اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت : محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت : رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی محمد خضر یاسین اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے - مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے - یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ سالانہ : دو شمارے اردو (جنوری ، جولائی) دو شمارے انگریزی (اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510,9203573 Fax:92-42-6314496 Email:director@iap.gov.pk Website:www.allamaiqbal.com مندرجات مقالات ۱ - علامہ اسد اور پنجاب یونی ورسٹی- وصل و فصل ڈاکٹر زاہد منیر عامر ۷ ۲ - اقبال اور اعلی حضرت محمد نادر شاہ شہید ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی ۲۵ ۳ - ڈاکٹر محمد دین تاثیر بطور اقبال شناس ڈاکٹر ریاض قدیر ۴۱ ۴ - اقبال اور اسلام کے موضوع پر ایک گفتگو محمد سہیل عمر ۶۱ ۵ - فکر اقبال اور فہم قرآن کی جہات ڈاکٹر طاہر حمید تنولی ۷۳ ۶ - فرائیڈ کے نظریات پر اقبال کے اعتراضات ڈاکٹر محمد آصف اعوان ۹۳ ۷ - اربابِ ذوق کی خدمت میں خرم علی شفیق ۱۰۳ ۸ - کلامِ اقبال(اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۱۹ ۹ - اقبال کا مکالمہ- عصر حاضر سے صابر آفاقی ۱۳۳ اقبالیاتی ادب ۱۰ - سہ ماہی صحیفہ میں اقبالیاتی ادب محمد اصغر ۱۴۷ ۱۱ - علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ ۱۶۱ ۱۲ - تبصرۂ کتب ۱۶۹ قلمی معاونین ڈاکٹر زاہد منیر عامر اُستاد، شعبہ اردو، اورینٹل کالج، جامعہ پنجاب، لاہور ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی چیف منیجر، الائیڈ بنک آف پاکستان، شاہراہ اقبال، کوئٹہ ڈاکٹر ریاض قدیر ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج آف سائنس، وحدت روڈ،لاہور محمد سہیل عمر ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر طاہر حمید تنولی معاون ناظم (ادبیات)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر آصف اعوان اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، فیصل آباد خرم علی شفیق اقبال اکادمی پاکستان، لاہور احمد جاوید نائب ناظم، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور صابر آفاقی پوسٹ بکس نمبر۹ ، مظفر آباد، آزاد کشمیر محمد اصغر لائبریرین، مجلس التحقیق الاسلامی،۹۹جے ، ماڈل ٹائون، لاہور نبیلہ شیخ شعبہ ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر وحید عشرت ۳۱۳-ایچ -۲، جوہر ٹائون، لاہور محمد خضر یاسین شعبہ ادبیات، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر خالد ندیم گورنمنٹ کالج آف کامرس، شیخوپورہ محمد ایوب لِلّٰہ استاد، شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج آف کامرس، پنڈ دادنخان، جہلم  علامہ اسد اور پنجاب یونی ورسٹی۔__وصل و فصل ڈاکٹر زاہد منیر عامر خلاصہ پولینڈ کے ایک یہودی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے Leopold Weiss وسیع المشاہدہ، صاحب علم اور فاضل شخصیت تھے۔ اپنے طویل تجربے ، مشاہدے اور مسلسل مطالعے کے بعد انھوں نے ۱۹۲۶ء میں اسلام قبول کیا اور اپنا اسلامی نام محمد اسد رکھا۔ انھیں علامہ اقبال کی صحبت میں حاضری کا شرف بھی حاصل تھا۔ مثالی اسلامی ریاست پر علامہ سے ان کی گفتگوئیں رہیں۔ اس موضوع پر ان کی علمی کاوشیں بھی سامنے آئیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ وزارتِ خارجہ سے منسلک ہوئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے بھی ان کی وابستگی رہی۔ فروری ۱۹۴۹ء کو انھیں پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامیات کی صدارت کا منصب پیش کیا گیا۔ علامہ اسد نے گیارہ ماہ تک اس منصب پر خدمات سرانجام دیں۔ علامہ اسد نے ۱۹۵۰ء میں مولوی تمیزالدین کے ساتھ مل کر آل پاکستان پولیٹکل سائنس کانفرنس منعقد کروائی۔ پنجاب یونی ورسٹی کے ساتھ علامہ اسد کا آخری رابطہ انٹرنیشنل اسلامک کلوکیم کے حوالے سے ہوا۔ یکم مارچ ۱۹۵۷ء کو انھوں نے کلوکیم کے ڈائریکٹر کا منصب سنبھالا۔ اس منصب سے علیحدگی علامہ اسد کی پنجاب یونی ورسٹی سے دائمی فصل پر منتج ہوئی۔ خ…خ…خ محمد اسد نے پولینڈ کے ایک یہودی گھرانے میں لمبرگ (موجودہ یوکرائن)میں ۲؍جولائی ۱۹۰۰ء کوآنکھ کھولی ،ان کاخاندانی نام Leopold Weiss رکھاگیا۔مذہبی صحائف اور عبرانی کی تعلیم کے بعد پہلی جنگِ عظیم کا طوفان انھیں آسٹریائی فوج میں لے گیا۔ فوجی زندگی کے تجربے نے زیادہ طول نہیں کھینچا اور وہ جلد اپنی تعلیم کی طرف لوٹ آئے، انھوں نے ویانا یونی۔ورسٹی میں فلسفہ ، تاریخ ، آرٹ ، طبیعیات اور کیمیا کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۲۲ء میں پہلی بار مشرقِ وسطی کاسفر اختیار کیا اور مصر ، اُردن ، فلسطین ،شام اور ترکی کے اسفار کیے۔۱۹۲۴ء کے دوسرے سفرمیں انھوں نے مصر ، عمّان ،شام ،ٹریپولی،عراق ، ایران ،افغانستان ،وسطِ ایشیا کی سیاحت کی۔ اپنے طویل تجربے اور مشاہدے اور مسلسل مطالعے کے بعد انھوں نے ۱۹۲۶ء میں، برلن میں، اسلام قبول کیااور اپنااسلامی نام محمد اسدرکھا۔حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور قاہرہ میں رشتہء ازدواج میں منسلک ہوئے۔ وہ عالمی صحافت سے متعلق تھے اور اس حیثیت میں دنیا کاایک بڑا حصہ دیکھنے کے بعد ۱۹۳۲ء میں ہندوستان آئے ،یہاں ان کاقیام امرت سر ، لاہور ، سری نگر، دہلی اورحیدرآباد دکن میں رہا۔ وہ علامہ اقبال سے ملے ، علامہ اقبال نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسلامیہ کالج لاہور میں نسلِ نوکواسلامیات کادرس دیں،سیدنذیرنیازی کے نام ۱۹۳۴ء کے متعدد خطوط میں اسد کے حوالے سے علامہ اقبال کااظہارِ خیال موجود ہے ۱؎ اسی سال اُن کی کتاب ۲؎ Islam at the Cross Road شائع ہوئی ، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے لکھا: This work is extremely interesting. I have no doubt that coming as it does from a highly cultured European convert to Islam it will prove an eye-opener to our younger generation.3 علامہ اقبال سے ملاقات کے بعدانھوں نے ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین بنالیا ، اس کے بعد وہ اپنی تحریروں میں اسی نصب العین کے حصول کے لیے کوشاں نظرآتے ہیں، انھوں نے اس آزاد مملکت کے لیے اسلامی دستور کے راہ نما اصول بھی مرتب کیے۔ ان کی انھی خدمات کے باعث انھیں Intellectual Co-founder of Pakistan بھی کہا گیا ہے ۴؎ قیامِ پاکستان ،اسد کے خوابوں کی تعبیر تھا ،اپنے خوابوں کی اس تعبیر کے بارے میں خود انھوں نے بھی ایک جگہ لکھا ہے : For which I my self had worked and striven since 1933.5 ۱۹۳۵ء میں انھوں نے صحیح بخاری کے انگریزی ترجمے اور تشریح کی اشاعت کاکام شروع کیااور اس کے پانچ اجزا شائع کیے۔۶؎ جنوری۱۹۳۷ء میں حیدرآباد دکن سے نکلنے والے رسالے Islamic Culture کے مدیر مقرر ہوئے۔ یہ رسالہ اکتوبر ۱۹۳۸ء تک ان کی ادارت میں شائع ہوتارہا۔دوسری جنگِ عظیم کے زمانے (یکم ستمبر۱۹۳۹ء …۱۴؍اگست۱۹۴۵ئ)میں برطانوی حکومت نے انھیں گرفتار کرلیا۔طویل عرصے تک صعوبتیں جھیلنے اور صدمے اٹھانے کے بعد رہا ہوئے اور۱۹۴۶ء میں ایک ماہانہ رسالے عرفات کا اجرا کیا۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے موقع پرڈلہوزی سے لاہور آگئے اور ماڈل ٹائون میں مقیم ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھیں اسلامی تعمیرِ نو کے ایک نئے محکمے Department of Islamic Reconstruction کاڈائریکٹر بنایا گیا، انھوں نے وزارتِ خارجہ میں ڈپٹی سیکریٹری اور مڈل ایسٹ ڈویژن کے انچارج کی حیثیت سے خدمات انجام دیںاور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔۱۹۵۱ء میں حکومتِ پاکستان کے نمائندے کے طور پر سعودی عرب گئے ،اگلے برس انھیں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا جہاں انھوں نے Committee on Information from Non-Self Govt. Territories کے چیئرمین اور Disarmament Commission of the Security Council کے رُکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۹۵۴ء میں اُن کی مشہور کتاب۷؎ The Road to Mecca شائع ہوئی۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سفارت سے مستعفی ہونے کے بعد انھوں نے سوئٹزرلینڈ، بیروت، شارجہ اور لبنان کے اسفار کیے۔۱۹۶۱ء میں ان کی کتاب۸؎ The Principles of State and Govt. in Islam شائع ہوئی۔ ۱۹۶۴ء میں انھوں نے مراکش میں رہائش اختیارکرلی جہاں وہ ۱۹۸۱ء تک مقیم رہے۔ ۱۹۸۰ء میں قرآنِ حکیم کے ترجمے اور تشریحات پر مبنی ان کی کتاب۹؎ The Message of The Quran شائع ہوئی۔۱۹۸۳ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے نفاذِاسلام کے سلسلے میں راہ نمائی لینے کے لیے ایک بارپھر انھیں پاکستان بلایااور انھوں نے انصاری کمیشن کے اجلاس میں شرکت کی۔ حصولِ آزادی کے بعد وہ پہلے شخص تھے جنھیں پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔ پہلے پاکستانی پاسپورٹ کے حامل اس محبِ وطن کایہ آخری سفرِ پاکستان ثابت ہوا۔ وہ پاکستان سے ۳؍اگست ۱۹۸۳ء کولندن چلے گئے تھے جہاں سے انھوں نے پرتگال کاسفر اختیار کیا۔ ۱۹۸۷ء میں وہ ہسپانیہ لوٹے (اسی سال ان کی آخری کتاب۱۰؎ The Law of Ours and Other Essays شائع ہوئی) اور یہیں ۲۰؍فروری ۱۹۹۲ء کو انھوں نے زندگی کی آخری سانس لی ،اب وہ غرناطہ کے مسلم قبرستان میں آرام فرماہیں۔ جیسا کہ سطورِ ماقبل سے ظاہر ہے ، عالمی سطح کے ایک نام ور دانش اور علوم اسلامی کے ایک ماہر کی حیثیت سے وطنِ عزیز نے اُن کی خدمات سے استفادہ کیا۔ملک کی قدیم ترین اور بزرگ ترین جامعہ، پنجاب یونی۔ورسٹی، نے بھی علامہ اسد کے علم وفضل سے استفادے کی راہیں کشادہ کیں۔ علامہ اسد پر اب تک جو تحقیقی کام سامنے آچکا ہے اس میں پنجاب یونی۔ورسٹی اورعلامہ اسد کے حوالے سے معلومات کافقدان ہے۔ علامہ اسد کی پہلی سوانح۱۱؎ (Leopold Weiss alias Muhammad Asad) جرمن زبان میں لکھی گئی اس میں پنجاب یونی۔ورسٹی بلکہ پاکستان ہی کا کوئی تذکرہ ممکن نہیں تھااس لیے کہ یہ کتاب ۱۹۲۷ء تک کے احوال سے بحث کرتی ہے، اس کے بعد حال ہی میں The Truth Society کی طرف سے علامہ اسد کے احوال و آثار اور ان کے بارے میں لکھے جانے والے مضامین ،دو ضخیم مجلّدات کی صورت میں شائع ہوئے ہیں۱۲؎ ایک ہزار سے زائد صفحات کے اس مجموعے میں بھی جہاں علامہ اسد کی زندگی کے بیشتر پہلو زیربحث آگئے ہیں، اقبال اور اسد ،اسد اور خیری برادران وغیرہ جیسے ارتباطی موضوعات پر بھی کلام کیاگیاہے لیکن علامہ اسد کی زندگی کے اس ورق سے متعلق معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں ، علامہ اسد کے افکار کے حوالے سے پی ایچ۔ڈی کی سطح کاایک مقالہ بھی تحریر کیا جا چکا ہے۱۳؎ اس کے اوراق بھی Europe's Gift to Islam کی طرح اسلامک کلوکیم میں علامہ اسد کے تقرر کے مختصر تذکرے کے سوا علامہ اسد اور پنجاب یونی۔ورسٹی کے حوالے سے خاموش ہیں۔ ذیل کے مضمون میں ہم پنجاب یونی۔ورسٹی کے ساتھ علامہ اسد کے ربط و تعلق کے تین مظاہر پر بات کریں گے جن میں سے اوّل الذکردو پہلو ایسے ہیں جو اس مضمون کے ذریعے پہلی بار واضح کیے جارہے ہیں۔ پہلی بار اس ضمن میں علامہ مرحوم کے اپنے خطوط اور پنجاب یونی۔ورسٹی کے اعلیٰ اداروں کی رودادوں سے مدد لی گئی ہے۔ اس مضمون میں پیش کیے جانے والے علامہ اسد کے تمام خطوط غیرمطبوعہ ہیں اوران سطور کے ساتھ پہلی بار اشاعت پذیرہورہے ہیں۔ (۱) قیامِ پاکستان کے بعد نئے ملک کی اسلامی شناخت کے سلسلے میں جو اقدامات کیے گئے ان میں ایک، ملک کی قدیم ترین اور بزرگ ترین جامعہ ، پنجاب یونی۔ورسٹی میں علومِ اسلامی کے شعبے کاقیام بھی شامل تھا۔ پنجاب یونی۔ورسٹی نے یونی۔ورسٹی کی ایک وحدت کے طور پر ۱۸۸۲ء میں آغاز کیاتھا لیکن ہنوز اس میں علومِ اسلامی کاکوئی شعبہ موجود نہیں تھا ، اس حقیقت اورنئے وطن کے تقاضوں کے پیشِ نظر پنجاب یونی۔ورسٹی کی سنڈیکیٹ نے اپنے اجلاس ۵؍فروری ۱۹۴۹ء میں یہ فیصلہ کیاکہ یونی۔ورسٹی میں اسلامیات کاایک شعبہ قائم کیاجائے۱۴؎ جامعات میں جب نئے شعبے قائم کیے جاتے ہیں تو ان میں تدریس اور سربراہی کے لیے اُس مضمون کی رسمی سند رکھنے والے تو مہیانہیں ہوتے البتہ ان مقاصد کے لیے ایسے علما کاانتخاب کیاجاتاہے جو اُس شعبہء علم میں درجۂ کمال پر فائز ہوں۔علامہ محمد اسد۱۹۲۶ء میں قبولِ اسلام کے بعد علومِ اسلامی سے سنجیدگی کے ساتھ وابستہ رہے۔ اور انھوں نے اتنا کمال بہم پہنچایا کہ جب پنجاب یونی۔ورسٹی نے علومِ اسلامی کاشعبہ قائم کرنے کافیصلہ کیاتو اس کی مسندِ صدارت کے لیے حکام کی نگاہِ انتخاب علامہ محمد اسد پرجاکر رُکی۔ پنجاب یونی۔ورسٹی سنڈیکیٹ کے جس اجلاس( ۵؍فروری ۱۹۴۹ئ)کا ابھی ذکر ہوا اُس میں وائس چانسلر نے شعبہء اسلامیات کی صدارت کے لیے علامہ اسد کانام تجویزکیا اُس وقت پنجاب یونی۔ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمرحیات ملک تھے جو اس منصب پر ستمبر ۱۹۴۷ء سے ستمبر۱۹۵۰ء تک فائزرہے۔ یونی۔ورسٹی نے ایک خط کے ذریعے علامہ اسد کو اس پیش کش سے مطلع کیا۔ یہ اطلاع رجسٹرار کیپٹن محمد بشیر کی طرف سے مراسلہ نمبر ۱۲۴۳ ؍جی ایم مورخہ ۸؍فروری ۱۹۴۹ء کودی گئی۔ رجسٹرار کی طرف سے بھیجے جانے والے خط کامتن درجِ ذیل ہے: To Allama M. Asad Director, Department of Islamic Reconstuction, West Punjab, Lahore. Sir, I have the honour to inform you that the Syndicate has appointed you as an honorary head of the department of the Islamiyyat of this University. Kindly acknowledge. I have etc. etc. Signatured Deputy Registrar (Admin). for Registrar یہ مراسلہ ملنے پر علامہ اسد نے اس پیش کش کو قبول کرلیا جس کااظہار ان کے ایک خط سے ہواجس میں انھوں نے یونی۔ورسٹی رجسٹرار کے منقولہ خط کی رسید دیتے ہوئے یونی۔ورسٹی کاشکریہ اداکیا۔علامہ اسد کایہ خط ۱۲؍فروری ۱۹۴۹ء کولکھاگیا ، خط کامتن درجِ ذیل ہے: February 12, 1949 Captain M. Bashir, B.Sc. Hons. (Edin) Registrar, University of the Punjab, Lahore. I thank you for your letter No. 1243/LM dated the 3rd February, 1949, informing me that the Syndicate has appointed me as honorary Head of the Department of Islamiyyat of the University, for which honour I am grateful. Yours truly, Signatured (M. ASAD) یونی۔ورسٹی میں سنڈیکیٹ کے فیصلوں کی توثیق سینیٹ کاادارہ کیاکرتا ہے۔ علامہ اسد کے اعزازی صدرِ شعبۂ اسلامیات مقرر کیے جانے کافیصلہ سینیٹ کے اجلاس منعقدہ ۲۹؍مارچ ۱۹۴۹ء میں پیش کیاگیا۔سینیٹ نے جس کی توثیق کردی۔ سینیٹ کے مذکورہ اجلاس کی روداد میں درج ہے : The Senate at its meeting held on 29th March, 1949, has approved the following items:- 15. That the recommendations of the Syndicate relating to the appointment of the following persons in the various University Teaching Departments be approved (Vide paragraphs 16 and 2, 3, 32 and 38 of the Syndicate Proceedings, dated the 5th and 11th February, 1949, respectively):- 1.Allama Muhammad Asad, as Honorary Head of the Department of Islamiyat. Copy of the above forwarded for information and necessary action to the A.R.A. and D.R.A./H.A.A./Asstt.Misc/Mr. Hassan Din with files to inform the persons concerned and Head of the Teaching Departments.15 اس تقرر پر گیارہ ماہ گزرنے کے بعد علامہ اسد نے استعفیٰ پیش کردیا ، انھوں نے وائس چانسلر کے نام اپنے خط میں استعفیٰ کاسبب اپنی مصروفیات کو بتایا اور کہا کہ میں ان مصروفیات کی موجودگی میں اعزازی صدرِ شعبہء اسلامیات کے فرائض سے انصاف نہیں کرسکتا اس لیے فوری طور پر میرا استعفیٰ قبول کرلیاجائے۔علامہ اسد کویہ بات معلوم نہیں تھی کہ آیاوائس چانسلر لاہور میں موجود ہیں یا نہیں چنانچہ انھوں نے استعفیٰ کاخط ایک سرپوش مراسلے کے ساتھ رجسٹرار کو بھجوایا اور اپنے سرپوش مراسلے میں یہ لکھا کہ شعبہ اسلامیات سے متعلق میرے پاس جو فائلیں ہیں وہ بھی ڈپٹی رجسٹرار ایڈمن کو واپس کی جارہی ہیں ، رجسٹرار کیپٹن محمد بشیر کے نام علامہ اسد کے خط کامتن درجِ ذیل ہے: 3. Chamba House Lane. Lahore, January 24, 1950. My dear Capt. Bashir, As I am not sure whether the Vice-Chancellor is at present in Lahore. I am sending my resignation from the post of Honorary Head of the Deptt. of Islamiyyat to you, with the request to place it before him at the earliest opportunity. The files in my possession relating to this Department are being returned to the Deputy Registrar (Adm.). Thanking you, Yours sincerely, Signatured Capt. M. Bashir, M.Sc.(Edin), Registrar University of the Punjab, LAHORE. اس سرپوش مراسلے کے ساتھ بھیجے جانے والے استعفیٰ پر مبنی وائس چانسلر کے نام علامہ اسد کاخط درج ذیل ہے: 3, Chamba House Lane, Lahore, January 24, 1950. The Vice-Chancellor, Punjab University , Lahore. Dear Sir, Owing to my pre-occupations I am not in a position to do justice to my office as Honorary Head of the Department of Islamiyyat, Punjab University, and request you therefore kindly to accept my resignation from this office with immediate effects. Yours truly, Signatured (M. ASAD) یہ استعفیٰ وائس چانسلر صاحب کے ملاحظہ میں لایاگیا اور انھوں نے ۲۵؍جنوری ۱۹۵۰ء کو اس پر اپنے دستخط ثبت کیے۔اور اسے سنڈیکیٹ کی اطلاع کے لیے بھجوا دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ذیل کادفتری نوٹ تیارکیاگیا: Office Note Subject: Resignation of Allama Mohammad Asad as Honorary Head of the Department of Islamiyyat. At the time of creation of Islamiyyat as a subject for various University Examinations, Allama M. Asad was appointed as Honorary Head of the Department of Islamiyyat. The Allama has tendered his resignation on the grounds that owing to his pre-occupations he is not in a position to do justice to his office, and requests that his resignation be accepted with immediate effect. The Syndicate may accept his resignation and appoint a substitute in his place. حسبِ ضابطہ یہ استعفیٰ سنڈیکیٹ کے اجلاس میں پیش کیاگیاجس کی منظوری کے بعد معاملہ سینیٹ میں لے جایاگیا۔سینیٹ کے اجلاس منعقدہ ۳۰؍مارچ ۱۹۵۰ء کی رُوداد مظہر ہے کہ سینیٹ نے علامہ اسد کے استعفیٰ سے متعلق سنڈیکیٹ کی سفارش کی توثیق کردی۔سینیٹ کی روداد میں لکھاگیاہے : That the recommendations of the Syndicate relating to the acceptance of the resignation of the following person be approved (vide paragraph 7 and 15, 17 and 20 of the Syndicate proceedings dated 6th February 1950 and 7th March 1950 respectively) 4. Allama Muhammad Asad, as honorary head of the department of Islamiyyat .16 علامہ اسد کے استعفیٰ کے بعد یونی۔ورسٹی نے صدرِ شعبہ اسلامیات کامنصب علامہ علاء الدین صدیقی (۳؍نومبر ۱۹۰۷ئ- ۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۷ئ) کو پیش کیا ، علامہ صاحب موصوف نے یہ منصب قبول کیا یوں وہ پنجاب یونی۔ورسٹی شعبہ اسلامیات کے دوسرے سربراہ قرار پائے (بعض اصحاب نے انھیں پہلا سربراہ۱۷؎ قراردیا ہے)سنڈیکیٹ کے اجلاس منعقدہ ۷؍مارچ ۱۹۵۰ء میں علامہ اسد کااستعفیٰ منظوری کے لیے پیش کیاگیا ، اسی اجلاس میں اعزازی صدرِشعبہ اسلامیات کے طور پر علامہ علاء الدین صدیقی کا تقرر کردیا گیا۔ یہ تقرر مستقل انتظام ہوجانے تک کے لیے ۵۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ پر یکم جولائی ۱۹۵۰ء سے کیاگیا۱۸؎ اوراس تقرر کی اطلاع انھیں ۲۷؍مارچ ۱۹۵۰ء کو اسسٹنٹ رجسٹرارجنرل نے ایک مراسلے کے ذریعے دی۔ گزشتہ صفحات میں پیش کیے جانے والے شواہد کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پنجاب یونی۔ورسٹی کے شعبۂ اسلامیات کے اوّلین سربراہ علامہ اسد تھے جواس منصب پرگیارہ ماہ تک فائز رہے۔ شعبے کاقیام اور اس کے ابتدائی مراحل انھی کے دور میں طے پائے جیسا کہ ان کے استعفیٰ میں شعبے کے ریکارڈز کی واپسی کااشارہ ظاہر کررہاہے۔۱۹؎ (۲) شعبہ اسلامیات کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد بظاہر پنجاب یونی۔ورسٹی سے علامہ اسد کاتعلق ختم ہوگیا ،لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ یونی۔ورسٹی اس کے بعد بھی اس امرکی مشتاق رہی کہ علامہ اسد کسی طرح اس سے وابستہ ہوجائیں۔ پنجاب یونی۔ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمرحیات ملک (۱۸۹۲ئ…۱۹۸۲ئ)بھی علامہ اسد کے ایک قدردان اور مداح تھے ، وہ ستمبر ۱۹۴۷ء میں پنجاب یونی۔ورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور جون ۱۹۵۰ء تک اس منصب پر خدمات انجام دیتے رہے۔ انھوں نے اسلامی آئین کے خط و خال واضح کرنے کے لیے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے سپیکرمولوی تمیز الدین خان کے ساتھ مل کر ۵،۶۔۷مارچ ۱۹۵۰ء کو آل پاکستان پولیٹیکل سائنس کانفرنس مقرر کروائی، اس کانفرنس کاپہلا اجلاس مسلم نظریۂ سیاست و حکمرانی کے موضوع پر ہوا، اس اجلاس کی صدارت علامہ اسد کو تفویض کی گئی۲۰؎ اس واقعہ کے بعد کم از کم دو بار علامہ اسد کاپنجاب یونی۔ورسٹی سے انسلاک ہوا۔ پنجاب یونی۔ورسٹی اورینٹل کالج میں السنۂ شرقیہ کے ساتھ جرمن اور فرانسیسی زبانوں کی تدریس کاسلسلہ بھی جاری تھا ، قیامِ پاکستان کے بعد ان میں ہسپانوی اور روسی زبانوں کی تدریس کابھی اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ ترکی اور جاپانی کی تدریس کاسلسلہ بھی شروع ہو گیا، یہاں تک کہ چیف جسٹس عبدالرشید کی قیادت میں قائم ہونے والے آٹھ رکنی پنجاب یونی۔ورسٹی کمیشن نے یہاں ایک لینگوئج یونٹ قائم کرنے اور اس ادارے کو کالج آف اورینٹل اینڈ ویسٹرن لینگوئجز بنانے کی سفارش کی۲۱؎ آزادی کے بعد ڈاکٹر برکت علی قریشی یہاں جرمن زبان کی تدریس کافریضہ انجام دیتے تھے ، ڈاکٹر قریشی بنیادی طور پرپروفیسر عربی کے منصب پرفائز تھے وہ اکتوبر ۱۹۴۲ء میں اورینٹل کالج سے منسلک ہوئے اور مئی ۱۹۴۸ء میں پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے انتقال کے بعد پرنسپل اورینٹل کالج مقرر ہوئے۔ فروری ۱۹۵۰ء میں انھیں سفیربنادیاگیا ، انھوں نے سفیرِ پاکستان کی حیثیت سے شام ، لبنان اور اُردن میںسفارتی خدمات انجام دیں۲۲؎ اور جون ۱۹۵۱ء میں اپنے پرانے مناصب پریعنی پروفیسر عربی اور پرنسپل اورینٹل کالج کی حیثیت سے واپس آگئے۔ ڈاکٹر قریشی نے جرمنی میں تعلیم حاصل کی تھی انھوں نے ۱۹۲۸ء میں برلن یونی۔ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی وہ جرمن زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے لہٰذا اورینٹل کالج میں جرمن زبان کی تدریس کافریضہ بھی وہی انجام دیتے تھے۔ فروری ۱۹۵۰ء میں ان کے سفیر بن کرچلے جانے پر اس تدریسی سلسلے میں خلل واقع ہوا۔ انھوں نے تدریسِ زبان کے کورس کا آغاز ۱۷؍اکتوبر۱۹۴۹ء کوکیاتھا ،ابتدائی درجے کی اس کلاس میں بیس طالب علم شریک تھے۔ یکم فروری ۱۹۵۰ء کو جب کہ ابھی اس سلسلے پر تین ماہ بھی پورے نہیں ہوئے تھے وہ رُخصت پر چلے گئے ، اگرچہ ابھی شعبۂ اسلامیات کی صدارت سے علامہ اسد کے استعفیٰ کے واقعہ کو محض دو ماہ گزرے تھے ، یونی۔ورسٹی نے جرمن کورس کے تدریسی سلسلے کو بحال رکھنے کے لیے علامہ اسد کو دعوت دی۔ علامہ اسد عربی، فارسی ، فرانسیسی ، پرتگالی ، ہسپانوی ،اُردو میں یکساں مہارت رکھتے تھے۲۳؎ انگریزی ، جرمن اور ڈچ ،عبرانی پراُن کی گرفت مسلمہ تھی چنانچہ اُن سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ پیر،منگل ، بدھ اور جمعرات کوجرمن زبان پر چارلیکچر دے دیاکریں۔ اس خدمت کے عوض انھیں دو سو روپے ماہوار معاوضے کی پیش کش کی گئی۔ پیش کش کاخط رجسٹرار کی طرف سے ڈپٹی رجسٹرار ایڈمن نے ارسال کیا۔ خط میں لکھاگیا: Senate Hall, March 20, 1950. Allama M. Asad, 3 - Chamba House Lane, Golf Road, Lahore. Sir, I have been directed by the Vice-Chancellor to enquire if you would be willing to take German Classes. At the present moment there is only one elementary class consisting of 20 students. The Course was started by Principal B.A. Kuraishi on the 17th October, 1949 and no instruction has been imparted after the 1st February, 1950. The lecturer would be expected to take four periods a week i.e. on Monday, Tuesday, Wednesday and Thursday. The recommendation offered by the University is Rs. 200/- p.m. An early reply is requested. I have etc., Signatured Deputy Registrar (Admn.), for Registrar. یوں معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اسد نے اس پیش کش پرسنجیدگی سے غور کیا ، انھیں یہ خط ملا تو وہ کراچی کے لیے عازم سفر تھے چنانچہ انھوں نے کوئی حتمی جواب دینے کی بجائے خط کی رسید دینے پراکتفاکیااورلکھا کہ کراچی سے واپسی پر وہ اس پیش کش کابہتر جواب دے سکیں گے۔ اور یہ توقع بھی ظاہر کی کہ ہوسکتاہے کراچی میں ان کی ملاقات وائس چانسلر صاحب (جواُس وقت ڈاکٹر عمرحیات ملک تھے )سے بھی ہوجائے اور ایسا ہونے کی صورت میں وہ وائس چانسلر صاحب سے بھی اس مسئلے پر تبادلۂ خیال کریں گے۔