اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مدیر : ڈاکٹر وحید عشرت نائب مدیر : احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی - مثلاً اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتہ پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr,comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات گوشۂ مہماناں ۱ - اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور علامہ اقبال پروفیسر ڈاکٹر عبدالمغنی ۱ ۲ - اقبال کی شاعری میں ’’ شاہین ‘‘ کا تصو ر محمد محمود الاسلام ۲۳ سوانح ۳ - علامہ اقبال - زندگی کا ایک دن ممتاز حسن ترجمہ: محمد سہیل عمر ۲۹ شخصیات ۴- علامہ اقبال کے شاگرد - نواب احمد یار خان دولتانہ محمد حنیف شاہد ۳۷ مباحث ۵ -مسلم نظریہ ٔعلم ، ملا صدرا اور اقبال کے تناظر میں ڈاکٹر وحید عشرت ۴۹ ۶ - رومی - مرشد اقبال احمد جاوید ۶۷ استفسارات ۷ - چیست معراج آرزوئے شاہدے؟ احمد جاوید ۸ - محترمہ ڈورس احمد علامہ کے ہاںکب تشریف لائیں؟ ڈاکٹر وحید عشرت ۸۱ تبصرہ کتب ۹ - اقبال کی صحت زباں مبصر :نیر مسعود ۹۳ ۱۰ - مقالات احسن مبصر : ڈاکٹرخواجہ حمید یزدانی ۹۶ گوشۂ منور ۱۱ - مرزا منور کی باتیں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۰۱ ۱۲ - پروفیسر محمد منور ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی ۱۱۳ ۱۳ - مرزا محمد منور - اقبال کے شیدائی ڈاکٹر انور سدید ۱۲۱ ۱۴ - مرزا محمد منور - ایک مطمئن مزاح نگار ڈاکٹر انور سدید ۱۲۷ ۱۵ - پروفیسر محمد منور - ایک مرد حق آگاہ صلاح الدین ایوبی ۱۳۹ ۱۶ - پروفیسر محمد منور - چند یادیں بشیر حسین برلاس ۱۴۹ ۱۷ - استاد المکرم پروفیسر محمد منور کا سفر آخرت سید یوسف عرفان ۱۶۱ اخبار اقبالیات مرتبہ: ڈاکٹر وحید عشرت ۱۸ -۲۱ ویں صدی میں ڈاکٹر محمد اقبال کی معنویت- ۱۶۹ ماریشس میں بین الاقوامی کانفرنس - ۶،۷ ستمبر۱۹۹۹ء وفیات ۱۹ - ڈاکٹر ابوسعید نور الدین ۱۷۴ ۲۰ - پروفیسر محمد منور ۱۷۵ ۲۱ - ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ۱۷۶ ۲۲ - طاہر شادانی ۱۷۹ قلمی معاونین ۱ - پروفیسر ڈاکٹر عبدالمغنی وائس چانسلر ، ایل ایل متھلا یونیورسٹی در بھنگہ، بہار، بھارت ۲ - ڈاکٹر محمد صدیق شبلی صدر شعبہ اقبالیات، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،اسلام آباد ۳ - ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صدر شعبہ اردو ، جامعہ پنجاب ، لاہور ۴ - ڈاکٹر انور سدید رکن شعبہ ادارت روز نامہ نوائے وقت، لاہور ۵ - نیر مسعود ادبستان - دین دیال روڈ ، لکھنؤ ، بھارت ۶ - ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی یزدانی سٹریٹ، ملت پارک ، سمن آباد ، لاہور ۷ - محمد حنیف شاہد لائبریرین، شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی، ریاض ، سعودی عرب ۸ -صلاح الدین ایوبی ۱۸۱ - سی گلشن راوی ، لاہور ۹ - سید یوسف عرفان استاد ، شعبہ انگلش، گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز، لاہور ۱۰ - محمد محمود الاسلام شعبہ اردو ، ڈھاکہ یونیورسٹی، بنگلہ دیش ۱۱ - محمد سہیل عمر ناظم ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۲ - ڈاکٹر وحید عشرت نائب ناظم (ادبیات) ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۳ - احمد جاوید معاون ناظم (ادبیات) اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۱۴ - بشیر حسین برلاس رکن ، شعبہ حسابات ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور حواشی خ خ خ خ خ خ خ خ خ خ خ خ خخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخ خخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخ خخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخخ گوشۂ مہمانان اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور علامہ اقبال پروفیسر ڈاکٹر عبدالمغنی عام طور پر جب ہم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا فقرہ استعمال کرتے ہیں تو در حقیقت مسلمانوں یا امت مسلمہ کے دوبارہ عروج کا تصور کرتے ہیں ، اس لیے کہ نشاۃ ثانیہ کی ترکیب میں تجدید کا جو مفہوم ہے، وہ در حقیقت ایک انگریزی لفظ Renaissance کا ترجمہ ہے ، ورنہ اصلاً اردو اور فارسی میں تجدید و احیائے دین کے الفاظ اسی دین اسلام کی طرف لوٹنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو اپنی خالص و کامل شکل میں ڈیڑھ ہزار سال قبل حضرت محمد ﷺ پر وحی الٰہی کے ذریعے، دنیا کے سامنے، انسانیت کی ایک متاع گم شدہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ کائنات کی ابتدا سے یہی دین فطرت اور نظام قدرت رہا ہے، اور کائنات کی انتہا تک رہے گا - چونکہ قرآن مجید کی صورت میں دین اسلام خدا کے آخری رسول ﷺ کا دیا ہوا خدا کا آخری پیغام ہے، لہٰذا اس کے کبھی ختم ہو کر دوبارہ، اور ازسر نو فروغ پانے کا سوال نہیں اٹھتا - یہی وجہ ہے کہ پندرہ سو سال کی تاریخ میں مسلمانوں یا ملت اسلامیہ کے عروج و زوال کے ہر دور میں اسلام ، قرآن و سنت کے مطابق، اپنی اصلیت کے ساتھ، باقی رہا ہے اور مغرب میں عیسائیت کی طرح اس کی کوئی نئی تعبیر و تصویر نہیں نکالی گئی نہ ہی اس کے بنیادی ارکان کی تشریح و تعمیل میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی - اس اعتبار سے عصر حاضر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے علامہ اقبال نے جو کار نامہ انجام دیا،وہ صرف اصل اسلام کی جدید محاورے میں ترجمانی کا ہے- یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے انگریزی خطبات پر مشتمل کتاب کا نام Reconstruction of Religious Thought In Islam یعنی اسلام میں دینی فکر یا مذہبی تفکر کی تشکیل جدید رکھا ، جس کے اردو ترجمے کا عنوان پتا نہیں کیوں تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے الفاظ میں قائم کیا گیا - اول تو انگریزی اصطلاح Theologyکا اردو ترجمہ ’’الٰہیات‘‘ بجائے خود مشتبہ ہے ، جبکہ ایک دوسرا ترجمہ ’’دینیات‘‘ بھی ہو سکتا ہے، اور دینیات و الٰہیات، دونوں ہی لفظوں میں اسلام کی تشکیل جدید ناقابل اعتبار ہی نہیں، ناقابل تصور ہے؛ البتہ دینی فکر یا مذہبی تفکر ، جیسا کہ اقبال کے اختیار کردہ انگریزی الفاظ’’ Religious Thought ‘‘سے واضح ہے، معقول و مقبول ہے - اس طرح صحیح معنوں میں اقبال کا منصب بیسویں صدی میں ایک متکلم یا مفکر اسلام کا ہے- دور جدید میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کے سلسلے میں اقبال کے افکار و خیالات زیادہ تر ان کی اردو اور فارسی شاعری میں رو بہ اظہار آئے ہیں - یہ شاعری فکر و فن کا ایک ایسا باکمال مجموعۂ خوبی ہے جس میں ایک طرف آج کے مسلمانوں یا ملت اسلامیہ کی کمزوریوں کا تجزیہ اور مغرب زدہ ماحول کا تنقیدی جائزہ وضاحت اور گہرائی کے ساتھ ہے تو دوسری طرف اسلامی نصب العین کو اس جوش ، حوصلے اور ولولے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ دماغوں میں روشنی اور دلوں میں گرمی پیدا ہوتی ہے - یہ اقبال کی غیر معمولی بصیرت تھی اور ان کے ایمان کی پختگی کہ مشرقی علوم و فنون کے علاوہ مغربی علوم و فنون سے مکمل واقفیت اور براہ راست مغربی ترقیات اور تمدنی و تہذیبی حالات و رجحانات سے آگاہی کے باوجود ان کا ذہن اور کردار ان کیفیات میں مبتلا نہیں ہوا جنہوں نے اہل مشرق کو مرعوب کر رکھا تھا ، بلکہ انہوں نے مغرب کے غلبے کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اس کے طلسم کو اپنے کلام کی قوت سے، نظریاتی طور پر ، توڑ کر رکھ دیا - اسرار خودی اور رموز بیخودی لکھ کر اقبال نے مغرب کی ذہنی برتری کا پول اس وقت کھول دیا جب اس کا ڈھول زور و شور سے پورے گلوب پر بج رہا تھا - ان دونوں کتابوں نے مسلمانوں اور تمام اہل مشرق کو اپنے وجود کی انفرادیت اور اجتماعیت، دونوں کے تحفظ و ترقی کا پیغام دیا - یہی وہ پیغام ہے جس نے موجودہ صدی کی پہلی چوتھائی میں عالم اسلام کو اپنی نشاۃ ثانیہ کی طرف اس موثر طریقے سے متوجہ کیا کہ شخصی و ملی خودی کا جذبہ نئی نسلوں کے ذہن پر ایک نشہ بن کر چھا گیا - یہ ایک جادو تھا جو بڑے بڑے دہریوں اور ملحدوں کے بھی سر چڑھ کے بولا - واقعہ یہ ہے کہ حالی و شبلی نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جو ابتدائی کام کیے تھے، اس کو اقبال کی شاعری نے آفاقی سطح پر بہت آگے بڑھا دیا - اس مہم میں احیائے دین کے لیے الہلال کے ذریعے مولانا ابوالکلام آزاد کی کوششوں نے بھی صدی کی پہلی چوتھائی کے ہندوستان میں ایک قابل ذکر حصہ لیا، جبکہ بعد کی نصف صدی میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر نے اقامت دین کے لیے جدوجہد کی راہ پوری دنیائے اسلام میںہموار کی - اس سلسلے میں اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اول میں انہوں نے مغرب کے عروج کے باوجود، خاص کر مغربی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو، ذہنی و قلبی طور پر اسلام سے وابستہ رکھا - اقبال کی پہلی بڑی نظم ، اردو میں ’’ تصویر درد ‘‘ ہے جس کو اکثر لوگوں نے وطن پرستی سے منسوب کر دیا ہے ، مگر در حقیقت یہ صرف وطن دوستی ہے ، جبکہ شاعر نے جس موقف سے اشعار کہے ہیں، وہ ایک مسلمان اور اسلام پسند کا ہے - نظم کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے: اٹھائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری اڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے ، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری دو تمہیدی اشعار کے بعد مزید تمہید کے طور پر کہے گئے یہ اشعار ظاہر ہے کہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے اس ورثے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پورے ملک کے دوسرے فرقوں میں گویا تقسیم ہو گیا - آگے چل کر شاعر براہ راست مسلمانوں سے خطاب کرتا ہے : زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے ان اشعار میں مسلمانوں کو اسلام سے انحراف اور دین کی تحریف پر خبردار کرتے ہوئے، توحید کے اصل پیغام پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس میں اسلامی نظریے کے تحت وطن دوستی اور وسیع تر انسان دوستی، دونوں کا مفہوم پنہاں ہے - چنانچہ نظم کے پیشتر اشعار میں اسی مفہوم کی تشریح کی گئی ہے- اس کے بعد ۱۹۱۲ء میں ’’ شمع اور شاعر‘‘ نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کا نہ صرف اعلان بلکہ منشور بھی پیش کیا- اس میں امت مسلمہ کے زوال کی تصویر کشی بھی ہے اور دوبارہ عروج کی پیش گوئی بھی - حسب ذیل اشعار سے یہ دونوں نکات واضح ہوتے ہیں : رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں رقص میں لیلا رہی ، لیلا کے دیوانے رہے وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہو گئیں شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی جب یہ جمعیت گئی ، دنیا میں رسوا تو ہوا فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں وائے نادانی ! کہ تو محتاج ساقی ہو گیا مے بھی تو ، مینا بھی تو ، ساقی بھی تو، محفل بھی تو شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو بے خبر ! تو جوہر آئینۂ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے ، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت اے تغافل پیشہ ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے نظم کا آخری بند پورے کا پورا عصر حاضر میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کا ایک بے مثال وجد آفریں نغمہ ہے: آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور خون گل چیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے جنگ عظیم اوّل سے دو سال قبل لکھی ہوئی یہ نظم ، جب کہ برطانیہ کی سلطنت پر آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا اور ملت اسلامیہ میں بچی کھچی خلافت کا تصور بھی عثمانی ترکوں کے زوال کے سبب ماند پڑنے لگا تھا، فراست ایمانی اور جرأت ایمانی، دونوں کی ایک تاریخی دستاویز ہے جس کی کوئی نظیر دورجدید کے ادب میں نہیں پائی جاتی ، خواہ وہ کسی زبان اور خطے کا ہو- یہ نظم اقبال کی آفاقی بصیرت کا ایک نادر شاہکار ہے- اسے بیسویں صدی میں نشاۃ ثانیہ کی اسلامی تحریک کا پہلا موثر تخلیقی اظہار قرار دیا جانا چاہیے- اسی زمانے میں اقبال نے ’’ شکوہ ‘‘ لکھ کر مسلمانوں کے حال زار پر اللہ تعالٰی سے فریاد کی: رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر لیکن نظم کا خاتمہ اصلاح احوال اور اس میں اپنے کلام کی تاثیر کے لیے اس دعا پر ہوا: چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں پھر اسی بادئہ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری اس فریاد اور دعا کے جواب میں بارگاہ خداوندی سے جو ’’ جواب شکوہ ‘‘ آیا وہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کی یقین دہانی اور اس کے لیے ہدایات پر مشتمل ہے : چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری وقت فرصت ہے کہاں ، کام ابھی باقی ہے نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے اس سے پہلے اسی نظم میں عہد نو کا یہ تجزیہ اور اس کی تباہ کاریوں کے با وجود ملت ختم رسلﷺ کے لیے مستقبل کا یہ مژدہ بھی دیا گیا : عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے اس نئی آگ کا اقوام کہن ایندھن ہے ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے یہ تاریخی نظم اس ولولہ خیز بند پر ختم ہوتی ہے : عقل ہے تیری سپر ، عشق ہے شمشیر تری مرے درویش ! خلافت ہے جہاں گیر تیری ماسوی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں اسی نظم میں ایک واضح اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ در حقیقت عصر حاضر میں پوری انسانیت کی نشاۃ ثانیہ ہے ، اس لیے کہ تمام مادی ترقیات کے باوجود انسانی قدریں تباہ ہو رہی ہیں اور ان کا تحفظ صرف اسلامی نظریۂ حیات کر سکتا ہے ، جو پرانی جاہلیت کی طرح نئی جاہلیت کی تاریکی کو بھی دور کر کے سارے عالم میں ایک بار پھر فتنہ و فساد کے بجائے اصلاح و فلاح کی روشنی پھیلا سکتا ہے: کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے عہد نو رات ہے ، دھندلا سا ستارا تو ہے لیکن آج کی دنیا کی اس ناخدائی اور رہنمائی کے لیے مسلمانوں کو خود اپنی اصلاح کے لیے تنبیہ بھی کی گئی ہے ، ان کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہے اور قیادت کے لیے درکار اوصاف کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا گیا ہے : منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟ جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا تو غریب امرا نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی برق طبعی نہ رہی ، شعلہ مقالی نہ رہی رہ گئی رسم اذاں ، روح بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا ، تلقین غزالی نہ رہی مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نا بود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود ؟ وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں ! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود ! یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو ’’ خضر راہ ‘‘ میں اقبال نے دور جدید کے مسائل پر بین الاقوامی نکتہ ٔ نظر سے روشنی ڈالتے ہوئے زندگی ، سلطنت اور سرمایہ و محنت کی کشمکش کا راز بتایا - اسی تناظر میں انہوں نے دنیائے اسلام کا جائزہ لیا ، جس میں ترک و عرب کی آویزش کا ذکر کرتے ہوئے ملی انتشار پر تبصرہ کیا : حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز اس کے بعد نشاۃ ثانیہ کے لیے خالص نظریاتی بنیاد پر ملی اتحاد ، اخوت و مساوات اور پورے مشرق کے لیے اسلامی نشاۃ ثانیہ کی اہمیت کا احساس اس طرح دلایا : ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر! نظم کا خاتمہ عالم انسانیت کے لیے اسلام کے آفاقی پیغام اور اس کی تجدید، نیز غلبے کے اشارات پر ہوتا ہے : عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیش نظر ’’لا یخلف المیعاد‘‘ دار ’’ طلوع اسلام ‘‘ جیسا کہ ترکیب الفاظ ہی سے ظاہر ہے ، براہ راست دور حاضر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے موضوع پر لکھی گئی ہے - جنگ عظیم اول ۱۸ -۱۹۱۴ ء کے بعد یورپ کے اتحادیوں نے جب ترکی پر حملہ کیا اور ترک مسلمانوں نے اتحادی عیسائیوں کا کامیاب مقابلہ کیا تو ان کی اس عظیم الشان تاریخی کامیابی کو اقبال نے ایک مدت تک آفتاب اسلام کے غروب کے بعد اس کے دوبارہ طلوع سے تعبیر کیا ، گرچہ یہ طلوع و غروب اسلام کی ابدی کائنات میں صرف مطلع کا فرق ہے : جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ، ادھر ڈوبے ادھر نکلے اسلام کی تاریخ میں قانون قدرت کے مطابق نشیب و فراز اور عروج زوال آتے رہے ہیں ، لیکن یہ دین خدا کا آخری پیغام ہے اوراولین بھی ، جو ہمیشہ رہے گا - یہی وجہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی تجدید بار بار ہوتی رہی ہے، اور موجودہ صدی یا موجودہ زمانے میں بھی اس کی نئی آب و تاب کے آثار نمایاں ہیں ، جن کا آغاز صدی کی پہلی چوتھائی کے اواخر ہی میں اتحادیوں کے مقابلے میں ترکوں کی فتح یابی سے ہوا - اگرچہ یہ فتح دفاعی ، وقتی اور معمولی تھی ، مگر تقریباً دو صدیوں کی شکست و ریخت کے بعد دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں کا عیسائیوں سے کامیاب مقابلہ بجاے خود کامرانی کی ایک دلیل اور شادمانی کا باعث تھا- اسی جہت سے مفکر شاعر نے اس کا معرکہ آرا جشن منایا اور آئندہ زیادہ بڑی کامیابیوں کا حوصلہ دلایا - اس موقع پر اقبال نے موجودہ ملت اسلامیہ کے مزاج و کردار کا تجزیہ بھی کیا اور اس کے احوال کا جائزہ بھی لیا - انہوں نے اس سلسلے میں دور حاضر کے عالم انسانیت کی برتری پر بھی روشنی ڈالی اور مسلمانوں کے ہاتھوں اس کی متوقع بہتری کی توقع بھی ظاہر کی - اس طرح علامہ اقبال نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کو ایک آفاقی تناظر میں پیش کیا اور دین و ملت کی بین الاقوامی حیثیت و اہمیت کی نشان دہی کی - ان نکات کی طرف اشارہ کرنے والے اشعار ذیل میںجستہ جستہ درج کیے جاتے ہیں: ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے ٭٭٭ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے شکوہ ترکمانی ، ذہن ہندی ، نطق اعرابی ٭٭٭ خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں ، وہ کارواں تو ہے مکاں فانی ، مکیں آنی ، ازل تیرا، ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تو ، جاوداں تو ہے حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا تری نسبت براہیمی ہے ، معمار جہاں تو ہے تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر نبوت ساتھ جس کو لے گئی ، وہ ارمغاں تو ہے یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ،شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ٭٭٭ یہی مقصود فطرت ہے ، یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہاں گیری ، محبت کی فراوانی بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی ٭٭٭ غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا؟ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ! ولایت ، پادشاہی ، علم اشیا کی جہاں گیری یہ سب کیا ہیں ؟ فقط اک نکتہ ٔ ایماں کی تفسیریں ! براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ٭٭٭ یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے تو راز کن فکاں ہے ، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا ، خدا کا ترجماں ہو جا ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا ، محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی تو اے شرمندئہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا غبار آلودئہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا خودی میں ڈوب جا غافل ! یہ سر زندگانی ہے نکل کر حلقہ ٔ شام و سحر سے جاوداں ہو جا مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی یہ اشعار اسلامی نشاۃ ثانیہ کا نصب العین اور لائحہ ٔعمل ، دونوں پیش کرتے ہیں ، جن سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا مطمح نظر آج کی دنیا میں ایک مکمل انقلاب ہے، اور وہ اسلام کو اس انقلاب کا آفاقی نظریہ قرار دیتے ہیں جس کے مطابق وہ عصر حاضر میں پورے نظام حیات کی تشکیل جدید چاہتے ہیں تاکہ صحیح معنوں میں عروج آدم خاکی اس طرح واقع ہو کہ انسانیت اپنے نقطہ ٔ کمال تک پہنچ جائے اور منشاء تخلیق پورا ہو - اقبال کا نظریہ ٔ خودی ، تصور ارتقا اور عالم گیر انسان دوستی ، پھر ان مقاصد کے لیے ایک آفاقی انقلاب کا تخیل ، سب کا تعلق ان کی مطلوب اسلامی نشاۃ ثانیہ سے ہے - اس سلسلے میں انہوں نے توحید و رسالت اور آخرت پر ایمان کے موضوع کو اپنی غزلوں اور نظموں کا ایک لافانی ، سحر انگیز اور طلسم آفریں نغمہ بنا دیا ہے - بال جبریل کی ایک غزل کے حسب ذیل اشعار اسی حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں : ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی ، آشیاں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے ، پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں ’’ ساقی نامہ ‘‘ کا اختتام جن اشعار پر ہوتا ہے ، ان میں سے چند یہ ہیں جو خدا کے لیے انسان کی بندگی اور بندئہ خدا کی ترقی پر روشنی ڈالتے ہیں : وہی سجدہ ہے لائق اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر خودی شیر مولا،جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخی فکر و کردار کا یہ ہے مقصد گردش روز گار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار تو ہے فاتح عالم خوب و زشت تجھے کیا بتائوں تری سرنوشت ’’ مسجد قرطبہ ‘‘ اسلامی نشاۃ ثانیہ کی ایک مجسم علامت ہے - اس کے چند اشعار مسلمانوں کو تاریخ عالم میں ان کا مقام اور کام ، ان کی حیثیت اور اہمیت دونوں ، بتانے کے لیے کافی ہوں گے : مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے اس کی اذانوں سے فاش سّر کلیمؑ و خلیلؑ اس کی زمیں بے حدود، اس کا افق بے ثغور اس کے سمندر کی موج دجلہ و دنیوب و نیل اس کے زمانے عجیب ، اس کے فسانے غریب عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل ٭٭٭ ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں ، کار کشا ، کار ساز خاکی و نوری نہاد بندئہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل ، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل و پاک باز نقطۂ پرکار حق ، مرد خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز عقل کی منزل ہے وہ ، عشق کا حاصل ہے وہ حلقۂ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ ٭٭٭ عالم نو ہے ابھی پردئہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرئہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش انقلاب صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب ضرب کلیم میں اقبال نے تجدید انسانیت کے لیے یہ اعلان حق کیا : یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ ’’ فقر وملوکیت ‘‘ کے عنوان سے اسلام کو ’’ فقر غیور‘‘ قرار دے کر اس کے دوبارہ فروغ کی یہ پیش قیاسی کی گئی : اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زر و سیم چنانچہ ’’ سلطانی ‘‘ کے بارے میں کہا گیا : یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار اسی مقام سے آدم ہے ظل سبحانی ہندوستان میں اسلام کی صورت حال پر ایک نظم ’’ ہندی اسلام‘‘ میں اس طرح تبصرہ کیا گیا : مسکینی و محکومی و نومیدیٔ جاوید جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد ملاّ کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد قلندر کو مرد مومن کی علامت قرار دیتے ہوئے ’’ قلندر کی پہچان‘‘ یہ بتائی گئی : مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر ’’ کافر و مومن ‘‘ کے عنوان سے اسلام کی آفاقی حیثیت کی نشان دہی اس فکر انگیز طریقے سے کی گئی : کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق ایک ہمہ گیر عالمی انقلاب کے لیے ’’ مہدی برحق ‘‘ کا تصور پیش کیا گیا : دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار ’’ مدنیت اسلام‘‘ کی تشریح ان معنی خیز لفظوں میں کی گئی : عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبیعت ، عرب کا سوز دروں ’’ امامت ‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے اس نکتے پر زور دیا گیا : فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے رسالت محمدی کی خاص شان ’’ نبوت‘‘ کے عنوان سے ایک پیغام کے طور پر یہ بتائی گئی : وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام وحدت آدم اور ملت آدم کے تصورات اس انداز سے پیش کیے گئے : مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم ؟ ’’ آزادی ‘‘ کے موضوع پر یہ خیال انگیز اور بصیرت افروز تبصرہ کیا گیا : ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا اسلام ہے محبوس ، مسلمان ہے آزاد ! ’’ شعاع امید ‘‘ میں عصر حاضر کے عالمی ماحول کی تاریکی کا جائزہ لیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ روشنی کی امید مشرق سے ہے ، جس کا مرکز ہندوستان بن گیا ہے - بہرحال مشرق سے ابھرنے والی روشنی سارے عالم کے لیے ہو گی : مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر ارمغان حجاز میں ’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ کا موضوع یہ ہے کہ مغربی سرمایہ داری اور جمہوریت کے تحت شیطنت کا راج ہو گیا ہے ، جبکہ اشتراکیت بھی اس شیطانی راج کے لیے کوئی خطرہ نہیں ، لہٰذا ابلیس کو اگر اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے تو صرف اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور مسلمانوں کی اسلامی نظریے کے مطابق بیداری اور سرگرمی سے ہے ، اس لیے شیطان کی حکمت عملی یہ ہے کہ دین و سیاست ، معیشت و معاشرت اور تہذیب و ادب و زندگی کے سبھی دائروں میں مسلمان حسب معمول توہمات و خرافات میں مبتلا رہیں اور اصل اسلام کی طرف رجوع نہ کریں ، جس کے انقلابی اصول دنیا سے ایک بار پھر شیطنت کا خاتمہ کر دیں گے ، چنانچہ وہ اپنی تشویش کا اظہار اس طرح کرتا ہے : جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندئہ مومن کا دیں جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں عصر حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں الحذر ، آئین پیغمبر سے سو بار الحذر حافظ ناموس زن ، مرد آزما ، مرد آفریں موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقاں ، نے فقیر رہ نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے اقبال کی نظموں اور غزلوں کا پہلا مجموعہ فارسی میں پیام مشرق کے نام سے جنگ عظیم اول کے خاتمے (۱۹۱۸ئ) کے چار سال بعد شائع ہوا ، جس پر انھی کا لکھا ہوا ایک مختصر لیکن نہایت اہم اردو دیباچہ بھی ہے - اس میں انہوں نے مغرب کے زوال و انتشار کا ذکر کرتے ہوئے ایک ایسی نئی دنیا کے ابھرنے کی پیش گوئی کی ہے جس میں مشرق کا کردار فیصلہ کن ہو گا ، اس لیے کہ بقول ایک جرمن شاعر ، ہائنا کے ’’ مغرب اپنی کمزور اور سرد روحانیت سے بیزار ہو کر مشرق کے سینے سے حرارت کا متلاشی ہے‘‘- یہ بات اس نے گوئٹے کے مغربی دیوان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی ، جو جرمن ادبیات کی تحریک مشرقی کا ایک نمونہ ہے ، اور جس کے جواب میں اقبال نے پیام مشرق لکھ کر اس کے سر نامے پر یہ قرآنی آیت تحریر کی : ’’و للہ المشرق و المغرب ‘‘ مشرق و مغرب دونوں اللہ کے ہیں اسی دیباچے میں اقبال نے یوں اظہار خیال کیا ہے: ’’ اقوام عالم کا باطنی اضطراب … ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے- یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے ، اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے‘‘- آگے چل کر اقبال رقم طراز ہیں : ’’ مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے ، مگر اقوام شرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو ، اور کوئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو - فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا مابانفسہم کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے ، زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں پر حاوی ہے ، اور میں نے اپنی فارسی تصانیف میں اسی صداقت کو مدنظر رکھنے کی کوشش کی ہے ‘‘- علامہ اقبال کی فارسی تصانیف کا دائرہ اسرار خودی سے ارمغان حجاز کے فارسی حصے تک محیط ہے - ان میں پیام مشرق کی غزلیات و منظومات کے علاوہ زبور عجم کی غزلیات اور جاوید نامہ کی عظیم الشان تمثیلی نظم سب سے نمایاں ہیں - ایک طویل نظم پس چہ باید کرد اے اقوام شرق! بھی اپنے مفصل لائحۂ عمل کے لیے خاص طور پر قابل ذکر ہے - اردو کی شاعرانہ تصانیف میں اقبال نے جو افکار و خیالات پیش کیے ہیں ، بنیادی طور پر وہی فارسی میں بھی بیان کیے گئے ہیں - اردو نثر اور انگریزی میں بھی اقبال کے مقالات و مکاتیب کا انداز فکر وہی ہے جو شاعری میں ظاہر ہوا ہے - اس طرح تقریباً چالیس سال کی مدت میں اقبال کی تمام تحریروں کا ماحصل یہ ہے : ۱ - مغربی افکار و اقدار کی بنائی ہوئی موجودہ دنیا روبہ زوال ہے - ۲ - اب انسانیت کے دوبارہ عروج کے لیے تاریخ میں ایک بار پھر مشرق ہی سے توقع کی جا سکتی ہے - ۳ - زوال آمادہ مشرق کا عروج اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر منحصر ہے - ۴ - اسلام ایک آفاقی دین ہے ، جو قانون قدرت پر مبنی ہے - ۵ - اس دین کی تکمیل حضرت محمد ﷺ کی شریعت و سیرت سے ہوئی - ۶ - لہٰذا شریعت و سیرت پوری دنیائے انسانیت کے لیے واحد نمونۂ عمل ہے - ۷ - اس شریعت و سیرت کا احیا وہ عالمی انقلاب پیدا کرے گا جس کے نتیجے میں انسانیت کی ترقی ایک بار پھر اپنے نقطۂ کمال پر پہنچ جائے گی - معراج النبیؐ کا واقعہ اسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے - سبق ملا ہے یہ معراج مصطفٰیؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں یہ معراج انسانیت عصر حاضر میں اس لیے ضروری ہے کہ : تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے طبع زمانہ تازہ کر جلوئہ بے حجاب سے (ذوق و شوق) اقبال کی شاعری میں’’شاہین ‘‘ کا تصور محمد محمود الاسلام ’’ شاہین‘‘ اقبال کے ایک خاص تصور کا Symbol یعنی علامت ہے - شاہین ایک پرندہ ہے - اس کے پیرائے میں انہوں نے ’’شاہین‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں اس خاص تصور کی تشریح کی ہے- شاہین ، اقبال کے چند نظریات کی تجسیم ہے - چونکہ شاہین میں ان تصورات کا وجود ملتا ہے ، اس لیے وہ ان کا ایک پسندیدہ پرندہ بن گیا - اقبال ، انسان میں جن خصوصیات کے خواہاں تھے، شاہین میں ان کا وجود اکثر ملتا ہے - لہٰذا یہ کہنا ہو گا کہ شاہین کی خصوصیات کا بیان کرنا بہ الفاظ دیگر ان کے اپنے فلسفے کا اظہار ہے - اقبال نے ان میں سے بعض خصوصیات کا تذکرہ اس خط میں بھی کیا ہے جو انہوں نے پروفیسر ظفر احمد صدیقی ایم ، اے کے خط کے جواب میں لکھا تھا ، اور وہ یہ ہے : ’’ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے- اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں ۱ - خود دار اور غیرت مند کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا ۲ - بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا ۳ - بلند پرواز ہے ۴ - خلوت پسند ہے ۵- تیز نگاہ ہے ‘‘ (۱)- نظم بعنوان ’’شاہین‘‘ میں اقبال کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان نوجوان بھی شاہین کی صفات اپنے اندر پیدا کریں - شاہین دوسرے پرندوں کی طرح شہروں یا دیہات میں نہیں رہتا اور نہ بعض پرندوں کی طرح پنجرے میں رہ کر دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرتا ہے - اور وہ اس بات کو گوارا نہیں کر سکتا کہ دوسرے اسے دانہ ، پانی دیدیا کریں اور نہ وہ اس دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے جہاں اسے بغیر محنت و مشقت رزق حاصل ہو جائے ، بلکہ وہ اپنا رزق اپنی قوت بازو سے پیدا کرتا ہے - شاہین کی فطرت چونکہ زاہدانہ ہے ، اس لیے وہ جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتا ہے ، جہاں نہ باغ ہوتے ہیں نہ پھول ، نہ صیاد نہ بلبل کے نغمے - وہ گلستان میں رہنے والے پرندوں اور ان کے نغموں سے نفرت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ عیش و عشرت اور رقص و سرور کی زندگی کا انجام اچھا نہیں ہوتا؛ اس کے بجائے وہ کوہستان اور بیابان میں رہتا ہے کیونکہ اس جگہ کی آب و ہوا سے انسان کے اندر جوانمردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں - شاہین کا زاویۂ نگاہ آفاقی ہوتا ہے ، اس لیے وہ کسی خاص مقام میں زندگی بسر نہیں کرتا - وہ علائق مادی سے آزاد ہوتا ہے اس لیے آشیانہ بھی نہیں بناتا ، بالکل درویشانہ زندگی بسر کرتا ہے - شاہین کی ان خصوصیات کو مد نظر رکھنے کے بعد ہم یقینا اقبال سے اتفاق کریںگے کہ اس پرندے میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات موجود ہیں ، اور اسی لیے انہوں نے اس کی زندگی کو نوجوانوں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا ہے - در اصل اقبال نے ’’شاہین‘‘ سے ’’مسلمان نوجوان‘‘ مراد لیا ہے اور نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تم اپنے اندر شان استغنا پید کرنا چاہتے ہو تو بادشاہوں کی غلامی اختیار کرنے کے بجائے اپنا رزق اپنی قوت بازو سے حاصل کرو - اللہ نے تمہیں جوانی اس لیے عطا کی کہ تم اپنی خداداد طاقتوں سے کام لے کر اپنی دنیا آپ پیدا کرو گے - اگر تم سخت کوشی کو شعار زندگی بنا لو گے تو دنیا کی ساری مشکلات آسان ہو جائیں گی - قانون فطرت یہی ہے کہ جدو جہد سے سب مصیبتیں راحت میں بدل جاتی ہیں - اقبال کی رائے میں لطف زندگی ، عیش و عشرت میں نہیں ہے، بلکہ اس جدوجہد میں ہے جو انسان حصول راحت کے لیے کرتا ہے - چنانچہ شکاری اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ مثلاً ہرن کے شکار کا حقیقی لطف جدوجہد میں ہے نہ کہ اس کے کباب کھانے میں : نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے ! بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں! ٭٭٭ ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں(۲)! شاہین ایک مشہور شکاری پرندہ ہے جو بلند پرواز ہوتا ہے - اپنا رزق خود اپنی قوت بازو سے مہیا کرتا ہے - تیز نظر ہوتا ہے اور علائق دنیوی سے آزاد زندگی بسر کرتا ہے - چونکہ یہ سب مومنانہ صفات ہیں ، اس لیے اقبال نے لفظ شاہین کو اپنا Symbol بنا لیا ہے ، اور وہ مسلمان کو شاہین کے نام سے موسوم کرتے ہیں: شکایت ہے مجھے یا رب ! خداوندان مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا!(۳) شاہین چونکہ پرندوں کا درویش ہے اور آشیاں بندی کو اپنے لیے موجب ذلت سمجھتا ہے اس لیے وہ بڑی آسانی کے ساتھ پہاڑوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرتا ہے : گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی!(۴) اسی طرح جو شخص اپنے اندر شان درویشی پیدا کر لیتا ہے ، وہ علائق دنیوی سے پاک ہو جاتا ہے - چنانچہ حضرات اولیاء کرام کی پاکیزہ زندگیاں اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ ان کے حجروں میں ایک چٹائی اور مٹی کے ایک گھڑے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی ؛ اس کے باوجود دنیا والے ان کا احترام بادشاہوں سے بھی زیادہ کرتے تھے - مومن کا جہاں محدود نہیں ہے جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے : مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے(۵) ٭٭٭ تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں(۶) یعنی مسلمان کا تصور حیات ، ساکن نہیں بلکہ متحرک یعنی Dynamic ہے - اسلام کے نزدیک انسانی زندگی مسلسل سفر کا نام ہے - اسلام کی رو سے سکون اور قیام متضاد ہیں - جمود تو موت کا پیغام ہے اور حرکت زندگی کا - اسی طرز خیال کو اقبال نے ’’ سوختن ناتمام ‘‘ سے تعبیر کیا ہے - رابندر ناتھ ٹیگور اور اقبال ، دونوں پر سکون اور جامد زندگی سے بیزار ہیں - دونوں زندگی کی رو میں بہے جانا چاہتے ہیں - فطرت کی بندشوںمیں الجھ کر سلجھنا چاہتے ہیں - سرگرمیوں میں اپنی زندگی کا راز ڈھونڈتے ہیں - ’’ بلاکا ‘‘ (جنگلی ہنس ) ٹیگور کی زندگی کا ترجمان ہے تو شاہین، اقبال کی مثالی زندگی کا پیکر مجسم ہے - ٹیگور ’’ بلا کا ‘‘ کی انتھک پرواز ، اس کی تیز رفتاری اور ایک نامعلوم منزل کی طرف اس کی مسلسل تگ و دو میں زندگی کا راز محسوس کرتے ہیں : ’’ یہ تارک آشیانہ پرندہ (بلاکا) ظلمت و نور میں ! کس ساحل سے کس ساحل کے رخ پر بڑھتا چلا جا رہا ہے اس کے ہوائی بازوئوں کے گیت میں آواز بلند ہو رہی ہے ‘‘ (۷) ’’میری منزل یہ نہیں ، کہیں دوسری ، کہیں دوسری ، کہیں دوسری ، کہیں دوسری‘‘!