور ہیئت کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ انھوںنے اپنی بیش تر نظموں میںخیالات اور جذبات کی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ارتقاء اور تعمیر پر بھی زور دیا ہے۔ ۱؎ اقبال نامہ(حصّہ اوّل)۔ مرتبہ: شیخ عطااﷲ، ص:۲۸۰، شیخ محمد اشرف، تاجر کتب کشمیری بازار، لاہور، س۔ن ۲؎ ایضاً، ص:۲۷۹ اقبال نے اپنی ابتدائی نظم ’’ہمالہ‘‘ میں بھی مغربی نظم کے اسلوب کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ یہ نظم ایک روایتی ہیئت یعنی مسدس میںلکھی گئی ہے۔ مگر خیال کی جدت اور اسلوب کی روانی نے ہیئت کو بھی ایک نئی شکل دے دی ہے۔ مثال کے طورپر ایک بند ملاحظہ ہو: لیلیٔ شب کھولتی ہے آکے جب زلفِ رسا دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر خوش نما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عام معنوںمیںاقبال نے نظم میں رائج ہیئتوں کی پابندی کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی کوشش کی کہ مقررہ اوزان سے انحراف نہ کیا جائے۔ مگر انھوںنے جس طرح عربی آہنگ کو اپنی نظموں میں برتا ہے، اس سے گمان گزرتا ہے کہ آہنگ کے بعض اضافوں نے اقبال کی شاعری میںہیئت کی نیرنگیاں پیدا کردی ہیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر عنوان چشتی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اقبال کے یہاں ہیئت کے تجربات نہیںملتے اس ضمن میںوہ اپنے مضمون ’’اقبال اور اس کا عہد-فنّی جہات‘‘ میں رقم طراز ہیں: اقبال کے یہاں چونکا دینے والے تجربے تو نہیں ملتے۔ تجربہ کرنا ان کا مقصد بھی نہیں تھا۔ وہ تو علوم و فنون کو خودی کا جوہر اور ’’ضربِ کلیمی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ’’اعجازِ ہنر‘‘ کو ’’موج گہر‘‘ اور ’’فلسفہ و شعر کو حرفِ تمنّا‘‘ خیال کرنے والے شاعر سے تجربہ برائے تجربہ کی توقع بھی فضول ہے پھر بھی ان کی تخلیقی قوتوںنے شاعری کے جامد سانچوں میں لچک پیداکی ہے۔۱؎ ۱۔ مشمولہ اقبال کا شعور و فن عصری تناظر میں۔ مرتبہ: ڈاکٹر قمررئیس، ص:۱۵۲، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی، مئی۱۹۷۹ء اقبال کے بارے میں اکثر اس قسم کے بیانات ملتے ہیں کہ موضوع اور مواد میںوہ روایتی شاعری سے گریز کرتے تھے مگر ہیئتوں کے استعمال میں انھوںنے روایت سے انحراف نہیںکیا۔ دراصل اس غلط فہمی کو عام سکرنے کے ذمہ دار کہیںنہ کہیں اقبال خود ہیں۔ چوںکہ انھوںنے اپنے کلام میں افکار کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور اپنی شاعری اور مضامین میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’میں شاعر نہیںہوں‘‘ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اقبال جتنے بڑے مفکر ہیںاتنے بڑے فن کار بھی ہیں۔ چند اشعار سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقبال اپنی فنّی ہنرمندیوں کے بارے میں کس قدر انکسار کا انداز اپناتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاعری کو بہت زیادہ حقیقت پسندانہ چیز نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس لیے وہ اپنے پیغام کی اوّلیت کو باور کرانے کے لیے اس بات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں محض شاعری یا تفنن طبع نہیں ہیں بلکہ ان میں بہت دوررس حقائق اور داخلی کیفیات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مے خانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہہ گئے ہیں شاعری جز و یست از پیغمبری ہاں سنا دے محفلِ ملّت کو پیغامِ سروش اقبال نے اردو کی روایتی ہیئتوں کو اپنے کلام میںتھوڑے سے ردّ و بدل اور ترمیم کے ساتھ برتا ہے۔ یہی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ان کے موضوعات کی اہمیت کا سبب بنتی ہیں۔ اس ضمن میں رحمن راہی نے اپنے مضمون ’’اقبال کے ہیئتی تجربے‘‘ میںلکھا ہے: اگر یہ کہا جائے کہ اپنی بہ ظاہر چھوٹی موٹی تبدیلیوں اور اپنے منفرد برتاؤ سے اقبال نے فارسی اور اردو شاعری میںبڑے نتیجہ خیز ہیئتی تجربے کیے ہیں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔۱؎ ۱۔ مشمولہ اقبالیات، شمارہ:۳، ایڈیٹر:آل احمد سرور، ص:۱۷۶، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیریونیورسٹی، سری نگر، اشاعتِ دوم، فروری۲۰۰۶ء اقبال کی شاعری میں جن اصناف اور ہیئتوں کا کثرت سے استعمال ہوا ہے وہ مثنوی، مسدس، ترکیب بند، قطعہ اور غزل وغیرہ ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ کی زیادہ تر نظمیں مثنوی، مسدس اور ترکیب بند کی ہیئت میں ہیں۔ ’’بالِ جبریل‘‘ میںکثرت سے غزلیات اور قطعات کا استعمال ملتا ہے۔ جب کہ ’’ضربِ کلیم‘‘ میں قطعے کی ہیئت کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اقبال نے ’’بانگِ درا‘‘ کی نظموں میں جو تجربات کیے ہیں اس کے بارے میں مسعود حسین خاں کی یہ رائے قابلِ توجہ معلوم ہوتی ہے: بانگِ درا کے دورِ اوّل و دوم کی اکثر نظموں میں انگریزی کی پوئم کا وحدت تاثر قائم کرنے کے لیے انھوں نے یہ ردّوبدل کامیابی کے ساتھ کیا ہے۔ کہیںمثنوی اور مسدس کو مرکب کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی نظم ’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ بانگِ درا سے شروع ہوتا ہے جو درحقیقت ایک مختصر مثنوی کی ہیئت میںلکھی گئی ہے۔ لیکن جس میں پانچویں، سولہویں اور تیئسویں اشعار کے آخر میں ایک شعر ’’سوئی‘‘ کے طورپر ڈال کر نظم کو تین بندوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ یہی صورت ان کی اس دور کی دیگر نظموں ’’صدائے درد‘‘، ’’شمع‘‘، ’’صبح کا ستارہ‘‘، ’’داغ‘‘، ’’بچہ اور شمع‘‘ اور ’’کنارِ راوی‘‘ میں ملتی ہے۔۱؎ ۱۔ اقبال کی نظری و عملی شعریات۔ مسعود حسین خاں، ص:۸۶، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر۱۹۸۳ء مذکورہ بالا نظموں سے ذیل میںکچھ مثالیں پیش ہیں: مہر روشن چھپ گیا، اٹھی نقاب روئے شام شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام یہ سیہ پوشی کی تیاری کسی کے غم میں ہے محفلِ قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے کر رہا ہے آسماں جادو لبِ گفتار پر ساحرِ شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موجِ ہوا ہاں، مگر اک دور سے آتی ہے آوازِ درا دل کہ ہے بے تابیٔ الفت میںدنیا سے نفور کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دور …… منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں ہم نشینِ خفتگانِ کنجِ تنہائی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ جل رہا ہوں کل نہیں نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے لذّتِ قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں اختلاطِ موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’صدائے درد‘‘ کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلکِ پروانہ خو شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’بچہ اور شمع‘‘ ایک دوسری ہیئت ’’غزل‘‘ ہے جس کا استعمال اقبال نے اپنی نظموں میں معمولی سی تبدیلی کے ساتھ کیا ہے۔ مثال کے طورپر نظم ’’جگنو‘‘، ’’التجائے مسافر‘‘ اور ’’پرندے کی فریاد‘‘ کا پہلا بند غزل نما ہے۔ اس کے بعد قافیہ بدل کر مسدس کے بند لکھے گئے ہیں۔ انھوںنے مسلسل غزل نما نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان میںہیئت کی تبدیلی صرف اتنی ہے کہ ابتدائی چار اشعار کی غزل نما ہیئت کے برخلاف اس بند کا اختتام کسی اور قافیہ اور ردیف پر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں پہلے ’’پرندے کی فریاد‘‘ کے اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ اس نظم کے تمام اشعار کے قافیے زمانہ، چہچہانا، جانا، مسکرانا اور آشیانہ ہیں جب کہ آخری شعر کے دونوں مصرعوں میںقفس اور بس کا قافیہ اور ’میں‘ کی ردیف استعمال ہوئی ہے: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانہ آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں پھر ان اشعار کے بعد مسدس کا یہ بند شروع ہوتا ہے ؎ کیا بدنصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں ساتھی تو ہیں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں آئی بہار، کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں ڈر ہے یہیں قفس میں، میں غم سے مر نہ جاؤں یا نظم ’’محبت‘‘ کی ابتدا ان اشعار سے ہوتی ہے ؎ عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی ناآشنا خم سے ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے قمر اپنے لباسِ نو میں بے گانہ سا لگتا تھا نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلّم سے سنا ہے عالمِ بالا میں کوئی کیمیا گر تھا صفا تھی جس کی خاکِ پا میں بڑھ کر ساغرِ جم سے اس طرح کے دوسرے قافیوں سے گزرتے ہوئے نظم ان قوافی سے مختلف قافیے پر ختم ہوتی ہے، جس میں ستاروں اور لالہ زاروں کے قوافی، اور ’نے‘ کی ردیف استعمال ہوئی ہے ؎ خرامِ ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے چٹک غنچوںنے پائی، داغ پائے لالہ زاروںنے ان تمام مثالوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ’’بانگِ درا‘‘ میںزیادہ ہیئتوں پر مبنی اصناف مثنوی، مسدس اور ترکیب بند ہیں۔ اگر ان مروجہ روایتی ہیئتوں سے الگ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال نے جگہ جگہ طبع زاد ہیئتوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ ان ہیئتوں میں بعض تو بالکل نئی ہیں اور بعض پرانی ہیئتوں کے باہمی اشتراک سے بنائی گئی ہیں۔ ہیئت کے یہ تجربات بانگِ درا میںسب سے زیادہ ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں خواجہ محمد زکریا رقم طراز ہیں: ہیئت کے تجربے سب سے زیادہ ’’بانگِ درا‘‘ میں ہیں۔ اس کی سترہ نظمیں روایتی ہیئتوں سے مختلف ہیں۔ ’بالِ جبریل‘ میں ایسی نظموں کی تعداد سات ہے اور ’ضربِ کلیم‘ میں آٹھ۔۔۔۔۔’ ارمغانِ حجاز‘ میں اردو نظموں کا حصہ بہت کم ہے۔ مگر اس میں بھی تین نظمیں ہیئت کے اعتبار سے تجربات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یعنی اقبال کے اردو کلام میں بہ حیثیت مجموعی پینتیس نظمیں ہیئت کے تجربات کے ذیل میں آتی ہیں اور یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جن شاعروں کی کل کائنات ہی ہیئت کے تجربات ہیں ان کے ہاں بھی غیرروایتی ہیئتیں اس بڑی تعداد تک نہیں پہنچتیں۔۱؎ ۱۔ اقبال کا ادبی مقام۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ص:۷۷، مکتبہ عالیہ، لاہور ۱۹۷۷ء ہیئت کے سلسلے میں اگر کلامِ اقبال کا بہ غور مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں کہیں اقبال نے دو یا تین مختلف ہیئتوں کو ایک ساتھ جمع کردیاہے۔ کہیں ترکیب بند اور مثمن، کہیں مثنوی اور مسدس کو ایک ساتھ ملا دیا ہے۔ اس ضمن میں چند نظمیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جن میں ’’غرّۂ شوّال یا ہلالِ عید‘‘، ’’بزمِ انجم‘‘، ’’گورستانِ شاہی‘‘ اور نظم ’’ستارہ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ ذیل میں ان نظموں سے مثالیں پیش ہیں: غرّۂ شوّال! اے نورِ نگاہِ روزہ دار آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار تیری پیشانی پہ تحریرِ پیامِ عید ہے شام تیری کیا ہے، صبحِ عیش کی تمہید ہے ساتویں شعر میں اقبال نے چاند سے اس طرح خطاب کیا ہے: اوجِ گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے اس طرح مثنوی کی ترتیب میں قوافی میں سات اشعار رقم کیے گئے ہیں۔ مگر اس کے بعد ہیئت بدل جاتی ہے اور مثنوی کے بجائے ترکیب بند جیسا ایک بند سامنے آجاتا ہے۔ مثال کے طورپر صرف دو تین اشعار پیش کیے جارہے ہیں: قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ رہ روِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ جس کو ہم نے آشنا لطفِ تکلم سے کیا اس حریف بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ اور پھر آخری شعر اس طرح اختتام پذیر ہوتا ہے: صورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ، اور خاموش رہ شورشِ امروز میں محو سرودِ دوش رہ ’’غرّۂ شوّال یا ہلالِ عید‘‘ نظم ’’بزمِ انجم‘‘ میںبھی پہلے دو بند ترکیب بند کے انداز میں لکھے گئے ہیں اور آخری بند قطعہ کی شکل میں ہے کیوںکہ اس میں اختتامی ہیئت موجود نہیں ہے۔ آخری بند کے کچھ اشعار ملاحظہ ہو: حسنِ ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں جس طرح عکسِ گل ہو شبنم کی آرسی میں اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے جو بات پاگئے ہم تھوڑی سی زندگی میں اور آخری شعر: ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں کلامِ اقبال میںہیئت بدلنے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مثنوی کی ہیئت میں اشعار کہتے کہتے، جہاںخیالات میں روانی اور تسلسل پیدا ہوتا ہے وہ وہاں مسدس کا بند لے آتے ہیں۔ اس لیے کہ مسدس کے چار مصرعوں میں ایک کے بعد ایک قافیوں کا التزام رکھا جاتا ہے جس کے سبب خیالات میں روانی اور جوش پیدا ہوجاتا ہے۔ غالباً تیزی اور سرعت کا تاثر قائم کرنے کے لیے علامہ اس طرح کی ترتیب اپنی نظموں میںلاتے تھے۔ اس کی بہترین مثال نظم ’’گورستانِ شاہی‘‘ ہے : آسماں، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے کچھ مکدّر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی بہ ربطِ قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی باطن ہر ذرّۂ عالم سراپا درد ہے اور خاموشی لبِ ہستی پہ آہِ سرد ہے اس طرح نظم میں بائیس اشعار قوافی کی اسی ترتیب کے ساتھ لائے گئے ہیں مگر اس کے بعد اچانک مسدس کا بند آجاتا ہے۔ مثلاً: شورش بزمِ طرب کیا! عود کی تقریر کیا درد مندانِ جہاں کا نالۂ شب گیر کیا! عرصۂ پیکار میں ہنگامۂ شمشیر کیا خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا! اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں سینۂ ویراں میں جانِ رفتہ آسکتی نہیں اس طرح نظم ’’ستارہ‘‘ کا پہلا بندمثمن کا معلوم ہوتا ہے مگر دوسرا بند ترکیب بند کا قطعہ ہے۔ جس میں قافیے کی ترتیب بھی مختلف ہے۔ قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو مآلِ حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟ متاعِ نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو! ہے کیا ہراسِ فنا صورتِ شرر تجھ کو؟ زمیں سے دور دیا آسماں نے گھر تجھ کو مثالِ ماہ اڑھائی قبائے زر تجھ کو غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے مگر دوسرے بند کے صرف دو شعر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں: چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے جو اوج ایک کاہے، دوسرے کی پستی ہے سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ڈاکٹر محمد ریاض نے اپنے مضمون ’’اقبال ایک ولولہ انگیز ترکیب بند‘‘ میںاردو، فارسی نظموں میں ترکیب بند نظموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ترکیب بند اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میںکئی ہیں اور اس ہیئت میں ان کی لازوال طویل نظمیں بھی ملتی ہیں۔ تصویرِ درد، بزمِ انجم، شمع اور شاعر، حضور رسالت مآبؐ میں، شفاخانۂ حجاز، صدیقؓ ، والدہ مرحومہ کی یاد میں، بلالؓ (لکھا ہے ایک ۔۔۔۔) پھولوں کی شہزادی، شیکسپیئر، خضرراہ، طلوعِ اسلام، مسجدِ قرطبہ، افکارِپریشاں، عبدالرحمن اوّل ۔۔۔۔ طارق کی دعا، ذوق و شوق اور تاتاری کا خواب وغیرہ اردو کے اور گلِ نخستیں، تسخیر فطرت، نوائے وقت، اگر خواہی حیات۔۔۔۔۔ اور پیام وغیرہ علامہ مرحوم کے فارسی کے مشہور ترکیب بند ہیں۔ زمزمۂ انجم، اقبالؔکے مختصر ترکیب بندوں میں سے ہے مگر معانی خیزی کے لحاظ سے بے انتہا ولولہ انگیز اور توجہ طلب ہے۔۱؎ ۱۔ افاداتِ اقبال۔ ڈاکٹر محمد ریاض، ص:۳۲۹، مقبول اکیڈمی، لاہور۱۹۸۳ء ’’بانگِ درا‘‘ کی ایک اور نظم ’’حسن و عشق‘‘ میںقافیوں کی ترتیب کا ایک نرالا اور انوکھا تجربہ کیا گیا ہے۔ اس نظم میں تین بند ہیں اور ہربند میںمصرعوں کی تعداد سات ہے جب کہ اردو میں سات مصرعے لکھنے کا رواج بہت کم ہے۔ اس نظم میںقافیے کی ترتیب اس اعتبار سے بھی انوکھی ہے کہ ہربند میںچھ مصرعے مثنوی کے انداز میں لکھے گئے ہیں اور ساتواں، چودھواں اور اکیسواں، مصرعہ آپس میں ہم قافیہ ہیں۔ جس طرح ڈوبتی ہے کشتی ٔ سیمینِ قمر نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر جیسے ہو جاتا ہے گم، نور کالے کر آنچل چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول جلوۂ طور میں جیسے یدبیضائے کلیم موجۂ نکہت گلزار میں غنچے کی شمیم ہے ترے سیل محبت میں یوں ہی دل میرا ۷ حسن کامل ہے ترا، عشق ہے کامل میرا ۱۴ قافلہ ہو گیا آسودۂ منزل میرا ۲۱ اس کے علاوہ ’گلِ پژمردہ‘، ’اختر صبح‘، ’نوائے غم‘، ’انسان‘،’ فلسفۂ غم‘، ’میں اور تو‘ اور ’عرفی‘ وغیرہ نظموں میں بھی ہیئت کے تجربات قابلِ توجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ کی ایک اور نظم ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ ترجیع بند ہیئت میں ہے۔ میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے، کی تکرار سے یہ نظم ترجیع بند کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ اس نظم میں چاربند ہیں اور ہربند پانچ مصرعوں پر مشتمل ہے۔ پہلے بند کا پانچواں، دسواں، پندرہواں، اور بیسواں مصرعہ ایک سا ہے۔ اور اس میں ’’میراوطن وہی ہے، میراوطن وہی ہے‘‘ کی تکرار ملتی ہے۔ نمونے کے طورپر پہلا بند ملاحظہ ہو: چشتیٔ نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے مثنوی کی ہیئت کو بھی اقبال نے خاص طورپر اپنی نظموں میں اپنایا ہے۔ مثنوی کی ہیئت کو عام طورپر کسی طویل موضوع کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے اور اس کے لیے سادہ اور چھوٹی بحریں استعمال کی جاتی ہیں۔ مگر اقبال نے اپنی نظموں میں اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ نظم کے مزاج کے مطابق ہیئت کا استعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ریاض لکھتے ہیں کہ: اقبال نے مثنویوں میں غیرمعمولی تصرفات اور جدّتیں دکھائی ہیں۔ یہ تصرفات اور جدّتیں حسبِ ذیل میںمثنویوں کے آغاز یا بیچ میں اپنے یا دوسروں کے اشعار لاتے ہیں۔ دوسری بحور کے اشعار پر تضمین کرتے ہیں۔ کئی مقامات پر اپنی یا دوسروں کی غزلیں نقل فرماتے ہیں۔ ’’جاویدنامہ‘‘ میںجن دوسرے شعرا کی غزلیں یا اشعار تضمین و ذکر کیے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں: ’مولانائے روم‘، ’بھرتری ہری‘ (فارسی ترجمہ)، ناصر خسرو علوی قبادیانی (۴۸۱ئ) قرۃالعین طاہرہ، بہاء اللّٰہی (۱۸۵۲ئ) اور مرزا غالب (۱۸۶۹ئ)۔ بہرحال یہ اقبال کی بے نظیر جدّتیں ہیں جن کی وجہ سے مثنویاں بہت جالبِ توجہ اور دلچسپ بن گئی ہیں۔ ’’اسرارِخودی‘‘ اور ’’رموزِبے خودی‘‘ کا آغاز ’’پس چہ باید کرد‘‘ کی تمہید اور ’’جاویدنامہ‘‘ کے بعض مقامات، ’’مسافر‘‘ اور ’’گلشنِ راز جدید‘‘ میں بھی غزلیں ہیں)علامہ کی کوئی ایک مثنوی کبھی تضمینوں (مع دوسری بحروں کے استعمال کے)اور غزلوں کے اوزان سے خالی نہیں ہے۔۱؎ ۱۔ افاداتِ اقبال۔ ڈاکٹر محمد ریاض، ص:۱۵۷۔۱۵۸، مقبول اکیڈمی ، لاہور ۱۹۸۳ء ’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ مثنوی کی شکل میں ہے۔ اس کی بحر لمبی ہے۔ مثنوی کی مخصوص ہیئت سے نظم کے خیالات میں تسلسل اور روانی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر نظم کے چنداشعار ملاحظہ ہو: کس کو اب ہو گا وطن میں آہ! میرا انتظار کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہوا تخم جس کا تو ہماری کشتِ جاں میں بو گئی شرکتِ غم سے وہ الفت اور محکم ہو گئی اس نظم پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے صوفی غلام مصطفی تبسم نے اپنے مضمون ’’اقبال کے کلام میں موضوع اور ہیئت کی ہم آہنگی‘‘ میںجس خیال کا اظہار کیا ہے اس سے اس نظم کے تاثر، ہمہ گیری اور دوررس آہنگ کی تصدیق ہوتی ہے: نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ایک کہن سال، تجربہ کار، جہاںدیدہ مفکر بزرگ کی دبی ہوئی، رُکی رُکی سی فریاد ہے اس لیے کہ: علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے یعنی اک الماس کا ٹکڑا دلِ آگاہ ہے ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ صرف اقبال کی والدہ کی یاد ہی پوشیدہ نہیں بلکہ ہر ذکی الحس انسان کی والدہ کی یاد سموئی ہوئی ہے۔ اس نظم کا تاثر ہمہ گیر ہے، اس میں آفاقیت ہے۔‘‘۱؎ ۱۔ مشمولہ اقبال بہ حیثیت شاعر۔ مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ص:۱۰۵، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۱۹۸۲ء اس کے علاوہ ’ایک شام‘، ’بچہ اور شمع‘، ’بلادِ اسلامیہ‘، ’حسن و عشق‘وغیرہ نظمیں بھی مثنوی کی ہیئت میں ہیں۔ بانگِ درا کی طویل نظموں میں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ پوری مسدس کی ہیئت میں ہیں، اس کے علاوہ اقبال نے کچھ نظموں میں یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ نظم کو کئی عنوانات کے تحت تقسیم کرکے نہ صرف ہیئت بلکہ بحر بھی بدل دی۔ اس طرح کی نظموںمیں مختلف بندکے لیے مختلف بحروں کاانتخاب اور بحروں کی بنیاد پر موسیقیت کو موضوع سے ہم آہنگ رکھنے کا اہتمام توجہ طلب ہے۔ ان نظموں میں’رات اور شاعر‘، ’شمع و شاعر‘ اور ’خضرراہ‘ قابلِ ذکر ہیں۔ نظم ’’رات اور شاعر‘‘ میںرات، شاعرسے اس طرح مخاطب ہوتی ہے: کیوں میری چاندنی میںپھرتا ہے تو پریشاں خاموش صورتِ گل، مانندِ بو پریشاں شاعر کا دل ہے لیکن نا آشنا سکوں سے آزاد رہ گیا تو کیوںکر مرے فسوں سے؟ مگر جب شاعر رات کے سوال کا جواب دیتا ہے تو بحر اور انداز تخاطب دونوں بدل جاتے ہیں: میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں چھپ کے انسانوں سے مانندِ سحر روتا ہوں ’’بانگِ درا‘‘ میںہیئت کے جو تجربات ملتے ہیں۔ ’’بالِ جبریل‘‘ میں یہ تجربات مختلف صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ’’بالِ جبریل‘‘ کی بیش تر نظمیں کئی کئی حصوں پر مشتمل ہیں ہر حصے کو ذیلی عنوان کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ ان نظموں میں ڈرامائی انداز نمایاں نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ ان تجربات کی ابتدا ’بانگِ درا‘ کی کچھ نظموں سے ہوگئی تھی جن کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ ان نظموں کے بارے میں ڈاکٹر خواجہ زکریا نے اپنے مضمون ’’اقبال کی اردو شاعری میںہیئت کے تجربے‘‘ میںلکھا ہے کہ: ’’بالِ جبریل‘‘ میں ’لینن خدا کے حضور میں‘ ’فرشتوں کا گیت‘ اور ’فرمانِ خدا‘ ایک ہی ڈرامائی نظم کے تین حصے ہیں۔ ان میں بحر مختلف ہے اور کہیں ہیئت۔ یہی کیفیت اس نظم کی ہے جس کے دو ذیلی عنوانات ہیں۔ ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ اور ’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘۔ پہلا حصہ قطع کی ہیئت میں ہے دوسرا مخمس۔ اسی طرح کی ایک اور مثال یورپ سے ’ایک خط اور جواب‘ کی ہے۔ ایسی نظموں میںہیئتوں اور بحروں کی تبدیلی سے اقبال مختلف کرداروں کے مزاج کا فرق واضح کرنا چاہتے ہیں۔‘‘۱؎ مثال کے طورپر نظم ’لینن خدا کے حضور میں‘ کے مختلف تین حصوں سے تین الگ بحروں کے انتخاب کے نمونے ان اشعار کی مدد سے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں: اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ ازل ترا، نقش ہے ناتمام ابھی اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو ایک اور اہم نظم ہے جس کا عنوان ’ایک نوجوان کے نام‘ ہے۔ اس کے دونوں بندوں میں مصرعوں کی تعداد چھ ہے، اس لیے یہ نظم مسدس معلوم ہوتی ہے۔ مگر قافیوں کی ترتیب مسدس سے اس اعتبار سے مختلف ہو جاتی ہے کہ مسدس میں پانچویں اور چھٹے مصرعے کے قوافی بدل جاتے ہیں جب کہ اس نظم میں ایک ہی طرح کے قافیے تینوں شعروں میںاستعمال ہوئے ہیں۔ مثال کے لیے یہ بند دیکھا جا سکتا ہے: ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل؟ نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغناء میںمعراجِ مسلمانی ۱؎ اقبال کا ادبی مقام۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ص:۸۲، مکتبہ عالیہ، لاہور ۱۹۷۷ء ترتیبِ قوافی کے لحاظ سے اس کو قطعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں خواجہ محمد زکریا رقم طراز ہیں: یہ بند بھی ترتیب قوافی کے لحاظ سے قطعہ ہے لیکن روایتی ہیئتوں میں کسی ایک نظم میں اوپر تلے ایک ہی بحر کے قطعات لکھنے کا رواج نہیں ہے۔ یہ طریقہ مسدس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس نظم کے بارے میں کہنا چاہیے کہ یہ مسدس اور قطعے کی ہیئتوں کا امتزاج ہے۔۱؎ اقبال کی کچھ نظموں اور غزلوں کے ماسوا کلامِ اقبال کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی بہت بڑی لسانی یا عروضی بغاوت تو نہیں ملتی مگر ان کے کلام میںپرانی اصنافِ سخن اور پرانے اوزان و بحور سے کام لینے کے باوجود موسیقی کے زیروبم اور تاثر کی شدت اور تخفیف کے لیے جزوی ہیئتی تبدیلیاں ضرور روبہ عمل آتی رہتی ہیں۔ صوفی غلام مصطفی تبسم اپنے مضمون ’’اقبال کے کلام میںموضوع اور ہیئت کی ہم آہنگی‘‘ میں رقم طراز ہیں: ان کا کلام قدیم عروضی نظام میںسمویا ہوا نظر آتا ہے لیکن عروض کا تعلق اوزان سے ہوتا ہے۔ اوزان کا تنوع اور ان کے زحافات، موسیقی کے زیروبم سے مربوط ہوتے ہیں۔۲؎ ۱؎ اقبال کا ادبی مقام۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ص:۸۳، مکتبہ عالیہ، لاہور ۱۹۷۷ء ۲؎ مشمولہ اقبال بہ حیثیت شاعر۔ مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ص:۱۰۴، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۱۹۸۲ء جیساکہ پہلے عرض کیاگیا کہ اقبال کی نظموں کی ہیئت کے سلسلے میں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اقبال نے پہلے سے رائج شعری ہیئتوں کو ہی کثرت سے استعمال کیا ہے۔ کہیں کہیں مغربی شاعری کے زیرِاثر انھوںنے اپنی نظموں میںہیئتوں کی جو جزوی ترمیم کی ہے اس کا انداز یہ اختیار کیا ہے کہ متعدد جگہوں پر مختلف ہیئتوں کو ایک ساتھ ملا دیا ہے اور کہیں اپنی نظموں میں ایک سے زائد بحروں کا استعمال بھی کیاہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون ’’اقبال کا عروضی نظام‘‘ میںبحروں سے بحث کرتے ہوئے اقبال کی بحروں کے انتخاب کے بارے میں عام مفروضات سے اختلاف کرتے ہوئے قدرے مختلف رائے دینے کی کوشش کی ہے: اقبال کے یہاں بحروں کا تنوع بہت ہے، اور انھوںنے بہت مترنم بحریں استعمال کی ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ دوسری بات تو اس لیے غلط ہے کہ بحر کی شرط ہی یہ ہے کہ وہ مترنم ہو ۔۔۔۔۔ کسی ایک بحر یا چندبحر یا چند بحروں کو مترنم ٹھہرانا اور باقی کو کم مترنم سمجھنا اس مفروضے کو راہ دیتا ہے کہ بحر کے لیے ترنم بنیادی یا بڑی شرط نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مفروضہ غلط ہے۔ دوسری بات اس لیے بھی غلط ہے کہ ایک آدھ کے علاوہ اقبال نے تمام بحریں وہی استعمال کی ہیں جو تمام اردو شاعری میں عام اور مروج ہیں اور جو استثنائی بحریں بھی ہیں (بحر مسرج، بحر رجز سالم، ہندی کا سرسی چھنڈ)۔۱؎ اس کے علاوہ گیان چند جین نے اپنے مضمون ’’اقبال کے اردو کلام کا عروضی مطالعہ‘‘ میں اقبال کی بحروں کی جو جدول مرتب کی ہے۔ اس میں انھوں نے بحروں کے نام اور ہر بحر کے اشعار کی تعداد بھی بتائی ہے۔ اور کلامِ اقبال میںاستعمال شدہ بحروں کی تعداد ۲۴ بتائی ہے۔ مزید یہ کہ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون ’’اقبال کا عروضی نظام‘‘ میں اشعار کی فی صد تعداد بھی بتائی ہے۔ ہر بحر کے اشعار کا تناسب نکالنے کے بعد حسب ذیل باتیں سامنے آتی ہیں: ۱۔ سات بحریں ایسی ہیں جن میںاقبال کے اشعار فرداًفرداً ۶ فی صدی یا اس سے کم ہیں۔ رمل مثمن شکول میں تعداد ۶ فی صدی ہے اور رباعی کی بحر میں یہ تعداد محض ۴ فی صدی ہے۔ ۲۔ پانچ بحریں ایسی ہیں جن میںاشعار کی تعداد فرداً فرداً ۲ فی صدی سے کم ہے۔ متقارب مثمن سالم میں یہ تعداد ۹ افی صدی ہے۔ اور متقارب مقبوظ اثلم مضاعف میں ۳ ٔ ا فی صد ی۔ ۳۔ اقبال کے کلام کا کثیرترین حصہ یعنی ۶۵ ٔ ۶۸ فی صدی، محض پانچ بحروں میں ہے۔ وہ اس تجزیے کا نتیجہ ان الفاظ میں نکالتے ہیں: اس تجزیے کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، لیکن یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ رباعی جیسی خوب صورت بحر میں اقبال نے صرف دو شعر یعنی ایک رباعی کہی ہے ۔۔۔۔ دو مشہور اوزان میںاقبال نے ایک شعر بھی نہیںکہا۔ یہ دونوں اوزان ہیں، سریع مسدس مطوی مکشوف (مفتعلن مفتعلن فاعلن اور رمل مسدس مجنون مخذوف مقطوع( فاعلاتن مفلاتن مفلن) موخرالذکر مشہور ہونے کے علاوہ بہت مقبول بھی ہے۔۲؎ ۱؎ اقبال کا عروضی کلام۔ شمس الرحمن فاروقی، ص:۲۹۔۳۰، مشمولہ اقبالیات، شمارہ:۳، ایڈیٹر: پروفیسر آل احمد سرور، اقبال انسٹی ٹیوٹ،کشمیریونیورسٹی، سری نگر، اشاعتِ دوم، فروری۲۰۰۶ء ۲؎ ایضاً، ص:۳۰۔۳۱ ’’بانگِ درا‘‘ اور ’’بالِ جبریل‘‘ کی زیادہ تر نظمیں بحر رمل مثمن مخذوف یا مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن یا فاعلات) میںکہی گئی ہیں۔ جس میں’ہمالہ‘، ’گلِ رنگین‘، ’مرزا غالب‘، ’خفتگانِ خاک‘ سے استفسار، ’شمع و شاعر‘، ’والدہ مرحومہ کی یادمیں‘ اور ’خضرِراہ‘ جیسی مشہور و معروف نظمیں شامل ہیں۔ گیان چندجین نے اس بحر کے بارے میں لکھا ہے کہ اقبال نے اس بحر میں: سب سے زیادہ اردو اشعار یعنی ۱۰۵۳ کہے لیکن ان میں سے ۸۵۶ ’بانگِ درا‘ ہی میں ہیں۔ باقی کسی مجموعے میں سو اشعار بھی نہیں۔ نظموں کی تعداد کے لحاظ سے اس وزن کا نمبر تیسرا ہے ۔۔۔۔ یہ وزن بہت سہل و سبک ہوتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بعد کے مجموعوں میں اقبال کی مشکل پسند طبیعت نے اسے کم نوازا۔۱؎ پروفیسر وقار عظیم نے بھی اس بحر کے سلسلے میں کہا ہے کہ : ’’بانگِ درا‘‘ اور ’’بالِ جبریل‘‘ کی ان نظموں میں سے اکثر میں جو (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)میں کہی گئی ہیں۔ بعض باتیں مشترک ہیں۔ ان میں اقبال کسی نہ کسی سے مخاطب ہیں۔ ان میں اکثر جگہ بات استفہامی انداز میں کہی گئی ہے ان میں اکثر اقبال کا انداز جذباتی اور موضوعی ہے۔ ’’بالِ جبریل‘‘ کی ان نظموں میں بھی جو کہ اقبال کے فکر کے بعض پہلوؤں کی وضاحت اور ترجمانی کرتی ہیں۔۲؎ ۱۔ اقبال کے اردو کلام کا عروضی مطالعہ۔ گیان چندجین، ص:۶۸، مشمولہ اقبال کا فن، مرتبہ: گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۱۹۸۹ء ۲۔ اقبال شاعرو فلسفی۔ سیدوقار عظیم، ص:۱۵۲، علی گڑھ بک ڈپو، شمشاد مارکیٹ، علی گڑھ ۱۹۷۵ء اس کے علاوہ ’’بالِ جبریل‘‘ کی غزل ’’پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن‘‘ بھی اسی بحر میں ہے۔ مضارع مثمن اخرب مکتوف (مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن یا فاعلات) اس بحر کو بھی اقبال نے اپنی نظموں میں کافی استعمال کیا ہے۔ ’’بانگِ درا‘‘ میں ’شمع و پروانہ‘، ’آفتاب‘، ’شبنم اور ستارے‘، ’ایک مکالمہ، شبلی و حالی‘ وغیرہ نظمیں شامل ہیں۔ اور ’’بالِ جبریل‘‘ میں ’ہسپانیہ‘، ’لینن‘، ’فرمانِ خدا‘، ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘، ’ابلیس کی عرض داشت‘، ’باغی مرید‘، ’آزادیٔ افکار‘، ’شیر اور خچر‘ وغیرہ نظمیں اسی بحر میں شامل ہیں۔ مثال کے طورپر ان کی مختلف نظموں سے اشعار پیش کیے جارہے ہیں: اے آفتاب! روحِ روانِ جہاں ہے تو شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’آفتاب‘‘ اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے ہر صبح نئے تجھ کو میسّر ہیں نظارے ۔۔۔۔۔۔۔۔’’شبنم اور ستارے‘‘ ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں …’’ہسپانیہ‘‘ کہتا تھا عزازیل خداوندِ جہاں سے پرکالۂ آتش ہوئی آدم کو کفِ خاک ’’ابلیس کی عرض داشت‘‘ مضارع مثمن اخرب (مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن) کی بحر میں اقبال کی کئی مشہور نظمیں ہیں۔ جو کہ ’’بانگِ درا‘‘ میںشامل ہیں۔ اس بحر میں’’بالِ جبریل‘‘ کی کوئی بھی نظم نہیں ہے۔ اس بحر کے بارے میں گیان چند جین کا کہنا ہے کہ: اس وزن میں اقبال کی دو قسم کی نظمیں ہیں۔ (۱) قومی، (۲) مناظر فطرت کی، قومی نظموں میں ’نیا شوالہ‘، ’ترانۂ ہندی‘، ’ترانۂ ملّی‘ اور ’ہندوستانی قومی بچوں کا گیت ع ’چشتی نے جس زمیں میںپیغامِ حق سنایا۔ مشہور ترین ہیں۔ اگر ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ کو اقبال کی سب سے زیادہ معروف نظم قرار دیا جائے تو یہ وزن بھی اس قدر اہم ہوگا۔۱؎ ۱؎ اقبال کے اردو کلام کا عروضی مطالعہ، ص:۱۰۴، مشمولہ اقبال کا فن، مرتبہ: گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۱۹۸۹ء منسرح مطوی موقوف (مفتعلن فاعلات مفتعلن فاعلات) اس بحر کو اقبال نے اپنی معروف نظم ’’مسجدِقرطبہ‘‘ میں استعمال کیا ہے۔ بہت کم شاعروں نے اپنے کلام میںاس بحر کا استعمال کیا ہے۔ دراصل انھوںنے جان بوجھ کر اس بحرکا استعمال کیا۔ اس لیے کہ اس بحرمیں روانی سے زیادہ نشیب و فراز کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس نظم کا موضوع اسی بات کا متقاضی تھا۔ گیان چند جین نے اس وزن کو اقبال کی آواز سے تعبیر کرتے ہوئے کہاہے: اقبال کے علاوہ اردو کے دوسرے شعرا نے اسے بہت ہی کم استعمال کیا ہے ۔ اقبال کی بدولت ہی اردو اس سے روشناس ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ نظموں میںمَیں ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کو سب سے زیادہ عظیم سمجھتا ہوں اور یہ نظم اور اس کے ساتھ کی نظم ’’دعا‘‘ اس دشوار گزار وزن میں ہے۔ نظم میں فکر کی جو رفعت و عظمت ہے، یہ وزن بہ خوبی اس کا حریف ہو سکا ہے۔۱؎ ۱۔ اقبال کے اردو کلام کا عروضی مطالعہ، ص:۱۰۵، مشمولہ اقبال کا فن، مرتبہ: گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۱۹۸۹ء ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کے بند غزل کی صورت میں ملتے ہیں اور عربی شاعری کے انداز میں ردیف کے بجائے قافیوں پر زیادہ زور ملتا ہے۔ یہ نظم شاعری کی ذہنی کیفیت اور آہستہ خرامی کی غماز ہے۔ مثال کے طورپر چند اشعار ملاحظہ ہو: سلسلۂ روز و شب، نقش گر حادثات سلسلۂ روز و شب، اصل حیات و ممات سلسلۂ روز و شب، تارِ حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں جس سے دکھائی ہے ذات زیرو بم ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلۂ روز و شب، صیرفیٔ کائنات تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا اک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات نظم ’’ساقی نامہ‘‘ موضوع کے اعتبار سے ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ سے بالکل الگ ہے۔ اس لیے اقبال نے اس کے لیے بحر بھی ہلکی پھلکی استعمال کی ہے۔ متقارب مثمن مقصور یا مخذوف (فعولن فعولن فعولن فعول یا فعل) اس نظم میں اقبال نے شاعرانہ وسائل سے بہت کام لیا ہے۔ نظم میںشروع سے لے کر آخر تک اسلوب بیان کی سادگی قائم رہتی ہے۔ یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے جو کہ مثنوی کا مشہور وزن ہے۔ فردوسی کا ’شاہنامہ‘ اور میرحسنؔ کی مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ بھی اسی وزن میںلکھی گئی ہیں۔ بانگِ درا کی ایک نظم ’’ماں کا خواب‘‘ بھی اسی وزن میں ہے۔ مثال کے طورپر نظم ’’ساقی نامہ‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں: ہوا خیمہ زن کا روان بہار ارم بن گیا دامنِ کوہسار گل و نرگس و سوسن و نسترن شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں مذکورہ بالا نظموں کے مطالعہ سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ اقبال کے شاعرانہ احساسات کے تنوع نے ان کی نظموں میں دلچسپ اور متنوع آہنگ بھردیا ہے۔ اور اس بات کا سارا انحصار اقبال کی ان بحروںپر ہے جو انھوںنے اپنے کلام میںاستعمال کی ہیں۔ ’’ضربِ کلیم‘‘ اور ’’ارمغانِ احجاز‘‘ میں بھی ہیئت کے انحرافی رویّے برابر ملتے ہیں۔ ان دونوں مجموعوں میں نظموں کا آہنگ بہت تیز ہے۔ اس طرح کی مثالیں اردو شاعری میںبرائے نام ہی ملتی ہیں۔ اقبال کی نظموں کا یہ خاصہ ہے کہ وہ قاری کو اپنی طرف خود بہ خود متوجہ کرتی ہیں۔ ’’ضربِ کلیم‘‘ کی نظم ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ میں اقبال نے ایک ہندی بحر ’سرسی چھند‘ کے استعمال سے آہنگ کا بالکل نیا ذائقہ دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ تجربہ اس نظم کے علاوہ کسی اور نظم میں نہیںکیا گیا۔ اس بحر سے متعلق ’عنوان چشتی‘ کا یہ بیان ہے کہ: اقبال نے ہندی کی محض ایک بحر ’’سرسی چھند‘‘ سے کام لیا ہے۔ ’سرسی چھند‘ میںمطلع جیسے دو مصرعے ہوتے ہیں۔ ہر مصرع دو حصوں میںمنقسم ہوتا ہے۔ پہلے حصہ میں ۱۶؍ اور دوسرے حصہ میں۱۱؍ ماترائیںہوتی ہیں دونوں کے درمیان وقفہ ہوتا ہے۔۱؎ ۱۔ اقبال اور اسی کا عہد: فنّی جہات۔ ڈاکٹر عنوان چشتی، ص:۱۵۵۔۱۵۶، مشمولہ اقبال کا شعور و فن عصری تناظر میں،مرتبہ: ڈاکٹرقمررئیس، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی۱۹۷۹ء رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان تو بھی اے فرزندِ کہستاں اپنی خودی پہچان اپنی خودی پہچان او غافل افغان موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان اپنی خودی پہچان او غافل افغان اس نظم میں پانچ بند ہیں اور تین تین ارکان والے مصرعے ترجیع کے ہیں۔ یعنی بار بار ان مصرعوں کی تکرار ملتی ہے۔ نظم کے ہر بند کو چار حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلے دو مصرعے سات سات ارکان کے ہیں اور آخر کے مصرعے تین تین ارکان کے ہیں۔ اس نظم پر اظہار خیال کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے: انھوںنے سرسی چھند میںجو نظم کہی ہے (او غافل افغان) اس میں اردو والوںکی عام روش کے خلاف انھوںنے آخری حرف مزید کا ہر مصرعے میںالتزام کیا ہے تاکہ ۲۷ ماترائیں پوری ہوں۔۱؎ ۱۔ اقبال کا عروضی نظام۔ شمس الرحمن فاروقی، ص:۳۳، مشمولہ اقبالیات، شمارہ:۳، ایڈیٹر: پروفیسر آل احمد سرور، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیریونیورسٹی، سری نگر، اشاعتِ دوم، فروری۲۰۰۶ء ارمغانِ حجاز کی ایک اور نظم ’’ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیر کا کا بیاض‘‘ بھی قابلِ توجہ نظم ہے۔ اس نظم میں وادیٔ لولاب کی تکرار ملتی ہے۔ نظم میںپانچ بند ہیں اور ہربند تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔ پہلے دو مصرعے چار رکنی اور تیسرا مصرعہ دو رکنی ہے۔ پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مرغانِ سحر تری فضاؤں میں ہیں بے تاب اے وادیٔ لولاب ملّاکی کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب اے وادیٔ لولاب اس طرح کے نادر مستزاد کی مثال ’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’انسان‘ میں بھی ملتی ہے۔ انھوں نے نظم کے آغاز میں ایک مصرعہ لکھا ہے: قدرت کا عجیب یہ ستم ہے اس کے بعد بند شروع ہوتا ہے: انسان کو راز جو بنایا راز اس کی نگاہ سے چھپایا بیتاب ہے ذوق آگہی کا کھلتا نہیں بھید زندگی کا حیرت آغاز و انتہا ہے آئینے کے گھر میںاور کیا ہے؟ اس طرح ایک بند میں سات مصرعے ہیں۔ یہ ایک انوکھا تجربہ ہے جس کی مثال اردو شاعری بالعموم نہیںملتی۔ اس کے علاوہ کہیں کہیں علامہ اقبال نے اپنی نظموں میں کئی بحروں کو ایک ساتھ ملا کر پیش کیا ہے۔ فارسی میں ’پیامِ مشرق‘ کی نظم ’تسخیر فطرت‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ اس نظم میں پانچ بند ہیں جس میں سے تین بندوں کی بحریں الگ الگ استعمال کی گئی ہیں۔ اسی طرح کا ہیئتی تجربہ اقبال نے ’ارمغانِ حجاز‘ کی نظم ’عالمِ برزخ‘ میں بھی کیا ہے۔ اس نظم میں چار مختلف آوازوں کے لیے تین مختلف بحریں استعمال کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں مسعود حسین خاں نے اپنے مضمون ’ہیئتی تجربے‘ میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے: اس مکالمے کے لیے جس میں مذکورہ بالا چار کردار ہیں، تین مختلف بحریں استعمال کی گئی ہیں۔ ان کا تنوع اس طرح ہے: (۱) بحر ہزج مثمن مکفوف مخدوف الآخر (مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن) اس بحر میں دو آوازیں ہیں یعنی مردہ اور قبر کا مکالمہ پہلے چھ اشعار میں دونوں کردار ایک بحر میں سوال و جواب کرتے ہیں۔ (۲) بحر رمل مثمن مخدوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) اس بحر میں صدائے غیب ہے، پھر مردے کا تخاطب اپنی قبر سے اور اس کے بعد پھر صدائے غیب، اس مکالمے میںنو اشعار ہیں۔ (۳) بحر رجز مثمن مطوی (مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن) یہ ’زمین‘ کی آواز ہے جو تین اشعار اور خاتمے پر ایک مصرع ع ’کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انسان کی رات‘ پر مشتمل ہے۔۱؎ اقبال کے یہاں نظموں کے علاوہ غزلوں میں بھی غیر روایتی انداز میں ہیئت کے نادر تجربات ملتے ہیں۔ جن سے ان کی جدت طرازی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقبال کے زمانے تک غزلوں کی ظاہری شکل، روایتی اور غیرلچک دار ہیئت سے عبارت تھی، مگر اقبال کی بیش تر اردو اور فارسی غزلیں ایسی ہیں جس میں انھوں نے بعض قطعہ نما اشعار کو بھی غزلیات کے زیر عنوان رکھا ہے: ۱۔ اقبال کی نظری و عملی شعریات۔ مسعود حسین خاں، ص:۹۳۔۹۴، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر۱۹۸۳ء عجب واعظ کی دین داری ہے یا رب عداوت ہے اسے سارے جہاں سے کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الٰہی عقلِ خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے اسے ہے سودائے بخیہ کاری، مجھے سرِ پیرہن نہیں ہے ملا محبت کا سوز مجھ کو، تو بولے صبحِ ازل فرشتے مثال شمعِ مزار ہے تو، تری کوئی انجمن نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کے اتر جائے ترے دل میں مری بات یا وسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات قطعات کے یہ اشعار غزلوں کی طرح ہیں۔ اس طرح کی جدت طرازی کلامِ غالب میں بھی ملتی ہے۔ اقبال نے اپنی غزلوں میں، رمز و ایما اور علامات و تلمیحات کے استعمال سے تغزل پیدا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی غزل کے اشعار میںتسلسل پیدا کرکے کہیں کہیں نظموں کا رنگ بھی دے دیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی متعدد غزلوں کو بہت سے نقاد غزل کی صنف ماننے سے تامل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی غزلیں نظم نما ہیں، اس لیے کہ ایک سے زیادہ شعروں میں بعض مضامین کا تسلسل ملتاہے۔ علامہ اقبال غزل کی صنف میںبھی کسی مخصوص موڈ کی مناسبت سے بحر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس بات کا ان کی نظموں میں پایا جانازیادہ حیرت انگیز نہیں۔ مگربحرکے اس انتخابی طریقے کو یقینا غزل کی پوری روایت میںان کی انفرادیت کا نام دیاجاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر ’بالِ جبریل‘ کی اس غزل کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے: جو تھا نہیںہے، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ معنوی تسلسل کے سبب خود اقبال نے اس غزل کا ایک عنوان (زمانہ) بھی مقرر کردیا ہے۔ چنانچہ اس غزل کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے صوفی غلام مصطفی تبسم کا یہ بیان قابلِ توجہ معلوم ہوتا ہے: ’’اس غزل کی بحر لمبی ہے جس میںبحر متقارب مثمن مقبوض اثلم کے آٹھ ارکان کو سولہ کرکے لکھا ہے۔ (فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن) دو مصرعوں کو ایک مصرعہ بنا دیا ہے۔ اس بحر کے استعمال سے شاعر نے وقت کے پھیلاؤ، اس کے تواتر اور تسلسل اور اس طوالت کی کیفیت کا اظہار کیا ہے جو اس بحر موسیقیت سے خود بہ خود آشکار ہوجاتی ہے۔‘‘۱؎ اقبال کی ایک مشہور غزل جس کے ابتدائی دو شعر یہ ہیں: اثر کرے نہ کرے، سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد یہ مشت خاک، یہ صرصر، یہ وسعتِ افلاک کرم ہے یا کہ ستم، تیری لذّتِ ایجاد غزل کے منفرد اشعار کی روایت سے یہ مکمل انحراف کی مثال ہے۔ اس لیے کہ غزل کی ہیئت کا اہتمام کرنے کے باوجود اس غزل میں خیال کاتسلسل بھی ملتا ہے اور ارتقا بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غزل کے صنفی امتیازات پراصرار کرنے والے لوگ بھی اس نوع کی غزل کی تعریف کرچکے ہیں۔ ان کی نظر میں اس غزل کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک نظمیہ آہنگ رکھتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل بھی نظم کی طرح کسی مربوط تجربے کی حامل ہوسکتی ہے۔ اقبال کی غزل گوئی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کلیم الدین احمد جیسے غزل کے نکتہ چیں بھی اس غزل کے حوالے سے نئے مضامین، جدت خیالات اور فکری تسلسل کو قابلِ تعریف قرار دیتے ہیں: ’’اقبال کی غزلوں میںمضامین بالکل نئے ہیں، حالی کی طرح وہ بھی غزل کے عام مضامین سے علاحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اور نئی نئی باتیں کہتے ہیں۔ اقبال نے خیالات کی دنیا بدل دی، یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔‘‘۲؎ ۱؎ اقبال کے کلام میںموضوع اور ہیئت کی ہم آہنگی۔صوفی غلام مصطفی تبسم، ص:۱۱۱، مشمولہ اقبال بہ حیثیت شاعر، مرتب:رفیع الدین ہاشمی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ۱۹۸۲ء ۲؎ اقبال ایک مطالعہ۔ کلیم الدین احمد، ص:۲۶۷، کریسنٹ کوآپریٹو پبلشنگ سوسائٹی لمٹیڈ، جگ جیون روڈ، گیا۱۹۷۹ء ایک دوسری غزل دیکھئے جس کی بحر متقارب زحافی (فعلن فعولن فعلن فعولن) ہے: ہرشے مسافر، ہر چیز راہی کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی تو مردِ میداں، تو میرِ لشکر نوری حضوری تیرے سپاہی کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی یہ بے سوادی یہ کم نگاہی اس غزل کو پڑھتے ہی ایک بالکل نیا پہلو ذہن میں یہ آتا ہے کہ اقبال نے اپنے مختصر مشاہدات کو بیان کرنے کے لیے بحر بھی چھوٹی استعمال کی ہے۔ جیسا کے عرض کیا جاچکا ہے کہ انھوں نے ہر جگہ اپنی غزلوں میںاس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ موضوع کی مناسبت سے بحر کا استعمال کیا جائے۔ مذکورہ بالا شواہد کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اقبال عروض پر غیرمعمولی قدرت رکھتے تھے اور جہاںجس نوع کی عروضی تبدیلی یا انحراف میںجدت کی ضرورت محسوس کرتے تھے، بہ آسانی اس کا عملی ثبوت دینے کی کوشش کرتے تھے۔ اس ضمن میں پروفیسر جابر علی سید نے اقبال کے نظامِ عروض کے سلسلے میں بہت معنی خیز نتائج نکالے ہیں: ’’اقبال نے کم و بیش تمام بحریں چابک دستی اور پوری مہارت کے ساتھ فارسی اور اردو میںبرتی ہیں۔ اور ان کی تعداد بھی میرؔ اور غالبؔ کی طرح بیس پچیس تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کو اپنے نظامِ فکر کے اظہار کے سلسلے میں ہمیشہ نئے لفظی اور شعری سانچوں کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اقبال کی کم از کم چار کتابوں کے ناموں میںموسیقیت کام کرتی نظر آتی ہے۔ ’’بانگِ درا‘‘ میںگھنٹی کی مترنم آواز ’’زبورِ عجم‘‘ میں غزل الغزلات کا آہنگ ’’بالِ جبریل‘‘ میںجبریل کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور بلند آہنگی، ’’ضربِ کلیم‘‘ میںعصائے کلیمی کے زور سے گرنے کی آواز اور اس کا معجزانہ اثر۔‘‘۱؎ جابر علی سید کی اس نکتہ آفرینی کو قبول کرنے میں بعض اہلِ نظر کو تامّل ہوسکتا ہے، مگر اپنی کتابوں کے نام سے لے کر عروضی جدتوں تک میںعلامہ کی انفرادیت اور پوری طرح آہنگ پسند مزاج سے کوئی انکار بھی تو نہیںکرسکتا۔ ۱؎ اقبال کا فنّی ارتقا۔پروفیسر جابرعلی سید، ص:۱۲۷، بزمِ اقبال، لاہور ۱۹۷۸ء اقبال کے کلام میںاوزان و بحور کا بہ غور مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اقبال کو اس فن میں مہارت حاصل تھی۔ حالاںکہ وہ فنّی اعتبار سے بڑی حدتک روایت پسند شاعر واقع ہوئے تھے۔ مگر ان کے یہاں فکر کی ندرت و جدت اظہار کے نئے نئے سانچے تراشتی نظر آتی ہے۔ گو کہ وہ ہیئتی اعتبار سے شعری آزادی اور تصرفات کے زیادہ قائل نہ تھے اور وزن و قافیہ کو شاعری کا لازمی جزو قرار دیتے تھے۔ تاہم کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری میں روایت کے احترام کے ساتھ ساتھ صحت مند تجربہ پسندی کے نمونے بھی کثرت سے ملتے ہیں۔ اقبال کے فکر و عمل میںبہ ظاہر یہ جزوی اختلاف دراصل ایک بلندپایہ شاعر کے نئے سے نئے موضوعات اور نادر سے نادر آہنگ کا تقاضہ نہیں تو اور کیا ہے۔ یہی تقاضے ہیں جو ان کو روایت پسند ہونے کے باوجودبھی بعض نئی روایتوں کا موجد بنا دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں خواجہ محمد زکریا رقم طراز ہیں: ’’اقبال ہیئت پر سوار ہیں۔ اقبال اپنے افکار کے اظہار کے لیے ہیئت کو ظروف ساز کی مٹی کی طرح جدھر چاہتے ہیںموڑ دیتے ہیں۔ جب کہ رومانی شعرا نئی نئی شکلیں بنا کر انھیں پوجنے لگتے ہیں۔ اقبال جیسے بت شکن کا ہیئت پرستی سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اقبال کے ہاں ہیئت کے جس تجربے کو بھی دیکھیں اس کا موضوع سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرورہوگا۔‘‘۱؎ مذکورہ موقف سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال کی شاعری میںہیئتوں کی بعض تبدیلیاں ضرور ہیں مگر روایت سے ان کا گہرا تعلق بھی قائم رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے کلام کے فنّی محاسن اور دل کشی کا بڑا راز عروض یا شعری آہنگ میںمضمر ہے، چنانچہ اس سلسلے ک آگے بڑھاتے ہوئے پروفیسر جابر علی سید، یہ رائے دیتے ہیں کہ: ’’اقبال کا شعری آہنگ کامل، متنوع اور بوقلموںہے۔ اس نے دانستہ طورپر دقیق بحور میںشاعری کرنے سے گریز کیا ہے۔ وہ انحطاطی نہیںانقلابی ہے جو انتہائی شعوری سطح پر موسیقی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اپنے شعری آہنگ اور اپنے انقلابی یا تجریدی افکار میںزیادہ سے زیادہ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘۲؎ ۱؎ اقبال کا ادبی مقام۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ص:۸۶، مکتبہ عالیہ، لاہور ۱۹۷۷ء ۲؎ اقبال کا فنّی ارتقا۔ پروفیسر جابر علی سید، ص:۱۴۱، بزمِ اقبال، لاہور ۱۹۷۸ء محولہ بالا معروضات کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری میںہیئت، خواہ روایتی رنگ وروپ میںاستعمال ہوئی ہو یا پھر روایتی ہیئتوں میںجزوی تبدیلیاں پیدا کی گئی ہوں، ان کا بڑا گہرا تعلق ان کے مافی الضمیر اور خیالات کی نوعیت سے ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی ہیئت اور صنف کی بندھی ٹکی پابندیوں میںپوری طرح اسیر نظر نہیں آتے۔ وہ روایت کا احترام ضرور کرتے ہیں مگر جہاںکہیں ان کے اظہار کی راہیں روایتی پابندیوں کے سبب متاثر ہوتی ہیں، وہاں وہ روایت میںوسعت پیدا کرنے کی طرف توجہ صرف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح علامہ اقبال کے موضوعات، لفظیات اور اصطلاحات، روایتی شاعری سے الگ ہیں اسی طرح روایت کے سارے احترام کے باوجود ان کے یہاں جزوی ہیئتی تجربے بھی ملتے ہیں اور ساتھ ہی عروض اور آہنگ کے استعمال میںبھی انفرادیت کا اندازہ اکثر نمایاںرہتا ہے۔ lll روح اقبال میں متنی ترامیم اور اضافے ڈاکٹر یاسمین 03004378842 تعارف: ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایک عظیم مفکراورباکمال شاعرتھے۔ان کا مطالعہ بہت وسیع اور عمیق تھا ۔تخیل کی بلندی کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور الہیات کے قدیم اور جدید اصولوں سے پوری طرح واقف تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری آج تک فہم کے نئے در وا کرتی ہے۔ان کی شاعری کی تفہیم اور ان کے تفکر کی شناخت کے لئے اقبال شناسی کی تحریک میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں اور آئندہ بھی لکھی جائیں گی۔ڈاکٹر یوسف حسین خان کی تصنیف ’’روح اقبال‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن یہ اتنی مربوط اور مکمل ہے کہ اقبال کے فکر اور شاعری کے تقریبا تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ جب بھی کوئی ادیب یا شاعر کوئی تخلیق پیش کرتا ہے تودادو تحسین کے ساتھ ساتھ اس کی اس کاوش پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔اس تخلیق میں اچھائیوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس میں کمیوں کوتاہیوں کی نشاندہی بھی معاصر ادیبوں کے لیے کسی فرض منصبی سے کم نہیں ہوتا ۔اسی تناظر میںکچھ ناقدین نے تو ’’روح اقبال‘‘ کے مقام و مرتبہ کی دل کھول کر داد دی جیسے کہ رضی الدین صدیقی ’’روح اقبال ‘‘کے طبع اول کے مقدمہ میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’یہ کتاب اقبال کے تمام اساسی خیالات پر حاوی ہے اور اس طرح حقیقی معنوں میں اس کے کلام کا نچوڑ ہے۔‘‘۱؎ اسی طرح صباح الدین عبدالرحمن نے اقرار کیا کہ’’غالب کو سمجھانے میں اولیت کا جو درجہ حالی کی یادگار غالب کو ہے وہی اقبال کو سمجھانے میں ’’روح اقبال‘‘کا ہے۔‘‘۲؎ شورش کاشمیری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ’’اس سے بہتر کتاب تو پاکستان میں بھی نہیں لکھی گئی۔‘‘۳؎ بقول آل احمد سرور اس کتاب میں اقبال کے تمام بڑے موضوعات فکرکی توضیح نہایت سلجھے ہوئے انداز میں ملتی ہے۔۴؎ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے سب سے جامع انداز میں اسے علامہ اقبال کے کلام کی درست تفہیم کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا ہے: ’’ڈاکٹر یوسف حسین کی ’’روح اقبال‘‘اور مولانا عبدالسلام ندوی کی ’’اقبال کامل‘‘ ان دونوں کتابوں کو ملا کر پرہیں تو اقبال کے کلام اور اس کی تعلیم کا کوئی پہلو ایسا دکھائی نہیں دیتا جو محتاج تشریح اور تشنہ تنقید رہ گیا ہو۔