رجسٹرار کے نام علامہ اسد کایہ خط ۲۲؍مارچ ۱۹۵۰ء کو چنبہ ہائوس لاہور سے لکھاگیا، خط کامتن : Chamba House Lane, Lahore, March 22, 1950. Deputy Registrar (Adm.), Punjab University, Lahore. Dear Sir, With reference to your letter No. 1064/G, dated the 20th instant, I have to inform you that I am leaving for Karachi tomorrow morning, and cannot, therefore, give you a final reply regarding the matter under consideration. I shall be, however, back in Lahore within a week or so, and shall contact you then. In Karachi I hope also to meet the Vice-Chancellor and to discuss the matter with him as well. Yours truly, Signatured (M. ASAD) کراچی سے واپسی کے بعد علامہ اسد نے کیاجواب دیا ،آیاکراچی میں وائس چانسلر پنجاب یونی۔ورسٹی سے ان کی ملاقات ہوئی یا نہیں اس کاکچھ علم نہیں ، تاہم بعدازاں جرمن زبان کی تدریس کاسلسلہ جاری رہا۔ اگلے ہی برس ڈاکٹر برکت علی قریشی واپس آگئے جنھوں نے اپنی سبکدوشی( ۱۹۵۴ئ) تک فرائضِ تدریس انجام دیے۔اُن کے بعد ڈاکٹر بشارت علی (۱۹۵۴ئ…۱۹۵۵ئ)ڈاکٹر برائون (۱۹۵۵ئ… ۱۹۶۰ئ) ڈاکٹر پیٹر شونکل (۱۹۶۰ئ…۱۹۶۱ئ) اور مسز ارسلا جینتکی۲۴؎ اس شعبے میںتدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ (۳) پنجاب یونی۔ورسٹی کے ساتھ علامہ اسد کاآخری ربط انٹرنیشنل اسلامک کلوکیم کے حوالے سے ہوا۔یہ کلوکیم قیامِ پاکستان کے بعد یونی۔ورسٹی کی پہلی بین الاقوامی سرگرمی تھی۔ اس کی تحریک امریکہ میں پاکستان کے سفیر سید امجد علی نے کی تھی ،جواُس وقت مرکزی وزیرخزانہ تھے۔ اس کلوکیم کے اخراجات حکومتِ پاکستان نے برداشت کیے اور اس کے لیے پہلے پچاس ہزار روپے اور پھرتین لاکھ روپے کی گرانٹ دی گئی۲۵؎ اس علمی مجلسِ مذاکرہ میں مسلم دنیا کے چالیس ملکوں سے علما اور دانش وروں نے شرکت کی اور مذہب اور ثقافت کے موضوعات پر مقالات پیش کیے۔ یہ اپنی نوعیت کا دوسرا انٹرنیشنل کلوکیم تھا ، پہلاکلوکیم لائبریری آف کانگریس اور پرنسٹن یونی۔ورسٹی کے زیرِ اہتمام ۱۹۵۳ء میں امریکہ میں منعقد ہوا تھا۔ اس دوسرے کلوکیم کے لیے وطنِ عزیز کی چھ جامعات کے نمائندوں پرمشتمل ایک کلوکیم کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں مختلف حلقوں سے تجاویز طلب کرنے کے بعد کلوکیم کے لیے بہ تفصیلِ ذیل نوموضوعاتِ بحث تجویزکیے۔ ۱۔اسلامی ثقافت اور اس کامفہوم۲۔اسلام کاتصورِ ریاست ۳۔مسلم معاشروں کے لیے جدید تصورات اور سماجی اقدارکاچیلنج۴۔اجتہاد کاکردار اور اسلام میں قانون سازی کے امکانات ۵۔سائنس کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر۶۔مغربی تاریخ اور ثقافت پراسلام کے اثرات ۷۔اسلام کے سماجی ڈھانچے میں معاشیات ۸۔دوسرے ادیان کے بارے میں اسلام کارویہ اور روابط۹۔عالمی امن کے قیام میں اسلام کاکردار۲۶؎ اس نہایت اہم کلوکیم کے انتظامات کے لیے علامہ اسد کو دعوت دی گئی ، جسے انھوں نے قبول کرلیا۔پنجاب یونی۔ورسٹی چانسلرز کمیٹی کی رُوداد مظہر ہے کہ علامہ اسد نے یکم مارچ ۱۹۵۷ء کو کلوکیم کے ڈائریکٹر کا منصب سنبھالا ، اس منصب کے لیے ذیل کی شرائط طے کی گئی تھیں : (A) He would be paid a consolidated sum of Rs. 2500/- p.m for the period he would act as Director. (B) He would be entitled to get return passage from Beirut to Lahore in respect of himself and his wife.27 بعدازاں انھیں ایک صدرِ شعبہ جتنے مالی اختیارات بھی دے دیے گئے ، چانسلرز کمیٹی کے اجلاس ۳۰؍مارچ۱۹۵۷ء کی رُودادمیں درج ہے : The honorary treasurer had recommended that Mr. Muhammad Asad who had been appointed Project Officer of the International Islamic Colloquium be deligated the same financial power as were exercised by Heads of the University Departments.28 علامہ اسد نے وائس چانسلر سے یہ مطالبہ کیاتھا کہ اُن کی اہلیہ پولا حمیدہ کواُن کی سیکریٹری کے طور پرکام کرنے کی اجازت دی جائے چنانچہ وائس چانسلر کی سفارش پر چانسلرز کمیٹی نے اپنے ۲۰؍اپریل ۱۹۵۷ء کے اجلاس میں مندرجہ ذیل امور منظور کیے : (2) Mr. Muhammad Asad the Project Officer be designated as Director of Colloquium. (3) Mrs. Pola Hamida Asad's offer to act as Secretary in an honorary capacity be accepted with thanks.29 علامہ اسد کو اس کلوکیم کے انتظامات کے لیے بیروت سے بلوایاگیاتھاانھیں اپنے اسباب کی بیروت سے کراچی اور کراچی سے لاہور منتقلی کے لیے رقم کی ضرورت تھی چنانچہ انھوں نے یونی۔ورسٹی سے درخواست کی کہ اس مقصد کے لیے ایک ہزار روپے پیشگی دے دیے جائیں ،جنھیں وہ بعدازاں بالاقساط ادا کردیں گے۔ وائس چانسلر نے چانسلرز کمیٹی کے اجلاس سے پہلے سپیشل کیس کے طور پر اس رقم کی پیشگی منظوری دے دی ، طے یہ کیاگیا کہ اس رقم کی واپسی دو سو روپے ماہوار اقساط کے ذریعے سے کی جائے گی۔اقامتی افسر محاسبہ (Resident Auditor) نے چانسلرز کمیٹی کے اجلاس میں یہ موقف اختیار کیا کہ رقم کی واپسی تین اقساط میں ہوجانی چاہیے ، بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ وائس چانسلر کے اقدام کی توثیق کردی جائے تاہم اگر علامہ اسد کاکام اقساط پوری ہونے سے پہلے ختم ہوجاتا ہے تو بقیہ رقم اُن کی آخری تنخواہ سے منہا کرلی جائے گی۔چانسلرز کمیٹی کی روداد کااقتباس درجِ ذیل ہے: Audit objection in regard to the number of installments for recovering the amount advanced to Mr. M. Asad for transportation of his house-hold belongings. Mr. M. Asad, Director, International Islamic Colloquium, had requested for an advance of one month's salary to enable him to meet expenses in connection with the shipment and transportation charges of his household belongings from Beirut to Karachi, and Karachi to Lahore. The Vice-Chancellor, in anticipation of the approval of the Chancellor's Committee, sanctioned the advance as a special case. The recovery of the amount was to be made at the rate of Rs. 200 per mensum. The Resident Senior Auditor while allowing the payment to be made provisionally desired that the sanction of the Chancellor's Committee should be obtained and that the recovery be made in three installments. After discussion, resolved to confirm the action taken by the Vice-Chancellor and to permit Mr. Asad to repay the loan at the rate of Rs. 200 per mensum and in case his assignment ended prior to the adjustment of the amount the entire balance to recovered from his last month's pay .30 ان شرائط و معاملات کے بعد علامہ اسد نے پوری توجہ اور محنت کے ساتھ اسلامک کلوکیم کے لیے کام شروع کیا۔ پاکستان ایک نیا ملک تھا اور پنجاب یونی۔ورسٹی کی طرف سے پہلی بار عالمی سطح کے دانش وروں کو بلایاجارہاتھا۔ علامہ اسد نے اپنے روابط کے ذریعے ’’مختلف ملکوںکے علما سے رابطہ قائم کرکے ان سے اس علمی اجتماع کے لیے مقالات لکھوائے اور انھیں کلوکیم میں شرکت پرآمادہ کیا‘‘ صدسالہ تاریخ جامعہ پنجاب کے مطابق ’’اسلامک کلوکیم کی تاریخ میں علامہ محمد اسد کاکردار مرکزی تھا‘‘۳۱؎ لیکن افسوس کہ کلوکیم کے انتظامات کرنے کے بعد علامہ اسد کو اس سے علیحدہ ہونا پڑا۔ ان کے بعد کلوکیم کے ڈائریکٹر کامنصب ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کے حصے میں آیاجب کہ جوائنٹ ڈائریکٹرز کے طور پر علامہ علاء الدین صدیقی (صدر شعبۂ اسلامیات)اور کیپٹن محمد بشیر (رجسٹرار) کاتقرر کیاگیا۔ سیکریٹری کے طور پر شیخ امتیاز علی (پرنسپل یونی۔ورسٹی لا کالج) اور محمدافضل (سیکریٹری سیکنڈری بورڈ)مقررہوئے۔ کلوکیم سے علامہ اسد کی علیحدگی کے بارے میں دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق علامہ اسد کو یونی۔ورسٹی سے کچھ شکایات پیداہوئیں ، دوسرے موقف کے مطابق علامہ اسد سے وائس چانسلرصاحب کے اختلافات اس کا سبب بنے۔ پہلے موقف کااظہار رسالہ ترجمان القرآن کے ایک اداریے سے ہوتا ہے جو کلوکیم کے انعقادکے بعد لکھاگیا جس میں کلوکیم کے حوالے سے تفصیل سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا گیا: …ان تراجم کو دیکھ کرپتہ چلتا ہے کہ محمد اسد صاحب کی شکایات بالکل بجا تھیں اور یہ لوگ اس معیار کو قائم نہیں رکھ سکے جس کی مجلس مذاکرہ متقاضی تھی اور جس کی یقین دہانی اسدصاحب کا استعفیٰ قبول کرتے وقت بار بار کرائی گئی تھی… ۳۲؎ اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اسد کااختلاف انٹرنیشنل اسلامک کلوکیم کے مقالات کی اشاعت سے متعلق تھا اور بعض روایات کے مطابق ان کاخیال تھا کہ عربی مقالات کے انگریزی تراجم اور انگریزی مقالات کے عربی تراجم شائع کیے جائیں ،جیسا کہ علامہ اسد کے شخصیت نگار محمد ارشد نے لکھاہے: ’’علامہ اسد انگریزی زبان میں پیش کیے جانے والے مقالات کاعربی و اُردو جب کہ عربی زبان کاانگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے مترجمین کی خدمات حاصل کرنے میں شیخ الجامعہ سے اختلافات کے سبب اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔‘‘۳۳؎ لیکن رسالہ ترجمان القرآن کے محولہ اقتباس کادوسرا حصہ پھر بھی واضح نہیں ہوتا جس میں کہاگیا ہے کہ’’ جس (معیار) کی یقین دہانی اسد صاحب کا استعفیٰ قبول کرتے وقت بار بار کرائی گئی تھی …‘‘ اس جملے سے بالکل معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے یقین دہانی کروائی تھی …؟ اور کس کوکروائی گئی تھی …؟ اسد صاحب اختلافات کے باعث مستعفی ہورہے تھے تو ایسے میں انھیں کیایقین دہانی کروائی جاسکتی تھی …؟ ایک موقف یہ ہے کہ وائس چانسلر صاحب کلوکیم کے انتظامات کی جانب سے فکرمند تھے اور کلوکیم کے انعقاد میں ایک ماہ رہ گیا تھا جب انھوں نے علامہ اسد کوبلاکربازپُرس کی جس نے تلخ صورت اختیار کرلی اور علامہ اسد فوری طور پر مستعفی ہوگئے۔ راقم الحروف نے شیخ امتیاز علی صاحب سے علامہ اسد کے استعفیٰ کی وجوہ دریافت کیں تو انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر سے سکالرز کو بلایا گیا تھا ، لاہور میں اچھے معیار کا ایک ہی ہوٹل (فلیٹیز) تھا، انتظامیہ پر مہمانوں کے قیام اور سیکورٹی کے مسائل کادبائو تھا ، وائس چانسلر اس حوالے سے فکرمند تھے۔ کلوکیم کے انعقاد میں ایک ماہ رہ گیاتھا جب انھوںنے علامہ اسد کو بلاکراپنی بے اطمینانی کا اظہار کیا اور غالباً انھیں سخت سُست کہا ، جس پر ناراض ہوکر علامہ اسد نے فوری طورپر استعفیٰ پیش کردیا۔۳۴؎ سابق وزیرتعلیم ڈاکٹرمحمدافضل جواُس زمانے میں پنجاب یونی۔ورسٹی سے منسلک تھے،ان کی رائے یہ ہے کہ علامہ اسد ’’کانفرنس کے معاملات میں پوری دلچسپی نہ لے سکے‘‘ ۳۵؎ اور وائس چانسلرمیاں افضل حسین نے اُن سے ’’کام جلدی نپٹانے کاتقاضاکیا ، اس پر تکرار ہوئی۔ ‘‘ ۳۶؎ لیکن کلوکیم کے بعداخبارات و جرائد نے جو تبصرے کیے اُن میں بعض تبصروںسے علامہ اسد کے استعفیٰ کی کچھ اور وجوہ بھی معلوم ہوتی ہیں،جیسا کہ گزشتہ سطور میں ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورکے اقتباس سے ظاہر ہے کہ کچھ شکایات علامہ اسد کو تھیں اور استعفیٰ کاسبب محض انتظامی امور نہیں تھے جب کہ شیخ امتیاز علی صاحب اور ڈاکٹر افضل صاحب کی آراسے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ شکایات وائس چانسلر صاحب کوتھیں اور اسی کش مکش میں نباہ کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ وجوہ جو بھی رہی ہوں علامہ اسد نے ۲؍دسمبر۱۹۵۷ء کوڈائریکٹر انٹرنیشنل اسلامک کلوکیم کے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ اب یونی۔ورسٹی کی طرف اُن کے واجبات بقایاتھے چنانچہ انھوں نے یونی۔ورسٹی سے تین ہزار سات سو پچپن روپے کامطالبہ کیاتاکہ وہ اور ان کی اہلیہ پاکستان سے واپس جاسکیں۔اُن کامطالبہ چانسلرز کمیٹی کے اجلاس منعقدہ ۲۵؍جنوری ۱۹۵۸ء میں زیرِ غور آیا۔ خزانہ دار نے یہ موقف اختیار کیا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو واپسی کاٹکٹ اُس صورت میں دیاجاتا ہے جب انھوں نے اپنے کنٹریکٹ کی مدت پوری کرلی ہو۔ علامہ اسد چونکہ کارِ مفوضہ کی تکمیل سے پہلے مستعفی ہوگئے ہیں اور انھوں نے استعفیٰ سے پہلے ایک ماہ کا نوٹس بھی نہیں دیا اس لیے انھیں اور ان کی اہلیہ کو واپسی کاٹکٹ نہیں دیاجاسکتا۔ اجلاس کو بتایاگیاکہ علامہ اسد نے سپیشل کیس کے طور پرایک ماہ کانوٹس دینے کی شرط ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔اس پر طویل بحث و تمحیص ہوئی جس کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا کہ ایک ماہ کاپیشگی نوٹس دیے جانے کی شرط ختم کرتے ہوئے علامہ اسد کو مطلوبہ رقم دے دی جائے۔ چانسلرز کمیٹی کی روداد میں خزانہ دار کاموقف اس طرح رپورٹ کیاگیاہے : All temporary employees were required to give one month's notice if they resigned. Mr. Asad did not give the required notice. He had, however, requested that the condition of the notice be waived as a special case and that he be paid a sum of Rs.3755/- to cover his traveling expenses as well as those of his wife from Lahore to Bandoum, including incidental charges. The Treasurer was of the view that the payment of return fair for Mr. Asad and his wife could only have been admissible if the return journey would be undertaken by Mr. Asad on the expiry of period of his appointment.37 بحث و تمحیص کے بعد کیے جانے والے فیصلے کے الفاظ یہ ہیں: After some discussion, resolved that the condition of one month's notice be waived and that Mr. Asad be paid the same amount as was paid to him for the inward journey.38 یہ تجربہ پنجاب یونی۔ورسٹی اور علامہ اسد کے وصل کو دائمی فصل میں تبدیل کرنے کاباعث بنا۔ اس کے بعد حکومتِ پاکستان کی طرف سے انھیں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کی سربراہی کی پیش کش کی گئی اور وائس چانسلر کے برابر منصب اور سرکاری خرچ پراپنے ملک سے پاکستان آمدورفت کی سہولتیں پیش کی گئیں۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کی سربراہی کی پیش کش بھی کی گئی لیکن انھوں نے یہ مناصب قبول نہیں کیے۔ ان کے استعفیٰ کے بعداسلامک کلوکیم حسبِ پروگرام ۲۹؍دسمبر۱۹۵۷ء سے ۸؍جنوری ۱۹۵۸ء تک لاہور میں منعقد ہوااور اُس میں پیش کیے جانے والے مقالات کامجموعہ انٹرنیشنل اسلامک کلوکیم پیپرز کے نام سے شائع کیاگیا۳۹؎ لیکن اس میں علامہ اسد کا کوئی ذکر نہیں۔ خ…خ…خ…خ حوالے و حواشی ۱- سیدنذیرنیازی کے نام علامہ اقبال کے مندرجہ ذیل مکتوبات میں علامہ اسد اور اُن کے اسلامیہ کالج لاہور سے تعلق کے حوالے سے ذکر موجود ہے۔ مکتوب مورخہ ۲۷؍جون۱۹۳۴ء (جس میںعلامہ اسد کو خط لکھنے کاذکر ہے) ۲۳؍جولائی ۱۹۳۴ء ، ۲۸؍جولائی ۱۹۳۴ء ، ۳۰؍جولائی ۱۹۳۴ء ، ۱۱؍اگست۱۹۳۴ء اور ۳۱؍اکتوبر۱۹۳۴ء دیکھیے: سیدمظفرحسین برنی: کلیات ِ مکاتیبِ اقبال، اُردو اکادمی ،د ہلی، جلد سوم، ص ص۔ ۵۲۹و مابعد۔ 2- Muhammad, Asad, Islam at the Crossroads, Lahore, Arafat Publications, 1934. 3- Ibid. (some press opinions) 4- M. Ikram Chaghatai (ed.) Muhammad Asad Europe's Gift to Islam, The Truth Society and Sang-e-Meel Publications, 2006, Lahore, Vol. I, Introduction p. iii. اسد کے سوانحی اشارات کے سلسلے میں بھی اس کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ۵- اقبال کا فکروفن: مرتبہ افضل حق قرشی، یونیورسل بکس، لاہور، ۱۹۸۸ئ، ص۲۱۲۔ 6- Muhammad Asad, Sahih al-Bukhari, (Translated from the Arabic with explanatory notes) Lahore, Arafat Publications. Muhammad Asad, Sahih al-Bukhari, The Early Years of Islam, Gibraltar, Dar al Andalus, 1981, Preface. 7- New York, Simon and Schuster, 1954. 8- Berkeley, California, University of California Press, 1961. 9- Mecca, Muslim World League. 10- Gibralter, Dar al Andalus, 1987. 11- Gunther Windhager, Leopold Weiss alias Muhammad Asad Von Galizien nach Arabien 1900-1927, Bohalu Wien. 12- M. Ikram Chaghatai (ed.), op-cit, Vol. I & II pp. 1240. ۱۳- محمد ارشد، ’’اسلامی ریاست کی تشکیلِ جدید… محمد اسد کے افکار کا تنقیدی مطالعہ‘‘ ،تحقیقی مقالہ برائے پی۔ ایچ۔ڈی، شعبہ علوم اسلامیہ پنجاب یونی۔ورسٹی، لاہور، اپریل ۲۰۰۷ء 14- Proceedings of Meeting of the Syndicate of the University of the Punjab, dated 5-02-1949, paragraph 16, No. 1834/GM, dated 19-02-1949. 15- The Senate at its meeting held on 29th March, 1949 has approved the following items: 15) That the recommendations of the Syndicates relating to the appointment of the following persons in the various University teaching Departments be approved (vide paragraphs 16 & 2,3,32 and 38 of the Syndicates proceeding dated the 5th and 11th February 1949 respectively):- 1. Allama Muhammad Asad as honorary Head of the Department of Islamiyyat. 16- Poceedings Meeting of Senate, March 30, 1950, Para No. 12. ۱۷- مثال کے طور پر دیکھیے: مرقع صدیقی، مرتبہ پروفیسرڈاکٹر جمیلہ شوکت، لاہور، مجلس فاضلین علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب لاہور، پاکستان، ۲۰۰۳ء ص ص ۱۴، ۷۹،۱۸۵ ۔ 18- Proceedings of Meeting of the Syndicate of the University of the Punjab, dated the 7-03-1950 paragraph 15, No. 15 after considering item no. 24 on the deffered agenda, it was decided to accept the resignation of Allama Muhammad Asad and to appoint Mr. Ala-ud-Din Siddiqi as honorary head of the Department of Islamiyyat in his place. ۱۹- علامہ اسد کو شعبہ اسلامیات کی سربراہی پیش کیے جانے کاذکر سب سے پہلے راقم الحروف نے کیا لیکن جس کتاب میں یہ ذکر ہوا وہاں یہ مبحث زمانہء زیرِ بحث سے متعلق نہیں تھا اس لیے محض اس طرف اشارہ کیا جاسکا (تاریخ جامعہ پنجاب جلد دوم لاہور پنجاب یونی۔ورسٹی ۲۰۰۴ء ص ۳۴۶) اب زیرِ نظر مضمون کے ذریعے وضاحت کی جا رہی ہے کہ علامہ اسد نے منصب قبول کرنے کے بعد اور اس منصب پر گیارہ ماہ تک فائز رہنے کے بعد یہ معذرت کی تھی۔ 20- All Pakistan Political Science Association, Proceedings of the First All Pakistan Political Science Conference 1950, Lahore, The Punjab University Press, 1950. بحوالہ محمد ارشد ،محولہ بالا ،ص۱۲۵۔ ۲۱- غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر، صد سالہ تاریخ جامعہ پنجاب، لاہور، جامعہ پنجاب، ۱۹۸۲ئ، ص ۲۶۱۔ ۲۲- غلام حسین ذوالفقار ، ڈاکٹر، تاریخ یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور، لاہور، اورینٹل کالج ،۱۹۶۲ء ،ص ۱۸۷۔ 23- Murad, Wilfried Hofmann, "Meeting Muhammad" Asad (Lisbon 21 September 1985), in Muhammad Asad, Europe's Gift to Islam, edited by M. Ikram Chaghatai, Lahore, The Truth Society and Sang-e-Meel Publications, 2006, Vol. II, p. 1142. ۲۴- غلام حسین ذوالفقار ، ڈاکٹر، تاریخ یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور، اورینٹل کالج، ۱۹۶۲ئ، ص ۲۲۸-۲۲۹۔ ۲۵- غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر، صد سالہ تاریخ جامعہ پنجاب، لاہور، جامعہ پنجاب، ۱۹۸۲ئ، ص ۲۹۰۔ 26- Alauddin Siddiqui, Foreword, International Islamic Colloquium Papers, Decemebr 29, 1957- January 8, 1958, Lahore, Punjab University Press, 1960, p.VII. 27- Proceedings of the Chancellor's Committee, University of the Punjab, Lahore, dated 25th January, 1958. 28- Proceedings of the Chancellor's Committee, University of the Punjab, Lahore, dated 30th March, 1957. 29- Proceedings of the Chancellor's Committee, University of the Punjab, Lahore, dated 20th April, 1957. 30- Proceedings of the Chancellor's Committee, University of the Punjab, Lahore, dated 30th November, 1957. ۳۱- صد سالہ تاریخ جامعہ پنجاب، محولہ بالا، جائے مذکور ۔ ۳۲- ’’اشارات‘‘، ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور،مرتبہ سید ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور، جمادی الآخر، ۱۳۷۷ھ، جلد ۴۹، عدد ۴، ص ۱۱۔ ۳۳- محمد ارشد، محولہ بالا ۔ ۳۴- پروفیسر شیخ امتیاز علی سے راقم الحروف کی ٹیلی فونی گفتگو، ۱۹؍جون ۲۰۰۷ئ۔ ۳۵- ڈاکٹر محمدافضل در یارانِ مکتب جلد دوم، حصولِ پاکستان کی جدوجہد، عینی شہادتیں، مرتبہ بیدارملک، لاہور، پاکستان سٹڈی سنٹر، پنجاب یونی۔ورسٹی، قائداعظم کیمپس، ۱۹۹۲ئ، ص ص ۲۱۳-۲۱۴۔ ۳۶- ایضاً 37-38 Proceedings of the Chancellor's Committee, University of the Punjab, Lahore, dated 25th January, 1958. ۳۹- دیکھیے حوالہ نمبر۲۲ خ…خ…خ…خ  اقبال اور اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شہید ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی خلاصہ اقبال کا افغانستان اور افغانوں سے گہرا تعلق رہا۔ افغان سیاسی شخصیات میں غازی امان اللہ کے بعد محمد نادر شاہ دوسری شخصیت تھے جن سے علامہ کے قریبی مراسم تھے۔ افغانستان کی تعمیرنو کے سلسلے میں علامہ نے نادر شاہ سے ہرممکن تعاون کیا۔ ملاقاتوں کے علاوہ نادر شاہ سے علامہ کی خط و کتابت بھی رہی۔ جب نادر شاہ برسراقتدار آئے تو علامہ ان کی دعوت پر افغانستان تشریف لے گئے۔ جب نادرشاہ کو قتل کیا گیا تو علامہ نے ظاہرشاہ کے نام خط میں اسے پورے اسلام کے لیے عظیم نقصان قرار دیا۔ خ…خ…خ افغان سیاسی شخصیات میں غازی امان اللہ خان کے بعد دوسری شخصیت اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی تھے جن سے حضرت علامہ کے مراسم تھے۔ اقبال ان کی شخصیت، مدبرانہ فراست اور دلیرانہ جرأت کے مداح تھے۔ حضرت علامہ نے اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ سے پہلی ملاقات فروری ۱۹۲۹ء میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر کی تھی جس وقت وہ افغانستان میں بچہ سقّہ کے خونیں انقلاب کے بعد دوبارہ جدوجہد شروع کرنے کے لیے جارہے تھے۔ فقیر سید وحید الدین نے اس ملاقات کے احوال کو یوں بیان کیا ہے: ڈاکٹر صاحب تنگ دستی کے باوجود، اپنی ساری پونجی کئی سو روپوں کی صورت میں لے کر نادر خان سے ملے اور کہا آپ جس نیک مقصد کے لیے جارہے ہیں، اس کے لیے روپوں کی اشد ضرورت ہوگی، اس لیے میرا یہ ہدیہ قبول فرمائیے۔ نادر خان اس پیش کش پر حیران رہ گیا۔ ۱؎ ڈاکٹر ظہیر الدین یہی رقم کئی سو کے بجائے پانچ ہزار روپے بتاتے ہیں: گاڑی کے روانہ ہونے سے کچھ دیر پہلے اقبال نے ان سے تخلیے میں کہا: تم ایک بڑی مہم پر جارہے ہو، میں ایک فقیر آدمی ہوں، نیک تمناوں اور دعائوں سے ہی تمھاری خدمت کرسکتا ہوں۔ اتفاق سے پانچ ہزار کی رقم میرے ساتھ ہے، اگر یہ تمھارے کام آسکے تو مجھ کو بڑی خوشی ہوگی۔ نادر خان نے جو چشم پُرآب تھا، فقیر کی اس دین کو بڑا نیک شگون سمجھا اور بڑے احترام سے اس ہدیے کو قبول کرلیا۔ ۲؎ گویا بچہ سقّہ کے برباد کن انقلاب کے بعد افغانستان کی تعمیر نو میں حضرت علامہ کی جمع کردہ کچھ رقم بھی شامل تھی۔ یہ افغانستان اور افغانوں سے حضرت علامہ کے عشق کا بین ثبوت ہے۔ آپ نہ صرف افغانوں سے توقعات وابستہ رکھتے تھے جن کا اظہار اشعار میں جابجا فرمایا ہے بلکہ آپ نے عملاً بھی افغانوں کی حالت زار کو بدلنے میں حصہ لیا۔ حضرت علامہ اور اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کی اس پہلی ملاقات میں ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا جسے ڈاکٹر سعید اللہ صاحب نے ملفوظات اقبال میں اقبال کی زبانی محفوظ کیا ہے: نادر خان سے جب اول مرتبہ ملاقات ہوئی تو وہ کابل جاتے ہوئے لاہور میں ٹھہر گئے تھے۔ وہ میری صورت دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ کہنے لگے: آپ اقبال ہیں۔ میں تو سمجھتا تھا کہ آپ لمبی داڑھی والے بزرگ صورت ہوں گے۔ میں نے کہا: ’’آپ سے زیادہ مجھے حیرانی ہے۔ آپ تو جرنیل ہیں، میں سمجھتا تھا، آپ دیوہیکل ہوں گے مگر آپ میں جرنیلی کی کوئی شان نہیں، اس قدر دُبلے پتلے۔ ۳؎ نادر خان لاہور سے پشاور چلے گئے جہاں سے وہ کرم ایجنسی سے نکل کر علی خیل میں اپنے سیاسی اُمور چلاتے رہے۔ اس دوران نادر شاہ اور حضرت علامہ میں خط کتابت ہوتی رہی، بقول اللہ بخش یوسفی: دوران علی خیل، نادر خان اور علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال میں خفیہ نوعیت کی خط کتابت جاری رہی۔ علی خیل سے ان کے خطوط ایم اے حکیم تک پہنچائے جاتے تھے، وہاں سے لاہور پہنچانا میرا کام تھا اور اس کام میں میرے دوست عبدالمجید سالک میرے ممد و معاون تھے… علی خیل سے نادر خان نے سائیکلو اسٹائل پر اصلاح نامی اخبار بھی جاری کیا تھا۔ اس کا پہلا پرچہ جب میں نے علامہ اقبال کی خدمت میں پیش کیا تو اسے دیکھتے ہی فرمانے لگے: نادر خان کامیاب ہے ۔۴؎ علامہ اور نادر خان کے درمیان یہ خطوط، ممکن ہے کہ آج بھی انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہوں کیونکہ یہ خطوط برطانوی حکومت کے ہاتھ آئے تھے۔ علامہ کے عزیز خالد نظیر صوفی نے انکشاف کیا ہے: علامہ اقبال اور شاہ افغانستان کے مابین خط کتابت تھی مگر یہ خطوط ایک معتمد نے چوری کرکے برطانوی گورنمنٹ کے ہاتھ فروخت کردیے ۔۵؎ ان خطوط میں ایک خط انقلاب میں اشاعت کی بدولت محفوظ ہوگیا ہے۔ یہ خط نادر خان نے علی خیل سے ۹ ربیع الثانی ۱۳۴۸ھ کو تحریر کیا تھا۔ ’’ھو اللہ‘‘ تحریر روز شنبہ ۹ ربیع الثانی ۱۳۴۸ھ مقام علی خیل جناب فاضل محترم ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا محمد اقبال صاحب افغانستان نزدیک تباہی و ملت بیچارہ اش دوچار تہلکہ بزرگ است و خیلی احتیاج بہ ہر گونہ معاونت برادرانہ ہمدردان وبرادران ہندی خود دارد۔ اقدامات خیر خواہانہ جناب شما دریں وقت خیلی بما معاونت می نماید۔