(۸) اقبال کی شاعری میں شاہین محض ایک پرندہ نہیں بلکہ اس کی ہر جست اور جھپٹ ، حرکت و عمل کی ایک زندہ تصویر ہے - ٹیگور کی طرح اقبال کو بھی شاہین کی بلند پروازی - اس کی کم آمیزی و تیز نگاہی ، اس کی انفرادیت پسندی اور انتھک سیر و سیاحت میں زندگی کا راز نظر آتا ہے ، خودی کی تفسیر دکھائی دیتی ہے ؛ اس لیے وہ شاہین کی زبان میں اپنا نقطہ ٔ نظر یوں ادا کرتے ہیں : حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ (۹) حواشی ۱ - اقبال نامہ ، حصہ اول ، شیخ عطا اللہ ، شیخ محمد اشرف تاجر کتب ص ۵ - ۲۰۴ ۲ - بال جبریل ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ناشران کتب ص ۱۶۳ ۳ - ایضاً ص ۵۰ ۴ - ایضاً ص ۲۱ ۵ - شرح بال جبریل ، یوسف سلیم چشتی ، عشرت پبلشنگ ہائوس ص ۳۹۶ ۶ - بال جبریل ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ناشران کتب ص ۹۰ ۷ - بلاکا ، بلاکا ، رابندر ناتھ ٹیگور ، سری پولن بہاری سین ، ص ۸۱ ۸ - ایضاً ۹ - بال جبریل ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ناشران کتب ص ۲۱۹ سوانح اقبال علامہ اقبال -زندگی کا ایک دن ممتاز حسن ترجمہ: محمد سہیل عمر سطور ذیل میں ہم ایک ایسا بیان آپ کے گوش گذار کر رہے ہیں جو علامہ اقبال کے یومیہ معمولات ، زندگی کرنے کے طور اور ان کی شخصیت کا نقشہ نگا ہوں کے سامنے لے آتا ہے- اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کا بیان ہے جس کا علامہ سے سالہا سال تک شب و روز خدمت کا ساتھ رہا - علی بخش لگ بھگ دس سال کا تھا کہ علامہ کی خدمت میں آیا اور علامہ کی رحلت تک دن رات ان کے انداز زیست کا شاہد رہا - علی بخش سے یہ سوالات ممتاز حسن صاحب نے ایک انٹرویو کے دوران کئے اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی موجودگی میں اس کی یاد داشتیں درج کرتے گئے - انٹرویو ۲۲ ستمبر ۱۹۵۷ء کو لیا گیا- (محمد سہیل عمر) ٭٭٭ س ) اقبال صبح کو عموماً کب بیدار ہوتے تھے ؟ ج ) بہت سویرے - سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت کم خواب تھے - نماز فجر کی بہت پابندی کرتے اور نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کرتے تھے - س ) وہ قرآن کس انداز میں پڑھتے تھے ؟ ج ) جب تک ان کی آواز بیماری سے متاثر نہیں ہوئی تھی وہ قرآن کی تلاوت بلند آہنگ میں خوش الحانی سے کرتے تھے - آواز بیٹھ گئی تو بھی قرآن پڑھتے ضرور تھے مگر بلند آواز سے نہیں- س) نماز اور تلاوت سے فارغ ہو کر کیا کرتے تھے ؟ ج) آرام کرسی پر دراز ہو جاتے - میں حقہ تیار کر کے لے آتا - حقے سے شغل کرتے ہوئے اس روز کے عدالتی کیسوں کے خلاصوں پر بھی نظر ڈالتے رہتے - اس دوران میں گاہ گاہ شعر کی آمد بھی ہونے لگتی - س) آپ کیسے پہچانتے تھے کہ علامہ پر شعر گوئی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے ؟ ج) وہ مجھے پکارتے یا تالی بجاتے اور کہتے ’’ میری بیاض اور قلمدان لائو‘‘ میں یہ چیزیں لے آتا تو وہ اشعار لکھ لیتے - اطمینان نہ ہوتا تو بہت بے چین ہو جاتے- شعر گوئی کے دوران میں اکثر قرآن مجید لانے کو کہتے - شعر گوئی کے علاوہ بھی دن میں کئی بار مجھے بلا کر قرآن مجید لانے کی ہدایت کرتے رہتے - س) عدالت جانے کا وقت عموماً کیا ہوتا تھا ؟ ج) عدالتی اوقات سے دس پندرہ منٹ قبل روانہ ہوتے تھے - پہلے بگھی میں ، اور آخری زمانے میں گاڑی خرید لی تھی - س) وکالت کا کیا عالم تھا ، بہت کام کرتے یا تھوڑا ؟ ج) وکالت میں ایک حد سے زیادہ اپنے آپ کو مصروف نہیں ہونے دیتے تھے - عام طور پر یوں ہوتا تھا کہ ۵۰۰ روپے کے برابر فیس کے کیس آ جاتے تو مزید کیس نہیں لیتے تھے- دیگر سائلین کو اگلے ماہ آنے کا کہہ دیتے - اگر مہینے کے پہلے تین چار دنوں میں چار پانچ سو روپے کا کام مل جاتا تو باقی سارا مہینہ مزید کوئی کیس نہیں لیتے تھے - س) یہ پانچ سو روپے کی حد کیوں لگائی گئی تھی ؟ ج) ان کا تخمینہ تھا کہ انہیں ماہانہ اخراجات کے لیے اس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی- اس زمانے میں اس رقم میں گھر کا کرایہ ، نوکروں کی تنخواہیں ، منشی کی تنخواہ اور گھر کے عمومی اخراجات سب شامل تھے - یہ ان دنوں کی بات ہے ، جب علامہ صاحب انار کلی اور میکلوڈ روڈ پر رہا کرتے تھے - س) علامہ صاحب نے کتنے عرصے تک وکالت کی ؟ ج) جب تک انہیں گلے کی بیماری لاحق نہیں ہوئی تھی ، وکالت کرتے رہے - یہ اندازاً ۳۳-۱۹۳۲ء کا زمانہ تھا - س) گلے کی بیماری کیسے شروع ہوئی تھی ؟ ج) وہ عید کی نماز پڑھنے گئے - سردی کا موسم تھا گھر واپس آ کر سوّیوں پر دہی ڈال کر کھایا جو انہیں بہت مرغوب تھا - اگلے ہی روز گلے کی تکلیف شروع ہو گئی - اس رات کے دو اڑھائی بجے تک کھانستے رہے - اگلے دن ان کی آواز بیٹھ گئی اور وفات تک آواز کی یہی کیفیت رہی - س) اب ذرا ان کے روز مرہ کے معمول پر دوبارہ بات ہو جائے - عدالت سے لوٹ کر آتے تو کیا کیاکرتے تھے ؟ ج) سب سے پہلے تو مجھے کہتے کہ میرا لباس تبدیل کرو ائو ، رسمی دفتری لباس انہیں کبھی پسند نہ تھا - عدالت جانے کے لیے مجبوراً پہن لیتے اور گھر آتے ہی سب سے پہلے اس سے چھٹکارا حاصل کرتے - س) لباس بدل کر کیا کیا کرتے تھے ؟ ج) اگر شعر کہنا ہوتے تو اس کے لیے حسب معمول بیاض ، قلمدان اور قرآن مجید لانے کو کہتے؟ س) کیا وہ اپنی وکالت پر سنجیدگی سے توجہ دیتے تھے ؟ ج) اگر اگلے دن عدالت میں کوئی مقدمہ ہوتا تو اس مقدمے کی مسل دیکھ لیتے تھے - ورنہ مقدمے کے کام میں اپنے آپ کو نہ الجھاتے - س) کیا وہ گھر پر عدالت کا کام کیا کرتے تھے ؟ ج) اگلے روز کے مقدمات سے متعلق کاغذات پر نظر ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں - س) سہ پہر میں سونے کی عادت تھی ؟ ج) معمول تو نہیں تھا ، کبھی سو بھی جاتے - س) ان کی نیند کیسی تھی ؟ ج) نیند کچی تھی ، ذرا سی آواز سے چونک جاتے تھے - س) جسمانی تکلیف اور بے آرامی برداشت کرنے میں کیسے تھے ؟ ج) بہت نرم دل تھے - تکلیف کی برداشت بہت کم تھی - کسی اور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے - خون بہتا دیکھنے کی بالکل تاب نہ تھی - ایک مرتبہ پائوں پر بھڑنے کاٹ لیا ، اس سے وہ ایسے لاچار ہوئے کہ حرکت کرنے کے لیے بھی میرے سہارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی - ایک مرتبہ جاوید کو بچپن میں ابرو کے قریب چوٹ لگ گئی جس سے تھوڑا سا خون بہ نکلا - خون دیکھ کر علامہ کو غش آ گیا - س) کھانا کس وقت کھاتے تھے ؟ ج) بارہ ایک بجے کے درمیان ایک ہی مرتبہ کھانا کھاتے - رات کے کھانے کا معمول نہ تھا - س) کھانے میں کیا پسند تھا ؟ ج) پلائو ، ماش کی دال ، قیمہ بھرے کریلے ، اور خشکہ س) کھانے پر کئی طرح کی غذائیں ہوتی تھیں کیا ؟ ج) جی نہیں ایک وقت میں زیادہ کھاتے نہ تھے ، خوراک خاصی کم تھی س) کسی خاص کھانے کو ناپسند کرتے تھے ؟ ج) جی ہاں - سری پائے اور ٹنڈے گوشت س) ورزش کیا کرتے تھے ؟ ج) ابتداء میں تو ورزش کرتے تھے - مگدر گھماتے اور ڈنڑ پیلتے تھے - انارکلی کے قیام تک یہ معمول رہا- اس کے بعد ورزش چھوٹ گئی - س) کھیلوں سے دلچسپی تھی ؟ ج) کشتیوں کے دنگل شوق سے دیکھتے تھے - س) دیگر دلچسپیاں کیا تھیں ؟ ج) شروع کے دنوں میں کبوتر پالنے کا شوق رہا ، کبھی کبھار تاش بھی کھیل لیتے - س) شام کو کبھی کہیں باہر جایا کرتا تھے ؟ ج) شام کو کہیں باہر نکلنا ان کے لیے تقریباً ناممکن تھا - جس زمانے میں قیام بھاٹی دروازے کے اندر تھا تو بسا اوقات حکیم شہباز الدین کے گھر کے باہر کے چبوترے تک ٹہل لیتے تھے- کبھی کبھار سر ذوالفقار علی اپنی موٹر لیکر آ جاتے اور انہیں باہر گھمانے لے جاتے - س) رات کو سوتے کس وقت تھے ؟ ج) شام کو احباب کی محفل جمتی تھی - چوہدری محمد حسین ہمیشہ سب سے آخر میں رخصت ہوتے تھے - مجلس عموماً دس بجے برخاست ہو جاتی اور اس کے بعد علامہ چوہدری محمد حسین کے ساتھ بیٹھ کر انہیں اس روز کے تازہ اشعار سنایا کرتے تھے- س) چوہدری صاحب عموماً کتنی دیر ٹھہرتے تھے ؟ ج) رات کے بارہ ایک بجے تک ، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سونے کے لیے لیٹ جاتے - لیکن بمشکل دو تین گھنٹے سو کر تہجد کے لیے بیدار ہو جاتے - س) طیش میں آتے تھے یا نہیں ؟ ج) بہت نرم دل اور طبیعت کے مہربان تھے ، شاز و نادر ہی غصے میں آتے - لیکن اگر اشتعال میں آ جاتے تو اپنے اوپر قابو پانا مشکل ہو جاتا - مجھے ان کی نرم دلی کا ایک واقعہ یاد ہے - ایک مرتبہ گھر میں ایک چور گھس آیا - ہم میں سے کسی نے پکڑ کر اس کی پٹائی کر دی- علامہ اقبال نے اس کا ہاتھ روک دیا اور کہا کہ چور کو مت پیٹو - یہی نہیں بلکہ اسے کھانا کھلایا اور آزاد کر دیا - س ) تہجد پابندی سے پڑھتے تھے کیا ؟ ج) جی ہاں پابندی سے پڑھتے تھے - س) تہجد کے بعد کیا معمول تھا ؟ ج) اس کے بعد ذرا دیر کو لیٹ رہتے، تاوقتیکہ فجر کا وقت آن لیتا اور وہ نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے - س) کیا شعر کی آمد رات کو بھی ہوتی تھی ؟ ج) جی ہاں - راتوں کو بھی شعر گوئی کرتے - عموماً یہ کیفیت ان پر رات کے دو اور اڑھائی کے درمیان طاری ہوتی تھی - جب بھی ایسا ہوتا مجھے آواز دے کر بیاض اور قلمدان طلب کرتے- شخصیات علامہ اقبال کے شاگرد نواب احمد یار خان دولتانہ محمد حنیف شاہد کسی شخص کو زندہ رکھنے کے لیے سب سے پہلی اوربنیادی چیز اس کی تخلیقات ہوتی ہیں دوسرے نمبر پر شاگرد ہوتے ہیں پھر عقیدت مند اور مداحین اور سب سے آخر میں وہ لوگ جو اس شخصیت سے متاثر ہوئے اور اس کے رنگ میں رنگے گئے - دوسرے لفظوں میں جنہوں نے اس شخصیت سے اثر قبول کیا اور پھر اپنے افکار و نظریات کی صورت میں ادبی دنیا کے سامنے نظم اور اثر کی صورت میں پیش کر دیا- نواب احمد یار خاں دولتانہ بھی ایسے ہی تلامذہ میں سے ہیں جنہوں نے علامہ اقبال سے اثر قبول کیا ہے - احمد یار خاں ۱۳ اپریل ۱۸۹۳ئ(۱) کو ملتان کے ایک قصبہ لڈن میںپیدا ہوئے آپ میاں غلام قادر خاں دولتانہ کے صاحبزادے اور میاں غلام محمد خاں دولتانہ رئیس اعظم کے پوتے تھے(۲) - احمد یار خاں نے ۱۸۹۷ء میں ایف سی کالج لاہور سے درجہ دوم میں بی اے پاس کیا- برکت علی خاں ان کے ہم جماعت تھے جنہوں نے ایف سی کالج لاہور سے بی اے درجہ اول میں پاس کیا یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن مسلمان طلبہ نے ۱۸۹۷ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے پاس کیا ان میں (علامہ) شیخ محمد اقبال فضل حسین ، مرزا اعجاز حسین اور انجم الدین شامل تھے - ان طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی کے سترویں(۱۷) جلسہ تقسیم اسناد میں جو ۴ جنوری ۱۸۹۸ء بروز منگل کو بارہ بجے دوپہر گورنمنٹ کالج ہال میں بی اے کی ڈگری وصول کی اس تقریب میں سینٹ کے اراکین ، پنجاب یونیورسٹی کے فیلو اور دیگر یونیورسٹیوں کے گریجواٹیس بھی شامل تھے وہ مسلم گریجوایٹس جنہوں نے اس پروقار تقریب میں شرکت کی ان میں حاجی نواب فتح علی خاں قزلباش،خان بہادر فقیر سید قمرالدین، خان بہادر محمد برکت علی خان ، خان بہادر شیخ نانک بخش،خان بہادر مولوی محمدحسین خاں ،شمس العلماء سید محمد لطیف ایف آر اے ایس ، ایف آر جی ایس،خان بہادر شیخ غلام حسن ، خان بہادر محمد اکرام اللہ خان، میاں محمد شاہ دین ہمایوں بی اے بیرسٹرایٹ لاء اور مولوی مفتی محمد عبداللہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں (۳) - اس تقریب سے شیخ محمد اقبال نے بی اے کے امتحان میںعربی میں سب سے زیادہ نمبر لیے جس پر انہیں فقیر سید جمال الدین میڈل اور انگریزی میں اول آنے پر خلیفہ محمد حسن ایچی سن میڈل ملا (۴) - مؤلف رجال اقبال کا کہنا ہے کہ اسی زمانے میں نواب احمد یار دولتانہ کی ادبی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور وہ غزلیں اور نظمیں کہنے کے ساتھ ساتھ اپنا زیادہ وقت اقبال کی مجلسوں میں گزارنے لگے (۵) - میاں احمد یار خاں دولتانہ کو علامہ اقبال سے نہایت گہری عقیدت تھی - ان سے بطور خاص اشعار لکھواتے اور ان کے دستخط کو حرز جان بنا کر رکھتے - احمد یار خاں کی شادی میں غیاث الدین کے والد کے ذریعے ہوئی تھی - علامہ اقبال اور نواب ذوالفقار علی خاں بارات میں شریک تھے - احمد یار خاں وقتاً فوقتاً علامہ اقبال کو تحائف بھیجا کرتے تھے اور بعض اوقات بہت اچھی دودھ دینے والی گائے بھینس تک بھیجا کرتے تھے - علامہ اقبال کو احمد یار خاں کے ساتھ ان کے خلوص کی وجہ سے بے حد لگائو تھا - یونینسٹ پارٹی سے شاکی ہونے کے باوجود اس کے مقتدر رکن (احمد یار خاں) کو ہمیشہ محبت سے یاد کرتے تھے(۶)- خان بہادر نواب احمد یار خاں دولتانہ کی پہلی شادی کے موقعہ پر علامہ اقبال نے ایک قد آدم آئینہ نواب صاحب کو بطور تحفہ ارسال فرمایا تھا جس پر نقش و نگار کے علاوہ مندرجہ ذیل دو شعر ثبت تھے - ہر کہ خاک خویش را آئینہ ساخت رتبہ اش بالاتر از اسکندر است خاکساری باعث روشن دلی است صیقل آئینہ از خاکستر است (۷) نواب احمد یار خاں کی علامہ اقبال سے قربت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۷ جنوری ۱۹۲۳ء کو چار بجے سہ پہر علامہ اقبال کو ’’ سر ‘‘ کا خطاب ملنے کی تقریب پر شاہدرہ میں ایک پر تکلف گارڈن پارٹی کا اہتمام کیا گیا - اس تقریب میں جن شخصیات نے شرکت کی ان میں گورنر پنجاب کی انتظامیہ کونسل کے رکن سر جان مینارڈ ، میاں فضل حسین وزیر تعلیم اور لالہ ہرکشن لال وزیر صنعت و حرفت کے علاوہ سر ذوالفقار علی خاں ، نواب سر فتح علی خاں قزلباش ، چودھری شہاب الدین، میاں احمد یار دولتانہ اور دیگر بہت سے سر برآوردہ بزرگ شامل تھے (۸) - فروری ۱۹۳۶ء کے آخری عشرے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو کچھ لوگوں نے لاہور بلایا تاکہ وہ کوئی مفاہمت کرا دیں (تحریک مسجد شہید گنج) - لیکن انہی دنوں علامہ اقبال نے بھوپال میں برقی علاج کا اگلا کورس کروانا تھا اس لیے علامہ اقبال بھوپال چلے گئے قائد اعظم علامہ اقبال کی غیر حاضری میں آئے تاکہ وہ مفاہمت کی کوئی صورت نکالیں انہوں نے کئی لیڈروں سے ملاقات کی اور گورنر سے بھی - گورنر نے کہا کہ ’’ اگر سول نافرمانی بند کر دی جائے اور مسلمان مسجد کی بازیابی کے لیے آئینی طریق سے جدوجہد کریں تو وہ تمام قیدی رہا کرنے کو تیار ہیں ‘‘- چنانچہ تحریک کے کارکن سول نافرمانی بند کرنے پر رضا مند ہوگئے اور رات بھر میں جیلوں سے تمام قیدی اور دور دراز مقامات سے نظر بند لیڈر رہا ہو کر لاہور پہنچنا شروع ہو گئے - قائد اعظم نے سکھوں کو بھی سمجھایا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی معقول سمجھوتہ کر لیں اور اس سلسلے میں ایک شہید گنج مصالحتی بورڈ نامزد کر دیا - جس کے ارکان مندرجہ ذیل تھے - علامہ اقبال ، مولوی عبدالقادر قصوری ، میاں عبدالعزیر بار ایٹ لاء ، راجہ نریندر ناتھ ، پنڈت نانک چند بارایٹ لاء سردار بوٹا سنگھ ایڈوکیٹ ، سردار اجل سنگھ ، سردار سمپورن سنگھ اور میاں احمد یار خاں دولتانہ (کنوینر) (۹) - نواب احمد یار خاں بہت اچھے شاعر تھے اور احمد تخلص کرتے تھے - آپ کا کلام روز نامہ انقلاب میں بالالتزام چھپتا تھا جس میں نظمیں اور غزلیں شامل تھیں - آپ سیاسی نظمیں بھی لکھتے تھے - اس مضمون میں ہم نواب احمد یار خاں دولتانہ کی ادبی زندگی کے حوالے سے بات کریں گے - نواب احمد یار کے کلام کی اصلاح علامہ اقبال کیا کرتے تھے - چنانچہ اگر ہم نواب صاحب کے کلام کا بنظر غائر تنقیدی جائزہ لیں تو علامہ اقبال کا رنگ نظر آئے گا - اس شاگردی کا اعتراف نواب صاحب نے خود بھی کیا ہے - چنانچہ اس ضمن میں رقم طراز ہیں: ’’مجھے علامہ مرحوم کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل رہا ہے - میں متعدد اوقات پر اپنی نظموں کو اصلاح کے لیے مغفور کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا اور مرحوم سے زبانی اور تحریری اصلاح لیا کرتا تھا - میرے پاس آپ کی چند ایک نظمیں ہیں جو آپ نے میری التماس پر میرا مفہوم ادا کرنے کے لیے کہی تھیں- آپ نے مجھے اجازت دے دی تھی کہ میں ان نظموں کے استحقاق سے کامل طور پر مستفید ہوں اور مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ان نظموں کو اپنی کلیات میں شامل نہیں کریں گے - آپ ہمیشہ مجھ پر مہربان رہے اور مجھ سے پدرانہ شفقت کا اظہار فرماتے تھے (۱۰) ‘‘- ۸ جنوری ۱۹۲۴ء (بمطابق ۳۰ جمادی الاول ۱۳۴۲ھ) بروز سہ شنبہ بیگم صاحبہ میاں احمد یار دولتانہ نے لاہور میں وفات پائی - علامہ اقبال نے حسب ذیل قطعہ تاریخ کہا: رخت سفر چو مادر ممتاز بست و رفت زیں کارواں سرائے سوئے منزل دوام پر سیدم از سروش ز سال رحیل او گفتہ بگو کہ تربت او آسماں مقام (۱۱) ۱۳۴۷ عید میلاد النبیؐ منانے کا اعلان ۲۲ مئی ۱۹۳۵ء کو اکابر اسلام نے ساری دنیا کے انسانوں کو دعوت اتحاد دیتے ہوئے ۱۲ ربیع الاول ۱۳۵۴ھ کو ’’ یوم النبیؐ ‘‘ منانے کی اپیل کی - اس اپیل پر علامہ اقبال ، نواب احمد یار خاں دولتانہ (ملتان) کے علاوہ مندرجہ ذیل اکابرین کے دستخط تھے :- مولانا محمد عبدالظاہر (امام و خطیب مسجد حرم مکہ معظمہ) ، مولانا عبدالرزاق (امام مسجد حرم مکہ معظمہ) ، مولانا عبیداللہ سندھی (مکہ معظمہ) ، امیر سعید الجزائری (رئیس جمعیتہ الخلافہ شام) علامہ عبدالعزیز الثعالی (قاہرہ)،ہزہائی پرنس عمر طوسون پاشا (قاہرہ) ہزایکسلنیسی محمد علی پاشا علویہ (سابق وزیر اوقاف مصر) علامہ القادر یک حمزہ (مدیر البلاغ، مصر) علامہ محمد رشید رضا (صاحب المنار ، مصر) ، ڈاکٹر سید راس مسعود (نواب مسعود یار جنگ، علی گڑھ)، علامہ سید سلیمان ندوی (لکھنئو) آنریبل سرفیروز خان نون (وزیر تعلیم پنجاب) ، نواب سر عبدالقیوم (وزیر سرحد ، پشاور) ،نواب محمد شاہ نواز خان (والی ریاست ممدوٹ) ساہو کار سیٹھ جمال محمد (مدراس) ، لارڈ ہیڈلے فاروق (نو مسلم لندن) سر عمر ہیو برٹ (نومسلم لندن) امیر شکیب ارسلان (جنیوا) ،آقای برہان الدین کشکی (صاحب اصلاح) ، عطا محمد الحسینی (صدر افغانستان پارلیمنٹ ، کابل )، ہزایکسلینسی سید ضیاء الدین طباطبائی (سابق وزیر اعظم ایران) ، حضرت المجاہد علی ریاض المصلح (بیروت) ، علامہ صفوہ یونس الحسینی (بیت المقدس) ، اس تقریب پر بعض ممتاز علماء کے قلم سے سیرت نبویؐ کے موقع پر جو تقریریں ہوں وہ اس سلسلے میں فیصلہ کیا گیا کہ شائع کی جائیں - یہ تقریریں یوم النبیؐ کے جلسوں میں سنائی جائیں اور ان کے تراجم دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں شائع کر کے ہر جگہ مفت تقسیم کیے جائیں (۱۲) - آل انڈیا حشر ڈے ۲۸ ، اپریل ۱۹۳۵ء کو آغا حشر کاشمیری نے انتقال کیا - علمی ادبی اور فلمی حلقوں میں ان کی وفات کو ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا گیا - آغا حشر ہندو مسلم - سب میں یکساں ہر دل عزیز تھے چنانچہ چوالیس ہندو مسلم اکابرین میں علامہ اقبال سر فہرست اور نواب احمد یار خان دولتانہ ایم ایل سی بھی شامل تھے جنہوں نے ۳۰ ، جون ۱۹۳۵ء کو آل انڈیا حشر ڈے منانے کی اپیل کی - ادبیات عالیہ عقل اسے نہ پاسکی منزل مہر و ماہ میں عشق نے جا کے رکھ دیا آئینہ جلوہ گاہ میں رحمت حق کا مستحق ہے وہی سادہ دل جسے پرسش روز حشر کا خوف نہ ہو گناہ میں سنگ در حرم بنے احمد تیز گام کیوں کعبہ بھی اک مقام ہے ’’بیت صنم‘‘ کی راہ میں (۱۳) ذوق عمل یہ سچ ہے آدمی سے کام کوئی ہو نہیں سکتا اگر حاصل نہ ہو تائید لطف حضرت باری مگر تائید ملتی ہے فقط ارباب ہمت کو یہی دستور ہے روز ازل سے آج تک جاری ہمیشہ سے یہ نکتہ جزو ایماں ہے مرا احمد یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے (۱۴) فغان نیم شبی فغان نیم شبی کار گر نہیں ہوتی ہمارے حال کی ان کو خبر نہیں ہوتی ہمارے ساتھ ہی کیا اس کا خاتمہ ہوگا الٰہی کیوں شب ہجراں بسر نہیں ہوتی تمام ہو شب تاریک ہجر کیا احمد یہ شام وہ ہے کہ جس کی سحر نہیں ہوتی (۱۵) ادبیات عالم کسی جلوئہ حیرت طراز کا آئینہ تاب ہے دل آئینہ ساز کا زندہ شہید میری طرح کون ہے کہ ہوں کشتہ تیرے تبسم حسرت نواز کا میں اور بند غم سے رہائی کی ارزو تو اور سلسلہ خم زلف دراز کا ہر چند احتیاط میں ہم نے کمی نہ کی خود راز بن گیا سبب افشائے راز کا احمد سواد عشق تمنا گداز ہے کیا دخل اس جگہ ہوس ہرزہ تاز کا (۱۶) ادبیات وہ آ جاتا ہے آگے جو لکھا ہوتا ہے قسمت میں ترے ہاتھوں مرے شیرازئہ دل کو بکھرنا تھا حیا و شرم کیسی اک بہانہ تھا ، حقیقت میں تجھے میری نگاہ پاک پر الزام دھرنا تھا اگر شوخی یہی ہے تو شرارت کس کو کہتے ہیں سر محفل مجھی سے تجھ کو ظالم پردہ کرنا تھا پھر اس پر یہ قیامت غیر کے دامن سے منہ ڈھانکا (۱۷) جذبات عالیہ برس رہا ہے لب جوئے بار ابر سیاہ فروغ جلوئہ نسرین و نسترن کے لیے گرج کے ساتھ جو اٹھتی ہے مور کی جھنکار صلائے عام ہے مرغان نغمہ زن کے لیے (۱۸) غزل منظور اس کو عشق کا اظہار بھی نہیں یعنی ہمیں اجازت گفتار بھی نہیں گر دوستی نہیں ، نہ سہی ، دشمنی تو ہو کیا کیجیے وہ درپے آزار بھی نہیں ہے کس کو تاب جلوئہ نظارہ سوز کی بے فائدہ نقاب رخ یار بھی نہیں اے چارہ ساز گر نہ چھپائوں تو کیا کروں جو حال ہے وہ لائق اظہار بھی نہیں مدت ہوئی شراب سے توبہ کئے ہوئے لیکن کوئی پلائے تو انکار بھی نہیں اس کو تو کنج دیر ہی بہتر مقام تھا صحن حرم میں لذت دیدار بھی نہیں یہ جبر و اختیار ہے کیسا کہ آدمی مجبور بھی نہیں ہے تو مختار بھی نہیں اے شیخ ! کب ہے روضہ رضواں ترے لیے کم بخت تو بھلے کو گنہگار بھی نہیں پرساں وہ کیوں نہ ہو میرے حال تباہ کا جب سن لیا کہ طاقت گفتار بھی نہیں ہمت بلند چاہیے اے دل کہ وصل دوست ! آساں اگر نہیں ہے تو دشوار بھی نہیں احمد کوئی بتائے اسے کیا پسند ہے گر میرے ساتھ ہی مرے اشعار بھی نہیں(۱۹) میاں احمد یار خاں دولتانہ (ولادت ۱۳ اپریل ۱۸۹۳ئ) (۲۰) وفات اکتوبر ۱۹۳۸ئ) میاں صاحب کو خان بہادر کا خطاب حکومت برطانیہ نے دیا - وہ رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل تھے اور ان کا زمانہ رکنیت وہی ہے جو علامہ اقبال کا ہے - میاں احمد یار دولتانہ جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے میاں غلام قادر خاں دولتانہ کے صاحبزادے اور میاں غلام محمد خاں دولتانہ رئیس اعظم کے پوتے تھے- آپ پنجاب کی ذی اقتدار پارٹی --- سیاسی جماعت یونینسٹ کے چیف سیکریٹری اور پنجاب اسمبلی کے پارلیمنٹری سیکرٹری بھی رہے حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس پارٹی کی روح رواں تھے (۲۱) - حواشی ۱ - عروج عبدالروف : رجال اقبال کے مطابق میاں احمد یار دولتانہ ۱۳ - اپریل ۱۸۹۳ء کو پیدا ہوئے لیکن انہوں نے اس کی تصدیق کے لیے کوئی حوالہ نہیں دیا جبکہ ہماری تحقیق کے مطابق انہوں نے ۱۸۹۷ء میں ایف سی کالج لاہور سے درجہ دوم میں بی-اے پاس کیا - اس سال بی - اے پاس کرنے والوں میں شیخ محمد اقبال ، برکت علی خاں فضل حسین ، مرزا اعجاز حسین ، نجم الدین وغیرہ شامل تھے بحوالہ مفکر پاکستان مؤلفہ حنیف شاہد ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ، ۱۹۸۲ء صفحات ۵۹ ، ۶۰ بحوالہ پنجاب گزٹ ۱۷ - مارچ ۱۸۹۸ء حصہ سوم صفحات ۴۵۲ تا ۴۵۷ اگر مؤلف رجال اقبال (صفحہ ۲۳۱) کا بیان درست مان لیا جائے تو اس کا مقصد یہ ہوا کہ میاں احمد یار نے بی اے کا امتحان چار سال کی عمر میں پاس کیا - شیخ محمد اقبال ۱۸۷۷ ء میں پیدا ہوئے میاں احمد یار اور شیخ محمد اقبال نے ۱۸۹۷ء میں بی - اے پاس کیا لہٰذا یہ بات قرین قیاس ہے کہ میاں احمد یار بھی ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے ہوں گے : ۲ - عروج ، عبدالرئوف ، رجال اقبال ، نفیس اکادمی کراچی ، ۱۹۸۸ء ص ۲۳۱ - ۳ - شاہد ، محمد حنیف ، مفکر پاکستان ، سنگ میل کیشنز ، لاہور ۱۹۸۲ء ص ۵۹ - ۶۰ - ۴ - ایضاً ص ۶۰ - ۵ - عروج ، عبدالرئوف ،رجال اقبال ص ۲۳۱ - ۶ - شاہد، محمد حنیف مفکر پاکستان ص ۵۷۵ بحوالہ صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول-اکتوبر ۱۹۷۳ئ، ص ۱۷۱ - ۷ - ایضاً ، ص ۵۷۵ اور انقلاب ۱۶ جون ۱۹۳۸، ص ۷ - ۸ - ایضاً ، ص ۲۷۷ بحوالہ ذکر اقبال ، ص ۱۱۰- ۹ - خورشید ، عبدالسلام ، سرگذشت اقبال ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۹۷۷ء ، ص۵۰۶ - ۱۰ - سالک ، عبدالمجید (مدیر) روز نامہ انقلاب ، ۲۶ - اپریل ۱۹۳۸ء ص ۱۱ - ۱۱ - معینی ، عبدالواحد ، عبداللہ قریشی ، باقیات اقبال ، آئینہ آدب لاہور ۱۹۶۶ء ، ص ۴۹۱ - ۱۲ - سالک ، عبدالمجید (مدیر) انقلاب ، ۲۲ - مئی ۱۹۳۵ء ص ۲ - ۱۳ - ایضاً ، انقلاب ، جلد ۱۲ نمبر ۲۴۱ ، ۱۱ جنوری ۱۹۳۸ء ، ص اول سرروق - ۱۴ - ایضا ً ، ایضاً یکم مارچ ۱۹۳۸ء ص ۳ - ۱۵ - ایضاً ایضاً ۸ مارچ ۱۹۳۸ء ص ۷ - ۱۶ - ایضا ً ایضاً ۱۴ جون ۱۹۳۸ء ص ۳ - ۱۷ - ایضاً ایضاً ۹ اگست ۱۹۳۸ء ، ص ۳ - ۱۸ - ایضاً ایضاً ۱۶ - اگست ۱۹۳۸ء ص ۳- ۱۹ - ایضاً انقلاب یکم نومبر ۱۹۳۸ء ص ۶ - ۲۰ - ملاحظہ فرمائیں حوالہ نمبر ۱ - ۲۱ - شاہد ، محمد حنیف ، علامہ اقبال اور قائداعظم کے سیاسی نظریات ، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۷۶ء ص ۲۲۰ - فکریات مسلم نظریۂ علم ملا صدرا اور اقبال کے تناظر میں ڈاکٹر وحید عشرت اس اعتراف کے باوجود کہ مجھے ملا صدرا کے افکار و نظریات کو بالاستیعاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا ، کیونکہ ایک تو ملا صدرا کے افکار زیادہ تر عربی میں ہیں اور دوسرے مجھے ملا صدرا کی سب کتب تک رسائی بھی حاصل نہیں تھی - پھر بھی جو کچھ مجھے ان کے بارے میں عرض کرنا ہے وہ ان کے فکر و فلسفہ کا وہ منہاج علم ہے جو انہوں نے علم کے بارے میں اپنی فکریات کی تشکیل کے لیے وضع کیا - اس بارے میں، میں یوں بھی آسانی سے بات کر سکوں گا کیونکہ اپنے منہاج میں ملا صدرا کا طرز فکر یا ان کی فلسفہ طرازی اس سے ذرا بھی مختلف نہیں جو مسلمانوں میں ترویج فلسفہ و حکمت کے زمانے سے مروج رہی ہے اور جو تقریباً تمام فلسفیوں میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے - ملاصدرا کی طرح اقبال کی فکر کی اساس بھی انہی دو امور پر ہے ، ان میں ایک تو یہ ہے کہ اثبات حقیقت کے لیے عقل ، استدلال اور برہان کافی نہیں ، بلکہ ضروری ہے کہ استدلال کے ساتھ ساتھ شہود و اشراق کی بھی اس میں آمیزش ہو- یہ وہی نظریہ ہے جو امام غزالی نے بیان کیا - عصر حاضر میں کانٹ نے بھی اس امر پر زور دیا کہ ماوراء حقیقت کا علم نا قابل حصول ہے - یعنی اشیا جیسی کہ وہ ہیں ہمارے احاطہ علم سے باہر ہیں - ہم نے علم کی جو دنیا بنا رکھی ہے وہ ہمارے ذاتی تفکر کے اصولوں اور موضوعی ذہنی مقولات سے تعمیر شدہ ہے - یعنی کانٹ بھی عقل محض کی تحدیدات کا ملا صدرا کی طرح ہی قائل ہے - اقبال نے بھی اپنے خطبات میں عقل جزوی اور عقل کلی کی تقسیم کی اور مولانا رومی کے تتبع میں عقل کی نارسائی پر اصرار کیا ہے - علم کے حوالے سے پوری مسلم روایت فکر اسی قضیے کے گرد گردش کرتی نظر آتی ہے اور یہ مسلم علم کلام میں ایک بنیادی مسئلے کے طور پر موجود ہے - اس لحاظ سے یعنی مغربی فلسفے اور اسلامی فلسفے کے حوالے سے غو ر کیا جائے تو یہ بات ہر جگہ مسلمہ ہے کہ ماوراء حقیقت کا علم ناقابل حصول اور اشیا جیسی کہ وہ ہیں ان کو جاننا ہمارے احاطہ علم سے باہر ہے اس تناظر میںنبی پاک کی اس دعا کی معنویت نظر آتی ہے جس میں آپؐ دعا فرماتے ہیں کہ !’’ اے خدا مجھے اشیاء کی حقیقت سے آگاہ فرما ‘‘ - اگر اشیا کی حقیقت کا علم یکسر نا ممکن ہوتا تو نبی یہ دعا کبھی نہ کرتے - اس دعا میں ہی یہ امر پوشیدہ ہے کہ اشیا کی حقیقت کا علم ناممکن نہیں ہے- دوسری چیز جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ملا صدرا کا فلسفیانہ منہاج بھی ارتباطی اور تطبیقی ہے - انہوں نے فلسفہ استدلال اور شرح و معرفت کے مابین اتحاد و مفاہمت پیدا کی ہے - انہوں نے استدلالی مشائی فلسفے کو حکمت اشراق سے اور پھر ان دونوں کو اصول عرفان سے تطبیق دی جو ابن العربی اور صدرالدین قونوی کے واسطے سے سامنے آیا پھر ان کو وحی سے مربوط کیا اور اہل تشیع کے عقائد و نظریات سے تطبیق دی - یوں ملا صدرا نے فلسفے اور مذہب کے شیعی تصورات کی تطبیق کو کمال مہارت سے مسلمانوں کی روایت حکمت سے مربوط کر کے مکمل کیا - ملا صدرا کی فلسفہ طرازی ، تشریح، تطبیق اور عرفانی تعبیر سے عبارت ہے - تطبیق کی اس روش کو سکندریہ کے یہودی فلسفی فلو نے افلاطونی فلسفے اور یہودیت کی تطبیق کے لیے استعمال کیا تھا - اس کے تتبع میں سکندریہ کے ہی عیسائی فلسفی فلاطونس نے اسے اپنایا اور اولین مسلمان عرب فلسفی الکندی ، الفارابی اور شیخ الرئیس ابن سینا نے مسلمانوں میں اسے رائج کیا ، جو مسلم علم کلام کی اساس ہے - یہی روش برصغیر میں رہی جس کے دو بڑے نمائندے، سر سید احمد خان اور علم و فلسفہ کی دنیا میں علامہ اقبال ہیں - سرسید کے تتبع میں ہی مذہب ، فلسفے ، ادب اور شاعری میں نیچرل ازم کی تحریکیں ابھریں - سر سید اور اس کے ماننے والے نیچری کہلائے حالی اور آزاد وغیرہ نے نیچر کے حوالے سے نظمیں لکھیں اور پھر بعد میں ہمارے پورے ادبی اور شعری رویوں کی تطبیق رومانیت ، نیچریت ، مارکسیت ، جدیدیت ، وجودیت ،منطقی اثباتیت ، نتائجیت اور افادہ پرستی کی بھینٹ چڑھ گئی - ادب اور شاعری میں ہم اپنی اسلوبیات کو چھوڑ چھاڑ کر نو آبادیاتی اور پس نو آبادیاتی فکر اور اسلوب کی زنجیروں کے اسیر ہو گئے کہ اب ہمیں ان سے گھن بھی نہیں آتی بلکہ ہم اس کو ترقی اور فوز و فلاح کی علامت سمجھ کر اسی تہذیبی آشوب میں گھر گئے ہیں جس پر پہلے ہمارے بزرگ اور اب پورا مغرب ماتم کر رہا ہے - اقبال نے اپنی کتاب تشکیل جدید الہیات اسلامیہ میں جدید مغربی سائنس طبیعیات، فزکس نفسیات اور دیگر عمرانی علوم کے حاصلات سے اسلامی معتقدات کی تطبیق کرتے ہوئے جدید مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب و ثقافت کی ہی توسیع قرار دیا - یوں قدیم اور جدید دونوں طرح کے مسلمان مفکرین کا فلسفے میں تطبیقی مزاج ہی نظر آتا ہے فلسفہ طرازی کے اس مزاج کے حوالے سے بھی اقبال اور ملاصدرا کا منہاج تفلسف ہم آہنگ ہے - میری نظر میں مسلم فلسفے اور اسلامی علم الکلام کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے قرآن حکیم کے معتقدات اور تصورات پر کسی نئے علم کا منہاج دریافت کرنے کی بجائے فلسفے اور سائنس میں تطابقت و توافق میں اپنی تمام تر دماغی صلاحیتیں غارت کر دیں - قرآن نے جس چیز کو حکمت کہا ہے- مسلمانوں کے ہاں وہ نمو پذیری ہی نہ پا سکی ، اس کہ جگہ مسلمانوں نے یہودی اور مسیحی علم الکلام کے حوالے سے مسلم علم الکلام کا ایک لایعنی اور بے ہودہ طومار اکٹھا کر لیا- جس سے قرآن کی اپنی روح حکمت کجلا گئی اور خود قرآن کے معتقدات اور مضامین تشکیک کی نذر ہو گئے - مسلمانوں نے اسلام کی اپنی حکمت پر اپنا کوئی تمدن برپا کرنے کی بجائے دوسروں کے حاصلات پر لیبل چپکا کر اسے اسلامی بنانے کا فن ایجاد کیا - فلاسفہ نے اسلامی معتقدات کو کھینچ تان کر یونانی فلسفہ اور مغربی علوم و سائنس پر منڈنے کی سعی رائیگاں کی ہے - تطبیق کے حوالے سے بھی ملاصدرا اور اقبال کا رویہ بڑا ہم آہنگ ہے - تطبیق کے لیے ملاصدرا کے پاس یونانی حکماء اور ان کے مسلم شارحین کا فلسفہ اور شیعی افکار تھے اور اقبال کے پاس جدید مغربی علوم و فنون کے حاصلات اور سنی اعتقادات تھے - میرا سوال یہ ہے کہ تطبیق میں ملا صدرا اور اقبال اور دوسرے مسلم حکماء نے یونانی فلسفے اور جدید فلسفے اور سائنس کو اساسی کیوں بنا رکھا ہے - علم کیا ہے ؟ اگر میںنبی پاک ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کروں کہ ’’ اے اللہ مجھے اشیاء کی حقیقت سے آگاہ فرما ‘‘ تو علم کی تعریف یہ بنے گی کہ ’’ اشیاء کی حقیقت جاننا‘‘ علم ہے - پھر قرآن حکیم میں بھی ہے کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو اشیاء کے نام سکھائے‘‘ یعنی اشیاء کی حقیقت سے آگاہ کیا جس سے آدم ؑ نے اشیاء کی حقیقت کو جانا - اب یہ تحقیق کہ ’’جاننا‘‘ کیا ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ جاننا ہمیشہ ایک ہی مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا- ۱ - کبھی جاننا محض سادہ مفہوم میں ہوتا ہے مثلاً کیا میں اسلم کو جانتا ہوں؟ محض واقفیت اور شناسائی اس سے مراد ہوتی ہے - ۲ - جاننے کا دوسرا مفہوم ’’ کیسے ‘‘ کے مفہوم میں ہے کہ اس سے مراد عملی یا تکنیکی واقفیت ہے - مثلاً گھوڑے پر سوار کیسے ہوتے ہیں - کار کیسے چلاتے ہیں- ۳- تاہم جاننے کا درست ترین مفہوم قضیاتی ہے مثلاً میں جانتا ہوں کہ ملا صدرا شیراز کے رہنے والے تھے اس میں کہ ، کے بعد ایک قضیہ آتا ہے - ’’ میں جانتا ہوں کہ آپ میرے سامنے بیٹھے ہیں‘‘ - میں جانتا ہوں کہ پاکستان ایران کا دوست ملک ہے یا ہمسایہ ملک ہے - اس میں قضایا کی صداقت جانے بغیر اس سے واقفیت ممکن نہیں ہوتی - اس میں کسی قضیئے کو جاننے کا مطلب اسے صادق جاننے کے مترادف ہے تاہم جاننا دیگر افعال یعنی عقیدہ رکھنا ،حیرت کرنا اور امید کرنا سے الگ اور مختلف ہے - جاننے کے قوی اور ضعیف معیارات اور مفاہیم بھی ہیں - تاہم ایک فلسفی کے لیے جاننے کا قوی مفہوم ہی پسندیدہ ہے ، اور وہ اس بات کا متلاشی رہتا ہے کہ کیا کچھ ایسے قضیئے بھی ہیں جنہیں ہم شک کے معمولی شائبہ سے بھی پاک کر سکتے ہیں ، اور وہ کبھی کاذب ثابت نہ ہوں- تاہم کامل شہادت کے بغیر جاننے کا عمل پورا نہیں ہوتا- کیونکہ ہر مشاہدہ اور تجربہ کسی قضیئے کو مزید شہادت فراہم ضرور کرتا ہے مگر اسے قطعی طور پر صادق بنانے پر قادر نہیں - صرف ہم صداقت کا دعویٰ کر سکتے ہیں - یقین کے مفاہیم پر طویل بحثوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم علم کے منابع کی طرف آتے ہیں - جنہیں میں علم کے درجات بھی کہتا ہوں اس لیے کہ علم ان منابع سے حاصل ہوتا ہے اور ان منابع سے درجہ بدرجہ بلند ہو کر یقینیات کی منزل تک رسائی حاصل کرتا ہے ، نقص صرف یہ رہا ہے کہ فلسفیوں کے ایک طبقے نے ایک ذریعے کو نہ صرف اپنایا بلکہ اسی کو قطعی اور حتمی سمجھ لیا - اور دوسروں کو نظر انداز کر دیا جبکہ علم کی یقینیات میں یہ تمام اپنا اپنا کردار لازمی طور پر ادا کر کے جاننے کے عمل کی تکمیل کرتے ہیں - مثلاً ۱-حسی تجربہ - علم کے تمام بیان کردہ ذرائع میں صریح ترین ہے - کیونکہ اس حسی تجربہ میں ہم اپنی کسی نہ کسی حس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کی کارکردگی پر کسی چیز کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں-طبیعی اشیاء کا وجود اور ان کی خصوصیات کا علم ہمیں دیکھنے سونگھنے اور چکھنے سے ہوتا ہے - جس سے ہمیں چیز کے وجود اور اوصاف کا علم حاصل ہوتا ہے حواس خمسہ عالم طبیعی کو ہم پر عیاں کرتے ہیں - ادراک ، فریب ، وہم اور ادراک کی غلطیاں بجا ، مگر ان سب کی اساس حسی تجربے کے صحیح یا غلط ادراک سے عبارت ہیں - یہ حسی تجربات تصدیق کے عمل سے گزر کر علم بنتے ہیں - خارجی تصدیق خارجی عوامل اور داخلی یا باطنی تصدیق ہمارے ذہنی اعمال اور افعال کرتے ہیں - حسی تجربے سے ایک درجہ بلند علم کا ایک دوسرا بنیادی ذریعہ عقل ہے - اس کی اساس استخراجی اور استقرائی استدلال پر ہے - ہم استنتاج کے استخراجی اور استقرائی طریقوں سے مختلف مقدمات سے استنباط کرتے ہیں - استخراجی طریق میں ہم کل سے جزو کی طرف جاتے ہیں مثلاً انسان فانی ہے - اسلم انسان ہے لہٰذا وہ بھی فانی ہے - یہ استخراجی استنتاج زیادہ قابل اعتماد اور یقینی ہے جبکہ ہم استقرائی اور مفرد مثالوں کے تجربے اور مشاہدے سے کلیات مرتب کرتے اور استدلال کرتے ہیں ، مثلاً ہم کالے کوئوں کے مفردتجربوں سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ چونکہ کوا اپنی مثالوں میں ہمیں سفید نظر نہیں آیا - لہٰذا کوے کالے ہیں ایک بھی سفید کوا ہمارے اس استدلال کو ناقص کر سکتا ہے - مگر مفرد مثالوں کے تجربے اور مشاہدے سے ہم اپنے اردگرد کی دنیا کی تعمیم کے قابل ہوتے ہیں ، کیونکہ مفرد مثالوں کے مشاہدوں سے جب ہم تعمیم یا منطقی زقند (Inductive Leap) لگا کر کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں ، تو وہ اس وقت تک صادق رہتا ہے اور کاذب نہیں ہوتا - جب تک اس کو رد کرنے کے لیے کوئی معقول اور وافر دلیل نہ ہو - تاہم استقراء عقلی استدلال سے آگے بڑھ کر فکر کی صلاحیت بھی ہے اور عقلی قوای کے مدارج سے مراد فکر میں بروئے عمل ہونے کی قوت بھی ہے - جو منطق کے اصول اولیہ سے بھی زیادہ وسعت کے ساتھ نتائج کا ابلاغ پالیتی ہے - علم کے منبع یا مأخذ کے طور پر سند بھی اہم ہے - ہم کسی اہم شخصیت ، کسی ماہر فن یا نبی یا رسول کی سند پر کسی خبر یا بات کو درست تسلیم کرتے ہیں اس کی صداقت پر اعتماد کرتے ہیں- مثلاً ہم ٹیلی ویژن ، اخبار ، ریڈیو ، تجزیہ نگار ، ماہر فلکیات ، ماہر سیاسیات ، ماہر ڈاکٹر کی سند پر یقین کرکے اس کے نتائج کو قبول کر لیتے ہیں اور اس سند پر ہمیں اکثر اپنے علم سے بھی زیادہ صداقت کا یقین ہوتا ہے - ۴ - علم کا چوتھا درجہ اور ذریعہ وجدان بھی گردانا جاتا ہے - ہم اپنی وجدانی کیفیت میں جو ایقان حاصل کرتے ہیں اس کو معتبر جانتے ہیں اقبال اور برگسان فکر اور وجدان کے مابین ایک نامیاتی تعلق کو تسلیم کرتے ہیں - کسی ماہر فن کا وجدان بسا اوقات وہ نتائج اخذکرتا ہے جو صدیوں کے مطالعے سے بھی ممکن نہیں ہوتے - وجدان اچانک کسی یقین کا اذعان ہے - ایک چکا چوند ، فکر کی ایک لپک - جیسے سمندر میں بلند کوئی اچانک اٹھنے والی موج ، وجدان سے اس لیے انکار ممکن نہیں کہ کسی نہ کسی سطح پر یہ سب کو ہوتا ہے تاہم اس کی کیفیت اور کمیت وجدان کرنے والے سے کبھی مطابق اور کبھی اس سے کہیں بڑھ کر ہو سکتی ہے - علم کے ذرائع اور درجات میں الہام بھی اہم ہے - اگرچہ الہام کسی دوسرے کے لیے حجت نہیں، جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے اپنے مکتوبات میں بیان کیا ہے کیونکہ یہ انفرادی ، موضوعی اور ناقابل ابلاغ ہوتا ہے - تاہم صاحب الہام کے ایقان کے لیے یہ بہت قوی درجہ علم ہے - الہام خواب اور نیم غنودگی کی حالت میں بھی ہوتا ہے ،اور کبھی حال کی کیفیت میں بھی - الہام میں فرد کا رشتہ حقیقت اعلیٰ سے براہ راست ہوتا ہے - اس میں الفاظ کی نسبت مفہوم زیادہ واضح ہوتا ہے - الہام کی برتر صورت وحی کی ہے جو تمام ذرائع علم سے زیادہ قوی ہے - یہ صاحب وحی پر ایک خاص کیفیت طاری کر دیتی ہے ، اس کی خاصیتیں بڑی نمایاں ہیں - ایک تو یہ کہ وحی صرف انبیاء اور رسولوں سے مخصوص ہے- شہد کی مکھی یا کسی اور کو ، جو وحی بیان کی گئی ہے وہ الہام ہی کی نوعیت ہے - اصطلاحی معنوںمیں وحی انبیاء اور رسولوں پر اترتی ہے - دوسری اس کی خاصیت یہ ہے کہ وحی واضح الفاظ اور مفاہیم میں ہوتی ہے ، اس میں کسی قسم کا کوئی انتشار یا کنفیوژن نہیں ہوتا - تیسرے یہ کہ وحی کے لیے خدا نے جبرئیل کو مخصوص کر رکھا تھا وہی خدا کے الفاظ پہنچاتا ہے اور چوتھی صفت یہ ہے کہ نبی پاکؐ کی وفات کے ساتھ ہی یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہو چکا ہے - اپنے مفاہیم اور الفاظ کے حوالے سے اب صرف قرآن ہی وہ وحی یا ہدایت ہے جو قیامت تک کے لیے محفوظ اور حجت ہے- اور ہر اعتقاد کے لیے صرف یہی معتبر ہے اور یہی کسوٹی ہے جس پر ہر شے کو پرکھا