اقبالیات (اردو) رئیس ادارت : محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت : سید قاسم محمود رفیع الدین ہاشمی احمد جاوید اقبال اکادمی پاکستان لاہور مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انہیں دلچسپی تھی - مثلاً اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتہ پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت و سیاحت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات ۱ - اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر ڈاکٹر شجاع ناموس ۵ ۲ ۔بزمِ سرور میں علامہ اقبال اور مودودی وحید الدین سلیم ۳۸ ۳۔ اقبال تنقید اور آل احمد سرور ابوالکلام قاسمی ۴۹ ۴۔ایک مردِ حق آگاہ کی بصیرت مظفر اقبال ۶۱ ۵۔علامہ اقبال کی زندگی میں پہلا یوم اقبال (ایک غلط فہمی کا ازالہ) ظفر الاسلام ظفر ۶۵ ۶۔ ڈاکٹر شمل کی لوحِ مزار اسلم کمال ۷۱ ۷۔ انسان اور اس کے وجودی اصول خضر یاسین ۸۱ ۸ ۔اقبال اور شاد حیدر آبادی اکبر حیدری کاشمیری ۱۰۱ ۹۔طلوعِ اسلام(ایک نثری بیانیہ) احمد جاوید ۱۱۸ قلمی معاونین ۱ - ڈاکٹر شجاع ناموس چوک سمن آباد، اردو نگر، ملتان روڈ، لاہور۔ ۲ ۔ وحید الدین سلیم پوسٹ بکس نمبر ۳۶۵ حیدر آباد ۵۰۰۰۰۱ انڈیا۔ ۳ ۔ ابوالکلام قاسمی استاد، شعبہ اردو؍فارسی ج ۔ ڈی ۔ جنین کالج ۔آگرہ ۔ بھارت ۴ - مظفر اقبال پریذیڈنٹ ، سنٹر فار اسلام اینڈ سائنس، رینج روڈ ۲۱۵۔شروُڈ پارک ،اے بی،کینیڈا ۔ ۵ ۔ ظفر الاسلام ظفر فلیٹ نمبر ۱۰۲ ۔اقبال پلازہ ۳۶۔ ملزز روڈ۔ بنگلور (انڈیا) ۶۔ اسلم کمال ڈائریکٹر پروجیکٹ، ایوان اقبال ، لاہور ۔ ۷۔ خضر یاسین پنجاب کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی،نون ایونیو مسلم ٹائون،لاہور ۔ ۸۔پروفیسراکبر حیدری کاشمیری کاشانۂ ظفر ، ہمدانیہ کالونی، سری نگر (کشمیر)۔ ۹۔احمدجاوید معاون ناظم ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر اقبال کا پیغام ۔ایک یاد گاہ لیکچر  اقبال کا پیغام ڈاکٹر شجاع ناموس یہ خصوصی لیکچر پروفیسر ڈاکٹر شجاع ناموس مرحوم و مغفور نے عباسیہ لٹریری لیگ ، بہاولپور کے زیر اہتمام، ایک خصوصی اجلاس میں دیا تھا، جو ۹؍ جنوری ۱۹۳۸ء بروز اتوار ، ’’اقبال ڈے ‘‘ کے طور پر منایا گیا تھا۔ بیشتر لوگ اقبال کو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں اور ان کی غزلیں نظمیں پڑھ کر سر دُھنتے ہیں۔ شاعرِ مشرق کے نام سے ان کی شہرت ہے، ترجمانِ حقیقت اور حکیم الاُمّت کے القاب سے انھیں یاد کیا جاتا ہے۔ مگر انھیں یہ معلوم نہیں کہ اقبال صرف شاعر نہیں بلکہ اپنے عہد کا ایک بڑا مجدّد اور اسلام کا سب سے بڑا زندہ مفکر ہے۔ میرا تعلق ڈاکٹر صاحب سے بہت عرصہ سے اور کئی طریقوں سے ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھے ان کے وسیع علوم سے استفادہ کرنے کا موقع اکثر مرتبہ ہوا ۔ جو کوئی نکتہ یا مقام کہیں اپنے استفادہ کے دوران میں میری سمجھ میں نہ آیا، وہ میں ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیااور انھوں نے بڑی خوبی کے ساتھ اس کو حل کر دیا، یہ استاد اور شاگرد کی حیثیت بہت عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ اس طویل عرصے میں مختلف شعبوں پر جن پر مجھے عبور ہے، اور ڈاکٹر صاحب سے متعلق ہیں۔ مثلاً فارسی ، عربی ، قدیم فزکس ، نظری کیمیا ، اسلامیات، مذہب ، تاریخ سائنس ، شاعری وغیرہ سب پر گفتگو رہی اور ہر بیان اور ہر شعبہ میں حضرت استاد کی معلومات اور علوم کو میں نے بہت وسیع اور ہمہ گیر پایا۔ کس قدر حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہستی جس کو لوگ صرف شاعر سمجھتے ہیں، اتنا بڑا اسلام کا عالم ہو، کہ لوگ مذہبی رسائل اور کتب لکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں یہ دریافت کرنے کے لیے ارسال کرتے کہ ان میں کوئی بات خلاف شرعِ اسلام تو نہیں، تاکہ ہم اسے رسالے میں سے خارج کر دیں۔ حتیٰ کہ انجمن حمایت اسلام اس چشمۂ فیض کی ممنون ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ باسفورس سے اس طرف شاید ہی کوئی عالم مل سکے، جسے اسلامیات پر اس قدر عبور حاصل ہو اور اسے اسلام کی الٰہیّات، سیاست ،تاریخ غرضیکہ اسلام کے تمام شعبوں کے متعلق اس قدر وسیع معلومات حاصل ہوں۔ اس وُسعت نگاہ کو دیکھ کر جو فوق العادہ معلوم دیتی ہے، یہ خیال ہوتا ہے کہ انسانی قدرت سے باہر ہے۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں کہ اگر رسولؐ عربی کے بعد کسی پیغمبر کے ظہور کا امکان ہوتا تو میں کہتا کہ وہ اقبال ہے۔ اقبال بہت بڑا مفکر ہے، اس کا مضمون ایک عرصہ سے اسلام رہا ہے۔ اس کی گزشتہ موجودہ اور آئندہ حالت کا نقشہ وہ کھینچتا ہے۔ لیکچر دیتا ہے۔ وعظ و نصیحت کرتا ہے اور آئندہ کے لیے عالم اسلامی کے لیے لائحہ عمل تیار کرتا ہے۔ جب بعض لوگوں کو اس امر کا احساس ہوا کہ اقبال تو فلسفی ہے اور فلسفے میں اپنا مقصود شعر کے قالب میں ڈھال کر بیان کرتا ہے تو انھوں نے اقبال کے شاعر ہونے سے ہی انکار کر دیا۔ بلکہ یہ پرچار شروع کر دیا کہ اقبال شاعر ہی نہیں وہ تو ایک فلسفی ہے ۔ اس کو شاعر کہنا غلطی ہے۔ مگر یہ غلط ہے ۔ اقبال کی شاعری میں شعر اور تغزل کے تمام عناصر نہایت دلپذیر صورت میں موجود ہیں۔ شعر مٹی سے بنا ہوا معلوم نہیں ہوتا۔ بلکہ روح کے قالب میں ڈھالا ہوا ، آتش اور رنگ و بو کا بنا ہوا آنکھوں سے قلب میں اتر جاتا ہے اور اپنی جگہ ہمیشہ کے لیے پیدا کر لیتا ہے۔ اسی کا نام شعر ہے۔ اقبال کا مقابلہ یا موازنہ کسی زندہ یا گذشتہ شاعر سے کرنا غلطی ہے۔ اقبال ایک صنف ہے اپنی ذات میں،وہ میدان شعر میں تنہا ایک بلند و بالا مقام پر متمکِّن ہے۔ اس کا موضوع مختلف ہے، اس لیے مقابلہ بیکار ۔ اس کا کلام ایک پیغام ہے تمام عالم اسلامی کے لیے، اس پیغام کو شعر کا جامہ پہنا دیا ہے۔ اقبال کے بلند خیالات کی حامل نظم ہی ہو سکتی تھی۔ نثر اس رفعت اور پرواز سے عاری ہے۔ یہی سبب ہے کہ اقبال نے اردو چھوڑ کر فارسی اختیار کر لی تاکہ تمام عالم اسلامی اس پیغام سے متمتع ہو سکے، اس کی اہمیت کو سمجھے اور اس پر عمل پیرا ہو۔ حقیقتاً اقبال کی منظومات نے تمام اسلامی دنیا پر بہت بڑا اثر ڈالا اور اب تک یہ اثر جاری ہے اور قومیں اپنے آپ کو فکر اقبال کے سانچے میں ڈھال رہی ہیں۔ یہ ہندوستان کے لیے قابل فخر بات ہے کہ اس کے ایک سپوت نے اپنے کلامِ معجز بیان سے دنیا کے ایک وسیع حصے کی ذہنیت اور ان کے پروگرام کی منطق کو بدل دیا ۔ گویا ان کی دنیا نئی کر دی۔ (گویا انہیں ایک نئی دنیا سے آشنا کر دیا) ایک شخص کے پاس بے بہا دولت ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان اس مال فراواں سے فیض یاب ہو۔ وہ تمام ملک میں سرائے رباط بنا دیتا ہے ۔ گویا اپنے مال و زر کے جائز مصرف کا اس نے یہ طریقہ نکالا ۔ اسی طرح اقبال کے پاس فکر ، تدبر ، فلسفہ ، علم اور تنظیم کا ایک فراواں دریا بہتا ہے۔ جب لوگوں کو فیضیاب کرنے کی سبیل پیدا کی گئی تو اس نے شعر کا قالب اختیار کر لیا۔ اقبال کے لیے شعر ذریعہ ہے اپنا پیغام نشر کرنے کا۔ سچ پوچھو تو شعر بہت عمدہ ذریعہ ہے۔ چونکہ ہر خاص و عام اسے پڑھتا ہے، سمجھ سکتا ہے۔ یا بعض دفعہ نہ بھی سمجھے تو پڑھ کرحتّٰی کہ سن کر بھی محظوظ ہوتا ہے اور اسے بار بار دہراتا ہے۔ اگر یہی پیغام نثر میں لکھا جاتا تو شاید اس قلیل عرصہ میں اسے قبول عام حاصل نہ ہوتا ۔ اقبال کے مطابق شاعر وہ نہیں جو سفر اور حضر میں سامعین کو چند کلمات سنا کر خوش کر سکے۔یا مشاعرے میں جا کر اپنی منظومات خوش الحانی سے پڑھ کر داد سمیٹے جس کی داد میں شعر کی خوبی سے زیادہ راگ کی خوبی شامل ہو، وہ شعر کی داد نہیں راگ کی داد ہے ۔ اقبال اس کو بھی شاعر نہیں سمجھتا جو غزل گو ہو یا موزوں کلام کہنے پر قدرت رکھتا ہو۔ اس کے خیال میں شاعر قوم کی آنکھ ہے۔ قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم محفلِ نظم حکومت ، چہرئہ زیبائے قوم شاعر رنگیں نوا ہے دیدئہ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ۱ تو گویا جتنی بیماریاں قوم میں ہوتی ہیں ان کا اظہار شاعر کرتا ہے۔ عیوب کی طرف توجہ دلاتا ہے اور پھر ان کو درست کرنے کا راستہ بتاتا ہے۔ پھر شاعر کے طرزِ بیان کے متعلق بحث کی ہے کہ اس کی زبان سے سنی ہوئی ہر بات دل میں اتر جاتی ہے ۔ اس کا طرز بیان پرجوش اور عیوب سے پاک ہوتا ہے۔ سینۂ شاعر تجلی زار حُسن خیزد از سینائے اُو اَنوارِ حُسن از نگاہش خُوب گردد خُوب تَر فطرت از افسونِ اُو محبوب تَر فکر اُو با ماہ و انجمِ ہم نشین زِشت را نا آشنا خُوب آفرین خضر و در ظلماتِ اُو آبِ حیات زندہ تر از آب چشمش کائنات۲ گویا شاعر بہت بلند پرواز انسان ہے۔ جو چاند اور ستاروں سے باتیں کرتا ہے۔ ا س کا فکر بہت بلند ہوتا ہے اور اس کے وعظ و نصیحت سے قومیں ابدی زندگی حاصل کرتی ہیں۔ مگر بعض قوموں کے شاعر ایسے بھی ہیں۔ جو انہیں غلط راستہ دکھاتے ہیں۔ انہیں مستی اور فرا موشی کی لوریاں دے دے کر سلا دیتے ہیںاور اس طرح سے یہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ ان شاعروں سے ہمیشہ احتراز کرنا چاہیے۔ وائے قومے کز اجل گیرد برات شاعرش وا بوسد از ذوقِ حیات خوش نماید زشت را آئینہ اش در جگر صد نشتر از نوشینہ اش نغمہ ہائش از دلت دُ زد و ثبات مرگ را از سحر او دانی حیات دریَمِ اندیشہ اندازد تُرا از عمل بیگانہ می سازد تُرا خواب را خوشتر زبیداری ثمرد آتشِ ما از نفسہایش فسرد از خُم و مینا و جامَش الحذر از مئے آئینہ فامش الحذر۳ اقبال نے شاعری کا مقصود یہی جانا اور سمجھا ہے کہ وہ قوم کو جگا دے۔ اسے عمل اور زندگی کا راستہ دکھائے اور اسے آزادی کی طرف لے جائے۔ چونکہ لوگ اقبال کو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں یا جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لیے میں اس موضوع پر قطعاً بحث نہیں کرو ں گااور اس کو بالکل نظر انداز کردوں گا۔ اس موضوع کو کسی اور فرصت کے لیے ملتوی کر دیا جائے جس کا عنوان یہی ہو۔ فی الحال تو ہمیں اقبال کے پیغامبر ہونے کے متعلق کچھ عرض کرنا ہے۔ اقبال بلاشبہ مفکر ہے اور پیغام اسی فکر کا نتیجہ ہے۔ مگر اس فکر اور طرز فکر پر بحث اس کے طرز عمل اور نتائج کو قلمبند کرنا یہ مضمون بذات خود ایک طویل موضوع کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے اس قلیل فرصت میں ہم صرف پیغام ہی کو لیں گے، کیوں کس طرح اور کیا ہوگا یا اس کے اثرات، ان کا فلسفہ اور حُسن و قبحہ کا مسئلہ بھی پیش نظر نہیں رکھیں گے ۔ اس سے بھی بحث کے طول کھینچنے کا امکان ہے۔ ہم صرف اتنا دیکھیں گے کہ اقبال نے کون سا پیغام دنیا کو دیا۔ چند الفاظ میںیہ پیش کریں گے کہ یہ اقبالی پیغام دنیا کے نام کیا کہتا ہے۔ اس مختصر مقالے کا مدعا کسی طرح یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اقبال کے تمام فلسفے کو یا تمام پیغام کو بیان کیا جائے ۔ یہ اس محدود میدان میں ناممکن ہے۔سرِدست غرض تعارف ہے ۔ اسی لیے اشعار جو یہاں درج ہیں سلسلہ وار نہیں تسلسل کو پیش نظر نہیں رکھا گیا بلکہ مضمون کو کہیں کہیں سے انتخاب کر لیا گیا ہے۔ باقی اصل میں سے قاری کو خود پڑھنا چاہیے۔ اس مقالے میں جونثر موجود ہے وہ بھی حضرت علامہ کی نظموںکو گویا نثر میں لکھ دیا ہے ۔ خیالات بلکہ فی الواقع الفاظ بھی انہیں کے ہیں۔ میں نے اپنی طرف سے کچھ اضافہ نہیں کیا ۔ نہ ہی اپنی رائے دی ہے یا بحث کی ہے حقیقتاً یہاں پر اس بات کا موقع بھی نہ تھا۔ عملی زندگی بیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کا زمانہ اقبال نے یورپ میں بسر کیا۔ اس قیام کا اثر طبیعت پر نمایاں ہوا۔ اس سے پہلے طبیعت پر اردو غالب تھی اور ہندوستان کو ہندوستانیوں کا مشترکہ وطن بنانے کی فکر ۔ اس کے بعد فارسی مزاج میں داخل ہو گئی اور رجحان اسلام کی اخوّت کی طرف بڑھا اور پھر اسی کی ترقی کسی نہ کسی رنگ میں پیش نظر رہی۔ گویا اقبال اس کے بعد سے اسلامی شاعر بن گیااور ہوتے ہوتے اس نے تمام عالم اسلامی کا ملّی شاعر ہونے کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ بھی ایک بڑا طویل مسئلہ ہے کہ اقبال کے پیغام کا تجزیہ کیا جائے کہ اس پیغام کا مقصود کیا ہے۔ اسلام کس طرح سے نئے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ اس میں نئی تنظیم کے آثار نمایاں ہیں۔ اسے کس راستہ پر چلنا چاہیے تاکہ ترقی صحیح روش پر ہو۔ اسلام کا مستقبل کیا ہے؟ وہ تمام مشرق پر چھا جائے گا؟ گویا مشرق اسلام کے لیے ہی بنا ہے اور کوئی دوسرا مذہب اس سر زمین کے لیے مفید اور کار آمد ثابت نہیں ہو سکتا ۔ مغرب کی تہذیب ایک نہایت خوفناک دور سے گزر رہی ہے۔ آپس میں ہی مغربی اقوام کا تصادم ہو گا۔ یہ تہذیب اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہ کرلے گی۔ اس کی ایجادات اس کے اپنے لیے مہلک ثابت ہوںگی اور دنیا ایک نئی شکل اختیار کر لے گی۔ اس کے بعد اسلام ہی ایک مذہب ہے جو اجزائے پریشان کو یکجا کر کے ایک نئی تہذیب کی عمارت تعمیر کر سکتا ہے۔ اسلام میں تمام صلاحیتیں موجود ہیں وہ قدیم اور جدید پر حاوی ہے۔ اس کی تاریخ نہایت شاندار اس کی گزشتہ دور کی مثالیں ہمت افزا نہایت عالی وقار اور شاندار ہیں۔ گویا وہ ان تمام خوبیوں کا حامل ہے۔ جو مستقبل کے عملی مذہب میں ہونی چائیں۔ اس طرح سے اسلام تمام عالم پر چھا جائے گااور تمام دنیا چین اور سکون کی زندگی بسر کر سکے گی۔ چونکہ جب مذہب و ملت، خیالات ایک ہو گئے تو پھر تصادم جنگ اور مخالفت کا موقع نہیں رہتا۔ تمام اقوام عالم کو مشورہ بھی یہی ہے۔ کہ وہ اسلام کی طرف رجوع کریں اور اس کے محاسن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس تجزیہ میں پڑنے کی ہمارے پاس اس وقت فرصت نہیں ہے۔ التوا لازم ہے ۔ اس وقت آپ کے سامنے اقبالی پیغام کے چند موتی پیش کئے جاتے ہیں۔ میں یہ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہی اس خزانے میں سب سے بیش بہا ہیں۔ یا اس گلستان کے سب سے پُر بہار پھول ہیں۔ چونکہ وقت کی قِلَّت نے تمام میدان کی تلاش کا موقعہ نہیں دیا۔ ۱۹۰۵ء سے پہلے کے دور کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جب کہ اقبال ہندوستان پرست تھا اور اس ملک میں ایک قومیّت پیدا کرنے کا پرچار ک تھا۔ ’’ترانہ ہندی‘‘ تو سب کو یاد ہے اس کا ایک شعر ہے۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا۴ ہمارا دیس گویا ہندوستان اور ہم ہندی ہیں۔ معاملہ صاف ہو گیا ۔ نیا شوالہ اس معاملے کو اور بھی واضح کر دیتا ہے پہلا شعر ہے۔ سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے۵ یہ تو گویا مشورے کا آخری حصہ ہے۔ اس انجام تک پہنچنے کے لیے اقبال کے دل نے مختلف منازل کے تمام مدارج طے کئے۔ یہ دیکھا کہ ہندوستان بہت سی اقوام اور زبانوں کا ملک ہے۔ اس میں بہت سے فرقے بستے ہیں۔ جو آپس میں برسر پیکار اگر نہ ہوں تو مناسبت بھی نہیں رکھتے۔ پھر یہ دیکھا کہ وطن کی بہتری صرف اس بات میں ہے۔ کہ ان تفرقوں کو مٹا دیا جائے۔ اس اختلاف کی شورش کو کم کر دیا جائے اور تمام ہندوستان کے تمام فرزند اپنے تن من دھن سے وطن کی خدمت کرنے کو تیار ہوں۔ گویا آپس میں پریت کا رشتہ جوڑیںتو وطن کو آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔ گویا وطن کی آزادی کو اپنا سب سے ضروری فرض سمجھیںاور باقی تمام باتوں کو اس کے زیر اثر تصور کریں۔ ہندوستان کے مرثیے اور اس کے مردہ دل ہونے کے حالات اقبال نے کئی جگہ پر لکھے ہیں۔ محبت اور یگانگت پیدا کرنے کی تلقین کی ہے اور آخر میں یہ کہا ہے کہ آزادی حاصل کرو۔ اس کا یہی طریقہ ہے کہ قدیم روش کو بدل ڈالو۔ ہندو اپنے مذہبی رنگ کو بدل دیں۔ دیگر مذاہب سے محبت کرنے کا سبق سیکھیں۔ مسلمان اور دیگر مذاہب اس نفرت اور بے توجہی کو چھوڑ دیں اور اپنے خیالات کو بدل لیں ۔ گویا تمام وطن میں ایک نئی تنظیم کی تلقین کی ہے۔ یہی نئی تنظیم ہندوستان کو آزاد کرا سکتی ہے۔ اب دیکھیے کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے راستہ یہ بتاتے ہیں کہ تمام انسانوں کے دلوں میں بلا قید مذہب و ملّت ہمدردی اور محبت ہو۔ عنوان ہے ’’آفتابِ صبح‘‘ ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے چشم باطن جس سے کُھل جائے وہ جلوا چاہیے شوقِ آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے زندگی بھر قید زنجیرِ تعلّق میں رہے زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے آرزو ہے کچھ اِسی چشم تماشا کی مجھے آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو امتیازِ ملّت و آئیں سے دل آزاد ہو۶ یہ فلسفہ ہے آزادی کے حصول کا کہ جب افراد آپس میں محبت اور اُخوَّت سے وابستہ ہو جاتے ہیں یعنی کوئی ایک ایسا تعلق جسے ابن خلدون عصبیت کہتا ہے تو انہیں آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔ اب اس نظری مسئلہ کو عملی جامہ پہنانا ہے اور ہمارا مقصود ہندوستان ہے۔ تو ہندوستان کو پیش نظر کر کے لکھا، عنوان ہے۔ ’’تصویر درد‘‘ رلاتا ہے ترا نظّارا اے ہندوستان مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا لکھا کلکِ ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں نشانِ برگِ گل تک بھی نہ چھوڑ اِس باغ میں گلچین تری قسمت سے رزم آرائیان ہیں باغبانوں میں چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنا دل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں سن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں وطن کی فکر کر نادان مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کُہن کی داستانوں میں یہ خاموشی کہاں تک ، لذّتِ فریاد پیدا کر زمین پر تو ہو ، اور تیری صدا ہو آسمانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو! تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۷ گویا ہندوستان تو آپس کے جھگڑوں اور مخالفتوں کی رزم گاہ ہے۔ غیر ملکی زور والا جو اس کے جی میں آئے کرتا رہے۔اقبال کی صدا وطن کے لیے بہت ضروری ہے اور اہل وطن کو اسے کو سننا اور سمجھنا چاہیے۔ ہندوستان پر ایک کٹھن مصیبت آنے والی ہے۔ اس لیے اہل ہند کو چاہیے کہ سب یکجا ہو جائیں اور حصولِ آزادی کے لیے آواز بلند کریں اور کوشش کریں ۔ اگر وہ اس نصیحت پر عمل پیرا نہ ہوں گے تو مٹ جائیں گے اور ایسے میٹنگے کہ ان کی ’’داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلی بات جو ہر ایک کے ذہن میں آتی ہے ۔وہ اتفاق ہے۔ جہاں اتفاق نہ ہو وہاں کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے اقبال نے اب اس بات کا پرچار شروع کیا۔ کہ پرانی روش کو بدل ڈالو اور ہندو مسلم کو چاہیے کہ آپس میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں ۔ عنوان ہے ’’نیا شوالہ‘‘ سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے اپنوں سے بیر رکھنا ، تو نے بتوں سے سیکھا مسلم کو بھی سکھایا جنگ و جدل خدا نے تنگ آ کے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا واعظ کا وعظ چھوڑا ، چھوڑے تیرے فسانے پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے آ غیریت کے پردے اِک بار پھر اٹھا دیں بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ دامانِ آسمان سے اس کا کلس ملا دیں ہرصبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے سارے پچاریوں کو مے پیت کی پلا دیں شکتی بھی ، شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے۸ مطلب صاف ہے اور پریت کا سبق دیا گیا ہے۔ آخر اقبال نے یہ دیکھا کہ اس بدقسمت دیس میں پریت کے سبق کا پرچار بے سُود ہے۔ یہاں کا مسئلہ دھیان گیان اور واعظ سے حل نہیں ہوگا۔ بلکہ ڈنڈے سے اور ڈنڈا بھی وہ جو زبردست کا ہو۔ آخر مجبوراً دو بیڑیوں میں قدم رکھنے کے بجائے ایک کو ترک کر دیا۔ جب دیکھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے دو ساز ہم آہنگ نہیں ہوتے تو ایک ہی ساز کو اپنا بنا لیا اور پھر بڑے مزے لے لے کر اس کو بجایا یعنی اسلامی ملّی شاعری کو شروع کیا، ایک بحث غلامی اور آزادی کے موضوع پر کی ہے یعنی ایک نظریہ قائم کیا ہے۔ کہ ان دونوں حالتوں میں قوم پر کیا اثر پڑتا ہے اور افراد کی قوتیں کس مصرف میں آتی ہیں۔ انسانی جذبات اور کیفیات پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔ عنوان ’’بندگی نامہ‘‘ رکھا ہے۔ از غلامی دل بمیرد از بدن از غلامی روح گردد بارِ تن از غلامی بزم ملّت فرد فرد ایں و آں یا ایں و آں اندر نبرد آن یکے اندر سجود ایں در قیام کارو بارش چوں صلاۃِ بے امام آبروے زندگی در باختہ چوں خراں با کاہ و جو در ساختہ شورہ بوم از نیش کژ دم خار خاز مور او اژ درگز و عقرب شکار در چین دشتِ بلاصد روز گار خوشتر از محکومیٔ یک دم شمار مرگ ہا اندر فنونِ بندگی من چہ گویم از فسونِ بندگی نغمۂ او خالی از نارِ حیات ہمچو سیل اُفتد بہ دیوارِ حیات الحذر ایں نغمۂ موت است و بس نیستی در کسوتِ صوت است و بس نغمہ باید تند رو مانندِ سیل تا برد از دل غماں را خیل خیل نغمہ گر معنی ندادر مُردہ ایست سوز او از آتشِ افسردہ ایست ہمچناں دیدم فنِ صورت گری نے براہیمی درو نے آذری می چکد از خامہ ہا مضمون موت ہر کجا افسانہ و افسونِ موت بے یقین را لذتِ تحقیق نیست بے یقین را قوتِ تخلیق نیست از خودی دور است و رنجور است بس رہبر او ذوقِ جمہور است و بس فکر او نا دار و بے ذوق ستیز بانگِ اسرافیل او بے رستخیز آں ہنر مندے کہ بر فطرت فزود راز خود را بر نگاہِ ما کَشوُد آفریند کائناتِ دیگرے قلب را بخشد حیاتِ دیگرے در غلامی تن ز جان گردد تہی از تنِ بے جاں چہ اُمیّدِ بہی تاز گیہا و ہم و شک افزایدش کُہنہ و فرسُودَہ خوش می آیدش در غلامی عشق و مذہب را فراق انگبینِ زندگانی بد مذاق دین و دانش را غلام ارزاں دہد تابدن را زندہ دارد جان دہد گرچہ برلب ہائے او نام خداست قبلۂ اُو طاقتِ فرمانرواست ہر کہ بے حق زیست جُز مُردار نیست گرچہ کس در ماتم اُو زار نیست زندگی بار گراں بر دوشِ اُو مرگِ اُو پروردۂ آغوش اُو تن سِتبَر از مستئی مہر ملوک جان پاک از لا غری ما نندِ دوک یک زمان بارفتگاں صحبت گزیں صنعتِ آزاد مرداں ہم بہ ببیس ہمت مردانہ و طبعِ بلند در دلِ سنگ این دو لعلِ ارجمند وائے من از خویشتن اندر حجاب از فراتِ زندگی نا خوردہ آب عشقِ مرداں پاک و رنگین چون بہشت می کشاید نغمہ ہا از سنگ و خشت بے محبت زندگی ماتم ہمہ کاروبارش زشت و نا محکم ہمہ عشق صیقل می زند فرہنگ را جوہر آئینہ بخشد سنگ را گرمیٔ افکار ما از ناز اُوست آفریدن ، جاں د میدن کارِ اُوست۹ پہلے تو اس امر پر بحث کی ہے کہ غلامی سے انسان پر کیا اثر پڑتا ہے۔ غلامی سے دل مرجاتا ہے اور روح تن کو بوجھ معلوم ہونے لگتی ہے۔ عالم شباب میں بھی پیری کا ضُعف چھایا ہوتا ہے۔جب غلامی ہو تو اتفاق کس طرح سے ہو۔ سب ایک دوسرے کے خلاف کشمکش میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کا مسلک اور مقصودِ نظر ایک نہیں ہوتا۔ ہر ایک ذاتی خواہشات کو پورا کرنے میں منہمک نظر آتا ہے۔ ہرکوئی اپنے آپ کو لیڈر سمجھتا ہے۔ گویا قوم بغیر لیڈر کے ہوتی ہے ۔ غلامی میں انسانی خوبیاں بھی کام نہیں آ سکتیں۔ چونکہ ان کے صحیح استعمال کا امکان نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہ خوبیاں آہستہ آہستہ ذائل ہو جاتی ہیں۔ بس ایک ہی بات غلام کے ذہن میں ہر وقت حاضر رہتی ہے وہ موت کا خوف ہے۔ یہ خوف اس قدر اس پر چھایا ہوا ہوتا ہے کہ گویا بے موت مرجاتا ہے اور خود ہی اپنی نعش اٹھائے پھرتا ہے۔ گویا اس کے اندر نہ ضمیر باقی ہے نہ روح ۔ بظاہر وہ چلتا پھرتا نظر آتا ہے مگر در حقیقت محض ایک نعش ہے۔ غلام اپنی آبرو کو بیچ دیتا ہے اور جانوروں کی طرح سے کھانے پینے کو ہی زندگی تصور کرتا ہے۔ یہ بھی کیا زندگی ہے۔ اس کے اوقات ہی اپنے نہیں۔ کسی اور کی خدمت میں وقت اور قوت کو صرف کر دیتا ہے۔ اس آرام کی زندگی اور غلامی کے بجائے اگرچہ انسان کس قدر تکلیف میں ہو، مگر آزاد ہو تو وہ بہتر ہے۔ ملک میں پیداوار اچھی نہ ہو، آسائش و آرام میسر نہ ہو، مگر جہاں پر روح آزاد ہو وہی سچی زندگی ہے۔ غلامی کے سبب تمام فنون لطیفہ کی روح بھی مر جاتی ہے۔ بلکہ غلام قوم کے پیدا کردہ شاہکاروں کا اثر جہاں جہاں پہنچتا ہے، مرگ پھیلاتا ہے۔ غلاموں کی موسیقی حیات کی گرمی سے خالی ہوتی ہے۔ غلام کی طبع پست اس کا دل بے نور اور اس کا ذوق امروز و فردا سے نا آشنا ہوتا ہے۔ اس کے نغموں سے بھی ایسی صدائیں نکلتی ہیں ۔ جس سے سننے والا نحیف و ناتواں ہو جاتا ہے اور جہان عمل سے بھی بیزار ہو جاتا ہے۔ ایسے نغموں سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ چونکہ ان میں نیستی اور ہلاکت کے سوا کچھ رکھا نہیں ہے۔ ان سے دل کا سوز جاتا رہتا ہے اور اس کے بجائے غم پیدا ہو جاتا ہے جو کہ دل کے لیے زہر ہے۔ غم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک غم وہ ہے جو آدمی کو کھا جاتا ہے، دوسرا غم تمام غموں کو کھا جاتا ہے۔ اگر انسان دوسرے غم کو اپنا ساتھی بنا لے تو یوں سمجھوگویا غموں سے چھوٹ گیا۔ اس کے اندر تمام دنیا کے ہنگامے سما جاتے ہیں۔ اس سے دل وسیع ہو کر ایک ناپیدا کنار سمندر بن جاتا ہے۔ مگر غلامی میں انسان کا دل اس دوسرے غم سے نا آشنارہتا ہے اور اسے زندگی کا راز معلوم ہی نہیں ہوتا۔ وہ نغمے جو دل پر اس طرح کا اثر کرتے ہیں وہ بیوہ عورتوں کے لیے مناسب ہیںاور غلام کی حالت بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ راگ ایسا چاہیے جو کہ سیل کی طرح ہواور وہ دل سے تمام غموں کو دور کر دے۔ اس سے بدن میں حرارت اور دماغ میں گرمی پیدا ہو ۔ ایسا نغمہ جس سے دل منور ہو جائے، وہ گویا فطرت کا چراغ ہے ۔ اس کے معانی سے اس کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس میں معنی نہ ہوں تو وہ نغمہ مردہ ہے، معنی سے مراد یہ ہے کہ وہ ظاہری نقش یعنی صورت سے تجھے آزاد کر دے۔ معنی وہ چیز نہیں جو انسان کو اندھا اور بہرہ کر دے اور صرف نقش ظاہری پر فریفتہ ہو جائے۔ مگر غلاموں کا مُطرب خود معنی کا جلوہ نہیں دیکھ سکتا ۔ وہ تو معنی سے دور بھاگتا ہے اور ظاہری صورت پر ہی فریفتہ ہوتا ہے۔ اب ہم غلاموں کی مُصَوّری کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ غلام قوم کی نقّاشی کے شاہکار ایسے ہوتے ہیں کہ نہ ان میں براہیمی جوش ہوتا ہے، نہ آذری تلقین ۔ گویا وہ زندگی کے کسی جوش سے تعلق نہیں رکھتے ۔ بس جہاں دیکھو موت کا افسانہ ہوتا ہے۔ گویا مردنی چھائی ہوئی ہے اور جہانِ عمل سے دور افتادہ۔ بے یقین انسان میں تحقیق کی لذت موجود ہوتی ہے نہ تخلیق کی قوت ۔ گویا اس کے دل میں خوف موجود ہوتا ہے اور اس کے لیے کسی نئے شاہکار کا پیدا کرنا محال ہے۔ اس میں نہ تو خودی ہے اور نہ مزاج میں نیا مضمون پیدا کرنے کی قوت ۔ اس لیے اس کے ذوق پر عوام کی رائے کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ لوگوں نے جیسا کہا اس نے ویسا ہی بنا دیا۔ حسن کی تلاش میں مظاہر فطرت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ حالانکہ سب سے بڑا حسن تو ہماری ذات کے اندر موجود ہے نہ وہ اپنی طرف رجوع کرتا ہے ۔ نہ اندرونی خوبیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ نہ وہ آزاد جذبات سے کام لیتا ہے۔ نہ اس کے دل کا دریا جوش میں آتا ہے ۔ نہ وہ کوئی نئی چیز پیدا کر سکتا ہے۔ غلام قوم کے مُصوّر کے پروانے کے اندر تپش موجود ہی نہیں ہوتی کہ وہ شمع کی طرف رجوع کرے ۔ نہ ہی وہ زمانۂ حال میں مستقبل کی حقیقت دیکھ سکتا ہے۔ اس کا دل خوف سے سہما ہوا ہوتا ہے اور اس لیے اس کی نگاہ بلند پرواز نہیں ہو سکتی۔ نہ ہی وہ دنیا میں انقلاب پیدا کرنے کی قوت رکھتا ہے خاکسار اور اپنے آپ سے شرمندہ ۔ بھلا وہ بلندی کی طرف کس طرح رجوع کر سکتا ہے۔ جب اس کا فکر ہی نادار ہو اور اس میں جنگ و جدال کا مادہ ہی موجود نہ ہو ۔ تو وہ اس مضمون کے متعلق تصویریں کیسے بنائے گا۔ جب انسان اپنے آپ کو اس قدر حقیر و خوار سمجھنے لگتا ہے۔ تو اس کے ضمیر میں جو خدا کا نور ہوتا ہے وہ بھی مر جاتا ہے۔ زندگی اصل میں وہی ہے۔ جس میں قوتِ اعجاز موجود ہو ۔ یعنی وہ اپنی عقل و فراست سے کوئی نئی چیز پیدا کر سکے۔ وہ مصور جو فطرت کے ساتھ کچھ اور بھی اپنے نقوش میں شامل کر دیتا ہے اور وہ اپنے دل کا راز ہم پر آشکار کرتا ہے۔ وہی اصل میں صحیح مصور ہے۔ وہ ایک نئی دنیا پیدا کرتا ہے اور دل کو نئی زندگی بخشتا ہے۔ اس کی پاک سرشت اچھے اور برے کو خوب سمجھتی ہے اور وہ اس کا اظہار اپنی تصاویرمیں کرتا ہے ۔ یہی صحیح زندگی ہے۔ غلامی میں تن جان سے خالی ہو جاتا ہے۔ ایسے انسان سے آپ نیکی کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ آدمی اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے اور ایجاد کا ذوق اس کے دل سے جاتا رہتا ہے۔ غلام تو بس تقلید کا بندہ ہوتا ہے۔ کوئی نئی روش پیدا کرنا گویا اس کے لیے کفر ہے۔ جہاں کوئی ذرا نئی بات نظر آئی ، اس کے شکوک میں اضافہ ہوا۔ پرانی فرسودہ باتیں اس کو بہت پسند آتی ہیں ۔و ہ ماضی کے ہی گیت گاتا رہتا ہے اور مستقبل سے اس کا فکر خالی ہوتا ہے۔ اگر ہنر یہی ہے تو اس کا نام آرزو کی موت ہے گویا انسان کی موت ہے ۔ اس مصوری کی ظاہری صورت تو بہت اچھی ہوتی ہے مگر اس کا باطن یعنی معنی بہت خراب ہوتے ہیں۔ کوئی عقلمند آدمی ظاہری صورت کو پسند نہیں کرتا، اس لیے آپ بھی اپنا راہنما نہ بنائیں۔ اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ غلاموں کا مذہب کیا ہوتا ہے!ان کا نام نہاد مذہب تو وہ ہوتا ہے جس سے وہ پکارے جاتے ہیں۔ مگر غور کیا جائے تو حقیقت مختلف ہوتی ہے۔ عشق ہی انسان میں زندگی پیدا کرتا ہے اور اس خاکی کو سراپا آرزو اور گرمیٔ کار عطا کرتا ہے۔ مگر غلامی میں عشق اور مذہب کے درمیان فاصلہ آ جاتا ہے۔ دونوں کی پیوستگی شکستہ ہو جاتی ہے اور زندگی کی حلاوت کڑوی ہو جاتی ہے۔ خدا کی وحدت اور اس کی تمام صفات کو یقین کے ساتھ مان لینے کا نام عاشقی ہے اور پھر اسی یقین اور جوش سے معمور ہو کر ہرمشکل میں کود پڑنا یہ بھی اسی عاشقی میں داخل ہے۔ مگر غلامی میں عشق باتوں تک ہی محدود رہتا ہے اور عمل سے اس کا کوئی واسطہ نہیں پڑتا ہے۔ حروف زبان سے نکلتے ہیں مگر ان پر عمل بھی نہیں کیا جاتا۔ شوق زبان تک ہی ختم ہو جاتا ہے اور بے یقین بے سبیل اور بے دلیل ہونے کے سبب سے یکسر عمل سے محروم رہ جاتا ہے۔ غلام اپنے بدن کو زندہ رکھنے کے لیے روح کو نثار کر دیتا ہے۔ اپنے دین اور دانش کو سستا بیج دیتا ہے۔ اپنی زبان سے تو وہ خدا کا نام لیتا ہے مگر اصل میں اس کا قبلہ فرمانروا کی طاقت ہوتی ہے۔ سچے خدا کا دوسرا نام تو سچائی اور حق ہے۔ مگر دنیا کا ’’خدا‘‘ بظاہرروٹی تو دیتا ہے لیکن انسان کی سب سے قیمتی متاع ’’جان‘‘ کو ختم کر دیتا ہے ۔ خدائے برتر تو جان بھی دیتا ہے اور روٹی بھی ۔ مگر یہ دنیا کا خدا جان کو فنا کر دیتا ہے اور روٹی دیتا ہے۔ ’’خدا واحد ہے اور یہ سو حصوں میں منقسم ہے۔ وہ سب کا چارہ گر ہے اور یہ خود بیچارہ ہے۔ یہ دنیا کا خدا جب بندے کو اپنی خدائی کا خوگر بنا لیتا ہے تو اس کی آنکھ اور کان اور ہوش کو اصل حقیقت سے کافر کر بنا دیتا ہے۔ یعنی اس کی پرورش اس روش پر ہوتی ہے کہ وہ صحیح سے انکار اور غلط پر اصرار کرتا ہے۔ غلام زندہ ہوتا ہے مگر اس میں جان نہیں ہوتی۔ یہ امر ذرا تشریح طلب ہے کہ انسان کسی طرح سے زندہ بھی ہو اور پھر بھی وہ مردہ ہو یا مردہ کہلانے کا مستحق ہو ۔ زندگی اور موت دو اعتبار ہیں جو ہمارے احساس پر مبنی ہیں۔ مچھلیوں کے لیے پہاڑ اور صحرا نہ ہونے کے برابر ہیں اور پرندوں کے لیے سمندر کی گہرائیاں کوئی وجود نہیں رکھتیں۔ بہرہ آدمی گرمیٔ نوا کے لحاظ سے مردہ ہے ۔ گویا آواز کے اعتبار سے وہ زندہ نہیں۔ اس طرح اندھا رنگوں سے بہرہ اندوز ہونے سے محروم ہے اس لحاظ سے وہ مردہ ہے۔ مگرنغمہ کی رو سے وہ زندہ ہے تو اس طرح کہ وہ روح جس کے ساتھ حق مربوط ہو زندہ ہے ورنہ مردہ ۔ حیات کے معنی یہی ہیں کہ وہ پیوستہ بحق ہو ورنہ وہ مردار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔ ایسے مردہ انسان کی نظر سے تمام حقائق پوشیدہ رہتے ہیں۔ اس کا دل بے ذوق ہوتا ہے اور اس میں انقلاب کا شوق نہیں ہوتا نہ اس کے عمل میں سوز ہوتا ہے نہ اس کی گفتگو میں نور ۔ اس کا مذہب بھی اس کے فضا کی طرح تنگ نظر ہوتا ہے۔ زندگی اس کے لیے گویا ایک بار ہوتی ہے۔ اپنی موت کی وہ اپنے پہلو میں خود ہی پرورش کرتا رہتا ہے اس کی صحبت سے عشق کو بہت اذیت پہنچتی ہے اور اس کے دم سے کئی محفلوں کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس ننھے سے کیڑے کے لیے جو پھول سے نکل کر کبھی بلند نہ ہوا آسمان اور چاند اور سورج بے معنی باتیں ہیں۔ غلام سے نہ تو یہ توقع ہو سکتی ہے کہ اس میں ذوق دیدار ہو گا نہ یہ کہ اس کی روح بیدار ہو گی۔ اس کی آنکھ حقیقت اشیا کو دیکھنے کی محنت کش ہی نہیں ہوتی۔ وہ تو بس اتنا کرتا ہے، کہ کھایا ، خواب گراں میں اوقات بسر کئے ، موت آئی اور مر گیا۔ حکمران اگر اس کا ایک بند کھولتا ہے تو دس اور لگا دیتا ہے، کہ یہی تیرے لیے مفید مطلب ہیں۔ گویاان گرہوں سے تیرے لیے زرہ تیار کی گئی ہے۔ جو تیری حفاظت کرے گی۔ مگر ہوتے وہ بندہیں ۔ پھر اس پر اپنے قہر اور کینے کا اظہار کرتا ہے۔ جس سے غلام کے دل میں موت کا ڈر بڑھ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ غلام اپنے آپ سے نا امید ہو جاتا ہے۔ اور اس کے سینے سے آرزو مٹ جاتی ہے۔ کبھی حکمران یہ بھی کرتا ہے کہ غلام کو خلعتِ زیبا عطا کرتا ہے اور کچھ تھوڑا بہت جزوی کاروبار بھی اس کے سپرد کر دیتا ہے ۔ مگر اپنے مطلب کو اور مضبوط کر لیتا ہے۔ دنیا کی نعمتیں جو غلا م کو زمانۂ حال میں میسر آتی ہیں۔ وہ مستقبل سے اسے منکر بنا دیتی ہیں۔ حکمران کی مہربانی میں اس کا جسم تو پھول کر کُپّا ہو جاتا ہے مگر روح سوکھ کر تکلے کی طرح ہو جاتی ہے۔ حکمران کے بند صرف محکوم کے پائوں میں نہیں ہوتے بلکہ اس کا دل اور روح بھی اس میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ بڑی مشکل یہی ہے چونکہ ان کا احساس اور پھر ان سے مخلصی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں تک تو ہم نے غلاموں کی صفات کو دیکھا اور یہ جانا کہ ان میں کون کون سے نقائص حکمران کی سیاست پیدا کرتی ہے۔ اب یہ دیکھنا مقصود ہے کہ آزاد مردوں کی تربیت کس روش پر ہونی چاہیے۔ کس طریقہ سے قوم کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ تربیت ہی ایسی ہو کہ مرد میں آزادی اور استقلال کی خواہش اور ان کے حصول کی صفات موجود ہوں، اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندرونی جوہروں کی تربیت کرے اور ان کو برسرِکار لانا سیکھے۔ آزاد مردوں کے ضمیر کی تربیت اسی طرح ہوتی ہے کہ ان کا دل تو سخت اور مضبوط ہوتا ہے مگر ہمت مردانہ اور طبع بلند موجود ہوتی ہے۔ جو انسان اپنے آپ کو نہیں پہچانتا یعنی اپنی منزلت اور انسانی وقار سے آگہی نہیں حاصل کرتا ، وہ کبھی زندگی کی لذتوں سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ یہ سب باتیں یقین محکم سے حاصل ہوتی ہیں۔ عشق کا دل میں پیدا کرنا ضروری ہے۔ عشق وہ جو بہشت کی طرح سے پاک اور رنگیں ہو۔ یہی مردوں کا عشق خوبصورتی کو پرکھتا ہے۔ اس کا محافظ بھی ہے اور پردہ دار بھی ۔ یہ عشق کیوں اور کس طرح کے اصول پر نہیں سوچتا ۔ بلکہ جب کوئی کام کرنے پر آتا ہے، تو اس کی ہمت آسمان کے دوسرے پار نکل جاتی ہے۔ اس کی کیفیتوں کو بیان نہیں کیا جا سکتا محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ مگر یہ سچ ہے کہ ایسا عشق اپنے ضمیر کو بے نقاب کرتا ہے اور اپنی تمام قوتوں کو عمل میں لاتا ہے۔ ہمت سے کئی جذبات بلند ہوتے ہیںاور کم ہمت بھی جرأت سے معمور ہو جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عشق و محبت کے بغیر زندگی ایک طویل ماتم معلوم دیتی ہے اور تمام کاروبار کمزور اور حقیر ہو جاتا ہے۔ عشق سے عقل اور علم صیقل ہوتے ہیں اور مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں ۔ اسی کے سبب ہمت بلند ہو جاتی ہے اور ہنر مند اپنے بہترین شاہکار پیدا کر سکتے ہیں۔ عشق کے سامنے رکاوٹیں ہیچ ہیں۔ جب وہ کام کرنے پر مائل ہو جاتا ہے تو کر کے ہی رہتا ہے اسی کی گرمی سے ہمارے فکر میں گرمی پیدا ہوتی ہے اور جان اور روح پر ورش پاتے ہیں۔ انسان اپنے اندر کسی چیز کے سرانجام دینے کا عشق پیدا کرے تو وہ اسے کر کے ہی رہتا ہے مگر عشق وہ ہونا چاہیے جو انسان کے دل میں اور دوسروں پر غالب رہنے کی صفت پیدا کرے۔ اگر دنیا کے دل کسی ایسے مرکز کی طرف متوجہ ہوںجو ان میں غالب اور زبردست رہنے کی صفت نہ پیدا کر سکے تو اس کا نام جادو گری ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا جذبہ وجود میں آئے جو جاذبِ توجہ بھی ہو اور اس کے ساتھ غالب اور زبردست رہنے کی صفت بھی پیدا کرے تو وہ پیغمبری ہوتی ہے، دونوں حالتوں میں عشق کار فرما ہوتا ہے۔ یہ بحث باوجود میری خواہشِ اختصار کے کچھ طویل ہو گئی ہے۔ تاہم میں نے وقت کم صرف کرنے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ موضوع’’ نظریہ‘‘ تھا اور وہ تمام باقی مضمون کے لیے اساس کا کام دیتا ہے۔ اس لیے بیان کرنا پڑا ۔ اب ان خیالات کو عملی جامہ پہنانا منظور ہے اور پیشِ نظر مشرق ہے۔ خاص طور پر مشرق کے اسلامی ممالک اور ہندوستان ہے۔ تو دیکھیے کہ ان قوموں کو افرنگی سیاست سے آزاد ہونے کے لیے کیا کام کرنا چاہیے۔ ’’شکوہ‘‘ نے اقبال کی شاعری کو بہت شہرت دی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو جگا دیا۔ پھر ’’خضر راہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ نے اس میں اضافہ کیا۔ ولایت سے آنے (۱۹۰۸ئ) کے بعد سے اقبال نے اسلامی اخوت کا پیغام تمام دنیا کو پہنچانا شروع کیا۔ مطلب یہ تھا کہ تمام عالم کے مسلمان ایک ہو جائیں۔ کعبہ ان کا مرکز ہو ۔ وہ اپنی اپنی قومیت کو کھو دیںاور اپنے مخصوص وطن افغانستان ، ایران توران کو بھول جائیںصرف اور صرف اسلام کے نام میں اپنے نام اور حیثیتں گم کر دیں۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل س لے کر تابہ خاک کاشغر جو کرے گا امتیازِ رنگ و خون ، مٹ جائے گا ترک خر گاہی ہو یا اعرابیٔ والا گُہر۱۰ اب ترانہ ہندی کی بجائے ترانۂ ملّی پیش نظر تھا (ترانہ ملّی) چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہما۱۱ ہندوستان کی بات نہیں اب سارے جہان کا ذکر ہونے لگا۔ اقبال کا یہ کہنا ہے کہ وطن کی محبت پیدا کرنے کے بجائے اسلام کی محبت پیدا کرو۔ چونکہ وطن کی محبت پیدا کرنے سے مذہب کی محبت مرجاتی ہے۔ ’’وطنیت‘‘ اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لُطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے یہ بت کہ ترا شیدئہ تہذیب نوی ہے غارتِ گر کاشانۂ دین نبوی ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے نظارئہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفوی خاک میں اس بُت کو ملا دے اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیّتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے۱۲ اقبال نے یہ بھی دیکھا کہ مشرقی اقوام سو رہی ہیں اور مغرب کے سیاست دان اُن کے حصے بخرے کرکے کھا رہے ہیں۔ جس طرح سے گدھ لاشوں کو کھاتے ہیں۔ اقبال کو اس نظارے سے دلی رنج ہوا اور اس نے قوموں کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر جگانا شروع کر دیا کیا۔ چونکہ مضمون اسلام تھا ۔ اس لیے زیادہ توجہ اسلامی ممالک کی طرف ہوئی ۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ اسلام کی پشت پناہ، ایک جلیل القدر تاریخ بہت وسیع اور شاندار قومی کارنامے اور عظیم الشان قربانیوں کی مثالیں موجود ہیں ۔ جس کی روشنی میں کسی وقت اور کسی پہلو سے اسلام کے متعلقہ مضمون کو پُرنُور کیا جا سکتا ہے۔ اقبال جیسے فاضل کے لیے مضمون کو زرو گوہر سے معمور کر کے چرخ چہارم بنا دینا آسان بات تھی۔ تمام ملّت اسلامیہ یعنی اسلام بحیثیت مجموعی محاورہ ہے۔ اے ترا حق خاتم اقوام کرد بر تو ہر آغاز را انجام کرد اے نظر بر حُسن تر سازادۂ اے ز راہ کعبہ دُور افتادئہ طرحِ عشق انداز اندر جانِ خویش تازہ کُن با مصطفیؐ پیمانِ خویش تانگاہے افگنی بر رُوئے خویش می شو ی زنجیری گیسوئے خویش باز خوانم قصۂ پا رینہ ات تازہ سازم داغہائے سینہ ات از پئے قومِ زخود نا محرمے خواستم از حق حیات محکمے عشق را داغے مثالِ لالہ بس در گریبانش گلِ یک نالہ بس تا زخاکت لالہ زار آید پدید از دمت بادِ بہار آید پدید۱۳ اسلام آسمانی مذاہب کی آخری کڑی ہے اور اس میں تمام صفات موجود ہیں جو اس سے پہلے مذاہب میں فرداً فرداً موجود تھیں۔ مگر مسلمان کی حالت بہت پست ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب اور روایات سے دور ہٹ گیا ہے۔ مسلمان نے اپنے دل میں عیسوی موسوی اور دیگر اقوام اور ان کے ادبیات کی محبت پیدا کر لی ہے۔ رسول عربی ﷺکا عشق ہی مسلمانوں کے لیے کامیابی کا راستہ ہے۔ تم اپنے آپ سے اس قدر غافل کیوں ہو گئے ہو۔ میں تمہیں پرانی عظمت یاد دلائوں گااور اُس عشقِ نبویؐ اور ایمانِ محکم کی طرف مائل کروں گا تاکہ تمہارا مستقبل روشن ہو، کامیاب ہواور تم دنیا میں آزاد رہ کر صاحبِ طاقت و سلطنت بن سکو۔ ’’بال جبریل‘‘ میں ’’ساقی نامہ ‘‘ لکھا ہے۔ اس میں اس معاملے کو زیادہ واضح کر دیا ہے اور رموز کا اضافہ بھی کیا ہے۔ زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے گیا دورِ سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا مسلماں ہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے شرابِ کُہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا! جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مرا عشق میری نظر بخش دے امنگیں مری آرزوئیں مری اُمیدیں مری، جستجوئیں مری فریبِ نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرئہ کائنات سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت ، حضر ہے مجاز خودی کیا ہے ، رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے ، بیداریٔ کائنات خودی کے نگہباں کو ہے زہرناب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بلند تری آگ اس خاکدان سے نہیں جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخیٔ فکر و کردار کا تو ہے فاتحِ عالم خُوب و زِشت تجھے کیا بتائوں تیری سر نوشت۱۴ مغربی تہذیب کے لیے اقبال یہ کہتا ہے: (خرابات فرنگ) ایں خراباتِ فرنگ است و ز تاثیر مئیش آنچہ مذموم شما رند ، نماید محمود نیک و بد را بتر ازوے دگر سنجیدیم چشمۂ داشت تر از وے نصاریٰ و یہود خوب، زشت است اگر پنجۂ گیرات شکست زشت، خوب است اگر تاب و توانِ تو فزود تو اگر در نگری جزبہ ریا نیست حیات ہر کہ اندر ، گرو صدق و صفا بود و نبود دعویٔ صدق و صفا پردئہ ناموسِ ریاست پیرِ ماگُفت مَس از سیم بباید اندود فاش گفتم بتو اسرارِنہان خانۂ زیست بکسے باز مگو تاکہ بیابی مقصود۱۵ مغربی اقوام ریا کاری ، حیلہ سازی اور مادی ایجادات کے زور پر اپنا الُّو سیدھا کر رہی ہیںاور مشرق کی سادہ لوح اقوام کو نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ ایک ڈھونگ رچا رکھا ہے ۔ آبتائوں تجھ کو رمزِ آیۂ اِنَّ المُلُوک سلطنت اقوامِ غَالِب کی ہے اِک جادو گری۱۶ مغربی تہذیب سرمایہ داری پر مبنی ہے اور اقبال سرمایہ داری کے خلاف ہے۔ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگون کی ریزہ کاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے ۱۷ ’’خضرِ راہ‘‘ میں اس مضمون پربحث ہے۔ کہ سرمایہ داری سے تہذیب کی بنا کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ پھر اس امر کو بھی واضح کیا کہ جب سیاست دین سے خالی ہو جاتی ہے۔ تو وہ محض ہوس اور ظلم کامیدان بن جاتی ہے۔ ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ہوس کی وزیری دوئی ملک و دیں کے لیے نا مرادی دوئی چشم تہذیب کی نابصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیمن کا بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری! اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی و ارد شیری۱۸ یورپ نے جو ظاہر داری کا مذہب اپنا رکھا ہے۔ وہ دین نہیں بلکہ سیاست کا ایک حصہ ہے۔ دین میں وہ عناصر موجود ہی نہیں جن سے یہ صحیح دین کہلانے کا مستحق ہواور پھر اس کا اثر سیاست پر نہیں ہوتابلکہ سیاست اسے بطور آلۂ کار استعمال کرتی ہے۔ ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر متاعِ غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی تو ہیں ہراولِ لشکر کلیسیا کے سفیر۱۹ اور اب عالمِ اسلامی کو اقبال نے آواز دے دے کر جگانا شروع کیا۔ عام حُریّت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج توُ اُس خواب کی تعبیر دیکھ۲۰ اور انھیں کہا کہ اٹھو! تمہارے جاگنے کا وقت آ گیا ہے۔ دلیلِ صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی اُفق سے آفتاب اُبھرا ،گیا دورِ گراں خوابی عُروقِ مردئہ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے طلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی۲۱ یہ بڑے شُکر کی بات ہے کہ اقبال کی زندگی میں ہی اس کے پیغام نے اثرات نمودار ہونے لگے ۔ ہر طرف بیداری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ اقبال نے اس امر پر زور دیا کہ آزادی اور استقلال کے لیے خودی کا پیدا کرنا ضروری ہے اور خودی عشق و محبت سے ہی محکم ہوتی ہے۔ از محبت چوں خودی محکم شود قُوَّتش فرماندئہ عالم شود۲۲ ’’خودی‘‘ تعمیر قوم کے لیے اس قدر ضروری عُنصر ہے کہ اس کا زندگی کے ہر شُعبہ میں شامل کرنا ضروری ہے ۔ مذہب، تعلیم ،ادب، موسیقی ، مصوری ، سماجی رسوم غرضیکہ فرد کی ہر نقل و حرکت سے یہ ثابت ہو کہ اس کی قوم گرانمایہ ، قوی، صاحبِ دل و دماغ پرُ ا ز شوکت و ہمّت ہے۔ سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہُنر گُہر ہیں ان کی گِرہ میں تمام یک دانہ ضمیر بندئہ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسوُن و افسانہ ہوئی ہے زیرِ فلک اُمّتوں کی رُسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ۲۳ جب افراد کا ملک ایک ہو جاتا ہے تو ملّت بن جاتی ہے ۔ فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملّت کی حفاظت کرے۔ چونکہ اسی میںاس کی حفاظت کا راز مضمر ہے ۔ ملّت کی تکمیل کے لیے نبُّوت کی وساطت ضروری ہے۔ تاخدا صاحبدلے پیدا کُندَ کو زحرفے دفترے اِملا کُندَ ساز پردازے کہ از آوازئہ خاک را بخشد حیاتِ تازئہ۲۴ پھر اقبال یہ کہتا ہے کہ تمام بنی نوع آدم کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑانے کے لیے ایک ہی مذہب ہے اور وہ اسلام ہے۔ پیغمبرؐاسلام آزادی حریّت اور مساوات کا پیغام لے کر دنیا میں آئے۔ بود انسان در جہاں انسان پرست ناکس و نابود مندو زیر دست از غلامی فطرت او دون شدہ نغمہ ہا اندر نیٔ اُو خون شدہ تا امینے حق بحقداران سپرد بندگان را مسند خاقان سپرد قوتِ او ہر کُہن پیکر شکست نوعِ انسان را حصارِ تازہ بست حریّت زاد از ضمیر پاک او ایں مئے نوشین چیکد از تاک او نقش نو بر صفحۂ ہستی کشید اُمّتے گیتی کشائے آفرید کائنات از کیفِ او رنگین شدہ کعبہ ہا بُت خانہ ہائے چین شدہ کُلُّ مُؤمِنْ اِخْوٰۃُٗ اندر دلش حریّت سرمایۂ آب و گلش نا شکیبِ اِمتیازات آمدہ در نمادِ اُو مساوات آمدہ ہمچو سرو آزاد فرزندانِ اُہ پختہ از قَالُوْا بَلٰی پیمانِ اُو۲۵ مسلمانوں کا ایک ملّت پیدا کرنے کے لیے قرآنِ پاک پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ تو ہمیں دانی کہ آئینِ تو چیست زیر گردوں سرِّ تمکین تو چیست آن کتابِ زندہ ، قرآن حکیم حکمت اُو لا یزال است و قدیم ارج می گیرد ازو نا ارجمند بندہ را از سجدہ سازد سر بلند۲۶ عام مسلمانوں میں خدا کی رضا اور قسمت کے نوشتے کے بارے میں عجیب خیالات پھیلے ہوئے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہوتا ہے وہی ہو کے رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ہمیں علم نہیں اور کیا پتا کیا ہو کیا نہ ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھنا چاہیے ۔ بلکہ کوشش اور محنت ہمیشہ جاری رہے۔ سبب کو ترک نہیں کرنا چاہیے اور ترقی کے لیے جو امور ضروری ہیں انھیں محنت سے حاصل کرنا چاہیے۔ ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا ظُلمت کدئہ شاخ پہ شاکر نہیں رہتا ہر لحظہ ہے دانے کو جنون نشود نما کا فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا جُرات ہو نُمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے اے مردِ خدا! ملکِ خدا تنگ نہیں ہے۲۷ گویا اس تسلیم و رضا کے غلط نظریہ کو جو عام طور پر مسلمانوں میں مُروَّج ہے بدل دیا جائے اور انھیں کوشش محنت ، تعلیم اور خودی کی طرف راغب کیا جائے تاکہ وہ اپنے اندر قوت و ہمت پیدا کریں۔ اسلام کی توسیع اور تکمیل اس امر میںہے کہ وہ مادی ترقی کرے اور دنیا پر غالب آنے کی کوشش کرے۔ ہر کہ محسوسسات را تسخیر کرد عالمے از ذرّۂ تعمیر کرد کوہ و صحرا دشت و دریا بحرو بر تختۂ تعلیم اربابِ نظر سینہ را از سنگ زورے ریش کُن امتحان استخوانِ خویش کُن حق جہان را قسمت نیکاں شمرد جلوہ اش بادیدئہ مومن سپرد کارواںرا رہگذار است ایں جہاں نقد مومن را عیار است ایںجہاں گیر اُو را ، تا نہ او گیرد تُرا ہمچو مے اندر سبوگیرد ترا۲۸ اب اسلامی اقوام کے افراد نے وہ عناصر اپنے اندر داخل کر لیے جو آزادی اور طاقت کی تخلیق کرتے ہیں۔قوموں نے خودی اور سیاست کا سبق سیکھ لیا۔ مگر جب تک ان میں اتحاد موانست اور باہمی ہمدردی کی ضمیر پیدا نہ ہو وہ بیرونی دشمنی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ آج کل کی دنیا اس قدر پیچیدہ ہو گئی ہے اور یورپ کے زیر تکمیل اقوام کے خلاف ایسا اتحاد قائم کیا ہے کہ مشرق (جس سے مقصود مشرق کے اسلامی ممالک ہیں) جب تک کہ وہ تمام تر متحد نہ ہو جائے مغرب کی سیاست کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مغربی اقوام نے باوجود اپنی باہم آویزشوں کے ایک انجمن بنام جمعیت الاقوام بنائی ۔ جس سے مقصود یہ تھا کہ آپس میںجو کچھ ہو سو ہو۔ لیکن غیر اقوام کو ہم سب بانٹ بانٹ کر اپنے قبضے میں کریں گے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی مقصود مشترک نہ ہو۔ مگر یہ تو سب کے لیے باعث توجہ ہے اس وقت کی جمعیت الاقوام کے لیے کہا ہے،جب اس کی تشکیل کی گئی تھی۔ برفتد تا روش رزم درین بزمِ کُہن درد مندانِ جہان طرحِ نو انداَختہ اند (ظاہر داری یہ ہے) من ازین بیش نہ دانم کہ کفن دز دے چند بہرِ تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند۲۹ (حقیقت یہ ہے) نو اسلامی ممالک کو اقبال نے مشورہ دیا کہ وہ بھی باہمی اشتراک پیدا کریں ۔ بلکہ ان میں تو مذہب کی بنا پر اور اس کی رو سے پہلے سے ہی اتحاد اخوت اور جذبۂ ہمدردی موجود ہے۔ اگر تمام اسلامی ممالک ایک جمعیت الاقوام بنا لیں ۔ تو یہ کامیاب ہو جائیں گے ۔ چونکہ اسے متحدہ کار فرما ہونے کے ضروری عناصر اسلام میں موجود ہیںاور اس کا مرکز ایران کا پایۂ تخت طہران ہو۔ یہ روش اگرچہ مغرب کی نکالی ہوئی ہے ۔ مگر مشرق میں غالب ہے کہ اس کو حقیقی عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ پانی بھی مسخر ہے ہوا بھی ہے مسخر کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے۳۰ اقبال غلامی سے آزاد ہونے کا جو راستہ بتاتا ہے ۔ وہ ایمان محکم ہے۔ ثباتِ زندگی ایمانِ مُحکم سے ہے دنیا میں کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی جب اس انگارئہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ رُوح الامین پیدا ولایت پادشاہی علم اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایمان کی تفسیریں یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں۳۱ اب اقبال نے اپنی دنیا کو آزادی کا پیغام دینا شروع کیا۔ بندگی میں گَھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی۳۲ آزادی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ بہت سی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ برتر از اندیشۂ سُود و زِیان ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی۳۳ زندگی محض حیات کا نام نہیں بلکہ بعض دفعہ جان قربان کر دینے کا نام ہے اور اس سے ملّت زندہ رہ سکتی ہے۔ اقبال نے دیگر اقوام کے نام الگ الگ پیغام بھیجا ۔ تاکہ وہ اپنے خواب غفلت سے جاگ اٹھیں مغرب کے دھوکے سے بچیں اور شاہراہ ترقی پر گامزن ہوں۔ جس سے وہ استقلال اور ترقی حاصل کر سکیں۔ ہندوستان کے ہندوئوں کے نام نیا شوالہ کے نام سے پیغام بھیجا۔ سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے تیرے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پرانے۳۴ ہندوئوں نے اس پیغام کو سن کر اپنی ظاہری اور باطنی تعمیر و تشکیل شروع کر دی اپنی فکر کی تطہیر کی، ذرا دیکھیے اس تیس سال کے عرصہ میںہندو جاتی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ صدیوں کے فرسودہ رواج و رسوم کو بھی ترک کر دیا ہے۔ جو مذہب کا حصہ سمجھے جاتے تھے ۔ شدھی شروع ہو گئی۔ چھوت جاتی رہی۔ ودھوا عورتوں کا وداع ہونے لگا۔ سات ساگر پار جانے کا رواج ہو گیا۔ کھانے میں ممنوع چیزوں کا پرہیز جاتا رہا۔ گویا دنیا ہی بدل گئی۔ صنم کدے کے بُت جو پرانے ہو گئے تھے برہمن نے بدل تو دئیے مگر اقبال کا نیا شوالہ نہ بن سکا۔ جس سے یہ کہا جا سکتا کہ: شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے۳۵ ممکن ہے ۔ کہ اقبال کی یہ آرزو بھی آئندہ پوری ہو جائے۔ مشرق کی تمام اقوام کے نام جو پیغام ہے اس کتاب کا نام ہے ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ مشرقی اقوام سے مقصود اسلامی اقوام ہیں۔ جو مشرق میں آباد ہیں۔ تفصیل کا یہ محل نہیںحقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ہر کتاب کو اصل صورت میں مطالعہ کرنا ضروری ہے تاکہ مفہوم کو سیاق و سباق کے ساتھ ذہن نشین کیا جا سکے ۔ مطلب یہ ہے کہ مشرقی اقوام مغرب سے نجات پائیں۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے تطہیر فکر کی تلقین کی ہے چونکہ اس کے بعد تعمیرِ فکر آسان ہو جاتی ہے۔ پھر نبوّت کی حکمت پر بحث کی ہے کہ اس سے کس طرح سے عزم و تسلیم و رضا والی اُمّت پیدا ہوتی ہے۔ جو عشق و حُسن سے اپنا چراغ روشن کرتی ہے اور اپنا نیا جہاں رضائے حق کے مطابق تعمیر کر لیتی ہے۔ اس کے بر خلاف حکمتِ سلاطین ہے۔ جو مکر و فن پر مشتمل ہے۔ وہ دوسری قوموں کو غلام بنانے میں اپنی فراست کو صرف کرتی ہے ۔ لا اور ا لّٰا یعنی نفی اور ثبات سے نئی قوم تعمیر ہو سکتی ہے اور وہ جملہ موجودات پر حاوی ہو جائیں گی۔ فقر کے معنی ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کے ہیں۔ اس سے دین کی حکمت اور قوت بڑھتی ہے ۔ فقر کی قوت سے مومن جہاں فتح کر لیتا ہے۔ مومن کا فقر اسے خودی کا سبق پڑھاتاہے آزاد مرد موت سے نہیں ڈرتا ۔ وہ فرنگ کا عبد نہیں بلکہ اپنا عبد ہوتا ہے اور اپنی قوتوں کو اپنی تعمیر میں صرف کرتا ہے۔ مال و دولت کو دین کے کاموں میں صرف کرنا چاہیے۔ نہ کہ خرافات میں۔ حلال و حرام میں تمیز لازمی ہے۔ منعم زر کا غلام ہونے کے سبب انقلاب سے ڈرتا ہے۔ یورپ اس نکتہ سے بے بہرہ ہے۔ غریب ہندوستان آپس کی آویزش میں گرفتار ہو کر دوسروں کا غلام بن گیا۔ موجودہ سیاست ایسی پیچیدہ ہو گئی ہے کہ وہ غلام کو اور غلام بنا رہی ہے اور اس کے لیے سینکڑوں طریقے استعمال کرتی ہے۔ اے مسلمان تو کب تک اس بند مین گرفتار رہے گا۔ آزادی کے لیے کوشش کر ۔ آزاد مرد کا ایمان بھی پختہ ہوتا ہے غلام ان کے جلال سے باخبر ہیں نہ لذّتِ ایمان سے: عید آزاد ان شکوہِ مُلک و دین عید محکومان ہجومِ مُومنین۳۶ افرنگی افسون میںکئی فتنے پنہاں ہیں۔ ان سے آزاد ہونے کی سعی کرنی چاہیے۔ یورپ کے فساد سے اب زمانہ پریشان ہو گیا ہے اور مستقبل کی باگ اب مشرق کے ہاتھ میں ہو گی۔ آدمیت زار نالید از فرنگ زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق باز روشن می شود ایّام شرق در ضمیرش انقلاب آمد پدید شب گزشت و آفتاب آمد پدید یورپ از شمشیرِ خود بسمل فتاد زیر گردوں رسم لا دینی نہاد۳۷ پھر اِسی مثنوی میں یہ کہہ کربات کو واضح کر دیا۔ تا بروز آرم شبِ افکار شرق بر فرو زم سینۂ احرار شرق از نوائے پختہ سا زم خام را گردشِ دیگر دہم ایّام را فکر شرق آزاد گردد از فرنگ از سرودِ من بگیرد آب و رنگ زندگی از گرمئی ذکر است و بس حریّت از عِفّتِ فکر است و بس چون شود اندیشۂ قومے فراب ناسرہ گردد بدستش سیم ناب میرد اندر سینۂ اش قلبِ سلیم در نگاہِ اُو کج آید مستقیم بر کراں از حرب و ضربِ کائنات چشم او اندر سکون بیند حیات موج از دریاش کم گردد بلند گوہر اُو چون خزف نا ارجمند پس نخستیں با یدش تطہیرِ فکر بعدازاں آسان شو و تعمیرِ فکر۳۸ اس کا یہ مطلب ہوا ۔ کہ حالت بدلنے کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ انسان اپنی فکری طہارت پیدا کرے اس کو صاف اور صیقل کرے۔ اسے نئے سانچے میں ڈھالے ۔ تو باقی کام آسان ہو جائیں گے۔ اسی مثنوی میں ہندوستان کا رونا بھی رویا ہے۔ اے ہمالہ اے اطک اے رُودِ گنگ زیستن تا کے جہاں بے آب و رنگ؟ پیر مردان از فراست بے نصیب نوجوانان از محبت بے نصیب شرق و غرب آزاد و ما نخچیرِ غیر خِشت ما سرمایۂ تعمیرِ غیر اُمّتے کز آرزو نیشے نہ خورد نقشِ اُو را فطرت از گیتی سترد۳۹ ہندوستان میں حرکت پہلے سے تھی ۔ مگر اقبال کے الفاظ نے ایک تازہ جوش پیدا کر دیا۔ مثنوی مسافر میں جہاں افغانستان کے نام پیغام ہے، وہاں ہمسایہ ملک ہونے کے سبب ضمناًہندوستانی مسلمان کا بھی ذکر آگیا ہے۔ مسلم ہندی چرا میدان گذاشت؟ ہمت اُو بوئے کرّاری نداشت مُشتِ خاکش آنچناں گردیدہ سرد گرمیٔ آوازِ من کارے نکرد!۴۰ اصل میں ہندوستان کا اسلام عجیب مصیبت میں گرفتار ہے۔ جو کہیں خطۂ عالم میں نظر نہیں آتی۔ یعنی اس کے حالات اور اس لیے تکالیف مخصوص ہیں۔ ادھر غیر قوم کی حکومت دوسری طرف غیر مذہب کا دبائو اور ان کا ساتھ ۔ پھر اسلامی مذہب کا ملاّئوں کے ہاتھوں تنزل اور ملّت کے اندر فرقہ بندی۔ اس تمام انتشاراور ابتزال کے ساتھ ترقی اور حصول آزادی کی خواہش گم ۔ گویا ضمیر میں انکساری موجود اور خودی غائب وائے نا کامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۴۱ اقبال ہندی مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ غدّارِ وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن انگریز سمجھتا ہے مسلمان کو گدا گر۴۲ (احمدی پارٹی؍قادیانی) پنجاب کے اربابِ شریعت کی نبوّت کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر آوازئہ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے مسکینِ دلکم ماندہ دریں کشمکش اندر!۴۳ پھر ان کو یہ بھی بتایا ہے کہ جب تک اپنے ہاتھوں میں قوت نہ ہو دین کی کبھی حفاظت نہیںہو سکتی ۔ فاتح کے سامنے عقل، نظر علم و ہنر سب جُھک جاتے ہیں۔ آزادی کے بل بوتے پر دین زندہ رہ سکتا ہے۔ قوّت کے متعلق لکھا ہے کہ: اس سیل سُبک سیرو زمین گیر کے آگے عقل و نظر و عِلم و ہُنر ہیں خس و خاشاک لا دیں ہو تو ہے زہر ہلا ہل سے بھی بڑھ کر ہو دین کی حفاظت میں تو ہے ہر زہر کا تریاک۴۴ بلکہ یہ کہ اسلامی نَبوّت ہی قوت و شوکت کاپیغام ہے۔ اگر کسی مسلمان کا ضمیر ہی اس کے خلاف ہو تو وہ صحیح شریعت اسلامی کا پابند نہیں۔ وہ نبوّت ہے مسلمان کے لیے برگِ حشیش جس نبوّت میں نہیں قوّت و شوکت کا پیام۴۵ اس امر سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آزادی خودی اور قوت کا سبق بچپن سے ہی دینا چاہیے اور اس لیے مدارس میں تعلیم ایک خاص روش پر ہونی چاہیے جو ہندوستان میں جاری نہیں۔ اقبال یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات آزاد کا اندیشہ حقیقت سے مُنوّر محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی موسیقی و صورت گری و علمِ نباتات۴۶ مدرسوں میں چاہیے کہ بچوں کی تعلیم ایسی ہو جس سے وہ اپنے اندر آزادی کی روح پیدا کرسکیں۔ صرف حکمت کے مقالے نہ رٹائے جائیں ۔ بلکہ آزاد مرد بننا سکھایا جائے۔ افغانستان کے نام ایک پیغام تو اس وقت بھیجا تھا جب جس وقت امان اللہ خان کی حکومت تھی جو پیشکش کے زیر عنوان پیام مشرق کے شروع میںدرج ہے۔ امیر افغانستان کو مخاطب کر کے کہا: عشق را آئین سلمانی نہ ماند خاکِ ایران ماند و ایرانی نہ ماند تازہ کن آئینِ صدیق ؓ و عمرؓ چوں صبا برلالۂ صحرا گزر جان تو بر محنت پیہم صبور کوش در تہذیبِ افغانِ غیور زندگی جہد است و استحقاق نیست جُز بعلمِ انفس و آفاق نیست علم و دولت نظم کارِ ملّت است علم و دولت اعتبارِ ملت است سروری در دین ما خدمت گری است عدلِ فاروقی و فقرِ حیدری است آن مسلمانان کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کردہ اند ہر کہ عشق مصطفی ؐ سامانِ اوست بحر و بر در گوشئہ دامانِ او است خیز و اندر گردش آور جامِ عشق در قہستان تازہ کن پیغام عشق۴۷ ملّت افغانی نے اس مسلک پر گامزن ہو کر ترقی کی۔ پھر جب نادر شاہ کا زمانہ آیا۔ تو ڈاکٹر صاحب نے افغانستان کا سفر کیا ۔ دعوت نامہ تو امیر نادر شاہ نے بھجوایا تھا مگر افغانستان جانے تک وہ شہید ہو گیااور اس کا بیٹا ظاہر شاہ تخت پر بیٹھا ۔ اس وقت کی یاد گار ’’مسافر‘‘ ہے۔ اس میں بھی افغانستان کے مستقبل کا لائحہ عمل بتا گیا ہے۔ ترقی اور آزادی کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ امیر جواں سال افغانستان سے خطاب کیا ہے۔ روز و شب آئینۂ تدبیر ماست روز و شب آئینۂ تقدیر ماست باتو گویم اے جوانِ سخت کوش چیست فردا ؟ دُخترِ امروز و دوش ہر کہ خود را صاحب امروز کرد گرد او گردد سپہر گرد گرد چوں پدر اہل ہنر را دوست دار بندئہ صاحب نظر را دوست دار ہمچوں آن خلد آشیان بیدارزی سخت کوش و پُردم و کرّار زی روز ہا شب ہا تپسیدن می تو ان عصرِ دیگر آفریدن می تو ان صد جہاں باقی است در قرآن ہنوز اندر آیا تش یکے خود را بسوز باز افغان را ازآن سوزے بدہ عصر او را صبح نو روزے بدہ برگ و سازِ ما کتاب و حکمت است این ود قوت اعبتار ملّت است حکمت اشیا فرنگی زاد نیست اصلِ اُو جز لذّتِ ایجاد نیست لیکن از تہذیب لا دینے گریز ز ان کہ او با اہل حق دارد ستیز بر خور از قرآں اگر خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آب حیات با مسلمانان غمے بخشیدہ ام کہنہ شاخے را نمے بخشیدہ ام۴۸ یہ ہے اقبال کاپیغام ۔ ملّتِ اسلامی یا مسلمان اقوام جو پستی میں گری ہوئی ہیں اس کا سبب کیا ہے۔ہماری تدبیر پر ہماری قوت یا شوکت منحصر ہے اور ہمارا مستقبل حاضر پر ۔ جتنی کوشش ہم عہد حاضرہ میں کریں گے اس کے مطابق آئندہ ہمارا وقار یا طاقت بڑھے گی ۔ مردِ حق اس تمام کامیابی کا راز ہے۔ چونکہ وہ اپنی تقدیر خود بناتا رہتا ہے۔ بادشاہ کو یہ چاہیے کہ اہل ہنر اور صاحبِ نظر پر ہمیشہ مہربانی کیا کرے ۔ چونکہ ترقی اسی سے ہو سکتی ہے۔ انسان کو چاہیے ،کہ وہ سخت کوش ہو۔ لگا تار جفاکشی کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اور کرّار ہو۔ کرّاری علیؓ کے مقامات میں سے ایک ہے۔ ترک یا ہندی مسلمان جب کرّاری بھول گئے تو دوسری قوموں کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ تم ایک نیا جہان بنائو۔ مگر اس کی بنا قرآن پر ہو۔ ملّتِ افغانی کو ایک نیا طریق سکھائو اور انھیں میدان عمل میں لا کر مرد میدان بننے کا سبق دو۔ قرآن اور سائنس (حکمت اشیائ) یہی دو قوتیں ہیں۔ جو ملّت کی بنا کو مستحکم کرتی ہیں ۔ سائنس فرنگستان میں پیدا نہیں ہوتی۔ بیج تو مسلمانوں نے بویا تھا ۔ مگر افرنگیوں نے اس کے حصول سے فائدہ اٹھایا ۔ مگر اس کے ساتھ ایک بات کا خیال رہے کہ سائنس مغرب سے آتی ہے اور اس کے ساتھ تہذیب جدید کے برُے اثرات بھی آتے ہیں ۔ اس بے دینی کی تہذیب سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے جو راہ حق سے منحرف کراتی ہے۔ اس سے بہت سی خرابیاں اور فتنے پیدا ہوتے ہیں۔ حق کے ساتھ جینا ہی اصل حیات ہے۔ ورنہ اس کے بغیر زندگی موت ہے۔ اگر ثبات اور دوام چاہیے تو وہ قرآن کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے اسی کی تعلیم پر عمل کرنے سے قوم زندہ ہو سکتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ میں نے مسلمانوں کو ایک نئی سوچ ایک نیا فکر دیا ہے۔ گویا کہ پرانی شاخ کو پھر تازہ اور ہرا کر دیا ہے۔ اے شاہِ افغانستان تو بھی میری ان حکمت آموز اور زندگی بخش باتوں پر عمل کر تاکہ دنیا میں کامیاب اور سُرخرو ہو۔ جب اقبال کا گزر کشمیر میں ہوا تو ساکنانِ خطہ کشمیر کی پست حالت دیکھ کر جی بھر آیا۔ عنوان تو ہے۔ ’’ساقی نامہ ‘‘ اور ’’در نشاط باغ نوشتہ شد‘‘۔ اس کے نیچے لکھا ہے ۔ مگر اصل میں یہ پر خلوص دل سے نکلی ہوئی آواز ہے۔ جو اس حالت کو دیکھ کر تھم نہ سکی۔ کشیری کہ بابندگی خُو گرفتہ بُتے می ترا شد ز سنگِ مزارے ضمیرش تہی از خیالِ بلندے خودی ناشناسے ، ز خود شر مسارے بریشم قبا خواجہ از محنتِ اُو نصیب تنش جامۂ تار تارے نہ در دیدئہ اُو فروغِ نگاہے نہ در سینۂ او دلِ بیقرارے از آن مے فشان قطرئہ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے۴۹ ان پر تاثیر الفاظ کا اثر کشمیر کے اہالیان پر بہت زیادہ ہوا اور مجموعی طور پر پوری قوم بیدار ہو گئی۔ ان کی ذہنی حالت بدل گئی اور ان کا رخ تنزل کی طرف سے ترقی کی طرف اور انحطاط سے رِفعت کی طرف ہو گیا۔ افغانستان اور ہندوستان کے درمیان جو آزاد قبیلے آباد ہیں وہ تو روحانی حالت کی حیثیت سے پہلے ہی آگ ہیں۔ افغانستان جاتے ہوئے جب اقبال کا گزر اس علاقے میں سے ہوا تو اس کی روح ان جوان مردوں کی زیارت سے تازہ ہو گئی ۔ مگر ان کی منتشر کیفیت اور بے کیف حالت سے مزاج پر اثر ہوا۔ ان کو تنظیم اور تعمیر کا راستہ بتایا اور کامیابی اور عروج کی طرف راہنمائی کی۔ ’’خطاب بہ اقوام سرحد‘‘ اے ز خود پوشیدہ خود را بازیاب در مسلمانی حرام است این حجاب چیست دین ؟ دریافتن اسرارِ خویش زندگی مرگ است بے دیدار خویش زندہ مرد از غیر حق دارد فراغ از خودی اندر وجودِ او چراغ پائے اُو محکم بر زمِ خیر و شر ذِکر اُو شمشیر و فکر او سِپر میرِ خیل ! از مکر پہنائی بترس از ضیاعِ روحِ افغانی بترس! عالمِ موجود را اندازہ کُن در جہاں خود را بلند آوازہ کُن در گذر از رنگ و بوہائے کُہن پاک شو از آرزو ہائے کُہن زندگی بر آرزو دارد اساس خویش را از آرزوئے خود شناس آب و گِل را آرزو آدم کند آرزو مارا ز خود محرم کند تو خودی اندر بدن تعمیر کُن مُشتِ خاکِ خویش را اکسیر کُن۵۰ اقبال ایک فوق العادۃ دماغ لے کر دنیا میں آیا ہے۔ اس کی زبان میں تاثیر اور الفاظ میں جادو ہے۔ جس طرف اس کا رخ ہوتا ہے اس طرف آگ لگا دیتا ہے۔ اس کے پیغام سے ایک عالم جاگ اٹھا ہے۔ ہر طرف بیداری کی روح موجزن نظر آتی ہے۔ خواب کا طلسم ٹوٹ گیا ہے اور ہر کوئی قدم آگے بڑھانے پر مستعد نظر آتا ہے۔ اقبال مشرق کا باسی ہے۔ اس کا تعلق مشرق سے اور وہ مشرق کا شاعر ہے۔ اس لیے مشرق کو جگانا اس نے اپنے ذمّے لیا اور وہ اس بات میں کامیاب ہوا۔ پریس میں بھیجنے سے پہلے جب میں نے اس مضمون کو پھر سے پڑھا تو محسوس ہوا یقینی طور پر نا مکمل ہے۔ کچھ نکات تو عجلت کے سبب نظر انداز ہو گئے ہیں اور اس چھوٹے سے مقالے میں سب کاتشریح کے ساتھ بیان کرنا ممکن بھی نہ تھا اور کچھ مقامات عمداًمجھے چھوڑنے پڑے چونکہ فضا اس امر کی مجھ کو اجازت نہ دیتی تھی۔ جس طرح سے حضرت استاد کے ابتدائی دور کی منظومات میں شاعرانہ رنگ دوسرے رنگوں کی نسبت غالب ہے۔ بسیط اور مفصل مضمون کے لیے جناب علامہ کی تمام تصانیف کا مطالعہ بنظر غائر ضروری ہے۔ میں یہ خدمت میں عرض کردوں کہ اقبال کا سمجھنا مذاق نہیں ہے۔ اقبال دوسری یا چھوتھی جماعت کے لیے نظمیں نہیں لکھتا کہ بچے اس کو پڑھیں اور پھر پھاڑ کر پھینک دیں۔ اقبال استادوں کا استاد ہے، اس کے حلقۂ احباب میں یا جسے حلقۂ تلامیذ کہہ لو۔ بڑے بڑے گرانپا یہ لوگ موجود ہیں ۔ جو اپنے اپنے فن کے استاد ہیں۔ مگر پھر بھی اس منور شمع سے اپنا سینہ روشن کرنے چلے آتے ہیں۔ یہ امر بھی شاید آپ کی معلومات میں اضافہ کر ے گاکہ اقبال کو ہمیشہ سے شاگرد کا نام رکھ کر کسی کو اپنے حلقے میں شامل کرنے سے گریز رہا ۔ مگر رفیق حبیب یا دوست بنا کر اسے تلقین کرنے میں اور رموز وا کرنے میں شغف رہا ہے۔ یہی اسلامی مساوات اخوت کا سبق تھا اور خاکی دنیا سے بہت بلند عالم کی نشانی ۔ اقبال میں سب عناصر موجود ہیں۔ شاعری ، فلسفہ ، ادب ، سیاست اور ان سب کے ساتھ ایک رفیع الشان بلند پروازی ۔ آپ کی توجہ اکثر شاعری میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ چونکہ تنہا یہ عنصر ہی اس قدر بیش قیمت اور جازب توجہ ہوتا ہے کہ آپ دوسرے عناصر پر غور نہیں کرتے اور نظم ختم ہو جاتی ہے ۔ گویا آپ کے پیش نظر صرف شعر کی خوبیاں رہتی ہیں۔ اب میرا مشورہ آپ سے یہ ہے کہ آپ کسی نظم کو ایک دفعہ نہیں دس دفعہ ہر روز پڑھیے پھر غور کیجیے ۔ تنہائی میں سوچئے کہ شاعر کا مقصود کیا تھا۔ رفتہ رفتہ آپ پر اقبالی معرفت کا دروازہ کُھلتا جائے گا اور آپ اس بلند اور اعلیٰ طبقے میں داخل ہو سکیں گے۔ یا کم از کم اس کی جھلک سے مستفید ہو سکیں گے جہاں اقبال کا نشیمن ہے۔ ایک مشین جس قدر پیچیدہ اور مخصوص ہوتی ہے اسی قدر اس کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً ہوائی جہاز۔ ریڈیو صرف تربیت یافتہ اور اس فن کے ماہر ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح سے اقبال بھی اتنا بڑا عالم ہے۔ کہ اس کو سمجھنے کے لیے اس پیمانے کا عالم ہونا چاہیے ۔ یا اس کے قریب قریب ۔ اقبال اس قدر بلند فضا میں اڑتا ہے کہ اس بلندی پر پہنچنے کے لیے بال و پر بھی مضبوط ہونے چاہییں یعنی اگر اس فضا میں داخل نہ ہو سکیں تو کم از کم اس کے نزدیک جا کر اس کی نورانی جھلک سے تو مستفید ہو سکیں وہ عالم بالا کا اقبال ہے۔ جو اس کی صحیح روح ہے۔ لوگ اکثر اسے عالم خاکی کے قالب میں دیکھتے ہیں، یعنی اس کے الفاظ پر غور کرتے ہیں۔ لیکن ان الفاظ کی روح پر غور نہیں کرتے۔ حواشی ۱۔ ’’بانگ درا‘‘ ۔ ص ۷۷ ’’شاعر‘‘۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۲۔ ’’اسرار و رموز‘‘ ۔ کلیات اقبال (فارسی) اقبال اکادمی پاکستان ص ، ۳۵ در حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ ۳۔ ’’اسرار و رموز‘‘۔ کلیات اقبال(فارسی) اقبال اکادمی پاکستان ، ص، ۳۷؍۳۸ در حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ۔ ۴۔ ’’بانگ درا‘‘(ترانۂ ہندی) کلیات اقبال (اردو) ص ، ۹۴۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۵۔ ’’بانگ درا‘‘ (نیا شوالہ) کلیات اقبال (اردو) ، ص ۹۸ ۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۶۔ ’’بانگ درا‘‘ (آفتاب صبح ) کلیات اقبال (اردو) ، ص ۶۴ ۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۷۔ ’’بانگ درا‘‘ (تصویر درد) کلیات اقبال (اردو) ، ص ۸۲ ۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۸۔ ’’بانگ درا‘‘ (نیا شوالہ) کلیات اقبال (اردو) ، ص ۹۸ ۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۹۔ ’’زبور عجم‘‘ (بندگی) کلیات اقبال (فارسی) ،ص ۱۱۶ ۔۱۱۷۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۱۰۔ ’’بانگ درا‘‘ کلیات اقبال (اردو) ، ص ۲۷۹ ۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۱۱۔ ’’بانگ درا‘‘ (ترانۂ ملی) کلیات اقبال (اردو) ، ص ۱۷۰ ۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۱۲۔ ’’بانگ درا‘‘ (وطنیت) کلیات اقبال (اردو) ، ص ۱۷۱۔۱۷۲ ۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۱۳۔ ’’اسرار و رموز‘‘ کلیات اقبال (فارسی) ، ص ، ۸۹۔۸۲، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۱۴۔ ’’بال جبریل‘‘ (ساقی نامہ) کلیات اقبال (اردو) ۱۲۷ ۔ ۱۳۳ ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۱۵۔ ’’پیام مشرق‘‘ (خرابات فرنگ) کلیات اقبال (فارسی) ، ص ۱۶۰ ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۱۶۔ ’’بانگ درا ‘‘ (سلطنت) کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۲۷۳، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۱۷۔ ’’بانگ درا ‘‘ (سلطنت) کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۲۸۹، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۱۸۔ ’’بال جبریل ‘‘ (دین و سیاست ) کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۱۲۲، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۱۹۔ ’’ضرب کلیم ‘‘ (لا دین سیاست ) کلیات اقبال (اردو ) ، ص۱۶۵، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۲۰۔ ’’بانگ درا ‘‘۔ کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۲۸۰، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۲۱۔ ’’بانگ درا ‘‘ (طلوع اسلام ) کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۲۸۱، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۲۲۔ ’’اسرار و رموز ‘‘۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص ۲۷ ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۲۳۔ ’’ضرب کلیم ‘‘ (دین و ہنر) کلیات اقبال (اردو) ،ص ، ۱۱۲۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۲۴۔ ’’اسرار و رموز‘‘ ، کلیات اقبال (فارسی) ، ص ، ۸۷، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ ۲۵۔ ’’اسرار و رموز‘‘،’’کلیات اقبال ‘‘ (فارسی) ، ص ، ۹۹ ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۲۶۔ ’’اسرار و رموز‘‘،’’کلیات اقبال ‘‘ (فارسی) ، ص ، ۱۱۵ ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ ۲۷۔ ’’ضرب کلیم ‘‘ ۔ کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۶۵۔۶۶۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۲۸۔ ’’اسرار و رموز‘‘ ۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص، ۱۳۴ ۔ ۱۳۵ ۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۲۹۔ ’’پیام مشرق‘‘ (جمعیت الاقوام) کلیات اقبال (فارسی) ، ص، ۱۴۹ ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۳۰۔ ’’صرب کلیم ‘‘ (جمعیت اقوام مشرق) کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۱۵۹ ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۳۱۔ ’’بانگ درا‘‘ (طلوع اسلام) ، کلیات اقبال (اردو) ،ص ، ۲۸۵؍۲۸۶ ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۳۲۔ ’’بانگ درا‘‘ ۔ کلیات اقبال (اردو) ، ص ، ۲۷۲، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۳۳۔ ’’بانگ درا‘‘ ۔ کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۲۷۱ ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۳۴۔ ’’بانگ درا‘‘ (نیا شوالہ ) کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۹۸ ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۳۵۔ ’’بانگ درا‘‘ (نیا شوالہ ) کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۹۹ ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۳۶۔ ’’پس چہ باید کرد مع مسافر‘‘،’’کلیات اقبال ‘‘(فارسی) ، ص، ۳۳ ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۳۷۔ ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ ۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص، ۳۷، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۳۸۔ ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ ۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص:۹، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۳۹۔ ’’پس چہ باید کرد مع مسافر‘‘،’’کلیات اقبال ‘‘ (فارسی) ، ص، ۲۸ ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۴۰۔ ’’پس چہ باید کرد مع مسافر‘‘،’’کلیات اقبال ‘‘ (فارسی) ، ص، ۷۱ ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۴۱۔ ’’بانگ درا‘‘ کلیات اقبال (اردو) ،ص،۱۹۸ ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۴۲۔ ’’ضرب کلیم ‘‘ کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۳۸۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۴۳۔ ’’ضرب کلیم ‘‘ کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۳۸۔ ۳۹ ۔اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۴۴۔ ’’ضرب کلیم ‘‘ کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۴۱۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۴۵۔ ’’ضرب کلیم ‘‘ کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۶۹۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۴۶۔ ’’ضرب کلیم ‘‘ کلیات اقبال (اردو) ، ص، ۹۱۔۹۲۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ۴۷۔ ’’پیام مشرق‘‘ ۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص ،۲۴۔۲۷، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ ۴۸۔ ’’پس چہ باید کرد‘‘۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص ، ۷۰۔۷۴، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ ۴۹۔ ’’پیام مشرق‘‘ ۔ کلیات اقبال (فارسی) ،ص،۹۴ ۔۹۵، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۵۰۔ ’’پس چہ باید کرد‘‘ ۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص ، ۷۲۹۔۷۳۲ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۔ ۵۱۔ ’’پس چہ باید کرد مع مسافر ‘‘ ۔ کلیات اقبال (فارسی) ،ص،۷۳۲ ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ وحید الدین سلیم بزمِ سرور میں علامہ اقبال اور مودودی پروفیسر آل احمد سرورؔ (مرحوم) اردو شعر و ادب اور تنقید میں ایک معروف و ممتاز نام ہے۔ اُنھوں نے ایک طویل مضمون ’’اردو میں دانش وَری کی روایت ‘‘ کے موضوع پر برسوں قبل لکھا تھا۔ موضوع نہایت چونکا دینے والا ہے، اس کی اسی خصوصیت کی بناء پر روزنامہ ’’منصف‘‘ کے ہفتہ وار ادبی کالم ’’ایوان ادب‘‘ میں بالاقساط شائع کیا گیا ۔ اس میں اردو کے کئی نامور ادیبوں کے افکار کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ خاص طور پر علامہ اقبال اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی پر سرور صاحب کی آزادانہ خامہ فرسائی کو پڑھتے ہوئے غالب کا یہ مصرعہ بار بار زبان پر آتا رہا کہ : غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ یوں تو اس پورے مضمون پر ہی تنقید لکھی جانی چاہیے لیکن یہاں صرف علاّمہ اقبال اور مولانا مودودی کی شخصیات پر فَرمُودات ِ سرور کا جائزہ لیا جائے گا۔ اقبال اور مودودی کے افکار ، افکارِ عالم کی جدید تاریخ کا قیمتی حصہ ہیں اور ادب ، فلسفہ اور عمرانیات میں ضیائے سحر کی طرح فروغ پذیر بھی ۔ ان اکابر کے متعلق کوئی غلط بات لکھ دی جائے تو وہ لاکھوں قُلوب کو مضطرب کر دیتی ہے۔ علاّمہ اقبال کے متعلق سرور صاحب نے لکھا ہے : اقبال کے یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ختم نبوت نے آنے والے انسانوں کے لیے لا محدود آزادی اور اِمکانات کا دروازہ کُھول دیا، کیونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور انسانوں کو اب اس کی ضرورت نہ رہی ۔ اس سے اقبال نے رسول اللہؐ کی وحی کی روح کو اس کے ظاہری تفصیلات سے زیادہ اہمیّت دی اور رسول اللہ ؐ کی شخصیت کی جامعیّت کو انسانوں کے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل قرار دیا ۱۔ یہ انتہائی غیر محتاط طرزِ نگارش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکمیل دین اور ختم نبوت کا اعلان کر دیا گیا ، اسی بناء پر نزولِ وحی کی اب ضرورت باقی نہیں رہی لیکن انسانوں کی ہدایت کے لیے وحی کی ضرورت بہ شکلِ قرآنِ مجید محفوظ کر لی گئی ہے۔ اب قیامت تک قرآن سر چشمۂ ہدایت رہے گا۔ علاّمہ اقبال کی کیا مجال کہ وحی کی رُوح کو اس کے ظاہری تفصیلات سے زیادہ اہمیت دیں۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی شخصیت کی جامعیّت ختم نبوّت کا لازمی تقاضا ہے اور قرآن مجید نے آپؐ کی ذاتِ اقدس کو اسوئہ حسنہ (Ideal) قرار دیا ہے اور اب یہ تمام مسلمانوں کا ایمان ہے ۔ علامہ اقبال ان ہی عقائد کے ترجمان تھے۔ سرور صاحب آگے لکھتے ہیں: لیکن یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ تغیر و تبدل پر ایمان کے باوجود اور تاریخی ضروریات کو ملحوظ رکھنے کے باوجود جدید دور کی بعض قدروں مثلاً جمہوریّت اور قومیّت اور سائنسی نظریات کے ساتھ اقبال نے انصاف نہیں کیا ۔ اقبال نے جمہوریّت ، قومیّت ، سائنس اور صنعت و حرفت کی خرابیوں پر تو نظر رکھی مگر ان کے روشن پہلوئوں ، ان کی طاقت اور ان کے امکانات کو مناسب اہمیت نہ دی۲۔ اقبال نے جمہوریّت ، قومیّت ، سائنس و صنعت و حرفت پر جا بجا تنقید ضرور کی ہے لیکن ان کی حقیقت اور ضرورت سے کہیں انکار نہیں کیا۔ ان اداروں اور شعبوں میں اگر بگاڑ پیدا ہو جائے تو ان پر تنقید ضروری ہے اور اقبال کی تنقید بڑی گہرائیاں رکھتی ہے ۔ اقبال نے جمہوریّت کے مقابلے میں ملوکیّت کو کبھی اہمیّت نہیں دی کیونکہ اگر وہ قومیّت ،رنگ، نسل اور جغرافیائی حدود میں نوع انسانی کو تقسیم کر دے تو یہ اس کی فتنہ سامانی ہے۔ اگر یہ صرف تعارف باہمی کے لیے کام کرے تو اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اقبال نے سائنس اور صنعت و حرفت پر بھی تنقید کی ہے، وہ ان علوم و فنون کی افادیّت کے خلاف نہیں ہے۔ اقبال انسانی ترقی اور فلاح کے لیے روحانی مراتب کو طے کر نا ضروری سمجھتے تھے، اور انسانیت کو مادیّت کی زد سے بچانے کے خواہشمند تھے کیونکہ بے محابا مادی عروج کا راستہ سر کشی اور دہریّت کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگر مادی طاقتیں بے توفیق قوموں کے ہاتھ میں آ جائیں تو یہ دنیا درندوں کی بستی بن جائے گی ۔ آج سائنسی فکر کو بھی اقبال جیسے عظیم فلسفی سے ہدایت پانے کی ضرورت ہے۔ مشہور سائنس دان اور ماہرا قبالیات ڈاکٹر رضی الدین صدیقی لکھتے ہیں کہ: اقبال ایسی عقل کے قائل ہیں جو نسیم کی مانند سیر چمن ہی پر اکتفانہ کرے بلکہ گُل و نَسرین کے رگ وریشہ میں داخل ہو کر ان کا مطالعہ کرے۔ جو نہ صرف دنیا و ما فیہا کے متعلق قیاس آرائی کرتی رہے بلکہ آں سُوئے افلاک بھی منظر دوڑائے اور جس کے خمیر میں فرشتوں کا نور اور انسانوں کا سوزِ دل شامل ہو۳۔ سرور صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ: اقبال کو اتنا احساس تو تھا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو، وہاں قومیّت اور اسلام ایک دوسرے سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں مگر انھیں یہ خیال نہ رہا کہ قومیت کے اثرات وہاں بھی ناگزیر ہیں ، جہاں مسلمان اقلیّت میں ہیں ۴۔ قومیت کی بنیادی اہمیت سے بھلا اقبال کو کیسے اختلاف ہو سکتا ہے۔ کیا اقبال نے ، ایران، ترکی ، عربی اور امریکی پاسپورٹ پر ہندوستانی شہریّت کے حقوق کی وکالت کی ہے؟ اقبال پر سرور صاحب کا یہ ایک مضحکہ خیز اعتراض ہے۔ سرور صاحب اسلام اور قومیت کے مسئلے پر مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مولانا آزاد کا خیال غلط نہ تھا کہ اسلام اور قومیّت میں کوئی تضاد نہیں اور مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ مل کر ایک اُمّتِ واحدہ بنا سکتے ہیں۔ اقبال اس خیال کے مخالف تھے۵۔ اگر مولانا آزاد کے اس خیال کو رہنمائی کی حیثیت سے قبول کر لیا جا سکتا تو ہماری رائے یہ ہے کہ صرف مسلمان اور ہندوستان کے غیر مسلموں کے ساتھ ہی کیوں ایک اُمّتِ واحدہ بنائیں؟ کیوں نہ مسلم ، ہندواور برطانوی عیسائی مل کر اُمّتِ واحدہ بنائیں؟ اس فارمولے پر عمل کیا جاتا تو ہندوستان کو آزادی کامل کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یہاں اُمّت کا لفظ بے محل طریقے پر استعمال کیا گیاہے۔ اُمّت اور قوم کے الفاظ اپنے اندر جُدا جُدا مفہوم رکھتے ہیں۔ حضرت علاّمہ نے اس خیالِ خام کا اپنے ایک معرکہ آرا مقالے ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ میں بڑا مثبت جواب دیا ہے کہ : حضور رسالت مآبؐ کے لیے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابولہب یا ابوجہل یاکُفّارِ مکّہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بت پرستی پر قائم رہو، مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بناء پر جو ہمارے اور تمہارے درمیان موجود ہے ، ایک وحدت عربیہ قائم کی جا سکتی ہے۔ اگر حضورؐ نعوذ باللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبی آخرالزماںؐ کی راہ نہ ہوتی ۶۔ سرور صاحب اس مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ: اسلام ایک مذہب ہے اور عالم گیر مذہب ہے ۔ یہ قومیّت سے ہی ماورا ہے اور بین الاقوامی نظر رکھتا ہے۔ مگر تاریخ اسلام یہ بتاتی ہے کہ اسلام نے قومیّت کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ دراصل اس معاملے میں مولانا آزاد اور اقبال دونوں اپنی انا کے شکار ہوئے ۷ ۔ یہاں سرور صاحب کو اقبال اور آزاد کے نظریات و اقدامات کے سمجھنے میں ٹھوکر لگی ہے۔ اس معاملے میں نہ اقبال اپنی انا کے شکار ہوئے اور نہ آزاد اپنی انا کے اسیر ۔ دونوں نے تاریخ کا مُطالعہ کیا ہے۔ اقبال نے تاریخ کے مُطالعے میں تخیّل کے ساتھ تجربے کو بھی حاصل کیا لیکن آزاد نے تاریخ کے مُطالعہ سے صرف تخیّل اَخَذ کیا ۔ اس بناء پر دونوں کی راہیں علیحدہ علیحدہ ہو گئیں۔ سرور صاحب اپنے خیالات کی پرُ پیچ راہوں سے گزر کر آخر میں ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اقبال پاکستان کے نظریہ ساز نہیں تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: اقبال نے دراصل کمال اتاترک سے بڑی اُمیدیں وابستہ کی تھیں مگر وہاں کی لا دینی طرزِ حکومت سے گھبرا کر اُنہوں نے یہ سوچا اگر ہندوستان میں ان علاقوں کی نئی تنظیم ہو جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں تو ان علاقوں کے ذریعے سے اسلام کی خدمت اور ہندوستان کی حفاظت ہو سکتی ہے۔اقبال کو پاکستان کے نظریے کا خالق کہنا میرے نزدیک صحیح نہیں ۸۔ برّصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت کا حصول اقبال نے کسی ردِ عمل کے طور پر ضروری نہیں سمجھا ، اُن کا نظریۂ مملکت یا نظریۂ پاکستان اسلام اور اُمّتِ اسلامیہ کی حیاتِ اِجتماعیہ کی تشکیل و تعمیر کے طور پر تھا۔ اقبال شروع سے انقلابِ اسلامی کے نقیب رہے ہیں اور اسی میں وہ انسانیت کی بقا ونجات کو مضمر پاتے تھے۔ سرور صاحب ہی کے خط کے جواب میں اُنھوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ : میرے نزدیک فاشزم ، کمیونزم یا زمانہ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے ۔ میرے عقیدے کی رو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کے لیے ہر نقطۂ نگاہ سے موجب نجات ہو سکتی ہے۔ میرے کلام پر ناقدانہ نظرڈالنے سے پہلے حقائقِ اسلامیہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اگر آپ پورے غور و توجہ سے یہ مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ انھیں نتائج تک پہنچیں جن تک میں پہنچا ہوں۹۔ سرور صاحب نے یہ مضمون لکھ کر ثابت کر دیا کہ انہوں نے علاّمہ اقبال کے مشورے پر عمل نہیںکیا ، چنانچہ اس دور کے امراض ذہنی تشکیک و تذبذب سے وہ کبھی پیچھا نہیں چھڑا سکے ۔ اقبال خطبۂ الٰہ آباد ۱۹۳۰ء سے اپنے منصوبے کی سمت آگے بڑھتے رہے اور انتقال سے قبل ببانگ دُہل اُنھوں نے اس حقیقت کا اظہار کر دیا تھا کہ : نبوت محمدیہؐ کی غایت الغایات یہ ہے کہ ایک ہئیتِ اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانونِ الٰہی کے تابع ہو، جو نبوت محمدیہؐ کو بار گاہ الٰہی سے عطا ہوا تھا۔ بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ بنی نوع انسان کی اقوام کو باوجود شعوب و قبائل اور الوان والسنہ کے اختلافات کو تسلیم کر لینے کے، ان کو اُن تمام آلودگیوں سے مُنَزّہ کیا جائے جو زمان ، مکان ، وطن ، قوم ، نسل ، نسب ، ملک وغیرہ کے ناموں سے موسوم کی جاتی ہیں اور اس طرح اس پیکر خاکی کو وہ ملکوتی تخیّل عطا کیا جائے جو اپنے وقت کے ہر لحظہ میں ابدیّت سے ہمکنار رہتا ہے۔ یہ ہے مقامِ محمدیؐ ، یہ ہے نصب العین ملّتِ اسلامیہ ۱۰۔ یہ کائناتی حقیقت ، شاعر ، فلسفی اور سیاست داں اقبال کی فکر کا محور بنی اور وہ دم آخرتک اس راہ پر گام زن رہے۔ اس بناء پر ’’ہند و پاک میں اسلامی جدیدیت‘‘ کے مصنف عزیز احمد کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ: ہندوستانی سیاست کے متعلق بالآخر اقبال اسلامی ریاست کے نظریہ ساز بن کر اُبھرتے ہیں اور اس کے برعکس آزاد متحدہ اور مخلوط قومیت کے طرف دار ہیں۱۱۔ جدید تاریخ عالم پر سرور صاحب کی نظر کس قدر سطحی ہے؟ اُن کی درج ذیل تحریر سے آشکار ہوتی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : اقبال کا یہ سمجھنا کہ یورپ کی تہذیب خود کشی کی طرف جا رہی ہے، بہ ظاہر اہلِ مشرق کے لیے دل خوش کن معلوم ہوتا ہے ، مگر یورپ اپنے پیدا کردہ مرض کا علاج کر بھی سکتا ہے ۔ ترقی پذیر ممالک کا مرض زیادہ خطرناک ہے۔ اُنہوں نے ترقی یافتہ ممالک کا نسخہ آزمایا ہے مگر اُن کے پاس وہ انسانی وسائل اور وہ باصلاحیت ادارے نہیں ہیں جو اُن کے مسائل کو حل کر سکیں ۔ اقبال کا نسخہ مرض کی تشخیص میں ضرور مدد دیتا ہے مگر علاج کے لیے اتنا کار گر نہیں معلوم ہوتا ۱۲۔ یورپ کی تہذیب اور وہاں کے مسائل پر علاّمہ اقبال کی تنقید اُن کی اسلامی نظر کا فیضان ہے۔ سرور صاحب کے پاس جو پیمانہ ہے، وہ خود یورپ کا ہے۔ بھلا مریض کے پیمانے سے مرض کی تشخیص کیسے کی جا سکے گی؟ اقبال یورپی معاشرے اور تفکر کا گہری نظر سے جائزہ لے چکے تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یورپ اپنے مرض کا علاج کرنے سے عاجز ہے۔ اُس کے نظریات کا سرمایہ ، حیات وکائنات کی حقیقتوں کے شعور و ادراک میں مدد بہم پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ چونکہ مشرقی اقوام آزادی حاصل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے مرحلے میں تھیں ، اُنہیں یہ اندیشہ ہوا کہ یہ یورپ کی تقلید کا شکار ہو کر اپنا توازن کہیں نہ کھو دیں حالانکہ انسانیّت کو درپیش مسائل کا حل اُن کے پاس ہے۔ وہ قرآن مجید کو سارے امراضِ انسانی کا نسخۂ شفا سمجھتے تھے، اس طرح اقبال نہ صرف مشرق کے محُسن بلکہ مغرب کے بھی رہنما و بہی خواہ تھے۔ متذکرہ عبارت میں جناب سرور نے اقبال پر طعنہ زنی بھی کی ہے اور اُن کی دانشوری پر ضرب بھی لگائی ہے، حالانکہ یورپ پر اقبال کی تنقید کی روشنی میں ایک جدید تاریخ یورپ لکھی جا سکتی ہے لیکن یہ کسی مردِ آزاد کا کام ہے ورنہ سرور صاحب کی کاوش نظر پر کیا عجب ہے کہ روح اقبال تڑپ اٹھی ہو اور کہہ رہی ہو کہ : ترا وجود سراپا تجلّیِ افرنگ کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر مگر یہ پیکرِ خاکی ، خودی سے ہے خالی فقط نیام ہے تو زر نگار و بے شمشیر علاّمہ اقبال کے بعد مولانا ابوالاعلیٰ مودودی انقلابی افکار میں بزم سرور کی دوسری عالمی شخصیت ہیں۔ حضرت علاّمہ کی دعوت پر مولانا مودودی کی حیدر آباد دکن سے پنجاب میں منتقلی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : یوں بھی اقبال کی ساری تصانیف اور خطوط کے مطالعے کے بعد ہم نہیں کہہ سکتے کہ اقبال ، مودودی کے خیالات سے اتفاق رکھتے تھے ۔ ہاں وہ مولانا کی علمیت ، ان کے اسلوب کے زور بیاں اور اسلام کے لیے ان کے درد کے ضرور قائل رہے ہوں گے۱۳۔ علامہ اقبال کو جس چیز نے مولانا مودودی کا ہم خیال بنا دیا وہ اسلامی قانون کی تشکیل جدید کا موضوع تھا۔ انقلابِ اسلامی کے لیے اقبال اس کو بہت ضروری سمجھتے تھے ۔ اقبال نے اس منصوبے میں کئی اور علماء کو اپنا شریک کار بنانے کی کوشش کی تھی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ پھر اُنھوں نے مولانا مودودی سے خط و کتابت کی چنانچہ مولانا نے اس دعوت کو قبول کیا۔ اقبال کے خطوط مولانا مودودی کے پاس مسلسل نقل مکانی کے سبب محفوظ نہ رہ سکے اور مولانا کی پنجاب منتقلی کے جلد ہی بعد اقبال کا انتقال ہو گیا۔ تاہم اقبال اور مودودی کے درمیان تعلقات میں کیسی ہم آہنگی تھی؟ اس کی ایک جھلک مولانا اور پروفیسر نذیر نیازی کے درمیان جو مراسلت ہوئی تھی، اُس میں دیکھی جا سکتی ہے ، یہاں چند اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں ۔ مولانا مودودی ، پروفیسر نذیر نیازی کے جواب میں ایک طویل خط لکھتے ہیں۔ اس کے یہ آخری دو جملے دیکھیے کس قدر اہم ہیں۔ علامہ اقبال کے ساتھ عمرانیاتِ اسلامی کی تشکیل جدید میں حصہ لینا میرے لیے موجبِ سعادت ہے۔ میں ہر ممکن خدمت کے لیے حاضر ہوں، مگر اس سلسلے میں کسی مالی معاوضہ کی مجھے ضرورت نہیں‘‘۔ خاکسار: ابوالاعلیٰ ۔ ۲۶ ؍جولائی ۱۹۳۷ء ۔ حیدر آباد دکن۔ مولانا مودودی پٹھان کوٹ کے قریب چودھری نیاز علی خان کے گائوں (جہاں دارالاسلام کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا) منتقل ہو چکے تھے اور ابھی لاہور جا کر علاّمہ سے ملاقات نہ کر سکے تھے ، پروفیسر نذیر نیازی نے علاّمہ کی خرابی صحت سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ: کچھ دن ہوئے سید محمد شاہ صاحب سے معلوم ہوا کہ آپ جمال پور تشریف لے آئے ہیں اور عنقریب لاہور بھی آئیں گے ۔ اُس وقت سے برابر آپ کا انتظار ہے ۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقعہ لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لائیے تاکہ ملاقات ہو جائے۔ اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیشہ ناک ہے ۔ آپ کا مخلص : نیازی ۱۸؍اپریل ۱۹۳۸ء اسی اثنا میں علاّمہ اقبال کی رحلت کا وقت آگیا اور مولانا کی ملاقات نہ ہو سکی۔ نذیر نیازی کے نام مولانا نے خط لکھا اور حضرت علاّمہ کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کا اس طرح اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: میںاپنے وعدے کے مطابق آنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ یکا یک علاّمہ کے انتقال کی خبر پہنچی ، دفعۃً دل بیٹھ گیا۔ سب سے زیادہ رنج مجھے اس بنا پر ہوا کہ کتنا قیمتی موقع میں نے کھو دیا۔ آپ کے عنایت نامے سے مجھے صحیح اندازہ نہ ہو سکا تھا کہ وقت اس قدر قریب آ گیا ہے ۔ اگر معلوم ہوتا تو سب کام چھوڑ کر فوراً پہنچتا ۔ میں اس کو اپنی انتہائی بدنصیبی سمجھتا ہوں کہ اُس شخص کی آخری زیارت سے محروم رہ گیا جس کا مثل شاید اب ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیں گی۔ محمد علی کے بعد یہ دوسرا نقصانِ عظیم مسلمانوں کو پہنچا ہے اور یہ نقصان میری نگاہ میں پہلے نقصان سے عظیم تر ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ اللہ کو کیا منظور ہے۔ بظاہر تو ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمان قوم کو اس کی ناقدری و نا اہلی کی سزا دی جا رہی ہے کہ اس کے بہترین آدمی عین اُس وقت پر اٹھا لیے جاتے ہیں جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اب سارے ہندوستان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی طرف ہدایت حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا جا سکے۔ ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے، ایک شمع جو ٹمٹما رہی تھی وہ بھی اُٹھا لی گئی ۔ مجھے جو چیز پنجاب کھینچ لائی تھی وہ دراصل اقبال ہی کی ذات تھی۔ میں اس خیال سے یہاں آیا تھا کہ ان سے قریب رہ کر ہدایت حاصل کروں گا اور اُن کی رہنمائی میں جو کچھ مجھ سے ہو سکے گا اسلام اور مسلمانوں کے لیے کروں گا۔ اب میں ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ میں طوفانی سمندر میں بالکل تنہا رہ گیا ۔ دل شکستگی اپنی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔صرف اسی خیال سے اپنے دل کو ڈھارس دے رہا ہوں کہ اقبال مر گئے تو کیا ہوا خدا تو موجود ہے۔ برادرم ، آپ آخر وقت تک علاّمہ کے ساتھ رہے ہیں ۔ اگر میری ہدایت کے لیے انہوں نے کچھ فرمایا ہو تو مجھے ضرور اس سے مطلع کریں ۔ خاکسار : ابوالاعلیٰ ، دارالاسلام۔ پٹھان کوٹ۔ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء (مولانا مودودی اور نذیر نیازی کے خطوط کے اقتباسات ’’وثائق مودودی ‘‘ لاہور سے اخذ کیے گئے ہیں) علاّمہ اقبال کے انتقال کے وقت مولانا کی عمر صرف ۳۵ سال تھی یعنی علاّمہ سے تقریباً نصف کے برابر تھی لیکن عمروں کے اس تفاوت کے باوجود اسلام کی نشاۃ جدیدہ کے لیے دونوں کے زاویہ ہائے نظر یکساں تھے۔ مولانا مودودی نے اپنے انقلابی مقاصد کے لیے حیدر آباد سے رسالہ ’’ترجمان القرآن ‘‘ جاری کیا اور ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘ جیسی عظیم کتاب اُنھوں نے صرف ۳۴ برس کی عمر میں لکھی۔ اس کے علاوہ اوائل عمر ہی میں انھوں نے مختلف موضوعات پر کئی اہم مقالات لکھے جو دنیائے علم و فکر میں رہنمائی کا ذریعہ بنے۔ اسلامی تعلیم و تربیت اور تحقیق کے لیے وہ خود حیدر آباد میں ایک ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے لیے انہوں نے زمین بھی لے رکھی تھی۔ اگر علاّمہ کی دعوت پر پنجاب نہ بھی جاتے تو وہ بڑے صاحب عزیمت انسان تھے، حیدر آباد ہی سے دعوتِ دین کی تحریک کا آغاز کرتے ۔ کسی مادی منفعت کے بغیر حیدر آباد جیسے ترقی یافتہ شہر میں اپنی جمی جمائی زندگی کی بساط کو لپیٹ کر مولانا کے پنجاب کے ایک گائوں میں جا بسنے میں علاّمہ اقبال کے ساتھ افکار و اہداف میں ہم آہنگی کے سوا اور کیا چیز محرک ہو سکتی تھی؟ سرور صاحب نے مناسب علم و آگہی کے بغیر مولانا مودودی کو موضوع سخن بنانے کی کوشش کی۔ سرور صاحب کا یہ عامیانہ ریمارک ملاحظہ کیا جائے ، وہ لکھتے ہیں کہ: مولانا مودودی کی تفیہمات اور تنقیحات اور دوسری تصانیف کا غائر نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہو گا کہ مولانا دانشور نہیں کہے جا سکتے۲۔ دانشور کیوں نہیں کہے جا سکتے ؟ دلائل ملاحظہ ہوں ، اُن کی پہلی دلیل یہ ہے ۔ وہ عقل پر اعتماد نہیں کرتے اوربہت سے سوالات صرف عقیدے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم یہاں ایک ایک دلیل کا مختصر جائزہ لیتے چلیں تاکہ قارئین کو ان کا کھوکھلا پن معلوم ہو سکے ۔ زندگی کے جو مسائل ماورائے عقل ہوں اُن کو عقیدے کے حوالے کیے بغیر چارہ کار ہی نہیں۔ عقیدے کے متعلق سرور صاحب کا ذہن تاریک نظر آتا ہے ۔ اسلامی عقیدہ کسی وہم و گمان کا نام نہیں، اس کی اساس حقائق ابدی پر ہوتی ہے اور یہ خدا اور رسول پر ایمان کے ذریعے ضمیرِ آدم پر منکشف ہوتا ہے۔ مسائل کے ہجوم میں جہاں عقل نا کام ہو جاتی ہے، وہاں عقیدہ انسان کو سہارا دیتا ہے۔ دوسری دلیل ملاحظہ ہو: مولانا اسلام اور اسلام کی تاریخ میں فرق نہیں کرتے ۔ مولانا اسلامی تعلیمات پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ اس دلیل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سرور صاحب نے مولانا کی تصانیف کا سر سری سا بھی مطالعہ نہیں کیا، بلا ثبوت انھوں نے اپنی یہ رائے لکھ دی ۔ مولانا ایک داعی اسلام تھے، اگر انھوں نے اسلامی تعلیمات ہی کو پیش کیا تھا تو اس میں خرابی کیا ہے؟ تیسری دلیل میں سرور صاحب کا ارشاد توجہ کے قابل ہے۔ (مولانا) اسلامی تہذیب کے شاندار سرماے کو جس میں تصوف کے اثرات، فنِ تعمیرات کے کمالات ، خوش نویسی کے نقش و نگار سبھی شامل ہیں قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ مولانا مودودی نے تجدید و احیائے دین کے مشن میں اپنی پوری زندگی جھونک دی تھی۔ وہ جن مسائل اور مہماتِ زندگی سے نبرد آزما تھے، وہ اتنی فرصت کہاں دیتے تھے کہ معاشرت کے ایک ایک جزو پر مفصل کام کیا جائے۔ وہ تو اس بساط زمانہ کو اُلٹ کر نئی بساط بچھانے میں لگے ہوئے تھے۔ وہ بھلا ثقافتی اُمور پر کیسے توجہ دے سکتے تھے ۔ سرور صاحب نے تصوّف فن تعمیر اور خُوش نویسی کو اسلامی تہذیب کا سرمایہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ تمدنی و ثقافتی معاملات ہیں۔ تہذیب و ثقافت میں نازک فرق پایا جاتا ہے ، جس کو سمجھے بغیر ہی اُنھوں نے مولانا کو موردِ الزام قرار دیا ہے۔ افسوس کہ سرور صاحب کی کم نظری بھی ادب و تنقید کے میدان میں ہنر بن گئی ۔ سرور صاحب کی چوتھی دلیل کی حقیقت کیا ہے ، دیکھتے چلیں۔ وہ (مولانا) مغرب ، مغربی تہذیب ، عقلیت، سائنس ، صنعت و حرفت اور جمہوری اداروں کے صرف تاریک پہلو دیکھتے ہیں۔ وہ وکیل ہیں، مفکر نہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ صرف مولانا مودودی ہی نہیں، کوئی بھی داعی اسلام، جن ذرائع سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ، اُن کو روکنے کی لازماً کوشش کرے گا۔ مغربی تہذیب اور عقل پر ستی پر تنقیدکیے بغیر ایک صالح معاشرے کی تعمیر کیسے ممکن ہے ؟ مولانا نے صرف تنقید ہی نہیں کی تھی بلکہ اسلامی زندگی کی حقیقتوں سے دنیا کو واقف کرانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ چنانچہ انھوں نے تنقیدِ مغرب میں وکیل کا فریضہ انجام دیا اور تعمیر مشرق میں ایک مفکر کا کردار ادا کیا ہے ۔ان حقائق کو کوئی کور ذوق نقّاد کیسے قبول کر سکتا ہے۔ آج کل دنیا کے جمہوری اداروں کی کیسی برُی حالت ہے؟ ان کی جتنی خرابیاں گنوائی جائیں کم ہیں، صرف نام کی جمہوریتوں سے انسانوں کو کیا راحت مل سکتی ہے ، مولانا مودودی نے فی نفسہٖ جمہوریت کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ اُنہوں نے جمہوریت کی صحت و سلامتی کے لیے اپنی سیاسی پارٹی ’’جماعت اسلامی‘‘ کے ذریعے پاکستان میں نہایت گرانقدر خدمات انجام دیں۔ جہاں تک سائنس اور صنعت و حرفت کی بات ہے، مولانا مودودی نے ان علوم و فنون کے حصول کی کبھی مخالفت نہیں کی ۔ انہوں نے ۲۱ ؍ سال کی عمر میں ایک معرکہ آرا مقالہ ’’ہندوستان کا صنعتی زوال اور اُس کے اسباب‘‘ کے موضوع پر لکھا تھا اور یہ اُس وقت کے مشہور رسالے ’’نگار ‘‘ کی تین اشاعتوں (اکتوبر ، نومبر ، دسمبر ۱۹۲۴ء ) میں شائع ہوا تھا۔ اس مقالے کی اشاعت میں صاحب ’’نگار ‘‘نیاز فتح پوری نے جو بددیانتی کی تھی، وہ مولانا مودودی کے ایک مکتوب کی اشاعت سے نظر پڑ گئی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ: میں نے ایک نہایت مفصل مضمون اُن معاشی نقصانات پر لکھا تھا جو انگریزی حکومت نے ہندوستان کو پہنچائے تھے ، وہ میرے مہینوں کی محنت و مشقَّت کا نتیجہ تھا۔ اس کی پہلی قسط جب ’’نگار‘‘ میں نیاز صاحب کے نام سے شائع ہوئی تو میں نے اس پر سخت احتجاج کیا، تب باقی قسطیں میرے نام سے چھپیں۔ (مکاتیبِ سید ابوالاعلیٰ مودودی حصہ دوم ۔ مکتوب نمبر ۲۲۱۔ مرتبہ عاصم نعمانی) مقام حیرت ہے کہ نیاز فتح پوری جیسے سارقِ علمی (Plagiarist) کو سرور صاحب نے دانشور ادیبوں کی فہرست میں شامل کیا ہے، کم علمی و بے دانشی کی اس سے بڑھ کر کیا مثال پیش کی جائے؟ سرور صاحب کے سلسلۂ کلام کا پانچواں نکتہ یہ ہے ۔ وہ ایک اہم مصنف ہیں اور ایک خاص اسلوب کے مالک ہیں جو بر نارڈشا کی طرح پر جوش ادعا (Effectivness of Assertion) رکھتا ہے۔ مگر تاریخ ، تہذیب اور فلسفے پر ان کے افکار میں گہرائی نہیں ہے، جس کی ہم ایک دانشور سے توقع رکھ سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ ، تہذیب و فلسفے میں مولانا کی نگارشات کی داد کوئی صاحب نظر، فاضل ہی دے سکتا ہے۔ اُن کا اسلوب سادہ لیکن نہایت سلجھا ہوا ہوتا ہے۔ مضمون پر قدرت اور اُس کے اظہار کی خوبی یہ ہے کہ وہ مشکل سے مشکل موضوعات کو بھی آسان سے آسان پیرایے میں بیان کر جاتے ہیں۔ یہ اُن کا اعجاز ہے ۔ اگر مضمون کی طوالت کا اندیشہ لاحق نہ ہوتا تو یہاں اس کی چند مثالیں بھی دی جا سکتی تھیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ گہرائی کے لیے پیچیدہ اور دقیق طرزِ اظہار ضروری نہیں۔ مولانا نے تاریخ ، تہذیب و فلسفہ ہی نہیں بلکہ قانون معاشیات ، دینیات و سیاسیات کے علاوہ دیگر کئی اہم شعبوں میں بڑی قیمتی کتابیں لکھیں اور ان کی نظری و عملی کاوشوں کے ذریعے اسلامی اجتماعیات کا ایک پورا دبستان ہی وجود میں آ گیا ہے۔ سرور صاحب کا آخری ارشاد یہ ہے کہ :۔ مولانا کی فکر میں ایک کٹّر پن ہے ۔ وہ اجتہاد کی ضرورت سے تو انکار نہیں کر سکتے مگر اس پر ایسی پابندیاں ضروری سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کی نوبت ہی نہ آ سکے ۔ مولانا مودودی خاندانی خصوصیات کے لحاظ بھی ایک اعلیٰ معیار کے انسان تھے، پھر اُن کی نوجوانی حیدر آباد جیسے ایک علم و تہذیب کے شہر میں گزری ۔ یہاں بڑے بڑے صاحبانِ علم و فن کے ساتھ اُن کا رابطہ رہا۔ آصف جا ہی سلاطین کی طرزِ حکومت سے حیدر آباد میں ایک نہایت اعتدال پسند معاشرہ وجود میں آ چکا تھا۔ ہندوستان کے دوسرے شہروں سے لوگ یہاں چلے آتے تھے اور اُن کے لیے یہی پرُ امن و اعتدال پسندی کی فضا وجہ کشش ہوا کرتی تھی۔ ایسے خوشگوار ماحول میں مولانا کی تعلیم و تربیت ہوئی اور اُنہوں نے اپنی زندگی کا ایک تہائی سے زائد حصہ یہاں گزارا ۔ بھلا ایسی شخصیت کے فکر میں کٹر پن کیسے پیدا ہو سکتا ہے ۔ مولانا کی فکر میں اصابت و استقامت تو بہت ہے لیکن تنگ نظری و کٹر پن کا کہیں گزر نہیں۔ اُن کی سیرت و سوانح نگاروں نے اس قسم کا کوئی اعتراض اُن پر نہیں کیا۔ اب رہا اُن کے نظریۂ اجتہاد کا مسئلہ ۔ سچ تو یہ ہے کہ سرور صاحب اسلامی آئیڈیالوجی کے آدمی نہیں۔ ملازمتِ درس تدریس میں اُن کی تمام عمر کٹی ، ادبیات میں ان کا مطالعہ وسیع لیکن تجربہ بہت محدود ہے اور وہ کسی وسیع موضوع کو قابو میں لانے سے بالکل عاجز نظر آتے ہیں ۔ علاّمہ اقبال پر اور مولانا مودودی کے متعلق جو کچھ انھوں نے اس مضمون میں لکھا ہے، وہ سب مہمل ہے۔ سرور صاحب کے علاوہ مسلمانوں کا موجودہ تجدّد پسند طبقہ یہ چاہتا ہے کہ اسلامی قانون میں ایسی تبدیلیاں کر دی جائیں کہ وہ زمانہ حاضرہ میں مغربی و مادی افکار سے ہم آہنگ ہو جائے ۔ اس طبقے کا سارا زور اِس بات پر بھی ہے کہ مسلمانوں کو موجودہ زمانے کے چوکھٹے میں بٹھا دیا جائے۔ ظاہر ہے اس قسم کے فتنہ خیز ماحول میں مولانا جیسا ایک عالم ربّانی اُمت کو ان تمام جاہلی میلانات سے بچانے کی کوشش کرے گا ۔ تعجب یہ ہے کہ جو طبقہ Adjustment چاہتا ہے، اُس کو اجتہاد کی بڑی فکر لاحق ہے۔ حالانکہ اجتہاد تو اسلامی انقلاب کے لیے ضروری ہے ۔ علاّمہ اقبال جو خود اجتہاد کے بڑے داعی تھے، اس راہ کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے بھی اس معاملے میں سلفِ صالحین کی احتیاط پسندی کی اس طرح تائید کی تھی کہ :۔ یہ ایک طبعی امر تھا کہ سیاسی زوال و انحطاط کے اس دور میں قدامت پسند مفکر اپنی ساری کوشش اس بات پر مرتکز کر دیتے کہ مسلمانوں کی حیاتِ ملی ایک یک رنگ اور یکساں صورت اختیار کر لے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح ان میں مزید انتشار پیدا نہیں ہو گا۔ اُنہوں نے اس کا تدارک اس طرح کیا کہ فُقہائے متقدمین نے قوانین شریعت کی تعبیر جس طرح کی تھی اس کو جوں کا توں برقرار اور ہر قسم کی بدعات سے پاک رکھا۔ (’’الاجتہاد فی الاسلام ‘‘۔ ’’خطبات اقبال: نئے تناظر میں‘‘ از محمد سہیل عمر (لاہور، ص ۱۸۸) چنانچہ یہی موقف مولانا مودودی علیہ رحمۃ کا تھا اور یہی اسلامی دانشوری کا تقاضائے عصر بھی ۔ سرور صاحب نے اپنے اس طویل مضمون کو مشہور ادیب محمد حسن عسکری کے تذکرے پر ختم کیاہے۔ اس کے آخری پیرا میں اپنے تصوّراتی دانشور کی تصویر یوں کھینچی ہے: دانشور وہ ہے جو اپنی بصیرت سے زندگی میں پرُ سوز عقلیّت پیدا کرے۔ سچا دانشور صرف گفتار کا غازی نہیں ہوتا، وہ کردار کا غازی بھی ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اس راستے پر چلنا سکھاتا ہے ۔ دانشوری صرف روشنی دکھانے کا نام نہیں، عمل کی راہیں روشن کرنا بھی ہے ۔ دانشوری بھی ایک جہاد ہے ۔ گفتار و کردار میں مناسبت نہ ہو، علم اور عمل ساتھ ساتھ نہ چلیں تو دانشوری صرف ایک شہاب ثاقب ہے، جو کچھ دیر اپنا جلوہ دکھا کر فضا میں غائب ہو جاتا ہے۔ اس تخیلی حسین تصویر کو سامنے رکھ کر دیکھئے تو صرف علامہ اقبال اور مولانا مودودی ہی کی شخصیات میں یہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ حواشی ۱۔ سرور ، آل احمد، ہفتہ وار کالم ایوان ادب، روز نامہ ’’منصف‘‘ حیدر آباد دکن۔ ۲۔ ایضاً ۳۔ صدیقی ، ڈاکٹر رضی الدین ، اقبال کا تصور زمان اور دوسرے مضامین، ناشر مجلس ترقی ادب ، لاہور، (مقالہ مذہب و سائنس اقبال کی نظر میں) ۴ ۔ سرور ، آل احمد ، حوالہ مذکور دیکھیے نمبر ۱ ۵ ۔ ایضاً ۶ ۔ تاج ، تصدق حسین (مرتب) مضامین اقبال، دارالاشاعت حیدر آباد دکن ، ص ۱۹۲۔ ۷ ۔ سرور ، آل احمد ، حوالہ مذکور دیکھیے حوالہ نمبر ۱ ۸ ۔ ایضاً ۹ ۔ برنی ، مظفر حسین (مرتب) کُلیّات مکاتیب اقبال ، اردو اکادمی دہلی (علامہ اقبال کا آل احمد سرور کے نام خط) ۱۰۔ تاج ، تصدق حسین (مرتب ) مضامین اقبال، ص ۱۹۲۔ حوالہ مذکور ۔ ۱۱۔ عزیز احمد ، ہندوستان میں اسلامی جدیدیت : مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی ، ص ۲۶۷۔ ۱۲۔ سرور ، آل احمد ایضاً حوالہ مذکور ، ہفتہ وار کالم ایوان ادب روز نامہ ’’منصف‘‘ ۔ حیدر آباد ابوالکلام قاسمی اقبال تنقید اورآل احمد سرور علاّمہ اقبال کی فکر اور شاعری کے بارے میں رطب و یا بس تحریروں کا اتنا بڑا زخیرہ دستیاب ہے کہ اس میں سے نمائندہ اور قابل قدر مضامین اور کتابوں کی نشان دہی کی کوشش مشکل معلوم ہوتی ہے۔ تاہم اس بات کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کے فکر و فن کو اس کے پورے سیاق و سباق میں سمجھنے کی اہم اور قابل توجہ کوششیں کن ماہرین اقبالیات کی تحریروں میں ملتی ہیں۔ آل احمد سرور کا نام بلاشبہ موخر الذکر زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ آل احمد سرور نے اقبال کی شاعری سے اپنی دلچسپی اور اس پر غور و فکر کا سلسلہ اقبال کی زندگی میں ہی شروع کر دیا تھا، مگر ان کی ابتدائی زمانے کی تحریروں میں تلاش و جستجو بلکہ تجسس کے رجحان سے زیادہ اور کچھ نہیں ملتا۔ اقبال کی منظوم و منشور تحریروں کی تفہیم اور ان تحریروں کی مدد سے پورے اقبال کے نقوش مرتب کرنے کی دیانت دارانہ کاوش ۔ ظاہر ہے کہ اقبال جیسے متنوع اور ہمہ جہت مفکر اور شاعر کی تمام جہات تک رسائی حاصل کرنا اور ان کے فکر و فن کی رنگا رنگی میں ترتیب و تنظیم کی جستجو میں کامیابی حاصل کر لینا کوئی آسان بات نہ تھی ۔ چنانچہ انھوں نے اپنے بعض مضامین میں اپنی ان مشکلات کا ذکر بھی کیا ہے جن سے وہ ابتدا میں نبرد آزما رہے ۔ لیکن اگر سرور صاحب کے اس نوع کے مضامین کو زمانی ترتیب اور تسلسل کے ساتھ سامنے رکھا جائے تو وہ گتھیاں کھلتی نظر آتی ہیں جن کو ہم اقبال فہمی کے مختلف مراحل کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ انھوں نے اقبال پر اندازاً دودر جن مضامین ، متفرق انداز میں لکھے ہیں اور بیس مضامین کا مجموعہ ’’دانش اور اقبال‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ ان تحریروں میں ابتدائی برسوں کے مضامین کے علاوہ بیش تر مضامین میں اقبال کے افکار اور فنی اسرار و رموز کو دِقّتِ نظر سے سمجھنے کا رویّہ ملتا ہے۔ کہیں اقبال کی مشرقیت کو موضوع بنایا گیا ہے تو کہیں اقبال اور اشتراکیت کے رشتے کی عُقدہ کشائی کی گئی ہے،کسی مضمون میں تصوّف کے حوالے سے اقبال کی فکر زیرِ بحث ہے تو کسی مضمون میں اقبال کے خطیبانہ لہجے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان مضامین میں مابعد الطبیعات اور اسلامی فکر کی تشکیل جدید ، جیسے عالمانہ موضوعات سے لے کر تصوّرات کو شاعری بنانے کے مسائل تک ، اپنے دائرئہ کار کو وسیع رکھا گیا ہے۔ مگر سرور صاحب کی اقبال فہمی کے ابتدائی مرحلے کے پس منظر کے طور پر ان کے ایک ایسے خط کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جو اقبال کی تحریروں سے ان کی سچی دلچسپی کی نمائندگی کرتا ہے۔ ماہ نو (کراچی) کے خاص نمبر (۱۹۴۹ئ) میں ’’اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط‘‘ کے عنوان سے سرور صاحب کا ایک نوٹ اور علامہ اقبال کے خط کی نقل شائع ہوئی تھی۔ اس میں سرور صاحب نے اپنے ایک ایسے خط کا ذکر کیا ہے جو انھوں نے اپنے ادبی سفر کے آغاز میں اقبال کو لکھا تھا۔ پورے خط کے مضمون کو خود انھوں نے اس طرح اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے: بارہ سال کا عرصہ ہوا جب میں نے اقبال کو ایک خط لکھا تھا اس خط میںبہت سے سوالات تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اوّل تو اشتراکیت اور فاشزم سے متعلق ان کی رائے دریافت کی تھی۔ دوسرے بعض نظموں میں جو تضاد نظر آتا ہے اس کی طرف اشارہ کیا تھا، تیسرے خاص طور پر ’’بال جبریل‘‘ میں مسولینی پر جو نظم ہے اس پر اعتراض کیا تھا اور اس کا مقابلہ ’’ضربِ کلیم‘‘کی نظموں سے کر کے دونوں کا فرق ظاہر کیا تھا، اس زمانے میں میرا ادبی شعور خاصا خام تھا ۔ اقبال کا کلام بہت پڑھا تھا۔ مگر شروع سے آخر تک باقاعدہ مطالعہ نہ کیا تھا ۔ ان کے لکچر نہ دیکھے تھے۔ اقبال کا قائل ہونے کے باوجود ان کے یہاں فاشزم کے اثرات جابجا نظر آتے تھے، اس لیے یہ خط لکھا گیا تھا۔ سرور صاحب نے اپنے خط کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ناپختگی کا بھی ذکر کیا ہے اور شروع شروع میں اقبال کی تمام تحریروں کا بالاستیعاب مطالعہ نہ کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔ یہ بات اندازاً علامہ اقبال کی وفات سے ایک سال قبل یعنی ۱۹۳۷ء کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک نوجوان اور نا آزمودہ کار متلاشی کا تجسس اور ایک سنجیدہ طالب علم کا دیانت دارانہ استفسار اس بیان سے نمایاں ہے جو بہرحال قابل قدر بھی ہے اور علمی تفحص پر دال بھی۔ یوں تو سرور صاحب کے سوالات کے جو جوابات علامہ اقبال کے خط میں ملتے ہیں وہ اپنی جگہ ان کے واضح نقطۂ نظر کو سامنے لاتے ہیں، لیکن اس خط و کتابت سے آل احمد سرور کے اس گہرے سروکار کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے جو ان کی اقبال فہمی کے مختلف مراحل کو بھی نمایاں کرتا ہے اور اقبال سے ان کی سچی وابستگی کو بھی۔ علامہ اقبال نے ان کے خط کا قدرے تفصیلی جواب دیا تھا تاہم اس خط کے بعض نکات کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اپنے۱۲ ؍مارچ ۱۹۳۷ء کے جوابی خط میں لکھتے ہیں کہ : ۱۔ میرے نزدیک فاشزم ، کمیونزم ، یازمانہ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے ۔ میرے عقیدے کی رُو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کے لیے ہر نقطہ نظر سے موجب نجات ہو سکتی ہے ۔ میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کا مطالعہ ضروری ہے۔اگر آپ پورے غور اور توجہ سے یہ مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ انہیں نتائج تک پہنچیں جن تک میں پہنچاہوں۔ اس صورت میں غالباً آپ کے شکوک تمام کے تمام رفع ہو جائیں ۔ ۲۔ آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میرے کلام کا بھی بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا ۔ اگر میرا یہ خیال صحیح ہے تو میں آپ کو یہ دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس طرف توجہ کریں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی باتیں خود بہ خود آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔ ۳۔ مسولینی کے مطابق جو کچھ میں نے لکھا ہے اس میں آپ کو تناقذ (کذا) نظر آتا ہے۔ آپ درست فرماتے ہیں ۔ لیکن اگر اُس بندئہ خدا میں Devil اور Saint دونوں کے خصوصیات جمع ہوں تو اس کا میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۴۔ آپ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے لکچرر ہیں ۔ اس واسطے مجھے یقین ہے کہ آپ لٹریچر کے اسالیبِ بیان سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں ۔ تیمور کی طرف اشارہ محض اسلوب بیان ہے۔ اسلوب بیان کو شاعر کا حقیقی view تصور کرنا کسی طرح درست نہیں۔ آپ کے دل میں جو باتیں پیدا ہوئیں ہیں ۔ ان کا جواب بہت طویل ہے اور میں بحالِ موجودہ طویل خط لکھنے سے قاصر ہوں۔ نہیں معلوم کہ علامہ اقبال کے مشورے کے مطابق سرور صاحب نے حقائق اسلامیہ سے کتنی واقفیت بہم پہنچائی ۔ مگر ان کی بعدتحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے اقبال کو حتی الامکان پورے سیاق و سباق میں دیکھنے اور سمجھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس باعث مجنوں گورکھپوری یا ان کی قبیل کے بعض دوسرے ترقی پسند نقادوں کے اس اعتراض کے کھوکھلے پن کو سمجھنے میں وہ کامیاب ہوئے کہ اقبال کے یہاں شاہین کے استعارے پر زور اور جلال کی صفت پر اصرار گویا فسطائی رویے کی نمائندگی کرتا ہے۔ سرور صاحب نے بجا طور پر اس بات کی وضاحت کی کہ جلال کے ساتھ جمال ، عقل کے ساتھ عشق اور طاقت کے جبروت کے ساتھ فقروقناعت ، کیوں کر انسان کامل کے ترکیبی عناصر بن جاتے ہیں، کہ ایک مرحلے پر یہ عناصر ایک دوسرے سے متصادم نہیں معلومِ ہوتے بلکہ شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ علاّمہ اقبال ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جن کے افکار اور شاعری پر غور و خوض کا سلسلہ ان کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ ان کے انتقال سے تقریباً پانچ سال قبل ۱۹۳۳ء میں ’’نیرنگِ خیال‘‘ کا اقبال نمبر شائع ہوا تھا، جس میں ان کی نثر و نظم کی جہات کا بڑی حد تک احاطہ کیا گیا تھا۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ابتدائی زمانے میں ان کی شاعرانہ حیثیت سے کہیں زیادہ ان کا فلسفۂ زندگی زیرِ بحث رہا۔ آل احمد سرور کی تنقید ی تحریروں میں بھی ابتدائی دہائیوں میں اقبال کے افکار پر زیادہ توجہ ملتی ہے۔ چونکہ سرور صاحب شعر و ادب کے نقّاد ہونے کے ساتھ ہمیشہ دانش ورانہ فکر کے شیدائی رہے ہیں، اس لیے اقبال کی دانش وری نے بھی ان کی توجہ اپنی طرف پہلے مبذول کرائی ۔ ان کے مضامین میں دانش ور اقبال ، اقبال کی مشرقیت ، تشخص کا مسئلہ ، اقبال اور جمہوریّت اور اقبال کی سیاسی فکر جیسے موضوعات اس طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ سرور صاحب نے اقبال کی شاعرانہ حیثیّت سے صرفِ نظر کیا ہو۔ لیکن انھوں نے نسبتاً بعد کے مضامین میں اقبال کی غزل گوئی ، نظم نگاری اور فنّی مسائل و موضُوعات پر بھی تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ اقبال کی فکر کا جائزہ لیتے ہوئے سرور صاحب نے ان کے خُطبات اور نثری بیانات کو جگہ جگہ موضوع بنایا ہے۔ ان کی شکایت ہے کہ اقبال کی صحیح تفہیم سے کہیں زیادہ ان کے لیے تحسین اور مبالغہ آمیز توصیف کا رویہ اپنایا گیا ہے۔ اقبال کی دانش وری پر گفتگو کرتے ہوئے وہ بجا طور پر قدر شناسی اور توصیفی طریق کار پر اپنے ردِّعمل کا اظہار کرتے ہیں : اقبال نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی ایک حسّاس بیدار مرتب اور منظم ذہن کا لافانی نقش چھوڑا۔ اس کی قدر تو بہت ہوئی مگر اس کا عرفان عام نہ ہو سکا۔ کیونکہ برِصغیر میں وہ ذہن جو ہندوستانی مسلمانوں کی پونجی ہے اور وہ تہذیبی میراث جو اُردو ادب کے ذریعہ عام ہوئی ہے ، ابھی تک پرستش کی دل دادہ ہے، عرفان کی نہیں ، تحسین کی قائل ہے تجزیے کی عادی نہیں، ساحل سے نظارہ کرتی ہے سمندر میں نہیں اترتی، اسے صدف سے مطلب ہے گہر سے نہیں۔ مگر اس بیان میں حُسنِ بیان کا لُطف تو ضرور موجود ہے ، پورے مضمون میں خود بھی تجزیہ اورتحلیل سے سروکار نہیں رکھا گیا ہے۔ سرور صاحب اقبال کے افکار کا ذکر تو بار بار کرتے ہیں ، لیکن ’’اسرار خودی‘‘، ’’رموز بے خودی‘‘ ، جیسی طویل نظموں اور شاعرانہ فکر سے آگے جانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ۔ سرور صاحب خود بھی اقبال کی مابعد الطبیعاتی فکر اور خطبات کی طرف بڑی مشکل سے متوجہ ہوتے ہیں۔ اقبال نے اپنے خطبات میں نُصِ قطعی ، احادیث اور فقہہ کے جن نکات پر اپنی رائے دی ہے اور مسلمانوں کی عام فکر اور جبرو اختیار کے مسائل پر جس طرح اظہار خیال کیا ہے اس سے دور دور رہنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ، سوائے اس کے کہ اقبال نے اسلام کے ماخذ پر جس عبور کا مظاہرہ کیا ہے اس نوع کی دسترس اور مذہبی واقفیت کے بغیر خُطبات پر قلم اٹھانا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے مُترادف معلوم ہوتا ہے۔ سرور صاحب نے اقبال کی متصوّفانہ فکر پر البتہ توجہ صرف کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ’’اقبال وحدۃ الوجُود کے یکسر مخالف نہ تھے، اس کی عملی تعبیر اور فلسفہ و شاعری میں اس کے منفی اثرات کے مخالف تھے‘‘۔ یہاں اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ اپنے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے ’’ایران میں بعدالطبیعات کے ارتقا‘‘ میں اقبال نے بنیادی طور پر اس بات سے سروکار رکھا ہے کہ وحدۃ الوجود میں بھگتی کے جو اثرات شامل ہوئے تھے ان کے باعث وحدۃ الوجودی فکر کے زیر اثر تقدیر کا غلط تصور رائج ہوا، اور اسی باعث انسان کو اس حدتک مجبور محض سمجھ لیا گیا کہ اس کے ارادہ واختیار کو بے معنی تصور کر لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقدیر پرستی کی لیے اس حد تک بڑھی کہ انسان کے اختیار کو ایک الزام اور ایک تُہمت کے مترادف قرار دے دیا گیا۔ چونکہ اس تصور نے ایران اور ہندوستان میں مسلمانوں سے قوتِ عمل چھین لی اور انفِعال ، مجُہولیّت اور ناکار کردگی کو نیکی اور مثبت قدر کا بدل سمجھ لیا گیا، اس لیے اقبال مدلل انداز میں اس بات پر توجہ دلاتے ہیں کہ جبرو اختیار کا اسلامی مفہوم کیا ہے اور کیونکر اپنی حالت کے بدلنے کی تدابیر کے بغیر صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے میں کوئی خیر کا پہلو پُوشیدہ نہیں۔ اس ضمن میں آل احمد سرور نے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ ’’اسرار خودی‘‘ کے دیباچے اور اقبال کے بعض خطوط کو حوالہ بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اقبال اور تصوّف کے موضوع پر ’’اسرار خودی‘‘ کے دیباچے میں محض بنیادی باتیں بیان کر دی گئیں ہیں، اس سلسلے کا اتمامِ حُجَّت اقبال کے خُطبات اور ان کے تحقیقی مقالے میں ملتا ہے ، جن کے حوالے سے سرور صاحب کی تحریروں میں کوئی بات نہیںملتی ۔ اقبال نے واضح لفظوں میں لکھا تھا کہ ’’عجمی تصوّف جُزو اسلام نہیں، یہ ایک قسم کی رہبانیت ہے، جس سے اسلام کو قطعاً تعلق نہیں اور جس کے اثر سے اسلامی اقوام میں قوتِ عمل مفقود ہو گئی ہے‘‘۔ لیکن اقبال کے اس خیال سے ان کی تحقیق کا بنیادی تصور سامنے آتا ہے اور وہ بھی تصوّف کے محض ایک مکتبِ فکر ’’وَحدتُ الوجود‘‘ کے حوالے سے ۔ جب کہ ’’وحدۃُ الشہود‘‘ کے سلسلے میں اقبال ہر جگہ رَطبُ اللسان ہیں اور اس تصور میں وہ عجمی اثرات کی شمولیت نہیں پاتے۔ آل احمد سرور نے تصوف کے حوالے سے اقبال کی تصوّرِ عشق کی بحث بھی چھیڑی ہے۔ وہ کبھی اقبال کے تصوّرِ عشق کو اردو یا فارسی غزل کے تصوّرِ عشق سے الگ قرار دیتے ہیں، کبھی بعض صوفی شاعروں کے عشق کو اقبال کے تصورِ عشق کا سرچشمہ بتاتے ہیں اور کبھی اسے محض غیر جنسی عشق کہہ کر اپنی بات مکمل کر لیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ : عشق کا تصور جو میر یا درد یا غالب یا اقبال کے یہاں ملتا ہے، جنسی تجربہ نہیں ہے، اس سے بہت مختلف ہے۔ اقبال کے یہاں تو اس کا تصور اتنا بلند ہے کہ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ : عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو عقل و دیں بت کدئہ تصورات یعنی یہ عشق سستے معنی میں عقل کی ضد نہیں بلکہ باطنی نظر ہے۔ حقیقت تک پہنچنے کا ایک وسیلہ اور رہنما ۔ اس بیان میں عشق کے حوالے سے اس قدر خلط مبحث ہے کہ اس کی وضاحت خاصی تفصیل کی متقاضی ہے۔ تاہم یہ وضاحت یہاں ناگزیر معلوم ہوتی ہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں عشق کا تصور یقینی طور پر حقیقی اور مجازی معنوں کا احاطہ کرتا ہے مگر میر ہوں ، میر درد ہوں یا غالب ، یہ سارے شعراء اس تصوّرِ عشق کے پروردہ ہیں۔ جبکہ اقبال کا عشق ایک بالکل مختلف سیاق و سباق کا حامل ہے۔ اقبال کا عشق ایک قوّتِ حیات ہے، اپنے مقصد اور مدعا سے غیر معمولی شغف ہے، اس کی تکمیل جمال کے ساتھ جلال سے اور غیر معمولی حرکت و عمل سے ہوتی ہے ۔ اقبال کے اس تصوّرِ عشق کے رموز اس وقت تک ہمارے ہاتھ آ ہی نہیںسکتے جب تک ہم رسول کریمؐ اور قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں کے خون جگر سے نمود پانے والے جذبے اور لگن سے اپنے آپ کو وابستہ کر کے نہیں دیکھتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ قُرطبہ کی مسجد جیسے عظیم فن پارے کو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے جذبۂ عشق کا زائیدہ بتانے پر اپنی نظم میں اس قدر زور صرف نہ کرتے اور سلسلۂ روز و شب کی تمام تعمیری اور تخریبی قوتوں کے لیے: ؎عشق خود اِک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام کا نام نہ دیتے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ صُوفیانہ تصوّرِ عشق اور مجازی تصوّرِ عشق سے الگ اقبال کے عشق کو مخصوص سیاق و سباق میں دیکھا جاتا اور اس کے شواہد اقبال کے کلام میں تلاش کیے جاتے۔ آل احمد سرور نے اپنے متعدد مضامین میں اقبال کی مشرقیت کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ اقبال کو شاعرِ اسلام بھی کہا جاتا ہے اور شاعرِ مشرق بھی۔ دونوں باتیں اپنے اندر جزوی صداقت رکھتی ہیں۔ جہاں تک مشرقیّت کا سوال ہے تو اقبال کے حوالے سے سرور صاحب ، مطلق مشرقیّت کے بجائے نئی مشرقیّت کا نام تجویز کرتے ہیں۔ اس کا سبب سوائے اس کے اور کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ سرور صاحب کو یہ اندیشہ ہے کہ اقبال کو محض مشرقیّت کا دلدادہ قرار دینے سے ، کہیں نئی مغربی روشنی سے ان کی محرومی کا اثر نہ قائم ہو جائے۔ اس لیے ان کے نزدیک نری مشرقیّت کوئی مستحسن چیز نہیں، البتہ نئی مشرقیت ان کے لیے مغربی تہذیب و آگہی سے واقفیت کا اثر بلکہ اس کا ردِ عمل ہے ۔ وہ اپنے ایک مضمون میں ’’جدید اور مشرقی اقبال ‘‘ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں کہ: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری مشرقیّت وہ ہے جو ہمیں اقبال کے یہاں ملتی ہے۔ یہ نئی مشرقیّت ہے اور مغرب کے اثر سے وجود میں آئی ہے۔ یہ ہندوستانی نَشَاۃِ ثانیہ کا عطیہ ہے۔ اس سلسلے میں سرور صاحب نے سر سیّد کو ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کا نمائندہ قرار دیا ہے اور اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ ’’اگر سر سید نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے ‘‘، ہو سکتا ہے کہ سر سیّد کی تحریک اور نئی بیداری کا ردِ عمل بقول سرور صاحب ’’اقبال پر یہ ہوا ہو کہ انھوں نے سر سیّد کی طرح مغربی تہذیب اور مغربی تعلیم کا آئیڈیل بنانے کے بجائے جدید مغربی ثقافت کے کُھوکھلے پَن کا اندازہ لگانے کے بعد مشرقی اقدار حیات اور مذہبی بنیادوں پر غور و خوض کا سلسلہ نئے سرے سے شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ اقبال نے جو یہ کہا کہ : کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے سچ نے ابلۂِ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس شعر کے ضمن میں بقول آل احمد سرور ، ابلۂِ مسجد کی وضاحت ’’جامد مذہبی تصوّرات اور صرف عقائد و عبادات ‘‘ سے اور ’’تہذیب کا فرزند‘‘ کی تشریح کی تعبیر مغربی افکار و اقدار کی تقلید اور اسی میں نجات کو محسوس کرنا‘‘ جیسے رَوَیُّوں سے کی جا سکتی ہے۔ ان وضاحتوں میں جامد مذہبی تصورات کی بات تو قابل فہم ہے لیکن عقائد کی نمائندگی کرنے والوں کو اقبال کا ابلۂ مسجد قرار دینا کسی بھی طرح نہ قابل قبول ہے اور نہ اقبال کی پوری فکر کے حوالے سے قرین قیاس ۔ اقبال نے اسلام کے اصولی معاملات کے سلسلے میں کبھی بھی کسی طرح مفاہمت کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ ریا کاری اور ظواہر کا معاملہ بالکل الگ ہے اور اقبال اس پر معترض بھی ہوتے ہیں۔ مگر عبادت و عقائد کو علی الاطلاق اقبال کا ھدف ثابت کرنا اقبال کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے جس کی توقع کم از کم آل احمد سرور جیسے اقبال فہم سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس تسامح کا حل ہمیں سرور صاحب کے مضمون ’’اقبال اور نئی مشرقیّت ‘‘ میں ملتا ہے جہاں انھوں نے ظواہر پرستی اور بے روح مذہبیت کو اقبال کا اصل ہدف بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: یہ بات واضح ہے کہ اقبال مثلاً اکبر کی طرح مشرقیّت کے علم بردار نہیں اور مشرق کے جمود ، مزاجِ خانقاہی ، تقدیر پرستی اور بے عملی پروار کرتے ہیں‘‘۔ سرور صاحب نے مشرق کے حوالے سے اقبال کی ترجیحات کا ذکر اپنے مضامین میں جگہ جگہ کیا ہے مگر مشرق کی روحانیت کو مغرب کی مادیت ، مشرق کے جمال کو مغرب کے جلال اور مشرق کے جذبے اور عشق کو مغرب کی تعقّل پسندی اور بے روح مادی ترقی کے تناظر میں پیش نہ کرکے اقبال کی مشرق پسندی کے بنیادی سروکار کو نظر انداز کر دیا ہے۔ سرور صاحب قصۂ جدید و قدیم کو دلیل کم نظری کہتے ہیں، مشرق سے بیزاری اور مغرب سے احتراز کی ممانعت کرتے ہیں اور ہر شب کو سحر کرنے کا مشوّرہ دیتے ہیں، یا پھر عشق کی بدولت کفر کو مسلمانی اور عشق کے بغیر مرد مسلماں کو کافر و زندیق کی صورت میں دیکھتے ہیں ۔۔۔ یہ باتیں شاعرانہ اس لیے نہیں معلوم ہوتیں کہ سرور صاحب کی اپنی اختراع نہیں بلکہ یہ تمام نکات اقبال کے مختلف اشعار کو نثری شاعری بنا کر پیش کرنے کی مثالیں ہیں۔ سرور صاحب کی تنقید میں جس آرائشی رائے زنی کو متعّدد نقّادوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس کا ایک بڑا مظہر یہ بھی ہے کہ بسا اوقات اچھے اشعار کی تعیّنِ قدر کی بجائے وہ اپنی نثرمیں شعری خیالات کو تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس طریق کار کو ادبی تنقید کا نعم البدل سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ذیل کے بعض فقروں سے اس انداز نقد کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے اور اس اشعار کی بازگشت بھی محسوس کی جا سکتی ہے جو تنقید نگار کے رنگین اسلوب بیان کا محرک ہیں۔ اقبال کے بعض اشعار کی نثری صورتیں سرور صاحب کی تحریر میں آ کرکچھ یوں ہو جاتی ہیں: اقبال ماضی پرست نہیں، ماضی شناس ہیں۔ ان کی نگاہ کوفۂ و بغداد کی طرف نہیں وہ تازہ بستیاں آباد کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ وہ دلکشا صدا پر زُور دیتے ہیں مگر ان کا فن دِل گُدازی اور دِلکشائی دونوں کو اہمیت دیتا ہے۔ انھوں نے جہاں ابلہ مسجد پر طنز کی وہاں تہذیب کے فرزند پر بھی ۔۔۔ انسان کو طوافِ شمع سے آزاد اور اپنی فطرت کی تجلّی زار میں آباد ہونا چاہیے۔ مختلف شعروں کی مدد سے جملوں کی تراش و خراش کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تنقید نگار کی تنقیدی منطق مفقود اور مُدَعا ضبط ہو جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے تنقیدی باز آفرینی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ انداز تحریر یوں تو سرور صاحب کی تنقید میں بہت عام ہے مگر اقبال کے معاملے میں اس لیے بھی زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے کہ سرور صاحب کے لیے اقبال کی شاعری کا بڑا حصہ زبان زد معلوم ہوتا ہے ، اس لیے اس کی بازگشت کا در آنا قدرے فطری بھی معلوم ہوتا ہے ۔ مگر یہ اندازِ تحریر سرور صاحب کے مختلف اسالیب میں سے محض ایک اسلوب ہے۔ وہ کبھی کبھی نہایت منطقی اسلوب میں بھی نتائج کا استخراج کرنے پر قادر ہیں اور اپنے نتائج کو بسا اوقات اپنی ظاہری ترجیحات کے بر خلاف بھی پیش کرنے میں تکلف محسوس نہیں کرتے ۔ وہ اسلام کو اقبال کی نگاہ میں ایک ایسا سوشلزم قرار دینے کے بعد کہ جس پر ابھی پوری طرح غور نہیں کیا گیا، اسلام کی روایت کو مشرق کی صالح اقدار کا نام دینے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ : اقبال پر مغربیّت کے اثر نے ان کی نئی مشرقیت کو جنم دیا۔ یہ نئی مشرقیت ماضی کے صالح عناصر و روحانی بصیرت کے ساتھ جمہوری خیر کے تقاضوں کو قبول کرتی ہے جس کی مغرب میں ایک شاندار داستان ہے، جو سائنس اور ٹکنالوجی کی برکتوں اور نعمتوں، دونوں کو پہچانتی ہے۔‘‘ اقبال، اکثر مشرق کو اسلام کی مشرقی تعبیرات کے پس منظر میں پیش کرتے ہیں۔ اس باعث اسلامی تشخص کے مسئلے پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے رسول کریمؐ کی زندگی کو اس پورے پس منظر میں عینی اور مثالی نمونہ قرار دیتے ہیں اور اپنی نام نہاد مغرب پرستی کو اپنے نتائج کی راہ میں حائل نہیں ہونے دہتے ۔ لکھتے ہیں کہ: اسلامی تشخص ان (اقبال) کے نزدیک عرب کی شہنشاہیت کو اُس فقر غیور سے ایک انحراف سمجھتا ہے جس کی مثال رسول اللہ ﷺکی شخصیت میں ہے۔ اور جسے اسلام کی روح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر جمال کے ساتھ ۔ اس میں قوّت مقصود بالذات نہیں مگر ایک اخلاقی مشن کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے‘‘۔ کلیم الدین احمد نے اردو تنقید پر ایک نظر میں، آل احمد سرور کی تنقید نگاری ، بلکہ تنقید میں ’’ان کے اسلوب نگارش‘‘ پر تفصیل سے لکھا ہے۔ کلیم صاحب کو سرور صاحب کے یہاں گومگو کی کیفیت پر سخت اعتراض ہے اور وہ آل احمد سرور جیسے باشعور ادبی نقّاد سے زیادہ منطقی ، زیادہ مدلّل اور غیر آرائشی زبان کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے سرور صاحب کے تنقیدی تصورات اور ان کے اطلاق سے بھی بحث کی ہے جس پر تفصیلی اظہار خیال کرنا اپنے موضوع سے صرفِ نظر کرنے کے مصداق ہو جائے گا، البتہ اس موقع پر کلیم صاحب کے ایک مشورے کا اعادہ کیا جا سکتا ہے جو انھوں نے ’’سخن ہائے گفتنی ‘‘ میں دیا ہے۔ شاید پہلے یہ تحریر رسالہ معاصر پٹنہ میں شائع ہوئی تھی، جس میں سرور صاحب کے ایک تنقیدی ردِّ عمل کاجواب دیا گیا تھا۔ کلیم صاحب کہتے ہیں کہ ’’میرا مشورہ ہے کہ سرور صاحب عام تنقیدی مضامین لکھنے کے بجائے کبھی کسی ایک غزل یا ایک نظم کو موضوع بنا کر عمیق و بسیط انداز میں بھی اس کا مطالعہ پیش کریں اور اسی مطالعہ کی بنیاد پر تنقیدی رائے قائم کریں۔ خدا جانے اس مشورے کے بعد سرور صاحب کا وسیع تنقیدی مطالعہ عمیق تنقیدی مطالعہ کی طرف متوجہ ہوا یا نہیں، لیکن اقبال کے سلسلے میں سرور صاحب نے عمق کے ساتھ بھی بعض فن پاروں کو جائزے کے عمل سے گزارا ہے۔ آل احمد سرور نے ایک مضمون ’’اقبال کا کارنامہ اردو نظم میں ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ نظم کا صنفی تصور ، مغرب میں نظم کی ہئیت اور تکنیک اور مشرق میں نظم کی روایت ، تینوں پہلوئوں سے مصنف کو پوری واقفیت حاصل ہے اور اس کے نزدیک کوئی بھی انداز نظر واحد مثالی انداز نظم نہیں ۔ اس پس منظر میں سرور صاحب مغربی نظم کے ’’عضویاتی کل‘‘ والے نظریے کو کلیم الدن احمد کے توسط سے بحث کا موضوع بناتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے نظم کے لیے ناگزیر ربط اور ناگزیر ترتیب کی شرط لگائی ہے، مگر میرے نزدیک یہ نظم کامیکانکی تصور ہے۔ شاعری میں مسلسل پرواز بھی ہوتی ہے اور جستوں اور پروازوں کا ایک سلسلہ بھی ۔۔۔ کلیم الدین احمد نے ارتقائے خیال کا بھی ذکر کیا ہے۔۔۔ پو، نے توہر طویل نظم کو مختصر نظموں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ مغرب میں جس طرح نظم کا ارتقا ہوا ہے اس طرح ہمارے یہاں نہیں ہوا۔ سرور صاحب کا کہنا ہے کہ ’’اگر ان نظموں کے موضوع اور اقبال کے ادبی ماحول اور ابلاغ کی ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے تو کلیم الدین احمد کے اعتراضات بے جا معلوم ہوتے ہیں ۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’کلیم الدین احمد مشرقی اور ہندوستانی روایت کا سرے سے لحاظ نہیں رکھتے ‘‘۔سرور صاحب کی نظر میں ’’شاعری کا شاعری ہونا پہلے ضروری ہے بعد میں خواہ وہ اچھی شاعری ثابت ہو، خطیبانہ شاعری قرار پائے یا اسے اعلیٰ شاعری کے نام سے یاد کیا جائے‘‘۔۔۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کلیم الدین احمد کی بات اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ اگر سرور صاحب کو غزل کی صنف کے تعیّن کا حق اس لیے حاصل ہے کہ یہ صنف فارسی اور اردو میں ایک روایت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور کوئی خواہ اس کی زیرہُ خیال پر اعتراض کرے یا افکار پریشاں پر ، یہ صنف مخصوص ہئیت سے ہی پہچانی جاتی ہے اور اسی ایجاز و اختصار میں علامتی اظہار کا جواز پوشیدہ ہے اور یہی کفایت لفظی اس صنف سخن کو طول کلامی سے اجتناب کا ہُنر سکھاتی ہے، تو کلیم الدین احمد کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ مغرب میں ترتیب یافتہ صنف ’’نظم‘‘ کے مصرعوں کی ناگزیریت ، ترتیب اور ربط و غیرہ کو اس صِنَفِ سخن کی تنقید کی اساس بنائیں اور عضویاتی کل جیسے عناصر کو کسی نظم میں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن جو بات سرور صاحب کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’نظم‘‘ کی صنف محض مغرب کی صنف نہیں۔ مشرق میں غزل ، قطعہ اور رباعی کے علاوہ تمام اصناف ، نظم کے بڑے کُل کے مصداق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چونکہ قصیدہ ، مرثیہ یا مثنوی وغیرہ نے بعض دوسرے فنّی اور فِکری لوازِم کی آمیزش اور تعیّن سے اپنی حدیں متعین کر لی ہیں ، تو کم از کم نظم یا جدید نظم کو اسی طرح مشرقی صنف کہہ سکتے ہیں جس طرح یہ ایک مغربی صنف ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مغرب میں اس صنف کی کتربیونت اور اس پر غور و فکر میں کئی صدیاں گزاری گئی ہیں۔ لیکن اردو نظم کے جائزے میں اگر ہم کلیم الدین احمد کی طرح مغربی تصور نظم کو واحد معیار بنانے کی کوشش کریں ، تو اس طریق کار سے مشرقی نظم کو پورا انصاف نہیںدلایا جا سکتا ۔ اسی طرح اگر سرور صاحب کی طرح مغربی اصولوں سے صرف نظر کر کے محض مشرقی اصولوں کی بنیاد پر اردو نظم کی تنقید کا اسلوب طے کر لیا جائے تو شاید یہ طریق کار غلط تو نہ ہو لیکن دوسرے نقطۂ ہائے نظر کی موجودگی میں نامکمل اور اکہرا تنقیدی طریق کار ضرور کہلائے گا ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے کلیم الدین احمد نے اور قدرے بعد میں اردو کے بعض نمائندہ جدید نقّادوں نے اردو نظم کو بھی مغربی تنقیدی پیمانوں کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ انگریزی میں ایف ۔ آر ۔ لیوس اور اس کے بعض معاصرین نے جس طرح نظم کو ایک ’عضویاتی کُل‘ قرار دیا اور اس’ عضویاتی کل‘ کے اجزاء میں کسی عمارت کے اجزاء جیسا ربط دیکھنے کے بجائے کسی نمو پذیر درخت کی شاخوں اور پتوں جیسا ربط ڈھونڈھنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ نظم کی ترکیبی عناصر نے کیا خیال یا موضوع کے اندر سے نمو پذیری حاصل کی ہے یا پھر اس کے اجزاء صرف خارجی طور پر اس سے وابستہ کر دیے گئے ہیں۔ آئی ۔ اے رچرڈس ، ایف ۔ آر ۔ لیوس اور ایمپسن وغیرہ کے زیر اثر نئی مغربی تنقید نے چونکہ نظم کے تجزیے اور تشکیلی عناصر کی تلاش و جستجو میں نظم کی تنقید کو ایک نوع کا مخصوص طریقہ کار بنا دیا ، اس لیے تجزیے ، تحلیل اور شعری عناصر ترکیبی پر توجہ دیئے بغیر اب کسی بھی صنف کی تنقید کے بجائے تصوراتی اور نظریاتی حدود سے آگے جاتی ہوئی نہیں معلوم ہوتی۔ اس سیاق و سباق میں سرور صاحب نے جہاں کہیں اردو نظم نگاری میں اقبال کی ہنر مندیوں کا ذکر کیا ہے وہاں کسی نہ کسی عنوان سے انھوں نے کلیم الدین احمد کے ان اعتراضات کا بھی حوالہ دیا ہے جن میں کلیم صاحب نے اقبال کی نظموں میں ربط تسلسل کے فقدان، نظم میں بعض غیر ضروری اشعاریا بند کی شمولیت ، خودی ، عشق ، اور فقر کی تکرار اور اقبال کے خطیبانہ اسلوب پر سخت گیر تنقیدی رویہ اختیار کیا ہے۔ان تمام اعتراضات کو کبھی سرور صاحب بسا اوقات کلیم الدین کا نام لے کر اور اکثر ان اعتراضات کا صرف پس منظر قائم کر کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر سرور صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’اگر نظموں کے موضوع اور اقبال کے ادبی ماحول اور ابلاغ کی ضروریات کو ملحوظ رکھا جائے تو کلیم صاحب کے اعتراضات بے جا معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ آگے اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے وہ کلیم صاحب کے اعتراضات کو بھول نہیں پاتے اور کچھ اس طرح جواب کا انداز اختیار کرتے ہیں: یہاں صرف یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ شاعری ہے یا نہیں ، یہ شاعری خطیبانہ بھی ہو سکتی ہے ، اچھی شاعری بھی اور اعلیٰ شاعری بھی۔ بعض لوگ مشرقی اور ہندوستانی روایت کا سرے سے لحاظ نہیں رکھتے ۔ اس بیان کے پردئہ زنگاری میں سوائے کلیم الدین احمد کے اور کون معترض ہو سکتا ہے۔ اس بیان کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ یہ کہ ، کیا شاعری کو محض شاعری کی حیثیت سے تسلیم کر لینے سے تنقید کے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔ اس سلسلے کی دوسری شق یہ ہے کہ عام شاعری اور خطیبانہ شاعری کے لوازم کیا ہیں اور کیا خطابت کے لہجے کے باعث شاعری اپنی تہہ داری سے محروم ہو جاتی ہے اور اس بیان کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اقبال یا کسی بھی اردو کے شاعر کے مطالعہ میں کیا صرف مشرقی تصوّرِ شعر سے کام چلایا جا سکتا ہے؟۔ یا پھر یہ کہ مغربی طرز تنقید کو واحد معیار بنا کر اردو کی شاعری کی پرکھ کی کوشش ہمیں کن اور کیسے نتائج تک لے جا سکتی ہے؟ طرز استدلال سے صاف ظاہر ہے کہ سرور صاحب خطابت کو شاعری کے منافی قرار نہیں دیتے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں ایک سے زیادہ مقامات پر اقبال کی نظم ’طلوع اسلام‘ کے خطیبانہ لہجے کا ذکر کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اس نظم کی شعریت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ جہاں تک مغربی معیار نقد پر مشرقی فن پاروں کو پرکھنے کا سوال ہے تو اس سلسلے میں سارا الزام کلیم الدین احمد کے سر ہی کیوں رکھا جائے۔ خود سرور صاحب بھی ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کی شاعری کی تین آوازوں کو جاو بے جاتنقیدی اصول سے کہیں زیادہ تنقیدی محاورے کی حد تک پہنچا دیتے ہیں۔ اقبال پر لکھی ہوئی اہم اردو کتابوں کے مقابلے میں انگریزی زبان کی کسی کتاب کو بار بار اپنے حوالے کے طور پر زیر بحث لاتے ہیں اور آئی ۔ اے رچرڈس کے جذباتی اور حوالہ جاتی معنی کی منطق کو حرفِ آخر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اس جملہ’ معترضہ کے بعد یہ عرض کرنابھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کلیم الدین احمد اور آل احمد سرور کے تنقیدی نقطۂ نظر کا سب سے نمایاں فرق یہ ہے کہ کلیم الدین احمد مغربی پیمانوں کے اطلاق کے معاملے میں اردو زبان کی لسانی ، تہذیبی ، ثقافتی حتیٰ کہ تاریخی قدروں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ جب کہ سرور صاحب کو اپنے ادب کی تہذیبی اقدار اور روایتی شناخت کا نہایت گہرا شعور حاصل ہے۔ وہ کلیم صاحب کی طرح صدیوں سے پلی پلائی اور راسخ صنفِ سُخن ’ غزل‘ کو یک قلم مسترد کر دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب کہ کلیم صاحب بہ ہوش حواس تمام ثقافتی اور تاریخی اقدار سے صرفِ نظر کر لینے کا ارتکاب کر گزرتے ہیں۔ آل احمد سرور نے اقبال کے لہجے سے بحث کرتے ہوئے ایک جگہ براہ راست شاعری اور بالواسطہ شاعری کی معنویّت سے بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ ’’اگر ہم بالواسطہ شاعری کو زیادہ اہمیّت دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں کہ ہم براہ راست شاعری کو سرے سے نظرانداز کر دیں‘‘۔۔۔ اگر سرور صاحب نے براہ راست شاعری میں شعری عناصر کی تلاش و جستجو کے موضوع پر قدرے تفصیل سے لکھا ہوتا تو توقع تھی کہ اس ضمن میں بعض عقدے مزید کُھلتے ۔ تاہم اس نکتہ کو نظر انداز کر کے شاعری کے مختلف اسالیب کی قدر و قیمت کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اردو میں کچھ جدیدیّت کے زیر اثر اور کچھ مغرب میں علامت پسندی اور ہیئتی تنقید کے نتیجے میں شاعری کے لیے جس طرح تہہ داری ، استعارہ سازی اور بالواسطہ طرزِ اظہار کو ادبی ترجیحات کی حیثیت حاصل ہوئی ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیانیہ اسالیب اور براہ راست اظہار سے متعلق مسائل بڑی حد تک پس منظر میں چلے گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بیانیہ کی منطق ، لہجے کی شناخت اور روز مرہ اور محاوروں پر مبنی لسانی ساخت بھی اپنے اندر شاعرانہ اظہار کا ایسا تنوع پیدا کر سکتی ہے جس کو شعریت کا ہی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے۔ علمِ بلاغت میں ایک مفہوم کو ادا کرنے کے نِت نئے اَسالیب کا اپنا یا جانا اہمیت رکھتا ہے، محض تہہ دار اسلُوب اہمیت نہیں رکھتا ۔ اس لیے شعری اظہار کے ہر رنگ اور ہر انداز میں شعریت کی تلاش تو ضرور کی جا سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ تنقیدی تجزیہ اس شعریت کو پایۂ ثبوت تک پہنچائے اور اس کے لیے اصول و ضوابط کی تشکیل بھی کرے۔ اقبال کے خطیبانہ لہجے پر بعض بڑے کار آمد، نکات بیان کرنے کے بعد ’’شکوہ اور جواب شکوہ‘‘ میں موجود خطابت کو وہ اقبال کی قوَّت بتاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر سرور صاحب کی تنقید جو یوں بھی تحسین سے اپنا دامن نہیں چھڑا پائی ، غیر مشروط مداحی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔وہ اقبال کی توصیف میں تنقیدی توازن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اس طرح کے تاثراتی جملوں کی تخلیق میں بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ اگر قرآن اردو میں نازل ہوتا تو اس کے لیے اقبال کی نظم یا ابوالکلام کی نثر منتخب ہوتی۔ یہ ذہن میں رہے کہ دونوں کے اسلُوب میںبرگزیدگی ، جو صحیفوں کی زبان کی سنجیدگی ، جو بلند آہنگی اور شمشیر کی تیزی ہے وہ خطابت کی دین ہے۔ خطابت اقبال کی کمزوری نہیں طاقت ہے۔ ادب لطیف یا لطیف لکھنے کا یہ انداز اقبال کی شاعری اور ابولکلام آزاد کی نثر سے مصنف کی واقفیت کو تو ضرور ظاہر کرتا ہے مگر قرآن کریم کے اسلوب ، لہجے ، حتیٰ کہ محکمات اور مُتَشَابِہات تک کی تنوع سے اس کی بے خبری اور لا تعلقی کو یقینا بے نقاب کر دیتا ہے۔ سرور صاحب نے اقبال کی غزلوںپر بھی ایک ایسا مضمون قلم بند کیا ہے جس میں غزل کی زبان کو مرکزی نقطہ بنایا گیا ہے۔ اس مضمون میں یہ غلط نہیں کہا گیا ہے کہ اقبال کی غزل کے ذریعے اردو غزل کی زبان میں توسیع ہوئی ہے۔ لیکن یہ تشنگی بھی محسوس ہوتی ہے کہ اے کاش ، مصنف نے اقبال کی لفظیات ، اور لسانی طریق کار کا قدرے تفصیلی تجزیہ کیا ہوتا۔ اس مضمون کا نصف سے زیادہ حصہ اردو غزل کی زبان کے عام مسائل پر صرف ہوا ہے اور نصفِ کم تر کو اقبال کی مردف اور غیر مردف غزلوں کے اعداد و شمار اور نظم کی زبان کو غزل میں اور غزل کی زبان کو نظم میں استعمال کرنے جیسی پیش پا افتادہ باتوں کے لیے وقف کر دیا گیا ہے۔ ویسے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زیر بحث مضمون میں سرور صاحب نے اقبال کی تلمیحات اور تراکیب کے ہجوم میں ان کے مُدَعا اور مافی الضمیر کو ہر جگہ بالادست دکھا یا ہے اور اس نکتہ کو ان الفاظ میں سلیقے کے ساتھ نمایاں کیا ہے: تلمیحات ، تراکیب ، استعارات ، تشبیہات کی کثرت کے باوجود ہیرے کی طرح ترشے ہوئے خیال اور فن پر پوری قدرت کی وجہ سے ان کی غزلوں کے الفاظ میں زبان پر وہ فتح اور اقلیم معنی پر وہ اقتدار ملتا ہے جو بڑی شاعری کی پہچان ہے۔ سرور صاحب کا اسلوب بیان بلاشبہ بعض مقامات پر تنقیدی مقدّمات اور استدلال کو کمزور کرتا ہے، مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تنقیدی مکتب فکر کے اعتبار سے تاثراتی اسکول سے علاقہ نہ رکھنے کے باوجود وہ اپنے موضوع کی باز آفرینی کی کوشش کی طرف زیادہ متوجہ رہتے ہیں۔ تخلیق کی باز آفرینی کے ساتھ سرور صاحب کا تہذیبی اور ثقافتی سیاق و سباق ان کی تنقید کو ایک بڑے تناظر کا حامل بنائے رکھتا ہے۔ اقبال کے معاملے میں ان کا تنقیدی امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اقبال کی شاعری پر کوئی باقاعدہ کتاب تو نہیں لکھی، لیکن اپنے مُعتَدبہ مضامین میں کم و بیش اقبال کی فکر اور فن کے تقریباً ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اقبال کی ممتاز ترین نظموں کے امتیازات سے لے کر فکر و فلسفہ کی تاریخ میں اقبال کی انفرادیّت تک کو سرور صاحب نے بصیرت افروز نقطۂ نظر اور پختہ کار شعور و عرفان کے ساتھ دیکھا ہے اور پورے اقبال کی بازیافت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔۔۔ اس پس منظر میں آل احمد سرور کا شمار ممتاز ترین اقبال شناسوں میںعرصے تک ہوتا رہے گا۔۔۔  مظفر اقبال ایک مردِ حق آگاہ کی بصیرت چنیں دور آسماں کم دیدہ باشد کہ جبریلِ امین را دل خراشد چہ خوش دیری بنا کروند آنجا پرستد مومن و کافر تراشد اقبال نے صبح صادق کے وقت آنکھ کھولی تھی لیکن شعور کی ابتدائی ساعتوں ہی سے انہیں اس بات کا شِدّت سے احساس تھا کہ جس فکری ، روحانی اور علمی فضا نے ان کی ذات کو اپنے ہونے کی آگہی بخشی ہے، وہ ایک خطرناک حملے کی زد میں ہے۔ غالباً پہلے پہل یہ شعور ان کی زندگی کی اوّلین جذباتی اور شعری وابستگیوں کے حوالے سے نمودار ہوا ہو گا لیکن رفتہ رفتہ یہ احساس کہ نہ صرف وہ خود بلکہ تمام ملّتِ مُسلِمَہ غلامی کے کابُوسی اندھیرے میںزندگی کو جیسے تیسے سہہ رہے ہیں ، مکمل طور پر ان کے وجود کا جزو بن گیا اور اس ظلمت کو تار تار کرنے کی لگن نے ان کے اندر ایک ایسا در کھول دیا جسے صرف اور صرف اللہ کی رحمت اور ان کے خلوص اور سچائی کا نتیجہ سمجھنا چاہیے؛ یہ دولت نہ تو ہر کسی کو ملتی ہے ، نہ ہی ہر کوئی اس کا اہل ہوتا ہے۔ یہ بھی ان کی سعادت تھی کہ انہوں نے ۳ ذیقعد ۱۲۹۴ھ (۹ نومبر ۱۸۷۷ئ) بروز جمعہ شیخ نور محمد کے گھر کے ایک حُجرے میں اس وقت آنکھ کھولی تھی جب سیالکوٹ کی فضائوں میں ابھی فجر کی اذانوں کی صدا محفوظ و مامون تھی اور برس ہا برس کے سفر کے بعد جب وہ اپنے خالق حقیقی کی طرف لوٹے تو انہیں پھر فجر کے مبارک وقت اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے کا موقع ملا۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کی اس صبح جب ان کے رفیق رات بھر فکر مندی کی حالت میں ان کے قریب بیٹھے رہنے کی بعد فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے اقبال منزل کے قریب ہی واقع مسجد میں گئے تو اس صاحب بینا نے اپنے آخری سفر پر روانگی سے قبل ایک لفظ کہا جس نے ان کی قوسِ زندگی کو مکمل کر دیا: ’’اللہ‘‘ یوں دو صبحوں کے درمیان پھیلی اس زندگی کی تقویمی سرحدوں کو متعین کرتے ہوئے ہمیں اس امر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ افراد کی لابُدی طور پر محدود زندگی کے کچھ در اُس جاوداں جہانِ فکر و جذب کی طرف بھی کُُھلتے ہیں جو ازل سے ایک بحرِ بے کنار کی طرح نسل انسانی کے ہمراہ موجود ہے اور جس کے پانیوں سے حصہ پانے والے گویا خود اس جاودانی حیات سے وابستہ ہو جاتے ہیں جو نسل بہ نسل انسانوں کو آدم علیہ السلام کی اساس سے منسلک رکھتی ہے۔ یہی وہ بحرِ بے کنار ہے جو کبھی جذب و جوش اور شوقِ نمو سے نفسِ انسانی میں ایسی پاکیزگی اور ارتکاز پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خود انھی سرمدی پانیوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ اسی بحرِ ناپید میں زندگی کے شب و روز بسر کرنے والے نفوس اپنے سفر زندگی کا ایک ایسا احوال ہمارے لیے چھوڑ جاتے ہیں جو ہمیں اپنی محدودیّت اور چھوٹے چھوٹے تفکّرات سے نکال کر ان سرمدی پانیوں میںجذب ہو جانے کی دعوت دیتا ہے جس نے خود ان کی زندگیوں کو معنی عطا کئے تھے ۔ کلام اقبال ایک بے حد مرتکز نفسِ پاکیزہ کے مدّ و جَزر کا ایسا ہی احوال ہے جو اُنیسویں اور بیسویں صدی کے مہ و سال پر پھیلی ایک ایسی حیات کی تخلیق ہے جس نے اپنے باطن میں ابدی اور ازلی سچائیوں کو تلاش کرتے کرتے اپنے آپ کو اس ملت میں جذب کر دیا تھا جس کے بغیر اسے اپنے وجود کے کوئی معنی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ فرد اور ملّت کا یہ ربط جو کلامِ اقبال میں مختلف انداز میں بار بار پرکھا جانا تھا، محض ایک انفرادی رغبت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اقبال نے ملّتِ اسلامیہ کے لیے اپنے وجود کے اندار اس بے پایاں محبت کو اُس اصلی سر چشمے سے اخذ کیا تھا جو تمام عمر ان کی توجہ کا مرکز رہا تھا اور جس کی آیات نے ان کی زندگی اور ان کے کلام کی تدوین و تہذیب کی تھی۔ قرآن حکیم سے یہ وابستگی اتفاقی نہ تھی، بیان ہے کہ خانوادہ اقبال میں دلوں کو صیقل کرنے والے اس کلام کے واسطے اپنے آپ کو مخصوص کر دینے کی باقاعدہ روایت موجود تھی۔ لیکن اللہ کے کلام کے لحن اور معنی کو یوں اپنی ذات کا حصہ بنا لینے کا اعزاز اقبال ہی کے حصے میں آیا۔ بہر طور اس بے پایاں محبت اور جذباتی وابستگی کا محرک کوئی بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدی میں عالمِ اسلام میں کوئی اور ایسا نابغہ نظر نہیں آتا جس کے تفکّر اور اِرتکاز نے ملّتِ مُسلِمَہ سے اُس کے ربط کو ایسی پاکیزگی اور طہارت عطا کی ہو کہ اس کے کلام میں الہامی شکوہ اور جلال پیدا ہو گیا ہو۔ اگر کلام اللہ سے عمر بھر کی رفاقت اور وابستگی نے اقبال کی زندگی اور ان کے فن کو ایک روحانی سرچشمے سے فیض یاب ہونے کا موقع دیا تو حُبِّ رسول ﷺ نے ان کے اندر ایسا سوز پیدا کیا کہ بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا نام دائرہ سماعت میں آتے ہی ان پر رقّت طاری ہو جاتی تھی۔ اسی محبت کا ایک رُخ شہرِ نبی ؐ کی زیارت کی وہ خواہش تھی جو اقبال صرف عالمِ خیال ہی میں پوری کر سکے لیکن چشمِ تصور سے کئے گئے اس سفر کی اٹھان کیسی ہے کہ آواز جرس سے ان کی جان میں ایسا شور برپا ہو جاتا ہے جیسے وہ ہر لمحے شہرِ محبوبؐ کی طرف جانے والے قافلے کے ہمراہ پابہ رکاب ہوں۔ کیسی وارفتگی ہے اور حُبِّ رسول ؐ کی یہ کیسی عجیب حکایت ہے کہ مُہارِ ناقہ کو چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا دل بھی مسافر کے دل کی طرح طلسمِ محبت کا اسیر ہو چکا ہے۔ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ فارسی اور اردو کلام کا آخری مجموعہ جو اقبال کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد نومبر ۳۸ء میں شائع ہوا، گویا اس عجیب و غریب سفرِ ذات کا تکملہ ہے جو اس فقیرِ صحراء نے شرق و غرب کی تہذیبوں اور فلسفوں اور طرزہائے زیست کو کھنگالنے کے بعد رقم کیا۔ ان کے ہم عصروں میں حق کی راہ پر سفر کرنے والا شاذ ہی کوئی فرد ایسا نکلے جو سچائی کی تلاش میں تحقیق و تنقید کے اتنے مراحل سے باسلامتی گزرا ہو جتنے اس مردِ دانا صفت نے طے کئے؛ سیالکوٹ اور کیمبرج کے درمیان نہ صرف مکانی بُعد ہے، ان دونوں کے درمیان صدیوں کا تہذیبی فاصلہ بھی ہے۔ لیکن اس سارے سفر میں اقبال نے حق کا دامن چھوڑا نہ سرِ بازار برپا نیلامی میں حصہ لیا۔ ایک عجب درویشی تھی جس نے اس مردِ حق آگاہ کو ہر جال کی گرفت سے آزاد رکھا۔ انھوں نے اسمبلیوں کی رکنیت بھی حاصل کی اور سرزمین فرنگ میں کانفرنسوں میں بھی حصہ لیا۔ وہ بے پناہ محبتوں کے درمیان بھی رہے اور سرد بے مہر لوگوں کے درمیان بھی ، انھوں نے علمی حلقوں میں بھی شمولیت اختیار کی اور فکر وفن کی دنیا میں بھی سفر کیا۔ وہ قلب کی ہزار ہا پرتوں سے حملہ کرنے والی کیفیتوں سے بھی گزرے اور فکر کے میدان میں عربی اورعجمی علوم سے بھی فیض یاب ہوئے۔ لیکن یہ سارا سفر انھوں نے کلام اللہ کی معیّت میں کیا اور ہر مقام ، ہر علم اور ہر کیفیت کو اسی میزان پر جانچا۔ یہی وہ ترازو تھا جس نے آخری وقت تک انھیں اپنے سفرِ ذات سے منسلک رکھا؛ نہ دنیاوی جاہ و حشم نے اس ارتکاز کو منتشر کیا نہ مایوسی اور بے بسی نے انھیں مغلوب کیا۔ یہ روشنی محض اس داخلی بصیرت کا نتیجہ تھی جو قرآن کے تفکر سے پیدا ہوئی ہے ورنہ ان کے قلب پر جو بوجھ تھا اور جس سُوز و حُزن سے انھیں واسطہ تھا، وہ بڑے سے بڑے بہادر کو زیر کرنے کے لیے کافی تھا کہ آخر وہ ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے تھے جب نگہبانِ حرم معمار دیر بن چکے تھے۔ حتیّٰ کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ چراغ ، جو دل میں عشق کو روشن رکھتا ہے، بجھ چکا ہے۔ ایسے قہرناک اندھیرے میں اپنی خاک میں شرر کو باقی رکھنا اور دوسروں کو عمل پر ابھارنا آسان نہ تھا۔ ایک بے سوز عصر میں ، جب ملّتِ اسلامیہ کی محکومی نے انہیں مشرق و مغرب میں تنہا اور اجنبی بنا رکھا تھا، اقبال نے نہ صرف اپنے داخل کو مایوسی سے محفوظ رکھا بلکہ دوسروں کو بھی ایک عہدِ نو کی نوید دی۔ ان کی زندگی سرتا سر ملّتِ مُسلِمَہ کے لیے وقف تھی۔ یہ وابستگی ابتداء میں کچھ بھی رہی ہو ، لیکن اپنی مکمل حالت میں صرف اور صرف ہمہ گیر عالمی تناظر رکھتی تھی؛ قومیّت اور نسلی عصبیت کا اس میں کوئی شائبہ باقی نہ رہا تھا۔ یہ بات محض اندھی عقیدت کے سبب نہیں کہی جا رہی، اقبال کے خطوط ، ان کی وہ تحریریں اور اشعار جن میں انھوں نے قومیّت، بمعنی نیشنلزم پر بحث کی ہے اور ان کا اصرار کہ ملّتِ مُسلِمَہ صرف اور صرف جغرافیائی حدود کو پاش پاش کرکے اپنی جائز بلوغت اور کمال کو پہنچ سکتی ہے ، اس کے شاہد ہیں کہ اس مردِ حق آگاہ نے وحی کی بنیاد پر وجود میں آنے والے فرق کو واضح طور پر پہچان لیا تھا جو حِزبُ اللہ کو حِزبُ الشَّیطان سے ممتیّز کرتا ہے۔ اقبال نے واضح طور پر دیکھ لیا تھا کہ عالمِ اسلام کے اجتماعی مستقبل کا تعلق اسی اصولی بحث پر ہے کہ بحیثیت مجموعی وہ ایک وحدت ہیں یا متفرق اقوام کا مجموعہ ۔ یہی وہ ہمہ گیر عالمی مسئلہ ہے جس سے آج ملّتِ اسلامیہ دو چار ہے۔اس وجہ سے اس موضوع کی اہمیت بے پناہ ہے۔ ’’اسلام سے پہلے قوموں کی تشکیل جس اصول پر ہو رہی تھی ، اسلام نے اسے تسلیم نہیں کیا اور آج بھی وہ اصول جسے بنائے قومیّت ٹھہرایا جاتا ہے ہمارے لیے قابلِ تسلیم نہیں‘‘۔ یہ الفاظ بسترِ بیماری سے ادا ہوئے تھے لیکن ان میں علمِ واثق اور یقینِ محکم کی گونج ہے: ’’میں وطنی قومیّت کا وجود تسلیم نہیں کرتا ۔ وطنی قومیّت کا تصور اسلام کے خلاف ہے‘‘۔ فکرِ اقبال کا یہی پہلو ہے جو آج سب سے زیادہ اہم ہے۔ یعنی یہ کہ ایک عالمی اِستعمار کے مقابلے میں بُری طرح منقسم ملّت کی شیرازہ بندی کیسے کی جائے ؟ وہ کون سی بنیاد ہے جس پر ایک وحدت کی عمارت تعمیر کی جائے جو مسلمانانِ عالم کو ایک ملّت کا جُزو بنا دے ، ایک ایسی ملّت جو اپنے وجود کے لیے صرف اور صرف قرآن حکیم سے زندگی اور روشنی اخذ کرے۔ اساسی طور پر یہ سوال کتاب اللہ میں اٹھایا گیا تھا اور وہیںاس کا جواب بھی فراہم کر دیا گیا تھا اور وہی اقبال کی فکر کا منبع بھی ہے۔ گو اقوام اور قبائل کا وجود ، بلکہ ضرورت ، قرآنی تعلیمات کا حصّہ ہے لیکن بنی آدم کی تقسیم قرآن حکیم نے صرف ایک بنیاد پر کی ہے اور یہ وہی بنیاد ہے جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے۔ بنی نوعِ انسان توحید (اور اس سے منسلکہ عقائد) اور شرک (اور اس سے منسلکہ عقائد) کی بنیاد پر دو مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ ایک گروہ حِزبُ اللہ ہے اور دوسرا گروہ حِزبُ الشّیطان۔ یہ بنیادی اور اساسی تقسیم ہے، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ما بہ الامتیاز ہے،یا تو ثانوی ہے یاباطل ۔ یہ حقیقت ازل سے قائم ہے اور ابد تک رہے گی۔ انسانوں کا وہ گروہ جو توحید اور اس کے لازمات کو ماننے والا ہے ایک روحانی ، سیاسی ، سماجی اور فکری وَحدَت کا حِصّہ ہے جو ملّتِ مُسلِمَہ کہلاتی ہے۔ اس اُمّت کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ ایک دوسری اُمّت ہے۔ یہ وہ بنیادی امتیاز ہے جسے مٹانے کے لیے ہر دور میں داخلی اور خارجی کوششیں کی گئیں اور جسے ملیامیٹ کرنے کے لیے آج بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہی وہ امتیاز ہے جس کا شعور عالمِ اسلام کو پھر سے ایک مدنی وحدت بنا سکتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر تعمیر ہونے والی سیاسی وحدت آج استعمار کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے۔ یہی وہ پُر شُکوہ ، انقلاب خیز پیغام ہے جس نے اقبال کے کلام میں شُکُوہ اور جلال پیدا کیا تھا کیونکہ یہ حق پر قائم تھا اور حق ہمیشہ پُر شُکوہ ، با جلال اور بارعب ہوتا ہے۔ الفاظ کا وہ دھارا جو کلامِ اقبال کو اس کی جائز ہییت عطا کرتا ہے، کل کی طرح آج بھی ملّتِ اسلامیہ کے لیے تازیانہ ثابت ہو سکتا ہے۔ آج بھی اس میں حرارتِ ایمانی کا وہی شر ارہ رقصاں ہے جس سے دلوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور جس نے گزشتہ صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کو عمل پر آمادہ کیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب مسلمانوں کی جِدوجُہد محض برصغیر تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اس کا محور پورا کرہ ارض ہے، سمرقند سے ارض فلسطین تک ہماری ساری زمینیں ہمیں پکارتی ہیں کہ ہم پھر سے اسی نُور کی روشنی سے منور ہو کر اس کا بُوسی اندھیرے کو تار تار کر دیں جو آج ہماری زمینوں کو تیزی سے ہڑپ کرتا چلا جا رہا ہے، جس نُور نے اقبال کے باطن کو روشن رکھا تھا۔ ظفر الاسلام ظفر علامہ اقبال کی زندگی میں پہلا یوم اقبال ایک غلط فہمی کا ازالہ علاّمہ اقبال کی زندگی میں حیدر آباد (دکن) میں ’’یوم اقبال‘‘ ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء کو ٹائون ہال میں نہایت تُزک و اِحتشام سے منایا گیا۔اس میں حیدر آباد کے اہلِ علم و دانش ، زُعماء و رؤساء اور اساتذہ وطلبہ کثیر تعداد میں شامل ہوئے ۔ نظام سابع کے ولی عہد ہزہائی نس اعظم جاہ بہادر شہزادہ برار نے دو مختلف نشستوں کی صدارت کی اور یمین سلطنت مہاراجا سر کشن پرشاد بہادر شاد ، ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ، ڈاکٹر سید عبداللطیف، سید ہاشمی فرید آبادی ، سید محمد اکبر وفاقانی ، ڈاکٹر یوسف حسین خان اور مولوی مخدوم محی الدین نے مقالے پڑھے ۔ معروف شعلہ بیان مقرر نواب بہادر یار جنگ نے ’’اقبال کا تصور مومن ‘‘ پر دل نواز تقریر کی ۔ بزم تمثیل حیدر آباد نے علاّمہ اقبال کے کلام کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔ بہت سی نظمیں بھی پڑھی گیں۔ مذکورہ یومِ اقبال ، حیدر آباد کا نہایت ہی شاندار اور کامیاب علمی و ادبی جلسہ تھا ۔ اس میں جو نظمیں اور مقالات پڑھے گئے، وہ کئی روز تک مقامی اخبارات اور جریدوں میں شائع ہوتے رہے۱۔ بعض محققین اور ماہرین اقبالیات، حیدر آباد میں منعقدہ مذکورہ بالا یومِ اقبال کو علاّمہ اقبال کی زندگی کا اوّلین اور پہلا ’یومِ اقبال‘ قرار دیتے ہوئے اپنے فخر و انبساط کا اظہار کرتے ہیں، مثلاً نظر حیدر آبادی ارقام فرماتے ہیں: اہل حیدر آباد اس امتیاز کے بھی حامل ہیں کہ انہوں نے اقبال کی زندگی میں ’یوم اقبال‘ منانے میں پہل کی ۔ ان کے مطابق یہ ’یومِ اقبال‘ ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء کو منایا گیا۔ ڈاکٹر سید عبداللطیف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: حیدر آباد واپس ہونے کے بعد میں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے احباب کے تعاون سے ’’مسلم کلچرل سوسائٹی‘‘ حیدر آباد کے نام سے مخصوص اصحابِ علم پر مشتمل ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد اسلامی تہذیب کا تحقیق و مطالعہ تھا۔ اسی نو تشکیل ادارے کے زیر اہتمام سب سے پہلا ’یومِ اقبال‘ منایا گیا۔ اس تقریب کے انعقاد سے مقصود یہ تھا کہ ایسے وقت میں جبکہ ان (علاّمہ اقبال) کی عمر کا جہاز کنارے آ لگا ہے، ان کی خاطر جمعی اور دل بڑھانے کا کچھ سامان کیا جائے ۔۔۔۔۔۔ یہ ۷ ؍جنوری ۱۹۳۸ء کا واقعہ ہے۔۔۔۔۔۳۔ عبدالرئوف عروج مذکورہ ’ یوم اقبال‘ کے متعلق بتاتے ہیں کہ : ۷؍ جنوری ۱۹۳۸ء کو اس یوم کے دو اجلاس باغِ عام کے ٹائون ہال ہی منعقد کئے گئے جن میں کم از کم چھ ہزار افراد نے شرکت کی ۔۔۔۔۔۔ اس یوم سے پہلے ہندوستان میں اتنا بڑا کوئی ادبی اجتماع نہیں ہوا تھا۔ یہ فخر حیدر آباد کو حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلے اقبال شناسی کی روایت ڈالی ۴۔ پروفیسر یوسف سر مست (سابق صدر شعبۂ اردو ، جامعہ عثمانیہ حیدر آباد) اور پروفیسر وجیہہ الدین احمد ارمان فاروقی (اقبال اکیڈیمی حیدر آباد کے معتمد) نے یوم اقبال کی تاریخ ۷؍جنوری ۱۹۳۸ء ہی بتائی ہے۵۔ ’’سب رس‘‘ حیدر آباد (جون ۱۹۳۸ئ) کے اقبال نمبر میں ’’یوم اقبال‘‘ کی تفصیلی رپورٹ کے علاوہ مقالہ نگاروں کے مقالات اور مشاہیر کے پیغامات کے اقتباسات بھی شائع کئے گئے ہیں ۔ اس مضمون میں ’’یوم اقبال‘‘ کی تاریخ ۹ ؍ جنوری ۱۹۳۸ء دی گئی ہے جو راقم الحروف کے خیال میں صحیح ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ’’سب رس‘‘ کا اقبال نمبر ، یوم اقبال کی تقریب کے صرف پانچ ماہ بعد شائع ہوا تھا جبکہ وہ مضامین جن میں یوم اقبال کی تاریخ ۷؍جنوری ۱۹۳۸ء بتائی گئی ہے، اس کے چالیس پچاس سال بعد شائع ہوئے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء کو ہندوستان بھر میں ’’یوم اقبال‘‘ کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ بقول میاں محمد شفیع ’’اس وقت ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار سے زائد مقامات پر یوم اقبال کی تقریبات منعقد ہوئیں‘‘۶۔ ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء کو لاہور میں بھی انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ Inter collegiate Muslim Brotherhood کے زیر اہتمام ’یومِ اقبال‘ عظیم الشان پیمانے پر منایا گیا ۔ (اس کی تفصیل مولانا اسلم جیراجپوری نے اپنے ایک مضمون میں بتائی ہے) اس جلسے میں اردو اور انگریزی میں جو مقالات پڑھے گئے، بعد ازاں اردو مقالات کو ’’مقالاتِ یوم اقبال‘‘ اور انگریزی مقالات کو Aspects of Iqbal کے نام سے قومی کُتب خانہ ، ریلوے روڈ ، لاہور نے ایک کتابی شکل میں ۱۹۳۸ء ہی میں شائع کیا ۔ اس کے دیباچے (از میاں محمد شفیع) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء کو ’یوم اقبال‘ کی تقریبات صرف حیدر آباد یا لاہور ہی میں نہیں بلکہ برِّ عظیم ہند کے کونے کونے میں منائی گئیں۔ اسی سلسلے میں بنگلور میں جنوری ۱۹۳۸ء ہی میں صرف دو ہفتوں کے دوران ’یوم اقبال‘ کے تین عظیم الشّان اجلاس ہوئے۔ پہلا جلسہ بروز سہ شنبہ بتاریخ ۱۱؍جنوری ۱۹۳۸ء کو شام ۵؍ بجے مسلم ڈبیٹنگ سوسائٹی، مسلم لائبریری اور یونیورسٹی اردو سوسائٹی کے زیر اہتمام بمقام ٹائون ہال ، بنگلور سٹی، زیر صدارت نواب غلام احمد کلامی منعقد ہوا۔ دوسرا جلسہ بروز اتوار بتاریخ ۱۶ ؍جنوری ۱۹۳۸ء شام ساڑھے پانچ بجے یونیورسٹی اردو فارسی لٹریری سوسائٹی ، مسلم لائبریری اور مسلم ڈبیٹنگ سوسائٹی کے زیر اہتمام بمقام انٹر میڈیٹ کالج بنگلور زیر صدارت پروفیسر اے ۔ آر واڈیا ، بی اے، بار اَٹ لا ، پروفیسر مہاراجا کالج، میسور منعقد ہوا۔تیسرا جلسہ سینٹ جوزفس کالج بنگلور کی یونین اور لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام بروز دو شنبہ بتاریخ ۲۴؍جنوری ۱۹۳۸ء کو بمقام کالج ہال زیر صدارت ایم سلطان محی الدین ایم۔ اے۔ ایل ایل۔ بی۔ ایم ۔ایف ۔ڈی ، ڈائریکٹر پبلک انٹرکشن میسور ، منعقد ہوا۔ لاہور ، حیدر آباد اور بنگلور کے علاوہ دیگر شہروں میں علاّمہ اقبال کی زندگی میں ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء اور مابعد ’یوم اقبال‘ کی تقریبات منائے جانے کی محولہ بالا خبروں اور رپورٹوں کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علاّمہ اقبال کی زندگی میں پہلا ’یومِ اقبال‘ کب اور کہاں منایا گیا؟ ڈاکٹر جاوید اقبال ’’زندہ رود‘‘ میں لکھتے ہیں: ۶ ؍ مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور کی ایک علمی مجلس ’’اسلامک ریسرچ سوسائٹی‘‘ نے اقبال کی زندگی میں پہلی بار وائی ایم سی سے ہال میں یومِ اقبال منایا جس میں بعض اصحاب نے تقریریں کیں یا مقالے پڑھے ۔ اس سے اگلے روز ۷؍مارچ ۱۹۳۲ء کی شام کو اقبال کے اعزاز میں لاہور کے ریستوران لورینگز میں دعوت چائے دی گئی جس میں شہر کے معززین نے شرکت کی ۸۔ راقم الحروف کے والدین کے ماموں محمد عبدالجمیل بنگلوری، متولی لال مسجد بنگلور، علاّمہ اقبال کے ایک غالی معتقد تھے۔ علاّمہ اقبال سے آپ کی باقاعدہ خط و کتابت تھی۔ علاّمہ نے آپ کے نام نو خطوط لکھے ہیں۔ اخبارات اور رسائل میں علاّمہ اقبال سے متعلق شائع ہونے والی اطلاعات ، خبروں اور مضامین کے تراشوں کو محفوظ کرنا آپ کا محبوب مشغلہ تھا ۔ راقم الحروف کو محمد عبدالجمیل کے کتب خانے سے ایک تراشہ دستیاب ہوا ہے جو غالباً ۲۰ ؍جنوری ۱۹۳۲ء کے روز نامہ ’’انقلاب ‘‘ لاہور کا ہے جس میں ۶؍جنوری ۱۹۳۲ء کو ’یوم اقبال ‘ کے انعقاد کی اطلاع کے علاوہ دیگر تفصیلات یعنی مقررین کے نام اور موضوعات وغیرہ دی گئی ہیں ۔ مذکورہ اطلاع نامے کو من وعن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے: لاہور ۔ ۱۹؍ فروری ۔ خواجہ عبدالوحید صاحب، سکریٹری اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور ، تحریر کرتے ہیں: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بروز اتوار ۶؍مارچ ۱۹۳۲ء وائی ایم سی اے، ہال لاہور میں ’’ یومِ اقبال ‘‘ منایا جائے گا ۔ اس موقع پر دنیائے اسلام کے مایۂ ناز فرزند ترجمانِ حقیقت حضرت علاّمہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم اے ، پی ایچ ڈی پر مندرجہ ذیل لیکچر ہوں گے ۔ ہر مذہب و ملّت کے حضرات اس موقع پر تشریف لا کر مشرق کے اس نامور فلسفی شاعر کے متعلق اپنی معلومات میں معتدبہ اضافہ کریں ۔ داخلہ مفت ہو گا۔ نام مقرر موضوع زبان ۱ ) صوفی غلام مصطفی تبسم ایم اے، لکچرار گورنمنٹ کالج ، لاہور اقبال کی شاعری اردو ۲) حکیم احمد شجاع صاحب بی اے، اسسٹنٹ سکریٹری اقبال کی ایک شارح پنجاب قانون ساز کونسل، لاہور تعلیم کی حیثیت سے اردو ۳) مسٹر ممتاز حسین ایم اے ، اسسٹنٹ اکونٹنٹ جنرل پنجاب اقبال اور مغربی تخیّل انگریزی ۴ ) شیخ اکبر علی ارسطو بی اے ایل ایل بی، اقبال اور تصوّف انگریزی اڈووکیٹ ، لاہور ۵) سید محمد عبداللہ ایم اے ریسرچ اسکالر پنجاب یونیورسٹی اقبال اور سیاست عالِیّہ اردو ۶) محمد دین تاثیر ایم اے پروفیسر اسلامیہ کالج ، لاہور اقبال کا ذہنی اِرتقاء انگریزی ۶؍مارچ ۱۹۳۲ء کو منعقد کئے گئے پہلے ’یوم اقبال‘ کی تفصیلی رپورٹ روز نامہ ’’انقلاب ‘‘ لاہورکے شمارے مورخہ ۹؍مارچ ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی ہے، جسے روز نامہ ’’مشرق‘‘ لاہور بابت ۱۰؍فروری ۱۹۷۴ء کے حوالے سے رحیم بخش شاہین ایم اے نے ’’اوراقِ گم گشتہ‘‘ میں یوں نقل کیا ہے: لاہور ۶؍مارچ ۱۹۳۲ء آج گیارہ بجے صبح وائی ایم سی اے ہال میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام نہایت دُھوم دَھام سے ’یومِ اقبال‘ منایا گیا ۔ سات مقررین نے حضرت علاّمہ اقبال کی شاعری پر مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے روشنی ڈالی۔ یہ تقریب دو اجلاسوں میں تقسیم کی گئی تھی۔ پہلا اجلاس ۱۱ ؍ بجے صبح سے پونے دو بجے دوپہر تک رہا۔ آنریبل مسٹر جسٹس سید آغا حیدر صدر تھے ۔ اس اجلاس میں صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم ایم اے ، پروفیسر گورنمنٹ کالج ، لاہور ، حکیم احمد شجاع صاحب بی اے اسسٹنٹ سکریٹری پنجاب قانون ساز کونسل اور سید محمد عبداللہ صاحب ایم اے ریسرچ سکالر پنجاب یونیورسٹی نے مختلف موضوعات پر انگریزی زبان میں تقریریں کیں۔ جناب تبسم کے لیکچر کا موضوع اقبال کی شاعری تھا ۔ حکیم احمد شجاع صاحب نے ’’اقبال ایک شارح تعلیم اسلام کی حیثیت سے ‘‘ کے موضوع پر تقریر کی اور سید عبداللہ صاحب نے ’’اقبال اور سیاست عالیہ‘‘ پر اظہار خیال فرمایا ۔ صاحب صدر نے مختصر مگر نہایت سلجھی ہوئی تقریر کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت علاّمہ اقبال کا فرزند جاوید اقبال جس کے نام پر حضرت اقبال کی تازہ ترین تصنیف’’جاوید نامہ‘‘ نام رکھا گیا ہے، آج کل بیمار ہے اور حاضرین سے بچے کی صحت یابی کے لیے دُعا کرنے کو کہا۔ چنانچہ جملہ حاضرین نے خلوص قلب سے شافی الامراض سے دُعا مانگی کہ وہ جاوید کو بہت جلد صحت بخشے ۔ اس کے بعد پہلا اجلاس ختم ہوا۔ دوسرا اجلاس پونے تین بجے شروع ہوا۔ ڈاکٹر ایس ایس بھٹناگر ڈی ایس سی، صدر تھے ۔اس اجلاس میں شیخ اکبر علی ارسطو بی اے ایل ایل بی ، مسٹر محمد دین تاثیر اور مسٹر ایم اے مجید نے انگریزی زبان میں تقاریرفرمائیں ۔ جناب ارسطو نے ’’اقبال اور تصوف‘‘ تاثیر نے ’’اقبال کے تخیّل کا ارتقا‘‘ اور مسٹر ممتاز حسین نے ’’اقبال اور مغربی تخیل ‘‘ کے موضوع پر فاضلانہ تقاریر کیں۔ مسٹر مجید کا لکچر پروگرام میں شامل نہیں تھا۔ جملہ حضرات نے اپنی تقاریر تیار کرنے میں نہایت محنت اور جان فشانی سے کام لیا تھا اور پروفیسر تبسم ، پروفیسر تاثیر ، جناب ارسطو اور مسٹر ممتاز حسین کی تقاریر خاص طور پر نہایت دلچسپ اور پر از معلومات اور فاضلانہ تھیں۔ آخر میں ڈاکٹر بھٹناگر نے ایک مختصر تقریر کی اور جلسہ ختم ہوا ۔ جلسہ نہایت کامیاب رہا ۔ حاضرین اس قسم کے عام جلسوں سے بہت زیادہ تھے ۔ عوام نے جلسے کو نہایت صبر و سکون سے سنا اور اس شاندار کامیابی کا سہرا انسٹی ٹیوٹ کے اولوالعزم سکریٹری خواجہ عبدالوحید کے سر ہے۔ لاہور ۷؍مارچ ۱۹۳۲ء ۔ آج ’’لورینگ ‘‘میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے یومِ اقبال کے سلسلے میں حضرت اقبال کو دعوت چائے دی گئی۔ تقریباً سو ڈیڑھ سو مقامی معززین موجود تھے۔ مولانا سالک مدیر ’’انقلاب‘‘ نے ایک مختصر تقریر میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طر ف سے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت علاّمہ سے استدعا کی کہ آپ انسٹی ٹیوٹ کے مخلص کارکنوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کچھ ارشاد فرمائیں ۔ اس کے بعد حضرت علاّمہ نے ایک مختصر لیکن عالمانہ تقریر میں بعض شعبۂ ہائے علم و تحقیق کی طرف انسٹی ٹیوٹ کے ارکان کی توجہ دلائی اور اس تحریک کی تحسین فرمائی جو مسلمان نوجوانوں میں اسلامی ادبیات ، اسلامی تاریخ اور اسلامی تمدن کی تحقیق اور بزرگ داشت کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ اس کے بعد یہ پاکیزہ صحبت بخیر و خوبی انجام کو پہنچی ۹۔ علاّمہ اقبال کی زندگی میں منائے گئے مذکورہ بالا اوّلین ’’یوم اقبال‘‘ منعقدہ ۶؍مارچ ۱۹۳۲ء کا اجمالی تذکرہ عبدالمجید سالک نے بھی اپنی تصنیف ’’ذکر اقبال‘‘ میں کیا ہے ۱۰۔ علامہ اقبال کی برادر زادی محترمہ و سیمہ بیگم کے صاحبزادے خالد نظیر صوفی نے ’’اقبال درون خانہ‘‘ میں یوم اقبال کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: والدہ صاحبہ کے بیان کے مطابق جس روز پہلا ’’یوم اقبال‘‘ منایا گیا اس روز جاوید بہت علیل تھا۔ وہ اس وقت چار برس کا تھا (جاوید اقبال کی ولادت ۱۹۲۴ء میں ہوئی ۔ اس لحاظ سے اس وقت ان کی عمر آٹھ برس کی تھی ۔ ظفر) اور ابھی اسے اسکول میں داخل نہیں کرایا گیا تھا۔ چچا جان (علامہ اقبال) اسے دیکھنے کے لیے آئے تو بتایا آج یوم اقبال کی تقریب میں جاوید کی صحت یابی کے لیے بھی دعا کی گئی ۔ چچی جان (والدئہ جاوید اقبال) نے حیران ہو کر دریافت کیا کہ یوم تو آپ کا منایا گیا ہے مگر آپ سارا دن گھر پر ہی رہے ہیں۔ چچا جان نے جواب دیا ، جس کا یوم منایا جائے وہ اس میں شرکت نہیں کرتا ۱۱۔ چنانچہ بلا خوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ علاّمہ اقبال کی زندگی میں اوّلین ’’یوم اقبال‘‘ ۶؍مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور میں منایا گیا اور پھر ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء کو ہندوستان بھر میں ’’یوم اقبال‘‘ کی تقریبات منائی گئیں۔ چنانچہ یہ کہنا خلافِ حقیقت اور غلط ہو گا کہ پہلا ’’یوم اقبال‘‘ حیدر آباددکن میں منایا گیا۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ تفصیل دیکھیے : حیدر آباد میں یوم اقبال ، مشمولہ : ماہنامہ ’’سب رس‘‘ حیدر آباد دکن ، اقبال نمبر ، جلد ۱ ۔ شمارہ ۶ ، جون ۱۹۳۸ء ۲۔ نظر حیدر آبادی ’’اقبال اور حیدر آباد‘‘ اقبا ل اکادمی پاکستان کراچی ۱۹۶۱ء ، ص ۲۲ ۳۔ ایک گنج گراں مایہ کی تلاش ، مشمولہ : رحیم بخش شاہین ، مرتب ’’اوراق گم گشتہ‘‘ ، مرکزی مکتبہ اسلامی ، دہلی ، ۱۹۸۳ئ۔ ۴۔ عبدالرئوف عروج ، ’’اقبال اور بزمِ اقبال حیدر آباد دکن ‘‘ ،دارالادب پاکستان ، کراچی ۱۹۷۸ء ، ص ۴۳۔ ۵ ۔ دیکھیے : پروفیسر عبدالحق (مرتب) ’’اقبال کی شعری و فکری جہات ‘‘ ، دہلی ۱۹۹۱ئ، ص ۲۱۰۔ نیز سووینئر عالمی اقبال سیمینار ۱۹۸۶ء ، اقبال اکیڈیمی حیدر آباد ، وجیہہ الدین احمد، مضمون بعنوان ’’اقبال اور حیدر آباد‘‘ (انگریزی) ، ص ۹۔ ۶۔ رحیم بخش شاہین ، ’’اوراق گم گشتہ‘‘ ، ص ۲۴۱۔ ۷۔ مشمولہ: غلام دستگیر رشید (مرتب) ’’آثار اقبال‘‘ ، ادارہ اشاعت اردو ، حیدر آباد دکن ، ۱۹۴۴ء ص ۸۸ ۸۔ جاوید اقبال ، ’’زندہ رود۔ حیات اقبال کا اختتامی دور‘‘ ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ، لاہور ۱۹۸۷ء ، ص ۴۷۸۔ ۹ ۔ رحیم بخش شاہین، ’’اوراقِ گُم گُشتہ ‘‘ ، ص ۹۷ ۱۰۔ عبدالمجید سالک ، ’’ذکرِ اقبال‘‘ ناشر چمن بک ڈپو ، دہلی ، ص ۲۱۳۔ ۱۱ ۔ خالد نظیر صوفی ، ’’اقبال درونِ خانہ ‘‘ ، بزم اقبال ، لاہور ، ۱۹۷۱ء ، ص ۷۷۔ اسلم کمال ڈاکٹر شمل کی لوحِ مزار لاہور کا یہ عظیم، قدیم اور جدید ریلوے سٹیشن ہے۔ جہاں سے روانہ ہونے کے لیے ایک جدید ریل ’’کراچی ایکسپریس‘‘ تیار کھڑی ہے۔ چار سلیپرز پر مشتمل ایک پورا کوپے اقبال اکادمی پاکستان کے لیے کراچی تک ریزروڈ ہے۔ محقق محمد اکرام چغتائی پورے اطمینان سے اپنی برتھ پر بیٹھا اپنی کتاب ’’اقبال اور گوئٹے‘‘ کی ورق گردانی میں محو ہے اور کبھی کبھی آنکھ اٹھا کر ماحول کا جائزہ لے لیتا ہے۔ محقق کے بالمقامل برتھ پر محمد سہیل عمر اقبال اکادمی پاکستان کا جواں سال ناظم ہونے کے علاوہ فکرِ اقبال کا جدید ناقد بھی ہے۔ وہ یہاں بھی دفتری فائلیں ایک ایک کر کے نمٹانے میں منہمک ہے۔ اس کے قریب پڑے اس کے ادھ کھلے بریف کیس میں سے ’’خطباتِ اقبال جدید تناظر میں‘‘ جھانک رہی ہے۔ تیسری برتھ پر مصوّرِ اقبال اسلم کمال ہے۔ اس کے تکیے پر کلامِ اقبال کی مصوّری کا مرقع ’’کسبِ کمال‘‘پڑا ہے۔ گاڑی چل پڑی ہے اور وہ سامنے کی کھڑکی کے شیشے سے آہستہ آہستہ رفتار تیز کرتا باہر کا منظر دیکھ رہا ہے ۔لاہور چھائونی کے بعد والٹن ٹریننگ سکول اور اس کے بعد کوٹ لکھ پت کے سٹیشن گزر گئے ہیں۔ ’’جس طرح رھائین دریا مغربی یورپ بالخصوص جرمنی میں لہراتا گنگناتا ایک من موجی کی طرح آزادانہ بہتا ہے، گوئٹے کی شاعری اسی طرح وقت کی قید سے آزاد اپنا وہ رس گھولتی چلی آ رہی ہے جو رھائین ویلی کی وھائٹ وائن جیسا سرور رکھتی ہے‘‘۔ اکرام چغتائی نے کہا۔ ’’۱۹۸۶ء میں جب میں پہلی بار جرمنی گیا اور بون کلچر سنیٹر میں ’’خدا، انسان اور شاعر‘‘ کے عنوان سے میری مصوّری کی نمائش کا انعقاد ہوا۔ ڈاکٹر شمل نے خود آگے بڑھ کر میری خطاطی ، مصوّری اور ڈرائنیگز پر اتنا مبسوط اور مربوط لیکچر دیا کہ سفیرِ پاکستان نے بطور خاص ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسلم کمال کے فنِ مصوّری کا افتتاح میرے لیے ایک اعزاز تھا۔ لیکن اب ڈاکٹر صاحبہ کے فاضلانہ اظہارِ خیال کے بعد یہ افتتاح میرے لیے ایک تاریخی خوش قسمتی بن گیا ہے‘‘۔ مصوّر نے یہ واقعہ بیان کیا ۔ ’’جس طرح پہلے زمانوں میں ایک دھوپ گھڑی ہوا کرتی تھی۔ ڈاکٹر این ماری شمل کے اندر ایک شعور گھڑی اپنے نصب ہونے کا ثبوت یوں فراہم کرتی ہے کہ ان سے صرف یہ کہنا کافی ہے کہ اظہارِ خیال آدھ گھنٹہ پونا گھنٹہ یا پورا گھنٹہ کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ مائیک پر آ کر آنکھیں بند کر لیتی ہیں اور لب کشا ہوتی ہیں۔ رھائین دریا کے آس پاس پائے جانے والے رھائین سٹون سے تراشیدہ ہیروں جیسے الفاظ محدود وقت کی آخری ساعت پر ہونٹوں سے ادا ہوتے ہوتے خود بخود ٹھہر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ گھڑی کی ٹک ٹک اور ان کے ہونٹوں پر الف بے کا آپس میں کوئی ربطِ نہانی ضرور ہے۔ یہی تعلقِ خاطر ڈاکٹر صاحبہ کی کمزور سیدھی انگلیوں اور ان کے ٹائپ رائیٹر کی کنجیوں میں بھی دیدنی ہوتا ہے‘‘۔ ناقد نے اپنا مشاہدہ بتایا۔ پاکستان ریلوے کی ریفرشمنٹ کار کا بیرا کوپے میں داخل ہوا۔ ’’یہ چار کپ چائے اور سنیکس آپ چار مہمانوں کے لیے پاکستان ریلوے کی جانب سے ‘‘ یہ کہہ کر ٹرے رکھی اور چلا گیا۔ ’’شہر وی آنا کے اندر سے ڈینیوب دریا بہتا ہے۔ اس کی ایک مصنوعی شاخ سے وی آنا شہر کو بائی پاس کر کے پھر ڈینیوب کے اصلی دھارے سے ملا دیا گیا ہے۔ درمیان میں بہت دیدنی مناظر پیدا کئے گئے ہیں۔ اُن کی خوبصورتی کا ذکر میں نے ڈاکٹر شمل سے کیا تو آپ نے فرمایا ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں ڈینیوب کا بار بار ذکر روانی ٔ حیات کی علامت کے طور پر ملتا ہے‘‘ ۔ محقق اکرام چغتائی نے کہا۔ میں جب دوسری بار بون گیا تو جس علاقے میں رہائش ملی، اس کا نام جگہ جگہ "Bad Godes Burg" لکھا ہو دیکھ کر میں شرارت سے ڈاکٹر شمل کے سامنے اس کو بیڈ گاڈس برگ پڑھتا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے میری تصحیح کرتے ہوئے بیڈ کو باڈ، گاڈس کو گوڈز اور برگ کے صحیح تلفظ کے لیے لاہور کے گلبرگ کا حوالہ دیا۔ یہ ثبوت ہے اس حقیقت کا کہ اسلام اور پاکستان جیسے موضوعات کے لیے علامہ اقبال کی ذات اور فکر ایک مستقل تناظر کے طور پر ڈاکٹر شمل کے شعور کا حصہ ہیں‘‘ مصوّر نے کہا۔ ریل اپنی رفتار بتدریج کم کرتی ہوئی خانیوال ریلوئے سٹیشن پر ٹھہر گئی۔سہیل عمر پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ کوپے میں آیا تو ہانپ رہا تھا۔ اس کے پاس آئس کریم کے چار کپ تھے۔ اُس نے سب کو ایک ایک کپ پیش کیا۔ گاڑی چل پڑی ۔ شہر کی روشنیوں سے نکل کر دیہات کے اندھیروں میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف عالمِ تصوّر میں گزرے ہوئے وقت کے واقعات ،کردار، حالات، ادوار اور زمانے بھاگتے ہانپتے ، گرتے سنبھلتے اور بنتے بگڑتے ہیں۔یہ کوپے جس میں چار سوار ہیں، جس ریل کا ہے وہ وقت کے دائمی دھارے میںگزرتی ہوئی صدیوں میں سے ایک کے آغاز میں رواں رات کے دورانیے میں پوری رفتار سے بھاگ رہی ہے۔ ناظم ’’اقبال اکادمی ‘‘ نے بیل بجا کر بیرے کو بلایا اور بستر لگانے کو کہا ۔ ’’ابھی آیا‘‘ کہہ کر وہ گیا اور جلد لوٹ آیا۔ چار تکیے اور چار کمبل لے کر اور چار بستر لگا کر چلا گیا ۔ مصوّر ، محقق اور نقاد نے اپنے اپنے بسترپر اپنے اپنے کمبل اپنے شانوں تک کھینچے اور چوتھے بستر کی طرف متوجہ ہو کر ایک ساتھ ہمہ تن گوش ہوئے تو اُس نے کہا: ایک تھی بستی۔ ایک دن کا پچھلا پہر تھا۔ عصر کا وقت تھا ۔ اچانک ایک نامعلوم اجنبیت کی گھٹن اس بستی میں یوں در آئی کہ اس بستی کے مکینوں پر اس کے گھر تنگ ہونے لگے۔ وہ گھبرا کر پیش و پس سے بے خبر گھروں سے نکل کر باہر کھلے میدان میں چلے آئے ۔ وہ سب ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے لیکن جواب کوئی بھی نہیں دیتا تھا۔ جواب کی طلب میں بالآخر وہ کسی کا راستہ دیکھنے لگے۔ پھر وہ انہیں آتا دکھائی دیا۔ جوں جوں وہ ان کے قریب آتا گیا،اہلِ بستی کے بُجھے بُجھے چہروں پر چمک آتی چلی گئی۔ اہلِ بستی میں سے پہلے شخص نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’اے بزرگوار! تیری آمد کا انداز مجھے اپنے دادا جیسا لگتا ہے‘‘ اہلِ بستی میں سے دوسرے فرد نے بڑھ کر کہا ۔ ’’بزرگوارم ! جس طرح تونے اپنے سر پرپگڑی باندھ رکھی ہے ؛ بالکل اسی انداز میں میرا نانا پگڑی باندھتا تھا‘‘۔ بستی والوں میں سے تیسرا شخص آگے بڑھا اور گویا ہوا ۔ ’’اے بزرگوارم! آپ کی روشن پیشانی میرے ماموں کی پیشانی کی طرح کُشادہ ہے۔ بستی کے چوتھے فرد نے کہا۔ بزرگ محترم! آپ کی آنکھیں ناک اور ٹھوڑی بالکل میرے تایا جیسی ہے۔ پانچواں فرد بستی کا آگے بڑھ کر یوں بولا ۔ مکّرم و محترم ! آپ کا چہرہ ہو بہو میرے والد جیسا ہے۔ آپ کی مونچھیںان کی مونچھوں جیسی گھنی اور سفید ہیں۔ بسی کا چھٹا فرد تعظیم بجا لایا اور یوں گویا ہوا ۔ ’’اے قابل احترام ! آپ کی شکل و شباہت بالکل میرے استادِ محترم جیسی ہے‘‘۔ ساتواں شخص بستی کا آگے بڑھ کر یوں بولا ۔ ’’مکّرم و محترم ! آپ کے چہرے پر تبسم جامع مسجد کے مرحوم امام صاحب کے چہرے جیسا ہے‘‘۔ آٹھواں فرد اس بستی کا اس طرح مخاطب ہوا: ’’قبلہ بزرگوارم‘ آپ کے لباس کا اجلا پن میرے مرشد مرحوم کے پیرہن جیسا ہے‘‘۔ بستی کا نواں مرد فرطِ عقیدت سے آگے بڑھ کر بولا ’’اے عزت مآب ! آپ کا پرنور سراپا فاضلِ اجل، عالمِ بے بدل حضرت مولانا مرحوم و مغفور صدر نشین جامعہ جملہ علوم و فنون جیسا ہے‘‘۔ بستی کے دسویں شخص نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا اور یوں گویا ہوا۔ اے واجب الاحترام! تیری زیارت سے دلوں میں یقین تازہ ہوا کہ صلۂ شہید تب و تابِ جاودانہ ہے۔ تجھے رو برو پا کر ہم سب اُس کو سامنے دیکھ رہے ہیں جو اس بستی کی سرحد پر برسوں پہلے شہادت پا چکا ہے‘‘۔ پھر بستی کے سب لوگ بزرگ کے اردگرد جمع ہو کر یک زبان ہو کر ملتجی ہوئے۔ ’’اے بزرگ! تو ہمیں اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ تیرے وجود میں اپنایت کے ہزار پہلو ہیں۔ تو ہمیں بتا کہ ہم اپنی ہی بستی میں اجنبی کیوں ہوئے۔ ہم پر خود ہمارے اپنے گھر کیوں تنگ ہوئے؟‘‘ تب اس بزرگ نے بستی والوں سے کہا۔ ’’اے اہلِ بستی! اس سے پہلے کہ آنے والی شبِ عذاب کی ظلمت تمہارے دلوں کو گھیر لے تم اس کتاب سے رجوع کرو ، جس میں ظلمت سے نجات کے اسرار و رموز لکھے ہیں۔ یہ کتاب بستی کے ہر گھر میں موجود ہے‘‘۔ یہ سن کر بستی کے لوگ ایک ساتھ بولے۔ ’’ا ے بزرگ ! وہ کتاب بے شک ہمارے گھروں میں ہے لیکن کہاں پڑی ہے۔ یہ ہم بھول چکے ہیں‘‘۔ بزرگ نے یہ سنا تو کہا۔ ’’اے لوگو ! تمارے گھر میں چراغ ہیں۔ چراغ جلا کر تلاش کرو۔ کتاب مل جائے گی ‘‘۔ اہل بستی نے جواب دیا ۔’’اے صاحبِ حکمت و دانش ! ہم اندھیروں کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم چراغ روشن کرنے کا ہنر گنوا بیٹھے ہیں۔ ’’اسرار و رموز‘‘ کی وہ کتاب جس زبان میں لکھی گئی ہے وہ اب ہماری زبان نہیں رہی‘‘۔ بزرگ نے بستی والوں کا یہ حال سنا تو دل تھام کر رہ گیا۔ وہ بولا ’’جس گھر میں کتاب نہ کھلے اور چراغ نہ جلے وہ گھر اپنے مکین پر قبر سے بھی زیادہ تنگ ہو جاتا ہے۔ اے اہل بستی ۔تم نے میری شکل و شباہت کو یاد رکھا مگر مری امنگوں اور آرزووں کو ، مری امیدوں اور جستجوئوں کو بھلا دیا۔ تم نے چراغ سے رشتہ توڑ لیا، کتاب سے کنارا کر لیا ۔ افسوس تم نے خود اپنے آپ کو معرکۂ وجود میں بے سہارا کر لیا‘‘۔ اہل بستی لرز اٹھے ۔ گڑ گڑا کر ملتمس ہوئے’’ اے بزرگ مہربان! ہمیں نجات کا راستہ دکھا کر جانا‘‘ بزرگ نے کہا ’’ اے اہل بستی ! پڑھو اپنے رب کے نام سے جو ہر آن نئی شان دکھا رہا ہے۔ پڑھو کہ تمہارا رب نہایت جودو سخا کرنے والا ہے۔ وہ قلم سے علوم و فنون سکھا کر ظلمت سے نکالتا اور روشنی میں لے آتا ہے‘‘۔ ریل گاڑی اپنی رفتار کم کرتے کرتے کراچی کے کینٹ ریلوے سٹیشن پر رک گئی۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے بستر پر محقق ، نقاد اور مصوّر جاگ اٹھے۔ انہوں نے چوتھے بستر پر ایک ساتھ دیکھا۔ وہاں پر ’’گیبرئیل ز وگ‘‘ کے اوراق پھڑ پھڑا رہے تھے۔ روشنی پھیلا رہے تھے۔ ۷ ؍اپریل ۲۰۰۴ء کی صبح شیرے ٹن ہوٹل کراچی سے ایک کوسٹر پر سوار ہو کر ٹھٹھہ کے لیے روانہ ہونے والے قافلے میں چیدہ چیدہ افراد کے اسمائے گرامی یوں ہیں: مادام ڈاکٹر ناصرہ جاوید اقبال، مسٹر ہلمٹ ہول نائر (جرمن قونصل) ۔ مسٹر غلام ربانی آگرو، ڈائریکٹر جنرل سندھی ادبی بورڈ۔ پرنس نواب محسن علی خان (لندن) ، مصوّرِ اقبال اسلم کمال ۔ سکالر جناب ابراہیم جویو، جناب اکرام چغتائی، جناب طالب محبوب اور محمد سہیل عمر ،ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان۔ ڈیرھ گھنٹے کی ڈرائیو میں مادام ناصرہ جاوید اقبال اپنے ساتھ والی خالی نشست پر کسی سے مسلسل ہمکلام دکھائی دیتی رہیں۔ اگرچہ اپنے اپنے انداز میں اس قافلے میں سارے افراد کا مرکزِ گفتگو بھی وہی ہستی تھی جو مادام ناصرہ جاوید اقبال کے ساتھ خالی نشست پر بظاہر نظر نہیں آ رہی تھی۔ مکلی قبرستان شروع ہو گیا۔ یہاں کیوریٹر کے دفتر میں تمام اہل قافلہ نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر کوسٹر اپنے مسافروں کو مکلی قبرستان میں مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کے لیے مخصوص احاطہ میں لے گئی۔ یہاں پر پیر حسام الدین راشدی کی قبر سے ہٹ کر پیچھے دیوار کے قریب ایک لوح نصب ہے اور اس پر گہرے سبز رنگ کی ویلوٹ کا پردہ پڑا ہے۔ ڈائریکٹر اقبال اکادمی جناب سہیل عمر نے اس لوح مزار اور اس کی آج کی تقریب کی غرض و غایت کے بارے میں ایک مختصر تعارف پیش کیا ۔ پاکستان میں جرمنی کے کونصل جنرل نے اپنی حکومت اور عوام کی طرف سے اس ہستی کی شاندار خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ مادام ڈاکٹر ناصرہ جاوید نے ’’ساقی نامہ‘‘ کا یہ بند پڑھا ۔ ان کی آواز موت کی اس راجدھانی میں زندگی کا ترانہ بن گئی : ہُوا خیمہ زن کاروان بہار ارم بن گیا دامنِ کُہسار گل و نرگس و سوسن و نسترن شہید ازل لالہ خونیں کفن جہاں چھپ گیا پردئہ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور وہ جوئے کُہستاں اُچکتی ہوئی اٹکتی لَچَکتی ، سرکتی ہوئی اُچھلتی پھسلتی ، سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نِکلتی ہوئی رُکے جب توسِل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ ذرا دیکھ اے ساقیٔ لالہ فام! سناتی ہے یہ زندگیِ کا پیام پلا دے مجھے وہ مئے پردہ سوز کہ آتی نہیں فصلِ گُل روز روز وہ مے جس سے روشن ضمیر حیات وہ مے جس میں ہے مستیٔ کائنات وہ مے جس میں ہے سوز و سازِ ازل وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازل اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے لڑا دے ممولے کو شہباز سے مصوّر اسلم کمال نے مسجدِ قرطبہ کا یہ بند تحت اللفظ پڑھا: عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیؐ عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام عشق فقیرِ حرم ، عشق امیرِجنود عشق ہے ابن السبّیل، اس کے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نُورِ حیات ، عشق سے نارِ حیات مصوّر اسلم کمال نے ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے اس بند کا ڈاکٹر این ماری شمل کا انگریزی ترجمہ پڑھا: "Love is Gabriel's heart. Love is Muhammad's strong breath. Love is the envoy of God. Love is the clear word of God. Even the clay figures see, touched by love's ecstasy glow. Love is the new pressed wine. Love is the goblet of kings. Love that is Makkah's jurist. Love the commander of hosts. Love is the son of the road, thousands of places are his. Love is the plectrum that plays tunes on the taut strings of life. Love is life's radiant light. Love is the fire of life." غلام ربانی آگرو نے ڈاکٹر این میری شمل کا شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ایک نظم کا انگریزی ترجمہ سنایا: سا Warm preparations are again in progress everywhere Again lightnings have begun to leap with arduous flare. Some towards lstanbul do dive some to the West repair: Some over China glitter, some of Samarqand take care; Some wander to Byzantium, Kabul some to Kandhar fare; Some lie on Delhi; the Deccan; some reach Girnar, thundering there And green on bikaner pour those that jump from Jaisalmer Some Bhuj have soaked. others descend on Dhar with gentle air Those crossing Umarkhot have made the fields fertile and fair. O God, may ever you on Sindh bestow abundance rare; Beloved! all the world let share Thy grace, and fruitful be Sur Sarang IV:II tr. Elsa Kazi اکرام چغتائی نے ڈاکٹر این میری شمل کا کلام مولانا روم کا ترجمہ پڑھ کر سنایا: LOOK! THIS IS LOVE-- to fly toward the heavens, To tear a hundred veiIs in ev'ry wink, To tear a hundred veils at the begining, To travel in the end without a foot, And to regard this world as something hidden And not to see with one's own seeing eye! I said: "O heart, may it for you be blessed To enter in the circle of the lovers, To look from far beyond the range of eyesight, To wander in the corners of the bosom! O soul. from where has come to you this new breath? O heart, from where has come this heavy throbbing? O bird, speak now the language of the birds Because I know to understand your secret!" The soul replied: "Know, I was in God's workshop While He still baked the 'house of clay and water." I fled from yonder workshop at a moment Before the workshop was made and created. I could resist no more. The dragged me hither And they began to shape me like a ball!" محمد سہیل عمر نے سینٹ فرانسیس کے ارشادات پڑھ کر سنائے: Lord, make us instruments of thy peace; where there is hatred, let us sow love; where there is injury, pardon; where there is discord, union; where there is doubt, faith; where there is despair, hope; where there is darkness, light; where there is sadness, joy. Grant that we may seek not so much to be consoled as to console; not so much to be understood as to understand; not so much to be loved as to love. For it is in giving that we receive, it is in pardoning that we are pardoned, it is in dying that we are born again to life eternal. جرمن کونسل جنرل نے بائیبل مقدس سے مندرجہ ذیل آیات پڑھ کر سنائیں۔ Let not your heart be troubled: ye believe in God, believe also in me. In my father's house are many mansions: if it were not so would I have told you that I go to prepare a place for you? The Bible John 14:2 بیگم ناصرہ جاوید اقبال اور جرمن کونصل جنرل نے آگے بڑھ کر ۲ فٹ × ۳ فٹ سنگ مر مر کی لوح کی ڈوری کھینچ کر نقاب کشائی کی جو گہرے سبز رنگ کی ویلوٹ سے مستور تھی۔ لوح کی پیشانی پر درمیان میں ’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ‘‘ لکھا ہے۔ اس کے نیچے تین سطروں میں ’’پروفیسر ڈاکٹر این میری شمل‘‘ لکھا ہے اس کے نیچے اس کی خواش کہ اسے مکلی قبرستان میں سپردِ خاک کیا جائے رقم ہے۔ لوح کے عموداً درمیان میں یہ آیۂ قرآنیہ رقم ہے۔ ’’اللّٰہ نُورالسمٰوٰتِ وَالارض‘‘ عین اس کے نیچے یہ حدیث مبارکہ رقم ہے۔ ’’اللّٰہُ جمیلً و یُحِبُّ الجَمال‘‘ اس کے نیچے ڈاکٹر این میری شمل کی تاریخ پیدائش و وفات اوپر انگریزی میں اور نیچے سندھی میں لکھی ہے۔ اس کے نیچے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک شعر سندھی زبان میں اور اس کے ساتھ اس کا ڈاکٹر شمل کا انگریزی ترجمہ رقم ہے جس کا مفہوم ’’ا یک محل: جس کے ہزار دروازے ، کئی ہزار روزن ہوں، میں اس میں رہوں اور جس دروازے یا روزن میں بھی دیکھوں مجھے میرا محبوب نظر آئے گا۔ اس لوح پر سب نے گلاب کی پتیاں نچھاور کیں۔ پھر سب از خود ایک ساتھ مودب اور ساکت ہو کر ڈاکٹر این میری شمل کے سوگ میں چند لمحوں کی ماتمی خاموشی میں اتر گئے۔ جرمنی کے شہر بون میںاین میری شمل نے آخری الفاظ ’’مجھے جانے دو‘‘ (Let me go) کہے اور اس عالمِ آب و خاک سے روانہ ہو گئی۔اور مخصوص حالات کے تحت ان کو وہیں ایک چرچ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ مادام ڈاکٹر ناصرہ جاوید اقبال کی تحریک پر ، جنیں ڈاکٹر شمل کی میزبانی کا لاہور میں سب سے زیادہ موقع ملتا رہا، وزارت اقلیتی امور ثقافت کھیل سیاحت اور امورِ نوجواناں حکومت پاکستان نے پاکستان کی اس بے مثال دوست، علامہ اقبال کی زبردست مفسرہ کی خواہش کو ایک علامتی شکل دینے کے لیے اس تقریب کا انعقاد کیا۔ مزار جرمنی میں لوحِ مزار پاکستان میں! سندھ کے قدیم زمانے کے دارالخلافہ ٹھٹھہ شہر کو پیر حسام الدین راشدی مرحوم نے اپنی تاریخِ ٹھٹھہ میں تہذیب و ثقافت کے باب میں اور فروغِ علم و فضل کے حوالے سے قدیم بغداد کا مثل اور ہم پلہ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر شمل کو پورے پاکستان سے محبت اور سندھ کے کلچر سے خاص دلچسپی تھی اور انہوں نے اس پر بہت عالمانہ کام کیا۔ پیر حسام الدین راشدی نے ان کے لیے اس ضمن میں سہولتوں کا اہتمام کیااور اس بنا پر انہیں پیر مرحوم سے عقیدت تھی۔ مکلی قبرستان اپنی قدامت اور انفرادیت کے باعث ایک ابدی آرام گاہ کے طور پر ڈاکٹر شمل کا دامنِ دل کھینچتا تھا۔ اس کشش میں انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اس قبرستان کے احاطہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی میں پیر مرحوم کے پہلو میں ایک قبر اپنے لیے محفوظ کروا لی تھی۔ ڈاکٹر شمل کا جسدِ خاکی بون میں دفن ہے۔ روح جسم میں رہتی ہے جسم میں قید نہیں ہوتی۔ مکلی قبرستان میں شمل کی روح کی لوحِ علامت کی تقریب میں لندن سے ، جرمنی سے ، حیدر آباد دکن ، بھارت سے اور اسلام آباد، لاہور ، کراچی ، حیدر آباد اور ٹھٹھہ سے جو لوگ اس وقت اس قبرستان میں ہیں، وہ لوگ اس وقت اپنے دائیں بائیں اور آگے قبروں میں سے احتیاط اور ادب سے راستہ بنا رہے ہیں۔ وہ بظاہر اس قبرستان میں آہستہ خرام ہیں بباطن وہ ایسے زمانوں میں محوِ خرام ہیں جو عصرِ رواں کے ماسوا ہیں ۔ وہ عشق کی تقویم میں ہیں لیکن ان کا کوئی نام نہیں ہے۔ قُرب و جوار اور دُور دراز سے آئے ہوئے ڈاکٹر شمل کے دوست اپنی اپنی یادوں میں اس سے محو گفتگو ہیں۔ بیگم ناصرہ جاوید اقبال کے پہلو میں خالی نشست پر شمل بیٹھی ان سے اپنے بہت دھیمے لہجے میں پوچھ رہی ہیں۔ ولید کی دلہن کیسی ہے۔ منیب کی وکالت کیسی چل رہی ہے اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی اب صحت کیسی ہے؟ غلام ربانی آگرو اپنے ماضی میں گم ہے۔ آواز آتی ہے اور یہ آواز ڈاکٹر شمل کی ہے۔ آگرو صاحب ذرا ادھر آئیں۔ یہ دیکھیں یہ خالص سونے کی پلیٹ ہے۔ یہ مجھے بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے دی ہے۔ آگرو صاحب بتائیں! اس طرح کسی پلیٹ سے وہ محبت جو پاکستان سے مجھے ہے ، بھلانا پی جا سکتی ہے؟ سندھی زبان کے عالمِ ابراہیم جویو، چُپ چَاپ یوں ہمہ تن گوش بیٹھے ہیں جیسے کوئی آواز بہت دور سے آتی ہوئی وہ سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیر حسام الدین راشدی کے پوتے سے ڈاکٹر شمل کہہ رہی ہیں۔ ’’اپنے والد سے کہنا کہ میں اپنی آنکھوں سے پیر صاحب کی قبر پر وہی پرانی چادر دیکھ کر آ رہی ہوں ۔ اب تو وہ پھٹ ہی چکی ہے‘‘۔ ’’دادی آپ جمع خاطر رکھیے میں آپ کا پیغام پہنچا دوں گا‘‘۔ پیر حسام الدین راشدی مرحوم کا پوتا کہہ رہا ہے۔ یہ بون ریلوے سٹیشن ہے۔ اس کے پاس مشہورِ عالم موسیقار، بیتھاون کا محلہ ہے جس میں اب اس کا گھر (ہائوس میوزیم) بن چکا ہے۔ کرسمس کی تقریبات زوروں پر ہیں یہاں مرد و زن کا ایک ہجوم ہے جو مسٹرگشت کر رہا ہے۔ بلیو وائن اور ریڈ وائن کی سبیلیں لگی ہیں۔ بوڑھی مستشرقہ پاکستانی مصور کو بتا رہی ہے۔ یہ دیکھو یہ بیتھاون کا مجسمہ ہے اس میں اس کی مشہور زمانہ سمفنیوں کے نوٹس محفوظ کر دئیے گئے ہیں۔ یہاں سے تھوڑی ہی دور بون شہر کا مرکزی قبرستان ہے، جہاں بیتھاون کی ماں دفن ہے ۔ لیکن اس کی اپنی قبر یہاں نہیں ہے اس نے اپنی محبوبہ کی قبر کے ساتھ دفن ہونا پسند کیا تھا۔ مکلی قبرستان جہاں ڈاکٹر شمل نے دفن ہونا پسند کیا تھا۔ اس کی علامتی لوحِ مزار کی نقاب کشائی کے بعد اس کے دوستوں کا قافلہ کینجہر جھیل کے کنارے ایک ریسٹورنٹ میں تازہ دم ہو رہا ہے۔ یہ جھیل، کہتے ہیں پچاس مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے اور اس حوالے سے یہ دنیا کی سب سے بڑی قدرتی جھیل ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ جس میں ہم ایک لانچ میں محوِ سیر ہیں۔ مادام ڈاکٹر ناصرہ جاوید کے ساتھ نشست پہ اب تک کوئی یاد بیٹھی ہوئی ہے۔ اس سے آگے کی نشست پر غلام ربانی آگرو اور ان کے ساتھ ابراہیم جویو ہیں۔ اکرام چغتائی مقابل کی نشست پر سہیل عمر کے ساتھ ہیں۔ جرمن قونصل جنرل اور اسلم کمال ملحقہ نشستوں پر ہیں۔ سندھی دانشور طالب محبوب کا کہنا ہے کہ اس جھیل کے درمیان ایک مچھیرے کی بیٹی نوری کی قبر ہے جس پر وقت کا بادشاہ فریفتہ ہو گیا تھا۔ ’’ضیاء الحق کے دور میں جب ڈاکٹر شمل پاکستان آئی تو خاص پروٹو کول دیا گیا تھا‘‘غلام ربانی آگرو نے ماضی میں جہانکتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر شمل کی شمالی علاقہ جات دیکھنے کی شدید خواہش کے احترام میں ان کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر شمل جھیل سیف الملوک کے حسن و جمال اور کیف و سرور میں دیر تک دوسری دنیائوں کی سیر میں مگن رہی تھیں۔ ۱۹۸۶ء میں پروفیسر ڈاکٹر شمل کی مشرف با اسلام ہونے اور اسلامی نام جمیلہ اختیار کرنے کی خبریں میں نے اپنی یورپ کی سیاحت کے دوران اخبارات میں پڑھی تھیں۔ ڈاکٹر شمل سے ملاقات ہوئی تو اس ملاقات میں انھوں نے ان خبروں کی نہ تصدیق کی اور انہیں افواہیں قرار دیا ۔ شمالی علاقہ جات کی سیر پر بہت خوش تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جب ہیلی کاپٹر کے ذریعے جھیل سیف المُلوک پر اتریں تو انہیں یوں لگا جیسے وہ پری بدیع الجمال ہیں جو اس جھیل میں چاند رات کو اترا کرتی تھی۔ لانچ آہستہ سے کنارے پر آ لگی ۔ لانچ سے باری باری ساحل پر اترتے ہوئے ہر ایک نے شاید یہی محسوس کیا تھا کہ پری بدیع الجمال ہم سب سے نظر بچا کر آسمانوں کو پرواز کر گئی ہے۔ ہمیشہ کے لیے۔ خضر یاسین انسان اور اس کے وجودی اصول وجودی اصول سے ہماری مراد وہ شرائط ہیں جن پر کسی حقیقت نفس الامری کی واقعیّت کا انحصار ہوتا ہے، جہاں تک انسان کی ہستی کا تعلق ہے تو وہ وجود کے مرتبے کا مظہر ہے۔ وہ اپنے تصور میں کم تر سطح وجود اور برتر سطح وجود کے قطبین میں واقع ہے، چنانچہ انسان کے وجودی اصول کا فہم و ادراک اور احصار اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم پہلے ’’وجود‘‘ اور پھر کم تر اور برتر سطح وجود کے قطبین کا صحیح علمی تعین کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہ تعین ہمیں یہ سہولت بھی فراہم کرے گا کہ ہم انسان کے وجودی اصول اور ان کے مضمرات کا واضح تصورقائم کر سکیں گے۔ ہماری یہ جستجو مکمل طور پر موضوع الاصل ہو گی اور معروض الاصل نہیں ہوگی ۔ یعنی ’’وجود ‘‘ اور اس کی شرائط کو ایک معروض کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا جو میری ذات سے الگ اور میرے غیر جانبدار مطالعہ کے موضوع ہے بلکہ کوشش یہ ہو گی کہ ’’وجود‘‘ جیسا کہ میرے شعور پر منکشف ہوتا ہے، اس کو بیان کیا جائے ۔ گویا ہمارا نصب العین یہ ہو گا کہ اپنے فہم و دانش کا اس طرح تجزیہ و تحلیل کریں کہ ’’وجود‘‘ کا تصور اپنی تمام شرائط و اوصاف کے بدیہی طور پر نکھر کر سامنے آ جائے۔ وجود کا تصوّر ہمارے شعور میں جس طرح کے فہم کی صُورت گری کرتا ہے ، وہ بسیط ، مُطلق اور ایجابی فہم ہے ، جو اپنی ماہیت میں ایجاب و سلب سے ماورا صورت و مادہ سے مستغنی اور عِلّت و مَعلّول سے مبّراء ہے ۔ وہ ناقابل تجزیہ ہے اور اپنے دائرہ فہم میں نہ توسّع و افزونی رکھتا ہے اور نہ کمی اور نقصان کا اندیشہ لیے ہوئے ہے۔ اگر ہم ’’وجود‘‘ یعنی وجود محض، بلا اضافت و بلا نسبت ، قصیہ علمیہ میں بیان کرنا چاہیں تو ہمارے شعور علمی میں نہ کمی ہو گی اور نہ اضافہ کیونکہ قضیے کی ترکیب میں موضوع اور محمول ایک ہی حقیقت کی دو مختلف لفظی تعبیرات ہوں گی ، یعنی موضوع اور محمول عین دیگر ہوں گے۔ مثلاً یہ قضیہ کہ وجود ’’موجود ‘‘ ہے ، مصادر علی المطلوب سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اب اگر ہمارا شعور کسی تصور کے فہم میں اسقدر پابند ہو کہ اس کے حصار سے کسی طور پر نہ نکل سکے تو اس تصور کی ماہیت یہ ہو گی کہ وہ خالصتاً ذہنی ہو گا اور خارجی کبھی نہیں ہو گا۔ اس تصور کا محتویٰ انسانی ذہن سے آزاد اپنی کوئی حقیقت نہیں رکھے گا، اس کے تمام اوصاف و خصائص واقعہ کبھی نہیں بن سکتے، کیونکہ نقص و کمال کا اندیشہ خارج سے وابستہ ہے، عِلّت و مَعلّول خارجی عوامل ہیں، صورت و مادہ منظور کی خارجی وجود کی صفات ہیں۔ خارج میں واقع حقیقت ذہن سے الگ اپنا وجود رکھتی ہے ، محدود ناظر اپنے مشاہدے جس حقیقت کو موضوع بناتا ہے وہ اس کی ہستی سے پہلے بھی اسی طرح موجود تھی اور اس کی ہستی کے بعد بھی یونہی رہے گی، مگر جو کچھ ناظر کی عقل سے وابستہ ہے، وہ اس کی عقل سے آزاد اپنی کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ بسیط تصورات ہر ایک کے شعور میں نہیں آتے ، شعور کی قوت کو تیز تر کیا جائے تو فہم و فراست میں جگہ پاتے ہیں ، عقلی تصورات ناظر کا منظور نہیں کہ اس کی ہستی سے آزاد اپنا وجود رکھتے ہوں ۔معقول فی الذہن اور موجود فی الخارج کا یہی امتیاز اگر ہمارے شعور پر منکشف نہ ہو تو فکر کی صحت کا دعویٰ عبث ہو جاتا ہے۔ جب تصور وجود اپنی ماہیت میں ایسا واقع ہوا ہو کہ ہم اس کا تصور جس قدر شفاف کرتے جائیں، ہمارے شعور علمی میں کسی طرح کے اضافے کا باعث نہ بن سکے ، تو اس کے ذہنی ہونے میں کوئی شک و شبہ رہ نہیں سکتا ۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ’’وجود‘‘ ہمارے لیے قابلِ فہم مگر ناقابلِ واقعہ ہے۔ ہم وجود کو سمجھتے ہیں مگر جو کچھ موجود ہے ، وہ اس تصور کے مضمرات سے بہت دور ہے جو ہم ’’وجود محض ‘‘ کا رکھتے ہیں۔ وجود اور شے ہے، موجود اور شے ۔ موجود جن شرائط و اوصاف سے عبارت ہے ’’بلا اضافت اور بلا نسبت ممکن نہیں ہو سکتا ، جبکہ ’’وجود محض‘‘ اضافت و نسبت کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔مذکورہ امتیازات کا ادراک ہمارے ہاں قدیم حکماء اسلام میں ملتا ہے اور ان امتیازات سے صرفِ نظر بھی کثیر جماعت میں پایا جاتا ہے۔ اس جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ وجودِ محض حقیقت نفس الامری ہے۔ ایک جانب وہ تصور وجود کو اس قدر شفاف کرتے ہیں کہ وہ ’’وجود محض‘‘ ہو جاتا ہے تو دوسری جانب وہ اصرار کرتے ہیں کہ یہ ’’خالص ذہنی‘‘ تصور خارج میں واقع ہے، یعنی موجود و متحقق ہے۔ مثلاً صدر الدین شیرازی المعروف بہ ملاّٰ صدرا نے اپنی کتاب ’’اسفار‘‘ میں وجود کی نسبت یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’’وجود در خارج موجود و متحقق است‘‘۔ ۱ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ذہنی اور خارجی کی تقسیم کرتے ہوئے دونوں کے مابہ الامتیاز کو سے مکمل طور پر صرفِ نظر کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ شیخ اشراق شہاب الدین سہروردیؒ مقتول کا نقطہ نظر باطل ہے کیون کہ وہ یہ موقف رکھتے ہیں کہ ’’وجود بجز تصوّر ذہنی و شبح خیالی بیش نیست‘‘۲۔ شیخ اشراق کا موقف درست ہے اور نفس لامر کے فہم پر مبنی ہے، ملاّٰ صدرا کا خیال حقیقت کے ادراک پر مبنی ہونے کے بجائے ادعائیت پر مبنی ہے، خارج میں وجود محض نہیں ہے بلکہ وہ موجود ہے جو چند صفات کا مجموعہ ہے، چند نسبتوں کا اجتماع ہے، چند شرائط کا مشروط ہے۔ موجود فی الخارج یا وجودِ خارجی کا مطلب یہ ہے کہ زمانی و مکانی ہو۔ خارج زمان و مکان سے عبارت ہے، خارج میں واقع ہونے کا مطلب زمان و مکان کی شرائط سے مشروط ہونا ہے۔ وہ وجود محض نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ زمان و مکان وجود سے متشکل ہوئے ہیں تو ٹھیک ہے، مگر زمان کی شکل میں یا پھر مکان کی شکل میں۔ مگر یہ وجود بلا کیف نہیں ہے ۔ زمان حرکت سے عاری نہیں ہو سکتا اور مکان سکون سے خالی نہیں ہو سکتا ، اس لیے وجود بے کیف و بے رنگ تو خارج میں کسی طرح سے ممکن ہی نہیں ہے۔ اس معاملے پر ہمیں مزید غور و فکر کی احتیاج ہے ۔ وجود خارجی یا خارج میں موجود و متحقق وجود، چند صفات سے مُتّصِف اور چند شرائط سے مشروُط ہے۔ وجود خارجی جوہر ہو یا عرض ، عِلّت ہو یا مَعلُول ، صفت ہو یا مَوصُوف ، بہرحال ایک اجتماع ہے یا مجموعہ ہے۔ اب اگر ہم موجود فی الخارج کی ایک ایک صفت کو محو کرنا شروع کر دیں تو ایک وقت آئے گا کہ وہ شے یا وہ وجود ، ہماری لوحِ شعور سے پوری طرح بلکہ اسی طرح محو ہو جائے گا۔ جیسے کہ وہ خارج سے محو ہو جائے گی ۔ گویا خارج میں موجود ہونے کا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ان صفات سے متصف ہونا یا ان شرائط سے مشروط ہونا ، جن کا کشف و ظہور زمان و مکان میں ہوا ہے۔ ان صفات کے یکے بعد دیگرے ختم ہونے کے ساتھ ہی ہمارا شعور تصوّر شے کے ہر اثر سے بری ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ہمیں ’’وجود‘‘ شے پر کوئی اصرار نہیں رہتا ۔ اب اگر وجود حقیقت نفس الامری ہوتا تو تصوّرِ شے سے دیگر صفات کو محو کرتے ہوئے ہمیں وجود کو بھی محو کرنے کی ضرورت ہوتی، مگر یہاں ایسی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نہ محسوس کی جا سکتی ہے۔ پس یہ ثابت ہو گیا کہ وجود کا خارج میں متحقق ہونا، واقع ہونا ، ایک تصور ذہنی ہے۔ خارج میں ’’موجود‘‘ ، وجودِ محض نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے ۔ باین ہمہ ملاّٰ صدرا کایہ موقف ملاحظہ فرمائیے آپ فرماتے ہیں: فالوجود من حیث ہو وجود لا فاعل لہ یشاء منہ ، لا مادہ یستحیل ہی الیہ ولا موضوع یوجد ہو فیہ ولا صورۃ یتلبس ہو بہا ولا غایتہ یکون ھو لہابل ہو فاعل الفواعل و صورۃ الصور و غایتہ الغایات اذھو الغایتہ الاخیرہ والخیر المحض الذی ینتہی الیہ جملہ الحقائق و کافتہ الما ھیات و یتعظم الوجود عن ان یتعلق بسب اصلاً اذ قد انکشف انہ لا سبب لہ اصلاً و لا سبب بہ ولا سبب منہ ولا سبب عنہ ولا سبب فیہ ولا سبب لہ ۳۔ یہ اسفار کی عبارت ہے، اس عبارت کی شاعرانہ محسوریت سے نکل کر غور فرمائیں ، ملاّٰ صدرا کے پیش نظر وجود کا ایک ایسا مطلق تصوّر قائم کرنا ہے جو اضافت و نسبت سے پاک ہو، کیونکہ یہ تمام صفات ، شرائط اور اضافتیں خارجی وجود کا لازمی حصہ ہیں، خارجی وجود حسّی ہے اور عقلی یا ذہنی نہیں ہے اور حسّی وجود اضافی ہوتا ہے، مرکب ہوتا ہے، جزوی ہوتا ہے، زمانی و مکانی ہوتا ہے ۔ یہ وہ نقائص ہیںجنہیں ملاّٰ صدرا وجود کے تصوّر سے نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ وجود کے تصور کو منزہ و مبراء کرنے کے درپے ہیں۔ عقلیت پسند مفکر کو یہی کرنا ہوتا ہے۔ وہ ذہنی کے حقیقت ہونے پر اصرار کرنے کا پابند ہوتا ہے ، چاہے اسے کتنی ہی بڑی قیمت کیوںنہ ادا کرنی پڑے۔ عقلیت پسندی کا تقاضا یہی ہے ، وہ جس قسم کا فہم رکھتی ہے، حقیقت کو اسی کا پابند اور محتاج تصور کرتی ہے۔ ملاّٰ صدرا کا مذکورہ الصدر بیان وجود کے جس فہم کی صورت گری کر رہا ہے وہ فہم اپنی ماہیت کے اعتبار سے مطلق ہے، لہٰذا وہ وجود مطلق کو متشکل کر رہا ہے۔ مگر مطلق ہمارے فہم کے جس درجے کی خاصیت ہے وہ ذہنی ہے اور حسّی نہیں ہے، مطلق کا خارج میں وقوع محال ہے۔ خارج زمان و مکان سے عبارت ہے۔ جو کچھ خارج میں واقع ہوگا زمان و مکان میں واقع ہوگا ، یہ معقول فی الذہن ہے جو وراء زمان و مکان ہے۔ خارجی ہونے کا مطلب ہے جزوی ہونا، اضافی ہونا، مرکب ہونا اور زمانی و مکانی ہونا، خارج میں مُطلق کو مُطلق دخل نہیں ہے، لہٰذا ملا صدرا نے وجود کے مطلق ہونے تک رسائی تو پالی مگر انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’وجود در خارج موجود و متحقق است‘‘ اپنے ہی دعویٰ کی نفی کر دی۔یہ مشکل اپنی جگہ کہ ذہنی اور خارجی میں واقع خلیج کو کیسے پاٹا جائے گا ؟ میرے ذہن سے آزاد جو کچھ خارج میں موجود ہے، میں اس کا ادراک کروں یا نہ کروں ، اس کی ہستی پر کوئی فرق نہیں پڑتا مگر جہاں تک وجود ذہنی کا تعلق ہے ، اس کی ہستی میرے شعور و فہم سے ہی وابستہ ہے، نہیں بلکہ اس پر مبنی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فہم مطلق کے لیے ہر انسانوں کے پاس عقل کے علاوہ کوئی استعداد ہی نہیں ہے اور عقل کا وظیفہ ہی یہ ہے کہ وہ تصور قائم کرے۔ اب اگر یہ تصور حواس کے مواد پر مبنی ہے تو حسّی ہے اور اگر حواس کو دخل نہ ہوتو یہ عقل کی پیداوار ہوگا ، جس میں وہ اپنی صورت کا خود ہی صورت گر ہے، یعنی صورت اور محتویٰ صورت ہر دو عقل سے فراہم ہوں گے۔ حقیقت نفس الامری یعنی خارجی و واقعی حقیقت اور عقلی تصورات میں ایک حقیقی خلیج ہوتی ہے، ہر عقلیت پسند مفکر کو اپنے نظامِ فکر کے لیے اس غیر علمی اور غیر منطقی مفروضے کو قبول کرنا پڑتا ہے، اور وہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ فکر و حقیقت میں عینیت ہے ۴۔ اور یہی دعویٰ دوسری صورت میں یوں پیش کیا جاتا ہے کہ وجود و موجود عین یک دیگر ہیں ۵۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس میں معقول فی الذہن اور موجود فی الخارج کے امتیازات کی قربانی دیے بغیر کچھ بن نہیں پڑتا ۔ جب یہ کام انجام پذیر ہو جائے، یعنی محسوسات معقولات میں عینیت کی نسبت پیدا ہو جائے تو پھر مفکر کی آزادی کی انتہار ہتی ہے نہ ابتداء کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ۔اب مفکر کے خیالات و اوہام کے لیے کسی خام مواد کی ضرورت یوں نہیں رہتی کہ فکر اپنے ہیولے کا خود ہی صورت گر اور محتویٰ فراہم کندہ ہوتا ہے۶ ۔ اسی صورت حال کے پیش نظر کانٹ نے بڑی اہم رائے تجویز کی کہ اب تک ہمارے علم کے لیے حقیقت کے مطابق ہونا ضروری سمجھا جاتا رہا ہے، آئیے اب ایک دوسرے مفروضے پر عمل کریں کہ حقیقت کو ہمارے علم کے مطابق ہونا چاہے،یعنی اساس ہمارا فہم بنے اور حقیقت اس کے مطابق ہو تو ہمارا علم حقیقت کا علم تصور کیا جائے گا ، یہ نہیں کہ حقیقت ہمارے علم کی صورت گر ہو۔ یہ واقعتا ایک انقلابی نقطہ نظر ہے، جس سے انسان کو اپنی ذہنی قوتوں کو محفوظ سمت پر کام میں لانے کا موقعہ ملا ہے۷۔ ملاّٰ صدرا کا ایک اور اہم مسئلہ ، جو یقینا اصل الاصول ہے، وہ اصالتِ وجود کا ہے۔ یعنی وجود ہر شے پر مُقَدّم ہے، ماہیت شے موخر ہے۔ اس سے قبل ہم اصالتِ وجود کے مسئلے اور ماہیت کی نسبت ملاّٰ صدرا کے موقف کا تجزیہ عرض کر چکے ہیں ، کہ اگر موجود جس ماہیت کا داعی ہے اس کی ایک ایک صفت کو الگ کر دیا جائے تو تصور شے ختم ہو جائے گا ۔ اب اگر ماہیت اور وجود میں جو مُقَدّم ہے وہ تصور شے میں کسی حوالے سے باقی تو رہے، مگر ماہیت کے ختم ہوتے ہی وجود بھی ختم ہو جائے گا ۔ اصالتِ وجود پر اصرار کی وجہ وجودِ بلا کیف کا تصور ہے، اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وجودِ بلاکیف ذہنی تصور ہے اور اس کا حقیقت سے کو تعلق نہیں ہے ۔مگر الشیخ الرئیس کی یہ عبارت دیکھئے کہ کس انداز سے وجود کو بے کیف ثابت کرنے کی سعی فرماتے ہیں۔’’النجاۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ان الوجود لا یمکن ان یشرح بغیر الاسم لا نہ مبداً لکل شرحٍ فلا شرح لہ ، بل صورتہ تقوم فی النفس بلا واسطہ شئیٍ ۸۔ کیا ہم انسان واقعتا وجود کی صورت کو اپنے نفس میں لیے پھرتے ہیں؟ اگر آپ فرماتے ہیں جی ہاں تو میری گزارش ہے کہ اپنے ذہن کی تمام تر قوت پوری شدت کے ساتھ وجود کے تصور پر مرتکز کیجئے ، اب بتائے وہ کیا صورت ہے جو آپ کے نفس نے آپ کے شعور کو عطا کی ہے؟ آپ کے پاس کہنے اور سمجھنے کو کچھ نہیں ہے، میں ذہنی وجود اور حسّی وجود کہہ کر وجود کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں حق بجانب ہوں اور اس لیے میرے شعور پر حسّی اور ذہنی دونوں پر وجود کا لفظ ایک معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے دو الگ وجود ہیں، ایک غیر تربیت یافتہ شعور ان دونوں میں وحدت کا دعویدار ہوگا ، یا پھر ان امتیازات سے گریز پا ہونا اس لیے ضروری ہو سکتا ہے کہ مفکر عواقب کے خوف سے دو چار ہو، ورنہ خارج میں جو کچھ موجود ہے وہ اس کی تقریباً ضد ہے جو ذہن میں معقول ہے۔ خارج میں موجود فرس کے کچھ اور خصائص ہیں اور معقول فی الذہن فرس بالکل نئے شرائط لیے ہوئے ہے۔ وجود ذہنی اور وجود خارجی یا حسّی میں سے کسی ایک کی واقعیت پر اصرار دوسرے کی نفی کا لازمی سبب بنتا ہے، اور عقلیّت کو ذہنی اور حسیّت کو خارجی وجود کے حقیقت نفس الامری ہونے کا دعویٰ ہے۔ عقلیت کو عقل کے ذریعہ علم حقیقت ہونے پر لا محدود اعتماد ہے اور حسیّت کو عقل کے ذریعہ علم ہونے پر لا محدود نے اعتمادی ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں جو حقیقی تضاد رُونما ہوتا ہے ، وہ ذہنی وجود کے حقیقت نفس الامری ہونے یا حسّی ؍خارجی وجود کے حقیقت نفس الامری ہونے پر اُٹھتا ہے۔ عقلیت کا دعویٰ ہے کہ ذہنی ؍ عقلی وجود حقیقت نفس الامری ہے، اس لیے خارجی ؍ حسّی وجود نفس الامر سے محروم ہے ، اور چونکہ ذہنی یا عقلی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کُلّی ہے لہٰذا کُلّی حقیقت ہے اور جزئی حقیقت نہیں ہے۔ کُلّی چونکہ ذہنی ہے ، اس لیے ذہنی حقیقت ہے اور جزئی خارج میں واقع یا موجود فی الخارج ہے، اس لیے موجود فی الخارج حقیقت نہیں ہے۔ ذہنی وجود وراء زمان و مکان یعنی قدیم ہے، اس لیے قدیم حقیقت ہے اور زمانی مکانی یا حادث حقیقت نہیں ہے۔ ذہنی وجود بسیط ہے، ناقابل تجزیہ و تحلیل مرکب حقیقت نہیں ہے۔ بسیط مطلق ہوتا ہے ، لہٰذا مطلق حقیقت ہے اور اضافی حقیقت نہیں ہے۔ذہنی جو بسیط اور مطلق ہے اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ واجب الوجود ہوتا ہے، عقلیت پسند مفکر کو واجب الوجود حقیقت نظر آتا ہے اور ممکن الوجود غیر حقیقی اور بے وقعت معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ ممکن الوجود لازماً اضافی اور مرکب ہوتا ہے ۔ یہ وہ واضح امتیازات ہیں جو اگر کسی مفکر کے شعور پر منکشف ہوں اور اس کی افتادِ طبع ، عقلی ہو یا حسّی ہو تو وہ اس فکری لغزش سے نہیں بچ سکتا کہ کسی جانب متوجہ ہو کر دوسری حقیقت کامفکر ہو جائے ۔ ان امتیازات کا شعور ہی کافی نہیں ہوتانہ کہ امتیازات کی حدود صحت کو سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے، ہمارے حکماء میں ان امتیازات کا شعور تو واضح تھا،مگر تاریخ فکر میں تاریخی حدود ہوتی ہیں، اس لیے وہ ان امتیازات کی حدودِ صحت کی جانب متوجہ نہیں ہو سکے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی فکری جدو جہد میں ان نتائج کی تشکیل تک پہنچے جو شاید خود ان کے لیے قابل قبول نہ ہوں، مثلاً ملاّ صدرا ’’وجود‘‘ کے جس تصور تک پہنچے، اگر اسے ان کے دعویٰ کے مطابق حقیقت تصور کیا جائے ، تو عالم خارجی کا حقیقت نہ ہونا لازم آتا ہے، اور میں یہ تصور بہرحال نہیں کر سکتا کہ ملاّصدرا اس کو قبول کر سکتے ہیں، ورنہ نہ مذہب رہے گا اور نہ فلسفہ ۔ یہاں وجود کی نسبت علاّمہ اقبالؒ کا ایک تصور بیان کرنا ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ علاّمہ کا یہ موقف عقلی اعتبار سے محفوظ اور مذہبی لحاظ سے عظیم الشان ہے۔ وہ وجود کو جوہر کی صفت تصور کرتے ہیں اور اسے من جانب اللہ بذل و عطا بتاتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں: The essence of the atom is independent of it's existencc. This means That existence is a quality imposed on the atom by god. Before receiving this quality the atom lies dormant, as it were in the creative lenergy of God and it's existence means nothing more than Divine energy becom visible.10 علاّمہ نے وجود کی نسبت ماورائی انتزاع سے کام لیتے ہوئے ایک ایسا موقف اختیار کر لیا ہے جو ان تمام مشکلات سے یک دم باہر آ جاتا ہے جن کو حل کرنا ناگزیر ہوتا ہے اور محال بھی ۔ ’’وجود‘‘ کی حقیقت کی نسبت آخری بات یہ عرض کرنی ہے کہ ہمارے لیے ایک علمی ضرورت ہے جسے شاید کوئی بھی مفکر نظر انداز نہ کر سکے اور وہ یہ کہ فکری نتائج کے حوالے سے ایک مشکل ضرور پیدا ہوتی ہے کہ کیا فکری نتائج کی صحت کا انحصار منطقی صحت سے وابستہ ہے؟ حقیقت کے مطابق ہونا یا حقیقت کا ہمارے فکری نتائج سے ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے ؟ منطقی صحت فکر کے داخلی نظام کے مربوط و منظم ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ منطق کا تعلق عقلیات کے سٹرکچر سے ہے وہ اس سے باہر کوئی وظیفہ نہ رکھتی ہے نہ انجام دے سکتی ہے ۱۱۔ لہٰذا فکری نظام جو اندرونی مغالطوں ، مناقشوں اور اضداد سے پاک ہو ، منطقی فہم اس کے درست ہونے کی سند جاری کر سکتا ہے،لیکن تربیت یافتہ شعورِ علمی اس امر پر اصرار کرتا ہے کہ ہمارے فکری قضایا کو حقیقت سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے ، لہٰذا شعور علمی کا مطالبہ ہے کہ قضیہ علمیہ کے متوازی خارج میں حقیقت کا ہونا ضروری ہے، نیز حقیقت کا ویسا ہونا ضروری ہے جیسی کہ قضیہ میں بیان کی گئی ہے ۱۲ ۔ ان دونوں مطالبات سے فرار حاصل نہیں کیا جا سکتا ، مگر ہمارے حکماء ان دونوں مطالبات کو بڑی لا پرواہی سے نظر انداز کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں، فکر و حقیقت کی عینیت کا دعویٰ ہو یا پھر اس دعوے کا دوسرا انداز کہ وجود اور موجود میں عینیت ہے، دونوں کا قبدء و منبع مذکورہ مطالبات کو لا یعنی تصورکرنا ہے۔میری تو فلسفے کے طلباء سے گزارش ہے کہ پہلے شعورِ علمی کے مطالبات پر پوری طرح توجہ فرمائیں اور پھر اپنے اسلاف کے فلسفیانہ افکار کا مطالعہ کریں، اس کے بغیر نہ اسلاف کا موقف سمجھ میں آئے گا اور نہ ہی اپنا فکر کوئی سمت اختیار کر سکے گا۔ تصوّرِ وجود کی ایک حد تک تعیین و تحدید کے بعد اب ہم کم تر سطح وجود اور برتر سطح وجود کے معنی متعین کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں ۔ ہماری اب تک بحث سے یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ وجود سے ہماری مراد ’’موجود‘‘ ہے بلکہ موجود فی الخارج ۔ موجود فی الخارج کا تصوّر ہی کم تر سطح وجود اور برتر سطح وجود کے مفہوم کا حامل ہے۔ ورنہ جہاں تک وجود کے تصور ذہنی کا تعلق ہے تو اسے ہم واضح کر چکے ہیں کہ اس میں کم تر اور برتر کا کوئی مطلب نہیں ہے۔وہ الآن کما کان ہے، اس کی ماہیت ہی ایسی ہے کہ کسی کمی یا زیادتی کو قبول نہیں کر سکتا۔ وجود خارجی میں کم تر سطح یہ ہے کہ اس کے وقوع کی شرائط کم تر ہوں اور برتر سطح وجود کا مطلب ہے کہ شرائطِ وقوع برتر ہوں۔ ہمارے مشاہدے کی کائنات میں ’’مادہ ‘‘ یعنی ’’غیر نامی مادہ‘‘ وجود کی کم تر سطح کا مظہر ہے، زمان و مکان میں واقع ہے اور از خود حرکت سے عاری ہے، کسی خارجی مداخلت سے متحرک ہونا ہے تو مکان کے ایک نقطے سے دوسرے نقطے تک بقدر قوّتِ مداخلت متحرک ہوتا ہے ۔ مادے کی حرکت کی شدت کا پیمانہ زمان ہے اور مسافت کا پیمانہ مکان ۔ مادے کی حرکت کے لیے زمان و مکان اولین شرائط ہیں۔ ان شرائط کے بعد مادے میں ابتدائی اور ثانوی صفات کا ظہور ہوتا ہے، مادہ، غیر نامی مادہ ، اپنی خصوصیات کے باعث خارجی مداخلت کو پوری شدّت کے ساتھ قبول کرتا ہے اور ہر ڈھانچے میں ڈھلنے کی اہلیت رکھتا ہے ، اسی وجہ سے دورِ جدید میں طبیعیات نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ مادے کے ظہور کی شرائط کی کمی سے ممکن ہوئی ہیں، یعنی مادے کے واقعیت کی شرائط نسبتاً دیگر مظاہر وجود کے مقابلے میں کم تر ہیں ۔ جیسے ہی غیر نامی مادے سے ہم نامی وجود میں آتے تو منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اب علّت موثرہ کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ حیات کے ظہور کے ساتھ ہی از خود حرکت کا انکشاف ہوتا ہے اور بیرونی مداخلت کی وہ کارستانیاں جو غیر نامی وجود میں نظر آتی ہیں، یہاں آ کر موقوف ہو جاتی ہیں۔ غیر نامی وجود کے بیرونی مداخلت کے قبول کرنے کی اہلیت سے جو کامیابیاں میسر آئی ہیں ، ان سے انسان کو اپنے ماحول پر ایک طرح احساس تفاخر میسر آیا ہے۱۳۔ اور وہ پوری کائنات میں اپنی مداخلت کے جواز کا قائل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ ایک ایسے تصور عالم کی جانب رواں ہوا ہے کہ ہر شے اس کے قدموں میں آ گئی ہے اور ہر ایک فضیلت اس کی آزادی اور حریت فکر پر قدغن بن گئی ہے۔ وہ کسی حد کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور کسی امتیاز کو خاطر میں لانے کا روا دار نہیں رہا ۔ اس کے لیے زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں رہا، لہٰذا یہ دعویٰ کرنے میں اُسے کوئی تردد نہیں ہے کہ علوم یا سائنس کی کوئی متعینہ حدود نہیں ہیں۔ جس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ زندگی اور موت ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں، ان کے مابین کوئی امتیاز نہیں رہا ۔ بہرحال غیر نامی مادے کے سطح پر وجودی اصول غیر از خود کی اثر پذیری کی اہلیت ہے، یہ اصول غیر نامی مادے کی امتیازی صنعت ہے، جو اسے نامی وجود سے متمیز کر دیتی ہے۔ غیر نامی وجود طبیعیات کا موضوع ہے، طبیعیات میں زندگی اور اس خصائص کا مطالعہ نہ ہوتا ہے اور نہ ہو سکتا ہے ۔ طبیعیات سے مابعد الطبیعیات کی جانب متوجہ ہونے والے لوگ یہ فرق پیش نظر نہیں رکھتے ۱۴۔ علاّمہ کے ہاں بنیادی مقولہ ’خودی‘ ہے۔ وہ کم تر درجے کی ’خودی‘ سے مادے کو تعبیر کرتے ہیں ۱۵۔ اور پھر جوں جوں نئے مظاہر سامنے آتے ہیں ، خودی کا درجہ بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ وہ مادے کی تعبیر و تشریح میں اشاعرہ کے تصور کی تائید کرتے ہیں تو ، میرا خیال ہے کہ ، اس لیے کہ جوہر ایک وحدت ہونے کے ناطے ان تصور خودی کے لیے مفید مطلب ہے۔ اس لیے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے علامہ ’’خودی‘‘ کو ہی ’’وجودی اصول ‘‘ کے طور پر لیتے ہیں اور پھر پوری کائناتِ رنگ و بُو کی تعبیر کرنے کی سعی فرماتے ہیں، اس لیے غیر نامی مادہ بھی ان کے کم تر درجے کی خودیوں کی بستی ہے، اور یہ خودی کے مدارج و مراتب کے امتیازات کے ساتھ ساتھ عظیم سے عظیم تر ہوتی جاتی ہے ۔ لیکن اگر ہم علامہ کے اس مابعد الطبیعی نظام افکار سے یہ نتیجہ اخذ کریں کہ اگر خودیوں کے مابین تفاوت مدارج کا ہے، ماہیتوں کا نہیں، تو شاید یہ بات علامہ قبول نہ کریں ، مگر ان کے نظام فکر کا بھر پور تقاضا یہی ہے کہ خودی اگر ذات الٰہیّہ میں اپنے درجہ کمال پر فائز ہے تو کم تر سطح پر ذات الٰہیہ کا ظہور کم تر درجے کا ہوگا ۔ پھر علاّمہ نے ذات الٰہیّہ کی تخلیقی فعالیّت کو جس انداز سے بیان فرمایا ہے کہ ظہور ذات کا عمل ہے ۱۶ تو یہ نتیجہ اخذ کرنا کچھ زیادہ دشوار بھی نہیں رہتا کہ کائنات در حقیقت انکشافِ ذات ہی ہے ۔ کم تر درجے پر انکشاف کم تر ہے اور برتر درجے پر برتر ۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو انسان بھی اپنی تمام خوبیوں سمیت خدا تعالیٰ کی ذات کا مظہر ہے، اس کا وجودی اصول بھی ذات الٰہیّہ سے مدارج میں مختلف ہے مگر نفس الامر میں سب یار کا جلوہ ہے ، کعبہ ہو کے بت خانہ۔ غیر نامی وجود کے ایک حصے میں ترقی آتی ہے اور وہ نمو کی اہلیت کا حامل ہو جاتا ہے، غیر نامی وجود سے برتر سطح وجودِ نامی کی ہے، یہ زندگی ظہور ہے ۔ یہ بالکل منفرد و متمیّز مظہرِ وجود ہے۔ زندگی کے ظہور کی چند شرائط پوری ہو جائیں تو زندگی کا ظہور ممکن ہو جاتا ہے ، زندگی زمانی و مکانی وجود میں آتی ہے اور چلی جاتی ہے ۔ اس کے رونما ہوتے ہی ایک جسم میں نشو ونما شروع ہو جاتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قوّتِ فعل میں ڈھل رہی ہو ، انجذاب و پیدائش کی صفات رو بہ عمل ہو جاتی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ زندگی کہاں سے آتی اور کہاں چلی گئی ۔ ہم انسان یہ نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں کہ وہ کیا شرائط ہیں جس سے زندگی معرضِ وجود میں آ جاتی ہے اور وہ کیا عوامل ہیںیا وہ کیا اصول و قوانین ہیں جن کے متحقق ہونے سے زندگی کا وقت پورا ہو جاتا ہے۔ یہ تمام سوالات ہمارے فہم و گمان سے بالا تر ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی اپنے ہی متعین کردہ قوانین و اصول سے ظہور پذیر ہوتی ہے اور اپنے ہی اصول و قوانین سے ختم ہو جاتی ہے ، تاہم جس دوران میں وہ مادّے میں ظہور کیے رہتی ہے ، اس دوران میں مادہ چند غیر معمولی صفات سے متصف رہتا ہے اور زندگی کے اختتام کے ساتھ ہی یہ صفات محو، ہو جاتی ہیں۔ ایک زندہ جسم جن اوصاف و خصائص سے متصف ہوتا ہے اس کا مطالعہ حیاتیات کہلاتا ہے ۔ حیاتیات زندہ جسم کے ان عوامل ، محرکات ، اوصاف اور خصائص کا مطالعہ کرتے ہوئے سوال اٹھائے کہ زندگی کیا ہے؟ اور اس کا کیسے آغاز ہوا؟ تو یہ مابعد الطبیعی سوال ہو گا اور اس کا جواب بھی ما بعد الطبیعی ہی ہو گا۔ یہ فلسفہ ہے اور اس کی تنقید کے لیے حیاتیات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نہ سوال حیاتیات سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی اس کا جواب حیاتیات کے دائرے میں آتا ہے ۱۷۔ زندگی از خود حرکت سے مادے کو نواز دیتی ہے، غیرنامی مادہ غیر از خود کی حرکت و قوّت سے متحرک ہوتا ہے ، غیر از خود حرکت غیر نامی مادے کی خوبی ہے اور از خود حرکت نامی وجود کی صفت ہے۔ زندگی میں تصرف کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ ایک زندہ وجود پر ویسا تصرف ممکن نہیں ہے جیسا کہ مادّے میں ممکن ہے۔ زندہ وجود ایک انتہائی پیچیدہ وحدت ہے، اس لیے چاہے ہمارے شعور و فہم اور علم و دانش کی توسیع بے حد و حساب ہو جائے مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم زندگی فی نفسہٖ کی کنہ کو پالیں ، چنانچہ زندگی خود آپ اپنا وجودی اصول ہے۱۸۔ جہاں تک فقط زندگی کے وجودی اصول ہونے کا تعلق ہے تو ہم ذی حیات میں دو واضح انواع کو اپنے ادراک میں لاتے ہیں ، ایک نباتاب اور دوسرے حیوانات ، نباتات کا رشتہ مادے سے جڑا ہوا ہے اور حیوانات مادّے سے آزاد ہیں اور اس لیے ان کی حرکت بالارادہ ہوتی ہے ۔ حیوانات میں سادہ شعور بھی نظر آتا ہے ۔ تاہم نباتات ہوں یا حیوانات ، ان کی حرکت ان کا داخلی تقاضا ہے ، وہ کسی خارجی جبر سے وجود میں نہیں آتے۔ ان کا داخلی تقاضا ان کو خود کار حرکت کے اصول سے وابستہ رکھتا ہے ۔ حیات پر باہر سے اصولِ حرکت نافذ نہیں کیے جا سکتے ، کیونکہ حیات میں علّتِ موثرہ کوئی شے نہیں ہے، یہاں پر جس عِلّت کا ظہور ہوتا ہے وہ علّتِ غائی ہے۔ زندگی اور اس کی خصوصیات فطرت کا ایک حصہ ہیں مگر جب کوئی نام نہاد مفکر حیاتیاتی علوم کے زیر اثر پوری کائنات کی تشریح کرنا چاہتا ہے تو وہ حیاتیات کے مقولات کو غیر نامی وجود کے مظاہر پر بھی نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور زندگی کو اصل عالم تصور کرتے ہوئے کائنات کا وجودی اصول زندگی کو قرار دیتا ہے ، اور پھر زندہ و مُردہ کی تمیز فنا کرتے ہوئے ایک نظام فکر تیار کر لیتا ہے ۔ مگر کیا یہ درست ہے کہ زندہ اور مُردہ میں امتیاز فریب نظر ہے؟یا یہ فکر خود فریبی میں بتلا ہے۔ زندہ وجود کی حرکت اور مردہ وجود کی حرکت میں مماثلت نہیں ہے۔ زندہ وجود ہی ایک وحدت ہے، نامی وحدت ہے، جس کے اجزا میں نامی رشتہ و تعلق ہے، اس نامی وحدت کو انفرادیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اب انفرادیت، نامی وحدت کے وجود کی تعبیر ہے ۔ یقینا انفرادیت حیات کا خاصہ ہے ،انفرادیت کا ظہور حیات کے ساتھ لازم ہے، اس لیے انفرادیت حیات سے برتر سطح وجود کا مظہر نہیں ہے اور نہ ہی برتر سطح وجود کو انفرادیت کے تصور سے واضح کیا جا سکتا ہے ۔ علاّمہ نے خودی کے خصائص میں انفرادیّت کو مرکزی حیثیت دی ہے۱۹ ، مگر انسان فقط حیاتیاتی اصول و مقولات سے کبھی واضح نہیں ہو سکتا ہے، اس لیے کہ اگر خودی کا مرکزی نقطہ انفرادیت ہے تو پھریہ خودی پر ذی حیات کے پاس موجود ہے ، مگر علاّمہ نے تو ہر جگہ خودی کے جلوے کو ہی شعلہ زن دیکھا ہے ۔ علاّمہ نے انفرادیت کی نسبت ایک ایسے تصور کو متشکل کرنے کی سعی کی ہے جو اپنی ذات میں بالکل بے روزن مونائو ہو اور اس سے نہ کچھ نکل سکے اور نہ ہی اس میں کچھ داخل ہو سکے ۔ دَخول و خروج ان کے نزدیک انفرادیت کے تقاضوں کے منافی ہے، مگر زندہ وجود وحدت ہے، انفرادیت کا حامل ہے۔ باین ہمہ اپنے اندر ایسی انفرادیت کی وحدت کو جنم دیتا ہے، اس لیے انہیں موجودات عالم میں انفرادیّت اپنے پورے مفہوم میں کہیںنظر نہیں آتی چنانچہ وہ انفرادیّت کے ظہور کا کامل ترین مظہر ’’انائے مطلق‘‘ میں دیکھتے ہیں جہاں پر قرآن مجید سے استشہاد کرتے ہوئے سورہ اخلاص کو سامنے لاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علاّمہ کے ہاں زندگی کا مظہر ہی واحد اور حقیقی وجودی اصول ہے۔ اس سے زیادہ یا اس سے کم ، ہر مظہر وجود کو وہ کسی نہ کسی سطح سے حیاتیات کے مقولات سے واضح کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ انا یا خودی ان کا مرغُوب ترین مقولہ ہے، لہٰذا یہ جوہر کے حقیر ترین وجود سے لے کر خدائے بزرگ و برتر کی ہستی تک، ہر ایک مظہر وجود پر اطلاق پذیر ہوتا ہے۔ علامہ کائنات کا مشاہدہ کرتے ہوئے دو مختلف زاویہ نگاہ اختیار کرتے ہیں، اگر وہ کائنات کو اَنائے مطلق کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو پوری کائنات انہیں انکشاف ذات کا عمل نظر آتی ہے، اور اگر کائنات کو کائنات کی ہستی سے دیکھتے ہیں تو یہ پوری کائنات اپنے خالق سمیت ’’خودی‘‘ کی بستی معلوم ہوتی ہے۲۰۔ علاّمہ کے نزدیک شعور کوئی مستقل مظہر وجود نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کی کج روی سے رونما ہوا ہے ، علامہ اپنے شاعرانہ تخیّل کے حُسن میں جس استغراق کے متمنی ہیں وہ امتیازات سے پیدا ہونے والی دوئی کے عذاب کو گوارا نہیں کر سکتا ، اس لیے انہیں تصوّرِ انسان میں نفسِ فعال اور انائے بصیر Appreciation self / Efficient self میں زیادہ حقیقی انائے بصیر معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ مشاہدہ کو ایک نامی وحدت میں پرونے والے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح اس پہلو کے لیے زمان کی کوئی حقیقت ہے تو امتدام محض یا Pure duration اور علاّمہ کے نزدیک زمان کا حقیقی تصور حرکت سے عاری ہے۔گویا علاّمہ نے انا کے تصور میں جن اعراض کو لاحق فرمایا ہے، اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہماری زندگی جن حقائق سے دائمی طور پر وابستہ ہے، وہ حقیقی ہونے سے زیادہ ہمارا فریب نظر بن جاتے ہیں۲۱ ۔ علاّمہ کے حوالے سے جیسا کہ یہ بات عرض کر دی ہے کہ وہ ’’شعور‘‘ کو اپنی نوعیت میں کوئی مستقل مظہر وجود قبول کرنے سے صاف انکار رکرتے ہیں ، اور اس طرح شعور پر ان کا نقطہ نظر نفسیاتی ہے، مگر یاد رکھیے کہ نفس ان کے نزدیک ظہور حیات ہے ، اور اس لیے وہ نفسیاتی مطالعہ میں زندگی کے تقاضوں تک اپنے آپ کو محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر شعور زندگی کی کج روی نہیں ہے بلکہ مستقل مظہر وجود ہے، اور شعور کے بھی دو مدارج ہیں، ایک سادہ شعور ہے جو حیوانات میں پایا جاتا ہے اور دوسرا اعلیٰ درجے کا شعور ہے، یہ شعور کا شعور ہے ۔ جس طرح حیات کے دو مظاہر ہیں ایک نباتات جو زمین سے جڑے ہوئے ہیںاور اس سے آزاد ہو کر اپنی ہستی برقرار نہیں رکھ سکتے اور دوسرے حیوانات ہیں جو زمین سے آزاد ہیں اور اس لیے حرکت بالارادہ کے وصف سے متصف ہیں۔ اسی طرح شعور زندگی سے برتر سطح وجود ہے اگرچہ اس کا ظہور زندگی پر ہوتا ہے ۔ گویا جیسے غیر نامی وجود کے ایک حصے میں نمو کے آنے سے نامی وجود کا ظہور ہوا تھا ،بالکل اسی طرح نامی وجود کے ظہور پر شعور کا ظہور عمل میں آیا ہے اور پھر حیوانات کے ایک حصے کو شعور کے شعور سے سرفراز کیا گیا ہے تو بالکل جدید ، منفرد اور متمیّز وجود ظہور پذیر ہوا ہے، وہ اپنے اوصاف و خصائص کے اعتبار سے زندگی سے برتر سطح وجود ہے ۔ اس سطح وجود کے سامنے آتے ہی زندگی کے تقاضوں کی تکمیل ہی سب کچھ نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات تو زندگی کی نفی ہی شعور کے شعور کا حقیقی تقاضا اور مطالبہ بن جاتی ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف تو خود علامہ کو بھی ہے کہ : ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی سادہ شعور ذرائع کا شعور ہے اور شعور کا شعور ذریعہ اور غایت دونوں کا شعور ہے۔ اور یہ شعور کا شعور ہی ہے جو انسان کا وجودی اصول ہے، لہٰذا شعور کے شعور ہی کے مضمرات ہیں جو انسان کے وجودی اصول و شرائط ہیں، ان پر پوری توجہ کرنا ضروری ہے۔ شعور کا شعور اختیار ہے، آزادی ہے، حریّت نامہ ہے، لہٰذا انسان اپنے اعمال کا خود محرک ہے ، خود ہی ذمہ دار ہے اور یہ ذمہ داری بھی اس کا ذاتی انتخاب ہے۔ وہ اپنے انتخاب میں داخلی جبر سے آزاد ہے اور خارجی جبر سے بھی آزاد ہے۔ انسان ایک حیاتیاتی وجود ہے ، ایک حیاتی و حدت ہے، اس لیے حیاتیاتی تقاضے اس کے جسم میں جِبِلّی داعیات بن کر ابھرتے ہیں اور اس کی ذات کے سامنے گویا اپنی تکمیل کے لیے عرض گزار ہوتے ہیں ۔ یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہے کہ ان کو پورا کرے یا نہ کرے ، یا پھر ان کو کرتے ہوئے خارج میں واضع قوانین کا لحاظ رکھے یا ان کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسری سمت کو نکل جائے ۔ یہی وہ سطح ہے جہاں صحیح اور غلط کا تصور پیدا ہوتا ہے اور سزا و جزا کوئی معنویت رکھتی ہے۔ انسان ایک جسم ہے ، جسم نامی ، اس لیے زماں و مکان میں واقع ہے۔ اس کا شعور زمان و مکان کا ادراک رکھتا ہے ، اس لیے وہ زماں ومکاں سے بالا تر اپنی ہستی کا وجودی اصول رکھتا ہے ۔ گویا زمان و مکان اس کے شعوری اختیار میں مانع نہیں ہیں۔ وہ ذریعہ اور مقصد کا شعور رکھتا ہے، وہ موجودات کو محکوم بناتا ہے اور یوں یہ سمجھنے میں کامیاب ہوتا ہے کہ میرے منظورات میں فلاں یہ ہے اور فلاں یہ، اس طرح وہ موجودات خارجیہ کا مقام و منصب متعین کرتا ہوا شعور کے شعور تک رسائی پاتا ہے۔موجودات خارجیہ پر حکم لگانے اور ان پر تصّرف پانے کی وجہ سے وہ انتہائی اعلیٰ درجے کا وجودی اصول ہے ، شعور کا شعور اس کی ہستی پر ایک اور حقیقت کو منکشف کرتا ہے کہ میں ہر دوسری چیز کا غیر ہوں۔یہ غیر معمولی احساس ہے، غیر معمولی تعقّل ہے اور یہی اس کی شخصیت کا بنیادی اصول ہے اور یہی منتہی اصول ہے۲۲۔ شعور کا شعور انسان کے فہم و فراست میں آخری درجہ ’’وجود ‘‘ ہے۔ ہم انسان اپنے تصورات کے قیام میں آزاد ہیں اور اپنی قوت خیال سے حقیقت نفس الامری سے روگردانی کر سکتے ہیں اور اپنے خیالات و اوہام کی الگ دنیا قائم کر سکتے ہیں ، بلکہ کر لیتے ہیں۔ انسان اپنی دنیا کے نقص سے آگاہ ہے اور اپنی دنیا کے کمال پر فائز ہونے کا متمنی ہے ۔ وہ کمال یافتہ دنیا جو اس کے لیے جنت گم گشتہ ہے، اس کی باریابی کا آرزو مند ہے ۔ یہ سب کچھ وہ ہے جو کسی نہ کسی طرح اس کے تخیل کی پرواز کا موضوع بنا رہتا ہے۔ اگر انسان کمال یافتہ دنیا کا تصور نہ رکھتا ہو تو شاید وہ اپنی دنیا کے نقص سے کبھی باخبر نہ ہو سکتا ۔ انسان کا شعور جو انتہائی اعلیٰ درجے کا شعور ہے، وہ اپنی انتہائی پرواز سے جو صورت کھینچ لاتا ہے ، وہ اس کی اپنی ہی شکل و صورت ہوتی ہے ۔ اس کا شعور موجودات میں خود اپنے آپ پر آرکتا ہے ۔ اپنی بہترین جدوجہد میں انسانی شعور کا آخری حاصل انسانی شعور ہی ہے۔ وہ جن حقائق کاادراک کرتا ہے وہ ادنیٰ ترین درجے سے شروع ہوتے ہیں اور اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انسان موجودات عالم میں اپنے سے برتر سطح وجود کا کوئی فہم نہ رکھتا ہے اور نہ ادراک حاصل کر سکتا ہے ، انسانی شعور کی پرواز کسی ایسے وجود کے مقام و منصب کے تعین اور ماہیت کے فہم و ادراک کی اہل ہی نہیں ہے جو موجود ہو اور اس کی ہستی سے بالاتر ہو، اعلیٰ تر ہو۔ بلندی و برتری کے تمام معیارات انسان کے وجودی اصول کے مساوی ہیں۲۳۔ جو انسان سے فروتر ہستیوں کا معیار فراہم کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں، برتر وجود کے لیے بے کار ہیں، لاشے ہیں۔ برتر سطح وجود ہے ہی نہیں، اپنے سے اعلیٰ تر وجود کے تصور کا محتویٰ وہ خود ہی ہے، جیسے آئینے کے سامنے ہو۔ ترا شیدم صنم بر صورت خویش بشکل خود خدا را نقش بستم مرا از خود بروں رفتن محال است بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم انسان اعلیٰ ترین ہستی ہے ۔ وہ اپنے وجودی اصول میں لاثانی ہے، اس سے بہتر وجود ممکن نہیں ہے۔ وہ اس ہستی کی معرفت کا کوئی پیمانہ نہیں رکھتا اور نہ رکھ سکتا ہے جس کی تخلیق نے اسے ہستی عطا کی ہے ۔ وہ کیا ہستی ہے جس نے کائنات کو بنایا ہے اور سب سے بڑھ کر شعور کے شعور کوپیدا کیا ہے؟ انسان کا علم و وجدان وہم و گمان ، خیال و قیاس کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو اس تک رسائی میں انسان کی معاونت کر سکے اور اس کا رہنما بن سکے ۲۴۔ اس کی ماہیت ، اس کی فطرت، اوصاف وخصائص ، ہمارے لیے یہ سب انسانی وجود کے ادراک کے مقولات ہیں، ہمارا ہر سوال جس مفروضے سے شروع ہوتا ہے وہ سب اس کی تخلیق ہیں۔ اس لیے الفاظ کھوکھلے ہیں ، معانی بے کار ہیں ۔ جب بھی انسان اس کی ہستی کی جانب معرفت کی غرض سے متوجہ ہوا ہے تو اپنے ہی وجود ، اپنی ہی ہستی کے کنویں کی دیواروں سے سر پٹختا ہوا مر گیا مگر اس کے وجود کی ماہیت کا کوئی تصور قائم نہ کر سکا ۔ وہ کبھی محسوس کے پیکر میں اور کبھی معقول کے ہیولے میں اس کی ذات کی تصویر کشی کرتا رہا اور ہر مرتبہ بس یہی جان سکا کہ اب بھی تصویر جاناں کا عکس گرفت سے بہت دور ہے۔ حواس کا وظیفہ محسوس تک اور عقل کی رسائی معقول تک ہے اور بس ۔ معقولین نے واجب الوجود ، مطلق اور قدیم کی صفات سے اس کو متصف بیان کیا اور یہ بھول گئے کہ ان اوصاف کو ذہن انسانی میں موجود تصور سے باہر نہیں دیکھا جا سکتا ، اور اس لیے یہ تمام اوصاف اپنا کوئی حقیقی اور خارجی وجود نہیں رکھتے ۔ یہ ان کا ایک مفروضہ ہے کہ واجب الوجود ہستی انسانی عقل سے ہٹ کر اپنا آپ برقرار رکھ سکتی ہے ۔ واجب الوجود کا صحیح فہم ہی اس مفروضے کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔ قرآن فرماتا ہے : وَ ضَرَبَ لَنَا مَثلَاَ وَّ نَسِی خَلْقَہٗ ۔۔ یٰسین ۷۸؍۳۶ حاصل کلام یہ ہے کہ انسان اپنے شعور سے اپنے ہی شعور تک پہنچ سکتا ہے۔ وہ اس شعور سے قاصر ہے جو اس کی ہستی سے بالاتر کی جانب حرکت کر سکے، رومیؒ نے فرمایا: از خطِ تخلیق او دانی کہ چیست انفس و آفاق ہا یک نقطہ نیست مذہب میں اس ہستی کے ہونے کا دعویٰ مختلف نوعیّت کا ہے۔ کسی صاحب مذہب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اس ہستی تک اپنی استعداد سے پہنچا ہے، ہمیشہ یہی بیان کیا گیا ہے کہ اس کہ ہستی جس نے انسان اور کائناتِ رنگ وبو کو تخلیق کیا ہے ، وہ موجود ہے، اور اس نے اپنے فضل و کرم سے اپنی طرف سے پہل فرماتے ہوئے اپنے ہونے سے خود ہی انسان کو آگاہ فرمایا ہے ۲۵۔ لہٰذا مذہب کا یہ دعویٰ کہ وہ ہے ، انسان کی ذاتی دریافت نہیں ہے۔ نادان لوگ مذہبی دعوے کو انسان کی دریافت فرض کرتے ہوئے فلسفیانہ خیال کو مذہبی صداقت کے مماثل بنا دیتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ خیال آرائی اگر اس نتیجے تک پہنچ بھی جائے کہ ’’خدا‘‘ ہے تب بھی وہ خیال ہی رہتا ہے ، خدا کے واقعتا ہونے کو ہر گز لازم نہیں کرتا ۔ جن مفکرین کے شعور میں منطقی صحت کی شرائط اور واقعیّت کی شرائط واضح ہیں، وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے ، فکر اور حقیقت کی عینیت کا دعویٰ ہو یا پھر وجود اور موجود کی عینیّت کا مسئلہ ۲۶، دونوں پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ عقلی اور حسّی کے امتیازات کا شعور ابھی محتاج تربیّت ہے۔ مذہب اور اس کے مقولات انسان کی دریافت نہیں بلکہ وہ خالقِ ارض و سماء کی وہب محض اور بذل و عطا ہیں۔ مفکرین مذہب کے عطا کردہ عقائد کو بطور مقولات فلسفہ کے استعمال کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی ہستی ، کائنات اور انسان اور تخلیق کی نسبت نظام فکر ترتیب دیتے ہیں۔ یہ وہ کر سکتے ہیں اور شاید انسان ایسا کرنے سے کبھی نہ روکا جا سکے مگر مشکل نظامِ فکر وضع کرنا اور نہ ہی نظامِ فکر وضع کرنا کوئی بڑا مسئلہ ہے، اصل مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی نظامِ فکر کے ساتھ علمی تعلق کے بجائے جاہلانہ تعصب وابستہ کر لیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم انسانی افکار کے انتقادی جائزے سے رک جاتے ہیں اور دوسری جانب انسانی افکار خدائی تعلیمات کی جگہ لے لیتے ہیں اور حقیقت کی ترجمانی و نمائندگی کا شرف حاصل کرنے کے مدعی بن جاتے ہیں، جو یقینا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔ انسان کی ہستی کے ’’وجودی اصول‘‘ کی تشکیل کے دو منابع و مبادی ہیں: ایک تو وہ جو انسان نے اپنے متعلق خود غور و خوض کیا اور کوئی نتیجہ اخذ کیا، اور دوسرا وہ ہے جو اسے اس کی ہستی کے خالق نے ہدایت فرمایا ۔ انسان کی ہستی کا ایک تصور نفسیات کی صورت میں سامنے آیا ہے ، نفسیات میں نفس کے اعمال کی توجیہہ کی جاتی ہے، خوشی اور غم ، محبت و نفرت ، جوش و جذبہ ، ارادہ اور ادراک ، یہ وہ بنیادی تصورات ہیں یا مبادتیاتی حقائق ہیں جنہیں نفسیات کو بیان کرنا ہے کہ وہ کیا ہیں؟ مگر جیسا کہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے بالکل درست بیان کیا ہے کہ اگر نفسیات اپنے مسائل کے حل میں کامیاب بھی ہو جائے تب بھی نفس انسانی کی یہ شکل ویسی کی ویسی برقرار رہتی ہے کہ نفس انسانی اپنی اعلیٰ ترین امنگوں اور آرزوں پر کیسے فائز المرام ہو ۲۷۔ وجہ یہ ہے کہ علم نفس میں طبعی خواہشات جِبلّی داعیات اور نفسیاتی تقاضوں کو سب کچھ تصور کرتے ہوئے انسان کا تصور انسانیت گزیدہ حیوان کا بن کر رہ جاتا ہے اور شعور کے تینوں پہلو یعنی جذبہ، ارادہ اور ادراک ، جِبلّی داعیات متصور ہوتے ہیں اس کے برعکس قرآن مجید نے انسانی فطرت کی نسبت جو موقف اختیار کیا ہے وہ انسان اور اس کے وجودی اصول یعنی شعور الشعور سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ علم النفس نے انسان کو واقعتا انسانیت گزیدہ حیوان ہی بنا دیا ہے کیونکہ انسان کے نفس کے مطالعہ کی بہترین صورت وہ تصور کی جاتی ہے جس میں انسان کے شعوری فیصلوں کو کوئی دخل نہ ہو، جہاں شعوری فیصلوں کا تصور آتا ہے وہاں فرض کر لیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ معاشرتی جبر کا نتیجہ ہے۔ ہمارے اس دعوے کا ثبوت فرائڈ کے حاصلاتِ فکرہیں۔ نفس انسانی کے مطالعے کا جو بھی منہاج ہو، اس میں نفس کو ایک سیال یا موقوف مادہ تصور کیا جاتا ہے ، جس سے نفس انسانی کی حقیقی ماہیت کبھی بھی منکشف نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے شاید کہ علاّمہ نے ’’میں ‘‘ کو شے نہیںبلکہ عمل ٹھہرایا ہے ۲۸ ۔ علاّمہ نے نفس انسانی کی نسبت جو موقف اختیار کیا ہے اور پھر اپنے تصوّرِ اَنا کے لیے جن مشکلات کا ادراک کیاہے اور ان کا حل بھی پیش کیا ہے، ہمیں ان کے حوالے سے فقط یہ عرض کرنا ہے کہ انسان کی ہستی اور اَنا کا ظہور اگر ’’انا الموجود‘‘ کہنے کی اہلیت سے عبارت ہے تو یہ انسان کے وجود کا کوئی ایسا تصور نہیں ہے جس سے انسان کی شخصیت کا وافر فہم میسر آ سکتا ہو۔ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ علاّمہ کے ہاں شعور کو مستقل مظہر وجود قبول کرنے کا کوئی ثاتر نہیں ملتا ، اس لیے وہ خودی کی بہترین تکمیل جس اَنا میں دیکھ رہے ہیں، اس کا علم اپنے معلوم کا خالق ہے لہٰذا مستقل اَنائے مطلق کے لیے غیر متعین امکان ہے مگر چونکہ علم کا وظیفہ ہی تعین ہے، اس لیے شعور کے اس مظہر کی نفی کرنی پڑی اور اس نتیجے تک پہنچنا پڑا کہ ذات الٰہیہ کے لیے آنے والے وقت کا علم ہے ہی نہیں اور جہاں تک کم تر خودی یعنی انسان کا تعلق ہے تو اس کا شعور مستقبل کے لیے اپنے ہاتھ میں منصوبہ رکھتا ہے، بایں ہمہ انسان کا منصوبہ اور اس کی بھرپوری پابندی نہ تو ہمارے علم کو میکانکی بناتی ہے اور نہ ہی ہماری کارکردگی کو مشین سے ملا دیتی ہے۔ مگر علاّمہ کو ذات الٰہیہ سے علم کی نفی پر اس لیے اصرار ہے کہ یُوں ذات الٰہیّہ کی تخلیقی اہلیت ایک مشین سے مشابہ ہو جاتی ہے ۔ وہ اس تصور کو ایک مخصوص شاعرانہ انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ گویا علم الٰہیّہ میں ہر واقعہ پڑا ہوا ہے اور اپنے ظہور کا منتظرہے اور اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے ۲۹۔ یہ انداز بیان ہی ایسا ہے کہ اس کے سحر کو توڑنا اچھا نہیں لگتا ۔مگر اس بیان کے نتیجے میں علم الٰہیّہ کی نفی ہو رہی ہے ۔ بہرحال ہمیں اپنے آپ کو انسان اور اس کے وجودی اصول کے حوالے تک ہی محدود رکھنا ہے اس لیے دوسرے مسائل کی جانب متوجہ ہونا مناسب نہیں ہوگا ۔ قرآن مجید نے نفسِ انسانی کو دو مختلف النوع فطرتوں کا حامل قرار دیا ہے،ان میں ایک بالفعل فطرت ہے اور دوسری بالقوہ ۔ بالفعل فطرت (Actual nature) طبیعی خواہشات، جِبلّی داعیات اور نفسیاتی تقاضوں سے عبارت ہے ، جیسے قرآن مجید میں فرمایا گیا : زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثط ذٰلِکَ مَتَاعْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ۔ آل عمران ۔۱۴ انسان کی بالفعل فطرت کے دیگر اہم مضمرات کی جانب دوسرے مقامات پر فرمایا گیا : ۱ ۔ خَلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیفاً النساء ۲۸ ۲ ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعاً المعارج ۱۹ ۳ ۔ وَکَانَ الِانْسَانُ عَجُوْلًا الاسرار ۱۱ یہ سب کچھ اس کی فطرت میں اس قدر واضح ہے کہ ہر انسان ان تمام دعووں کی تصدیق اپنی روز مرہ کی زندگی میں عملاً کرتا ہی رہتا ہے۔ اس کے مقابل فطرت کا ایک پہلو وہ بھی ہے جو کہ بالقوہ فطرت کہلاتا ہے۔ بالقوہ فطرت کے بارے میں ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب لکھتے ہیں کہ بالقوہ فطرت کی حیثیت ایک ایسی استعداد کی ہے جو نشو و نما نہ پا سکے تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہوجاتا ہے۔ اس کو نشو ونما دے کر ایک زندہ طاقت بنا کر اس کے تحت بالفعل فطرت کو منضبط اور منقاد بنایا جا سکتا ہے۳۰۔ قرآن مجید میں بالقوہ فطرت کو یوں بیان کیا گیا ہے: ۱۔ فجور وتقویٰ کا امتیاز : فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰٰھَا الشمس ۔۸ ۲ ۔ اقرار ربوبیت اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُٰو بَلیٰ الاعراف ۔ ۱۷۲ ۳۔ انکار شیطنیت اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُو الشَّیْطٰنَ یٰسین ۔۶۰ ۴۔ اپنے نفس کی بصیرت بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃُٗ القیامہ ۔ ۱۷۲ ۵۔ امانت کی ذمہ داری کا احساس اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَ بَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً۔ الاحزاب ۔ ۷۲ انسان کی ہستی کا یہ قرآنی تصور ہے اور یہ ہیں اس کے وجودی اصول جن سے اس کا انسان ہونا عبارت ہے ۔ قدرت نے انسان کے اندر جو کچھ رکھا ہے اُسے بیان بھی کر دیا ہے اور یہ بیان ایسا کچھ اجنبی بھی نہیں ہے کہ ہم انسان اپنی ہستی میں اس بیان کی جھلک محسوس نہ کرتے ہوں، ہم انسان ا س کا تجربہ کرتے ہی رہتے ہیں اور اس حقیقت کا تجربہ تو عام ہے کہ جب یہ فطرت نشو ونما یافتہ ہوتی ہے تو انسانی سیرت و کردار کی حالت کچھ اور ہوتی ہے اور اگر یہ بالقوہ فطرت کی تربیت نہ کی جائے اور بالفعل فطرت کی نگہداری نہ ہو سکے تو انسان اپنی ہستی کے شایان شان زندگی بسر نہیں کر رہا ہوتا ، قرآن مجید میں فرمایا گیا۔ اولئک کا لانعام بل ہم اضل ۔ الاعراف :۱۷۹ حاصل کلام ۔۳۱ انسان اور اس کے وجودی اصول کے باب میں ہم دو طرح سے غور کر سکتے ہیں ایک تو وہ معروض الاصل طریق (Object orientcd) ہے جس میں ہم انسان کی ہستی کو اپنے مشاہدے میں ایک معروض کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں ، اس طریق علم میں علمی نصب العین کا تقاضا ہے کہ ہمارا اپنا رویہ بحیثیت ناظر مکمل طور پر غیر جانبدارانہ ہو۔ اندریں صورت ہم اپنے منظورات میں اس کی ہستی کا وہ مقام متعین کرنے کی جدوجہد کریں گے جو ہم اس کو ان امتیازات کے حوالے جو اسے دیگر منظورات سے متمیز کرتے ہیں یا پھر ان مشترکات کے حوالے جو اسے دیگر منظورات میں مدغم کرتے ہیں۔معروض الاصل جستجو (Object oriented inquary) کے پاس یہی دو Options ہیں ، مشترکات کی جستجو میں کسی ایک مظہر کی مرکزی حیثیت فرض کر کے دیگر متمیز حقائق کے تشخص کو پامال کرنا پڑے گا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ زندگی سے شروع کرتے ہیں یا موت سے ، اس طرز فکر میں تو ارد کا ہونا فطری اور لازمی ہے اور اگر آپ کی جستجو تو معروض الاصل ہو مگر مرکزی نقطہ امتیازات کی دریافت ہو تو پھر انسان کا امتیازی وصف فقط وہی ہو گا جو صرف انسان کی ہستی میں جلوہ نما ہو اور دیگر موجودات میں نہ پایا جاتا ہو۔ ہماری پوری توجہ کا مرکز فقط اسی امتیازی وصف کی جستجو ہو گا تو وہ امتیازی وصف جو انسان کی سطح وجود میں آ کر رونما ہوتا ہے ، وہ ہے ’’شعور کا شعور ‘‘ ۔ شعور کی نسبت ہمارا شعوری اور علمی فیصلہ یہ ہے کہ وہ غیر معمولی اور مستقل مظہر وجود ہے۔ یہ کسی دوسرے مظہر وجود کی بے راہ روی یا کج روی نہیں ہے ہمیں ’’شعور‘‘ کے مطالعہ میں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ زندگی وہ اولین شرط ہے جس کی اساس پر شعور اور شعور کی شرط کے ساتھ مشروط ہو کر شعور کے شعور کا ظہور عمل میں آنا ہے۔ بہرحال انسان کی ہستی کا یہ خارجی مطالعہ ہمیں اس دریافت تک لاتا ہے کہ انسان اور اس کا وجودی اصول شعور کا شعور ہے، اور شعور کا شعور جن مضمرات کا حامل ہے وہی انسان کے وجودی مضمرات ہیں۔ دوسرا طریق مطالعہ جو اپنی ماہیت کے اعتبار سے پہلے طریق یعنی معروض الاصل یا (Object orientcd) سے بالکل مختلف اور منفرد ہے، وہ موضوع الاصل (Subject orientcd) طریق ہے۔اس طریق فہم میں ناظر اپنی ہستی کو منظور نہیں بناتا بلکہ وہ خود جو کچھ ہے اسے بیان کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ یہ مطالعہ انسان کو ان مطالبات کے قریب تر کر دیتا ہے جو مذہب اس کی ہستی سے کرتا ہے، اسی منہاجِ فکر میں آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ انسان کے اندر یعنی میرے اندر بالفعل فطرت کچھ اور ہے اور بالقوہ فطرت کچھ اور ہے۔ اپنی فطرت کے اس ادراک نے اسے دیگر موجودات سے منفرد کر دیا اور اس کے سامنے دو راہیں کھول دی ہیں کہ چاہے تو اپنی بالفعل فطرت کے تقاضوں کی تکمیل میں زندگی ضائع کر دے، اور چاہے تو اپنے ہی وجود کے ان تقاضوں کی جانب متوجہ ہو جائے جو اسے دیگر موجوداتِ عالم سے الگ ایک مقام و منصب عطا کر دیتے ہیں۔ اِنَّا ھَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا۔ الدھر ۔۳ عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنَّم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے ٭٭٭ حواشی ۱۔ جواد مصلح ۔ ’’فلسفہ عالی ‘‘ تلخیض و ترجمہ ’’اسفار ‘‘ جلد اوّل ۔ رسالہ وجود ۔ ۲۔ ایضاً ۳۔ ملاّ صدرا ۔ صدرالدین شیرازی ’’الاسفار‘‘ فضل فی ان حقیقتہ الوجود لا سبب الہا بوجہ من الوجوہ۔ ۴۔ علاّمہ اقبال ’’تشکیل جدید الٰہیّات اسلامیہ ‘‘ دوسرا خطبہ۔ علامہ کے اپنے الفاظ یہ ہے ۔ The true significance of the ontological and the teleological argumants will appear only if we are able to show that human situation is not final and that thought and being are ultimately one. ۵۔ ولیم سی چٹک The sufi path of knowlege chapter iii. Ontolgy= Being / Existena and existent ۶۔ علامہ اقبال ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ But as potency which is formative of the very nature of it's material. اب اگر سوال کیا جائے کہ اگر فکر اپنے ہیولے کا خود ہی صورت گر ہے تو ایسی فکر کو حقیقت کی نمائندگی کا شرف کیونکر حاصل ہوگا؟ممکن ہے کہ علامہ فرمائیں کہ فکر اور حقیقت کی عینیت سے یہ سوال پوری طرح جواب یافتہ ہو جاتا ہے، مگر پھر یہ مشکل کبھی حل نہیں ہو سکے گی کہ ذہنی اور خارجی کا خلیج کس بنیاد پر ختم کریں اور اس شعور کو کہاں لے جائیں کہ ہماری فکر کو حقیقت کی نمائندگی کی ضرورت ہے۔ ۷۔ امانوئل کانٹ Critique of Pure reason. Perface to the second edition. A Similar experiment can be tried in metaphysics, as regerds the intuition of objects. If intuition must conform to the constitution of the object. I do not see how we could know anything of the latter or prior, but if the object (as object of the senses) must conform to the constitution of our faculty of intuition, I have no difficulty in conceiving such a possibility. Since I cannot rest in these intuitions if they are to become known, but must relate them as representation to something as their object and determine this latter through them, either I must assume that the concepts, by means of which I obtain this determination, conform to the object, or else I assume that the object or what is the same thing that the experience in which alone, as given object they can be known conform to the concept-in the former case, I am again in the same perplexity as to how I can anything a prior in regard to the object. In the latter case the outlook in more hepeful.(Translated by Norman Kemps Smith) ۸۔ جواد مصلح ۔ ’’فلسفہ عالی ‘‘ تلخیض و ترجمہ ’’اسفار ‘‘ جلد اوّل ۔ رسالہ وجود ۔ ۹۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ۔ ’’قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل (قرآن اور تاریخ) ۱۰۔ علامہ اقبال ،’’تشکیل جدید الٰہیّاتِ اسلامیہ ‘‘ دوسرا خطبہ اشاعرہ کے نظریہ جواہر پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔ ۱۱۔ کانٹ Critique of Pare season- Preface to second edition also Second prat of Transcendental doctrine of elements subsection-I-Logic in general. ۱۲۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ، ’’قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل (قرآن اور تاریخ) ۱۳۔ علامہ اقبال ،’’تشکیل جدید الٰہیّاتِ اسلامیہ ‘‘ ۔ پہلا خطبہ ۱۴۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن Philosophy a Critque مذکورہ بالا کتاب میں ان تمام بے راہ رویوں کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے جو طبیعیات سے مابعد الطبیعیات کی جانب متوجہ ہونے سے پیدا ہوتی ہیں، یا حیات سے مابعد الطبیعیات میں قدم رکھنے سے وجود میں آتی ہیں۔ اس کتاب میں علمیات کے اصول سے علمی حدود کو واضح کیا گیا ہے اور پھر اس وقت تک طبیعیات : حیاتیات اور نفسیات کے حاصلات کے حوالے سے جو بھی تصوّرِ کائنات بنے ان پر انتہائی عالمانہ فاضلانہ تنقید ہے، بے شک بعد کو طبیعی علوم میں نئے انکشافات ہوئے مگر اس کتاب کی اہمیت برقرار اس لیے ہے کہ کتاب کا بنیادی مسئلہ حقائق نہیں فضائل ہے جو ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے یہ کتاب درحقیقت کانٹ کے منہاجِ تنقید کے اصول پر کانٹ کی تنقید عقل محض کے بعد دوسری کتاب ہے۔ ۱۵۔ علامہ اقبال ’’تشکیل جدید الٰہیّات اسلامیہ ‘‘ چوتھا خطبہ What then is mater? A Colony of egos of a low order out of which emerge the ego of a higher order. iv Lecture: The Human ego- his treedom and un mortality. ۱۶۔ ایضاً : علامہ کے الفاظ یہ ہیں۔ The Creative energy of the ultimate ego, in whom deed and theought are identical, functions as ego unities the world. The world in its all details, from the mechanical movement of what we call the atom of matter to the free movement of the thought in human ego, is the self revelation of the Great "I am" ۱۷۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن ۔ Philosophy a critique: Section iv- Biological sciences & Bioism ۱۸۔ ایضاً ۱۹۔ علامہ اقبال ۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘ تیسرا خطبہ The Concept of God and the meaning of Prayer ۲۰۔ ایضاً یہاں پر ایک اہم وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ علامہ نے زندگی کو بنیادی اصول فرض کیا ہے اور اس لیے زندگی پر ہی زیادہ تفکر فرمایا ہے، خودی سے مراد زندگی کے تقاضے ہیں وہ اپنے آپ کو زندگی اور اس کے مظاہر کا اس حد تک پابند بنا لیتے ہیں کہ شعور Consciousness ان کے نزدیک کوئی مستقل بالذات مظہر وجود نہیں رہا ہے ، اس لیے شعور کو ایک وجودی اصول کے طور پر قبول کرنے سے گریز پا رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے فلسفہ خودی کاانحصار حیاتیاتی تقاضوں پر رکھا ہے اور شعوری تقاضوں پر نہیں رکھا ، یہ تصور کہ ’’مَیں ہوں‘‘ "I am" حیاتی مظہر ہے اب حیاتی مظہر کا تقاضہ انفرادیت ہے، اس لی انفرادیت ہی اصول قرار پاتی ہے اور یہ امر طے ہے کہ انفرادیت شعور کا نہیں بلکہ حیات کا تقاضہ ہے اور حیاتیات کا مقولہ ہے ، ذات حقہ کی خودی میں انفرادیت اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے تو وہ فرماتے ہیں: In order to emphasize the INDIVIDUALITY of the Ultimate Ego the Quran gives Him the proper name Allah and further defines Him as follow (iii-lecture) اس عبارت کے بعد سورہ اخلاص نقل کرتے ہیں ۔ شعور کے مستقل مظہرِ وجود ہونے کے قائل ہی نہیں ہیں شعور کو زندگی کی کج روی تصوّر کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں: Consciousness may be imagined a deflection from life (ii lecture) اپنے اس خطبے میں ایک اور جگہ حیات کی فوقیّت اور نفس کو حیات کے ایک مظہر کے طور بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: This will throw some further light on the primacy of life and will also give us an insight in to the nature of life as psychic activity (ii-lecture) علاّمہ نے انھی تصورات کے پیش نظر انسان کی ہستی اور خدا تعالیٰ کی ہستی کو متعین کرنے کی سعی کی ہے جو بالاخر ایک حیاتی وحدت بن کر رہتے ہیں ، یہی حیاتیاتی تقاضے اس قدر شدت اختیار کر جاتے ہیں شعور کے بنیادی تقاضوں کی تقریباً نفی ہو جاتی ہے مثلاً ذات الٰہیہ کے لیے مستقبل کے علم کو لیجیے ، قرآن مجید فرماتا ہے کہ وہ عالم الغیب والشھاۃ ہے مگر علاّمہ نے مستقبل کو غیر معین امکان قرار دیا ہے، جو امکان غیر معیّن ہو وہ علم کبھی نہیں قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ علم کا بنیادی وظیفہ تعین و تمیز ہے، زندگی غیر شعوری حقیقت کے طور پر کیا سے کیا ہو جانے کے امکان سے لبریز ہے مگر شعور تو جس قدر زیادہ نشو و نما پائے گا وہ اپنے اعمال و افعال کی غایت سے پوری طرح باخبر ہو گااس کے برعکس تعین شعور کی نفی ہے۔ ہمارے نزدیک تو باشعور ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اپنے موضوع علم کی مکمل آگاہی ہو، مگر مکمل آگاہی سے علاّمہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یوں ذاتِ الٰہیّہ ایک جامد شے اور مشین بن کر رہ جائے گی کہ پوری کائنات اور اس کے ساتھ انسان کا مستقبل متعین ہو جائے گا اور اس لیے قدرت کے کوئی معنی نہیں رہیں گے، ایسا معلوم ہوتا کہ علامہ نے ذات حقہ کو اپنے فہم و ادراک کا ناقابل انکار منظور بنا دیا ہے، وہ اپنے خیال میں ایسا ہی کچھ فرض کر رہے ہیں ورنہ بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اس ذات بحث کو ہم پوری طرح سمجھ سکیں ، اس کی ہستی میں اضداد کا اجتماع ہو تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ عقل کے لیے اسے اپنے تصور میں لانا محال ہو جائے گا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، عقل انسانی کے لیے سب کچھ سمجھ لینا بھی ممکن ہے، علامہ نے اپنے نظام فکر میں یہ حتمی اور قطعی نصب العین بنا رکھا ہے کہ ذات الٰہیہ کا ایسا تصور قائم کرنا ہے جو عقل کے لیے قابل قبول ہو جائے چاہے وہ مذہب کے لیے قابل قبول نہ ہو اور یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ کسی بھی باشعور ہستی کا اپنے لیے کسی غایت کو معین کرنا اور پھر اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ، کبھی میکانیاتی عمل نہیں کہلا سکتا کیونکہ شعور کی آزادی اور فیصلہ سازی غیر معمولی عمل ہے جس کو مشین سے کوئی مماثلت نہیں ہو سکتی ،مگر ذات حقَّہ کے لیے علاّمہ نے معلوم نہیں یہ کیسے فرض کر لیا کہ مستقبل کا معیَّن علم اس کی خلاقیت کو خلاقیت نہیں رہنے دے گا ، مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے ابن حزم کی نسبت جس مشکل کا ذکر اپنے دوسرے خطبے میں کرتے ہیں فرمایا ابن حزم نے ذات الٰہیہ کے کمالِ ذات پر صفت حیات کو قربان کردیا ، حالانکہ اس مشکل کا حل موجود تھااور ابن حزم کے حوالے سے فرمایا کہ اس نے کمال ذہانت کے ساتھ یہ نکتہ پیدا کیا کہ ہم اگر اللہ تعالیٰ کی طرف زندگی کا اسناد کرتے ہیں تو اس لیے کہ قرآن مجید نے اسے حییٰ کہا ہے، علامہ نے بھی خودی کی انفرادیت پر ذاتِ حقَّہ کی آزادی کے تصور اور اس کی صفت علم کو قربان تو کر دیا مگر وہ ابن حزم کی طرح یہ نکتہ آفرینی نہیں کر سکے کہ اگر ہم ذاتِ حقَّہ کے لیے مستقبل کے علم کا انتساب کرتے ہیں تو اس لیے قرآن مجید نے اسے عالم الغیب والشھادہ بتایا ہے، اس کے برعکس انہوں نے یہ موقف اختیار کیا : To my mind nothing is more alien to the Quranic out look than the idea that universe is temporal working out of a preconceived plane ۲۱۔ زمان کے مسئلے پر بھی علاّمہ نے جو موقف اختیار کیا ہے اس پر میں فقط ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب کے تبصرے کو نقل کرنے پر قناعت کرتا ہوں جو انہوں نے علامہ اقبال کے انہی خطبات کی صدارتی تقریر میں کیا تھا ، انہوں نے فرمایا : In the consideration of time, I would submit that its essence is sequence continuous. The doctrine which will make the whole course of time Spacious Present to God misses the first character of time viz Sequence and yet it is not necessary for God's omnisience. He can be عالم الغیب والشھادۃ without it on the analogy of finite spirits. This doctrine seems to be reflex of the Greek Conception of Eternity in modern metaphysices. It is Eternity temporalised or time eternalised and a self contradictory concept. المعارف خصوصی شمارہ نمبر ۳ ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور نیز ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب کے اسی صدارتی خطبہ کا اردو ترمہ جناب محمد سہیل عمر صاحب نے کیا ہے اور اقبالیات اشاعت خاص بابت جولائی ستمبر ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا ہے ۔ ۲۲۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ، ’’قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل ‘‘ ۲۳۔ ولیم سی چٹک The Sufi path of knowledge chapter I- I Subsection Human perfection. ۲۴۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ، حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ کا نظریہ توحید ۔ مقدمہ = اصل عالم کی وحدت ۲۵۔ ایضاً ۲۶۔ حوالہ نمبر ۴ کی طرف رجوع فرمایں ۔ ۲۷۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ، ’’قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل (قرآن اور تاریخ ۔ تنقید) ۲۸۔ علامہ اقبال ، ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ = علامہ کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔ Thus my real personality is not a thing. It is an act. iv lecture - The Human ego his freedom and mmortrlity. ۲۹۔ ایضاً iii Lecture The Conception of God and the meaning of prayer If history is regarded merely as gradually revealed photo of a predetermined order of events then there is no room in it for novelty end unitiation. Consequently we can attach no meaning to the word creation which has a meaning for us only in view of our own capacity for original action. یہاں فقط ایک گزارش کرنی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے لیے وہی اصلی اور حقیقی ہی ہوتا ہے جس کو میں خود سوچوں اور پھر اسے خود ہی کر ڈالوں ، لہٰذا تخلیق عالم کی نسبت سوچ ؍ فکر اور پھر عمل یعنی امر اور خلق سے ابداء اور تخلیق کی نفی کیسے ہو سکتی ہے؟ ۳۰۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ، ’’منہاج القرآن ‘‘ ۔ مقدمہ ۔ ذیلی عنوان نفسیات ۔ ۳۱۔ میرے پیش نظر اسلامی تصوف کی بہترین روایت اور انسان کی ہستی کی نسبت تصورات کا عظیم الشان ذخیرہ موجود ہے ، میں اس سے مکمل طور پر مستفید ہوں، لہٰذا میرے لیے یہ ممکن تھا کہ انسان اور اس کے وجودی اصول کے لیے اس طرف متوجہ ہوتا اور شیخ اکبر ؒ کا نقطہ نظر بیان کرتا یا اسی طرح شیخ مجددد الف ثانی ؒ کا نقطہ نظر عرض کرتا، مگر میرے سامنے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ تمام ادب جو صوفیانہ روایت پر تخلیق ہوا ہے اس میں ذاتی کشف و فتوح کا دعویٰ ہوتا ہے یا یوں کہیے کہ وہ تمام کشف و فتوح ، ذات الٰہیہ کی جانب سے ان حضرات پر فضل و کرم ہوتا ہے ، اندرایں صورت ایک ایسے انسان کا تجزیہ و تحلیل جو ان کشوف و فتوح سے فیض یاب نہ ہو ، نامناسب بلکہ ناپسندیدہ معلوم ہوتا ہے ۔ میرے استاد محترم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے شیخ مجدد الف ثانی اور شیخ اکبر محی الدین ابن العربی کے نظریات کا موازانہ کیا ہے تو اپنے عمیق اور فکر رسا سے کیا ہے، میں اپنے اندر فکر و بصیرت نہیں پاتا ۔ تاہم اس باب میں ایک اہم بات یہ ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ غیر نبی میں جس کسی کا کشف و فتح ان حقائق کی ترجمانی کا بیڑہ اٹھا رہا ہو جو نبی ﷺ کی ذات پر بذریعہ وحی منکشف ہوئے ہیں تو ہمارے لیے غیر نبی کے بیانات کو خاطر میں لانا بھی مقام نبوت میں سوئے ادب معلوم ہوتا ہے ، باقی اس تحریر میں ملاصدرا یا علاّمہ اقبال کے نظریات سے جہاں کہیں اختلاف کیا گیا ہے اسے ایک طالب علم کا سوال جو اپنے عظیم استاد کی خدمت میں عرض گزار ہو تصور کرنا چاہیے، سوال جارحانہ بھی ہو تو اُسے گستاخی کی نیت کرنا مقصود ہے اور نہ ہو سکتا ہے، خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را اکبر حیدری کاشمیری اقبال اور شاد حیدر آبادی مہاراجا کشن پرشاد شادؔ، یمین السلطنت اور مدارارلمہام (۱۸۶۴ء ۔ ۱۹۴۰ئ) اردو کے ایک قادرالکلام شاعر، ممتاز نثر نگار اور اردو ادب کے مُربّی تھے ۔ ان کی رفاقت اور سرپرستی میں شعراء اور ادباء کی ایک بڑی تعداد پروان چڑھی ۔ وہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے اور عربی سے کماحَقّہٗ واقف تھے ۔ وہ حالی، شبلی اور اکبر الہ آبادی سے بھی ایک تعلّقِ خاطر رکھتے تھے۔ دکن اور بیرون دکن کے بہت سے شعرا پیارے صاحب رشید ، دولھا صاحب عروج، پنڈت رتن ناتھ سرشار، علاّمہ نظم طباطبائی ، جلیل مانک پوری ان کے شکرگزار۔ اختر مینائی، ترک علی شاہ ترکی ، مولانا گرامی نے یہیں نام پایا۔ غبار ، ثاقب ،دِتُو رام کوثری ، جوش اور فانی وغیرہ حضرت شاد سے اپنے کلام کی داد پاتے رہے۔ بقول اقبال:۔ خُوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو خرقہ پوش امیروں کی ہم بزمی میسر ہے۔ امارت ، عزت، آبرو، جاہ ، وحشمت عام ہے۔ مگر دل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر امیر کے پہلو میں دل نہیں ہوتا ۔ شاد علاّمہ اقبال کے بھی دلدادہ تھے۔ وہ کلام اقبال سے اتنا متاثر ہوئے تھے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ۱۹۰۴ء کا زمانہ تھا کہ اقبال کی ایک غزل ظفر علی خان نے اپنے ماہنامہ ’’دکن ریویو‘‘ اگست ۱۹۰۴ء ، ص ۲۴ میں ۹ا شعر میں شائع کی تھی ۔ مطلع یہ ہے۔ انوکھی وضع ہے سارے زمانے میں نِرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں اقبال کی غزل سے متاثر ہو کر شاد نے ۲۵ شعر کی ایک غزل اقبال کے تبتع میں لکھی جو ’’دکن ریویو‘‘ (نومبر و دسمبر ۱۹۰۴ء ، ص ۱۰) میں شائع ہوئی۔ مطلع یہ ہے : یہ سب دیر و حرم کے لوگ اپنے دیکھے بھالے ہیں عدم آباد اک بستی ہے واں کے رہنے والے ہیں غزل کی تمہید میں ظفر علی خان (ایڈیٹر ’’دکن ریویو ‘‘ ۔ حیدر آباد) لکھتے ہیں : اگست کے ’’دکن ریویو ‘‘ میں ہمارے دوستِ مکرم پروفیسر اقبال کی جو غزل شائع ہوئی تھی، اس کی بلاغت و لطافت ارباب ذوق پر ظاہر ہوئی ہوگی ۔ پچھلے دنوں جب ہمیں ایوانِ وزارت میں حاضر ہو کر ہزاکسلنسی مہاراجا سر کشن پرشاد شادؔ بالقابہم کی خدمت میں باریاب ہونے کا شرف حاصل ہوا تو جناب وزارت مآب نے فرمایا کہ غزلِ اقبال جناب ممدوح کو اس قدر پسند آئی کہ آپ نے بھی اسی زمین میں ایک غزل کہی ۔ یہ غزل جو جناب وزارت مآب نے ’’دکن ریویو ‘‘ کے لیے مرحمت فرمائی ہے نہایت مسرت و افتخار سے درج کی جاتی ہے ۔ شاد کی غزل کا ردِّ عمل یہ ہوا کہ ستمبر ۱۹۰۵ء میں اقبال جب حصول تعلیم کے لیے یورپ کا سفر کر رہے تھے تو بحیرئہ روم کے دلچسپ نظارے سے متاثر ہو کر انہوں نے ایک غزل موزوں کی۔ مطلع یہ ہے: مثالِ پر توِ مے طوفِ جام کرتے ہیں یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں اقبال نے غزل کے ۶ شعر ’’بانگ درا‘‘ سے حذف کیے۔انہی میں ایک محذوف شعر میں اقبال نے وزیر نظام کی قدردانی کا تذکرہ یوں کیا : نہ قدر ہو مرے اشعار کی گراں کیونکر پسند ان کو وزیر نظام کرتے ہیں وزیر نظام سے مراد مہاراجا کشن پرشاد شاد ہے۔ غزل کے تقریباً پانچ سال کے بعد مارچ ۱۹۱۰ء میں جب اقبال پہلی مرتبہ حیدر آباد گئے تو مہاراجا سے ملاقات ہوئی۔ اقبال موصوف کی مہمان نوازی اور اخلاق حمیدہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ لاہور پہنچ کر ایک طویل قصیدہ ۳۹ شعر کا نظم کیا جو ’’مخزن‘‘ ،لاہور ، جون ۱۹۱۰ء میں شیخ عبدالقادر کی تمہید سے شائع ہوا۔ شیخ صاحب لکھتے ہیں: دکن کے علم دوست اور ہنر پرور وزیر اعظم کی اس خوبی کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے کہ اہل علم کی قدر دانی ان کا شیوہ اور مشاغل علمی سے انہیں شغف ہے۔ انہوں نے جو الطاف نامہ شیخ محمد اقبال صاحب کو لکھا اس سے نہ صرف شیخ صاحب موصوف کی قدر افزائی مقصود تھی بلکہ ان کی شاعری کے لیے ایک زبر دست تحریک، جس کے لیے میں بھی غائبانہ طور پر مخزن کے ناظرین کی طرف سے ہزاکسیلنسی مہاراجا صاحب بہادر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اقبال نے خود بھی اپنے ممدوح کے قصیدے کی ابتداء میں ذیل کا تمہیدی نوٹ بھی درج کیا ہے: گذشتہ مارچ میں مجھے حیدر آباد دکن جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں آستانہ وزارت پر حاضر ہونے اور عالی جناب ہز اکسلنسی مہاراجا کشن پرشاد شاد بہادر جی ، سی ، آئی ، ای یمین السلطنت پیشکار وزیر اعظم دولت آصفیہ المتخلص بہ شاد کی خدمتِ با برکت میں باریاب ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا۔ ہز اکسلنسی کی نوازش کریمانہ اور وُسعتِ اخلاق نے جو نقش میرے دل پر چھوڑا، وہ میرے لوح دل سے کبھی نہیں مٹے گا۔ مزید الطاف یہ کہ جناب ممدوح نے میری روانگی حیدر آباد سے پہلے ایک نہایت تلطف آمیز خط لکھا اور اپنے کلام شیریں سے بھی شیریں کام فرمایا۔ ذیل کے اشعار اسی عنایت بے غایت کے شکریے میں دل سے زبان پر بے اختیار آگئے ۔ انہیں زبان قلم کی وساطت سے جناب مہاراجا صاحب بہادر کی خدمت میں پہنچانے کی جرأت کرتا ہوں۔ قصیدے کے ابتدائی نو شعر ’’نمود صبح‘‘ کے عنوان سے ’’بانگ درا ‘‘ میں شامل کئے گئے ۔ بقیہ تیس ۳۰ شعر حذف کیے گئے ہیں۔ ان ہی میں سے ذیل کے شعر حیدر آباد اور میر محبوب علی خان نظام دکن کی تعریف میں ہیں: خطۂ جنت فزا جس کا ہے دامن گیر دل عظمتِ دیرینۂ ہندوستاں کی یادگار جس نے اِسم اعظم محبوب کی تاثیر سے وسعتِ عالم میں پائی صورت گردوں وقار نور کے ذروں سے قدرت نے بنائی یہ زمین آئینہ ٹپکے ، دکن کی خاک اگر پائے فشار اقبال کے ذیل کے شعر مہاراجا صاحب کی تعریف میں ملاحظہ ہوں: آستانے پر وزارت کے ہوا میرا گذر بڑھ گیا جس سے مرا ملک سخن میں اعتبار اس قدر حق نے بنایا اس کو عالی مرتبت آسماں اس آستانے کی ہے اک موجِ غبار کی وزیر شاہ نے وہ عزت افزائی مِری چرخ کے انجم مری رفعت پہ ہوتے تھے نثار مسند آرائے وزارت راجۂ کیواں حشم روشن اس کی رائے روشن سے نگاہِ روزگار اس کی تقریروں سے رنگیں گلستانِ شاعری اس کی تحریروں پہ نظمِ مملکت کا اِنحصار ہے یہاں شانِ عمارت پردہ دارِ شانِ فقر خرقہ درویشی کا ہے زیر قبائے روزگار نقش وہ اس کی عنایت نے مرے دل پر کیا محو کر سکتا نہیں جس کو مرورِ روزگار شکریہ احساں کا اے اقبال لازم تھا مجھے مدح پیرائی امیروں کی نہیں میرا شعار اقبال نے ایک اور نظم ’’گورستان شاہی‘‘ کے عنوان سے حیدر آباد کے متعلق کہی تھی جو ’’مخزن‘‘ کے اسی شمارے جون ۱۹۱۰ء میں ایڈیٹر ’’مخزن ‘‘ کی اس تمہید سے شائع ہوئی: یہ ایسی لاجواب نظم ہے جو فی الحقیقت اقبال کے دیرینہ سکوت کی تلافی کرتی ہے۔ اس کا ایک ایک مصرع درد بھرا اور معنی خیز ہے کہ دل سے واہ نکلتی ہے۔اس نظم کے میّسر آنے کے لیے ہم اپنے قدیم عنایت فرما مسٹر حیدری کے ممنون ہیں، جن کے صحیح مذاق علمی نے شیخ محمد اقبال صاحب کو حیدر آباد میں وہ چیزیں دکھائیں جو ایک خلقی شاعر کے دل پر اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں۔ سلاطین قطب شاہیہ کے مزار ، ان کے قریب گولکنڈہ کا تاریخی حصار ، شب ماہ مگر ایسی شب جس میں بادلوں کے چاند کے سامنے آنے جانے سے نور و ظلمت میں لڑائی ٹھن رہی تھی ۔ سچے شاعرانہ جذبات کے نشو و نما کے لیے اس سے بہتر زمین اور اس سے بہتر آسمان کیا ہو گا۔ ان جذبات کا عکس جس خوبی اور صفائی سے جناب اقبال نے اُتارا ہے ۔ انھی کا حصہ ہے۔ خود اقبال نے اس نظم کا تعارف ’’مخزن ‘‘ میں یوں کرایا تھا : حیدر آباد دکن میں مختصر قیام کے دنوں میں میرے عنایت فرما جناب مسٹر نذر علی حیدری صاحب بی۔ اے معتمد محکمۂ فینانس ، جن کی قابل قدر خدمات اور وسیع تجربے سے دولت آصفیہ مستفید ہو رہی ہے، مجھے ایک شب ان شاندار مگر حسرت ناک گنبدوں کی زیارت کے لیے لے گئے جن میں سلاطین قطب شاہیہ سورہے ہیں ۔ رات کی خاموشی ، ابر آلود آسمان اور بادلوں میں سے چھن کے آئی ہوئی چاندنی نے اس پرُ حسرت منظر کے ساتھ مل کر میرے دل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہو گا۔ ذیل کی نظم اِنھی بے شمار تاثرات کا ایک اظہار ہے۔ اس کو میں اپنے سفر حیدر آباد دکن کی یاد گار میں مسٹر حیدری اور اس کی لائق بیگم صاحبہ مسز حیدری کے نام نامی سے منسوب کرتا ہوں جنھوں نے میری مہمان نوازی اور میرے قیام حیدر آباد کو دلچسپ ترین بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ تین سال کے بعد جولائی ۱۹۱۳ء میں جب مہاراجا بہادر پنجاب کی سیر کرنے لاہور پہنچے تھے تو دونوں میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ شاد اپنی کتاب ’’سیر پنجاب‘‘ ص ۹۱ مطبوعہ یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ ۱۹۲۳ء میں ایک جگہ لکھتے ہیں: پانچ بجے شام کے میرے دوست ڈاکٹر محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا آئے ۔ بہت دیر تک لُطفِ صحبت رہا۔ بڑے مزے کی آدمی ہیں۔ خدا زندہ رکھے ۔ برخوردار عثمان پر شاد طال اللہ عُمرہٗ کا مزاج اچھا نہیں ہے، اس لیے حسب مشورہ ڈاکٹر محمد اقبال ، ڈاکٹر محمد حسین کو جو لاہور کے نامی ڈاکٹر ہیں طلب کر کے دکھایا ۔۔ نو بجے پھر ڈاکٹر محمد اقبال آئے اور ان کے اصرار سے مع دو مصاحبوں کے آغا حشر کا شیری کے تھیٹر میں گیا۔ اقبال کا دوسرا سفر حیدر آباد پھر اس وقت ہوا جبکہ مہاراجا صدارت عظمی کے جلیل القدر عہدے پر دوبارہ فائز ہو چکے تھے ۔ موصوف اس سفر کے بارے میں میر سید غلام بھیک نیرنگ انبالوی کو ۵ دسمبر ۱۹۲۸ء کے خط میں لکھتے ہیں: تین لکچر امسال لکھے گئے ہیں۔ تین آئندہ سال لکھوں گااور مدراس ہی میں دسمبر ۱۹۲۹ء یا جنوری ۱۹۳۰ء میں دوں گا ۔ حیدر آباد دکن میں بھی ٹھہروں گا ۔ کیونکہ عثمانیہ یونیورسٹی کا تار آیا ہے کہ لکچر وہاں بھی دیے جائیں۔ ’’زمانہ ‘‘ کانپورجلد ۵۲ نمبر ۲ ص ۱۲۷ ، بابت فروری ۱۹۲۹ء میں اقبال کے لکچروں کی تفصیلات اس طرح درج ہیں: ڈاکٹر سر اقبال نے ’’الٰہیات اسلامیہ و فلسفہ جدیدہ ‘‘ پر مدراس میں چھ خطبے دینے کا وعدہ کیا تھا مگر علالت کی وجہ سے دسمبر ۱۹۲۸ء کے آخر ہفتے میں آپ نے مندرجۂ ذیل صرف تین عنوانات ہی پر خطبے دیے۔ (۱)۔ علم اور وحی و الہام ۔( ۲) ۔ وحی و الہام کی تصدیقات کا فلسفیانہ معیار ۔(۳)۔ ذات خدا کا اسلامی تصور اور دعا کا مفہوم ۔ باقی تین عنوانات یعنی (۱) ۔ مسئلہ جبرو قدر و حیات بعد الموت ۔( ۲) ۔ علم النفس کی رو سے اسلامی تہذیب و تمدن کا حقیقی مفہوم اور۔( ۳)۔ ایک جماعت کی حیثیت سے اسلام کی تشکیل ، آئندہ کے لیے ملتوی کر دئے گئے ہیں۔ بقول ڈاکٹر زور ، اقبال جنوری ۱۹۲۹ء میں مدراس سے حیدر آباد آئے اور یہاں عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام دو لکچر دئیے ۔ پہلا لکچر ۱۵ جنوری سال مذکور کو ٹائون ہال باغ عامہ (حیدر آباد) میں زیر صدارت مہاراجا کشن پرشاد۱شاد ہوا تھا۔ اس موقع پر مہاراجا نے حاضرین جلسہ سے اقبال کا تعارف ان الفاظ میں کرایا: جامعہ عثمانیہ کی دعوت پر سر اقبال کی عالمانہ تقاریر کے سلسلے میں پہلے لکچر کی صدارت میرے لیے ایک نہایت خوشگوار فریضہ ہے ۔ اس موقع پر صدارت کا فریضہ میرے لیے آسان یوں ہو گیاہے کہ ڈاکٹر اقبال کے تعارف کی اس لیے ضرورت نہیں کہ اس ملک کا ہر کہ و مہ آپ سے واقف اور آپ کے کلام سے اس مجمع کا ہر فرد اپنی استعداد اور ذوق کی مناسبت سے قدر داں ہے۔ آپ کی ذات تعارف سے مستغنی اور آپ کا کلام ستائش سے بالاتر ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے ساتھ ہی ان کی تصنیفات کے انمول اور وسیع گنجینوں کا ایک ایسا لا متناہی تصور پیش نظر ہو جاتا ہے کہ عرض کلام سے گزر کر جوہر بیاں میں فکر سخنور غلطان و پیچان ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر اقبال جس مقصد حیات کو اپنے علم و عمل سے پورا کر رہے ہیں وہ انسانی ترقی کو دنیا کے لیے سود مند بناتے اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال تصوّف اور عرفان کے آغوش میں پل کر حکیم ہوتے ہیں اور ان کے حکیمانہ خطبات سے ہم کو یکساں مستفید ہونے کا اب بالمشافہ موقع ملا، جس کی ہم عزت اور قدر کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس مجمع کا ہر برناو پیر اپنے معلومات میں قابل قدر اضافہ حاصل کرے گا۔ اقبال کی آمد حیدر آباد کی تقریب میں مہاراجا نے ایک خاص مشاعرہ اپنی ڈیوڑھی میں منعقد کیا ۔ مشاعروں کا انعقاد مہاراجا کے لیے کوئی غیر معمولی کام نہ تھا۔ ان کے یہاں یوں بھی برسوں ماہوار مشاعرے منعقد ہوتے رہے لیکن جب بیرون ریاست سے کوئی ممتاز شاعر آتا تو وہ خاص اہتمام سے بزمِ سخن مرتب کرتے تھے۔ چنانچہ اس وقت بھی یہی ہوا۔ چنانچہ مولوی مسعود علی محوی اپنے مضمون ’’سر مہاراجا یمین السلطنت آنجہانی کے مشاعرے ‘‘ (مطبوعہ ’’مجلہ عثمانیہ‘‘ مہاراجا نمبر) میں لکھتے ہیں کہ : سر اقبال مرحوم کی تشریف آوری کے موقع پر جو مشاعرہ ہوا وہ بھی عجب مشاعرہ تھا۔ سرمہاراجا نے اعلیٰ پیمانے پر دعوت اور مشاعرے کا اہتمام کیا تھا۔ حیدر آباد کے تمام مشہور فارسی و اردو کہنے والے شعراء مدعو تھے۔ چونکہ کوئی خاص طرح مقرر نہ تھی، اس لیے حیدریار جنگ طباطبائی مرحوم ، نواب ضیاء یار جنگ بہادر ، نواب عزیز یار جنگ بہادر ، مولوی مسعود علی محوی، جوش ملیح آبادی ، باغ ، لبیب سے مستعد اور شعراء نے اپنے خیال میں اپنا بہترین کلام سنایا ، مگر سر اقبال ٹس سے مس تک نہ ہوئے۔ صرف محوی صاحب کے اس شعر پر : نگاہ کردن دُزدیدہ ام بہ بزم بہ دید میان چیدنِ گل باغباں گرفت مرا اتناا ارشاد ہوا کہ پھر پڑھئے ۔ خدا جانے کسی نقص کی بنا پر تھا یا بطور قدر دانی کے ۔ جب خود ان سے کچھ پڑھنے کی فرمائش کی گئی تو بڑے اصرار کے بعد چار پانچ شعر ارشاد فرمائے۔ ۹ جنوری ۱۹۳۸ء کو ہندوستان کے طول و عرض میں ’’یوم اقبال‘‘ منایا گیا ۔ اس دن حیدر آباد کے ٹائون ہال میں یوم اقبال نہایت ہی شایان شان پیمانے پر منایا گیا ۔ اس موقع پر دو اجلاس منعقد کیے گئے ۔ دوسرے اجلاس کی صدارت مہاراجا کشن پرشاد شاد نے انجام دی۔ موصوف نے اقبال کی خدمت میں شاندار خراج تحسین پیش کیا اور فرمایا: حقیقت میں اقبال جس بین الاقوامی شہرت کا مالک ہے وہ اس کا جائز حق ہے اور اس کا پیام فرزندانِ مشرق کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ آئندہ نسلیں اس کا فیصلہ کریں گی کہ ہندوستان کی ادبی ناہمواری کی اصلاح اور قومی ترقی میں اس زندئہ جاوید شاعری کا کس قدر حصہ ہے۔ ظلم ہوتا اگر مشرق اس باکمال شاعر کو اس کی زندگی میں کم سے کم خراج تحسین بھی ادا نہ کرتا۔ اور مجھے مسرت ہے کہ ہمارے اہل ملک دوسرے اقطاعِ ہندوستان سے پیچھے نہیں رہے اور کیونکر پیچھے رہتے جبکہ اہل علم و فن کی قدر اُن کا روایاتی شیوہ رہا ہے اور انھوں نے اقبال کا وہ فرض ، جو علمی و ادبی حیثیت میں ان پر تھا ، کسی حد تک ادا کر ہی دیا۔ میری دعا ہے کہ خدا سر اقبال کو بہت دن زندہ رکھے تاکہ ہندوستان ان کے نسخہ بیداری سے زندگی اور کامیابی کا درس حاصل کرتا رہے۔ اس واقعے کے صرف تین ماہ بعد اقبال ۲۱ ؍اپریل ۱۹۳۸ء کو انتقال کر گئے۔ اس موقع پر تعزیت کا جو جلسہ حیدر آباد میں مسز سروجنی نائڈو کی صدارت میں ہوا، اس میں نواب بہادر یار جنگ ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ،ڈاکٹر یوسف حسین خان، نواب مہدی یار جنگ ، راجہ پرتاب گیر جی او ر کیقباد جنگ نے تقریریں کیں۔ مگر مہاراجا صدمے کی شدت کے باعث شریک نہ ہوئے۔ البتہ جب ماہنامہ ’’سب رس ‘‘ اقبال نمبر یکم جون کو ڈاکٹر زور نے شائع کیا تو اس کے لیے مہاراجا نے اپنے جذبات غم کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا: ڈاکٹر سر اقبال فقیر کے مخلص دوست تھے۔ ان کی بے وقت مفارقت سے شعر و سخن کا ایک درخشاں ستارہ غروب ہوگیا۔ مرحوم نے فلسفے کی گتھیوں کو نظم کے ذریعے آسان اور عام فہم بنا دیا ہے ۔ دنیا کی فضائیں ان کے منظوم نغموں سے گونجتی اور آنے والی نسلوں کے دلوں میں مرحوم کی یاد ہمیشہ تازہ کرتی رہیں گی۔ اقبال اور شاد کے درمیان عرصۂ دراز تک مراسلت رہی ۔ غالباً اس کا آغاز اقبال کے قیام یورپ کے زمانہ ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء میں ہوا تھا۔ میرے خیال میں خط لکھنے کی پہل شاد نے کی تھی افسوس کہ یہ خطوط اب دستیاب نہیں ہیں۔ ڈاکٹر زور مرحوم نے بڑی محنت اور عرق فشانی سے اقبال اور شاد کی مراسلت پہلی مرتبہ ۱۹۴۲ء ’’شاد اقبال‘‘ کے نام سے مرتب کر کے شائع کی۔ اس میں اقبال کا پہلا خط ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۶ء اور آخری ۲۸؍ دسمبر ۱۹۲۶ء کا ہے اس طرح شاد کا پہلا خط یکم نومبر ۱۹۱۶ء اور آخری ۴؍جنوری ۱۹۲۷ء کا ہے ۔ ’’شاد اقبال‘‘ میں اقبال کے ۴۹ اور شاد کے ۵۲ خط موجود ہیں۔ جناب محمد عبداللہ قریشی صاحب مرحوم نے نہ معلوم کہاں سے اور کس طرح سے اقبال کے مزید پچاس خط شاد کے نام دریافت کئے ۔ موصوف نے شاد کے نام اقبال کے ۹۹ خطوط مرتب کر کے ’’اقبال بنام شاد‘‘ میں شائع کیے (جون ۱۹۸۶ء بزم اقبال لاہور ) اس کا ایک نسخہ قریشی صاحب نے اپنے دستخط سے میرے نام ارسال کیا تھا۔ کتاب میں اقبال کا پہلا خط یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء کو مرقومہ ہے ۔ اس مجموعے میں ’’شاد اقبال‘‘ والی مراسلت بھی شامل ہے۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں بزرگوں میں کس قدر دوستانہ بے تکلفی اور خلوص کا جذبہ موجود تھا ۔ خطوط سے دونوں کے نجی حالات پر بھی کماحَقّہٗ روشنی پڑتی ہے۔ اقبال اور شاد ایک دوسرے کے دکھ درد اور غمی و خوشی میں شریک رہتے تھے ۔ اقبال کے نام شاد کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ شاد کی تین رانیاں اور چار بیگمیں تھیں۔ ہندو رانیوں کی اولاد اور مسلمان بیگمات کی اولاد مسلمان تھی۔ اسی مناسبت سے ان کی شادیاں کی گئیں اور رشتے جوڑے گئے۔ بعض رشتوں کے بارے میں اپنے دوست علامہ اقبال سے بھی مشورے کیے اور ان کو اعتماد میں لیا۔ وہ اقبال کو اپنا مخلص دوست اور خیر خواہ سمجھتے تھے۔ لڑکیوں کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے لیے علامہ کو ۴ ؍جنوری ۱۹۲۳ء کے ایک طویل خط میں اپنی پریشانیوں کا حال بیان کیا ہے۔ اقبال کی کتاب ’’پیام مشرق‘‘ اوائل مئی ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی۔ انہوں نے چھپتے ہی اس کا ایک نسخہ شاد کو بھیجا ۔ انہیں کتاب پسند آئی اور انہوں نے اپنے تاثرات اقبال کے نام ۱۴؍مئی ۱۹۲۳ء کے خط میں بیان کیے ہیں (دیکھیے ’’اقبال بنام شاد‘‘ ، ص ۳۶۹)شاد ، ’’پیام مشرق‘‘ سے اس قدر متاثر ہوئے اور انہوں نے قطعاتِ اقبال کے تتبع میں ، خودقطعات تصنیف کیے اور خواجہ حسن نظامی کو مسودہ پیش کیا۔ جو ’’پریم سنگم‘‘ کے نام سے نومبر ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا ۔ قطعات کا یہ مجموعہ میری نظر سے نہیں گذرا ہے۔ نمونے کے چند قطعات جناب عبداللہ قریشی نے نقل کیے ہیں۔ (’’اقبال شاد‘‘، ص ۲۶ ۔۲۸) ’’بیاض شاد‘‘ ۔ صفحہ ۷ شاد افکار انجم بجواب اقبال از نتیجہ ٔ فکر حضرت شاد صوفی مدّظلہ بتاریخ ۲۹ محرم ۱۳۴۲ھ روز سہ شنبہ بمقام مسند مبارک۔ خِرد را عشق یک شب ایں چنیں گفت منم بحرے کہ او را ساحلے نیست شناور غرق می گردد بگرداب بگردابش مقام و منزلے نیست خنک آنکس کہ از عشقش نمود است وجودِ او ورائے ہر وجود است گر فتارِ کمندِ زلف یار است زمام خود زبانش جملہ سود است ز عشق او بہ سر بار گراں بہ بزعم بو الہوس رازش نہاں بہ بود پستیِ او از عشق اگر شاد بچشم عاشق از اوج نہاں بہ اگر عاشق ز عشق دوست خوار است ز عشقش شہرتش در روزگار است مپرس از عاشقان کہنہ مشقی کہ کار عشق راست از پختہ کار است فضل بہار اقبال ۱ خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابر بہار مست ترنّم ہزار طُوطی و درّاج و سار بر طرف جو ئیبار کشتِ گل و لالہ زار چشم تماشا بیار خیز کہ در کوہ و دشت ، خیمہ زد ابر بہار ۲ خیز کہ در باغ وراغ ، قافلۂ گُل رسید باد بہاراں و زید مرغِ نوا آفرید لالہ گریباں درید حُسن گل تازہ چید عشق غمِ نَو خرید خیز کہ در باغ و راغ ، قافلۂ گل رسید ۳ بلبلگاں در صفیر ، صلصلگاں در خروش خون چمن گرم جوش اے کہ نشینی خموش در شکن آئینِ ہوش بادئہ معنی بنوش نغمہ سرا ، گل بپوش بلبلگاں در صفیر ، صلصلگاں در خروش ۴ حجرہ نشینی گذار ، گوشۂ صحرا گزیں برلب جوئے نشیں آب رواں را بہ بیں نرگسِ ناز آفریں لخت دل فرودیں بوسہ زنش بر جبیں حجرہ نشینی گذار، گوشۂ صحرا گزیں ۵ دیدئہ معنی کشا، اے ز عیاں بے خبر لالہ کمر در کمر نیمۂ آتش بہ بر می چکدش بر جگر شبنم اشک سحر در شفق انجم نگر دیدئہ معنی کشا ، اے ز عیاں بے خبر ۶ خاک چمن وا نمود ، رازِ دلِ کائنات بود و نبودِ صفات جلوہ گریہائے ذات آنچہ تو دانی حیات آنچہ تو خوانی ممات ہیچ نہ دارد ثبات خاک چمن وا نمود ، رازِ دلِ کائنات شاد ’’فصل بہار بجواب اقبال از نتیجۂ فکر حضرت شاد صوفی مدظلہ بتاریخ ۲۴ محرم الحرام ۱۳۴۲ھ روز پنجشنبہ بمقام مسند مبارک‘‘ ۱ در دلِ بے اختیار ، عشقِ تو کردہ قرار جانِ غمت سوگوار دردِ تو شد سازگار دل چو بر آرد شرار سینہ شود داغدار رحم بکن اے نگار در دل بے اختیار ، عشق تو کردہ قرار ۲ عشقِ تو تا دل گزید ، جاں ز غمِ اُو تپید چوں تو بتے کس نہ دید عشق ترا آفرید شیخ حرم شُد مُرید برہمن آ سا دوید ہوش و حواسش رمید عشق تو تا دل گزید ، جاں ز غم اوتپید ۳ عاشقِ شیدائے تست ، مست می و در خروش خم کدہ آمد بجوش لطف کند می فروش کرد اشارت بنوش بادہ ربودست ہوش گفت سروشم بگوش عاشقِ شیدائے تُست، مست می و در خروش ۴ شیوئہ زاہد گزار ، جلوئہ دلدار بیں پیش تو آں نازنیں ہست چو ناز آفریں پس گل حُسنش بچیں بُوسہ بزن بر جبیں جُز رُخِ زیبا مبیں شیوئہ زاہد گزار ، جلوئہ دلدار بیں ۵ چشم نظارہ کُشا ، صنعتِ قدرت نگر ہست صنم جلوہ گر کن بجمالش نظر در برت آید اگر بوسۂ از لعلِ تر گیر چو شہد و شکر چشم نظارہ کُشا ، صنعتِ قُدرت نِگر ۶ چشم کُشا ئو ببیں ، چیست دریں کائنات ہجر بود چوں مُمات وصل نگارم حیات جلوئہ اسم و صفات ہست ز انوار ذات دہر نہ دارد ثبات چشم کُشا ئو ببیں ، چیست دریں کائنات ’’پیام مشرق‘‘ میں اقبال کی ایک نظم بعنوان ’’نغمۂ ساربان حجاز‘‘ ۸ بند میں شامل ہے۔ اس کے جواب میں شاد نے بھی بعنوان ’’ترانہ دلدادئہ حجاز ‘‘ ایک نظم اتنے ہی بند میں کہی ہے۔ یہ ۱۰ صفر ۱۳۴۲ھ کو لکھی گئی تھی ۔ دونوں نظموں سے پہلا بند درج کیا جاتا ہے: اقبال نغمہ ساربان حجاز تیز ترک گامزن ، منزل ما دُور نیست ناقۂ سیّار من آہوئے تاتار من درہم و دینار من اندک و بِسیار من دولت بیدار من تیز ترک گامزن ، منزل ما دور نیست شاد ترانہ دلدادئہ حجاز منزل ما پیشِ ما، دلبرِ ما درونِ ما دلبر ذی وقار من لطف بحال زار من رفت زِ دل قرار من زور بیا نگارِ من گرم بکن کنارِ من منزل ما پیشِ ما، دلبر ما درونِ ما اقبال نے ’’لالہ طور‘‘ کے عنوان کے تحت بہت سی رباعیاں ’’پیام مشرق‘‘ میں شامل کی ہیں۔ شاد نے بھی اقبال کے رنگ میں متعدد رباعیاں کہی ہیں۔ یہ بیاض شاد میں ذیل کے عنوان کے تحت درج ہیں: ’’رباعیات بجواب باقی از نتیجہ فکر حضرت شاد ۔ بتاریخ غرہ صفر ۱۳۴۲ھ روز پنجشنبہ بمقام مسند مبارک‘‘ نمونے کے طور پر دو رباعیاں درج کی جاتی ہیں: من شام و سحر کنم ترا از دل یاد تا رحم کنی بحالم اے رَبِّ عباد در شادی و غم چوں تو رفیقم ہستی زینست کہ ہر وقت بدل ہستم شاد ٭ اے شاد بجانِ خود خبر باید کرد یک روز ازیں راہ گزر باید کرد واللہ کہ ایں جہاں سرائے فانیست از دار فنا یقینِ سفر باید کرد ٭ لاہور میں مسلمانوںکی فلاح و بہبود اور فروغ تعلیم کے لیے ۱۸۸۵ء میں ’’انجمن حمایت اسلام‘‘ کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ اس کی نگرانی میں بے کس ، یتیم اور لاوارث بچوں کے لیے ایک یتیم خانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ انجمن کے جلسوں میں یتیموں کی پرورش اور تربیت کے واسطے شعراء چندے کی ترغیب اور لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے اپنے کلام کا نذرانہ پیش کرتے تھے ۔ ایک جلسے میں اقبال نے ۳۵ بند کا ایک دل خراش مسدس ڈاکٹر نذیر احمد کی صدارت میں سنایا ۔ جو بعد میں انجمن کی طرف سے ۱۹۰۰ء کی ابتداء میں شائع ہوا تھا ۔ نظم کا عنوان ’’نالۂ یتیم‘‘ ہے۔اقبال نے اسے ’’بانگ درا‘‘ سے حذف کر دیا۔ شاد حیدر آبادی نے اقبال کے تتبع میں نظم ’’نالہ یتیم‘‘ لکھی جو ’’بیاض شاد ‘‘ (مخطوطہ) کے ص ۲۹ میں اس عنوان کے تحت درج ہے : ’’نالۂ یتیم‘‘ بجواب ڈاکٹر اقبال (از کتاب ’’نالۂ یتیم‘‘ مصنفہ اقبال) از نتیجہ ٔ فکر حضرت شاد صوفی مدظلہ بتاریخ ۱۵ ربیع الاول ۱۳۴۲ھ روز جمعہ بمقام مسند مبارک‘‘ ذیل میں نظم کے چند بند درج کئے جاتے ہیں: آہ ! جو دل پہلے تھا پہلو میں اب وہ دل نہیں شمع مردہ رہ گئی جب درخور محفل نہیں اور حیات جاودانی مرگ کے قابل نہیں طالبِ حق حُبِّ دنیا پر کبھی مائل نہیں میں ترا دیوانہ ہوں دنیا میں گو فرزانہ ہوں ہاں ازل سے میں فدائے طلعت جانانہ ہوں عشق کیا آیا حواس و ہُوش سب جانے لگے خون دل پی پی کے ہم لخت جگر کھانے لگے بادئہ توحید سے پھر نشّے میں آنے لگے کیفیت میںسارے راز معرفت پانے لگے میرا یہ سینہ نہیں گنجینۂ اسرار ہے اور دل پہلو میں جو ہے خانۂ دلدار ہے خلقت انساں ہوئی ہے عشق یزداں کے لیے ہے مسیحا ذات اس کی خاص درباں کے لیے وحشت دل آج ہے چاک گریباں کے لیے زُلف و رُخ دونوں بنے ہند و مسلماں کے لیے رات دن ہنگامۂ ہستی میں ہیں مصروف ہم زُلف کے سودائیوں میں آج ہیں معروف ہم یہ دل خوباں طلب خو کردئہ حسرت نہیں عاشقِ درد آشنا دلدادئہ راحت نہیں دامِ اُلفت سے ہو چھٹکارا کوئی صُورت نہیں حق سے دل کو ہے تعلّق غیر سے نسبت نہیں ہے غبارِ خاطرِ عارف محبت غیر کی کب موّحد کو نظر آتی ہے صورت غیر کی باغ عالم ہیں نہیں چلتی مسرت کی ہوا دیکھ تو چشم بصیرت تو ذرا اب کر کے وا اس فنا صورت جہاں کا ہو گیا نقشا نیا ایک اس کی ذاتِ واحد ہے ہمارا رہنما کوئی مغموم اس جہاں میں کوئی شر میں کام ہے بر سر بیداد ہر دم چرخ نیلی فام ہے کون ہے جس کو بتائوں اپنا یہ درد نہاں رنج و غم سے مجھ کو ملتی ہی نہیں فرصت یہاں حسرت و ارماں ہیں دل میں رات اور دن میہماں ہے فلک آمادہ مجھ سے تاکہ خواب امتحان مجرم اظہار غم ہوں رحم کر مجھ پر خدا عجز گویائی ہے گویا میرے دل کا مدعا شعلۂ عشق اٹھ کے دل کی آگ کو بھڑکا گیا استخواں سب جل گئے ، مُنہہ کو کلیجہ آ گیا آتش پنہاں کا جب سر پر دھواں سب چھا گیا ایک دم میں یہ کرشمے اپنے وہ دکھلا گیا کر دیا بے خانماں اور گھر سے بے گھر کر دیا سینۂ پر داغ کو ہمرنگ مجمر کر دیا اب اقبال کی نظم ’’نالۂ یتیم ‘‘ کے ابتدائی چند بند ملاحظہ ہو۔ یہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے پندرھویں سالانہ جلسہ میں ۲۴؍فروری ۱۹۰۰ء کو زیر صدارت ڈاکٹر نذیر احمد دہلوی کی زیر صدارت پڑھی گئی تھی۔ اقبال کی نظم کے تتبع میں کئی لوگوں نے اس موضوع پر نظمیں کہیں ۔ ان میں آغا شاعر دہلوی قابل ذکر ہیں ۔ اقبال نے ایسی دل خراش نظم ’’بانگ درا‘‘ میں شامل نہیں کی۔ ذیل میں نظم کے ابتدائی چند بند، جن سے شاد متاثر ہوئے اور اوپر کے بند اقبال کی تقلید میں لکھے تھے ، درج کئے جاتے ہیں: آہ! کیا کہیے کہ اب پہلو میں اپنا دل نہیں بجھ گئی جب شمعِ روشن در خور محفل نہیں اے مصافِ نظم ہستی ، میں ترے قابل نہیں نا اُمیدی جس کو طے کرے ، یہ وہ منزل نہیں ہائے کس منہ سے شریک بزم میخانہ ہوں میں ٹکڑے ٹکڑے جس کے ہو جائیں ، وہ پیمانہ ہوں میں خار حسرت غیرتِ نُوکِ سناں ہونے لگا یوسف غم زینت بازار جاں ہونے لگا دل مرا شرمندئہ ضبطِ فُغاں ہونے لگا نالۂ دل روشناسِ آسماں ہونے لگا کیوں نہ وہ نغمہ سرائے رشک صد فریاد ہو جو سرودِ عندلیبِ گلشن برباد ہو پنجۂ وحشت بڑھا چاک گریباں کے لیے اشکِ غم ڈھلنے لگے پابوس داماں کے لیے مضطرب ہے یوں دل نالاں بیاباں کے لیے جس طرح بُلبُل تڑپتا ہے گُلستاں کے لیے لیں گے ہم ہنگامۂ ہستی میں اب کیا بیٹھ کر روئیے جا کر کسی صحرا میں تنہا بیٹھ کر قابل عشرت دل خُو کردئہ حسرت نہیں در خورِ بزم طرب شمع سرِ تُربت نہیں زیر گردوں شاہد آرام کی صورت نہیں غیر حسرت غازئہ رخسارئہ راحت نہیں صبح عشرت بھی ہماری غیرت صد شام ہے ہستی انساں غبار خاطرِ آرام ہے ہے قیام بحر ہستی جذر و مد اسلام کا گاہے گاہے آ نکلتی ہے مسرت کی ہوا زندگی کو نورِ الفت سے ملی جس دم ضیا لے کے طوفان ستم ابر تغیر آ گیا ہے کسی کو کام دل حاصل کوئی ناکام ہے اس نظارہ کا مگر خاک لحد انجام ہے نُطق کر سکتا نہیں کیفیّت غم کو عیاں اس کی تیزی کو مٹا دیتے ہیں انداز بیاں آ نہیں سکتی زباں تک رنج و غم کی داستاں خندہ زن میرے لبِ گویا پہ ہے درد نہاں عجز گویائی ہے گویا حکم قید خامشی مُجرم اظہار غم کو یہ سزا ملنے لگی یادِ ایّام سلف ، تو نے مجھے تڑپا دیا آہ اے چشم تصور تونے کیا دکھلا دیا اے فراق رفتگاں یہ تو نے کیا دکھلا دیا درد پنہاں کی خلش کو اور بھی چمکا دیا رہ گیا ہوں دونوں ہاتھوں سے کلیجہ تھام کر کچھ مداوا اس مرض کا اے دل ناکام کر ٭٭٭ کتابیات مقالے کی تیاری میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا۔ ۱۔ ’’اقبال بنام شاد‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، بزم اقبال ، لاہور ، جون ۱۹۸۶ء ۲ ۔ ’’باقیات اقبال‘‘ ۔ آئینہ ادب، انار کلی ، لاہور ، طبع سوم ۱۹۷۸ء ۳ ۔ ’’زمانہ ‘‘ کانپور ، جلد ۶۱، نمبر، ۴ ؍اکتوبر،۱۹۳۳ء ۴۔ ’’سیر پنجاب‘‘مسلم یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ، ۱۹۲۳ء ۵ ۔ ’’مخزن ‘‘، لاہور ۔ بابت جون ۱۹۱۰ء ۶ ۔ ’’دکن ریویو‘‘ ۔ بابت اگست ۱۹۰۴ء (ایڈیٹر: ظفر علی خان) ۷ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ جلد اوّل مرتبہ شیخ عطا اللہ ، ۱۹۴۵ء ۸ ۔ ’’زمانہ ‘‘ کانپور ، جلد ۵۲ نمبر ۲ بابت فروری ۱۹۲۹ء ۹ ۔ ’’مخزن ‘‘ ، لاہور ۔ سال گرہ نمبر ۔ بابت مارچ ۱۹۲۹ء ۱۰۔ ’’شاد اقبال ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور۔ اسٹیم پریس حیدر آباد ۔۱۹۴۲ء ۱۱۔ ’’پیام مشرق‘‘ ۔ طبع اوّل مئی ۱۹۲۳ء ۱۲۔ ’’آفتاب جھالر واڈ راجپوتانہ ‘‘ ۔ ستمبر ۱۹۳۱ء ۱۳۔ مخطوطہ ’’بیاض شاد‘‘ ۔ اقبال لائبریری، سری نگر۔ ۱۴۔ ’’محرم نامہ ‘‘ خواجہ حسن نظامی ۱۵۔ ’’مہاراجا کشن پرشاد شاد ‘‘ مرتبہ نواب مہدی نواز جنگ، ۱۹۵۰ء ۱۶۔ ’’اقوال حضرت علیؓ ‘‘ ۔ ۱۹۲۲ء (نوٹ) ۔ جب اقبال جنوری ۱۹۲۹ء میں مدارس سے حیدر آباد گئے تو انہوں نے انگریزی میں لیکچر دئے ۔ اردو کے مشہور ادیب اور’’گلابی اردو‘‘ کے موجد ملاّ رموزی کو اقبال کا انگریزی میں لیکچر دیناپسند نہیں آیا۔ وہ ’’مخزن‘‘ سالگرہ نمبر بابت مارچ ۱۹۲۹ء کے صفحہ ۸ میں ’’شذرات و اشارات ‘‘ کے تحت اقبال پر اس طرح تنقید کرتے ہیں: پچھلے دنوں جب حضرت علاّمہ سر اقبال جنوبی ہند کے دورہ پر تھے اور ’’اسلام و اسلامیات‘‘ پر اپنے محققانہ خطبات پڑھ رہے تھے تو اسی عرصے میں حیدر آباد بھی تشریف لے گئے اور وہاں کے باشندوں کو بھی ممدوح گرامی نے اپنے عالمانہ خیالات سے مستفید فرمایا ۔ اس موقع پر حیدر آباد کے روشن خیال باشندوں نے حضرت علاّمہ سے درخواست کی کہ ممدوح اپنے عالمانہ اور گراں منزلت خیالات کو زبان اردو میں ظاہر فرما ویں ۔ مگر حضرت ممدوح نے ایسا نہ کیا ۔ بلکہ تمام خطبات کی زبان انگریزی رکھی۔ ممکن ہے یہ واقعہ حضرت علاّمہ کو کسی ’’سخت مجبوری ‘‘کے باعث ہوا ہو ۔ لیکن حامیان اردو اور خود حضرت علاّمہ کے لیے یہ واقعہ نہایت سخت افسوسناک اور مایوس کن ہے جبکہ ممدوح کا شمار بھی انہیں چند برگزیدہ افراد میں ہے جن کے فیض خیال و قلم سے ادب اردو بہاریں پا رہا ہے ۔ امید ہے کہ علاّمہ ایسے مواقع پر زبان اردو کو فراموش نہ فرمائیں گے۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ قیام حیدر آباد کے زمانے میں راقم حروف نے ادبیات اردو کے بے مثال کتب خانے میں شعبۂ میوزیم کے شلف نمبر ۳ سے علاّمہ اقبال کے ان خطوط کے عکس حاصل کیے جو انہوں نے وقتاً فوقتاً شاد کو لکھے تھے۔ تفصیلات درج ذیل ہیں۔ ۱ ۔ ۵؍ جنوری ۱۹۱۷ء ۔۲ ۔ ۳۰ ؍جون ۱۹۱۷ئ۔۳ ۔ ۲۰ ؍جنوری ۱۹۱۸ئ۔۴ ۔ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۱۸ء ۔ ۵ ۔ ۲۶؍ جنوری ۱۹۱۹ئ۔۶ ۔ ۲۱؍فروری ۱۹۱۹ئ۔۷ ۔ ۲۹ ؍مارچ ۱۹۱۹ئ۔۸۔ ۲۵؍اپریل ۱۹۱۹ء ۹ ۔ ۱۷؍ستمبر ۱۹۱۹ئ۔۱۰۔ ۲۹ ستمبر ۱۹۱۹ئ۔۱۱۔ ۲؍اکتوبر ۱۹۲۳ئ۔۱۲۔ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۳ئ۔ ۱۳۔۲۷؍اکتوبر ۱۹۲۳ئ۔۱۴۔ ۱۴؍جنوری ۱۹۲۴ئ۔۱۵۔۱۱؍جنوری ۱۹۲۷ ۱۶۔ قطعہ تاریخ تقرر مہاراجا بر وزارت عظمیٰ دولتِ آصفیہ۔ احمد جاوید طلوعِ اسلام (ایک نثری بیانیہ) بند ۱ ستارے بجھنے کی تیاری کر رہے ہیں رات پر سمیٹ رہی ہے چمکتی صبح آنے کو ہے، دیکھو ۔۔۔۔ وہ دیکھو! زمین اور آسمان کے جُڑتے ہوئے کناروں پر سے سورج دھیرے دھیرے ابھر رہا ہے دھند اور اندھیرے کی طرح چھائی ہوئی نیند نے چیزوں کو ڈھانپ رکھّا تھا، ان کا ہونا معطّل کر رکھّا تھا ۔۔۔۔۔ چھٹ گئی وہ نیند کسی واہمے کی طرح سورج پورا نکل آیاجاگ اٹھی ہر شے اور روشنی ، حرارت اور بیداری کو ایک کرتا ہوا ء موت اور خواب کی زمین پر پڑا ہوا مشرق جی اٹھا اُس روشنی سے جو سورج دم کرتا ہے تھک جانے والوں پر، سو جانے والوں پر، مر جانے والوں پر۔۔۔۔ روشنی، آگ ہے مسلمانوں کی مردہ رگوں میں خونِ گرم بن کر دوڑ جانے والی آگ، زندگی ہے زندگی! جو موت کے تار و پود سے بننے والا جال توڑ دیتی ہے، روشنی ہے روشنی ! زمانوں کے گُھٹ میں اتری ہوئی ٹھنڈی تاریکی کو بہا لے جانے والی باڑھ ، سیلِ حیات ہے جس نے مسلمان کو ، اس درختِ زرد کو، شاخ شاخ ، برگ برگ ، ریشہ ریشہ ہرا کر دیا کہاں ہیں ابنِ سینا اور فارابی! مگر نہیں ۔۔۔ وہ کیا جانیں اس جذبِ وجود کو وہ تو شمع تصویر کے پروانے ہیں، انہیں کیا معلوم زندگی کے چراغ کا شعلہ کتنا بلند اور کتنا روشن اور کتنا گرم ہوتا ہے! ء زندگی ، سمندر ہے سمندر ہے یہ کائنات بھی مغرب اس سمندر کا بھنور ہے، ایک چھوٹی طغیانی جس نے سمندر کو دہلا رکھّا ہے لیکن مسلمان ! مسلمان ، موتی ہے اسی سمندر کا جو زندگی ہے اور کائنات ہے۔۔۔ اچھا ہے سمندر اس گرداب سے اور اس طوفان سے ڈولتا رہے یہاں تک کہ موتی اسے اپنے اندر جذب کر لے۔۔۔۔ پھر سُن لو موتی سمندر میں ہوتا ہے اور سمندر ، موتی میں مگر یہ بات بھنور کو نہیں معلوم وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ سمندر اس کے چرخ پر تیزی سے گھومتا ہے تو یہ گردش موتی کو متھ رہی ہوتی ہے ء یہ سورج غیب کی آگ کا شعلہ ہے اور یہ دن رات زمانے کی شاخ سے گرنے والے خشک پتّے! یہ سورج صدیوں بعد زمین پر نازل ہوا ہے اس بشارت کے ساتھ ہاں ہاں ! اس بشارت کے ساتھ کہ اُٹھایا جائے گا ایمان والوں کو ذِلّت کی کنکریلی مٹّی پر سے اور دیا جائے گا ان کو ترکمانی جلال کہ وقت کے سر کش گھوڑے کی کاٹھی پر جلوس کریں اور ہندی ذہن کہ عقل کو پیشانی سے پکڑ کر لے آئیں اُس راہ پر جس کی منزل اللہ ہے اور عربی نطق کہ حق بولے ان کی زبان سے ء تمہیں پھر بشارت ہو،ا ے ایمان والو! تمہارے بیج ایک عاشق آیا ہے کہ مُغنّی بھی ہے۔۔۔۔ اس کا نغمۂ عشق بہار آہنگ ہے اور سحر تاثیر تمہارے باغ میں زندگی اور بیداری کا پیغام ہے، وہ اس صبح کی طرح ۔۔۔ بعض غنچے کہ ابھی بہار کے تجربے سے نہیں گزرے صبح کی نرم اور اجلی آواز سُن کر بھی اپنی بیداری مکمّل کرنے سے رہ جاتے ہیں نابلد ہیں وہ جا گنے اور جینے، کھلنے اور چمکنے کے احوال سے جو زندگی کی آنکھوں میں سے کھینچ نکالتے ہیں نیند کا آخری ذرّہ بھی اور برابر کر دیتے ہیں زندگی کی چادر پر کُندہ سلوٹیں۔۔۔ اس عاشق کو اور اس مُغنّی کو دی گئی ہے صبح کی غنائیہ ٹھنڈک اور سورج کی آتشیں ندا جو جاگ اُٹھنے والوں کی بیداری کو مکمّل کرتی ہے اور کُھرچ ڈالتی ہے نیند کی جمی ہوئی تہ کو روشنی کے نشتر سے ء اے عاشق ، اے مُغَنّی ! تو بلبل ہے اس باغ کا جسے یہ صبح بہار آمادہ کر رہی ہے تو سیماب ہے قدیم عاشقوں کے دل کی طرح دھڑکتا ہوا سیماب جس کو تڑپ اور تپش تقدیر کی گئی ہے سو تڑپ اس باغ کے زرد پھیلائو میں اس کے گرد آلود درختوں کے سر مئی گہرائو میں اور سورج کے رُخ پر جھکی ہوئی ڈالی پر جہاں تیرا آشیانہ ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ زمانے کے الائو میں بھسم ہو جانے والی بہار کی یہ رنگین راکھ زمین پر کسی دھبّے کی طرح منقّش یہ چمن جاگ اُٹھے اور دور ہو جائے زندگی کے آہنگ میں پڑنے والا یہ سکتہ ء وہ آنکھ جو بوجھ لیتی ہے صورت میں حقیقت کو ظاہر میں باطن کو وہ آنکھ جو اُتر جاتی ہے خورشید کے دل میں اور کھوج نکالتی ہے اُس کا مرکز جہاں رات آتی ہے نہ دھوپ پڑتی ہے ۔۔۔ وہ آنکھ بھلا دیکھے گی تصویر کیا گیا شعلہ! چمکائی ہوئی تلوار یا رنگ کیا ہوا گھوڑا! جبکہ وہ دیکھ رہی ہے اُس روشنی کو، اُس گرمی کو اور اُس الائو کو سورج جس کی ایک چنگاری ہے ۔۔۔ ہاں دیکھ رہی ہے وہ یہ سب کچھ ایک سینے میں کہ بجلیوں کا نشیمن ہے اور زلزلوں کا مسکن یہ سینہ اور اس میں رکھّا گیا دل وَدِیعَت ہوا ہے اُس جوان کو جس کی تلوار کو نیام نہیں سوجھتی اور جس کے جھنڈے کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا ء اے عاشق ، اے مُغنّی اے آفتاب کو آواز بنا دینے والے شاعر! تو عندلیب ہے اس چمن کا جسے گزری ہوئی بہار کے انتظار نے پتھرا دیا ہے یہاں بادل دھول برساتے ہیں اور ہوا زہریلے سانپ کی پھنکار بن گئی ہے اندھیرے اور سنّاٹے کے سیاق و سباق میں جکڑے ہوئے لفظ کی طرح یہ چمن سُجھائی نہیں دیتا، سنائی نہیں دیتا تو روشنی ہے علم کی جو دلوں کو اُجال دیتی ہے تو آواز ہے عشق کی جس کی گونج وقت کے گنبد کا اثاثہ ہے ہاں تو اے روشنی جیسی آواز اے آواز جیسی روشنی! توڑ دے اس اندھیرے اور سنّاٹے کو بھر دے اس خالی باغ کو شادابی اور رنگینی کے جھماکے سے اس مہمل لفظ کو آفاق کی حدوں میں نہ سمانے والے معنی سے ۔۔۔ گُلِ لالہ بہار کا آخری معجزہ زمانے کے غبار میں دھندلا یا ہوا کسی منجمد لمحے کی طرح کسی ساکت پرچھائیں کی مثال چمن کی ساری ویرانی اور افسردگی کو سمیٹے سر فگندہ ۔۔۔ اس کے ضمیر میں بجلی بن کر اُتر جا اور اس قدیم آگ کا کوئی شعلہ اسے تعلیم کر جس سے عشق کا شجر سیراب ہوتا ہے جو حُسن کے غیب در غیب چہرے کو سینوں میں تاب ناک رکھتی ہے یہ لالۂ بے سُوز دراصل آگ کا پھول ہے جس پر بہار کی ہوا نہیں چلتی یا چراغ جس پر ایسی رات آئی کہ اس کا شعلہ مرجھا گیا اس پھول میں دوبارہ حرارت پھونک دے اس چراغ کی لو نئے سر سے اونچی کر دے مسلمان کا دل دل نہیں رہا گدلی برف کے اس ٹکڑے کو پھر سے دل بنا دے وہی دل کہ ہوا کرتا تھا کائنات کو گردش میں رکھنے والا بگولا حریمِ جمال کی چوکھٹ پر جلنے والا چراغ ء