اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت : محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت : رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website:www.allamaiqbal.com اقبالیات مندرجات ۱- فتوحاتِ مکیّہ، طربیۂ خداوندی اور جاوید نامہ محمد شفیع بلوچ ۷ ۲ - خضرِ راہ میں اقبال کا فنی طریق۔ِ کار ابو الکلام قاسمی ۵۱ ۳ - قرآن مجید کی سائنسی تفسیر پروفیسر مستنصر میر ۷۱ ۴- علوم میں وحدت کی تلاش ڈاکٹر طاہر حمید تنولی ۸۳ ۵-علم الکلام کی تشکیل جدید میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی مساعی پروفیسر محمد عارف ۹۹ ۶ -سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر (انٹرویو ڈاکٹر جاوید اقبال) ڈاکٹر زاہد منیر عامر ۱۱۵ ۷ - کلامِ اقبال(اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۲۷ گوشہ مہمان مصنفین ۸ -علامہ اقبال اور عصرحاضر کے ایم اعظم ۱۳۹ ۹ -اقبال کا تصورِ روشن خیالی محمد انور صوفی ۱۴۵ اقبالیاتی ادب ۱۰ - علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ ۱۴۹ ۱۱ -تبصرہ کتب ۱۶۷ قلمی معاونین ۱- پروفیسر مستنصر میر Center for Islamic Studies, 421 DeBartolo Hall Youngstown State University, Youngstown, Ohio,USA ۲- ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی استاد شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ ۳- ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ایچ ای سی پروفیسر، شعبۂ اقبالیات، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ۴- محمد شفیع بلوچ موضع درگاہی شاہ‘ ڈاک خانہ‘ ۱۸ہزاری‘ ضلع جھنگ ۵- پروفیسر محمد عارف ڈائریکٹر میاں محمد بخش پبلک لائبریری‘ میرپور آزاد کشمیر ۶- احمد جاوید نائب ناظم، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ۷- ڈاکٹر زاہد منیر عامر استاد شعبۂ اردو ، اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی لاہور ۸- کے ایم اعظم ۲۶۲، این ماڈل ٹائون ایکسٹینشن، لاہور ۹- محمد انور صوفی Schous Plass 3-A 0552, Oslo, Norway ۱۰- ڈاکٹر غفور شاہ قاسم شعبۂ اردو، پی اے ایف کالج، میانوالی ۱۱- ڈاکٹر طاہر حمید تنولی معاون ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۱۲- محمد ایوب لِلّہ شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج آف کامرس، پنڈ دادن خان، جہلم ۱۳- نبیلہ شیخ شعبۂ ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور فتوحاتِ مکیّہ، طربیۂ خداوندی اور جاویدنامہ ایک تقابلی مطالعہ محمد شفیع بلوچ ابن عربی کی فتوحاتِ مکیّہ، دانتے کی طربیۂ خداوندی اور اقبال کی جاویدنامہ، یہ تینوں کتابیں، سماوی سفر نامے اور آسمانی تماثیل ہیں۔ ان تینوں میں بعض اقدار مشترک ہیں۔ ان کا مأخذ معراج نبوی ا ہے اور ان میں بڑا فرق یہ ہے کہ فتوحاتِ مکیّہ اور ڈیوائن کامیڈی میں تمثیلی مظاہر اور معمات و اشارات کا بکثرت استعمال اور ذکر ہوا ہے اور اُن کی وجہ سے ان دونوں عظیم تصانیف کے بعض اسرار اب تک واضح نہیں ہوئے۔ جاویدنامہ میں بھی اگرچہ تمثیلی مظاہر اور معمات و اشارات ہیں لیکن نسبتاً کم۔ فتوحاتِ مکیّہ میں احوال و مقامات اور مشاہدات و واردات کا بیان ہے جبکہ ڈیوائن کامیڈی اور جاویدنامہ میں تخیل کی بلند پروازی کے ساتھ ساتھ فلسفہ طرازی بھی ہے۔ اسی طرح فتوحاتِ مکیّہ اور ڈیوائن کامیڈی حیات بعد الممات کے حقائق و اسرار کو سمجھنے کی مساعی ہیں۔ اقبال کی توجہ حیات بعد الموت کے علاوہ حیات حاضرہ، حیاتِ مطلق اور بقائے حیاتِ انسانی پر بھی صرف ہوئی ہے۔ اگر احادیثِ معراج، فتوحاتِ مکیّہ، ڈیوائن کامیڈی اور جاویدنامہ کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو وہ تمام فروق اور مراتب سامنے آجاتے ہیں جو ایک نبی، ولی، شاعر فلسفی اور فلسفی شاعر کو ایک دوسرے سے متمیّز کرتے ہیں۔ ابن عربی۱؎کو تصوف و طریقت اور فلسفہ الہٰیات میں امام ومجتہد کا مقام حاصل ہے۔ اُن کی تمام تصنیفات میں فتوحاتِ مکیّہ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے جو اُن کے ذہنی، فکری، روحانی اور زمینی و آسمانی سفر کے احوال پر مشتمل ایک عظیم مابعد الطبیعاتی، مکشوفی اور ملکوتی تصنیف ہے۔ دنیا کی اس عظیم اور معرکہ آرا کتاب کو انھوں نے ۵۹۸ھ اور ۶۳۶ھ کے درمیانی سالوں میں مرتب کیا۔ کئی ہزار صفحات پر مشتمل چودہ سے زائد ضخیم جلدوں میں یہ کتاب مصر میں طبع ہوچکی ہے۔ اس کتاب کو انھوں نے اپنے ولی صفت دوست شیخ عبدالعزیز ابو محمد بن ابی بکر قرشی نزیل تیونس کے نام معنون کیا۔ شیخ عبدالعزیز سرزمین مغرب میں پیشوایانِ تصوف میں سے تھے اور شیخ ابومدین (ابن عربی کے مرشد) کی صحبت اٹھائے ہوئے تھے۔ ابن عربی فتوحاتِ مکیّہ کے رقم کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں نے اس کتاب کا نام فتوحاتِ مکیّہ فی معرفۃ اسرار المالکیہ والملکیہ اس لیے رکھا کہ اس کتاب میں، میں نے اکثر وہ باتیں بیان کی ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے بیت مکرم کے طواف اور حرم شریف میں مراقبہ کے دوران عطا فرمائیں۔ میں نے اس کے ابواب مقرر کیے اور اس میں لطیف معانی بھردیے۔۲؎ ہزاروں صفحات پر مشتمل یہ معرکہ آرا کتاب اسلامی ثقافت پر اس کے وسیع معانی و مفاہیم کے اعتبار سے ایک مبسوط اور جامع تالیف ہے۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے اسلامی تہذیب و ثقافت کی تمام کڑیوں کو ملا کر تصوف اور فلسفہ تصوف کا وہ عظیم الشان نظریہ استوار کیا جو، اُن سے پہلے اور ان کے بعد اس قدر جامعیت، اتنی دیدہ ریزی، اس درجہ وسعتِ نظر اور فکر کی ایسی گیرائی اور گہرائی کے ساتھ کبھی معرضِ وجود میں نہیں آیا۔ ڈاکٹر سید حسین نصر، فتوحاتِ مکیّہ کو شیخ کی سب سے اہم، برتر اور دائرۃ المعارفی کتاب قراردیتے ہیں۔۳؎ فتوحاتِ مکیّہ کے مختلف ابواب میں شیخ کے روحانی تجربات، واردات اور جن مکاشفات کا بیان ہوا ہے وہ زیادہ تر ایک فرشتے کی وساطت سے ہوا۔ بہشت، دوزخ اور سیارگان کی سیاحت کی تفصیل مختلف جگہوں پہ مکاشفات کے اسلوب میں ملتی ہے۔ انھوں نے اپنی متعدد دیگر کتب کے علاوہ فتوحاتِ مکیّہ میں ھویت الٰہی کے ظاہر و باطن اور آنحضرت ا سمیت متعدد انبیاو رسل علیہم السلام کے عینی مشاہدات کے واقعات رقم کیے ہیں۔ انھوں نے حضرت خضر علیہ السلام سے کئی مرتبہ ملاقات کی اور انھیں پانی پر چلتے اور فضائے آسمانی میں حصیر بچھا کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ یہی نہیں بلکہ کئی بزرگوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے پایا۔ انھوں نے کعبہ کے اندر عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے زاہد و عابد لڑکے احمد السبتی کی روح سے ملاقات کی اور اس سے حالات دریافت کیے۔ اس طرح مشہور صوفی ابوعبدالرحمن السلمی (المتوفی۴۱۲ھ) کی روح سے بھی ملاقات کی۔ بڑے بڑے اوتاروابدال و اقطاب سے بھی ملے، نیز تجلی کی حالت میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ذوالنون مصریؒ، حضرت سہیل بن عبداللہ تستریؒ، حضرت جنید بغدادیؒ، حسینؒ بن منصور حلاج، ابوعبداللہ المرتعشؒ اور ابن۔عطاؒ سے ملاقات اور گفتگو کی۔۴؎ ابن عربیؒ کی معراج بنیادی طور پر سات آسمانوں (افلاک) کی سیر پر مشتمل ہے یعنی فلکِ قمر، فلکِ عطارد، فلکِ زہرہ، فلکِ شمس، فلکِ مریخ اور فلکِ زحل۔ اس آسمانی سفر پر دو کردار روانہ ہوتے ہیں… فلسفی براق پر سوار ہے اور عارف رفرف پر۔ جنت کے دروازوں پر دونوں بہ یک وقت پہنچتے ہیں لیکن دونوں کا استقبال مختلف انداز سے ہوتا ہے۔ عارف کو انبیا علیہم السلام کی طرف سے پذیرائی ملتی ہے اور فلسفی کو ’’عقولِ عشرہ‘‘ (Intellects) کی جانب سے۔ فلسفی یا حکیم، عارف کے اچھے حال کو دیکھ کر دل گرفتہ ہوتا ہے۔ تاہم عقولِ عشرہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسے طبیعات اور ہیئت افلاک کے بارے میں علمی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ تاہم وہ دیکھتا ہے کہ انبیا علیہم السلام عارف کو یہی مسائل ایک بلند تر نقطۂ نظر سے سمجھاتے ہیں۔ یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ عارف خود ابن عربیؒ کی علامتی صورت ہے۔ فلکِ قمر پر عارف کی ملاقات حضرت آدم ں سے ہوتی ہے۔ حضرت آدمں، عارف کو اسمائے حسنیٰ کے تخلیقی اثرات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ فلکِعطارد پر حضرت عیسیٰں اور حضرت یحییٰں سے عارف کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہاں موضوعِ گفتگو معجزات اور کلمات کی تاثیرات ہیں۔ حضرت عیسیٰں جو روح اللہ ہیں، عارف کو اپنے معجزات کی حقیقت اور معنویت سے آگاہ کرتے ہیں۔ بیماروں کو تندرست کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا، جیسے معجزات زیرِبحث آتے ہیں۔ فلکِزہرہ پر عارف کی ملاقات حضرت یوسفں سے ہوتی ہے جو حسنِ ترتیب، حسنِ تناسب اور کائنات کی ہم آہنگی پر گفتگو فرماتے ہیں اور شاعری اور تاویل الاحادیث (تعبیرِ خواب) کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ فلکِشمس پر حضرت یونسں رات اور دن کی تبدیلیوں اور ان کی رمزیت کی تشریح کرتے ہیں۔ فلکِمریخ پر حضرت ہارونں اقوام کی قوت اور ان کے اقتدار کی رمزیت کو بیان کرتے ہیں اور عارف کی توجہ شریعتِخداوندی کی طرف مبذول کرتے ہیں جو غضب کے مقابلے میں رحم اور رحمت پر مبنی ہے۔ فلکِمشتری پر عارف کی ملاقات حضرت موسیٰں سے ہوتی ہے جن کی زبان فیض ترجمان سے ابنِعربی کے نظریۂ وحدت الوجود کا بیان ہوتا ہے۔ رسی کے سانپ بن جانے والے معجزے کے حوالے سے حضرت موسیٰں ثابت کرتے ہیں کہ تمام ہیئتوں کی قلبِماہیت ہوسکتی ہے۔ آخر میں فلکِزحل پر حضرت ابراہیم ں اخروی زندگی کے مسائل بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد روحانی سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے… عارف کو مزید عروج حاصل ہوتا ہے… اس سفر کے تمام مراحلِ تصوف اور الٰہیات کی صوری تشکیلات سے عبارت ہیں۔ انتہائی مراحل میں عارف سدرہ المنتہیٰ تک پہنچتا ہے۔ سدرہ (بیری کا درخت) کے نیچے چار دریا بہہ رہے ہوتے ہیں یعنی تورات، زبور، انجیل اور قرآن کریم۔ اس کے بعد عارف ثوابت (Fixed Stars) کی دنیا میں پہنچتا ہے جس میں ہزاروں فرشتے جاگزیں ہیں۔ ان پاک سرشت فرشتوں کے ہزاروں مساکن ہیں۔ عارف ان تمام مساکن تک پہنچتا اور ان کو دیکھ کر خداوندِقدوس کے انعامات کا اندازہ لگاتا ہے۔ آخری مرحلہ سفر میں فردوسِ بریں کا مشاہدہ ہوتا ہے اور عارف بلند ترین مقامات کی تجلی سے بہرہ اندوز ہوتا ہے۔۵؎ طربیۂ خداوندی (Divine Comedy)، جسے دانتے۶؎ نے اپنی ۱۸ برس کی جلاوطنی کے دوران میں لکھا، اس کا نام بھی دانتے کا تجویز کردہ نہیں۔ اُس نے تو اس کا نام فقط کامیڈیا (Commedia) رکھا تھا۔ لفظ ’’ڈیوائن‘‘ کا اضافہ اس کے مداحوں اور قدردانوں نے کیا۔ اس کا یہ نام ۱۵۵۵ء میں شائع ہونے والے اڈیشن کا تھا۔ یہ تمثیلی انداز کی ایک بیانیہ نظم ہے جس کا آغاز ۱۳۰۷ء میں ہوا اور ا۱۳۲ء میں یہ نظم مکمل ہوئی۔ اس میں دانتے نے اپنے تخیلی معراج کے مشاہدات کو شاعری کی صورت میں قلمبند کیا جو اپنے عہد کے علوم و فنون، عیسائی اقوام کی مذہبی اور اخلاقی کمزوریوں اور سیاسیاتِ یورپ کے صحیح کوائف کا مرقع ہے۔ اسی واحد علمی و ادبی کتاب کی بدولت اُس زمانہ کی نسلوں کے دل و دماغ، اخلاق و عادات اور احساس و شعورِ حیات میں وہ ہیجان رونما ہوا جو کچھ عرصہ کے بعد یورپ کی عام علمی، مذہبی اور سیاسی نشاۃِ ثانیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس طویل تمثیلی نظم میں بصارت و بصیرت، لحن و سماعت، خوشبو و لمس، خوف و رحم اور مسرت و غم کے جذبات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ دنیائے فن میں عظیم شعری آرٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ طوالت اور فنی ساخت کے اعتبار سے ابھی تک دنیا کی کوئی اور نظم یا شعری تصنیف اس کی حریف نہیں بن سکی سوائے علامہ اقبالؒ کی عظیم نظم جاویدنامہ کے جو طربیہ کے چھ سو سال بعد لکھی گئی۔ طربیہ کو ساری مغربی دنیا اپنا سرمایۂ افتخار گردانتی ہے۔ اسے مغرب کے قرونِ وسطیٰ کا حاصلِ فکرونظر قرار دیا جاتا ہے بلکہ کارلائل کے خیال میں تو دانتے نے اس شاہکار کے ذریعے عیسویت کی گیارہ خاموش صدیوں کو زبان عطا کی ہے۔۷؎ یہ تلمیحات، اشارات اور علامات سے لبریز ایسا کلام ہے جو ہر قدم پر قابلِ تشریح اور محتاجِ وضاحت ہے۔ اس میں بلاشبہ شعریت کی عظیم خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ دینیات (عیسائیت) کے عناصر زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈیوائن کو بعض نقّادوں نے خالص مذہبی نظم قرار دیا ہے۔ خود دانتے اس کے بارے میں ایک خط میں لکھتا ہے: طربیہ لکھنے کا کام محض کسی خیال آرائی کی خاطر نہیں بلکہ ایک عملی مقصد کی خاطر شروع کیا گیا۔ اس ساری تصنیف کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں‘ انھیں ابتری سے نجات دلائی جائے اور بابرکت زندگی کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے۔۸؎ طربیہ کو اطالوی زبان میں لکھ کر دانتے نے اطالوی زبان کو نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا اور اسے وہ کمال واعجاز بخشا کہ جلد ہی اس کا شمار دنیا کی مشہور زبانوں میں ہونے لگا۔ اب یہ اطالوی ادب میں ہی نہیں۔ بلکہ عالمی ادب میں بھی فکروفلسفہ اور ادب و فن کا ایک زندہ حوالہ ہے۔ دنیا کے مشہور ترین مصوروں نے اس عظیم تصنیف کے مختلف حصوں کی نقاشی کی ہے اور دنیا کی ہر وقیع اور مہذب زبان میں اس کا ترجمہ ہوا۔ انگریزی میں بھی اس کے متعدد ترجمے ہوئے جن میں لارنس بینن کا ترجمہ زیادہ اہم ہے جس کے حواشی گرانٹ جنٹ نے تحریر کیے۔ علاوہ ازیں جیمس فن کاٹر (James Finn Cotter) کا ترجمہ بھی بہت شستہ ہے جو دانتے کی ویب سائٹ پہ دستیاب ہے۔ اردو میں عزیز احمد نے اطالوی سے براہِ راست منثور اور شوکت واسطی نے منظوم ترجمہ کیا، علاوہ ازیں ایک ترجمہ دانتے کا جہنم کے نام سے مولوی عنایت اللہ نے بھی کیا تھا۔ طربیہ کے تین حصے ہیں۔ ۱۔ جہنم (Inferno) جس میں ۳۴ کینٹوز (سرود یا نغمے) ہیں۔ ۲۔اعراف یا برزخ (Purgatorio) کے ۳۳ کینٹوز ہیں اور ۳۔ بہشت (Paradiso) کے بھی ۳۳ کینٹوز ہیں۔ یہ سب کینٹوز ۱۴۲۳۳ مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ جہنم یا دوزخ میں انسانی زندگی کی سیاہ کاریوں کا عکس پیش کیا گیا ہے۔ اس میں اس نے زیادہ تر اپنے سیاسی مخالفوں کو گوناںگوں اذیتوں میں مبتلا دکھایا ہے۔ عذاب و اذیت کے مدارج کے اعتبار سے دوزخ کی درجہ بندی گناہ اور مدارجِ گناہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ دوزخ کے حلقے یا درجے جس قسم کے گنہگاروں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں ان میں زیادہ تر اخلاقی گنہگار ہیں، مثلاً ابن الوقت لوگ، شہوت پرست، شکم پرست، مغلوب الغضب لوگ، زندیق اور بد عقیدہ لوگ، کفر بکنے والے، ہر نوع کی اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہونے والے، مکار اور دھوکے باز لوگ وغیرہ۔ اعراف یا برزخ کے مکینوں کے بارے میں دانتے کا خیال ہے کہ وہ بعض اذیتیں برداشت کرلینے کے بعد روحانی پاکیزگی کے ایسے مقام تک پہنچ پائیں گے جہاں سے ان کے لیے بہشت میں داخل ہونا ممکن ہو جائے گا۔ اس مقام میں عذاب سہنے والوں میں اہلِ غرور، حاسدین، اہلِ حشم، تن آسان، کنجوس، بخیل، اسراف کرنے والے، شکم پرست، نفس پرست وغیرہ شامل ہیں۔ برزخ کا اختتام ایک خوبصورت مقام پر ہوتا ہے جسے ’’بہشتِ زمینی‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اعراف کا تصور عیسائیت کے لیے نیاتھا۔ جنت میں روحانی مسرت و وجدان کی کیفیات کا بیان ہے۔ اس مقام پہ وہ ارواحِ جلیلہ ہیں جنہوں نے دنیا میں قابلِ رشک اخلاقی زندگی بسر کی تھی تاہم ابتدا میں ان روحوں کو دکھایا گیا ہے جنہوں نے مذہبی اعمال میں کوتاہی برتی۔ دانتے کی دنیائے بہشت زیادہ تر عیسائیت کے خدمت گزاروں سے آباد ہے۔ اس تصنیف کا ماحصل و ملخص یہ ہے کہ اگر انسان مشعلِ علم ہاتھ میں لے کر نیک نفسی اور پاک باطنی کے ساتھ آگے بڑھے تو وہ اس زندگی میں بھی دنیا بھر کی نعمتوں اور برکتوں سے فیضِ روحانی حاصل کرسکتا ہے۔ جس جہنم، اعراف اور بہشت کا اس نظم میں ذکر ہے وہ سوائے روح کی اخلاقی پستی اور بلندی کے اور کچھ نہیں ہے۔ طربیہ اور معراج النبی(صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) دنیائے ادب میں ایک طویل عرصے تک طربیہ کے مواد کو دانتے کی عبقریت اور غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں سے منسوب کیا جاتا رہا۔ مغربی ادیب و مفکر کارلائل (۱۷۹۵ئ-۱۸۸۱ئ) نے تو دانتے کو ادبِ عالیہ میں سیر روحانی کے تصور کا موجد و مخترع قرار دیا تھا۹؎ لیکن مغرب ہی کے ایک نامور ہسپانوی مستشرق اور محقق پروفیسر میگوئیل آسن پلاسیوس (Miguel Asin Palacios) جو کہ اسپین کے ایک کیتھولک پادری اور میڈرڈ یونیورسٹی میں عربی زبان کا استاد تھا، نے ۱۹۱۹ء میں ایک معرکہ آرا کتابLa escatologia musalmana en la Divina Comedia (اسلام اور ڈیوائن کامیڈی) لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ ڈیوائن کامیڈی کے مآخذ میں اولاً معراج النبی ا کی اسلامی روایات اور ثانیاً وہ کتب تصوف و ادبِ اسلامیہ جن میں اسرارِ معراج اور صوفیہ کی خود اپنی سیاحتِ علوی اور مشاہدۂ تجلیات کا ذکر ہے، شامل ہیں۔ دانتے اور اسلام کے موضوع پر آج تک یہ کتاب بنیادی مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ آسن پلاسیوس کی یہ کتاب جب منظرِ عام پر آئی تو دانتے شناسوں کے حلقہ میں ایک کھلبلی مچ گئی کیونکہ اس کتاب کی بدولت دانتے کی شخصیت اور فن کے کچھ ایسے پہلو سامنے آئے جو آج تک نظروں سے پوشیدہ تھے۔ مذکورہ کتاب میں پروفیسر آسن لکھتے ہیں: جب ڈینٹے الغیری اپنی اس حیرت انگیز نظم کا تصور اپنے ذہن میں لایا، اس سے کم از کم چھ سو سال قبل اسلام میں ایک مذہبی روایت موجود تھی جو محمدا کی مساکن حیاتِ مابعد کی سیاحتوں پر مشتمل تھی۔ رفتہ رفتہ آٹھویں صدی سے لے کر تیرہویں صدی عیسوی کے اندر اندر مسلم محدثین، علما، مفسرین، صوفیا، حکما اور شعرا سب نے مل کر اس روایت کو ایک مذہبی تاریخی حکایت کا لباس پہنادیا۔ کبھی یہ روایتیں شروح معراج کی شکل میں دہرائی جاتیں، کبھی خود راویوں کی واردات کی صورت میں اور کبھی ادبی اتباعی تالیفات کے انداز میں۔ ان تمام روایات کو ایک جگہ رکھ کر اگر ڈیوائن کامیڈی سے مقابلہ کیا جائے تو مشابہت کے بے شمار مقامات خود بخود سامنے آجائیں گے بلکہ کئی جگہ بہشت و دوزخ کے عام خاکوں، ان کے منازل و مدارج، تذکرہ ہائے سزاو جزا ، مشاہدۂ مناظر، اندازِ حرکات و سکناتِ افراد، واردات و واقعاتِ سفر، رموز و کنایات، دلیلِ راہ کے فرائض اور اعلیٰ ادبی خوبیوں میں مطابقتِ تامہ نظر آئے گی۔۱۰؎ جہاں تک دانتے کے مصادر کا تعلق ہے تو دانتے کے عقیدت مند اسے مسیحی اور ماقبل تاریخِ یورپ تک محدود کرکے دانتے کی عبقریت ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ لیکن معراجِ نبوی ا کی روایات اور ابن عربی کی اسرار و رموز سے معمور روحانی معراج جس کا فتوحاتِ مکیّہ میں گاہے گاہے ذکر ہوا ہے‘ سے بھرپور استفادہ کے بعد دانتے نے طربیہ کو خالصتاً ادبی انداز میں لکھا۔ دانتے نے شاعری کا وجدان و رجل کے کلام سے حاصل کیا۔ مشہور لاطینی شاعر و رجل (۷۰ تا۱۹ق م) جو لیس سیزر کے عہد کا بے پناہ شعری صلاحیتوں کا مالک، شائستہ، متحمل مزاج اور نیک طینت شاعر تھا۔ ایک نیک شخص کے عقل کے استعارے کے طور پر دانتے اسے اپنا رہنما بناتا ہے اور اس سے اپنے احوال بیان کرتا ہے۔ورجل کی تصنیف اینیڈ (Aeneid)‘ جو ایک طویل رزمیہ ہے، سے دانتے نہ صرف بہت متاثر تھا بلکہ اس سے اس نے بہت کچھ اخذ و حاصل کیا۔ ورجل کو وہ اپنا معنوی استاد اور مرشد تسلیم کرتا ہے۔ مذہبی فکر و شعور، دانتے نے تھامس ایکوئنس کی تحریروں سے اور ایمان و ایقان سینٹ آگسٹن سے حاصل کیا۔ جبکہ خیالی سفرِ سماوی کی تفصیلات اُس نے معراج النبی ا کی روایات سے اخذ کیں۔ اب یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ طربیہ سے قریباً چھ سو سال پہلے اسلام میں معراج النبی ا کی وہ تمام تفاصیل موجود تھیں جن میں بہشت اور دوزخ کے خاکے اور منازل و مدارج، جزاو سزا، مشاہدات و مناظر، اندازِ حرکات و سکناتِ افراد اور اس عظیم سفر کی واردات اور رموز و کنایات و اشارات کے خزائن ہیں۔ معراج النبی ا کے بعد اس کے مصادر محی الدین ابن عربی کی فتوحاتِ مکیّہ اور الاسریٰ الی مقام الاسریٰ، منصور حلاج کی طواسین، ابوالعلا معری کا رسالۃ الغفران اور ابن سینا کا رسالۃ الطیر ہیں۔ رسالۃ الطیر، جس میں روح کے طیران یا پرواز سے بحث کی گئی ہے، اس کا ترجمہ دانتے سے قبل لاطینی زبان میں ہوچکا تھا اور فرانس کے میوزیم واقع پیرس میں موجود تھا جہاں دانتے نے جلاوطنی کا زمانہ گزارا۔ علاوہ ازیں خود عیسائیت میں ٹنڈل البریک آف مانٹے کسینو، جہنم، اعراف اور بہشت کی فرضی اور خیالی سیر البریک کا خواب کے نام سے لکھ چکا تھا جس میں اس نے دکھایا کہ سینٹ پیٹر نے اسے جہنم اور اعراف کی سیر کرائی جہاں اسے گنہگاروں کے مختلف عذابوں کا حال سینٹ پیٹر بتاتا ہے۔ وہ سات آسمانوں کو عبور کرکے بہشت میں بھی جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دانتے کے سامنے تھا۔ ان تمام مصادر کا ذکر کیے بغیر ڈیوائن کامیڈی میں دانتے نے اپنے ہاں کے سیاسی و تاریخی تناظر کے ساتھ کچھ ایسا اسلوب اختیار کیا کہ طویل عرصہ تک یورپ میں اپنی شاعرانہ و حکیمانہ قابلیتوں کا لوہا منوایا۔ پروفیسر آسن کی تحقیق کے مطابق معراج کی روایت مغرب میں ہسپانوی علما و صوفیائے اسلام کے ذریعے پہنچی۔ دانتے نے محی الدین ابنِ عربی کی کتاب فتوحاتِ مکیّہ سے بہشت، دوزخ اور اعراف اور ان کی تمام منازل و مناظر کو نقل کیا۔ اسی طرح تمام علومِ مروجہ پر اپنی سیر کے دوران میں بحثیں کیں۔ البتہ سیاسی اور تاریخی واقعات وغیرہ کی بحث سے اپنی کتاب کی خوبیوں کو بڑھایا اور اپنے مآخذوں کا ذکر نہ کرکے ایک آنے والے طویل زمانۂ یورپ پر اپنی شاعرانہ و حکیمانہ خوبیوں کا سکہ بٹھالیا۔۱۱؎ میگویل آسن، نے ابن ابی حاتم، ابن جریر، طبری، بیہقی وغیرہ کی روایاتِ معراج کی جزئیات کو ترتیب دے کر دانتے کی طربیہ کا معراج سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے: دونوں جگہ خود صاحب واقعہ نے واقعہ بیان کیا ہے۔ دونوں جگہ سفر رات میں شروع ہوتا ہے اور ایک اجنبی رہبر نیند سے بیدار ہونے کے بعد ملتا ہے۔ دونوں جگہ شروع میں پہاڑ کی چڑھائی آتی ہے۔ اعراف، دوزخ اور جنت کی سیر دونوں واقعات میں ہے اگرچہ سیاق و سباق اور تفصیلات میں فرق ہے۔ پیغمبرِ اسلام ا نے جن ابتدائی پانچ سزاؤں کو دیکھا وہ اسلام کا اعراف ہے۔ چوتھا دائرہ جہنم کا ہے جو کافروں کے لیے مخصوص ہے۔ باقی واقعات بچوں، اولیا، شہدا اور مومنین کی جنت سے متعلق ہیں۔ دونوں جگہوں پر قصہ کا اختتام عرشِ الٰہی پر ہوتا ہے۔ دونوں واقعات میں رہبر خود اپنی زبان سے گنہگاروں کے گناہوں اور نیکوکاروں کی نیکیوں کو بیان کرتا ہے۔ دونوں واقعات میں سفر کرنے والا ان لوگوں کی روحوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے شناسائی رہ چکی ہے۔ دونوں جگہوں پر دوزخ کی سیرکی ابتدا میں مسافر کو ندامت، غصہ اور تکلیف کی آوازیں اپنی طرف کھینچتی ہیں۔۱۲؎ اسلامی اعراف اور دانتے کے اعراف کے مناظر میں خاصی یکسانیت ہے۔ دانتے نے اعراف کے سات دروازوں اور سات دیواروں کا ذکر کیا ہے وہ اسلامی بہشت کی آٹھ دیواروں اور آٹھ دروازوں کی نقل ہے۔۱۳؎ معراج میں اعراف، سینۂ آدم اور بہشت کے چار اخروی مرحلوں کو الگ الگ دکھایا گیا ہے۔ اوپر جانے کے لیے ایک ہی درخت کا زینہ ہے۔ یہاں رہبر دو فرشتے ہیں جبکہ دانتے کے رہبر انسان ہیں۔ دونوں جگہ داروغۂ دوزخ کا ذکر ہے۔ دانتے کا داروغۂ دوزخ مینوس (Minos) ہے۔ دونوں جگہ سفر کی ابتدا یروشلم سے ہوتی ہے۔ دونوں واقعات میں گناہوں اور ان پر دیئے جانے والے عذابوں میں مناسبت دکھائی گئی ہے…زانی، سودخور کی سزا دونوں جگہ یکساں ہے۔ دونوں جگہوں پر یہ لوگ آگ کی لپیٹوں میں بہتے ہوئے دکھائے گئے ہیں… دونوں واقعات میں ایک ندی ملتی ہے جو اعراف کو بہشت سے جدا کرتی ہے۔ دونوں جگہ پر مسافر اس ندی کا آبِ شیریں پیتا ہے۔۱۴؎ دانتے کی بہشت اور اسلامی بہشت میں خاصی یکسانیت ملتی ہے۔ دونوں میں رہبر ایک ہے، معراج میں جبریل اور طربیہ میں بیاترچے۔ دونوں واقعات میں افلاک کی سیر ہوتی ہے اگرچہ تعداد اور ہیئت کا فرق موجود ہے۔ دانتے کے سات افلاک بطلیموسی ہیئت سے مستعار ہیں۔ اس نے آٹھویں فلک، فلک ثوابت، نویں فلک فلکِ شفاف اور علیین (Empyrean) کا اضافہ کیا ہے۔ اسلام میں اس کے مقابلے میں افلاکِ سبعہ کے علاوہ سدرۃ المنتہیٰ، بیتِ معمور اور عرشِ الٰہی ہیں۔ معراج کا رہبر جبریل فرشتہ جبکہ دانتے کی رہبر ایک انسان بیاترچے ہے جسے ملاء اعلیٰ کے سفر میں’ عملِ تحسین‘ کے ذریعے فرشتہ بنادیا جاتا ہے جو خدا کی اجازت سے دانتے کو عرشِ الٰہی تک لے جاتا ہے۔ دونوں جگہوں پر سفر فضا میں ہوتا ہے۔ ہر آسمان پر مسافر وہاں کے رہنے والوں سے بات چیت بھی کرتے ہیں۔ اسلامی افلاک میں پیغمبر رہتے ہیں جو طربیہ میں صوفی بن جاتے ہیں۔ دونوں کا ادبی ڈھانچا ایک جیسا ہے اگرچہ فنی اور روحانی تفصیلات میں فرق موجود ہے۔۱۵؎ طربیہ اور فتوحاتِ مکیّہ فتوحاتِ مکیّہ اور ڈیوائن کامیڈی پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو مشابہات کے بے شمار مقامات اور چند اہم امور سامنے آتے ہیں۔ بہشت و دوزخ کے خاکے اور مدارج و مناظر، افراد کی حرکات و سکنات کا انداز، واردات و واقعاتِ سفر، رموز و کنایات وغیرہ جیسی متعدد مطابقتیں نظر آتی ہیں۔ دانتے اور ابن عربی، دونوں کی تمثیلوں میں سفر ایک علامت ہے۔ ابن عربی کی تمثیل میں مسافر دو ہیں، ایک فلسفی دوسرا صوفی۔ دانتے نے ورجل کی ذات میں فلسفی اور صوفی دونوں پہلو شامل کردیے ہیں۔ دونوں کے یہاں فلسفی کو مسائلِ فلسفہ و طبیعات اور صوفی کو مسائل دینیات و الٰہیات کے متعدد پہلو مختلف مقامات پر نظر آتے ہیں۔ ابن عربی اور دانتے دونوں کے ہاں سماوی سیاحت کا آغاز ایک پہاڑ کے قریب سے ہوتا ہے۔ ابن عربی نے دوزخ کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں دوزخ کے سات حلقے یا پرتیں ہیں جو الگ الگ گناہوں کی سزا کے لیے ہیں۔ ہر حلقہ یا پرت میں ایک سو ذیلی حلقے یا پرتیں ہیں جن میں الگ الگ مسکن یا قید خانے بنے ہوئے ہیں۔ ابن عربی کے نزدیک دوزخ ایک ایسی کھائی ہے جو جیسے جیسے گہری ہوتی جاتی ہے نیچے سے اس کا قطر کم ہوتا جاتا ہے۔۱۶؎ دانتے کے نزدیک دوزخ کی پرتوں کی تعداد دس ہے اور سزاؤں کی تفصیلات میں بھی ابن عربی اور دانتے کے یہاں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔۱۷؎ دانتے کے دوزخ میں سزا سرمدی ہے جس کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسلامی روایتوں میں جنت کو ایک درخت بھی کہا گیا ہے۔ ابن عربی کی جنت میں فلک دائم الحرکت میں ایک درخت ہے جس کی شاخیں ساتوں افلاک تک پھیلی ہوئی ہیں اور جنت کے ہر انفرادی مسکن میں ایک شاخ موجود ہے۔ یہ شجرۂ رضوان ہے جو کسی گلاب کا تاثر دیتا ہے۔۱۸؎ افلاکِ ہیئت کا دانتے کا تصور ایک عظیم درخت جیسا ہے جس کی جڑیں علیین میں ہیں اور جس کی شاخیں تمام افلاک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دانتے اس تصور کو اس وقت پیش کرتا ہے جب وہ فلک مشتری پر پہنچتا ہے۔۱۹؎ دانتے نے اپنی نظم میں جنت کے حوالے سے محصور باغ، سلطنت جس پر حضرت عیسیٰں اور حضرت مریم ں حکومت کرتے ہیں اور ایک پہاڑی جس پر مصطفین یکجا ہوکر نورِ الٰہی کا مراقبہ کرتے ہیں اور ایسے ہی دوسرے الفاظ و استعاروں کا استعمال کیا ہے۲۰؎ جو ابن عربی کے ہاں موجود ہیں کہ جنت ایک عظیم باغ ہے جس کے سات حصے ہیں، نور کی سات دیواروں نے یہ تقسیم کی ہے۔ جنت عدن میں ایک سفید براق پہاڑی ہے جہاں ذاتِ الٰہی کا مراقبہ کرنے والے جمع ہوتے ہیں۔۲۱؎ آسایشِ جنت اور اخلاقی ڈھانچا میں دونوں تخلیق کاروں کا ایک جیسا رویہ ہے۔ دونوں کہتے ہیں کہ ہر عمل خیر کا بدلہ جنت میں موجود ہے۔۲۲؎ ابن عربی کی جنت میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو مشرف بہ اسلام ہوئے اور ایمان پر فوت ہوئے۔ دوسرے وہ جو اسلام سے قبل فوت ہوئے مگر الہامی مذاہب پر عمل کرتے رہے۔ دانتے کی نظم میں بھی اس طرح کی دو قسمیں سامنے آتی ہیں۔ اسی طرح ابن عربی نے جنت نشینوں کے مدارج کی جس طرح تقسیم کی ہے ویسے ہی عرش، کرسی اور مدارج نشست کے الفاظ دانتے کے یہاں بھی ہیں۔ ابن عربی نے حضرت آدمں کے ساتھ آنحضرت ا کو دکھایا ہے جبکہ دانتے نے حضرت آدمں کے ساتھ سینٹ پیٹر کو۔ یہ مقام دونوں واقعات میں ایک ہی دائرہ میں ہے۔۲۳؎ بہشت والے اپنے مقامِ علیین سے نکل کر مختلف افلاک کی صورتوں میں دانتے کے سامنے آتے ہیں جو اس کا استقبال کرتے ہیں یا خلا میں حظ کی مختلف کیفیتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ دوبارہ وہ علیین میں چلے جاتے ہیں جہاں دانتے کو سبھی ایک مجمع کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ابن عربی کی تمثیل میں بھی یہ حصہ موجود ہے۔ اس کی ملاقات مختلف انبیا سے مختلف افلاک میں ہوتی ہے جو اس کا خیر مقدم کرنے آتے ہیں بعد میں یہ سبھی انبیا فلکِ نجوم میں ایک مجمع کی صورت میں موجود رہتے ہیں اور حضرت آدمں اور حضرت ابراہیمں عرشِ الٰہی کے پاس ہیں حالانکہ ان سے ابن عربی کی ملاقات فلکِ اوّل اور فلکِ ہفتم میں ہوچکی ہے۔ ابن عربی نے فتوحاتِ مکیّہ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ’’یوم زیارت‘‘ انبیا ، اولیا اور عامتہ الناس کس طرح جمالِ الٰہی کا دیدار کریں گے۔ پلاسیوس کہتے ہیں کہ ابن عربی نے حظیرۃ القدس کے ہالۂ نور کو جس طرح بیان کیا ہے اس میں دانتے کی طربیہ کے ’’جمالِ خداوندی‘‘ میں مماثلت فکروفن دونوں لحاظ سے ہے۔۲۴؎ ابن عربی اور دانتے دونوں کے خیال میں سعید روحیں نورالٰہی کے نقطہ پر اپنی نگاہوں کو مرکوز کر دیں گی۔۲۵؎ دیدار کی کیفیت دانتے کے ہاں محبت اور ابن عربی کے ہاں معرفت پر منحصر ہوگی۔ پلاسیوس کہتے ہیں کہ صرف جمال الٰہی کے دیدار سے متعلق پانچ باتوں میں ابن عربی اور دانتے کا موقف یکساں ہے۔۲۶؎ دانتے اور ابن عربی میں ایک مشترک چیز اور بھی ہے۔ دانتے نے اپنی نظم میں تثلیث کے راز کو جیومیٹری کے دائرہ جاتی رمز کے ذریعے سمجھایا ہے۔۲۷؎ دانتے شناس کہتے ہیں کہ اس تثلیت میں خدا کے مظاہرثلاثہ یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس کو پیش کیا گیا ہے۔ ابن عربی نے متحد المرکز، مختلف المرکز،قاطع اور منحرف‘ الغرض ہر طرح کے دائروں کو ذات، صفات، اسمائ، علائق اور ظہور خداوندی یا فیضانِ الٰہی کے تصورات کو پیش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔۲۸؎ دانتے نے روحوں کو جس طرح مختلف مقامات پر دکھایا ہے اس کے پیچھے ہیئت اور اخلاق کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ نجات پانے والے فلک یا ستارہ میں نمودار ہوتے ہیں اور جیسی ان کی زندگی تھی اسی کے مطابق ان کے مقام کی اونچائی ہوتی ہے۔ ابن عربی کی تمثیل میں بھی یہی اصول کارفرما ہیں۔ انبیا کا ظہور کسی ابجدی ترتیب میں نہیں ہے۔ حضرت آدمں فلک اوّل میں تو حضرت ابراہیمں فلکِ ہفتم میں۔ حضرت عیسیٰں کو حضرت آدمں کے قریب رکھا گیا ہے۔ حضرت موسیٰں اور حضرت ہارونں الگ الگ افلاک میں ہیں۔ عظمت اور اخلاقی کمال اس تقسیم کی بنیاد ہے۔ مثال کے طور پر حسن اور پاکیزگی کے لیے مشہور حضرت یوسفں کو فلکِ زحل میں دکھایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰں کو فلکِ مشتری میں جگہ دی گئی ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کو شریعت دی اور فرعون کو زیر کیا۔ مشتری کا فلک جابروں کی تباہی کا کام کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰں کو عطارد میں دکھایا گیا ہے۔ ابن عربی نے فلسفہ کو نیات، طریقت اور دوسرے موضوعات پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اس تمثیل کا سہارا لیا تھا۔ دانتے نے بھی متعدد موضوعات پر اپنے خیالات کی ترجمانی کے لیے اس تمثیل کو اپنایا۔ پلاسیوس کے نزدیک یہ بھی مماثلت کا ایک پہلو ہے۔۲۹؎ حیات بعد الممات کی حقیقتوں کا تجسس، دانتے اور ابن عربی کا مشترکہ موضوع ہے۔ دونوں نے سات ستاروں کی سیر سے گزر کر بہشت و دوزخ اور اعراف کا نقشہ کھینچا ہے اور اُن کو اسی طرح تصور کیا ہے جس طرح ان کا بیان احادیثِ معراج میں ہوا ہے مگر معنوی اعتبار سے دونوں کی جہتیں الگ الگ ہیں۔ فتوحات عرفانی مشاہدات کی حامل ہے اور ڈیوائن کامیڈی علمی، ادبی اور سیاسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ تاہم افراد کے اذہان اور اخلاق کی شائستگی دونوں کا نصب العین ہے۔ ابن عربی بتاتے ہیں کہ شیطان کو یہ سزا دی گئی ہے کہ وہ برف میں جما ہوا گل رہا ہے۔ چونکہ وہ آتشی مخلوق ہے اس لیے اس کے لیے اس سے سخت سزا کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ ڈیوائن کامیڈی کے جہنم میں دانتے بھی شیطان کو برف میں دھنسا اور گلتا ہوا دکھاتا ہے۔ نظریات کے اعتبار سے بھی بعض اہم امور پر ابن عربی اور دانتے کی ہم آہنگی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ابن عربی اور دانتے دونوں جہنم اور فردوس کے سفر کو اس دنیا میں روح کے سفر کی تمثیل سمجھتے ہیں۔ دونوں کا عقیدہ ہے کہ خالق حقیقی نے اس دنیا میں روح کو اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اس مقصد اعلیٰ اور آخرکی تیاری کرے اور وہ مقصد دیدارِ خداوندی ہے اور اس سے کامل مسرت کوئی اور نہیں ہے۔ ابن عربی اور دانتے میں یہ قدر بھی مشترک ہے کہ تائید غیبی اور شریعت کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ انسان اس مقصد کو حاصل کرسکے۔ عقل، جس کی علامت ڈیوائن کامیڈی میں ورجل ہے، دور تک ساتھ نہیں دے سکتی۔ ڈیوائن کامیڈی اور فتوحاتِ مکیّہ کا اسلوبِ بیان اور بیشتر تفصیلات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ خاص طور پر ڈیوائن کامیڈی کا حصہ بہشت تو فتوحاتِ مکیّہ سے بے حد متاثر دکھائی دیتا ہے۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ فتوحاتِ مکیّہ کی طرح ڈیوائن کامیڈی کا لب و لہجہ بھی بعض مقامات پر بڑا پراسرار ہوجاتا ہے۔ یقینی امر ہے کہ دانتے پر شیخ اکبر ابن عربی کا بے حد اثر ہے۔ اسی طرح دانتے کی کتب Convito اور Concionero کے ادبی پیکر ابن عربی کی ترجمان الاشواق اور ذخائر الاعلاق جیسے ہیں۔ خصوصاً Convito اور ترجمان الاشواق سوانحی نظمیں ہیں اور دونوں کے مقدموں میں مشترک باتیں ہیں۔۳۰؎ دانتے اور ابن عربی میں دوسری متعدد باتوں کے اشتراک میں ایک یہ بھی ہے کہ دانتے نے متعدد معانی اور پیکروں کو حیاتِ نو (Vita Nuova) میں تجسیمی پیکر میں دکھایا ہے۔ ابن عربی بارہا یہ کام فتوحاتِ مکیّہ میں کرتے ہیں۔ دانتے نے خواب میں خدا کو ’انسان‘ کی شکل میں دیکھا اور باتیں بھی کیں۔ ابن عربی نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا بلکہ ایک حدیث کے مطابق آنحضرت ا نے بھی خدا کو اسی حال میں دیکھا۔۳۱؎ دانتے کے ان نقادوں اور قارئین کے لیے جنہوں نے فتوحاتِ مکیّہ کا بھی مطالعہ کیا ہے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ منازلِ، مناظرِ واقعات اور کیفیات و مشاہدات کی ترتیب ایک طرح سے ڈیوائن کامیڈی میں فتوحات کے چربے ہیں۔ بقول آسن پلاسیوس: مسلم مفکرین میں ابن عربی وہ شخص ہیں جنہوں نے تصورِ آخرت کے سلسلے میں دانتے کو امکانی طور پر اثاثہ فراہم کیا۔ دوزخ کے حلقے، ہیئتِ فلک، گلابِ روحانی کے دائرے، حظیرۃ القدس کے گرد فرشتوں کے زمزمے، تثلیث کی تمثیل میں تین دائروں کی تشکیل جیسے تصورات دانتے نے بالکل اسی طرح پیش کیے ہیں جو ابن عربی کے یہاں ملتے ہیں… معاملے کو اتفاق کہہ کر ٹال دینا ممکن نہیں ہے جبکہ تاریخی حقائق اس طرح ہوں۔ تیرہویں صدی میں فلورنس کے شاعر کی پیدائش سے پچیس سال پہلے ابن عربی نے اپنی فتوحات میں آخرت کے نقشے پیش کیے جو دائرہ جاتی یا کروی نوعیت کے ہیں۔ اسی (۸۰) برس کے بعد دانتے آخرت کا انتہائی عمدہ شاعرانہ بیان پیش کرتا ہے جس کی کچھ جغرافیائی باریکیوں کو دانتے کے شارحین نے گراف اور جیومیٹری کے نقشوں کے ذریعے واضح کیا۔ یہ نقشے بالکل ان نقشوں کی طرح ہیں جن کو بہت پہلے ابن عربی پیش کرچکے تھے۔ اگر معاملے کو اس طرح نہ سلجھایا جائے کہ دانتے نے نقل کیا تھا تو موجود مماثلت کو یا تو ناقابلِ حل راز ماننا پڑے گا یا پھر اصالت کا معجزہ۔۳۲؎ فتوحاتِ مکیّہ کے مصنف ابن عربی خود صوفی اور صاحب حال تھے۔ فتوحاتِ مکیّہ اُن کے اپنے مکاشفات، واردات اور روحانی تصرفات کا عکس و آئینہ ہے۔ اس کی بنیاد محض تخیل یا فن پر نہیں رکھی گئی۔ اس کے برعکس ایک عظیم ادبی شاہکار کے اعتبار سے شاید ڈیوائن کامیڈی کا مرتبہ فتوحاتِ مکیّہ سے برتر ہے اور اس کے اثرات کا دائرہ بھی اتنا وسیع نہیں جتنا کہ ڈیوائن کامیڈی کا ہے۔ اس کی بھی چند اہم وجوہات تھیں جنہیں ڈاکٹر عبدالمغنی نے یوں بیان کیا ہے: عیسائیوں کے نزدیک سولہویں صدی میں اس کارنامے کی اہمیت خاص اس لیے تھی کہ وہ اسلامی تصورِ حیات، نظامِ معاشرت اور علوم و فنون سے اس وقت تک بہت مرعوب تھے، گرچہ ان کے خلاف سخت تعصب میں مبتلا تھے۔ لہٰذا جب دانتے نے دنیا و آخرت کے معاملات و شخصیات کی ایک ایسی تخیلی تعبیر پیش کی جس سے عیسائیت کے عقائد و اقدار کی حقانیت و فوقیت ظاہر ہوتی تھی تو مسیحی دنیا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی تعریف میں اتنا مبالغہ کیا کہ جس چیز کو، خود اس نے محض ایک کامیڈی قرار دیا تھا اسے ڈیوائن بنادیا۔۳۳؎ اس تناظر میں پروفیسر آسن نے لکھا کہ: The share due to Ibn Arabi a Spaniard, although a Muslim,in the literary glory achieved by Dante Alighieri in his immortal poem can no longer be ignored. دانتے کی ادبی عظمت میں ہسپانوی عرب شیخ ابن عربی کا جو حصہ ہے اس کو مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔۳۴؎ دانتے کی پیدائش سے پچیس سال پہلے ابن عربی کا انتقال ہوچکا تھا۔ یوں ابن عربی اور دانتے کے درمیان صرف ۸۰ برس کا زمانہ حائل ہے اس عرصے میں ابن عربی کی شہرت دور تک پھیل چکی تھی اور دانتے اس سے یقینا بے خبر نہ تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دانتے جو عربی سے ناآشنا تھا اس کی رسائی ابن عربی کی تصانیف تک کیوں کر ممکن ہوسکی۔ مستشرقین اور محققین نے اس سلسلے میں بتایا ہے کہ اس زمانے میں فلورنس ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ عرب تاجراطالیہ تک پہنچ چکے تھے۔ عربی فتوحات اور علم و دانش کا شہرہ ساری دنیا میں تھا۔ فریڈرک نے نیپلز میں ایک یونیورسٹی قائم کی جہاں عربی مسودات کا ترجمہ ہورہا تھا طلیطلہ کے شاہ الفانسو کے عہد میں تو خاص طور پر کئی اہم عربی کتابوں کا ترجمہ ہوا- اس زمانے میں یورپ بھر میں فارابی، امام غزالی اور ابن رشد کو وہی مقامِ توقیر حاصل تھا جو قدیم یونانی حکما کو تھا۔ معراج نبوی کی روایات سپین کے عیسائیوں میں پھیل چکی تھیں۔ (دانتے کا استاد) برونتولاتی۔نی بہت بڑا سفارت کار، سیاست دان اور عالم و شاعر تھا۔ ۱۶۶۰ء میں وہ فلورنس کا سفیر بن کر شاہ طلیطلہ الفانسو کے دربار میں گیا جہاں یقینی طور پر وہ ابن عربی سے متعارف ہوا اور اس عظیم استاد کے توسط سے ابن عربی کے خیالات دانتے تک پہنچے۔۳۵؎ علاوہ بریں اس زمانے میں داستانیں اور واقعات بھی عرب اور غیر عرب تاجروں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک جایا کرتے تھے۔ مغرب کے عہدِ وسطیٰ کی نشاۃ ثانیہ عربی اسلامی علوم و فنون کو یورپی زبانوں میں منتقل کرنے کی مرہونِ منت رہی ہے اور یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے۔ ہسپانیہ میں طلیطلہ اور صیقلیہ میں پالرمو (عربی مصادر میں ’بلرم‘) کے ادارہ ہائے ترجمہ کی کاوشیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ترجمہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد اطالیہ اور صقلیہ کے مسیحی فضلا کی تھی اور اس خیال سفر میں دانتے کی ملاقات ایسے متعدد فضلا سے ہوتی ہے۔ دانتے کے مربی دوست اور استاد برونتولاتی۔نی (۱۲۲۰ئ۔۱۲۹۵ئ) عربی جانتا تھا۔ اس کی کتاب ذخیرہ میں پیغمبرِ اسلام اکی سوانح عمری اور اسلام کے بعض عقائد درج ہیں۔ یورپ کی متعدد کلاسیکی تواریخ جیسے طلیطلہ کے پادری Roderigo jimenez de Rada کی Historia Arabum اور شاہ الفانسو کی Estoria de Espana یا Cronica General اور سینٹ پیٹرپاسکال کی Impunacion dela seta Mahomad میں اسلام کا واقعہ معراج درج ہے۔ اس عہد میں قرآن حکیم کے ترجمے لاطینی زبان میںہوچکے تھے۔ مثال کے طور پر پامپ لونا کے پادری رابرٹ آف ریڈنگ نے ۱۱۴۳ء میں لاطینی میں قرآن حکیم کا ترجمہ کیا تھا۔ دانتے کا خاکۂ جنت، دوزخ و برزخ وہی ہے جو شیخ ابن عربی کی الفتوحاتِ المکیّہ اور کتاب الاسرار میں ہے، دانتے نے جس ہیئت کا سہارا اس خیالی سفر میں لیا ہے وہ خود مسیحی فضلا کی صراحت کے مطابق الفرغانی (ابوالعباس احمد، مصنف جو امع علم النجوم والحرکات السماویہ و الکامل فی الاسطرلاب وغیرہ) سے ماخوذ ہے۔ دانتے نے کونویویو میں الفرغانی کا حوالہ بھی دیا ہے۔ خود اسلامی شخصیتوں کا حوالہ طربیہ میں موجود ہے۔ جیسے آنحضرت ا، حضرت علیؓ، ابن رشد، ابن سینا، اور صلاح الدین ایوبی۔ اس کے علاوہ، سراسینوں اور دجلہ و فرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب بنیادی سوال اس طرح قائم ہوتا ہے کہ کیا دانتے اسلام کے واقعہ معراج سے واقف نہ تھا؟ کیا اس نے طربیہ میں معراج اور اس کی دوسری تمثیلات کا چربہ نہیں اُتارا؟ دانتے پرستوں کا کلاسیکی جواب نفی میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں تصورِ آخرت کی متعدد اساطیر موجود تھیں جیسے اسطورۂ تندال، راہبانِ ثلاثہ یا سینٹ مکاریوس کی داستان، خواب البریک، سینٹ برانڈن کی داستان، سینٹ پیٹرک کی داستان، خواب ترچل، ادہ کا نغمۂ شمس وغیرہ۔ مگر یہ جواب تشفی بخش اس لیے نہیں کہ عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں تصورِ آخرت سے متعلق جو اساطیر پائی جاتی تھیں ان کا سرچشمہ خود مغربی فضلا کے نزدیک کلی یا جزئی طور پر اسلام اور مشرق ہے۔۳۶؎ فرانسسکو غابریلی (Francisco Gabrielli) نے ایک رسالہ بعنوان Interno alle fonti orientali della Divina Comedia اس موضوع پر تصنیف کیا اس کے خیال میں ترسیل کے دو ممکنہ ذرائع ہوسکتے ہیں۔ ایک ہسپانوی فرانسسکن راہب ریمونڈلل اور دوسرا فلورنس کا دوومینکی راہب Ricolda de Monte Croce۔ ریمونڈلل اسلامی مصادر سے بخوبی واقف تھا اور ابن عربی کے خیالات کو اپنی کتابوں میں برت چکا تھا۔ ۱۲۸۷ء اور ۱۲۹۶ء کے درمیان وہ بار بار اطالیہ آیا اور دوسال تک روم، جنیوا، پسا اور نیپلس میں قیام کیا۔ ریکولدو کا معاملہ اس سے زیادہ دلچسپ ہے۔ ۱۲۸۸ء سے ۱۳۰۱ء تک وہ مشرق میں رہا اور شام ایران اور ترکستان میں انجیل کی اشاعت کی۔ ۱۳۰۱ء میں وہ فلورنس کی خانقاہ ’Santa Maria Novella‘ واپس لوٹا جہاں ۱۳۲۰ء میں چوہتر سال کی عمر میں اس کی موت ہوئی۔ اپنی مشہور کتاب Contra Legen Sarracenorum یا Improbatio Alchorani کے چودہویں باب میں اس نے واقعہ معراج پر بحث کی ہے۔ سانتا ماریا نولا کے دومینکی راہبوں سے دانتے کے معاملات ثابت ہیں بلکہ اپنی جوانی میں وہ راہبوں کے ان اسکولوں میں تعلیم بھی پاچکا تھا۔ ان اسکولوں میں عوام کو ادبیات اور سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی۔۳۷؎ ۱۹۴۰ء میں دالورنی (M.T.d'Alverney) نے معراج کے موضوع پر بارہویں صدی کے رسالہ حی بن یقظان (ابن سینا) کے ایک لاطینی ترجمہ مخطوطہ کو ایڈٹ کرکے شائع کیا۔ ۱۹۴۹ء میں انریکوسیرولی (Enrico Cerulli) نے تصورِ آخرت کے موضوع پر متعدد ترجموں کو یکجا کرکے شائع کردیا۔ یہ ترجمے اطالیہ میں چودھویں صدی عیسوی میں معروف تھے۔ ایک ترجمہ طبیب ابراہم الفقین کا تھا جو اشبیلیہ میں شاہ الفانسو کے دربار سے وابستہ تھا۔ ۱۲۶۴ء کے آس پاس یہ ترجمہ مکمل ہوا۔ ابراہم الفقین نے اصلاً واقعہ معراج کا قشتالوی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ اب یہ ترجمہ معدوم ہے۔ البتہ ہسپانوی متن کا ترجمہ لاطینی اور فرانسیسی میں لاطینی فاضل بونا و نتور (۱۲۲۱ئ۔۱۲۷۴ئ) نے کیا جو آکسفورڈ پیرس اور ویٹی کن میں موجود ہے۔ یہ ترجمے اطالیہ کے علمی حلقوں میں معروف تھے اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یورپ اس دور میں اسلام کے تصورِ آخرت سے واقف تھا۔۳۸؎ پلاسیوس کے علاوہ اطالوی دانتے شناس و تیریو روسی (Vittorio Rossi) نے بھی مشاہدات دانتے کا مشاہداتِ معراج سے موازنہ کرکے یکسانیت کے نکات بیان کیے ہیں۔۳۹؎ تاریخ کے اس تناظر میں یہی بنیادی سوال اُٹھتا ہے کہ دانتے کا یہ خیالی سفر اپنے فکروفن میں کس حد تک اس کی اپنی تخلیقی انفرادیت ہے؟ طربیہ اور جاویدنامہ معراج النبی ا کے پورے چھے سو سال بعد دانتے نے ڈیوائن کامیڈی لکھی اور اس کے پورے چھے سو سال بعد علامہ اقبال نے جاویدنامہ لکھا۔ ڈیوائن کامیڈی اور جاویدنامہ کے سلسلے میں یہ امر بھی یقینا دلچسپ اور موجب حیرت ہے کہ ان کے تخلیق کاروں نے جو مفکر بھی تھے، موجودہ سائنسی انکشاف سے بہت پہلے اپنے تخیل کی ہمہ گیری اور جدت کے طفیل خلا میں پرواز کا یہ تجربہ خالص وجدانی سطح پر کیا۔ طربیہ خداوندی اور جاویدنامہ، دونوں اس صنفِ ادب میں شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں جسے Vision Literatureکہا جاسکتا ہے۔۴۰؎ برصغیر پاک و ہند میں اردو اور فارسی شاعری اور بالخصوص کلامِ اقبال سے دلچسپی رکھنے والوں کا عام خیال یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جاویدنامہ کے تانے بانے کا تصور دانتے کی ڈیوائن کامیڈی سے مستعارلیا ہے۔ علامہ نے خواجہ ایف ایم شجاع کے نام ۱۹۳۱ء کے شروع میں، جب جاویدنامہ تکمیل کی منزلوں میں تھا، ایک خط لکھا جس میں جاویدنامہ اور ڈیوائن کامیڈی کی مشابہت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ ملتا ہے۔ اس میں وہ جاویدنامہ کو ڈیوائن کامیڈی کے برابر کا درجہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: آخری نظم جاویدنامہ جس کے دو ہزار شعر ہوں گے ابھی ختم نہیں ہوئی ممکن ہے مارچ تک ختم ہوجائے۔ یہ ایک قسم کی ڈیوائن کامیڈی ہے اور مثنوی مولانا روم کی طرز پر لکھی گئی ہے۔ اس کا دیباچہ بہت دلچسپ ہوگا اور اس میں غالباً ہندو ایران بلکہ تمام دنیائے اسلام کے لیے نئی باتیں ہوں گی۔ ایرانیوں میں حسین بن منصور حلاج، قرۃ العین، ناصر خسروعلوی وغیرہ کا نظم میں ذکر آئے گا۔ جمال الدین افغانی کا پیغام مملکتِ روس کے نام ہوگا۔۴۱؎ اسی حوالے سے علامہ، جاویدنامہ کا تعارف یوں کراتے ہیں: میری تازہ تصنیف، جاویدنامہ… حقیقت میں ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی ہے جیسے دانتے کی تصنیف یورپ کی ڈیوائن کامیڈی ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف سیاروں کی سیر کرتا ہوا مختلف مشاہیر کی روحوں سے مل کر باتیں کرتا ہے، پھر جنت میں جاتا ہے اور آخر میں خدا کے سامنے پہنچتا ہے۔ اس تصنیف میں دورِ حاضر کے تمام جماعتی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور اصلاحی مسائل زیرِ بحث آگئے ہیں۔ ۴۲؎ یہ خطوط اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ ڈیوائن کامیڈی کو دیکھ کر علامہ اقبال کو جاویدنامہ لکھنے کا خیال آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ معراجِ محمدی ا کے اسرار و حقائق کے متعلق ایک کتاب لکھنے کا خیال علامہ کے دل میں ایک مدت سے تھا۔ ممکن ہے جاویدنامہ ایک تمثیلی نظم کی صورت اختیار نہ کرتی لیکن انہی دنوں میں ٹی، ایس ایلیٹ کا مقالہ Essay on Dante منظرِ عام پر آیا جس کی بدولت دانتے کے بارے میں کالرج اور نارٹن کی تحریروں کی طرف ایک بار پھر اہل نظرمتوجہ ہوئے اور دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کا غلغلہ نئے سرے سے ادبی دنیا میں بلند ہوا۔ اب یہ ممکن نہیں کہ ان تحریروں نے علامہ اقبال کو اپنی طرف متوجہ نہ کیا ہو اور بالخصوص جب وہ معراجِ محمدی ا کے بارے میں لکھنے کا خیال کررہے تھے اس لیے بقول جگن ناتھ آزاد : اگر جاویدنامہ کا تصور اقبال نے ڈیوائن کامیڈی سے لیا بھی ہو تو اقبال کی شاعرانہ یا مفکرانہ عظمت پر کوئی حرف نہیں آیا کیونکہ جاویدنامہ، ڈیوائن کامیڈی کا چربہ نہیں بلکہ ایک ایسا اوریجنل شاہکار ہے جس میں اقبال کی علمیت، مشاہدات، تجربات اور وارداتِ قلبی بڑے فنکارانہ اور انوکھے انداز سے بیان ہوئے ہیں۔ نظم کا تانا بانا اپنی جگہ پر اقبال کی عظمت کی دلیل ہے۔۴۳؎ ڈاکٹر سید عبداللہ، جاویدنامہ کو ڈیوائن کامیڈی کی طرح کی ہمہ پہلو تصنیف قرار دیتے ہیں: جاویدنامہ، ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی (طربیہ خداوندی) کی طرح ایک کثیرالالوان کتاب ہے۔ اس میں مکالمہ بھی ہے اور بیانِ واقعات بھی، فضا بھی اور صوت بھی، صدا بھی اور ادا بھی، اشارت بھی ہے اور عبارت بھی، یہ ایک تمثیل ہے مگر مثالی دنیا کی۔ یہ مثالی دنیا کی روداد ہے مگر حقیقی دنیا کے دامن سے وابستہ۔ اس میں حقیقی شخصیتیں بھی ہیں اور افسانوی بھی، خیالی کردار بھی ہیں اور مثالی بھی، اس میں غزل کے پیوند بھی نظر آتے ہیں اور قطعہ بندی بھی ہے۔ غرض تخیلی اور واقعاتی رنگ باہم شیروشکر ہیں۔ اس میں حقائقِ فکری بھی اور جذبات قلبی بھی، اس میں وہ تاریخ بھی ہے جس کے نقوش ماضی کے اوراق میں ثبت ہیں اور وہ تاریخ بھی جس کی تصویریں شاعر کے وژن (Vision) میں ہیں۔ غرض ایک مرقع ہے جس میں فکر و خیال کا ہر رنگ پیوستہ اور باہم وابستہ ہے اور اہلِ نقد و نظر کا خیال ہے کہ یہ الیڈ اور ڈیوائن کامیڈی کی طرح عجائباتِ ادب میں سے ہے۔ ۴۴؎ ڈیوائن کامیڈی کی طرزِ نگارش میں رمز و ایما اور اشارات و کنایات ہیں اور یہ تمثیلی مظاہرات سے معمور ہے۔ لیکن اس میں ابہام بہت زیادہ ہے۔ دانتے کے برعکس اقبال نے منظر کشی کے بجائے حقائق نگاری اور نکات آفرینی پر توجہ دی اس کے باوجود جاویدنامہ محاکات کے محاسن سے خالی نہیں۔ استعارات و کنایات کے باوصف، ان کا مفہوم متعین کرنا اتنا مشکل نہیں۔ دانتے کے یہاں خبث، دغا، تشدد، ہوس اور نفس پرستی جیسی سفلی صفات کو بطور علامت استعمال کیا گیا ہے جبکہ اقبال کے ہاں غیب و حضور، زمین کی بے نوری، غوغائے حیات، عقل، عشق، ذات و صفات، صعودِ آدم، خلوت و جلوت، موجود ونا موجود، محمود و نامحمود، شعور، معراج، جبر و اختیار، زمان و مکان، جان و تن، جذب و سرور وغیرہ جیسی علوی صفات بطور علامت استعمال ہوئی ہیں۔ دانتے نے اعمالِ شر، جمود، کذب وریا، طمع وغیرہ جیسے سفلی جذبات کی نشاندہی کرکے انسان کو صفاتِ خیر کی جانب اکسایا ہے جب کہ علامہ کے یہاں فعالیت، حرکت اور حریت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ دانتے نے ڈیوائن کامیڈی کے ذریعے اپنی محبوبہ بیاترچے کو زندہ جاوید کردیا۔ اقبال کے سامنے بنی نوع انسان سے محبت، مسلم اقوام کی نشاۃ ثانیہ اور عشقِ الٰہی جیسے آفاقی موضوعات تھے۔ انھوں نے اسلام کا قرآنی مفہوم کے مطابق اخلاقی، سیاسی اور عمرانی نظام پیش کیا ہے۔ دانتے کیتھولک مسلک کے معروف عیسائی فلسفی تھامس ایکوئنس (Thomas Aquinas) کے فکروفلسفہ سے بہت متاثر تھا جس کا پورا نظام فکر ابن رشد سے ماخوذ ہے۔ اقبال کے سامنے مولانا روم ایک آئیڈیل اسلامی شخصیت تھے جنہیں وہ اپنا روحانی مرشد تسلیم کرتے ہیں۔ دانتے کے سیرِ افلاک کے دوران میں چار مختلف اشخاص رہنما بنتے ہیں۔ سب سے پہلے ورجل (عقلِ انسانی کا استعارہ) ہے جو بجائے خود ایک لادینی شاعر تھا، پہلی دو منزلوں میں جہاں گناہ کی اصلیت تمام کراہتوں، نفرتوں اور گراوٹوں کے ساتھ آشکار ہوتی ہے، دانتے کا رہنما ہے۔ اس کے بعد رہنمائی کا یہ فرض باغِ عدن کی خوش گل نگہبان میٹلڈا کے سپرد ہوتا ہے۔ میٹلڈا معصوم زندگی کی علامت ہے۔ دانتے کا تیسرا رہنما اس کی محبوبہ بیاترچے ہے جو عشقِ ایزدی اور الہام کی علامت ہے اور حق و صداقت کی پردہ کشائی کرتی ہے۔ آخری رہنما سینٹ برنارڈ ہے جو رہنمائی کا فرض اس وقت سرانجام دیتا ہے جب مشاہدۂ ذات کی منزل آتی ہے۔ برنارڈ وجدان کی علامت ہے۔ اقبال اپنی سیر صرف مرشدِ رومی کی معیت میں کرتے ہیں اور ان کے نزدیک مذکورہ بالا تمام خوبیاں ایک ہی شخصیت میں مرکوز ہوگئی ہیں۔ ورجل جسے دانتے اپنا معنوی استاد اور مرشد تسلیم کرتا ہے۔ اس کے بارے اپنے خیالات کا اظہار ڈیوائن کامیڈی میں یوں کرتا ہے: Glory and lights of poets; now may that zeal And loves apprenticeship that I pourd out On your heroic verses ser-us me well For you are my true master and first author The soul maken from whom I drew the breath of that sweet style whose measures have brought me honour (شاعروں کے وقار، اے سخن کی ضیا!! میں نے تیرے سخن کی طلب میں، تیرے اشعار کی جستجو میں جو محبت، عقیدت دکھائی ہے اب تک وہ محبت میری ہم عناں ہو، وہ عقیدت میری رہنما ہو میرا آقا ہے تو، میرا مولا ہے تو میرا پہلا ہی محبوب شاعر ہے تو میرے نغموں میں نرمی تیرے ذکر کی مرے سانسوں میں گرمی تیرے فکر کی تو امیرِ ادب، تاجدار سخن تو جہان معنی کا سردار ہے میں تیری خاکِ پاکے سوا کچھ بھی نہیں اورتو…! میرا آقا ہے تو، میرا مولا ہے تو، میرا محبوب فن کار ہے میرے فن کو جہاں میں جو عزت ملی، تیری تقلید سے ملی ۴۵؎ اور یہ ہے مولائے روم کی شبیہ سازی: شام گہری ہوجاتی ہے، چاند افق پر نمودار ہوتا ہے کہ اس سرمئی اندھیرے میں پہاڑ کے اس پار سے روحِ رومی پردوں کو چاک کرتی ہوئی ظاہر ہوتی ہے۔ ؎ روحِ رومی پردہہا را بردرید از پسِ کوہ پارۂ آمد پدید! شام نے جو ستارہ آسمان پر روشن کیا ہے، یہ روح رومی کا اشارہ ہے جو پہاڑ کی اوٹ سے نمودار ہوکر دریا کے کنارے چہل قدمی کرتے شاعر کے پاس آتی ہے۔ شاعر، رومی کا درخشندہ اور روشن چہرہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ وہ دانش و حکمت کا حسین امتزاج تھا: ؎ طلعتش رخشندہ مثلِ آفتاب شیبِ او فرخندہ چوں عہدِ شباب پیکرِ روشن ز نورِ سرمدی در سراپایش سرورِ سرمدی برلبِ او سِرّ پنہان وجود بند ہائے حرف و صوت از خود کشود حرفِ او آئینۂ آویختہ علم با سوزِ دروں آمیختہ (اس کا چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا۔ بڑھاپے میں بھی جوانی کی سی آب و تاب تھی۔ اس کا پیکر نورِ سرمدی سے منور تھا، نہیں بلکہ وہ سراپا نورِ سرمدی تھا۔ اس کے لبوں پر وجود کے پوشیدہ راز (کا بیان) تھا۔ اس نے الفاظ و آواز کے بندھن کھولے۔ اس کے الفاظ یوں تھے جیسے سامنے آئینہ آویزاں ہو اور اس میں علم کے ساتھ سوزدروں کی آمیزش تھی (نہ الفاظ تھے نہ آواز، مگر معانی سامنے نظر آرہے تھے۔) ۴۶؎ دانتے نے زندگی کے مسائل سے کم تعرض کیا ہے۔ اس کے سامنے حیات بعدالممات ہے جبکہ اقبال کے سامنے حیاتِ موجود، عبدو معبود، عشق و عقل اور دین و تقدیر جیسے بنیادی مسائل ہیں۔ ڈیوائن کامیڈی میں منظر نگاری کے ساتھ ساتھ اساطیری مواد، قدیم یونانی دیو مالائی اور مافوق الفطرت عناصر اور اوہام و خرافات کا غلبہ ہے۔ جبکہ اقبال کے سامنے تواریخِ عالم کا اعلیٰ نظامِ فکر اور نظریۂ کائنات تھا چنانچہ جاویدنامہ میں اساطیری حوالے کم سے کم اور بقدر ضرورت ہیں اور حقائق نگاری اختصار اور جامعیت لیے ہوئے ہے۔ دانتے نے تاریخی واقعات کو اپنے حسن بیان کے پسِ منظر کے طور پہ استعمال کیا ہے جبکہ اقبال نے محض تاریخ ہی نہیں بلکہ تاریخ کی تعبیر نو کو اپنی شاعری کا جزو بناکر آدمِ نو کے ظہور کا مژدہ سنایا ہے۔ ڈیوائن کامیڈی میں اگرچہ مذہبی مسائل پر بحث کی گئی ہے تاہم کسی بھی مسئلے کا کوئی تسلی بخش جواب موجود نہیں۔ مثلاً حضرت عیسیٰں کے شاگرد پطرس اور اس کے جانشین کے مابین یہ مکالمہ کہ ’’خدا کی مشیت اور انسانی اختیار میں کیسے مطابقت پیدا ہوسکتی ہے؟‘‘ تو اس نے اس کے جواب میں کہا: ’’آپ مجھ سے ایسا سوال پوچھ رہے ہیں جس کا جواب میں کیا، عارفین بھی نہیں دے سکتے۔‘‘ جاویدنامہ میں زندگی اور کائنات کے حوالے سے انسانی مسائل اور حقائق کے ساتھ ساتھ ایک اور جہان (جہانِ دیگرے) کے مابعد الطبیعاتی معارف و حقائق سے بحث کی گئی ہے۔ اس میں دینی فلسفہ کے اسرار و رموز کے مفاہیم بڑے لطیف اور بلیغ پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں۔ عشقِ الٰہی، مقام محمدی ا کی معرفت، سعی مسلسل، زندگی کے اعلیٰ مقاصد جیسے موضوعات کے علاوہ حکومتِ الٰہیہ کے تمدنی اور سیاسی نظام کا خاکہ بھی دیا گیا ہے۔ فلسفیانہ مزاج رکھنے کے باوجود دانتے کے یہاں بنی آدم کے لیے کوئی خاص پیغام نہیں ہے جبکہ اقبال بجائے خود فلسفی شاعر اور مستقل فلسفہ (فلسفۂ خودی) کے بانی تھے۔ جاویدنامہ میں انھوں نے بنی آدم کے ہر نو جوان کے لیے ایک دستور العمل پیش کیا ہے۔ دانتے کا سفر جہاں ختم ہوتا ہے وہاں علامہ اقبالؒ کا سفر شروع ہوتا ہے۔ دانتے کے سفر کا مقصد اپنی ناآسودگی اور اضطراب کی تطہیر کی خاطر اپنے آپ کو تزکیۂ نفس کے ذریعے مشاہدۂ حق کے قابل بنانا تھا۔ اضطراب اگرچہ اقبالؒ کے ہاں بھی ہے مگر ان کی سیاحت علوی کا مقصد تسخیر زمان و مکان تھا گویا دانتے کے سامنے محض اپنی ذات تھی جبکہ اقبال کے سامنے پوری کائنات تھی۔ ڈیوائن کامیڈی کے آغاز میں افسردگی کی کیفیت ہے اور یہی افسردگی جاویدنامہ کے شروع میں بھی پائی جاتی ہے تاہم جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ جاویدنامہ کی ابتدا مناجات سے ہوتی ہے جو دراصل شکوہ ہی کی ایک ایسی صورت ہے جو نہ صرف درد و داغ، سوزوگداز اور تلاش و جستجو کی تڑپ سے لبریز ہے بلکہ مسلسل تنہائی اور دشت ودر کے سناٹے نے مایوسی کی جگہ اشتیاقِ دید کی کیفیت پیدا کردی ہے اور یہی اشتیاق دید سیاحتِ علوی کا سبب بنا ہے: عصرِ حاضر را خرد زنجیرِ پاست جانِ بے تابے کہ من دارم کجاست؟ عمر ہا برخویش می پیچد وجود تایکے بے تاب جان آید فرود زیستم تا زیستم اندر فراق وانماآن سوئے این نیلی رواق ماترا جوئیم و تو از دیدہ دور نے غلط، ما کور و تو اندر حضور یاکشا این پردۂ اسرار را یابگیر این جانِ بے دیدار را نخلِ فکرم ناامید از برگ و بر یا تبر بفرست یا بادِ سحر منزلے بخش این دلِ آوارہ را بازدِہ باماہ این مہ پارہ را (دور حاضر کے لیے خرد پاؤں کی زنجیر بن چکی ہے۔ جانِ بے تاب جو میں رکھتا ہوں وہ کہاں ہے؟ حیات مدتوں پیچ و تاب کھاتی ہے تب کہیں جاکر ایک جانِ بے تاب ظہور میں آتی ہے۔ میں جب تک جیا فراق ہی میں جیا، مجھے دکھایئے کہ اس نیلے آسماں کے پرے کیا ہے؟ ہم آپ کو ڈھونڈتے ہیں اور آپ ہماری آنکھوں سے دور ہیں، نہیں یہ بات نہیں آپ سامنے ہیں مگر ہم اندھے ہیں۔ یا اس پردۂ اسرار کو ہٹا دیجئے، یا دیدار سے محروم اس جان کو واپس لے لیجیے۔ میرے فکر کا درخت برگ وبار سے ناامید ہے، یا اسے کلہاڑے کی نذر کیجیے یا اسے بادِ سحر سے نوازیے۔ اس دلِ آوارہ کو منزل عطا فرمایئے، اس ماہ پارے کو دوبارہ چاند سے ملادیجئے۔) دانتے اس طرح کی کسی مناجات سے نظم کی ابتدا نہیں کرتا بلکہ اس کی ابتدایوں ہوتی ہے کہ بے مصرف اور لاحاصل سفرِ زندگی کے دوران میں دانتے راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے اور اپنے آپ کو جرم و خطا کے گھنے جنگل (دنیاداری) میں پاتا ہے۔ اسی جنگل میں پوری رات ایک کرب اور عذاب کے عالم میں گزارتا ہے۔ جونہی اسے اپنی گمراہی کا احساس ہوتا ہے اسے مشرق میں سپیدۂ سحری نظر آتا ہے۔ سورج، ربانی تجلی (Divine Illumination) کی علامت ہے۔ اس سپیدۂ سحری کی تجلی سے ایک چھوٹی سی پہاڑی کوہِ شادمانی (Mount of joy) کی چوٹی جگمگا اُٹھتی ہے۔ یہ ایسٹر کا موسم ہے اور حضرت عیسیٰں کی حیاتِ نو (Resurrection) کے جشن کا وقت ہے۔ سورج اعتدالِ لیل و نہار (Equinoctional rebirth) کے قریب ہے۔ ان تمام مسرت آمیز علامتوں کے اس پہلو بہ پہلو نظر آنے سے دانتے کا دل ایک امید افزا کیفیت سے لبریز ہوجاتا ہے اور وہ فوراً کوہِ شادمانی پر چڑھنے کا ارادہ کرلیتا ہے لیکن اچانک ہی دنیاداری کے تین درندے اس کا راستہ روک لیتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے خبث اور دغا کا چیتا، دوسرا ہے تشدد اور ہوس کا شیرِ ببر اور تیسرا ہے نفس پرستی کا بھیڑیا۔ یہ درندے بالخصوص بھیڑیا دانتے کو پھرنا امیدی کا شکار بنانے کے لیے سہوو خطا کے اندھیرے میں دھکیلتے ہیں لیکن عین اس وقت جب کہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی دیتا ہے ایک شخصیت نمودار ہوتی ہے۔ یہ ورجل کا عکس ہے۔ ورجل جو دانتے کے لیے عقلِ انسانی (Human Reason) کی علامت ہے۔ ورجل اپنے آپ کو دانتے کی رہنمائی کے لیے پیش کرتا ہے لیکن صرف وہیں تک جہاں تک عقلِ انسانی جاسکتی ہے۔ قطعی صعود کے لیے رہبری کا فرض ایک اور رہنما ’’بیاترچے‘‘ سرانجام دیتی ہے جوعشقِ ایزدی کی علامت ہے۔ ڈیوائن کامیڈی میں مختلف منازل کے لیے دانتے کے مختلف رہنما ہیں۔ ورجل (عقلِ انسانی) پہلی دو منزلوں میں جہاں گناہ کی اصلیت تمام کراہتوں، نفرتوں اور گراوٹوں کے ساتھ آشکار ہوتی ہے، دانتے کا رہنما ہے۔ اس کے بعد رہنمائی کا یہ فرض باغِ عدن کی خوش گل نگہبان مٹیلڈا کے سپرد ہوتا ہے۔ مٹیلڈا معصوم زندگی کی علامت ہے۔ دانتے کا تیسرا رہنما اس کی محبوبہ بیاترچے ہے جو عشقِ ایزدی یا الہام کی علامت ہے۔ بیاترچے حق و صداقت کی پردہ کشائی کرتی ہے۔ آخری رہنما اس سلسلے میں سینٹ برنارڈ ہے جو وجدان کی علامت ہے۔ اور دانتے کی نظر میں وجدان کا مقام عقلِ انسانی بلکہ الہام و انکشاف (Revelation) سے بھی کہیں بلند ہے۔ اقبال نے اپنی سیاحت علوی کی ابتدا میں دانتے کی طرح خبث، دغا، تشدد، ہوس اور نفس پرستی کی علامتوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ غیب و حضور، زمین کی بے نوری، غوغائے حیات، عقل، عشق، ذات، صفات، صعودِ آدم، خلوت و جلوت، موجود و ناموجود، محمود و نامحمود، شعورِ خویشتن، شعورِ دیگرے، شعورِ ذاتِ حق، معراج، مجبوری، اختیار، زمان و مکان، جان و تن، جذب و سرور وغیرہ کی طرح کے سوالات و مسائل کا حل تلاش کرنے کی تڑپ ان کے اس سفر کی تحریک کا باعث ہوئی۔ پہاڑ کا تصور اقبال کے یہاں بھی موجود ہے جس کے پیچھے سے روحِ رومی نمودار ہوتی ہے۔ اقبال کی رہنمائی تمام افلاک کے سفر میں رومی ہی کرتے ہیں۔ اقبال کی سیاحتِ علوی کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے: عشق شور انگیز بے پروائے شہر شعلۂ او میرد از غوغائے شہر خلوتے جوید بدشت و کوہسار یالبِ دریائے نا پیدا کنار من کہ دریاراں ندیدم محرمے برلبِ دریا بیا سودم دمے بحر و ہنگامِ غروبِ آفتاب نیلگوں آب از شفق لعلِ مذاب کور را ذوقِ نظر بخشد غروب شام را رنگِ سحر بخشد غروب! بادلِ خود گفتگوہا داشتم آرزو ہا جستجو ہا داشتم آنی و از جاودانی بے نصیب! زندہ و از زندگانی بے نصیب! تشنہ و دور از کنار چشمہ سار می سرودم این غزل بے اختیار (عشق شورانگیز جنونِ شہر سے بے نیاز ہے۔ شہر کے شوروغل میں اس کا شعلہ بجھ جاتا ہے۔ وہ یا تو دشت و کوہسار میں خلوت ڈھونڈتا ہے یا بحرِ بیکراں کے ساحل پر۔ جب میں نے احباب میں کوئی محرمِ راز نہ دیکھا، میں تھوڑی دیر ذہنی سکون کے لیے دریا کے کنارے چلا گیا۔ دریا اور غروبِ آفتاب کا منظر، نیلگوں پانی شفق کے رنگ سے لعلِ سیال بنا ہوا تھا۔ غروب کا منظر اندھوں کو بھی ذوقِ نظر اور شام کو رنگِ سحر عطا کردیتا ہے۔ میں اپنے دل سے باتیں کررہا تھا، میرے اندر آرزوئیں اور امنگیں مچل رہی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ میری زندگی پل بھر کی ہے، مجھے حیاتِ جاودانی نصیب نہیں، اگرچہ میں زندہ ہوں مگر زندگانی سے بے نصیب!) اور اس منظر اور امیجری کا تو جواب ہی نہیں: از متاعش پارۂ دزدیدہ شام کوکبے چوں شاہدے بالائے بام (شام نے غروب ہوتے ہوئے سورج کی متاع سے ایک پارہ اُڑا کر اسے آسمان دنیا کے کنارے پر ستارہ بنا کر یوں روشن کردیا جیسے کوئی محبوبہ لب بام سے جلوہ ارزانی کرتی ہے) دانتے، جہنم، اعراف اور بہشت کے مختلف مراحل و مدارج سے گزرتا ہوا سوئے افلاک روانہ ہوتا ہے جبکہ اقبال کے ہاں یہ تینوں مراحل نہیں ہیں۔ دانتے اور بیاترچے سب سے پہلے فلکِ قمر پہ پہنچتے ہیں۔ جو سب سے نچلا سیارہ ہونے کی وجہ سے زمین کے نزدیک ترین ہے: یہ قمر ہے۔ مجھے ایسا دکھائی دیا کہ ایک پر سکون دبیز، ٹھوس اور روشن بادل نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا جو ہیرے کی طرح سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ اور اس ابدی موتی نے مجھے اپنے اندر اس طرح جذب کرلیا جیسے پانی سورج کی کرنوں کو جذب کرلیتا ہے اور اس میں ایک لہر بھی نہیں اُٹھتی۔ اس فلک پر دکھائی جانے والی ارواح میں جرا ت کا فقدان ہے۔ یہاں دانتے نے کچھ غیر واضح اور پژمردہ چہرے دیکھے۔ پیکاردانامی راہبہ اور صیقلیہ کے بادشاہ فریڈرک دوم کی ماں ایمپریس کانسٹینس۔ بیاترچے، دانتے کو بتاتی ہے کہ یہاں اُن روحوں کا قیام ہے جنہوں نے دنیا میں خدا کی جانب بے توجہی کی اور مادیت کی طرف راغب تھیں۔ اور یہ ہے اقبال کا فلکِ قمر: ایں زمین و آسمان ملکِ خداست این مہ و پروین ہمہ میراثِ ماست! ہم سفر با اختران بودن خوش است در سفر یک دم نیا سودن خوش است تاشدم اندر فضاہا پے سپر آنچہ بالا بود، زیر آمد نظر تیرہ خاکے برتر از قندیلِ شب! سایۂ من برسرِ من اے عجب! ہر زمان نزدیک تر نزدیک تر تا نمایاں شد کہستانِ قمر گفت رومی ’’از گمانہا پاک شو خوگرِ رسم و رہِ افلاک شو ماہ از ما دور و باما آشناست ایں نخستیں منزل اندر راہِ ماست دیر و زودِ روزگارش دیدنی است غارہائے کوہسارش دیدنی است‘‘ آن سکوت، آں کوہسارِ ہولناک اندرون پُرسوز و بیرون چاک چاک صد جبل از خافطین و یلدرم بر دہانش دود و نار اندر شکم از درونش سبزۂ سر بر نزد طائرے اندر فضایش پر نزد ابرہا بے نم، ہوا ہاتند و تیز بازمینِ مردۂ اندر ستیز عالمے فرسودۂ بے رنگ و صوت نے نشانِ زندگی دروے نہ موت! (ستاروں کا ہم سفر ہونا اور سفر میں ذرا آرام نہ کرنا باعثِ مسرت ہے۔ جب میں فضاؤں میں مصروفِ سفر ہوا تو جو کچھ بالا تھا وہ نیچے نظر آیا۔ تاریک خاک (زمین) رات کی قندیل سے برتر (دکھائی دی) اے عجب! میرا سایہ میرے سر پر تھا۔ ہم ہر لحظہ فلکِ قمر سے نزدیک ہوتے گئے، یہاں تک کہ اس کے پہاڑ نظر آنے لگے۔ رومیؒ نے کہا: اب ہر قسم کے وہم و گمان کو دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو عالمِ بالا کی زندگی کا عادی بنالو۔ اب ہم کرہ ارض سے نکل کر کرہ قمر میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ غار قابلِ دید ہیں۔ یہ خافطین اور یلدرم ہیں (فرضی نام)۔ یہاں دھواں ہے اور آگ نہ سبزہ ہے نہ پرندے۔ خشک بادل ہیں اور تندوتیز ہوائیں۔ یہاں نہ رنگ ہیں نہ ہوائیں، نہ زندگی نہ موت۔ بس خشک اور ویران پہاڑ اور زمین مردہ سی!) اس فلک پر ہندو سادھو و شوامتر (جہاں دوست) کے علاوہ گوتم بدھ، زرتشت، حضرت مسیحؑ اور حضرت محمد ا کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی ملتی ہے۔ دوسرے فلک عطارد کی صفتِ خاص ’’انصاف‘‘ ہے۔ یہاں دانتے نے مقرب فرشتوں کے علاوہ فعال زندگی کی متمنی ارواح کو دکھایا ہے جن میں زیادہ تر رومی اور یونانی شخصیات ہیں۔ رومی شخصیات میں رومی شہنشاہ جسٹینین (Justanian) کو دکھایا ہے۔ اس شہنشاہ کا عہد ۵۲۷ء تا۵۶۵ء کا ہے۔ اس نے سلطنتِ روما کو ایک نیا قانون دیا۔ سلطنت کو زوال و انتشار سے بچایا اور قانون و انصاف کی حکمرانی قائم کی۔ اس بادشاہ کو دانتے نے شاہین کا روپ دے کر لاہوتی، انصاف کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ دانتے اُس سے سوال کرتا ہے کہ ’’خدا باپ‘‘ مجسم کیوں ہوا؟ جسٹینین اس کا مفصل جواب دیتا ہے: جب تک خدا انسان کو مفت معافی نہ دیتا، دونوں میں اتحادِ روحانی کی کوئی صورت نہ تھی۔ پس خدا خود مجسم ہوکر دنیا میں آیا اور ابنائے آدم کے گناہوں کے بدلے میں مصلوب ہوگیا۔ اس نے گناہوں کا فدیہ ادا کرکے اتحاد کا راستہ ہموار کردیا۔ رومیو (Romeo) کا عہد ۱۱۷۰ء سے ۱۲۵۰ء تک کا ہے۔ وہ کاؤنٹ ریمانڈ بیرینگر چہارم کا ایک دیانتدار اور مخلص وزیر تھا۔ اِن ارواح سے رخصت ہونے کے بعد دانتے کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے، مثلاً حشرِ اجساد کے بارے میں اور یہ کہ عیسائیوں کے گناہوں کی تلافی کا کیا مفہوم ہے؟ جواب میں بیاترچے کہتی ہے کہ عیسیٰؑ کی مصلوبیت کی وجہ سے اُن کی اُمت کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔ حشرِ اجساد کے بارے میں بیاترچے دانتے کو بتاتی: "The angels, brother, and the pure clear country where you are now, may be said to be created just as they are, in their entire being. But the elements which you have named to me and all the things that are compounded from them receive their forms from some created power." (فرشتے، سماوی کرے اور حیاتِ انسانی براہ راست دستِ قدرت کی لافانی تخلیق ہیں لیکن عناصر اور مرکبات جو اس کائنات میں پائے جاتے ہیں براہ راست دستِ قدرت سے تخلیق نہیں ہوتے۔) علامہ اقبال کے فلک عطارد میں صحرا ودریا، بحروبر تو ہیں مگر زندگی کے آثار نہیں۔ اس فلک پر علامہ اقبالؒ نے جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح سے ملاقات کا حال بیان کیا ہے۔ ان سے گفتگو کے دوران دین و وطن کی آویزش، اشتراکیت و ملوکیت کا سحرِ فرنگ اور قرآن کی محکم تعلیمات جیسے موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں۔ فلکِ سوم ’’زہرہ‘‘ جو کہ اعتدال کی علامت ہے اور یونانیوں اور رومیوں کے نزدیک حسن و جمال کی دیوی ہے۔ یہ ناہید، اناہید اور انابیتا وغیرہ جیسے بہت سے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ناہید سے دو فرشتوں کے عشق کے افسانے بھی عام ہیں۔ نغمہ و سرودکی فضا نے اس سیارے میں طلسماتی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس مناسبت سے دانتے نے اس سیارے پر عشق و سرمستی میں سرگرداں اور انصاف کے فقدان کی ارواح کو دکھایا ہے۔ ان میں چارلس مارٹل جو کہ دانتے کا عزیز ترین دوست تھا، چونیز امارسیلز کا فول قوار، جیسے عشاق کے ساتھ ساتھ ری فیئس اور ٹراجن جیسے نصرانی ملحد بھی شامل ہیں۔ علامہ اقبال نے اس فلک پہ ظلمت اور تاریکی کا منظر پیش کیا ہے۔ یہ عالم، آب و خاک سے مرکب ہے، سیاہ غلاف میں ملفوف اس کی فضا تاریک ہے۔ چاروں طرف کہر و دھند چھایا ہوا ہے۔ اس خطہ میں خدایانِ کہن قیام پذیر ہیں۔ میں ان سب کو پہچانتا ہوں بعل، مردوخ، یعوق، نسروفسر وغیرہ۔ ان قدیم خداؤں میں سے ہر ایک اپنے ازسرِنو زندہ ہوجانے کے امکان پر ثبوت لارہا ہے۔ دنیا کی قدیم ترین قوم فنیقیوں کا سب سے بڑا معبود ’’بعل‘‘ جو دنیا کا قدیم ترین دیوتا بھی ہے، اسے علامہ اقبالؒ نے سب باطل خداؤں کا نمائندہ بنایا ہے چنانچہ وہ تمام اقوام کے خداؤں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ عہد بے خلیل اور بے بُت شکن ہے۔ یقین کی جگہ افکارِ پریشاں اور تشکیک نے لے لی ہے۔ مسلمانوں کی وحدتِ ملی پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ہمیں اسلام سے اب کوئی اندیشہ نہیں رہا۔ علامہ اقبالؒ دنیا کے دو فرعونوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ مصر کارعمیسس، جس نے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو نیست و نابود کرنا چاہا لیکن خود بحرِ قلزم کی طوفانی موجوں کا شکار ہوگیا۔ دوسرا فرعون برطانوی استبداد کا نمائندہ لارڈ کشز (کچز) تھا جس نے سوڈانی مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ ان کی روحوں کو زہرہ کے ایک دریا کی تہہ میں دکھایا گیا ہے، دونوں کا انجام سمندر میں غرقابی تھا۔ فلکِ چہارم ’’شمس‘‘ جو کہ عظمت و جلالِ خداوندی کا مظہر ہے اور تحمل جس کی صفت ہے۔ اس سیارے پر مذہبی رہنما، اساتذہ اور مورخین کی ارواح کو دکھایا گیا ہے۔ ان شخصیات میں البرٹ، پیٹرلو مبارو، دائیونی سیس، بی تھیس، بیڈ، ہسپانیہ کا پیٹر، حضرت سلیمانؑ، تھامس ایکوئنس، سینٹ بوناومیثورا وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں حکمت، شجاعت، انصاف اور عفت کی روحیں محورِ قص تھیں۔ انھوں نے شاعر اور اس کی محبوبہ کو خوش آمدید کہا اور ان کے گرد حلقہ باندھ کر رقص کیا اور انھیں ایک آسمانی گیت سنایا۔ رقص و سرود کے اختتام پر تھامس ایکوئنس کی روح نے اپنے متابعین کی اخلاقی اور روحانی پستی کا ماتم کیا۔ اس کے بعد ان کی ملاقات سینٹ فرانسس سے ہوئی۔ آخر میں ان دونوں نے حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں حاضری دی۔ سلام و دعا کے بعد شاعر نے اُن سے دریافت کیا کہ ’’حشر میں جب ارواح واپس اپنے اجسام میں لوٹیں گی تو کیا اُن کی قوت محدود نہیں ہوجائے گی؟‘‘ جناب سلیمانؑ نے جواب دیا: ’’جسم اور روح دونہیں ہیں۔ جسم بھی روح ہی کی ایک شکل ہے۔‘‘ بیاترچے حضرت سلیمانؑ سے ان ستاروں کے درجاتِ تنویر کے متعلق سوال کرتی ہے جو انھیں موت کے بعد حاصل ہوئے ہیں، تو حضرت سلیمانؑ عنایت، مشاہدہ، پیار اور تابانی کا باہمی تعلق اس پر واضح فرماتے ہیں۔ اسی اثنا میں روشنی کا ایک دائرہ سیاروں کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی دانتے اپنی محبوبہ کے ساتھ مریخ پر پہنچ جاتے ہیں۔ علامہ کے ہاں فلکِ شمس کے بارے میں خاموشی ہے۔ دانتے کا فلک پنجم ’’مریخ‘‘ قوتِ خداوندی کا مظہر ہے اور حوصلہ جس کی صفت ہے۔ اس فلک پر ماہرینِ حرب دکھائے گئے ہیں جن میں جوشوا، شارلی مان رولینڈ، ولیم آف اوریخ کے علاوہ ۱۱۵۲ء کے زمانہ میں صلیبی جنگ میں ہلاک ہونے والے اشخاص کی ارواح کو دکھایا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے فلک مریخ کے شب و روز کرہِ ارض سے یکسر مختلف ہیں: اس کا عالم بھی ہمارے جہاں کی طرح ہے۔ یہاں بھی شہرودیار اور کاخ وکو ہیں۔ یہاں کے باشندے ہم سے زیادہ عقل مند اور ماہر فنون ہیں۔ زمین کے باشندوں پر تومادیت غالب ہے مگر یہاں کے باشندوں پر مادیت کے بجائے روحانیت کا غلبہ ہے۔ اس لیے یہ لوگ عناصر (مادیت) پر حکمران ہیں۔ زمین کے باشندوں کا وجود جان و تن سے مرکب ہے مگر مریخی یک اندیش ہیں یعنی ان کا تن ان کی روح کے تابع ہے۔ اہلِ مریخ موت و حیات کی حقیقتوں سے واقف ہیں، چنانچہ جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو وہ ایک دو روز پہلے ہی اپنی موت کا اعلان کردیتا ہے اور مرتے وقت اپنے جسم کو اپنی روح میں جذب کرلیتا ہے۔ اس فلک پر علامہ کی ملاقات حکیم مریخی سے ہوتی ہے اور دیگر باتوں کے علاوہ جبروقدر(تقدیر اور تدبیر) پر مکالمہ ہوتا ہے۔ یہاں علامہ نے ’’مرغدینِ برخیا‘‘ کے ایک خیالی خطہ کی تفصیل بیان کی ہے جس کی سیر کے دوران میں انھوں نے دیکھا کہ اس شہر کی عمارات بہت بلند ہیں۔ اس کے باشندے خوبرو، نرم خو، سادہ پوش اور شیریں مقال ہیں۔ وہ آفتاب کے نور سے کیمیا سازی کے ذریعے حسب ضرورت زرومال حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کے ہاں علم و فن کا مقصد دولت کا حصول نہیں بلکہ تمام لوگوں کی خدمت ہے۔ وہ درہم و دینار کے پجاری ہیں نہ مشینوں کے غلام۔ وہاں کوئی جاگیردار ہے نہ ہی سرمایہدار۔ کسان مسروروشادمان ہیں۔ وہاں پولیس، افواج، اسلحہ، جنگ وجدل، کذب و دروغ پہ مبنی ادب و صحافت، بیکاری و عریانی، سوال و سائل، حاکم و محکوم، آقا و غلام سب عنقا ہیں۔ غرضیکہ اقتصادی، سیاسی، سماجی اعتبار سے مرغدین کا معاشرہ بھی برطانوی ادیب ’’تھامس مور‘‘ (المقتول، ۱۵۳۵ئ) کے سفر نامے یوٹوپیا کاسا ایک یوٹوپیائی، مثالی اور آئیڈیل معاشرہ ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک ایک فلاحی اسلامی ریاست کا معاشرہ ایسا ہی ہوتا ہے جس کی تصویر کشی مرغدینی معاشرے کی صورت میں کی گئی ہے۔ اس فلک پر دو شیزۂ مریخ کو دکھایا گیا ہے جو درحقیقت مغربی عورت کی تمثیل ہے۔ اقبالؒ نے ایک تجرد پسند عورت کی زبان سے جو ’’نبیۂ مریخی‘‘ ہونے کی دعوے دار ہے، یورپ کی عورتوں کی بے راہروی پر تنقید کی ہے۔ دانتے کا چھٹا فلک ’’مشتری‘‘ جبروت کا مظہر ہے اور اس کی صفت انصاف ہے۔ یونانی اور رومی اسے رب الارباب کی حیثیت دیتے ہیں۔ یہاں دانتے کی ملاقات اُن شخصیات سے ہوئی جنہوں نے دنیا میں انصاف کا بول بالا کیا۔ ان میں حضرت سلیمانؑ اور اُن کے والد حضرت داؤدؑ، حزیقیہ تراجن، کانسٹینٹائن، ولیم آف سسلی اور رے پی آس ہیں۔ جنابِ داؤدؑ اور جناب سلیمانؑ بڑے اُولوالعزم پیغمبر تھے۔ تراجن (پ:۵۲ئ) ۹۸ء سے ۱۱۷ء تک روم کا ہر دلعزیز حکمران رہا۔ اسی طرح انصاف و عدل برقرار رکھنے والا ایک اور حکمران کانسٹینٹائن (۲۷۲ء تا ۳۳۷ئ)، جسے قسطنطین بھی کہتے ہیں اور جو قسطنطنیہ یا استنبول کا بانی ہے۔ اس کا عہد ۳۰۶ء سے ۳۳۷ء تک کا ہے۔ ولیم صیقلیہ (سسلی) اور نیپلز کا ۱۱۶۶ء تا ۱۲۰۹ء تک حکمران رہا۔ رعایا نے اُسے ’’نیک‘‘ کا لقب دے رکھا تھا۔ اسی طرح رے پی آس ٹرائے کا ہیروتھا جو ایک محاصرے کے دوران مارا گیا۔ حضرت داؤدؑ کو شاہین کی صورت میں دکھایا گیا ہے اور دیگر مذکورہ بالا حکمرانوں کو آپؐ کی آنکھ پرابرو کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ علامہ کا فلکِ مشتری ایک ناتمام خاکدان ہے۔ اس کے گرد قمرطواف کرتے ہیں ؎ آں جہاں آں خاکدانے ناتمام در طوافِ اُو قمر ہا تیز گام وہاں ان کی ملاقات اسلام کی تین ایسی جلیل القدر ’’ملحدین اور زندیقین‘‘ ہستیوں سے ہوتی ہے جو اپنے آدرشوںمیں سچی اور کھری تھیں۔ انھوں نے سرخ عبائیں پہن رکھی تھیں۔ سوزدروں سے ان کے چہرے تابناک تھے اور ان کے سینوں میں فروزاں آگ زندگی کی علامت تھی۔ شہید صداقت ہوکر عشق کو لازوال روحانیت بخشنے والی یہ عظیم ہستیاں تھیں، حسین بن منصور حلاج، غالب اور قراۃ العین طاہرہ ؎ غالب و حلاج و خاتونِ عجم شور ہا افگندہ در جانِ حرم این نواہا روح را بخشد ثبات گرمیِ اُو از درونِ کائنات فلکِ مشتری سعادت کی وجہ سے ’’السعد الاکبر‘‘ کہلاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ان تین عاشقانِ جلیل کو بود و نبود، تقدیر، انبیا اور ابلیس کے عمیق ترین اسرار و رموز کے بارے میں گفتگو کرتے دکھایا ہے جس میں زیادہ تر گفتگو حلاج کی زبانی ہے۔ علامہ کی نظر میں ہرسہ افراد کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا اس لیے انھوں نے ان کی ارواح کو ’’ارواحِ جلیلہ‘‘ کا لقب دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ان کی ارواح نے جنت میں رہنا پسند نہیں کیا بلکہ ’’گردشِ جاویدان‘‘ اختیار کی۔ دانتے اپنی رہنما کے ساتھ ساتویں سیارے زحل میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں مفکرین اور راہبوں کی ارواح رہتی ہیں جو روشنی کے روپ میں ایک سنہری زینہ جسے ’’زینۂ یعقوب‘‘ بھی لکھا گیا ہے، کے گرد اکٹھی ہیں۔ یہ ارواح پیٹروامیان، بیبڈکٹ، مارکریس اور روموالڈوس وغیرہ کی ہیں۔ ان ارواح کا تعارف ڈور تھی سیرز (Dorothysayers) کے الفاظ میں یوں کرایا جارہا ہے: And the most brilliant and magnificent of those bright pearls came forward from its cluster to make constant my wish concerning it. Here is Macarius, here is Romualdus. Here are my brothers who kept steadfast heart and planted their feet with in the cloister walls. اسی فلک پر دانتے نے غدارانِ ملت، موقع پرست، ابن الوقت اور غدار لوگوں کو دیکھا ہے۔ ان کے بارے میں وہ لکھتا ہے: The high creator scourged them from Heaven for its perfect beauty, and Hell will not receive them since the wicked, might feel some glory over them, "And I: "Master, what gnaws at them so hideously their lamentation turns the very air?" "They have no hope of death," he answered me, and in their blind and unattaining state their miserable lives have sunk so low that they must envy every other fate. No word of them survives their living season, Mercy and justice deny them even a Name, Let us not speak of them: look, and pass on. (Translation: John Gardi) عقوبت کا یہ عالم تھا کہ خلاقِ ازل نے ان کو جنت کے قریب ہوکر گزرنے کی اجازت بھی نہ دی، کہاں جنت کا حسن روح پرور اور کہاں بدصورتی وہ جونہاں ان کے عمل میں تھی، دوزخ نے بھی ان روحوں کو لینے سے انکار کیا کہ ان کے واسطے اس کا بھی دامن تنگ ہی نکلا، یہ پوچھا میں نے مرشد سے، میرے آقا! یہ کیسا گھن ہے جو ان کی روح کو لگتا ہے ا ور ان کو مائلِ فریاد کرتا ہے، اور پھر فریاد بھی ایسی کہ جس سے ہے فضا میں چار جانب کپکپی طاری، تو مرشد نے فرمایا کہ یہ روحیں وہ روحیں ہیں، جنہیں لینے سے عزرائیل بھی انکار کرتا ہے، یہ روحیں زندگانی سے تو تھیں مایوس پہلے ہی مگر اب موت سے بھی ان کو یکسرنا امیدی ہے، یہ ابن الوقت یہ موقع پرستانِ ازل، اس طرح اندھے ہیں، گرے ہیں ایسی پستی میں کہ اس عالم میں بھی ایک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں اور ان کی آرزویہ ہے کہ، حق ایک دوسرے کا مارلیں گر بس چلے ان کا، زمانے کا بس یہی فیصلہ ہے ان کے بارے میں کہ ان کا نام تک بھی دہر میں باقی نہ رہ جائے، حقارت رحم کو ان سے، ہے نفرت عدل کو ان سے، تقاضا اس لیے دونوں کا، علم و عقل کا یہ ہے کہ ان کا نام تک، ان کا نشان تک ختم ہوجائے مناسب اس لیے یہ ہے کہ ہم بھی بات کو بدلیں ان ارواحِ رذیلہ کے بیان کو چھوڑ دیں ہم بھی، وہ دیکھو سامنے، آگے بڑھو! فلکِ زحل کے بارے میں پیرِ رومی، زندہ رود (علامہ اقبال) سے کہتے ہیں: یہ نہایت منحوس فلک ہے۔ یہاں نیکی بھی بدی میں بدل جاتی ہے۔ یہاں رحمت کے بجائے ہر وقت خدا کا قہرنازل ہوتا رہتا ہے یہ فلک اُن ارواحِ رذیلہ کا مسکن ہے جنہیں دوزخ نے بھی قبول نہیں کیا۔ فلکِ زحل کو ستارہ شناس نحسِ اکبر بتاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی یہاں غدارانِ وطن کو مبتلائے عذاب دکھایا ہے۔ آنچہ دیدم می نگنجد در بیان تن زسہمش بے خبر گردد زجاں! من چہ دیدم؟ قلزمے دیدم زخوں! قلزمے، طوفاں بروں، طوفاں دروں! در ہوا ماراں چو در قلزم نہنگ کفچہ شب گوں بال و پر سیماب رنگ! موجہا درّندہ مانندِ پلنگ! از نہیبش مردہ بر ساحل نہنگ! بحرِ ساحل را اماں یک دم نداد ہر زماں کُہ پارۂ در خوں فتاد موجِ خوں باموجِ خوں اندر ستیز درمیانش ز ورقے در اُفت و خیز! اندراں ز ورق دو مردِ زرد روے زرد رُو، عریاں بدن، آشفتہ موے! (میں نے جو دیکھا، وہ بیان نہیں ہوسکتا۔ اس کے خوف سے جسم روح سے بے خبر ہوجاتا ہے۔ دیکھا کیا؟ ایک خون بھر اسمندر۔ اس کے اندر اور باہر بھی طوفان۔ اس کی فضا میں سانپ ایسے ہی تھے جیسے سمندر میں مگر مچھ ہوتے ہیں۔ ان پرواز کرتے سانپوں کے بازو سیاہ اور پرسفید تھے۔ اس سمندر کی موجیں چیتوں کی سی درندگی لیے ہوئے تھیں کہ ان کے خوف سے مگر مچھ ساحل پر ہی دم توڑ دیں۔ ساحل، سمندر سے مل گیا تھا اور ہر لخطہ چٹانیں سمندر میں جاگرتی تھیں۔ اس خون آلود سمندر کی موجیں متصادم تھیں اور ان کے بیچ ایک کشتی اُفت و خیز میں مبتلا تھی۔ اس کشتی میں دو شخص بیٹھے ہوئے تھے، اُن کے چہرے زرد، جسم عریاں اور بال پریشان تھے۔) یہ تھے میر جعفر اور میر صادق۔ میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے بے وفائی کی اور میر صادق نے ٹیپو سلطان سے۔ ان دو طاغوتوں کی وجہ سے ایک قوم فنا ہوگئی۔ ان کا وجود آدم، دین اور وطن کے لیے بلاشبہ باعث شرم ہے۔ ؎ جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن پھر روح ہندوستان ایک حسین اور خوش لباس حور کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور اپنی غلامی پر نوحہ و فریاد کرتی ہے کہ اہلِ ہند جذبۂ حب الوطنی سے بے بہرہ ہیں۔ وہ رسوم و قیود میں جکڑے ہوئے ہیں اور ملی غیرت و خودی سے عاری ہیں۔ وہ تمام غداروں کی دہائی دیتی ہے ؎ الاماں از روحِ جعفر الاماں الاماں از جعفرانِ ایں زماں یہ فریاد اتنی درد ناک ہے کہ جہنم بھی ان غداروں کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے چنانچہ یہ غدار روحیں مایوسی و نااُمیدی کے عالم میں کہتی ہیں ؎ ایں جہاں بے ابتدا بے انتہا ست بندۂ غدار را مولا کُجا ست گرچہ ہے بے ابتدا، بے انتہا اپنا جہاں! لیکن اس میں بندۂ غدار کا مولا کہاں؟ اس کے بعد یکایک اس قلزم خونی میں ایک ہولناک طوفان برپا ہوتا ہے اور وہ کشتی اس میں غرق ہوجاتی ہے۔ دونوں شعرا ستم شعاروں اور متشدد لوگوں سے نفرت کرتے تھے تاہم نظام معاشرہ اور طرز سیاست میں دونوں میں واضح تضاد ہے۔ دانتے ملوکیت کا حامی تھا جبکہ اقبالؒ اس طرزِ حکومت کے سخت ناقد تھے۔ دانتے کا اس سے اگلا مقام ثوابت کا ہے جو ثباتِ خداوندی کا مظہر اور اعتدال کی صفت سے موصوف ہے۔ جہاں مسیحؑ کے علاوہ حضرت مریم ؑ، حضرت آدمؑ، حضرت یحییٰؑ، سینٹ پیٹر، سینٹ جیمز وغیرہ کی ارواح ہیں۔ اس مقام کی آخری سیڑھی پر جناب یسوع مسیحؑ اور حضرت مریم ؑ براجمان تھے۔ ان دونوں نے پیٹر، جیمز اور جان کو حکم دیا کہ وہ شاعر کا امتحان لیں۔ چنانچہ انھوں نے ایمان، اُمید اور محبت کے متعلق چند سوالات کیے جن کے شاعر نے تسلی بخش جواب دیے چنانچہ یسوع مسیحؑ نے اُن کے لیے دعائے برکت کی۔ نویں منزل پہ عشقِ خداوندی کے مظہر فرشتہ سیرافیم سے دانتے کی ملاقات ہوتی ہے۔ دانتے کی آخری منزل فلک الافلاک ہے۔ یہ عالمِ لاہوت ہے۔ زمان و مکان کی قیود سے آزاد اس مقام پر بیاترچے جلالِ ایزدی کی فضا میں چلی جاتی ہے اور روحانی فراست و وجدان کا مظہر سینٹ برنارڈ، بیاترچے کی جگہ لے لیتا ہے۔ دانتے یہاں مسیحؑ اور مریمؑ کے دیدار سے بہرہ یاب ہوتا ہے اور آخر پہ دیدار خداوندی سے مستنیر ہوتا ہے۔ جب وہ اُلوہیت کی تجلی دیکھتا ہے تو پہلی بار دور سے اسے خدا ایک درخشاں نقطہ دکھائی دیتا ہے، جس سے ایسی تیز روشن کرنیں پھیلتی ہیں کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں اور انھیں بند کرنا پڑتا ہے اور اس نقطۂ درخشاں کے گرد ایک منور دائرہ اتنی تیزی سے گردش کررہا ہے کہ جس کی رفتار کی پیمائش ناممکن ہے: Except that then my mind was struck by lightening Through which my longing was at last fulfilled. Here powers failed my high imagination But by now my desire and will were turned, Like a balanced wheel rotated evenly. By the love that moves the sun and the other stars. دانتے جب تجلی جلال و جمال کو نزدیک سے دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے: ’’اے لامتناہی الطافِ الٰہی! جس کی وجہ سے میں نے اس ابدی جمال سے آنکھیں سینکیں، اتنی دیر تک کہ گویا میری بصارت جاتی رہی اور اس کی گہرائیوںمیں، میں نے دنیا کے بکھرے ہوئے شیرازوں کو ایک جلد میں مجلد دیکھا، جوہر اور عرض اور ان کی خصوصیتیں اس طرح ایک دوسرے سے گھل مل گئیں کہ دیکھنے میں واحد شعلہ نظر آتا تھا۔‘‘ علامہ اقبال کی آخری منزل آنسوئے افلاک ہے۔ یہی اعراف بھی ہے اور بہشت بھی اور یہی عالم لاہوت بھی ہے، زمان و مکان کی قیود سے آزاد۔ دانتے کے برعکس اقبال ذاتِ واجب الوجود کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمکالمہ کرتے ہیں اور مختلف مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں، کہتے ہیں: میں جنت سے تنہا روانہ ہوا اور میں نے اللہ کا نام لے کر اپنی جان کی کشتی نور کے سمندر میں ڈال دی۔ میں جمالِ ذات کے تماشہ میں مستغرق ہوگیا۔ جو ہرزمان در انقلاب اور لایزال ہے۔ کارکنانِ قضاوقدر نے میری جان کے سامنے ایک آئینہ آویزاں کردیا۔ اپنا ہی دیدار کرنے کے بعد مجھ پر حیرت و یقین کی کیفیت طاری ہوگئی۔ پیشِ جاں آئینۂ آویختند حیرتے را بایقیں آمیختند اور مجھ پہ یہ حقیقت بھی منکشف ہوگئی کہ دراصل حق تمام حجابات کے باوجود ظاہر ہورہا ہے اور میری نگاہ سے اپنا دیدار کررہا ہے۔ حق ہویدا باہمہ اسرار خویش بانگاہِ من، کند دیدار خویش اقبال کہتے ہیں کہ جب میں دیدار سے مشرف ہوچکا تو بارگاہِ ایزدی میں عرض کی: اے خدا! تیرے وجود سے ہی دونوں عالم (ارضی و فلکی) منور ہیں۔ ذرا اس دنیا کے حالِ زار پر بھی ایک نگاہ کر! تیری یہ دنیا تیرے بندوں کے لیے قطعاً ناساز گار ہے کیوں کہ اس کے گل سنبل سے کانٹے اُگے۔ دنیا کے غالب اور امیر لوگ عیش و عشرت میں محو ہیں اور مغلوب و غریب دن رات گن گن کر کاٹ رہے ہیں۔ خدایا! ملوکیت نے تیرے جہان کو خراب کردیا اور آفتاب کے نور کے باوجود یہاں تاریک رات ہی ہے۔ مغربی علوم اور سائنس سراپا غارت گری ہیں۔ حیدرؓ کے وجود کے فقدان سے بت خانے خیبر بنے ہوئے ہیں۔ لا الہ الا اللہ کہنے والا زار و بدحال ہے۔ نفاق اور لامرکزیت سے اس کی فکر پر اگندہ ہورہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ چار قسم کی اموات اس سخت جاں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں، سود خوار، حکمران، جامد مُلا اور جاہل پیر۔ ذات حق کی بارگاہ سے جواب ملتا ہے: ہر کہ او را قوتِ تخلیق نیست نزد ما جز کافر و زندیق نیست ہر وہ شخص جس میں نئی دنیا پیدا کرنے کی قوت نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک کافر اور زندیق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ زندہ رود عرض کرتا ہے کہ مسلمانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی صورت کیا ہے؟ جواب ملتا ہے کہ اگر مسلمان توحید پر عمل کریں تو احیا ہوسکتا ہے۔ زندہ رود سوال کرتا ہے کہ: میں کون ہوں؟ تو کون ہے؟ یہ عالم کہاں ہے؟ تیرے میرے بیچ دوری کیوں ہے؟ میں پابندِ تقدیر ہوں، تو لافانی اور میں فانی ہوں ذرا بتا تو سہی! بارِ گاہ ایزدی سے جواب ملتا ہے: جو شخص کائنات میں غرق ہوجاتا ہے۔ انجامِ کار مرجاتا ہے۔ اگر تو حیاتِ ابدی کا آرزو مند ہے تو اپنی خودی کو مستحکم کرلے تو کائنات تجھ میں سما جائے گی اور جب تو زمان و مکاں پہ غالب آجائے گا تو دیکھے گا کہ تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ اب زندہ رود خدا سے آخری التجا کرتا ہے کہ اے خدا! مجھے میری اور شرق و غرب کی تقدیر سے آگاہ کر دے۔ اس التجا کے جواب میں جلالِ ایزدی کی تجلی ہوتی ہے۔ زندہ رود غش کھاکر گرپڑتا ہے اور اسے بس اتنا ہی معلوم ہوسکا کہ وہ زیرِ فلک اپنی ہی زمین پر ہے، عالم سرخ اور تابناک ہورہا تھا اور اس کے ضمیر سے ایک ’’نوائے سوزناک‘‘ سنائی دے رہی تھی کہ ؎ بگذر از خاور و افسونیِ افرنگ مشو کہ نیر زد بجوئے این ہمہ دیرینہ و نو آن نگینے کہ تو با اہر منان باختہٖ ہم بجبریلِ امینے نتوان کرد گرو! زندگی انجمن آرا و نگہبان خود است اے کہ در قافلۂ بے ہمہ شو باہمہ رو تو فرد زندہ تر از مہرِ منیر آمدہٖ آنچنان زی کہ بہرِ ذرّہ رسانی پر تو! چون پرکاہ کہ در رہگذر باد فتاد رفت اسکندر و دارا و قباد و خسرو از تنک جامی تو میکدہ رسوا گردید شیشہ گیر و حکیمانہ بیا شام و برو! (مشرق سے گزرجا اور فرنگیوں کے جادو کا اثر بھی نہ لے کیونکہ یہ دونوں پرانے اور نئے ایک جَو کے برابر قیمت نہیں رکھتے۔ اس نگینے (دل) کو جسے تو شیطانوں سے ہارچکا ہے جبریل امین کے پاس بھی گروی نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ تو اپنے بل بوتے پر سب کے ساتھ وابستہ رہ کے اس طرح زندگی گزار کہ دوسروں کا دستِ نگر نہ بن بلکہ اپنی ضروریات اپنے قوتِ بازو سے حاصل کر، یہی گویا تیری تقدیر ہے۔ تو روشن اور روشنی دینے والے سورج سے بھی زیادہ روشن ہے۔ اس طرح زندگی بسر کر کہ تو ہر ذرہ تک اپنی روشنی پہنچائے۔ اس تنکے کی مانند جو ہوا کے راستے میں پڑا ہو یونان کا سکندر بادشاہ اور ایران کے دارا، قباد اور خسروبادشاہ (بادِ فناسے) اُڑ گئے۔ میرے پیالے کی تنگی سے مے خانہ کی رسوائی ہوگئی۔ مٹکا اُٹھا اور عقل مندوں کی طرح پی جا۔) جاویدنامہ میں اقبال نے سات سیارگان میں سے چھے کی سیاحت پر ہی اکتفا کی اور دوزخ اور اعراف کے قریب بھی نہیں گئے۔ اقبال ساتویں سیارے میں جانے کی بجائے ’’آنسوئے افلاک‘‘ پہ جانکلتے ہیں اس سے مقصود جنت اور حضور و تجلی کے نئے تصورات و معانی کو پیش کرنا ہے۔ دانتے کا ’’کاخِ بریں‘‘ اور اقبال کا ’’آنسوئے افلاک‘‘ ایک ہی صورت کے دو پر تو ہیں۔ ابلیس، دانتے اور اقبال دونوں کے سفرِ علوی کی راہ میں آتا ہے۔ دانتے کے یہاں دوزخ میں اور اقبال کے ہاں دوزخ کے بغیر، مگر ہر دو شعرا کا نظریۂ ابلیس الگ الگ ہے۔ دانتے کا ابلیس ایک مہیب، وحشت انگیز، بدنما اور مکروہ صورت لیے جہنم کے مرکز میں معصیت کے تمام دریاؤں کے دھارے میں کمرتک برف میں دھنسا ہوا ہے۔ اس کے تین مختلف روپ ہیں اور وہ گنہگاروں کو پکڑ کر چیرے پھاڑے چلا جارہا ہے ابلیس کی یہ بھیانک تصویر دانتے کے ترجمے کی صورت میں جان کیارڈی نے ان الفاظ میں پیش کی ہے: "On march the banners of the king of Hell" My master said, "Towards us look straight ahead, can you make him out at the core of the frozen shell?" Like a whirling windmill seen a far at twilight, Or when a mist has risen from the ground just such an engine rose upon my sight Stirring up such a wind and bitter wind I covered for shelter at my master's back, their beeing on other windbreak I could find when we had gone so far across the ice that it pleased my guide to show me the foul creature which once had worn the grace of Paradise. تاج دار جہنم کے پرچم ہماری طرف بڑھ رہے ہیں، نظر سامنے رکھو اپنی اگر تاجدارِ جہنم کو پہچاننا ہے، جس طرح سانس لیتی ہوئی دھند اُٹھے زمین سے اور یا جھٹپٹے میں تند جھونکوں سے چلتی ہوئی لمبے لمبے پروں کا سہارا لیے کوئی چکی کہیں دور سے اپنی صورت دکھائے، اسی طرح سے ایک پیکرِ مہیب اور بھیانک مرے روبرو تھا اس کے پروں کی بدولت جو پھڑپھڑاہٹ کے عالم میں تھے ہوا اس قدر تیز اور کاٹتی چل رہی تھی کہ میں کوئی ٹھکانہ نہ پاکر معاً چھپ گیا پشت مرشد کے پیچھے جب اس برف سے دور میں اور میرا مرشد ایک ایسی جگہ آگئے جہاں میرے مرشد نے مجھ کو بتایا کہ وہ دیکھ گندا، نجس، نفرت انگیز پیکر جو کبھی صاف ستھرا تھا، اُجلا تھا، بے عیب تھا، خوش آئند تھا، خوش نما تھا، حسین تھا۔ اقبالؒ کا ابلیس ایک باعمل شخصیت ہے جو قوتِ محرکہ سے لبریز، جدوجہد کا مظہر، روشنی، گرمی اور حرکت میں غلطاں، سراپا شعلہ اور خواجۂ اہلِ فراق ہے۔ اور دانتے کی نسبت ابلیس کا یہ تصور بہت انوکھا اور منفرد ہے۔ اقبال نے ابلیس کو ’’خواجہ اہلِ فراق‘‘ کا نام دیا ہے۔ خواجہ اہلِ فراق کوئی طنزی یا تحقیری لقب نہیں ہے بلکہ اقبال کے دل میں اس ’’کافر ثابت قدم اور شائق سوزِ فراق‘‘ سے بہت ہمدردی ہے۔ انھوں نے اسے فلسفہ فراق کا مبلغ بناکر اس لیے پیش کیا ہے کہ خودی کے قیام کے لیے خدا کی ذات سے انسان کا فراق تا ابد ضروری ہے۔ ابلیس کی گفتگو میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریۂ ارتقا کا اہم جزو ہیں۔ فلکِ مشتری پر جہاں رومی اور اقبال کی ملاقات حلاج، غالب اور قراۃ العین سے ہوتی ہے اور اقبال حلاج کے روبرو اپنے دل کی تڑپ بیان کرتے ہوئے عبدہ‘، دیدارِ رسولؐ، دیدارِ حق، فرقِ زاہد وعاشق اور معرفت کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو اسی دوران وہ ابلیس کے متعلق حلاج سے کہتے ہیں: کچھ اس کے حال سے مجھے آشنا کر جس نے اپنے آپ کو آدم سے بہتر قرار دیا اور جس کے جام و خم میں اب نہ مے باقی ہے اور نہ تلچھٹ۔ ہم انسانوں کی مشتِ خاک تو گردوں آشنا ہوگئی ہے اس بے سرو و ساماں کی آگ کس عالم میں ہے؟ تو حلاج جواب دیتا ہے: کم بگو زاں خواجۂ اہلِ فراق تشنہ کام و از ازل خونیں ایاق ما جہول او عارف بود نبود کفر او ایں راز را بر ما کشود از فتادن لذّتِ برخاستن عیش افرزودن ز درد کاستن عاشقی در نارِ او وا سوختن سوختن بے نارِ او ناسوختن زانکہ او در عشق و خدمت اقدم است آدم از اسرار او نا محرم است چاک کن پیراہنِ تقلید را تا بیا موزی از و توحید را (اس خواجہ اہلِ فراق کی بات نہ کر۔ وہ ازل سے تشنہ کام ہے اگرچہ اس کا پیالہ خونیں شراب سے پُر ہے۔ ہم جاہل ہیں اور وہ ہستی و نیستی سے واقف ہے۔ اس کے انکار نے ہم پر یہ راز واضح کیا۔ اُٹھنے کی لذت گرنے ہی سے ہے۔ بڑھنے کا لطف کھودینے کے درد ہی سے ہے۔ اس کی آگ میں جلنا عاشقی ہے اور اس کی آگ کے بغیر جلنا نہ جلنے کے برابر ہے۔ کیونکہ وہ عشق اور عبادت میں آدم سے قدیم تر ہے اس لیے آدم اس کے اسرار سے نامحرم ہے۔ تقلید کا پیرہن چاک کرتا کہ اس سے توحید سیکھ سکے۔) رومیؒ کی زبانی علامہ نے ابلیس کا سراپا یوں بیان کیا ہے: کہنۂ، کم خندۂ، اندک سخن چشم اُو بینندۂ جاں در بدن! رند و ملا و حکیم و خرقہ پوش درعمل چوں زاہدانِ سخت کوش فطرتش بیگانۂ ذوقِ وصال زہدِ او ترکِ جمالِ لا یزال! تا گسستن از جمال آساں نبود کار پیش افگند از ترکِ سجود اندکے در وارداتِ او نگر مشکلات او ثباتِ او نگر! غرق اندر رزمِ خیر و شر ہنوز صد پیمبر دیدہ و کافر ہنوز (وہ بوڑھا، سنجیدہ اور کم سخن تھا مگر اس کی نظر بدن میں روح میں دیکھنے والی تھی۔ وہ رند، ملا، حکیم و فلسفی، خرقہ پوش، صوفی اور عمل و عبادت میں سخت کوش زاہدوں کا سا تھا۔ اس کی فطرت ذوق وصال سے ناآشنا تھی۔ جمال لایزال سے فراق اختیار کرنا اس کا زہد تھا۔ چونکہ جمالِ ایزدی سے انفصال ممکن نہ تھا اس نے انکارِ سجدہ سے اسے طے کیا۔ ذرا اس کی وارداتوں کو دیکھ۔ اس کی مشکلوں اور اس کی ثابت قدمی کو دیکھ۔ وہ اب بھی خیروشر کے معرکے میں مصروف ہے۔ صدہا پیغمبر دیکھے اور اب بھی کافر ہے۔)۴۷؎ دانتے کے ہاں جابجا منظر نگاری کا کمال نظر آتا ہے۔ اقبال کے ہاں منظر نگاری کی مثالیں مقابلتاً کم ہیں لیکن جس قدر ہیں اپنی مثال آپ ہیں۔ لارڈ کچز اور فرعون کی دریائے زہرہ میں موجودگی فلکِ زہرہ پر خون کے دریا میں جعفر و صادق کی حالتِ زار اور آنسوئے افلاک، شاہانِ مشرق کے جاہ و جلال کا منظر اس نوع کی چند مثالیں ہیں۔ اقبال نے منظر نگاری کے بجائے اپنی توجہ زیادہ تر حقائق نگاری پر مبذول رکھی ہے لیکن اس کے باوجود جاویدنامہ محاکات کے محاسن سے خالی نہیں۔ اقبال جن لوگوں کو جہنم میں دکھانا چاہتے تھے انھیں فلک زحل کے ایک قلزم خونیں میں مبتلائے عذاب دکھاتے ہیں۔ اور وہ لوگ فی الواقع اس عذاب کے مستحق تھے۔ جن لوگوں سے دانتے کو نفرت تھی انھیں اس نے دوزخ میں دکھایا ہے۔ اور اس میں اس کی واضح عصبیت جھلکتی ہے۔ ہومر سے لے کر ابن رشد تک اس کا ہر ناپسندیدہ فلسفی اور شاعر اور سیزر سے لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی تک ہر سپہ سالار جہنمی ہے۔ جب وہ جہنم کی ڈھلوانوں سے گزرتا ہے تو اس نے ایک ایسے گروہ کو دیکھا جو عزت و وقار میں بلند تھا۔ ورجل، دانتے کو بتاتا ہے کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں دنیا میں جن کے شرف و جلال کی شہرت بلند ہوکر عرش پر صدائے بازگشت کی طرح پہنچتی تھی۔ عرش پر ان کے کارناموں کا چرچا ہوتا تھا۔‘‘ دانتے لکھتا ہے: میرے کانوں میں آواز آئی کہ اس شاعر کی عزت کرو جو تم سے دیر میں رخصت ہوا تھا اور اب اس کی روح واپس آرہی ہے… یہ شاعر ’’ہومر‘‘ ملک الشعرا ہے۔ اس کے بعد ’’فلیکس‘‘ ہے جو ہجو کا استاد ہے۔ تیسرا ’’ناسو‘‘ ہے، آخر میں ’’لوکن‘‘ ہے… پس اس طرح میں نے ان شاعروں کو یکجا دیکھا جو ’’ملک الشعرا‘‘ کی جماعت کے تھے۔ ان کا کلام اعلیٰ و ارفع تھا اور دوسروں کے کلام سے اتنا بلند تھا جیسے کہ عقاب ہوا میں اونچا اڑتا نظر آئے…انھوں نے مجھے اپنی جماعت کا شاعر سمجھا اور میرا درجہ ان میں چھٹا رکھا گیا۔ وہ تمام لوگ ایک عالیشان قصر کے پاس آئے جس کے گرد سات فصیلیں تھیں اور ایک پرفضا دریا اس کے گرد بہہ کر اس کی حفاظت کررہا تھا۔ سات دروازوں سے گزر کر وہ ایک میدان میں آئے جس میں ہر طرف سبزہ اور تازگی تھی: اس سبزہ زار کے فرشِ زمر دیں پر مجھ کو وہ بزرگ روحیں دکھائی گئیں جن کو دیکھ کر خود اپنی نظروں میں میری قدر بڑھی۔ یہاں میں نے الکڑا کو اور لوگوں کے ساتھ دیکھا جن میں ہیکتر کو میں پہچانتا تھا اور ان کی سیس کے فرزند سعید کو بھی میں جانتا تھا اور سیزر کو جس کی نظر شکرے کی سی تھی اور سر سے پاؤں تک وہ مسلح تھا، اور کامیلا کے ساتھ میں نے پٹتھی سیلیا کو دیکھا۔ دوسری جانب بُڈھے بادشاہ لاتینوس کو دیکھا کہ اپنی نو عمر بیٹی لادینیا کے ساتھ بیٹھا ہے، اور اس بروٹس کو بھی دیکھا جس نے تارکوین کا تعاقب کیا تھا۔ لکریتیا اور کیٹولی بیوی مارسیا مع جولیا اور کورمیلیا کے بیٹھی نظر آئیںاور تنہا ایک طرف کو سلطان صلاح الدین اعظم، جس کے چہرے پر رُعب تھا، بیٹھا ہے اور جب میں نے کسی قدر نظر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ارباب فضل و دانش اور ان کا سردار حکما کے اس گروہ میں بیٹھا ہے اور اس کی سب تعریف کرتے ہیں اور سب اس کی تعظیم و تکریم میں مصروف ہیں۔ یہاں سقراط اور افلاطون کو میں نے دیکھا اور ان سے مرتبے میں قریب دیماقطریس کو دیکھا جس نے اتفاق کو کائنات کی علت العلل سمجھا تھا۔ دیوجانس، سقراط کے ساتھ اور ہر قلیطوس اور ایمپی دوکلیز اور اتاثا غوریاس اور ثالیس حکیم، زینو اور وابوسکوریدس جو فطرت کے مخفی دفتروں کو خوب پڑھ چکے تھے، موجود ہیں اور فیوس، لونس اور ٹلی اور علم الاخلاق کے استاد سنیکا، اقلیدس، بطلیموس، بقراط، جالینوس اور بوعلی سینا اور اس کو بھی دیکھا جس نے حکمتِ ارسطو کی شرح کی تھی، یعنی ابنِ رشد کو۔ ان سب کا مفصل حال لکھنا سعی عبث ہوگا۔ کیا بادشاہ اور کیا عام آدمی حتیٰ کہ اس نے اپنے استاد تک کو نہیں بخشا۔ جہنم کے ساتویں طبقے کے تیسرے درجے میں انھیں روحوں کا ایک غول ملا، دانتے لکھتا ہے: اس غول میں جتنی روحیں تھیں انھوں نے مجھ کو اس طرح دیکھنا شروع کیا جیسے کوئی نئے چاند کو نکلتا دیکھے یا کوئی بُڈھا درزی دھاگہ پرونے کے لیے سوئی کے ناکے کو غور سے دیکھے۔ جب اس غول کی روحیں ہم کو اس طرح غور سے دیکھ چکیں تو ان میں سے ایک روح نے مجھے پہچان لیا اور میرا دامن پکڑ کر کہنے لگی: ’’یہ ہم کیسی عجیب صورت حال یہاں دیکھ رہے ہیں!‘‘ جب اس نے میرا دامن پکڑنے کو ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس کی جھلسی ہوئی صورت اور آنکھوں کو غور سے دیکھا گو اس کی آنکھیں گرمی اور آگ کے اثر سے متغیر تھیں مگر میں نے اس کو بہرکیف پہچان لیا۔ اب مجھ کو یہ صورت خوب یاد آگئی اور میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاکر کہا ’’سربرونیتو! کیا یہ آپ ہیں؟۴۸؎ دانتے ایک کٹر اور متعصب عیسائی تھا۔ طربیہ میں عیسائیت کا خاصہ پرچار ہے اور اس نے شعوری یا لاشعوری طور پر تثلیت کو پیشِ نظر رکھا۔ تین کا ہندسہ اس کے لیے خاص اہمیت کا حامل تھا۔ دوزخ کے بغیر باقی دونوں حصے ۳۳ کینٹوز پر مشتمل ہیں۔ دوزخ کو وہ تثلیت کے حوالے سے دیکھنے کا آرزو مند تھا ہی نہیں۔ ہر کینٹو کی بحر بھی ’’ثلاثی‘‘ یعنی تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔ بہشت میں صرف تین انبیا علیہم السلام حضرت داؤد، حضرت سلیمانؑ اور حضرت مسیحؑ کا ذکر کیا ہے۔ وہ اسلام کے بارے میں بھی خاص قسم کے تحفظات رکھتا تھا۔ معراج کی اسلامی روایات سے بھرپور استفادہ کے باوصف اس نے اس کا کہیں حوالہ دیا اور نہ ہی اعتراف کیا ہے جو اس کی ادبی بدیانتی کا ثبوت ہے۔ اس نے غیر عیسائی شخصیات کا ذکر نہایت تنگ نظری سے کیا ہے۔ حضرت محمد ا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ذکر اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ادب عالیہ میں اس قسم کی تنگ نظری اور تعصب کسی طور سے روا نہیں۔ اس کے برعکس جاویدنامہ میں گوتم بدھ اور زرتشت کو پیغمبروں کے زمرے میں دکھایا گیا ہے جبکہ وشوامتر اور بھرتری ہری جیسی ہندو شخصیات، نیٹشے اور طاہرہ جیسے ملحدین کو نہ صرف اطرافِ بہشت میں دکھایا ہے بلکہ ان کے فضائل کا بھی اعتراف کیا ہے، اسی طرح کارل مارکس اور ٹالسٹائی جیسی غیر اسلامی شخصیات کا ذکر عقیدت و احترام سے کیا ہے۔ اقبال کی دیگر تصانیف میں بھی ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ دانتے اور اقبال کے اندازِ فکر کا یہ ایک نمایاں پہلو ہے جسے کوئی بھی حق شناس قاری اور مورّخ فراموش نہیں کرسکتا۔ جاویدنامہ نہ تو ڈیوائن کامیڈی کی طرح کا کوئی چربہ ہے اور نہ ہی اس قسم کی تصانیف کی کوئی تقلیدی کوشش یا صدائے بازگشت ہے۔ دونوں میں کہیں کہیں تواردات و تشابہات ضرور ہیں مگر دونوں کے مقاصد و اہداف الگ ہیں۔ اتنی کمزوریوں کے باوجود مغربی ناقدین ادب اگر ڈیوائن کامیڈیکے کینوس کو وسیع قرار دیتے ہیں اور دنیائے شعر میں اسے آرٹ کا درجہ دیتے ہیں تو جاویدنامہ کی قدروقیمت بھی اس سے کسی طور کم نہیں۔ ٭٭٭٭٭ حوالے و حواشی ۱- شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی بن محمد بن احمد بن عبداللہ بن حاتم طائی المعروف بہ ابن عربی دو شنبہ(پیر)، ۱۷ رمضان المبارک ۵۶۰ھ بمطابق ۲۸جولائی ۱۱۶۵ء کو اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ ۹۰ کے قریب نامور اور اعلیٰ مقام اساتذہ اور شیوخ سے اکتساب فیض کیا۔ تمام علوم متداولہ مثلاً قرأت، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، طب، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت اور دیگر علوم عقلیہ میں کامل دسترس حاصل کی۔ تالیفات وتصنیفات کی کثرت کے اعتبار سے پوری اسلامی تاریخ میں ایک بھی مصنف ایسا نہیں گزرا جس نے اپنے بعد اتنا بڑا عظیم الشان ذخیرۂ علمی اپنی یاد گار چھوڑا ہو۔ انھوں نے مختلف اسلامی موضوعات اور بالخصوص تصوف پر اپنی تصانیف کا جو عظیم الشان ذخیرہ چھوڑا ہے وہ ان کے زمانے کے تمام علوم اسلامی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عثمان یحییٰ نے اپنی تحقیقات اور تنقیحات کی بنا پر شیخ اکبر کی ۸۴۸ کتابوں اور رسالوں کا ذکر کیا ہے۔ (Osman Yahiya: Histoire Et Classification de I' oeuvre d' Ibn Arabi, Damas, 1964.) ڈاکٹر محسن جہانگیری نے اپنی تالیف، محی الدین ابن عربی، حیات و آثار (ص۹۳تا ۱۱۹) میں ابن عربی کی ۵۱۱ کتب کی تفصیل لکھی ہے۔ تصوف کی دُنیا میں ’’شیخ الاکبر‘‘ کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔ ۷۵ برس کی عمر میں ۲۲ ربیع الثانی ۶۳۸ھ/ ۹نومبر۱۲۴۰ء کو وفات پائی۔ ۲- محی الدین ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد اوّل، مترجم، صائم چشتی، علی برادران فیصل آباد، ۱۴۱۲ھ ،ص۸۵ ۳- ڈاکٹر سید حسین نصر، تین مسلمان فیلسوف مترجم،پروفیسر مرزا محمد منور، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۷ئ،ص۹۱ ۴- محی الدین ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۴، تحقیق، عثمان یحییٰ، مطبوعہ، قاہرہ، مصر، ۱۳۹۲ھ،ص۷۷ 5- Asin, Palacios M, La Escatologia musulmana en la Divana Comedia, seguida de la Historiay Ctritica de una polemica. Eng. Tr. as Islam and the Divine Comedy by H. Sunderland, London, 1926. ۶- دانتے کا شمار قرونِ وسطیٰ کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ ایک سپاہی، سیاست دان، مثالی عاشق اور مفکر تھا۔ وہ مئی ۱۲۶۵ء کے آخری ہفتے کی کسی تاریخ کو اطالیہ کے شہر فلورنس میں پیدا ہوا جس کے لفظی معنی ’’پھولوں کا شہر‘‘ کے ہیں۔ فلورنس اس وقت علم و حکمت، فنونِ لطیفہ اور شاعری کے ساتھ ساتھ دولت و حشمت میں بھی اطالیہ کے تمام شہروں سے آگے تھا۔ دانتے کا پورا نام دیورانتے الغائری (Durante Alghieri) تھا۔ دانتے دراصل دیورانتے کا مخفف ہے اورالغائری اس کا خاندانی نام ہے۔ اس کا باپ الیغائروڈی بیلنکوں المیغائری ایک معمولی منشی تھا۔ وہ ابھی گھٹنوں ہی چلتا تھا کہ اس کی والدہ مونابیلا کا انتقال ہوگیا۔ اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی یوں وہ شفقتِ پدری سے بھی محروم ہوگیا۔ والدین کے پیار کی یہ محرومی ڈیوائن کامیڈی میں بھی جھلکتی ہے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی برونیتولاتی نی (Brunetto Latini) سے حاصل کی جو اطالوی زبان کا استاد، شاعر اور اپنے دور کا ایک بڑا سیاست دان تھا۔ دانتے نے فلسفہ کی تعلیم کے حصول کے لیے بلوگونا اور پیڈوا یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اس سلسلے میں یونانی زبان میں بھی دسترس حاصل کی۔ دینیات کی تعلیم پیرس میں حاصل کی۔ دانتے کے ایک شارح ڈی کیمرون کے مطابق دانتے انگلینڈ بھی گیا۔ دانتے، تھامس ایکوئنس کے فکروفلسفہ سے بہت متاثر ہوا اور وہ اس کی عظیم اور ضخیم کتاب الٰہیات کے حصار سے تادمِ مرگ نہ نکل سکا۔ ایک زمانے (۱۲۸۹ئ) میں دانتے نے فلورنس کی فوج میں بھی اہم خدمات سرانجام دیں اور کئی اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہا۔ وہ ایک تنہائی پسند روح تھی۔ اُس نے ایسی زندگی گزاری جو بے حد کر بناک اور مخالفتوں اور رقابتوں سے بھری ہوئی تھی۔ ۱۳۱۲ء میں سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے دانتے کو فلورنس سے جلاوطن کردیا گیا۔ اس کی جائیداد ضبط کرلی گئی۔ اس کے بعد دانتے کو پھر کبھی اپنے پیارے شہر فلورنس میں آنا نصیب نہ ہوا۔ حکومتِ وقت نے دانتے کو پکڑ کر زندہ جلادینے کا حکم جاری کردیا۔ دنیا کا یہ عظیم شاعر اب آوارہ گرد اور بے خانماں تھا۔ وہ شمالی اور وسطی اطالیہ میں تنہائی اور مفلسی کی زندگی بسر کرتا رہا۔ اسی جلاوطنی کے دوران میں اُس نے ڈیوائن کامیڈی لکھی۔ عمر کے آخری ایام اس نے راوینا (Ravenna) شہر میں گزارے اور یہیں اس نے ۱۴ ستمبر۱۳۲۱ء کو انتقال کیا۔ دانتے کی چھپن سالہ زندگی میں دو واقعات انتہائی اہم ہیں۔ ایک اوائل عمری میں نوسالہ بیاترچے سے مجنونانہ محبت اور دوسرا کمپالدی نو (Campaldino) کی لڑائی جس میں اس نے بھرپور حصہ لیا۔ ڈیوائن کامیڈی کے علاوہ دانتے کی اور بھی تصانیف ہیں۔ ان میں اس کی پہلی تصنیف عوام کی شاعری (De vulgari Eloquentia) ۱۳۰۴ء میں لکھی گئی۔ اس میں اطالوی شاعری کے محاسن اور اس کی تدریجی ترقی پر مدلل بحث ہے۔ دوسری کتاب دعوت (Convivo) ادب و فلسفہ کے بارے میں تھی۔ اس کی آپ بیتی Lavita Nouua (حیاتِ نو) کے نام سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب بیاترچے (Beatrice) سے اُس کے انوکھے اور لازوال عشق کی داستان ہے۔ 7- Carlyle, Thomas, On Heroes and Hero Worship, Everyman's Library, London, 1965,p-330. ۸- دانتے، جہنم، مترجم، مولوی عنایت اللہ، بک ہوم، لاہور، جنوری، ۲۰۰۴ئ،ص۱۴۳ 9- On Heroes and Hero Worship, p-49-51 10- Islam and Divine Comedy, p-55-67 ۱۱- چودھری محمد حسین، جاویدنامہ،نیرنگِ خیال، لاہور،اقبال نمبر، ۱۹۳۲ئ،ص۱۴۳ 12- Islam and the Divine Comedy, p-5-6 13- Ibid,p- 83-84 ۱۴- دانتے ، طربیہ ، کنیٹو۳۱؍۱۰۲، کنیٹو۳۵:۱۳۸ 15- Ibid, p-53-54 ۱۶-ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۔۱،ص۳۸۷۔۳۹۶، جلد۔۲، ص۶۷۹، ۶۸۱،۸۰۹، جلد۔۳، ص ۵۵۷، ۵۵۸، ۵۷۵، ۵۷۷،۲۲۷ 17- Islam and the Divine Comedy, p-105-115 ۱۸- ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۔۳،ص۵۵۴ ۱۹- دانتے، طربیہ خداوندی، جنت: کینٹو۱۸/۲۸۔۳۳ ۲۰- ایضاً، جنت، کینٹو۳۱/۹۷، کینٹو۳۲/۲۰،۳۹ ۲۱- ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلدا، ص۴۱۶وجلد۳ ، ص۵۷۷ ۲۲- ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۱/۴۱۵، دانتے: طربیہ، جنت، ۳۲/۴۰۔۵۲ ۲۳-ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد۲/۱۱۳، طربیہ: جنت: ۳۲/۱۱۸ 24- Islam and the Divine Comedy, p-160 ۲۵- دانتے، جنت: ۳۱/۲۷، ۳۳، ۴۳، ۵۰،۵۲،۷۹،۹۷ 26- Islam and the Divine Comedy, p- 176 ۲۷- دانتے، طربیہ خداوندی، جنت، ۳۳/۱۱۵ ۲۸- ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ ، جلد۳/۵۲۳ 29- Islam and the Divine Comedy, p-53,54 ۳۰- ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی، کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر،سامیہ پبلی کیشنز، علی گڑھ، ۲۰۰۲،ص۲۱۷ ۳۱- فتوحات جلد۲، ص۴۲۹، سیوطی، الآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، جلد۱،ص۱۵،۱۷ 32- Islam and the Divine Comedy, p-172 ۳۳- ڈاکٹر عبدالمغنی، اقبال اور عالمی ادب،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع دوم، ۱۹۹۰ئ،ص۲۹ 34- Islam and the Divine Comedy, p-277 ۳۵- ستار طاہر، دنیا کی سو عظیم کتابیں، کاروانِ ادب، ملتان، بارسوم، ۱۹۹۳ئ،ص۲۱۴،۲۱۵ ۳۶- ڈاکٹرمحمد ثناء اللہ ندوی، کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر،سامیہ پبلی کیشنز، علی گڑھ، ۲۰۰۲،ص۲۰،۲۱ 37-Francisco Gabrielli, Interno alle fonti orientali della Divina Comedia, in Arcadia III, Rome, 1919,p- 55-61 بحوالہ، کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر، ص۲۱۱ ۳۸- ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی، کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر،سامیہ پبلی کیشنز، علی گڑھ، ص۱۹ 39- Vittorio Rossi, Storia della Litteratura italina per uso dei licei, Vol-I,II medio evo, 5th Edition, Milan, Vallardi, 1911, p-146. بحوالہ کلاسیکی ادبیاتِ یورپ پر اسلام کا اثر، ص۲۱۱ ۴۰- اسلوب احمد انصاری، مطالعہ اقبال کے چند پہلو، کاروانِ ادب، ملتان، ۱۹۸۶ئ،ص۱۲۸ ۴۱- شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ، جلد دوم ، شیخ محمد اشرف، لاہور، طبع ۱۹۵۱ئ،ص۳۷۷ ۴۲- ڈاکٹر محمد رفیق افضل، گفتارِ اقبال، لاہور، ۱۹۶۹ئ،ص۲۳۳ ۴۳-جگن ناتھ آزاد، اقبال اور مغربی مفکرین، مکتبۂ عالیہ لاہور، س ن،ص۱۲۸ ۴۴-علامہ محمد اقبال، جاویدنامہ، منظوم اردو ترجمہ، رفیق خاور، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع اوّل ۱۹۷۶ئ، ص۔ف ۴۵- اقبال اور دانتے، مشمولہ اقبال اور مغربی مفکرین،ص۱۳۵ تا ۱۳۸ ۴۶-علامہ محمد اقبال، جاویدنامہ،مترجم، میاں عبدالرشید، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع اوّل، ۱۹۹۲ئ،ص۳۳ ۴۷-علامہ محمد اقبال، جاویدنامہ، تحقیق و توضیح، ڈاکٹر محمد ریاض، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، طبع اوّل، ۱۹۸۸ئ، ص۱۳۶،۱۳۷ ۴۸۔ دانتے، جہنم، مترجم، مولوی عنایت اللہ،ص۹۳،۹۴ ۴۹۔ ڈاکٹر عبدالمغنی، اقبال اور عالمی ادب،ص۵۷۲ دیگر مآخذ ۱- ڈاکٹر اسلم انصاری، ادبیاتِ عالم میں سیرِ افلاک کی روایت، کتابی سلسلہ مکالمہ ۷، کراچی،۲۰۰۳ء ۲- اردو(اقبال نمبر) ،انجمن ترقی اردو، دہلی، طبع جدید، ۱۹۴۰ء ۳- کلیم الدین احمد، اقبال۔ ایک مطالعہ،دہلی ، ۱۹۷۹ء ۴- فرمان فتح پوری ، اقبال سب کے لیے،الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۲ء ۵- رفیق خاور،اقبال کا فارسی کلام: ایک مطالعہ،بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۸ ۶- ڈاکٹر عبدالشکور احسن، اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۱۹۷۷ء ۷- علامہ محمد اقبال، جاویدنامہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع ہفتم، جون،۱۹۷۸ء ۸- اشرف حسینی، دانتے کا طربیہ خداوندی اور جاویدنامۂ اقبال، مشمولہ اقبال، بزم اقبال لاہور، جلد۲۹، شمارہ۲، اپریل۱۹۸۲ء ۹- جیلانی کامران، دوشیزۂ مریخ اور عورت کی آزادی،مشمولہ اقبال، بزمِ اقبال، لاہور، جولائی۱۹۸۸ء ۱۰- طربیۂ خداوندی ،اطالوی سے منثور اردو ترجمہ، عزیز احمد، انجمن ترقی اردو ہند، دہلی، ۱۹۴۳ء ۱۱- طربیۂ خداوندی ،منظوم اردو ترجمہ، شوکت واسطی، ادارہ علم و فن، پاکستان،۱۹۸۲ء ۱۲- یوسف سلیم چشتی، شرح جاویدنامہ، عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور، س ن ندارد ۱۳- مظفر حسین برنی، کلیاتِ مکاتیبِ اقبال، اردو اکادمی، دہلی، اشاعت چہارم،۱۹۹۳ء ۱۴- ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ، لاہور، (اقبال نمبر)، اپریل،۱۹۷۷ء ۱۵- اکبر حسین قریشی، مطالعہ تلمیحات و اشاراتِ اقبال، اقبال اکادمی، پاکستان، لاہور،۱۹۸۶ء ۱۶- محمود نظامی، ملفوظاتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ء ۱۷- ڈاکٹر محسن جہانگیری، محی الدین ابن عربی: حیات و آثار،مترجم، احمد جاوید، محمد سہیل عمر، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، طبع دوم ،اکتوبر، ۱۹۹۹ء ۱۸- احمد بن محمد المقری، نفح الطیب، جلد دوم، مصر، ۱۳۶۷ھ ۱۹- نیرنگِ خیال،اقبال نمبر، مرتب حکیم یوسف حسن، لاہور، ۱۹۳۲ء 20- Arthur Arberry, Javid Nama, Eng. Tr., London, 1966. 21- Dante Alighieri, The Divine Commedy, Translated by James Finn Cotter, Stony Brook, NY, 11794-3358-USA, 2004. 22- Microsoft Corporation, Encarta Encyclopaedia, 2004. ٭٭٭٭٭ ’خضرِ راہ‘ میں اقبال کا فنّی طریق۔ِ کار ابو الکلام قاسمی ’خضر راہ‘ بانگ درا کی طویل نظموں میں اپنی بعض فنی خصوصیات کی بنا پر ایک ممتاز نظم ہے۔ ’خضر راہ‘ کی دوسری اور خصوصیات کے باوصف ڈرامائی صورتِ حال کی تخلیق اور واحد متکلم کو شاعر اور حضرت خضر کے کرداروں میں منقسم کرکے پیش کرنے کے انداز نے اس نظم کو اُس پس منظر کا حامل بنا دیا ہے جو ’شمع اور شاعر‘ کے علاوہ بال جبریل کی بعض بلند مرتبہ نظموں کا خاصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بانگ درا کی نظموں میں اقبال کے فکری اور فنی ارتقا کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس کا موازنہ بال جبریل میں شامل ’ ذوق و شوق‘ اور ’مسجد قرطبہ‘ جیسی نظموں سے نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ’ذوق و شوق‘ اور ’مسجد قرطبہ‘ میں سامنے آنے والی فنی پختگی کا پیش خیمہ اگر بانگ درا کی کسی ایک نظم کو قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ نظم ’خضر راہ‘ کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ اقبال چونکہ جذبات اور محسوسات کے بجائے (عام فہم انداز میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ) تصورات اور خیالات کے شاعر ہیں اس لیے اقبال کی فن کاری کے راستے کا سب سے بڑا پتھر بھی ان کا فلسفہ اور فکر ہی ہے۔ اقبال کے شعری ارتقا پر غور کرتے ہوئے اگر اس سوال سے صرفِ نظر کر لیا جائے کہ شاعر اقبال کیوں کر اپنی فکری بلندآہنگی اور خطیبانہ لب و لہجے سے نبردآزما نظر آتا ہے اور کس طرح فنی تقاضوں سے عہدبرآ ہوتاہے؟ تو فن کار اقبال کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کی طویل نظموں کے سلسلے میں نظم کی صنف کے ساتھ انصاف کرنے اور اس صنف کو ایک عضویاتی کُل کے طور پر برتنے کا مسئلہ بھی معرض بحث میں رہا ہے۔ اس ضمن میں مدافعت کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ نظمِ جدید کے نام سے کرنل ہالرایڈ اور محمد حسین آزاد کے ذریعے شروع کی جانے والی تحریک کو اگر ہم اپنے سامنے رکھیں تو ہمیں یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہ ہوگی کہ اقبال دوسری ترقی یافتہ زبانوں میں نظم گوئی کی تاریخ اور اس صنف کے اعلیٰ نمونوں سے واقف ہونے کے باوجود اپنی زبان کی حد تک یکّہ وتنہا اس صنف میں بعض بلند پایہ تخلیقات سامنے لانے میں مصروف تھے۔ ان کے گردوپیش میں نظم گوئی یقینا ان گنت شاعروں کی مشقِ سخن کا محور تھی مگر مشقِ سخن سے بلند ہوکر محض معدودے چند نمونے ہی اردو نظم کے ارتقائی سفر کے سنگ میل کی حیثیت اختیار کرسکتے تھے۔ اس سیاق و سباق میں اقبال کی طویل نظموں میں ربط و تسلسل کی کمی اور فارم کے بعض دوسرے نقائص کا جواز فطری معلوم ہوتا ہے۔ اقبال اپنی اس کمزوری سے واقف ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے اس نقص کی تلافی دوسرے فنی لوازم سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’خضر راہ‘ کے بہت سے شعر اور کم سے کم دو تین بند، نظم کے بیانیے اور واقعاتی تسلسل کو مجروح کرتے ہیں مگر اس کا ازالہ اس جذباتی تسلسل سے ہوجاتا ہے جو اس نظم کے اشعار کو ابتدا میں ڈرامائی صورتِ حال سے تخلیق ہونے والے محور سے وابستہ رکھتا ہے۔ مزید براں یہ کہ موضوع کی مناسبت سے بہت سے تلازمات کا اہتمام اس نظم کے گرد ایک حصار قائم کیے رہتا ہے۔ اگر الفاظ شماری سے احتراز بھی کیا جائے تو کم ازکم ’دریا‘ اور ’گرفتاری‘ کے مناسبات اور تلازمات کا سلسلہ پوری نظم میں ایک نوع کی تنظیم کا احساس ضرور دلاتا ہے۔ ’ساحلِ دریا‘ اس نظم میں محل وقوع بھی ہے اور مرکزی استعارہ بھی، کہ ’دریا‘ اقبال کی شاعری میں دنیا کے چند ممتاز شاعروں کی طرح وقت کے استعارے کے طور پر سامنے آتا رہا ہے۔ زمانِ مسلسل اور غیرمنقسم وقت کے تصور پر اگر اقبال کے حوالے سے تفصیل میں نہ بھی جائیں، تب بھی ’دریا‘ یا ’ساحلِ دریا‘ کسی نہ کسی شکل میں اقبال کے تصورِ زمان کا عکس پیش کرتے رہتے ہیں۔ اقبال کے پیش کردہ مناظر میں دریا اور دریا کے کنارے کے علاوہ غروبِ آفتاب کی تصویر ہمیں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ غروب آفتاب، آفتاب کے کسی نظام کا تابع ہونے یا دوسرے الفاظ میں اس کی گرفتاری کی ایک شکل ہے۔ جاوید نامہ میں یہ تصویر اس طرح نمایاں کی گئی ہے: ؎ عشقِ شور انگیز بے پروائے شہر شعلۂ او میرد از غوغائے شہر خلوتے جدید بدست و کوہسار یا لب دریائے ناپیدا کنار من کہ دریا را نہ دیدم محرمے بر لبِ دریا بہ آسودم دمے بحر و ہنگامِ غروبِ آفتاب نیلگوں آب از شفق لعل مذاب کور را ذوقِ نظر بخشد غروب شام را رنگِ سحر بخشد غروب با دلِ خود گفتگوہا داشتم آرزو ہا جستجو ہا داشتم ’مسجد قرطبہ‘ میں بھی کم و بیش منظر یہی ہے البتہ زاویۂ نگاہ کسی قدر بدلا ہوا ہے ؎ وادیِ کہسار میں غرقِ شفق ہے شہاب لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب آب روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب ’خضر راہ‘ میں بھی اقبال کا خواب جاگتی آنکھوں کا خواب ہے۔ رات کے افسوں نے طائر کو آشیانوں میں اسیر کردیا ہے اور انجم کم ضو بھی طلسم ماہتاب میں گرفتار ہے۔ یہ افسوں اور اس گرفتاری کے تلازمات اور اس سے مناسبت رکھنے والی تراکیب، نظم کے مختلف حصوں میں ان الفاظ کی شکل میں پھیلی ہوئی ہے: اسیر مست خواب، محوِنظر، رہینِ خانہ، زنجیرِ کشت و نخیل، بندگی ، تسخیر، جادوگری، جادوئے محمود، خواب، حلقۂ گردن، غلامی، خواب آور، مسکرات وغیرہ ۔اسی طرح دریا بھی اپنے تلازمات کا جال نظم کے مختلف حصوں پر پھیلائے ہوئے ہے۔ دریا، تصویرِ آب، اضطراب، موجِ مضطر، طوفان، کشتیِ مسکین، چشمہ، سلسبیل، جوئے کم آب، بحرِبے کراں، حباب، قلزم، سراب، شبنم، مانندآب، نیل ساحل، رفتار دریا، سمندر وغیرہ وغیرہ۔ ان تلازمات اور کلیدی الفاظ سے مناسبت رکھنے والی تراکیب سے زیربحث نظم میں اقبال کے لفظیاتی نظام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لفظیات کا جو نظام بانگ درا کی نظموں میں اپنے وجود کا صرف احساس دلاتا ہے وہ بال جبریل کی شاعری میں زیادہ نمایاں اور مستحکم ہوکر سامنے آتا ہے۔ یہی نظام ’خضرراہ‘ کے بہت سے غیر مربوط اشعار کو ایک خاص قسم کے ربط اور ہم آہنگی سے آشنا کراتا ہے اور فکری یا فلسفیانہ بالادستی کے باوجود، صنفی نقطۂ نظر سے وحدت کا احساس دلاتا ہے۔ ’خضرراہ‘ کا آغاز مؤثر ڈرامائی صورتِ حال کے ساتھ ہوتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ: ؎ ساحلِ دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب بظاہر یہ دو مصرعے آگے آنے والی بات کے پس منظر کا بیان ہے، مگر اس بیان میں ساحلِ دریا پہ محوِ نظر ہونے اور گوشۂ دل میں ’جہانِ اضطراب‘کو چھپانے کو جو ذکر ملتا ہے، وہ پوری نظم میں آگے چل کر رونما ہونے والے واقعات اور کیفیات کا اشاریہ ہے۔ چند اشعار کے بعد حضرت خضر سے ملاقات اور گفتگو میں خضر کا یہ کہنا: ’اے جویاے اسرار ازل! چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب‘ محض اتفاقیہ جملہ یا خضر کا الہامی طرزِ تخاطب نہیں ہے، اقبال نے پہلے ہی شعر میں صورتِ حال کچھ ایسے الفاظ میں بیان کی ہے کہ ’گوشۂ دل میں جہان اضطراب چھپائے ہوئے‘ سے بجاے خود چشم دل کے وا ہونے اور تقدیر عالم کے بے حجاب ہونے کا تعلق واضح ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ شاعر کے ساحلِ دریا پہ محوِنظر ہونے سے بھی خضر کی زبان سے ’’اے جویاے اسرار ازل‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ تخاطب اختیار کرنے کا جواز (نظم کی ابتدا سے ہی) موجود نظر آتا ہے۔ اب ذرا اس منظر کو ملاحظہ کیجیے جس کے لیے پہلے شعر سے پس منظر تیار کیا گیا ہے: ؎ شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتارِ طلسم ماہتاب ان اشعار میں شاعری اور مصوری جیسے دو فنون لطیف ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ دریا کے ساتھ بہتے ہوئے پانی کا جو تصور وابستہ ہے، وہ اپنی جگہ برقرار ہوتے ہوئے دریا کے نرم سیر ہونے اور ایک خاص فضا میں دریا پر تصویر آب کا گمان گزرنے کی جزئیات اور حرکت اور سکون کے متضاد عناصر کی مدد سے تصویر میں رنگ بھرنے کاکام لیا گیا ہے۔ پہلے شعر میں نظر کی حیرانی، تجسس کا استعارہ بن جاتی ہے۔ نظر کی حیرانی سے جو پیکر ابھرتا ہے، اس کے بالمقابل شب کو سکوت افزا، ہوا کا آسودہ اور دریا کا نرم سیر ہونا، سکون اور ٹھہرائو کی فضا کی تخلیق کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے کے تینوں حصے دریا پر تصویر آب کا گمان گزرنے کے عمل میں ایک قسم کی شدت پیدا کرتے ہیں‘ دوسرے شعر میں ایک خوبصورت تشبیہ ہے، موج مضطر کے دریا کی گہرائیوں میں مستِ خواب، ہونے کی ____ تشبیہ دی گئی ہے، طفل شیرخوار کے گہوارے میں سونے سے ____ یہ ایک مرکب تشبیہ ہے۔ توازن اس طرح استوار کیا گیا ہے کہ گہرائی کے ساتھ گہوارہ، مست خواب ہونے کے ساتھ، سوجاتا ہے اور موج مضطر کے ساتھ، طفل شیرخوار، کے الفاظ متوازی طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ لفظی مناسبات اور صوتی ہم آہنگی کے علاوہ مشبّہ بہ کو پہلے مصرعے میں اور مشبّہ کو دوسرے مصرعے میں پیش کرنے کی وجہ سے بھی اس شعر میں ندرت کا احساس ہوتا ہے ____ اگر غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ زیربحث نظم کے ابتدائی چند اشعار میں فنّی تنظیم اور منصوبہ بندی کی اور بھی کئی شہادتیں موجود ہیں۔ نظم کا واحد متکلم اپنی ذات اور اپنے معروض (دریا) کے جن عناصر کو ابھارنا چاہتا ہے، ان میں ایک طرف ’دریا‘ ہے تو دوسری طرف گوشۂ دل۔ ایک طرف ’موج مضطر‘ محو خواب ہے تو دوسری شاعر کے دل میں، اک جہان اضطراب چھپا ہوا ہے اور ایک جانب شاعر کی نظر حیران ہے ’ تو دوسری جانب دریا پر اسے تصویر آب کا شبہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تصویر بھی حیرانی کی کیفیت کا مظہر ہوتی ہے۔ اس طرح نظر کی حیرانی تصویر کی حیرانی کا عکس بن جاتی ہے۔ دریا کی گہرائی میں موج مضطر کے محوِخواب ہونے کے بیان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ بات گوشۂ دل میں ایک جہان اضطراب، کے چھپے ہونے کا تلازمۂ خیال بھی ہے۔ اس نظر کے ابتدائی تین شعروں میں جس خاموشی، سکون سنّاٹے کی فضا بندی کی گئی ہے، اس کا آخری حصہ چوتھا شعر ہے۔ اس شعر میں رات کے افسوں سے طائر کو آشیانوں میں اسیر اور انجم کی ضو کو ماہتاب میں گرفتار دکھلایا گیا ہے۔ مگر یہ دونوں مصرعے صرف دو مناظر کا بیان نہیں ہیں بلکہ افسوں اور گرفتار، کے لفظوں سے پابندی اور اسیری کے اس لفظی نظام کو جس کا احساس ابتدائی اشعار کے ہر مصرعے میں ہوتا ہے، ایک قسم کا تسلسل بخشا گیا ہے۔ شاعر کی نگاہ کی پابندی، محونظر، کی ترکیب سے ظاہر ہوتی ہے۔ ’گوشۂ دل‘ سے ’جہانِ اضطراب‘ کے مخفی ہونے کا اندازہ ہوتاہے۔ ایک مصرعے میں طفل شیرخوار اطمینان کی نیند سوتا ہے نظر آتا ہے اور یوں وہ اسیر غفلت ہے، تو دوسری جگہ موجِ مضطر، دریا کی گہرائی میں مست خواب دکھائی دیتی ہے۔ اس سلسلے کا اختتام ان مناظر پر ہوتا ہے کہ طائر آشیانوں میں اسیر ہیں اور ستارے ماہتاب کے طلسم میں گرفتار ہیں، گویا واحد متکلم کی ذہنی اور قلبی کیفیات سے لے کر مناظر فطرت اور شاعر کے معروض تک، تمام چیزوں میں پابندی اور اسیری کا کوئی نہ کوئی عنصر موجود ہے۔ ابتدائی اشعار کے سیاق و سباق میں ان انسلاکات کے اہتمام کی توجیہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ نظر کی حیرانی اور دل کی گھٹن کے بیان کو خارجی حوالوں کے ذریعے اسی طرح شدتِ تاثر کا حامل بنایا جاسکتا تھا۔ مگر بعد کے شعر پر غور کیجیے تو بات صرف اتنی ہی معلوم ہوتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگلے شعر میں ایک ایسے اسطوری کردار کا حوالہ آنے والا ہے جو زندگی کی دوسری معمولی پابندیاں تو درکنار، زمان و مکان کے دائرے میں بھی اسیر نہیں دکھائی دیتا: ؎ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانندِ سحر رنگِ شباب وہ وقت یا زمان جس کا استعارہ دریا بنا تھا اور جس کی دست بُرد سے دنیا کی کوئی چیز محفوظ نہیں، یہاں خضر اس وقت کی گرفت سے بھی آزاد ہے۔ وقت کا سفر ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب ہوتا ہے اور یہی وقت جس انسان پر اثر انداز ہوتا ہے تو اس کی عمر کا سفر بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف ہوتا ہے۔ اگر مختلف مدارج کی یہ ترتیب باقی نہ رہے تو وقت کی بالادستی کے کوئی معنی باقی نہیں رہتے۔ خضر کا تعارف یوں کرایا جاتا ہے: جس کی پیری میں ہے مانندِ سحر رنگِ شباب اس مصرعے سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ یہاں پیری کا سفر رنگِ شباب کی طرف ہے۔ یہ مصرع وقت کی زنجیر سے خضر کے آزاد ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس سے پہلے کے مصرعے میں خضر کو ’پیکِ جہاں پیما‘ کہہ کر زمان کے ساتھ ’مکان‘ کو بھی خضر کی دسترس میں دکھایا گیا ہے۔ اس طرح پابندی اور اسیری کی پوری فضا میں حضرت خضر کی آزادی اور زمان ومکان کے شکنجے سے تحفظ، حضرت خضر کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں کرتا ہے۔ اگلے شعر میں خضر کی زبان سے بات ادا ہوتی ہے اس سے بھی خضر کی شخصیت کا ایسا اہم پہلو سامنے آتا ہے۔ پوری صورتِ حال کچھ اس فن کاری کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ خضر کا شاعر سے، جویاے اسرارِ ازل، کے الفاظ سے تخاطب اختیار کرنا غیر فطری نہیں معلوم ہوتا۔ شاعر کی نظر کی حیرانی اور پوری صورتِ حال میں غوروخوض اور ارتکاز کی جو کیفیت نمایاں ہورہی ہے اس میں ’جویاے اسرارِ ازل‘ کی شناخت کرلینا خضر جیسی شخصیت کے لیے کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا۔ ابتدائی اشعار میں، محوِنظر اور ’’تھی حیراں‘‘ سے ظاہری نگاہوں کے متجسس ہونے کا پتا چلتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خضر، شاعر کو چشم دل وا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مناظر فطرت اور ان کی باریکیاں شاعر کی آنکھوں پر جس طرح روشن ہیں اس کا اندازہ مناظر کی پیش کش سے ہوتا ہے۔ اس لیے اب صرف بصیرت کی ضرورت ہے (ع: ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں) بصیرت کے بغیر تقدیر انسان (بمعنی قسمت) اور تقدیر کائنات (بمعنی مقدّراتِ عالم) بے حجاب نہیں ہوسکتی: ؎ دل میں یہ سُن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا میں شہیدِ جستجو تھا، یوں سخن گستر ہوا وہ دل جس کے ایک گوشے میں جہانِ اضطراب چھپا ہوا تھا اور وہ آنکھیں جو سرتاپا تحیّر اور تجسس تھیں انہیں خضر کی ذرا سی توجہ سے اظہار کے وسائل مل جاتے ہیں۔ وہ اضطراب جو مخفی تھا اب ہنگامۂ محشر بن جاتا ہے اور وہ نگاہیں جو شہیدِ جستجو تھیں ان کو اظہار کی زبان مل جاتی ہے۔ اس شعر کے ساتھ بہت سے سوالیہ نشانات اور استفہامی کیفیات کا خاتمہ ہوتا ہے اور اظہاروابلاغ کی ڈرامائی کیفیت واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔ شاعر کا مکالمہ جن الفاظ کے ساتھ شروع ہوتا ہے ان کا ایک حصہ نظم کے پہلے بند کے ایک منظر کی توسیع ہے اور دوسرا قرآنی تلمیح کے توسط سے ہمارے ذہن کو ماضی کی دور اندیشانہ روایت کی طرف مبذول کرتا ہے : ؎ اے تری چشمِ جہاں بیں پر وہ طوفاں آشکار جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش کشتیِ مسکین و جانِ پاک و دیوارِ یتیم علم موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش پہلے شعر کو نظم کے ابتدائی اشعار میں شامل ایک مصرعے ’’موجِ مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب‘‘ کو سامنے رکھ کر پڑھیے تو اس شعر کی بلاغت اپنے نقطۂ عروج پر نظر آئے گی۔ یعنی وہ موجِ مضطر جس کے گہرائیوں میں مستِ خواب ہونے کا ذکر پہلے آچکا ہے، خضر کے لیے دریا میں سوئے یا خاموش ہنگامے (موجِ مضطر) یا طوفان کوئی مخفی حقیقت نہیں ہیں۔ نظم کی لفظیات اور مافیہ کے اس مربوط نظام سے پتا چلتا ہے کہ ’’خضرِراہ کے پہلے بند میں محلِ وقوع کے بیان، فضابندی اور بعد میں پیش آنے والے واقعات ومکالمات کے درمیان ناگزیر تعلق ہے۔ جہاں تک ’کشتیِ مسکین، جان پاک اور دیوارِ یتیم‘ کی تلمیحات کا سوال ہے تو یہ تلمیحات بھی اپنی اصل کے اعتبار سے نظم کی پوری فضا سے ہم آہنگ ہیں۔ قرآن کریم کی سورۂ کہف، میں جس مقام پر حضرت خضر سے حضرت موسیٰ کی ملاقات کا ذکر آیا ہے۔ وہ بجائے خود ایک ڈرامائی انداز لیے ہوئے ہے۔ اس ملاقات کا محل وقوع بھی اسی طرح دریا کا کنارہ ہے جس طرح شاعر اور خضر کی تخیلّی ملاقات کا محلِ وقوع ساحلِ دریا ہے۔ موسی۔ں کے ساتھ کلیم اللہ کی صفت وابستہ ہے اور شاعر بھی صاحبِ کلام ہونے کی وجہ سے شاعر کہلاتا ہے۔ شاعر کی نگاہیں حقائقِ اشیا کے سلسلے میں متجسس اور حیران ہیں اور موسیٰ کا علم، خضر کی واقفیت کے سامنے حیرت فروش ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری مماثلتیں محض اتفاقی نہیں ہیں۔ تلمیحی اشارات کی تفصیل میں جائے بغیر زیربحث اشعار میں شاعر کے لیے خضر کی قدآور شخصیت کو کردار بناکر پیش کرنے کی اصل وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ خضر کی شخصیت سلسلۂ روزوشب کی دست برد سے محفوظ ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زمان بھی اس نظم میں ایک مخفی کردار کی حیثیت سے باربار اپنے وجود کا اثبات کررہا ہے۔ اقبال حضرت خضر سے پہلا سوال اس طرح کرتے ہیں : ؎ چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد زندگی تیری ہے بے روزوشب و فردا و دوش یہاں روزوشب اور فرداودوش سے بے نیازی اور ماضی، حال اور مستقبل سے خضر کی واقفیت خضر کے ان جوابات کے استناد اور اعتبار کی راہیں ہموار کرتی ہے جو شاعر کے استفسار کے نتیجے میں دیے جانے والے ہیں۔ مگر اس کے بعد شاعر، حضرت خضر سے جو سوالات کرتا ہے اس میں سوائے موزونیت کے کوئی اور شعری خوبی نہیں۔ زندگی کا راز سلطنت کی ماہیت اور سرمایہ ومحنت کی کشمکش کا بیان، اس حد تک بیانِ محض ہے کہ آپ اسے شاعرانہ بیان کا نام بھی نہیں دے سکتے۔ بعد کے اشعار میں ایک سوال کے لیے چھے مصرعے صرف کیے گئے ہیں یہ مصرعے اختصار اور جامعیت کی صفت سے محروم ہیں۔ البتہ جس شعر پر دوسرے بند، یاباالفاظِ دیگر سوالات کا اختتام ہوتا ہے، وہ نثری طرزِتخاطب اور طول کلامی کی فضا کو بالکل تبدیل کرتا ہے: ؎ آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے کی شعر کی دو جہتیں واضح ہیں۔ ایک جہت تلمیحی ہے جس میں آگ اور نمرود کے ساتھ ابراہیم خلیل اللہ کی آزمایش کی طرف ہمارا ذہن منتقل ہوتا ہے اور اس کی دوسری جہت استعاراتی ہے جو آگ، اولادِ ابراہیم اور نمرود، کو زمانۂ حال سے جوڑتی ہے۔ پہلے مصرعے میں اولادِ ابراہیم کے نام سے معروض کے ذکر میں کوئی ابہام نہیں، مگر ’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘؟ میں کس کا امتحان کون لینے والا ہے؟ کے استفہام سے ایک غیرقطعی اور نسبتاً مبہم فضا کی تخلیق ہوتی ہے۔ یہ غیر قطعیت اس لیے بھی پیدا کی گئی ہے کہ ابراہیم کا اپنے آپ کو ابتلاوآزمایش سے عہدہ برآ کرانا تو ایک امرواقعی ہے، مگر کیا اولادِ ابراہیم بھی اس آزمایش میں پوری اترسکتی ہے؟ اس لیے کہ عصرِحاضر کا نمرود تاریخی نمرود سے زیادہ صاحب اقتدار اور عصرِحاضر کے نمرود بھڑکائی ہوئی آگ پہلے سے کہیں زیادہ مشتعل اور صبرآزما ہے جبکہ اولادِ ابراہیم، ابراہیمی صفات سے یکسر محروم ہے زیربحث شعر استفسار اور استفہام سے زیادہ خود کلامی کی کیفیت نمایاں اور یہ خود کلامی کے ساتھ خود احتسابی بھی بن جاتی ہے ____ اس شعر میں نمرود کا استعارہ ماقبل کے اشعار میں وارد ہونے والے الفاظ، سلطنت،ا قوام نودولت، اسکندر اور فطرت اسکندری کو ایک نقطے پر مرتکز کردیتا ہے۔ اقبال کے سوالات میں صحرؔا نوردی، زندگی، سلطنت، سرمایہ ومحنت اور عالم اسلام کی صورتِ حال کو سمجھنے اور ان مسائل کے حوالے سے تقدیر عالم کو بے حجاب دیکھنے کی خواہش نہایت سنجیدہ اور معصوم ہے۔ شاعر اپنے علم وفضل کو بالائے طاق رکھ کر خضر کی ہمہ دانی سے مستفیض ہونا چاہتا ہے۔ چنانچہ حضرت خضر کے طویل مکالمے میں کوئی مداخلت یا بحث وتمحیص کی صورت نہیں پیدا ہوتی۔ یہ انداز، نظم کے باقی ماندہ حصے کی مکالماتی ڈرامائی صورتِ حال کو مجروح کرتا ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ اقبال کا فنی محاکمہ کرنے والے بعض نقادوں کو ’جوابِ خضر‘ کے پانچ حصے خود مکتفی نظموں کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہ بات کیوں کر فراموش کی جاسکتی ہے کہ شاعر کے سوالات کا دھاگہ بعد کے نسبتاً بکھرے ہوئے دانوں کو اپنے آپ سے جوڑے ہوئے ہے۔ ’خضرراہ‘ کا تیسرا بند صحرا نوردی کے بارے میں خضر کے جواب پر مبنی ہے۔ یہ حصہ ’جوابِ خضر‘ کے تمام حصوں سے زیادہ طاقتور اور شعریت سے مملو ہے۔ اس حصے کے اشعار پر غور کرنے سے پہلے اگر اس کے آخری شعر پر توجہ دی جائے تو ماقبل کے اشعار کی معنویت زیادہ بہترین منظر میں واضح ہوتی ہے: ؎ پختہ تر ہے گردش پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اے بے خبر رازِ دوامِ زندگی اس شعر میں زندگی کی ردیف ایک طرف زندگی کے بارے میں خضر کے جواب کا پیش خیمہ بنتی ہے تو دوسری طرف ’’جامِ زندگی کی گردش‘‘ کا ذکر ماقبل کے اشعار کی کلید فراہم کرتا ہے۔ اس بند کے تمام اشعار کے لیے ’’گردشِ پہیم، کی ترکیب کلیدی لفظ کی حیثیت رکھتی ہے‘‘ ۔ ’’تگاپوئے دمادم، بانگِ رحیل کی گونج، آہو کا بے پرواخرام، بے سنگ و میل سفر، نمودِ اختر، سیماب پا، غروب آفتاب، چشمِ خلیل کا روشن ہونا، کارواں کا قیام اور تازہ ویرانے کی تلاش، ساری چیزیں گردشِ پہیم کے کلیدی لفظ سے جڑی ہوئی ہیں اور ان تمام بیانات، تشبہیات اور تلمیحات میں حرکت اور ارتعاش کے عمل کے ساتھ متحرک پیکروں کی تخلیق کا عمل ایک مشترک قدر کی حیثیت رکھتا ہے: ؎ اے رہینِ خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگِ رحیل ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ حضر بے برگ وساماں، وہ سفر بے سنگ ومیل وہ نمود اختر سیماب پا ہنگامِ صبح! یا نمایاں بام گردوں سے جبینِ جبرئیل وہ سکوتِ شام صحرا میں غروبِ آفتاب جس سے روشن تر ہوئی چشمِ جہاں بینِ خلیل ان اشعار میں دشت وصحرا کی زندگی ایسے رنگارنگ مناظر سامنے لائے گئے ہیں جن سے پابند زندگی کے بالمقابل آزاد زندگی کی جھلکیاں سامنے آتی ہیں اور مختلف حسّی پیکر ہمارے حواس کو متحرک کرنے کاکام انجام دیتے ہیں۔ رہینِ خانہ، کے لفظ سے تخاطب اختیار کرنے کے سبب صحرانوردی کے ترجیحی نکات زیادہ موثر انداز میں ہم پروارد ہوتے ہیں۔ رحیل کا لفظ تو اپنی جگہ حرکت وعمل کی نمایندگی کرتا ہی ہے اس کے ساتھ بانگ اور بانگِ رحیل کی گونج ہماری سماعت کے لیے فردوسِ گوش بن جاتی ہے۔ اس پیکر کی تخلیق میں بصری اور سمعی پیکروں کو جس طرح مخلوط کیا گیا ہے وہ عام حسّی پیکر کے مقابلے میں زیادہ فن کارانہ ہے۔ دوسرے شعر میں آہو کے خرام کے ساتھ اس کی لاپروائی اور بے نیازی کی صفت اہمیت کی حامل ہے۔ اس بے نیازی سے دوسرے مصرعے کا بے برگ و ساماں قیام اور بے سنگ و میل سفر نسبتاً زیادہ معنی خیز بن جاتا ہے۔ اس کے بعد کے شعر کو پڑھ کر تخیّل کی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ’’فضائے دشت میں بانگِ رحیل‘‘ کی گونج اور ’’ریت کے ٹیلے پہ آہو کے بے پروا خرام‘‘ سے آزادی کی جو تصویریں ابھرتی ہیں وہ کسی نہ کسی طرح دشت کی سرزمین اور مٹی کے دائرے میں مقیّد ہیں۔ جبکہ بامِ گردوں سے جبینِ جبرئیل کے نمایاں ہونے سے نمودِ اخترِ سیماب پا کی تشبیہ ہمارے حواس کو ایک ماورائی فضا میں لے جاتی ہے۔ اختر کے ساتھ سیماب پا کی متحرک صفت اور اس کے ساتھ نور سے معرضِ وجود میں آنے والی مخلوق کی پیشانی کی شباہت تخیل کی پرواز کی بہترین مثال ہے۔ اس شعر میں صبح کا منظر ہے تو اس کے بعد کے شعر میں شام کے وقت غروبِ آفتاب کا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں غروبِ آفتاب دن یا روشنی کے خاتمے کا اعلان نہیں بلکہ یہ وہ غروب ہے جسے دیکھ کر ماضی میں کچھ لوگوں کی آنکھیں روشن ہوچکی ہیں۔ اس موقع پر شاید اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ تلمیح، حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے عرفانِ ذات باری کے اس واقعے کی ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں تفصیل سے آیا ہے۔ اگلے شعر میں صحرا کی زندگی کا ایک اور منظر ہے جس کو دوسرے غیرمرئی منظر سے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ دشت وصحرا میں پانی کے چشمے کے اطراف قافلوں کے قیام پر جنت میں سلسبیل کے گرد ایمان والوں کے ہجوم کا گمان گزرتا ہے۔ یہ تشبیہ ہمارے تصور کو ماورائی فضا میں لے جاتی ہے اور کائنات کی دیکھی ہوئی اور ان دیکھی اشیا کے درمیان مماثلت کے پہلوئوں کی تلاش تخیلی قوت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ علائقِ دنیاوی سے بے نیازی کا وہ موازنہ جس کا احساس اس بند کے ابتدائی اشعار میں زیریں لہر کے طور پر ہوتا ہے، اس شعر میں پابندی اور آزادی کے فرق کے نام سے بے نقاب ہوکر سامنے آتا ہے : ؎ تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش اور آبادی میں تو زنجیریِ کشت و نخیل یہاں ’’محبت‘‘ کا لفظ نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اقبال کی پوری شاعری کے سیاق وسباق میں یہ محبت وہ ’قوتِ حیات‘ ہے جو اپنے مقصد کے علاوہ دنیا کے تمام علائق سے انسان کو بے نیاز کردیتی ہے۔ ویسے اُردو اور فارسی کی شعری روایت میں سوداے محبت اور جنون عشق کے ساتھ ویرانے کا جو تعلق نظر آتا ہے، وہ بھی پابندی اور تھکن کی نفی کرتا ہے۔ زیربحث بند کی ابتدا میں، رہین خانہ، کی ترکیب سے خضر کے تخاطب کو سامنے رکھا جائے تو زنجیریِ کشت و نخیل کی معنویت زیادہ اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے۔ اس بند کے آخری شعر میں، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، گردشِ پیہم کا کلیدی لفظ ماقبل کے سارے منظر، بیانات اور تشبیہات کا محور ہے : ؎ پختہ تر ہے گردش پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اے بے خبر، رازِ دوامِ زندگی یہ رازِ دوامِ زندگی، دراصل شاعر کے اس مکالمے کا جواب ہے کہ: ع زندگی تیری ہے بے روزوشب وفردا و دوش گردشِ پیہم، وقت کے حصار کو بھی توڑتی ہے اور شخصیت کی پختگی کی ضمانت بھی بنتی ہے۔ اس طرح خضر کی شخصیت روزوشب کی دسترس سے بلند ہے اور دانش وری کے نقطۂ نظر سے بلوغتِ فکرونظر کے اعلیٰ مدارج پر فائز بھی۔ ’خضرراہ‘ کے تیسرے بند کے محولہ بالا آخری شعر کی ردیف، زندگی ہے۔ یہ ردیف زندگی کی حقیقت وماہیت کے بارے میں خضر کے ان تصورات کی پیش کش کا ماحول بناتی ہے جن کا اظہار نظم کے چوتھے بند میں کیا گیا ہے۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے بند میں اقبال نے فلسفیانہ رویے سے زیادہ شاعرانہ وسائل اظہار سے کام لیا ہے۔ چنانچہ تخیّل کی غیرمعمولی قوتِ تشبیہات، استعارات، پیکرتراشی اور ڈرامائی صورتِ حال کی تخلیق کی طرف زیادہ متوجہ ہے۔ چوتھے بند میں تخیّل کے اس بے محابا استعمال کا اندازہ تو نہیں ہوتا مگر شاعرانہ بیانات کا اہتمام ضرور ملتا ہے۔ جوابِ خضر کے اس حصے ہی میں نہیں بلکہ سلطنت، سرمایہ ومحنت اور دنیاے اسلام کے ذیلی عنوانات کے تحت آگے چل کر جو اشعار ملتے ہیں، و ہ دراصل تصوراتی اور فلسفیانہ شاعری کے ضمن میں آتے ہیں۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے سب سے کارآمد طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ اقبال کے جن افکار کا اظہار ان کی نثر میں ہوا ہے، اُن کی فکری شاعری سے موازنہ کیا جائے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ ان کا شعری فلسفہ ہمیں احساس اور تخیل کی سطح پر کس حد تک متاثر کرتا ہے؟ اس سلسلے میں زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ، تاہم یہ ضرور کہاجاسکتا ہے کہ اقبال کی نثر میں بیان ہونے والے افکار میں جو جامعیت اور قطعیت دکھائی دیتی ہے، اقبال کی فلسفیانہ شاعری اس جامعیت اور قطعیت کی حامل نہیں معلوم ہوتی۔ اقبال کے مفکرانہ بیانات شاعری میں صرف ٹھوس بیانات نہیں رہتے بلکہ شاعرانہ بیانات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیالات تجربات میں تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں اور شاعری میں اُن کے فلسفیانہ تصورات زندگی کی معنویت میں کچھ اس انداز میں اضافہ کرتے ہیں کہ شاعرانہ تجربات کی شکل اختیار کرکے آفاقیت اور عمومیت سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں ____ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال اپنی تصوراتی شاعری میں جس مشکل ذمہ داری کو اپنے سرلیتے ہیں اس کی راہ میں دوچار بہت سخت مقامات بھی آتے ہیں۔ بسااوقات ان کی شاعرانہ گرفت کمزور بھی پڑتی ہے اور ان کی شاعری پر ان کا مفکر اور فلسفی غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ایسے مقامات اقبال کی بھرپور نمایندگی نہیں کرتے۔ اقبال کی تصوراتی شاعری کا بہترین حصّہ، شاعرانہ اور فلسفیانہ، دونوں اعتبار سے وہ ہے جہاں وہ شعریت اور فلسفے کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ’خضرراہ‘ میں اتفاق سے دونوں طرح کی مثالیں ملتی ہیں مگر صرف تخیلّات پر مبنی اشعار اور تخیلّات کے تعاون سے پیش ہونے والے افکار کی قدروقیمت کے تعین کے نازک پیمانوں کو فراموش کردیا جائے تو فکری شاعری کی مابہ الامتیاز خصوصیت کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ زندگی کے بارے میں خضر کے تصورات جن اشعار میں پیش کیے گئے ہیں، ان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تخیل کے محدود استعمال کے باوجود ایسے اشعار نظم کی فنّی قدروقیمت میں تخفیف نہیں کرتے۔ اس حصّے کے ابتدائی دو شعر اس طرح ہیں: ؎ برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی زندگی کی عام منطق کے اعتبار سے فائدہ اور نقصان، کامیابی اور ناکامی اور فتح اور شکست، زندگی کے معاملات کے تسلیم شدہ پیمانے ہیں۔ سودوزیاں سے زندگی کی ماورائیت کا خیال، اقبال کے نقطۂ نظر کو زندگی کی منطق کے بجاے شاعرانہ منطق کے قریب لے جاتا ہے۔ اس کی مزید توثیق دوسرے مصرعے کے قولِ محال سے ہوتی ہے۔ زندگی کا کبھی ’’جان‘‘ سے عبارت ہونا اور کبھی جان کی قربانی سے، یہ بات بجائے خود ایک پیراڈوکس ہے۔ یہ پیراڈوکس یا قولِ محال اس شعر کو فکر محض ہونے سے بچاتا ہے۔ دوسرا شعر بھی زندگی کی ایک مسلّمہ حقیقت کی نفی کرتا ہے۔ ہم چونکہ زندگی کو روزوشب، امروزوفردا اور ماہ وسال کے پیمانوں سے ناپتے ہیں، اس لیے زندگی محدود بھی معلوم ہوتی ہے مائل بہ زوال بھی دکھائی دیتی ہے اور اس کی بیثباتی بھی اظہر من الشمّس ہے۔ اس شعر میں شاعر اس کلّیے ہی کی نفی کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے نزدیک زندگی جاوداں، پہیم دواں اور ہر دم جواں ہے۔ یہ دونوں اشعار اپنے آخری تجزیے میں شاعرانہ بیانات پر مبنی قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اس میں شعری طریقۂ کار کی ایک جھلک اس توازن کے سبب بھی ہے کہ پہلے شعر میں زندگی کی ماہیت کا بیان اس کی کیفیت کے نقطۂنظر سے ہوا ہے اور دوسرے شعر میں اس کی کمیت کے زاویۂنگاہ سے۔ بعد کے اشعار میں سرّآدم، ضمیر کن فکاں، کوہکن، جوئے شیر، تیشہ اور سنگِ گراں کے الفاظ سے تلمیحی ابعاد کا اضافہ ہوتا ہے۔ بندگی کو جوے کم آب سے اور آزادی کو بحربے کراں سے تشبیہ دینے کے سبب آب زندگی کی معنویت کے کئی پہلو ہمارے اوپر روشن ہوتے ہیں۔ اس شعر میں ہستی یا کائنات کو قلزم ہستی اور انسان کو حباب سے مماثل قرار دیا گیا ہے۔ عدم اور وجود کا زیروبم اور قلزم ہستی سے حباب کا ابھرنا اور پھر معدوم ہوجانا، آزمایش وابتلا کی جو تصویر ہمارے سامنے لاتا ہے، وہ قابل توجہ ہے زندگی سے متعلق دوسرے بند میں انسان کی مخفی قوتوں کو بروے عمل لانے کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اس کو صرف ایک شعر میں بیان کیا جاسکتا تھا: ؎ پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے اس بند میں صداقت کے لیے مرنے کی تڑپ اور سوے گردوں نالۂ شب گیر بھیجنے کا مشورہ شاعرانہ اظہار پر مفکرانہ بالادستی کا مظہر ہے۔ فکر کی بہت نمایاں لہر مندرجہ بالا شعر کی سطح پر بھی تیرتی نظر آتی ہے مگر زمین و آسمانِ مستعار کی نفی اور نفی یا معدومیت کے بطن سے ایک عالم نو کی بازآفرینی سے وہ شاعرانہ تصویر بھی بنتی ہے جو ہمارے حواس میں تلازمات کی ایک دنیا کو متحرک کرتی ہے۔ ’’خضرراہ‘‘ کے چھٹے بند میں ’’سلطنت کیا ہے؟‘‘ کا جواب حضرت خضر کی زبان سے دیا گیا ہے۔ اس بند میں حاکمیت اور محکومیت کے ہمہ گیر مسئلے پر خاصے وسیع پس منظر میں اظہارِ خیال ملتا ہے۔ پہلا شعر اس بند کے باقی دس اشعار کے لہجے اور رجحان کا تعین کرتا ہے۔ اس شعر میں دو باتیں اہم ہیں: ایک قرآن کریم کی اس آیت کا حوالہ: { اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَا اَذِلَّۃ وَکَذَالِکَ یَفْعَلُوْن}( سورہ نمل۲۷:۳۴) (جب بادشاہ لوگ کسی قریے میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں فساد و فتنہ برپا کرتے ہیں اور وہاں رہنے والے باعزت لوگوں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں اور وہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔) دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں اقوامِ غالب کی سلطنت کو ’’جادوگری‘‘ کہا گیا ہے۔ قرآنی آیات کے حوالے سے حاکمیت کا عام طریقۂ کار اور انسانی اقدار کی پامالی کا مروجہ انداز سامنے آتا ہے اور ’جادوگری‘ کے لفظ سے فریب اور التباس کی اس کیفیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں محکوم قومیں حق وباطل یا سفید یا سیاہ کی تفریق اور تمیز کی صلاحیت تک سے محروم کردی جاتی ہیں۔ ایک مصرعے میں عملی صورتِ حال کا بیان ہے تو دوسرے مصرعے میں اُس فریبِ نظر کا، جو ہم سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت چھین لیتا ہے۔ ایک مروجہ طریقہ ہے اور دوسرا جدید ترین سیاسی حربہ ____ جادوگروی کا یہ سلسلہ ہماری زندگی کو کس کس طرح اپنے حصار میں رکھتا ہے، اس کو ایک بار پھر تلمیحات کی مدد سے بیان کیا گیا ہے: ؎ جادوے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری پہلے شعر میں تلمیح کو اس شکل میں استعمال نہیں کیا گیا جس میں وہ تاریخی اور روایتی طور پر ہمارے شعور کا حصہ ہے۔ بلکہ شاعر نے اس تلمیح کو منقلب کرکے ایک ہی نتیجہ نکالا ہے۔ ایاز سے محمود غزنوی کی محبت زیربحث شعر میں بے لوث محبت یا وارفتگی نہیں رہتی بلکہ یہ محبت ایک ایسا طلسم ہے جو ایاز کی آنکھوں پرپردہ ڈال دیتا ہے۔ یہاں جادوئے محمود کے اثر سے چشم ایاز کا حلقۂ گردن میں سازِ دلبری دیکھنا، شاعرانہ صورت گری کے ساتھ معنی آفرینی کی بھی عمدہ مثال ہے۔ دوسرے شعر میں ’’موسیٰ‘‘ تلمیحی نام بھی ہے اور استعارہ بھی۔ جس سحرکاری کا ذکر اول الذکر شعر میں آیا ہے، اس کا بُطلان دوسرے شعر میں پیش کیا گیا ہے۔ بعد کے اشعار میں طلسم سامری کو مغرب کے جمہوری نظام اور مجلس آئین واصلاح ورعایات وحقوق کے پُر فریب سیاسی ہتھکنڈوں کی شکل میں دکھلایا گیا ہے۔ ان اشعار میں ہم عصر سیاسی نظام اور ان کے بعض پہلوئوں پر تبصرہ ضرور ہے، مگر یہ تبصرہ بھی شاعرانہ بیانات پر مبنی ہے۔ جمہوری نظام کو قیصری کا ایک انداز کہنا یا اس نظام کے پس پردہ جبرواستبداد کو روا رکھنا، یا غریب ممالک کا سرمایہ داروں کی جنگِ زرگری کا آلۂکار بننا، یقینا نثری تبصروں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ مگر ان اشعار میں اقبال نے جو شاعرانہ طریقۂکار اختیار کیا ہے اس میں مغربی جمہوریت کو سازِ کہن کے نام سے موسوم کرنے اور اس سازِ کہن کے پردوں سے نوائے قیصری کے ابھرنے کی بات ہمارے حِسّی تجربے کا حصہ بنتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح جمہوری قبا میں دیوِ استبداد کے رقصاں ہونے اور اس پر نیلم پری کے رقص کا گمان گزرنے سے جو تمثیلی کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہ بیک وقت تشبیہ، تمثیل، تلمیح اور پیکرتراشی جیسے وسائلِ شعر پر مبنی ہے: ؎ دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس۔ِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری مغرب میں آئین سازی، اصلاحی کاوش اور رعایات و حقوق کے نعرے جس قدر بلند بانگ انداز میں لگائے جاتے ہیں اور ان نعروں کے پس پردہ غیرترقی یافتہ اور ترقی پذیر قوموں کے استحصال کا جو حاکمانہ رویہ اپنایا جاتا ہے، اس کو طبِّ مغرب کی ایجاد کردہ اُن شکرآمیز گولیوں کا نام دینا جو مشرقی اقوام کو خواب غفلت میں پہنچا کر ہوش وحواس سے بے گانہ کردیتی ہے، اس کو اقبال کا سخت سے سخت نقّاد بھی سپاٹ یا غیرشاعرانہ بیان کا نام نہیں دے سکتا۔ ’خضرراہ‘ کے پہلے بند کے بعض اشعار میں جسمانی اور ذہنی اسیری کے تلازمات کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا تھا، زیربحث اشعار میں خواب اور جادوگری سے مناسبت رکھنے والے الفاظ کی تکرار ملتی ہے۔ جادوگری، خواب، ساحری، جادوے محمود، طلسم سامری، نیلم پری، خواب آوری اور سرابِ رنگ وبو، جیسے الفاظ وتراکیب کے ذریعے اس نظم کی مخصوص فضا کو استحکام ملتا ہے۔ اس بند کے آخری شعر میں سرابِ رنگ وبو کو گلستاں سمجھنے اور قفس کو آشیاں خیال کرنے کی نادانی پر طنز کیا گیا ہے۔ طنز کا یہ لہجہ زیربحث بند کے زیادہ تر اشعار میں نمایاں ہے یہ طنز یہ لہجہ ہی اس نوع کے فکری اور فلسفیانہ اشعار میں فکروفلسفہ کی لَے کو زیادہ تیز ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اب تک زیربحث آنے والے تین بندوں میں ’’زندگی کا راز کیا ہے‘ سلطنت کیا چیز ہے؟‘‘ کا جواب حضرت خضر نے دیا ہے، ان کے بعد کے دوبند ’’اور یہ سرمایۂ ومحنت میں ہے کیسا خروش؟‘‘ کا جواب ہیں۔ پہلے بند کے ابتدائی تین شعروں کا تعلق بندۂ مزدور کو دیے جانے والے پیغام سے ہے۔ یہ پیغام نہایت سپاٹ انداز میں دیا گیا ہے۔ طرزِ اظہار براہ راست ہے اور ان شعروں میں شعریت بھی نہیں ملتی۔ مگر اسی بند کے چند شعر، شعریت، استعاراتی طرزِ اظہار اور بالواسطہ طرزِ تخاطب کی مثال پیش کرتے ہیں۔ اگر اقبال نے اس بند میں پیغام رسانی کا غیرشاعرانہ انداز اختیار کرنے پر اکتفا کیا ہوتا تو وہ یقینا اپنے شاعرانہ منصب سے غفلت برتنے کے مرتکب قرار دیے جاسکتے تھے، مگر پیغام رسانی کی ذمہ داری کے ساتھ وہ اپنے شاعرانہ منصب کو فراموش نہیں کرسکتے: ؎ ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش اور تو اے بے خبر، سمجھا اسے شاخ نبات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خوب چُن چُن کر بنائے مسکرات کٹ مرا ناداں خیالی دیوتائوں کے لیے سُکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقدِ حیات ان اشعار میں استعمال ہونے والے نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت ، تہذیب اور رنگ جیسے الفاظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ یہ الفاظ ہم عصری مسائل یا سماجی اور ثقافتی حوالوں کی وجہ سے فنّی نقطۂ نظر سے غیراہم نہیں ہیں۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ان مسائل اور حوالوں کے لیے شاعر نے سیاق و سباق کیسا فراہم کیا ہے۔ نسل وقوم اور تہذیب ورنگ کی تفریق کو جہاں خواب آور گولیاں یا نشہ آور دوائوں کے طور پر استعمال کرنے کی بات کی جائے، وہاں معاملہ فلسفہ وفکر کا نہیں رہ جاتا۔ اس قسم کا فلسفیانہ یا فکری بیان شاعری کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔ برگِ حشیش کو شاخِ نبات سمجھنے، خواجگی کے بنائے ہوئے مسکرات کا شکار ہونے اور سُکر کی لذت میں نقدِ حیات کو لٹوانے کی باتیں سرمایہ دار اور مزدور کی باہمی آویزش کی شاعرانہ تعبیرات ہیں۔ ان اشعار میں استعمال ہونے والی تلمیحات نہ صرف عصری مسائل کی پیش کش کو استعاراتی جہت بخش رہی ہیں بلکہ ان مسائل کو عمومیت اور آفاقیت سے بھی ہم کنار کرتی ہیں۔ سرمایہ و محنت سے متعلق دوسرا بند استعاراتی اور محاکاتی طرزِ اظہار کا عمدہ نمونہ پیش کرتا ہے۔ اسی بند کے پہلے شعر میں ’’غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک‘‘ کا مصرع غنچہ دامن اور شبنم کے الفاظ کے ذریعے مزدور یا مزدور کی قسم کے کسی بھی طبقے کے لیے قناعت کرنے کا نہایت موثر محاکاتی بیان بن جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قناعت ایک محمود صفت ہونے کے بجائے، ہمت عالی، کے پسِمنظر میں صفتِ محمود باقی نہیں رہتی ____ فطری مظاہرے سے محاکاتی فضا تخلیق کرنے کا سلسلہ اگلے اشعار میں بھی برقرار رکھا گیا ہے: ؎ آفتابِ تازہ پیدا بطن۔ِ گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک توڑ ڈالیں فطرتِ انساں نے زنجیریں تمام دوریِ جنت سے روتی چشم آدم کب تلک باغبانِ چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار زخمِ گل کے واسطے تدبیرِ مرہم کب تلک اقبال کے کلام میں خونِ صدہزار انجم سے سحر کے پیدا ہونے کا ذکر مختلف مقامات پر مختلف اور متنوع استعاراتی پہلوئوں کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں اس کی جہت روسی انقلاب کے تاریخی حوالے کی ہے۔ دوسرے شعر میں جنت سے نکالے جانے کی وجہ سے چشمِ آدم کو گریہ وزاری کرتے ہوئے نہ دکھلا کر ایک منقلب تلمیحی صورتِ حال دکھلائی گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں زندگی کے دوسرے موانعات کے ساتھ خود جنت بھی فطرتِ انسانی کے لیے زنجیر دکھائی دیتی ہے۔ موانعات کی ساری زنجیر توڑ ڈالنے کے سبب ہی دوریِ جنت کی وجہ سے چشمِ آدم کے آنسو نہ بہانے کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ پیکرتراشی کے ساتھ تہ داری کی فضا اس شعر کو زیادہ قابلِ لحاظ بناتی ہے۔ موخرالذکر شعر میں ’’زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم، پر سوالیہ نشان قائم کرنے کی وجہ سے باغبان کی کوتاہ اندیشی اور بہار کی قوتِ تخلیق اپنی پوری شدت کے ساتھ ہم پر منکشف ہوتی ہے۔ مظاہر فطرت کی مدد سے شعر کی محاکاتی فضا کی تخلیق اس پر مستزاد ہے۔ اس بند کے آخری شعر میں ماقبل کے اشعار کا لب ولہجہ برقرار رکھا گیا ہے۔ کرمکِ ناداں کو طواف شمع سے آزاد ہونے اور اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہونے کا مشورہ، اقبال کے نظامِ فکر میں انسان کے لیے اس کی مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی اہمیت کو ایک خاص انداز میں پیش کرتا ہے۔ طوافِ شمع سے آزادی اور عرفانِ ذات کی کوشش کرمکِ ناداں، کی تشبیہ کے پس منظر میں زیادہ معنی خیز ہوجاتی ہے۔ ’خضرراہ‘ میں جس مقام پر حضرتِ خضر سے شاعر کے بعض استفسارات ، مکالمے کی شکل میں پیش کیے گئے ہیں، وہاں شاعر نے براہِ راست، دنیاے اسلام، کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ ایشیا کے خرقۂ دیرینہ کے چاک ہونے اور نوجوانوں کے اقوامِ نو دولت کے کے پیرایہ پوش ہونے کا ذکر البتہ آیا ہے مگر یہ باتیں ضمنی حیثیت رکھتی ہیں۔ بنیادی مسئلے کی طرف ’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے‘‘ کے مصرعے کے ذریعے توجہ دلائی گئی ہے۔ اس مسئلے پر خضر کا جواب قدرے تفصیلی ہے۔ اس میں اختصار اور جامعیت کے بجائے طول کلام کو روا رکھا گیا ہے۔ دنیاے اسلام، کے بہت سے اشعار کی بلندآہنگی اور طوالتِ بیان، اس مسئلے سے اقبال کی جذباتی وابستگی کا ثبوت ہے۔ بعض اشعار میں جذباتی وابستگی، جذباتیت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ بالخصوص دوسرے بند کے کئی اشعار کی جذباتی بلندآہنگی نظم کے بڑے حصے میں قائم رکھی جانے والی فنّی تنظیم کو کسی حد تک مجروح کرتی ہے۔ اس کے برخلاف دنیاے اسلام کا پہلا اور آخر بندفنّی طرزِ اظہار اختیار کرنے کے سبب نظم کے بڑے حصے سے واضح طور پر ہم آہنگ ہے۔ خضر کہتے ہیں: ؎ لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل خشتِ بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبور نیاز لے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارس وہ میِ سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز ان اشعار میں عالمِ اسلام کی معاصر صورتِ حال کو جس تعمیمی انداز سے ہم کنار کیا گیا ہے، وہ اپنی مثال آپ پے۔ شریف حسین کی انگریزوں سے سازباز اور اس کے نتیجے میں ترکوں سے شریف حسین کی بغاوت، مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی اور قومی سانحہ تھی مگر اس سیاسی اور قومی سانحے کو تثلیث کے فرزندوں کے ہاتھوں میراثِ خلیل کے لُٹنے اور خاکِ حجاز سے کلیسا کی خشتِ بنیاد، بنائے جانے کے ذکر سے جو غیر واقعاتی یا عمومی حقیقت کی شکل میں ڈھالا گیا ہے، اس کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ خلافت کی تحریک ترکوں کی ایک تحریک سہی، مگر ہندوستانی مسلمانوں نے جس طرح اس تحریکِ خلافت پر پوری قوم کے مستقبل کا دارومدار سمجھ لیا تھا، اس کا بھرپور اظہار پہلے اور دوسرے شعر سے ہوتا ہے۔ ظور طلب بات یہ ہے کہ یہاں نہ شریف حسین کا نام آیا ہے اور نہ ترکستان کا۔ ان اشعار میں تثلیث کے فرزند کے ساتھ خشت بنیاد کلیسا کا ذکر اور میراث خلیل کے ساتھ خاکِ حجاز کا ذکر آیا ہے، یا پھر کلاہِ لالہ رنگ کا۔ کچھ تشبیہیں ہیں اور کچھ استعارے، جو معاصر سیاست کی بھی ترجمانی کرتے ہیں اور اِن اشعار کو واقعاتی حصار سے آزاد بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح ملک پارس تیسرے شعر میں صرف ایران تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پورے مشرق کی داستان بیان کرتا ہے۔ مغربی افکار اور تہذیب و ثقافت کے لیے ایسی مِے سرکش کا استعارہ جس کی تندی اور حرارت مشرقی اقوام کے وجود کو متزلزل کرسکتی ہے، صرف استعارہ سازی کے عمل کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ اپنے اختصار، جامعیت اور موثر شعری پیٹرن کی وجہ سے حسّی امتزاج کے ساتھ فلسفہ وفکر کی ایک دنیا کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ اس بند کے آخری شعر میں اقبال، جلال الدین رومی کے حوالے سے تخریب میں تعمیر اور انحطاط میں عروج کے مناظر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس طرح یہ حصہ اقبال کے پورے نظامِ افکار میں مثبت اقدار کے ایقان سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ دنیاے اسلام کا دوسرا بند جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، بلندآہنگی اور بیانیہ لب و لہجے کی وجہ سے مشفقانہ مشورے کی حیثیت رکھتا ہے۔ شعریت کی کمی اور شاعرانہ حکمتِ عملی کا فقدان اس بند میں واضح ہے: ؎ ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر یا پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو یا جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا یا پھر یہ شعر: ؎ نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی اڑ گیا دنیا سے تو مانندِ خاکِ رہ گذر ان مثالوں سے اس بند کی کمزوری کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ____ اس بند کے برخلاف دنیاے اسلام کے آخری بند کے اشعار میں شاعرانہ حکمتِ عملی نمایاں ہے۔ خیالات، افکار کی سطح سے بلند ہوکر اپنے حسّی متبادل کی شکل میں تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔ حسّی پیکروں سے ایک شعری فضا بنتی ہے اور یہ شعری فضا خیالات کو محسوس فکر کا درجہ عطا کرتی ہے: ؎ تو نے دیکھا سطوتِ رفتار دریا کا عروج موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود! مرکے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پیر دیکھ موخرالذکر مصرعہ ’’می ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند‘‘ کی توسیع ہے۔ یہ وہ پیش بینی اور مستقبل کی بشارت ہے جو فکری اعتبار سے پیغمبرانہ شان رکھنے کے باوصف تخلیقی اعتبار سے فن کارانہ بلندیوں کو چھوتی ہے کہ اس کا لُب لباب جس شعر میں بیان ہوا اس میں اقبال نے ’’آئینہ گفتار‘‘ کے لفظ سے ایک تجریدی اکائی کے لیے تجسیمی صفت استعمال کرکے استعارے کی تخلیق کا نادر طریقہ اختیار کیا ہے: ؎ کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ ’خضرراہ‘ پر گفتگو نامکمل رہے گی اگر اس نظم کے سلسلے میں علامہ اقبال کی وضاحت کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔ ’خضرراہ‘ پر سید سلیمان ندوی کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’اس نظم میں جوشِ بیان، کی کمی ہے‘‘ اقبال نے اپنے ایک خط میں ان کو لکھا تھا کہ : جوش بیان کے متعلق آپ نے جو کچھ لکھا ہے، صحیح ہے، مگر یہ نقص اس نظم کے لیے ضروری تھا (کم ازکم میرے خیال میں) جناب خضر کی پختہ کاری، ان کا تجربہ واقعات و حوادثِ عالم پر ان کی نظر، ان سب باتوں کے علاوہ ان کا اندازِ طبیعت جو سورۂ کہف سے معلوم ہوتا ہے، اس بات کا مقتضی تھا کہ جوشِ بیان اور تخیل کو ان کے ارشادات میں کم دخل ہو۔ اس نظم کے بعض بند میں نے خود نکال دیے اور محض اس وجہ سے کہ ان کا جوشِ بیان بہت بڑھا ہوا تھا اور جناب خضر کے اندازِ طبیعت سے موافقت نہیں رکھتا تھا۔ ٭ سیّد سلیمان ندوی بحیثیت ایک عالمِ دین کے قومی مسائل پر اقبال سے جس جوش وخروش کی توقع رکھتے تھے، اس کا تعلق براہِ راست اظہار اور بلندآہنگی سے تھا۔ مشرقی شعروادب کی فضا میں یہ بات بہت زیادہ معیوب بھی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ مگر شاعری میں انضباطِ خیالات اور تہذیبِ جذبات کا معاملہ زیادہ بنیادی اور اہم رہا ہے۔ والیری نے جوش کے بارے میں جو بات لکھی ہے کہ ’’جوش وخروش ایک شاعر کے لیے کوئی موزوں کیفیت نہیں‘‘ اس بات سے کسی بھی صاحبِ ذوق کو مشکل سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ اقبال، سیّد سلیمان ندوی سے غیرمعمولی عقیدت رکھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے دفاع میں جوشِ بیان کی کمی کا دفاع کیا ہے۔ جہاں تک تخیل کی کمی کا سوال ہے تو ’خضرراہ‘ میں یہ فرق بہت واضح ہے کہ ’جوابِ خضر‘ کے حصے میں ماقبل کے اشعار کے بالمقابل قوتِ تخیل کا استعمال کم ہے مگر تخیل کا فقدان نہیں۔ ممکن ہے اقبال باوجود کوشش کے، اپنی شاعرانہ افتاد طبع سے مکمل انحراف نہ کرپائے ہوں۔ جوش کے سلسلے میں زیادہ حقیقت پسندانہ رویہ اقبال نے ان اشعار میں ظاہر کیا ہے: ؎ بیم چوں بند است اندر پائے ما ورنہ صد سیل است در دریائے ما بر نمی آید اگر آہنگ تو! نرم از بیم است تار چنگ تو اقبال نے ’خضرراہ‘ میں جوشِ بیان سے احتراز کی جو دانستہ کوشش کی ہے۔ وہ گرامی کے نام ان کے ایک اور مکتوب سے بھی ظاہر ہوتی ہے مگر اسے کے باوجود ’خضرراہ‘ پر آج تک جنتے اعتراضات کیے گئے ہیں، ان کا تعلق اکثر جوشِ بیان سے رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ’خضرراہ‘ کے جن اشعار میں براہِ راست طرزِ اظہار یا جوش وخروش اور بلندآہنگی پید اہوگئی ہے وہی اشعار فنّی اعتبار سے ’خضرراہ‘ کی قدروقیمت میں کسی حد تک تخفیف کرتے ہیں۔ ’خضرراہ‘ پر فارم کے ناقص ہونے اور اس کے مختلف حصّوں کو ایک دوسرے قدرے بے نیاز ہونے کے اعتراضات بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ مگر غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ نظم کے ابتدائی دوبند میں شاعر اور خضر کے کرداروں کی پیش کش اور خضر سے شاعر کے مختلف سوالات، نظم کے باقی ماندہ حصے کو ایک دوسرے مربوط رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ ویسے اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ زیربحث نظم کے دو تین بند، یا کچھ اشعار نظم کی فنّی تنظیم اور تخلیقی فضا کو متاثر کرتے ہیں۔ ہرچند کہ یہ حصے نظم میں شامل ہوتے ہوئے اس کا ناگزیر حصہ نہیں، مگر یہی بات اس نظم کی صنفی کمزوری کے طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ ’خضرراہ‘ کی قدروقیمت کے صحیح تعین کے لیے ہمیں متذکرہ بالا ضمنی نقائص کی بجائے اس بات کو اہمیت دینی چاہیے کہ کیا اس نظم کا لفظیاتی نظام پوری نظم میں کسی تنظیم اور ربط و تسلسل کا احساس دلاتا ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دیا جائے گا، کہ ’خضرراہ‘ میں بعض کلیدی الفاظ اور تراکیب کے مناسبات اور تلازمات کا اہتمام اس نظم کے اندر پائے جانے والے لفظیاتی نظام کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اس ضمن میں ’دریا‘ اور ’گرفتاری‘ کے مناسبات اور تلازمات کا ذکر ابتدائی صفحات میں آچکا ہے۔ زیربحث نظم کے سلسلے میں پوری نظم میں نمایاں نظر آنے والی شاعر کی فنّی حکمتِ عملی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس حکمتِ عملی کا اظہار کہیں فکری عناصر کے حسّی متبادلات کی تلاش اور شعری پیکروں کی تشکیل کی صورت میں ہوا ہے تو کہیں بعض متضاد حقائق کی جدلیاتی کیفیت سے کسی نئی حقیقت کی تخلیق کی کوشش اور سپاٹ خیالات کے بجائے تخلیقی صداقت کی سحرآفرینی جیسے فن کارانہ طریقوں سے۔یہ خصوصیات اس نظم کے لیے ایک ایسی قوت بن گئی ہیں جس کے سبب اگر اس نظم کو غیر معمولی نظم کا درجہ نہ بھی دیا جائے جب بھی یہ قوت ’خضرراہ‘ کو معمولی نظم ہونے کے الزام سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اس نظم کی فنّی قدروقیمت، اس کی فلسفیانہ اور فکری بنیادوں سے کہیں زیادہ قابل توجہ ہے اور یہی بات ’خضرراہ‘ کی وقعت کی ضامن ہے۔ ٭٭٭٭ قرآن مجید کی سائنسی تفسیر کیا ممکن العمل بھی ہے ؟ پروفیسر مستنصر میر ترجمہ: سید قاسم محمود [پروفیسر مستنصر میر، ڈائرکٹر سنٹر آف اسلامک سٹڈیز، شعبۂ فلسفہ و مطالعۂ مذاہب، ینگس ٹائون سٹیٹ یونیورسٹی، اوہائیو، امریکا کا یہ مقالہ انگریزی جریدے اسلام اینڈ سائنس کے شمارۂ اول، جلد دوم، خزاں ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا اُردو ترجمہ کرتے وقت ’’سائنٹیفک تفسیر‘‘ کو ’’سائنسی تفسیر‘‘ کہا گیا ہے۔ مترجم] تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ تفسیر نگاری کے شعبے میں متعدد اسالیب تفسیرمسلمہ حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ تفسیربالروایت میںجزوِ خاص روایت ہے، تفسیر کلامی میں الٰہیات کے مباحث پر زور دیا جاتا ہے، تفسیر فقہی کا تعلق قانونی اُمور سے ہے، تفسیر نحوی میں انشا اور صرف ونحو کے رموز سے بحث کی جاتی ہے اور تفسیر ادبی میں زبان اور اسلوبِ بیان کے معاملے دیکھے پرکھے جاتے ہیں۔ جہاں تک تفسیر سائنسی کا تعلق ہے، کلاسیکی اسلامی روایت کے بعض رحجانات کو سائنسی کہا جاسکتا ہے، اور بعض ممتاز مسلم مفکرین، مثلاً ابو حامد الغزالی (متوفی۱۱۱۱ئ) فخر الدین رازی (متوفی ۱۲۰۹ئ) اور جلال الدین سیوطی (متوفی ۱۵۰۵ئ) کا حوالہ دیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے قرآن کی سائنسی تفسیر کے خیال کی حمایت کی ہے، لیکن تفسیر سائنسی اب تک ازرُوئے تاریخ، مسلمہ حیثیت اختیار نہیں کرسکی ہے۔ صرف حال ہی میں اسے دوسرے اقسامِ تفسیر کے ہم پلہ قرار دلانے کے لیے نسبتاً پختہ اور متواتر کاوشیں ہوئی ہیں۔ متعدد زبانوں میں سائنسی تفسیر کے تجربے سامنے آئے ہیں، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قرآنِ حکیم میں سائنٹیفک نوعیت کی معلومات یا علم موجود ہے، اور لفظ سائنٹیفک سے وہی مفہوم مراد ہے جو طبیعی علوم میں لیا جاتا ہے۔ ان جدید تفاسیر میں سے سائنسی یا علمی تفاسیر میں سائنسی تفسیر کی ماہیت و وسعت کی عمومی تشریحات سے لے کر مختلف سائنسی موضوعات پر قرآن کی روشنی میں فی موضوع الگ الگ مباحث ملتے ہیں۔ ۱؎ سائنسی تفسیر کے حق میں دلائل ہماری تاریخ میں سائنسی تفسیر کے واضح نمونے کی عدم موجودگی کے باعث شبہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنسی تفسیر نگاری کا منصوبہ قابل عمل نہیں ہے۔ ماضی میں سائنسی تفسیر کے فقدان کو دیکھتے ہوئے قدرتی طور پر خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی تفسیر کو ہماری روایت کی منظوری اور توثیق حاصل نہیں ہے۔ اس شبے کا ازالہ مندرجۂ ذیل وجوہ سے ہوسکتا ہے: ۱) جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے اسلام کے کلاسیکی دور میں سائنسی تفسیر نگاری کی روایت مکمل طور پر ناآزمودہ اور غیر مصدقہ نہیں رہی۔ ۲) علمِ حقیقی اور ٹھوس ضرورتوں اور تقاضوں کے تحت ارتقا پذیر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر جب الٰہیات کے سنجیدہ مباحث و مسائل سے نمٹنے کی ضرورت پیدا ہوئی تو کلامی تفسیر وجود میں آئی۔ آج سائنس کے غلبے اور سائنسی عالمی تناظر کا تقاضا ہے کہ سائنسی تفسیر لکھنے کی طرف توجہ کی جائے۔ ایسی تفسیر عصر حاضر کی ضرورت بنتی جارہی ہے۔ ۳) قرآن خود کو ’’کتاب الہدیٰ‘‘ کہتا ہے۔ گویا لفظ ’’ہدیٰ‘‘ اسلامی نصوص و احکام کے بارے میں ایک بنیادی اور لازمی عنصر ہے۔ قرآن کی ہدایت کو محض چند اُمور تک محدود کرنا ایک من مانی ہوگی ورنہ زیادہ معقول نقطۂ نظر یہی ہے کہ قرآن حکیم میں زندگی کے تمام اُمور و معاملات کے بارے میں ہدایات موجود ہیں، جن سے ظاہر بات ہے کہ سائنسی ہدایاتِ خارج نہیں ہیں۔ مثلاً اگر دلیل کے طور پر کہا جائے کہ قرآنِ حکیم قانونی و فقہی علم کا سرچشمہ ہے تو یہ قرآن کی مختلف تفاہیم و تفاسیر میں سے صرف ایک طریقہ اور انداز ہے۔ اسی طرح کہا جاسکتا کہ سائنسی طریقہ قرآن فہمی کا ایک اور ممکنہ اور درست طریقہ اور انداز ہے۔ ۲؎ ۴) متعدد آیات قرآنی میں مظاہرِ قدرت کی گوناگونی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کائنات کے مجموعی نظام اور توازن اور قدرت کے مختلف عناصر کے درمیان ہم آہنگی، اور دنیا کے مظاہر طبیعی کے مابین علت و معلول کے رشتے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْ فَقَدَّرَہ‘ تَقْدِیْرًا (سورہ فرقان-۲) اور پیدا کیا اُس نے ہر چیز کو۔ پھر مقرر کردی اُس کی ایک تقدیر اَ لشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَا نٍٍٍo وَّ النَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰ نِo وَا لسَّمَآ ئَ رَفَعَھَا وَ وَ ضَعَ اَلْمِیْزَ انَ o (سورہ الرحمن- ۵تا۷) سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے اور درخت سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔ ا لَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰ تٍ طِبَا قًا ط مَا تَرٰ ی فِیْ خَلْقِ الرَّ حْمٰنِ مِنْ تَفٰوُ تٍ ط فَا رْ جِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْ رٍٍ (سورہ الملک-۳) جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو۔ کہیں تمھیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ باربار نگاہ دوڑائو۔ تمھاری نگاہ تھک کرنا مراد پلٹ آئے گی۔ جنین رحمِ مادر میں جن مختلف مرحلوں سے گزرتا ہے، اُس کی پوری باریک تفصیل مختلف آیات میں ملتی ہے، مثلاً: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا (سورہ حج- ۵) لوگو! اگر تمھیں حیات بعد ممات کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمھیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی، تاکہ تم پر واضح کریں کہ ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں، ایک خاص وقت تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں۔ پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلاَلَۃٍ مِّنْ طِینٍ o ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ o ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَئْنٰـہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ o(سورہ مومنون- ۱۲ تا ۱۴) ہم نے انسان کو مٹی کے سکت سے بنایا۔ پھر اُسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی۔ پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر اُسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ سو بڑا ہی بابرکت ہے۔ اللہ جو سب سے بہتر تخلیق کرنے والا ہے۔ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا (سورہ مومن- ۶۷) وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر وہ تمھیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے۔ اسی طرح زوجین کے بارے میں قرآنی تصور کا حوالہ متعدد آیات میں آیا ہے، مثلاً سورہ یٰسین کی آیت ۳۶ میں ارشار ہوا: سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنْبِتُ۔ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنفُسِہِمْ وَمِمَّا لاَ یَعْلَمُوْنَ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے، خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اُن کی اپنی جنس میں سے یا اُن اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔ ہمارے زیر بحث موضوع سے متعلق مذکورہ آیات، اور بے شمار دوسرے متعلقہ آیات جن کے بطور مثال حوالے دیے جاسکتے ہیں جن میں کہیں جزئیات کے ساتھ تفصیل ہے اور کہیں عمومی اشارات ظاہر کرتی ہیں کہ سائنسی تفسیر نگاری کا امکان واضح اور وسیع ہے۔ مندرجہ بالا دلیلوں کی طرح کی اور بھی دلیلیں قرآن کی سائنسی تفسیر کے حق میں دی جاسکتی ہیں۔ اسلام کے کلاسیکی دور میں الغزالی اور دوسرے دانشوروں نے جو کوشش محدود پیمانے پر کی تھی وہ جدید زمانے میں وسیع پیمانے پر کی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر مصر کے نامور عالم طنطاوی جوہری (متوفی ۱۹۴۰ئ) اپنی کثیر جلدی تفسیرِ قرآن ۳؎ میں یہ دلیل لاتے ہیں کہ ہر سائنسی دریافت و اکتشاف کا حوالہ قرآن پاک میں موجود ہے۔ حال ہی میں فرانسیسی سرجن، نومسلم مورس بکائے جن کو اُن کی معروف تصنیف بائبل، قرآن اور سائنسکی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ: بائبل کے برعکس قرآن مجید میں جو علم ہے وہ سائنسی لحاظ سے درست اور معتبر ہے۔ صرف اہلِ دانش افراد ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی تنظیمیں اور حتیٰ کہ حکومتیں بھی قرآن مجید کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کرنے لگی ہیں کہ اس کتاب میں سائنسی معلومات، علم اور بصیرت موجود ہیں۔ چنانچہ متعدد مسلم ملکوں میں قرآن اور سائنس کے باہمی تعلق پر خصوصی کانفرنسیں اور سیمینار منعقد ہوئے ہیں جن میں اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر مقالات پیش کیے گئے ہیں۔ ان اجتماعات نیز مسلم لٹریچر سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سائنس اور قرآن میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ سائنسی تفسیر کے خلاف دلائل ایک عام اور بڑی دلیل تو یہی ہے کہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ سائنسی تفسیر کے نکتہ چیں ابو اسحاق الشاطبی (متوفی ۱۳۸۸ئ) کے حوالے سے محمد حسین الذہبی لکھتے ہیں کہ: قرآنِ مجید طب، فلکیات، جیومٹری، کیمیا یا جادُو ٹوٹکوں کی گائیڈ بک کے طور پر نہیں بھیجا گیا، بلکہ ’’کتابِ الہدیٰ‘‘ کے طور پر نازل کیا گیاہے تاکہ انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر، نور کی طرف رہنمائی کرے۔ یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلَمَاتِ اِلی النور ۵؎ سائنسی تفسیر کے حق میں سورہ انعام کی آیت۳۸ کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے: مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ ہم سے کوئی ایک بھی چیز الکتاب میں نہیں چھوٹی۔ لفظ ’’فرط‘‘ کے لغوی معنی ہیں فراموش کردینا، نظر انداز کردینا، تخمینے اور اندازے میں شامل نہ رکھنا لیکن ذہبی کہتے ہیں کہ اس آیت کی تشریح کرتے وقت یہ مراد نہیں لینا چاہیے کہ قرآن میں علم کی ہر قسم کی پوری تفاصیل و جزئیات درج ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اُن تمام اُمور و معاملات کے بارے میں عام اُصول بتائے گئے ہیں جن کا جاننا انسان کے لیے ضروری ہے اور جن پر عمل کرنے سے انسان جسمانی و روحانی تکمیل حاصل کرسکتا ہے۔ ذہبی مزید لکھتے ہیں کہ : اس آیت میں انسانوں کے غور و فکر کے لیے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے، تاکہ وہ کسی خاص عہد میں مختلف علوم کی زیادہ سے زیادہ حد تک تشریح و تفسیر کرسکیں۔ جہاں تک اُن آیاتِ قرآنی کا تعلق ہے جو قدرتی اور وجودی مظاہر کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اُن کا مفہوم و منتہا انسانی عقل و شعور کی ایسی تربیت و رہنمائی ہے جس کی بنا پر ایسے مظاہر کے مشاہدے سے اخلاقی سبق اخذ کیے جاسکیں۔ سائنسی تفسیر کا تصور اس وجہ سے بھی قابل عمل نہیں ہے کہ سائنس تغیر پذیر ہے جبکہ قرآن اٹل اور ناقابل تغیر ہے۔ لہٰذا قرآن کی تفسیر سائنس کی روشنی میں کرنا انتہائی غلط بات ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ صرف سائنسی اکتشافات ہی نہیں، سائنسی اُصول و نظریے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ آج کا مسلمہ نظریہ کل متروک ہوجاتا ہے۔ سائنسی تفسیر کے حق میں شائع ہونے والے لٹریچرکا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض آیات کی تشریح میں سو سال پہلے جن سائنسی نظریوں کا حوالہ دیا جاتا تھا اب اُن حوالے سے احتراز کیا جاتا ہے کیونکہ وہ متروک ہوچکے ہیں۔ سو تعجب کی بات نہیں کہ سو سال کے بعد قرآن کی جو سائنسی تفسیریں لکھی جائیں گی اُن میں آج کے سائنسی نظریوں کے حوالے نہیں دیے جائیں گے۔ سائنسی تفسیر کے نام پر جو حقیقی تفسیر کی جاتی ہے وہ بھی سائنسی تفسیر پر اعتماد بحال نہیں کرپاتی۔ اول، اس لیے کہ سائنسی تفسیر کے حدود کے بارے میں جو دعاوی کیے جاتے ہیں، بلند آہنگ اور مبالغہ آمیز ہیں۔ مثال کے طور پر افضل الرحمن صاحب کی انگریزی تصنیف Quranic Sciences کی فہرست مضامین پر سرسری نظر ڈالنے سے مصنف کا یہ عندیہ معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآنِ مجید اُن کے نزدیک گویا اُن تمام طبیعی و معاشرتی سائنسوں سے تعلق رکھتا ہے جو عصرِ حاضر کی کسی یونی ورسٹی کے نصاب میں شاملِ درس و تدریس ہے: فلکیات، طبعیات، کیمیا، نباتیات، حیوانیات، ارضیات، جغرافیہ، بشریات، عمرانیات، معاشیات، نفسیات وغیرہ۔ افضل الرحمن صاحب نے تو، مثلاً سورہ الم نشرح کی پہلی تین آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیات اسلامی تہذیب کے دورِ اول میں طب جراحی اور تشریح الابدان کے علم کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ متعلقہ آیات یہ ہیں: اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ o وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ o الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَہْرَکَ o اے نبی! کیا ہم نے تمھارا سینہ تمھارے لیے کھول نہیں دیا۔ اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اتار دیا جو تمھاری کمر توڑے ڈال رہا تھا۔ اسی طرح سورہ ق کی آیت ۲۲ کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں: مسلمان سائنس دانوں کو اس آیت نے علم امراضِ چشم کی تحقیق کی تحریک کی ہوگی۔ آیت یہ ہے: لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ(سورہ ق- ۲۲) اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا‘ ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔ دوم، اس لیے کہ نام نہاد ’’سائینٹفک آیات‘‘ کی تشریح بھی محتاج تشریح رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’سائنسی تفسیر‘‘ کے حق میں سب سے زیادہ جن آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے اُن میں سے ایک سورہ انبیا کی آیت۳۰ بھی ہے: اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍٍّ کیا ان کفر کرنے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دونوں بند ہوتے ہیں۔ پھر ہم ان کو کھول دیتے ہیں، اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا۔ اس آیت کا حوالہ یہ ثابت کرنے کے لیے دیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں ’’بگ بینگ تھیوری‘‘ کی پیش گوئی کردی گئی ہے لیکن آیت کا سیاق اس تشریح کے خلاف ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں اس آیت کی تشریح سابقہ آیت اور آنے والی آیت کے مضمون سے ملا کر بتایا ہے کہ اس آیت سے توحید اور معاد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا اصلاحی کے اصل الفاظ یہ ہیں: رتق کے معنی بند اور فتق کے معنی کھولنے کے ہیں۔ آسمان اور زمین کے بند ہونے اور اُن کے کھولنے سے مقصود یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ دیکھتے ہو کہ آسمان بند ہوجاتا ہے، اس سے بارش نہیں ہوتی۔ اسی طرح زمین بند ہوتی ہے، اس سے سبزہ نہیں اُگتا۔ پھر دیکھتے ہو کہ آسمان کھلتا ہے اور اسے سے دھڑا دھڑ پانی برسنے لگتا ہے اور اس کے بعد خدا زمین کو بھی کھول دیتا ہے، اور وہ اپنی نباتات کے خزانے اُگلنا شروع کردیتی ہے۔ کل تک زمین بالکل خشک اور مردہ پڑی ہوئی تھی، لیکن بارش کے ہوتے ہی اس کے گوشے گوشے میں پانی کے آثار نمودار ہوگئے۔ فرمایا کہ جو لوگ توحید و معاد کا انکار کررہے ہیں اور قائل ہونے کے لیے کسی نشانی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ آخر وہ آفاق کی ان نشانیوں پر کیوں غور نہیں کرتے جو ہر روز اُن کے مشاہدے میں آرہی ہیں۔ اللہ نے اپنی اس کائنات میں یہ نشانیاں اسی لیے تو نمایاں فرمائی تھیں کہ لوگوں کو ان سے صحیح راہ کی طرف رہنمائی حاصل ہو۔ سوم، اس لیے کہ وحی اور سائنس میں مطابقت دکھانے کی کوشش دوسرے مذاہب بالخصوص عیسائیت کے دانشور بھی کرتے رہے ہیں۔ عیسائی مصنفین نے ایسی بے شمار کتابیں لکھی ہیں جن میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جدید سائنس بائبل کی ایک ایک حرف کو ثابت کرتی ہے اور توقع کے مطابق عیسائی مصنفین نے مسلم مصنفین کی قرآن اور سائنس میں ہم آہنگی ثابت کرنے کی کوشش پر تنقید کی ہے۔ مثال کے طور پر ولیم کیمبل نے اپنی تصنیف تاریخ اور سائنس کی روشنی میں قرآن اور بائبل میں مورس بکائے کے پیش کردہ حقائق و معلومات کو سراسر مختلف زاویۂ نظر سے دیکھا پرکھا ہے اور وہ ایسے نتائج پر پہنچا ہے جو بائبل کی حمایت و تائید کرتے ہیں اور قرآنِ مجید کی حقانیت پر شبہ ڈالتے ہیں۔ سائینٹفک حقائق و معلومات کو کھینچ تان کر اپنے اپنے مذہب کے مطابق ثابت کرنے کے لیے عیسائی اور مسلمان مصنفین جو جو طریقے اختیار کرتے ہیں اُن کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو بہت دلچسپ لگے گا۔ کم از کم ایک ہی مواد کی مختلف تعبیر و تفسیر سے وحی اور سائنس کو ہم آہنگ کرنے کی مشق کے جواز کے بارے میں کئی سوال پیدا ہوں گے۔ سائنسی تفسیر کے ضمن میں ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ اس کے اکثر و بیشتر حامیوں کو مفسر کی حیثیت سے مناسب اعتبار و استناد حاصل نہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اس ’’کمزوری‘‘ کے لیے اظہارِ معذرت بھی نہیں کرتے، بلکہ اپنی اس سوچ پر فخر کرتے ہیں کہ سائنسی تفسیر پیش کرنے والے کے پاس دو انتہائی اہم قابلیتوں کا ہونا کافی ہے۔ ایک تو سائنسی اکتشافات کی کچھ نہ کچھ معلومات رکھنے کی قابلیت اور دوسرے سائنسی اکتشافات کو آیاتِ قرآنی سے ہم آہنگ کرنے بلکہ اُن سے اخذ کرنے کی قابلیت۔ سائنسی تفسیر کے ضمن میں ایک اور قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ اس کے لکھنے کی حوصلہ افزائی عموماً سرکاری سرپرستی میں کی جاتی ہے۔ ان دونوں حقیقتوں کا امتزاج دنیائے اسلام میں حکومتوں کے زیراہتمام منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ان سرکاری تقریبات میں جن کی صدارت کے فرائض عموماً صدرِ مملکت یا وزیر مذہبی اُمور انجام دیتے ہیں ’’فاضلانہ اور محققانہ مقالات‘‘ بڑے بڑے بیوروکریٹ اور افسرانِ بالا پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں جن کی اپنی زندگی فضل و تحقیق سے یکسر محروم ہوتی ہے۔ مذکورہ حقائق کی مثال ایسی ہے، جیسے صحرا میں سیلاب۔ یہ نہ تو کسی ٹھوس روایت سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ کوئی نئی روایت قائم کرتے ہیں۔ تجزیہ و تبصرہ قرآن مجید کی سائنسی تفسیر کے ممکن العمل ہونے کے ضمن میں اپنے خدشات و شبہات اوپر بیان کرچکا ہوں۔ میرے شبہات کے باوجود، میرا خیال ہے کہ اصولاً ایسی تفسیر ناممکن العمل نہیں ہے۔ میرے اس خیال کی تین وجوہ ہیں: جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، متعدد آیاتِ قرآنی میں ایسے مظاہر کے حوالے موجود ہیں جو ’’سائنسی‘‘ تفسیر و تعبیر کے لیے کافی امکانات رکھتے ہیں۔ جس طرح ایک قانون دان جب قرآن کا مطالعہ کرتا ہے تو قدرتی طور پر ایسی آیات پر زیادہ توجہ دیتا ہے جو قانون سازی سے متعلق ہیں اور پھر اُن کے مضمرات پر غور و فکر کرتا ہے۔ اسی طرح جب ایک ماہرِ حیاتیات قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ مسائل حیات مثلاً رحم میں پلنے والے جنین کے ارتقائی مراحل سے متعلق آیات پر زیادہ دلچسپی اور سنجیدگی سے توجہ دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون داں کی دلچسپی اپنی جگہ، حیاتیات داں کی دلچسپی اپنی جگہ۔ ایک کی دلچسپی کو دوسرے کی دلچسپی پر تفوق حاصل نہیں ہے۔ لسانی نقطہ نظر سے یہ عین ممکن ہے کہ ایک لفظ یا جملے یا بیان کے معنی کی کئی کئی تہیں ہوں۔ ایک تہ ایک خاص عہد میں لوگوں کے لیے بامعنی ہو جب کہ آنے والے کسی اور عہد میں پہلی تہ کی نفی کیے بغیر لوگوں کے لیے کوئی اور تہ بامعنی اور بامقصد ہو۔ مثال کے طور پر لفظ ’’سَبَحٌ‘‘ کو دیکھیے۔ اس کے معنی ہیں تیرنا۔ سورہ انبیا کی آیت ۳۳ میں یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے: وَ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ اور وہی تو ہے جس نے پیدا کیا رات کو اور دن کو اور سورج کو اور چاند کو۔ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ لفظ ’’یَّسْبَحُوْنَ ‘‘ ساتویں صدی کے عربوں کے لیے بھی ایک خاص معنی رکھتا تھا جو عریاں آنکھ سے مظاہرِ قدرت کا مشاہدہ کرتے تھے، اور آج ہمارے لیے بھی یہ لفظ جدید سائنسی نظریات و اکتشافات کی روشنی میں، ایک خاص معنی رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ سائنسی تفسیر کے ممکن العمل نہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کی قدرتی تحدیدات ہوں لیکن درحقیقت بڑی وجہ یہ ہے کہ اب تک قرآن مجید کی کوئی قابل اعتماد سائنسی تفسیر نہیں لکھی گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مستقبل میں سائنسی تفسیر نہیں لکھی جاسکتی۔ تصوف کو اسلام کے بڑے دھارے میں جذب ہونے میں کئی صدیاں لگ گئی تھیں۔ تصوف کی طرح سائنسی تفسیر کو بھی اپنے غزالی کا انتظار کرنا ہوگا۔ اور بالآخر یہ ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوکر ایک حقیقت بن جائے گی اور آج جو لوگ اسے ناممکن العمل ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کل اُن کی حالت وولٹیئر کی کہانی Zadig کی اُس طبیب کی سی ہو کر رہ جائے گی جو ہیرو کی آنکھ کے پھوڑے کا علاج کرنے سے قاصر رہا لیکن جب وہ پھوڑا خودبخود ٹھیک ہوگیا تو اُس نے کتاب لکھی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پھوڑے کی یہ صحت یابی طبی نقطۂ نظر سے دُرست نہیںتھی۔ مقالے کو ختم کرنے سے پہلے مشاہدے پر مبنی چار نکات پیش کرنا چاہتا ہوں: (۱) سائنسی تفسیر کی تائید و حمایت میں دو محرکات پوشیدہ ہیں۔ پہلا محرک جو نوعیت کے لحاظ سے منفی ہے یہ ظاہر و ثابت کرنے کی خواہش ہے کہ قرآن اور سائنس میں کوئی باہمی کش مکش نہیں ہے۔ دوسرا محرک جو نوعیت کے لحاظ سے مثبت ہے اعجاز القرآن کو ظاہر و ثابت کرنے کی خواہش ہے یعنی یہ ثابت کرنے کی خواہش کہ بالآخر قرآن میں قابل تصدیق سائنسی معلومات کی موجودگی قرآن کو منزل من اللہ قرار دے گی کیونکہ ایسی کتاب وحی الٰہی سے ہی ظہور میں آسکتی ہے۔ یہ دونوں محرکات اپنے آخری نتیجے میں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ یہاں میں ہر رُخ کی الگ الگ جھلک دکھانا چاہوں گا۔ کلامِ الٰہی اور سائنسی اکتشافات کے درمیان موافقت و مطابقت پیدا کرنے کا منصوبہ از روئے تعریف دفاعی نوعیت کا منصوبہ ہے۔ وحی اور عقل میں موافقت پیدا کرنے کی ایسی ہی ذہنی ورزش پہلی مرتبہ مسلمان مفکروں نے عباسیوں کے عہد میں اختیار کی تھی جب وہ یونانی فلسفے کو اسلامی عقائد سے ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اُس زمانے میں بحث مباحثے کا میدان الٰہیات تھا آج سائنس ہے لیکن ذہنی ورزش کی نوعیت بالکل ویسی ہی ہے۔ جدید سائنس نے جو چیلنج بنیادی طور پر عیسائیت کو دیا تھا آج وہ تمام مذاہب کو بلکہ رُوح مذہب کو دیا جارہا ہے۔ مسلمان اس چیلنج کی نوعیت و ماہیت کو سمجھیں یا نہ سمجھیں، لیکن اس کی قوت و طاقت کو پوری شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ بعض مسلمانوں کا خیال یہ ہے کہ اسلام کا مناسب دفاع یہ ثابت کرنے میں ہے کہ قرآن اور سائنس میں کوئی کش مکش نہیں ہے بلکہ ایک قدم بڑھ کر یہ ثابت کرنے میں کہ قرآن پہلے ہے اور جدید سائنس بعد میں۔ جہاں تک اعجاز القرآن کا تعلق ہے میرے خیال میں اسے برحق ثابت کرنے کی کوششیں اصولاً غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ اعجاز القرآن کے تصور نے مسلمان دانشوروں کو نسلاً بعد نسلٍ مسحور کیے رکھا ہے جس کے نتیجے میں بے شمار کتب اعجاز القرآن کے اثبات میں وجود میں آئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ خود قرآن نے بالکل ابتدا میں منکرین عرب کو جو چیلنج دیا تھا کہ اگر وہ اس کتاب کو کلامِ الٰہی ماننے کے لیے تیار نہیں تو وہ اس جیسا کلام بنا کر دکھائیں اور جب منکرین قرآن جیسا کلام پیش کرنے سے قاصر رہے تو اعجاز القرآن ثابت کرنے کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا اور ہر نئے دور میں یہ باب از سرِ نو کھولنے کی ضرورت نہ رہی۔ یہ نظریہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ علم میں ہونے والی ترقیاں قرآن کو سچا اور برحق ثابت کردیں گی اس مقالے میں پیش کردہ رائے کے خلاف نہیں ہے یعنی یہ کہ قرآن کو تغیر پذیر سائنس کا یرغمال نہیں بنایا جاسکتا۔ (۲) یہ ایک عجیب و غریب حقیقت ہے کہ قرونِ اُولیٰ میں، جب مسلمانوں نے زبردست سائنسی سرگرمی کا مظاہرہ کیا اُس وقت جو تفاسیرِ قرآن لکھی گئیں اُن میں بالعموم سائنس کے حوالے موجود نہیں ہیں۔ اس کے برعکس آج جب کہ مسلمانوں کی سائنسی سرگرمیاں زوال پذیر ہیں بہت سے مسلم مفکروں نے اسلامی عقائد کے تحفظ اور ہمدردی کا ذمہ دار سائنس کی ذات میں ڈھونڈ لیا ہے۔ آج سائنسی تفسیر کا سب سے بڑا سہارا جدید سائنس بن گئی ہے، جو اپنی اصلیت اور ترقی کی تاریخ کے باوجود مغربی تہذیب کی پیداوار ہے۔ ۷؎ اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا سائنس اخلاقی اقدار کی حامل ہے یا اخلاقی اقدار سے بے نیاز ہے اس امر پر یقین کرلینے کے مضبوط وجوہ اور دلائل موجود ہیں کہ سائنسی کلچر اپنے تصورات میں اور اپنے نفاذ میں بھی اُس تہذیب کے تانے بانے سے جڑا ہوا ہے جس کی یہ پیداوار ہے۔ سائنس کوئی مجرد یا بے چہرہ چیز نہیں ہے۔ اس کی بنیاد معاشرتی و تہذیبی نظام سے اخذ کردہ چند پیشگی مفروضات پر مبنی ہے۔ سائنس کا ایک کردار، ایک مزاج، ایک تشخص ہے۔ میرا خیال ہے اپنی موجودہ شکل میں سائنسی تفسیر اسلام کے نام پر مغربی سائنس کے رنگ میں رنگی جائے گی۔ بالفاظِ دیگر یہ اپنی اصلیت کی توثیق سے محروم ہوجائے گی۔ ’’اصلیت کی توثیق‘‘ سے ہماری مراد ہے تحریک کی اپنی اصلیت، اپنا تناظر، اپنی تنظیم، اپنی تعمیر۔ قرآن کی ’’سائنسی تفسیر‘‘ کا معتدبہ حصہ اس تعریف کی میزان پر پورا اُترنے سے قاصر رہے گا۔ (۳) قرآن میں مذکور سائنسی علم کے بارے میں جو بھی نظریہ اختیار کیا جائے، اُس کا قرآن میں مذکور دوسری نوعیت کے علم مثلاً تاریخ کے علم سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ سورہ روم میں ایک مشہور پیشین گوئی کی گئی ہے جو سچی ثابت ہوئی یعنی یہ کہ ’’رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے‘‘۔ قرآن نے ایک خاص پیشین گوئی کی جو سچی ثابت ہوئی، تو اس حقیقت کا مطلب یہ نکالنا درست نہیں کہ قرآن مجید میں مستقبل میں رونما ہونے والے تمام واقعات کے بارے میں اطلاعات و معلومات دی گئی ہیں۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ قرآن میں طارق بن زیاد کے ہسپانیہ پر حملے ۷۱۱ء حطین کے مقام پر صلیبیوں پر صلاح الدین ایوبی کی فتح ۱۱۸۷ئ، یا ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب کے حوالے موجود ہیں جسے عرفِ عام میں ’’علم الاولین و الآخرین‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو معاملہ تاریخ کے ساتھ ہے وہی معاملہ سائنس کے ساتھ ہے۔ اگر قرآن میں مستقبل میں ہونے والے تمام تاریخی واقعات کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ ہے تو مستقبل میں ہونے والے سائنسی اکتشافات و ایجادات کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ (۴) مذکورہ بالا اُصول کی روشنی میں (یعنی یہ اُصول کہ قرآن میں مذکور سائنسی علم کے بارے میں جو بھی نظریہ اختیار کیا جائے اُس کا قرآن میں مذکور دوسری نوعیت کے علم سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے) بجا طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن قدرت کے سائنسی مطالعے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن تاریخ کی کتاب نہیں ہے لیکن مطالعۂ تاریخ کی ترغیب ضرور دیتا ہے یہ بات قانون پر بھی صادق آتی ہے اور دوسرے علوم پر بھی۔ قرآن نہ صرف یہ کہ قانون وضع کرتا ہے یا تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ ان کی طرف تحریک دیتا ہے۔ قرآن نے اسلام کی ابتدائی نسلوں کو تحریک دی بصیرت اور جوش کے ساتھ جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنی ایک مابہ الامتیاز فکری و عقلی روایت قائم کی۔ اپنی روایت قائم کرتے وقت مسلمانوں نے اپنے زمانے کے ماحول سے بھی اثرات قبول کیے اُس زمانے کے غالب افکار اور فکری تحریکوں سے استفادہ کیا۔ میں اس میں کوئی حرج یا عار محسوس نہیں کرتا کہ آج بھی مسلمان اپنے موجودہ فکری ماحول سے جس کا غالب عنصر سائنس ہے استفادہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ کی واضح نشانیوں پر تفکر و تدبر کا جو حکم دیا ہے وہ آج بھی اپنی پوری قوت و شان کے ساتھ کے موجود ہے: وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (سورہ بقرہ- ۱۶۴) اور ہوائوں کی گردش میں اور بادلوں میں جو تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں درمیان آسمان و زمین کے، یقینا ان سب چیزوں میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (سورہ یونس- ۵) وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے اپنی نشانیاں، اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْض (سورہ یونس- ۱۰۱) کہو، ذرا دیکھو تو کیا کیا نشانیاں ہیں آسمانوں میں اور زمین میں۔ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ (سورہ عنکبوت- ۲۰) ان سے کہو! چلو پھرو زمین میں۔ پھر دیکھو کہ کس طرح ابتدا کی ہے اُس نے خلق کی۔ اِِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (سورہ الجاثیہ- ۳) حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں، اہل ایمان کے لیے۔ آج ضرورت ہے یہ حقیقت تسلیم کرنے کی کہ مشاہدۂ قدرت پر غور و فکر کی جو دعوت قرآن نے مسلمانوں کو دی ہے مسلمان سنجیدگی سے اُس پر عمل کریں۔ لیکن پہلے اُنھیں یہ یقین کرلینا چاہیے کہ کیا وہ عمل کرنے کے لیے مناسب طریقے سے تیار بھی ہیں۔ عمل کے لیے تیاری میں کئی باتیں شامل ہیں: علم کی پُرثروت اور دیرپا مسلم روایت کی مکمل آگہی اُس روایت کی تحریم و تکریم کی پاسداری کا عزم اُس روایت کے بطون سے علم و حکمت کے تازہ اُفق پیدا کرنے کا جذبہ ۔ ۹؎ سائنسی تفسیر کا منصوبہ کبھی ممکن العمل نہ ہوسکے گا، جب تک یہ اپنی اصلیت کی توثیق کی شہادت نہ دے۔ ٭٭٭ حوالے و حواشی ۱۔ ایسی جدید تفاسیر میں سے چند یہ ہیں: o خلق السموات والارض فی ستۃ ایام فی العلم والقرآن از حسن حامد (تیونس۔ نشر و توزیع۔ مؤسسہ عبدالکریم بن عبداللہ۔ ۱۹۹۲ئ) o Why I am a Believer، تصنیف: محمد جمال الدین الفندی- عربی سے ترجمہ: طہٰ عمر، نظر ثانی: ایم جی الفندی (قاہرہ۔ سپریم کونسل برائے اُمورِ اسلامیہ) o القرآن الحکیم والعلم الحدیث از منصور حسن النبی (قاہرہ) o من دلائل الاعجاز العلم فی القرآن و السنۃ النبویہ از موسیٰ الخطیب (قاہرہ۔ مؤسسۃ الخلیج العربی، طباعۃ و نشر۔ ۱۹۹۴ئ) o من الآیات العلمیہ از عبدالرزاق نوفل (قاہرہ و بیروت۔ دارالشروق۔ ۱۹۸۹ئ) o Quranic Sciencesاز افضل الرحمن (لندن، دی مسلم سکولز ٹرسٹ۔ ۱۹۸۱ئ) o قرآن اور سائنس از رضی الدین صدیقی (علی گڑھ، انجمن ترقی اُردو ہند) ۲۔ مہدی گلشنی نے لکھا ہے: ’’تمام علوم، خواہ الٰہیاتی ہوں یا طبیعی، قربِ خداوندی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ جب تک وہ یہ کردار ادا کرتے رہیں گے وہ مقدس و معزز ہیں۔‘‘ بحوالہ کتاب The Holy Quran and the Science of Nature از مہدی گلشنی۔ (شائع کردہ: انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل کلچرل سٹڈیز، بنگ ہمٹن یونی ورسٹی، ۱۹۹۹ئ) ۳۔ الجواہر فی تفسیر القرآن الکریم المشتمل علی العجائب۔ ۲۶جلدیں۔ (مطبوعہ: قاہرہ، مصطفیٰ الباب اللحابی) ۴۔ بائبل، قرآن اور سائنس (نارتھ امریکن ٹرسٹ پبلی کیشنز، انڈیانا پریس،۱۸۷۸ئ) اس کے متعدد تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ۵۔ التجاہ المنحرفہ فی تفسیر القرآن الکریم (قاہرہ، دارالاعتصام، ۱۹۷۶ئ) صفحہ۸۶-۸۷ ۶۔ ولیم ایف کمبل کی اصل انگریزی کتاب کا نام یہ ہے: The Quran and the Bible in the Light of History and Science (مطبوعہ: اپرڈربی، پنسلوانیا، مڈل ایسٹ رسورسز، ۱۹۸۶ئ) ۷۔ جیسا کہ ضیاء الدین سردار نے لکھا: ’’جدید سائنس واضح طور پر مغربی ہے۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں سائنس کو اہمیت حاصل ہے وہ اپنے اسلوب اور طریقِ کار میں مغربی ہے سائنس داں کا رنگ اور اُس کی زبان خواہ کچھ بھی ہو‘‘ (حوالہ اُن کی تصنیف Explorations in Isalmic Sciences مطبوعہ: لندن و نیویارک، مینسل، ۱۹۸۹ئ۔ صفحہ۶) ۸۔ ضیاء الدین سردارنے اپنی محولہ بالا کتاب کے صفحات ۹۵ تا ۹۷ میں خاکوں کی مدد سے بطور خلاصہ، مغربی سائنس اور اسلامی سائنس کے بڑے بڑے فرق و اختلاف پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مسلمان سائنس دان کہتا ہے کہ سائنس عقیدے، فہرستِ ترجیحات اور تحقیقات کی سمت سے اس حد تک جڑی ہوئی ہے کہ اب سائنس دان عقیدہ ساز بن گئے ہیں۔‘‘ ۹۔ ملاحظہ ہو یوسف القرضاوی کے تصور اعجاز القرآن کی محتاط قبولیت۔ اُن کی تصنیف العقل والعلم فی القرآن الکریم۔ (قاہرہ، مکتبہ وہاب، ۱۹۹۴ئ۔ صفحہ ۲۹۲تا۲۹۶) ٭٭٭٭٭ علوم میں وحدت کی تلاش ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کسی بھی نظامِ فکر کی ثقاہت کی علامت یہ ہے کہ وہ اندرونی طور پر ہر طرح کے تضادات سے پاک ہو۔ اسی اُصول کو قرآن حکیم نے بھی اپنی ثقاہت کو واضح کرنے کے لیے بیان کیا ہے کہ اگر قرآن حکیم اللہتعالی کی طرف سے نازل کردہ کتاب نہ ہوتی تو لازماً اس میں بے شمار تضادات ہوتے۔۱؎ حقیقت کی تلاش اور پہچان کا یہی قرآنی اصول ہم زندگی کے ہردائرے میں استعمال کر سکتے ہیں کہ جو تصور جتنا زیادہ تضادات سے پاک ہو گا، وہ اُتنا ہی حقیقت کے قریب ہو گا۔ قرآن حکیم نے عرفان حق کے جن راستوں کا ذکر کیا ہے، ان میں ایک آفاق اور انفس میں موجود حق کی نشانیاں بھی ہیں۔۲؎ ان نشانیوں کا بغور مطالعہ انسان کو عرفان حقیقت کے قریب کر دیتا ہے۔ تصوف ایک ایسا طرزعمل ہے جو انسان کو اپنے انفس میں اترنے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ انسان کو معنوی لحاظ سے عالم اصغر بھی کہا گیا ہے کہ عالم ظاہر میں پھیلی ہوئی قدرت کی جملہ نشانیوں کا انعکاس ہمیں انسان میں نظر آتا ہے۔ عالم اصغر اور عالم اکبر میں موجود مماثلت اور حقائق کی مطابقت انسان کو وحدت کی طرف لے جاتی ہے جو انجام کار ایک واحد ذات مطلق کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو معبود حقیقی ہے۔ انفس و آفاق میں ربط و مطابقت کی جہات ان تمام علوم تک پھیلی ہوئی ہیںجنھیں انسان نے اپنی صدیوں کی کاوشوں اور جدوجہد سے حاصل کیا ہے۔ سماجی، معاشرتی، نفسیاتی، حیاتیاتی اور طبیعیاتی علوم کا بنظر غائر مطالعہ کائنات میں کارفرما ایک معنوی وحدت کا پتا دیتا ہے۔ تا ہم ہم یہاں جدید طبیعیات اور تصوف کے طرز فکر کا مطالعہ کریں گے۔ طریقِ تحقیق و اِبلاغ تصوف اور جدید طبیعیات میں حصول نتائج اور ان کے ابلاغ کے طریق کار میں مماثلت موجود ہے۔ ایک جدید سائنس دان اپنی ٹیم کے ساتھ اعلیٰ و حساس ٹیکنالوجی (Highly Sophisticated Technology) استعمال کرتے ہوئے کائناتی حقائق کی تشریح کرتا ہے۔ جدید بنیادی ذرّی طبیعیات (Modern Elementary Particle Physics) کے ایک تجربے کو دہرانے کے لیے سائنس دانوں کو کئی سالوں کی تربیت درکار ہوتی ہے۔ صوفیائے کرام بھی ذکر (recitation)، مراقبہ (meditation)، تفکر (intellection) اور درون بینی (introspection) کے ذریعے ایک طویل مشقت کے بعد ہی فطرت کے مخفی حقائق اور حقیقت کبری کی معرفت تک پہنچتے ہیں: جو ذکر کی گرمی سے شعلے کی طرح روشن جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز۳؎ اس طرح عرفانِ حقیقت کے اپنے اپنے تناظر ( version) کو پانے کے لیے صوفی اور جدید طبیعیات کا ماہر دونوں بہت زیادہ لطیف مناہج (Highly Sophisticated Methods) استعمال کرتے ہیں جن کا عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا تاآنکہ وہ اس تربیت سے گزر نہ چکا ہو۔ صوفی اور سائنس دان نہ صرف حصول نتائج کے منہج میں قدر مشترک رکھتے ہیں بلکہ اس کے ابلاغ میں بھی قدر مشترک کے حامل ہیں۔ جدید بنیادی ذرّی طبیعیات(Modern Elementary Particle Physics) کے کسی تجربے کے تجزیے کی حقیقت کو جدید ریاضیاتی زبان میں ہی بیان کیا جا سکتا ہے جو عام آدمی کے لہجے سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ عام الفاظ، منطق اور گرائمر بھی اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کوانٹم فزکس کی دریافتوں کو بیان کرنے کے لیے میسر ریاضیاتی زبان کی تنگ دامانی کا ذکر Godel's Incompleteness Theorem میں یوں ملتا ہے: Full theory of mathematics cannot be proven consistent but it is incomplete and undecidable. (ریاضی کے تمام نظریات کو باہم مربوط ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ یہ نامکمل اور ناقابل فیصلہ ہیں۔) یہی حال ایک صوفی کے تجربے کا ہے کہ وہ ناقابل انتقال ہوتا ہے۔ بقول اِقبالؒ: Since the quality of mystic experience is to be directly experienced, it is obvious that it cannot be communicated. Mystic states are more like feeling than thought. The interpretation which the mystic or the prophet puts on the content of his religious consciousness can be conveyed to others in the form of propositions, but the content itself cannot be so transmitted. (چونکہ صوفیانہ تجربہ اپنی کیفیت میں بلاواسطہ تجربہ ہے لہٰذا اس کا ابلاغ ممکن نہیں۔ صوفیانہ احوال فکر سے زیادہ احساس ہیں، چنانچہ پیغمبر یا صوفی اپنے مذہبی شعور کے مشتملات کی تعبیر دوسروں تک قضایا کے ذریعے ہی پہنچا سکتا ہے مگر مذہبی شعور کے مشتملات کو بیان نہیں کرسکتا۔)۵؎ ایک سائنس دان کی اعلی و حساس ٹیکنالوجی کی طرح ایک صوفی کا ذکر کرنے کا عمل بھی اسے عالم کون و مکان میں رہتے ہوئے اس سے ماورا ہونے کی سکت دے دیتا ہے۔ ذکر کرنے کا عمل ذہن کو معمول کی سوچوں اور معقولیت کے دائرے (Rational Mode) سے نکال کر شعور کے وجدانی دائرے (Intuitive Mode) میں لے جاتا ہے۔ ا س کے لیے کسی ایک اسم الہی یا آیت پر ارتکاز توجہ کیا جاتا ہے۔ نماز بھی ذہن کو معمول کے افکار سے نکال کر اسی سکون (Peace & Serenity)کے احساس سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ جب سالک اپنے تعقلی درجہ (Rational Mind) سے اٹھ کروجدانی درجہ (Intuitional Mind) تک آنے کی سکت پا لیتا ہے تو وہ حقائق حیات کا معمول کی تعقلی فکر (Conceptual Thinking) کے حائل ہوئے بغیر تجربہ حاصل کرتا ہے۔ اس سے اسے ہرطرح کی شکستگی (fragmentation) سے آزادہمہ جہت محیط وحدت کا تجربہ ہوتا ہے۔ صوفی اس تجربہ سے قبل اس فکری ترفع کو حاصل کرتا ہے جہاں حقیقت مطلقہ سے اس کا تعلق مکانی حدود و قیود سے آزاد اور ماورا ہوتا ہے۔ اس کا راستہ ذکر و عبادت ہے۔ عارف حق، عالم علم لدنی حضرت خواجہ محمد عبدالرحمن چھوہرویؒ عبادت کی اس کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں: اللہم صل و سلم علی سیدنا محمد و علی آل سیدنا محمد عابد اﷲ باﷲ بلا إتحاد ولا حلول ولا إتصال ولا إنفصال۔۶؎ اے اﷲ! صلوٰۃ و سلام بھیج سیدنا محمد اور سیدنا محمد کی آل پر کہ جو اﷲ کی عبادت کرنے والے ہیں، اﷲ کی قربت میں بغیر اتحاد و حلول کے اور بغیر اتصال و انفصال کے (بلکہ ایسے ربط سے جو تصور سے بالا تر ہے)۔ قربت الٰہی میں قلب و شعور کی تربیت اور تزکیہ کا عمل سالک کو ’حیث‘ ’این‘ اور ’کیف‘ کی قید سے آزاد کردیتا ہے: یا جار المستجیرین اجرنا من الخواطرالنفسانیہ … واصفنا من صداء الغفلۃ ووہم الجہل حتی نضمحل رسومنا بفناء الأنانیۃ و مباینۃ الطبیعۃ الإنسانیۃ فی حضرۃ الجمع والتخلیۃ الإلہیۃ … فی شہود الوحدانیۃ حیث لا حیث ولا این ولا کیف و یبقی الکل ﷲ۔۷؎ اے پناہ طلب کرنے والوں کو پناہ دینے والے! ہمیں نفسانی خیالات سے پاک کر … اور ہمیں غفلت کے زنگ اور جہالت کے وہم سے پاک کر حتیٰ کہ ہمارے نقوش و نشانات انانیت اور انسانی طبیعت کے فنا ہوجانے سے کمزور ہوجائیں۔ یہ (فنا) اُلوہی مقامِ جمع و تخلیہ میں اور وحدانیت کے مشاہدہ و دیدار میں ہو۔ اس طرح کہ وہاں کوئی حیث (کہاں)، این (کدھر) یا کیف (کیفیت) نہیں، بلکہ (اَنجامِ کار) سب کچھ اﷲ ہی کے لیے رہ جاتا ہے۔ حتی کہ سالک ہر جہت کی پابندی وقید سے آزاد ہوکر حقیقت مطلقہ کی اس قربت سے بہرہ ور ہوتا ہے جو اس کی فکر ہی نہیں بلکہ اس کے کردار و شخصیت کا بھی حصہ بن جاتی ہے: الہنا فاجعل حرکاتنا و سکوننا الیک و شکرنالک واقطع جمیع جہاتنا بالتوجہ الیک واجعل اعتمادنا فی کل الامور علیک فمبداء الامر منک راجع الیک۔۸؎ اے ہمارے اﷲ! ہماری سب حرکات و سکنات کو اپنی طرف متوجہ کردے اور ہمیں شکر گزار بنا دے اور اپنی جہت عطا کرکے ہم سے سب جہات (کی قید) دور کردے اور ہر کام میں ہمارا بھروسہ اپنی ذات ہی بنا کہ ہر کام کی ابتدا بھی تجھ سے اور انجام بھی تیری طرف ہے۔ مشاہدۂ حقیقت میں حواسِ ظاہری کی تنگ دامانی مشاہدہ حقیقت کے باب میں بھی تصوف اور طبیعیات میں قدر مشترک موجود ہے اور وہ ہے عرفان حقیقت کے لیے انسانی عقل کی تنگ دامانی کا اعتراف۔صوفیا حقیقت کے براہ راست مشاہدے پر انحصار کرتے ہیں جبکہ جدید طبیعیات کے نظریات کا انحصار جدید سائنسی تحقیق پر ہے۔ جس کے بارے میں آئن سٹائن (Albert Einstein, 1879-1955) کہتا ہے: As far as the laws of mathematics refer to reality, they are not certain; and as far as they are certain, they do not refer to reality.(9) جہاں تک حقیقت سے ریاضی کے قوانین کی توضیح کے تعلق کا معاملہ ہے‘ یہ قوانین یقینی نہیںہیں۔ اور ان کا جو حصہ یقینی ہے وہ حقیقت کی توضیح نہیں کرتا۔ یعنی جب بھی اشیا کی حقیقت کو فکری و سائنسی تحقیقات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے متناقض نتائج سامنے آتے ہیں مثلاً روشنی کی دہری ساخت کا نظریہ (Wave-Particle Duality) یا مادہ کا نظریہ عدم تیقن(Theory of Uncertainity)۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سائنس دانوں کے علم کا بڑا حصہ عالم ظاہر(Macrocosmic World) کے مشاہدات پر مبنی ہے اور وہ دائرہ حواس میں آتا ہے۔ مگر ایٹمی ( atomic) اور ذیلی ایٹمی (subatomic) دنیا کے حقائق دائرہ حواس سے پرے ہیں۔ لہذا یہاں عام فہم (common sense) یا منطق پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ متضاد حقائق کا بیک وقت انکشاف صرف مادی دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ حیاتیاتی دنیا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ زندگی کے بارے میں ارون شروڈنگر Erwin Schrodinger ,1887-1961)) کی تحقیقات کے مطابق: Quantum Mechanics says unequivocally that a 'living being' is simultanously dead and alive, in gross contradiction of common sense, and to what we would actually see. There is universal agreement among physicists that this sum is what standard quantum mechanics predicts. What physicists disagree about is how to interpret this sum.(10) کوانٹم میکانیات اس امر کو واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ ہر زندہ شے بیک وقت مردہ بھی ہے اور زندہ بھی۔ جو عام فہم اور ہمارے عمومی مشاہدے کے لیے بہت بڑی متضاد حقیقت ہے۔ اس بات پر تمام ماہرین طبیعیات کا اتفاق ہے کہ یہی وہ حقیقت ہے جس کا انکشاف کوانٹم میکانیات کرتی ہے۔ تاہم ماہرین طبیعیات کا اختلاف اس امر پر ہے کہ اس نتیجہ فکر کی تشریح کس طرح کی جائے۔ جبکہ صوفیا اس امر کا اظہار اپنے مشاہدات،افکار اور نظریات کی روشنی میں پہلے ہی کر چکے ہیں: دما دم رواں ہے یم زندگی ہر اک شے سے پیدا رم زندگی یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر مگر ہر کہیں بے چگوں بے نظیر حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ حقیقت ہے آئینۂ گفتار زنگ۱۱؎ صوفیا کی طرح جدید سائنسی تحقیقات نے بھی عام زبان اور منطق کو ایٹمی اور ذیلی ایٹمی حقائق کے بیان کے لیے غیر مستند اور ناقابل اعتماد ثابت کر دیا ہے۔ اسی سے اضافیت اور کوانٹم میکانیات کی بنیادیں پڑیں۔ کیونکہ بیانِ حقائق کے لیے تصوف کی طرح جدید طبیعیات میں بھی متداول زبان اور اصطلاحات ابلاغ کا ساتھ نہیں دیتیں۔ کوانٹم فزکس میں کئی ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جن کا عام طور پر تصور نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً برقناطیسی شعاؤں (Electromegnetic Radiations) کے باب میں۔ روشنی اپنی حرکت کے دوران تداخل (interference) کا مظاہرہ کرتی ہے۔ جو روشنی کی موجی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ برقناطیسی شعاعیں (Electromegnetic Radiations) حرکت کے دوران ضیا برقی اثر (Photoelectric Effect) پیدا کرتی ہے یعنی جب کم طول موج (wave length)کی شعاعیں مثلا بالا بنفشی، ایکسریز اور گیما ریز کسی دھات سے ٹکرائیں تو اس کی سطح سے کچھ الیکٹران باہر نکال (knock off) دیتی ہیں، جو روشنی کے متحرک ذروں پر مشتمل ہونے کو بیان کرتا ہے۔ جس سوال نے سائنس دانوں کو پریشان کیا یہ تھا کہ روشنی بیک وقت ذرات اور امواج پر کس طرح مشتمل ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ہیزنبرگ (Heisenberg, 1901-1976) نے بوہر (Niels Bohr, 1885-1962) سے طویل گفتگو کے بعد کہا: I remember deicussions with Bohr which went through many hours till very late at night and ended almost in despair; and when at the end of the discussion I went alone for a walk in the neighboring park I repeated to myself again and again the question: Can nature possibly be so absurd as it seemed to us in these atomic experiments?.... here the foundations of physics have started moving, and..... this motion has caused the feeling that the ground would be cut from science..(12) یعنی روشنی کی اس حیثیت کو نہ ہی متداول زبان اور نہ معمول کا طریق تصور و طرز فکر واضح کر سکتا تھا۔ صوفیا نے اسی لیے حقائق کو بیان کرنے کے لیے ایسا انداز بیان اختیار کیا جو نہ صرف حقائق حیات کے بظاہر متضاد پہلوؤں کو اپنے اندر لیے ہوتا ہے بلکہ یہ قاری کو اپنے گرفت میں لیتے ہوئے متداول منطقی تفکر (logical reasoning) سے ماورا تفکر کا موقع بھی دیتا ہے، مثلاً بندے کے حقیقت مطلقہ سے قرب کی کیفیت کو اِقبال نے یوں بیان کیا ہے: سہ پہلو ایں جہانِ چون و چند است خرد کیف و کم اُو را کمند است تن و جاں را دو تا گفتن کلام است تن و جاں را دو تا دیدن حرام است۱۳؎ عام آدمی کا شعور حواس کے تجربات سے ہی اپنے عکوس(images) اور ذہنی تصورات اخذ کرتا ہے۔ انسان حصول نتائج میں حواس ظاہری کے مشاہدے اور اپنے طرز فکر کا قیدی ہے: وحظ کل شخص من الطبیعۃ ما یعطیہ من المزاج الذی ہو علیہ۱۴؎ ہر شخص فطرت سے وہی کچھ اخذ کرتا ہے جو اس کے مزاج کے مطابق ہوتا ہے۔ تاہم انسان کا عام فکری ڈھانچہ زندگی کے عام فطری عوامل (Natural Phenomena) کی توضیح کرنے کے لیے کافی و شافی ہے جیسا کہ نیوٹن کا میکانیاتی نظام (Mechanistic Model) عالم ظاہر (Macroscopic World)کی تشریح کررہا ہے۔ مگر اس کائنات کی اساسی اکائیاں یعنی ایٹمی اور ذیلی ایٹمی ذرات ہمارے حسی مشاہدات (sensory perception) سے ماورا ہیں۔ چونکہ ان کا علم براہ راست حواس کے تجربے (Direct Sensory Experience) سے حاصل نہیں ہوتا اس لیے ہمارے حواس کی دنیا کی عام زبان اور اس کے تصورات (images) اس کی توضیح بھی نہیں کر سکتے۔ ہم جوں جوں فطرت کے مشاہدات کی گہرائی میں اترتے ہیں ہمارے لیے عام زبان اور تصورات اتنے ہی بے اثر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح جدید ماہر طبیعیات بھی ایک صوفی کی طرح حقیقت اشیا کے عرفان کے لیے غیر حسی تجربات (Non-Sensory Experience) سے گزر رہا ہوتا ہے اور یہیں دونوں کا عام منطق پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم نے بھی ماورائے معمولات حقائق زندگی کو بیان کرتے ہوئے جب اہل ایمان اور اہل کفر کے فرق کو بیان کیا تو اہل کفر کا یہ نقص بیان کیا کہ وہ عام منطقی چوکٹھے میں رہ کر سوچنے کے عادی ہیں۔ اسی لیے وہ الوہی وعدے کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے۔ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ۔۱۵؎ اگر تم میں سے (جنگ میں) بیس (۲۰) ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو (۲۰۰ کفار) پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں (ایک) سو (ثابت قدم) ہوں گے تو کافروں میں سے (ایک) ہزار پر غالب آئیں گے اس وجہ سے کہ وہ (حقیقت کا) فہم نہیں رکھتے۔ تصوف اور جدید طبیعیات کا تصورِ کائنات تصوف اور جدید کوانٹم نظریہ میںتصور کائنات کے بارے میں مماثلت موجود ہے۔ سائنس کے روایتی میکانیاتی تصور عالم (mechanistic worldview) کے برعکس صوفیا کے نزدیک وہ تمام اشیا اور واقعات جن کا اِدراک حواسِ انسانی کر سکتے ہیں باہم متعلق ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ حقیقت مطلقہ کے کسی نہ کسی پہلو کا مظہر ہوتے ہیں۔ صوفیا کے نزدیک اشیا کی ماہیت اور ان میں باہمی ربط کار کی معرفت انسان کو تنہا فرد کے تصور سے الگ کر کے حقیقت مطلقہ کی قربت میں لے جاتی ہے اور یہی حقیقی و ابدی مسرت کی بنیاد ہے۔صوفیا کے نزدیک حقیقت کا براہ راست صوفیانہ تجربہ ایک ایسا اہم لمحاتی واقعہ (Momentous Event) ہوتا ہے جس سے انسان کا سارا تصور کائنات (Worldview) بدل جاتا ہے۔۱۶؎ صوفی کا یہ شہود ا س کے تمام مروجہ تجربات و احساسات کی نہج کو بدل ڈالتا ہے۔ بیسویں صدی کے ماہرین طبیعیات نے جب ایٹم کی حقیقت کا تجربہ کیا تو ان کے تصورِ کائنات کی بنیادیں بھی اسی طرح متزلزل ہوئیں۔ ہیزنبرگ (Heisenberg, 1901-1976) کے بقول: .... recent developments in modern physics can only be understood when one realizes that here the foundations of physics have started moving; and that this motion has caused the feeling that the ground would cut from science.(17) جدید طبیعیات کی دریافتوں نے زندگی کے بہت بنیادی تصوارت مثلا مکاں، زماں، مادہ،شے اور علت و اثر کو بالکل بدل دیا ہے۔ جبکہ صوفیا کے ہاں ان تصورات پر اتنی واضحیت موجود ہے کہ دور جدید کے ذہن کو ابھی اس کی تفہیم کے لیے بھی کافی سفر کرنا ہے۔ مثلاً تصور عدم کے باب میں صوفیا کا نکتہ نظر اہل علم سے بالکل مختلف ہے۔ ان کے نزدیک عدم بھی وجود ہی کا ایک درجہ ہے: اللہم صل وسلم علی سیدنا محمد و علی آل سیدنا محمد ن الذی رای سوادالامم قبل خروجہم من العدم۔۱۸؎ اے اﷲ! صلوٰۃ و سلام نازل فرما سیدنا محمد پر اور آپ کی آل پر جنہوں نے عدم میں امتوں کے وجود کو ان کے ظہور سے بھی پہلے دیکھ لیا۔ شیخ اکبر ابن عربی فرماتے ہیں: فلولا نحن ثابتین فی العدم ما صح أن تحوی علینا خزائن الکرم، فلہا فی العدم شیئۃ غیر مریئۃ۔۱۹؎ اگر ہم عدم میں موجود نہ ہوتے تو ہمیں الوہی خزائن کرم نہ عطا ہوتے، اسی لیے عدم میں موجودات غیر مرئی طور پر موجود ہیں۔ آج ماہرین طبیعیات کے نزدیک کائنات کا ایک نیا تصور (worldview) سامنے آ یا ہے جو ابھی تشکیل پذیری کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات تصورِ کائنات (worldview) کے علمی اور طبعی حوالے سے تشکیل پذیری اور وسعت پذیری کے پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے زندگی کے ان گنت مخفی امکانات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ زندگی کا موجود و محسوس پہلو (version) آخری ہرگز نہیں، بلکہ مستقبل کے بارے میںقیود یا حد بندیوں کا تعین نہیں جاسکتا کیونکہ یہ زندگی کے وسیع تر امکانات کو محیط ہے۔ صوفی اسی تصور کو بطور حیات افروزاصول کے لیتا ہے۔ اور اپنے ہر عمل میں مستقبل پر حاوی خداوند کی معیت کو شامل کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے: وَ لِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔۲۰؎ اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اﷲ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف ہر ایک کام لوٹایا جاتا ہے، سو اس کی عبادت کرتے رہیں اور اُسی پر توکل کیے رکھیں، اور تمہارا رب تم سب لوگوں کے اَعمال سے غافل نہیں ہے۔ یعنی کل کیا ہونا ہے اس کا اختیارو اقتدار اللہ کے پاس ہے اور جو ہوچکا اس نے بھی اس کی طرف لوٹنا ہے لہٰذ ا اس صورت حال میں صوفی کا حال یہ ہونا چاہیے۔ الہنا! اخرج ظلمات التدبیر من قلوبنا وانشر نور التفویض فی اسرارنا و اشہدنا حسن اختیارک لنا حتی یکون ما تقضیہ فینا وما تختارہ لنا احب الینا من اختیارنا لانفسنا واہدنا للحق المبین۔۲۱؎ ’’اے ہمارے اﷲ! ہمارے دلوں سے تدابیر کی ظلمت کو نکال دے اور ہمارے (فہم و شعور کے) اسرار پر تفویض کا نور پھیلا دے اور ہمیں ہمارے بارے اپنے اختیار (کردہ اَمر) کا اچھا ہونے کا مشاہدہ کروا دے تاکہ تیرا اختیار کردہ فیصلہ ہمیں اپنے اختیار سے بہتر لگے اور ہمیں واضح و روشن حقیقت کی طرف رہنمائی عطا فرما۔‘‘ نظریہ کوانٹم نے وحدت اَشیا (Essential Connectedness of Nature) کا تصور دیا ہے۔ اب ہمارے سامنے کائنات مختلف مادی اشیا کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ہی باہمی کل (Unified Whole) کے مختلف حصوں کے مابین ربط و تعلق کے پیچیدہ تاروپود(complicated web) کا نام ہے۔ زمان و مکاں صوفی اپنے تجربہ شہود کی بنیاد پر سہ جہتی دنیا سے اٹھ کر ایک بلند اور کثیر الجہات حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ جدید طبیعیات کا چہارجہاتی تصورِ زمان مکان صوفی کے مشاہدے کے بہت قریب ہے۔ الدھر حول قلب، ولہذا یتنوع فی الصور و یتقلب، لولا استدارۃ الزمان، ما ظہرت الاعیان۔۲۲؎ ’’زمانہ الٹ پھیر پھرتا ہے، اسی لیے مختلف صورتوں میں بدل بدل کر حرکت کرتا ہے۔ اگر زمانے کی حرکت نہ ہوتی تو اعیان کو کبھی ظہور نہ ملتا۔‘‘ ان الزمان اذا حققت حاصلہ محقق فہو بالاوھام معلوم العقل بعجز عن ادراک صورتہٖ لذا نقول بان الدھر موھوم مثل الخلاء مالہ طرف فی غیر جسم بوھم فیہ تجسیم۲۳؎ جب زماں کا تحقق ہوجائے تو خیالات میں مثل معلوم کے ہوتا ہے، ہم اسے موہوم اس لیے کہتے ہیں کہ عقل اس کی صورت کا ادراک نہیں کر سکتی۔ خلا کی طرح اس کی کوئی سمت یا جہت نہیں ہے اسی لیے اس کا وجود وہم میں ہی موجود ہے۔ فالأیام (زمان) کثیرۃ و منہا کبیر و صغیر … فانہم یفصلون الدقائق الی ثوان فلما دخلہا حکم العدد کان حکمہا العدد والعدد لا یتناہی فالتفصیل فی ذلک لایتناہی ۔۔۔ وان الجسم ینقسم الی مالا نہایۃ لہ فی العقل۔۲۴؎ پس زمانے کے کئی چھوٹے بڑے ایام ہیں … ان کو دقیقوں اور دقیقوں کو ثانیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جب انہیں عدد کی طرح تقسیم کیا گیا تو ان میں عددہی کے احکام جاری ہوگئے۔ چونکہ تقسیم عدد کی کوئی حد نہیں اس لیے یوم کی ذیلی تقسیم کی بھی کوئی حد نہیں … اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جسم کی ذیلی تقسیم کی انتہا عقل معلوم نہیں کر سکتی۔ صوفی اپنے فنا کے تجربے میں ناظر و منظور (Subject & Object) اور خیال و جسم(Mind & Body) کے فرق کو یوں مٹتا ہوا دیکھتا ہے کہ زماں و مکاں اسے باہم آمیختہ (interpenetrating) اَشیا لگتی ہیں۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا ۔۲۵؎ بے شک انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا۔ ہمارے سہ جہتی اقلیدیسی تصور مکان (Euclidean Space) میں وقت کا خطی بہائو (linear flow of Time) اس وقت بالکل غلط ثابت ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ فضا کئی جگہ سے خمیدہ (curved) ہے جس کی وجہ سے کائنات کے مختلف حصوں میں وقت کا بہاؤ مختلف رفتار سے ہوتا ہے۔ صوفیا اپنے تفکر و تذکر کے ذریعے جب سہ جہتی مکاں سے ماورا ہوتے ہیں تو وقت کا عام تصور بھی نیچے رہ جاتا ہے۔ وہ زماں کو لمحات کی خطی حرکت (linear succesion of instants) کی بجائے لامحدود، لازماں اور متحرک و فعال حال کے طور پر دیکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ من کی دنیا (spiritual world) میں ماضی، حال اور استقبال کی کوئی تقسیم نہیں ہوتی۔ بلکہ یہاں زماں ایک ـــ"ساعۃ" میں سمٹ آتا ہے جو سراسرحال ہے اوراس حال میں زندگی اپنی اصل حالت میں لرزاں و رواں ہے۔ یا نقیاً من کل لوث… قدر لی ثمہ مطویتین الجہات فی جہۃ واحدۃ والازمنۃ فی نہج واحد حتی یصیر۔۔۔ یوماً واحدا مطلعا علی الاسرارالغیبیۃ۔۲۶؎ اے ہر آلائش سے پاک رب! (مجھے ہر آلائش سے پاک کرتے ہوئے) تمام جہات کو دو سمٹی ہوئی چیزوں کی طرح ایسے میرے تصرف میں لا کہ یہ بمنزلہ ایک جہت کے ہوجائیں اور (ماضی، حال و مستقبل کا) زمانہ ایک انداز پر ہو حتیٰ کہ سب اوقات ایک یوم کی مانند ہوجائیں اور میں اس میں اسرار غیبی سے آگہی پالوں۔ مادہ و توانائی کا باہمی تعلق آئن سٹائن نے E=mc2 کے ذریعے بیان کیا ہے کہ مادہ توانائی کی ایک شکل کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس دریافت نے ہمیں مادہ کے بارے میں مروجہ تصورات کو بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔اقبال نے آئن اسٹائن کو اس تخلیقی تصور پر یوں خراج تحسین پیش کیا: من چہ گوئم از مقام آں حکیم نکتہ سنج کردہ زردشتے ز نسل موسی و ہاروں ظہور۲۷؎ اب مادہ کا بنیادی ترکیبی مواد (stuff) مادہ نہیں بلکہ توانائی (Quanta) ہے۔ جبکہ توانائی سرگرمی و حرکت کا نام ہے۔ شیخ اکبرقدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں: إن الأمر حرکۃ عن سکون فکانت الحرکۃ التی ہی وجود العالم۔۲۸؎ بے شک امر سکون کے حرکت میں بدلنے کا نام ہے اور یہ حرکت ہی عالم کا وجود ہے۔ اس طرح ذیلی ایٹمی ذرات فی الاصل متحرک و متغیر (intrinsically dynamic) ہیں وہ من وجہٍ زماں اور من وجہٍ مکاں کی خصوصیات کے حامل ہیں۔ یہیں سے چہار جہتی زماں مکاں کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ وہ مکاں ہوتے ہوئے مخصوص کمیت کی حامل شے (thing) اور زماں ہوتے ہوئے متعادل توانائی کے حامل اعمال (process) قرار پاتے ہیں۔ یعنی ذیلی ایٹمی ذرات مادہ نہیں بلکہ توانائی کی ایک شکل سے تیزی سے بدلتی ہوئی دوسری شکل کا نام ہیں۔ یہ نہ صرف تیزی سے متحرک ہیں بلکہ خود ایک عمل(process) بھی ہیں۔ اس طرح مادہ اور اس کی سرگرمی (activity) کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی زمانی مکانی حقیقت (S-T Reality) کے مختلف پہلو ہیں۔ صوفی اپنے شعور میں کائنات کے زمانی مکانی باہمی نفوذ (interpenetration) سے آگاہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کے نزدیک ہر مادی شے معرض فنا میں ہے۔ اور کائنات کا سارا منظر اس حقیقت کا عکاس ہے کہ: ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالب آخر تو کیا ہے؟ اے نہیں ہے؟ ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد عالم تمام حلقہ دام خیال ہے۲۹؎ تاہم یہ دام خیال خیالی نہیں: توچشم بستی و گفتی کہ ایں جہاں خواب است کشائے چشم کہ ایں خواب خواب بیداری است۳۰؎ اس لیے صوفیائے کرام خیال کی حفاظت پر زور دیتے ہیں۔ حضرت غلام محمد جلوی فرماتے ہیں: سالک کو سوائے وہم کے اور کوئی چیز منزل سے نہیں گراسکتی جیسے دیوار پر دوڑنے سے انسان گرجاتا ہے اور زمین پر اگر اس دیوار کے عرض کے برابر دولکیروں کے درمیان جگہ لے کر اس پر دوڑیں تو کوئی نہیں گرتا یہ فقط ایک وہم ہے جو گراتا ہے۔۳۱؎ صوفیائے کرام کے نزدیک اس عالم ہست وبود میںحقیقت صرف حقیقت مطلقہ ہے: لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۳۲؎ اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اُس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے، حکم اُسی کا ہے اور تم (سب) اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانo وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلاَلِ وَالْاِِکْرَامِ۳۳؎ جو کچھ بھی زمین پر ہے سب فنا ہو جانے والا ہے اور صرف آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہ جائے گی جو نہایت بزرگی اور عظمت والی ہے۔ اس الوہی رہنمائی میں صوفیا کا مشاہدہ یہ ہوتا ہے کہ: اﷲ منہ بدی الامر اﷲ الامرالیہ یعود اﷲ احب الوجود وما سواہ مفقود۔۳۴؎ اﷲ ہی سے ہر کام کا آغاز ہے اور اسی کی طرف ہر کام نے لوٹنا ہے، وہی سزاوارِ وجود ہے اور اس کے سوا سب کچھ مفقود ہے۔ وہ ہر وقت اس حال کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں: اللہم علی سیدنا محمد و علی ال سیدنا محمد صلوۃ یصل بہا فرعی الی اصلی و بعضی الی کل لتتحد ذاتی بذاتہٖ و صفاتی بصفاتہٖ۔۳۵؎ اے اﷲ! ہمارے آقا محمد پر اور آپ کی آل پر ایسی صلوٰۃ بھیج کہ اس سے میری فرع میری اصل سے مل جائے اور میرا بعض میرے کل سے مل جائے کہ میری ذات اس کی ذات اور میری صفات اس کی صفات (کی قربت) کو پالے۔ تصوف: حرفِ رابطہ جدید طبیعیات کی تحقیقات سے ہمیں ایک ایسا تصور کائنات (wolrdview) ملتا ہے جو صوفیا کے مشاہدات کے بہت قریب ہے۔ کیونکہ تصوف کے مشاہدات اور طبیعیات کی تحقیقات ہمیں ایک ایسے تصور کائنات تک لے آتی ہیں جو روزمرہ زندگی کے مجموعی منظر نامے (superficial mundane appearance) سے بالکل مختلف ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ سائنس بتدریج تجربات کے ذریعے وہاں پہنچتی ہے جہاں صوفی الوہی رہنمائی میں تذکر و تفکر کے ذریعے پہنچتا ہے۔ اس طرح جدید طبیعیات صوفی کے اس تصور کی تائید کرتی ہے کہ ایں بدن با جان ما انباز نیست مشت خاکے مانع پرواز نیست۳۶؎ یہاں تصوف روایتی رسم پرستی سے اٹھ کر اعلیٰ ترین فکری، ذہنی اور عملی صلاحیتوں کے حامل افراد کا موضوع بن جاتا ہے کیونکہ یہاں اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ تصوف محض رسم پر ستی کا نام نہیں بلکہ فکر و عمل کی تعمیر و ارتقا کے ذریعے لا محدود کی قربت کی اہلیت کا حصول ہے۔۳۷؎ تصوف کے تمام بنیادی تصورات کی تائید و تصدیق آج کا کوانٹم علم کائنات (Quantum Cosmology) کر رہی ہے۔ کوانٹم فزکس اور تصوف دونوں انسانی ذہن کے تعقلی (rational) اور وجدانی (intuitive) پہلوئوں کے دو تکمیلی (complementary) مظاہر ہیں۔ ایک کا تعلق انسانی ذہن کے تعقلی (rational) حصے کی کمال مہارت کے حصول جبکہ دوسرے کا تعلق اس کے وجدانی (intuitive) حصے کی مہارت کی راہ سے ہے۔ تاہم ان کے حصول نتائج کے طریق میں فرق یہ ہے کہ سائنس کی ساری کاوش علمی جدوجہد سے شروع ہوکر علمی جدوجہد پر ختم ہوتی ہے جس سے حاصل ہونے والے نتائج کا اطلاق تعمیری بھی ہوسکتا ہے اور تخریبی۔ بھی مگر صوفی کی کاوش کا آغاز بیک وقت علم اور عمل یعنی کردار سے ہوتا ہے اور اس کے نتائج فکر اس کے علم، عمل اور یقین کومزید پختگی دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کے حاصلاتِ فکر تعمیر انسانیت کے لیے وقف ہوتے ہیں۔ جدید سائنسی تحقیقات اس امر کی تائید کرتی ہیں کہ تصوف انفس و آفاق میں وحدت کی تلاش کا ایسا ذریعہ ہے جو انسان کو انجام کار خالق حقیقی کے عرفان اور اس سے ایسے ابدی تعلق سے بہرہ ور کرتا ہے جو قرآن حکیم کے الفاظ میں فوز عظیم ہے۔ قرآن حکیم فطرت کے انہی بنیادی حقائق جن کا انکشاف آج کی ایٹمی فزکس کر رہی ہے کو بیان کر کے قربت الٰہی کے تصور کی اہمیت قلب و روح میں جاگزیں کرواتا ہے اور اس فکر کو فوز عظیم کا ضامن قرا دیتاہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں کے مشاہدہ کی اپنی ہی بیان کردہ ترتیب (۴۱:۵۳) کے مطابق قرآن حکیم درج ذیل آیات میں پہلے آفاق میں موجود ان نشانیوں کا ذکر کرتا ہے جو آج بنیادی ذرّاتی طبیعیات ( Elementary Particle Physics) کا موضوع ہیں۔ ذرّے کی ہر ممکن ذیلی سطح تک موجود اﷲ کے شہود کو بیان کرکے ہمیں اس کے ادراک و استحضار کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس کے بعد انفسی سفر یعنی طریق تصوف کا بیان ہے اور اس ترتیب سے فوز عظیم کے حصول کو لا تبدیل لکلمٰت اﷲ کہ کر ابدی ضمانت فراہم کر دی گئی ہے۔: وَ مَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ وَ مَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَ لَآ اَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ O اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَO الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَO لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُO۳۸؎ (اور آپ جس حال میں بھی ہوں اور آپ اس کی طرف سے جس قدر بھی قرآن پڑھ کر سناتے ہیں اور تم جو عمل بھی کرتے ہو مگر ہم اس وقت تم سب پر گواہ و نگہبان ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو، اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرہ (atom) برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز (subatom) ہے اور نہ بڑی مگر واضح کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے۔ خبردار! بے شک اَولیاء اﷲ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ شعار رہے۔ اُن کے لیے دنیا کی زندگی میں بشارت ہے اور آخرت میں بھی، اﷲ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔) سالک کو جب قربت و شہود الٰہی کا یہ شعور حاصل ہوتا ہے تو وہ کسی بھی لمحے غفلت میں نہیں رہتا بلکہ ہمیشہ اپنی تکمیل ذات کے لیے سراپا عمل رہتا ہے: اللّہم کمل اوقاتی و تمم اناتی بحیث تخالصہ عن تشویشات خطراتی وو سواس خناسی۔۳۹؎ اے اﷲ! میرے وقت کو مکمل اور لمحوں کو ایسے پورا کردے کہ یہ میرے خطرے کی تشویش اور میرے خناس کے وسوسے سے پاک ہوجائے۔ یعنی وہ اپنی شعوری زندگی کے ہر لمحے کا مسلسل تعاقب(consecutive coverage of life moments) کرتا ہے کہ اس کی فرع اس کی اصل سے الگ نہ رہے اور اس کی کوئی آن یا لمحہ غفلت، کسلت یا تشکیک کے خلا کی نذر نہ ہوجائے۔ گویا صوفی کی زندگی ایک تنے ہوئے رسے پر چلنے کا نام ہے جہاں اس نے اپنے ہر ہر عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے چاہے اس کا تعلق ہاتھ، پاؤں، کان، آنکھ،دل، خیال، یا کسی بھی عضو کے ساتھ ہو۔ تکمیل اطاعت و تحصیل ادراک کا یہ سفر سالک کی پوری زندگی میں جاری رہتا ہے۔ بقول شوان (شیخ عیسیٰ نور الدین): دنیا میں زندگی اور انسانی ہستی عملاً خود کو یقین اور بے یقینیوں کے ایک پیچیدہ نظام میں ظاہر کرتے ہیں۔ انسان کو جو کبھی نگاہ سے اوجھل نہیں کرنا چاہیے یہ ہے کہ: اولاً ’’الحق‘‘ کو تسلیم کرے، دوم اسے مسلسل ذہن میں رکھے، سوم ہر اس چیز سے بچے جو حق کے متضاد ہو، چہارم یہ کہ جو کچھ حق کے مطابق ہے اسے انجام دے… اس سے ابتدائی تیقنات کی وہ عمارت تیار ہوتی ہے جو انسانی بے یقینی کو گھیر کر تحلیل کردیتی ہے اور اس طرح ہستی ارضی کے سارے مسئلے کو ایسی شکل میں لے آتی ہے جو بیک وقت سادہ بھی ہے اور قدیمی بھی۔۴۰؎ حاصل کلام مندرجہ بالا بحث سے تصوف تعمیر شخصیت، انفس و آفاق میں موجودہ آیات میں وحدت کی تلاش اور اس سے ذات واحد کے عرفان کے حصول کے نظام العمل کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اگر ہم تصوف کے منہج کو اپناتے ہوئے ’’ربط الخیال‘‘۴۱؎ کے حامل بن جائیں تو کچھ عجیب نہیں کہ ہمیں ’’رباط الخیل‘‘۴۲؎ کا منصب بھی ارزاں ہو! عجب کیا، گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را۴۳؎ ٭٭٭٭٭ حوالے ۱۔ القرآن، النسائ، ۴: ۸۲ ۲۔ القرآن، حم السجدہ، ۴۱: ۵۳ ۳۔ علامہ اقبال، بالِ جبریل، ص۳۹ 4- Reuben Hersh, 18 Unconventional Essays on the Nature of Mathematics, Springer USA,2005, P-140 ۵۔ علامہ اقبال، تشکیل جدید، علم اور مذہبی واردات، ص ۴۱ ۶۔ محمد عبدالرحمن چھوہروی، مجموعہ صلوات الرسول ا، ج: ۴، ص ۲۰ ۷۔ ……ایضاً…… ج :۵، ص ۲۵ ۸۔ ……ایضاً…… ص ۲۲ 9- i.William P.Berlinghoff, Fernando Quadros Gouvea, Math Though the Ages: A Gentle History of Teachers and Others, The Mathematical Association of America, Oxton House Publishers, 2004, P-63 ii. Wesley J. Wildman, W.Mark Richardson, Religion and Science: History, Method, Dialogue, Routledge, UK, 1996, P-123 10- http://www.brainyencyclopedia.com/encyclopedia/s/sc/schroedinger_s_cat.html ۱۱۔ اقبال، بال جبریل، ص ۱۰۶ 12- Drian D.McLaren, The Church on the Otherside: Doing Ministry in the Postmodern Matrix, zondervan, 2003, P-20 ۱۳۔ اِقبال،زبور عجم، گلشن رازِ جدید، سوال سوم ۱۴۔ شیخ اکبر ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، ج:۴،ص۲۰۰ ۱۵۔ القرآن، الانفال، ۸: ۶۵ ۱۶۔ عبد العزیز دباغ، الابریز، ص ۷۵۶ 17. Drian D. McLaren, The Church on the Otherside, P-20 ۱۸۔ محمد عبدالرحمن چھوہروی، مجموعہ صلوات الرسول ا، ج: ۱۰، ص ۱۶ ۱۹۔ ابن عربی، الفتوحات المکیۃ ج:۴،ص ۳۴۰ ۲۰۔ القرآن، ہود، ۱۱: ۱۲۳ ۲۱۔ محمد عبدالرحمن چھوہروی، مجموعہ صلوات الرسول ا، ج: ۲، ص۴۰ ۲۲۔ ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، ج:۴،ص ۳۳۰ ۲۳۔ ……ایضاً…… ج:۱،ص ۳۶۴ ۲۴۔ ……ایضاً…… ج:۱،ص ۳۶۶ ۲۵۔ القرآن، الدہر، ۷۶: ۱ ۲۶۔ محمد عبدالرحمن چھوہروی، مجموعہ صلوات الرسول ا، ج:۶،ص ۸ ۲۷۔ اقبال، پیام مشرق، ص۳۷۰ ۲۸۔ شیخ اکبر ابن عربی، فصوص الحکم، فص حکمۃ علویۃ فی کلمۃ موسویۃ،ص ۸۹ ۲۹۔ دیوان غالب ۳۰۔ اقبال، زبور عجم، ص۷۶ ۳۱۔ غلام محمد جلوی، اسرار التوحید، ج، ۲، ص ۳۶۱ ۳۲۔ القرآن، القصص، ۲۸: ۸۸ ۳۳۔ القرآن، الرحمان، ۵۵: ۲۶، ۲۷ ۳۴۔ محمد عبدالرحمن چھوہروی، مجموعہ صلوات الرسول ا، ج، ۱۴،ص ۴۲ ۳۵۔ ……ایضاً…… ج۲،ص ۳۰ ۳۶۔ اقبال، کلیات فارسی، ص۶۱۲ ۳۷۔ اقبال، تشکیل جدید، اسلامی ثقافت کی روح، ص ۱۶۱ ۳۸۔ القرآن، یونس، ۱۰: ۶۱۔ ۶۴ ۳۹۔ محمد عبدالرحمن چھوہروی، مجموعہ صلوات الرسول ا،ج:۲۳،ص۲۹ ۴۰۔ شیخ عیسیٰ نورالدین، انسان اور یقین بحوالہ روایت، اوّل، مکتبہ روایت، لاہور، ص۱۸۸ ۴۱۔ القرآن، الکہف، ۱۸: ۱۴ ۴۲۔ القرآن، الانفال، ۸: ۶۰ ۴۳۔ اقبال، بال جبریل، ص۲۵ ٭٭٭٭ علم الکلام کی تشکیل جدید میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی مساعی ایک تحقیقی مطالعہ پروفیسر محمد عارف علمیات کی رُو سے مبدا کائنات، تصورِ کائنات اور مقصد کائنات وہ بنیادی اور اساسی نکات ہیں، جن پر ہر مذہب، فلسفہ اور فکر کی بنیادہے۔ مذہب ان اساسی نکات پر اپنا ایک موقف رکھتا ہے جبکہ فلسفہ اور سائنس کا اپنا نقطۂ نظر ہے۔ پھر اسی طرح مختلف مذاہب اور مختلف فلسفوں کے نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ہر مذہب کے مفکرین اور فلاسفہ اپنے اپنے دور میں لوگوں کے فہم و ادراک کے مطابق ایک منظم فکر کو روپ دیتے ہیں۔ اسلامی ادب میں اسے ’’علم الکلام‘‘ کی اصطلاح سے موسوم کیا گیا ہے۔ متقدمین میں اس اصطلاح کے تحت صرف عقائد زیر بحث رہے ہیں جبکہ دور جدید میں مذاہب پر ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب علم الکلام کے تحت زیر بحث لایا جاتا ہے۔ مولانا راغب الطباخ۱؎ صاحب کشف الظنون کے حوالے سے رقمطراز ہیں: علم الکلام وہ علم ہے جس کے ذریعے انسان کو یہ قدرت حاصل ہوتی ہے کہ وہ استدلال و براہین قائم کرکے اور شکوک و شبہات کا ازالہ کرکے دینی عقائد کا اثبات کرے اور اس علم کا موضوع اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ہے۔ ۲؎ علامہ ابن خلدون کے نزدیک: علم الکلام کا موضوع عقائد ایمانیہ ہیں جبکہ انھیں شارع کی طرف سے صحیح مان لیا جائے مگر اس حیثیت سے ان پر عقلی دلائل سے استدلال کیا جانا مقصود ہوکہ بدعتوں کی جڑ کٹ جائے، شکوک زائل ہوں اور ان عقائد میں تشبیہ کا وہم غلط ثابت ہو۔۳؎ چونکہ ہر علم ارتقائی طور پر ترقی اور وسعت اختیار کرتا ہے۔ سو علم الکلام کا دائرہ کار عقائد ایمانی سے بڑھ کر زندگی کے جملہ معاملات تک پھیلتا چلا گیا۔ مولانا شبلی نعمانی نے علم الکلام کی قدیم وجدید تاریخ اپنی معروف کتاب علم الکلام والکلام میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ اُن کے نزدیک ’’علم الکلام درحقیقت اس کا نام ہے کہ مذہب اسلام کی نسبت یہ ثابت کیا جائے کہ وہ منزل من اللہ ہے۔‘‘ ۴؎ آگے چل کر مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ قدیم علم الکلام کا دائرہ کار صرف عقائد اسلام تھے چونکہ اعتراض صرف عقائد اسلام پر ہوتا تھا مگر اب مذہب ایک فریق ہے اور تاریخی، اخلاقی اور تمدنی ہر حیثیت سے اس کو پرکھا جاتا ہے۔ خصوصاً یورپ نے مذہب کے کئی پہلوئوں پر اعتراض وارد کیے ہیں۔ اس لیے ان مسائل پر بحث سے ایک بالکل نئے علم الکلام کی تشکیل ہوگی۔۵؎ مولانا اشرف علی تھانوی بھی علم الکلام کے دائرہ موضوع میں بنیادی عقائد کے علاوہ تہذیب الاخلاق، تدبیر منزل اور سیاست المدینہ کو بھی شامل کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اس میدان میں بھی شبہات رفع کیا جانا لازمی ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں جدید شبہات رفع کرنے کے لیے علم الکلام کی تشکیل جدید پر کوئی اعتراض نہیں۔۶؎ جبکہ علامہ اقبال کی تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کو اکثر جدید علم الکلام کی کتاب تصور کرتے ہیں۔ مولانا حنیف ندوی مقالات الاسلامیین از علامہ ابوالحسن اشعری کے ترجمہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: اگر ہمیں پاکستان میں ایک ایسی تہذیب کو رواج دینا ہے اور ایسی تہذیب کو جلا بخشنا ہے جس کو ہر لحاظ سے ہم اسلامی کہہ سکیں تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ عصر حاضر کے علمی و تہذیبی تقاضوں کے پہلو بہ پہلو ہم اسلامی فکر کے ارتقا کا بھی بنظر غائر جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہماری تاریخ میں کون سے صالح مند اور ترقی پذیر رحجانات ایسے ہیں جنہیں ہمیں اپنا لینا چاہیے۔ کون فاسد، غلط اور آگے نہ بڑھنے والے رحجانات ہیں جن سے ہر حال دامن کشاں رہنا چاہیے۔۷؎ ڈاکٹر محمد رفیع الدین کا دائرہ کار اور خصوصیات: رفیع الدین نے خصوصی طور پر یورپ کے اُن اعتراصات کاتنقیدی جائزہ لے کر دلائل اور براہین سے اُن کا رد کیا ہے جو بحیثیت مجموعی مذہب پر وارد ہوتے تھے۔ مذہبی عقائد کے علاوہ مذہبی نتائج جو کسی بھی انداز میں معاشرت پر اثر انداز ہوتے ہیں، بحث کی ہے۔ یوں رفیع الدین نے جدید فلاسفہ و حکما کے افکار کا جواب مرتب کرکے علم الکلام کے دائرہ کار کو نہ صرف وسعت دی، بلکہ جدید علم الکلام کی تشکیل میں ایک نئے باب کا اضافہ بھی کیا۔ رفیع الدین کے اس کام کی چند نمایاں خصوصیات کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: ٭ یورپ کے غالب افکار کے ابطال میں رفیع الدین ایک عقلی اور استدلالی انداز اختیار کرتے ہیں لیکن اُن کے دلائل کا منبع بنیادی طور پر اسلام کا علم الکلام ہی ہے۔ یہ اُن کے دلائل کی خوبی ہے کہ وہ علم الکلام کی کتابوں سے نقل نہیں کرتے بلکہ تخلیقی دلائل لاتے ہیں۔ وہ مدمقابل کے اعتراضات و دلائل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ اُس پر ہمدردانہ غور کرتے ہیں۔ اُس کی فکری لغزشوں کو نوٹ کرتے ہیں۔ انھیں جدید علم کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ پھر مومنانہ بصیرت سے انسانی تقاضوں کو مد نظر رکھ کر وہ جواب فراہم کرتے ہیں جو علمی و عقلی معیارات پر پورا اُترتا ہو۔ یوں وہ علم الکلام میں ایک نئے باب کے اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ ٭ رفیع الدین نے الگ سے اس موضوع پر کوئی کتاب تو تحریر نہیں کی۔ لیکن اُن کی تمام کتابوں میں یہ جابجا موجود ہے۔ وہ خدا، صفاتِ خدا، تخلیق کائنات، مدعا تخلیق، مبدا تخلیق، پھر تخلیقِ انسان، روح، ملائکہ، نبوت، وحی، لوح محفوظ، جنت و دوزخ اور حیات بعد الممات کو کائنات اور انسان کے آغاز و انجام کے تناظر میں ایک تسلسل قرار دیتے ہیں۔ ان موضوعات پر اپنی فکر کو ایک لڑی یا زنجیر کی مانند ترتیب دیتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ کہیں روحِ قرآن سے انحراف نظر نہیں آتا۔ کوئی کڑی ٹوٹی ہوئی یا کمزور نظر نہیں آتی۔ کسی جگہ عقلی استدلال میں جھول نہیں ملتی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے مفہوم کے تحت تمام جدید شبہات کا الگ الگ سائنسی و منطقی جواب فراہم کیا ہے۔ ٭ رفیع الدین کی ایک اور اہم خصوصیت اس ذیل میں یہ سامنے آئی ہے کہ انھوں نے اسلاف کی دقیق اور پیچیدہ علمی اصطلاحوں کو استعمال کرنے میں احتیاط برتی ہے۔ یہ اصطلاحیں زیادہ تر اعلیٰ علمی حلقوں کی سوجھ بوجھ سے تعلق رکھتی ہیں۔ رفیع الدین نے اصطلاحوں کو سہل اور عام فہم بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کوشش میں انھوں نے اس بات کا خیال بھی رکھا کہ اُن اصطلاحوں کا تعلق قدیم علم الکلام سے مکمل طور پر ٹوٹنے بھی نہ پائے اور جدید مستعمل اصطلاحوں کی روشنی میں خدا، کائنات اور انسان پر بحث کی ہے۔ ٭ رفیع الدین کی فکر کی ایک اور اہم خصوصیت یہ بیان کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے جدید سائنسی۔وفلسفیانہ علوم کا اسلام سے متعارض ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کی زبردست سعی کی ہے۔ اُن کے نزدیک یہ انسانی فطری تقاضا ہے کہ وہ چاہے کسی مقام یا سطح پر ہو، کائنات کے بنیادی اُمور پر سوچتا ہے۔ صحیح یا غلط ایک رائے ضرور قائم کرتا ہے کیونکہ ’’حقیقت کائنات کے ساتھ انسان کی اپنی حقیقت بھی وابستہ ہوتی ہے۔‘‘۸؎ اس لیے وہ انسانی سوچ کو پرکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزار کر اُس کا اسلام میں مقام متعین کرتے ہیں۔ مادہ اور شعور علم الکلام کا نقطہ آغاز یہ سوال ہے کہ کائنات قدیم ہے یا حادث۔ کائنات کو قدیم ماننے والے حکما اور سائنسدان بالآخر خدا کا انکار کرتے ہیں۔ جبکہ ’’کائنات حادث‘‘ ہے کو ماننے والے ایک قادر مطلق ہستی کو ہی خالق کائنات مانتے ہیں۔ جدید دور میں یہ بحث زیادہ تر مادہ اور شعور کے تحت سامنے آئی ہے۔ رفیع الدین نے بھی اس پر مغربی حکما کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ رفیع الدین نے مغربی مفکرین کے علاوہ قدیم یونانی تصورات کی نشاندہی بھی کی جو مادی نقطہ نظر کے حامل تھے۔ اس ضمن میں انھوں نے یونانی حکما تھیلز، نیکسی مینز، نیکس مینڈر اور ڈیما کریسی کا حوالہ دیا ہے۔۹؎ بعض حکما نے افلاطون اور ارسطو کو بھی مادی نظریے کے حامیوں میں شمار کیا ہے۔۱۰؎ البتہ مادی نظریے کو صحیح عروج انیسویں صدی کی ترقی نے فراہم کیا۔ یورپ کے سائنسدانوں نے سائنسی شہادتوں کی بنا پر یہ قرار دیا کہ کائنات کی ابتدابھی مادہ اور انتہا بھی مادہ ہے۔ یہ ارتقائی عمل ہے جو جاری رہے گا۔ مادے کے ذرات خودبخود ترقی کرکے حیوانی و انسانی دماغ کی صورت میں ایک قسم کی طبیعیاتی ترتیب اور کیمیائی ترکیب حاصل کرتے ہیں تو اس میں شعور کا جوہر پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ترتیب و ترکیب ختم ہوتی ہے تو جوہر بھی ختم ہوجاتا ہے۔۱۱؎ گویا یورپ حکما کے نزدیک مادہ ہی کائنات کی اصل ہے اور شعور مادے کی اگلی ترقی یافتہ منزل ہے۔۱۲؎ اس کے برعکس دوسرا طبقہ جو کائنات کو حادث مان کر کسی شعور یا ذہن کو تسلیم کرتا ہے۔ شعور کو مادے کا مظہر نہیں بلکہ مادے کو شعور کا مظہر قرار دیتا ہے۔ یعنی شعور پہلے سے موجود تھا۔ مادہ بعد میں ہے اور شعور کی تخلیق ہے۔ مادہ خودبخود حرکت کرتا ہے، نہ ترقی کرتا ہے بلکہ یہ شعوری حرکت اور باقاعدہ ایک مدعارکھتا ہے۔ مادے کی حرکت گویا اتفاقیہ نہیں بلکہ شعوری اور مدعائی ہے۔ کائنات ایک خاص، منظم اور ٹھوس سمت اور نصب العین کی طرف بڑھ رہی ہے۔ رفیع الدین نے اس موقف کو جدید علوم کے اکتشافات کی روشنی میں بیان کیا ہے اور جدید رحجانات کو بھی مدنظر رکھا ہے۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ مذہبی فکر تو ہمیشہ اسی مؤقف کی حامی رہی ہے۔ مذہبی تفکر خداکے اقرار سے آگے بڑھتا ہے۔ جبکہ مادی تفکر خدا کے انکار سے آگے بڑھتا ہے۔ دوسری طرف فلاسفہ بھی ایک شعور یا ذہن کی حقیقت کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ اس راستے میں صرف سائنس نے ایک دیوار کھڑی کی جو جلد ہی اُس کے اپنے ہاتھوں سے منہدم ہوگئی۔ سترھویں صدی کے سائنسدانوں بائل (1691ء -1627ئBoyle,)۱۳؎ کے علاوہ انیسویں صدی کے کیلون (1907ء -1828ئKalvin,) کے شعور کو تسلیم کرنے کے بعد انگلستان کے بشپ جارج برکلے کا خصوصی ذکر کرتے ہیں جو غالباً پہلا سائنسدان ہے جس نے مادی نظریے پر کاری ضرب لگائی۔ اُس کی دلیل نوٹ کرتے ہیں کہ وجود اور موجود کسی شعوری ہستی کے بغیر ممکن نہیں۔۱۴؎ بیسویں صدی کے کئی سربر آوردہ سائنسدانوں کی آرا کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں ڈاکٹر جوڈ، پروفیسر روژلے اور آئن سٹائن نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر جوڈ کے مطابق مادہ ایسی بے حقیقت چیز ہے جو فاصلے یا وقت کا ایک اُبھار یا امکان کی ایک لہر ہے جو پل بھر میں فنا ہوجاتی ہے۔۱۵؎ پروفیسر روژلے کے نزدیک کوئی چیز وجود میں نہیں آتی ہر چیز فنا ہوجاتی ہے۔۱۶؎ پروفیسر پلنک کہتا ہے کہ میں شعور کو ایک بنیادی حقیقت سمجھتا ہوں اور مادہ کو شعور کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔ ہم شعور سے آگے نہیں جاسکتے۔ ہر چیز کی اصل شعور ہے۔۱۷؎ آئن سٹائن کے مطابق ’’کائنات پر شعور کی حکومت ہے۔‘‘۱۸؎ حیاتیات کی رو سے مادی نظریے کو مسترد کرنے والے دو ماہرین حیاتیات برگساں اور ڈرلیشن کے تجربات کا حوالہ بھی دیا ہے۔ برگساں نے ڈارون کے اس استدلال کو مسترد کیا ہے کہ حیوان کے اندر چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بتدریج بڑی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں۔ چونکہ یہ یک دم بھی ثابت ہوچکی ہیں اس لیے یہ کسی ذہن یا محرک یا شعور بغیر ممکن نہیں۔۱۹؎ رفیع الدین جدید علوم کے تجربات و اکتشافات کو بیان کرنے کے بعد قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کو اس مسئلے کے حل کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ {سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ } (حٰمّ سجدہ:۵۳) ترجمہ: عنقریب ہم اُن کو خارج کی دُنیا میں اور اور اُن کے نفوس کے اندر ایسے نشانات دکھائیں گے جن سے ان کے لیے یہ بات آشکارا ہوجائے گی کہ قرآن اپنی دعوت میں سچا ہے۔‘‘ اس آیت کی تفہیم میں رفیع الدین ’’خارج کی دُنیا اور ’’نفوس کے اندر کی دُنیا‘‘ کو کائنات کے دو حصے باور کرتے ہیں۔ پہلے حصے میں بے جان مادی اشیا کے علاوہ زندہ حیوانات دو بڑے شعبے ہیں۔ ان دو شعبوں میں تحقیق ماہرین طبیعیات و ماہرین حیاتیات نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ جبکہ کائنات کا دوسرا حصہ ’’انسان‘‘ کی شعوری حرکت پر مشتمل ہے۔ اس شعبے کی تحقیق ماہرین نفسیات کے سپرد ہے۔ قرآن اس کو ’’نفوس کے اندر کی دُنیا‘‘ قرار دینا ہے۔ جس طرح ’’خارج کی دُنیا‘‘ کے دو شعبوں کی جدید تحقیق کائنات کو مادی نہیں بلکہ شعوری باور کرتی ہے۔ اس طرح ’’نفوس کے اندر کی دُنیا‘‘ کے شعبہ نفسیات کی تحقیق کا خلاصہ یہی ہے کہ کائنات کی حقیقت روحانی یا شعوری ہے۔۲۰؎ اس ضمن میں آگے چل کر بیان کرتے ہیں کہ فطرت انسانی کا مطالعہ کرنے والے چند بنیادی حقائق پر متفق ہوچکے ہیں کہ انسان کی خواہشات کے اوپر نیچے طبقے ہیں۔ بالائی طبقے کی خواہشات صرف انسان سے مخصوص ہیں۔ حیوان میں یہ شامل نہیں۔ جبکہ نچلے طبقے میں موجود خواہشات کا تعلق جبلتوں سے ہے جو انسان اور حیوان دونوں میں پائی جاتی ہے۔ بالائی طبقے کی چار خواہشات کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ پہلی نصب العین کی محبت، جو انسان کو کسی ایسے تصور کے لیے وقف کرنے کا سبب بنے جو منتہائے کمال و حسن ہو۔ دوسری صداقت کی محبت جو انسان کو سچے علم کے حصول پر اُکساتی ہے۔ تیسری فعل جمیل کی محبت جو انسان کو قابل ستائش عمل پر اُکساتی ہے اور چوتھی صور و اشکال کے حسن و جمال کی محبت جو انسان کو حسن و جمال کی تحسین و تخلیق پر آمادہ کرتی ہے۔۲۱؎ رفیع الدین جدید تحقیق کو قرآن میں متعدد جگہوں پر مذکور ایسی آیا ت کے نتائج باور کرتے ہیں جن کا مفہوم ’’خدا کی نشانیاں‘‘ بیان ہوا ہے۔ گویا یہ قرآن کی پیشین گوئیاں ہیں۔ جو علم کی تینوں شعبوں میں انسان کی تحقیق خدا کی راہنمائی سے بالآخر اُسے ایسے علمی حقائق تک پہنچائے گی جو انسان کو قرآن کی صداقت پر ایمان لانے پر مجبور کردے گی۔۲۲؎ خدا تعالیٰ ایک قادر مطلق ہی اس کائنات کی فقط حقیقت ہے۔ یہ دعویٰ اہل مذہب کا تو شروع سے ہی رہا ہے۔ جدید سائنس کی طرف سے پہلے رد اور پھر تصدیق اس بات کی صداقت کے لیے کافی ہے کہ حقیقت کائنات فقط شعور ہے اور رفیع الدین کے نزدیک اس کو خدا، گاڈ یا رحمان کہا جائے کچھ فرق نہیں پڑتا اور ازروئے قرآن خدا کے معنی وہ ذات ہے جو تمام اوصاف کی مالک ہو۔ جو تعریف و ستائش کے قابل ہو۔ قرآن ان اوصاف کو اسمائے حسنیٰ کہتا ہے: {قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآء ُالْحُسْنٰی }(الانبیائ:۱۰۹) ترجمہ: کہو، اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان یا کسی اور نام سے پکارو اس پر کچھ موقوف نہیں صرف اتنا یاد رہے کہ تمام اچھے اوصاف بغیر کسی استثنیٰ کے صرف اللہ کے اوصاف ہیں کسی اور کے نہیں۔۲۳؎ مغرب کے فلاسفروں کے اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ خدا ہستی غائب ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بے شک خدا کو جاننے کا بنیادی ذریعہ حواس خمسہ ہی ہیں لیکن خدا کی ہستی اور اُس کی صفات مظاہر قدرت میں آشکار ہیں۔ جبکہ مظاہر قدرت کا علم حواس خمسہ کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا خدا محسوس کائنات سے الگ نہیں اور خدا کا علم بھی محسوس کائنات ہی کا علم ہے۔ یہ بات کہ خدا ہماری جسمانی آنکھوں سے مخفی ہے۔ اس صداقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دور سے دھواں دراصل آگ کی موجودگی کا یقین ہے حالانکہ آگ نظر نہیں آرہی ہوتی۔ کسی کی شخصیت اُس کے اعمال، افعال اور اقوال سے جان لیتے ہیں حالانکہ ہمیں اُس کی شخصیت نظر نہیں آرہی ہوتی۔ گویا خدا کو ہم آثار و نتائج کے ذریعے مظاہر قدرت میں دیکھتے ہیں۔ رفیع الدین مغرب کے حکما کی طرف سے علوم جدیدہ سے عقیدہ خدا کو الگ کرنے کی سعی کو اُن کی ضد پر محمول کرتے ہیں۔ قرآن میں خدا کیا ہے؟ {اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ} (النور:۳۵) کو بنیاد بناتے ہوئے فلسفہ نور کے تحت حقیقتِ قادر مطلق بیان کرتے ہیں اور اسے جدید سائنسی علوم کی زبان دیتے ہیں کہ خدا نور ہے اور یہ اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے۔ اس لیے نور سے جو کچھ الگ ہوگا جو سرزد ہوگا نور ہی ہوگا۔ البتہ فرق یہ آجاتا ہے کہ جدا ہونے والا نور اصل نور یعنی خدا کی نسبت سے مختلف ہوگا۔ خدا کا نور روحانی غیر مادی، بے مثل اور غیر مخلوق ہے۔ وہ زندہ ہے بلکہ خود زندگی یا خودی یا روح یا حیات ہے۔ جبکہ اُس سے الگ ہونے والا نور مادی اور مخلوق ہے۔ خدا نے جو چیز سب سے پہلے بطور نور پیدا کی ہے وہ مادی چیز ہے۔ لہٰذا نور مادی اشیا میں سب سے زیادہ خدا کے قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ لطیف ہے اور اپنی رفتار میں سب سے زیادہ تیز ہے۔ پھر جوں جوں یہ نور اپنے مرکز سے دور آتا گیا۔ اس میں کثافتیں بھی آتی گئیں۔ یہاں تک کہ وہ مٹی بن گیا اور مٹی کی حالت میں آکر وہ زندگی یا روح جو اُس کے اندر مخفی تھی آشکارا ہونے لگی۔ لہٰذا وہ حیوان کی صورت میں سامنے آیا اور پھر حیوانی ترقی کی انتہا انسان کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ زندگی خدا کے نور کو مادی نور سے اُس وقت متمیّز کرنے لگتی ہے جب وہ انسان کی صورت میں خود شعور اور خودنگر ہوجاتی ہے۔ اس مادی نور میں انسانیت کاملہ کی جو اولین صورت تھی۔ خدا کا نور، خدا کی محبت کی صورت میں بطو رجان کے چھپا ہوا تھا۔ اسی لیے خدا نے اپنے آپ کو کائنات کا نور کہا ہے۔۲۴؎ آگے چل کر رفیع الدین خدا اور اُس کے قول ’’کن‘‘ کے تعلق اور قوت کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ خدا کے قول ’’کن‘‘ میں خدا کی محبت کے علاوہ ارادہ تخلیق کی قوت اور اس کے حکم کا زور بھی موجود تھا۔ اسی ارادے اور حکم کی قوت کی بنا پر یہ مادی نور یا یہ مخلوق اپنی منزل تکمیل کی طرف ارتقا کے منازل طے کرنے پر مجبور ہے۔ اس مخلوق نور میں حرکت دراصل عمل تخلیق کی نشانی ہے۔ طبیعیات کا مسلم اُصول ہے کہ حرکت بغیر قوت کے نہیں ہوتی۔ گویا اس ابتدائی مادی نور کی حرکت کا باعث کوئی قوت تھی۔ وہ قوت خدا کے قول ’’کن‘‘ کی تھی جو مادی نہیں بلکہ ارادی اور شعوری تھی اور یہی قوت اب بھی کائنات کے ارتقا میں جاری و ساری ہے۔۲۵؎ رفیع الدین متقدمین کے تصورِ خدا کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور مثبت انداز اپناتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ایک خدا یا کئی خدا، صوری، اشکال یا جسمانی خدا، قادر مطلق یا شریک کار خدا۔ اس طرح کے کئی سوالات کو ’’خدا کیا ہے؟‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں بیان کرتے ہیں کہ ہر دور کے حکما ان سوالوں کا جواب وقت کے ماحول کو مدنظر رکھ کر اپنے وقت کے حاصل کردہ علم کی بنا پر دیتے رہے ہیں۔ ان میں ابن العربی کے ’’فلسفہ وحدت الوجود‘‘ منصور حلاج کا ’’انا الحق‘‘ اور مجدد الف ثانی کے ’’فلسفہ وحدت الشہود‘‘ کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ منصور حلاج کے نعرہ ’’انا الحق‘‘ کو علامہ اقبال کی تعبیر و تشریح کے مطابق قبول کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس طریق سے اقبال نے حلاج کے قول ’’انا الحق‘‘ کو جسے لوگوں نے کفر قرار دیا تھا۔ ایک نئے معنی پہنائے ہیں جو اسلام کے مطابق ہیں۔۲۶؎ یاد رہے علامہ اقبال فلسفہ خودی کی روشنی میں انا الحق کا جائزہ لیتے ہوئے اس سے وہ کردار مراد لیتے ہیں جب مومن محبت خدا میں اُس مقام پر پہنچ جائے جہاں حلاج انا الحق کہنے پر مجبور ہوا۔ اس مقام سے واپسی کے بعد انسان دُنیا میں وہ کام کرے جو خدا کررہا ہے۔ رفیع الدین اس کو مزید توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان کے اناالحق کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ فی الحقیقت خدا بن جاتا ہے بلکہ انسان محبت خدا میں جب ایک خاص مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کی محبت عارضی طور پر یہ باور کراتی ہے کہ وہ خدا ہے… اس کولوہے کے ایک ٹکڑے کی مثال سے واضح کیا جو آگ میں رکھنے سے عارضی طور پر اتنا سرخ ہوجاتا ہے کہ لوہے کے ٹکڑے اور آگ کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن لوہے کا ٹکڑا لوہا ہی رہے گا، آگ نہیں بن پاتا۔ لکھتے ہیں: ایک عاشق پر جو اپنی آرزوئے حسن کو مطمئن کرنے کے لیے جی بھر کر خدا کی عبادت و اطاعت کرتا ہے۔ یہ تینوں حالتیں گزرتی ہیں کبھی اُس کے شعور کی دنیا میں خدا ہی خدا ہوتا ہے اور وہ خود نہیں ہوتا۔ کبھی وہ خود ہی خود ہوتا ہے اور خدا نہیں ہوتا اور کبھی خود بھی موجود ہوتا ہے اور خدا بھی ہوتا ہے اور یہ خودی کی فطرت کا ایک راز ہے۔۲۷؎ تصورِ تخلیق کائنات رفیع الدین تخلیق کائنات سے متعلق تین بنیادی سوال قائم کرتے ہیں اور پھر اُن کے جواب کی فراہمی میں تخلیق کائنات پر ایک نقطہ نظر قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ اُن کا پہلا سوال یہ ہے کہ تصورِ تخلیق کائنات قائم کرنا ہر انسان کے لیے کیا ضروری ہے؟ دوسرا یہ کہ وہ کون سے انسانی ذرائع ہیں جن سے تصورِ تخلیق کائنات قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے؟ تیسرا یہ کہ قدرت نے اس ضمن میں کون سی امداد دی ہے؟ پہلے سوال کے جواب میں رفیع الدین رقمطراز ہیں کہ صحیح تصورِ کائنات انسان کی شدید داخلی اور خارجی ضرورت ہے۔ یہ انسان کی نفسیاتی ضرورت ہے تاکہ وہ ذہنی و نفسیاتی سکون و اطمینان حاصل کرسکے اور عمل اعتبار سے اس لیے ضروری ہے کہ زندگی خطرات و مصائب سے محفوظ رہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں اُن کا موقف یہ ہے کہ حقیقت کائنات سے متعلق ہر شخص کا علم اُس کی ذہنی فعلیت کے تین پہلوئوں کا نتیجہ ہے۔ یہ کہ مشاہدات کی بنا پر قوانین قدرت کا علم حاصل کرنا، دوسرا یہ کہ اس علم کی بنا پر قانون/ قوانین یا حقیقت کائنات کا وجدانی تصور کرنا، تیسرا یہ کہ قوانین کائنات کے پورے سلسلے کو اس کے حلقوں کی ترتیب کے ساتھ اس تصور کو سمجھنا۔ تیسرے سوال کے جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں کہ قدرت نے ہمیں دو طرح سے امداد اور راہنمائی دی ہے۔ داخلی طور پر انسان کو بعض ایسی ذہنی قوتیں اور صلاحیتیں دی ہیں جو کسی اور نوع کے حصے میں نہیں آئیں۔ انسان ان قوتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر عقلی اور وجدانی سطح پر کائنات کے معمہ کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرا خارجی طور پر قدرت نے انسان کے لیے نبوت کا بندوست کیے رکھا ہے۔ انبیائے کرام خدا سے وحی پاکر اسے حقیقت کائنات کا صحیح تصور قدرتی تحفے کے طور پر عطا کرتے ہیں۔۲۸؎ اس کے علاوہ وہ ایسے تصور کائنات کو درست خیال کرتے ہیں جو علم کے تینوں شعبوں طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہو۔ لکھتے ہیں: ارادہ اور امر کے بعد ایک تدبیرِ امر کا عمل ہوتا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ چیز کی ربوبیت کرتا ہے اور اسے تمام ارتقائی مدارج سے گزار کر اس کے کمال تک پہنچاتا ہے۔ اس عمل کے دوران اللہ تعالیٰ کی تمام صفات جلال و جمال اپنا ظہور پاتی ہیں۔ اس تدابیر امر کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک ھبوط اور دوسرا صعود۔۲۹؎ تخلیق انسان تخلیق انسان کے حوالے سے رفیع الدین کا موقف عام تفسیری رحجانات سے قدرے مختلف ہے۔ نظریہ ارتقا کو بین الاقوامی علمی اُصول قرار دیتے ہوئے تخلیق آدم سے متعلق عام تفسیری روایات کی توجیہہ جدید علمی اُصولوں کی روشنی میں کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اُن کے بنیادی تصورات یوں سامنے آتے ہیں: ۱) انسان ادنیٰ حالت سے ترقی کرکے اعلیٰ حالت تک پہنچا ہے۔ یہ معنی وہ ’’رب العالمین‘‘ سے مراد لیتے ہیں۔ البتہ اس میں وہ ڈارون کے اس عمومی تصور سے کہیں اتفاق کرتے نظر نہیں آتے کہ انسان کی ایک حالت ’’بندر‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔ ڈارون مطلق ارتقا کا علمبردار ہے۔ رفیع الدین ارتقا کو تخلیق سے وابستہ کرتے ہیں کہ حیات کی ہر اگلے مرحلے پر ترقی دراصل ’’کن‘‘ کی طاقت کا نتیجہ ہے۔۳۰؎ ۲) رفیع الدین اس بات کو قرآنی نظریات کے خلاف نہیں سمجھتے کہ انسان بھی زمین سے نباتات کی طرح پیدا ہوا ہے۔ اس موقف کی تائید میں وہ سورۂ نوح کی آیت ۱۷ ’’وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا ‘‘(ترجمہ: اور اُس نے تمہاری نسل کو زمین سے اُگایا ہے جیسے کہ اور چیزیں زمین سے اُگتی ہیں۔‘‘ بیان کرتے ہیں۔۳۱؎ ۳) پہلے انسان کا ظہور بھی بتدریج ہوا ہے اور زمین سے ہوا ہے۔ تدریج کا یہ انداز آج بھی انسان کی پیدائش کا خاصہ ہے۔ وہ آدم علیہ السلام کے یکدم پیدا ہونے کے تصور کو بعض دوسرے شواہد کی بنا پر درست خیال نہیں کرتے۔ جیسے عام تفسیری رحجانات اس مؤقف کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قصہ تخلیق آدم علیہ السلام کو عام تفسیری رحجانات کی طرح لغوی معنوں میں نہیں لیتے۔ جس میں انسان کی طرح پوچھنے، بولنے، جواب دینے اور انکار کرنے کا عمل ہوا ہے اور نہ آدم علیہ السلام کا اُن معنوں میں سیکھنا ہے اور نہ کسی زبان کا معاملہ ہے بلکہ تخلیق کائنات کے پیش آنے والے بعض واقعات اور پہلوئوں کو ایک قصے کا روپ دیا ہے۔ اُن کے نزدیک: یہ پہلو فطرت انسانی کے حقائق سے تعلق رکھتے ہیں۔ آدم علیہ السلام کا اسمائے اشیا کا سیکھنا یہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں علم الحقائق کے حصول کی استعداد رکھ دی ہے اور آدم علیہ السلام کا شجر ممنوعہ کا پھل کھانا انسان کے اپنے ارتقا کے ایک مرحلے پر خود شعور ہوجانا اور نیکی اور بدی کی تمیز کے قابل ہوجانا ہے۔۳۲؎ ۴) جسم انسانی کی اصل و مبدا سیاہ کیچڑ ہے۔ سائنس نے بھی اب اس کی تصدیق کردی ہے جبکہ قرآن کا یہ موقف پہلے سے ہی بہت واضح صورت میں ہے۔ جیسے سورۂ الحجرات آیت 28-29 میں بیان ہوا ہے۔ رفیع الدین اسے ازروئے قرآن بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جسم انسانی کا آغاز سمندروں کے کنارے خمیر والے کیچڑ سے ہوا۔ پھر ایک خلیہ کے جاندار امیبا کی صورت میں ہوا۔ ترقی کرکے یہ دو حصوں میں تقسیم ہوا اُس میں نر اور مادہ کے خواص پیدا ہوگئے۔ انسان کی مکمل آمد میں کروڑ برس لگے اور خود شعوری کا وصف پیدا ہوا۔۳۳؎ رفیع الدین تخلیق انسانی سے متعلق جدید سائنسی تحقیق اور قرآنی نقطہ نظر میں مماثلت کے حوالے سے علامہ اقبال کی فکر کے بہت قریب دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال کے حوالے سے اس بات کو انھوں نے تفصیلاً حکمت اقبال میں بیان کیا ہے۔۳۴؎ ۵) خود شعوری انسان کا وصف خاص ہے۔ اس بنا پر انسان کا مقام بیان کرتے ہیں کہ خود شعوری جسد انسان میں آکر آزاد اور خود شعور ہوئی ہے۔ مگر ابھی اپنے کمال کو نہیں پہنچی۔ البتہ اس نے آگے بڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ جبلتوں سے آزادی نے اُسے کسی سے بچھڑنے کا احساس دلایا ہے کہ وہ کہیں سے ٹوٹا ہوا تارا ہے۔ کئی مرحلوں سے کامیاب ارتقا خود شعوری کو اپنے مبدا کی پہچان کے قریب لارہا ہے اور اس کا کمال مادی پردوں کا مکمل خاتمہ اور مبدا سے دوبارہ مل جانا ہے اور اپنے اخلاق میں اپنے مبداسے متخلق ہوجائے گی۔ ۳۵؎ ۶) خدا اپنی محبت کی وجہ سے کائنات کے ذرے ذرے میں جلوہ گر ہے۔ وہ خدا ہے جسے ہم تلاش کررہے ہیں یا ہم ہیں جنہیں خدا تلاش کررہا ہے۔ رفیع الدین کے نزدیک یہ ایک ہی بات ہے۔ جب ایک ملے گا تو دوسرا بھی ساتھ ہی مل جائے گا۔۳۶؎ اسی بات کو الفاظ میں بیان کرتے ہیں: اگر انسان کی خود شعوری آدرش سے محبت کرتی ہے تو کائنات کی خودشعوری بھی آدرش سے محبت کرتی ہے۔ خدا کا آدرش انسانیت کا قافلہ ہے اور انسان کا آدرش خدا ہے۔۳۷؎ نبوت اور اُس کی حقیقت ’’اسلام تمام انبیا کی تعلیمات کا خلاصہ ہے‘‘ نبوت سے متعلق رفیع الدین کی فکر اس فقرے سے عیاں ہوجاتی ہے۔ وہ نبوت کو کائنات کے پورے ارتقائی تناظر میں لیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک نبوت خدا کی وحی کا تسلسل اور ارتقا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دریافت شدہ انسانی علمی حقائق کو بلا تحقیق رد کرنے کو درست خیال نہیں کرتے۔ نبی کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: نبی وہ شخص ہوتا ہے جو انسان کے اصلی اور حقیقی نصب العین کا علم خدا کی وحی سے براہِ راست حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے اندر اس بات کا زبردست داعیہ محسوس کرتا ہے کہ اس علم کو اپنی تعلیم اور تبلیغ کے ذریعے سے دوسروں تک پہنچائے۔۳۸؎ اور یہ کہ: خدا سے وحی پاکر اُسے حقیقت کائنات کا صحیح تصور ایک قدرتی تحفے کے طور پر عطا کرتے ہیں۔۳۹؎ وہ لکھتے ہیں: یہ ممکن ہی نہیں کہ قدرت انسان کے لیے ایک شدید ضرورت لاحق کردے مگر اُس کی تکمیل کا انتظام نہ کردے۔ جسمانی ضرورت غذا سے پوری ہوتی ہے تو اندرونی ضرورت نبوت سے پوری ہوتی ہے۔ یہی انسان کی نشودنما کے لازمی دو تقاضے ہیں۔ جبکہ نبوت کے بھی دو حصے ہیں۔ رفیع الدین کے نزدیک یہ آیات محکمات اور آیات متشابہات ہیں۔ یہ ایک حصہ یعنی محکمات کائنات کے صحیح تصور اور ابدی قوانین پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا سماجی حالات کے مطابق عملی اطلاق کی حکمت پر مشتمل ہوتا ہے۔۴۰؎ آگے چل کر وہ نبوت سے متعلق تین بنیادی سوالات قائم کرتے ہیں اور پھر اُن کا جواب دیتے ہوئے اپنی فکر نبوت کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کا پہلا سوال ہے کہ نبوت کی غرض وغایت کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ تمام انبیا شعوری وصف برابری کی سطح پر رکھتے ہیں تو اُن کی تعلیمات میں فرق کیوں ہے؟ اور تیسرا تکمیل نبوت کیا ہے؟ پہلے سوال کے جواب میں وہ نبوت کے اجرا کو ایک تسلسل اور عملی ارتقا سے منسلک کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ خالق کائنات کی مشیت ایک لہر کی طرح جاری ہے۔ یہ شعور ہے اور جب یہ اپنی مخالفت کو ختم کرنے کے لیے ایک جست لگاتا ہے تو خود شعوری سے لبریز انسان معرض وجود میں آجاتے ہیں۔ جنہیں انبیا کہتے ہیں دوسرے سوال کے تحت اُن کا موقف ہے کہ انتہا درجے کی خودشعوری رکھنے کے اعتبار سے تمام انبیا یکساں ہیں۔ لیکن ہر نبی کا علم و عرفان اُس معاشرے کے ذہنی، اخلاقی اور مادی سطح کی مناسبت سے آتا ہے۔۴۱؎ تیسرے سوال کا وہ قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں اور تکمیل یا ختم نبوت کا جائزہ نبوت کے تاریخی ارتقا کے تناظر میں لیتے ہیں۔ اس کا مقام ارتقا کائنات کے حوالے سے متعین کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ جس طرح حیوانی مرحلہ ارتقا میں زندگی سست ہوجاتی ہے تو زندگی غیر معمولی جست سے ایک نئی جسمانی تبدیلی والی نوع پیدا کردیتی ہے۔ انسانی مرحلہ ارتقا میں زندگی کی حرکت میں سستی پر خودشعوری یکایک جست سے نئی نفسیاتی نوع یعنی نبی اور اُس کے پیروکاروں کی ایک جماعت جنم دیتی ہے۔ جس طرح حیوانی مرحلہ ارتقا پر انسان کے ظہور کے بعد نوعی آمد کا سلسلہ ختم ہوا ایسے ہی کامل انسان یعنی کامل نبی کی آمد کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔۴۲؎ رفیع الدین نبوت کو انسانی تخلیق کے مرحلے کا لازمی نظریاتی مرحلہ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو اس نظریاتی وصف سے نوازا گیا۔ یہ ابتدائی مرحلہ تھا اور اس کی منزل ایک مکمل نظریاتی یعنی کامل نبی تھا جو محمد مصطفی ا ہیں۔۴۳؎ جبر و قدر رفیع الدین جبر و قدر کی روایتی بحث میں نہیں جاتے۔ انھوں نے اس مسئلے کو بھی پوری کائنات کے ارتقائی تناظر میں بیان کیا ہے۔ جمادات، نباتات، حیوانات اور پھر انسان کو انھوں نے مراحل ارتقا کائنات قرار دیا ہے۔ انسان کو ’’خود شعوری‘‘ کا وصف عطا کرکے نوعی آمد کا سلسلہ منقطع کردیا گیا۔ خود شعوری ہی دراصل نیابت الٰہی کا باعث ہے۔ فرشتے اس کے حق دار اس لیے نہ ٹھہرے کہ وہ بدی کی استعداد سے محروم تھے۔ جبکہ خود شعوری کا اظہار یا احساس سب سے پہلے غلطی یا گناہ میں ہوتا ہے۔ آدم علیہ السلام کا ممنوعہ پھل کھانا دراصل انسان کا مقام شعور ہے۔ گناہ نیکی کی معرفت عطا کرتا ہے اور نیکی جمال حقیقی کی معرفت عطا کرتی ہے۔ ابلیس کی رکاوٹ عارضی ہوتی ہے۔ خود شعوری کے ایک خاص مقام پر پہنچ کر انسان ابلیس کو بے بس کردیتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جب انسان جبریت کے سلاسل سے آزاد ہوجاتا ہے اور مقصد جو انسان اور کائنات میں کام کررہا ہے۔ اُس انسان کے ارادہ کے مماثل ہوجاتا ہے اور انسان نفس ایزدی کے ساتھ ایک ایسے مقصد میں شریک ہوجاتا ہے جو اُسے بھی اتنا ہی مطلوب ہے جتنی نفس ایزدی کو مطلوب ہوتاہے۔ رفیع الدین کے نزدیک یہ کیفیت یا کمال شعور صرف صوفیوں، زاہدوں یا مجذبوں سے ہی منسلک نہ سمجھی جائے بلکہ یہ ہر نفس کی کیفیت ہوسکتی ہے جس کے اعمال فطری اور طبعی ہیں چونکہ ہر نفس میں داعیہ حسن موجود ہے۔ اس لیے ہر نفس کمال شعور کی منزل پر پہنچے گا۔ یہ سفر جاری رہتا ہے اور موت کے بعد بھی یہ سفر ختم نہیں ہوتا۔۴۵؎ اس بات کو رفیع الدین نے ا پنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: انسان کو اس مقام پر مکمل طور پر آزاد ہوجاتا ہے وہ جبریت اور قدریت کی حدود سے ماورا ہوجاتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے لیکن خود شعور انسان کی خواہشات عام انسانوں سے مختلف ہوتی ہیں۔۴۶؎ اسی بات کو ایک اور طریقے سے بیان کرتے ہیں کہ کائنات قول ’’کن‘‘ سے وجود میں آکر ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔ اس ارتقا میں جب بندہ مومن مقام تجلی پر پہنچ جاتا ہے تو گویا وہ خدا کی مرضی کے تابع ہوجاتا ہے۔ اپنی مرضی کو خدا کی مرضی میں گم کردیتا ہے یوں وہ خدا کی مرضی یا قول ’’کن‘‘ کا آلہ کار بن جاتا ہے اور اُس کی مرضی خدا کی مرضی کا راستہ بن جاتی ہے۔ ۴۷؎ حیات بعد الممات (جنت و دوزخ) اس ضمن میں رفیع الدین تین نکات کے تحت اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ نامہ اعمال انسان سے الگ کوئی چیز نہیں۔ فطرت کی قوتیں فرشتے لکھ کر اُس کی گردن میں لٹکانے کے عمل پر مامور ہیں۔ دوسرا اس اعمال نامے میں درج تمام اعمال روز قیامت سامنے آجائیں گے۔ تیسرا یہ اعمال نامہ موت کے بعد انسان کے ساتھ جاتا ہے۔ رفیع الدین کے نزدیک موت وقت اور فاصلے کا نتیجہ ہے۔ خودشعوری موت کی محتاج نہیں ہے۔ موت جسم پر وارد ہوتی ہے، خودشعوری پر نہیں۔ انسان کے اعمال تا قیامت رہنا قرآن سے ثابت ہے۔ جبکہ انسانی جسم موت کے تین سال بعد ذرات میں تبدیل ہوکر مٹی بن جاتا ہے اور دوسری ایسی کوئی دلیل میسر نہیں کہ یہ اعمال نامہ اس دوران کیا رہتا ہے۔۴۸؎ دوسری جگہ بیان کرتے ہیں کہ خوشنودی کی نشودنما کا چوتھا مرحلہ مادی جسم کی موت کے بعد شروع ہوتا ہے اور یہ کہ نفس غیر فانی ہے۔ نفس جسم کی تخلیق کرتا ہے نہ کہ جسم نفس کی۔ نفس مادی لباس اختیار کرتا ہے اور جب مادے پر فتح حاصل کرلیتا ہے تو جسم سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ موت گویازندگی کے ہزاروں مرحلوں میں سے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ نفس کی خصوصیت آگے بڑھنا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ موت کے مقام پر رُک جائے۔ جس جس کی اُسے تلاش رہی ہے وہ محدود نہیں، لا محدود ہے۔۴۹؎ اعمال نامے میں درج اعمال جنت و دوزخ کا باعث ہوں گے۔ رفیع الدین کے نزدیک جنتیں دو ہیں۔ ایک دنیا میں اور دوسری آخرت میں۔ جنت عشق کی ایک خوشگوار منزل ہے۔ زندگی اور موت انسانی اصطلاحات ہیں۔ کوئی شے ایسی نہیں جو مطلق موت ہو اور نفس ایزدی کے علاوہ کوئی شے مطلق زندگی بھی نہیں۔ زندگی کے کم و بیش مدارج میں انبیا، اولیا اور دوسرے انتہائی باشعور انسان ہی حقیقت میں کامل زندہ رہتے ہیں اور ہر لحظہ نیا جلوہ حسن انھیں میسر آتا ہے۔ اسی حالت کا نام جنت ہے۔ اس کے برخلاف دوزخ نفس کی اُن جنگوں کا نام ہے جو اسے اپنی موت کے بعد بھی مشکلات کے خلاف جاری رکھنی پڑتی ہیں۔۵۰؎ دوسرے لفظوںمیں خودشعوری کی جنت خدا کا قرب ہے اور اُس سے دوری دوزخ ہے۔۵۱؎ گناہ زندگی کی جدوجہد میں رکاوٹ کا نام ہے۔ انسان اپنی فطرت کے بل بوتے پر اس رکاوٹ کو دور کرکے اصل تقاضوں پر لوٹ آتا ہے۔ یہ کشمکش اگر دنیا میں انجام کو نہ پہنچے تو بعد از موت جاری رہتا ہے۔ اُس جدوجہد کا نام دوزخ ہے۔ البتہ خودشعوری اس جنگ کو جیتے گی۔ دنیا میں ناکامی کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اسے آخرت میں سخت عذاب کے بعد جیتے گی۔ لیکن آخری فتح خودشعوری کی ہوگی اور دوزخ سے جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ گویا دوزخ اور جنگ ایک ہی راستے کی منزلیں ہیں۔ موت کے بعد گناہگار کی خودشعوری دوزخ کے اوپر کی طرف بڑھے گی یہاں تک کہ وہ جنت کے سب سے نچلے حصے میں پہنچ جائے گی اور خودشعوری کا ہر پڑائو عارضی ہوگا۔ دوسری بات کہ موت کے بعد انسان کا عمل دنیا پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ فرد ایک الگ ہستی بھی ہے مگر ایک کل نوع بشر کا جز بھی ہے۔ فرد اور نوع بشر ایک دوسرے کے ارتقا کا حصہ ہیں۔ اس لیے نوع بشر کے حوالے سے اُس کے اعمال کے اثرات ختم نہیں ہوتے، جاری رہتے ہیں ورنہ حساب کتاب کو قیامت تک کے لیے مؤخر نہ کیا جاتا۔ خودشعوری کی منزل جنت کامل ہے۔ یہاں تک کہ خالق کائنات اپنے نصب العین کو پوری طرح سے حاصل کرے گا اور پھر ایک اور کائنات کی تخلیق کی طرف توجہ کرے گا۔۵۲؎ نتیجہ بحث ۱) رفیع الدین نے علم الکلام کو جدید علم کی دریافتوں اور تقاضوں کی روشنی میں عقلی اور منطقی استدلال دیا ہے۔ یوں وہ اس نئے انداز فکر و استدلال سے کئی اہم پہلو اُجاگر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور جدید علوم سے آگاہی رکھنے والوں کے لیے اسلامی علم الکلام کو سمجھنے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ ۲) کائنات کے حادث ہونے کے حق میں جہاں فلسفیانہ استدلال کو نظر انداز نہیں کیا۔ وہاں جدید سائنسی تصدیق کو اپنے موقف کی حمایت میں لاتے ہیں۔ ۳) کائنات کے حادث ہونے کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے تین نتائج خودبخود تسلیم کرنے پڑتے ہیں کہ تخلیق کائنات قادر مطلق کا فعل ہے۔ دوسرا اس حرکت جاری ہے تیسرا اس کی حرکت مدعائی ہے۔ ۴) خودشعوری جسد انسان میں آکر آزاد شعور ہوگئی ہے اور اب اسی مقام سے اپنی منزل پائے گی۔ ۵) جمال اور جلال خدا کی صفات ہیں۔ نفرت دراصل محبت کی راہ کی رکاوٹ ہے جسے جذبہ محبت سے ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔ ۶) کائنات ایک وحدت ہے۔ اس کی ہرچیز ایک دوسرے سے باہم منسلک ہے۔ ۷) نبوت ارتقا کائنات کا لازمی عنصر ہے۔ ۸) ختم نبوت نوع انسانی کے مماثل ہے۔ خودشعوری اب نوع انسانی سے ہی منزل پائے گی اس طرح آخری نبی کی تعلیمات بھی قیامت تک کے لیے حجت قرار پائی ہیں۔ ۹) انسان خودشعوری کے ایک خاص مقام پر پہنچ کر جبریت اور قدریت سے آزاد ہوجاتا ہے اور ابلیس بے بس ہوجاتا ہے۔ ۱۰) انسان کی خودشعوری موت سے اپنا سفر ترک نہیں کرتی کیونکہ موت جسم پر وارد ہوتی ہے خودشعوری پر نہیں اور خودشعوری بالآخر کامیاب ہوگی۔ حوالے و حواشی ۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ۱۹۰۴ء میں جموں (جموں کشمیر) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جموں میں ہی حاصل کی۔ ۱۹۲۹ء میں اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے عربی کیا۔ سری پرتاب سنگھ کالج سری نگر اور پرنس آف ویلز کالج جموں میں بطور پروفیسر اور سری کرن سنگھ کالج میر پور (حال آزاد کشمیر) میں بطو رپرنسپل خدمات سرنجام دیں۔ ۱۹۴۷ء کے ہنگاہوں میں کالج کی بندش پر لاہور منتقل ہوئے۔ ۱۹۶۳ء میں اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں سے ۱۹۶۵ء میں ریٹائر ہوئے اور ’’آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس‘‘ کی لاہور میں بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد چودھری مظفر حسین اس کانگریس کے ایڈمنسٹریٹو ڈائریکٹر مقرر ہوئے چودھری صاحب یہی خدمات انجام دیتے ہوئے ۲۰۰۳ء میں وفات پاچکے ہیں۔ رفیعالدین کے سوانحی خاکے کو چودھری مظفر حسین نے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اُن کے مطابق رفیع الدین اپنی زندگی میں ہی عالمی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادی، مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن ندوی اُن کے قدر دانوں میں شامل تھے۔ ایک امریکن یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر ضیاء الدین سردار رفیع الدین کو علامہ اقبال کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں حالانکہ خود رفیع الدین نے ہمیشہ اپنے آپ کو فکر اقبال کا طالب علم قرار دیا۔ ۲۹نومبر ۱۹۶۹ء کو کراچی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوئے اور سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔ مزید تفصیلات کے لیے مظفر حسین کی کتاب پاکستان، اقبال اور نفاذِ سلام ملاحظہ ہو۔ ۲۔ مولانا راغب الطباخ ، تاریخ افکار علومِ اسلامی، ترجمہ افتخار احمد بلخی، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص۹۷ ۳۔ عبدالرحمن ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون، جلد دوم، مترجم: مولانا راغب رحمانی دہلوی، نفیس اکیڈمی کراچی ۱۹۷۷ئ، ص۳۶۵ ۴۔ مولاناشبلی نعمانی، علم الکلام والکلام، نفیس اکیڈمی ،کراچی، ۱۹۷۹ء ، ص۸۸ ۵۔ ……ایضاً…… ص۱۶۱ ۶۔ اشرف علی تھانوی،مولانا ، اسلام اورعقلیات، ادارہ اشرفیہ، لاہور، س ن، ص۴۴ ۷۔ مولانا محمد حنیف ندوی ، مسلمانوں کے عقائد اور افکار، ترجمہ مقالات الاسلامیہ، علامہ ابوالحسن اشعری، ۲۰۰۱، ص۶۱ ۸۔ ڈاکٹر، محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ۱۹۹۴ء ،ص۲ ۹۔ ……ایضاً…… ص۸۵ ۱۰۔ مولانا شبلی نعمانی ، علم الکلام والکلام، ص۱۲۴ ۱۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۸۲ ۱۲۔……ایضاً…… ص۸۶ ۱۳۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حقیقت کائنات اور انسان، اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۱ء ، ص۶۸ ۱۴۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور ۱۹۵۹ء ، ص۱۷۳ ۱۵۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۹۱ ۱۶۔ ……ایضاً…… ص۹۵ ۱۷۔ ……ایضاً…… ص۹۵ ۱۸۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، اقبال کا فلسفہ، اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۰ئ، ص۶۷ ۱۹۔ ……ایضاً…… ص۹۷ ۲۰۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حقیقت کائنات اور انسان، اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۱ئ، ص۵۹ ۲۱۔ ……ایضاً…… ص۷۶ ۲۲۔ ……ایضاً…… ص۷۶ ۲۳۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، صحیح فلسفہ کیا ہے؟ قرآنی کی راہنمائی میں، اقبال ریویو، جولائی۱۹۴۶ئ، ص۱۱۸ ۲۴۔ ……ایضاً…… ص۱۴۰ ۲۵۔ ……ایضاً…… ص۲۲۷ ۲۶۔ ……ایضاً…… ص۳۳۵ ۲۷۔ ……ایضاً…… ص۳۰۳ ۲۸۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۶۸ ۲۹۔ ……ایضاً…… ص۱۳۲ ۳۰۔ ……ایضاً…… ص۱۱۱-۱۱۳ ۳۱۔ ……ایضاً…… ص۱۱۶ ۳۲۔ ……ایضاً…… ص۱۴۹ ۳۳۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۱۴۹-۱۵۱ ۳۴۔ ……ایضاً…… ص۱۶۱-۱۶۳ ۳۵۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۲۲۷ ۳۶۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۱۴۴ ۳۷۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۲۰۷ ۳۸۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، مینی فسٹو آف اسلام، دعوۃ اکیڈمی ،اسلام آباد، ۱۹۹۰ئ، ص۱۸ ۳۹۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۶۹ ۴۰۔ ……ایضاً…… ص۶۹ ۴۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، مینی فیسٹو آف اسلام، ص۱۲۸ ۴۲۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۲۵۶ ۴۳۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۱۹۳ ۴۴۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۱۵۴-۱۵۶ ۴۵۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، عشق و آزادی، اسلامی تعلیم (دو ماہی لاہور)، جلد۲، شمارہ۵، ستمبر اکتوبر ۱۹۷۳ئ، ص۵۶ ۴۶۔ ……ایضاً…… ص۷ ۴۷۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، ص۳۱۸ ۴۸۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین،قرآن اور علم جدید، ص۳۲۸ ۴۹۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین،عشق و آزادی، اسلامی تعلیم(دو ماہی لاہور)، جلد۲، شمارہ۵، ستمبر اکتوبر ۱۹۷۳ئ، ص۹ ۵۰۔ ……ایضاً…… ص۱۰ ۵۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، ص۳۲۹ ۵۲۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، آئیڈیالوجی آف دی فیوچر، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ۱۹۹۰ئ، ص۲۲۷ ٭٭٭٭٭ ’’سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر‘‘ (ڈاکٹر جاوید اقبال سے ایک انٹرویو) ڈاکٹر زاہد منیر عامر علامہ اقبال کے ۶۷ ویں یومِ وفات کی مناسبت سے راقم الحروف نے فرزندِ اقبال جسٹس (ر)ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے ۸؍اپریل ۲۰۰۵ء کو ایک انٹرویو کیا، جو پاکستان ٹیلی ویژن سے ۲۱؍اپریل ۲۰۰۵ء کو نشر ہوا۔ پروگرام کے محدود دورانیے کے باعث انٹرویو کے بہت سے حصے حذف (ایڈٹ) ہوگئے، مثلاً راقم نے ڈاکٹر صاحب سے ان کے تاریخی نام ’’ظفرالاسلام‘‘کے حوالے سے بھی سوال کیاتھا، جس سے ڈاکٹر صاحب نے لاعلمی کااظہار فرمایا۔ علامہ کے ایک معالج اور عزیز ڈاکٹر عبدالقیوم ملک نے اپنی یادوں میں بیان کیاتھاکہ علامہ اپنی زندگی کی آخری رات میں پنجابی کی ایک نعت سننے کی تمنا رکھتے تھے۔ ان کافرمانا تھاکہ ایسی نعت انھوں نے فارسی یاعربی میں نہ تو کہیں پڑھی اور نہ ہی کہیں سنی ہے اور یہ کہ پنجابی زبان کی وہ نعت اس قدر بلند پایہ ہے کہ اپنی ساری زندگی میں کوشش کے باوجود،وہ خود بھی اس کے ہم پلہ کوئی نعت نہیں کہہ سکے۔ علامہ کی شدید خواہش تھی کہ وہ یہ نعت ایک بار پھر اس شخص کی زبانی سنیں جس کی زبانی انھوں نے پہلے سن رکھی تھی، لیکن افسوس کہ ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوسکی۔ (بحوالہ خالد نظیر صوفی: اقبال درونِ خانہ ۱۹۸۳ء ص۱۷۱) ڈاکٹر صاحب سے اس حوالے سے بھی کچھ گفتگو ہوئی تھی اگرچہ یہ معلوم نہ ہوسکاتھاکہ وہ نعت کون سی تھی۔ اسی طرح کچھ سخن ہائے گفتنی ڈاکٹر صاحب کے افکاروخیالات سے متعلق بھی تھے جو ٹیلی ویژن والوں کے ’’خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے‘‘، تاہم ۲۱؍اپریل ۲۰۰۵ء کی رات کو ’’یادِ اقبال‘‘ کے عنوان سے نشر ہونے والی گفتگو کی تحریری صورت پیشِ خدمت ہے، آخرمیں متعلقہ حواشی کااضافہ کردیاگیاہے۔اشاعت سے پہلے یہ تحریر ڈاکٹر جاویداقبال صاحب نے ملاحظہ فرمالی ہے۔ ذکر ہے ایک باپ اور بیٹے کا، باپ لندن میں ہے اور بیٹالاہور میں۔ بیٹا اپنے باپ کو ایک خط لکھتا ہے، فرمائش یہ ہے کہ واپس آتے ہوئے میرے لیے ایک گرامو فون باجالایاجائے، باپ کم سن بیٹے کی فرمائش کی تعمیل میں باجا تو نہیں خریدتا البتہ کچھ شعر کہتا ہے : دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر فرمائشی خط کایہ جواب بیٹے کومل جاتا ہے، بیٹے ہی کو نہیں اس کے توسط سے اس قوم کی پوری نوجوان نسل کو اورآنے والی تمام نوجوان نسلوں کو یہ پیغام مل جاتا ہے۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج وہ نام وَر بیٹاہمارے درمیان موجود ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ باپ جسے خط لکھا گیا حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ہیں اور فرزند، جس کے نام یہ شعر لکھے گئے، وہ ہمارے محترم جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال ہیں۔ زاہدمنیرعامر: خوش آمدید ڈاکٹر صاحب … جاوید اقبال : مہربانی، شکریہ زاہدمنیرعامر: ڈاکٹر صاحب آپ کیسے ہیں…؟ جاوید اقبال : اللہ کاشکر ہے۔ زاہد منیرعامر: ڈاکٹر صاحب ! یوم اقبال کے حوالے سے ہم نے آپ کو زحمت دی، آج کی نوجوان نسل اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ حضرت علامہ کے ساتھ اپنی نوسالہ رفاقت جوآپ کو ۱۹۲۴ء میں آپ کی ولادت سے ۱۹۳۸ء میں علامہ کے انتقال تک کو آپ کوحاصل رہی، اس حوالے سے کچھ یادیں تازہ کریں۔ جاویداقبال:ان کی وفات کے وقت میری عمر تقریباً تیرہ، ساڑھے تیرہ برس تھی۔ جس طرح آپ نے ارشاد فرمایا کہ رفاقت ان کے ساتھ Conscious کہہ لیجیے شعوری تعلق جو ہوتاہے وہ توصرف تقریبا سات برس کا ہے۔ ۱؎ ……………ایڈٹ…………… زاہدمنیر عامر: علامہ کی لاہور میں جوقیام گاہیں رہیں، جیسے اردو بازار میں کچھ عرصہ علامہ رہے جو اس زمانے میںاردوبازار نہیں کہلاتا تھا(کشمیری بازار)بھاٹی دروازے میں ان کی رہائش رہی، اس کے بعد میکلوڈ روڈاور پھر جاوید منزل، اس حوالے سے آپ کے ذہن میںکون سی یادیں ہیں…؟ جاویداقبال :دیکھیے یہ جو ان کا لاہور میںقیام ہے، دیکھیے پہلے تو یہ سیالکوٹ سے آئے تو بحیثیت طالب علم کے آئے، تویہ کواڈرینگل میں رہے ۲؎ زاہد منیرعامر:جوہاسٹل ہے گورنمنٹ کالج لاہورکا جاوید اقبال: گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے اور کواڈرینگل میں رہے، اس کے بعد جس وقت انھوں نے یہاںسے ایم۔ اے کر لیا توپڑھانے لگے اورینٹل کالج میں اور بعض اوقات گورنمنٹ کالج میں بھی انھوں نے پڑھایا۔ زاہدمنیرعامر: یعنی میکلو ڈعریبک ریڈر کی پوسٹ پر جاویداقبال:جی ہاں، تو اس زمانے میں انھوں نے بھاٹی گیٹ میں قیام کیا، اوروہ مکان جوہے، وہ میں نے تو کبھی دیکھا نہیں لیکن بہر حال اس مقام پر پلاک لگا ہوا ہے، جو کہ کہہ لیجیے ان کی ایک طرح سے پہلی رہائش گاہ تھی، پھر اس کے بعدیہ انگلستان جب گئے ہیں۔ زاہد منیرعامر: ۱۹۰۵ء میں جاوید اقبال: ۱۹۰۵ء میںتو وہاں سے واپس آکرسیالکوٹ پہنچے اور جب انھوں نے وکالت کا کام شروع کیا۔ زاہد منیرعامر: ۱۹۰۸ء میں جب وہ واپس آئے۔ جاویداقبال :۱۹۰۸ میں جب انھوں نے وکالت کا کام شروع کیاتو سب سے پہلے تو وہی جو اب اردو بازار کہلاتا ہے،اس وقت پتا نہیں کیا نام تھا اس کا، اس بازار میں کوئی کرائے کا مکان انھوں نے لیا، ابتدامیں انھوں نے ایک ہندومنشی رکھا تھا،اس کے ساتھ انھوں نے وکالت کا کام شروع کیاپھر غالباً سال یا دو سال کے بعد انارکلی کے مکان میں منتقل ہوئے، اور پھر ان کی یہ ساری رہائش گاہیں میری پیدائش سے پہلے کی ہیں، میری یادداشتیں جو ہیں ان کا زیادہ ترتعلق ان کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ سے ہے۔ زاہد منیرعامر:جو اب بھی اپنی اصل شکل میںمحفوظ ہے۔ ۳؎ جاویداقبال:اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے، وہ چونکہ محکمہ آثارِ قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے اور اس کے بعد آخری ان کااپنا مکان تھا جوانھوںنے تعمیر کیا۔ زاہد منیر عامر:جس کا نام جاوید منزل ہے جاوید اقبال:جس کا نام جاوید منزل ہے، اور یہیں ان کی وفات ہوئی۔ زاہد منیرعامر:میکلوڈ روڈ کی کوئی یادیں…؟ جاویداقبال:میکلوڈروڈ کی یادیں کچھ اسی قسم کی ہیں، بچپن میں کرکٹ کھیلنے کاشوق تھا۔ زاہد منیرعامر:اس گھر کے سامنے بڑاسا لان تھا جاویداقبال:جی ہاں، اس گھر کے سامنے۔ جی ہاں، اب تو خیر اس کے سامنے دکانیں بن گئی ہیں‘ اس میں لان اس طرح نہیں رہا،اس میں،بچے، ہم لوگ ساتھ دوسرے ساتھی طالب علم، ساتھ کے گھروں میں رہنے والے، کرکٹ کھیلتے تھے، تو ایک دفعہ کرکٹ کابال، ان کے کمرے کی کھڑکی جو ان کا پرائیویٹ کمرہ تھا، کے شیشے کوتوڑ کے اندر جاگراتواس کے بعد کرکٹ تو Ban ہوگئی۔لیکن پھر ہم پتنگیں اڑاتے تھے‘ کوٹھے پر چڑھ کے خاص طور پر بسنت کے موقع پر‘ یہ خود بھی بچپن میں پتنگ بازی کا شوق رکھتے تھے، اس وجہ سے کبھی اوپر کوٹھے پر آجاتے تھے۔ اس طرح بہار کے موسم میں ہم سے لے کر پتنگ اڑانے لگ جاتے تھے‘ اس کے علاوہ اور وہاں کی یادداشتیں جو ہیں وہ تو یہی ہیں۔ زاہد منیرعامر:آپ نے کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ جب بھی پتنگ میرے ہاتھ سے لیا کر تے تھے تو ہماری پتنگ اکثر کٹ جاتی تھی۔ جاویداقبال:جی ہاں، جب وہ پیچا کرتے تھے تو عموماً ہماری پتنگ ہی کٹتی تھی چونکہ وہ Skilled نہیں تھے (ہنستے ہوئے) بہر حال شوق تھا، انھیں یہ دو تین شوق تھے، بچپن ہی سے سیالکوٹ میں ایک تو پتنگ بازی کاشوق تھا، جب آپ ابھی بچے تھے، اس کے ساتھ ہی کبوتر پالنے کااوران کی اڑان دیکھنے کا، میری پیدائش کے وقت انھوں نے انارکلی والے گھر میں کبوتر رکھے ہوئے تھے لیکن جب میں پیدا ہوا تو پھر انھوں نے وہ …………… زاہد منیرعامر:انھوں نے یہ شوق ترک کردیا جاویداقبال:یہ شوق ترک کردیا کہ اس کو بھی کہیں یہ شوق نہ پڑ جائے کبوتر بازی کا وہ سمجھتے تھے کہ یہ تضیع اوقات ہے۔ وہ تو ختم ہوگیا اور باقی جو یادداشتیں ہیں اس زمانے میں یعنی جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے وہ یہی ہے کہ اس زمانے میں جو سیاسی دورتھا،دو ادوار ہیں جوابھی تک میری نگاہ میں ہیں،ایک تو وہ جس وقت پنجاب کونسل کے الیکشن کے ساتھ منسلک ہوئے‘ یہ انیس سو اٹھائیس یا اس پیریڈ کی بات ہے تو جولوگ وہاں بعد میں بھی ان کے ساتھ وابستہ ہوئے، مثلاً اس زمانے کی جو ہستیاں تھیں، جو سیاست میں بڑی اہم شخصیات تھیں، مثلاً ملک لال دین قیصر ایک شخصیت تھے، پھر اسی طرح میرا ں بخش پھر میاں عبدالعزیز۔ زاہد منیرعامر:مالواڈہ صاحب جاویداقبال:یہ شخصیات تھیں اس زمانے میں،اس دور کے ایک طرح کے لیڈر زتھے ۔ زاہد منیرعامر:نام ور شخصیتیں تھیں۔ جاویداقبال:نام ورشخصیتیں تھیں تو یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزوں نے الیکشن کا پرنسپل شروع کیاتو لاہور کی جو معتبر شخصیات ہوا کرتی تھیں وہ علامہ اقبال جیسی شخصیتوں کے پاس ایک وفد لے کر آتے تھے کہ آپ الیکشن لڑیں، اس زمانے میں اس طرح ہوتا تھا کہ لوگ جومعتبر ہوتے تھے محلوں کے یا علاقوں کے، خود ایسی شخصیات کے پاس آتے تھے۔ زاہد منیرعامر:ان سے Request کرتے تھے۔ جاویداقبال: Request کرتے تھے اور الیکشن کے لیے تیار، تو خیر… جہاں تک میری یادداشت ہے کہ کونسی شخصیات ہمارے ہاں آیاکرتی تھیں مثلاًمجھے خوب یاد ہے مولانا محمدعلی، مولانا شوکت علی کا زمانہ ہمارے گھر آیاکرتے تھے، کیونکہ پہلی شخصیت جنھیں میں نے اپنے والدکو نام کے ساتھ نام لے کر انھیں بلاتے ہوئے دیکھا۔ زاہد منیرعامر:بے تکلفی کے ساتھ جاویداقبال:بے تکلفی کے ساتھ بلاتے ہوئے دیکھا، وہ مولانا محمدعلی تھے اور وہ بھی ہمارے گھر آتے تھے، اورجب آتے تھے، مجھے یاد ہے میرے لیے عموماً وہ چاکلیٹ کاڈبا لایاکرتے تھے اور میری، چونکہ گھر میں والدہ کھانا پکاتی تھیں۔ انھیں کھانے کابہت شوق تھا اوران کے لیے بہت ہی لذیذ کھانے پلائو کباب قورمے اور اس قسم کی اشیا ان کے لیے بنائی جاتی تھیں، تو یہ خلافت کادورتھا۔ زاہد منیر عامر: ان کی تواضع کے لیے جاوید اقبال: جی ہاں ان کی تواضع کے لیے بنائی جاتی تھیں تو یہ خلافت کا دور تھا۔ زاہد منیرعامر:لیکن خلافت تو 20's کادور تھا۔ جاویداقبال:اس وقت تک ختم ہو چکا تھا لیکن کہہ لیجیے ابھی تک چل رہا تھا، یہ خلافت ہی کے لیڈرز تھے۔ زاہد منیرعامر:مابعد خلافت کہہ لیں۔۔۔۔۔؟ جاویداقبال:ما بعدِ خلافت کادور آپ سمجھ لیں تو اس کے بعد یہ شخصیات کاجہاں تک تعلق ہے پھر مجھے اپنی یادداشت یہ بھی ہے اور اس کے متعلق میں نے لکھا بھی ہے کہ ہمارے باہر مہمان خانے میں جو شخصیات آکے ٹھہرتی رہیں، ان میں ابھی تک مجھے یاد ہے کہ ایک تو سوامی جی تھے یہ تو کوئی بدھسٹ منک تھے جوآکرٹھہرتے تھے اور ان سے علامہ کے خاصے تعلقات تھے، اس کے بعدایک اور شخص جووہاں اقامت پذیر ہوئے، ہمارے مہمان خانے میں،وہ تھے ایک جرمن Geographer یہ جغرافیہ دان تھے اورعلامہ کے ان زمانوں کے واقف تھے جب یہ ہائیڈل برگ میں کچھ مدت رہے۔ زاہدمنیرعامر:اور وہاں تعلیم حاصل کررہے تھے جاویداقبال:تو یہ شخص جو جغرافیہ دان تھا، انھوں نے نقشے بناکے ان کو دیے، ان سے بنواتے تھے، نقشے کہ آپ اس حصے میں جو اس وقت پاکستان بنا ہوا ہے اس میں بتائیں کہ مسلمانوں کی آبادی اور ہندوئوں کی آبادی، اس کی نسبت کیاہے اور انھوں نے، میں نے گھر میںیہ نقشے پڑے ہوئے دیکھے ہیں، علامہ کی سٹڈی میں یاگھر میں ویسے تووہ سبز نقطے، سیاہی کے سبز نقطوں کے ساتھ دکھاتے تھے مسلم پاپولیشن کی تعداد کہ کتنے مسلمان آبادہیں اور کیسری رنگ کے Dots کے ساتھ وہ بتاتے تھے ہندوآبادی تو وہ نقشے ہمارے گھر میںموجود تھے اورغالباً یہ شخص پہلی دفعہ جب آئے تو یہ غالباً ۱۹۳۰ء کااوائل تھااور ان کے Basis پر علامہ نے خطبہ الہٰ آباد جوہے، وہ دیاتھا۔ زاہدمنیرعامر:تو گویایہ اس کی تیاری کا ایک عمل تھا جاویداقبال:ایک عمل تھااور اس میں آپ دیکھیں وہ خطبہ الہٰ آباد میں ذکر ہے کہ وہ علاقے علیحدہ کیے جاسکتے ہیں، پنجاب میں تاکہ مسلم اکثریت جو مسلمانوں کی ہے وہ زیادہ واضح ہو جائے،وہ اس طرح علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔ زاہدمنیرعامر:پورا ہوم ورک انھوں نے اس بارے میں کیا؟ جاویداقبال:انھوں نے ہوم ورک کیا زاہدمنیرعامر:اچھا ڈاکٹر صاحب اس گھر میںایک دائرہ لگا ہے فرش پر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کسی اہم شخصیت کی کرسی رکھی گئی تھی جب وہ تشریف لائے تھے۔ جاویداقبال:ہوسکتا ہے اس زمانے میں قائداعظم بھی اس گھر میں تشریف لائے ہوں، اس گھرمیں آئے ہوں کیوں کہ اس زمانے میں جو شفیع لیگ بنی اس کے سیکریٹری جنرل علامہ اقبال تھے اوربعد میں قائداعظم نے جس وقت نہروکمیٹی کی رپورٹ سے Disillusion ہوئے۔ زاہدمنیرعامر:آل پارٹیز کانفرنس رپورٹ، نہرورپورٹ جو کہلاتی ہے جاویداقبال:جی ہاں … نہرورپورٹ کے بعد لیگ کا پھراتحاد ہوگیا تھا۔ زاہدمنیرعامر:وہ تفریق ختم ہوگئی تھی۔ جاویداقبال:جی ہاں ……………ایڈٹ…………… زاہدمنیرعامر:اچھاڈاکٹر صاحب، آپ نے ایک بہت دلچسپ واقعہ کہیں لکھا ہے کہ علامہ اور ان کے کچھ دوست اکٹھے تھے اورکوئی باغ تھا جہاں سے آپ آم نکال نکال کرپانی میں سے انھیں دیتے تھے، اور ایک بے تکلف صحبت تھی، وہ کیا جگہ تھی اور یہ کیا واقعہ ہے …؟ جاویداقبال:جی ہاں، یہ میاں نظام الدین جو علامہ کے احباب میں سے ایک تھے، بارودخانے کی حویلی کے جو ایک رکن تھے جن کے پوتے سے علامہ اقبال کی بیٹی کی شادی، میری بہن کی شادی، ہوئی میاں صلاح الدین کے نانا، یہ ان کے باغات تھے۔ آم کے باغات دریائے راوی کے کنارے اور وہاں اکثر گرمیوں کے موسم میں وہ بلایا کرتے تھے کہ علامہ کے ساتھ بہت دوستی تھی تو میں بھی ساتھ جایاکرتا تھا، مجھے بھی ساتھ لے جایا جاتا تھا۔ وہاں ایک حوض میں انھوں نے اہتمام کیا ہوتاتھا، برف بھردیتے تھے۔ اوران کے جوآم مشہور تھے اس باغ کے وہ علامہ نے ان کا نام ٹیپو رکھا ہوا تھا اور یہ چوسنے والا آم تھا، شایدٹیپو انھوں نے اسی نسبت سے رکھا ہو کہ یہ ٹپکے والا آم، ٹپکا آم کہلاتے تھے، اورٹیپو سے تو نسبت اور کوئی معلوم نہیں ہوتی کہ خاص آم کا نام کیوں رکھا جائے………لیکن یہ چوسنے والے آم تھے اورعلامہ کو بہت پسندتھے، لہٰذاوہاں یہ اس طرح کی پکنکس ہواکرتی تھیں، میں تو لنگوٹا باندھ کے اس میں چھلانگ لگا دیتاتھا اور اس برف کے پانی میں آم کھانے کی مجھے ابھی تک یاد ہے، وہاں جو شخصیات موجود ہوتی تھیں۔ زاہدمنیرعامر: کون کون لوگ تھے…؟ جاویداقبال: ان میں ہوتے تھے ایم ڈی تاثیر، صوفی تبسم اورمیاں امیرالدین ، میاں نظام الدین تو خیرہو تے ہی تھے علامہ صاحب اور ان کے احباب غالباً چودھری محمد حسین اور اسی طرح کچھ نوجوانوں میں… زاہدمنیرعامر: میاں عبدالعزیز صاحب بھی اس محفل کے رکن تھے …؟ جاویداقبال: میاں عبدالعزیز مالواڈہ …؟ہوتے ہوں گے ضرور……… زاہدمنیرعامر: بہت بے تکلف تھے، بہت زیادہ بے تکلفی اورقربت تھی۔ جاویداقبال: کیونکہ بہت زیادہ بے تکلفی اور قربت تھی ……… اس طرح اہتمام ہوتا تھا وہاں، محفل میں کھانے کا بھی انتظام ہوتا تھا مگر وہ زیادہ تر آم کھائے جاتے تھے، اورخوب سیر ہوکرآم کھائے جاتے تھے۔ اب وہ باغ رہے ہی نہیں کیونکہ دریانے رخ بدل دیا اوروہ ساری زمینیں جوہیں دریا برد ہوچکی ہیں کوئی باغ نہیں۔ زاہدمنیرعامر: اچھا ڈاکٹر صاحب آپ کے دنیامیں آنے سے پہلے علامہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے مزار پرگئے اوروہاں انھوں نے دعا مانگی آپ کے لیے اور پھر وہ آپ کو لے کربھی اس مزار پر گئے۔ جاویداقبال: ابھی تک یادہے کہ ان کی انگلی پکڑ کے، ان کی، میں مزار کے اندر داخل ہوا اور اس کی ہیبت مجھ پر اتنی تھی کہ وہاں تربت کے قریب بیٹھ کر تلاوت انھوں نے شروع کردی اورروپڑے،روتے رہے، تلاوت کرتے رہے اورساتھ آنسو کی لڑیاں بہتی رہیں،اور میں ان کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اتنا خوف زدہ تھاوہ ماحول کی تاریکی اور اس کیساتھ ہی ہیبت … یہ مجھے صرف یادرہا ہے۔ زاہدمنیرعامر: وہ کیا ایک Grandureکااحساس تھا…؟ جاویداقبال: جی ہاں Grandure کا یا ایک آدمی پرہیبت جیسے ہوتی ہے، ایک آپ جاتے ہیں کسی مزار کی کیفیت اس میں آواز ان کی گونج رہی تھی۔ زاہدمنیرعامر: تلاوت جوکررہے تھے جاویداقبال: تلاوت جو کررہے تھے کیونکہ اس زمانے میں ابھی ان کا گلاخراب نہیں ہوا تھا، تلاوت کی گونج تویہ بڑے خوش الحان تھے تو ان کی گونج جوتھی، اس سے ایک خوف ساطاری ہوجاتا۔ زاہدمنیرعامر: رعب کی کیفیت جاویداقبال: رعب کی کیفیت وہ کیفیت مجھے ابھی تک یاد ہے، میں علامہ کے ساتھ، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے صرف تین ایسے سفرہیں جو اس دوران کیے گئے …ایک تو یہی سفر تھا سفر لاہور سے سرہند شریف جانا، دوسرا سفرجو تھا بھوپال کاتھا جس وقت یہ علاج برقی علاج کی خاطرجاتے تھے اورتیسرا سفر ایک جو مختصر سا سفر تھا وہ مولانا حالی کی برسی کاموقع تھا۔ زاہدمنیرعامر: پانی پت میں؟ جاویداقبال: وہاں بھی میں ان کی معیت میں گیاہوں، زاہدمنیرعامر: وہ کیاکیفیت تھی اورکیا کسی جلسے میں انھوں نے شرکت کی…؟ جاویداقبال: جی ہاں وہ جلسے میں شرکت کی تھی، صدارت غالباً نواب بھوپال کررہے تھے اور یہ بھی غالباً ان کی زندگی کے اختتامی دور کا واقعہ ہے، شاید یہ ۱۹۳۷ء یا ہوسکتا ہے ۱۹۳۷ء کے سردیوں کاموقع ہو چونکہ اس اس موقعے پر وہ تقریر کرنے کے قابل نہیں تھے اور نہ کچھ شعرپڑھ سکنے کے قابل تھے توانھوں نے جوکچھ لکھا ہوا تھا یااشعارتھے وہ کسی اور نے پڑھے تھے، یہ سٹیج پر صرف بیٹھے ہی رہے تھے اور صبح گئے تھے اور غالباً ایک رات ٹھہرنے کے بعداگلے روز واپس آگئے تھے، سرراس مسعود بھی وہاں تھے اور نواب بھوپال نے توخیرصدارت کی تھی تو اس کاتعلق مولاناحالی کی برسی کے ساتھ تھا۔ زاہدمنیرعامر: اچھا وہ غیر معمولی محبت اورعقیدت، جو انھیںمولاناحالی سے تھی جیسے انھوں نے کہابھی تھا ایک موقع پر کہ: میں کشورِ شعر کانبی ہوں گویا جاویداقبال:نبی ہوں گویا، بالکل زاہدمنیرعامر: جاری ہے مرے لب پہ کلام حالی جاویداقبال:کلامِ حالی زاہدمنیرعامر: تویہی محبت اورعقیدت انھیں اسی خراب صحت میں بھی وہاں لے گئی۔ جاویداقبال:اس خراب صحت میں بھی، ٹھیک ہے۔ زاہدمنیرعامر: توعلامہ پرکبھی ایسی کیفیت بھی طاری ہوتی تھی کہ وہ مولانا روم سے گفتگو کررہے ہیں غالب سے گفتگو کررہے ہیں۔ایسا کوئی مشاہدہ … ؟ جاویداقبال:جی ہاں ایسا … شاید دو دفعہ مجھے ایسامشاہدہ ہوا۔ یہ ۱۹۳۸ء کازمانہ ہے جس وقت خاصے بیمارتھے، میں اتفاق سے کمرے میں داخل ہوا تو کچھ ان کودبانے سے کمر کو … کچھ … زاہد منیرعامر: Reliefملا جاوید اقبال: Relief ان کو ہوئی، تو اس سے آنکھیں اوپر اٹھا کے تو اس کو علی بخش ۳۰؎ سے مخاطب ہو کے کہتے ہیں کہ مولانا روم نکل کے گئے ہیں، ذرا ان کوبلائیںمیں نے ابھی بات ختم نہیں کی تواس نے کہا۔ زاہدمنیرعامر: اچھا! جاویداقبال:تو اس نے کہا کہ جی یہاں توکوئی موجود نہیں تھا، تو ایک دم پھران کو زاہدمنیرعامر: واپس آگئے اس کیفیت سے … ؟ جاویداقبال: واپس آگئے اس کیفیت سے،جونہی شعور واپس آیاتو کہا:اچھااچھا،ٹھیک ہے ٹھیک ہے تو یہ ایک واقعہ دوسرے اسی طرح انھیں میں نے غالب کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ ……………ایڈٹ…………… زاہدمنیرعامر: تویہ جوفرمایا کہ مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر تو یہ ان کے تصور فقر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جاویداقبال:جی ہاں زاہدمنیرعامر: تو فقر اور خودی کاآپس میں کیارشتہ ہے…؟ جاویداقبال: فقر اور خودی تو Naturally آپس میں بہت ہی، ایک ہی یعنی کہہ لیجیے سکے کے دو پہلو ہیں، اورجس وقت وہ بیان کرتے ہیں فقر کی تعریف تو ایک خط میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ کسی طرح کہ اقبال کے ہاں جو تصورشاہین کا ہے اس میں اسلامی فقر کی خصوصیات کیا ہیں تو وہ پانچ گنواتے ہیں اس خط میں ایک تو یہ ہے کہ بلند پرواز ہے …دوسرے… زاہدمنیرعامر: آشیانہ نہیں بناتا جاویداقبال:تیسرادورسے دیکھ سکتا ہے اور چوتھا یہ کہ کسی اور کے ہاتھ کامارا ہوا شکارنہیں کھاتا، اورپانچواں یہ کہ خلوت پسندہے تویہ فقر ہی کی ساری Qualities ہیں۔اور اب آپ دیکھیں کہ جس میں بھی یہ ساری پانچ Qualities ہوں گی وہ یقینی طور پر خودی ہی اس کامرکز ہوگا …اس کی شخصیت کا کیونکہ ایسا شخص خوددار ہی ہوگا جو اورکے ہاتھ کامارا ہوا شکارنہیں کھائے گا۔ (ہنستے ہوئے) جوآشیانہ نہیں بنائے گا اور جو بلند پرواز ہو پھر تیز نگاہ ہو وہ سو وہ فقر کاجوتعلق خودی سے ہے، وہ تو ظاہر ہے۔ زاہدمنیرعامر: خودی کو جب وہ بے خودی کے دائرے میںلے جا تے ہیں … ؟ جاویداقبال:لیکن بے خودی کاتصورجو اقبال کے ہاں ہے وہ ایک طرح سے توحید وجودی کاتصورنہیں کہ یہاں بے خودی سے مراد ان کی کمیونٹی ہے یعنی ملت ایک تو فرد ہے اور فرد کی خودی اور پھر جب یہ یو نیک افراد اکٹھے ہوں تو وہ خودی جو معاشرے کی بے خودی ہے، بے خود اگر آپ نے ہونا ہے تو معاشرے میں غرق ہوجائو یعنی خدا سے تو اپنے آپ کووہ علیحدگی پر ہی اصرار کرتے ہیں کیونکہ وہ شاعر فراق ہیں۔ زاہدمنیرعامر: جیسے خواجہ حسن نظامی نے جب خطاب دیا انھیں سّرالوصال توانھوں نے کہا کہ بہتر ہوتا آپ مجھے سّرالفراق کہتے۔ تونشناسی ہنوز شوق بمیرد زِ وصل چیست حیاتِ دوام سوختنِ ناتمام جاویداقبال: سّرالفراق کہتے،جی ہاں زاہدمنیرعامر: ڈاکٹرصاحب یہ ہمیشہ کی طرح علامہ کی شخصیت پر ہونے والی کسی بھی گفتگو کی طرح آج کی یہ گفتگوبھی ناتمام رہی اور بہت سی باتیں ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں، مزید پہلو منکشف کرناچاہتے ہیں۔ آپ کی اس گفتگو، تجربے اورآپ کے علم وفضل کی روشنی میں لیکن پروگرام کاوقت اب ختم ہورہا ہے، آپ کے توسّط سے علامہ نے نسلِ نو کو جو پیغام دیا تھا ’’سخنے بہ نژاد نو خطاب بہ جاوید‘‘ کے نام سے جاویدنامہ کے آخرمیں ایک نہایت خوب صورت نظم ہے اس میں علامہ نے کہا کہ: تو مگر ذوقِ طلب از کف مدہ گرچہ در کارِ تو افتد صد گرہ جاویداقبال:درست زاہدمنیرعامر: کہ تو اپنے ہاتھ سے ذوق طلب کوجانے نہ دے، خواہ تیرے راستے میں کتنی بھی رکاوٹیں کتنی بھی دشواریاں ہوں۔ آج کی دنیا جن مشکلات اور دشواریوں کوآج کے نوجوان کے سامنے پیش کررہی ہے، اس کے لیے علامہ کا یہی پیغام ہے۔ ڈاکٹر صاحب! ہم آپ کابہت شکریہ اداکرتے ہیں آپ تشریف لائے اورآپ نے علامہ کی زندگی، شخصیت اور افکار کے کچھ پہلوئوں کوروشن فرمایا۔ اجازت دیجئے۔ اللہ حافظ ( مہدی حسن اور ساتھیوں کی آواز ابھر تی ہے …… یہ گنبدِ مینائی، یہ عالمِ تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی ٭٭٭٭٭ حواشی ۱۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو سیال کوٹ میں پیدا ہوئے، علامہ کا انتقال ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کولاہور میں ہوا، یوں علامہ کی وفات کے وقت ان کے فرزندِ عزیز کی عمر تیرہ برس ساڑھے چھے ماہ تھی۔ ۲۔ اس ہاسٹل میں علامہ کا قیام، بقولِ غلام بھیک نیرنگ، نیچے کی منزل میں مغربی قطار کے جنوبی سرے پر کیوبیکل میں تھا (مضمون ’’اقبال کے بعض حالات‘‘مشمولہ مطالعہ اقبال مرتبہ، ڈاکٹرگوہر نوشاہی۔ لاہور : بزم اقبال ص ۲۲) اب اس ہاسٹل کا کمرہ نمبر ایک ہے اور اس پر علامہ کے قیام کا یادگاری پتھر بھی نصب ہے۔ علامہ اس ہاسٹل میں چار سال مقیم رہے۔ ۳۔ یہ ایک ہندوبیوہ کا مکان تھا، اس زمانے میں اس مکان کانمبر ۳۴ تھااب اس کا نمبر ۱۱۶ ہے، پہلے یہاں اقبال اکادمی پاکستان کا دفتر قائم رہا اب اس میں اکادمی کا سیلز ڈپو ہے۔ یہ ایک کشادہ رہائش گاہ (کوٹھی) تھی۔ علامہ یہاں ساڑھے تیرہ برس مقیم رہے۔ علامہ کے بعض خطوں میں اس مکان میں منتقلی کا ذکر ملتا ہے اور خود علامہ کے ایک خط ہی سے اس کاماہوار کرایہ (ایک سو ستر روپے) بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ ۴۔ میراں بخش کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے اپنے ایک خط (۲۷مارچ ۲۰۰۶ئ)میں ازرہِ کرم ذیل کی معلومات فراہم کیں؛ ’’علامہ کے لاہور کے احباب میں ملک میراں بخش ککے زئی برادری کے قائد تھے اور ایک صاحب ثروت بزرگ تھے۔ علامہ کے الیکشن کے دوران انھوں نے امداد کی۔ اورعلامہ کے مداحین میںسے تھے۔ بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ہمارے گھر آتے جاتے تھے اور ہمارا خیال رکھتے تھے۔ جہاں تک مخدوم الملک پیر میراں بخش کا تعلق ہے، یہ صاحبزادہ حسن محمود کے والد ہی تھے اور ان کاتعلق بہاولپور سے تھا۔ مقامی شخصیت نہ تھے۔ لیکن لاہورآتے جاتے رہتے تھے۔‘‘ (بنام زاہد منیر عامر) ٭٭٭٭٭ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔ حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ الف:۔ اعلام اور تلمیحات: یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات، مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ ب:۔ مشکلات.۔.... یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح، توضیح اور تفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہلِ علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہوسکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جاسکتا، مجروح نہ ہو۔ ج:۔ تکنیکی اور فنی محاسن: یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص مقام پر اقبال کے پیشِ نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آجائیں گے۔ m صفحات ذیل میں فرہنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جارہے ہیں۔ کلیاتِ اقبال (اردو) احمد جاوید ص کلیات۔ ۱۵۴ فطرت: یہاں مظاہر فطرت مراد ہیں۔ فطرت روحِ کائنات ہے جس کے فیض سے اشیا میں زندگی،حسن اور تخلیقی نمو کا اصول جاری ہے۔ جن چیزوں میں یہ تین باتیں پائی جائیں اُن کے مجموعے کو فطرت کہتے ہیں۔ ص کلیات۔ ۱۵۵ فطرت: کائنات مظہرِ جمال کی حیثیت سے۔ ص کلیات۔ ۱۸۱ فطرت کی نازائی: ۱- طبیعت میں حق کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہونا۔ ۲-انسان کی روح میں حق اور احکامِ حق کے سامنے جو انفعالیت پائی جاتی ہو، اُس کا فقدان۔ ۳- یہاں ’فطرت‘ انسان کی اُس بنیادی اور کلی طبیعت کے معنی میں ہے جو روح، عقل اور نفس کے متوازن تعلق سے وجود میں آتی ہو اور جس کی اصل ’انفعال‘ یا اثر پذیری ہو۔ ص کلیات۔ ۲۴۸ فطرت: کائنات، عالمِ طبیعی کا بنیادی قانون۔ ص کلیات۔ ۲۵۵ فطرت: طبیعت، سرشت۔ ص کلیات۔ ۲۶۱ فطرتِ ہستی: ۱- وہ اُصول جس پر زندگی قائم ہے۔ ۲- وہ سانچا جس میں زندگی کی حرکت و فعلیت ڈھلتی ہے۔ ۳- ذاتِ ہستی۔ ۴- وہ سوتا جہاں سے زندگی کے بنیادی تقاضے پھوٹتے ہیں۔ ۵- وہ اُصول جس کے بغیر زندگی، زندگی نہ رہے۔ ۶- زندگی کی بنیادی ساخت۔ ص کلیات۔ ۲۶۶ نورِ فطرت: فطرتِ انسانی کا نور، یہاں فطرت سے مراد ہے انسان کی فطرتِ اصلی جو اپنی ماہیت میں طبیعی اور مادی نہیں بلکہ روحانی اور عقلی ہے۔ ص کلیات۔ ۲۷۳ فطرت: خلقت، تخلیقی بناوٹ، خمیر۔ ص کلیات۔ ۲۷۹ فطرتِ روشن: انسان کی پوری وجودی بناوٹ جو حقیقت کے نورسے روشن ہو اور ان نقائص سے پاک ہو کمالِ انسانی کے منافی ہیں۔ ص کلیات۔ ۲۸۰ فطرت: قدرت جو صورت کی بھی خالق ہے اور معنی کی بھی۔ ص کلیات۔ ۲۸۰ فطرتِ اسد اللہی: ۱- اللہ کے شیر یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سی فطرت۔ ۲- حق کو غالب کرنے کا داعیہ۔ ص کلیات۔ ۲۸۱ فطرت: وہ جوہر جس سے انسانی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ ص کلیات۔ ۲۸۵ فطرتِ اسکندری: یعنی ملوکیت۔ ص کلیات۔ ۳۰۰ مقصودِ فطرت: ۱- تخلیق کا مقصد۔ ۲- فطرتِ سلیم کا تقاضا۔ ص کلیات۔ ۳۰۲ فطرت: ۱- قدرتِ الٰہیہ جو موجودات کی حقیقت کی بھی خالق ہے۔ ۲- قدرت جو کائنات کی خالق ہے اور اس کا نظام چلارہی ہے۔ ۳- اللہ کا پیدا کردہ وہ توازن جو نظامِ کائنات کی اساس ہے۔ خودی: ۱- انسان کا ذاتی تعین جو زمانی ہونے کے باوجود معدومیت سے محفوظ ہے اور متحرک ہونے کے باوجود اس کی حرکت کا رُخ ہمیشہ کمال کی طرف رہتا ہے۔ ۲- ذاتِ انسانی جس کا حدوث ذاتی ہے نہ کہ زمانی۔ ۳- انسانی وجود کا اُصولِ امتیاز جو بقا باللہ اور غیریت پر استوار ہے، فنا فی اللہ اور عینیت پر نہیں۔ ۵- مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی انا جو اللہ کے رنگ سے رنگین اور رسول اللہ ا کی محبت و اطاعت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ۶- وہ امر جو وجود کی طرح بدیہی ہے اور انسان کے انفرادی اور نوعی تشخص کی تمام بنیادیں اسی پر کھڑی ہیں۔ ۷- وجودِ مخلوق کی اصل اور غایت جو صرف انسان میں متحقق اور برسرِ عمل ہے۔ ۸- انسان کا وجودی مرکز جس کی تشکیل ایمان بالغیب پر ہوئی ہے۔ ۹- انسان کی حقیقتِ جامعہ، جو بلند حقائق کا اثبات تو کرتی ہے مگر ان میں ضم نہیں ہوتی۔ ۱۰- وہ امرِ ذاتی جس کی بنیاد پر آدمی مقاصدِ تخلیق کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ۱۱- ذاتِ انسانی کا نقطۂ کمال جس میں شعور، ذہنی حقائق سے اور ارادہ، دینی مقاصد سے ہم آہنگ ہے۔ ۱۲- ’میں کون ہوں؟‘، ’میں کیا ہوں؟‘ اور ’میں کیسا ہوں؟‘ کا حتمی جواب۔ ۱۳- نفسِ انسانی جو ’تخلق باخلاق اللہ‘ کے مراحل طے کرچکا ہو۔ ۱۴- انسان کی حقیقت یعنی اللہ کی بندگی اور کائنات پر حکمرانی۔ ص کلیات۔ ۳۰۵ سازِ فطرت: ۱- فطرت کا ساز۔ ۲- وجود کے امکانات۔ ۳- کائنات، ’کُن‘کے تحت آنے والا تمام عالم۔ ۴- قدرتِ الٰہیہ کے آثار، خواہ مخفی ہوں یا ظاہر۔ ۵- اسرارِ تخلیق جن میں سے کچھ کا ظہور ہوگیا اور کچھ پوشیدہ ہیں۔ ۶- دائرۂ خلق سے تعلق رکھنے والے مراتب ہستی اور اُن کے حقائق۔ ص کلیات۔ ۳۰۵ فطرت: اصل، سرشت، وہ بنیاد جس پر کسی چیز کو پیدا کیا جائے۔ ص کلیات۔ ۳۵۳ فطرت: ۱- قدرت، قانونِ قدرت۔ ۲- تخلیق اور نشودنماکا نظام جس پر کائنات چل رہی ہے، قانونِ ربوبیت۔ ۳- روحِ بہار۔ ۴- ظہورِ جمال کا آفاقی اُصول جو تشبیہہ کی حقیقت اور اس کی الوہی نسبت کو منعکس کرتا ہے۔ ۵- حق، خیر اور جمال کی عینیت پر دلالت کرنے والا اُصولِ مظہریت جس کی بنیاد پر اشیا کی صورت بھی متعین ہوتی ہے اور معنی بھی۔ ص کلیات۔ ۳۵۷ فطرت: اللہ کی شانِ خلاقی اور شانِ ربوبیت۔ خلاقی سے انسان کی ذاتی استعداد کی تخلیق ہوتی ہے اور ربوبیت سے اُس استعداد کی تربیت اور نشودنما۔ ص کلیات۔ ۳۵۹ پہناے فطرت: کائنات کی وسعت۔ ص کلیات۔ ۳۵۹ عینِ فطرت: ۱- وہ امر جو فطرتِ الٰہیہ میں داخل ہو، اللہ کی صفتِ تخلیق و ربوبیت کا لازمہ۔ ۲- اقتضاے ذاتی۔ [عین= کثیر المعنی اصطلاح ہے، یہاں مراد ہے لازمۂ ذات + فطرت= اللہ کا کارِ تخلیق جس میں کبھی کوئی وقفہ نہیں آتا ورنہ کائنات معدوم ہوجاتی، ذاتِ خالق] ص کلیات۔ ۳۷۰ غزل ۱۲ فطرت: ۱- دل، ضمیر۔ ۲- کائناتِ باطن۔ ۳- حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت جو ہر انسان کو عطا ہوئی ہے۔ ص کلیات۔ ۳۸۷ فطرت: نظامِ تخلیق جس میں چیزیں حسن، خیر اور کمال کے سانچوں میں ڈھل کر اظہار پاتی ہیں۔ ص کلیات۔ ۳۸۷ غزل۳۷ فطرت: عالمِ طبیعی، کائنات اور اس کے پوشیدہ قوانین، کائنات کا نظام الوجود، زمان و مکاں اور ان کی ماہیت۔ ص کلیات۔ ۳۸۷ خودی: ۱- ذاتِ انسانی کا عمل تعین اور اُصولِ امتیاز جس کی غایت اخلاقی ہے، اس لیے اس میں تغیر کی مثبت اور منفی صورتوں کی قبولیت پائی جاتی ہے اور اس کی تخریب و تعمیر کے تمام ذرائع ارادہ و شعور کی دسترس میں ہیں۔ ۲- خودی کا شعور و احساس اور اس کی حفاظت و ترقی کی فکر، جذبہ اور صلاحیت۔ ص کلیات۔ ۳۹۶ فطرت کی حنا بندی: ۱- فطرت کا بنائو سنگھار۔ ۲- اللہ کی تخلیق میں جمالیاتی اضافہ کرنا، خدا کی بنائی ہوئی دُنیا کو اور خوبصورت بنانا۔ ارسطو نے کہا تھا کہ شاعری، فطرت کی نقالی ہے، یعنی انسان کی تخلیقی سرگرمیاں انہی اُصولوں سے تشکیل پاتی ہیں جو فطرت کی تخلیقی تنظیم میں پائے جاتے ہیں۔ بعد میں اس کے جواب میں یہ نظریۂ شعر سامنے آیا کہ شاعری، فطرت کی نقل نہیں بلکہ اس پر اضافہ ہے۔ یہاں اقبال نے اسی نظریے کو قبول کیا ہے۔ ۳- انسانی فطرت میں تبدیلی اور اصلاح کرکے اُسے خوب تر بنانا۔ ص کلیات۔ ۴۰۸ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی ۱- محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں خودی کا ظہور اپنے منتہا کو پہنچا اور یہ خودی وہی ہے جس کی حقیقت خدا ہے۔ یعنی خودی کی حقیقت، اللہ ہے اور مظہر، رسول اللہ ا ۔ ۲- خودی کی جلوتوں کا مطلب ہے: عالمِ موجودات جس میں ہر شے خودی کا ایک ناقص یا کامل مظہر ہے۔ ’مصطفائی‘ یعنی چن لیے جانے کا وصف۔ اس سے مراد ہے خودی کے مظہرِ اکمل کی حیثیت سے منتخب ہونے کا شرف جو فقط محمد مصطفی ا کو حاصل ہے۔ ۳- خودی کی اصل وحدت ہے۔ یہ وحدت، کثرت سے ماورا اور ذاتی ہو تو خودی الوہی ہے اور کثرت کے درمیان اور وصفی ہو تو انسانی۔ اس رُباعی میں خودی کی خلوتوں سے اس کی وحدت کے الوہی مراتب مراد ہیں جو ذاتی ہیں اور ماورائے کثرت۔ جلوتوں سے اس کے انسانی مدارج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں اس کی وحدت، اشتراک اور کثرت کو قبول تو کرتی ہے مگر اپنے تمام اوصاف و کمالات کے ساتھ ایک ہی وجود یعنی رسول اللہ ا کی عدیم النظیر ذات میں ہمیشہ کے لیے مجسم ہوگئی ہے۔ (دیکھیں اس اندراج کی شق ۲)۔ نیز دیکھیے: ’خودی‘ (تمام اندراجات)، ’مصطفائی‘ زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی ص کلیات۔ ۴۳۳ فطرت: روحِ کائنات نیز دیکھیے: ’فطرت‘ (تمام اندراجات) ص کلیات۔ ۵۲۷ خودی کا سرِّ نہاں لا الٰہ الا اللہ ۱- خودی یعنی ذات کا وجود حقیقی ہے، اور اللہ کی وحدتِ ذاتی اس کے حقیقی ہونے پر حجت ہے۔ ۲- خودی کے اثبات کے دو اُصول ہیں: وجودی اور اخلاقی۔ ۱:۲- وجودی جہت سے اس کا انتہائی وصف اس کا لاشریک اور منفرد ہونا ہے۔ چونکہ انسانی خودی، علامہ کے خیال میں، الوہی خودی سے صادر ہوئی ہے۔ لہٰذا ذاتِ باری تعالیٰ کی وحدت ہی اس کی حقیقت ہے جو اس کے امتیاز اور انفرادیت کی اساس ہے۔ ص کلیات۔ ۵۷۲ خودی ہے تیغ، فساں لا الٰہ الا اللہ یعنی ۱- خودی کا جوہر لا الٰہ الا اللہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ۲- انسانی خودی کا وجود، اظہار اور ارتقا الوہی خودی سے اُس کی نسبت پر منحصر ہے۔ ۳- لاموجود الااللہ سے انسانی خودی کی نفی نہیں ہوتی بلکہ اس کا وجود مستند اور حقیقی ہوجاتا ہے۔ ص کلیات۔ ۵۲۷ خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الٰہ الا اللہ ۱- اس شعر کو سمجھنے کے لیے کچھ باتیں معلوم ہونی چاہئیں: ۱:۱- اگر کوئی شے زمانی مکانی نہیں ہے تو وہ موجود نہیں ہے۔ ۲:۱- غیر موجود کا علم محال ہے۔ ۳:۱- یعنی موجود اور معلوم ہونے کے لیے شے کا محسوس ہونا ضروری ہے۔ ۲- اس کے بعد ان اُمور پر بھی نظر ہونی چاہیے: ۱:۲- ’زمان و مکاں‘ شرطِ وجود و ادراک ہے، یہ عقل کا دعوی ہے اور یہ شرط بھی اسی کی لگائی ہوئی ہے۔ ۲:۲- حقیقت شے موجود تو ہے مگر شے کی طرح قابل ادراک نہیں ہے۔ یہ بھی عقل ہی کامسلمہ ہے جس کی رُو سے موجودیت اور معلومیت لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ ۳:۲- موجودیت کا دائرہ علم کے دائرے سے زیادہ وسیع ہے۔ ۴:۲- عقل کا ہدف شے کا وجود نہیں بلکہ اُس کی معلومیت ہے۔ اس وجہ سے عقل مجبور ہے کہ زمان و مکاں کا طوق گلے میں ڈالے رکھے۔ ۵:۲- ’موجود‘ معلوم سے بڑا ہے۔ یہ بات عقل کر بھی تسلیم ہے۔ ۶:۲- ’حقیقت‘ ماوراے علم ہے مگر واجب الاثبات، عقل اس سے بھی متفق ہے۔ ۷:۲- موجود کا ماوراے علم اثبات کس طرح ممکن ہے؟ ۱:۷:۲- عقل کہتی ہے کہ ایسا اثبات ناگزیر ہے لیکن اس تک پہنچنے کا کیا طریقہ ہے، یہ نہیں بتایا جاسکتا۔ ۲:۷:۲- اس مرحلے پر عشق دستگیری کرتا ہے۔ جس کی نظر میں موجود حقیقی ہے اور معلوم غیر حقیقی۔ وہ کہتا ہے کہ یہ طریقہ بتایا جاسکتاہے بشرطیکہ زمان و مکاں کے غیر حقیقی پن کا ادراک ہوجائے۔ ۳:۷:۲- عقل یہ شرط پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس کے لیے زمان و مکاں کا غیر حقیقی ہونا محال ہے۔ ۸:۲- عشق کے لیے مدارِ اثبات ایمان ہے نہ کہ علم۔ ۹:۲- ایمانی اثبات کا محتویٰ ’الغیب‘ ہے۔ ’الغیب‘ یعنی غیب مطلق کے چند خصائص یہ ہیں: ۱:۹:۲- یہاں وجود اور موجود ایک ہے۔ اس وحدت پر کوئی چیز زائد نہیں ہے۔ ۲:۹:۲- وجود و موجود کی عینیت زمانی مکانی اعتبارات کو قبول نہیں کرتی، یعنی قبلیت بعدیت وغیرہ کا یہاں گزر نہیں، ورنہ وجود پہلے ہوتا اور موجود بعد میں۔ ۳:۹:۲- حرکت، تغیر اور جہت، غیب کی مجموعی تعریف کے منافی ہیں، اس لیے لازمانیت اور لامکانیت اس کا خاصہ ہے۔ ۴:۹:۲- وجود و موجود کی عینیت لامحالہ ایک ذات میں قائم ہوگی جسے وجود سے بھی ماورا ہونا چاہیے۔ ۵:۹:۲-وہی ذات، ایمانی اثبات کا مبدا و منتہا ہے۔ ۶:۹:۲- اس اثبات کو یقین میں بدلنے کی جو قوت انسان کو ملی ہے، وہ عشق ہے۔ ۷:۹:- ذاتِ الٰہیہ پر یقین میسر نہیں آسکتا جب تک اُن چیزوں کی نفی نہ کردی جائے جو ہمارے اندر اُس کے واحد و لاشریک ہونے کی فضا پوری طرح قائم نہیں ہونے دیتیں۔ ۸:۹:۲- ذاتِ باری تعالیٰ کی وحدت اُصولی طور پر ایک وجودی رنگ رکھتی ہے، یعنی موجود تو بس وہ ہے۔ ۹:۹:۲- زمان و مکاں، وحدت کی اس جہت کو مجروح کرتے ہیں اور ایسی موجودیت کو روا نہیں رکھتے جو ان سے ماورا ہو اور ان پر مقدم۔ ۳- مندرجۂ بالا نکات کی روشنی میں اس شعر کا تجزیہ کریں تو کچھ بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں جن سے لا الٰہ الا اللہ کے اس معنی تک رسائی ہوتی ہے جو پہلے مراد ہے: ۱:۳- موجودِ حقیقی صرف اللہ ہے، کیونکہ ۱:۱:۳- وہ حدوث و فنا اور حرکت و تغیر سے پاک ہے یعنی زمانہ اس پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ۲:۱:۳- حدود و جہات سے ماورا ہے، یعنی مکان اُس کا احاطہ نہیں کرتا۔ ۳:۱:۳- وہ ’الاول‘ ہے اور ’الآخر‘ بھی، اس میں ایک طرف زمانیت کی نفی ہے اور دوسری طرف کثرت کے حقیقی ہونے کی۔ ۱:۳:۱:۳- زمانی وجود بیک وقت اول و آخر نہیں ہوسکتا۔ ۲:۳:۱:۳- اول و آخر ایک ہی ہو تو دوسرا موجود نہیں ہے یعنی بطورِ خود کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ ۴:۱:۳- وہ ’الظاہر‘ ہے اور ’الباطن‘ بھی۔ اس میں بھی ایک طرف مکانیت کی نفی ہے اور دوسری طرف کثرت کے حقیقی ہونے کی۔ ۱:۴:۱:۳- ’ظہور‘ اور ’بطون‘ وجود کی دو مستقل حالتیں ہیں جو ایک ہی موجود ہیں جمع نہیں ہوسکتیں۔مکانی سطح پر موجود شے یا ظاہر ہوتی یا باطن۔ بصورتِ دیگر اسے ان حدود میں نہیں رکھا جاسکتا جن سے ’مکان‘ عبارت ہے۔ ۲:۴:۱:۳- یعنی ایک ہی موجود یکساں وجودی شدت اور قطعیت کے ساتھ ’ظاہر‘ بھی ہو اور ’باطن‘ بھی، تو اس کا ماوراے زمان و مکاں ہونا لازمی اور بدیہی ہے۔ ۳:۴:۱:۳- ’ظاہر‘ ہی ’باطن‘ ہے اور ’باطن‘ ہی ’ظاہر‘ ہے تو دوسرے کا وجود یعنی اس کا حقیقی ہونا محال ہے۔ ۴- ’خرد‘ کو ’زمان و مکاں کی زناری‘ کہنا معنی خیز ہے۔ اس کی کئی پرتیں ہیں: ۱:۴- عقل‘ اپنے عملِ ادراک میں زمان و مکان کی پابند ہے۔ یہ انہی چیزوں تک پہنچ سکتی ہے جو زمانی اور مکانی ہیں۔ ۲:۴- حقیقتِ وجود کا علم اس کا ہدف ہے۔ ۱:۲:۴- وجود کے دو تعینات ہیں: وحدت اور کثرت۔ وحدت حقیقی ہے اور کثرت اعتباری۔ ۲:۴۲- عقل ان تعینات کو معنی اور صورت یا حقیقت اور مظہر کے۔ ۳:۲:۴- ’شبستانِ وجود‘ کے لرزنے کا بڑا سبب یہ ہے کہ ’وہ سحر‘ لا موجود الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں) کا ظہور ہے۔ ۳:۴- ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا۔ ۱:۳:۴- ’بندۂ مومن‘: غیب کو حقیقی اور حاضر و موجود کو غیر حقیقی ماننے والا، لا موجود الا اللہ پر ایمان رکھنے والا۔ ۲:۳:۴- ’اذاں‘: یہ اعلان کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی مقصود نہیں اور کوئی موجود نہیں۔ ص کلیات۔ ۵۳۰ خودی: وجود کا انسانی تعین جو اخلاقی و اکتسابی ہے اور فرد کی ذات میں قائم ہے۔ اس کی بنیاد پر انسان کا موجود ہونا، کائنات کے موجود ہونے سے مختلف ہے۔ انسان زمانے سے متعلق ہوکر بھی اس سے اوپر اُٹھ سکتا ہے۔ ص کلیات۔ ۵۴۳ نورِ خودی: ۱- ’اسلام کی روح‘ نورِ خودی اور نارِ خودی ہے۔ یعنی اسلام خودی میں نور اور نار کا رنگ پیدا کردیتا ہے۔ نور سے مراد ہے شانِ جمال اور نار سے مراد ہے شانِ جلال… لا الٰہ سے جلال اور الا اللہ سے جمال کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور لا الٰہ الا اللہ یہی اصلِ اسلام ہے، یعنی اسلام کی روح ہے۔ اور انسانی زندگی کی تکمیل کے لیے انہی دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ مختصر طور پر یوں کہہ سکتے ہیں: نار + نور= جلال + جمال= لا الٰہ+ الا اللہ= روحِ اسلام (شرح، یوسف سلیم چشتی، ص۸۶) ص کلیات۔ ۵۴۳ نارِ خودی: [دیکھیے ’نورِ خودی‘] ص کلیات۔ ۵۴۳ فطرت: قدرت جو شے اور حقیقتِ شے کی خالق ہے۔ ص کلیات۔ ۵۵۶ فطرتِ احرار: آزاد مردوں کی فطرت یعنی وہ بناوٹ جس پر اللہ نے انہیں تخلیق کیا ہے اور جو کبھی بدل نہیں سکتی۔ ص کلیات۔ ۵۸۸ پاکی فطرت: فطرت/ باطن/ طبیعت کی پاکیزگی۔ ص کلیات۔ ۵۹۹ فطرت: ۱- وہ قانون جس پر نظامِ عالم چل رہا ہے اور جس کی خلاف ورزی کرکے کوئی چیز اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ۲- فنا و بقا اور عروج و زوال کا خداوندی قانون۔ ۳- قدرت۔ ص کلیات۔ ۶۰۰ جوہر: ۱- فطرت۔ ۲- شخصیت کی اصل ص کلیات۔ ۶۱۶ فطرت: ۱- کائنات کی روحِ جمال۔ ۲- اُصولِ تخلیق جو کائنات میں وجودی اور جمالیاتی توازن پیدا کرتا ہے اور اسے برقرار بھی رکھتا ہے۔ ص کلیات۔ ۶۱۷ چشمِ فطرت: فطرت کی آنکھ۔ یہاں ’فطرت‘ سے مراد ہے: ۱-قدرت۔ ۲- تخلیق۔ نیز دیکھیے: ’فطرت‘ [تمام اندراجات] ص کلیات۔ ۶۱۸ سوزِ خودی: ۱- خودی کی حرارت۔ ۲- خودی کی آنچ جس کی بدولت انسان اپنا ہونا محسوس کرتا ہے، احساسِ ذات جس کے بغیر آدمی موجود ہونے کے قابل نہیں رہتا۔ ۳- وجودِ انسانی کی حقیقت جو فرد میں قائم ہے۔ ۴- ذاتِ انسانی کا جوہر جو اپنے امتیاز کا تحفظ کرتا ہے اور غیر کا اثبات تو کرتا ہے مگر اسے اپنے حدود میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ ۵- انسانی خودی اپنی ماہیت میں بندگی اور عشق کا مجموعہ ہے تو اس کا ادراک عقل نہیں بلکہ مستی سے ہوتا ہے۔ ’سوز‘ کے لفظ میں یہ تمام دلالتیں موجود ہیں۔ نیز دیکھیے: ’سوزِ و سازِ حیات‘، ’سازِ حیات‘، ’خودی‘۔ ص کلیات۔ ۶۲۸ فطرت: کائنات میں کار فرما قانون جو چیزوں کو بناتا اور مٹاتا ہے، کائنات کی تخلیقی قوت جو میکانکی ہے۔ ص کلیات۔ ۶۳۰ رازِ خودی: ۱- خودی کی حقیقت۔ ۲- انا الحق کا بھید۔ ص کلیات۔ ۶۳۴ فطرت: کائنات صورت و معنی سمیت۔ ص کلیات۔ ۶۴۹ خودی: ۱- خودی شناسی۔ ۲- خود داری۔ ۳- حریت پسندی۔ ص کلیات۔ ۶۶۰ فطرت: قدرت۔ نیز دیکھیے: ’فطرت‘ [دیگر اندراجات] ص کلیات۔ ۶۷۸ فطرت: ۱- نظامِ عالم۔ ۲- کائنات۔ نیز دیکھیے: ’فطرت‘ [دیگر اندراجات] ص کلیات۔ ۶۸۵ تقویمِ خودی: خودی کا قیام/ استحکام/ تربیت/ نشودنما۔ نیز دیکھیے: ’خودی‘ [تمام اندراجات] ص کلیات۔ ۷۰۲ فطرت: آدمی کی بنیادی ساخت‘ طبیعت جو تبدیل نہ ہو۔ ص کلیات۔ ۷۴۰ فطرت: ۱- کائناتی قانون جو چیزوں کی فوری حقیقت کو محفوظ اور روبعمل رکھتا ہے اور اسے تبدیل یا معطل نہیں ہونے دیتا۔ ۲- موجودات کا وجودی مزاج تشکیل دینے والا اُصول جس کی بنیاد پر کوئی شے موجود ہونے کی اہلیت اور جواز حاصل کرتی ہے اور ہستی کا ایک اپنا اسلوب وضع کرتی ہے۔ ۳- انسانی وجود کا پورا لائحہ عمل جو اپنی ماہیت میں روحانی اور اخلاقی یعنی مقصدی ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہمیں یہ شعور حاصل ہے کہ حرکت حقیقی ہے، موجود ہونے کی لازمی شرط ہے اور حصولِ کمال کا واحد ذریعہ ہے۔ ۴- کائنات اور انسان میں صورت اور معنی کی نسبت پیدا کرکے انہیں ایک وجودی توازن دینے والا اُصول۔ ۵- موجود ہونے کی حقیقت جس کی صورت کائنات ہے اور معنی انسان۔ ۶- خط ہستی جو کائنات سے شروع ہوکر انسان میں مکمل ہوتا ہے۔ آغاز اور تکمیل کا یہ عمل تاریخی نہیں ہے بلکہ وجودی ہے اور مسلسل۔ ۷- وجود اور شعورِ وجود کی اساس جو انسان کے اندر قائم ہے۔ نیز دیکھیے: ’فطرت‘ [دیگر اندراجات] ص کلیات۔ ۷۴۱ خودداری: ۱- خودی سے بہرہ مند ہونا۔ ۲- انا کے حقیقی ہونے کا شعور۔ ٭٭٭٭٭ اقبال کا تصو۔ّرِ روشن خیالی محمد انور صوفی ’روشن خیالی‘ کی ترکیب یا اصطلاح دو الفاظ کا مرکب ہے: روشن اور خیالی۔ روشن، روشنی سے ہے جو اندھیرے کا اُلٹ ہے۔ علامہ کے ہاں شمع، روشنی کا منبع یا سرچشمہ ہے اور روشنی علم وہنر کی علامت (Symbol) ہے۔ جب کہ اندھیرا جہالت کی نمایندگی کرتا ہے۔ انسان پروانے کی مانند روشنی کا عاشق ہے۔ علامہ کے ابتدائی کلام میں ’’بچے کی دعا‘‘ نام کی ایک نظم شامل ہے۔ یہ نظم گو ماخوذ ہے مگر علامہ کے خیالات بلکہ آپ کے اصولِ زندگی کی ترجمان ہے: زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رَبّ علم کی شمع سے ہو مُجھ کو محبت یا رَبّ اُدھر خیال کا تعلق دماغ سے۔ دل اگر جذبات کا خزانہ ہے، تو دماغ خیالات کی آماجگاہ ہے، جب کہ چہرہ ایک آئینہ جو دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کے زیر اثر دل سے اُٹھنے والے جذبات کو عیاں کرتا ہے۔ علامہ کی ایک لاجواب فارسی غزل کا ایک انتہائی خوبصورت شعر ہے: سرمایۂ دردِ تو، غارت نتواں کردن اشکے کہ ز دِل خیزد، دَر دیدہ شکستم من (میں تمھارے درد کی دولت کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ وہ آنسو جو میرے دل میں پیدا ہوتے ہیں، میں اُن کو اپنی آنکھوں میں توڑ دیتا ہوں۔ یعنی میں اپنے دل کا احوال لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتا۔) گویا دماغ انسانی زندگی کا اصل مرکز ہے۔ جو خیالات انسانی دماغ میں پیدا ہوتے ہیں، اُن کے مطابق ہی انسانی زندگی تشکیل پاتی ہے۔ لیکن انسانی دماغ تو ایک کورا کاغذ ہے۔ ایک کمپیوٹر ہے، جو پروگرام آپ اُس میں ڈالیں گے، اُسی کی روشنی میں آپ کو جواب بھی ملے گا۔ انسانی دماغ پر معاشرتی حالات، والدین کی تربیت، تعلیم اور تعلیمی اداروں کا ماحول اَثرانداز ہوتے ہیں۔ ان عوامل کی روشنی ہی میں ہر ایک انسان کا دماغ تیار ہوتا ہے۔ گویا انسانی دماغ سے خیالات کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے پہلے اُس میں معلومات و اطلاعات، علوم وفنون اور زبان وبیان کی استعداد کا بیج ڈالنا پڑتا ہے۔ پھر تہذیب وتربیت سے اُس کی آبیاری کرنا ہوتی ہے، تب جاکر کہیں اُس سے روشن خیالات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے دماغ کو خیالات کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ انسانی دماغ میں پیدا ہونے والے انھی خیالات کی بنیاد پر اصول مرتب ہوتے ہیں، قوانین وقواعد تشکیل پاتے ہیں اور انھی کی بنیاد پر نظریات استحکام پاتے ہیں جو ایمان کا جزو بنتے ہیں تو بڑی بڑی قومیں اور تہذیبیں معرض وجود میں آتی ہیں۔ اسی لیے تو علامہ نے کہا ہے: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا یہی دیدہ ور اور صاحبِ بصیرت لوگ ہوتے ہیں جن کو آپ روشن خیال یا روشن دماغ یا روشن فکر یا روشن ضمیر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی وہ آزاد خیال مفکر ہوتے ہیں جو صاحبِ امروز کہلواتے ہیں۔ علامہ نے اپنے اور اپنے دوست سرعبدالقادر کے لیے یہی راستہ پسند فرمایا تھا کہ: شمع کی طرح جییں، بزم گہِ عالم میں خود جلیں دیدہِ اَغیار کو بینا کر دیں اس شعر کا پس منظر کچھ بھی ہو، مطلب یہ ہے کہ کوئی فرد یا شخص چاہے حددرجہ قابل کیوں نہ ہو، بے شک، اُسے ہمہ وقت نئے سے نئے خیالات سوجھتے رہیں، اگر وہ دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا اُس کے خیالات سے بنی نوع انسان کو روشنی نہیں ملتی، اگر اُن سے انسانیت کی بھلائی اور بھلائی کی طرف راہ نمائی مقصود نہیں، تو وہ خیال یا خیالات، ہرگز روشن نہیں۔ بلکہ بقول علامہ ایسے خیالات کا حامل شخص زمانۂحاضر کی اُس متاع کی مانند ہے، جس کا دماغ روشن ضرور ہے مگر دِل ظلمات سے بھرا ہے اور آنکھیں بے حیا ہیں۔ مطلب یہ کہ روشن خیال شخص کے لیے دماغ کے ساتھ ساتھ دل کا روشن ہونا ضروری، اور اُس کی آنکھو ں میں حیا کا ہونا لازمی ہے۔ روشن خیالی کی ایک اور نشانی، جس کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں فرسودگی کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ روشن خیال منافق نہیں ہوسکتا۔ روشن خیال مفکر اور دانش ور غلط کو مشکوک یا صحیح کو مناسب نہیں کہتا بلکہ غلط کو غلط کہہ کر اُسے زندگی کے لیے سَمِ قاتل قرار دیتا ہے اور صحیح کو صحیح کہہ کر اُسے زندگی کا فرض سمجھنے پر اصرار کرتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ: مجھے رازِ دو عالم دِل کا آئینہ دکھاتا ہے وہ کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے علامہ تو خیال سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک روشن خیال کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسا عملی انسان ہو، جو جوشِ کردار سے سرشار ہو۔ علامہ فرماتے ہیں: یہی آئینِ فطرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے جو ہے راہِ عمل میں گام زَن، محبوبِ فطرت ہے بلکہ وہی ہے صاحبِ امروز، جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے، نکالا گوہرِ فردا علامہ کے نزدیک روشن خیال نہ ماضی سے چپکا رہتا ہے اور نہ حال میں مست رہتا ہے بلکہ وہ اپنی ہمت اور کوشش سے اپنے حال میں سے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے۔ جن معاشروں میں سے صاحبِ امروز اور روشن خیال اہلِ نظر یا بابصیرت دانش ور اور مفکر ناپید ہوجائیں یا جن معاشروں میں مخلص، دردمند اور دوراندیش اہلِ علم وہنر ناقدری کا شکار ہوجائیں، وہ معاشرے، علامہ کے خیال میں، فرسودگی اور پراگندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں، باہمی تعلقات، لین دین، کاروبار، سیاست یہاں تک کہ نظامِ مملکت داری، سب کچھ میں مصلحت کوشی اور مفاد پرستی کارفرما ہوجاتی ہے۔ ایسے میں، اِس انتشار کی کیفیت سے فائدہ اُٹھانے کے لیے، مختلف افراد اور گروہ، ملت کے فکروعمل کی بہبود کی بجائے، بہت بے باکی کے ساتھ اپنے اپنے راستوں پر چل کھڑے ہوتے ہیں۔ مسلمان معاشروں میں انتشار، بدامنی اور بے عملی کی وجوہات کی نشان دہی بھی علامہ نے فرمادی ہے۔ اوّل یہ کہ اِن معاشروں کے قائدین میں اسلام کے مقاصد کا صحیح شعور اور ادراک نہیں رہتا، جب کہ قرآن بلکہ اسلام کا خاص مقصد ہی یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی کے ساتھ انسان کے جو تعلقات وروابط ہیں اُن کا صحیح شعور انسان کے دل میں پیدا کرے۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اُن معاشروں میں اتحاد اور یک جہتی ناپید ہوجاتی ہے۔ اس بے سمتی کی وجہ سے ایک طرف باہمی عدمِ اعتماد پیدا ہوجاتا ہے اور دوسری طرف ملت کے مفادات ومقاصدپر ذات، برادری، جماعت اور ذاتی عقیدہ ترجیح حاصل کرلیتا ہے۔ ان اندرونی وجوہات کے علاوہ علامہ کے نزدیک اس کی ایک بیرونی وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اسلام، بقولِ علامہ، اس وقت زمانہ کی کسوٹی پرکسا جارہا ہے اور شاید تاریخ اسلام میں اس سے پہلے ایسا وقت کبھی نہیں آیا۔ علامہ کو اس جہان سے گذرے ۶۸سال ہوگئے۔ آپ کی رحلت کے بعد، آپ کے خوابوں کی تعبیر اس طور ہوئی کہ دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت قائم بھی ہوئی اور اَزاں بعد ٹوٹ بھی گئی مگر مسلمان کا امتحان ابھی جاری ہے۔ گویا: آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے والا معاملہ اب تک درپیش ہے۔ ایسے میں پاکستان اور دنیا بھر میں قیام پذیر، ہم پاکستانیوں کے حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اقبال کا دامن پکڑے رکھیں۔ اس کا طریقہ یہ کہ اقبال کے کلامِ نظم ونثر کو سمجھ سمجھ کر پڑھا جائے اور جو کچھ سمجھ میں آئے، اُسے اپنے آپ پر، اس طور سے طاری کیا جائے کہ قدم قدم پر ہماری سیرت وکردار اور اعمال واطوارسے اُس کا اظہار بھی ہو۔ یہ کام ہمیں حکومتوں پر نہیں چھوڑنا چاہیے اور نہ ہمیں اِس کام کے لیے کسی مصلح یا نجات دہندہ کے انتظار میں بیٹھ رہنا چاہیے۔ یہ کام، ہمیں انفرادی یا اجتماعی انداز میں اپنے طور پر کرنا ہے بلکہ اگر ہوسکے تو اسے بارے میں ہمیں حکومتوں اور اپنے نمایندوں کی مدد اور راہ نمائی بھی کرنی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: روشن اِس ضو سے، اگر ظلمتِ کردار نہ ہو خود مسلماں سے ہے پوشیدہ، مسلماں کا مقام (یہ مضمون بزمِ احبابِ پاکستان، ناروے کے زیراہتمام ۱۳؍نومبر۲۰۰۵ء کو اوسلو میں منعقدہ یومِ اقبال کی مجلس میں پڑھا گیا۔) ٭٭٭٭٭ علامہ اقبال اور عصر حاضر کے ایم اعظم ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہم فخریہ انداز میں مغرب کو یہ بتاتے نہ تھکتے تھے کہ ہم امداد کے نہیں تجارت کے خواہاں ہیں (We want trade, not aid)۔ مگر عصرحاضر میں مغرب نے ہمہ عالمگیریت (Globalization) کی ناروا اور استبدادی شکل میں تجارت ہی کا پھندا ہماری گردنوں میں ڈال دیا ہے اور ہم بے بسی کی حالت میں کبھی اپنی طرف اور کبھی اس کی طرف دیکھ رہے ہیں: نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن اس پس منظر میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا کہ علامہ اقبال کی اقتصادی فہم وبصیرت ہم سے کہیں زیادہ پختہ تھی کہ انہوں نے ۱۹۲۰ء کی دہائی میں ہی ہمیںبتایا تھا کہ عصرحاضر کی ملوکیت اور چیرہ دستی تجارت ہے: خود بدانی بادشاہی قاہری است قاہری در عصر ما سوداگری است …… شیوۂ تہذیب نو آدم دری است پردۂ آدم دری سوداگری است [مثنوی پس چہ باید کرد] معاشیات کے طالب علم کی حیثیت سے میری یہ عرض داشت علامہ کے اقتصادی فہم وبصیرت پر مبنی ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر اسلامی ریاستیں نہ تو دنیوی فضیلت پاسکتی ہیں اور نہ ہی نجات اخروی۔ اسلامی ریاستوں کے لیے علامہ کی حکمت عملی کے چارستون توحید،آفاقیت، مساوات اور روحانی جمہوریت ہیں۔ آج کل ہمارے دانشور عموماً ہر برائی کے لیے جاگیرداروں کو موردِالزام ٹھہرا کر مطمئن ہوجاتے ہیں، جب کہ مسئلہ جاگیرداری کا نہیں بلکہ پوری دنیا میں رائج استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کا ہے۔ جاگیرداری اس ظالمانہ نظام کا فقط ایک پرتو ہے۔ مسئلہ کسی ایک طبقے کا نہیں ہے، بلکہ عالمگیر معاشی اور معاشرتی نظام کا ہے، جس کا دارومدار کلی طور پر ظلم وستم، معاشی استحصال اور طبقاتی تقسیم پر ہے۔ مسئلہ ظالم ومظلوم کا ہے، جابرومجبور کا ہے، آقا و غلام کا ہے، طاقت ور و بے کس کا ہے۔ بے شک مقامی پس منظر میں یہ ضرور دیکھنا پڑتا ہے کہ ظلم واستحصال کے قالب میں مرکزی کردار کس کا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ظلم وستم کی انسانی داستان میں یہ کردار جاگیردار کا ہے۔ بدبخت جموں کا راجا نہ صرف حاصل مانگتا ہے، بلکہ نینوں کی زکوٰۃ بھی مانگتا ہے۔ بہرحال جاگیردار فقط ایک طبقہ ہیں، جس کا تسلط اب ماند پڑرہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے دوسرے طبقات بھی ہیں، جن کا اثرورسوخ عصرحاضر میں بڑھ رہا ہے۔ اس لیے جاگیرداروں کو ختم کرنے سے ظلم ختم نہیں ہوگا۔ جاگیرداری ختم بھی ہوگئی تو اس کی جگہ ظلم کی دوسری شکل لے لے گی۔ اس طرح جمہوریت صرف جاگیرداروں کو ختم کرنے سے قائم نہ ہوگی۔ جمہوریت تبھی قائم ہوسکے گی جب پورے کے پورے استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ویران کر دی جائیں گی۔ مسئلہ پرانے نظام کے چنے ہوئے ستونوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کا بھی نہیں بلکہ پورے نظام کو تہہ وبالا کر دینے کا ہے: ایں بنوک، ایں فکر چالاک یہود نور حق از سینہ آدم ربود تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام دانش و تہذیب و دیں سودائے خام [مثنوی پس چہ باید کرد] استعماری طاقتیں جیسے تیسری دنیا میں اپنے سیاسی مہرے کے پٹنے سے پہلے ہی دوسرے کو آگے لے کر آتی ہیں، اسی طرح وہ معیشت کے دائرے میں بھی اپنے استحصالی کامدار کو بدل دیتی ہیں۔ اب جب کہ دنیا میں جاگیرداری نظام زوال پذیر ہورہا ہے، اس کی جگہ استحصالی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تجارت اور سٹہ بازی نے لے لی ہے۔ اندریں حالات ہمیں استعمار کے بدلتے ہوئے حربوں سے متنبہ رہنا چاہیے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو گذرے وقتوں کے فرسودہ نعرے لگاتے رہیں اور زمانہ قیامت کی چال چل جائے۔ عالمگیر استحصال اور غربت کا مشاہدہ میں نے افریقہ میں بھی کیا ہے اور امریکہ میں بھی۔ اللہ کی زمین کا کوئی خطہ ابھی تک سرمایہ دارانہ ظلم وستم سے نجات نہیں پاسکا۔ حالانکہ رب غفورورحیم نے اپنے اشرف المخلوقات انسان کی معاشی، معاشرتی اور روحانی نجات کے لیے ہر زمان ومکان میں انبیا مبعوث کیے۔ مگر دنیا کے غالب مراعات یافتہ طبقے نے، جنھیں قرآن کریم مترفین، متکبرین اور الملاء کے ناموں سے یاد کرتا ہے، یا تو انبیا کو قتل کردیا یا پھر ان کے ابدی پیغام کو دریا برد کردیا۔ ہرچند کہ وہ رسول آخرا اور پیغام آخر کے ساتھ ایسا تو نہ کرسکے مگر اسی طبقے نے اس لازوال آخری پیغام کو مسخ ومجروح ضرور کردیا۔ چنانچہ اسلام کی عالمگیر اخوتِ انسانی، احترام آدمیت اور معاشی مساوات کا سہانا خواب، جو سیدنا عمربن خطاب ص کی شہادت اور ملوکیت کے غلبے کے نذر ہوکے رہ گیا تھا، آج بھی بلادِ اسلام کی اداس گلیوں میں اپنی تعبیر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بقول علامہ اقبال ’’اسلام تکمیل نہیں بلکہ ایک تمنا اور آرزو ہے‘‘۔ درحقیقت دین محمدی ابھی تک مسلمانوں پر آشکار نہیں ہوا: جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دین [ارمغان حجاز] بہرحال دین محمد آشکار کرنے کے لیے صحیح فہم قرآن اور علم وفراست رکھنے والے مسلمانوں نے باربار کوششیں کیں مگر مراعات یافتہ طبقہ اتنا طاقتور اور غالب تھا کہ اس نے یا تو ان تحریکوں کا رُخ اپنے مفادات کی طرف موڑدیا یا پھر ان کو دریا برد کردیا۔ اس دنیا کی انقلابی تاریخ میں سانحہ کربلا سے بڑا اور کوئی واقعہ نہیں، مگر غالب استحصالی سرمایہ دارانہ نظام نے ائمۂ عظام کی دوسو سالہ انقلابی جدوجہد کا رخ ماتم ونوحہگری کی طرف موڑ کر اس کو ٹھنڈا کردیا: میر و سلطان نرد باز و کعبتین شان د غل جانِ محکوماں ز تن بردند، محکوماں بخواب [زبور عجم] اسلامی فکر پر ملوکیت کی گہری چھاپ ہے اور ہم اسلام کی سرمایہ دارانہ روایت میں اسیر ہیں۔ مراعات یافتہ مقتدر طبقات اتنا اور ایسا ہی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں جوان کے اقتدار کے لیے مفید ہو۔ ہرطرف غیرانقلابی، بے روح نمایشی اسلام جھنڈے گاڑے ہوئے ہے۔ دل گرفتہ علامہ باربار انقلاب کو پکار رہے ہیں: خواجہ از خون رگِ مزدور سازد لعلِ ناب از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! [زبور عجم] مغرب کے چند راست گو ماہرین معاشیات اب استحصالی سرمایہ کے سیاہ باطن سے پردہ اُٹھا رہے ہیں۔ ان کی مرتب کی ہوئی تاریخ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کس طرح سپین اور پرتگال کے حملہ آوروں نے جنوبی امریکہ کے تقریباً ایک کروڑ باشندوں کو قتل کرکے، ان کی شاندار تہذیبوں کے نام و نشان مٹاکر ان کی بے پناہ دولت کو یورپ منتقل کردیا۔ اسی طرح شمالی امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کی اساس بھی ریڈانڈین قوم کے قتل عام اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال پر تھی۔ ان محققین کی رائے میں انگلستان کے صنعتی انقلاب کا دارومدار بنگال اور اودھ کی لوٹی ہوئی دولت پرتھا۔ یہ بات تو ہرکس وعام جانتا ہے کہ کس طرح کمپنی بہادر کے فوجیوں نے ڈھاکے ململ بننے والے کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ دیے تھے۔ رہزنی را کہ بنا کرد جہاں بانی گفت ستم خواجگی او کمر بندہ شکست [پیام مشرق] دراصل یہ سرمایہ دارانہ نظام کی جبلت میں ہے کہ جب تک بے پناہ ارتکاز دولت نہ ہوگا، یہ اپنے مقام پر قائم نہ رہ سکے گا۔ اس کے ارتکاز دولت کے لیے کسی ملک کی اندرونی مارکیٹ کافی نہیں سمجھی جاتی بلکہ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ یہ بیرون ملک مارکیٹوں پر اپنا قبضہ جمالے۔ اب جب کہ نوآبادیاتی نظاموں کا زمانہ بیت گیا ہے تو سرمایہ دارانہ نظام ’’ہمہ عالمگیریت‘‘ کے دل فریب مگر مہلک نظریہ کے تحت تیسری دنیا کی منڈیوں پر حملہ آور ہورہا ہے۔ اس جارحانہ سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت دنیا بھر میں امیر امیرتر ہورہے ہیں اور غریب غریب تر۔ اللہ تعالیٰ برائی کی طاقتوں (الطاغوت) کا دشمن ہے اور کمزور اور بے بس، بے سہارا اور جبرواستبداد کے تحت پسے ہوئے لوگوں کا دوست ہے۔ (القصص:۵،۶) اقتصادیات کی تاریخ میں شاید ہی کسی نظام نے انسان پر اتنے ظلم وستم ڈھائے ہوں جتنا کہ سرمایہ داری نظام نے ڈھائے ہیں۔ مغربی جمہوریت سرمایہ داری اور سامراج کو تحفظ مہیا کرتی ہے اور انصاف وعدل کی بجائے دنیا بھر میں جبروظلم کو فروغ دیتی ہے۔ مارکسزم سرمایہ داری اور اس پر مبنی جدید معاشرے کی اصلاح کی ایک کوشش تھی۔ کیونکہ مارکسزم ظالم جمہوریت اور خود سر سرمایہ داری کا مؤثر نعم البدل مہیا کرنے سے قاصر رہ گیا ہے، یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر اب یہ نعرہ بلند ہورہا ہے کہ سرمایہدارانہ نظام ناقابل اصلاح ہے: تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے [بانگ درا] اشتراکیت نے انسان کے خارجی تعلقات میں تبدیلیاں لاکر معاشی مساوات کا پیغام دیا تھا مگر ہم نے دیکھ لیا ہے کہ کوئی دیرپا ترقی انسانوں کے دل بدلے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔ دراصل عربی لغت دل کے بدلنے ہی کو انقلاب کا نام دیتی ہے۔ اب شاید اسلام ایک زندہ حقیقت کے طور پر سرمایہ داری نظام کو انسانی صفات سے متصف کرکے اسے ایک نئی زندگی عطا کرسکتا ہے۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام اسلام کی یہ اصلاح قبول کرنے سے قاصر رہا تو اس کی موت کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہ ہوگا: کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات! [بال جبریل] مغربی جمہوریت عوام کے نام پر سرمایہ کی حاکمیت ہے۔ یہ جمہوریت کی قبا میں استعمار ہے۔ وہ جمہوریت جسے علامہ اقبال نے رد کیا اور وہ جس کو قبول کیا‘ ان میں کیا فرق ہے؟ وہ کون سا اسلام ہے جس کے بغیر سیاست چنگیزی بن کے رہ جاتی ہے اور وہ کون سا اسلام ہے، جس کو ہمارے ملا فی سبیل اللہ فساد بنا دیتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری آج کی جمہوریت جس کا اصل کام لوگوں کے دل موہ لینا ہونا چاہیے تھا، ایسا کرنہیں پائی۔ یہ ہے بھی کیسی جمہوریت جس میں ہمارے اہل حل وعقد کا چنائو عوام نہیں، غیر کرتے ہیں۔ مسلمان خلافت راشدہ کو ایک مثالی جمہوریت تصور کرتے ہیں، مگر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا دارومدار خلفاے راشدین کے اعلیٰ اور ارفع کردارو بصیرت پر تھا۔ اسلام زمین کے ساتھ انسان کے تعلق کو اتنا اجاگر نہیں کرتا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق ماند پڑجائے اور وہ دنیا کا ہی ہوکے رہ جائے۔ اسلام رنگ و نسل وزبان اور وطنیت کی نفی کرکے توحید کی بنا پر ایک روحانی الذہن قوم کی تشکیل کا خواہاں ہے۔ اسلام کا مقصد دنیا میں ظلم، خوف و حزن اور تصادم سے پاک معاشرہ کا قیام ہے، جس کے اہداف انسان کا زمین سے رشتہ معتدل کرکے اور اللہ سے رشتہ جوڑ کر، اس کے اندر دلسوزی، دردمندی، غم گساری اور انسان دوستی کے جذبات کو فروغ دینا اور توحید اور الخلق عیال اللّہ کی اساس پر ایک انسان دوست معاشرہ کی تعمیرنو ہیں۔ اسلام ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کا خواہاں ہے جس میں انسان کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا خوف نہ رہے اور اللہ کے سوا اسے کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہ ہو اور وہ جب حصولِ رزق کے لیے گھر سے نکلے تو اس کی اپنی اہلیت و قابلیت کے سوا اور کوئی رکاوٹ اس کے راستے میں حائل نہ ہو۔ اگر اس میں کوئی کمی منجانب اللہ ہوتو ریاست کا نظام احسان وہ کمی پوری کردے۔ اگر ہمیں اس زمانہ میں پھلنا پھولنا ہے تو ہمیں اپنے وطن عزیز میں جمہوریت کی بنیادیں حضرت علامہ کے تصور ’’روحانی جمہوریت‘‘ کی اقدار پر مستحکم کرنی ہوں گی۔ توحیدی معاشرے ہی کا دوسرا نام روحانی جمہوریت ہے، جس میں معاشی طبقات کا وجود نہیں ہوتا۔ روحانی جمہوریت کی اقدار ہیں: حریت، اخوت، مساوات، وسیع المشربی، رواداری، احترامِ آدمیت، تکریم انسانیت اور غریبوں سے محبت۔ روحانی جمہوریت کی اساس خوفِ خدا اور قوتِ اخوت عوام پر ہے۔ بے شک اکیسویں صدی میں ایک صحیح جمہوریت کا قیام ہی ہمارا مطمح نظر ہونا چاہیے مگر جب ہمارے ہاں جمہوری روایت کا نہ کوئی تاریخی پس منظر ہے اور نہ ہی جمہوری روایت ہمارے سیاسی، معاشرتی اور دینی اداروں میں موجود ہے، تو اس کی ترویج کیسے کی جائے گی؟ اس کے برعکس عسکری روایت اسلامی تاریخ کا ایک غالب عنصر ہے، جس کی وجہ سے ہمارے عوام کا مزاج اور ان کی باطنی قوتِ محرکہ کا رُخ ایک تحکمانہ، درجہ بند، شخصیت پرست اور طاقت ور معاشرتی اور سیاسی ڈھانچوں کی طرف مائل ہے اور ذہنی طور پر ان کا رویہ جمہوریت اور مساواتِ انسانی سے معاندانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلادِ اسلامیہ میں جمہوریت کی جڑیں گہری نہیں ہوپاتیں اور عسکری آمریت کو بڑی حد تک مقبولیت حاصل ہے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ جاگیرداری نظام ہندوستان میں انگریزوں نے رائج نہیں کیا تھا، بلکہ اسلامی تاریخ کے اوائل ہی سے ملوکیت اور عسکری جاگیرداری (اقطاع) عالم اسلام کا مروجہ سیاسی اور معاشی نظام رہا ہے اور یہ بیسویں صدی کے اوائل تک خلافتِ عثمانیہ کے زیراثر قائم و دائم رہا۔ اسی نظام کے تحت مسلمانوں کی تین عظیم الشّان سلطنتیں: اموی، عباسی اور عثمانوی تیرہ سوسال تک قائم رہیں۔ اسی دور میں فاطمی اور ہسپانوی خلافتیں اور مغرب اور ہندوستان میں مسلمانوں کی شاندار سلطنتیں قائم رہیں۔ دراصل اسلام میں جاگیرداری کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ اسلام کے نظامِ سیاست اور معیشت کی بنیاد تجارتی سرمایہ (Merchant Capitalism) پر تھی۔ مکہ میں معیشت کا کلی دارومدار تجارت پر تھا۔ چنانچہ اسلام کی معاشی تاریخ باقی دنیا سے مختلف ہے۔ یورپ میں جاگیردارانہ زرعی نظام کے خاتمے پر پہلے تجارتی سرمایہ اور پھر صنعتی سرمایہ کو عروج حاصل ہوا۔ اس کے برعکس اسلامی دنیا میں تجارتی سرمایہ اور اس کے ارتکاز نے جاگیرداری اور اس کے ساتھ عسکریت کو جنم دیا، جس کی وجہ سے یہاں صنعتی انقلاب رو پذیر نہ ہوا۔ اسلامی دنیا کی یہ معاشرتی حرکت اور تبدیلی ان عوامل کی طرف اشارہ کرتی ہے، جن کی وجہ سے انیسویں صدی عیسوی میں بیشتر بلادِ اسلام یورپی سامراجی تسلط کا شکار ہوگئے اور آج بھی ان معاشرتی اور تمدنی حرکیاتی عوامل کی وجہ سے بلادِ اسلام میں عسکریت کو غلبہ حاصل ہے۔ جب کہ مغرب میں ’’صنعتی سرمایہ‘‘ اس کا ترقی یافتہ مرحلہ (Progressive Stage) ہے، عالم اسلام کا ترقی یافتہ مرحلہ ’’عسکریت‘‘ ہے۔ اگر ہمیں اس جادۂ ترقی (Route of Development) پر یہ اعتراض ہے کہ یہ عصرجدید کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، تو ہمیں فکری سطح پر سنجیدگی کے ساتھ شدید ریاضت کرنی پڑے گی کیونکہ بات صرف ۱۸۵۷ء کے پن دھارے (Watershed) کی نہیں ہے۔ ہمیں اپنے فکرجدید (فکراقبال) کو شہادتِ عمرص (۶۶۴ئ) سے لے کر آگے بڑھنا ہوگا: تازہ کن آئین صدیقؓ و عمرؓ چوں صبا بر لالہ صحرا گذر [پیامِ مشرق] اس کے لیے چند سال کی نہیں بلکہ ایک صدی کی محنت درکار ہوگی، بالخصوص جبکہ دورِحاضر میں بلادِاسلام کے فکری اداروں پر سرمایہ داروں اور مراعات یافتہ طبقے کا تسلط ہے اور ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ حقیقی اسلام اور فکراقبال کی باتیں تو ہوتی رہیں مگر ان کو رائج نہ ہونے دیا جائے۔ دراصل اگر کوئی تہذیبوں کا تصادم ہے تو اس کا دارومدار اسی نقطۂفکر پر ہے۔ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام، اسلام کی عالمگیر انقلابی تحریک کے معاشی اصولوں سے متصادم ہے۔ اس لیے اسے ابلیسی نظام کا نام دیا گیا ہے۔ تبھی تو علامہ اقبال نے ابلیس کی زبان سے کہلوایا ہے: جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ایّام ہے مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے [ارمغان حجاز] میں اپنی یہ عرض داشت حضرت علامہ کی اذانِ سحر پر ختم کرتا ہوں: فریاد ز افرنگ و دل آویزیِ افرنگ فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز از خواب گراں خیز! [پیام مشرق] ٭٭٭٭٭ اقبال کا تصو۔ّرِ روشن خیالی محمد انور صوفی ’روشن خیالی‘ کی ترکیب یا اصطلاح دو الفاظ کا مرکب ہے: روشن اور خیالی۔ روشن، روشنی سے ہے جو اندھیرے کا اُلٹ ہے۔ علامہ کے ہاں شمع، روشنی کا منبع یا سرچشمہ ہے اور روشنی علم وہنر کی علامت (Symbol) ہے، جب کہ اندھیرا جہالت کی نمایندگی کرتا ہے۔ انسان پروانے کی مانند روشنی کا عاشق ہے۔ علامہ کے ابتدائی کلام میں ’’بچے کی دعا‘‘ نام کی ایک نظم شامل ہے۔ یہ نظم گو ماخوذ ہے مگر علامہ کے خیالات بلکہ آپ کے اصولِ زندگی کی ترجمان ہے: زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رَب علم کی شمع سے ہو مُجھ کو محبت یا رَب دل اگر جذبات کا خزانہ ہے، تو دماغ خیالات کی آماجگاہ ہے، جب کہ چہرہ ایک آئینہ ہے جو دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کے زیر اثر دل سے اُٹھنے والے جذبات کو عیاں کرتا ہے۔ علامہ کی ایک لاجواب فارسی غزل کا ایک انتہائی خوبصورت شعر ہے: سرمایۂ دردِ تو، غارت نتواں کردن اشکے کہ ز دِل خیزد، دَر دیدہ شکستم من (میں تمھارے درد کی دولت کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ وہ آنسو جو میرے دل میں پیدا ہوتے ہیں، میں اُن کو اپنی آنکھوں میں توڑ دیتا ہوں۔ یعنی میں اپنے دل کا احوال لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتا۔) گویا دماغ انسانی زندگی کا اصل مرکز ہے۔ جو خیالات انسانی دماغ میں پیدا ہوتے ہیں، اُن کے مطابق ہی انسانی زندگی تشکیل پاتی ہے۔ لیکن انسانی دماغ تو ایک کورا کاغذ ہے۔ ایک کمپیوٹر ہے، جو پروگرام آپ اُس میں ڈالیں گے، اُسی کی روشنی میں آپ کو جواب بھی ملے گا۔ انسانی دماغ پر معاشرتی حالات، والدین کی تربیت، تعلیم اور تعلیمی اداروں کا ماحول اَثرانداز ہوتے ہیں۔ ان عوامل کی روشنی ہی میں ہر ایک انسان کا دماغ تیار ہوتا ہے۔ گویا انسانی دماغ سے خیالات کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے پہلے اُس میں معلومات و اطلاعات، علوم وفنون اور زبان وبیان کی استعداد کا بیج ڈالنا پڑتا ہے۔ پھر تہذیب وتربیت سے اُس کی آبیاری کرنا ہوتی ہے، تب جاکر کہیں اُس سے روشن خیالات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے دماغ کو خیالات کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ انسانی دماغ میں پیدا ہونے والے انھی خیالات کی بنیاد پر اصول مرتب ہوتے ہیں، قوانین وقواعد تشکیل پاتے ہیں اور انھی کی بنیاد پر نظریات استحکام پاتے ہیں جو ایمان کا جزو بنتے ہیں تو بڑی بڑی قومیں اور تہذیبیں معرض وجود میں آتی ہیں۔ اسی لیے تو علامہ نے کہا ہے: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا یہی دیدہ ور اور صاحبِ بصیرت لوگ ہوتے ہیں جن کو آپ روشن خیال یا روشن دماغ یا روشن فکر یا روشن ضمیر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی وہ آزاد خیال مفکر ہوتے ہیں جو صاحبِ امروز کہلواتے ہیں۔ علامہ نے اپنے اور اپنے دوست سرعبدالقادر کے لیے یہی راستہ پسند فرمایا تھا کہ: شمع کی طرح جییں، بزم گہِ عالم میں خود جلیں دیدۂ اَغیار کو بینا کر دیں اس شعر کا پس منظر کچھ بھی ہو، مطلب یہ ہے کہ کوئی فرد یا شخص چاہے حددرجہ قابل کیوں نہ ہو، بے شک، اُسے ہمہ وقت نئے سے نئے خیالات سوجھتے رہیں، اگر وہ دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا اُس کے خیالات سے بنی نوع انسان کو روشنی نہیں ملتی، اگر اُن سے انسانیت کی بھلائی اور بھلائی کی طرف راہ نمائی مقصود نہیں، تو وہ خیال یا خیالات، ہرگز روشن نہیں۔ بلکہ بقول علامہ ایسے خیالات کا حامل شخص زمانۂحاضر کی اُس متاع کی مانند ہے، جس کا دماغ روشن ضرور ہے مگر دِل ظلمات سے بھرا ہے اور آنکھیں بے حیا ہیں۔ مطلب یہ کہ روشن خیال شخص کے لیے دماغ کے ساتھ ساتھ دل کا روشن ہونا ضروری، اور اُس کی آنکھو ں میں حیا کا ہونا لازمی ہے۔ روشن خیالی کی ایک اور نشانی، جس کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں فرسودگی کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ روشن خیال منافق نہیں ہوسکتا۔ روشن خیال مفکر اور دانش ور غلط کو مشکوک یا صحیح کو مناسب نہیں کہتا بلکہ غلط کو غلط کہہ کر اُسے زندگی کے لیے سَمِ قاتل قرار دیتا ہے اور صحیح کو صحیح کہہ کر اُسے زندگی کا فرض سمجھنے پر اصرار کرتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ: مجھے رازِ دو عالم دِل کا آئینہ دکھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے علامہ تو خیال سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک روشن خیال کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسا عملی انسان ہو، جو جوشِ کردار سے سرشار ہو۔ علامہ فرماتے ہیں: یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے جو ہے راہِ عمل میں گام زَن، محبوبِ فطرت ہے بلکہ وہی ہے صاحبِ امروز، جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا علامہ کے نزدیک روشن خیال نہ ماضی سے چپکا رہتا ہے اور نہ حال میں مست رہتا ہے بلکہ وہ اپنی ہمت اور کوشش سے اپنے حال میں سے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے۔ جن معاشروں میں سے صاحبِ امروز اور روشن خیال اہلِ نظر یا بابصیرت دانش ور اور مفکر ناپید ہوجائیں یا جن معاشروں میں مخلص، دردمند اور دوراندیش اہلِ علم وہنر ناقدری کا شکار ہوجائیں، وہ معاشرے، علامہ کے خیال میں، فرسودگی اور پراگندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں، باہمی تعلقات، لین دین، کاروبار، سیاست یہاں تک کہ نظامِ مملکت داری، سب کچھ میں مصلحت کوشی اور مفاد پرستی کارفرما ہوجاتی ہے۔ ایسے میں، اِس انتشار کی کیفیت سے فائدہ اُٹھانے کے لیے، مختلف افراد اور گروہ، ملت کے فکروعمل کی بہبود کی بجائے، بہت بے باکی کے ساتھ اپنے اپنے راستوں پر چل کھڑے ہوتے ہیں۔ مسلمان معاشروں میں انتشار، بدامنی اور بے عملی کی وجوہات کی نشان دہی بھی علامہ نے فرمادی ہے۔ اوّل یہ کہ اِن معاشروں کے قائدین میں اسلام کے مقاصد کا صحیح شعور اور ادراک نہیں رہتا، جب کہ قرآن بلکہ اسلام کا خاص مقصد ہی یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی کے ساتھ انسان کے جو تعلقات وروابط ہیں اُن کا صحیح شعور انسان کے دل میں پیدا کرے۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اُن معاشروں میں اتحاد اور یک جہتی ناپید ہوجاتی ہے۔ اس بے سمتی کی وجہ سے ایک طرف باہمی عدمِ اعتماد پیدا ہوجاتا ہے اور دوسری طرف ملت کے مفادات ومقاصدپر ذات، برادری، جماعت اور ذاتی عقیدہ ترجیح حاصل کرلیتا ہے۔ ان اندرونی وجوہات کے علاوہ علامہ کے نزدیک اس کی ایک بیرونی وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اسلام، بقولِ علامہ، اس وقت زمانہ کی کسوٹی پرکسا جارہا ہے اور شاید تاریخ اسلام میں اس سے پہلے ایسا وقت کبھی نہیں آیا۔ علامہ کو اس جہان سے گذرے ۶۸سال ہوگئے۔ آپ کی رحلت کے بعد، آپ کے خوابوں کی تعبیر اس طور ہوئی کہ دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت قائم بھی ہوئی اور اَزاں بعد ٹوٹ بھی گئی مگر مسلمان کا امتحان ابھی جاری ہے۔ گویا: آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے والا معاملہ اب تک درپیش ہے۔ ایسے میں پاکستان اور دنیا بھر میں قیام پذیر، ہم پاکستانیوں کے حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اقبال کا دامن پکڑے رکھیں۔ اس کا طریقہ یہ کہ اقبال کے کلامِ نظم ونثر کو سمجھ سمجھ کر پڑھا جائے اور جو کچھ سمجھ میں آئے، اُسے اپنے آپ پر، اس طور سے طاری کیا جائے کہ قدم قدم پر ہماری سیرت وکردار اور اعمال واطوارسے اُس کا اظہار بھی ہو۔ یہ کام ہمیں حکومتوں پر نہیں چھوڑنا چاہیے اور نہ ہمیں اِس کام کے لیے کسی مصلح یا نجات دہندہ کے انتظار میں بیٹھ رہنا چاہیے۔ یہ کام، ہمیں انفرادی یا اجتماعی انداز میں اپنے طور پر کرنا ہے بلکہ اگر ہوسکے تو اسے بارے میں ہمیں حکومتوں اور اپنے نمایندوں کی مدد اور راہ نمائی بھی کرنی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: روشن اِس ضو سے، اگر ظلمتِ کردار نہ ہو خود مسلماں سے ہے پوشیدہ، مسلماں کا مقام (یہ مضمون بزمِ احبابِ پاکستان، ناروے کے زیراہتمام ۱۳؍نومبر۲۰۰۵ء کو اوسلو میں منعقدہ یومِ اقبال کی مجلس میں پڑھا گیا۔) ٭٭٭٭٭ علامہ اقبال اور عصر حاضر کے ایم اعظم ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہم فخریہ انداز میں مغرب کو یہ بتاتے نہ تھکتے تھے کہ ہم امداد کے نہیں تجارت کے خواہاں ہیں (We want trade, not aid)۔ مگر عصرحاضر میں مغرب نے ہمہ عالمگیریت (Globalization) کی ناروا اور استبدادی شکل میں تجارت ہی کا پھندا ہماری گردنوں میں ڈال دیا ہے اور ہم بے بسی کی حالت میں کبھی اپنی طرف اور کبھی اس کی طرف دیکھ رہے ہیں: نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن اس پس منظر میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا کہ علامہ اقبال کی اقتصادی فہم وبصیرت ہم سے کہیں زیادہ پختہ تھی کہ انہوں نے ۱۹۲۰ء کی دہائی میں ہی ہمیںبتایا تھا کہ عصرحاضر کی ملوکیت اور چیرہ دستی تجارت ہے: خود بدانی بادشاہی قاہری است قاہری در عصر ما سوداگری است …… شیوۂ تہذیب نو آدم دری است پردۂ آدم دری سوداگری است [مثنوی پس چہ باید کرد] معاشیات کے طالب علم کی حیثیت سے میری یہ عرض داشت علامہ کے اقتصادی فہم وبصیرت پر مبنی ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر اسلامی ریاستیں نہ تو دنیوی فضیلت پاسکتی ہیں اور نہ ہی نجات اخروی۔ اسلامی ریاستوں کے لیے علامہ کی حکمت عملی کے چارستون توحید،آفاقیت، مساوات اور روحانی جمہوریت ہیں۔ آج کل ہمارے دانشور عموماً ہر برائی کے لیے جاگیرداروں کو موردِالزام ٹھہرا کر مطمئن ہوجاتے ہیں، جب کہ مسئلہ جاگیرداری کا نہیں بلکہ پوری دنیا میں رائج استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کا ہے۔ جاگیرداری اس ظالمانہ نظام کا فقط ایک پرتو ہے۔ مسئلہ کسی ایک طبقے کا نہیں ہے، بلکہ عالمگیر معاشی اور معاشرتی نظام کا ہے، جس کا دارومدار کلی طور پر ظلم وستم، معاشی استحصال اور طبقاتی تقسیم پر ہے۔ مسئلہ ظالم ومظلوم کا ہے، جابرومجبور کا ہے، آقا و غلام کا ہے، طاقت ور و بے کس کا ہے۔ بے شک مقامی پس منظر میں یہ ضرور دیکھنا پڑتا ہے کہ ظلم واستحصال کے قالب میں مرکزی کردار کس کا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ظلم وستم کی انسانی داستان میں یہ کردار جاگیردار کا ہے۔ بدبخت جموں کا راجا نہ صرف حاصل مانگتا ہے، بلکہ نینوں کی زکوٰۃ بھی مانگتا ہے۔ بہرحال جاگیردار فقط ایک طبقہ ہیں، جس کا تسلط اب ماند پڑرہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے دوسرے طبقات بھی ہیں، جن کا اثرورسوخ عصرحاضر میں بڑھ رہا ہے۔ اس لیے جاگیرداروں کو ختم کرنے سے ظلم ختم نہیں ہوگا۔ جاگیرداری ختم بھی ہوگئی تو اس کی جگہ ظلم کی دوسری شکل لے لے گی۔ اس طرح جمہوریت صرف جاگیرداروں کو ختم کرنے سے قائم نہ ہوگی۔ جمہوریت تبھی قائم ہوسکے گی جب پورے کے پورے استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ویران کر دی جائیں گی۔ مسئلہ پرانے نظام کے چنے ہوئے ستونوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کا بھی نہیں بلکہ پورے نظام کو تہہ وبالا کر دینے کا ہے: ایں بنوک، ایں فکر چالاک یہود نور حق از سینہ آدم ربود تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام دانش و تہذیب و دیں سودائے خام [مثنوی پس چہ باید کرد] استعماری طاقتیں جیسے تیسری دنیا میں اپنے سیاسی مہرے کے پٹنے سے پہلے ہی دوسرے کو آگے لے کر آتی ہیں، اسی طرح وہ معیشت کے دائرے میں بھی اپنے استحصالی کامدار کو بدل دیتی ہیں۔ اب جب کہ دنیا میں جاگیرداری نظام زوال پذیر ہورہا ہے، اس کی جگہ استحصالی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تجارت اور سٹہ بازی نے لے لی ہے۔ اندریں حالات ہمیں استعمار کے بدلتے ہوئے حربوں سے متنبہ رہنا چاہیے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو گذرے وقتوں کے فرسودہ نعرے لگاتے رہیں اور زمانہ قیامت کی چال چل جائے۔ عالمگیر استحصال اور غربت کا مشاہدہ میں نے افریقہ میں بھی کیا ہے اور امریکہ میں بھی۔ اللہ کی زمین کا کوئی خطہ ابھی تک سرمایہ دارانہ ظلم وستم سے نجات نہیں پاسکا۔ حالانکہ رب غفورورحیم نے اپنے اشرف المخلوقات انسان کی معاشی، معاشرتی اور روحانی نجات کے لیے ہر زمان ومکان میں انبیا مبعوث کیے۔ مگر دنیا کے غالب مراعات یافتہ طبقے نے، جنھیں قرآن کریم مترفین، متکبرین اور الملاء کے ناموں سے یاد کرتا ہے، یا تو انبیا کو قتل کردیا یا پھر ان کے ابدی پیغام کو دریا برد کردیا۔ ہرچند کہ وہ رسول آخرا اور پیغام آخر کے ساتھ ایسا تو نہ کرسکے مگر اسی طبقے نے اس لازوال آخری پیغام کو مسخ ومجروح ضرور کردیا۔ چنانچہ اسلام کی عالمگیر اخوتِ انسانی، احترام آدمیت اور معاشی مساوات کا سہانا خواب، جو سیدنا عمربن خطاب ص کی شہادت اور ملوکیت کے غلبے کے نذر ہوکے رہ گیا تھا، آج بھی بلادِ اسلام کی اداس گلیوں میں اپنی تعبیر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بقول علامہ اقبال ’’اسلام تکمیل نہیں بلکہ ایک تمنا اور آرزو ہے‘‘۔ درحقیقت دین محمدی ابھی تک مسلمانوں پر آشکار نہیں ہوا: جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دین [ارمغان حجاز] بہرحال دین محمد آشکار کرنے کے لیے صحیح فہم قرآن اور علم وفراست رکھنے والے مسلمانوں نے باربار کوششیں کیں مگر مراعات یافتہ طبقہ اتنا طاقتور اور غالب تھا کہ اس نے یا تو ان تحریکوں کا رُخ اپنے مفادات کی طرف موڑدیا یا پھر ان کو دریا برد کردیا۔ اس دنیا کی انقلابی تاریخ میں سانحہ کربلا سے بڑا اور کوئی واقعہ نہیں، مگر غالب استحصالی سرمایہ دارانہ نظام نے ائمۂ عظام کی دوسو سالہ انقلابی جدوجہد کا رخ ماتم ونوحہگری کی طرف موڑ کر اس کو ٹھنڈا کردیا: میر و سلطان نرد باز و کعبتین شان د غل جانِ محکوماں ز تن بردند، محکوماں بخواب [زبور عجم] اسلامی فکر پر ملوکیت کی گہری چھاپ ہے اور ہم اسلام کی سرمایہ دارانہ روایت میں اسیر ہیں۔ مراعات یافتہ مقتدر طبقات اتنا اور ایسا ہی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں جوان کے اقتدار کے لیے مفید ہو۔ ہرطرف غیرانقلابی، بے روح نمایشی اسلام جھنڈے گاڑے ہوئے ہے۔ دل گرفتہ علامہ باربار انقلاب کو پکار رہے ہیں: خواجہ از خون رگِ مزدور سازد لعلِ ناب از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! [زبور عجم] مغرب کے چند راست گو ماہرین معاشیات اب استحصالی سرمایہ کے سیاہ باطن سے پردہ اُٹھا رہے ہیں۔ ان کی مرتب کی ہوئی تاریخ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کس طرح سپین اور پرتگال کے حملہ آوروں نے جنوبی امریکہ کے تقریباً ایک کروڑ باشندوں کو قتل کرکے، ان کی شاندار تہذیبوں کے نام و نشان مٹاکر ان کی بے پناہ دولت کو یورپ منتقل کردیا۔ اسی طرح شمالی امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کی اساس بھی ریڈانڈین قوم کے قتل عام اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال پر تھی۔ ان محققین کی رائے میں انگلستان کے صنعتی انقلاب کا دارومدار بنگال اور اودھ کی لوٹی ہوئی دولت پرتھا۔ یہ بات تو ہرکس وعام جانتا ہے کہ کس طرح کمپنی بہادر کے فوجیوں نے ڈھاکے ململ بننے والے کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ دیے تھے۔ رہزنی را کہ بنا کرد جہاں بانی گفت ستم خواجگی او کمر بندہ شکست [پیام مشرق] دراصل یہ سرمایہ دارانہ نظام کی جبلت میں ہے کہ جب تک بے پناہ ارتکاز دولت نہ ہوگا، یہ اپنے مقام پر قائم نہ رہ سکے گا۔ اس کے ارتکاز دولت کے لیے کسی ملک کی اندرونی مارکیٹ کافی نہیں سمجھی جاتی بلکہ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ یہ بیرون ملک مارکیٹوں پر اپنا قبضہ جمالے۔ اب جب کہ نوآبادیاتی نظاموں کا زمانہ بیت گیا ہے تو سرمایہ دارانہ نظام ’’ہمہ عالمگیریت‘‘ کے دل فریب مگر مہلک نظریہ کے تحت تیسری دنیا کی منڈیوں پر حملہ آور ہورہا ہے۔ اس جارحانہ سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت دنیا بھر میں امیر امیرتر ہورہے ہیں اور غریب غریب تر۔ اللہ تعالیٰ برائی کی طاقتوں (الطاغوت) کا دشمن ہے اور کمزور اور بے بس، بے سہارا اور جبرواستبداد کے تحت پسے ہوئے لوگوں کا دوست ہے۔ (القصص:۵،۶) اقتصادیات کی تاریخ میں شاید ہی کسی نظام نے انسان پر اتنے ظلم وستم ڈھائے ہوں جتنا کہ سرمایہ داری نظام نے ڈھائے ہیں۔ مغربی جمہوریت سرمایہ داری اور سامراج کو تحفظ مہیا کرتی ہے اور انصاف وعدل کی بجائے دنیا بھر میں جبروظلم کو فروغ دیتی ہے۔ مارکسزم سرمایہ داری اور اس پر مبنی جدید معاشرے کی اصلاح کی ایک کوشش تھی۔ کیونکہ مارکسزم ظالم جمہوریت اور خود سر سرمایہ داری کا مؤثر نعم البدل مہیا کرنے سے قاصر رہ گیا ہے، یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر اب یہ نعرہ بلند ہورہا ہے کہ سرمایہدارانہ نظام ناقابل اصلاح ہے: تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے [بانگ درا] اشتراکیت نے انسان کے خارجی تعلقات میں تبدیلیاں لاکر معاشی مساوات کا پیغام دیا تھا مگر ہم نے دیکھ لیا ہے کہ کوئی دیرپا ترقی انسانوں کے دل بدلے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔ دراصل عربی لغت دل کے بدلنے ہی کو انقلاب کا نام دیتی ہے۔ اب شاید اسلام ایک زندہ حقیقت کے طور پر سرمایہ داری نظام کو انسانی صفات سے متصف کرکے اسے ایک نئی زندگی عطا کرسکتا ہے۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام اسلام کی یہ اصلاح قبول کرنے سے قاصر رہا تو اس کی موت کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہ ہوگا: کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات! [بال جبریل] مغربی جمہوریت عوام کے نام پر سرمایہ کی حاکمیت ہے۔ یہ جمہوریت کی قبا میں استعمار ہے۔ وہ جمہوریت جسے علامہ اقبال نے رد کیا اور وہ جس کو قبول کیا‘ ان میں کیا فرق ہے؟ وہ کونسا اسلام ہے جس کے بغیر سیاست چنگیزی بن کے رہ جاتی ہے اور وہ کون سا اسلام ہے، جس کو ہمارے ملا فی سبیل اللہ فساد بنا دیتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری آج کی جمہوریت جس کا اصل کام لوگوں کے دل موہ لینا ہونا چاہیے تھا، ایسا کرنہیں پائی۔ یہ ہے بھی کیسی جمہوریت جس میں ہمارے اہل حل وعقد کا چنائو عوام نہیں، غیر کرتے ہیں۔ مسلمان خلافت راشدہ کو ایک مثالی جمہوریت تصور کرتے ہیں، مگر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا دارومدار خلفاء راشدین کے اعلیٰ اور ارفع کردارو بصیرت پر تھا۔ اسلام زمین کے ساتھ انسان کے تعلق کو اتنا اجاگر نہیں کرتا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق ماند پڑجائے اور وہ دنیا کا ہی ہوکے رہ جائے۔ اسلام رنگ و نسل وزبان اور وطنیت کی نفی کرکے توحید کی بنا پر ایک روحانی الذہن قوم کی تشکیل کا خواہاں ہے۔ اسلام کا مقصد دنیا میں ظلم، خوف و حزن اور تصادم سے پاک معاشرہ کا قیام ہے، جس کے اہداف انسان کا زمین سے رشتہ معتدل کرکے اور اللہ سے رشتہ جوڑ کر، اس کے اندر دلسوزی، دردمندی، غم گساری اور انسان دوستی کے جذبات کو فروغ دینا اور توحید اور الخلق عیال اللّہ کی اساس پر ایک انسان دوست معاشرہ کی تعمیرنو ہیں۔ اسلام ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کا خواہاں ہے جس میں انسان کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا خوف نہ رہے اور اللہ کے سوا اسے کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہ ہو اور وہ جب حصولِ رزق کے لیے گھر سے نکلے تو اس کی اپنی اہلیت و قابلیت کے سوا اور کوئی رکاوٹ اس کے راستے میں حائل نہ ہو۔ اگر اس میں کوئی کمی منجانب اللہ ہوتو ریاست کا نظام احسان وہ کمی پوری کردے۔ اگر ہمیں اس زمانہ میں پھلنا پھولنا ہے تو ہمیں اپنے وطن عزیز میں جمہوریت کی بنیادیں حضرت علامہ کے تصور ’’روحانی جمہوریت‘‘ کی اقدار پر مستحکم کرنی ہوں گی۔ توحیدی معاشرے ہی کا دوسرا نام روحانی جمہوریت ہے، جس میں معاشی طبقات کا وجود نہیں ہوتا۔ روحانی جمہوریت کی اقدار ہیں: حریت، اخوت، مساوات، وسیع المشربی، رواداری، احترامِ آدمیت، تکریم انسانیت اور غریبوں سے محبت۔ روحانی جمہوریت کی اساس خوفِ خدا اور قوتِ اخوت عوام پر ہے۔ بے شک اکیسویں صدی میں ایک صحیح جمہوریت کا قیام ہی ہمارا مطمح نظر ہونا چاہیے مگر جب ہمارے ہاں جمہوری روایت کا نہ کوئی تاریخی پس منظر ہے اور نہ ہی جمہوری روایت ہمارے سیاسی، معاشرتی اور دینی اداروں میں موجود ہے، تو اس کی ترویج کیسے کی جائے گی؟ اس کے برعکس عسکری روایت اسلامی تاریخ کا ایک غالب عنصر ہے، جس کی وجہ سے ہمارے عوام کا مزاج اور ان کی باطنی قوتِ محرکہ کا رُخ ایک تحکمانہ، درجہ بند، شخصیت پرست اور طاقت ور معاشرتی اور سیاسی ڈھانچوں کی طرف مائل ہے اور ذہنی طور پر ان کا رویہ جمہوریت اور مساواتِ انسانی سے معاندانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلادِ اسلامیہ میں جمہوریت کی جڑیں گہری نہیں ہوپاتیں اور عسکری آمریت کو بڑی حد تک مقبولیت حاصل ہے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ جاگیرداری نظام ہندوستان میں انگریزوں نے رائج نہیں کیا تھا، بلکہ اسلامی تاریخ کے اوائل ہی سے ملوکیت اور عسکری جاگیرداری (اقطاع) عالم اسلام کا مروجہ سیاسی اور معاشی نظام رہا ہے اور یہ بیسویں صدی کے اوائل تک خلافتِ عثمانیہ کے زیراثر قائم و دائم رہا۔ اسی نظام کے تحت مسلمانوں کی تین عظیم الشّان سلطنتیں: اموی، عباسی اور عثمانوی تیرہ سوسال تک قائم رہیں۔ اسی دور میں فاطمی اور ہسپانوی خلافتیں اور مغرب اور ہندوستان میں مسلمانوں کی شاندار سلطنتیں قائم رہیں۔ دراصل اسلام میں جاگیرداری کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ اسلام کے نظامِ سیاست اور معیشت کی بنیاد تجارتی سرمایہ (Merchant Capitalism) پر تھی۔ مکہ میں معیشت کا کلی دارومدار تجارت پر تھا۔ چنانچہ اسلام کی معاشی تاریخ باقی دنیا سے مختلف ہے۔ یورپ میں جاگیردارانہ زرعی نظام کے خاتمے پر پہلے تجارتی سرمایہ اور پھر صنعتی سرمایہ کو عروج حاصل ہوا۔ اس کے برعکس اسلامی دنیا میں تجارتی سرمایہ اور اس کے ارتکاز نے جاگیرداری اور اس کے ساتھ عسکریت کو جنم دیا، جس کی وجہ سے یہاں صنعتی انقلاب رو پذیر نہ ہوا۔ اسلامی دنیا کی یہ معاشرتی حرکت اور تبدیلی ان عوامل کی طرف اشارہ کرتی ہے، جن کی وجہ سے انیسویں صدی عیسوی میں بیشتر بلادِ اسلام یورپی سامراجی تسلط کا شکار ہوگئے اور آج بھی ان معاشرتی اور تمدنی حرکیاتی عوامل کی وجہ سے بلادِ اسلام میں عسکریت کو غلبہ حاصل ہے۔ جب کہ مغرب میں ’’صنعتی سرمایہ‘‘ اس کا ترقی یافتہ مرحلہ (Progressive Stage) ہے، عالم اسلام کا ترقی یافتہ مرحلہ ’’عسکریت‘‘ ہے۔ اگر ہمیں اس جادہ ترقی (Route of Development) پر یہ اعتراض ہے کہ یہ عصرجدید کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، تو ہمیں فکری سطح پر سنجیدگی کے ساتھ شدید ریاضت کرنی پڑے گی کیونکہ بات صرف ۱۸۵۷ئکے پن دھارے (Watershed) کی نہیں ہے۔ ہمیں اپنے فکرجدید (فکراقبال) کو شہادتِ عمرص (۶۶۴ئ) سے لے کر آگے بڑھنا ہوگا: تازہ کن آئین صدیقؓ و عمرؓ چوں صبا بر لالہ صحرا گذر [پیامِ مشرق] اس کے لیے چند سال کی نہیں بلکہ ایک صدی کی محنت درکار ہوگی، بالخصوص جبکہ دورِحاضر میں بلادِاسلام کے فکری اداروں پر سرمایہ داروں اور مراعات یافتہ طبقے کا تسلط ہے اور ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ حقیقی اسلام اور فکراقبال کی باتیں تو ہوتی رہیں مگر ان کو رائج نہ ہونے دیا جائے۔ دراصل اگر کوئی تہذیبوں کا تصادم ہے تو اس کا دارومدار اسی نقطۂفکر پر ہے۔ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام، اسلام کی عالمگیر انقلابی تحریک کے معاشی اصولوں سے متصادم ہے۔ اس لیے اسے ابلیسی نظام کا نام دیا گیا ہے۔ تبھی تو علامہ اقبال نے ابلیس کی زبان سے کہلوایا ہے: جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ایّام ہے مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے [ارمغان حجاز] میں اپنی یہ عرض داشت حضرت علامہ کی اذانِ سحر پر ختم کرتا ہوں: فریاد ز افرنگ و دل آویزیِ افرنگ فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز از خواب گراں خیز! [ارمغان حجاز] ٭٭٭٭٭ اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ نواز احمد اعوان: اقبالیات پر تین کتب: فرائڈے سپیشل لاہور، ۱۶؍دسمبر ۲۰۰۵ئ، ص۳۹ جناب نواز احمد اعوان نے تین کتب پیامِ اقبال بنام نوجوانان ملت از سید قاسم محمود سیرِاقبال شناسی در افغانستاناز عبدالرئوف خان رفیقی اور علامہ اقبال اور فتنہ قادیانیت از محمد متین خالد کے تبصرے میں بعض اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔ تبصرہ نگار مصنفین کی علمی و ادبی کاوش کے بھی معترف ہیں اور ان کتب کو قارئین کے لیے معلوماتی قرار دیتے ہیں۔ ٭٭٭ سیدہ نغمہ زیدی: اقبال اور نوجوان، مجلہ: الاقربا، اسلام آباد، جولائی، ستمبر ۲۰۰۵ئ، ص۵۱-۶۲ مقالہ نگار لکھتی ہیں کہ اقبال ایک انقلابی مفکر تھے۔ قوموں کی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے نوجوان نسل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال نے اپنے کلام میں مثالی نوجوان کو شاہین کے نام سے پکارا ہے۔ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں ہے بلکہ اس پرندے میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خود دار ہے، غیرت مند ہے، کسی کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ بلند پرواز، خلوت پسند اور تیز نگاہ ہے۔ اقبال کے درس شاہینی پر بعض ناقدین معترض بھی ہوئے۔ انھوں نے یہ الزام لگایا کہ اقبال مسلمان نوجوانوں کو جارحیت و فسطائیت کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اقبال کا شاہین صرف طاقت و قوت کا مظہر نہیں بلکہ ان تمام صفات کا مظہر ہے جو اقبال کے خیال میں مردِ مومن کی صفات ہیں۔ اقبال حرکت و عمل کے فلسفے کے داعی ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم نوجوان اقوام مغرب کے مقابلے میں اپنا احساس کمتری اور احساس مرعوبیت دور کرکے اپنی خودی مستحکم کریں۔ نوجوانوں کو نصیحت کرنے اور انھیں دعائیں دینے کے سلسلے میں ان کی تصنیف جاوید نامہ بھی قابل ذکر ہے۔ اقبال نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ خواہ کتنے ہی اعلیٰ مراتب پر کیوں نہ پہنچ جائیں، ان کا دل درویش رہنا چاہیے۔ ذوق طلب میں کبھی کمی نہیں آنی چاہیے۔ غرضیکہ اقبال چاہتے ہیں کہ نوجوان لا الٰہ کی تیغ کاری سے زمانے کے باطل و گمراہ نظریات پر ضرب لگائیں اور اسلام کا بول بالا کریں۔ ٭٭٭ عالیہ امام، پیام مشرق ایک جائزہ،افکار معلم ،لاہور، اپریل ۲۰۰۵ئ، ص۵۰-۶۲ محترمہ عالیہ امام نے اپنے اس مقالے میں پیامِ مشرق کے فکرو فن اور موضوعات کا سیر حاصل جائزہ پیش کیا ہے۔ پیامِ مشرق اقبال کی تیسری فارسی کتاب ہے جو ۱۹۲۳ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ گوئٹے کے دیوان مغربی کا جواب ہے۔ انتساب افغانستان کے امیر امان اللہ کے نام ہے۔ پیامِ مشرق کے چار حصے ہیں: (۱)لالہ طور: یہ اقبال کی پسندیدہ علامتوں میں سے ہے۔ یہ پھول اُمت محمدیؐ کی علامت بن کر ظاہر ہوا۔ یہ حصہ ۱۶۳ رباعیات پر مشتمل ہے جو لفظی طور پر رباعیات ہیں مگر اصطلاحی طور پر ان کا وزن لاحول ولا قوۃ الا باللّہ نہیں دراصل یہ دو بیتیاں ہیں، جن کا وزن بابا طاہر عریاں کی مشہور پہلویات یا فہولیات کے وزن پر ہے۔ علامہ نے ۵ جون ۱۹۳۳ء کے مرقومہ خط میں بابا طاہر عریاں کے اسلوب کی تقلید کا اعتراف کیا ہے۔ ان رباعیات کا موضوع عشق، عظمت انسانی اور اخوت اسلامی ہے۔ (۲)افکار: یہ ۵۱ منظومات فکر و فن کا حسین امتزاج ہیں۔ ان نظموں کا موضوع مظاہر فطرت، تسخیر فطرت، عشق، عقل، فلسفہ اور نظریہ وطنیت ہے۔ اقبال نے فنی لحاظ سے اس حصے میں مخمسات، مثلثات، مستزدات اور قطعات بھی کہے ہیں اور چند نظموں میں مکالماتی انداز میں اپنی شاعری کا جادو جگایا ہے۔ (۳)مے باقی: یہ اصطلاح علامہ نے حافظ سے لی ہے۔ یہ حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ ان غزلیات میں عشق، ملت اسلامیہ کے مسائل، ملت کا عروج و زوال ایسے عمیق افکار کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ یہ حصہ عظیم فن۔کار کی تخلیق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ (۴)نقش فرنگ: یہ حصّہ۲۶ منظومات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں معاشرتی مسائل، مغربی تہذیب، مزدور اور سوشلزم، فلاسفہ اور مغربی مفکرین کا ذکر ملتا ہے۔ آخر میں ’’خردہ‘‘ کے عنوان سے فلسفہ زندگی بیان کیا گیا ہے۔ اس جائزے میں تجزیہ نگار نے حوالے کے طور پر اشعار بھی نقل کیے ہیں جو اقبال کی شاعرانہ عظمت کا نمونہ اور ان کے افکار تک رسائی کا اہم ذریعہ ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آفتاب احمد: علامہ اقبال اور دوسرے بڑے شعرا ، مجلہ: دریافت اسلام آباد (شمارہ:۳) ص۳۸۶-۴۰۷ زیر نظر مقالے میں ڈاکٹر محمد آفتاب احمد نے اقبال کے فکروفن کا موازنہ دیگر شعراے کرام سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: میر تقی میر، رفیع سودا، خواجہ میر درد اور انشاء اللہ خان نے رنج والم کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور گوشہ عافیت تصوف کی حسین و جمیل جنت میں ڈھونڈ نکالا۔ غالب نے پہلی بار اُردو شاعری کو فلسفے سے آشنا کیا۔ ذوق کو قصیدہ گوئی میں اعلیٰ مقام حاصل ہے لیکن وہ تمام عمر قلعے کے وظیفے پر بسر اوقات کرتے رہے۔ انیس و دبیر زبان پر قدرت مہارت رکھتے تھے لیکن ان کی شاعری کا مقصد زندگی اور عمل سے راہ فرار تھا۔ حافظ اور علامہ اقبال دونوں نے فقرا اور قلندری کو پسند کیا۔ حافظ کا قلندر رہبانیت اور خانقاہیت کا دلدادہ ہے۔ اس کے برعکس علامہ کا قلندر بے نیاز، خود دار اور خودشناس ہے۔ اسی طرح عمر خیام کی شاعری حسن و شباب، شراب اور دیگر خرافات سے بھری پڑی ہے، لیکن اقبال کی شاعری پاکیزگی اور ایمان کا مظہر ہے۔ شوقی بک اور نامق کمال ترکی کے انقلابی شعرا ہیں مگر ان کی شاعری بھی جمیل صدقی زہادی کی طرح صرف اپنی قوم کے لیے تھی۔ جبکہ اقبال کا کلام تمام اُمت مسلمہ کے لیے تھا۔ حافظ محمد ابراہیم(مصر) سرکاری ملازم تھے ان کی شاعری میں وہ بے خوفی، للکاراور گونج و گرج نہ تھی جو اقبال کی شاعری کا خاصہ ہے۔ شوپن ہاور ایک قنوطی فلسفی تھا۔ وہ زندگی کو ایک مصیبت اور بیکار شے سمجھتا تھا جبکہ علامہ کے نزدیک زندگی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ ٹیگور سکون کا متلاشی تھا جبکہ علامہ کے نزدیک سکون موت کے مترادف ہے۔ شکسپیر عظیم شاعر اور ڈراما نگار تھا اسے انسانی نفسیات پر عبور حاصل تھا۔ مگر اس کی آواز ولولوں اور ہنگاموں کی آواز نہیں جبکہ علامہ کی شاعری دلوں میں انقلاب برپا کرتی ہے۔ سکاٹ اور بائرن محض ماضی کے شاعر تھے جبکہ اقبال ماضی کے ساتھ مستقبل کے بھی شاعر تھے۔ ٹینی سن اور ملٹن نے اپنی شاعری کو صرف عیسائی مذہب تک محدود رکھا، اس کے برعکس علامہ اقبال نے اپنے کلام میں تمام انسانیت کو موضوع بنایا۔ کیٹس حسن پرست شاعر تھا۔ ورڈز ورتھ فطرت پرست شاعر اور بنیادی طور پر خود غرض انسان تھا۔ وہ مناظر فطرت کو بیان کرکے اپنے لیے سکون کا ذریعہ پیدا کرتا تھا۔ اقبال نے اپنی شاعری میں مناظر فطرت کو روحانی بیداری کا ذریعہ بنایا۔ برائوننگ آرٹ کا شاعر تھا، باقی انسانی مسائل سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جملہ انسانی مسائل کو موضوع بحث بنایا۔ دانتے نے ڈیوائن کامیڈی میں غیر مسیحیوں کو دوزخی قرار دیا۔ اقبال نے جاوید نامہ اور بانگ درا میں غیر مسلموں کا ذکر نہایت احترام سے کیا ہے۔ ورجل بھی دانتے کی طرح متعصب شاعر تھا۔ گوئٹے محض خیالی شاعر تھا۔ نطشے امارت نسلی کا قائل تھا۔ ہنری برگساں اقبال کا ہم عصر شاعر تھا مگر اقبال کے خیالات کے برعکس وہ عمل کو ناکارہ خیال کرنے والا شاعر تھا۔ مقالے کے آخر میں اقبال کی شاعری کی چیدہ چیدہ خصوصیات اور دیگر ماہرین اقبالیات کی اقبال کی شاعری کے بارے میں رائے کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ مقالہ بلاشبہ دلچسپ اور جامع کاوش ہے۔ ٭٭٭ شمیم اختر: علامہ اقبال اور بھرتری ہری، دریافت، اسلام آباد ، شمارہ ۳، ص۴۴۲- ۴۴۵ فارسی اور اردو شاعری میں بھرتری ہری کو روشناس کرانے کا سہرا علامہ کے سر ہے۔ آپ نے سنسکرت کے اس شاعر کو دنیا کے بڑے بڑے حکما کی صف میں کھڑا کردیا۔ ان کا اصل نام ہری اور بھرتری ان کا لقب ہے۔ بھرتری کا مطلب ’’رعایا پرور‘‘ ہے۔ وہ کچھ عرصہ ریاست اجین کے حکمران رہے پھر کچھ چھوڑ کر سنیاس اختیار کرلیا۔ ان کی عظمت اور شہرت کا بڑا سبب ان کا حکیمانہ کلام تھا ان کی تصانیف میں واکبا پردیب ایک ضخیم مجموعہ کلام اور تین شنک شامل ہیں۔ علامہ نے جاوید نامہ میں سیرا فلاک کے دوران میں بھرتری ہری سے سوالات کیے اور پھر انھی کے اقوال کی روشنی میں اس کے جوابات دیے۔ بھرتری کے خیال کے مطابق زندگی کی تمام کارفرمائیاں ’’عمل‘‘ کی مرہون منت ہیں وہ نیتی شنک میں کہتے ہیں ’’بھاگ سے سب کچھ ہوتا ہے مگر بھاگ عمل سے بنتا ہے۔‘‘ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر بالِ جبریل کا یہ شعر علامہ نے بھرتری ہری کے حکیمانہ خیال کی روشنی میں کہا۔ اس شعر کے نیچے بھرتری ہری کا نام لکھا ہے۔ اس نام کو دیکھ کر اردو ادب کا کثیر طبقہ مذکورہ شعر کو بھرتری کا شعر خیال کرتا ہے دراصل علامہ نے بھرتری ہری کے درج ذیل اشلوک کو پڑھ کر بالِ جبریل کا یہ شعر کہا ہے: اگر انسان چاہے اور کوشش کرے تو ریت سے تیل نکال سکتا ہے۔ تشنگی سے بے چین ہوکر شاید سراب سے سیراب ہوسکے۔ ممکن ہے جنگل میں جستجو سے خرگوش کے سینگ مل جائیں۔ لیکن مورکھ کے دل پر قابو پالینا اور مورکھ کے دل کو کلام نرم سے متاثر کرنا ممکن نہیں۔ مست ہاتھی کو کنول کے زیرے سے باندھ سکتے ہیں، پھول کی پتی سے ہیرے کو کاٹ سکتے ہیں اور شہد کی ایک بوند سے کھاری سمندر کو میٹھا بنا سکتے ہیں مگر مورکھ کو حسن کلام سے متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ ٭٭٭ میاں محمد اکرم،ڈاکٹر: علامہ اقبال کے معاشی افکار، افکارِ معلم، لاہور، اپریل ۲۰۰۵ئ، ص۲۷-۴۹ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ علامہ نے جس جس موضوع پر اشعار کہے ان میں سے ہر موضوع قرآن و سنت سے ماخوذ نظر آتا ہے اور یہی صورت علامہ کے معاشی افکار میں جھلکتی ہے۔ اقبال نے اپنے اشعار میں تصورِ ملکیت، حلال و حرام کا تصور، تقسیمِ دولت پر زور اور ارتکاز دولت کی مذمت، سود کی مذمت، نظامِ سرمایہ داری کی حقیقت جیسے تصورات کو قرآنی نقطۂ نظر سے اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ پروفیسر صاحب نے نہ صرف اشعار کے حوالے دیے ہیں بلکہ قرآنی آیات کو بھی نقل کیا ہے جس سے مندرجہ بالا معاشی موضوعات سمجھنا عام قاری کے لیے آسان ہوگیا ہے۔ ٭٭٭ ایم خالد فیاض: اقبال کی اردو مرثیہ نگاری، دریافت، اسلام آباد ، شمارہ:۴، ص۷۱۷- ۷۳۶ مقالہ نگار لکھتے ہیں: مرثیہ ایسی صنف شعر ہے جس میں کسی مرنے والے کا ذکر اور اس کی تعریف و توصیف حسرت اور رنج و غم کے انداز میں بیان کی جاتی ہے۔زین العابدین نے مرثیہ کی تین اقسام گنوائی ہیں: ۱- رثائے رسمی جس میں اکابر قوم اور سلاطین کی موت پر ماتم کیا جائے۔ ۲- رثائے شخصی جس میں شعرا اپنے دوستوں، خاندان کے افراد یا اپنے پیاروں پر اظہار تاسف کرتے ہیں۔ ۳- رثائے مذہبی ان مرثیوں میں مذہبی پیشوایان دین کی موت موضوع سخن بنتی ہے۔ اقبال کی نظموں کا ذکر جب مرثیے کے حوالے سے ہو تو والدہ مرحومہ کی یاد میں، داغ اور مسعود مرحوم کے علاوہ باقی جن نظموں کا نام لیا جاتا ہے ان کے بارے میں فوری طور پر تعین کرنا کہ آیا یہ مرثیے میں شامل ہوسکتی ہیں یا نہیں، ایک مشکل امر ہے۔ مرثیے کو دوسری نظموں یا اصناف سخن سے الگ شناخت کرنے کے لیے ہمیں کچھ حدود کا تعین کرنا پڑے گا۔ مقالہ نگار نے خاص طور پر اقبال کے مرثیوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ نمونے کے طور اسلوب انصاری کی کتاب کا اقتباس پیش کرتے ہیں اسلوب صاحب اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ تجزیے سے پہلے لکھتے ہیں کہ اقبال نے اس سے قبل تین مرثیے لکھے تھے یعنی غالب، آرنلڈ اور داغ۔ جناب خالد فیاض صاحب کا موقف ہے کہ آرنلڈ مرثیہ نہیں ہے بلکہ آرنلڈ کی لندن روانگی کے بعد اقبال نے یہ منظومہ ان کی یاد میں لکھا۔ مقالہ نگار نے اس مغالطے کو بھی اس مقالے میں دور کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اقبال کی اردو مرثیہ نگاری کے حوالے سے یہ ایک مفصل و مدلل مقالہ ہے۔ ٭٭٭ اختر حسین شیخ: شرح کلامِ اقبال، قومی ڈائجسٹ لاہور، جولائی ۲۰۰۵ئ، ص۸۳- ۹۴ شارح لکھتے ہیں کہ بعض شارحین نے اپنے اپنے زمانے میں اپنے ظرف و شرف کے مطابق محنت و ریاضت اور دیانت سے کلامِ اقبال میں شناوری کا حق ادا کردیا۔ تاہم اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ کلامِ اقبال مطالب و مفاہیم کے اعتبار سے یک پہلو ہرگز نہیں جسے کلام کی دلکش خوبی قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ کلام کے لاتعداد پہلو ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آشکار ہوتے چلے جائیں گے۔ مستقبل کے قلم کار جتنی جانفشانی اور لگن سے اشعار کی پرتیں اور گرہیں کھولیں گے، نئے نئے مفاہیم سے اتنے ہی مسحور ہوتے چلے جائیں گے۔ [شرح کلامِ اقبال کے عنوان سے قومی ڈائجسٹ نے قسط وار شرح کا اہتمام کیا ہے اس سلسلے میں بانگ درا کے پہلے منظومے ’’ہمالہ‘‘ کی شرح پیش کی گئی ہے اس شرح کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مشکل الفاظ کے معانی، اشعار کا لغوی مفہوم، بحر، توضیح و تشریح کو یکجا کرکے پیش کیا گیا ہے۔ اس دلچسپ کاوش نے کلامِ اقبال کو ایک عام قاری کے لیے آسان اور عام فہم بنا دیا ہے۔] ٭٭٭ ڈاکٹر سید اقبال حسین: علامہ اقبال ایرانی دانشوروں کی نظر میں، قومی زبان، کراچی، ستمبر ۲۰۰۵ئ، ۳۷-۳۸۔ آیت اللہ خامنائی نے اقبال کو ’’مشرق کے بلند ستارہ‘‘ کا خطاب دیا اور کہا اس تاریک رات میں جس کا کوئی ستارہ نہ تھا اقبال نے خودی کی مشعل روشن کی۔ اقبال کے پندرہ ہزار اشعار میں سے نو ہزار فارسی میں ہیں۔ بیشتر ابتدائی کلام اردو میں ہے۔ اقبال فارسی بات چیت اور محاورے سے ناواقف تھے۔ انھوں نے سعدی، حافظ کے دیوان اور مثنوی مولانا روم، عرفی، نظیری اور غالب کے کلام کو پڑھ کر فارسی سیکھی۔ حضرت آیت اللہ کی رائے کے مطابق:ہمیں ایک مدت تک زحمت اٹھانا پڑے گی کہ اقبال نے ایک مضمون کو جس آسانی سے ایک شعر میں بیان کردیا ہے فارسی نثر میں، جو ہماری اپنی زبان بھی ہے، بیان کرسکیں۔ آگے چل کر فرماتے ہیں کلامِ اقبال میں کچھ اشعار اتنے عروج پر ہیں کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے معلوم ہوتے ہیں۔انھوں نے فلسفہ خودی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال کے دو مشن تھے: پہلا مشن ہندوستانی مسلمانوں کو اسلامی تشخص کی جانب متوجہ کرنا تھا۔ دوسرے مرحلے پر انھوں نے کل مسلمانانِ عالم کو خودی کو سمجھنے کی دعوت دی اور ان کی نظریں خصوصاً ایران و افغانستان پر لگی تھیں۔ جناب ڈاکٹر اقبال حسین صاحب لکھتے ہیں کہ میں اقبال کے خیالات کی مدح کروں جو اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں بیان ہوئے یا حضرت آیت اللہ کی اس خوبصورت تشریح اور دلکش توضیح کی داد دوں جس نے فارسی اشعار کے معانی مجھ پر کھول دیے۔ آیت اللہ کا یہ خطبہ کتاب کی شکل میں پاکستانی عوام کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر صدیق جاوید: بالِ جبریل غزل نمبر۳: ایک تشریح، مخزن، لاہور، شمارہ۹، ۲۰۰۵ئ، ص۷۰- ۷۵۔ ڈاکٹر صدیق جاوید لکھتے ہیں اس غزل میں محبوب سے خطاب ہے۔ غزل کے خطابیہ اشعار میں عموماً عشق اور جوش محبت کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ اس غزل میں غزلیت بھرپور انداز میں پائی جاتی ہے۔ گویا اس غزل کے اشعار کے الفاظ اردو فارسی غزل کے مخصوص اور مانوس الفاظ ہیں جو ایما اور رمز و کنایہ کی کیفیت کے حامل ہیں اور ان سے مجازی عشق جھلکتا ہے۔ مگر اس غزل کے آخری دو شعر غیر محسوس طور پر یوں سامنے آتے ہیں کہ پہلے چار شعروں کو بھی اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔ پوری غزل میں خدا سے خطاب اور عشق حقیقی کے اظہار کے علاوہ شاعر کا کوئی دوسرا منشا و مدعا دکھائی نہیں دیتا۔ شارح نے نہایت سادہ اور بلیغ انداز میں غزل نمبر ۳ کی شرح کی ہے مشکل الفاظ کے معانی اور رواں تشریح نے اس غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔ ٭٭٭ محمد اسلم انصاری: اقبال کے تصور شاعری کا ارتقا اور حرفِ شیریں، اقبال،لاہور اکتوبر، دسمبر۲۰۰۵ئ، ص۲۱-۳۶ پیرزادہ اعجاز احمد(مرحوم) اپنے ایک مکتوب بنام اسلم انصاری لکھتے ہیں کہ نواب ذوالفقار علی نے انگریزی زبان میں A Voice from the East کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ کیا اس میں پیامِ مشرق کی مشہور غزل ’’بہ ملازمان سلطان خبر دہم زرازی‘‘ کے دوسرے شعر کے مصرع اول کا مفہوم ترجمے میں صحیح بیان کیا گیا ہے: ہمہ ناز بے نیازی، ہمہ شان بے نوائی دل شاہ لرزہ گیرد زگدائے بے نیازی All the pride to want nothing, all this possessions to have nothing! The heart of king from a poor man who wants nothing. انصاری صاحب جواب میں لکھتے ہیں میری ناچیز کی رائے میں یہ شعر قابل احترام مترجم پر واضح نہیں ہوسکا یا پھر وہ اس کے اصل مفہوم کو ترجمے میں منتقل نہیں کرسکے۔ انصاری صاحب نے مدلل انداز میں بیان کیا ہے کہ شاعر کا مقصد فقر اور عین عالم فقر میں بے نیازی کے تصور کو اُجاگر کرنا ہے۔ انگریزی ترجمے میں یہ مفہوم موجود نہیں بلکہ جو مفہوم ہے، وہ بھی واضح نہیں۔ پیرزادہ اعجاز صاحب کے حوالے سے انصاری صاحب لکھتے ہیں۔ درج ذیل شعر میں ’’حرف شیریں‘‘ سے مراد پیر صاحب قرآن کریم لیتے ہیں: محمد بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا جبکہ مقالہ نگار کہتے ہیں اس سے مراد خود ’’علامہ کی شاعری‘‘ ہے۔ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی اصل حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے انھوں نے تصورِ شاعری کے ارتقا پر ایک جائزہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اقبال کی اُردو شاعری کے بیشتر حصے میں صیغہ واحد متکلم (میں) سے مراد خود اقبال ہی ہیں۔ اس سے صرف ڈرامائی نظمیں مستثنٰی ہیں۔ اقبال کا اپنی شاعری کے متعلق عقیدہ ہے کہ یہی ان کی اپنی ترجمان ہے لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ نبوت و رسالت اور قرآن کریم تو خدا کے ترجمان ہیں تو ان کے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں یہ شاعری جسے وہ اپنی ذات کا ترجمان سمجھتے ہیں، یہ بھی اس ذات برتر کی ترجمان ہو؟ یہ ایک مابعدالطبیعیاتی سوال ہے جو خودی کے حوالے سے ایک مابعدالطبیعیاتی خوف پر مبنی ہے۔ اقبال ہر حال میں اس بات کے خواہش مند نظر آتے ہیں کہ جہاں الہام اور وحی کے سلسلے، اللہ تعالیٰ کے ترجمان ہیں، وہاں کم از کم اتنی بات تو یقینی ہے کہ یہ بلند پایہ شاعری ان کی اپنی ذات کی ترجمان ہے۔ اس ایک بات کو یقینی بنانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ خالق مخلوق میں فصل و امتیاز برقرار رہتا ہے اور وحدت الوجود کی گنجائش بھی کم ہی نکلتی ہے۔ مقالہ نگار کہتے ہیں اُمید واثق ہے کہ میری ان معروضات کو قابل توجہ قرار دیا جائے گا۔ ٭٭٭ ڈاکٹر عبدالحق : اقبال اور نقدِ فراق کی نارسائی، اخبارِ اُردو، اسلام آباد، جولائی ۲۰۰۵ئ، ص۱۶-۲۳۔ شبلی اور حالی کے بعد فراق پہلے شاعر ہیں جو تنقیدی مباحث پر مستقل مضامین اور کتابوں کے مالک ہیں ان کے تنقیدی تصورات کسی نظام یا نظریہ سے نہ ماخوذ ہیں اور نہ مستعار بلکہ تمام تر شخصی تاثرات کے متبع ہیں۔ اقبال مقتدر شاعر ہی نہیں، قدر اولیٰ کی حیثیت سے ناگزیر اہمیت اور اپنا مقام رکھتے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے پیمانۂ قدر ہیں۔ بڑے سے بڑا نقاد بھی اقبال پر قلم اٹھاکر خود کو بے پردہ کردیتا ہے۔ اقبال سے متعلق فراق کے خیالات ان کے مضامین، بیانات اور بعض تحریروں میں ضمنی طور پر آگئے ہیں، جن میں تعریف و تحسین بہت کم اور تنقیص و تضحیک غالب ہے۔ اقبال کے عام معترضین کی طرح وہ بھی اقبال کے شعری اکتسابات کی عظمت کے کسی حد تک قائل ہیں مگر فکر و فلسفے کی افادیت سے انکار اور اس کی آفاقیت سے وہ خاص طور پر بیزار ہیں۔ فراق کی تنقیدی آرا بھی عمومیت کے زمرے میں آتی ہیں۔ انداز بیان میں شدت اور جذباتی تنفر نے لہجے کو زشت رو بنا دیا ہے۔ فراق کی مزعومہ تنقیدی نظر اور ان کے فکر و خیال کی ناہمواری انھیں انتقادی انصاف سے محروم کردیتی ہے۔ انھوں نے اقبال کی شخصیت کو تضاد و تصادم سے تعبیر کیا ہے۔ اقبال پر ان کے اعتراضات ناقدین اقبال سے ہی مستعار لیے ہوئے ہیں۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں اقبال پر فراق کی تنقید بہت ہی محدود فکر کا واہمہ کہلائے گی جو نقائص کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ فکروفن کی خامیاں تلاش کرکے مطمئن ہوجانا انتقاد ہے اور نہ انصاف۔ فکر کی تحریم اور قلم کی تکریم کے بغیر تنقید و تاثر پر فریب سراب سے بھی زیادہ مسموم موثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ فراق کی فہم و فراست تنگیِ داماں میں اسیر ہے۔ مفکر شاعر کی پہنائی پر کمند ڈالنے کے لیے عالم نود گرد انائے راز کے وجود و نمود کا منتظر ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹرعبدالحق: اقبال اور مقامِ شبیری، اخبارِ اُردو، اسلام آباد، اگست ۲۰۰۵ئ، ص۲۹-۳۳ انیس و دبیر کے بعد حالی نے شخصی مرثیے کی شروعات کی۔ حالی کا یہ شعری اجتہاد تھا جس کی تقلید اور توسیع میں اقبال نے ایک امکانی دنیا کی آگہی شامل کردی۔ اقبال نے رثائی ادب کا مطالعہ کیا تھا۔ اقبال نے تین اہم شخصی مرثیے لکھے۔ مرثیہ داغ، والدہ مرحومہ کی یاد میں اور مسعود مرحوم، ان میں زندگی کے درد و داغ کے ساتھ عقیدت و احترام کے بے پایاں جذبات موجود ہیں۔ اقبال کی کئی رثائی نظمیں بھی ملتی ہیں، جن میں بے پایاں جذبات موجود ہیں اور جنہیں مرثیوں میںشامل کیا جاسکتا ہے، جیسے: فاطمہ بنت عبداللہ، شبلی و حالی، سوامی رام تیرتھ اور متروک کلام میں شامل دوسری نظمیں۔ حضور رسالت مآبؐ کی بیٹی، داماد اور نواسے کی مقدس سیرت و شہادت بنی نوع بشر کے لیے آئینہ تمثال ہیں۔ بیٹی اور داماد کا تذکرہ مرثیے میں ناگزیر ہے مگر اصطلاحی گفتگو میں واقعہ کربلا ہی مرثیہ نگاری کا محور ومرکز ہے۔ حضرت حسینؓ کی ذات و الاصفات، باطل طاقتوں سے ان کی جنگ آزمائی اور شہادت سے برآمد ہونے والے نتائج اقبال کے قلب و نظر میں ہمیشہ طوفان و تلاطم برپا کرتے ہیں۔ ان کی مثالی شخصیت اقبال کے مردِ مومن کے لیے تصورات کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ خدائے رب جلیل کے روبرو بے چون وچرا سر نیاز پیش کردینے کا جذبہ شوق ہی تکمیل زندگی ہے۔ یہی شوق شہادت ہے جو اسلام کی تاریخ کے دو کمانوں یعنی اول و آخر کے درمیان سرشتہ حیات کی دعوت دیتا ہے۔ کیونکہ تاریخ حادثات سے مرتب ہوتی ہے اور حادثات عزم جواں اور اضطراب پیہم سے نمود حاصل کرتے ہیں۔ اقبال نے یہ نکتہ پیدا کیا کہ حقیقت ابدی ہر زمانے میں جبر کی طاغوتی طاقتوں سے نبرد آزما رہتی ہے۔ موسیٰ کی فرعون سے، ابراہیم کی نمرود سے اور چراغ مصطفوی کی شراربو لہبی سے معرکہ آرائی سب اسی حقیقت ابدی کے انقلابات ہیں۔ یہ میراث خلیل پیغمبراعظم و آخرؐ سے ہوکر حسینؓ کے ہاتھوں براہِ راست پہنچتی ہے۔ تاریخ بدرو حنین ایک حقیقت ہے جو راہِ حق میں جاں طلبی کی دعوت دیتی رہتی ہے۔ آزادی کا پیغام اسوۂ حسینؓ میں پنہاں ہے خون شبیرؓ کی روح کو خاطر میں لائے بغیر یہ عمل سعی رائیگاں ہے۔ مردانِ حر کے قافلے کی قیادت کے لیے سپر سنبھالنے سے پہلے بازوئے جگردار کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭ نسیم عباس چودھری: قرۃالعین حیدر اور علامہ اقبال کے خاندانی روابط، دریافت ،اسلام آباد شمارہ ۴، ص۷۳۷- ۸۳۸ علامہ اقبال اور قرۃالعین کے خاندان کی دوستی اور تعلقات عرصہ دراز سے نسل در نسل چلتے آرہے ہیں۔ یہ تعلقات گھریلو یا کاروباری سطح سے شروع ہوئی اور ادبی تخلیقی ذوق کی راہوں سے گزرتے ہوئے خاندانی تعلقات کے روپ میں قائم و دائم رہے۔ قرۃالعین حیدر کے پرنانا میر مظہر علی طلعت کی دوستی علامہ اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد سے شروع ہوئی۔ بعد ازاں قرۃالعین کے نانا میر نذر الباقر اور ان کے بھائی میر ظہور حسنین اور میر فیض العسکری، علامہ اقبال کے ہم مکتب بنے۔ بعد ازاں قرۃالعین حیدر کے والد سجاد حیدر یلدرم اور ان کی والدہ نذر الزہرہ کے ساتھ اقبال کے ادبی اور دوستانہ مراسم عروج پر پہنچے یہ بات بڑے فخر کی ہے۔ اقبال اور سجاد یلدرم کی وفات کے بعد از خاندانی رشتوں میں کمی نہیں آئی۔ بلکہ خاندانی محبتوں اور چاہتوں کے ان رشتوں میں اضافہ ہی ہوا۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں: قرۃالعین حیدر جاوید اقبال کی شخصیت سے بے حد مرعوب ہیں اور ان کی ادبی صلاحیتوں کی معتقد ہیں۔ جاوید ان کی نظر میں دورِ جدید کے مثالی شخص کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرۃالعین نے اپنی تصانیف میں بھی علامہ اقبال کے انھی خاندانی تعلقات کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کا بھی ذکر کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں مقالہ نگار نے جامع ا نداز میں علامہ اقبال اور قرۃالعین حیدر کے خاندان روابط بیان کیے ہیں۔ ٭٭٭ امتیاز حسین بلوچ: علامہ اقبال کے جنوبی پنجاب کے دو مکتوب الیہ، دریافت، اسلام آباد، شمارہ۳، ص۴۲۹-۴۴۱ جنوبی پنجاب کی کچھ شخصیات سے اقبال کی براہ راست خط و کتابت رہی، تاہم کچھ شخصیات سے اقبال کا نامہ و پیام کسی کی معرفت تھا۔ سفر کی مشکلات سدِّراہ تھیں، اس لیے اقبال کبھی ڈیرہ غازی خان نہ آئے تھے لیکن جنوبی پنجاب کی سیاسی، ثقافتی اور ادبی تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ اقبال کے چاہنے والوں کی تعداد ’’ڈیرہ والوں‘‘ میں بھی کم نہ تھی۔ جنوبی پنجاب کی سرزمین میں جن شخصیات سے علامہ اقبال کی خط وکتابت رہی ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہیـ: مولوی صالح محمد صالح ملتانی(ساکن تونسہ شریف) علامہ عبدالرشید طالوت (ساکن ڈیرہ غازی خان) شیخ فیض محمد ایڈوکیٹ (ساکن ڈیرہ غازی خان) میاں اللہ بخش (ساکن تونسہ شریف) سردار رب نواز کتھران (ساکن تونسہ شریف)۔ اس مقالے میں مقالہ نگار نے صرف دو مکتوب الیہان مولوی صالح محمد صالح ملتانی اور میاں اللہ بخش کے مکتوبات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ مولوی صالح محمد صالح کے نام لکھے گئے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کا موضوع سخن خواجہ تونسوی کی ذات گرامی تھی۔ اقبال نے حضرت نظام الدین تونسوی صاحب کو بہت سے خطوط لکھے جو مولوی صالح کی معرفت خواجہ مرحوم کو ملتے رہے۔ ان میں سے متعدد خطوط کے مسودات محفوظ ہیں۔ اسی طرح مکتوبات بنام میاں اللہ بخش کا روئے سخن سردار محمد عظیم خان صاحب رئیس منگروٹھ کی ذات تھی۔ ان تمام خطوط کو مقالے میں شامل کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے جنوبی پنجاب کے مکتوب الیہ، اولیا، علما اور احبا کی فہرست طویل اور تحقیق طلب ہے۔ علامہ اقبال کی جنوبی پنجاب کی جن دیگر شخصیات سے قرابت اور خط و کتابت رہی، اُن میں نواب مشتاق احمد گورمانی، سردار عبدالحمید خان، میرجمال خان لغاری اور ممتاز مذہبی سکالر مولانا احمد بخش صادق ڈیروی شامل ہیں۔ ٭٭٭ محمد بقائی ماکان: ایران اقبال کے ارمانوں کی سرزمین، پیغام آشنا، اسلام آباد، جولائی، ستمبر۲۰۰۵، ص۱۵۰-۱۶۳ مقالہ نگار لکھتے ہیں اقبال کی فارسی تصانیف ایک طرف اگرادب فارسی کے خزانے میں افزائش کا باعث بنتی ہیں تو دوسری طرف ان کے اشعار معتبر ترین اشعار کے زمرے میں آتے ہیں اور مختلف زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکے ہیں۔ اقبال چاہتے تھے کہ تہران کو اسلامی ممالک کا مرکز ہونا چاہیے اور اسے وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو یورپ میں جینوا کرتا ہے۔ ان کی نظر میں ایرانی روایات اور ثقافت اسلامی تعلیمات کے لیے ایک ٹھوس بنیاد ہے بقول اقبال ’’اگر مجھ سے پوچھیں کہ تاریخ اسلام کا سب سے بڑا حادثہ کون سا ہے تو میں فوراً کہوں گا ایران کی فتح‘‘۔ بلاشبہ اقبال کا شمار ان نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ایران کو صحیح طور پر سمجھا۔ ایرانی افکار پر یونانی فلسفے کے اثرات کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ ایران کی عمدہ سوچ یونانی فلسفے کی دوستی سے وجود میں آئی۔ اقبال نے اپنے کلام میں ایرانی فلسفیوں، حکما اور بادشاہوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ دنیا میں اقبال کی شخصیت کی مختلف جہتیں ہیں لیکن ایران میں وہ اپنی شاعری کی وجہ سے مشہور ہیں جسے وہ خود اپنے ضمیر کی پوشیدہ باتوں کے بیان کا میلان جانتے تھے۔ ایران کا نام اقبال کے لیے بڑا قدآور نام ہے جو متبرک اور مقدس ناموں کا ہم پلہ ہے۔ وہ اپنی روح کو ایران کے لوگوں کی روح کے ساتھ پیوست دیکھتے ہیں۔ اقبال کی زندگی کے آخری زمانے میں یہ آرزو تھی کہ وہ دو سرزمینوں یعنی مدینہ منورہ اور ایران کو دیکھ لیں۔ مقالہ نگار کے مطابق اقبال کا جسم پاکستانی ہے لیکن اس کی روح ایرانی ہے وہ ایسی زبان کے مروج ہیں جس نے ایران میں پرورش پائی اور ایسی ثقافت کو رواج دینے والے ہیں جو ایران کی سرزمین سے اٹھی۔ ٭٭٭ عبدالکریم قاسم: پیام مشرق کے حوالے سے گوئٹے، نٹشے، برگساں، رومی اور حافظ کے فکروفن کا جائزہ، پیغام آشنا،اسلام آباد، جولائی-ستمبر۲۰۰۵،ص۱۶۶-۱۹۰ اقبال کے اردو اور فارسی شعری مجموعوں کے علاوہ خطوط، خطبات اور تقاریر میں دنیا کی جن اہم شخصیات کی طرف اشارے یا تفصیلات موجود ہیں، ان کی طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔ زیر نظر مقالے میں پیام مشرق کے حوالے گوئٹے، نٹشے، برگساں، رومی اور حافظ کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ جناب عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں کہ پیام مشرق کے دیباچے میں اقبال نے گوئٹے کے مغربی دیوان کو کتاب مذکور کی تصنیف کا محرک بتایا ہے۔ اقبال نے گوئٹے کو اپنے کلام میں متعارف کرایا۔ اس طرح جرمن ادب اور مشرقی ادب میں ایک ثقافتی رابطے کا آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ اسی طرح نٹشے کے متعلق اقبال کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقبال اور نٹشے کے بعض خیالات کی سطحی مشابہت سے بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے۔ بیس سال سے اوپر کا عرصہ ہوا جب میں نے انسان کامل کے صوفیانہ تصور پر ایک مضمون لکھا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ میں نے نٹشے کے خیالات نہ ابھی پڑھے تھے اور نہ سنے تھے۔ ہنری برگساں اقبال کا ہم عصر تھا۔ علامہ اقبال نے اس فرانسیسی فلسفی سے اپنی ملاقات کا تذکرہ ایک خط میں کیا ہے۔مقالہ نگار نے جگن ناتھ آزاد کا مقالہ بعنوان ’’اقبال اور برگساں کا ذہنی قرب و بعد‘‘ کا کچھ حصہ بھی اس مقالے میں شامل کیا ۔اقبال نے مغربی فلسفیوں میں سے برگساں کو خاص طور پر اس لیے پسند کیا کہ زندگی اور کائنات کے بارے میں اس کا نظریہ جاندار اور متحرک تھا۔ اقبال افکارونظریات کے اعتبار سے مولانا روم سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں پیرومرشد مانا اور خود ایک عقیدت مند اور ارادت مند مرید کا روپ اختیار کیا۔ اقبال عصر حاضر کے مسائل کے حل کے لیے مولانا سے راہنمائی طلب کرتے ہیں۔ حافظ شیرازی کا کلام فنی نقطہ نظر سے فارسی ادب میں اپنی نظیر آپ ہے۔ لیکن انھیں صوفی شاعر تسلیم کرنے میں اقبال کو تامل تھا۔ اقبال نے حافظ کو پسند کیا مگر اس کے کلام پر تنقید بھی کی۔ ٭٭٭ ڈاکٹر طاہر تونسوی: فکر اقبال کے ترقی پسندانہ زاویے، دریافت ،اسلام آباد، شمارہ ۳،ص۳۷۹-۳۸۹ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے تناظر میں جن خیالات و افکار کو منکشف کیا ہے،ان کی تفہیم کے لیے اقبالیات کی اصطلاح وضع کی جاچکی ہے۔ حیات انسانی اور اس سے پیدا متعدد کیفیات کا کون سا ایسا نکتہ اور زاویہ ہے جو اقبال کے ذہن رسا کی گرفت میں نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علامہ اقبال اس عہد کے مروجہ مشرقی اور مغربی دونوں علوم سے نہ صرف واقفیت رکھتے تھے بلکہ بعض پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ علامہ نے استحصالی طبقوں کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی۔ اس تناظر میں ان کے کلام میں سرمایہ دار اور محنت کش، جاگیر دار و دہقان، کسان وزمیندار اور مزارع و آجر کے درمیان ہونے والی کشمکش کا بھرپورا نداز میں اظہار موجود ہے۔ یہ بات ان کے ترقی پسندانہ رویوں کی غماز بھی ہے۔ مقالہ نگار نے کلام اقبال سے اشعار بھی نقل کیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے اقبال کے پیغام میں عالمگیریت بھی ہے اور آفاقیت بھی جو ان کی شاعری کو محدود سے لامحدود کردیتی ہے اور وہ اپنے ترقی پسندانہ رویوں اور کلام کے زاویوں سے بیسویں صدی کے مظلوم طبقے کے سب سے بڑے داعی نظر آتے ہیں۔ ٭٭٭ ظفر حجازی، علامہ اقبال اور مغربی افکار، افکار معلم ،لاہور، اپریل ۲۰۰۵ئ،ص۶۳-۶۸ مقالہ نگار نے اس مقالے میں مغربی افکار کے بارے میں اقبال کے رویے کا احاطہ کیا ہے۔ علامہ نے مغربی افکار پر شدید تنقید کی۔ مغربی ممالک کی فکر جس فلسفہ حیات پر مبنی ہے، عام خیال یہ ہے کہ اس کی ابتدا پندرھویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ یونانی علوم نے عقل پرستی سکھلائی اور وحی پر مبنی علوم کی نفی کی گئی۔ مغربی فکر کے تمام گوشے مادہ پرستانہ سوچ کے حامل تھے۔ اس فکر کی ابتدا خدا کے انکار سے ہوئی جس کی بنا پر مغربی تہذیب بے راہ روی کا شکار ہوئی۔ مقالہ نگار کے مطابق ڈیکارٹ، نیوٹن، ڈارون، فرائڈ، میکیاولی، روسو، والٹیر، مالتھس، ہیگل، کارل مارکس، نطشے، بیکن اور برٹرنڈرسل وغیرہ نے دنیا بھر میں لادینی افکار کے فروغ میں حصہ لیا۔ ان لوگوں نے باطل نظریات کا دنیا بھر میں پرچار کیا۔ علامہ اقبال نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو ہر طرف انھی مغربی نظریات کی فرمانروائی تھی۔ مسلمان کا وجود غلامی کی علامت بنا ہوا تھا۔ مغرب سیاسی اقتدار کے لحاظ سے عالم اسلام پر مسلط تھا۔ مشرق و مغرب کے علوم قدیم و جدید کے حامل اقبال نے جب مغربی نظام فکر پر نظرڈالی تو انھیں اس میں بنی نوع انسان کے لیے عظیم خطرات نظر آئے۔ اقبال کے نزدیک ضروری ہے کہ انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی معاملات قرآن کی روشنی میں طے کیے جائیں۔ یہ بہتر نتائج کے حامل ہوں۔ اقبال سیاست کے مغربی تصور کے بالکل خلاف تھے۔ مغربی لادینی سیاست نے جمہوریت کے ذریعے غلامی ہی کو پختہ تر کیا، اقبال نے مغربی جمہوریت کو چنگیزیت سے تشبیہ دی۔ علامہ اقبال نے سوشلزم، کمیونزم، کیپٹلزم اور امپریل ازم کی پرزور مذمت کی ہے کہ سرمایہ دارانہ اور مارکسی نظام انسان کے مسائل حل نہیں کرسکتے۔ اقبال کے نزدیک سیاسی حقوق کا حصول تب ہی ممکن ہے جب اقتصادی حالات درست ہوں۔ کہ دنیا میں صرف ایک ہی ذات ایسی ہے جس کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے وہ ذات گرامی حضور ا ہے۔ علامہ اقبال نے مغربی فکر کے ہرگوشے کو دین اسلام کی کسوٹی پر پرکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے دین اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کردیا اور مغربی لادینی فکر پر زور دار تنقید کی۔ ٭٭٭ ڈاکٹر خیال امروہوی: اقبال اور روسی سکالرز، الاقربا ،اسلام آباد، اکتوبر-دسمبر۲۰۰۵ئ، ص۸۵-۸۷ ڈاکٹر خیال لکھتے ہیںکہ روسی ادیبوں، شاعروں، محققین اور مترجموں نے اقبال کے جشن صد سالہ کے سلسلے میں قابل قدر کتابیں لکھیں۔ ان تخلیقات سے قبل اقبال کی ایک دو نظمیں یا اشعار روز ناموں اور دیگر جرائد میں بھی شائع ہوئے لیکن سوویت یونین کے ادارہ مطالعات علوم السنہ شرقیہ نے شعرا اور مفکرین پر باقاعدہ لٹریچر شائع کیا جن میں اقبال سرفہرست ہیں۔ اقبال کی شاعری نے روسی باشندوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کی مشہور نظمیں کہسار، نمود صبح، نیا شوالہ اور حقیقتِ حسن وطن پرستی اور آفاقی انسانی روابط کی آئینہ دار سمجھی گئیں۔۱۹۵۶ء میں بانگ درا کا روسی ترجمہ چھپا۔ ۱۹۵۸ء میں عوامی شاعر میر سعید نے اقبال کی نظموں کا تاجکی زبان میں ترجمہ کرکے ایک جریدے میں شائع کردیا۔ صدائے کارواں نامی کتاب کے علاوہ ماسکو سے شائع شدہ Lighting and Lotuses میں بھی اقبال کی منتخب شاعری کو شامل کیا گیا ہے۔ ایک اور کتاب بعنوان شمالی ایشیائی برصغیر میں مسلمانوں کے سماجی میلانات میں بھی اقبال کے افکارونظریات پر ’’فلسفہ اسلامی کا استاد کامل‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ شامل کیا گیا۔ اردو ادب کا جائزہ کے عنوان سے ایک کتاب ۱۹۵۷ء میں روس میں شائع کی گئی جس میں روسی سکالرز نے اقبال کے اردو کلام اور اقبال کی زندگی کا بھرپور جائزہ پیش کیا۔ اقبال پر یہ تمام تحقیق جشن صد سالہ کے سلسلے میں تاشقند اور دوشنبہ میں شائع کی گئی۔ ترقی پسند روس اقبال کے مادی فکری رویوں کی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تاہم اقبال کے مابعد الطبیعیاتی طرز فکر سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد آفتاب:علامہ اقبال کی نظر میں فن شاعری اور اس کے اثرات، دریافت ،اسلام آباد، شمارہ:۴، ص۶۹۸-۷۱۶ جہاں اقبال دوسرے عوامل کو مسلمانوں کی پستی اور زوال کا سبب قراردیتے ہیں وہاں آپ کے نزدیک ایک سبب شعرا کی تہذیبی اور اخلاقی گراوٹ ہے۔ جس قوم کے شعرا کا اخلاق تباہ ہوجائے تو وہ پھر پوری نسل کو لے ڈوبتے ہیں۔ علامہ نے ایسے شعرا کی اس ذہنی پستی کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ علامہ نے ایسے شعرا کو انتہائی خطرناک اور ہلاکت خیز قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ’’اردو شاعری ہندوستان کے دور انحطاط کی پیداوار ہے اس لیے کمزور، غیرفطری اور حد درجے کی مصنوعی ہے‘‘ لہٰذا وہ شعرا کو نصیحت کرتے ہیں کہ قوم میں افسردگی اور بے دلی پیدا کرنے کی بجائے یہ بہتر ہے وہ خاموش ہی رہیں تاکہ دوسرے گمراہی سے بچے رہیں۔ اقبال قصیدہ گوئی کو گداگری سے تشبیہ دیتے ہیں جو انسانی خودی کو کمزور کردیتی ہے۔ وہ غالب کے معترف ہیں مگر ان کی قصیدہ گوئی کو ناپسند کرتے ہیں۔ اقبال پرانی مروجہ شاعری کی اصلاح چاہتے ہیں اور اسے زندگی سے قریب تر دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ شاعری میں ایسے جلال و جمال اور حقائق حیات چاہتے ہیں جو قوم کو سلانے کی بجائے بیدار کریں۔ آپ فرماتے ہیں ’’شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد آباد بھی کرسکتا ہے اور برباد بھی‘‘۔ ان کے نزدیک اعلیٰ شاعری خون جگر کی آمیزش سے وجود میں آتی ہے۔ اس ضمن میں طاہر فاروقی فرماتے ہیں ’’آج جو شاعری گل و بلبل کے افسانوں سے خالی نظر آتی ہے اس کا سبب تقلید اقبال ہے۔ زیر نظر مقالے میں اُن شعرا کے کلام کی مثالیں بھی دی گئی ہیں جو اقبال سے متاثر تھے۔ ٭٭٭ محمد آصف اعوان: ڈارون کا تصور ارتقا اور اقبال،الشریعۃ ، گوجرانوالہ، دسمبر۲۰۰۵، ص۳۷-۴۵ چارلس ڈارون (۱۸۰۹-۱۸۸۲) کو مغرب کی مادہ پرست فکر اور تحریک الحاد کا نمائندہ مفکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے پانچ نہایت قیمتی سال بحری سفر میں صرف کیے۔ اس سفر کے مشاہدات نے ڈارون کے فلسفہ ارتقا کے لیے خشت اول کا کردار ادا کیا۔ ڈارون کا فلسفہ ارتقا پہلی مرتبہ جامع صورت میں اس کی کتاب مبداحیات بوسیلہ قدرتی انتخاب (On the Origin of Species by Means of Natural Selection) سامنے آیا۔ زندگی اپنے ظہور کے بعد مسلسل ارتقا پذیر ہے۔ روئے زمین پر نوع بشر کا ظہور بھی ارتقا کے اسی قاعدے کا نتیجہ ہے۔ چارلس ڈارون چونکہ میکانکی اور مادی نقطہ نظر کا حامل تھا اس لیے ابتدائے حیات کے سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں۔ وہ اسے ایک ناقابل حل معما اور انسان کے حیطہ عقل سے ماورا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ ڈارون کے نزدیک زندگی اپنے ادنیٰ ترین مراحل سے انسانی سطح کے اعلیٰ ترین مرحلے تک انھی معین قوانین اور میکانکی عمل کے نتیجے میں پہنچتی ہے۔ اقبال کی فکر کا بنیادی نکتہ اس کا فلسفہ خودی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی فکر پر اول تا آخر فلسفہ ارتقا کی چھاپ ہے۔ یہاں تک کہ تصور خودی بھی اس فلسفے کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اقبال اور ڈارون کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک تمام مادہ کی حقیقت روحانی ہے ’’کائنات میں جذبہ الوہیت جاری و ساری ہے‘‘۔ جبکہ ڈارون کی کمزوری یہ ہے کہ اس کی نظر صرف کائنات کے مادی پہلو پر ہے۔ ڈارون کی مادیت پرستی نہ صرف مظاہر فطرت کو میکانکی قوانین کا اسیر دیکھتی ہے بلکہ حیاتیاتی مظاہر کو بھی میکانکی قوانین کی قلم رو میں شامل کرکے تمام حیاتیاتی مراحل کو فطرت کے اندھادھند عمل کا حاصل قرار دیتی ہے۔ اقبال کی نظر میں مادہ درحقیقت حیات کی ادنیٰ درجے کی خودیوں کی بستی کا نام ہے۔ ان خودیوں کے مسلسل ارتباط، اتّصال، عمل اور ردعمل سے باہمی یگانگت کا ایسا مقام آجاتا ہے جہاں سے ایک اعلیٰ درجے کی خودی کا صدور ہو جو کہ احساس و ادراک کی حامل ہو۔ اقبال کے ہاں ارتقا ادنیٰ درجات حقیقت سے اعلیٰ درجات حقیقت کی طرف سفر کا نام ہے اور یہ سفر خارجی عوامل کے سفاکانہ عمل سے نہیں بلکہ انواع کی اندرونی لگن اور تسلسل عمل سے انجام پاتا ہے۔ اقبال اور ڈارون کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کی فکری اساس دینی و روحانی ہے جبکہ ڈارون کی مادی فکر کی روش اس روحانی سہارے سے محروم ہے۔ اقبال کا تصور ارتقا مغربی طرز فکر کی غلامانہ پیروی کا حاصل نہیں، وہ ارتقا کے قائل ضرور ہیں اور اس لحاظ سے وہ ڈارون کے ہم نوا بھی نظر آتے ہیں، تاہم انھیں ارتقا کا وہی تصور پسند ہے جس کی تعلیم قرآن حکیم دیتا ہے ۔ ٭٭٭ ڈاکٹر منیر احمد سلیچ: اقبال کا تصور تصوف، ماہنامہ فیض الاسلام ،راولپنڈی، نومبر۲۰۰۵ئ، ص۲۴-۲۶ مدیر فیض الاسلام نے اپنے نومبر کے شمارے میں ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی کتاب اقبال اور گجرات میں سے اقبال اور تصوف کے حوالے سے اقتباس پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اقبال کہتے ہیں ’’میرے قالب میں بیک وقت دو شخصیتیں ہیں بیرونی شخصیت نہایت عملی اور کاروباری قسم کی ہے اور اندرونی شخصیت تخیل، تصوف اور تصور کا پیکر ہے‘‘۔ اقبال ایسے تصور کے قطعاً قائل نہیں تھے جو ترک دنیا کی تعلیم دیتا ہو یا گدی نشینوں کے کاروبار کا ذریعہ ہو۔ ان کے نزدیک اصل تصوف اور خودی کی تعمیر و تکمیل ایک ہی شے ہے۔ اسی طرح اصل مقصد کے حصول اور دینی و دنیاوی کامیابی کے لیے اقبال ایک راہنما و مرشد کو ضروری سمجھتے ہیں اس کے بغیر انسان کوئی صحیح اور کامل راستہ نہیں دیکھ سکتا۔ اقبال کے ہاں بیعت بدست مرشد بھی مرشد کے تصور کا لازمی حصہ ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک مرشد سے فیض حاصل کرنے کے لیے اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ضروری ہے۔ اقبال کو ان کے والد شیخ نور محمد نے ابتدائے بلوغت میں قاضی سلطان محمود کے دست حق پرست پر بیعت کروایا تھا۔ اقبال تمام عمر کسی ’’صاحب نظر‘‘ کی تلاش میں رہے۔ اقبال ان بزرگوں سے متاثر تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اپنی سماجی زندگی سنوارنے اور اسلامی معاشرے کا صحیح مزاج قائم رکھنے کے لیے انتھک محنت کی۔ اقبال کے نزدیک رشد و ہدایت اصل چیز تھی خواہ وہ کسی بھی سلسلہ کے بزرگ سے حاصل ہو۔ ٭٭٭ ساجدہ بانو ثمین: اقبال کی فارسی مثنوی رموز بے خودی کا منفرد منظوم اردو ترجمہ، الاقربا ،اسلام آباد، اکتوبر-دسمبر۲۰۰۵ئ، ص۷۳-۸۴ مقالہ نگار اسرار و رموز کے تراجم کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ اسرار خودی کا پہلا منظوم ترجمہ پروفیسر عبدالرشید فاضل نے ۱۹۴۷ء میں اسرارخودی ہی کے نام سے کیا، اسرار خودی کا دوسرا منظوم ترجمہ ۱۹۵۰ء میں جسٹس ایس اے رحمن نے ترجمان اسرار کے نام سے کیا۔اسی طرح رموز بے خودی کا ترجمہ سید خورشید علی مہر تقوی جے پوری نے بغیر بحر کو تبدیل کیے بحررمل مسدس میں کیا اور اس منظوم ترجمے کو ترجمان بے خودی کا نام دیا۔ یہ ترجمہ ۱۹۵۹ء میں مکمل ہوا اور ۱۹۶۴ء میں حیدرآباد سندھ سے شائع ہوا۔ ۱۹۶۱ء میں پروفیسر محمد عثمان (کیمبل پور) نے اسرار و رموز پر ایک نظر کے نام سے نثر میں تشریحات کیں۔ شرح اسرار خودی کے نام سے پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے شرح لکھی۔ مطالب اسرار و رموز کے نام سے غلام رسول مہر نے اردو میں اسرار و رموز کے مطالب تحریر کیے۔ اس کے علاوہ سال ۲۰۰۵ء میں پروفیسر عبدالعلیم صدیقی کا ضخیم منظوم اردو ترجمہ کلیات فارسی کے نام سے شائع ہوا۔ مقالہ نگار نے پروفیسر عبدالرشید فاضل کے ترجمے کا موازنہ جسٹس ایس اے رحمان کے ترجمے کے ساتھ اور عبدالعلیم صدیقی کے رموز بے خودی کے منظوم ترجمے کا موازنہ سید خورشید علی مہر تقوی کے ترجمے کے ساتھ بحوالہ اشعار پیش کیا ہے۔ مقالہ نگار لکھتی ہیں شعر کا ترجمہ شعر میں کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بڑی جگر کاوی اور دماغ سوزی کے بعد ممکن ہوتا ہے۔ یہ تمام خوبیاں سید خورشید علی کے ترجمے ترجمان بے خودی میں موجود ہیں۔ افسوس ہے کہ مرقع نگاری کا یہ حسین شاہکار پبلشر کی لاپروائی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے عوام الناس تک نہیں پہنچ سکا اور نایاب ہوگیا۔ اگر کوئی ناشر دوبارہ اس کی اشاعت میں دلچسپی لے تو یہ ایک احسان عظیم ہوگا۔ ٭٭٭ ڈاکٹر معین الدین عقیل: اقبال کے استاد سخن کا مسئلہ، دریافت ،اسلام آباد، شمارہ:۳، ص۳۶۸-۳۷۸ اقبال کے استاد سخن کا مسئلہ کسی بڑے اختلاف و نزاع کا باعث نہیں بنا۔ اس امر کی مسلمہ شہادتیں موجود ہیں کہ اقبال نے آغاز سخن میں داغ دہلوی سے اصلاح و تلمذ کا سلسلہ شروع کرنا چاہا جو شروع تو ہوا لیکن زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ اقبال کے کلام کے متعلق داغ نے کہہ دیا کہ اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ داغ کے علاوہ اقبال اپنے عہد کے دیگر بزرگ اور نامور شعرا کے بھی معترف رہے۔ واقعتا داغ کے علاوہ اقبال نے اگر کسی اور بزرگ شاعر کا اعتراف کیا ہے تو وہ ہے امیر مینائی۔ بلکہ اقبال نے امیر مینائی کو فن سخن کے استاد، ملک نظم کے بادشاہ اور تلمیذالرحمن قرار دیا۔ وہ ان سے اس حد تک متاثر تھے کہ انھیں فخرالمتقدمین والمتاخرین اور حضرت امیر مرحوم روحی فداہ کہا تھا۔ داغ اور امیر اپنے اپنے مخصوص مزاج شعری کے باعث ایک دوسرے سے بڑی حد تک مختلف شاعر ہیں۔ دہلویت اور لکھنویت دونوں کے بارے میں جو غیر منطقی تعبیریں کرلی گئیں تھیں ان کی بہترین تردید امیر اور داغ کے موازنے سے سامنے آسکتی ہے۔ داغ کی شاعری میں ابتذال اور سوقیانہ پن بہت زیادہ نمایاں ہے اور عمر کے آخری حصے میں یہ عروج پر نظر آتا ہے۔ جبکہ امیر کا شاعرانہ اسلوب اور مزاج متانت، ٹھہراؤ اور سنجیدگی لیے ہوئے ہے۔ اقبال کی شاعری کا دوراوّل دراصل امیر کے شاعرانہ اسلوب اور مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ داغ کے معترف وہ رہے لیکن محض زبان کی خصوصیات کی حد تک امیر کا رنگ ان کے ہاں زیادہ گہرا اور دیرپا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے ابتدائی عہد سخن میں بھی خود کو کسی مخصوص رجحان، اسلوب اور دبستان میں محدود نہ رکھا۔ وہ بیک وقت امیر و داغ اور فارسی و اردو کے مسلمہ اساتذہ سخن سے یکساں استفادہ کرتے رہے۔ اقبال کے کلام سے واضح ہوتا ہے اقبال امیر مینائی کے سحر سے یکسر دامن نہ چھڑا سکے۔ اگر اقبال کی شاعری میں اسلوب و طرز ادا کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ کسی اور اردو شاعر کے مقابلے میں امیر نے اقبال کا ان کے دور عروج تک ساتھ دیا۔ ٭٭٭ محمد عبدالجبار،ابوعبداللہ: ہم، ہمارے اسلاف اور اقبال، سوئے حرم ،لاہور، ستمبر۲۰۰۵ئ،ص ۷۳-۷۴ ابوعبداللہ لکھتے ہیں اسلاف جمع ہے سلف کی یعنی گذشتہ آباو اجدادوپیشرو اور متقدمین۔ بہرحال یہ لفظ اپنے اندر تنوع اور وسعت رکھتا ہے اور مختلف مواقع پر اسے بولا جاتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں ہم اور ہمارے اسلاف تو ہمارا ان اکابرین سے تقابل اور موازنہ مقصود ہوتا ہے جو اس دنیا میں اپنی صالحیت، صلاحیت ، شرافت ، نجابت اور نیکی و نیک نامی کے جھنڈے گاڑ چکے ہوتے ہیں۔ مقالہ نگار نے اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں کو زیر بحث لاتے ہوئے موجودہ صورت حال سے اس کا موازنہ پیش کیا ہے۔ حوالے کے طور پر شاعر مشرق کے وہ اشعار نقل کیے گئے ہیں جن میں وہ اپنے اسلاف کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور مسلمانوں کی موجودہ حالتِزار پر نوحہ کناں ہیں۔ ٭٭٭٭ تبصرہ کتب سلیم اللہ شاہ: Gabriel's Wing کا تجزیاتی اور تنقیدی جائزہ۔ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور، صفحات ۲۲۲، قیمت۔؍۲۰۰ روپے اقبالیات کے موضوع پر کم و بیش ایک صدی سے کام ہورہا ہے۔ یہ موضوع اس قدر جاندار ہے کہ نہ صرف ہندوپاک کی زبانوں میں اس پر بہت سا کام ہوا ہے بلکہ دنیا کی بہت سی دوسری زبانوں میں بھی اس کے تراجم اور فکر پر بہت سا مواد ملتاہے۔ قیام یورپ کے بعد، خود علامہ اقبال کو اس بات کا واضح احساس ہوا کہ ان کا پیغام ایک خاص قوم یا خطے تک کے لوگوں کے لیے محدود نہیں، چنانچہ انھوں نے فارسی زبان کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ پروفیسر نکلسن نے بجا طور پر اس کی اہمیت و افادیت کو محسوس کرتے ہوئے، اسے انگریزی دان طبقے کے سامنے ترجمے کی صورت میں پیش کیا۔ مقامی زبانوں میں وہ کون سا مصنف ہے جس نے اقبالیات کے موضوع پر قلم اُٹھا کر اعتبار نہ پایا ہو۔ بہت سے مستشرقین نے بھی اس چراغِ فکر سے ضیا کشید کی ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے اپنے طور پر بہت محنت سے فکراقبال تک رسائی کی کوشش کی ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن کم قسمتی سے یہ کام کماحقہ نہیں ہوسکا اور اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ مستشرقین کے کام کا انتقادی و تجزیاتی مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اس کام سے نہ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ مستشرقین کا یہ کام کس معیار کا ہے بلکہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فکر اقبال کو سمجھنے میں کہاں تک ان لوگوں کو کامیابی ہوئی ہے اور کہاں کہاں انھوںنے ٹھوکر کھائی ہے۔ سلیم اللہ شاہ نے Gabriel's Wing کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ یہ کتاب معروف مستشرق این میری شمل کی ہے۔ شمل نے اردو شاعری میں بھی دلچسپی لی ہے اور خاص طور پر تصوف کی روایت کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ اقبال ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انھوںنے فکر اقبال کو مغرب میں پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سلیم اللہ شاہ نے شمل کے اس کام کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس موضوع پر کام کرتے ہوئے انھوںنے موجود وسائل سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ سلیم اللہ شاہ کی یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا عنوان ہے: ’’این میری شمل: ایک تعارف‘‘۔ دوسرے باب میں علامہ محمد اقبال (تاریخی پس منظر، حیاتِ اقبال، تصانیف اقبال کے جمالیاتی پہلو اور اقبال کے دینی محرکات) کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جبکہ تیسرے باب میں ارکانِ اسلام کی تشریح، توحید، رسالت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد)چوتھے باب میں ایمان مفصل کی توضیح(ملائکہ، الہامی کتابیں، انبیائے کرام، یومِ آخرت، تقدیر الٰہی) پانچویں باب میں فکر اقبال پر مغرب و مشرق کے اثرات اور تصوف، اور آخری باب میں مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ سلیم اللہ شاہ نے شمل کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے جہاں اختلاف کیا ہے، اس کی صرف نشان دہی ہی نہیں کی بلکہ دلائل و براہین سے اپنے موقف کو پیش کیا ہے۔ سنین کی اغلاط بظاہر معمولی نظر آتی ہیں لیکن تحقیق و تجزیے میں ان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سنین کے درست تعین کے ساتھ ہی درست نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ سلیم اللہ شاہ نے اس سلسلے میں تحقیق کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کڑی گرفت کی ہے، مثلاً شمل نے اقبال کی کتاب علم الاقتصاد کا سنہ اشاعت ۱۹۰۱ء بتایا ہے جبکہ اس کا سنہ اشاعت ۱۹۰۴ء ہے۔ شمل نے لکھا ہے کہ اقبال کو سر کا خطاب ۱۹۲۲ء میں دیا گیا جبکہ یہ خطاب ۱۹۲۳ء میں دیا گیا تھا۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی کا درمیانی وقفہ شمل کے نزدیک دو سال ہے جبکہ ان کا درمیانی وقفہ تین سال کا ہے۔ اسی طرح خود سلیم اللہ شاہ کی نظر سے بھی بعض سنین کے سلسلے میں چوک ہوئی ہے، مثلاً صفحہ۳۰ پر اقبال کی ولادت سے متعلق بحث کرتے ہوئے انھوںنے شمل کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹر شمل بتاتی ہیں کہ ۹؍نومبر۱۹۷۷ء کی روایت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے‘‘ حالانکہ ۱۸۷۷ء درست سنہ ہے۔ شمل نے مشرق میں تصوف کی روایت پر کام کیا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے تصوف کی مختلف نظریات کو جاننا اور تصوف کے بارے میں اقبال کے نظریات سے آگاہی ان کے لیے اہم موضوع تھا۔ صوفیا عام طور پر تصوف کی روایت میں وحدت و کثرت کی بحث کرتے ہیں اور شمل نے بھی اس طرز پر ان مباحث کو موضوع بنایا ہے۔ اقبال نے ان صوفیانہ افکار کی نفی کی ہے اور ان کا اندازِنظر الگ ہے جس کی جانب سلیم اللہ شاہ اشارہ کرتے ہوئے اقبال کے خط بنام خواجہ حسن نظامی محررہ ۳۰؍دسمبر۱۹۱۵ء کا اقتباس درج کرتے ہیں: صوفیا کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں بلکہ مقدم الذکر کا مفہوم خالص مذہبی ہے اور موخرالذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے۔ توحید کے مقابلے میں یا اس کی ضد(کثرت) نہیں جیسا کہ صوفیا نے تصور کیا ہے، بلکہ اس کی ضد شرک ہے۔ اقبال پر قلم اُٹھاتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ اقبال کے نظریات سے مکمل آگاہی ہو۔ علامہ کی فکر کو جاننے کے لیے قرآن مجید و حدیث سے بھی آگاہی ضروری ہے کیونکہ علامہ کی فکر کے بنیادی سرچشمے یہی ہیں۔ مصنفہ نے علامہ پر یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ مغرب کے بارے میں ان میں کسی حد تک تعصب پایا جاتا تھا۔ یہ کہنا قرینِ انصاف نہیں ہے۔ اقبال مغرب کی صرف ان خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو انھیں بنیادی انسانی اقدار کے منافی نظر آتی ہیں۔ اسلامی و مغربی تہذیب کے فرق کے ضمن میں سلیم اللہ شاہ توجہ دلاتے ہیں کہ شمل کو اس کے بارے میں غلط فہمی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: مصنفہ نے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جو اسلامی اور مغربی تہذیب کے درمیان حائل ہے۔ دراصل دونوں تہذیبوں میں اخلاقیات کے پیمانے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ بعض صورتوں میں ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام نے ہم جنس پرستی کو انتہائی قبیح فعل قرار دیا ہے جبکہ اکثر یورپی ممالک میں اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔(ص ۱۴۱) شمل نے اقبال پر ایک بے جا اعتراض کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ قرآن مجید کی غلط تاویل بھی کرتے تھے اسی طرح بعض دوسرے مفکرین مثلاً ترک دانش ور ضیا گوکلپ کے افکار میں تحریف کی ہے۔ سلیم اللہ شاہ نے شمل کے ان اعتراضات کا نہ صرف تسلی بخش جواب دیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ شمل کے ان اعتراضات پر مختلف نقادوں نے سیر حاصل بحث کی ہے اور ان کو مہمل ٹھہرایا ہے۔ مصنف نے شمل کی بعض ایسی غلطیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو اقبالیات کا عام طالب علم بھی نہیں کرسکتا۔ مثلاً بانگ درا کی نظم’’عبدالقادر کے نام‘‘ مدیر مخزن سرعبدالقادر کے نام ہے، اسے شمل نے عبدالقادر گیلانی سمجھا ہے۔ اسی طرح ارمغانِ حجاز میں اقبال کا ایک شعر ہے: تو می دانی کی سوز قراَتِ تو دگرگوں کرد تقدیرِ عمرؓ را یہ شعر علامہ نے حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے واقعے کے متعلق کہا ہے جبکہ شمل نے عمرؓ کو زندگی کے معنوں میں لیا ہے۔ شمل نے اپنی کتاب میں اگرچہ یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اقبال اور اسلام کے بارے میں انھوںنے کسی متعصبانہ روّیے کو اختیار نہیں کیا اور اپنا کام غیر جانبدارانہ طریقے سے سرانجام دیا ہے لیکن اس سلسلے میں ان سے بعض لغزشیں ضرور ہوئی ہیں۔ ان کی یہ کتاب اقبال کے بہت سے افکار کا احاطہ کرتی ہے لیکن اقبال کے افکار کو سمجھنے کا ان کا ذاتی نقطہ نگاہ ہے۔ مغرب کے سامنے اقبال کے مردِ مومن اور خودی و بے خودی کے فلسفے کو دوسروں سے اخذ کردہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا یا اقبال کے تصورات کو مغرب کی خوشہ چینی قرار دینا درست رویہ نہیں۔ اقبالیات کے بعض موضوع پر کام کے سلسلے میں اب یہ ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ بعض کام انفرادی سطح پر نہیں بلکہ مختلف علوم کے ماہرین مل کر انجام دیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ اسی طرح مستشرقین کے کام کو بھی اسی صورت میں معیاری قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ ماہرین اقبالیات کی نظر سے گزرا ہو۔ سلیم اللہ شاہ نے اپنا کام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی زیر نگرانی مکمل کیا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا اقبالیات سے لگائو نہ صرف بہت دیرینہ ہے بلکہ اس لگائو کو شدید بھی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کی کوشش ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ اقبال کے افکار کو صحیح انداز میں پیش کیا جائے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سلیم اللہ شاہ کا یہ کام قابلِ قدر اور قابلِ تحسین ہے۔ماہرین اقبالیات کو اس جانب بطور خاص توجہ دینی چاہیے کہ وہ مستشرقین کے کام کو تنقیدی و تجزیاتی اندازسے پرکھیں اور جہاں ضرورت محسوس ہو، اس کی تصحیح کریں۔ ___محمد ایوب لِلّہ ٭٭٭ ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری: اقبال: نادر معلومات۔ ناشر:خود مصنف، ہمدانیہ کالونی، بمنہ، سری نگر ۱۹۰۰۱۸، صفحات ۹۰+۳۶۹، قیمت۔؍۴۰۰ روپے حیدرآباد دکن اور سری نگر کی جامعات میں شعبۂ اردو کے سابق پروفیسر ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری بھارت کے نامور ادبی محقق، مصنف اور اقبال شناس ہیں۔ ان کی ۳۰ سے زائد کتابوں میں سے زیادہ تر میر انیس، مرزا دبیر اور میر ضمیر پر نقد و تحقیق، جن کے مراثی کی تدوین اور بعض ادبی تذکروں کی تدوین پر مشتمل ہیں۔ پانچ کتابیں انھوں نے اقبال پر بھی شائع کی ہیں ان میں اقبال کی صحت زبان اور کلامِ اقبال جیسی معلومات افزا اور مفید کتابیں شامل ہیں۔ مزید دو کتب زیرِ اشاعت ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ان کی دو کتابیں اقبال پر ان کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں۔ یہ دونوں مجموعے بڑے اہتمام سے اور بصرفِ زرِکثیر چھاپے گئے ہیں۔ اقبالیات کی کم ہی کتابوں کو ایسا خوبصورت ظاہری اور خوش نما پیکر نصیب ہوا ہوگا۔ فقط فقیر سید وحید الدین کی روزگار فقیر یا پھر اقبال اکادمی کے کلیاتِ اقبال اردو اڈیشن میں یہ اہتمام نظر آتا ہے۔ زیرِ نظر مجموعے اور اس کے ساتھ ہی شائع ہونے والے دوسرے مجموعے اقبالیات کے نئے گوشے کاہر صفحہ بطور تذہیب چوگوشیہ حاشیے اور رنگین بیل سے مزین ہے۔ ڈاکٹر حیدری خوش قسمت ہیں کہ انھیں نیویارک میں مقیم، ایک دل دادۂ شعر و ادب ڈاکٹر عبدالرحمن عبد کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ ڈاکٹر حیدری نے دیباچے میں بجاطور پر ان کی توجہ کا ذکر کرتے ہوئے دونوں کتابوں کا انتساب نہایت ’’حسن عقیدت اور مسرتوں کے ساتھ‘‘ عبد صاحب سے کیا ہے اور ان کتابوں کی زینت آرائی کے لیے موصوف کا مختصر پیغام بھی دیباچے میں شامل کیا ہے۔ ۹۰+ ۳۶۹ صفحات پر مشتمل پر یہ ضخیم اور حسین و جمیل مجموعہ ۱۰ مضامین پر مشتمل ہے۔ بظاہر ہر مضمون اپنے موضوع پر نہایت مفصل اور سیر حاصل ہے۔ اور بعض موضوعات بھی نسبتاً نئے معلوم ہوتے ہیں لیکن ان مضامین کامطالعہ کرتے ہوئے اقبالیات کا قاری تقریباً ہر مضمون میں پیشِ پا افتادہ معلومات کی تکرار سے بدمزہ ہوتا ہے۔ کوئی نیا نکتہ، نئی بات یا تنقیدی بصیرت کا کوئی نمونہ نہ پاکر مایوسی ہوتی ہے۔ فقط دو تین نکات نئے معلوم ہوتے ہیں، جو حواشی میں مذکور ہیں(ان کا ذکر آیندہ آئے گا)۔ سب سے زیادہ کھٹکنے والی چیز ان مضامین کی غیر معمولی طوالت، موضوع سے غیر متعلق معلومات و مباحث اور ان میں ہر طرح کے رطب۔ویابس کی شمولیت ہے۔ ڈاکٹر حیدری کا طرزِ تحریر اختصار اور جامعیت کے بجائے پھیلائو اور طوالت کا ہے۔ یہ ڈاکٹر اکبر حیدری کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں لکھنؤ میں راجا صاحب محمودآباد کے بے مثال کتب خانے تک رسائی حاصل ہوئی اور مذکورہ کتب خانے سے انھوں نے بہت سے علمی و ادبی گہرپارے دریافت کرکے، ان کی بنیاد پر مضامینِ نو کے انبار لگا دیے۔ کسر تھوڑی سی یہ رہ گئی کہ انھوں نے اپنی دریافت اور حاصل ہونے والی ہر چیز کو ’’نادر و نایاب‘‘ سمجھا۔ انھوں نے تأمل نہیں کیا اور جواہر کو خذف ریزوںسے الگ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی یا سعی نہیں کی، اس کے باوجود ان کی بعض دریافتیں قابل قدر ہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں ہمیں اقبالیات کے ضمن میں کچھ ’’نئے نکات‘‘ ملتے ہیں، مثلاً : ۱- عطیہ فیضی، سر اکبر حیدری کی چھوٹی سگی بہن تھی۔ یہ بات حیدری صاحب نے ادیب الٰہ آباد (جون۱۹۱۳ئ) کے ایک مضمون کی بنیاد پر کہی ہے (ص۲۹۰)۔ مگر کیا فقط ایک مضمون (جس کے لکھنے والے کا نام بھی نہیں معلوم) کی بنیاد پر یہ دعویٰ درست ہوگا؟ ۲- مضمون نمبر ۱۱ ’’اقبال کا ایک شاگرد‘‘ بھی بظاہر ایک نئے موضوع پر ہے۔ اس میں پنڈت چاندنرائن چاندؔ کے حالات کے ساتھ ان کے کلام کے کچھ نمونے دیے گئے ہیں۔ اقبال سے چاندؔ کے تلمذ کا معاملہ، فقط ایک مصرعے میں تبدیلی تک محدود ہے۔ (ہاں، ان کے والد کنورنرائن، گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبال کے شاگرد تھے اور داداشیو نرائن شمیم اپنے بقول گاہے گاہے اقبال سے نظم میں اصلاح لیا کرتے تھے۔ بہرحال) یہ مضمون ہماری راے میں اقبالیات کی بجاے، ’’متعلقاتِ اقبالیات‘‘ میں شمار ہونا چاہیے۔ زندہ رود (اڈیشن ۲۰۰۴، ص۳۵۵) میں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے چاندؔ کا ذکر کیا ہے، اس اعتبار سے اکبر حیدری صاحب کی حیرت بے جا ہے کہ ’’کسی نے پنڈت چاندنرائن چاند شاگردِ اقبال کا نام تک نہیں لیا‘‘ (ص۲۹۹) ۳- ’’اقبال اور یادگار دربار ۱۹۱۱ئ‘‘ کے زیر عنوان مضمون بھی بظاہر نیا ہے۔ حیدری صاحب کا کہنا ہے کہ ’’اس میں اقبال کے بارے میں بعض نئی باتوں کا اظہار کیا گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے کتاب یادگار دربار ۱۹۱۱ئ، حصہ دوم سے اقبالیات کے جو حالات نقل کیے ہیں، ان میں کوئی بھی نئی بات نہیں۔ دو باتیں ’’نئی‘‘ ہیں اور غلط بھی ہیں۔ ایک یہ کہ قیامِ یورپ کے دوران میں، جرمنی سے واپس انگلستان پہنچ کر اقبال نے ’’لندن کے سکول آف پولیٹکل سائنس میں داخل ہوکر بڑے بڑے علما سے استفادہ کیا۔‘‘ دوسرے یہ کہ ’’اقبال نے یورپ سے بے شمار علمی اعزاز عربی، فارسی، سنسکرت کے علاوہ یورپ کی کئی زبانوں میں بھی حاصل‘‘ کیے۔ دونوں باتیں زیبِ داستان ہیں، ان کی کوئی سند نہیں، نہ کسی مستند سوانح نگار کے ہاںان کا ذکر ملتا ہے۔ ۴-اقبال کے سوانح سے متعلق انھوں نے دو ’’نئی باتیں‘‘ کہی ہیں۔ اول: اقبال سپرو نہیں تھے۔دوم: والدِ اقبال کا نام شیخ نور محمد نہیں تھا۔ دونوں نکات پر ڈاکٹر جاوید اقبال بحث کرچکے ہیں۔ مگر حیدری صاحب ’’میں نہ مانوں‘‘ کے مصداق اپنے موقف پر قائم ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، ان ’’نئی باتوں‘‘ میں، وہ اقبال سے بُغض و کدورت رکھنے والے، بھارت ہی کے ایک قلم کار محمد عظیم فیروز آبادی کے ہم نوا نظر آتے ہیں۔ اوپر ہم نے ڈاکٹر حیدری کے ہاں غیر معمولی طولِ کلام کا ذکر کیا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ طولِ کلام، ان کے ہاں کوئی علمی ضرورت یا تقاضا نہیں، بلکہ ان کی افتادِ طبع کا ایک پہلو ہے،مثلاً مقدمے ہی کو لیجیے۔ ۸۱صفحات کی یہ طویل کتھا قاری کے لیے کوفت کا باعث ہے۔ حیدری صاحب نے پہلے چھے صفحات میں اپنی سابقہ کتابوں کی تعریف میں مکتوبات اور تبصرے وغیرہ نقل کیے ہیں۔ پھر زیرنظر کتاب کا تعارف شامل ہے، بلکہ دوسرے مجموعے اقبالیات کے نئے گوشے کے مضامین کا مفصل تعارف بھی اسی مقدمے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اقبال کے بارے میں رسائل و اخبارات سے دستیاب شدہ ۵۶صفحات پر مشتمل متفرق معلومات بھی یہیں درج کردی ہیں۔ دل۔چسپ بات یہ ہے کہ ۸۱صفحات کا یہ مقدمہ‘ جو ان کی دونوں کتابوں کا مشترکہ مقدمہ ہے، جوں کا توں ان کی دوسری کتاب اقبالیات کے نئے گوشے میں بھی شامل ہے۔ طوالت کا گُر گوئی حیدری صاحب سے سیکھے۔ پہلا مضمون نواب ذوالفقار علی خاں اور ان کی پہلی تصنیف کے بارے میں ہے۔ ۱۰۲ صفحات میں سے ۲۴ صفحے، نواب موصوف کے حالات اور کچھ متعلقہ حواشی پر مشتمل ہیں۔ حیدری صاحب نے لکھا ہے کہ نواب مرحوم کے حالاتِ زندگی کے لیے انھوں نے تین کتابوں یادگارِ دربار، زمانہ کان پور اور اقبال بنام شاد سے استفادہ کیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ حیدری صاحب کے ذہن میں لفظ ’’استفادہ‘‘ کا کیا مفہوم ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ انھوں نے یہ سارے کا سارا حصہ اقبال بنام شاد سے جوں کا توں اور مِن۔وعن نقل کرلیا ہے اور کوئی ایسی علامت درج نہیں کی (مثلاً واوین کا استعمال یا اقتباس وغیرہ) جس سے معلوم ہو کہ یہ حیدری صاحب کی نہیں، عبداللہ قریشی کی تحریر ہے۔٭ کہیں کہیں جملوں کو آگے پیچھے کیا ہے یا اِکا دُکا جملے یا کسی لفظ کو تبدیل کیا ہے۔ ہاں، عبداللہ قریشی نے ایک جگہ انگریزی عبارت کا اردو ترجمہ دیا ہے تو حیدری صاحب نے وہاں انگریزی عبارت بھی دے دی ہے۔ دو عبارتیں محمد حنیف شاہد کی کتاب اقبال اور انجمن حمایتِ اسلام اور محمد رفیق افضل کی کتاب گفتارِ اقبال سے اخذ کی گئی ہیں مگر بڑی ’’دیانت داری‘‘ سے ان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس مضمون کا دوسرا حصہ نواب مرحوم کی کتاب کا متن ہے، جسے حیدری صاحب نے طبع اولین کا عکس قرار دے کر پیش کیا ہے۔ اسے طبع اول کا عکس قرار دینا فقط ایک بناوٹ ہے۔ دراصل یہ طبع دوم مطبوعہ اقبال اکادمی پاکستان، کراچی (۱۹۶۶ئ) کا عکس ہے۔ وہی صفحات ہیں، وہی کمپوزنگ، ہر صفحے کی وہی یکساں سطریں، صفحات کی تقطیع کو البتہ قدرے چھوٹا کردیا گیا ہے۔ اقبال اکادمی نے اسی کا عکس ۱۹۸۲ء میں دوبارہ بھی شائع کیا۔ یہ دونوں اشاعتیں عام طور پر دستیاب ہیں اور حیدری صاحب کے دعوے کی نفی کرتی ہیں۔ اقبال اکادمی کے مذکورہ نسخے کے شروع میں طبع اول (۱۹۲۲ئ) کے سرورق کا عکس دیا گیا ہے۔ حیدری صاحب نے یہی عکس ص۲۷ پر نقل کرلیا ہے، اس عکس میں کتاب خانہ ٔاقبال اکادمی کی گول مہر صاف چغلی کھا رہی ہے کہ حیدری صاحب کے دعوے (’’راقم الحروف کو یہ نسخۂ اولین بڑی مشکل سے دستیاب ہوا‘‘) کی حقیقت کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے مضمون ’’اقبال اور خان بہادر مرزا سلطان احمد‘‘ میں بھی اپنے تئیں ’’ایک نئی دریافت‘‘ کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ یہ’’دریافت‘‘ مرزا سلطان احمد کے رسالے النظر کی ہے جو ۱۹۱۹ء مرغوب ایجنسی لاہور سے چھپا تھا۔ اکبر حیدری کے یہ دعوے: نہ تو علامہ نے اور نہ کسی ماہر اقبال نے بھولے سے بھی اس کتاب کا نام لیا ہے۔‘‘ (ص۱۳) یا اس کتاب سے ’’ماہرین اقبالیات واقف نہیں ہیں۔‘‘ (ص۷۷) یا ’’مرزا صاحب کے اس گوہر نایاب اور بیش قیمت دُرِّیتیم کا نام و نشان اقبالیات میں مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔‘‘ (ص۹۸) محل نظر ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ محمد اسماعیل پانی پتی نے اکتوبر۱۹۶۷ء کے مجلہ اقبال لاہور میں اس کتاب کا تعارف کرانے کے ساتھ، اس کا پورا متن بھی شائع کردیا تھا۔ اس سے قبل اسلم جیراج پوری تو اس کا ذکر کرہی چکے تھے۔ مزید برآں راقم الحروف کی مرتبہ کتابیات اقبال (۱۹۷۷ئ) میں اس کتاب کا حوالہ پورے کتابیاتی کوائف کے ساتھ موجود ہے (ص۱۱۲) شیخ اسماعیل پانی پتی نے ان کے مختصر حالات بھی تعارف میں شامل کیے ہیں۔ اس صورت حال میںیہ کہنا کس قدر مبالغہ آمیز ہے کہ ’’اقبالیات میں ان کا نام مفقود نظرآتا ہے۔‘‘(ص۷۷) اور النظر کی تلاش کے ضمن میں انھوں نے اپنی جس محنت شاقہ اور کتب خانوں کی خاک چھاننے کا ذکر کیا ہے، اس کی حقیقت ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ ۲۶ صفحات پر مشتمل اس مضمون میں صرف ۸صفحات (۷۷۔۷۸ اور ۹۷تا ۱۰۲) موضوع سے کسی قدر متعلق نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بھی تین صفحات النظر کے اقتباسات پر مشتمل ہیں۔ مضمون کے ساتھ النظر کے سرورق کا عکس دیا گیا ہے اور مصنف کی ایک رنگین تصویر بھی شامل ہے۔ مضمون کا باقی حصہ مرزا سلطان احمد کی چند غیر اقبالیاتی تصانیف اور تحریروں پر مشتمل ہے۔ جن کا موضوع سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’’اقبال شناس طارق لاہوری‘‘ نسبتاً ایک نیا موضوع محسوس ہوتا ہے۔ جسے عبدالرحمن طارق کے کلام اور ان کی بعض تصانیف کے دیباچوںکے لمبے لمبے اقتباسات سے گراں بار بنایا گیا ہے۔(۳۷صفحات) عبدالرحمن طارق کی جن تصانیف کا انھوں نے سیر حاصل تعارف کرایا ہے، وہ سب عام طور پر لائبریریوں میں مل جاتی ہیں اور بعض کتابیات میں بھی ان کا ذکر ملتا ہے۔ ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری کے بعض بیانات خلافِ واقعہ ہیں یا کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں، مثلاً: ۱- ’’ڈاکٹر اقبال اور خواجہ غلام السیدین‘‘ میں سیدین کی معروف کتابIqbal's Educational Philosophy کے ایک ترجمے کا ذکر کیا گیا، (اقبال کا تعلیمی فلسفہ، ۱۹۴۰ئ، شیخ محمد اشرف،لاہور) یہ بھی فقط زیبِ داستان ہے۔ زمانہ کان پور میں انگریزی کتاب ہی پر تبصرہ کیا گیا تھا، جیسا کہ مبصر نے لکھا ہے : ’’خواجہ غلام السیدین نے کلامِ اقبال کو جدید نقطہ نظر سے دیکھا ہے اور انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھ کر ان کے فلسفۂ تعلیم پر نہایت عمدگی سے روشنی ڈالی ہے۔‘‘ ۲- متذکرہ مضمون کے ایک حاشیے (ص۱۸۸، نمبر۴۵) میں اقبال نامہ، اول(مرتب: شیخ عطاء اللہ) کا سنہ اشاعت ۱۹۴۵ء بتایا گیا ہے۔کتاب پر اشاعت درج نہیں، مگر اس کی اشاعت ۱۹۴۴ء میں عمل میں آئی نہ کہ ۱۹۴۵ئ، (دیکھیے: راقم کی کتاب تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ص ۲۱۶ اور ایک عکس ص ۵۵۳) ۳- ص۹ اور پھر ص ۱۳۶ پر ڈاکٹر صابر کلوروی کے مرتبہ مجموعے کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال (لاہور، ۲۰۰۴ئ) کو اُن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ قرار دیا گیا ہے۔اگر حیدر ی صاحب، کلوروی صاحب کے دیباچے کا پہلا جملہ ہی پڑھ لیتے: ’’کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال (اردو) پیش خدمت ہے۔ یہ کلیات، میرے پی ایچ ڈی کے مقالے باقیاتِ شعرِ اقبال: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کا حاصلِ ضمنی (By-Product) ہے۔‘‘ تو وہ اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے۔ اس دیباچے میں کلوروی صاحب نے، اپنے مقالے کی الگ موعودہ اشاعت کا کئی بار ذکر کیا ہے۔ ۴- ص ۳۰۳ پر حیدری صاحب لکھتے ہیں: ’’۱۹۰۸ء میں اقبال اور پنڈت کنورنرائن رینہ دونوں لندن سے لاہور واپس آگئے۔ اقبال نے کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر رہنے کے بعد لاہور چیف کورٹ میں وکالت کرنا شروع کی۔‘‘ صحیح صورت یہ ہے کہ اقبال نے قیامِ انگلستان کے دوران ہی ۱۹۰۸ء میں گورنمنٹ کالج کی ملازمت سے استعفا لکھ بھیجا تھا۔ جولائی ۱۹۰۸ء میں واپس وطن آتے ہی، تعطیلات کے بعد چیف کورٹ میں وکالت کرنے لگے۔ (زندہ رود، ص ۱۷۱، ۲۰۰۴ ء اڈیشن) ۵- ص۳۰۲ پنڈت کنور نرائن رینہ (لِنکز اِنْ میں اقبال کے ہم جماعت) کے حوالے سے اقبال کے ۴شعر نقل کرکے کہا گیا ہے کہ ’’یہ اشعار اقبال کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔‘‘ عرض ہے کہ کلیات باقیاتِ اقبال کے ص۳۴۳۔۳۴۴ پر، ان میں سے تین شعر (دولفظوں کے اختلاف کے ساتھ) موجود ہیں۔ شعر۲ میں ’’رہتا‘‘ کی جگہ ’’جیتا‘‘ اور آخری شعر میں ’’قرض‘‘ کی جگہ ’’ فرض‘‘ ہے۔ غلطی کا صدور، بڑے سے بڑے مصنف اور محقق سے بھی ہوسکتا ہے۔ مگر دانستہ غلط بیانی ناقابل معافی ہے۔ افسوس ہے کہ حیدری صاحب کہیں کہیں صریح غلط بیانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور یہ ذکر آچکا ہے کہ نواب ذوالفقار علی خاں پر پورا مضمون انھوں نے’’استفادہ‘‘ کے نام پر محمد عبداللہ قریشی کے ہاں سے نقل کرلیا۔ دوسری مثال مہاراجا کشن پرشاد شاد اور اقبال پر مضمون کی ہے۔ اس میں بھی انھوں نے شاد کے حالاتِ زندگی محمد عبداللہ قریشی کی کتاب اقبال بنام شاد کے دیباچے سے بلا حوالہ نقل کرلیے ہیں۔ یہاں ’’استفادہ‘‘ کے ذکر کا تکلف بھی نہیں کیا۔ اسی طرح کی ایک اور مثال مضمون ’’اقبال شناس، طارق لاہوری‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ ص۱۹۲ پر حیدری صاحب نے عبدالرحمن طارق کی ۱۸ کتابوں کی فہرست دیتے ہوئے یہ غلط بیانی کی کہ یہ ’’میری نظر سے گزری ہیں۔‘‘ ان میں سے بیشتر کتابوں کے ساتھ انھوں نے ناشر کا نام اور سنہ اشاعت دیا ہے، مگر چند کتابوں کے صرف نام دیے ہیں، مثلاً نکاتِ اقبال، تبرکاتِ اقبال، اقبال اور خدمتِ قرآن، مثنویاتِ اقبال، وغیرہ۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کتابوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ راقم کو تیس سالہ تلاش میں، ان میں سے کوئی کتاب کہیں سے دستیاب نہیں ہوئی، جب یہ چھپی ہی نہیں تو دستیاب کیسے ہوتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ طارق کی بعض کتابوں کے آخر میں، ان کی بعض آیندہ اور موعودہ کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔ حیدری صاحب نے وہاں سے ایسی عنقا کتابوں کے نام نقل کرکے ان پر ’’میری نظر سے گزری ہیں۔‘‘ کی مہر ثبت کردی ہے۔ یہ رویہ ایک ایسی افتادِ طبع کا نتیجہ ہے جو ہر بات کو مبالغہ آرائی کے ساتھ، بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی عادی ہوتی ہے۔ (طولِ کلام بھی اسی مبالغہ آمیزی کا شاخسانہ ہے) مثلاً مرزا سلطان احمد کی تالیف النظر کی تلاش اور دستیابی کے ضمن میں نہایت مبالغہ آمیز اور ڈرامائی بیانات دیے گئے ہیں کہ میں سالہا سال سے اس کی تلاش میں تھا، میں نے کئی لوگوں سے رابطہ کیا، ہندوستان کے تمام کتب خانوں کی خاک چھان ڈالی (ص۷۸، ۹۸ وغیرہ) اپنے ایک اور مضمون میں فرماتے ہیں: ’’مجھے اس بات پر فخر و امتیاز حاصل ہورہا ہے کہ پچاسی سال کے بعد، میں نے جناب سلطان احمد کے اس گوہر نایاب کو برسوں خاک چھان کر ڈھونڈ نکالا، یہ دُرِّ یتیم مجھے اقبالیات کے اس بحرزخّار یعنی لاہور میںدستیاب ہوا، جہاں ماہرین اقبالیات کی فوجِ ظفر موج لاکھوں کی تعداد میں سالہا سال سے اُبھر رہی ہے۔‘‘ حقیقت فقط اتنی ہے کہ النظر کوئی عنقا شے نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے برسوں پہلے اس کا متن مجلہ اقبال میں شائع کروایا تھا۔ لاہور میں اس کے متعدد نسخوں میں سے ایک، اقبال اکادمی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ حیدری صاحب کی فرمایش پر اُنھیں بلاتاَمل اس کا عکس بھیج دیا گیا تھا اور یقینی طور پر یہی عکس، ان کے متذکرہ مضمون کی بنیاد ہے۔(ص۷۶-۷۷ پر النظر کے مہرلگے سرورق کا عکس اس کا ثبوت ہے۔) حیدری صاحب نے اس سلسلے میں لاہور کے ماہرین اقبالیات پر طعن تو توڑا ہے، مگر افسوس ہے انھوں نے اصل ماخذ: اقبال اکادمی کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا، حالانکہ اقبال اکادمی کسی کتاب یا رسالے کے لیے ان کی ہر فرمایش بلا تاَمل پوری کرتی ہے۔ آخری بات: فاضل محقق جب کبھی اپنے بقول کوئی ’دُرِّ نایاب‘ دریافت کرکے ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں تو دوسروں کے لیے بڑا تحقیر آمیز اور ناشائستہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں، مثلاً: ۱- ’’ستم بالائے ستم یہ کہ النظر کا مکمل نسخہ مجھے لاہور ہی میں ملا جہاں ماہرین اقبال کی فوجِ کثیر ہمہ وقت خیمہ زن ہے‘‘ (ص۱۳) ۲- ’’آخر کار اقبال کے ہی وطن مالوف لاہور میں، جہاں ماہرینِ اقبال کی فوج ظفر موج کا سیلاب ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے، اس کا مکمل نسخہ ملا۔‘‘ (ص۹۸) ۳-’’ آخرکار جویندہ یا بندہ کے مصداق اس کتاب کا ایک مکمل نسخہ اقبال کے وطن مالوف لاہور، جہاں ماہرین اقبال کی فوج ظفر موج رہتی ہے، دستیاب ہوا‘‘۔ (ص۷۸) ۴- ڈاکٹر حیدری کہتے ہیں کہ اقبال کے والد گرامی کا نام شیخ نتھو تھا۔ اب جن لوگوں نے حیدری صاحب کے موقف کی تائید کی وہ تو ’’ایمان دار‘‘ قرار پائے؟ (ڈاکٹر گیان چند) اور جو حیدری صاحب سے متفق نہیں ہے وہ ’’کم ظرف اور نگاہِ غلط انداز والے نام نہاد ماہرین اقبالیات‘‘ ٹھہرتے ہیں۔ (ص۱۱۹) ۵- حیدری صاحب شّد و مد سے کہتے ہیں کہ اقبال کا تعلق کشمیر اور پنڈتوں کے سپرو خاندا ن سے نہیں تھا۔ چونکہ سب سے پہلے یہ بات محمد دین فوق نے لکھی تھی، اس لیے ان کے نزدیک فوق صاحب ’’اپنی کتابوں میں غلط واقعات بیان کرنے کے عادی‘‘ ہیں۔ (ص۳۱۶) فوق کی ’’دروغ گوئی‘‘ کے سلسلے میں حیدری صاحب لکھتے ہیں: ’’فوق نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اقبال کو سپرو اور پنڈت تیج سپرو کو خوش کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کی۔ فوق کی ان غلط باتوں کو بعد میں نام نہاد ماہرینِ اقبالیات نے حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔پروفیسر آل احمد سرور اور جگن ناتھ آزاد اس کاروانِ دروغ گوئی کے ہر اول دستوں میں ہیں۔‘‘ (ص۳۱۷) آگے چل کر حیدری صاحب نے اپنے موقف سے اختلاف کرنے والوں کو صاف صاف دروغ گو قرار دیا ہے۔ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آپ کے موقف سے متفق نہیں ہے تو اسے ’’لغو گو اور دروغ گو‘‘ قرار دینا یا ’’نام نہاد‘‘ ماہرین اقبالیات کا طعنہ دینا کوئی علمی رویہ نہیں ہے۔ اس بات کا فیصلہ اگر آج نہیں تو کل ضرور ہوگا اور یہ فیصلہ تاریخ کرے گی کہ اقبال اور اقبالیات سے اِخلاص رکھنے والے کون تھے اور ’’نام نہاد‘‘ کون تھے۔ ___رفیع الدین ہاشمی ٭٭٭ مولوی احمد دین: اقبال (مرتبہ: مشفق خواجہ)۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان لاہور، صفحات ۵۳۰ قیمت۔؍۴۰۰روپے زیرِ نظر کتاب کا شمار اقبالیات کی اولیات میں ہوتا ہے۔ یہ شرفِ تقدم اس کتاب کی انفرادیت کا ایک اہم پہلو ہے۔ اقبال کے شعری ارتقا‘ ان کی اردو شاعری کے پس منظر اور شعری کارناموں کو محیط یہ پہلی باضابطہ کتاب اقبالیاتی ادب میں خشتِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب بانگ درا کی طباعت و اشاعت سے قبل ۱۹۲۳ء میں طبع ہوئی مگر اس کی اشاعت اقبال کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکی۔اس میں اقبال کا بہت سا اردو کلام درج تھا۔ شاید علامہ کو خیال گزرا ہو کہ اس سے ان کے موعودہ مجموعے کی فروخت متاَثر ہوگی۔(تفصیل کتاب میں درج ہے) مولوی احمد دین کو اقبال کی ناپسندیدگی کا علم ہوا تو انھوں نے اپنی کتاب کے تمام نسخے نذرِ آتش کر دیے۔ حسنِ اتفاق سے کتاب کے دو نسخے ضائع ہونے سے بچ گئے۔ چنانچہ اقبال کے پہلے اردو مجموعہ کلام بانگ درا کی ۱۹۲۴ء میں اشاعت کے بعد ۱۹۲۶ء میں مولوی احمد دین نے اپنی کتاب اقبال ترامیم اور تبدیلیوں کے بعد شائع کرا دی۔ طباعت اول، ۴۳۲ جب کہ طبع دوم محض ۲۸۴ صفحات پر مشتمل تھی۔ مولوی احمد دین کی اس نایاب کتاب کی طبع سوم کی اشاعت اردو دنیا کے فرہاد صفت محقق مشفق خواجہ کا کارنامہ ہے۔ اُنھیں خاصی تحقیق و تلاش کے بعد، طبع اول کا ایک بوسیدہ نسخہ میسر آیا جس کے بعض مباحث مولوی احمد دین کی کتاب طبع دوم میں شامل نہیں تھے۔ چنانچہ مشفق خواجہ نے پہلے تلف شدہ اڈیشن کے محفوظ رہ جانے والے ایک نسخے اور ۱۹۲۶ء کے مطبوعہ نسخے کی مدد سے اختلافِ نسخ، حواشی، تعلیقات اور مفصل مقدمے کے ساتھ، مولوی احمد دین کی یہی کتاب انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام ۱۹۷۹ء میں کراچی سے شائع کرا دی۔ خواجہ صاحب کی مرتبہ اس کتاب کو طبع سوم کو حیثیت حاصل ہے۔ کتاب کی نئی ترتیب اور تہذیب مشفق خواجہ کے دیگر تحقیقی کارناموں کی طرح، دنیاے تحقیق کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ کتاب کی اس تیسری اشاعت کے نسخے اب کتب فروشوں کے یہاں موجود نہیں تھے۔ مشفق خواجہ کی خواہش تھی کہ اقبال اکادمی کتاب کی اشاعتِ نو کا اہتمام کرے۔ اقبالیا ت کے طلبہ کو نوید ہو کہ اس سال (۲۰۰۶ئ) اقبال اکادمی پاکستان کے زیر اہتمام اسی کتاب کی طبع چہارم منصۂ شہود پر آگئی ہے۔ طبع چہارم گذشتہ تین طباعتوں سے، اس حوالے سے مختلف اور منفرد ہے کہ اس میں اقبال کے متخصص ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ’’معروضات‘‘ اور ’’توضیحات‘‘کے زیر عنوان کتاب کی چوتھی اشاعت کا مختصر اور جامع پس منظر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اقبال سے متعلق مولوی احمد دین کے بعض بیانات کی تصحیح بھی کردی ہے۔ طبع چہارم میں مشفق خواجہ کا لکھا دیباچہ اور مولوی احمد دین کی حیات و ادبی خدمات پر مشتمل مقدمہ بھی شامل ہے۔ مشفق خواجہ کا لکھا یہ مقدمہ ان کی تحقیقی اور تنقیدی ژرف نگاہی کی بہترین مثال ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے: احمد دین کی یہ کتاب ایک اہم تنقیدی کارنامہ ہے۔ اردو میں یہ عملی تنقید کی پہلی مستقل تصنیف ہے۔ اس کے حوالے سے احمد دین کا شمار اردو کے ممتاز نقادوں میں ہونا چاہیے۔ لیکن اردو تنقید کی تاریخ لکھنے والوں نے احمد دین کو کبھی قابل التفات نہیں سمجھا…ا حمد دین تنقید میں تشریحی و تاَثراتی انداز اختیار کرتے ہیں لیکن وہ اقبال کو اس کے عہد اور ماحول سے الگ کرکے نہیں دیکھتے۔ علامہ اقبال کے پہلے ناقد مولوی احمد دین کی سوانح اور علمی کارناموں کے حوالے سے قلم بند کیا گیا مقدمہ اپنے دامن میں ایک مکمل کتاب کا مواد لیے ہوئے ہے۔ مقدمے کے حوالے اور حواشی کے بعد ڈاکٹر ہاشمی نے ایک صراحت کے زیر عنوان ڈاکٹر معین الدین عقیل کی اس رائے سے اختلاف کیا ہے کہ آئینہ جاپان بھی مولوی احمد دین کی تصنیف ہے۔ اقبال کی طبع چہارم میں اقبال طبع اول کے پہلے صفحے اور دوسرے صفحے کا عکس، اقبال طبع دوم کے سرورق، مسودہ مصنف اور پہلے صفحے کے ابتدائی حصے کے علاوہ، آخری صفحے کا عکس اضافی خوبیاں ہیں جو کتاب کی تحقیقی وقعت میں اضافے کا باعث ہیں۔ اقبالیاتی ادب کی اس پہلی کڑی کی تازہ اشاعت، اقبالیات کے طالب علموں کے لیے ایک گراں قدر علمی سوغات سے کم نہیں۔ ___غفور شاہ قاسم ٭٭٭ ڈاکٹر محمد امین: اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکمش،بیت الحکمت، کتاب سرائے،اردو بازار، لاہور ،صفحات۲۱۳، قیمت۔؍۱۳۰ روپے دور حا ضر کے ایک بہت ہی اہم موضوع یعنی اسلام اور مغرب کے باہمی ربط و تعلق پر ڈا کٹر محمد امین کی تحقیقی اور تجز یاتی تصنیف اسلام اور تہذ یب مغرب کی کشمکش منظر عام پر آئی ہے۔اس کتا ب میں اس مو ضوع کے مختلف پہلؤو ں کا احا طہ کیا گیا ہے۔اسلام اور تہذیب مغرب کا با ہمی تقا بل اورتجز یہ، اس د ور کے چند ایک بہت ہی اہم موضو عات میں سے ایک مو ضو ع ہے۔مغرب کو دیکھنے اوراس کی تہذیب کا جا ئزہ لینے کے کئی تنا ظرات اور منا ہج ہما رے ہاں را ئج ہیں۔ ایک یہ کہ مغربی تہذ یب کو کلیتہً رد کر دیا جائے، کیونکہ یہ اپنی ساخت،بنیاد،فکر، طرز عمل اور اثرات کے لحا ظ سے اسلا می تہذ یب کے بالکل بر عکس اور اس سے متصا دم ہے۔دو سرا رویہ مغربی تہذ یب کو قبول کر لینے کا ہے۔یہ معا شرے کے اس طبقے کا رویہ ہے جس کے نز دیک دور جدید کے تقا ضوں کو پورا کر نے اور تر قی کے سفر میں آگے بڑھنے کے لیے یہ ضرو ری ہے کہ ہم مغرب کی ہر اس بات کو قبو ل کر یں اور اپنا لیں جو بنظر ظاہر مغرب کی ترقی کا سبب نظر آ تی ہے۔جبکہ تیسر ا رویہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب سے مفا ہمت اختیار کی جا ئے۔ مصنف نے اپنی کتا ب میں ان تینوں نقطہ ہائے نظر کا تفصیلی جا ئزہ لیتے ہوئے ان کاتجزیہ پیش کیا ہے اور حاصل بحث کے طور پر اس حق میں دلا ئل دیے ہیں کہ ہمیں مغربی تہذ یب کو کلیتاً رد کر دینا چاہیے۔کیونکہ اس کے فکری احساسات اور ورلڈویوہماری فکری بنیا داور ورلڈ ویو کے بالکل متضاد ہے۔اگر ہم مغربی تہذ یب کو قبو ل کر کے اس کی پیروی کریں گے تو اس کا نتیجہ دنیا اور آخرت میں نا کامی کی صورت میں نکلے گا۔مصنف کے نز دیک اس دنیا میں ہما ری کا میا بی اور آخرت میں فلا ح کا مؤثر اور منزل آفر یں را ستہ صرف اورصرف یہ ہے کہ ہم اپنے نظریۂ حیات کے سا تھ محکم طورپر وا بستہ ہو جا ئیں جو کہ اسلا م میں ہے۔اوراس کے تقا ضوں کے مطا بق اپنی زند گی بسر کر یں۔ تاہم مغر بی تہذ یب کے رد کی بات کر تے ہو ئے مصنف اس امر کی وضا حت بھی کرتے ہیں کہ اس سے مراد مغرب سے سیا سی، معاشی یا عسکری جنگ ہر گز نہیںبلکہ ہمیں ہر سطح پر مغرب کے ساتھ مفاہمت اور مکا لمے کا طریقہ اختیا ر کر نا ہوگاتا کہ ہم کسی کشمکش میں الجھے بغیر اپنے نظریۂ حیا ت کے مطا بق اپنی زندگی کو آگے بڑ ھا سکیں۔تاہم یہ مفا ہمت ہما را مطلق طرز عمل نہیں ہو گی کہ اگر کسی مسلم ملک پر حملہ بھی ہو تو اس کی مز احمت و مدافعت نہ کی جا ئے، نہیں بلکہ اپنے وجود اور نظر یے کی حفا ظت ہمیں ہر قیمت پر کر نا ہے جس کی اجا زت ہمیں دنیا کا ہر قا نون دیتا ہے۔مغرب کے بارے میں مسلم دنیا میں را ئج رویوں کا تجز یہ اور اس کے بعد مصنف کی اپنی رائے گو ان کے ایما نی جذبے کی غماز ہے تاہم یہ امر بہت ہی قا بل غور ہے کہ اس مو ضو ع پر آنے والی اکثر تحریر یں ہما ر ے نظریا تی مؤقف کو بیان تو ضرور کرتی ہیں لیکن اس کی عملی مشکلات کا احاطہ کر نے سے قا صر رہتی ہیں۔ تہذیبوں کے تصا دم کے نظریے کا آغاز سیمو ئل ہن ٹنگٹن کے مقالے ’’تہذیبو ں کا تصا دم‘‘ اور فرانسس فوکو یاما کی تحریروں سے ہوا۔اس نظریہ کو آگے چل کے فرانسس فوکو یاما نے اپنی کتا ب تاریخ کا خاتمہ اور آخری آدمی میں مزید حتمی شکل دی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سیموئل ہن ٹنگٹن اور فوکویا ما کی تصانیف کا کما حقہٗ جوا ب ابھی تک مسلم دانشورو ں پر ایک قرض ہے۔اگر ہم سیموئل ہن ٹنگٹن کی تصنیف تہذیبوں کا تصادم اور نیا عالمی نظام کا جائزہ لیں تو اس کے ہاں یہ نظریہ اپنی نظریا تی بنیادوں سے اٹھ کر زندگی کی عملی حقیقتوں اور بین الاقوامی معا ملات تک کو اپنے احا طے میں لے لیتا ہے۔لہذا وہ ایک اطلاقی، عملی اورمبنی بر حقائق نقطہ نظر کے طور پر سامنے آتا ہے۔جبکہ ہما رے ہاں بات صرف غیرت ایما نی کے اظہار تک محدود رہ جا تی ہے جس کا نتیجہ عملی زندگی میں اس کی غیر مؤثریت کی صورت میں سا منے آتاہے۔ مصنف نے مغرب کو رد کرنے کے باب میںاپنے نقطۂ نظر کی وضا حت کرتے ہوئے کتا ب کے حصۂ دوم میں مسلم معاشرے پر مغربی تہذیب کے ان اثرات کا تفصیلی جا ئزہ بھی پیش کیا ہے جو اس امر کا جواز فرا ہم کرتے ہیں کہ ہمیں مغربی تہذ یب کو کلیتاً رد کرنے کا طرز عمل اپنا نا چاہیے۔زندگی کے وہ شعبے جن کا مصنف نے احا طہ کیا ہے درج ذیل ہیں: تعلیم وتر بیت،عقا ئد و اقدار،علم و تحقیق،سائنس وٹیکنا لو جی،اخلاق،عبادات،تزکیہ وتصوف، سیاست، قانون وعد لیہ،معیشت،معاشرت،ثقا فت، کھیل، میڈیا، جہاد، دفاع، صحت، صنعت، تجارت، زراعت اوراتحاد امّت۔ ان شعبہ ہائے زندگی پر مغرب کے اثرات کا مصنف نے بڑی تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے، مثلاً تعلیم کے شعبے میں آنے والی تبدیلیوں کا ذکر کر تے ہوئے مصنف نے اس امر کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اب تعلیم ایک کارو بار کی شکل اختیا ر کر چکی ہے۔جس پر نظر یۂ حیا ت کے بجا ئے حکو متی اور بیورو کریٹک پالیسیوں کا کنٹرول ہے،جس کے نتیجے میں اہم مضامین سے اعراض برتاجا رہا ہے۔ ناقص معیا ر کی وجہ سے تعلیم کے نتیجے میں بیداری شعور کے بجائے جہا لت عام ہو رہی ہے۔استاد اور شاگرد کا تعلق روحا نی پا کیزگی سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیم کا مقصد فقط ملازمت کا حصول ہو کر رہ گیا ہے۔انگریزی ذریعہ تعلیم اور نرسری سے نصاب میں انگریزی کی شمو لیت، مختلف کنڈر گا رٹن اور مو نٹیسو ری اسکو لوں کے آغاز، گلی گلی انگلش میڈیم اسکولوں کے قیام،آکسفورڈ کی کتابوںاورمغربی مشنری تعلیمی اداروں کے قائم ہونے سے ملک میں کئی سطحی تعلیمی نظا م رائج ہو گیا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تربیت مغربی تہذیب۔وفکر کے مطا بق ہو رہی ہے اور اسلامی نظریۂ حیا ت اور طریقۂ تعلیم، جس میں تصوف کا بنیا دی کردار تھا جس کا مقصود تعمیر شخصیت اور تشکیل کردار تھا، پس پردہ چلا گیا ہے۔تعلیم کے باب میں جس بنیا دی خامی کی طرف مصنف نے اشا رہ کیا ہے وہ ہما رے تعلیمی نظا م کی ثنویت ہے یعنی علم کی دینی اور دنیا وی تقسیم۔اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف دینی مدارس سے نکلنے والی نسل فر قہ واریت،تنگ نظری،اور دنیا وی مسائل سے غفلت کا شکا ر ہے تو دو سری طرف دنیاوی تعلیمی اداروں سے نکلنے والے لو گ مادہ پرستی اور دنیا پرستی کی دوڑ کا شکا ر ہیں جو راتوں رات امیر بننے کی خواہش کے باعث عزت کا معیا ر صرف دو لت کو سمجھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ معا شرے میں سیکولرازم کی جڑیں مضبو ط ہوتی جا رہی ہیں جبکہ دینی تصورات اپنی تاثیر اس طرح سے معا شرے میں نہیں پھیلا رہے بلکہ ان کی ایک مسخ شدہ شکل عام ہوتی چلی جا رہی ہے۔ قو می زندگی کے بقیہ شعبوں پر بھی مغرب کے اثرات کا اسی طرح جائزہ لیا گیا ہے اوراس جائزے کے اختتام پر وہ اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جنھیں اختیا ر کر کے مغربی تہذیب کے ان برے اثرات سے نجات ممکن ہے اور امت مسلمہ بطور قوم کے، اپنی اقدار پر قائم اور مستحکم ہو سکتی ہے۔تاہم اس امر کی طرف اشا رہ کرنا ضروری ہے کہ ا س کتاب کے جملہ مندرجا ت اور اس میں اسلام اور مغربی تہذیب کی کشمکش کا تجزیہ مصنف کے اپنی تہذیبی قدروں پر یقین،اعتماد،ایمانی غیرت،اورمؤثر اظہار بیان کا مظہر ضرور ہے مگر اس نقطہ نظر کو مز ید مو ٔثر طور پر پیش کرنے کے لیے مزید منطقی اور سائنٹیفک طرز استد لال اختیا ر کرنے کی ضرو رت ہے۔ہمیں اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش کے باب میں ابھی ایسی تحقیق کی ضرورت ہے جو اس مسئلے کو سائنسی اور حقا ئق کی بنیادو ں پر تہذ یبی اور تا ریخی پس منظر کے ساتھ سمجھنے میں ممدو معا ون ہو اور ہمیں ایسے اقدامات سے آشنا کرے جن کو عملاً اختیار کر نے کے نتیجے میں ہم نہ صرف اپنی شنا خت کے تحفظ کے قا بل ہو سکیں بلکہ ہمیں زند گی کے سفر میں اقوام عا لم کے ما بین پر وقار اور ترقی یا فتہ انداز سے آگے بڑھنے کی ضما نت بھی میسر آ سکے۔ ___طاہر حمید تنولی ٭٭٭٭٭