‘‘۵؎ ایک پی ایچ ڈی سکالر عالیہ خاں نے اپنے مقالہ ’’ڈاکٹر یوسف حسین خاں:ادیب و نقاد،ایک جائزہ‘‘ میں داکٹر صاحب کے اندازبیان کو تاثراتی تنقید قر ار دیتے ہوئے کہا کہ یوسف حسین خاں کی تنقید کو ہم تاثراتی یا تجزیاتی تنقید کہہ سکتے ہیں اورانہیں یہ امتیاز حاصل ہے ۔‘‘۶؎ لیکن کچھ ایسے ناقدین بھی ہیں جو نہایت باریک بینی سے اقبال کے کلام کے حوالے سے اس کام کو تنقید کی کڑی کسوٹی پر بھی پرکھتے ہیں اور جس طرح حالی کی یادگار غالب کو مدلل مداحی قرار دیا گیا اسی طرح ’’روح اقبال‘‘ کو بھی یک طرفہ تبصر ہ قرار دیا گیاتاہم اس کے باوجودناقدین تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ اس سلسلے میں پروفیسر احتشام حسین اپنے اعتراضات کے باوجود اس کتاب کی عظمت کاا عترافان الفاظ میں کرتے ہیں کہ: ’’یہ محدود یک طرفہ تبصرہ ہونے کے باوجود اب تک اقبال پر سب سے اچھی کتاب ہے۔‘‘۷؎ مندرجہ بالا ناقدین کی آراء کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ’’روح اقبال ‘‘ علامہ اقبال کے کلام کی تفہیم کے حوالے سے سب سے پہلے منظر عام پر آنے والی کتاب ہے ۔جو اقبال کے فکرو خیال کی بہترین تفسیر ثابت ہوئی اور ہر کسی نے اس کا اعتراف کیا ۔یوسف حسین خاں کو علامہ اقبال کی قربت کا شرف بھی حاصل رہا لیکن ضروری نہیں کہ جو کسی کے قریب جو وہ محض مداح ہی ہو بلکہ وہ بہترین مفسر بھی ہو سکتا ہے۔ ’’روح اقبال‘‘ کے مولف ڈاکٹر یوسف حسین خاں چوں کہ اقبال سے قریب رہے ا س لیے کہا جا سکتا ہے کہ ’’روح اقبال‘‘ تفہیم اقبال کے لئے بہترین کتاب ہے اور اس کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے ہر آنے والے ایڈیشن میں سوچ اور فکر کے دھاروں کو زیادہ وسعت سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی ’’روح اقبال ‘‘ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی بہترین کتاب ہے جو اقبال فہمی میں بنیادی معاون ثابت ہوگی۔ہر دور میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے کیونکہ اس میں بہت سے خوبیاں ہیں جن کو آل احمد سرور نے ان الفاظ میں سراہا ہے: ’’بحیثیت مجموعی اس کتاب میں نہایت سنجیدگی اور قابلیت سے تنقید کی گئی ہے ۔انداز بیاں واضح اور دلکش ہے ،جابجا ضمنی مباحث پر بڑے مفید نوٹ اور حاژیے ہیںمثلا ادب برائے ادب ،اشاریت یا رمزیت کے متعلق اس کتاب کے مطالعے سے یہ خیال اور بھی پختہ ہوتا ہے کہ اقبال اپنے زمانے کی سطح سے کتنے بلند تھے۔‘‘۸؎ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے حق تالیف نہایت احسن طریقے سے بنھایا ہے انہوں نے کلام اقبال کی بہترین توضیح کے لیے ہر آنے والے ایڈیشن میں نہایت جاں فشانی اور دیدہ ریزی سے فکر اقبال کی روح کو دریافت کیا اور اسے اضافوں اور ترامیم کی صورت میں زیادہ خوب صورتی اور نکھار سے پیش کیا۔تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی اس کاوش کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا گیا ہے لیکن وقتا فوقتا کیے گئے اضافے اور ترامیم بھی فکر اقبال کی تفہیم میں انمول موتیوں کی طرح ہیں ۔ اس تحقیقی مضمون میں ڈاکٹر صاحب کے بہتر سے بہترین کے اس سفر پر روشنی ڈالی جائے گی۔ ’’روح اقبال‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۴۲ء میں حیدر اآباد دکن سے شائع ہوا۔اب تک اس کے سات ایڈیشن سامنے آچکے ہیں۔جن کی تفصیل آئندہ صفحات میں دی جائے گی ۔ذیل میں اس کے مندرجات کی فہرست دی جا رہی ہے جن سے اس کے موضوعات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ فہرست مضامین نذرانہ عقیدت دیباچہ باب اول :اقبال اور فن اقبال کی شخصیت ، فن اور زندگی،خلوص اور شعر، شاعر اور عالم فطرت، جذبہ عشق اور تسخیر فطرت، عشق اور عقل، اقبال کا شاعرانہ مسلک، رومانی فن، تخیلی پیکر، فنی تجزیہ ، اقبال کی غزل، ترکیبوں کی جدت باب دوم:اقبال کا فلسفہ تمدن خودی، مقاصد آفرینی عمل اور اخلاق قصہ آدم، انسانی فضیلت، اجتماعی خودی، تاریخی استقرا، انسان کامل، حیات اجتماعی، مملکت اور تمدن، نظام معیشت، نظام معاشری باب سوم:اقبال کا فلسفہ مذہب حیرت خانہ عالم ، خودی اور خدا، توحید، تقدیر اور زمانہ مسئلہ جبرو قدر، معراج نبوی، خودی ،عشق اور موت یہ فہرست مضامین ساتویں ایڈیشن (صدی ایڈیشن کے مطابق )ہے۔کیونکہ صدی ایڈیشن اس کتاب کے تمام ایڈشنوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔پہلے ایڈیشن سے لے کر ساتویں ایڈیشن تک داکٹر یوسف حسین خان نے ’’روح اقبال‘‘میں کہیں کم اور کہیں زیادہ اٖضافے کیے ہیںاور یہ تو ایک ادیب کی سرشت میں ہوتا ہی ہے کہ جب بھی وہ اپنے کلام یا کام پر نظر ثانی کرتا ہے تو اس کی مزید تراش خراش کرتے ہوئے اس میں حسب منشاء ترامیم و اضافے بھی کرتا رہتا ہے۔ روح اقبال کے ایڈیشن: ’’روح اقبال‘‘ ڈاکٹریوسف حسین خاں کی تصنیف ہے جس میںعلامہ اقبال کی شاعری کے حوالے سے روشنی ڈالی گئی ہے اس کتاب کے اب تک سات ایڈیشن شائع ہو ئے جن کی مختصر تفصیل ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے الفاظ میںیوں ہے: ’’روح اقبال کا پہلا ایڈیشن ۱۹۴۲ء میں اور دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۴ء میں حیدراآباد میں شائع ہواتھا۔ تیسرا ایڈیشن ۱۹۵۲ء میں چوتھا ایڈیشن ۱۹۵۶ء میں،پانچواں ایڈیشن ۱۹۶۲ء میں اور چھٹا ایڈیشن ۱۹۶۶ء میں مکتبہ جامع دہلی نے شائع کیا ۔اب ساتواں ایڈیشن غالب اکیڈمی ،نظام الدین ،دہلی کی طرف سے شائع ہو رہا ہے۔‘‘۹؎ مذ کورہ بالا اقتباس جو ڈاکٹر یوسف حسین خان کے صدی ایڈیشن (ساتواں ایڈیشن )کے دیباچے سے لیا گیا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے پہلے دو ایڈیشن حیدرآبادسے شائع ہوئے ، تیسرا ،چوتھا، پانچواں اور چھٹا ایڈیشن مکتبہ جامع دہلی سے چھپا اور ساتواں ایڈیشن ۲۵ مارچ ۱۹۷۶ء میں غالب اکیڈمی دہلی سے شائع ہوا۔اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ ’’روح اقبال‘‘کے تمام اصل مسودے انڈیا میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئے۔پاکستان سے جو ایڈیشن چھپے وہ ہو بہوان کی نقل ہیں ۔اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیاتمام ایڈیشن پاکستان سے بھی شائع ہوئے یاکسی ایک کو بنیاد بنا کر اسے مختلف اوقات میں شائع کیا گیا۔ ساتویں ایڈیشن کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یوسف حسین خاں نے اپنی تصنیف ’’روح اقبال‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں فارسی اشعار زیادہ درج کیے ہیں ۔دوسرے ایڈیشن میں کتاب کو اردو اشعار سے مزین کیا گیا ہے البتہ کہیں کہیں فارسی اشعار بھی درج ہیں۔تیسرے ایڈیشن میں نئے نئے خیالات کا اضافہ کیا گیا ہے۔چوتھے ایڈیشن میں لفظی تبدیلیاں کی گئی ہیںاور کہیں کہیں عبارت میں اضافہ کیا گیا ہے۔پانچویں ایڈیشن میں لفظی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ جو کچھ غلطیاں رہ گئی تھیںان کی اصلاح بھی کی گئی ہے۔چھٹے ایڈیشن میں نظر ثانی کرتے ہوئے بعض جگہ معمولی لفظی تبدیلیاں کی گئی اور ساتویں ایڈیشن میں جو اقبال کی صد سالہ تقریب کے حوالے سے شائع کیا گیا اس میں کوشش کی گئی کہ کتاب کو زیادہ سے زیادہ بہتر سے بہترین انداز میں پیش کیا جائے چناں چہ اس حوالے سے زیادہ اضافے کیے گئے ،کچھ کلام حذف کیا گیااور کچھ عبارتوں میں ترامیم بھی کی گئی۔اس تحقیقی مضمون میں ’’روح اقبال‘‘ کے دستیاب ایڈیشنوں کا موازنہ کر کے ترامیم اور اضافوں کے ساتھ ساتھ لفظی تبدیلوں اور حذف عبارتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ’’روح اقبال‘‘ میں ترامیم اور اضافوں کے حوالے سے میں نے جو ایڈیشن سامنے رکھے ہیں ان کی تعداد بظاہر پانچ ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: (۱) ۱۹۴۴ء میں شائع ہونے والا ’’روح اقبال ‘‘ کا دوسراایڈیشن (۲) ۱۹۶۲ء میںدہلی سے شائع ہونے والا ’’روح اقبال ‘‘ کا پانچواںایڈیشن (۳) ۱۹۶۹ء میں پاکستان سے شائع ہونے والا ’’روح اقبال ‘‘ کا پانچواں ایڈیشن (۴) ۱۹۷۶ء میں دہلی سے شائع ہونے والا ’’روح اقبال ‘‘ کا ساتواںایڈیشن (صدی ایڈیشن) (۵) ۱۹۹۶ء میںپاکستان شائع ہونے والا ’’روح اقبال ‘‘ چھٹا ایڈیشن چوں کہ پاکستان میں شائع ہونے والے پانچویں ایڈیشن کی کوئی کاپی دستیاب نہیں ہوئی اس لیے یہاں چار ایڈیشنز کا جائزہ لیا جائے گا جن کی تفصیل درج ذیل ہے: ۱۔ ۱۹۴۴ء کا’’روح اقبال ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن ،ڈاکٹر یوسف حسین خاں، طبع دوم، ادارہ اشاعت اردو، دکن۔ ۲۔ ۱۹۶۲ء کا ’’روح اقبال ‘‘ کا پانچواں ایڈیشن،ڈاکٹر یوسف حسین خاں ،مطبوعہ مکتبہ جامع دہلی۔ ۳۔ ۱۹۷۶کا’’روح اقبال ‘‘کاساتواں ایڈیشن(ترامیم و اضافے کے بعد) صدی ایڈیشن از ڈاکٹر یوسف حسین خاں ،غالب اکیڈمی ،نئی دہلی۔ ۴۔ ۱۹۹۶ء کا ’’روح اقبال‘‘ کا پاکستان سے شائع ہونے والا پانچواں ایڈیشن ، ڈاکٹر یوسف حسین خاں القمر انٹر پرائزز غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور ۔ اس طرح میں اس تحقیقی مضمون میں جن ایڈیشنز کو بنیاد بنا رہی ہوں وہ چار ہیں۔اس حوالے سے ۱۹۹۶ء میں پاکستان سے شائع ہونے والے چھٹے ایڈیشن کو بنیاد بنا کر اس کا موازنہ ’’ روح اقبال‘‘ کے ہندوستان سے شائع ہونے والے طبع دوم ۱۹۴۴ئ،طبع پنجم ۱۹۶۲ء اور طبع ہفتم(صدی ایڈیشن) کے ساتھ کیا جائے گا ۔ روح اقبال ایڈیشن دوم ۱۹۴۴؁ اور پاکستان میں ۱۹۹۶؁ میں شائع ہونے والے ایڈیشن کا موازنہ ان دونوں کے درمیان 1976ء کا ایڈیشن بھی آتا ہے لیکن اس میں ان دونوں کی ترقی یافتہ صورت ہے اس لیے پہلے ان دونوں کا موازنہ و تقابلی جائزہ لیا جائے گا۔ اس میں ۱۹۹۶؁ ء کے ایڈیشن کو بنیاد بنا کر اضا فے ،تراقیم اور حذف کلام کی نشاندہی کی جائے گی۔ ٌٌٌ* ۱۹۴۴؁ء میں شائع ہونے والے ایڈیشن میں ڈاکٹر رضی الدین کا مقدمہ بھی شامل ہے جو پہلے ایڈیشن کے حوالے سے لکھا گیا تھااورپھر اسے ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے طبع دوم کے ساتھ بھی شائع کردیا۔۱۹۹۶؁ء کے ایڈیشن میں یہ مقدمہ نہیں ہے بلکہ دیباچہ میں طبع اول تا ششم تبصرہ ہے جو ڈاکٹر یوسف حسین نے کیا ہے۔ ٌٌٌ* فہرست میں دیکھیں تو "اقبال اور آرٹ"کے ذیلی عنوانات میں "عقل اور عشق"بھی شامل ہے جو ۱۹۴۴؁ء کے ایڈیشن میں شامل نہیں ہوا۔ ٌٌٌ* اضافے: وہ اضافے جو ۱۹۴۴؁ء کے ایڈیشن میں شامل نہیں تھے لیکن ۱۹۹۶؁ء کے ایڈیشن میں شامل ہیں حسب ذیل ہیں۔ ٌٌٌ* ’’ایک اور جگہ اپنے آپ کو نسیم سحر سے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل میں مخفی ہوتے ہیں۔‘‘ تا عروس لالہ ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں (ص ۲۹) ٌٌٌ* ’’غالب نے اسی کو دل گداختہ سے تعبیر کیا ہے اس کا شعر ہے۔‘‘تا حسن فروغ ِ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل ِ گداختہ پیدا کرے کوئی (اضافہ حواشی ص ۳۱) ٌٌٌ* ’’شاعر فطرت کے مقابلے میں خودی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ فطرت پرطاری کردے۔‘‘ (ص۴۴۔۴۵) ٌٌٌ* ’’حافظ کی شاعری میں بھی اگر تلاش کیا جائے تو حرکی (ڈائی نیمک)عنصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (اضافہ حواشی ص ۴۷) ٌٌٌ* ’’دوسری جگہ اسی خیال کو اسطرح اداکیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کا شریک ہے۔‘‘تا جہاں اوآفرید، ایں خوب ترساخت مگرباایزد انباز است آدم (اضافہ ص ۵۰) ٌٌٌ* ’’عشق کی تاثیر کا ان اشعارمیں ظاہر کیا ہے۔‘‘تا عشق سے پیدانوائے زندگی میں زیروبم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزد مبدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخ گل میں جس طرح بادسحر گاہی کا نم تا نہ محتاج سلطان نہ مرغوب سلطان محبت ہے آزادی وبے نیازی (اضافہ ص ۵۷) ٌٌٌ* ’’ اقبال کو اپنے ہم مشربوں سے شکایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ تا اشعار۔ عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہ تصورات (اضافہ ص ۶۱) ٌٌٌ* ’’مولانا روم فرماتے ہیں۔‘‘ تا لا اُبالی عشق باشدے خرد عقل اک جوید کزاں سودے بُرد (اضافہ حواشی ص ۶۲) ٌٌٌ* ’’ اس کے ساتھ ساتھ وہ خبر دار کرتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ پوری طرح بھروسا کیا جاسکتا ہے۔‘‘ تا اشعار نشان راہ زعقل یزارحیلہ پرس بیاکہ عشق کمالے زیک فنی دارد (اضافہ متن ص ۶۵) ٌٌٌ* ’’دوسری جگہ اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے۔۔۔۔۔ نظرآتی ہے۔ ‘‘ تا ۳ اشعار خیزونقش عالم دیگر بنہ عشق را باز یر کی آمیزدہ (اضافہ متن ص۶۷ ) ٌٌٌ* ’’مغربی رمزنگاروں کے یہاں جذبے اور احساس ذات۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘تا ۵ فارسی اشعار۔ (اضافہ متن ص ۷۲،۷۳) ٌٌٌ* ’’ اسی فنی اصول کے ماننے والے۔۔۔۔۔۔۔ کا بھی خاص خیال رکھاجاتا ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص۷۶) ٌٌٌ* ’’ رومانیت کے ادبی مسلک کا ماننے والا۔۔۔۔۔۔۔ اس میں لفظی بازی گری کے سو اکچھ باقی نہیں رہا۔‘‘ (اضافہ ص ۷۷،۷۸) ٌٌٌ* ’’رومانیت پسند آرٹسٹ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔ بے اعتدالی سے بچنا ممکن نہیں۔‘‘ (اضافہ متن ص ۸۲،۸۴) ٌٌٌ* ’’جب انقلاب آئین دہرہے تو ممکن ہے کہ ہماری قسمت جاگے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ تا آخری اشعار۔ مرے قافلے لُٹا دے اسے لٹادے ! ٹھکانے لگادے اسے (اضافہ متن ص ۱۰۹۔۱۱۰) ٌٌٌ* ’’اقبال نے جس زمانے میں مثنوی اسرار خودی لکھی۔۔۔۔۔ تاثیر بے پناہ ہے۔ ‘‘ تا خاتمہ (فارسی اشعار)پر۔ (اضافہ متن ص ۱۱۶۔۱۱۷) ٌٌٌ* ’’فارسی اور اردو شاعروں۔۔۔۔۔۔۔ دونوں پر چپساں ہوتا ہے۔‘‘تا خیال اوچہ پری خانہ بنا کردہ است شباب غش کنداز لذت لب باش (اضافہ متن ص ۱۲۰) ٌٌٌ* ’’ایمائی طور پر شاعر اپنے ۔۔۔۔۔۔۔ اس شعر میں اظہار کیا ہے۔‘‘تا میری مینائے غزل تھی ذراسی باقی شیخ کہتا ہے کہ وہ بھی ہے حرام اے ساقی (اضافہ متن ص ۱۲۲) ٌٌٌ* ’’اس توسط سے وہ زندگی کی نہایت سادگی ۔۔۔۔۔ شعر تخلیقی محرک ۔‘‘ (اضافہ متن ص ۱۳۵) ٌٌٌ* ’’اسی لئے وہ اسے فقرو بے نیازی سے وابستہ رکھتا ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۱۳۵) ٌٌٌ* ’’ایک جگہ" چیونٹی اور عقاب" کے عنوان سے دو شعر لکھے۔۔۔۔۔اپنی نظم شاہین میں اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے۔ اشعار‘‘ تا پرندوں کی دنیا کا درویش ہوںمیں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ (اضافہ متن ص ۱۳۶۔۱۳۷) ٌٌٌ* ’’ترکیبوں کی جدت میں ترکیب "سرخی"کا اضافہ (اضافہ متن ص ۱۳۹) ٌٌٌ* ’’انسانی خودی مثل ایک سمندر کے ہے جس کا اور چھور نہیں ہے۔ اس کی وسعتیں اتنی ہی ہیں جتنی خود انسان کی ہمت ۔اس خیال کو اس شعر میں پیش کیا ہے۔‘‘تا خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں (اضافہ متن ص ۱۴۳) ٌٌٌ* ’’ذات یا خودی ، انفرادیت سے علیحدہ ہے۔ ‘‘ (اضافہ متن ص ۱۴۴) ٌٌٌ* ’’انفردیت نباتاتی او رحیوانی عالم میں ملتی ہے۔۔۔۔۔ پوری شخصیت پر حاوی ہوتا ہے۔‘‘ (اضافہ ص ۱۴۵۔۱۴۷) ٌٌٌ* ’’ افلاطون، ارسطواور رواتی مفکروں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بے عملی کا خود شکار ہوگئی۔‘‘ (اضافہ متن ص ۱۵۸۔۱۶۰) ٌٌٌ* ’’انسانی زندگی کو سمجھنے کے لیے ضروری۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ تا شعر اگر نہ سیل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے بری ہے مستی اندیشہ ہائے افلاکی (اضافہ متن ص ۱۶۱۔۱۶۲) ٌٌٌ* ’’تصوف کے خیالات جو شاعری ۔۔۔۔۔۔ دوسری قوم کے لئے جگہ خالی کردینی پڑی۔‘‘ (اضافہ متن ۱۶۴۔۱۶۷) ٌٌٌ* ’’ہر وہ انسان جو اپنی خودی ۔۔۔۔۔۔نئی راہیں نکالتی ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۱۷۴۔۱۷۶) ٌٌٌ* ’’کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ جس سے تاریخ عبادت ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۱۸۱) * ’’اقبال نے "جاوید نامہ" میں اس سے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ یزداں دادل از تاثیر اوپر خوں شود زورے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۱۸۵۔۱۸۶) * ’’اقبال کے نزدیک ۔۔۔۔۔۔۔۔ کائنات سے بلند ہے۔‘‘ تا برتر از گر دوں مقام آدمی است اصل تہذیب احترام آدمی است (اضافہ متن ص ۱۸۷) * ’’فطرت کے حوادث و تفرات ۔۔۔۔۔۔۔۔ جواسلامی روح کے منافی ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۱۹۸۔۲۰۰) * ’’اپنی نظم "قلندر کی پہچان "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمع ہدایت بنے گا۔‘‘ (اضافہ متن ص ۲۰۷۔۲۰۹) * ’’حقیقت میں فرد اور جماعت ۔۔۔۔۔۔۔اور حامل بن جاتی ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۲۲۰۔۲۲۴) * ’’قوموں کے زوال ۔۔۔۔۔ نہ کیسی دوسرے پر۔‘‘ (اضافہ متن ص ۲۳۳۔۲۳۵) * ’’جدید تمدن کا یہ ایک ۔۔۔۔۔۔ جس سے نکلنا ممکن نہیں ۔‘‘ (اضافہ متن ص ۲۶۷۔۲۶۹) * ’’اقبال نے ہندوستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے فطرت محروم ہے۔‘‘ (اضافہ و تبدیلی ص ۳۰۱۔۳۰۴) * ’’پھر یہ بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے موافق ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۳۰۵) * ’’کوئی انسانی ادارہ۔۔۔۔۔۔۔۔ قومی رجحان موجود ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۳۰۶۔۳۰۸) * ’’ اشتراکیت کی ایک قسم کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احوال کے مطابق طے کرسکتا ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۳۲۸۔۳۳۲) * ’’خارجی عالم کے خواص فی نفسہ ۔۔۔۔۔ مولانا روم فرماتے ہیں۔‘‘ تا قالب از ماسیت شد نے ماازو بادہ ازماست شدنے ماازو (اضافہ متن ص ۳۵۶) * ’’اگریہ تسلیم کیا جائے کہ ذات ۔۔۔۔۔۔خودی کا جوہر ہے۔‘‘ (اضافہ متن ص ۳۷۱۔۳۷۳) * ’’ انسان اگر اپنے نفس …تا …کہ خاک زندہ ام درانقلابم (اضافہ ص ۴۰۵۔۴۰۶) * ’’معراج کے سلسلے میں اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔ وسعت اور گہرائی ہے۔