جانا چاہیے اور یہ علم کا سب سے بلند درجہ ہے- ہر تصور، عقیدے،خیال اور حاصلات علمی کی تطبیق اس سے کرنی چاہیے ناکہ مذہب کو کھینچ تان کر فلسفے ، سائنس یا دوسرے علوم کے حاصلات پر منڈھنے کی سعی کرنی چاہیے - غلطی یہ ہوئی ہے کہ مذہب کو صادق قضیہ بنانے کے لیے طبیعی دنیا کے حاصلات کو واقعہ تصور کر کے اس سے تطابق کیا گیا ہے - جو یونانی منطق کی رو سے ایک لازم امر تھا سائنس ، فلسفہ اور دیگر علوم کے حاصلات کو صادق قضیہ جاننے کے لیے مذہب کو واقعہ تصور کر کے اس سے اس کی تطابقت نہیں کی گئی - اگر قرآن کی وحی کا اترنا ایک صادق واقعہ ہے تو جملہ علوم کے حاصلات کو صادق اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک وہ اس وحی کے واقعہ سے خود کو مطابق کر کے خود کو صادق قضیہ نہیں بنا لیتے - مباحث مشرقیہ کی دوسری کتاب کی ساتویں فصل میں امام رازی علم کی تعریف کو ممکن تصور نہیں کرتے - وہ کہتے ہیں کہ علم کی حقیقت کسب اور تعریف سے بے نیاز ہے - ان کے نزدیک جزوی علم اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک معلوم کی صورت کا عالم کے ذہن میں انطباع نہ ہو جائے - لہٰذا علم اس انطباع کا نام نہیں جو معلوم کی ماہیت کا عالم میں ہوتا ہے - عالم کے ذہن پر معلوم کے مطابق جو صورت مرتسم ہوتی ہے وہ علم ہے - وجود کا معلوم اور تحقق بھی علم ہے اور معلوم یا علم میں شے معلومہ جوہر اور عرض دونوں کے ساتھ موجود ہو - ایک بات یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ وحی علم کے ذرائع میں اس لیے برتر ہے کہ اس کی اساس حضوریت پر ہے جبکہ علم کے دوسرے ذرائع یا مدارج میں حضوریت کی بجائے تعقلیت نمایاں ہوتی ہے - امام رازی کی طرح ملا صدرا بھی کہتے ہیں کہ علم کا تعلق بھی انہی حقائق سے ہے جن کی انیت اور واقعی ہستی بھی بجنسہ ان کی ماہیت بھی ہے اور اس قسم کے حقائق کی تعریف ممکن نہیں - جس کی وجہ یہ ہے کہ تعریف خصوصاً جو ذاتیات سے کی جاتی ہے ، جسے حد کہتے ہیں وہ جنسوں اور فصول سے مرکب ہوتی ہے - ظاہر ہے کہ یہ ساری چیزیں کلی امور ہیں اور جس چیز کا حال یہ ہو کہ اس کا وجود ہی اس کی ماہیت ہو چونکہ وجود بذات خود تشخص پذیر ہوتا ہے اس لیے کلی امور کے ذریعے سے اس کی تعریف کیسے ممکن ہو سکتی ہے - تاہم ملا صدرا علم کو نفس کی ایک وجدانی کیفیت شمار کرتے ہیں جسے ہر زندہ شخص اپنے اندر ابتدا ہی سے اس طور پر پاتا ہے جس میں کسی التباس اور اشتباہ کی قطعاً گنجائش نہیں ہوتی ’’ بالکل اسی سے ملتا جلتا رینی ڈیکارٹ (۱۵۹۶ - ۱۶۵۰ئ) کا وہبی تصور Innate idea بھی ہے جو اس نے کسی تجربہ سے نہیں سیکھا اور نہ ہی اسے اس کے تخیل نے وضع کیا - وہ امتیازی اور واضح ہونے کی حیثیت میں بدیہی ہے ڈیکارٹ نے اسی وہبی تصور سے خدا کے وجود کا استنباط کیا تھا - اسی کو وہ علت تصور کرتے ہوئے معلول کو اس کے مقابلے میں محدود اور کوتاہ تصور کرتا ہے میرا ذاتی خیال یہ ہے - جب کوئی فلسفی اپنے قضایات کے الجھائو میں گرفتار ہو جاتا ہے تو پھر اسے ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے بنے ہوئے جال میں یا تو دم توڑنا پڑتا ہے یا پھر وہ کسی ایسے تصور کو اختراع کرتا ہے جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی وہ اسے بغیر کسی دلیل اور منطق کے قبول کرتا ہے اور پھر اسے ریاضی، عقل اور منطق کے اصول سے مرصع کر کے یعنی سجا بنا کر پیش کرتا ہے - افلاطون کے عالم امثال، ارسطو کی علت اولیٰ ، ڈیکارٹ اور ہیگل کے تصور مطلق Innate idea سب کی حیثیت یہی ہے - مدرسیت پر گرجنے برسنے کے باوجود ان کے تصورات کے اندر مدرسیت کنڈ لی مارے بیٹھی رہتی ہے یہی فلسفی کے اندر کا خلا ہے - جو ساری زندگی اس سے پر نہیں ہوتا - انسلم اور آگسٹائن رینی ڈیکارٹ سے قبل جب کمال مطلق Perfection Absolute کی بات کر چکے تو پھر وہبی تصور والے ڈیکارٹ کی تخصیص کیا رہ جاتی ہے جبکہ کمال مطلق کا تصور بھی وہبی ہے جو افلاطون کے نظریہ امثال کی ہی صورت ہے اوریہ وہبی عنصر ہیگل کے تصور مطلق میں موجود ہے - ڈیکارٹ اور ہیگل کا تمام تر فلسفیانہ استدلال متعارفہ Axioms پر ہے جسے وہ منطقی لزوم Logical Necessity کے زور پر آگے بڑھاتے ہیں - وہبی تصور کوعلم کی اساس تسلیم کرنے کے بعد فلسفہ طرازی تو محض ایک ٹیکنیشن کا کام رہ جاتا ہے - جو ڈیکارٹ اور ہیگل وغیرہ نے بڑی چابکدستی سے کر لیا تھا- ہمارا دوست لائیبنز بھی علم کا سرچشمہ اسی ابتدائی متعارفہ پر رکھتا ہے جو اس کے خیال میں ابتدائے آفرینش سے ان کی عقل میں ودیعت کر دیئے گئے ہیں- وہ انسانی ذہن کو تجربیت پسندوں کی طرح سادہ سلیٹ قبول نہیں کرتا جس پر کہ حسی ادراک تاثرات مرتسم کرتے ہوئے علم کا تانا بانا بناتے ہیں- کیونکہ اس کے مونا ڈ یعنی ذرات روحی گنبد بے در ہیں ان میںکوئی دریچہ ، راستہ اور روزن نہیں جہاں سے خارجی ماحول کی مہیجات داخل ہو سکیں - بے در موناڈ کے نتیجے میں تمام تر علم ذہن کے اندر ہی مضمر تصور ہوگا - تجربہ صرف ذہن کے اندر موجود کو واضح ظاہرات میں بیان کرتا ہے- اس سے جان لاک کا سارا تصور دھرا کا دھرا رہ گیا کہ ہمارا ذہن ایک سادہ سلیٹ یعنی غیر منقوش Tabula Rasa تجربہ سے سیکھتا ہے ہمارے ذہن میں قبل تجربی A Priori کسی قسم کا شعور نہیں ہوتا- اس کے لیے نہ تو لاک کے پاس کوئی قطعی دلیل ہے اور نہ بے در موناڈ کے لیے لائیبنز کے پاس کوئی بنیاد - اگرچہ جان لاک بھی خارج از ذہن اور قائم بالذات مجرد تصور جو حسی ارتسامات سے مختلف ہے، کو بھی قبول کرنے سے بچ نہیں سکا- یہ لاک کا تصور مجروہ سقراط کے تعقلات یا تصورات کی بازگشت کے سوا کچھ بھی تو نہیں - جو امثال اور اعیان یا ارسطو کی صورت Forms کی معروضی اور قائم بالذات حیثیت میں پہلے ہی فلسفے میں موجود ہے - غالباً لاک بھی مجبور ہو گیا کہ وہ ذہن کی سلیٹ سے زیادہ کچھ کہے کیونکہ خالی سلیٹ سے علم کی واضح بنیاد فراہم نہیں ہو سکتی تھی - برکلے نے اس مسئلہ کو تصورات مجردہ اور تصورات جزئی سے حل کرنے کی کوشش کی - تصورات مجردہ ، وہ تصورات ہیں جو کسی شخص ، واقعہ یا شے سے منسوب نہیں وہ تصورات کلیہ نام ہیں اسی کو افلاطون نے کسی شے کا تصور مطلق کہا تھا جو جامع ہے اور دوسرے وہ تصور جزئی جو کسی خاص شخص، واقعہ اور شے سے مخصوص ہے تصورات مجردہ نام ہیں جو ابلاغ اور افہام و تفہیم کے لیے ہیں- جس کا سر چشمہ اس کے نزدیک زبان ہے کلیات کا وضع محض تسمیہ کی غرض سے ہے- یہ مجرد تصورات از خود موجود ہیں جبکہ جزئی تصورات ہمارے ذہنی تصورات ہیں جو اس کے ذریعے ہمارے ذہن میں مرتسم ہو کر ذہنی تصورات بن جاتے ہیں یوں ہم اپنے مجردہ تصورات کو ذہنی تصورات میں مرتسم پا کر آگاہی حاصل کرتے ہیں- تصورات مجردہ میں ابتدائی تصورات ہوتے ہیں جبکہ ذہنی تصورات میںجزئی اور ثانوی صفات پائی جاتی ہیں جنہیں برکلے کے جدید نظریہ رویت A New Theory of Vision کے تحت ہمارے حواس امتداد یعنی طول، عرض، عمق، شکل، فاصلہ ،مزاحمت اور صلابت اور حرکت کا احساس پاتے ہیں- لارڈ ڈیوڈ ہیوم نے ارتسامات اور تصورات کے ذریعے لاک، برکلے اور ماقبل تصورات کی تطبیق کی کہ انسانی ذہن کے تمام ادراکات، ارتسامات اور تصورات کی متبائن اقسام پر مشتمل ہیں- ارتسامات ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ ارتسامات تصورات میں ظہور پا کر حافظہ اور تخیل کے ذریعے ربط و نظم پیدا کرتے ہوئے تلازم و ایتلاف کے لیے علم کی بنیاد بنتے ہیں- پھر یہ مفرد تصورات مرکب تصورات اور آپس کے اضافات Relation کے ذریعے علم کا ذریعہ بنتے ہیں اور تصورات کا ایتلاف Association مشابہت ، مقاربت Contiguity اور علت و معلول کے واسطے سے ہوتا ہے - اگرچہ ہیوم کا یہ نظام دوسرے سب فلسفیوں سے زیادہ سائینٹفک نظر آتا ہے تاہم خود ہیوم بھی اپنے ان تصورات کو ’’ سرد ، ثقیل اور مضحکہ خیز ‘‘ محسوس کرتا تھا - کیونکہ اس نے لاک کے تجربی استدلال کو منطقی صحت و زبان میں پیش کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا جس کا نتیجہ علمی تشکیک کے سوا کچھ نہ تھا- ویلز Wales کے فلسفی رچرڈ پرائس نے فہم کے ادراک اور احساس قلب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ احساسات رکھنے اور تحسسات سے آگاہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کے روابط اور اضافات کا فہم بھی رکھتے ہیں اور اس کی بنا پر ہمیں علیت ، لزوم ، عینیت اور امکان وغیرہ کے تصورات حاصل ہوتے ہیں - تجربہ ہمیں عقلی حقائق کا فہم دینے سے قاصر ہے اور خیر و شر اور صدق و کذب کا معیار بھی اس کے بس میں نہیں گرچہ وہ بھی فہم اور حس کے تعامل کے بیان میں کورا ہی رہا - تجربہ علم میں اہم کردار رکھتا ہے مگر بالائے حس علم کے پہلوئوں کا ہیوم کے ہاں ادراک موجود نہیں - کانٹ نے ماورائے حقیقت Transcendent Reality کے علم کو ناقابل حصول کہہ کر، کہ ہم اشیا جیسی کہ وہ ہیں کو نہیںجان سکتے اور وہ ہمارے احاطہ علم سے باہر ہیں کے ذریعے کائنات کو ہمارے ذاتی فکری اصولوں اور موضوعی اور ذہنی مقولات کی اختراع بنا دیا جو ہماری ذاتی اور انفرادی ہے حقیقت مطلقہ کی ہر گز آئینہ دار نہیں - یوں اس نے پرانی علمیاتی روایت میں شگاف ڈال دیا کہ اشیا اپنی معروضی ساخت اور مستقل بالذات شکل و صورت رکھتی ہیں اس کے برعکس کانٹ نے یہ نظریہ علم پیش کیا کہ خارجی اشیاء ذہن کی اپنی موضوعی صورتوں کے مطابق ڈھل جاتی ہیں - ہم اشیا کو جیسی کہ وہ فی حقیقت ہیں ، نہیں جانتے بلکہ ہم اپنے ذہن کی فکری صورتوں اور موضوعی قوانین کو ان پر عائد کر دیتے ہیں ہمارا ذہن ان کی معروضی ساخت میں ڈھلنے کی بجائے انہیں اپنے سانچے میں ڈھال لیتا ہے - تاہم چونکہ ذہن کا ماورائی اور قبل تجربی ڈھانچہ اور اس کے اندر موصول ہونے والے ارتسامات و تنظیم کا عمل سب انسانوں میں یکساں اور غیر تغیر پذیر ہے - لہٰذا خارجی دنیا میں معروضیت کا ایک خاص مفہوم موجود ہے - کانٹ نے اس طرح اگرچہ مذہبی مسلمات کو عقل محض کے دائرہ کار سے خارج کر دیا مگر اخلاقی ایمان کی جو بنیاد فراہم کی وہ ایک نئی اذغانیت کا خواب تھا جس میںوہ سو گیا اور مذہبی مقولات کے لیے اس نے ٹھوس بنیادیں ہی لرزا دیں - کیونکہ عقل عملی مذہب اور اخلاق کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد فراہم نہیں کرتی- جس کے نتیجے میں وی آنا سرکل نے اور نفسیات نے مذہب اور مابعدالطبیعیات کو خلاف عقل اور نفسیاتی فکری اور ذہنی بیماری سے تعبیر کیا اور مقولاتی تجزیوں کے نتیجے میں ابھر نے والی لسانی تجزیے کی تحریک نے ان تصورات کو زبان کی فلائی بوتل میں بند الجھائو قرار دیا ؛ البتہ ہیگل نے کانٹ کے مقولات کو باہم دگر غیر مربوط اور ایک مقولے سے دوسرے مقولے کے اخذ کو ناممکن قرار دے کر کانٹ کے نظام فکر کی بعض دشواریوں کی نشاندھی کی کہ کانٹ کے فکری قوانین یا مقولات کا ماورائی ڈھانچہ متحرک اور ارتقاپذیر نہیں اور دنیائے مظاہر اور دنیائے حقیقت کی جو دنیائے اشیاء سے تفریق ہے ، وہ ختم ہو جاتی ہے - بہرحال اگر ہم اشیا کا (جیسی کہ وہ ہیں) ادراک حاصل نہیں کر سکتے تو اپنے موضوعی تصورات کو معروضی بھی نہیں کہہ سکتے اور کسی چھومنتر سے مذہب ، اخلاق اور قانون کے لیے عقل عملی کے گورکھ دھندے سے کوئی جواز بھی وضع نہیں کر سکتے - یوں کانٹ کا نظریہ علم ایک مقفل گنبد ہے جو لائیبنز کے موناڈ سے بھی زیادہ بے در ہے - جسے اس کی جدلیات بھی متحرک اور ارتقایاب نہیں کر سکتی - کانٹ کے مغالطوں پر یہاں زیادہ بحث کا موقع نہیں ، اس پر تنقید ہم کسی اور مناسب جگہ کریں گے اس لیے کہ خود کانٹ کا عقل کا تصور بھی ناقص ہے جس کے دائرہ سے اس نے عقل کی اعلیٰ ترین صورت وحی کو خارج سمجھا ہے - اقبال نے بھی کانٹ کے مقولات پر خطبات میں بحث کی ہے - علامہ کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ عقائد کے ازروئے عقل اثبات کے نا ممکن ہونے کی بنا پر اخلاق کو افادہ پرستی کی نذر ہونا پڑا جن سے بے دینی کو فروغ ہوا - ملا صدرا معدوم اشیاء جن کا وجود ممتنع اور ناممکن ہے کی مثالی صورتوں کے ذہن میں موجود ہونے کے قائل ہیں کیونکہ ہم ان کے لیے صادق ثبوتی احکام ثابت کرتے ہیں اور حکم لگاتے ہیں کہ شریک باری کا وجود ممتنع ہے اور اجتماع نقیضین وہاں محال ہے - کسی شے کے ممتنع ہونے کی صفت یا معدوم ہونے کی صفت اس شے کے علم میں ثابت کرتی ہے - ہر شے کا علمی شہود اور کشفی ظہور ہی ہوتا ہے یعنی ان کا ذہنی وجود بھی ہوتا ہے ملا صدرا ، ابن سینا کے اشارات کے حوالے سے کہتے ہیں - ’’عالم اور مدرک کے سامنے شے کا حاضر اور متمثل ہونا بھی اس شے کا ادراک ہے ‘‘ ص ۱۴۲۹ کبھی وہ تعقل کو اضافت اور نسبت قرار دیتے ہیں - تعقل کے اضافت اور نسبت ہونے کا عمانویل کانٹ نے بھی اشارہ کیا ہے کہ علم سراسر موضوعی ہے اس لیے کہ ہم اشیا کا جیسی کہ وہ ہیں ادراک نہیں کر سکتے بلکہ ہم قبل تجربی ذہنی سانچے سے اشیا کو اس کے مطابق ڈھالتے ہیں اشیا کی ماہیت اور نوعیت کے مطابق اپنے ذہنی سانچے کو مرتب نہیں کرتے علم کے اضافی، نسبتی اور موضوعی ہونے کی بنا پر ہی معلومات کے تغیر سے علم میں بھی تغیر کا پیدا ہونا ضروری ہے - یوں علم ایک ایسی کیفیت ہے جس میں اضافت اور نسبت پائی جاتی ہے - یعنی ایسی کیفیت ہے جو کسی کی طرف منسوب اور مضاف ہو - ملا صدرا نے ابن سینا کے نظریات علم میں بھی اختلاف کی نشاندہی کی ہے - شیخ مقتول صاحب حکمت الاشراق کے نزدیک علم ظہور ہی کا نام ہے اور ظہور خود نور ہی کی ذات کی تعبیر ہے پھر نور کے مختلف حالات ہیں کبھی نور خود اپنے لیے نور ہوتا ہے یعنی خود اپنے اوپر ظاہر ہوتا ہے اس کو نور نفسہ کہتے ہیں کبھی غیر کے لیے نور ہوتا ہے یعنی غیر کے لیے اس کا ظہور ہوتا ہے - پہلی صورت میں نور خود اپنا عالم اور اپنے نفس کا مدرک ہوتا ہے جیسا کہ نور الانوار (خدا) نور قاہر (عقول) نور مدیر (نفوس) کا حال ہے - شیخ الاشراق کے بیان کا خلاصہ یوں ہے کہ شے کا اپنی ذات کو جاننے کا مطلب یہ ہے کہ شے اپنے لیے نور اور روشنی اور ان دو نورانی اشیاء میں نوری نسبت ہو - یہی اپنے سوا دوسری چیزوں کا جاننا ہے یہی علم بالغیر ہے - گویا مادی آلودگیوں سے پاک وجود کا نام علم ہے - جو خواہ اپنی ذات کا علم ہو یا کسی دوسری چیز کا علم - اگر کوئی وجود بذات خود قائم ہے تو یہ بذات خود علم اور تعقل ہے اور اگر بذات خود نہیں بلکہ غیر کے ساتھ قائم ہے تو یہ علم بھی غیر ہی کے لیے ہو گا - جان لاک نے بھی کسی شے کے مجرد علم کو اس شے کا نام یا کلیات کا علم قرار دیا ہے - ملاصدرا کی طرح وہ اسے کلیات کا علم کہتا ہے کسی مخصوص شے کا علم قرار نہیں دیتا کیونکہ اس کے لیے منظور شے کی اضافی صفات کا بیان بھی لازم ہو گا - ملا صدرا کے نزدیک علم وجود ہی کا نام ہے اور علم تصور تصدیق کلی ، جزئی وغیرہ اقسام میں منقسم ہوتا ہے- علامہ اقبال نے اپنے پی - ایچ ڈی کے مقالے ایران میں مابعدالطبیعیات کا ارتقاء میں لکھا ہے کہ ملاصدرا علم و معلوم کی عینیت کے نظریے کو علم کی اساس گردانتے تھے - اس مقالے کے باب ’’ مابعد کا ایرانی تفکر ‘‘ میں ملاصدرا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ ملاصدرا کے نزدیک حقیقت تمام اشیاء کا نام ہے پھر بھی وہ ان میں سے کوئی شے نہیں ،صحیح علم موضوع و معروض کی عینیت پر مشتمل ہے وہ کہتے ہیں کہ وے گوبی نیاں کا خیال ہے کہ ملاصدرا کا فلسفہ ابن سینا کے فلسفے کی تجدید ہے تاہم وہ اس واقعہ کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ ملا صدرا کا یہ نظریہ، کہ موضوع و معروض میں عینیت ہے ایک آخری قدم ہے جو ایرانی عقل نے مکمل وحدت کی طرف اٹھایا تھا اس کے سوا ملا صدرا کا فلسفہ ہی ابتدائی بابی مذہب کی مابعد الطبیعیات کا مآخذ ہے - علامہ اقبال اشاعرہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک علم ، عالم اور ایسے معلوم کی باہمی نسبت کا نام ہے جو خارجی حیثیت رکھتا ہے - ابن مبارک کہتا ہے کہ ’’ علم اشیائے خارجی کہ شبیہ یا تمثال کے حصول کا نام ہے ‘‘- ابن مسکویہ کے نظریہ علم پر بھی اقبال نے ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقاء میں روشنی ڈالی ہے- علامہ اقبال ابن مسکویہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : ’’انسان کا علم احساسات سے شروع ہوتا ہے ا ور بتدریج ادراکات میں تبدیل ہو جاتا ہے - حقیقت خارجی تعقل کے ابتدائی مدارج کو متعین کرتی ہے - لیکن علم کی ترقی کے یہ معنی ہیں کہ ہم مادے سے بے تعلق ہو کر فکر کر سکیں - فکر کا آغاز مادے کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس کے پیش نظر یہ مقصد ہے کہ اپنے آپ کو ابتدائی شرائط سے آزاد کر ے - لہٰذا تخیل میں جو کسی شے کی نقل یا شبیہ کو ذہن میں محفوظ رکھنے اور اس کا اعادہ کرنے والی قوت ہے اور جس میں خارجیت سے قطع نظر کر لی جاتی ہے - ہم فکر کے ایک اعلیٰ زینہ تک پہنچ جاتے ہیں اس سے بھی اعلیٰ زینہ وہ ہے جہاں فکر تصورات وضع کرتے وقت مادہ سے بے تعلق ہو جاتا ہے جس حد تک کہ تصور اور ادراکات ہی کی ترتیب و موازنہ کا نتیجہ ہے - اس کے متعلق یہ نہیںکہا جا سکتا کہ اس نے احساسات کی ظاہری علت سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیا ہے - لیکن اس واقعہ کی بنا پر ، کہ تصور ادراک پر مبنی ہے ہم تصور و ادراک کی ماہیت کے باہمی اختلاف کو نظر انداز نہیں کر سکتے - وہ مستمر تغیر جس میں سے جزئیات (ادراک) گزر رہے ہیں - اس علم کی نوعیت پر بھی اثر ڈالتا ہے - جو محض ادراک پر مبنی ہے - لہٰذا جزئیات کے علم میں استمرار و استقلال کا فقدان ہے اس کے برعکس کلیات (تصور) قانون تغیر سے متاثر نہیں ہوتے جزئیات تغیر پذیر ہیں لیکن کلیات غیر متغیر رہتے ہیں - ملاصدرا کے نظریہ علم میں عالم ، معلوم تک حواس کے ذریعے پہنچتا ہے مگر جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ بعینہ وہ نہیں ہوتا جو کہ وہ شے ہوتی ہے جس کے بارے میں معلوم کیا جاتا ہے یعنی خارجی وجود اور ذہنی وجود ہم آہنگ نہیںہوتے - ہمارے پانچ حواس سے بالاتر اور الگ تخیل اور عقل کے بھی ذرائع علم ہیں جیسا کہ تجربیت والوں کا خیال ہے کہ خارج سے ہمارے ذہن پر ارتسامات مرتب ہوتے ہیں - علم کے ذرائع میں ملاصدرا حواس اور عقل کو شامل کرتا ہے - تاہم حواسی علم ناقص ہوتا ہے عقل اور تخیل تنقیح کے بعد علم کو مادہ سے آزاد کر کے خالص وجود دیتے ہیں - ملا صدرا کے نزدیک علم ، تصور سے بڑھ کر جو ہر ہے جو مادہ سے پاک ایک حقیقت ہے - یوں علم ایک براہ راست خود شعوری ہے جو وجدان سے حاصل ہوتی ہے - مختصراً یہ کہ ملاصدرا کے نزدیک علم ، حواس ، تخیل ، عقل اور وجدان کے تمام سوتوں سے حاصل ہوتا ہے بلکہ خود روح بھی امثال تخلیق کرتی ہے - مگر نفس کی امثال مادی اثرات رکھنے کی وجہ سے کمزور اور محدود ہے جبکہ عالم امثال وسعت رکھتا ہے - کیونکہ یہ مادی اثرات سے بالاتر ہوتا ہے - ملا صدرا کے فلسفے کے بارے میں جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا گیا ہے کہ وہ تطبیقی ہے جس میں انہوں نے اسلامی معتقدات اور نظریات علم کی یونانی ، افلاطونی اور نوافلاطونی روایت سے تطبیق کی ہے اس طرح اقبال نے جدید سائنسوں کے حاصلات سے اسلامی تصورات کی تطبیق کی ہے - ملاصدرا کے فلسفہ کی دوسری خصوصیت اس کا ارتباطی انداز فکر ہے - تاریخ فلسفہ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ مختلف فلاسفہ نے مختلف نظریات پیش کئے اور ان کے بعد آنے والوں نے ان میں ارتباط پیدا کر کے مختلف اجزا کو ایک کل میں پرو دیا - ملاصدرا نے جہاں ابن سینا ، ابن مسکویہ ، ابن عربی اور اشراقی اور امام رازی کے نظریات میں ارتباط پیدا کیا وہاں اس نے صوفیانہ روایت ، علم الکلام کی روایت ، قدیم فلسفیانہ روایت اور سب سے بڑھ کر امام جعفر صادق اور امام محمد باقر کے حوالے سے شیعی روایت سے بھی ارتباط پیدا کر کے اہل تشیع کے لیے فکری اور مابعدالطبیعیاتی اساس فراہم کی - جس کی پشت پر مسلم فکر و کلام کھڑے نظر آنے لگتے ہیں، جس نے علامہ طباطبائی کی صورت میں عصر حاضر میں جنم لیا اور محمد خواجوی کے قم سے شائع ہونے والے تفسیری کام نے ملا صدرا کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے - تفسیر کی فلسفیانہ روایت میں ملا صدرا کا ارتباط ابن سینا کی قرآنی تفسیر ، غزالی کی مشکوٰۃ الانوار اور سہروردی کی حکمت الاشراق سے پوری طرح جڑا ہوا نظر آتا ہے - تفسیر کے ظاہری اور باطنی دونوں معنی پر ملا صدرا زور دیتے ہیں - وہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ قرآن کے اصل معنی تو خدا ہی کو معلوم ہیں مگر راسخون فی العلم کی جہاں تک باطنی معنی تک رسائی ہو سکتی ہے وہ کی گئی ہے- ملاصدرا انسان کے اندر کے ایقان اور علم کو اس پر منکشف کرنا لازم قرار دیتے ہیں - بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم کی توضیح میں ملا صدرا نے معتزلہ اشاعرہ اور دیگر متکلمین سے بین بین رہ کر استفادہ کیا مگر کسی ایک پر مکمل انحصار نہیںکیا بلکہ سب کے وہ مثبت دلائل ، جو ان کے تفکر میں فٹ تھے انہیں اپنے تفکر کی تشکیل میں کام میں لائے ہیں - یوں اپنے تصورات کی تشکیل میں ملا صدرا کے تطبیقی اور ارتباطی منہاج فکر میں اور اقبال کے تطبیق اور ارتباطی منہاج فکر میں اصول کی حد تک ہم آہنگی ضرورموجود ہے - فرق صرف اتنا ہے کہ ملا صدرا کا رخ شیعی ہے اور اقبال کا سنی - اقبال شیعی مباحث سے بھی سنی تصورات کی توضیح و تنقیح کرتے نظر آتے ہیں جس طرح صدرا سنی سے تشیعی تصورات کی صورت گری کرتے ہیں - ۲ علامہ اقبال بھی اپنے مذہبی تجربے میں گرچہ اس کے وقونی پہلو کو یکسر نظر انداز نہیں کرتے اور فکر اور وجدان میں ایک نامیاتی رشتے پر اصرار کرتے ہیں تاہم ملا صدرا کے باطنی تجربے میں زیادہ وسعت یوں ہے کہ وہ اس باطنی تجربے کو ایک وقونی تجربہ گردانتے ہیں اور دانشورانہ صداقت کو عام زندگی میں برتنے پر اصرار کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اسے محض معقولی قضایات تک نہ رکھا جائے کیونکہ عمل میں نہ آنے سے یہ اپنی خصوصیات سے محروم ہو جاتی ہے ، مذہبی تجربہ اور ملا صدرا کا باطنی تجربہ یعنی دونوں کے وجدانی تجربے وقوف اور عقل کے منکر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی نوعیت میں بہت قریب ہیں- یہ بات بھی ملا صدرا اور اقبال کے ہاں ایک قدر مشترک ہے - تاہم اقبال کا مذہبی تجربہ ذاتی ناقابل ابلاغ ہے تو ملا صدرا اسے عقل کی زیادہ برتر اور عام استدلال سے بڑھ کر تعمیری کہتا ہے - ملا صدرا نے اسے شعور ولایت سے اٹھا کر چونکہ شعور نبوت سے ہم آہنگ کرنے کی سعی نہیں کی لہٰذا وہ کوئی کنفیوژن پیدا نہیں کرتا - کیونکہ ملا صدرا حقیقت کے تمام تجربات کو جزوی کہہ کر شعور نبوت کو ان سے برتر کر دیتا ہے - اقبال اور ملا صدرا میں نظریہ حرکت میں بھی کسی قدر مشترک ہیں - صدرا اور اقبال دونوں کائنات کو ایک ساکن و جامد وجود تسلیم نہیں کرتے - اسلام کائنات کو متحرک قراد دیتا ہے - اسلام کے نزدیک حیات کی روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے جسے ہم اختلاف اور تغیر میں دیکھتے ہیں - اگر معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات و تغیر دونوں کی خصوصیات کا لحاظ رکھے - اقبال کے نزدیک تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ کی ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے- اقبال کے نزدیک حرکت کائنات اور وجود کا جوہر ہے- ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے چاند ستارے، شجر حجر سب زندگی کی حرکت کا نام ہے - سکون اقبال کے ہاں فریب نظر ہے-’’ تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات میں‘‘ اقبال کو یہ اصول نظر آتا ہے جس میں ’’چلنا چلنا مدام چلنا‘‘ کو وجود کا خاصہ قرار دیتے ہیں- اقبال ارسطو اور یونانیوں کے کائنات کے ساکن ہونے کے تصور کو نہیں مانتا - اسی طرح ملا صدرا اپنے نظریہ وجود جو ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ٹھوس و مقرون ہے، کو متحرک کہتے ہیں - یہ وجودی ہی ظہور کے قابل ہے - نزول میں وجود نیچے کی طرف مگر اپنی حرکت جوہریہ میں اوپر کی طرف حرکت کرتا ہے - ابن سینا تو تدریج حرکت یعنی ایک نقطے سے دوسرے نقطے تک حرکت کا قائل تھا جو محض ایک ذہنی عمل ہے جہاں ہم جسم کو الگ الگ نقطوں پر رکھ کر دیکھتے ہیں اور تصور ایک کل بن جاتا ہے- مگر خارج کی دنیا میں حرکت میں آئے ہوئے جسم اور حرکت میں کوئی دوئی یا غیریت نہیں ہوتی- ملا صدرا حرکت کی ابتدا اور انتہا کے قائل نہیں کیونکہ حرکت سے قبل یا حرکت کی انتہا کے بعد سکون تسلیم کرنا پڑے گا - لہٰذا اقبال کی طرح وہ آغاز و انجام سے بالا صرف مسلسل حرکت کا قائل ہے- سکون ملا صدرا کے ہاں بھی بے معنی ہے - ملا صدرا کے تصور ، حرکت فی الجوہر میں حرکت کا اصل زور عشق پر ہے - عشق اقبال کے ہاں بھی حرکت کا بنیادی جذبہ محرکہ ہے- جس طرح ملا صدرا کا نظریہ حرکت جوہریہ ہمیں موجودات کی صورتوں سے آگاہ کرتا ہے اور حرکت وجود کی ماہیت بدلتی رہتی ہے اور کائنات میں بوقلمونی کو وجود میں لاتی ہے اور اقبال کے بھی تصور حرکت میں عشق و حرارت، زندگی اور تغیر کا بنیادی سبب ہے- اقبال کے ہاں عشق کی ایک جست منازل طے کرتی ہے جو کسی اور طرح ممکن نہیں - صوفیا کے ہاں جو تصور حرکت ہے اس میں تو کائنات ہر لحظہ مٹتی رہتی ہے اور پھر نئے وجود میں ظاہر ہوتی رہتی ہے - مگر ملا صدرا کے ہاں شے مٹتی نہیں بلکہ نئے نئے لباس میں اور ایک سے دوسری صورت میں اور اشیاء کے وجود کو نئی نئی شکل میں ظاہر کرتی رہتی ہے - ملا صدرا کے نظریہ ارتقاء میں بھی ابن مسکویہ ، رومی اور اقبال کی طرح زندگی جمادات سے نباتات،حیوانات ، انسان اور اس سے بالائی منزلوں میں حرکت کرتی ہے - اسلام کے نزدیک کائنات حرکت پذیر ہے اس میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں اور اقبال نے مشرق کی سکون پرستی کے خلاف ہی رد عمل ظاہر کیا ہے - بعض لوگوں، جن میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن مرحوم بھی شامل ہیں، کا خیال ہے کہ علامہ اقبال نے ملا صدرا اور ان کے اسفار کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ وہ اپنے مقالے ایران میں مابعدالطبیعیات کا ارتقاء میں ملا صدرا کے مختصر ذکر پر اکتفا نہ کرتے اور خطبات میں انہوں نے بالکل ملا صدرا کا ذکر نہیں کیا - پھر اقبال کا مزاج یہ بھی ہے کہ وہ جس فلسفی یا متکلم سے استفادہ کرتے ہیں ان کا اعتراف ضرور کرتے ہیں - مگر ان دونوں باتوں کے باوجود مجھے یہ قبول کرنے میں تامل ہے کہ اقبال نے ملا صدرا کے اسفار کا مطالعہ نہیں کیا ممکن ہے تفصیل سے مطالعہ نہ کیا ہو مگر وہ ملا صدرا کے بنیادی مباحث سے لا علم نہ تھے - اس لیے کہ علامہ اقبال اور ملا صدرا کے بنیادی افکار میں اتنی ہم آہنگی موجود ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ علامہ اقبال ملا صدرا کے افکار سے نہ صرف گہری آ گاہی رکھتے تھے بلکہ ان کے افکار سے انہوں نے اثرات بھی قبول کئے خودی ، حرکت ، عشق ،نظریہ علم ، نظریہ ارتقاء اور زمان و مکان کے تصورات اقبال پر ملا صدرا کے اثرات مرتب ہوئے ہیں - مثلاً اقبال اور صدرا خودی کے حوالے سے اس بات پر متفق ہیں کہ جو خودیاں ضعیف ہوں گی وہ ختم ہو جائیں گی اور جو زیادہ روحانی قوت کی حامل اور عقلی طور پر مستحکم ہوں گی وہ آخرت میں باقی رہیں گی اور خود ایک نوع میں ظاہر ہوںگی - جب ڈاکٹر فضل الرحمٰن خود ملا صدرا اور اقبال کے تصورات خودی کو ہم آہنگ تصور کرتے ہیں تو پھر یہ دعویٰ عجیب سا ہے کہ کاش اقبال ملا صدرا کو پڑھ لیتے - حالانکہ صدرا اور اقبال دونوں خودی کے حرکی ہونے پر ایک ہی رائے رکھتے ہیں - رومی : مرشد اقبال ٭ احمد جاوید ٭جامعہ پنجاب کے زیر اہتمام ہونے والی بین الاقوامی اقبال کانگرس (نومبر ۱۹۹۸ئ) میں پڑھا گیا معرفت ، عشق اور اخلاق ہماری متصوفانہ روایت کے عناصر ثلاثہ ہیں - اس روایت نے جو شعری دنیا تخلیق کی ہے ، مثنوی معنوی اور دیوان شمس تبریز اس کے قطبین ہیں - اس دنیا میں جو کچھ ہے ، انہی دو منتہائوں کے درمیان ہے - مثنوی عارفانہ اور اخلاقی شاعری کا منتہا ہے اور دیوان شمس تبریز عاشقانہ شاعری کا - ان تینوں جہتوں میں ہونے والا سارا سفر ، خواہ پہلے ہوا ہو یا بعدمیں ، رومی ہی پر تمام ہوتا ہے - وہ اس پہاڑ کی طرح ہیں جس کی ایک چڑھائی ماضی کی طرف ہے اور دوسری مستقبل کے رخ پر - اسے دونوں طرف سے سر کرنے کی کوششیں کی گئیں اور جب تک ہماری روایت میں زندگی کے آثار باقی تھے، یہ مہم جاری رہی - اب صورت حال یہ ہے کہ لفظ بڑے اور معنی چھوٹے ہو گئے ہیں - زندگی ظواہر تک اور شعور مظاہر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے - ایسے میں رومی ایسی شخصیت پر گفتگو کرنا آسان نہیں ، کیونکہ وہ فضا جس کی تشکیل حقیقت اور ظہور حقیقت کےParadox پر ہوئی ہو ، ہمارے لیے سخت نامانوس اور اجنبی ہو چکی ہے - علم کو تجربی توثیق سے مشروط کر کے اور تجربی توثیق میں بھی انفرادی امتیازات کا انکار کر کے ، اسے جس طرح ایک مطلق نوعی عموم میں تبدیل کیا جا چکا ہے ، اس کا نتیجہ صرف یہی نہیں نکلا کہ مابعدالطبیعیات ، علم کے دائرے سے خارج ہو گئی ، بلکہ رفتہ رفتہ اس اخلاقی تحکم سے بھی محروم ہو چکی ہے جس نے کم از کم وہ ذہنی اور ذوقی پس منظر کسی حد تک محفوظ کر رکھا تھا جہاں چیزیں انسانی مطالبات اور تناظرات کی ان سطحوں سے بھی ہم آہنگ تھیں جو عقل و حواس کے میکانکی اور حیاتیاتی تلازم کی گرفت کو اگر بالکل ختم نہ کر سکیں ، تو بھی اسے اتنا ڈھیلا ضرور کر دیتی ہیں کہ آدمی کا دم نہ گھٹنے پائے - شے فی نفسہ کے ورائے ادراک ہونے کا دعوا بلاشبہ عملی طور پر بھی صحیح ہے اور منطقی طور پر بھی ، لیکن اس کا دائرہ اطلاق مدرکات کی اس قبیل تک محدود ہے جو کائناتی نہیں بلکہ صرف ارضی مفہوم میں زمانی - مکانی ہیں - اس کا تعلق محض انسان کی استعداد ادراک سے ہے نہ کہ نفس علم یا ماہیت علم سے - اس قضیے سے شے کی معلومیت کے حدود نہیں بلکہ شرائط کا تعین ہوتا ہے ، ورنہ وجود کی غیر محدودیت جو خود اس دعوے کی رو سے حقیقی اور واجب الاثبات ہے ، باطل ہو جائے گی - اسی لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ تحقق شے ، شعور کا فطری داعیہ ہے جس کی تکمیل کے لیے عقل کو اپنے عام اسلوب ادراک سے بلند ہو کر سلب و ایجاب اور تصور و تصدیق کے اس نظام کو قبول کرنا پڑتا ہے جس کے تحت عقل کی انتہائی غایت یعنی تیقن کی کیفیت تو وہی رہتی ہے جو حواس کی فراہم کردہ ہے ، البتہ علم ، عالم اور معلوم کی مثلث میں ، معلوم کے غالب آنے کی وجہ سے اس تیقن کا حکم بھی بدل جاتا ہے اور موضوع بھی- اب صورت اعتباری ہے اور معنی حقیقی - شعور کی یہی وہ سطح ہے جس تک رسائی حاصل کیے بغیر رومی کو سمجھنے کی ابتدائی کوشش بھی نہیں کی جا سکتی ؎ علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں (۱) ٭٭٭ گرہ از کار این ناکارہ وا کرد غبار رہ گذر را کیمیا کرد نیء آں نے نوازے پاکبازے مرا با عشق و مستی آشنا کرد (۲) یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اقبال کی تقریباً ساری نشو و نما رومی کے سائے میں ہوئی ہے - ان کے منارئہ عظمت کی اکثر بنیادیں رومی ہی کی ڈالی ہوئی ہیں - ایک عرصے تک میں اس خیال میں مبتلا رہا کہ اقبال کا خود کو مرید رومی کہنا محض از راہ انکسار ہے ، ان کے اس قول کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے - لیکن اب اس خام خیالی پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے- وہ ٹھیٹھ خانقاہی مفہوم میں مرید رومی ہیں - مرشد کے وفادار اور شکر گزار - اقبال کے بیشتر بنیادی تصورات ، رومی ہی کے سمندر کی لہریں ہیں - ان دونوں میں جزو و کل کی نسبت ہے - اگر علامہ کہیں کہیں ان سے مختلف نظر آتے ہیں تو یہ فرق و اختلاف بھی وہی ہے جو جزو و کل میں ہوتا ہے - میں اس گفتگو میں ایسا ہی ایک مسئلہ اٹھائوں گا جس پر رومی نے بھی کلام کیا ہے اور اقبال نے بھی - اس کی حیثیت رومی کے ہاں ضمنی اور ثانوی ہے ، جبکہ اقبال کے ہاں مرکزی اور بنیادی - وہ مسئلہ ہے مسئلہ ’’خودی‘‘- اس مبحث میں اقبال بظاہر رومی سے الگ کھڑے نظر آتے ہیں - رومی خودی کو قابل نفی بتاتے ہیں اور اقبال لائق اثبات - یہ بڑا اختلاف ہے ، بشرطیکہ علامہ بھی خودی کی وہی تعریف کرتے ہوں جو رومی کے ہاں پائی جاتی ہے- یعنی ایک جس خودی کو رد کر رہا ہے ، دوسرا اسی کو قبول کر رہا ہو تو یہ ایسا اختلاف ہو گا جس میں تطبیق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی - دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے پر ان دونوں حضرات کا موقف کیا ہے اور آیا ان کا اختلاف حقیقی ہے یا اسلوب اظہار اور جہت تفکر کے فرق کی وجہ سے پیدا ہوا ہے - ہماری فلسفیانہ اور عرفانی روایت میں انسانی خودی کا اثبات اور اس کی ماہیت کی تحقیق کبھی مابعدالطبیعی امور کے ذیل میں نہیں کی گئی ، بلکہ اس سارے عمل کو ہمیشہ طبیعیات کے دائرے میں رکھا گیا - خودی کی طبیعی اور نفسیاتی صداقت اور اس سطح پر رہتے ہوئے ، اس کے وجودی استناد کو کم از کم علمی و عقلی بنیاد پر کبھی مشکوک نہیں گردانا گیا - اگر کہیں اس کی تردید یا نفی کی گئی ہے تو اس کے پیچھے کچھ روحانی و اخلاقی تقاضے اور مابعدالطبیعی مطالبے کار فرما ہیں جن کا ہدف نفس خودی نہیں بلکہ اس کے بعض خلقی اور اکتسابی رجحانات ہیں جو اسے اپنے حقیقی حدود سے تجاوز کر کے مرکز ہستی بننے پر اکساتے ہیں ، اور اس انفعال پر ضرب لگاتے ہیں جو حقیقی انیت کا مظہر بننے کی واحد شرط ہے - اقبال کے تصور خودی کی تمام تفصیلات سے گزرنے کے بعد جو نتیجہ ہاتھ آتا ہے ، وہ خودی کی روایتی تعریف سے کوئی اصولی تصادم نہیں رکھتا - شاعرانہ مبالغے کو ، خواہ نثر میں ہو یا شعر میں ، نظر انداز کر دیا جائے تو خودی کے حقیقی ہونے پر اقبال کا استدلال روایتی نقطۂ نظر کو مسترد نہیں کرتا - تاہم مشکل یہ ہے کہ روایتی نقطۂ نظر وہ نہیں ہے جو اقبال بیان کرتے ہیں - انہوں نے جن خیالات کو بجاطور پر رد کیا ہے ، وہ مستند روایتی حتیٰ کہ وحدت الوجودی نقطۂ نظر کی بھی ترجمانی نہیں کرتے - مثلاً انسانی انا بلکہ وجود ہی کو اعتباری کہنے کا صرف یہ مطلب ہے کہ مقید کو مطلق اور متناہی کو لا متناہی سے ممتاز رکھا جائے - اور اقبال کا منشا بھی یہی ہے - اعتبار ، حقیقت کی ضد نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم ہے جو ادراک کے زمانی مکانی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہونے کی وجہ سے حقیقت کا عین نہیں بن سکتا ، اور چونکہ حقیقت نہ تغیر کو قبول کرتی ہے نہ تحدید اور تعدّد کو ، لہٰذا اس سے یقینی نسبت رکھنے کے باوجود وہ شے جو مقید ، متغیر اور متعدد ہے ، ازروے اصطلاح حقیقی نہیں کہلائے گی ، بلکہ اعتباری اور مجازی- یہ امتیاز اگر ملحوظ نہ رہے تو کئی لا ینحل دشواریاں سر اٹھا سکتی ہیں جن کے نتیجے میں خود حقیقت ایک ایسا تصور بن کر رہ جائے گی جس کی تصدیق محال ہو ، یا پھر وہ وحدت جو اس کا وصف ذاتی ہے ، ناقابل اثبات ہو کر ایک مستقل متوازیت میں تبدیل ہو جائے گی اور حقیقت مطلق اور مقید ، قدیم اور حادث ، لا محدود اور محدود وغیرہ کے اٹل متقابلات میںیکساں معنویت ،کیفیت اور شدت کے ساتھ تقسیم ہو جائے گی - اسی مہمل اور لایعنی صورت حال سے بچنے کے لیے وہ اصول امتیاز دریافت کیا گیا جس کی دونوں اطراف Valid اور واجب الاثبات ہیں - ایک طرف حقیقت ہے اور دوسری طرف اعتبار ، حقیقت کی جہت سے یہ امتیاز وجہ عینیت ہے اور اعتبار کی جہت سے بنائے غیریت - اس طرح وحدت بھی محفوظ رہی اور کثرت بھی - اور پھر سامنے کی بات ہے کہ انائے مطلق یا ذات حق اگر واحد اور لا محدود ہے تو اس کا غیر ، کسی بھی دلیل سے حقیقی نہیں ہو سکتا - اقبال کا یہ خیال کہ انا سے انا ہی کا صدور ہوتا ہے(۳) ،اس لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا بد یہی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حق و خلق بالذات ایک ہیں اور تخلیق اللہ کا ارادی فعل نہیں ہے بلکہ میکانکی عمل تحول ہے جس میں اس کی حیثیت معمول کی سی ہے - یقینا یہ نتیجہ اقبال کی کائنات فکر کے ایک ذرے سے بھی مناسبت نہیں رکھتا ، لیکن اس کاکیا کیا جائے کہ وحدت کی وجودی تعبیر کو رد کرنے کے لیے مفکر اقبال کو وجود کا کوئی ایسا متبادل درکار تھا جو حادث اور قدیم ، دونوں کا احاطہ کرنے والی وسعت رکھتا ہوتا کہ غیریت حقیقی اور عینیت باطل ہو جائے - یہ ضرورت شاعر اقبال کے ہاتھوں پوری ہوئی- تاہم عین ممکن ہے کہ یہ تجزیہ کوتاہی فہم کی پیداوار ہو اور خودی سے خودی کا صدور کوئی شاعرانہ تخیل نہ ہو بلکہ ربط الحادث بالقدیم کی حقیقی نوعیت کا ایک ورائے استدلال وجدانی ادراک ہو جس کی تصدیق کے لیے جن ذرائع کی ضرورت ہے ، وہ سر دست ہمیں میسر نہ ہوں - بہرحال ، اس نظریے پر وارد ہونے والا اشکال اس وقت تک ایک وزن رکھتا ہے جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا - اقبال کے تصور خودی میں صرف دو مقامات پر روایتی تصور سے ٹکرائو نظر آتا ہے - ایک کا ذکر اوپر آ چکا ہے، دوسرا مقام وہ ہے جہاں وہ بقائے خودی کا دعویٰ کرتے ہیں(۴)-اس دعوے کی تفہیم میں بھی کئی دشواریاں ہیں - مثلاً : انسانی خودی کی بقا کے کیا وہی معنی ہیں جو ربانی خودی کی بقا کے ہیں ؟ خودی کا وجود اگر زمانی ہے تو کیا زمانیات کی ماہیت منقلب ہو سکتی ہے ؟ اور اگر ہو سکتی ہے تو اس صورت میں ان کا وقت اساس تشخص کس طرح برقرار رہے گا ؟ اور کیا انسانی خودی کی بقاے دوام سے ذات الہٰیہ کی ہمیشگی محض ایک تصور بن کر نہیں رہ جائے گی ؟ اصل میں قصہ یہ ہے کہ اقبال کے مقاصد عقلی اور علمی نہیں ہیں بلکہ عملی ، اخلاقی اور روحانی ہیں جن کے حصول کی لگن اتنی سچی اور طاقت ور ہے کہ بعض اوقات فکر و نظر کی تمام تحدیدات کو توڑ کر تمنا کو حقیقت بنا دیتی ہے - اور یہ کوئی نقص نہیں ہے ، کیونکہ عرفانی مباحث میں عقل و استدلال کا عمل دخل ایک خاص سطح تک ہی رہتا ہے ، آگے تمناہی رہنمائی کرتی ہے- البتہ عرفانی روایت چونکہ اپنی نظری بنیادیں اچھی طرح استوار کر چکی ہے ، اس لیے ابن عربی وغیرہ کے بیانات سے کوئی عقلی الجھن نہیںپیدا ہوتی- ان کی داخلی منطق کی ساری چولیں مضبوطی سے بٹھائی گئی ہیں اور کوئی جھول نہیں رہنے دیا گیا - ان کی تائید بھی آسان ہے اور تردید بھی - جبکہ علامہ کا معاملہ یہ ہے کہ ہر ذہین اور Commited مفکر کی طرح وہ بھی چند مسائل میں منفرد ہیں جن کا منطقی ڈھانچہ آ گے چل کر بننا ہے - اس وقت تک ان کی معنویت شدت اظہار اور زور تیقن پر قائم ہے - تاہم اس طرح کے مسائل کو ہمیں ان کی فکر کے مرکزی دھارے میں شامل کر کے نہیں دیکھنا چاہیے تاکہ اس منطقی دروبست تک پہنچنا آسان ہو جائے جس کی بنیاد پر وہ نتائج قائم کرتے ہیں - عرفانی اور کلامی مباحث میں اصل اہمیت صحت انتاج کی ہوتی ہے جو فکر اقبال کا امتیازی وصف ہے - استدلالی تفصیل بھی اپنی جگہ اہم ہے مگر اس کا کردار حتمی نہیں ہوتا- مختصر یہ کہ اقبال کا تصور خودی اپنی نتائجی جہت سے ایک تجربی صداقت اور نفسیاتی سچائی رکھتا ہے ، لیکن اس کے Metaphysical Contents ایک بڑے شاعر کے تخیل کی تخلیق ہیں - دوسری طرف رومی کا بھی مرکزی موضوع انسان ہے ، افلاطون ، پلاٹی نس اور شنکر اچاریہ کا انسان نہیں ، بلکہ قرآن کا انسان جس کی صورت حقیقی ہے اور حقیقت بدیہی - رومی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انسان کی روحانی و اخلاقی حدود کو اتنا وسیع اور محکم کر دیا ہے کہ مابعد الطبیعی انداز نگاہ بھی اس کے احاطے سے قاصر اور اثبات پر مجبور ہے- یہ وصف اقبال کو بھی منتقل ہوا ہے ، مگر اس فرق کے ساتھ کہ بنیادی امور مثلاً خودی اور اس کی سب سے بڑی قوت یعنی عشق ، رومی کا تجربہ ہے اور اقبال کا نظریہ - رومی کے لیے معنی کوئی علامتی اور ذہنی چیز نہیں بلکہ تکمیل حال کا نام ہے کیونکہ حقیقت ،کسی عقلی اثبات کی نہیں بلکہ وجودی وابستگی کی متقاضی ہے ، اس لیے وہ فہم اور شرائط فہم کو شعور حقیقت کی ماہیت سے متصادم قرار دے کر حقارت سے رد کر دیتے ہیں- ان کا یہ رویہ اپنے اندر جیسا عارفانہ تحکم رکھتا ہے ، عقل اس کی منکر نہیں متمنی ہے - بلاشبہ غیر پیغمبرانہ لٹریچر کی پوری تاریخ میں رومی واحد شخصیت ہیں جس نے حقائق کو فلسفہ مابعد الطبیعیات ، عقل پرستی اور تجربیت کی گرفت سے نکال کر ان تک رسائی کے نئے راستے نکالے ہیں ، اور شعور کی نئی اساس دریافت کی ہے - اقبال انہی راستوں پر چلنے اور اسی اساس پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں - اس کوشش میں وہ اگر کہیں گرے بھی ہیں تو بھی ان کا رخ اپنے مرشد ہی کی طرف رہا ہے - مثلاً خودی کی بقاے دوام اور خودی سے خودی کا صدور ، علامہ سے نہیں نبھ سکا ، اب رومی کو دیکھیے کہ کس سہولت سے یہ معماحل کر دیتے ہیں : چہ حدیث است کجا مرگ بود عاشق را این محال است کہ در چشمۂ حیوان میرم(۵) ٭٭٭ تو مردی و نظرت در جہان جاں نگریست چو باز زندہ شدی زین سپس بدانی زیست(۶) ٭٭٭ چہ باشد آں مس مسکین چو کیمیا آید کہ او فنا نشود از مسی بوصف زری کیست دانۂ مسکین چو نو بہار آید کہ دانگیش نگردد فنا پیء شجری(۷) ٭٭٭ اور یہ شعر تو ربانی خودی اور انسانی خودی کے تعلق کی ماہیت پر گویا حرف آخر ہے : اے نظرت معدن ہر کیمیا اے خود تو مشعلۂ ہر خودی(۸) یہ ’’ خود ‘‘ کیا ہے ؟ ’’ خودی ‘‘ کا مصدر ہی تو ہے ! تاہم اس بیان میں کمال یہ ہے کہ انائے مطلق کی ورائیت (Transcendence)کو ذرا بھی مجروح کیے بغیر اسے انائے مقید کے تحقق (Realization) کی اصل بتایا گیا ہے اور ایک عارفانہ قدرت اظہار اور حسن کلام کے ساتھ ’’ خود‘‘ (Self) کو ’’ تو ‘‘ (Thou) پر زائد دکھایا گیا ہے تاکہ عینیت کا وحدت الوجودی تصور، اعتبار کی سطح پر بھی نہ پیدا ہو سکے - یہی وہ حقیقی تشبیہ و تنزیہ ہے جسے بعض وحدت الوجودیوں نے نظریۂ ٔتنزلات و تعینات میں صرف کر کے مسخ کر دیا - رومی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات کسی بھی مرحلے پر نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ وہ وحدت الوجودی نہیں تھے - بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ وحدت الوجود کی چٹان جس ہتھوڑے سے ٹوٹ سکتی ہے ، وہ یا تو رومی کے پاس ہے یا مجدد الف ثانی ؒکے پاس -یہ دونوں حضرات ہماری وہ تمام عرفانی ضروریات زیادہ محفوظ طریقے سے پوری کرتے ہیں جنہیں وحدت الوجود ابھار تو دیتا ہے مگر ان کی تکمیل کی وہ ضمانت نہیں دیتا جو دینی اور ایمانی شعور کے لیے بھی قابل تسلیم ہو - مثال کے طور پر انسانی خودی ، ابن عربی وغیرہ کے موقف کی روشنی میں ، دو حوالے رکھتی ہے : ثبوت اور عین - ثبوت کو حوالہ بنائیں تو یہ قابل اثبات تو ہے مگر موجود نہیں ہے ، اور عین کے حوالے سے یہ ثابت ہے نہ موجود- جن لوگوں نے دبستان ابن عربی کے فرفریوس(Porphyre) ، دائود قیصری کا ’’ مقدمۂ فصوص ‘‘ جو دراصل ایسا غوجی (Isagoge) ہی کا دوسرا روپ ہے ، پڑھ رکھا ہے ، وہ ثبوت اور عین کا مطلب یقینا سمجھتے ہوں گے ، لیکن جنہیں یہ موقع نہیں ملا ، ان کے لیے عرض ہے کہ مخلوقات کا وجود علم الٰہی میں ثبوت کہلاتا ہے اور عالم خارجی میں عین - خودی ، مرتبہ ثبوت میں حقیقی ہے لیکن انسانی نہیں اور مرتبہ عین میں انسانی تو ہے ، حقیقی نہیں ہے - یہ ہے وحدت الوجودیوں کا پورا موقف - رومی ، سلب ایجاب کی اس منطقی بازی گری کی طرف التفات نہیں کرتے - ان کے ہاں خودی کی دو جہتیں ہیں : ذاتی اور وصفی- ذاتی کا اثبات ضروری ہے اور وصفی کی نفی - بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ خودی کی ذاتی جہت کے اثبات کے لیے اس کی وصفی جہت کی نفی لازمی ہے - اس اصول کی تفصیل میں جانا تو موجب طوالت ہوگا ، سردست ایک اجمالی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں - خودی کی اولین Manifestation ’’انا الموجود ‘‘ ہے - یہ ایسا دعویٰ ہے جس کی دلیل اسی میں گندھی ہوئی ہے - یہ وہ حقیقت ہے جس کے اثبات میں کیا جانے والا ہر استدلال اسے اجاگر کرنے کی بجائے اس پر پردہ ڈال دے گا- تاہم اتنی عظیم الشان بداہت کے باوجود ،خودی کا یہ ظہور اول اندر سے دولخت ہے- اس میں ’’انا‘‘ خودی کا ذاتی تعین ہے اور ’’ موجود ‘‘ وصفی - دائرئہ ظہور میں خودی کا کوئی درجہ اور وجود کا کوئی مرتبہ ایسا نہیں جو اس دولختی سے خالی ہو ، کیونکہ اس کے بغیر خود ظہور ہی محال ہے - حقیقت پر جب تک کوئی چیز زائد نہ ہو ، اس کا اظہار نا ممکن ہے ، بقول نظیری ؎ مشاطہ را بگو کہ بر اسباب حسن یار چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسد حقیقت یا ذات یا خودی پر ہونے والا یہ اضافہ ، ظاہر ہے کہ خود حقیقی نہیں ہے ، لیکن خودی کا ہر انکشاف ،خواہ ذہنی ہو یا خارجی ، ربانی ہو یا انسانی ، اسی پر مدار رکھتا ہے - انسانی صورت حال میں بھی خودی ’’ میں ہوں ‘‘ کا جو ذہنی اور تجربی پیکر تشکیل دیتی ہے ، اس کی زیادہ سے زیادہ حیثیت دلالت التزامی کی ہے جو اپنے مدلول کے ساتھ کامل پیوستگی رکھنے کے باوجود اس کا احاطہ کرنے کے قابل نہیں ہے - ’’ہونا‘‘ میری انا کے بے شمار احوال میں سے ایک حال ہے جو زمان و مکاں کی موجودہ بناوٹ سے ہم آہنگ رہنے کے لیے ہستی کے ایک عمومی اسلوب کے طور پر ظاہر ہوا ہے - انسانی خودی کی Actual Realization کے لیے یہ اسلوب نا کافی ہی نہیں بلکہ رکاوٹ بھی ہے ، جس کا ازالہ کیے بغیر خودی کی ماہیت کا صحیح تصور قائم نہیں کیا جا سکتا - خودی ، وجود کی رسی پر پڑنے والی گرہ یا اس کے دریا کی سطح پر بننے والا کوئی بلبلا نہیں ہے کہ اس کی حیثیت ہستی کے بہائو میں ایک عارضی توقف اور مستقل عموم میں ایک اضافی تشخص کی سی ہو- وجود کو مادہ اور خودی کو صورت مان کر انسان کی حیاتیاتی تعبیر تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کا فصل حقیقی یعنی ذاتی امتیاز ثابت نہیں کیا جا سکتا - اگر ہم یہاں سے چلیں کہ امتیاز ، ذاتی امر ہے اور اشتراک،وصفی --- تو ہمیں پہلے ہی قدم پر خودی اور وجود کی اس تقابلی نسبت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا کائناتی مظہر انسان ہے - اسے گرفت میں لائے بغیر انسان کی حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا - جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تقابلی نسبت وہ اصول ہے جو دو امور کو ایک دوسرے سے منقطع ہونے دیتا ہے نہ ایک دوسرے میں مدغم - انسانی دائرے میں بھی خودی اور وجود میں معنی وصورت ، جو ہر و عرض اور ماہیت و وصف کی نسبت کار فرما ہے - یہ اصالت و اضافت کے مظاہر ہیں - اضافت کا سلب ہو یا ایجاب ، اصالت اپنی جگہ رہتی ہے - ’’میں ہوں کیونکہ میں نہیں ہوں‘‘ اور ’’میں نہیں ہوں کیوں میںہوں‘‘ یہ ہے وہ Paradox Pattern جس کا ذکرتمہید میں آیا تھا - اسی میں انسانی خودی کی حقیقت کہیں پوشیدہ ہے ؎ خویش را صافی کن از اوصاف خویش تا ببینی ذات پاک صاف خویش(۹) خودی کو اس کے اوصاف سے پاک کرنے کا یہ مطالبہ عاشقانہ بھی ہے اور عارفانہ بھی- اس مطالبے کی تکمیل کا ذریعہ بھی دونوں میں مشترک ہے : خودی کے غیر زمانی عنصر کو اس کے زمانی عناصر پر کلیتہً غالب کر دینا یا بالفاظ دیگر اس کی اصالت یعنی ذاتیت کو اضافت یعنی وجودیت سے ممتاز کر دینا - اقبال نے وجود کو ’ جوہر خودی کی نمود ‘(۱۰) کہا ہے ، جس کے تجربے کا آخری مرحلہ جوہر اور اس کی نمود کے اتحاد نہیں ، امتیاز پر تمام ہو گا- لیکن یہ امتیاز حقیقت خودی کی طرف اشارہ تو کرتا ہے ، اس کا احاطہ نہیں کرتا - اقبال چونکہ خودی کے تاریخی اور اخلاقی امکانات کو ایک تقدیر ی آہنگ اور تسخیری قوت میں ڈھال کر بروئے کار لانا چاہتے ہیں، لہٰذا انہیں مابعدالطبیعی اور Ontological رنگ اور لہجہ اختیار کرنا پڑا تاکہ زندگی کے تاریخی حدود اور نفس کی اخلاقی استعداد کی کم بضاعتی کا سوال اٹھنے ہی نہ دیا جائے - رومی ، خودی کے تاریخی کردار سے دلچسپی نہیں رکھتے البتہ اس کے اخلاقی امکانات کی تکمیل ان کا بڑا مسئلہ ہے - اس لیے وہ جس چیز کی نفی پر زور دیتے ہیں ، وہ خودی کا وصفی تعین ہے جو اس کی ذاتی وسعت کو بالکل سکیڑ دیتا ہے اور اس نسبت کو بھی اوجھل کر دیتا ہے جو اسے مطلق خودی کے ساتھ ہے - خودی کے تمام تر اخلاقی امکانات اور ان کی تکمیل کے جملہ وسائل ، اسی نسبت پر منحصر ہیں - یہ نسبت نہ ہو تو اخلاق ایک بے معنی لفظ ہے - رومی اور اقبال ، دونوں کی نظر میں خودی کا اخلاقی کمال اس کے ذاتی انفعال کی Actualization یعنی عشق سے مشروط ہے - تاہم اقبال ، عشق کی بیشتر قوت عاشق کا قد بڑھانے میں صرف کر دیتے ہیں - ان کا عشق کہیں کہیں محبوب سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے ؛ جبکہ رومی کا عشق محبوب مرکز ہے ، مگر عاشق کو بھی ایک حسب مراتب توازن کے ساتھ ملحوظ رکھتا ہے - اقبال اور رومی کا یہ فرق مخالفانہ نہیں ہے بلکہ فطری ہے - یہ وہی فرق ہے جو نظریہ و حال ، علم و عین اور جزو و کل میں ہوتا ہے - رومی عشق کے داعیہ فنا اور اخلاق کے تقاضائے بقا کو نہ صرف یہ کہ باہم متصادم نہیں ہونے دیتے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بنا دیتے ہیں - اور یہ ایک تقریباً نا ممکن کام تھا جسے انہوں نے اس خوبی سے سر انجام دیا کہ خودی کے تمام داخلی و خارجی مراتب میں وصل و فصل کا وہ مستقل ضابطہ قائم ہو گیا جس کے بغیر توحید یعنی وحدت حقیقی جو ہستی کا اصل الاصول ہے ، متحقق نہیں ہو سکتی - اس وحدت حقیقی کی اکثر تعبیرات میں انسانی خودی کے اس تعین کو جو زمانیت اور تغیر سے محفوظ ہے یا تو رد کر دیا گیا یا پھر ربانی خودی میں کھپا دیا گیا - توحید کا صوفیانہ ورژن زیادہ تر اسی رویے کا آئینہ دار ہے - اس روایت میں رومی غالباً پہلے آدمی ہیں جنہوں نے صوفیہ کی ایک بڑی جماعت کی طرف سے پھیلائی گئی اس غلطی کی تصحیح کی اور وحدت حقیقی کے اثبات کے لیے وہ راہیں کھولیں جن پر چل کر متصوفانہ استدلال بھی کمال کو پہنچ گیا اور احوال بھی - ’’ مثنوی ‘‘ کے دفتر پنجم میں ایک مقام پر مولانا فرماتے ہیں ؎ گفت معشوقے بعاشق ز امتحاں در صبوحی کاے فلاں ابن فلاں مر مرا تو دوست تر داری عجب یا کہ خود را راست گو یا ذا الکرب ؟ گفت من در توچناں فانی شدم کہ پرم از تو ز ساراں تا قدم ہمچو سنگے کو شود کل لعل ناب پر شود او از صفات آفتاب بعد ازاں گر دوست دارد خویش را دوستی خور بود آں اے فتا ور کہ خود را دوست دارد او بجاں دوستی خویش باشد بے گماں اندریں دو دوستی خود فرق نیست ہر دو جانب جز ضیاے شرق نیست تا نشد او لعل خود را دشمن است زانکہ یک من نیست آنجا دو من است(۱۱) یہ ہے وہ پورا منظر نامہ جہاں انسانی خودی ، مطلق خودی سے وہ نسبت پیدا کرتی ہے جو تحقق کی سطح پر ان کی دوئی کو محفوظ رکھتی ہے اور اثبات کی سطح پر انہیں ایک کر دیتی ہے - یہاں وجو د بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور وحدت الوجود بھی - حواشی ۱ - بال جبریل ، کلیات اقبال (اردو) اکادمی ایڈیشن ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۹۹۰ء ص ۴۰؍۳۶۴- ۲ - ارمغان حجاز ، کلیات اقبال (فارسی) ص ۶۶؍ ۸۱۸ - ترجمہ : ’’ رومی نے اس ناکارہ کا کام بنا دیا راستے کی مٹی کو کیمیا بنا دیا اس پاک باز نے نواز کی تان نے مجھے عشق و مستی سے آشنا کر دیا‘‘ ۳ - I "have Conceived the Ultimate Reality as an Ego: and I must add now that from the Ultimate Ego only egos Proceed." "The Conception of God and the Meaning of Prayer (Lec III) ,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal, Edited and annotated by M.Saeed Sheikh. Iqbal Academy Pakistan/Institute of Islamic Culture , Lahore , 1989, P.57. ۴- اس موضوع پر اقبال کے تفصیلی موقف کے لیے دیکھیے Reconstruction.... کا چوتھاخطبہ : Freedom and Immortality" The Human Ego His " ۵- کلیات شمس یا دیوان کبیر ’’ رومی [ کوئی بھی نسخہ] شعر ۱۷۱۶۹ - ترجمہ : ’’ کیا خوب قول ہے کہ عاشق کو موت کہاں ! یہ محال ہے کہ میں آب حیات کے چشمے میں ڈوب کر مر جائوں ‘‘ ۶ - کلیات شمس شعر ۵۲۳۵ - ترجمہ : ’’ تو مر گیا اور تیری نگاہ نے روح کی دنیا کا مشاہدہ کیا جب تو دوبارہ زندہ ہوا تو پھر تو نے جانا کہ کیسے جیا جاتا ہے ‘‘ ۷ - کلیات شمس شعر ۲ - ۳۲۷۰۱ - ترجمہ : ’’ جب کیمیا آ جائے تو بچارے تانبے کی کیا حیثیت ہے کہ وہ تانبا پن چھوڑ کر سونا نہ بن جائے جب بہار سارے میں چھا جائے تو بچارے دانے کیا ہستی ہے کہ اس کا دانہ پن ، شجر بننے کے لییے فنا نہ ہو جائے ‘‘ ۸ - کلیات شمس شعر ۳۶۳۲۸ - ترجمہ: ’’ اے کہ تیری نظر ہر کیمیا کی کان ہے اے کہ خود تو ہر خودی کی مشعل ہے ‘‘ ۹ - مثنوی معنوی رومی [ کوئی بھی نسخہ] دفتر اول شعر ۳۴۶۰ - ترجمہ ’’ خود کو اپنے اوصاف سے پاک کر لے تاکہ اپنی پاک اور اجلی ذات کا مشاہدہ میسر آ جائے ۱۰ - کلیات اقبال ، ’’ ضرب کلیم ‘‘،’’ افرنگ زدہ ‘‘ ، ص ۴۶؍۵۴۶- ۱۱ - مثنوی معنوی دفتر پنجم ، شعر ۲۲ - ۲۰۲۰، ۲۰۲۵، ۲۸-۲۰۲۷،۳۱ -۲۰۳۰ - ترجمہ ’’ ایک معشوق نے صبح ہوئی تو عاشق کو آزمانے کے لیے پوچھا : اے فلاں بن فلاں ! اے دکھ درد کے مارے ! سچ سچ بتا کہ تو مجھے زیادہ محبوب رکھتا ہے یا خود کو ؟ ‘‘ عاشق نے کہا : ’’ میں تجھ میں اس طرح فنا ہو چکا ہوں کہ سر سے پائوں تک تجھی سے بھرا ہوا ہوں جیسے پتھر جب کھرا یاقوت بن جاتا ہے تو سورج کی صفات سے معمور ہو جاتا ہے - اب اگر وہ خود کو دوست رکھتا ہے تو سورج ہی کو دوست رکھتا ہے ، اور اگر سورج کو دل و جان سے محبوب رکھتا ہے تو بلاشبہ اپنے آپ سے ہی محبت کا حق ادا کرتا ہے - ان دونوں دوستیوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں ایک ہی نور سے روشن ہیں- جب تک پتھر یا قوت نہیں بنتا ’ اپنا دشمن ہے ‘ کیونکہ اس میں ایک ’’ میں ‘‘ نہیں بلکہ دو ’ میں‘‘ہیں‘‘ - استفسارات ۱ - چیست معراج آرزوئے شاہدے ؟ ۲ - محترمہ ڈورس احمد علامہ کے ہاں کب تشریف لائیں ؟ ڈاکٹر وحید عشرت احمد جاوید قارئین کرام حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی زندگی ، شعریات ، ملفوظات اور افکار کے حوالے سے اقبال اکادمی پاکستان کو وقتاً فوقتاً کچھ سوالات موصول ہوتے رہتے ہیں، اکادمی کی طرف سے رہنمائی کی غرض سے انہیں جوابات فراہم کیے جاتے ہیں ،بعض استفسارات کی نوعیت چونکہ علمی ہوتی ہے لہٰذا انہیں اقبالیات میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے - اس سلسلے کا مقصد محض علمی ہے اور فکر و شعر اقبال کی تفہیم ہے - سوال بھیجتے وقت اس پہلو کو پیش نظر رکھا جائے - (مدیر) استفسار چیست معراج آرزوئے شاہدے سوال : جاوید نامہ کی تمہید زمینی میں ؎ چیست معراج آرزوئے شاہدے کے بعد والا شعر ہے شاہد عادل کہ بے تصدیق او زندگی ما را چو گل را رنگ و بو کلیات اقبال فارسی ص ۶۰۸ (شیخ غلام علی اینڈ سنز) مجھے مصرعہ دوم میں گل کے ساتھ ’’ را ‘‘ چبھتا ہے - یہ چو گل بے رنگ و بو ہونا چاہیے- رنگ و بو گل کے گل ہونے کا معیار ہیں - تصدیق ہیں - گل بے تصدیق رنگ و بو، گل نہیں اور شاہد عادل کی تصدیق کے بغیر ہماری زندگی ، زندگی نہیں ---- اور تصدیق کو منطقی اصطلاحات ’’ تصور و تصدیق ‘‘ کی روشنی میں لیا جائے یا محض attestation میری مشکل حل فرما دیں - اہل دیں را باز دان از اہل کیں ہم نشین حق بجو با او نشیں کلیات فارسی ص ۷۹۵ (ایضاً) کے بارے میں اگر معلوم ہو سکا ہو کہ کس کاشعر ہے تو آگاہ فرمائیں - ارشاد احمد شاکر - بفہ مانسہرہ جواب --- جناب نے ’’ جاوید نامہ کے جس شعر کے بارے میں اپنے اشکال کا ذکر فرمایا ہے ، وہ کلیات میں صحیح چھپا ہے - اس کو اس طرح دیکھیں کہ شاہد عادل کی تصدیق کے بغیر زندگی ہمارے لیے ویسی ہی ناپائدار اور غیر حقیقی ہو جائے گی جیسے کہ پھول کے لیے رنگ و بو - ابھی ہے اور ابھی نہیں - یہاں ضروری ہے کہ رنگ و بو کے روایتی معانی کو پیش نظر رکھا جائے - ’’ تصدیق ‘‘ دونوں معنی میں ہے - شاہد کی نسبت سے attestation ہے اور ’’ رنگ و بو ‘‘ یعنی تصور کے مقابلے میں تصدیق اصطلاحی - ’’ اہل دین را ----- ‘‘ مولانا روم ہی کا شعر ہے مثنوی کے دفتر اوّل میں مل جائے گا- احمد جاوید ٭٭٭ محترمہ ڈورس احمد علامہ کے ہاں کب تشریف لائیں ؟ سوال - گذارش ، اقبال اکیڈمی والوں سے یہ ہے کہ وہ اس امر کا تعین کرے کہ محترمہ ڈورس احمد علامہ کے ہاں کب تشریف لائیں - کیونکہ اس سلسلے میں بعض متعلقین کے بیانات متضاد ہیں (بحوالہ ہفت روزہ لاہور ۱۳ نومبر ۱۹۹۹ئ) شیخ عبدالماجد (لاہور) مصنف اقبال اور تحریک احمدیت جواب - ہفت روزہ لاہور کی ۱۳ نومبر ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں شیخ عبدالماجد نے زندہ رود مصنفہ ڈاکٹر جاوید اقبال اور قرطاس اقبال از پروفیسر محمد منور کے حوالے سے ایک تسامح کی نشان دہی کی ہے جس کا تعلق محترمہ ڈورس احمد کی جاوید منزل آمد کی تاریخوں میں بہت زیادہ فرق سے ہے - انہوں نے اقبال اکادمی پاکستان سے اس سلسلے میں استفسار کیا ہے ہم نے محترمہ ڈورس احمد کی جاوید منزل آمد کے بارے میں علامہ اقبال کے خطوط کو ہی اساس بنایا ہے- شیخ عبدالماجد نے دوسرے جو مختلف اشارات کیے ہیں ان کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم ڈاکٹر جاوید اقبال اور منیرہ بانو دختر علامہ اقبال کی گورنس محترمہ ڈورس احمد کے متعلق عرض کریں گے کہ آپ جولائی ۱۹۳۷ء کے آخری ہفتے میںہی لاہور تشریف لائی تھیں - زندہ رود ص ۹۵۸ (یک جلد) جب آپ علی گڑھ سے لاہور آئیں تو بقول ان کے لاہور میں سخت گرمی تھی تو اس سلسلے میں گذارش ہے کہ ڈورس احمد صاحب کو موسم یاد تھا اور ظاہر ہے کہ جولائی ۱۹۳۷ء کا آخری ہفتہ لاہور میں سخت گرمی کا تھا تاہم تاریخ کے بارے میں انہیں مغالطہ ہوا اس لیے کہ محترمہ سردار بیگم ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء کو فوت ہوئیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ محترمہ ڈورس احمد کو اسی ماہ لاہور میں بلا لیا گیا ہو - تاریخوں کا یہ تضاد صاف ظاہر کرتا ہے کہ مئی ۱۹۳۵ء میں ان کی لاہور آمد کسی طرح بھی ممکن نہیں ورنہ مسز ڈورس احمد یہ بھی کہتیں کہ سردار بیگم کے انتقال کے فوراً بعد یا انتقال کے موقع پر وہ لاہور میں ان کے گھر موجود تھیں - شیخ عبدالماجد نے ڈورس احمد کی کتاب اقبال ، جیسا کہ میں جانتی تھی اور پروفیسر محمد منور کی کتاب قرطاس اقبال میں شامل مضمون ’’ حضرت علامہ کی گھریلو زندگی کے چند نقوش ‘‘سے محترمہ ڈورس احمد کی لاہور میں مئی ۱۹۳۵ء اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب زندہ رود میں محترمہ ڈورس احمد کی لاہور میں جولائی ۱۹۳۷ء کو آمد کو موضوع بنایا ہے - محترم پروفیسر محمد منور نے اس تاریخ کے لیے مکمل طور پر انحصار ڈورس احمد کی کتاب پر کیا ہے حالانکہ وہ خود اپنے اسی مضمون میں لکھ رہے ہیں کہ ’’ان (سردار بیگم ) کی وفات سے حضرت علامہ کو شدید صدمہ پہنچا- بعض رشتہ دار خواتین نے دیکھ بھال کی بھی مگر کوئی بھی چند ہفتے سے زیادہ وقت نہ دے سکی - خود حضرت علامہ بھی علیل رہتے تھے- اسی لیے وکالت کا دھندا چھوڑ دیا تھا بچوں کے ضمن میں ہر دم متفکر رہتے تھے - اسی دوران میں حضرت علامہ کو محترمہ ڈورس کے بارے میں اطلاع ملی کہ بیوہ جرمن خاتون ہیں جو علی گڑھ میں ہیں اگر ان کی خدمات میسر آ جائیں تو یہ بڑی مبارک بات ہو گی (۱) - اس اقتباس سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں - ۱ - سردار بیگم مرحومہ کی وفات کے بعد ڈورس احمد لاہور آئیں لہٰذا یہ واضح ہے کہ وہ ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء تاریخ وفات مرحومہ (سردار بیگم )کے بعد لاہور آئیں لہٰذا وہ مئی کا مہینہ نہیں ہو سکتا- ۲ - علامہ اقبال کی رشتہ دار خواتین نے چند ہفتے بچوں کی دیکھ بھال کی لہٰذا ثابت ہوا کہ جولائی حتیٰ کہ اگست ۳۵ میں بھی وہ نہیں آئیں بلکہ وہ علی گڑھ میں تھیں - ۳- رشتہ دار خواتین کے وقت نہ دے سکنے کے بعد انہیں ڈورس احمد کے بارے میں اطلاع ملی پھر ان سے خط و کتابت ہوئی اور ان کو کسی ذریعے سے لاہور آمد کی پیش کش ہوئی - علامہ اقبال نے ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء کو راس مسعود کو خط لکھا جس میں سردار بیگم کی خطرناک بیماری اورا س کے ’’آخری لمحات ‘‘ کا ذکر کیا مگر خط ختم کرنے کے بعد پس نوشت کے طور پر لکھا ہے کہ ’’ ساڑھے پانچ بجے میری بیوی کا انتقال ہو گیا ‘‘(۲) - اور ۲۴ مئی ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کے نام خط میں بھی والدہ جاوید کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے کی اطلاع دی (۳) اور ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء کے سر راس مسعود کے نام خط میں لکھا ہے کہ ’’میں اس وقت بہت پریشان ہوں - دونوں بچے میرے لیے ایک مسئلہ بن گئے ہیں جس کی سنگینی کو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا ‘‘(۴) - ۲۴ جون ۱۹۳۵ء کے خط میں اقبال نے سر راس مسعود کو لکھا کہ وہ جولائی میں جاوید کو لیکر آئیں گے اور منیرہ بانو لاہور میں رہے گی جس کی اطلاع مجھے ملتی رہے گی(۵) - ۱۳ جولائی ۱۹۳۵ء کو وہ سید نذیر نیازی کو اطلاع دیتے ہیں کہ ’’ میں یہاں سے پندرہ جولائی کی شام فرنٹیر میل بروز سوموار روانہ ہو کر ۱۶ جولائی ۱۹۳۵ء کو صبح دہلی پہنچوں گا وہاں تمام دن قیام رہے گا تاکہ جاوید دہلی دیکھ سکے آپ مجھ سے ریلوے اسٹیشن پر ملیں اور بھوپال کی گاڑی میں جو شام کو چلے گی میرے لیے دو سیٹ سکینڈ کلاس (لوئر برتھ) ریزرو کرا دیں‘‘(۶) - اس سے صاف ظاہر ہے کہ مئی میں بیوی کی وفات کے بعد علامہ منیرہ بانو کو رشتے دار خواتین کے حوالے کر کے جاوید کے ہمراہ بھوپال چلے گئے اور وہاں اگست ۱۹۳۵ء تک مقیم رہے اور اس بات کا اپنے خطوط میں برملا اظہار کیا کہ ان کی والدہ مرحومہ نے وصیت کی تھی کہ جاوید اور منیرہ کو خود سے جدانہ کروں لہٰذا میں یورپ بھی نہیں جا سکتا - ۲۷ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کے نام خط میں علامہ لکھتے ہیں - ’’ چھوٹی بچی منیرہ کے لیے استانی کی ضرورت ہے اگر کوئی شریف زادی جو قرآن اور دینی کتابیں پڑھا سکتی ہو مل جائے تو غنیمت ہے - بیوہ اور بے اولاد ہو تو سبحان اللہ - تمام عمر میرے گھر میں گذار دے - گھر کا انتظام کرے اور بچوں کی تربیت کرے ،عمر چالیس سا ل ہو یا اس سے کم و بیش ‘‘ (۷) - اس خط کے بعد کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۵ء تک مسز ڈورس احمد ، جاوید منزل میں موجود نہیں تھیں - ۸ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو علامہ ، خواجہ غلام السیدین کے نام اور ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ میں نے رسالہ تہذیب نسواں میںبچوں کی استانی کے لیے اشتہار چھپوایا ہے جو بیگم محمد علی کی سر پرستی میں نکلتا ہے- اور کہتے ہیں گھر کا تمام انتظام بھی استانی صاحبہ کے سپرد ہو گا اور خواجہ غلام السیدین کو استانی صاحبہ کے مندرجہ ذیل فرائض لکھتے ہیں - ۱ - بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت اور نگہداشت - لڑکا ۱۱- سال کا ہے اسکول جاتا ہے- لڑکی ۵ سال کی ہے - ۲ - گھر کا انتظام اور نگہداشت - اس سے میری مراد یہ ہے کہ سب گھر کا چارج انہیں دیا جائے گا اور زنان خانے کے تمام اخراجات ان کے ہاتھ ہوں گے - مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں - ۱ - بیوہ اور بے اولاد ہو -۲ - عمر میں کس قدر مسن ہو تو بہتر ہے - ۳ - کسی شریف گھر کی ہو جو گردش زمانہ سے اس قسم کا کام کرنے پر مجبور ہو گئی ہو - ۴- دینی اور اخلاقی تعلیم دے سکتی ہو یعنی قرآن اور اردو پڑھا سکتی ہو -عربی اور فارسی بھی جانے تو اور بھی بہتر ہے - ۵- سینا پرونا وغیرہ بھی جانتی ہو ۶- کھانا پکانا جانتی ہو - اس سے میری مراد یہ نہیں کہ اس سے باورچی کا کام لیا جائے گا ‘‘ (۸) - پھر علامہ خواجہ صاحب کو کہتے ہیں کہ آپ ماہر تعلیم اور میرے حالات سے باخبر ہیں لہٰذا مندرجہ بالا امور کو ملحوظ رکھیں - ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۵ء کے خواجہ غلام السیدین کے نام خط میں انہیں لکھتے ہیں - ’’ ملفوفہ خط علی گڑھ سے آیا ہے - مہربانی کر کے اپنی بیگم صاحبہ کو زحمت دیجئے کہ وہ ممتاز فاخرہ سے ملکر ان کی شخصیت کا اندازہ کریں اور اگر ممتاز فاخرہ صاحبہ پردہ کی پابند نہ ہوں تو آپ خود بھی ان سے گفتگو کر کے ان کی قابلیت کا اندازہ کریں مسز شیخ عبداللہ صاحب (علی گڑھ گرلز کالج کے بانی شیخ عبداللہ کی بیگم ) سے بھی ان کی سیرت وغیرہ کے متعلق حالات دریافت کریں (۹) - نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پنجاب کے کس شہر کی وہ رہنے والی ہیں اور ان کے والد اور بھائیوں کے (اگر کوئی ہوں )کیا نام ہیں تاکہ اگر آپ کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو میں مزید تحقیق کر سکوں - تعلیمی اعتبار سے اور نیز اس خیال سے کہ علی گڑھ میں ان کا قیام رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ بچوں کی نگہداشت کے لیے موزوں ہو گی مگر ایک دقت یہ ہے کہ ان کی عمر چھوٹی ہے - اس عمر کی عورت تعلیم تو دے سکتی ہے مگر تربیت مشکل ہے - اس کے علاوہ بریں چھ ماہ کے بعد ان کی شادی ہوگئی تو پھر نئی استانی کی تلاش کرنی پڑے گی (۱۰) ‘‘ - اس کے بعد لکھتے کہ ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو انہوں نے تہذیب نسواں میں ایک زیادہ مفصل اشتہار دے دیا تھا اور اسی کو دیکھ کر ممتاز فاخرہ نے خط لکھا ہے - ۱۶ نومبر ۱۹۳۵ء کے خط میں بھی خواجہ غلام السیدین کو استانی کی تلاش جاری رکھنے کا لکھا (۱۱) - اس کے بعد ایک اور خاتون جمشیدہ بیگم کے بارے میں سید نذیر نیازی تحقیق کرتے رہے - ۱۱ جنوری ۱۹۳۶ء کو لکھے جانے والے خواجہ غلام السیدین کے نام خط میں بھی علامہ ، خواجہ صاحب کی بیگم کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے خاتون کی تلاش میں مدد کی اور فرماتے ہیں کہ مجھے ایک ایسی خاتون کی ضرورت ہے جس پر میں اعتماد کر سکوں اور کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زیادہ عجلت سے کام نہ لیں نیز لیڈی انسپکٹر آف سکولز مس خدیجہ بیگم نے بھی دو خواتین کے نام تجویز کئے ہیں (۱۲) مطلب یہ ہے کہ ۱۱ جنوری ۱۹۳۶ء تک بھی علامہ کے ہاں مسز ڈورس احمد کا کوئی وجود نہ تھا - علامہ نے ۱۸ اپریل ۱۹۳۶ء کو خواجہ صاحب کے نام جو خط لکھا اس میں واضح طور پر بتایا کہ استانی کا اب تک کوئی انتظام نہیں ہو سکا البتہ اس میں یہ انکشاف بھی کیا کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے بچوں کی اتالیقی پر رضا مند ہے اور شرط یہ عائد کرتی ہے کہ علامہ ان سے نکاح کر لیں - بقول علامہ وہ علی گڑھ میں رہ چکی ہے اسے بہت سمجھایا گیا کہ نکاح ممکن نہیں مگر وہ نہیں مانتی (۱۳) - ۶ جون ۱۹۳۶ء کے خط میں اقبال مولانا راغب احسن کو لکھتے ہیں کہ مسٹر جناح غالباً کل آئیں گے اب جہاں تک ڈورس احمد کی لاہور آمد کا معاملہ ہے اس میں بھی واضح ہے کہ جون ۳۷ تک ڈورس احمد لاہور میں تشریف نہیں لائیں تھیں بلکہ منیرہ اور جاوید اقبال کے ماموں عبدالغنی اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے - ۸ جون ۱۹۳۷ء کو سر راس مسعود کے نام خط میں علامہ لکھتے ہیں : ’’ جاوید اور منیرہ کی نگہداشت کے لیے اور گھر کے تمام انتظام کے لیے جو ایک مدت سے بگڑا ہوا ہے - میں نے فی الحال آزمائشی طور پر علی گڑھ سے ایک جرمن لیڈی کو جو اسلامی معاشرت سے واقف ہے اور اردو بول سکتی ہے- بلوایا ہے - پروفیسر رشید احمد صدیقی اور دیگر احباب نے اس کی شرافت کی بہت تعریف کی ہے - اگر وہ اپنے فرائض کو ادا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو مجھے بے فکری ہو جائے گی (۱۴) ‘‘ اس عبارت کے بعد کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ ۸ جون ۱۹۳۷ء تک مسز ڈورس احمد لاہور نہیں آئیں تھیں اقبال نے انہیں اس تاریخ تک بلوایا تھا وہ آئی نہیں تھیں - متذکرہ بالا اقبال کے خطوط کی روشنی میں مسز ڈورس احمد کی لاہور آمد کو دیکھئے تو آپ پر واضح ہو گا کہ ۸ جون ۱۹۳۷ء تک انہیں صرف لاہور آنے کی دعوت تھی اور وہ خود اس وقت علی گڑھ میں تھیں ظاہر ہے تیاری میں اور آنے میں کچھ مدت درکار تھی لہٰذا ڈاکٹر جاوید اقبال کا زندہ رود میں یہ لکھنا کہ ’’ جولائی ۱۹۳۷ء کے آخری ہفتے (۲۷ جولائی) کو جرمن خاتون مسز ڈورس احمد ،علی گڑھ سے لاہور تشریف لائیں ، ریلوے اسٹیشن پر ان کا استقبال کرنے کے لیے میاں محمد شفیع، علی بخش اور منیرہ موجود تھے - وہ میاں محمد شفیع اور منیرہ کے ساتھ ٹانگہ پر جاوید منزل تشریف لائیں اوروہاں پہنچتے ہی اقبال سے ملیں جو بمطابق معمول تہبند اور بنیان پہننے کی بجائے ان کی تعظیم کی خاطر شلوار اور قمیض زیب تن کئے صوفہ پر بیٹھے ان کے منتظر تھے - اقبال نے انہیں گھر کے انتظام اور منیرہ و راقم کی نگہداشت کی ذمہ داریاں سونپی اور یوں مسز ڈورس احمد نے ’’ جاوید منزل ‘‘ میں مستقل رہائش اختیار کی (۱۵) ‘‘ ہی درست ہے کہ مسز ڈورس احمد جولائی ۱۹۳۷ء کے آخری ہفتے اور بقول ان کے ۲۷ جولائی ۱۹۳۷ء کو جاوید منزل آئیں یقینا جولائی شدید حبس اور گرمی کا مہینہ ہے لہٰذا یہ ڈورس احمد کی یاد داشت میں محفوظ تھا اور اس کا ہی انہوں نے اظہار کیامئی ۱۹۳۵ء کی تاریخ ہر لحاظ سے غلط ہے جو بڑھاپے کی وجہ سے شاید اس لیے ان کے ذہن میں تھی کہ والدہ جاوید کا انتقال ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء کو ہوا تھا - خود ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی اپنی کتاب زندہ رود (یک جلد) باب آخری ایام کے حواشی (نمبر ۳۲) میں لکھا ہے کہ مسز ڈورس احمد یہ سمجھتی ہیں کہ وہ مئی ۱۹۳۵ء کی ایک تپتی ہوئی صبح لاہور پہنچی تھیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ وہ جولائی ۱۹۳۷ء کے آخری ہفتے کو لاہور آئیں (۱۶) - پروفیسر محمد منور نے چونکہ اپنے بیان کا انحصار ڈورس احمد کے بیان پر رکھا ہے لہٰذا ان کے مغالطے کی بنیاد موجود ہے - اب جبکہ وہ ۱۹۳۶ء میں لاہور میں موجود ہی نہیں تھیں تو ڈاکٹر تاثیر کی شادی اور قائد اعظم کی اقبال سے ملاقات کے بارے میں ان کا بیان ساقط ٹھہرتا ہے - پروفیسر منور نے ڈورس احمد کو جو امی کہا وہ اقبال سے ان کی عقیدت کا مظہر ہے کسی بھی بزرگ عورت کو ماں کہنا معیوب نہیں پھر مسز ڈورس احمدنے تو اقبال اور ان کے بچوں کی بڑی خدمت کی تھی - اب اس مضمون کے پردے میں جو شیخ عبدالماجد نے ہفت روزہ لاہور میں جو اعتراض کی شکل میں شائع کرایا ہے بار بار یہ کہنا کہ شیخ عطا محمد قادیانی تھے بڑی ڈھٹائی کی بات ہے - نہ شیخ اعجاز احمد اقبال کے محبوب بھتیجے تھے انہیں تو قادیانی عقائد کی بنا پر اقبال نے اپنے بچوں کی گارڈین شپ سے فارغ کر دیا تھا(۱۷)- ’’ شیخ اعجاز احمد میرا بڑا بھتیجا ہے نہایت صالح آدمی ہے لیکن افسوس کہ دینی عقائد کی رو سے قادیانی ہے تم کو معلوم ہے قادیانیوں کے عقیدے کے مطابق تمام مسلمان کافر ہیں اس واسطے یہ امر شرعاً مشتبہ ہے کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا گارڈین ہو سکتا ہے یا نہیں (۱۸) ‘‘ یعنی جب قادیانی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں تو مسلمانوں کے نزدیک یہ بھی کافر ہوئے اور ایک کافر مسلمان بچوں کا گارڈین کیسے ہو سکتا ہے -محترمہ ڈورس احمد نے شیخ عطا محمد کو کٹر مسلمان کہا ہے کٹر قادیانی نہیںکہا یہ شیخ عبدالماجد ہیں جو بریکٹ میں (جو احمدی تھے) لکھ رہے ہیں - شیخ عطا محمد مسلمان تھے ان کی نماز جنازہ ایک سنی ، مولوی سکندر مرحوم نے پڑھائی اور وہ قادیانیوں کی بجائے سیالکوٹ میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہیں اور سیالکوٹ کے قادیانیوں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت بھی نہیںکی تھی - خود قادیانی شیخ اعجاز نے اپنے باپ کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کی اس لیے کہ وہ عطا محمد کو قادیانی نہیں مسلمان سمجھتا تھا - مختصراً یہ کہ ڈورس احمد ۲۷ جولائی ۱۹۳۷ء میں لاہور تشریف لائیں ان کی کتاب میں درج تاریخ بڑھاپے کی وجہ سے یاد داشت کے کمزور ہو جانے کی بنا پر درست درج نہیں ہوئی پروفیسر محمد منور صاحب نے چونکہ مسز ڈورس احمد کے بیان پر انحصار کیا لہٰذا اس بنا پر غلطی ہوئی اور اس غلطی کے نتیجے میں ان کے متذکرہ صدر مضمون کے امالی اور نتائج بھی درست نہیں - صرف ڈاکٹر جاویداقبال کی درج تاریخ ہی درست ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خطوط اقبال سے صرف اس کی ہی تائید ہوتی ہے - اس مضمون کے تمام حوالے کلیات اقبال جلد چہارم مرتبہ سید مظفر حسین برنی کے ص ۱۲۶ تا ۴۸۸ پر دیئے گئے اقبال کے خطوط میں سے دئیے گئے ہیں ہم نے ثانوی حوالوں کی بجائے اولین ماخذ کا استعمال اس لیے کیا تاکہ ہر طرح کے شک و شبہ کا ازالہ ہو سکے اور اقبال کی اپنی زبان سے ڈورس احمد کی آمد کی تاریخ متعین ہو سکے - حواشی ۱ - محمد منور ، پروفیسر ، قرطاس اقبال ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور طبع اول ۱۹۹۸ء ص-۹- ۱۰ ۲ - برنی، سید مظفر حسین (مرتب) کلیات مکاتیب اقبال ’’ جلد چہارم : اردو اکادمی دہلی ۱۹۹۸ء ص - ۱۲۵ ، ۱۲۶ ۳ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص - ۱۲۶ - ۴ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص - ۱۲۹ - ۵ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۱۴۰ - ۶ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۱۴۹- ۷ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۱۹۴ - ۸ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۱۹۹ - ۹ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۲۱۰ - ۱۰ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۲۱۰ - ۱۱ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۲۲۸ - ۱۲ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۲۵۵ - ۱۳ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۳۰۸ - ۱۴ - ایضاً کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم) ص ۸۸۳ ، ۴۸۵ - ۱۵ - جاوید اقبال ، ڈاکٹر، زندہ رود (یک جلد) ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور جنوری ۱۹۸۹ء ص ۹۸۵ - ۱۶ - ایضاً زندہ رود (یک جلد) ص ۹۸۵ (حواشی) - ۱۷ - وحید عشرت ، ڈاکٹر اقبالیات جولائی ۱۹۸۶ ء (مظلوم اقبال پر تبصرہ ) ص ۳۳۱ - ۳۴۸ ۱۸ - برنی ، سید مظفر حسین (مرتب) کلیات مکاتیب اقبال (جلد چہارم ) ، اردو اکادمی دہلی، ۱۹۹۸ء ص ۴۸۷ - ۴۸۸- ۱۹ - ڈورس احمد ، Iqbal - as I knew him، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ۱۹۸۶ء ص ۳۷ فقرہ ملاحظہ ہو - He was very rigid muslim and thought that a muslim lady should have been deputed to look after Bano and Javid اوپر کے انگریزی اقتباس میں محترمہ ڈورس نے انہیں کٹر مسلمان لکھا ہے کٹر قادیانی نہیںلکھا شیخ عبدالماجد قادیانی نے اپنے ارتداد کی تائید میں ہفت روزہ لاہور میں ۱۳ نومبر ۱۹۹۹ء کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں اپنی طرف سے بریکٹ میں شیخ عطا محمد کے آگے احمدی لکھ دیا ہے - جو تحریف اور زیادتی ہے - اور اسی سے بعض ثقہ ماہرین اقبالیات بغیر سوچے سمجھے شیخ اعجاز احمد قادیانی اور دوسرے قادیانیوں کی نقل میں شیخ عطا محمد کو قادیانی لکھ کر قادیانی سازی کا الزام اپنے سر لے لیتے ہیں - جبکہ وہ کٹر مسلمان تھے قادیانی نہ تھے - اس سلسلے میں ہمیں یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ قادیانی کتب کے حوالوں پر اعتماد نہ کیا جائے کیونکہ وہ ساقط الاعتبار اور جھوٹ کے پلندے ہیں - قادیانیوں کی کسی تحریر اور گواہی کو سند کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا - (ڈاکٹر وحید عشرت) تبصرہ کتب نام کتاب : اقبال کی صحت زبان ترتیب و تحقیق : ڈاکٹر اکبر حیدری صفحات : ۳۸۲ قیمت : -؍۲۵۰ تقسیم کار : نصرت پبلشرز امین مارکیٹ لکھنؤ ۲۲۶۰۱۸ مبصر : نیر مسعود جہاں تک تحقیقی کی دنیا میں نئی نئی معلومات کی فراہمی اور نادر ماخذوں کی بازیابی کا تعلق ہے ، معاصر محققوں میں ڈاکٹر اکبر حیدری کی برابری کوئی نہیں کر سکتا- وہ ایک مدت سے ہمہ وقتی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں اور بڑی تعداد میں بہت اہم کتابیں اور مضامین شائع کر چکے ہیں- ایک بار پٹنہ میں میرے سامنے مرحوم قاضی عبدالودود کے سے جید محقق نے ان کی تلاش و محنت اور تحقیقی دیانت کی تعریف کی تھی (اسی موقع پر قاضی صاحب نے ان سے کلیات میر کی تدوین کی فرمائش بھی کی تھی) - مشفق خواجہ اور ڈاکٹر جمیل جالبی سمیت بیشترمحقق ڈاکٹر اکبر حیدری کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں - ڈاکٹر حیدری کی تحقیقی سرگرمیوں کا ایک کار آمد رخ یہ بھی ہے کہ وہ پرانے ،بہت سے فراموش شدہ اخباروں اور رسالوں کی ورق گردانی کرتے اور ان میں سے نادر اور بیش قیمت معلومات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے رہتے ہیں - اس طرح وہ ایک طرف اردو صحافت کی تاریخ میں توسیع کر رہے ہیں ، دوسری طرف ان اخباروں ، رسالوں میں بکھری ہوئی تحقیقی معلومات کو مربوط مضامین کی صورت میں سامنے لا رہے ہیں - ان مضامین کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ انجمن ترقی اردو پاکستان کے موقر اور معیاری مجلے اردو (کراچی ) نے تین سو سے زیادہ صفحوں کا ایک پورا شمارہ ڈاکٹر حیدری کے ان مضامین کے لیے وقف کر دیا ہے جن میں اردو کے چودہ قدیم رسالوں اور اخباروں کے بارے میں معلومات اور ان میں شائع ہونے والی تحریروں کے انتخاب یکجا کیے گئے ہیں - ڈاکٹر حیدری کی کتاب اقبال کی صحت زبان بھی پرانے رسالوں سے ان کی تحقیقی علاقہ مندی کا ایک عمدہ مظہر ہے - ۱۹۰۳ء سے ۱۹۳۱ء تک برصغیر کے رسالوں میں اقبال کی زبان دانی کے موضوع پر جو اعتراض اور دفاعی تحریریں شائع ہوتی رہیں ، انہیں مرتب کر کے ضروری متعلقہ معلومات کے ساتھ اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے - اس طرح یہ کتاب اردو کے ایک ادبی معرکے کی مستند روداد بن گئی ہے - اقبال کی زبان پر کثرت سے اعتراض وارد کیے جاتے ، اور اسی کثرت سے ان اعتراضوں کے جواب بھی دیے جاتے تھے - اعتراض کرنے والوں میں یو- پی کے زبان دان پیش پیش تھے ، لیکن اہل پنجاب کی طرف سے بھی گاہ گاہ اعتراض ہو جاتے تھے - جواب زیادہ تر پنجاب کے اہل قلم کی طرف سے آتے تھے، لیکن یو - پی اور لکھنؤ کے بھی بعض زبان دانوں نے اقبال کا دفاع کیا (مثلاً سراج لکھنوی کا تفصیلی مضمون ’’ اقبال کی شاعری پر حق و نا حق نکتہ چینی ‘‘) - کلام اقبال کے تنقیدی جائزوں پرمشتمل اس کتاب کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور کار آمد بھی - اس میں سب سے اہم مضمون خود اقبال کا ہے - رسالہ اردوے معلی علی گڑھ کے ’’شماروں میں ‘‘ تنقید ہمدرد ‘‘ کے فرضی نام سے دو مضمون ’’ اردو زبان پنجاب میں ‘‘ اور ’’ اردو کے نادان دوست ‘‘ شائع ہوئے تھے جن میں چودھری خوشی محمد ناظر اور اقبال کے کلام پر اعتراض کیے گئے تھے - اقبال کا مضمون ’’ اردو زبان پنجاب میں ‘‘ (مخزن لاہور) انہی اعتراضوں کا جواب ہے - اقبال کا پر شکوہ اور متین لہجہ اس مضمون کو کتاب کی دوسری تحریروں سے ممتاز کرتا ہے - مضمون کے شروع میں وہ لکھتے ہیں : ’’ اگرچہ تنقید ہمدرد صاحب نے بالخصوص حضرت ناظر کی نسبت اور بعض بعض جگہ میری نسبت دل آزار الفاظ استعمال کیے ہیں ، مگر میں باوجود حق اور قدرت کے اس بات سے احتراز کروں گا ‘‘- ناظراور خود اپنی زبان پر اعتراضوں کے جو جواب اقبال نے دیے ہیں ، اور سند میں دوسرے شاعروں کے جو شعر پیش کیے ہیں ، وہ ان کے زبردست مطالعے ، کلاسیکی شعری زبان کے اصول وقواعد اور فنی رموز سے گہری واقفیت کا ثبوت دیتے ہیں - وہ ایک ایک لفظ اور اس کے محل استعمال کی مثال میں شعر پر شعر دیتے چلے جاتے ہیں (اور ان میں میر سے لے کر حسرت موہانی تک کے شعر شامل ہیں) - لیکن معترض نے اس مسلمہ اور مسکت طریق کار پر یہ عجیب و غریب تبصرہ کیا ہے : ’’ اصل بات یہ ہے کہ حضرت اقبال چونکہ خود زبان اردو کی کیفیت سے واقف نہیں ہیں ، اس لیے وہ مجبوراًمثالوں پر بھروسا کرتے ہیں ‘‘- اقبال نے اپنا مضمون اس طرح ختم کیا ہے : ’’ میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ کے مضمون سے میری طبیعت تحقیق کی طرف مائل ہوئی ، اور کیا تعجب ہے کہ میرا جواب آپ کی طبیعت پر بھی یہی اثر کرے - آپ مطمئن رہیں ، مجھے اساتذہ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں ہے --- قسم بہ خداے لم یزال میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ بسا اوقات میرے قلب کی کیفیت اس قسم کی ہوتی ہے کہ میں باوجود اپنی بے علمی اور کم مائگی کے شعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں ، ورنہ مجھے نہ زبان دانی کا دعویٰ ہے نہ شاعری کا ‘‘- اس بات کا ذکر کہ معترض نے اپنی شناخت چھپائی ہے ، اقبال اس طرح کرتے ہیں : ’’ ایک صاحب ’’ تنقید ہمدرد ‘‘ جو اخلاقی جرأت کی کمی یا کسی اور نامعلوم مصلحت کے خیال سے اپنے نام کو اس نام کی نقاب میں پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں‘‘- ڈاکٹر اکبر حیدری نے معترض کی نقاب کشائی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ حکیم عبدالکریم برہم تھے- کتاب کا مقدمہ اقبالیات کے سلسلے میں معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ ہے - ڈاکٹر اکبر حیدری نے متعلقہ رسالوں ، ان کے مدیروں ،مضمون نگاروں وغیرہ پر بہت تحقیق کے ساتھ لکھنے کے علاوہ رسالوں اور مضامین کے عکس بھی کتاب میں شامل کیے ہیں ، اور اقبال کے خلاف پنجاب کے سید برکت علی شاہ ’’گوشہ نشین ‘‘ کی کتاب ’’ اقبال کا شاعرانہ زوال‘‘ سے بھی ادبی دنیا کو واقف کرایا ہے - ’’ اقبال کی صحت زبان ‘‘ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے قدیم صحافتی ادب میں ادبی معلومات کے کیسے کیسے خزانے پنہاں ہیں - لیکن ان خزانوں کو تلاش اور دریافت کرنا اس محنت شاقہ کا تقاضا کرتا ہے جس کا ایک ثمرہ ڈاکٹر اکبر حیدری کی یہ کتاب ہے - نام کتاب: مقالات احسن مصنف : پروفیسر ڈاکٹر عبدالشکور احسن مرتبین : پروفیسر ڈاکٹر آفتاب اصغر؍ڈاکٹر معین نظامی ناشر : شعبہ فارسی ، یونیورسٹی اورئینٹل کالج ۔ لاہور قیمت : -؍۳۰۰ روپے صفحات ۴۷۰ خوبصورت جلد تبصرہ : ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ڈاکٹر عبدالشکور احسن کا نام نامی اہل قلم و ادب کے حلقوں میں بڑا جانا پہچانا اور مشہور ہے- آپ فارسی زبان و ادب کے ایک عظیم یونیورسٹی استاد ہونے کے علاوہ اس زبان و ادب سے متعلق کئی کتب و مقالات کے مصنف ہیں - آپ کے مقالات ، ایرانی رسائل کے علاوہ برصغیر کے مؤقر فارسی و اردو مجلات ، نیز یورپ کے بعض انگریزی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں- ایرانی رسائل میں آپ کی ان ادبی خدمات کا باقاعدہ اعتراف کیا گیا ہے- زبان شناسی سے متعلق کتب کے علاوہ اقبال کی فارسی شاعری کے حوالے سے آپ کی کتاب اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ کو بہت پذیرائی مل چکی ہے - اب شعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج کے دو اساتذہ ڈاکٹر آفتاب اصغر چیئرمین شعبہ (جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں) اور پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی نے محترم ڈاکٹر احسن صاحب کے مقالات کا مجموعہ ، کتاب زیر تبصرہ کی صورت میں شائع کر کے بلاشبہہ بہت بڑی ادبی خدمت انجام دی اور ان انتہائی اہم اور پر از افادیت مقالات کو گوشہ فراموشی میں پڑے رہنے سے بچا لیا ہے - کتاب ، مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ کے پروفیسر ڈاکٹر ہادی حسن مرحوم کے نام معنون ہے جو شعبہ فارسی کے صدر اور محترم ڈاکٹر احسن صاحب کے استاد گرامی تھے - ایرانی سفیر سید سراج الدین موسوی کی طرف سے ’’ پیغام تہنیت‘‘ ہے جس میں پاکستان کے لیے فارسی زبان و ادب کی اہمیت و افادیت پر مختصر روشنی ڈالی گئی اور اس کتاب کی اشاعت پر محترم احسن صاحب کو خراج ارادت و تہنیت پیش کیا گیا ہے - ڈاکٹر خالد حمید شیخ (اس وقت کے وائس چانسلر) نے ’’ہدیۂ تبریک‘‘ میں اس کتاب کی اشاعت پر اظہار مسرت کیا اور یہ توقع کی ہے کہ یہ کتاب فارسی زبان و ادب کے تلامذہ و اساتذہ نیز عام قارئین کے لیے حد درجہ قابل استفادہ ہو گی اور اس سے علم و تحقیق کے کئی نئے خوش منظر دریچے کھلیں گے - ’’ پیش گفتار ‘‘ میں اس وقت کے پرنسپل اورئینٹل کالج ، پروفیسر ڈاکٹر سہیل احمد نے ایران و افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سے پاکستان کے نئے تمدنی رابطوں کے حوالے سے فارسی زبان و ادب کی اہمیت پر زور دیا اور اس اہم و مفید کتاب کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک پیش کیا ہے - اس سے پہلے انھوں نے مقالات میں ، موضوعات کے اعتبار سے ، بڑے تنوع کی طرف اشارہ کیا ہے - ڈاکٹر آفتاب اصغر صاحب نے ’’ نذر احسن ‘‘ کے عنوان سے برصغیر پاک و ہند میں فارسی زبان و ادب کی ترویج کی مختصر تاریخ دی اور محترم احسن صاحب کی استادانہ عظمت ، حکومت ایران کی طرف سے انہیں ’’ نشان سپاس ‘‘ ملنے اور اس ضمن میں اپنی حکومت کا شکوہ اور آخر میں کتاب زیر تبصرہ کے مقالات کے حصول کا تذکرہ کر کے خود محترم احسن صاحب اور دیگر ارباب معاون کا شکریہ ادا کیا ہے - ۱۹۵۴ء میں تہران یونیورسٹی کی دعوت پر حکومت پاکستان نے محترم احسن صاحب کو جدید فارسی زبان و ادب کے لیے منتخب کیا تھا - وہاں انہیں جدید شعراء و ادبا سے ملنے اور جدید نظم و نثر کا مطالعہ کا موقع ملا - پھر تہران یونیورسٹی کی طرف سے تدریس کے ایک باقاعدہ پروگرام کے علاوہ انھوں نے دو موضوعات --- اسلامی دور سے پہلے کی ایرانی زبان و ثقافت اور معاصر فارسی زبان و ادب ، بالخصوص فارسی شاعری کا ارتقا --- پر خاص توجہ دی - ’’ سر آغاز ‘‘ میں انھوں نے ان امور کے علاوہ اپنے رجحان اور بعض دوسرے امور پر بھی روشنی ڈالی ہے - ان کا پانچ صفحات پر مشتمل یہ مضمون اپنی جگہ ایک اہمیت و افادیت کا حامل ہے کہ اس سے قاری کو مقالات کا ، کسی حد تک ، پس منظر بھی معلوم ہو جاتا ہے - آخر میں انہوں نے مرتبین حضرات کا شکریہ ادا کیا ہے - اگرچہ محترم احسن صاحب نے فارسی زبان و ادب کے بارے میں انگریزی، اردو اور فارسی میں بہت کچھ لکھا ہے ، لیکن کتاب زیر تبصرہ میں ان کے صرف اکیس مقالات شامل ہیں - ان مقالات کے بعد ’’ضمیمہ‘‘ کی صورت میں ان کا زندگی نامہ ، کچھ اہم دستاویزات کی اور چند یادگار تصاویر اور آخر میں ’’ فہارس ‘‘ ہیں - فارسی زبان یعنی لسانیات پر مقالات ، مثلاً قدیم ایرانی زبانیں ، فارسی باستان ، فارسی دری ، فارسی زبان پر عربی اثرات ، ایرانی صوتیات اور زبان عامیانہ کے علاوہ زیادہ تر جدید فارسی شعر و ادب پر مقالات ہیں ، جیسے جدید فارسی شاعری کا تاریخی اور لسانی پس منظر ، جدید فارسی ادب کا سیاسی و سماجی پس منظر ، جدید فارسی ادب کے بنیادی محرکات، جدید فارسی شاعری پر مغربی اثرات ،فارسی نثر کا جدید دور وغیرہ ؛ پھر ’’ فارسی ہمارا ثقافتی سرمایہ‘‘،’’ پاکستان میں فارسی ادب کا ارتقا‘‘ ، ’’ انقلاب ایران اور اقبال ‘‘ اور ’’اقبال اور فطرت ‘‘ جیسے مقالات بھی اس میں شامل ہیں - یہاں ، جگہ کی قلت کے سبب صرف عنوانات پر ہی اکتفا کیاگیا ہے ورنہ ہر مقالہ اس لائق ہے کہ اس میں سے چند سطور ضرور نقل کی جائیں - ہر مقالے کی کتابیات (جن میں مخطوطات بھی شامل ہیں) دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ محترم احسن صاحب نے کس وسیع اور عمیق مطالعہ کے بعد یہ مقالات تحریر فرمائے ہیں - جیسا کہ ملاحظہ ہوا ، مقالات کے عنوانات سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں فارسی علم و ادب سے متعلق کئی اہم گوشوں کو عرق ریزی کے ساتھ سامنے لایا گیا ہو گا ، لیکن ان کے مطالعہ کے بعد مذکورہ امر کی تصدیق کے علاوہ ، قاری کی حیرانی کی حد تک ، یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان میں ایسی دلچسپی کا سامان کیا گیا ہے جو فارسی ادب کے قاری اور طالبعلم کو تو متاثر کرتا ہی ہے ، فارسی ادب سے ناواقف ، یا دوسرے لفظوں میں ، عربی اور اردو ادب کا قاری بھی ان سے پوری طرح محظوظ ہو کر اپنا دامن ، علم و ادب کے جواہر پاروں سے بھر لیتا ہے - ہر ہر مقالہ ’’ کرشمہ دامن دل من کشد کہ جا اینجاست ‘‘ کا عملی نمونہ ہے - راقم کے خیال میں فاضل مرتبین نے یہ مقالات مرتب کر کے محترم احسن صاحب کے شاگردان رشید ہونے کا ثبوت تو دیا ہی ہے ، ساتھ ہی شیدائیان علم و ادب کے لیے ایک گرانقدر تحفے کا سامان کرکے انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا ہے - این کار از تو آید و مردان چنین کنند یہ کتاب ،بلاشبہ حوالے کی ایک نہایت اہم اور مفید کتاب ہے جس سے فارسی ، اردو اور عربی ، تینوں زبانوں کے سکالرز استفادہ کر سکتے ہیں - کتاب کے آخر میں کتابوں ، اشخاص اور مقالات کا اشاریہ ہے جو محققین کے لیے آسانی کا باعث بنے گا - کتاب کی جلد اور چھپائی دونوں خاصی جاذب نظر ہیں - گوشۂ منور (پروفیسر میرزا محمد منوّر مرحوم کے لیے ارمغان عقیدت) پروفیسر مرزا محمد منور - ۷ فروری ۲۰۰۰ء کو اس دارفانی سے رخصت ہو گئے - وہ اقبال اکادمی پاکستان کے طویل عرصہ تک ڈائریکٹر رہے - انہوں نے اقبال اکادمی پاکستان کی تنظیم نو کی ، اکادمی میں علمی اور فکری منصوبوں کا آغاز کیا - اندرون ملک اور بیرون ملک علامہ اقبال کی فکر کو متعارف کرانے کے لیے دورے کئے ، خطبات دئیے ،متعدد کانفرنسوں میں شرکت کی ، کلیات اقبال اردو اور فارسی کا مستند نسخہ شائع کیا ، اکادمی نے ان کی رہنمائی میں فکر اقبال پر کتب شائع کیں اور ان کتب کی متعدد جگہوں پر اندرون اور بیرون ملک نمائشیں منعقد ہوئیں - پروفیسر محمد منور نے اقبال ریویو (انگریزی) اقبالیات (اردو) کے ساتھ ساتھ اقبالیات (عربی) اقبالیات (فارسی) اور اقبالیات (ترکی) شائع کیے تاکہ عالم اسلام میں علامہ کی تعلیمات کا فروغ ہو - پروفیسر محمد منور ایک اعلیٰ پایے کے ادیب ، مقرر ، شاعر ، مترجم ، مزاح نگار اور ماہر اقبالیات تھے- علامہ اقبال ، قائد اعظم ، تحریک پاکستان اور ہندو ذہن کے مطالعے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا - آپ نے اردو ، انگریزی ، عربی ، فارسی میں متعدد مقالات اور کتابیں لکھیں جنہوں نے جریدہ عالم پر ان کے لیے دوام ثبت کر دیا - گوشہ منور ان کی یاد میں اقبال اکادمی پاکستان کا ارمغان محبت ہے - اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے - آمین ڈاکٹر وحید عشرت (مدیر ) مرزا منوّرکی باتیں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنے مرشد معنوی حضرت علامہ اقبال کی طرح ، پروفیسر محمد منور بھی گونا گوں اوصاف اور خوبیوں کے مالک تھے - ان کی شخصیت کی بہت سی جہتیں ہیں - وہ شاعر تھے ، مقرر تھے ، ادیب تھے ، علم و ادب کے ساتھ ، سیاست سے بھی نظری اور فکری سطح پر ہی سہی ، ایک تعلق اور لگائو رکھتے تھے --- اور سب سے بڑھ کر ، علامہ اقبال ہی کی طرح ان کی حیثیت بھی ، ایک معلم اور ملت اسلامیہ کے لیے ایک محبت بھرا اور دردمند دل رکھنے والے مسلمان کی سی تھی --- ایک ایسا پر خلوص انسان جو اپنے وطن ، اپنی ملت اور اہل اسلام کے لیے ہمہ وقت فکر مند و مضطرب رہتا تھا - صحیح معنوں میں : متاع بے بہا ہے ، درد و سوز آرزو مندی --- ‘‘ چنانچہ ایسے شخص کی جملہ خوبیوں کا احاطہ کرنا نہ تو کسی ایک شخص کے لیے ، اور نہ کسی ایک مضمون میں ممکن ہے - یہ تو بس ، انہیں یاد کرنے اور ان کی یاد تازہ رکھنے کا ایک موقع ہے - ایک ادبی نیاز مند اور مداح کی حیثیت میں راقم کو تقریباً ۳۰ ، ۳۲ برس تک مرزا صاحب سے تعلق خاطر رہا --- اس عرصے میں یہ تعلق کبھی کبھار خط وکتابت ، گاہے گاہے ان کی خدمت میں حاضری اور ان کی مجالس میں ان کی گفتگوئوں سے مستفید ہونے سے عبارت ہے -- مرحوم نے اس نیاز مند کو علامہ اقبال پر اپنی آخری کتاب ’’ قرطاس اقبال ‘‘ کا دیباچہ لکھنے کی سعادت سے بھی مفتخر کیا - ۱۹۹۱ء میں راقم کو تقریباً ایک ماہ تک بیرون ملک ، سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا یہ سفر قرطبہ میںمنعقدہ ایک اقبال کانفرنس میں شرکت کے سلسلے میں پیش آیا جس میں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب اور ڈاکٹر محمد سہیل عمر صاحب کے ساتھ یہ نیاز مند بھی مرزا صاحب کے ہم رکاب تھا - قرطبہ ، غرناطہ ، اشبیلیہ ، پیرس اور حجاز مقدس کے اس سفر میں مرزا صاحب مرحوم کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا --- یہ باتیں راقم کے سفرنامہ اندلس (پوشیدہ تری خاک میں ----) میں شامل ہیں ، جو عنقریب کتابی صورت میں شائع ہونے والا ہے - ذیل میں مذکورہ سفرنامے کے بعض ایسے اوراق پیش کر رہا ہوں جن میں قارئین کو مرزا صاحب کی شخصیت اور ان کے خیالات کی چند جھلکیاں نظر آئیں گی - (۱) مدینتہ الزہرا سے واپس آتے ہوئے ، ہم ایک لمحے کے لیے رکے اور مڑ کر ایک بار پھر سیر امور نیا کے اس ڈھلوان قطعے پر نظر ڈالی جہاں اوپر سے نیچے تک مدینتہ الزہرا کے کھنڈر بکھرے ہوئے تھے - ہزار سال پہلے اس کے شان و شکوہ کا کیا عالم ہو گا - چالیس برس تک ایک خوش حال سلطنت کے بے حد و حساب وسائل اس کی تزئین و آرایش پر صرف ہوتے رہے ، مگر اس کا حاصل کیا ہے ؟ ایک یورپی مصنف لکھتا ہے : It was a city that died young as do those loved by God. مدینتہ الزہرا کے حوالے سے شیخ محی الدین ابن عربی نے ایک جگہ چند ابیات نقل کیے ہیں ، جن کا مفہوم یہ ہے : تفریح گاہوں کے آس پاس کچھ گھر ہیں جو صاف نظر آتے ہیں - اس حال میں کہ ان میں رہنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ ویران ہیں- ہر طرف سے پرندے ان پر نوحہ کرتے ہیں - کبھی خاموش ہو جاتے ہیں اور کبھی اپنی آوازوں کی گونج بلند کرتے ہیں - میں انھی میں سے ایک نغمہ زن پرندے سے مخاطب ہوا - اس کا دل غم ناک تھا اور وہ سہما ہوا تھا - میں نے اس سے پوچھا : کس چیز پر نوحہ اور شکوہ کر رہا ہے ؟ اس نے کہا: اس زمانے پر ، جو گزر گیا اور اب واپس نہیں آئے گا - اندلس کا نامور شاعر حزم بن جہور ایک بار اس طرف سے گزرا تو مدینتہ الزہرا کے کھنڈر وحشی جانوروں کا مسکن بن چکے تھے - اس کے دو شعر ہیں : قلت یوماً لدار قوم تفانوا ابن سکانک العزاز علینا فاجابت ھنا اقاموا قلیلاً ثم ساروا و لست اعلم اینا (ایک دن میں نے ان لوگوں کے گھروں سے ، جو فنا ہو گئے ہیں ،کہا : تمہارے وہ رہنے والے کہاں ہیں جو ہم کو عزیز تھے ؟ انہوں نے جواب دیا : کچھ عرصہ وہ یہاں مقیم رہے پھر چلے گئے ، معلوم نہیں کہاں ؟) واپسی کے لیے ہم بس میں سوار ہوئے تو مجھے محسوس ہوا کہ مرزا صاحب کچھ کھوئے ہوئے سے ہیں - شاید انہوں نے مدینتہ الزہرا کی باقیات سے گہرا ثاثر قبول کیا تھا- مندوبین میں سے بہت سے لوگ نہیں آ سکے تھے - جب ہم چلے تو سہیل بھی نظر نہیں آئے ،ممکن ہے وہ کسی دوسرے قافلے کے ساتھ یہاں چکر لگا گئے ہوں - بس کھیتوں کے بیجوں بیچ واقع سڑک سے گزر رہی تھی ، میں نے مرزا صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : ’’ اچھا ہی ہوا مدینتہ الزہرا بھی دیکھ لیا ، ورنہ شاید پھر موقع نہ ملتا-‘‘ ’’ بالکل ‘‘ - مرزا صاحب بولے ’’ بہت اچھا ہوا ، مگر سہیل پتا نہیں کہاں رہ گیا ؟‘‘- ’’ چائے کے وقفے میں تو نظر آئے تھے - فرانسیسی فوٹو گرافر دوست کے ساتھ ‘‘- ’’ اللہ کا بڑا کرم ہے --- بڑا کرم ہے ‘‘ مرزا صاحب کی آنکھوں میں مجھے ایک چمک نظر آئی - یہ مسرت و امتنان کی علامت تھی --- کہنے لگے : ’’ تمنا تھی ‘ بڑے عرصے سے تمنا تھی - ان مقامات کو ‘ ان یادگاروں اور نشانیوں کو دیکھنے کی ‘ مگر کوئی راستہ نہ تھا --- کتابوں میں جو کچھ پڑھا تھا ‘ جی چاہتا تھا یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں - اللہ نے موقع پیدا کر دیا ‘ بڑا کرم ہے اس کا --- ‘‘ ’’ واقعی ‘ یہ اس کی خاص عنایت ہے ‘ ورنہ یہ خواب تو کتنے ہی لوگ دیکھتے ہیں ‘‘ - ’’ دیکھو جی ‘‘ - مرزا صاحب اپنے مخصوص لہجے میں کہنے لگے : ’’ جب ہم حضرت علامہ کی نظمیں پڑھتے تھے تو قدرتی بات ہے کہ ہم بھی اندلس کے خواب دیکھتے تھے - کیسی ہو گی مسجد قرطبہ ‘ جس پر حضرت علامہ نے ایسی عدیم المثال نظم لکھ ڈالی --- اسی طرح تاریخوں میں غرناطہ کا ذکر پڑھتے تھے ‘ الحمرا کے عظیم قلعے اور محلات کا --- مسلمانوں کی بنائی ہوئی شاندار عمارتوں کا مدینتہ الزہرا کا --- آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ --- یہ اس کی مہربانی ہے ‘‘ - بس ‘ کھیتوں کے درمیان سے نکل کر شاہراہ پر آگئی تھی - اس کی رفتار بھی تیز ہو گئی تھی - ’’ مرزا صاحب‘‘ --- میں نے عرض کیا : ’’ آپ نے حضرت علامہ کا ذکر کیا اور ان کی شاعری کا--- یہ اعزاز تو انہی کو جاتا ہے کہ انہوں نے اردو کے عام قارئین کو مسجد قرطبہ سے متعارف کرایا ‘ ورنہ اس کا ذکر تاریخ اندلس کی چند کتابوں میں دفن تھا ‘‘ - ’’ ہاں ‘ ہاں ‘ اور یہ ساری کانفرنس بھی تو انھی کے نام پر ہو رہی ہے - اس میں ۲۴ ملکوں کے مندوبین جمع ہیں ‘‘ - بس رواں دواں تھی اور ساتھ ہی گفتگو بھی - ہم شہر کی حدود میں داخل ہو رہے تھے- کھیتوں ، راستوں اور مکانوں پر پھیلی ہوئی دھوپ خوش گوار معلوم ہو رہی تھی - اس مختصر مگر حد درجہ معلومات افزا سیاحت سے لوٹتے ہوئے ایک آسودگی اور طمانیت کا احساس ہو رہا تھا جیسے کچھ لے کر آ رہے ہوں - ۲۸ نومبر کو ہم غرناطہ میں تھے - کل الحمرا دیکھ آئے تھے اور ایک اعتبار سے آج ہم بالکل فارغ تھے - عزیز الدین احمد علی الصبح تیار ہو کر ہمارے کمرے میںآ گئے - سہیل تو سوتے رہے اور ہم تینوں ناشتے کے لیے قریبی گلی میں واقع ایک کیفے میں چلے گئے--- یہ ایک چھوٹا سا کمرا تھا - میز کرسی کی گنجایش نہ تھی ، اس لیے ناشتا بھی کاونٹر کے سامنے کھڑے کھڑے کرنا پڑتا تھا ، پھر بھی ہمیں یہ کیفے پسند تھا - ایک تو یہ ہمارے ہوٹل سے بہت قریب تھا ، دوسرے : اس کا مالک بابا ہم سے بہت اچھی طرح پیش آتا- وہ ایک ادھیڑ عمر خوش طبع ہسپانوی تھا - ’’ ہر گاہک کے لیے انفرادی توجہ ‘‘ کا خیال رکھتا - کیفے کا نام Cafe Helados تھا ، مگر ہم نے اس کا نام ’’ کیفے ڈی بابا ‘‘ رکھ چھوڑا تھا - کل صبح ناشتا یہیں کیا تھا اور شام کی چائے بھی یہیں سے پی- ناشتے کے ساتھ ساتھ تبادلہ خیال بھی شروع ہوا ، جو واپس کمرے میں پہنچ کر بھی جاری رہا- الحمرا پر گفتگو ہونے لگی اور اس حوالے سے اندلسی مسلمانوں کی تاریخ ، سلاطین غرناطہ ، بادشاہت اور مطلق العنان حکومتوں کی خرابیاں اور ملّی زوال و انحطاط میں ان کی پالیسیوں کے اثرات وغیرہ --- بات سے بات نکلتی گئی - جو لوگ پروفیسر مرزا محمد منور کو جانتے ہیں وہ تو ان کے وسیع مطالعے ، ان کی اسلام دوستی ، ملت اسلامیہ اور پاکستان سے ان کی محبت اور دردمندی ، پھر ان کے توازن فکر و نظر اور ان کی تحریر و تقریر کی صلاحیتوں سے بہ خوبی واقف ہیں ، مگر جو اصحاب ان سے کبھی نہ ملے ہوں ، ان کے لیے بھی پہلی ملاقات ایک خوش گوار تجربہ ثابت ہوتی ہے ، اور ملاقاتی ان کے وسعت معلومات ، ان کے تعمیری جذبات اور ان کے خلوص کا اسیر ہو جاتا ہے - عزیز الدین احمد صاحب اس وقت کچھ ایسی ہی کیفیت سے دو چار تھے - ہوٹل لزبوا کے اس کمرے میں مناسب گرمایش تھی - مرزا صاحب اپنے بستر میںنیم دراز، محو کلام اور عزیز الدین احمد قریب ہی کرسی پر بیٹھے ، ان کی باتیں توجہ اور انہماک سے سن رہے تھے - مرزا صاحب تاریخ اسلام اور قرآن پاک کے حوالوں کے ساتھ بڑی موثر گفتگو کر رہے تھے - میں ان کی باتیں بھی سن رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی سامان ، کاغذات اور سفری بیگ بھی مرتب کرتا جا رہا تھا - سپین میں مسلمانوں کے زوال کا کیا سبب تھا ؟ اس وقت یہ نکتہ زیر بحث تھا - ’’ بات بڑی واضح ہے -‘‘ مرزا صاحب کہنے لگے : ’’ دو قومی نظریے سے انحراف ، زوال مسلم کی بنیادی وجہ ہے - اندلس کا سب سے بڑا فلسفی ابن رشد تھا ، وہ ان یونانی فلسفیوں کا مقلد تھا جن کے ہاں ملک و ملت کا کوئی وسیع تصور موجود نہیں - ہاں ، وہ فقط ایک شہری ریاست (city state) کے قائل تھے - ’’ مگر وہ تو ایک بڑا فلسفی اور علم دوست شخص تھا ‘‘- میں نے مرزا صاحب کی گفتگو میں ایک طرح کی مداخلت کرتے ہوئے کہا : ’’ مطالعے کا ایسا رسیا تھا کہ کہا کرتا : میری زندگی میں صرف دو راتیں ایسی آئیں ، جب میں نے مطالعہ نہیں کیا - ایک میری شادی کی رات اور دوسری جب میرے والد فوت ہوئے ‘‘- ’’ عزیزم ، وہ تو ٹھیک ہے ‘‘ مرزا صاحب بولے : ’’ اس کے عظیم ہونے میں کسے شک ہے - اس کا ذوق مطالعہ بھی بجا ، وہ ایک بڑا فلسفی تھا اور اس کا بڑا نام ہے ، مگر ملت کے حوالے سے آپ ذرا سوچیے غور کیجئے --- اچھا ، اور یہاں اہل سپین نے ابن رشد جیسے لوگوں کے مجسمے لگا رکھے ہیں ‘‘ - ’’ سپین والے تو اسے اپنا زعیم شمار کرتے ہیں ‘‘- عزیز الدین احمد صاحب نے لقمہ دیا- ابن رشد کا مجسمہ ہم نے قرطبہ کے ایک چوک میں دیکھا تھا - اسی طرح قلہورا عجائب گھر میں بھی اس کا مجسمہ ایستادہ تھا - راقم کو خیال آیا : ابن رشد کے متعلق کہیں پڑھا تھا کہ آخرت اور حشر و نشر کی بابت اس کے عقائد جمہور مسلمانوں سے مختلف تھے - اس کا خیال تھا کہ انسان کو اپنے اچھے یا برے اعمال کی جزا یا سزا دنیا میں مل جاتی ہے - مرزا صاحب نے سوال اٹھایا کہ ایسے اندلسی مسلمان ، مسیحی ہسپانویوں کے نزدیک اتنے اہم کیوں ہو گئے کہ وہ سپین کے اعاظم اور ہیروز کی فہرست میں داخل ہو گئے ؟ ان کی یادگاریں بھی قائم ہو گئیں اور مجسمے بھی نصب ہو گئے؟ --- بلاشبہ یہ ایک اہم سوال ہے جو اہل سپین ، بلکہ پورے اہل مغرب کی ’’ روشن خیالی ‘‘ کے ضمن میں پیش نظر رہنا چاہیے - میں نے عرض کیا : اس طرح تو حافظ ابن حزم بھی اہل سپین کے ہیروز میں شامل ہیں - ان کا مجسمہ بھی قرطبہ میں نصب ہے - ۱۹۶۳ء میں سپین میں سرکاری طور پر ’’ ہفتہ ابن حزم ‘‘ منایا گیا ، جس میں اس وقت کے صدر مملکت جنرل فرانکو بھی شریک ہوئے - قرطبہ میں ان کا مجسمہ بھی اسی زمانے میں نصب ہوا - اس کے علاوہ سان لور ترو کلیسا کے سامنے واقع ، ان کے گھر کے باہر ’’ یادگاری تختی ‘‘بھی لگائی گئی - ’’ ابن حزم بڑے عالم تھے ، فلسفی تھے ، شاعر تھے ‘‘ - مرزا صاحب کہنے لگے : ’’ مگر آپ کو معلوم ہے ، ان کے ہاں اندلیست کا ایک تعصب یا عصبیت موجود تھی - انہوں نے فضائل اندلس پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے جس میں اندلسی شعرا ، فقہا ، محدثین اور مفسرین کو مشرقی اور عربی اہل علم پر اس انداز میں ترجیح دی ہے کہ اس میں واضح طور پر ان کی جانب داری اور طرف داری نظر آتی ہے - مجموعاً بھی وہ مشرق کے مقابلے میں اندلس کی برتری کے قائل تھے اور اسی لیے ہسپانوی مستشرقین نے ان کی اندلیست یا ہسپانویت پر مسرت کا اظہار کیا ہے ‘‘- ’’ اچھا ‘‘ --- عزیز الدین احمد کچھ حیرت سے بولے - ہمارے لیے یہ انکشاف تھا - ’’ اور سنئے ‘‘ مرزا صاحب نے اپنی بات جاری رکھی : ’’ ابن حزم فارسی الاصل تھے - ان کے دادا ، موسیٰ بن نصیر کے ساتھ اندلس پہنچے تھے - ایک کمزور روایت ان کے اندلسی الاصل ہونے کی بھی ہے - ابن حزم خود اس سے متفق نہ تھے مگر بعض ہسپانوی مستشرقین نے انہیں اندلسی الاصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے - کیوں ؟ --- تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ایسا بڑا عالم اصل میں تو ہسپانوی نسل سے تھا - امت مسلمہ سے اس کی نسبت تو ان کے لیے ثانوی ہے ‘‘ - مجھے اچانک ،جیسے کچھ یاد آ گیا --- عرض کیا : ’’ مگر اقبال نے ابن حزم کے فقہی نقطہ نظر کو تو حق بجانب قرار دیا ہے؟ ‘‘ ’’ ہاں ‘‘ مرزا صاحب بولے : ’’ حضرت علامہ اس زمانے کے مخصوص حالات اور پس منظر میں ابن حزم کے خیالات کو درست سمجھتے تھے - مگر عزیز من ! ‘‘ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے : ’’ آپ کو معلوم ہے ابن حزم نے امام ابوحنیفہ ؒ پر بہت سخت ، بلکہ تشدد آمیز تنقید کی ہے ، جسے اکثر اہل علم نے قطعی ناروا اور غیر متوازن قرار دیا ہے ‘‘ - یہ باتیں ہمارے لیے نئی تھیں - عزیز الدین احمد بہت توجہ سے مرزا صاحب کو سن رہے تھے - ان کی گفتگو جاری تھی : ’’ اور دیکھیے ، ابن خلدون کو یہ یورپ والے بڑا ابھارتے ہیں ، سوال یہ ہے کیوں ؟ بلاشبہہ وہ بڑا مورخ تھا ، مگر اس کے ہاں تصور ملت نہیں ہے - اس کی عصبیہ ،عصبیہ اسلامیہ نہیں ہے ، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ابن حزم سے متاثر تھا- خود اعتراف کیا ہے ‘‘- --- اس کے بعد مرزا صاحب نے علامہ اقبال کی ایک رباعی پڑھی : نگہ دارد برہمن کار خود را نہ می گوید بہ کس اسرار خود را بہ من گوید کہ از تسبیح بگذر بہ دوش خود برد زنار خود را (برہمن اپنے کام اور مشاغل کی نوعیت اور نشیب و فراز اور نفع نقصان سے بہ خوبی واقف ہے اور اپنے راز کسی پر فاش نہیں کرتا - مجھے تسبیح چھوڑ دینے کی تلقین کرتا ہے ، مگر اپنے کندھے سے زنار اتارنے کی لیے تیار نہیں -) ’’ یہاں اندلس میں عیسائی نے بھی یہی کچھ کیا - وہ اندر سے مسیحیت کے معاملے میں پکا تھا ، مگر یہ نہیں چاہتا تھا کہ مسلمانوں کے اندر اسلامی اخوت کا احساس مضبوط ہو - وہ یہاں کے نو مسلموں سے کہتا تھا کہ تم تو اندلسی ہو ، اور ہم میں سے ہو اور یہ باہر سے آنے والے عرب ہیں ، بربر ہیں ، افریقی ہیں ، شامی ہیں اور یمنی ہیں مگر ہم تم اندلسی ہیں - لیکن مسیحی اور مسلمان ، خواہ اندلسی ہی کیوں نہ ہوں ، آپس میں بھائی کیوں کر ہو سکتے تھے ، چنانچہ مسیحیوں کو جوں ہی بالادستی حاصل ہوئی ، انہوں نے اپنے اندلسی (مسلمان) بھائیوں سے وہ کچھ کیا جو کہیں کسی نے مسلمانوں سے نہیں کیا ----‘‘ مرزا صاحب ذرا رکے تو تھوڑی دیر کے لیے کمرے میں خاموشی چھا گئی - ’’ یہ تو بہت بنیادی بات ہے ، جس کی نشان دہی آپ نے کی - ‘‘ میں نے گفتگو میں دخل دیتے ہوئے کہا : ’’ زوال امت کے تو اور بھی بہت سے عوامل ہیں --- ‘‘ ’’ ہاں ہاں! ‘‘ مرزا صاحب نے کہا : ’’ میں نے تو ایک بنیادی وجہ بتائی ہے اور یہ بنیادی وجہ آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی - بھارت ، پاکستان ، بنگال ، خلافت عثمانیہ ، فلسطین و اسرائیل --- آپ جہاں بھی دیکھیں گے ، دو قومی نظریے سے غفلت اور انحراف نے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے -‘‘ پھر مرزا صاحب نے تاریخی مثالوں سے اس کی کچھ اور وضاحت کی - (۳) الحمرا کے مختلف حصوں کو دیکھنے کے بعد ہم محلات میں داخل ہوئے اور بعض حصوں کو دوبارہ دیکھا- کل وقت کم تھا ، اس لیے یہاں سے سر سری گزر گئے تھے - آج قدرے اطمینان سے دیکھا تو ہر جا جہان دیگر نظر آیا - نقش و نگار کا حسن و جمال قابل داد ہے اور عبارات و اقوال عبرت کا باعث - ایک جگہ لکھا تھا : اقبل علی الصلوۃ ولا تکن من الغافلین -- مگر افسوس ہے غفلت سے بچنے کی یہ تلقین الحمرا کی دیواروں تک ہی محدود رہی اور سلاطین غرناطہ نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا - بلاشبہ در و دیوار پر تو ہر جگہ لا غالب الا اللہ نظر آتا ہے ، مگر شاہان غرناطہ کے دلوں کی تختی کوری کی کوری رہی : مومن و از رمز مرگ آگاہ نیست در دلش لا غالب الا اللہ نیست غرناطہ ، اندلس میں مسلمانوں کا آخری حصار تھا لیکن حکمرانوں نے جملہ مال و دولت اور میسروقت اپنے فانی اقتدار کے استحکام ، محلات کی تعمیر اور فنون لطیفہ کے نقوش مرتسم کرنے ہی میں صرف کر دیا - مرزا صاحب کہنے لگے : اگر شبستانوں اور گلستانوں پر صرف ہونے والا بے حساب خزانہ طاقت ور فوج تیار کرنے پر صرف ہوتا تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی - (۴) ۲۹ نومبر (جمعہ ) کو ناشتے کے بعد ، مرزا صاحب اور راقم سیر کے لیے نکلے - اثناے گفتگو میں اے کے بروہی صاحب کا ذکر آ گیا ، کہنے لگے : مرحوم بروہی بڑے پرگداز آدمی تھے - ان کے مزاج میں انکسار بہت تھا - انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ میں وزیر رہا ہوں یا دنیا کا ایک شہرت یافتہ قانون دان ہوں اور یہ شخص جو میرے پاس آتا ہے ، محض ایک اسسٹنٹ پروفیسر ہے ، اور یہی حال راجا حسن اختر کا تھا- وہ بھی دل گرم کے مالک تھے ، ان کا مسلک تھا : خوش تر ز ہزار پارسائی گامے بطریق آشنائی‘‘ میں نے سوال کیا : ’’ ان سے آپ کی پہلی ملاقات کب ہوئی ؟‘‘ کہنے لگے : ’’ ہاں ! ان سے پہلی ملاقات بھی دلچسپ ہے - میں نے لائل پور (حال فیصل آباد) میں یوم اقبال کے جلسے میں مقالہ پڑھا - کچھ اور حضرات نے تقریریں کیں جن میں راجا صاحب بھی شامل تھے - میں ان کی تقریر سننے کے بعد جلسے سے کھسک گیا - گرمی کا موسم تھا اور رمضان کا مہینا ، مجھے یاد ہے کہ میں دھوپ سے بچاو کے لیے ، گھر جاتے ہوئے چھتری تانے ہوئے تھا - خیر ، تو دراصل میرے اندر بچپن سے ایک حجاب تھا ، اس لیے میں ملنے ملانے میں پہل نہیں کرتا تھا - اب بھی یہی حال ہے ، اسی لیے جلسہ ختم ہونے کو تھا تو خاموشی سے اٹھ کر گھر چلا آیا -- اب جلسے کے بعد راجا صاحب نے پوچھا : ’’ جن پروفیسر صاحب نے ’’ کلام اقبال پر عربی ادب کے اثرات ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھا تھا ، وہ کہاں ہیں؟ ‘‘ احباب نے بتایا کہ گھر چلا گیا ہے ، اگر آپ کہیں تو گاڑی بھیج کر اسے بلا بھیجیں ؟راجا صاحب نے فرمایا : ’’ نہیں ، عالم آدمی کے پاس میں خود جایا کرتا ہوں ‘‘ - ’’ میری عمر ۳۲ ، ۳۳ سال تھی - ‘‘ مرزا صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا : اور وہ میرے بزرگ تھے ، جو علامہ اقبال کی محفل میں ۱۴ سال بیٹھے تھے ، مگر یہ ان کی عظمت تھی کہ محض ایک مقالہ سن کر ملاقات کے لیے گھر پہنچے - بہرحال مصافحہ اور معانقہ ہوا اور پھر مفصل تعارف - اس کے بعد تو ایسے تعلقات قائم ہوئے کہ ان کی وفات پر ہی یہ سلسلہ منقطع ہوا ، بلکہ وفات پر بھی کہاں منقطع ہوا ، میں تو اب بھی ان کو بلاناغہ یاد کرتا ہوں ، ان کی روح کو روزانہ ایصال ثواب کرتا ہوں - قرآن کا کچھ حصہ ان کی خاطر ضرور تلاوت کرتا ہوں ، ان کی دعائیں بھی مجھے پہنچتی ہیں -‘‘ ہم کامپلو چوک سے گزرتے ہوئے بڑی سڑک پر پہنچ چکے تھے - پھر اسی سڑک کے اوپر سے گھومتے ہوئے واپس ہوٹل پہنچے - آج سپین میں ہمیں ایک ہفتہ ہو گیا تھا - دوپہر کو توسیع شدہ ویزا ملنے کی امید تھی - سوچا : آج نہیں تو کل ہمیں یہاں سے اشبیلیہ روانہ ہونا چاہیے - سو ، میں بکھرا ہوا سامان سمیٹنے لگا - سہیل صاحب جاگ اٹھے - وہ ناشتے (دوپہر کے کھانے) سے عہدہ برآ ہونے کی کاوش کرنے لگے - میں نے دو تین خطوط لکھے - تاریخ ہسپانیہ کی ورق گردانی کی - مرزا صاحب سے کچھ گفتگو بھی رہی - ان کی طبیعت پر اس احساس کے باعث مسلسل آزردگی اور افسردگی طاری رہی کہ امت مسلمہ نے ایسا خوب صورت وطن کھو دیا - پروفیسر محمد منوّر ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی میں اپنی معروضات اردو کے ایک شاعر غلام مصطفی خان یک رنگ کے ایک شعر سے شروع کر رہا ہوں - یک رنگ نے اپنے بزرگ معاصر مرزا مظہر جان جاناں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا - یک رنگ نے تلاش کیا ہے بہت سنو مظہر سا اس جہاں میں کوئی میرزا نہیں میں مرزا محمد منور کو بھی اس شعر کا مصداق سمجھتا ہوں - میرے خیال میں اس جہاں میںمنور سا بھی کوئی میرزا نہیں تھا - خواتین و حضرات ! میں نے یہ شعر مرزا صاحب کے نام کی رعایت ہی سے نہیں پڑھا - میرے پیش نظر مغلوں کے دور آخر میں رائج ایک اصطلاح مرزا منشی بھی رہی ہے جس کا اطلاق شخصیت کے توازن وضعداری اصابت فکر اور سلامت روی پر ہوتا تھا - خداوند کریم نے مرزا محمدمنور کو ان تمام اوصاف سے نواز رکھا تھا - ایمان کے نور سے ان کا باطن منور اور ظاہر روشن تھا، قدرت نے اس خوش خصال کو مروت اور آدم داری کی ایسی فطرت عطا کی تھیں کہ ہزاروں لوگ اس کے گرویدہ ہو گئے تھے - ان کا علم و فضل ، ان کی مرزا منشی پر مستزاد تھا - وہ صرف عالم ہی نہ تھے بلکہ ایسے جامع العلوم تھے کہ ماضی قریب یا ان کے معاصرین میں اس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے - وہ اسلامی تاریخ تہذیب ، فکر ، فلسفہ ، تصوف ، تفسیر ، ثقافت و سیاست اور شعر و ادب پر گہری نظر رکھتے تھے- عربی ،فارسی ، اردو ، انگریزی چاروں زبانوں پر عبور رکھتے تھے - حافظہ ایسا پایا تھا کہ ان کو دیکھ کر حماد الراویہ کے تاریخی شخصیت ہونے کا یقین آ جاتا ہے حماد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کو دور جاہلیت کی کم و بیش ساری شاعری یاد تھی - مرزا صاحب کو معلقات، متنبی، معریٰ کے عربی ، حافظ ، نظیری ، صائب ،بیدل اوردیگر شعرا کے ہزاروں فارسی اشعار یاد تھے اور علامہ اقبال کا بیشتر اردو فارسی کلام ان کے حافظے میں محفوظ تھا- مرزا صاحب کے علمی کارناموں کی فہرست طویل ہے اگر ان کارناموں میں ان کے شاگردوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو فہرست اور بھی طویل ہو جائے گی - مرزا صاحب بنیادی طور پر استاد تھے وہ بڑے ہی ممتاز اور منفرد قسم کے استاد تھے - بطور استاد ایک تو ان کا وسیع علم وجہ امتیاز تھا دوسرے وہ عام استادوں سے بہت مختلف تھے وہ صرف کورس پڑھانے اور کلاس لینے والے استاد نہیں تھے وہ آدم گر اور شخصیت ساز استاد تھے - تدریس ان کا پیشہ یا مشغلہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کا مسلک اور مشن تھا - ان کے اخلاص نے ان کی بات میں ایسی تاثیر پیدا کی تھی کہ ایک بار جو کوئی ان کے حلقہ درس میں آیا عمر بھر کے لیے حلقہ ارادت میں آ گیا اگر کوئی ان ارادت مندوں کو جمع کرے تو ایک وسیع ’’حلقہ منوّریہ‘‘ وجود میں آ جائے - اللہ نے مرزا صاحب کے علم میں برکت بھی دی اور تاثیر بھی - اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مولانا روم کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے علم کے مادی پہلو کو نظر انداز کر کے اور اس کے روحانی پہلو پر توجہ کی اور اس کو اپنا یار بنا لیا تھا علم را بر تن زنی ماری بود علم را بر دل زنی یاری بود مرزا صاحب فارسی کے کبھی باقاعدہ طالب علم نہیں رہے لیکن انہوں نے فارسی زبان و ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا وہ فارسی شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے - ایک بار گولڑہ شریف کے پیر نصیر الدین اورئینٹل کالج تشریف لائے ان کے ساتھ دو گھنٹے کی ایک یاد گار شعری نشست رہی جس میں ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر سید اکرم شاہ ، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ، صوفی افضل مرحوم اور دیگر کئی حضرات شریک ہوئے - اس دن مرزا صاحب نے فارسی کے اتنے عمدہ ۳۷ شعر سنائے کہ سب لوگوں نے انہیں دل کھول کر داد دی - اقبال کی فارسی غزل میں مرزا صاحب نے تقابل کے لیے دوسرے شعرا کی فارسی غزلیات کے جو نمونے درج کیے اس سے ان کی خوش ذوقی اور وسعت مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے - مرزا صاحب کبھی کبھار فارسی میں شعر کہہ لیا کرتے تھے لیکن جہاد افغانستان میں تو ان کی شاعری کے سوتے اُبل پڑے فارسی میں ان کے جنگی ترانوں