اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مدیر : ڈاکٹر وحید عشرت نائب مدیر : احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان لاہور کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام ٖشعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی۔ مثلاً اسلامیات، فلسفہ، تاریخ، عمرانیات، مذہب، ادب، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ: ۔/۳۰ روپے سالانہ :۔/۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ:۲ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل، اکادمی بلاک، ایوان اقبال، خیابان ایوان اقبال، لاہور ۵۴۰۰۰ Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email: iaqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com قارئین کرام توجہ فرمائیں نئی صدی کے آغاز پر مجلہ اقبالیات (جلد نمبر۴۰، شمارہ نمبر۴) جنوری ۲۰۰۰ء کا نمبر شمار بدل کر جلد نمبر۴۱، شمارہ نمبر۱ کر دیا گیا ہے۔ اقبال ریویو اکتوبر ۱۹۹۹ء (جلد نمبر۴۰، شمارہ نمبر۳) کو یکجا کر کے ۳،۴ کر دیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر۴۰ تین شماروں پر مشتمل ہو گی تاہم جلد نمبر کا تسلسل حسب سابق برقرار رہے گا۔ قارئین کرام شمارہ نمبر کی ترتیب میں تبدیلی نوٹ فرما لیں۔ اِقبالیات (اُردو) جلد نمبر۴۴ جولائی تاستمبر ۲۰۰۳ئ شمارہ نمبر۳ مندرجات ۱ ۔ اقبال کی ’’علم الاقتصاد‘‘ اکبر حیدری کشمیری ۱ ۲ ۔ اقبال اور فرید کا نظریۂ عشق ڈاکٹر میاں مشتاق احمد ۲۱ ۳۔ اخلاق اور سرگذشتِ اخلاق ڈاکٹر زاہد منیر عامر ۳۷ ۴۔ کلامِ اقبال (اردو) فرھنگ و حواشی احمد جاوید ۶۳ ۵ ۔ اقبال … نفسیاتِ اطفال کے ماہر محمد قاسم یعقوب ۷۵ ۶ ۔ علامہ اقبال اور بریخت کا نیا تھیٹر سید ضمیر علی بدایونی ۸۹ ۷۔ استفسارات احمد جاوید ۹۷ قلمی معاونین ۱۔ پروفیسر ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری ہمدانیہ کالونی، بمنہ، سری نگر 190010 ۲۔ ڈاکٹر میاں مشتاق احمد ۱۸۴۔ ڈی سٹلائٹ ٹائون، بہاول پور ۳۔ڈاکٹر زاہد منیر عامر استاد ، شعبہ اردو، اورینٹل کالج، لاہور ۴۔جناب احمد جاوید معاون ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۵۔ جناب محمد قاسم یعقوب ۲۴۰۔ بی رحمان سٹریٹ سعید کالونی،مدینہ کالونی،فیصل آباد ۶۔ جناب سید ضمیر علی بدایونی ریڈیو پاکستان کراچی ۷۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی وزٹنگ پروفیسر اردو، یونی ورسٹی، اورینٹل کالج،لاہور  استدراک ’’علم الاقتصاد‘‘ کے ماہ و سال اشاعت کے بارے میں تین بیانات ملتے ہیں (۱) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کا بیان (یہ کتاب ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی۔ ’’زندہ رود‘‘ ، طبع ۲۰۰۰، ص ۱۴۰) (۲) محمد حمزہ فاروقی کا بیان (کتاب دسمبر ۱۹۰۴ء میں چھپی۔ ’’اقبال ریویو‘‘ ، جنوری ۱۹۷۶ء ، ص۶۹) (۳) راقم الحروف کا بیان (’’علم الاقتصاد‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۰۴ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔ ’’تصانیف اقبال‘‘ طبع ۱۹۸۲ء ص ۲۹۳۔اور ’’۔۔۔ نومبر ۱۹۰۴ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔‘‘ایضاًطبع دوم ۲۰۰۱ء ص ۲۹۳) جناب اکبر حیدری کاشمیری نے متذکرہ بالا بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے جنوری ۱۹۰۵ء کو’’ علم الاقتصاد‘‘ کا زمانہ اشاعت قرار دیا ہے (۱) پہلی ’’دلیل‘‘ یہ ہے کہ ’’مخزن‘‘ دسمبر ۱۹۰۴ء کے اس صفحے پر ذرا سی جگہ رہ گئی تھی اس لیے اس جگہ کو پر کرنے کے لیے صرف یہ اطلاع دی گئی کہ کتاب چھپ گئی ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ خلا کو پر کرنے کے لیے وہ کیا مجبوری تھی جس کی بنا پر خلاف واقعہ بات لکھ دی گئی کہ ’’کتاب چھپ گئی ہے‘‘… اگر کتاب واقعی شائع نہیں ہوئی تھی تو زیادہ قرین عقل ہے کہ اس طرح کی اطلاع دی جاتی: ’’علم الاقتصاد‘‘ عنقریب آنے والی ہے، یا بہت جلد شائع ہو رہی ہے یا آیندہ ماہ تک آ جائے گی۔ اکبر حیدری کاشمیری صاحب نے ’’مخزن‘‘ کی جس اطلاع کا ذکر کیاہے، اس کی عبارت یہ ہے: ’’ہم ناظرین کو بڑی خوشی سے یہ اطلاع دیتے ہیں کہ یہ قابل قدر کتاب جس کا ایک باب ’’مخزن‘‘ میں شائع ہو چکا ہے، چھپ کر تیار ہو گئی ہے‘‘ (’’مخزن‘‘، دسمبر ۱۹۰۴ئ) … اس واضح اور دو ٹوک اطلاع کے باوجود اکبر حیدری کا شمیری صاحب کا یہ بیان : ’’میری رائے میں کتاب جنوری ۱۹۰۵ء سے پہلے منظر عام پر نہیں آئی تھی‘‘ محض ایک قیاس آرائی یا خود ساختہ مفروضہ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ کاشمیری صاحب نے اپنی متذکرہ بالا رائے کی تائید میں ’’زمانہ ‘‘ جنوری میں شائع شدہ ایک تحریر کا ذکر کیا ہے جس میں ’’علم الاقتصاد‘‘ کے ’’چھپنے کے بارے میں‘‘ خبر موجود ہے… اب سوال یہ ہے کہ اگر کتاب لاہور سے جنوری میں چھپی تو ’’زمانہ‘‘ کانپور کے جنوری ہی کے شمارے میں خبر کیسے چھپ گئی؟ یہ خبر تو جلد از جلد بھی فروری کے شمارے میں چھپنی چاہیے تھی… جنوری میں اشاعت کی خبر، ہی اس امر کی دلیل ہے کہ کتاب دسمبر یا اس سے بھی پہلے شائع ہو کر دسمبر ہی میں ایڈیٹر ’’زمانہ‘‘ کے پاس پہنچ چکی تھی اور وہ بھی Well in time یعنی دسمبر کے بھی دوسرے یا تیسرے ہفتے میں۔ تبھی تو یہ ممکن ہوا کہ ایڈیٹر نے خبر بنائی اور اسے دسمبر کے آخری ہفتے میں اشاعت کے لیے جانے والے شمارے میں شامل کر لیا۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ کی پہلی اشاعت کے بارے میں یہاں ایک اور وضاحت بھی مناسب ہو گی۔ راقم نے ’’تصانیف اقبال‘‘ کے طبع اوّل (۱۹۸۱ئ) میں فقط یہ لکھا تھا کہ’’علم الاقتصاد‘‘ ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی (ص ۲۹۳) مزید غور و فکر کے بعد، میںاس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پہلی اشاعت نومبر ۱۹۰۴ء میں عمل میں آگئی (’’تصانیف اقبال‘‘ طبع دوم ۲۰۰۱ء ، ص ۲۹۳)۔ اس کی بنیاد ’’مخزن‘‘، دسمبر ۱۹۰۴ء کا متذکرہ بالا اعلان ہے۔ کتاب نومبر میں چھپ گئی تھی۔ تبھی شیخ عبدالقادر صاحب کے لیے ممکن ہوا کہ وہ دسمبر کے شمارے میںناظرین کو بڑی خوشی سے یہ اطلاع دیں۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ مارچ ۱۹۰۴ء تک اقبال نے کتاب مکمل کر لی تھی، تبھی اس کا آخری باب ’’آبادی‘‘ ’’مخزن‘‘، اپریل ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا، جس کے تمہیدی نوٹ میں یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ ٹیکسٹ بک کمیٹی نے ’’کُلاً ایک سو جلدیں خریدنا منظور فرمایا ہے‘‘… اس کی رو سے بھی مصنف اور ناشر کے مفاد میں یہی تھا کہ کتاب جلد از جلد شائع ہو جائے۔ اب اپریل سے نومبر تک سات، آٹھ ماہ کا عرصہ کتابت و طباعت کے مختلف مراحل کے لیے بہت کافی وقت تھا۔لہٰذا کتاب مذکورہ کا نومبر ۱۹۰۴ء میں شائع ہونا زیادہ قرین قیاس ہے اور جملہ شواہد اس کی تائید کرتے ہیں۔ اکبر حیدری کا شمیری صاحب نے مندرجہ بالا مضمون کے حوالہ نمبر۲ میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر جاویداقبال (’’زندہ رود‘‘ جلد اوّل ص ۱۵۱) کے مطابق ’’علم الاقتصاد‘‘ ’’اپریل ۱۹۰۴ء میں زیر طبع تھی…‘‘ جاوید اقبال سے بیان کا انتساب درست نہیں ہے۔ کیوں کہ ’’زندہ رود‘‘ حصہ اوّل صفحہ ۱۳۸ پر ختم ہو جاتی ہے۔ ۱۵۱ صفحہ ، حصہ دوم میں ہے اور وہاں ایسا کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے تو یہ لکھا ہے کہ یہ کتاب ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی (طبع اوّل ص ۸۷… طبع دوم۲۰۰۱ئ، ص ۱۴۰)۔ (رفیع الدین ہاشمی )  اقبال کی ’’علم الاقتصاد‘‘ اکبر حیدری کشمیری اقبال کی ’’علم الاقتصاد‘‘ اکثر ماہرین اقبالیات کو اقبال کی اولین تصنیف ’’علم الاقتصاد‘‘ کی پہلی اشاعت کے سنہ طباعت کے بارے میں غلط فہمیاں لاحق ہو گئی ہیں۔ جناب ممتاز حسن نے اس کاطبع ثانی ۱۹۶۱ء میں شائع کیا۔ انھوں نے کتاب کے سرورق پر اپنی طرف سے سال اشاعت ۱۹۰۳ء لکھا۔ ان کی تقلید میں جگن ناتھ آزاد نے ’’مرقع اقبال‘‘ صفحہ ۹ اور ’’توقیت اقبال‘‘ صفحہ ۴ تا ۹ (مطبوعہ ’’آج کل‘‘ دہلی اقبال نمبر ۱۹۷۷ئ) میں اس کا سال طباعت ۱۹۰۳ء لکھا۔ اسی طرح فقیر سید وحید الدین۱؎ اور ڈاکٹرمحمد ریاض۲؎ وغیرہ نے بھی ’’علم الاقتصاد‘‘ کا سال اشاعت ۱۹۰۳ء تسلیم کیا ہے جو غلط ہے۔ ’’مخزن‘‘ لاہور جلد ۷ نمبر۱ (صفحہ ۱ تا ۸) بابت اپریل ۱۹۰۴ء میں شیخ عبدالقادر نے ’’علم الاقتصاد‘‘ کا ایک باب ’’آبادی از اقبال‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس وقت کتاب زیر طبع تھی۔ شیخ صاحب مضمون کی تمہید میں لکھتے ہیں:۔ شیخ محمد اقبال صاحب ایم۔ اے نے حال میں ایک کتاب پنجاب ٹکسٹ بک کمیٹی کے ایما سے ’’علم الاقتصاد‘‘ پر لکھی ہے جس کا انگریزی نام ’’پولیٹکل اکانومی‘‘ ہے۔ اور جسے عموماً علم ’’سیاست مدن‘‘ کہتے ہیں۔ بلامبالغہ اس فن میں ایسی جامع اور عام فہم کتاب اردو زبان میں آج تک نہیں لکھی گئی۔ ہندستان میںا س علم کا ابھی بہت کم چرچا ہے۔ حالانکہ اسے بغور پڑھنے کی ہندوستان کو نہایت ہی ضرورت ہے۔ جب یہ کتاب شائع ہو گی تو ہمیں کامل امید ہے کہ شیخ صاحب کی شہرت اور اس کی ذاتی خوبی مقبولیت کو اس کے استقبال کے لیے اڑا کر لائے گی اور علاوہ تمام قدردانی کے خاص جماعتیں اسے خریدیں گی۔ ٹکسٹ بک کمیٹی نے اسے پسند کیا اور ایک سو جلدیں خریدنا منظور فرمایا ہے۔ ہم قابل مصنف کی اجازت سے اس کا ایک دلچسپ حصہ نقل کرتے ہیں۔ کتاب زیر طبع ہے۔ ’’زمانہ‘‘ کا نپور جلد ۳ نمبر۱، ۲ بابت جولائی و اگست ۱۹۰۴ء (صفحہ ۱۳۳) میں ’’علمی خبریں‘‘ کے تحت ’’علم الاقتصاد‘‘ کے بارے میں ’’پولیٹکل اکانمی‘‘ کے عنوان سے درج ذیل مفید عبارت موجود ہے۔ ’’پولیٹکل اکانمی‘‘:یا سیاست مدن پر اردو میں اب تک بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں اور جو لکھی گئی ہیں وہ ناکافی اور ابتدائی ہیں اور اکثر ترجمہ ہیں۔ مثلاً مسز فاسٹ کی ’’پولیٹیکل اکانمی‘‘ مبتدیوں کے لیے یا جیون صاحب کی ’’پرائمرپولیٹکل اکانمی‘‘۔ یہ دونوں کتابیں مولانا ذکاء اللہ صاحب کی ترجمہ کی ہوئی ہیں۔ مگر ان کتابوں سے نہ تو اصطلاحات کے وضع کرنے میں مدد ملتی ہے اور نہ مضمون کے سمجھنے میں۔ اس واسطے ہم کو امید ہے کہ اس مضمون پر شیخ محمد اقبال صاحب ایم ۔ اے کی تازہ تصنیف ’’علم الاقتصاد‘‘ جو آج کل زیر طبع ہے بہت مفید اور کار آمد ثابت ہو گی۔ یہ کتاب اپنے طرز کی اردو میں بہت جامع کتاب ہو گی۔ کیونکہ موصوف نے اس کتاب کے لکھنے میں قریب تیس انگریزی کتابوں کے مطالعہ سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے ذاتی فکر کے نتائج بھی درج کیے ہیں۔ اس میں اصول سب سے بڑی وضاحت سے بیان کیے ہیں اور اس بات کو خصوصیت سے ملحوظ رکھا ہے کہ ہندستان کے اقتصادی حالات پر وہ اصول کہاں تک صادق آتے ہیں۔ بشرط فرصت شیخ صاحب کا ارادہ ہے کہ اس کا دوسرا حصہ بھی لکھیں جس میں دو پیچیدہ بحثیں جو ابھی اس کتاب میں مصلحتاً نظر انداز کر دی گئی ہیں، وہ بھی بیان کی جائیں گی اور اقتصاد عملی کے ان مفید مسائل پر بحث کی جائے گی، جس کا تعلق ہندستان سے ہے۔ یہ حصہ زیادہ تر اصولی ہے مگر بطور خود مکمل ہے۔ اس کا حجم غالباً ۲۰۰ صفحات یا اس سے کچھ زائد ہو گا۔ ’’مخزن‘‘ جلد ۸ نمبر۳ (صفحہ ۴) بابت دسمبر ۱۹۰۴ء سے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ’’ علم الاقتصاد‘‘ اشاعت پذیر ہوئی ہے۳؎ اور کتاب مصنف سے دستیاب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’مخزن‘‘ کے اس صفحے میں ذرا سی جگہ رہ گئی تھی، اس لیے صرف یہ اطلاع دی گئی ہے کہ کتاب چھپ گئی ہے۔ میری رائے میں کتاب جنوری ۱۹۰۵ء سے پہلے منظر عام پر نہیں آ چکی تھی۔ میرے بیان کی تائید ایڈیٹر زمانہ کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے جو ’’علمی خبریں اور نوٹس‘‘ صفحہ ۶۲ بابت جنوری سال مذکور میں کتاب کے چھپنے کے بارے میں موجود ہے۔ بہر حال ہماری اطلاع کے مطابق ’’علم الاقتصاد‘‘ پر سب سے پہلے پروفیسر نقاد نے اپنے رسالے میں تفصیلی تبصرہ شائع کیا تھا۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن بغیر سال اشاعت کے میرے مطالعے میں رہا ہے اور یہ کتب خانہ شبلی نعمانی (ندوۃ) لکھنؤ میں ’’شعبہ معاشیات‘‘ کے تحت زیر نمبر ۴۶۱۷۰/۷۶ چھوٹی تقطیع ۱۶/۳۰x ۲۰ (۲۱ سطر) میں ۲۱۶ صفحات میں محفوظ ہے۔ یہ مکمل نسخہ ہے۔ اس کا کاغذ بہت مضبوط اور طباعت اعلیٰ درجے کی ہے۔ غالباً یہ وہی نسخہ ہے جو اقبال نے علامہ شبلی کو بھیجا تھا۔ سرورق کے بعد کا صفحہ غائب ہے۔ ’’پیش کش ‘‘ کے عنوان سے کتاب کا انتساب ڈبلیو بل اسکوائر ڈائریکٹر محکمۂ تعلیم پنجاب کے نام ہے۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ پیسہ اخبار سٹیم پریس لاہور میں چھپی تھی اور یہ مصنف اور مخزن ایجنسی لاہور سے عہ (ایک روپے) میں ملتی تھی۔ کتاب پر بقول اقبال مولانا شبلی نے اصلاح کی تھی اس کے باوجود اس میں زبان کی متعدد خامیاں موجو دہیں۔ کتاب کی ابتدا میں اقبال کا لکھا ہوا چار صفحات کا دیباچہ شامل ہے۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ علامہ اقبال کی اولین تصنیف ہے۔اس کی خوب پذیرائی ہوئی اور ملک کے مقتدر رسالوں میں اس پر تبصرے شائع ہونے لگے۔ (۱) غالباً سب سے پہلا تبصرہ مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر ’’دکن ریویو‘‘ کی کاوش فکر کا نتیجہ تھا۔ موصوف ’’پروفیسر نقاد‘‘ کے فرضی نام سے بھی لکھتے تھے۔ اس وقت میرے پیش نظر ’’دکن ریویو‘‘ نمبر۲ ‘ جلد سوم بابت فروری ۱۹۰۵ء (صفحہ ۳۰۔۳۲) کا شمارہ ہے۔ اس میں اقبال کی کتاب پریوں ریویو درج ہوا ہے۔ ’’ریویو علم الاقتصاد ‘‘ ۔ مصنفہ پروفیسر محمد اقبال صاحب اقبال اب تک جو لوگ پروفیسر محمد اقبال صاحب کو بحیثیت ایک نازک خیال شاعر کے جانتے ہیں، وہ اس اطلاع سے کہ وہ ناشر بھی ہیں، گو متعجب ہوں مگر اس کی تازہ تصنیف کے مطالعے سے کسی قدر مایوس ضرور ہوں گے۔ اور یہ مایوسی ان کی تصنیف کے نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ زیادہ تر اس کا الزام ان کی بلند پایہ شاعری پر ہے اور اگر ہم اس خیال کو اپنے دماغ سے نکال دیں تو ان کی یہ کوشش ہر طرح قابل تعریف اور ان کی یہ محنت ہر لحاظ سے داد کے لائق ہے۔ ہندستان کو جسے اس علم کی ضرورت ہے شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک کو ہو، کچھ تو اس لیے کہ ایک حصہ ملک کا پہلے ہی سے زراعت ، تجارت اور مزدوری میں مصروف ہے اور کچھ اس لیے کہ موجودہ تمدن روز بروز ان ضرورتوں کو بڑھا رہا ہے اور بغیر اس کے ترقی نا ممکن ہے۔ ایسے زمانے میں اس قسم کی کتابیں لکھنا درحقیقت ملک پر احسان کرنا ہے۔ اس کتاب میں اوّل انھوں نے ’’علم الاقتصاد‘‘ پر اس کے ہر طریقہ پر مختصراً بحث کی ہے۔ بعدازاں حصول دولت کے وسائل یعنی زمین ، محنت، سرمایہ اور تبادلہ دولت، تجارت، بین الاقوامی زرنقد کی ماہیت، لگان، سود، منافع، اجرت، مالگذاری، جدید ضروریات وغیرہ کارآمد مضامین کو لیا ہے۔ کتاب کے مفید ہونے میں شک نہیں۔ اور خود ان مضامین سے جن پر بحث کی گئی ہے اس کی خوبی ظاہر ہے لیکن اس کا طرز تحریر اور طریق بحث کچھ اس قسم کا ہے کہ پڑھنے والے کو الجھن ہوتی ہے اور مضامین سمجھ میں مشکل سے آتے ہیں۔ بعض الفاظ و اصطلاحات جو استعمال کیے گئے ہیں وہ علاوہ اجنبی اور غیر مانوس ہونے کے موزوں اور معنی خیز بھی نہیں ہیں، مثلاً پیدایش دولت اور پیداوار دولت اور ان میں جو فرق بتایا گیا ہے اس سے محض جدت اور مفت کی سردردی معلوم ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح محنت کی کارکردگی، دستکار بمعنی مزدور، تامین تجارت، آزاد اشیا (ان اشیا کے معنوں میں جو قدرت مہیا کرتی ہے) وغیرہ عبارت میں جابجا سقم اور دقتیں موجود ہیں۔ مثلاً ایسی زمین کی نسبت یہ کہا جائے گا کہ وہ کنارا زراعت پر ہے قطع نظر اس خوشی یا لذت کے جو اس سعی (حصول دولت) کے دوران میں حاصل ہو، قدرت مصالح یا ہیولیٰ مہیا کرتی ہے۔ کھاد کی طلب جہاں پہلے پانچ ہزار چھکڑا تھی (اب شاید چھ ہزار چھکڑا ہو جائے گی) اسی قسم کے اسقام جابجا نظر آتے ہیں۔ ان جملوں میں ہم نے صرف اس پر خط کھینچ دیا ہے۔ ہمیں مولف سے ’’اقتصادی ہندی‘‘ کے مسئلے میں بھی اختلاف ہے۔ جبکہ یہ علم خود واقعات کی بنا پر قائم ہے اور واقعات ہی سے نتائج استنباط کیے جاتے ہیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر کسی ملک میں واقعات کی صورت بدلی ہو تو ان اصول میں تغیر پیدا نہ کیا جائے۔ خواہ وہ تغیر عارضی ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں اس سے بھی اختلاف ہے کہ یہ غلطی علم اور فن میں تمیز نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہے۔ بلکہ اس کا خیال ملک کے حالات اور واقعات پر غور کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ مولف خود اس امر کو تسلیم کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ تسلیم کرنے میں ہمیں عذر نہیں کہ اس کے کلیہ اصولوں میں جدید واقعات کے لحاظ سے ایسا تغیر آنا ممکن ہے جس سے ان کی وسعت زیادہ ہو جائے اور ان کو نئے نئے واقعات پر حاوی کر دے۔ایک اور جگہ تحریر فرما تے ہیں کہ:اس کے نتائج مختلف ممالک کے حالات پر منحصر ہیں۔ ان ہی امور نے بعض محبان وطن کو اقتصاد ہندی لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ جن صاحبوں کو اس سے دلچسپی ہو وہ فاضل رانا ڈے مرحوم کی تصانیف کا مطالعہ فرمائیں۔ (نقاد) (۲)مشہور شاعر، ادیب، صحافی اور فن طب کے ماہر حکیم عبدالکریم تخلص برہم المعروف حکیم برہم علامہ اقبال کے اولین ناقدین میں سرفہرست تھے۔ وہ حسرت موہانی کے مشہور ماہوار رسالہ ’’اردوئے معلیٰ‘‘ علی گڑھ کے ابتدائی شماروں میں ’’تنقید ہمدرد‘‘ کے فرضی نام سے کلام اقبال پر تنقید کیا کرتے تھے۔ اکتوبر ۱۹۰۳ء کے شمارے میں تنقید ہمدرد کا ایک سخت مضمون ’’اردو کے نادان دوست‘‘ کے عنوان سے حسرت نے اپنے نوٹ (حاشیہ) کے ساتھ شائع کیا۔ مضمون میں اقبال کی زبان پر تابڑ توڑ اور نہایت رکیک حملے کیے گئے تھے۔ اقبال نے نہایت مدبرانہ ، نہایت صبر و سکون اور مدلل انداز تحقیق میں مُسکت جواب دیا جو’’ مخزن‘‘ بابت اکتوبر ۱۹۰۳ء میں شائع ہوا تھا۔ (تفصیلات کے لیے راقم حروف کی کتاب ’’اقبال کی صحت زباں‘‘ دیکھی جا سکتی ہے) برہم کا یہ سلسلہ دسمبر ۱۹۰۴ء تک جاری رہا۔ برہم حسرت اور دوسرے ناقدین اقبال نے جب اقبال کا مضمون پڑھا تو وہ اقبال کی تہذیب اور شایستگی زباں سے اتنا متاثر ہوئے کہ ان میں پھر دوبارہ موصوف کے خلاف لکھنے کی ہمت ہی نہ رہی۔ جب ۱۹۰۵ء کی جنوری میں اقبال کی ’’علم الاقتصاد‘‘ منظر عام پر آئی اور حکیم برہم کی نظر سے گزری تو انھوں نے اس پر بے لوث اور مخلصانہ تبصرہ کیا جسے اپنے زیر ادارت مشہور ادبی پرچہ ’’ریاض الاخبار‘‘ گورکھپور جلد ۳۰ نمبر۱۸ مطبوعہ ۲۰ مارچ ۱۹۰۵ء (صفحہ ۳) میں شائع کیا۔ ریاض الاخبار کے شمارے نادرالوجود ہیں۔ اس لیے ذیل میں برہم کا یہ تبصرہ درج کیا جاتا ہے:۔ الاقتصاد یہ ایک کتاب کا نام ہے جو نہایت خوشخط اور اچھی حالت کے عمدہ کاغذ پر چھاپی گئی ہے۔ اس کے مصنف ہمارے دوست جناب پروفیسر محمد اقبال ایم اے ہیں۔ اس کی قیمت ایک روپے ہے۔ مگر اس کی خوبیوں اور اس کے معاوضۂ مناسب کے مقابلے میں یہ قیمت کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کتاب کو ہم نے دیکھا۔ ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے ’’پولیٹکل اکانمی‘‘ کی بہت بڑی ضرورت ہمارے ملک کو ہے۔ یورپ نے اس میں بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ ٹرکی کے عالموں نے بھی اس علم سے روشنی ڈالی۔ مگر اردو کے سرمایہ میں بہت بڑی کمی تھی۔ جناب اقبال سے پہلے بھی دو تین کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں اور اپنی جگہ وہ بھی قابل قدر ہیں۔ مگر پروفیسر اقبال کی کتاب ایک مستقل تصنیف ہے اور انھوں نے اس علم کے لیے اردو میں چند اصطلاحیں بھی پیدا کی ہیں۔ زبان اردو کے وہ شیدا ہیں۔ ان کا خیال یہ رہتا ہے کہ اردو کو معراج کمال پر دیکھیں۔ اس لیے ان کی تصنیف میں اگر اردو کی خدمت نہ کی جاتی تو بے شک افسوس ہوتا۔ ہم اس موقع پر مولوی ذکاء اللہ صاحب دہلوی کی رائے سے ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے جو اپنی تصنیف کو الاقتصاد کے مقابلے پر لانا چاہتے ہیں۔ اور جن کو بہت غصہ آتا ہے اور بطور نتیجہ کے فرماتے ہیں کہ اگر میری کتابیںا ور یہ کتاب طالب علموں کے سامنے رکھ دی جائے اور ان پر کوئی جبر نہ ہو تو میں دیکھوں کہ کس کتاب کو طالب علم پسند کرتے ہیں اس فیصلے سے تو کوئی راضی نہیں ہو سکتا۔ نہ یہ مقابلہ کوئی مقابلہ ہے۔ طالب علم کی جگہ اگر مولانا نے کسی ماہر کا نام لیا ہوتا یا کسی صاحب ادراک کو پسند فرماتے تو وہ معقول تجویز لکھ سکتا تھا۔ بہر حال پروفیسر اقبال کی یہ تصنیف اس بات کی شاہد ہے کہ ہندستان میں اب بخوبی مذاق پیدا ہو گیا ہے کہ علمی ذخیرہ اردو میں جمع کیا جائے۔ اس وقت ہم اس کتاب کی تصنیف میں ہر چند یہ سطریں لکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ اس پر مفصل ریویو کسی دوسری اشاعت میں لکھیں گے۔ (۳) ’’ریاض الاخبار‘‘ کے بعد منشی دیا نرائن نگم ایڈیٹر ’’زمانہ‘‘ کانپور نے اقبال کی ’’علم الاقتصاد‘‘ کا تنقیدی جائزہ لیا اور انھوں نے زمانہ بابت مئی ۱۹۰۵ء (صفحہ ۲۹۹ تا ۳۰۳) میں ’’تنقید‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مگر جامع مضمون شامل کیا۔ زمانہ کے ابتدائی پرچے بہت کمیاب ہیں۔ ذیل میں یہ تنقید درج کی جاتی ہے:۔ ’’تنقید علم الاقتصاد، مصنفہ شیخ محمد اقبال صاحب ایم۔اے‘‘ ’’ان علوم جدید میں جن کے ایجاد اور ترتیب کا فخر اہل فرنگ کو حاصل ہے علم سیاست مدن (Political Economy) کا پایہ عالی ہے۔ فرنگستان کی موجودہ سطوت بہت کچھ تجارتی اور حرفتی ترقی کا نتیجہ ہے۔ اور فرنگستان کی تجارت و حرفت پر مختلف زمانوں میں مختلف اصولِ سیاستِ مُدن کا بیّن اثر پڑا ہے۔ اب چونکہ ہندوستان نے بھی گوشہ تنہائی سے نکل کر کشاکشِ حیات کے میدان میں قدم رکھا ہے جہاں اس کو اپنی قومی زندگی کی حفاظت کے لیے ایسے اقوام سے مقابلہ کرنا ہے جو سیاست مُدن کے اصولوں کو بہت اچھی طرح سمجھے ہوئے ہیں اور تجارتی اور حرفتی اسلحہ سے پوری طرح آراستہ ہیں، اس لیے ہمارے اہل وطن کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ علم دولت کے اصولوں سے ماہر ہو کر اپنے کو ان کے مقابلے کے قابل بنائیں شیخ محمد اقبال صاحب نے اس ضرورت کا ذکر اپنے دیباچے میں کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :۔ بالخصوص اہل ہندستان کے لیے تو اس علم کا پڑھنا اور اس کے نتائج پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں مُفلسی کی عام شکایت ہو رہی ہے۔ ہمارا ملک کامل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوریوں اور نیز ان تمدنی اسباب سے بالکل ناواقف ہے۔ جن کا جاننا قومی فلاح اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں۔ ان کا حشر کیا ہوا ہے۔ ابھی حال میں مہاراجہ برودہ نے اپنی ایک گراں بہا تقریر میں فرمایا تھا کہ اپنی موجودہ اقتصادی حالت کو سنوارنا ہماری تمام بیماریوں کا آخری نسخہ ہے اور اگر یہ نسخہ استعمال نہ کیا گیا تو ہماری بربادی یقینی ہے۔ پس اگر اہل ہندستان دفتر اقوام میں اپنا نام قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اہم علم کے اصولوں سے آگاہی حاصل کر کے معلوم کریں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو ملکی عروج کے مانع ہو رہے ہیں۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے شیخ محمد اقبال صاحب کی کتاب اردو میں اپنے ڈھنگ کی پہلی کتاب ہے۔ علم و دولت کے متعلق ایک دو کتابیں تراجم کی حیثیت سے اس کے قبل شائع ہو چکی ہیں۔ مگر جس صراحت کے ساتھ علم سیاست مدن کے ہر پہلو پر شیخ محمد اقبال صاحب نے اس کتاب میں بحث کی ہے اور جس عمدگی کے ساتھ انہوں نے مضامین کو ترتیب دیا ہے وہ دوسرے نامکمل نسخوں میں نظر نہیں آتی۔ شیخ صاحب نے اصول سیاست مدن انگریزی کتب سے اخذ کر کے بیان کیے ہیں اور کہیں کہیں ہندستان کی مثال پیش نظر رکھ کر ان اصولوں کے طریق عمل کو سمجھایا ہے۔ زبان یوں صاف ہے مگر علمی اصطلاحات نئے ہونے کی وجہ سے کانوں کو بھلے نہیں معلوم ہوتے۔ تاہم ان دِقتوں کو مد نظر رکھ کر جن کا پیش آنا سیاست مدن ایسے نئے اور دقیق علم کے بیان میں ضروری ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیخ محمد اقبال صاحب ’’اقتصادی اصولوں کے مفہوم کو واضح کرنے میں‘‘ بہت کامیاب ہوئے ہیں۔ تحفظ تجارت (Protection) کے معاملے میں شیخ اقبال صاحب رانا ڈے مرحوم اور مسٹر جی سلبر مینا آئر کے ہم زبان ہیں۔ ذیل میں اقتباس ملاحظہ ہو:۔ زمین کے اس خاصے کی بنا پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندستان چونکہ صنعتی ملک نہیں ہے اس لیے یہ غیر ممالک کے لیے ایک قسم کا ذخیرہ بن گیا ہے جہاں سے وہ اپنے صنعتی کارخانوں کے لیے مصالح حاصل کرتے ہیں اور پھر اس مصالح کو اپنی دستکاری کے عمل سے نئی نئی مصنوعات کی صورت میں تبدیل کر کے دیگر ممالک اور ہندستان میں بیچ کر بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں چونکہ قانون تعتیل کے روکنے کے اسباب بہت قلیل ہیں لہٰذا جو اشیا ہندستان میں دیگر ممالک سے آتی ہیں ان پر قانوناً بہت سا محصول لگنا چاہیے۔ جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ دیگر ممالک کے تاجر اپنے صنعتی اشیا اس ملک میں نہ بیچ سکیں گے اور اگر بیچیں گے تو ان کو کچھ فائدے کی توقع نہ ہو گی۔ کیونکہ زیادہ محصول کی وجہ سے ان اشیا کی قیمت گراں ہو جائے گی اور یہاں کے لوگ ان کو خریدنے سے باز رہیں گے۔ اس طرح ہم کو اپنی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے خود اپنا محتاج ہونا پڑے گا اور ہماری صنعت کو ترقی ہو گی۔ اس طریق عمل کو حفاظت تجارت یا تامین تجارت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ مگر آپ نے اس اصول کے طریق عمل کا کچھ ذکر نہیں کیا۔ برٹش گورنمنٹ انگریزی تاجروں کے ڈر سے ہندستانی صنعت و حرفت کی محافظت سے گریز کرتی ہے۔ مسٹروت نے اپنی تاریخ میں ان مظالم کو نہایت و ضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جو گذشتہ صدی میں ہندستانی حرفت پر اہل انگلستان کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں اور جنھوں نے کلوں کی قوت اور ہمارے اہل ملک کی پست ہمتی سے مدد پا کر ہندستان کی تجارت اور حرفت کا ستیا ناس کر دیا۔ ایسی حالت میں کیا ہندستانیوں کا فرض نہیں ہے کہ جہاں تک ان سے ممکن ہو اپنی حرفت کی محافظت آپ کریں؟ ایکسچینج (Exchange) کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے بھی آپ نے بہت اختصار سے کام لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس اہم مسئلے کا ایک پہلو بالکل فروگذاشت ہو گیا ہے۔ شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ:۔ چونکہ انگلستان کے مصارف ہم کو پونڈوں میں ادا کرنے پڑتے ہیں اس واسطے چاندی کی قدر میں تنزل آ جانے کی وجہ سے ہمیں اور بھی نقصان ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب اجرائے سکّہ طلائی کے باعث اس مشکل کا اندیشہ نہیں رہا۔ صحیح ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی خیال کرنا چاہیے کہ پونڈ کی مصنوعی قیمت مقرر کر کے سرکار دولت مدار نے ہندستانی اشیا کی قیمت زبردستی گھٹا دی ہے۔ فرض کرو کہ ایک من گیہوں کی قیمت انگلستان میں ایک پونڈ ہے۔ اگر سرکار نے قانوناً پونڈ کی قیمت محدود نہ کر دی ہوتی اور ہندستانی کاشتکار کو ایک من گیہوں کے عوض میں بجائے پندرہ کے سترہ یا اٹھارہ روپے ملتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ Exchange کے استقلال سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ مگر جب اس قانون کا ذکر کیا تھا تو اس کے نقصان و فوائد دونوں پر نظر ڈالنی تھی۔ ہم کو یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ شیخ محمد اقبال صاحب کو اس رائے سے اختلاف ہے کہ:۔ رقم کی مال گذاری کا دوامی طور پر مقرر کر دیا جانا لوگوں میں قحط کا مقابلہ کر سکنے کی قابلیت پیدا کر دے گا۔ شیخ صاحب کو اس سے تو اقرار ہے کہ حق ملکیت ایک اکسیر ہے جو تانبے کو سونا بنا دیتا ہے۔ پھر اس بات کے سمجھنے میں کیا قباحت ہے کہ جب زمیندار کے دل سے یہ وسوسہ دور ہو جائے گا اور اس کو یقین ہو جائے گا تو وہ زمین کی پیداوار کے بڑھانے اور اس کو زیادہ زرخیز بنانے میں مزید کوشش کرے گا۔ ہر دس یا بیس برس کے بعد اگر اضافہ مال گذاری نہ ہوا کرے تو زمیندار و کاشتکار کا وہ افلاس جس میں وہ مال گذاری کی سختی کی وجہ سے آئے دن گرفتار رہتے ہیں کچھ ضرور کم ہو جائے گا۔ ہندستان کا قحط غلے کا قحط نہیں ہوتا بلکہ روپیہ کا قحط ہوتا ہے۔ عوام افلاس کی عالمگیر بلا میں ایسے مبتلا ہیں کہ ان کے پاس اتنا اندوختہ بھی نہیں کہ وہ ایک سال کی گرانی اس کی مدد سے جھیل سکیں۔ افلاس کے وجوہات پر بحث کرنے کا یہ محل نہیں ہے۔ ہم کو صرف اس قدر دکھلانا منظور ہے کہ ہندستان میں غیر قوم کی حکومت ہونے کی وجہ سے اقتصادی اصول اپنا اثر آزادی کے ساتھ نہیں پیدا کر سکتے۔ تعلیمی مسائل پر ہمارے ملک میں پولیٹکل رنگ چڑھ جاتا ہے اور اقتصادی ترقی کے راستے میں بیسیوں پولیٹکل رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے تو ہندستان کو برٹش گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں رہ کر پولیٹکل آزادی کی سخت ضرورت ہے۔ (۴) ’’مخزن‘‘ لاہور ’’علم الاقتصاد‘‘ پر’’ مخزن‘‘ نے درج ذیل شماروں میں تبصرے اور اشتہارات شائع کیے ہیں:۔ (۱) ’’مخزن‘‘ جلد ۹ نمبر۴ (صفحہ ۱۰) بابت جولائی ۱۹۰۵ء (۲) ’’مخزن‘‘ جلد ۱۲ نمبر۳ (صفحہ ۷) بابت دسمبر ۱۹۰۶ء (۳) ’’مخزن‘‘ جلد ۱۵ نمبر۲ (صفحہ ۳) بابت مئی ۱۹۰۸ء متذکرہ بالا شماروں میں سے نمبر۲ یعنی دسمبر ۱۹۰۶ء کا تبصرہ درج کیا جاتا ہے:۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ (یعنی سیاست مدن) مصنفہ شیخ محمد اقبال ایم ۔اے اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور ’’یہ قابل قدر کتاب شیخ صاحب نے جس عرق ریزی سے لکھی ہے اور جس محنت سے انھوں نے علم الاقتصاد کے دقیق اصول کو واضح کیا ہے، اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کو علمی کتابوں کے پڑھنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ توضیح اصول کے ساتھ مصنف نے ہندستان کے موجودہ تمدنی، اخلاقی، اور اقتصادی حالات کی طرف لطیف اشارات کیے ہیں جن سے پڑھنے والے کی نظر وسیع ہوتی ہے اور اس کو مسائل اقتصاد آزادانہ طور پر غور وفکر کرنے کی تحریک ہوتی ہے۔ زرنقد کی ماہیت پر جو کچھ لکھا ہے ایک خاص منطقیانہ دلچسپی رکھتا ہے۔ جس سے ایک عقلی مسرت حاصل ہونے کے علاوہ بعض اہم مسائل پر عجیب قسم کی روشنی پڑتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اردو لٹریچر کا یہ قابل قدر اضافہ وقت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اور اس کے مسائل پر کما حقہ غور کیا جائے گا۔ کیونکہ ہندستان کی آیندہ قسمت کا دارومدار زیادہ تر اس ملک کے موجودہ اقتصادی حالات پر منحصر ہے۔ اب وقت اس بات کا مقتضی ہے کہ پبلک کم وزنی لٹریچر سے دست بردار ہو کر ان کتابوں کی طرف توجہ کرے جن کا موضوع انسان کی عملی زندگی اور اس کے تمدنی حالات پر غور کرنا ہے۔ اس کتاب کی قیمت صرف ایک روپیہ ہے۔‘‘ کتاب چھپنے کے بعد جب اقبال ستمبر ۱۹۰۵ء میں یورپ گئے تو وہاں بھی انھوں نے اقتصادی پہلوئوں پر تقریریں کیں۔ ان کے دوست شیخ عبدالقادر ایڈیٹر ’’مخزن‘‘ پہلے سے وہاں موجود تھے۔ شیخ صاحب نے ایک مضمون بعنوان ’’ایک شام مسٹر سٹیڈ کے ہاں‘‘ لکھا جو پہلے مخزن اور پھر انتخاب ’’مخزن‘‘ حصہ سوم ص ۲۸۲ میں شامل کیا گیا۔ ایک دن سٹیڈ صاحب نے شیخ صاحب کو مع احباب چائے کی دعوت پر بلایا۔ اقبال کیمبرج کے اعلیٰ طلبہ کے قائم مقام تھے۔ ان کے علاوہ مسٹر عبداللہ یوسف علی، مسٹر ریڈی، مسٹر دوبے، پروفیسر پر مانند، لاہور کی آریہ سماج کے رکن اور مسٹر عبداللطیف بمبئی کے تاجر بھی تھے۔ کچھ دیر میزبان اور مہمانان سے گفتگو کرنے کے بعدتقریریں شروع ہوئیں۔ شیخ محمد اقبال ، پروفیسر پرمانند، پنڈت چرن جیت رائے، ڈاکٹر انصاری، مسٹر عبداللطیف، مسٹر نندلال دوبے اور مسٹر ریڈی نے برجستہ تقریریں کیں۔ شیخ محمد اقبال نے اپنی تقریر میں ہندستان کے اقتصادی پہلو اور ہندستان کی اقتصادی ترقی کی ضرورت بیان کی۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ کی شہرت دور دور تک شائع ہوتے ہی پھیل گئی تھی۔ ۲۴۔ اپریل ۱۹۰۷ء کے خط میں اقبال نے عطیہ فیضی ۱۰؎ بیگم کو لکھا کہ اپنی کتاب ’’علم الاقتصاد‘‘ بھی پیش کرتا، افسوس میرے پاس یہاں کوئی نسخہ نہیں ہے۱۱؎۔ البتہ ان کو کتاب کا مسودہ دیا تھا۱۲؎۔ حوالے اور حواشی ۱۔ ’’روزگار فقیر‘‘، جلد دوم، ۶۴، مرتبہ: فقیر سید وحید الدین، بار دوم ۱۹۶۵ئ۔ ۲۔ ’’کتاب شناسی اقبال‘‘ صفحہ ۱۷۲،مرتبہ دکتر محمد ریاض ، مطبوعہ مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان ۱۹۸۶۔ جناب جاوید اقبال نے اپنی کتاب (’’زندہ رود‘‘، جلد اوّل ص۱۵۱)میں ’’علم الاقتصاد‘‘ کی اشاعت کے بارے میں صحیح نشاندہی کی ہے کہ یہ اپریل ۱۹۰۴ء میں زیر طبع تھی۔ ۳۔ ’’مخزن ‘‘ کا یہ شمارہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں اقبال کی نظم: جگنو (ص ۴۶ ۔ ۴۷) ۱۹ شعر، صبح کا ستارہ (ص ۴۷۔۴۸) ۲۲ شعر۔ ایک غزل ص ۶۱ تا ۶۲) ۱۴ شعر میں ہے۔ اس کا مطلع ہے۔ سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں ’’مخزن‘‘ کے بعد یہ غزل زمانہ کا نپور بابت نومبر ۱۹۱۹ء اور ’’صوفی‘‘ منڈی بہائولدین (پنجاب) بابت ستمبر ۱۹۱۹ء (ص۷) میں بھی اتنے ہی شعر میں چھپی تھی۔ ۴۔ آرنلڈ (۱۸۶۴ئ۔۱۹۳۰ئ) کے بارے میں کچھ نئی معلومات درج کی جاتی ہیں۔ انھوں نے قیام لاہور سے پہلے ایم۔ اے ۔او کالج علی گڑھ میں اسلام اور مسلمانوں کی جو شاندار خدمات انجام دیں ان کے لیے مسلمانوں کا بچہ بچہ ان کا ممنون احسان ہے۔ ’’آرنلڈ مدرستہ العلوم کے طلبہ کو بورڈنگ ہائوس سے نکال نکال کر شرکت نماز و جماعت کے لیے گھیرتے پھرا کرتے تھے۔ یعنی ان کو مسلمان بچوں کی نماز وغیرہ کی پابندی کا بڑا خیال رہتا تھا‘‘ (اخبار ’’وکیل‘‘ امر تسر جلد ۹ نمبر ۳۷ ص ۶) مطبوعہ ۷ اگست ۱۹۰۳ئ) شمس العلما سید ممتاز علی ۱۸۶۰ء ۔۱۹۳۵ئ) تالیف و اشاعت ص ۱۱) بابت ۱۵ فروری ۱۹۰۴ء میں آرنلڈکے لندن جانے کے سلسلے میں بعنوان ’’آرنلڈ کے بارے میں‘‘ لکھتے ہیں:۔ ’’ٹی۔ ڈبلیو آرنلڈ صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب سے تشریف لے جاتے ہیں۔ صاحب ممدوح کا تقرر انڈیا آفس لائبریری سے متعلق کیا گیا ہے۔ صاحب ممدوح کو عربی زبان اور مسلمانوں کے ساتھ خصوصیت سے ہمدردی ہے۔ آپ کی انگریزی کتاب ’’اشاعت مذہب اسلام‘‘ نے انھیں اسلامی دنیا میں بہت ہر دلعزیز اور مقبول بنا دیا ہے۔ اور اس لیے مسلمانوں کو خصوصاً ان کی جدائی نہایت شاق ہے۔ لیکن ہمیں اس جدائی سے رنج نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنی فاضلانہ علمیت اور عربی دانی کی وجہ سے اہل اسلام کے لیے ایسی علمی خدمات انجام دے سکیں گے جو شاید اپنے موجودہ عہدے پر کسی طرح نہیں دے سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے اس علمی مذاق کے پورا کرنے کے لیے ایسا عہدہ منظور کیا ہے جو ہر چند عزت میں زیادہ بلند ہے مگر تنخواہ کے لحاظ سے ان کے لیے کسی طرح فائدہ مند نہیں ہے۔‘‘ آرنلڈ کے جانے سے مولانا حالی بھی کافی متاثر تھے۔ انھوں نے ان کی جدائی پر ۵۴ شعر کی ایک طویل نظم لکھی جو ’’علی گڑھ منتھلی‘‘ جلد ۲ نمبر۳ بابت مارچ ۱۹۰۴ء میں چھپی تھی۔ چند شعر یہ ہیں ؎ قصہ کو تہ ہم سے اب چھٹتا ہے پیارا آرنل فخر سے ہم جس کو کہتے تھے ’’ہمارا آرنل‘‘ آرنل کا مذہبی دنیا پہ جو احسان ہے ہو نہیں سکتا ادا شکر اس کا قِصہ مختصر آرنل مس آرنل مس آرنل سب کے لیے یہ سفر فتح و ظفر کا ہو وسیلہ سربسر آرنل سے فتح علمی جو ہوئی ہے آشکار ہوں فتوحات آشکار اس سے ایسے بے شمار آرنلڈ کی جدائی کا شاق سب سے زیادہ اقبال نے محسوس کیا تھا۔ انہوں نے آٹھ بند کا مسدس ’’نالہ فراق‘‘ کے عنوان سے لکھا جو ’’مخزن‘‘ جلد ۷ نمبر۲ (صفحہ ۴۵۔۴۷) بابت مئی ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا تھا۔ مسدس کی ابتدا میں اقبال کا تمہیدی نوٹ بھی ہے جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ ’’استاذی قبلہ مسٹر آرنلڈ کے ولایت تشریف لے جانے کے بعد ان کی جدائی نے اقبال کے دل پر کچھ اس قسم کا اثر کیا کہ کئی دنوں تک سکینت قلبی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ ایک روز زور تخیل نے ان کے مکان کے سامنے لا کے کھڑا کر دیا ۔ اور یہ چند اشعار بے اختیار زبان پر آ گئے جن کی اشاعت پر احباب مجبور کرتے ہیں اگرچہ ان کی رخصت کے موقع پر بہت سے الوداعی جلسے کیے گئے اور ان میں بہت سی نظمیں پڑھی گئیں اور یہ نظم اس وقت لکھی بھی جا چکی تھی۔ تاہم اس خیال سے کہ اس میں میرے ذاتی تاثرات کا ایک درد آمیز اظہار تھا، کسی عام جلسے میں اس کا پڑھنا مناسب نہ سمجھا گیا۔ آپ کی تشریف بری کے بعد دلی تاثرات کی شدت اور بھی بڑھ گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نظم میں بہت سی تبدیلی ہو گئی۔‘‘ (اقبال) ۵۔ پروفیسر لالہ جیارام ۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ انگریزی کے پروفیسر تھے۔ ان کا بے مثال کتب خانہ تھا۔ وہ بڑے عالم اور دانشور تھے۔ اقبال کے محترم بزرگ دوستوں میں تھے۔ انگریزی کے علاوہ اردو فارسی بخوبی جانتے تھے۔ ’’مخزن‘‘ میں ان کے کئی مضامین میری نظر سے گزرے ہیں۔ وہ اپنے طالب علموں سے بھی ’’مخزن‘‘ میں لکھواتے تھے۔ ۶۔ مسٹر فضل حسین۔ اقبال کے ہم جماعت اور عزیز دوست تھے۔ اقبال نے ان کے والد بزرگوار کے اچانک انتقال پر ایک عمدہ نظم ’’فلسفہ غم‘‘ کے عنوان سے لکھی جو ’’مخزن‘‘ جلد ۱۹ نمبر۴ (صفحہ ۵۵) بابت جولائی ۱۹۱۰ء میں شائع ہوئی تھی۔ ۷۔ ’’زمانہ‘‘، ’’مخزن‘‘ کے بعد اردو کا سب سے زیادہ نامور اور ہر دلعزیز رسالہ تھا۔ اس کے کم و بیش سبھی شمارے میرے مطالعہ میں رہ چکے ہیں۔ منشی راج بہادر صاحب دیوان صدر ریاست رامپور نے ’’زمانہ‘‘ کو پہلی مرتبہ قیصری پریس بریلی سے شیو برت لال صاحب ورمن کی ایڈیٹری میں جاری کیا تھا۔ درمن صاحب کے بعد منشی دیا نراسن نگم زمانہ کے ایڈیٹر ہوئے۔ ان کا دفتر کانپور میں تھا۔ لیکن ’’زمانہ‘‘ بریلی ہی میں اشاعت پذیر ہوتا تھا۔ ۱۹۰۵ء میں زمانہ کا دفتر اشاعت کانپور میں قائم ہوا تھا۔ ’’زمانہ‘‘ جلد ۳ نمبر۱،۲ بابت جولائی و اگست ۱۹۰۴ء (۱۳۵۔۱۴۰) میں نگم صاحب کا ایڈیٹوریل ’’عرض حال۔ ایک نظر باز گشت‘‘ کے عنوان سے درج ہے۔ اس میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے زمانہ کے لیے قلمی تعاون پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان میں ’’شیخ محمد اقبال صاحب ایم۔ اے پروفیسر‘‘ کا نام بھی شامل ہے۔ اقبال نے اس پیمان کے فوراً بعد جولائی ۱۹۰۴ء میں اپنا کلام نگم صاحب کو بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ شہرہ آفاق نظم ’’ہمارا دیس‘‘ (ترانہ ہندی) کے عنوان سے بھیجی جو ’’زمانہ‘‘ جلد ۳ نمبر۳ (بابت ستمبر ۱۹۰۴ء ص نمبر۱۵۱) میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔ نظم کی ابتدا میں ایڈیٹر صاحب کا یہ تمہیدی نوٹ قابل توجہ ہے:۔ ہندستانی زبانوں اور خصوصاً اردو میں حب الوطنی اور جوش ملکی کے متعلق ایسی نظمیں شاذ و نادر ہی لکھی گئی ہوں گی جن میں اس ملک کے خصوصیات کے بیان کے ساتھ ساتھ انسان کے اعلیٰ ترین جذبہ حب الوطنی کا لحاظ ہو۔ انگلستان میں ایسے گیت ہر خاص و عام کی زبان زد ہوتے ہیں اور وہاں کے باشندوں کے دلوں پر ان کا ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ جنگ و جدل کے وقت اور امن و چین کے زمانے میں غرض ہمیشہ ان گیتوں کی بدولت ان کے دلوں میں اپنے وطن کی محبت تازہ رہتی ہے۔ اور اس کی عظمت اور شان قائم رکھنے کا خیال جما رہتا ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے مخدوم پروفیسر اقبال کی یہ نظم جو انھوں نے ہمارے پیار ے اور پرانے دیس پر لکھی ہے، ملک بھر میں ہر دلعزیز اور مفید ثابت نہ ہو۔ ہمارے نزدیک یہ چھوٹے بڑوں خاص وعام ہر ایک کے مقبول ہونے کی مستحق ہے۔ نظم میں ۹ شعر ہیں۔ مقطع یوں ہے ؎ اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم ہے ہمیں کو دردِ نہاں ہمارا تیسرا شعر یوں ہے ؎ پنجاب کیا دکن کیا، بنگال بمبئی کیا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا ’’زمانہ‘‘ کے زیر نظر شمارے میں بائیں جانب حاشیہ میں نسخہ (ن) کے طور پر مصرع اس طرح درج ہوا ہے۔ ن۔ ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘۔ جب نگم نے اقبال کو نظم کے صحت زباں کے بارے میں لکھا تو اقبال نے ایبٹ آباد ضلع ہزارہ سے جہاں وہ اپنے بھائی شیخ عطا محمد کے پاس گرمیوں کی تعطیلات گزارنے گئے تھے، مورخہ ۱۰ اگست ۱۹۰۴ء کو نظم مذکورہ نظر ثانی کے بعد خط کے ساتھ روانہ کر دی۔ چونکہ مطبع میں نظم پلیٹ پر اتار دی گئی تھی اس لیے معکوس نویس نے مصرع (ہندی ہیں ہم…) پلیٹ کے حاشیے میں لکھا اور اقبال کے تصحیح کردہ اشعار ’’زمانہ‘‘ میں دوبارہ چھاپنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ واقعہ ایڈیٹر ’’زمانہ‘‘ کے چھوٹے صاحبزادے برج نرائن نگم (ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ پولیس)نے مجھ سے ۱۹۸۱ء میں بیان کیا۔ ایڈیٹر صاحب نے اقبال کا خط اور نظم بخط مصنف فریم میں سنبھال کے رکھی تھی اور اس کا عکس مجھے ان کے صاحبزادے نے عنایت کیا تھا۔ ذیل میں خط کی نقل درج کی جاتی ہے:۔ ’’ایبٹ آباد ۔ ضلع ہزارہ جناب من … میں کئی دنوں سے یہاں ہوں۔ لیکن افسوس کہ یہاں پہنچتے ہی بیمار ہو گیا اور اس وجہ سے آپ کے خط کا جواب نہ دے سکا۔ ابھی پورا افاقہ نہیں ہوا۔ اشعار ارسال خدمت کرتا ہوں۔ صفحہ ملاحظہ ہو۔ محمد اقبال معرفت شیخ عطا محمد۔ سب ڈیوژنل آفیسر ملٹری ورکس ۱۰ ۔اگست ۱۹۰۴ء اقبال کی نظرثانی شدہ نظم (ہمارا دیس) شیخ عبدالقادر نے ’’مخزن‘‘ جلد ۸ نمبر۱ صفحہ ۴۹ بابت اکتوبر ۱۹۰۴ء میں اپنے تمہیدی نوٹ کے ساتھ شائع کی۔ اس میں مقطع اس طرح موجود ہے ؎ اقبال اپنا کوئی محرم نہیں جہاں میں معلوم ہے ہمیں کو دردِ نہاں ہمارا حسرت موہانی اور شرر لکھنوی نے ’’معلوم ہے ہمیں کو‘‘ ہدف تنقید بنایا۔ اقبال نے مصرعے کو یوں تبدیل کیا۔ معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا بہت سے ماہرین اقبالیات کو ’’ہمارا دیس‘‘ (ترانہ ہندی) کی پہلی اشاعت میں غلط فہمیاں ہوئی تھیں۔ہماری تحقیق کے مطابق اس کی اولین اشاعت کا شرف ’’زمانہ‘‘ کانپور کو حاصل ہے۔ اس کا اعادہ نگم صاحب مرحوم نے اقبال کی زندگی میں بار بارکیا تھا۔ موصوف ’’زمانہ‘‘ جوبلی نمبر بابت فروری ۱۹۲۸ء کی ابتدا میں ’’علامہ اقبال اور زمانہ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:۔ ’’علامہ اقبال بھی ’’زمانہ‘‘ کے اولین قلمی معاونین ہیں۔ آپ کا مشہور و معروف ’’قومی ترانہ‘‘ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ سب سے پہلے ’’زمانہ‘‘ میں ستمبر ۱۹۰۴ء کے پرچے میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً آپ کی قلمی عنایات کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ ۱۹۲۵ء میں زمانہ کا قومی نمبر شائع ہوا تھا۔ اس کے لیے آپ نے یہ شعر خاص طور پر عنایت فرمایا تھا ؎ نہ کنم دگر نگا ہے بہ رہے کہ طے نمودم بسراغ صبح فردا، روش زمانہ دارم یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم نے ’’زمانہ‘‘ سے اقبال کے متعلق وہ تمام مواد یکجا کر کے مرتب کیا ہے جو ۱۹۰۴ء سے ۱۹۳۸ء تک مختلف شماروں میں شائع ہوا تھا۔ ۹۔ ’’مخزن‘‘ کا پہلا شمارہ اردو کے مشہور انشا پرداز اور ناقد شیخ عبدالقادر نے اپریل ۱۹۰۱ء میں جاری کیا اور عرصہ دراز تک شائع ہوتا رہا۔ ابتدائی برسوں میں اقبال کا کلام مخزن میں خوب چھپ رہا تھا۔ قیام یورپ کے زمانے میں بھی اقبال ’’مخزن‘‘ کی طرف متوجہ رہے۔ لندن کی واپسی کے بعد بھی کئی سال تک ’’مخزن‘‘ کی زینت بڑھاتے رہے۔ اس کے بعد کئی سال تک خاموش رہے۔ اپریل ۱۹۱۷ میں اقبال کی نظم شیکسپئر ’’مخزن‘‘ میں نظر آئی۔ اگست ۱۹۲۷ء میں جب ’’مخزن‘‘ کا گرامی نمبر شائع ہوا تو اس میں گرامی پر اقبال کا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب اقبال کی نظم ’’کوہستان ہمالہ‘‘ کے عنوان سے ’’مخزن‘‘ کے اولین شمارہ بابت اپریل ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی تو اس میں ۱۲ بند تھے۔ نویں اور دسویں بند کے نیچے اقبال نے حواشی لکھے تھے۔ ان حواشی کا ذکر آج تک کسی نے نہیں کیا ہے۔ ہم یہاں پہلی مرتبہ من و عن لکھتے ہیں ؎ بند ۹؎ وہ اصول ۱؎ حق نمائے نقش ہستی کی صدا روح کو ملتی ہے جس سے لذتِ آب بقا جس سے پردہ روئے قانون محبت کا اٹھا جس نے انساں کو دیا راز حقیقت کا پتا تیرے دامن کی ہوا میں سے اگا تھا یہ شجر بیخ جس کی ہند میں ہے چین و جاپان میں ثمر بند ۱۰۔ تو تو ہے مدت سے اپنی سر زمیں کا آشنا کچھ بتا ان راز دانانِ حقیقت کا پتا تیری خاموشی میں ہے عہد سلف کا ماجرا تیرے ہر ذرے میں ہے کوہ المپس۲؎ کی فضا ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سرا سر چشم بینا کے لیے دوسری اہم بات یہ ہے کہ جناب شیخ عبدالقادر نے نظم کی ابتدا، میں جو تمہیدی نوٹ لکھا ہے۔ اس کا بھی ذکر اقبالیات میں نہیں مل رہا ہے۔ ذیل میں درج کیا جاتا ہے: ’’شیخ محمد اقبال صاحب قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علوم مغربی و مشرقی دونوں میں صاحب کمال ہیں۔ انگریزی خیالات کی شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعرائے انگلستان ور ڈسورتھ کے رنگ میں کوہ ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں‘‘۔ ۱۰؎۔ عطیہ بیگم فیضی … ’’ماہرین اقبالیات‘‘ نے اقبال اور عطیہ بیگم کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔ ہم نے عطیہ بیگم پر ایک تحقیقی مضمون مرتب کیا جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔ ذیل کا اقتباس اسی سے ماخوذ ہے۔ عطیہ فیضی بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بدرالدین طیب جی (۱۸۴۴۔ ۱۹۰۶ئ) کی بھانجی تھیں۔ سر اکبر حیدری بھی ان کے بھانجے تھے۔ اس طرح عطیہ بیگم سراکبر حیدری کی سگی بہن تھیں۔ ’’ز مانہ‘‘ کانپور صفحہ ۳۲۵ بابت نومبر ۱۹۰۶ء میں قاضی کبیر الدین بیرسٹرایٹ لا لکھتے ہیں:’’مسٹر بدرالدین طیب جی کی تیسری بھانجی مس عطیہ بیگم میں جنھوں نے کانفرنس کے جلسہ بمبئی میں زنانہ صنعت کی نمایش کی آزمایش اور درستی میں بڑی بیش قدر مدد کی تھی۔ اور جنھوں نے کانفرنس کے جلسہ علی گڑھ میں اس نمایش کی درستی اور زیب و زینت کو ایک سے دہ چند کر دیا تھا اور جنھوں نے تعلیم نسواں کی توسیع اور اس کے لیے وصول چندہ میں مسٹر شیخ عبداللہ سکریٹری شعبۂ تعلیم نسواں کو حد سے زیادہ مدد دی ہے اور جو بامداد گورنمنٹ آف انڈیا لندن کو تعلیم پانے گئی ہیں‘‘ایک اور جگہ مسٹر کبیر الدین لکھتے ہیں:’’مسٹر بدرالدین حقوق نسواں کے بڑے زبردست وکیل تھے۔ اپنے خاندان کی لیڈیوں کو بہت سی آزادیاں دے رکھی تھیں جو اور مسلمان پردہ نشین بیگمات کے لیے ممنوع سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی دو صاحبزادیاں انگلینڈ میں تعلیم پا رہی ہیں۔ مس عطیہ بیگم ان کی بھانجی گورنمنٹ آف انڈیا کی طرف سے تعلیم پانے کے لیے ابھی حال میں انگلینڈ بھیجی گئی ہیں‘‘۔ عطیہ بیگم انتہائی ذہین، تیز و طراز، سخن فہم، بذلہ سنج، رمز آشنا، حاضر جواب اور بے حجاب خاتون تھیں۔ ان کی دوسری بہنیں زہرا بیگم اور نازلی رفیعہ بیگم اگرچہ باقاعدہ تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن نہایت قابل تھیں۔ تینوں بہنوں کو اردو سے خاص دلچسپی تھی۔ صاحبان تصنیف و تالیف کے علاوہ اہل فن کے کمالات کی قدر شناس تھیں۔ عطیہ اردو کے علاوہ فارسی اور عربی سے بخوبی واقف تھیں۔ وہ سب سے چھوٹی لیکن سب سے عقل مند اور جینس تھیں۔ عطیہ بیگم کی والدہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ انھوں نے ایک سوشل ناول لکھا تھا۔ جس کا نام ’’ناول نادر بیان‘‘ تھا۔ اسے زہرابیگم فیضی نے مرتب کر کے شائع کیا۔ موصوفہ نے نظم میں ایک اور کتاب ’’آمین‘‘ کے نام سے لکھی۔ یہ کتاب بھی زہرابیگم نے مرتب کر کے شائع کی تھی۔ ’’زمانہ‘‘ کانپور جلد ۲۳ نمبر۱۳۵ بابت مارچ ۱۹۱۴ (صفحہ ۱۷۶۔۱۷۷) میں دونوں کتابوں پر ریویو چھپا تھا۔ عطیہ فیضی اقبال سے بہت متاثر ہوئی تھیں۔ ان کے درج ذیل مضامین میری نظر سے گزرے ہیں۔ (۱) ’’مدرسہ نسواں‘‘ ۔ مطبوعہ ’’الناظر‘‘ لکھنو یکم ستمبر ۱۹۰۹ء (۲) ’’بچوں کے لباس‘‘ مطبوعہ ’’الناظر‘‘ لکھنو۔یکم ستمبر ۱۹۰۹ (۳) ’’مسلمانوں کو ایک پیام‘‘ مطبوعہ نور جہاں، امر تسر ۔ فروری ۱۹۲۶ء (۱۱) ’’روح مکاتیب اقبال‘‘ ص ۸۰ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی (۱۲) ’’اقبال‘‘ از عطیہ بیگم مرتبہ عبدالعزیز خالد ،صفحہ ۲۶ استدراک ’’علم الاقتصاد‘‘ کے ماہ و سال اشاعت کے بارے میں تین بیانات ملتے ہیں (۱) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کا بیان (یہ کتاب ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی۔ ’’زندہ رود‘‘ ، طبع ۲۰۰۰، ص ۱۴۰) (۲) محمد حمزہ فاروقی کا بیان (کتاب دسمبر ۱۹۰۴ء میں چھپی۔ ’’اقبال ریویو‘‘ ، جنوری ۱۹۷۶ء ، ص۶۹) (۳) راقم الحروف کا بیان (’’علم الاقتصاد‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۰۴ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔ ’’تصانیف اقبال‘‘ طبع ۱۹۸۲ء ص ۲۹۳۔اور ’’۔۔۔ نومبر ۱۹۰۴ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔‘‘ایضاًطبع دوم ۲۰۰۱ء ص ۲۹۳) جناب اکبر حیدری کاشمیری نے متذکرہ بالا بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے جنوری ۱۹۰۵ء کو’’ علم الاقتصاد‘‘ کا زمانہ اشاعت قرار دیا ہے (۱) پہلی ’’دلیل‘‘ یہ ہے کہ ’’مخزن‘‘ دسمبر ۱۹۰۴ء کے اس صفحے پر ذرا سی جگہ رہ گئی تھی اس لیے اس جگہ کو پر کرنے کے لیے صرف یہ اطلاع دی گئی کہ کتاب چھپ گئی ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ خلا کو پر کرنے کے لیے وہ کیا مجبوری تھی جس کی بنا پر خلاف واقعہ بات لکھ دی گئی کہ ’’کتاب چھپ گئی ہے‘‘… اگر کتاب واقعی شائع نہیں ہوئی تھی تو زیادہ قرین عقل ہے کہ اس طرح کی اطلاع دی جاتی: ’’علم الاقتصاد‘‘ عنقریب آنے والی ہے، یا بہت جلد شائع ہو رہی ہے یا آیندہ ماہ تک آ جائے گی۔ اکبر حیدری کاشمیری صاحب نے ’’مخزن‘‘ کی جس اطلاع کا ذکر کیاہے، اس کی عبارت یہ ہے: ’’ہم ناظرین کو بڑی خوشی سے یہ اطلاع دیتے ہیں کہ یہ قابل قدر کتاب جس کا ایک باب ’’مخزن‘‘ میں شائع ہو چکا ہے، چھپ کر تیار ہو گئی ہے‘‘ (’’مخزن‘‘، دسمبر ۱۹۰۴ئ) … اس واضح اور دو ٹوک اطلاع کے باوجود اکبر حیدری کا شمیری صاحب کا یہ بیان : ’’میری رائے میں کتاب جنوری ۱۹۰۵ء سے پہلے منظر عام پر نہیں آئی تھی‘‘ محض ایک قیاس آرائی یا خود ساختہ مفروضہ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ کاشمیری صاحب نے اپنی متذکرہ بالا رائے کی تائید میں ’’زمانہ ‘‘ جنوری میں شائع شدہ ایک تحریر کا ذکر کیا ہے جس میں ’’علم الاقتصاد‘‘ کے ’’چھپنے کے بارے میں‘‘ خبر موجود ہے… اب سوال یہ ہے کہ اگر کتاب لاہور سے جنوری میں چھپی تو ’’زمانہ‘‘ کانپور کے جنوری ہی کے شمارے میں خبر کیسے چھپ گئی؟ یہ خبر تو جلد از جلد بھی فروری کے شمارے میں چھپنی چاہیے تھی… جنوری میں اشاعت کی خبر، ہی اس امر کی دلیل ہے کہ کتاب دسمبر یا اس سے بھی پہلے شائع ہو کر دسمبر ہی میں ایڈیٹر ’’زمانہ‘‘ کے پاس پہنچ چکی تھی اور وہ بھی Well in time یعنی دسمبر کے بھی دوسرے یا تیسرے ہفتے میں۔ تبھی تو یہ ممکن ہوا کہ ایڈیٹر نے خبر بنائی اور اسے دسمبر کے آخری ہفتے میں اشاعت کے لیے جانے والے شمارے میں شامل کر لیا۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ کی پہلی اشاعت کے بارے میں یہاں ایک اور وضاحت بھی مناسب ہو گی۔ راقم نے ’’تصانیف اقبال‘‘ کے طبع اوّل (۱۹۸۱ئ) میں فقط یہ لکھا تھا کہ’’علم الاقتصاد‘‘ ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی (ص ۲۹۳) مزید غور و فکر کے بعد، میںاس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پہلی اشاعت نومبر ۱۹۰۴ء میں عمل میں آگئی (’’تصانیف اقبال‘‘ طبع دوم ۲۰۰۱ء ، ص ۲۹۳)۔ اس کی بنیاد ’’مخزن‘‘، دسمبر ۱۹۰۴ء کا متذکرہ بالا اعلان ہے۔ کتاب نومبر میں چھپ گئی تھی۔ تبھی شیخ عبدالقادر صاحب کے لیے ممکن ہوا کہ وہ دسمبر کے شمارے میںناظرین کو بڑی خوشی سے یہ اطلاع دیں۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ مارچ ۱۹۰۴ء تک اقبال نے کتاب مکمل کر لی تھی، تبھی اس کا آخری باب ’’آبادی‘‘ ’’مخزن‘‘، اپریل ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا، جس کے تمہیدی نوٹ میں یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ ٹیکسٹ بک کمیٹی نے ’’کُلاً ایک سو جلدیں خریدنا منظور فرمایا ہے‘‘… اس کی رو سے بھی مصنف اور ناشر کے مفاد میں یہی تھا کہ کتاب جلد از جلد شائع ہو جائے۔ اب اپریل سے نومبر تک سات، آٹھ ماہ کا عرصہ کتابت و طباعت کے مختلف مراحل کے لیے بہت کافی وقت تھا۔لہٰذا کتاب مذکورہ کا نومبر ۱۹۰۴ء میں شائع ہونا زیادہ قرین قیاس ہے اور جملہ شواہد اس کی تائید کرتے ہیں۔ اکبر حیدری کا شمیری صاحب نے مندرجہ بالا مضمون کے حوالہ نمبر۲ میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر جاویداقبال (’’زندہ رود‘‘ جلد اوّل ص ۱۵۱) کے مطابق ’’علم الاقتصاد‘‘ ’’اپریل ۱۹۰۴ء میں زیر طبع تھی…‘‘ جاوید اقبال سے بیان کا انتساب درست نہیں ہے۔ کیوں کہ ’’زندہ رود‘‘ حصہ اوّل صفحہ ۱۳۸ پر ختم ہو جاتی ہے۔ ۱۵۱ صفحہ ، حصہ دوم میں ہے اور وہاں ایسا کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے تو یہ لکھا ہے کہ یہ کتاب ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی (طبع اوّل ص ۸۷… طبع دوم۲۰۰۱ئ، ص ۱۴۰)۔ (رفیع الدین ہاشمی )  اقبال اور فرید کا نظریۂ عشق ڈاکٹر میاں مشتاق احمد خواجہ غلام فرید مٹھن کوٹی فرید (۱۸۴۵ئ۔۱۹۰۱ئ)اور اقبال (۱۸۷۷ئ۔۱۹۳۸ئ) سرزمین پنجاب کے دو نمایاں فکری راہ نما ہیں۔ خواجہ فرید، علامہ اقبال سے بتیس سال پہلے پیدا ہوئے۔ ان کے آخری ایام میں اقبال کا کلام شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ علامہ اقبال کو خواجہ فرید کی ذات، علمی مرتبے اور شاعرانہ حیثیت کے بارے میں ، بخوبی علم تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: حضرت خواجہ فریدؒ کی کافیاں علامہ صاحب سنا کرتے تھے۔ آخری ایام میں ایک ملازم دیوان علی انھیں یہ کافیاں سنایا کرتا تھا۔ دیوان علی بھی علی بخش کا رشتہ دار تھا۔ آپ سرائیکی اور پنجابی دونوں کلاموں سے مستفید ہوتے تھے۔ ۱ خود علامہ اقبال انھیں ایک روحانی شخصیت سمجھتے تھے:۔ جس قوم سے خواجہ سلیمان تونسوی ، شاہ فضل الرحمن اور خواجہ فریدؒ چاچڑاں والے اس زمانے میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں اس کی روحانیت کا خزانہ ابھی ختم نہیں ہوا ۲۔ ان کا رسالہ ’’سیاحت افلاک‘‘ علامہ اقبال کے علم میں تھا، لکھتے ہیں: رہاستاروں میں پہنچنا، ان کی سیاحت کرنا ہو، جس طرح ابن العربی کی تحریروں سے دانتے کو تحریک ہوئی کہ واقعتا نہ سہی، عالم خیال ہی میں سہی ستاروں کا رخ کرے… ایک بزرگ چاچڑاں شریف حضرت خواجہ فرید علیہ الرحمتہ کا بھی ایک رسالہ سیاحت افلاک میں ہے انھوں نے لکھا ہے کس طرح ان کا گزر بعض سیاروں میں ہوا ۳۔ مولانا طالوت اپنے دور میں ایک ماہر فریدیات تھے، علامہ اقبال سے ان کا رابطہ ثابت ہے، وہ مقدمۂ ’’دیوان فرید‘‘ میں خواجہ فرید کے کلام پر اقبال کے تبصرے کا ذکر کرتے ہیں۴۔ پھر صوفی تبسم کا مع ساتھیوں کے، اقبال سے مکالمہ’’ اردو ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۵۔ اس طرح کی کئی اور خارجی شہادتیں موجود ہیں لیکن داخلی شہادتوں کی تلاش بھی منطقی جواز لیے ہوئے ہے۔ اقبال تصوف پر تحقیق کررہے تھے، اپنے علاقے اور اپنے عہد کے اتنے بڑے صوفی کے بارے میں ضرور جانتے ہوں گے، جو کئی والیان ریاست کا مرشد تھا، جن ریاستوں سے اقبال کا تعلق رہا ہے اور پھر وہ شاعر ہے، جسے بھر پور عوامی مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ اس کی شاعری اقبال خود بھی سنتے تھے۔ اسی پنجاب کی زبان بولنے والا، علامہ اقبال صرف اس کی شاعری ہی سے نہیں بلکہ خواجہ فرید کی ان کتابوں سے بھی آشنا تھے جس کے بارے میں عام لوگ زیادہ نہیں جانتے۶۔ ایک اور نکتہ یہ بھی توجہ طلب ہے کہ اقبال نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ خواجہ فرید کو علاقائیت میں محدود کر دیا گیا۔ وہ فرید میں بین الاقوامی حیثیت کے عناصر دیکھتے تھے۔ کائنات کا وہ اہم نکتہ کوئی فنی مسئلہ نہیں ہے بلکہ نظریاتی ہے، جس کا ایک بنیادی حوالہ فلسفۂ عشق ہے جو تربیت انسانی کے لیے لازم اور شرطِ ارتقائے آدمیت ہے، وجۂ حصول مقامِ عشق ہے جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ طلب کی یکتائی و وحدت سے شناسا ہو جاتا ہے عشق اس کا رہنما بن جاتا ہے اور مقام عشق سے سرفراز ہو جانے والوں کے لیے منزلیں بن جاتا ہے بقول خواجہ فریدؒ: تھل مارو دا پینڈا سارا تھیسم ہک بلانگھ اور بقول اقبالؒ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں …… سِکھ ریت روش منصوری نوں سکھانا کیا ہے؟ روش منصوری، کیا ہے؟ ’’اناالحق‘‘ یعنی بتایا تھا کہ میں جان گیا ہوں کہ میں کیا ہوں؟ جو کوئی عشق مدرسے آیا فقہ اصول دا فکر اٹھایا بے شک عارف ہو کر پایا رمز حقیقت پوری نوں جو کوئی چاہے علم حقائق راز لدنی کشفِ دقائق تھیوے اپنے آپ دا شائق سٹ نزدیکی دوری نوں اور متاع فقر کیا ہے؟ فرید فرماتے ہیں: نینہہ فرید فقر دی موڑی باجھ برہوں دے گل گل کوڑی اور اقبال علیہ الرحمتہ کیا فرماتے ہیں؟ مسجد قرطبہ کا پہلا بند پڑھیے: عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں، بت کدۂ تصورات من بندۂ آزادم، عشق است امام من عشق است امام من، عقل است غلامِ من اور عشق کی ابتدا، اس کا پہلا سبق سوز، جب تک کہ وہ ساز میں نہ ڈھل جائے! کیا مزہ ہے اس سوز میں ؟ کیا لذت ہے؟ کیا مستی ہے؟ متاع بے بہا ہے درد و سوزِساز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی عشق مدرسے آ کر عشق پالینے والا کیا بن جاتا ہے؟ بقول فریدِ عشق ہے ہادی پریم نگر دا عشق ہے راہبر راہ فقر دا عشقوں حاصل ہے عرفان عشق اساڈا دین ایمان جڈاں حضرت عشق استاد تھیا سب علم و عمل برباد تھیا پر حضرت دل آباد تھیا سود جد کنوں لکھ حال کنوں عشق فرید نہیں اج کل دا روز ازل دی مٹھیاں ہے پیت فرید دی ریت عجب ہے درد تے سوز دی گیت عجب سن سمجھو سارے اہل صفا سبحان اللہ، سبحان اللہ اور جب کوئی مقامِ عشق پا لیتا ہے تو قلندر کہلاتا ہے جس کا تعارف فریدؒ یوں کراتے ہیں کہ: جو ہے مرد تحقق، موقِن اوسدا تھیا شیطان بھی مومن حق الیقین، نفس مطمئنہ کس کے پاس ہوتا ہے؟ سچے صوفی کے پاس بقول فرید: ہیں عشق دے ملک دے میر اساں اور بقول اقبال: جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اَسرارِ شہنشاہی …… مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام علامہ اقبال، رومی کوپیر کہتے ہیں اور خواجہ فریدؒ، ابن العربی کو مرشد مانتے ہیں۔ دونوں فن شعر کو اپنے پیغام کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ دونوں انسانی جوہر کی نشوونما کے لیے تربیت کا ایک نظام وضع کرتے ہیں۔ دونوں انسانِ کامل کی شخصیت کی تعمیر و تربیت کا مقصد لیے ہوئے ہیں۔ دونوں کے ہاں عشق مصطفےؐ میں سچائی، گہرائی اور گیرائی ملتی ہے، دونوں کے ہاں قرآن و حدیث کو بنیادی حوالہ بنایا گیا ہے۔ اقبال، اکابر تصوف کو نہ مانتے تو مولانا روم کے گرویدہ کیوں ہوتے؟ اقبال، حضرت مہر علی شاہ گولڑوی کو لکھتے ہیں: …ابن العربی پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے بایں حال، چند اموردریافت طلب ہیں۷ اقبال کے نزدیک عشق کا تصور نہایت وسعت رکھتا ہے یہ ایک ایسی قوت ہے جو خودی کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ قاضی جاوید کہتے ہیں: خواجہ فرید کی زندگی میں ان کے تجربہ عشق کو بہت اہمیت حاصل ہے… جب کوئی تجربہ ذات کی گہرائیوں تک اتر جائے تووہ ذات کو مکمل طور پر گرفت میں لے کر اس کی تشکیل نو کر دیتا ہے۔۸ مجنوں گورکھپوری کے مطابق: خواجہ فرید ’’جمال یار‘‘ کے خیال میں نہیں بلکہ ’’خیال یار‘‘ کے جمال میں محو ہو جانے کی تحریک کرتے ہیں۔۹ اور بقول خود خواجہ فرید: عاشق مجازی کا عشق کچھ عرصے بعد زوال پذیر ہو جاتا ہے چونکہ عشق حقیقی صورت فعلیہ رکھتا ہے اور عشق مجازی صورت انفعالی رکھتا ہے۔۱۰ خواجہ فرید عشق ہی کو رمز حقیقی تک پہنچنے کا واحد راستہ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک عشق ایک پاکیزہ اور غیر فانی جذبہ ہے یہ علم و عرفان کا منبع اور عمل کا محرک ہے جس سے معراج عرفان اور معرفت حاصل ہوتی ہے اور خواجہ فرید مجاز کے پل سے گزر کر جمال مطلق تک رسائی پا لیتے ہیں تو فرماتے ہیں: حسن مجازی کوڑا، ہے فانی برباد باجھ محبت ذاتی، کوجھا شور فساد مجازی عشق جھوٹا اور فانی ہے ذاتِ باری کی محبت کے سوا تمام شور و فساد غیر موزوں ہے: عشق ہے ہادی پریم نگر دا عشق ہے راہبر راہ فقر دا عشقوں حاصل ہے عرفان عشق اساڈا دین ایمان عشق ہی سرمایہ عاشق ہے یہی پریم نگر کا راستہ دکھاتا ہے یہی فقر و درویشی کی منزل کا رہبر ہے اسی سے عرفان (ذات) حاصل ہوتا ہے اس لیے عشق ہی ہمارا دین و ایمان ہے۔ خواجہ فرید نے کامل شعورو اعتماد سے اپنا نظریہ عشق پیش کیا ہے جو انسانی شعورکو ہر لحظہ نئی توانائی و لذت عطا کرتا ہے۔ قسم خدا دی قسم نبی دی عشق ہے چیز لذیذ عجیب ان کا راستہ عام صوفیانہ روش سے اس طرح مختلف ہے کہ وہ اپنی ذات (شخصیت) کو قائم رکھتے ہیں بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ: خلقت کوں جیندی گول ہے ہر دم فرید دے کول ہے سوگند پیر فخرؒ الدین ہذا جنون العاشقین لوگ جس محبوبِ حقیقی کی تلاش میں ہیں مرشد فخرؒ الدین کی قسم، وہ ہر دم میرے پاس ہے، اور یہی کمال عشق ہے۔ خواجہ فرید کا عقیدہ یہ ہے کہ عشق وجہ تخلیق کائنات ہے جس کا ثبوت خود ذات اقدس کا فرمان ہے: کنت کنزا صاف گواہی پہلوں حب محبوب کوں آہی جیں سانگے تھیا جمل جہان عشق اساڈا دین ایمان کنت کنزاً کی حدیث قدسی ذات احد کے عشق کی دلیل ہے کہ ذات باری نے اپنی نمود کی خواہش (محبت) میں جہاں پیدا کیے۔ فرید کے نظریہ عشق کی بنیاد قرآن کے اس فرمان پر ہے کہ انا عرضنا الامانتہ علی السموات و الارض و الجبال فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھا الانسان ط انہ کان ظلوما جھولا ۱۱؎ (بے شک ہم نے امانت پیش کی آسمانوں اور زمینوں پہاڑوں پر تو انھوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اٹھا لی۔ بے شک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے) فریدؒ کس ناز اور شان سے کہتے ہیں: آپے بار محبت چایم ڑی ونج آپ کوں آپ اڑایم ڑی میں نے اپنی مرضی سے محبت کا درد قبول کیا اور اپنے آپ کو خود ہی پھنسایا لذت عشق اس قدر عزیز ہے کہ وہ’’ظلو ما جھولا‘‘ کا شعور رکھنے پر بھی عشق ہی پر راضی ہے: گھاٹے عشق دے گھاٹے جاتے میں تاں بھی چُم سر اَکھیاں چاتے میں عشق کے خسارے کو دیدہ و دانستہ چوم کر سر آنکھوں پر اٹھا لیا عشق ان کے نزدیک ایک طرز و طریق حیات ہے اور وہ سب سکھانے والوں کو علی الاعلان کہتے ہیں: زاہد کوں جا خبر سنائو عشق اساڈا دین زاہد کو بتادو کہ ہمارا دین (طریق) تو عشق ہے ٹھپ رکھ فقہ اصول دے مسئلے باب برہوں دا ڈس وے میاں جی فقہ اور اصول کے مسائل کو لپیٹو اور مجھے تو صرف درس عشق پڑھائو پیش کیتا جیں فہم فکر کوں لیت و لعل دی اِر گِھر کوں پڑھ کے شکر نہ ڈِتڑس سرکوں عشق دی راہ وچ بھس پیا جو عقل و فکر کے وسوسوں میں الجھ گیا اور اس نعمت کو خوشی سے قبول نہ کیا وہ راہِ عشق میں ناکام رہا پیا عشق اساڈی آن سنگت کئی شد مد زیر زبر دی بھت سب وسرے علم علوم اساں کل بھل گئے رسم رسوم اساں ہے باقی درد دی دھوم اساں بئی برہوں یاد رہیو سے گت عشق سے آگہی ملی تو علم بے وقعت ہو گیا۔ علوم و رسوم بھول گئے، صرف درد کی دھوم اور عشق کی گت باقی رہ گئی فرید کے ہاں عشق محض قال نہیں بلکہ حال ہے یہ وہ امتیاز ہے جو باقی عارفوں اور فریدؒ کے درمیان وجہ امتیاز ہے۔ وہ ایک خاص صوفیانہ پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں زندگی کی بنیاد عشق، طریق عشق، دین عشق اور ایمان عشق ہے۔ یہ ان کے خمیر، سرشت اور روح کا بنیادی جزو ہے۔ غرض فرید کے ہاں درد عشق کی ساری کیفیتیں موجود ہیں۔ وہ خود واقعتا ان مراحل سے گزرے ہیں۔ سوز عشق کی ساری وحشتیں نبھائی ہیں انھوں نے عملًا لق و دق صحرا میں بیٹھ کر مراحل سلوک طے کیے۔ ان کے صحرائے چولستان میں گزرے اٹھارہ سال، ان کے لیے تجربہ عشق کا زمانہ ہے۔ ان مدارج میں انسان ہونے کے ناطے کہیں کہیں شکستگی بھی ہے۔ جند سولاں دے وات نیں ڈتڑی برہوں برات نیں یہ سوز و اندوہ عشق کا عطیہ ہیں اے عشق نہیں سر رو ہے ڈکھیں سولیں دا انبوہ ہے یہ عشق درد و سوز کا انبار سر پہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں ہے عشق نہیں ہے نار غضب دی تن من کتیس کو لے یہ عشق غضب کی آگ ہے جو تن من جلا کر کوئلہ کر دیتی ہے عشق انوکھڑی پیڑ سو سو سول اندر دے نین دہاوِم نیر الڑے زخم جگر دے فرید کے ہاں عشق اور توحید ہم معنی ہیں جس کے حوالے خود کلام فرید سے ملاحظہ کیجئے۔ کس قدر واضح تعریف ہے فرید کے نظریہ عشق کی! جو ابن عربی کے زیر اثر وحدت الوجودی بن کر رہ گیا ہے راہ توحیدی، عشق فریدی اپنے آپ دا دھیان اے بن دلبر شکل جہان آیا ہر صورت عین عیان آیا کتھے موسیٰ تے کتھے شیث نبی کتھے نوح کتھے طوفان آیا کتھے ابراہیم خلیل بنے کتھے یوسف وچ کنعان آیا کل شے وچ کل شے ظاہر ہے سوہنا ظاہر عین مظاہر ہے کتھے ریت پریت داویس کرے کتھے عاشق تھی پردیس پھرے اقبال، عشق کو مادی حقائق پر روحانی حقائق کی برتری ثابت کرنے کے لیے اپناتے ہیں اور اسے زندگی کی قوتِ محرکہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تکوین کائنات اور ارتقائے حیات دونوں کا سرچشمہ عشق ہے: بہ برگ لالہ رنگ آمیزیٔ عشق بجانِ مابلا انگیزیٔ عشق اگر ایں خاک داں را واشگافی درونش بنگری خوں ریزیِٔ عشق اقبال کی نظر میں عشق قوتِ عمل و جوش کا دوسرا نام ہے، اس لیے انسان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ عشق کا سوزوگداز رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک عشق ہی شوق و آرزو کی بدولت ارتقأ کے لیے باعث تقویت ہے اور جلوت و خلوت کے امتزاج سے ہی عشق کی پوری قوت و توانائی کا اظہار ممکن ہے۔ عشق زپا در آورد خیمۂِ شش جہات را عشق زپا در آورد خیمۂ شش جہات را دست دراز می کند تابہ طناب کہکشاں عشق در خلوت کلیم اللہی است چوں بہ جلوت مے خرامد شاہی است زندگی را شرع آئین است عشق اصل تہذیب است دیں، دین است عشق ان کے مطابق حقیقت تک رسائی عشق ہی کی بدولت ممکن ہے عشق سے نئی آرزوئیں اور تمنائیں پیدا ہوتی ہیں۔ عشق انھیں ایک نئی حیات، نیا سوز اور حرارت بخش دیتا ہے۔ عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں عشق کے ادنیٰ غلام صاحب تاج و نگیں کسے کو درد پنہانے نہ دارد تنے دارد ولے جانے نہ دارد عشق سلطان است و برہان مبیں ہر دو عالم عشق را زیر نگیں سرِّ عشق از عالم ارحام نیست او ز سام و حام و روم و شام نیست زرسم راہ شریعت نکردہ ام تحقیق جز ایں کہ منکرِ عشق است کا فرو زندیق ہر لحظہ، نیاطور، نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے سوز و گداز دیکھیے: تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل چیست حیاتِ دوام؟ سوختنِ نا تمام وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے دیں نگردد پختہ بے آدابِ عشق دیں بگیر از صحبتِ اربابِ عشق می ندانی عشق و مستی از کجاست ایں شعاع آفتاب مصطفیٰ است عقل و عشق عشق درپیچاک اسباب و علل عشق چوگاں باز میدانِ عمل عقل را سرمایہ از بیم و شک است عشق را عزم و یقیں لاینفک است ہر دو بمنزلے رواں، ہر دو امیر کارواں عقل بہ حیلہ می برد عشق برد کشاں کشاں علم سے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے اُم الکتاب علم بے عشق است از طاغوتیاں علم با عشق است از لاہوتیاں عشق کی تیغ جگر دار اڑالی کس نے؟ عقل کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی اور بقول یوسف حسین خاں: ’’زندگی کے جس چاک کو عقل نہیں سی سکتی اس کو عشق اپنی کرامات سے بے سوزن اور بغیر تارِ رفو سی سکتا ہے‘‘ ۱۲؎ خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبرئیل اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل از محبت اشتعال جوہرش ارتقائے ممکناتِ مضمرش فطرتِ او آتش اندوزدزعشق عالم افروزی بیا موزد زعشق بقول خلیفہ عبدالحکیم: ’’اقبال کے ہاں خودی اور عشق کے مضامین ہم معنی ہیں‘‘۔ ۱۳؎ اور حاصل کلام یہ کہ: عمر ہادر کعبہ و بت خانہ می نالدحیات تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافروزندیق مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام اقبال و فرید کے افکار کا مرکزی نکتہ عشق ہے یہ وہ بنیادی پتھر ہے جس پر ان دانشوروں کے افکار کی عمارت قائم ہے۔ ان کے خیال میںعشق انسان کو فکر وعمل کی حریت عطا کرتا ہے۔ ارتقائے حیات کا سب سے بڑا محرک ہے اسی سے انسانی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے عناصر کائنات کی بقا ربط باہم میں مضمر ہے اور یہ ربط، عشق ہی کا ہے یعنی ان کے خیال میں کائنات کے قیام کی وجہ عشق ہے۔ اقبال کے مطابق عشق اس فطری نظام کے ارتقا کا نام ہے جو قلب انسانی میں ہی نہیں بلکہ کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے۔ اس عالمِ رنگ و بو کے تمام کارناموں کے پس منظر میں یہ جذبۂ عشق ہی کار فرما ہے اس لیے وہ اسے دمِ جبرئیل، دل مصطفیٰ، خدا کا رسول، خدا کا کلام، نورحیات اور نارِحیات قرار دیتے ہیں یہی جذبہ معرکۂ کرب وبلا میں اور بدرو حنین میں لشکر حق کے ثبات کی وجہ بنا: صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق خواجہ فرید کا نظریہ عشق وسعت و ہمہ گیری و قوتِ تسخیر کے حوالے سے اقبال کے تصورِ عشق سے مماثل ہے۔ انھیں کائنات کے ہرذرے، ہر جگہ، ہر مظہر میں یہی جذبہ جلوہ گر نظر آتا ہے جو کبھی عاشق، کبھی معشوق، کبھی بلبل، کبھی شمع و پروانہ، کبھی چاند اور چکور، کبھی میقات پر کلام الہٰی سے باریاب ہوتا ہے اور کبھی اس کا اظہار جلال و جمال کی صفات ایزدی میں ہوتا ہے، انبیائے کرام جیسے نفوس قدسہ میں بھی اس جذبے کی کارفرمائی ہے۔ کسی نے جوش عشق میں اناالحق کہہ دیا تو کسی نے سبحانی ما اعظم شانی۔ عشق ایسی اعلیٰ وارفع چیز ہے جس کا اظہار سب سے پہلے خدا کی طرف سے ہوا۔ تخلیق کائنات کا جواز بھی اسی جذبے کی مرہون منت ہے: کنت کنزاً صاف گواہی پہلوں حب محبوب کوں آہی جیں سانگے تھیا جُمل جہان کنت کنزاً کی حدیث ذات احد کے عشق کی دلیل ہے۔ ذات باری نے اپنی نمود کی خواہش (محبت) میں سارا جہان پیدا فرمایا : مظاہر عشق کا بیان کر کے خواجہ فرید فرماتے ہیں کہ جب تک زندگی میں درد اور سوز نہ ہو جینے کا مزہ نہیں: ہے پیت فرید دی ریت عجب ہے درد تے سوز دی گیت عجب سن سمجھو سارے اہل صفا سبحان اللہ! سبحان اللہ! اے اہل صفا! فرید کا مشغلۂ زندگی محبت، سوز اور درد ہے۔ سبحان اللہ یہ بڑی عجب نعمت ہے۔ اقبال بھی اسی فلسفہ کا آئینہ دار ہے: عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم بلکہ اقبال اس سے آگے بڑھ کر دین و ایماں کا مدار عشق پر رکھتے ہیں: اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافرو زندیق خواجہ فرید بھی عشق کی اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں اور اس لافانی جذبے کو فقر و درویشی کا راس المال سمجھتے ہیں: نینہہ فرید فقر دی موڑی باجھ برہوں دے کل گل کوڑی مردیں جیندیں نیویں پوری دل نوں داغ نہ لاویں دے عشق و محبت درویشی کا راس المال یا سرمایہ ہے۔ عشق و محبت کے بغیر دنیا کی تمام باتیں جھوٹی ہیں، اس کو جیتے جی بلکہ مر کر بھی نبھانا عاشق کا فرض عین ہے۔ اس لیے ایک دم بھی غافل ہونا، دل کو داغ لگانے کے برابر ہے۔ اقبال فرید جس عشق کی عظمت کے نغمے الاپتے ہیں یہ عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر ہے اقبال تو عشق مجازی کو ہوسنا کی کہہ کر حیلہ پرویزی قرار دیتے ہیں در عشق و ہوسنا کی دانی کہ تفاوت چیست؟ آں تیشہ فرہادے ایں حیلہ پرویزی خواجہ فرید حسن ازل کا جلوہ دیکھ کر مجازی عشق ہی کو بھول جاتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں حقیقت ظاہر ہو گئی ہے: وسرے رنگ مجازڑے حسن ازل دے سانگ حسن ازل کی خاطر عشق مجازی بھول گئے اور ببانگِ دہل اعلان کرتے ہیں: عاشق راہِ خداہوں غیر سے مطلب نہیں سالکِ راہ ہدیٰ ہوں غیر سے مطلب نہیں (دیوان اردو، ص ۷۹) خواجہ فرید کا نقطہ نظر یہ ہے کہ عشق مطلوب حقیقی اور ذاتِ مطلق تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہے، یہی وہ جذبہ ہے جو ما سوا کو فنا کر کے دل کو حقیقی توحید کا مسکن بناتا ہے۔ اقبال بھی توحید پر استقامت کو عاشقی قرار دیتے ہیں: عاشقی؟ توحید را بردل زدن وانگہے خود را بہر مشکل زدن لیکن اس حالت کے حصول کے لیے عشق کو پورے وجود میں رچانا پڑتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ مجسم عشق بننا پڑتا ہے۔ یہ عشق انسان کی رگ رگ میں ریشے ریشے میں سما جائے تو بات بنے بقول اقبال: آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم اور فرید کہتے ہیں: دل عشق مچائی اگ سائیں ڈکھ سوز رچیا رگ رگ سائیں عشق نے یہ کیسی آگ بھڑکادی ہے کہ رگ رگ اور ریشے ریشے میں سوزوگداز رچ بس گیا ہے۔ راہ عشق میں سو طرح کی مشکلات پیش آتی ہیں اور عاشق کو انھیں اُف کئے بغیر برداشت کرنا پڑتا ہے اقبال و فرید اس سے آگاہ ہیں بلکہ اسے سہہ رہے ہیں۔ فرید فرماتے ہیں: گھر بارڈِ سے بربار اساں گئے و سر سبھو کم کا راساں لاچارتے زار نزار اساں وہ ڈتڑی برہوں برات عجب گھر بار ہمیں جنگل اور صحرا لگتا ہے ہم سب کاروبار بھول گئے ناچار وزار و نزار ہو گئے۔ واہ عشق نے ہمیں یہ کیسے عجب انعام دئے ہیں۔ اقبال راہِ عشق کو یوں پیش کرتے ہیں: کبھی آوارہ وبے خانماں عشق کبھی شاہِ شہاں نوشیرواں عشق کبھی میداں میں آتا ہے زرہ پوش کبھی عریاں و بے تیغ و سناں عشق اسی لیے تو اقبال جبرئیل سے کہتے ہیںکہ: نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی تن آساں عرشیوں کو ذکروتسبیح و طواف اولیٰ خواجہ فرید کہتے ہیں: مجھ سے پختہ کا، فرید، یاں سابنا ہے احوال الاماں! عشق کے گرہاتھ کوئی خام آوے (دیوان اردو، ص ۱۱۵) عشق دی بات نہ سمجھن اصلوں ایہ ملوانے رُکھڑے اقبال کہتے ہیں: نہاں اندر دو حرفے سرکار است مقام عشق منبر نیست دار است عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں خواجہ صاحب کہتے ہیں: تھل مارودا پینڈا سارا تھیسم ہک بلانگھ کیچ تک کی مسافت تو میرے لیے بس ایک جست ہے اقبال و فرید ایسے وصال کے طالب نہیں جو عاشق کی انفرادیت گم کر دے قطرہ دریا میں جذب ہو کے اپنی ہستی کھودے، نہیں بلکہ وہ تو عاشق کی انفرادیت کے ثبات کے قائل ہیں وہ تو ایسے وصل کے قائل ہیں جو قطرے کو گہر کر دے یعنی وہ ہجر کو اہمیت دیتے ہیں کہ وصال تو ان کے نزدیک طلب کی موت ہے عالم سوزوساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب یہ ہجر اسے اور آگے بڑھنے کی جستجو و ہمت دیتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں: جدائی از مقامات وصالش وصالش از مقامات جدائی است فرید کہتے ہیں: ہے قرب عجب، ہے بعد عجب ہے وصل عجب، ہے فصل عجب کیفیات وجدانی میں ایک عجیب قرب اور عجیب بعد ہے، وصل بھی ہے فصل بھی۔ دونوں عقل پر عشق کو ترجیح دیتے ہیں کہ عقل کی رسائی محدود ہے ہے محض مقام تحیر دا بٹھ حیلہ درک تفکر دا ہیں ڈونگڑے ڈینہھ دوں ہتھ نہ پا سبحان اللہ! سبحان اللہ یہ راز مقام تحیر ہے لہٰذا غوروفکر (عقل) کا حیلہ نہ کر اور اس عمیق راستے کی طرف ہاتھ نہ ڈال کیونکہ اس راہ میں تاویلات اور عقلی دلائل کے گھوڑے دوڑانا فضول ہے! اقبال کا بھی یہی عقیدہ ہے ،کہتے ہیں: عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں اور حکم دیتے ہیں کہ: گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے صرف عقل ہی نہیں علم کو بھی عشق کے مقابلے میں کمتر قرار دیتے ہیں: بر عقل فلک پیماتر کا نہ شبیخوں بہ یک ذرۂ درد دل از علم فلاطوں بہ فرید بھی یہی کہتے ہیں: جو کوئی عشق مدرسے آیا فقہ اصول دا فکر اٹھایا بے شک عارف ہو کر پایا رمز حقیقت پوری، نوں جو شخص محبت کے مکتب میں آیا اس نے فقہ اور اصول کا دھندہ ترک کر دیا اور حقیقت کی رمز کوفی الواقع عارف بن کر حاصل کیا۔ خواجہ فرید اوراقبال کے عشق کا ایک لازمی پہلو عشق رسولﷺ ہے۔ دونوں کے ہاں جذب و مستی ہے۔ دونوں اس نام پاکﷺ کے لیتے ہی حالت جذب میں ڈوب جاتے ہیں۔ خواجہ فرید کا دیوان، ملفوظات فرید اور سیرت، ان کے عشق رسولﷺ کے گواہ ہیں اسی طرح اقبال کی کلیات، ملفوظات اور ملنے والے لوگ اقبال کے عشق رسولﷺ کے ناقابل تردید گواہ ہیں۔ عشق، اقبال و فرید کے نظام افکار کی بنیاد ہے۔ جب انسان ’’توحید عشق‘‘ اپناتا ہے تو خواجہ فرید کے مطابق اس پر انوار الہٰی کی بارش ہونے لگتی ہے اور اس کا دل عرش بریں کا مصداق بن جاتا ہے۔ وہ عشق ڈتڑی ڈات ہے تھئی رات سب پر بھات ہے شد فرش دل عرش بریں ہذا جنون العاشقیں عشق نے کیا ہی پر کیف عطیہ دیا ہے کہ تمام رات دل پر تجلیات الہٰی کا دور دورہ ہوتا رہا ہے گویا کہ یہ خاکی دل عرش بریں بن جاتا ہے، جنون عشق کا ایک منظر ہے۔ اور بقول اقبال: بیا اے عشق اے رمز دل ما بیا اے کشت ما اے حاصل ما کہن گشتند ایں خاکی نہاداں دگر آدم بنا کن از گل ما خواجہ فرید اور اقبال کے تصور عشق کا تقابلی جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان دونوں کے نظریہ عشق میں کامل ہم آہنگی ہے ان کے نزدیک عشق ہی کی بدولت تمام اسرار منکشف ہو سکتے ہیں۔ عشق ہی سے تسخیر کائنات ممکن ہے اس عالم ناپایدار میں عشق کو دوام حاصل ہے۔ اس جذبہ کی قوت کو بروئے کار لا کر انسان بھی دوام حاصل کر سکتا ہے۔ اسی سے معرفت خالق ممکن ہے۔ یہ جذبہ درس جہد مسلسل عطا کرتا ہے۔ یہ محض نظارہ جمال نہیں بلکہ ازلی و ابدی صداقت کا نام ہے۔ حوالے ۱۔ اقبال ، ’’کلیات اردو‘‘، اسد پبلی کیشنز لاہور ۲۔ اقبال، ’’کلیات اقبال‘‘، (فارسی) شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع پنجم ، ۱۹۸۵ء ۳۔ خواجہ فرید ، ’’دیوان فرید‘‘ مترجمہ عزیز الرحمن، عزیز المطابع، بہاول پور، ۱۹۴۴ء ۴۔ خواجہ فرید ، ’’دیوان فرید‘‘ اردو، مرتبہ، صدیق طاہر، اردو اکیڈمی، بہاول پور، طبع دوم، ۱۹۹۵ ۵۔ خواجہ فرید’’ فوائد فریدیہ‘‘، مترجم معینی شاہ جمالی، مکتبہ معین الادب، ڈیرہ غازی خاں، ۱۳۷۳ھ ۶۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق،’’ لغات فریدی‘‘، سرائیکی مجلس، بہاول پور، ۱۹۸۴ء  اخلاق اور سرگذشت اخلاق ڈاکٹر زاہد منیر عامر جسے خَلق کیا گیا ہے اسے خُلق کی ضرورت ہے۔ حسنِ خُلق جوہر انسانیت ہے، نفسِ انسانی کی وہ کیفیت جس میں افعال و اعمال کا صدور بلا تکلف ہو، اخلاق کہلاتی ہے، مراتب و درجات کا فرق اپنی جگہ مگر حیوان بھی اپنی ضروریات کے لیے کچھ ضوابط کے پابند ہیں… اس حد سے آگے نہیں جاتے، انسانوں میں پست سے پست مشاغل رکھنے والوں کا بھی ایک ضابطۂ اخلاق ہوتا ہے اور ناپسندیدہ مغضوب اعمال کا صدور بھی اس ضابطے کے تحت ہوتا ہے اگرچہ اسے عرف عام میں ضابطہ اخلاق کہا نہیں جاتا ہے آپ چاہیں تو اسے ضابطۂ کج خلقی کہہ سکتے ہیں۔ اخلاقیات اور نفسیات کے علما نے انسان کے اعمال کو کرداری اعتبار سے تین امور یا کیفیات سے متعلق قرار دیا ہے: طبیعت، حال اور ملکہ ۔ طبیعت : انسان کی جبلت ہے جوناقابل تغیر ہے، انسان جن جبلی اوصاف کو لے کر دنیا میں آیا ہے وہ عمر بھر اس کے ساتھ رہتے ہیں، ختم یا تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ حال: سے مراد نفس انسانی کی وہ کیفیت ہے جو اثر پذیر اور متغیر ہوتی ہے… اس پر اثرات مرتب ہوتے اور پھر زائل بھی ہو جاتے ہیں۔ نفس انسانی کی وہ کیفیت جو رسوخ پانے میں کامیاب ہو جائے ملکہ کہلاتی ہے۔ ملکات بھی تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن بالعموم ان میں تبدیلی دشوار ہوتی ہے۔ اخلاق کا تعلق مَلکہ سے ہے… وہ ملکات جو نفس میں رسوخ پا جائیں اور جن کے نتیجے میں اعمال و افعال بلاتکلف و تردد صادر ہوں، اخلاق کہلاتے ہیں۔ انسانی فطرت کا سرچشمہ شفاف ہے او رانسان اپنی سرنوشت اپنے قلم سے لکھ سکتا ہے۔ جب فطری قُویٰ اپنی حدود میں رہ کر بدون لغزش عمل پیرا رہتے ہیں تو اخلاقِ حسنہ کہلاتے ہیں اور جب یہی فطری قویٰ دائرہ توازن سے نکل کر افعال انجام دینے لگیں تو اخلاق سیئہ بن جاتے ہیں۔ اگر نفس مسلسل فطری تقاضوں کی تکمیل دائرہ توازن سے نکل کر کرتا رہے تو پھر انسانی فطرت کا وہ سرچشمہ جسے قسام ازل نے صاف و شفاف رکھا ہے گدلا بھی ہو جاتا ہے، اصولی طور پر کوئی جذبہ برا نہیں اور نہ ہی کسی جذبے کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ اسے کچل دیا جائے، طبیعی جذبات خاص مقاصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیںا ور یہی جذبات خاص تربیت سے حسنِ اخلاق بن جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انسان کی طبیعی کیفیات یا حالتیں ہی جب تربیت و تہذیب کے عمل سے گزرتی ہیں تو اخلاقی حالتیں بن جاتی ہیں یا اس کے برعکس صورت ظہور میں آ جاتی ہے۔ جہاں تک اخلاقیات کا بحیثیت ایک علم کے تعلق ہے، تو یہ بات اس کے دائرے میں نہیں آتی کہ اخلاقیات کا علم کسی شخص کے کردار و اخلاق پر اثر انداز ہو کر اس میں تبدیلی پیدا کر دے، محض علم ، اخلاقی اوصاف کا شعور تو پیدا کر سکتا ہے مگر انہیں کردار کا حصہ بھی بنا دے؟ یہ ضروری نہیں، علم کے کردار کا حصہ بن جانے کی صورت یہی ہے کہ اسے کردار کا حصہ بنانے کا ارادہ کیا جائے اگر یہ ارادہ محکم بنیاد پر استوار ہو گا تو پھر کتابوں سے، اشخاص سے، ماحول سے، تجربے سے حاصل کیا ہوا علم کردار کی نظافت اور پاکیزگی کا سبب بنتا رہتا ہے ورنہ نہیں گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اخلاق کا علم اور تبدیلی کا ارادہ مل کر کردار کی تشکیل کرتے ہیں محض ارادہ بے معنی بات ہے اور محض علم لا حاصل۔ ارسطو کا خیال ہے کہ فطری خصوصیات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور یہ خصوصیات اخلاقی پہلو سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں اس کے مطابق: It is quite plain that none of the moral virtues is produced in us by nature, since none of the things with natural properties can be trained to acquire a different property. For example the stone, which has a natural downward motion, cannot be trained to move upwards, not even if one "trains" it by countless upward throws.۱ یہ طبیعت کا بیان ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا اور اس پر اتفاق پایا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ طبیعی جوہر کے اخلاقی اوصاف سے خالی ہونے کا بیان بھی ہے۔۔۔ گویا ایک خالی سلیٹ جو ہر نقش سے صاف ہے اور اس پر کوئی بھی نقش مرتسم کیا جا سکتا ہے اور اس ارتسام کے لیے ارادہ ، محنت ، کوشش اور کاوش شرط ہے اور یہی کوشش وکاوش انسانی فضیلت و امتیاز کا سبب بنتی ہے اور بقول ارسطو ’’فضیلت کے لیے صرف اس قدر جان لینا ہی کافی نہیں کہ وہ کیا شے ہے بلکہ اس سے زائد اور چیزوں کی بھی ضرورت ہے مثلاً اس کے قیام و حفاظت کے لیے ریاضت، اس کا روز مرہ کے کاموں میں استعمال اور اسی قسم کے دوسرے وسائل و اسباب کی ایجاد تاکہ یہ سب باتیں مل کر ہم کو صاحب فضیلت اور نیکو کار بنا سکیں۲۔ صاحب فضیلت اور نیکوکار بننے کے لیے ریاض کی اہمیت سے انکار کیا جا سکتا، ایسا کر لینے سے انسان معاشرے کے لیے مفید ہوجاتا ہے لیکن یہ تو محض افادی پہلو ہے اور بہت سے لوگ افادی پہلو کو خاطر میں نہیں لاتے… یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اخلاق، ایک معاشرتی افادی ضرورت ہے یا اس سے زائد بھی اس کی کچھ اہمیت ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اخلاق بلاشبہ افادی پہلو رکھتا ہے لیکن اس کا تعلق محض خارج سے نہیں ہے اخلاق دراصل جذبات و احساسات کے تسویے اور تطہیر کا نام ہے… اور خود انسان کے اندر اتنے متخالف و متضاد جذبات و احساسات موجود ہوتے ہیں کہ اگر ان کی تطہیر نہ کی جائے تو انسان کی اپنی ذات ہی جنگ و جدل کا شکار ہو جائے اور انسان زندگی کے مطالبات کو پورے کرنے کے قابل نہ رہ سکے گویا اخلاق محض خارجی ضرورت نہیں بلکہ ذات کی وحدت و بقا اور اس کی متوازن نشوونما کے لیے بھی اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے اور جب ذاتی اخلاق راست اور متناسب ہو جائیں تو پھر خارجی سطح پر زندگی اور معاشرے کے مطالبات سے نپٹنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے اور فرد خود کو انسانی اوصاف سے متصف کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے اخلاق کے حسن و قبح کو جاننے کا خواہش مند ہو تو فطرت نے اسے ایسے پیمانوں سے متصف کر رکھا ہے کہ جن پر اپنے اعمال کو پرکھ کر وہ اپنے خُلق کے حسن و قبح کا خود فیصلہ کر سکتا ہے یہ پیمانے ضمیر کی آواز، دوسروں کے ساتھ رویے کو اپنے اوپر قیاس کرنا اور قرآنی اصطلاح میں نفسِ لوامّہ کی آواز سننا ہیں۔ جو انسان کو خوبی اور خرابی پر متنبہ کرتا رہتا ہے بشرطیکہ کثرتِ شر نے اسے افسردہ نہ کر دیا ہو۔ ضمیر کی افسردگی کا باعث مسلسل شر کے راستے پر گامزن رہنا بھی ہو سکتا ہے اور ماحول کی خرابی بھی بلکہ اکثر صورتوں میں ماحول کی خرابی، شر کا راستہ کشادہ کر دیتی ہے، بعض اوقات خاص ذہنی اور جسمانی امراض بھی حسنِ خلق سے محرومی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اگر ہم سقراط کے نظریہ علم کو پیش نظر رکھیں تو پھر جہالت اور بے علمی سوِ خُلق کا سب سے بڑا باعث ہے۔ اس نے علم کی قدرت اور انسانی کردار پر اثر اندازی کے بارے میں کہا: Knowledge is something noble and able to govern man, and whoever learn what is good and what is bad will never be swayed by anything to act otherwise than as knowledge bids, and..... intelligence is a sufficient succor of mankind.۳ سقراط کے نزدیک کوئی شخص گناہ (یا یہاں بداخلاقی کہہ دیجیے) کا ارتکاب اس لیے نہیں کرتا کہ اُسے گناہ سے محبت ہوتی ہے بلکہ وہ اپنی جہالت کے باعث مبتلائے گناہ ہو جاتا ہے۔ سقراط کے نزدیک علم فطرتِ انسانی میں ودیعت کیا ہوا جوہر ہے بعد کی سرگرمیوں کے باعث جس کا نقش دھندلا جاتا ہے اور ہماری حصول علم و کردار کی مساعی دراصل اسی گم شدہ جوہر کی بازیافت کی شکلیں ہیں۔ اس نے فیڈومیں سیمیا سن کا جواب دیتے ہوئے کہا: جو علم ہمیں پیدایش سے پہلے حاصل تھا اگر وہ ہماری پیدایش کے وقت ہمارے ذہن سے محو ہو گیا اور بعد میں حواس کے استعمال سے ہم نے اس کی بازیافت کر لی تو کیا یہ عمل جسے ہم سیکھنا کہتے ہیں محض ہمارے فطری اور پیدایشی علم کی بحالی نہ ہو گا اور کیا اسے بجا طور پر بازیافت نہیں کہا جا سکے گا…؟۴ سقراط کے اس نظریہ علم کو بعد کے فلاسفہ نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ان کا خیال ہے کہ اگر علم خیر محض ہوتا تو پھر انسان علم رکھنے کے باوجود ترغیبات نفس کا شکار نہ ہوتا۔ سقراط کے نظریۂ علم کے بارے میں جان گولڈ نے جوتنقیدی زاویہ پیش کیا ہے جیر لی موس زینوفان کے خیال میں وہ کم سے کم خطا آمیز ہے۵ ۔ جان گولڈ کا کہنا ہے کہ: Socrates was wrong in supposing that if a man achieved an understanding of what justice involves, he would necessarily become just in behaviour, since the whole problem of choice intervenes between knowledge and action. ۶ لیکن ہمارے نزدیک سقراط کا علم کو خیر محض کہنا اس لیے بجا ہے کہ عرفان کے بغیر علم، علم کہلانے کا حق دار نہیں ہے، وہ محص معلومات میں یا ہنر یا مہارت یا کچھ اور… علم کو علم اس صورت میں کہا جائے گا جب اس کے مقتضیات انسانی کردار کا حصہ بن کر چھلکنے لگیں… اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر شخص موصوف کو عالم نہیں ماہر کہا جائے گا… گویا علم، خیر ہے اور قدیم مشرقی تصور کے مطابق روشنی۔ کم و بیش یہی تصور بدھ مت اور جین مت میں بھی پایا جاتا ہے، بودھی دھرموتار نے اپنی شرح ’’نیائے ہندو‘‘ میں کہا ہے کہ: ’’پس علم افادی معلوم ہوتا ہے اور عوام الناس اسی کی تلاش میں رہتے ہیں صحیح علم کی ماہیت کی جانچ فلسفے کا کام ہے، علم کی واقعی آزمایش یہ ہے کہ وہ ہمارے حصول مقصد میں امداد کرے۔‘‘۷ اس نظریے میں اگرچہ مقاصد کی خیر متعین نہیں تاہم علم کا مقام ضرور متعین ہے جینی اصحاب بھی بالعموم اسی نظریے کے موید ہیں ان کا خیال ہے کہ: علم کی قدر خود علم کی خاطر نہ جانچی جائے، کسی چیز کی صحت (پرامانیہ) اس امر پر مشتمل ہے کہ وہ براہ راست حصول خیر اور اجتناب شر میں ہماری معاونت کرتا ہے صرف علم ہی میں یہ استعداد ہے کہ ہم خود کو اپنے ماحول کے مطابق بنا سکتے ہیں اور کوشش کر سکتے ہیں کہ خیر حاصل کریں اور شر سے بچیں۸۔ یہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ اخلاق کا جوہر علم ہے اور علم اگر کردار و اخلاق کی تعمیر کسی روشن اساس یا بنائے خیر پر نہیں کرتا تو وہ شر ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اخلاق بنائے فاسد علی الفاسد کا مصداق ہے۔ حدیث کی رو سے علم تین قسم کی باتوں میں منحصر ہے اور ان سے بڑھ کر جو کچھ ہے محض زائد ہے، اور وہ تین باتیں ہیں: آیہ محکمہ، سنت قائمہ اور فریضہ عادلہ: ’’اَ لعِلمُ ثلاثۃ و ماسوی ذلٰک فھو فضل: آیۃ محکمۃ اَو سنۃ قائمۃ او فریضۃ عادلۃ ۹ اب ہمارے ما قبل کے مبحث سے متعلق قرآن حکیم کی ایک آیت ملاحظہ فرمائی جائے جس سے علم صحیح اور قیم حاصل ہوتا ہے: ’’فِطْرَتَ اللّٰہِ الّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تًبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘o ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ۱۰ سنت قائمہ تک پہنچنے کا ذریعہ حدیث ہے، حدیث آیۂ محکمہ کی توضیح کرتی ہے: ’’مَامِن مولود الا یولد علی الفطرہ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمحبسانہ کما تنتج البھیمۃ حمقاھل تحسون فیھا من جدعاء ثم۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا ڈالتے ہیں جیسے دیکھو ہر چوپایہ، جانور کا بچہ پورے بدن پر پیدا ہوتا ہے کہیں تم نے دیکھا ہے کہ کوئی بچہ کن کٹا (یا نکٹا) پیدا ہوا۔ ۱۱ انسانی کردار و اعمال کا مصدرو منبع انسان کا دل ہے۔ صوفیا اذکیا کے نزدیک تو قلب کی یہ حیثیت بلاشک و شبہ اساسی ہے لیکن فہم عامہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ انسانی اعمال کے صدور کا جتنا تعلق قلب سے ہے کسی اور سے نہیں تمام تصورات و افکار دل کے سرچشمے سے جنم لیتے ہیں، اگر یہ سرچشمہ گدلا ہے تو پھر افکار و اعمال کو گدلا ہٹ کا شکار ہو جانے سے کون روک سکتا ہے اور اگر یہ سرچشمہ شفاف ہے تو پھر سلامتی طبع محفوظ و مامون ہے سلامتی طبع کا محفوظ و مامون ہونا خیر پر منتج ہوتا ہے۔ بشرطیکہ نفس لوّامہ کی طرح اس صلاحیت کو کثرت شر کے باعث افسردہ نہ کردیا گیا ہو۔ طبیعی کیفیات و حالات مختلف ہوتے ہیں اور جیسی حالت و کیفیت ہو نتیجہ ویسا ہی نکلتا ہے غزالی نے طبیعتوں میں خلق و عادات کی تبدیلی کے اعتبار سے انسانوں کے چار مراتب بیان کیے ہیں۔ ایک تو وہ انسان ہے جو حق و باطل اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرنے ہی سے قاصر ہے، دوسرا وہ جو بد عملی کی برائی اور قباحت کو جانتا ہے لیکن اس نے خود کو نیک عمل کا عادی نہیں بنایا، تیسرا وہ جو بدی ہی کو عین حق و صواب سمجھے بیٹھا ہے اور چوتھا وہ جس نے بداعتقادی اور بد عملی کے ماحول میں جنم لینے کے بعد ظلم و فساد ہی میں اپنی سلامتی اور عافیت سمجھی اور دوسروں کے قتل و غارت ہی کو مایۂ فخر و امتیاز اور موجب از دیادِ مرتبت سمجھا۔ ۱۲ ان میں سے ہر ایک کے علاج کی اپنی دشواریاں ہیں، پہلا شخص سب سے زیادہ قابل علاج ہے اسے راہ نمائی کی ضرورت ہے جو اندھیرے سے نکال کر اسے اُجالے میں لے آئے دوسرے کو اپنے اندر تبدیل کا خو دعزم کرنا ہو گا تاکہ وہ خرابی کے چنگل سے نکل آئے تیسرے کی اصلاح دشوار ہے کیونکہ خرابی نے اس کے دل میں جڑ پکڑ لی ہے اور اس کا تصّور اخلاق مسخ ہو چکا ہے اور چوتھا نہایت کٹھن مرحلے سے دوچار ہے اور اس کی اصلاح بھیڑیے کو مودّب بنانے کی کوشش کی مانند ہے۔۱۳ اب ان تمام صورتوں میں اصلاح احوال کی مساعی کے مدارج بھی مختلف ہوں گے تاہم ایک امر جس کی طرف پہلے توجہ مبذول کروائی جا چکی ہے سب میں مشترک ہے یعنی: ارادہ وہ ریاضت جو خود کو بدلنے کے لیے درکار ہے ان میں سے اگر کوئی بھی شخص اخلاقیات کے علم اور اس کے فوائد پر اطلاع پالے تو اس سے اس کی زندگی میں کسی خاص تبدیلی کی توقع نہیں سوائے اوّلین استثنا کی صورت کے، البتہ اگر کوئی اخلاقیات کی اطلاع پانے کے ساتھ تبدیلی اخلاق کا ارادہ بھی کر لے تو پھر تبدیلی کا امکان روشن ہو جاتا ہے۔ قسّامِ ازل نے انسان کے اعضا و جوارح کو مختلف وظائف کے لیے پیدا کیا ہے مثلاً ہاتھ اشیا کو گرفت میں لینے کے لیے، آنکھ دیکھنے کے لیے، کان سننے کے لیے، قدم چلنے کے لیے، ناک سونگھنے وغیرہ کے لیے، علیٰ ھذا لقیاس اگر ان میں سے کسی ایک عضو سے بھی اس کا خاص عمل چھین لیا جائے، ہاتھ کو باندھ کر، آنکھ کو ملفوف کرکے، قدموں کو جکڑ کر یا ناک کو لپیٹ کر ان کے وظائف سے محروم کر دیا جائے تو اذیت و نااطمینانی کا نتیجہ ہی نکلے گا اور اگر یہ اعضا و اوصاف مسلسل اپنے وظائف سے محروم رکھے جائیں تو رفتہ رفتہ ان کی صلاحیتیں بھی زنگ آلود ہو کر سمٹ سکتی یا ختم ہو سکتی ہیں، یہی حال دل کا ہے، دل کا وظیفہ بہ قول غزالی: ’’علم اور حکمت اور معرفت اور محبت اور عبادت الہٰی ہے‘‘۱۴ اب اگر دل اپنے پیش نظر انھی مقاصد کو رکھے گا تو زیادہ اپنی خلقت کی غایت کو پانے میں کامیاب ہو گا اگر اس کے پیش نظر ان مقاصد کے سوا کچھ مقاصد آ جائیں گے تو نہ صرف یہ کہ وہ رأفت و رحمت سے محروم ہو جائے گا بلکہ اپنے مقصد سے ہٹ کر گم کردہ راہ بھی ہو بیٹھے گا۔ یہاں پہنچ کر اخلاق کی بحث نصب العین کے دائرے میں قدم رکھتی ہے، دل اگر بلند نصب العین کا حامل ہو گا توا خلاق زیادہ بلند اور وسیع ہوں گے اور اگر دل کے پیشِ نظر مقصد یا مقاصد پست اور کوتاہ ہوں گے تو اخلاق پست اور کوتاہ واقع ہوں گے، یہ الگ بات ہے کہ مقاصد یا آرزو جس قدر بلند ہوں گے، فرد کو ان کی اتنی ہی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ نصب العین اگر ذاتی اور محدود ہو گا تو اس سے جنم لینے والے اخلاق بھی ذاتی اور محدود ہوں گے، اگر نصب العین کا دائرہ ملک و ملت تک پھیلا ہو گا تو اخلاق بھی اسی دائرے کے بقدروسعت پا جائیں گے اور اگر نصب العین ذات و ملک کے دوائر سے بھی آگے نکل کر بین الاقوامیت کے دائرے میں قدم رکھنے والا ہو گا تو پھر انسان اخلاقیات کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جائے گا۔ ذاتی نصب العین اپنے سوا کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتا لہٰذا ذات کی حدود سے آگے دیکھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ قومی نصب العین اپنی قوم اور اپنے ملک کی سرحدوں سے آگے اپنے معیاروں سے دستبردار ہو جاتا ہے جبکہ بین الاقوامی یا آفاقی نصب العین ہی وہ نصب العین ہے جسے اختیار کر لینے سے انسان اخلاق فاضلہ کا حامل بن سکتا ہے… ورنہ ذاتی و قومی اخلاق کے نتائج تو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں میں وہ افراد جو زندگی کی ذاتی سطح انفرادی سطح سے بلند نہیں اپنے ہی ہم عنانوں کے حقوق غصب کر لینے کے لیے تیار بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ قومیں جو بظاہر مہذب اور تعلیم یافتہ ہوتی ہیں مگر وطنیت کا محدود تصور رکھتی ہیں، وطنی حدود سے آگے کسی اخلاقی ضابطے کی پاسداری نہیں کرتیں، زمانہ حال کی ترقی یافتہ قومیں بعض بے وسیلہ ممالک کے ساتھ جس سلوک کا مظاہرہ کرچکی ہیں اور کر رہی ہیںاس سے ان کے قومی اخلاق کی اس پستی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے جو بین الاقوامی دائرے میں قدم رکھتے ہی اس کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔ دنیا کے تمام قومیتی نظریے، قومی اخلاق کو جنم دیتے ہیں۔ یہ مذہب ہی ہے جو بنی نوع انسان کو ایک گروہ کے روپ میں دیکھتا اور اس کے ساتھ اسی حوالے سے یکساں اخلاقی رویے کی تمنا کرتا ہے۔ مذہبی اخلاق پر بات کرنے سے قبل ضروری ہے کہ دنیا میں اخلاقیات کے سفر کی روداد پر ایک نظر ڈالی جائے تاکہ اس کے تسلسل میں مذہبی اخلاق کا مقام متعین کرنے میں آسانی ہو۔ انسانی تاریخ میں اخلاق کی داستان اتنی ہی قدیم ہے جتنا خود انسان۔ ہبوط آدم کے وقت ہی کچھ اخلاقی ضوابط متعین دکھائی دیتے ہیں۔ پھر فردوس کی گم شدگی کی داستان سلبی انداز میں کچھ ضوابط و احکام کی پابندی کی تلقین کرتی ہے… قابیل و ہابیل کا قضیہ اور حادثہ، کچھ اخلاقی قیود کی نشاندہی کرتا ہے… اس کے بعد حضرت نوحؑ کی اپنی قوم کو تلقین کہ: ’’اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَ اَطِیْعُوْنِ‘‘ ترجمہ: اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۱۵ ’’اَلَمْ تَرَوْاکَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاo وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًاوَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً‘‘ ترجمہ: کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا۱۶ دراصل انھیں ایک خاص اخلاقی ضابطے کی تلقین ہی کی صورت تھی، اس کی تفصیل آئے گی۔ اس تلقین پر کان نہ دھرنے کا نتیجہ طوفانِ نوح کی صورت میں نکلا گویا جس اخلاقی ضابطے کی یہاں بات کی جا رہی ہے اس کے عدم لحاظ نے زندگی کا چراغ بجھا دیا۔ طوفانِ نوح کے بعد تاریخِ عالم کا اہم دور یونان کے حکمت وفلسفے پر مبنی ہے، سوفسطائیہ گو بعدازاں جماعت الحمقا کہلائے لیکن انھوں نے حضرت عیسٰیؑ کی ولادت سے ساڑھے چار سو سال قبل علم الاخلاق کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا، ان کی کاوشوں سے اخلاق، فلسفے کا مستقل موضوع بن گیا۔ سقراط جس کا زمانہ ۴۶۹ ق م سے ۳۹۹ ق م تک ہے، اپنے عہد کا بڑا معلم اخلاق تھا۔ اس نے علم کو خیر قرار دیا اور اس کے افکار میں اخلاق نے علم کے نتیجے کا مقام حاصل کیا، سقراط نے علم و اخلاقیات کی دنیا میں ایک مستقل دبستان کا مقام پایا اور اس سے متاثر ہونے والوں کے کئی مکاتب فکر پیدا ہوئے جن میں اگر ایک جانب لذت کوشی کو زندگی کے مسائل کا حل قرار دینے والے قورنیائی بھی تھے تو دوسری طرف لذت سے کامل اجتناب اور اذیت کوشی کو پسند کرنے والے کلبی بھی۔ سقراط کے تلامذہ میں افلاطون اور اس کے افکار نے خاص شہرت حاصل کی افلاطون کا زمانہ ۴۲۷…۳۴۷ ق م ہے، اس نے سوفسطائیوں کے حب الوطنی کے تصور پر تنقیدکی اور اپنا مشہور تصور اعیان پیش کیا، جسم خاکی کے تلے جسم مثالی کے اس تصور نے بہت قبول حاصل کیا اور اخلاقیات کی دنیا سے ادب و شعرکی دنیا تک اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ افلاطون کے بعد مشائیّین اور ان کے پیش ارسطو (۳۸۴۔۳۲۲ ق م) کا دور آیا ارسطو کو افلاطون کے محضر علم سے استفادے کا موقع ملا تھا اس نے اخلاق پر اپنی مستقل تصنیف میں سعادت کا تصور پیش کیا اس کے خیال میں عقلی قویٰ کا بہترین استعمال انسان کو سعادت کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ ارسطو کے بعد اس کے تلامذہ مشائیّین اور پھر رواقیین اور کلبییّن نے اپنے اپنے اخلاقی تصور پیش کئے۔ روم اور یونان کو متاثر کرنے والے ان بڑے فلاسفہ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ یونانیوں کے فلسفے کا اصل اصول حکمت و تعقّل تھا۔ اللہ کے نبی کے ظہور نے علم و اخلاق کا مرکز ثقل تبدیل کر دیا اور اب تمام علوم کی اصل وحی الہٰی قرار پائی اور اس کی روشنی میں نیکی و خرابی اور اچھائی برائی کے پیمانے طے پائے۔ حضرت عیسٰیؑ نے اپنی قوم کو حکمت کی تعلیم حکمت کے ساتھ دی: وَلَمَّاَ جَآئَ عِیسٰی بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئتُکُمْ بِالْحِکْمَتِہ وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ اَلَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ ج فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ o اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ رَبِّی وَ رَبُّکُمُ فَا عْبُدُوْہُ ط ھٰذاَ صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ‘‘ اور جب عیسیٰؑ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ’’ میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب ہے اور تمھارا رب بھی، اس کی تم عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘۱۷ جب حضرت عیٰسیؑ کی تعلیم اخلاق دھندلانے لگی تو اس نے آگے چل کر ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔ جس نے رہبانیت نام پایا اور حصولِ اخلاق ترکِ معاصی کے لیے ترکِ دنیا پر منحصر قرار پایا، چونکہ حضرت عیسیٰؑ ، حضرت نوحؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے بعد آنے والے سلسلہ رسل میں آخری رسول تھے۱۸۔ اس لیے ان کے اثرات ظہورِ اسلام سے قبل تک بلکہ اس کے بعد بھی جاری ہے اگرچہ ان کے حقیقی اثر کی عمر دو صدیوں سے زیادہ نہ تھی جس کے بعد رہبانیت کے تصور نے عیسائیت توکیا مجرد مذہب ہی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی تھی۔ یونانیوں نے اخلاق کو حکمت و دانش مندی پرموقوف قرار دیا تھا تو عیسائیت میں وحی الہٰی اور اللہ کی محبت کے لیے ریاضت نے اس کی جگہ لے لی۔ اور یہیں سے فلسفہ اور مذہب کی راہیں جدا ہوئیں۔ مسیحی دور کے بعد گو اخلاق و دانش کا چراغ فروزاں نہ رہا لیکن اس کی چمک یہاں وہاں اپنا رنگ دکھاتی رہی خاص طور سے عرب کے معاشروں میں بعض دانش وروں اور شعرا کے ہاں اخلاقی تصورات و تعلیمات اپنی جھلک دکھاتے رہے، مثلاً اکثم بن صیفی کے مقالات یا زہیر بن سلمٰی اور حاتم طائی کی شاعری اور علی الخصوص حکیم لقمان کے ہاں اخلاقی تعلیمات کا پرتو گہرا رہا۔ عرب کا جاہلی معاشرہ بھی جس کے جہل و تاریکی کے متعلق مشہور ہے، لقمان جیسے حکیم کی تعلیمات کاوارث رہا یہ الگ بات ہے کہ زندگی میں ان کا چلن عام نہ تھا امرء القیس، لبید اور اعشیٰ وغیرہ شعرا کے کلام میں بھی لقمان کے افکار و تعلیمات کا تذکرہ موجود ہے۔ ’’سیرت ابن ہشام‘‘ اور ’’اسد الغابہ‘‘ کے مطابق سویدبن صامت جب مدینے سے حج کے لیے مکہ آئے اور حضور نبی کریمﷺ کو حجاج میں تبلیغ کرتے ہوئے سنا تو کہا کہ جس نوع کی باتیں آپ بتاتے ہیں ان سے ملتے جلتے مضامین کا حامل ایک صحیفہ لقمان میرے ہاں بھی موجود ہے، حضور علیہ السلام کی فرمایش پر سوید نے اس صحیفے کا ایک حصہ آپؐ کو سنایا، آپؐ نے اس کی تعریف کی اور فرمایا بہت اچھا کلام ہے مگر ہمارے پاس اس سے بھی بہتر کلام ہے چنانچہ آپؐ نے ’’قرآن مجید‘‘ سنایا۔۱۹ لقمان کی دانش مندی و فضیلت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ خود’’قرآنِ حکیم‘‘ میں ان کے اقوال کو نقل کیا گیا اور ان کے نام سے ’’قرآن حکیم‘‘ کا ۳۱ واں سورہ منسوب کیا گیا۔ لقمان کی تعلیمات میں حکمت و دانائی کی فضیلت معرفت الہیہ، مذمت شرک، اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ یہی وہ تعلیمات ہیں اسلام جن کا پیامبربن کر آیا اور لقمان کے زمانے کے بعد حضور نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کی بعثت تاریخِ اخلاقیات میں ایک انقلاب آفریں موڑ ثابت ہوئی۔ اسلام کی بنیادی خصوصیت توازن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے ارشاد کے مطابق اس کی تخلیق نہایت معقول اور متوازن ہے اور اس میں کسی نوع کا تفاوت نہیں پایا جاتا، ’’قرآن حکیم‘‘ اپنے قاری کوبہ تکرار یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کارخانہ عالم پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ اسے اس میں کہیں کوئی خلل دکھائی دیتا ہے اور پھر خود ہی خلل تلاش کرنے والے کی ناکامی بھی ظاہر کرتا ہے: مَاتَرٰیَ فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَط ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُورٍo ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ھُوَ حَسِیُرٌo تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے، پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمھیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو ، تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔۲۰ دراصل یہی عدل ہے جو اس کائنات کے ذرّے ذرّے میں جاری و ساری ہے اور ایسے ہی عدل کی توقع خالق اپنی تخلیق سے کرتا ہے۔ سورۃ النحل میں صراحت کر دی گئی ہے۔ ’’اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُبِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَایْتَآیٰ ذِی الْقُرْبیٰ وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا اور روکتا ہے بے حیائی کے کاموں سے ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۲۱۔ اللہ تعالیٰ خود عادل ہے وہ حق بات کہتا ہے وَاللّٰہُ یَقُولُ الْحَقَّ ۲۲ اور حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وَاللّٰہُ یَقْضِیْ بِالْحَقِّ ط۲۳ اور وہ توازن کو قائم رکھتا ہے قَآئِماًم بِالْقِسْطِ ۲۴ اس لیے وہ اپنے بندوں کو بھی عدل کا حکم دیتا ہے، روزمرہ زندگی کے امور و معاملات، مہمات امور میں دینی و دنیاوی تمام پہلوئوں میں عدل کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ عدل کا مطلب یہ نہیں کہ جہاں اپنے موافق صورت حال ہو وہاں عدل کر لیا جائے اور مخالف افراد یا صورتحال میں عدل کی بجائے کسی اور جادے پر گامزن ہو لیا جائے بلکہ اللہ کہتا ہے کہ عدل قائم رکھ خواہ مقابلے میں عزیز قرابت دار ہو۲۵۔ خواہ عداوت فریق مخالف سے ہو خواہ مخالفت دینی ہو۲۶۔ امیر یا غریب، بلند مرتبہ یا کم مرتبہ، جنگ یا امن ہر صورت اور ہر پہلو میں عدل درکار ہے عدل کا جادہ اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اگر اس پر چلنے میں اندیشہ زیاں ہو تو بھی اسی پر چلا جائے۔ ’’فَلَآ تَتَّبِعُوٰ الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا‘‘ (تم عدل کرنے میں اپنے نفس کی پیروی نہ کرو)۲۷ اور کوئی عدل ایسا نہیں جس کا نتیجہ نقصان کا باعث ہو، اس لیے کہ عدل و قسط اللہ کے پسندیدہ رویے ہونے کے باعث سراسر خیر اور فلاح ہیں۔ فَاَ صْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۲۸ آیہ مبارکہ (انَّ اللہ یامر بالعدل والاحسان …الخ) میں جملہ اور امرو منہیات آگئی ہیں اس لیے علما نے اسے ’’تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیِٔ‘‘ (ہر شے کی صاف وضاحت ۲۹) کامظہر کہا ہے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک خیرو شر کے بیان کو اس آیت میں اکٹھا کر دیا ہے، گویا کوئی عقیدہ، خلق ، نیت، عمل، معاملہ اچھا یا برا ایسا نہیں جو امراًونہیاً اس کے تحت میں داخل نہ ہو گیا ہو بعض علما نے لکھا ہے کہ اگر قرآن میں کوئی دوسری آیت نہ ہوتی تو تنہا یہ ہی آیت ’’تِبْیَاناً لِکُلِّ شَیِٔ‘‘ کا ثبوت دینے کے لیے کافی تھی۳۰۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ قول بہ کثرت نقل ہوا ہے، قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ کا یہ قول، امام بخاری نے، ابن ابی حاتم نے، حاکم نے اور بیہقی (شعب الایمان) نے بھی نقل کیا ہے۔ حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور یہ کہ یہی آیت حضرت عثمان بن مظعونؓ کے قبول اسلام کا باعث ہوئی۳۱۔ اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا گیا اور تین سے منع کیا گیا ہے: پہلی بات جس کا حکم دیا گیا ہے عدل ہے کو بعض نے انصاف کے معنوں میں لے لیا ہے لیکن انصاف نصف سے ہے اور اس کا معنی برابری ہے عدل بسا اوقات برابری کو مستلزم نہیں ہوتا۔ یہ کائنات عدل کی بنا پر استوار ہے۔ یعنی توازن و اعتدال۔ جب مظہر (وجود یا شے) میں تناسب ہو تو اسے حسین کہا جاتا ہے، محروم تناسب مظہر حسن سے محروم ہوتا ہے اس لیے توازن عدل ہے اور عدل حسن۔ گویا یہ کارخانہ حسین ہے اور اپنے صانع کے جمال پر دلالت کرتا ہے۳۲۔ یہی عدل اصل اخلاق ہے۔ لُغویین نے عدل کو جور کی ضد بتایا ہے اور طبیعت میں کسی چیز کے مستقیم ہونے کے خیال، جمائو یا رسوخ کو بھی عدل کہا گیا ہے۔ یہی تعریف اخلاق کی بھی ہے جو آپ سطور گذشتہ میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ یوں گویا یہ قول کہ عدل سے مراد استقامت علی الحق ہے بجا ٹھہرتا ہے اور حضرت ابن عباس کا یہ کہنا بھی عدل سے مراد توحید ہے بالکل برحق ہے اگرچہ اس کے مطالب کا حصر بہت سہل نہیں۔ عدل کے حکم سے مراد حقوق کی بے لاگ ادایگی اور جملہ امور و معاملات میں توازن و اعتدال سے کام لینا ہے عقیدہ، معاملات جذبات، احساسات اور اخلاقیات سب کے سب ازروئے توازن درست ہوں ان کی چولیں ٹھیک بیٹھیں۔ اپنی ذات کے معیار پر دوسرے کی پسند ناپسند کو قیاس کیا جائے افراط و تفریط سے بچا جائے۔ یہ نہ ہو کہ اپنوں کے لیے عدل و انصاف کا مطالبہ ہو اور اغیار کے لیے ظلم و زیادتی کو روا رکھا جائے، قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر اس نہایت اہم نفسیاتی نکتے کی طرف یوں توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ ’’لَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمِ عَلٰٓی اَلَّاتَعْدِلُواط اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیَ‘‘ ہرگز ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تمھیں جادۂ عدل سے ہٹا دے، عدل کرو یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے ۳۳۔ گویا عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی عدل کی راہ میں رکاوٹ نہ بن پائے یہی تقویٰ کا مطالبہ ہے… اس آیت میں تقویٰ کو جس طرح عدل کے قرب سے مشروط کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’دوست و دشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق معاملہ میں جذبات محب و عداوت سے قطعاً مغلوب نہ ہونا،حصول تقویٰ کے موثرترین اور قریب ترین اسباب میںسے ہے‘‘۳۴۔ اور اس کا حصول سوائے خشیت الہیہ کے ممکن نہیں ہے جیسا کہ اسی آیت میں معاً بعد و اَتّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبُیرُٗ بَما تَعْلَمُوُن‘‘ (اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو)۳۵۔ کے ارشاد ربانی سے صراحت ہو جاتی ہے۔ دوسری چیز جسے اسلامی معاشرے کی اساسی قرار دیا گیا ہے احسان ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ معاشرے میں قانون اور ضابطے کی عملداری ہو، اس کی چولیں ٹھیک بیٹھی ہوں لوگ ایک دوسرے کا حق ادا کرتے ہوں کوئی کسی پر زیادتی نہ کرتا ہو لیکن اس کے باوجود ایسا معاشرہ خوب صورت اور دل کش انسانی زندگی کی تصویر بھی پیش کرے… ضروری نہیں۔ انسانی زندگی کا حسن محض قوانین کے اطلاق میں پوشیدہ نہیں بلکہ زندگی کا حسن انسانی کمزوریوں اور ضرورتوں کا لحاظ رکھنے، عفوو درگزر سے کام لینے، چشم پوشی کرنے، الفاظ کے اچھے معنی تلاش کرنے اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے میں پوشیدہ ہوتا ہے… یہ بات بھی ایمان باللہ کا ایک ثمر ہے گویا احسان کا رشتہ بھی توحید ہی سے ہے کہ جب اللہ پر ایمان کامل ہو اور آخرت کا شعور پیدا ہو جائے تو اسی سے حسنِ سلوک اور حسنِ عمل پیدا ہونے چاہیں۔ جیسا جیسا ایمان محکم ہو گا ویسا ہی حسنِ سلوک اور عفو درگزر ظہور پائے گا۔ اس لیے بعض کے نزدیک احسان بھی توحید کا ہم معنی ہے… حدیث جبرئیل میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک روز حضور علیہ السلام لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا اور اس سے ملنے کا اور اس کے پیغمبروں کا یقین کرے اور مرکر جی اٹھنے کو مانے… پھر اس نے پوچھا اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کرے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، نماز ادا کرے اور زکواۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے… پھر اس نے پوچھا: ’’ما الاحسان ؟ قال ان تعبد اللہ کانک تراہ و ان لم تکن تراہ فانہ یراک‘‘ احسان کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ اللہ کی ایسے عبادت کی جائے کہ جیسا تو اس کو دیکھ رہا ہے اگر یہ نہ ہو سکے تو اتنا خیال رکھا جائے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۳۶۔ یہ شعور کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اعمال و افعال کو احتیاط کے جس حسن سے مزّین کر سکتا ہے اس کی اندازہ گیری دشوار نہیں… پھر اس کا دوسرا درجہ کہ اگر تقویٰ کا یہ مقام حاصل نہ ہو سکے تو پھر جیسے وہ تمھیں دیکھ رہا ہے، بھی کم موثر نہیں، گویا احسان احتیاط اور مواظبت کا مظہر ہے۔ محض برابری کا نہیں۔ انسانی زندگی کی دو سطحیں ہیں ایک وہ ابتدائی سطح جس پر ہوتے ہوئے انسان دنیا پر اولین نگاہ ڈالتا ہے، دوسری وہ سطح جو تعلیم ، تہذیب اور تمدن کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے دونوں میں جو فرق ہے ظاہر ہے لیکن بعض اوقات تعلیم، تہذیب اور تمدن انسان کو اتنا ضابطہ پسند بنا دیتے ہیں کہ وہ اس ابتدائی انسانی سطح کو فراموش کر دیتا ہے جہاں سے خود اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور دوسروں سے اس کے مطالبات ایسی شدت اختیار کر لیتے ہیں جس میں انسانی کمزوریوں کا کوئی لحاظ نہیں رہ جاتا اور وہ آدمی کو انسان کا درجہ میسر نہ ہونے پر کفِ افسوس ملتا رہتا ہے۔ لیکن احسان کا درجہ یہ ہے کہ ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں گویا عدل معاشرے کا اصل اصول ہے اور احسان اس کا جمال اور یہ جمال اس وقت ہی حاصل ہوتا ہے جب انسان کا باطن اس کے ظاہر سے زیادہ خوب صورت ہو جائے درگزر، برداشت، معافی، صلہ رحمی، دوسرے کو اس کے مقام سے زیادہ دے دینا احسان ہی کے مظاہر ہیں گویا: کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے ایسے ایک ٹھنڈے او رکھرے معاشرے میں کشمکش تونہ ہو گی مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار و اخلاص و خیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشوونما دینے والی قدریں ہیں۳۷۔ ایک رائے یہ بھی کہ عدل سے فرض مراد ہے احسان سے نفل، جس طرح فرائض کی کوتاہی نوافل سے پوری ہو جاتی ہے اسی طرح عدل میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ احسان سے کیا جا سکتا ہے، دراصل اسلام کا ظہور تاریخ کے اس دور میں ہوا جب اس سے پہلے قانون اور اخلاق الگ الگ اپنی بہار دکھا چکے تھے اور یہ معلوم ہو چکا تھا کہ قانون محض تبدیلی کی ضمانت فراہم کرتا ہے نہ اخلاق محض… اگر قانون کی عملداری اور قانون پر شدت سے کاربند رہنا ہی سب کچھ ہوتا تو پھر تورات کے احکام کافی تھے، زمانے کو ان سے آگے بڑھنے کی ضرورت پیش نہ آتی جس میں جان کا بدلہ جان، آنکھ کا بدلہ آنکھ، دانت کا بدلہ دانت، ہاتھ کا بدلہ ہاتھ اور پائوں کا بدلہ پائوں ہو، کی تلقین کر دی گئی تھی۔ تورات کے دس احکام (Ten Commandments) میں تحدید و تعین کی شان جلوہ گر تھی اور قوانین کا اندازیوں تھا: اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں ان کی اولاد کو تیسری اور چوتھی پشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتا ہوں۳۸۔ یہ موسوی شریعت تھی جس میں قانون کو اس کی تمام تر قوت کے ساتھ نافذ کیا گیا تھا شاید اس کا سبب قوم یہود کی وہ سختی تھی جس سے ان کے قلوب دوچار ہو گئے تھے اس میں رحمت، رأفت معافی اور درگزر نہیں تھا… پھر جب زمانے نے کچھ اور کروٹ بدلی، اسے ایک نئے مسیحا کی ضرورت پیش آئی تو قانون محض کی فصیل میں دراڑ آ گئی اور دنیا نے عیسوی شریعت کی شکل میں رحمت و رأفت اور درگزر و معافی کے رنگوں کی جلوہ گری دیکھی چنانچہ انجیل مقدس میں کہا گیا: تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی تجھ پر ناش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۳۹۔ تم سن چکے ہو کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کرو تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو۴۰۔ تورات میں اگر ضابطہ پسندی اپنی انتہائی صورت میں ظاہر ہوئی تھی تو انجیل نے عفوو درگزر کے رویے کو اس کی انتہا تک پہنچا دیا لیکن صدیوں کی مسافت طے کرنے پر دنیا نے تجربہ کر لیا کہ یہ دوسرا رویہ بھی پہلے رویے کی طرح ناقابل عمل ہے… ایک گال پر طمانچہ کھانے کے بعد دوسرا گال سامنے کر دینا ممکن نہیں اور انسانی فطرت کے اقتضا سے بھی بعید ہے، عِلل کے اعتبار سے بھی اور نتائج کے اعتبار سے بھی اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج عیسوی شریعت کا پاسبان امریکہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد اپنے دشمن کی سرزمین کی اینٹ سے اینٹ نہ بجا دیتا۔ پس معلوم ہوا کہ انسانی زندگی اور معاشرے کی تربیت اور تعلیم کے لیے محض قانون کافی ہے نہ محض اخلاق بلکہ دونوں کے ایک ایسے آمیزے کی ضرورت ہے جس میں حسب ضرورت کبھی قانون کا پلڑا بھاری ہو اور کبھی اخلاق کا اور احسان ان دونوں پر مستزاد کیفیت کا نام ہے۔ اقربا، اعزّہ اور غربا کے لیے صلہ رحمی کی تلقین در اصل احسان ہی کی تلقین ہے۔ محولہ بالا آیات اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ…میں تیسری شے یہی صلہ رحمی ہے جسے ایتائِ ذی القربیٰ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک ایسا انسان جو اپنے ذاتی اعمال و افعال میں عدل و توسط اور احسان کے راستے پر گامزن ہو گا۔ اپنے معاشرتی تعامل (Social Interaction) میں بھی اس عدل کو بروئے کار لائے گا، وہ اپنے اوپر اللہ کے انعامات میں دوسروں کو بھی شریک کرے گا اور اس کے ساتھ شخص غیر کی یہ شراکت احسان کا مظہر بن کر ابھرے گی۔ اپنی کمائی اور محنت کے ثمر میں دوسروں کو حق دینا ان کے وجود کو تسلیم کرنا ہے اور دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا معاشرتی زندگی میں حسن پیدا کرنے کی پہلی منزل ہے۔ پھر جب ان کے وجود کو تسلیم کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس سے بڑھ کر ان میں سے ضرورت مندوں کی ذمہ داری بھی قبول کی جائے تو معاشرہ کیسی وحدت اور یگانگت کا منظر پیش کر سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا دشوار نہیں۔ پہلے عدل کا ذکر کیا گویا عدل سب کے لیے ضروری ہے، احسان جو جس قدر کر سکے اس کے حق میں ہے اور اس کا صلہ اسے احسان ہی کی صورت میں ملے گا ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَانُ ۴۱۔ لیکن اس میں بھی وہ لوگ جن کا فرد سے قریبی تعلق ہے ان کا حق دور والوں سے بڑھ کر ہے ان سے ان کے مرتبے کے مطابق سلوک کیا جائے قرابت کا تعلق بہت اہم ہے، حضور علیہ السلام نے قریش کی مخالفتوں کے جواب میں بھی اسی کا حوالہ دیا تھا۔ ’’قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ‘‘ ۴۲ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرابت داروں کا حق اتنا ہے کہ اسے غیر اہل ایمان سے بھی طلب کیا جا سکتا ہے، قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر حق قرابت کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ وہ حسنِ سلوک جو ذی القربیٰ کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے عمومی اعتبار سے سارے معاشرے کے ساتھ مطلوب ہے، حسن سلوک کی صورتیں متعدد ہیں معاشرتی و تمدنی بھی اور مالی بھی، مالی اعتبار سے بھی اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ وہ انفاق، اطعام، صدقہ اور زکوٰۃ کے ذریعے سے معاشرے میں معاشی عدم توازن کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کریں۔ ان کا یہ حسن سلوک اللہ کی رضا اور ان کے لیے آخرت کے انعامات کی فراہمی کا سبب بنے گا۔ اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کیے جانے والے مال کو دوسروں کی فلاح پر خرچ کر دینا یا دوسروں کی ضروریات کے لیے وقف کردینا ایک خاص اخلاقی تربیت کے بغیر ممکن نہ تھا اور قرآن کی تعلیمات کا یہ کرشمہ ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کے معاشی تصور کو بالکل تبدیل کر دیا اور ان کے زاویۂ نظر میں اتنی وسعت پیدا کر دی کہ وہ نفع نقصان کے ظاہری دوائر سے بہت بلند ہو کر سوچ سکیں ان کے قلوب میں کشاد اور ان کی سرگرمیوں کا محور رضائے الہٰی ہو نہ کہ دنیوی منافع ان کا مطلوب محض ٹھہر جائیں، مادہ پرستانہ اذہان اس تصور کو پا ہی نہیں سکتے جو قرآن نے متعارف کروایا۔ انفاق فی سبیل اللہ کا انوکھا اصول۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی دعوت دیتا ہے جس سے بظاہر فردکا دنیوی فائدہ نہیں لیکن قرآن اس انفاق کو ایک قرض قرار دیتا ہے ایسا قرض جس کی واپسی بہت نفع کے ساتھ ہو گی۔ ’’مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہ‘ لَہ‘ٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃًط وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ تم میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کر دے گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی اور اسی کی طرف تمھیں پلٹ کر جانا ہے۴۳۔ اس سے آگے بڑھ کر قرآن ایک نہایت خوب صورت مثال سے اس صلہ رحمی کا صلہ واضح کرتا ہے۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَا لَھُمْ فِیْ سَبِیْلَ اللّٰہ کَمَثَلِ حَبَّۃِ اَمْنبَتَتُ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبَلَۃِ مَّائَۃُ حَبّٰۃِ وَّاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ کیا خوب صورت تشبیہ ہے: گندم کا ایک دانہ اس سے نکلنے والا پودا اس پودے میں سات خوشے گیہوں کے اور ہر خوشۂ گیہوں میں سو دانے گویاایک دانے کا نتیجہ سات سو دانے… ایک حسنِ سلوک سات سو مرتبہ بڑھا کر لوٹایا گا۴۴۔ لیکن اس اضعاف مضاعفہ کی کچھ شرائط بھی ہیں مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں بعض لطیف نکات بیان فرمائے ہیں، مثلاً یہ کہ ایک دانہ گندم سے سات سو دانے حاصل کرنے کے لیے شرط ہے کہ دانہ عمدہ ہو، خراب نہ ہو، اسے کاشت کرنے والا کاشتکاری کے فن سے خوب واقف ہو اور جس زمین میں اسے بویا جائے وہ عمدہ اور زرخیز ہو۔ چنانچہ اللہ کی راہ میں خرچ کے لیے بھی ضروری ہے کہ مال پاک ہو ناپاک یا ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جانے والا مال نہ ہو (یعنی دانہ) نیت بخیر اور طریقہ وہ جو حضور علیہ السلام سے ثابت ہو اور جہاں خرچ کیا جائے وہ جگہ مستحق ہو یعنی زمین زرخیز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انفاق کے مزید آداب یہ بتائے ہیں کہ صلہ رحمی کرنے والا، جس پر مہربانی کرے (جو دراصل اس کا حق ہے) اس پر احسان نہ جتلائے اور اسے ایذا نہ پہنچائے… چونکہ اللہ خود فراخ دست ہے جتنا چاہے دے سکتا ہے اس لیے اپنے بندوں سے بھی اس کی یہی توقع ہے کہ وہ فراغ حوصلکی سے کام لے کر اس کی راہ میں خرچ کریں۔ ایک دانہ گندم کے بدلے سات سو دانوں کا ثواب معمولی اجر نہیں ہے، یہ بات سمجھانے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس میں تحدید کا ایک پہلو بہ ہر حال موجود ہے خواہ وہ سات سو گنا ہی کیوں نہ ہو… ابن مردویہ کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورؐ نے اس میں افزونی کی دعا کی چنانچہ اس کے بعد ’’مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہُ ……الخ‘‘۴۵۔ والی آیت کا نزول ہوا جس میں کئی گنا اضافے کی بشارت دی گئی… حضور علیہ السلام نے اپنی دعا پھر دوہرائی چنانچہ ’’ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ‘‘ ۴۶۔ کی آیت نازل ہوئی۔ جس میں بغیر کسی تحدید کے اجر دینے کا وعدہ کیا گیا اب معلوم ہوا کہ اجر و ثواب کی کوئی آخری حد نہیں عمل کرنے والے کے ہاں اخلاص جس قدر زیادہ ہو گا اسی قدر ثواب میں زیادتی ہوتی چلی جائے گی۴۷۔ بدنی آزمایش (جسمانی عبادات) اور مالی آزمایش (زکوۃ و انفاق و اطعام وغیرہ) ہر دو کا مقصود دراصل طبائع کو ہر طرح کے حالات میں اللہ کے حکم کے مطابق ڈھالنے کی تربیت دینا ہے اور روحانی اور اخلاقی قوت کے سرچشمے کی طرف رخ پھیر دینا ہے۴۸۔ صلہ’ رحم ایک مستقل نیکی ہے جو اقارب وذوی الارحام کے لیے درجہ بدرجہ استعمال ہونی چاہیے گویا ’’احسان‘‘ کے بعد ذوی القربیٰ کا بالتخصیص ذکر کے متنبہ فرما دیا کہ عدل انصاف تو سب کے لیے یکساں ہے لیکن مروت و احسان کے وقت بعض مواقع بعض سے زیادہ رعایت و اہتمام کے قابل ہیں فرق مراتب کو فراموش کرنا ایک طرح قدرت کے قائم کیے ہوئے قوانین کو بھلا دینا ہے۴۹۔ ’’اِنَّ الَلّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ ……الخ‘‘ والی ایت مبارکہ میں جس طرح تین امور کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح تین امور سے ممانعت بھی کی گئی ہے اور وہ تین فحشا منکر اور بغی ہیں۔ فحشا سے بے حیائی مراد ہے اور اس کی ناپسندیدگی قرآن حکیم میں بار با رظاہر کی گئی ہے الاعراف میں یہ مضمون بدین الفاظ وارد ہوا ہے: قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَاَ ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ آَن تُشْرِکُوَ ابِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلَ بِہٖ سُلْطَناً وَّ اَنْ تَقُوْلُو اعَلَّی الَلّٰہِ مَا لَا تَعْلِمُوْنَ تو کہہ دے میرے رب نے حرام کیا ہے صرف بے حیائی کی باتوں کو جو ان میں کھلی ہوئی ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیںا ور گناہ کو اور نا حق کی زیادتی کو اور اس بات کو کہ شریک کرو اللہ کا ایسی چیز کو کہ جس کی اس نے سند نہیں اتاری اور اس بات کو کہ لگائو اللہ کے ذمے وہ باتیں جو تم کو معلوم نہیں۵۰۔ فحشا ، فاحشۃ ، فحش کے معنی حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں، انسان جب اخلاقیات کی ان حدود سے تجاوز کرتا ہے جو خالق کائنات نے مقرر فرما دی ہیں تو وہ فحش یا فحشا کا مرتکب ہوتا ہے اور اس سے اللہ نے ممانعت کی ہے۔ قرآن نے زنا کے لیے فاحشۃ کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسے بری راہ (سائَ سبیلا) قرار دیا ہے کہ حدود سے تجاوز نا محمود و مذموم اور نا پسندیدہ ہے اس لیے قبیح ہے یوں فحشا کے معنی میں قباحت داخل ہے۔ دوسری ممانعت منکر کی ہے‘ منکر معروف کی ضد ہے اور اس کے معنی اجنبی کے ہیں قرآن حکیم نے ایک سے زائد مقامات پر یہ لفظ اجنبیت کے معانی میں استعمال کیا ہے مثال کے طور پر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے نوجوان لڑکوں کے روپ میں آئے تو آپؑ نے فرمایا ’’انکُم قوم مُنکَروُنَ‘‘ تم لوگ تو کچھ انجان معلوم ہوتے ہو۵۲۔ اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کے بیان میں قرآن حکیم نے فرمایا ہے: اِذ دَخَلُوْ‘ا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ط قَالَ سَلٰمٌ قَوْمُ مَّنْکَروُنَ وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا ابراہیم نے جواب دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں۵۳۔ چنانچہ اس سیاق کلام میں منکر سے ایسا فعل مراد ہوا جو ایک نارمل زندگی کے افعال میں اجنبی ہو اور عرفِ عام میں ناپسندیدہ۔ اور فطرت انسانی اس سے اِبا کرتی ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ ایسے کاموں سے منع کرتا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن حکیم کے ماننے والوں کے اخلاق میں ایسا کوئی فعل دخیل نہیں ہوتا جس سے انسانی طبائع نفور ہوں اور جو معاشرے کی عمومی صورت حال کو ناخوش گوار بنائے اور جس سے اللہ کی ناراضگی لازم آئے۔ تیسری ممانعت بغی کی ہے قرآنی سیاق و سباق میں یہ اصطیلاح حدود سے تجاوز کر کے کسی دوسرے پر دست ستم دراز کرنے کے معنوں میں آتی ہے، سورہ الااعراف کی آیت ۳۳ جو ماقبل میں نقل کی جا چکی ہے (دیکھئے حوالہ نمبر۵۳) اس میں ’’الَبغَی بِغَیر الحَقّ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں جن کا معنی ’’ناحق کی زیادتی‘‘ ہے سورۂ شوریٰ میں بھی یہ لفظ آیا اور زیادتی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے: وَالَّذِیْنَ اِذآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ اور وہ لوگ کہ جب ان پر ہووے چڑھائی تو وہ بدلہ لیتے ہیں۵۴۔ اب معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک حدود سے تجاوز، خلاف معروف، طبائع میں اِبا پیدا کرنے والے اعمال اور زیادتیاں ناپسندیدہ اور مذموم ہیں اور قرآن ان سے احتراز کی تلقین کرتا ہے۔ اس آیت کی جامعیت کا یہ پہلو نہایت قابل توجہ ہے کہ جس طرح اس کے پہلے حصے میں تین ایسے امور کا حکم دیا گیا کہ کوئی نیکی اور خیر جن کے دائرے سے باہر نہیں اس طرح تین ایسے امور سے منع کیا گیا کہ ہر خرابی اور شر جن کے ذیل میں آ جاتے ہیں، مولانا سلیمان ندوی نے ان تین اخلاق ذمیمہ کو منطق کی اصطلاح میں ’’مانعتہ الخلو‘‘ قرار دیا ہے یعنی کسی بداخلاقی میں ان تینوں کا اجتماع تو ہو سکتا ہے مگر کوئی بداخلاقی ان تینوں میں سے کسی ایک سے خالی نہیں رہ سکتی یعنی ہر بداخلاقی میں تینوں کا یا تینوں میںسے ایک کا پایا جانا ضروری ہے۵۵ اور یہ تینوں برائیاں شخصی، تمدنی اور قومی بین الاقوامی زندگی کے لیے تدریجاً نقصان دہ اور اس کے سکون کو غارت کر دینے والی ہیں، جس کا نتیجہ اللہ کی رحمت سے دوری اور اس کے غضب کو دعوت دینے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی اصل قرآن حکیم ہے اور قرآن ہدایت و تزکیے کی کتاب ہے جو تخلیق وجود کے چوتھے مرتبے پر انسانوں کو دی گئی ہے… مراتب وجود چار ہیں جیسا کہ خود قرآن حکیم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَیo الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰیo وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی ۵۶ یعنی تخلیق، تسویہ، تقدیر اور ہدایت… پہلے انسان کو خلق کیا گیا پھر اس کے اعضا وجوارح ہئیت و کیفیات میں توازن و تسویہ پیدا کیا گیا پھر اس کے لئے اچھی یا بری تقدیر مقرر کی گئی اور پھر اسے ہدایت کی راہ سُجھا دی گئی… ہدایت کی راہ جو ’’وَّھَدینٰہُ النَّجْدَیْنِ‘‘ (اور ہم نے اسے دو راستے دکھا دیئے) ۵۷ کی روشنی میں ہر فرد بشر پر واضح کر دی گئی ہے کامل واکمل ہے کسی بھی نقص و ناتمامی سے پاک قرآن کا موضوع بننے والی ہدایت کا تعلق اخروی فوزو فلاح سے ہے دنیوی زندگی کو اس نے متاع غرور اور آزمایش قرار دیا ہے اس سفر کی منزلیں طے کرنے کے لیے اپنے ماننے والوںکو سچائی، راستی، دیانت، شکر گزاری، خشیت، انصاف، انکسار، معافی، نرمی، رأفت، رحمت، خدمت خلق اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی ہے لیکن درحقیقت قرآن کا اصل موضوع عقیدے کی درستی ہے… اور اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید ہے اس کے ساتھ رسالت و آخرت جن کا حصر اسلام کی اساسی تعلیمات میں کر دیا گیا ہے… اس سارے تفصیل مطالعے کی روشنی میں جو گذشتہ سطور میں پیش کیا گیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اپنے ماننے والوں پر اخلاقیات کا کوئی بنا بنایا نظام نافذ نہیں کرتا… وہ اگر عدل، احسان، صلہ رحمی کی ہدایت کرتاہے اور فحشا منکرات اور حدود سے تجاوز کرنے سے روکتا ہے تو اس کا سبب دنیوی منافع و محاسن نہیں ہیں۔ سورہ نور میں اور بعض دوسرے مقامات پر جن اخلاقی ضوابط کی نشاندہی کی گئی ہے وہ بھی دنیوی فلاح کے نقطۂ نظر سے نہیں ہے بلکہ عدل احسان صلہ رحمی… آخرت کے تصور کے ساتھ مربوط ہیں اور مدعا انسان کے ظاہر و باطن کی یکسانی ہے… یہ قول کتنا حکمت آمیز ہے کہ اگر ظاہر اور باطن برابر ہوں تو یہ کیفیت عدل ہے اگر باطن ظاہر سے اچھا ہو تو کیفیت احسان ہے اور اگر ظاہر باطن سے اچھا ہو تو یہ فحشا و منکر ہے۔ پس ساری بحث کا خلاصہ انسان کے ظاہر و باطن کا تسویہ کہلا سکتا ہے اور ظاہر و باطن کا تسویہ کس لیے…؟ رضائے الہٰی کے لیے اور رضائے الہٰی کی طلب نتیجہ ہے عقیدے کا اور عقیدوں کا عقیدہ توحید ہے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم کسی لگے بندے نظامِ اخلاق کو پیش نہیں کرتا بلکہ اس کی بنیادی تعلیم توحید پر مبنی ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنانا ظلم عظیم ہے، یہ دنیا اور اس دنیا کی زندگی بے مقصد نہیں ہے۵۸۔ متاع دنیا قلیل ہے اور آخرت ، اہلِ تقویٰ کے لیے بہتر ہے جہاں عمل کرنے والوں کو ان کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا اجر ملے گا اور ایک تاگے کے برابر بھی ان کا حق نہیں رکھا جائے گا۵۹۔ اس لیے یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۶۰…… جو شخص عقیدہ توحید کو قبول کرے گا اس کے پیش نظر آخرت اور روزِ حشر کا حساب ہو گا، آخرت کی میزان کا تصور اسے ظلم و زیادتی سے باز رکھے گا اور رفتہ رفتہ اس کے اخلاق و کردار میں نیکی ، نرمی، رأفت، برداشت، عدل انصاف احسان کی محبت گھر کر جائے گی اور وہ فواحش منکرات اور حدود سے تجاوز کرنے کے رویوں کو ناپسند کرنے لگے گا…… جب یہ پسندو ناپسند طبیعت میں راسخ ہو جائے گی تو اسے نیکی اور حسن خلق کا ملکہ حاصل ہو جائے گا… اور یہی ملکہ رفتہ رفتہ اس کے ہاں حسن کردار کے بے تکلف ظہور کا سبب بن جائے گا، پھر اسے معاشرتی زندگی میں خوبی کردار کو اپنانے کے لیے کسی خارجی منفعت و مضرت پر نظر رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی… وہ اپنے اعمال کا تعین وقتی حالات و واقعات کی روشنی میں نہیں کرے گا… دیانت روی عدل و قسط اور احسان اس کی پالیسی نہیں ہوں گے بلکہ ان سب کا صدور اس کی طبیعت کا اقتضا بن کر ہونے لگے گا اور اس کا عمل اخلاقِ فاضلہ کا ایک حسین نمونہ بن جائے گا۔ حوالے اور حواشی 1. Aristotle, The Philosophy of Aristotle Selection Bambrough Translated by: A.E. Wardman and J.L.Creed.London: A Mentro Classic 1963 P.303 ۲۔ ارسطو : علم الاخلاق بحوالہ ’’اخلاق اور فلسفہ اخلاق‘‘ از محمد حفظ الرحمن سیوہاروی، دہلی: ندوۃ المصنفین ۱۹۵۰ء 3. Santas, Gerasimos Xenophon, Socrates Philosophy in Plato's Early Dialogues (The Arguments of the Philosophers).Edited by: Ted Houderick London: Rontledge & Kegan Paul, 1979, P. 196 ۴۔ افلاطون ’’مکالمات افلاطون ‘‘ مترجمہ محمد رفیق چوہان ،اسلام آباد: نیشنل بک فائونڈیشن، ۱۹۸۷ئ، ص ۱۱۵ 5. Santas, Gerasimos Xenophoun P. 184 6. Ibid ۷۔ ایس این واس گپتا: ’’تاریخ ہندی فلسفہ‘‘ جلد اوّل، مترجم: رائے موہن لعل مارتھ،دہلی: ترقی اور بیورو، اپریل ۱۹۸۳ئ، ص ۲۲۲ ۸۔ پرمان نئے تنولوکالنکار، ص ۲۶ بحوالہ بالا ۹۔ ’’ابودائود‘‘ کتاب الفرائض ۱ بحوالہ’’ اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ ،ج ۱۱ ۱۰۔ الروم ۳۰ ۱۱۔ بخاری تفسیر سورہ روم ۱۲،۱۳۔ ابوحامد غزالی:’’مذاق العارفین‘‘ اردو ترجمہ’’ احیاء علوم الدین‘‘ از محمداحسن صدیقی نانوتوی،لاہور،ملک سراج الدین اینڈ سنز پبلشرز، س ۔ن نیز ’’غزالی کا تصور اخلاق‘‘ اردو ترجمہ’’ الاخلاق عندالغزالی‘‘ ص ۱۸۹ ۱۴۔ ’’مذاق العارفین‘‘ ص ۶۹ الف۱۵۔پارہ نمبر ۲۹ سورہ نمبر ۷۱ نوح آیت نمبر۳ اس کے بعد قرآنی آیات کے جتنے حوالے آئیں گے اسی ترتیب سے درج ہوں گے، البتہ اختصار کی غرض سے پارہ کے لیے پ کی علامت درج کی جائے گی، سورہ نمبر کے الفاظ حذف کر کے نمبر کے ساتھ سورہ کا نام درج ہو گا۔ ۱۵۔ پ ۲۹ ۷۱۔ نوح آیت۱۵ ۱۶۔ پ ۲۵ ۴۳۔الزخرف ۶۴ ۱۷۔ پ ۲۷ ۵۷۔ الحدید ۲۷ ۱۹۔ ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘، لاہور، دانش گاہ پنجاب، ۱۹۸۵ئ، ج ۱۸، ص ۱۲۸۔ ۲۰۔ پ ۲۹ ۶۷۔ الملک ۳،۴ ۲۱۔ پ ۱۴ ۱۶۔ النحل ۹۰ ۲۲۔ پ ۲۱ ۳۳۔ الاحزاب ۴ ۲۳۔ پ ۲۴ ۴۰۔المومن ۲۰ ۲۴۔ پ ۳ ۳۔ آل عمران ۱۸ ۲۵۔ پ ۷ ۶۔ الانعام ۱۹ ۲۶۔ پ ۲۵ ۴۲۔الشوریٰ ۲ ۲۷۔ پ ۵ ۴۔ النسا ۱۳۵ ۲۸۔ پ ۲۶ ۴۹۔ الحجرات ۹ ۲۹۔ پ ۱۴ ۱۶۔النحل ۸۹ ۳۰۔ مولانا شبیر احمد عثمانی حواشی بر ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن مکہ مکرمہ: مجمع خادم الحرمین الشریفین الملک فہد الطباعۃ المصحف الشریف س۔ ن ص ۳۶۶ ۳۱۔ قاضی مولانا ثناء اللہ پانی پتی:’’تفسیر مظہری مترجمہ سید عبدالدائم الجلالی‘‘،کراچی : دارالاشاعت ۱۹۹۹ء ج ۶ ص ۲۸۲ ۳۲۔ اللہ جمیل و یُحِبُّ الجمال ۳۳۔ پ ۶ ۵ المائدہ ۸ ۳۴۔ مولانا شبیر احمد عثمانی:بحوالہ ص ۱۴۴ ۳۵۔ پ ۱۴ ۱۶ النحل ۹۰ ۳۶۔ امام ابو عبداللہ محمد بن اسمعٰیل بخاری:’’صحیح بخاری شریف‘‘ مترجمہ: علامہ وحید الزماں،لاہور: مکتبہ رحمانیہ، ۱۹۸۵ئ، ج اوّل، ص ۱۲۷، ۱۲۸ ۳۷۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی:’’تفہیم القرآن‘‘ تفسیر سورۃ النحل ،لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۹۴ئ، ج ۲، ص ۵۶۵ ۳۸۔ استثنا باب۱۹ آیت۲۱ ۳۹۔ خروج باب ۲۰ آیت ۶ ۴۰۔ متی باب ۵ آیت ۳۸۔۴۱ ۴۱۔ الرحمن پ ۲۷ ۵۵ الرحمن ا۶ ۴۲۔ پ ۲۵ ۴۲ الشوریٰ ۲۳ ۴۳۔ پ ۲ ۲ البقرہ ۲۴۵ متی بان ۵ آیت ۴۳۔۵۳ ۴۴۔ پ ۲ ۲ البقرہ ۲۴۵ ۴۵۔ پ ۲ ۲۔ البقرہ ۲۶۱ ۴۶۔ پ ۲۳ ۳۹۔الزمر ۱۰ ۴۷۔ ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ ،ج اوّل: ص ۱۶ ۴۸۔ جلال الدین علی و جلال الدین السیوطیؒ:’’تفسیر جلالین‘‘، ج، اوّل، ص ۱۱۹ ۴۹۔ مولانا شبیر احمد عثمانی:بحوالہ بالا ص ۳۶۷ ۵۰۔ پ ۸ ۷۔الاعراف ۳۳ ۵۱۔ پ ۱۵ بنی اسرائیل ۳۲ ۵۲۔ پ ۱۴ ۱۵۔الحجر ۶۲ ۵۳۔ پ ۲۶ ۱۵۔الذاریات ۲۵ ۵۴۔ پ ۲۵ ۴۲۔ الشوریٰ ۳۹ یہاں سیاق کلام کی صراحت کے لیے اس سے اگلی آیت بھی ملاحظہ فرمائی جائے جس سے قرآن حکیم کا اصول عفو معلوم ہوتا ہے: ’’وجزاء اسیئۃ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظلمین‘‘ اور برائی کا بدلہ ہے برائی ویسی ہی پھر جو کوئی معاف کرے اور صلح کرے سو اس کا ثواب ہے اللہ کے ذمے، بے شک اس کو پسند نہیں آتے گنہگار۔ (شوریٰ ۴۰) ۵۵۔ مولانا سید سلیمان ندوی :’’سیرۃ النبیؐ‘‘اسلام آباد: نیشنل بک فائونڈیشن، ۱۹۸۱ئ، ج ۶، ص ۵۹۵ ۵۶۔ پ ۳۰ ۸۷۔الاعلیٰ ۱۔۳ ۵۷۔ پ ۳۰ ۹۰۔البلد ۱۰ ۵۸۔ ’’اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَکُمْ عٓبَثاً وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَاتُرَجَعُوْنَ‘‘ کیا تم یہ گمان کیے ہوئے ہو کہ ہم نے تمھیں یونہی بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جائو گے۔ پ ۱۸ ۲۳۔ المومنون ۱۱۵ ۵۹۔ ’’مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ج وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِمَنِ اتَّقٰی قف وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً‘‘ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیز گاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک تاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا۔ پ ۵ ۴۔ النساء ۷۷ ۶۰۔ ’’الدنیا مزرعۃ الاخرۃ‘‘  کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔کلام اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ الف:۔اعلام اور تلمیحات : یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات، مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ ب:۔مشکلات… یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح ، توضیح اورتفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہل علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہو سکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جا سکتا، مجروح نہ ہو۔ ج:۔ تکنیکی اور فنی محاسن: یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص مقام پر اقبال کے پیش نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آ جائیں گے۔ o صفحات ذیل میں فرھنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جا رہے ہیں۔ ص نمبر۴۰۷ کلیات کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی نفس ہندی‘ مقامِ نغمہ تازی نگہ آلودۂ اندازِ افرنگ طبیعت غزنوی‘ قسمت ایازی ۱) ’’اس رباعی میں اقبال نے انتہائی اختصار کے ساتھ اپنی پوری زندگی بیان کر دی ہے۔ یعنی میں ہندستان میں پیدا ہوا‘ جو پیغام دیتا رہا وہ عربی تھا۔ یورپی علوم حاصل کرنے کے باعث میری نظر میں یورپ کا اثر کم و بیش باقی رہا اور طبیعت ‘ غنا اور بے نیازی کے اعتبار سے شاہانہ تھی لیکن قسمت ایسی پائی کہ کسب معاش کے لیے جو کچھ کرتا رہا وہ اگرچہ کتنا ہی خود دارانہ تھا، تاہم اس میں دوسروں سے کامل بے نیازی میسر نہ آ سکی‘ لہٰذا اِسے ایازی ہی سمجھنا چاہیے۔ (’’مطالب‘‘ ص ۱۰۵) ۲) اقبال نے ایک ایک مصرعے میں اپنی شاعری ‘ فکر اور شْخصیت کو کھولا ہے۔ میری شاعری گویا بانسری بجانے کا عمل ہے۔ پھونک ہندی ہے جو عربی نغمے میں ڈھل کر نکلتی ہے۔ یعنی میری تخلیقی قوت ہندستانی رنگ رکھتی ہے لیکن اس کا اظہار عربی آہنگ میں ہوتا ہے۔’’نفس‘‘ ان لفظوں میں سے ہے جو اقبال کے ہاں بار بار آتے ہیںا ور کبھی کسی ایک معنی تک محدود نہیں ہوتے۔ اس کے کئی معنی ہیں جن میں مرکزی اور فوری مفہوم ’’سانس‘‘ کا ہے جو نفس کا اصلی مطلب ہے‘ باقی معانی اسی مطلب سے پھوٹتے ہیں اور اسی کے حوالے سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں نفس جس معنوی کثرت اور تدریج کا حامل ہے‘ اس کا ایک خاکہ بنایا جائے تو کچھ یوں بنے گا: گویانفس کی معنوی جہات اپنی اپنی اندرونی تدریج کے ساتھ ایک مشترک نقطے پر تمام ہوتی ہیں۔ لفظ اور زبان ایک خفیف سے فرق کے باوجود ہم معنی ہیں۔ وہ فرق یہ ہے کہ لفظ اور زبان‘ دونوں کی حقیقت ایک ہے۔ معنی۔ تاہم لفظ کو معنی سے براہ راست نسبت ہے جبکہ زبان کو یہ نسبت لفظ کے واسطے سے میسر آتی ہے۔ اس توضیح کے مطابق ’نفس ہندی‘ کا مطلب ہوگا: ’لفظ اور زبان میں ہندوستانی۔ یہاں اس مطلب کے حصول کا پورا سفر بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ’نفس‘ بمعنی لفظ کی مناسبت سے ’مقام‘ کا مطلب متعین کرنا آسان ہو گیا ہے۔ آواز کی لہر میں اتار چڑھائو پیدا کر کے بعض صوتی تشکیلات وجود میں آتی ہیں جو مختلف معانی، تاثرات اور احساسات پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں سے ہر تشکیل ایک ’مقام‘ ہے۔ یعنی وہ بنیاد جس پر نغمہ اپنی انفرادی اور مخصوص حیثیت کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ موسیقی کی اصطلاح میں ’مقام‘ سُر اور آہنگ ہے جو کسی خاص معنی و کیفیت کا اظہار کرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہاں ’مقام‘ کو معنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’نفس‘ قوتِ اظہار ہے اور ’مقام‘ روحِ اظہار۔ نغمۂ نَے ان دونوں کا مرکب ہے‘ یعنی اقبال کی شاعری میں لفظ تو ہندستانی ہے مگر معنی‘ عربی۔ یا بالفاظ دیگر‘ اس کی زبان تو غیر قرآنی ہے لیکن پیغام سراسر قرآنی۔ ۱:۲۔ تیسرے مصرعے میں اقبال نے اپنی فکر کی ماہیت بیان کی ہے کہ میرا چیزوں کو دیکھنے کا انداز مغربی ہے، یعنی میرا فکری سانچا مغربی علوم کے زیر اثر تیار ہوا ہے لہٰذا نہ چاہنے کے باوجود دینی اور مابعد الطّبیعی حقائق کو بھی اس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہوں جو میں نے مغرب کے فلسفے‘ سائنس، نفسیات وغیرہ سے اخذ کیا ہے۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام اپنے ایک خط میں اقبال نے یہی بات لکھی ہے۔ ……میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعے میں گزری ہے‘ اور یہ نقطۂ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں۔‘‘ (’’کلیات مکاتیب اقبال‘‘ ج ۲ص۵۹۹) اقبال نے یہ بات خود کو جس طرح نشانہ تحقیر و ملامت بنا کر کی ہے‘ اس کی مثال بڑے لوگوں ہی میں مل سکتی ہے۔ ہماری نظر میں فکرِ اقبال نتائج کے اعتبار سے دینی اور استدلال کے لحاظ سے جدید ہے، اور یہ اجتماع کسی بڑے ذہن ہی میں ہو سکتا ہے۔ ۲:۲۔ طبیعت غزنوی‘ قسمت ایازی۔ یہ علامہ کی شخصیت کے ایک گوشے کا بیان ہے جس کی مولنٰا مہر نے اچھی شرح کی ہے۔ اس کا اقتباس اوپر دیا جا چکا ہے۔ دیکھیں: شق ۱۔ ۳۔ اس رباعی کے فنی اور معنوی محاسن: ۱:۳۔ نَے نوازی ‘ بمعنی بانسری بجانا‘ ’نفس‘ بمعنی بانسری بجانے والے کا سانس‘ اور ’مقامِ نغمہ‘ بمعنی بانسری کے سوراخ‘ میں ظاہری مناسبت ہے۔ ۲:۳۔ نَے نوازی ‘ بمعنی شاعری‘ ’نفس‘ بمعنی لفظ‘ اور ’مقام نغمہ، بمعنی معنی و کیفیت میں داخلی مناسبت ہے۔ ۳:۳ ۔ نَے نوازی ‘ بمعنی، ’شاعری‘ ’نفس‘ بمعنی تخلیقی رَو‘ اور ’مقام نغمہ‘ بمعنی ’تخلیقی روکا سرچشمہ‘ ایک ہی کل کے اجزا ہیں۔ ۳:۳۔ ’بَے نوازی ‘ بمعنی ’فن شعر‘ ’نفس‘ بمعنی ’فنی‘ ریاضت اور ’مقام‘ نغمہ بمعنی ’مقصد فن‘ کے بھی ایسے معنی نکلتے ہیں جو اقبال کی شاعری سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ۴:۳۔ ’نَے نوازی‘ سے رومی کا تصور بھی ابھرتا ہے‘ یعنی اصل نَے نواز تو رومی تھے‘ میں تو ان کی تان میں تان ملانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ مطلب ’کوئی دیکھے تو‘ کے استہزائیہ انداز سے نکلتا ہے۔ ۵:۳۔ ’نفس ہندی‘ ’مقام نغمہ تازی‘ اور ’انداز افرنگ‘ نفس‘… روح اور عقل کے باہمی تضادات ہیں جو ایک شخصیت میں جمع ہو گئے ہیں۔ ۶:۳۔ ’غزنوی‘ اور ’ایازی‘ کا تضاد واضح ہے۔ ۷:۳۔ اصل تضاد ’نفس‘ اور ’مقام‘ میں ہے۔ نفس یعنی سانس کا اصول، حرکت اور فنا ہے اور یہ ’ سفر ‘ طبیعت ‘ جسم، نسل اور وطن کا مظہر ہے… جبکہ ’مقام‘ کا اصول، استقلال اور دوام ہے اور یہ منزل‘ مقصد‘ روحانیت‘ قلب‘ و حدت اور آفاقیت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ دونوں اپنے ہر جزو میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ O صفحہ کلیات ۴۳۸ قلب و نظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندّیاں رواں ’’ذوق و شوق‘‘ کا یہ پہلا شعر گویا وہ بیج ہے جس سے یہ عظیم نظم درخت کی طرح پھوٹی ہے۔ اس کے لفظ لفظ کو کھولنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس گہرائی اور پھیلائو کا کچھ اندازہ ہو جائے جو اس شعر میں پایا جاتا ہے اور جس نے پوری نظم کو اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے: ۱) قلب و نظر: دونوں کا کام مشاہدہ ہے۔ قلب‘ حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے اور نظر‘ صورت کا۔ چونکہ دونوں کے مشاہدے کا ہدف ایک ہی ہے‘ یعنی جمالِ حق‘ لہٰذا قلب، نظر کو حقیقت سے مانوس رکھتا ہے اور نظر‘ صورت کو قلب سے اوجھل نہیں رہنے دیتی۔ اس طرح دونوں اپنے اپنے مشاہدات کو آپس میں جوڑ کر وہ کُلیّت تشکیل دیتے ہیں جس کے بروے کار نہ آنے سے مشہود ادھورا رہ جاتا ہے۔ یہ کُلیّت قلب میں صرف ہو کر معرفت اور عشق کا حال پیدا کرتی ہے۔ ۲) قلب و نظر کی زندگی: یعنی حقیقتِ جمال اور صورت ِجمال کا مشاہدہ قلب و نظر کی روح ہے۔ ’زندگی‘ کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ دل اور آنکھ کا موضوع جمال ہے۔ ۳) دشت: اس کی دو جہتیں ہیں‘ واقعی اور علامتی۔ اپنی واقعی جہت میں یہ دشت مدینہ، یا اور پھیلا کر دیکھیں تو دشت حجاز ہے‘ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مولد و مسکن۔ اس کے علامتی معنی بھی اس واقعی جہت سے نمودار ہوتے ہیں۔ یہاں یہ زمین کا بے پردہ اور خالص روپ ہے جس پر کوئی اضافی اور آرایشی تہ نہیں چڑھی۔ یہ انسانی باطن کی اس حالت کا آئینہ دار ہے جب وہ اپنی اصلی و فطری سادگی اور پاکیزگی کے ساتھ‘ حق کے آگے ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ ۴) صبح: آسمان کے حوالے سے ’صبح ‘کے وہی معنی ہیں جو زمین کے حوالے سے ’دشت‘ کے ہیں۔ صبح‘ آسمان کا اظہار ہے… روشن، پورا اور خالص۔ البتہ زمین کا اصول انفعال اور قبولیت ہے جبکہ آسمان فعلیت اور فیضان سے عبارت ہے۔ ۵) دشت میں صبح کا سماں : ۱:۵۔ فعل و انفعال اور فیضان و قبولیت کا کامل اِتّصال، جس سے حق کا ظہور انفس میں بھی مکمل ہو جاتا ہے اور آفاق میں بھی۔ ۲:۵۔ ظہورِ حق اور اس کی پوری قبولیت کا وقت ۳:۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کائناتی آثار کے ظاہر ہونے کا سماں اپنے اصلی ماحول کے ساتھ ۶) چشمۂِ آفتاب : عربی کے ’عین الشمس‘ کا فارسی ترجمہ۔ اس ترکیب میں معنی اور اظہار کی کئی سطحیں پائی جاتی ہیں‘ مثلاً: ۱:۶۔ سورج ایک چشمہ ہے جس سے روشنی ابل ابل کر پھوٹتی رہتی ہے۔ ۲:۶۔ سورج‘ نور کا سرچشمہ اور حرارت کا منبع ہے۔ ۳:۶۔ ’چشمہ‘ اپنی ظاہری اور معنوی ساخت میں جمال سے مناسبت رکھتا ہے، جبکہ آفتاب جلال ہی جلال ہے۔ اس پس منظر میں ’چشمۂ آفتاب‘ کی ترکیب یہ انکشاف کرتی ہے کہ ۱:۳:۶۔ جلال و جمال عینِ یکدیگر ہیں۔ ۲:۳:۶۔ جمال ‘ جلال ہی کا تعین ہے۔ ۳:۳:۶۔ جلال‘ جمال کا مقّوم ہے۔ ۴:۳:۶۔ جمال‘ ظہور ہے اور جلال‘ مایۂ ظہور۔ ۴:۶۔ ’آفتاب ‘ حق ہے اور ’چشمہ‘ حرکت حبّی کا مقام جو اصل ظہور اور مایۂ تعین ہے۔ ۵:۶۔ ’دشت‘ یعنی دشت مدینہ یا صحرائے حجاز یا سر زمین اسلام کی رعایت سے ’چشمۂ آفتاب‘ ذہن کو آنحضرت صلی اللہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمتہ للعالمینی کی طرف بھی منتقل کرتا ہے۔ نیز یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے عالمگیر پیغام کی بھی علامت ہے جس نے کائنات کو حق کی روشنی سے روشن اور حق کی گرمی سے زندہ کر دیا۔ (مولانا رومؒ کا ارشاد ہے: کارِ مرداں روشنی و گرمی است ۱:۵:۶۔ ’ چشمۂ آفتاب ‘ سے جو معانی نکلتے ہیں‘ انھیں آپس میں مربوط اور ہم آہنگ کر دیا جائے تو یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں حق کے ظہور اور فیضان کا سلسلہ اس شان سے تمام ہو گیا ہے کہ قیامت تک حق کا جو بھی ظہور اور فیضان ہو گا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حوالے سے ہو گا۔ یعنی حق اور حق کا مظہر اکمل و آخر‘ مراتب کے لازمی امتیاز کے ساتھ‘ ہم معنی ہیں۔ ۷۔ ’نور‘: اس کے کئی مطالب ہیں‘ جن میں سے چند اس شعر کی تفہیم میں کارآمد ہیں: ۱:۷۔ تجلی‘ اللہ کا نور جس نے کائنات کو بھی ظاہر کر رکھا ہے۔ ۲:۷۔ روح جمال‘ حسنِ ازل کی روشنی۔ ۳:۷۔ دل اور آنکھ کو منّور کر دینے والا نور‘ چیزوں کے ظاہر و باطن کو چمکانے والی روشنی۔ ۴:۷۔ معرفت اور محبت کا اجالا تکنیکی اور فنّی محاسن: ۱۔ ’قلب و نظر‘ کا ذوقِ دید جدا جدا ہے۔ چونکہ حقیقت سادہ اور صورت رنگین ہوتی ہے لہٰذا قلب کو سادگی درکار ہے اور نظر کو رنگینی۔ ’دشت‘ اپنی سادگی کی وجہ سے ’قلب‘ کا تقاضا پورا کرتا ہے، اور ’صبح‘ اپنی رنگینی کے ساتھ ’نظر‘ کا۔ ۱:۱۔ ’قلب و نظر کی زندگی‘: یعنی ’قلب‘ کے ذاتی اقتضا اور ’نظر‘ کے وجودی مطالبے کی تکمیل۔ حقیقت کا مشاہدہ مظاہر کے ذریعے سے مگر مظاہر سے ماورا، ’قلب‘ کی زندگی ہے، اور مظاہر کا نظارہ جو ’قلب‘ کی خوے دید سے ہم آہنگ ہو، ’نظر‘ کی۔ ’قلب‘ کا دیکھنا چونکہ مظاہر تک محدود نہیں ہے لہٰذا اس میں بننے والے مناظر اُن حدود میں نہیں سماتے جو ’نظر‘ پر لاگو ہوتے ہیں۔ ’نظر‘ اس بات کی پابند ہے کہ چیزوں کو موجودہ اور فوری زمانی مکانی تناظر میں دیکھے،لیکن ’قلب‘ انھیں ’ابھی/یہیں‘ کی قید سے نکال کر دیکھنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ’دشت میں صبح کا سماں‘ ’نظر‘ کے لیے محض ایک جاں فزا منظر ہے مگر ’قلب‘ اس منظر کی تشکیلِ نو کر کے اس کے دونوں اجزا، یعنی ’دشت‘ اور ’صبح‘ کو ایسا سیاق و سباق فراہم کرتا ہے جہاں ’دشت‘ بھی اپنے معنوی منتہا کو پہنچ جاتا ہے اور ’صبح‘ بھی۔ تاہم ’سماں‘ سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ وہ منتہا اپنی ماہیت میں تاریخیت کے عنصر سے خالی نہیں ہو گا۔ یہ باتیں ذہن میں رکھ کر دیکھیں تو… ۱:۱:۱۔ ’دشت‘ ، مدینہ یاعرب ہے، ’ صبح کا سماں‘ ، عہدِ رسالت ہے، ’چشمۂ آفتاب‘ ، ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ’نور کی ندّیاں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض و رحمت کا بہائو ہے جو آفاقی اور دائمی ہے۔ ۲:۱:۱۔ ’دشت‘= کائنات + ’صبح کا سماں‘ = ظہورِ اسلام + ’چشمۂ آفتاب‘= رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ جو حق کا واحد اور مستقل مظہر ہے + ’نور کی ندّیاں‘ = ہدایت/ معرفت/ محبت/ خشیت، نیز قرآن و سنت (مزید دیکھیے شق۶ اور ذیلی شقیں) ۲۔ یہ بتانے کے لیے کہ ’قلب و نظر‘ کا ہدف مشترک ہے، ان کی زندگی کا سبب اور محرّک ایک ہی دکھایا گیا ہے: ’دشت میں صبح کا سماں‘۔ ۱:۲۔ ’زندگی‘ اور ’سماں‘ میں وقت مشترک ہے۔ ۲:۲۔ ’قلب و نظر کی زندگی‘ اور ’دشت میں صبح کا سماں‘ میں قلب و نظر/ دشت اور زندگی/ صبح کا سماں‘ میں ایک خاص ہم معنویت کا رنگ پایا جاتا ہے۔ یعنی صبح کا سماں، قلب و نظر کی زندگی ہے اور دشت کی بھی۔ ۳:۲۔ ’دشت میں صبح کا سماں‘ وجود کے زمانی۔ مکانی اصول کا عکاس ہے۔ ’دشت‘= مکاں + ’صبح‘ = زماں + ’سماں‘= وقت/منظر۔ یہ لفظ زمان و مکاں کی وحدت کے ظہور پر دلالت کرتا ہے۔ ۳۔ حق ہی جمال ہے‘ جس کا مشاہدہ ’قلب و نظر کی زندگی‘ ہے۔ اس کا ظہور (صبح) محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور دین (دشت) ہی میں بتمام و کمال ہوا ہے۔ یہ مشاہدہ یا یقین میسر نہ ہو تو قلب مردہ ہے اور نظر اندھی۔ ۴: ’قلب‘ کی زندگی حرارت پر موقوف ہے اور’ نظر‘ کی روشنی پر۔ ’چشمہ آفتاب‘ دونوں کا سرچشمہ ہے۔ ۵۔ ’قلب و نظر‘ اور ’چشمۂ آفتاب‘ میں کچھ مناسبتیں ظاہر ہیں‘ مثلاً ۱:۵۔ عاشق کامل‘ محبوب کے روبرو بھی اس حال میں ہوتا ہے کہ آنکھ چشمے کی طرح ٹھنڈی اور دل آفتاب کی طرح سوزاں۔ ۲:۵۔ وصال ہو یا فراق‘ عاشق کی آنکھ رونے کے لیے ہوتی ہے (چشمہ) اور دل جلنے کے لیے (آفتاب)۔ بالفاظ دیگر چشمے کی طرح آنکھ کا بھی مدار پانی پر ہے اور آفتاب کی طرح دل بھی آگ سے عبارت ہے۔ ۳:۵۔ …’چشمۂ‘ اور’ نظر‘، ’نظر‘ یعنی ’چشم‘ کی مشابہت ظاہر ہے۔ ۴:۵۔ قلب و نظر ایک دوسرے کے ضد ہیں۔ مشاہدہ کرنے والوں کے اس بنیادی تضاد کو رفع کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خود مشہود کے جلال و جمال میں پائے جانے والے فاصلے کو ختم کر کے اِنھیں ایک ترکیب میں ڈھال دیا جائے۔ ’چشمۂ آفتاب‘ کی ترکیب آگ پانی کامیل ہے جس نے ’قلب ونظر‘ کا اتحاد ممکن بنا دیا۔ ۶۔’ چشمۂ آفتاب‘ کائنات کے لیے منبع نشوونما ہے۔ ’چشمہ‘ کا لفظ اسی رعایت سے آیا ہے کہ’ آفتاب‘ کو وجود کی کھیتی سیراب کرنے والے کی حیثیت سے دکھایا جا سکے۔ ۱:۶۔ چونکہ ’دشت‘ یعنی صحرا میں پانی نہیں ہوتا اور یہاں کا آئین نمو اور ہے‘ لہٰذا اس کی سیرابی کے لیے ’نور کی ندّیاں‘ درکار تھیں جو چشمۂ آفتاب ہی سے نکل سکتی ہیں۔ ’ دشت‘ اور’ صبح کا سماں‘ میںایک دقیق مناسبت یہ ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک میں مکان منہا ہو کر ایک لا مکانی سادگی‘ ارتکاز اور سکوت پیدا ہو گیا ہے اور دوسرے میں وقت صفر ہو کر ایک لازمانی ٹھہرائو ‘ گہرائی اور وسعت متشکل ہو گئی ہے۔ دونوں میں حرکت اور کثرت معدوم ہے جو زمان و مکاں کی پہچان ہے۔ ۱:۷۔ زمان و مکاں یا حرکت و کثرت چونکہ ’قلب‘ کی نہیں بلکہ ’نظر‘ کی ضرورت ہیں‘ لہٰذا اس کی رعایت رکھتے ہوئے نور کی یہاں ’ندیاں رواں‘ ہیں۔ یہاں کثرت بھی ہے اور حرکت بھی‘ مگر وہ چیز جس سے ان کی تشکیل ہوئی ہے یعنی ’آفتاب‘ اور وہ ‘ جوان سے تشکیل پاتی ہے‘ یعنی ’صبح‘ واحد ہے اور ساکن۔ ۸۔ ندّیاں میں دال کی آواز ماقبل حرف کے زبر سے دب کر رُک جاتی ہے اور پھر مکسور حالت (یعنی زیر لگنے کی حالت) میں ’یاں‘ کی مدد سے دوبارہ اس طرح بلند ہوتی ہے کہ لہریں لیتی ہوئی روانی اور ساتھ ہی ایک گہری گونج سی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ صوتی تصویر کشی کا کمال ہے۔ نثری ترجمانی مدینے کے صحرا میں طلوع صبح کا منظر‘ دل اور آنکھ کو زندہ کر دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ سورج کے چشمے سے نور کی نہریں نکل رہی ہیں اور صحرا کے ساتھ ساتھ قلب و نظر کو بھی سیراب کر رہی ہیں۔ یہ دشت ‘ یہ صبح‘ یہ منظر اور یہ سورج کائنات میں کہیں اور نہیں مل سکتے۔ یہ ساعت اور یہ مقام ‘ جہاں یہ سب چیزیں یکجا ہیں، زمان و مکاں کی اس قبیل سے نہیں ہے جس کے ہم عادی ہیں۔ اس آن اور اس جگہ میں جو پھیلائو ‘ گہرائی اور ٹھہرائو ہے‘ وہ غیرزمانی اور غیرمکانی ہے۔ اس منظر کا ہر جزو اپنی حقیقت کا مکمل اظہار ہے۔ صورت اتنی مکمل ہے کہ معنی بن گئی ہے اور معنی اتنے ظاہر ہیں کہ صورت ۔آنکھ نے اپنا منتہائے دید پالیا اور قلب نے اپنا۔ سورج سے جو گویا اس منظر کا نقاش ہے‘ روشنی کے وہ دھارے پھوٹ رہے ہیں کہ دل کو وہ نور مل گیا جو اس کے تقاضا ئے دید کی تکمیل کے لیے درکار تھا اور آنکھ کو وہ جوت میسر آ گئی جو اس کی طلب نظارہ کو پورا کر سکتی تھی۔ یہی نہیں، بلکہ نور کی ان ندیوں نے ہر شے کی ایسی آبیاری کی کہ حقیقت کا بیج جو ان کے اندر بالکل نظر انداز ہو کر پڑا ہو اتھا‘ یکلخت پورا درخت بن کر سامنے آ گیا… اتنا سامنے کہ آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے۔ سورج کی یہ روشنی سارے پر پڑ رہی ہے اور اس معجزانہ انداز سے کہ دیکھنے والے‘ دیکھے جانے والے اور خود دیکھنے کا عمل‘ گھل مل کر ایک ہی منظر میں ڈھل گئے ہیں… دشت میں طلوع صبح کا منظر‘ انمٹ اور لامحدود۔ تمھیں کچھ پتہ ہے کہ قلب و نظر کی زندگی کیا ہے؟ دشت کیا ہے؟ صبح کا سماں کیا ہے؟ چشمۂ آفتاب کیا ہے؟ نور کی ندیاں کیا ہیں؟ قلب و نظر کی زندگی، دیکھنا ہے۔ قلب کا دیکھنا ‘ صورت کی حقیقت کا مشاہدہ ہے اور نظر کا دیکھنا، حقیقت کی صورت کا مشاہدہ ہے۔ دشت وہ جگہ ہے جہاں صورت کی حقیقت اور حقیقت کی صورت جلوہ گر ہوئی۔ صبح کا سماں اسی جلوہ گری کا سماں ہے۔ چشمۂ آفتاب وہی صورت کی حقیقت اور حقیقت کی صورت ہے جو صبح کے وقت دشت میں جلوہ گر ہوئی۔ نور کی ندّیاں‘ چشمۂ آفتاب کے آثار ہیں جو اسے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔ یہ جاننے کے بعد سارا منظر یوں رونما ہوتا ہے کہ نواح مدینہ میں جو ابھی اپنے اصلی ماحول سے محروم نہیں ہوا‘ صبح ہوتے ہوئے دیکھ کر دل میں زمانۂ رسالت کا نقشہ بن جاتا ہے جو اس قدر واضح ہے کہ گویا آنکھ بھی اسے دیکھ لیتی ہے۔ سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور جمال حق کے انوار موجزن ہیں۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس سیل نور میں غرق ہے۔ دل اور آنکھ ‘ دونوں کا یہی کہنا ہے کہ حقیقی زندگی تو ہمیں آج نصیب ہوئی ہے۔ ہم نے اس مظہر حق کے یقینی آثار مشاہدہ کیے ہیں جس کو دیکھنے والے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انھوں نے حق کو بھی دیکھا ہے اور حق کے جمال ازلی کو بھی۔  اقبال نفسیاتِ اطفال کے ماہر محمد قاسم یعقوب کسی بھی معاشرے کی سماجی سرگرمیوں میں بچے کلیدی کردار اد اکرتے ہیں بچوں کی حیثیت اس لیے بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ وہ آنے والے کل کے حکمران ہوتے ہیں یوں بچے ایسے پہاڑی چشمے ہوتے ہیں جنھیں آگے چل کر میدان سیراب کرنے ہیں لیکن اس حقیقت کے ساتھ ساتھ بچوں کے مزاج میں قوتِ ارادی کا شعوری عمل دخل نہیں ہوتا جو اُنھیں کسی نصب العین کی تکمیل کی طرف گامزن کر سکے۔ بچوں کا ایک خاص ذہنی پھیلائو اور ایک خاص طرز پر ڈھلی ہوئی حرکات اُنھیں ایک نفسی دائرے میں مقید رکھتی ہیں۔ بچے اس سائیکی کے پیش نظر ایک جیسے ہوتے ہیں اپنے فطری میلانات کے باعث اُن کی سرگرمیوں میں زیادہ تنوّع نہیں پایا جاتا۔ کھیلنا، ہنسنا، چھیننا، جھپٹنا، جھگڑنا، پچھتانا، رونا، ڈرنا، ضدی پن غیر سنجیدگی اور اس طرح کی بہت سی فطری عادات کم و بیش دنیا بھر میں ہر نسل کے ہر بچے میں یکساں طور پر پائی جاتی ہیں۔ حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اُسے یہودی و نصرانی بنا دیتے ہیں احمد ندیم قاسمی نے بھی اسی مفہوم کو اس طرح ادا کیا ہے: وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر کسی بھی شہر میں جائوں، غریب شہر نہیں۱ ہر آدمی کی سرشت ایک ہے وہ ایک ہی سانچے میں تیار ہوا ہے اس کی فطرت کا معیار جُدا جُدا نہیں بچے کا غیر متعصبانہ مزاج اس کو ودیعت کیے گئے نرم رویوں کا عکاس ہے یہی وجہ ہے کہ Free Child کے بارے میں اسلام کا نظریہ نہایت واضح، دو ٹوک اور تعمیری پہلوئوں پر استوار ہے۔ یہاں سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے دو عظیم فلسفیوں: جان لاک (۱۶۳۲ئ۔۱۷۰۴ئ) اور جبکہ Roasseau کا حوالہ بہت مناسب ہو گا دونوں کے ہاں بچے کی فطرت کے متعلق متضاد بیان ملتے ہیں۔ Michael Cole اپنی کتاب The Development of Children میں دونوں فلاسفہ پر بحث کرتا ہے Locke کے بارے میں لکھتا ہے ۔ He believed that children are born with different temperaments and prefrencies. ۲ جبکہ Rousseau کی کتاب Emile پر تبصرہ کرتے ہوئے Cole اس نتیجے پر پہنچتا ہے۔ Rousseau asserted that natural man was not born in sin but corupted by civilization. In the state of nature, all people were equal; inequality appeare with the rise of agriculture, industry and property.۳ دونوں کے نظریات پر خاصے عرصے تک علمی بحث چلتی رہی مختلف مکاتب فکر کا جھکائو کبھی روسو اور کبھی لاک کے دعووں کی طرف رہا۔ مگر جدید نفسیات کے تحقیقاتی نتائج سے یہ ابہام دور ہو گیا ہے کہ قدرت بچوں میں فطری فرق رکھتی ہے۔ بچہ چونکہ فطرت کے قریب ہوتا ہے اس لیے اس میں خود ارادی جذبات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں وہ اپنی جبلتوں کے اظہار پر مجبور ہوتا ہے۔ انسانی جبلتوں میں مندرجہ ذیل تین خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ (۱) تحفظِ زندگی (Protection of Life) (۲) بھوک (Hunger) (۳) جنس (Sex) یہ جبلتیں ہر انسان کی ارادی قوتوں کا مرکز ہوتی ہیں۔ بچہ فطرت میں رہتا ہے لہٰذا اُس کے اندر یہ جبلتیں پوری طرح عیاں ہوتی ہیں۔ مگر تجربات کا رنگ جب شخصیت پر چڑھنا شروع ہوتا ہے تو رفتہ رفتہ انسان میں ان کا اظہار کلی سے تبدیل ہو کر ثانوی سطح پر چلا جاتا ہے۔ مثلاً بھوک لگنے کے باوجود انسان بچے کی طرح روتا نہیں۔ یا کسی مقصد کی خاطر وہ بھوک کو خیرباد کہہ دیتا ہے اور کسی نازک صورت حال کا سامنا بھی کر گزرتا ہے۔ اس طرح شہدا کے نظریات میں تحفظِ زندگی سے بڑا مقصد تسلیم زندگی بن جاتا ہے۔ جو ان کے تجرباتی پھیلائو میں شامل جذبات کا عکاس ہے۔ اقبال نے ’’زندگی‘‘ کی جو شکلیں دکھائی ہیں وہ جبلّی خطوط پر ممکن نہیں۔ بلکہ تحفظ زندگی کے جذبے کو پس پشت اٹھا کر پھینک دینے سے عمل میں آتی ہیں۔ اسی طرح جنس کے اظہار کا وہ رویہ جو بچپن میں ہوتا ہے Maturity میں یہ نئے روپ اور نئے معیار میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ گویا یہ جبلتیں انسان میں مرتی نہیں بلکہ ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ یوں ساری عمر جبلتوں کا کلی اظہار کرنے والا بچہ ذات کے اندر موجود رہتا ہے۔ یوں جبلتیں بڑھاپے میں دوبارہ نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اس طرح زندگی کی یہ قوس اپنا دائرہ مکمل کرتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ فطرت ہی کے خدوخال دوبارہ انسانی زندگی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بچپنا بلوغت کے بعد ختم ہو جاتا ہے یا غائب؟ یہ سوال ایک نئی بحث کو جنم دیتا ہے۔ مگر اس کے جواب کا ہلکا سا اشارہ اوپر کیا جا چکا ہے کہ انسانی جبلتیں جن کا کلّی اظہار بچے کی سطح پر پایا جاتا ہے بلوغت کے بعد وہ ثانوی درجے پر چلی جاتی ہیں یوں یہ بچہ کسی نہ کسی شکل میں اپنا عکس روح کے آئینہ خانوں میں دکھاتا رہتا ہے ؎ ذرا سے درد پہ زارو قطار رونے لگے میں اندر اپنے، وہ بچہ تلاش کرتا ہوں جسم ایک ایسی حقیقت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اور جسم کے ساتھ ساتھ خواہشات بھی نئے رخ سے حالات کی منتطر رہتی ہیں اور اندر داخل ہوتی رہتی ہیں عہد طفولیت میں بچے کے ذہن میں جو خواہشات جنم لیتی ہیں وہ ایک سی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اس عہد میں بچے پر تہذیبی و سماجی و جغرافیائی خدّو خال اثر انداز نہیں ہوتے۔ مثلاً کوئی افریقی جنگلی بچہ کسی ہاتھی پر بیٹھنے کی ضد کرے گا تو کوئی ہندوستانی بچہ غبارہ لینے کی ضد کرے گا۔ یعنی دونوں بچے اس کے باوجود کہ وہ مختلف جغرافیائی ماحول میں پرورش پا رہے ہیں ان میں ضد کرنے یا خواہش کا درجہ ایک ہے۔ مگر بلوغت کے بعد یہ روّیے ایک سے نہیں رہتے حالانکہ منجھلے، جواں ، بوڑھے دنیا کے کس معاشرے کی کس تہذیب میں نہیں پائے جاتے مگر جغرافیائی خدّوخال ہم عمر ہونے کے باوجود ان کے فکری خدّوخال میں تفاوت کی لکیر کھینچتا ہے بلکہ بلوغت کے بعد تمام عمروں کے انسان جو ایک ہی تہذیبی ماحول میں رہ رہے ہوں ان کے خیالات، ان کی عادات میں بہت سا فرق ہوتا ہے۔ یوں عہد طفولیت ایک ایسا وقت ہوتا ہے جس میں بچے کا (Psychological behaviour) فطرت کے نرم جھونکوں کے سہارے پر ہوتا ہے بچے کی ان مخصوص نفسیاتی عادات کو شاعری میں ایک دبستان کی حیثیت حاصل ہے دنیا بھر کے شعر و ادب میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا۔ اردو شاعری میں بھی یہ ایک مستقل موضوع جو کلاسیکل روایات سے چلتے ہوئے اقبالؒ اور دور جدید تک کے شعرا میں ملتا ہے۔ لیکن یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ اقبالؒ سے پہلے شعرا کے ہاں بچوں کی تضادات (Child psychology) خال خال اور مبہم انداز میں ہیں۔ اقبالؒ وہ پہلا شاعر ہے جس نے بچے کی نفسیات کو ایک ماہر نفسیات کے طور پر جانچنے کی کوشش کی اور سب سے بڑھ کر اس کو روایتی شعری تجربوں مثلاً جدائی، اضطراب اور آرزو وغیرہ سے ملا کر ایک حسرت انگیز منظر نامہ مرتب کیا ہے۔ اقبالؒ کے بعد اس روایت کو ایک دبستان کا درجہ مل گیا۔ یہاں یہ امر بھی بہت اہم ہے کہ اقبال سے پہلے بچے کے لیے نفسیاتی اصطلاح ’’لڑکا‘‘ یا ’’طفل‘‘ کا استعمال ہوتی تھی۔ مثلاً : اے آنسوئو، نہ آوے اب دل کی بات منہ پر لڑکے ہو تم کہیں مت افشائے راز کرنا (خواجہ میر درد) قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل لڑکوں کا ہوا ، دیدۂ بینا نہ ہوا (مرزا غالب) ہمارا موضوع اقبال کا وہ اردو کلام ہے جس میں بچے کی نفسیاتی بحث کو منظوم کیا گیا ہے۔علامہ اقبال ؒ کے ہاں بچوں کے حوالے سے تین طرح کی نظمیں ملتی ہیں۔ (۱) وہ نظمیں جو بچوں کے لیے سیدھے سادے انداز میں لکھی گئی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد سبق آموز انداز میں Entertainment ہے اس انداز کی نظمیں صرف ’’بانگ درا‘‘ میں ہیں جن کی کل تعداد سات ہے۔ ایک ’’مکڑا او رمکھی‘‘ ، ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ ، ایک گائے اور بکری‘‘ ، ’’بچے کی دعا‘‘ ، ’’ماں کا خواب‘‘ ، ’’پرندے کی فریاد‘‘ ، ’’ہمدردی‘‘ ۔ بانگ درا ہی میں آگے چل کے ایک نظم ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ بھی نظر آتی ہے۔ جس کا سارا موضوع مذکورہ بالا نظموں والا ہے۔ آسان الفاظ ہیں اور ہلکا پھلکا سبق آمواز انداز ہے۔ نظم رواں دواں ہے۔ پوری نظم پرندے اور جگنو کے مکالمے پر ہے۔ مگر تعجب ہے کہ اقبالؒ نے اس نظم پر ’’بچوں کے لیے کیوں نہیں لکھا۔ حالانکہ اس طرز کی باقی نظموں پر ’’بچوں کے لیے‘‘ واضح طور پر لکھا ہوا ملتا ہے۔ (۲) اقبالؒ کی وہ نظمیں جن میں بچوں سے مصلحانہ خطاب ہے جیسے ’’نصیحت‘‘ ، جاوید کے نام‘‘ (خط آنے پر) ’’خوشحال خاں کی دہشت‘‘ ، ’’ہارون کی آخری نصیحت‘‘، ’’جاوید سے‘‘ ، ’’طالب علم‘‘ وغیرہ ہم اس طرح کی اور بھی نظمیں کلام اقبال میں نظر آتی ہیں جو ایسے بچوں کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی ہیں جو ابھی بچپنے سے بلوغت میں داخل ہو رہے ہیں۔ (۳) اقبالؒ کے پہلے مجموعہ کلام ’’بانگِ درا‘‘ میں ایسی نظمیں بھی ملتی ہیں جو بچے کے نفسیاتی پہلوئوں کی ترجمان ہیں۔ جو بچوں کی نفسیاتی حرکات کو آشکار کرتی ہیں ان میں ’’بچہ اور شمع‘‘ ، ’’طفل شیر خوار‘‘ اور ’’عہد طفلی‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اقبالؒ نے چند ایک نظموں میں بچے کی نفسیات کو شعری روپ دیا ہے۔ مذکورہ نظمیں ہی ہمارا موضوع ہیں۔ ’’طفل شیر خوار میں‘‘ علامہ کا تخاطب ایک شیر خوار بچے سے جو ابھی نا سمجھ ہے پوری نظم ایک مکالمے پر مشتمل ہے مگر اس میں شاعر صرف محوِ گفتگو ہے مخاطب حصہ نہیں لیتا۔ شاعر پہلے بند میں ننھے بچے سے مخاطب ہو کے کہتا ہے کہ میں نے تجھ سے چاقو چھینا ہے توتم چلّانے لگے ہو، یہ اگر چبھ گیا تو بیٹھ کے رئو گے۔ اگر کھیلنا ہی ہے تو اس کاغذ کے ٹکڑے سے کھیل! جو بے ضرر ہے۔ شاعر بچے کی نفسیات میں اپنی بے قراری و شوقِ جستجو کا سراغ پاتا ہے دوسرے بند میں کہا ہے: تیرا آئینہ تھا آزادِ غبار آرزو آنکھ کھُلتے ہی چمک اٹھا شرار آرزو ہاتھ کی جنبش میں ، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے تیری صورت آرزو بھی تیری نو زائیدہ ہے چونکہ شاعر کا دل آرزوئوں کی جولاں گاہ بنا ہوا ہے اسے ہر پل اضطرابی کیفیت کے مدوجزر سے گزرنا پڑ رہا ہے اُسے بچے میں بھی اپنائیت کا احساس ملتا ہے وہ کہتا ہے تیرا دل ایک آئینہ ہے جو آرزو کے غبار سے صاف تھا مگر یونہی تو نے آنکھیں کھولی ہیں یہاں تمنائوں نے کروٹ لینی شروع کر دی ہے مگر یہ آرزوئیں ابھی نوزائیدہ ہیں کیونکہ ان کا اظہار صرف ہاتھ کی جنبش یا آنکھ کے دیکھنے تک محدود ہے۔ تیسرے بند میں شاعر بچے کی فطری عادات کے ساتھ اپنا تقابل پیش کرتا ہے۔ کہتا ہے تیرا مزاج بھی بگڑتا بنتا رہتا ہے اور میں بھی اس کیفیت میں گرفتار ہوں تو بھی عارضی شے پر مرتا ہے اور میں بھی… تیری نادانی سے میری نادانی کچھ کم نہیں کیونکہ ہم دونوں ہی ظاہری حسن کی کرشمہ سازیوں سے متاثر ہو جاتے ہیں کبھی میں رونے لگتا ہوں کبھی ہنسنے۔ یوں میں ذہنی سطح پر ایک بچہ بن چکا ہوں۔ شاعر اپنی بے چینی کا عکس بے پروا کھیلتے بچے کے مزاج میں دیکھتا ہے اور آخر میں اپنے اپ کو بھی ایک نادان بچہ ٹھہراتا ہے مگر شاعر اور بچے میں صرف آگہی ہی دونوں میں امتیاز پیدا کرتی ہے شاعر نے اپنے ماج کا سارا پرتو بچے کے انداز فطرت میں پایا ہے۔ مگر بچہ ان کیفیات سے بے خبر ہے جبکہ شاعر جن مضطر جذبات کے شعلوں میں جل رہا ہے وہ اس کے اپنے جذب و مستی کا شعوری تجربہ ہے۔ حکیم آئن سٹائن کہتا ہے کہ میری مثال اُس ننھے بچے کی مانند ہے جو ساحل سمندر پر سپیوں سے کھیل رہا ہو اور سمندر کی گہرائی سے بے خبرہو۔ یہاں بھی بچے کا تقابل اپنی ذات کے ادھورے پن یا ناتمامی سے منسوب ہے بچہ سپیوں سے کھیل رہا ہے مگر سمندر کے معروضی حالات سے ناواقف ہے۔ آئن سٹائن بھی خو دکو اسی محرومی کا شکار تصور کرتا ہے۔ بچہ اس ’’بے خبری‘‘ سے بے خبر ہے مگر آئن سٹائن اس ’’بے خبری‘‘ سے با خبر ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبالؒ کی دوسری نظم عہد طفلی بھی بڑی با معنی اور وسعت فکر کو سمیٹے ہوئے ہے۔ پوری نظم میں ذہنی و قلبی واردات کی باز آفرینی کی گئی ہے۔ شاعر کہتا ہے زمین و آسمان میرے لیے ایک نئی جگہ تھے۔ جب میں بچپن کی رنگین کائنات میں محوِ تماشا تھا اس وقت ماں کی گود ہی اک نیا جہان تھا ہر حرکت مجھے آرام کا باعث بنتی۔ اس لیے جب میں کبھی روتا تو دروازے کی کنڈی کھٹکنے پر بھی خاموش ہو جاتا : دردِ طفلی میں اگر کوئی رُلاتا تھا مجھے شورشِ زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے دوسرے بند میں بھی انہی یادوں کو شدت جذبات سے دہرایا گیا ہے: تکتے رہنا ہائے! وہ پیروں تلک سوئے قمر وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اُس کا سفر پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر اور وہ حیرت دروغِ مصلحت آمیز پر! آنکھ وقف دید تھی، لب مائل گفتار تھا دل نہ تھا میرا سراپا ذوق استفسار تھا غلام رسول مہر اس نظم پر مختصر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس نظم میں بچپن کی کیفیت بڑے ہی دل کش انداز میں بیان کی گئی ہے۔ بچہ کبھی نچلا نہیں بیٹھتا۔ ہر وقت ہاتھ پائوں ہلاتا رہتا ہے۔ زبان سے جو کچھ کہتا ہے، اس کا مفہوم کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا شاعر نے خود زبان کو ’’حرف بے مطلب‘‘ قرار دیا ہے پھر بچہ چارپائی پر لیٹا ہوا اس وجہ سے پہروں چاند کو تکتا رہتا ہے کہ وہ ایک نہایت روشن چیز ہے اور اس کی روشنی سے آنکھیں چندھیاتی نہیں۔ پھٹے ہوئے بادل سے چاند گزرتا ہے تو واقعی آہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ مائیں عموماً بچوں کو لبھانے کے لیے کہتی ہیں کہ وہ دیکھو چاند میں پہاڑ ہیں اور بیابان میں بچے کچھ پوچھتے ہیں تو اُنھیں خوش کرنے کے لیے جھوٹ موٹ کی کوئی بات کہہ دیتی ہیں اور وہ حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ بچوں کی عام کیفیت ہے۔ آخری بند میں شاعر نے بچے کا نقشہ کھینچتے ہوئے تین باتیں جمع کر دی ہیں جو معجزے سے کم نہیں۔ یعنی اُس کی آنکھ ہر شے کو دیکھنے میں لگی رہتی ہے اس کے لب بات کرنا چاہتے ہیںا ور دل میں یہ شوق رہتا ہے کہ سب کچھ پوچھ کر معلوم کر لے۔۴ اسی ضمن میں میرزا ادیب لکھتے ہیں:۔ بچے کی ساری خصوصیات ہمارے عام مشاہدے سے قطعاً مختلف نہیں ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور جب بچے کے بارے میں یہ بات کہتا ہے کہ ہر نیا بچہ جو دنیا میں آتا ہے یہ کہتا ہے کہ خدا ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا تو یہ قول شاعر کے اس مابعد الطبیعاتی نظریے کی عکاسی کرتا ہے جو اس نے بچے کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے اس کے بر خلاف علامہ بیشتر بچے کی انھی باتوں اور حرکتوں کا ذکر کرتے ہیں جو عام مشاہدے میں آتی رہتی ہیں۔ گویا علامہ کے ہاں بچے کا تصور ایک ارضی بچے کے تصور میں صورت گیر ہوتا ہے اسمیں ماورائیت نہیں جیسا کہ ٹیگور کے ہاں ملتی ہے ۵۔ جہاں تک ٹیگور کا تعلق ہے، میرزا ادیب نے ٹھیک کہا ہے کہ اقبالؒ کے ہاں اس قسم کے بچے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ وہ نہ تو بچوں کو اڑتا ہوا دکھاتے ہیں نہ ہی بچوں سے مافوق الفطرت کام کرواتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ بلکہ ان کی نظموں میں تو وہ بچہ ہے جو اپنا بچپنا ساتھ لیے پھرتا ہے۔ یہ وہ عہد طفولیت ہے جس کی یادیں ہر انسان کا حسین سرمایہ ہوتی ہیں۔ یونانی اساطیر میں محبت کا دیوتا تاریک بچے کو دکھایا گیا ہے جس کے ہاتھ میں ایک تیر ہے جو جس پر بھی وارکرتا ہے وہ اسیر محبت ہو جاتا ہے۔ محبت کیا ہے اور بچے ہی کو محبت کا دیوتا کیوں بنایا گیا ہے۔ کسی پرندے، کسی شاخ کو، کسی پھول یا مظاہر فطرت میں کسی کو محبت کیوں نہیں سونپی گئی؟ یہ ایک نئی بحث ہے جو طویل ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال کی نظموں سے دور ہٹتی جائے گی۔ یہاں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ محبت ایک جبلی جذبہ ہے جو صاف ، واضح اور بے لوث بے لاگ ہوتا ہے۔بچہ خود انھی مظاہر فطرت کا امین ہوتا ہے ذاتِ حق کا صحیح عکس ایک معصوم بچے کی شکل میں موجود ہے۔ جو سراسر خیر ہے۔ محبت ایک خیر کاجذبہ ہے جو گناہ و حقارت سے ماورا ہوتا ہے۔ لہٰذا بچے کا کردار ہی صحیح معنوں میں محبت کا علمبردار ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بچوں کی جن کیفیات کو دہرایا ہے وہ بچے کو ایک پاکیزہ شخصیت قرار دیتی ہیں۔ اور کسی شاعر کا ان کیفیات کی باز آفرینی کرنا اصل میں اس کے اندر Positivity کی طرف سفر کا آغاز ہے اور یہ دیکھا جا سکتا ہے۔ بچے کی نفسیات کو موضوع خاص بنا کر تخلیق نظم کرنا علامہ کے صرف آغاز میں ہی نظر آ رہا ہے۔ ’’بانگِ درا‘‘ کے بعد ’’بالِ جبریل‘‘ میں علامہ اس Positivity کے دوسرے مرحلے میں نظر آتے ہیں۔ اور اپنا آپ مکمل تلاش کر لیتے ہیں۔ عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں مگر میرزا ادیب ٹیگور کی ماورائیت کے برخلاف علامہ کی ان نظموں کو عام مشاہدہ قرار دیتے ہیں اور انھیں بچوں کی عام حرکات اور باتیں کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ کے ہاں ان نظموں میں بچہ کوئی ماورائی مخلوق نہیں بلکہ عام ارضی بچہ ہے مگر اس کی حرکات و سکنات سے جو مقصود ہے، وہ عام نہیں بلکہ وہ ایک بلیغ فکری مشاہدہ ہے۔ لہٰذا انھیں قلبی و ذہنی واردات کی باز آفرینی کہہ دینا علامہ کی نظموں کا درست ادراک نہ ہو گا۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے: آنکھ وقف دید تھی، لب مائل گفتار تھا دل نہ تھا میرا سراپا ذوق استفسار تھا تیرا آئینہ تھا آزادِ غبار آرزو آنکھ کھلتے ہی چمک اٹھا شرارِ آرزو ہاتھ کی جنبش میں طرز دید میں پوشیدہ ہے تیری صورت آرزو بھی تیری نو زائیدہ ہے زندگانی ہے تری آزادِ قید و امتیاز تیری آنکھوں پر ہویدا ہے مگر قدرت کا راز تیری صورت، گاہ گریاں، گاہ خنداں، میں بھی ہوں دیکھنے کو نوجواں ہوں ، طفل ناداں میں بھی ہوں عہد طفلی میں آنکھ کا وقف دید رہنا، ہونٹوں کا مائل گفتار ہونا دراصل دل کا ذوق استفسار سے بھرا ہونا تھا۔ کیا یہ عام مشاہدہ ہے؟ بچہ ہر وقت آنکھوں اور ہاتھ کو محوِ حرکت رکھتا ہے۔ مگر علامہ بچے کی اس ادا میں اس کی آرزو کا سراغ پاتے ہیں اور اس آرزو کو کچی آرزو قرار دیتے ہیں۔ بچے کا فرق و امتیاز کا پابند نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ رازِ قدرت سے آشنا ہے۔ کیا یہ عام مشاہدات ہیں؟ یقیناً عام مشاہدات نہیں بلکہ ان کے پیچھے گہرے حقائق کی فکری دریافت ہے جو ہمیں ان نظموں میںملتی ہے۔ لہٰذا میرزا ادیب کا کہنا کہ یہاں محض عام طفلانہ یادیں ہیں درست نہیں بلکہ ان نظٗموں کے پس پردہ جو فکری و ذہنی سفر علامہ طے کر رہے تھے اس کی ایک اہم کڑی کو کم کر دینے کے مترادف ہے۔ یہاں جو ’’کشمکش آرزو‘‘ ملتی ہے وہ بعد میں علامہ کے فلسفہ حیات کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ بچہ اور شمع میں علامہ کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ اس نظم میں بچے کی نفسیات باریک فلسفیانہ موشگافیاں آشکارا کرتی ہے۔ پہلے بند میں بچہ شاعر کی گود میں لیٹا ہوا ہے جو شمع کو دیکھ رہا ہے اور شمع کو گاہے گاہے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے جو ایک عام مشاہدے کی بات ہے مگر علامہ اسے روشنی سے بغل گیری قرار دیتے ہیں۔ اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے روشنی کا ظہور بچے کے اندر پراسرار کیفیات کو جنم دیتا ہے اور وہ شمع کے شعلے کو بڑی حیرانی سے تکتا ہے علامہ نے یہاں یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ یہ روشنی اس نے پہلے بھی کہیں دیکھی ہوئی ہے اور اب دوبارہ دیکھنے پر اسے پہچان گیا ہے وہ اس مانوسیت کے اظہار کے لیے اس کی طرف لپکتا ہے اور یہ ازلی سراپا نور ہونے کا ثبوت ہے۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں: اس نظم کا بھی مرکزی نکتہ وہی ہے جو چاند کا ہے یعنی روشنی اور نور کی طلب… نیز اس حقیقت کا اظہار کہ انسان خود سراپا نور ہے اور اس نے اپنے نور کو آگاہی کے پردے میں چھپا لیا ہے ۶ دوسرے بند میں شاعر بچے اور شمع کا تقابل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شمع بھی نور ہے اور تو بھی سراپا نور ہے مگر تیرا نور زیر نقاب آگہی ہے جبکہ شمع عریاں جلوہ فرما ہے بچے کا شمع کے ساتھ تشبیہاتی رنگ بہت موزوں ہے۔ شمع جب روشنی کے عمل سے گزرنا شروع ہوتی ہے تو وہ ساتھ ساتھ تو اپنے اختتام کو روانہ ہوتی جاتی ہے۔ شمع کا ہر اگلا لمحہ اس کے انجام کے سفر کی طرف افسانہ ہے۔ یوں یہ سفر ایک متحرک روشنی کے قیام کا سبب ہے، مختصر مگر بھر پور…… علامہ بچے کے نفسیاتی پھیلائو میں اس متحرک روشنی کا عمل دیکھتے ہیں مگر وہ زیر نقاب آگہی ہے یوں بچے کو آگہی کے پردوں سے نکال کر شمع کی مانند چلنے کا جواب علامہ کے ابتدائی کلام ہی میں نظر آ رہا ہے۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں: اگر انسان اپنی حقیقت پہچان لے‘ ذاتی شعور کا پردہ آنکھوں سے اٹھا دے تو اُسے نظر آ جائے گا کہ وہ سر سے پائوں تک نو رہی نور ہے۔ ۷ تیسرے بند میں علامہ دنیا کے ظاہری حسن کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں پر نظارے میں حسن ہی حسن ہے۔ پہاڑوں کی ہیبت میں ، سورج کے روشنی پھیلانے میں، رات کے اندھیرے سماں میں بھی ایک حسن ہے: عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں طفلکِ نا آشنا کی کوشش گفتار میں چشمہ کہسار میں، دریا کی آزادی میں حسن شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں آبادی میں حسن مگر اس حسن کے تمام پھیلائو میں روح پھر بھی بے چین و بے قرار ہے وہ قافلے کی گھنٹی کی طرح فریادی کیوں بنی ہوئی ہے اور اُس کی زندگی ماہی بے آب کی طرح کیوں ہے؟ علامہ ان سوالات پر نظم ختم کر دیتے ہیں مگر ان کا جواب وہ دوسرے بند میں دے چکے ہیں: شمع ایک شعلہ ہے لیکن تو سراپا نور ہے آہ اس محفل میں یہ عریاں تو مستور ہے دست قدرت نے اسے کیا جانے کیوں عریاں کیا! تجھ کو خاک تیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا نور تیرا چھپ گیا زیر نقابِ آ گہی! ہے غبار دیدۂ بینا حجابِ آگہی اور اس حجاب کو ہٹانے کی تگ و دو وہ دنیا میں آتے ہی شروع کر دیتا ہے بچے کے شعلے کو دیکھتے رہنا، گود میں لیٹے ہوئے ہاتھ پائوں مارنا اور روشنی کی طرف لپکنا جیسے اس سے بغل گیری مدعا ہو۔ علامہ ان تمام حرکات کے پس پردہ نکات کو سامنے لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے وجود خاص کے مرکز کو ذات کا محور بنانے کی کوشش آنکھ کھلتے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں علامہ کی نظم ’’فراق‘‘ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے پہلے بند میں شاعر تنہائی کو ڈھونڈتے ہوئے پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہے۔ پہاڑ کے دامن میں آنا اور پھر کہیں چھپ جانا۔ تنہائی اور ایک خاموش تنہائی ہے: شکستہ گیت میں چشموں کی دلبری ہے کمال دعائے طفلک گفتار آزما کی مثال وہ دیکھتا ہے کہ سامنے بہنے والے چشموں سے جو صدا آ رہی ہے وہ کسی سریلے گیت سے مشابہ ہے۔ بالکل اُس بچے کی دعا کی طرح جو ابھی بولنا سیکھ رہا ہو۔ جس میں مفہوم نہیں ہوتا بلکہ معصومیت اور آواز میں رس بھرے ذائقے کا احساس ملا ہوتا ہے۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں:۔ چشموں کے گیت کو شکستہ اس لیے کہا کہ چلنے کی آواز کسی وقت سنائی دیتی ہے کسی وقت سنائی نہیں دیتی۔ یہ اقبال کی تصویر کشی کا کمال ہے پھر اسے بولنا سیکھنے والے بچے سے تشبیہہ دینا معجزے کا حکم رکھتا ہے۔ ۸؎ دوسرے بند میں بھی جدائی کے پس منظر میں علامہ کے روبرو بچے کی نفسیاتی کیفیات رہتی ہیں۔ یہاں ایک حیرت انگیز انداز میں جدائی کے لمحات کی تشریح کی ہے: یہ کیفیت ہے مری جانِ ناشکیباکی مری مثال ہے طفل صغیر تنہا کی اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز یونہی میں دل کو پیام شکیب دیتا ہوں شب و فراق کو گویا فریب دیتا ہوں شاعر کہتا ہے کہ جدائی کی اضطرابی کشمکش نے مجھے ایک ننھے بچے کی مانند کر دیا ہے۔ جب وہ کبھی تاریکی میں اکیلا ہوتا ہے تو گانا شروع کر دیتا ہے۔ ایک لَے میں گنگنانے لگتا ہے دراصل وہ اس فعل سے سمجھتا ہے کہ اُس کے ساتھ کوئی ہے جو اُسے بہلا رہا ہے۔ میری حالت بھی بالکل اسی طرح کی بنی ہوئی ہے میں حیلوں بہانوں سے دل کو صبر کا پیام دے رہا ہوں درحقیقت میں شب ہجر کو دھوکا دے رہا ہوں۔ بچے کا اکیلے میں گنگنانا اُس کی شعوری حسوں کا اطمینان ہے کہ اُس کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔ یہ اقبالؒ کے اُن آفاقی تجربات میں ایک ہے جو اسے عظیم شاعر بنا دیتے ہیں۔ علامہ کی ایک اور نظم ’’ماہِ نو‘‘ میں بھی بچے کی نفسیاتی کیفیت کو شعری جامہ پہنایا گیا ہے: نور کا طالب ہوں گھبراتا ہوں اس بستی میں میں طفلک سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں میں پہلے بند میں علامہ چاند کو ایک ٹکڑا قرار دیتے ہیں جو آسماں کے آب نیل میں تیر رہا ہے ۔ چاند کو حیرت انگیز تشبیہات کے ساتھ آسمان پر دکھایا گیا ہے۔ دوسرے بند میں علامہ چاند کے سفر کو بے آواز قرار دیتے ہیں۔ اُسے بے وطن کہہ کے اُس کے ساتھ چلنے کی آرزو کرتے ہیں اور پھر آخری ٹیپ کے شعر میں اپنے آپ کو سکول سے بھاگا ہوا بچہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ کسی اور دنیا کا متلاشی ہے۔ اُس کے لیے اس بزم جہان میں اتنا مشکل ہو گیا ہے اب ساری نظم کا نچوڑ اُن کی آرزو میں سمٹ آیا ہے۔ اور اس آرزو کو سکول سے بھاگے ہوئے بچے کی نفسیات میں تلاش کرتے ہیں۔ سکول سے بھاگا ہوا بچہ اپنے مکتب کی فضا سے اکتا چکا ہوتا ہے۔ اور اُس کا مرکز نجانے کیا ہوتا ہے۔ مگر اپنے ماحول سے دور ہونا اُس کا اولین مقصد بن چکا ہوتا ہے۔ یوں اس نفسیاتی کیفیت کا اپنی ذات کی اضطرابی کشمکش سے متشابہ قرا ردینا علامہ کے کمالات میں سے ایک ہے۔ علامہ وسیع النظر فطرت شناس ، وسیع المطالعہ فلسفی اور ایک عظیم پیامبر تو ہیں ہی، مذکورہ نظموں کے حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علامہ ایک بہت بڑے ماہر نفسیاتِ اطفال (Child Psychologist) بھی ہیں۔ وہ بچوں کے افعال و کردار‘ بچوں کی نفسیات کے باریک گرہوں کو کھول کے جو حقائق ہمارے سامنے لاتے ہیں اس سے بچوں کی نفسیاتی کیفیات کا منظر نامہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ حواشی ۱۔ احمد ندیم قاسمی ، ’’شعلہ گل‘‘، التحریر لاہور، ۱۹۹۲ئ، ص ۸۷ ۲۔ مائیکل کول (Michael Cole) The Development of Children سائنٹی فک امریکن بکس، امریکہ ۱۹۸۹ئ، ص ۱۲ ۳۔ ایضاً ، ص ۱۳ ۴۔ غلام رسول مہر: ’’مطالب بانگ درا‘‘، اسد پبلی کیشنز لاہور، ص ۲۱ ۵۔ میرزا ادیب: ’’مطالعہ اقبال، کے چند پہلو‘‘،بزم اقبال لاہور، ۱۹۸۵ء ص ۲۰ ۶۔ غلام رسول مہر: ’’مطالب بانگ درا‘‘، ص ۱۴۱ ۷۔ ایضاً ص ۱۴۲ ۸۔ ایضاً ص ۲۰۸  علامہ اقبال اور بریخت کا نیا تھیٹر سید ضمیر علی بدایونی علامہ اقبال اور بریخت اپنے نظریۂ فن میں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔دونوں فن کو زندگی پرور اور اس کا خیر خواہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک فن انسانی تاریخ پر اثر انداز ہوتا ہے، صرف مثبت طور پر ہی نہیں بلکہ فنکار کی غلطی سے فن منفی اثرات کا بھی حامل ہو سکتا ہے۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں:۔ صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش اقبال نے اپنے عہد کے فن کاروں پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کے نزدیک ایک منفی نظریۂ فن ہلاکو و چنگیز سے زیادہ مہلک اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کہ ہلاکی اُمم ہے یہ طریقِ نَے نوازی اقبال ایک ایسے فنی رویے کے قائل ہیں جو زندگی کی لہروں کو آگے بڑھانے اور اس کے مظاہر کو خوب تر اور زیادہ بامعنی بنانے میں مؤثر ہو اور خودی کے جو ہر کا مثبت اظہار کرے۔ جس طرح زندگی کے بغیر خودی بے معنی ہے اسی طرح خودی کے بغیر زندگی بھی لا حاصل ہے۔ بریخت بیسویں صدی کے ان محدودے چند ذہنوں میں سے ہے جو اس صدی کی امتیازی حیثیت کا نقش مرتب کرتے ہیں۔ یوں آرٹ میں وہ اس صدی کی شناخت بن چکا ہے۔ بریخت بنیادی طور پر تھیٹر کا آدمی تھا۔ اس نے ارسطو کے تمثیلی افکار پر سخت تنقید کی ہے اور اپنے عہد اور نظریے کے مطالبات کو پیش نظر رکھا ہے۔ بریخت کا سب سے اہم نقطۂ نظر اس کا نظریہ تاثیر مغائرت (Alienation effect) ہے۔ اس کے نزدیک فن تمثیل کو مغائرت کا حامل ہونا چاہیے۔ لیکن اس سے مراد کیا ہے؟ بریخت ایسی محویت کے خلاف ہے جو ایکٹر اور حاضرین کو ان کے تنقیدی شعور سے محروم کر دے۔ انھیں اس امر کا ہمیشہ شعور رہنا چاہیے کہ یہ ڈراما ہے اور ڈرامائی عمل حقیقت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اسے جذباتی سے زیادہ عقلی اثرات کا حامل ہونا چاہیے، تمثیل دیکھنے والے کہیں اس میں کھو نہ جائیں۔ اپنی شخصیت کو تمثیلی بہائو میں گم نہیں کرنا چاہیے اور اس کی خیالی یا تمثیلی حیثیت یا Fictional status سے مسلسل باخبر رہنا چاہیے۔ ایکٹر اپنے کردار یا رول میں مکمل خود سپردگی کا اظہار نہ کرے بلکہ اس کی ایکٹنگ کو صرف ایک ممکنہ نقطۂ نظر اور ایک ممکنہ تعبیر سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور یہ کہ اس کی اسٹیج پر کارکردگی کے نتیجے میں ناظرین تمثیل اپنی شخصیت اور اپنے نقطہ نظر سے محروم نہ ہوں بلکہ ان کے تنقیدی شعور کو باقی رہنا چاہیے تاکہ وہ حقیقت کا ادراک کر سکیں اور اپنی کوئی رائے قائم کر سکیں۔ ایکٹر اور ناظرین تمثیل کو اپنی شخصیت سے کسی صورت میں بھی بے نیاز یا محروم نہیں ہونا چاہیے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ڈراما یا اسٹیج یا تھیٹر اپنے مقاصد میں ناکام رہتا ہے۔ اگر ناظرین اسٹیج پر دکھائے جانے والے کھیل میں اس قدر گم ہو جائیں کہ ان کی اپنی شخصیت اور شعوری کیفیت اور عقلی صلاحیت ہی باقی نہ رہے تو ایسی تمثیل ، کھیل اور کارکردگی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ اس سے ایکٹر اور ناظر دونوں اپنی شخصیت انا اور خودی سے محروم ہو کر محض ایک شے بن جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسٹیج پر ایکٹر ایسی ایکٹنگ کرے کہ ناظرین کو کھیل کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر قائم کرنے میں مدد دے تاکہ معاشرتی حقائق کا بہتر ادراک ہو سکے اور وہ حقیقت کو مثبت طور پر تبدیل کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ان کے شعور اور ادراک کی صلاحیتیں منفی طور پر متاثر نہ ہوں بلکہ تھیٹر میں پیدا ہونے والی لہریں حاضرین کو بیداری کا پیغام دیں اور وہ زندگی کے مسائل کو نہ صرف بہتر طور پر سمجھ سکیں بلکہ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود کو تیار کر سکیں۔ علامہ اقبال کا نظریہ فن بے حد پیچیدہ ہے اور جمالیاتی قدر و قیمت کا حامل ہے لیکن اقبال بھی اس آرٹ کے قائل نہیں جو انسانوں کو نیند کا پیغام دے۔ وہ جدوجہد اور زندگی کے چیلنج کوقبول کرنے کے قائل ہیں۔وہ اس آرٹ کے قائل ہیں جو ناظرین کی انفرادی شخصیت اور خودی کو مزید استحکام بخشے۔ ان کے نزدیک تھیٹر میں انسان کو دوسروں کی خودی کا نقاب پہننا پڑتا ہے۔ ایکٹر جس کردار کی نقل کرتا ہے وہ اس کے اپنے کردار کے لیے خطرہ بن جاتا ہے کیونکہ جب وہ کسی اور کردار میں ڈھل جاتا ہے تو اس کا اپنا کردار دب کر معدوم ہو جاتا ہے۔ اس لیے علامہ اقبال کہتے ہیں:۔ حریم تیرا خودی غیر کی، معاذاللہ دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات اقبال کے نزدیک تھیٹر، ڈراما او رایکٹنگ میں انسان کی اپنی خودی پس منظر میں چلی جاتی ہے اور وجود غیر سے اس کا اپنا ایوان وجود لرزنے لگتا ہے۔ اس کے اپنے شعور کی رَو منقطع ہو جاتی ہے اور زندگی کا دھارا بھی رک جاتا ہے۔ اس لیے وہ اس آرٹ کا قائل ہی نہیں جو زندگی کی رگوں میں زہر بھر دے اور انسان اپنی خودی سے محروم ہو جائے۔ وہ قوائے عقل و فہم کو ہردم اور ہر لحظہ تازہ تر مستحکم تر اور مضبوط تر دیکھنے کا خواہشمند ہے اور خودی پر ڈرامے کے اثرات کے بارے میں صاف طور پر کہتا ہے:۔ یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو، تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات وہ کسی بھی ایسی صورت حال کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے جس میں فرد کی خودی تلف ہو جائے اور شعور کا سلسلہ منقطع ہو جائے۔ بریخت کا نیا تھیٹر بھی اپنے ڈراما نویسوں ، ناظرین اور اداکاروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانی شعور کا احترام کریں اور محویت کے عالَم میں اپنے قوائے عقلی معطل نہ ہونے دیں۔ ان کے سوچنے کی صلاحیت مفقود نہیں ہونی چاہیے بلکہ وہ اس تمثیلی تاثر کا قائل ہے جو ناظرین کو سوچنے پر اور زندگی کے مسائل پر غور و فکر کرنے پر مجبور کریں۔ وہ ڈرامائی تاثر میں بہہ نہ جائیں بلکہ ایکٹر کے نقطۂ نظر کو قبول نہ کریں اور اپنا نقطہ نظر قائم کریں اور اسی تاثر کو بریخت مغائرت یا بیگانگی کے تاثر کا نام دیتا ہے۔ یعنی Alienation Effect اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اقبال کا نقطۂ نظر وسعت اور گہرائی کا حامل ہے۔ وہ بیک وقت وجودیت، فرنیکفرٹ اسکول او رمشرق کی اپنی سوچ، تینوں جہات کا احاطہ کرتا ہے۔ تھیٹر کے بارے میں اس کے افکار بریخت کے نئے تھیٹر کے پیش رو ہیں۔ وہ فن برائے فن کے قائل نہیں۔ وہ فن کو منفی حقائق حیات سے بلند تر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہنرور انِ ہند کے بارے میں کہتے ہیں:۔ عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیّل ان کا ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار! موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں زندگی سے ہنر، ان برہمنوں کا بیزار! چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ، بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس آہ، بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار بریخت نے بھی فرائیڈ کی جنس پر ستی اور لاشعور کے تصور کو ردّ کیا ہے بلکہ اس نے شعور اور لاشعور اورالمیہ اور طربیہ دونوں امتیازات کی ردّ تشکیل کی ہے۔ اور ایک مربوط نقطہ نظر (Integrated view) دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ معاشرتی حقیقت کا شعور بھی دیتا ہے اور اس میں تبدیلی کے مثبت اشارے بھی۔ اقبال بھی فن میں ’’ہے‘‘ کا قائل نہیں بلکہ ’’ہونا چاہیے‘‘ اس کے نزدیک فن کا مقصود ہے۔ فن برائے فن کی بجائے فن برائے زندگی اور مقصدیت کے قائل ہیں: حسن را خود بروں جستن خطاست آنچہ می بایست پیش ماکجا ست بریخت کا فن بھی زندگی کے مقاصد کے حصول میں ممدو معاون ہے۔ وہ اعلیٰ تر اغراضِ حیات اور اقدار کی ترویج و اشاعت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اقبال نے ڈرامے کو بھی خودی اور انسانی شخصیت کے نقطۂ نظر سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ ان کے نزدیک جو فن انسانی شخصیت کو استحکام نہیں بخشتا وہ منفی سوچ کا حامل ہے اور انسانیت سے سروکار نہیں رکھتا۔ اقبال نے جو سوال کیا ہے کہ فن تمثیل کا کمال اگر خودی کو محو کرنا ہے تو ایسے فن سے زندگی کا ساز خوش نوا ہونے کی بجائے بے نوا اور خاموش ہو جائے گا۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ بریخت کا تاثر بیگانگی ( Alienation Effect) یا(N-Effect) اسی سوال کا جواب ہے۔ دونوں ایک ہی حقیقت کا اظہار کررہے ہیں۔ ایک کے نزدیک کمالِ فن خودی کی تحلیل سے پیدا ہوتا ہے لیکن بریخت اس فن کا قائل ہے۔ جو انسانی شعور اور خودی کو مستحکم کرے اور اس طرح حفظ شخصیت کا فریضہ انجام دے جو فکری صلاحیتوں کو جلا بخشے۔ اداکار اپنی اداکاری کے ذریعے حاضرین کو مسحور نہ کرے ان پر محویت طاری نہ کرے بلکہ صرف او رصرف ایک نقطۂ نظر تک محدود رہے اور حاضرین کو اپنا نقطۂ نظر قائم کرنے میں مدد دے۔ ناظرین اپنا نقطۂ نظر صرف اس صورت میں قائم کر سکتے ہیں جب ان کی فکری صلاحیتیں باقی رہیں اور ان کا وجود اور شعور منفی طور پر متاثر نہ ہو۔ شعوری کیفیت کی بقا کی ضمانت ڈرامائی تاثر یا فن تمثیل میں لازمی طور پر ہونی چاہیے اور یہی تاثر بیگانگی ہے جسے اقبال نے سوالیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اقبال اور بریخت دونوں اس فن کے قائل ہیں جو فکر کی تازگی کا حامل ہو بریخت کا فن عقل و شعور کی کارفرمائی تک محدود ہے لیکن اقبال اس فن کے قائل ہیں جو قوت کا حامل ہو، اس قوت میں ایسی وسعت ہو جو جلال و جمال دونوں پر حاوی ہو۔ دلبری بے قاہری جادوگری است دلبری باقاہری پیغمبری است بریخت کے نزدیک تمثیلی آرٹ کا مقصد حاضرین کی فکری قوتوں کو مثبت خطوط پر لانا ہے۔ ان میں خود شعوری اور غور و فکر کی قوتوں کو ابھارنا ہے تاکہ وہ زندگی کے تلخ حقائق سے نبرد آزما ہو سکیں اور فرد کے سماجی عمل کو بہتر طور پر ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ بریخت اور علامہ اقبال کے تھیٹر کے نظریات دراصل تھیٹر کی ایک نئی تعبیر اور ایک توضیح ہیں۔ جس کا موجودہ دور متقاضی ہے، اب تھیٹر کے بارے میں جو بھی نظریہ قائم کیا جائے گا، اس میں اقبال اور بریخت کی فکر دائمی طور پر منعکس ہو گی اور ہمیں تھیٹر کو انسانی خودی کے ارتقائی عمل کو جاری رکھنے کا ایک اہم ذریعہ بنانا ہو گا۔ تھیٹر او رفن کے حوالے سے اقبال بریخت کا یہ نظریہ نیا ہی نہیں زندگی کے ایک مثبت اور تعمیری نظریہ کا غمّاز ہے جس کی عصر حاضر کو ضرورت ہے۔بریخت نے ڈرامے کے فن کو نئی حقیقت سے آشنا کیا۔ اس طرح نئے تصورات کو نئے تھیٹر کی اساس بنایا۔ وہ ایک فلسفی شاعر تھا جس نے ڈرامے کو حرکت و زندگی اور حرارت و روشنی عطا کی، داخلیت اور لاشعور کے خول سے آزاد کیا۔ مقصدیت اور معنویت سے مربوط کیا اور ناظرین کے تنقیدی شعور ( Critical conciousness) کو نہ صرف بیدار کیا بلکہ اس کی تربیت کچھ اس انداز سے کی کہ وہ مسائل حیات و کائنات کو عقل و فہم کی روشنی میں دیکھنے کے عادی ہو سکیں۔ اور ان کا عقلی تجزیہ کر سکیں۔ بریخت نے تھیٹر کے موضوعات کو بدل کر رکھ دیا۔ لاشعور کے اندھے بہائو کی حد بندی کر دی اور تمثیل کے فن کو معقولیت کے راستے پر گامزن کر دیا۔ اس نے نہ صرف موضوع کو زندگی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی بلکہ ڈرامے کی پیشکش اور ہیئت میں انقلابی تبدیلیاں کیں۔ ڈرامائی تاثر کی نئی تعبیر کی اور انسانوں کو زندگی کے حقیقی مسائل سے نبرد آزما ہونے کا شعور اور حوصلہ دیا۔ تو ہمات اور تقدیر پرستی کے تاریخی بوجھ سے ناظرین کو آزاد کرایا۔ فن اور زندگی کے ناگزیر رشتے کی وضاحت کی۔ اس طرح قدیم یونان کے تھیٹر کی تقدیر (Destiny) کے تصور کو آزادی فکر و عمل سے بدل دیا۔ بریخت جس تاریخی شعور کی بات کرتا ہے اس میں گو تبدیلی آچکی ہے انسانی وجود کی نئی جہات ہمارے سامنے واہو رہی ہیں لیکن بریخت نے تھیٹر کے موضوع اور ہئیت میں جو تبدیلیاں کیں او رجن مقاصد کے لیے فن تمثیل کو استعمال کیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ڈرامے کو اب بریخت کے مثبت اشاروں کے مطابق آگے بڑھنا ہے۔ تھیٹر اب پیچھے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھ سکتا۔ اب تھیٹر کی مابعد جدید Postmodern تعبیریں ہو رہی ہیں۔ لیونارڈ کے Unpresentableکو ڈراما بہتر طور پر پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس میں بریخت کی مساعی کو بڑا دخل ہے۔ اس لیے ایک انگریز نقاد ایلزبیتھ رائٹ نے بریخت کو مابعد جدید ڈراما نگار ثابت کیا جس نے ڈرامے کو مابعد جدید ( Postmodern ) ثقافت کا حصہ بنا دیا۔ علامہ اقبال کا نظریۂ فن مربوط (Integrated) ہے۔ وہ فن کے مقاصد کی تقسیم نہیں کرتے بلکہ سارے فنون کو ایک ہی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ انسانی شخصیت سے فن کا کیا رشتہ ہے، اس کے بارے میں بریخت اور اقبال دونوں اپنے اپنے راستوں سے ایک ہی منزل پر پہنچتے ہیں البتہ انسانی شخصیت کے بارے میں دونوں کے تصورات مختلف ہیں بلکہ متضاد بھی، لیکن فنون کے سماجی عمل(Social Function) کے دونوں قائل ہیں۔ دونوں میں تضاد بھی ہے لیکن مقاصد فن کے بارے میں خاصی حد تک اتحاد فکر و نظر بھی پایا جاتا ہے۔دونوں تھیٹر کی قوت اور اس کے اثرات کو انسانی شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور اس فن کے قائل نہیں ہیں جو زندگی سے برسرِپیکار ہو اور انسانی شخصیت پر منفی اثرات کا حامل ہو۔ تعمیر شخصیت ان کے نقطۂ نظر کے مطابق اعلیٰ ترین مقاصد تخلیق کی تکمیل کرنا ہے اور فن کو اس تکمیل شخصیت میں ممدو معاون ہونا چاہیے کیونکہ انسانی شخصیت کے تلخ ہو جانے سے بڑھ کر کوئی اور المیہ نہیں ہو سکتا۔  استفسارات احمد جاوید محترمی۔ السلام علیکم میرا تعارف یہ ہے کہ فلسفے اور ادب کا طالب علم ہوں۔ تیس سال سے یہی اوڑھنا بچھونا ہے۔ علامہ اقبال کو بھی پڑھتا رہتا ہوں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کی شاعری ہو یا فلسفہ‘ دونوں میں فکر کو جذبات میں یا جذبات کو فکر میں ڈھالنے کا عمل اتنا زیادہ ہے کہ قاری اپنے ذہن کے اس حصے کو جو افکار و نظریات کے مطالعے میں کام آتا ہے‘ سن ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس تجربے سے بار بار گزرنے کے بعد اب میرا یہ حال ہے کہ علامہ کے فلسفہ و شعر سے میری دلچسپی کی نوعیت علمی نہیں رہی‘ جذباتی ہو گئی ہے۔ اب انہیں پڑھنے بیٹھتا ہوں تو اس کا محرک ذہن نہیں ہوتا۔ کوئی جذباتی یا اخلاقی تقاضا ہوتا ہے جو مجھے اُن کی طرف لے جاتا ہے۔ آدمی طبعاً Idealistہوتاہے۔ کیا خبر یہ میرا چھپا ہوا Idealismہی ہو جو مجھے اقبال سے جوڑے رکھتا ہے۔ وہ چیزوں کو جس طرح تصور میں منقلب کرتے ہیں ‘ اس سے چیزیں اپنی واقعیت سے نکل جانے کے باوجود‘ زیادہ خوبصورت اور زیادہ مکمل لگنے لگتی ہیں۔ یہ حسن و کمال بہت تسکین بخش ہے۔ دماغ اس تسکین کو قبول نہیں کرتا تو دل چاہتا ہے اس کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈالتا ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ یہ صورت حال صرف شعر اقبال تک محدود نہیں ہے۔ Reconstruction میں بھی بیشتر مقامات پر پڑھنے والا اسی تجربے سے گزرتا ہے۔ اس کتاب میں جتنے بھی تصورات بیان ہوئے ہیں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب کے سب ایک ایسی مابعد الطبیعیاتی منطق پر کھڑے ہیں جو حیرت انگیز طور پر روایتی نہیں ہے۔ مابعد الطبیعیات کی روایت نے جو سیڑھی تیار کی تھی ‘ علامہ اسے اوپر پہنچنے کے لیے نہیں بلکہ نیچے اترنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ان کا تصور وجود ہو یا نظریۂ حقیقت‘ دونوں انسان کو مرکز بنا کر وضع ہوتے ہیں۔ حتی کہ خدا بھی انسانی Symphony کا ایک note معلوم ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ خدا کے وجود کی ضرورت بس اتنی ہے کہ انسان کی تکمیل میں صرف ہو جائے۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ محض ایک تاثر ہے جو فکرِ اقبال کا احاطہ یا درست ترجمانی نہیں کر سکتا، لیکن میں اس بات سے آنکھ نہیں چرا سکتا کہ ان کی فکر‘ علمی ہو یا اخلاقی‘ عقلی یا ہو یا وجدانی‘ جس نقطے پر تمام ہوتی ہے وہ نقطۂ تاثر ہی ہے۔ علامہ کا ہر نظریہ بیان میں مکمل ہو کر استدلالی نہیں رہتا بلکہ تاثراتی ہو جاتا ہے۔ مجھے تاثر کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ نٹشے نے اس کی فلسفیانہ قدروقیمت کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ اقبال اپنی تصور سازی اور فکر بندی کے Method میں اسی حکیم دیوانہ کے متبع ہیں جس نے موجود ہونے کی ساری فضا کو الٹ کر دکھا دیا اور اسے ایک بالکل نیا سیاق و سباق دیا۔ میرا مقصد تو بس اتنا سا ہے کہ تصورات اقبال کو فلسفے کے متداول نظام استدلال کی روشنی میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش میں ناکامی کا سبب معلوم ہو جائے۔ باقی میں اس بات کو پوری طرح مانتا ہوں کہ زندگی کی اساسی معنویت اور اس تک رسائی کے کچھ راستے عقل و استدلال کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیںا ور ان پر قدم رکھنے کے لیے دماغ سے زیادہ احساس اور جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہمارے لیے اقبال کی حیثیت سکہ رائج الوقت کی ہے جو ہر چیز فراہم کرنے کی ضمانت رکھتا ہے۔ انھیں حوالہ بنائے بغیر ہم زندگی کے حقائق و مظاہر تک پہنچنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اس رویے نے جہاں بہت سے مسائل حل کیے ہیں وہاں کچھ مسائل پیدا بھی کیے ہیں۔ مثلاً یہی کہ اُن کے افکار و خیالات پر ہمارے ایقان و اعتماد نے ہمیںا س طرف متوجہ نہ ہونے دیا کہ ان افکار و خیالات کی اندرونی ساخت کا تجزیہ کیا جائے تاکہ ان کی productivity کا جوہر دریافت ہو کر ایک زندہ تسلسل میں ڈھل سکے۔ اور یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے۔ خود اقبال نے اپنی ر وایت کے ان حصوں کو جو ان کے لیے قابل قبول تھے‘ مسلسل رکھنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ مثال کے طور پر رومی کے ساتھ اُن کی نسبت کا جائزہ لیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ اقبال نے اس سمندر کی گہرائی اور روانی کے اصول کو بقدرِ استطاعت خودمیں جذب کر کے اس کے تسلسل کی مؤثر صورت نکالی۔ مختصر یہ کہ ازراہِ کرم میری اس بات کو اعتراض کے بجائے اشکال سمجھا جائے کہ علامہ اقبال کے نظریات اور تصورات عملی غایت اور علمی دروبست رکھنے کے باوجود جب بیان میں مکمل ہوتے ہیں تو رومانوی اور unverifiable کیوں ہو جاتے ہیں؟ یہ چیز ان کے خیالات کے ماننے والوں کو بھی ایک دوراہے پر لا چھوڑتی ہے‘ اور نہ ماننے والوں کو بھی۔ اسی لیے مجھے فی الحال یہ محسوس ہوتا ہے کہ فکرِاقبال کی جمالیاتی حیثیت زیادہ ہے اور علمی وعملی کم۔اگر یہ احساس غلط ہے تو میں اصلاح کا متمنی اور منتظر ہوں۔ شکریہ مخلص احمد عبداللہ جواب وعلیکم السّلام و رحمتہ اللہ۔ آپ کا خط دل چسپ بھی ہے غور طلب بھی۔ میرا خیال ہے کہ ہم گفتگو کا آغاز اس فقرے سے کر سکتے ہیں کہ کسی تصور یا نظریے کا نقطۂ تکمیل جمالیاتی ہوتا ہے۔ یوں ہم اُس عامیانہ پن اور سطحی یکسانی سے بچے رہنے کا سامان کر سکتے ہیں جو اقبالیات کے مباحث پر کسی سخت خول کی طرح چڑھ چکے ہیں۔ آیئے اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ روایت جس سے اقبال متعلق ہیں‘ بیشتر اسی بنیاد پر کھڑی ہے کہ جمالیاتی جوہر پیدا کیے بغیر فکر مکمل نہیں ہو سکتی۔ اس جمالیاتی جوہر کی تفصیل یہ ہے کہ فکر ہو یا تجربہ‘ ادراک اور اظہار کی سطح پر مکمل ہو کر اپنے موضوع پر زائد ہو جاتا ہے۔ امید ہے یہ بات آپ کے لیے غیر مانوس نہیں ہو گی کہ یہ زیادت ہی فکر و احساس کو موضوع کا احاطہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ادراک اور اظہار کا شے پر زائد ہو جانا جس حقیقت پر دلالت کرتا ہے وہ اپنی ماہیت میں جمالیاتی ہے۔ یہی وہ جہت ہے جو حقیقی پن کے ثبوت کے منطقی اور تجربی حدود کو توڑ کر چیزوں میں self transcendence کے جوہر کو واقعی اور لائق اثبات بناتی ہے۔ یہاں یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ مابعد الطبیعی فکر اور طرزِ احساس ‘ اور بہت کچھ ہونے کے باوجود اساسی طور پر جمالیاتی ہوتا ہے۔ یہ فکر اگر تجربی امور کو اپنا موضوع بنائے تو بھی اس کی تحقق خوئی اور کمال جوئی برقرار رہتی ہے۔ تجربیات خلقی طور پر اعتباری اور ادھورے ہوتے ہیں۔ یہ ذہن کے حدودِ اثبات کے اندر اندر ہی موجود ہوتے ہیں۔ مابعد الطبیعی تناظر ان حدود میں وہ غیر متناہی پن پیدا کر دیتا ہے جس سے چیزوں کے ذاتی نقص اور مبنی بر اعتبار ہونے کی حالت کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل صورت ہی نہیں پکڑ سکتا اگر شے کو اس کی حقیقت سے جوڑ کر یا اس میں ضم کر کے نہ دیکھا جائے۔ شے اور حقیقت شے میںعینیت کی یہ تلاش شعور کی جمالیاتی قوت کے بغیر نا ممکن ہے۔ شے کا حقیقی ہونا اتنا پھیلائو رکھتا ہے کہ خود شے میں نہیں سماتا۔ اُس پھیلائو کی ایسی پیمایش جس میں شے کو منہا نہ ہونے دیا جائے‘ انھی وسائل سے ممکن ہے جو آدمی کے جمالیاتی شعور کی ملکیت ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں چیز حقیقی ہے تو اس میں یہ اعلان لازماً مضمر ہوتا ہے کہ یہ چیز اپنے وجودی معیار پر ناقص نہیں ہے۔ اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کمال‘ جمال ہے اور جمال‘ کمال۔ تکمیل خواہ جزوی ہو‘ لامحالہ ایک جمالیاتی تناظر پیدا کر لیتی ہے۔ یہ ہے وہ اصولی پس منظر جسے نظر انداز کر کے اقبال کا مطالعہ نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کی فکر کا محرک اور غایت، ظاہر ہے کہ مابعد الطبیعی ہے۔ اس فکر کو اپنی تشکیل کے لیے جو ضروری اجزا درکار ہیں‘ وہ اقبال کے ہاں بھی موجود ہیں مگر قدرے مختلف توازن اور تناسب کے ساتھ۔ اس اختلاف کا بڑا سبب یہ ہے کہ اقبال کے فوری اہداف اخلاقی‘ نفسیاتی اور تاریخی ہیں۔ ان کی تقریباً تمام ضروریات عملی نوعیت کی ہیں۔ روایتی مابعد الطبیعی فکر تصورِ خدا پر منتج ہوتی ہے، جبکہ اقبال کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا تصور خدا بھی اس تصورِ انسان کا ایک حصہ ہے جو ان کی فکر کا مدار و محور ہے۔ بحیثیت مجموعی، روایتی مابعد الطبیعی فکر کے لیے یہ ایک اجنبی رویہ ہے‘ اور غمازی کرتا ہے کہ اقبال نے عبدالکریم الجیلی پر کام کرتے ہوتے ان کا اثر خاصی گہرائی میں قبول کیا تھا۔ یہ جیلی ہی تھے جنہوں نے انسان کامل کے الہیاتی تصور میں پہلی مرتبہ ناسوتیت داخل کی۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے کہ اپنے تصور انسان کے مابعد الطبیعی دروبست میں اقبال نے عبدالکریم الجیلی سے کیسا اور کتنا استفادہ کیا۔ سردست ہم یہ دیکھنے چلے ہیں کہ فکرِ اقبال کی مجموعی پیش رفت کا ایک بنیادی اسلوب جمالیاتی ہے‘ اور یہ پیش رفت جہاں تمام ہوتی ہے اُن مقامات کو جمالیاتی شعور کی مدد بلکہ رہنمائی کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس بات کو یوں کہہ لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں کہ اقبال جس بیان کے خالق ہیں ‘ اُس کے معنی تو اخلاقی یا کچھ اور ہو سکتے ہیں، لیکن معنویت بڑی حد تک جمالیاتی ہے۔ یہی وہ وصف ہے جو انہیں اس روایت کا حصہ بناتا ہے جس میں بوعلی سینا‘ احمد غزالی ‘ حلاج‘ ابن عربی اور رومی ایسے نام شامل ہیں۔ اس عظیم الشان عرفانی روایت کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے وجود اور اس کی حقیقت کی تحقیق میں اُس امر کو مرکزی حیثیت دی جو ناظرو منظور یا عارف و معروف دونوں میں مشترک ہے: جمال۔ جمال جو حق کی اصل ظہور ہے، انسان کے لیے اس قابلیت اولیٰ کا درجہ رکھتا ہے جو حق کی ورا ے ادراک Presence کو قبول کرتا ہے اور اسے ایسی معنی خیزی کے ساتھ محفوظ رکھتا ہے جس سے عقل وغیرہ کا کام چلتا رہتا ہے۔ اس روایت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر موضوع پر اس طرح کلام کیا جاتا ہے کہ تین باتیں یکجائی کے ساتھ سامنے آ جاتی ہیں۔ (۱) صورت (۲) حقیقت اور (۳) ان کے اجتماع تک پہنچنے کا ذریعہ۔یعنی شے‘ حقیقت شے اور اس نقطۂ عینیت کی دریافت کا منہاج جس پر اُس کا وجود قائم ہے، اور جس سے اُس شے کا وجودی مرتبہ متحقق ہوتا ہے۔ اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ اس منہاج تحقیق کی بدولت اُس نسبت کی تعیین بھی ہو جاتی ہے جو عارف کو معروف یعنی حق یا حقیقت، اور اُس کے مظاہر سے ہے۔ اس نسبت کی اصولاً دو انواع ہیں: عقلی اور عشقی۔ دونوں کا حاصل ایک ہے: معرفت، مگر اس کی کیفیت مختلف ہے۔ ایک کا مزاج تفصیل اور حصول کا ہے جبکہ دوسری کا اجمال اور حضور کا۔ عقلی نسبت میں احاطے کا رنگ پایا جاتا ہے اور عشق میں ارتکاز کا۔ اس تقابل کو بہترین صورت میں دیکھنا ہو تو احمد غزالی کی شہرہ آفاق کتاب ’’سوانح‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ یہ مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اقبال کے تصور عشق کی متعدد بنیادیں اس کتاب میں ملتی ہیں۔ اب اگر اقبال کے بنیادی تصورات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بالکل غیر مبہم انداز میں نظر آتی ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی عارفانہ روایت کے دونوں دھاروں میں بہنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے لیے یہ شناوری اس لیے زیادہ مشکل نہیں ثابت ہوئی کہ وہ ایک باقاعدہ مفکر اور بڑے شاعر تھے۔ ان دونوں اوصاف کے اجتماع نے ان کے لیے قلب اور ذہن کے آزادانہ مگر ہم مقصد عمل کو ممکن بنا دیا۔ جیسا کہ کئی جگہوں پر انہوں نے خود کہا ہے: ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت کہ درس فلسفہ مے داد و عاشقی ورزید ز اقبال فلک پیما چہ پرسی حکیم نکتہ دان ما جنون کرد عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرۂ لایحزنوں کر خرد کی کَتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر اصل میں اقبال کا بڑا مقصد یہ تھا کہ ذہن اور قلب کو یک سو کیا جائے اور دماغ کی تمام طاقتوں کو دل کے تابع رکھا جائے۔ نقشی کہ بستہ ئی ہمہ اوہام باطل است عقلی بہم رساں کہ ادب خوردۂ دل است وہ اس مقصد کے حصول میں کہاں تک کامیاب رہے؟ فی الحال یہ سوال ہمارا موضوع نہیں ہے۔ لیکن عقل و دل کے اجتماع کا تصور ہی اپنی بنیادی ساخت میں جمالیاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے وہ خیالات جو نظم میں بھی بیان ہوئے اور نثر میں بھی‘ میڈیم کے تقاضوں کے پیدا ہونے والے امتیازات تو رکھتے ہیں مگر ان میں وہ جوہری فرق نہیں پایا جاتا جو ایک کے مقاصد اور حاصلات کو دوسرے کے مقاصد اور حاصلات سے بلحاظ ماہیت مختلف رکھتا ہے۔ روایتی اصطلاح میں اقبال حصول و حضور کی تالیف کرتے ہیں‘ ان کے لازمی امتیاز کے باوجود۔ ان کے کسی بھی تصور کا جائزہ لیں‘ یہ چیز ابتدا ہی میں واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تصور کئی منتہائوں کو جوڑ کر وضع ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ actual ہیں اور کچھ ideals کو actualize کیسے کیا جائے؟ ان کے تمام تصورات اسی سوال کا سامنا کر کے تکمیل پاتے ہیں۔ یہاں آپ سے درخواست ہے کہ اس بات پر ضرور غور فرمائیں کہ اقبال کا سارا کام علم الحقائق کی روایتی مثلث یعنی تصورِخدا‘ تصورِ کائنات اور تصورِانسان ہی کی ایک تالیف ہے۔ synthesization کا یہ عمل مسلم دنیا میں اقبال کے بعد اگر کہیں دکھائی بھی دیتا ہے تو اس کی سطح اتنی بلند نہیں ہے‘ اور اس کی معنویت میں مابعد الطبیعیت اور کلیت کا عنصر بھی تقریباً مفقود ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہی ہے کہ اب نظریہ سازی میں اس تخیل کا کوئی کردار نہیں رہا جو جمالیاتی شعور کی faculty ہے۔ دوسری طرف اقبال کو دیکھیں کہ دین اور قومیت ایسے موضوعات پر بھی اُن کا جمالیاتی شعور بالآخر چیزوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور مسئلے کے نظری اور عملی اطلاقات پر غالب آ جاتا ہے۔ یہاں سے اگر کچھ دیر کے لیے ایک اور طرف مڑ جائیں تو امکان ہے کہ ہم اپنے ایک مسئلے کا زیادہ بامعنی انداز میں سامنا کر سکیں گے۔ انسانیت‘ مابعدالطبیعی اقدار پر استوار ہو تو اُس کا باطنی اور خارجی یا مجبوراً یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نفسیاتی اور تہذیبی سٹرکچر فطری طور پر عملاً اخلاقی اور بلحاظ کیفیت جمالیاتی ہو گا۔مابعد الطبیعی تعین اپنی ماہیت میں جمالیاتی ہوتا ہے اور غایت میں اخلاقی۔ ہم دور کیوں جائیں‘ خود اپنے دین کے ساتھ اپنی وابستگی کی ایمانی اور عملی قوت کو نسبتاً زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ بروے کار لا کر دیکھیں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اخلاق اور حسن کی وہ عینیت ہم سے اوجھل رہ جائے جو اسلام کا مزاج ہے۔ اس دین میں اخلاق اور حسِ جمال باعتبار اصل ایک ہے۔ دونوں کی بنیاد اُس ترفع پر ہے جو آدمی کو ہستی کے پست مدارج کا اسیر نہیں ہونے دیتا۔ یہ پستیاں کیا ہیں؟ شر اور بدصورتی۔ دونوں ہم معنی ہیں۔ اقبال نے اس ترفع کو‘ خاص طور پر شاعری میں اتنے شکوہ اور تنوع کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ہم خود کو موجود ہونے کی بلند تر حالتوں سے گزرتا محسوس کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس احساس کی بناوٹ معروف معنی میں علمی نہیں ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ اس تجربے سے گزرنے والا جو کچھ حاصل کرتا ہے اس کا طریقِ حصول علمی نہیں ہے، اور اسے علم نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انسان کے داخلی تجربات یعنی تصدیق ناپذیر (unverifiable)احساسات آخرکوئی معنویت تو رکھتے ہیں۔ کیا یہ معنویت فکری اور علمی افادیت سے عاری ہے یا ہو سکتی ہے؟ یقینا یہ نکتہ آپ کی گرفت سے باہر نہیں ہو گا کہ فکرِ اقبال جس روایت کے تسلسل کی تاحال آخری کڑی ہے‘ وہاں فکر کی صحت کے علاوہ تاثیر کو بھی ضروری گردانا جاتا ہے۔ مذہبی فکر کا وہ حصہ جس کا موضوع انسان ہے‘ اسی اصول پر تشکیل پاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’(اقبال) کی شاعری ہو یا فلسفہ ‘ دونوں میں فکر کو جذبات میں یا جذبات کو فکر میں ڈھالنے کا عمل اتنا زیادہ ہے کہ قاری اپنے ذہن کے اس حصے کو جو افکار و نظریات کے مطالعے میں کام آتا ہے‘ سن ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے‘‘۔ اس احساس کا تو کچھ نہیں کیا جا سکتا، البتہ اتنی گزارش ضرور ہے کہ اس فقرے سے جو تعمیم نکلتی ہے وہ ضرورت سے زیادہ ہے بلکہ بہت زیادہ۔ شعر کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے کہ اقبال عام طور سے فکر اور جذبے (نہ کہ جذبات) کو ایک کر دیتے ہیں‘ لیکن اُن کے خطبات وغیرہ کے بارے میں ایسی رائے قائم کرنا کسی بڑی غلط فہمی کے بغیر ممکن نہیں۔ اقبال کے موضوعات میں سے کوئی ایسا موضوع چن لیں جو خطبات میں آیا ہو اور شاعری میں بھی۔ اس کے تقابلی مطالعے سے واضح ہو جائے گا کہ جس احساس نے آپ کے اندر مستقل جگہ بنا لی ہے وہ بداہۃً بے اساس ہے۔ نثر میں تو علامہ کا یہ عالم ہے کہ بعض مقامات پر وہ بالکل clinician معلوم ہوتے ہیں۔ خصوصاً اُن مباحث میں جن کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہے۔ ہاں آپ کی اس بات کو ردّ کرنا خلاف دیانت ہو گا کہ انسانی خودی کا تصور کہیں کہیں انسانیت کو الوہیت پر غالب کر دیتا ہے۔ میری رائے بھی یہی ہے کہ اقبال کے جہانِ فکر کے قطبین‘ یعنی خدا اور انسان‘ کے درمیان وہ توازن ملحوظ اور محفوظ نہیں رہتا جو مابعد الطبیعیات کی پوری روایت کا خاصہ ہے‘ اور جس سے صرف نظر کر کے تفکر کی کسی نوع کو مذہبی نہیں کہا جا سکتا۔ خدا پر کلام کرتے ہوئے علامہ logical Positivism تک پہنچنا بھی گوارا کر لیتے ہیں جبکہ انسان کا تحقق ان کے ہاں اس درجہ Metaphysical ہو جاتا ہے کہ یوں لگنے لگتا ہے کہ نظام الحقائق کا مرکز خدا نہیں ہے بلکہ آدمی ہے۔ یہ بات اشکال کی حیثیت سے بھی valid ہے اور اعتراض کے طور پر بھی درست ہے۔ ہاں یہ بہرحال سوچا جا سکتا ہے کہ اقبال جس روایت سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، اس کے خلاف اپنے موقف کو مضبوط بنانے کے لیے ان کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ انسان کے وجودی اور حقیقی اثبات میں ایک مابعد الطبیعی معنی اور تحکم پیدا کریں‘ اور جس تصورِ حقیقت نے انسان پر اپنے دروازے بند کر لیے تھے‘ اسی کی منطق سے کام لے کر انسان کو عین اُس کے قلب میں جاگزیں کر دیں۔ ہستی کے روایتی دروبست سے باہر نکلے بغیر، اقبال نے انسان کی وجودی انفرادیت اور حقیقی امتیاز پر اس مباہاتی انداز سے زور دیا ہے کہ کہیں کہیں خدا کی حیثیت بھی دب جاتی ہے۔ ذات وخودی کے مبحث میں بات جب تک اخلاقی اور عملی حدود میں محدود رہتی ہے‘ کوئی اُلجھن سر نہیں اُٹھاتی‘ لیکن جونہی گفتگو مابعد الطبیعیات کی اقلیم میں داخل ہوتی ہے‘ قاری بعض لاینحل دشواریوں کی زد میں آ جاتا ہے۔ انسان کو وجود کی حقیقت کا مستقل حامل ثابت کرنے کے لیے اقبال کو یہاں تک جانا پڑا کہ وہ ذات خدا وندی میں بھی ایک طرح کی ناسوتیت دیکھنے لگے۔ مثلاً اللہ کے علم‘ خلاّقی‘ قدرت وغیرہ کے بارے میں اُن کے تصورات اسی نوع کے ہیں۔ اسی طرح خودی سے خودی یا ذات سے ذات کے صدور کا نظریہ اس اعتبار سے خاصا تعجب خیز ہے کہ اس میں وہ نتیجہ نظر انداز کر دیا گیا جو اس دعوے سے لازماً برآمد ہوتا ہے۔ یعنی خدا اور انسان کی اثنینی عینیت اور یہ ایسا نتیجہ ہے جس کے لیے محال کا لفظ ناکافی ہے۔ اس طرح کی پیچیدگیوں سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اقبال کی فکر کے اس حصے کا خاص طور سے جائزہ لیا جائے جس کا سیاق و سباق مابعد الطبیعی ہے۔ ہم ایک بہت بڑی عارفانہ اور حکیمانہ روایت کے وارث ہیں۔ ان مباحث میں اقبال کہاں صحیح ہیںا و رکہاں غلط‘ اس کا فیصلہ اسی روایت کی روشنی میں ممکن ہے۔ اس کے لیے ہمیں مطالعۂ فکرِ اقبال کی موجودہ روش کو چھوڑنا پڑے گا جو ہمیں ہماری قابل فخر علمی روایت ہی سے نہیں بلکہ خود اقبال سے بھی دور لے جا رہی ہے۔ اس روش پر چلنے ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہماری کل جمع پونجی محض چند دعوے ہیں جو ہم وقت بے وقت الاپتے رہتے ہیں۔ بہر حال اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اقبال کے سلسلے میں کسی مخالفانہ چلن کی بنا ڈال دی جائے۔ علمی لحاظ سے تو ایسے کسی قصد یا خیال کی لغویت ظاہر ہی ہے‘ دینی و اخلاقی اعتبار سے بھی یہ رویہ تباہ کن ہے۔ ملت اسلامیہ کے حقیقی تشخص کی باز آفرینی اور صورت گری کا کوئی عمل اقبال کی شمولیت کے بغیر نا ممکن ہے۔ یہ بات اتنی بدیہی اور یقینی ہے کہ انکار تو درکنار‘ اس سے اختلاف کرنے کے لیے بھی جہالت اور پستی کی ہر انتہا کو پار کرنا ضروری ہے۔ ہماری مراد تو بس اتنی سی ہے کہ اقبال کا مطالعہ اُسی طریقے پر ہونا چاہیے جسے خود انہوں نے اپنے پیشروئوں کے لیے اختیار کیا تھا۔ پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہماری روایتی فضا میں اقبال کی فکر اپنے بعض گوشوں میں اوریجنل ہے‘ اور اوریجنل بات نقطۂ آغاز ہوتی ہے نہ کہ حرف آخر۔ اسے حتمی اور فیصلہ کن سمجھ لینے کا انجام وہی ذہنی جمود ہے جس سے اقبال ساری عمر لڑتے رہے۔ محترم! جی تو چاہتا ہے آپ کے گرامی نامے کے تمام مندرجات پر گفتگو کی جائے لیکن ڈر ہے کہ یہاں وہ بے محل ہو گی۔ جو امور میری دانست میں زیادہ اہم ہیں، کوشش کر رہا ہوں کہ اُنہی تک محدود رہا جائے۔ جو بات صحیح معلوم ہو‘ اُس کی تائید سے دریغ نہ رکھا جائے اور جہاں اختلاف محسوس ہو‘ وہاں بھی تکلف سے کام نہ لیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ آپ اقبال کے فکری منہاج ہی سے اختلاف رکھتے ہیں یا کم از کم اُس سے متفق ہونے کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہیں پاتے۔ اگر یہ خیال غلط نہیں ہے تو پھر ہمیں چاہیے کہ ان کے منہاج تفکر کی درست تشخیص تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ آپ کے فرمودات سے لگتا ہے کہ اقبال کو آپ اُن مفکرین میں شامل سمجھتے ہیں جن کا مادۂ فکر اور غایت تفکر مابعد الطبیعی ہے۔ وہ بھی الہیٰاتی مباحث میں اس فلسفے کو دخیل کرتے ہیں جو حیرت انگیز طور پر تجربیت اور مثالیت کا آمیزہ ہے۔ مجھے اس تجزیے کے ایک جز سے اتفاق ہے جس کا اظہار اوپر ہو چکا ہے۔ مگر یہ جز ظاہر ہے فکرِاقبال کے کل کا احاطہ نہیں کرتا۔ اس کل کے دیگر اجزا بھی نظر میں ہوں تو آپ کی یہ رائے یا تاثر ایک غیر ضروری بلکہ غلط فہمی کی حدوں کو چھوتی ہوئی تعمیم پر دلالت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آپ تو ماشاء اللہ فلسفے کی خبر اور ذوق رکھتے ہیں‘ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ کسی خاص فکر کی فلسفیانہ validity جانچنے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اس کی ماہیت اور غایت کا تعین کیا جائے، اور پھر یہ دیکھا جائے کہ ان دونوں کا نقطۂ اتحاد کس عنوان کا متقاضی ہے۔ یعنی ماہیت= فکر کی نظری ساخت اور غایت= فکر کا عملی مقصود ایک دوسرے میں ڈھل کر جو صورت بناتے ہیں‘ وہ بتاتی ہے کہ فلاں فکر اپنی کلیت میں کیا ہے۔ اور شعور کے کس اقتضا سے نسبت رکھتی ہے! آپ کے آگے تشریحی اور توضیحی اسلوب اختیار کرنا خود میرے لیے باعث شرم ہو گا، اس لیے درمیانی مراحل کو پھلانگ کر یہ کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ فکر اقبال کی نظری بناوٹ یا داخلی منطق تو بلاشبہ مخدوش اور مضطرب ہے، لیکن اس کا عملی مقصود شعور اخلاقی کا حقیقی مقتضا ہے۔ علامہ نے شعور کے علمی اور اخلاقی مطالبات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی جو کاوش کی‘ اُس کا نتیجہ اگر فکر کی اندرونی دو لختی کی شکل میں نہ نکلتا تو تعجب تھا۔اس ناگزیر دولختی کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے کا وہی طریقہ ہو سکتا تھا جو انہوں نے اپنایا: جمالیاتی تخیل کا فکری اور اخلاقی مصرف نکالنا یا بالفاظ دیگر فکرکی اخلاقی+ جمالیاتی تشکیل۔ کسی علمی یا اخلاقی مؤقف کو جمالیاتی pattern دے دیا جائے تو بعض تجاوزات اور اندرونی ناہمواریاں نبھ جاتی ہیں اور وہ مؤقف کانٹ کی سی تنقیدی تحلیل سے بھی بڑی حد تک بچا رہتاہے۔ اقبال کا منہاج فکر‘ جس قدر متعین ہو سکتا ہے‘’ مذہبی‘ ’اخلاقی‘ ہے۔ اس فکر کے اہداف چونکہ نظری نہیں ہوتے لہٰذا ان کا حصول بعض ناگزیر علمی ذرائع کے استعمال کے باوجود محض ذہنی نہیں ہوتا۔ یہاں حصول‘ استحضار پر موقوف ہے۔ اُس مقصود کا استحضار جس کا ثبوت فقط عقل پر مبنی نہیں ہے۔ اپنی فکر کے اس بنیادی مطالبے کو مفکر اقبال نے کم اور شاعر اقبال نے زیادہ پوراکیا۔ گفتگو میں خاصی سہولت پیدا ہو جائے گی، اگر میں آپ کی توجہ اس طرف مبذول کروا سکوں کہ مسلمہ اخلاقی مقاصد کا پیرایۂ استحضار جمالیاتی نہ ہو تو فکر کی حرکت مذہبی یا مابعد الطبیعی معانی کے رُخ پر نہیں ہو سکتی۔ مذہبی و اخلاقی فکر میں معنی پذیری اور معنی آفرینی کا جوہر جمالیاتی شعور کی کمک کے بغیر جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ اقبال کے ہاں اس جوہر کی کارفرمائی ایک ایسی متوازیت کی حامل ہے جس میں موضوع باعتبار صورت و معنی منقسم ہو جاتا ہے۔ اُن کا فکری مطلوب صورت و معنی کی جس ترکیب کے ساتھ realize ہوتا ہے‘ اُس میں صورت تخیلی ہے او رمعنی حسی‘ اور یہ لازمہ ہے اخلاقی شعور اور جمالیاتی شعور کی یکجائی کا۔ جمال ‘ حقیقت کی صورت ہے اور اخلاق، صورت کی حقیقت۔ اس اصول کا کوئی بھی بیان استدلالی نہیں ہو سکتا۔ استدلال سے اس کا حقیقی ہونا مجروح ہو جائے گا۔ آپ ہی بتلایئے: غایت اخلاقی ہے اور اس کی طرف پیش رفت کا اسلوب جمالیاتی… اس صورت حال میں نظری استدلال کے لیے کوئی جگہ نکل سکتی ہے؟ ہاں اگر آپ کا اشارہ عملی استدلال کی طرف بھی ہے تو میں آپ سے متفق ہونے پر مجبور ہوں۔ اقبال کے ہاں استدلال کا عملی طریقہ کثرت سے برتا گیا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس طریقے پر اُن کی گرفت ماہرانہ تو ہے‘ مفکرانہ اور محققانہ نہیں۔ وہ مابعد الطبیعیاتی حقائق کی تصدیق اور اثبات کے لیے بھی اسی طریقے پر بھروسا کرتے ہیں۔ خیر اس مسئلے پر پچھلے صفحات میں خاصی گفتگو ہو چکی ہے۔ فی الوقت یہ دیکھنا تھا کہ اقبال کا منہاج فکر کیا ہے اور وہ اس کے تقاضے کہاں تک پورے کرتے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ خود اس منہاج کی حیثیت اور قدروقیمت کیا ہے؟ اس کا تعین اگر فلسفے کو نظر انداز کر کے ہوتا ہے تو اس میں بھی کیا حرج ہے!