‘‘ (اضافہ ص ۴۵۴۔۴۵۵) * ’’کلاسیکی اور نوافلاطونی عقیدے۔۔۔۔۔۔۔۔ تردید ہوتی ہے۔‘‘ (اضافہ ص ۴۷۲۔۴۷۳) جو متن دوسرے ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۴۴ئ؁ میں موجود ہے اور اسے ۱۹۹۶ئ؁ والے ایڈیشن میں شامل نہیں کیا گیا حسب ذیل ہے: ۱۔ زمانہ ہیچ نداند حقیقت اوار، جنوں قیامت کہ موبہ قامت خرداست خرد جب ذوق جنوں /شیش سے آشنا ہوجائے ……سے پہلے یہ کلام حذٖف کردیا گیا۔ (ص ۶۷) ۲۔ Symbalism e Romamticism C (رومانیت اور رمزیت کی حواشی حذف کردی گئی ہے۔) ( ص۷۰) ۳۔ حرف بااہل زمین رندانہ گفت حوروجنت و ابت و بت کانہ گفت شعلہ ہادر موج دوش دیدہ ام کبریا اندر سجودش دیدہ ام (دوسراشعرحذف ص۷۲) ۴۔ اور اس کا زندگی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ ’’ہمارا ادب میں غزل کا مروجہ طریق اسی نوعیت کا ہے۔ ‘‘ (یہ لائن حذف ہے ص ۸۷) ۵۔ ’’چنانچہ‘‘کو یہی وجہ ہے کہ بلبل اور قمری کی ۔۔۔۔۔ سے پہلے حذف کردیا گیا۔ (ص ۳۶) ۶۔ ’’اکثریت کا فیصلہ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے موافق ہے۔‘‘ کے درمیان یہ الفاظ حذف ہیں۔ ’’انسانیت کے تمام اہم فیصلوں کو جو زندگی کی رخ کو بدلنے والے ہوں۔ محض تعداد کے تابع کردیناانسانیت کے لئے باعث ننگ ہے"(ص ۳۰۵) ۷۔ ’’نفس بہ نسبت جسم کے وطن۔۔۔۔۔۔۔ سے پہلے لفظ ’روح ‘حذف ہے۔‘‘(ص ۴۶۴) لفظی تبدیلیاں : ایڈیشن ’’روح اقبال‘‘۱۹۴۴ء ایڈیشن’’روح اقبال‘‘۱۹۹۶ء ۲۔ بعض صناعوں میں یہ موضوعی اور بعض فنکاروں میں یہ اندرونی معروضی دونوں طریقے پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔خارجی دونوں محرک پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔(ص۸۷) ۳۔ پردہ تقدیر ، تقدیر کے پردے ۔(ص۱۰۸) ۴۔ تشبہات،تشبہیں(ص۱۱۵) ۵۔مظہرقوت، جوش حیات (ص ۱۳۵) ۶۔ ذریعہ، ذریعے(ص۱۵۲) ۷۔ بعضوں، بعض (ص۱۵۳) ۸۔ تاریخ استقرائ، تاریخی استقرائ(ص ۱۹۳) ۹۔ تصورات، تصور(ص۲۰۵) ۱۰۔ جلوہ، جلوے(ص۲۰۹) ۱۱۔خطرہ، خطرے(ص۳۰۵) ۱۲۔ ماد، مادے(ص۳۵۷) ۱۳۔ مشخصہ، مشخص(ص۳۸۶) ۱۴۔عقیدہ توحید، توحید کے عقیدے(ص۳۹۸) ۱۵۔ نقطہ- عقیدہ توحید کی بدولت، نکتہ،توحید کے عقیدے سے(ص۴۰۰) ۱۶۔زمانہ، زمانے (ص۴۰۳) ۱۷۔ز مان ، زماں (ص۴۳۵) ۱۸۔نغمہ ملایک ، جاوید نامہ (ص۴۳۵) روح اقبال کے ۱۹۶۲ء میں شائع ہونیوالے ایڈیشن اور ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن کا موازنہ ’’روح اقبال‘‘ کے پاکستان سے ۱۹۹۶ء میں شائع ہونے والے طبع ششم کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں مصنف یوسف حسین خان نے بہت کم اور معمولی لفظی تبدیلیاں کی ہیں ۔اسی وجہ سے عام طور پر سرسری جائزہ میں عنوانات اور دیگر مواد کے جائزہ سے یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید طبع پنجم مطبوعہ ہندوستان اورطبع ششم پاکستان دونوں ایڈیشنز میں کوئی فرق نہیں اور یہ بھی گمان کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں شائع ہونے والا ’’ روح اقبال‘‘ کا ۱۹۹۶ء کا ایڈیشن شاید اسی ہندوستان میں ۱۹۶۲ء میںشائع ہونے ولے ایڈیشن کی ہی کاپی ہے ۔ چناں چہ بغائر مطالعہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ یوسف حسین خان نے طبع ششم میں معمولی لفظی تبدیلیاں ضرور کی ہیں کہیں کہیں کچھ جملے حذف بھی کیے ہیں ۔اس حوالے سے یوسف حسین خاں خود طبع ششم کے دیباچہ میں اس امر کا اعتراف کرتے ہیں: ’’میں نے اس ایڈیشن پر پھر ایک نظر ڈالی ہے اور بعض جگہ معمولی لفظی تبدیلی کی ہے۔‘‘ (۱۰) اسی تناظر میںدونوں ایڈیشنز کا جائزہ لیتے ہوئے طبع ششم ۱۹۹۶ء کی ’’روح اقبال‘‘ کو بنیاد بنا یا گیا ہے ۔ سب سے پہلے جو تبدیلی طبع ششم میں کی گئی وہ طبع پنجم میں دیباچہ کے بعد علامہ اقبال کی تصویر ہے جس کے نیچے دائیں جانب پیدائش ۱۸۷۵ء ، درمیان میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور بائیں جانب وفات۱۹۳۸ء درج ہے ،کو طبع ششم میں شامل نہیں کیا گیا۔ لفظی تبدیلیاں جو طبع ششم میں کی گئیں وہ حسب ذیل ہیں: لفظی تبدیلیاں: طبع پنجم۱۹۶۲ء ، طبع ششم۱۹۹۶ء آرٹ(ص۱۱) آرٹ (ص۱۳) انھیں (ص۱۲) انہی (ص۱۴) میخانہ (ص۱۵) مے خانہ (ص۱۸) بایست (ص۱۹) بائیست (ص۲۱) خارجی حقیقت (ص۲۲) خارجی شکل(ص۲۷) پتا (ص۲۴) پتہ (ص۳۰) دیگرے (ص۲۴) دیگزے (ص۳۲) تشبیہوں سے (ص۲۸) تشبیہوں میں (ص۳۲) شاعر کیا کہہ گیا (ص۳۵) شاعر کہہ کیا گیا (ص۴۲) تارنگہ (ص۳۸) تار نگاہ (ص۴۶) راہے است ( ص۳۸) راہے ست (ص۴۶) نگاہے است (ص۳۸) نگاہے ست (ص۴۶) جنھیں (ص۳۸) جنہیں ( ص۴۶) در دل خاک (ص۳۹) تا دل خاک (ص۴۶) مکالمے (ص۴۱) مقالمے (ص۴۹) لامتناہی (ص۵۹) لامتناعی (ص۷۱) سخن نگفتہ (ص۷۱) سخن نا گفتہ (ص۸۵) ذہنی رجحانات (ص۷۲) مذہبی رجحانات (ص۸۶) کریکڑ (ص۷۳) کریکٹر (ص۸۷) جہان آب و گل (ص۸۶( جہان رنگ و بو (ص۱۰۶) مکالمہ (ص۱۲۵) مقالمہ (ص۱۴۸) انھیں (ص۱۲۷) انہی (ص۱۵۰ حکماء (ص۱۳۷) حکما (ص۱۶۰) کار جہاں (ص ۱۳۸) کار زمیں ص۱۶۲ تحقیق ذات (ص۱۴۰) عرفان ذات (ص۱۶۴) ادنی درجے (ص۱۴۶) ادنی درجہ (ص۱۷۱) بات کہلوائی (ص۱۴۹) بات کہی (ص۱۷۴) سنگ راہ بنتا ہے(ص۱۵۱) سنگ راہ ہو جاتا ہے( ص۱۷۶) ہنگامہ زائیوں (ص۱۵۱) ہنگامہ زایوں (ص۱۷۶) تصرف کر سکتا ہے (ص۱۵۸) تصور کر سکتا ہے (ص۱۸۴) اگہ کند (ص۱۶۷) آگاہ کند (ص۱۹۴) حصے دار (ص۱۷۱) حصہ دار (ص۲۰۳) ناز بر ملک (ص۱۸۰) ناز بر فلک (ص۲۰۵) رائگاں (ص۱۸۲) رائیگاں (ص۲۰۷) انھیں (ص ۲۲۵) انہیں (ص ۲۵۸) موقع (ص ۲۳۴) موقعے (ص ۲۶۷) نگہ (ص۲۴۶) نگاہ (ص۲۸۲) چھے (ص ۲۶۲) چھ (ص ۹۳۰۰ عاید (ص۲۹۳) عائد(ص ۳۵۷) دائمی سیلان و تغیر ( ص ۳۱۹) دائمی میلان و تغیر (ص۳۶۱) ظہور فرماتا ہے (ص ۳۲۳) ظہور فرماتی ہے (ص۳۶۵) نہ بینی (ص۳۳۷) بہ بینی (ص۳۸۰) آغوش دریا ست (ص۳۴۳) آغوش دریا است (ص۸۶ا) عاید (ص ۳۶۰) عائد ص۴۰۶ نگہہ (ص۴۰۰) نگاہ (ص۴۵۱) حذف عبارات: * یہ عبارات طبع پنجم۱۹۶۲ء کے ایڈیشن میںموجود ہیں لیکن ۱۹۹۶ء کے چھٹے ایڈیشن میں انہیں حذف کر دیا گیا) * اس نے گرفتار کرنے کے لیے قفس بنائے۔(ص۴۱) * اور پھر ان اشکال کو موزوں طور پر ظاہر کرتی ہے ۔آرٹ کی تخلیق اسی عمل سے عبارت ہے۔(ص۵۴) * کے اعمال سے جو نتائج مرتب ہوتے ہیں ان سے علم و بصیرت کے علاوہ عبرت بھی حاصل پوتی ہے۔(ص۱۶۶) * جو ان کی اجتماعی وحدت کے دوش بدوش نظر اآتا ہے ۔تجربوں کی اخلاقی تنظیم میں جو تنوع پیدا ہوتا ہے۔(ص۱۹۴) * کتابت احمد علی بھوپالی،جنوری ۱۹۶۲ء ۔(آٖخری صفحہ طبع پنجم) ’’روح اقبال‘‘ کے صدی ایڈیشن۱۹۷۶ء اور ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن کا موازنہ اور تقابلی جائزہ اس سے پیشتر ہم نے ۱۹۴۴ء اور ۱۹۹۶ء میں شائع ہونے والے ایڈیشنز کا جائزہ لیا ۔اب ہم روح اقبال کے ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن اور ۱۹۷۶ء کے ایڈیشن کا جائزہ لیں گے ۔اس میں بھی بنیاد ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن کو بنایا جائے گا۔اور صدی ایڈیشن میں ہونے والے اضافوں اور ترامیم کے ساتھ ساتھ حذف شدہ کلام کی نشاندہی کی جائے گی۔ اضافے: صدی ایڈیشن میں لفظ آرٹ کی جگہ ’’فن‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ دیباچہ میں اضافہ: * روح اقبال کے صدی ایڈیشن میں صفحہ نمبر ۷ میں دیباچہ میں ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے: ’’ان کی تہہ میں اقبال کا مخصوص تصور حیات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو اسے دل و جان سے زیادہ عزیز تھے‘‘ (ص۷صدی ایڈیشن) دیباچہ کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے: ’’اقبال کی صد سالہ تقریب آئندہ سال ہندوستان اور پاکستان میں بڑے پیمانے پر منائی جائے گی۔اس کے پیش نظر ساتویں ایڈیشن کا نام صدی ایڈیشن رکھا گیا ہے۔اقبال کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر یہ مصنف ’’روح اقبال‘‘کی جانب سے نذرانہ عقیدت ہے۔‘‘ ( ص۸) * صفحہ نمبر ۱۰ میں بھی لائن نمبر ۸ میں ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے: * ’’تاکہ فکرو وجدان کے جو دھارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احساس کی رسائی ہو سکے۔‘‘ ( ص۱۰) * ’’اقبال نے اپنے مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی پیاس بجھائے۔‘‘تا بصدائے دردمندے بنوائے دلپذیرے خم زندگی کشادہ بجہان تشنہ میرے ( ص۱۲۔۱۳) ٌ* ’’اقبال نے جس کو وسیع معنی میں……زندگی کا آئینہ دار ہو۔‘‘ (ص۱۶) * ’’اقبال کا یہ دعوی ہے کہ……لطف و مسرت حاصل کرتا رہے گا۔‘‘ ( ص۱۸۔۱۲) * ’’دوسری جگہ کہتے ہیں : میری نواسے گریبان لالہ چاک ہوا نسیم صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی‘‘ ( ص۲۵) * ’’اس طرح احساس و تاثر کی دنیا ……کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔‘‘( ص۲۶) * ’’شاعر کے لیے اس کا شعر حرف تمنا ہے۔ تا فلسفہ و شعر کی حقیقت ہے کیا حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو‘‘ (ص۲۶) * ’’پھر کہتا ہے کہ میری آتش نوائی نے مجھے پھونک ڈالا۔ تا ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی تجلی یا رب جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانہ دل‘‘ (ص۳۰) * ’’داخلی جذبہ کے بغیر ……جوش بیان پیدا ہو سکتا ہے‘‘ (ص۳۱) * ’’اقبال کی شاعری میں جذبہ و وجدان ……تمدن کا قیام ممکن ہو۔‘‘ (ص۳۱) * ’’جس کے تصور میں بھی اقبال ……جو خیرو شر پر محیط ہے۔‘‘ (ص۳۲) * ’’فن کا ر کا حسن کا تجربہ……زیادہ اہمیت دیتا ہے۔‘‘ (ص۳۵۔۳۸) * ’’میں نے جب تک اس پر ……رکاوٹ تھیںدورہ گئیں۔‘‘ (ص۴۸۔۴۹) * ’’اس میںمجازاور حقیقت ……سب شامل ہیں۔‘‘ (ص۵۲۔۵۱) * ’’اقبال عقل اور عشق ……بلند تر صورت ہے۔‘‘ (ص۵۶( * ’’آرزو مندی بھی ذہین …… زندگی کے شیون ہیں۔‘‘ (ص۵۸) * ’’انسانی زندگی کو تجزیہ تکمیل……پتا نہیں چلے گا۔‘‘ (ص۵۹) * ’’اقبال کے نزدیک انسانی عمل کی سعادت……فن کی عظمت پوشیدہ ہے۔‘‘ (ص۶۲) * ’’اس میں ڈرامائی عناصر نے انداز بیاں کے لطف کو دوبالا کردیا۔‘‘ (ص۶۳) * ’’اقبال انسان کی آزادی کا علمبردار ہے……تا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا‘‘ (ص۷۵) * ’’تعقل اور جذبہ مل کر……اس کے کلام میں ملتاہے۔‘‘(ص۷۸۔۷۷) * ’’عظیم فنکار………تا غزل آں گو کہ فطرت ساز خود راپردہ گرداند چہ آید زاں غزل خوانے کہ بافطرت ہم آہنگ است (ص۷۹) * ’’پیام مشرق میں ایک نظم ……تا شوق اگر زندہ جاوید بنا شد عجب است کہ حدیث تو دریں یک نفس تتواں گفت‘‘ (ص۸۲۔۸۰) * ’’اس نسے نہ ہماری مسرت میںاضافہ ہوتا ہے نہ ہماری بصیرت میں۔‘‘ (ص۸۳) * ’’ایسدا لگتا ہے کہ زندگی …… ترقی نہیں دے سکتا۔‘‘ (ص۸۹۔۹۰) * ’’وہ کائنات کی حقیقت…… وجدان سے پرکھتا ہے۔‘‘ (ص۱۱۳) * ’’ایک اور مسلسل نظم نماغزل…… مریضانہ افسردگی کہیں نہیں۔‘‘ (ص۱۱۸۔۱۲۰) * ’’ترکیبوں میں’’ سر نہاں خانہ تقدیر ‘‘ اور ’’لذت تخلیق‘‘ کا اضافہ ۔‘‘ (ص۱۲۷) * ’’عشق کی فریاد کی تاثیر……تا ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک‘‘ (ص۱۲۸) * ’’یہ خوداری بھی ہے ……اقبال کا خیال ہے۔‘‘ (ص۱۳۰) * ’’خودی فطرت اور ماورائے فطرت……ایک قسم کی بغاوت ہے۔‘‘ (ص۱۳۱۔۱۳۹) * ’’خود شناسی کی راہ…… تا نظر بخویش چناں بستہ ام کہ جلوئہ حقیقت جہاں گرفت و مرا فرقت تماشا نیست‘‘ (ص۱۴۱) * ’’کیونکہ کسی میں بھی …… تیار معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ (ص۱۴۲) * ’’عمرانی کلیت عہدبرآہ …… نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ص۱۴۵) * ’’مقاصد آفرینی کی ہیڈنگ میں خودی کے عنوان کا آخری حصہ درج ہے ۔‘‘(ص۱۴۹۔۱۵۰) * ’’اقبال نے حر کی تصوریت ……بہت دشوار تھا۔‘‘ (ص۱۵۴۔۱۵۹) * ’’اگر تصوف کے اسرار و رموز……کوئی مصرف نہیں ۔‘‘ (ص۱۶۶) * ’’اقبال کا تصوف مروجہ تصوف سے الگ……سراہا ہے۔ تا مولانہ رومی کے اشعار تک ۔‘‘ (ص۱۷۰۔۱۷۱) * ’’پلاٹینس ‘‘کے ساتھاضافہ نو افلاطونی فلسفے کے بانی ۔‘‘ (ص۱۷۲) * ’’وہ خدا کی صفت……زندگی کی رونق ہے۔‘‘ (ص۱۸۸) * ’’دوسری جگہ کہتے ہیں……تا اے قوم بہ حج رفتہ کجائید کجائید معشوق ہمیں جاست بیائید بیائید‘‘ (ص۱۸۸۔۱۸۹) * ’’ان کی شراب بھی مانگے تانگے…… روشنی دے سکتا ہے۔‘‘ (ص ۱۹۳) * ’’خود اپنی ذات سے جو……تا زخاک خویش طلب آتشے کہ پیدانیست تجلی دگریدرخور تقاضا نیست‘‘ (ص۱۹۴۔۱۹۳) * ’’اجتماعی زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ……تا سرگزشت او گر ازیادش رود باز اندرنیستی گم می شود‘‘ (ص۱۹۹) * ’’اقبال کا خیال تھا کہ ……تا سفر زندگی کے لیے برگ و سازسفر ہے حقیقت،حضر ہے مجاز‘‘ (ص۲۰۳۔۲۰۲) * ’’آنحضرت کی ذات……اعتماد کرنا چاہیے۔‘‘ (ص۲۱۵۔۲۰۷) ٌ* ’’زبور عجم میں ایک جگہ کہا ہے کہ ……تا زمین و آسماں را برمراد خویش می خواہد غبار راہ با تقدیر یزداں داوری کردہ‘‘ (ص۲۱۵) * ’’دراصل اقبال کا انسان……رونق ہو گی۔‘‘ (ص۲۱۸۔۲۱۷) * ’’اس شعر میں بھی انسان کامل کی طرف اشارہ ہے: آیہ ء کائنات کا معنی دریاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو‘‘ (ص۲۱۸) * ’’اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب…… تا عقل اندر حکم دل یزدانی است چوں ز دل آزاد شد ،شیطانی است‘‘ (ص۲۶۳) * ’’اور خاص حالات میں انسانی فطرت کے مطالبوں کو پورا کرتے ہیں ۔‘‘ (ص۲۷۳) * ’’سیاسی زندگی میں انسانی فطرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نگہداشت ممکن نہیں تھی۔‘‘ (ص۲۷۳) * ’’گذشتہ پچیس سالوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبل از وقت ہے۔‘‘ (ص۲۹۵) * ’’یہ تشبیہ ان دریئائوں سے لی گئی ہے جو ریگستان ہی میں بہہ کر ختم ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (ص۲۹۶) * ’’موجودہ جمہوریت میں فرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دولت موجود ہے۔‘‘ (ص۲۹۷) * ’’اقبال نے دنیاوی سیکولر جمہوریت کے خلاف سخت تنقید کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تا (ص؟) * ’’اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خلل پیدا ہو گیا۔‘‘ (ص؟ * ’’اقبال اشتراکیت کے بعض اصول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ واضح نہیں ۔‘‘ (ص۳۲۱) * ’’انسانی تاریخ کی بقا ……تا ……من ہما ۔۔۔۔۔۔لالہ از۔۔۔۔۔۔(ص۳۲۹) * ’’دوسری جگہ کہتے ہیں کہ انسان خدا کا راز ہے اور عالم اس کا ظہور ہے۔‘‘ (ص۳۴۲) * ’’فطرت کا عمل انسانوں سے بے پرواہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تا فارسی کے دو اشعار‘‘ (ص۳۴۶) * ’’یونان کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔راستہ صاف کر دیا۔‘‘ (ص۳۷۶) * ’’اقبال کا خیال ہے کہ قرآن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا فغانی شیرازی نے بھی اس مضمون کو بڑے لطیف انداز میں بیان کیا ہے۔‘‘ (ص۳۸۸۔۳۸۷) * ’’اقبال کے مرشد مولانا روم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نقد جان کہتے ہیں ۔ تا ہم طلب از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (ص۴۰۸۔۴۰۲) * ’’انسان کامل کا تصور ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنت بن جائے گی۔‘‘ (ص۴۱۱) * ’’اقبال نے ایک دوسری جگہ ان مطالب کو اس طرح بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تا فارسی اشعار۔‘‘ (ص۴۴۴۔۴۴۲) *’’دوسری جگہ کہا ہے : ہے ازل کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق عقل انسانی ہے فانی زندہ جاویدہے عشق‘‘ (ص۴۵۳) * ’’قرآن کریم میں ہے کہ جب نفس مطمئنہ جنت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلامی تصوف و احسان کا مقسود و منتہا ہی ہے۔‘‘ (ص۴۵۷) * ’’عشق اور موت کے مقامات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تا کھول کے بیاں کروں مقام مرگ و عشق عشق ہے مرگ باشر،مرگ حیات بے شرف‘‘ (ص۴۶۱) * ’’اس لیے کہ اس کی حقیقت مادے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روح سرمدی ہے۔ تا ہے ازل کے نسخہ درینہ کی تمہید عشق عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید ہے عشق ‘‘ (ص۴۶۲) لفظی تبدیلیاں روح اقبال صدی ایڈیشن ۱۹۷۶ء روح اقبال ایڈیشن ۱۹۹۶ء ۱۔ اعلا ادب ص۸ ادب عالیہ ص۱۰ ۲۔ قایم ص۱۴ قائم ص۱۳ ۳۔ اعلا ص۱۶ اعلی ص۲۱ ۴۔ علاحدہ ص۱۶ علیحدہ ص۱۴ ۵۔ تصنع ص۲۱ مصنوعی ص۲۵ ۶۔ واقع ص۳۱ واقعہ ص۳۶ ۷۔ ادنا ص۳۱ ادنی ص۳۶ ۸۔ ذات الوہیت ص۱۲۱ ذات باری ص۱۳۱ ۹۔ پایمال ص۱۲۴ پائمال ص۱۳۷ ۱۰۔ تقوا ص۳۳۱ تقوی ص۳۳۷ ۱۱۔ توجیہہ ص۳۵۳ توجہ ص۳۵۸ ۱۲۔ زکات ص۳۱۷ زکوۃ ص۳۲۵ ترمیم عبارت روح اقبال ۱۹۷۶ء کاصدی ایڈیشن روح اقبال کا ۱۹۹۶ کا ایڈیشن ۱ اقبال کا آرٹ دلوں کو لبھانے میں پوشیدہ ہے۔ ص۹ ۱ اقبال کا آرٹ دلوں کو لبھانے کے طلسم میں پوشیدہ ہے۔ ص۱۳ ۲ اقبال کی زندگی میں ہمیںمشرق و مغرب کے علم و حکمت کا امتزاج ملتا ہے۔ ص۱۰ ۲ اقبال کی زندگی میں مشرق و مغرب کے علم کے دھارے آکر مل گئے۔ ص۱۴ ۳ اس کی عالمگیر محبت غیر محدود حسن کی جستجو میں سرگرداں رہتی ہے۔ ص۱۷ ۳ اس کی عالمگیر محبت غیر محدود حسن کی جستجو میں اپنے آپ کو ضم کر دیتی ہے۔ ص۲۲ ۴ تخیل کی ہر تخلیق کے عناصر احساس و ادراک سے مستعار لیے جاتے ہیں۔ ص۲۳ ۴ تخیل کی جس قدر تخلیق ہوتی ہے ان کے عناصر احساس ادراک سے مستعار لیے جاتے ہیں۔ ص۲۷ ۵ یہ سب کچھ تخیل کا کرشمہ ہے جو بھولی بسری یادوں کو ہمارے ذہن میں نئے صورت عطاکرتا ہے ۵ یہ سب کچھ تخیل کا کرشمہ ہے جو بھولی بسری یادوں کو ہمارے ذہن میں نئی اہمیت عطاکرتا ہے۔ ص۲۷ ۶ اس میں امتزاج وترکیب کی ذہنی صلاحیت بدرجہ اتم ہوتی ہے۔ص۲۵ ۶ اس میں امتزاج و تراکیب کی ذہنی صلاحیت بدرگہ اتم ہونی چاہیے۔ ص۳۵ ۷ شاعر اپنے شعر کے ذریعے جذبے کے اظہار کا آرزو مند ہوتا ہے جو شاعر جذبہ و احساس سے محروم ہے اس کی تخلیق لازمی طور پر مصنوعی ،جبے جان اور غیر حقیقی ہو گی۔ ص۳۱ ۷ آرٹسٹ اپنے آرٹ کے ذریعے زندگی کے اظہار کا آرزو مند پوتا ہے جو آرٹسٹ زندگی سے دور ہو اس کی تخلیق لازمی طور پر مصنوعی ،بے جان اور غیر حقیقی ہو گی۔ ص۳۵ ۸ اب اگر اسلامی ملک اور دوسری ایشیائی قومیں اپنے علم و عمل کو زندگی کی ترقی کے لیے وقف کردیں ۔ ص۲۴۶ ۸ اب اگر مسلمان اپنے آپ کا اسلام کا سچا جانشین ثابت کریں۔ ص ۲۲۹ ۹ اس تخلیقی امتزاج کے باعث انسانی خودی ذات باری سے قرب و اتصال حاصل کرتی ہے۔ ص۵۴ ۳ ۹ اس تخلیقی امتزاج کی بدولت انسان اپنی خودی کے ڈانڈے ذات بار تعالی سے ملادیتا ہے۔ ص۳۶۰ حذف کلام ۱۔وہ کلام جو ’’روح اقبال ‘‘ کے ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں موجود ہے لیکن ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن میں حذف کر دیا گیا ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۱ اس کی زندگی اور اس کے ذہن میں بلا کی وسعت تھی ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۵ سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ ۱۳ پر موجود ہے۔ ۲ آرٹ والا حصہ رسالہ اردو۔۔۔۔۔۔رسالہ سیاست میں شائع ہوئے ہیں۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۷سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں دیباچہ میں موجود ہے۔ ۳ یہ کام اس وقت ہو سکے گا ۔۔۔۔۔۔عرصے تک اپنے آپ کو مصروف رکھیں گے۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۱۰سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ۱۴ میں موجود ہے۔ ۴ جسے وہ مرد مومن کہتا ہے۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے لائن ۱۴صفحہ۱۰ سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میںلائن ۱۴ صفحہ۱۴ میں موجود ہے۔ ۵ نقل نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۲۳سے لائن نمبر۱۱سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ ۲۷ میں لائن پر موجود ہے۔ ۶ مدرکہ(حقیقت مدرکہ سے) ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۴۱میں لائن ۱۹سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ ۴۲ میں لائن ۱۶ میں موجود ہے۔ ۷ چہ می پرسی میان سینہ دل چست خرد چوں سوز پیدا کرددل شد دل از ذوق تپش دل بود لیکن چویک دم از تپش افتاد گل شد ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۶۲سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ ۶۷ لائن نمبر۸میں موجود ہے۔ ۸ جب انقلاب آئین دہر ہے تو ممکن ہے کہ ہماری بھی قسمت جاگے۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۱۰۱پر لائن ۱۷سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ ۱۰۹ میں موجود ہے۔ ۹ اقبال تشبیہوں کا بادشاہ ہے اور تشبیہ حسن کلام کا زیور ہے۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۱۰۶پر پیراگراف دوم کے شروع سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں ۱۱۵میں موجود ہے۔ ۱۰ زور کلا اور اثر آفرینی کا اعلی ترین نمون دیکھنا ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑا کمال محاکات کا ہے۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۱۰۸پیرا گراف اول کے شروع سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۶ ۱۹۹ء کے ایڈیشن میں ۱۱۸۔۱۱۷ میں موجود ہے۔ ۱۱ واذقال ربک للملائکۃ۔۔۔۔۔۔منالکفرین ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۱۸۲سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ۱۷۸ میں موجود ہے۔ ۱۲ بھلا اس طور وہ کیسے عروج و ترقی کا خواب دیکھ سکتے ہیں ۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۱۹۳ پر لائن نمبر۸سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ ۱۹۲لائن نمبر۲میں موجود ہے۔ ۱۳ حافظ کے اس شعر میں بھی۔۔۔۔۔۔۔بے پناہ تخلیقی استعداد ہے: گدائے میکدہ ام لیک وقت مستی بیں کہ ناز بر فلک و حکم بر ستارہ کنم ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۲۱۹سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ۲۰۸ میں موجود ہے۔ ۱۴ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۲۷۲ سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ۲۷۳ میں موجود ہے۔ ۱۵ قرآن پاک کی متعدد آیات میں اسلامی نظریہ مملکت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان آیات شریفہ سے بخوبی واضح ہو گیا۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۲۷۲ پر لائن ۱۲سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ ۲۷۵۔۲۷۳ میں موجود ہے۔ ۱۶ چناچہ وہ اس کی آمد کی توقع میں چلا اٹھتا ہے۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۴۱۱ پر لائن ۲سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ۰ ۴۲میں موجود ہے۔ ۱۷ جاوید نامہ میں اقبال نے فلک مشتری پر حلاج کی زبانی یہ کہلوایا ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی لئے وہ صورت گر تقدیر ہے۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۴۱۱سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ۴۲۱ میں موجود ہے۔ ۱۸ اگر مرے ہوئے بول سکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ ۱۹۷۶ء کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۴۴۲سے حذف کر دیا گیا جب کہ ۱۹۹۶ء کے ایڈیشن میں صفحہ۴۵۹ میں موجود ہے۔ اس تما م موازنہ و تقابلی جائزہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے ہمیںاقبال فہمی کا ایک نیا راستہ دکھایا ہے ۔انہوں نے کلام اقبال کی تنقیص کی بجائے تفسیرنہایتسادہ اور سلیس انداز میں کی ہے ۔موثر اور دل نشین زبان و بیان میں بہتر سے بہترین توضیح کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے ہر ایڈیشن میں نہایت محنت اور باریک بینی سے نظر ثانی کی۔اور صدی ایڈیشن میں اقبال کی شاعری کی ہمہ جہت تعبیر کے لیے کثرت سے اضافے کیے تاکہ پیغام اقبال کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو سکے ۔ بلاشبہ ’’روح اقبال ‘‘ اقبال شناسی ،میں بہترین معاون ثابت ہو سکتی ہے اور یہ موازنہ وتقابلی جائزہ بھی اقبال کی فکر کے پس پردہ نئے زاویوں کی دریافت میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ ـئ…ئ…ء حوالہ جات ۱۔ رضی الدین صدیقی،مقدمہ ’’روح اقبال‘‘ادارہ اشاعت اردو،حیدر آباد دکن ،۱۹۴۲ء ص۱۳ ۲۔ صباح الدین عبدالرحمن ’’بزم رفتگاں‘‘مشمولہ :یوسف حسین خاں ادیب و نقاد ،ایک جائزہ، از عالیہ خان ،انجمن ترقی اردو آندھرا پردیش ۱۹۹۴ئ،ص۳۵ ۳۔ شورش کاشمیری،بزم رفتگاں ، مشمولہ :یوسف حسین خاں ادیب و نقاد ،ایک جائزہ، از عالیہ خان ،انجمن ترقی اردو آندھرا پردیش ۱۹۹۴ئ،ص۲۵۶ ۴۔ آل احمد سرور ’’نئے پرانے چراغ‘‘مکتبہ جامع ،دہلی،۱۹۴۶ئ،ص۲۶۲ ۵۔ عبدالحکیم ،خلیفہ،ڈاکٹر،فکر اقبال،طبع ہشتم، بزم اقبال، لاہور،نومبر۲۰۰۵ء ص۲۷ ۶۔ عالیہ خاں ’’ڈاکٹر یوسف حسین خاں ،ادیب و نقاد، ایک جائزہ،انجمن ترقی اردو،حیدرآباد،دکن ،۱۹۹۴ئ،ص۵۱ ۷۔ احتشام حسین ،پروفیسر،’’روح اقبال ایک تبصرہ‘‘رسالہ جامعہ ۱۹۴۰ئ،دہلی،ص۲۱ ۸۔ آل احمد سرور ’’نئے پرانے چراغ‘‘مکتبہ جامع ،دہلی،۱۹۴۶،ص۲۶۲ ۹۔ یوسف حسین خاں ،ڈاکٹر ’’روح اقبال‘‘صدی ایڈیشن(ساتواں ایڈیشن)غالب اکیڈمی ،نئی دیباچہ صدی ایڈیشن ص۸ ۱۰۔ یوسف حسین خاں ،ڈاکٹر (دیباچہ)’’روح اقبال‘‘القمر انٹر پرائزز،لاہور۱۹۹۶ئ،ص۵ استفادہ کتب ۱۔ یوسف حسین خاں ،ڈاکٹر ’’روح اقبال‘‘طبع دوم،ادارہ اشاعت اردو ،حیدرآباد ،دکن،۱۹۴۴ء ۲۔ یوسف حسین خاں ،ڈاکٹر ’’روح اقبال‘‘طبع پنجم،مکتبہ جامعہ ،دہلی،۱۹۶۲ء ۳۔ یوسف حسین خاں ،ڈاکٹر ’’روح اقبال‘‘مطبوعہ پاکستان،آئینہ ادب،لاہور۱۹۶۹ء ۴۔ یوسف حسین خاں ،ڈاکٹر ’’روح اقبال‘‘القمر انٹر پرائزز،لاہور۱۹۹۶ء ۵۔ یوسف حسین خاں ،ڈاکٹر ’’روح اقبال‘‘صدی ایڈیشن(ساتواں ایڈیشن)غالب اکیڈمی ،نئی دہلی،۱۹۷۶ء ـئ…ئ…ء فیض - رنگ وصوت کی پیکر آفرینی ڈاکٹر طاہر حمید تنولی فیض کی شخصیت دو روایتوں کا ایسا سنگھم ہے جس نے اردو ادب میں ایک نئے اسلوب کو نمو بخشی۔ یہ دو روایتیں رومانی اور موضوعی بھی ہیں اور کلاسیکی اور جدید بھی۔ فیض نے جب کلاسیکی اور نئی شعری روایات کے اشتراک سے اپنی شعری کائنات تخلیق کی تو ان کے پیش نظر کلاسیکی غزل کی نفی نہ تھی بلکہ اس کے نادریافت شدہ شعریاتی امکانات کی دریافت اور انہیں روبہ کار لانا تھا۔ تاہم ان نادریافت شدہ شعریاتی امکانات کی دریافت میں فیض کا اپنا تصور انسان، تصور محبت اور تصور محبوب کارفرما ہے۔ فیض نے ’دست تہ سنگ‘ کے دیباچے میں لکھا: ’’اپنی ذات باقی دنیا سے الگ کر کے سوچنا اول تو ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ اس میں بہرحال گردو پیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو بھی تو انتہائی غیر سود مند فعل ہے کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں یا مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی بہت ہی محدود اور حقیر شے ہے۔اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں، خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔ چنانچہ غم جاناں اور غم دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔ اس نئے احساس کی ابتدا نقش فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم سے ہوتی ہے ۔ اس نظم کا عنوان ہے ـ’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ اور اگر آپ خاتون ہیں تو ’مرے محبوب نہ مانگ‘۔‘‘۱؎ غزل کے بارے میں فیض کا یہی رویہ تھا کہ جب ان سے کہا گیا کہ آپ نے ملک پر مسلط آمریت کے خلاف کیوں کچھ نہیں لکھا تو فیض نے جواب دیا: آپ نے شاید میری غزل نہیں پڑھی۔ فیض نے اپنے شعریاتی اور موضوعاتی مقاصد کی برآری کے لیے جن حوالوں کو بطور میڈیم استعمال کیا ان میں سرفہرست رنگ و صوت ہیں۔ رنگ و صوت کی صورت گری اور پیکر آفرینی کا جتنا تنوع فیض کے ہاں ملتا ہے وہ شاید کسی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں ملے گا۔محبوب کے ہجر کا مداوا جس وصل سے ممکن ہے اس کی صورت فیض کے ہاں یہ ہے کہ دل عاشق ہر آواز میں محبوب کی آواز کا کیف اور ہر لالہ و گل میں رخ یار کا رنگ دیکھتا ہے: تمام شب دلِ وحشی تلاش کرتا ہے ہر اک صدا میں ترے حرفِ لطف کا آہنگ ہر ایک صبح ملاتی ہے بار بار نظر ترے دہن سے ہر اک لالہ و گلاب کا رنگ۲؎ فیض کے ہاں رنگ وصوت کی امیجری روایتی تغزل اور موضوعی سماجیاتی بیان دونوں کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ ’لوح و قلم ‘ میں ہر پابندی کے باوجود اظہار فی الضمیر اور دل کے لہو سے رنگ لب ورخسار صنم کی افزائش کا داعیہ۳؎ ، ’تمہارے حسن کے نام‘ میں زندگی کی ہر صبح و شام کا رنگ پیرھن کے بکھرنے سے نکھرنا۴؎ ’دو عشق ‘ میں رنگِ حنا کی کرن اور لیلائے وطن کے حسن کی مماثلت کا تذکرہ۵؎ اس کی مثالیں ہیں۔ ادب میں رنگ و صوت معنی کے ابلاغ کا موثر ذریعہ ہیں۔ W. B. Yeats کے مطابق: All sound , all colours, all forms, either because of their preordained energies or because of long association, evoke indefinable and yet precise emotions, or, as I prefer to think, call down among us certain disembodied powers, whose footsteps over our hearts we call emotion; and when sound, and colour, and form are in a musical relation, a beautiful relation to one another, they become, as it were, one sound, one colour, one form, and evoke an emotion that is made out of their distinct evocations and yet is one emotion.؎6 فیض جب منٹمگری جیل میں تھے۔ زنداں کی قید تنہائی اور بے بسی میں بھی جو بات انہیں شاد رکھتی ہے وہ صوت و رنگ کا امتزاج اور باہمی آہنگ ہی ہے۔ اس تنہائی میں فیض کا مونس اور احباب سے رابطہ و تعلق کا ذریعہ وہ نسیم صبح وطن ہے جس کا آنا یادوں کے خاموش صدا کا لانا اور اس کا جانا اشکوں کی روشنی کے ساتھ جانا ہے: ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیمِ صبحِ وطن یادوں سے معطر آتی ہے‘ اشکوں سے منور جاتی ہے۷؎ فیض کے ہاں رنگ و صوت کے تجربے کا ظہور اور اس کی سمت داخل سے خارج کی طرف ہے۔ اس کا سبب سماجی و معاشرتی حقیقتوں اور ان کے تاثر کا شاعر پر غالب ہونا بھی ہو سکتا ہے اور حسن محسوس سے غیر معمولی تعلق و وابستگی بھی۔ جسے خود فیض نے بھی سہل انگاری سے تعبیر کیا: فریبِ آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آوازِ پا سمجھے۸؎ فیض کی شاعری میں جب صورت کو صورت محسوس ملتی ہے تو وہ اپنی پوری کیفیت کو قاری تک منتقل کرتی ہے: حسن مرہونِ جوشِ بادۂ ناز عشق منت کشِ فسونِ نیاز دل کا ہر تار لرزشِ پیہم جاں کا ہر رشتہ وقفِ سوز و گداز میری خاموشیوں میں لرزاں ہے میرے نالوں کی گم شدہ آواز۹؎ یہاں دل جو عشق و مستی اور کیفیت ہجر و وصال کا محل اور مرکز ہے، اس کی ہر حرکت ایک ایسی لرزش میں بدل جاتی ہے جو شدت ہجر یا انتظار وصل کی صورت ہے۔ لہٰذا یہاں خاموشی بھی خاموشی نہیں رہتی بلکہ اس میں وہ نالے پھر زندہ ہو کر حقیقت محسوس کا روپ دھار لیتے ہیں جو اس سے پہلے بلند ہونے کے بعد گم ہو چکے تھے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر کے ہاں یہ سفر غیر محسوس سے محسوس کی طرف ہے۔ ’’سرود شبانہ‘‘ میںبھی صوت و رنگ کی یہ ہم آہنگی، ہمکاری اور محبوب کے حسن کی عکاسی نمایاںہے۔ نظم کے پہلے بند میں صوت کی صورت خاموش یعنی خاموشی اور رنگ کا بیان ایک دوسرے کی خصوصیات لیے ہوئے ہے۔ جب محبوب کے سامنے خاموشی سجدہ نیاز میں ہے تو یہاں صوت رنگ میں ڈھل جاتی ہے اور حسن یار جب رنگ و بو کے طوفان کا منظر پیش کرتا ہے تو رنگ صوت میں بدل جاتا ہے: گم ہے اک کیف میں فضائے حیات خامشی سجدۂ نیاز میں ہے حسنِ معصوم خوابِ ناز میں ہے اے کہ تو رنگ و بو کا طوفاں ہے اے کہ تو جلوہ گر بہار میں ہے زندگی تیرے اختیار میں ہے۱۰؎ نظم ’’مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو‘‘ میں حسن محبوب کے مائل بہ زوال سفر کے اثرات اور طلب وصل کے نئے قرینے کا تذکرہ رنگ و صوت کا آہنگ لیے ہوئے ہے۔ محبوب کے بغیر ہر ساعت بے رنگ ہے مگر محبوب کے انتظار کی کیفیت نے اس کے آنے کے راستے کو زر کا رنگ دے دیا ہے۔ مگر ہجر کی شدت صدائے محبوب میں محو خواب و بے صوت شیرینیوں کو دل کی تنہائیوں سے دور کر دیتی ہے اور وصال سے یاسیت کی کیفیت صورتِ محبوب کا رنگ صفحہ دل سے یوں مٹا رہی ہے جس طرح بارش سے رنگ دھلتے ہیں سو تمام رنگوں کو محو کرنے والا رنگ یعنی ظلمت کا راج ہونے کو ہے اور شاعر یہ سب کچھ واقع ہونے سے پہلے محبوب کے حسن کے دیدار اور وصل کا طالب ہے: ہر اک بے رنگ ساعت منتظر ہے تیری آمد کی نگاہیں بچھ رہی ہیں راستہ زر کار ہے اب بھی تیری آواز میں سوئی ہوئی شیرینیاں آخر مرے دل کی فسردہ خلوتوں میں جا نہ پائیں گی مرے دل کی تہوں سے تیری صورت دْھل کے بہ جائے حریم عشق کی شمع درخشاں بجھ کے رہ جائے مبادا اجنبی دنیا کی ظلمت گھیر لے تجھ کو! مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو۱۱؎ نظم ’’تہ نجوم‘‘ محبوب کے سراپے کو رنگ و صوت کی تفسیر بیان کر رہی ہے۔ جہاں دامن چاندنی کا ہے جس کے پھیلتے ہی ہجر کی بے قراری بڑھ جاتی ہے۔ جس محبوب کا انتظار ہے اس کی آنکھیں ا حمریں ہی نہیں عنبریں بھی ہیں جو رخِ سفیدپر ’پریشان منظر‘ ہیں۔ جس کی جوانی کا منظر برگ و گل تر کی ترو تازگی کو نہیں شرماتا ہے جوسراپا ’سیل شمیم‘ ہے اور رنگ پیراہن ’چاندنی‘ میں بھی اپنے رنگ کے غلبے کو دکھا رہا ہے اور ’آنچل ‘ جو رنگوں کی ہی اک دنیا ہے اسے نسیم نے حرکت دے رکھی ہے: تہِ نجوم ، کہیں چاندنی کے دامن میں ہجومِ شوق سے اک دل ہے بے قرار ابھی خمارِ خواب سے لبریز احمریں آنکھیں سفید رخ پہ پریشان عنبریں آنکھیں چھلک رہی ہے جوانی ہر اک بنِ مو سے رواں ہو برگِ گلِ تر سے جیسے سیلِ شمیم ضیائے مہ میں دمکتا ہے رنگِ پیراہن ادائے عجز سے آنچل اْڑا رہی ہے نسیم۱۲؎ نظم ’ آج کی رات‘ میں رنگ کے مقابل صوت کو نظر انداز کرنے کی کیفیت غالب ہے۔ رات کا رنگ جو ظلمت سے عبارت ہے ہر شے کو اپنے دامن میں یا یوں کہیے کہ اپنے پردے میں لپیٹ لیتا ہے۔ یہاں زندگی کے رواں دکھوں سے ہی پناہ نہیں ملتی بلکہ ماضی و مستقبل بھی ایک نا معلوم مگر قابل محسوس آن میں مدغم ہو جاتے ہیں جہاں شعور یہ امکان بھی رکھتا ہے کہ ہجر و درد کی سحر شاید کبھی نہ آئے۔ سو یہاں شاعر اس صوتِ سازِ درد سے گریزاں رہنا چاہتا ہے جو رنگ ظلمت شب کی اس ہمہ گیری کو محو کر دے: آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے اور کل کی خبر کسے معلوم؟ دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟ عہدِ غم کی حکایتیں مت پوچھ ہو چکیں سب شکایتیں مت پوچھ آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ۱۳؎ فیض نے گو رنگ و صوت کے آہنگ کو اپنی سہل انگاری سے تعبیر کیا تھا۱۴؎ مگر یہ حال ہمیشہ نہیں رہتا ۔ گاہے شاعر کی دیوانگی اسے سہل انگاری کی وادیوں سے نکال کر رزم گاہ جاں تک لے آتی ہے اور جب ایک رنگ اس کا مدعا پورا نہ کرے تو وہ دوسرے رنگ کی طر ف بڑھتا ہے: اشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے خوں سے تر آج آستیں کی ہے کیسے مانیں حرم کے سہل پسند رسم جو عاشقوں کے دیں کی ہے۱۵؎ ’زنداں کی ایک شام‘۱۶؎ میں شاعر کے غم غلط کرنے کا سارا سامان صوت و رنگ کی کار آفرینوں پر مشتمل ہے۔ جب صبا کی ہمکلامی اور موجِ درد ِ فراق کے نتیجے میں خیال یار تسکین دلاتا ہے تو یہ صوت کی کار آفرینی ہے اور صحن زنداں کے اشجار دامنِ آسماں پر نقش نگار بناتے ہیں یا نیم شب میں چاندنی کا دست جمیل شانہ بام کو چھوتا ہے تو یہ رنگ کی جمال آرائی ہے۔ ظلم کا زہر گھولنے والوں کی ناکامی کو یہی کافی ہے کہ انہوں نے جلوہ گاہ وصال کی شمعیں تو بجھا دیں مگر وہ چاند کو گل نہ کرسکیں گے یعنی وہ آواز جو خیال یار کی ہے اور وہ رنگ جو چاند کی چاندنی کا ہے یہ دونوں اہل ظلم کے دست تظلم سے باہر ہیں۔ ’ملاقات‘۱۷؎ بھی اس پیرائے کا ایک اظہار ہے ۔ یہاں وہ درد جو محبوب کے فراق کا حاصل ہے یا الم نصیبوں کی جگر فگاری کا نتیجہ، وہ ایک ایسی رات میں ڈھل گیا ہے جس نے شعل بکف ستاروں اور ہزار مہتابوں کو اپنے اندر سمو لیا ہے جس سے ان کی روشنی اور نور سب محو ہو گئے ہیں۔ مگر اس رات کی ظلمت کچھ حقیقتوں پر تصرف نہیں کر سکی۔ وہ حقیقتیں اس رات کے شجر سے گرنے والے وہ پتے ہیں جو اگرچہ زرد تھے مگر گیسوئے محبوب کی قربت نے انہیں گلنار کر دیا اور اس شجر سے گرنے والے شبنم وہ کے قطرے ہیں جو محبوب کی جبیں پر آ کر ہیروں میں ڈھلے ہیں۔ یہاں بھی زرد پتوں کے گرنے کی آواز اور شبنم کے قطروں کے خامشی سے تعلق کا تذکرہ ساتھ چلتا ہے۔ رنگ کے بطن سے صوت کی نمود نظم کے دوسرے حصے میں نمایاں ہے۔ یعنی رات جو ظلمت ہے اس سے جو نہر خون نکل رہی ہے جو شاعر کی صدائے دل ہے اور اسی ظلمت شب کے سائے میں محبوب کی نظر موج زر کی صورت نورفشاں ہے۔ انجام کار رنگ و صوت کی یہ بنتر اس شب کو سحر اور اس کی ظلمت یعنی غم کو یقین میں بدل دیتی ہے۔ یوں فیض کی شاعری میں جن علامات کا وسیع اور گھنا جنگل ہمیں اپنے سحر میں جکڑ کر ایک مخصوص معنیاتی ماحول میں لے جاتا ہے یہ رنگ و صوت کی وہ مکالماتی صورت ہے جس کی معنی انگیزیت کی طرف بودلیر نے اشارہ کیا ہے پیٹرنکولس کے مطابق: Baudelaire imagines nature as a temple whose pillars emit confused, indistinct words, while man passes through 'forests of symbols' where 'perfumes, sounds, and colours answer each to each'.؎18 ’درد آئے گا دبے پائوں‘۱۹؎ میں بھی درد کی تاثیر اور آمد صوت ہی کے ایک اور انداز میں کار فرما ہونے کا تذکرہ ہے۔ یہاں جس آواز کے دامن سے رنگ کے امیجز جنم لے رہے ہیں وہ آواز نہیں خاموشی ہے کہ خاموشی سے جب دردآتا ہے تو یہ سرخ چراغ بکف آتا ہے۔ مگر یہاں حیرت یہ ہے کہ یہ وہ درد ہے جو دل سے الگ ہے : ’’وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے ‘‘ یعنی درد کی آمدخاموشی سے ہے مگر یہ درد مثل دل دھڑک رہا ہے گویا دل کے مقابل ایک الگ دل ہے۔ جس کے دل کے قریں ہونے سے خانہ دل کی دیواروں پر وہ تمام نقوش نمایاں ہو جاتے ہیںجو فی الاصل اس درد کی تولید کا باعث ہیں وہ نقوش حلقہ زلف، گوشہ رخسار، ہجر کا دشت، گلشن دیدار، قول لطف اور پیار کا اقرار ہیں۔ اور پھر یہ سب نقش و نگار رنگ ہی ہیں۔ الغرض رنگ و صوت کی پیکر آفرینی کا عمل فیض کے ہاں ایک مسلسل اور مستقل منظر نامہ ہے۔ تاہم یہ اپنے غیر صعودی سفر میں احساسات کے لطیف پیرائے سے زندگی کی مادی حقیقتوں کی طرف تو سفر کرتا ہوا نظر آتا ہے مگر یہ صعودی سمت یعنی بدن سے روح کی طرف گامزن نہیں ہو پاتا۔ گو اس عمل کے مثبت پہلو یعنی سماجی و موضوعاتی مسائل کی آشکارائی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تاہم اس کا یہ نتیجہ ضرور ہے کہ فیض کے ہاں ویبقی وجہ ربک سے ’راج کرے گی خلق خدا‘۲۰؎ تک آنا عام اور ’راج کرے گی خلق خدا‘ سے ویبقی وجہ ربک تک رسائی کا تصور مفقود ہے! ـئ…ئ…ء حوالہ جات ۱- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، مکتبہ کارواں، لاہور، ص۲۶۷۔ ۲- ایضاً، ص ۲۴۲۔ ۳۔ ایضاً، ص ۹۳۔ ۴۔ ایضاً، ص ۱۰۶۔ ۵۔ ایضاً، ص ۱۱۱۔ 6- Karen E. Brown, The Yeats Circle, Verbal and Visual Relations in Ireland-1880-1939, Ashgate Publishing Ltd., 2011 - p-17. ۷۔ فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۲۲۹۔ ۸۔ ایضاً، ص ۳۰۔ ۹۔ ایضاً، ص ۱۶۔ ۱۰۔ ایضاً، ص ۲۰۔ ۱۱۔ ایضاً، ص ۲۶۔ ۱۲۔ ایضاً، ص ۳۳۔ ۱۳۔ ایضاً، ص ۳۹۔ ۱۴۔ ایضاً، ص ۳۰۔ ۱۵۔ ایضاً، ص ۱۳۴۔ ۱۶۔ ایضاً، ص ۱۳۵۔ ۱۷۔ ایضاً، ص ۲۱۴۔ 18- Peter Nicholls, Modernisms: A Literary Guide, University of California Press, 1995, p-17. ۱۹۔ ایضاً، ص ۲۳۰۔ ۲۰۔ ایضاً، ص ۵۸۴۔ ـئ…ئ…ء اقبالیاتی ادب مجلات و رسائل میں شائع شدہ مقالات کی فہرست محمد اویس جعفری، ’’اقبال اور عشق رسالت ماؐب ‘‘، سہ ماہی، الاقرائ، اسلام آباد، سالنامہ، جنوری -جون ۲۰۱۵ئ، ص ۱۳۱ - ۱۴۶۔ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی ، ’’ علامہ محمد اقبال کا تصور زمان- تحقیق کے نئے زاویے‘‘ ، الاقرائ، اسلام آباد، سالنامہ، جنوری -جون ۲۰۱۵ئ، ص ۱۴۷ - ۱۷۲۔ ڈاکٹر خلیل طوق آر ، ’’مولانا جلال الدین رومی اور علامہ محمد اقبال‘‘ ، الاقرائ، اسلام آباد، سالنامہ، جنوری -جون ۲۰۱۵ئ، ص ۱۷۳ - ۱۸۷۔ پروفیسر نغمہ زیدی ، ’’ اقبال اور عصر حاضر‘‘ ، الاقرائ، اسلام آباد، سالنامہ، جنوری -جون ۲۰۱۵ئ، ص ۱۸۸ - ۲۰۰۔ غلام معین الدین ، ’’ زمینہ ھای بالندگی خودی و خود آگاہی در شعر اقبال ‘‘ ، دانش، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، بہار ۲۰۱۵ئ، شمارہ نمبر ۱۲۰، ص ۱۴۷ - ۱۷۲۔ اسد اللہ خان، ’’ اقبال کی اردو شاعری کا مختصر فنی جائزہ‘‘ ، نمود، گورمانی، مرکز زبان و ادب، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز، لاہور، شمارہ ۴، سال ۲۰۱۵ئ، ص ۷ - ۴۰۔ محمد عاکف رمضان ، ’’ اقبال کا تصور الا‘‘ ، نمود، گورمانی، مرکز زبان و ادب، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز، لاہور، شمارہ ۴، سال ۲۰۱۵ئ، ص ۴۱ - ۵۰۔ اسد اللہ خان ، ’’ اقبال کا تصور زمان و مکان ‘‘ ، نمود، گورمانی، مرکز زبان و ادب، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز، لاہور، شمارہ ۴، سال ۲۰۱۵ئ، ص ۵۱ - ۶۳۔ حافظ غلام مرشد ، ’’ اقبال سے سعادت مندانہ ملاقاتیں‘‘ ،ماہنامہ طلوع اسلام، گلبرگ لاہور، جنوری ۲۰۱۵ئ، ص ۲۸ - ۳۱۔ سعید احمد بدر قادری ، ’’ علامہ اقبال کا ذوق استفہام‘‘ ،ماہنامہ دلیل راہ، ماڈل ٹائون ، لاہور، جنوری ۲۰۱۵ئ، ص ۳۶ - ۳۸۔ خواجہ محمد زکریا ، ’’ تفہیم بال جبریل‘‘ ، ماہنامہ ادب دوست، گلبرگ ،لاہور،جنوری ۲۰۱۵ئ، ص ۹ - ۱۳۔ سعید احمد بدر قادری ، ’’ علامہ اقبال کا ذوق استفہام‘‘ ،ماہنامہ دلیل راہ، ماڈل ٹائون ، لاہور،فروری ۲۰۱۵ئ، ص ۳۷ - ۴۰۔ خواجہ محمد زکریا ، ’’ تفہیم بال جبریل‘‘ ، ماہنامہ ادب دوست، گلبرگ ،لاہور،فروری ۲۰۱۵ئ، ص ۹ - ۱۳۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ’’ جنوبی ایشیا میں فکر اسلامی کی تشکیل جدید: اقبال سے پہلے اور اقبال کے بعد‘‘ ، تحقیقی زاویے، شعبہ اردو، الخیر یونیورسٹی، بھمیر، کیمپ آفس، اسلام آباد، شمارہ ۵، جنوری -جون ۲۰۱۵ئ، ص ۷ - ۱۶۔ ڈاکٹر ناہید قمر ، ’’قبال اور دیگر فلاسفہ کے نظریات زماں‘‘ ، تحقیقی زاویے، شعبہ اردو، الخیر یونیورسٹی، بھمیر، کیمپ آفس، اسلام آباد، شمارہ ۵، جنوری -جون ۲۰۱۵ئ، ص ۱۷ - ۴۰۔ ڈاکٹرعلی محمد، ’’سرسید احمد خان اور اقبال‘‘ ، علم و عمل، ایوان سرسید، اسلام آباد، جنوری -مارچ ۲۰۱۵ئ، ص ۶ - ۱۰۔ سعید احمد بدر قادری ، ’’علامہ اقبال کا ذوق استفہام‘‘ ،ماہنامہ دلیل راہ، ماڈل ٹائون، لاہور، مارچ ۲۰۱۵ئ، ص ۳۵ - ۴۰۔ علامہ محمد اقبال ، ’’پیام مشرق کا دیباچہ‘‘ ،ماہنامہ پیام، البصیرہ، اسلام آباد، مارچ ۲۰۱۵ئ، ص ۲۲ - ۲۵۔ ثاقب اکبر ، ’’علامہ اقبال کی پیام مشرق کے چند قطعات کا منظوم ترجمہ‘‘ ،ماہنامہ دلیل راہ، ماڈل ٹائون، لاہور، مارچ ۲۰۱۵ئ، ص ۲۶ - ۲۸۔ خواجہ محمد زکریا ، ’’ تفہیم بال جبریل‘‘ ، ماہنامہ ادب دوست، گلبرگ ،لاہور،مارچ ۲۰۱۵ئ، ص ۸ - ۱۱۔ محسن قارانی ،[تبصرہ کتاب] ’’ اقبال اور نفسیات برہمن از محمد رمضان گوہر‘‘ ، ماہنامہ اخبار اردو، ادارہ فروغ قومی زبان ، اسلام آباد، مارچ- اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۲۸۔ ڈاکٹر مزمل حسین ، ’’ تبصرہ بر جامپور کا مداح اقبال از ڈاکٹر رانا غلام یسین،‘‘ ، ماہنامہ اخبار اردو، ادارہ فروغ قومی زبان ، اسلام آباد، مارچ- اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۲۸۔ طارق الیاس،’’ تبصرہ بر ڈاکٹر انعام الحق کوثر بحیثیت اقبال شناس از فیصل احمد‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، ادارہ فروغ قومی زبان ، اسلام آباد، مارچ- اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۲۹۔ تجمل شاہ،’’ تبصرہ بر علامہ اقبال تے پنجائیت از تنویر ظہور‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، ادارہ فروغ قومی زبان ، اسلام آباد، مارچ- اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۳۰۔ برگیڈئیر (ر) سید نصیر الدین،’’ جہان راہ دگرگوں کردیک مرد خود آگاہی‘‘، علم و عمل، ایوان سرسید، اسلام آباد، اپریل- جون ۲۰۱۵ئ، ص ۳-۷۔ اقبال فیروز ،’’ اقبال کا مرد منتظر محمد علی جناح‘‘، علم و عمل، ایوان سرسید، اسلام آباد، اپریل- جون ۲۰۱۵ئ، ص ۱۲-۱۹۔ خواجہ طارق محمود،’’ علامہ اقبال کی نظم جلال و گوئٹے کا انگریزی ترجمہ‘‘، علم و عمل، ایوان سرسید، اسلام آباد، اپریل- جون ۲۰۱۵ئ، ص ۴۶۔ ڈاکٹر شکیل پتافی،’’ اقبال اور اسلامی امہ‘‘، علم و عمل، ایوان سرسید، اسلام آباد، اپریل- جون ۲۰۱۵ئ، ص ۴۷-۵۶۔ خواجہ محمد زکریا ، ’’ تفہیم بال جبریل‘‘ ، ماہنامہ ادب دوست، گلبرگ ،لاہور،اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۷ - ۱۱۔ قاضی حسین احمد ، ’’اقبال کا تصور قومیت اور ہم‘‘ ،ماہنامہ پیام، البصیرہ، اسلام آباد، اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۱۲ - ۱۸۔ افشاں عباسی ، ’’شاعر مشرق کی شاعری میں قوم پرستی کا تصور‘‘ ،ماہنامہ پیام، البصیرہ، اسلام آباد، اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۱۹ - ۲۱۔ محمد شفیع بلوچ ، ’’علامہ اقبال اور ابن عربی‘‘ ،ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل، لاہور، اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۲۶ - ۳۵۔ سعید احمد بدر قادری ، ’’ذکر رسولؐ اور علامہ اقبال‘‘ ،ماہنامہ دلیل راہ، ماڈل ٹائون، لاہور، اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۴۲ - ۴۵۔ کرنل (ر) گلام جیلانی خان ، ’’اہل لشکر اقبال کی نظر میں‘‘ ،ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، لاہور، اپریل ۲۰۱۵ئ، ص ۲۶ - ۲۸۔ خواجہ محمد زکریا ، ’’ تفہیم بال جبریل‘‘ ، ماہنامہ ادب دوست، گلبرگ ،لاہور،مئی ۲۰۱۵ئ، ص ۸ - ۱۲۔ خواجہ محمد زکریا ، ’’ تفہیم بال جبریل‘‘ ، ماہنامہ ادب دوست، گلبرگ ،لاہور،جون ۲۰۱۵ئ، ص ۸ - ۱۱۔ سعید احمد بدر قادری ، ’’ علامہ اقبال کا ذوق استفہام‘‘ ،ماہنامہ دلیل راہ، ماڈل ٹائون، لاہور، جون-جولائی ۲۰۱۵ئ، ص ۴۷ - ۵۱۔ ڈاکٹر سعدیہ حسن بلوچ ، ’’تحسین شعر اقبال درجات اقبال‘‘ ،اورینٹل کالج میگزین، پنجاب یونیورسٹی، اورینٹل کالج ، لاہور، اپریل-جون ۲۰۱۵ئ، ص۱۰۵ - ۱۱۶۔ ڈاکٹر انوار احمد ، ’’ اقبال سٹڈیز با اقبالیات کی تشکیل نو کی ضرورت‘‘ ، اردو کالم، ادارہ تحقیقات اردو، اسلام آباد، جولائی ۲۰۱۵ئ، ص ۲۔ خواجہ محمد زکریا ، ’’ تفہیم بال جبریل‘‘ ، ماہنامہ ادب دوست، گلبرگ ،لاہور،جولائی ۲۰۱۵ئ، ص ۸ - ۱۲۔ عبدالغفار کلیار ، ’’ اقبال کا تصور سیاست اور عملی سیاست‘‘ ، ماہنامہ قومی زبان،انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، جولائی ۲۰۱۵ئ، ص ۱۳ - ۲۰۔ عبدالرشید ارشد، ’’قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان نفاذ اسلام سے دور‘‘، ماہنامہ قرآن اکیڈمی،جھنگ، اگست ۲۰۱۵ئ، ص ۱۲ - ۲۰۔ کرنل (ر) غلام جیلانی خان، ’’پاکستان کا تصور بانگ درا کی روشنی میں‘‘، ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، لاہور ، اگست ۲۰۱۵ئ، ص ۱۷ - ۸۰۔ مصطفی کمال پاشا، ’’اقبال کا خواب جناح کا وطن اور آج کا پاکستان‘‘، ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، لاہور ، اگست ۲۰۱۵ئ، ص ۸۱ - ۹۸۔ اشکر فاروقی ، ’’ اقبال ایک غیر جانبدارانہ مطالعہ‘‘ ، اردو کالم، ادارہ تحقیقات اردو، اسلام آباد، اگست ۲۰۱۵ئ، ص ۳۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر ، ’’ فکر اقبال تفہیم نو‘‘ ، اردو کالم، ادارہ تحقیقات اردو، اسلام آباد، اگست ۲۰۱۵ئ، ص ۴۔ ڈاکٹرانعام الحق کوثر ، ’’علامہ اقبال اور تحریک پاکستان‘‘ ، ماہنامہ فیض الاسلام، راولپنڈی، اگست ۲۰۱۵ئ، ص ۳۸- ۴۵۔ پروفیسر سیدہ نغمہ زیدی، ’’ سیاسیات مشرق و مغرب اور اقبال‘‘ ، سہ ماہی الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن، اسلام آباد، جولائی- ستمبر ۲۰۱۵ئ، ص۱۲۶-۱۳۹۔ مسلم شمیم، ’’علامہ اقبال اور مسلم نشاۃ ثانیہ‘‘ ، سہ ماہی الاقربائ، الاقرباء فائونڈیشن، اسلام آباد، جولائی- ستمبر ۲۰۱۵ئ، ص۱۴۰-۱۴۸۔ ارسہ کوکب، ’’اقبال کی اردو شاعری میں آثار قدیمہ کا تحقیقی جائزہ‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد، اکتوبر- نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۱۰-۱۲۔ میاں ساجد علی، ’’زندہ تھا جاوید‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد، اکتوبر- نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۲۶۔ رانا مجاہد حسین، ’’تبصرہ بر علامہ اقبال بنام نذیر نیازی از قاسم محمود‘‘، ماہنامہ اخبار اردو، ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد، اکتوبر- نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۳۶۔ ڈاکٹر سمیعہ راحیل، ’’علامہ اقبال تہذیب مغرب اور خواتین‘‘، ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۷۵-۷۹۔ ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی، ’’اقبال، جناح اور پاکستان‘‘، ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۸۱-۸۷۔ ڈاکٹرجاوید اقبال، ’’میری زندگی کے چند ابتدائی سال‘‘، ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، لاہور، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۳۸-۶۲۔ ڈاکٹررئوف پاریکھ، ’’کج دار و مریز کی ترکیب کا اردو میں استعمال‘‘، ماہنامہ قومی زبان،انجمن ترقی اردو، کراچی، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۵-۸۔ محمد عثمان رانا، ’’علامہ اقبال کا تصور عشق رسول‘‘، ماہنامہ قومی زبان،انجمن ترقی اردو، کراچی، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۹-۱۱۔ حافظہ نورین فاطمہ، ’’اقبال کے خطبے علم اور مذہبی مشاہدے کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ‘‘، ماہنامہ قومی زبان،انجمن ترقی اردو، کراچی، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۱۲-۱۷۔ رفاقت علی شاہد، ’’کچھ وقت اقبالیاتی ادب کے ساتھ‘‘، ماہنامہ قومی زبان،انجمن ترقی اردو، کراچی، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۱۸-۲۶۔ ڈاکٹرصابر حسین جلیسری، ’’اقبال ترجمان حقیقت اور شاعری دین فطرت‘‘، ماہنامہ قومی زبان،انجمن ترقی اردو، کراچی، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۲۷-۳۵۔ میاں ساجد علی، ’’بچے کی دعا میں خودی کے مراحل‘‘، ماہنامہ قومی زبان،انجمن ترقی اردو، کراچی، نومبر ۲۰۱۵ئ، ص۳۶-۳۸۔ أفكار العلامة محمد إقبال حول عالم العرب واتحاد الأمة المسلمة* د/ خورشيد رضوي بسم الله الرحمن الرحيم وله الحمد، والصلاة والسلام على أفضل الأنبياء والمرسلين، خاتم النبيين، سيدنا ومولانا محمد وعلى آله وصحبه وأهل بيته أجمعين. أما بعد، فالسلام عليكم ورحمة الله وبركاته. أيها الحضور الكرام، إني ليسرني القدوم إلى الجامعۃ الاردنیہ ، وإلى هذه الحفلة الميمونة، في هذه الحلقة الدراسية التي نحيي فيها ذكرى بطل من أبطال الأمة المسلمة، أي الشاعر المفلق والفيلسوف الكبير العلامة محمد إقبال، تغمده الله برحمته، ونتكلم عن أفكاره حول عالم العرب واتحاد الأمة المسلمة. ولا أجد لفاتحة مقالي، في هذا الصدد، أجدر مما قاله أبو منصور، عبد الملك بن محمد الثعالبي في كتابه الشهير "فقه اللغة وسر العربية"، قال في مقدمة الكتاب: ".... إن من أحب الله أحب رسوله المصطفى صلى الله عليه وسلم، ومن أحب النبي العربي أحب العرب، ومن أحب العرب أحب اللغة العربية..." اخترت هذا الاقتباس لأنه يعطينا مفتاحا لعقلية إقبال، ويشرح لنا السبب الحقيقي لإقبال إقبال على العرب. فإنه أحب الله وأحب رسوله صلى الله عليه وسلم أشد حب، وأحب لحبه العرب والعربية، وأولع بالثقافة العربية الساذجة التي كان يراها أحسن الثقافات، والتي كان يريد ويهوى أن تتوجه إليها الآداب الإسلامية حيث كانت، فإنه قد خصص في ديوانه الفارسي "أسرار خودي" (أسرار إثبات الذات) باباً حول "حقيقة الشعر وإصلاح الآداب الإسلامية" _______________ *قرئ ھذا المقال فی الجامعۃ الاردینۃ، عمان، الاردن فی ۲۰، مایو ۲۰۰۹م، فی الموتمر المغقد تحت عنوان: "معنویۃ فکر اقبال للعالم العربی"۔ وأوصى عند نهاية هذا الباب بهذه التوصية: فكر صالح در ادب مي بايدت رجعتي سوۓ عرب مي بايدت "ينبغي أن تلزم الفكر الصالح في الأدب وأن تكون لك عودة إلى العرب" وقد نقل الدكتور عبد الوهاب عزام هذا البيت إلى العربية شعرًا- قال: من بفكر صالح في الأدب ارجعن يا صاح شطر العرب وقد أشار الدكتور طه حسين إلى هذه النـزعة العربية عند إقبال في مقاله: "إقبال، شاعر فرض نفسه على الدنيا وعلى الزمان" قارن فيه بين إقبال وبين أبي العلاء المعري، فقال: "أحدهما –وهو أبو العلاء- كان في أيامه ينظر إلى الهند ويطيل النظر إليها والأخذ عنها والتأثر بها حتى التزم في حياته حياة المتنسكين من البراهمة. والآخر – وهو إقبال- كان ينظر إلى العرب ويشيد بهم ويتخذهم المثل الأعلى للإنسانية الجديرة بالوجود والحياة والبقاء" واختار إقبال لنفسه اللغة العربية كمادة دراسية منذ حياته المدرسية ونجده، فيما بعد، يخبر السير كشن برشاد في رسالة بأنه فاز في الامتحانات بالأولية في مادة اللغة العربية في إقليم بنجاب، (ولعل ذلك في مرحلة بكالوريوس) وقام بتدريس اللغة العربية في جامعة لندن لمدة ستة أشهر، خلال 1907م-1908م، نيابة عن أستاذه السير تامس آرنلد -ونراه يذكر ديوان الحماسة كما يذكر امرأ القيس وعنتره والمتنبئ في كتاباته المبعثرة- وقد وصف الشعر العربي بأنه ليس في الشعر العالمي ما يضاهيه في كونه مباشرا وصريحا ومتدفقا بروح المروءة كما وصف العربي بأنه مولع بالواقع، لا يسترعى اهتمامه بريق الألوان ويجدر بالذكر هنا ما حكاه الأستاذ أبو الحسن علي الندوي في كتابه "روائع إقبال" من أنه زار إقبالاً قبل وفاته بشهور، وطالت الجلسة، وتحدث إقبال فيما تحدث عن الشعر العربي القديم، وتحدث عن إعجابه بصدق ھذا الشعر وواقعيته وما يشتمل عليه من معاني البطولة والفروسية وتمثل ببعض أبيات الحماسة وأبدى إعجابه ببيتين لشاعر حماسي وهو أبو الغول الطهوي والبيتان: فــدت نفسي وما ملكت يميني فــوارس صـدقت فيهم ظنوني فــوارس لا يملـون المنايــا إذا دارت رحى الحرب الزبون وكان إعجابه بشعر أبي الغول لأنه يدل على واقعية العرب وحب الفروسية، ولما يحمله بين طياته من القوة والشدة والصلابة ومعنى الصبر على الشدائد والصمود في وجهها، فإنها صفات قد أغرم بها إقبال وشغف وحض عليها في شعره الأردوي والفارسي، وكأنما قد سرت فيه روح الشعر العربي وقوته وإن كانت لغته تختلف عن اللغة العربية، وذلك مما أشار إليه إقبال حيث يقول: عجمي خم ہے تو كيا مے تو حجازي هے مري نغمه هندي هے تو كيا لے تو حجازي هے مري "لا بأس إذا كان الدنّ عجميا فإن خمرتي عربية حجازية، ولا ضرر إذا كانت أغنيتي هندية فإن نغمة صوتي هي نغمة عربية حجازية" ونرى على الصور الفنية في شعر إقبال أثرًا واضحاً جلياً للقرآن والحديث والأقوال العربية المأثورة والشعر العربي -ويتكرر في شعره الاقتباس من الآيات القرآنية والأحاديث النبوية. يقول مثلا: آه اے مرد مسلماں تجهے كيا ياد نهيں حرف "لا تدع مع الله إلها آخر" "آه! يا أيها المسلم ألا تذكر ذلك القول (قول الله سبحانه وتعالى) وهو "لا تدع مع الله إلها آخر" فقد ضمّن الشطر الثاني من البيت نصاً كاملاً من القرآن المجيد. وكذلك يقول مشيرًا إلى مجد المسلمين السالف: كس كى هيبت سے صنم سهمے هوۓ رهتے تےا منه كے بل گر كے "هو الله أحد" كےال تے "من الذي كانت الأصنام ترهبه وتهابه دائما وتخر على الأذقان قائلة: "هو الله أحد" فقد استعار كلمات من سورة الإخلاص وجعلها جزءا من شعره. وإذا راجعنا أول قصيدة من أول دواوينه، وهو "بانك درا" (صلصلة الجرس) ألفيناه يصف جبل هملايا ، وهو أشهر جبل من جبال شبه القارة الهندية الباكستانية، ويقول: چوٹياں تيري ثريا سے هيں سرگرم سخن تو زميں پر اور پہناۓ فلك تيرا وطن "(يا هملايا!) إن ذراك العالية تتجاذب أطراف الحديث مع الثريا أنت راسخ القدم في الأرض وقد توطنت (برأسك الشامخ) أجواء الأفلاك الفسيحة." ولا يخفى على من له أدنى إلمام بالأدب العربي أن بيتاً من ديوان الحماسة يُظل جو هذا البيت –ألا وهو بيت مشهور من لامية السموءل بن عادياء- وقد وصف أيضاً جبلاً فقال: لنا جبل يحتله من نجيره منيع يرد الطرف وهو كليل ثم أتبعه البيت الذي نشير إليه وهو: رسا أصله تحت الثرى وسما به إلى النجم فرع لا ينال، طويل فما دمنا نعرف أن كلمة "النجم" في العربية قد أصبحت كاسم علم للثريا، فإذا قالوا: طلع النجم يريدون الثريا، ما دمنا نعرف ذلك وما دمنا نرى "جبلا" إزاء "جبل" و"الثريا" مقابل "الثريا" والرسوخ في الأرض نفس الرسوخ في الأرض والعلو إلى السماء نفس العلو إلى السماء في كلا البيتين، لم نكد نرتاب في أن إقبالاً استوحى من بيت السموءل، وذلك مما يدل على تأثير الشعر العربي القديم في قريحة إقبال. هذا في أول الدواوين. فإذا جاوزناه إلى آخر الدواوين وهو "أرمغان حجاز" (هدية الحجاز) - والاسم نفسه ينم عن علاقة الود بمهد الإسلام والعروبة- وجدنا إقبالاً قد استعار بيتاً كاملاً من معلقة عمرو بن كلثوم التغلبي ومزجه ببيت فارسي من عنده، فوسّع بذلك أفق البيت العربي بحيث طبّقه على معنى أعمق وأوسع وأشمل. قال: صبنت الكأس عنا أم عمـرو وكان الكأس مجراها اليمينا اگر اين است شرط دوستدارى بديوار حرم زن جام ومينا فوسّع نطاق المعنى على سبيل الرمز وصرف الخطاب من محبوبة بعينها إلى المحبوب الحقيقي، وهو الله سبحانه وتعالى، وشكا إليه بثه وحزنه قائلاً: إنك صرفت كأس سيادة العالم عنا إلى غيرنا وسقيتهم دوننا، وكنا أحق بذلك لأواصر قديمة، فإذا كانت هذه هي شروط علاقات الود فاضرب بالكأس والإبريق علی جدار الحرم -وهذا الكلام من قبيل شكوى دلال، وما أكثر ذلك عند إقبال- ومصدره إنما هو الحب والإخلاص للإسلام وللمسلمين... وهكذا نجد طابع الشعر العربي على شعر إقبال من أول دواوينه إلى آخرها يلوح "كباقي الوشم في ظاهر اليد" على حد تعبير طرفة بن العبد. لا أريد الإكثار من الأمثلة، ولكني أجد في نفسي دافعاً قوياً لذكر فكرة فنية نشأت في الأدب العربي، ثم تسربت إلى الأدب الفارسي، فتغير لونها بعض التغير حتى جاء إقبال، فردها في شعره الأردوي إلى لونها العربي الخالص -ولكن لا بد من ذكر خلفية هذه الفكرة قبل ذكرها- ويرجع بنا ذلك إلى الحكايات والأساطير السائرة في المجتمع العربي منذ عصر الجاهلية- وفي جملتها حكاية جذيمة الأبرش ملك الحيرة الذي كان فخورًا بنفسه للغاية، لا يرى أحدًا جديرًا بأن ينادمه على الشراب. فكان يشرب وحيدًا ويريق على الأرض قدحاً كنصيب كل من الفرقدين، وهما نجمان عاليان بجوار القطب الشمالي، ويقول: إنما هما نديمان لي في السماء- وسرت هذه الفكرة وجرت حتى ظهرت عند بعض شعراء العربية فقال: شربنا وأهرقنا على الأرض جرعة وللأرض من كأس الكرام نصيب وأخذ هذا المعنى شاعر الفرس الكبير حافظ الشيرازي فقال: اگر شراب خورى جرعه اى فشان بر خاك از آن گناه كه نفعي رسد بغير چه باك " إذا شربت الخمر فأرق جرعة على التراب وهل هناك حرج في ذنب يأتي من ورائه الخير لأحد" ثم تبع هذا المعنى شاعرنا الكبير ميرزا غالب، فقال في قصيدة فارسية يمدح بها آخر ملوك المغول في الهند وهو بهادر شاه ظفر: رشحه برمن بچكاں بادهء گلرنگ بنوش جرعه بر خاك فشاندن روش اهل صفاست "إذا شربت الصهباء فرُشّ عليّ رشحة منها فإنها من سنّة أهل الصفاء إراقة جرعة على التراب" ثم جاء صاحبنا محمد إقبال وقال قصيدته الطنانة حول "مسجد قرطبة" الذي بدأ بناءه صقر قريش عبد الرحمن الداخل، وزار إقبال هذا المسجد سنة 1933م، أي قبل وفاته بخمسة أعوام- وهذه القصيدة من آيات الشعر العالمي، ومنها البيت الذي سيق هذا الكلام من أجله وهو: عشق كي مستي سے هے پيكر گِل تابناك عشق هے صهباۓ خام عشق هے كأس الكرام "إن الوجود الترابي يتلألأ بنشوة العشق لأن العشق عبارة عن الرحيق الخالص وعن كأس الكرام" فبإيراد تعبير "كأس الكرام" وصل إقبال الفرع بأصله ورد الأمر إلى نصابه- فما دام العشق هو "كأس الكرام" فلا بد من أن تفيض منها جرعة إلى الوجود الترابي فتنوره بنوره. وصقر قريش، عبد الرحمن هذا قد أظل شعر إقبال مرة أخرى أيضاً في غير هذه القصيدة. وحديث ذلك أن عبد الرحمن لما نجا هارباً من الشام، قطع مسافات طويلة حتى وصل إلى أرض الأندلس وأسس فيها دولة قدر لها البقاء لسبع قرون طويلة. فحدث يوماً من الأيام أنه رأى في رصافة قرطبة نخلة -ولم يكن النخل من نبات الأندلس- فذكرته هذه النخلة الغريبة النائية، بغربته وبعده عن بلده وأهله وصادفت من نفسه مكاناً ملؤه الحزن والحنين فقال: تبدت لنا وسط الرصـافـة نخـلة تناءت بأرض الغرب عن بلد النخل فقـلت شبيهي في التغـرب والنوى وطـول التنائي عن بني وعن أهلي نشـأت بأرض أنت فيهـا غريبـة فمثلك في الإقصـاء والمنـتأى مثلي سقتك غوادي المزن من صوبها الذي يسح ويستمري السمـاكين بالوبل فوقعت هذه الأبيات من قلب إقبال موقعاً حسناً، وترجمها إلى الشعر الأردوي وأثبته في ديوانه "بال جبريل" (جناح جبريل) وأثبت فيه أيضاً ما نقله إلى الشعر الأردوي من روح أبيات للمعتمد بن عباد قالها وهومكبل مغلول في سجن أغمات وهي: تبدلت من عز ظل البنود بـذل الحديد وثقل القيود وكان حديدي سنانا ذليقاً وعضباً رقيقا صقيل الحدود فقد صار ذاك وذا أدهما يعض بساقي عض الأسود وقد أفرغ إقبال على ترجمته الأردوية لهذه الأبيات لوناً من خياله المبدع فخلقها خلقاً جديدا في صورة ربما أصبحت أكثر خلابة من الأصل- انظر مثلاً في هذا البيت: خود بخود زنجير كى جانب كهچا جاتا هے دل تهى اسى فولاد سے شايد مرى شمشير بهى "إن قلبي ليشعر بجاذبية غريبة تجذبني نحو السلسة التي تقيدني أفهل تری سيفي كان مصنوعاً من نفس الحديد؟" وكانت البقاع العربية تكوّن عالم أحلام إقبال. ومما يدل على ذلك كثرة ما ورد في شعره من ذكر هذه البقاع كالحرمين الشريفين والحجاز والعراق وسوريا وفلسطين ومراكش ومصر وطرابلس والنجف والكوفة وبغداد وبدر وحنين ودجلة والفرات ودمشق ونجد وبلاد الأندلس ، مثل قرطبة وغرناطة لماضيها العربي. وكم كان إقبال يتمنى، ولا سيما في السنوات الأخيرة من حياته، أن يحج البيت وأن يتشرف بزيارة مدينة الرسول، صلى الله عليه وسلم. وديوانه الأخير "أرمغان حجاز" (هدية الحجاز) الذي نُشر بعد وفاته، يحمل طابع هذا الاشتياق الشديد إلى أرض الحرمين الشريفين، وكان يسعد بهذا السفر، ليل نهار في خياله -وإن لم يتحقق في عالم الحقيقة- وسفر الحج إذ ذاك، كان يتم بالسفن، وكان إقبال يكاتب بعض شركات السفر في هذا الصدد ويعيش غارقاً في جو الشوق. وما أكثر ما خنقته العبرة عندما أنشد بعض الأصدقاء قطعة من هذا الشعر الذي ملك عليه ليله ونهاره، ومنه يقول: به ايں پيرى ره يثرب گرفتم نوا خواں از سرور عاشقانه چو آں مرغے كه در صحرا سر شام كشايد پر به فكر آشيـانه "أنا في طريقي إلى المدينة المنورة وإن أصبحت طاعناً في السن أنشد أناشيدي التي ملؤها نشوة الغرام ومثلي كمثل الطائر الذي قضى نهاره في رحاب الصحراء وقد أظله وقت الأصيل فيخفق بجناحيه يسرع في الطيران لايهمه شيء إلا الوصول إلى عشه قبل مغيب الشمس" وأُتيح لإقبال أن يسافر إلى بعض الأقطار العربية، خلال شهر ديسمبر سنة 1931م وهو متوجه إلى فلسطين للحضور في مؤتمر العالم الإسلامي – فمر في طريقه بالإسكندرية والقاهرة ورحب به المسلمون، وأقيمت حفلات، منها هذه الحفلة التي سجل ذكرها الدكتور عبد الوهاب عزام قائلاً: "ومر إقبال بالقاهرة في طريقه إلى المؤتمر الإسلامي ببيت المقدس، فاحتفلت به جمعية الشبان المسلمين وحضرتُ الحفلة فكلفني أستاذي الشيخ عبد الوهاب النجار، رحمه الله، أن أعرف الحاضرين بالضيف الكريم، فتكلمت وأنشدت أبياتاً من شعر إقبال، أحسبها أول ما سمع من شعره في بلاد العرب" وأقام إقبال بالقاهرة لعدة أيام وطاف ببساتينها الجميلة على شاطئ النيل وزار الهرم الأكبر والأوسط والأصغر، كما شاهد أبا الهول وجال في متحف القاهرة وسافر إلى الفسطاط، فرأى جامع عمرو بن العاص وحضر إلى ضريح الإمام الشافعي فجلس هناك ملياً يتلو القرآن الكريم. ثم ذهب إلى جامعة الأزهر وجلس مع الطلاب يستمع إلى دروس التفسير والحديث والمنطق ولاقى شيخ الأزهر الشيخ مصطفى المراغي ثم سافر بالقطار إلى بيت المقدس وبقي هناك حوالي أسبوع وحضر في جلسات المؤتمر، وتأثر الشباب العربي بشخصيته في كل مكان. وقد سجل إقبال انطباعاته عند زيارة الأهرام في شعره الخالد، وقال إن الطبيعة لم تخلق في رحاب هذه الصحراء الصامتة إلا كثباناً من الرمل، ولكن الأهرام الشامخة تحنو أمام رفعتها الأفلاك، فمن الذي رسم هنا هذه الصور الخالدة؟ فاجعل الفن متحررًا من الخضوع أمام الطبيعة- يا هل تُرى الفنان صائدًا أم فريسة؟ ورسالة إقبال في هذه الأبيات هي أن الإنسان أجلّ وأكبر من الطبيعة وبإمكانه أن يغلب الطبيعة ويسخرها بفنه كما فعل بنّاؤو الأهرام. أما فلسطين فأثرت في نفس إقبال تأثيرًا عميقاً، وتفتحت قريحته في أجوائها فقال قصيدته الطويلة الشهيرة "ذوق وشوق" التي صرّح في بدايتها، في ديوانه "بال جبريل" (جناح جبريل) أن أكثرها نُظم في فلسطين، وبعد عودته إلى لاهور تكلم إلى بعض الصحفيين فقال فيما قال: "إن السفر إلى فلسطين كان من أمتع أسفاري في حياتي، ولقد أعجبني الشباب في سوريا لأني رأيت فيهم من الإخلاص والأمانة مالم أره إلا في شباب إيطاليا الفاشستييّن، وإني متيقن أن مؤامرة توطين اليهود في فلسطين سوف تفشل، وأتمنى بكل قلبي أن يقوم أبناء العربية بتأسيس جامعات، وأن ينقلوا العلوم الحديثة إلى اللغة العربية". وتحمّس إقبال لموقف العرب من القضية الفلسطينية فقال: هے خاكِ فلسطين په يهودى كا اگر حق هسامنيه پر حق نهيں كيوں اهلِ عرب كا "إذا ثبت لليهود حق على أرض فلسطين فلماذا لا يثبت للعرب حق على أسبانيا" وكذلك تحمّس لسوريا عندما قال: فرنگيوں كو عطا خاكِ سوريا نے كيا نبى عفّت وغم خوارى وكم آزارى صله فرنگ سے آيا هے سوريا كے ليے مے وقمار وهجومِ زنانِ بازارى "إنّ أرض سوريا أهدت للإفرنج نبي العفة والمؤاساة وعدم الإيذاء فأهدت الإفرنج إلى سوريا، مقابل ذلك الخمر والميسر وزحام المومسات" وكان إقبال ينصح للعرب ويخلص لهم الودّ وقد خاطب، في دواوينه المختلفة، الأمة العربية بأجمعها، كما خص بالخطاب أمراءهم وشعرائهم فذكّرهم بمجدهم السالف، وقال لهم قولاً ليناً في الغالب، ولكنه وجّه إليهم النصائح المُرّة أحياناً دأب المحب المخلص، وقد لخّص الأستاذ أبو الحسن على الندوي، رحمه الله تعالى، أفكار إقبال ونصائحه في هذا الصدد، تحت عنوان: "إلى الأمة العربية" في كتابه الذي سبق أن ذكرناه وهو كتاب "روائع إقبال" الذي حظي بقبول حسن في البلاد العربية، ونرى من المفيد أن نقتبس منه هنا بعض العبارات التي تنعكس فيها وجهة نظر إقبال بخصوص العرب. "أيتها الأمة العربية، التي كتب الله لباديتها وصحرائها الخلود، من الذي سمع العالم منه نداء "لا قيصر ولا كسرى" لأول مرة في التأريخ، ومن الذي أكرمه الله بالسبق إلى قراءة القرآن؟ من الذي أطلعه الله على سر التوحيد، فنادى بأعلى صوته "لا إله إلا الله" وما هي البقعة التي اشتعل فيها هذا السراج الذي أضاء به العالم؟ هل العلم والحكمة إلا فتات مائدتكم... "أسفاً على هذا الخمود والجمود أيها العرب! ألا ترون إلى الأمم الأخرى كيف تقدمت وسبقت؟ أما أنتم فما قدرتم قدر هذه الصحراء التي نشأتم فيها وهذه الحرية التي ورثتموها. كنتم أمة واحدة، أمة الإسلام، فصرتم اليوم أمما وكنتم حزباً واحدًا،حزب الله، فأصبحتم أحزاباً، لقد فرّقتم جمعكم ومزقتم شملكم وانقسمتم على أنفسكم" "مهلاً أيها الغافلون! إياكم والركون إلى الإفرنج والاعتماد عليهم. ارفعوا رؤوسكم وانظروا إلى الفتن الكامنة في مطاوي ثيابهم، ألا إنه لا حيلة لكم ولا وزر إلا أن تطردوهم عن منهلكم وتذودوهم عن حوضكم، إن حكمة الغرب قد أسرت الأمم وتركتها سليبة حزينة، لا تملك شيئاً، إنها مزّقت وحدة العرب واقتسمت تراثهم، إن العرب لمّا وقعوا في حبائلهم، تنكّر لهم كل شيء وقسا عليهم هذا الكون، ولم يجدوا من يرثي لهم ويرفق بهم وضاقت عليهم الأرض بما رحبت وضاقت عليهم أنفسهم" "أنا أعلم جيدًا يا إخواني العرب! أن النار التي شغلت الزمان وبهرت التأريخ، لم تزل ولا تزال تشتعل في وجودكم، صدّقوا أيها السادة! أنه لا دواء لكم في جنيف ولا في لندن، لأنكم تعلمون أن اليهود لا يزالون يتحكمون في سياسة أوروبا ولا يزالون يملكون زمامها. إن الأمم لا تذوق طعم الحرية والاستقلال حتى تُربّي فيها الشخصية والاعتداد بالنفس وتعرف لذة الظهور". "إن الله قد رزقكم البصيرة النافذة ولا تزال فيكم الشرارة كامنة فقوموا أيها العرب! ورُدّوا فيكم روح عمر بن الخطاب مرة أخرى، إن منبع القوة ومصدرها هو الدين، منه يستمد المؤمن العزم والإخلاص واليقين، ومادامت ضمائركم أمينة للسر الإلهي فيا عُمّار البادية! أنتم الحُرّاس للدين وأمناء الله في العالمين وكان إقبال يؤمن إيماناً واثقاً بأن علوم الطبيعة التي ازدهرت في العصر الجديد ووطّد بها الغرب أركان تفوقه، إنما برزت إلى العالم، لأول مرة، على يد العرب في الأندلس، ثم التقطها الغرب وتبنّاها فيما بعد. قال،مثلاً، في مثنويه الشهير "مسافر": حكمتِ اشيا فرنگى زاد نيست اصـل او جز لذتِ ايجاد نيست نيك اگر بيني مسلماں زاده است ايں گہر از دستِ ما افتاده است چوں عرب اندر اروپا پركشـاد علـم وحكمت را بنا ديگر نہاد دانه آں صحـرا نشيناں كاشتند حاصلش افرنگياں برداشتند "إن العلوم الطبيعية لم تُحدثها الإفرنج إنما نشأت من لذة الاختراع أينما وُجدت فإذا تأملت جيدًا تبينت أنها من تراث المسلمين وأن هذه اللؤلؤة انفلتت من يدنا نحن عندما طار العرب بأجنحتهم في أجواء أوروبا جددوا قواعد العلوم والحكمة وزرع قطان البادية هؤلاء أول بذرة لهذه المعارف ولكن الإفرنج تمتعوا بالحصاد" وكذلك يبوح إقبال برسالته إلى الأمم العربية في أثره الخالد "جاويد نامه" (رسالة الخلود) على لسان الدرويش السوداني: گفـت اے روحِ عـرب بيدار شـو چوں نياگــاں خـالقِ آثار شـو زنده كن در سينه آں سوزے كه رفت در جهاں باز آور آں روزے كه رفت "قال: يا روح العرب هبّي من نومك وقومي بخلق الأعصار مثل آبائك السالفين وجدّدي في الصدور تلك الحرقة التي خمدت وأعيدي إلى العالم تلك الأيام التي قد أدبرت" كم يود إقبال أن يستعيد المسلمون سذاجة الثقافة العربية، كما كانت في خير القرون، وكم يتمنى أن تذوب فروق الشرق والغرب والعرب والعجم بين الأمة المسلمة التي لا توجد لعالمها حدود ولا ثغور جغرافية ولا يفرّق بين أعضائها اختلاف الألسنة والألوان والأنساب والأوطان، إنما تقوم هذه الأمة على الإيمان بتوحيد الله تعالى، وهذا الإيمان يوحّد بين شعوبها ويؤلّف بين أجزائها. وقد وضّح إقبال ذلك في بيت خالد يشير إلى الفرق الجذري بين الأمة المسلمة والأمم الأخرى، قال: اپنى ملت پر قياس اقوامِ مغرب سے نه كر خاص هے تركيب ميں قومِ رسولِ هاشمى "لا تقس ملتك إلى الملل الغربية فإن ملة الرسول الهاشمي، صلى الله عليه وسلم لها قوامها الخاص". وأختم مقالي بأبيات من قصيدة إقبال المشهورة "جواب الشكوى" التي نقل روحها إلى العربية الشاعر المصري الأستاذ صاوي شعلان –رحمه الله-، وغنتها كوكب الشرق السيدة أم كلثوم، فاشتهرت في البلاد العربية بعنوان: "حديث الروح" إشارة إلى مفتتحها: حديث الروح للأرواح يسري وتدركه القلوب بلا عناء هتفتُ به فطار بلا جناح وشق أنينه صـدر الفضاء ومعدنـه ترابي ولكن جرت في لفظه لغة السماء أدى إقبال في هذه القصيدة رسالته إلى المسلمين لتوحيد كلمتهم والقضاء على التفرق والتشتت قائلاً: منفعت ايك هے اس قوم كى، نقصان بهي ايك ايك هى سب كا نبى، دين بىق، ايمان بهى ايك حرمِ پاك بهى، الله بهى، قرآن بهى ايك كھم بڑى بات تىآ، هوتے جو مسلمان بهى ايك فرقه بندى هے كںبا اور كںيك ذاتيں هيں كيا زمانے ميں پنپنے كى يىل باتيں هيں؟ "إن نفع هذه الأمة وضررها لا يختلف من شعب إلى شعب فالنبي واحد للكل والدين واحد والإيمان واحد والحرم والقرآن والله واحد فهلا أصبح المسلمون يدًا واحدة؟ ومع الأسف قد جعلوا فيما بينهم فِرقاً متحاربة وانقسموا إلى طبقات اجتماعية تقوم على الأنساب فهل هكذا يُتّبع سبيل الرقيّ في العالم؟ وشكرًا لكم سادتي لحسن استماعكم والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته هوامش