نے مجاہدین کے حوصلے بڑھائے افغانی نقاد آج بھی ان ترانوں کے رجزیہ اور رجائی لہجے کے معتقد ہیں - اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کو سیاسی بصیرت عطا کی تھی اور انہوں نے روسی یلغار سے بھی پہلے روس کے زوال کی پیش گوئی کر دی تھی روس کی شکست کے بارے میں ان کا یہ احساس ان کے ولولہ انگیز فارسی ترانوں میں ڈھل گیا تھا - مرزا صاحب کا اصل مضمون عربی تھا - ان کے ذاتی ذخیرہ کتب میں عربی کتابوں کا ایک وقیع سرمایہ موجود ہے - مرزا صاحب عربی شاعری سے گہرا شغف رکھتے تھے جدید و قدیم ادب پر نظر رکھتے تھے - دینوی کی اخبار الطوال اور طہ حسین کی الفتنۃ الکبریٰ جیسی بلند پایہ عربی کتب کا مرزا صاحب نے اردو میں ترجمہ کیا اس سے ان کی عربی دانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے - مرزا صاحب عربی میں بھی شعر کہتے تھے - لاہور میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے سلسلے میں مرزا صاحب نے بڑی ایمان افروز نظمیں لکھیں - تاریخ و تحریک پاکستان مرزا صاحب کا خاص موضوع تھا انھوں نے تشکیل پاکستان کا معجزہ رونما ہوتے خود دیکھا - قیام پاکستان کے بعد مخالفین نے تحریک اور نظریہ پاکستان کے بارے میں بڑی غلط فہمیاں پیدا کیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے - ان میں مایوس و نامراد پاکستانی سیاست دان ، مسلم دشمن یورپی اہل قلم اور ہمارے ازلی و ا بدی دشمن ہندو شامل ہیں - مرزا صاحب نے ان تینوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا - ان کے دلائل پاکستان پر ان کے غیر متزلزل ایمان کے علاوہ ٹھوس دستاویزی شہادتوں پر مبنی ہیں- تحریک پاکستان کے موضوع پر شاید ہی کوئی قابل ذکر کتاب ہو جو مرزا صاحب کی نظر سے نہ گزری ہو - مرزا صاحب نے اپنے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے پیغامات کو بڑی خوبصورتی سے سمیٹا ہے - علامہ اقبال کے پیغام کا خلاصہ خود کو پہچانو اور قائد اعظم کا پیغام ہے اپنے دشمن کو پہچانو ---- چنانچہ مرزا صاحب نے پاکستان کے ازلی اور ابدی دشمن ہندو کی تاریخ اور نفسیات کا عمیق مطالعہ کیا ہے اس موضوع پر ان کی کتاب دیوار برہمن ان کی قابل قدر تصنیف ہے - مرزا صاحب کی تمام علمی حیثیتیں اپنی اپنی جگہ مسلم ہیں لیکن ان کی غالب حیثیت بطور اقبال شناس کی ہی ہے - انھوں نے اپنی بیشتر توانائیاں فکر اقبال کو عام کرنے میں صرف کی ہیں اس موضوع پر اردو ، انگریزی اور تراجم کی شکل میں فارسی میں متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں - انھوں نے اقبال کا مطالعہ فکر اسلام کے وسیع تناظر میں ذہن مستقیم اور قلب سلیم کے ساتھ کیا ہے - اسلام کو درپیش مسائل کا حل بھی فکر اقبال کی روشنی میں پیش کیا ہے وہ اقبال کو حالات حاضرہ سے مربوط رکھتے ہیں اور اس طرح اس کی تازگی و تعلق کو برقرار رکھتے ہیں مرزا صاحب علامہ اقبال کے ساتھ حد درجہ عقیدت رکھتے ، میں ۴۸ سال ان کی خدمت میں رہا لیکن ایک بار بھی انہیں اقبال کہتے نہیں سنا ، وہ عام طور پر حضرت علامہ اقبال کہتے یا حضرت علامہ - مرزا صاحب کوآغاشورش کاشمیری نے سفیر اقبال کا خطاب دیا تھا یہ مرزا صاحب کی خوش بختی ہے کہ انھوں نے اس سفارت کے فرائض بطریق احسن انجام دیے - انھوں نے اقبال کا پیغام کئی ذریعوں اور کئی زبانوں کے واسطے سے پہنچایا - ملک کے اندر جہاں بھی انہیں بلایا گیا وہ تشریف لے گئے - کئی سال تک وہ مرکزیہ مجلس اقبال کے جلسوں کی جان رہے - انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لاتعداد پروگراموں میں شرکت کی - انہیں قاہرہ اور دمشق جانے کا بھی اتفاق ہوا وہاں انھوں نے عربی میں تقریر کی- دمشق میں اقبال پر ان کی تقریر سے وہاں کے مفتی اعظم اتنے متاثر ہوئے کہ مرزا صاحب سے ان کے ہوٹل میں ملنے کے لیے آئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ کیا پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے مرزا صاحب کا اثبات میں جواب سن کر وہ الحمداللہ الحمداللہ کہتے کہتے بے حال ہو گئے - مرزا صاحب تہران میں عالمی اقبال کانفرنس میں بھی شریک ہوئے وہاں انھوں نے فارسی میں تقریر کی - کئی یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں بھی مرزا صاحب نے پیام اقبال انگریزی میں پہنچایا - فکر اقبال کی تبلیغ کے اتنے مواقع شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوئے ہوں یہ بھی مرزا صاحب کا ایک منفرد اعزاز ہے - ہمارے زمانے میں اقبال شناسی کے ساتھ ساتھ اقبال فروشی کو بھی بہت فروغ حاصل ہوا اور بہت سے لوگوں نے اقبال کے نام پر اپنی دکان چمکائی لیکن مرزا صاحب کے لیے تو اقبال ایمان و اعتقاد کا مسئلہ تھا - اقبال شناسی ان کی کوئی پیشہ وارانہ مجبوری نہیں تھی انھوں نے اقبالیات کا صرف مطالعہ ہی نہیں کیا اس سے اثر بھی قبول کیا - ان اثرات کی جھلک ان کی سیرت و کردار میں دیکھی جا سکتی ہے - فکر اقبال سے متاثرا ان کے کردار کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں - علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کی کمیٹی کا پہلا اجلاس ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت میں گورنر ہائوس لاہور میں منعقد ہو رہا تھا - بھٹو صاحب کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ اپنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ اجلاس میں بھی شریک تھے ان کے انتہائی مقتدر وزیر ، حفیظ پیرزادہ صاحب نے ورکنگ پیپر پڑھنا شروع کیا ’’ تیسری دنیا کے عظیم شاعر ---- پہلے جملے ہی پر ایک آواز بلند ہوئی کہ جناب والا اقبال شاعر اسلام پہلے ہیں اور تیسری دنیا بعد میں آتی ہے - وزیر صاحب نے احتجاج کو نظر انداز کر کے آگے پڑھنا چاہا تو انہیں پھر روکا گیا - احتجاج کرنے اور روکنے والے ایک درویش محمد منور ہی تھے جنہیں یہ جرأت فکر اقبال ہی سے ملتی تھی ورنہ اس محفل میں کسے یا رائے سخن تھا - ہائیڈل برگ اور کیمبرج میں اقبال چیئرز کے انتخاب میں مرزا صاحب کو بھی انٹرویو کے لیے بلایا گیا- وہ اس پر راضی نہیں تھے - احباب کے اصرار پر وہ آگئے راقم الحروف وزارت تعلیم میں ان کے ساتھ گیا - ہماری یہ خواہش تھی کہ مرزا صاحب جیسا جید اقبال شناس اگر کسی چیئر پر چلا جائے تو کیا کہنے- انٹرویو لینے والے وفاقی سکریٹری تعلیم ایک ایسے شخص تھے جن کا خاندان قائد اعظم اور پاکستان مخالفت میں بڑی شہرت رکھتا تھا میں نے مرزا صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس سیکرٹری کے سامنے آپ ذرا احتیاط برتیںتو زیادہ مناسب ہو گا میرا یہ مشورہ انھیں ناگوار گذرا انھوں نے فرمایا کہ یہ چیز تو آنی جانی چیز ہے اس کے لیے میں اپنے ایمان و اعتقاد سے دستبردار نہیں ہو سکتا - سوا گھنٹے کے انٹرویو میں مرزا صاحب ایک گھنٹہ قائد اعظم کے فضائل بیان کرتے رہے اور سیکرٹری صاحب اپنی کرسی پر پہلو بدلتے رہے - مرزا صاحب کے عشاق میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے ان میں ایک مسٹر اے کے بروہی بھی تھے وہ جب بھی لاہور آتے مرزا صاحب سے ملاقات کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتے ایک ملاقات میں انھوں نے مرزا صاحب کو ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد کی سربراہی کی پیشکش کی اور اصرار کیا کہ وہ اسے فوراً قبول کر لیں - مرزا صاحب نے اپنے احباب سے مشورہ کیا - ایک ارادت مند نے عرض کیا آپ اب جس آزادی کے ساتھ نوائے وقت میں اظہار خیال فرما رہے ہیں اس عہدے کو قبول کرنے کے بعد آپ کو اظہار کی یہ آزادی حاصل نہیں رہے گی - مرزا صاحب نے اس مشورے کو قبول کرتے ہوئے معذرت کر لی حالانکہ اس عہدے کے ساتھ بڑی مراعات وابستہ تھیں لیکن مرزا صاحب اپنے مشن کی قیمت پر مراعات کے طالب نہ ہوئے- اقبال ایوارڈز میں ایک بار مرزا صاحب کی ایک کتاب بھی شامل ہو گئی - انعام کی رقم خاصی معقول تھی اور ان کی کتاب بھی انعام کی سزاوار تھی لیکن مرزا صاحب نے یہ کہہ کر اپنی کتاب ایوارڈ سے واپس لے لی چونکہ اقبال اکادمی کا سربراہ ہوں اس لیے میری کتاب اس ایوارڈ میں شامل نہیں ہونی چاہیے - مرزا صاحب کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے - ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ علم کے معاملے میں وہ صرف نظری آدمی نہیں تھے یہ ان کے ایمان و اعتقاد کا جزو تھا- علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے اپنے وقار و اعتبار میں اضافہ کرنے کے لیے مرزا صاحب کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ان کی شدید علالت کی وجہ سے اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو سکا - مرزا صاحب ایک عظیم شخصیت تھے - وہ اس ملک کا حتمی ورثہ تھے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے- ان کے نام پر ایک ٹرسٹ قائم کیا جانا چاہیے جو ان کی تصانیف و تقاریر کی حفاظت و اشاعت کا بندوبست کرے - مرزا محمد منور ---- اقبال کا شیدائی ڈاکٹر انور سدید پروفیسر مرزا محمد منور کی وفات پر ادبی ، دینی اور سیاسی حلقوں نے انہیں یکساں طور پر خراج تحسین ادا کیا - تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ان تمام حلقوں کی غیر متنازعہ شخصیت تھے - ان کا اپنا متنازعہ موضوع انگریز اور ہندو تھا ، جس کے خلاف وہ زندگی بھر سیف بدست رہے - ان کے ترکش میں جو تیر تھے ، مرزا منور نے انہیں اقبال کے تصورات سے صیقل اور قائد اعظم کے عمل پیہم سے تیز تر کیا تھا ، ان تیروں کی مزید چبھن انھوں نے دین مصطفی کی تعلیمات قرآن سے بڑھائی تھی اور انہیں کفر کی طاقتوں کے خلاف استعمال کیا تھا- چنانچہ انہیں سیاست میں اسلام کا داعی اور فکر و عمل میں اقبال اور قائد اعظم کا مقلد قرار دے کر محافظ دین و ملت قرار دیا جاتا تھا اور یہ بڑی حد تک درست تھا - اہم بات یہ تھی کہ پروفیسر محمد منور نے موروثی مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کو اپنے مطالعے سے اخذ کیا اور اسے دین عالم کے طور پر قبول کیا ، اقبال کو وہ تصور پاکستان کا خالق تسلیم کرتے تھے اور فکر اقبال کو ہندو کی ریشہ دوانیوں کا جواب قرار دیتے تھے - قائد اعظم کی عظمت کا باعث ان کے نزدیک یہ تھا کہ انھوں نے ۱۸۵۷ء کی شکست خوردہ قوم کو حالت انتشار سے مجتمع کیا اور جمہوریت کی روایات کے مطابق جدوجہد پاکستان استوار کی اور بالآخر انگریز اور ہندو کی سازش کو ناکام بنا کر پاکستان حاصل کر لیا- یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مرزا منور کا تعلق سرگودھا کے ایک متوسط لیکن قناعت پسند گھرانے سے تھا - ان کے والد مرزا ہاشم الدین میونسپل کمیٹی سرگودھا کے ایک پرائمری سکول کے ہیڈماسٹر تھے - ان کے طالب علموں کا افتخار یہ تھا کہ مرزا ہاشم الدین نصابی تعلیم اور ادبی تربیت کے علاوہ ان کی شخصیت سازی بھی کرتے تھے - مرزا منور بھی اس گہوارے سے ادیب بن کر نکلے تھے - سکول کے زمانے میں ہی انہیں شعر و ادب سے دوستی ہو گئی تھی - ان کی زندگی کے ابتدائی دور میں خلافت کی تحریک اور پھر مجلس احرار کی کشمیر تحریک کو مسلمانوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی - ان کے مزاج پر لڑکپن میں مولانا ظفر علی خان نے اپنے اثرات مرتب کئے - ظفر علی خان کے جلسے میں مرزا منور کو ان کے والد گرامی ہی لے کر گئے تھے - مولانا ظفر علی خان نے اس روز سرگودھا میں بڑی جوشیلی تقریر کی تھی - اس تقریر نے ہی مرزا منور کے دل میں انگریز دشمنی کا پہلا بیج بویا - انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ میرے کان میں پہلی اذان مولان ظفر علی خان نے دی تھی- انہیں یاد تھا کہ سرخ ٹوپی پہن کر اور چھڑی کو فضا میں لہرا کر جو بزرگ تقریر کر رہے تھے ، وہ مولانا ظفر علی خان ہی تھے ، جو کہہ رہے تھے - ’’ یہ گورے اور گوریاں جو ہمارے وطن میں گھس آئی ہیں انہیں یہاں سے نکالا جائے‘‘ سیاست کے اس ارتقاء کا سلسلہ انہیں اقبال اور قائد اعظم تک لے آیا جنہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا تو انگریز حکمرانوں کے علاوہ ہندوستان کی آزادی حاصل کرنے کے داعی ہندوئوں کے سامنے مطالبہ پاکستان پیش کر دیا - اپنے تعلیمی دور میں مرزا محمد منور کو مرزا غالب سے محبت پیدا ہو گئی تھی ، وہ فطرتاً تغزل پسند تھے لیکن غالب کے تغزل میں انہیں ایک عجیب شان کج کلاہی نظر آئی ، اور یہ مرزا ہاشم الدین کا فیضان تھاکہ انہیں دیوان غالب نصف سے زیادہ از بر ہو گیا - اس دور میں ہی انہیں اقبال سے بھی محبت پیدا ہوئی لیکن یہ عقیدت کا درجہ اختیار کر گئی اور اقبال آہستہ آہستہ مرزا منور کے مرشد معنوی بن گئے - بعد میں انھوں نے اقبال کو اپنا ایک مستقل موضوع قرار دیا اور ان کے افکار و تصورات پر ایقان اقبال ، میزان اقبال ، برہان اقبال، قرطاس اقبال اور اقبال کی فارسی غزل گوئی جیسی کتابیں تصنیف کیں - مرزا منور کی زندگی ایک مستغنی مزاج اور قناعت پسند انسان کی زندگی تھی ، وہ غریب گھرانے کے فرد تھے اور میٹرک کے بعد انھوں نے ذوق و شوق سے عربی ، اردو اور فلسفہ میں تین ایم اے کئے - میٹرک کے بعد انھوں نے پہلے ریلوے میں اور پھر محکمہ آبپاشی میں معمولی قسم کی ملازمت اختیار کی - ان ملازمتوں نے ان کے دل میں ناآسودگی کا احساس بیدار کیا اور وہ پنجاب اسمبلی کی مجلس ترجمہ میں ملازم ہو گئے- انھوں نے کچھ عرصہ ’’ مجلس زبان دفتری ‘‘ میں اردو اصطلاحات سازی کا کام بھی کیا - لیکن ایم اے کرنے کے بعد درس و تدریس کے شعبے میں آگئے - پہلے گورنمنٹ کالج لائل پور (حال فیصل آباد) میں اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں - ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ریٹائر ہوئے تو اس وقت ان کی اقبال شناسی اور تصنیف و تالیف کی شہرت کا سکہ بیٹھ چکا تھا اور وہ ڈاکٹر طہ حسین کی کتاب الفتنہ الکبریٰ حسین نصر کی کتاب تین فیلسوف اور اخبار الطوال الدینوری کے تراجم کر چکے تھے - چنانچہ انہیں پنجاب یونیورسٹی میں ’’ اقبال چیئر ‘‘ پر فائز کیا گیا اور بعد میں اقبال اکادمی کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا - ان کی زندگی کا آخری دور فروغ و فکر اقبال میں گزرا - اس دور میں ہی انھوں نے دفاع پاکستان کا فریضہ فکری سطح پر انجام دیا - ان کی کتابیں دیوار برہمن --- پاکستان حصار اسلام اور مشاہدہ حق کی گفتگو اسی دور میں شائع ہوئیں - اردو شاعری کا مجموعہ غبار تمنا کے نام سے اور شگفتہ مزاح کی کتاب اولاد آدم کے عنوان سے شائع ہوئی - مرزا محمد منور مجلسی انسان تھے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ مجلس آرائی تحریک پاکستان کے اکابر سے سیکھی تھی - ان اکابر میں جسٹس رستم کیانی ، راجہ حسن اختر ، ڈاکٹر جاوید اقبال ، حمید نظامی ، مجید نظامی ، ڈاکٹر سید عبداللہ ، قریشی عبداللہ شاہ ، نعیم صدیقی اور زیڈ اے سلہری جیسے لوگ شامل تھے - وہ اپنی مجلس گورنمنٹ کالج لاہور میں جماتے جہاں ان کے معاصرین شیخ عبدالشکور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ، ڈاکٹر تحسین فراقی ، پروفیسر صابر لودھی ، غلام الثقلین نقوی ، ڈاکٹر خورشید رضوی ، ڈاکٹر محمد احسان الحق جیسے لوگ معاملات جہاں پر خیال افروز گفتگو کرتے ان محفلوں میں لطیفہ بازی اور شگفتہ گوئی بھی ہوتی اور بات سے بات نکلتی جاتی - نوائے وقت لاہور کے مدیر ’’ سر راہے ‘‘ پروفیسر محمد سلیم ان کے دوست تھے - انھوں نے ان کی وفات پر تعزیتی مضمون لکھا تو اس میں مرزا محمد منور کی چند زعفرانی باتیں بھی خوبصورتی سے سجا دیں - اس ضمن میں انھوں نے لکھا کہ مرزا منور کو ایک زمانے میں ’’ عرق النساء ‘‘ کی شکایت ہو گئی تھی - درد تو جا تا رہا لیکن ان کی ایک ٹانگ میں تھوڑا سا خم آ گیا - بعض لوگوں نے انہیں لارڈ بائرن کہا تو مرزا صاحب ناراض ہو گئے اور بولے ’’ یہ تیموری چال ہے اور عطیہ خداوندی ہے ‘‘- مدیر ’’ سرراہے‘‘ نے لکھا ہے کہ مرزا صاحب کا حلقہ احباب محدود تھا - ان کی عادات بڑی نستعلیق تھیں - ان دنوں وہ چائے کے ساتھ ایک مخصوص قسم کے بسکٹ استعمال کرتے تھے جنہیں ان کے احباب نے ’’ مرزائی بسکٹ ‘‘ کا نام دے رکھا تھا - چنانچہ جب بھی مرزا صاحب دوستوں کے ساتھ کالج کی کنٹین میں داخل ہوتے تو ان میں سے ایک دوست کنٹین والے کو آرڈر دیتا - ’’ چار چائے اور آٹھ مرزائی بسکٹ ‘‘ پروفیسر سلیم صاحب ایک عرصے سے گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہیں ، مرزا منور عرق النساء سے مغلوب نہیں ہوئے تھے لیکن جب پروفیسر سلیم صاحب کے لیے چلنا پھرنا دو بھر ہو گیا تو ان کو مخاطب کر کے کہنے لگے - ’’ آپ نے ابھی سے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ؟ ‘‘ بعض لوگ ’’ مرزا ‘‘ کے سابقے سے ان کو ’’ قادیانی ‘‘ تصور کرتے تھے - جب کبھی اس قسم کا موقعہ پیدا ہوتا تو مرزا منور کھلکھلا کر ہنستے اور کہتے ’’ میں نے قادیان کے سومنات پر گرز تیموری سے کئی حملے کئے ہیں ‘‘ - وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مرزائیت کے خلاف ان کے دل میں حقیقی نفرت کا جذبہ مولانا ُظفر علی خان کی تقریروں نے پیدا کیا تھا اور اس سلسلے میں وہ عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا ذکر کرتے تو گویا دبستان کھل جاتا- ’’ مرزا ‘‘کی نسبت سے بھی ایک لطیفہ مدیر ’’ سر راہے ‘‘ نے رقم کیا ہے جو یوں ہے - ’’ افغان جنگ کے دوران مرزا محمد منور نے روسی جارحیت کے خلاف بڑی سخت تقریریں کیں - ایک مرتبہ تقریر کے دوران انھوں نے کہا کہ ’’ انشاء اللہ روس کو ذلیل ہو کر افغانستان سے نکلنا پڑے گا‘‘ - دوستوں نے پوچھا ’’ کیا یہ آپ کی پیشگوئی ہے ؟ ‘‘ مرزا منور نے اک تبسم جلی سے کہا ’’ پیش گوئیاں کرنے والے پہلے مرزائوں کے ساتھ آپ لوگوں نے کونسا اچھا سلوک کیا ہے جو میں یہ سلسلہ شروع کردوں ‘‘ پھر کہنے لگے ’’ میری بصیرت بتا رہی ہے کہ روس کو اس جارحیت کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی اور سوویت یونین کی موجودہ صورت باقی نہیں رہے گی ‘‘ - چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ روس کو افغانستان سے پسپا ہونا پڑا اور سوویت یونین میں کیمونزم کا خاتمہ ہو گیا - مرزا محمد منور کی اس قسم کی بصیرت کے دو مظاہر اور بھی ہیں - اول یہ کہ کشمیر انشاء اللہ آزاد ہو گا اور پاکستان کا حصہ بنے گا - دوم یہ کہ بھارت کا شیرازہ بکھر جائے گا اور یہ ملک تقسیم کے عمل سے گزرے گا - علامہ اقبال کے بقول ’’ قلندر ہرچہ گوئید دیدہ گوئید ‘‘ مرزا منور کی یہ پیشگوئی بھی انشاء اللہ ضرور پوری ہو گی - کاش ! خدا یہ روز سعید میری زندگی میں لائے - مرزا محمد منور ---- ایک مطمئن مزاح نگار ڈاکٹر انور سدید ’’ میزان اقبال ‘‘ اور ’’ ایقان اقبال ‘‘ کے مصنف پروفیسر میرزا محمد منور کے بارے میں اگر یہ بتایا جائے کہ وہ مزاح بھی لکھتے ہیں تو یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے - وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا ادبی کام اس قدر ثقہ ہوتا ہے کہ انہیں انسان ظریف یا ’’حیوان ظریف‘‘ کہتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے ، مثال کے طور پر مولانا الطاف حسین حالی یا ابوالکلام آزاد کا نام سنتے ہی آپ عقیدت و محبت سے سرجھکا لینے میں ہی سعادت محسوس کریں گے ، اقبال کے ساتھ ایک ایسی قدآور شخصیت کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ جس کا نام لیتے ہی بے اختیار منہ سے رحمتہ اللہ علیہ نکل جاتا ہے - کچھ یہی کیفیت میرزا منور صاحب کے ساتھ ہے کہ ان کا نام زبان پر آتے ہی ادب و احترام کی فضا خود بخود پیدا ہو جاتی ہے - شاید اس تاثر کی تشکیل کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس دور ناسپاس میں منور صاحب ایک ذمہ دار استاد بھی ہیں - ایک ایسے استاد جن کی تعریف طلبہ ان کی غیرحاضری میں کرتے ہیں ، اس تعریف کا غالب پہلو یہ ہے کہ میرزا صاحب اپنے طلبہ کو درس ادب عمدگی سے دیتے ہیں - چنانچہ دروغ برگردن راوی ان کی کلاس سے طلبہ غیر حاضر نہیں ہوتے اور اگر کالج میں کوئی چھوٹا موٹا ہنگامہ صرف لہو گرم رکھنے کے لیے بپا کر دیا جائے تو اس میں میرزا صاحب کے شاگرد ان رشید بالکل شریک نہیں ہوتے اور ہموار فطرت کو ناہموار کرکے عامتہ الناس کو اپنے آپ پر ہنسنے یا کم از کم مسکرانے کا موقع نہیں دیتے ، ایسے میں اگر آپ کو بتا دیا جائے کہ میرزا منور نہ صرف مزاح نگار ہیں بلکہ انھوں نے سخن کا یہ اسلوب ۱۹۵۰ء سے اختیار کر رکھا ہے اور وہ مزاح کی ایک اکلوتی کتاب ’’ اولاد آدم ‘‘ کے مصنف بھی بن چکے ہیں مجھے یقین ہے کہ آپ میری طرف حیرت سے ضرور دیکھیں گے اب میرے لیے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا کہ آج کی مجلس میں میرزا محمد منور کے محبوب موضوعات پاکستان ، مسلم لیگ اور اقبال کو چھوڑ کر ان کی مزاح نگاری کے بارے میں آپ سے گفتگو کروں اور اس بات کی توضیح کرنے کی کوشش کروں کہ ’’ میزان اقبال ‘‘ اور ’’ ایقان اقبال ‘‘ میںجو ’’ انسان ناطق ‘‘ آپ سے محوتکلم ہے وہی ’’ اولاد آدم ‘‘ میں ’’ حیوان ظریف ‘‘ کے طور نمایاں ہوا ہے اور ان دونوں کے پس پردہ ایک ہی تخلیقی شخصیت میرزا منور موجود ہے - ’’ میزان ‘‘ میں انھوں نے اقبال کے فکر و فن کو اثبات مہیا کیا ہے ’’ اولاد آدم ‘‘ میں انھوں نے اقبال کے معاشرے کو ہی موضوع بنایا ہے- لیکن اب انھوں نے پاسبان عقل کو ذرا آوارہ خرامی کی اجازت بھی دے دی - چنانچہ ان کے ہاں حقیقت کی ناہمواریوں کا شوخ تذکرہ ابھر آیا - جسٹس رستم کیانی نے انہیں پڑھا تو میرزا منور صاحب کو لکھا کہ : ’’ قصے بعض اچھے تھے ، پہلے دو تین محض عنداللہ میں نے پڑھے کہ آپ نے بھیجے ہیں - اس کے بعد بسترے میں لیٹ کر شوقیہ پڑھتا رہا - میں قصے مسودے میں نہیں پڑھتا - چھپے ہوئے اور کتابت اچھی ہو تو پڑھتا ہوں ، بہرحال یہ پڑھ لیے اور دو ایک تو گھر میں بھی سنائے - خصوصاً اس ریلوے کلرک کا قصہ جو بیوی کے حکم سے بکری چراتا تھا اور آخر عقیقے کے بہانے ذبح کر دی ،---- آپ اس کو ضرور چھپوائیں پڑھنے کے قابل صرف نہیں ان سے لطف بھی حاصل ہوتا ہے ‘‘- واضح ہو کہ میں نے کیانی صاحب کی اس تحریر کو اپنے مقدمے کی شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا - بلاشبہ یہ ایک بڑے مزاح نگار کا میرزا منور کو بہترین خراج تحسین ہے - تاہم فی الوقت اس اقتباس کا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میرزا منور صرف مزاح ہی نہیں لکھتے بلکہ مزاح کی پیشکش کے لیے قصہ بھی تخلیق کرتے ہیں اور اس قصے کو پڑھ کر لطف بھی حاصل ہوتا ہے - ضمناً مجھے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ میرزا صاحب نے ان قصوں میں ’’ اولاد آدم ‘‘ کی ناہمواری پر محبت بھری نظر ڈالی ہے اور انہیں اس فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے پڑھنے والے کو زندگی کا شعور حاصل ہو اور وہ حقیقت کے اس موجود زاویے کو دیکھ کر ہمدردانہ طور پر مسکرا بھی سکے ، چنانچہ میرزا منور کے ہاں حقیقت کا زاویہ نمایاں نہیں ہوتا ، وہ پھکڑ پن کا مظاہرہ نہیں کرتے وہ شخصیت کو توڑ نے اور مروڑنے یا اس کا چہرہ بگاڑنے کی کوشش بھی نہیں کرتے بلکہ وہ تو فطرت کی بوالعجبی آشکار کرتے ہیں اور بعض جامد حقیقتوں اور بے لچک کیفیتوں کو دکھا کر آپ کے داخل میں سوئی ہوئی حس مزاح کو بیدار کر دیتے ہیں - چنانچہ ان کے مزاح میں تہذیبی رفعت ہے ، وہ آپ کو سلیقے اور شائستگی سے مسکرانے کی دعوت دیتے ہیں - یہ ایک ایسے مطمئن شخص کا مزاح ہے جس نے زندگی کا مذاق اڑانے کے بجائے اس پر آسودگی کی نظر ڈالی ہے اور اس آسودگی میں اپنے قاری کو شریک ہونے کی دعوت بھی دی ہے - میں اس طویل تمہید کے لیے معذرت خواہ ہوں ، ہمارے ہاں مزاح نگاری کو بالعموم بلند مقام نہیں دیا جاتا ، بذلہ گوئی ، لطیفہ سازی اور حاضر جوابی کو ایک مخصوص قوم کا ورثہ قرار دے دیا گیا ہے - چنانچہ جب بھی کوئی نیا مزاح نگار سامنے آتا ہے تو اس کا رشتہ ٔتخلیق مذکورہ صدر قوم کے ساتھ باندھ کر اسے میدان ادب میں عملی طور پر بھگانے کی کوشش کی جاتی ہے - اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے ہاں عمدہ مزاح بہت کم تخلیق ہوا ہے اور یوں مزاح سے لطف اٹھانے کا مذاق بھی پیدا نہیں ہو سکا - اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ کلام میں ظرافت کو وہی مقام حاصل ہے جو کھانے میں نمک کو نصیب ہے - پروفیسر حمید احمد خاں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ : ’’ یہ مقولہ نہ صرف ایک ادبی صداقت کا اظہار کرتا ہے بلکہ اس عنصر لطیف کا پیمانہ بھی مقرر کر دیتا ہے جس کی آمیزش سے ادب کے چشمہ صافی میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھتی اور ذوق سلیم کے لبوں پر موجہ ہائے تبسم میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہیں - پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی زبان کی لطافت اور کسی قوم کی ذہنی پختگی کا اندازہ کرنے کے لیے اس زبان کی ادبی ظرافت اور اس قوم کا احساس مزاح ہی سب سے عمدہ معیار ہے ‘‘- میں میرزا منور کو ایسے مزاح نگاروںمیں شمار کرتا ہوں جنھیں مزاح لکھنے پر ندامت کا احساس نہیں ہوتا اور جو اپنی زبان کی لطافت سے وہ ہلکا سا تمّوخ پیدا کرنے پر قدرت رکھتے ہیں جو ذوق سلیم کے لبوں پر موجۂ تموخ تبسم کی صورت پھیل جاتا ہے ، چنانچہ میرزا منور نے اپنے مضامین کو ’’ انشائیہ ‘‘ کہنے کے بجائے ’’ نیم مزاحیہ ‘‘ کہا ہے اور انہیں کسی اور صنف میں داخل کرنے کی جبری کوشش نہیں کی ، انھوں نے درون مزاح رستم کیانی اور سید عبداللہ شاہ کا تذکرہ ادب و احترام سے کیا ہے - میرزا صاحب نے ان کا فیض صحبت اٹھایا ہے - ان دو شخصیتوں نے مزاح کو ذہنی پختگی کا آئینہ قرار دیا اور اس آئینے میں قوم کو اپنی مضحک صورت دیکھنے کا موقعہ عطا کیا - کیانی صاحب کی مجلس آرائیاں تو اب کتابی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں - افسوس کہ سید عبداللہ شاہ کی باتیں ہوا میں بکھرگئیں- تاہم میرزا منور کو پڑھیں تو بعض مقامات پر تو واقعی یوں محسوس ہوتا ہے کہ منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے - وہ برجستگی وہ خندہ نگاری اور وہ حاضر جوابی جو کیانی صاحب اور سید عبداللہ شاہ میں موجود تھی - اس کی روشن کرنیں میرزا منور کے ہاں بھی صاف نظر آتی ہیں - اور میں اگر یہ کہوں کہ میرزا محمد منور کی مزاح نگاری کا رشتہ بالواسطہ طور پر ہی سہی رستم کیانی اور سید عبداللہ شاہ سے جا ملتا ہے تو شاید وہ خود بھی اس کی تردید نہ کریں اور ان بزرگوں کا نام سن کر فرط عقیدت سے سر جھکا دیں- چنانچہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب ہے کہ میرزا محمد منور کا مزاح مجلسی ہے - اس میں کوئی شک نہیں کہ مجلسی اور غیر مجلسی مزاح دونوں میں مصنف ناہمواریوں کی طرف ہی متوجہ کراتا ہے تاہم مجلسی مزاح میں مزاح نگار درون کے بجائے خارج بینی کا مظاہرہ زیادہ کرتا ہے - بات سے بات نکالتا ہے اور اکثر اوقات شریک مجلس کی اٹھائی ہوئی بات پر سبقت لے جانے کی کوشش بھی کرتا ہے - میرزا منور صاحب نے جن مجالس میں شرکت کی ہے اس کے بیشتر ارکان سلجھے ہوئے باذوق اور شائستہ ارکان ہیں - میرزا منور صاحب اور متذکرہ ارکان کی عمروں میں بھی خاصا فرق نظر آتا ہے - میرزا صاحب نے ان اصحاب کبیر سے نیاز مندی اور عقیدت کا رشتہ ہی قائم کیا ہے - چنانچہ ان کے ہاں فوقیت حاصل کرنے کے بجائے عاجزی اور انکساری کا زاویہ زیادہ روشن ہے - انھوں نے معاشرے کو ناہمواری پر قہقہہ لگانے کے بجائے اس سے ہمدردی کا رویہ پیدا کیا اور یوں جزو پر نظر ڈالنے کے بجائے معاشرے کے پورے ’’ کل ‘‘ کی نمائندگی کرنے کی کوشش کی- میرزا منور کے مزاح کی مجلسی جہت کا ذکر آیا ہے تو یہ حقیقت دلچسپی کا باعث ہو گی کہ مرزا صاحب کا اولین مزاحیہ مضمون ’’ مجلس ترقی تنقید ‘‘ ہے اور اس کی تحریک ہی ایک تنقیدی مجلس سے ہوئی ہے اس پر لطف مضمون میں میرزا صاحب نے معاشرے میں برپا ہونے والی تنقیدی مجالس کو ہدف طنز بنایا ہے اور بڑی خوبصورتی سے ان کے ناہموار کناروں کو ابھار کر قاری کو ان مجالس کی ہیئت کذائی پر مسکرانے کا عمدہ موقعہ دیا ہے - مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے - جس میں ’’ مجلس ترقی تنقید ‘‘ کے قواعد و ضوابط کی تنسیخ کے لیے دلچسپ جواز تلاش کیا گیا ہے - ’’ جب مجلس ترقی تنقید کی تشکیل ہوئی تھی تو اس وقت اس کے کچھ قواعد و ضوابط بھی تھے مگر کچھ مدت کے بعد محسوس ہوا کہ اس سے تنقیدی ذوق عام نہیں ہو رہا - تنقیدی روح پابندیوں کے باعث مرجھائی مرجھائی سی نظر آئی - اس سبزے کی طرح جو کسی بھاری سل کے نیچے اگ رہا ہو ، ظاہر ہے کہ ایسا سبزہ ضعیف بھی ہو گا اور زرد رو بھی- لہٰذا ہم نے تمام تر پابندیاں بہبودی تنقید پر قربان کر دیں ، یہی باعث ہے کہ اب ارکان مجلس کے لیے کسی طرح کی کوئی قید نہیں حتیٰ کہ علم کی بھی‘‘- یہاں جو سوال آپ کے ذہن میں پیدا ہو رہا ہے اسے میرزا منور صاحب نے بھی بھانپ لیا ہے اور پھر اس سوال کو تشنۂ جواب بھی نہیں رہنے دیا - چنانچہ لکھتے ہیں - ’’ کسی ناقد کے لیے پڑھا لکھا ہونا کیوں ضروری ہے ؟ یہ سوال ہمارے بہت سے پیدائشی نقادوں کی طرف سے مسلسل اٹھایا جا رہا ہے ، ان کا دعویٰ یہ رہا ہے کہ علم سے تو محض معلومات میں اضافہ ہوتا ہے- اس سے عقل و دانش اور پھر تنقید پر کیا اثر پڑ سکتا ہے، اگر خدا نخواستہ علم کا کوئی اثر عقل و دانش پر پڑ بھی سکتا ہو تو ہم پوچھتے ہیں عقل و دانش کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ تنقید کے پھٹے میں ٹانگ اڑائے- اہل مجلس کا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ اہل ذوق اور بالخصوص اہل ذوق تنقید بنائے نہیں جاتے وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں گھڑے جاتے - وہ بنے بنائے اور گھڑے گھڑائے نازل ہوتے ہیں یعنی ذوق تنقید لدنی نعمت ہے - اس لیے ہر شخص جسے خدا توفیق دے اپنے وہبی ذوق تنقید کی بدولت یا یوں کہیئے کہ بل بوتے پر تنقید کر سکتا ہے ہے اور جس قدر چاہے اور جس ادب پارے یا مصنف پر چاہے کر سکتا ہے - ہاں اگر وہ بخل سے کام لے تو اس کی مرضی - اس اجتناب کو بعض اہل محفل اگر مہربانی اور عنایت تصور کریں تو یہ ان کی کوتاہ بینی اور تنگ دلی ہو گی -- زوال نعمت پر شکر یہ ادا نہیں کرتے ‘‘- میں نے عرض کیا ہے کہ میرزا منور بات سے بات نکالنے کے فن میں یکتا ہیں ، چنانچہ جب اہل ذوق تنقید کو علم سے آزادی نصیب ہو گی اور زوال نعمت پر شکریہ لازم ٹھہرا تو میرزا صاحب کی توجہ عام آداب مجلس کی طرف ہوئی اور انھوں نے آزادی عمل و اظہار کو سر بلند رکھنے کے لیے مزید آزادیاں عطا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا - میرزا صاحب اپنے ہموار اور شائستہ بیانیہ میں عطائے آزادی کا یہ پس منظر ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں - ’’ اب تنقید قواعد و ضوابط تو اڑ ہی چکے تھے ، عام آداب مجلس بھی گراں گزرنے لگے- محسوس کیا گیا کہ آداب مجلس کی پابندی سے روح تنقید پر کچھ اوس سی پڑ جاتی ہے - اس لیے مجلس نے اپنے معزز شرکاء کو اس ضمن میں بھی کھلی چھٹی دے دی ، چنانچہ اب اگر کسی ’’ مقالہ خوانی ‘‘ کے دوران میں کوئی شریک مجلس گنگنا رہا ہو یا خط لکھوا رہا ہو یا پان کا مطالبہ کر رہا ہو یا چنوں سے شوق فرما رہا ہو یا کسی کے کان میں کسی کے خلاف میل ڈال رہا ہو یا خود کسی کن میلئے سے اپنے کان کا میل نکلوا رہا ہو تو اسے معیوب نہیں سمجھاجاتا کہ : ’’آج وہ کل ہماری باری ہے‘‘ خوبی کی بات یہ ہے کہ میرزا منور نے اہل ذوق تنقید کو اتنی آزادیاں عطا کرنے کے بعد فساد خلق پر آمادہ کیا ، البتہ اس حقیقت کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لیا کہ ’’ کبھی کبھی ادبی رکھ رکھائو کے ساتھ تو تکار ہو جاتی ہے - گاہے گاہے کسی نقاد کے خلاف بڑے سلیقے سے آستینیں بھی چڑھا لی جاتی ہیں ، ہفتے میں ایک بار ’’ ناچیز کیا چیز ہے ‘‘ کہتا ہوا کوئی ہاتھ کسی گریباں تک بھی رسائی حاصل کر لیتا ہے - بعض تنقیدی دلیلوں کی تائید میں کوئی کرسی بھی کسی فقیر خدا کی مست انگلی کی طرح بڑی بے نیازی سے اٹھ جاتی ہے ، مگر عموماً بیچ بچائو سا ہو جاتا ہے اور اہل محفل تقریباً خیریت ہی سے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ا ور اگلے روز پھر نئے شوق اور تازہ ولولے کے ساتھ جمع ہو جاتے ہیں - تنقید بھی وہ شراب ہے کہ : ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ مندرجہ بالا اقتباسات میں بلاشبہ میرزا صاحب نے مجلس کا حقیقی چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے - تاہم غور کیجئے تو انھوں نے واقعاتی طور پر اس مجلس کے تضادات کو ہی ابھارا ہے اور یوں ایک شائستہ مسکراہٹ کو بیدار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے - میرزا منور کے ہاں تضادات کو حقیقت کے بطن سے ابھارنے کا رجحان بے حدنمایاں ہے ، وہ آئینے کو ٹیڑھا کرنے اور عکس کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ وہ آئینے کو ہموار سطح پر رکھ کر آپ کے سامنے صرف حقیقت کا ایک خوشگوار زاویہ ہی منعکس کرتے ہیں ، اس قسم کی ایک دلچسپ صورت حال انھوں نے اپنے ’’ باتیں ‘‘ جو مجلسی مزاح کا ہی نمونہ ہے پیدا کی ہے لکھتے ہیں :- ’’ باتوں کے اکھاڑے کے بعض کرتب دان پہلوان ایسے ہی ہوتے ہیں جو حیران کن و تیرے اختیار کرتے ہیں - بے محل لطیفہ سنا کر با محل مطلب اخذ کرتے ہیں ، بے موقع شعر دے مارتے ہیں اور باموقع تشریح فرماتے ہیں یا کوئی انتہائی نامعقول مقولہ یا ضرب المثل اس اعتماد کے ساتھ جڑ دیتے ہیں گویا سپریم کورٹ کا فیصلہ سنا رہے ہیں ، ہمارے ایک ایم - اے کے ایک رفیق کالجوں کے مباحثوں میں فرضی مصنفوں کے جعلی اقوال بصد آن ، بان ، شان پیش کیا کرتے تھے اور اسی رعب اور اعتماد کے ساتھ کہ مباحثہ جیت لیا کرتے تھے - ایک مباحثے میں کہ ’’ میں بھی حاضر تھا وہاں ‘‘ انھوں نے بڑے طمطراق سے کہہ دیا کہ ’’ آپ بے شک جامع اللغات ‘‘ دیکھ لیں ’’ فصیح البیان ‘‘ کی ورق گردانی کر لیں ‘‘ - فرہنگ قاری ‘‘ ملاحظہ فرمائیں ‘‘ لغت کبیر‘‘ سے مشورہ کریں آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ’’ فراغت کا معنی عدم مشغولیت نہیں بلکہ فراغت کا معنی ہے - جان بوجھ کر دیدہ دانستہ وقت ضائع کرنا‘‘ ----- اب سمجھے آپ ؟ جامع اللغات کے باقی ناموں کے کونسے اردو لغت ہمارے ہاں موجود ہیں جو ہم ملاحظہ فرمائیں - ‘‘ میرزا منور کے مزاح کا دوسرا کامیاب حربہ مزاحیہ کرداروں کی تشکیل ہے ، واضح رہے کہ میرزا منور نے خوجی ، چچا چھکن ، مرزا پھویا اور استاد مینڈ کی جیسے کردار تخلیق نہیں کیے بلکہ انھوں نے ایسے کرداروں کی طرف متوجہ کرایا ہے جو ہماری زندگی میں اور ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ، انھوں نے ان کرداروں کی مدد سے اس تضاد کو ابھارنے کی کوشش کی ہے جو ان کرداروں کی عادات اور معاشرے کی عادات میں پیدا ہو چکا ہے،معاشرے کا عمل چونکہ اجتماعی ہے اس لیے وہ معتدل نظر آتا ہے اور کردار کا عمل چونکہ انفرادی ہے اس لیے یہ توازن سے محروم ہے مثال کے طور پر ’’ یار خوش گفتار ‘‘ میں میرزا صاحب نے پروفیسر خواجہ کریم کا نقشہ کھینچا ہے جو طول کلام کے مریض ہیں اور جن کے ساتھ تبادلہ خیال کا انجام عموماً جنگ ہوتا ہے - اسی طرح کا ایک اور کردار پیر علی احمد شاہ ہیں جو پچھتر برس کی عمر کو پہنچ چکے ہیں لیکن بوڑھے نہیں ہونا چاہتے اور اپنی معصومی کی رعایت سے ’’ ننھے شاہ ‘‘ کہلاتے ہیں- کھیل تماشے کے رسیا ہیں - ’’طلبگار مرد‘‘ قسم کی فلمیں اور سرکس میں موت کا کنواں ضرور دیکھتے ہیں - بھنگ پیتے ہیں اور ببانگ چنگ پیتے ہیں - ان کا ایک اور دلچسپ کردار حاجی بردار ہیں جو پاکستان ریلوے کے کسی اسٹیشن پر ہیڈ ٹرین کلرک ہیں اور بقول مرزا صاحب غلام زوجہ خان ہیں لیکن اپنی بزدلی یا غلام زوجہ خانی کی واردات پر ہر گز پردہ نہیں ڈالتے ، پردہ ڈالنا تو درکنار اپنی بزدلی کو الٹا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اوریوں اس انداز فکر کے طفیل اپنی بزدلی اور غلام زوجہ خانی کے احساس کو فریب دینے کا اہتمام بالانصرام کر لیتے ہیں - اسی قسم کا ایک کردار ’’ خوشیا‘‘ ہے جو گھریلو ملازموں کی قوم سے تعلق رکھتا ہے اور ان تمام حربوں کو استعمال کرنے کا طریق جانتا ہے جس سے آقا کو زچ کیا جا سکتا ہے میرزا منور نے اس کردار کا ایک زاویہ ان الفاظ میںبیان کیا : ’’ خوشیے کی تنخواہ پچیس روپے مقرر ہوئی تھی - کھانے کے علاوہ اس کے تمباکو سگریٹ کا خرچ بھی مجھ ہی کو برداشت کرنا پڑتا تھا - دیگر چھوٹی موٹی ضرورتوں کے لیے وہ مجھے پریشان نہ کرتا تھا ، سبزی پھل وغیرہ کے خرچ سے بچا بچو کے اپنا کام نکال لیتا تھا ایک روز بڑی ادائے بے نیازی و درویشی کے ساتھ فرمایا -’’ چوہدری جی ! ہم آپ کی خدمت کرتے ہیں ،ہمیں کس شے کا غم ہو سکتا ہے - یہ قمیض جس روز پھٹ جائے گی وہ کھونٹی پر سے تمھاری قمیض اتار لوں گا ، نئے تہہ بند کی ضرورت پڑی تو آپ کے بستر کی چادر سے ہی کام چلا لوں گا - جوتا نہ رہا تو آپ کے بوٹوں میں سے کوئی جوڑا اچک لوں گا ، چوہدری جی ہم تو سادھوں لوگ ہیں ، ہم سے تکلف نہیں ہو سکتا - ‘‘ میں یہ وعظ استغنا سن رہا تھا اور میرا تبسم میرے ہونٹوں پر بسمل تھا ، دل تحسین شکار میں یہ مصرع محو رقص تھا - ؎ ’’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا ‘‘ واضح رہے کہ مزاح نگار کا مقصد محض ہنسی کو تحریک دینا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کامیاب حربے سے زندگی کی یکسانیت کو توڑتا اور اکثر اوقات معاشرتی مصائب کو بانداز دگر پیش کر دیتا ہے اور یوں بالواسطہ طور پر ان مصائب کی اصلاح کی ترغیب بھی دیتا ہے - میرزا منور کے مزاح میں اصلاح کا یہ پہلو بے حد نمایاں ہے - چنانچہ ان کے مضمون ’’مجلس ترقی تنقید‘‘ کا دائرہ اگر ملکی اور سماجی حالات پر پھیلا دیا جائے تو آپ اس میں بآسانی وطن عزیز کے موجودہ حالات و کوائف کا مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں اور بعض اوقات تو یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ میرزا منور کا روئے سخن وطن عزیزاور ابنائے پاکستان کی طرف ہی ہے - چنانچہ ان کے ہاں تاسف کی کیفیت بھی موجود ہے ، قدرے ندامت کا عنصر بھی نمایاں ہے اور یہ احساس فراواں بھی کہ اگر صورت حالات یوں ہی رہی تو ’’ تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ‘‘ اس کاوش میں بلاشبہ میرزا منور نے ناگفتنی کو اپنی شرافت مزاح سے گفتنی بنا دیا ہے- تاہم طنز کی وہ ہلکی سی لہر جو ایسے مقامات پر فی البدیہہ پیدا ہوتی ہے میرزا صاحب کے ہموار لہجے میں بھی نمایاں نظر آتی ہے - خوبی کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس طنز کو چھپایا نہیں - بلکہ چھوٹے چھوٹے عرفانی جملوں سے گرم لوہے پر چوٹ لگانے کی کوشش کی ہے- مثال کے طور پر ان کے چند دلچسپ جملے ملاحظہ ہوں- ’’ آداب مجلس کی پابندی سے روح تنقید پر اوس سی پڑ جاتی ہے ‘‘ ’’ آج کی زندگی نئی زندگی ہے اور وہ ترقی پذیر ہے اس اعتبار سے انسانیت سے بلند اور رفیع ہو چکی ہے ‘‘- ’’ بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور موضوع بے چارہ یتیم و بے نوا ہو کر رہ جاتا ہے‘‘- ’’ سفر کی منزلیں مسافر کو متاثر کرتی ہیں ، بعض مسافر بھی منزلوں کو متاثر کر جاتے ہیں- تاہم میں وہ مسافر نہیں ہوں جس نے منزلوں کو متاثر کیا ہو، ہاں منزلوں نے مجھ پر ضرور اپنے اثرات مرتسم کیے ہیں - انتقاماً میں نے کہیں نشان نہیں چھوڑے ‘‘ - ’’ ہمارے ملک کی آب و ہوا میں دو فصلیں خوب ہوتی ہیں - ایک آقا و دوسری نوکر ‘‘ مجھے احساس ہے کہ میں میرزا محمد منور کے مزاح کے چند زاویوں کو ہی اس مضمون میں--- پیش کر سکا ہوں ، انھوں نے صورت واقعہ اور تحریف معنوی سے بھی فائدہ اٹھایا ان کے ہاں لفظ سے رعایت پیدا کرنے کا شائستہ سلیقہ بھی موجود ہے - انھوں نے ہنگامی واقعات کو موضوع بنانے کے بجائے ایسے واقعات کا تذکرہ زیادہ کیا ہے جن کی حیثیت دائمی ہے اور جن سے انسانی فطرت کا کوئی خاص پہلو نمایاں ہو جاتا ہے یہ سب میرزا محمد منور کے مزاح کے روشن زاویے ہیں ، انھوں نے پطرس بخاری کی طرح خالص مزاح کی ایک مختصر اور شائستہ سی کتاب لکھی ہے - یہ کتاب گورنمنٹ کالج لاہور میں پروان چڑھنے والے انداز پطرس کو مزید بلند کرتی ہے - مشکور حسین یاد کے اسلوب میں پطرس کی نفی نہیں کرتی - اس کتاب میں پڑھے جانے اور اپنے گریباں میں جھانک کر فطری مسکراہٹ پیدا کرنے کی عمدہ صلاحیت ہے - تاہم حیرت ہے کہ میرزا محمد منور کے اظہار کی اس جہت پر تاحال خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ، شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میرزا صاحب ترقی پسند ادباء کی طرح کسی انجمن ستائش باہمی کے رکن نہیں اور جب کچھ لکھتے ہیں تو ان کا نظریہ صرف یہ ہوتا ہے کہ : ’’ صلہ ادیب کیا ہے تب و تاب جاودانہ ‘‘ پروفیسر محمد منوّر -- ایک مرد حق آگاہ صلاح الدین ایوبی پروفیسر محمد منور کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے کہ ان کی زندگی کے کس پہلو کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے - بہ فیض شعلہ ٔ حب نبی منور ہے میں اس کی ذات میں کیا وسعتیں شمار کروں خیال و فکر کی فقر و غنا سے زیبائش میں اس کے سحر سے نکلوںتو آشکار کروں خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے حصے کا کام نمٹا کر اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں و گرنہ بالعموم انہی لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے جو محض اپنے حقوق بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کے حصول کی دیوانہ وار جدو جہد میں مصروف کار رہتے ہیں پروفیسر محمد منور ان عالی حاصلہ افراد امت میں سے تھے جو اپنے فرائض ملی سے بخوبی آگاہ تھے - آپ کی تقاریر اور مضامین کا ایک پسندیدہ موضوع تھا --- الامانت سے الامین تک --- وہی امانت ، حق گوئی اور راست روی کا وہی فریضہ جو یوم ازل انسانیت کے ذمے لگا دیا گیا اور جس کے آئین کی تکمیل خاتم النبین علیہ الصلوۃ والتسلیم کے ذریعے ہوئی - پروفیسر منور آج کے دور میں اس امانت کے امین اور علم بردار تھے اور اپنی پوری زندگی کے ہر ایک لمحے میں وہ اس فرض کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہے - جب فلسفے نے ہمیں علم کے نئے زاویوں سے روشناس کیا اور تشکیک کو پروان چڑھایا تو اپنے اردگرد کے علماء سے بد گمانیوں کی لہر نے جنم لیا - میرے ایک بزرگ نے مجھ سے دریافت کیا --- فلاں مولانا صاحب سے بیزار دکھائی دیتے ہو ، اب کیا کسی اور کو آئیڈیل جان لیا ہے ؟ عرض گزار ہوا کہ حضرت شبلی نعمانی کی ہمہ گیر شخصیت علمی وقار کا اعلیٰ نمونہ ہے - یہ خبر نہ تھی کہ میرے ساتھ کے ڈیسک پر بیٹھ کر ایم اے فلسفہ کا امتحان دینے والا ، عہد شباب کی رعنائیوں کا مرقع یہ بزرگ شبلی ء زمانہ ہے - یہ ۱۹۶۷ء کی بات ہے ، اس وقت وہ میرے لیے اجنبی تھے ، پروفیسر محمد منور سے میرا ربط و ضبط سات برس بعد شروع ہوا - حضرات ! آپ میں سے اکثر لوگوں کو یہ علم ہو گا کہ پروفیسر محمد منور نے دور جدید کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے کس قدر وسیع پیمانے پر علم کے حصول کی جدوجہد کی - کئی علوم کا سکالر ، کئی زبانوں کا ماہر ، قادر الکلام شاعر ، مقرر اور ادیب ہونا ان کے لیے محض ایک اعزاز نہ تھا ، یہ تو ذریعہ تھا کفر و ظلمت کے اس کاروبار مکر کو سمجھنے کا جو دین کی تفہیم اور ترویج کی مساعی میں ایک بارگراں بن جاتا ہے - آج کے اس سائنٹفک دور کے نوجوان کا فلسفہ و فکر کے جن عالمی سرچشموں International Resourses تک رسائی حاصل ہے ، جب تک کوئی مفکر اسلام خود بھی ان تمام علوم سے کماحقہ واقف نہ ہو ، الحاد اور بے دینی کے دھارے کو روک لینا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا - مجھے ادب اور فلسفہ کی تعلیم دینے والے متعدد اساتذہ سے استفادے کے بیشمار مواقع ملتے رہے - حضرت علامہ اقبال علیہ رحمتہ کے افکار کی لاتعداد شرحیں پڑھنے کو ملتی رہیں- اس کے باوجود ایک تشنگی تھی کہ ہمیشہ برقرار رہی - نہ صرف یہ بلکہ اکثر اوقات یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اقبال عالی شان ، وہ حقیقت کا ترجمان ، وہ شارح قرآن جس کے ہم معترف ہیں ، ان سبھی منطقی اور من تکی تحریروں اور تقریروں میں دھند لا سا گیا ہے - یہ عقدہ پروفیسر محمد منور کی سادہ و دلفریب ، یک سو ، یک جہت تحریروں کو پڑھنے اور ان کی تقریریں سننے کے بعد حل ہوا کہ ابلاغ کی وہ تمام تر کوتاہیاں در حقیقت فکر اقبال کے سبھی سوتوں تک نارسائی کا شاخسانہ ہیں - علامہ اقبال کا منبع علم مولوی میر حسن سے لے کر یورپ کے اعلیٰ ترین اذہان تھے اور ان کا منبع علم تھے قرآن حکیم اور سنت رسول کریم علیہ و علی اصحابہ الصلوۃ والتسلیم ! اب اگر حضرت علامہ کے دور سے لے کر آج تک کے شارحین اقبال کا جائزہ لیں تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی صاحب اردو ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ فارسی اور عربی سے نابلد ہیں - اگر انگریزی میں مہارت تامہ حاصل ہے تو تاریخ اور جغرافیے سے کوئی دلچسپی نہیں ، اگر فلسفے سے آشنا ہیں تو سائنسی تحقیقات سے گریز پا ، اگر مطالعے کی وسعت قدرے میسر آہی گئی ہے تو شعر سے دلچسپی معدوم ہے - اگر اقبال کے عاشق صادق ہیں تو قرآن وحدیث سے پہلو تہی پر مصر ہیں - ہمارے اردگرد Secular دانشوروں کا ایک ایسا متحرک اور فعال گروہ موجود ہے جس نے فکر اقبال پر بھی قبضہ کر رکھا ہے - الحمدللہ پروفیسر محمدمنور ایک راست فکر Intellectual تھے - قرآن پاک میں دین کے بارے میں انذار یعنی اللہ کی جانب بلانے اور دعوت حق کے لیے فلیتفقھوا فی الدین- اسلام کی مکمل سوجھ بوجھ حاصل کر لینے کی جو کڑی شرط عائد کی گئی ہے ’ الحمدللہ ‘ پروفیسر محمد منور نے اپنے علم و فضل اور حکمت و بصیرت سے ان منازل کو چھو لیا تھا- میں یہ بات ایک عرصے کی نیاز مندی کے دوران میں پروفیسر محمد منور کے علمی افق کی وسعتوں کو دیکھتے ہوئے پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ علمی اور ادبی میدان میں ایسی ہمہ گیر شخصیت پروفیسر محمد منورہی کی تھی - وہ عربی فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر تھے - ان تین زبانوں کے علاوہ انگریزی میں بھی بلا جھجک بولتے اور بے تکان لکھتے تھے - ان سبھی زبانوں کی لغت کے ماہر تھے - وہ سنجیدہ اور فکاہی ادب کے یکساں شنادر تھے - قرآن حکیم اور کتب احادیث کے رمز آشنا تھے - تاریخ عالم اور تاریخ اسلام کے واقعات اور سنین تک ان کے ذہن میں انسائیکلوپیڈیا کی طرح محفوظ رہتے تھے - تحریک پاکستان اور قائدین تحریک کے احوال و افکار پر اتھارٹی تھے - فلسفہ و کلام منطق اور نفسیات الٰہیات و مابعد الطبیعیات روحانی اور آفاقی ، طبیعیاتی اور کائناتی علوم سبھی پر حاوی تھے - وہ ایک خطیب بے بدل تھے اور نکتہ فہم، نکتہ رس مجلسی شخصیت تھے - پروفیسر محمد منور محض حجرہ نشین عالم متبحر نہ تھے ، جہاں تک بس چلا آپ نے اپنے کسی وہبی علم کو نوجوانوں تک پھیلانے کے لیے مقدور بھر کوششیں کیں - قرآن حکیم کا ارشاد ہے : الیہ یصعد الکلم الطیب و العمل الصالح یرفعہ ( ۱۰؍۳۵) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ، نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے منور و تاباں گوشوں کی رونمائی ، توحید و معاد کے تذکرے اور افکار واذکار --- بالآخر اللہ ہی کی جانب صعود حاصل کرتے ہیں تاہم قبول حق کی ایک لازمی شرط ، ایک Prerequisite بھی بیان کر دیا گیا کہ یہ کسی شخص کا عمل صالح ہی ہے جوان کلمات طیبات کو اللہ کی بار گاہ میں پہنچانے کے لیے بلندیاں عطا کر سکتا ہے - پروفیسر محمد منور قرآن کی دعوت کو لے کر ملک اور بیرون ملک ہر جگہ گئے - اپنے علم کو منجمد اور متحجر --- محض کاغذی و کتابی نہیں رکھا ، اسے عمل کے لیے متحرک کرنے والا بنا کر دکھا دیا - اپنے علم کی روشنی کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے انہیں جب بھی اور جہاں بھی جانا پڑا وہ ضرور گئے - بالخصوص ہماری مسلح افواج کے پر عزم افسروں اور باہمت جوانوں کو نظریہ پاکستان پر راسخ کرنے کے لیے آپ نے درجنوں لیکچر دئیے اور ان میں ہزاروں کتب اور پمفلٹ تقسیم کیے - علامہ اقبال وہ نابغہ ٔ روزگار ہستی ہیں کہ ان کے ارادت مند انہیں طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں - کوئی انہیں ترجمان حقیقت کہتا ہے ، کوئی شاعر مشرق ، کوئی مفکر اسلام کہتا ہے تو کوئی شارح قرآن - تاہم ہر طرح کے القابات دے چکنے کے باوجود یوں لگتا ہے کہ بات ادھوری رہ گئی - کچھ یہی معاملہ پروفیسر محمد منور مرحوم کا ہے - ہم جیسے لوگ جنہیں بعض ناواقف احوال لوگ محض اندھا عقیدتمند کہیں گے ، انہیں مرد قلندر بھی کہتے ہیں اور مرد درویش بھی - انہیں صاحب ایقان بھی کہا گیا ہے اور سفیر اقبال بھی - تاہم ان کی راست روی اور راست بازی کے حوالے سے یہ کہنا موزوں تر ہوگا کہ وہ ایک مرد حق آگاہ تھے - یہ دنیا ڈھل مل یقین اندیشہ و تشکیک سے بھرے افراد سے اٹی پڑی ہے اور اس کی وجہ عیاں ہے کہ مطلوب وطالب ، صادق و صدیق تو کب کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے - اب ان کی صفات کاملہ کی محض ایک جھلک رکھنے والے بھی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں - جب کبھی کوئی مرد حق آگاہ اپنے نعرہ مستانہ سے اس کار راز حیات کو گرما دیتا ہے تو کچھ عرصے کے لیے ہی سہی ، نورونکہت کے جلو میں عطر بیز ہوائیں مشام جاں کو معطر کرنے لگ جاتی ہیں - اس ہجوم مومنین و مومنات کو ایک سچا قائد ، ایک مرد امین مل جائے تو وہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی سرحدیں اجاگر کر سکتے ہیں - ان کج مج یقین افراد ملت کو کوئی مرد حق میسر آجائے تو وہ کسی سپر پاور کے اجزاء بکھیر کر رکھ دیں - اور اگر ایک مرد حق آگاہ مل جائے تو اس کے نوجوانوں میں تذکرئہ قائد و اقبال زندئہ جاوید ہو جاتا ہے، ان کے اذہان میں نظریۂ پاکستان راسخ ہو جاتا ہے، وہ اپنی خودی کو ، اپنے آپ کو شناخت کرلیتے ہیں اور اپنے دشمن کو بھی - پروفیسر صاحب کی الفاظ ہیں : Iqbal's message in short: "KNOW THY SELF" and in short Quaid's message is: "KNOW THY ENEMY" آگاہی وہی مطلوب ہے کہ جب انسان حقیقت حق سے آگاہ ہو اور حق آ گاہ ہونے کا مطلب ہے کہ جزو کوہی نہ پکڑ لے بلکہ کل سے وابستہ ہو جائے - بات بالکل سیدھی اور صاف ہے - دوقومی نظریے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ماننے والے اوردو باتیں یا کروڑوں بتوں کے پجاری الگ الگ قومیں ہیں - ان کے درمیان کوئی اشتراک عمل نہیں ہو سکتا - اس کامفہوم یہ بھی ہے کہ تین خدائوں کے ماننے والوں سے آزادی حاصل کر کے سینکڑوں خدائوں کے پجاریوں کو اپنے سر پر مسلط کر دینا دانشمندی نہیں بلکہ حماقت ہے - تمام باتیں اسی ایک حقیقت کی جانب ہماری رہنمائی کرتی ہیں جسے توحیدی نقطۂ نظر کہتے ہیں - پروفیسر محمد منور مکمل توحید پر کامل ایمان و یقین رکھتے تھے - مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم نے پروفیسر صاحب کی کتاب ایقان اقبال پڑھتے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ آج کے بعد میں آپ کو ’’ صاحب ایقان ‘‘ کے نام سے پکاروں گا---- یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ آگے بڑھنے کی جدوجہد کرنے والے پروفیسر محمد منور کی ذات میں ایمان - ایقان - اور ایقان جنوں بڑھتا چلا گیا - بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں ! پروفیسر محمد منور جب بہ یک وقت دو قومی نظریے کے نقیب ، حضرت قائد اعظم کے ترجمان اور علامہ اقبال کے سفیر بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں تو درحقیقت وہ توحید کے داعی اور علمبردار ہیں - پروفیسر صاحب نے رات کی تنہائیوں میں اپنے رب واحد سے جو تعلق خاطر قائم کئے رکھا ، اس کی بدولت ان کی ذات میں موجود -- نقطہ نورے کہ نام اوخودی است -- اسی نقطہ ء نور کی پرورش ہوتی رہی - انھوں نے اپنی خودی کو پروان چڑھایا اور نقطہ نور کو نور ازل سے اس طرح ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ اب خود ان کی ذات ہم سب کے لیے مینار نور ہے - پروفیسر صاحب نے یہ فضیلت ایک روز میں حاصل نہیں کی - مجھے اس بات کا پورے وثوق کے ساتھ علم ہے کہ ان کے یہ علمی مراتب ان کی سحر خیزیوں کی برکات ہیں - پروفیسر محمد منور نے جو علم حاصل کیا وہ بھی قابل قدر تھا اور پھر اس علم کے ذریعے تبلیغ کا جوانداز اپنایا وہ بھی مثالی -- قرآن حکیم کا ارشاد ہے : ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنہ (۱۲۵؍۱۶) اپنے رب کے راستے کی جانب لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعے بلائو - پروفیسر محمد منور دوسروں سے جھگڑنے اور لوگوں پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے نہایت مثبت انداز میں اپنا کام کرتے چلے گئے - آپ کی طبیعت میں شگفتگی تھی اور آپ ہر آنے والے کا استقبال نہایت خندہ پیشانی سے کرتے - آپ کو اور آپ کے ہم نشین مولانا ابوبکر غزنوی مرحوم کو بھی متکبر اور منقبض طبیعت والے بر خود غلط اہل علم سے سخت چڑ تھی - خود پروفیسر صاحب اکثر یہ شگوفہ چھوڑتے کہ ایک صاحب جبہ و دستار پہنے جا رہے تھے - کسی نے پوچھا مولوی صاحب کچھ پڑھے لکھے بھی ہو -- مولوی جی نے تنک کر جواب دیا--- ’’ پڑھے لکھے نئیں تے ایویں ای سڑے بلے پھر دے آں ‘‘ ہمیں کسی کی دل آزاری مقصود نہیں بتانا صرف یہ ہے کہ ایک معلم گو سفنداں ، ایک بوریا نشین فقیر ، ایک معمولی حیثیت کا استاد-- محض اپنی منکسر المزاجی خوش گفتاری اور عوام و خواص سے یکساں چاہت کے ساتھ ملتے رہنے کی بے پناہ خوبیوں کے باعث قبول عام کی سند حاصل کرتا چلا گیا اور ہمیں یقین ہے کہ بارگاہ رب العزت میں بھی وہ شاداں و فرحاں سرفراز و کامران ہو کر گیا ہے - ہم جیسے متعدد ہیچ میدان ،کج مج زبان طالب علموں کا یہ حال ہے کہ ذرا سی بات پلے پڑ گئی ، کوئی شعر موزوں ہو گیا ، کوئی پیراگراف قلمبند کر لیا تو اپنے جامے میںنہیں رہتے، میرے مولا! یہ کیسا شخص ہے جو علم کا بحر ذخار ہے ، ادب و شعر کا آسمان ہے ، فکر کا سائبان ہے لیکن ایسا منکسر المزاج ، ایسا دل موہ لینے والا ! نہ طرہ فرازوں اور جبہ طرازوں کی سی اکڑ ہے نہ علم جدید پر عبور رکھنے کا دعویٰ کرنے والے صاحب بہادروں کا سا کروفر--- عالمانہ وقار ہے ، اویبانہ طرز اظہارہے اور ہر پست و بالا سے ہر پیرو جواں سے خاکسارانہ نیاز مندی کے رویے ! پروفیسر محمد منور کی خدمت میں حاضری دینے والوں میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے، ہر مرتبہ و اہلیت کے لوگ ان سے ملتے اور ان کی بزم سے بہت کچھ لے کر جاتے - پروفیسر صاحب اتنے بڑے علمی و ادبی وقار کی حامل کتابیں اپنے پیچھے چھوڑکر گئے ہیں جنہیں بجا طور پر Mother Books امہات کتب کہا جا سکتا ہے - بہت سے محققین ان کی زندگی میں ہی درپردہ ان کے خوشہ چین تھے اور آئندہ بھی ماشاء اللہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا - ایسی خبریں انہیں بے مزا نہیں کرتی تھیں - فرماتے تھے الحمدللہ کسی نہ کسی طور اسلام کا پیغام ، قرآن حکیم اور علامہ اقبال علیہ الرحمتہ کا پیغام میرے ذریعے لوگوں تک پہنچ رہا ہے اور پہنچتا رہے گا - یہ نہایت اطمینان بخش بات ہے - میں نے اپنی آنکھوں سے وہ مناظر دیکھے ہیں جب پروفیسر محمد منور کی خدمت میں سکالر اور دانشور جید علماء اور سجادہ نشین حاضر ہوتے - ہمیں رشک آتا ہے کہ اس شخص پر جس نے اپنی وضع قطع کو عوام سے جداگانہ بنا کر اپنے آپ کو ممتاز کرنے کی کوئی کوشش نہ کی - بلکہ علم کو قرآن سے ہم آہنگ اور اپنے اخلاق کو ائمہ دین کی شان کا پرتو بنانے کی کوشش کرتا رہا - وہ ایک ایسے عالم دین بھی تھے جو جبہ و دستار سے بے نیاز تھا - پروفیسر محمد منور کی اپنی شخصیت، ان کی اپنی خودی بھی ایک تھی اور وہ ایک الہ واحد کی جانب ہی مخلوق خدا کو بلاتے رہے - اپنے اس پیغام کو انہوں نے اپنے اخلاق کی خوبیوں سے نمایاں تر کر دیا - بعض شارحین اقبال نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ ایک نئے علم کلام کے موجد تھے - جب پروفیسر محمد منور کے حضور اس خاکسار نے اس رائے کی تردید کرتے ہوئے یہ کہا کہ میری نظر میں تو علامہ اقبال کو بالآخر کسی فلسفہ و منطق اور علم کلام سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی اور وہ خالصتہً رجوع الی القرآن کے داعی ہو کر رہ گئے تھے ، تو پروفیسر منور صاحب نے میری اس رائے سے سوفیصد اتفاق کیا - علامہ اقبال نے قرآن حکیم کے بارے میں فرمایا ہے : ما ہمہ خاک و دل آگاہ اوست اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست قرآن حکیم یعنی حبل اللہ المتین سے رابطہ استوار کر لینا ہی اپنے آپ کو زمین کی گرفت سے بلند کر کے اعلیٰ علیین تک لے جانے کا ذریعہ بن سکتا ہے - اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک کے حوالہ سے فرمایا ہے : ولو شئنا لرفعنہ بھاولکنہ اخلدالی الارض (۱۷۶؍۷) جو شخص قرآن پاک کی آیات کا منکر ہے گویا وہ معراج انسانی کی منزل کا راہی نہیں بننا چاہتا - وہ تو بس زمین سے چپکتا چلا جاتا ہے ، حیوانی سطح سے اوپر اٹھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا - قرآن حکیم کا یہ پیغام ہم نے پروفیسر محمدمنور کی زبان حق ترجمان سے بییسوں بار سنا اور ہر بار ایک نئی لذت سے روشناس ہوئے- ایک عرصہ ہوا ، چند نفسیاتی اور طبیعیاتی حقائق کو میں نے شعر کے قالب میں ڈھالا تھا- یہ خبر نہیں تھی کہ اب جب تک سانسیں باقی ہیں یہی کیفیات ہمارا مقدر بنی رہیں گی: چشم حیرت ہے اور دل ویراں آدمی وحشتوں کا صحرا ہے دل پہ قدغن ہے جوئے خوں میں رہے آنکھ پر آنسوئوں کا پہرا ہے محمد منّور------ چند یادیں بشیر حسین برلاس ۱۹۴۹ء کا زمانہ تھا کہ میں محکمہ انہار کے کیرانہ ڈویژن سرگودھا کے ایک سیکشن روڈیانوالہ میں سب انجینئر تعینات ہوا - ہمارے افسر سب ڈویژن کا دفتر لالو والی بنگلہ پر تھا- میں معمول کے مطابق اپنے فیلڈ ورک سے فارغ ہو کر دوپہر کو گھر پہنچا تو میرے خلاصی نے بتایا کہ ایک دیہاتی یہ بتانے آیا تھا کہ نئے ضلعدار صاحب آ گئے ہیں اور وہ پٹواریوں کے کام کی پڑتال کر رہے ہیں - شام کو آپ کے پاس پہنچیں گے - میں نے اپنے خلاصی کو ہدایت کی کہ ان کے لیے بھی شام کا کھانا تیار کر لینا - روڈیانوالہ بنگلہ پر بجلی نہ تھی بلکہ محکمہ انہار کے اکثر بنگلے بجلی کی سہولت کے بغیر تھے - ہمارا معمول تھا کہ سورج غروب ہونے پر نماز پڑھی اور کھانا کھا لیا - لکھنے پڑھنے کا کوئی کام کرنا ہوتا تو مٹی کے تیل کا لیمپ جلا کر کرتے- ہم مغرب کے بعد انتظار کرتے رہے - کچھ دیر کے بعد نئے ضلعدار صاحب تشریف لائے - یہ نئے ضلعدار مرزا محمد منور تھے جو شلوار قمیض کے ساتھ سرگودھا فیشن کی خوبصورت اچکن پہنے ہوئے تھے- سر پر طرے دار پگڑی - جسمانی لحاظ سے دبلے پتلے مگر با رعب شخصیت کے مالک تھے - گفتگو میں بھی سلیقہ تھا - تعارفی گفتگو کے بعد میں نے کھانے کے لیے کہا تو کہنے لگے کہ میں تو سرگودھے جا رہا ہوں - کھانا گھر جا کر کھائوں گا - سرگودھا کے ڈویژنل آفس میں کچھ سرکاری کام ہے - چند روز میں وہ نپٹا کر میں یہاں آئوں گا - روڈیانوالہ بنگلہ کو یہ سہولت حاصل تھی کہ تھوڑے فاصلے پر ہنڈے والی ریلوے سٹیشن تھا جہاں سے سرگودھے کے لیے گاڑی مل جاتی تھی - قریب ہی سے سڑک گذرتی تھی جہاں سے سرگودھے کے لیے بس بھی آسانی سے مل جاتی تھی اور سرگودھا کوئی آدھے گھنٹے کا سفر تھا - محکمہ انہار کے بنگلوں پر جو عمارتیں ہوتی ہیں وہ سب انجینئر کی نگرانی میں ہوتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کا کام بھی ان کو کرانا ہوتا ہے - میں نے مرزا صاحب سے کہا کہ آپ اپنا مکان دیکھ لیں تاکہ کوئی مرمت طلب چیز ہو تو میں کروا دوں گا- کہنے لگے آپ خود ہی دیکھ لیں - میں نے اکیلے ہی رہنا ہے - یہ پہلی ملاقات مختصر سی تھی اور وہ سرگودھے روانہ ہو گئے - چند روز کے بعد مرزا صاحب آ کر اپنے مکان میں جاگزیں ہوئے - عام سامان تو مختصر تھا البتہ کتابیں زیادہ تھیں جو ان کے طلب علم کے شوق کا پتہ دیتی تھیں - مرزا صاحب اکیلے رہتے تھے - میں بھی اکیلا تھا لہذا پچھلے پہر روزانہ ہی ملاقات رہتی - مرزا صاحب کا مکان ہر وقت کھلا رہتا تھا - رات کو سونے کے وقت پر ان کا خلاصی اندر سے بند کر لیتا ہو گا - میں نے مرزا صاحب کو جب بھی دیکھا مطالعہ کرتے دیکھا - نیند ان کو کم آتی تھی اور نیند کچی بھی تھی - ذرا سی آہٹ پر نیند سے بیدار ہو جاتے تھے - رات کو لیمپ ان کے سرہانے پڑا رہتا - اسے جلاتے اور کتاب اٹھا کر پڑھنے لگتے - میں نے ایک دفعہ کہا کہ مرزا صاحب مطالعے کے علاوہ کچھ جسمانی ورزش بھی کر لیا کریں تاکہ دماغ کے علاوہ جسم کو بھی کچھ طاقت ملے تو ہنس کر کہنے لگے کہ ورزش کے لیے بھی تو طاقت کی ضرورت ہوتی ہے - جسمانی لحاظ سے بیشک دبلے پتلے تھے لیکن وہ کم ہمت- کمزور قطعاً نہ تھے بلکہ بڑے سخت جان تھے - کچھ ضلعداروں کا معمول تھا کہ گھر بیٹھے پٹواریوں کے پڑتال کے کاغذات پر دستخط کرتے تھے لیکن مرزا صاحب گرمی ، سردی ، دھوپ میں فیلڈ میں جا کر کام کرتے تھے - دوپہر کا کھانا گھر آ کر کھاتے - کسی زمیندار کے ڈیرے پر کھانا نہ کھاتے تھے حالانکہ بڑے زمینداروں کے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ سرکاری اہلکار ان کے ڈیرے پر آئیں اور کھانا کھائیں - ان کے اپنے مکان پر کوئی شخص کسی بھی کام سے آتا تو وہ چائے پانی سے ضرور تواضع کرتے - مرزا صاحب بڑے اچھے گھڑسوار تھے - ایک دن گرمیوں کی دوپہر کو فیلڈ کا کام نپٹا کر واپس گھر آ رہے تھے - راستے میں ایک راجباہ پڑتا تھا - اگر راجباہ کو عبور کر لیا جائے تو دوسرے کنارے پر ان کا گھر تھا اور اگر گھوم پھر کر آیا جائے تو فاصلہ زیادہ تھا - مرزا صاحب گھوڑی کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے لائے- راجباہ کے قریب آ کر گھوڑی کو ایڑی لگائی اور اسے چھلانگ لگوا کر راجباہ پار کر لیا - شام کو انہوں نے مجھے اپنی یہ کارستانی سنائی تو میں نے از راہ مذاق کہا کہ آپ کی بہادری میں تو کوئی شک نہیں لیکن اگر گھوڑی کا پائوں پھسل جاتا تو گھوڑی اور اس کا سوار دونوں راجباہ میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے - ہمارے سب ڈویژن کا دفتر لالو والی بنگلہ پر تھا - کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ہم دونوں کو اپنی تنخواہ لینے کے لیے لالو والی بنگلے جانا پڑتا - یہ بنگلہ ہماری جائے رہائش سے بیس میل کے فاصلہ پر تھا - یہ سفر ہم سائیکلوں پر کرتے اور جانا آنا چالیس میل بنتا - ایک دفعہ تنخواہ لینے کے لیے ہم دونوں سائیکلوں پر گھر سے روانہ ہوئے - چند ہی میل گئے کہ مرزا صاحب کی سائیکل پنکچر ہو گئی - ہمارے پاس نہ پنکچر کا سامان اور نہ اردگرد کوئی دوکان جہاں سے پنکچر لگوا لیتے - مرزا صاحب کہنے لگے کہ میں سائیکل چلاتا ہوں تم پنکچر سائیکل کو پکڑ کر پیچھے بیٹھ جائو - میں نے بتایا کہ مجھے ایسا کوئی تجربہ نہیں اور مجھ سے یہ نہیں ہو سکے گا - پھر میں نے سائیکل چلائی اور مرزا صاحب نے سائیکل کے کیریئر پر بیٹھ کر پنکچر سائیکل کو سنبھالے رکھا - کئی میل تک ہم نے یونہی سفر کیا - قسمت اچھی تھی کہ راستے میں محکمہ انہار کا ایک ڈاکیہ مل گیا- وہ سائیکل پر تھا اور اس کے پاس سائیکل کو پنکچر لگانے کا سامان بھی تھا - اس نے ہماری مشکل حل کر دی اور یوں ہم نے باقی سفر اپنے اپنے سائیکلوں پر طے کیا - اس زمانے میں سب انجینئر اور ضلعدار کی تنخواہ ۹۰ روپے ماہوار تھی - مختلف الائونس ڈال کر تھوڑی سی زیادہ بن جاتی تھی - تنخواہ تو معقول ہی تھی اور اخراجات بھی زیادہ نہ تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم دونوں پر دیگر گھریلو ذمہ داریاں بھی کچھ کم نہ تھیں - ہم لوگ بڑی کفایت سے خرچ کرتے تھے - مرزا صاحب دیانتدار تھے لیکن اپنی دیانتداری کا وقت بے وقت ڈھنڈورا نہیں پیٹتے رہتے تھے - وہ عمل میں یقین رکھتے تھے - ان کے پاس جو بیٹھتا تھا وہ ان کے عمل سے متاثر ہوتا تھا اور ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا - چوہدری شہاب الدین نام کے ایک متوسط زمیندار تھے - میرے ان سے بڑے اچھے مراسم تھے - ایک دن وہ میرے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ آپ کے مرزا صاحب سے کیسے تعلقات ہیں - میں نے بتایا کہ بہت اچھے - کہنے لگے کہ میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ آپ ان سے ہماری سفارش کریں- قصہ یہ تھا کہ بنگلہ روڈیانوالہ پر ہم دونوں کی تعیناتی سے کافی عرصہ پہلے علاقے کو سیراب کرنے والی نہر ٹوٹ گئی تھی - اس شگاف کو بند کرنے میں گائوں کے لوگوں نے بھرپور مدد کی - بعد میں اس وقت کے سب انجینئر اور ضلعدار نے اپنے کارندوں کے ذریعے ان سے کچھ رقم کا مطالبہ کیا جسے پورا کرنے سے گائوں والوں نے انکار کر دیا - اس پر ان دونوں نے یہ رپورٹ بنائی کہ گائوں والوں نے اپنی زمینوں کی ناجائز آبپاشی کے لیے مذکورہ نہر کو خود کاٹا جو جرم تھا - گائوں والوں کو اب پتہ چلا کہ محکمہ نے ان پر تیس ہزار روپے تاوان کی رقم ڈال دی ہے - چوہدری شہاب الدین چاہتے تھے کہ اگر ان کو اس بڑی رقم کی ادائیگی سے بچا دیا جائے تو وہ دس ہزار روپے اس کام کے لیے پیش کرنے کو تیار ہیں - میں نے ان کو بتایا کہ مرزا صاحب تو ایسا کام ہرگز نہ کریں گے - ان کا اصرار تھا کہ میں مرزا صاحب سے بات تو کروں- میں نے سارا معاملہ مرزا صاحب کے گوش گزار کر دیا - کہنے لگے کہ اگر وہ سچے ہیں اور مظلوم ہیں تو ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے - مختصر یہ کہ انہوں نے بڑی کاوش کے بعد ڈویژنل آفس سے فائل منگوائی جو کاروائی کے اپنے آخری مراحل میں تھی - ہم دونوں وہ جگہ دیکھنے گئے جہاں سے نہر ٹوٹی تھی تو پتہ چلا کہ جس طرف سے نہر ٹوٹی تھی وہاں تو چوہوں نے بیشمار بل بنا رکھے تھے - زیادہ امکان یہی تھا کہ کسی وقت نہر کا پانی ان بلوں میں داخل ہو گیا ہو جو نہر کے ٹوٹنے کا سبب بنا ہو - اپنے طور پر پرانے ملازموں اور دیگر افراد سے بھی معلوم کیا - جب یہ یقین ہو گیا کہ گائوں کے لوگ بے قصور ہیں تو مرزا صاحب نے پہلی رپورٹ کی پشت پر اپنی رپورٹ لکھ دی اور چوہدری شہاب الدین کو تاکید کر دی کہ اگر محکمہ انہار تاوان کے سلسلہ میں پریشان کرے تو گائوں والے اس معاملہ کو سول عدالت میں لے جائیں - یہ نئی رپورٹ ان کو بے قصور ثابت کرنے میں بہت مدد دے گی - اس ساری کاروائی پر چوہدری شہاب الدین اور گائوں کے لوگوں کا ایک پیسہ بھی خرچ نہ ہوا - اگرچہ ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا اس کیس کا انجام کیا ہوا کیونکہ تھوڑے عرصہ بعد ہی مرزا صاحب وہاں سے تبدیل ہو گئے اور میں بھی تبدیل ہو کر ایک دور دراز علاقے میں چلا گیا تاہم یہ یقینی بات ہے کہ جن سرکاری ملازمین نے محض اپنے لالچ کی خاطر گائوں کے لوگوں کو عذاب میں ڈال دیا تھا وہ عذاب ضرور ٹل گیا ہو گا - مرزا صاحب نے حصول رزق کے لیے کئی ایک جگہ کام کئے لیکن کوئی دل کو لگا نہیں- ضلعدار کا منصب بھی کوئی معمولی نہ تھا مگر وہ بھی پسند نہ آیا - ایم اے کرنے کے لیے اورئینٹل کالج میں آگئے - پھر گورنمنٹ کالج لائیلپور (موجودہ فیصل آباد) میں پروفیسر ہو گئے - پروفیسری ان کو شوق مطالعہ کی وجہ سے پسند تھی - مجھے معلوم تھا کہ مرزا صاحب قبل ازیں کئی ملازمتیں چھوڑ چکے تھے لہٰذا ایک ملاقات کے دوران میں نے پوچھا کہ اب پروفیسری کو کب چھوڑنے کا ارادہ ہے - کہنے لگے اب میں تو اس کو نہیں چھوڑوں گا - یہی مجھے چھوڑے گی - مذکورہ کالج کے پرنسپل پروفیسر کرامت حسین جعفری تھے جو فلسفہ کے استاد تھے اور مرزا صاحب کا ان سے کافی تعلق تھا - ممکن ہے یہ ان کی صحبت کا اثر ہو کہ مرزا صاحب نے فلسفہ میں ایم - اے کرنے کی ٹھان لی اور اس مضمون سے متعلق کتابیں جمع کرنی اور پڑھنی شروع کر دیں - کچھ عرصے بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب ایم - آر - کیانی صاحب کی خواہش پر محکمہ تعلیم پنجاب نے مرزا صاحب کو فیصل آباد سے گورنمنٹ کالج لاہور تبدیل کر دیا - یہاں کی مصروفیت کی وجہ سے چند سالوں کے لیے فلسفہ کی کتابیں ٹھپ ہو گئیں - مرزا صاحب اچانک مرض عرق النساء میں مبتلا ہو گئے - ٹانگ میں درد اتنا ہوتا کہ شدت درد سے ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا مگر زبان سے اف تک نہ کرتے تھے - معالج کی ہدایت پر علاج کے ساتھ سخت بستر پر لیٹنا ضروری ٹھہرا- یہ عرصہ کچھ طویل ہو گیا - اسی دوران مرزا صاحب دوبارہ فلسفہ کی کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے اور امتحان میں بیٹھنے کے لیے داخلہ جمع کرا دیا - ایم -اے کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے- مرزا صاحب میں ذاتی تکلیف کو برداشت کرنے کی ہمت بہت تھی - بیماری کے دوران وا ویلا نہیں کرتے تھے - خاموش رہتے تھے صرف چہرے سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ کرب کی حالت میں ہیں - اس بیماری نے مرزا صاحب کو ایم - اے کی ڈگری تو دلادی مگر ساتھ ہی ایک ٹانگ سے لنگڑا بھی کر دیا - ایک پائوں دبا کر چلنے لگے - زندگی کے آخری ایام میں بھی جبکہ وہ شدید تکلیف میں مبتلا تھے اور بیماریوں نے ہر طرف سے یلغار کر رکھی تھی ان کے منہ سے میں نے صرف اللہ اکبر کی آواز ہی سنی - انہوں نے اپنی بیماری کی شدت تکلیف کا ذکر نہ کیا - مرزا صاحب اپنے ملنے والوں کے دکھ سکھ میں شریک رہتے تھے - ضرورت مند کی حسب توفیق مدد بھی کرتے تھے - طلبا کی امداد کے لیے خصوصی طور پر کمربستہ رہتے تھے - ایک انجینئرنگ کے طالب علم تھے جن کی وہ ماہوار مالی امداد کرتے رہے اور اسے کہا کہ یہ قرض ہے جو تم نے برسر روزگار ہو کر ادا کرنا ہے - وہ نوجوان تعلیم مکمل کر کے برسر روز گار ہوا تو اس نے مرزا صاحب سے رابطہ کر کے قرض کی رقم ماہوار اقساط میں واپس کرنا چاہی- مرزا صاحب نے کہا کہ یہ درست ہے کہ وہ رقم تم پر قرض تھی - اس قرض کو اتارنے کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے میں نے تمہاری مشکل میں مدد کی اسی طرح تم بھی کسی ضرورت مند کی مشکل میں مدد کرو اور نیکی اور اچھائی کی شمع کو جلائے رکھو - گزشتہ پچاس سالوں میں مرزا صاحب کی وفات تک صرف چند برس ایسے گزرے کہ ہم بسلسلہ ملازمت ایک دوسرے سے دور رہے ورنہ زیادہ عرصہ ہم ایک دوسرے کے قریب ایک ہی علاقہ یا ایک ہی محلہ میں رہائش پذیر رہے لہٰذا مجھے ان کو دیکھنے اور جاننے کے زیادہ مواقع حاصل رہے - اگرچہ عمر میں وہ مجھ سے صرف تین سال بڑے تھے لیکن جوانی میں ہی بڑے سمجھدار اور عقلمند تھے - غالباً اس کی وجہ یہ ہو گی کہ ان کے دوست بزرگ لوگ تھے جو ان سے عمر اور تجربہ میں بہت زیادہ تھے - ان بزرگوں میں قریشی عبداللہ شاہ ، ابوالاثر حفیظ جالندھری اور راجہ حسن اختر جیسے اصحاب شامل تھے - مجھے ایک دفعہ راجہ حسن اختر صاحب سے ملنا تھا تو میں نے مرزا صاحب سے تعارفی خط کی فرمائش کی- انہوں نے ایک چھوٹے سے کاغذ پر اپنے ہاتھ سے شعر لکھ کر دیا :- جو ہو راجہ اس کے پاس پرجا آئے لے کے آس اور کہا کہ راجہ صاحب کو یہ رقعہ پیش کرنا اور اپنی بات کہہ لینا - میں نے راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ رقعہ آگے رکھ دیا - شعر پڑھ کر زیر لب مسکرائے اور میری بات کو بغور سنا - ذاتی نقصان یا صدمے کو وہ بڑے حوصلے سے برداشت کرتے تھے بلکہ ایسے نقصان کا ذکر بھی نہیں کرتے تھے البتہ پاکستان - مسلم لیگ اور قائد اعظم سے متعلق نازیبا الفاظ یا مخالفت برداشت نہ کرتے تھے-ایک سیاسی جماعت کے نظریات سے ان کو سخت اختلاف تھا- جب وہ پارٹی برسر اقتدار تھی اور مرزا صاحب خود گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر تھے تو سٹیج پر ایسی تقریریں کرنے لگے جو حکومت کو پسند نہ تھیں - میں نے عرض کیا کہ جناب آپ سرکاری ملازم ہیں اپنی جان کے دشمن کیوں بن رہے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ پاکستان کا معاملہ ہے - تم چاہتے ہو کہ میں اپنی نوکری بچانے کے لیے ملک پر کلہاڑا چلتے دیکھتا رہوں اور خاموش رہوں - نوکری سے نکال دیں گے تو ریڑہی لگا کر گنڈیریاں بیچ لوں گا - وہ اپنے کام میں لگے رہے اور خاموش نہ ہوئے - وہ اکثر اپنے گہرے اور بے تکلف دوست پروفیسر خورشید عاصم کے پاس حسن ابدال جایا کرتے تھے - عاصم صاحب کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پروفیسر تھے - میرے برادر نسبتی ڈاکٹر سکندر حیات خان اسی کالج میں جز وقتی میڈیکل آفیسر تھے - پہلی بار جب مرزا صاحب کی ملاقات ڈاکٹر سکندر حیات خان سے ہوئی تو واپس آنے پر مجھ سے ملاقات کا ذکر کیا - مجھے ذرا پریشانی ہوئی کیونکہ ڈاکٹر صاحب مذکور اسی پارٹی سے دلچسپی رکھتے تھے جس سے مرزا صاحب کو نفرت تھی - میں نے رات کو حسن ابدال فون کر کے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ مرزا صاحب سے اپنی پارٹی وغیرہ سے متعلق کوئی بات نہ کرنا ورنہ تم مشکل میں پڑ جائو گے-اگلے دن میں نے مرزا صاحب کو بھی بتا دیا - کہنے لگے اچھا کیا - وہ نوجوان ڈاکٹر پرجوش ہے - خواہ مخواہ بدمزگی پیدا ہوتی- محکمہ انہار سے فارغ ہونے کے بعد میں کام کی تلاش میں تھا - نیشنل فرٹیلائیزرز کارپوریشن میںجناب فقیر اعجاز الدین صاحب جنرل منیجر فنانس تھے ان کا ایک یونٹ پاک سعودی فرٹیلائیزر کے نام سے میرپور ماتھیلو سندھ میں زیر تعمیر تھا - چوہدری محمد اقبال منیجر سول ورکس اکاونٹس تھے - وہ مستند اکائوٹینٹ ہونے کے ساتھ ایک لائق انجینئر بھی تھے - انہیں ایک مدد گار کی ضرورت تھی - یہاں سول انجینئرنگ کے علم اور تجربہ کے ساتھ قانون کی اضافی تعلیم میرے کام آئی - چوہدری اقبال صاحب نے میری سفارش کی اور فقیر اعجاز الدین صاحب نے میری سیلیکشن کر لی - اقبال صاحب نے مجھے اپنے شعبہ میں رکھ لیا - میں تقریباً ۱۲ سال شعبہ حسابات میں کام کرتا رہا - وہاں ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۰ سال تھی - ایک دن باتوں باتوں میں مرزا صاحب نے پوچھا کہ ریٹائر کب ہو رہے ہو - میں نے بتایا کہ مئی ۱۹۸۷ء میں ریٹائرمنٹ ہو گی اور بات آئی گئی ہوئی - تقریباً ۶ ماہ بعد میں ڈپٹی مینجر اکائونٹس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر لاہور آ گیا - گھر کے دیگر کام کاج میں ایسا مصروف رہا کہ ہفتہ بھر مرزا صاحب سے ملنا ہی نہ ہوا - ایک دن عزیزم سید یوسف عرفان گھر آئے اور اہلیہ کو پیغام دے گئے کہ برلاس صاحب آ گئے ہوں تو مرزا صاحب نے یاد فرمایا ہے - اگلے روز میں حاضر ہوا - علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ آئے ہو تو ملے نہیں- کیا میرپور ماتھیلو سے فارغ ہو کر آئے ہو ؟ میں نے اثبات میںجواب دیا- پھر پوچھا کہ اب کیا ارادہ ہے - دال روٹی کیسے چلے گی ؟ مکان کا کرایہ کہاں سے دو گے ؟ میں نے جواب دیا کہ اللہ ہی کو معلوم ہے - کہنے لگے چلو میرے ساتھ اور اقبال اکیڈمی میں کام شروع کر دو - اس وقت وہ ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی تھے - میں حیران تھا کہ ان کو ۶ ماہ پہلے کی بات یاد تھی کہ میں مئی میں فارغ ہو جائوں گا - یوں میں اقبال اکیڈمی کی خدمت میں مصروف ہو گیا - میں نے شکریہ ادا کیا تو کہنے لگے کہ تمہارے مالی حالات کا میں بھی کچھ ذمہ دار ہوں کیونکہ تمہاری تربیت میں میرا بھی حصہ ہے ورنہ میں جانتا ہوں کہ تمہارے کئی ’’ پیٹی بھرا ‘‘ اس وقت کوٹھیوں کے مالک اور کاروں میں گھوم رہے ہیں - میں نے اب تک تمام عمر کرایہ کے مکان میں گزاری ہے -مرزا صاحب بھی اپنے لیے کوئی مکان نہ بنا سکے - میں کبھی اپنی پریشانی کا اظہار کرتا تو بڑے اطمینان سے کہتے کہ میں جو تم سے کافی زیادہ تنخواہ لیتا رہا ہوں اپنے لیے مکان نہیں بنا سکا تو تم محض اپنی تنخواہ میں سے مکان کیسے بنا سکتے تھے - جو تنخواہ دار یہ کام کرتے ہیں ان کے وسائل جائز یا ناجائز زیادہ ہوتے ہیں - تنخواہ میں تو باعزت گزارا کرنا بھی مشکل ہوتا ہے - اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ اس پردہ پوش مالک کی رحمت سے تم بغیر مکان کے تو نہیں رہے - یوں وہ زندگی کے روشن پہلو کی طرف توجہ دلاتے اور حوصلہ بڑھاتے تھے - مرزا صاحب جب تک اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر رہے ان کی کچھ رقم میری تحویل میں رہی - انہوں نے مجھے کچھ اڈریس دئیے ہوئے تھے کہ ہر ماہ اتنی اتنی رقم ان کو بھیج دیا کرنا - میں ان کی اس خواہش کی تعمیل کرتا رہا- مرزا صاحب کی زندگی کے آخری دو اڑھائی سال تو سخت بیماری میں گزرے - تقریباً بستر پر ہی رہے - سیر کرنے سے بھی قاصر تھے - ملنے والے گھر پر ہی آ کر ملتے تھے - چند ماہ تو ہسپتالوں میں ہی گزرے - میں عموماً حاضر ہوتا رہتا - چند روز میں نہ جا سکا - جب گیا تو نہ آنے کی وجہ پوچھی میں نے بتایا کہ اہلیہ بیمار ہے - پتے میں پتھریاں ہیں - ٹیسٹ وغیرہ کروانے میںمصروف رہا - کہنے لگے ان کا آپریشن کروا لو - میں خاموش رہا - کہنے لگے مجھ سے رقم لے لو اور جلد آپریشن کروائو - وہ میری بہن ہے - یہ رقم تم قرض سمجھ لینا - ممکن ہوا تو لوٹا دینا ورنہ نہ دینا - میں نے کہا کہ مرزا صاحب ابھی آپریشن کا ارادہ نہیں اس لیے رقم کی ضرورت بھی نہیں - ایسی سوچ اس شخص کی تھی جو خود موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اور اس کے اپنے علاج پر پیسہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا - آہستہ آہستہ بیماری کے سبب ان کی بھوک ختم ہوتی گئی - جسم لاغر ہو گیا - چلنے پھرنے سے بالکل عاری ہو گئے- ایک شام گیا تو پروفیسر خورشید عاصم کی وفات کی خبر سنائی - وہ ان کے پرانے - بے تکلف اور گہرے دوست تھے - ایم - اے کے دوران اورئینٹل کالج میں اکھٹے رہے تھے - ان کے انتقال کا مرزا صاحب کو شدید صدمہ پہنچا کہنے لگے کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہمارے درمیان موت حائل ہو جائے گی - بیماری بڑھتی چلی گئی - ایک دن حال پوچھا تو کہنے لگے کہ اب تو کوئی معجزہ ہی ہو تو ممکن ہے بچت ہو جائے -میرا بیٹا ڈاکٹر نعمان بھی دیکھنے جاتا تھا - اس کو کسی صاحب نے بتایا کہ بیماری سے شفاء کے لیے مرزا صاحب یہ تسبیح پڑھیں - مجھے کہنے لگے کہ مجھ میں تو اب ہمت نہیں - میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں میں پڑھ لیا کروںگا - رفتہ رفتہ نیم بہوشی کی کیفیت طاری رہنے لگی - اتوار کا دن تھا - صبح میں دیکھنے گیا تو خاموش لیٹے تھے - تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر محمدشاہ آگئے - عزیزم صلاح الدین بھی آ کر بیٹھ گئے - ہم سب مرزا صاحب کی حالت دیکھ کر پریشان تھے صلاح الدین صاحب کہنے لگے کہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب سے بات ہوئی ہے - مرزا صاحب کو کل میوہسپتال داخل کرانے کا پروگرام ہے - رات کو میرا بیٹا ڈاکٹر نعمان دیکھنے گیا - واپس آنے پر اس نے مایوسی کا اظہار کیا - اگلے دن مرزا صاحب فانی دنیا کو چھوڑ کرآخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے - کل نفسٍ ذائقۃ الموت - اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے - سورہ عصر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ زمانے کی قسم ، انسان در حقیقت خسارے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، اور نیک اعمال کرتے ہے ، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے - میں سمجھتا ہوں کہ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ صفات کا ایک اچھا اور قابل تقلید نمونہ تھے - ان کے قول و فعل میں یکسانیت ہوتی تھی - اگرچہ وہ اسی مادی دنیا کے باسی اور ضروریات زندگی کے حاجتمند انسان تھے لیکن ان کے بقول فکر ونظر ہم آہنگ نہ ہوں اور نظریہ و عمل میں مطابقت نہ ہو تو آدمی خواہ کسی بھی کمال کا مالک ہو وہ محض ایک خوش پوش اور خوش گفتار دو پایہ ہے- اتنے سالوں کی قربت اور عمروں میں معمولی سے تفاوت کے باوجود میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرے دوست تھے اور ہم میں بے تکلفی کا رشتہ موجود تھا - میرے لیے وہ مہربان - شفیق اور بڑے بھائی کی طرح تھے جو ہر آڑے اور مشکل وقت میں میری پشت پر ہوتے تھے - ان کے جانے سے میں ایک راست گو اور مشفق نگران سے محروم ہو گیا ہوں - جانا تو سب کو ہے لیکن دنیا میں آنے کا حق ان لوگوں نے ہی ادا کیا جو راہ راست سے نہیں بھٹکے اور جنہیں جانے کے بعد لوگوں نے اچھے نام سے یاد کیا - استاد المکرم پروفیسر محمد منور کا سفر آخرت سید یوسف عرفان پروفیسر محمد منور کی شخصیت کی کئی جہات ہیں اور ہر جہت ایک تفصیلی تحریر کی متقاضی ہے- موصوف ایک خوش ذوق شاعر اور ایک عمدہ نثر نگار تھے - آپ نہ صرف ایک اعلیٰ پائے کے مقرر تھے بلکہ ایک بلند پایہ محقق اور مورخ بھی تھے - آپ بیک وقت اردو ، انگریزی ، عربی اور فارسی کے شاعر اور ادیب تھے - آپ کی علمی اور تحقیقی کاوشات کا محور و مرکز صرف اسلام اور پاکستان تھا - آپ کی محبت و نفرت انہی دو حوالوں سے مزین تھی - رسول خدا ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ’’ الحب للّہ والبغض للّہ‘‘- آپ کا رویہ ، مزاج اور طرز عمل اسی حدیث شریف کی تفسیر ہے - آپ اسلام دشمن اور پاکستان کے مخالفین کے لیے ایک شمشیر برہنہ تھے - پروفیسر منور صاحب کی علمی تحقیقی ،شعری اور تحریک پاکستان کے حوالے سے تحریروں پر لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے - راقم منور صاحب کی ذاتی شخصیت کے حوالے سے چندباتیں رقم کرے گا - راقم کا قبلہ منور صاحب سے تقریباً (۳۰) تیس برس کا ساتھ تھا - راقم جب پانچویں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا ، اس وقت سے پروفیسر منور صاحب کی صحبت سے مستفید ہونے کا اعزاز میسر ہے - راقم نے منور صاحب کی صحبت میں جتنا وقت گزارا ہے وہ گھر کے افراد کے سوا ، کسی اور کو نصیب نہیں ہوا - پروفیسر محمد منور صاحب ایک مصفی قلب کے مالک تھے - آپ کا دل ایک ایسا آئینہ تھا جس میں موجود ہر نقش صاف اور نمایاں تھا - آپ کو منافقت اور ریا کاری سے شدید نفرت تھی - سادگی اور انکساری آپ کی شخصیت کا خاصہ تھی - آپ زندگی بھر نہ کسی عہدے سے مرعوب ہوئے اور نہ کسی عہدے دار سے خائف - حق گوئی و بیباکی آپ کے مزاج کا جزو لاینفک تھی - محترم پروفیسر محمد منور صاحب کے آخری ڈیڑھ دو سال بستر علالت پر گزرے جبکہ اس دوران آپ سات آٹھ ماہ ہسپتالوں میں رہے - --- قبلہ منور صاحب ہسپتال کو اذیت خانہ کہا کرتے تھے - کسی عزیز کی ہسپتال جا کر عیادت کرنا منور صاحب کے لیے تکلیف دہ عمل ہوتا تھا - مگر جب وہ خود ہسپتال پہنچے تو اسی کو رضائے الٰہی جان کر خاموشی اختیار کر لی اور کہا کہ اگر یہی میرے مولا کی مرضی ہے تو یوں ہی سہی ---- ہسپتالوں میں خاصے تکلیف دہ دور بھی گزرے مگر آپ نے یہ دور بھی ہمیشہ ہنس کے گزارے کبھی کسی تکلیف کا رونا نہیں رویا - موت کا استقبال بھی مسکرا کر کیا ہے --- زندگی کا ہر لمحہ گو مرزا صاحب نے بھلے دنوں میں بھی ہر لمحے کو زندگی کا آخری لمحہ جان کر گزارا ہے مگر زندگی کے آخری دور میں حضور قلب کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے زندگی ہر لمحہ خدا کے حضور حاضری کا لمحہ ہے - اس دور میں آپ خاموشی کے ساتھ درود وظائف پڑھتے رہتے تھے - نیز اپنی ہمت و صحت کے مطابق اللہ ، رسول ﷺ قائد اعظم ،علامہ اقبال ، پاکستان اور اسلام کے موضوعات پر گفتگو کرتے تھے اور ان موضوعات پر گفتگو سن کر بھی بہت خوش ہوتے تھے اور سامعین کو تھوڑی دیر کے لیے یہ احساس ہوتا تھا کہ مرزا صاحب بالکل تندرست ہیں--- اس دور میں مرزا صاحب اپنے مرحوم احباب عبداللہ شاہ قریشی ایڈووکیٹ (سرگودھا) محمد سعید بٹ ، شیخ عبدالشکور اور اپنے ولی اللہ بزرگ دوست ڈاکٹر نذیر احمد قریشی صاحب کا ذکر بڑی محبت اور رقت سے کرتے تھے ---- قبلہ منور صاحب علالت کی طوالت کے باعث اپنے قریب ترین دوستوں سے کہتے تھے کہ خدائے بزرگ و برتر ہر شے پر قدرت کاملہ کا حامل ہے --- خدا کے حضور دعا کریں کہ وہ جلد کوئی فیصلہ فرمائے - وہ ڈوبی کشتی بھی کنارے لگا سکتا ہے - اگر زندگی ہے تو صحت بھی عطا کرے وگرنہ آر یا پار کا حکم صادر فرمائے - مجھے موت کا خوف نہیں ہے - البتہ اذیت اور اپنوں کی بے بسی ایذا کا باعث ہے- خدا اس عجز کی کیفیت کے بغیر بھی فیصلہ نافذ کر سکتا ہے - (نماز جنازہ کے وقت راقم کو سابق مرکزی سیکریٹری مذہبی امور جناب مفتی لطف اللہ صاحب نے بتایا کہ مرزا صاحب اور میرے مشترکہ دوست جناب میجر امیر افضل نے بتایا کہ وہ عرصے سے مرزا صاحب کے لیے تہجد کے وقت بلاالتزام دعائے صحت فرماتے تھے - مگر کچھ عرصے سے امیر افضل صاحب کی کیفیت یہ تھی کہ وہ جب بھی مرزا صاحب کی صحت کی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو ایک بادل سا سامنے آ جاتا تھا - جس کا مفہوم واضح تھا ) پروفیسر منور صاحب نے راقم کو آخری دور میں جو دعائیں دیں ان میں سے ایک دعا یہ بھی تھی - ’’ٹوٹم! (راقم کا پیار کا نام) خدا تمہاری حیات و ممات آسان رکھے - تکلیف اور اذیت سے پاک صاف رکھے‘‘- پروفیسر منور صاحب کے لیے عمر بھر شعور حیات ایک عظیم نعمت خداوندی تھی - لہٰذا آپ موت کے آخری لمحے تک شعور حیات سے ہر دو صورت لطف اندوز ہوتے رہے- مگر زبان سے ہمیشہ حمد و ثنا کے پھول جھڑتے تھے - قبلہ منور صاحب کو معلوم تھا کہ اب وقت آخر ہے اور آپ نے اس وقت آخری سفر کی تیاری بھی بڑے اہتمام اور ابتسام کے ساتھ کی تھی - محترم منور صاحب کو اپنے عزیز ترین دوستوں میں سے محمد سعید بٹ ایڈووکیٹ کی موت کی تیاری بہت پسند تھی --- محمد سعید بٹ صاحب اپنے چند دوستوں کے ساتھ شمالی علاقے کی سیر کے لیے شوگران گئے ہوئے تھے کہ انہیں ہوٹل کے کمرے میں شدید قسم کا دل کا دورہ پڑا - انہوں نے اپنے دوست میاں محمد صدیق صاحب سے دل کی دوا لانے کے لیے کہا مگر انہیں یہ محسوس ہو گیا تھا کہ اب وقت نہیں ہے - سعید بٹ صاحب نے دوا آنے سے قبل با آواز بلند تین بار تکبیر کہی اور جان خالق حقیقی کے حوالے کر دی پروفیسر محمد منور صاحب عمر بھر محمد سعید بٹ صاحب کی ایسی موت پر (ایسے وصال پر ) رشک کرتے تھے --- قبلہ منور صاحب نے اپنے آخری لمحوں میں چار بار تکبیر اللہ اکبر، اللہ اکبر ، کہہ کر خدائے عظیم و برتر کے حضور جان دی - مرزا صاحب قبرستان میانی صاحب میں مسجد عمر بن عبدالعزیز سے ملحق ڈاکٹر نذیر احمد قریشی صاحب اور محمد سعید بٹ صاحب کے پہلو میں دفن ہیں - نیز مرزا صاحب کی قبر اس چبوترے پر قائم ہے جو مذکورہ مسجد کے صحن میں مدفون تین شہدا کے ذکر و اذکار اور عبادت کا (مچان) چبوترہ تھا - یہ شہدا چند سو سال قبل شہید ہوئے تھے اور وقتا فوقتاً قبرستان کے مکینوں کو اپنی حیات جاوید کی نوید دیتے رہتے ہیں - پروفیسر محمد منور صاحب نہایت بذلہ سبخ اور خوش گفتار بزرگ تھے - کڑوی سے کڑوی بات بھی ہنس کر بیان کرتے تھے اور یہی مرزا صاحب کا عمر بھر کا سلیقہ و قرینہ تھا - مرزا صاحب سچ بات خواہ کتنی ہی تلخ ہو ، شیریں پیرائے میں بیان کرتے تھے کہ سننے والے سر جھولتے تھے اور مرزا صاحب کی یہی بذلہ سبخی آخری وقت تک قائم رہی --- اہل خانہ قبلہ منور صاحب کو ہسپتال لے جانے کے لیے لباس تبدیل کرانے میں مدد کر رہے تھے - جس وقت مرزا صاحب کو سوئیٹر پہنا رہے تو ان کے دیرینہ خادم بابا اورنگزیب اور صاحبزادی نے کہا کہ ’’ ابا جان ! آپ کا جسم خاصا ناتواں اور کمزور ہو گیا ہے مگر خدا کا کرم ہے کہ آپ کا چہرہ تاحال پر رونق اور روشن ہے --- قبلہ منور صاحب نے فوراً مسکرا کر جواب دیا کہ یہ چہرہ روئے منور ہے -- یہ ہمیشہ چمکتا رہے گا --- اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر منور صاحب کی زندگی بھی ایک روشن ،منور اور تاباں زندگی ہے جو اپنی لازوال تحریروں اور اپنے عزیز و اقارب کے دلوں میں لافانی محبت و ارادت کے باعث ہمیشہ درخشاں رہے گی - خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را اخبار اقبالیات مرتبہ: ڈاکٹر وحید عشرت ٭ - ۲۱ ویں صدی میں ڈاکٹر محمد اقبال کی معنویت --- ماریشس میں بین الاقوامی کانفرنس -۶،۷ ستمبر ۱۹۹۹ء ٭ - وفیات ڈاکٹر ابوسعید نورالدین پروفیسر محمد منور ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی طاہر شادانی ۲۱ ویں صدی میں ڈاکٹر محمد اقبال کی معنویت بین الاقوامی کانفرنس - ماریشس - ۶،۷ ستمبر ۱۹۹۹ء ’’۲۱ ویں صدی میں ڈاکٹر محمد اقبال کی معنویت‘‘ کے عنوان سے ماریشس میں اسلامک کلچر سنٹر (وزارت فنون و ثقافت ماریشس) کے زیر اہتمام بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ کے ایڈیٹوریم میں تقریبات منعقد ہوئیں - اسلامک کلچر سنٹر کے ڈائریکٹر احمد رحمت علی نے اپنے افتتاحیہ کلمات میں کہا کہ علامہ اقبال پہلووار شخصیت کے مالک ہیں ان کا پیغام پوری نوع انسانی کے لیے ہے علامہ اقبال اکیسویں صدی میں ہمارے رہنما ہیں ، اقبال دیدہ بینائے قوم ہیں - اسلامک کلچر سنٹر کے چیئرمین محمد واحد نے حاضرین کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم یہاں برصغیر کے عظیم شاعر اور مفکر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں - دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں ان کی کتب کا ترجمہ ہو چکا ہے اور ان کی فکر اور شاعری پر تحقیق ہو رہی ہے - احمد رحمت علی نے ماریشس کے وزیر تعلیم جناب دریس پی نے کانفرنس کے شرکاء کو خطاب کی دعوت دی ، ماریشس کے وزیر تعلیم نے کہا عشق ایک ایسی سچائی ہے جو انسان کو حقیقت تک لے جاتی ہے- اقبال نے زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی دی اور دنیائے علم و فن میں انقلاب برپا کیا - ماریشس کے وزیر ثقافت جناب ساںمان کن نے اسلامک کلچرل سنٹر کو علامہ اقبال کے افکار پر بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد دی انہوں نے کہ اقبال کی شاعری کے ذریعے زندگی کے معیاروں کو دوبارہ پرکھا جانا چاہیے اقبال محض جذبات کے نہیں عمل کے شاعر ہیں - انہوں نے پوری دنیا کے انسانوں کو آزادی حریت اور عمل کی دعوت دی اقبال کا کہنا ہے کہ انسان اپنی شخصیت کو مضبوط بنائے اپنے کردار کو انفعالی کی بجائے فاعلی بنائے تو خدا اس کی تقدیر سازی میں خود اس سے پوچھے گا کہ تری رضا کیا ہے - ماریشس کے وزیر روزگار جناب عبدالرزاق پیرو نے کہا کہ میں بچپن میں اقبال کی دعا ’’یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے ‘‘ پڑھا کرتا تھا پھر میں نے شکوہ اور جواب شکوہ پڑھا - اقبال نے مسلمانوں کو روشن مستقبل کی نوید دی - آج کے دور میں بھی اقبال کا خیال اور ان کا فلسفہ ہماری زندگی کی راہوں میں روشن چراغ ہے - صدر جمہوریہ ماریشس عزت مآب جناب قاسم یوتم نے اپنے خطاب میں مقامی مصنف جناب ممتاز امرت کی لکھی ہوئی کتاب History of the Muslims in Mauritius کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ ماریشس نے اردو کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے - انہوں نے اقبال سرکل کی کوششوں کو بھی سراہا - انہوں نے اس بات پر افسوس کیا کہ آج چالیس سال گزرنے کے باوجود یہاں اقبال کی تعلیمات کو خاطر خواہ فروغ نہیں دیا جا سکا - انہوں ے اسلامک کلچرل سنٹر کی اس کانفرنس کو سراہا اور توقع ظاہر کی کہ اقبالیات کے فروغ میں یہ مدد گار ثابت ہو گی - انہوں نے کہا میری نظر میں اقبال ایک عالمگیر شاعر ہیں - ان کی شاعری میں بھی کئی ادوار پائے جاتے ہیں وہ ایک انقلابی شاعر ہیں انہوں نے اہل مشرق کو دعوت عمل دی - کانفرنس کے اس افتتاحی اجلاس کے اختتام پر اقبال پر ایک یادگار رسالے کی رسم اجرا وزیر فنون و ثقافت جناب سان مان کن کے ہاتھوں انجام پائی - پہلی نشست صدارت اسلامک کلچرل سنٹر کے جناب محمد واحد نے کی - کلیدی خطبہ آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ کے ڈاکٹر یحییٰ میشو نے دیا - جو فرانسیسی زبان میں تھا - جس کا عنوان تھا - Mohammad Iqbal- Quelle pensee musalmane pour le xxi eme siecle? انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آنے والی صدی مذہبی خیالات کی صدی ہو گی اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خون ریزی کی صدی ہو گی- بہ ایں ہمہ کوئی چاہے کچھ بھی سوچے ، یہ بات تو طے ہے کہ اس سر زمین پر انسانی زندگی کو ہر طرف سے اور ہر طرح سے خطرہ ہے - اقبال کی وفات کے بعد بہت سی اسلامی مملکتوں کو آزادی ملی اور ان کی حالت بدل گئی - لیکن امت مسلمہ میں آج بھی اتفاق اور اتحاد قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے - افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں میں علمی اور اخلاقی لحاظ سے کافی انتشار ہے - لیکن آج کل اس بات کی آسانی ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں الگ الگ ملکوں میں الگ الگ زبانوں میں ایسے ممتاز دانشوران اسلام موجود ہیں کہ جن کی وجہ سے اسلام کے علوم و فنون سے بہرہ مند ہونے کے کئی دروازے کھلے ہیں ، جب کہ اقبال کے زمانے میں ایسا نہیں تھا - یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال کے خیالات اسلامی فلسفے سے منور ہیں - وہ بڑے حساس شاعر تھے علامہ اقبال نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ امت مسلمہ کے بڑے لیڈر بھی تھے - انہوں نے شاعری اور نثر دونوں کے ذریعے ساری دنیا کو خودی کا پیغام دیا - ان کے انداز بیان کی شدت کی وجہ سے علامہ اقبال آج بھی اور کل بھی،اور ہر دور کے شاعر ہیں - ان کا کھلا دماغ ، ان کی وسیع النظری بے مثال ہے جس کی وجہ سے ان کا پیغام عالمگیر ہو گیا ہے - ۲۱ ویں صدی کے اسلام کے لیے اقبال کی شخصیت بڑی اہمیت رکھتی ہے - اقبال کے مطالعے کے ذریعے یہ بات ممکن ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اتفاق اور اتحاد ہو سکے - دوسری نشست کانفرنس کی دوسری نشست کی صدارت جناب احمد قاسم ہیرا نے کی جو مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ میں مشرقی زبانوں کے شعبے کے سربراہ ہیں - نشست کے آغاز میں اقبال پر کلیدی خطبہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اقبال بڑی پہلودار اور جامع شخصیت کے مالک ہیں - جناب احمد قاسم ہیرا نے ڈاکٹر شیلاماک ڈونا کو مقالہ پڑھنے کی دعوت دی - ڈاکٹر شیلاماک ڈونا نے اپنا مقالہ انگریزی میں پڑھا - Law and freedom in the thought of Iqbal علامہ کے خطبات Reconstruction of Religious Thought in Islam کے کچھ پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ماک ڈونا نے کہا کہ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم پرانے خیالات کو چھوڑ کر نئی روشنی کو اپنائیں - اقبال نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حال کو ماضی کے روشنی میں دیکھیں اور مستقبل کی راہ تلاش کریں- اقبال نے یہ بھی کہا کہ اب اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ نئے ڈھنگ سے دوبارہ سوچنا شروع کرے اور اسلامی تعلیمات کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرے - اقبال نے مادیت کے خلاف آواز اٹھائی لیکن ان معنوں میں نہیں کہ مسلماں سائنس سیکھنا چھوڑ دیں - اقبال نے اس بات کی تعلیم دی کہ انسان اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی شخصیت کو پختہ بنائے - ان کی نظر میں کسی مسلمان کا مذہبی ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ آزاد اور خود دار ہو - اس کے بعد جناب احمد قاسم ہیرا نے ڈاکٹر سعید درانی سے گزارش کی کہ وہ تشریف لائیں اور اپنا مقالہ پڑھیں - ڈاکٹر سعید درانی نے اپنا مقالہ انگریزی میں پڑھا عنوان تھا - Iqbal: A bridge between the east & west today اپنے مقالہ کے آغاز میں انہوں نے بتایا کہ اقبال کے پیغام میں وہ تازگی ہے کہ ہر دور میں وہ نیا اور تازہ لگتا ہے - دنیا کے ہر خطے پر اقبال کا ذکر و اذکار ہوتا رہتا ہے - دنیا بھر میں اقبال کی اکادمیاں بن رہی ہیں اقبال اپنے کارناموں کے ذریعے ہر طرف زندہ ہیں - ڈاکٹر سعید درانی نے کہا کہ اقبال نے مغرب کی تہذیب کے بارے میں کہا ہے کہ وہاں کی رنگینیاں آنکھوں کا دھوکا ہے ، صرف نشہ ہے جو آتا ہے اور چلا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مغرب کی Intellectual development کی بھی داد دی ہے - انہوں نے مشرقی تہذیب کی روحانی اور اخلاقی قدروں کی بڑی تعریف کی اور مشرقی روایت پسندی کے خیال کو بڑی اہمیت دی - ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مشرق کے رہنے والوں کی کمزوریاں بھی بتائیں ، مثلاً : توہم پرستی ، جہالت ، غلامی اور خود غرضی وغیرہ وغیرہ - اقبال نے یہ بھی سمجھایا کہ یورپ کے علوم سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان کی خرابیوں کو چھوڑ دینا چاہیے- اس طرح اقبال نے مشرقی اور مغربی خیالات اور نظریات کی اچھائیاں اور خرابیاں اپنے شعروں میں بیان کیں اور ان کے تاریک اور روشن پہلوئوں پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مشرقی اور مغربی دونوں خیالات کے روشن پہلوئوں کو ملا کر ترقی کی راہ نکالی جائے - تیسری نشست منگل ۷ ستمبر اس نشست کی صدارت ڈاکٹر سعید درانی نے کی اور ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز نے مقالہ پڑھا جس کا عنوان تھا - The universal appeal of Iqbal's poetry - اپنے مقالہ میں انہوں نے علامہ اقبال کی ان مشہور نظموں کا حوالہ دیا؛ جو ’’ خضر راہ ، طلوع اسلام اور ساقی نامہ ‘‘ کے نام سے معروف ہیں - اس کے بعد صدر نشست ڈاکٹر سعید درانی نے ڈاکٹر لود میلاواسی لے وا کا تعارف کرایا اور ان سے گزارش کی کہ وہ اپنا مقالہ پڑھیں - ان کا مقالہ اردو میں تھا اس کا عنوان تھا: ’’اقبال کی شاعری میں تہذیبی اور ثقافتی قدریں ‘‘- ڈاکٹر لودمیلا واسی لے وا نے کہا کہ ماریشس جیسے ارم نما جزیرے میں اقبال پر یہ بین الاقوامی کانفرنس بذات خود ایک معجزہ ہے - درحقیقت یہ ماریشس کے باشندوں کی ہنر مندی کا نتیجہ ہے پھر اس پر انہوں نے اقبال کا یہ شعر موزوں کیا : بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا انہوں نے کہا کہ جب تک دنیا رہے گی اقبال کے اشعار زندہ رہیں گے اور تہذیب و ثقافت کی رہنمائی کرتے رہیں گے - چوتھی نشست کانفرنس کی چوتھی نشست کی صدارت ڈاکٹر لود میلاواسی لے وا نے کی - ڈاکٹر عارف چودھری نے اپنا مقالہ اردو میں پڑھا - عنوان تھا : ’’ اقبال - مستقبل کا شاعر ‘‘ ڈاکٹر عارف چودھری نے کہا اقبال کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے اور اس کی دو خاص وجوہات ہیں : (۱) اس زمانے میں فارسی دنیا بھر میں زیادہ پھیلی ہوئی تھی اور اس طرح اقبال کا پیغام فارسی زبان کے ذریعے زیادہ دور تک پہنچ سکتا تھا - (۲) فارسی ان کے خیالات کی زیادہ متحمل ہو سکتی تھی - زندگی کی ماہئیت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عارف چودھری نے اقبال کا یہ فلسفہ بتایا کہ زندگی حرکت ہے ، چلتے رہنا ، مسلسل جدوجہد کرنا ، یہی زندگی ہے - زمانے کے انداز کے ساتھ ساتھ زندگی کے انداز بھی بدلنے چاہیں - اس کے بعد صدر نشست نے ڈاکٹر سید نیاز احمد سے گزارش کی کہ وہ مقالہ پڑھیں - ڈاکٹر سید نیاز احمد نے اپنا مقالہ انگریزی اور اردو میں پڑھا - عنوان تھا : The feeling intellect: Iqbal and the new century پانچویں نشست اقبال پر بین الاقوامی کانفرنس کی آخری نشست کی صدارت ڈاکٹر سید نیاز احمد نے کی- انہوں نے پروفیسر عبدالحق سے گزارش کی کہ وہ اپنا مقالہ پڑھیں پروفیسر عبدالحق کا مقالہ انگریزی میں تھا عنوان تھا : Iqbal the great humanist پروفیسر عبدالحق نے کہا کہ زندہ معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ وہ آنے والی صدی کو حال کے آئینے میں دیکھیں اقبال جیسے عظیم انسان دوست شاعر نے تو صدیوں میں اور لمحوں میںزمانے کو تقسیم ہی نہیں کیا - انہوں نے کہا ہے : ’’ میں آج کا شاعر نہیں ہوں ، آنے والے زمانے کا شاعر ہوں ‘‘- ان کی شاعری میں زمین و آسماں ہی کی نہیں ، ازل سے ابد تک کی حدیں پائی جاتی ہیں - اقبال کی حیثیت آفاقی اور کائناتی ہے - بیسویں صدی کا کوئی شاعر یا مفکر یہ کائناتی تصور پیش نہیں کر سکا -فلسفے اور شاعری کا اتنا خوبصورت امتزاج صرف اقبال نے ممکن کر دکھایا - اس کے بعد عنایت حسین عیدن نے ’’ اقبال اور ماریشس میں اردو‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا - انہوں نے تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے ماریشس کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ افریقی قومیں جو ماریشس میں آ کر بسی تھیں وہ اپنی تہذیبی شناخت کھو چکی تھیں ، برصغیر کی آزادی کے بعد یہاں ماریشس کے مسلمان بھی اپنی تہذیبی اور ثقافتی وراثت کو قائم رکھنے کے لیے زیادہ فکر مند ہوئے - حضرت مولانا عبداللہ رشید نواب کی سربراہی اور رہنمائی میں مسلم ہائی سکول کی بنیاد پڑی - مددسے میں اقبال کی دعا ’’ یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے ‘‘ مشہور ہوئی - زیادہ لوگ اقبال کا مطالعہ کرنے لگے اور اقبال کا علمی فیض عام ہونے لگا - نیم ادبی کاروائیاں ہونے لگیں جن میں نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے - سر عبدالرزاق محمد نے اقبال کے اشعار تقریروں میں پڑھنے شروع کئے - جہاں ٹیگور کی سالگرہ منائی جانے لگی وہاں مسلمانوں نے بھی یوم اقبال منانا شروع کیا - بہت سے لوگوں نے اقبال کو انگریزی میں پڑھا- ہمارے صدر جمہوریہ بھی اقبال کے مداح ہیں اور ریڈیو پر اقبال پر پروگرام پیش کر چکے ہیں - اقبال ماریشس میں مشہور ہیں اس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے لکھا ہے - رفتہ رفتہ لوگوں کے نام ، انجمنوں کے نام ’’ اقبال ‘‘ سے موسوم ہونے لگے - گلیوں کے نام بھی اقبال روڈ ہونے لگے اور ماریشس میں یوم اقبال بھی منایا جانے لگا - لوگ اردو کے ذریعے بھی اقبال کو جاننے لگے اور اردو بھی اقبال کے ذریعے فروغ پانے لگی- عنایت حسین عیدن نے کہا کہ ماریشس میں اقبال پر دلچسپی ابھی تک قائم ہے اور اس کا ثبوت یہ بین الاقوامی کانفرنس ہے - جناب عنایت حسین عیدن کے مقالے کے ساتھ ہی کانفرنس کی آخری نشست بھی اختتام پذیر ہوئی - وفیات ڈاکٹر ابوسعید نورالدین سن ۲۰۰۰ ء کے آغاز میں ڈاکٹر ابوسعید نورالدین کی وفات ، اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے پہلا صدمہ ہے جونا قابل تلافی ہے اور بنگلہ دیش ہی نہیں پاکستان میں بھی اہل قلم و دانش کے لیے ایک اندوہناک خبر ہے - ڈاکٹر ابو سعید نورالدین متحدہ پاکستان میں اقبال اکادمی پاکستان میں ریسرچ فیلو تھے ان دنوں اقبال اکادمی کراچی میں تھی - اقبال اکادمی پاکستان میں قیام کے دوران ہی انہوں نے اپنا پی - ایچ - ڈی کا مقالہ لکھا جو بعد میں اسلامی تصوف اور اقبال کے نام سے اقبال اکادمی پاکستان نے تین بار طبع کیا اور اس پر انہیں ڈاکٹریٹ آف فلاسفی کی ڈگری ملی - ڈاکٹر ابوسعید نورالدین یکم فروری ۱۹۲۹ء کو ضلع میمن سنگھ کے موضع پان چرخی میں پیدا ہوئے ۱۹۴۴ء میں آپ نے فاضل کیا اور مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ۱۹۴۶ میں ممتاز المحدثین کی سند حاصل کی سراج گنج کے اسلامیہ کالج سے ۱۹۴۸ میں انٹرمیڈیٹ کیا - ۱۹۵۱ء میں انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے بی - اے - آنرز اور ۱۹۵۲ء میں ایم - اے - کا امتحان پاس کیا - ۱۹۵۳ء میں آپ اقبال اکادمی پاکستان میں ریسرچ فیلو مقرر ہوئے اور یہیں وظیفہ کے دوران ۱۹۵۶ء میں اسلامی تصوف اور اقبال پر مقالہ پیش کیا - آپ ڈھاکہ سٹیل ملز میں بھی طویل عرصہ تک رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے - ۱۹۹۶ء میں آپ نے پاکستان میں اقبال پر ایک سیمینار میں بھی شرکت کی - آپ علم دوست شخصیت،مخلص اور متواضع طبیعت کے مالک اور نہایت محبت کرنے والے انسان تھے - بنگلہ دیش میں اقبالیات پر کام کرنے والے اہم مصنف تھے موصوف نے متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی - اقبالیات کے علاوہ دو جلدوں میں آپ کی کتاب تاریخ ادب اردو بھی پاکستان سے شائع ہوئی اور پسند کی گئی - پاکستان میں ان کے احباب کو ان کی وفات سے شدید صدمہ پہنچا ہے اور وہ ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں - ٭٭٭ پروفیسر مرزا محمد منور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد منور سابق ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان کے انتقال پر اکادمی میں ایک تعزیتی اجلاس ہوا جس میں اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر ، نائب ناظم ڈاکٹر وحید عشرت نے پروفیسر محمد منور کی علمی اور فکری کاوشوں پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا اور اقبالیات کے سلسلے میں ان کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ، محمد سہیل عمر نے کہا کہ اقبال اکادمی کی تشکیل نو، علامہ اقبال کی کتابوں کی اشاعت بالخصوص کلیات اقبال اردو اور فارسی کے جدید ایڈیشن اور ان کی آڈیو کیسٹوں کی تیاری میں مرحوم کی مساعی اور سرپرستی کو گہرا دخل ہے - انہوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک دورے کر کے اقبال شناسی کی فضا پیدا کی اور مختلف ممالک میں اقبال کے مطالعے کی تنظیمیں قائم کیں - پروفیسر مرزا محمد منور کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید عشرت نے کہا کہ وہ کثیر الجہات ،جامع الکمالات اور ستودئہ صفات شخصیت کے مالک انسان تھے انہوں نے طویل عرصہ تدریس کے فرائض ادا کیے ، اقبال اکادمی کو اسلامی سیکرٹریٹ میں تبدیل کرنے کی سعی کی اقبالیات ترکی ، اقبالیات عربی ، اور اقبالیات فارسی کا اجرا کیا - دنیا بھر میں فروغ اقبالیات کے لیے دورے کئے وہ بیک وقت عربی ، فارسی اردو اور پنجابی کے شاعر تھے ، ہندو نفسیات کو سمجھتے تھے تحریک پاکستان پر زبردست کام کیا - وہ سیاست کاروں کے نقاد تھے جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کے زبردست موئد تھے انہوں نے کئی ملکوں کے سفر کیے اور متعدد علمی ، ادبی اور تعلیمی اداروں سے وابستہ تھے - کم و بیش پچاس کے نزدیک کتب و کتابچوں کے مصنف تھے - آخر پراسسٹنٹ ڈائریکٹر ریسرچ احمد جاوید ، ڈپٹی ڈائریکٹر محمد رشید ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر ارشادالمجیب ، محمد اصغر نیازی نے بھی مرحوم کی خدمات کو سراہا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی - اور انور جاوید نے ان کی تاریخ وفات نکالی - مادہ تاریخ سال وفات پروفیسر مرزا محمد منور (مرحوم ) ’’ سخندانے اقبال شناس رفت ‘‘ ۲۰۰۰ء ٭٭٭ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج کے سابق استاد اور قومی اقبال ایوارڈز یافتہ اقبال شناس ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ۸ جون ۲۰۰۰ء کو شب ساڑھے گیارہ بجے مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے - وہ اقبالیات کے علاوہ اردو زبان و ادب سے متعلق متعدد بلند پایہ کتابوں کے مصنف بھی تھے - ان کا شمار اردو کے ممتاز معلموں، نقادوں اور محققوں میں ہوتا تھا - پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ۱۹۱۷ء میں پٹیلا ضلع سلطان پور - یو- پی میں پیدا ہوئے - ان کی ابتدائی تعلیم سلطان پور، نانگ پور اور بھوپال میں ہوئی - الٰہ آباد سے انہوں نے ایم اے فارسی کا امتحان پاس کیا - صدیقی صاحب نے ابتداء ہی سے درس و تدریس کو اپنا مطمع نظر قرار دیا - ان کی تدریسی زندگی کا آغاز ۱۹۴۲ء میں میونسپل ہائی سکول اجھہیائی- ضلع بدایوں میں ہوا - دو سال بعد ایم اے اردو کیا اور ۳۶ - گڑھ کالج ، رائے پور میں اردو اور فارسی کے لیکچرر مقرر ہوئے - اسی زمانے میں انہوں نے کالج میں پہلی اردو کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا - یہی تدریس کا زمانہ تھا جب انہیں علامہ اقبال مولانا مودودی اور مولانا اشرف علی تھانوی کی تصانیف نے خاص طور پر متاثر کیا - ۱۹۵۰ء میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور اسلامیہ کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے - ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’ اسلامیہ کالج میں تقرر کے وقت میرا دل فخر و مسرت کے ملے جلے جذبات سے لبریز تھا کہ آج مجھے مسلمانوں کے ایک مرکزی اور تاریخ ساز ادارے سے وابستہ ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے - ۱۹۵۸ء سے انہوں نے یونیورسٹی اورئینٹل کالج میں ایم اے کی کلاسوں کو بھی پڑھانا شروع کردیا تھا پھر ۱۹۶۳ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے باقاعدہ منسلک ہوگئے- انہوں نے پروفیسر حمید احمد خان مرحوم اور پروفیسر سید وقار عظیم مرحوم کا اعتماد حاصل تھا اس زمانے میں (۱۹۶۶ئ) انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد دہلوی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اس مقالے پر انہیں رائٹرز گلڈ نے ’’ وائود ادبی انعام دیا ‘‘ ۱۹۷۳ء میں انہوں نے علامہ اقبال کی ڈائری کا ترجمہ شذرات فکر اقبال کے نام سے شائع کیا اگرچہ صدیقی صاحب نے اقبالیات پر متعدد تحقیقی اور تنقیدی مقالے لکھے اور آخری زمانے میں فروغ اقبال کے نام سے ایک مجموعہ بھی مرتب کیا لیکن اقبالیات میں ان کا اصل کارنامہ عروج اقبال ہے جو ۱۹۰۸ء تک اقبال کی شخصیت اور ان کے شعری اور فکری و ذہنی ارتقاء کا ایک دلچسپ اور خوبصورت مطالعہ ہے- اقبالیات میں کم ہی کتابیں اس پائے کی ہوں گی - چنانچہ اس کتاب پر جو درحقیقت ایک بڑا اقبالیاتی کارنامہ ہے انہیں حکومت پاکستان نے ’’ قومی اقبال ایوارڈ ‘‘ عطا کیا - اس کی تقریب بہت بعد میں ۱۹۹۷ء میں ’’ ایوان اقبال ‘‘ میں منعقد ہوئی تھی - یونیورسٹی سے ان کی وابستگی کا المناک پہلو یہ ہے کہ وہ ’’ پروفیسر ‘‘ نہیں ہو سکے اور ۱۹۸۰ء میں وہ ایسویسی ایٹ پروفیسر کے طور پر ہی ریٹائڑ ہو گئے کیونکہ ان جیسے بلندپایہ سکالر کے لیے یونیورسٹی کے پاس پروفیسر کی کوئی پوسٹ خالی نہیں تھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے اس کی تلافی کچھ یوں کی کہ انہیں فوراً شعبہ اردو و اقبالیات کا سربراہ مقرر کیا اور پھر پروفیسر اور ڈین کے عہدوں پر فائز کیا - ۱۹۸۵ء میں وہ بہاولپور سے سبکدوش ہونے کے بعد لاہور میں مقیم لکھنے پڑھنے کے کاموں میں مصروف ر ہے - آخری زمانے میں ان کی یادداشت ٹھیک نہیں رہی تھی اور وہ اپنے شاگردوں اور دوستوں کو پہچان بھی نہیں سکتے تھے - شاید اس کا ایک سبب وہ شدید ذہنی صدمہ تھا جو انہیں اپنے اکلوتے بیٹے عرفان صدیقی کے بہیمانہ قتل کی وجہ سے ہوا تھا - عرفان کو فین روڈ پر واقع ہمدرد دواخانے سے اغوا کیا گیا اور چند ہزار کی رقم چھینے کے بعد قتل کر کے نہر میں پھینک دیا گیا- جہاں سے تیسرے روز ان کی نعش برآمد ہوئی - اگرچہ وہ اس صدمے کو بڑے حوصلے کے ساتھ برداشت کر گئے لیکن لاشعوری اثرات نے قلب و ذہن کو یقینا متاثر کیا - صدیقی صاحب کو علامہ اقبال اور مولانا حالی سے خاص لگائو تھا - انہوں نے مولانا حالی کے شعری کلیات کو دو حصوں میں مرتب کیا بعدازاں جواہر حالی کے نام سے اس کا ایک انتخاب بھی شائع کیا اسی طرح انہوں نے خلیفہ عبدالحکیم کا کلام بھی کلام حکیم کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا تھا - ۱۹۸۵ء میں جب وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ملازمت سے سبک دوش ہو کر واپس لاہور آئے تو ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات کی کرسی ، صدارت خالی تھی (پروفیسر محمدمنور مرحوم ، اقبال اکادمی کے ناظم ہو گئے تھے ) اس وقت کے وائس چانسلر نے صدیقی صاحب مرحوم کو پیش کش کی کہ وہ شعبہ اقبالیات کی سربراہی سنبھالیں- مرحوم اس پر آمادہ ہو گئے اور اپنے طور پر انہوں نے شعبے سے تحقیق و تصنیف کے منصوبے بھی بنانا شروع کئے - فی الحقیقت اس وقت اس کام کے لیے ان سے زیادہ کوئی آدمی موزوں نہ تھا مگر رفتہ رفتہ اندازہ ہوا کہ وائس چانسلر صاحب کی پیش کش زبانی کلامی تھی- خدا جانے کیا مصلحتیں تھیں یا مفادات تھے کہ صدیقی صاحب کا تقرر نہ ہوا اور شعبہ اقبالیات سالہاسال تک خالی رہا ---- افسوس کہ حقیقی معنوں میں ایک بلند پایہ اقبال شناس کی خدمات سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا - صدیقی صاحب اسی زمانے میں بین الاقوامی اقبال سمینار میں شرکت کے لیے لندن گئے تھے اس مذاکرے کا اہتمام معروف مسلم دانشور کلیم صدیقی نے کیا تھا - مسلم یورپی پارلیمنٹ کے حوالے سے انہوں نے بہت شہرت حاصل کی - لندن سے واپسی پر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی صاحب کو حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی - اصل میں تو یہ ان پر باری تعالیٰ کا کرم تھا لیکن اس کا ظاہری سبب ، علامہ اقبال بنے مرحوم اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے ایک عالم اور معلم تھے وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے اور ہمیشہ مقدور بھر ان کی رہنمائی کرتے - طبعاً وہ درویش منش انسان تھے نام و نمود سے گریزاں رہے - اخلاقی و دینی قدروں کے علمبردار تھے اور اس معاملے میں سمجھوتے کے قائل نہ تھے - جب ان کے اکلوتے جواں سال بیٹے کی لاش گھر آئی تو انہوں نے باآواز بلند کہا : ’’ خبردار ، کوئی نہ رونا ، خدا کی مرضی یہی تھی ‘‘ - ایسا پختہ ایمان کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے - ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صدر شعبہ اردو اورئینٹل کالج ،لاہور ٭٭٭ طاہر شادانی ممتاز ماہر تعلیم ، استاد اور شاعر طاہر شادانی صاحب گذشتہ دنوں انتقال فرما گئے مرحوم ستلج بلاک اقبال ٹائون لاہور میں رہائش پذیر تھے اور کافی عرصہ سے علیل تھے - آپ فارسی زبان و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے - ایک طویل عرصہ آپ نے سنٹرل ماڈل سکول میں تدریسی فرائض انجام دئیے اور وہاں سے سبکدوش ہونے کے بعد کافی عرصہ تک کریسنٹ پبلک سکول میں اردو اور فارسی کے استاد رہے وہاں کے رسالے الہلال اور علمی و ادبی سرگرمیوں کے بھی سرپرست تھے - آپ کے شعری مجموعوں کی اشاعت کے علاوہ آپ نے اقبال اکادمی کے تسہیل کے منصوبے پر بھی کام کیا اور علامہ کی آخری کتاب ارمغان حجاز کی تسہیل کی - تسہیل ارمغان حجاز اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے گذشتہ سال شائع کی - آپ نہایت نیک ، شفیق اور صاحب کردار مسلمان تھے اسلام ، پاکستان ، قائد اعظم اور شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال سے بے پناہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے انور جاوید نے ان کی تاریخ وفات یوں نکالی ہے - الم گہ دنیائے فانی سے رخصت ہو ’’ بہشت مکانی ہوا طاہر شادانی ‘‘ ۱۴۲۱ ہجری