دیباچہ یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشں نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات و تمنیات مستیز ہوتے ہیں یہ پُر اسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر اورغیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بندی۔ یہ ’’خودی‘‘ یا ’’انا’’ یا ’’میں‘‘جو اپنے عمل کے رو سے ظاہر اوراپنی حقیقت کے رُو سے مضمر ہے جو تمام مشاہدات کی خالق ہے مگر جس کی لطافت مشاہدہ کی گرم نگاہوں کی تا ب نہیں لا سکتی کیا چیز ہے؟ کیا یہ ایک لازوال حقیقت ہی یا زندگی نے محض عارضی طورپر اپنی فوری عملی اغراض کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو اس فریب تخیل یا دروغ مصلحت آمیز کی صورت میں نمایاں کیا ہو؟ اخلاقی اعتبار سے افراد و اقوام کا طرز عمل اس نہایت ضروری سوال کے جواب پر منحصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ ہوگی جس کے حکماء و علماء نے کسی نہ کسی صورت میں اس سوال کا جواب پیدا کرنے کے لیے دماغ سوزی نہ کی ہو۔ مگر اس سوال کا جواب افراد و اقوام کی دماغی قابلیت پر اس قدر انحصار نہیں رکھتا جس قدر کہ ان کی افتاد طبیعیت پر۔ مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اسی نتیجے کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی انا محض ایک فریب تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اتار دینے کا نام نجات ہے۔ مغربی اقوام کا عملی مذاق ان کو ایسے نتائج کی طرف لے گیا جس کے لیے ان کی فطرت متقاضی تھی۔ ہندو قوم کے دل و دماغ میں عملیات ونظریات کی ایک عجیب طریق سے آمیزش ہوئی ہے اس قوم کے موشگاف حکمائے قوت عمل کی حقیقت نہایت دقیق بحث کی ہے۔ اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انا کی حیات کا یہ مشہود تسلسل جو تمام آلام و مصائب کی جڑ ہے عمل سے متعین ہوتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ انسانی انا کی موجودہ کیفیات اور لوازمات اس کے گذشتہ طریق عمل کا لازمی نتیجہ ہیں اور جب تک یہ قانون عمل اپنا کام کرتا رہی گا وہی نتائج پیداہوتے رہیں گے۔ انیسویں صدی کے مشہور جرمن شاعر گوئٹے کا ہیرو فاؤسٹ جب انجیل یوحنا کی پہلی آیت میں لفظ کلام کی جگہ لفظ عمل پڑھتا ہے’’ (ابتدامیں کلام تھا۔ کلام خدا کے ساتھ کلام ہی خدا تھا)‘‘تو حقیقت میں اس کی دقیقہ سن نگاہ اسی نکتے کو دیکھتی ہے جس کو ہندو حکماء نے صدیوں پہلے دیکھ لیا تھا۔ اس عجیب و غریب طریق پر ہندو حکماء نے تقدیر کی مطلق العنانی اور انسانی حریت یا بالفاظ دیگر جبر واختیار کی گتھی کو سلجھایا اوراس میں کچھ شک نہیں کہ فلسفیانہ لحاظ سے ان کی جدت طرازی داد و تحسین کی مستحق ہے اوربالخصوص اس وجہ سے کہ وہ ایک بہت بڑی اخلاقی جرأت کے ساتھ ان تمام فلسفیانہ نتائج کو بھی قبول کرتے ہیں جو اس قضیہ سے پیداہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ جب انا کی تعیین عمل سے ہے تو انا کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریق ہے وہ ترک عمل ہے۔ یہ نتیجہ انفرادی اورملّی پہلو سے نہا یت خطرناک تھا اور اس بات کا متقضی تھا کہ کوئی مجدد پیدا ہو جو ترک عمل کے اصلی مفہوم کو واضح کرے۔ نبی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا کہ اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایت دلفریب پیرائے میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا ترک عمل سے مراد ترک کلی نہیں ہے۔ کیونکہ عمل اقتضای فطرت ہے اور اس سے زندگی کا استحکام ہے۔ بلکہ ترک عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے مطلق دل بستگی نہ ہو۔ سری کرشن کے بعد سری رام نوح بھی اسی رستے پر چلے مگر افسوس ہے کہ جس عروس معنی کو سری کرسن اور سری رام فوج بے نقاب کرنا چاہتے تھے سری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر محجوب کر دیا اور سری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمر سے محروم رہ گئی۔ مغربی ایشیامیں اسلامی تحریک بھی ایک نہایت زبردست پیغام عمل تھی گو اس تحریک کے تردیک انا ایک مخلوق ہستی ہے جو عمل سے لازوال ہو سکتی ہے۔ مگر مسئلہ انا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اورہندوؤں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے اور یہ کہ جس نکتۂ خیال سے سری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی۔ اسی نکتۂ خیال سے شیخ محی الدین ابن اعربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے۔شیخ اکبر کے علم و فضل اوران کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کو جس کے وہ ان تھک مفسرتھے۔ اسلامی تخیل کا لاینفک عنصر بنادیا اوحد الدین کرمانی اور فخر الدین عراقی اُن کی تعلیم سے نہایت متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودھویں صدی کے تمام عجمی شعراء اس رنگ میں رنگین ہو گئے۔ ایرانیوں کی نازک مزاج اور لطیف الطبع قوم اس طویل دماغی مشقت کہاں متحمل ہو سکتی تھی جو جزو سے کل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے جزو اورکل کا دشوار گزار درمیانی فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کرکے ’’رگ چراغ‘‘ میں ’’خون آفتاب‘‘ کا اور ‘‘شرارِ سنگ‘‘ میں ’’جلوہ طور‘‘ کا بلاواسطہ مشاہدہ کیا۔ مختصر یہ کہ ہندو حکماء نے مسئلہ وحدت الوجود کے اثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا۔ مگر ایرانی شعراء نے اس مسئلے کی میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انھوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا کا آخر کاریہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباًتمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کر دیا۔ علماء قوم میں سب سے پہلے غالباًابن تیمیہ علیہ الرحمۃ اور حکماء میں واحد محمود نے اسل امی تخیل کے اس ہمہ گیر میلان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی مگر افسوس ہے کہ واحد محمود کی تصانیف آج ناپید ہیں۔ ملا محسن فانی کشمیری نے اپنی کتاب دبستان مذاہب میں اس حکیم کا تھوڑا سا تذکرہ لکھا ہے جس سے اس کے خیالات کا پورا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ ابن تیمیہ کی زبردست منطق نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور کیا مگر حق یہ ہے کہ منطق کی خشکی شعر کی دلربائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ شعراء میں شیخ علی خرین نے یہ کہہ کر کہ ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ حقیقت حال سے آگاہ تھے مگر باوجود اس بات کے ان کا کلام شاہد ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ان حالات میں یہ کیوں کر ممکن تھا کہ ہندوستان میں اسلامی تخیل اپنے عملی ذوق کو محفوظ رکھ سکتا۔ مرزا بیدل علیہ الرحمۃ لذت سکون کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ ان کو جنبش نگاہ تک گوارا نہیں۔ نزاکت ہا آست در آغوش مینا خانۂ حیرت مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگ تماشا را اور امیر مینائی مرحوم یہ تعلیم دیتے ہیں کہ : دیکھ جو کچھ سامنے آجائے منہ سے کچھ نہ بول آنکھ آئینے کی پیدا کر ذہن تصویر کا مغربی اقوام اپنی قوت عمل کی وجہ سے تمام اقوام عالم میں ممتاز ہیں اور اسی وجہ سے اسرار زندگی کو سمجھنے کے لیے ان کے ادبیات و تخیلات اہل مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں۔ اگرچہ مغرب کے فلسفۂ جدید کی ابتدا ہالینڈ کے اسرائیلی فلسفی کے نظام وحدت الوجود سے ہوتی ہے لیکن مغرب کی طبائع پر رنگ عمل غالب تھا۔ مسئلہ وحدتالوجود کا یہ طلسم جس کو ریاضیات کی طریق استدلال سے پختہ کیا گیا تھا دیر تک قائم نہ رہ سکتا تھا۔ سب سے پہلے جرمنی میں انسانی انا کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا اور رفتہ رفتہ فلاسفۂ مغرب بالخصوص حکمائے انگلستان کے عملی ذوق کی بدولت اس خیالی طلسم کے اثر سے آزاد ہو گئے جس طرح رنگ وبو وغیرہ کے لیے مختص حواس ہیں اسی طرح انسانوں میں ایک اور حاسہ بھی ہے جس کو حس واقعات کہنا چاہیے۔ ہماری زندگی واقعات گرد و پیش کے مشاہدہ کرنے اوران کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر عمل پیرا ہونے پر منحصر ہے مگر ہم سے کتنے ہیں جو اس قوت سے کام ل یتے ہیں جس کو میں نے حس واقعات کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے؟ نطام قدرت کے پر اسرار بطن سے واقعات پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے مگر بیکن سے پہلے کون جانتا تھا کہ یہ واقعات حاضرہ جن کو نظریات کے دلدادہ فلسفی اپنے تخیل کی بلندی سے بنگاہ حقارت دیکھتے ہیں اپںے اندر حقائق و معارف کا ایک گنج گرانماۂ پوشیدہ رکھتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ انگریزی قوم کی عملی نکتہ رسی کا احسان تمام دنیا کی قوموں پر ہے کہ اس قوم میں ’’حس واقعات‘‘ اور اقوام عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ’’دماغ یافتہ‘‘ فلسفیانہ نظام جو واقعات متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو۔ انگلستان کی سرزمین میں آج تک مقبول نہیں ہوا۔ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیات عالم میں ایک خاص پایۂ رکھتی ہیں اور اس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستیفد ہوکر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظر ثانی کریں۔ یہ ہے ایک مختصر خاکہ اس مسئلے کی تاریخ کا جو اس نظم کا موضوع ہے۔ میں نے اس دقیق مسئلے کو فلسفیانہ دلائل کی پیچیدگیوں سے آزادکرکے تخیل رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ اس کی حقیقت کو سمجھنے اور غور کرنے میں آسانی پیداہو۔ اس دیباچے سے اس نظم کی تفسیر مقصود نہیں۔ محض ان لوگوں کو نشانِ راہ بتانا مقصود ہے جو پہلے سے اس عسیر الفہم حقیقت کی دقتوں سے آشنا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سطور بالا سے کسی حد تک یہ مطلب نکل آئے گا۔ شاعرانہ پہلو سے اس نظم کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذت حیات انا کی انفرادی حیثیت اس کے اثبات استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے۔ ؟؟؟مسئلہ حیات ما بعد الموت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بطور ایک تمہید کے کام دے گا ۔ ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طورپر اردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساس نفس یقین ذات ہے۔ مرکب لفظ بے خودی میں بھی اس کا یہی مفہوم ہے اورغالباًمحسن تاثیر کے اس شعر میں بھی لفظ خودی کے یہی معنی ہیں: غریق قلزم وہدت دم از خودی نخود بود محال کشیدن میان آب نفس محمد اقبال ماسلم جیراج پوری کا تبصرہ اسرارِ خودی۱؎ حق نواز ڈاکٹر اقبال کی مثنوی اسرارخودی جب سے شائع ہوئی ہے اُس وقت سے اس پر مخالفین کے اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف نے اس مثنوی میں تصوف کی بحث میں حکیم افلاطون یونانی اور خواجہ حافظ شیرازی کو ’’بزوگوسفند‘‘ لکھاہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: راہب اول فلاطون حکیم از گروہ گوسفندان قدیم گوسفندے در لباس آدم است حکم او بر جان صوفی محکم است بسکہ از ذوق عمل محروم بود جان او وارفتہ معدوم بود منکر ہنگامۂ موجود گشت خالقِ اعیان نا مشہودگشت کار او تحلیل اجزائے حیات قطعِ شاخِ سروِ رعنائے حیات خواجہ حافظ کے متعلق لکھا ہے: ہوشیار از حافظ صہبا گسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار نیست غیر از بادہ در بازارِ او از رو جام آشفتہ دستار او چون جرس صد نالۂ رسوا کشید عیش ہم در منزل جاناں ندید آں فقیہ مت میخوارگاں آں امام ملت بے چارگاں گوسفند است و نوا آموخت است فتنہ و ناز و ادا آموخت است دلربائی ہاے او زہر است و بس چشم او غارت گر شہر است و بس از بز یوناں زمیں زیرک تر است پردۂ عودش حجاب اکبر است بگزار از جامش کہ در مینائے خویش چوں مریدان حسن دارد حشیش محفل او در خور ابرار نیست ساغر او قابل احرار نیست بے نیاز از محفل حافظ گزر الحذر از گوسفنداں الحذر مخالفین کو افلاطون کی نسبت کم، لیکن خواجہ حافظ کی بابت زیادہ ملال ہے کیونکہ وہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک مقدس بزرگ بھی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے حمیت کے جوش میں وہ بھی ڈاکٹر صاحب کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ میں ایک عرصے سے اس بحث کو دیکھ رہا تھا لیکن اس وجہ سے خاموش تھا کہ یہ اصولی بحث نہ تھی۔ چند روزہوئے میرے پاس مثنو ی راز خودی ایک دوست کے ذریعے پہنچی جو خان بہادر پیرزادہ مظفر احمد صاحب متخلص بہ فضلی پنشنر ڈپٹی کلکٹر محکمہ انہار پنجاب نے اسرار خودی کے جواب میں لکھ کر شائع کی ہے۔ بعض دوستوں نے اصرار کیا کہ میں کچھ ضرور ان مثنویوں پر لکھوں۔ اس لیے مجبوراًمہر سکوت کو توڑنا پڑا۔ لیکن میرے اس لکھنے کا منشا صرف یہ ہے کہ اس بحث کو اصل مر کزپر لاؤں تاکہ آئندہ موافقین یا مخالفین جو کچھ لکھیںوہ قوم کے لیے مفید ہو ذاتیات سے کوئی فائدہ مرتب نہیں ہوتا۔ احترام سلف: ڈاکٹر صاحب نے اس مثنوی میں خواجہ حافظ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اگر وہ نہ لکھتے تھے بہتر تھا۲؎ کیونکہ اس کی وجہ سے ایک تو خود ان کی ذات پر حملہ ہونے لگے اس لیے کہ قدیمی اصول ہے۔ بزرگش نخونند اہل خرد کہ نام بزرگاں بزشتی برد دوسر ے نفس مسئلہ جو مفید تھا ان ناگواربحثوں کے حجاب میں آ گیا چنانچہ پیرزادہ صاحب جنہوں نے اس دھوم دھام سے مثنوی کاجواب لکھا ہے وہ بھی اصلی بحث کو نظر انداز کر گئے اور صرف افلاطون اورحافظ کی مداح سرائی اور ڈاکٹر صاحب پر مثلیں چست کرنے میں مشغول رہے۔ ’’بزوگوسفند‘‘کے جواب میں کہیں شغال اور کہیں خر بنایا ہے اور دشمن اسلام اور رہزن اسلام وغیرہ خطابات بخشے ہیں۔ لکھتے ہیں : خود زما خیلے بسے وحشت سگال جامہ زن در نیل دستاں چوں شغال فلسفی فطرت نہ دیں برگشتگان در بیابان جنوں سر کشتگاں عقل و دیں و داد را دشمن ہمہ در لباس سحنگاں رہزن ہمہ از دم گفتار دستاں داستاں فلسفہ در دل تصوف بر زباں دشمنِ جاں آمدند اسلام را رہزن جاں، آمدند اسلام را وائے بر ایں پختگاں عقل خام اولیا را میش و بز کردند نام از دم مکر شفا لاں الحذر الحذر از بد سگا لاں الحذر دوسری جگہ لکھتے ہیں : از خودی پیغارہ زن اسلاف را کردہ پامال جنوں انصاف را بندۂ دنیا، بہ دنیا دیں فروش سر بسر ملت فروش، آئیں فروش پیرزادہ صاحب کے ان اقوال کو جب صوفیانہ علم اور حسن ظن کی میزان میں ہم تولتے ہیں تو ان کی سبکی نہایت حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے۔ خواجہ حافظ کے کلام کے متعلق اس قسم کی رائیں پہلے سے لوگوں کے چلی آتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کچھ اس کے اول مجرم نہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ بادشاہ عالمگیر نے عام منادی کرا دی تھی کہ دیوانِ حافظ کوئی نہ پڑھے کیونکہ لوگ اس کے ظاہری معنی سمجھ کر گمراہ ہوتے ہیں۔ نیز مولانا حالی مرحوم نے حیاتِ سعدی میں لکھا ہے: خواجہ حافظ کی غزل مجالس اورمحافل میں سب سے زیادہ گائی جاتی ہے اور اس کے مضامین سے اکثر لوگ واقف ہیں۔ وہ ہمیشہ سامعین کے ساتھ عشق مجازی اور صورت پرستی و کام جوئی کو بھی دین و دنیا کی نعمتوں سے افضل بتاتی ہے۔ مال دولت، علم و ہنر، نماز و روزہ، حج وزکوۃ، زہد و تقویٰ غرضیکہ کسی شے کو نظر بازی اور شاہد پرستی کے برابر نہیں ٹھہراتی۔ وہ عقل و تدبر، مال اندیشی، تمکین و وقار، ننگ و ناموس ، جاہ و منصب وغیرہ کی ہمیشہ مذمت کرتی ہے اور آزادگی، رسوائی، بدنامی وغیرہ کو جو عشق کی بدولت حاصل ہو۔ تمام حالتوں سے بہتر ظاہر کرتی ہے۔ دولت دنیا پر لات مارنا، عقل و تدبرسے کام نہ لینا۔ توکل و قناعت کے نشے میں اپنی ہستی مٹا دینا اورجوہر انسانیت کو خاک میں ملا دینا دنیا و مافیہا کے زوال و فنا کا ہر وقت تصور باندھے رکھنا، علم و حکمت کو لغو و پوچاور حجاب اکبر جاننا حقائق اشیاء میں کبھی غور و فکر نہ کرنا۔ کفایت شعاری اور انتظام کا ہمیشہ دشمن رہنا۔ جو کچھ ہاتھ لگے اس کو فوراًکھو دینا اور اسی طرح کی بہت سی باتیں اس سے مستفاد ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام مضامین ایسے ہیں جو ہمیشہ بے فکروں اور نوجوانوں کو بالطبع مرغوب ہوتے ہیں اورکلام کا سادہ اور عام فہم ہونا اور شاعر کی فصاحت و بلاغت اورمطرب و رقاصہ کی خوش آوازی اور حسن و جمال اور مزامیر کی لے ان کو لے اڑتی ہے اور ان کی تاثیر کو دس بیس گنا کر دیتی ہے اور جب باوجود ان سب باتوں کے سامعین کو یہ اعتقاد بھی ہو کہ اس کلام کے قائل اکابر صوفیا ء اورمشائخ کرام ہیں جن کی تمام عمر حقائق اور معارف کے بیان کرنے میں گزری ہے اور جن کا شعرشریعت کا رہنما اور عالم لاہوت کی آواز ہے تو یہ مضامین اور زیادہ دل نشین ہو جاتے ہیں ۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں: خواجہ حافظ کی غزل کی ممارست اور مزاولت سے بے شک ابرابر و احرار کے دلوں میں دنیا کی بے ثباتی اور توکل و استغنا و قناعت کا پختہ خیال پیداہوتا ہے اور اوباش والواط کو بے فکری ،عاقبت اندیشی، عشق بازی ، بدنامی و رسوائی کی ترغیب ہوتی ہے اور قوم کی موجودہ حالت کے لحاظ سے پہلی تاثیر بھی ویسی ہی خانہ بر انداز اور خانماں سوز ہے جیسی دوسری۔ ہم نے خود اپنی تصنیف حیات حافظ میں ان رایوں کو نقل کیا ہے اور ان کا جواب بھی دیا ہے لیکن ہمارے جواب کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ ’’حسن کا معیار یہی ہے کہ وہ کمال درجے کا دلکش ہو، عشاق کی رسوائی سے حسن برا نہیں قرار پا سکتا‘‘ باقی حافظ کی غزل کے ان اثرات سے جو مولانا حالی نے لکھے ہیں کون انکار کر سکتا ہے۔ بے شک یہاں تک ہم پیرزادہ صاحب کے ساتھ ہیں کہ : الادب پیغا وہ برمستان مزن شیشۂ خود بر سر سنداں غرن در گزر از بادہ خوار اے محتسب مست را معذور دار اے محتسب لسان الغیب مولانا حکیم فیروزالدین صاحب طغرائی نے ڈاکٹر صاحب کے جواب میں جو رسالہ لسان الغیب کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس میں جو پہلو جواب کا اختیار کیا ہے وہ ’’سوال از آسمان و جواب ازریسمان‘‘ کا مصداق ہے۔ شعراء اور تذکرہ نگاروں نے کلام حافظ کی جو مدح کی ہے وہ شاعری اور صوفیانہ رموز کے لحاظ سے کی ہے اور یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے کلام کی ان خوبیوں کو ڈاکٹر صاحب بہ نسبت حکیم صاحب موصوف کے زیادہ سمجھتے ہیں۔ بحث جو کچھ ہے وہ ان اثرات کے متعلق جو خواجہ کے کلام سے جذبات پر پڑتے ہیں۔ اس لیے ان محامد و مدائح کا نقل کر دینا جو ڈاکٹر صاحب کے بھی پیش نظر ہیں جواب کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔ علاوہ بریں حکیم صاحب موصوف نے شعر العجم سے بہت کچھ استدلال فرمایا ہے کہ علامہ شبلی نے کلام حافظ کو چناں و چنیں لکھا ہے۔ مگران کو یہ خبر نہیں کہ اسی شعر العجم میں عمر خیام کے تذکرے میں ہے کہ: افسوس ہے کہ خیام خواجہ حافظ کی طرح صوفی نہ تھا ورنہ اس کی شراب بھی شراب معرفت بن جاتی۔ اسرار خودیمیں خواجہ حافظ کے جن اشعار کی طرف تلمیح کی ہے ان کے جو لطیف معانی حکیم صاحب نے بیان کیے اور جو جو صوفیانہ نکات ان سے نکالے ہیں وہ ہر شاعر کے ہر شعر سے نکالے جا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کچھ عرصہ ہوا میں نے کسی مضمون نگار کا مضمون پڑھا تھا۔ جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’’خواجہ آتش لکھنوی کا کلام تصوف اور معرفت سے لبریز ہے‘‘ اور اس کی شواہد بھی لکھے تھے نیز بمبئی کے کسی اخبار میں ایک گبر کا یہ دعویٰ بھی دیکھنے میں آیا تھا کہ خواجہ حافظ آتش پرست تھے۔ مدعی نے خود حافظ کی غزلوں سے اس پر استدلال کیا تھا۔ منجملہ ان کے ایک غزل جو مجھے یاد رہ گئی ، یہ ہے: کنو تکہ در چمن آمد گل از عدم بہ وجود بنفشہ در قدم او نہاد سر بسجود اس غزل کے مندرجہ ذیل شعر کو اس نے اس عجیب و غریب دعوے کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ بباع تازہ کن آئین دین زردشتی کنو نکہ لالہ بر افروخت آتش نمرود حافظ و عرفی: ہم کو سب سے زیادہ جو بات مثنوی اسرارخودی میں حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے حافظ جادو بیان شیرازی است عرفی آتش زبان شیرازی است ایں سوے ملک خودی مرکب جہاند وان کنارِ آب رکنا باد ماند ایں قتیل ہمت مردانۂ آن ز رمز زندگی بیگانۂ بادہ زن با عرفی ہنگامہ خیز زندہ ای از صحبت حافظ گریز اس لیے کہ اگر شاعری ہی کے دائرے میں رہنا ہے تو حافظ کو چھوڑ کر عرفی کو مقتدا بنالینا بعینہ اس مثل کے مصداق ہے : ’’فرمن المطر و وقع المیزاب‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری شاعری خر دجال ہے۔ خر عیسیٰ نہیں ہے۔ اس کے چند مخصوص عنوانات ہیں جن کو واقعیت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ انھی کو شعراء الفاظ کے نئے نئے لباس میں پیش کرتے ہیں۔ یہ نہ زندگی کے لیے کسی عملی شاہراہ کی طرف ہدایت کرتی ہے نہ سوائے ادبی لطافت کے کوئی خاص مقصد پیش نظر رکھتی ہے۔ قرآن شریف نے جس شاعری کو مذمو م قرار دیا ہے، اس کا بہترین یا بدترین نمونہ یہی ہے۔ الا ما شااللہ مولانا حالی نے صحیح فرمایا ہے: وہ شعر و قصائد کا ناپاک دفتر عف نت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر زمیں، جس سے ہے زلزلے میں برابر ہوا علم دیں جس سے برباد سارا وہ علموں میں علم ادب ہے ہمارا عقیدت مندی نے خواجہ خافظ کے کلام پر پھر بھی تقدس کا ایک غلاف چڑھا دیا ہے۔ عرفی کا کلام تو اس سے بھی اری ہے۔ رہیں ادبی خوبیاں تو ان کے لحاظ سے خود عرفی اسی شمع کا پروانہ ہے۔ کہتا ہے: بگرد مرقد حافظ کہ کعبۂ سخن است در آمدیم بعزم طواف در پرواز بے شک نخوت اور خودستائی کہیں کہیں اس کے کلام میں پائی جاتی ہے لیکن وہ خود ڈاکٹر صاحب کی مطلقہ خودی کے متضاد ہے۔ بحث خودی! پیر زادہ صاحب نے خودی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے خواجہ حافظ کے جوش حمایت میں ڈاکٹر صاحب کے مفہوم مقصود کو سہواًیا قصداًنظر انداز کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تو صاف لکھ دیا ہے کہ ’’خودی کو بمعنی غرور میں لے استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مقصود محض احساس نفس یا تعین ذات ہے‘‘۔باوجود اس تصریح کے اس لفظ کے جو معنی انھوں نے خود ڈاکٹر صاحب کے اشعار سے نکالنے کی کوشش کی ہے اس میں صریحی طور پر انصاف سے تجاوز کرگئے ہیں اس لیے کہ جب کوئی لفظ کسی اصطلاحی معنی میں رکھ لیاگیا تو اس کے لغوی معنی لے کر اعتراض کا پہلو نکالنا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟ اس شعر پر! شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت تا چراغِ یک محمدؐ بر فروخت جو اعتراض پیر زادہ صاحب نے کیا ہے کہ اس کا انبیاء کی عظمت و شان پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ ہم بھی اس سے متفق ہیں لیکن ہمارا جہاں تک خیال ہے ڈاکٹر صاحب نے یہ مضمون اس کلام سے اخذ کیا ہوگا جو کسی بزرگ صوفی کا ہے: صد ہزاراں سبزہ پوش از غم بسوخت تاکہ آدم را چراغے بر فروخت صد ہزاراں جسم خالی شد ز روح تا دریں حضرت در و گر گشت نوح صد ہزاراں پیشۂ در لشکر فتاد تا براہیم از میاں سر بر نہاد صد ہزاراں خلق در زنار شد تا کہ عیسیٰ محرم اسرار شد صد ہزاراں خلق در تا راج رفت تا محمدؐ یک شبے معراج رفت خودی کا عرفی مفہوم مراد لے کر پیر زادہ صاحب نے جو اعتراضات کیے ہیں ان تیروں کا نشانہ ڈاکٹر صاحب نہیں ہیں۔ لیکن کیونکہ انھوں نے اس کا مفہوم دوسرا قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں یہ بحث بالکل لفظی ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی حکیمانہ طبیعیت نے جب مسلمانوں کے تنزل کے اسباب و علل دریافت کرنے کی طرف توجہ کی تو یہ سراغ پایا کہ امت اسلامیہ سے قوت عمل فنا ہو گئی اورجو عملی ولولہ اور جوش سلف میں تھا وہ خلف میں نہیں رہا اور چونکہ ترقی کا مدار عمل پر ہے اس لیے پھر اسی قوت عمل کو زندہ کرکے ہم ترقی کرسکتے ہیں۔ اس قوتِ عمل کے احیاء کے لیے ضروری ہے کہ ہم کو اپنی ہستی کا بھی احساس ہو۔ اس نظریے کی تعلیم کے لیے انھوں نے یہ مثنوی لکھی ہے۔ خودی کی تعریف میں کہتے ہیں : پیکر ہستی ز آثار خودی ست ہر چہ می بینی ز اسرار خودی ست خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیداست از اثبات او می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب علل زندگی محکم ز ایفاظ خودیست کاھد از خواب خودی نیروے زیست اس مفہوم کو مثنوی رموز بے خودی میں اور بھی صاف کر دیا ہے: تو خودی از بے خودی نشناختی خوش را اندر گمان انداختی جو ہر نوریست اندر خاک تو یک شعاعش جلوۂ ادراک تو واحد است او بر نہ می تابد ووئی من ز تاب او من استم، تو توئی خویش وار و خویش باز و خویش ساز نازہا می پسرورد اندر نیاز خوگر پیکار پیہم دیدمش ہم خودی، ہم زندگی نامیدمش پیر زادہ صاحب فرماتے ہیں: ہر چہ گفتی از خودی حاشا غلط سر بسر از لفظ تا معنی غلط در حیات کسی خودی را دخل نیست خلق عالم نورس ایں نخل نیست در حریم حق خودی را نیست بار در حرم مزدور دیواں را چہ کار از خودی بگزد کہ کار ابن ست و بس خاصہ مسلم را شعار این ست و بس دراصل پیرزادہ صاحب خودی کے لفظ ہی سے بیزار ہیں، کہتے ہیں: اے خودی را مرکب خود ساختی دبۂ در پائے پیل انداختی اے خیال خامت اسرارِ خودی پختہ کار رازِ پندار خودی زہر را تریاق می گوئی بگوے بر ہلاک خویش می یوئی پیوے در عیارستان بازار صفا سکۂ قال تو باشد ناروا ہم کو حیرت ہے کہ ’’عیارستان بازار صفا‘‘میں پیرزادہ منصور حلاج کی ’’اناالحق‘‘ کے تو نہایت سر گرم حامی ہیں اور ڈاکٹر اقبال کی انا، انا سے اس قدر بیزار! منصور کی حمایت میں فرماتے ہیں: زاہداں منصور را خون کردہ اند بیکس و مغرور را خون کردہ اند مرد حق گو را بدار اویختند بے گنہ را خونب نا حق ریختند ھلہ اے زھار آشفتہ دروں ھلہ اے استیزہ کاران جنوں خون منصور از شما خواہم گرفت خفتہ خون را خون بہا خواہم گرفت ڈاکٹر صاحب نے حکیم افلاطون کی جو مذمت مسئلہ اعیان کی وجہ سے کی ہے اس کے جواب میں پیرزادہ صاحب نے شیخ شہاب الدین کی کتاب تلویح سے ایک کشفی فضیلت نقل فرماکر اس کی مدح سرائی فرمائی ہے فلسفۂ استدلال جاننے والوں کے لیے یہ جواب ایک لطیفہ ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ مذکور نے ارسطو کو کشف میں دیکھا کہ وہ افلاطون کی مدح میں سرگرم ہے پوچھا کہ اس کے درجے کا کوئی اور حکیم نہیں؟ ارسطو نے کہا ’’نہیں‘‘ پھر مسلمان بزرگوں اور صوفیوں کے نام لیے ۔ ارسطو نے سوائے بایزید کے اورکسی کو افلاطون کا ہم مرتبہ نہ بتایا چنانچہ پیرزادہ صاحب اسی بنیاد پر اس کی بابت کہتے ہیں : جبرئیلے در لباس آدم است ہم کو امید تھی کہ پیرزادہ صاحب حافظ کی مدافعت زیادہ جوش کے ساتھ کریں گے لیکن یہاں مضمون بہت سی مختصر نکلا۔ کہتے ہیں: اے کہ حافظ را شماتت مکنی رند میکش را ملامت میکنی اے بعلم خویش محمور عمل تو چہ دانی سرِ مستانِ ازل بحث تصوف اصل مرکز بحث یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہیں کہ مذہب اسلام ایک حقیقی پیغام عمل ہے۔ باوجود پیرو اسلام ہونے کے موجودہ مسلمانوں میں جو جمود ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر ایک بیرونی عنصر مذہبی رنگ میں آکر غالب ہوگیا ہے اور وہ تصوف ہے۔ اسی تصوف کے مسئلہ فنا اور نفس کشی نے مسلمانوں کی قوت عمل کوباطل کر دیا ہے۔ کیونکہ تصوف کا اثر تمام ادبیات اسلامیہ میں ساری ہو گیا ہے اور ہرقوم کے ادبیات کا ایک تاریخی اثر اس قوم کے جذبات اور قوائے نفسانیہ پر ہوتا ہے۔ اس لیے رفتہ رفتہ اس کے اثر سے ہماری قوت عمل جاتی رہی۔ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مسئلہ نفی خودی کو نبی نوع انسان کی مغلوب قوموں نے ایجاد کیا ہے کہ اس تعلیم سے مخفی طورپر غالب قوموں کو کمزور بنائیں۔ یونان میں فلسفہ اشراق اور ایران میں تصوف پھیلا۔ اس وجہ سے ضمناًافلاطون اور حافظ کا بھی تذکرہ آیا۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال جیسا کہ پیر زادہ صاحب نے اپنی مثنوی کے دیباچے میں خود انہی کے الفاظ میں نقل کیا ہے یہ: (۱) تصوف رہبانیت سے پیدا ہواہے۔ (۲) اسلام تصوف کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔ (۳) تصوف نے قرمطی تحریک سے فائدہ اٹھایا ہے۔ (۴) تصوف قیود شرعی کو فنا کر دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اس کی بنیادمحض عقیدت پر نہیں ہے بلکہ انھوں نے خود تحقیقات کی ہے: (۱) میرے آباؤ اجداد کا مشرب تصوف تھااور خود میرا میلان بھی تصوف کی طرف تھا۔ (۲) فلسفہ یورپ کے پڑھنے سے اسلامی تصوف کی صداقت میرے دل میں مضبوط ہو گئی تھی کیونکہ فلسفۂ یورپ بحیثیت مجموعی منجر بہ تصوف ہے۔ (۳) قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کو پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ میں غلطی پر تھا۔ تصوف اور فلسفہ یورپ بھی غلط ثابت ہوااس واسطے میںمیں نے تصوف کو ترک کر دیا۔ اس کے مقابلے میں پیرزادہ صاحب فرماتے ہیں ’’کہ میرا نسبی و نسبتی تعلق ایک قدیم صوفیانہ خاندان سے ہے۔ میرے آباؤ اجداد نے نسلاًبعد نسل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے وقت سے جو میرے جد اعلیٰ ہیں اس وقت تک تصوف کے دامان تربیت میں پرورش پائی ہے‘‘۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ ’’اسلام عین تصوف ہے اور تصوف عین اسلام ہے‘‘۔ مسئلہ عینیت: تصوف کامسئلہ عینیت افلاطون کے مسئلہ اعیاں سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہے۔ ’’ہمہ اوست‘‘ کے عقیدے نے ایک ایسی ہمہ گیر عینیت کی بنیاد ڈالی کہ ہر ہر ذرہ عین آفتاب ہو گیا اور خالق اورمخلوق متحد ہوگئے۔ ’’انا الحق‘‘ ’’سبحانی ما اعظم شافی‘‘ ’’سبحان الذی خلق الاشیاء وھو عنیا‘‘ خود کوزہ و خود کوزہ گرو خود گل کوزہ خود بر سرِ بازار خریدار برآمد خود انا الحق زد از لب منصور خود برامد ز شوق برسرِ دار گفت انا۳؎ احمدؐ بلامیم از زبان محمدؐ مختار ندیم و مطرب و ساقی ہم اوست خیال آب و گل در رہ بہانہ یہاں تک کہ بعض یکہ تازان میدان تفرید۔ کلمہ توحید کو بھی شرک خیا ل کرتے ہیں۔ اے پسر لا الہ الا اللہ خود ز شرک خفی است آئینہ دار ہست شرک جلی رسول اللہؐ خویشتن را ازیں دو شرک برابر ایک اور سرمست کا ترانہ سنیے: من ھم زمیم ہم سما، من با تو ھستم جملہ جا من مصطفی را ہم خدا، من ملحد دیرینہ ام فرعون اورموسیٰ علیہ السلام کے امتیازی حدود بھی مٹ گئے : چونکہ بے رنگی اسیر رنگ شد موسیٰ با موسیٰ در جنگ شد تجرید کا یہ نعرہ مستانہ بھی سن لیجیے جس میں قافیے کی پابندی بھی ترک کر دی گئی ہے: سر برہنہ نیستم دارم کلاہ چار ترک ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک مولیٰ ترک ترک ان ’’شطحیات‘‘ کا ایک انبار ہے۔ ان میں بہت سی ایسی ہیں جن کو نقل کرتے ہوئے مجھ نا آشنا ئے سر وحدت کا قلم لرزتا ہے اور یہ آنحضرت کے اقوال ہیں جن کا ایک ایک لفظ ’’عیارستان بازارصفا‘‘ میں بے بہا جوہر سمجھتا جاتا ہے، ایسی حالت میں اسلام کا عین تصوف اور تصوف کا عین اسلام ہونا کیا حیرت انگیز ہے۔ علم و عقیدت کی جنگ تمام مصلحوں اور پیشواؤں کو سب سے پہلی خطرناک منزل جو پیش آتی ہے وہ یہی علم و عقیدت کی جنگ ہے۔ مصلح دیدہ تحقیق سے دیکھ کر ڈراتا ہے کہ اے قوم! جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے اسے پھینک دے کیونکہ یہ زہریلا سانپ ہے مگر رسم پرست قوم کہتی ہے کہ نہیں، یہ تازیانہ ہے: بوقت صبح شود ہمچو روز معلومت کہ با کہ باختہ ای عشق در شو دیجور اس جنگ کے ہزارہا تماشے دنیا دیکھ چکی لیکن ابھی تک بدستور اس کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک شخص علمی تحقیقات سے مفید اور صحیح خیالات قوم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ قوم اس کو جاہل، دشمن اسلام اور کافر بتاتی ہے۔ امام غزالی، ابن رشد اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کسی کی کتابیں جلائی جاتی ہیں، کوئی جلا وطن کیاجاتا ہے۔ کسی کو قید خانے جانا پڑتا ہے۔ عقیدہوہی صحیح ہے جس کی بنیاد علم یقینی پر ہو۔ محض رسمی عقیدہ ’’عیارستان بازار تحقیق‘‘ میں کوئی قیمت نہیںرکھتا۔ تصوف اور اسلام سرچشمۂ اسلام یعنی قرآن و حدیث تصوف کے لفظ تک سے نا آشنا ہیں۔ یہ لفظ دوسری صدی ہجری میں عربی زبان میں داخل ہوا۔ مستشرقین یورپ و دیگرمحققین سے کوئی کہتا ہے کہ تصوف فلسفۂ اشراق سے لیاگیا ہے۔ کوئی اس کا ماخذ کلیساؤں کی رہبانیت کو قرار دیتا ہے۔ ان کی تحقیقات لکھنے کا نہ یہ موقع ہے، نہ اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش ہے۔ تاریخ اسلام بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس سے جہاں تک معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ ابتدا میں جو اہل زہد تارک الدنیا اور گوشہ گیر ہو کر عبادت اور ریاضت میں مصروف رہتے تھے ان کو لوگ صوفی کے نام سے پکارنے لگے۔ یعنی جیسا کہ پیرزادہ صاحب نے فرمایا: پیش طاق صوفیاں احسان بود اتباعِ سنت و قرآن بود اس زمانے میں تصوف اخلاص کا نام ہے جس کو حدیث شریف میں ’’احسان‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہی وہ تصوف ہے جس کی مدح غزالی وغیرہ ائمہ اسلام نے لکھی ہے۔ لیکن جب تاتاریوں کے حملے شروع ہوئے اور چنگیز اورہلاکو نے ایک قیامت صغری برپا کر دی تو ان کی ہولناک خون ریزیوں سے امت کے فاتحانہ جذبات مٹ گئے۔ دنیا کی طرف سے ان کے دلل سرد ہو گئے۔ طبیعتوں کا جوش اور ولولہ جاتا رہا۔ حوصلے پست اور ہمتیں سست ہوگئیں۔ زوال و فنا کے نقشے آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ میلان خاطر زہد اور ترک دنیا کی طرف بڑھ گیا اور سرمایہ ٔ توکل و قناعت کو لے کر گوشۂ عافیت پر بیٹھنا پسند آیا۔ عالمِ فانی کے جاہ و جلال کی وقعت نگاہوں میں نہ رہی۔ بوریاے فقر سریر سلطنت سے زیادہ عزیز سمجھا گیا۔ کلاہِ نمدی کو تاجِ زر پر ترجیح دی گئی اور پکار اُٹھے: گوشۂ عافیت و کنج قناعت گنجیست کہ بشمشیر میسر نہ شود سلطان را بزاغ دل زمانے، نظرے بہ ماھروے بہ ازانکہ چترِ شاہی عمر و ھائے و ھوئے مئے دو سالہ و معشوق چار دہ سالہا ہمیں بس ست مرا صحبت صغیر و کبیر شکوہِ تاج سلطانی کہ بیم جان در و در جست کلاہِ دلکش است اما تبرک سر نمی ارزد ذوق عمل طبائع سے یہاں تک مسلوب ہو گیا کہ ’’شیوہ قلندری‘‘ کے مقابلے میں ’’رہ و رسمِ پارسائی دور دراز‘‘ نظر آنے لگی ۔ عالم ذوق میں ، حلقۂ یاراں میں ’’خلوت درانجمن‘‘ ہونے لگی اور سجادے ہی پر ’’سفر در وطن‘‘ کی کڑی منزلیں طے کی جانے لگیں۔ شریعت اور حقیقت دو جداگانہ راستے قرار پائے اور ان میں پوست اور مغز کی تفریق کی گئی۔ علما و فقہا محجوب و بے بصر سمجھے گئے ۔ یہ اثرات اگر صرف ایک ہی جماعت تک محدود ہوتے تو نقصان نہ ہوتا ۔ لیکن شاعری کے ساز پہ یہ ترانہ کچھ اس انداز سے چھیڑا گیا کہ تمام ملک اس صدا سے گونج اٹھا اور ادبیات اسلامیہ میں ایک قسم کے جمود اوررہبانیت کا اثر ساری ہو گیا۔ زوال شوکت اسلام: شوکت اسلام کے زوال کے اسباب یوں تو پہلی ہی صدی ہجری سے شروع ہو گئے تھے، مثلاً سیاست کی خرابی، یعنی وہ جمہوریت جو اسلام لے کر آیا تھا ، جس نے ہر مسلمان کو آزاد اور خود مختار بنا دیا تھا، ہاتھوں سے جاتی رہی اور اس کے بجائے استبدادی حکومت قائم ہو گئی ، جس نے تمام امت کو غلام بنا دیا۔ مسلمان بے گناہ قتل کر دیے جاتے تھے۔ ائمہ و علماء جو اپنے اپنے زمانے کے روشن چراغ تھے....بیشتر زیر عتاب ، زیر خنجر یا زیر طوق وزنجیر رکھے جاتے تھے اور حق گوزبانیں اس قدر خاموش کر دی گئی تھیں کہ ان مظالم کے خلاف ایک لفظ نہیں نکال سکتی تھیں۔ اس طرح ہر ’’مسلم‘‘ حریت عمل سے محروم کر دیا گیا، پھر علمی تقلید جس سے حریت فکر بھی جاتی رہی۔ یہ شکنجہ ایسا سخت تھا کہ ایک زمانے میں یہاں تک نوبت پہنچ گئی تھی کہ اہل علم اس خوف سے کہیں کوئی دشمن ان کے اوپر تہمت لگا کر قتل نہ کرا دے ، اپنی صحت عقیدہ کی سند قاضی سے لے کر ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اسلام میں اس بیرونی عنصر کے شمول سے جو جمود پیدا ہوا اس نے بھی بہت کچھ ان اسباب زوال کو تقویت دی اور خاص کر ہندوستان میں تو اسلام کی حالت اور بھی خراب ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک غیر مسلم شخص یعنی قومیت کا مشہور مبصر ڈاکٹر لبیان اپنی کتاب تمدن ہندمیں یہاں کے مسلمانوں کی نسبت یہ لکھنے پر مجبورہوا کہ : وہ اسلام جو اس وقت ہند میں رائج ہے اس کی حالت بھی ویسی ہی ہوگئی ہے جیسے ہند کے اورمذاہب کی۔ اس میں مساوات بھی قائم نہیں جس کی وجہ سے اوائل میں اس کو اس قدر کامیابی ہوئی تھی۔ پھر ایک اورجگہ لکھتا ہے: ہندوستان کے اسلام کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ اس مذہب کی یہاں آکر کیسی مٹی خراب ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے رموز بے خودیمیں موجودہ مسلمانوں کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس میں کچھ بھی شاعرانہ مبالغہ نہ سمجھا چاہیے: مسلم از سر نبی بے گانہ شد باز ایں بیت الحرم بت خانہ شد از منات ولات و عزیٰ و ہبل ہر یکے دارد بتے اندر بغل شیخ ما از برہمن کافر تر است زانکہ او را سومنات اند سر است رخت ہستی از عرب بر چیدہ ای در خمستانِ عجم خوابیدہ ای مثل ز برفاب عجم اعضائے او سرد تر از اشک او صہبائے او ھمچو کافر از اجل ترسندہ اے سینہ از فارغ ز قلب زندہ اے قرآن شریف میں نصِ قطعی موجود ہے۔ ’’ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا‘‘پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس سے محروم ہو گئے ؟ میرے خیال میں اس کا جواب صرف یہی ہے جوقرآن شریف دیتا ہے’’ان تو می اتخذوا ھذا القرآن مھجورا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت صحیح فرمایاہے : گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن صوفی پشمینہ پوش حال مست از شراب نغمۂ قوال مست آتش از شعر عراقی در دش ورنہ می سازد بقرآن محفلش حواشی ۱- اقبال معاصرین کی نظر میں، مرتبہ سید وقار عظیم۔ ۲- میں خوش ہوں کہ اس مثنوی کے دوسرے ایڈیشن میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ خواجہ صاحب کے متعلق لکھا تھا اس کوحذف کردیا اور اس کی بجائے نئے اشعار لکھ دئیے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ اس کا مفید اور دلچسپ دیباچہ بھی نکال ڈالا گیا جس کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی۔ ۳- خود ڈاکٹر اقبال کو بھی یہ میم پسند نہیں آیا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : کہیں تہذیب کی پوجا، کہیں تعلیم کی پوجا قوم دنیا میں یہی احمد بے میم کی ہے معلوم نہیں کہ قرآن شریف کے مطالعے کے بعد جس طرح تصوف کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا خیال بدلا ہے اسی طرح اس عقیدے میں بھی تبدیلی ہوئی یا ابھی تک ’معذور صہبائے محبت‘ ہیں اور خاک عرب کے سونے والے کو کچھ اور ہی سمجھتے ہیں۔ /…/…/ اسرارِ خودی کے انگریز مترجم ڈاکٹر نکلسن کا ’’دیباچہ‘‘ اسرارِ خودی حق نواز اسرارِ خودی پہلی باری۱۹۱۵ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔ انھیں دنوں جب میں نے اسے پڑھا تو مجھے اتنی پسند آئی کہ میں نے اس کے انگریزی ترجمے کے لیے اقبال سے اجازت چاہی۔ مجھے پندرہ سال قبل کیمبرج میں ملاقات کا شرف حاصل ہواتھا۔ میری تجویز بخوشی قبول کر لی گئی لیکن اسی دوران میں کچھ اور مصروفیات میں الجھ گیا جن کی وجہ سے ترجمے کا کام پچھلے سال تک مؤخر رہا۔ اس سے قبل کہ ترجمہ قارئین کی نظر سے گزرے اس نظم اورمصنف کے بارے میں چند کلمات تحریر کرنا ضرری ہیں۔ اقبال ایک ہندی مسلمان ہے۔ مغرب میں اپنے قیام کے دوران اس نے جدید فلسفہ پڑھا اور اسی مضمون میں اس نے کیمبرج اور میونخ یونیورسٹی سے اعلیٰ ڈگریاں بھی حاصل کیں’’ایرانی فلسفہ ما بعد الطبیعات کا ارتقا‘‘جو ایک بلند پایہ مقالہ اور اقبال کے تجزیاتی مطالعے کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۰۸ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس وقت سے فلسفہ میں اقبال نے ایک خاص انداز نظر اپنایا ہے جس کے بارے میں چند ایک انتہائی دلچسپ اشارے یہاں درج کروں گا جو خود اقبال نے مجھے لکھے ہیں اگرچہ اسرار خودی میںان کا فلسفہ کسی خاص منظم اورمربوط انداز کا حامل نہیں تاہم یہ کتاب ان کے نظریات کو بڑے دلکش اور دل پذیر روپ میں پیش کرتی ہے جہاں ہندو مفکرین نے ویدانت کے اصول کی تشریح کرتے ہوئے ذہن پر زور دیا ہے وہاں اقبال نے فارسی شعرا کی طرح جو اسی اصول کے مبلغ ہیں زیادہ خار دار راستہ اپنایا ہے اور انسانی قلب کو اپنا مرجع بنایا ہے۔ وہ کوئی معمولی قسم کا شاعر ہے بلکہ جہاں اس کی منطق کارگر نہیں ہوتی وہاں اس کے اشعار دلوں میں انگخیت اور ترغیب پیدا کردیتے ہیں اس کا پیغام صرف ہندی مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ہے اس وجہ سے اس نے ہندوستانی (اردو) کی بجائے فارسی زبان اختیار کی ہے کیونکہ پڑھے لکھے مسلمانوں میں بیشتر فارسی زبان سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ فارسی ہی کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ فلسفیانہ نظریات کے اظہار کے لیے ایک ایسا اسلوب فراہم کرتی ہے جو کبھی بڑا دلپذیر اور ارفع خیال کیا جاتا تھا۔ اقبال ایک مصلح اور داعی کی حیثیت سے ابھرا ہے اگرموجودہ دور سے نہیں تو کم از کم آیندہ نسلوں سے وہ اپنا لوہا ضرور منوائے گا نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم وہ فارسی انداز کے مطابق ساقی سے التجا کرتا ہے کہ وہ اس کا پیالہ شراب ناب سے بھردے اور اس کے فکر کی شب تاریک میں چاندنی کی شعاعیں بکھر دے۔ قا سوئے منزل کشم آوارۂ ذوق بے تابی د ھم نظارۂ گرم رو از جستجوئے نو شوم روشناسِ آرزوئے نو شوم آئیے بالآخر اصل کتاب کے بارے کچھ کہیں، وہ کون سی منزل ہے جس کی طرف اقبال کی آنکھیں لگی ہوئی ہیں اس سوال کے جواب سے ان کا اصل زاویہ نگاہ سامنے آئے گا نیز اس راستے پر گامزن ہو کر اس کی منزل کی نشاندہی کر سکیں گے۔ اقبال نے یورپی ادبیات کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ اس کا فلسفہ بڑی حد تک نیٹشے اور برگسان کامرہون منت ہے اور اس کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اکثر شیلے یاد آتا ہے۔ تاہم اقبال ایک مسلمان کی سوچ اورمحسوسات رکھتا ہے اور ممکن ہے اسی سبب سے وہ گہرے اثرات مرتسم کر لے۔ وہ ایک پرجوش مذہبی مبلغ ہے جو جدید دارالحرم کے ایسے تصور سے تحریک حاصل کرتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر عالمی سطح پر امت مسلمہ کی تصوری ریاست پر مبنی ہو جہاں تمام مسلمان ملکی اورنسلی امتیازات سے ماورا ہو کر ملت واحد میں ضم ہو جائیں۔ اس کے نزدیک نیشنلزم اور سامراجیت کی کچھ اہمیت نہیں۔ اس کے خیال میں یہ تصورات ہمیں آزادی سے محروم کر دیتے ہیں اور ہماری حقیقی خوشیاں چھین لیتے ہیں۔ نبی نوع انسان کو ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنا دیتے ہیں۔ اخوت کے جذبات کے قاتل ہیں اورجنگ و جدل کے زہریلے بیج بوتے ہیں۔ وہ ایسی دنیا کا خواب دیکھتاہے جہاں سیاست کی بجائے مذہب کی حکمرانی ہو، وہ میکاولی کی مذمت کرتا ہے جو اس کے خیال میں ’’جھوٹے دیوتاؤں کا پجاری ہے ‘‘ اور جس کی تعلیم نے بہت سے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے ۔ واضح رہے کہ اقبال جب بھی مذہب کی بات کرتا ہے تو اس کی مراد ہمیشہ اسلام سے ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک غیر مسلم کافر ہیں اور (نظریاتی سطح پر بہر طور) جہاد درست ہے بشرطیکہ وہ صرف اور صرف خدا کی رضا کے لیے جائے۔ اقبال کا آئیڈیل ایک ایسی آزاد اور خود مختارمسلم برادری ہے جس کا مرکز کعبہ ہو اور جو خدا کی محبت اور حب رسول کے جذبات باہمی کے رشتوں میں منسلک ہو۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی میں وہ اپنے اس تصور کی تبلیغ بڑے سوز و گداز سے کرتا ہے جو بہرحال قابل تحسین ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس مقصد کے حصول کے ذرائع بھی واضح کرتا ہے۔ اول الذکر مثنوی ایک مسلمان کی انفرادی زندگی سے متعلق اور موخر الذکر اسلام کی ہئیت اجتماعیہ کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ قرآن اورمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف مراجعت کا آوازہ پہلے بھی سنائی دیتا رہا ہے تاہم ابھی تک اس پر کم ہی لوگوں نے کان دھرا ہے اور اس کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ اب یہ آوازہ مغربی فلسفے کی قوت سے بھی ہم آہنگ ہے اور اسی بناپر اقبال کو امید ہے اور وہ یقین واثق رکھتا ہے کہ یہ (مغربی فلسفہ) اس کی تحریک میں روح پھونک دے گااور یقینی طور پر اس کو کامیاب بنائے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہندو دانشوروں اور وحدت الوجودی مسلمانوں نے وہ قوتِ عمل جو سائنسی مشاہدے اورمظاہرے فطرت کی توجیحات پر مبنی ہے اورجو مغربی اقوام ، خاص کر انگریزوں کو ممتازکرتی ہے، مشرقی لوگوں نے مسخ کرکے رکھ دی ہے اور اب اس صلاحیت کا انحصار اور احیا صرف اس تصور سے ممکن ہے کہ خودی کا وجود حقیقی ہے اور یہ صرف ذہنی التباس ہی کا نام نہیں۔ لہٰذا اقبال پورے زور سے فطری فلاسفروں اورنام نہادصوفی شعراء ، ادیبوں اورمصنفوں کی مخالفت کرتا ہے بلکہ اس کے خیال میں اسلام کے موجودہ انحطاط کا سبب بھی یہی لوگ ہیں۔ وہ دلائل و براہین سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ صرف اثبات ذاتِ خودنمائی اور استحکام خودی سے ہی مسلمان اپنی قوت اور آزادی کا احیا کر سکتے ہیں۔ وہ حافظ کی لوریاں دے کر سلانے والی تعلیمات کے مقابلے میں جلال الدین رومی کی ولولہ انگیز اخلاقی تعلیمات کو اختیار کرنے اور افلاطونی افکار سے ملمع شدہ اسلام کی بجائے حقیقی اور توحیدی جوش سے لبریز اسلام کا احیا چاہتا ہے کہ جس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں قوتِ عمل کی روح پھونک دی تھی اورجس کے سبب اسلام کا وجود مجسم ہوا تھا۔ یہاں میں ایک ممکنہ غلط فہمی دورکرتا چلوں۔ اقبال کا فلسفہ دینی ہے لیکن وہ فلسفے کو مذہب کاغلام خیال نہیں کرتااور اس بات پریقین رکھتے ہوئے کہ فرد کی تکمیل ہی پر معاشرے کا وجود قائم ہے۔ اس کے نزدیک پیغمبر اسلام کا دیا ہوا اسلامی معاشرے کاتصور ہی ایک مثالی تصور ہے۔ ہر وہ مسلمان جو خود کو مردِ کامل کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہے روئے ارضی پر خلافتِ الہیہ کے قیام میں معاون ہے۔ اسرار خودیکی مشہور مثنوی (مولانا روم)کی بحر اور اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ تمہید میں اقبال لکھتے ہیں ’’جلال الدین رومی (جس سے ان کا وہی تعلق ہے جو ورجل کا ڈانٹے سے تھا) ہیولے کی صورت میں ان کے سامنے نمودار ہوئے اور انھیں نغمہ الاپنے کی ترغیب دی۔ اقبال جہاں حافظ کی طرز کے تصوف کا شدید مخالف ہے وہاں وہ جلال الدین رومی کی مصفا اور عمیق بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے تاہم وہ اس عظیم فارسی صوفی کے بتائے ہوئے خود سپردگی کے اصول کو بھی رد کرتا ہے اور وحدت الوجودی پروازوں میں اس کا شریک سفر بھی بننا پسند نہیں کرتا۔ اسرار خودیکے مطالعہ میں یورپی قارئین کو بعض مشکلات ضرورت پیش آئیں گی جنھیں کوئی بھی ترجمہ دور کرنے سے قاصر ہے۔ ان میں سے کچھ اس کی ہئیت سے متعلق ہیں جنھیں فارسی نظم سے شناسا کوئی بھی شخص زیادہ محسوس نہیں کرے گاتاہم ان میں سے کچھ کا تعلق ان نظریات اورمخصوص مشرقی اندازِ فکر سے ہے جن کو سمجھنے میں ہمیں خاصی دشواری محسوس ہوتی ہے۔ میں وثوق سے یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ میں ہر شعر کے مفہوم کی تہ تک پہنچا ہوں، یا میں نے اسے بالکل صحیح سمجھا ہے۔ پھر بھی مجھے امید ہے کہ ایسی غلطیاں بہت کم ہوں گی، اس کے لیے میں اپنے دوست محمد شفیع کا (جواب لاہور میں عربی کے پروفیسر ہیں) شکر گزار ہوں جن کی مدد سے میں نے اس مثنوی کو پڑھا اورمشکل مقامات پر ان کی رہنمائی حاصل کی، کچھ دوسرے بنیادی مسائل خود مصنف نے میرے لیے آسان کر دئیے ہیں۔ میری درخواست پر انھوں نے کتاب میں شامل اور زیر حوالہ اپنے فلسفیانہ خیالات کے بارے میں ایک بیان تحریر فرمایا۔ میں اسے ان کے الفاظ میں پیش کر رہا ہوں ۔ اگرچہ یہ بیان جامع نہیںاور جیسا کہ وہ کہتے ہیں ’’یہ بہت عجلت میں لکھا گیا ہے‘‘ لیکن زورِ بیان اور جدت ادا کے علاوہ اس میں انھوں نے اپنی شاعرانہ توجیحات کو میری ہر ممکن وضاحت سے بھی زیادہ شرح و بسط سے پیش کر دیا ہے۔ اسرار خودیکے فلسفیانہ مبادیات [اقبال] ’’یہ تجربہ محدود مراکز میں وقوع پذیر ہونا چاہیے تاہم یہ عارضی اور محدود وقوع پذیری بالآخر ناقابل توجیہہ ٹھہرے گی‘‘۔ یہ ہیں پروفیسر بریڈلے کے الفاظ، لیکن ان کا نا قابل توجیہہ مراکز سے آغاز کرتے ہوئے وہ انھیں ایک وحدت میں ضم کرتا ہے جسے وہ وجود مطلق کا نام دیتا ہے اورجہاں پہنچ کر ان محدود مراکز کی محدودیت اور انفرادیت ختم ہو جاتی ہے لہٰذا ان کے بقول محدود مرکز صرف علامت یا شبیہ ہے۔ ان کی رائے میں حقیقت کی پہچان ناقابل توجیہہ ہے اور چونکہ تمام حدود اضافیت سے متاثر ہیں لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ مؤخر الذکر صرف التباس ہے۔ میرے خیال میں ناقابل توجیہہ محدود مرکز کا یہ تجربہ کائنات کی بنیادی حقیقت ہے، زندگی انفرادیت سے قائم ہے۔ کائناتی زندگی کے مقابلے میں کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں۔ خدا بھی ایک منفرد ہستی ہے بلکہ منفرد ترین ہستی کا نام ہے۔۱؎ اورکائنات بھی جیسا کہ ڈاکٹر میکٹیگرٹ کہتے ہیں ’’افراد (Individual)کی تنظیم کا نام ہے‘‘ لیکن ہم اتنا اضافہ کر سکتے ہیں کہ یہ اتحاد اورنظم جو ہمیں اس وحدت میں نظر آتا ہے، نہ تو دوامی ہے اور نہ مکمل ہی ، یہ صرف جبّلی اور شعوری کوششوں کانتیجہ ہے۔ ہم تدریجاًبے ترتیبی اور بدنظمی سے تنظیم و تکمیل کی طرف رواں دواں اوراُس منزل کے حصول میں معاون ہیں نہ کہ ہم کسی جامد تنظیم کے رکن ہیں۔ نئے ارکان کا مسلسل ظہور ہو رہا ہے جو اس کارِ عظیم میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں لہٰذا کائنات کوئی تکمیل شدہ فعل نہیں بلکہ ابھی نا تمام اور تکمیل کے مراحل میں ہے لہٰذا کائنات کے بارے میں کوئی بھی صداقت حتمی نہیں کہلا سکتی کیونکہ کائنات بذات خود ابھی تک ایک ’’کل ‘‘ نہیں بن سکی۔ تخلیقی کا عمل ابھی جاری ہے اور انسان بھی اس میں اپنا فریضہ ادا کررہا ہے۔ اورکسی حد تک اس بدنظمی کی کیفیت کو ایک تنظیم اور وحدت میں بدل رہا ہے۔ قرآن کی رو سے خدا کے علاوہ دیگر خالقین کے وجود کا امکان بھی ظاہر ہے۔ ۲؎ انسان اورکائنات کے بارے میں یہ تصور بظاہر نیوہیگلین نیز ہر قسم کے وحدت الوجودی تصوف کا مخالف ہے جو کائناتی زندگی یا روح الاعظم میں فنا ہونے کو ہی انسان کا قطعی مطمح نظر اور نجات تصورت کرتے ہیں ۔ انسان کا مذہبی اور اخلاقی آئیڈیل نفی خودی کی بجائے اثبات ذات ہے اور وہ اس آئیڈیل کو اپنی انفرادی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ابھارکر اورمنفرد بن کر ہی کر سکتا ہے، رسول کریم ؐ کا ارشاد ہے ’’تخلقوباخلاق اللہ‘‘ آپ اپنے میں خدائی صفات پیدا کروگویا منفرد ترین ہستی کی صفات کو زیادہ سے زیادہ اپنا کر ہی انسان منفرد بن سکتا ہے۔ پھر زندگی کیا ہے؟ یہ انفرادیت کا دوسرا نام ہے بلکہ اس کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔ جہاں تک خودی کا تعلق ہے کہ جس سے ایک فرد کلیتاًخود کفیل مرکز بن جاتا ہے کیونکہ روحانی اور طبعی طورپر انسان ایک خود کفیل مرکز ہے لیکن وہ ابھی تک مکمل طورپر انفرادیت کا حامل نہیں جس قدر خدا سے اُس کا بُعد زیادہ ہوگا اتنی ہی اس میں کم انفرادیت آئے گی اورجس کو جتنا زیادہ قربِ الٰہی حاصل ہوگا اتنا ہی وہ کامل ترین انسان کہلائے گا۔ تاہم اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ بالآخر فنا فی اللہ ہو جائے گا بلکہ اس کے برعکس وہ خدا کو خود میں جذب کرے گا۔۳؎ حقیقی انسان، تسخیر جہات سے نہ صرف آفاق کو خود میں گم کر لیتا ہے بلکہ وہ خدا کو بھی اپنی خودی میں جذب کرلیتا ہے۔ زندگی ایک جاذب اور ارتقاپذیر تحریک کا نام ہے اس کا جوہریہ ہے کہ آرزوئیں اور خواہشات مسلسل تحقیق ہوتی رہیں اورپھر ان کے تحفظ اور وسعت کے لیے زندگی نے اپنے آپ سے بعض صلاحیتیں ایجاد کیں اور بعض ذرائع اپنائے ہیں، یعنی حواس اور عقل وغیرہ جو رکاوٹوں کو جذب کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ زندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مادہ اور فطرت ہے۔ تاہم فطرت شر سے عبارت نہیں۔ کیونکہ یہ زندگی کی داخلی قوتوں کو روبہ عمل ہونے کے قابل بناتی ہے۔ خودی اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں کی تسخیر سے آزادی حاصل کرتی ہے،یہ جزوی طور پر آزاد ہے اورجزوی طورپر پابند۴؎ اور کسی بے نیاز ذات خدا سے تعلق پیدا کرکے ہی یہ کلی آزادی حاصل کر سکتی ہے، مختصر زندگی کاوشِ آزادی کا نام ہے۔ خودی اور تسلسل شخصیت کسی انسان کے پیکر ہستی کا مرکز اس کی خودی ہے۔ شخصیت اضطراب۵؎ سے عبارت ہے اور اس کا تسلسل اس کیفیت کے وجودکا مرہون منت ہے۔ اگر یہ اضطرابی کیفیت برقرار نہ رہے تو شخصیت میں جھول آ جائے گاچونکہ شخصیت یا اضطرابی کیفیت انسان کی گراں قدر کامیابی ہے لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ اس کیفیت کی بجائے سستی اورکسالت کو جگہ نہ لینے دے، وہ چیز جو ہمیں اضطرابی کیفیت کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہمیں دوام بخشنا چاہتی ہے۔ اس طرح شخصیت کا تصور ہمیں ’’قدر‘‘ کا معیار بھی عطا کرتا ہے اورخیر وشر کا مسئلہ بھی حل کر دیتا ہے۔ جس سے شخصیت مستحکم ہو خیر ہے اورجس سے کمزور ہو وہ شر ہے۔ آرٹ ، مذہب اور علم الاخلاق بھی شخصیت کے نقطۂ نظر سے جانچے جانے چاہئیں۔ افلاطون پر میری تنقید کا ہدف وہ فلسفیانہ نظام ہیں جو حیات کی بجائے موت کو بطور آئیڈل اپنائے ہوئے ہیں، یعنی وہ نظام جو راہ حیات کی سب سے بڑی رکاوٹ یعنی مادہ کو نظر انداز کرتے ہیں اور اس کی تسخیر کی بجائے اس سے گریز سکھاتے ہیں۔ جس طرح آزادیٔ خودی کے سوال کے ضمن میں ہمیں مادہ اور اس کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ اسی طرح خودی کی ابدیت کے لیے ہمیں زمان کا مسئلہ درپیش ہے۔ برگسان ہمیں بتاتے ہیں کہ زمان کوئی پیکراں سمت (Line)نہیں (سمت کے مکانی تصور کے لحاظ سے) جس سے ہمیں اپنی پسند و ناپسند ہر صورت میں بہر طور گزرنا پڑتا ہے۔ زمان کا یہ تصور آمیزش شدہ ہے۔ زمان خالص طوالت نہیں رکھتا۔ انفرادی دوام تمنا کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر کوئی اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس کو حاصل کر سکتا ہے۔ اس کا انحصار زندگی کے بارے میں اس اندازنظراور تصورپر مبنی ہے جس کے طفیل ہم اپنی اضطرابی کیفیت کو برقرار رکھتے ہیں ۔ بدھ ازم، ایرانی تصوف اور اس سے مشابہ نظام اخلاق اس سلسلہ میں ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتے تاہم انھیں کلیتاًبے سود بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ایک طویل عرصے کی عظیم جدوجہد کے بعد ہمیں وقتی طور پر نشہ طاری کرنے والی چیزوں کی ضرورت سی محسوس ہوتی ہے۔ فکر و عمل کی یہ اقسام زندگی کے روز روشن میں شب تاریک کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا اگر ہماری سرگرمیوں کا مقصود اضطرابی کیفیت کو برقرار رکھنا ہو تو موت کا صدمہ بھی خودی کو متاثر نہیں کر سکتا۔ موت کے بعد ممکن ہے سستانے کا کچھ وقفہ ہو جسے قرآن ’’برزخ‘‘ یا ’’درمیانی حالت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے اور قیامت کے دن ہی ہوگا۔ سستانے کے اس وقفے کے بعد صرف ارواح دوبارہ زندہ ہوسکیں گی جنھوں نے موجودہ زندگی بڑی احتیاط س گذاری ہوگی۔ زندگی اگرچہ اپنے ارتقا میں اعادے سے گریز کرتی ہے تاہم برگساں کے اصولوں کے مطابق جیسا کہ وائلڈن کار کہتے ہیں جسم کامعاد بھی ممکن ہے۔ زمان کوآفات میں تقسیم کرکے ہم اسے مکانی روپ دیتے ہیں اور اس کی تسخیر میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ زمان کی خالص نوعیت کا احساس ہمیں اس وقت ہوتاہے جب ہم اپنے دل کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کرتے ہیں۔ زماں خالص ہی حقیقت میں زندگی ہے جو ایک خالص اضطرابی کیفیت (شخصیت) سیعبارت ہے اورجو اب تک اس کی کامیابی ہے اور اسی کے استقراء سے وہ خود کو محفوظ رکھتی ہے۔ ہم اس وقت تک پابند زمان ہین جب تک ہم اسے مکانی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ زمان کا مکانی تصور ہی رکاوٹی ہیں جو زندگی نے ماحول سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کے لیے گھڑ لی ہیں۔ حقیقت میں وقت کی شکست و ریخت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اوراسی قسم کی ابدی کیفیت کا احساس ہمیں اس زندگی میں بھی ہوسکتا ہے تاہم یہ الہامی کیفیت صرف لمحاتی ہوتی ہے۔ تربیت خودی: ’’خودی عشق‘‘ سے مستحکم ہوتی ہے۔ یہ لفظ بڑے وسیع معنوں میں مستعمل ہے اور اس کے معنی جذب و انضمام کی خواہش کے ہیں۔ اس کی ارفع ترین صورت اقدار و تصورات کی تخلیق اور ان کے حصول کے لیے کوشاں رہنا ہے۔ عشق محب اورمحبوب دونوں کو دوام بخشتا ہے۔ سب سے زیادہ منفرد خودی کے حصول کی کوشش طالب کو وہ مرتبہ عطا کرتی ہے اورمطلوب کے درجے تک لے جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر طالب کو کسی پہلو اطمینان نہیں ہوتا۔ جس طرح عشق سے خودی مستحکم ہوتی ہے اسی طرح ’’سوال‘‘ سے ضعیف ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ جو ذاتی کاوش کے بغیر حاصل کیا جاتا ہے ’’سوال‘‘کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی امیر کا بیٹا جو بہت بڑی دولت وراثت سے حاصل کرتا ہے سائل ہے۔ یہی حال اُس کا ہے جو دوسروں کے افکار کی خصشح چینی کرتا ہے اور استحکام خودی کے لیے ہمیں عشق اختیار کرنا ہوگا۔ یعنی جذب و انضمام کی فعال قوت اور ہر قسم کے سوال اور بے عملی سے گریز کرنا ہوگا۔ عشق یعنی فعال انضمام کا سبق ہر مسلمان کو رسول کریم ؐ کی زندگی سے ملتا ہے۔ نظم کے دوسرے حصے میں میں نے مسلمانوں کی اخلاقیات کے عام اصولوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور شخصیت کے توسط سے ان کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ خودی کو اپنی تکمیل تک پہنچانے کے لیے تین مراحل سے گزرناپڑتا ہے۔ اول: اطاعتِ شریعت۔ دوم: ضبط نفس، اپنے حقیقی مفہوم میں خود آگہی اور خودی ٔ مجسم ہے۔ سوم : نیابت اللہ۔ نیابت اللہ (خودی کا تیسرا مرحلہ) اور روئے زمین پر انسانی معراج ہے۔ نائب حق روئے ارضی پر خلیفہ فی الارض ہے اورمکمل ترین خودی کا مظہر ہے۔ وہ خودی کی تکمیل یافتہ تجسیم، معراجِ ا نسانیت اورجسم و دماغ کے لحاظ سے زندگی کا نقطۂ عروج ہے۔ اس کی صورت میں ہماری ذہنی ناموافقت بھی مطابقت میں ڈھل جاتی ہے۔ اس میں علم و قوت کی اعلیٰ ترین صلاحیتیں یکجا ہیں۔ اس کی زندگی میں فکر و عمل ، عقل و جبلت متحد ہیں۔ وہ شجر انسانیت کا آخری ثمر ہے اور مدارجِ ارتقا کی کرب ناک ابتلائیں بجا ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی اسے آنا تھا۔ وہی انسانیت کا صحیح حکمران ہے اور اس کی سلطنت روئے ارضی پر خدائی سلطنت ہے، وہ اپنی بیکراں صلاحیتوں سے دوسروں پر فراخ دلی سے متاعِ حیات نچھاور کرتا ہے اورانھیں اپنے قریب سے قریب تر کرلیتا ہے۔ ارتقائی طورپر جتنا ہم آگے بڑھیں گے اتنا ہی اس کے قریب ہوں گے، اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ہم زندگی کی اعلیٰ ترین منزلیں طے کر رہے ہیں، جسم و ذہن کے لحاظ سے انسانیت کا ارتقا اس کے ظہور کی پیش بندی ہے۔ عصرِ حاضر کے لیے اس کی ذات ایک آئیڈیل ہے۔ لیکن ارتقائے انسانیت ایک آئیڈیل نسل کے ظہور یا کم و بیش منفرد صلاحیتوں کے حامل چند افراد کے ظہور کی طرف بڑھ رہی ہے جنہیں اس کے موزوں ترین والدین ہونے کا شرف حاصل ہوگا۔ لہٰذا روئے ارضی پر خلافت الٰہیہ کا مفہوم کم وبیش منفرد افراد کی جمہوریت ہوگا جس کی صدارت روئے زمین پر منفرد ترین ممکنہ صلاحیتوں کا حامل انسان کامل کرے گا۔ نطشے نے بھی اس آئیڈیل نسل کے تصور کی ایک جھلک دیکھی تھی لیکن اس کا یہ تصور اس کے الحادی اور اشراقی نقصانات کی نذر ہو گیا‘‘۔ میرا خیال ہے کہ ہر قاری اس امر سے اتفاق کرے گا کہ اسرارخودی کے مفاہیم اتنے موثر ہیں کہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنیں گے ۔ نظم میںبظاہر یہ فلسفہ مختلف انداز یا پہلو سے سامنے آتا ہے۔ فکر و اظہار کی بے باکی شوخ نہیں تاہم مصنف کی منطقیانہ ذہانت، جذبات اور تصورات کی جگمگاہٹ سے ہم آہنگ ہے۔ لہٰذا دماغ پر تسلط جمانے سے قبل وہ قلب انسانی کو موہ لیتی ہے۔ نظم کافی پہلو بھی گراں قدر اہمیت کا حامل ہے اور خاص کرجب ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زبان بھی شاعر کی مادری زبان نہیں (تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے)۔ میں نے اس کے انداز کو جہاں تک بامحاورہ نثری ترجمے میں ممکن تھا برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اصل نظم کے کئی بندے ایسے ہیں جو ایک بار پڑھنے کے بعد آسانی سے بھلائے نہیں جا سکتے۔ مثلاًانسان کامل ، جو دنیا کانجات دہندہ ہوگاکی صفات اور اس کی دعائیں جو ختتام کتاب میں مندرج ہیں (خاص کر قابل ذکر ہیں) جلال الدین رومی کی طرح اقبال بھی حکایات و روایات کا بڑا رسیا ہے کیونکہ اس طرح وہ منطقی دلائل سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنے مطالب کی نشاندہی اور وضاحت زیادہ مؤثر طریقے سے کرتا ہے جو بصورت دیگر ممکن نہیں۔ اسرار خودیجب پہلی بارشائع ہوئی تو اس نے نوجوان ہندی مسلمانوں میں ایک طوفان برپا کر دیا اور ان میں سے ایک نے لکھا کہ ’’اقبال ہمارے درمیان وہ مسیح بن کر آیا ہے جس نے ’’مردوں کو حیات نو کا پیغام دیا ہے‘‘ تاہم یہ ابھی دیکھنا ہوگا کہ حیات نو کے حامل کون سا رخ اختیار کرتے ہیں۔ کیا وہ بیت اللہ کے شاندار مگر سریع الفہم تصور سے ہی مطمئن ہو جاتے ہیں یا وہ مصنف کے مجوزہ جدیداصولوں اور اس کے برعکس حسب منشا بدلنا چاہیں گے کیونکہ وہ توواضح طورپر نیشنلزم کی تردید کرتا ہے مگر اس کے مداح بضد ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اس کا یہ مفہوم نہیں۔ اس کی فکر کا اثر انجام کار کہاں تک کارگر ہوگا، میں پیش گوئی نہیں کرتا، تاہم اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ’’شاعر امروز و فردا‘‘ ہے۔ وہ عصر حاضر سے اختلاف بھی کرتا ہے۔ ہم اس کے نظریات کو اس کے ہم مذہب بھائیوں کے کسی فرقے کے لیے مخصوص قرار نہیں دے سکتے۔ وہ مسلم ذہن میں بنیادی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں اوران کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ کسی مقررہ مدت تک اپنا اثر دکھا سکیں گے یا نہیں۔ حواشی ۱- یہ امام احمد بن حنبل کا نظریہ ہے جو انتہائی (تشبیہت) کی صورت میں انھوں نے اپنایا ہوا تھا۔ ۲- احسن الخالقین۔ ۳- یہاں اقبال لکھتے ہیں کہ مولانا رومی نے اس خیال کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ رسول کریم ؐ ایام طفولیت میں ایک روز صحرا میں گم گئے، آپ کی دایہ سعدیہ حلیم غم سے نڈھال ہورہی تھیں لیکن جب وہ آپ کی تلاش میں صحرا میں سر گرداں تھیں توانھوں نے کسی کو کہتے سنا ’’غم نہ کیجیے وہ آپ سے گم نہ ہوگاکیونکہ تمام اس میں گم ہے‘‘ سچی انفرادیت کا حامل دنیا میں گم نہیں ہو سکتابلکہ خود دنیا اس میں گم ہے ۔ میںایک قدم اور آگے بڑھ کر رومی کی سحر بیانی کا مظہر ایک مصرعہ یہاں درج کرتاہوں۔ در رضایش مرضیٔ حق گم شود این سخن کہ باور مردم شود اسی مضمون کا اقبال کا یہ شعر کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق (مترجم) ۴- روایت کے مطابق الایمان بین الجبر و ا لقدر۔ ۵- ’’اک اضطراب مسلسل غیاب ہو کہ حضور‘‘ سے بھی اس کیفیت کی ترجمانی ہوتی ہے۔ /…/…/ مثنوی اسرار خودی ۱؎ مولانا اسلم جیراجپوری ڈاکٹر اقبال کی مثنوی اسرار خودی جب سے شائع ہوئی ہے اس وقت سے مخالفین کے اعتراضات کا سلسلہ جاری رہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف نے اس مثنوی میں تصوف کی بہث میں حکیم افلاطون یونانی اورخواجہ حافظ شیرازی کو بزوگوسفند لکھا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں : راہب اول فلاطون حکیم از گروہ گوسفندان قدیم گوسفندے در لباس آدم است حکم او بر جان صوفی محکم است بسکہ از ذوق عمل محروم بود جان او وارفتۂ معدوم بود منکر ہنگامۂ موجود گشت خالقِ اعیان نا مشہود گشت کار او تحلیل اجزائے حیات قطع شاخ سر و رعنائے حیات خواجہ حافظ کے متعلق لکھا ہے: ہوشیار از حافظ صہبا گسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار نیست غیر از بادہ در بازار او از دو جام آشفتہ شد ستار اد چوں جرس صد نالۂ رسوا کشید عیش ہم و منزل جاناں ندید آں فقیہ ملت منجوار گاں آں امام ملت بیچارگاں گوسفند است و نوا آموخت است فتنۂ و ناز و ادا آموخت است دلربائی ہائے او زہر است و بس چشم او غارت گر شہر است و بس ازبر یوناں زمین زیر کتراست چوں مریدان حسن درارد حشیش محفل او در خورا ابرار نیست ساغر او قابل احرار نیست بے نیاز از محفل حافظ گذر الحذرانہ گوسفنداں الحذر مخالفین کو افلاطون کی نسبت کم لیکن خواجہ حافظ کی بابت زیادہ ملال ہے کیونکہ وہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک مقدس بزرگ بھی تسلیم کیے جاتے ہیں اسی وجہ سے حمیت کے جوش میں وہ بھی ڈاکٹر صاحب کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ میںایک عرصہ سے اس بحث کو دیکھ رہاتھا، لیکن اس وجہ سے خاموش تھا کہ یہ اصولی بحث نہ تھی۔ چند روز ہوئے میرے پاس مثنوی راز بیخودیایک دوست کے ذریعہ سے پہنچی جو خان بہادر پیر زادہ مظفر احمد صاحب متخلص بہ فضلی پنشنر ڈپٹی کلکٹر محکمہ انہارپنجاب نے اسرار خودیکے جواب میں لکھ کر شائع کی ہے۔ بعض دوستوں نے اصرار کیا کہ میں کچھ ضرور ان مثنویوں پر لکھوں۔ اس لیے مجبوراًمہر سکوت کو توڑنا پڑا۔ لیکن میرے اس لکھنے کا منشا صرف یہ ہے کہ اس بحث کو اصل مرکز پر لاؤں تاکہ آیندہ موافقین یا مخالفین جو کچھ لکھیں وہ قوم کے لیے مفید ہو ذاتیات سے کوئی فائدہ مرتب نہیں ہوتا۔ احترام سلف ڈاکٹر صاحب نے اس مثنوی میں خواجہ صاحب کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ اگر نہ لکھتے ۲؎تو بہتر تھاکیونکہ اس کی وجہ سے ایک تو خود ان کی ذات پر حملے ہونے لگے اس لیے کہ قدیمی اصول ہے۔ بزرگش نخوانند اہل خرد کہ نام بزرگاں بزشتی برد دوسرے نفس مسئلہ جو مفید تھا ان ناگوار بحثوں کے حجاب میں آگیا ۔ چنانچہ پیر زادہ صاحب جنھوں نے اس دھوم دھام سے اس مثنوی کا جواب لکھا ہے وہ بھی اصلی بحث کو نظر انداز کر گئے اور صرف افلاطون اور حافظ کی مدح سرائی اور ڈاکٹر صاحب پر مثلیں چست کرنے میں مشغول رہے۔بزوگوسفند کے جواب میں کہیں شغال اورکہیں خر بنایا ہے اور دشمنِ اسلام اور رہزنِ اسلام وغیرہ خطابات بخشے ہیں لکھتے ہیں : خود ز ما خیلے بسے وحشت سگال جامہ زن در نیل دستاں چوں شغاں فلسفی فطرت زدیں برگشتگاں در بیابان جنوں سر گشتگاں عقل و دین و داد را دشمن ہمہ در لباس شحنگاں رہزن ہمہ از دم گفتار دستاں دستاں فلسفہ در دل تصوف بر زباں دشمنِ جاں آمدند اسلام را رہزن جاں آمدند اسلام را وائے بر ایں پختگان عقل خام اولیا را میش وبز کردند نام از دم مکر شغالاں الحذر الحذر از بد سگالاں الحذر دوسری جگہ لکھتے ہیں : از خودی پیغارہ زن اسلاف را کردہ پا مالِ جنوں انصاف را بندۂ دنیا دنیادیں فروش سر بسر ملت فروش آئیں فروش پیرزادہ صاحب کے ان اقوال کو جب صوفیانہ حلم اور حسن ظن کی میزان میں ہم تولتے ہیں توان کی سبکی نہایت حیرت انگیز معلوم ہوتی۔ خواجہ حافظ کے کلام کے متعلق اس قسم کی رائیں پہلے سے بھی لوگوں کی چلی آتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کچھ اس کے اول مجرم نہیں ہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ بادشاہ عالمگیر نے عام منادی کرادی تھی کہ دیوان حافظ کوئی نہ پڑھے کیونکہ لوگ اس کے ظاہری معنی سمجھ کر گمراہ ہوتے ہیں۔ نیز مولانا حالی مرحوم نے حیات سعدیمیں لکھا ہے: خواجہ حافظ کی غزل مجالس اور محافل میں سب سے زیادہ گائی جاتی ہے اور اس کے مضامین سے اکثر لوگ واقف ہیں وہ ہمیشہ سامعین کو چند باتوں کی ترغیب دیتی ہے ۔ عشق حقیقی کے ساتھ عشق مجازی اور صورت پرستی و کام جوئی کو بھی وہ دین و دنیا کی نعمتوں سے افضل بتاتی ہے۔ مال و دولت و علم و ہنر، نماز و روزہ، حج و زکوۃ، زہد و تقویٰ غرض کہ کسی شے کو نظر بازی اور شاہد پرستی کے برابرنہیں ٹھہراتی وہ عقل و تدبیر مال اندیشی،تمکین و وقار،ننگ و ناموس ، جاہ ومنصب وغیرہ کی ہمیشہ مذمت کرتی ہے اور آزادی ، رسوائی، بدنامی وظیرہ کو جو عشق کی بدولت حاصل ہو تمام حالتوں سے بہتر ظاہر کرتی ہے ۔ دولت دنیا پرلات مارنا، عقل و تدبیر سے کام لنہ لینا۔ توکل و قناعت کے نشہ میں اپنی ہستی مٹا دینااورجوہر انسانیت کوخاک میں ملا دیا، دنیا ومافیہا کے زوال و فنا کا ہر وقت تصور باندھے رکھنا، علم وحکومت کولغو و پوچ اور حجاب اکبر جاننا، حقائق اشیاء میں کبھی غور و فکر نہ کرنا کفایت شعاری اور انتظام کا ہمیشہ دشمن رہنا جو کچھ ہاتھ لگے اُس کو فوراًکھو دینا اور اسی طرح کی بہت سی باتیں اس سے مستفادہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام مضامین ایسے ہیں جو ہمیشہ بے فکروں اور نوجوانوں کو بالطبع مرغوب ہوتے ہیں اور کلام کا سادہ اور عام فہم ہونا اور شاعر کی فصاحت و بلاغت اورمطرب و رقاصہ کی خوش آوازی اور حسن و جمال اورمزامیر کے لَے اُن کو لے اڑتی ہے اوراُن کی تاثیر کو دس بیس گنا کردیتی ہے اور جب باوجود ان سب باتوں کے سامعین کو یہ اعتقاد بھی ہو کہ اس کلام کے قائل اکابر صوفیہ اورمشائخ کرام ہیں، جن کی تمام عمر حقائق اورمعارف کو بیان کرنے میں گذری ہے اور جن کا شعر شریعت کا رہنما اور عالم لاہوت کی آواز ہے تو یہ مضامین اوربھی زیادہ دلنشین ہوجاتے ہیں۔ پھرآگے چل کر لکھتے ہیں: خواجہ حافظ کی غزل کی ارست اورمزاولت سے بیشک ابرارواحرارکے دلوں میں دنیا کی بے ثباتی اور توکل واستعانت و قناعت کا پختہ خیال پیداہوتا ہے اور اوباش و االواط کو مفکری ناعاقبت اندیشی، عشق بازی، بندمای و رسوائی کی ترغیب ہوتی ہے اور قوم کی موجودہ حالت کے لحاظ سے پہلی تاثیر بھی ویسی ہی خانہ برانداز اور خانماں سوز ہے جیسی دوسری۔ ہم نے خود اپنی تصنیف حیات حافظ میں انا رایوں کو نقل کیا ہے اور اان کا جواب بھی دیا ہے، لیکن ہمارے جواب کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ ’’حسن کا معایر یہی ہے کہ وہ کمال درجہ کا دلکش ہو۔عشاق کی رسوائی سے حسن برا نہیں قرار پا سکتا‘‘۔باقی حافظ کی غزل کے ان اثرات سے جو مولانا حالی نے لکھے ہیں کون انکار کر سکتا ہے!بے شک یہاں تک ہم پیرزادہ صاحب کے ساتھ ہیں الادب پیغا رہ برمستاں مزن شیشۂ خود بر سنداں مزن در گذر از بادہ خوا رائے محتسب مست را معذورد دا رای محتسب لسان الغیب مولانا حکیم فیروزالدین احمد صاحب طغرائی نے ڈاکٹر صاحب کے جواب میں جورسالہلسان الغیبکے نام سے شائع کیا ہے اُس میں جو پہلو جواب کااختیار کیا ہے وہ ’’سوال از آسمان و جواب از ریسمان‘‘ کا مصداق ہے۔ شعراء اور تذکرہ نگاروں نے کلام حافظ کی جو مدح کی ہے وہ شاعری اور صوفیانہ رموز کے لحاظ سے ہے، اور ہم یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کلام کی اِن خوبیوں کو ڈاکٹر صاحب بہ نسبت حکیم صاحب موصوف کے زیادہ سمجھتے ہیں۔ بحث جو کچھ ہے وہ ان کے اثرات کے متعلق ہے جو خواجہ کے کلام سے جذبات پر پڑتے ہیں۔ اس لیے ان مجاہد و مدائح کا نقل کر دینا جو ڈاکٹر صاحب کے بھی پیش نظر ہیں جواب کے لیے کافی نہیں ہوسکتا۔ علاوہ بریں حکیم صاحب موصوف نے شعر العجمسے بہت کچھ استدلال فرمایا ہے کہ علامہ شبلی نے کلامِ حافظ کو چناں و چنین لکھا ہے۔ مگر اُن کو یہ خبر نہیں کہ اس شعر العجم میں عمر کے تذکرہ میں ہے کہ افسوس ہے کہ خیام خواجہ حافظ کی طرح صوفی نہ تھا ورنہ اس کی شراب بھی شراب معرفت بن جاتی ۔ اسرار خودیمیں خواجہ حافظ کے جن اشعار کی طرف تلمیح ہے اُن کے جو لطیف معانی حکیم صاحب نے بیان کیے ہیں اور جو جو صوفیانہ نکات اُن سے نکالے ہیں وہ ہر شاعر کے ہر شعر سے نکالے جا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کچھ عرصہ ہوا میں نے کسی مضمون نگار کا مضمون پڑھا تھا اور معرفت سے لبریز ہے اور اس کے شواہد بھی لکھتے ہیں۔ نیز بمبئی کے کسی اخبار میں ایک گبر کا یہ دعویٰ بھی دیکھنے میں آیا تھا کہ خواجہ حافظ آتش پرست تھے۔ مدعی نے خود حافظ کی غزل سے اس پر استدلال کیا تھا۔ منجملہ اُن کے ایک غزل جو مجھے یاد رہ گئی یہ ہے: کیونکہ در چمن آمد گل از عدم بہ وجود بنفشہ در قدم اور نہاد سر بسجود اس غزل کے مندرجہ ذیل شعر کو اس نے اپنے عجیب و غریب دعویٰ کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ بباغ تازہ کن آئین دین زبردستی کیونکہ لالہ برا فروخت آتش نمرود حافظ و عرفی ہم کو سب سے زیادہ جو بات مثنوی اسرار خودی میں حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے : حافظِ جاد و بیاں شیرازی است عرفی آتش زباں شیرازی است ایں قتل ہمت مردانۂ واں کتارِ آب رکنا باد ماند بادہ زن با عرفی ہنگامہ خیز زہدہ از صحبت حافظ گریز اس لیے کہ اگر شاعری کے دائرہ میں رہنا ہے تو حافظ کو چھوڑ کر عرفی کو مقتدا بنا لینا بعینہ اس مثل کا مصداق ہے ’’فرمن المطر و وقع تحت المیزاب‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری شاعری حرِ دجال ہے حرعیسیٰ نہیں ہے اس کے چند مخصوص عنوانات ہیں جن کو واقعیت سے کوئی سروکار نہیں ہے، انھیں کو شعراء الفاظ کے نئے نئے لباس پیش کرتے ہیں۔ یہ نہ زندگی کے لیے کسی عملی شاہراہ کی طرف ہدایت کرتی نہ سوائے ادبی لطافت کے کوئی خاص مقصد پیش نظر رکھتی ہے ۔ قرآن شریف نے جس شاعری کو مذموم قرار دیا ہے اُس کا بہترین یا بدترین نمونہ یہی ہے۔ الا ماء شاء الاللہ مولانا حالی نے بہت صحیح فرمایاہے۔ وہ شعر و قصائد کا ناپاک دفتر عفونت میں سنڈاس سے جو ہی بدتر ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر ہوا علم دیں جس سے برباد سارا وہ علموں میں علم ادب ہے ہمارا عقیدت مندی نے خواجہ حافظ کے کلام پر بھی تقدس کا ایک غلاف چڑھا دیا ہے، عرفی کا کلام تو اس سے بھی عاری ہے۔ رہیں ادبی خوبیاں تو ان کے لحاظ سے خود عرفی اسی شمع کا پروانہ ہے۔ کہتا ہے : بگرد مرقد حافظ کہ کعبۂ سخن است در آمدیم بعزم طواف در پرواز بیشک نخوت اور خود ستائی کہیں کہیں اس کے کلام میں پائی جاتی ہے لیکن وہ خود ڈاکٹر صاحب کی مصطلحہ خودی کے متضاد ہے۔ بحث خودی پیزادہ صاحب نے خودی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے خواجہ حافظ کے جوش حمایت میں ڈاکٹر صاحب کے مفہوم مقصود کو سہواًیا قصداًنظر انداز کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تو صاف لکھ دیا ہے کہ ’’خودی کو بمعنی غرور میں نے استعمال نہیں کیا ہے۔بلکہ اس کا مقصود محض احساس نفس یا تعین ذات ہے‘‘۔ باوجود اس تصریح کے اس لفظ کے جو معنی انھوں نے خود ڈاکٹر صاحب کے اشعار سے نکالنے کی کوشش کی ہے اس میں صریحی طور پر انصاف سے تجاوز کر گئے ہیں، اس لیے کہ جب کوئی لفظ کسی اصطلاحی معنی میں رکھ لیا گیا تو اس کے لغوی معنی لے کر اعتراض کا پہلو نکالنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے۔اس شعر پر شعلہ ہائے او صد ابراہیمؑ سوخت تا چراغِ یک محمد بر فروخت جو اعتراض پیرزادہ صاحب نے کیا ہے کہ اُس کا انبیاء کی عظمت و شان پر اچھا اثر نہیں پڑتا ہم بھی اس سے متفق ہیں، لیکن ہمارا جہاں تک خیال ہے ڈاکٹر صاحب نے یہ مضمون اس کلام سے اخذ کیا ہو گا جو کسی بزرگ صوفی کا ہے : صد ہزاراں سبزہ پوش از غم بسوخت تاکہ آدمؑ را چراغے بر فروخت صد ہزاراں جسم خالی شد زروح تا دریں حضرت در و گرگشت نوحؑ صد ہزاراں پشہ در لشکر فتاد تا ابراہیمؑ از میاں سر بر نہاد صد ہزاراں خلق سر بریدہ گشت تا کلیم اللہ صاحب دیدہ گشت صد ہزاراں خلق درد نا رشد تاکہ عیسیٰ محرم اسرارِ شد صد ہزاراں خلق در تاراج رفت تا محمدؐ یک شیے معراج رفت خودی کا عرفی مفہوم مراد لے کر پیرزادہ صاحب نے جو اعتراضات کیے ہیں ان تیروں کا نشانہ ڈاکٹر صاحب نہیں ہیں، کیونکہ انھوںنے اس کا مفہوم دوسرا قرار دیاہے۔ ایسی صورت میں یہ بحث بالکل لفظی ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی حکیمانہ طبیعت نے جب مسلمانوں کے تنزل کے اسباب و علل دریافت کرنے کی طرف توجہ کی تو یہ سراغ پایا کہ امت اسلامیہ سے قوت عمل فنا ہوگئی اور جو عملی ولولہ اور جوش سلف میں تھا وہ خلف میں نہیں رہا۔ اورچونکہ ترقی کا مدار عمل پر ہے اس لیے پھر اُسی قوت عمل کو زندہ کرکے ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ اس قوت عمل کے احیاء کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم کو اپنی ہستی کا بھی احساس ہو۔ اسی نظریہ کی تعلیم کے لیے انھوں نے یہ مثنوی لکھی ہے ۔ خودی کی تعریف میں کہتے ہیں: پیکر ہستی ز آثارِ خودی ست ہر چہ می بینی ز اسرار خودی ست خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذاتِ او غیر او پیدا ست از ثبات او می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل زندگی محکم زا بقاظِ خودی ست کاہد از خواب خودی نیروے زیست اس مفہوم کو مثنوی رموز بے خودیمیں اور بھی صاف کر دیا ہے۔ تو خودی از بیخودی نشناختی خویش را اندر گماں انداختی جوہر نوریست اندر خاک تو یک شعاعش جلوہ ادراک تو واحد است او بر نہ می تابددوئی من زناب او منتم تو توئی خویش دار و خویش باز و خویش ساز نازہا می پرورد اندر نیاز خوگر پیکار پیہم دیدمش ہم خودی ہم زندگی نامیدمش پیرزادہ صاحب فرماتے ہیں: ہر چہ گفتی از خودی حاشا غلط سر بسر از لفظ تا معنی غلط در حیاتِ کس خودی را دخل نیست خلق عالم نو رس ایں نخل نیست در حریم حق خودی را نیست بار در حرم مزدور دیواں را چہ کار از خودی بگذر کہ کار ایں ست و بس خاصہ مسلم را شعار این است و بس دراصل پیرزادہ صاحب خودی کے لفظ ہی سے بیزار کہتے ہیں: اے خودی را مرکب خود ساختی دیہ در پائے پیل انداختی اے خیال خامت اسرارِ خودی پختہ کار رازِ پندارِ خودی زہر را تریاق می گوئی بگوئے بر ہلاک خویش می پوئی ہوئے در عیارستان بازار سفا سکۂ قال تو باشد ناروا ہم کو حیرت ہے کہ ’’عیارستان بازار صفا‘‘ میں پیرزادہ صاحب منصور حلاج کی ’’اناالحق‘‘ کے تو نہایت سرگرم حامی ہیں اور ڈاکٹر اقبال کے ’’اناالحق‘‘ سے اس قدر بیزار !! منصور کی حمایت میں فرماتے ہیں: زانداں منصور را خوں کردہ اند بیکس و معذوراں را خوں کردہ اند مرد حق گورا بدار آویختند بے گنہ را خوں بنا حق ریختند ہلہ اے زیّاد آشفتہ دروں ہلّہ اے استیزہ کاارانِ جنوں خونِ منصور ازشما خواہم گرفت خفتہ خوں را خوبنہا خواہم گرفت ڈاکٹر صاحب نے حکیم افلاطون کی جو مذمت ’’مسئلہ اعیان‘‘کی وجہ سے کی ہے۔ اس کے جواب میں پیرزادہ صاحب نے شیخ شہاب الدین کی کتاب تلویح سے ایک کشفی فضیلت نقل فرما کر اُس کی مدح سرائی فرمائی ہے ۔ فلسفہ ٔ استدلال جاننے والوں کے لیے یہ جواب ایک لطیفہ ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ مذکور نے ارسطو کودیکھا کہ وہ افلاطون کی مدح میں سرگرم ہے پوچھا کہ اس کے درجے کوئی اور حکیم نہیں ؟ارسطو نے سوائے بایزید ؒ کے اورکسی کو افلاطون کا ہم مرتبہ نہ بتایا۔ چنانچہ پیرزادہ صاحب اسی بنیاد پر اُس کی بابت کہتے ہیں جبرئیلے در لباس آدم است ہم کو امید تھی کہ پیرزادہ صاحب حافظ کی مدافعت زیادہ جوش کے ساتھ کریں گے ۔ لیکن یہاں مضمون بہت ہی مختصر نکلا کہتے ہیں ۔ اے کہ حافظ را شماتت میکنی رند میکش را ملامت میکنی اے بعلم خویش مخمور عمل توچہ دانی سر مستان ازل بحث تصوف اصل مرکز بحث یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہیں کہ مذہب اسلام ایک حقیقی پیغام عمل ہے۔ باوجود پیرو اسلام ہونے کے موجودہ مسلمانوں میں جو جمود ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُن پر ایک بیرونی عنصر مذہبی رنگ میں آکر غالب ہو گیا ہے اور وہ تصوف ہے۔ اسی تصوف کے مسئلہ فنا اورنفس ۳؎ کشی نے مسلمانوں کی قوتِ عمل کوباطل کر دیا ہے۔ کیونکہ تصوف کااثر تمام ادبیاتِ اسلامیہ میں ساری ہو گیا ہے اور ہر قوم کے ادبیات کا ایک تدریجی اثر اس قوم کے جذبات اور قوائے نفسانیہ پر ہونا ہے، اس لیے رفتہ رفتہ اس کے اثر سے ہماری قوت عمل جاتی رہی۔ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مسئلہ نفی خودی کو بنی نوع انسان کی مغلوب قوموں نے ایجاد کیا ہے کہ اس تعلیم سے مخفی طور پر غالب قوموں کو کمزور بنائیں۔ یونان میں فلسفہ ٔ اشراق اورایران میں تصوف پھیلااس وجہ سے ضمناًافلاطون اور حافظ کا بھی تذکرہ آیا۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال جیسا کہ پیرزادہ صاحب نے اپنی مثنوی کے بابت دیباچے میں خود انہیں کے الفاظ میں نقل کیا ہے ۔ یہ ہے: (۱) تصوف رہبانیت سے پیدا ہوا ہے ۔ (۲) اسلام تصوف کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔ (۳) تصوف نے قرمطی تحریک سے فائدہ اٹھایا ہے۔ (۴) تصوف قیودِ شرعی کوفنا کر دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس کی بنیاد محض عقیدت پر نہیں بلکہ انھوں نے خود تحقیقات کی ہے۔ (۱) میرے آباؤ اجداد کا مشرب تصوف تھا اور خود میرا میلان بھی تصوف کی طرف تھا۔ (۲) فلسفۂ یورپ کے پڑھنے سے اسلامی تصوف کی صداقت میرے دل میں مضبوط ہو گئی تھی۔ کیونکہ فلسفۂ یورپ بحیثیت مجموعی منجر بہ تصوف ہے۔ (۳) قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کو پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ میں غلطی پر تھا۔ تصوف اور فلسفۂ یورپ بھی غلط ثابت ہوا، اس واسطے میں نے تصوف کو ترک کر دیا۔ اس کے مقابلہ میں پیرزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میرا نسبی و نسبتی تعلق ایک قدیم صوفیانہ خاندان سے ہے، میرے آباؤ اجداد نے نسلاًبعد نسلی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے وقت سے جو میرے جدِّ اعلیٰ ہیں اس وقت تک تصوف کے دامانِ تربیت میں پرورش پائی ہے، میرا عقیدہ یہ ہے کہ ’’اسلام عین تصوف ہے اور تصوف میں ہی اسلام ہے‘‘۔ مسئلہ عینیت تصوف کامسئلہ عینیت افلاطون کے مسئلہ اعیاں سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہے۔ ’’ہمہ اوست‘‘ کے عقیدے نے ایک ایسی ہمہ گیر عینیت کی بنیاد ڈالی کہ ہر ہر ذرہ عین آفتاب ہو گیا اور خالق اورمخلوق متحد ہوگئے۔ ’’انا الحق‘‘ ’’سبحانی ما اعظم شافی‘‘ ’’سبحان الذی خلق الاشیاء وھو عنیا‘‘ خود کوزہ و خود کوزہ گرو خود گل کوزہ خود بر سرِ بازار خریدار برآمد خود انا الحق زد از لب منصور خود برامد ز شوق برسرِ دار گفت انا۳؎ احمدؐ بلامیم از زبان محمدؐ مختار ندیم و مطرب و ساقی ہم اوست خیال آب و گل در رہ بہانہ یہاں تک کہ بعض یکہ تازان میدان تفرید۔ کلمہ توحید کو بھی شرک خیا ل کرتے ہیں۔ اے پسر لا الہ الا اللہ خود ز شرک خفی است آئینہ دار ہست شرک جلی رسول اللہؐ خویشتن را ازیں دو شرک برابر ایک اور سرمست کا ترانہ سنیے: من ھم زمیم ہم سما، من با تو ھستم جملہ جا من مصطفی را ہم خدا، من ملحد دیرینہ ام فرعون اورموسیٰ علیہ السلام کے امتیازی حدود بھی مٹ گئے : چونکہ بے رنگی اسیر رنگ شد موسیٰ با موسیٰ در جنگ شد تجرید کا یہ نعرہ مستانہ بھی سن لیجیے جس میں قافیے کی پابندی بھی ترک کر دی گئی ہے: سر برہنہ نیستم دارم کلاہ چار ترک ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک مولیٰ ترک ترک ان ’’شطحیات‘‘ کا ایک انبار ہے۔ ان میں بہت سی ایسی ہیں جن کو نقل کرتے ہوئے مجھ نا آشنا ئے سر وحدت کا قلم لرزتا ہے اور یہ آنحضرت کے اقوال ہیں جن کا ایک ایک لفظ ’’عیارستان بازارصفا‘‘ میں بے بہا جوہر سمجھتا جاتا ہے، ایسی حالت میں اسلام کا عین تصوف اور تصوف کا عین اسلام ہونا کیا حیرت انگیز ہے۔ علم و عقیدت کی جنگ تمام مصلحوں اور پیشواؤں کو سب سے پہلی خطرناک منزل جو پیش آتی ہے وہ یہی علم و عقیدت کی جنگ ہے۔ مصلح دیدہ تحقیق سے دیکھ کر ڈراتا ہے کہ اے قوم! جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے اسے پھینک دے کیونکہ یہ زہریلا سانپ ہے مگر رسم پرست قوم کہتی ہے کہ نہیں، یہ تازیانہ ہے: بوقت صبح شود ہمچو روز معلومت کہ با کہ باختہ ای عشق در شو دیجور اس جنگ کے ہزارہا تماشے دنیا دیکھ چکی لیکن ابھی تک بدستور اس کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک شخص علمی تحقیقات سے مفید اور صحیح خیالات قوم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ قوم اس کو جاہل، دشمن اسلام اور کافر بتاتی ہے۔ امام غزالی، ابن رشد اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کسی کی کتابیں جلائی جاتی ہیں، کوئی جلا وطن کیاجاتا ہے۔ کسی کو قید خانے جانا پڑتا ہے۔ عقیدہوہی صحیح ہے جس کی بنیاد علم یقینی پر ہو۔ محض رسمی عقیدہ ’’عیارستان بازار تحقیق‘‘ میں کوئی قیمت نہیںرکھتا۔ تصوف اور اسلام سرچشمۂ اسلام یعنی قرآن و حدیث تصوف کے لفظ تک سے نا آشنا ہیں۔ یہ لفظ دوسری صدی ہجری میں عربی زبان میں داخل ہوا۔ مستشرقین یورپ و دیگرمحققین سے کوئی کہتا ہے کہ تصوف فلسفۂ اشراق سے لیاگیا ہے۔ کوئی اس کا ماخذ کلیساؤں کی رہبانیت کو قرار دیتا ہے۔ ان کی تحقیقات لکھنے کا نہ یہ موقع ہے، نہ اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش ہے۔ تاریخ اسلام بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس سے جہاں تک معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ ابتدا میں جو اہل زہد تارک الدنیا اور گوشہ گیر ہو کر عبادت اور ریاضت میں مصروف رہتے تھے ان کو لوگ صوفی کے نام سے پکارنے لگے۔ یعنی جیسا کہ پیرزادہ صاحب نے فرمایا: پیش طاق صوفیاں احسان بود اتباعِ سنت و قرآن بود اس زمانے میں تصوف اخلاص کا نام ہے جس کو حدیث شریف میں ’’احسان‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہی وہ تصوف ہے جس کی مدح غزالی وغیرہ ائمہ اسلام نے لکھی ہے۔ لیکن جب تاتاریوں کے حملے شروع ہوئے اور چنگیز اورہلاکو نے ایک قیامت صغری برپا کر دی تو ان کی ہولناک خون ریزیوں سے امت کے فاتحانہ جذبات مٹ گئے۔ دنیا کی طرف سے ان کے دلل سرد ہو گئے۔ طبیعتوں کا جوش اور ولولہ جاتا رہا۔ حوصلے پست اور ہمتیں سست ہوگئیں۔ زوال و فنا کے نقشے آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ میلان خاطر زہد اور ترک دنیا کی طرف بڑھ گیا اور سرمایہ ٔ توکل و قناعت کو لے کر گوشۂ عافیت پر بیٹھنا پسند آیا۔ عالمِ فانی کے جاہ و جلال کی وقعت نگاہوں میں نہ رہی۔ بوریاے فقر سریر سلطنت سے زیادہ عزیز سمجھا گیا۔ کلاہِ نمدی کو تاجِ زر پر ترجیح دی گئی اور پکار اُٹھے: گوشۂ عافیت و کنج قناعت گنجیست کہ بشمشیر میسر نہ شود سلطان را بزاغ دل زمانے، نظرے بہ ماھروے بہ ازانکہ چترِ شاہی عمر و ھائے و ھوئے مئے دو سالہ و معشوق چار دہ سالہا ہمیں بس ست مرا صحبت صغیر و کبیر شکوہِ تاج سلطانی کہ بیم جان در و در جست کلاہِ دلکش است اما تبرک سر نمی ارزد ذوق عمل طبائع سے یہاں تک مسلوب ہو گیا کہ ’’شیوہ قلندری‘‘ کے مقابلے میں ’’رہ و رسمِ پارسائی دور دراز‘‘ نظر آنے لگی ۔ عالم ذوق میں ، حلقۂ یاراں میں ’’خلوت درانجمن‘‘ ہونے لگی اور سجادے ہی پر ’’سفر در وطن‘‘ کی کڑی منزلیں طے کی جانے لگیں۔ شریعت اور حقیقت دو جداگانہ راستے قرار پائے اور ان میں پوست اور مغز کی تفریق کی گئی۔ علما و فقہا محجوب و بے بصر سمجھے گئے ۔ یہ اثرات اگر صرف ایک ہی جماعت تک محدود ہوتے تو نقصان نہ ہوتا ۔ لیکن شاعری کے ساز پہ یہ ترانہ کچھ اس انداز سے چھیڑا گیا کہ تمام ملک اس صدا سے گونج اٹھا اور ادبیات اسلامیہ میں ایک قسم کے جمود اوررہبانیت کا اثر ساری ہو گیا۔ زوال شوکت اسلام: شوکت اسلام کے زوال کے اسباب یوں تو پہلی ہی صدی ہجری سے شروع ہو گئے تھے، مثلاً سیاست کی خرابی، یعنی وہ جمہوریت جو اسلام لے کر آیا تھا ، جس نے ہر مسلمان کو آزاد اور خود مختار بنا دیا تھا، ہاتھوں سے جاتی رہی اور اس کے بجائے استبدادی حکومت قائم ہو گئی ، جس نے تمام امت کو غلام بنا دیا۔ مسلمان بے گناہ قتل کر دیے جاتے تھے۔ ائمہ و علماء جو اپنے اپنے زمانے کے روشن چراغ تھے....بیشتر زیر عتاب ، زیر خنجر یا زیر طوق وزنجیر رکھے جاتے تھے اور حق گوزبانیں اس قدر خاموش کر دی گئی تھیں کہ ان مظالم کے خلاف ایک لفظ نہیں نکال سکتی تھیں۔ اس طرح ہر ’’مسلم‘‘ حریت عمل سے محروم کر دیا گیا، پھر علمی تقلید جس سے حریت فکر بھی جاتی رہی۔ یہ شکنجہ ایسا سخت تھا کہ ایک زمانے میں یہاں تک نوبت پہنچ گئی تھی کہ اہل علم اس خوف سے کہیں کوئی دشمن ان کے اوپر تہمت لگا کر قتل نہ کرا دے ، اپنی صحت عقیدہ کی سند قاضی سے لے کر ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اسلام میں اس بیرونی عنصر کے شمول سے جو جمود پیدا ہوا اس نے بھی بہت کچھ ان اسباب زوال کو تقویت دی اور خاص کر ہندوستان میں تو اسلام کی حالت اور بھی خراب ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک غیر مسلم شخص یعنی قومیت کا مشہور مبصر ڈاکٹر لبیان اپنی کتاب تمدن ہندمیں یہاں کے مسلمانوں کی نسبت یہ لکھنے پر مجبورہوا کہ : وہ اسلام جو اس وقت ہند میں رائج ہے اس کی حالت بھی ویسی ہی ہوگئی ہے جیسے ہند کے اورمذاہب کی۔ اس میں مساوات بھی قائم نہیں جس کی وجہ سے اوائل میں اس کو اس قدر کامیابی ہوئی تھی۔ پھر ایک اورجگہ لکھتا ہے: ہندوستان کے اسلام کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ اس مذہب کی یہاں آکر کیسی مٹی خراب ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے رموز بے خودیمیں موجودہ مسلمانوں کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس میں کچھ بھی شاعرانہ مبالغہ نہ سمجھا چاہیے: مسلم از سر نبی بے گانہ شد باز ایں بیت الحرم بت خانہ شد از منات ولات و عزیٰ و ہبل ہر یکے دارد بتے اندر بغل شیخ ما از برہمن کافر تر است زانکہ او را سومنات اند سر است رخت ہستی از عرب بر چیدہ ای در خمستانِ عجم خوابیدہ ای مثل ز برفاب عجم اعضائے او سرد تر از اشک او صہبائے او ھمچو کافر از اجل ترسندہ اے سینہ از فارغ ز قلب زندہ اے قرآن شریف میں نصِ قطعی موجود ہے۔ ’’ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا‘‘پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس سے محروم ہو گئے ؟ میرے خیال میں اس کا جواب صرف یہی ہے جوقرآن شریف دیتا ہے’’ان تو می اتخذوا ھذا القرآن مھجورا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت صحیح فرمایاہے : گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن صوفی پشمینہ پوش حال مست از شراب نغمۂ قوال مست آتش از شعر عراقی در دش ورنہ می سازد بقرآن محفلش حواشی ۱- نوشتہ ۱۹۱۹ء ۲- میں خوش ہوں کہ اس مثنوی کے دوسرے ایڈیشن میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ خواجہ صاحب کے متعلق لکھا تھا اس کو حذف کر دیا اور اس کے بجائے نئے اشعار لکھ دئیے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ اس کاا مفید اور دلچسپ دیباچہ بھی نکال ڈالا گیا جس کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی۔ ۳- تصوف نفس کشی سکھلاتا ہے لیکن اسلام کی یہ تعلیم نہیں وہ صرف اصلاح نفس کا خواہاں ہے۔ ۴- خود ڈاکٹر اقبال کو بھی یہ میم پسند نہیں آیا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : کہیں تہذیب کی پوجا، کہیں تعلیم کی پوجا قوم دنیا میں یہی احمد بے میم کی ہے معلوم نہیں کہ قرآن شریف کے مطالعے کے بعد جس طرح تصوف کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا خیال بدلا ہے اسی طرح اس عقیدے میں بھی تبدیلی ہوئی یا ابھی تک ’معذور صہبائے محبت‘ ہیں اور خاک عرب کے سونے والے کو کچھ اور ہی سمجھتے ہیں۔ اسرار خودی عبدالمغنی فلسفہ اقبال کے آب و گل میں تھااور اس کے اسرار ورموز ان کے ریشہ ہائے دل میں پوشیدہ تھے، جیسا انھوں نے خود ضرب کلیم کی ایک نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ میں اقرار کیا ہے۔ چنانچہ وہ اس کی ر گ رگ سے باخبر تھے، لیکن اسی واقفیت کے سبب وہ یہ بھی جانتے تھے کہ : انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری افکار کے نغمہ ہائے بے صوت ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت وہ سمجھتے تھے کے فلسفیوں کا صدف گہر سے خالی ہے اور خرد کے بدلتے ہوئے نظریات کا طلسم سب کا سب خیالی ہے۔ اقبال کو فکر تھی : محکم کیسے ہو زندگانی؟ کس طرح خودی ہو لازمانی؟ اس لیے کہ اپنے زمانے کے انتشار و پراگندگی کو دیکھتے ہوئے اقبال شدت سے محسوس کرتے تھے: آدم کو ثبات کی طلب ہے دستورِ حیات کی طلب ہے تاکہ اس دستور کی روشنی میں عصر حاضر کی شب تاریک دور ہواورایک بہتر دردِ انسانیت کی نئی سحر طلوع ہو سکے : دنیا کی عشا ہو جس سے اِشراق مومن کی اذاں ندائے آفاق اس انقلاب انگیز اور عہد آفریں نصب العین کے حصول کے لیے اقبال کا نقطۂ نظر تھا: دیں مسلک زندگی کی تقویم دیں سرِّ محمدؐ و براہیمؑ لیکن مشکل یہ تھی کہ ہند میں حکمت دیں کوئی، کہاں سے سیکھے نہ کہیں لذت کردار نہ افکار عمیق حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق (اجتہاد۔ ضرب کلیم) غلامی کے طریق پر ضرب لگا کر اہل وطن، برادرانِ ملت اور دنیائے انسانیت کو عام حریت کا پیغام دینے کے لیے اقبال نے اپنے قت اور ماحول کے لحاظ سے بہترین وسیلۂ اظہار شاعری کو تصور کیا، اس لیے کہ وہ قلب و روہ کی بیداری کا سامان کرتی ہے: شاعرِ دل نواز بھی بات اگر کہے کھری ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری شانِ خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزاری اہل زمیں کو نسخۂ زندگی دوام ہے خونِ جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخن وری گلشن دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو (شاعر(۲)۔بانگ درا) اقبال کی نگاہ میں ’’شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم‘‘ (شاعر۱۔بانگ درا)یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے نظریۂ خودی کے موثر ابلاغ کے لیے سخن وری کی راہ اختیار کی، گرچہ انھیں احساس تھا کہ شاید ابھی وہ نسل پیدا نہیں ہوئی ہے جو اقبال کی بانگ دراکو بال جبریل اور ضرب کلیم بنا کر فکر و عمل کے وہ کارنامے انجام دے جو ان کے آفاقی مطمح نظر کے حصول کا باعث ہوں۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنا پیام مشرق دنیا کودیا اور انسانیت کے لیے ایک زبور عجم تصنیف کی، تاکہ زندگی جاویدنامہ کی منزلِ ارتقا تک پہنچ سکے۔ اقبال بیرسٹری کی سند کے ساتھ ساتھ فلسفۂ عجم ، لکھ کر اوراس پر فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے مغرب کے تعلیمی سفر سے ہندوستان لوٹے تو ان کا دماغ جدید وجیّد خیالات سے بھرا ہوا تھا، وہ یورپ میں ترقی کے ساتھ ساتھ زوال کے آثار دیکھ چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ آج کی انسانیت کے امراض کے علاج کا نسخہ مغرب کے پاس نہیں ہے بلکہ وہ خود مریض اور مرض دونوں بن گیا ہے اور ممکن ہے کہ اس کی تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرلے۔ چنانچہ بہت جلد دنیا کا افق پہلی جنگ عظیم کے مہیب بادلوں سے تاریک ہو گیا ۔ ۱۹۱۴ء میں عام تباہی کی بارش شروع ہو گئی۔ اسی عالم میں اقبال کی فارسی مثنوی اسرار خودی۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی ۔ ایک طرف اقبال اپنے زورکلام کی تاثیر سے واقف تھے: باغباں زور کلامم آز مود مصرعے کارید و شمشیرے درود لیکن دوسری طرف انھیں یہ احساس بھی تھا: نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم عصر من دانندۂ اسرار نیست یوسفِ من بہر ایں بازار نیست ان کا خیال تھا: نغمۂ من از جہان دیگر است ایں جرس را کاروان دیگر است مطلب یہ کہ اقبال کے ایک ایک مصرعے میں شمشیر کی کاٹ ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے نغمے کو سننے والی محفل موجود نہیں، لہٰذا وہ ’’شاعر فردا‘‘ ہیں اورمستقبل کے لیے لکھ رہے ہیں، جب کہ عصر حاضر اسرارِ حیات سے واقف نہیں، چنانچہ نا کا نغمہ جس طرح ایک جہانِ دیگرسے آرہا ہے اسی طرہ یہ ایک کاروانِ دیگر کے لیے جرس بھی ثابت ہوگا۔ اس یقین و اعتماد کے ساتھ وہ اپنے قارئین کو دعوت دیتے ہیں: سرِّ عیش جاوداں خواہی بیا ہم زمیں ہم آسماں خواہی بیا شعلۂ آ بے کہ اصلش زمزم است گرگدا باشد پرستارش جم است می کند اندیشہ را ہشیار تر دیدۂ بیدار را بیدار تر اعتبارِ کوہ بخشد کاہ را قوت شیراں دہد روباہ را خاک را اوج ثریا می دہد قطرہ را پہنائے دریا می دہد مفہوم یہ ہے کہ اگر تم عیش جاوداں اور دولت زمین و آسماں چاہتے ہو تو اس کلام کامطالعہ کرو، یہ ایک ایسے پانی کا شعلہ ہے جس کا سو تازمزم سے پھوٹ رہا ہے، جو اسے پی لے اگر وہ گدابھی ہو تو شاہانِ وقت اس کی غلام کریں گے،اس سے عقل تیز تر اورچشم بنیا بیدار ترہوتی ہے، یہ تنکے کو پہاڑ کی قوت بخشتا ہے اورلومڑی کو شیر بنا دیتاہے، اس کے ذریعے خاک اوجِ ثریا پر پہنچ جاتی ہے اور قطرہ دریا کی وسعت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے طاقت ورکلام کا مقصد یہ ہے کہ تا سوے منزل کشم آوارہ را ذوق بیتابی دہم نظارہ را گرم رو از جستجوئے نو شوم روشناس آرزدے نَو شوم یعنی یہ نغمہ سرائی بھٹکے ہوئوں کو نہ صرف منزل کا پتا دے گی بلکہ انھیں اس کی طرف گام زن کردے گی، نتیجتاًوہ جلوۂ مقصود کے لیے بے تاب ہو کر ایک نئی جستجو سے سرشارہوں گے اورایک نئی آرزو انھیں پیہم سر گرم سفر رکھے گی۔ بہرحال، اس زبردست زمزمہ پردازی کا مقصد فقط شاعری نہیں ہے: شاعری زیں مثنوی مقصود نیست بت پرستی بت گری مقصود نیست اس کا محرک انسانیت کی بہتری کے لیے شاعر کا گریۂ شب ہے، جس کے سبب اسرارِ زیست اس پر کھلل گئے اور اس نے دنیائے ممکنات کے باطن سے تقویم حیات کا عطر نکال لیا: بہر انسان چش۴ من شب ہا گریست تا دریدم پردہ اسرار زیست از دردن کار گاہ ممکنات برکشیدم سر تقویم حیات خودی کی اہمیت وعظمت : اقبال کا پیغام حیات ’خودی‘اپنے وسیع ترین معنوں میں ہے۔ اس کی بنیاد خدا کی ذات ہے، جو خودی کی تمام جہتوں کا منبع ہے۔ چنانچہ تمہیدی اشعار کے بعد موضوع بحث کا پہلا ہی باب خودی کو نظامِ عالم کی اصل کے طورپر پیش کرتا ہے، ساتھ ہی واضح کرتا ہے کہ حیات کا تسلسل اور وجود کا تعین استحکام خودی پر منحصرہے۔ لہٰذا انسان کو خودی کی اس اہمیت وعظمت کا احساس کرکے اس سے بصیرت حاصل کرنی چاہیے۔ اس بیان میں بہت ہی شاعرانہ انداز سے متعدد تشبیہات و استعارات کے ذریعے آغازکائنات اور ابتدائے حیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس اشارے سے دنیا کی حقیقت اور زندگی کی واقعیت آشکار ہوتی ہے۔ ایک شعر ہے: صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پید اسعت از اثبات او یہ خدا کی مطلق خودی کے تخلیقی محرکات و کمالات کا نغمہ ہے۔ اس میںفطرت کے مظاہر سے انسان کی تخلیق تک کے اشارات مضمر ہیں ۔ حسب ذیل شعر مقصد کائنات کی نشاندہی کرتا ہے: شعلہ ہائے او صد ابراہیمؑ سوخت تا چراغ یک محمد بر فروخت یہ بحیثیت واحد آفاقی دین انسانیت کے اسلام کے ارتقا کا استعاراتی بیان ہے۔ حضرت آدم ؑ سے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت محمد ؐ تک ایک ہی نظریہ حیات اورنظام زندگی کافروغ مرحلہ بہ مرحلہ ایک تدریج و ترتیب کے ساتھ ہوا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تاریخی امتیاز یہ ہے کہ وہ ختم الرسل ہیں اوران کی شریعت دین اسلام کی تکمیل کرتی ہے۔ بہرحال، خدا کی خودی کی کوئی حد نہیںہے اور وہ ہر تعین سے ماورا ہے: وسعتِ ایام جولاں گاہِ او آسماں موجے زگرد راہِ او انسان کی محدود عقل کے لیے اس مطلق خودی کا تصور آسان نہیں، اس لیے کہ اسے جوعقل دی گئی ہے وہ جز پرست ہے اور اس کے لیے کل کا اندازہ کرنا مشکل ہے: شعلۂ خود در شرر تقسیم کرد جز پرستی عقل را تعلیم کرد فکر انسانی کی یہ نارسائی اسی و قت دور ہوسکتی ہے جب وہ مجرد فلسفہ آرائی کی بجائے خودی کے عملی پر پہلو پر نظر ڈالے: قوت خاموش و بے تاب عمل از عمل پابند اسباب عمل خودی کی ذات کا ظہورجب عملاًکائنات میں ہوتا ہے تو وہ ایک نظام اسباب پر مبنی ہوتا ہے، جس کامطالعہ کرکے انسان ہستی کے حقائق کا سراغ لگا سکتا ہے۔ عالم کا ذرّہ ذرّہ خدا کی خودی کا شاہد ہے، ذات خدا وندی کا نشان ہے، جمال ازل کا آئینہ ہے۔ خودی کی اس آفاقیت کا علم بجائے خود ایک طاقت ہے۔ اس سے حقائق کا عرفان حاصل ہوتا ہے او بہت بڑے پیمانے پر عمل کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ کائنات کی اس بنیادی صداقت سے انسان کو کچھ سبق لینا چاہیے: قطرہ چوں حرفِ خودی از برکند ہستیٔ بے مایہ را گوہر کند سبزہ چوں تاب دمید از خویش یافت ہمت او سینۂ گلشن شگافت چوں زمیں بر ہستیٔ خود محکم است ماہ پابند طواف پیہم است ہستیٔ مہراز زمیں محکم تر است پس زمیں مسحور چشم خاور است قطرے کے اندر خودی پیداہوتی ہے تووہ موتی بن جاتا ہے، سبزہ جب اپنے اندر اُگنے کی صلاحیت پیداکر لیتا ہے تو اس کی ہمت زمین گلشن کا سینہ چاک کر دیتی ہے، زمین چونکہ اپنی ہستی محکم ہے لہٰذا ماہتاب اس کے گرد طواف کر رہا ہے، مگر آفتاب کی ہستی زمین سے زیادہ بھی محکم ہے اور وہ اس کی طاقت سے مسحور ہو کر اس کے گرد ناچ رہی ہے۔ خودی کے مقاصد: خودی محض ایک فلسفیانہ یا صوفیانہ تصور نہیں ہے۔ اس کے کچھ مقاصد ہیں جن کے لیے یہ حرکت میں آتی اور اپنی زندگی کا ثبوت دیتی ہے۔ مقصد کے لیے آرزو شرط ہے۔ تمنا ہی دراصل کسی چیز کاارادہ کرتی ہے اور پھراسے حاصل کر لیتی ہے ۔ کوشش خواہش سے پیداہوتی ہے ۔ زندگی کا سارا کارخانہ اورکارنامہ عزائم کا مرہون منت ہے۔ عقل ، علم ،عمل سب آرزو کی دین ہیں اوران سب کا مقصود زندگی کا تحفظ اور اس کی ترقی ہے۔ اس تحفظ و ترقی سے خودی باقی بھی رہتی ہے اور اس کا فروغ و عروج بھی ہوتاہے۔ حیات کا ارتقا خودی کے اس عملی اظہار سے وابستہ ہے جس سے مقاصد کی تخلیق و تکمیل ہوتی ہے: زندگانی را بقا از مدعاست کار وانش را درا از مدعاست زندگی در جستجو پوشیدہ است اصلِ او در آرزو پوشیدہ است کبک پا از شوخیٔ رفتار یافت بلبل از سعیٔ نوا منقار یافت زندگی سرمایہ دار از آرزوست عقل از زائیدگان بطن اوست علم از سامانِ حفظ زندگی است علم از اسباب تقویم خودی است زندگی کی بقا مدّعا سے ہے ۔کاروانِ حیات جرس مدعا کی آواز پر منزل کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ زندگی جستجو میں پوشیدہ ہے۔ اس کی اصل آرزو ہے۔ کوشش رفتار نے فاختہ کوخرام اور سعی نوانے بلبل کو نغمہ عطا کیا ۔زندگی کا سارا سرمایہ آرزو کا بخشا ہوا ہے۔ عقل بھی تمنا ہی کی مخلوق ہے۔ علم زندگی کی حفاظت اورخودی کے استحکام کے لیے ہے۔ لہٰذا انسان کو، جو عصر حاضر میں رازِ حیات گم کر چکا ہے، شراب مقصد سے مست ہو کر اٹھنا اور راہِ ارتقا میں قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ ہماری زندگی تخلیق مقاصد پرمنحصر ہے اور ہماری ساری آب و تاب شعاع آرزو دہی کے طفیل ہے: اے زر از زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز ماز تخلیقِ مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم خودی اور عشق اس باب میں سب سے پہلے چنداشعار میں بتایا گیا ہے کہ عشق و محبت سے خودی استحکام حاصل کرتی ہے۔ یہ ایک اصولی نکتہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس اصول پر عمل کیسے ہو؟ اقبال ہمیشہ افکار کے عملی پہلو کو سامنے رکھتے ہیں، اس لیے کہ مجرّد فلسفہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔ لہٰذا انسان کے لیے خدا کی محبت کو ایک اصول قرار دے کر شاعر نے اس پر عمل کے سلسلے میں پورا زور عشق رسول ؐ پر دیا ہے اوراس میں محض محبت کے دعوے سے آگے بڑھ کر رسول خدا کے مکمل اتباع و تقلید پر تاکیدی نشان لگایا ہے۔ اس مقصد کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے علاوہ سیرت کے چند اہم واقعات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ ان ہی حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے اسوۂ حسنہ کی کیا اہمیت وافادیت بنی نوع انسان کے ہر فرد اور معاشرے کے لیے ہے۔ اس معاملے میں رسول اللہ ؐکے جن اوصافِ حمیدہ کا ذکر کیاگیا ہے ان میں تفکر، درد مندی، مساوات ، حریت، اخوت، عدل، شجاعت ، رحمت فیاضی و رواداری سب سے نمایاں ہیں: از محبت می شود پایندہ تر زندہ تر، سو زندہ تر، تابندہ تر از نگاہ عشق خا را شق بود عشق حق آخر سراپا حق بود ہست معشوقے نہاں اندر دلت چشم اگر داری بیابنمائمت خودی محبت سے پائندہ ہوتی ہے ۔ عشق چٹان کو بھی توڑ دیتا ہے۔ حق تعالیٰ کا عشق انسان کو سراپا حق بنا دیتا ہے۔ معشوق حقیقی کا خیال ہر آدمی کے قلب میں جاگزیں ہے اور اس کا ضمیر اپنے رب کے وجود کی گواہی دیتا ہے۔ دل اپنے آپ، بالکل فطری طور سے رب کی محبت کی طرف کھینچتا ہے۔ یہ بیان گویا تفسیر ہے الست بربکم قالوا بلیکی (روز ازل خدا نے تمام انسانوں کی ارواح سے سوال کیا۔’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ سب نے کہا، ’’ہاں آپ ہی ہمارے رب ہیں‘‘۔آیت قرآنی) اورتخلقوا باخلاق اللہ (اپنے اندر صفات الٰہیہ کے خواص پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ حدیث رسول)کی۔ اس کے بعد عشق و محبت کے معاملے میں مقام مصطفی کی وضاحت کی جا تی ہے: در دل مسلم مقام مصطفی است آبروئے ماز نام مصطفی است در شبستان حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید در نگاہ او یکے بالا و پست با غلام خویش بریک خواں نشست آں کہ بر اعدادِر رحمت کشاد مکہ را پیغام لا تثریت داد کیفیت ہا خیز د از صہبائے عشق ہست ہم تقلید از اسمائے عشق مقام مصطفی ہر مومن و مسلم کے دل میں ہے۔ ملت مسلمہ کی آبرو نام مصطفی سے ہی ہے۔حضور ؐنے غار حرا میں ذکر و فکر کے بعد وحی الٰہی کے تحت ایک امت اور ایک آئین کی تشکیل کی، جس کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی اوراچھی حکومت تاریخ کے پردے پر ظاہر ہوئی۔ رسول ؐکی ایک نگاہ نے بلند و پست کو برابر کر دیا اور آپ نے خود اپنے غلام کے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھایا۔ آپ نے دشمنوں پر بھی رحمت کے دروازے کھول دیے، عین فتح مکہ کے موقع پر سارے مخالفوں کو معاف کر دیا اور ان کے ساتھ اعزاز و اکرام سے پیش آئے۔ بہرحال ، عشق رسول ؐ کا مطلب اسوۂ رسول کی تقلید و اتباع ہے۔ اس میں قرآن کی دوسری آیات کے ساتھ خاص اس آیت کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحبکم اللہ (اے محمد ؐ ! لوگوں سے کہیے، اگر تمھیں اللہ سے محبت ہے تو میری پیروی کرو، تب اللہ تم سے محبت کرے گا)۔ رسول ؐکا کردار ایک نمونۂ عمل ہے: لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔ (قرآن) اس طرح خدا کا عشق رسول ؐ کے اتباع سے ثابت ہوتاہے۔ اسی اتباع سے ملت اسلامیہ کی آفاقی برادری پیداہوتی ہے۔ یہ برادری ایک عالم گیر نظام عدل قائم کرتی ہے۔ اس کا متحد عمل ایک ایسی شریعت پر ہوتا ہے جو دین کی کلید سے دنیا کے تمام مسائل کا قفل کھول دیتی ہے۔ جب امت مسلمہ پورے خلوص کے ساتھ شریعت و سیرت پر کاربند ہوتی ہے توروئے زمین پر نیابت الٰہی کا حق ادا کرتی ہے اور دنیا میں ہر قسم کی ترقی اسی کے زیر اقتدار ہوتی ہے: از کلید دیں در دنیا کشاد ہمچوا و بطن ام گیتی نزاد تا خدائے کعبہ بنو از دترا شرح اِنَّی جَاعِلٌ ساز دترا یعنی رسول اللہ ؐنے دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھول دیا تھا۔ اگران کے پیرو بھی قرآن کے لفظوں میں باہم ایک سیسہ پلائئی ہوئی دیوار (کانہم بنیانٌ مرصوص)بن کر ایک لشکر عشق ترتیب دیں اور باطل کے خلاف جہاد کریں تو دنیا ان کے قدموں میں ہوگی اور وہ اس کی تزئین و ترقی کے مواقع ، اختیارات اور وسائل حاصل کرسکیں گے۔ اس سلسلے میں ایک طرف رسول کی کیفیت یہ ہے کہ: ماند شب ہا چشم او محروم نوم تا بہ تخت خسروی خوابید قوم وقت ہیجا تیغ او آہن گداز دیدۂ او اشک بار اندر نماز در دعائے نصرت آمیں تیغ او قاطع نسل سلاطیں تیغ او کتنی ہی راتیں اللہ کے رسول ؐ نے عبادت میں جاگ کر گزاریں، تب ان کی قوم اس قابل ہوئی کہ تخت خسروی اس کے قدموں تلے روندا گیا۔ گرچہ رسول ؐ کی تیغ میدانِ کارزارہیں فولاد کو توڑ سکتی تھی، مگر ان کی آنکھیں عین لڑائی میں بھی نماز کے اندر اشک بار ہوتی تھیں، جب اللہ کے مٹھی بھرے سرو سامان سپاہی بدر کے میدان میں اپنے سے بہت بڑے اور نہایت مسلح لشکر کفار کا مقابلہ کر رہے تھے اور خود رسول اللہ ؐ اسلحہ بند ہو کراس جنگ کی قیادت مسلمانوں کی جانب سے کر رہے تھے، دنیا کے اس سپہ سالارِ اعظم ؐ کا سر سجدے میں جھکا ہوا تھا اور وہ خدا سے لشکر حق کی فتح کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔ ان دعاؤں پر امین کہنے والی خود اس کی شمشیر تھی جس کا جوہر اس کے پیرومیدانِ عمل میں دکھا رہے تھے۔ عبادت الٰہی کے ساتھ ساتھ اس عمل ِ دنیا ہی کا انعام دربار خداوندی سے یہ ملا کہ ملوکیت کی جڑیں کٹ گئیں اورخلافت کا علم دنیا میں لہرانے لگا۔ دوسری طرف جس ملت کے ہاتھوں میں یہ علَم تھا اس کی حقیقت یہ ہے : ما کہ از قید وطن بیگانہ ایم چوں نگہ نورِ دو چشم و بکیم از حجاز و چین و ایرانیم ما شبنم یک صبح خدا نیم ما چوں گل صد برگ ما را بو یکے ست اوست جانِ ایں نظام دادیکے ست ہم قید وطن سے بیگانہ ہیں، جس طرح دو آنکھوں کا نورایک ہی ہوتا ہے اسی طرح مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کی روح ایک ہی ہے۔ ہم حجاز میں بھی ہیں، چین میں بھی، ایران میں بھی، لیکن ہم سب مل کر ایک ہی ہنستی ہوئی صبح میں پھولوں پر گرنے والی شبنم کی طرح یکساں ہیںاور ہماری مثال گلاب کی پنکھڑیوں کی ہے جن کی خوشبو ایک ہی ہوتی ہے۔ رسول خدا ؐ ملت اسلامیہ کے پورے نظام کی جان ہیں وہ ایک ہی ہیں، لہٰذا ملت کے تمام افراد بھی کروڑوں قالبوں میں یک جان ہیں : واعتصموبحبل للہ جمعیا ولا تفرقوا’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو‘‘۔(قرآن) یہی وجہ ہے کہ ہر مسللمان اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے: خاک یثرب از دو عالم خوشتر است اے خنک شہرے کہ آں جا دلبر است خاک یثرب جو مدینۃ الرسول اور روضۂ نبوی کی سر زمین ہے دونوں جہان سے زیادہ حسین معلوم ہوتی ہے۔کیا ہی عمدہ ہے وہ شہر جہاں محبوب خدا اور محبوب مسلمان آرام فرما ہیں۔ اس شہر کی یا ددلوں کوسکون اورحوصلہ عطا کرتی ہے۔ اس یاد سے روح میں ایک ولولۂ تازہ پیداہوتا ہے ۔ صاحب مدینہ کی محبت ہی خدا تک پہنچنے کاذریعہ اورکائنات پر چھا جانے کا وسیلہ ہے۔ یہ انسان کی خودی کو محکم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ خودی اور خودداری: خودی کے اثبات و اظہار کے لیے خودداری ایک ضروری شرط ہے، جس کی تکمیل کے بغیر نہ فرد کی خودی معتبر و موثر ہوسکتی ہے نہ جماعت کی ۔ ناداری و محتاجی انسانی زندگی کے استقلال کو ختم کر دیتی ہے اور آدمی دوسروں کا دست نگر ہو کر جسمانی و ذہنی دونوں اعتبار سے مجبور ہو جاتا ہے۔ تنگ دستی سے تنگ دلی پیدا ہوتی ہے۔ جوشخص دست سوال کسی دوسرے کے سامنے دراز کرتا ہے وہ اپنے کو ذلیل کرتا ہے۔ اس کی عزت نفس باقی نہیں رہتی۔ اس کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ وہ آزادی اور بہادری کے ساتھ کوئی کام نہیں کر سکتا۔ وہ ایک بندۂ بے چارہ ہے اور دوسروں کی غلامی اس کے کردار کو غارت کر دیتی ہے: خستگی ہائے تو از نا داری است اصل درد تو ہمیں بیماری است از سوال آشفتہ اجزائے خودی بے تجلی نخل سیناے خودی از سوال افلاس گرد و خوار تر از گدائی گدیہ گرنا دار تر زندگی کی جدوجہد میں ہماری درماندگی ناداری کے سبب ہے اور یہی ہمارے امراض کی جڑ ہے۔ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے خودی کے عناصر ترکیبی بکھر جاتے ہیں اور انسان جلوۂ حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ مانگنے سے غربت ذلت میں بدل جاتی ہے اور بھیک مانگنے والا پہلے سے زیادہ غریب ہو جاتا ہے۔ دوسروں کے رحم و کرم پر انحصار افلاس کو زیادہ سنگیں بنادیتا ہے۔ در یوزہ گری آدمی کی شخصیت پر ایک داغ لگا دیتی ہے: ماہ را روزی رسد از خوانِ مہر داغ بر دل دار و از احسان مہر چاندکو سورج کے دستر خوان سے رزق ملتا ہے تو اس کے سینے پر دوسرے کے احسان کا دغ لگ جاتا ہے۔ یہ شخصیت کی تعمیر میں اقتصادیات کی اہمیت کا بیان ہے۔ معیشت کی درستگی کے بغیر کردار کی استواری نہیں حاصل ہو سکتی، خواہ کسی شخص کا معاملہ ہو یا پوری قوم کا۔ محنت معاشیات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ جو چیز اپنے دست بازو سے حاصل ہو اسی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اپنی کمائی سے اعتماد نفس اور عزت نفس دونوں کی دولت ملتی ہے: آں کہ خاشاکِ بتاں از کعبہ رفت مرد کا سب را حبیب اللہ گفت جس ذات اقدس ؐ نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اس کا فرمان ہے کہ الکاسب حبیب اللہ ’’محنت کش اللہ سے محبت کرتا ہے‘‘۔ محنت ہی انسان کو غیرت مند بناتی ہے۔ غیور انسان بہادر ہوتے ہیں اور بے غیرت بزدل: چوں حباب از غیرت مردانہ باش ہم بہ بحر اندر نگوں پیمانہ باش بلبلے کی طرح جواں مردی اور غیرت مندی کے ساتھ زندگی گزارو، وہ سمندر کے سینے پر اپنا پیمانہ الٹ رکھتا ہے تاکہ اس کی لہروں کا قطرہ بلبلے کے اندر نہ جائے۔ ’’سخت کوشی ہے تلخِ زندگانی انگبیں‘‘اقبال ہی کا مصرع ہے ۔ محنت و کاوش سے زندگی کی تلخیاں شہد بن جاتی ہیں اور خودی کا فروغ ہموار طریقے پر ہوتا ہے۔ خودی کی قوت تسخیر: ایک خودشناس انسان خدا اور رسول کے ساتھ محبت کا رشتہ قائم کرکے اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ نظام عالم کی ظاہری ومخفی قوتیں اس کی مسخر ہو جاتی ہیں۔ یہ قوت تسخیر بادشاہوں کے دل و دماغ بھی اپنے قابو میں کر لیتی ہے اور سلطنت کسی کی ہو، حکم خود آگاہ عاشق رسول کا چلتا ہے۔ مردفقیر کی ہیبت اقتدار کے ایوانوں میں لرزہ ڈال دیتی ہے، سلاطین فقراکی اطاعت پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور فطرت بھی عارف کے اشارے پر چلتی ہے، پوری کائنات اس کے آگے سرنگوں ہوجاتی ہے: از محبت چوں خودی محکم شود قوتش فرماں دہ عالم شود پنجۂ او پنجۂ حق می شود ماہ از انگشت او شق می شود جب خودی محبت سے محکم ہوتی ہے تواس کی قوت پورے عالم پر فرماں روائی کرتی ہے۔ اس کا پنجہ خدا کا پنجہ ہو جاتا ہے اور اس کی ایک انگلی کے اشارے سے چاند دوٹکڑے ہوتا ہے۔ ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا مشہور شعر ہے: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکشا کارساز اس نکتے کو زیر نظر باب میں حضرت بوعلی شاہ قلندر ؒ کے ایک واقعے سے واضح کیا گیا ہے۔ ایک باران کا مرید اپنے عارفانہ خیالات میں گم اپنی راہ پر چل رہا تھا کہ راستے میں عامل شہر کی سواری آگئی۔ فقیر راستے سے نہیں ہٹا تو حاکم نے اس پر ڈنڈے برسا دیے۔ اس نے جا کر اپنے مرشدبوعلی سے شکایت کی۔ انھوں نے سلطان کو رقعہ لکھا کہ عامل کو فوراًمعزول کردو،ورنہ ملک تمہارے ہاتھوں سے جاتا رہے گا۔ سلطان نے فوراًتعمیل ارشاد کرکے قلندر صاحب سے معافی مانگی۔ نفی خودی کا منفی اثر نفی خودی ا نسان اور اقوام کے اخلاق و کردار کو پست اورکمزور کر دیتی ہے۔ اس کے منفی اثرات ایک بے چارگی اور خودشکستگی پیدا کرتے ہیں۔ اس کی ایجاد مغلوب قوموں کے احساس کمتری سے ہوتی ہے۔ یہ ایک فریب ہے جو اقوام غالب کو ناکارہ بنانے کے لیے رَچا جاتا ہے۔ عدم تشدد مجبوری و درماندگی کا فلسفہ ہے۔ قوت و شوکت سے محروم ہونے والے اس کا سہارا ایک حکمت عملی کے طور پر ڈھونڈتے ہیں۔ ان کا مقصد تعمیری نہیں ہوتا اور نہ وہ کوئی ا قدام کرتے ہیں، بلکہ وہ ایک تخریبی اندازے سے پس پائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حکایت بیان کی گئی ہے جو نہایت عبرت انگیز ہے۔ ایک چراگاہ میں بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ رہتا تھا۔ اس میں شیر گھس آئے اور انھوں نے بے دریغ بکریوں کا شکار شروع کر دیا۔ ایک چالاک گوسفند نے جب دیکھا کہ بکریوں نہ تابِ مقابلہ ہے نہ ان کے لیے جائے پناہ تو وہ شیر ہی کے لیے ناصح مشفق بن گیا اور واعظ کا روپ دھار کر اس نے عدم تشدد اور سبزی خوری کا ایسا زبردست فلسفہ پیش کیا کہ شیر ذہنی طورپر مفلوج ، قلبی طورپر بزدل اور عملی طورپر بالکل ناکارہ ہو گیا، اس کی ساری صلابت و شجاعت ختم ہو گئی، شان و شوکت جاتی رہی اور اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا: آں جنوں کوشش کامل نہ ماند آں تقاضائے عمل در دل نہ ماند اقتدار و عزم و استقلال رفت اعتبار و عزت و اقبال رفت پنجہ ہائے آہنیں بے زور شد مردہ شد دلہا و تن ہا گورشد زور تن کاہید و خوفِ جاں فزود خوفِ جاں سرمایۂ ہمت ربود صد مرض پیدا شد از بے ہمتی کوتہ دستی، بے دلی، دوں فطرتی یعنی بھرپور جدوجہد کا شوق نہ رہا، عمل کا تقاضاختم ہو گیا، اقتدار عزم و استقلال رخصت ہو گئے، اعتبار و عزت و اقبال باقی نہ رہے، فولادی پنجوں کا زور ٹوٹ گیا، دل مردہ اورجسم لب گور ہو گیا، لاغری کے ساتھ ساتھ جان کا خوف پیداہوگیا اور ہمت پست ہوگئی، بزدلی نے سو امراض پیداکیے، کوتاہ دستی، بے دلی، کمینگی کا غلبہ پیداہو گیا۔ یعنی خودی کے ان منفی و تخریبی اثرات کے باوجود شیر کوہوش نہیں آیا اس کا شعور اس درجہ غارت ہوا کہ اس نے اپنے زوال کو تہذیب کا خوش نما نام دے دیا: شیر بیدار از فسونِ میش خفت انحطاطِ خویش را تہذیب گفت فلسفۂ یونان اور اسلام: افلاطون کے غیر حقیقت پسندانہ افکار نے ملت اسلامیہ کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اوپر کے قصے میں گوسفند نے شیر کے ساتھ کیا تھا ۔ فلسفۂ یونان کا اثر جب عالم اسلام پر پڑا تو اس سے ذہن پراگندہ ہو گئے اور عمل مفلوج ہو گیا۔ افلاطون کے تصورِ عینیت و مثالیت نے زندگی کو ایک گورکھ دھندسا اور خواب پریشاں بنا دیا۔ عقل پرستی اتنی بڑھی کے عالم اسباب تک نظر انداز ہو گیا، تخیل کی دنیا حقیقی دنیا سے زیادہ خوبصورت نظر آنے لگی، یونانی فلسفے سے متاثر تصور ایک افیون بن گیا اورلوگ ایک سراب کے پیچھے دوڑنے لگے، مفید و مضر کے ساتھ ساتھ وجود و عدم کی تمیز بھی ختم ہو گئی، اپنی ہستی کی قوتوں پر سے اعتماد اٹھ گیا، رہبانیت طاری ہوگئی، زندگی سے بے زاری اورموت سے الفت پیدا ہوئی، بے شعوری کے ساتھ بے کرداری آئی اور پوری تباہی کا سامان ہوا، انفرادی انتشار کے ساتھ ساتھ اجتماعی اضمحلال کے آثار نمایاں ہوئے: فکر افلاطوں زیاں را سود گفت حخمت او بود رانا بود گفت فطرتش خوابید و خوابے آفرید چشم ہوش او سرابے آفرید بسکہ از ذوق عمل محروم بود جان او وا رفتۂ معدوم بود منکرِ ہنگامۂ موجود گشت خالقِ اعیان نا مشہود گشت زندہ جاں را عالمِ امکاں خوش است مردہ دل را عالم اعیاں خوش است قومہا از سکر ا و مسموم گشت خفت و از ذوق عمل محروم گشت مطلب یہ کہ فکر افلاطوں نے زیاں ہی کو سودبنا کرپیش کیا، اس کی حکمت نے ہستی کو نیستی میں بدل دیا، وہ خود بھی ایک خواب میں رہا اور دوسروں کے لیے بھی اس نے ایک خواب ناک فلسفہ تراشا،جو محض ایک سراب تھا، وہ ذوق عمل سے محروم اور دل دادۂ عدم تھا، اس نے ہنگامۂ وجود کا انکار کیا اور غیر موجود اعیان کی تخلیق کی، قومیں اس کے نشہ آور خیالات سے مسموم ہو کر غافل و ناکارہ ہو گئیں، لیکن عالمِ اعیان صرف مردہ دلوں کو پسند آ سکتا ہے، جب کہ زندہ دل عالم امکان کو اختیار کرتے اور اس میں دادِ عمل دیتے ہیں۔ ارب اور زوال خودی اقبال کا خیال ہے کہ موجودہ مشرقی بالخصوص اسلامی اور ادبیات خودی کی روح سے خالی ہیں، اس لیے کہ عجمی فکر کے بے جا لطافتوں نے جمالیات کا ایک غلط نقطۂ نظر پیش کیاہے، جو ادب و شعر میں رائج و راسخ ہو کر قارئین کے قوائے ذہنی کو مجروح اور قوائے عملی کو مفلوج کر رہا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہوشیاری و سخت کوشی کے بجائے مدہوشی و تن آسانی پیداہو رہی ہے۔ استحکام ختم ہوکر اضمحلال نہ صرف شروع ہو گیا ہے بلکہ اپنی آخری حدوں کو پہنچ رہا ہے۔ نتیجتہًزندگی کی آرزو فنا ہو چکی ہ ے اور ترقی کا ولولہ سرد پڑ چکا ہے، عزائم خستہ اور حوصلے پست ہو چکے ہیں، ایک خواہش مرگ معاشرے پر غالب آ چکی ہے۔ اس تباہ کن صورت حال کی اصلاح اسی وقت ہوگی جب خودی کا شعور حاصل ہو اور اس کے مطابق کردار کی تعمیر کی جائے، فکر و عمل میں صلابت و حرکت پیداہو، پیکارِ حیات م یں پوری قوت کے ساتھ شرکت کا جو صلہ ملے:۔ فکر روشن ہیں عمل را رہبر است چوں درخش برق پیش از تندر است فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوئے عرب می بایدت اند کے از گرمی صحرا بہ خور بادۂ دیرینہ از خرما بہ خور خویش را بر ریگ سوزاں ہم بہ زن غوطہ اندر چشمۂ زمزم بہ زن فکر روشن عمل کا راستہ دکھاتی ہے اوربجلی کی چمک رکھتی ہے، ادب میں فکر صالح کی ضرورت ہوتی ہے، اس مقصد کے لیے سوز عرب کی طرف رجوع کرنا ہوگا، تاکہ گلستان عجم ک ی خواب آور ہواؤں سے نکل کر ذرا گرمی صحرا اورتپشِ حیات کا بھی احساس ہو اور انگور کی نشہ آور شراب کے بجائے خرمے کا روح افزا عرق نوش کرنے کا موقع ملے۔ صحرا کی جلتی ہوئی ریت پر قدم بڑھا کر آب زمزم میں غوطے لگانا صحت بخش ہوگا۔ تب ہی فنکار اور دانش دریا عام انسان زندگی کی معرکہ آرائی کے قابل ہوں گے اوران کے جسم و جاں شعلۂ حیات سے روشن ہو سکیں گے: تا شوی در خوردِ پیکارِ حیات جسم و جانت سوز داز نارِ حیات تربیت خودی کے تین مراحل اول اطاعت: خودی خود سری یا خود پرستی نہیں ہے،بلکہ ایک اصول اورنصب العین کے تابع ہے۔ جس کی فرمانبرداری کرکے ہی یہ زندگی کے تعمیری مقاصد کی تکمیل کا سامان کر سکتی ہے۔ لہٰذا خود کی تربیت کا سب سے پہلا مرحلہ اطاعت حق اورپابندی قانون ہے۔ اطاعت کے جبر سے ہی عمل کا اختیار پیداہوتا ہے، ایک آئین کی زنجیر میں بندھ کر ہی فضاؤں میں پرواز اورمہرو پرویں کا شکار کیا جاسکتا ہے، ستاروں کا اپنا سفر ایک بھی ایک ضابطے کے مطابق ہے، سبزہ تک ایک قاعدۂ نمو پراگتا ہے، قطرے چند اول فطرت کی بنیاد پرمل کر دریا بنتے ہیں اور اسی طرح ذرے صحرا میں تبدیل ہوتے ہیں، ہر شے کی حقیقت ایک دستورپر مبنی ہے۔ لہٰذا قواعد و ضوابط کی سختی کا شکوہ کرنے کے بجائے حدودِشریعت کے اندر زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی چاہیے : در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار ہر کہ تسخیر مہ و پروین کند خویش را زنجیری آئیں کند می زند اختر سوے منزل قدم پیش آئینے سر تسلیم خم سبزہ بر دین نمو روئیدہ است پائمال از ترک آں گردیدہ است قطرہ با دریاست از آئین وصل ذرہ با صحرا ست از آئین وصل باطل ہرشے آئینے قوی تو چرا غافل ز ایں ساماں روی شخوہ سنج سختیٔ آئیں مشو از حدودِ مصطفی بیروں مرد دوم ضبط نفس: نفس سرکش ہے اس کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ جوشخص اپنے آپ پر قابو نہیں پا سکتا وہ دوسروں کے قابو میں آ جاتا ہے۔ اپنے نفس کو صبر و ضبط کا پابند بنانے والا ہر قسم کی خوف اورلالچ سے آزاد ہو جاتا ہے، اللہ کے سوا کسی کارعب اس کے دل پر نہیں پڑتا۔ لا الہ الا اللہ کا کلمہ اسے ایک ضابطۂ حیات اور نظام عمل پر کاربند کر دیتا ہے۔ اس نظام کے ارکان میں نماز ہے جو برائیوں سے روکتی ہے، روزہ ہے جو تن پروری پر پابندی لگاتا ہے، حج ہے جس سے ہجرت اور راہ خدا میں تکلیف اٹھانے کا سبق ملتا ہے، زکوۃ ہے جو مال کے حرص کو فنا کرکے مساوات کی تعلیم دیتی ہے، اس سے دولت بڑھتی اور دولت کی محبت کم ہوتی ہے: ہر کہ بر خود نیست فرمائش رواں می شود فرماں پزیر از دیگراں تا عصائے لا الہ داری بدست ہر طلسم خوف را خواہی شکست ہر کہ حق باشد چو جاں اندر تنش خم نہ گردد پیش باطل گردنش خوف را در سینۂ او راہ نیست خاطرش مرعوب غیر اللہ نیست جب ضبط نفس سے انسان کے ا ندر یہ کیفیت پیداہو جاتی ے تو اس کا مقام اس طرح بلندہوتا ہے کہ وہ ذات و کائنات دونوں پر غالب آ جاتا ہے: اہل قوت شوزِ دردِ یا قوی تا سوار اشتر خاکی شوی سوم نیابت الٰہی: یہ آخری مرحلہ تربیت خودی کا ہے، جو دراصل خودی کے ارتقا کی آخری منزل ہے۔ اطاعت اور ضبط نفس کے نتیجے ہی میں انسان خلافتِ الٰہیہ کے بلند ترین منصب پر سرفراز کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا میں ابن آدم کے ریاض کا ثمر اوراس کی سخت کوشیوں کا انعام ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معرفت و ریاضت کا مقصد ترک دنیا اور فنائے ذات نہیں، جیسا بعض صوفیانے سمجھ لیا ہے، بلکہ یہ مقصد تسخیر کائنات ہے: کمالِ ترک نہیں، آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے، تسخیر خاکی و نوری نیابت الٰہی سے سرفراز ہونے والا عناصر پرحکم رانی کرتا ہے، فطرت کی قوتیں اس کے لیے مسخر کر دی جاتی ہیں، وہ کائنات کے جزو کل سے واقف ہوتا ہے، تجدیدِحیات کرتا ہے، تطہیر معاشرہ کرتا ہے، وہ نوع انسان کے لیے بشیر بھی ہے اورنذیر بھی، یہ مقما پیمبر ہے جو سب سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا۔ ذاتِ رسول ؐ تعلیم اسما سے بذریعہ وح فیضیاب ہو کر سبحان اللہ الذی اسری کی مشہور آیت کے مطابق معراج کی شب نظام کائنات کی آخری سرحد تک پہنچ گئی، جس سے عروج آدم خاکی کی انتہا کا اشارہ ملتا ہے۔ ذاتِ اقدس ؐ کو یدبیضا کی کرامت کے ساتھ ساتھ عصائے کلیمی کی طاقت بھی حاصل تھی۔ آپ ؐنے عمل کی کلید سے مسائل حیات کے سارے قفل کھول کر رکھ دیے۔ حضور ؐکی ذات پردۂ وجود پرایک بارنمودار ہو کر دنیا سے پردہ کر چکی ہے، لیکن خیرالبشر اورمرد کامل نے اپنی سیرت کا جو نمونہ عالم انسانیت کے سامنے پیش کیا ہے اور ارتقائے انسانیت کا جو سنگ میل آپ ؐ نے ستاروں سے آگے نصب کر دیا ہے وہ ہمیشہ اولاد آدم کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتا رہے گا۔ عصر حاضر اپنے مسائل کے حل اورمشکلات کو دورکرنے کے لیے سیرت رسول ؐکے نمونے پر ڈھلی ہو ئی شخصیت ہی کا منتظر ہے۔ لہٰذا شاعر نے بڑے والہانہ انداز سے اس شخصیت کے رونما ہونے کی آرزو اوراس کا استقبال و خیرمقدم کیا ہے: اے سوارِ اشہب دوراں بیا اے فروغ دیدۂ امکاں بیا رونق ہنگامۂ ایجاد شو در سوادِ دیدہ ہا آباد شو شورش اقوام را خاموش کن نغمۂ خود را بہشت گوش کن خیز و قانونِ اخوت سازدہ جام صہبائے محبت بازدہ باز در عالم بیار ایام صلح جنگجویاں را بدہ پیغام صلح نوع انساں مزرع و تو حاصلی کاروان زندگی را منزلی یعنی اس عظیم شخصیت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انسانیت کے امکانات کی تکمیل کرلے گی اور اس کے انکشافات و ایجادات رونق حیات کوانتہائی حدتک بڑھا دیں گے، وہ شخصی جنگ کی ماری ہوئی دنیا کو امن کا پیغام دے گا اور تفرقہ و انتشار کو ختم کر کے اخوت و مساوات کی ترویج کرے گا، ہر طرف پھیلی ہوئی نفرت کو محبت سے بدل دے گا۔ یہ توقع ختم رسالت کے مضمرات و اثرات سے پیداہوتی ہے اور شاعر گویا ختم الرسل ؐ کے ظہور ثانی کی تمنا کرکے نیابت الٰہی کے ساتھ ساتھ ضبط ِ نفس اور اطاعت یعنی تربیت خودی کے تینوں مراحل کی تکمیل کے لیے ایک نمونۂ کامل کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ واقعات ، مثالیں، نصیحتیں: تصور خوسدی کے مفاہیم و مضمرات واضح کرنے کے بعد شاعر نے چند تاریخی واقعات، کچھ مثالیںاوربعض نصیحتیں عبرت و بصیرت کے ل یے پیش کی ہیں۔ اسلامی تاریخ کے اولیں و زریں عہد صحابہ سے اس نے خاص کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کی کنیت بلکہ خطاب و لقاب، بوتراب کو لے کر اس کی بڑی فکر انگیز تشریح کی ہے۔ اس لفظ کا لغوی معنی خاکسار ہے، مگر اقبال نے اس کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے وہ اول تو یہ ہے کہ اپنی خاک کو خود قابو میں کیا جائے، تب یہی خاک اکسیر ہو جائے گی، دوسرے یہ کہ جس شخص نے اس طرح تسخیر ذات کرلی وہ سنگ خارا کے مانند ٹھوس اور سخت ہو جاتا ہے اور چٹان بن کر نہ صر ف حوادث کا مقابلہ بلکہ معاشرے کی تعمیر مضبوط بنیادوں پر کر سکتا ہے۔ یہی خودی کا راز اور اثر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اس راز کی حامل تھی اوران کے کارناموں نے وہ اثر دکھایا کہ ملت اسلامیہ کی تاریخ کے دورِ اول کے آخری میں فتنوں کے باوجود ملت کا شیرازہ برہم نہیں ہوا اورگرچہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ان کے بعد باقی نہیں رہی مگراس کے نمونے کی استواری حضرت علی ؓکے عمل سے واضح ہو گئی۔ سیرت علی ؓکا یہ سبق یاد رکھنے کے قابل ہے: مرد خود دارے کہ باشد پختہ کار با مزاج او بہ ساز روزگار گر نہ سازد با مزاج او جہاں می شود جنگ آزما با آسماں بر کند بنیاد موجودات را می دہد ترکیب تو ذرات را گردش ایام را برہم زند چرخ نیلی فام را برہم زند می کند از قوت خود آشکار روزگار نو کہ باشد سازگار مطلب یہ کہ ایک خود دار جواں مرد زمانے کے ساتھ مصالحت نہیں کرتا، زمانہ اس کے ساتھ مصالحت کرتا ہے، وہ جواں مرد ناموافق دنیا سے لڑتا ہے، اپنے ماحول کو بدل کر ایک نیا ماحول پیدا کرتا ہے، گردش ایام کی پروا نہیں کرتا، اس کے پُر قوت عمل سے ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ یہ باتیں حضرت علی ؓ کے بے لچک کردار اور ان کی اٹل حق پسندی کی طرف اشارے کرتی ہیں۔ حضرت معاویہ ؓکی دنیاداری کے ساتھ اس کے خلیفۂ چہارم نے کسی قسم کی مفاہمت روا نہیں رکھی، گرچہ افہام و تفہیم اور گفت و شنید اسلامی اخوت وخیر خواہی کے تحت وہ ضرور کرتے رہے۔ بہرحال، ان کی شہادت ااس عالم میں ہوئی کہ وہ خلالفت کے متعلق اپنے اصولی موقف پر قائم تھے۔ ان کی یہی صلابت و استواری بعد کے ادوار میں راہِ حق کے ہر مجاہد کو راستہ دکھاتی رہی اور اس کے سبب دنیا میں خلافت کی تجدید کے لیے متعدد اولوالعزم افراد سامنے آئے۔ حضرت شیخ علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پرلاہور میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ حاضر ہوئے تھے ۔ حکایت یوں ہے کہ مرو کے ایک نوجوان کو حضرت ہجویری نصیحت فرماتے ہیں: مثل حیوان خوردن آسودن چہ سود گربہ خود محکم نۂ بودن چہ سود خویش را چوں از خودی محکم کنی تو اگر خواہی جہاں برہم کنی گر فنا خواہی ز خود آزاد شو گر بقا خواہی بہ خود آباد شو چیست مردن از خودی غافل شدن توجہ پنداری فراق جان و تن؟ در خودی کن صورت یوسف مقام از اسیری تا شہنشاہی حرام از خودی اندیش و مرد کار شو مرد حق شو حامل اسرار شو حیوان کی طرح کھانے اور آرام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اگراپنی ذات محکم نہ ہو تو ہستی بے کار ہے، جو شخص خودی کی طاقت حاصل کر لیتا ہے وہ پوری دنیا کو زیر وزبرکر سکتا ہے، اپنے آپ سے بیگانہ ہو کر جینا موت ہے اور اپنے اندر آباد ہونا زندگی، جسم و جاں کی جدائی نہیں، خودی سے غفلت فنا ہے، خودی کی بدولت حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے قید خانے م یں رہے تو پھرا س کے تخت اقتدار پر بھی فائز ہو گئے، خودی کے تصور کا علم بردرا ہی دنیا میں کچھ کر دکھاتا اورزندگی کے بھید کھول دیتا ہے۔ قصہ ہے کہ ایک پرندہ پیاسا تھا۔ اسے ایک ہیرامل گیا۔ ا س نے اسے پانی سمجھ کر چونچ ماری تو اسے کھا نہ سکا۔ اس کے برخلاف شنبم کا ایک قطرہ خود بخود پرندے کے حلق میں ٹیک پڑا اور گھل گیا۔ اس سے درس ملتا ہے: غافل از حفظِ خودی یک دم مشو ریزۂ الماس شو، شبنم مشو پختہ فطرت صورتِ کہسار باش حامل صد بر دریا بار باش خویش را دریاب از ایجاب خویش سیم شو از بستن سیماب خویش نغمۂ پیدا کن از تار خودی آشکارا ساز اسرار خودی اپنی خودی کی حفاظت سے کبھی غا فل نہیں ہونا چاہیے اور قطرۂ شبنم کے بجائے ریزہ الماس بننا چاہی، کوہسار کی پختہ فطرت کودیکھے، اس کی چوٹیوں پر وہ بال منڈلاتے ہیں جن کے برسنی سے کتنے ہی دریا بہہ نکلتے ہیں۔ عرفا نِ نفس اثبات ذات سے پیداہوتا ہے، پارہ جم کر چاندی بن جاتا ہے، تارِ خودی سے نغمہ نکالنا اور خودی کے راز آشکار کرنا چاہیے۔ ایک بار کویلے اورہیرے کے درمیان مکالمہ ہوا تو ہیرے نے بیان دیا: فارغ از خوف و غم دو سواس باش پختہ مثل سنگ شو الماس باش می شود ازوے دو عالم ستیز ہر کہ باشد سخت کوش و سخت گیر مشت خاکے اصل سنگ اسود است کو سر از جیب حرم بیرون زد استق رتبہ اش از ط ور بالا نزشد است بوسہ گاہ اسود و احمرشداست در صلابت آبروئے زندگی است ناتوانی نا کسی نا پختگی است اپنے دل سے خوف و غم و وسوسہ نکال دو اورپتھر کی طرح سخت ہو جاؤ تو ہیرا بن جاؤ گے، جو سخت کوش و سخت گیرہوتا ہے اس سے دو عالم کو روشنی ملتی ہے۔ سنگ اسود بھی اصلاًایک مشتِ خاک تھا، مگرایک پتھر بن کر کعبہ کے اندر نصب ہوگیا اور اب اسے ہررنگ و نسل کے انسان حج کے موقع پر بوسہ دیتے ہیں۔ زندگی کی آبرو صلابت ہی میں ہے، ورنہ ناتوانی تو ایک نا کسی و ناپختگی اور بے عزتی ہے۔ حیات ملی و روایات ملّی: یہ بھی نظریۂ خودی کا ایک پہلو ہے کہ کسی ملت کی مسلسل بقا اسی وقت ممکن ہے جب اس کی مخصوص روایت مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں۔ اس نکتے کوایک حکایت سے واضح کیا گیا ہے ۔ ایک برہمن نے بہت تپسیا کی تھی اور تلاش حق میں گھومتا رہتا تھا۔ اس کی ملاقات ایک شخ سے ہوئی توانھوں نے اسے نصیحت کی کافر ہونی اور رہنے کے لیے بھی رشتۂ زنّار سے تعلق استوار کرنا پڑتا ہے اور اپنے آباؤ اجداد کے مسلک پر قائم رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقیدہ کوئی ہو، اس پرجم جانا اور اس کی تمام روایات کی پاس داری کرنا ہی جمعیت کا باعث ہوتا ہے، کفر بھی ہو توکامل ہو، محکم ہو۔ محض نظریاتی فلسفہ طرازی کافی نہیں ہے۔ حقیقت پسندانہ عمل درکار ہے: من نگویم از بتاں بیزار شو کافری؟ شایستۂ زنار شو اے امانت دار تہذیب کہن پشت پا برمسلک آبامزن گزر جمعیت حیات ملت است کفر ہم سرمایۂ جمعیت است تو کہ ہم درکافری کامل نۂ در خورِ طوفِ حریم دل نۂ اسی طرح ایک گنگا اور ہمالہ کے درمیان مکالہ ہوتا ہے تو ہر وقت بہتی ہوئی گنگاکو چٹان بن کر اپنی جگہ صدیوں سے کھڑا ہمالہ بتاتا ہے: زندگی بر جائے خود بالیدن است از خیابانِ گل چیدن است ہستی بالید و تا گردوں رسید زیر دا مانم ثریا آرمید ہستی تو بے نشاں در قلزم است ذرۂ من سجدہ گاِ انجم است چشم من بینائے اسرار و فلک آشنا گوشم ز پرواز ملک یعنی زندگی اپنی جگہ پر ورش پانے اور خیابان خودی کے پھول چننے کا نام ہے۔ پہاڑ کی ہستی خودی کی اس پرورش سے اتنی بڑھی کہ آسمان تک پہنچ گئی اور ثریا جیسا بلند ستارہ اس کے دامن میں جگمگاتا نظر آیا، گنگا بہہ کر سمندر میں گراورمل جاتی ہے، جب کہ ہمالہ کی چوٹی کوستارے سجدہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، پہاڑ اسرار فلک کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہ ے اور اس کے کان فرشتوں کی پرواز سنتے ہیں۔ اسرار خودیکے تقریباًآخری میں ملی حیات و روایات کا ذکر رموز بیخودی کی تمہید ہے۔خودی کے مراحل میں اطاعت ا ور ضبط نفس کے ساتھ ساتھ ملت کی جمعیت کی طرف اشارہ اقبال کی نظریۂ خودی میں توازن اورجامعیت پر ایک تاکیدی نشان لگاتا ہے۔ ا سی طرح خودی میں جو عمل کا عنصر ہے وہ بالآخر جہاد تک پہنچتا ہے، جو عمل کا بہترین نمونہ ہے، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ حق و صداقت اورعدل و انصاف کے لیے ہو، ملک گیری اوراقتدارپرستی یا خون ریزی و غارت گری کے لیے نہیں۔ چنانچہ اگلا بیان حکمت جہاد کے متعلق ہے۔ جہاد: جہاد ایک شرعی اصطلاح ہے۔ راہِ حق کی ہر جدوجہد ایک جہاد ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ زبان و قلم،درم و قدم سے اورضرورت ہو ہتھیار اٹھا کر دنیا میں خدا کا کلمہ بلند کرنے یا اسلام کے تحفظ و ترقی کے لیے ہر ممکن سعی کرے۔ ایک جملے میں حق کے لیے اور باطل کے خلاف بلیغ کوشش کا نام اصطلاحی طورپر جہاد ہے۔ خودی کے اثبات واظہار کا ایک مرحلہ و موقع جہاد بھی ہے بلکہ خودی کا ہر وہ عمل جو خدا کی خوشنودی کے لیے ہوتا ہے وسیع تر معنوں میں ایک جہاد ہے۔ لیکن جہاد کے پردے میں کسی ظلم و ستم کی اجازت نہیں دی جاسکتی، خود غرض اورمفاد پرستی جہاد میں روا نہیں ، کسی قسم کی خالص دنیوی منفعت نہ توجہاد کی محرک ہو سکتی ہے نہ مقصود۔ ایک حدیث کے مطابق ظالم حکمراں کے مقابلے میں حق کا کلمہ بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے، اس لیے کہ دوسری حدیث کی رو سے ایمان کاسب سے بڑا درجہ یہ ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکا جائے، جب کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کوقرآن حکیم نے امت مسلمہ کا مقصد وجود اورفریضۂ شرعی قرار دیا ہے۔ ظاہرہے کہ لوگوں کونیکی کا حکم دینے ا ورانھیں بدی سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کی ضرورت بھی ہوسکتی ہے اور جب یہ استعمال ناگزیر ہو جائے تو ہر گز اس سے دریغ نہیں کرناچاہیے۔ عدم تشدد نہ تواسلام کا عقیدہ ہے نہ فطرت انسانی کے مطابق ہے اور انتہائی عدم تشدد کا پرچار کرنے والے بھی انفرادی و اجتماعی زندگی کے متعدد ا مور میں تشددسے کام لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جو حکومت یا معاشرہ مجرموں اورفتنہ پردازوں کے ساتھ نرم کرے گا وہ باقی نہیں رہ سکتا۔امن کے قیام کے لیے بدامنی پر روگ لگانے کی اہمیت معلوم ہے۔ کائنات رزم خیر وشر کا میدان ہے۔ لہٰذا شر کے توڑ اورخیر کے فروغ کے لیے تدبیر کرنی ہوگی۔ حق و ناحق کے مقابلے میں کوئی غیرت مند انسان غیر جانب دار نہیں رہ سکتا۔ اسے حق کی طرف داری کرنی ہی ہے، خواہ وہ فطرت سے پُر ہو۔ فطرت لہو ترنگ ہے، جل ترنگ نہیں، لہٰذا زورِ دست و ضربت کاری سے کام لینا ہوگا، یہ زندگی کے سنگین حقائق کا تقاضا ہے، جس کی تکمیل خودی کی قوت شو کت کا ثبوت ہے۔ نرم کے ساتھ نرمی اور درشت کے ساتھ درشتی کے بغیر روئے زمین پر کوئی نظام نہ قائم ہو سکتا ہے نہ باقی رہ سکتا ہے ۔ جلال کے بغیر جمال بے تاثیر ہے۔ حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ کاواقعہ ہے کہ ایک بارجنگ کے دوران جب بادشاہ وقت ان کی دعا لینے گیا توانھوں نے ا سے بہت نصیحت کی اور عبرت دلائی، ایک طرف تو اسلامی جہاد کی حکمت بتائی اورکہا کہ کلمہ ٔ لا الہ الا اللہاورآیت صبغتہ اللہ کی شان جہاد سے آشکار ہوتی ہے، لیکن دوسری طرف اسے سخت تنبیہ بھی کی کہ جوع الارض میں مبتلا نہ ہو اور دولت و سطوت کے لیے سماج کوفتنے میں نہ ڈالے، اس لیے کہ جو فوج کشی اورلشکر آرائی مال غنیمت اورکشورکشائی کے لیے کی جاتی ہے وہ نہ صر ف ملک و ملت کو فنا کر دیتی ہے بلکہ جنگ بازکے لیے بھی خود کشی کا پیغام لاتی ہے: صلح شر گرد د چو مقصود است غیر گر خدا باشد غرض، جنگ است خیر گر نہ گردد حق ز تیغ ما بلند جنگ باشد قوم رانا ارجمند آتش جان گدا جوع گداست جوع سلطان ملک و ملت را فناست ہر کہ خنجر بہر غیر اللہ کشید تیغ او در سینۂ او آرمید ملت خودی کا انحطاط: ملت ا سلامیہ تاریخ انسانی میں خودی کا سب سے عظیم نمونہ ہے، مگریہ اپنا پیغام فراموش کر چکی ہے اوراس کا کردار بگڑ چکا ہے۔ امت مسلمہ کے اس زوال و انتشار پر ایک صاحب دل صوفی، میر نجات نقش بند المعروف بہ بابائے صحرائی ہندوستان کے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہیں: از خودی مگذر بقا انجام باش قطرۂ می باش و بحر آشام باش تو کہ از نورِ خودی تابندۂ گر خودی محکم کنی پایندۂ دانش حاضر حجاب اکبر است بت پرست و بت فروش و بت گراست پا بہ زندان مظاہر بستۂٖ از حدود حس بروں ناجستۂٖ اے امین حکمت ام الکتاب وحدت گم گشتۂ خود بازیاب ما کہ دربان حصار ملتیم کافر از ترک شعار ملتیم دل ز نقش لا الہ بیگانۂ از صنم ہائے ہوس بت خانۂ چند اشعار میں ملت کے اصل مرض کی تشخیص کی گئی ہے۔ سب سے پہلے بتایا گیا ہے کہ بقا اسی کو نصیب ہوتی ہے جو خودی کی نگہداشت کرتا ہے، اگرخودی سلامت ہے تو قطرہ سمندر میں فنا ہونے کے بجائے سمندر ک و اپنے اند رجذب کرلیتا ہے، مسلمانوں کی ساری آب و تاب خودی کی روشنی سے ہے ان کا استقلال و استحکام اسی وقت تک ہے جب تک ان کی خودی محکم ہے۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ دانش حاضر مسلمانوں کے لیے حجاب اکبر بن گئی ہے، جدید علوم کی ظاہری چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہے، انھیں ایک نئے انداز کی بت پرستی سکھا رہی ہے، خرد کے نظریات مظاہرپرستی پر مبنی ہیں اور ان کی رسائی حواس ظاہری تک محدود ہے، چنانچہ آج کے مسلمان مادہ پرستی کے سطحی جلووں میں گم ہو رہے ہیں اوراپنی حقیقت نیز حقائق حیات کو نظر انداز کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے حکیمانہ نکات کو بھول کر وہ تفرقہ و انتشار میں مبتلا ہو گئے ہیں، انھوں نے شعارِ ملت چھوڑ دیا ہے اور قصر ملت کی پاسبانی سے قاصر ہورہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل نقش لا الہسے بیگانہ ہو چکے ہیں اور ضم ہائے ہوس کا بت خانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس بیان میں دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہے۔ وقت اور تقدیر فلسفۂ کودی کے سلسلے میں وقت اقبال کا ایک اہم موضوع ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حد سے بڑھی ہوئی تقدیرپرستی میں مبتلا ہو کر مسلمان اپنی اصلاح سے غافل ہو رہے ہیں اورنشاۃ ثانیہ کی فکر نہیں کر رہے۔ لہٰذا اقبال نے بہت زور و شور سے فلسفۂ زمان اور تصورِ تقدیر کی غلط تعبیروں پر سخت ترین تنقیدیں کیں اور لوگوں کو وقت و تقدیر کے صحیح تصور پر غور و فکر کی دعوت دی۔ انھوں نے بتایا کہ خدا کی مشیت اس کی مدد کرتی ہے جواس کے احکام بجا لاتا ہے اور اس کے مقررہ کردہ قوانین فطرت کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ انفرادی واجتماعی خودی کا عرفان اور اس کی روشنی میں عمل وقت اور تقدیر کے سارے مسائل حل کر سکتا ہے: تا کجا در روز و شب باشی اسیر رمز وقت ازلی مع اللہ یاد گیر وقت را مثل مکاں گستردۂٖ امتیازِ دوش و فردا کردۂ زندگی از دہر و دہر از زندگی است لا تسبو الدھر فرمان نبی است عبد را ایام زنجیر است و بس بر لب او حرفِ تقدیر است و بس ہمت حُر با قضا گرد و مشیر حادثات از دست او صورت پزیر رفتہ و آیندہ در موجود او دیر ہا آسودہ اندر زودِ او نغمۂ خاموش دار د ساز وقت غوطہ در دل زن کہ بینی رازِ وقت اعتبار از لا الہ داریم ما ہر دو عالم رانگہ داریم ما از غم امروز و فردا رستہ ایم با کسے عہد محبت بستہ ایم ذات ما آئینہ ذاتِ حق است ہستی مسلم ز آیاتِ حق است مطلب یہ کہ تم ر وز و شب کے کب تک اسیر رہو گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو یاد کرو کہ ’’میرے لیے اللہ کے ساتھ ایک وقت ہے‘‘ تم نے زمانے کو مکان کی طرح بچھا لیا ہے اور گزشتہ و آئندہ لمحات کے درمیان فرق کرتے ہو، زندگی اور دہر ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں، نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا فرمان ہے کہ ’’زمانے کو برا نہ کہو، اللہ ہی زمانہ ہے‘‘۔ گردش ایام کے پابند غلام ہوا کرتے ہیں اور وہ ہر وقت تقدیر کی دہائی دیتے رہتے ہیں، جب کہ آزاد انسان مشیت الٰہی کے مطابق دلیری سے زندگی گزارتے ہیں اور زمانے کے حوادث ان کے عمل سے پیداہوتے ہیں، ماضی و حال دونوں آزاد انسان کے زمانۂ حال میں شامل ہوتے ہیں، وقت تو ایک نغمۂ خاموش ہے، اس کاراز جاننے کے لیے اپنے دل کی گہرائیوں میں غوطہ لگانا چاہیے، دنیا میں مسلمانوں کا اعتبار لا الہ الا اللہ کے کلمے سے ہے اور اسی دولت توحید کے طفیل انھیں کائنات کا نگراں بنایا گیا ہے، خدا اور رسول کی محبت میں سرشار ہو کر مسلمان امروز و فردا کی فکر سے آزاد ہو جاتے ہیں، مسلمان کا کردار ذاتِ حق کا آئینہ ہے اور ہستی مسلم ا یک آیت حق ہے۔ اسرار خودی ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم انسان کی نظر باطن سے پہلے خارج پر پڑتی ہے۔ آنکھ خارج کی ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ کہتے ہیں کہ عرفان کی تین قسمیں یا تین پہلو ہیں۔ دنیا شناسی، خدا شناسی اور خود شناسی خود شناسی! اقبال نے بھٰ جب انسان کی بے بضاعتی کے متعلق خدا سے شکایت کی تو یہی کہا کہ کیا یہ تیرے ہنر کا شہ کار ہے جو نہ خود بیں ہے، نہ خدا ہیں اور نہ جہاں ہیں؟ انسان مادی اور حیوانی حیثیت میں اپنے ماحول سے دست و گریبان ہوتا ہے۔ گرد و پیش کی اشیا اور حوادث کی ماہیت کو سمجھنا اس کے لیے تنازع للبقا میں ناگزیر ہوتا ہے۔ خارجی مطابقت اور مخالفت سے فرصت ملے تو سوچے کہ خود میری ماہیت کیا ہے، یا میں اور میرا ماحول، میری موافق اور مخالف قوتیں کہاں سے سرزد ہوتی ہیں؟ زندگی میں ہر جگہ پیکار اضداد نظر آتی ہے۔ کیا یہ کشاکش ازلی متخاصم قوتوں کی مسلسل جنگ ہے یا یہ اضداد کسی ایک اصل وحدت کے متضاد نما پہلو ہیں؟ انسان کے پاس خارج کو سمجھنے کے لیے بھی خود اپنے ہی نفع و ضرر اور اپنے ہی جبلتوں کے سانچے ہیں۔ اس نے فطرت کی قوتوں کو اپنے اوپر قیاس کیا اور اپنی خواہشوں کے دیوتا بنا لیے۔ وہ خود اپنے تصورات کو مشخص کر کے ان کو لا متناہی قوتوں کا حامل بنا کر ان سے مرعوب ہو گیا۔ ان کو راضی رکھنے کے لیے اپنی عزیز ترین چیزوں اور خود اپنے آپ کو ان پر بھینٹ چڑھانا شروع کیا۔ اپنی حقیقی خودی سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے وہ ہستی جس کو تسخیر فطرت کی صلاحیت ودیعت کی گئی تھی، خود فطرت کی قوتوں سے مسخر اور مغلوب ہو گئی۔ ابھی انسان اپنی حقیقی خودی سے آشنا نہ ہوا تھا وہ اپنے آپ کو فقط حیوانی جبلتوں کا حامل سمجھا اس لیے اس نے جو دیوتا تراشے وہ بھی انہیں متلون اور عارضی خواہشوں کے مجسمے تھے۔ وہ خارج میں جن دیوتاؤں کی پرستش کرتا رہا وہ اس کی اپنی خود کے بگڑے ہوئے تصورات تھے۔ ان دیوتاؤں کے بت زبان حال سے پجاری کو کہہ رہے تھے: مرا بر صورت خویش آفریدی بروں از خویشتن آخر چہ دیدی اس تصور حیات اور اس انداز پرستش سے انسان کو نہ وجود مطلق کی ماہیت تک کچھ رسائی ہوئی اور نہ وہ اپنی ذات کا کوئی صحیح اندازہ لگا سکا۔ تکثیر یا کثرت اصنام کا راستہ چھوڑ کر انسان نفس وحدت کا جویا ہوا لیکن جب کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اس کا ابتدائی تصور وجود خارجی کائنات ہی کا تصور تھا، اس لیے اس نے خارج ہی کی کثرت اور گونا گوں کو کسی ایک وحدت میں منسلک کرنے کی کوشش کی۔ یونانیوں کے پہلے مفکر ؟؟؟؟؟ نے کہا کہ وجود مطلق فقط پانی ہے۔ پانی ہی ہر وجود ؟؟؟؟؟؟؟؟ ہے۔ تمام ٹھوس چیزیں بھی پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ؟؟؟؟ زندہ اور غیر زندہ میں، یعنی جمادات، بناتات اور حیوانات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ؟؟؟؟؟ زندگی کے تمام کوائف اور نفس کی تمام ؟؟؟؟؟؟ ہی میں بالقویٰ اور بالفعل پائی جاتی ہیں۔ اس نظریۂ وجود کو تاریخ فلسفہ میں ہائی لوزوازم کہتے ہیں، جس مٰں مادیت، نفسیت اور حیاتیت ابھی ایک دوسرے سے متمیز نہیں ہیں۔ اس نظریے کے مطابق نہ کائنات میں کوئی نفس یا خودی ہو سکتی ہے اور نہ انسان کے اندر۔ زندگانی ہر جگہ آنی جانی اور پانی ہی پانی ہے۔ اور چیزوں کی طرح آدمی بھی پانی ہی کا بلبلہ رہ گیا۔ انسانی اقدار، انسانی جذبات اور تمنائیں کوئی مستقل حقیقت نہیں رکھتیں۔ بقول سحابی نجفی: دریا بوجود خویش موجے دارد خس پندارد کہ ایں کشاکش با اوست یونانی مفکرین ارتقاے فکر میں رفتہ رفتہ تجسم سے تصور کی طرف، جسم سے نفس کی طرف یا خارج سے باطن کی طرف آتے گئے۔ انہوں نے کثیف مظاہر میں لطیف حقائق کا کھوج لگانا شروع کیا۔ فیثاغورث نے دیکھا کہ خارجی عالم میں ہر جگہ تناسب، توازن اور اندازہ پایا جاتا ہے۔ ریاضی کے اصول ہر جگہ غیر متبدل طور پر کار فرما ہیں۔ خاک کے اعمال ہوں یا افلاک کے حرکات، سب کے سب ریاضی کے اٹل اصولوں کے مطابق ہیں۔ دو اور دو چار چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ لیکن مجرد طور پر دو اور دو کے اعداد مل کر چار ہی رہتے ہیں اور ہر چیز کی تعمیر کی اصل یہی ہے کہ اس میں ریاضی صورت پذیر ہو گئی ہے۔ ریاضی میں نہ کسی کی خواہش کو دخل ہے اور نہ ارادے کو۔ ریاضی ہی وہ حقیقت ہے جسے ’الان کما کان‘ کہہ سکتے ہیں۔ ریاضی کے اصول اصلاً اور ازلاً ساکن ہیں۔ اشیا اور حوادث میں کون و فساد یا حرکت ہو سکتی ہے، لیکن اصول میں کوئی حرکت نہیں ہو سکتی۔ علت و معلول کا سلسلہ حرکیاتی سلسلہ نہیں بلکہ قضایاے اقلیدس کی طرح کا سلسلہ ہے۔ یونانی فلسفہ ترقی کرتا ہوا سقراط، افلاطون اور ارسطو کے مقولات تک جا پہنچا۔ پہلے تغیر اور ثبات کے نظریات میں کشمکش ہوتی رہی۔ کسی نے کہا کہ وجود مطلق بے تغیر و بے حرکت ہونا چاہیے۔ لہٰذا تغیر یا حرکت ادراک کا دھوکا ہیں۔ یونانیوں پر یہ تصور زیادہ تر غالب رہا کہ حقیقت غیر متغیر ہونی چاہیے۔ جہاں تبدل اور تغیر نہیں ہوتا۔ البتہ ایٹموں کی ترکیب یا قرب و بعد سے چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ اس کون و فساد کے قوانین لاشعوری ہیں۔ ان میں اقدار پروری یا مقصد کوشی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو مادے سے نفس کی طرف آئے۔ نفس نے خارج کی طرف سے منہ پھیر کر باطن کا رخ کیا تو ان کو نفس عقل منطقی کا کرشمہ دکھائی دیا۔ خارج کی کائنات بھی عقل سے وجود میں آتی اور اس کی بدولت قائم رہتی ہے۔ باطن کی نفسی کائنات بھی عقل کی بدولت وجود مطلق کا عرفان حاصل کرتی اور افکار و جذبات کی کثرت کو ایک وحدت میں پروتی ہے۔ لیکن عقل بھی کوئی انفرادی چیز نہیں؛ عقل کلیت کی مرادف ہے۔ عقل کا عالم کلیات کا عالم ہے۔ اس میں خودی یا شخصیت یا ارادے کا کوئی سوال نہیں۔ عقل کے تمام کلیات از روئے منطق ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں۔ اشیا اور حوادث کی متغیر کثرت غیر متغیر تصورات سے بہرہ اندوز ہونے کی ناکام اور مضطرب کیفیت ہے۔ خدا عقل نہیں بلکہ خود عقل کل ہے۔ وہ خود ہی اپنے شعور کا معروض ہے۔ اس کو اپنے سوا کسی کا علم نہیں ہو سکتا۔ ماسوا کا حقیقی وجود ہی نہیں اس لیے اس کے علم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انسانی نفوس میں جو خواہشوں اور ارادوں کا عنصر ہے وہ تغیر کے عالم سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا بے حقیقت ہے۔ انفرادی نفس میں حقیقت اتنی ہی ہے جس حد تک کہ وہ عقل کل سے بہرہ اندوز ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت یا مخصوص تقدیر نہیں۔ اس نظریے سے افلاطون اور ارسطو دونوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عقل یا علم اصلی چیز ہے اور عمل اس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ بہترین زندگی عمل اور مقاصد آفرینی کی زندگی نہیں بلکہ عقل کل کا تماشائی ہونا ہے۔ خدا جو تمام وجود کا ماخذ اور نصب العین ہے وہ بھی غیر متحرک اور غیر فاعل ہے۔ دنیا کی زندگی حقیقت کا سایہ ہے یا ہندوؤں کی اصطلاح میں یوں کہیے کہ مایا ہے یا حقیقت کے مقابلے میں بے مایہ ہے۔ اقبال افلاطون کے اس نظریۂ وجود کا شدید مخالف ہے۔ وہ اس کو اساسی طور پر غلط قرار دیتا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ اسی نظریہ وجود کے زیر اثر زندگی سے فرار کے نظریات پیدا ہوئے ہیں جن سے انسانی زندگی ارتقا اور تخلیق سے محروم ہو گئی ہے۔ اقبال کے نزدیک وجود کی حقیقت عقل نہیں بلکہ عمل ہے۔ عقل عمل سے پیدا ہوتی اور اس کا آلۂ کار بنتی ہے۔ اصل حیات تسخیر و تخلیق اور مقاصد آفرینی ہے۔ وجود کی حقیقت ایک اناے مطلق ہے جو خلاق ہے اور یہ ’انا‘ اپنی مسلسل خلاقی میں لاتعداد انا یا نفوس مقاصد کوش پیدا کرتا ہے۔ زندگی جذبۂ آفرینش ہے۔ عمل آفرینش ہی سے اس کو اپنا عرفان حاصل ہوتا ہے اور عمل ہی اس کی لامتناہی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ سکون سے زندگی کا تماشا کرنے سے زندگی کی ماہیت معلوم نہیں ہو سکتی کیوں کہ زندگی ایک مسلسل حرکت ہے اور عقل کے تصورات ازلی طور پر ساکن اور جامد ہیں۔ ساحل افتادہ نہ اپنی ماہیت سے آشنا ہو سکت اہے اور نہ اس دریا کی حقیقت سے جو اس کے آغوش میں متلاطم ہے۔ اقبال نے اپنا یہ نظریہ کس خوبصورتی اور بلاغت سے بیان کیا ہے: ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من کیستم موج ز خود رفتہ اے تیز خرامید و گفت ہستم اگر میروم گر نہ روم نیستم افلاطون کے ہاں موج متحرک ہے، لیکن موج کا عقلی تصور ساکن ہے اور یہ ساکن عقلی تصور متحرک موج کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہے۔تموج کے مقابلے میں اس کا محض تصور قائم کرنا ایک الٰہی انداز ہے۔ عاقل کا وظیفۂ حیات یہی ہونا چاہیے کہ وہ خود تھپیڑے نہ کھائے بلکہ عقل کے ساحل پر بیٹھا ہوا سبکسار ہو کر اس کے غیر متغیر اور غیر متموج تصور میں اپنے تئیں کھو کر اپنی حقیقت کو پائے۔ اقبال کے ہاں زندگی مقدم ہے اور عقل مؤخر۔ زندگی جو کچھ پیدا کرتی ہے عقل بعد میں اس کا جائزہ لے کر اس میں قواعد و ضوابط کو دھونڈتی ہے۔ حریم حیات میں عقل حلقۂ بیرون در ہے۔ وہ آستان سے دور نہیں ہے، لیکن اس کی تقدیر میں حضور نہیں ہے۔ زندگی آپ اپنا نور پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس نور کو اگر عقل نار حیات سے الگ کر کے ایک ازلی مجرد حقیقت سمجھ لے تو معقولات ظلمت کدہ بن جاتے ہیں۔ زندگی کا آب حیات تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اقبال افلاطون کی بابت کہتا ہے کہ: رخش او در ظلمت معقول گم در کہستان وجود افگندہ سم آنچناں افسون نا محسوس خورد اعتبار از دست و چشم و گوش برد اقبال کہتا ہے کہ محسوس کو نامحسوس کے مقابلے میں بے حقیقت قرار دینا انسان کو عالم رنگ و بو سے بے تعلق کر دیتا ہے۔ اسی سے فرار اور گریز پیدا ہوتا ہے اور رہبانیت کو تقویت حاسل ہوتی ہے، جس کی نفس کشی حیات کشی کے مرادف ہے اور اسی لیے اسلام نے مرد مومن کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ قران کریم کی تعلیم ہے کہ مظاہر و حوادث انفس و آفاق آیات اللہ ہیں۔ یہ سراسر حقیقت ہیں؛ نہ باطل ہیں نہ فریب ادراک، اور نہ اس سے گریز کر کے عرفان نفس یا عرفان خدا حاصل ہو سکتا ہے۔ تصوف کے ایک حصے پر افلاطون رنگ چڑھ گیا اور صوفی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ: چشم بند و لب ببند و گوش بند گر نہ بینی نور حق بر من بخند اقبال اس افلاطونی تصوف کے خلف آواز بلند کرتا ہے جو عالم محسوسات کو مایا قرار دے اور خلقت کو باطل ٹھہرائے: بر تخیلہاے ما فرماں رواست جام او خواب آور و گیتی رباست گوسفندے در لباس آدم است حکم او بر جان صوفی محکم است مسلمانوں کے متصوفانہ فلسفے نے افلاطون کے اعیان ثابتہ یا ازلی غیر متغیر معقولات کو اپنے فکر کا جزو لاینفک بنا لیا جس کا نتیجہ اقبال کے نزدیک یہ ہوا کہ صوفی بھی ہنگامہ وجود کا منکر اور اعیان نامشہود کا پرستار ہو کر بود کو نابود اور نابود کو بود کہنے لگا۔ لیکن اس قسم کا گیتی گریز تصور خود سقراط، افلاطون اور ارسطو کی زندگیوں پر کوئی سلبی اثر نہ ڈال سکا۔ یہ تینوں مفکرین اخلاقیات اور سیاسیات پر گہری بحثیں کرتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں کوشاں رہے کہ معاشرے کو زیادہ عاقلانہ اور عادلانہ اصول پر از سر نو تعمیر کیا جائے۔ جماعت کی حکمرانی اور نگرانی سقراط اور افلاطون ایک ایسے منتخب گروہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو عقل اور ایمان کے کماحقہ تحقق کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ سے تزکیہ نفس کر چکے ہوں۔ اقبال نے اسرار خودی میں افلاطون کے نظریہ حیات کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ افلاطون کی زندگی اور اس کی وسعت فکر سے ناآشنا ہیں ان کو اسرار خودی کے اشعار سے یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ افلاطون فرد اور جماعت کے مسائل اور معاملات کو بے حقیقت سمجھتا ہے اور عالم انسانی کو اعیان ثابتہ یا مجرد کی افیون کھلا کر بے حس اور بے عمل بنانا چاہتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے واقعات اس کے بالکل برعکس رہے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید میں اس کی گنجائش نہیں کہ اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا جائے کہ افلاطون سے لے کر آخری معاشرتی انقلاب، یعنی اشتراکیت تک، سوسائٹی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کی جو فکری یا عملی کوششیں ہوئی ہیں وہ کم و بیش افلاطونی فکار سے متاثر ہیں۔ اقبال نے ایام شباب میں اپنے متعلق یہ کہا تھا: اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ سنبل نے، کچھ گل نے، چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری اڑا لی طوطیوں نے، قمریوں نے، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری بعینہٖ یہی کچھ افلاطون کے ساتھ ہوا۔ مشرقی فلسفے کے متلق خواہ کچھ کہیے لیکن مغربی فلسفے کے متعلق تو یہ کہنا نادرست ہو گا کہ وہ تمام کا تمام دنیا سے گریز کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن مغرب کے عظیم نظامات فکر کے متعلق ہائرش رکرٹ جیسے جرمن مفکر اور وہائٹ ہیڈ جیسے انگریزی فلسفی کی رائے ہے کہ یہ سب کے سب افلاطون ہی کی تشریحات ہیں۔ مارکس، لینن، مسولینی اور ہٹلر جیسے معاشرتی انقلاب کی آرزو مند اور اپنے عمل سے دنیا کو تہ و بالا کرنے والے، خواہ اس کا نتیجہ تخریب ہو یا تعمیر، افلاطون ہی کی کتاب سے کچھ کچھ ورق اڑاتے رہے ہیں۔ دوسری طرف رومن کیتھولک کلیسا کی تنظیم بھی بہت کچھ اس کے افکار کا عکس ہے۔ سقراط جس کی زبان سے افلاطون نے اپنا نظریہ حیات بیان کیا ہے، اصلاح معاشرت کی کوشش میں شہید ہو گیا۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اقبال نے افلاطونی افکار ک اثر بعض لوگوں پر اچھا نہیں ہوا اور اس کے نظریہ وجود سے، فرار عین الحیات کا نتیجہ از روے منطق حاصل ہوتا ہے۔ قسم کے حیات گریز تصوف کو اقبال نے مسلمانوں کے لیے افیون قرار ؟؟؟؟ وہ افلاطون سے کہیں زیادہ فلاطینوس اسکندری سے حاصل کردہ ہے، جس کے افکار کا اسلامی فلسفۂ اشراق اور عیسوی تصوف پر گہرا نقش نمایاں ہے۔ افلاطون راہب نہیں تھا اور نہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے متوازی اور متناسب طور پر لطف اٹھانے والے یونانی اس مزاج کے تھے۔ وہ خود بھی اپنے مجرد تصورات میں گم ہو کر علائق حیات سے بے تعلق نہیں ہوا۔ اس کا گھر ایتھنیا کی تمام علمی زندگی کا مرکز تھا۔ ایسے شخص کے متعلق جو عدل کا ایک انقلابی تصور قائم کر کے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں سائرا کیوز کی ریاست سے خارج کیا گیا ہو اور بحری ڈاکوؤں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ہو، یہ کہنا ناانصافی معلوم ہوتی ہے کہ: ذوق روئیدن ندارد دانہ اش از طپیدن بے خبر پروانہ اش راہب ما چارہ غیر از رم نداشت طاقت غوغاے ایں عالم نداشت دل بسوز شعلۂ افسردہ بست نقش آں دنیاے افیوں خوردہ بشت حقیقت یہ ہے کہ اس نے زندہ قوموں کو ذذوق عمل سے محروم نہیں کیا اور ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ سے محروم اور بے عملی یا بدعملی سے مسموم ہو چکی تھیں، انہوں نے افلاطونی افکار کی انحطاط انگیز تاویل کر لی۔ افلاطونی فلسفے کا بھی اسی قسم کا حشر ہوا جو اسلام میں نظریۂ تقدیر کا ہوا۔ جب تک مومنوں میں قوت ایمان، قوت عمل اور تنظیم حیات صالحہ موجود تھی اس وقت تک تقدیر کا تصور ان کی قوت عمل و ایثار کو تقویت پہنچاتا تھا۔ اس کے بعد عشرت پسندوں اور تن آسانوں نے ترک سعی کو توکل سمجھ لیا اور سب کچھ مقدر ہونے کی وجہ سے سعی کو بے کار جاننے لگے۔ اس میں قرآن کریم کی تعلیم تقدیر کا قصور نہ تھا، بے عملی نے اپنی غلط تاویلوں کو اسلامی بنا لیا تھا۔ اقبال کے معاصرین میں خودی کے فلسفے کو پیش کرنے والے اور بھی اکابر مفکرین ہیں جن کے افکار سے اقبال پوری طرح آشنا تھا۔ ان میں سے بعض کا مداھ اور بعض سے کم و بیش متاثر بھی تھا۔ نطشے، فشٹے، گرگساں اور ولیم جیمز کے نظریات ماہیت وجود بہت کچھ وہی ہیں جو اقبال کی تعلیم میں بھی ملتے ہیں۔ اس سے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال ان کا مقلد تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے ان مفکرین سے بہت کچھ ھاصل کیا لیکن یہ اقبال کے کمال پر کوئی دھبا نہیں۔ اقبال ان سب سھ کسی ایک پہلو میں متفق ہے اور کسی دوسرے اساسی پہلو میں شدید اختلاف رائے بھی رکھتا ہے۔ جہاں تک نطشے کا تعلق ہے، میں اس کے متعلق اپنے مقالے ’’نطشے، رومی اور اقبال‘‘ (مطبوعہ انجمن ترقی اردو) میں مبسوط بحث کر چکا ہوں جسے یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ اقبال کا ایک مخصوص انداز فکر اور نظریۂ حیات تھا۔ اس نخل کی پرورش اس نے مختلف عناصر سے کی۔ ان میں سے کچھی عناصر خاص قرآنی تعلیم کے ہیں، کچھ رومی کی صوفیانہ تاویل اور روحانی تجربے کے، کچھ مغرب کے ان مفکرین کے افکار کے، جن کا اقبال ہم نوا ہے یا جو اقبال کے ہم صفیر ہیں۔ اقبال کا مغربی فلسفے کا مطالعہ نہایت وسیع اور گہرا تھا۔ اس میں سے جو کچھ اس کے خاص فلسفۂ حیات کے مطابق تھا اس نے اخذ کیا اور جو کچھ اس سے متخالف تھا اس کو رد کر دیا۔ اقبال جیسے کسی مفکر کا کلام ہو یا کوئی مذہبی صحیفہ ہو، اس کی خوبی اور کمال یہ نہیں ہوتا کہ اس میں ہ باتیں درج ہیں جو دوسروں نے نہ کہی ہوں۔ پہلی تعلیموں کے بیش بہا عناصر اس میں موجود ہوتے ہیں، لیکن ان کی ترکیب ایک نئے حیات آفریں انداز سے ہوتی ہے۔ سنگ و چوب و خشت ہر تعمیر میں کم و بیش ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن مہندس اور معمار کاکمال اپنے ہنر اور تصور سے اس میں مخصوص قسم کی آسائش اور زبیائش پیدا کر دیتا ہے۔ گوئٹے نے ایکڑمن سے دوران گفتگو میں ایک مرتبہ کہا، کہ ’’لوگ بڑے بڑے مفکرین کے افکار کا تجزیہ کرنے لگ جاتے ہیں، اور الگ الگ ایک ایک عناصر کا ماخذ بتانا ان کا شیوۂ تحقیق ہوتا ہے، لیکن کیا اس سے ایک بڑے فن کار یا مفکر کی انفرادی شخصیت یا اس کی مخصوص اپج کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص گوئٹے کی تحلیل اور تجزیہ اس طرح کرے کہ اس نے اتنے بکرے، اتنی سبزی ترکاری اور اتنی گندم کھائی؛ اس سب کو ملا کر گوئٹے بن گیا۔ لہٰذا گوئٹے کی ماہیت سمجھ میں آگئی‘‘۔ اسرار خودی میں جیاس کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، ان مفکرین مغرب کے افکار کو پر تو نظر آتا ہے جو اقبال کے ہم مزاج ہویں اور جن کے افکار کسی پہلو کو اقبال نے اپنے نظریۂ حیات کا مؤید سمجھا ہے۔ مثلاً اس بیان میں کہ اصل نظام عالم خودی ہے اور تعینات وجود کی ذمہ ار بھی خودی ہے، وہ مشہور جرمن فلسفی فشٹے کا ہم نوا ہو کر کہتا ہے کہ کائنات کا وجود یا پیکر ہستی خودی ہی کا نتیجہ ہے۔ عالم ادراک اور عالم آب وگل یا تصوف کی زبان میں یوں کہیے کہ ما سوا کا وجود خدا کی خودی سے سرزد ہو اہے۔ خودی کی ماہیت خلاقی اور ورزش ارتقا ہے۔ نفی اثبات خود اثبات کا تقاضا ہے۔ جس غیر کو خودی نے اپنے ممکنات وجود کو ظہور میں لانے کے لیے خلق کیا ہے وہ ایک لحاظ سے غیر ہے اور د وسرے لحاظ سے خودی ہی کا مظہر ہے: صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیہ است از اثبات او درجہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پنداشت است سازد از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را اقبال کہتا ہے کہ یہ ایک طرح خودی کی خود فریبی ہے،۔ اقبال جس خودی کا ذکر کرتا ہے وہ انسانوں کے انفرادی انا کی خودی ہی نہیں بلکہ خدا کی خودی ہے، جو مصدر خلقت ہے۔ مسلمہ اسلامی عقیدۂ توحید عام طور پر اس انداز سے بیان نہیں ہوتا۔ اسرار خودی کے عام قارئین نے اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی کہ اقبال جس مطلق خودی کا ذکر کر رہا ہے وہ وجود مطلق اور ذات واجب الوجود کی ماہیت ہے۔ لیکن خدا کی نسبت مومن یہ کس طرح گوارا کرے گا کہ اس قسم کے عقائد بیان ہوں کہ آفرینش حیات و کائنات سے خدا نے ورزش ارتقا کی خاطر تخم خصومت بویا ہے اور عالم آفرینی ایک طرح کی خود فریبی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے ہاں وجود سرمدی کا تصور عام توحید پرستوں سے بہت کچھ الگ ہو گیا ہے۔ خدا ’الان کماکان‘ بھی ہے اور ’کل یوم ہو فی شان‘ بھی ! اقبال نے خدا کا لا تبدیل سرمدی پہلو نظر انداز کر دیا ہے اور مسلسل تغیر اور ارتقا اور لامتناہی خلاقی کی صفت اس پر بہت زیادہ منکشف ہوئی ہے۔ وہ صوفیائے کرام کے اس مقولے یا روحانی تجربے کا بھی شیدائی ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ وجود کے یکے بعد دیگرے آنے والے کوئی دو کوائف ہم رنگ نہیں ہوتے۔ خلاقی کا قدم ہر دم آگے ہی کی طرف اُٹھتا ہے۔ ذات مطلق کی خودی کو اپنی تکمیل مقصود ہے۔ اپنے اثبات اور ارتقا کی خاطر وہ ہستیوں کو وجود میں لاتی اور ساتھ ہی ساتھ مٹاتی بھی جاتی ہے۔ زندگی کے طویل ارتقا میں لا تعداد اقسام کے پھول معرض وجود میں آکر نابود ہو گئے ہوں گے، پیشتر اس کے کہ گلاب کا ایک پھول ظہور میں آسکے۔ حیات و کائنات میں جو درد و کرب، جور و ستم اور شر دکھائی دیتا ہے اقبال کا نظریۂ خودی اس کی ایک توجیہ ہے۔ عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی خلق و تکمیل جمال معنوی صدیوں سے اسلامی تصوف میں ’وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدرفروعی اختلافات کے ساتھ، اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیلم میں ملتا ہے، اقبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان خیر و شر اور تمام حوادث کو ایک ذات کا م ظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے یا بقول ولیم جیمز وحدت وجود میں خیر و شر یک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن اقبال کے ذہن میں وحدت وجود کا نظریہ دوسرے رنگ میں ابھرتا ہے۔ ہستی مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ ’ما سوا‘ اس کے اظہار ذات کے لیے ضروری ہے۔ لیکن ماسوا بھی خدا کے سوا کچھی نہیں۔ اگرچہ عمل کی خاطر خدا اس کو اپنا غیر سمجھ لیتا ہے کیوں کہ یہ خود فریبی عین حیات اور باعث تکمیل حیات ہے ورنہ اصلیت یہ ہے کہ: می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل خیزد، انگیزد ، برد، تابد، زمد سوزد، افروزد، کشد، میرد، دمد بظاہر یہ اناز بیان اس سے کچھ زیادہ متمائز معلوم نہیں ہوتا جسے ایک قدیم وحدت الوجودی صوفی وجد و مستی میں آکر گاتا ہے کہ: خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ خود بر سر آں کوزہ خریدار بر آمد بشکست و رواں شد اقبال کے ہاں ذات مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ خودی ایک انا یا ایغو کے بغیر متصور نہیں ہو سکتی۔ اس مطلق خودی نے ذوق نمود اور ورزش وجود میں اپنے اندر سے لاتعداد انا یا ایوغو یا خودی کے مراکز خلقکیے ہیںَ یہ یہ تصور مشہور حدیث قدسی کے اس تصور سے کسی قدر مشابہ ے جس میں اللہ تعالی اپنی ذات کے متعلق یہ انکشاف کرتا ہے کہ ’’کنت کنزاً مخفیا فاجیت ان اعرف فخلقت الخلق‘‘۔ (میں ایک خزینۂ پنہاں تھا؛ میں نے چاہا کہ میں ظاہر ہوں اور پہچانا جائوں اس لیے میں نے خلقت کو خلق کیا): وانمودن خویش را خومے خودی است خفتہ در ہر ذرہ نیروے خودی است خودی کی ماہیت کو جاننا عرفان نفس بھی ہے اور عرفان رب بھی اور اس عرفان میں یہ واضح ہو جارتا ہے کہ زور خودی سے حیات عالم وابستہ ہے اور ہر انفرادی نفس کی استواری اس کی زندگی کی ضامن ہے۔ جو قطرہ شبنم بنتا ہے وہ چند لمحوں میں خودی کے ضعف کی وجہ سے نابود ہو جاتا ہے۔ جو قطرہ اشک بنتا ہے وہ ٹپک کر ناپید ہو جاتا ہے،لیکن جو قطرہ صدف نشیں ہو کر اپنی خودی کو مستحکم کر للیتا ہے وہ گوہر بن جاتا ہے، جس کی موج نور تلاطم قلزم میں بھی منتشر نہیں ہوتی۔ اقبال فطرت کے مظاہر میں اپنے اس نظریے کی بہت سی دلکش مثالیں پیش کرتا ہے۔ زمین کا وجود قمر کے مقابلے میں محکم تر ہے اس لیے چاند اس کے گرد طواف کرتا ہے۔ سورج زمین کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے، اس لیے زمین اس سے مسحور ہو کر اس کے گرد چکر کاٹتی رہتی ہے۔ اقبال رہبانیت کے خلاف جہاد کرتا ہے اور جتنے رہبانی تصورات عجمی تصوف کے راستے سے اسلامی افکار کا جزو بن گئے ہیں، ان سے وہ ملت کا دامن چھڑانا چاہتا ہے۔ قناعت اور توکل اور تسلیم و رضا کے کے غلط معنی لے کر مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہو گیا کہ نفس کشی کے معنی تمام آرزوئوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ انسان جتنا بے آرزو اور بے مدعا ہوتا جائے اتنا ی خدا کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ غالب نے یہی متصوفانہ خیال اس شعر میں ظاہر کیا ہے کہ: گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ اسی سے ملتا جلتا صائب کا ایک شعر ہے: حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن از شیشۂ بے مے مئے شیشہ طلب کن یہ خیال ہنو م ت اور بدھ م ت کی الہٰہیات میں بھی ایک مسلمہ بن گیا تھا کہ اپنی خودی کو صفر کر دینے سے انسان خدا کا ہم ذات ہو جاتا ہے یا خود خدا بن جاتا ہے۔ بھوکت گیتا میں ارجن کرشن سے پوچھتا ہے کہ تم خدا کیسے بن گئے؟ وہ جواب دیتا ہے: سن از ہر سہ عالم جدا گشتہ ام بہی گشتہ از خود خدا گشتہ ام (ترجمہ ٔفیضی) اقبال کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خود خدا کی ماہیت خودی ہے اور خودی کی ماہیت مقصد آفرینی اور مقصد کوشی۔ ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق انسان کو بھی ت خلیق م قاصد سے اپنی خودی کو استوار کرنا چاہیے۔ اس تعلیم میں وہ اپنے مرشد رومی کا ہم خیال ہے۔ رومی کہتا کہ زمین و آسمان کی خلقت حاجت کی پیدوار ہے۔ حاجت ہی سے ہستی کی آفرینش اور اس کا ارقا ہوت اہے۔ اس لیے وہ نصیحت کرتا ہے: پس بیفزا حاجت اے محتاج زود اسی خیال کو اقبال نے طرح طرح کے لطیف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ مثلاً: زندگانی را ب قا از مدعا ست کاروانش را درا از مدعا ست زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے۔ عالم آب و گل اور جہان رنگ و بو سب آرزو کے رہین اور امین ہیں۔ فلسفۂ جدید میں ارتقا کے طرح طرح کے نظریات پیدا ہوئے۔ ان نظریات میں سے برگساں کا نظریۂ ارققائے تخلیقی اقبال کے خیالات کے عین مطابق ہے۔ اعضا سے وظائف اعضا پیدا نہیں ہوتے بلکہ حیات کی ارتقائی تمانئیں اعضا و آلات مں صورت پ؎ذیر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ آنکھ ڈاروینی اتفاقات اور میکانکی توافق سے بن گئی اور اس سے بینائی ممکن ہو گئی۔ اقبال کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ یہاں برعکس ہے۔ لذت دیدار اور شوق بینش نے آنکھ بنائی ہے؛ ذوق رفتار نے پائوں بنائے ارو ذوق نوا نے منقار۔ اقبال نے اسرار خودی میں بھی اور بعد کے کلام میں بھی سینکڑوں دلکش اور بصیرت افروز اشعار عشق اور عقل کے موازنے اور مقابلے میں لکھے ہیں ۔ یہ صوفیہ او بعض حکما کا قدیم مضمون ہے، لیکن اس مسئلے یہاں ایک لائن موجود نہیں ہے۔ یہ اس کا خاص مضمون بن گیا ہے اور اس مضمون کے ہر شعر میں اقبال کے کلام حکمت کے ساز کے ساتھ وجد و مستی کا سوز توام ہو گیا ہے۔ میلان حیات اور آرزوئے ارتقا اس کے ہاں ماہیت وجود ہیں۔ یہی اصل ہیں اور باقی جو کچھ ہے، عقل ہو یا علوم و فنون یا آئین و رسوم، سب کی حیثیت فروعی ہے۔ صحیفۂ وحی آسمانی ہو یا صحیفۂ فطرت، اس علم الوجود یا علم الکتاب کے مقابلے میں عق ام الکتاب ہے۔ اصل ماخذ زندگی اور اس کی سعی تکمیل ہے۔ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام حیوانیہ یا شعور و ادراک، یہ سب زندگی نے اپنی بقا کے لیے آلات بنائے ہیں۔ علم و فن خود مقصود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں۔ یہ سب کچھ نمود ہے بود نہیں: علم و فن از پیش خیزان حیات علم و فن از خانہ زادان حیات انسان کا کام صحیفۂ کائنات کی تفسیر نہیں بلکہ موجودات کی تسخیر ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ ما سوا کی تسخیر کرے اور خود اپنے آپ کو مسخر ہونے سے بچائے اور ماسوا کی تسخیر سے آگے قدم بڑہاتا ہوا اس وقت تک دم نہ لے جب تک کہ خدا یعنی ذات مطلق کی خودی کو مسخر کر کے اپنا نہ لے۔ اس بارے میں بھی وہ رومی کا ہم آہنگ ہے، جو کہتا ہے: زیر کنگرۂ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر اسی مضمون کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں ڈھالا ہے: در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ اقبال کے ہاں خودی اور عشق کے م ضامین ہم معنی ہیں۔ ایک ہی چیز ہے جس کو کبھی وہ خودی کہتا ہے اور کبھی عشق، اگرچہ اسرار خودی میں اس نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ’ خودی عشق سے استوار ہوتی ہے۔‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودی جس عشق سے استوار ہوتی ہے وہ کسی ہستی یا کس چیز کا عشق ہے۔ کیا خودی کو اپنے سے خارج کسی محبوب کو تلاش کرنا ہے یا خودی کے خود اپنے میلانات کے اظہار کا نام عشق ہیہ۔ اقبال کے نزدیک خودی کے اندر لامتناہی ممکنات مضمر ہیں۔ خودی کو استوار کرنا ان ممکنات کو بطون سے شہود میں لانا ہے۔ عشق خودی ارتقا طلب ہے۔ وہ ہر حاصل شدہ کیفیت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے ارتقا سے عشق ہے: ھست معشوقے نہاں اندر دلت چشم اگر داری بیا بنمایمت عاشقان او ز خوباں خوب تر خوشتر و زیبا تر و محبوب تر ہاں ایک طرق خودی کی استواری کا، جس کا اقبال بڑی شدت کے ساتھ قائل ہے، یہ ہے کہ جن ہستیوں نے اپنی خودی کے ممکنات کو وجود پذیر کیا ہے ار اپنی خاک کو رشک افلاک بنایا ہے ان سے عشق پیدا کیا جائے۔ ایسے بزرگوں کے عشق سے انسان کی خودی فرومائگی نہیں بن جاتی بلکہ معشوق کی خودی کا رنگ عاشق پر چڑھ جاتا ہے۔ انبیا کا کام یہ نہیں ہوتا کہ امت کے افراد کی خودی کو عجز میں تبدیل کر دیں۔ انبیا خود احرار ہوتے ہیںاور و انسانوںکو ہر قسم کی غلامی سے چھڑا کر مردان ھر بنانا چاہتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شبستان حرا میں خلوت گزیں ہو کر اپنی خودی کے جوہر کو چمکایا ۔ قوم و آئین و حکومت اسی جوہر کی کرنیں ہیں۔ دین کا جوہر ان معنوں میں عشق یا محبت ہے کہ مرد مومن تمام افراد اور اشیا سے قلبی تعلق پیدا کر کے کائنات کی خودی کی وحدت کا ثبوت دیتا ہے؛ دوسرں سے محبت کرتا اوردوسروں کو اپنا ہم ذات سمجھتا ہے اس طرح سے محبت کے ذریعے خودی قومی تر اور وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔خودی کا اصل انداز عمل مخاصمانہ یا رقیبانہ نہیں بلکہ عاشقانہ ہے۔ خودی کے ضمن میں اقبال نے یہ تحقیق کی ہے کہ نفی خودی کی تعلیم یہاں لائن نہیں ہے۔ تحقیق میں اقبال نطشے سے متفق ہے کہ یہ انحطاط یافتہ اور مغلوب اقوام کی ایجاد ہے۔ جن اقوام کے قواے حیات سست پڑ جاتے ہیں، ان سست عناصر اقوام کو قوی اور جلیل اقوام کے مقابلے میں زندہ رہنے کی کوئی ترکیب سوچنی پڑتی ہے۔ زبردست اقوام تسخیر پسند ہوتی ہیں۔ زبردستوں کے ہتھیار اور ہوتے ہیں اور کمزوروں کے ہتھیار اور۔ کمزور کبھی تو فریب اور خوشامد سے کام نکالتا ہے اور کبھی وہ ایسے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے جس سے اس کی کمزوری ذلت کی بجائے فضیلت دکھائی دینے لگے۔ اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے وہ فقر کو سراہنے لگتا ہے۔ ہمت کو دنیا طلبی اور عجز کو روحانیت کے رنگ میں پیش کرتا ہے۔ اپنی تعلیم میں وہ ایسی دلکشی اور لطافت پیدا کرتا ہے کہ اہل ہمت بھی یہ افیون کھانے لگتے ہیں۔ یہ مضمون نطشے کا خاص مضمون ہے اور اس نے اسی نقطۂ نظر سے عیسائیت پر اور اس کے پیدا کردہ اخلاقیات پر بھرپور وار کیا ہے۔ عیسوی رہبانیت کی یہ تعلیم کہ جنت ضعیفوں اور عاجزوں کو ملے گی اور صاحبان ہمت و ثروت و جبروت اس میں داخل نہ ہو سکیں گے، نطشے کے نزدیک نوع انسان کو قعر مذلت میں دھکیل گئی اور مغرب میں شیروں کو بکرا بنا گئی: جنت از بہر ضعیفان خسران است و بس قوت از اسباب خسران است و بس جستجوے عظمت و سطوت شر است تنگدستی از امارت خوشتر است یہ سازش مغلوب اور کمزور اقوام، کسی شعوری تدبیر اور تنظیم سے نہیں کرتیں بلکہ ان کی کمزوری غیر شعوری طور پر ان کے تحفظ کے لیے یہ آلات وضع کرتی ہے۔ اقبال نے کہیں عجمی تصورات کو اور کہیں افلاطوتی ن؟ظریات کو، ادبیات و حیات اسلامی کو مسموم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلامی سیاست کی تاریخ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور بعض گروہوں نے، اسلام سے مغلوب ہونے اور ظاہر میں اسلام کو قبول کرنے کے بعد اس کی (لائن نظر صحیح نہیں آرہی مسودہ میں) لطیف ذرائع اختیار کیے۔ بعض تصورات فلسفے اور تصوف کے انداز میں پیش کیے گئے اور بعض تصورات موضوع احادیث نبوی کے پیرایے میں۔ متحققین حدیث نے ان مخترعات اور موضوعات کو بہت کچھ چھانٹا لیکن اس کے باوجود بعض ایسی چیزیں مروجہ طور پر مسلم احادیث میں ملتی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ یہ غیر اسلامی تصورات کو اسلام میں داخل کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ عام ادبیات اسلامیہ میں ایسے ایسے زوایاے نگاہ مسلمات میں داخل ہو گئے ، جنھوں نے مسلمانوں کو ندگی کی جدوجہد سے باز رکھا۔ قناعت پرستی، لذت پرستی، سکون پرستی، قطع علائق، انسان کو خودداری سے محروم کرنے والے تصورات عشق، ہوس پرستی، مصنوعی محبت ادبیات کا تار و پود بن گئے۔ ایسا ادب قوم کے انحطاط کی علت بھی ہے اور اس کا م علول بھی۔ کسی قوم کا ادب اس کی زندگی اور اس کی تمنائوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جب قوم پس ہمت اور سست عناصر ہو جائے تو ادب میں زندگی کی گرمی اور عمل کا جوش نظر نہیں آتا۔ عاشق خوددار کی بجائے ’’آوارۂ مجنونے رسوا سر بازارے‘‘ انسانیت کا دلکش نمونہ بن جاتا ہے۔ فارسی ار اردو کا عام تغزل زیادہ تر اسی انحطاط کا آئینہ دار ہے۔ ایسی شاعری کے خلاف پہلے حالی نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ قیامت کیروز باقی گنہگار تو چھوٹ جائیں گے، لیکن ہمارے شعرا کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حالی نے کسی خاص شاعر کو چن کر ہدف ملامت نہیں بنایا تھا؛ اس کی تنقیدزیادہ تر عام تھی۔ لیکن اقبال نے جوش اصلاح میں حافظ پر شدیدحملہ کر دیا کہ اس کا کلام مسلمانوں کے لیے افیون کا کام کرتا ہے: مار گلزارے کہ دارد زہر ناب صید را اول ہمی آرد بخواب مسلمان حافظ کو ولی اللہ اور لسان الغیب سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی طرح حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ اس کی شراب کو شراب م عنوی سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا مجاز حقیقت کا پردو دار ہے۔ لیکن مجاز میں حقیقت کی جھلک دیکھنے والے کم ہیں اور عشق کو ہوس بنانے والے زیادہ۔ اگر کوئی لذت پرست شخص حافظ علیہ الرحمۃ کا کلام پڑھے تو اس کو اپنی لذت پرستی یا جھوٹی مستی کے لیے بہت کچھ جواز مل جائے گا۔ اقبال کا رویہ دیوان حافظ کے بارے میں اورنگ زیب عالمگیر کے زاویۂ نگاہ کے مشابہ ہے، جس کے متعلق روایت ہے کہ وہ لوگوں کو دیوان حافظ کے پڑھنے سے روکتا تھا۔ اگرچہ اس روایت کے ساتھ یہ بھی ہے کہ خود اسے اپنے تکیے کے نیچے رکھتا تھا۔ جب لوگوں کی طرف سے لے دے ہوئی تو اقبال نے حافظ پر جو تنقید کی تھی، اس کو دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دیا۔ اقبال کہتا ہے کہ عرب کے کلام میں حقیقت پروری اور ہمت افزائی تھی۔ اس میں صحرا کی گرمی اور باد صر صر کی تندی تھی۔ عجمی افکار و جذبات نے اسلامی ادب کو زندگی کی قوتوں سے بیگانہ کر دیا ۔ نقد سخن کو ہمیشہ معیار زندگی پر پرکھنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح علم براے علم ایک لایعنی شغل ہے اسی طرح فن برامے فن بھی نخل حیات کی ایک بریدہ اور افسردہ شاخ ہے اسلامی ادبیات کی تنقید کے بعد اقبال نے تربیت خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی خود سری نہیں ہے۔ حکمرانی کے لیے پہلے حکم برداری کی مشق مسلم ہے۔ جس نے خود اطاعت کی مشق نہ کہ ہو وہ دوسروں سے اطاعت طلب کرنے کا بھی حق نہیں رکھتا۔ انسان کو خدا اختیار ورزی کی مشق کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ فطرت کے جبر سے نکل کر اپنے اختیار سے فضیلت کوش اور خدا طلب بن سکے۔ اصل مقصد اطاعت کو اختیاری بنانا ہے۔ ایک عارف کا قول ہے کہ ہمیں اختیار اس لیے عطا کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کا ہمکنار کر کے جبر و اختیار کا تضاد محو کر دیں۔ فرمان پذیری کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی فطرت کے نصب العین کی ہے۔ اسی مضمون کو اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے: در اطاعت کوش اے غفلت شعار لائن مس ہے مسودہ میں جب انسان اپنے اختیار سے اپنی سیرت کو مستحکم کر چکتا ہے تو وہ ایک منظم آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیار جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے، لیکن اس میں آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیاری جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے، لیکن اس میں آئین سے سر گردانی کی کوئی طاقت یا میلان نہیں۔ بقول مرذا غالب: گر چرخ فلک گردی سر بر خط فرماں نہ ور گوے زمیں باشی وقف خم چوگاں شو اسی طرح ضبط نفس سے نفس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواہشوں کے تھپیڑے کھاتے رہنے سے نفس اور جسم کی قوتیں منتشر ہو جاتی ہیں اور کسی ایک مرکز پر ان کو مرکوز کرنے سے کرنوں میں جو حدت پیدا ہو سکتی ہے، نفس اس قوت اور حرارت سے محروم رہتا ہے۔ اقبال کے ہاں خودی کا تصور در حقیقت قرآن کریم کے نیابت الہی کے تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتانہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک ، ذرہ و خورشید، سب سربسجود ہیں۔ قرآن کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کا گیا ہے وہ بھی مسجود ملائک ہے، جس طرح خدا خود مسجود ملائک ہے۔ اس ظاہری تضاد سے توحید میں کوئی خلل وقع نہیں ہوتا۔ جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح سے اس کی سیاست کو شجھنے والا اور تہہ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اگرچہ سرچشمۂ اقتدار بادشاہ ہوتا ہے لیکن رعایا کو نائب کی اطاعت اسی طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی۔ انسان کا نصب العین یہ ہے کہ شمس و قدر، شجر و حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنھیں ملائکہ کہتے ہیں، سب کے سب اس کے لیے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مشیت ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے۔ اسی قوت تسخیر کی کوئی حد نہ ہو گی۔ نباتات و حیوانات اور اجرام فلکیہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ ، انبیا اور آخر میں خدا کے ساتھ ہم کنار ہو سکے گا۔ یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے یہ نائب حق ترقی کرتا ہوا، جزو و کل سے آگاہ کرتا ہوا، قائم بامراللہ ہو جائے گا۔ اس نائب حق یا خلیفۃ اللہ کی فطرت صرف موجودہ عالموں ہی کی تسخیر نہیں کرے گی بلکہ وہ خدا کی خلاقی سے بہرہ اندوز ہو کر ہژدہ ہزار جدید عوالم بھی وجود میں لا سکے گا۔ اس کی فطرت لامتناہی ممکنات سے لبریز ہو گی جو نمود کے لیے بیتاب ہوں گے: فطرتش معمور و می خواہد نمود عالمے دیگر بیارد در وجود صد جہاں مثل جہان جزو و کل روید از کشت خیال او چوگل یک نقاد نے کہا ہے کہ اقبال نے نیابت الہٰی کے پردے میں انسان کو خدا بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے جوش میں آکر ایسے اشعار لکھے ہیں جہاں انسانیت اور الوھیت کے ڈانڈے ملے ہوئے معلوم ہوتے ہیں: از قم او خیزد اندر گور تن مردہ جانما چوں صنوبر در چمن ذات او توجیہ ذات عالم است از جلال او نجات عالم است جلوہ ہا خیزد ز نقش پامے او صد کلیم آوارۂ سیناے او ایسے اشعار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ عبودیت میں کامل ہو کر اور خدا کی ذات کو اپنی ذات میں سمو کر بندہ جو فعل کرتا ہے اس کے اس فعل میں اور خدا کے فعل میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ’’مارمیت‘‘ کی آیت کے علاہ بھی اور کئی آیات اس نظریے کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاہ قدیم اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اخلاق الہٰیہ ہی ہیں اور صفات کو ذات سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے کو اقبال کے مرشد رومی نے ایک تشبیہ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ لوھا آگ میں پڑ کر آگ کا ہم شکل اور بہت حد تک اس کا ہم صفت ہو جاتا ہے۔ بہت سے کام جو آگ کر سکتی ہے وہ ایسی حالت میں لوہا بھی کرسکتا ہے۔ لوہا ایسی حالت میں اگر ’من آتشم‘ کہہ اٹھے تو غلط نہ ہو گا۔ اگرچہ اس ہم صفتی کے باوجود خدا اور ’’تخلقوا باخلاق اللہ ‘‘ پر کاملاً عممل کرنے والے بندے میں پھر بھی خالق و مخلوق کا ذاتی امتیاز باقی رہے گا۔ یہ نائب حق کسی بنے بنائے عالم کے ساتھ توافق کی کوشش ہی میں نہیں لگا رہتا، وہ شکوۂ فلک میں آہ و زاری نہیں کرتا رہتا، بلکہ زمین و آسمان کو متزلزل کر کے ’’فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم‘‘ کے لیے بھی آمادہ ہوتا ہے: گر نہ سازد با مزاج او جہاں می شود جنگ آزما با آسماں برکند بنیاد موجودات را می دھد ترکیب نو ذرات را گردش ایام را برھم زند چرخ نیلی فام را برہم زند مغرب میں اقبال کے شباب سے کسی قدر پیشتر نطشے نے بڑے زور شور سے فوق البشر کا تخیل نیم شاعرانہ، نیم حکیمانہ اور کسی قدر مجذوبانہ انداز میں پیش کیا تھا جس کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ نوع انسان ایک بہت گئی گزری مخلوق ہے۔ عجز و انکسار کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم نے اس کے اقدر حیات کو پلٹ کر انسان کو راضی بہ تذلکل اور م ائل بہ انحطاط کر دیا ہے۔ فعلیت کی بجائے انفعال کو سراہا جاتا ہے۔ تنازع للبقا میں حیوانی انواع محض افزائش قوت کے اصول پر عمل کرتی ہوئی امیبا سے انسان تک ترقی کر چکی ہیں۔ زندگی سراسر ایک پیکار ہے۔ قوت زندگی کی ایک اساسی قدر ہے۔ ضعف پروری سے زندگی کے عناصر سست پڑ جاتے ہیں۔ رحم کوئی فضیلت نہیں بلکہ حیات کش ہونے کی وجہ سے ایک مذموم صفت ہے، جو کمزوروں کی اخلاقیات نے اپنی حفاظت کے لیے ایجاد کی ہے۔ رحمن و رحیم خدا بھی بے کار ہے اور رحیم انسان بھی غلامانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ موجودہ نوع انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو منسوخ کر کے ایک نئی نوع کے خواص پیدا کرے۔ زندگی کو فوق البشر انسان کا انتظار ہے، جس کی اخلاقیات موجودہ اخلاقیات سے بالکل برعکس ہوں گی۔ وہ تمام اقدر حیات کی نئی تقدیر کرے گا اور اپنی قوتوں میں اضافہ کرنے میں وہ تیغ بے دریغ ہو گا۔ وہ زندگی سے فرار نہیں کرے گا بلکہ اس کا مقابلہ کر کے اپنے ممکنات کو معرض شہور میں لائے گا۔ وہ سخت کوش ہو گا، مشکل پسند ہو گا اور خطرات سے غذا حاصل کرے گا۔ نطشے خدا کا منکر تھا اور تمسخر سے کہتا تھا کہ لوگوں کو ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ خدا مر چکا ہے۔ اس کے ہاں نفس یا روح کا تصور بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مادی یا جسمانی یا حیوانی قوتوں کا مظہر ہے۔ حقیقت میں اس کو شکایت بیہ تھی کہ انسان اچھا حیوان نہیں رہا۔ اچھا حیوان ہو تو شیر کی طرح ہو، جس کے دین میں قوت کے سوا اور ک وئی آئین نہیں۔ عجز و انکسار کی تعلیم بکروں کی ایجاد ہے، تاکہ شیروں کے دانت خالص گیاہ خوری کرتے کرتے اپنی تیزی کھو بیٹھیں اور کمزور حیوانوں کو اس طرح شیروں کے جور و تظلم سے نجات مل جائے۔ اسرار خودی لکھنے کے زمانے میں اقبال نطشے کے افکار کے ایک پہلو کا مداح تھا۔ ضعف پسندی اور ن فی خودی کا اقبال بھی مخالف تھا اور نطشے بھی۔ تہذیب فرنگی کا نطشے بھی ایسا ہی مخالف تھا جیسا کہ اقبال۔ انحطاط اور پستی اور ضعف خودی کے متعلق اقبال اور نطشے کی زبان بہت ملتی جلتی ہے اور اسرار خودی میں بعض افکار اور بعض مثالیں نطشے سے ماخوذ ہیں۔ لیکن دوسرے لحاظ سے اقبال اور نطشے میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں مٰں افکار کے ایک پہلو کی ظاہر مناسبت ہے۔ یہ سرسری اور ظاہری مناسبت تو منصور حلاج اور فرعون میں بھی پائی جاتی ہے۔ منصور ن ے بھی اناالحق کہا اور فرعون نے بھی اناالحق کہا؛ لیکن دونوں کا انا بھی الگ تھا اور دونوں کا حق کا تصور بھی الگ۔ ویسے تو مولان روم اور نطشے کے افکار میں بھی ظاہری مماثلت مل سکتی ہے۔ مولانا بھی آرزو مند ہیں کہ موجودہ انسان اپنی موجودہ مادہ پسندی اور حیوانیت سے اوپر اٹھ جائے اور ایک نئی مخلوق بن جائے۔ مولانا کی ایک طویل غزل میں سے اقبال نے تین اشعار اس تصور کے منتخب کر کے ان کو مثنوی کا فاتحۃ الکتاب بنایا ہے۔ الفاظ کا ظاہر ایسا ہے کہ نطشے بھی سنتا تو پھڑک اٹھتا اور کہنے لگتا کہ میں بھی تو یہ چاہتا ہوں: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست زیں ہمرھان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گست آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست الفاظ کہ ہم آہنگی کے باوجود رومی اور نطشے میں خاک و افلاک کا فرق ہے۔ ایک انسان کو الوھیت کا دامن چھونے کے لیے افلاک پر پہنچانا چاہتا ہے اور دوسرے کے ہاں خاک کے سوا خاک نہیں۔ اقبال کو نطشے میں یہ بات پسند تھی کہ اس سست عناصر انسان کی خودی کو مضبوط کرنا چاہیے، لیلکن نطشے کے ہاں خودی کا تصور ہی محدود اور مہمل تھا۔ نطشے قوت اس لیے چاہتا ہے کہ ایک اعلی تر نوع حیوان وجود میں آسکے۔ رومی اور اقبال قوت تسخیر اس لیے چاہتے ہیں کہ انسان کی خودی مضبوط ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس میں الہٰہی صفات کی شان جھلکنے لگے۔ اقبال اور رومی عالمگیر عشق کی طرف انسانی خودی کو گام زن کرنے کے آرزومند ہیں۔ جلال الدین رومی بھی جلالی ہیں اور اقبال بھی جلالی، لیکن ان کے ہاں جلال جمال سے ہم آغوش ہے۔ نطشے بھی قاہری کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس کی قاہری میں دلبری نہیں۔ مومن کا یہ حال ہے کہ: طبع مسلم از محبت قاہر است نمسلم از عاشق نباشد کافر است در رضائش مرضی حق گم شود ایں سخن کے باور مردم شود اسرار خودی میں اقبال نے وقت یا ماہیت زمان کے مسئلے کو بہت اہمیت دی ہے۔ یہ مسئلہ ہمیشہ ایک معرکۃ الا را موضوع بحث رہا ہے۔ عامۃ الناس اور عام دیندار لوگ اس کو کوئی دینی مسئلہ نہیں سمجھتے، لیکن حکمت پسند لوگ اس میں حیران اور سرگرداں رہتے ہیں کہ وقت کیا چیز ہے۔ وقت کو کوئی چیز بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا میں یا تو اشیا و اشخاص ہیں اور یا افعال و حوادث۔ وقت نہ کوئی شے ہے، نہکوئی شخص، نہ کوئی فعل ار نہ کوئی ھادثہ۔ سب کچھ وقت میں واقع ہوتا ہے لیکن وقت کوئی واقعہ نہیں۔ فلسفیوں کی زبان میں یوں کہیے کہ یہ نہ تو جوہر ہے اور نہ عرض۔ ہر قسم کا وجود جن صفات سے متصف ہو کر وجود بنتا ہے ان میں سے کوئی صفت وقت میں نہیں پائی جاتی۔ کیا وقت ازلی اور ابدی ہے یا یہ بھی کسی وقت خلق ہوا۔ اگر یہ خود مخلوق ہے تو اس کے خلق ہونے سے قبل بھی تو آخر کوئی زمانہ تھا تو وہ ھی وقت تھا۔ قرآن کریم کے ظاہری الفاظ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے چھ ایام میں زمین و آسمان کو خلق کیا۔ لیکن ہمارے ذہن میں شب و روز اور ایام کا جو تصو ہے وہ تو گردش ارض و مہر و ماہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اجرام فلکیہ کے خلق ہونے اور ان کی گردشیں مکمل ہونے سے قبل، ایام کے کچھ معنی نہیں ہوسکتے۔ اقبال مرد مومن بھی تھا ار مرد حکیم بھی، یہ ناممکن تھا کہ ایسا اہم مسئلہ اس کے دماغ میں گردش نہ کرتا رہے اور وہ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے مضطب نہ ہو۔ اپنے انگریزی خطبات میں بھی اقبال نے مسئلۂ زمان کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کو مسلمانوں اور انسانوں کے لیے موت و حیات کا سوال قرار دیا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا لطیف اور پیچیدہ ہے کہ اس مختصر سے مقدے میں اس کے چند اہم پہلوئوں کو واضح کرنا بھی ناممکن ہے۔ کانٹ جیسے حکیم کبیر نے کہا کہ زمان و مکان دونوں فہم انسانی کے سانچے ڈھانچے ہیں۔ یہ دو رنگی عینک لگا کر انسان کا فہم آفاق کے مظٓہر کو علائق و روابط میں منسلک کرتا ہے۔ زمان و مکان دونوں کا وجود نفسی اور اعتبار ہے ماہیت ہستی میں نہ زمان ہے نہ مکان۔ بالفاظ اقبال: نہ ہے زمان نہ مکاں، لا الہ الا اللہ اقبال کا خیال بھی کچھ اسی ق سم کا تھا۔ چنانچہ پیام مشرق کے ایک قطعے میں فرماتے ہیں کہ: جہان ما کہ پایانے نہ دارد چو ماہی در یح ایام غرق است یہ ہماری ناپیدا کنار دنیا ، لامتناہی عالم، مچھلی کی طرح وقت کے سمندر میں تیر رہی ہے۔ لیکن یہ وقت کا سمندر ہمارے نفس سے خارج کوئی مستقل حقیقت نہیں بلکہ اس کی یہ کیفیت ہے کہ ’یم ایام در یک جام غرق است‘۔ وقت کا یہ دریاے بے پایاں نفس کے کوزے میں سمایا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال وقت کے مسئلے کو ایسا اہم کیوں سمجھتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ زمان کو ماہیت وجود ار عین خودی سمجھتا ہے لیکن یہ زمان شب و روز کا زمان نہیں بلکہ تخلیقی ارتقا کا نام ہے۔ یہ نظریۂ زمان وہی ہے جسے برگساں نے برے دلنشیں انداز میں اپنے نظریۂ حیات کا اہم جزو بنایا۔ اقبال خود اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ علامہ نے اپنے بعض علم دوست احباب سے بیان کیا کہ برگساں کا مطالعہ کرنے سے قبل میں حقیقت زماں کے متعلق آزادانہ طور پر یہ تصور قائم کر چکا تھا ار انگلستان میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں میں نے اس پر ایک مختصر سا مضمون بھی لکھا جس کو میرے پروفیسر نے کچھ قابل اعتنا نہ سمجھا، کیوں کہ بات بہت انوکھی تھی۔ برگساں کے زور فکر اور قوت استدلال نے اس میں بہت وسعت اور ہرائی پیدا کر دی۔ لیکن اقبال کے کلام کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اس مسئلے میں برگساں سے کچھ کم نہیں۔ اقبال برگساں کا بڑا مداح تھا اور اس کے فلسفے سے اقبال نے فیض بھی حاصل کیا۔ اس سے اقبال کے کلام پر کوئی دھا نہیں لگتا۔ ایسا بارھا ہوا ہے کہ بڑے بڑے سائنٹیفک نظریات، فنی ایجادات اور حکیمانہ افکار، ایک ہی زمانے میں، ایک سے زیادہ اشخاص کی طبیعتوں میں ابھھرے۔ اس کے بعد مورخ اس بات پر جھگڑتے رہتے ہیں کہ اولیت کا سہرا کس کے سر ہے، کون موجد ہے اور کون نقال۔ لیکن اقبال اور برگساں یا اقبال اور نطشے کے متعلق یہ بحث بے کار ہے۔ شعر میں گہرا اور پیچیدہ فلسفیانہ استدلال تو نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو تو شاعری محض سنصوم منطق بن کر رہ جائے اور اپنے فطری تاثر کو کھو بیٹھے۔ اس لیے ’’الوقت سیف‘‘ کا عنوان قائم کر کے اقبال نے اپنے تصور کے بعض اساسی خطوط کھینچ دیے ہیں۔ ان کی تشریح و تعبیر سمجھنے والوں اور شارحوں کے لیے چھوڑ دی ہے۔ یہ عنوان اقبال نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول سے حاصل کیا ہے۔ اس کے تحت میں اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں ان ک الب لباب یہ ہے کہ زمان یا دھر کوئی مجرد یا ساکن حقیقت نہیں بلکہ ایک تخلیقی حرکت ہے۔ ایک حدیث قدسی ہے: ’’لا تسبو الدھر فانی اناالدھر‘‘۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ زمانے کو گالیاں نہ دو کیوں کہ میں زمانہ ہوں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ گول میز کانفرنس کے سفر کے دوران میں میں برگساں سے ملا کہ اپنے اس ہم فکر اور ہم طبع مفکر سے تبادلۂ خیالات کروں۔ دوران ملاقات میں حقیقت زمان پر گفتگو ہوئی جو اقبال اور برگساں کا واحد مضمون تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے برگساں کو بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دہر کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ فرماتے تھے کہ برگساں سن کر اچھل پڑا اور اس کی روح بے انتہا مسرت سے لبیرز ہو گئی کہ ایک نبی عظیم کے قلب پر وہی حقیقت وارد ہوئی جسے وہ استدلال اور ذاتی وجدان کی بنا پر دنیا کے سامنے عمر بھر پیش کرتا رہا۔ غرضیکہ اس نظریے کے مطابق دھر اخلاق ایک شمشیر ہے جو خود اپنا راستہ کاٹتی ہوئی اور مزاحمتوں کو راستے سے ہٹاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ دہر کی ارتقائی اور خلاقی قوت کبھی کلیم کے اندر کار فرما ہوتی ہے اور کبھی حیدر کرار کے پنجۂ خیبر گیر میں۔ اس زمان حقیقی میں دوش و فردا نہیں ہیں، نہ انقلاب روز و شب ہے۔ لوگوں نے زمان کو مکان پر قیاس کر لیا ہے اور یوں سمجھ لیا ہے کہ ایک لا متناہی لکیر ہے جو ازل سے ابد تک کھنچی ہوئی ہے۔ نافہم انسان وقت کو لیل و نہار کے پیمانوں سے ناپتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا کا وقت ہمارا وقت نہیں، اسی طرح خودی میں ڈوب کر زندگی سے آگاہ ہونے اور زندگی کی قوتوں کو وسعت دینے والے انسان کا وقت بھی ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم شدہ کوئی مکان انداز کی چیز نہیں۔ خودی کی ماہیت حیات جاوداں ہے: تو کہ از اصل زماں آگہ نہ ای از حیات جاوداں آگہ ناہ ای زندگی وقت میں نہیں گزرتی بلکہ وقت زندگی کی تخلیقی قوت ہے۔ گردش خورشید سے پیدا ہونے والا وقت مکانی اور مادی وقت ہے؛ حقیقی وقت کا اس سے کچھ تعلق نہیں لیل و نہار کا شکار غلام ہوتا ہے۔ زندگی جب مردہ ہو جاتی ہے تو وہ لیل و نہار کا کفن پہن لیتی ہے اور انسان افسوس کرتا ہے کہ عمر گراں مایہ کے اتنے ایام گزر گئے اور اب گردش ایام مجھے موت کے قریب لے جا رہی ہے۔ اقبال مسئلہ ٔ زمان کو اس لیے اہمیت دیتا ہے کہ اس کے ہاں عبد اور حر کی تمیز کا معیار بھی یہی ہے کہ کوئی روح ایام کی زنجیر سے با بجولاں ہے یا مکانی وقت سے آزاد ہو کر اور حقیقی زمان میں غوطہ لگا کر، تسخیر مسلسل اور خلاقی کا شغل رکتھی ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ ازل سے اب تک بنی بنائی تقدیر کا تصور بھی زمان کے غلط تصور کی پیداوار ہے: عبد را ایام زنجیر است وبس برلب او حرف تقدیر است و بس ہمت حر با قضا گردد مشیر حادثات از دست او صورت پذیر جس انسان کے ہاتھ میں زمانے کی تلوار ہو وہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کر سکتا ہے۔ زمانے کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک اس کا باطن ہے۔ زمانے کی ظاہری صورت سے موافقت پیدا کرنے والا پست ہمت زمانہ ساز ہوتا ہے۔ مرد حر زمانہ ساز نہیں ہوتا بلکہ زمانے کے ساتھ ستیز کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور اس پیکار میں اس کو کامیابی اسی حالت میں حاصل ہوتی ہے کہ حقیقت زمان کی شمشیر اس کے ہاتھ میں ہو: یاد ایا میکہ سیف روزگار با توانا دستی ما بود یار اسرارخودی ڈاکٹر رضی الدین صدیقی مثنوی اسراری خودیسے قبل اقبال نے جو نظمیں اور غزلیں کہیں وہ بانگ درا میں شامل ہیں۔ قیام یورپ کے زمانے میں جب انہوں نے فلسفۂ عجم پر اپنا علمی مقالہ لکھا اوراس ضمن میں فارسی ادب اور تصوف کا گہرا مطالعہ کیا تو انھوں نے محسوس کیا کہ دنیا میں مسلمانوں کی کمزوری اور انحطاط کا ایک بڑا سبب عجمی تصوف اورنفی خودی کا وہ تصور ہے جو انسانی وجود کو موہوم سمجھتا ہے یاس و قنوطنیت کی تعلیم دیتا ہے اور سعی و عمل کی بجائے یہ سکھاتا ہے کہ دوڑنے سے لے کر چلنے، کھڑا رہنے، بیٹھنے ، سونے اورمرنے تک سکون کی ہر منزل میں زیادہ راحت ہوتی ہیغ بقدر ہر سکوں راحت بود، بنگر تفاوت را وہ بدن، رفتن، استادن، نشستن، خفتن و مردن اقبال کو یقین تھا کہ اس شدید کش مکش حیات کے زمانے میں اگر اسی تصور حیات کو لے رہیں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی قدر و قیمت نہ جانیں تو ان کا جو حشر ہونے والا ہے اس کی پیش قیاسی، بلقان اور طرابلس کی جنگوں سے ہو سکتی ہے۔ اس احساس کے تحت قیام یورپ کے زمانے میں انھوں نے اپنا آئندہ پروگرام یہ بنایا کہ اہل مشرق خصوصاًمسلمانوں کو ان کا اپنا جلوہ دکھاکر ترقی کرے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ اپنا حقیقی مقام حاصل کرلیں۔ اس پروگرام کا اشارہ انھوں نی اپنی اس نطم میں بھی کیا ہے جو سر شیخ عبدالقادر کے نام لکھی گئی تھی۔ ہندوستان واپس پہنچنے کے بعد بھی وہ اس پروگرام کوعمل میں لانے کی فکر کرتے رہے اور وقت بوقت اپنی اردو نظموں میں ملت کو اس حقیقت سے آگاہ کرتی رہے۔ اس کی ایک بہترین مثال ان کی نظم شمع و شاعر میں ملتی ہے جو۱۹۱۲ء میں لکھی گئی تھی اورجس میں پورے دو بند اسی موضوع کے لیے وقف ہیں اس کے صرف چند شعر یہاں درج کیے جاتے ہیںغ آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو شعلہ بن کے بھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل ھی تو بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے اپنی اصلیت سے ہو آگاہ، اے غافل کہ تو قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے ۔کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے پھر انھیں خیال ہوا کہ یہ جستہ جستہ اشعار یا نظمیں اس مقصد کے لیے کافی نہیں ہیں، بلکہ ایک پوری کتاب لکھنی چاہیے جس میں فلسفۂ خودی اور تصور حیات کی تشریح دلآویز پیرائے میں ہو سکے جو مسلمانان ِ عالم کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل کا کام دے۔ اس کے لیے انھیں ناگزیر طورپر اردو کو چھوڑ کر فارسی کی طرف رجوع کرنا پڑا کیونکہ اول تو صدیوں اور مدتوں سے فارسی زبان سمجھتے سمجھتے مشکل سے مشکل اور خشک سے خشک فلسفیانہ مطالب کے ادا کرنے پ ر دور ہو گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اقبال نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے تھے اور ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے اردو کی بہ نسبت فارسی زبان زیادہ موزوںتھی ۔ عجمی تصوف کے مطالعے کے دوران میں اقبال نے مثنوی مولانا روم کا بھی نہایت غور کے ساتھ مطلاعہ کیا تھااورمولانا کا اثر ان پر اس قدر گہرا ہوا تھا کہ وہ انھیں اس معاملے میں انھیں اپنا مرشد اور رہبر سمجھنے ل گے اور اپنی تصنیف کی بنیاد بھی مثنوی معنوی کے وزن میں اور بحرمیں ڈالی۔ چنانچہ مثنوی اسراری خودیبھی اسی بحر رمل مزاعف یعنی ’’فاعلانن فاعلانن‘‘ میں ہے اور اس میں وہی تمثیلی اور حکایتی طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو مثنوی معنوی کا طرہ امتیاز ہے۔ حقیقت ہے یہ ہے کہ اس قسم کی مثنوی سب سے پہلے حکیم سنائی غزنوی لکھی تھی جس کی وفات ۵۴۶ھ ہوئی اورجس کی تصنیف حدیقۃ العقیقۃ حدیقہ سنائی کے نام سے مشہور ہے پھر اس قسم کی مثنویاں شیخ فرید الدین عطا (منطق الطیر) ملا جامی (یوسف زلیخا) شیخ سعدی (بوستاں)اور مولانا روم وغیرہ نے تحریر کیں۔ مولانا روم نے ساتویں صدی ہجری کے وسط میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسلمانوں نے خود پرستی اور عشرت پسندی کے باعث اپنی تباہی مول لی اور تاتاریوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوئے۔ انھوں نے کہا مسلمان دنیا کو اس طرح کھو بیٹھے اور اگرانانیت اورکبر میں مبتلا رہے تو اندیشہ ہے کہ دین بھی کھو بیٹھیں گے۔ اقبال بھی اس چودھویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی سلطنت کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن اس مرض کی تشخیص بالکل مختلف کرتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان راہ عمل پر گامزن نہیں ہیں اورجدید سائنسی تمدن کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہو کر احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ وہ جوہر خودی سے بے خبر اور انسان کی حقیقی عظمت سے ناواقف ہیں چنانچہ اقبال اپنی تصنیف کی ابتداء میں مولانا روم کی مشہور غزل۱؎ کے تین شعر درج کرکے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ جو ہر طرف ایک ہجوم اورنبوہ کثیر نظر آتا ہے ان میں انسان نما حیون تو بہت ہیں لیکن انسان شاذو نادر ہی پائے جاتے ہیں۔ مثنوی، اسراری خودی اصل میں تفسیر اور تشریہ ہے اس مشہور حدیث کہ ’’من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ‘‘جس کا خلاصہ اس شعر میں درج ہے کہ : غلام ہمت آں خود پرستم کہ با نور کودی بیند خدا را اس تفسیر و تشریح کے لیے اقبال ایک طرح کا مستقل منطقی استدلال تیار کرتے ہیں تاکہ انسان اپنی حقیقت کو پہچان کر اور اپنی شخصیت کی تربیت کرکے معرفت رب حاصل کرے اور نیابت الٰہی کی منزل پر پہنچ جائے۔ نظام عالم کی بنیاد خودی پر ہے اورجو کچھ نظر آرہا ہے وہ صرف خودی کا کھیل ہے انفرادی زندگی کا مسلسل خودی کو مستحکم کرنے پر ہوتا ہے اور زندگی کا باقی رہنا تخلیق اورتولیدمقاصد کی بنا پر ہے زندگی نام ہے تلاش و جستجو کا عشق الٰہی اورمحبت رسول ؐ سے خودی مضبوط اورمستحکم ہوتی ہے اور اغیار سے سوال کرنے، یا ان کے دست ِ نگر اورمحتاج ہونے سے خودی کمزوراور ضعیف ہو جاتی ہے اس لیے خود دار انسان کو کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہیے۔ جب عسق و محبت سے خودی مستحکم ہو جاتی ہے تو پھر انسان کائنات کی ظاہری اور مخفی قوتوں کو مستحکم کرنا ہے اوران سے اپنی خدمت لے سکتا ہے۔ پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر جہ می بینی ز اسرار خودی است چوں حیات عالم از زور خودی است پس یہ قدر استواری زندگی است زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم پھر اقبال بتاتے ہیں کہ نفی خودی کا اصل مغلوب اورمفتوح قوموں کا ایجا د کیا ہوا ہے۔ یہ مفتوح قومیں چاہتی ہیں کہ غالب اور فاتح قوموں کو بھی کمزور کر دیں تاکہ ان کے ظلم و ستم سے نجات پائیں، اس لے وہ بے خودی اور قنائیت کے مسلک کا پرچار کرتی ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے اقبال بکریوں کے ایک گروہ کا قصہ بیان کرتے ہیں جو مشیروں کے ظلم سے تنگ آکر تلقین کرنے لگا تھا اور گوشت کھانا ہرام ہے۔ اقبال فنائیت کی اس تلقین کو مسلک گوسفندی کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ مسلک افلاطون کا پیش کیا ہوا ہے چونکہ افلاطون کا اثر مسلمان صوفیوں اورمفکرین پر کافی زیادہ تھا۔ اس لیے مسلمان بھی اس مسلک گوسفندی کے پیرو ہو گئے اور اپنی کمزوری اور انحطاط کی تہذیب کی علامت سمجھنے لگے۔ اقبال مسلمانوں کوافلاطون کے مسلک گوسفندی سے احتراز کی تاکید کرتے ہیں پھر وہ شعر کی حقیقت بیان کرکے اسلامی ادبیات کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تاکہ ادب اور فن کو عجمیت اور بے عملی سے خودی اور زندگی کی طرف واپس لایا جائے۔ اس کے بعد وہ تشریح کرتے ہیں کہ خودی کی تربیت کس طرح ہو سکتی ہے اس کے لیے انھوں نے تین مرحلے متعین کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت کا ہے کیونکہ اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اعلیٰ اور حقیقی حریت اطاعت یعنی پابندی فرائض سے ہی حاصل ہوتی ہے اسی لیے وہ مسلمانوں کو تاکید کرتے ہیں کہ چونکہ جبرہی سے اختیار حاصل ہوتا ہے اس لیے خدا اور رسول ﷺکی اطاعت بجالائیں اور فرائض کی سختی کی شکایت نہ کریں جو شخص چاند اور ستارو ں کو مسخر کرنا جاہتا ہے اس کے لیے قوانین و فرائض کی پابندی لازمی ہے۔ در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار شکوہ سنج سخنی آہیں مشو از خود مصطفی بیروں مشو ہر کہ تسخیر مہ و پرویں کند خویش را زنجیری آئیں کند تربیت خودی کے لیے دوسرا مرحلہ ’’ضبط نفس‘‘ کا ہے یعنی اپنے نفس پر قابو حاصل کرنے کا کیونکہ جس شخص کا حکم اپنی ذات پر نہیں چلتا وہ لازماً،دوسروں کا محکوم ہو جاتا ہے: ہر کہ بر خود نیست فرمانش رواں می شود فرماں پذیر از دیگراں جب اس طرح تربیت کے بعد خودی کی تکمیل ہو جاتی ہے تو وہ اپنی تیسری منزل میں پہنچ جاتی ہے یعنی نیابت الٰہی کی حقدار بن جاتی ہے۔ ایسا شخص نوع انسان کی کھیتی کا ماحصل اور کاروان زندگی کی منزل ہوتا ہے کہ جس پر انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے: نائب حق در جہاں آدم شود بر عناصر حکم او محکم شود نائب حق ہمچو جان عالم است ہستیٔ او ظل اسم اعظم است یعنی جب انسان اس دنیا میں نیابت الٰہی کے درجے پر پہنچ جاتا ہے تو عناصر پر اس کی حکمرانی ہوتی ہے وہ کائنات کی ر وہ ہوتا ہے اور اس کی ہستی اسم اعظم کی طرح مشکل کشائی کرتی ہے اس کی قوت و جبروت میں دنیا کی نجات مضمر ہے۔ حضرت سید مخدوم علی ہجویری ؒکی زبانی اقبال اہل ملت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو کمزور و ناتواں نہ سمجھیں بلکہ قوی سے قوی دشمن کے مقابلے کے لیے تیار ہو جائیں۔ جب پتھر خود کوشیشے کی مانند کمزور سمجھنے لگتا ہے تو واقعی ہی شیشہ بن کر ٹوٹنے لگتا ہے۔ تم اپنے آپ کو محض پانی اور مٹی کب تک سمجھتے رہو گے۔ اپنی خاک سے شعلہ طورپیداکرو۔ حیوان کی طرح کھانا اور سونا زندگی مقصد نہیں ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو خودی کی بناء پر مضبوط کرلیتا ہے اور سخت محنت ومشقت کرتا ہے تو اس سے دونوں جہان روشن ہو جاتے ہیں اور وہ کائنات کی قوتوں کو مسخر کرتا ہے۔ زندگی کی آبروسختی اورطاقت میں مضمر ہے ناتواں اورکمزور ہونا بے چارگی اور ناتجربہ کاری پر دلالت کرتا ہے۔ اے ز آداب امانت بے خبر از دو عالم خویش را بہتر شمر سنگ چون بر کود گمان شیشہ کرد شیشہ گردید و شکستن پیشہ کرد تا کجا خود را شماری ماء و طن از گل خود شعلۂ طور آفرین مثل حیواں خوردن آسودن چہ سود گر بخود محکم ندائی، بودن چہ سود خویش را چوں از خودی محکم کنی تو اگر خواہی جہاں برہم کنی می شود از دے دو عالم مستیز؟ ہر کہ باشد سخت کوش و سخت گیر در صلابت آبروئے زندگی است ناتوانی، ناکسی، نا پختگی است ہر فرد کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم سوال مقصد حیات کے متعلق ہوتا ہے کہ وہ کس کے لیے وجود میں آیا ہے۔ اقبال جواب دیتے ہیں کہ ایک مسلم کی زندگی کا مقصد اعلائے کلمتہ اللہ کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اسی کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایسا جہاد جس کا محرک صرف زمین فتح کرنا ہو وہ مذہب اسلام میں حرام ہے۔ کیونکہ اگرمسلمان کی تلوار سے حق کی آواز بلند نہ ہو تو ایسی جنگ قوم کے لیے نامبارک ہوتی ہے۔ گر نہ حق کردد ز تیغ ما بلند جنگ باشد قوم را نا ارجمند اس ضمن میں وہ حضرت شیخ میاں میر ؒکا قصہ بیان کرتے ہیں کہ جب بادشاہ ہند نے محض حرص و ہوس کی خاطر دکن کی تسخیر کا ارادہ کیاتو شیخ نے اس کو بہت کچھ لعنت ملامت ک ی اور کہا کہ ایک گداگر کی بھوک تمام ملک و ملت کے لیے فنا کا پیغام لاتی ہے جو کوئی سوائے اللہ کے کسی اور کے لیے خنجر کھینچتا ہے تو اس کا خنجر اسی کے سینے میں اترتا ہے اور اس سے خوداسی کو نقصان پہنچتا ہے: آتش جان گدا جوئے گداست جوع سلطان ملک و ملت را فناست ہر کہ خبر بہر غیر اللہ کشید تیغ او در سینہ او آرمید پھر اقبال اور عشق کا موازنہ نہ کرتے ہیں جو ان کے تصور حیات کا ایک امتیازی مسئلہ ہے اورجس کوانھوں نے اپنے کلام میں بار بار پیش کیا ہے۔ یہاں اس قدر واضح کر دینا ضروری ہے کہ اقبال علم اور عقل کے مخالف نہیں تھے لیکن ان کو بے لگام چھوڑنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ایمان اور عشق کے تابع رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی رائے میں عصر حاضر اور تہذیب جدید کی تباہ کاری بڑی حد تک اسی وجہ سے ہے کہ انسان علم اورعقل کی محدود رسائی سے واقف نہیں ہیں اوران کے غلام بن گئے ہیں۔ اقبال بتاتے ہیں کہ مسلمان کا علم سوز دل کی بناء پر کامل ہوتا ہے۔ عقل کی خامیوں اورخرابیوں کا علاج عشق سے کیا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ سے جو فتور دماغ میں پیداہوتا ہے وہ عشق کے نشتر ہی سے دورہوتا ہے: علم مسلم کامل از سوزِ دل است معنی اسلام ترک اول است عشق افلاطون علت ہائے عقل بہ شود از نشترس سودائے عقل ہندوستان کے مسلمانوں کو، جو اپنی خودی اور شخصیت کھو بیٹھے ہیں اور غیر وں کی اداؤں کے دل دادہ ہیں۔ اقبال میر نجات نقشبند ؒکی زبانی نصیحت کرتی ہیں کہ امت مسلمہ ک ی محفل کو غیروں کے چراغ سے آگ لگ گئی ہے اوران کی مسجد کو بت خانے کی چنگاری نے جلا دیا ہے۔ اے مسلم!تو جوغیروں کے دسترخوان سے تکڑوں کی بھیک مانگ رہا ہے گویا اپنی دولت دوسرے کے ہاں تلاش کر رہا ہے۔ تیسری مثال گلاب کے اُن پتوں کی طرح ہے جو اپنی بولٹا کر پژمردہ اورپریشان ہو چکے ہیں: بزم مسلم از چراغ غیر سوخت مسجد او از شرارِ دیر سوخت اے گدائے ریزۂ از خوانِ غیر جنس خود م ی جوئی از دکان غیر شد پریشاں برگ گل چوں بوئے خویش اے ز خودرم کردہ باز آسوئے خویش اقبال نے حضرت امام شافعی ؒکے مشہور مقولے ’’الوقت سیف قاطع‘‘ کی تفسیر کی ہے کہ زمانہ ایسی شمشیر براں ہے کہ یہ جس کے ہاتھ ہو اس کی قدرت حضرت موسیٰ ؑکی قدرت سے زیادہ ہوتی ہے۔ حیدر کرارؓ کے ہاتھ میں شمشیر روزگار تھی جس سے آپ نے درہ خیبر کو فتح کیا جو شخص زمانے کو محض دن اور رات کی تعداد سے ناپتا ہے وہ گمراہی میں ہے اور زمانے کی اصل حقیقت سے ناواقف ہے اورجو شخص زمانے کی اصل حقیقت سے واقف نہیں وہ حیات جاوداں سے بھی آگاہ نہیں ہے۔ زمان کو لیل و نہار کے پیمانے سے اس طرح ناپنا جیسے کہ فضا کو طول و عرض کے ذریعے ناپا جاتا ہے، بڑی سخت غلطی ہے ۔ انسانی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ زمان کی اصل حقیقت کو سمجھ کر زندگی کو فروغ دینے کی بجائے انسان زمان کو مکان کی طرح پیمائش کرکے گردش لیل و نہار میں اسیر ہو جاتا ہے: اے اسیر دوش و فردا در نگر در دل خود عالمے دیگر نگر باز با پیمانۂ لیل و نہار فکر تو پیمود طول روزگار تو کہ از اصل زماں آگہ ندای از حیات جاوداں آگہ ندای تا کجا در روز و شب باسی اسیر رمز وقت از ’’لی مع اللہ‘‘ بادگیر اصل وقت از گردش خورشید نیست وقت جا وید است و خور جاوید نیست زندگی از دہر و دہر از زندگی است ’’لا تسبو الدہر‘‘ فرمان نبیؐ است پھر اقبال مرد آزاد اور بندۂ محکوم کا فرق بیان کرتے ہیں کہ محکوم زمانے کی قید وبند میں جکڑا ہوا ہوتا ہے اور اس سے باہر نہیں نکل سکتا لیکن مرد آزاد زمانے پر قابو پاتا ہے اور اس سے اپنے مطلب و منشا کے موافق کام لیتا ہے۔ محکوم کی فطرت ہی تقلید اور تحصیل حاصل کی طرف مائل ہوتی ہے اورکوئی نا در کام اس کے ہاتھ سے انجام نہیں پاتا۔ لیکن مرد آزاد ہر دم نئی تخلیق کرتا رہتا ہے اور اس کے ساز سے ہمیشہ تازہ نغمے نکلتے ہیں۔ اس کی فطرت تکرار کو پسند نہیں کرتی اور نہ وہ کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی حلقے میں چکر لگاتا ہے۔ انتہا یہ کہ مر د آزاد کی اہمت قضا و قدر کی مشیر ہوتی ہے اورماضی اور مستقبل اس کے حال میں ضم ہو جاتے ہیں۔ عبد گردد بادہ در لیل و نہار در دل حر بادہ گردد روزگار عبد از ایام می بافد کفن روز و شب را می تندبر خویشتن عبد را ایام زنجیر است و بس برلب او حرف تقدیر است و بس ہمت حر با قضا گردد مشیر حادثات از دست او صورت پذیر رفتہ و آئندہ در موجود او دہر ہا آسودہ اندر زودِ او آخر م یں اقبال مسلمانوں کو اس زمانے کی یا د دلاتے ہیں جب کہ ان کے دم سے اس دنیا میں رونق تھی جب کہ کائنات کی قوتیں ان کے توانا اور قوی ہاتھوں میں مسخر ہیں، جب کہ انھوں نے دلوں کی کھیتی میں مذہب کا بیج بو دیا تھا اور حق و صداقت کو بے نقاب کہا تھا، جب ان کا ناخن ساز ہستی کے لیے مضراب تھا اور کائنات کے اسرار کی عقدہ کشائی کرتا تھا، جب اس زمین کی قسمت ان کے سامنے سجدہ کرنے سے جاگ اٹھی تھی، جب ان کے دم سے دنیا میں تکبیر کانعرہ بلند ہوا تھا اوران کی خاک سے کعبے کی تعمیر ہوئی تھی: جام ماہم زیب محفل بودہ است سینۂ ما صاحب دل بودہ است عصر نو از جلوہ ہا آراستہ از غبار پائے ما برخواستہ ناخن ما عقدۂ دنیا کشاد بخت ایں خاک از سجود، کشاد عالم از ما صاحب تکبیر شد از گل ما کعبہ ہا تعمیر شد اس لیے وہ واضح طوپر اعلان کرتے ہیں کہ اگرچہ تخت و تاج آج مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں اور اغیار کی نگاہوں میں وہ زیان کا ر اور ذلیل و خوار ہیں لیکن وہ اب بھی توحید کے علمبردار اورکونین ؐ کے محافظ ہیں خدائے بزرگ و برتر کی نظروں میں وہ سرمکنون ہیں اور دنیا کی خلافت انہی کے لیے ہے۔ چاند اورسورج ان ہی کے نور سے روشن ہیں کیونکہ ان کی ذات حق کا مظہر ہے۔ ان کی ہستی خدا کی نشانی ہونے کے باعث کبھی فنا پذیر نہیں ہو سکتی: اعتبار از لا الہ داریم ما ہا ہر دو عالم را نگہ داریم ما مہر و مہ روشن نہ تاب ما ہنوز برق ہا اندر سحاب ما ہنوز ذات، آئینہ ذات حق است ہستی مسلم ز آیات حق است غرص یہ ابتدا تھی اقبال کی تعلیم خودی کی جس کی ایک چوتھائی صدی تک وہ بار بار دہراتے رہے اور جوان کے پیام کا اہم ترین جزو ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی پستی اور ذلت کا بڑا سبب یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے ہیں اور پوشیدہ قوتوں سے واقف نہیں ہیں۔ اس پر وہ اس شد و مد کے ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ منکرخودی کو منکر خدا سے بڑھ کر کافر سمجھتے ہیں۔ منکر حق نزد ملا کافر است منکر خود نزد من کافر تر است اسی طرح اقبال نے مسلمانوں کے دل و دماغ سے احساس کمتری کو دورکرنے کی کوشش کی اور یہی مثنوی اسرار خودی کا مرکزی موضوع ہے۔ اسرارِ خودی۱؎ (ادباء و حکما ء مغرب کی نظر میں) حق نواز زمانہ حال کے فلسفہ مذہب، شاعر اور عام علم ادب میں علامہ اقبال کا کیا پایہ ہے یا علامہ اقبال کے فلسفہ مذہب اور شاعری کا زمانہ حال پر کیااثر ہو رہا ہے اور یہ اثر اس ’’حال‘‘ کو کس ’’مستقبل‘‘ میں بدلنا چاہتا ہے؟ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات سے بصورت موجودہ مشرقی اقوام کے عام افراد قاصر ہیں۔ کیوں قاصر ہیں؟ اس کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے زمانہ کو زمانہ کے محقق کی نگاہ سے دیکھا ہو، مشرق و مغرب دونوں کی سیر کی ہو؟ دونوں کے علوم و فنون ، تمدن و معاشرت، مذہب و سیاست، اخلاق و رجحان، طبائع کا وسیع مطالعہ کیا ہو۔ اورپھر یہ اہلیت رکھتا ہو کہ صحیح مطالعہ کے بعد صحی نتائج مرتب کر سکے۔ ایسے شخص کو بے چون و چراکہنا پڑے گا کہ جس طرح زوال و انحطاط کی زندگی کو صحیح ’’زندگی‘‘سے کوئی نسبت نہیں، کوئی علاقہ نہیں ، چہ جائیکہ وہ ان کا موازنہ کریں اوران کی قدروقیمت کا پتہ لگائیں۔ اور اگرکوئی نسبت ہوسکتی ہے توصرف یہ کہ ’’زندہ خیالات‘‘ ایک نئی اورالگ دنیا کے خیالات تصور کیے جائیں اوران کی انتہائی داد جودی جا سکے وہ حیرت واستعجاب ہو اوربس۔ اقبال بھی مشرق میں پیدا ہوا!یہ سچ ہے ،مگر کون ہے جو ارتقاء کے کرشموں سے واقف ہوں، علل و اسباب کی عجائب آفرینی کا مبصر ہو اورپھراس بات سے انکار کرے کہ قدر کو جب کسی قوم کونئی روح بخشتی ہوتی ہو، اسے نئے قالب میں ڈھالنا مقصود ہوتا ہے تو اس قوم ہی سے پہلے نئی روح ، نئی عقل اور نئے احساس کے افراد پیدا کیے جاتے ہیں۔ وہ افراد جن کی ہستیاں ایک عظیم الشان انقلاب زندگی کا پیش خیمہ ہوتی ہے، وہ افراد جن کے اقوال اگرچہ ابتدا میں عالم بالا کی باتیں متصور ہوتی ہیں، مگر جونہی لوگ ان کی صداؤں سے مانوس ہوتے ہیں، ان کی دعوت پر کان دھرتے ہیں، ان کے خیالات و ارشادات کو جذب کرتے ہیں اور ان کے کہنے پرعمل کے لیے کمر بستہ جوجاتے ہیں، حتیٰ کہ وہ خود ویسا ہی سوچنا اور ویسا ہی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر نہ ہو ہستیاں رہتی ہیں، اورنہ ان کے خیالات معمولی خیالات متصور ہوتے ہیں۔ غرض فطرت کو جن اقوام میں انقلاب منظور ہوتا ہے غیر معمولی افراد بھی انہی سے پیداہوتے ہیں۔ اقبال کس مضبوط فلسفہ کی ب نیاد ڈال رہا ہے! بنائے جنس کو کن مکارام اخلاق کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کیا ہستی ہے؟ فرد کیا ہے؟ وہ کامل کس طرح ہوسکتا ہے؟ قوم کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ تمام دنیا ایک ہی قوم کیسے بن سکتی ہے؟ پھر اقبال کے پاک جذبات کس عالمگیر اخوت کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ اس کی باریک نگاہ تمام عالم کو کس ایک معاشرت اور ایک تمدن میں دیکھنے کی آرزو مند ہے۔ اس کا محبت بھرا دل کس مساوات کا متمنی ہے۔ وہ کس وحشت کے ساتھ دوئی سے گریزاں ہے۔ کس درد سے یک رنگی کا وارفتہ ہے؟ یہ سب ایسے حقائق ہیں کہ افراد کو افراد بنانے کے لیے ،قوموں کوایک قوم میں ظاہر ہونے کے لیے اور دنیا کوایک دنیا کہلانے کے لیے بغیر ان کی طرف رجوع کیے چارہ نہیں ۔ سال گزر رہے ہیں، علامہ موصوف نے خدا جانے کتنے عرصہ کے فکر و تدبر اور دماغ سوزی کے بعد اپنی صحیح و اعلیٰ قوت فکریہ کی بدولت بنی نوع کے لیے مکمل حیات فردیہ کے حصول کا نسخہ تجویز کیا۔ مثنوی اسرار خودیکی شکل میں نسخہ چھپا اور لوگوں نے دیکھا، بنی نوع پر تو یہ ایک عام احسان تھا ۔ مخصوص مورد اس انعام کے ہم مشرقی لوگ تھے اورپھر ان میں مختص ہم ہندوستانی جن کی زندگی اسل انسانی زندگی سے کہیں دور ہے، جن کے نفس مردہ ہو چکے ہیں، جن کی قویٰ ضعف کا شکار ہیں، جن کی ہمتیں سو چکی ہیں، جن کے دماغ پست خیالات کا گھر ہیں اورجن کی زندگی ایک طویل شیریں حالت نزع ہے۔ مگرافسوس نہ صرف ہم مریضوں کوبلحاظ افرادابھی تک پوری واقفیت نہیں ہوئی کہ یہ نسخہ ہمارے ہی مرض کا علاج ہے بلکہ ہمارے مدعی نباضوں کی تشخیص اب تک یہ درفات کرنے سے قاصر ہے کہ یہی وہ دوا ہے جو کافی و شافی ہو سکتی ہے اور ہم جو علاج آج تک عمل میں لا رہے ہیں وہ مریض کو اورمریض بنانے میں ممد ہیں نہ کہ اسے صحت و تندرستی عطا کرنے میں، اور نہ صرف یہ کہ قومی پیشواؤ ں اور مبلغوں نے اس کتاب میں نگاہ نہیں کی اور افراد ملت کو مکمل افرادبنانے کے درپے نہیں ہوئے بلکہ ادباء و شعرا جن کی نظر عام نظروں سے گہری ہونی چاہیے اور جن کا مذاق سخن عام مذاقوں سے زیادہ لطیف اور زیادہ پاکیزہ ہونا ضروری ہے، وہ بھی بلحاظ شعر و ادب کے ابھی تک اس کی خوبیوں سے ناآشنا ہیں۔ مگر ناآشنا ہوں بھی کیوں نہ، ہم خود کہہ چکے ہیں کہ زوال و انحطاط کے زمانہ کے خیالات اورمذاق کے اس قابل نہیںہوتے کہ ان کے حقائق و وقائق تک رسائی ہو۔ جب ہم حقیقی زندگی ہی سے روشنا س نہیں تو حقیقی ادب اور حقیقی شعر کو کیا سمجھیں گے اورہمارے اس کتاب کے طرف ابھی تک بہت تھوڑا تامل ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ ہم علم و ادب کی انتہائی وسعتوں سے آشنا نہیں۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ شعر سے دنیا میں کیا کیا کام لیے جا سکتے ہیں، زندہ اقوام کے اشعار میں مضامین کیسے ہوسکتے ہیں اورکیوں ہوتے ہیں؟ ان کے اسلوب بیان میں کیا سحر ہوتا ہے۔ پھر شعریت کیا ہے اور شعریت کے کون سے اثرات زندگی بخش ہیں اورکون سے مرگ آور؟ ہمارے نقاد مثنوی اسرار خود ی کی کسی ایک خوبی کو آج تک پورے طورپر واضح نہ کر سکے۔ اس کے مطالب و معانی کو کماحقہ ادراک نہ کر سکے، یہ نہ جان سکے کہ سلسلۂ خیالات کس مرکز سے کس ربط و ضبط کے ساتھ زمین سے اٹھا ہے اور کس قوت و اعجاز سے آسمان تک پہنچ کر تمام فضا میں بسیط ہو رہا ہے۔ بلکہ علم و ادب کی حقیقت سے اپنے بے پہرہ ہونے کا ثبوت اس طرح دیا ہے کہ اسرار خودی میں حافظ خواجہ علیہ الرحمہ کے ادب پر جو تنقید تھی اسے اپنی کم فہمی سے خواجہ کی بزرگی پر حملہ سمجھا۔ گویا نہ صرف ادب کو سمجھنے سے قاصررہے بلکہ نقاد کہلا کر تنقید کے سمجھنے سے درماندگی کا ثبوت دیا۔ کس قدر افسوس کاا مقام ہے، کس قدر علم و ادب کی حقیقت سے ناآشنائی کا اظہار ہے کہ اسرار خودی کے ادب کو جو آج مغرب کے ادباء کو محو حیرت کر رہا ہے نہ سمجھنا تو درکنار ہماری نقاد میں ایک معمولی ادبی تنقید کو نہ سمجھ سکے، اورپھراس پر جو ہمہ دانی کے دعوے ہیں، وہ خدا ہی جانتا ہے۔ ہم پھر بھول رہے ہیں ، ہمارا افسوس نا حق ہے اورہمارے کلیوں کی بنا پر ناحق ہے۔ ہم اس وقت تک اسرار خودی کو نہ سمجھ سکتے جب تک کہ زندہ قومیں اسے پہلے نہ سمجھ لیتیں۔ اورہمارے سمجھانے کے لیے اس کی تشریح میں کچھ نہ کچھ لکھ چکتیں۔ مثنوی مذکور کے انگلستان میں انگریزی زبان میں ترجمہ ہونے کے بعد کئی مغربی ادیب اورفلسفی اورنقاد اس پر رائے زنی کر چکے ہیں۔ انھی تنقیدوں میں سے ایک تنقید کا ترجمہ ہم ناظرین اور بالخصوص نقاد حضرات کے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ جان لیں ہم اسرار خودیکو کیا سمجھتے تھے اور ’’خودی‘‘ کے مالکوں نے اسرار خودی کو کیا سمجھا ہے۔ اس مضمون سے یہ بھی واضح ہوگا کہ علم و ادب کی کیا حقیقت و وسعت ہے اوراگر دنیا ’’آج ‘‘ کی دنیا بنی ہے تو ادب ہی کے اثرات سے بنی ہے اور اگر’’کل‘‘ کی دنیا بنے گی تو اسی کے کرشموں سے۔ اس تنقیدمیں یہ حقیقت پڑھ کر ہمارے نقاد ان ادب کی اوربھی آنکھیں کھلیں گی کہ زندہ اقوام کے ادباء کے نزدیک اگر کوئی مفید اورزندہ ادب لکھنے والا،مفید اور زندہ شعر کہنے والا، مفید اور زندہ فلسفہ کا سبق دینے والا اس وقت تمام دنیا میں زندہ ادیب ، زندہ شاعر ، زندہ فلسفی ہے تو وہ صرف ایک اقبال ہے اور بس، اور حیات انسانی کا اصل راز اگرکسی نے آج تک سمجھا ہے تو اسی نے۔ فاضل نقاد نے جس خوبی اور قابلیت سے اسرار خودی کے اصل جوہر کو ہمیں دکھایا ہے، ہم فی الحقیقت اس کی داد نہیں دے سکتے۔ دنیا کے دو مشہور ترین فلسفی ادباء (نٹشا اور وٹمین) سے جن کا سکہ موجودہ وقت میں تمام اہل مغرب پر ہے اقبال کا مقابلہ کرکے دکھادیا ہے کہ وہ دونوں حضرات مدت العمر میں انسان کے متعلق جس نکتہ کو نہ سمجھ سکے، اسے اقبال کی حقائق شناسی نے کس خوبی اور سادگی سے دنیا کا صحیح مطمح نظر بنا کر دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ اس تنقید کالکھنے والا امریکہ کا مشہور فاضل فلسفی ، ادیب اور نقاد مسٹر ہربرٹ ریڈ ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے اورسمجھنے کا طلف تواصل زبان انگریزی ہی میں ہے۔ ترجمہ اس مفہوم کو کیا ادا کرے گا،جو اصل مضمون نگار کے انگریزی الفاظ میں مضمر ہے۔ یہ مضمون امریکہ کے اخبار نیو ایج (New Age)مؤرخہ ۲۵ اگست ۱۹۲۱ء میں چھپا تھا۔ وٹمین امریکہ کا سب سے بڑا فلسفی شاعر ہے، اس کے کلام پر امریکہ کے ایک نقاد مسٹر لارنس نے اپنی تنقید شائع کی تھی۔ مسٹر ہربرٹ ریڈ یہ شکایت کرتا ہوا کہ صحیح تنقید اب ادبی دنیا میں مقصود ہے، اس تنقید پر نظر ثانی کرتا ہے۔ اس کی داد دینے کے بعدخود بتاتا ہے کہ وٹمین کے کلام میں کیا کیا خصوصی کمالات تھے۔ پھر اس کے کمالات کے بعض نقائص پر جومسٹر لارنس نے لکھے ہیں، بحث کا آغاز کرتے اس طرح قلم کو جولانی دیتا ہے: مسٹر لارنس نے جس خوبی کے ساتھ ’’وٹمین‘‘ کی متذکرہ بالا حقیقت آفرینی کو بے نقاب کیا ہے بعینہ ویسی تدقیق و تنقید سے اس ’’شاعرانہ کذب‘‘ کے عنصر کو بھی جو اس کے کلام میں پایا جاتا ہے، بالتشریح واضح کر دیا ہے ، کیونکہ ’’وٹمین‘‘ باوجود اپنی تمام عظمت و علو مرتبت کے ’’کامل شاعر‘‘نہ تھا۔ مگر اس کے کلام کی تصور کے اس رک پر چنداں اصرار کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک اس ’’شاعرانہ کذب‘‘ تخیل کی محدود جولانی اور تعینات عالم سے چشم پوشے کے مسئلہ سے تعلق ہے اس کے کلام سے عیاں ہے اور بالکل اظہر من الشمس۔ اس کی شاعری کے اوربھی پہلو ہیں۔ ضبط تخیل، اثبات تعینات اور یہ وہ پہلو ہیں جن کے سامنے لطیف اندرونی احساس کی بو قلمونی ہیچ نظرآتی ہے اور یہی پہلو ہیں جوزیادہ مستحق توجہ ہیں۔ ان معنوں میں ’’وٹمین‘‘ کے قلم سے حسن نگارش پا چکی ہے۔ یہ ’’وٹمین‘‘ کی کتاب’’ڈیموکریٹک و سٹاز‘‘(مناظر جمہوریہ) کے صفحات میں پوشیدہ ایک ’’فٹ نوٹ‘‘ہے جو اس قدر جلی نہیں کہ قاری کی توجہ کو خود بخوداپنی طرف توجہ مبذول کرلے۔ اس لیے مجھے حق ہے کہ میں اسے اس مقام پر نقل کر دوں۔ ادبی صناعت و بداعت کی معنی آفرینی کا منتہائے عروج، اس کا حاصل، اس کی حظ و انبساط کی انتہائی وسعتیں جو روح انسانی کی بلند پروازی کے لیے ممکن ہو سکتی ہیں، سب ’’مابعدالطبیعات‘‘ کے حقائق و لطاف ہیں۔ علم روحانی کے غوامض و اسرار ، خود روح اور ہمارے تشخیص ذاتی کی بقا و دوام کا مسئلہ بھی اسی میں شامل ہے۔ تمام قرآن میں نفس انسانی کی رسائی اس منزل تک ہوتی رہی ہے اور آئندہ ہوتی رہے گی۔ کم سے کم اس نکتہ میں توبلا امتیاز نسل و زمانہ تمام بنی نوع ایک ہی مقام پر کھڑے ہی بلکہ اس کی تحسین و توصیف میں بھی متقدمین و متاخرین تمام کے تمام ہم آہنگ ہیں۔ انسانی نگاہ میں وہی مصنفین محبوب ترین ہیں جو اس میدان کے شہسوار ہیں اوراگرچہ ان کا صلہ چاندی سونے کے سکوں کے اور کجھ نہیں اور اگرچہ بالاخر کچھ ہو تو صرف یہ کہ شہرت ان کے قدم چومے اور عظمت و فضیلت کا تاج ان کے سر پر رکھا جائے۔ مگر بایں ہمہ ابتذال ان کے رشحات قلم (جن میں اگرچہ ازروئے حسن بیان سقم بھی ہوں) وہ انمول موتی ہیں جن کو دنیا جان سے بڑھ کر عزیز و محفوظ رکھے گی۔ ادب و شاعری کا منتہی ہمیشہ مذہب رہا ہے اورہمیشہ رہے گا۔ وید، ژند ، اوستا ،تالمود، زبور، مسیح اوراس کے تلامذہ اناجیل، تصانیف افلاطون، قرآن اعلیٰ ھذالقیاس ہمارے زمانہ میں سویڈنبرگ کی تحریریں۔ پھر لینٹز ،کانٹ ا ورہیگل کے گراں بہا افکار، سب ایسے اعلیٰ پایہ کے ادبی ذخائر ہیں جو علم و ا دب کی حقیقی بلندیوں اور عروج کو اس طرح نمایاں کرتے ہیںجس طرح دنیا کے عظیم الشان پہاڑ سطح دنیا سے بلند و نمایاں سر بفلک نظر آتے ہیں۔ پھران کے دوش بدوش شعراء کے وہ نتائج طبع بھی ہمیشح حرزجاں بنے رہیں گے جن میں اشخاص و واقعات، جذباب بہیمیہ انسانی اورمناظر عالم مادی کے متعلق راگنیاں الاپنے کے ساتھھ ساتھ انھوں نے اپنے کلام میں مذہبی انداز اور شعور اسرار کے علاوہ مستقبل، غیب ، شہود ،مشیت، غائت تکوین عالم وغیرہ وغیرہ مسائل پر حصول اطلاع کے مضامین کو بھی کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا، بلکہ بالواسطہ ہر ادائے بیان میں ان نکات کو ادا کر جاتے ہیں۔ مگر یہ علم ادب کے نقد و ماہیت کی بجائے اس کی وسعت استعدادی کی تعریف ہے، جو ’’وٹمین‘‘ نے کی ہے۔ یعنی یہ ادب کا ’’کم‘‘ہے نہ کہ اس کا ’’کیف‘‘۔ یہ تعریف ’’انداز بیان‘‘و ’’حسن ادا‘‘کے مسئلہ کو حل نہیں کرتی بلکہ اپنے الفاظ کی سادگی میں اسے پائمال کرجاتی ہے(یہ گرامی تصانیف جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، علم حسن الاعیان کے نظریہ سے خواہ کتنی سقیم ہوں اپنی ذاتی خوبی میں ہمیشہ پاک و بے عیب ہیں۔ ان کی طاقت فکر کی آتش سیری دشت خیالات میں نیا جادو پیدا کرتی ہے اور قلوب انسانی کوپگھلا کر تمام عالم کو نئی شکل میں متشکل کر جاتی ہے) مگر ان توضیحات کے زیر شرائط ’’وٹمین‘‘ کا مذکورہ صدر ’’منتہی‘‘ہے وہ صحیح و نقد ’’منتہی‘‘ہے جو ’’عمل‘‘و ’’بلاواسطہ افادہ‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر طرح موزوں و مناسب ہے۔ آج اس مقام اور اس زمانہ میں اس ’’منتہی‘‘کو نگاہ رکھتے ہوئے میرے ذہن میں اگر کسی زندہ شاعر کا خیال آ سکتا ہے جو اس میزان میں پورا اتر سکتا ہے تو وہ ایک ہی ہے اور وہ بھی لازمی طور پر نہ ہمارا ہم قوم اور نہ ہمارا ہم مذہب ۔ میری مراد اقبال سے ہے، جس کی نظم ’’اسرار خودی‘‘ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ڈاکٹررینلڈ نکلسن کے قلم سے اصل زبان فارسی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر میسرز میکلمیلن کے اہتمام سے شائع ہوئی ہے۔ اس زمانے میں جب کہ ہمارے وطن متشاعربلیوں اور بٹیروں پر تک بندیوں سے اپنے یاروں کی ضیافت طبع کا سامان پیدا کر رہے تھے اور کیٹس ۱؎کے انداز پر پیش پا افتادہ مضامین پر طبع آزمائیوں میں مشغول تھے عین اس وقت لاہور میں یہ نظم جس کی نسبت ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس نے ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں کے خیالات میں ایک محشر برپا کردیا ہے، تصنیف کی گئی اورشائع کی گئی۔ ایک ہندی مسلمان ۲؎نے لکھا ہے کہ ’’اقبال ہم میں مسیح بن کر نمودار ہوا ہے جس نے مردہ اجسام کو جنبش دے کر ان میں حیات تازہ کی لہر دوڑادی ہے‘‘۔ تم پوچھو گے یہ کیا ٹوٹکا تھا جس نے نادان خریداروں کے دلوں کو موہ لیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ٹوٹکا نہ تھا، کسی سیاسی مجذوب کی بڑ نہ تھی، کسی مکتی فوج کے نجات فروش کا نسخہ نجات نہ تھابلکہ یہ اس نظم کا اثر تھا جس کا حسن معنوی موجودہ فلسفہ کے اہم ترین نکات و دقائق پر حاوی ہے۔ یہ اس نکتہ آفرینی کا طلسم تھا جس نے افکار کی گوناگونی سے وحدت ایمانی پیدا کردی ہے۔ یہ اس حقیقت ترجمانی کا سحر حلال تھا جس نے ایک ایسی منطق کو جو محض مدرسوں کے طلباتک ہی محدود و مخصوص تھی، ایک عالمگیر الہام کی صورت میں بدل کر عالم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اقبال اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس کے افکار نٹشا کے خیالات سے متاثر ہوئے ہیں۔ بایں ہمہ نٹشا اس کا موازنہ ناگزیر ہے۔ نٹشا کا ’’فوق الانسان‘‘ اقبال کے ’’انسان کامل‘‘ سے صرف اتفاقی اوصاف میںمختلف ہے اگرچہ اول الذکر کی بنیاد امرا کیباطل تمدن پر ہے اورموخر الذکر، جہاں تک میرا خیال ہے ان معنوں میں زیادہ یقینی اور مستحکم بنا پر مبنی ہے، کہ اس کی تعریف میں ’’منتہی‘‘(یعنی کسی سقراط، کسی مسیح ؑ،کسی محمدؐ) کا صحبت آشنا ہونا یا اس کے ازروئے پیدائش مکمل ہونا تسلیم نہیں کیا گ یا بلکہ اسے فطرت کے قوائے مولدہ کا مال و مقصود ٹھیرایا گیا ہے، ساتھ ہی اس کے اقبال کا ’’انسان کامل‘‘ ارتقاء جمہور کا منتہی ہے۔ وہ ایک اصول ہے جو اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہر انسان ایک مستتر طاقت کا مرکز ہے۔ جس کے ممکنات زندگی ایک خاص طریق عمل سے ترقی پا سکتے ہیں۔ انسانیت کا یہ نصب العین حقیقت کے زیادہ قریب ہے اور اس لحاظ سے وٹمین کے ’’نفس متوسطہ‘‘۳؎ سے زیادہ مناسب و متشابہ ہے۔ تاہم تینوں نصب العینوں کی تہ میں ایک ابتدائی خواہش یا خیال مضمر ہے۔ ان میں فرق صرف اس قدر ہے جس قدر ان کے دیکھنے میں پیش بینی سے کام لیا جاتا ہے۔ ازروئے مذہب ان سب کی بنیاد یہ اعتقاد ہے کہ انسان ایک قوت الٰہیہ کی کشش و جذب سے پیداہوتا ہے اور ارتقاء پاتا ہے جس کا نام ’’خدا‘‘ ہے۔ ازروئے سائنس مفروضہ یہ ہے کہ ہیئت واقعات میں ایک قوت مولدہ داخل کی جاتی ہے، جو شعور انسانی پر از خود جلوہ گر ہوتی ہے اورنفس انسانی کے شعور و ادراک کو ہمیشہ ترقی دیتی رہتی ہے۔ از روئے ما بعدالطبیعیات یہ دونوں پہلو جن میں سے ایک مذہب نے اختیار کیا ہے اور دوسرا سائنس نے متحد ہیں۔ ’’زندگی‘‘(میں اقبال کی نظم کی تمہید سے نقل کرتاہوں)ایک متقدم حرکت جذب وہضم ہے۔ یہ اپنی پیش روی میں اپنے رستہ کی تمام رکاوٹوں کو خود اپنے اندرجذب کرکے دور کرتی جاتی ہے۔ آرزوؤں اورنصب العینوں کا مسلسل پیدا کرتے رہنااس کا اصلی جوہر ہے اور اس نے اپنی حفاظت و توسیع کے لیے ایسے ایسے آلے (حواس ، عقل وغیرہ وغیرہ) ایجاد کیے ہیں یا خود اپنی ہی ذات میں پیدا کرلیے ہیں جو اس کے منگہائے راہ کو جذب کرنے اور اس کے اپنے مشابہ بنانے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ زندگی کے رستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مادہ ہے یا یوں کہو کہ نیچر ہے۔ تاہم نیچر اس لحاظ سے کہ وہ زندگی کی اندرونی طاقتوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آئیں، اپنی ذات میں شر نہیں‘‘۔لہٰذا زندگی ایک سعی آزادی ہے ۔ اور اس سعی کا طریق ’’انا‘‘کی تعلیم ہے یا دوسرے الفاظ میں جیسے خود محمد (ﷺ) نے بتایا:تخلقوا باخلاق اللہ(اپنے اندر اخلاق پیداکرو)۔ یہ حدیث ہمیں وٹمین کا یہ قول یاد دلاتی ہے۔ ’’میں مکمل اشیاء کی انتہا ہوں اورپیدا ہونے والی اشیاء کا محیط ‘‘۔ وٹمین نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’میں خداکو مردوں اور عورتوں کے چہروں میں دیکھتاہوں اورخود اپنے چہرے میں جب آئینہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں‘‘۔نٹشا نے اسی نصب العین کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ’’خالق اپنے ایسے اورخالقوں کی جستجو میں رہتا ہے‘‘۔ اورفی الحقیقت سارے کا سارا مذہب اور سارے کا سارا فلسفہ بالاخر اسی تکمیل خودی کے اصول میں آجمع ہوتا ہے۔ از روئے نفسیات بھی انسان کسی ایسی الوہیت کو تسلیم نہیں کر سکتا، جس کا وہ خودمظہر نہیں اور معلوم بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ امر ایک صداقت طبعیہ ہے۔ اقبال نے صداقت کا، نٹشا یا وٹمین کی نسبت زیادہ وثوق سے ادراک کیا ہے۔ وٹمین کا ’’نفس متوسط‘‘ مبہم وغیر مستخص ہے اور نہ اس قدر جامع ہی ہے جیسا کہ ایک منتہی کو ہونا ضروری ہے۔ نٹشا کا ’’فوق الانسان‘‘ صحبت انسان سے گریزاں اورنفور ہے۔ اس لیے جبلتہً باطل ہے۔ مگراقبال کا ’’انسان کامل‘‘’’نفس متوسطہ‘‘ ہے اورجلیس ہمدرد ااور اقبال کا ’’نفس متوسطہ‘‘’’انسان کامل ‘‘گویا۔ ’’خود صنم ہے خود پرستار صنم‘‘ با خودے شنید ز افکار خودی نعرہ زد از گنج ’’اسرار خودی‘‘ وا نہ گشتہ برمن بے خودی ہنوز سرے از ’’اسرار‘‘ و رمزے از ’’رموز‘‘ (ہمایوں، مئی ۱۹۲۲ئ) حواشی ۱- انگریزی شاعر ۲- ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری ۳- وکذالک جعلنا کم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھداء (قرآن) اسرار خودی یوسف سلیم چشتی مثنوی اسرار خودی پہلی مرتبہ ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ علامہ نے اس کی اشاعت سے قبل اپنے چند دوستوں کو خطوط لکھے تھے کہ اس مثنوی کے لیے کوئی موزوں نام تجویز کریں ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انھوں نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو بھی لکھا تھا کہ وہ مثنوی جس میں خودی کی حقیقت و استحکام پر بحث کی ہے، اب تقریباًتیار ہے اورپریس جانے کو ہے۔ اس کے لییبھی کوئی عمدہ نام یا خطاب تجویز فرمائیے ۔ شیخ عبدالقادر صاحب نے اس کے نام ’’اسرار حیات‘‘ اور ’’پیام سروش‘‘تجویز کیے ہیں۔ بہرحال مختلف ناموں میں سے اسرار خودی علامہ کو پسند آیا۔ اوراس میں یہ خوبی بھی ہے کہ ترکیب مثنوی کے پہلے شعر می ں مستعمل ہے: پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ می بینی نہ اسرار خودی است دوسری خوبی یا مناسبت یہ ہے کہ علامہ نے اس مثنوی میں بلاشبہ خودی کے اسرار واضح کیے ہیں، یعنی وہ استعدادیں یا صلاحیتیں جو خودی میں پوشیدہ ہیں اورمسلمان صدیوں سے ان سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔ اوریہی وجہ ہے کہ جب یہ مثنوی شائع ہوئی تو اس کا خیر مقدم ’’شکوہ‘‘ کی طرح گرمجوشی کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ اول توزبان فارسی تھی، دوسرے یہ کہ مضامین غیر مانوس تھے۔ جن سے طبائع کو کوئی مناسبت نہیں تھی۔ حد یہ ہے کہ کتاب کانام ہی عوام اورخواص د ونوں کے لیے بالکل نیا تھا۔ اورخودی کا مفہوم متوسط درجہ کی عقول سے بلاشبہ بالا تر تھا۔ بلکہ اکثر اصحاب کے لیے غلط فہمیوں کا موجب بن گیا ۔س جس کی تفصیل آئندہ اوراق میں ملے گی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کی تاریخ لکھنے سے پہلے بیسویں صدی کے آغاز میں دنیائے اسلام اور مسلمانان ہندوستان کی حالت کا مختصرجائزہ ہدیۂ ناظرین کر دیا جائے۔ تاکہ وہ اس تاریخی پس منظر کی روشنی میں اس مثنوی کی ضروریات، اہمیت اور قیمت کا صحیح اندازہ کرسکیں۔ تمام دنیائے اسلام پر جمود وخمود کی کیفیت طاری تھی، جو لازمی نتیجہ تھی اس کو رانہ تقلید، تنگ نظری اور جہالت کا جو ملت مرحومہ پر صدیوں سے مسلط تھی۔ (۱) مجمع الجزائر مشرقی خصوصاًجاوا کے مسلمانوں میں کسی قسم کی حرکت نہیں تھی، نہ سیاسی، نہ ثقافتی نہ علم ی۔ یہ لوگ ڈرچ حکومت کے ’’زیرسایہ‘‘ کان ڈھلکائے غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ چونکہ دستور قدیم کے مطابق حج کرلینے کے بعد ، شادی میں سہولت حاصل ہو جاتی تھی، اس لیے اس جزیرہ کے باشندے سے اس فریضہ کی ادائیگی میں بہت سرگرمی کااظہار کرتے تھے۔ بلکہ اس کو جہاد فی سبیل اللہ سمجھتے تھے۔ (۲) افغانستان کے باشندے تقلید تعصب، جہالت اوررسوم پرستی میں تمام مسلمانوں سے چار قدم آگے تھے اور آج بھی یہ لوگ اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ ان معاملات میں کوئی قوم ان کے حریف نہیں ہے۔ سیاسی اعتبار سے افغانستان کے مسلمان انگریزوں کے زیر اقتدار تھے۔ کیونکہ عبدالرحمن خاں اور امیر حبیب اللہ خاں دونوں کو دولت برطانیہ کے خزانے سے ۲۶لاکھ روپے سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ جسے یہ حکمران اپنی رعایا کو خوش کرنے کے لیے ’’خراج‘‘ سے تعبیرکیا کرتے تھے۔ اگرچہ انگریز اس بات سے آگاہ تھے۔ لیکن عقل مند آدمی آم کھایا کرتا ہے پیڑ نہیں گنا کرتا۔ الفاظ کے پھندوں میں کہاں پھنستے ہیں دانا (۳) اب رہے ترکستان (سمرقندو بخارا) کے مسلمان، تو وہ ۱۸۷۳ء سے روس کی غلامی میں زندگی بسر کر ررہے تھے۔ ان پر بھی کامل جمودطاری تھا۔ افغانوں کی طرح علوم و فنون سے نفور اور ترقی سے کوسوں دور تھے۔ (۴) ایران کے مسلمان، ملوکیت اورمذہبی پیشوائیت کے شکنجہ میں گرفتار تھے۔ یعنی آزاد ہونے کے باوجود غلام تھے اور معاشی بدحالی جو ملوکیت کا لازمی نتیجہ ہے ان کے سروں پر مسلط تھی۔ فوج کے سپاہی رائفل کے بجائے تعویذ سے کام لیتے تھے۔ اور عوام الناس جدوجہد کے بجائے عزاخانوں مین سوز خوانی کو مقصد حیات سمجھتے تھے۔ اندریں حالات اگران کی قومی زندگی ایک مسلسل مرثیہ کی صورت میں تبدیل ہو گئی تھی تو جائے تعجب نہیں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب روس اورانگلستان نے یہ دیکھا کہ یہ قوم رات دن ماتم کرنے میں مشغول رہتی ہے۔ تو انھوں نے ۱۹۰۷ء میں اس کو غلام بنانے کے لیے ایک خفیہ معاہدہ کیا۔ جس کی رُو سے قرار پایا کہ شمالی ایران پر روس اورجنوبی ایران پر انگلستان مسلط ہوجائے۔ (۵)سلطنت ترکی، جس کی فوجیں کبھی قلب یورپ کو اپنی جولانگاہ بناتی تھیں اور ویانا پر دستک دیاکرتی تھیں ، اب اپنے دارالحکومت کی حفاظت بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ اگر انگریز مانع نہ ہوتے تو روسی فوجیں کبھی کی قسطنطنیہ میں فاتحانہ طورپر داخل ہوچکی ہوتیں۔ وہی سلطنت ترکی جس کے جنگی جہاز کبھی بحر ہند کا سینہ چیرتے رہتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اس قدر عاجز اورنادار ہو گئی تھی کہ جب ۱۹۱۱ء میں اطالیہ نے طرابلس پر حملہ کیا تو وہ اس ولایت کو بچانے کے لیے فوج روانہ نہ کر سکی۔ محض اس لیے کہ اس کے پاس کوئی جنگی جہاز نہ تھا۔ اب رہے ترکی علماء توان کی روشن خیالی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے قرآن حکیم کے ترجمہ کو کفر کا ہم پلہ قرار دے دیا تھا۔ ان علماء کی نظر میں قرآن حکیم اس لیے نازل نہیں ہوا تھا کہ اس کے معانی اورمطالب سے آگاہی حاصل کی جائے۔ مُلاّ خواہ افغانی ہو یا ایرانی، ہندی ہو یا ترکی، اس کی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ (۶) مصرپر انگریزوں کا اقتدار ۱۸۸۲ء میں قائم ہوا تھا۔ اور اس صدی کے آغاز میں وہ اقتدار، تسلط کی صورت میں مبدل ہو چکا تھا، سوڈان پر باقاعدہ برطانوی قبضہ ہو چکا تھا۔ لارڈکچز، مہدی سوڈانی کی قبر کھود کر اس مرد مجاہد کی ہڈیاں شارع عام پر نذرِ آتش کرکے برطانوی شرافت اورمغربی تہذیب کا مظاہرہ کر چکاتھا۔ (۷) الجیریا اور طونیشیا پر تیسری بڑی طاقت یعنی فرانس نے اپنا تسلط قائم کرلیا تھا اورمراقش آزادی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان یا تو مختلف یورپین طاقتوں کے غلام تھے یاغلامی کی طرف مائل تھے۔ ساری دنیائے اسلام میں صرف ایک ہستی سید جمال الدین افغانی کی بے شک ایسی تھی جس نے مسلمانوں میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن افسوس مصر کے علاوہ انھیں کسی اسلامی ملک میں کوئی مفتی محمد عبدہٗ نصیب نہیں ہوا۔ انھوں نے ۱۸۹۷ء میں وفات پائی۔ سودا کا یہ شعر سید صاحب کی زندگی پر صادق آ سکتا ہے: سودا قمار عشق مین شیریں سے کوہکن بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا! دنیائے ا سلام پر اس وقت اس شدت کا جمودطاری تھا۔ کہ ہر ملک میں کئی کئی جما ل الدین پیداہوتے تو شاید کچھ کامیابی ہوتی۔ بیسویں صدیں کے آغاز میں دنیائے اسلام کی حالت زار کسی قدر اندازہ لسان العصر اکبر الہ آبادی کے اس شعر سے بھی ہو سکتا ہے۔ مراقش جا چکا ایراں گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ کہ جیتا ہے یہ لڑکی کا مریض ناتواں کب تک اب رہے ہندی مسلمان جن میں حضرت اقبال پیداہوئے اورجن کے بیدار کرنے کے لیے انھوں نے ۱۹۱۵ء میں یہ مثنوی لکھی تو ان کی حالت افغانوں، ترکمانوں ، ایرانیوں، عربوں اورمصریوں سے بھی بدترتھی۔ چونکہ مسلمان ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں پیش پیش تھے۔ اس لیے انگریزوں نے کامیابی کے بعد ان سے ایسا ہولناک انتقام لیا کہ ہلاکو اور چنگیز کو بھی شرما دیا۔ چند سال تک تویہ کیفیت رہی کہ جسے دیکھا حاکم وقت نے کہا یہ تو قابل دار ہے اس کے بعد جب آتش انتقام کچھ ٹھنڈی ہوئی تومسلمانوں کے اندرحریت کی روح فنا کرنے کے لیے تمام ممکن ذرائع استعمال کیے گئے اور جب تک انگریزوں کو یہ یقین نہیں ہوگیا کہ اب کوئی کلمۂ حق کہنے والا باقی نہیں رہا۔ دارو گیر اورقید و بند کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ بعد ازیں انگریزوں نے معاشی اعتبار سے ان کو تباہ کرنے کی صورت یہ نکالی کہ پہلے ان کی جاگیریں ضبط کرکے ہندوؤں کے حوالہ کر دیں۔ اس کے بعد اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کر دیے ۔ جب برادرانِ وطن نے انگریزوں کا یہ طرز عمل دیکھا تو ان کے اندربھی یہ آرزو پیداہوئی کہ اب مسلمانوں سے محمود غزنوی کے حملوں کاانتقام لینا چاہیے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے انھوں نے کانگریس کے پردہ میں اپنی قوم کے اندروطنیت کے جذبات کو ابھارنا شروع کر دیا۔ اس معاملہ م یں آریہ سماج نے ہندوؤں کی بڑی امداد کی۔ ایک طرف مسلمانوں کے دین کے خلاف نفرت انگیز لٹریچر شائع کرنا شروع کر دیااور دوسری طرف ہندوؤں کے سامنے رانا پرتاب، شیواجی اور بندہ بیراگی کو قومی ہیروبنا کر پیش کرناشروع کیا۔ کانگریس کی تحریک دراصل ہندو مذہب اور ثقافت کے احیاء کی ایک زبردشت کوشش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شروع میں تمام نامور آریہ سمامی مثلاًبال گنگا وہر تلک،لاجپت رائے اورشردہانند وغیرہ اس کے سرگرم معاون تھے۔ لیکن مسلمان ۱۹۳۷ء تک اس حقیقت سے آشنا نہ ہو سکے۔ جب بیسویں صدی کاآغاز ہوا تو ہندی مسلمان لاشۂ بے جان کا مصداق بنے ہوئے تھے۔ (۱) سارے ملک میں ان کی کوئی سیاسی انجمن نہیں تھی کیونکہ سیاسی شعور ہی فنا ہو چکا تھا۔ (۲) لے دے علی گڑھ ایک کالج تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمت مل سکے۔ چنانچہ مسٹر ماریسن کاسب سے بڑا احسان ہماری قوم پر تھا کہ وہ مسلمان گریجویٹوں کو ڈپٹی کلکٹر پر فائز کرا دیتے تھے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں یہ چیز جتنی قیمتی تھی اس کا اندازہ اکبر کے اس شعر سے ہو سکتا ہے۔ شوق لیلائے سول سروس نے مجھ مجنوں کو اتنا دوڑایا، لنگوٹی کر دیا پتلون کو (۳) دوسری درسگاہ دیوبند میں تھی جس کا نصب العین تو صحیح تھا لیکن جو علماء وہاں سے فارغ ہو کرنکلتے تھے ایک تو وہ حالات حاضر ہ سے بے خبر تھے۔ دوسرے یہ کہ دین اسلام کا مفہوم ان کے ذہنوںمیں صرف یہ تھا کہ دین اور دنیا دومختلف چیزیں ہیں۔ اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا کو ترک کرکے اپنی زندگی نماز، روزہ اور ادرادوظائف میں بسر کی جائے اور علماء کا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کو شرعی مسائل بتادیے جائیں ۔یا کوئی استفتاء آئے تو اس کا جواب لکھ دیا جائے یا طلباء کو دین کی کتابیں پڑھا دی جائیں۔ اب رہے مسلمانوں کے تمدنی اورسیاسی اورمعاشی مسائل تو یہ سب دنیاداری کی باتیں ہیں۔ علماء یا مشائخ کو ان سے کیا واسطہ؟ (۴) امراء نشۂ دولت میں سرشار تھے اورانگریزوں کی خوشنودی کو زندگی کی معراج سمجھتے تھے۔ (۵) صوفیاء حجروں میں بیٹھے ہوئے بزرگوں کی کرامات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے اور اپنے مریدوں کی جہالت سے ہر قسم کے فوائد حاصل کرتے رہتے تھے۔ (۶) جب خواص کی یہ حا لت تھی تو عوام کی حالت کا تذکرہ ہی فضول ہے۔ (۷) رہ گئے شعراء تو وہ حسب دستور قدیم، خیالی معشوقوں کی زلفوں میں اسیر تھے۔ (۸) ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی لیکن اُس وقت اس جماعت کا مقصد مسلمانوں کے اندر حریت کے جذبات پیدا کرنا نہ تھا۔ بلکہ سرکار سے اپنے حقوق طلب کرنا اورہندوؤں کی ان چیرہ دستیوں کے خلاف استغاثہ نہ کرنااور مدرسوں کی گرانٹ کے لیے دست سوال دراز کرنااور تاج برطانیہ سے وفاداری کا اعلان کرنا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود جب ۱۹۱۱ء میں انگریزوں نے بنگالیوں کی شورش سے تنگ آ کر تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان کیا تو مسلمانوں کی آنکھیں کچھ کھلیں اوران کو یہ محسوس ہوا کہ وفاداری کا صلہ ذلت و خواری کے علاوہ اورکچھ نہیں ۔ یہ حالات تھے جب ۱۹۱۲ء میں علامہ کے دماغ میں اس مثنوی کا تصور پیداہوا۔ اب ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اس مثنوی کی تصنیف کا محرک اصلی کیا تھا۔ واضح ہو کہ جب بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو اس وقت علامہ کی عمر ۲۶۔۲۷ سال کی تھی۔ اور وہ ایم۔اے پاس کرکے پروفیسری کے عہدہ پر فائزہو چکے تھے۔ یعنی ان کاملی اور سیاسی شعورپورے طورسے بیدار ہو چکا تھا۔ چنانچہ جب انھوں نے اپنی قوم کے حالات کا جائزہ لیا تو اس کی پستی، ذلت و خواری اور درماندگی ان پرروز روشن کی طرح آشکارا ہوگئی۔ ایک تو خدا نے ان کو شاعرانہ دل عطا کیا تھا، اس کے علاوہ انھوں نے فلسفیانہ دماغ پایا تھا، لہٰذاایسے شخص کے لیے اپنی قوم کی زبوں حالی اوردرماندگی کا صحیح علم حاصل کرلینا کچھ بھی مشکل نہیں تھا۔ اگر یہ سچ ہے کہ عقلمنداں را اشارہ کافی است تو جو قوم سکھوں کی غلامی پررضا مند ہو سکتی ہو۔ اور ۱۷۶۶ء سے ۱۸۴۶ء تک اپنی مساجد اوراپنے قرآن دونوں کی بے حرمتی گوارا کر سکتی ہو، اور اس ذلت و خواری کے باوجودمناکحت پرمائل ہو سکتی ہو اس کے مردہ ہونے میں کس عقلمندکو شک ہو سکتا ہے؟ میراقیاس ہے کہ ۱۹۰۵ء تک اقبال کے اثرپذیر دل نے اپنی قوم کی زبوں حالی کا ہر پہلو سے مطالعہ کیا۔ اس کے بعد قدرت نے ان کو تین سال کے لیے اُن قوموں میں بھیج دیا جن کی تقدیریں صبح و شام بدلتی رہتی ہیں۔ جب انگلستان اورجرمنی میں انھوں نے زندہ قوموں کوبچشم خود دیکھاتو یقینا موازانہ کیا ہوگا کہ مسلمان____جو ہر سال حج بھی کرتے ہیں اورہر مزار پر چادریں چڑھاتے ہیں اورہر جمعرات کو قوالی بھی سنتے ہیں اورہر نوچندی کو ’’ختم خواجگان‘‘ بھی کرتے ہیں۔ غرضیکہ تقرب الی اللہ کی تمام شرائط پوری کرتے ہیں۔ وہ تو غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اوریورپ کی قومیں جو نہ گیارہویں کی نیاز کرتی ہیں، نہ بی بی کی صحنک بھرتی ہیں نہ رجب کے کونڈے کرتی ہیںنہ ماتم کرتی ہیں، نہ مرثیے پڑھتی ہیں۔ نہ ذوالجناح نکالتی ہیں۔ نہ تعزیے بناتی ہیں۔ یعنی اسلام سے کوسوں دور ہیں۔ لیکن وہ ساری دنیا پر حکمران ہیں۔ جب۱۹۰۸ء میںعلامہ ہندوستان واپس آئے تو ان کی حقیقت جو طبیعت نے ان کو مسلمانوں کے زوال و انحطاط بلکہ میری رائے میں اُن کی روحانی ،اخلاقی اور سیاسی موت کے اسباب کی جستجو پرمائل کیا ہوگا۔ بانگِ درا کی بعض نظموں سے میرے قیاس کی تائید ہوسکتی ہے۔مثلا ترا اے قیس کیونکر ہو گیا سوز دروں ٹھنڈا کہ لیلیٰ میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی نہ تخم لا الہ تیری زمین شور سے پھوٹا زمانہ بھر میں رسوا ہے تری فطرت کی نازائی ۱۹۱۰ _________________________ امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہشیار بھی ہیں سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ۱۹۱۰ _________________________ صفت شمع لحد مروۃ ہے محفل میری آہ اے رات! بڑی دُور ہے منزل میری _________________________ تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیّارا گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا _________________________ کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر اور اپنے مسلموں کی مسلم آزادی بھی دیکھ ساز عشرت صدا مغرب کے ایوانوں میں سن اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ ۱۹۱۱ئ _________________________ پھول بے پروا ہیں تو گرم نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے، آواز درا ہو یا نہ ہو _________________________ وائے نا کامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا _________________________ سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں _________________________ آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا ۱۹۱۳ء _________________________ خوب ہے تجھ کو شعار صاحب، یثرب کا پاس کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ نو مسلم نہیں ۱۹۱۳ء _________________________ کیا ان اشعار سے یہ حقیقت واضح نہیں ہوتی کہ ۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۳ء تک اقبال نے مختلف نظموں میں قوم کی پستی اورخواری پر مرثیہ خوانی کی ہے؟ ان اشعار سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان کی نظر میں مسلمانوں کے زوال کا سبب یہ تھا کہ وہ ذوق عمل سے بے گانہ ہو گئے تھے۔ اب ا قبال نے قرآن مجید کا مطالعہ شروع کیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کتاب اللہ قوموں کی زندگی اور ترقی کے لیے کیااصول بیانفرماتی ہے۔ اس زمانہ میں حضرت علامہ کی زندگی کا جو حال ہم تک پہنچا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم تہجد کی نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے اوراس کی آیات میں تدبر اور تفکر کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ کتاب مقدس کی اوراق اُن کے آنسووں سے ترہوتے جاتے تھے۔ چنانچہ مرحوم کا وفادار خادم علی بخش ہر روز اُن کے لیے اوراق کو دھوپ میں سکھایا کرتا تھا۔ ۱۹۱۱ء سے ۱۹۱۳ء تک یہ تین سال میری رائے میں اقبال نے شدید قسم کی باطنی کشمکش، ذہنی اضطراب اور دماغی کاوش میں بسر کیے۔کیونکہ قرآن حکیم کے مطالعہ سے یہ حقیقت ان پر واضح ہو گئی تھی کہ یہ تو سراسر عمل صالح یعنی جہاد کی تعلیم دیتا ہے۔ بلکہ نجات اُخروی کے علاوہ دنیاوی سربلندی کو بھی اسی مشغلہ سے وابستہ کرتا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کا وہ قبل ازیں مطالعہ کر چکے تھے کہ اس میں عمل صالح کے علاوہ اور سب کچھ تھا (میں اس کی تفصیل سے قصداًاجتناب کرتاہوں) تواب جوسوال علامہ کے سامنے پوری شدت اور سنجیدگی کے ساتھ آیا، وہ یہ تھا کہ کس چیز نے قوم کی قوت عمل کوفنا کر دیا؟ کافی غور و فکر کے بعدان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ غیر ا سلامی تصوف نے مسلمانوں کو ذوق عمل سے محروم کر دیا۔ غیر اسلامی تصوف سے میری مراد واحدۃ الوجود کی وہ تعبیر ہے جس کی رُو سے خدااورا نسان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ ظاہرہے جب کسی انسان کا خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان یہ عقیدہ ہوگا کہ: (۱) میں موجود نہیں بلکہ موہوم یا معدوم ہوں یعنی میرا وجود سراسر دھوکہ اور فریب نظرہے۔ تو وہ جدوجہد یا عمل صالح کی طرف کیسے راغب ہو سکتا ہے؟ (۲) کائنات میں جو کچھ نظر آتا ہے یہ سب خدا ہے۔ بالفاظ دگر میں بھی خدا ہوں تو پھر وہ شخص خدا کی عبادت یا اطاعت کر سکتا ہے؟ (۳) جب فرد کی ہستی باطل ہو گئی اور اس کس وجود ذاتی کی نفی ہوگئی تو اخلاقی ذمہ داری کا احساس کیسے پیداہو سکتا ہے۔ اورجب اخلاقی ذمہ داری کا احساس مٹ جائے تو دین یا مذہب کیسے باقی رہ سکتا ہے؟ اتنی بات تو اقبال سے پہلے مولانا حالی اورلسان العصراکبر نے بھی واضح کر دی تھی کہ مسلمانوں کے زوال کا باعث یہ ہے کہ انھوں نے قرآن مجید کو ترک کر دیاہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیوں ترک کردیا؟ اس بات کو ا قبال نے ہم پر واضح کیا اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ : (۱) انسان معدوم یا موہوم نہیں ہے بلکہ موجود ہے۔ اگر وہ یا اس کا وجود دھوکا یا فریب ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے زمین میں خلیفہ کیسے بناسکتا تھا؟ خلافت پر فائز ہونے کے لیے انسان کا موجود ہونا پہلی شرط ہے۔ (۲) انسان اورخدا میں اسی طرح فرق ہے جس طرح زمین اور آسمان میں فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور معبود ہے، انسان مخلوق ہے اور عابد ہے۔ اگر خدا اورانسان ایک ہوں تو پھر عبادت کون کرے گا؟ اور کس کی عبادت کرے گا؟ (۳) ہر انسان اپنی نجات وفلاح کا خود ذمہ دار ہے۔ وہ ایک دانا بینا اور توانا ہستی ہے۔ جسے اللہ نے نیکی اور بدی دونوں کے راستے دکھا دیے ہیںاور اسے اس بات کی آزادی عطا کی ہے کہ جو راستہ چاہے اختیارکرے۔ اس تفصیل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ویدانتی یا غیراسلامی تصوف قرآن حکیم کی ضد ہے ۔چونکہ مسلمانوں نے اول الذکر کو اختیار کر لیااس لیے وہ آخر الذکر سے قدرتی طورپر برگشتہ یا بے گانہ ہو گئے۔ جب ایک تاریکی اختیار کرے گا تو لا محالہ روشنی سے محروم ہو جائے گایا اُسے روشنی کو ترک کرنا پڑے گا۔ چنانچہ علامہ خود فرماتے ہیں : مختصر یہ کہ ہند و حکماء (خصوصاًشری شنکر اچاریہ) نے مسئلہ وحدت الوجود کے اثبات میںدماغ کو اپنا مخاطب بنایا۔ مگر ایرانی شعراء نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا۔ یعنی انھوں نے دل کو اپنی آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آکر کار یہ نتیجہ نکلا کہ اس مسئلہ نے عوام تک پہنچ کر تمام اسلامی قوم کو ذوق عمل سے محروم کر دیا۔ جب علامہ پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ قوم کی بربادی کا سبب نفی خودی کا غیر اسلامی عقیدہ ہے تو انھوںنے اپنے دل و دماغ کی ساری قوتوں کو اثبات یا خودی کے اسلامی عقیدہ کی اشاعت کے لیے وقف کردیا۔ یعنی ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے (۱) قوم کے مرض کی تشخیص کی _______محکومی اور غلامی (۲) اس مرض کا سبب دریافت کیا_______ نفیٔ خودی کا عقیدہ (۳) ازالۂ مرض کے لیے نسخہ تجویز کیا _______اثبات و استحکام اس کارنامہ نے ان کو عہد حاضر کا عظیم المرتبہ اسلامی مفکر، حکیم الامت ، ترجمان حقیقت، مجدد ملت اور اسلامی انقلاب کا سب سے بڑا داعی بنا دیا۔ انھوں نے اسرار خودی اور رموز بے خودی اس لیے لکھی کہ مسلمان عشق رسول ؐ کی بدولت اپنے اندر اس قدر طاقت اور قوت پیدا کر لیں کہ ’’عالم نو‘‘ کی تخلیق کر سکیں۔ وہی عالم نو جس میں کوئی مسلمان کسی مسلمان کا غلام نہیں ہوگا۔ عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے نقاب میرے اس خیال کی تائید خودحضرت علامہ کے ان الفاظ سے ہوسکتی ہے جو انھوں نے ۱۸ ؍اکتوبر ۱۹۱۵ء کو مثنوی کی اشاعت سے چھ ماہ کے بعد لسان العصرحضرت اکبر الہ آبادی کو اپنے خط میں لکھے تھے: ’’مذہب بغیر قوت کے محض ایک فلسفہ ہے۔‘‘ یہ نہایت صحیح مسئلہ ہے اور حقیقت میں مثنوی لکھنے کے لیے یہی خیال محرک ہوا۔ میں گذشتہ دس سال ے اسی پیچ و تاب میں ہوں۔ ان تین جملوں سے تین اہم حقائق واضح ہو سکتے ہیں : (۱) پہلے فقرہ میں علامہ اقبال نے حضر ت اکبر الہ آبادی کے اس شعر کی صداقت کو تسلیم کیا ہے کہ : نہو مذہب میں گر زور حکومت تو وہ کیا ہے نر ایک فلسفہ ہے علامہ اس نظریہ سے بکلی اتفاق کرتے ہیں کہ مذہب (دین)بغیر قوت کے محض ایک فلسفہ یا نظریہ ہے۔ چنانچہ پس چہ باید کردمیں وہ خود کہتے ہیں : رائے بے قوت ہمہ مکر و فسوں اور بال جبریل میں اسی حقیقت کو یوں واضح کرتے ہیں : عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد (۲) دوسرے فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے یہ مثنوی اس لیے لکھی کہ مسلمانوں کو اس دنیا میں دوبارہ قوت (حکومت) حاصل ہو جائے۔ (۳) تیسرے فقرے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مثنوی دس سال کے مسلسل غور و فکر کا ثمرہ ہے۔ یعنی اقبال نے ۱۹۰۳ء سے لے کر ۱۹۱۳ء تک مسلسل مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر غورکیا اورجب مرض کا اصلی سبب انھیں معلوم ہوگیا تو پھر اس کے لیے اپنی تمام کوششیں وقف کر دیں۔ اقبال کو یقین تھا کہ اگر مسلمان اس مثنوی کا مطالعہ کریں گے تو اُن کی موجودہ حالت میں انقلاب پیدا ہو جائیگا۔ چنانچہ ۲۰؍ جنوری ۱۹۱۸ء کو جو خط انھوں نے مہاراجہ سرکشن پرشاد کو لکھا تھا۔ اس میں یوں رقم طراز ہیں: میں نے دو سال کاعرصہ ہوا تصوف کے بعض مسائل سے کسی قدر اختلاف کیا تھا۔ اوروہ اختلاف ایک عرصہ سے صوفیائے اسلام میں چلا آتا ہے۔ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ۱؎ مگرافسوس ہے کہ بعض ناواقف لوگوں نے میرے مضامین کو (جو مثنوی میں لکھے ہیں) تصوف کی دشمنی پر محمول کیا ہے۔ میں نے اپنی پوزیشن محض اس لیے واضح کی کہ خواجہ صاحب(حسن نظام دہلوی) نے مثنوی پر اعتراض کیے تھے۔ چونکہ میرا عقیدہ تھا اور ہے کہ اس مثنوی کا پڑھنا،اس ملک کے لوگوں کے لیے (خصوصاًمسلمانوں کے لیے) مفید ہے۔ اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ خواجہ صاحب کے مضامین کا اثر اچھا نہ ہوگا، اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مثنوی کے پہلے ایڈیشن کی ترتیب یہ تھی کہ شروع میں ایک بے نظیر مقدمہ تھا جس میں علامہ نے دریا کوزہ میں بند کردیا تھا۔یعنی نفی خودی کے نظریہ کی ابتدا ء اورمسلمانوں میں اس کی اشاعت کے اسباب اور نتائج بیان کرنے کے بعد اسلامی تحریک کا حقیقی مقصد واضح کیا تھا۔پھر یہ بتایا تھا کہ مسلمان اس مقصد سے کیونکر بیگانہ ہو گئے اوراس بیگانگی کا کیا نتیجہ برآمد ہوا۔ آخرمیں لفظ خودی کی تشریح درج کی تھی۔ یہ مقدمہ ہر لحاظ سے بہت مفید تھا اورہے۔ لیکن علامہ نے محض اس لیے اس کو دوسرے ایڈیشن میں شامل نہیں کیا کہ وہ بہت مجمل ہے اور اجمال سے ابہام اور ابہام سے غلط فہمیوں کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ لیکن میں اس کو بے حد مفید اورضروری اوراہم سمجھتاہوں اس لیے اس کو مقدمہ میں درج کر دں گا اور اس کی تشریح بھی ہدیۂ ناظرین کروں گا۔ مقدمہ کے بعد سر سید علی امام کی خدمت میں پیش کیش تھی جس کاآغاز ا س طرح ہوتا ہے: اے امام! اے سیدوالا نسب دود مانت فخر اشراف عرب سلطنت را دیدہ افروز آمدی عقل کل را حکمت آموز آمدی آشنائے معنی بے گانۂ جلوہ شمع مرا پروانۂ مرغ فکرم گلستانہا دیدہ است از ریاض زندگی گل چیدہ است ایں گل از تارِ رگِ جاں بستہ ام تازہ تر در دست تو گلدستہ ام بود و نقش ہستی ام انگارۂ نا قبولے ، نا کسے، آوارۂ اس کے بعد دس شعر وہ تھے جو اب دیباچہ میں ص ۱۰،۱۱پر درج ہیں اور ان کے بعد آخری تین شعر یہ تھے: ملت از جسم است شاعر چشم اوست جسم را از چشم بینا آبرو ست جش۴ از نورِ محبت روشنم اشکبار از درد اعضائے تنم نذر اشک بے قرار از من پذیر گریۂ بے اختیار از من پذیر اقبال نے بہت اچھا کیا کہ دوسرے ایڈیشن میں اس پیش کش کو حذف کر دیا۔ کیونکہ اس مثنوی کی نوعیت اسی امر کی متقاضی تھی کہ اسے کسی فرد سے منسوب نہ کیا جائے۔ سر علی امام ۱۸۶۹ء میں پٹنہ (بہار) کے مشہور سرکار رس خاندان مین پیداہوئے تھے۔ باپ، چچا، دادا، پردادا، نانا اورماموں سب سے خان بہادرشمس العلماء مجسٹریٹ یا جج تھے۔ چنانچہ ان کے والد شمس العلماء خان بہادرنواب سید امداد امام اپنے زمانہ میں انگریزوں کی نگاہوں میں بہت محترم تھے۔ علی امام ۱۸۸۷ء میں ولایت گئے اور ۱۸۹۰ء میں بیرسٹری پاس کرکے واپس آئے۔ اوراپنے پیشہ میں غیر معمولی کامیابی اور شہرت حاصل کی ۔۱۹۰۳ء میں علی گڑھ کالج کے ٹرسٹی مقرر ہوئے اور ۱۹۱۰ء تک علمی سیاسی اور قومی خدمات کے اعتبار سے صف اول میں آگئے۔ چنانچہ ۱۹۱۰ء میں اُن کو مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کا فخر حاصل ہوا۔ اوران کے خطبۂ صدارت نے سارے ہندوستان میں ان کو مشہور کر دیا۔ اسی سال حکومت نے ان کا ’’جوہر ادراک‘‘ مناسب قیمت پر خرید لیا۔ یعنی وائسرائے کی کاؤنسل کا ممبر نامزد کردیا۔ ۱۹۱۷ء میں پٹنہ ہائیکورٹ کی ججی پر فائز ہوئے اور ۱۹۱۹ء میں نظام حیدرآبادنے ان کووزارتِ عظمیٰ کا عہدہ پیش کیا۔ ۱۹۳۲ء میں وفات پائی۔ پہلے ایڈیشن میں اقبال نے افلاطون یونانی کے بعد حافظ شیرازی پر بھی تنقید کی تھی۔ اوراس میں شک نہیں کہ اس کا لہجہ بہت سخت تھا۔ دوچار شعر درج کرتاہوں: آں فقیہہ ملت مے خوارگاں آں امام امت بے چارگاں بگذر از جامش کہ درمینائے خویش چوں مریدان حسن دارد و حشیش محل او در خود ابرار نیست ساغر او قابل احرار نیست بے نیاز ا ز محفل حافظ گذر الحذر از گوسفنداں الحذر اقبال نے حافظ شیرازی کے خلاف ۳۵اشعار لکھے تھے اوران کے اسلوب بیان اورلب و لہجہ کا انداز ان چارشعروں سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ چونکہ حافظ کے مداحون کی نہ اس وقت کمی تھی نہ آج ہے۔ اس لیے قدرت بات ہے تھی کہ ان اشعار کی وجہ سے اقبال کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ چونکہ ان اشعار کے برقرار رکھنے سے ا س مثنوی کے لکھنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اس لیے اقبال نے دانشمندی اور دوربینی سے کام لے کر دوسرے ایڈیشن میں ان اشعار کو یکسر حذف کر دیا۔ اوراُن کی جگہ ’’حقیقت شعر واصلاح ادبیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے ایک نئے باب کا اضافہ کردیا۔ اگر حافظ کے خلاف اشعار مثنوی میں برقرار رہتے تو کچھ عرصہ کے بعد لوگ شاید اس بے بہا کتاب کا مطالعہ ہی ترک کر دیتے جب ۱۹۱۵ء میں یہ مثنوی شائع ہوئی تو:۔ (۱) طبقہ علماء دیوبند، بریلی اور فرنگی محل نے تو اسے خود اعتناء ہی نہیں سمجھا۔ اس لیے نہ اس کی موافقت میں کوئی آواز بلند ہوئی نہ مخالفت میں۔ (۲)انگریزی داںطبقہ کی عظیم الشان اکثریت اسے سمجھ نہ سکی۔ کیونکہ اس کتاب کا ماخذ قرآن حکیم اورمثنوی مولانا روم یہ دو کتابیں تھیں اور یہ طبقہ مغربی تعلیم کی بدولت ان دونوں کتابوں سے ناآشنا ہو چکا تھا۔ جن لوگوں نے اس کو سمجھا اُن کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ مثلاًمولانا محمد علی مرحوم ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری مرحوم اورمولانا اسلم جیراجپوری۔ (۳) عامۃ المسلمین اس لیے مستفید نہ ہو سکے کہ یہ کتاب فارسی زبان میں تھی اورموضوع سخن اُن کی دسترس سے بالا تر تھا۔ (۴) لے دے کے رہ گیا صوفیاء کا طبقہ، توان کی عظیم الشان اکثریت علم ہی سے بے بہرہ تھی جن چند حضرات نے اس کتاب کو پڑھا وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کیونکہ وہ اسلامی اور غیراسلامی تصوف میں امتیاز نہ کر سکے اور چونکہ اس کتاب میں غیر اسلامی تصوف کی علاوہ حافظ شیرازی پر بھی تنقید کی گئی تھی اس لیے انھوں نے مخالفت کا بازار گرم کر دیا۔ ان حضرات میں خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی اور پیر زادہ مظفر احمد صاحب فضلی پیش پیش تھے۔ خواجہ صاحب نے اپنے ہفتہ وار خطیب میں اس مثنوی کی مخالفت میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا اور پیرزادہ صاحب نیاس کی تردید میں ایک مثنوی موسومہ راز بے خودی لکھ کر شائع کی۔ خواجہ صاحب نے لسان العصر اکبر الہ آبادی کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا اور اکبر مرحوم اُن کی تحریروں سے اس قدر متاثر ہو گئے کہ انھوں نے کئی خطوط میں جو مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی کو اس زمانہ میں لکھے، علامہ پر تعریض کی کہ ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ اقبال تصوف کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑ گئے ہیں۔‘‘۲؎ مجھے حضرت اکبر کی اس روش پر بڑی حیرانی ہے کہ انھوں نے مثنوی کا مطالعہ کیے بغیر رائے کیسے قائم کرلی کہ اقبال نفس تصوف کے خلاف ہیں۔ اکبر کو اقبال سے جس قدر بدظنی ہو گئی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جب ۱۹۱۸ء میں مثنوی رموز بے خودیشائع ہوئی اور اقبال نے اس کا ایک نسخہ اُن کو بھیجا تو انھوں نے مولانا دریابادی کو لکھا کہ ’’اقبال نے رموز بے خودی مجھے بھیجی ہے۔ لیکن میں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا، دل نہیں چاہا۔ ناظرین اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب مجھے اکبر کی اس روش پر حیرانی ہے تو اقبال کو کس قدر رنج ہوا ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے اس سلسلہ میں جو خطوط لکھے اُس سے اُن کی قلبی کیفیت کا حال بخوبی واضح ہو سکتا ہے۔ ذیل میں چند خطوط کے اقتباسات درج کرتاہوں:۔ ۱۱؍جون ۱۹۱۸ء مخدومی السلام علیکم کل اور آج دو اور خط آپ کے موصول ہوئے۔ میں نے خواجہ حافظ پر کہیں یہ الزام نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے میکشی بڑھ گئی میرا اعتراض حافظ پر بالکل اور نوعیت کا ہے۔ اسرار خودیمیں جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی، جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر(مقبول)ہے۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا۔ لیکن اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیںبلکہ مضر ہے۔ خواجہ حافظ کی ولایت سے اس تنقید میں کوئی سروکار نہ تھا، ان کی ان کی شخصیت سے نہ اُن کے اشعار میں مئے سے مراد وہ مئے ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں۔ بلکہ اس سے وہ حالت سکر مراد ہے جو حافظ کے کلام سے پیداہوتی ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کون سا تصوف میرے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے۔ وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے حضرت علاء الدولہ سمنائی ؒیہی بات لکھ چکے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی ؒلکھ کے ہیں۔ میں نے تو شیخ محی الدین ابن عربی ؒاور منصور حلاج ؒکے متعلق وہ الفاظ نہیں لکھے جو جنید ؒنے ان بزرگوں کے متعلق ارشاد فرمائے۔ ہاں میں نے ان کے عقائد اورخیالات سے بیزاری ضرور ظاہر کی ہے۔ معاف کیجیے، مجھے تو آپ کے خط سے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے مثنوی اسراری خودی کے وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظ کے متعلق لکھے گئے۔ باقی اشعار پر شاید نظر نہیں فرمائی۔ کاش آپ کو اُن کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی تاکہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے۔ عجمی تصوف سے لٹریچر میں دلفریبی اورحسن توپیداہوتا ہے لیکن ایسا کہ طبائع کوپست کرنے والا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی تصوف دل میں قوت پیداکرتا ہے کہ اس قوت کا اثر لٹریچر پر ہوتا ہے۔ میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا لٹریچر تمام ممالک اسلامیہ میں قابل اصلاح ہے۔ قنوطی لٹریچر کبھی دنیا میں زندہ نہیں رہ سکا۔ قوم کی زندگی کے لیے اس کااور اس کے لٹریچر کارجائی ہونا ضروری ہے۔ مخلص محمد اقبال۔ لاہور اس خط سے جہاں ناظرین پر دیگر معارف واضح ہوں گے، یہ حقیقت بھی منکشف ہوسکتی ہے کہ اقبال نفس تصوف کے خلاف نہیں تھے۔ بلکہ عجمی تصوف کے خلاف تھے اور انھوں نے مثنوی میں اس لیے اس کے خلاف احتجاج کیا کہ اس کی بدولت مسلمانوں میں پستی اور محکومی کا رنگ پیداہوگیا۔ اس نکتہ کی مزید وضاحت مقدمہ میں پیش کروں گا تاکہ ناظرین کو معلوم ہو جائے کہ اقبال وحدت الوجود کس تعبیر کے مخالف ہیں اور کیوں مخالف ہیں۔ چونکہ اس خط کے مضمون کا حضرت اکبر پر کوئی مفید اثر مرتب نہیں ہوا اور ان کی بدگمانی بدستور قائم رہی اس لیے اقبال نے اُن کو دوسرا خط لکھا۔ جس کے اقتباسات ذیل میں درج کرتاہوں: ۲۰؍جولائی ۱۹۱۸ء مخدومی آپ مجھے تناقصد کا ملزم گردانتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ مگرمیری بدنصیبی یہ ہے کہ آپ نے مثنوی اسرار خودیکو اب تک نہیں پڑھا۔ میں نے گذشتہ خط میں عرض بھی کیا تھا۔ کہ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محترز رہنے کے لیے میری خاطر سے ایک دفعہ پڑھ لیجیے۔ اگر آپ ایسا کرتے تو یہ اعتراض نہ ہوتا آں چناں گم شو کہ یکسر سجدہ شو اور مثنوی اسرار خودیکے مضامین میں کوئی تناقص نہیں ہے۔ یہ بات تو میں نے پہلے حصہ میں اس سے بھی زیادہ واضح طورپر بیان کی ہے۔ اند کے اندر حرائے دلنشیں ترک خود کن سوئے حق ہجرت گزیں محکم از حق شو سوئے خود گام زن لات و عزائے ہوس را سر شکن ہر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد میں اس خودی کا حامی ہوں جو سچی بے خودی سے پیداہوتی ہے یعنی جو نتیجہ ہے، ہجرت الی الحق کرنے کااورجو باطل کے مقابلہ میں پہاڑ کی طرح مضبوط ہوتی ہے۔ مگر ایک اوربے خودی ہی جس کی دو قسمیں ہیں: (۱) ایک وہ جو عاشقانہ شاعری کے پڑھنے سے پیداہوتی ہے۔ یہ اس قسم سے ہے جو افیون و شراب کا نتیجہ ہے۔ (۲) دوسری وہ بیخودیہے جو بعض صوفیاء اسلام اورتمام ہندو جوگیوں کے نزدیک ذات انسانی کوذات باری میں فناکر دینے پیداہوتی ہے اور یہ فنا ذات باری میں ہے نہ احکام باری میں پہلی قسم کی بیخودی تو ایک حد تک مفید بھی ہو سکتی ہے۔ مگر دوسری قسم کی بیخودی تمام مذہب و اخلاق کی جڑ کاٹنے والی ہے لیکن ان دونوں قسم کی بیخودی پر معترض ہوں اور بس حقیقی اسلامی بے خودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانت، رجحانات و تخیلات چھوڑ کر اللہ کے احکام کاپابند ہو جاناہے۔ یہی اسلامی تصوف کے نزدیک فنا ہے۔ البتہ عجمی تصوف فنا کے کچھ اور معنی جانتا ہے۔ جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ زیادہ کیا عرض کروں، سوائے اس کے کہ مجھ پر عنایت فرمائیے ،عنایت کیا رحم کیجیے۔ اوراسرار خودیکو ایک دفعہ اول سے آخر تک پڑھ جائیے۔ جس طرح منصورکو شبلی کے پتھر سے زخم آیا اوراس کی تکلیف سے اس نے آہ و فریاد کی۔ اسی طرح آپ کا اعتراض مجھ کو تکلیف دیتا ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال میں نے اقبال کے ان دو خطوں کے اقتباسات اس لیے ہدیۂ ناظرین کر دئیے ہیں کہ ان کے مطالعہ سے اسرار و رموزکے معانی اورمطلب ان پر بآسانی واضح ہو سکتے ہیں۔ جس طرح پہلے خط سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ تصوف کی دو قسمیں ہیں ایک عجمی جس سے اقبال کو اختلاف ہے اور دوسری اسلامی جس کے وہ ہمیشہ حامی رہے۔ بلکہ آخر عمر میں تواس کے پُر جوش مبلغ بن گئے تھے، اسی طرح فناء کے بھی دو مفہوم ہیں ایک اسلامی دوسرا غیر اسلامی۔ اگرناظرین اس فرق کو مدِّنظر رکھ کر اسرار و رموز کا مطالعہ کریں گے تو غلط فہمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ علامہ نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو بھی اپنے موقف کی وضاحت کے سلسلہ میں کئی خطوط لکھے، ان میں سے ایک تو تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں انھوں نے حقائق و معارف کے دریا بہا دئے ہیں چنانچہ ناظرین کی آگاہی کے لیے وہ خطوط جسے۱۵؍جنوری ۱۹۱۶ء کے خطیبسے نقل کرکے ۲۲؍جولائی ۱۹۴۲ء کے نوائے وقت نے شائع کیا تھا۔ ذیل میں درج کرتاہوں : لاہور۔ ۳۰؍دسمبر ۱۹۱۵ء مخدومی خواجہ صاحب۔ السلام علیکم آپ کا والا نامہ ملا۔ آپ کی علالت کا حال معلوم کرکے تردد ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ صحت عاجل عطا فرمائے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ کو اسلام اور پیغمبر اسلام (صلعم) سے عشق ، پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کوایک اسلامی حقیقت معلوم ہو جائے اور آپ اس سے انکار کریں؟بلکہ مجھے ابھی سے یقین ہے کہ بالآخر آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے۔ میری نسبت بھی آپ کو معلوم ہے۔ میرا فطری اور آبائی میلانتصوف کی طرف ہے اوریورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان تصوف کی طرف ہے اوریورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان تصوف کی طرف ہے اوریورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی تیز ہو گیا تھا۔ کیونکہ یورپین کا فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے۔ مگر قرآن میں تدبرکرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کر دیا۔ اوراس مقصد کے لیے مجھے اپنے فطری اور آبائی رجحانات کے ساتھ ایک خوفناک دماغی اورقلبی جہاد کرنا پڑا۔ رہبانیت اوراسلام پر مضمون لکھوں گا۔ لیکن آپ کے مضمون کے بعد ۔رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ ہر قوم میں پیداہوئی ہے اور ہر جگہ اس نے قانون شریعت کا مقابلہ کیا ہے اور اس کے اثر کو کم کرنا چاہا ہے۔ اسلام در حقیقت اسی رہبانیت کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔ تصوف جو مسلمانوں میں پیداہوا اوراس جگہ تصوف سے میری مراد ایرانی تصوف ہے۔ اس نی ہر قوم کی رہبانیت سے فائدہ اٹھایا ہے اورہر رہبی تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک قرمطحی تحریک مقصد بھی بالآخر قیود شرعیہ اسلامیہ کو فناء کرنا تھا اور بعض صوفیاء کی نسبت تاریخی شہادت موجود ہے کہ وہ اس تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔ اب تک جو اعتراضات آپ کی طرف سے ہوئے ہیں۔ وہ مثنوی کے دیباچہ پرہوئے ہیں نہ کہ خود مثنوی پر۔ اس لیے جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو کہ مثنوی پر آپ کے کیا اعتراضات ہیں، اس وقت تک میں کیوں کر قلم اٹھا سکتا ہوں؟ اب تک مثنوی پر جو اعتراض آپ نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حافظ شیرازی کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ لیکن جب تک اصولی بحث نہ ہو، یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ میں حافظ پر تنقید کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒنے مکتوبات میں ایک جگہ یہ بحث کی ہے کہ گسستن اچھا ہے یا پیوستن؟ یعنی فراق اچھا ہے یا وصال؟میرے نزدیک گستن، عین اسلام ہے اورپیوستن رہبانیت یا ایرانی (غیر اسلامی) تصوف ہے اور میں اسی غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتاہوں۔ گذشتہ علمائے اسلام نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب آپ نے مجھے ’’سرالوصال‘‘ کا لقب دیا تھا تو م یں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے ’’سر الفراق‘‘ کہا جائے۔ اس وقت بھی میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو حضرت مجدد الف ثانی ؒنے کیا ہے۔ آپ کے تصوف کی اصطلاح م ی ں اگرمیں اپنے مذہب کو بیان کروں تو یہ ہوگا کہ شان عبدیت انتہائی کمال روح انسانی کا ہے، اس سے آگے اورکوئی مرتبہ نہیں ہے۔ یا ابن عربی ؒکے الفاظ میں ’’عدم محض‘‘ ہے۔ یا بالفاظ دگریوں کہہ سکتے ہیں کہ حالتِ سُکر منشائے اسلام اور قوانین حیات دونوں کے خلاف ہے۔ اورحالت صحو جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔ قوانین حیات کے عین مطابق ہے اورخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء بھی یہی تھا کہ ایسے لوگ پیداہوں جن کی حالت کیفیت صحو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے صحابہؓ میں ہمیں صدیق اکبر ؓاور فاروق اعظم ؓتو ملتے ہیں۔ لیکن حافظ شیرازی کوئی نظر نہیں آتا۔ یہ مضمون بہت طویل ہے۔ اس مختصر خط میں نہیں سما سکتا۔انشاء اللہ اس پر مفصل بحث کروں گا ، جب حالات مساعدت کریں گے۔ مگرشیخ ابن عربی ؒکے ذکر سے ایک بات یاد آگئی جس کو اس لیے بیان کرگاہوں کہ آپ کو غلط فہمی نہ رہے ، میں شیخ کی عظمت اور فضائل دونوں کا قائل ہوںاور ان کو اسلام کے بہت بڑے حکماء میں سے سمجھتاہوں ۔ مجھ کو ان کے اسلام میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ جو عقائد ان کے ہیں (مثلاً قدم ارواح اور وحدت الوجود) اُن کو انھوں نے فلسفہ کی بنا پر نہیں جانا بلکہ نیک نیتی سے قرآن حکیم سے مستنبط کیا ہے۔ پس ان کے عقائد صحیح ہوں یا غلط، قرآن کی تاویل پر مبنی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ جو تاویل انھوں نے پیش کی ہے وہ منطقی یا منقولی اعتبار سے صحیح ہے یا غلط؟ میرے نزدیک اُن کی پیش کردہ تاویل یاتفسیر صحیح نہیں ہے۔ اس لیے گو میں اُن کو ایک مخلص مسلمان سمجھتاہوں۔ مگر ان کے عقائد کا پیرو نہیں ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ صوفیاء کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی ہوئی ہے۔ یہ دونوںاصطلاحیں مترادف نہیں ہیں۔ مقدم الذکر کا مفہوم مذہبی ہے۔ اورمؤخر الذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے۔ توحید کی ضد کثرت نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض صوفیا سمجھتے ہیں بلکہ شرک ہے۔ ہاں وحدت الوجود کی ضد کثرت ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدۃ الوجود یا زمانہ حال کے فلسفہ یورپ کی اصطلاح میں توحید کوثابت کیا وہ موحد تصور کیے گئے۔ حالانکہ ان کے ثابت کردہ مسئلہ کا تعلق مذہب سے بالکل نہ تھا۔ؒ بلکہ نظام عالم کی حقیقت سے تھا(یعنی یہ کہ اس کائنات کا وجود حقیقی نہیں ہے۔) اسلام کی تعلیم نہایت صاف اور واضح اورروشن ہے یعنی یہ کہ عبادت کے لائق صرف ایک ذات ہے۔ باقی جو کچھ کثرت عالم میں نظر آتی ہے۔وہ سب کی سب مخلوق ہے، گو علمی اورفلسفیانہ اعتبار سے اس کی حقیقت ایک ہی کیوں نہ ہو۔ چونکہ صوفیاء نے فلسفہ اورمذہب کے دومختلف مسائل (وحدت الوجوداورتوحید) کو ایک ہی سمجھ ل یا۔ اس لیے ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ توحیدکو ثابت کرنے کا کوئی اور طریق ہونا چاہیے جو عقل اور ادراک کے قوانین سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ اس غرض کے لیے حالت سُکر ممدومعاون ہوتی ہے اوریہ ہے اصل مسئلہ ٔ حال و مقامات کی۔ مجھے حالت سکر کی واقعیت سے انکار نہیں ہے۔ انکاصرف اس بات سے ہے کہ جس غرض کے ل یے یہ حالت پیدا کی جاتی ہے۔ وہ غرض اس سے مطلق پوری نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ صاحب حال کو ایک علمی مسئلہ کی تصدیق ہو جاتی ہے نہ کہ مذہبی مسئلہ کی (یعنی حالت سُکر یا جذب و مستی میں سالک کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ واقعی کائنات م یں اللہ کے سوا اورکسی کا وجود نہیں ہے) صوفیا نے وحدۃ الوجود کی کیفیت کو محض ایک مقام لکھا ہے اور شیخ اکبر کے نزدیک یہ انتہائی مقام ہے۔اور اس سے آگے ’’عدم محض‘‘ ہے۔ لیکن یہ سوال کسی صوفی کے دل میں پیدانہیں ہوا کہ آیا یہ مقام حقیقت نفس الامری کو بھی واضح کرتا ہے یا نہیں؟ اگر کثرت حقیقت نفس الامری ہے تویہ کیفیت وحدۃ الوجود جو سالک پر طاری ہوتی ہے، محض دھوکہ ہے اورمذہبی یا فلسفیانہ اعتبار سے اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ نیز اگر یہ کیفیت وحدۃ الوجودمحض ایک مقام ہے اورکسی حقیقت نفس الامری کا اس سے انکشاف نہیں ہوتا تو پھر اس کو معقولی طورسے ثابت کرنا بھی بے سود ہے، جیسا کہ ابن عربی اوران کے متبعین نے کیا ہے اور نہ اس کے مقام ہونے کی بنا ء پر ہم یں روحانی زندگی میں کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یا اس کی رُو سے، وجود فی الخارج (کائنات) کی ذات باری کے ساتھ اتحاد یا عینیت کی نسبت نہیں ہے۔ بلکہ مخلوقیت کی نسبت ہے (یعنی خدا خالق ہے اورکائنات مخلوق ہے اور خالق و مخلوق کے مابین مغائرت ہوتی ہے) اگر قرآن کی تعلیم یہ ہوتی ہے کہ ذات باری تعالیٰ کثرت نظام عالم میں دائر وسائر ہیٗ، توکیفیت وحدۃ الوجود کو قلب پروارد کرنا مذہبی زندگی کے لیے نہایت مفید ہوتا ۔ بلکہ یہ کیفیت مذہبی زندگی کی آخری منزل ہوتی۔ مگرمیرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قرآن کی تعلیم نہیں ہے۔ (یعنی قرآن کی رُو سے خالق اورمخلوق یا عابد اورمعبود میں مغائرت کلی ثابت ہوتی ہے) اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ میرے نزدیک یہ کیفیت قلبی یا مذہبی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں رکھتی ۔ اورعلم الحیات کی رُو سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کہ اِس کیفیت کا ورود، ملّی اعتبار سے بہت مضر ہے، مگر علم الحیات کی رُو سے اس پر بحث کرنا بہت فرصت چاہتا ہے۔ فی الحال اس خط کو ختم کرتاہوں۔ اور اس طویل سمع خراشی کی معافی چاہتاہوں۔ آپ کا خادم محمد اقبال اگرچہ اقبال نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی لیکن خواجہ حسن نظامی صاحب مدظلہ کا دل ان کی طرف سے صاف نہیں ہوا اور اس کی وجہ میری رائے میں اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہو سکتی کہ وہ وحدۃ الوجود کی اسلامی اور غیر اسلامی تعبیر میں امتیاز نہ کر سکے۔ اسی لیے وہ لکھتے رہے کہ اقبال تصوف کو مٹانا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ رہبانیت کو مسلمانوں کے دماغوں سے نکالنا چاہتے تھے۔ اگرچہ اکبر بھی اقبال سے بدظن تھے۔ لیکن ان کی قابلیت کے صدق دل سے معترف تھے۔ اس لیے ان کا طرز عمل خواجہ صاحب کے طرز عمل سے مختلف تھا۔ ذیل کے اقتباسات سے یہ فرق واضح ہو سکتا ہے: (۱) اکبر کا خط خواجہ صاحب کے نام ۱۱ جنوری۱۹۱۶ء حضرت اقبال نے میرے نزدیک تمہید (دیباچہ اسرار خودی) میں احتیاط نہیں کی اورایک بڑا مجموعہ دلوں کا مایوس ومغموم ہوگا۔ لیکن اب وہ سنبھل کر مسئلہ وحدۃ الوجود اورمسئلہ رہبانیت پر گفتگو کریں گے۔حضرت اقبال ہی خودی کو بڑھا کر ’’ہمہ منم‘‘ کہہ دیں تو مطلب حاصل ہے۔ اکبر نے اسی زمانے میں یہ شعر بھی خواجہ صاحب کو لکھ بھیجے تھے : حضرت اقبال اور خواجہ حسن پہلوانی ان میں ان میں بانکپں جب نہیں ہے زور شاہی کے لیے آؤ گتھ جائیں خدا ہی کے لیے وزرشوں میں کچھ تکلیف ہی سہی ہاتھ پائی کو تصوف ہی سہی ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوا نہ رقص ۲؍فروری ۱۹۱۶ء اقبال کی پروفیسری، فارسی شاعری کے ساتھ مل کر مغرب و مشرق دونوں کے لیے خطرناک ہو گئی ہے۔ اللہ ان کے بیان کو زیادہ صاف کرے اور ہم پر اپنا فضل کرے اور صبر عطا فرمائے۔ از کلید دیں، در دُنیا کشاد اگر رسول کے رنگ میں لیا جائے تو لیسنس کی ضرورت ہے۔ اور اگر دین صرف حصول دنیا کا ذریعہ سمجھا جائے جیسا کہ خود مصنف نے کیا ہے اور سب کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔ لیکن کالج کو ’’کلید دیں‘‘ کیوں کہا؟بہر کیف اقبال سے زیادہ نہ لڑئیے، دعائے ترقی و دوستیٔ اقبال کیجیے۔ اسی زمانے میں خواجہ صاحب نے کرشن بینی شائع کی تھی۔چونکہ علامہ اقبال نے اسرار خودی کے دیباچہ میں شری کرشن جی کی مذہبی خدمات کو سراہا تھا۔ اس لیے اکبرکو موقع ملا کہ وہ اس کے ذریعہ سے خواجہ صاحب کی مخالفت کو کم کریں! چنانچہ انھو ں نے خواجہ صاحب کو یہ خط لکھا: الہ آباد ۱۵؍جولائی ۱۹۱۶ء ڈاکٹر اقبال صاحب نے اسرار خودی کے دیباچہ میں شری کرشن جی کو قابل تعریف ادب کے ساتھ یاد کیاہے اور اُن کی تعلیم کو برقرار رکھا ہے۔ علامہ اقبال نے خواجہ صاحب کی غلط فہمیوں کو دورکرنے کے لیے یہ مناسب سمجھا کہ بالمشافہ زبانی گفتگو کر لی جائے۔ اس لیے انھیں اس مضمون کا خط لکھا۔ جب حضرت اکبر کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے خواجہ صاحب کو لکھا کہ ’’میں بہت خوش ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے آپ سے ملنے کاشوق ظاہر کیا ہے۔ اس کے بعد خواجہ صاحب کو پرچار کرنے کے لیے اکبر نے اس خط کے آخر میں حسب ذیل اشعار لکھے تھے: اے خواجہ حسن کرو نہ اقبال کو رد قومی رکنوں کے ہیں نگہباں وہ بھی تم محو ہو حسن کی تجلی میں اگر ہیں دشمنِ فتنۂ رقیباں وہ بھی پریوں کے لیے جنوں ہے تم کو اگر دیووں کے لیے بنے سلیماں وہ بھی (۶؍اگست ۱۹۱۶ئ) اکبر کا انداز برابر مصالحانہ رہا اور وہ مصالحت کے لیے کوشش کرتے رہے۔ چنانچہ ۲۸؍جنوری ۱۹۱۸ء کو انھوں نے خواجہ صاحب کو لکھا کہ: اقبال صاحب ہمارے اور آپ کے دوست ہیں۔ میں نے انھیں لکھا ہے کہ اپنی دینداری کو ہمارے لیے رحمت الٰہی ثابت کیجیے۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ ان کوششوں کی باوجود خواجہ صاحب کی مخالفت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کی وجہ میں اوپر بیان کر چکاہوں کہ ان کو یہ اندیشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اقبال تصوف کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ورنہ جہاں تک دیباچہ یا اسرار خودی کے فلسفہ کا تعلق ہے۔ وہ خواجہ صاحب کے طائر فکر کی رسائی سے بالا تر تھا۔ اقبال کو اپنی جگہ یہ خیال دامن گیر تھا کہ اگرخواجہ صاحب کی مخالفت کا سلسلہ جاری رہا تو بہت ممکن ہے کہ عامۃ المسلمین ،مثنوی ہی سے برگشتہ اور بدظن ہو جائیں۔ اس لیے انھوں نے کمال دانشمندی سے کام لے کر خواجہ صاحب کے استدلال کی بنیادیں منہدم کر دیں یعنی دیباچہ اور حافظ پر تنقید دونوں کو مثنوی سے خارج کر دیا۔ اس طرح تین چار سال کی قلمی جنگ کے بعد رفتہ رفتہ ا س ناخوشگوار قضیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ ۱۹۲۱ء میں اکبر کا انتقال ہو گیا۔ ادھرخواجہ صاحب نے یہ بھی دیکھا کہ اقبال کی یہ پیشگوئی سچی ثابت ہو گئی: آشنائے من زمن بیگانہ رفت از خمتانم تہی پیمانہ رفت اس لیے انھوں نے مخالفت کا سلسلہ ختم کردیا۔ __________________ اس زمانہ میں جب کہ خواجہ صاحب کی مخالفت کا سلسلہ جاری تھا۔ علامہ نے سراج الدین صاحب پال کو چند خطوط لکھے تھے جن میں انھوں نے اپنے قلبی تاثرات کا اظہار کیا تھا۔ جو اس مخالفت کو دیکھ کر ان کے دل پر طاری ہوئے تھے۔ نیز بعض اہم فلسفیانہ حقائق بھی قلمبند فرمائے تھے جن سے اس مثنوی کے بعض مطالب کی وضاحت ہو سکتی ہے۔ اس لیے ذیل میں ان خطوط سے ضروری اقتباسات درج کرتاہوں: ۱۰ جولائی ۱۹۱۶ء مکرم بندہ السلام علیکم ملامت کا خوف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ میں مثنوی اسرار خودی کا دوسرا حصہ (رموز بیخودی) لکھ رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس حصہ میں بعض باتوں پر مزید روشنی پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستورالعمل میں باطنی معانی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستورالعمل کو مسخ کر دینا ہے۔ (جیسا کہ قرامطہ کے طرز عمل سے ثابت ہے) یہ ایک نہایت عیارانہ طریقہ ہے تنسیخ کا اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یا ایجاد کر سکتی ہیں جن کی فطرت گوسفندی ہو۔ شعرائے عجم میں بیشتر وہ شعراء ہیں جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفہ کی طرف مائل تھے۔ اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں یہ میلان طبیعت موجود تھا اوراگرچہ اسلام نے کچھ عرصہ تک اس کا نشوونما نہ ہونے دیا۔ تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا۔ یا بالفاظ دیگر مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدۃ الوجود تھی ان شعراء نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے ۔اوراسلام کی ہر محمود دشے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے۔ مثلا اسلام، جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری قرار دیتا ہے تو شعرائے عجم اس شعار میں کو ئی اور معنی تلاش کرتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں ذیل کی رباعی پیش کرتاہوں: غازی ز پے شہادت اندر تگ و پوست غافل کہ شہید فاضل تر از اوست در روز قیامت ایں باؤ کے ماند ایں کشتہ دشمن است وآں کشتۂ دوست یہ رباعی شاعرانہ اعتبار سے نہایت عمدہ ہے۔ مگر انصاف سے دیکھیے تو جہاد اسلامی کی تردید میں اس سے زیادہ دل فریب اور خوبصورت طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر نے کمال یہ کیا ہے کہ جس کو زہر دیا ہے اُس کو اس امر کا احساس بھی نہیں ہوسکتا کہ مجھے کسی نے زہر دیا ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے آب حیات پلایا گیا ہے۔ اس نقطہ خیال سے نہ صرف حافظ بلکہ شعرائے ایران پر نگاہ ڈالنی چاہیے۔ جب آپ اس نگاہ سے شعرائے معروف پر غور کریں گے تو آپ کو عجیب و غریب باتیں معلوم ہوں گی۔ فقط والسلام __________________ ۱۹؍جولائی ۱۹۱۶ء مکرمی السلام علیکم کل میں ایک صوفی مفسر قرآن کی ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سِتَّۃِ اَیَّامٍسے ’’تنزلات ستہ‘‘مراد ہیں۔کم بخت کو یہ معلوم نہیں کہ عربی زبان میں یوم کا یہ مفہوم قطعاًنہیں اورنہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ مف ہوم ہی عربوں کی فطرت کے خلاف ہے۔ اس طرح ان لوگوں نے نہایت بیدردی کے ساتھ قرآن اور اسلام میں ہندی اوریونانی تخیلات داخل کر دئیے ہیں۔ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹکل انحطاط کے زمانہ میں پیداہوئی اورہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ جس قوم میں طاقت اور توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی، تو پھر اس قوم کا نقطۂ نگاہ بدل جایا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین اورجمیل شی ہو جاتی ہے۔ اور ترک دنیا موجب تسکین۔ اس ترک دنیا کے پردے میں ضعیف قومیں اپنی سستی اورکاہلی اور اس شکست کو جو ان کو تنازع للبقا میں نصیب ہوتی ہے چھپایا کرتی ہیں۔ خود ہندوستان کے مسلمانوں کودیکھیے ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنؤ کی مرثیہ گوئی پرختم ہوا۔والسلام جن حضرات نے اس مثنوی کی اشاعت کے بعد اس کی باطنی خوبیوں اورانقلاب آفریں تعلیم کا خلوص قلب کے ساتھ اعتراف کیا ان میں محترم مولانا اسلم صاحب جیراجپوری، ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری اور رئیس الاحرار مولانا محمد علی مرحوم کے اسمائے گرامی خصوصیت کے ساتھ قابل تذکرہ ہیں۔ اسرار و رموز کے مطالعہ کے بعد مولانا محمد علی مرحوم نے اپنے قلبی تاثرات جس مضمون میں قلمبند فرمائے تھے اس کا ملحض ذیل میں درج کرتاہوں : دسمبر۱۹۱۸ء کا زمانہ تھا۔ جب ہمارے دوست (علامہ اقبال) کے پاس سے یکے بعد دیگرے دو مختصر کتابیں موصول ہوئیں۔ دیگر لاکھوں ہندی مسلمانوں کی طرح جو واقف ہونے کے باوجود اقبال سے ناواقف تھے م یں بھی برسوں سے ’’اقبال‘‘ کو جانتا تھا اورکچھ عرصہ سے جب کبھی لاہورجانا ہوتا تو ان کا مہمان ہوتا تھا۔ اوراس بات کا مشاہدہ کرتا تھا کہ وہ اسی حد تک وکالت کرتے ہیں۔ جس سے قوت لا یموت حاصل ہو سکے۔ باقی وقت وہ اپنے محبوب موضوع فلسفہ اور ادب کے مطالعہ م یں اور زیادہ تر اس اثر انگیز شاعری میں صرف کرتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ ہندی مسلمانوں کے دلوں کو مسخر کر رہے ہیں۔ جب اقبال کے کلام نے مجھے مسحور کیا تو میری کیفیت یہ ہو گئی کہ اُردو رسالوں اوراخباروں م یں ان کا جو کلام شائع ہوتا تھا، اس کو بار بار پڑھتا تھا اور اب کامریڈ اورہمدرد کے التزام کے ساتھ، اقبال کے کلام سے مزین ہوتے ہیں۔ بحیثیت شاعر، اقبال عصر حاضر میں ہندی مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار ہیں اور بلاشبہ ان کا قدر دان بلکہ عاشق ہوں۔ اقبال سے عقیدت کے باب میں اگر کوئی شخص مجھ سے بازی لے گیا تو وہ میرے بڑے بھائی (مولانا شوکت علی مرحوم) ہیں جو اپنی تقاریر میں ان کے اشعار بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ جب ہم دونوں بھائیوں نے اقبال کی یہ مثنوی (اسرارخودی)پڑھنی شروع کی تو ہم یں معلوم ہوا کہ تصنیف سابقہ کلام سے مقابلہ میں بہت زیادہ بلند پایہ ہے۔ ان کے آتش فشاں اُردو کلام کے مقابلہ میں ابتداًیہ مثنوی بے جان اور سردمعلوم ہوتی ہے۔ لیکن جونہی پہلا باب ختم ہوا جس میں انھوں نے اپنے فلسفہ کا موضوع پیش کیا ہے تو ہمیں محسوس ہوا کہ مرمر کی مورتوں میں بھی زندگی کی حرارت دواں ہو گئی ہے۔ کامریڈکی ضمانت کے مقدمہ میں مجھے متعدد مرتبہ لاہورجانا پڑا اورمیں نے ان کی زبان سے اس مثنوی کے بعض حصے سنے تھے۔ لیکن اس وقت م یں اس کی عظمت کا صحیح انداز نہ کر سکا۔ اب جب کہ پوری مثنوی کا مطالعہ کیا تومیری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ جب میں نے دیکھا کہ یہ فلسفی شاعر اپنے انوکھے انداز میں اسلام کے انہی بنیادی حقائق کوپیش کررہا ہے جن کا خود میں نے بڑی دشواری کے بعد ادراک کیا تھا۔ اس موقع پر میں یہ بات واضح کرنا چاہتاہوں کہ اسلامی ادبیات میں یہ چیز عام طور پر بیان کی جاتی ہے کہ اسلام کے معنی ہیں اللہ کو کائنات کا حاکم مطلق تسلیم کرنا اوراس کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کر دینا۔ لیکن ہمارے علماء اور مقتدایان دین کی نظر میں یہ حقیقت اس قدر معمولی تھی کہ وہ اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے تھے اور عام طورسے مسلمان توحید کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہونے کے باوجود یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ گویا اس سے پوری طرح واقف ہیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اس کا مفہوم ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا اوراس بات کی اشد ضرورت تھی کہ کوئی اللہ کا بندہ پوری قوت کے ساتھ توحید کی اصل حقیقت سے مسلمانوں کو آگاہ کرے۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کا میں نے بطورخود ادراک کیا تھا۔ اور اسی نقطۂ نظر کو اقبال نے اپنی مثنوی میں از سر نو مسلمانوں کے سامنے پیش کیا ہے تاکہ دنیا میں حکومت الٰہیہ دوبارہ قائم ہو سکے۔ دوسری جلد (رموز بے خودی)میں اقبال نے حلفیہ بیان کیاہے کہ ان کی مثنوی کا ایک ایک لفظ قرآنی تعلیمات پر مبنی ۳؎ہے۔ نہ کہ جرمن یا مغربی ٔ فلسفہ پر جیسا کہ علماء نے خیال کیا تھا۔یہ مثنوی اس شاہراہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے جس کی زمین ہموار کرنے کا کام ان کی پہلی مثنوی (اسرار خودی)نے کیا تھا۔ اور اب ان دونوں مثنویوں کے مطالعہ کے بعد ایک اندھے کے لیے بھی منزل مقصود کا پالینا دشوارنہیں ہے۔ اقبال کے نقطۂ نظر سے زندگی ایک لق و دق صحرا ہے اور خودی کی حقیقت سے آگاہ ہو جانا گویا زندگی کے مقصد سے آگاہ ہو جانا ہے۔ یہی وہ مشیت الٰہی ہے جس کے لیے حکومت الٰہیہ کا اس کائنات میں ظہورہوا۔ اورجب آدمی ایک دفعہ مقصد حیات اور اس مشیت الٰہی کو جو دنیا میں جاری و ساری ہے، پالیتا ہے تو درمیانی تمام مزاحمتیں خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ زندگی کی تمام الجھنیں اپنی ناگزیر پیکار آفرینی کے باوجود اسلام کے دامن امن و امام میں عافیت حاصل کر سکتی ہیں۔ اسلامی پیغام اور اس کے ضابطۂ اخلاق کے بنیادی تصورات کی تشریح کے سلسلہ میں اقبال نے بھی قومیت اور وطنیت کے مغربی نظریہ کی شدید مذمت کی ہے جو انسانی ہمدردی کے دائرہ کو محدود کر دیتا ہے اور نوع انسانی میں نشتت اور افتراق کا بیج بوتا ہے۔ اب میں ڈاکٹر بجنوری مرحوم کے تبصرہ سے چند اقتباسات ہدیۂ ناظرین کرتاہوں۔ ڈاکٹر بجنوری نے یہ تبصرہ ۱۹۱۵ء میں سپرد قلم کیا تھا۔ اوراس کا ترجمہ لالہ مالک رام صاحب ایم اے نے نیرنگ خیال کے اقبال نمبرکے لیے کیا تھا۔ جو ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اقبال کاروان ملت کا سالار ہے اور اس کی منزل مقصود حرم محترم ہے اس کی شخصیت اس کی دونوں مثنویوں سے پوری طرح نمایاں ہے۔ اس کے کلام میں وہ زندگی اور طاقت ہے جسے موجودہ نسل پرانے شعراء کے کلام میں تلاش کرتی تھی۔ لیکن بیسود، مجھے یہ کہنے میں مطلق باک نہیں ہے کہ اقبال ہمارے درمیان مسیحا بن کرآیا ہے۔ اس نے مردوں میں زندگی کے آثار پیداکر دیے ہیں۔ زمانہ پراس کے کلام کی عظمت اور پیغام کی اہمیت رفتہ رفتہ واضح ہوگی۔ یہ مثنویاں ایسے غیرفانی کام کا جزء ہیں جو تکمیل کے بعد اسلامی دنیا کے خواب کی صحیح تعبیر ہوگا۔ اقبال کے نظریہ کے مطابق موجودہ اسلامی ممالک کے تنزل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے عملی زندگی کے بجائے افلاطونی بے عملی کو اختیار کرلیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خوف خدا کی جگہ مسلمانوں پر مخلوق خدا کا خوف مسلط ہوگیا لیکن زندگی کا نصب العین معین ہو جانے سے سب خوف دورہوسکتے ہیں۔ یعنی توحید الٰہی کا عقیدہ خوف کو زائل کر دیتا ہے۔ اقبال کو سب سے بڑا اعتراض افلاطون کے مسئلہ اعیان پر ہے اس کے نزدیک زندگی ایک حقیقت ہے اوراسلامی زندگ یسے بڑھ کر اورکوئی معراج نہیں ہے۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ ’’یعنی زمین یں اپنا نائب مقرر کرنے والا ہوں‘‘۔ اقبال کے کلام میں زندگی ہے، توانائی ہے۔ استغناہے ، رجائیت ہے، حقیقت پژوہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام ہے۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کر سکتاکہ ملت ابراہیمی درالفناء میں داخل ہو جائے۔ خواہ وہ اس کا راہنما افلاطون اعظم ہی کیوں نہ ہو۔ میرا ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ یہ تصوف یعنی عجمی تصوف بعد کی پیداوار ہے اورہمارے دین کی روح کے منافی ہے۔ اسلام افلاطونیت اور تصوف کی بے اعتدالیوں سے پاک ہے اور اقبال کے فلسفہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اسلامی عقائد کو افلاطون کے اثرات سے پاک کر دے۔ اُن اثرات سے جن کا لازمی نتیجہ رہبانیت ہے۔ تصوف اس دنیا کو خواب یقین کرتا ہے اورحقائق زندگی سے گریز سکھاتا ہے۔ اُس نے اسلام کی تعلیم عمل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اقبال اپنے ہم مذہبوں کو پھر عمل کی زندگی کی طرف واپس لانا چاہتا ہے۔ اقبال اور آج کل کے صوفیوں کے مابین جنگ کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اُس نے حافظ کی شاعری پر تنقید کی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آج کل کے پیروں کی غیر اسلامی زندگی اوران کے جرائم کی نہ صرف تاویل کی جاتی ہے بلکہ ان کو متبرک سمجھا جاتا ہے۔ اقبال نے اس طرز عمل کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ جب اسرار خودی شائع ہوئی توبعض صوفی اور پیر جو روایات باطلہ کی پابندی میں گرفتار ہیں اور شریعت حقہ سے ناواقف ہیں۔ اقبال کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے مسلمانوں کو ورغلایا کہ اقبال کو دار پر کھینچ دو۔ کیونکہ یہ لوگوں کو مغربی مادیت کی تعلیم دے رہا ہے۔ اقبال ان لوگوں میں سے ہے جو ایک پیغام اور ایک مقصد لے کر کبھی کبھی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مشرق کی روح ایک ترجمان کی ضرورت محسوس کررہی تھی۔ اس کی شاعری نے اس ضرورت کو پوراکر دیا ہے۔ اس نے اپنے عصا سے چٹان پر ضرب لگائی ہے جس سے وہ چشمہ پھوٹا ہے جو بنی اسرائیل کے چشموں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ آخرمیں حضرت مولانا اسلم صاحب جیراجپوری کے اس مضمون (پہلے آ چکا ہے) جب حضرت اقبال نے اس تبصرہ کا مطالعہ کیا تو انھیں بہت خوشی ہوئی کہ قوم کم از کم مبصر تو موجود ہے جس نے مثنوی کے مقصد کو صحیح طریق پر سمجھا ہے۔ چنانچہ انھوں نے مولانا موصوف کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھ کر روانہ کیا: لاہور ۱۷؍مئی ۱۹۱۹ء مخدومی السلام علیکم آپ کا تبصرہ اسرار خودیپر الناصرمیں دیکھا ہے۔ جس کے لیے میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں۔ دیدمت مردے دریں قحط الرجال خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے۔ ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی توضیح اور تشریح تھا، خواجہ کی پرائیوٹ شخصیت یا اُن کے معتقدات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ مگر عوام اس باریک فرق کو سمجھ نہ سکے اورنتیجہ یہ ہواک ہ اس پر بڑے لے دے ہوئی۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حُسن حسن ہے خواہہ اس کے نتائج مفید ہوں یا مضر، ت و خواجہ دنیا کے بہترین شعراء میں سے ہیں۔ بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کردیے ہیں اور اُن کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔ عرفی کی طرف اشارہ کرنے سے محض اس کے بعض اشعار کی طرف تلمیح مقصود تھی۔ مثلاً گرفتم آنکہ بہشتم دہند بے طاعت قبول کر دن صدقہ نہ شرط انصاف است لیکن اس مقابلہ سے۴؎ خود مطمئن نہ تھااور یہ ایک مزید وجہ ان اشعار کو حذف کر دینے کی تھی۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اوراپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا جیسا کہ مجھے بعض احباب کے خطوط سے اور دیگر تحریروں سے معلوم ہوا جووقتاًفوقتاًشائع ہوتی رہیں۔ کیمبرج کے پروفیسر نکلسن بھی اس خیال میں آپ کے ہمنواہیں کہ دیباچہ کو دوسرے ایڈیشں سے حذف نہ کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے اس کا ترجمہ انگریزی میں کرایا ہے شاید انگریزی اڈیشن کے ساتھ شائع کردیں۔ پیرزادہ مطفر الدین احمد صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا۔ تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد لی جائے (اوریہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتاتھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نطامِ عالم کے حقائق اور ذات باری تعالیٰ کے متعلق موشگافیاں کرکے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ میں نے تصوف کی تاریخ لکھنی شروع کی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا۔ پروفیسر نکلسن ’’اسلامی شاعری اور تصوف‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو عنقریب شائع ہوگی۔ ممکن ہے یہ کتاب ایک حدتک ہی وہی کام کر دے جو میں کرنا چاہتا تھا۔ منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین جس کا ذکر ابن حزم کی فہرستمیں ہے، فرانس میں شائع ہو گیا ہے۔ حسین منصور کے اصلی معتقدات پر اس رسالہ سے بڑی روشنی پڑتی ہے۔ اورمعلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے مسلمان اس کی سزا دہی میں بالکل حق بجانب تھے۔ اس کے علاوہ ابن حزم نے کتاب الملل والخلل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے، اس کی اس رسالہ سے پوری تائید ہوتی ہے۔ لطف یہ ہے غیر صوفیاء قریباً سب کے سب منصور سے بیزار تھے، معلوم نہیں متاخرین اس کے اس قدر دلدادہ کیوں ہو گئے۔ مذہب آفتاب پر مستی کے متعلق جو تحقیقات موجودہ زمانہ میں ہو رہی ہے۔ اس سے امید ہوتی ہے کہ عجمی تصوف کے پوشیدہ مراسم کی اصلیت بہت جلد دنیا کو معلوم ہو جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ طویل خط کے لیے آپ مجھے معاف فرمائیں گے آپ کے تبصرہ سے مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی۔ آپ کا مخلص محمد اقبال یہ خط حضرت علامہ نے ۱۹۱۹ء میں لکھا تھا جس میں انھوں نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ غیر اسلامی تصوف نے جو نفیٔ خودی ، ترک دنیا یا رہبانیت، گوشہ نشینی، ترک عمل اور فناء سے عبارت ہے، مسلمانوں کو ذوق عمل سے بیگانہ کر دیا ان کی نظرمیں یہ بات اس قدر اہم تھی کہ وہ اس حقیقت کو مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۹۳۶ء میں جو خط انھوں نے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو لکھا تھا۔ اس میں اسی صداقت کو واضح کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں : معترض قرآن کریم کی تعلیم سے بے بہرہ ہے۔ علی ہذا القیاس اسلامی تصوف میں مسئلہ خودی کی تاریخ نیز میری تحریروں سے ناواقف محض ہے جب انسان میں خوئے غلامی راخ ہو جاتی ہے تو وہ ہر ایسی تعلیم سے بیزاری کے بہانے تلاش کرنے لگتا ہے۔ جس کا مقصد قوتِ نفس اور روح انسانی کا ترفع ہو۔ دین اسلام جوہر مسلمان کے عقیدے کی رُو سے، ہر شئے پر مقدم ہے نفس انانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا۔ بلکہ ان کے عمل کے لیے حدود معین کرتا ہے۔ اس حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یاقانون الٰہی ہے۔ خودی خواہ مسولینی کی ہویا ہٹلر کی۔ اگروہ قانون الٰہی کی پابندی ہو جائے تو مسلمان ہو جاتی ہے۔ مسولینی نے حبشہ کو محض جوع الارض کی تسکین کے لیے پامال کیا۔ لیکن مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانہ میں حبشہ کی آزادی کو محفوظ رکھا۔ فرق اس قدر ہے کہ پہلی صورت م یں خودی کسی قانون کی پابند نہیں۔ دوسری صورت میں قانونِ الٰہی اور اخلاق کی پابند ہے۔ بہرحال حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اور شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکام الٰہی خودی میں اس درجہ سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیوٹ (ذاتی) امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے ’’فنا‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے اسی کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی اورایرانی صوفیہ میں سے اکثر نے مسئلہ فناء کی تفسیر فلسفہ ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ ٔ محض ہے۔ میرے عقیدہ کی رُو سے فناء کی یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اورایک معنی میں میری تمام تحریریں اسی تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں۔ اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو سکتی ہے کہ علامہ مرحوم نے اسرار خودی یا دیگر تصانیف میں تصوف کی غیر اسلامی تعبیر کی تردید کی ہے۔ جس کی رُو سے انسان ذوق عمل سے بیگانہ اورناکارۂ محض ہو جاتا ہے۔ اسلامی تصوف کی انھوں نے کسی جگہ مخالفت نہیں کی بلکہ میری رائے میں وہ اس کے آخر وقت تک حامی اور پرجوش مبلغ رہے۔ اگرناظرین اس فرق کو ملحوظ رکھیں تو وہ اسرار خودی کے علاوہ دوسری تصانیف کے مطالب سے بھی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ مثلاًفنا کی تعلیم اسلامی تصوف نے بھی دی ہے اورہندی یا ایرانی تصوف نے بھی لیکن فناء کا مفہو م دونوں جگہ بالکل مختلف ہے۔ اسلامی تصوف کی رُو سے فنا کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو برقرار رکھے لیکن اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی بجائے قانون الٰہی کی پیروی بلکہ کامل اطاعت کرے یعنی اپنی خواہشات کو فنا کر دے یا بالفاط دیگر نفس امارہ کو جو ہر وقت برائی کا حکم دیتا ہے ، فنا کردے ، فناء کا یہ مفہوم اس آیت سے مسنتبط ہے: قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ آپ کہہ دیجیے کہ میری نماز، میری قربانیاں یعنی دینی رسوم اورمیراجینا اورمرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے جو پروردگار ہے ساری کائنات کا یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں فنا کر دے اورجب یہ حالت پیداہو جاتی ہے تو اس کا نفس حقیقی معنی میں مسلمان ہو جاتا ہے۔ جسے قرآن نفس مطمئنہ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس وقت مسلمان میں صفات الٰہیہ کا رنگ پیداہو جاتا ہے اوریہی فناء کا ثمرہ ہے کہ خودی اپنی جگہ باقی رہتی ہے لیکن خدائی صفات سے متصف ہو جاتی ہے۔ لیکن غیر اسلامی تصوف میں فنا کا یہ مفہوم نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس وہاں فناء کا مفہوم یہ ہے کہ اسنان ترک دنیا یعنی رہبانیت اختیار کرکے اپنی ہستی کو فناء کر دے۔ بایں معنی کہ قطرہ سمندر میں مل جائے اسی حالت کو عجمی تصوف میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اگر خدا سے ملنا چاہتے ہو تو اپنی خودی کو مٹا دو یعنی رہبانیت اختیار کرلو۔ اسلام اس عقیدہ کی تردید کرتا ہے اورچونکہ اقبال،اسلام کے وکیل اور شارح ہیں۔ اس لیے وہ بھی اس عقیدہ کے مخالف ہیں چونکہ مسلمان، ہندی تصوف کے زیر اثر صدیوں سے سنتے چلے آئے تھے کہ خودی کے مٹانے سے خدا ملتا ہے اس لیے جب اقبال نے اسرار خودیمیں یہ تعلیم پیش کی کہ خودی کو مٹانے کے بجائے اس کو مستحکم کرو تو حقیقت سے ناواقف لوگوں نے اقبال کے خلاف وہ ہنگامہ برپا کردیا۔ جس کی روداد میں نے گزشتہ صفحات میں بیان کی ہے۔ جس زمانہ میں ہندوستان کے مسلمان اس ’’گنج شائگاں‘‘ میںعیوب تلاش کر رہے تھے اوراس کے مصنف کو ہدف اعتراض بنا رہے تھے، انگلستان جنت نشان کا ایک پروفیسر (ڈاکٹرنکلسن ) ایک قابل مسلمان (پروفیسر محمدشفیع) کی مدد سے اس مثنوی کا مطالعہ کررہے تھا اورجب وہ اس کے مطالعہ سے فارغ ہوا تو اس پراس کی عظمت کا ایسا نقش قائم ہوا کہ اس نے اس فلسفیانہ نظم کا انگریزی میں ترجمہ شروع کردیا۔ چونکہ اس کے لیے بھی یہ موضوع نیا تھا۔ اس لیے اُس نے حضرت علامہ کو لکھا کہ اس مثنوی کے بنیادی تصورات کی تشریح سپرد قلم کر دیں۔ تاکہ وہ انگریزی ایڈیشن میں بطور مقدمہ شامل کر دی جائے۔ علامہ نے پروفیسر نکلسن کی درخواست پر بہت عجلت میں ایک مختصرمضمون اُسے لکھ کر بھیج دیا جس کواس نے اپنی تمہید کے آخر میں شامل کردیا۔ چنانچہ پروفیسرمذکورلکھتا ہے: یورپ کے ناظرین کے لیے اسراری خودیمیں بعض مقامات اس درجہ عسیر الفہم ہیں کہ ترجمہ خواہ کیسی ہی عمدگی سے کیوں نہ کیا جائے، اُن مقامات کو واضح نہیں کر سکتا۔ ان دشواریوں اور وقتوں میں سے بعض کا تعلق تو اسلوب بیان سے ہے مگرجو لوگ فارسی شاعری سے آشنا ہیں وہ قدرے محنت کے بعد اُن پر غالب آ سکتے ہیں۔ لیکن ہم مغربی لوگوں کے لیے ان تصورات کو سمجھنا بہت مشکل ہے جو بالخصوص مشرقی طرز فکر سے مربوط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس بات کا مدعی نہیں ہوں کہ میں نے اس مثنوی کاترجمہ اول سے آخر تک بالکل صحیح کیا ہے اورکہیں غلطی نہیں کی ہے۔ میں نے اس مثنوی کو اپنے فاضل دوست پروفیسر محمد شفیع کی مدد سے اول تا آخر پڑھا اوربہت سے مسائل میں ان سے تبادلۂ خیال بھی کیا۔ بنیادی قسم کے سوالات کا حل خودمصنف نے مجھے مہیا کردیا۔ میری درخواست پر انھوں نے ان مسائل پر جو اس مثنوی میں زیر بحث آئے ہیں اپنی فلسفیانہء آراء مرتب کرکے بھیج دیں جن کو میں انہی کے الفاظ م یں درج کرتاہوں۔ اگرچہ مصنف نے لکھا ہے کہ میں نے یہ مضمون بہت عجلت میں مرتب کیا ہے بایں ہ مہ اس کے زرو بیان اورمجتہدانہ انداز سے قطع نظر کرکے، اس کی عبارت سے اسی مثنوی کے دلائل شعری کی ایسی عمدہ وضاحت ہوسکتی ہے جو مجھ سے کسی طرح ممکن نہیں تھی۔ اسراری خودیکا انگریزی ترجمہ جس کے شروع میں ۲۵ صفحات کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ ۱۹۳۰ء میں شائع ہوا اس کی اشاعت کے بعدانگلستان کے بعض لوگوں کو کچھ غلط فہمیاں لاحق ہو گ ئیں جن کے ازالہ کے ل یے علامہ نے پروفیسر نکلسن کو ایک طویل خط لکھا جو ۱۹۲۱ء میں انگلستان کے مشہور علمی رسالہ کوئیسٹ (QUEST)میں شائع ہوا تھا۔ لیکن افسوس کہ یہ مضمون بہت مجمل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مختصر نویسی ہر فلسفی کی طبیعہ ثانیہ بن جاتی ہے۔ بہرحال اس کا مطالعہ بھی اسرار خودیکے بنیادی تصورات کوسمجھنے کے لیے مفید ہے۔ میں ان دونوں مضمونوں کو ’’مقدمہ‘‘ میں درج کروں گا۔ __________________ ابھی تک خودی کے فلسفہ پر کوئی مبسوط کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ لیکن گذشتہ ۳۰ سال میں اس موضوع پر جس قدرمضامین لکھے گئے ہیں ان میں سے حسب ذیل لائق مطالعہ ہیں: (۱) انگریزی میں مسٹر ڈار، مسٹر عبدالواحد اور ڈاکٹر عشرت حسین۔ (۲) اُردو میں ڈاکٹر یوسف حسین خاں، ڈاکٹر ولی الدین، ڈاکٹر عابد حسین اورمولانا عبدالسلام صاحب ندوی۔ __________________ جب علامہ مرحوم کے دوست اورقدر دان نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب مرحوم نے دیکھا کہ اہل انگلستان نے اقبال کی مثنوی کاانگریزی ترجمہ شائع کر دیا ہے تو انھیں بھی یہ خیال آیا کہ اقبال کو اہل مغرب سے روشناس کرنے اورمثنوی کے مطالب کو واضح کرنے کے سلسلہ میں جو فرض اُن پر عاید ہوتا ہے اُسے ادا کرنا چاہیے چنانچہ انھوں نے ۱۹۲۲ء میں اسرار و رموز دونوں پر انگریزی میں مفصل تبصرہ لکھ کر’’ مشرق سے ایک آواز‘‘کے نام سے شائع کیا ۔ جو قریب پچاس صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں جس قدر اُردو اشعار ہیں، ان کا انگریزی ترجمہ نواب صاحب اور اقبال کے مشترک دوست مسٹر امراؤ سنگھ شیر گل نے کیا تھا۔ یہ شیر گل ۱؎ صاحب میری محدودمعلومات کے مطابق ان دو سکھ بزرگوں میں سے دوسرے ہیں جن کو کلام اقبال سے خاص دلچسپی تھی۔ اور اس کتابچہ پر جوپیش لفظ انھوں نے لکھا ہے اس کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مثنوی کے مطالب سے بخوبی آگاہ تھے ۔ چنانچہ اس کا ثبوت ذیل کے اقتباسات مل سکتا ہے: اقبال نے اپنی مثنوی کے ذریعے سے مسلمانوں کی وہی خدمت انجام دی ہے جو سری کرشن جی نے گیتا کے وسیلے سے ہندو قوم کی انجام دی تھی انھوں نے مسلمانوں کو ایسے تصوف سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے جو ان کو فرائض منصبی سے …غافل کر دے۔ علاوہ بریں انھوں نے مغربی مادیت کے مفاسد سے بھی مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے کیونکہ اس کانتیجہ انتشار اور بدنظمی کے علاوہ اورکچھ نہیں نکلتا۔ جیسا کہ یورپ کی موجودہ حالت سے ثابت ہو رہا ہے۔ اقبال کے کلام میں تعمیری تصورات بکثرت پائے جاتے ہیں اورمجھے امید ہے کہ آئندہ نسلیں اس کے کلام سے بہت زیادہ استفادہ کریں گی۔ اقبال کی شاعری میں حافظ، سعدی اور رومی تینوں فارسی شعراء کے کلام کا رنگ پایا جاتا ہے۔ میں نے اپنے دوست سر ذوالفقار کے یہاں اکثر اقبال کو فکر سخن میں محو دیکھا ہے اورہم نے ایسی حالت میں ہمیشہ گفتگو سے احتراز کیا ہے مبادا شاعر کے تصورات کا سلسلہ ٹوٹ جائے اورہم آسمانی نعمتوں سے محروم ہو جائیں۔ نیز نواب صاحب نے دیباچہ میں لکھا ہے کہ : اس تبصرے سے میرا مقصد یہ ہے کہ یورپ اورامریکہ کے علم دوست حضرات علامہ اقبال کے کلام کی خوبیوں سے آگاہ ہو سکیں۔ اُن کا کلام مردہ اور ضعیف اقوام کے حق میں بمنزلۂ اکسیر ہے۔ ہندوستان کے مسلمان صدیوں سے خواب غفلت میں گرفتار تھے، اورکچھ عرصہ سے تو مذہب سے بھی بیزار ہو گئے تھے۔ اقبال نے اپنے کلام خصوصاًاسرار ورموز سے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا ہے اوران کو اسلام کے پیغام سے آگاہ کیا ہے۔ یعنی ان کی شاعری دو گونہ مقصد کی حامل ہے۔ نواب صاحب کی یہ تالیف اگرچہ مختصر ہے مگر ہے بعدمفید کیونکہ انھوں نے اسرار و رموزدونوں کے بنیادی تصورات آسان زبان میں بیان کر دئیے ہیں۔ اس کو قوم کی بدقسمتی کے سوا اورکس چیز سے تعبیر کیاجائے کہ ۱۹۲۲ء کے بعد سے آج تک اس کادوسرا ایڈیشن شائع نہیں ہوا۔ حالانکہ میری رائے میں اس کے اُردو ترجمہ کی بھی ضرورت ہے۔ حواشی ۱- اس کی تشریح مقدمہ میں درج کروں گا۔۱۲ ۲- اقتباسات از خطوط اکبر بنام مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی:۔ (۱) ۶؍اگست ۱۹۱۷ء ’’حضرت اقبال معلوم نہیں کیوں تصوف کے پیچھے پڑے ہیں‘‘۔ (ب) یکم ستمبر ۱۹۱۷ء ’’اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے کہتے ہیں کہ عجمی فلاسفی نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے۔ اوریہ بات غلط ہے خلاف اسلام ہے‘‘۔ (ج) ۱۱؍جون ۱۹۱۸ء ’’اقبال صاحب نے جب سے حافظ شیرازی کو علانیہ برا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ اُن کی مثنوی اسرار خودیآپ نے دیکھی ہوگی۔ اب رموز بے خودی شائع ہوئی ہے۔ میں نے نہیں دیکھی،دل نہیں چاہا۔ ۳- گرد لم آئینۂ بے جوہر است در بحر لم غیر قرآن مضمر است پردۂ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں راز خادم پاک کن روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کُن مرا (رموز بے خودی) ۴- علامہ اقبال نے مثنوی کے پہلے ایڈیشن میں حافظ پر تنقید کے سلسلہ میں اُن کا عرفی سے موازنہ بھی کیا تھااور ناظرین کو اس کے کلام کے مطالعہ کی دعوت دی تھی لیکن یہ مقابلہ اس قسم کا تھا کہ اس سے غلطی فہمی پیداہو سکتی ہی۔ ا س ل یے علامہ نے اسے حذف کر دیا۔ چند شعر درج کرتاہوں: حافظ جاد و بیاں شیرازی است عرفی آتش زباں شیرازی است ایں سوئے ملک خودی مرکب جہاند آں کنار آب رکن آباد ساند ایں قتیل ہمت مردانہؓٔ آں زرمز زندگی بیگانۂ! بادہ زن با عرفی ہنگامہ خیز زندہ؟ از صحبت حافظِ گریز ۵- مسٹر راؤ سنگھ جن کا خاندانی لقب ’’شیرگل‘‘ تھا۔ میں اس لفظ کے مفہوم سے آگاہ نہیںہوں، بڑے علم دوست اور ادب نواز تھے۔ نواب ذوالفقار علی خان کے بے تکلف دوستوں میں تھے۔ زیادہ تر شملہ رہا کرتے تھے جب تقدیر نے یاوری کی تو فرانس میں سکونت اختیار کرلی اوروہیں ایک فرنچ خاتون سے شادی بھی کرلی تھی۔ جس کے بطن سے ایک لڑکی پیداہوئی تھی۔ اس کا نام انھوں نے امرت شیرگل رکھا تھا۔ اس لڑکی نے مصوری میں غیر معمولی مہارت حاصل کی تھی۔ ۱۹۳۰ء میں لاہور آئی تھی اور اپنی بعض تصاویر کی نمائش بھی کی تھی۔ افسوس کہ ۱۹۳۲ء میں اس لڑکی کا عین عالم شباب میں انتقال ہوگیا۔ مقدمہ؍فصل اول دیباجہ اسرار خودی؍نوشتہ علامہ اقبال جیسا کہ میں نے دیباچہ میں واضح کیا ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے اسرار خودی پرایک فاضلانہ اورمحققانہ دیباچہ بھی لکھا تھا جسے دوسرے ایڈیشن میں حذف کر دیا اس لیے کہ وہ بہت مجمل ہے لیکن یہ دیباچہ اس قدر اہم، پُرمغز ، ضروری اورمفید ہے کہ اگرمیں اسکو نہ پڑھتا توشاید اس کتاب کے مقاصد اورمطالب سے آگاہ نہیں ہوسکتاتھا۔ اس لیے سب سے پہلے اسی کو درج کرتاہوں، اس کے بعد اس کے مشکل مقامات کی شرح لکھوں گا: یہ وحدت ۱؎وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ ، جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات (تمنیات مستیز ہوتے ہیں، یہ پُر اسرار شی جو فطرت انسانی کی منتشراور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے، یہ خودی یا انا یا ’’میں‘‘ جو اپنے عمل کی رُو سے ظاہر ہے لیکن اپنی حقیقت کی رُو سے مضمر ہے، جو تمام مشاہدات کی خالق ہے مگر جس کی لطافت، مشاہدہ کی گرم نگاہوں کی تا ب نہیں لا سکتی، کیا چیز ہے؟ کیا یہ ایک لازوال حقیقت ہے یا زندگی نے محض عارضی طورپر اپنی فوری عملی اغراض کے حصول کی خاطر، اپنے آپ کو اس فریب تخیل یا دروغ مصلحت آمیز کی صورت میں نمایاں کیا ہے؟ اخلاقی اعتبار سے افراد و اقوام کا طرز عمل، اس نہایت ضروری سوال کے جواب پر منحصر ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ ہوگی جس کے حکماء و علماء نے کسی نہ کسی صورت م یں اس سوال کا جواب پیدا کرنے کے لیے دماغ سوزی نہ کی ہ و۔ مگر اس سوال کا جواب، افراد اقوام کی دماغی قابلیت پر اس قدر انحصار نہیں رکھتا جس قدر کہ ان کی افتاد طبعیت پر۔ مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اسی نتیجہ کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی انامحض ایک فریب تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اتار دینے کا نام نجات ہے۔ مغربی اقوام کا عملی مذاق کو ایسے نتائج کی طرف لے گیا جس کے لیے ان کی فطرت متقاضی ہے۔ (۲) ہندو قوم کے دل و دماغ میں عملیات اور نظریات کی ایک عجیب طریق سے آمیزش ہوئی ہے۔ اس قوم کے موشگاف حکماء نے قوت عمل کی حقیقت پر نہایت دقیق بحث کی ہے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انا کی حیات کا یہ مشہود تسلسل جو تمام آلام و مصائب کی جڑ ہے۔ عمل سے متعین ہوتا ہے، یا یوں کہیے کہ انسانی انا کی موجودہ کیفیات اورلوازمات اس کے گذشتہ طریق عمل کا لازمی نتیجہ ہیں۔ اورجب تک یہ قانون عمل اپنا کام کرتا ر ہے گاوہی نتائج پیدا ہوتے رہیں گے۔ انیسویںصدی کے مشہور شاعر گوئٹے کا ہیروفاؤسٹ جب انجیل یوحنا کی پہلی آیت میں لفظ ’’کلام‘‘ کی جگہ لفظ ’’عمل‘‘ پڑھتا ہے (ابتداء میں کلام تھا اورکلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا) تو حقیقت میں اس کی دقیقہ رس نگاہ اس نکتہ کو دیکھتی ہے جس کو ہندو حکماء نے صدیوں سے پہلے دیکھ لیا تھا۔اس عجیب و غریب طریق پر ہندو حکماء نے تقدیر کی مطلق العنانی اورانسانی حریت بالفاظ دگر، جبر و اختیار کی گتھی کو سلجھایا۔ اوراس میں شک نہیں کہ فلسفیانہ لحاظ سے ان کی جدت طرازی داد تحسین کی مستحق ہے۔ اور بالخصوص اس وجہ سے کہ وہ ایک بہت بڑی اخلاقی جرأت کے ساتھ ان تمام فلسفیانہ نتائج کو بھی قبول کرتے ہیں جو اس قضیہ سے پیداہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ جب انا کا تعین عمل سے ہے۔ توانا کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریق ہے اوروہ ترک عمل ہے۔ یہ نتیجہ انفرادی اورملی دونوں پہلوؤں سے نہایت خطرناک تھا۔ اوراس بات کا متقضی تھا کہ کوئی مجدد پیداہو جو ترک عمل کے اصلی مفہوم کو واضح کرے۔ بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں شری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا کہ اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایتدلفریب پیرایہ میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور حقیقت کو آشکار کیا کہ ترک عمل سے مراد ترک کلی نہیں ہے۔ کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اوراسی سے زندگی کا استحکام ہے بلکہ ترک عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے مطلق دل بستگی نہ ہو۔ شری کرشن کے بعد شری رام نوج چاریہ بھی اسی رستے پر چلے مگر افسوس ہے کہ جس عروس معنی کو شری کرشن اور شری رام نوج بے نقاب کرنا چاہتے تھے۔ شری شنکر اچاریہ کے منطقی طلسم نے اسے پھرمحجوب کر دیا۔ اورشری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمرات سے محروم رہ گئی۔ (۳) مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک بھی ایک نہایت زبردست پیغام عمل تھی۔ گو اس تحریک کے نزدیک (ہند و فلسفہ کے خلاف) انا ایک مخلوق ہستی سے جو عمل سے لازوال ہو سکتی ہے۔ مگر مسئلہ انا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اورہندوؤ ں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے۔ اوروہ یہ کہ جس نقطۂ خیال سے شری شنکر اچاریہ نے گیتا کی تفسیر کی تھی اسی نقطۂ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے ۔ شیخ کے علم و فضل اور ان کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدۃ الوجود کو جس وہ انتھک مفسر تھے، اسلامی تخیل کا ایک لاینفک عنصر بنا دیا۔ اوحد الدین کرمانی ۲؎اورفخر الدین عراقی۳؎ ان کی تعلیم سے نہایت متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودھویں صدی عیسوی کے تمام شعراء اس رنگ میں رنگین ہو گئے۔ ایرانیوں کی نازک مزاج اورلطیف الطبع قوم اس طویل مشقت کی کہاں متحمل ہو سکتی تھی۔ جو جزو سے کل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔اس لیے انہوں جزو اورکل کا دشوار گزار درمیانی فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کرکے ’’رگ چراغ‘‘ میں ’’خون آفتاب‘‘ کا اور ’’شرارِ سنگ‘‘ میں جلوۂ طورکا بلاواسطہ مشاہدہ کیا۔ (۴)مختصر یہ کہ ہندو حکما نے مسئلہ وحدۃ الوجود کے اثبات م یں دماغ کو اپنا مخاطب بنایا مگرایرانی شعراء نے مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنی آماجگاہ بنایا اوران کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا انجام کاریہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلہ نے عوام تک پہنچ کر قریباًتمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کر دیا۔ علمائے قوم میں سب سے پہلے غالباًامام ابن تیمیہ ۴؎نے حکماء میں واحد محمود نے اسلامی تخیل کے اس ہمہ گیر میلان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ مگر افسوس ہے کہ وحد محمود کی تصانیف آج ناپید ہیں۔ ملا حسن فانی کشمیری نے دابستان مذاہب میں اس کا تھوڑا سا تذکرہ لکھا ہے جس سے اس حکیم کے خیالات کا پورااندازہ نہیں ہوسکتا۔ ابن تیمیہ کی زبردست منطق نے کچھ نہ کچھ اثر ضرورپیداکیا۔ مگر حق یہ ہے کہ منطق کی خشکی، شعرکی دلربائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ شعراء میں شیخ علی حزیں نے یہ کہہ کر ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ حقیقت حال سے آگاہ تھا مگر باوجود اس بات کے اس کا کلام شاہد ہے کہ وہ بھی اپنے گرد و پیش کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ان حالات میں یہ کیوں کر ممکن تھا کہ ہندوستان میں اسلامی تخیل اپنے عملی ذوق کو محفوظ رکھ سکتا۔ مرزا بیدل ، لذت سکون کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ ان کو جنبش نگاہ تک گوارا نہیں: نزاکت ہاست در آغوش مینا خانۂ حیرت مژہ برہم مژن تا نشکنی رنگ تماشا را اورامیر مینائی مرحوم یہ تعلیم دیتے ہیں: دیکھ جو کچھ سامنے آ جائے مونہہ سے کچھ نہ بول آنکھ آئینہ کی پیدا کر، دہن تصویر کا (۵)مغربی اقوام اپنی قوت عمل کی وجہ سے تمام اقوام عالم میں ممتاز ہیں۔ اور اسی وجہ سے اسرار زندگی کو سمجھنے کے لیے ان کے ابیات و تخیلات، اہل مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں۔ اگرچہ مغرب کے فلسفۂ جدید کی ابتداء ہالینڈ کے اسرائیلی فلسفی کے نظام وحدۃ الوجود سے ہوتی ہے۔ لیکن مغربی طبائع پر رنگ عمل غالب تھا۔ اس لیے وحدۃ الوجود کا یہ طلسم جسے ریاضیات کے طریق استدلال سے پختہ کیا گیا تھا۔ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ سب سے پہلے جرمنی میں انسانی انا کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا اور رفتہ رفتہ فلاسفۂ مغرب بالخصوص حکمائے انگلستان کے علمی ذوق کی بدولت، اس خیالی طلسم کے اثر سے آزاد ہو گئے۔ جس طرح رنگ و بو کے لیے مختص حواس ہیں، اسی طرح انسانوں میں ایک اور خاصہ بھی ہے۔ جسے میں ’’حس واقعات‘‘ سے تعبیرکرتاہوں۔ ہماری زندگی، واقعات گردو پیش کے مشاہدہ کرنے اوران کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر عمل پیراہونے پر منحصر ہے۔ مگر ہم می ں کتنے ہ یں جو اس قوت سے کام ل یتے ہیں۔ جس کو میں نے ’’حسن واقعات‘‘ کی اصطلاح سے تعبیر کیاہے؟ نظام قدرت کے پراسرر بطن سے ہر وقت مختلف واقعات پیداہوتے رہتے ہیں اورہوتے رہیں گیٔ مگر بیکن سے پہلے کون جانتا تھا کہ یہ واقعات حاضرہ جن کو نظریات کے دلدادہ فلسفی اپنے تخیل کی بلندی سے بنگاہِ حقارت دیکھتے ہیں اپنے اندر حقائق و معارف کا ایک گنج گراں مایہ پوشیدہ رکھتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ انگریزی قوم کی عملی نکتہ رسی کا احسان تمام دنیا کی قوموں پر ہے کہ اس قوم میں حس واقعات اور اقوام عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہیٔ یہی وجہ ہے کوئی ’’دماغ بافتہ‘‘ فلسفیانہ نظام جو واقعات متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو۔ انگلستان کی سرزمین مین آج تک مقبول نہیں ہوا۔ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیات عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستیفد ہو ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظر ثانی کریں۔ (۶) یہ ہے ایک مختصر سا خاکہ اس مسئلہ کی تاریخ کا جو اس نظم کا موضوع ہے میں نے اس دقیق مسئلہ کو فلسفیانہ دلائل کی پیچیدگیوں سے آزاد رکرکے تخیل کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس کی حقیقت کوسمجھنے میں اور غور کرنے میں آسانی پیداہو۔اس دیباچہ سے اس نظم کی تفسیر مقصود نہیں ہے۔ محض ان لوگوں کو نشانِ راہ بتانا مقصود ہے جو اس سے پہلے اس عسیر الفہم حقیقت کی دشواریوں اور دقتوں سے آشنا نہیں مجھے یقین ہے کہ سطوربالا سے کسی حد تک یہ مطلب نکل آئے گا۔ شاعرانہ پہلو سے اس نظم کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے۔ اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذت حیات ’’انا‘‘ کی انفرادی حیثیت، اس کے اثبات، استحکام اورتوسیع سے وابستہ ہے۔ یہ نکتہ مسئلہ حیات ما بعد الموت کی حقیقت کے سمجھنے کے لیے بطورایک تمہید کے کام دے گا۔ (۷) ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ عام طورپر اُردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔ مرکب لفظ بے خودی میں بھی اس کا یہی مفہوم ہے اور غالباًمحسن تاثیر کے اس شعر میں بھی لفظ خودی کے یہی معنی ہیں: غریق قلزم وحدت دم از خودی نزند بود محال کشیدن مبالغہ میان آب نفس حواشی ۱- علامہ نے خودی کو وحدت وجدانی یا شعور کے روشن نقطہ سے تعبیرکیا ہے۔ لفظ وجدان مصدر ہے بمعنی پانا یا دریافت کرنا۔ لیکن اصطلاح میں باطنی احساس کو کہتے ہیں۔ یعنی ذوق سلیم کی مدد سے کسی مخفی معنی کو دریافت کرنا۔ بالفاظ دگر وجدان کہتے ہیں واضح منطقی استدلال کی وساطت کے بغیر، کسی بات کو سمجھ لینا۔ وجدان حاسۂ باطنی کا فعل ہے یا انفعال ہے یعنی اگرانسان الہام کی مدد سے وجدانی طورپر کسی بات کو سمجھ جائے تو یہ انفعال ہے اوراگراپنی پوری قوتِ عاقلہ کی مدد سے سمجھ تو یہ فعل ہے۔ ۲- شیخ ابو حامد واحد الدین کرمانی۔ شیخ اکبر ؒکے مرید اور مداح تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں وحدۃ الوجود کارنگ جھلکتا ہے اورانہوں نے اپنی مثنوی مصباح الارواح میں اسی مسلک کو پیش کیا ہے: تا جنبش دست ہست ما ذام سایہ متحرک است ناکام چوں سایہ زدست یافت مایہ پس نیست خوداندر اصل سایہ چیرے کہ وجود او بخود نیست ہستیش نہاون از خود نیست ہست نیست و لپک ہست مطلق نزدیک حکیم نیست جز حق ہستی کہ بحق قوام دارد او نیست و لیل نام دارد بر نقش خود است فتنۂ نقاش کس نیست دریں میاں تو خوش باش خود گفت حقیقت و خود اشنید واں روے کہ خود نمود، خود دید پس باد یقیں کہ نیست اللہ! موجود حقیقی سوی اللہ ۲- شیخ فخر الدین عراقی ہمدان میں پیداہوئے جوانی میں قلندروں کی ایک جماعت کے ساتھ ملتان آئے اور خواجہ بہاؤ الدین ملتانی کے مرید ہو گئے۔ پچیس سال تک شیخ کی صحبت اٹھائی (ان کی وفات کے بعد زیارت حرمین سے مشرف ہوئے اس کے بعد قونیہ (ایشیائے کوچک) پہنچے۔ جہاں شیخ اکبر ؒ کے خلیفہ شیخ صدر الدین، فصوص الحکم کا درس دیتے تھے۔ عراقی بھی شریک درس ہوئے اور فصوص کے مطالعہ کے بعد اپنی کتاب لمعات تصنیف کی جس کو پڑھ کر شیخ صدر الدین نے فرمایا: ’’اے عراقی! سر سخن مرواں آشکار کر دی‘‘ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ عارف جامی ؒ نے اشعۃ اللمعات کے نام سے اس کی شرح لکھی۔ اکثر ارباب علم کا خیال ہے کہ لمعات دراصل فصوص الحکم (شیخ کی شہرۂ آفاق تصنیف) کی سرح ہے، عراقی ۶۸۸ھ میںوفات پائی۔ کیا خدا کی شان ہے کہ لمعات کا تو کوئی نام بھی نہیں جانتا لیکن ان کی یہ غزل آج بھی درگاہوں میں گائی جاتی ہے: نختن بادہ کاندر جام کردند ز چشم ساقی دام کردند بعالم ہر کجا درد و غمے بود بہم کردند و عشقش نام کردند چوں خود کر دند راز خویشتن فاش عراقی را چرا بدنام کردند ۴- امام ابن تیمیہ دنیائے اسلام کی نامور شخصیتوں میں سے ہیں۔ مسلمانوں کو یونانیوں کی ذہنی غلامی سے نجات دینے کے لیے انہوں نے ارسطو کی منطق کا رد لکھا۔ غیر اسلامی تصوف کے خلاف پوری قوت سے جہاد کیا۔ قرامطہ اورملاحدہ کی کتابوں کا جواب لکھا۔ افسوس ہے کہ میں چند سطور میں ان کے کمالات کا تذکرہ نہیں کر سکتا۔ ۷۳۸ ھ میں وفات پائی۔ رحمہ اللہ فصل دوم شرح دیباچہ اسرار خودیکا یہ اہم اور غور طلب دیباچہ سات فقروں(پیراگرفوں) پر مشتمل ہے۔ اگر اس کی تشریح کما حقہ کی جائے تو بہت طویل ہو جائے گی، اس لیے میں ہر فقرہ کے بنیادی تصورات کو اختصار کے بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں: پہلے فقرہ میں اقبال نے حسب ذیل حقائق بیان کیے ہیں: (۱) سب سے پہلے انہوں نے، خودی کی تعریف بیان کی ہے۔ خودی(ا) وحدت وجدانی ہے یا دوسرے لفظوں میں، شعور کا روشن نقطہ ہے وجدان اور شعور میں تھوڑا سا فرق ہے۔ وہ یہ کہ وجدان ایک شیر خوار بچہ میں بھی موجود ہوتا ہے۔ لیکن شعور بعد میں رونما ہوتا ہیٔ اورعمر کے ساتھ ترقی کرتا ہے اورجب بچہ بالغ ہو جاتا ہے تو اس کا شعور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ اقبال نے اپنا مطلب واضح کرنے کے لیے اس باریک فرق سے قطع نظر کرکے دونوں کو مترادف قرار دیا ہے۔ یعنی اس جگہ وجدان اورشعور دونوں ایک ہی معتبر کی دو تعبیریں ہیں۔ خودی وحدت وجدانی ہے ۔ یا بالفاظِ دگر شعور کا روشن نقطہ ہے۔ جب اقبال نے اس بات پر غور کیا کہ میں خود کو کیسے سمجھاؤں تو اِس کی بہترین تعبیر جوان کے ذہن میں آئی وہ وحدت وجدانی تھی۔ یہ ترکیب اقبال کی ایجاد کر رہے اوران کی جودت طبع پر شاہد ہے جس کو انہوں نے اس لیے ایجاد کیاکہ اپنے مفہوم کو بہترین طریق پر بیان کر سکیں۔ اگربلاغت کے نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو ان دو لفطوں کا انتخاب ان کے حسن ذوق کی دلیل ہے اور فصیح البیانی کی بہت عمدہ مثال ہے۔ جب اقبال نے اپنی ذات میں غور کیا انہوں نے اپنے آپ کو کثرت سے مرکب پایا۔ اس کے بعدانہوں نے اس کثرت کا نقطۂ وحدت تلاش کیا (جیسے درخت کا نقطۂ وحدت ، تخم یا مغز ہوتا ہے، تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ چیز کو اَنا یامن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسے میں اپنانقطۂ وحدت سمجھا سکتاہوں۔ مگر وہ کوئی مادی شے نظر نہیں آئی۔ اس لیے انہوں نے اس کے واسطے ‘‘وحدت وجدانی‘‘ کی ترکیب وضع کی۔ یعنی انسان کی خودی ایک وحدت ہے۔ لیکن یہ وحدت مادی نہیں ہے جو حواسِ خمسہ سے محسوس ہو سکے یا ٹٹولنے سے ہاتھ آ سکے بلکہ ذوق (وجدان) سے محسوس ہو سکتی ہے۔ چونکہ ’’وحدت وجدانی‘‘ ایک مغلق ترکیب ہے اس لیے اس کی وضاحت کی خاطر انہوں نے اُسے شعور کے روشن نقطہ سے تعبیر کیا ہے۔ خودی کا شعور کا روشن فقط قرار دینا بلاشبہ بہترین تعبیر ہے جو قدرت نے ان کے ذہن میں وارد کی۔ نقطۂ نوری کہ نام او خودی است زیر خاکِ ما شرارِ زندگی است روشن نقطہ مترادف ہے نورانی کا، اور اس لفظ سے خودی کی ماہیت کا سراغ مل سکتا ہے یعنی یہ کہ اگرچہ خودی اپنی حقیقت کے لحاظ سے پردۂ ابہام میں مستور ہے لیکن جب انسان کا وجدان یا شعور، تنویر باطنی سے منورہو جاتا ہے تو اس کو خودی کا ایک گونہ ادراک حاصل ہوتا ہے۔ اسی نکتہ کو ایک شاعر نے بیان کیا ہے: کس ندانست کہ منزل گۂ مقصود کجاست ایں قدر ہست کہ بانگ جر سے می آید (ب) خودی ایک پراسرار شئے ہے یعنی اس کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوسکتا۔ (ج) انسانی فطرت کی لامحدود کیفیات کی شیرازہ بندہے۔ یعنی اس کی بدولت انسان اپنے آپ کو ایک مستقل اورقائم بالذات وحدت یقین کرتا ہے۔ ہر روز اس صدہا کیفیات واردہوتی ہیں لیکن اس خودی کی بدولت وہ ان سب کیفیات کوایک سلک میں منسلک کرسکتا ہے۔ جس طرح ایک کتاب میں صدہااوراق ہوتے ہیں۔ لیکن شیرازہ بندی کی بدولت وہ اوراق ایک مستقل وحدت اختیار کرلیتے ہیں۔ (د) خودی عمل کی رُو سے ظاہر ہے یعنی ہمارے اعمال اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ کوئی شئے ضرور ہمارے اندر ایسی موجود ہے جو عامل یا فاعل ہے۔ (ہ) خودی اپنی حقیقت کی رُوسے مضمرہے یعنی حواس خمسہ سے محسوس نہیں ہو سکتی ہے اورنہ ہم عقل کی مدد سے اس کی حقیقت سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔ (و) خودی تمام مشاہدات کی خالق ہے یعنی انسان اسی خودی کی بدولت اشیائے کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ (ذ) لیکن خودی اپنی خودی کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ میں نے گذشتہ ۲۵ سال میں اکثر اصحاب کو یہ کہتے سنا کہ ہم نے اقبال کا مطالعہ کیا مگر کودی کا مطلب (مفہوم ) سمجھ میں نہیں آیا۔ حالانکہ اگر وہ لوگ اس دیباچہ کا پہلا جملہ ہی پڑھ لیتے تو انہیں خودی کی تعریف بآسانی معلوم ہو جاتی۔ اگرناظرین اس تعریف کو ذہن میں رکھ کر اسرار خودی کا مطالعہ کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ انہیں مطلب سمجھنے میں کوئی دشواری لاحق نہیں ہوگی۔ اقبال نے اس ابتدائی جملہ میں خودی کا مفہوم کما حقہ واضح کر دیاہے۔ (۲) خودی کی تعریف کے بعد دوسری بات اقبال نے یہ لکھی ہے کہ یہ خودی ایک لازوال حقیقت (Real)ہے یا محض فریب نظر یا دھوکہ یا سراب (Unreal)ہے۔ یہ سوال اقبال نے اس لیے اٹھایا ہے کہ دنیا میں شروع ہی سے دو گروہ چلے آرہے ہیں: ایک گروہ: (جس کے سردار شنکر آچاریہ اور افلاطون ہیں) یہ کہتا ہے کہ کہ خودی بظاہر موجود ہے مگر در حقیقت موہوم یا معدوم ہے یعنی محض دھوکہ یا فریب نظر ہے جس طرح خواب (سپنا) یا سراب (کہ دور سے پانی نظر آتا ہے لیکن دراصل پانی کا مطلق موجود نہیں ہوتا)یا شعلۂ جوالہ کہ گردش دست کی بدولت ایک حلقۂ آتشیں نظر آتا ہے۔ حالانکہ وہ دائرہ یا حلقہ خارج میں اصلاًموجود نہیں ہے ۔ دوسراہ گروہ(جس کے رہنما گوتم اور ابوالحسن اشعری میں) یہ کہتا ہے کہ خودی فی الحقیقت موجود ہے، قائم بالذات ہے اور مستقل ہستی رکھتی ہے۔ یعنی خودی اورخدا دونوں مستقل طورپر موجود ہیں۔ (۳) تیسری بات انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ اس سوال کے جواب پر افراد اور اقوام کے طرز عمل کا انحصار ہے۔ مثلاًاگرکوئی فرد اس کا جواب یہ دے کہ خودی محض دھوکہ ہے تو وہ زندگی میں جدوجہد (جہاد) اور سعیٔ پیہم سے گریز کرے گا۔ یہ دنیا اس کے لیے میدان جنگ نہیں ہوگی، تماشا گاہ حسن ہوگی۔ اور وہ حافظ کے اس شعرپر عمل کرے گا۔ دریں نہ رفیقے کہ خالی از و غل است صراحیٔ مئے ناب و سفینۂ غزل است لیکن اگر اس کا جواب یہ ہو کہ خودی دھوکہ نہیں ہے بلکہ موجود ہے ت و وہ مئے دھ سالہ و معشوق چاردہ سالہ کے بجائے جہاد کو مقصود حیات بنالے گا۔ یعنی اسے ساحل پر بزم آرائی سے نفرت ہوگی اوروموجوں سے کشتی لڑنے میں لطف آئے گا۔ چونکہ اقبال کا جواب نفی کی بجائے اثبات میں ہے۔ اسی لیے اُن کے پیغام میں دعوت جہاد کے علاوہ اورکچھ نہیں مل سکتا۔ اُن کے یہاں جہاد ہی کا دوسرا نام حیات ہے۔ نوٹ: ایک تیسرہ گروہ بھی ہے (جس کے قائد رام نج اچاریہ اورحضرت مجدد الف ثانی ؒہیں) جس کی تعلیم یہ ہے کہ خودی ہے تو موجود، لیکن اس کا وجود ظلی ہے۔ یعنی وہ قائم بالذات نہیں ہے۔ بالفاظ دگر مستقل ہستی نہیں رکھتی۔ بلکہ عکس ہے۔ اسماء و صفات الٰہیہ کا یاپرتو ہے اس کی صفت خالقیت کا۔ اقبال اسی تیسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس کی وضاحت مقدمہ کے باب ہفتم میں ہدیۂ ناظرین کی جائے گی۔ بدر یا غلط و باموجشن در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است (۴) چوتھی بات انہوں نے یہ کہی کہ اس سوال کا جواب افراد کی دماغی قابلیت پر اس قدر انحصار نہیں رکھتا جس قدر اُن کی افتاد طبیعت پر اس جملہ میں دو لفظ قابل غور ہیں: (ا)دماغی قابلیت (ب) اُفتاد طبیعت دماغی قابلیت تو عام فہم لفظ ہے۔ افتادِ طبع سے اقبال کی مراد انسانی فطرت ہے یا سرشت جو بدل نہیں سکتی۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس قسم کے بنیادی سوالات کا فیصلہ منطقی استدلال کی روشنی میں نہیں کیا جاتا بلکہ افر اد اورا قوام اس قسم کے سوالات کا جواب اپنی افتاد طبع یا سرشت کے اقتضاء کے مطابق دینی ہیں۔ مثلاًآریائی اقوما (ہندو اور ایرانی) کی افتادِ طبع فلسفیانہ ہے۔ اور سامی اقوام (عرب) کی افتاد طبع عملی ہے۔ آریائی ذہنیت وحدۃ الوجود کی طرف مائل ہے۔ سامی ذہنیت توحید کی طرف راغب ہے چنانچہ مشرقی اقوام (ہندو اورایرانی) نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ خودی محض فریب نظر یا فریب تخیل ہے اوریورپین اقوام نے اسکے برعکس یہ کہا کہ خودی حق ہے۔ چنانچہ انہوں نے جدوجہد کو اپنا شعار حیات بنالیا۔ دوسرا فقرہ: یہ سب سے زیادہ غور طلب فقرہ ہے (۱) پہلی بات یہ بیان کی ہے ک ہ جب ہندو قوم کے حکماء نے عمل (کرم ) کی حقیقت پر غور کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ خودی کی زندگی کا سلسلہ عمل کی بدولت قائم ہے۔ اعمال کے نتائج (پھل) بھگتنے کے لیے انسانی خودی مختلف قالبوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اسی کو تناسخ ارواح کہتے ہیں۔ یعنی جیسے اعمال ویسا ہی قالب ملتا ہے۔ ہر انسان کی موجودہ زندگی اس کے سابقہ اعمال کانتیجہ ہوتی ہے اور جب تک انسان عمل کرتا رہے گا، اس کی خودی اعمال کے مطابق قالب اختیار کرتی رہے گی۔ (۲) دوسری بات یہ ہے کہ ہندو فلسفہ کی رُو سے انسان عمل کرنے میں تو مختار ہے۔ لیکن اعمال کا نتیجہ بھگتنے میں مجبور ہے۔ (۳) تیسری بات یہ ہے کہ ہندو فلسفہ کی رُو سے روح (آتما) جسم کی قید میں گرفتار ہے۔ اوراس کی گرفتاری کا باعث عمل ہے۔ لہٰذا اگرنجات (مکتی) کی آرزوہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ انسان عمل سے دست کش ہو جائے نہ روح عمل کرے گی نہ جسم کے پھندے میں گرفتار ہوگی۔ (۴) چوتھی بات یہ ہے کہ یہ فلسفہ انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں سے خطرناک تھا۔ کیونکہ عمل کی نفی کر دینے سے خودی کی نفی لازمی ہے۔ اورنفی خودی کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہستی کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ چونکہ یہ فلسفہ زندگی کی نفی کرتا ہے اس لیے سری کرشن نے گیتا میں ہندو قوم کو ترک عمل کے حقیقی مفہوم سے آگاہ کیا یعنی یہ کہ ترک عمل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان عمل سے بکلی کنارہ کش ہو جائے بلکہ عمل تو کرے لیکن اس کے نتائج سے دل بستگی نہ ہو۔ یعنی نیکی اس لیے کرے کہ خدا کا حکم ہے۔ نہ اس لیے کہ جنت ملے گی۔ (۵) پانچویں بات یہ ہے کہ شری شنکرآچاریہ نے گیتا کی تشریح ۱؎ ، وحدۃ الوجود کے رنگ م یں کرکے ہندو قوم کو پھر عمل سے بیگانہ بنا دیا۔ اس جملہ کی وضاحت ذیل میں درج کرتاہوں۔ شنکر اچاریہ کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ : (ا) کائنات (سنسار) حقیقی یعنی فی الحقیقت موجود نہیں ہے کیونکہ اگر حقیقی ہوتی تو کبھی فنا نہ ہوتی اس کی مثال خواب کی سی ہے کہ سونے کی حالت میں ایک شخص اپنے آپ کو باغ میں بیٹھے دیکھتا ہے مگرجب آنکھ کھل جاتی ہے تو اس باغ کا کہیں وجود نہیں ہوتا۔ (ب) اگرکائنات محض دھوکہ یا فریب نظر ہے تو یہ جو کچھ نظر آتا ہے اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے (جیسا کہ اپنشدوں کی تعلیم ہے) کہ کچھ نظر آتا ہے، خدا کی طلسماتی طاقت (مایا) کا کھیل ہے۔ مایا، خدا سے وہی رشتہ رکھتی ہے جو آگ اور اس کی سوزش میں پایا جاتا ہے جس طرح آگ میں جلانے کی طاقت ہے، خدا میں سینسار کی لیلاچلانے کی طاقت ہے اس طاقت کی بدولت، خدا نے یہ تماشا ہم لوگوں کودکھایا ہے جس طرح بازیگر یا شعبدہ باز ہتھیلی پرسوں جما کر دکھا دیتا ہے۔ حالانکہ دراصل سرسوں کا وجود نہیں ہوتا اسی طرح اس بڑے جادوگر نے جسے ایشورکہتے ہیں۔ سنسار کی لیلا رچائی ہے اور ہم لوگ اسی طرح ایک فلمی تماشادیکھ رہے ہیں جس طرح سینما میں دکھایا جاتا ہے۔ یا اس دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے رات کے وقت کوئی شخص رسی کو سانپ سمجھ لے اورخوف زدہ ہو جائے اس وقت دراصل سانپ کا کہیں وجود نہیں ہوتا۔ لیکن وہ شخص اپنی غلطی سے یا دھوکہ سے رسی کو سانپ یقین کرلیتا ہے۔ بس اسی طرح دنیا کا کوئی خارجی، حقیقی، اصل یا ذاتی وجود نہیں ہے۔ہم نے دھوکہ سے اُسے موجود سمجھ لیا ہے۔ اگر ہم حقیقی گیان حاصل کر لیں تو ہم پراس دنیا کا غیر حقیقی ہونا یا معدوم ہونا اسی طرح واضح ہو جائے گا جس طرح رسی کا علم ہونے کے بعد سانپ کا معدوم ہونا۔ خلاصہ کلام اینکر یہ دنیا دراصل موجود نہیں ہے بلکہ معدوم یا موہوم ہے۔ (ج) یہ کائنات غیر حقیقی ہے۔ شنکر کے فلسفہ میں اس کا یہ مفہوم ہے کہ جب ایک شخص اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ برہمن (خدا) کے علاوہ اورکوئی ہستی حقیقی معنی میں موجود نہیں ہے یعنی صرف وہی ہے تو اسے اس بات کا بھی گیان حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کائنات غیحقیقی ہے۔ جب تک ایک شخص اس حقیقت سے آگاہ نوٹ: اس جگہ اس بات کی وضاحت کردوں تو شاید خلاف محل نہ ہو کہ ہندو قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ شنکر اچاریہ کے شاگردوں نے منفی پہلو کو اس شد و مد کے ساتھ پیش کیا کہ مثبت پہلو نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ اور اس یک طرفہ تعلیم کا نتیجہ اس قوم کے حق میں بہت برا نکلا۔ وہ ساری قوم عمل سے بیگانہ ہوگئی یعنی جب یہ بات دل میں جم گئی کہ یہ سنسار، محض دھوکہ ہے یا ایشور کی مایا ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے تو پھر جدوجہد کس لیے کی جائے اورکس کے لیے کی جائے؟ نہ ہو کہ برہمن کے سوا اورکوئی موجود نہیں ہے اس وقت تک وہ اس کائنات کو حقیقی موجود ہی سمجھتارہے گا۔ یعنی گیانی کی نظر میں یہ کائنات موموہ ہے لیکن جاہل کی نظر میں موجود ہے۔ ۲؎ (د) خدا اس دنیا کی علت ہے یا اس کا خالق ہے یا اس نے یہ لیلا رچائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اسی معنی میں کائنات کی علت ہے جس معنی میں رسی، سانپ کے وجود کی یا نفس انسانی خواب کی غفلت ہے۔ (ہ) اشنکر کی تعلیم کے دوپہلو ہیں۔ منفی پہلو یہ کہ یہ کائنات حقیقی نہیں ہے یعنی محض فریب نظر ہے۔بظاہر نظر آتی ہے لیکن دراصل موجود نہیں ہے مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ کائنات عین خدا ہ ے۔ (و) شنکر اچاریہ نے خدا کا تصور دو مختلف زوایائے نگاہ سے پیش کیا ہے۔ پہلا زوایہ نگاہ عملی (دیادہارک درشتی) جس کی رُو سے خدا دنیا کا خالق ہے ۔ رازق ہے مالک ہے (ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ جب تک انسان پر یہ حقیقت منکشف نہ ہو کہ لا موجود الا اللہ اس وقت تک اس کے لیے یہ دنیا موہوم نہیں بلکہ موجود ہے۔ موہوم ہونے کا یقین اس وقت ہوتا ہے جب اس کو یہ معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ صرف خدا ہی ایک حقیقت ثانیہ ہے۔ اس کے سوا دوسرے کا وجود نہیں ہے، لیکن اس زاویہ نگاہ سے خدا کی حقیقت واضح نہیں ہوسکتی۔ دوسرا زاویۂ نگاہ حقیقی (پرم ارتھک درشٹی) ہے یعنی خدا کا تصورکما ہُوَہُوَ یا جیسا کہ وہ حقیقت ہے۔ شنکر نے اس کو مایا داد(شعبدۂ باز) کی مثال سے واضح کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔ جو لوگ کسی شعبدہ باز کے شعبدہ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ وہ اسے درحقیقت شعبدہ باز سمجھتے ہیں لیکن جو لوگ اس کے فریب میں نہیں آتے۔ اُن کی نگاہ میں وہ شخص شعبدہ باز یا جادوگر نہیں ہے بلکہ محض ایک انسان ہے۔ اسی طرح جو لوگ مایا کے جال میں گرفتار ہیں اورجہالت کی بنا پر اس کائنات کو حقیقی سمجھتے ہیں، ان کے لیے خدا خالق بھی ہے رازق بھی ہے مالک بھی ہے حاکم بھی لیکن جو لوگ حقیقت حال سے آگاہ ہیں یعنی جو لوگ یہ جانتے ہیں کہ سنسار محض لیلا ہے جس کا کوئی خارجی وجود نہیں ان کے لیے خدا نہ خالق ہے نہ رازق ہے۔ باتر صاف ہے جب یہ دنیا ہی موجود نہیں تو اس کے خلق ہونے کا سوال ہی پیدانہیں ہوسکتا۔ بالفاظ دگر جب کوئی مخلوق ہی نہیں تو خالق کا وجود کیسے ثابت ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ جب تک انسان، جہالت (اوِدّیا) میں گرفتار ہے۔ اس پر عبادت (اُپاسناا ور اَسَتُتِی) بھی فرض ہے لیکن جب معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو عابد اورمعبود کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی عابدہے نہ معبود، نہ کوئی خالق ہے نہ کوئی ساجد ہے نہ مسجود۔ بس وہی وہ ہے۔ دوسرا ہو تو دوئی یا مغائرت کا سوال پیداہو۔ چنانچہ چھندوگیہ اپنشد میں صاف مرقوم ہے ’’سَدِ یَو اسَومیّہ اِدَم گرے آسیت، ایکَم ایوَاوَدیتیتم‘‘ یعنی ابتداء میں صرف حق (وجود مطلق) موجود تھا اوروہ واحد تھا(لاشریک لہ) اس کے علاوہ اورکسی کا وجود نہ تھا۔ (ر) شنکر کی تعلیم یہ ہے کہ درحقیقت خدا منطقی تعریف سے بالا تر ہے۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کے علاوہ ہر بات جو کہی جائے گی وہ اسے محدود کر دے گی اوریہ بات اس کی ذات کے خلاف ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایشور اپنی ذات کے لحاظ سے نردگن (مُعری عن الصفات) ہے۔ (ح) شنکر کی تعلیم یہ ہے کہ آتما اورپرماتما (خودی اورخدا) میں کوئی بھید (امتیاز) نہیں ہے۔ جب تک معرفت حاصل نہ ہو، انسان اپنے کو غیر سمجھتا رہتا ہے۔ لیکن جب حقیقی گیان حاصل ہوجاتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ م ین اور وہ دونوں ایک ہی حقیقت کی دو مختلف تعبیریں ہیں۔ دو عالم میں نہیں موجود مشہود بجرز ذات و صفات افعال و آثار شنکراچاریہ کے فلسفہ کا یہ ایک اجمالی خاکہ ہے جس سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کی بدولت، سری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمرات سے محروم ہوگئی۔ شنکر کے بعد رام نج اچاریہ نے کرشن کی تعلیم کو از سر نو زندہ کیا۔ لیکن ہندو قوم شنکر کے طلسم ۳؎میں اس بری طرح گرفتار ہو چکی تھی کہ رام نوج اچاریہ ، ولبھ اچاریہ، اور مادھو اچاریہ کی متفقہ کوشش کے باوجود اس طلسم سے آزاد نہ ہو سکی۔ شری رام نج اچاریہ کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے: (ا) شنکر اور رام نج دونوں ویدانت کے پیرو ہیں اور دونوں وحدۃ الوجود کے قائل ہیں اور دونوں بدریاں (برہم سترکا مصنف ہے) کے متبع ہیں اوراسی کے فلسفہ کے شارح ہیں۔ فرق یہ ہے کہ شنکر، خودی اور خدا میں عینیت مطلقہ کا قائل ہے۔ لیکن رام نوج کہتا ہے کہ یہ عینیت مطلقہ یا کاملہ نہیں ہے۔ خدا اصل ہے خودی اُس کا ظل ہے۔ (ب) رانج نج کی تعلیم یہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات اپنی قوت ارادی سے پیداکی ہے۔ اگرچہ مستقل! لذات نہیں ہے لیکن ہے لیکن موجود ہے یعنی موہوم نہیں ہے ہر شئے خداہ ی کی صفت خالقیت کا کرشمہ ہے۔ رام نج یہ کہتا ہے کہ اپنشدوں سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سنسار، موہوم یا فریب نظر ہے۔ بلکہ یہ کہ ہر شے میں وہی خدائے واحد لاشریک لہ جلوہ گر ہے ہر گل میں ہر شجر میں اسی کا ظہور ہے نوٹ: اقبال نے اس شعر میں رام نج کے فلسفہ کو نظم کر دیا ہے۔ تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گۂ سحر میں وہ چشم نظاہر میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے نوٹ: حکیم فلاطنینوس (بانی فلسفۂ اشراق) اور حکیم اسپنوزا (مغرب میں وحدۃ الوجود کا سب سے بڑا وکیل) دونوں یہی کہتے ہیں کہ ہم صرف اس قدرکہہ سکتے ہیں کہ وہ موجود (ہست) ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہر بات جو کہی جائے گی اس کو محدود کرتی چلی جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ ان دونوں کے مذہب کا ماخذ کین اپنشد ہے جس میں لکھا ہے کہ خدا سے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ موجود ہے۔ (ج) یہ ساری کائنات اپنے وجود اوراپنی بقا کے لیے خدا کی محتاج ہے۔ اگرخدا نہ ہوتا تو یہ کائنات بھی نہ ہوتی۔ ہم ہر لحظہ اپنے وجود کی بقا میں اس کے محتاج ہیں۔ کائنات ممکن الوجود ہے اور خدا واجب الوجود ہے۔ اورممکن میں اپنے وجود میں واجب کا محتاج ہوتا ہے۔ حقیقی وجود تو صرف خدا ہی کا ہے لیکن خدا نے اسے کائنات کو بھی اپنے فضل و کرم سے خلعت وجود عنایت کر دیا ہے۔ بالفاظ دگر کائنات کا وجود بیشک ظلی ہے لیکن یہ ظل موہوم نہیں ہے۔ قریب نظر نہیں ہے بلکہ موجود ہے۔ خودی را حق بداں باطل مبندا (د) مسئلہ تخلیق کائنات دنیا کے مشکل ترین مسائل میں سے ہے۔ رام نج کے فلسفہ پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اگر خدا نے کائنات کو پیدا کیا ہے، تو کس چیز سے پیداکیا ہےإ اگر مادے سے پیدا کیا ہے اور وہ مادہ ، غیر خدا ہے تو دو موجود ہو گئے۔ یعنی وحدۃ الوجود باطل ہوگئی اور اگر مادہ بھی خدا ہی کے ’’اندر‘‘ ہے تو دوحال سے خالی نہیں ہے: یا مادہ خدا کا جوز ہے یا اس کا عین ہے اگرجزو ہے تو خدا اجزاء سے مرکب ہوگیا۔ اور اگر عین ہے تو پھر خدا کائنات کی شکل میں مبدل ہو جائے گا۔ اور اس کا ذاتی وجود باقی نہیں رہے گا۔۴؎ رام نج نے بھی اس دشواری کو محسوس کیا ہے۔ اسی لیے اُس نے اس بات کی بھی صراحت کر دی ہے کہ حق تو یہ ہے کہ مسئلہ تخلیق کائنات ایک راز ہے جو فہم انسانی سے بالاتر ہے۔ (ہ) برہمن (خدا) ہی حقیقی معنی میں موجود ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے علاوہ اورجس قدر اشیاء میں سب اس کی محتاج ہیں۔ کوئی ہمتی، قائم بالذات نہیں ہے۔ خدا سمیع و بصیر ہے اور صاحب علم و ارادہ ہے۔ یعنی وہ بھی ’’شخص‘‘ ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒکا بھی یہی عقیدہ ہے (د) انسانی خودی محدود ہے۔ اس لیے وہ ہر اعتبار سے خدا کی عین نہیں ہو سکتی یعنی خدا اور انسانی خودی میں مغائرت ہے لیکن عینیت بھی ہے اور وہ اس لحاظ سے ہے کہ خودی کی ذاتی ہستی کوئی نہیں ہے۔ یعنی بذات خودموجود نہیں ہے۔ بلکہ وہ ظل یا پرتو ہے خدا کی صفت خالقیت کا۔ خودی خدا تو نہیں ہے مگر خدا سے جدا بھی نہیں ہے۔ جس طرح درخت کا سایہ کہ اگرچہ وہ درخت نہیں ہے لیکن درخت سے جدا بھی نہیں ہے۔ نوٹ: میں نے جہاں تک رام نج کے فلسفیانہ افکار کا مطالعہ کیا ہے مجھے ان میں اور حضرت مجدد الف ثانی کے خیالات میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔ اسی طرح شنکر اور ابن عربی کے تصورات میں بعض مقامات میں مطابقت پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ مماثلت جزوی ہے۔ کیونکہ شنکر اور رام نج کے افکار کا ماخذبہرحال اپنشد ہیں۔ اورحضرت ابن عربی اور حضرت مجدد الف ثانی کے معتقدات کا منبع قرآن حکیم ہے، جو کلام اللہ ہے۔ (ر) رام نُج کی تعلیم یہ ہے کہ مطالعۂ کتب یا عقل کی بدولت موکش یا مکتی نہیں حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اپنشدوں میں یہ لکھا ہے کہ گیان سے مکتی حاصل ہو سکتی ہے۔ دھرتی کے باسیوں کی مکتی گیاں میں ہے لیکن گیاں سے مراد’’علم کتابی‘‘ نہیں ہے۔ نہ کام آیا ملا کے علم کتابی بلکہ یادِ الٰہی ذکر ہے جسے رام نج نے دھیان (مراقبہ) اُپاسن (عبادت) اور بھگتی (عشق) سے تعبیر کیا ہے۔ رام نج کے فلسفیانہ افکار کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو سکتی ہے کہ اس نے سری کرشن کے پیغام کو دوبارہ زندہ کیا، لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ یعنی قوم اس کے پیغام کی طرف ملتفت نہ ہوئی۔ تیسرافقرہ: اس فقرہ میں اقبال نے حسب ذیل حقایق بیان کیے ہیں: (۱) اسلام دراصل عمل کا پیغام ہے جس کی بدولت انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ (۲) اسلام کے ک انا (خودی) قدیم نہیں ہے (جس طرح ہندو فلسفہ میں مانی گئی ہے) بلکہ مخلوق ہے لیکن عمل کی بدولت اس میں شان ابدیت پیداہو سکتی ہے یعنی غیر فانی ہوسکتی ہے۔ (۳) شیخ اکبر (محی الدین عربیؒ) کی تفسیر نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے۔ (۴) ان کی زبردشت شخصیت نے مسئلہ وحدۃ الوجود کو اسلامی تخلیق کا جزو لاینفک بن دیا۔ (۵) رفتہ رفتہ چودھویں اورپندرھویں صدی عیسویں کے تمام عجمی (ایرانی ) شعرااس رنگ میں رنگین ہو گئے۔ (۶) ایران کے مسلمانوں نے وحدۃ الوجود کے نظریہ میں بہت سے غیر اسلامی عناصر بھی شامل کر دیے۔ مثلا خدا اور کائنات دونوں متحد الوجود ہیں۔ یا خدا اور کائنات ایک دوسرے کا عین ہیں۔ (۷) ایرانیوں نے اپنے تخیل کی بدولت کائنات کی ہر شے کو خدا سمجھ لیا۔ (۸) اقبال کہتے ہیں کہ ایرانیوں نے جُز اور کل کا دشوار گزار راستہ تخیل کی مدد سے طے کیا‘‘ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جُز سے مخلوقات اور کل سے ذات باری مراد ہے۔ فلسفہ میں اجزاء کو ثبات واجبالوجود کے لیے دلیل بناتے ہیں اور اس کو دلیل انی کہتے ہیں۔ لیکن اس میں بہت دماغی کاوش کرنی پڑتی ہے۔ ایرانیوں نے یہ مرحلہ تخیل کی مدد سے طے کیا۔ یعنی فلسفہ کے بجائے وحدت الوجود کے غیراسلامی عقیدہ کو رہنما بنایااور یہ کہا کہ ہم کائنات کے ذریعہ سے خدا تک پہنچنے کی کیوں زحمت گوارا کریں۔ یعنی کائنات کو بالواسطہ خدا کیوں کہیں؟ بلاواسطہ خدا کہہ کر تمام فلسفیانہ بحثوں کا یک قلم خاتمہ کیوں نہ کر دیں؟ خلاصہ کلام یہ ہے کہ انہوں نے ’’رگ چراغ‘‘ میں ’’خون آفتاب‘‘ کا بلاواسطہ مشاہدہ کیا۔ یعنی ہر شے کو عین خدا قرار دیا۔ چوتھافقرہ: اس فقرہ میں انہوں نے حسب ذیل حقائق واضح کیے ہیں۔ (۱) ہندو فلاسفہ نے وحدۃ الوجود کے اثبات میں فلسفیانہ غور و فکر سے کام لیا۔ لیکن ایرانی شعراء نے زیادہ خطرناک راستہ اختیارکیا۔ یعنی اس علمی مسئلہ کو شعر کے لباس میں پیش کیا۔ اوراہل علم جانتے ہیں کہ شعراء حسن کلام کے لیے مضمون کو قربان کر دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کی حسین وجمیل نکتہ آفرینیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ تمام اسلامی اقوام ذوق عمل سے محروم ہو گئیں۔ واضح ہو کہ علامۂ اقبال مرحوم کی یہ تشخیص بالکل صحیح ہے۔ مسئلہ وحدۃ الوجود کی غلط (غیر اسلامی یا عجمی) تعبیر اور عامیانہ (شاعرانہ ) تفسیر نے مسلمانان عالم کی قوت عمل کو مفلوج کر دیا۔ اوران کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو مضحمل کر دیا۔ اور یہ اضمحلال اس وقت بھی موجود ہے۔ (۲) علماء میں ابن تیمیہ اور حکماء میں واحد محمود نے وحدۃ الوجود کی غیر اسلامی تعبیر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی لیکن منطق کی خشکی شعر کی دلربائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ (۳) اندریں حالات یہ کیونکر ممکن تھا کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ کو عجمی تصوف اور اس کے مضرت رساں اثرات سے محفوط رکھ سکتے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ہمایوں کے عہد حکومت سے ایرانی حکماء شعراء اور علماء کثیر تعداد میں وارد ہندوستان ہونے لگے اور عجمی تصوف کے عناصر اپنے ساتھ لائے اور انہوں نے ان عناصر (خیالات) کو ہندوستان میں شائع کیا۔ دوسرے یہ کہ ہندوستان میں خود ہندی (غیر اسلامی) تصوف پوری شدت کے ساتھ مروج تھا۔ ہر شہر میں ہندو دیدانتی علماء اس کی تبلیغ میں سرگرم تھے۔ چونکہ اسلامی اورہندی تصوف (وحدۃ الوجود) میں سطحی مشابہت اور جزوی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس لیے رفتہ رفتہ مسلمان (عامۃ المسلمین )غیر اسلامی تصوف کے پرستار بن گئے اس پر مستزادیہ ہوا کہ بعض مسلمان صوفی اپنی کوتاہ بینی اور عکم علمی کی وجہ سے اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں امتیاز ہی نہ کر سکے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو فلسفہ کے بہت سے عناصر اسلامی تصوف کا جزولاینفک بن گئے۔ شاہجہان کے زمانہ میں داراشکوہ کی زندگی اور اس کی علمی سرگرمی بڑی حد تک میرے اس دعویٰ پر شہادت دے سکتی ہے۔ میں اس شرح میں اس کی زندگی اور علمی تصانیف پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ اتنا کہہ سکتاہوں کہ اس کی گمراہی کا باعث صرف یہ ہوا کہ اس نے بعض امور میں جزوی مشابہت دیکھ کر عاجلانہ طریق پر یہ حکم لگا دیا کہ اپنشد اور قرآن دونوں کا منبع ایک ہی ہے۔ اس لیے ہندو دھرم اور اسلام دونوں ایک ہی درخت کے برگ و بار ہیں۔ میری رائے مین چونکہ اس نے قرآن مجید کا مطالعہ غیر اسلامی تصوف کی عینک لگا کر کیا تھا۔ اس لیے اس کتاب مقدس کے ہر صفحہ میں اپنشدوں کی تعلیم کا پرتو نظر آیا۔ (۴)علی حزیں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی تصوف سے انسان کو عملی زندگی میں تو کوئی فائدہ حاصل ہو نہیں سکتا۔ ہاں شعر کہنے میں ضرور مدد مل سکتی ہے۔ یعنی صوفیانہ تعلیمات سے سخن طرازی کے لیے بیشک بہت دل کش مواد مل سکتا ہے بالفاظ دگر وہ حقیقت حال سے آ اہ تھا کہ عجمی تصوف انسان کی قوت عمل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (۵) علی حزیں ایک ایرانی شاعر تھا۔ اٹھارہویں صدی میں ترک وطن کرکے ہندوستان آیا اورمختلف شہروں کی سیاحت کے بعد بنارس میں مستقل طورپر سکونت اختیار کرلی ۔چنانچہ وہ خود کہتا ہے: از بنارس نرم معبد عام است ایں جا ہر برہمن بچۂ لچھمن درام است ایں جا مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی فارسی کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں وحدۃ الوجود کا فلسفہ پیش کیا۔ ۱۱۵۴ھ میں دلی میں وفات پائی۔ امیر مینائی اُردو زبان کے مشہور شاعر۔ داغ کے ہم عصر۔ ۱۹۰۱ء میں حیدر آباد دکن میں وفات پائی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ شریعت کی ایسی پابندی شاعروں میں شاذو نادر ہی نظر آتی ہے۔ پانچواں فقرہ: اس فقرہ میں اقبال نے حسب ذیل حقائق بیان کیے ہیں : (۱) مغربی اقوام آج دنیا میں اور بالخصوص مشرقی اقوام کے مقابلہ میں اس لیے سربلند اورممتاز ہیں کہ وہ قوت عمل میں اُن سے بدرجہا آگے بڑھی ہوئی ہیں مختصر طورپر یوں سمجھ لیجیے کہ وہ ’’ایٹم بم‘‘بنا رہی ہیں اورہم ابھی تک گندے تعویذوں سے کام لے رہے ہیں۔ مثلا۱۹۱۱ء میں جب ایرانی فوجیں روسیوں کے مقابلہ پر روانہ ہوئیں تو ایرانی علماء نے ان کے گلوں میں ’’نادر علی‘‘حمایل کر دی تھی اور ۱۹۱۵ء میں جب ہندی مسلمان سپاہی یورپ گئے تھے تو ہندی علماء نے ان کے بازوؤں پر ’’چہل کاف‘‘ کا نقش باندھ دیا تھا۔ (۳) ہالینڈ کے اسرائیلی فلسفی سے حکیم اسپنوزامراد ہے جو یورپ کے جدید فلسفہ کی تاریخ میںوحدۃ الوجود کا سب سے بڑا شارح گزار ہے ۔یہ نامور حکیم ۱۶۳۲ء میں امسٹرڈم (ہالینڈ) میں پیداہوا تھا۔ چونکہ فلسفیانہ خیالات رکھتا۔ اس لیے ۱۶۵۲ء میں اس کی قوم نے اس کو یہودیت سے خارج کر دیا۔ لیکن فلسفہ کے ساتھ وہ عینک کے شیشوں پر پالش بھی کر سکتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی زندگی بہت آرام اور سکون کے ساتھ بسر کی۔ گمنامی پسند ہونے کے باوجود اس کی شہرت سارے یورپ میں پھیلی ہوئی تھی ۔ چنانچہ ۱۶۷۳ء میں ہانڈل برگ یونیورسٹی نے اُسے فلسفہ کی کرسی پیش کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ ۱۶۷۴ء میں وفات پائی۔ اس کی بہترین تصنیف ’’ایتھکس‘‘ ہے جس نے اس ریاضیات کے طریق استدلال سے وحدۃ الوجود کا اثبات کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس کی زندگی میں جہلاء نے اسے کافراور زندیق کا خطاب دیا۔ لیکن مرنے کے بعد جرمنی کے بڑے بڑے حکماء اور علماء نے اس کی تصانیف کو حرز جاں بنایا۔ نختے، شیلنگ اورہیگل ان سبھوں نے اس کے فلسفیانہ افکار سے استفادہ کیاہے۔ نوٹ: اقبال کا خیال ہے کہ مغرب کے فلسفہ جدید کی ابتداء اسپنوزا سے ہوتی ہے لیکن فلسفہ کی تاریخوں میں عام طور سے بیان کیا گیا ہے کہ فلسفہ جدید کی ابتداء فرنچ مفکر ڈیکارٹ سے ہوتی ہے۔ جس نے ۱۶۵۰ء میں وفات پائی۔ (۱۳) ’’حس واقعات‘‘ سے اقبال کی مراد پیش بینی کی صفت ہے جو بعض انسانوں میں بہت نمایاں ہوتی ہے۔ نظامی گنجوی نے اس کو ’’پیش دیدن‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ مگر دانستہ بود از پیش دیدن کہ مہمانیش خواہد در رسیدن (۴) نظام قدرت کی بدولت آئے دن نت نئے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ جن کی طرف بلند پایہ فلسفی بہت کم متوجہ ہوتے ہیں۔ لیکن بیکن نے مشاہدہ یا طریق استفزاء سے کام لے کر سائنس کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ آج جس قدر سائنٹیفک ترقی دنیا میں نظرآتی ہے اس کا سہرا دراصل بیکن ہی کے سر ہے جس نے ہمیں مشاہدہ اور استفزاء کادرس دیا بیکن انگلستان کا مشہور فلسفی اورسیاست دان تھا۔ ۱۵۶۱ء میں پیدا ہوا۔ یہ سچ ہے کہ وہ بڑا عالم فاضل بلکہ فلسفی تھا۔ لیکن سیرت کے لحاظ سے بہت فردمایہ تھا۔ اورمیں تواس کو بہت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ کیونکہ اس نے اپنی عیاش طبعہ ملکہ کی نگاہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنے محسن (ارل آف ایسکس) کے ساتھ غداری کی۔ ۱۶۳۱ء میں رشوت ستانی کے الزام میں ماخوذ ہوا (اس زمانہ میں یہ شخص وزیر خزانہ کے عہدہ پرفائز تھا) عدالت میں اپنے جرم کا اقبال کیا۔ بادشاہ نے اُس کو عہدے سے برطرف کر دیاتھا۔ ۱۶۲۶ء میں وفات پائی۔ فلسفہ میں اس کی دو کتابیں لائق مطالعہ ہیں۔ ’’ترقی علوم‘‘ اور ’’قانون جدید‘‘ بیکن اس کی علمی مضامین کا مجموعہ ۔ ’’مقالات ہیکن‘‘ اس کی جملہ تصانیف میں سب سے زیا دہ مقبول ہے۔بیکن کا علمی کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے متکلمین کے طریق استخراجی کے بجائے طریق استقرائی کو مروج کیا۔ ان دونوں طریقوں کی وضاحت ذیل میں درج کرتاہوں: (۱) طریق استخراجی: سب انسان فانی ہیں۔ زید انسان ہے۔ اس لیے زید فانی ہے۔ یعنی کلیات کی روشنی میں اجزاء پر حکم لگانا۔ (ب) طریق استقرائی: جب ہم نے حوادث کائنات کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں موت کا بازار گرم ہ ے جو پیداہوتا ہے وہ ایک نہ ایک دن ضرور مر جاتا ہے۔ زید، بکر، خالد، علی، حسن، حسین، اسلم ، اکبر ، طارق ، عامد، محمود غرض یہ کہ ہر شخص فنا کی راہ پر گامزن ہے۔ لہٰذا مشاہدہ اور تجربہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ نوع انسانی فانی ہے۔ یعنی جزئیات کا مشاہدہ کرکے کلیات بنانے کو استقراء کہتے ہیں۔ (۵) چونکہ انگریزوں میں ’’حس واقعات‘‘ دیگر اقوام کی نسبت زیادہ تیز ہے، اس لیے کوئی ایسا فلسفیانہ نظام جو محض تفکر کی پیداوارہو اور واقعات و حقائق حیات سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ (محض عقلی ہو۔ لیکن تجربہ اور مساہدہ کی کسوٹی پر پورا نہ اُتر سکے) انگلستان میں مقبول نہیں ہوسکتا۔ چھٹا فقرہ: اس فقرہ میں اقبال نے اس حقیقت کوواضح کیا ہے کہ میں نے اس نظم (مثنوی ) میں خودی کے دقیق مسئلہ کو فلسفیانہ دلائل کی پیچیدگیوں سے پاک کرکے، شعر کے دلکش انداز(لباس) میں پیش کیا ہے تاکہ ہندی مسلمان، جو صدیوں سے شاعری کے دلدادہ ہیں۔ اس مسئلہ کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ دوسری بات یہ بیان کی ہے کہ حیات کی لذت اسی شخص کو حاصل ہو سکتی ہے جو اپنی خودی کو ثابت کرکے اُسے مستحکم کرلے اور استحکام کے بعد اس کی باطنی قوتوں کو وسعت بھی دے سکے۔ اس اہم جملہ م یں اقبال نے اسرار خودیکا عطر کھینچ کر رکھ دیا یعنی اقبال کے پیغام کا خلاصہ تین لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ (۱) اثبات خودی، (۲) استحکام خودی، (۳) توسیع خودی تیسری غور طلب بات یہ کہی ہے کہ یہ نکتہ، مسئلہ حیات بعدالممات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بطور ایک تمہید کے کام دے گا۔ اس بلیغ جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اس زندگی میں اپنی خودی کو مستحکم نہیں کیاوہ نہ اس زندگی میں حیات کی لذت سے باخبرہو سکے گا اورنہ مرنے کے بعد اسے ابدی زندگی حاصل ہوسکے گی۔ نوٹ: اقبال نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا تھاکہ میرا ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ بقائے دوام یا ابدی زندگی کوئی تحفہ یا انعام نہیں جو مفت میں مل جائے گا بلکہ یہ ثمرہ ہے اس زندگی میں خودی کو مستحکم کرلینے کا، جو اس زندگی میں بطورجزا م لے گا۔ ضعیف خودی، موت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکے گی۔ یعنی پھر ہوش نہیں آئے گی۔ اس لیے مسلمان کا فرض یہ ہے کہ وہ اتباع شریعت کی بدولت اپنی خودی کو مستحکم کرلے، تاکہ ابدی زندگی کا مستحق بن سکے۔ آخری فقرہ میں اقبال نے ہمیں اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ میں نے اس مثنوی میں لفظ خودی کو تبکر یا غور کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا ہے بلکہ اس سے میری مراد احساس نفس یا تعین ذات ہے۔ یعنی خودی کا مطلب یہ ہے کہ میں موجود ہوں یا مجھے اپنے وجود میں کوئی شک نہیں ہے۔ چنانچہ محسن تاثیر کے شعر میں خودی سے تکبر مراد نہیں ہے بلکہ وہی احساس یا اثبات نفس خویش۔ نوٹ: شعر کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے اپ کو اللہ (وحدت) کی محبت کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔ یعنی جو شخص اپنی صفات پر فنا طاری کر دیتا ہے۔ وہ اپنی ہستی کا اثبات یا اعلان نہیں کر سکتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب ایک شخص پانی میں غوطہ لگاتا ہے، تو سانس نہیں لے سکتا۔ اس شعر کی خوبی ’’نفس کشیدن‘‘ میں مضمر ہے۔ اس میں دو مفہوم پوشیدہ ہیں: (۱) سانس لینا (۲) اپنی ہستی کا اعلان کرنا حواشی ۱۔ بھارت کی جنگ میں سری کرشن نے ارجن کو جو پیغام دیا ہے (جنگ پر راغب کیا ہے اورضمن میں عمل کا فلسفہ واضح کیا ہے) اسے عرف عام میں بھگوت گیتا (نغمۂ ربانی) کہتے ہیں ۔ ۲- اسی لیے ویدانت کی تعلیم یہ ہے کہ گیان حاصل ہونے کے بعد اپناسا (عبادت کی ضرورت نہیں لیکن اسلام کی رو سے انسان کبھی عبادت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا)۔ ۳- مجھے یاد ہے علامہ اقبال نے مجھ سے ایک دفعہ یہ کہا تھا کہ چار آدمی ایسے گزرے ہیں کہ اگرکوئی تحقیق ان میں سے کسی کے طلسم میں گرفتترا ہو جائے تورہائی بہت مشکل ہے۔ میں نے سراپا اشتیاق بن کر پوچھا: ’’وہ کون کون ہیں‘‘۔ جواب دیا: شنکر اچاریہ (وفات ۱۸۲۰ئ) ابن عربی (۶۳۸ھ) بیدل(۱۱۵۴ھ) اورہیگل(۱۸۳۱ئ) فصل سوم مثنوی اسراری خودی کی فلسفیانہ بنیاد۔ یعنی وہ توضیح مضمون جو علامہ نے ڈاکٹر نکلسن کی فرمائش پر سپرد قلم کیا پروفیسر بریڈلے۱؎ لکھتا ہے کہ ’’یہ مسئلہ کہ تجربہ (علم ) محدود مرکاز سے حاصل ہوتا ہے اورہمیشہ لفظ ایں وآں کے جامہ میں ملبوس ہوتا ہے، آخر الامر ناقابل تشریح ہو جاتا ہے۔ لیکن جب وہ اس نا قابل تشریح مراکز سے تجربہ آگے بڑھتا ہے تو انجام کار اس کی فکر ایک ایسی وحدت پر منتی ہوتی ہے جسے وہ ’’مطلق ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔اورجس کائنات کے تمام محدود مراکز تجربہ ، اپنی اپنی انفرادیت کومدغم کر دیتے ہیں (قطرے سمندر میں شامل ہو جاتے ہیں) اس لیے بریڈلے کی رائے میں یہ محدود مرکز (اشخاص یا افراد کی خودی) محض شہود یا مظہر ہے۔ اس کی فلسفہ کی مدد سے حقیقت کا ثبوت اس کی ہمہ گیری سے مل سکتا ہے یعنی حقیقت بہ لحاظ ذات خویش محیط کل ہوتی ہے اور چونکہ تمام محدودیت اضافی ہوتی ہے یعنی مطلق کی ضد ہوتی ہے۔ اس لیے فریب نظرہوتی ہے یعنی کائنات کی ہر شے محدود ہے ، اس لیے اضافی ہے۔ اس لیے فریب نظر ہے۔ یہ ہے پروفیسر بریڈلے کا مسلک کہ تجربہ کا ہر محدود مرکز یعنی ہر انفرادی خودی فرییب نظر (غیر حقیقی یا باطل) ہے لیکن میں اس فلسفہ کے برعکس یہ کہتاہوں کہ تجربہ کایہ محدود مگر ناقابل فہم مرکز (خودی) کائنات کی بنیادی اور اساسی حقیقت ہے۔ یعنی خودی حق ہے۲؎حیات سربسرانفرادی ہے ۔ حیات کلی خارج میں کہیں موجود نہیں ہے۔ زندگی جس جگہ بھی نظر آتی ہے کسی شخص یا فردی شئے میں ہو کر نظر آتی ہے۔ خدا بھی ایک فرد ہے لیکن وہ تمام افراد کائنات میں یکتا اور بے مثل ۳؎ہے ۔یہ کائنات بقول میک ٹیگرٹ ۴؎افراد کی ایک انجمن ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے یعنی یہ بات میں اپنی طرف سے کہتا ہوں کہ جو نظم و نسق اورتطابق اس میں پایا جاتا ہے۔ وہ نہ ازلی ہے اورنہ مکمل ہے بلکہ ہماری جبلی یا شعوری کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ ہمارا قدم بتدریج بدنظمی اور انتشار سے نظم و ترتیب کی طرف اٹھ رہا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول میں ہم سب باہمد گر تعاون کر رہے ہیں۔ اس انجمن کے ارکان کی تعداد معین نہیں ہے۔ نئے ارکان ہر روز عالم وجود میںآتے رہتے ہیں اور کائنات کو مرتبۂ کمال تک پہنچانے کے عظیم الشان کام میں دست تعاون دراز کرتے رہتے ہیں۔ یہ کائنات تکمیل یافتہ(مکمل)فعل نہیں ۵؎ ہے۔ بلکہ تکمیل کے مراحل سے گزررہی ہے۔ اسی لیے کائنات کے متعلق کوئی بات حتمی اور اذعانی طورپر نہیں کہی جا سکتی۔ فعل تخلیق ہنوز جاری ہے اورجس حد تک انسان اس کائنات کے غیر مربوط حصہ میں نظم و ترتیب پیداکر سکتا ہے۔اسی حد تک اس کو بھی فعل تخلیق میں ممد ومعاون قرار دیا جا سکتا ہے۔ خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے خالقوں کے امکان کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ مثلا فتبارک اللہ احسن الخالقین یعنی ’’یہ مبارک ہے اللہ جو سب سے اچھا ہے‘‘۔ (۳۲:۴۱) ظاہر ہے کہ کائنات اور انسان کا یہ قصور ہیگل کے جدید انگریز شارحین اور ارباب وحدت الوجود کے خیالات سے بالکل مختلف ہے جس کی تعلیم یہ ہے کہ انسان کا مقصد حیات یہ ہے کہ اپنے آپ کو حیات مطلق یا انائے مطلق میں فنا کردے(جس طرح قطرہ اپنی ہستی کو سمندر میں فنا کر دیتا ہے) لیکن میرا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کا اخلاقی اورمذہبی نصب العین نفی خودی نہیں ہے بلکہ اثبات خودی ہے اور اس کی انفرادیت اور یکتائی جس قدر بڑھتی جاتی ہے۔ اسی قدر وہ اپنے نصب العین سے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تخلقوا باخلاق اللہ یعنی ’’اے مسلمانوں تم اپنے اندر خدا کی صفات (کارنگ) پیداکرو۔ اس طریقہ سے انسان اپنے اندر جسقدر اس یکتا ترین ذات سے مماثلت پیداکرتا ہے اسی قدر وہ خود بھی بے مثل و یکتاہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حیات کیا ہے؟ واضح ہو کہ حیات انفرادی شئے ہے اور اس کی اعلیٰ شکل (جو تاایندم ظاہرہوئی ہے) انا (خودی) ہے جس کی بدولت، فرد ایک واحد مسقل اور کافی بالذات مرکز حیات بن جاتا ہے۔ جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں سے انسان، حیات کا کافی بالذات مرکز ہے لیکن وہ ہنوز فرد کامل کے مرتبہ پر نہیں پہنچا ہے۔ جس قدر اسے خدا سے دورہوتی ہے اسی قدر اس کی انفرادیت بھی ناقص ہوتی ہے۔ مکمل انسان وہی ہے جو اقرب الی اللہ ہو لیکن اس کی قربت کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی ہستی کو خود کا ہستی میں مدغم کردے (جیسا کہ فلسفۂ اشراق کی تعلیم ہے) اس کے برعکس وہ خود خدا کو اسے اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ چنانچہ مولانا رومی ؒنے اس نکتہ کو بہت دلپذیر انداز میں واضح کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام طفولیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگل میں غائب ہو گئے۔ جب ان کی دایہ حلیمہ سعدیہ ؓنے اُن کو نہ پایا تو شدت الم سے بدحواس ہو گئیں۔ اس پریشانی کے عالم میں جب کہ وہ ان کی تلاش میں سرگشتہ تھیںٔ غیب سے یہ نداآئی: غم مخور، یا وہ نکردد او، زتو بلکہ عالم یا وہ گردد اندر او یعنی اے حلیمہ ! غمگین مت ہو، وہ گم نہیں ہو سکتے بلکہ ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ سارا عالم اُن ؐکی ذات میں گم ہو جائے گا۔ مطلب یہ کہ فرد کامل (حقیقی انسان)کائنات میں گم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ساری کائنات اس میں گم ہو جاتی ہے یعنی وہ ساری کائنات پر متصرف ہو جاتا ہے۔ میں اس منزل سے آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں۔ در رضائش مرضی حق گم شود ایں سخن کے باور مردم شود۶؎ یعنی انسان کامل کی شان یہ ہوتی ہے کہ اس کی مرضی میں خدا کی مرضی بھی گم ہو جاتی ہے۔ لیکن اہل دنیا اس راز کو سمجھ نہیں سکتے۔ واضّح ہو کہ حقیقی انسان (فرد کامل) اس مادی کائنات ہی کو اپنی ذات میں گم نہیں کرتا بلکہ اس کو مسخر کرلینے کی بدولت اس میں اس قدر طاقت پیداہو جاتی ہے کہ وہ خدا کو بھی اپنی خودی میں جذب کر لیتا ہے۔ یعنی اپنے اندر خدائی صفات پیداکرلیتا ہے۔ زندگی ایک ترقی پذیر حرکت جاذبہ ہے یعنی حالت ارتقا میں جس قدر دشواریاں اس کی راہ میں آتی ہیں۔ وہ ان سب کو اپنے اندرجذب کرتی چلی جاتی ہے اور اس کی ماہیت یہ ہے کہ وہ مسلسل نئی خواہشات اور نئے نصب العین کی تخلیق کرتی رہتی ہے۔ (اپنی توسیع اور بقا کے لیے اس نے کچھ ضروری آلات اور وسائل مثلا حواس خمسہ، قوت مدرکہ وغیرہ پیداکرلیے ہیں۔جن کی مدد سے وہ رکاوٹوں اور مزاحمتوں پر غالب آتی رہتی ہے۔۷؎ زندگی کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مادہ یا فطرت ہے۔ لیکن فطرت میں ’’شر‘‘ نہیں ہے (جیسا کہ فلسفہ اشراق کی تعلیم ہے)بلکہ اس کا وجود، خودی کی ترقی کے لیے مفید ہے۔ کیونکہ جب خودی، فطرت کی طاقتوں سے متصادم ہوتی ہے تو اسے اپنی مخفی استعدادوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ جب خودی اپنی راہ سے تمام رکاوٹوں کو دورکرلیتی ہے۔ تو مرتبہ اختیار پر فائز ہو جاتی ہے۔ اسی لیے خودی بذات خویش کسی قدرمختار ہے اورکسی قدر مجبور۔۸؎ جب خودی، انائے مطلق (خدا) کا قرب حاصل کرلیتی ہے تو اسے حریت کاملہ نصیب ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ حیات، عبارت ہے، حصول اختیار کی جدوجہد سے خودی کی غایت یہ ہے کہ وہ ذاتی جدوجہد سے مرتبۂ اختیار پر فائز ہو جائے۔۹؎ خودی اور شخصیت کا تسلسل انسان کے مرکز حیات کو ہم ’’خودی یا شخص ۱۰؎میں جلوہ گر ہوتی ہے تو اسے ہم خودی کہتے ہیں۔۱۱؎ نفسیاتی زاویہ نگاہ سے انسانی شخصیت ایک اطنابی حالت ۱۲؎ کا نام ہے اور اس کا تسلسل اس حالت کے قیام پر منحصر ہے۔ اگر یہ اطنابی حالت قائم نہ رہے تو استرخائی ۱۳؎ حالت پیداہوجائے گی ۔ جو خودی کے حق میں مضر ہے۔ چونکہ شخصیت کی اطنابی حالت، انسان ہستی کا سب سے بڑا کارنامہ یا کمائی ہے۔ اس لیے انسان کااولین فرض یہ ہے کہ وہ اس حالت کو برقرار رکھے یعنی اپنی شخصیت میں استرخائی حالت پیدانہ ہونے دی۔ جوشئے اس اطنابی کو قائم رکھنے میں ہماری مدد گار ہوتی ہے وہی ہم کو غیر فانی بنادیتی ہے۔ اس لیے شخصیت کا تصور اشیائے کائنات کی قدر وقیمت کا معیار بن جاتا ہے۔ یعنی ہماری شخصیت ہمیں حسن و قبح کا معیار عطا کرتی ہے اور اسی کی بدولت خیر وشر کا مسئلہ حل بھی ہو جاتا ہے۔ یعنی جو شئے ہماری شخصیت (خودی) کو مستحکم کرے وہ خیر (اچھی) ہے اورجو اسے ضعیف کردی وہ شر (بری) ہے۔ آرٹ ۱۴؎ ، مذہب اور اخلاقیات ۱۵؎ سب کو خودہی کے معیار پر جانچنا چاہیے۔ ۱۶؎ افلاطون پر میں نے جو اعتراضات۱۷؎ کیے ہیں ۔ وہ دراصل ان تمام فلسفیانہ نظاموں پر وارد ہوتے ہیں جو حیات کے بجائے (موت) (فناء ) کو اپنا نصب العین بتاتے ہیں، جو زندگی کے سب سے بڑے مزاحم یعنی مادہ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ور اس کو مسخر کرنے کے بجائے اس سے فرار اختیار کرنا سکھاتے ہیں۔ جس طرح خودی یا انا کی آزادی کی بحث میں، مادہ کا مسئلہ پیش آتا ہے، اسی طرح ا س کی ابدیت (غیر فانیت) کے سلسلہ میں زماں کا مسئلہ لازمی طور سے پیداہوتا ہے۔ ۱۸؎ برگساں نے ہمیں بتایا کہ وقت (زماں) کوئی لامتناہی خط نہیں ہے (میں نے لفظ خط کو اس کے مکانی مفہوم میں استعمال کیا ہے) جس سے ہم سبھوں کو طوعاًو کرہاًگزرنا ضروری ہے ۔زمانہ کا یہ تصور صحیح نہیں ہے۔ اس میں غلط تصورات کی آمیزش ہو گئی ہے۔ واضح ہو کہ زمان خالص میں طول کا تصور داخل ہی نہیں ہو سکتا۔ یعنی اس کو ہم شب و روز کے پیمانہ سے ناپ سکتے۔ اپنی شخصیت (خودی) کو غیر فانی بنا دینا یا ابدیت سے ہمکنار کر دینا، یہ ایک امنگ ہے اور اگر اس میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو پھر اس کے لیے جدوجہد کرنا لازمی ہے۔یہ کامیابی دراصل اس بات پر موقوف ہے کہ ہم اس زندگی میں خیال اور عمل کے وہ طریقے اختیار کریں جو اطنابی حالت کو قائم رکھنے میں ہمارے ممدو معاون ہوسکیں۔ بدھ دہرم، عجمی تصوف اور اسی قبیل کے دوسرے اخلاقی نطام ہماری اس آرزو کو پوری نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ طریقے بالکل بے کار بھی نہیں ہیں کیونکہ مدت دراز تک جدوجہد اور سعی و عمل کے بعد ہمیں قدرتی طور پر ، سکون اور خواب آور دواؤں کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ اس قسم کے افکار اور اعمال گویا ہماری زندگی کے ایام کی راتیں ہیں۔ پس اگر ہمارے اعمال و افعال کا مقصد خودی کی اطنابی حالت کا قیام ہو تو گمان غالب یہ ہے کہ: موت کا صدمہ اسے متاثر نہیں کر سکے۔ گامرنے کی بعد خودی پر استرخائی دور طاری ہوتا ہے جسے قرآن حکیم نے برزخ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ زمانہ حشر تک قائم رہے گا اور اس سکونی یا استرخائی حالت کے بعد صرف وہی اَنا (نفوس)باقی رہ جائیں گے۔ جنہوں نے حیات ارضی میں اپنے آپ کو مستحکم کرلیا ہوگا۔ اگرچہ زندگی اپنی ارتقائی منازل میں تکرار اور اعادہ کو بہت ناپسند کرتی ہے تاہم بقول پروفیسر ۱۹؎ ولڈن کار، برگساں کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ، حشر اجساد بھی قرین عقل ہے۔ جب ہم زماں کو لمحات میں تقسیم کرکے اس میں مکاں کا مفہوم پیداکر دیتے ہیں تو اسے مسخر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، زماں کی صحیح ماہیت کا علم اس وقت حاصل ہو سکتا ہے۔ جب کہ ہم اپنی خودی کی گہرائیوں میں غوطہ لگائیں۔ حقیقی زماں، خود زندگی ہی کا دوسرا نام ہے، اور زندگی بقائے دوام کی صفت حاصل کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ اس مخصوص اطنابی حالت کو قائم رکھ سکے، جس کو اس نے تاایندم قائم رکھنا ہے۔ جب تک ہم زماں کو ایک مکانی چیزسمجھتے رہیں گے۔ اس کی غلامی سے نہیں نکل سکتے۔ بدستور اس کے محکوم رہیں گے۔ مکانی وقت ایک زنجیر پا ہے جس کو زندگی نے اس لیے پیداکیا ہے کہ وہ موجود ماحول کو اپنے اندرجذب کر سکیٔ دراصل ہم وقت کے غلام یا محکوم نہیں ہیں اوراس کیفیت (یعنی زمان کی غلامی سے آزادی) کا احساس ہمیں اس زندگی میں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ انکشاف عارضی ہوگا۔ خودی کی تربیت واضح ہو کہ خودی، عشق سے مستحکم ہو سکتی ہے۔ ۲۰؎ اس لفظ عشق کے مفہوم میں بہت وسعت ہے۔اور اس کا مطلب ہے خواہش جذب و تفسیر۔ اس کی اعلیٰ ترین شکل یہ ہے کہ وہ مقاصد اور اقدار کی تخلیق کرتی ہے اوران کے حصول کے لیے ساعی ہوتی ہے۔ عشق کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عاشق و معشوق دونوں کو منفرد کر دیتا ہے۔ یعنی ان کی شان انفرادیت کو نمایاں کر دیتا ہے۔جب ایک طالب (مردمومن) یکتا ترین اور بے مثل (خدا)کے حصول کی کوشش کرتا ہے تو خود اس کے اندر شان یکتائی پیداہو جاتی ہے۔ اورضمناًمطلوب کی انفرادیت بھی محقق ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اگرمطلوب، فرد مستقل بالذات یا مشخص وجود نہ ہو تو طالب کو تسکین کیسے حاصل ہوں گی؟ عشق کسی شخصی یا معین ہستی ہی سے ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص غیر مشخص ہستی سے عشق نہیں کر سکتا۔ جس طرح خودی عشق سے مستحکم ہوتی ہے اسی طرح سوال کرنے سے ضعیف۲۱؎ ہو جاتی ہے ۔ ہر وہ چیز جو ذاتی کوشش کے بغیر حاصل ہو۔ تحت مقولۂ سوال ہے۔ ایک دولت مند آدمی کا لڑکا جو اپنے والدین کی دولت ورثہ میں حاصل کرتا ہے۔ دراصل سائل (بھکاری) ہے۔ اسی طرح وہ شخص بھی سائل (گداگر) ہی ہے۔ جو دوسروں کے افکار و خیالات کی تقلید کرتا ہے یا ان کو اپنے افکار و خیالات بناتا ہے۔ خلاصۂ کلام اینکہ ، استحکام خودی کے لیے ہم کو لازم ہے کہ عشق کی صفت (اطاعت) اپنے اندر پیدا کریں۔ اورہر قسم کے سوال (گدائی اور تقلید) یعنی بے عملی (کاہلی) سے اجتناب کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کم از کم ایک مسلمان کے لیے تو بلاشبہ اسوہ حسنہ ہے اور حضور کی زندگی سے ہمیں سعی پیہم کا اعلیٰ سبق حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی عمل کی تصویر ہے۔ میں نے اس مثنوی کے کسی دوسرے حصہ میں اشارتاًاسلامی فلسفہ اخلاق کے تمام اصول بیان کیے ہیں۔۲۲؎ اور شخصیت کے تصور کے ضمن میں ان کا مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ خودی کو بے مثل و یکتا ہونے کے لیے تین مرحلے طے کرنا پڑتے ہیں۔ (۱) اطاعت قانون الٰہی (قرآن کریم )۲۳؎ (۲) ضبط نفس ۲۴؎ (۳) نیابت الٰہیہ نیابت الٰہی اس دنیا میں ارتقائے انسانی کی تیسری اور آخری منزل ہے، نائب حق، خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ وہ کامل ترین خودی ہے جو نبی آدم کا نصب العین ہے اور زندگی کی روحانی معراج ۲۵؎ہے۔ نائب حق کی زندگی مین حیات نفسی کے متضادعناصر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اور اعلیٰ ترین قوت، اعلیٰ ترین عمل سے متحد ہو جاتی ہے یعنی اس کی زندگی میں ذکر اور فکر، خیال اور عمل، عقل اور حیلی خواص سب ایک ہو جاتے ہیں۔ وہ نخل انسانیت کا ثمر آخر میں ہے اور ارتقائے حیات کی تمام صعوبتیں اور تلخیاں! اس لیے گوارا ہو سکتی ہیں کہ ان کا آخری انجام اس کی شکل میں ظاہر ہونے والا ہے۔ وہ بنی نوع آدم کا حقیقی حکمران ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی حکومت دراصل اللہ کی حکومت ہوتی ہے۔ وہ اپنی فطرت کے خزانہ سے دوسروں کو زندگی کی دولت عطا کرتا ہے اور اپنے قریب تر لاتا جاتا ہے۔ ہم جس قدر منازل ارتقاء طے کرتے جاتے ہیں، اسی قدر اس (نائب حق) کے قریب ہوتے جاتے ہیں اور اس کا قرب حاصل کرکے اپنے آپ کو میزان حیات میں بلند کرتے ہیں۔ نائب حق کے ظہور کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسانیت، جسمانی اوردماغی دونوں پہلوؤں سے ارتقائی منازل طے کرلے۔ فی الحال اس کا وجود صرف ہمارے ذہنوں میں ہے۔ خارج میں کہیں نہیں ہے۔ لیکن انسانیت کا ارتقا ایک مثالی قوم کے ظہور پذیر ہونے کی خبر ضرور دے رہا ہے جس کے افراد کم و بیش یکتا انفرادیت کے حامل ہوں گے یعنی ان میں یہ صلاحیت ہوگی کہ نائب حق ان میں پیدا ہو سکے۔ پس زمین میںخدا کی بادشاہت کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں ایسی جمہوریت قائم ہو جائے جس کے افراد کم و بیش یکتا ہوں اور اس جمہوری نظام کا صدر (میر مجلس) وہ شخص ہو گا جسے نائب حق یا انسان کامل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ وہ انسان کامل کمال کے آخری نقطہ پر فائزہ ہوگا۔ جس کے اوپر اور کوئی نقطہ متصور نہیں ہوسکتا۔ نطشہ (مشہور جرمن فلسفی) نے اپنے تخیل میں ایسی مثالی قوم کی ایک جھلک ضرور دیکھی تھی لیکن اس کی دہریت اور امارت پسندی نے اس کے سارے فلسفہ کو مسخ کر دیا۔ یعنی اس کے سارے تخیل کو دھندلا کر دیا۔۲۷؎ حواشی ۱- پروفیسر بریڈلے آکسفورڈ کا مشہور فلسفی ہے۔ ۱۸۴۶ء میں پیداہوا۔ ۱۹۲۶ء میں وفات پائی۔ ۴۲ سال کی عمر میں یونیورسٹی کالج آکسفورڈ سے فلسفہ کی ڈگری لی اور تادم وفات اسی یونیورسٹی سے وابستہ رہا۔ تصانیف کاسلسلہ ۱۸۷۴ء سے ۱۹۲۴ء تک جاری رہا۔ لیکن اس کی شہرت کی بنیاد ’’شہود و حقیقۃ‘‘ پر ہے جو ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی تھی۔ ۱۹۲۸ء میں اس کا ترجمہ جرمن میں ہوا۔ بریڈلے موجودہ دورہ میں کرین اورکیئرڈ کے بعد تیسرا فلسفی ہے جس نے انگلستان میںفلسفہ تصوریت وحدۃ الوجود کو فروغ دیا۔ یعنی وہ بھی ہیگل کا متبع ہے اس کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف انائے مطلق فی الحقیقت موجود ہے۔ یہ کائنات محض فریب تخیل یا دھوکہ ہے گویا شنکر اورابن عرفی کے فلسفہ کی صدائے بازگشت ہے۔ ۲- چنانچہ اقبال نے گلشن راز میں اپنا مسلک یوں بیان کیا ہے: خودی را حق بداں باطل مپندار خودعی را کشت بے حاصل مپندار ۳- امام احمد بن حنبل ؒکا بھی یہی مسلک ہے اوریہ مسلک سورۂ اخلاص کی آخری آیت ولم یکن لہ کفوا احد سے مستنبط ہے۔ ۴- ڈاکٹرمیک ٹیگرٹ کیمبرج کا مشہور فلسفی اور حضرت علامہ کا استاد تھا۔ ۱۸۶۶ء میں پیداہوا۔ ۱۹۲۵ء میں وفات پائی۔ بریڈلے کے بعد ہیگل کا سب سے بڑا متبع اور شارح تھا۔ اس کی تصانیف میں ہیگل کے منطق کی شرح بہت اعلیٰ درجہ کی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اس نے اپنے استاد سے اکثر مسائل میں اختلاف بھی کیا ہے جس کی تفصیل اس کی تصنیف ماہیتہ وجودمیں مل سکتی ہے۔ ۵- یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون ۶- یہ مصرع مولانا رومی کا ہے۔ ۷- آرزد صید مقاصد را کمند دفتر افعال را شیرازہ بند ۸- ارشاد نبوی ہے کہ الایمان بن الجبر والاختیار چنیں فرمودۂ سلطان بدر است کہ ایماں درمیان جبر و قدر است ۹- بر مقام خود رسیدن زندگی است ذات را بے پردہ دیدن زندگی است گر نہ بینی، دین تو مجبوری است ایں چنیں از خدا مہجوری است ۱۰- اس سے معلوم ہوا کہ اقبال کے فلسفہ خودی اور شخص مترادف ہیں، اندریں حالات کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ خودی سے تکبر یا غرور مراد ہے۔ ۱۱- یعنی انسان کی خودی، حیات کی انتہائی ترقی یافتہ شکل کا نام ہے۔ ۱۲- اطناب (Tension)کا ترجمہ ہے اور اس سے مراد نفس یا خودی کی وہ حالت ہے جب اسے اپنی ہستی کا احساس بہت قوی ہو۔ ۱۳- استرخاء (Relexation)کا ترجمہ ہے جو ۱۲کی ضد ہے یعنی نفس ناطقہ یا خودی کی وہ حالت جب ا سے اپنی ہستی کا احساس بہت ضعیف ہو۔ ۱۴- یعنی وہی آرٹ لائق تحسین ہے جس کی بدولت ہماری خودی مستحکم ہو سکے۔ ۱۵- یعنی غلاموں کا فلسفۂ اخلاق خودی کو ضعیف کر دیتا ہے۔ کیونکہ غلام قومیں عاجزی، انکساری اور خاکساری کو بہترین اخلاق قرار دیتی ہیں۔ ۱۶- عربی شاعری پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتراضات کی زیر عنوان ۱۹۱۶ء میں اقبال نے انگریزی رسالہ ’’نیو ایرائ‘‘ میں یہ لکھا تھا کہ ’’انسانی جدوجہد کا آخری مقصد زندگی ہے ایک شاندار کامیاب طاقتور اورپُرمژزندگی۔ اس لیے میں تمام انسانی آرٹ کو اسی آخری مقصد کے تحت رکھنا چاہتاہوںاورہر شئے کی قیمت اس کی زندگی بخش قوت کے لحاظ سے معین کرتاہوں جو آرٹ ہمارے اندرقوت پیدانہیں کرتا میری نگاہ میں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اسی لیے اعلیٰ یا بہترین آرٹ وہ ہے جو ہمار ی خفتہ قوت عمل کو بیدارکردے اورہم کو مشکلات زندگی کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لائق بنا دے۔ ہر خواب آور چیز جو ہم کو ان حقائق سے غافل کر دے جن کے مسخر کرنے پر زندگی کی کامیابی کا انحصار ہے وہ زاول اورموت کا پیغام ہے۔ آرٹ میں افیون خوارنیدن کا رنگ نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی آرٹ کا اثر ہمارے دل و دماغ پر وہ نہیںہونا چاہیے جو افیون کھانے سے پیداہوتا ہے۔ تحصیل فن بغرض فن کا اصل دور انحطاط اور پستی کی ایجاد ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم حیات اور قوت دونوں سے محروم ہو جائیں۔ ۱۷- راہب اول افلاطون حکیم از گروہ گوسفندان قدیم ۱۸- سبز با دا خاک پاک شافعی عالمے سر خوش زتاک شافعی ۱۹- پروفیسر فلسفہ کنگس کالج ،لندن ۱۹۳۱ء میں وفات پائی۔ ۲۰- از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر سو زندہ تر تابندہ تر ۲۱- از سوال آشفتہ اجزائے خودی بے تجلی تحل سینائے خودی ۲۲- اسرار خودی ، ص ۴۴۔ ۲۳- اسرار خودی ، ص ۴۴۔ ۲۴- اسرار خودی ، ص ۴۶۔ ۲۵- اسرار خودی ، ص ۴۷۔ ۲۶؎ اقبال نے اسلامی جمہوریت کے عنوان کے تحت ’’نیو ایرا‘‘ بابت ۱۹۱۶ء ، ص ۲۵۱پر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’یورپ کی جمہوریت جس پر اشتراکی ہنگامہ آفرینی اورلاقانونیت کا خوف مسلط ہے۔ یورپین جماعتوں کے معاشی نشاۃِ ثانیہ کی بدولت پیداہوئی۔ فی الجملہ نطشہ اس ’’سلطانی جمہور‘‘ سے سخت متنفر ہے اورچونکہ وہ عوما کی ذہنیت اور صلاحیت سے بالکل مایوس ہے۔ اس لیے وہ اعلیٰ ثقافت کو فوق البشرافراد کی امارت مآب جماعت کی تربیت پر منحضر کرتا ہے لیکن میں نطشہ سے یہ سوال کررتاہوں کہ کیا عوما واقعی ناکارہ ہیں؟ کیا اُن میں ترقی کی مطلق استعداد نہیں ہے؟تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے بھی دنیا کو ایک جمہوری نظام سے روشناس کیا تھا ۔مگر جمہوری نظام، معاشی تقاضوں کی توسیع کی بدولت ظہور میں نہیں آیا۔بلکہ وہ ایک روحانی اصل یا طریق کار ہے جو اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہر فرد بشر میں غیر محدود ترقی کی استعداد مخفی ہے اوراگر وہ ایک خاص قسم کی سیر ت پیدا کرلے تو اس کی وہ تمام مخفی استعدادیں قوت سے فعل میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ اسلام نے تو عوام (عوامۃ الناس) ہی کی ایسی اعلیٰ تربیت کی کہ اُن سے بہترین ٹائپ کے افراد پیداہوئے یعنی دنیا نے زندگی اورطاقت کے بہترین نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ پس میری رائے میں صدرِ اسلام کا جمہوری نظام، نطشہ کے تصورات کی ایسی تردید ہے جو تجربہ پرمبنی ہے۔ خدا کی بادشاہت کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں ایسی جمہوریت قائم ہو جائے جس کے افراد کم و بیش یکتا ہوں اور اس جمہوری نظام کا صدر (میر مجلس) وہ شخص ہو گا جسے نائب حق یا انسان کا مل سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ وہ انسان کامل کمال کے آخری نقطہ پر فائز ہو گا۔ جس کے اوپر اور کوئی نقطہ متصور نہیں ہوسکتا۔ نطشہ (مشہور جرمن فلسفی) نے اپنے تخیل میں ایسی مثالی قوم کی ایک جھلک ضرور دیکھی تھی لیکن اس کی دہریت اور امارت پسندی نے اس کے سارے فلسفہ کو مسخ کر دیا۔ یعنی اس کے سارے تخیل کو دھندلا کر دیا۔۱؎ حوالہ: ۱- اقبال نے اسلامی جمہوریت کے عنوان کے تحت ’’ینوایرا‘‘ بابت ۱۹۱۶ئ، ص ۲۵۱ پر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’یورپ کی جمہوریت، جس پر اشتراکی ہنگامہ آفرینی اور لاقانونیت کا خوف مسلط ہے۔ یورپین جماعتوں کے معاشی نشاۃِ ثانیہ کی بدولت پیدا ہوئی۔ فی الجملہ نطشہ اس ’’سلطانی جمہور‘‘ سے سخت مقسفر ہے اور چونکہ وہ عوام کی ذہنیت اور صلاحیت سے بالکل مایوس ہے۔ اس لیے وہ اعلیٰ ثقافت کو فوق البشر افراد کی امارت مآب جماعت کی تربیت پر منحصر کرتا ہے۔ لیکن میں نطشہ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا عوام واقعی ناکارہ ہیں؟ کیا ان میں ترقی کی مطلق استعداد نہیں ہے ؟ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے بھی دنیا کو ایک جمہوری نظام سے روشناس کیا تھا۔ مگر یہ جمہوری نظام ، معاشی تقاضوں کی توسیع کی بدولت ظہور میں نہیں آتا تھا۔ بلکہ وہ ایک روحانی اصل یا طریق کار ہے جو اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہر فرد بشر میں غیر محدود ترقیکی استعداد مخفی ہے اور اگر وہ ایک خاص قسم کی سیرت پیدا کر لے تو اس کی وہ تمام مخفی استعدادیں قوت سے فعل میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ اسلام نے تو عوام (عامۃالناس) ہی کی ایسی اعلیٰ تربیت کی کہ کہ ان سے بہترین ٹائپ کے افراد پیدا ہوئے یعنی دنیا نے زندگی اور طاقت کے بہترین نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ پس میری رائے میں صدر اسلام کا جمہوری نظام، نطشہ کے تصورات کی ایسی تردید ہے جو تجربہ پر مبنی ہے۔‘‘ فصل چہارم۱؎ (علامہ اقبال کا خط ڈاکٹر نکلسن کے نام) جب اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ شائع ہو ا تو بعض لوگوں کو کچھ غلط فہمیاں لاحق ہوئیں۔ ان کے ازالہ کے لیے علامہ نے یہ خط پروفیسر نکلسن کو لکھا تھا۔ اگرچہ یہ خط مجمل ہے تاہم اسرر خودی کے بعض مطالب کی توضیح کے لیے اس کا مطالعہ بہت مفید ہے، اس لیے میں اسے درج ذیل کرتا ہوں: مائی ڈیر ڈاکٹر نکلسن شفیع ا؎کے نامجو خط آپ نے لکھا ہے اس سے یہ معلوم کر کے مجھے بہت مسرت ہوئی کہ اسرار خودی کا ترجمہ انگلستان میں بہت مقبول اور مورد التفات ہو رہا ہے۔ لیکن بعض انگریز ناقدین کو میرے اور نطشہ کے بعض خیالات میں ظاہری مماثلت دیکھ کر عجیب قسم کی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ ایتھنیم کے تبصرہ نگار نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بڑی حد تک حقائق کی غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ مگر یہ بات نا دانستہ طور پر ہوئی ہے ۔ کیونکہ اگر میری اردو نظموں کی صحیح تاریخ ہائے اشاعت، اس کے پیش نظر ہوتیں تو یقینا میری دماغی زندگی کے ارتقاء سے متعلق اس کی رائے بالکل مختلف ہوتی ۔ علاوہ بریں اس نے میرے نظریۂ ’’انسان کامل‘‘کو نطشہ کے نظریۂ ’’فوق البشر‘‘ سے مختلط کر دیا ہے اور اپنی غلط فہمی کی بناء پر دونوں کو ایک ہی سمجھ لیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل ’’انسان کامل‘‘ کے متصوفانہ عقیدہ پر ایک مضمون لکھا تھا۔ اور وہ یہ زمانہ ہے جب کہ نشطہ کی بھنک بھی میرے کان میں نہیں پڑی تھی۔ اور نہاس کی تصانیف میری نظر سے گذری تھیں۔ یہ مضمون اسی زمانہ میں رسالہ ’’انڈین اینٹی کیوری‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اور جب ۱۹۰۸ء میں میں نے فلسفۂ عجم پر مقالہ لکھا تو اس مضمون کو اس میں منضم کر دیا تھا۔ انگریزوں کو اس مسئلہ کے سمجھنے میں جرمن حکماء کی بجائے اپنے ہی وطن کے ایک جلیل القدر فلسفی کے افکار سے زیادہ مدد ملے گی۔ میری مراد ڈاکٹر الگزینڈر ۲؎ سے ہے جس کے لیکچروں کا مجموعہ پچھلے سال گلاسگو سے شائع ہوا ہے۔ ان خطبات میں اس نے خدا اور الوہیت کے عنوان سے جو باب لکھا ہے وہ بہت ؔغور سے پڑھنے کے لائق ہے۔ چنانچہ (ص ۳۴۷) پر لکھتا ہے:- ’’گویا ذہن انسانی کے نزدیک الوہیت، دوسری اعلیٰ تجریبی قوت ہے، جسے کائنات عالم وجود میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ قیاس و اجتہاد کی رہنمائی سے ہمیں یہ یقین حاصل ہو چکا ہے کہ بطن گیتی میں اس قسم کی ایک قوت موجود ہے مگر ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ قوت کیا ہے؟ ہم نہ تو اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ اور نہ اپنے ذہن کی مدد سے اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ بالفاظ دگر، انسان بھی تک ایک خدائے غیر معلوم کی کوش کے لیے مختلف قربان گاہیں تعمیر کر رہا ہے۔ الوہیت کی ماہیت کا علم حاصل کرنا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم خود خدا بن جائیں۔‘‘ الگزینڈر کے افکار میرے عقائد کی نسبت زیادہ جسارت آمیز ہیں۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات میں شان الٰہی جلوہ گر ہے۔۳؎ اگرچہ میں اس باب میں الگزینڈر سے متفق نہیں ہوں (یعنی وہ کہتا ہے کہ وہ ’’حقیقت منتظر‘‘ خدائے ممکن الوجود کی شکل میںظاہر ہو گی‘ اور میں کہتا ہوں کہ وہ ایک اعلیٰ اور برترین قسم کے انسان کے پیکر میں رونما ہو گی) تاہم اگر انگریز اہل علم ان جزوی اختلافات سے قطع نظر کر کے انسان کامل کے تخیل پر اپنے ایک ہموطن مفکر کے افکار کی روشنی میں غور کریں تو انہیں یہ عقیدہ اس قدر غیر مانوس اور اجنبی نہیں معلوم ہو گا۔ مسٹر ڈکنسن کا ریویو مجھے سب سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوا۔ چنانچہ اس کے متعلق چند باتیں لکھنی چاہتا ہوں:- (ا) مسٹر موصوف کا خیال یہ ہے (جیسا کہ ان کے مکتوب سے واضح ہے جو انہوں نے مجھے لکھا ہے) کہ میں نے مادی قوت کے حصول کو منتہائے جدوجہد قرار دیا ہے۔ یا بالفاظ دگر اس کو معبودیت کا درجہ دے دیا ہے۔حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ میں جس شئے کا قائل ہوں وہ روحانی قوت ہے کہ مادی قوت ہے نہ کہ مادی قوت۔ جب کسی قوم کو حق و صداقت کی حمایت میں تلوار بلند کرنے یعنی جہاد کی دعوت دی جائے تو اس دعوت پر لبیک کہنا اس کا اخلاقی فرض ہے۔ لیکن جوع الارض کے لیے جنگ و جدل کرنا میرے عقیدہ کی رُو سے بالکل ناجائز ہے۔ بلکہ میں نے تو اسے حرام قرار دیا ہے ( تفصیل کے لیے دیکھو اسرار خودی ص ۷۲) البتہ ڈکنسن کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ جنگ و جدل کا نتیجہ بہر صورت تخریب اور تباہی ہوتا ہے خواہ اس کی غایت حق وصداقت ہو، یا ہوس ملک گیری، اس لیے جنگوں کا انسداد کر دینا چاہیے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ معاہدات، میثاقات، صلح نامے، کانفرنسیں اور اسی قسم کے دوسرے اجتماعات، جنگوں کا انسداد نہیں کر سکتے اور اگر کسی طریقے سے جنگ کے ظاہری سلسلہ کو روک بھی دیا جائے تو حریص اور طماع قومیں، نیم مہذب اور اپنے سے کمتر اور ضعیف ظلم و ستم کا شکار بنانے کے لیے مہذب طریقے پیدا کر لیں گی۔ اندریں حالات ہمیں دراصل ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کا صحیح حل پیش کر سکے، ہمارے تمام خصومات کا عادلانہ فیصلہ کرسکے اور بین الاقوامی اخلاق کو ایک مستحکم تر بنیاد پر قائم کر سکے۔ اسی خیال کو پروفیسر میکنزی نے اپنی تصنیف ’’مقدمۂ فلسفۂ معاشرت‘‘ کی آخری سطور میں بکمال خوبی ادا کر دیا ہے:- ’’کوئی اعلیٰ جماعت اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک اعلیٰ افراد موجود نہ ہوں ، اور ان کی پیدائش کے لیے صرف عرفان اور وقت نظر کافی نہیں ہے۔ بلکہ قوت محرکہ بھی ضروری ہے۔ بالفاظ دگر اس دشواری کو حل کرنے کے لیے ہمیں نور اور نار دونوں درکار ہیں۔ موجودہ معاشی مسائل کو محض نظری طور پر سمجھ لینے سے ہماری مشکلات کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ہمیں صرف علماء اور معلمین کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ رہنمائوں اور رہبروں کی بھی حاجت ہے۔ مثلاً رسکن یا کارلائل یا ٹالسٹائیجو ہمارے ضمیر کو زیادہ سخت کر کے ہمیں ادائے فرض پر زیادہ مستعد بنا سکیں سچ پوچھو تو اس وقت ہمیں ایک نئے مسیح کی ضرورت ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عصر حاضر کے اس رہبر کو محض ’’بیاباں کی صدا‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس زمانہ کے بیاباں آباد شہروں کے گلی کوچے ہیں۔ جہاں ترقی کے لیے جدوجہد کا بازار گرم ہے اس رہبر کے لیے ضوری ہے کہ اسی ہنگامہ زار میں اپنے پیغام کی اشاعت کرے اور آبادیوں میں جا کر لوگوں کو تبلیغ کرے۔ یا موجودہ حالات میں ہمارے لیے ایسے رہبر کا وجود زیادہ مفید ہو گا جو رہبر ہونے کے علاوہ شاعر بھی ہو۔ زمانۂ حال کے شعراء نے ہمیں فطرت کے ساتھ محبت کرنا سکھایا۴؎ ہے اور بتایا کہ اس میں شان ایزدی کا جلوہ دیکھنا چاہیے لیکن ہمیں اس شاعر کاانتظار ہے جو اسی وضاحت کے ساتھ ہمیں انسان میں شان ایزدی کے جلوے دکھا سکے، یا ان کے دیکھنے کا طریقہ سکھائے۔ ہائنا۵؎ نے ازراہ تفنن اپنے آپ کو ’’روح القدس‘‘ کا سپاہی قرار دیا تھا۔ بلاشہ آج ہمیں روح القدس کے ایسے سپاہی کی ضرورت ہے جو روزانہ زندگی میں ہمیں مقاصد عالیہ کی تعلیم دے سکے اور راہبانہ ترک و تجرید کے بجائے اس دنیاوی عملی زندگی میں اس نصب العین کو پیش نظر رکھے جس کے حصول کے لیے ہماری تمنائیں، آرزوئیں، ہمارے خیالات اور جذبات سب وقف ہوجائیں۔ مخترصر یہ کہ وہ تزکیۂ نفس میں ہمارا رہنما بن سکے۔‘‘ میں نے انسان کامل کا جو تصور اسرار خودی میں پیش کیا ہے وہ انگریزوں کی سمجھ میں اسی وقت آسکتا ہے جب وہ متذکرہ بالا امور کو پیش نظر رکھیں۔ پس انہیں لازم ہے کہ وہ مذکورہ بالا خیالات کی روشنی میں میرے افکار کا مطالعہ کریں۔۶؎یہ حقیقت بھی مد نظر رہے کہ عہد ناموں پنچایتوں اور کانفرنسوںسے جنگ و جدل کے سلسلہ کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ صرف ایک بلند مرتبہ شخصیت ہی اس کا خاتمہ کر سکتی ہیہ۔ اور اس شعر میں میں نے اسی ہستی کو مخاطب کیا ہے:- باز در عالم بیار ایام صلح جنگ جویاں را بدہ پیگام صلح (ج) مسٹر ڈکنسن نے آگے چل کر میرے فلسفۂ سخت کوشی کا ذکر کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں انسانوں کو اپنے اندر مردانگی اور سختی پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہوں، بیشک یہ صحیح ہے لیکن یہ تعلیم حقیقت کے اس مفہوم پر مبنی ہے جو میں نے اپنی مثنوی میں پیش کیا ہے۔ میرے عقیدہ میں ’’حقیقت‘‘ نام ہے ’’شخصیتوں‘‘ اور ’’خودیوں‘‘ کے مجموعہ کا اور اس کی اجتماعی تشکیل کشمکش سے ہوتی ہے اور یہی کشمکش بالآخر نظم و ارتباط پیدا کر دیتی ہے۔ ارتقائے حیات کے اعلیٰ مدارج اور بقائے شخصی کے حصول کے لیے یہ کشمکش (تصادم) لازمی ہے۔ نطشہ۷؎ ، بقائے شخصی کا منکر ہے۔ چنانچہ وہ ان لوگوں سے جو اس کے آرزومند ہیں ، یہ کہتا ہے:- ’’کیا تم ووش زمانہ پر ایک دائمی بار کی صورت میںباقی رہنا چاہتے ہو۔‘‘ نطشہ کی غلط فہمی کا مبنیٰ یہ ہے کہ دہریا زمانہ کے متعلق اس کا تصور ہی غلط تھا۔ اس نے مسئلہ دہر کے اخلاقی پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ بخلاف اس کے میں تو بقائے شخصی کو انسان کی ایسی بلند ترین آرزو سمجھتا ہوں جس کے لیے اسے انتہائی جدوجہد کرنی لازم ہے۔ اسی لیے میں ہر قسم کی حرکت اور جدوجہد بلکہ عمل کی تمام صورتوں کو جن میں کشمکش اور تصادم اور پیکار بھی شامل ہے، بہت ضروری سمجھتا ہوں، تاکہ خودی مستحکم ہو سکے اسی لیے میں صوفیانہ جمود اور راہبانہ سکون کا سخت مخالف ہوں۔ میں اس کشمکش اور پیکار کا جو مفہوم مد نظر کھتا ہوں وہ بلحاظ اصل، اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی۔ اس کے برعکس نطشہ کے پیش نظر صرف سیاسی مفہوم تھا۔ جدید سائنس سے معلوم ہوا ہے کہ قوت مادی کا ہر سالمہ ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد اپنی موجودہ ہیئت تک پہنچا ہے۔ اس کے باوجود اسے دوام نہیں ہے۔ وہ الخلال قبول کر لیتا ہے بالکل یہی حال قوت روحانی کے سالمہ یا فرد انسانی کا ہے۔ وہ شمار قرنوں کی جدوجہد کے بعد اپنے موجودہ مرتبہ تک پہنچا ہے۔ پھر بھی نہایت آسانی سے الخلال و اختلال قبول کر لیتا ہے۔ جیسا کہ امراض دماغی کے ہر طالب علم پر روشن ہے۔ اس لیے اگر وہ بدستور قائم اور باقی رہنا چاہتا ہے لازم ہے کہ گذشتہ زندگی میں جو تجربات اسے حاصل ہوئے ہیں انہیں فراموش نہ ہونے دے اور ماضی میں جو قوتیں اس کے ثبات و استحکام میں معاون ثابت ہوئی ہیں ان سے مستقبل میں استقادہ کرتا رہے۔ بلاشبہ یہ ممکن ہے کہ اس کے آئندہ ارتقاء میں فطرت، بعض عوامل مؤثرہ کو جواب تک اس کے ارتقاء میں ممداور معاون ثابت ہوئے ہیں (مثلاً تنازع، تصادم، جنگ و پیکار) کمزور کر دے یا سرے سے مٹا دے اور ایسی نئی قوتوں کو معرض وجود میں لے آئے جن سے انسان اب تک نا آشنا رہا ہے اور ان کو اس کے ثبات و استحکام کا ضامن بنا دے لیکن میں اس مستقبل کا خواب نہیں دیکھتا۔ کیونکہ میرے خیال میں اس بات کو بروئے کار آنے میں ابھی عرصہ دراز حائل ہے۔ گذشتہ جنگ عظیم۸؎ سے سبق حاصل کرنے کے لیے حضرت انسان کو مدتوں تک ذہنی تیاری کرنی پڑے گی۔ سردست وہ کوئی روحانی فائدہ اس جنگ سے حاصل نہیں کر سکتا۔ اس تصریح سے ثابت ہو سکتا ہے کہ میں نے جنگ و پیکار کی ضرورت جس مفہوم میں تسلیم کی ہے وہ اصلاً اخلاقی ہے کہ سیاسی اور مجھے افسو س ہے کہ مسٹر ڈکنسن نے میری تعلیم مردانگی و سخت کوشنی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا۔ (۴) مسٹر ڈکنسن نے ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ میرے فلسفہ کے اصول اگرچہ عمومی اور عالمگیر ہیں لیکن ان کا دائرۂ اطلاق محدود اور مختص کر دیا گیا ہے۔ یہ اعتراض بلاشہ ایک اعتبار سے صحیح ہے۔ شاعری اور فلسفہ میں انسانی نصب العین ہمیشہ عالمگیر ہی رکھا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نصب العین کو عملی زندگی میں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی تولا محالہ اس کا آغاز کسی مخصوص جماعت ہی سے کرنا ہو گا جو اپنا ایک مستقل مسلک اور معین طریق عمل رکھتی ہو۔ لیکن اپنے عملی نمونے اور تبلیغ کے ذریعہ سے اپنا دائرہ ہ میشہ وسیع کرتی چلی جائے۔ میرے عقیدہ کی رُو سے یہ جماعت ’’اسلام‘‘ ہے ۔ یہ وہ دین ہے جو ہمیشہ رنگ و نسل کے عقیدہ کا دشمن بلکہ کامیاب دشمن رہا ہے۔ اور یہی وہ عقیدہ ہے جو اقوام عام کے اتحاد اور اشراک کی راہ میں سب سے بڑا مانع ہے۔ رینان۹؎ (Renan) کا یہ خیال غلط ہے کہ سائنس اور اسلام باہم متناقض ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور نسلی امتیاز باہم متناقض ہیں۔ اسلام بلکہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن یہی رنگ و نسل کا عقیدہ ہے اور جو لوگ بنی آدم سے محبت رکھتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ ابلیس کی اس اختراع کے خلاف پوری قوت کے ساتھ جہاد کریں۔ جب میں نے یہ محسوس کیا کہ قومیت اور وطنیت کا تخیل جو نسل اور وطن کے امتیازات پر مبنی ہے دنیائے اسلام پر بھی حاوی ہوتا جاتا ہے۔ اور جب مجھے یہ نظر آیا کہ مسلمان اپنے نصب العین کی عمومیت اور عالمگیریت کو نظر انداز کر کے وطنیت اور قومیت کے جال میں پھنستے جاتے ہیں۔ تو ایک مسلمان اور محب انسانیت کی حیثیت سے میں نے اپنا فرض سمجھا، کہ ارتقائے انسانیت میں انہیں ان کے حقیقی فرائض کی طرف متوجہ کروں۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ اجتماعی زندگی کے نشوونما میں قبائل اور اقوام کی تنظیم بھی عارضی طور پر مفید ہوتی ہے۔ یہ بھی اس ترقی کا ایک پہلو ہے مگر عارضی، اگر اسے یہی حیثیت دی جائے تو مجھے کوئی اعراض نہیں ہے۔ لیکن جب اس کو (یعنی قومیت کو) ارتقائے انسانیت کی آخری منزل قرار دیا جاتا ہے تو میں اس کو بنی آدم کے حق میں بدترین لعنت یقین کرتا ہوں۔ بلاشبہ مجھے اسلام سے بے حد محبت اور بے اندازہ شیفتگی ہے۔ لیکن مسٹر ڈکنسن کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ میں نے قومی اور وطنی عصبیت کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ عملی حیثیت سے میرے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیونکہ دنیا کی مختلف جماعتوں میں صرف جمعیت اسلام ہی مجھے اس مقصد کے لیے موزوں ترین نظر آئی۔ علاوہ بریں یہ بھی واضح رہے کہ اسلام کے حدود اس قدر تنگ نہیں ہیں جس قدر مسٹر ڈکنسن نے سمجھ رکھے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روح کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے۔ اسلام چونکہ کائنات انسانیت کے اتحاد عمومی کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اس لیے وہ تمام انسانوں کو اتحاد اور اشتراک عمل کی دعوت دیتا ہے اور اس سلسلہ میں ان کے جزوی اختلافات کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے:- قُلْ یَا اَھْلَ الکَتَابِ تَعَالوا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائً بَیْنَنَا وَ بَیْنکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللہ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شیئًا الخ۔ آپ کہہ دیجیے کہ اہل کتاب آئو! ہم تم اس امر پر، جو ہمارے تمہارے درمیان یکساں طور پر مسلم ہے، متفق ہوجائیں وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہیں کریں گے اور اس کی الوہیت میں کسی کو شریک نہیں کریں گے) (۱۳-۶۳) میرے خیال میں مسٹر ڈکنسن کا ذہن ابھی تک یورپ والوں کے اس قدیم عقیدہ کی گرفت سے آزاد نہیں ہوا ہے کہ اسلام سفا کی اور خونریزی کی تعلیم دیتا ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی ارضی بادشاہت صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ تمام انسان اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ بشر طیکہ وہ نسل، رنگ اور قومیت یا وطنیت کے بتوں کی پرستش ترک کردیں اور ایک دوسرے کی خودی یا شخصیت کو تسلیم کر لیں۔ مجالس اقوام حکم برداریاں، صلح نامے اور فرمامین شاہی خواہ ان میں جمہوریت کا کتنا ہی رنگ کیوں نہ ہو، کسی صورت سے بھی بنی نوع آدم کے لیے باعث فوز و فلاح نہیں بن سکتے۔ اس کی صورت تو صرف یہ ہے کہ تمام انسانوں کو بلا لحاظ نسل و رنگ و قوم، وطن بالکل مساوی اور آزاد سمجھا جائے۔ یعنی انسانیت کی فلاح اصول مساوات اور حریت میں پوشیدہ ہے۔ آج ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سائنس کا مصرف اور محل استعمال بالکل بدل دیا جائے اور ان خفیہ سیاسی منصوبوں سے احتراز کلی کیا جائے۔ جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ کمزور کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں نے بھی جنگ و جدل سے کام لیا ہے اور مختلف ممالک کو مسخر کیا ہے۔ اور ان میں سے بعض سلاطین نے اپنی ذاتی خواہشات کو مذہب کا لباس بھی پہنایا ہے۔ مگر اس بات کا مجھے پوری طرح یقین ہے کہ کشور کشائی اور تسخیر ممالک، اسلام کے مقاصد میں داخل نہیں ہے بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات اور کشور کشائیوں ہی نے اس مبارک نظام جمہوریت کی نشوونما اور ترقی کو روک دیا ہے جس کی تخم پاشی قرآن اور حدیث کے صفحات میں کی گئی تھی۔ یہ ضرور ہوا کہ مسلمانون نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کرلیں۔ مگر اس کے لیے ان کو اپنے بعض نہایت قیمتی اصول قربان کرنے پڑے اور ان کے سیاسی نصب العین پر غیر اسلامی رنگ غالب آگیا۔ اور انہوں نے اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں کہ اسلامی اصولوں کی گہرائی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔ اسلام کا مقصد یقینا یہ ہے کہ دوسری قوموں کو اپنے اندر جذب کر لے۔ لیکن جبر و کراہ کے ذریعہ سے نہیں بلکہ اپنی تعلیمات کی سادگی اور معقولیت کی بدولت۔ اسلامی تعلیمات عقل سلیم کے مطابق ہیں اورفلسفیانہ پیچیدگیوں سے پاک ہیں۔ اسلام کی فطرت میں ایسے اوصاف پوشیدہ ہیں جن کی بدولت وہ اوج کامیابی پر پہنچ سکتا ہے۔ مثلاً چین کے حالات پر غور کیجیے جہاں کسی سیاسی قوت کے بغیر محض دعوت و تبلیغ کی بدولت آج کروڑوں کی تعداد میں مسلمان موجود ہیں۔ ان کا وجود اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاسی طاقت یا جبر و اکراہ کے بغیر بھی اسلام دلوں کو مسخر کر سکتا ہے۔ میں نے بیس برس سے زائد دنیا کے فلسفہ کا مطالعہ کیا ہے اور اس کی بدولت میرے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ میں تعصب سے بالاتر ہو کر اپنی رائے قائم کر سکوں اور دنیا کے واقعات پر گیر جانبدارانہ طریقہ سے غور کرسکوں۔ میری مثنویوں کا مدعا اسلام کی وکالت نہیں ہے بلکہ میری قوت طلب صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ دنیا کے سامنے ایک عالمگیر تعمیری نصب العین پیش کروں لیکن اس نصب العین کا خاکہ مرتب کرتے وقت میرے لیے اس نظام معاشرت سے قطع نظر کر لینا بالکل ناممکن ہے۔ جس کی غایت وجود ہی یہ ہے کہ دنیا سے ذات پات، دولت و مرتبہ، نسل اور رنگ کے امتیازات کو مٹا دیا جائے۔ اور جس کی تعلیم یہ ہے کہ ایک طرف دنیاوی معاملات کو مٹا دیا جائے۔اور جس کی تعلیم یہ ہے ک ایک طرف دنیاوی معاملات میں بھی ژرف نگاہی سے کام لیا جائے اور دوسری طرف تمام دنیاوی اغراض سے بالاتر ہو کر محض اللہ کی خوشنودی کو مد نظر رکھا جائے۔ اسلام دنیا حاصل کرنے کا مشورہ بھی دیتا ہے اور پھر لذائذ دنیوی کو اعلیٰ مقاصد حیات کے لیے قربان کرنے کا حکم بھی دیتا ہے ۔ یورپ اس تعلیم یا گنج گرا نمایہ سے بالکل محروم ہے اور یہ متاع بے بہا اس کو ہماری ہی صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ آخر میں ایک بات اور کہنی ہے ۔ میں نے جو یادداشتیں آپ کو لکھ کر بھیجی تھیں جنہیں آپ نے اسرار خودی کے مقدمہ میں شامل کر لیا ہے ، ان میں‘ میں نے مغربی مفکرین کے خیالا اور عقائد کی روشنی میں اپنی حیثیت واضح کی ہے اور یہ طریق محض اس لیے اختیار کیا گیاتھا کہ انگلستان کے اہل علم میرے افکار کو بآسانی سمجھ سکیں ورنہ اگر میں چاہتا تو قرآن حکیم، صوفیائے کرام اور مسلمان حکماء کے افکار سے بھی استدلال کر سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے اسرار خودی کے پہلے اڈیشن کے ساتھ جو دیباچہ اردو میں لکھا تھا۔ اس میں یہی طریق استدلال اختیار کیا تھا۔ میں دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسرار خودی کا فلسفہ تمام تر مسلمان صوفیاء اور حکماء کے مشاہدات و افکار سے ماخوذ ہے اور تو اور، وقت یا زمانہ کے متعلق برگساں نے جو تشریحات پیش کی ہیں وہ ہمارے صوفیاء کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ باتیں تصوف کی مستند کتابوں میں مختلف انداز سے بیان ہو چکی ہیں۔ قرآن مجید اگرچہ فلسفہ یا الہٰیات کی کتاب نہیں ہے۔ تاہم حیات انسانی کے مقصد اور ارتقاء سے متعلق اس میں بھی واضح اور متعین ہدایات موجود ہیں۔ جن کو پوری قطعیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اور ان کا مبنیٰ بالآخر بعض اصول حکیمہ ہی ہیں۔ اگر موجود زمانہ میں کوئی تعلیمیافتہ شخص خصوصاً فلسفہ کا متعلم مسلمان ان مسائل کو جن کا مبداء اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے مذہبی تجربات اور افکار کی روشنی میں بیان کرے، تو اس پر ’’پرانی بوتلوں میں نئی شراب بھر کر پیش کرنے‘‘ کا الزام عائد کرنا، جیسا کہ مسٹر ڈکنسن نے کیا ہے۔ کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ میں نے رید افکار کو قدیم لباس میں ہیش نہیں کیا ہے، بلکہ پرانے حقایق کو جدید افکار کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اہل مغرب اسلام اور اسلامی فلسفہ سے نا آشنائے محض ہیں۔ کاش مجھے اس مبحث پر ایک ضخیم کتاب لکھنے کی فرصت ہوتی تو میں مغرب کے حکماء کو اس حقیقت سے آگاہ کر سکتا کہ ہمارے اور ان کے فلسفیانہ افکار ایک دوسرے سے کس قدر مشابہ ہیں۔ حواشی و حوالہ جات ۱- پروفیسر محمد شفیع صاحب ایم ۔اے (کنٹب) سابق پرسنپل اورینٹل کالج لاہور ۲- یہ فلسفی ۱۸۵۹ء میں آسٹریلیا میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن تعلیم آکسفورڈ کیمبرج میں حاصل کی اور ۱۸۹۳ء سے ۱۹۲۴ء تک وکٹوریہ کالج (مانچسٹر) میں فلسفہ کا پروفیسر رہا۔ ۱۹۲۴ء میں حکومت برطانیہ نے اس کو سب سے بڑا علمی اعزاز ’’آرڈر آف میرٹ‘‘ عطا کیا۔ اس کی بہترین تصنیف یہی گلاسگو لیکچرز کا مجموعہ ہے۔ جس کا نام ’’مکان ، زمان اور الوہیت‘‘ ہے یہ بلند پایہ کتاب ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس نے ۱۹۳۸ء میں وفات پائی۔ ۳- اقبال کی مراد اس جلوہ گری سے نیابت و خلافت الہٰہ ہے نہ کہ تجیم خالق ۔ کیونکہ یہ بات تو قرآن حکیم کی تعلیم کے خلاف ہے۔ ۴- مثلا اکبر الہ آبادی اس تعلیم کے علمبردار ہیں۔ صرف ایک شعرلکھتا ہوں:- صاف آئے گی نظر صانع عالم کی جھلک سامنے کچھ نہ رکھ آئینہ فطرت کے سوا ۵- یہ مشہور جرمن شاعر مصنف اور ادبی نقاد تھا۔ ۱۷۹۷ء میں پیدا ہوا۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ ۱۸۲۲ء میں شائع ہوا۔ اس نے مصلحتاً مسیحی مذہب اختیار کر لیا۔ ۱۸۳۱ء میں پیرس گیا۔ وہاں تا دم وفات مقیم رہا۔ ۱۸۴۹ء میں عیاشی کا نتیجہ آتشک کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اسی مرض میں ۱۸۵۶ء میں وفات پائی ۔ ۶- اقبال نے اسی غرض سے ہمیں انسان کامل یعنی سرکار دو عالم صلعم کی اتباع کا مشورہ دیا ہے اس کی تصیل، رموز بے خودی میں مل سکتی ہے۔ ۷- مشہور جرمن فلسفی ۱۸۴۴ء میں پیدا ہوا۔ ۱۹۰۰ء میں وفات پائی۔ ۸- ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۹ء کی طرف اشارہ ہے۔ ۹- مشہور فرنچ مورخ اور نقاد جو ۱۸۳۳ء میں پیدا ہوا۔ اس کی مایۂ ناز تصنیف، ’’تاریخ اصل مسیحیت‘‘ ہے۔ جو بیس سال کی مدت میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اس نے ابن رشد کے فلسفہ پر بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ وہ ۱۸۹۳ء میں فوت ہوا۔ اسرار خودی ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم انسان کی نظر باطن سے پہلے خارج پر پڑتی ہے۔ آنکھ خارج کی ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ کہتے ہیں کہ عرفان کی تین قسمیں یا تین پہلو ہیں۔ دنیا شناسی، خدا شناسی اور خود شناسی خود شناسی! اقبال نے بھٰ جب انسان کی بے بضاعتی کے متعلق خدا سے شکایت کی تو یہی کہا کہ کیا یہ تیرے ہنر کا شہ کار ہے جو نہ خود بیں ہے، نہ خدا ہیں اور نہ جہاں ہیں؟ انسان مادی اور حیوانی حیثیت میں اپنے ماحول سے دست و گریبان ہوتا ہے۔ گرد و پیش کی اشیا اور حوادث کی ماہیت کو سمجھنا اس کے لیے تنازع للبقا میں ناگزیر ہوتا ہے۔ خارجی مطابقت اور مخالفت سے فرصت ملے تو سوچے کہ خود میری ماہیت کیا ہے، یا میں اور میرا ماحول، میری موافق اور مخالف قوتیں کہاں سے سرزد ہوتی ہیں؟ زندگی میں ہر جگہ پیکار اضداد نظر آتی ہے۔ کیا یہ کشاکش ازلی متخاصم قوتوں کی مسلسل جنگ ہے یا یہ اضداد کسی ایک اصل وحدت کے متضاد نما پہلو ہیں؟ انسان کے پاس خارج کو سمجھنے کے لیے بھی خود اپنے ہی نفع و ضرر اور اپنے ہی جبلتوں کے سانچے ہیں۔ اس نے فطرت کی قوتوں کو اپنے اوپر قیاس کیا اور اپنی خواہشوں کے دیوتا بنا لیے۔ وہ خود اپنے تصورات کو مشخص کر کے ان کو لا متناہی قوتوں کا حامل بنا کر ان سے مرعوب ہو گیا۔ ان کو راضی رکھنے کے لیے اپنی عزیز ترین چیزوں اور خود اپنے آپ کو ان پر بھینٹ چڑھانا شروع کیا۔ اپنی حقیقی خودی سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے وہ ہستی جس کو تسخیر فطرت کی صلاحیت ودیعت کی گئی تھی، خود فطرت کی قوتوں سے مسخر اور مغلوب ہو گئی۔ ابھی انسان اپنی حقیقی خودی سے آشنا نہ ہوا تھا وہ اپنے آپ کو فقط حیوانی جبلتوں کا حامل سمجھا اس لیے اس نے جو دیوتا تراشے وہ بھی انہیں متلون اور عارضی خواہشوں کے مجسمے تھے۔ وہ خارج میں جن دیوتاؤں کی پرستش کرتا رہا وہ اس کی اپنی خود کے بگڑے ہوئے تصورات تھے۔ ان دیوتاؤں کے بت زبان حال سے پجاری کو کہہ رہے تھے: مرا بر صورت خویش آفریدی بروں از خویشتن آخر چہ دیدی اس تصور حیات اور اس انداز پرستش سے انسان کو نہ وجود مطلق کی ماہیت تک کچھ رسائی ہوئی اور نہ وہ اپنی ذات کا کوئی صحیح اندازہ لگا سکا۔ تکثیر یا کثرت اصنام کا راستہ چھوڑ کر انسان نفس وحدت کا جویا ہوا لیکن جب کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اس کا ابتدائی تصور وجود خارجی کائنات ہی کا تصور تھا، اس لیے اس نے خارج ہی کی کثرت اور گونا گوں کو کسی ایک وحدت میں منسلک کرنے کی کوشش کی۔ یونانیوں کے پہلے مفکر ؟؟؟؟؟ نے کہا کہ وجود مطلق فقط پانی ہے۔ پانی ہی ہر وجود ؟؟؟؟؟؟؟؟ ہے۔ تمام ٹھوس چیزیں بھی پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ؟؟؟؟ زندہ اور غیر زندہ میں، یعنی جمادات، بناتات اور حیوانات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ؟؟؟؟؟ زندگی کے تمام کوائف اور نفس کی تمام ؟؟؟؟؟؟ ہی میں بالقویٰ اور بالفعل پائی جاتی ہیں۔ اس نظریۂ وجود کو تاریخ فلسفہ میں ہائی لوزوازم کہتے ہیں، جس مٰں مادیت، نفسیت اور حیاتیت ابھی ایک دوسرے سے متمیز نہیں ہیں۔ اس نظریے کے مطابق نہ کائنات میں کوئی نفس یا خودی ہو سکتی ہے اور نہ انسان کے اندر۔ زندگانی ہر جگہ آنی جانی اور پانی ہی پانی ہے۔ اور چیزوں کی طرح آدمی بھی پانی ہی کا بلبلہ رہ گیا۔ انسانی اقدار، انسانی جذبات اور تمنائیں کوئی مستقل حقیقت نہیں رکھتیں۔ بقول سحابی نجفی: دریا بوجود خویش موجے دارد خس پندارد کہ ایں کشاکش با اوست یونانی مفکرین ارتقاے فکر میں رفتہ رفتہ تجسم سے تصور کی طرف، جسم سے نفس کی طرف یا خارج سے باطن کی طرف آتے گئے۔ انہوں نے کثیف مظاہر میں لطیف حقائق کا کھوج لگانا شروع کیا۔ فیثاغورث نے دیکھا کہ خارجی عالم میں ہر جگہ تناسب، توازن اور اندازہ پایا جاتا ہے۔ ریاضی کے اصول ہر جگہ غیر متبدل طور پر کار فرما ہیں۔ خاک کے اعمال ہوں یا افلاک کے حرکات، سب کے سب ریاضی کے اٹل اصولوں کے مطابق ہیں۔ دو اور دو چار چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ لیکن مجرد طور پر دو اور دو کے اعداد مل کر چار ہی رہتے ہیں اور ہر چیز کی تعمیر کی اصل یہی ہے کہ اس میں ریاضی صورت پذیر ہو گئی ہے۔ ریاضی میں نہ کسی کی خواہش کو دخل ہے اور نہ ارادے کو۔ ریاضی ہی وہ حقیقت ہے جسے ’الان کما کان‘ کہہ سکتے ہیں۔ ریاضی کے اصول اصلاً اور ازلاً ساکن ہیں۔ اشیا اور حوادث میں کون و فساد یا حرکت ہو سکتی ہے، لیکن اصول میں کوئی حرکت نہیں ہو سکتی۔ علت و معلول کا سلسلہ حرکیاتی سلسلہ نہیں بلکہ قضایاے اقلیدس کی طرح کا سلسلہ ہے۔ یونانی فلسفہ ترقی کرتا ہوا سقراط، افلاطون اور ارسطو کے مقولات تک جا پہنچا۔ پہلے تغیر اور ثبات کے نظریات میں کشمکش ہوتی رہی۔ کسی نے کہا کہ وجود مطلق بے تغیر و بے حرکت ہونا چاہیے۔ لہٰذا تغیر یا حرکت ادراک کا دھوکا ہیں۔ یونانیوں پر یہ تصور زیادہ تر غالب رہا کہ حقیقت غیر متغیر ہونی چاہیے۔ جہاں تبدل اور تغیر نہیں ہوتا۔ البتہ ایٹموں کی ترکیب یا قرب و بعد سے چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ اس کون و فساد کے قوانین لاشعوری ہیں۔ ان میں اقدار پروری یا مقصد کوشی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو مادے سے نفس کی طرف آئے۔ نفس نے خارج کی طرف سے منہ پھیر کر باطن کا رخ کیا تو ان کو نفس عقل منطقی کا کرشمہ دکھائی دیا۔ خارج کی کائنات بھی عقل سے وجود میں آتی اور اس کی بدولت قائم رہتی ہے۔ باطن کی نفسی کائنات بھی عقل کی بدولت وجود مطلق کا عرفان حاصل کرتی اور افکار و جذبات کی کثرت کو ایک وحدت میں پروتی ہے۔ لیکن عقل بھی کوئی انفرادی چیز نہیں؛ عقل کلیت کی مرادف ہے۔ عقل کا عالم کلیات کا عالم ہے۔ اس میں خودی یا شخصیت یا ارادے کا کوئی سوال نہیں۔ عقل کے تمام کلیات از روئے منطق ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں۔ اشیا اور حوادث کی متغیر کثرت غیر متغیر تصورات سے بہرہ اندوز ہونے کی ناکام اور مضطرب کیفیت ہے۔ خدا عقل نہیں بلکہ خود عقل کل ہے۔ وہ خود ہی اپنے شعور کا معروض ہے۔ اس کو اپنے سوا کسی کا علم نہیں ہو سکتا۔ ماسوا کا حقیقی وجود ہی نہیں اس لیے اس کے علم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انسانی نفوس میں جو خواہشوں اور ارادوں کا عنصر ہے وہ تغیر کے عالم سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا بے حقیقت ہے۔ انفرادی نفس میں حقیقت اتنی ہی ہے جس حد تک کہ وہ عقل کل سے بہرہ اندوز ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت یا مخصوص تقدیر نہیں۔ اس نظریے سے افلاطون اور ارسطو دونوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عقل یا علم اصلی چیز ہے اور عمل اس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ بہترین زندگی عمل اور مقاصد آفرینی کی زندگی نہیں بلکہ عقل کل کا تماشائی ہونا ہے۔ خدا جو تمام وجود کا ماخذ اور نصب العین ہے وہ بھی غیر متحرک اور غیر فاعل ہے۔ دنیا کی زندگی حقیقت کا سایہ ہے یا ہندوؤں کی اصطلاح میں یوں کہیے کہ مایا ہے یا حقیقت کے مقابلے میں بے مایہ ہے۔ اقبال افلاطون کے اس نظریۂ وجود کا شدید مخالف ہے۔ وہ اس کو اساسی طور پر غلط قرار دیتا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ اسی نظریہ وجود کے زیر اثر زندگی سے فرار کے نظریات پیدا ہوئے ہیں جن سے انسانی زندگی ارتقا اور تخلیق سے محروم ہو گئی ہے۔ اقبال کے نزدیک وجود کی حقیقت عقل نہیں بلکہ عمل ہے۔ عقل عمل سے پیدا ہوتی اور اس کا آلۂ کار بنتی ہے۔ اصل حیات تسخیر و تخلیق اور مقاصد آفرینی ہے۔ وجود کی حقیقت ایک اناے مطلق ہے جو خلاق ہے اور یہ ’انا‘ اپنی مسلسل خلاقی میں لاتعداد انا یا نفوس مقاصد کوش پیدا کرتا ہے۔ زندگی جذبۂ آفرینش ہے۔ عمل آفرینش ہی سے اس کو اپنا عرفان حاصل ہوتا ہے اور عمل ہی اس کی لامتناہی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ سکون سے زندگی کا تماشا کرنے سے زندگی کی ماہیت معلوم نہیں ہو سکتی کیوں کہ زندگی ایک مسلسل حرکت ہے اور عقل کے تصورات ازلی طور پر ساکن اور جامد ہیں۔ ساحل افتادہ نہ اپنی ماہیت سے آشنا ہو سکت اہے اور نہ اس دریا کی حقیقت سے جو اس کے آغوش میں متلاطم ہے۔ اقبال نے اپنا یہ نظریہ کس خوبصورتی اور بلاغت سے بیان کیا ہے: ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من کیستم موج ز خود رفتہ اے تیز خرامید و گفت ہستم اگر میروم گر نہ روم نیستم افلاطون کے ہاں موج متحرک ہے، لیکن موج کا عقلی تصور ساکن ہے اور یہ ساکن عقلی تصور متحرک موج کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہے۔تموج کے مقابلے میں اس کا محض تصور قائم کرنا ایک الٰہی انداز ہے۔ عاقل کا وظیفۂ حیات یہی ہونا چاہیے کہ وہ خود تھپیڑے نہ کھائے بلکہ عقل کے ساحل پر بیٹھا ہوا سبکسار ہو کر اس کے غیر متغیر اور غیر متموج تصور میں اپنے تئیں کھو کر اپنی حقیقت کو پائے۔ اقبال کے ہاں زندگی مقدم ہے اور عقل مؤخر۔ زندگی جو کچھ پیدا کرتی ہے عقل بعد میں اس کا جائزہ لے کر اس میں قواعد و ضوابط کو دھونڈتی ہے۔ حریم حیات میں عقل حلقۂ بیرون در ہے۔ وہ آستان سے دور نہیں ہے، لیکن اس کی تقدیر میں حضور نہیں ہے۔ زندگی آپ اپنا نور پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس نور کو اگر عقل نار حیات سے الگ کر کے ایک ازلی مجرد حقیقت سمجھ لے تو معقولات ظلمت کدہ بن جاتے ہیں۔ زندگی کا آب حیات تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اقبال افلاطون کی بابت کہتا ہے کہ: رخش او در ظلمت معقول گم در کہستان وجود افگندہ سم آنچناں افسون نا محسوس خورد اعتبار از دست و چشم و گوش برد اقبال کہتا ہے کہ محسوس کو نامحسوس کے مقابلے میں بے حقیقت قرار دینا انسان کو عالم رنگ و بو سے بے تعلق کر دیتا ہے۔ اسی سے فرار اور گریز پیدا ہوتا ہے اور رہبانیت کو تقویت حاسل ہوتی ہے، جس کی نفس کشی حیات کشی کے مرادف ہے اور اسی لیے اسلام نے مرد مومن کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ قران کریم کی تعلیم ہے کہ مظاہر و حوادث انفس و آفاق آیات اللہ ہیں۔ یہ سراسر حقیقت ہیں؛ نہ باطل ہیں نہ فریب ادراک، اور نہ اس سے گریز کر کے عرفان نفس یا عرفان خدا حاصل ہو سکتا ہے۔ تصوف کے ایک حصے پر افلاطون رنگ چڑھ گیا اور صوفی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ: چشم بند و لب ببند و گوش بند گر نہ بینی نور حق بر من بخند اقبال اس افلاطونی تصوف کے خلف آواز بلند کرتا ہے جو عالم محسوسات کو مایا قرار دے اور خلقت کو باطل ٹھہرائے: بر تخیلہاے ما فرماں رواست جام او خواب آور و گیتی رباست گوسفندے در لباس آدم است حکم او بر جان صوفی محکم است مسلمانوں کے متصوفانہ فلسفے نے افلاطون کے اعیان ثابتہ یا ازلی غیر متغیر معقولات کو اپنے فکر کا جزو لاینفک بنا لیا جس کا نتیجہ اقبال کے نزدیک یہ ہوا کہ صوفی بھی ہنگامہ وجود کا منکر اور اعیان نامشہود کا پرستار ہو کر بود کو نابود اور نابود کو بود کہنے لگا۔ لیکن اس قسم کا گیتی گریز تصور خود سقراط، افلاطون اور ارسطو کی زندگیوں پر کوئی سلبی اثر نہ ڈال سکا۔ یہ تینوں مفکرین اخلاقیات اور سیاسیات پر گہری بحثیں کرتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں کوشاں رہے کہ معاشرے کو زیادہ عاقلانہ اور عادلانہ اصول پر از سر نو تعمیر کیا جائے۔ جماعت کی حکمرانی اور نگرانی سقراط اور افلاطون ایک ایسے منتخب گروہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو عقل اور ایمان کے کماحقہ تحقق کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ سے تزکیہ نفس کر چکے ہوں۔ اقبال نے اسرار خودی میں افلاطون کے نظریہ حیات کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ افلاطون کی زندگی اور اس کی وسعت فکر سے ناآشنا ہیں ان کو اسرار خودی کے اشعار سے یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ افلاطون فرد اور جماعت کے مسائل اور معاملات کو بے حقیقت سمجھتا ہے اور عالم انسانی کو اعیان ثابتہ یا مجرد کی افیون کھلا کر بے حس اور بے عمل بنانا چاہتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے واقعات اس کے بالکل برعکس رہے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید میں اس کی گنجائش نہیں کہ اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا جائے کہ افلاطون سے لے کر آخری معاشرتی انقلاب، یعنی اشتراکیت تک، سوسائٹی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کی جو فکری یا عملی کوششیں ہوئی ہیں وہ کم و بیش افلاطونی فکار سے متاثر ہیں۔ اقبال نے ایام شباب میں اپنے متعلق یہ کہا تھا: اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ سنبل نے، کچھ گل نے، چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری اڑا لی طوطیوں نے، قمریوں نے، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری بعینہٖ یہی کچھ افلاطون کے ساتھ ہوا۔ مشرقی فلسفے کے متلق خواہ کچھ کہیے لیکن مغربی فلسفے کے متعلق تو یہ کہنا نادرست ہو گا کہ وہ تمام کا تمام دنیا سے گریز کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن مغرب کے عظیم نظامات فکر کے متعلق ہائرش رکرٹ جیسے جرمن مفکر اور وہائٹ ہیڈ جیسے انگریزی فلسفی کی رائے ہے کہ یہ سب کے سب افلاطون ہی کی تشریحات ہیں۔ مارکس، لینن، مسولینی اور ہٹلر جیسے معاشرتی انقلاب کی آرزو مند اور اپنے عمل سے دنیا کو تہ و بالا کرنے والے، خواہ اس کا نتیجہ تخریب ہو یا تعمیر، افلاطون ہی کی کتاب سے کچھ کچھ ورق اڑاتے رہے ہیں۔ دوسری طرف رومن کیتھولک کلیسا کی تنظیم بھی بہت کچھ اس کے افکار کا عکس ہے۔ سقراط جس کی زبان سے افلاطون نے اپنا نظریہ حیات بیان کیا ہے، اصلاح معاشرت کی کوشش میں شہید ہو گیا۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اقبال نے افلاطونی افکار ک اثر بعض لوگوں پر اچھا نہیں ہوا اور اس کے نظریہ وجود سے، فرار عین الحیات کا نتیجہ از روے منطق حاصل ہوتا ہے۔ قسم کے حیات گریز تصوف کو اقبال نے مسلمانوں کے لیے افیون قرار ؟؟؟؟ وہ افلاطون سے کہیں زیادہ فلاطینوس اسکندری سے حاصل کردہ ہے، جس کے افکار کا اسلامی فلسفۂ اشراق اور عیسوی تصوف پر گہرا نقش نمایاں ہے۔ افلاطون راہب نہیں تھا اور نہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے متوازی اور متناسب طور پر لطف اٹھانے والے یونانی اس مزاج کے تھے۔ وہ خود بھی اپنے مجرد تصورات میں گم ہو کر علائق حیات سے بے تعلق نہیں ہوا۔ اس کا گھر ایتھنیا کی تمام علمی زندگی کا مرکز تھا۔ ایسے شخص کے متعلق جو عدل کا ایک انقلابی تصور قائم کر کے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں سائرا کیوز کی ریاست سے خارج کیا گیا ہو اور بحری ڈاکوؤں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ہو، یہ کہنا ناانصافی معلوم ہوتی ہے کہ: ذوق روئیدن ندارد دانہ اش از طپیدن بے خبر پروانہ اش راہب ما چارہ غیر از رم نداشت طاقت غوغاے ایں عالم نداشت دل بسوز شعلۂ افسردہ بست نقش آں دنیاے افیوں خوردہ بشت حقیقت یہ ہے کہ اس نے زندہ قوموں کو ذذوق عمل سے محروم نہیں کیا اور ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ سے محروم اور بے عملی یا بدعملی سے مسموم ہو چکی تھیں، انہوں نے افلاطونی افکار کی انحطاط انگیز تاویل کر لی۔ افلاطونی فلسفے کا بھی اسی قسم کا حشر ہوا جو اسلام میں نظریۂ تقدیر کا ہوا۔ جب تک مومنوں میں قوت ایمان، قوت عمل اور تنظیم حیات صالحہ موجود تھی اس وقت تک تقدیر کا تصور ان کی قوت عمل و ایثار کو تقویت پہنچاتا تھا۔ اس کے بعد عشرت پسندوں اور تن آسانوں نے ترک سعی کو توکل سمجھ لیا اور سب کچھ مقدر ہونے کی وجہ سے سعی کو بے کار جاننے لگے۔ اس میں قرآن کریم کی تعلیم تقدیر کا قصور نہ تھا، بے عملی نے اپنی غلط تاویلوں کو اسلامی بنا لیا تھا۔ اقبال کے معاصرین میں خودی کے فلسفے کو پیش کرنے والے اور بھی اکابر مفکرین ہیں جن کے افکار سے اقبال پوری طرح آشنا تھا۔ ان میں سے بعض کا مداھ اور بعض سے کم و بیش متاثر بھی تھا۔ نطشے، فشٹے، گرگساں اور ولیم جیمز کے نظریات ماہیت وجود بہت کچھ وہی ہیں جو اقبال کی تعلیم میں بھی ملتے ہیں۔ اس سے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال ان کا مقلد تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے ان مفکرین سے بہت کچھ ھاصل کیا لیکن یہ اقبال کے کمال پر کوئی دھبا نہیں۔ اقبال ان سب سھ کسی ایک پہلو میں متفق ہے اور کسی دوسرے اساسی پہلو میں شدید اختلاف رائے بھی رکھتا ہے۔ جہاں تک نطشے کا تعلق ہے، میں اس کے متعلق اپنے مقالے ’’نطشے، رومی اور اقبال‘‘ (مطبوعہ انجمن ترقی اردو) میں مبسوط بحث کر چکا ہوں جسے یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ اقبال کا ایک مخصوص انداز فکر اور نظریۂ حیات تھا۔ اس نخل کی پرورش اس نے مختلف عناصر سے کی۔ ان میں سے کچھی عناصر خاص قرآنی تعلیم کے ہیں، کچھ رومی کی صوفیانہ تاویل اور روحانی تجربے کے، کچھ مغرب کے ان مفکرین کے افکار کے، جن کا اقبال ہم نوا ہے یا جو اقبال کے ہم صفیر ہیں۔ اقبال کا مغربی فلسفے کا مطالعہ نہایت وسیع اور گہرا تھا۔ اس میں سے جو کچھ اس کے خاص فلسفۂ حیات کے مطابق تھا اس نے اخذ کیا اور جو کچھ اس سے متخالف تھا اس کو رد کر دیا۔ اقبال جیسے کسی مفکر کا کلام ہو یا کوئی مذہبی صحیفہ ہو، اس کی خوبی اور کمال یہ نہیں ہوتا کہ اس میں ہ باتیں درج ہیں جو دوسروں نے نہ کہی ہوں۔ پہلی تعلیموں کے بیش بہا عناصر اس میں موجود ہوتے ہیں، لیکن ان کی ترکیب ایک نئے حیات آفریں انداز سے ہوتی ہے۔ سنگ و چوب و خشت ہر تعمیر میں کم و بیش ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن مہندس اور معمار کاکمال اپنے ہنر اور تصور سے اس میں مخصوص قسم کی آسائش اور زبیائش پیدا کر دیتا ہے۔ گوئٹے نے ایکڑمن سے دوران گفتگو میں ایک مرتبہ کہا، کہ ’’لوگ بڑے بڑے مفکرین کے افکار کا تجزیہ کرنے لگ جاتے ہیں، اور الگ الگ ایک ایک عناصر کا ماخذ بتانا ان کا شیوۂ تحقیق ہوتا ہے، لیکن کیا اس سے ایک بڑے فن کار یا مفکر کی انفرادی شخصیت یا اس کی مخصوص اپج کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص گوئٹے کی تحلیل اور تجزیہ اس طرح کرے کہ اس نے اتنے بکرے، اتنی سبزی ترکاری اور اتنی گندم کھائی؛ اس سب کو ملا کر گوئٹے بن گیا۔ لہٰذا گوئٹے کی ماہیت سمجھ میں آگئی‘‘۔ اسرار خودی میں جیاس کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، ان مفکرین مغرب کے افکار کو پر تو نظر آتا ہے جو اقبال کے ہم مزاج ہویں اور جن کے افکار کسی پہلو کو اقبال نے اپنے نظریۂ حیات کا مؤید سمجھا ہے۔ مثلاً اس بیان میں کہ اصل نظام عالم خودی ہے اور تعینات وجود کی ذمہ ار بھی خودی ہے، وہ مشہور جرمن فلسفی فشٹے کا ہم نوا ہو کر کہتا ہے کہ کائنات کا وجود یا پیکر ہستی خودی ہی کا نتیجہ ہے۔ عالم ادراک اور عالم آب وگل یا تصوف کی زبان میں یوں کہیے کہ ما سوا کا وجود خدا کی خودی سے سرزد ہو اہے۔ خودی کی ماہیت خلاقی اور ورزش ارتقا ہے۔ نفی اثبات خود اثبات کا تقاضا ہے۔ جس غیر کو خودی نے اپنے ممکنات وجود کو ظہور میں لانے کے لیے خلق کیا ہے وہ ایک لحاظ سے غیر ہے اور د وسرے لحاظ سے خودی ہی کا مظہر ہے: صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیہ است از اثبات او درجہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پنداشت است سازد از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را اقبال کہتا ہے کہ یہ ایک طرح خودی کی خود فریبی ہے،۔ اقبال جس خودی کا ذکر کرتا ہے وہ انسانوں کے انفرادی انا کی خودی ہی نہیں بلکہ خدا کی خودی ہے، جو مصدر خلقت ہے۔ مسلمہ اسلامی عقیدۂ توحید عام طور پر اس انداز سے بیان نہیں ہوتا۔ اسرار خودی کے عام قارئین نے اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی کہ اقبال جس مطلق خودی کا ذکر کر رہا ہے وہ وجود مطلق اور ذات واجب الوجود کی ماہیت ہے۔ لیکن خدا کی نسبت مومن یہ کس طرح گوارا کرے گا کہ اس قسم کے عقائد بیان ہوں کہ آفرینش حیات و کائنات سے خدا نے ورزش ارتقا کی خاطر تخم خصومت بویا ہے اور عالم آفرینی ایک طرح کی خود فریبی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے ہاں وجود سرمدی کا تصور عام توحید پرستوں سے بہت کچھ الگ ہو گیا ہے۔ خدا ’الان کماکان‘ بھی ہے اور ’کل یوم ہو فی شان‘ بھی ! اقبال نے خدا کا لا تبدیل سرمدی پہلو نظر انداز کر دیا ہے اور مسلسل تغیر اور ارتقا اور لامتناہی خلاقی کی صفت اس پر بہت زیادہ منکشف ہوئی ہے۔ وہ صوفیائے کرام کے اس مقولے یا روحانی تجربے کا بھی شیدائی ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ وجود کے یکے بعد دیگرے آنے والے کوئی دو کوائف ہم رنگ نہیں ہوتے۔ خلاقی کا قدم ہر دم آگے ہی کی طرف اُٹھتا ہے۔ ذات مطلق کی خودی کو اپنی تکمیل مقصود ہے۔ اپنے اثبات اور ارتقا کی خاطر وہ ہستیوں کو وجود میں لاتی اور ساتھ ہی ساتھ مٹاتی بھی جاتی ہے۔ زندگی کے طویل ارتقا میں لا تعداد اقسام کے پھول معرض وجود میں آکر نابود ہو گئے ہوں گے، پیشتر اس کے کہ گلاب کا ایک پھول ظہور میں آسکے۔ حیات و کائنات میں جو درد و کرب، جور و ستم اور شر دکھائی دیتا ہے اقبال کا نظریۂ خودی اس کی ایک توجیہ ہے۔ عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی خلق و تکمیل جمال معنوی صدیوں سے اسلامی تصوف میں ’وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدرفروعی اختلافات کے ساتھ، اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیلم میں ملتا ہے، اقبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان خیر و شر اور تمام حوادث کو ایک ذات کا م ظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے یا بقول ولیم جیمز وحدت وجود میں خیر و شر یک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن اقبال کے ذہن میں وحدت وجود کا نظریہ دوسرے رنگ میں ابھرتا ہے۔ ہستی مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ ’ما سوا‘ اس کے اظہار ذات کے لیے ضروری ہے۔ لیکن ماسوا بھی خدا کے سوا کچھی نہیں۔ اگرچہ عمل کی خاطر خدا اس کو اپنا غیر سمجھ لیتا ہے کیوں کہ یہ خود فریبی عین حیات اور باعث تکمیل حیات ہے ورنہ اصلیت یہ ہے کہ: می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل خیزد، انگیزد ، برد، تابد، زمد سوزد، افروزد، کشد، میرد، دمد بظاہر یہ اناز بیان اس سے کچھ زیادہ متمائز معلوم نہیں ہوتا جسے ایک قدیم وحدت الوجودی صوفی وجد و مستی میں آکر گاتا ہے کہ: خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ خود بر سر آں کوزہ خریدار بر آمد بشکست و رواں شد اقبال کے ہاں ذات مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ خودی ایک انا یا ایغو کے بغیر متصور نہیں ہو سکتی۔ اس مطلق خودی نے ذوق نمود اور ورزش وجود میں اپنے اندر سے لاتعداد انا یا ایوغو یا خودی کے مراکز خلقکیے ہیںَ یہ یہ تصور مشہور حدیث قدسی کے اس تصور سے کسی قدر مشابہ ے جس میں اللہ تعالی اپنی ذات کے متعلق یہ انکشاف کرتا ہے کہ ’’کنت کنزاً مخفیا فاجیت ان اعرف فخلقت الخلق‘‘۔ (میں ایک خزینۂ پنہاں تھا؛ میں نے چاہا کہ میں ظاہر ہوں اور پہچانا جائوں اس لیے میں نے خلقت کو خلق کیا): وانمودن خویش را خومے خودی است خفتہ در ہر ذرہ نیروے خودی است خودی کی ماہیت کو جاننا عرفان نفس بھی ہے اور عرفان رب بھی اور اس عرفان میں یہ واضح ہو جارتا ہے کہ زور خودی سے حیات عالم وابستہ ہے اور ہر انفرادی نفس کی استواری اس کی زندگی کی ضامن ہے۔ جو قطرہ شبنم بنتا ہے وہ چند لمحوں میں خودی کے ضعف کی وجہ سے نابود ہو جاتا ہے۔ جو قطرہ اشک بنتا ہے وہ ٹپک کر ناپید ہو جاتا ہے،لیکن جو قطرہ صدف نشیں ہو کر اپنی خودی کو مستحکم کر للیتا ہے وہ گوہر بن جاتا ہے، جس کی موج نور تلاطم قلزم میں بھی منتشر نہیں ہوتی۔ اقبال فطرت کے مظاہر میں اپنے اس نظریے کی بہت سی دلکش مثالیں پیش کرتا ہے۔ زمین کا وجود قمر کے مقابلے میں محکم تر ہے اس لیے چاند اس کے گرد طواف کرتا ہے۔ سورج زمین کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے، اس لیے زمین اس سے مسحور ہو کر اس کے گرد چکر کاٹتی رہتی ہے۔ اقبال رہبانیت کے خلاف جہاد کرتا ہے اور جتنے رہبانی تصورات عجمی تصوف کے راستے سے اسلامی افکار کا جزو بن گئے ہیں، ان سے وہ ملت کا دامن چھڑانا چاہتا ہے۔ قناعت اور توکل اور تسلیم و رضا کے کے غلط معنی لے کر مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہو گیا کہ نفس کشی کے معنی تمام آرزوئوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ انسان جتنا بے آرزو اور بے مدعا ہوتا جائے اتنا ی خدا کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ غالب نے یہی متصوفانہ خیال اس شعر میں ظاہر کیا ہے کہ: گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ اسی سے ملتا جلتا صائب کا ایک شعر ہے: حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن از شیشۂ بے مے مئے شیشہ طلب کن یہ خیال ہنو م ت اور بدھ م ت کی الہٰہیات میں بھی ایک مسلمہ بن گیا تھا کہ اپنی خودی کو صفر کر دینے سے انسان خدا کا ہم ذات ہو جاتا ہے یا خود خدا بن جاتا ہے۔ بھوکت گیتا میں ارجن کرشن سے پوچھتا ہے کہ تم خدا کیسے بن گئے؟ وہ جواب دیتا ہے: سن از ہر سہ عالم جدا گشتہ ام بہی گشتہ از خود خدا گشتہ ام (ترجمہ ٔفیضی) اقبال کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خود خدا کی ماہیت خودی ہے اور خودی کی ماہیت مقصد آفرینی اور مقصد کوشی۔ ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق انسان کو بھی ت خلیق م قاصد سے اپنی خودی کو استوار کرنا چاہیے۔ اس تعلیم میں وہ اپنے مرشد رومی کا ہم خیال ہے۔ رومی کہتا کہ زمین و آسمان کی خلقت حاجت کی پیدوار ہے۔ حاجت ہی سے ہستی کی آفرینش اور اس کا ارقا ہوت اہے۔ اس لیے وہ نصیحت کرتا ہے: پس بیفزا حاجت اے محتاج زود اسی خیال کو اقبال نے طرح طرح کے لطیف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ مثلاً: زندگانی را ب قا از مدعا ست کاروانش را درا از مدعا ست زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے۔ عالم آب و گل اور جہان رنگ و بو سب آرزو کے رہین اور امین ہیں۔ فلسفۂ جدید میں ارتقا کے طرح طرح کے نظریات پیدا ہوئے۔ ان نظریات میں سے برگساں کا نظریۂ ارققائے تخلیقی اقبال کے خیالات کے عین مطابق ہے۔ اعضا سے وظائف اعضا پیدا نہیں ہوتے بلکہ حیات کی ارتقائی تمانئیں اعضا و آلات مں صورت پ؎ذیر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ آنکھ ڈاروینی اتفاقات اور میکانکی توافق سے بن گئی اور اس سے بینائی ممکن ہو گئی۔ اقبال کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ یہاں برعکس ہے۔ لذت دیدار اور شوق بینش نے آنکھ بنائی ہے؛ ذوق رفتار نے پائوں بنائے ارو ذوق نوا نے منقار۔ اقبال نے اسرار خودی میں بھی اور بعد کے کلام میں بھی سینکڑوں دلکش اور بصیرت افروز اشعار عشق اور عقل کے موازنے اور مقابلے میں لکھے ہیں ۔ یہ صوفیہ او بعض حکما کا قدیم مضمون ہے، لیکن اس مسئلے یہاں ایک لائن موجود نہیں ہے۔ یہ اس کا خاص مضمون بن گیا ہے اور اس مضمون کے ہر شعر میں اقبال کے کلام حکمت کے ساز کے ساتھ وجد و مستی کا سوز توام ہو گیا ہے۔ میلان حیات اور آرزوئے ارتقا اس کے ہاں ماہیت وجود ہیں۔ یہی اصل ہیں اور باقی جو کچھ ہے، عقل ہو یا علوم و فنون یا آئین و رسوم، سب کی حیثیت فروعی ہے۔ صحیفۂ وحی آسمانی ہو یا صحیفۂ فطرت، اس علم الوجود یا علم الکتاب کے مقابلے میں عق ام الکتاب ہے۔ اصل ماخذ زندگی اور اس کی سعی تکمیل ہے۔ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام حیوانیہ یا شعور و ادراک، یہ سب زندگی نے اپنی بقا کے لیے آلات بنائے ہیں۔ علم و فن خود مقصود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں۔ یہ سب کچھ نمود ہے بود نہیں: علم و فن از پیش خیزان حیات علم و فن از خانہ زادان حیات انسان کا کام صحیفۂ کائنات کی تفسیر نہیں بلکہ موجودات کی تسخیر ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ ما سوا کی تسخیر کرے اور خود اپنے آپ کو مسخر ہونے سے بچائے اور ماسوا کی تسخیر سے آگے قدم بڑہاتا ہوا اس وقت تک دم نہ لے جب تک کہ خدا یعنی ذات مطلق کی خودی کو مسخر کر کے اپنا نہ لے۔ اس بارے میں بھی وہ رومی کا ہم آہنگ ہے، جو کہتا ہے: زیر کنگرۂ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر اسی مضمون کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں ڈھالا ہے: در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ اقبال کے ہاں خودی اور عشق کے م ضامین ہم معنی ہیں۔ ایک ہی چیز ہے جس کو کبھی وہ خودی کہتا ہے اور کبھی عشق، اگرچہ اسرار خودی میں اس نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ’ خودی عشق سے استوار ہوتی ہے۔‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودی جس عشق سے استوار ہوتی ہے وہ کسی ہستی یا کس چیز کا عشق ہے۔ کیا خودی کو اپنے سے خارج کسی محبوب کو تلاش کرنا ہے یا خودی کے خود اپنے میلانات کے اظہار کا نام عشق ہیہ۔ اقبال کے نزدیک خودی کے اندر لامتناہی ممکنات مضمر ہیں۔ خودی کو استوار کرنا ان ممکنات کو بطون سے شہود میں لانا ہے۔ عشق خودی ارتقا طلب ہے۔ وہ ہر حاصل شدہ کیفیت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے ارتقا سے عشق ہے: ھست معشوقے نہاں اندر دلت چشم اگر داری بیا بنمایمت عاشقان او ز خوباں خوب تر خوشتر و زیبا تر و محبوب تر ہاں ایک طرق خودی کی استواری کا، جس کا اقبال بڑی شدت کے ساتھ قائل ہے، یہ ہے کہ جن ہستیوں نے اپنی خودی کے ممکنات کو وجود پذیر کیا ہے ار اپنی خاک کو رشک افلاک بنایا ہے ان سے عشق پیدا کیا جائے۔ ایسے بزرگوں کے عشق سے انسان کی خودی فرومائگی نہیں بن جاتی بلکہ معشوق کی خودی کا رنگ عاشق پر چڑھ جاتا ہے۔ انبیا کا کام یہ نہیں ہوتا کہ امت کے افراد کی خودی کو عجز میں تبدیل کر دیں۔ انبیا خود احرار ہوتے ہیںاور و انسانوںکو ہر قسم کی غلامی سے چھڑا کر مردان ھر بنانا چاہتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شبستان حرا میں خلوت گزیں ہو کر اپنی خودی کے جوہر کو چمکایا ۔ قوم و آئین و حکومت اسی جوہر کی کرنیں ہیں۔ دین کا جوہر ان معنوں میں عشق یا محبت ہے کہ مرد مومن تمام افراد اور اشیا سے قلبی تعلق پیدا کر کے کائنات کی خودی کی وحدت کا ثبوت دیتا ہے؛ دوسرں سے محبت کرتا اوردوسروں کو اپنا ہم ذات سمجھتا ہے اس طرح سے محبت کے ذریعے خودی قومی تر اور وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔خودی کا اصل انداز عمل مخاصمانہ یا رقیبانہ نہیں بلکہ عاشقانہ ہے۔ خودی کے ضمن میں اقبال نے یہ تحقیق کی ہے کہ نفی خودی کی تعلیم یہاں لائن نہیں ہے۔ تحقیق میں اقبال نطشے سے متفق ہے کہ یہ انحطاط یافتہ اور مغلوب اقوام کی ایجاد ہے۔ جن اقوام کے قواے حیات سست پڑ جاتے ہیں، ان سست عناصر اقوام کو قوی اور جلیل اقوام کے مقابلے میں زندہ رہنے کی کوئی ترکیب سوچنی پڑتی ہے۔ زبردست اقوام تسخیر پسند ہوتی ہیں۔ زبردستوں کے ہتھیار اور ہوتے ہیں اور کمزوروں کے ہتھیار اور۔ کمزور کبھی تو فریب اور خوشامد سے کام نکالتا ہے اور کبھی وہ ایسے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے جس سے اس کی کمزوری ذلت کی بجائے فضیلت دکھائی دینے لگے۔ اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے وہ فقر کو سراہنے لگتا ہے۔ ہمت کو دنیا طلبی اور عجز کو روحانیت کے رنگ میں پیش کرتا ہے۔ اپنی تعلیم میں وہ ایسی دلکشی اور لطافت پیدا کرتا ہے کہ اہل ہمت بھی یہ افیون کھانے لگتے ہیں۔ یہ مضمون نطشے کا خاص مضمون ہے اور اس نے اسی نقطۂ نظر سے عیسائیت پر اور اس کے پیدا کردہ اخلاقیات پر بھرپور وار کیا ہے۔ عیسوی رہبانیت کی یہ تعلیم کہ جنت ضعیفوں اور عاجزوں کو ملے گی اور صاحبان ہمت و ثروت و جبروت اس میں داخل نہ ہو سکیں گے، نطشے کے نزدیک نوع انسان کو قعر مذلت میں دھکیل گئی اور مغرب میں شیروں کو بکرا بنا گئی: جنت از بہر ضعیفان خسران است و بس قوت از اسباب خسران است و بس جستجوے عظمت و سطوت شر است تنگدستی از امارت خوشتر است یہ سازش مغلوب اور کمزور اقوام، کسی شعوری تدبیر اور تنظیم سے نہیں کرتیں بلکہ ان کی کمزوری غیر شعوری طور پر ان کے تحفظ کے لیے یہ آلات وضع کرتی ہے۔ اقبال نے کہیں عجمی تصورات کو اور کہیں افلاطوتی ن؟ظریات کو، ادبیات و حیات اسلامی کو مسموم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلامی سیاست کی تاریخ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور بعض گروہوں نے، اسلام سے مغلوب ہونے اور ظاہر میں اسلام کو قبول کرنے کے بعد اس کی (لائن نظر صحیح نہیں آرہی مسودہ میں) لطیف ذرائع اختیار کیے۔ بعض تصورات فلسفے اور تصوف کے انداز میں پیش کیے گئے اور بعض تصورات موضوع احادیث نبوی کے پیرایے میں۔ متحققین حدیث نے ان مخترعات اور موضوعات کو بہت کچھ چھانٹا لیکن اس کے باوجود بعض ایسی چیزیں مروجہ طور پر مسلم احادیث میں ملتی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ یہ غیر اسلامی تصورات کو اسلام میں داخل کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ عام ادبیات اسلامیہ میں ایسے ایسے زوایاے نگاہ مسلمات میں داخل ہو گئے ، جنھوں نے مسلمانوں کو ندگی کی جدوجہد سے باز رکھا۔ قناعت پرستی، لذت پرستی، سکون پرستی، قطع علائق، انسان کو خودداری سے محروم کرنے والے تصورات عشق، ہوس پرستی، مصنوعی محبت ادبیات کا تار و پود بن گئے۔ ایسا ادب قوم کے انحطاط کی علت بھی ہے اور اس کا م علول بھی۔ کسی قوم کا ادب اس کی زندگی اور اس کی تمنائوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جب قوم پس ہمت اور سست عناصر ہو جائے تو ادب میں زندگی کی گرمی اور عمل کا جوش نظر نہیں آتا۔ عاشق خوددار کی بجائے ’’آوارۂ مجنونے رسوا سر بازارے‘‘ انسانیت کا دلکش نمونہ بن جاتا ہے۔ فارسی ار اردو کا عام تغزل زیادہ تر اسی انحطاط کا آئینہ دار ہے۔ ایسی شاعری کے خلاف پہلے حالی نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ قیامت کیروز باقی گنہگار تو چھوٹ جائیں گے، لیکن ہمارے شعرا کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حالی نے کسی خاص شاعر کو چن کر ہدف ملامت نہیں بنایا تھا؛ اس کی تنقیدزیادہ تر عام تھی۔ لیکن اقبال نے جوش اصلاح میں حافظ پر شدیدحملہ کر دیا کہ اس کا کلام مسلمانوں کے لیے افیون کا کام کرتا ہے: مار گلزارے کہ دارد زہر ناب صید را اول ہمی آرد بخواب مسلمان حافظ کو ولی اللہ اور لسان الغیب سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی طرح حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ اس کی شراب کو شراب م عنوی سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا مجاز حقیقت کا پردو دار ہے۔ لیکن مجاز میں حقیقت کی جھلک دیکھنے والے کم ہیں اور عشق کو ہوس بنانے والے زیادہ۔ اگر کوئی لذت پرست شخص حافظ علیہ الرحمۃ کا کلام پڑھے تو اس کو اپنی لذت پرستی یا جھوٹی مستی کے لیے بہت کچھ جواز مل جائے گا۔ اقبال کا رویہ دیوان حافظ کے بارے میں اورنگ زیب عالمگیر کے زاویۂ نگاہ کے مشابہ ہے، جس کے متعلق روایت ہے کہ وہ لوگوں کو دیوان حافظ کے پڑھنے سے روکتا تھا۔ اگرچہ اس روایت کے ساتھ یہ بھی ہے کہ خود اسے اپنے تکیے کے نیچے رکھتا تھا۔ جب لوگوں کی طرف سے لے دے ہوئی تو اقبال نے حافظ پر جو تنقید کی تھی، اس کو دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دیا۔ اقبال کہتا ہے کہ عرب کے کلام میں حقیقت پروری اور ہمت افزائی تھی۔ اس میں صحرا کی گرمی اور باد صر صر کی تندی تھی۔ عجمی افکار و جذبات نے اسلامی ادب کو زندگی کی قوتوں سے بیگانہ کر دیا ۔ نقد سخن کو ہمیشہ معیار زندگی پر پرکھنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح علم براے علم ایک لایعنی شغل ہے اسی طرح فن برامے فن بھی نخل حیات کی ایک بریدہ اور افسردہ شاخ ہے اسلامی ادبیات کی تنقید کے بعد اقبال نے تربیت خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی خود سری نہیں ہے۔ حکمرانی کے لیے پہلے حکم برداری کی مشق مسلم ہے۔ جس نے خود اطاعت کی مشق نہ کہ ہو وہ دوسروں سے اطاعت طلب کرنے کا بھی حق نہیں رکھتا۔ انسان کو خدا اختیار ورزی کی مشق کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ فطرت کے جبر سے نکل کر اپنے اختیار سے فضیلت کوش اور خدا طلب بن سکے۔ اصل مقصد اطاعت کو اختیاری بنانا ہے۔ ایک عارف کا قول ہے کہ ہمیں اختیار اس لیے عطا کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کا ہمکنار کر کے جبر و اختیار کا تضاد محو کر دیں۔ فرمان پذیری کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی فطرت کے نصب العین کی ہے۔ اسی مضمون کو اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے: در اطاعت کوش اے غفلت شعار لائن مس ہے مسودہ میں جب انسان اپنے اختیار سے اپنی سیرت کو مستحکم کر چکتا ہے تو وہ ایک منظم آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیار جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے، لیکن اس میں آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیاری جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے، لیکن اس میں آئین سے سر گردانی کی کوئی طاقت یا میلان نہیں۔ بقول مرذا غالب: گر چرخ فلک گردی سر بر خط فرماں نہ ور گوے زمیں باشی وقف خم چوگاں شو اسی طرح ضبط نفس سے نفس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواہشوں کے تھپیڑے کھاتے رہنے سے نفس اور جسم کی قوتیں منتشر ہو جاتی ہیں اور کسی ایک مرکز پر ان کو مرکوز کرنے سے کرنوں میں جو حدت پیدا ہو سکتی ہے، نفس اس قوت اور حرارت سے محروم رہتا ہے۔ اقبال کے ہاں خودی کا تصور در حقیقت قرآن کریم کے نیابت الہی کے تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتانہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک ، ذرہ و خورشید، سب سربسجود ہیں۔ قرآن کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کا گیا ہے وہ بھی مسجود ملائک ہے، جس طرح خدا خود مسجود ملائک ہے۔ اس ظاہری تضاد سے توحید میں کوئی خلل وقع نہیں ہوتا۔ جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح سے اس کی سیاست کو شجھنے والا اور تہہ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اگرچہ سرچشمۂ اقتدار بادشاہ ہوتا ہے لیکن رعایا کو نائب کی اطاعت اسی طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی۔ انسان کا نصب العین یہ ہے کہ شمس و قدر، شجر و حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنھیں ملائکہ کہتے ہیں، سب کے سب اس کے لیے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مشیت ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے۔ اسی قوت تسخیر کی کوئی حد نہ ہو گی۔ نباتات و حیوانات اور اجرام فلکیہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ ، انبیا اور آخر میں خدا کے ساتھ ہم کنار ہو سکے گا۔ یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے یہ نائب حق ترقی کرتا ہوا، جزو و کل سے آگاہ کرتا ہوا، قائم بامراللہ ہو جائے گا۔ اس نائب حق یا خلیفۃ اللہ کی فطرت صرف موجودہ عالموں ہی کی تسخیر نہیں کرے گی بلکہ وہ خدا کی خلاقی سے بہرہ اندوز ہو کر ہژدہ ہزار جدید عوالم بھی وجود میں لا سکے گا۔ اس کی فطرت لامتناہی ممکنات سے لبریز ہو گی جو نمود کے لیے بیتاب ہوں گے: فطرتش معمور و می خواہد نمود عالمے دیگر بیارد در وجود صد جہاں مثل جہان جزو و کل روید از کشت خیال او چوگل یک نقاد نے کہا ہے کہ اقبال نے نیابت الہٰی کے پردے میں انسان کو خدا بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے جوش میں آکر ایسے اشعار لکھے ہیں جہاں انسانیت اور الوھیت کے ڈانڈے ملے ہوئے معلوم ہوتے ہیں: از قم او خیزد اندر گور تن مردہ جانما چوں صنوبر در چمن ذات او توجیہ ذات عالم است از جلال او نجات عالم است جلوہ ہا خیزد ز نقش پامے او صد کلیم آوارۂ سیناے او ایسے اشعار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ عبودیت میں کامل ہو کر اور خدا کی ذات کو اپنی ذات میں سمو کر بندہ جو فعل کرتا ہے اس کے اس فعل میں اور خدا کے فعل میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ’’مارمیت‘‘ کی آیت کے علاہ بھی اور کئی آیات اس نظریے کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاہ قدیم اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اخلاق الہٰیہ ہی ہیں اور صفات کو ذات سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے کو اقبال کے مرشد رومی نے ایک تشبیہ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ لوھا آگ میں پڑ کر آگ کا ہم شکل اور بہت حد تک اس کا ہم صفت ہو جاتا ہے۔ بہت سے کام جو آگ کر سکتی ہے وہ ایسی حالت میں لوہا بھی کرسکتا ہے۔ لوہا ایسی حالت میں اگر ’من آتشم‘ کہہ اٹھے تو غلط نہ ہو گا۔ اگرچہ اس ہم صفتی کے باوجود خدا اور ’’تخلقوا باخلاق اللہ ‘‘ پر کاملاً عممل کرنے والے بندے میں پھر بھی خالق و مخلوق کا ذاتی امتیاز باقی رہے گا۔ یہ نائب حق کسی بنے بنائے عالم کے ساتھ توافق کی کوشش ہی میں نہیں لگا رہتا، وہ شکوۂ فلک میں آہ و زاری نہیں کرتا رہتا، بلکہ زمین و آسمان کو متزلزل کر کے ’’فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم‘‘ کے لیے بھی آمادہ ہوتا ہے: گر نہ سازد با مزاج او جہاں می شود جنگ آزما با آسماں برکند بنیاد موجودات را می دھد ترکیب نو ذرات را گردش ایام را برھم زند چرخ نیلی فام را برہم زند مغرب میں اقبال کے شباب سے کسی قدر پیشتر نطشے نے بڑے زور شور سے فوق البشر کا تخیل نیم شاعرانہ، نیم حکیمانہ اور کسی قدر مجذوبانہ انداز میں پیش کیا تھا جس کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ نوع انسان ایک بہت گئی گزری مخلوق ہے۔ عجز و انکسار کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم نے اس کے اقدر حیات کو پلٹ کر انسان کو راضی بہ تذلکل اور م ائل بہ انحطاط کر دیا ہے۔ فعلیت کی بجائے انفعال کو سراہا جاتا ہے۔ تنازع للبقا میں حیوانی انواع محض افزائش قوت کے اصول پر عمل کرتی ہوئی امیبا سے انسان تک ترقی کر چکی ہیں۔ زندگی سراسر ایک پیکار ہے۔ قوت زندگی کی ایک اساسی قدر ہے۔ ضعف پروری سے زندگی کے عناصر سست پڑ جاتے ہیں۔ رحم کوئی فضیلت نہیں بلکہ حیات کش ہونے کی وجہ سے ایک مذموم صفت ہے، جو کمزوروں کی اخلاقیات نے اپنی حفاظت کے لیے ایجاد کی ہے۔ رحمن و رحیم خدا بھی بے کار ہے اور رحیم انسان بھی غلامانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ موجودہ نوع انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو منسوخ کر کے ایک نئی نوع کے خواص پیدا کرے۔ زندگی کو فوق البشر انسان کا انتظار ہے، جس کی اخلاقیات موجودہ اخلاقیات سے بالکل برعکس ہوں گی۔ وہ تمام اقدر حیات کی نئی تقدیر کرے گا اور اپنی قوتوں میں اضافہ کرنے میں وہ تیغ بے دریغ ہو گا۔ وہ زندگی سے فرار نہیں کرے گا بلکہ اس کا مقابلہ کر کے اپنے ممکنات کو معرض شہور میں لائے گا۔ وہ سخت کوش ہو گا، مشکل پسند ہو گا اور خطرات سے غذا حاصل کرے گا۔ نطشے خدا کا منکر تھا اور تمسخر سے کہتا تھا کہ لوگوں کو ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ خدا مر چکا ہے۔ اس کے ہاں نفس یا روح کا تصور بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مادی یا جسمانی یا حیوانی قوتوں کا مظہر ہے۔ حقیقت میں اس کو شکایت بیہ تھی کہ انسان اچھا حیوان نہیں رہا۔ اچھا حیوان ہو تو شیر کی طرح ہو، جس کے دین میں قوت کے سوا اور ک وئی آئین نہیں۔ عجز و انکسار کی تعلیم بکروں کی ایجاد ہے، تاکہ شیروں کے دانت خالص گیاہ خوری کرتے کرتے اپنی تیزی کھو بیٹھیں اور کمزور حیوانوں کو اس طرح شیروں کے جور و تظلم سے نجات مل جائے۔ اسرار خودی لکھنے کے زمانے میں اقبال نطشے کے افکار کے ایک پہلو کا مداح تھا۔ ضعف پسندی اور ن فی خودی کا اقبال بھی مخالف تھا اور نطشے بھی۔ تہذیب فرنگی کا نطشے بھی ایسا ہی مخالف تھا جیسا کہ اقبال۔ انحطاط اور پستی اور ضعف خودی کے متعلق اقبال اور نطشے کی زبان بہت ملتی جلتی ہے اور اسرار خودی میں بعض افکار اور بعض مثالیں نطشے سے ماخوذ ہیں۔ لیکن دوسرے لحاظ سے اقبال اور نطشے میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں مٰں افکار کے ایک پہلو کی ظاہر مناسبت ہے۔ یہ سرسری اور ظاہری مناسبت تو منصور حلاج اور فرعون میں بھی پائی جاتی ہے۔ منصور ن ے بھی اناالحق کہا اور فرعون نے بھی اناالحق کہا؛ لیکن دونوں کا انا بھی الگ تھا اور دونوں کا حق کا تصور بھی الگ۔ ویسے تو مولان روم اور نطشے کے افکار میں بھی ظاہری مماثلت مل سکتی ہے۔ مولانا بھی آرزو مند ہیں کہ موجودہ انسان اپنی موجودہ مادہ پسندی اور حیوانیت سے اوپر اٹھ جائے اور ایک نئی مخلوق بن جائے۔ مولانا کی ایک طویل غزل میں سے اقبال نے تین اشعار اس تصور کے منتخب کر کے ان کو مثنوی کا فاتحۃ الکتاب بنایا ہے۔ الفاظ کا ظاہر ایسا ہے کہ نطشے بھی سنتا تو پھڑک اٹھتا اور کہنے لگتا کہ میں بھی تو یہ چاہتا ہوں: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست زیں ہمرھان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گست آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست الفاظ کہ ہم آہنگی کے باوجود رومی اور نطشے میں خاک و افلاک کا فرق ہے۔ ایک انسان کو الوھیت کا دامن چھونے کے لیے افلاک پر پہنچانا چاہتا ہے اور دوسرے کے ہاں خاک کے سوا خاک نہیں۔ اقبال کو نطشے میں یہ بات پسند تھی کہ اس سست عناصر انسان کی خودی کو مضبوط کرنا چاہیے، لیلکن نطشے کے ہاں خودی کا تصور ہی محدود اور مہمل تھا۔ نطشے قوت اس لیے چاہتا ہے کہ ایک اعلی تر نوع حیوان وجود میں آسکے۔ رومی اور اقبال قوت تسخیر اس لیے چاہتے ہیں کہ انسان کی خودی مضبوط ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس میں الہٰہی صفات کی شان جھلکنے لگے۔ اقبال اور رومی عالمگیر عشق کی طرف انسانی خودی کو گام زن کرنے کے آرزومند ہیں۔ جلال الدین رومی بھی جلالی ہیں اور اقبال بھی جلالی، لیکن ان کے ہاں جلال جمال سے ہم آغوش ہے۔ نطشے بھی قاہری کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس کی قاہری میں دلبری نہیں۔ مومن کا یہ حال ہے کہ: طبع مسلم از محبت قاہر است نمسلم از عاشق نباشد کافر است در رضائش مرضی حق گم شود ایں سخن کے باور مردم شود اسرار خودی میں اقبال نے وقت یا ماہیت زمان کے مسئلے کو بہت اہمیت دی ہے۔ یہ مسئلہ ہمیشہ ایک معرکۃ الا را موضوع بحث رہا ہے۔ عامۃ الناس اور عام دیندار لوگ اس کو کوئی دینی مسئلہ نہیں سمجھتے، لیکن حکمت پسند لوگ اس میں حیران اور سرگرداں رہتے ہیں کہ وقت کیا چیز ہے۔ وقت کو کوئی چیز بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا میں یا تو اشیا و اشخاص ہیں اور یا افعال و حوادث۔ وقت نہ کوئی شے ہے، نہکوئی شخص، نہ کوئی فعل ار نہ کوئی ھادثہ۔ سب کچھ وقت میں واقع ہوتا ہے لیکن وقت کوئی واقعہ نہیں۔ فلسفیوں کی زبان میں یوں کہیے کہ یہ نہ تو جوہر ہے اور نہ عرض۔ ہر قسم کا وجود جن صفات سے متصف ہو کر وجود بنتا ہے ان میں سے کوئی صفت وقت میں نہیں پائی جاتی۔ کیا وقت ازلی اور ابدی ہے یا یہ بھی کسی وقت خلق ہوا۔ اگر یہ خود مخلوق ہے تو اس کے خلق ہونے سے قبل بھی تو آخر کوئی زمانہ تھا تو وہ ھی وقت تھا۔ قرآن کریم کے ظاہری الفاظ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے چھ ایام میں زمین و آسمان کو خلق کیا۔ لیکن ہمارے ذہن میں شب و روز اور ایام کا جو تصو ہے وہ تو گردش ارض و مہر و ماہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اجرام فلکیہ کے خلق ہونے اور ان کی گردشیں مکمل ہونے سے قبل، ایام کے کچھ معنی نہیں ہوسکتے۔ اقبال مرد مومن بھی تھا ار مرد حکیم بھی، یہ ناممکن تھا کہ ایسا اہم مسئلہ اس کے دماغ میں گردش نہ کرتا رہے اور وہ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے مضطب نہ ہو۔ اپنے انگریزی خطبات میں بھی اقبال نے مسئلۂ زمان کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کو مسلمانوں اور انسانوں کے لیے موت و حیات کا سوال قرار دیا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا لطیف اور پیچیدہ ہے کہ اس مختصر سے مقدے میں اس کے چند اہم پہلوئوں کو واضح کرنا بھی ناممکن ہے۔ کانٹ جیسے حکیم کبیر نے کہا کہ زمان و مکان دونوں فہم انسانی کے سانچے ڈھانچے ہیں۔ یہ دو رنگی عینک لگا کر انسان کا فہم آفاق کے مظٓہر کو علائق و روابط میں منسلک کرتا ہے۔ زمان و مکان دونوں کا وجود نفسی اور اعتبار ہے ماہیت ہستی میں نہ زمان ہے نہ مکان۔ بالفاظ اقبال: نہ ہے زمان نہ مکاں، لا الہ الا اللہ اقبال کا خیال بھی کچھ اسی ق سم کا تھا۔ چنانچہ پیام مشرق کے ایک قطعے میں فرماتے ہیں کہ: جہان ما کہ پایانے نہ دارد چو ماہی در یح ایام غرق است یہ ہماری ناپیدا کنار دنیا ، لامتناہی عالم، مچھلی کی طرح وقت کے سمندر میں تیر رہی ہے۔ لیکن یہ وقت کا سمندر ہمارے نفس سے خارج کوئی مستقل حقیقت نہیں بلکہ اس کی یہ کیفیت ہے کہ ’یم ایام در یک جام غرق است‘۔ وقت کا یہ دریاے بے پایاں نفس کے کوزے میں سمایا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال وقت کے مسئلے کو ایسا اہم کیوں سمجھتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ زمان کو ماہیت وجود ار عین خودی سمجھتا ہے لیکن یہ زمان شب و روز کا زمان نہیں بلکہ تخلیقی ارتقا کا نام ہے۔ یہ نظریۂ زمان وہی ہے جسے برگساں نے برے دلنشیں انداز میں اپنے نظریۂ حیات کا اہم جزو بنایا۔ اقبال خود اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ علامہ نے اپنے بعض علم دوست احباب سے بیان کیا کہ برگساں کا مطالعہ کرنے سے قبل میں حقیقت زماں کے متعلق آزادانہ طور پر یہ تصور قائم کر چکا تھا ار انگلستان میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں میں نے اس پر ایک مختصر سا مضمون بھی لکھا جس کو میرے پروفیسر نے کچھ قابل اعتنا نہ سمجھا، کیوں کہ بات بہت انوکھی تھی۔ برگساں کے زور فکر اور قوت استدلال نے اس میں بہت وسعت اور ہرائی پیدا کر دی۔ لیکن اقبال کے کلام کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اس مسئلے میں برگساں سے کچھ کم نہیں۔ اقبال برگساں کا بڑا مداح تھا اور اس کے فلسفے سے اقبال نے فیض بھی حاصل کیا۔ اس سے اقبال کے کلام پر کوئی دھا نہیں لگتا۔ ایسا بارھا ہوا ہے کہ بڑے بڑے سائنٹیفک نظریات، فنی ایجادات اور حکیمانہ افکار، ایک ہی زمانے میں، ایک سے زیادہ اشخاص کی طبیعتوں میں ابھھرے۔ اس کے بعد مورخ اس بات پر جھگڑتے رہتے ہیں کہ اولیت کا سہرا کس کے سر ہے، کون موجد ہے اور کون نقال۔ لیکن اقبال اور برگساں یا اقبال اور نطشے کے متعلق یہ بحث بے کار ہے۔ شعر میں گہرا اور پیچیدہ فلسفیانہ استدلال تو نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو تو شاعری محض سنصوم منطق بن کر رہ جائے اور اپنے فطری تاثر کو کھو بیٹھے۔ اس لیے ’’الوقت سیف‘‘ کا عنوان قائم کر کے اقبال نے اپنے تصور کے بعض اساسی خطوط کھینچ دیے ہیں۔ ان کی تشریح و تعبیر سمجھنے والوں اور شارحوں کے لیے چھوڑ دی ہے۔ یہ عنوان اقبال نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول سے حاصل کیا ہے۔ اس کے تحت میں اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں ان ک الب لباب یہ ہے کہ زمان یا دھر کوئی مجرد یا ساکن حقیقت نہیں بلکہ ایک تخلیقی حرکت ہے۔ ایک حدیث قدسی ہے: ’’لا تسبو الدھر فانی اناالدھر‘‘۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ زمانے کو گالیاں نہ دو کیوں کہ میں زمانہ ہوں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ گول میز کانفرنس کے سفر کے دوران میں میں برگساں سے ملا کہ اپنے اس ہم فکر اور ہم طبع مفکر سے تبادلۂ خیالات کروں۔ دوران ملاقات میں حقیقت زمان پر گفتگو ہوئی جو اقبال اور برگساں کا واحد مضمون تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے برگساں کو بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دہر کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ فرماتے تھے کہ برگساں سن کر اچھل پڑا اور اس کی روح بے انتہا مسرت سے لبیرز ہو گئی کہ ایک نبی عظیم کے قلب پر وہی حقیقت وارد ہوئی جسے وہ استدلال اور ذاتی وجدان کی بنا پر دنیا کے سامنے عمر بھر پیش کرتا رہا۔ غرضیکہ اس نظریے کے مطابق دھر اخلاق ایک شمشیر ہے جو خود اپنا راستہ کاٹتی ہوئی اور مزاحمتوں کو راستے سے ہٹاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ دہر کی ارتقائی اور خلاقی قوت کبھی کلیم کے اندر کار فرما ہوتی ہے اور کبھی حیدر کرار کے پنجۂ خیبر گیر میں۔ اس زمان حقیقی میں دوش و فردا نہیں ہیں، نہ انقلاب روز و شب ہے۔ لوگوں نے زمان کو مکان پر قیاس کر لیا ہے اور یوں سمجھ لیا ہے کہ ایک لا متناہی لکیر ہے جو ازل سے ابد تک کھنچی ہوئی ہے۔ نافہم انسان وقت کو لیل و نہار کے پیمانوں سے ناپتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا کا وقت ہمارا وقت نہیں، اسی طرح خودی میں ڈوب کر زندگی سے آگاہ ہونے اور زندگی کی قوتوں کو وسعت دینے والے انسان کا وقت بھی ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم شدہ کوئی مکان انداز کی چیز نہیں۔ خودی کی ماہیت حیات جاوداں ہے: تو کہ از اصل زماں آگہ نہ ای از حیات جاوداں آگہ ناہ ای زندگی وقت میں نہیں گزرتی بلکہ وقت زندگی کی تخلیقی قوت ہے۔ گردش خورشید سے پیدا ہونے والا وقت مکانی اور مادی وقت ہے؛ حقیقی وقت کا اس سے کچھ تعلق نہیں لیل و نہار کا شکار غلام ہوتا ہے۔ زندگی جب مردہ ہو جاتی ہے تو وہ لیل و نہار کا کفن پہن لیتی ہے اور انسان افسوس کرتا ہے کہ عمر گراں مایہ کے اتنے ایام گزر گئے اور اب گردش ایام مجھے موت کے قریب لے جا رہی ہے۔ اقبال مسئلہ ٔ زمان کو اس لیے اہمیت دیتا ہے کہ اس کے ہاں عبد اور حر کی تمیز کا معیار بھی یہی ہے کہ کوئی روح ایام کی زنجیر سے با بجولاں ہے یا مکانی وقت سے آزاد ہو کر اور حقیقی زمان میں غوطہ لگا کر، تسخیر مسلسل اور خلاقی کا شغل رکتھی ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ ازل سے اب تک بنی بنائی تقدیر کا تصور بھی زمان کے غلط تصور کی پیداوار ہے: عبد را ایام زنجیر است وبس برلب او حرف تقدیر است و بس ہمت حر با قضا گردد مشیر حادثات از دست او صورت پذیر جس انسان کے ہاتھ میں زمانے کی تلوار ہو وہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کر سکتا ہے۔ زمانے کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک اس کا باطن ہے۔ زمانے کی ظاہری صورت سے موافقت پیدا کرنے والا پست ہمت زمانہ ساز ہوتا ہے۔ مرد حر زمانہ ساز نہیں ہوتا بلکہ زمانے کے ساتھ ستیز کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور اس پیکار میں اس کو کامیابی اسی حالت میں حاصل ہوتی ہے کہ حقیقت زمان کی شمشیر اس کے ہاتھ میں ہو: یاد ایا میکہ سیف روزگار با توانا دستی ما بود یار اسرار خودی کی تصنیف- محرک اور مقصد ڈاکٹر طاہر حمید تنولی علامہ کی زندگی میں ۱۹۱۱ء سے ۱۹۱۳ء تک کا زمانہ ذہنی کشمکش ، اضطراب اور غیر معمولی غوروفکر کا زمانہ ہے۔ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانان برصغیر ہر لحاظ سے زوال، زیر دستی اور کمزوری کا شکار تھے۔ زوال بایں معنی کہ دینی طبقات ہوں یا دنیاوی اور سیاسی دونوں سطحوں پر مسلمانوں میں عزت اور تمکنت کے کوئی آثار موجود نہیں تھے۔ انگریزوں کی خوشنودی کا حصول اور حالات کے ساتھ ساز گاری اُس دور کے امراء اور مقتدر لوگوں کی آخری منزل تھی، جس کی ایک نظیر ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کے قیام کے وقت اُس کے اعلان کردہ مقاصد تھے۔ یہی صورت حال دینی حلقوں کی تھی ۔ جب کہ قومی سطح پر مسلمانوں کی بے وقعتی کا اندازہ ۱۹۱۱ء میں انگریزوں کی طرف سے تقسیم بنگال کی منسوخی سے ہوتا ہے۔ اگر ۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۳ء تک علامہ کے لکھے گے اشعار کا جائزہ لیا جائے تو اُن میں بھی قوم کی پستی اور بدحالی پر مرثیہ خوانی کا لہجہ غالب نظر آتا ہے۔ لیکن اپنے معاصر اہل علم میں علامہ کا امتیاز یہ تھا کہ وہ ان نا گفتہ بہ حالات کی مرثیہ خوانی پر ہی نہیں رکے بلکہ یہ غور وفکر بھی کرتے رہے کہ مسلمانوں کے لیے کیا ایسا لائحہ عمل ہو جس سے وہ اِن حالات سے چھٹکارا پاسکیں۔ یہ مسلمانان ہند کی خوش نصیبی تھی کہ باوجود مشرق اور مغرب کے فلسفے کے شناور ہونے کے علامہ کبھی بھی قرآن حکیم سے لاتعلق نہیںرہے۔ قرآن حکیم کی روشنی اور وہ دینی تربیت جو علامہ نے اپنے والدین اور اساتذہ سے پائی تھی، اُن کے غور و فکر کا حصہ رہی یا یہ کہنا چاہیے کہ یہ دو عناصر علامہ کے غور و فکر کے عمل میں ہمیشہ کار فرما رہے۔ اس دور میں بے عملی وہ بنیادی مسئلہ تھا جس نے مسلمانوں کے وجود کو ہر لحاظ سے بے وقعت بنا دیا تھا۔ جب علامہ نے اِس کے اسباب کا کھوج لگایا تو وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ دین کی سطحی تعبیر اور تصوف کے بنیادی تصورات کی من مانی توجیہہ نے مسلمانان ہند کو اپنی ہستی سے غافل کردیا ہے۔ اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس ماحول میں رہتے ہوئے تصوف کے نام پر ایسی روحانی اور عملی روش اختیار کر چکے ہیں جس کا قرآن کریم کی تعلیمات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ علامہ نے خود ایک موقعہ پر فرمایا: ہندو حکماً خصوصاً شری شنکر اچاریہ نے مسئلہ وحدت الوجود کے اثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب بنایا، مگر ایرانی شعراء نے اِس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریقہ اختیار کیا، یعنی اُنہوں نے دل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا، ایرانیوں کی دل کش نکتہ آفرینیوں کا نتیجہ انجام کار یہ نکلا کہ اِس مسئلہ نے عوام تک پہنچ کر تمام اسلامی قوم کو ذوق عمل سے محروم کر دیا۔ ۱؎ اِن حالات میں جب علامہ کے سامنے مسلمانوں کی سیاسی بے وقعتی، زوال و مغلوبیت اور بے عملی کے اسباب میں سر فہرست دینی اور روحانی روایت کی غلط تعبیرو تشریح جیسے عوامل تھے، اِن کے حل کے لیے علامہ کی نظر انہی سرچشموں پر تھی وہ جو ملت کے وجود کی اساس تھے۔ یہاں علامہ نے کسی مشرقی یا مغربی فلسفے سے رہنمائی لینے کے بجائے وہی نسخہ کیمیا ایک نئے اندازسے قوم کی بیداری کے لیے تجویز کیا جو نسخہ کیمیا اِس ملت کے لیے قابل قبول بھی ہو سکتا تھا اور اگر وہ اِس پہ عمل کرے تو کار گر بھی۔ علامہ نے۱۸ اکتوبر ۱۹۱۵ء کو اسرار خودی کی اشاعت سے کم وبیش چھ ماہ بعد اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھا کہ مذہب بغیر ایک قوت کے محض فلسفہ ہے۔ یہ نہایت صحیح مسئلہ ہے اور حقیقت میں مثنوی لکھنے کا یہی خیال محرک ہوا، میں گزشتہ دس سال سے اِسی پیچ و تاب میں ہوں۔ ۲؎ یعنی علامہ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانان ہند دین پر کار بند ہوں، لیکن اُس انداز سے نہیں جس انداز سے مذہب اُن کے سامنے پیش کیا جا رہا تھا۔ اپنے شعر اور نثر میں علامہ نے بار بار اِس نکتے کی وضاحت کی۔ بال جبریل میں نے اُنہوں نے لکھا: رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم عصا نہ ہوتو کلیمی ہے کار بے بنیاد۳؎ یا پس چہ باید کرد میں لکھا: رائے بے قوت ہمہ مکرو فسوں قوت بے رائے جہل است و جنوں۴؎ اپنے دس سالہ غور و فکر سے علامہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کو مذہب اور تصوف کے اُس پہلو کی طرف متوجہ کیا جائے جو اُن میں قوت، بیداری اور غلبے کا احساس پیدا کرے۔ اِسی جذبے کے تحت علامہ نے اسرار خودی لکھی۔ ۲۰ جنوری ۱۹۱۸ء کو مہارا ج سر کشن پرشاد کے نام ایک خط میں اُنہوں نے اپنے اِسی عزم کو بیان کرتے ہوئے لکھا: میں نے دو سال کا عرصہ ہوا، تصوف کے بعض مسائل سے کسی قدر اختلاف کیا تھا اور وہ اختلاف ایک عر صے سے صوفیاء اسلام میں چلا آتا ہے، کوئی نئی بات نہ تھی، مگر افسوس کے بعض ناواقف لوگوں نے میرے مضامین کو تصوف کی دشمنی پر محمول کیا، میں نے اپنی پوزیشن اِس لیے واضح کی کہ خواجہ صاحب نے مثنوی پر اعتراض کیے تھے، چونکہ میرا عقیدہ تھا اور ہے کہ اِس مثنوی کا پڑھنا، اِس ملک کے لوگوں کے لیے مفید ہے اور اِس بات کا اندیشہ تھا کہ خواجہ صاحب کے مضامین کا اثر اچھا نہ ہوگا، اِس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ۵؎ علامہ نے مغرب کے فلسفے کو نہ صرف براہِ راست مغرب کے سرچشموں سے حاصل کیا بلکہ مغربی معاشرے کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اِس کا مشاہدہ کر چکے تھے کہ مغرب کی اُفتاد طبع فکری سے زیادہ عملی ہے، لہٰذا مغرب میں رائج ہونے والے ایسے تمام فلسفے جو وحدت الوجودی فکر کے حامل تھے اور جنہیں ریاضیاتی استدلال سے مضبوط کیا گیا تھا، وہ اپنے پورے سحر اور فکری تانے بانے کے موثر ہونے کے باوجود مغرب کو اپنی گرفت میں نہ لا سکے۔ بلکہ انجام کار اُن کا اثر زائل ہو گیا اور مغرب میں عمل کا رجحان غالب آیا جس سے نہ صرف علمی، فنی اور سائنسی میدان میں مغربی معاشرہ ترقی یافتہ معاشرہ بن گیا بلکہ دنیا بھر میں بھی اُن کا اقتدار قائم ہوا۔ رحجان کی اِس تبدیلی یا متداول فکر کو اپنی عملی اُفتاد طبع کے مطابق ڈھالنے کے روش کو بیان کرنے کے لیے علامہ نے فائوسٹ کے مکالمے کا ذکر کیا ہے، جہاں بائبل کی آیت میں کلام کے لفظ کو عمل سے بدل دیا گیا ہے، جب کہ برصغیر کے معاشرے میں یہ معاملہ بالکل اِس کے برعکس تھا۔ فلسفہ وحدت الوجود کے اثرات کے حوالے سے علامہ نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں تاریخی مماثلت کا ذکر کیا اور شری شنکر اچاریہ کی گیتا کی وضاحت کو ویسا ہی عمل قرار دیا،جیساکہ ابن عربی کی قرآن حکیم کی تفسیر اور اِس طرح ہندو معاشرہ جس بحران کاشکار ہوا تھا کہ اِس معاشرے نے تمام آلام سے نجات ترک عمل میںڈھونڈی، یہی روش فلسفہ وحدت الوجود کے زیر اثر مسلمان معاشرے نے بھی اختیار کرلی۔ اگر ہم علامہ کی انا کی تعریف جس کا ذکر اُنہوں نے اسرار خودی کے دیباچے میں کیا ہے، کو دیکھیں تو اُس تعریف میں یہ سارا فکری پس منظر جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اِس تعریف کے مطابق علامہ نے انا یا خودی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ وحدت وجدانی یا شعور کا وہ روشن نقطہ ہے، جس سے تمام انسانی تخیلات اور جذبات مستنیر ہوتے ہیں۔ یہ پر اسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوںکی شیرازہ بند ہے، یہ خودی یا انا یا میں جو اپنے عمل کی رو سے ظاہر ہے لیکن اپنی حقیقت کی رو سے مضمر ہے، تمام مشاہدات کی خالق ہے۔۶؎ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی تعریف علامہ کے شعری آثار میں بھی ملتی ہے۔ جیسا کہ اسرار خودی میں علامہ نے لکھا: نقطہ نورے کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرارِ زندگی است۷؎ اِس تعریف کو اصطلاح بنانے کے لیے اِسی دیباچے میں علامہ نے جو حوالہ دیا، وہ محسن تاثیر کا ایک شعر ہے۔ محسن تاثیر کی علمی، فنی حیثیت اور پس منظر اور اُس کے ساتھ علامہ کی وابستگی بھی اِس سبب اور احساس کی وضاحت کرتی ہے۔۸؎ علامہ اپنے تصور خودی کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر بریڈلے کے اِس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہیں کہ انسانی شخصیت یا افراد کی خودی ایسے محدود مراکز ہیں جن کی حیثیت محض شعور یا مظہر کی ہے اور وہ ایک مخصوص مرحلے کے بعد اپنی انفرادیت کو اُس وحدت پر پہنچ کر جو مطلق ہے مدغم کر دیتے ہیں اور ختم کر دیتے ہیں۔ اِس طرح بریڈلے کے خیالات کے مطابق انفرادی خودی فریب نظر اور اضافی قرار پاتی ہے۔ علامہ نے اِس نقطہ نظر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ خودی کائنات کی بنیادی اور اساسی حقیقت ہے، یعنی خودی حق ہے اورحیات سربسر انفرادی ہے۔ خدا بھی ایک فرد ہے لیکن وہ تمام افراد کائنات میں یکتا اوربے مثل ہے ۔۹؎ اِس طرح کمال قطرے کا سمندر میں فنا ہونا نہیں ہے یا اپنی انا کو حیات مطلقہ یا انا مطلق میں فنا کرنا نہیں، بلکہ اثبات خودی، جس کی تعلیم حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے فرمان مبارک تخلقوا باخلاق اﷲ، میں دی، یعنی خدا یکتا اور بے مثل ہے اور جو بھی اُس کی قربتوں میںجتنا آگے بڑھتا چلا جائے گا، وہ یکتا اور بے مثل ہوتا جائے گا۔ یعنی فرد اگر کامل ہے تو وہ کائنات میںمدغم نہیں ہو سکتا بلکہ ساری کائنات اُس میں گم ہوگی اور اِس طرح وہ کائنات پر متصرف ہوگا۔ یہاں علامہ نے خیر اور شر کی ایک نئے انداز سے تعریف کی کہ خیر وہ عمل ہے، جو ہماری خودی کو مستحکم کرے گا اور ہر وہ عمل جو اِسے ضعیف کرے وہ شر ہے، چاہے اُس عمل کا تعلق آرٹ سے ہو، مذہب سے ہو، اخلاقیات سے ہو یا فکرو فلسفہ کے کسی بھی پہلو اور میدان سے ہو۔ اپنے تصورات کی وضاحت کے لیے علامہ نے جو اصطلاحات اختیار کیں یا جن پہلے سے موجود اصطلاحات کو نئی تعبیر دی اُن میں ایک اصطلاح عشق کی بھی ہے۔ اُن کے نزدیک خودی کی تربیت اور استحکام کا واحد ذریعہ عشق ہے اور اِس کے مفہوم کا دامن بہت وسیع ہے۔ اس کا مطلب ہے، خواہش جذب اور تسخیر۔ اُس کی اعلیٰ ترین شکل یہ ہے کہ خودی اپنے مقاصد اور اقدار کی تخلیق کرتی ہے اورپھر اُن کے حصول کے لیے سراپا عمل بن جاتی ہے۔۱۰؎ عشق کو تعمیر و تکمیل خودی کا ذریعہ تجویز کرنے کے بعد علامہ اسرار خودی میںجو لائحہ عمل بیان کرتے ہیں وہ وہی لائحہ عمل ہو سکتا ہے جو اُس مرد کامل کے ظہور کو ممکن بنائے جوخودی کا شعور بھی رکھتا ہو، عمل پر بھی قادر ہو اور اُن تمام منفی رجحانات کو مسترد کرتا ہو جن رحجانات کے رد عمل میں علامہ نے اسرار خودی تصنیف کی۔ تاہم یہ امر علامہ کے فکری تسلسل کا مظہر ہے کہ اُنہوں نے وہ لائحہ عمل کسی مشرقی یا مغربی فلسفے سے نہیں بلکہ براہ راست قرآن حکیم سے اخذ کیا اور اُس کے تین مراحل بیان کئے۔ اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الٰہی، یہ مراحل قرآن حکیم کی تعلیمات اور تصوف کی صدیوں کی زریں روایت سے ماخوذ ہیں۔ ان مراحل کے مطابق نیابت الٰہی ہی وہ منزل یا منصب ہے جس پر پہنچ کر اُس نائب حق کا ظہور ممکن ہوتاہے جو اُن اوصاف سے متصف ہے، جن اوصاف کا حصول تعمیر خودی کا مقصود ہے۔ ۱۱؎ یہی وجہ ہے کہ علامہ نے یہ لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے، اِس تصور کو بھی سراسر مسترد کر دیا کہ اُنہوں نے اپنی فکر نطشے یا کسی دوسرے مغربی فلسفی سے اخذ کی ہے۔۱۲؎ اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ شائع ہونے کے بعد مغرب میں اُس پر جو ریویولکھے گئے اور جس انداز سے اسرار خودی کے مضامین کا ترجمہ کیا گیا، اُس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ اِن غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے علامہ نے ڈاکٹر نکلسن کے نام ایک خط لکھا اور اُس خط میں اسرار خودی کے مفاہیم اور مضامین کے مغربی ماخذ کے تصور کو رد کیا اور اُس کے ساتھ ساتھ اِس بات کی وضاحت بھی کی کہ اسرار خودی کا پیغام اور مضامین مغربی سرچشموں سے نہیں، بلکہ اسلام کے سرچشموں سے ماخوذ ہے۔ اِس بات کا رد کرتے ہوئے کہ اقبال کا تصور انسان کامل کسی بھی طور سے نطشے کے نظریہ فوق البشر سے ماخوذ ہے، علامہ نے اِس خط میں لکھا کہ اُنہوں نے اسرار خودی کی اشاعت سے بیس سال پہلے انسان کامل کے تصور پر ایک مضمون لکھا تھا، جوانڈین اینٹی کیوری میں شائع ہوا تھا۱۳؎ ، یعنی اقبال کے تصور خودی یا انسان کامل کے نظریہ کی اساس یا بنیادی خشت اول اُس مضمون کو قرار دیا جا سکتا ہے، جس کی توضیحی صورت بعد میں اقبال کے شعری اور نثری افکار کی صورت میں سامنے آتی رہی، جس کی تائید نکلسن کے نام اِسی خط میں علامہ کے اِس جملے سے ہوتی ہے کہ اُنہوں نے اِسی مضمون کو بعدازاں ۱۹۰۸ء میں فلسفہ عجم پر لکھے جانے والے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں ضم کر دیا۔ ۱۴؎ یہاں ایک اورنکتہ بڑا اہم ہے کہ اقبال نے نطشے کا رد کرتے ہوئے جب اپنی بات کو اہل مغرب کے لیے قابل فہم بنانا چاہا تو اُن مغربی فلسفیوں کی تعریف کی جو اقبال کی فکری تائید کرتے تھے اور اہل مغرب کو یہ تجویز دی کہ وہ اُن کے فلسفہ خودی کو سمجھنے کے لیے جرمن فلاسفر نطشے کے بجائے انگریز فلاسفر ڈاکٹرالیگنڈر۱۵؎ اور پروفیسر میکنزی کی تحریروں کو پیش نظر رکھیں۔ علامہ نے یہاں بطور خاص ڈاکٹر الیگنڈرکے گلاسگو لیکچرز کا ذکر کیا جو Space, Time and deity کے عنوان سے شائع ہوئے۔ گو علامہ نے ڈاکٹر الیگنڈر کے خیالات سے کلیۃ اتفاق نہیں کیا کہ اُس کے اِس تصور کِہ حقیقت منتظر، خدائے ممکن الوجود کی صورت میں عن قریب ظاہر ہوگی کا رد کرتے ہوئے، علامہ نے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ حقیقت منتظر ایک اعلی اور بر ترین قسم کے انسان کی صورت میں رونما ہو گی اور مزید براں الیگنڈر کے اِس خیال کِہ الوہیت کی ماہیت کا علم حاصل کرنا صرف اِسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم خود خدا بن جائیں کہ مقابل علامہ نے فرمایا کہ الیگنڈر کے افکار میرے عقائد کے نسبت زیادہ جسارت آمیز ہیں۔ میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ کائنات میں شان الہی جلوہ گر ہے۔ یعنی اِن اختلافات کے باوجود علامہ نے اُس مماثلت کا ذکر کیا، جو اُن کے تصور خودی اورالیگنڈر کے خیالات میں موجود ہے اور اہل مغرب کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اُن کے فلسفہ خودی کو سمجھنے کے لیے نطشے کے نظریہ فوق البشر کے بجائے اِن خیالات کو پیش نظر رکھیں۔ اور پھر مسٹر ڈکنسن کے اِس اعتراض کہ علامہ قوت کی بات کرتے ہیں، سختکوشی کا فلسفہ پیش کرتے ہیں، حالانکہ جنگ وجدل ہر صورت میں انسانیت کے لیے تباہی لے کر آئی ہے، علامہ پروفیسر میکنزی۱۶؎ (Prof. Mackenzie) کی تصنیف مقدمہ فلسفہ معاشرت(Introduction to Social Philosophy) کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ تاریخ انسانی اِس امر کی گواہ ہے کہ معاہدے ، میثاق ، صلح نامے ، کانفرنسیںاور ہر طرح کے تہذبی طور طریقے انسانیت کو جنگ وجدل سے نجات دلانے میں ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا انسانیت کو اگر امن سے آشنا کرنا ہے تو اُس کی ایک ہی صورت ہے کہ ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا صحیح حل پیش کر سکے اور ہمارے تمام جھگڑوں کا عادلانہ فیصلہ کر سکے اور بین الاقوامی اخلاق کو ایک مستحکم تر بنیاد پر قائم کر سکے۔ یعنی اجتماعی سطح پر فلسفہ خودی کی اصطلاح کی جو صورت علامہ پیش کر رہے ہیں اُس کی تائید اُنہوں نے مغربی مفکر پروفیسرمیکنزی کی تحریروں سے نکلسن کے نام اِس خط میں فراہم کی ہے۔ ۱۷؎ نطشے کے خیالات سے اختلافا ت کے پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے جس چیز پر علامہ نے بہت زور دیا وہ یہ ہے کہ نطشے بقائے شخصی کا منکر ہے، چنانچہ وہ بقائے شخصی کے قائلین کو مورد تنقید ٹھہراتے ہوئے کہتا ہے کہ تم دوشِ زمانہ پرایک دائمی بار کی صورت میں باقی رہنا چاہتے ہو۔ علامہ فرماتے ہیں نطشے کا یہ بیان غلط فہمی پر مبنی ہے۔ بلکہ میں تو بقائے شخصی کو انسان کی ایسی بلند ترین آرزو سمجھتا ہوں جس کے لیے اُسے انتہائی درجے کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اِس لیے میں ہر قسم کی حرکت اور جدوجہد بلکہ عمل کی تمام صورتوں کو جن میں کشمکش، تصادم اور آویزش باہمی شامل ہے، استحکام خودی کے لیے لازمی اور ناگزیر سمجھتا ہوں ۔ ۱۸؎ اہل مغرب نے جہاں اقبال کے فلسفہ خودی کو نطشے کے نظریہ فوق البشر سے جوڑنے کی کوشش کی وہیں علامہ کو اسلام سے وابستہ ہونے کے ناطے مقامی اور محدود ہونے کا طعنہ بھی دیا۔اِس کا رد کرتے ہوئے علامہ نے فرمایا: کہ میں اسرار خودی یا اپنی دیگر تصانیف سے قطعاً اسلام کی وکالت نہیں کر رہا ، بلکہ میرے پیش نظر Universal Social Reconstruction ہے، مگر Universal Social Reconstruction کے لیے جن اعلیٰ ترین اقدار کی ضرورت ہے اور جن اقدار کی بنیاد پر دنیا کو ذات پات، دولت و مرتبہ اور رنگ و نسل کے امتیازات سے نجات دلائی جا سکتی ہے، وہ اقدار اور تعلیمات صرف اسلام سے ہی میسر ہیں، سو اندریں حالات اتنے اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے اسلام اور اُس کی پیش کردہ اقدار کو نظر انداز کرنا قطعاً بھی کوئی دانش مندی کی بات نہ ہو گی، یہی سبب ہے کہ علامہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے افکار اور اپنے فلسفہ خودی کی اساس قرآن حکیم اور اُس کی تعلیمات پہ رکھ رہا ہوں۔ اِس مغالطے کو دور کرنے کے لیے کہ علامہ کا فلسفہ خودی کسی طور بھی مغربی افکار سے ماخوذ نہیں ہے، علامہ بار دیگر نکلسن کے نام خط میں اِس چیز کی وضاحت کرتے ہیں، کہ اگر اُنہوںنے یہاں ڈاکٹر الیگنڈر یا پروفیسر میکنزی یا دیگر مغربی مفکرین کا کوئی حوالہ دیا، تو وہ صرف اِس غرض سے کہ انگلستان کے اہل علم اُن کے افکار کو سمجھ سکیں، وگرنہ حقیقی استدلال جس پر اُنہوں نے اپنے افکار کی اساس رکھی ہے وہ قرآن حکیم، صوفیاء کرام اور مسلمان اہل حکمت ہیں اور اسرار خودی کی پہلے ایڈیشن کے ساتھ اردو میں لکھے گئے دیباچے میں بھی علامہ نے اِسی استدلال کو استعمال کیا تھا۔ یہاں اِس خط کے آخری پیراگراف کا ذکر بہت ضروری ہے، جو علامہ کے اِس موقف کی بلفظ خود توضیح اور تشریح کرتا ہے: میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسرار خودی کا فلسفہ تمام تر مسلمان صوفیاء اور حکماء کے مشاہدات و افکار سے ماخوذ ہے۔ اور تو اور، وقت یا زمانہ کے متعلق برگساں نے جو تشریحات پیش کی ہیںوہ ہمارے صوفیاء کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ باتیں تصوف کی مستند کتابوں میں مختلف انداز سے بیان ہو چکی ہیں۔ قرآن مجید اگرچہ فلسفہ یا الٰہیات کی کتاب نہیں ہے تاہم حیاتِ انسانی کے مقصد اور ارتقاء سے متعلق اس میں بھی واضح اور متعین ہدایات موجود ہیں۔ جن کو پوری قطعیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اور ان کا مبنی بالآخر بعض اصول حکمت ہی ہیں۔ اگر موجود زمانہ میں کوئی تعلیم یافتہ شخص خصوصاً فلسفہ کا متعلم مسلمان ان مسائل کو جن کا مبداء اور سر چشمہ قرآن حکیم ہے مذہبی تجربات اور افکار کی روشنی میں بیان کرے، تو اس پر ’’پرانی بوتلوں میں نئی شراب بھر کر پیش کرنے‘‘ کا الزام عائد کرنا، جیسا کہ مسٹر ڈکنسن نے کیا ہے کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ میں نے جدید افکار کو قدیم لباس میں پیش نہیں کیا ہے، بلکہ پرانے حقایق کو جدید افکار کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اہل مغرب اسلام اور اسلامی فلسفہ سے نا آشنائے محض ہیں۔ کاش مجھے اس مبحث پر ایک ضخیم کتاب لکھنے کی فرصت ہوتی تو میں مغرب کے حکماء کو اس حقیقت سے آگاہ کر سکتا کہ ہمارے اور ان کے فلسفیانہ افکار ایک دوسرے سے کس قدر مشابہ ہیں۔۱۹؎ اس پس منظر کے ساتھ علامہ نے مسلمانان بر صغیر کے لیے راہ نجات اثبات ذات، تعمیر خودی اور انفرادی و اجتماعی کردار کی بحالی میں دیکھی۔ جس کے لیے انہوں نے طویل غور و فکر کے بعد اپنا فلسفہ خودی پیش کیا۔ جب علامہ ملت اسلامیہ کے لیے تعمیر خودی کا لائحہ عمل ترتیب دے رہے تھے تو قرآن حکیم، سیرت نبوی، تاریخ اسلام اور تصوف کی روایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے سامنے اس کے لیے دو راستے تھے: اخلاقی اور استدلالی۲۰؎ ۔مگر علامہ نے خالصتاً اخلاقی طریق کار اختیار کرنے کی بجائے استدلالی طریق کو ترجیح دی۔ اس کا سبب اپنے علمی س منظر کے باعث ان کی افتاد طبع تھی یا اس دور میں دین کو درپیش وہ چیلنجز جن کا انہیں بخوبی ادراک تھا اور وہ ان کا موثر جواب بھی دینا چاہتے تھے۔۲۱؎ استدلالی انداز سے علامہ نے جس طرح اپنا فلسفہ خودی پیش کیا اس ان مراحل کے تحت سمجھا جا سکتا ہے: تصور خودی، خودی کی اصل جہاں سے خودی کا صدور ہوتا ہے، خودی کا فرد، اسکے شعور اور فکر سے تعلق، خودی کے فکر و شعور سے تعلق کی بنیاد پر تصوف کے طریق عشق سے فرد کی تربیت اور مرد کامل کا ظہور۔ اب ہم ان مراحل کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ ۱ خودی کا مفہوم علامہ نے اپنی ایک نظم ’فوارہ‘ میں یوں بیان کیا ہے: یہ آبجوُ کی روانی، یہ ہمکناریِ خاک مری نگاہ میں ناخُوب ہے یہ نظّارہ اُدھر نہ دیکھ ، اِدھر دیکھ اے جوانِ عزیز بلند زورِ درُوں سے ہُوا ہے فوّارہ۲۲؎ جب علامہ نے اس تصور کو انسان کے اثبات کے لیے استعمال کیا تو کہیں تو علامہ نے انسان کے کردار کو حقیقت قرار دیااور اس کے وجود کا اثبات کیا ہے: مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر ، یہ نگیںہے دیتی ہے مری چشمِ بصیرت بھی یہ فتویٰ وہ کوہ ، یہ دریا ہے ، وہ گردُوں ، یہ زمیں ہے حق بات کو لیکن میں چُھپا کر نہیں رکھتا تُو ہے ، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے ، نہیں ہے!۲۳؎ اور کہیں اس کے وجود کو ہمارے ظاہری فہم و انداز سے ماوراء ہونے کو بیان کیا ہے: طلسمِ بُود و عدم، جس کا نام ہے آدم خدا کا راز ہے، قادر نہیں ہے جس پہ سخن زمانہ صبحِ ازل سے رہا ہے محوِ سفر مگر یہ اس کی تگ و دَو سے ہو سکا نہ کُہن اگر نہ ہو تجھے اُلجھن تو کھول کر کہہ دوں ’وجُودِ حضرتِ انساں نہ رُوح ہے نہ بدن‘! ۲۴؎ ۲ خودی کی اصل کیا ہے؟ علامہ خودی کی اصل خودی مطلق کو قرار دیتے ہیں: خودی را از وجود حق وجودے خودی را از نمود حق نمودے نمی دانم کہ ایں تابندہ گوہر کجا بودے اگر دریا نبودے۲۵؎ خودی کا وجود حق تعالیٰ کے وجود سے ہے، خودی کی نمود، حق (سچائی ) کے اظہار سے ہے۔میں نہیں جانتا کہ اگر دریا نہ ہوتا، تو (خودی کا) یہ تابدار گوہر کہاں ہوتا۔ یعنی خودی کا ظہور یا صدور مطلق خودی سے ہوا ہے: ز آغاز خودی کس را خبر نیست خودی در حلقۂ شام و سحر نیست ز خضر این نکتۂ نادر شنیدم کہ بحر از موج خود دیرینہ تر نیست ۲۶؎ خودی کے آغاز کی کسی کو خبر نہیں، خودی شام و سحر کے حلقے میں نہیں سماتی، میں نے یہ نادر نکتہ خضر سے سنا ہے کہ بحر اپنی موج سے قدیم تر نہیں۔ من از رمزِ انا الحق باز گویم و گر با ہند و ایراں راز گویم مغے در حلقۂ دیر این سخن گفت حیات از خود فریبے خورد و ’من‘ گفت خدا خفت و وجود ما ز خوابش وجود ما نمود ما ز خوابش ۲۷؎ میں انا الحق کی رمز پھر سے بیان کرتا ہوں، ہند و ایران کے سامنے دوبارہ یہ راز کھولتا ہوں ایک پیر مغاں نے حلقۂ دیر میں یہ بات کہی کہ حیات نے اپنے آپ سے فریب کھایا اور ’’میں‘‘ کہا۔ گویا خدا نے خیال کیا ہمارا وجود اور نمود اس کے خیال سے ہے۔ انائے مطلق سے اناؤں کے صدور کا مطلب یہ ہے کہ خودی، خودی مطلق اور عدم سے وجود میں آتی ہے۔ مثلاً مربع موم سے مثلث موم کا وجود میں آنا۔ یہاں موم تو موم سے مگر مثلث عدم سے وجود میں آتے ہیں،جن کا وجود خارج میں نہیں بلکہ صانع کے فکر میں تھا۔ اسے صوفیہ نے ام خلقوا من غیر شیء کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ ابن مسکویہ کے مطابق عمل تخلیق دراصل سالمے کاقابل ادراک بن جانا ہے۔ ۲۸؎ چونکہ انائوں کا صدور انائے مطلق سے ہوا ہے،یہی وجہ ہے کہ یہ عالم حقیقت مطلقہ کے مقابل ایک خیال ہونے کے باوجود خیال محض نہیں: تو چشم بستی و گفتی کہ ایں جہاں خواب است کشائے چشم کہ ایں خواب خوابِ بیداری است۲۹؎ تو نے اپنی آنکھ بند کر لی اور کہتا ہے کہ یہ جہان خواب ہے، آنکھ کھول، اگر یہ خواب ہے تو خواب بیداری ہے۔ ۳ علامہ کے مطابق فرد کا وجود خودی اور خودی کا وجود شعور سے ہے۔ یعنی فکر اور خودی میں گہرا ربط موجود ہے۔ حتی کہ روح اور فکر میں بھی معنوی مماثلت اور مناسبت کا رشتہ ہے۔ اس نکتے کی تائید میں علامہ نے مسلم مفکرین سے حوالے دئیے۔ علامہ نے لکھا کہ ابن مسکویہ کے مطابق روح کی ماہیت ہی یہ ہے کہ اس میں وقت واحد میں ہی مختلف اشیاء کا ادراک کرنے کی پوشیدہ قوت موجود ہے اور یہ بنیادی طور پر ادراک کی خصوصیت ہے، مختلف نفسی احوال بھی خود روح کے مختلف تغیرات ہیں۔ ۳۰؎ ادراک بالعقل ہی کی طرح روح بعض ایسے قضایا کا تعقل کر سکتی ہے جن کو مواد حسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً حواس اس قضیہ کا ادراک نہیں کر سکتے کہ دو نقیضین ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔۳۱؎ غزالی نے بھی اس ربط کو بیان کیا ہے۔ غزالی کے مطابق روح اشیاء کا ادراک کرتی ہے۔ لیکن ادراک بہ حیثیت ایک عرض کے ایسے جوہر یا ذات میں قائم رہ سکتا ہے جو جسمانی صفات سے کلیۃً پاک ہو۔۳۲؎ علامہ گلشن راز میں یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ انسانی خودی کے حوالے سے فکر کی کیا حیثیت اور کردار ہے اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہیں: نخست از فکر خویشم در تحیّر چہ چیز است آنکہ گویندش تفکرّ درون سینۂ آدم چہ نور است چہ نور است این کہ غیب او حضور است میں تو اپنی فکر کے بارے میں حیرت میں ہوں کہ جسے تفکر کہتے ہیں وہ کیا ہے ؟ سینۂ آدم کے اندر یہ کیا نور ہے کہ اس کا غیاب بھی حضور ہے۔ من او را ثابت سیّار دیدم من او را نور دیدم نار دیدم گہے نارش ز برہان و دلیل است گہے نورش ز جان جبرئیل است بخاک آلودہ و پاک از مکان است بہ بند روز و شب پاک از زمان است میں نے اسے جامد بھی دیکھا ہے اور متحرک بھی، مجھے اس میں نور بھی نظر آیا ہے اور نار بھی۔ کبھی برہان و دلیل اس کی قوت بن جاتی ہے اور کبھی وہ جان جبرئیل (یعنی نور قرآنی) سے نور حاصل کرتا ہے۔ یہ مکانی ہونے کے باوجود لا مکانی ہے۔ یہ روز و شب کے بندھن میں گرفتار ہونے کے باوجود ماورائے زماں ہے۔ ہمیں دریا ہمیں چوب کلیم است کہ از وے سینہ دریا دو نیم است درون شیشۂ او روزگار است ولی بر ما بتدریج آشکار است حیات از وی بر اندازد کمندے شود صیّاد ہر پست و بلندے یہ دریا بھی ہے اور عصائے موسی بھی، اسی سے سینۂ دریا دو نیم ہوتا ہے۔ فکر کے شیشہ کے اندر ساری کائنات ہے لیکن ہم پر اس کے راز بتدریج آشکار ہوتے ہیں۔ حیات فکر کی کمند پھینک کر ہر پس و بالا کا شکار کرتی ہے۔ دو عالم می شود روزے شکارش فتد اندر کمند تابدارش اگر ایں ہر دو عالم را بگیری ہمہ آفاق میرد ، تو نمیری منہ پا در بیابان طلب سست نخستیں گیر آں عالم کہ در تست ایک روز دونوں جہان فکر کے شکار ہوں گے اور اس کی کمند تابدار میں آجائیں گے۔ اگر تو ان دونوں جہانوں کو اپنی گرفت میں لے آئے تو ساری کائنات مر جائے گی مگر تو موت سے آزاد رہے گا۔ بیابان طلب میں سست رفتاری سے نہ چل، پہلے اس عالم کو مسخر کر جو تیرے اندر ہے۔ اگر زیری ز خود گیری زبر شو خدا خواہی بخود نزدیک تر شو بہ تسخیر خود افتادی اگر طاق ترا آساں شود تسخیر آفاق ۳۳؎ اگر تو کمزور ہے تو تسخیر انفس سے زبردست ہو جا، اگر تو اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے تو پہلے اپنے قریب ہو۔ اگر تو اپنی تسخیر میں کامیاب ہو جائے تو تیرے لیے تسخیر آفاق آسان ہو جائے گی۔ چہ بحر است این کہ علمش ساحل آمد ز قعر او چہ گوھر حاصل آمد وہ سمندر کیا ہے کہ جس کا ساحل علم ہے۔ اس کی تہہ سے کون سا گوہر میسر آتا ہے؟ حیات پر نفس بحر روانے شعور آگہے او را کرانے مپرس از موجہائے بیقرارش کہ ہر موجش بروں جست از کنارش ہر آں چیزے کہ آید در حضورش منّور گردد از فیض شعورش حیات انسانی بحر رواں ہے اور شعور و آگہی اس کا کنارا ہے۔ اس کی بے قرار موجوں کی بات نہ کر ہر موج کنارے سے باہر نکلی پڑتی ہے۔ جو چیز اس کے سامنے آتی ہے وہ اس کے شعور سے فیضیاب اور منور ہو جاتی ہے۔ شعورش با جہان نزدیک تر کرد جہان او را ز راز او خبر کرد خرد بند نقاب از رخ کشودش ولیکن نطق عریاں تر نمودش نگنجد اندریں دیر مکافات جہان او را مقامے از مقامات اس کے شعور نے اسے کائنات سے نزدیک تر کر دیا پھر کائنات نے اسے اس کے راز کی خبر دی۔ خرد نے فطرت کے چہرے سے نقاب ہٹایا ، لیکن نطق نے اسے اور زیادہ عریاں کر دیا۔ حیات اس عالم رنگ و بو میں نہیں سماتی، یہ جہان اس کے مقامات میں سے ایک مقام ہے۔ بروں از خویش می بینی جہاں را در و دشت و یم و صحرا و کاں را حدیث ناظر و منظور رازے است دل ہر ذرّہ در عرض نیازے است تو اے شاہد مرا مشہود گرداں ز فیض یک نظر موجود گرداں تو اس جہان اور اس کے بیابانوں ، دریائوں ، صحرائوں، سمندروں اور کانوں کو اپنے سے باہر دیکھتا ہے۔ ناظر و منظور کی بات ایک راز ہے، ہر ذرے کا دل یہ عرض کر رہا ہے: ’اے شاہد! تو مجھے مشہود بنا، اپنی ایک نظر کے فیض سے مجھے موجود بنا۔‘ کمال ذات شے موجود بودن براے شاہدے مشہود بودن زوالش در حضور ما نبودن منّور از شعور ما نبودن جہان غیر از تجلّی ہاے ما نیست کہ بے ما جلوۂ نور و صدا نیست کسی شے کی ذات کا کمال موجود ہونا ہے، یعنی یہ کہ کوئی شاہد اسے مشہود بنا دے۔ اور کسی شے کا زوال یہ ہے کہ وہ ہماری نظر میں نہ ہو اور ہمارے شعور سے منور نہ ہو۔ ہماری تجلیات کے بغیر جہان کچھ نہیں، ہمارے بغیر روشنی اور آواز کا کوئی اظہار نہیں۔ تو ہم از صحبتش یاری طلب کن نگہ را از خم و پیچش ادب کن ’’یقین میداں کہ شیراں شکاری دریں رہ خواستند از مور یاری‘‘ بیاری ہاے او از خود خبر گیر تو جبریل امینے بال و پر گیر تو بھی اس کی صحبت سے فائدہ اُٹھا اور اس کے خم و پیچ سے اپنی نگاہ کی تربیت کر۔ سمجھ لے کہ اس راہ میں شکاری شیر چیونٹی سے بھی مدد لے لیتے ہیں۔ تو اس کی دوستی سے خود آگہی حاصل کر تو جبرئیلؑ امیں (کی صفات کا مظہر) ہے، اپنے بال و پر کو فعال و کار آزما کر۔ بہ بسیارے کشا چشم خرد را کہ دریابی تماشاے احد را نصیب خود ز بوی پیرہن گیر بہ کنعان نکہت از مصر و یمن گیر خودی صیّاد و نخچیرش مہ و مہر اسیر بند تدبیرش مہ و مہر چو آتش خویش را اندر جہاں زن شبیخوں بر مکاں و لامکاں زن ۳۴؎ چشم خرد سے کثرت کا تماشا کرتا کہ تو احد کا نظارہ کر سکے۔ پیر ہن کی خوشبو سے اپنا حصہ لے، کنعاں میں رہتے ہوئے مصر سے آنے والی خوشبوپالے۔ خودی شکاری ہے مہ و مہر اس کا شکار ہیں، کائنات اس کی تدبیر کے بند میں اسیر ہے۔ تو آتش ہے، اپنے آپ کو جہان میں ڈال، (اور اس طرح) مکان و لا مکاں پر تصرف حاصل کر۔ معتزلہ کے مطابق خدا کی فعلیت اس بات پر مشتمل ہے کہ وہ سالمہ کو قابل ادراک بنا دے۔ اسے علامہ نے خطبات میں یوں بیان کیا ہے: This means that existence is a quality imposed on the atom by God.35 گویا سالمہ شے نہیں بلکہ عمل ہے۔اشاعرہ کے مطابق بھی سالمہ مشیت ایزدی کا ایک گزرتا ہوا لمحہ ہے۔ ۳۶؎ یہاں ہمیں شیخ اشراق کے اس نکتہ کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ شیخ الاشراق کے مطابق تمام موجودات کی انتہائی حقیقت نور قاہر ہے۔ ۳۷؎ خودی و فکر کے تعلق اور پھر خودی کے ارتقا کے لیے فکر کے ارتقا کے تسلسل میں عمل تخلیق کا تذکرہ کرتا ہے۔ علامہ کائنات کو شے نہیں بلکہ عمل قرار دیتے ہوئے ابن مسکویہ کے حوالے سے اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ علت معلومات کو کس طرح پیدا کرتی ہے: ابن مسکویہ کے مطابق جب علت مختلف معلومات کو پیدا کرتی ہے تو اس کی کثرت مندرجہ ذیل وجوہ میں سے کسی ایک پر مبنی ہو سکتی ہے: علت کی کئی قوتیں ہو سکتی ہیں مثلاً انسان، مختلف معلومات کو پیدا کرنے کے لیے علت مختلف طریقے استعمال کر سکتی ہے اور علت مختلف النوع مواد پر عمل و اثر کر سکتی ہے۔ ۳۸؎ خودی اور فکر کے ربط کا سلسلہ کائنات کے وجود اور ارادہ الٰہی سے جا ملتا ہے۔ اشاعرہ کا ذکر کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں کہ : (the atom) of the Ash'arite is a fleeting moment of Divine Will.39 ارادہ الٰہی کے کائنات سے ربط، تصور حقیقت کی تفصیلات اور انسانی خودی کے ارتقا کے امکانات کو علامہ نے صوفیہ کی فکر کی روشنی میں بیان کیا۔ فکر اور خودی کے تعلق کی اس نوعیت کے باعث خودی کی ترقی و ارتقاء کی اساس فکر کی تربیت، ترقی اور ارتقا ہو گی۔ گلشن راز جدید میں علامہ فرماتے ہیں: شب خود روشن از نور یقیں کن ید بیضا برون از آستیں کن شرارے جستہ ئی گیر از درونم کہ من مانند رومی گرم خونم وگرنہ آتش از تہذیب نوگیر برون خود بیفروز ، اندروں میر ۴۰؎ اپنی رات کو کو نور یقین سے روشن کر، اپنی آستین سے یدبیضا باہر نکال۔ جس نے دل پر اپنی نظر رکھی، اس نے شرر بویا اور بلند مرتبہ ستارہ حاصل کیا۔ میرے اندر سے اُٹھتے ہوئے شرارے کو لے لے، میں رومی ؒکی مانند گرم خون ہوں۔ اگر مجھ سے کچھ نہیں لیتا تو پھر تہذیب نو کی آتش لے لے، اور اس سے اپنا ظاہر چمکا اور اندر سے مرجا۔ ۴ خودی کے ارتقا کے لیے تصوف کا منھج علامہ کے پیش نظر رہا۔ خودی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے فطرت انسانی کے حوالے سے تصوف کا نقطہ نظر علامہ کے پیش نظر تھا: تصوف کی قوت کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ فطرت انسانی کے متعلق اس کا نقطہ نظر بہت ہی جامع اور مکمل ہے اور اسی نقطہ نظر پر وہ مبنی بھی ہے۔ یہ راسخ العقیدہ لوگوں کے ظلم و تعدی اور سیاسی انقلابات میں صحیح و سلامت نکل آیا۔ کیونکہ یہ فطرت انسانی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتا ہے۔ وہ اپنی دلچسپی کو ایسی زندگی پر مرتکز کر دیتا ہے جو انکار خودی پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی ساتھ آزاد خیالی کے میلان میں مزاحمت بھی نہیں کرتا۔ ؎۴۱؎ گو تصوف کے منفی اثرات اور پہلو بھی علامہ کے پیش نظر تھے: عیسائی راہبوں کی مذہبی تصوریت نے ابتدائی اسلامی اولیاء کے اذہان پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ دنیا سے ان کی بے تعلقی گو بذات خود بہت ہی دل کش ہے، لیکن میرے خیال میں یہ اسلامی روح کے بالکل منافی ہے۔ ؎۴۲؎ صوفیہ مثلاً نقشبندیہ نے ہندی وایدانتیوں کی تقلید میں تعلیم دی کہ جسم انسانی میں مختلف رنگوں کی روشنی کے چھ مراکز ہیں۔ صوفیہ مراقبوں کے ذریعے ان رنگوں کو متحرک کر کے ان کی ظاہری اثرات و تعدد سے بالآخر اس اساسی نور کو متحرک کرتے ہیں جو بے رنگ اور غیر مرئی ہے مگر اس کی وجہ سے ہر شے نظر آتی ہے۔ مختلف اسمائے الٰہی اور دیگر پر اسرار کلمات کے ورد سے جسم کے سالمات حرکت کے ایک متعین راستے پر پڑ جاتے ہیں اور اسی سے مراکز نور کی مماثلت کا تحقق ہوتا ہے جو صوفی کے پورے جسم کو منور کر دیتا ہے۔ ۴۳؎ (تصوف کے ) مراقبوں کے ان طریقوں کی نوعیت بالکل غیر اسلامی ہے اور اعلیٰ درجے کی صوفیہ ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ علامہ نے تشکیل جدید میں حضرت مجدد الف ثانی کے نام عبدالمومن کے خط کی روشنی میں بھی وضاحت کی ہے۔ ۴۴؎ اقبال نے اسلامی فکر کے روایتی تصورات کو رد کیا، یا قبول کیا یا بہ ترمیم اختیار کیا۔ مثلاً ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقاء کے حوالے سے علامہ کا موقف ۴۵؎ یا رومی کا تصور ارتقاء جس کا ذکر علامہ نے خطبات میں بھی کیا۔ اپنے مقالے میں اس کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نے لکھا: رومی نے ارتقاء کا جو تصور پیش کیا (اقلیم جماد۔ اقلیم نباتی۔ حیوان۔ انسان۔ عاقل و دانا) وہ جدید تصور ارتقا کی پیش گوئی ہے۔ اس کو وہ اپنی تصوریت کا ایسا پہلو سمجھتے ہیں جو حقیقت پر مبنی ہے۔ ۴۶؎ ۵ علامہ فرماتے ہیں کہ انسانی خودی کی تربیت اور ارتقاء کے بارے میں تصوف جامع نقطہ نظر رکھتا ہے: صوفیہ کا دعویٰ ہے کہ محض ارادہ یا عقل کو متبدل کر دینے سے طمانیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ احساس کی مکمل تبدیلی کے ذریعے عقل و ارادہ دونوں کو مبدل کر دیں۔ کیونکہ عقل و ارادہ محض دو مخصوص صورتیں ہیں احساس کی۔ فرد کے لیے اس کا یہ پیغام ہے کہ سب سے محبت کر دوسروں کی بہبودی میں اپنی شخصیت کو بھول جا۔ ۴۷؎ صوفیہ کے نزدیک روحانی تربیت کی چار منازل ہیں ایمان بالغیب، غیب کی جستجو، علم الغیب اور تحقیق جو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہم اس کو اپنی روح کی گہرائیوں میں تلاش کرتے ہیں۔ ۴۸؎ اسی مضمون کو علامہ نے تشکیل جدید کے خطبہ ہفتم میں بھی بیان کیا ہے۔ ۴۹؎ جس کمال صدق و یقین کا تقاضا انسانی ذات کرتی ہے اس کا سامان بھی تصوف میں ہی ہے: مقام شوق بے صدق و یقیں نیست یقیں بے صحبت روح الامیں نیست گر از صدق و یقیں داری نصیبے قدم بیباک نہ کس در کمیں نیست ۵۰؎ (محبت و) شوق کا مقام صدق و یقین کے بغیر نہیں ملتا، اور یقین جبرئیل ؑ امیں کی صحبت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ اگر تجھے صدق و یقین حاصل ہے، تو بے باکی سے قدم اُٹھا، کوئی دشمن تیری گھات میں نہیں ہوگا۔ علامہ تصوف کی عملی اہمیت کا تذکرہ غزالی کے حوالے سے کرتے ہیں: غزالی نے علم الیقین کے تمام دعوے داروں کا امتحان لیا اور بالاآخرتصوف میں اس علم الیقین کو پا لیا ۵۱؎ ۔۔ ۔ عقلیت جس کو صوفیہ نے ’پائے چو بیں‘ سے تعبیر کیا ہے آخری مرتبہ غزالی نے رونما ہوئی۔ جن کی بے چین روح نے عقلیت کے سنسان ریگ زار میں ایک مدت تک بھٹکنے کے بعد جذباتِ انسانی کی گہرائیوں میں سکون حاصل کیا۔ ان کی ارتیا بیت کا مطمع نظر یہ تھا کہ ایک اعلیٰ مبدا علم کی ضرورت کو ثابت کیا جائے نہ کہ محض اسلامی علم الکلام کے عقائد کی حمایت۔ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کے تمام تفکری میلانات پر تصوف کو فتح حاصل ہوئی۔ ۵۲؎ انسانی خودی کے ارتقا کے لیے جس مستند ذریعے علم کی ضرورت ہے وہ بھی تصوف ہی فراہم کرتا ہے کیونکہ بالعموم ہمارا علم بہت ہی محدود اور ناقص ہے: اشاعرہ کے نزدیک قوت کا تصور بے معنی ہے اور یہ کہ ہمیں صرف گریز یا ارتسامات کے سوا جن کی ترتیب کو خدا متعین کرتا ہے اور کسی چیز کا علم نہیں۔ ۵۳؎ جبکہ تصوف میں ذریعہ علم قلب ہے: غزالی کے مطابق: مادی آنکھ ہستی مطلق یا نور حقیقی کے صرف خارجی مظہر کو دیکھ سکتی ہے۔ انسان کے دل میں ایک باطنی آنکھ بھی ہے۔ جو برخلاف مادی آنکھ کے اپنے آپ کو بھی اسی طرح دیکھ سکتی ہے جس طرح کہ دوسری اشیا کو یہ ایسی آنکھ ہے جو محدود سے آگے بڑھ کر مظاہر کا پردہ چاک کر دیتی ہے۔ ۵۴؎ اسلامی عقلیت کے ارتیابی میلانات نے بالآخر انہیں ایک ایسے مبداء علم کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا جو فوق العقل ہے۔ سب سے پہلے اس کا اثبات رسالہ قشیریہ میں کیا گیا۔ انیسویں صدی کے مشکک کے لیے ورڈز ورتھ نے ذہن کی اس پراسرار حالت کو منکشف کر دیا جس میں ہم بالکل روحانی ہستی بن کر اشیاء کی حیات کا راز معلوم کر لیتے ہیں۔ ۵۵؎ خودی کے ارتقا میں عشق کے کردار کو اقبال نے مرکزی قرار دیا۔ جس کے بغیر خودی کمال کو نہیں پا سکتی۔ ابن سینا کے مطابق عشق: ابن سینا کے مطابق ’’عشق‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ یہ حسن کی تحسین ہے۔ کائنات کی انتہاء کمال کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ حصول نصب العین کی یہ کوشش گویا حسن کی طرف عشق کی حرکت ہے اور ابن سینا کے نزدیک کمال کے مماثل ہے۔ صور کے مرئی نشوونما کی تہہ میں عشق کی قوت پوشیدہ ہے جو ہر قسم کی حرکت، جدوجہد اور ترقی کی محرک ہے۔ ۵۶؎ اور پھر عشق کی عمل آرائی اس طرح ہوتی ہے کہ : ابن سینا کے مطابق عشق کی قوت میں اپنے آپ کو مرتکز کرنے کا میلان موجود ہے۔ اقلیم نباتی میں اس کو اعلیٰ درجے کی وحدت یا مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔ روح نباتی کے تمام وظائف، تغذیہ، نمو، باز آفرینی وغیرہ عشق ہی کے مختلف مظاہر ہیں۔ تغذیہ کے معنی خارجی کو باطنی میں منتقل کر لینے کے ہیں۔ اجزاء میں زیادہ سے زیادہ توافق پیدا کرنے کے شوق کو نمو کہتے ہیں اور باز آفرینی سے مراد توسیع نوع ہے جو عشق ہی کا ایک پہلو ہے۔ ۵۷؎ ابن سینا کے مطابق تمام اشیا محبوب اول یعنی حسن ازل کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ کسی شے کی قدر و قیمت کا تعین اس اعتبار سے کیا جاتا ہے کہ اس کو انتہائی قوت سے کس قدر قرب یا بعد ہے۔ ۵۸؎ عشق کا یہی تصور شیخ اشراق کے ہاں ملتا ہے: شیخ الاشراق کے مطابق جوں جوں ہم اشیا کی ماہیت کو جاننے لگتے ہیں ہم عالم نور کے قریب ہونے لگتے ہیں اور اس عالم کا عشق ہم میں شدت کا اختیار کرتا جاتا ہے۔ چونکہ محبت کے مدارج لا محدود ہیں روحانی ترقی کے مدارج بھی لامحدود ہیں۔ محبت کے مدارج انا یعنی اپنی ذات کے عرفان سے ’تو‘ کے اثبات اور میں اور تو دونوں کی نفی تک محیط ہیں۔ ۵۹؎ خودی کے ارتقا کے لیے فکر اور عشق کے مراحل و منازل کا تعین کہاں سے ہو گا؟ مذہب، فلسفہ یا آرٹ سے۔ ہیگل کے بقول: Hegal regarded philosophy as a higher form of comprehension than art and religion. It is higher because its comprehension of the absolute is a conceptual one and this means that it is conscious of its own method and of the methods of art and religion.60 جبکہ اقبال نے یہاں فلسفہ کی بجائے مذہب کو ترجیح دی ہے۶۱؎ اور اس کی وضاحت تشکیل جدید کے ساتویں خطبے کے آغاز سے بھی ہوتی ہے ۶۲؎ ۔ علامہ جب خودی کے ارتقا کے لیے مذہب کی رہنمائی کو سرفہرست رکھتے ہیں تو اس سے ان کی مراد تصوف ہے۔ علامہ نے تصوف کے اس کردار کو بانداز تحسین بیان کیا : اس مقالے میں میں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تصوف ان مختلف عقلی و اخلاقی قوتوں کے باہمی عمل و اثر کا لازمی نتیجہ ہے جو ایک خوابیدہ روح کو بیدار کر کے زندگی کے اعلیٰ ترین نصب العین کی طرف اس کی رہنمائی کرتی ہیں۔ ۶۳؎ صوفیہ کے تصور حقیقت کو بیان کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں: صوفیہ نے حقیقت انتہائی کو تین طرح سے بیان کیا ہے، حقیقت بطور شاعر الذات ارادے کے، حقیقت بطور جمال کے اور حقیقت بطور فکر، نور یا علم کے۔ ۶۴؎ علامہ فرماتے ہیں کہ حقیقت سے دوری ایک وہم اور فکری التباس ہے۔ اور اس نقطہ نظر کے حامی رومی ہیں: فراق و جدائی کا احساس ایک لاعلمی ہے اور غیریت محض ایک التباس اور خواب و سایہ ہے۔ یہ تفریق اس نسبت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو ہستی مطلق کو اپنی ذات کا تعقل کرنے کے لیے لازمی تھی۔ اس مکتب کے امام اعظم رومی کامل ہیں۔ ۶۵؎ رومی کا تصور ارتقا بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ عالم جمادات سے تخلیق کا عمل بتدریج انسان اور پھر عاقل و انا انسان کا درجہ آتا ہے: رومی نے ارتقاء کا جو تصور پیش کیا (اقلیم جماد۔ اقلیم نباتی۔ حیوان۔ انسان۔ عاقل و دانا) وہ جدید تصور ارتقا کی پیش گوئی ہے۔ اس کو وہ اپنی تصوریت کا ایسا پہلو سمجھتے ہیں جو حقیقت پر مبنی ہے۔ ۶۶؎ روحانی تربیت کے تصوف کے مراحل کا تذکرہ کرتے ہیں: صوفیہ کے نزدیک روحانی تربیت کی چار منازل ہیں ایمان بالغیب، غیب کی جستجو، علم الغیب اور تحقیق جو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہم اس کو اپنی روح کی گہرائیوں میں تلاش کرتے ہیں۔ ۶۷؎ ۶ تصوف اور صوفیہ کے ضمن میں عبدالکریم الجیلی کی فکر کا علامہ پر بہت اثر ہے۔ الجیلی نے فکر و ہستی کی عینیت کو جس طرح بیان کیا، علامہ فرماتے ہیں: الجیلی کا نقطہ نظر ہیگل کے فکر و ہستی کی عینیت کے مخصوص نظریہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ۶۸؎ الجیلی فکر کو کائنات کا اساسی مواد قرار دیتا ہے: انسان کامل، ج ۲، باب ۳۷ میں اس نے واضح طور پر کہا کہ تصور ہی وہ مواد ہے جس سے کائنات تشکیل پاتی ہے۔ فکر، تصور اور ادراک ہی وہ مواد و مسالہ ہیں جس سے فطرت کی ساخت ہوئی ہے۔ ’شے بذات خود‘ عدم محض ہے، اعراض کے مجموعہ کے عقب میں کوئی شے نہیں۔ اعراض حقیقی اشیا ہیں عالم مادی ہستی مطلق کی خارجی صورت ہے۔ ۶۹؎ اس کے نزدیک ذات اور اس کے خارجی مظہر میں عینیت کا رشتہ ہے: الجیلی کے مطابق عالم مادی ’شے بذات خود‘ ہے۔ عالم مادی ’شے بذات خود‘ کا خارجی مظہر ہے۔ شے بذات خود اور اس کا خارجی مظہر یا انفصال ذات کا نتیجہ درحقیقت ایک دوسرے کے مماثل ہیں اگرچہ ہم ان میں امتیاز کر لیتے ہیں تاکہ کائنات کو سمجھنے میں سہولت ہو ----- جب تک ہم عرض و حقیقت کی عینیت کو متحقق نہ کر لیں عالم مادی یا عالم اعراض ایک پردہ نظر آتا ہے۔ ۷۰؎ الجیلی کہتا ہے کہ کائنات تخلیق سے پہلے خدا کے تصور میں موجود تھی۔ الجیلی کے مطابق کائنات اپنے وجود سے پہلے بحیثیت ایک تصور کے خدا کی ذت میں موجود تھی۔ ۷۱؎ اور اس کا یہی نقطہ نظر فکر اور حقیقت کی عینیت کی اساس قرار پاتا ہے۔ الجیلی جب ذات و صفات کی عینیت کی بات کرتا ہے تو اس کا نکتہ نظر معتزلہ کے قریب قرار پاتا ہے: معتزلہ کے مطابق صفات الٰہی کا الگ وجود نہیں۔ بلکہ صفات مجردہ ہستی ربانی کی بالکل عین ہیں۔ ۷۲؎ ۔۔۔جب وہ جوہر اور وجود کی عینیت کو بیان کرتا ہے جو کہ اشاعرہ کا موقف بھی ہے کہ اشاعرہ کے نزدیک جوہر اور وجود ایک دوسرے کی عین ہیں ۷۳؎ ، تو وہ فکر اور حقیقت کی عینیت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ۷۴ اقبال کے مرد مومن کا تصور الجیلی کے مرد کامل کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوتا ہے۔ الجیلی کے بارے میں فرماتے ہیں: الجیلی کی تعلیمات پر شیخ محی الدین ابن عربی کے طریقہ تفکر کا بہت گہرا اثر ہے اس میں شاعرانہ تخیل اور فلسفیانہ دقیق النظری گھل مل گئے۔ ۷۵؎ مرد مومن کے تشکیل کے حوالے سے الجیلی کے مراحل کا تذکرہ اہم ہے۔ الجیلی کے نزدیک انسان کامل کے ارتقا کے ۳ مراحل ہیں: اسم الٰہی پر استغراق، عرض و صفات کے دائرے میں داخلہ اور عرض و صفات کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد قرب نوافل کا مکمل حال جہاں وہ انسان کامل بن جاتا ہے۔ اس کی زندگی خدا کی زندگی بن جاتی ہے۔ یعنی وہ فطرت کی عام زندگی میں شریک ہو جاتا ہے اور اشیاء کا راز حیات معلوم کر لیتا ہے۔ ۷۶ علامہ فرماتے ہیں: الجیلی نظریہ مایا کے حامیوں سے زبردست اختلاف رکھتا ہے اس کا یقین ہے کہ عالم مادی کا وجود حقیقی ہے بلاشبہ یہ ہستی حقیقی کا خارجی پوست ہے لیکن یہ خارجی پوست بھی کچھ کم حقیقی نہیں۔ ۷۷؎ ۔۔۔الجیلی کے انسان کامل کے ارتقا کی دوسری منزل پر تجلی صفات کے ذریعے انسان کامل خدا کی صفات ان کی اصلی ماہیت میں اسی تناسب سے حاصل کرتا ہے جس قدر کہ اس میں حاصل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اشیا کے حجم (ماہیت) کو بدل سکے اس طرح انسان کامل تمام صفات ربانی سے تجلی حاصل کر کے اسم و صفات کے دائرے سے گزر جاتا ہے اور جوہر یا وجود مطلق کے قلم رو میں قدم رکھتا ہے۔ ۷۸؎ ۔۔۔الجیلی کے مطابق انسان کامل کمال کا اعلیٰ ترین اور آخری نمونہ اور کائنات کا محافظ ہے، انسان کامل دراصل انسان ربانی کی پیدائش ہے۔ ۷۹؎ ۷ انسان کامل کی تشکیل و ظہور کے جو مراحل الجیلی نے بیان کیے ہیں ان کا عکس علامہ کی فکر پر نمایاں ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: الجیلی کے مطابق روحانی ارتقا کی ہر منزل پر انسان کامل کو ایک خاص قسم کا تجربہ ہوتا ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں۔ اس تجربے کے آلے کو وہ قلب سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا دقیق لفظ ہے جس کی تحدید دشوار ہے۔ قلب سے مراد وہ آنکھ ہے جو اسماء و صفات اور ہستی مطلق کا علی الترتیب مشاہدہ کرتی ہے۔ یہ نفس اور روح کے ایک پر اسرار اتحاد سے پیدا ہوتا ہے ، گویا یہ ان کا برزخ ہے اور وجود کے انتہائی حقائق کو معلوم کرنے کا فطرۃً ایک آلہ بن جاتا ہے۔ ۸۰؎ تشکیل جدید میں بھی علامہ نے قلب اور فواد کو ذریعہ علم کے طور پر بیان کیا ہے۔ ۸۱؎ ۸ صوفیہ کی فکر کے اس پس منظر کے ساتھ علامہ کائنات کو خدا کا عمل قرار دیتے ہوئے خودی کی بقا کا راستہ فکر کی تربیت کے ذریعے عمل الٰہی سے ہم آہنگی کو قرار دیتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں: کائنات خدا کا عمل ہے شے نہیں۔ اور انسان اس عمل کا ایک حصہ یا جزو ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ یہ وہ عمل ہے جو عمل در عمل بھی تصرف کی استعداد رکھتا ہے۔ اس کے پاس دو راستے ہیں عمل الٰہی سے ہم آہنگی یا اس سے عدم تطابق۔ یہی اس کی خودی کی بقا یا فنا یا تعین کرے گا۔ ۸۲؎ محقق صوفیہ نے اس فکری یا روحانی تربیت کو بہت ہی منظم اور مرتب انداز سے بیان کیا ہے مثلاً شیخ عبد القادر جیلانی کی فتوح الغیب میں فنائے ثلاثہ کی تعلیم انسانی ذات کے اسی ارتقا کو ممکن بناتی ہے۔ ؎۸۳؎ فکر و شعور کی تربیت ہیمحقق صوفیہ کا طریقہ ہے: وَ اَنْ تُحْجِبَنِیْ عَنِ الْاَعْدَآئِ بِرَھَبُوْتِ سَطْوَتِکَ وَ اَنْ تَکْشِفَ لِیْ عَنْ حَظَآئِرِ النُّوْرِ وَ اَنْ تَجْعَلَنِیْ مِنْ اَھْلِ الْحُضُوْرِ وَ اَنْ تَرْفَعَ عَنْ عَیْنِ بَصِیْرَتِی الْبَرَاقِعِ وَ السُّتُوْرَ وَ اَنْ تَسْتَغْرِقْنِیْ بِکَ عَنِ الْاِحْسَاسِ الشُّعُوْرِo ۸۴؎ اے اللہ تو اپنی شان سطوت سے میری راہ سے اعدا کو دور کر دے اور مجھ پر مقامات نور منکشف فرما اور مجھے صاحبان حضور میں شامل فرما۔ اور میری چشم بصیرت و قلب سے تمام حجابات اور پردے ہٹا دے اور مجھے احساس و شعور سے اپنی ذات میں مستغرق فرما دے۔ وَ اقْذِفْ بِیْ عَلَی الْبَاطِلِ فَاَدْمَغُہٗ وَ زُجَّ بِیْ فِیْ بِحَارِ الْاَحَدِیَّۃِ وَ انْشَلْنِیْ مِنْ اَوْحَالِ التَّوْحِیْدِ وَ اَغْرِقْنِیْ فِیْ عَیْنِ بَحْرِ الْوَحْدَۃِ حَتّٰی لَا ٓ اَرٰی وَ لاَ اَسْمَعَ وَ لاَ اَجِدَ وَ لاَ اُحِسَّ اِلاَّ بِھَا وَاجْعَلِ الْحِجَابَ الْاَعْظَمَ حَیَاۃَ رُوْحِیْ وَ رُوْحَہٗ سِرَّ حَقِیْقَتِیْ وَ حَقِیْقَتَہٗ جَامِعَ عَوَالِمِیْ بِتَحْقِیْقِ الْحَقِّ الْاَوَّلِ یَآ اَوَّلُ یَآ اٰخِرُ یَا ظَاھِرُ یَا بَاطِنُ۔ ۸۵؎ اے اللہ مجھے باطل پر غلبہ عطا فرما کہ میں اسے مٹا دوں۔ اور مجھے اپنی احدیت کے سمندر کا پیراک بنا دے اور مجھے بحر وحدت میں ایسا مستغرق کر دے کہ میں تیرے ساتھ ہی دیکھوں، سنوں، پائوں اور محسوس کروں۔ حجاب اعظم کو میری روح کی زندگی اور اس کی روح کو میری حقیقت کا سر اور اس کی حقیقت کو تحقیق حق کے ساتھ میرے تمام احوال و مقامات کا جامع بنا دے۔ تو ہی اول، آخر، ظاہر اور باطن ہے۔ الغرض علامہ اپنے تصور خودی سے انفرادی سطح پر اس کردار کے حامل مرد کامل اور قومی سطح پر خطبہ الہ آباد میں دیے گئے پیغام کے مطابق اجتماعی خودی کی حامل قوم کی تشکیل چاہتے ہیں جس کا اجتماعی وجود علیکم انفسکم پر کاربند ہو۔ ۸۶؎ ـئ…ئ…ء حوالہ جات و حواشی ۱۔ علامہ محمد اقبال، مثنوی اسرار خودی، ’دیباچہ‘، یونین سٹیم پریس، لاہور، اشاعت اول ۱۹۱۵ئ، ص و، ز۔ ۲۔ شیخ عطاء اللہ، اقبالنامہ- مجموعہ مکاتیب اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص ۳۷۹۔ ۳۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص ۳۹۶۔ ۴۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۹۰ئ، ص ۸۴۱۔ ۵۔ شیخ عطاء اللہ، اقبالنامہ، ص ۴۷۴، ۴۷۵۔ ۶۔ علامہ محمد اقبال، مثنوی اسرار خودی، ’دیباچہ‘، یونین سٹیم پریس، لاہور، اشاعت اول ۱۹۱۵ئ، ص ۱۔ علامہ نے فائوسٹ کے جس مکالمے کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے: It's written here: 'In the Beginning was the Word!' Here I stick already! Who can help me? It's absurd, Impossible, for me to rate the word so highly I must try to say it differently If I'm truly inspired by the Spirit. I find I've written here: 'In the Beginning was the Mind'. Let me consider that first sentence, So my pen won't run on in advance! Is it Mind that works and creates what's ours? It should say: 'In the beginning was the Power!' Yet even while I write the words down, I'm warned: I'm no closer with these I've found. The Spirit helps me! I have it now, intact. And firmly write: 'In the Beginning was the Act!' (Verses 1224-1236). ۷۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۸۔ ۸۔ علامہ محمد اقبال، مثنوی اسرار خودی، ’دیباچہ‘، یونین سٹیم پریس، لاہور، اشاعت اول ۱۹۱۵ئ، ص: ل۔ 9. Francis Herbert Bradley, (30 January 1846 - 18 September 1924), Appearance and Reality (1893), London: S. Sonnenschein; New York: Macmillan, 1916. 10- S. H. Razzaqi, Discourses of Iqbal, p.207-212. ۱۱۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، اسرار خودی، غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۹۰ئ۔ 12- S. H. Razzaqi, Discourses of Iqbal, p. 207-212. 13- L A Sherwani, Speeches, witings and Statements of Iqbal, IAP, Lahore, 2009, p.77 14- S. H. Razzaqi, Discourses of Iqbal, p. 207-212. 15- Alexander, Samuel (1859-1938) , Space, time, and deity: the Gifford lectures at Glasgow, 1916-1918, Published in 1920, Reprinted by Bloomsbury Academic, 2003 16. Mackenzie, John Stuart (1860-1935), An introduction to social philosophy, Glasgow, J. Maclehose & Sons, 1895. 17- S. A. Vahid, Thoughts and Reflections of Iqbal, p. 95. 18- Ibid, p. 101. 19- Ibid, p. 101, 102. 20. I have discussed the subject of Sufism in a more scientific manner, and have attempted to bring out the intellectual conditions which necessitated such a phenomenon. In opposition, therefore, to the generally accepted view I have tried to maintain that Sufism is a necessary product of the play of various intellectual and moral forces which would necessarily awaken the slumbering soul to a higher ideal of life. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 11) ۲۱۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، بانگ درا،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۰ئ، ص ۲۷۲، ۲۷۵۔ ۲۲۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۶۳۸۔ ۲۳۔ ایضاً، ص ۵۵۰۔ ۲۴۔ ایضاً، ص ۵۷۰۔ ۲۵۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۰۰۳۔ ۲۶۔ ایضاً، ص ۲۳۰۔ ۲۷۔ ایضاً، ص۵۶۱۔ 28. The activity of God, then, consists only in making the atom perceptible. The properties of the atom flow from its own nature. A stone thrown up falls down on account of its own indwelling property. "God", says Al 'Attar of Basra and Bishr Ibn al Mu'tamir, "did not create colour, length, breadth, taste or smell-all these are activities of bodies themselves. Even the number of things in the Universe is not known to God. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 56) ۲۹۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۴۶۸۔ 30. The essense of the soul consists in the power of perceiving a number of objects at one and the same moment of time. But it may be objected that the soul-principle may be either material in its essence, or a function of matter. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 43) 31. The soul can conceive certain propositions which have no connection with the sense data. The senses, for instance, cannot perceive that two contradictories cannot exist together. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 45) 32. The soul, according to Al Ghazali, perceives things. But perception as an attribute can exist only in a substance or essence which is absolutely free from all the attributes of body. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 70) ۳۳۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۵۴۰-۵۴۲ ۳۴۔ ایضاً، ص ۵۴۳-۵۴۵ 35. Allama M. Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 55. 36. the atom of the Rationalist possesses an independent objective reality; that of the Ash'arite is a fleeting moment of Divine Will. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 71) 37. The ultimate principle of all existence is "Nur-i-Qahir" the Primal Absolute Light whose essential nature consists in perpetual illumination. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 109) 38. The process of creation. What is the cause of this immense diversity which meets us on all sides? How could the many be created by one? When, says the Philosopher, one cause produces a number of different effects, their multiplicity may depend on any of the following reasons : 1. The cause may have various powers. Man, for instance, being a combination of various elements and powers, may be the cause of various actions. 2. The cause may use various means to produce a variety of effects. 3. The cause may work upon a variety of material. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 41) 39. Allama M. Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia, p.71 ۴۰۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص۵۶۷ 41- It would, therefore, be evident that the secret of the vitality of Sufism is the complete view of human nature upon which it is based. It has survived orthodox persecutions and political revolutions, because it appeals to human nature in its entirety; and, while it concentrates its interest chiefly in a life of self-denial, it allows free play to the speculative tendency as well. (Allama M. Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia, Sang-e-Meel Publications, Lahore, 2004, p.95-96) 42. It was, however, principally the actual life of the Christian hermit rather than his religious ideas, that exercised the greatest fascination over the minds of early Islamic saints whose complete unworldliness, though extremely charming in itself, is, I believe, quite contrary to the spirit of lslam. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 93) 43. It must, however, be remembered that some later Sufi fraternities (e.g. Naqshbandi) devised, or rather borrowed from the Indian Vedantist, other means of, bringing about this Realisation. They taught, imitating the Hindu doctrine of Kundalini, that there are six great centres of light of various colours in the body of man. It is the object of the Sufi to make them move, or to use the technical word, "current", by certain methods of meditation, and eventually to realise, amidst the apparent diversity of colours, the fundamental colourless light which makes everything visible, and is itself invisible. The continual movement of these centres of light through the body, and the final realisation of their identity, which results from putting the atoms of the body into definite courses of motion by slow repetition of the various names of God and other mysterious expressions, illuminates the whole body of the Sufi; and the perception of the same illumination in the external world completely extinguishes the sense of "otherness". (The Development of Metaphysics in Persia, p. 98) 44. Such methods of contemplation are quite un-Islamic in character, and the higher Sufis do not attach any importance to them. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 98) 45. The combination of primary substances produced the mineral kingdom, the lowest form of life. A higher stage of evolution is reached in the vegetable kingdom. The first to appear is spontaneous grass then plants and various kinds of trees, some of which touch the border land of animal kingdom, in so far as they manifest certain animal characteristics. Intermediary between the vegetable kingdom and the animal kingdom there is a certain form of life which is neither animal nor vegetable, but shares the characteristics of both (e.g., coral). The first step beyond this intermediary stage of life, is the development of the power of movement, and the sense of touch in tiny worms which crawl upon the earth. The sense of touch, owing to the process of differentiation, develops other forms of sense, until we reach the plane of higher animals in which intelligence begins to manifest itself in an ascending scale. Humanity is touched in the ape which undergoes further development, and gradually develops erect stature and power of understanding similar to man. Here animality ends and humanity begins. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 42-43) 46. I venture to quote this famous passage in order to show how successfully the poet anticipates the modern concept of evolution, which he regarded as the realistic side of his Idealism. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 102) 47. But the Sufi holds that the mere transformation of will or understanding will not bring peace; we should bring about the transformation of both by a complete transformation of feeling, of which will and understanding are only specialised forms. His message to the individual is "Love all, and forget your own individuality in doing good to others." (The Development of Metaphysics in Persia, p. 95) 48. These are some of the chief verses out of which the various Sufi commentators develop pantheistic views of the Universe. They enumerate the following four stages of spiritual training through which the soul-the order or reason of the Primal Light ("Say that the soul is the order or reason of God.") has to pass, if it desires to rise above the common herd, and realise its union or identity with the ultimate source of all things: (1) Belief in the Unseen. (2) Search after the Unseen. The spirit of inquiry leaves its slumber by observing the marvellous phenomena of nature. "Look at the camel how it is created; the skies how they are exalted; the mountains how they are unshakeably fixed." (3) The knowledge of the Unseen. This comes, as we have indicated above, by looking into the depths of our own soul. (4) The Realisation. This results, according to the higher Sufism from the constant practice of Justice and Charity (The Development of Metaphysics in Persia, p. 97-98) 49. Allama M. Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 143. ۵۰۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص۱۰۲۵ 51. He examined afterwards, all the various claimants of "Certain Knowledge" and finally found it in Sufism. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 70) 52. "Wooden-legged" Rationalism, as the Sufi called it, speaks its last word in the sceptic Al Ghazali, whose restless soul, after long and hopeless wanderings in the desolate sands of dry intellectualism, found its final halting place in the still deep of human emotion. His scepticism is directed more to substantiate the necessity of a higher source of knowledge than merely to defend the dogma of Islamic Theology, and, therefore, marks the quiet victory of Sufism over all the rival speculative tendencies of the time. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 71-72) 53. The Ash'arite, however, starting with the supposetion that cause and effect must be similar, could not share the orthodox view, and taught that the idea of power is meaningless, and that we know nothing but floating impressions, the phenomenal order of which is determined by God. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 69) 54. The physical eye sees only the external manifestation of the Absolute or Real light. There is an internal eye in the heart of man which, unlike the physical eye, sees itself as other things, an eye which goes beyond the finite, and pierces the veil of manifestation. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 72) 55. The sceptical tendencies of Islamic Rationalism which found an early expression in the poems of Bashsh"r Ibn Burd the blind Persian sceptic who deified fire, and scoffed at all.1 non persian modes of thought. The germs of Scepticism latent in Rationalism ultimately necessitated an appeal to a superintellectual source of knowledge which asserted itself in the Risala of Al Qushairi (986). In our own times the negative results of Kant's Critique of Pure Reason drove Jacobi and Schleiermacher to base faith on the feeling of the reality of the ideal; and to the 19th Century sceptic Wordsworth uncovered that mysterious state of mind "in which we grow all spirit and see into the life of things". (The Development of Metaphysics in Persia, p. 91) 56. Avicenna defines "Love" as the appreciation of Beauty, and from the standpoint of this definition he explains that there are three categories of being: 1. Things that are at the highest point of perfection. 2. Things that are at the lowest point of perfection. 3. Things that stand between the two poles of perfection. But the third category has no real existence; since there are things that have already attained the acme of perfection, and there are others still progressing towards perfection. This striving for the ideal is love's movement towards beauty which, according to Avicenna, is identical with perfection. Beneath the visible evolution of forms is the force of love which actualises all striving, movement, progress. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 46) 57. The tendency of the force of love is to centralise itself in the vegetable kindom, it attains a higher degree of unity or centralisation; though the soul still lacks that unity of action which it attains afterwards. The processes of the vegetative soul are: (a) Assimilation. (b) Growth. (c) Reproduction. These processes, however, are nothing more than so many manifestations of love. Assimilation indicates attraction and transformation of what is external into what is internal. Growth is love of achieving more and more harmony of parts; and reproduction means perpetuation of the kind, which is only another phase of love. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 46-47) 58. All things are moving towards the first Beloved the Eternal Beauty. The worth of a thing is decided by its nearness to, or distance from, this ultimate principle. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 47) 59. As we know more and more of the nature of things, we are brought closer and closer to the world of light; and the love of that world becomes more and more intense. The stages of spiritual development are infinite, since the degrees of love are infinite. The principal stages, however, are as follows: (1) The stage of "I". In this stage feeling of' personality is most predominant, and the spring of human action is generally selfishness. (2) The stage of "Thou art not". Complete absorption in one's own deep self to the entire forgetfulness of everything external. (3) The stage of "I am not". This stage is the necessary result of the second. (4) The stage of "Thou art". The absolute negation of "I", and the affirmation of "Thou", which means complete resignation to the will of God. (5) The stage of "I am not; and Thou art not". The complete negation of both the terms of thought the state of cosmic consciousness. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 121-122) 60. Diane Collinson, Fifty Major Philosophers, Roultedge, New York, 1987, p.99 61. Allama Muhammad Iqbal, Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.1 62. Ibid, p.143 63. I have discussed the subject of Sufism in a more scientific manner, and have attempted to bring out the intellectual conditions which necessitated such a phenomenon. In opposition, therefore, to the generally accepted view I have tried to maintain that Sufism is a necessary product of the play of various intellectual and moral forces which would necessarily awaken the slumbering soul to a higher ideal of life. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 11) 64. A careful investigation of Sufi literature shows that Sufism has looked at the Ultimate Reality from three standpoints which, in fact, do not exclude but complement each other. Some Sufis conceive the essential nature of reality as self conscious will, others beauty, others again hold that Reality is essentially Thought, Light or Knowledge. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 99) 65. All feeling of separation, therefore, is ignorance; and all "otherness" is mere appearance, a dream, a shadow-a differentiation born of relation essential to the self recognition of the Absolute. The great prophet of this school is "the excellent Rumi", as Hegel calls him. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 101) 66. I venture to quote this famous passage in order to show how successfully the poet anticipates the modern concept of evolution, which he regarded as the realistic side of his Idealism. (The Development of Metaphysics in Persia, P. 102) 67. These are some of the chief verses out of which the various Sufi commentators develop pantheistic views of the Universe. They enumerate the following four stages of spiritual training through which the soul-the order or reason of the Primal Light ("Say that the soul is the order or reason of God.") has to pass, if it desires to rise above the common herd, and realise its union or identity with the ultimate source of all things: (1) Belief in the Unseen. (2) Search after the Unseen. The spirit of inquiry leaves its slumber by observing the marvellous phenomena of nature. "Look at the camel how it is created; the skies how they are exalted, the mountains how they are unshakeably fixed." (3) The knowledge of the Unseen. This comes, as we have indicated above, by looking into the depths of our own soul. (4) The Realisation. This results, according to the higher S ufism from the constant practice of Justice and Charity (The Development of Metaphysics in Persia, p. 97-98) 68. his (Al-Jili's) view leads him to the most characteristically Hegelian doctrine-identity of thought and being. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 128) 69. In the thirty seventh chapter of the second volume of Insan al Kamil, he clearly says that idea is the stuff of which this universe is made; thought, idea, notion is the material of the structure of nature…… Kant's Ding an sich to him is a pure nonentity there is nothing behind the collection of attributes. The attributes are the real things, the material world is but objectification of the Absolute Being; (The Development of Metaphysics in Persia, p. 128) 70. (Al-Jili)says that the material world is the thing in itself; it is the "other", the external expression of the thing in itself. The Ding an sich and its external expression or the production of its self diremption, are really indentical, though we discriminate between them in order to facilitate our understanding of the universe. …He says that as long as we do not realise the identity of attribute and reality, the material world or the world of attributes seems to be a veil; (The Development of Metaphysics in Persia, p. 129) 71. God did not create it out of nothing, and holds that the Universe, before its existence as an idea, existed in the self of God. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 138) 72. The Mu'tazila, therefore, denies the separate reality of divine attributes, and declares their absolute identity with the abstract divine Principle. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 54) 73. Rationalists that existence constitutes the very being of the essence. To them, therefore, essence and existence are identical. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 79) 74. The first necessitates the identity of subject and object which is absurd: the second implicates duality in the nature of God which is equally impossible. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 54) 75. He is not a prolific writer like Shaikh Muhy al-Din Ibn 'Arabi whose mode of thought seems to have greatly influenced his teaching. He combined in himself poetical imagination and philosophical genius, but his poetry is no more than a vehicle for his mystical and metaphysical doctrines. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 124) 76. In the first stage of his spiritual progress he meditates on the name, studies nature on which it is sealed; in the second stage he steps into the sphere of the Attribute, and in the third stage enters the sphere of the Essence. It is here that he becomes the Perfect Man; his eye becomes the eye of God, his word the word of God and his life the life of God-participates in the general life of Nature and "sees into the life of things" (The Development of Metaphysics in Persia, p. 127) 77. It should be observed how widely he differs from the advocates of the Doctrine of "Maya". He believes that the material world has real existence; it is the outward husk of the real being no doubt, but this outward husk is not the less real. (The Development of Metaphysics in Persia, P, 128) 78. The second stage of the spiritual training is what he calls the illumination of the Attribute. This illumination makes the perfect man receive the attributes of God in their real nature in proportion to the power of receptivity possessed by him a fact which classified men according to the magnitude of this light resulting from the illumination. Some men receive illumination from the divine attribute of Life, and thus participate in the soul of the Universe. The effect of this light is soaring in the air, walking on water, changing the magnitude of things (as Christ so often did). In this wise the perfect man receives illumination from all the Divine attributes, crosses the sphere of the name and the attribute, and steps into the domain of the Essence Absolute Existence. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 135) 79. He becomes the paragon of perfection, the object of worship, the preserver of the Universe. He is the point where Man-ness and God-ness become one, and result in the birth of the god man. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 136) 80. How the perfect man reaches this height of spiritual development, the author does not tell us; but he says that at every stage he has peculiar experience in which there is not even a trace of doubt or agitation. The instrument of this experience is what he calls the Qalb (heart), a word very difficult, of definition. He gives a very mystical diagram of the Qalb, and explains it by saying that it is the eye which sees the names, the attributes and the Absolute Being successively. It owes its existence to a mysterious combination of soul and mind; and becomes by its very nature the organ for the recognition of the ultimate realities of existence. (The Development of Metaphysics in Persia, p. 136) 81. Allama M. Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 12, 153. 82. The Universe is not a thing but an act. (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 41). ۸۳۔ شیخ عبدالقادر جیلانی، فتوح الغیب، مقالہ چہارم، شرح عبدالحق محدث دہلوی، ۱۲۸۱ھ، ص۱۸۔ ۸۴۔ محمد عبدالرحمن چھوروی، مجموعہ صلوات الرسول، ۵۱ گھاٹ فریاد بیگ، سولہ شہر، چاٹگام، ۱۹۸۲ئ،جزو ۲۴، ص: ۳۹ ۸۵۔ ایضاً، جزو ۲۴، ص: ۴۰ 86. L A Sherwani, Speeches, witings and Statements of Iqbal, IAP, Lahore, 2009, p.29 ـئ…ئ…ء