خصوصی مسئلہ اعانت مالی کہ آنرا بیشتر ذریعہ اصلاح ہم بہ برادراں ہندی خود اشاعت کردم امید است کہ آن فاضل محترم کہ بایں مصیبت افغانستان روحاً شرکت دارنداز حدیث خویش دریں موقعہ کارگرفتۂ ملت متالم افغانستان را مشکور و ممنون ابدی فرمائید۔ با احترامات لائقہ محمد نادر خان (ترجمہ) جناب فاضل محترم سر محمد اقبال صاحب افغانستان تباہی کے نزدیک ہے اور بے چاری افغان قوم کو بہت بڑی ہلاکت کا سامنا ہے۔ افغانستان اپنے بھائیوں کی امداد و اعانت کا محتاج ہے۔ آپ ایسے وقت میں جو خیرخواہانہ قدم اُٹھا رہے ہیں، وہ ہمارے لیے ڈھارس کا موجب ہے خصوصاً مالی امداد کا مسئلہ جس کے متعلق اخبار اصلاح کے ذریعے اپنے ہندی بھائیوں کے لیے شائع کرچکا ہوں، بہت حوصلہ افزا ہے۔ اُمید ہے کہ جناب فاضل محترم افغانستان کی موجودہ مصیبت میں روحانی طور پر شریک ہیں۔ اس موقع پر اپنی مساعی سے کام لے کر افغانستان کی رنج زدہ قوم کو ہمیشہ کے لیے ممنون و مشکور فرمائیں گے۔ با احترامات لائقہ محمد نادر خان۶؎ جس وقت جنرل نادر خان بچہ سقّہ کے خلاف مصروفِ جہاد تھے، مسلمانانِ ہند نے ان کو مالی امداد بہم پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے ۳؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کو علامہ اقبال کے زیر صدارت ایک جلسہ منعقد ہوا۔ ۷؎ اس جلسے میں جو لاہور میں سعادت خان کے مکان پر ہوا تھا، باہمی مشورہ سے باتفاق یہ طے پایا کہ امداد مہیا کرنے کے لیے نادر خان ہلال احمر فنڈ قائم کیا جائے۔ سرمائے کی فراہمی کے لیے ایک مجلس عاملہ بنائی گئی۔ علامہ اقبال نے ۱۱؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کو قوم سے حسب ذیل اپیل کی: برادارانِ ملت و جوانانِ اسلام افغانستان کے حالات آپ کو معلوم ہیں۔ اس وقت اسلام کی ہزارہا مربع سرزمین اور لاکھوں فرزندانِ اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے اور ہمدرد اور غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند پر ہی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو بادِ فنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لیے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہو،کر گزریں۔ لاہور میں جنرل نادر خان اور افغانستان کے زخمی سپاہیوں، بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی امداد و اعانت کے لیے ’’نادر خان ہلال احمر سوسائٹی‘‘ قائم ہوچکی ہے۔ جس کا دفتر بالعموم صبح چھ بجے سے لے کر دس بجے رات تک برکت علی اسلامی ہال میں کھلا رہتا ہے۔ حالات کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انجمن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں لاہور اور ہندوستان سے زیادہ سے زیادہ روپیا جمع کرنے کے لیے اپنی قوت و کشش صرف کردے۔ اس غرض کے لیے اسے ایثار پیشہ کارکنوں کی ضرورت ہے جو رضاکارانہ حیثیت سے مقررہ وقت پر اور منظم طریق سے لاہور میں کام کریں۔ اس کے علاوہ دفتر کو تمام ملک سے خط و کتابت کرنا ہے، ہزاروں اپیلیں بھیجنی ہیں، سیکڑوں اخبارات اور ہر ایک شہر کے رؤسا، امرا اور اسلامی انجمنوں کو خطوط لکھنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قدر وسیع کار جو لاہور کے ہر ایک گلی کوچے پر مسلط ہو اور دوسری طرف تمام ملکی اخبارات اور تمام اسلامی انجمنوں اور بستیوں پر محیط ہو، مستقل مزاج، سنجیدہ، درد مند، ذی عزم اور بااحساس کارکنوں کی امداد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جنرل نادر خان کی امداد کو اس کی حقیقی اہمیت کے مطابق وسعت دینے کے لیے اسے جواں ہمت کارکنوں کی ضرورت ہے جو مقامی طور پر وارڈ وار پبلک جلسوں کے انعقاد اور ملکی اخبارات، انجمنوں، کارکنوں اور تمام فیاض اور ذی استطاعت اصحاب سے خط و کتابت کرنے میں انجمن کو امداد دیں۔ میں اپنے تمام سنجیدہ اور مخلص عزیزوں سے جن کے دل میں اسلام کا درد ہے جو آزاد اور متحد افغانستان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، ان تمام مقامی انجمنوں کے اراکین سے جو ’’نادر خان ہلال احمر سوسائٹی‘‘ سے تعاون و اشتراکِ عمل کے لیے آمادہ ہوں، بڑے زور سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ برکت علی اسلامیہ ہال میں قریشی صاحب سے ملیں اور اپنے وقت کا کچھ حصہ معمولی تفریح یا کم ضروری مشاغل سے بچا کر انجمن ہلال احمر کے کام میں صرف کریں اور یقین کریں کہ یہاں لاہور میں آپ کا ایسا کرنا وہاں افغانستان میں پہنچ کر نادر خان صاحب کی امداد کرنے کے مترادف ہوگا۔ ۸؎ بچہ سقّہ کی فوجوں کو شکست ہوگئی اور اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی ۲۳ میزان ۱۳۰۸ھ ش بمطابق ۱۷؍اکتوبر ۱۹۲۹ء افغانستان کے بادشاہ بن جاتے ہیں۔۹؎ نادر خان ہلال احمر فنڈ کے لیے محمد جمیل صاحب سے دس روپے کا چندہ ملتا ہے، علامہ شکریے کے طور پر انھیں ۴؍نومبر ۱۹۲۹ء کو انگریزی میں مکتوب بھیجتے ہیں۔ اس کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے: ہلال احمر فنڈ کے لیے دس روپے کے عطیے کا شکریہ۔ مجھے اُمید ہے احبابِ بنگلور جن سے میں نے اس سلسلے میں اعانت کی درخواست کی تھی، فراخ دلی سے چندہ دیں گے۔ ہمارے اٹک پار بھائیوں کی طرف سے جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، وہ ان حضرات کو یاد دلائیے۔ افغانستان کا استحکام مسلمانانِ ہندوستان اور وسطی ایشیا کے لیے وجہ جمعیت و تقویت ہے۔ بچہ سقّہ اپنے گیارہ ساتھیوں سمیت قتل ہوچکا ہے اور نادر خان بادشاہ بتدریج استحکام حاصل کررہے ہیں۔ ۱۰؎ یاد رہے کہ یہ خط لکھنے سے صرف ایک روز بیشتر ۳؍نومبر ۱۹۲۹ء بمطابق ۱۱؍عقرب ۱۳۰۸ھ ش کو بچہ سقّہ حبیب اللہ اور ان کے حسبِ ذیل ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ ۱- حمید اللہ (بچہ سقّہ حبیب اللہ کا بھائی) ۲- سید حسین وزیر جنگ ۳- ملک محسن گورنر کابل ۴- شیر جان وزیر دربار ۵- محمد صدیق فرقہ مشر (فوجی سربراہ) ۶- محمد محفوظ قوماندان امیند ۷- قلعہ بیگی وغیرہ ۴؍مارچ ۱۹۳۰ء کو ایک بار پھر محمد جمیل صاحب کے نام ایک اور مکتوب میں افغانستان میں امن و امان اور محمد نادر شاہ سے متعلق خوش بینی کا اظہار یوں کرتے ہیں: افغانستان میں دوبارہ امن قائم ہوتا جاتا ہے۔ نادر خان ملک کو شاہراہ ترقی پر ڈالنے کی بے حد کوشش فرما رہے ہیں۔ وہ افغانوں کے محبوب ہیں اور نیم پنجابی بھی۔ ان کی والدہ لاہور میں پیدا ہوئیں اور یہیں پرورش پائی۔ ۱۲؎ نادر خان غازی برسر اقتدار آنے کے بعد، علامہ سے دیرینہ رفاقت کا حق ادا کرتے ہوئے انھیں افغانستان آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اس باقاعدہ دعوت سے پہلے بھی افغانستان سے قلبی و روحانی تعلق و عقیدت کی بنا پر وہاں کا سفر کرنے کے بارے میں سوچتے رہے۔ جس کا تذکرہ وقتاً فوقتاً ان کی مختلف تحریرات اور مکتوبات میں ملتا ہے۔ محمد نادر شاہ غازی کی جانب سے افغانستان آنے کا باقاعدہ دعوت نامہ وصول کرتے ہیں، تو اس کا ذکر یوں کرتے ہیں: از حضور او مرا فرماں رسید آنکہ جانِ تازہ در خاکم دمید سوختیم از گرمیِ آواز تو اے خوش آں قومے کہ داند راز تو از غم تو ملتِ ما آشنا ست می شناسیم ایں نواہا از کجاست۱۳؎ چنانچہ حضرت علامہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ علامہ کے ساتھ پروفیسر ہادی اور سر راس مسعود کے ساتھ بیرسٹر غلام رسول خان بطور سیکرٹری تھے۔ ڈین ہوٹل پشاور میں رات بسر کرنے کے بعد ۲۱؍اکتوبر کی صبح حکومت افغانستان کی طرف سے فراہم کردہ خصوصی موٹرکار میں پشاور سے کابل روانہ ہوئے۔ رات جلال آباد میں بسر کی۔ اگلے روز ۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو جلال آباد سے روانہ ہوکر شام کو کابل پہنچے۔ کابل میں مصروفیات کے دوران حضرت علامہ اور سر راس معود کی ملاقات نادر شاہ غازی سے بھی ہوئی۔ اس ملاقات میں علامہ کے مطابق عصر کی نماز انھوں نے نادر شاہ کی اقتدا میں پڑھی۔ بقول علامہ ؎ وقت عصر آمد صداے الصلوات آں کہ مومن را کند پاک از جہات انتہاے عاشقانِ سوز و گداز کردم اندر اقتدائے او نماز ڈاکٹر ظہیر الدین احمد اسے مغرب کا وقت قرار دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: پہلی ملاقات میں مغرب کی نماز کے موقع پر ناد شاہ نے اقبال سے امامت کی درخواست کی۔ اقبال نے کہا: نادر میں نے اپنی عمر کسی شاہ عادل کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی تمنا میں گزار دی ہے۔ اب جب کہ خدا نے فقیر کی اس مراد کو پورا کرنے کے اسباب مہیا کردیے ہیں تو کیا تو مجھے اس نعمت سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ آج میں تیری اقتدا میں نماز پڑھوں گا۔ امامت تجھ کو کرنی ہوگی۔۱۵؎ نہیں معلوم کہ ڈاکٹر ظہیرالدین احمد کی اس ’’چشم دید‘‘ روایت کا مآخذ کیا ہے؟ اس ملا قات میں حضرت علامہ نے جنرل نادر خان کو قرآن کریم کا ایک نسخہ پیش کیا: در حضور آں مسلمان کریم ہدیہ آوردم زقرآن عظیم گفتم ایں سرمایۂ اہل حق است در ضمیر او حیاتِ مطلق است اندرو ہر ابتدا را انتہا است حیدر از نیروے او خیبر کشا است۱۶؎ اس تحفے کے لیے جنرل نادر خان نے علامہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا خود علامہ سے ؎ کوہ و دشت از اضطرابہم بے خبر از غمانِ بی حسابم بے خبر نالہ با بانگِ ہزار آمیختم اشک با جوئے بہار آمیختم غیر قران غمگسارِ من نہ بود قوتش ہر باب را بر من کشود۱۷؎ اس لمحے کی روداد کا صاحبِ مکالمات اقبال نے یوں محفوظ کیا ہے: علامہ- اہل حق کی یہی دولت و ثروت ہے اس کی بدولت باطن میں حیات مطلق کے چشمے بہتے ہیں۔ یہ ہر ابتدا کی انتہا اور ہر آغاز کی تکمیل ہے۔ اس کی بدولت مومن خیبر شکن بنتا ہے میرے کلام میں تاثیر اور میرے دل میں سوز و گداز سب اسی کا فیضان ہے۔ نادر شاہ- جب میں جلا وطن تھا اور کوہ و صحرا میں غم زدہ وقت کاٹ رہا تھا جب میرے پاس زندگی کے وسائل کی کمی تھی اور مادی طاقت کا فقدان تھا جب کوئی ساتھی اور غم خوار نہ تھا تو یہی کتاب میری رفیق اور رہنما اور ہمدرد و غمگسار تھی۔۱۸؎ بادشاہ چونکہ کابل شہر کی مختلف مسجدوں میں باری باری نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ جمعہ۲۷؍اکتوبر کو اس روز شہر کی سب سے بڑی مسجد پل خشتی میں نماز پڑھنے والے تھے۔ علامہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے مسجد پل خشتی گئے۔ مسجد میں بادشاہ کے لیے مقصورہ بنا ہوا تھا۔ مہمانوں کو بھی مقصورہ میں جگہ دی گئی۔۱۹؎ جمعرات ۲؍نومبر ۱۹۳۳ء کو چمن کے ذریعے ہندوستان میں داخل ہوکر حضرت علامہ نے سیر افغانستان کا اختتام کیا۔ ۶؍نومبر کو اپنے ہمسفروں کی ایما پر اپنے دورہ افغانستان کے حوالے سے ایک اخباری بیان جاری کیا جس میں اعلیٰ حضرت نادر شاہ غازی کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا گیا ہے: اعلیٰ حضرت شاہ افغانستان نے ہمیں شرف بازیابی بخشا اور کافی طویل گفتگو ہوتی رہی۔ اعلیٰ حضرت کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ ان کا ملک پھلے پھولے اور اپنے ہمسایہ ممالک سے صلح و آشتی قائم رکھے۔ افغانستان آج تک ایک متحد ملک ہے جہاں ہر طرف بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اور حکام کافی سوچ بچار کے بعد نئے پروگرام بنا رہے ہیں۔ افغانستان سے ہم اس یقین کے ساتھ واپس لوٹے ہیں کہ اگر موجودہ حکام کو دس سال تک اپنا کام جاری رکھنے کا موقع مل جائے تو بلا شک و شبہ افغانستان کا مستقبل شاندار ہوگا۔۲۰؎ ابھی اس اخباری بیان کو دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ بدھ ۸؍نومبر ۱۹۳۳ء بمطابق ۱۶؍عقرب ۱۳۱۲ھ ش کابل میں اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کو شہید کردیا گیا۔ حضرت علامہ نے ۱۵؍نومبر ۱۹۳۳ء کو نادر شاہ شہید کے جانشین المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ کے نام حسبِ ذیل تعزیتی مکتوب میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا: ۱۵؍نومبر ۱۹۳۳ء اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کے قتل کی خبر سے مجھے ذاتی حیثیت سے بے حد صدمہ پہنچا ہے۔ اعلیٰ حضرت شہید کی خدمت میں گذشتہ کئی سال سے مجھے نیاز حاصل تھا۔ اور میں ان کی شفقت اور محبت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ شہید کی روح کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور آپ کے لیے اس جلیل القدر شہید کی یاد موجب رہنمائی ہو۔ اور اللہ تعالیٰ آپ کو افغانستان کی خدمت کے لیے مدت دراز تک زندہ رکھے۔ ملتِ افغانی نے اتفاق آرا سے آپ کے حضور میں اطاعت کرکے جس دانشمندی اور جذباتِ تشکر کا ثبوت دیا ہے، اس کی تحسین میں ساری دنیا ہم زبان و ہم آہنگ رہے گی۔۲۱؎ موصوف نے اپنے والد کی شہادت پر حضرت علامہ کے تعزیتی مکتوب کا جواب یوں ارسال کیا: کابل ۲۳؍نومبر ۱۹۳۳ء از اظہارِ تعزیت و تالم شمابہ نسبت شہادت دردناک اعلیٰ حضرت محبوب افغانستان محمد نادر شاہ غازی متشکرم محمد ظاہر خان۲۲؎ نادر شاہ شہید کی تعزیت حضرت علامہ نے محمد ظاہر شاہ کے علاوہ تمام افغان ملت سے بھی کی۔ وزیراعظم افغانستان کے نام حضرت علامہ کے تعزیتی مکتوب کا متن مندرجہ ذیل ہے: میں نے اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کے غدارانہ قتل کی خبر سے نہایت شدید رنج و اندوہ محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ اعلیٰ حضرت شہید کی روح کو خلعتِ مغفرت عطا فرمائے۔ آپ نجات دہندہ افغانستان اور زمانۂ حاضر کے جلیل ترین حکمرانوں میں سے تھے۔ اور آپ کے انتقال کا نقصان تمام دنیائے اسلام میں محسوس کیا جائے گا۔ اعلیٰ حضرت شہید کی ذاتی شجاعت، ذاتی تقویٰ اور اسلام اور افغانستان سے محبت آئندہ نسلوں کے لیے بہت بڑی ہمت افزائی اور تحریک عمل کا باعث ہوگی۔ از راہ نوازش میری طرف سے دلی ہمدردی کا اظہار اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ، سید شاہ محمود خان اور دیگر افرادِ خاندان شاہی کی خدمت میں پہنچا دیجیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اس صدمے میں صبر و ثابت قدمی کی توفیق عطا فرمائے۔۲۳؎ ۱۹۳۴ء میں جمال الدین احمد (بی اے آنرز) اور محمد عبدالعزیز نے افغانستان پر انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی۔ مقدمہ لکھنے کے لیے ان کی نگاہ انتخاب علامہ اقبال پر پڑی۔ علامہ نے اس کتاب کا دیباچہ تحریر کیا جس کے فارسی ترجمے کو بعد میں مجلہ کابل نے اہتمام سے شائع کیا۔ اس میں بھی اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کا خصوصی تذکرہ موجود ہے۔ علامہ لکھتے ہیں: از من خواہش شد دوسہ سطری بہ عنوان مقدمہ دو اطراف ایں کتاب گراں قیمت کہ راجع بہ افغانستان نگارش یافتہ بنوسیم۔ این تکلیف را بنظر رضا و استحسان می نگرم زیرا سرور و علاقہ ام با افغانستان نہ تنہا از جہتی است کہ من افغانہارا دایما یک ملت غیور و داراں قوہ خستہ گی ناپیذیر د در زندگی میدانم بلکہ شرفیاں بحضور اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی آں پادشاہ صاحب شمشیر و تدبیر بیشتر مراقانع نمود کہ بہ نوا اودر پیکر ملت افغان روح تازہ دمید و چشم ملت را بمنظر عالم امروزہ باز نمودہ۔۲۴؎ (مجھ سے کہا گیا ہے کہ افغانستان پر اس نفیس کتاب کے پیش گفتار کے طور پر چند سطریں لکھ دوں۔ مجھے اس فرمایش کے پورا کرنے میں خوشی محسوس ہورہی ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ میں افغانوں کا ایک جفاکش اور سخت کوش جاندار قوم کی حیثیت سے احترام کرتا ہوں بلکہ اس لیے بھی کہ مرحوم نادر شاہ کو شخصی طور سے جاننے کی عزت بھی مجھے حاصل ہے۔ وہ مجاہد، سیاست دان جس کی شخصیت نے اس کی قوم میں ایک نئی جان ڈال دی اور جدید دنیا کو سمجھنے کے لیے نئی نظر بخشی۔۲۵؎) حضرت علامہ اقبال کے کلام میں جابجا نادر شاہ غازی سے متعلق اشعار ملتے ہیں۔ بالِ جبریل میں ایک نظم کا عنوان ہے نادر شاہ افغان حضور حق سے چلا لے کے لولوئے لالا وہ ابرجس سے رگِ گل ہے مثل تارِ نفس صدا بہشت سے آئی کہ منتظر ہے ترا ہرات و کابل و غزنی کا سبزۂ نورس سرشک دیدۂ نادر بہ داغِ لالہ فشاں چنان کہ آتشِ اُو را دگر فرو نہ نشاں۲۶؎ جاوید نامہ میں آں سوئے افلاک کے تحت بہ کاخِ سلاطین مشرق کے تحت ایک عنوان ہے۔ نادر ابدالی سلطان شہید خسرواںِ مشرق اندر انجمن سطوتِ ایران و افغان و دکن نادر آں دانائے رمزِ اتحاد با مسلماں داد پیغامِ وداد۲۷؎ نادر خوش بیا اے نکتہ سنج خاوری اے کہ می زیبد ترا حرفِ دری محرمِ رازیم با ما راز گوے آنچہ میدانی زایراں بازگوے۲۸؎ اسی نظم میں ابدالی کے عنوان کے تحت ایک بار پھر نادر شاہ کا تذکرہ کرتے ہیں: آنچہ بر تقدیر مشرق قادر است عزم و حزم پہلوی نادر دراست پہلوی آں وارثِ تختِ قباد ناخنِ او عقدۂ ایراں کشاد نادر آں سرمایۂ درانیاں آں نظامِ ملت افغانیاں از غمِ دین و وطن زار و زبوں لشکرش از کوہسار آمدبروں ہم سپاہی، ہم سپہ گر، ہم امیر باعدو فولاد و با یاراں حریر من فدائے آنکہ خود را دیدہ است عصر حاضر را نکو سنجیدہ است غربیاں را شیوہ ہائے ساحری است تکیہ جزبر خویش کردن کافری است۲۹؎ فردوسِ بریں میں سلطان شہید اور زندہ رود کے طویل مکالمے کے بعد سلطان شہید کا پیغام بنامِ رود کا ویری حقیقت حیات و مرگ شہادت کے نام سے طویل نظم موجود ہے۔۳۰؎ ۱۹۳۳ء میں اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی کے دعوت پر علامہ افغانستان تشریف لے گئے وہاں کے تاثرات و کیفیات کو مثنوی مسافر میں بیان کیا جہاں جابجا نادر شاہ غازی کا تذکرہ ملتا ہے۔ ؎ نادرِ افغان شہ درویش خو رحمت حق برروانِ پاک او کار ملت محکم از تدبیر او حافظ دین مبین شمشیر او چون ابوذر خود گداز اندر نماز ضربتش ہنگام کین خارا گداز عہدِ صدیقؓ از جمالش تازہ شد عہدِ فاروقؓ از جلالش تازہ شد از غمِ دین درویش چوں لالہ داغ در شبِ خاور وجودِ او چراغ در نگاہش مستی اربابِ ذوق جوہرِجانش سراپا جذب و شوق خسروی شمشیر و درویشی نگہ ہر دو گوہر از محیط لا الہ فقر و شاہی وارداتِ مصطفی است این تجلیہاے ذات مصطفی است این دو قوت از وجودِ مومن است ایں قیام و آں سجودِ مومن است فقر سوز و درد و داغ و آرزوست فقر را درخوں تپیدن آبروست فقر نادر آخر اندر خون تپید آفرین بر فقر آن مرد شہید اے صبا اے رہ نوردِ تیزگام در طواف مرقدش نرمک خرام شاہ در خواب است پا آہستہ نہ غنچہ را آہستہ تر بکشا گرہ۳۱؎ مذکورہ مثنوی میں شہرکابل میں ورود اور اعلیٰ حضرت نادر شاہ سے ملاقات اور ان کی اقتدا میں نماز کی ادائیگی کے علاوہ اعلیٰ حضرت نادر شاہ کے اوصافِ حمیدہ کو خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔ ان اشعار سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اعلیٰ حضرت نادر شاہ میں اقبال کا مرد مومن اپنی پوری جرات و شجاعت اور حکمت۔وعظمت سے مجسم ہوگیا ہے۔ اقبال کو ان کی شخصیت میں اسلاف کی خوبیاں اپنے دور کے مقتضیات سمیت جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ علاوہ ازیں اسی مثنوی قرآن مجید کے ہدیہ کے مطلق اقبال کے اشعار ہیں جن قرآن مجید کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ اور نادر شاہ کی اقتدا میں نماز کی ادائیگی بھی مذکور ہے۔ یہاں میں حضرت علامہ کی وہ یاد داشت نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو انھوں نے بالِ جبریل میں ’’افکارِ پریشاں‘‘ سے پہلے در ج کی ہے اور اعلیٰ حضرت نادر شاہ غازی کے لطف و کرم کا تذکرہ کیا ہے: اعلیٰ حضرت شہید امیر المومنین نادر شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے لطف و کرم سے نومبر۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ چند افکارِ پریشاں جن میں حکیم کے ہی ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے اس روز سعید کی یادگار میں سپرد کیے گئے۔ ما از پے سنائی و عطار آمدیم۔۳۴؎ حضرت علامہ کی لوحِ مزار پر کندہ تحریر پر بھی محمد نادر شاہ غازی کا خصوصی ذکر موجود ہے یاد رہے کہ یہ کتبہ افغانستان حکومت کی جانب سے علامہ کے مزار کے لیے خصوصی طور پر بنایا گیا ہے۔ شاعر و فیلسوف شرق داکتر محمد اقبال کہ راہ سعی و عمل و روحِ اسلام رابہ ہم کناں روشناختہ و ازیں رو مظہر قبول محمد نادر شاہ غازی ملت افغان واقع شد۔ در ۱۲۹۴ھ تولد و بسنہ ۱۳۵۷ھ ق وفات یافت۔ علامہ سے نادر شاہ کے قریبی مراسم اور نادرشاہ سے اقبال کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ جاوید منزل میں علامہ کی خواب گاہ میں علامہ کے سرہانے اپنی بڑی سائز کی تصویر کے علاوہ دائیں جانب محمد نادر شاہ غازی اور بائیں جانب سر راس مسعود کے نسبتاً چھوٹے سائز کی تصاویر رکھی ہیں جو آج تک اسی حالت میں محفوظ ہیں۔ خ…خ…خ…خ حوالے و حواشی ۱۔فقیر سید وحید الدین: روزگار فقیر،جلد اول۔ لائن آرٹ پریس، کراچی، ۱۹۶۵ئ،ص ۸۹۔ ۲۔طاہر تونسوی: اقبال اور عظیم شخصیات، تخلیق مرکز، لاہور، ۱۹۷۹ئ،ص ۱۶۵۔ ۳۔طاہر فاروقی: سیرت اقبال، قومی کتب خانہ، لاہور، طبع سوم، ستمبر ۱۹۴۹ئ،ص۸۰-۸۱۔ ۴۔اللہ بخش یوسفی: سرحد اور جدوجہد آزادی، مرکزی اُردو بورڈ، لاہور، ۱۹۶۸ئ،ص۴۷۹۔ ۵۔ہفت روزہ، چٹان، ۱۸؍فروری، ۱۹۷۴ئ۔ ۶۔طاہر تونسوی: اقبال اور عظیم شخصیات،تخلیق مرکز، لاہور، ص۱۴۴۔ ۷۔میر عبدالصمد: اقبال اور افغان، یونی ورسٹی بک ایجنسی، لاہور،۱۹۹۰ئ،ص۱۱۷۔ ۸۔اقبال اور عظیم شخصیات،ص ۱۶۷-۱۶۸۔ ۹۔علامہ عبدالحئی حبیبی: دافغانستان پیشلیک، بیہقی مؤسسہ کتب کابل، ۱۳۴۳ھ ش،ص ۲۶۴۔ ۱۰۔محمد عبداللہ قریشی (مرتب): روحِ مکاتیب اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ئ،ص۳۹۴۔ ۱۱۔دافغانستان پیشلیک،ص۲۶۴۔ ۱۲۔روحِ مکاتیب اقبال،ص۳۹۶۔ ۱۳۔علامہ اقبال: مثنوی پس چہ باید کرد مع مسافر، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع نہم، ۱۹۸۵ئ،ص۵۶۔ ۱۴۔ایضاً،ص۶۳۔ ۱۵۔اقبال ریویو، لاہور، جنوری ۱۹۷۶ئ،ص۳۹-۴۰۔ ۱۶۔مثنوی مسافر،ص۶۲۔ ۱۷۔ایضاً،ص۶۳۔ ۱۸۔مکالمات اقبال،ص۱۴۔ ۱۹۔سید سلیمان ندوی: سیر افغانستان، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، سنہ ندارد۔ ۲۰۔لطیف احمد شروانی(مترجم): حرفِ اقبال، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد، سنہ ندارد۔ ۲۱۔روحِ مکاتیب اقبال،ص۴۸۰۔ ۲۲۔محمد حمزہ فاروقی: اقبال کا سیاسی سفر، بزمِ اقبال لاہور، ۱۹۹۲ئ،ص۲۰۷۔ ۲۳۔روحِ مکاتیب اقبال،ص۴۸۱۔ ۲۴۔مجلہ ’کابل‘ ۳۲۲مارچ ۱۹۳۵ئ،ص۸۶-۸۷۔ ۲۵۔اقبال اور عظیم شخصیات،ص۱۷۰-۱۷۱۔ ۲۶۔علامہ محمد اقبال: بالِ جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۹۱ئ،ص۱۵۳۔ ۲۷۔علامہ محمد اقبال: جاوید نامہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع یاز دہم، ۱۹۸۶ئ،ص۱۷۲۔ ۲۸۔جاوید نامہ،ص۱۷۳۔ ۲۹۔ایضاً،ص۱۸۰۔ ۳۰۔ایضاً،ص ۱۸۰-۱۸۶۔ ۳۱۔مثنوی مسافر،ص۵۵-۵۶۔ ۳۲۔ایضاً،ص۶۱-۶۳۔ ۳۳۔ایضاً،ص۸۰۔ ۳۴۔بالِ جبریل،ص۲۲۔ خ…خ…خ…خ  ڈاکٹر محمد دین تاثیر بطور اقبال شناس ڈاکٹر ریاض قدیر خلاصہ ڈاکٹر محمد دین تاثیر بیسویں صدی کے اردو ادب کی تاریخ میں ایک نمایاں نام ہے۔ وہ خوش گو شاعر، صاحب طرز ادیب اور معتبر نقاد تھے۔ ان کے ایک سو سے زاید مضامین میں سے تیس مضامین اقبال کی شخصیت اور شاعری سے متعلق ہیں۔ تاثیر کو علامہ سے ملاقاتوں کے علاوہ ان کے قریب رہ کر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ جس سے وہ علامہ کی شخصیت، ذاتی زندگی، فن اور فکر سے آشنا ہوئے۔ اقبال پر تاثیر کے مضامین کا امتیازی وصف ذاتی ملاقاتو ںکے حوالے سے اقبال کی شخصیت، فکر اور شاعری کے مختلف پہلوئوں کی تفہیم ہے۔ تاثیر نے اقبال پر لکھے گئے اپنے مضامین میں اقبال کی شاعرانہ فکر کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ انھوں نے ہی اقبال کے لیے سب سے پہلے شاعر فلسفی کی اصطلاح استعمال کی۔ تاثیر اقبال کو ایک اسلامی شاعر قرار دیتے ہیں جس کے افکار کی اساس قرآنی تعلیمات پر ہے۔ تاثیر نے اقبال کی شاعری کو فکری لحاظ سے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے: ابتدائی دور، خود مستی و انفرادی اور جذباتی تجربات کا دور، دوسرا دور ماحول سے وابستگی کا زمانہ اور تیسرا دور جب اقبال کی فکر آفاقیت اور عالمگیر نقطہ نظر کی علمبردار بن گئی۔ اقبال کی فکر میں تضادات کے موضوع پر تاثیر نے تمام اعتراضات کا استدلالی اور منطقی انداز سے اپنے مضمون ’’اقبال میں تضاد نہیں‘‘ میں جواب دیا اور اس نکتے کی بھی وضاحت کی کہ اقبال نے موضوعات کی وسعت کے ساتھ ساتھ اردو غزل میں فنی اعتبار سے بھی وسعتیں پیدا کیں۔ ٹیگور سے اقبال کا موازنہ کرتے ہوئے تاثیر نے اقبال کی شاعری کو حیات افروزی اور قوت سے مالامال قرار دیا۔ خ…خ…خ بیسویں صدی کے اردو ادب کی تاریخ میں ڈاکٹر محمد دین تاثیر کا نام ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ ان کی ذات بہت سے علمی و ادبی اوصاف سے متصف تھی۔ وہ ایک منفرد لہجے کے خوش گو شاعر، صاحب طرز ادیب اور معتبر نقاد تھے۔ اردو ادب کی دنیا میں تاثیرؔ کی شہرت زیادہ تر شاعر کی حیثیت سے ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادبی تاریخ میں تاثیرؔ کی سب سے بڑی حیثیت ایک نقاد کی ہے۔ انھوں نے ادب اور فنونِ لطیفہ کے نظری وعملی مسائل پر کم وبیش ایک سو سے زائد مضامین تحریر کیے جن میں سے تیس مضامین اقبال کی شخصیت اور شاعری کا احاطہ کرتے ہیں۔ اقبالیات کے حوالے سے لکھے جانے والے بیس(۲۰) مضامین اردو میں اور دس(۱۰) مضامین انگریزی زبان میں ہیں۔ ۱؎ اقبالیات سے تاثیرؔ کی دلچسپی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ تاثیرؔ نے اپنا پہلا تنقیدی مضمون ’’فلسفہ اقبال‘‘ کے نام سے تحریر کیا جو ماہنامہ نیرنگ خیال لاہور کے اگست ۱۹۲۴ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ تاثیرؔ کو بچپن ہی سے علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری سے دلچسپی تھی۔ اُن کے اپنے بیان کے مطابق بچپن میں علامہ اقبال سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا تھا۔۲؎ بعد میں وہ التزام سے علامہ اقبال کے ہاں حاضر ہونے لگے۔ تاثیرؔ کو اقبال کے ساتھ بے شمار ملاقاتوں کے علاوہ، ان کے قریب رہ کر کام کرنے کے مواقع بھی حاصل رہے۔ مثلاً علامہ اقبال کے معرکہ انتخاب پنجاب کونسل میں پبلسٹی اور دفتر کا کام تاثیرؔ کے سپرد رہا۔ چھپن فی صد تحریک اور غازی علم الدین کمیٹی (جس کے اقبال روحِ رواں تھے) کے تاثیرؔ بھی رکن رہے۔ اسی طرح کشمیر کمیٹی کی روداد تاثیرؔ ہی لکھا کرتے تھے نیز تاثیرؔ جماعتِ قادیان کے امام سے علامہ اقبال کے تعلقات بگڑنے کے مختلف مراحل کے شاہد بھی تھے۔۳؎ علامہ اقبال نے تاثیرؔ کی شادی کے مسئلے پر بھی خصوصی دلچسپی لی۔ تاثیرؔ اور بیگم بلقیس تاثیرؔ کا نکاح نامہ خود تیار کیا۔ نکاح خود پڑھایا اور اس پر گواہ کی حیثیت سے دستخط فرمائے۔ اقبال سے تاثیرؔ کی ملاقاتوں کا سلسلہ رحلت اقبال ۱۹۳۸ء تک جاری رہا۔ الغرض تاثیرؔ کو طویل عرصے تک اقبال کی ذاتی اور علمی قربت میسر رہی۔ مختلف ملاقاتوں میں انھیں اقبال کی شخصیت، شاعری اور فکر کی تفہیم کے مواقع ملتے رہے۔ تاثیرؔ خود بھی مشرق و مغرب کے جملہ علوم وفنون کا وسیع علم رکھتے تھے۔ لہٰذا فکرِ اقبال کی گہرائیوں اور باریکیوں کو پوری طرح سمجھنے کی صلاحیت سے متصف تھے۔ اس لحاظ سے تاثیرؔ اپنے معاصرین میں اقبالیات کے موضوع پر تنقید لکھنے والے موزوں ترین نقاد تھے۔ اقبال پر تاثیرؔ کے مضامین کا امتیازی وصف ذاتی ملاقاتوں کے حوالے سے اقبال کی شخصیت، فکر اور شاعری کے مختلف پہلوئوں کی تفہیم ہے۔ ان مضامین میں اقبال کی شخصیت کے اوصاف کو مختلف واقعات کے بیان سے اجاگر کیا گیا ہے۔ اقبال پر تاثیرؔ کی بعض تحریروں میں اقبال کی محفلوں کو زندہ کردیا گیا ہے۔ ان تحریروں میں اقبال اور ان کے احباب مختلف علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں اور اقبال کی شخصیت کو زندہ صورت میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور بولتے دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’شاعرِ مشرق کے حضور‘‘ مضمونمیں اقبال کے اندازِ شعرگوئی کی تصویر کشی اسی طرح کی گئی ہے کہ قاری خود کو اقبال کی محفل میں موجود ومحسوس کرنے لگتا ہے۔ تاثیرؔ لکھتے ہیں: فکرِ شعر میں سر جھکالیا، حضرت علامہ کہنے لگے لوسنو! تم غزل غزل پکار رہے تھے تو غزل ہی سہی عرصۂ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی داورِ محشر کو اپنا رازداں سمجھا تھا میں یہ شعر کہ۔َ۔ کر علامہ کچھ رُکے۔ دو تین منٹ تک اور پھر یہ حالت تھی کہ میں نقل نہیں کرسکتا تھا کہ ایک اور شعر تیار ہوتا۔ دوسرا شعر جاوید نامہ کی کیفیات کا حامل تھا۔ مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں۔ جوں جوں شعر ہوتے جاتے علامہ کی حالت بدلتی جاتی تھی۔ بسترہی میں اُٹھ کر پائوں کے بل بیٹھ گئے، آواز میں لرزش آگئی۔ جھوم جھوم کر داہنے ہاتھ کی سبابہ اٹھا کر انشا کرتے تھے اور اس شعر پر: تھی وہ اک درماندہ رہرو کی صدائے دردناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں وہ بھی رو رہے تھے اور ہم بھی، نجانے یہ غزل کتنی لمبی ہوجاتی مگر یہ فیضیانی سلسلہ ایک اجنبی ملاقاتی کی آمد سے منقطع ہوگیا۔‘‘۴؎ اقبال کی شخصیت کی سادگی و بے تکلفی، مروت و احسان مندی اور اعلیٰ ظرفی جیسے اعلیٰ انسانی اوصاف کو مختلف واقعات کے حوالے سے اس طرح اُجاگر کیا گیا ہے کہ اقبال کی حقیقی شخصیت کا ایک زندہ مرقع پیش نظر ہوجاتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ان کی محفل مشیخیت اور یبوست کی آئینہ دار نہ تھی۔ وہاں قہقہے، لطیفے، تمسخر، رندی، عاشقی کا بھی چرچا تھا اور عمیق تفکر اور دردِ ملت و انسانیت کا بھی ذکروفکر تھا۔ مجھے سپنگلر یا کانٹ کی کوئی رمز سمجھ میں نہیں آئی تو بھاگم بھاگ وہاں پہنچا اور بامراد لوٹا۔ اور جو دل افسردہ ہوگیا تو ہوا سے کھیلتا ہوا آیا۔ اختلافِ رائے ہوا تو ان میں طالب علمانہ عجز پایا اور جو قدم ڈگمگایا تو انھیں خضرراہ پایا۔ ہم نے ہزاروں باتیں مانیں تو ایک آدھ منوا بھی لی۔ مگر وہاں استدلال کی جگہ تحکم نے کبھی نہ لی اور ان کانوں نے اس محفل میں ’’انا‘‘ کی تعلّی کبھی نہ سنی۔۵؎ تاثیرؔ کے ان مضامین کے بعض مندرجات کی مدد سے اقبال کی شخصیت کے ظاہری خدوخال اور باطنی اوصاف کا ایک خاکہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے تاثیرؔ کی یہ تحریریں فنِ خاکہ نگاری کی بعض خصوصیات کی حامل بھی ہیں۔ اقبال پر تاثیرؔ کے مضامین کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاثیرؔ اقبال کے شاعرانہ فکر کو بنیادی اہمیت دیتے تھے۔ اقبال پر تاثیرؔ کا سب سے پہلا مضمون جو جولائی ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا اس کا عنوان ہی ’’فلسفۂ اقبال‘‘ ہے۔ اسی طرح تاثیرؔ نے ہی سب سے پہلے اقبال کے لیے شاعر فلسفی (Poet- Philosopher) کی اصطلاح استعمال کی جس سے اقبالیاتی تنقید میں اس بحث کا آغاز ہوا کہ اقبال شاعر فلسفی ہیں یا فلسفی شاعر؟ تاثیرؔ کلام اقبال کو گہرے فلسفے اور اعلیٰ شاعری کا نادر امتزاج خیال کرتے ہیں۔ بقول تاثیرؔ Iqbal is the greatest poet philosopher of this age. He has written poetry which is great poetry as well as deep philosophy. This is a very rare combination.۶؎ تاثیرؔ فکر اقبال کے ماخذات کا سراغ لگاتے ہوئے کلامِ اقبال کو مشرقی ومغربی مفکرین کے مثبت افکار اور قرآنی تعلیمات کا حامل قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں تاثیرؔ اقبال کے مغربی ناقدین کے اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ اقبال نے اپنے نظریے میں مردِ مومن کی بنیادنطشے کے Superman کے تصور پر رکھی ہے اور اقبال، نطشے اور برگساں سے متاثر ہے۔ تاثیرؔ ای ایم فورسٹر اور دیگر مستشرقین کے اس خیال کو متعصبانہ ذہنیت اور مشرق کی برتری کے خلاف ہونے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ تاثیرؔ کا کہنا ہے کہ مغربی ناقدین اسی نفسیاتی خوف کی وجہ سے اقبال کی عظمت کو مغربی مفکرین کا مرہونِ منت ٹھہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کا تصورِ قوت سراسر قرآنی تعلیمات اور مشرقی مفکرین کے مطالعے کا نتیجہ ہے، جیسا کہ اقبال نے خود واضح کیا ہے:۷ ؎ I could have easily explained myself in the light of the Quran and Muslim Sufis and thinkers. As a matter of fact I did so explain myself in my Hindustani introduction to the Ist edition of the Asrar. I claim that the philosophy of the Asrar is a direct development out of the experience and speculation of old Muslim Sufis thinkers. انگریز نقادوں کی اقبال کے نظریہ جہاد پر تنقید کو تاثیرؔ اقبال کے نظریات کو غلط معانی پہنانے کا عمل قرار دیتے ہیں۔ تاثیرؔ قرآنی تعلیمات اور تاریخ اسلام کی روشنی میں جہاد فی سبیل اللہ کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال کے نظریہ جہاد کو حیاتِ انسانی کی بقا کا ضامن اور اخوت اور محبت کا امین خیال کرتے ہیں۔ تاثیرؔ حضورِ پاک ا کے برپا کردہ اسلامی انقلاب کو دستور کا فطری نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ تاثیرؔ تاریخ عالم میں انقلابات کے محرکات کا تجزیہ کرتے ہوئے قوم کے افکار، افراد کی تنظیم و ترتیب اور قیادت کو بنیادی محرکات خیال کرتے ہیں لہٰذا اصل روح اسلام، قرآنی تعلیمات اور آنحضور ا کی قائدانہ توانائی اور استقامت میں مضمر ہے۔ یہی اقبال کا فلسفہ ہے۔ بقول تاثیرؔ: اصل حقیقت وہ خیال تھا جس کے لیے رسول اللہ ا نے زندگی وقف کررکھی تھی اور وہ خیال کتاب الٰہی یعنی قرآن تھا۔ یہی وہ قرآن ہے جو اصل معنوں میں روحِ اسلام ہے اور حیاتِ نبی ا کی صحیح تفسیر ہے۔ یہی وہ روحِ اسلام ہے جس کی ترجمانی علمائے اُمت کا کام ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے علما اپنے فرض منصبی کو بھول گئے ہیں اور انھوں نے رسوم وظواہر کو اصل ایمان سمجھ لیا۔ ۸؎ تاثیرؔ اپنے موقف کی وضاحت میں اقبال کے اسرار خودی کے درج ذیل اشعار پیش کرتے ہیں: آں کتابِ زندہ قرآن حکیم حکمتِ او لایزال است و قدیم اے گرفتار رسوم ایمان تو! شیوہ ہائے کافری زندان تو! گر تو می ۔خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن۹؎ تاثیرؔ اقبال کو ایک اسلامی شاعر قرار دیتے ہیں جس کے افکار کی اساس قرآنی تعلیمات پر ہے۔ تاثیرؔ کے خیال میں اقبال نہ محض شاعر ہیں جیسا کہ خاص شاعرانہ نقطۂنظر رکھنے والے نقاد خیال کرتے ہیں اور نہ ہی محض مذہبی مبلغ جیسا کہ مذہبی طرزِ فکر کے حامل مفکرین سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں تاثیرؔ واضح کرتے ہیں کہ اقبال مذہبی عقائد کا شاعر نہیں اور نہ ہی مفروضہ مذہبی خیالات کا ترجمان ہے۔ بلکہ وہ ان معنوں میں اسلامی شاعر ہے کہ اس کا تصورِ حیات اسلامی ہے اور اس کا پیغامِ قرآنی اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق امید کا پیغام ہے۔ اس کی شاعری جذبہ و خیال کا امتزاج ہے۔ اس کے اعلیٰ خیالات زندہ رہیں گے کیونکہ وہ شاعرانہ ہیں اور اس کی شاعری زندہ رہے گی۔ اس کے اعلیٰ خیالات کی وجہ سے ان دونوں کے تعلق اور ہم آہنگی ہی سے اقبال کو مکمل طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ تاثیرؔ کے الفاظ میں: Iqbal is an Islamic poet but he is not a poet of dogmas, not of supposed facts or ideas. Not cold ideas but ideas touched with emotions. And ideas touched with emotions are the facts of poetry. His ideas live because they are poetry, his poetry lives because it is ideas. It is only co-ordinating the two that one can fully understand Iqbal.. ۱۰ ؎ کلامِ اقبال کے حوالے سے تاثیرؔ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اقبال کے شاعرانہ فکر میں ارتقا پایا جاتا ہے۔ جیسے بعض نقادوں نے اقبال کے نظریات کو تضاد پر محمول کرلیا ہے۔ تاثیرؔ اپنے مضمون ’’اقبال کا شاعرانہ فکر‘‘ میں اقبال کے شعرو فکر کی نشوونما کو فطری عمل سمجھتے ہیں۔ وہ اقبال کی شاعری کو فکری لحاظ سے تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ ۱- ابتدائی دور، خود مستی اور انفرادی وجذباتی تجربات کا دور ہے۔ جس میں شاعر کی سوچ کا محور اس کی اپنی ذات ہے۔ ۲- دوسرا دور، ماحول سے وابستگی کا زمانہ ہے۔ جس میں شاعر وطن کے لوگوں اور اردگرد کے مناظر سے اپنا جذباتی تعلق استوار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ۳- تیسرا دور، فکر اقبال کی آفاقیت اور عالم گیر نقطہ نظر کا زمانہ ہے۔ جس میں شاعر پوری کائنات کے تناظر میں انسانی مسائل کو موضوع بناتا ہے۔ اقبال کی شاعری کے ان ادوار کو تاثیرؔ انسانی شخصیت کی نشوونما کے تین مراحل سے ملا کر فکرِ اقبال کے ارتقا کی نفسیاتی توجیہ پیش کرتے ہیں۔ تاثیرؔ لکھتے ہیں: جدید نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ آدمی بچپن میں محض اپنے آپ میں محو ہوتا ہے۔ اپنا عاشق آپ ہوتا ہے۔ ذرا بڑھتا ہے تو پھر اپنے اردگرد نگاہ ڈالتا ہے۔ اب اسے اپنے ماں باپ سے محبت ہوتی ہے۔ اپنے خاندان سے لگائو ہوتا ہے، یہ دوسرا درجہ ہے۔ اپنے آپ سے نکل کر اپنے اردگرد کی دنیا، ماں باپ اور خاندان سے لگن رکھتا ہے۔ تیسرا اور آخری درجہ یہ ہے کہ ماں باپ کی گود سے نکل کر باہر کی دنیا کو دیکھتا ہے اور اس کی محبت گھر سے باہر شروع ہوتی ہے۔ ۱۱؎ تاثیرؔ انسانی شخصیت کے ان مدارج کو جو ماہرین نفسیات نے متعین کیے ہیں، اقبال کی شاعری کے تین ادوار پر منطبق کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اقبال کے فکر کا ارتقا فطری انداز میں نشوونما پانے والی ایک نارمل انسانی شخصیت کی طرح بالکل فطری اور متوازن ہے۔ وہ نہ تو ذاتی تجربات اور نرگسیت کے مقام پر رک کر رہ جاتا ہے اور نہ ہی ماحول اور مظاہر فطرت میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ بلکہ شعور کی منازل کو طے کرتا ہوا اپنی فکر کو آفاقی اور عالم گیر سطح تک لے جاتا ہے۔ تاثیرؔ کے نفسیاتی اندازِ نقد سے اختلاف کرتے ہوئے ڈاکٹر رفعت حسن لکھتی ہیں: In M.D Taseer's opinion Iqbal progressed from self-love to the love of the homeland, then to love of Islam and finally to love of the mankind. Although the correspondance that the author sees between the stages of man's growth (as percieved by "modern psychologists") and the phases of Iqbal's poetic career stimulate interest and reflection yet it does not, in my opinion, offer an adequate explanation of the nature or development of Iqbal's poetic inspiration or vision.12 ڈاکٹر رفعت حسن نے صرف یہی لکھنے پر اکتفا کیا ہے کہ ان کی رائے میں اقبال کے شعری سفر کو انسانی شخصیت کی نشوونما سے متعلق ماہرین نفسیات کے بیان کردہ مراحل سے توجیہ کرنا مناسب نہیں۔ تاہم ڈاکٹر موصوف نے یہ واضح نہیں کیا کہ ایسا کرنا کیوں نامناسب ہے۔ غالباً ڈاکٹر موصوف تاثیرؔ کے اس انداز نقد کو اقبال کی عقیدت و عظمت کے لیے مناسب خیال نہیں کرتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تاثیرؔ کا یہ نفسیاتی استدلال ان کی تنقیدی بصیرت پر دلالت کرتا ہے۔ جذبۂ عقیدت ذاتی سطح سے ترفع کرکے کس طور پر عالم گیر محبت میں متشکل ہوتا ہے۔ یہ اقبال کی شاعری اور شخصیت کا نہایت ہی قابل توجہ پہلو ہے۔ جذبۂ محبت کی بشری اور روحانی کیفیات میں تطبیق وتلاش کرنا گویا ارضی و سماوی اقدار کو ایک وحدت کی کڑی میں دیکھنے کے مترادف ہے جو تاثیرؔ کی تنقیدی ژرف نگاہی کا مظہر ہے۔ تاثیرؔ کی بیان کردہ توضیحات اقبال کی ذہنی و جذباتی زندگی کے ارتقائی مراحل کو اسی طرح پیش کرتی ہیں جیسے اقبال کی زندہ شخصیت مسلسل ارتقا و ترفع کی طرف مائل بہ پرواز تھی۔ اقبال کی جذباتی اور فکری زندگی میں مطابقت اور ہم آہنگی تلاش کرکے تاثیرؔ نے اقبالیات کی ایک اہم تنقیدی جہت کو متعارف کروایا ہے۔ فکرِ اقبال پر عام اعتراض یہ وارد کیا جاتا ہے کہ تصوف سے متعلق علامہ اقبال کے نظریات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ میکش اکبر آبادی نے اپنے مضامین(مطبوعہ پندرہ روزہ آج کل دہلی بابت یکم فروری، ۱۵؍فروری ۱۹۴۶ء اور ۱۵؍ستمبر اور یکم؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ) میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اقبال کا کلام متضاد نظریوں کا مجموعہ ہے۔۱۳؎ میکش اکبر آبادی نے تصوف کے مختلف فکری پہلوئوں (وحدت الوجود، مادہ اور روح، ترکِ عالم اور خودی وغیرہ) پر فلسفیانہ بحث کرتے ہوئے ان کے بارے میں اقبال کے نظریات میں پائے جانے والے بعض تضادات کو نمایاں کیا ہے۔ تاثیرؔ نے اپنے مضمون ’’اقبال میں تضاد نہیں‘‘ میں ان تمام اعتراضات کے بالترتیب نہایت استدلالی اور منطقی انداز میں جوابات فراہم کیے ہیں۔ سب سے پہلے تاثیرؔ ’’وحدت الوجود‘‘ کے مسئلے پر اقبال کے خیالات کی اصل روح کو پیش کرتے ہیں۔ تاثیرؔ اقبال کے حقیقی خیالات کی ترجمانی دو نہایت ہی بلیغ اور وسیع المعانی اصطلاحات (جمودی تصوف اور متحرک تصوف) کے ذریعے کرتے ہیں۔ وحدت الوجود کے بارے میں اقبال کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اقبال وحدت الوجود سے اثباتِ خودی کرتا ہے اور اقبال کے معیار خیروشر کے مطابق جس سے نفی خودی ہو وہ شر ہے اور جس سے اثباتِ خودی ہو وہ خیر ہے۔ ’’جمودی تصوف‘‘ میں خدا کو سب کچھ مان کر انسان کو ہیچ، عمل کو بے سود اور ایمان کو لایعنی قرار دیا گیا۔ شریعت کا تمسخر اڑایا گیا۔ رہبانیت کو تو سراہا گیا مگر متحرک تصوف میں خدا کو سب کچھ مان کر انسان کو خدا کے قریب کیا گیا۔ بقول اقبال تخلقوا باخلاق اللّٰہ کا یہی مفہوم ہے یہاں تک کہ : ع خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے یہ دو نتائج ہیں، دو تفسیری رحجانات ہیں، دو مختلف راہیں ہیں۔ منبع دونوں کا وحدت الوجود کا نظریہ ہے۔ اقبال ایک کو مذموم اور دوسرے کو محمود قرار دیتا ہے۔ اس میں تضاد کا کوئی شائبہ نہیں۔۱۴؎ اپنے موقف کی تائید تاثیرؔ کلامِ اقبال سے اشعار کی مثالوں سے کرتے ہیں۔ جب کہ میکش اکبر آبادی نے اقبال کو وحدت الوجود کا منکر قرار دیتے ہوئے اقبال کے کسی شعر کا حوالہ نہیں دیا۔ اس استدلال کے بعد تاثیرؔ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ:’’میکش صاحب نے وحدت الوجود کی فلسفیانہ صداقت اور وحدت الوجود کی مذموم تفسیر (دو مختلف شعبوں) کو ایک سمجھ کر مغالطہ کھایا ہے۔‘‘۱۵؎ میکش اکبر آبادی کے بیان کردہ دوسرے پہلو ’’مادہ اور روح‘‘ کو زیرِ بحث لاتے ہوئے تاثیرؔ واضح کرتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مادہ کوئی الگ حقیقت نہیں بلکہ روح کی ہی ایک جہت اور شکل کا نام ہے۔ تاثیرؔ اقبال کے اس مقولے سے میکش صاحب کے استخراج اور نتائج کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ بقول تاثیرؔ: میکش صاحب اقبال کے اس مقولے کو درج تو کرتے ہیں مگر نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ ’’مادے اور روح کو دو حقیقتیں نہیں مانتے بلکہ (سمجھتے ہیں کہ) ایک شے اپنی مختلف جہات کی حیثیت سے مختلف ناموں سے پکاری جاتی ہیں‘‘ حالانکہ اقبال روح اور مادہ کو ایک شے کے دو نام نہیں بلکہ مادہ کو روح کی ایک شکل قرار دیتے ہیں۔ یہ شکل جسے مادہ کہتے ہیں، زمانی مکانی مخلوق کے لیے ایک واقعہ ہے۔ اقبال اس واقعہ سے انکار نہیں کرتا اور اس دنیا میں اس مادہ کے جو لوازم ہیں، ان کی پابندی سے گریزاں نہیں۔ مادہ کی ایک صورت جسم انسانی اور ایک صورت خوراک ہے۔ خوراک جسم کے لیے ضروری ہے اور اس دنیا میں روح کا اظہار اسی جسم کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس لیے جسم کو قتل کرنے کا اقبال مخالف ہے۔ مگر وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم اس مادہ کی غیر مستقل حیثیت سے آگاہ رہیں۔ اس کی کوتاہیوں سے خبردار ہوکر مادی علائق کو ان کی اپنی حد تک ضروری سمجھیں اور اصل مدعا تربیت روح کو قرار دیں۔ یہ بھی سیدھی سی بات ہے۔۱۶؎ اسی طرح تاثیر حقیقتِ عالم کی تفہیم کے سلسلے میں میکش اکبر آبادی کے فکری مغالطے کا ذکر کرتے ہوئے فکرِ اقبال کی روشنی میں عالم کی اصل حقیقت کو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں: اصل حقیقت گویا سورج کی ایک کرن جو بلور جہت سے چھن کر ہمیں کئی رنگ کی کرنیں نظر آتی ہیں۔ یہ کئی رنگ دھوکا نہیں مگر حقیقت بھی نہیں۔ اقبال ان اضداد عالم کی کثرت اور حقیقت کی ظاہری اور معنوی صورتوں کو نمایاں کرتا ہے، تضاد بیانی نہیں کرتا۔۱۷؎ نظریہ باطن کے ضمن میں تاثیرؔ اقبال کی متوازن اور متعدل فکر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: اقبال دروں میں بھی ہے اور بروں میں بھی ہے۔ حواس کا منکر نہیں، عقل وادراک سے انکار نہیں کرتا لیکن فقط ان کو سالک راہ نہیں بناتا۔ باطن کی نظر اور ظاہر کی نظر دونوں کو استعمال کرتا ہے۔ فقط دروں بینی رہبانیت ہے۔ فقط بروں بینی مادیت ہے۔ اسلام کی طرح اقبال کا راستہ اعتدال کا ہے اور اعتدال تضاد نہیں۔۱۸؎ تاثیرؔ واضح کرتے ہیں کہ خودی کے موضوع پر اقبال کے خیالات کو سمجھنے میں میکش اکبر آبادی کو وہی مغالطہ ہوا ہے جو روح اور مادہ کے سلسلے میں ہوا ہے۔ تاثیرؔ اقبال کے نظریہ خودی کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بقول اقبال حقیقت اصلی وحدت ہے اور اس حقیقت اصلی کا اندرونی محرک خودی ہے۔ خالق اور مخلوق (کہ یہ اعتباری نام ہیں) خودی ہی سے ہیں اور خودی کوئی باہر کی قوت نہیں بلکہ یہ نام ہے تخلیقی تحریک کا۔ اب اگر آپ وحدت الوجود کو مانتے ہیں تو پھر خودی کی اس ہمہ گیری سے تضاد کا شائبہ کیوں کر پیدا ہوتا ہے؟ اگر خالق اور مخلوق میں وحدت ہے تو پھر اس صفت محرکہ یعنی خودی کی مختلف الالوان حقیقت سے انکار کیوں ہے؟ البتہ اگر آپ وحدت الوجود کے قائل نہیں تو پھر ’’خودی‘‘ کیا اور کئی یگانگتوں پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ خودی زندگی کی طرح مجموعہ اضداد ہے اور ان اضداد کی کش مکش سے زندگی اور خودی کی پرورش ہوتی ہے۔ اقبال نے اس کشاکش کے اظہا رکے لیے خودی کے مختلف مظاہر سے بحث کی ہے۔ اسے خصوصیات اور محبت کا موجب قرار دیا ہے۔ خالق اور مخلوق کی صفت واحد قرار دیا ہے۔ یہ تضاد بیانی نہیں بلکہ تضاد میں تلفیق کی ہے، حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔۱۹؎ تاثیرؔ کے اس اقتباس سے جہاں اقبال کے تصورِ خودی کی وضاحت ہوتی ہے وہیں تاثیرؔ کے جدلیاتی اندازِ فکر کا پتہ چلتا ہے۔ زندگی اور انسانی خودی میں کارفرما متصادم قوتوں کا شعور ملتا ہے۔ جوتاثیرؔ کی تنقید کا اہم وصف ہے۔ جدلیاتی نقطہ نظر سے زندگی کی بنیادی حقیقت تضادات کی تلفیق میں مضمر ہے اور تاثیرؔ کا حاسۂ انتقاد اسی حقیقت کا سراغ لگاتا ہے۔ تاثیرؔ کا جدلیاتی انداز تنقید اس مضمون میں اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ مضمون کے آخر میں تاثیرؔ جملہ مباحث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اقبال کے نظریات میں تضاد نہیں بلکہ ایک ارتقائی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تاثیرؔ کی اقبالیاتی تنقید میں اقبال کے نظریہ فن و ادب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس موضوع پر تاثیرؔ کے چار تنقیدی مضامین ملتے ہیں جن میں سے تین مضامین (’’اقبال کا نظریہ فن و ادب‘‘، ’’اقبال کا نظریۂ شاعری‘‘ اور’’ سرود رفتہ‘‘) اردو میں ہیں جب کہ ایک مضمون "Iqbal's Theory of Art and "Literature انگریزی میں لکھا گیا ہے اور اس میں کم وبیش انھی خیالات کا اعادہ کیا گیا ہے جو متذکرہ بالاتین اردو مضامین میں بیان ہوئے ہیں۔ ان مضامین میں تاثیرؔ نے ادب اور فنونِ لطیفہ کے بارے میں اقبال کے نظریات کی توضیح وتوجیہ اقبال کے فرمودات اور کلام کی روشنی میں کی ہے۔ تاثیرؔ واضح کرتے ہیں کہ اقبال شعروادب میں مقصودیت کے قائل ہیں۔ بقول تاثیرؔ: حالی کی مقصدیت اقبال کو ورثے ملی تھی۔ انھوں نے بالکل صاف الفاظ میں فن برائے فن کی مخالفت کی اور ان کے زمانے میں موسیقی، مصوری، تعمیرات اور ادب میں جو انحطاطی رحجانات آگئے تھے، ان پر سخت تنقید کی۔۲۰؎ حالی اور اقبال سے قبل اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی اردو شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے تاثیرؔ شعرا کے دو نمایاں رحجانات کا ذکر کرتے ہیں۔ (الف) شاعری ذاتی دکھڑوں کا رونا رونے تک محدود ہوگئی۔ (ب) زوال آمادہ بادشاہت کے درباری ماحول نے شاعری کو حقیقی زندگی سے دور کرکے اس میں مصنوعیت پیدا کردی۔ ان دو رحجانات نے شاعری اور شعرا کو زندگی کی حقیقتوں سے فرار کے راستے پر گامزن کردیا۔ تاثیرؔ تسلیم کرتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کا آغاز اس زوال آمادہ شعری فضا میں ہوا۔ جس کا رنگ ان کی ابتدائی غزلوں(خصوصاً داغ کے رنگ میں لکھی گئی غزلوں) میں نمایاں ہے۔ تاہم تاثیرؔ واضح کرتے ہیں کہ: اقبال ان سطحی لذتوں سے جلد اکتا گیا۔ اسے ہنگامی حسن پرستی کی حقیقت بہت جلد معلوم ہوگئی اور وہ اس سطح سے گزر کر زندگی کی گہرائیوں میں اتر آیا۔ اسے آگاہی ہوچکی تھی کہ زندگی اور ادب جدا نہیں کیے جاسکتے۔ ان میں ایک بنیادی پیوستگی ہے۔۲۱؎ تاثیرؔ ہومر اور گوئٹے کے حوالے سے شاعری اور ادب کی بنیادی اقدار کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: حقیقت کی ترجمانی، ماحول کا احساس، صداقت کا اظہار۔ یہ ہے ادب کا مقصد۔ یہ وہ مقصد ادب ہے جس کا اقبال کو بہت جلد احساس ہوگیا اور ہرچند اقبال کے فلسفے اور نظامِ فکر میں بہت سے انقلابات آتے رہے مگر اس کا نظریہ شاعری ہمیشہ کے لیے یہی رہا۔ ۱۹۰۲ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک اقبال نے ادب اور زندگی کو ایک لمحے کے لیے مختلف نہیں سمجھا۔۲۲؎ تاثیرؔ فنون اور شاعری کی ماہیت کے بارے میں علامہ اقبال کے نقطہ نظر کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں اقبال شاعری کو ایک خلقی اور الہامی عمل سمجھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک فن اور شاعری اگرچہ خلقی اور غیر ارادی جذبہ ہے تاہم اسے مقصدیت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تاثیرؔ خاص طور پر اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ مقصدیت سے اقبال کی مراد سیاسی نظریہ بازوں کی طرح پراپیگنڈہ کرنا نہیں بلکہ شعروادب کو زندگی اور شخصیت کے تابع کرنا ہے۔ تاکہ شاعر جماعتی سیاست یا جامد نظریوں کا غلام بن کر نہ رہ جائے۔ اقبال کے نزدیک حقیقی شاعر وہ ہے جو اپنی قوت عشق اور جوش وجذبہ کی بدولت سماجی زندگی میں شخصی نشوونما اور کردار کی تہذیب وتطہیر کا باعث بنے۔ اقبال کے نظریہ فن کے بارے میں تاثیرؔ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں کہ اس موضوع پر اتنے گہرے علمی وتنقیدی شعور کے ساتھ لکھے جانے والے ان مضامین کو تاریخی اولیت بھی حاصل ہے۔ بعد میں آنے والے اقبال کے ناقدین نے اس موضوع پر جامع انداز میں بہت کچھ تحریر کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبالیات پر مستقل تصانیف تحریر کرنے کے باوجود اس موضوع پر وہ تاثیرؔ کے خیالات سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ مثلاً اقبال کے مشہور ناقد اور روحِ اقبال کے مصنف ڈاکٹر یوسف حسین نے اس موضوع پر کم و بیش انھی خیالات کا اظہار کیا ہے جو قریباً تیس سال قبل ڈاکٹر تاثیرؔ نے پیش کیے تھے۔ اسی طرح عزیز احمد نے اپنی تصنیف اقبال نئی تشکیل میں اقبال کے نظریہ فن پر نہایت تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے تاہم یہ تمام تفصیلی مباحث تاثیرؔ کے پیش کردہ تصورات کی توسیع اور وضاحت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبالیات پر اپنے تنقیدی مضامین میں تاثیرؔ نے فکرِ اقبال کے مختلف گوشوںکو منو۔ّ۔ر کرنے کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کے بعض فنی محاسن کو بھی نمایاں کیا ہے۔ کلامِ اقبال کے فنی پہلوئوں پر بحث کرتے ہوئے تاثیرؔ شعر اقبال میں پائی جانے والی پیرایہ بیان کی وسعت کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ تاثیر اردو شاعری کی روایت کے تنقیدی جائزہ کے بعد لکھتے ہیں کہ اردو شاعری (خصوصاً اردو غزل) اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہجروفراق کے مضامین تک محدود ہوچکی تھی۔ نیز اردو شاعری کے اسالیبِ بیان مصنوعیت کا شکار ہوکر درباری ماحول تک محدود ہوچکے تھے۔ گھسے پٹے پیرایہ بیان نے اردو غزل کو ایک کٹھن اور تنگ فضا میں قید کررکھا تھا۔ مجموعی طور پر اردو غزل کے لب و لہجہ میں ایک انفعالی اور مریضانہ کیفیت پیدا ہوچکی تھی۔ اقبال نے تنگنائے غزل میں موضوعات کی تازگی پیدا کی اور اسے ’’ایک نئی قوم یعنی ملت پاکستان کی خواہشوں، تمنائوں اور مقاصد کی عکاس بنا کر اس قدیم صنف میں ایک نئی روح پھونک دی۔‘‘ ۲۳؎ موضوعات کی وسعت کے ساتھ ساتھ اقبال نے اردو غزل میں فنی اعتبار سے جو وسعتیں پیدا کیں انھیں تین اعتبار سے اہم خیال کرتے ہیں۔ اقبال نے اردو اصناف شاعری(خصوصاً غزل) کو وسعت بیان کے لیے مناسب ظرف مہیا کیا۔ اول: غزل کے قافیائی نظام میں جدتیں پیدا کیں۔ دوم: غزل مسلسل سے غزل کے تاثر کو بڑھایا۔ سوم: غیر مردّف غزل کی بنیاد ڈالی۔ چہارم: اردو غزل کی مروجہ علامتوں کو نئے مفاہیم کی وسعتوں سے آشنا کیا۔ تاثیرؔ اقبال کی غزل دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی دلِ ہر ذرہ میں غوغائے رُستاخیز ہے ساقی کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں: یہاں مجرد قافیہ، تیزی، رُستاخیز، تبریز، پرمستی، ہیئت غزل کی مخصوص وضع کی آئینہ دار ہے۔ شعر کی ردیف یعنی مکرر آنے والے معین الفاظ ’’ہے ساقی‘‘ کا آہنگ قافیہ کے مقابلے میں نسبتاً مدہم ہے۔ ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہے جامع ہے لیکن ساری غزل کا تاثر ایک ہی ہے۔ شدت، ندرت، تکرار اور سحرکلام کے سبھی عناصر موجود ہیں جو دل پر ایک گہرا اور پائیدار نقش چھوڑتے ہیں۔۲۴؎ تاثیرؔ کے اس اقتباس سے جہاں اقبال کی غزل میں قافیہ اور ردیف کے فنی برتائو سے پیدا ہونے والے حسن اور تاثر کو نمایاں کیا گیا ہے، وہیں تاثیرؔ نے اقبال کی غزل کی ایک دوسری اہم صفت کی طرف بھی اشارہ دیا ہے جو اقبال کی غزل کو کلاسیکی غزل سے ممتاز و منفرد کرتی ہے اور وہ ہے پوری غزل میں ایک ہی تاثر اور کیفیت کا تسلسل جسے ناقدین غزل مسلسل کا نام دیتے ہیں۔ اقبال کے ہاں بال جبریل میں خصوصاً ایسی غزلوں کی فراوانی ہے۔ جن میں ایک ہی خیال کی مختلف جہتیں تسلسل کے ساتھ غزل کے ہر شعر میں رچی بسی ہیں۔ اقبال کی ایسی غزلوں کو نظم نما غزلیں کہا جاسکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی غزلیں لکھ کر اقبال نے غزل اور نظم کے فاصلوں کو بہت کم کردیا ہے۔ غزل پر ریزہ خیالی اور انتشار خیالات کا جو اعتراض کیا جاتا ہے اقبال کی یہ غزلیں اس کا مثبت جواب ہیں۔ تاثیرؔ اقبال کی غزل افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر کرتے ہیں خطاب آخر کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’یوں تو اس غزل کا ہر شعر الگ الگ ہے لیکن در حقیقت ایک ہی سلسلہ فکر کی کڑی ہے۔ یعنی یہ اقبال کے فلسفۂ حیات کے مختلف پہلوئوں کی نمائندگی کرتی ہے۔‘‘۲۵؎ تاثیرؔ اس حقیقت کا احساس بھی دلاتے ہیں کہ بال جبریل میں مستقل ردیف کے بغیر غزلیں بکثرت ملتی ہیں اور بقول تاثیرؔ:’’یہ نئی بار اندازی قابل قدر ہے۔‘‘۲۶؎ تاثیرؔ نے اگرچہ واضح طور پر اس امر کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ ردیف غزل میں ایک مجموعی تسلسل کی فضا پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے اور ردیف کی اس بار اندازی سے غزل کا تسلسل مجروح ہوسکتا ہے۔ تاہم تاثیرؔ اس حقیقت کا غیر شعوری احساس رکھتے ہیں کہ اقبال کے ہاں غزل کا تسلسل محض ردیف کا مرہونِ منت نہیں بلکہ بظاہر غیر مسلسل فضا کی حامل غیر مردّف غزلوں میں بھی ایک موضوعی ربط پایا جاتا ہے۔ تاثیرؔ اس ضمن میں اقبال کی ایک غیر مردّف غزل یہ کون غزل خواں ہے پُرسوز و نشاط انگیز کے حوالے سے واضح کرتے ہیں: لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ اقبال کی غزل یک قافیہ اور غیر مسلسل ہونے کے باوجود موضوعی یگانگت رکھتی ہے۔ یہ ایک طرح کی نظمیہ غزل ہے۔ متفرق اشعار اور مختلف مضامین ایک نظام خیال کے ماتحت تنوع کے باوجود متناقص نہیں۔۲۷؎ گو تاثیرؔ کے خیال میں اقبال کی غزل میں تسلسل ردیف کے استعمال سے زیادہ ایک نظامِ خیال کا نتیجہ ہے اور یہی چیز ان کی غزل کو انتشار خیالی سے بچا کر نظمیہ ربط و ضبط کی خوبی سے ہم آہنگ کرتی ہے جو اردو غزل کے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔ اور یہ تجربہ اردو غزل میں تازگی اور وسعت پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔ تاثیرؔ کے خیال میں علامہ اقبال کا بحیثیت شاعر اردو شاعری میں انقلاب آفرین کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو غزل کی مروجہ علامات کو نئے معانی و مفاہیم سے آشنا کیا۔ ہر بڑا شاعر جہاں ازلی روایات کے ذخیرے سے استفادہ کرتے ہوئے شعروادب کے روایتی علائم و رموز سے استفادہ کرتا ہے۔ وہیں اس کے ہاں قدیم شعری علامات ایک نئی معنویت سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ اور یہ علامات اپنے نئے دور کے عصری شعور، طرزِ احساس اور جدید خیالات وتصورات کی ترجمان بن جاتی ہیں۔ اقبال کا شمار ایسے ہی بڑے شعرا میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی شاعری میں روایتی علامات و استعارات کا برتائو ایک نئے تناظر میں متعین مفاہیم سے بلند ہوکر وسیع معانی کا حامل بن جاتا ہے۔ تاثیرؔ اقبال کے اس شعری و فنی کارنامے کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ ان(تاثیرؔ) کے خیال میں اقبال کا یہ کارنامہ انھیں دنیا کے بڑے شعرا کے مقابلے میں ایک ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ہومر، دانتے، کالی داس اور ٹیگور جیسے عالمی شہرت یافتہ شعرا بھی اقبال کی طرح اپنی مذہبی روایات کی ترجمانی مخصوص علامتوں سے کرتے ہیں۔ تاہم اقبال کو ان شعرا کے مقابلے میں جو امتیاز و انفرادیت حاصل ہے اس کی وجہ امتیاز بیان کرتے ہوئے تاثیرؔ لکھتے ہیں: اقبال بھی ان سب کی طرح ان روایات کو استعمال کرتا ہے جن میں وہ پھولا پھلا پروان چڑھا مگر ایک بات میں اقبال ان سے ممتاز ہے اور وہ یہ کہ وہ پرانی روایات کو اس طرح برتتا ہے کہ ان کا مفہوم بدل جاتا ہے اور ان میں نئے معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔۲۸؎ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں تاثیرؔ کلام اقبال میں استعمال ہونے والی بعض علامتوں کی مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مثلاً جب کبھی اقبال ابراہیم خلیل اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ایک نبی نہیں ہوتے بلکہ شاعر کا تصور انھیں جنگ آزادی کا مجسمہ بنا دیتا ہے اور آزر کے بت غلامی اور توہمات کی تمثیل بن جاتے ہیں۔ جنھیں توڑ کر انسان صحیح انسانیت کا دعوے دار ہوسکتا ہے۔ ایسے خلیل کو فرقہ واری کا نشان سمجھنا بدترین فرقہ وارانہ ذہنیت کی نشانی ہے۔ یہ وہ خلیل ہے جو مجسمہ ہے وطن کا، آزادی کا، عشق کا، جس کے متعلق اقبال نے کہا ہے: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۲۹؎ ساقی کی علامت فارسی اور اردو شاعری کی ایک عام علامت ہے۔ جس کا مفہوم مے خانہ اور شراب سے متعلقہ مضامین تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ اقبال کی شاعری میں یہ گھسی پٹی علامت کس قدر معنوی وسعتوں سے آشنا ہوتی ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے تاثیرؔ رقم طراز ہیں۔ ساقی کا استعارہ اور ہی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ شاعر اس مے کا متلاشی نہیں جس سے دل و دماغ نشے میں ڈوب کر رہ جائیں وہ اشراقی دور کی غفلت و غلامی کے ان جانکاہ امراض کو نیست و نابود کرنے کا خواہاں ہے جو صدہا سال سے مسلمان مشرق کے زوال و انحطاط کا باعث رہے ہیں۔ اب ہم ایک نئے دور انقلاب میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہمارے سامنے عظیم الشان امکانات کا ایک وسیع سلسلہ ہے۔ آئیے ہم قرون وسطیٰ کے اسلام سے ایمان و ہیجان کا بادہ سرجوش نوش کریں۔ یہ ہے اقبال کا حیات افروز پیغام۔۳۰؎ فن غزل گوئی کی روایت جو زوال آمادہ معاشرے میں انفعالیت اور مصنوعیت کا شکار ہوچکی تھی اقبال کے ان فنی اضافوں نے اس کے مردہ جسم میں تازہ خون دوڑایا اور اس میں ایک نئی روح پھونکی۔ لہٰذا تاثیرؔ کہتے ہیں کہ’’دور جدید میں غزل کی صلاحیتوں کی نمائندگی اقبال کرتے ہیں اور غزل کے ایک نئے دور کا آغاز بالِ جبریل سے ہوتا ہے۔‘‘۳۱؎ کلامِ اقبال میں تغزل کے عناصر کی کارفرمائی کو تاثیرؔ اقبال کے شعری اسلوب کی دلکشی کا موجب سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اقبال کی شاعری میں سوزوگداز، خیال کی رفعت، جذبے کی آنچ اور خونِ جگر کی حرارت اسے حیات آفریں اور حیات افزا بناتی ہے۔ تاثیرؔ کہتے ہیں کہ اپنی مقصدیت کے باوجود شعر اقبال کا انداز ناصحانہ نہیں بلکہ خیال جذبے میں ڈھلتا ہے اور جذبہ و احساس کی آنچ قارئین کے دلوں کو گرماتی ہے۔ بقول تاثیرؔ: اقبال کے ہاں آرٹ محض ظاہری آنکھ سے دیکھی ہوئی چیزوں کا عکس نہیں۔ اقبال کی شاعری جمال وزیبائی کی ہی شاعری ہے۔ یہ جمالیاتی وارادت کا نتیجہ ہے۔ اس کی تہ میں جذبات ہی کارفرما ہیں جیسے غزلیہ شاعری یا عام تغزل میں مگر اس کا دائرہ محض جنسی کشش اور حواس تک ہی محدود نہیں۔۳۲؎ کلامِ اقبال کی شاعرانہ موسیقیت کو ظاہر کرنے کے لیے تاثیرؔ اقبال کی مشہور نظم ’ایک شام‘ (دریائے نیکر (ہائیڈل برگ) کے کنارے پر) کی مثال دیتے ہیں۔جس میں شاعر نے سی اور شی کی آوازوں کی تکرار سے خاموشی اور تنہائی کے تاثر کو گہرا کردیا ہے۔ گوپی چند نارنگ کے بقول: اس نظم کو پڑھتے ہی احساس ہوتا ہے کہ اس میں سناٹے اور تنہائی کی کیفیت بعض خاص خاص آوازوں کی تکرار سے بھی ابھاری گئی ہے بادی النظر میں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ آوازیں س ش خ اور ف کی ہیں جو سات شعروں کی اس مختصر سی نظم میں بار بار آئی ہیں۔۳۴؎ اس بیان سے جہاں تاثیرؔ کے نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے وہاں گوپی چند نارنگ کے محولہ بالا مضمون سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ تاثیرؔ نے کلامِ اقبال کے شاعرانہ آہنگ کے متعلق جو ابتدائی اور دھندلے اشارے دیے ہیں، بعد کے لسانیاتی شعور کے حامل اردو ناقدین نے شعوری یا لاشعوری طور پر اس سے تحریک حاصل کی اور اس موضوع پر تفصیلی انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ اقبال کی شاعری میں منظر نگاری کی فنی خوبی کا ذکر کرتے ہوئے تاثیرؔ کہتے ہیں کہ کلامِ اقبال میں منظر کشی خارجی مناظر کی تصویریں پیش کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ کسی خیال یا جذبے کی کیفیت کے تاثر کو گہرا کرنے کے لیے پس منظر کا کام دیتی ہے۔ تاثیرؔ کے الفاظ میں: اقبال پتھروں، درختوں اور دریائوں کا پجاری نہیں۔ انھیں جاندار نہیں سمجھتا خدائی طاقت مجسم نہیں مانتا۔ مناظر قدرت کو پس منظر کی حیثیت دیتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کے خیالات اور جذبات زیادہ اہم اور قابل توجہ ہیں۔۳۵؎ کلامِ اقبال پر کیے جانے والے اعتراض کہ ’’اقبال کی شاعری میں منظر کشی مفقود ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے تاثیرؔ اقبال کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ میں قدرتی مناظر کی تفصیلی تصویر کشی کی مثال دیتے ہیں جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اقبال مناظر کے بیان سے مختلف جذبات واحساسات کو ابھارنے کا کام لیتے ہیں جیسا کہ ’’ساقی نامہ‘‘ میں مناظر فطرت کا تحرک، رنگ بہار اور سرمستی وسرخوشی کے جذبات کو بیدار کرنے کا باعث بنتا ہے جو کہ پیامِ زندگی ہے۔ شعراقبال کی فنی و تخلیقی توانائی میں تاثیرؔ اقبال کے لہجے کی مردانگی اور رجائیت کو بنیادی حیثیت دیتے ہیں۔ اقبال کے لہجے میں زندگی کی قوت ہے جو دلوں کو گرماتی ہے اور رجائی لب و لہجہ زندگی کرنے کا عزم اور حوصلہ عطا کرتا ہے۔ تاثیرؔ کلامِ اقبال کا موازنہ نوبل انعامی یافتہ بنگالی شاعر ٹیگور سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ٹیگور کا پیغامِ امن، پیغامِ موت ہے، اس کا وطنیت اور استبدادیت کا دشمن ہونا اس کی غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور اس کا حسن و عشق سے رابطہ ذوق عمل سے محروم ہونے کی نشانی ہے، جب کہ ’’اقبال کی شاعری کا پہلا اور آخری وصف زندگی ہے۔ اس کی نظموں کا ہر مصرعہ اس کے فلسفہ کا ہر صفحہ روح حیات سے لبریز ہے۔ اس کی رگوں میں خون وجدان حیات کی مسرت سے رقص کناں ہے۔۳۵؎ ٹیگور اور اقبال کی شاعری پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد تاثیرؔ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ: اقبال کے آہنگ مردانہ کے مقابلے میں ٹیگور کی آواز لرزتی ہے اور اقبال اور ٹیگور میں زندگی اور موت کا فرق ہے۔۳۶؎ اقبال کے مردانہ لہجے کی توانائی اور رجائیت کی سرمستی وسرخوشی اقبال کی شاعری کو حیات افروزی کی قوت سے مالامال کرتی ہے۔ الغرض تاثیرؔ اپنے مضامین میں فکرِاقبال کے ساتھ ساتھ شعر اقبال کے فنی محاسن اور تخلیقی پہلوئوں کو بھی منکشف کرتے ہیں۔ اقبال پر تاثیرؔ کے یہ مضامین کا یک طرفہ فکری یا فنی مطالعہ نہیں بلکہ فکروفن کی وحدت کے ساتھ تخلیقی اکائی کی صورت میں تفہیم اقبال کے اساسی نکات کا احاطہ کرتے ہیں۔ خ…خ…خ…خ حوالے و حواشی ۱- یہ مضامین افضل حق قرشی نے مرتب کرکے اقبال کا فکروفن اور Iqbal: The Universal Poet کے نام سے شائع کردیے ہیں۔ ۲- تاثیرؔ :’’میرا عہدِ طفلی‘‘،کریسنٹ، لاہور، یادگار نمبر، فروری؍ اپریل، ۱۹۵۱ئ۔ ۳- تاثیرؔ : ’’اسماء الرجال اقبال‘‘،کریسنٹ لاہور، یادگار نمبر، فروری؍ اپریل، ۱۹۵۱ئ۔ ۴- افضل حق قرشی(مرتب): اقبال کا فکروفن، یونیورسل بکس، لاہور، ۱۹۸۸ئ، ص۴۲۔ ۵- ایضاً ،ص۲۱۲۔ 6- Afzal Haq Qarshi (Ed), Iqbal : The Universal Poet, Bazm-i- Iqbal, Lahore, 1977, p. 47. 7- Iqbal's Letter to R. A. Nicholson, The Quest, London, Oct, 1920 and July 1921, Vol XII, p. 492, reproduced in The Sword and Sceptre by Riffat Hasan, Iqbal Academy Pakistan, Lahore 1977, p. 367. ۸- تاثیرؔ، ’’فلسفہ اقبال‘‘ ، ماہنامہ نیرنگ خیال، لاہور، اگست ۱۹۲۴ئ، ص۲۴۔ ۹- ایضاً ،ص۲۱۲۔ 10- Afzal Haq Qarshi (Ed), Iqbal : The Universal Poet, Bazm-i- Iqbal, Lahore, 1977, p. 14. ۱۱- تاثیرؔ، ’’اقبال کا شاعرانہ فکر‘‘، اقبال کا فکروفن مرتبہ افضل حق قرشی، یونیورسل بکس، لاہور ۱۹۸۸ئ، ص۸۷۔ 12- Riffat Hasan (Ed), The Sword and the Sceptre, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1977, (Introduction), p. XIV. ۱۳- میکش اکبر آبادی : نقد اقبال، مکتبہ جامعہ ، دہلی ۱۹۶۴ئ۔ ۱۴- تاثیرؔ: ’’اقبال میں تضاد نہیں‘‘، پندرہ روزہ آج کل، دہلی، یکم یا ۱۵؍اپریل ۱۹۴۶ئ، ص۱۹۔ ۱۵- ایضاً ،ص۲۰۔ ۱۶- ایضاً ،ص۲۰۔ ۱۷- ایضاً ،ص۲۰۔ ۱۸- ایضاً ،ص۲۱۔ ۱۹- ایضاً ،ص۲۱۔ ۲۰- تاثیرؔ: ’’اقبال کا نظریہ فن و ادب‘‘، اقبال کا فکروفن مرتبہ افضل حق قرشی، یونیورسل بکس، لاہور ۱۹۸۸ئ، ص۷۱، ۷۲۔ ۲۱- تاثیرؔ: ’’اقبال کا نظریہ شاعری‘‘، اقبال کا فکروفن ، ص۸۰۔ ۲۲- ایضاً۔ ۲۳- تاثیرؔ: ’’تنگنائے غزل‘‘، مقالات تاثیرمرتبہ ممتاز اختر مرزا، مجلس ترقی ادب، لاہور، ص۲۷۵۔ ۲۴- ایضاً، ص۲۷۵۔ ۲۵- ایضاً، ص۲۷۶۔ ۲۶- تاثیرؔ: ’’اقبال اور غزل‘‘، اقبال کا فکروفن ، ص۱۶۵۔ ۲۷- ایضاً، ص۱۶۵،۱۶۶۔ ۲۸- تاثیرؔ: ’’اقبال ایک آفاقی شاعر‘‘،اقبال کا فکروفن ، ص۱۵۳۔ ۲۹- ایضاً، ص۱۵۳۔ ۳۰- تاثیرؔ: ’’تنگنائے غزل‘‘ ، ص۲۷۵۔ ۳۱- تاثیرؔ: ’’اردو غزل‘‘، بیسویں صدی میں اردو غزل مرتبہ فرمان فتح پوری، اردو اکیڈیمی سندھ، کراچی، ۱۹۸۷ئ، ص۲۹۰۔ ۳۲- تاثیرؔ: ’’سرودِ رفتہ‘‘ ، اقبال کا فکروفن ، ص۱۳۲۔ ۳۳- گوپی چند نارنگ: ’’اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام‘‘،نقوش، لاہور، اقبال نمبر۲، شمارہ ۱۲۳، دسمبر ۱۹۷۷ئ، ص۱۷۴۔ ۳۴- تاثیرؔ: ’’اقبال کا کلام‘‘، ادبی دنیا، لاہور، اقبال نمبر، شمارہ ۲۴، ص۱۰۱۔ ۳۵- تاثیرؔ: ’’فلسفہ اقبال‘‘، ماہنامہ نیرنگ خیال، لاہور، ستمبر ۱۹۲۴ئ، ص۱۴۔ ۳۶- ایضاً، ص۱۶،۱۷۔ خ…خ…خ…خ  اقبال اور اسلام کے موضوع پر ایک گفتگو محمد سہیل عمر خلاصہ اسلام اور اقبال کا تعلق بہت گہرا اور کثیر الجہات ہے۔ اقبال کے بنیادی تصورات کا خمیر اسلام سے اُٹھا ہے۔ ان کے ہر تصور کی آبیاری اسی سے ہوتی ہے۔ وہ ہر پہلو سے ایک دینی مفکر اور اسلامی شاعر ہیں۔ اقبال نے نظم ونثر میں تصور انسان، تصور کائنات اور تصور خدا سے متعلق اپنے افکار پیش کیے ہیں۔ یہ سوالات جو بڑی شاعری کے موضوعات ہیں اقبال کی حکیمانہ شاعری کا موضوع ہیں۔ اسی طرح تشکیل جدید میں تصور خدا اور خدا اور کائنات کے تعلق کے پھیلے ہوئے مباحث اسلام کے تصور خدا اور تصور کائنات کا بیان ہیں۔ اقبال کا تصور کائنات ان کے تصور انسان کا ایک حصہ ہے۔ ان تمام تصورات کے باب میں اقبال نے اسلام کو ہر اس تناظر میں دیکھا ہے جو کسی حقیقت کو تسلیم کرنے کے عمل میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اقبال دین خصوصاً ایمانیات کے معاملے میں تطبیقی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ نئی ترجمانی اسلام اور اقبال کے تعلق کا ایک اہم پہلو ہے، جہاں علامہ جدید انسان کو اسلام کے افکار و تصورات کے فہم میں درپیش دشواریاں دور کرتے ہیں۔ خ…خ…خ اسلام اور اقبال کا تعلق بہت پہلو دار، گہرا اور فکر اقبال کی تمام سطحوں تک پھیلا ہوا ہے اور ان کے لفظ۔ومعنی کے پورے نظام اور علامات و مفاہیم کی ساری جہات پر محیط ہے۔ یہ نری لفظیات کا معاملہ بھی نہیں ہے جیسا کہ ہمیں ان کے معاصر یا بعد کے اکثر شعرا کے ہاں نظر آتا ہے جو اپنے الفاظ و علامات تو اسلامی روایت سے مستعار لیتے ہیں مگر مفہوم و معانی کی سطح پر ان میں من مانی تبدیلی کردیتے ہیں۔ اقبال کے ہاں سارے بنیادی تصورات کا خمیر اسلام سے اُٹھا ہے اور ان کے ہر تصور کی آبیاری اسی سے ہوتی ہے۔ وہ ہر پہلو سے ایک دینی مفکر اور اسلامی شاعر ہیں۔ اسلام اور اقبال کو موضوع بنانا ایسا ہی ہے جیسا کسی نظام کی روح پر گفتگو کی جائے، اس کی بنیاد اور پس منظر کا جائزہ لیا جائے اور اس کے سارے اجزا کی معنویت پر تبصرہ کیا جائے۔ ان مختصر گزارشات میں ہم اسلام کے حوالے سے علامہ کے بنیادی تصورات کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ وہ اصول قدرے تفصیل سے بیان کریں گے جن سے اقبال کا تصور اسلام تشکیل پاتا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام نے علامہ کے پورے فکری تناظر کی صورت گری کیونکر کی ہے۔ ۱۹۳۰ء میں علامہ نے اپنے بارے میں یوں کہا تھا:۱؎ I have given the best part of my life to a careful study of Islam, its law and polity, its culture, its history and its literature. This constant contact with the spirit of Islam, as it unfolds itself in time, has, I think, given me a kind of insight into its significance as a world fact. طویل عرصۂ تحقیق و مطالعہ سے جنم لینے والی اس نظر (insight) کو جانچنے کا ایک مستند طریقہ یہ ہے کہ علامہ کے مجموعی کام کو تین حصوں میں بانٹ کر دیکھا جائے: ان کا تصورِ انسان کیا ہے، تصورِ کائنات کیا ہے اور تصورِ خدا کیا ہے؟ اس طرح ہم علامہ کی فکر اور تخیل کے مرکز تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کی روشنی میں وہ اندرونی عمل (psychodynamics) بھی گرفت میں آجاتا ہے جو فکر میں وحدت اور کلیت پیدا کرتا ہے۔ تلاش کے اس زاویے کی طرف رہنمائی بھی اقبال نے خود ہی کی ہے۔ دیگر بہت سے مقامات کے علاوہ تشکیل جدید کے آغاز ہی میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:۲؎ What is the character and general structure of the universe in which we live? Is there a permanent element in the consitituion of this universe? How are we related to it? What place do we occupy in it, and what is the kind of conduct that befits the place we occupy? These questions are common to religion, philosophy, and higher poetry. اس عبارت میں اقبال نے اپنی کائنات فکر کا خاکہ پیش کر دیا ہے۔ وہ کائنات جس کا کچھ حصہ نثر میں ہے اور باقی نظم میں۔ انسان کیا ہے کائنات کیا ہے، خدا سے ان کا کیا تعلق ہے؟ چیست عالم، چیست آدم، چیست حق؟۳؎ یہی وہ سوالات ہیں جن کا علامہ اقبال اپنی نظم و نثر میں جواب دیتے نظر آتے ہیں کہ بڑی شاعری انسان کے انہی بنیادی سوالات سے سروکار رکھتی ہے۔ علامہ ان سوالات کا جواب دین سے اخذ کرتے ہیں، فلسفے کی روشنی میں اس کی تعبیر کرتے ہیں اور شعری اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ یوں کہیے کہ تعبیر حقائق اور بیانِ حقائق کو حسنِ اظہار کی اعلیٰ ترین سطح سے ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ سطح شعور ہے جہاں آکر شاعری اور حکمت و دانش گھل مل جاتے ہیں اور شاعر یہ کہ۔َ۔ سکتا ہے کہ ’’بہ جبریل امین ہمداستانم‘‘۴؎ یا ’’شاعری ہم وارث پیغمبری است‘‘۔۵؎ اُردو اور فارسی میں علامہ اقبال اس بلند ترین سطحِ شعور اور حکیمانہ شاعری کی روایت کے امین اور شعر حکمت کا آخری بڑا اظہار نظر آتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ: ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے۶؎ یا وجود حضرت انسان نہ روح ہے نہ بدن۷؎ یا عرش معلی سے کم سینۂ آدم نہیں گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہر کبود۸؎ یا نقطہ نوری کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است۹؎ یا عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۱۰؎ یا خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات۱۱؎ یا خودی را از وجود حق وجودے خودی را از نمود حق نمودے نمی دانم کہ این تابندہ گوہر کجا بودی اگر دریا نبودے۱۲؎ تو وہ اسلام کے تصورِ انسان کا بیان کررہے ہیں۔ اسی کو تشکیل جدید میں سمیٹ کر یوں کہتے ہیں کہ:۱۳؎ Man, therefore, in whom egohood has reached its relative perfection, occupies a genuine place in the heart of Divine creative energy, and thus possesses a much higher degree of reality than things around him. Of all the creations of God he alone is capable of consciously participating in the creative life of his Maker. بالِ جبریل کی پہلی غزل نہ صرف اس بلند آہنگ تصورِ انسان کو ایک کائناتی سیاق و سباق میں کھولتی ہے بلکہ اقبال کے تصورِ کائنات اور تصورِ خدا کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ تصورِ کائنات اور تصورِ الٰہ کے سلسلے میں جب وہ ظہور کائنات اور فطرت الٰہیہ میں داعیۂ تخلیق کے بارے میں کہتے ہیں کہ: نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا۱۴؎ یا بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ۱۵؎ یا سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات۱۶؎ یا تو شاخ سے کیوں پھوٹا میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبۂ پیدائی اک لذت یکتائی۱۷؎ یا یہ ہے خلاصہ علم قلندری کہ حیات خدنگ جستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں۱۸؎ تو یہاں اسلام ہی کے بنیادی تصورات بیان ہورہے ہیں۔ دوسری طرف تشکیل جدید میں تصورِ خدا اور خدا اور کائنات کے تعلق کے پھیلے ہوئے مباحث دیکھیے۔ یہ سب اسلام کے تصورِ خدا اور تصورِ کائنات کا بیان ہیں۔ اقبال کا تصورِ کائنات ان کے تصورِ انسان ہی کا ایک حصہ ہے۔ کائنات، انسان کے سفر تکمیل کا پہلا مرحلہ ہے۔ جیسا کہ ’’ساقی نامہ‘‘ کے آخری بند میں فرماتے ہیں: یہ عالم، یہ ہنگامۂ رنگ و صوت یہ عالم کہ ہے زیر فرمان موت یہ عالم، یہ بت خانہ چشم و گوش جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش خودی کی یہ ہے منزل اوّلیں مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاک داں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر خودی شیر مولا، جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخیِ فکر و کردار کا یہ ہے مقصد گردش روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار۱۹؎ اقبال کے لیے کائنات کا بنیادی مصرف یہ ہے کہ انسان کی تکمیل میں صرف ہوجائے۔ اس کے موجود ہونے کی تمام بنیادیں انسان کی اُس صلاحیت سے وابستہ بلکہ مشروط ہیں جو انسان کو اپنی تکمیل کے لیے ودیعت کی گئی ہیں۔ آدمی سے غیر متعلق ہو کر کائنات کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے۲۰؎ علامہ کی نظم و نثر سے اس بات کی تائید کے لیے اقتباسات کا ایک انبار لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا تصورِ انسان ہو یا تصورِ کائنات معاصرانہ مباحث سے پوری طرح متعلق ہونے کے باوجود ان کا کوئی ایک جز بھی ایسا نہیں ہے جس کی سند اسلام کے بنیادی متون سے نہ پیش کی جاسکے۔ قرآن کا مطلوبہ انسان اور مطلوبہ کائنات گویا انسانوں کے بدلے ہوئے ماحول میں اقبال کی زبان سے ایک نئی ترجمانی کے عمل سے گذرتی ہے۔ انسان اور کائنات کے بارے میں سوچتے ہوئے ذہن کا دینی حدود میں رہنا ایک مشکل کام ہے۔ اقبال نے جب اس مشکل کام کو انجام دے لیا تو ظاہر ہے کہ خدا کی نسبت سے بھی ان کے تصورات لازماً اسلامی ہی ہوں گے، البتہ یہ بات ضرور سامنے رہنا چاہیے کہ علامہ کے ہاں خدا کا تصور ایک سخت گیر حاکم کا سا نہیں ہے بلکہ وہ خدا کو انسانی تمنائوں اور اُمیدوں کا منتہا سمجھتے ہیںاور اس جہت کو الوہیت کے ماننے سے پیدا ہونے والی دوسری جہت پر ترجیح دیتے ہیں۔ مختصر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تصورِ خدا اللہ کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر زیادہ استوار ہے وہ جہاں بھی خدا کے بارے میں کلام کرتے ہیں وہاں تعلق کا پہلو دیگر پہلوئوں پر غالب ہوتا ہے۔ کرا جوئی چرا در پیچ و تابی کہ او پیدا ست تو زیر نقابی تلاش او کنی جز خود نبینی تلاش خود کنی جز او نیابی۲۱؎ اس مشہور قطعے کو بعض حضرات نے کسی اور معنی میں لیا ہے۔ وہ معانی بھی درست ہوسکتے ہیں لیکن اس کامرکزی خیال انسان اور خدا کے تعلق کی اس حقیقت پر مشتمل ہے جس کی بنیاد پر انسان کا غیر حقیقی نہ ہونا آخری درجے میں ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اقبال نے اسلام کو ہر اس تناظر سے دیکھا جو کسی حقیقت کو تسلیم کرنے کے عمل میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے۔ مثلاً فلسفیانہ تناظر، مابعد الطبیعی تناظر، اخلاقی تناظر، سائنسی تناظر، تہذیبی تناظر وغیرہ۔ دین خصوصاً ایمانیات کے معاملے میں اقبال تطبیقی روّیہ رکھتے ہیں۔ یعنی متداول اور مروّج علمی تحقیقات کو ملا کر انہیں مذہب کی تائید میں استعمال کرنے کا روّیہ۔ اس سے مسائل بھی پیدا ہوئے مگر جدید ذہن کو دین سے لاتعلق نہ ہونے دینے کے لیے یہ طریقہ مؤثر ثابت ہوا۔ نئی ترجمانی (restatement) اسلام اور اقبال کے تعلق کا ایک نہایت ہی اہم پہلو ہے۔ اسلام کے حوالے سے علامہ نے جو ایک اہم کارنامہ انجام دیا وہ جدید ذہن، آج کے خوگر محسوس انسان کے لیے اسلام کے تصورِ دین، انسان، کائنات اور تصورِ الٰہ کی تعبیر نو کا کام ہے یعنی (restatement) ع خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کردیں۲۲؎ وہ لوگ جو اپنی تعلیمی اور فکری پس منظر کی وجہ سے اسلام کی دینی اور فکری اکائی سے کٹ گئے ہوں ان تک اسلام کے تصورِ حقیقت کا ابلاغ اور بنیادی تصورات کا اس طرح بیان جو ان کے لیے سمجھنا ممکن ہو اور آسان تر ہو۔ یہ ہے وہ کام جو علامہ نے ہمارے زمانے میں سب سے نمایاں اور منفرد انداز میں کرکے دکھایا۔ زبان، اندازِ بیان اور طرزِ کلام بھی وہ برتا ہے وہ جدید ذہن کے لیے مانوس ہے اور مخاطب کی معلومات اور مسلمات فکر کی رعایت بھی رکھی گئی ہے، نیز اس عمل کے دوران ان شبہات اور اعتراضات کا جواب بھی فراہم کردیا گیا ہے جو جدید ذہن کی طرف سے اسلام پر کیے تھے۔ ان کے خطبات اس کاوش کا بہترین نمونہ ہیں اور اسلام کی بہترین فکری روایات اور اس کا روشن چہرہ ہمارے سامنے لے آتے ہیں۔ اب اگر ساری بحث کا خلاصہ کیجیے تو کچھ یوں ہوگا کہ: ۱- علامہ کے پورے نظامِ فکر اور لفظ و معنی کے سارے سلسلے کی صورت گری اسلام سے ہوئی ہے۔ ۲- وہ اپنے شعری اور نثری افکار میں اسلام کے تصورِ کائنات، تصورِ انسان اور تصورِ خدا کو ایک اعلیٰ علمی سطح اور دلنشین انداز بیان کے ذریعے ہم تک منتقل کرتے ہیں اور ۳- جدید آدمی کو ان تصورات کے فہم میں جو دشواریاں ہوتی ہیں ان کو اپنی تحریروں سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خ…خ…خ…خ سوال، جواب س:۱- آپ نے فرمایا کہ اقبال کے تمام خیالات و تصورات کا سرچشمہ اسلام یعنی قرآن و سنت ہے۔ الفاظ تو یہ نہیں تھے مگر مفہوم یہی تھا۔ یہاں میں اپنی ایک مشکل پیش کرنا چاہتا ہوں اقبال نے خطبات میں بھی اور شاعری میں بھی، متعدد مقامات پر آدمی کو اللہ کاہم کار قرار دیا ہے۔ کیا یہ خیال اسلامی ہے؟ ج:۱- بہت اچھا سوال ہے۔ آپ نے بے شمار لوگوں کی ترجمانی فرما دی ہے۔ جواب یہ ہے کہ انسانی کمالات کے اصول الوہی ہیں۔ یعنی انسان کا ہر کمال جس نسبت کی بنیاد پر کمال ہے، وہ نسبت ربانی ہے۔ اقبال نے اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے آدمی کو خدا کا ہم کار کہا ہے۔ دوسرے یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انسان کا بڑا مقصد یہی ہے کہ وہ اللہ کے مقاصد تخلیق کی تکمیل کا ذریعہ بنے۔ علامہ نے انسان کی اس حیثیت کو بھی اس طرح کے پرشکوہ بیانات میں ظاہر کیا ہے۔ ان دو باتوں کے علاوہ قانونی انداز اختیار کرکے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خدا کے رنگ میں رنگ جانے اور اللہ کے اخلاق میں ڈھل جانے کی ذمہ داری کہاں سے ثابت ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ قرآن و سنت سے۔ ان مطالبات سے جو مفہوم اور جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، علامہ اسی کو خدا کی ہم کاری کہ۔َ۔ رہے ہیں۔ س:۲- علامہ اقبال نے وحدت اُمت پر بہت زور دیا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ یہ وحدت سیاسی ہے یا اس کی بنیاد کسی اور اصول پر ہے؟ اور کیا وہ اصول وحدت، مسلمان ملکوں میں سیاسی اتحاد نہ ہونے کی صورت میں بھی مؤثر رہتا ہے؟ ج:۲- یہ وحدت اپنی اصل میں سیاسی نہیں ہے بلکہ دینی اور ایمانی ہے۔ سیاسی اتحاد اس وحدت کو مضبوط تو کرسکتا ہے، اس کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان ملکوں میں سیاسی اتحاد قائم نہ ہوسکے تو بھی اُمت کی وحدت اپنی اصل کے ساتھ برقرار رہتی ہے۔ س:۳- اقبال کے تصورِ اسلام میں وہ کیا خاص بات ہے جو انھیں دوسرے اسلامی مفکرین سے ممتاز بناتی ہے؟ ج:۳- ان کا تصورِ انسان اور نظریہ خودی اس پہلو سے اقبال مسلمانوں کی فکری روایت میں ایک امتیازی اور انفرادی حیثیت رکھتے ہیں اور اگر دین کی تعبیر کے پہلو سے دیکھیے تو ان کی امتیازی حیثیت یہ ہوگی کہ دوسرے مفکرین کے مقابلے میں ان کے فکری وسائل وسیع تر اور کامل تر تھے، مغربی تہذیب سے براہِ راست شناسائی میسر تھی اور مغربی فکر و فلسفہ پر ایک گیرائی اور گہرائی کے ساتھ دسترس میسر تھی۔ س:۴- بعض لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کا مردِ مومن، جرمن فلسفی نٹشے کے سپرمین کا چربہ ہے۔ آپ کچھ روشنی ڈالیے کہ یہ الزام صحیح ہے یا غلط؟ ج:۴- یہ بڑی کم نظری کی بات ہے۔ اس کی تردید میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ سردست اتنی بات سمجھ لیجیے کہ نٹشے کا سپرمین اخلاقیات کا دشمن ہے جب کہ مردِ مومن اخلاقیات کا معمار ہے۔ یہی فرق اتنا بڑا ہے کہ اس الزام کی لغویت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ نیز اقبال نے خود بھی اپنے خطوط میں اور بعض ناقدین کے جواب میں اس بات کی وضاحت سے تردید کی ہے۔ س:۵- ہماری صورت حال، اقبال کے زمانے سے بہت مختلف ہے۔ آپ فرمائیں کہ اس بدلی ہوئی صورت حال میں اقبال کا تصورِ اسلام خصوصاً تصور اُمت ہمیں کس طرح کی رہنمائی فراہم کرسکتا ہے؟ ج:۵- مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کا تصورِ اُمت، قوم پرستی اور علاقائیت کی تردید پر کھڑا ہے۔ یہ دونوں امراض آج بھی ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ہم ان کا علاج اقبال کی مدد سے کرسکتے ہیں۔ س:۶- کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کی شاعری جارحانہ جذبات پیدا کرتی ہے۔ یہی جارحانہ جذبات دہشت گردی کا سبب ہیں۔ آپ اس پر کیا فرمائیں گے؟ ج:۶- یہ ایک بے سروپا بات ہے۔ اقبال کی شاعری جارحانہ جذبات نہیں بلکہ احساس عظمت پیدا کرتی ہے۔ آپ خود سوچیے کہ جو شخص ساری عمر یہ کہتا رہا کہ: آدمیت، احترامِ آدمی باخبر شو از مقام آدمی۲۳؎ کیا وہ جارحانہ جذبات کو ہوا دے گا؟ اور جس کا حتمی پیغام یہ رہا ہو کہ حرف بد برلب آوردن خطاست کافر و مومن ہمہ خلق خداست بندہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق۲۴؎ کیا وہ تشدد کی ترغیب دے گا؟ یوں تو علامہ اقبال کی پوری شخصیت مذہبی رواداری تحمل اور افہام و تفہیم کی روشن مثال ہے اور ان کے احباب میں ہندو، عیسائی، سکھ اور پارسی بھی شامل تھے اور ان کے کلام نظم و نثر میں اس پر بہت واضح رویہ۔ّ۔ نظر آتا ہے جو دیگر ادیان کو ان کا جائز حق دینے اور ان کو معاشرے میں عزت اور احترام اور بقائے باہمی کی حیثیت دینے سے عبارت ہے لیکن میں ان کا ایک اقتباس آپ کو سنا دیتا ہوں جو خطبہ الٰہ آباد سے ہے:۲۵؎ A community which is inspired by feelings of ill-will towards other communities is low and ignoble. I entertain the highest respect for the customs, laws, religous and social institutions of other communities. Nay, it is my duty, according to the teachings of the Quran, even to defend their places of worship, if need be. Yet, I love the communal group which is the source of my life and behavior, and which has formed me what I am by giving me its religion, its literature, its thought, its culture, and thereby recreating its whole past as a living operative factor, in my present consciousness. خ…خ…خ…خ حوالے و حواشی 1- Latif A. Sherwani (Ed), Speeches, Writings and Statements of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1995, p. 3. 2- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1986,p. 1. ۳- اقبال، ’’زبورِ عجم‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص۵۱۰۔ ۴- ایضاً، ص۴۳۰۔ ۵- ایضاً، ص۵۱۷۔ ۶- اقبال،’’بال جبریل‘‘،کلیات اقبال(اُردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص۔۳۶۹۔ ۷- ایضاً،’’ضرب کلیم‘‘، ص۵۷۰۔ ۸- ایضاً،’’بال جبریل‘‘، ص۴۲۲۔ ۹- اقبال، ’’اسرار خودی‘‘،کلیات اقبال(فارسی)، ص۳۷۔ ۱۰- اقبال، ’’بانگِ درا‘‘،کلیات اقبال(اُردو)، ص۳۰۵۔ ۱۱- ایضاً،’’بال جبریل‘‘، ص۴۲۴۔ ۱۲- اقبال، ’’پس چہ باید کرد‘‘کلیات اقبال(فارسی)، ص۸۵۰۔ ۱۳- اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، محولہ بالا (نوٹ:۲) ص۵۸؛ نیز دیکھے ص ۶۴۔ ۱۴- اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال(اُردو)، ص۳۵۹۔ ۱۵- اقبال، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیات اقبال(اُردو)، ص۶۳۸۔ ۱۶- اقبال، ’’بال جبریل‘‘،کلیات اقبال(اُردو)، ص۴۱۹۔ ۱۷- ایضاً، ص۴۴۹۔ ۱۸- ایضاً، ص۳۸۰۔ ۱۹- ایضاً، ص ص۴۵۶-۴۵۷۔ ۲۰- اقبال ،’’ضرب کلیم‘‘، ،کلیات اقبال(اُردو)، ص۵۵۰۔ ۲۱- اقبال، ،’’پیام مشرق‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۲۲۳۔ ۲۲- اقبال، ،’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اُردو)، ص۱۴۲۔ ۲۳- اقبال، ،’’جاوید نامہ‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۶۷۳۔ ۲۴- ایضاً، ص۶۷۳۔ ۲۵- شیروانی، محولہ بالا، (نوٹ:۱)، ص۹۔ خ…خ…خ…خ  فکر اقبال اور فہم قرآن کی جہات ڈاکٹر طاہر حمید تنولی خلاصہ اقبال کی فکر کی اساس قرآن حکیم ہے اور ان کی فکر کی توضیحی جہات ہمارے مستقبل کا احاطہ کرتی ہیں۔ اقبال نے سوائے روح قرآن کو اپنے کلام میں سمونے کے، اپنی شاعری میں اور کچھ بیان نہیں کیا۔ قرآن حکیم سے اس شغف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علامہ جس مثالی انسان اور مرد مومن یا قلندر کا تصور پیش کرتے ہیں وہ ان کے مطابق قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل سے ہی ممکن ہے۔ علامہ نے قرآن حکیم کے فہم کا وہ اسلوب اختیار کیا ہے جس سے تعلیمات ِقرآن پر ایمان و یقین کی پختگی، مردہ قوم کی حیات افروزی ، زوال کو عروج میں بدلنے کے امکان اور زندگی کے ہر گوشے کو نورِ قرآن سے منور کرنے کا منہج میسر آتا ہے۔ قرآن حکیم کی وہ شان امتیاز کیا ہے جو اسے زندگی کے ہر پہلو پر محیط اور اپنے بیان کردہ معیارات کے حصول کا یقین بھی عطا کرتی ہے، اس کا شعور اقبال کی فکر سے میسر آتا ہے۔اقبال کے فکر اور منہج فہم قرآن کے مطابق قرآن حکیم کا مطالعہ فکر کی نئی جہات سے آشنا کرتا ہے۔ مثلاً سورہ اخلاص کی تفسیر میں توحید کے سماجی، معاشرتی اور قومی پہلوئوں کا بیان یا سورۃ یوسف کے مضامین کی فہم کے باب میں علمی، اقتصادی، قانونی، ریاستی، نفسیاتی، اخلاقی، اعتقادی اور عملی پہلوئوں کا بیان جہاں فکر، علم اور عقیدہ تصور محض کے دائرے سے نکل کر عمل اور زندگی کی زندہ حقیقت میں ڈھل جاتے ہیں۔ خ…خ…خ ملت اسلامیہ کی حیات اجتماعی کے لیے قرآن حکیم کی حیثیت ر وح کی ہے۔ ہر دور میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کاوشیں کی جاتی رہیں۔ فہم قرآن کے باب میں جن مسلم اہل علم و فکر کی کاوشیں رہنما حیثیت رکھتی ہیں ، اقبال کی فکر ان میں نمایاں مقام کی حامل ہے۔کئی حوالوں سے جامعیت کا حامل ہونے کے سبب ہماری فکری تاریخ میں اقبال کی حیثیت ایک برزخی سنگ میل کی ہے۔ اگرچہ اقبال معروف معنوں میں عالم دین تو نہیں مگر ’قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں‘ ۱؎ پر خود عمل پیرا ہوتے ہوئے اقبال نے اپنے اشعار میں قرآن حکیم کے معانی و اسرار کو بہت ہی نادر انداز میں بیان کیا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں قرآن حکیم کے پیغام ہی کو بیان کیا ہے اور یہی اقبال کا دعوی بھی ہے: گر دلم آئینہ بے جوہر است وربحرفم غیر قرآں مضمر است اے فروغت صبح اعصار و دھور چشم تو بینندۂ ما فی الصدور روز محشر خوارو رسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پاکن مرا گر دُرِ اسرار قرآن سفتہ ام با مسلماناں اگر حق گفتہ ام در عمل پایندہ تر گرداں مرا آب نیسانم گہر گرداں مرا۲؎ اگر میرے دل کا آئینہ جوہر کے بغیر ہے اگر میرے اشعار میں قرآن حکیم کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے۔ آپ کا نور اعصار و ودہور کی صبح ہے۔ آپ کی آنکھ پر دلوں کی بات روشن ہے۔ اگر میں قرآن حکیم کے علاوہ کچھ اور کہ۔َ رہا ہوں، تو آپ مجھے قیامت کے روز خوار و رسوا کیجیے۔ اور اپنے بوسہ پاسے محروم رکھیے۔ لیکن اگر میں نے اپنی شاعری میں قرآن حکیم کے موتی پروئے ہیں اور اگر میں نے مسلمانوں سے حق بات کہی ہے تو مجھے عمل میں پائندہ تر کر دیجیے۔ میں بارش کا قطرہ ہوں مجھے گوہر بنا دیجیے۔ اپنے اشعار میں کئی آیات قرآنی کے معانی و مفاہیم بیان کرنے کے علاوہ اقبال نے اسرارورموز میں سورہ اخلاص کی تفسیر بھی بیان کی ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ تفسیر انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق۔ؓ کے فرمانے پر لکھی ہے: من شبے صدیق۔ؓ را دیدم بخواب گل ز خاک راہ او چیدم بخواب گفت تا کے در ہوس گردی اسیر آب و تاب از سورۂ اخلاص گیر اینکہ در صد سینہ پیچد یک نفس سرے از اسرار توحید است و بس۳؎ سورہ اخلاص کی یہ تفسیر تمام موجود تفاسیر میں ندرت کی حامل ہے ۔ انفرادی و اجتماعی کردار کی تعلیم کے جو نکات اس تفسیر میںبیان کیے گئے ہیں بلاشبہ وہ تفسیری ادب میں ایک غیر معمولی اضافہ ہیں: گر بہ اللہ۔الصمد دل بستۂ از حد اسباب بیروں جستۂ بندۂ حق بندۂ اسباب نیست زندگانی گردش اسباب نیست مسلم استی بے نیاز از غیر شو اہل عالم را سراپا خیر شو۴؎ اقبال جس مرد مومن کا خواب دیکھتے ہیں وہ بھی قرآن حکیم کو دستور حیات بنائے بغیر وجود پذیر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اقبال کے مرد مومن کا کردار یہ ہے کہ: قلندران کہ بہ تسخیر آب و گل کوشند ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند بہ جلوت اند و کمندی بہ مہر و مہ پیچند بہ خلوت اند و زمان و مکان در آغوشند بروز بزم سراپا چو پرنیان و حریر بروز رزم خود آگاہ و تن فراموشند نظام تازہ بچرخ دو رنگ می بخشند ستارہ ہای کہن را جنازہ بر دوشند زمانہ از رخ فردا کشود بند نقاب معاشراں ہمہ سر مست بادۂ دوشند بلب رسید مرا آن سخن کہ نتوان گفت بحیرتم کہ فقیہان شہر خاموشند۵؎ قلندر جو دنیا کی تسخیر میں کوشاں رہتے ہیں، بظاہر وہ خرقہ پہنتے ہیں لیکن بادشاہوں سے خراج وصول کرتے ہیں۔ وہ جب جلوت میں ہوتے ہیں تو مہروماہ پر کمند پھینکتے ہیں اور جب خلوت میں ہوتے ہیں تو زماں و مکاں ان کی آغوش میں ہوتے ہیں۔ دوستوں میں ریشم و کمخواب کی طرح نرم ہوتے ہیں مگر جنگ کے دوران بدن سے بے پروا اور جوش جہاد میں مست ہوتے ہیں۔ وہ بوڑھے آسمان کو نیا نظام عطا کرتے ہیں اور اس کے پرانے ستاروں کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ زمانہ مستقبل کے چہرے سے نقاب الٹ چکا ہے مگر لوگ ابھی تک ماضی کی شراب سے مست ہیں۔ میں نے وہ بات کہ۔َ دی ہے کہ جو کہی نہیں جاسکتی تھی، حیراں ہوں کہ فقہیان شہر ابھی تک کیوں خاموش ہیں۔ قرآن حکیم کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں: نقش قرآن تا درین عالم نشست نقشہای کاہن و پاپا شکست فاش گویم آنچہ در دل مضمر است این کتابی نیست چیزی دیگر است چون بجان در رفت جان دیگر شود جان چو دیگر شد جہان دیگر شود مثل حق پنہان و ہم پیداست این زندہ و پایندہ و گویاست این اندرو تقدیر ہای غرب و شرق سرعت اندیشہ پیدا کن چو برق با مسلمان گفت جان بر کف بنہ ہر چہ از حاجت فزون داری بدہ آفریدی شرع و آئینی دگر اندکی با نور قرآنش نگر از بم و زیر حیات آگہ شوی ہم ز تقدیر حیات آگہ شوی۶؎ جب اس جہاں میں قرآن حکیم کا نقش ثبت ہوا تو کاہنوں و پاپائوں کے نقوش ٹوٹ گئے۔ میں اپنے دل کی بات برملا کہتا ہوں کہ یہ کتاب نہیں کچھ اور چیز ہے۔ جب اس کا اثر جان میں داخل ہوتا ہے تو وہ اور ہوجاتی ہے۔ جان بدل جائے تو جہان بدل جاتا ہے۔ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی طرح ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ یہ زندہ و پائندہ اور گویا بھی ہے۔ اس کے اندر مغرب و مشرق کی تقدیریں پنہاں ہیں۔ انھیں سمجھنے کے لیے برق کی مانند تیز سوچ پیدا کر۔ یہ مسلماں سے کہتا ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھ اور تیری ضرورت سے زائد جو کچھ بھی ہے اسے خرچ کردے۔ اور تو نے اور طرح کا شرع وآئین بنالیا ہے ذرا اس پر قرآن حکیم کی روشنی میں غور کر۔ تاکہ تو زندگی کے بم وزیر اور تقدیر حیات سے آگاہ ہوجائے۔ ان اشعار سے یہ امر واضح ہے کہ قرآن حکیم کی تفہیم کا جو منہج ہمیں اقبال کے ہاں نظر آتا ہے وہ دورحاضر میں ایمان و عمل کی کوتاہی کے ازالے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اس کی ایک مثال تشکیل جدید کے دیباچے میں مذکور آیت کریمہ سے رہنمائی لینے کا طریق ہے۔ ارشاد ربانی ہے: مَا خَلْقُکُمْ وَ لَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ۷؎ (تمہاری تخلیق اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا ایک نفس واحد کی تخلیق و بعثت کی طرح ہے۔) گو اس آیت مبارکہ میں پوری انسانیت کی تخلیق و بعثت کے حوالے سے قدرت خداوندی کو بیان کیا جارہا ہے مگر علامہ نے اس آیت سے یہ نکتہ بھی اخذ کیاہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک فرد کی تخلیق و بعثت اور پوری انسانیت کی تخلیق و بعثت ایک ہی درجہ رکھتی ہے تو قرآن حکیم اور وحی کی وہ موثریت جو اسلام کے صدر اول میں کارفرما نظر آتی تھی، اس کا مظاہرہ آج کے دور میں بھی ہونا چاہیے۔ علامہ نے اس نکتہ کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم قوم کے قومی، سماجی اور سیاسی احیا کے بارے میں اپنے فکر کی تشکیل کی اور خطبہ الٰہ اباد کے آغاز میں ہی اس آیت مبارکہ کو بیان کیا۔ آج کے دور کے مسائل کے پیش نظر اقبال کی فکر سے رہنمائی لیتے ہوئے قرآن حکیم سے وہ ہدایت اخذ کرنے کی ضرورت ہے کہ: ٭ افراد معاشرہ انفرادی سطح پر تشکیل کردار کے مرحلے اس طرح طے کریں کہ وہ آج کے دور کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ ٭ معاشرہ افراد کے درمیان کش مکش سے آزاد ہو کر ایسی ہیت اجتمائی میں ڈھل جائے جہاں افراد خوف و حزن سے آزادہوں۔ اور ٭ اقوام عالم کے مابین ہم آہنگی اور بقائے باہمی کی فضا پیدا ہو۔ قرآن حکیم سے اس نوع کی رہنمائی لینے کے لیے ضروری ہے کہ: ٭ قرآن حکیم کو حتمی وحی الٰہی ہوتے ہوئے فی نفسہٖ مکتفی تصور کیا جائے جیسا کہ خود ارشاد قرآنی ہے: فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ ۸؎ ٭ قرآن حکیم سے رہنمائی لینے کے لیے قرآنی شعور کے مطابق قرآنی تصورات کا فہم حاصل کیا جائے۔جیسا کہ کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا:مَا کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتٰبُ وَلاَ الْاِِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا ۹؎ (آپ نہیں جانتے کہ کتاب اور ایمان کیا ہے لیکن ہم نے اسے نور بنایا اور اس سے ہم اپنے بندوں سے جنھیں چاہیں ہدایت عطا کرتے ہیں۔) قرآن حکیم سے اخذ ہدایت کے دوتناظر ہو سکتے ہیں : ۱- عقائد،عبادات،اور معاملات کے باب میں قرآن حکیم سے رہنمائی طلب کی جائے۔ ۲- قرآن حکیم سے اخذ نتائج کے لیے وہ یقین حاصل کرنے کی سعی کی جائے جس کا بتمام و کمال اظہار اسلام کے دور اول میں نظر آتا ہے: عزم ما را بہ یقین پختہ ترک ساز کہ ما اندریں معرکہ بے خیل و سپاہ آمدہ ایم۱۰؎ کیونکہ قرآنی تعلیمات پر عمل اس وقت ہی مسلسل و مستقل ہوگا جب وہ عمل وہی تاثیر مرتب کررہا ہو جو دور نبوت میں ہوچکی ہے ۔یہی سبب ہے کہ آج کے ذہن میں قرآن حکیم کے حوالے سے یہ سوال موجود ہے کہ: قرآن میں وہ کیا چیز ہے جو تاریخ کے گو ناں گوں تقاضوں کو سنبھالتے ہوئے ہمیشہ روشنی اور رہنمائی دیتی رہ سکتی ہو؟ اور قرآن کے نزدیک وہ کون سا اٹل قانون ہے جسے کوئی شیطانی طاقت کبھی شکست نہ دے سکتی ہو اور قرآن اس قانون کی کہاں تک ترجمانی کرتا ہے۔اور اس ترجمانی سے انسانیت کو کیونکر رہنمائی اور روشنی مل سکتی ہے؟۱۱؎ قرآن حکیم کی مثال ایک بحر ناپیداکنار کی سی ہے۔ غواص کو اس سے وہی کچھ میسر آئے گا جس کی اسے طلب ہو گی یا وہ جس کی استعداد کا حامل ہو گا۔ مقصدیت اس امر کی متقاضی ہے کہ مندرجہ بالا تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن حکیم سے ربط قائم کیا جائے۔ اس امر کو اسلاف نے بھی پیش نظر رکھا۔ امام سیوطی نے لکھا ہے کہ قرآن حکیم سے رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ ایک جامع اصول وضع کر لیاجائے۔ اتقان کے مطابق: الامر الکلی المفید لعرفان مناسبات الآیات فی جمیع القرآن، ھو انک تنظر الی الغرض الذی سبقت لہ السورۃ، و تنظر ما یحتاج الیہ ذلک الغرض من المقدمات، و تنظر الی مراتب تلک المقدمات فی القرب ولابعد من المطلوب، و تنظر عند انجرار الکلام فی المقدمات الی ما یستتبعہ من استشراف نفس السامع الی الاحکام او اللوازم التابعۃ لہ، التی تقتضی البلاغۃ شفاء الغلیل بدفع عنہ الاستشراف الی الوقوف علیھا، فھذا ھو الامر الکلی المھیمن علی حکم الربط بین جمع اجزاء القرآن، فاذا عقلتہ تبین لک وجہ النظم مفصلا بین کل آیۃ فی کل سورۃ سورۃ۔۱۲؎ ایسا مفید کلی امر جو کہ قرآن کی تمام آیتوں کی باہمی مناسبتوں کو بتا سکے یہ ہے کہ تم اس غرض پر نظر ڈالو جس کی وجہ سے سورہ کا سیاق (بیان) ہوا ہے اور یہ دیکھو اس غرض کے لیے کن مقدمات کی حاجت ہے۔ پھر اس پر نظر ڈالو کہ وہ مقدمات مطلوب سے نزدیک اور دور ہونے میں کس مرتبہ پر ہیں اور مقدمات کلام چلنے کے وقت دیکھنا چاہییے کہ احکام اور اس کے تابع لوازم کی جانب سامع کے نفس کو متوجہ بنانے والی کن چیزوں کو وہ مقدمات اپنا تابع رکھنا چاہتے ہیںاور کیا وہ لوازم ایسے ہیں کہ ان سے واقف ہو جانے سے باقتضائے بلاغت منتظر کو انتظار کی زحمت سے نجات مل جاتی ہے یا نہیں؟ اور یہی وہ کلی امر ہے جو کہ تمام اجزائے قرآن کے مابین ربط دینے کے حکم پر غلبہ اور تسلط کیے ہے اور جس وقت تم اس کو سمجھ لو گے تو اس وقت تم پر تفصیل کے ساتھ ہر ایک سورہ کی آیتوں کے مابین وجہ نظم کا پوری طرح انکشاف ہو جائے گا۔ لہذا اگر ہم فکر اقبال کی روشنی میں فہم قرآن حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ: ۱۔’ایں کتابے نیست چیزے دیگر است‘ کے مصداق ہمیں قرآن حکیم اور بقیہ کتب میں موجود امتیاز سے آگہی نصیب ہو۔ ۲۔اس امتیاز کے عملی اطلاق اور اس سے استفادے کی راہ ہم پر واضح ہو۔ ۳۔اس امتیاز کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں ہونے والے نقصان کا ہمیں اندازہ ہو۔ قرآن حکیم اور بقیہ کتب میں امتیاز کیا ہے ؟اس نکتہ کی کچھ وضاحت شاہ ولی اللہ کے اس بیان سے ہوتی ہے: کتاب الٰہی کے لیے دو باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ایک تو یہ کہ اس کے ساتھ ملکوت کی برکتیں ہوں اور ملاء اعلیٰ ان آدمیوں سے راضی ہوں جو اس کتاب کو پڑھیں یا اس کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشش کریں ۔ دوسرے یہ کہ وہ کتاب مدت مدید تک باقی رہے اور لوگوں کو اس کے حفظ کرنے کی توفیق بخشی جائے۔ شاہ ولی اللہ ان امتیازات کے اطلاق کے بارے میں اتنے محتاط ہیں کہ : اگر کسی کتاب میں مذکورہ بالا دو باتیں نہ پائی جائیں تو وہ کتاب الہی نہیں ہوگی بلکہ اس کی حیثیت کسی انسان کے مرتب کردہ صحیفے کی ہوگی جسے اس نے پیغمبر کے علوم کو جمع کرنے کی غرض تیار کیا ہو ۔۱۳؎ علاوہ ازیں یہ امتیاز بھی صرف قرآن حکیم کو حاصل ہے کہ: ۱۔ قرآن حکیم اپنی معنوی وسعت میں بے مثال ہے۔ ب۔ قر آن حکیم اطلاقی لحا ظ سے زمانی تقسیماتِ ثلاثہ (ماضی، حال اور مستقبل)کا احا طہ کر تا ہے۔ ج۔ قر آن حکیم انسا نی شعو ر کے ار تقا ئی پہلو کو مستحضر رکھتا ہے۔ د۔ قر آن حکیم اپنی ثقا ہت کی تصد یق خو د پیش کر تا ہے۔ ہ۔ قر آن حکیم کی معنویت آفا قی، غیر متبدل اور ابدی ہے۔ قرآن حکیم کے تائید الہی اور برکات ملکوت کاحامل ہونے ہی کا ثمر ہے کہ یہ کتاب یہ دعوی کر سکتی ہے کہ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ ! ۲-یہ سوال کہ اس کتاب کے اس امتیاز سے استفادے کی راہ کیا ہے؟ اقبال شاید واحد مفکر ہیں جو اس نکتے کو عملی سطح پر اٹھاتے ہیں: چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود۱۴؎ مگر یہ کتاب جان میں اترے کیسے؟ قرآنِ حکیم کے فیوضات کے عملی اظہار کی اعلی ترین صورت معراج ہے۔ اقبال کہتے ہیں: از شعور است ایں کہ گوئی نزد و دور چیست معراج؟ انقلاب اندر شعور انقلاب اندر شعور از جذب و شوق وارہاند جذب و شوق از تحت و فوق۱۵؎ گویا قرآن حکیم سے ایک مثالی تعلق کا قیام یہاں صرف علمی یا عملی معاملہ نہیں رہتا، بلکہ یہ ایک ایسا روحانی، نفسیاتی اور ما بعد الطبیعیاتی معاملہ بن جاتا ہے جو اپنے محیط میں تعلق کی تمام جہات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس تعلق کی اہمیت علامہ کے اس قول سے بھی واضح ہوتی ہے: قرآن کثرت سے پڑھنا چاہیے تاکہ قلب، محمدی نسبت پیدا کرے۔ اس نسبت محمدیہ کی تولید کے لیے یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے معانی بھی آتے ہوں۔ خلوص ومحبت کے ساتھ محض قراء ت کافی ہے۔۱۶؎ تعلق کی یہی وہ نوعیت ہے جو قاری اور قرآن میں ایک ایسا ربط پیدا کر دیتی ہے کہ تشکیک و بعد کے تمام امکانات ختم ہو جاتے ہیں اور قرآن جزو روح و بدن بن جاتا ہے۔۱۷؎ ۳۔ قرآن اور غیر قرآن کے امتیاز کو ملحوظ نہ رکھنے سے کس محرومی کا ظہور ہو سکتا ہے؟ یہ امر قرآن حکیم کے کئی فرامین سے واضح ہے۔ اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ۱۸؎ (بے شک یہ قرآن ہی تمہیں اس منزل تک پہنچا سکتا ہے جو سب سے زیادہ مضبوط اور محفوظ ہے اور مومنوں کو بشارت دیتا ہے۔) صاف ظاہر ہے کہ قرآن حکیم کا یہ دعویٰ کسی بھی دوسری کتاب چاہے وہ قرآن حکیم کی اپنی تفسیر ہی کیوں نہ ہو، سے پورا نہیں ہو سکتا۔ نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی۱۹؎ کیونکہ قرآن حکیم کی اس آیت کا عملی مظاہرہ دور نبوت میں ہوا۔ جب نہ تو تفسیر تھی، نہ ہی کوئی دوسرے علوم۔ یہ صرف قرآن حکیم ہی تھا اور وہ بھی نجماً نجماً نازل ہونے کی شکل میں۔ مگر اس سے نہ صرف حصول نتائج کی ضمانت ملی بلکہ معاشرے کی نجی، قومی اور عالمی سطح پر ایسی دینی، اخلاقی اور دنیوی اقدار بھی وجود میں آئیں جو تا ابد مثالی ہیں۔ یعنی قرآن حکیم سے ہی اقدار و فضائل کا قیام و احیاء ممکن ہے، ہاں تعبیری علوم ان اقدار کے تسلسل میں ممد ہو سکتے ہیں۔ ہر دور میں اس دور کی ضروریات کے مطابق آیات قرآنی میں ربط و تعلق اور مضامین قرآن کی تقسیم و ترتیب کا عمل انجام دیا جاتا رہا۔ مثلاً امام سیوطی نے اتقان میں علوم کی تقسیم یوںکی: ۱۔ علم اصول: اللہ کی معرفت، صفات کی پہچان، سلسلہ انبیاء و معاد کا علم ۲۔ علم عبادات :عبادات کا علم ۳۔ علم سلوک :روحانیت کا علم ۴۔ علم قصص :قرآن حکیم میں بیان کردہ واقعات اور امثال کا علم ۲۰؎ ایک دوسری تقسیم بیان کرتے ہوئے صاحب اتقان نے اس حدیث کو بیان کیا: انزل القرآن علی سبعۃ احرف زاجر و اٰمر و حلال و حرام و محکم و متشابہ و امثال۲۱؎ الغرض مختلف حوالوں سے قرآن حکیم میں موجود علوم کی ۳۵ اطوار سے تقسیم کی گئی ہے۔۲۲؎ اگر موجودہ مسائل و احوال کا جائزہ لیا جائے تو مضامین قرآن کی درج ذیل تقسیم موزوں ہو گی: ۱۔ مقطعات ۲۔ متشابہات ۳۔ محکمات ۴۔ امثال ۵۔ ہمہ اطلاقی آیات ۱۔مقطعات: وہ حروف مقطعات جو قرآن حکیم کی کئی سورتوں کے اوائل میں آئے ہیں اور قرآنی علوم کی وسعت کے سامنے انسانی عقل و دانش کی تنگ دامانی کی دلیل ہیں۔ ۲۔ متشابہات: وہ آیات جن کی تو ضیح و تشریح قلیل اہل علم کا نصیب ہے۔۲۳؎ ۳۔ محکمات: وہ آیات جو زندگی کے دنیوی اور اخروی ضابطہ عمل کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔ ۴۔ امثال: قرآن حکیم میں بیان کردہ امثال بنیادی طور پر تین انواع کی ہیں: ۱۔ ظاہر: جن کی تصریح کر دی گئی ہے۔مثلاً قرآن حکیم کی یہ مثال کہ جواہل کتاب تورات کو سمجھے یا عمل کیے بغیر پڑھتے ہیں ان کی مثال گدھے پر کتابیں لادنے کی ہے۔۲۴؎ ۲۔ کامن: جن کی تصریح موجود نہیں کہ کن افراد کے بارے میں ہیں۔مثلاً سورہ کہف میں ارشاد ربانی ہے: وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَـلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّـتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰـہُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَہُمَا زَرْعًا۔۲۵؎ (اور آپ ان سے ان دو شخصوں کی مثال بیان کریں جن میں سے ایک کے لیے ہم نے انگور کے دو باغات بنائے اور ہم نے ان دونوں کو تمام اطراف سے کھجور کے درختوں کے ساتھ ڈھانپ دیا اور ہم نے ان کے درمیان (سر سبز و شاداب) کھیتیاں اگادیں۔) ۳۔ ضرب الا مثال مثلاً :وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖٖ،۲۶؎ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ،۲۷؎ کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ ،۲۸؎ قرآنی امثال سے رہنمائی اخذ کرنا ایک بہت ہی نازک اورحساس موضوع ہے ۔قرآن حکیم کی ہر مثال حق اور احسن تفسیر۲۹؎ کی شان رکھتی ہے تاہم ان سے رہنمائی اس وقت میسر آسکتی ہے جب : قرآنی مثالوں میں بیان کردہ حقائق کو قرآنی تناظر میں ہی سمجھنے کی سعی کی جائے۔اور ان کے مفاہیم کو غیر قرآن کے ساتھ خلط ملط کر کے سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند۳۰؎ جیسا کہ مختلف مواقع پر آپ ا نے غیر مستند اسرائیلی روایات لینے سے منع فرمایا۔۳۱؎ ثانیاً قرآنی مثالوں میں بیان کردہ امور کو جس ترجیح و ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اسے ملحوظ رکھا جائے۔مثلاً قرآن حکیم نے اصحاب کہف کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ناموں یا تعداد یا زمانے کے بارے میں تفصیلات بتانے کے بجائے ان کے کردار اور اس کردار کے نتائج وعواقب کو موضوع بنایااور یہ ہدایت بھی دی کہ: فَلَا تُمَارِ فِیْھِمْ اِلَّا مِرَآئً ظَاھِرًا وَّ لَا تَسْتَفْتِ فِیْھِمْ مِّنْھُمْ اَحَدًا۔۳۲؎ (ان (اصحاب کہف )کے بارے میں اتنی ہی بحث کرو جو ظاہر ہوچکی ہواور ان کے بارے میں کسی(اہل کتاب)سے کچھ نہ پوچھو۔) قرآن حکیم کی تفسیر کے باب میں غیرضروری تفاصیل پر، خصوصاً جو ضعیف، غیرثقہ اور اہل کتاب کے ماخذوں سے لی گئی ہیں، اکابر مفسرین نے بھی تنقید کی ہے۔۳۳؎ ۵۔ ہمہ اطلاقی آیات یہ وہ آیات ہیں جو خود متن قرآنی کی توضیح کی پیراڈائم فراہم کرتی ہیں۔ ان سے مراد وہ آیات ہیں جن میں خود قرآن حکیم کے کسی نہ کسی پہلو کو بیان کیا گیا ہے لہذا ان کااطلاق قرآن حکیم کے متن کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے پورے متن قرآنی پر ہو گا۔ذیل میں مثال کے طور پر کچھ آیات دی جا رہی ہیں: یُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِج وَیُضِلُّ اﷲُ الظّٰلِمِیْنَ قف وَیَفْعَلُ اﷲُ مَا یَشَآئُ۔۳۴؎ (اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)۔ اور اللہ ظالموں کو گمراہ ٹھہرا دیتا ہے۔ اور اللہ جو چاہتا ہے کر ڈالتا ہے۔) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا۔۳۵؎ (بیشک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے اور ان مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری سناتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجرا ہے۔) وَلَا یَاتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰـکَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْراً۔۳۶؎ ( مگر ہم آپ کے پاس (اس کے جواب میں) حق اور (اس سے) بہتر وضاحت کا بیان لے آتے ہیں۔) لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اﷲِ ط۔۳۷؎ ( اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے۔) مذکورہ بالا تفصیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم سورہ یوسف کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اقبال بھی اپنے پیغام کے موثر ابلاغ کے لیے یوسف کا استعارہ استعمال کرتے ہیں: عصر من دانندۂ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست۳۸؎ اس یوسف کی تشکیل کس طرح ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب سورہ یوسف کے مطالعے سے میسر آتا ہے۔ سورہ یوسف میں ارشاد ہے:۔نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْن۔۳۹؎ ( ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اس قرآن کے ذریعہ جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے، اگرچہ آپ اس سے قبل (اس قصہ سے) بے خبر تھے۔) صاحب بحر المحیط نے احسن القصص کی تفصیل میں لکھا ہے: وقیل: کانت ہذہ السورۃ أحسن القصص لانفرادھا عن سائرھا بما فیھا من ذکر الأنبیاء والصالحین والملائکۃ والشیاطین والجن والإنس والإنعام والطیر وسیر الملوک والممالک والتجار والعلماء والرجال والنساء وکیدھن ومکرھن مع ما فیھا من ذکر التوحید والفقہ والسیر والسیاسۃ وحسن العاقبۃ في العفۃ والجہاد والخلاص من المرھوب إلی المرغوب، وذکر الحبیب والمحبوب۔۴۰؎ (احسن القصص سے مراد یہ ہے اس سورۃ مبارکہ کے اندر انبیائ،صالحین، ملائکۃ، شیاطین، جن و إنس، چوپائے ، پرندوں، بادشاہوں کی سیر وسیاحت ،ممالک کے حا لات،تجار، علمائ، مردوں اور عورتوں کا مکر فریب،توحید، فقہ، سیرت، سیاست، حسن العاقبۃ، پاکدامنی، جہاد، اخلاص،ترغیب و ترہیب ،محبوب اور محب کا ذکر آیا ہے۔) اگر ہم سورہ یوسف سے انفرادی کردار کی تشکیل کے لیے رہنمائی لیں تو اس کے دو پہلو ہیں: ۱۔ علم کا پہلو اور ۲۔ عمل کا پہلو ۱۔علم کا پہلو: سورہ یوسف میں انسانی کردار کی تشکیل کے لیے علم اور حکمت کو ایک بنیادی اور اولیں ضرورت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ علم و حکمت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کئی آیات میں اس کی مختلف جہات کو بیان کیا گیا۔۴۱؎ سورہ یوسف میں حضرت یوسف کے علم کے لیے تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ اس سے مراد معروف اور متداول معنی یعنی علم الرویاء کے علاوہ عواقب الامور، العلم والحکمۃ، تاویل احادیث الامم و الکتب اورتاویل غوامض کتب اللہ تعالی و سنن النبیاء و کلمات الحکمابھی لیا گیا ہے۔۴۲؎ سورہ یوسف ہی میں قرآن حکیم میں تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ کے ضمن میں درج ذیل معانی ملتے ہیں: ۱۔ علم الرویاء وَقَالَ الْمَلِکُ اِنِّیْٓ اَرٰی سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعَ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰـبِسٰتٍط یٰٓـاَیُّہَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُئْ یَایَ اِنْ کُنْتُمْ لِلرُّئْ یَا تَعْبُرُوْن۔۴۳؎ (اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے (خواب میں) سات موٹی تازی گائیں دیکھی ہیں، انھیں سات دبلی پتلی گائیں کھارہی ہیں اور سات سبز خوشے (دیکھے) ہیں اور دوسرے (سات ہی) خشک، اے درباریو! مجھے میرے خواب کا جواب بیان کرو اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو۔) ۲۔ مالی معاملات کا علم قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْم۔۴۴؎ (یوسف ؑ نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بیشک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں۔) قانونی امور کا علم کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَط مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اﷲُط نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُط وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ۔۴۵؎ (یوں ہم نے یوسف ؑ کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔) ۴۔ ریاستی انتظام کا علم وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْج فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌo قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْم۔۴۶؎ (اور بادشاہ نے کہا: انھیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انھیں اپنے لیے (مشیرِ) خاص کر لوں، سو جب بادشاہ نے آپ سے (بالمشافہ) گفتگو کی (تو نہایت متاثر ہوا اور) کہنے لگا: (اے یوسف!) بیشک آپ آج سے ہمارے ہاں مقتدر (اور) معتمد ہیں (یعنی آپ کو اقتدار میں شریک کر لیا گیا ہے)oیوسف نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بیشک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں۔) ۵۔ نفس انسانی سے آگاہی وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌم بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْم۔۴۷؎ (اور میں اپنے نفس کی برأت (کا دعویٰ) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔) ۶۔ علم الاخلاق ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ وَاَنَّ اﷲَ لَا یَہْدِیْ کَیْدَ الْخَآئِنِیْنَ۔۴۸؎ ((یوسف نے کہا: میں نے) یہ اس لیے (کیا ہے ) کہ وہ (عزیزِ مصر جو میرا محسن و مربی تھا) جان لے کہ میں نے اس کی غیابت میں (پشت پیچھے) اس کی کوئی خیانت نہیں کی اور بیشک اﷲ خیانت کرنے والوں کے مکرو فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔) الغرض سورہ یوسف میں علم کے مختلف پہلووں کا بیان درج ذیل تصور علم پیش کرتا ہے: ۱۔ اسباب و تدابیر کے بجائے اذن الہی و قدرت الہی کو موثر سمجھنا وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَہُمْ اَبُوْہُمْط مَا کَانَ یُغْنِیْ عَنْہُمْ مِّنَ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ اِلَّا حَاجَۃً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰہَاط وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰـہُ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْن۔۴۹؎ (اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انھیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انھیں اﷲ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا تمہیں کیا خبر) بیشک یعقوب صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انھیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے۔) ۲۔ علم حقیقی، جاننے اور عمل کرنے کا نام ہے قَالَ ہَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰہِلُوْن۔۵۰؎ (یوسف نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا (سُلوک) کیا تھا کیا تم (اس وقت) نادان تھے۔) ۳۔ اللہ کے حکم کی ہر حال میں موثریت کا ادراک مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَـآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا ِﷲِط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّا ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْن۔۵۱؎ (تم (حقیقت میں) اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہو مگر چند ناموں کی جو خود تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (اپنے پاس سے ) رکھ لیے ہیں، اﷲ نے ان کی کوئی سند نہیں اتاری۔ حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے، اسی نے حکم فرمایا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہی سیدھا راستہ (درست دین) ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ۴۔ حزن و ملال کی شدت میں ثابت قدمی اور استقامت کا طرز عمل قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اﷲِ وَ اَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْن۔۵۲؎ انہوں نے فرمایا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اﷲ کے حضور کرتا ہوں اور میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ ۵۔ حصول علم کے لیے بارگاہ الٰہی سے تعلق فَلَمَّآ اَنْ جَآئَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰـہُ عَلٰی وَجْھِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًاج قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْج اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْن۔۵۳؎ (پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ ۲۔عمل کا پہلو: عمل کے پہلو کے حوالے سے حضرت یوسفؑ کی زندگی ایک جامع عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔یعنی: آپ نے ابتدائی زندگی سے ہی مشکلات کا سامنا کیا۔ مگر یہ مصائب و آلام اور مشکلات آپ کی راہ حائل ہونے کی بجائے ’ہیں عقدہ کشا یہ خار صحرا‘۵۴؎ کا مصداق بن گئیں۔ آپ ان مراحل سے کس طرح گزر کر انجام کار سرخرو ہوئے، قرآن حکیم انھیں ایک نتیجہ خیز طرز عمل کے طور پر بیان کرتا ہے: ۱-سماجی و معاشرتی سطح پر آپ عمر کے ابتدائی حصے میں بھائیوں کی سازش کا شکار ہوئے اور عزیز مصر کے دربار میں پہنچے۔یہ سفر انجام کار آپ کے لیے تمکن فی الارض اور علم تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ کے حصول کا ذریعہ بن گیا کیونکہ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔۵۵؎ ۲-اخلاقی و نفسیاتی سطح پر آپ کو اس وقت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا جب عزیز مصر کی اہلیہ کی طرف سے آپ کو وَ قَالَتْ ھَیْتَ لک کی دعوت دی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کا دامن پاک رکھا کیونکہ: اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ۔۵۶؎ ۳-زنان مصر کی سازش کے نتیجے میں آپ کو قید خانہ جانا پڑا ۔مگر قید خانہ میں آپ کا قیام بھی انجام کار آپ کے علم تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ کے عملی اظہار اور عملی اطلاق کے امکانات تک پہنچنے کا باعث بنا اور آپ کو وہ تمکن فی الارض عطا ہوا جس کی وسعت کو قرآن حکیم نے الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ کَہ کر بیان کیا کیونکہ: وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ۔۵۷؎ ۴- آپ نے مملکت مصر کے خزائن الارض کا انتظام و انصرام اتنے احسن انداز سے کیا کہ مملکت مصر جس قحط کا شکار ہو سکتی تھی اس سے محفوظ رہی۔ آپ کی زندگی کا وہ لمحہ تاریخی ہے جب آپ کے وہ بھائی جو آپ کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے،آپ کو پہچان کر آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے لگے۔ یہاں حضرت یوسف ؑ نے جو کچھ اپنے بھائیوں سے ارشاد فرمایا وہ آپ ؑ کے اس کردار کی جامع عکاسی ہے جو آپ کو زندگی کی کٹھن راہوں سے سلامتی کے ساتھ اس منزل پر لے آیا۔آپؑ نے فرمایا: اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ۔۵۸؎ ۵- آپ کا یہ فرمان اس وقت تکمیلی شان کے ساتھ سامنے آتا ہے جب سال ہا سال سے آپ کے بچھڑے ہوئے والدین آپ سے ملنے آتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں: رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ۔۵۹؎ یعنی حضرت یوسفؑ کے کردار کے تین بنیادی اوصاف تقویٰ،صبر اور احسان انھیں تمکن فی الارض،علم تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ،ملک اور بچھڑے ہوئے والدین کے وصال تک لے آتے ہیں ۔قرآن حکیم اس احسن قصص کو بیان کرنے کے بعد اسے تفصیل کل شی، ھدایت اور رحمت۔۶۰؎ قرار دیتا ہے جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن تفصیل کل شیء ہے مگر یہ تفصیل ان عملی محاسن و اوصاف کی ہے جن سے بندۂ مومن کی ذات تکمیل پاکر علم و تمکن کی ان اعلیٰ منزلوں کی حامل بن جاتی ہے کہ: ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں ، کار کشا ، کارساز۶۱؎ اور آج ہمیں قرآن حکیم کے ایسے ہی فہم کی ضرورت ہے جو ہمیں علمی،فقہی اور مذہبی آگاہی کے ساتھ اس ہدایت اقوم ۶۲؎ سے بھی آشنا کرے جو ’جاں چوں دیگر شود جہاںدیگر شود‘ ۶۳؎کا مصداق ہو۔ خ…خ…خ…خ حوالے ۱- علامہ اقبال، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۲۰۰۶ئ، ص۱۴۸۔ ۲- علامہ اقبال، ’’اسرار رموز‘‘، کلیات اقبال (فارسی) ، ص۱۶۸۔ ۳- ایضاً، ص ص۱۵۶،۱۵۷۔ ۴- ایضاً، ص۱۵۸۔ ۵- علامہ اقبال، ’’زبور عجم‘‘،کلیات اقبال (فارسی) ، ص۱۲۱۔ ۶- علامہ اقبال، ’’جاوید نامہ‘‘، کلیات اقبال (فارسی) ، ص۸۱۔ ۷- القرآن، لقمان،۳۱:۲۸۔ ۸- القرآن، المرسلات،۷۷:۵۰۔ ۹- القرآن، الشوری،۴۲:۵۲۔ ۱۰- علامہ اقبال، ’’زبور عجم‘‘،کلیات اقبال (فارسی) ، ص۵۸۔ ۱۱- ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ص۳۰۹۔ ۱۲- سیوطی، الاتقان، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، مصر، ۲:۳۷۶۔ ۱۳- شاہ ولی ا للہ، سطعات، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ص ص۱۲۰،۱۲۱۔ ۱۴- علامہ اقبال، ’’جاوید نامہ‘‘،کلیات اقبال (فارسی) ، ص ۸۱۔ ۱۵- ایضاً، ص۲۴۔ ۱۶- عبداللہ شاہ ہاشمی، مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خان، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۲۰۰۷ئ، ص ص۱۰۷،۱۰۸۔ ۱۷- محمد عبدالرحمن چھوہروی، مجموعہ صلوت الرسول، انجمن رحمانیہ ، سولہ شہر، چاٹگام، بنگلہ دیش، ۱۹۸۲ئ،ج۱۹،ص۳۱۔ ۱۸- القرآن، بنی اسرائیل،۱۷:۹۔ ۱۹- علامہ اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو) ، ص۵۳۔ ۲۰- امام سیوطی، اتقان، ۲:۲۶۴۔ ۲۱- ایضاً، ۲:۲۸۱۔ ۲۲- ایضاً، ۲:۱۲۶-۱۲۸۔ ۲۳- القرآن، النسائ، ۴:۸۳۔ ۲۴- القرآن، الجمعۃ، ۶۲:۵۔ ۲۵- القرآن، کہف،۱۸:۳۲۔ ۲۶- القرآن، فاطر، ۳۵:۴۳۔ ۲۷- القرآن، الاسرائ، ۱۷:۸۴۔ ۲۸- القرآن، المدثر، ۷۴:۳۸۔ ۲۹- القرآن، الفرقان، ۲۵:۳۳۔ ۳۰- علامہ اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو) ، ص۳۳۔ ۳۱- ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالمعرفہ، بیروت، لبنان، ۱۴۰۰ھ؍ ۱۹۸۰ئ۔ ۳۲- القرآن، الکہف، ۱۸:۲۲۔ ۳۳- طبری، ابو جعفر،جامع البیان فی تفسیر القرآن،دارالمعرفہ، بیروت، لبنان، ۱۴۰۰ھ؍ ۱۹۸۰ئ۔ج۱۲، ص۱۰۲-۱۰۳۔ ۳۴- القرآن، ابراہیم، ۱۴:۲۷۔ ۳۵- القرآن، الاسرائ، ۱۷:۹۔ ۳۶- القرآن، الفرقان، ۲۵:۳۳۔ ۳۷- القرآن، یونس،۱۰:۶۴۔ ۳۸- علامہ اقبال، ’’اسرار و رموز‘‘، کلیات اقبال (فارسی) ، ص۶۔ ۳۹- القرآن، یوسف،۱۲:۳۔ ۴۰- ابو حیان، اندلسی ، البحر المحیط،قاہرہ، مصر، ۱۳۲۹ھ، ص۴۸۰۔ ۴۱- القرآن، یوسف، ۱۲:۳، ۱۲:۵، ۱۲:۶، ۱۲:۱۳، ۱۲:۱۵، ۱۲:۱۸، ۱۲:۲۶ ، ۱۲:۳۷، ۱۲:۴۱، ۱۲:۴۷، ۱۲:۴۸، ۱۲:۴۹، ۱۲:۶۶، ۱۲:۶۷، ۱۲:۶۸،۱۲:۷۶ ، ۱۲:۸۳، ۱۲:۸۶، ۱۲:۸۷، ۱۲:۹۳، ۱۲:۹۴، ۱۲:۹۶، ۱۲:۱۰۰، ۱۲:۱۰۲، ۱۲:۱۱۱۔ ۴۲- شوکانی، فتح القدیر،دارالفکر، بیروت، لبنان، ۱۴۰۲ھ؍ ۱۹۸۲ئ۔۳:۵۔ ابن حیان،البحر المحیط،۶:۴۸۳۔ ابن جوزی، زاد المسیر فی علم التفسیر،المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، ۱۴۰۴ھ؍ ۱۹۸۴ئ، ۴:۱۸۱۔ نصر بن محمد السمرقندی، البحرالعلوم، موسسۃ العلمی، بیروت، لبنان، ۲:۱۷۹۔ ناصر الدین ابی سعید عبداللہ بن عمر بن محمد شیرازی بیضاوی ، تفسیر بیضاوی، موسسۃ العلمی، بیروت، لبنان، ۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۹۰ئ، ۳:۲۷۴۔ عبدالرحمن الثعالبی، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن، موسسۃ العلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان، ۲:۲۲۵۔ ۴۳- القرآن، یوسف،۱۲:۴۳۔ ۴۴- القرآن، یوسف،۱۲:۵۵۔ ۴۵- القرآن، یوسف،۱۲:۷۶۔ ۴۶- القرآن، یوسف،۱۲:۵۴-۵۵۔ ۴۷- القرآن، یوسف،۱۲:۵۳۔ ۴۸- القرآن، یوسف،۱۲:۵۲۔ ۴۹- القرآن، یوسف،۱۲:۶۸۔ ۵۰- القرآن، یوسف،۱۲:۸۹۔ ۵۱- القرآن، یوسف،۱۲:۴۰۔ ۵۲- القرآن، یوسف،۱۲:۸۶۔ ۵۳- القرآن، یوسف،۱۲:۹۶۔ ۵۴- علامہ اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو) ، ص۵۹۔ ۵۵- القرآن، یوسف، ۱۲:۲۲۔ ۵۶- القرآن، یوسف، ۱۲:۲۴۔ ۵۷- القرآن، یوسف، ۱۲:۵۶۔ ۵۸- القرآن، یوسف، ۱۲:۲۰۔ ۵۹- القرآن، یوسف، ۱۲:۱۰۱۔ ۶۰- القرآن، یوسف، ۱۲:۱۱۱۔ ۶۱- علامہ اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو) ، ص۱۰۰۔ ۶۲- القرآن، الاسرائ، ۱۷:۹۔ ۶۳- علامہ اقبال، ’’جاوید نامہ‘‘، کلیات اقبال (فارسی) ، ص۸۱۔ خ…خ…خ…خ  فرائیڈ کے نظریات پر اقبال کے اعتراضات ڈاکٹر محمد آصف اعوان خلاصہ سگمنڈ فرائیڈ نے انسانی ذہن کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہوئے اس کی تین مختلف جہات شعور، تحت الشعور اور لاشعور کا تعین کیا اور انسانی فکروعمل کے تمام محرکات کو انھی جہات کے ماتحت تصور کرتے ہوئے مذہب کی ماورائے ذہن حیثیت کا انکار کیا۔ یعنی فرائیڈ کے مطابق ورائے انسان کوئی حقیقی مذہبی آدرش انسانی اعمال و افعال کا محرک نہیں ہے۔ جبکہ اقبال کے نزدیک فکروعمل کا اصل محرک مابعد الطبیعیاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک انسانی ذہن کوئی ایسا مرکز تخیل نہیں ہے جس میں ہر لحظہ نجس خواہشات اپنے اظہار کے لیے بے چین ہوں۔ فرائیڈ کی نظر صرف مادیت اور ظاہری میکانکیت تک محدود ہے جبکہ اقبال مادی ظواہر سے ماوراء حقائق پر بھی یقین رکھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک زندگی میں مابعد الطبیعیاتی حقائق کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مذہب کے حوالے سے بھی اقبال کے افکار فرائیڈ سے مختلف ہیں۔ اقبال کے نزدیک مذہبی تصورات کو مادی مظاہر سے منسلک کرنا درست نہیں ہے۔ اقبال کے مطابق جذب مذہبی کی کیفیت میں انسان اپنی شخصیت سے ماوراء واقعاتی حقیقت سے شناسائی حاصل کرتا ہے جبکہ علم نفسیات کا نقص یہ ہے کہ اس کا تعلق صرف اور صرف انسان کی شعوری جہات کے ساتھ ہے۔ یہی سبب ہے کہ فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے طریق کار پر مبنی حسیاتی نظام میں کسی مابعد الطبیعیات کی کوئی گنجایش نہیں ہے جبکہ اقبال فرائیڈ کے برعکس مذہبی تجربے کے وقوفی پہلو کی اساس کو ذہن وشعور سے ماورا قرار دیتے ہیں۔ خ…خ…خ معروف ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (1939ئ۔ 1856 ء Sigmund Freud, ) چیکو سلواکیہ کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا تا ہم اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ آسڑیا کے دارالخلافے ویانا میںبسر ہوا۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کا یورپ کوپرنیکس،کیپلر،گلیلیو، دیکارت اور سَرآئزک نیوٹن کے زیر اثر تھا۔ اس دور میں فلسفہ اور سائنس کے میدان میں بعض ایسے افراد پیدا ہوئے جنھوں نے کلیسائے روم کے متکلمانہ افکار و نظریات کا طلسم توڑ ڈالا اور انسان کی توجہ عقائد پر مبنی صداقت اور حقیقت کے تخیّلی تصور سے ہٹاکر حقائق کی مادی دُنیا کی طرف پلٹ دی۔ گو سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی سے معاشرے کو بے پناہ سہولتیں اور آسائشیں حاصل ہوئیں تاہم محض مادیت پر حد سے زیادہ اعتماد اور انحصار کرنے کے باعث انسان کا روحانی اور مذہبی اقدار سے ربط و تعلق ختم ہو گیا اور صرف عقلی و مادی توجیہات ہی افکارو نظریات کی واحد اساس بن کر رہ گئیں۔ اِس فکری فضا کا سگمنڈ فرائیڈ کے نظریات پر گہرا اثر ہُوا۔ فرائیڈ نے ذہنِ انسانی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور اس کی تین مختلف جہات شعور، تحت الشعوراور لاشعورکا تعین کیا۔ اُس کا یہ خیال ہے کہ ذہن انسانی کی انہی تین جہات کی کارکردگی کی روشنی میں انسانی فکرونظر، کردار اور رویے کے ہر پہلو کے محرکات کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ فرائیڈ کے نزدیک مذہب کی بھی انسانی ذہن سے ماورا کوئی حیثیت نہیں۔ فرائیڈ کے نظریات سے یہ بات عیاں ہے کہ انسانی شخصیت کا مبدا صرف انسان ہے۔ ورائے انسان کوئی حقیقی روحانی یا مذہبی آ درش انسانی اعمال وافعال کا محرک نہیں۔ فرائیڈ کے بر عکس اقبال انسان کو اپنی جبلی خواہشات کا غلام قرار نہیں دیتا۔ اقبال کے نزدیک انسانی اعمال و افعال کے اصل محرکات روحانی ومذہبی اور اخلاقی عوامل ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جو جبلی خواہشات کی تہذیب اور تطہیر کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ اقبال انسانی سرشت کی پاکی و طہارت اور نفسی پاکیزگی پر یقین رکھتا ہے۔ اُس کے نزدیک اِس خیال کی کوئی گنجائش نہیں کہ انسانی ذہن کا ایک حصہ ہمہ وقت آلودہ اور پراگندہ خواہشات، جنسی میلانات، تمنائوں اور ایسی آرزوئوں سے بھرا رہتا ہے جو ہر لحظہ اِس تاک میں رہتی ہیں کہ جب موقع ہاتھ آئے شعور پر حملہ آور ہو کر اپنا اظہار کریں اور یوں انسانی فکر و عمل کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ اقبال کے نزدیک انسان مادہ اور اُس کے میکانکی عمل کا غلام نہیں۔ انسانی طرزِ عمل کا اصل محرک ر وحانی نصب العین ہے۔ پروفیسر نعیم احمد اپنے مضمون ’’ انسانی شخصیت، فرائیڈ اور اقبال کی نظر میں ‘‘ میں رقم طراز ہیں: فرائیڈ کا انسان موروثی رجحانات اور لاشعوری اُلجھنوں کے بوجھ تلے دبا کراہتا ہوا انسان ہے جسے اُس کے اعمال وافعال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقبال کا انسان آزاد اور خودمختار انسان ہے جو ہر دم نت نئے مقاصد اور آدرش وضع کرتا ہے اور وفورِ تخلیق میں توارث اور ماحول کے بندھنوں کو بھی توڑ دیتا ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک اِڈ(Id) ایک ایسا نہاں خانہ ہے جہاں حیوانی توانائی ذہنی شکل اختیارکر کے تما م عرصہ غیر مبدل انداز میں موجود رہتی ہے اور عمل کی تمام تر تحریکات یہیں سے ابھرتی ہیں۔ اس کے برعکس علامہ اقبال کا نفس بصیر حقیقت ِ مطلقہ کے سیلِ رواں کے اندر زندگی بسر کرتا ہے اور یہیں سے توانائی، ہدایت اور تحریک عمل حاصل کرتا ہے۔ ۱؎ اقبال کے نزدیک انسانی فکروعمل کا اصل محرک مابعدالطبیعیاتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر ہماری منتشراور پراگندہ داعیے (Vagrant Impulses) خواب و رویا کی صورت میں یا پھربے خودی کے کسی ایسے کمزور لمحے میں کہ جب ہم مکمل طور پر اپنے حواس میں نہیں ہوتے، اپنا اظہار کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواہشوں اور آرزوئوں کی صورت میں یہ اُکساہٹیں ہمہ وقت ہماری عمومی ذات (Normal Self) کے پچھواڑے کسی کباڑخانے (Lumber Room) میں موجود رہتی ہیں۔ اقبال رقم طراز ہیں: If our vagrant impulses assert themselves in our dreams or at other times we are not strictly ourselves, it does not follow that they remain imprisoned in a kind of lumber room behind the normal self.2 اقبال کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ذہن میں کسی ایسی کالی کباڑ کوٹھڑی پر یقین نہیں رکھتا جس میں ہر لحظہ نجس خواہشات اپنے اظہار کے لیے بے چین ہوں۔ اقبال اس بات کا قائل ہے کہ ہر قسم کے مہیجات کے مقابل ایک خاص نوع کاردِ عمل راسخ ہو جاتا ہے اور اُس کا ہماری ذات کے ساتھ ایسا تلازم بن جاتا ہے کہ اُسی سے ہماری ذات کی پہچان ہوتی ہے۔ اس ردِعمل کو کسی ذات کا معمول کا ردِعمل (Habitual Response) کہا جا سکتا ہے۔ بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں کہ جب ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل کو ایسے محرکات اور داعیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جو ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل کے حصار کو توڑ کر ذات کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنا چاہتی ہیں۔ اس صورِت حال کا مقابلہ کرتے ہوئے ذات میں راسخ معمول کا ردِعمل ایسی شرانگیز انگیزشوں کو دبا کر اُنھیں ذہن و قلب سے خارج کر دیتا ہے۔ بایں ہمہ بعض اوقات دبی ہوئی انگیزشیں ہماری ذات پر حاوی ہو جاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل میں گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے اور وہ وقتی طور پر معطل ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل سے مطابقت نہ رکھنے والی انگیزشیں اس لیے ہماری ذات پر حملہ آور نہیں ہوتیں کہ وہ ہمہ وقت ہمارے ذہن کے کسی تاریک گوشے میں گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہیں بلکہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل میں اختلال اور اُس کا وقتی تعطل ان دبی ہوئی انگیزشوں کے عمومی ذات (Normal Self) پر حاوی ہونے کا باعث بنتاہے۔ اقبال رقم طراز ہیں: The occasional invasion of these suppressed impulses on the region of our normal self tends more to show the temporary disruption of our habitual system of response rather than their perpetual presence in some dark corner of the mind.3 دراصل اقبال اور فرائیڈ کا بنیادی فرق یہ ہے کہ فرائیڈ کی نظر صرف مادیت اور ظاہر ی میکانکیت تک محدود ہے جبکہ اقبال مادی ظواہر سے ماورا حقائق پر بھی یقین رکھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مابعدالطبیعیاتی حقائق کی زندگی میں حیثیت اور حیات کے حرکی پہلو میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جبکہ فرائیڈ انسانی فکروعمل کی ہر جہت کو لاشعورکی کاروائی قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک لاشعور ہی ہمارے تمام اعمال وافعال پر حاوی ہے۔ چونکہ لاشعور کا تعلق دماغ سے ہے اس لیے انسانی فکروعمل کی ہر صورت کا مبداوسرچشمہ خود انسان ہے اور انسان سے ماورا کوئی ایسی حقیقت نہیں جو فکروعمل کے لیے تازیانہ کا باعث ہو۔ فرائیڈ کے یہی نظریات ہیںکہ جن کی بنا پر وہ مذہب کو محض وہم و خیال اور من گھڑت قرار دیتا ہے۔ اقبال مذہب کے بارے فرائیڈ کے تصورو خیال کو ان الفاظ میں رقم کرتے ہیں: Religion, it is said, is a pure fiction, created by these repudiated impulses of mankind with a view to find a kind of fairyland for free unobstructed movement. Religious beliefs and dogmas, according to the theory, are no more than merely primitive theories of Nature, whereby mankind have tried to redeem Reality from its elemental ugliness and to show it off as something nearer to the heart's desire than the facts of life would warrant.4 مذہب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مذہب ایک خالص جھوٹ (Pure Fiction) ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ دراصل جب انسانیت کی دبی ہوئی یا متروک خواہشات (Repudiated Impulses) بوجوہ اپنا اظہار نہ کر پائیں تو ان خواہشات نے اپنی صورت بدل کر مذہب کی شکل اختیار کر لی۔ مقصد یہ تھا کہ ان متروک خواہشات کو اپنے آزادانہ اظہار کے لیے مذہب کی شکل میں ایک ایسی دوسری صورت یا خیالی پرستان (Fairy land) میسر آ جائے جس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو چنانچہ اِس نقطہ نظر کے مطابق مذہبی اعتقادات اور عقائد کی حیثیت فطرت سے متعلق انسان کے ایسے قدیم نظریات کی ہے جن کے پردے میں انسان ایک اصلاً بد نما حقیقت کو اُس کی بد نمائی سے نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے مذہب کے رنگ میں اپنی دلی امنگ اور آرزو کی صورت پیش کرتا ہے۔ تا ہم زندگی کے حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب کی زندگی کے حقائق سے مطابقت نہیں۔ دراصل مذہب کی نہاد ہی ایسے اوہام پر قائم ہے جو محض خیالی اور تصوراتی ہیں۔ یوں فرائیڈ کے خیال میں مذہب کی پاسداری زندگی کے حقائق سے فرار کا باعث بنتی ہے۔ اقبال فرائیڈ کے ان مذہبی تصورات کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: That there are religions and forms of art, which provide a kind of cowardly escape from the facts of life, I do not deny. All that I contend is that this is not true of all religions.5 اقبال کہتے ہیں کہ اگر فرائیڈ کا یہ کہنا کہ بعض مذاہب اور فنون کی ایسی صورتیں ہیں جو زندگی سے بزدلانہ فرار کی راہ دِکھاتی ہیں تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے تاہم تمام مذاہب کے حوالے سے یہ بات صادق نہیں آتی۔ اقبال مذہب کی صحیح حیثیت کا تعین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: No doubt, religious beliefs and dogmas have a metaphysical significance but it is obvious that they are not interpretations of those data of experience which are the subject of the sciences of Nature. Religion is not physics or chemistry seeking an explanation of nature in terms of causation, it really aims at interpreting a totally different region of human experience ___ religious experience ___ the data of which can not be reduced to the data of any other science.6 اقبال کہتے ہیں کہ مذہبی تصورات کو مادی مظاہر سے منسلک کرنا درست نہیں۔ تاریخ میں ایسے بہت سے ادوار گزرے ہیں جن میں چاند، سورج، ستاروں، درخت، زمین پہاڑوں، آگ، پانی، جانوروں (بچھڑا اور گائے وغیرہ) اور ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بھی مذہبی تصورات منسلک رہے ہیں اور ان کی پوجا ہوتی رہی ہے۔ اصنام پرستی اسی کی ایک صورت ہے۔ ا قبال کے نزدیک مذہب کا تصور قدرتی علوم کی حدود تک محدود مظاہرِ فطرت کی شرح و وضاحت سے جنم نہیں لیتا بلکہ مذہب اور مادیت سے ماورا ایک ایسی مابعدالطبیعیاتی حقیقت ہے جس کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی: نہیں سائنس واقف کارِدیں سے ۱؎ خدا باہر ہے حدِ دوربیں سے ۷؎ چنانچہ مذہب کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنا درست نہیں اس کہ مذہب اور سائنس کی حدود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سائنس کا دائرہ کار صرف پیکِرمحسوس تک محدود ہے اور وہی علوم سائنسی علم کا حصہ ہیں جو مظاہِر فطرت کے کسی نہ کسی پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں مثلاً فزکس ہو یا کیمسٹری یہ علوم مظاہرِ فطرت کی شرح و وضاحت کرنے والے علوم ہیں جبکہ مذہب فزکس اور کیمسٹری کی طرح ایسا علم نہیں کہ جس سے کسی مظہرِ فطرت کی ایسی تعبیر ممکن ہو کہ ہم یہ کہ۔َ۔ سکیں کہ مذہب بھی مادیت ہی سے متبادر ایسا علم ہے جس سے مادے کے کسی ایک پہلو کی وضاحت ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مادیت کو مذہب پر فوقیت حاصل ہوتی اور مذہب فزکس اور کیمسٹری کی مانند مادیت کے ایک خادم کی حیثیت اختیار کر لیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب مادیت کی پیداوار نہیں، نہ مادیت سے مذہب کی کوئی حیثیت متعین ہوتی ہے۔ مذہب کا تعلق مادیت سے ماورا انسانی تجربے کی ایک بالکل مختلف سطح کے ساتھ ہے۔ یہ انسانی تعقل اور روحانیت و احساسات کی سطح ہے۔ انسانی تجربے کی یہی وہ سطح یا مقام ہے جو مذہبی تجربے کا محل ہے۔ اقبال کی نگاہ میں تو مذہب باطنی تجربے کی ایک ایسی مخصوص نوع ہے، جس کی حقیقی اہمیت اس بات میں ہے کہ یہ جذبہ باطنی جذبہ و احساس کی نہ صرف باقی تمام اقسام کو متاثر کرتا بلکہ اُن کے لیے ہادی ورہبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم اقبال کے برعکس فرائیڈ کی نظر میں جنسی ہیجان (Sex Impulse) کو انسان کے جذبات و احساسات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسان کی تمام خواہشات کا محرک جنسی جذبہ ہے یہاں تک کہ فرائیڈ کے نزدیک مذہب بھی جنسی ہیجان (Sex Impulse) کی ہی ایک بدلی ہوئی صورت ہے۔ ۸؎ اقبال فرائیڈ سے اختلاف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: Nor is it possible to explain away the content of religious consciousness by attributing the whole thing to the working of the sex-impulse.9 جہاں اقبال نے یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ مذہبی تجربے کے مواد کو سائنسی یا حسی تجربے کے مواد سے کوئی مماثلت نہیں وہیں وہ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ مذہبی تجربہ ایسی مخصوص نوعیت کا حامل تجربہ ہے کہ باطنی سطح پر بھی کسی نفسی تحریک یا ہیجان کو اِس تجربے کی مثل یا اساس قرار نہیں دیاجا سکتا۔ مذہبی تجربے کی اپنی ایک انفردیت ہے اور اس انفرادیت کو یہ کہ۔َ۔ کر چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی شعور دراصل انسان کی جنسی خواہشات کی بدلی ہوئی صورت کی کار فرمائی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ جنسی خواہشات کو مذہبی شعور کی اساس قرار دے کر مذہبی تجربے کی تشریح وتعبیر کرنا ممکن نہیں کیونکہ: The two forms of consciousness, sexual and religious, are often hostile or at any rate completely different to each other in point of their character, their aim and the kind of conduct they generate.10 اقبال کہتے ہیں کہ مذہب (Religion) اورجنس (Sex) شعور کی ایسی دو اقسام ہیں جن کا آپس میں تعلق اکثر معاندانہ (hostile) ہو تا ہے اور یہ دونوں اپنے کردا ر، مقاصد اور خاص نوعیت کا طرزِ عمل خلق کرنے کے معاملے میں بھی ایک دوسرے سے کلیتاً مختلف ہیں۔ اقبال کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ اقبال فرائیڈ کے اس نقطہ نظر کے حامی نہیں کہ جنسی خواہشات مذہب کی اساس ہیں اور یہ کہ مذہب کی حیثیت محض ایک ایسے واہمہ (illusion) کی ہے ‘ جسے تکمیلِ خواہش (wish fulfilment) کا پرتوکہا جا سکتا ہے۔ ۱۱؎اقبال کے نزدیک مذہب کو واہمہ (illusion) یا تکمیل خواہش کا پر تو کہنا درست نہیں کیونکہ: The truth is that in a state of religious passion, we know a factual reality in some sense outside the narrow circuit of our personality.12 اقبال کہتے ہیں کہ صداقت یہ ہے کہ جذبِ مذہبی (religious passion) کی کیفیت میں انسان اپنی شخصیت سے ماورا واقعاتی حقیقت (factual reality) سے شناسائی حاصل کرتا ہے۔ شخصیت سے ماورا واقعاتی حقیقت سے شناسائی حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اِس شناسائی یا آگہی کے عمل میں انسانی شخصیت کا کوئی حصہ یا کردار نہیں ہوتا، چونکہ شخصیت کا تاروپودشعوری کیفیات سے بنتا ہے چنانچہ اگر بقول اقبال مذہبی واردہ کے دوران میں صاحب ِ حال یعنی صوفی اپنی شخصیت کے تنگنائے سے باہر حقائق سے آگہی حاصل کرتا ہے تو ظاہر ہے حقائق سے آگہی کے اس عمل میں انسان کی شعوری کیفیات کی کسی سطح یا جہت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یوں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مذہبی و اردہ اور شعوری کیفیات ایک دوسرے سے الگ ہیں چنانچہ یہ کہنا بھی کہ جنسی لاشعوری محرکات مذہب کی بنیاد ہیں سراسر غلط ہے۔ دراصل علمِ نفسیات کی کمزوری یہ ہے کہ اِس علم کا تعلق صرف اور صرف انسان اور اس کی شعوری جہات کے ساتھ ہے۔ یہ علم کسی ایسے وقوف یا فہم و بصیرت کا بھی قائل نہیں جس کا تعلق انسانی شخصیت اور اِس کی شعوری جہات سے ماورا ہو۔ گویا فرائیڈ نے تحلیل نفسی کے طریقہ کار پر مبنی جس نفسیاتی نظام کی بنیاد رکھی اس میں مابعد الطبیعیات کو ماننے کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ اقبال فرائیڈ کی جدید نفسیات کے اس پہلو پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: A purely psychological methed therefore, can not explain religious passion as a form of knowledge. It is bound to fail in the case of our newer psychologists as it did fail in the case of Locke and Hume.13 اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جذِب کے مذہبی طریقہ کار سے حاصل ہونے والے علم کی تشریح وتوضیح کرنا نفسیاتی طریقہ کار کے بس کی بات نہیں۔ دنیاکے دو مشہور ترین نفسیات دانوں جان لاک (John Locke 1632-1704)اور ڈیوڈ ہیوم (David Hume 1711-1776) کو بھی اس کوشش میں ناکامی ہوئی اور جدید نفسیات کے دعوے دار بھی اگر ایسی کوشش کریں گے تو اُنھیں ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اقبال فرائیڈ کے برعکس اِس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ مذہبی تجربہ اور اس کے وقوفی پہلو (cognitive element) کی اساس ذہن و شعور نہیں بلکہ اِس سے ورا ہے۔ گویا اقبال بقول غالب اس بات کا قائل ہے کہ: ’’ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ۔‘‘ ۱۴؎ دراصل اقبال اور فرائیڈ میں فرق یہ ہے کہ فرائیڈ کی نظر محض مادیت تک محدود ہے اور وہ اسی کو اساس بنا کراپنے فکری نتائج کا استخراج کرتا ہے۔ اقبال کے ہاں گو مادیت حقیقت کے ایک پہلو کا اظہار ضرور کرتی ہے اور اسے اقبال کے نظام فکر میں ایک اہم مقام بھی حاصل ہے تاہم اقبال کے نزدیک مادیت کو فکرونظر کے لیے حتمی اساس قرارنہیں دیا جا سکتا۔ خ…خ…خ…خ حواشی و حوالہ جات ۲- پروفیسرنعیم احمد: ’’انسانی شخصیت، فرائیڈ اور اقبال کی نظر میں‘‘، سہ ماہی مجلہ اقبال ،اپریل ۱۹۸۵ئ، جلد۳۲،شمارہ۲، بزمِ اقبال، کلب روڈ، لاہور۔ 2- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1965, p. 24. 3- Ibid 4- Ibid, p. 25. 5- Ibid 6- Ibid 7- اکبر الٰہ آبادی: کلیات اکبر، پنجاب پبلشرز ، کراچی، س ۔ن، ص۴۶۔ ۸- فرائیڈ کا یہ خیال ہے کہ انسان جب اپنی جنسی خواہشات کو اپنے خارجی ماحول کے انتداب یا سماج کے خوف کے باعث مطمئن نہیں کر پاتا تو یہ جنسی خواہشات لاشعور میں دبی رہتی ہیں اور موقع ملنے پر مختلف صورتوں مثلاً علم، ہنر، اخلاق اور عبادات و مناجات کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہیں۔ فرائیڈ جنسی خواہشات کے یوں مذہبی و اخلاقی رنگ میں تبدل کے عمل کو ارتفاعِ خواہشات (sublimation) کا نام دیتا ہے۔ گویا فرائیڈ کے نزدیک عبادت و ریاضت سے تعلق رکھنے والی مذہبی خواہشات انسان کی حقیقی یا اصلی خواہشات نہیں ہیں بلکہ یہ خواہشات حقیقی یا اصلی خواہشات (جنسی خواہشات ) کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں۔ 9- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1965, p. 26. 10- Ibid ۱۱- فرائیڈ ایک جگہ لکھتا ہے:"Intuition and inspiration would be such if they existed but can can safely be counted as illusious as fulfillments of wishes". Sigmund Freud , New Introductory Lectures on Psychoannalysis. ایک اور جگہ اس نے لکھا:"We call a belief an illusion". Sigmund Freud, The Future of an Illusion, p. 54-55. 12- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1965, p. 26. 13- Ibid ۱۴- اسداللہ خان غالب: دیوانِ غالب، فیروز سنز ، لاہور، ۱۹۸۹ئ، ص۱۶۴۔ خ…خ…خ…خ  اربابِ ذوق کی خدمت میں٭ خرم علی شفیق خلاصہ اقبال کی شاعری اپنی وسعت میں حکمت کے مشرقی اور مغربی سرچشموں کو سموئے ہوئے ہے۔ اقبال کی فکر اور کلام میں تہذیبوں کے درمیان مکالمے کے واضح آثار موجودہیں۔ جس اسلامی معاشرے کا خواب اقبال نے دیکھا اسے انھوں نے جاوید نامہ میں مرغدین کا نام دیا۔ اقبال کے نزدیک کسی بھی خارجی حقیقت کے تجربے کی پانچ ممکنہ سطحیں ہوسکتی ہیں۔ جس مثالی معاشرے ’مرغدین‘ کی اقبال بات کرتے ہیں وہ بھی انھی ممکنہ سطحوں پر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ تاریخی طور اسلامی معاشرے کے دو اہم ستون بادشاہ اور صوفی تھے۔ بادشاہ جنگ کی علامت تھا اور صوفی محبت کی۔ یہی محبت ایک مثالی معاشرے کی اساس ہے۔ کیونکہ صوفی اپنی خانقاہ میں انسان کی تربیت کرکے اسے تہذیب کا بہترین فرد بنانے کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں بھی، جب مادہ و روح اور ریاست و مذہب کو ایک وحدت قرار دیا تو، تصوف کی اصطلاحات میں سیاسی فلسفے کی تشکیل کی۔ تاہم مغربی مستشرقین کی اسلامی تاریخ کی ادھوری تفہیم نے اسلام کی تاریخ کو صرف بادشاہوں، سائنسی کارناموں اور قانون سازی تک محدود کردیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی مشرق میں ہر صاحب ذوق نے معاشرتی زندگی کی عمیق تر صداقتوں کے اظہار کی تلاش بادشاہت اور قانون سازی میں نہیں بلکہ روحانی روایت کے ضمیر میں کی جسے تصوف کے نام سے موسوم کیا گیا۔ دین و سیاست کی یکتائی سے جس روحانی جمہوریت کی تشکیل ہوتی ہے ۔ اس کردار کے لیے افراد معاشرہ کو تیار کرنے کی امید تصوف سے کی جاسکتی ہے۔ خ…خ…خ اقبال کی شاعری اور فکرہمارے تہذیبی رویے کا توانا اظہار ہے جس کی وسعت میں حکمت کے کئی سرچشموں کی روایت سموئی گئی ہے جن میں اسلام، عربی زبان و ادبیات، فارسی ادب اور فکر، ویدانت، مغربی ادب اور مغربی فلسفہ کا سرمایہ شامل ہے۔ تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ہر دور میں جاری رہا ہے مگر جدید دور میں اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مکالمہ تہذیبوں کی باطنی زندگی کے اشاروں سے نکل کر خارجی سطح پر بھی بہت نمایاں ہو گیا ہے۔ تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی یہ شکل پوری طرح اقبال کے بعد کے عہد میں نمایاں ہوئی مگرمعلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلام اور ان کی فکر اس مکالمے کے لیے اپنے اکثر ہم عصر مفکروں سے کہیں زیادہ تیار تھے۔ شائد وہ مستقبل کے اس رخ سے واقف بھی تھے۔ میں اس مقالے میں اُن کی پوری فکر کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔ صرف ایک استعارے کی تشریح کروں گا۔ یہ استعارہ اُس اسلامی معاشرے کا تصور ہے جسے اُنہوں نے سیاسی اصطلاح کے طور پر اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں پیش کیا مگر جو ایک شاعرانہ تصور کے طور پر شروع سے ان کے یہاں موجود رہا اور ۱۹۰۷ء میں مکمل ہو گیا۔ خود انہوں نے اس مجوزہ معاشرے کو جاویدنامہ میں مرغدین کا نام دیا تھا مگر ان کی وفات کے بعد اسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ لفظ پاکستان اگرچہ اقبال کی زندگی ہی میں وضع ہو گیا تھا مگر اُس زمانے میں یہ نام اقبال اور مسلم لیگ کی مخالف ایک تحریک سے وابستہ تھا۔ بہرحال اب چونکہ اس تصور کو مرغدین کی بجائے پاکستان کے نام سے ہی پہچانا جاتا ہے لہٰذا میں بھی یہی استعارہ استعمال کرنا چاہوں گا۔ اقبال کے نزدیک کسی بھی خارجی حقیقت کے تجربے کی پانچ ممکنہ سطحیں ہوتی ہیں۔ تاریخی، اصولی، مثالی، مقامِ عشق اور مقامِ تہذیب۔ تاریخی سطح ظاہری وجود کی سطح ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان ایک ملک ہے جو ایک خاص قسم کے حالات کے نتیجے میں ۱۹۴۷ء میں وجود میں آیا اور اس کے بعد بھی اپنی ایک متعین زندگی رکھتا ہے جس میں ہم اس وقت موجود ہیں۔دوسری سطح پر ہم ان اصولوں کا تجربہ کر سکتے ہیں جن کی بنیاد پر یہ وجود قائم ہوا یا قائم ہے۔ تیسری سطح پر ہم اُس تصور کا تجربہ کرتے ہیں جو ایک مثالی معاشرے کا تصور تھا اور ہم یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ کیا ہم نے تشکیلِ پاکستان کے بعد اس مثالی معاشرے کی تشکیل کی طرف کوئی قدم اٹھایا ہے؟ کلامِ اقبال کے تجربے کی روشنی میں اس سوال کا جواب یہ ہو گا کہ تاریخی تجربہ اپنے باطن میں خودبخود اپنے مثالی ممکنات کی پرورش کرتا ہے۔اس نکتے پر مزید روشنی ڈالی جائے گی۔ تجربے کی چوتھی سطح جسے زبورِ عجم کی اصطلاح میں ہم مقامِ عشق کہ۔َ کہتے ہیں وہ تینوں نچلی سطحوں کو سمجھنے کے بعد اُن سے حاصل ہونے والے نتائج کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا نام ہے۔ یہ گویا صفات اور اقدار کی تخلیق کا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد حقیقت کی سطح پر پہنچنا ممکن ہوتا ہے جو تہذیبی اظہار کا مقام ہے۔ معنی خیز تہذیبی مکالمہ صرف اس سطح پر ہوتا ہے اور اُس وقت ممکن ہے جب حقیقت کی بقیہ چار سطحوں کو بھی اُس میں شامل کیا جائے ورنہ محض سراب اور تشنہ لبی ملتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ وہ مجوزہ معاشرہ جسے اقبال نے مرغدین کا نام دیا تھا اورجسے آپ پاکستان کہتے ہیں اُس کا تصور اُن کے یہاں ۱۹۰۷ء میں مکمل ہو گیا تھا چنانچہ میں اس مقالے کو اُس غزل کی تشریح تک محدود رکھوں گا جسے خود اُنہوں نے ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ کا عنوان دیا: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا۱؎ اسلامی تاریخ میں بادشاہ اور صوفی دو ستون تھے جو ہمیشہ الگ رہتے تھے۔ بادشاہ دربار لگاتا تھا اور صوفی خانقاہ میں رہتا تھا۔ اقبال نے اپنی کتاب اسرارورموز میں دکھایا ہے کہ بادشاہ جنگ کی علامت تھا جو تاریخ میں ناگزیر تھی۔ صوفی محبت کی علامت تھا چنانچہ تاریخ کی مجبوری جاننے کے باوجود جنگ کے اصول سے سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں تھا اور خانقاہ میں ایک متبادل دنیا تعمیر کرتا تھا جس کے راز سینہ بہ سینہ چلتے تھے۔ تصوف کی جن کتابوں سے ہم ان رازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ کافی نہیں ہیں کیونکہ وہ کتابیں کسی خاص استاد کی رہنمائی میں پڑھی جاتی تھیں۔ صوفیوں کے نظامِ تربیت میں عملی سرگرمیوں کا بڑا حصہ تھا لہٰذا جب تک وہ مشقیں معلوم نہ ہوں جو ان کتابوں میں لکھی ہوئی تحریروں پر کروائی جاتی تھیں اُس وقت تک یہ کتابیں ہمیں پورا سچ بتانے سے قاصر ہیں۔ اسی لیے اقبال نے پیامِ مشرق میں تصوف کو زلیخا کے جھوٹ سے تشبیہ دی ہے۔ یہ اعتراض نہیں بلکہ تعریف ہے۔ یورپی استعمار نے مسلم دنیا کے کچھ ملکوں سے بادشاہت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر کے اُس کی جگہ ایک بنیادی جمہوریت متعارف کروائی۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں پر یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اُن کے ملک پر انگریزوں کی حکومت ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ اقبال نے غالباً مارچ ۱۹۰۷ء میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ جب کسی ایسے ملک میں مسلمانوں کو انگریزوں سے آزادی ملے گی تو کیا ہوگا؟ بادشاہت کے واپس آنے کا کوئی امکان نہیں تھاچنانچہ روایتی اسلامی معاشرے کا ایک ستون ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال جب اپنی نظم میں کسی شاعر یا صوفی کے مزار پر حاضرہوتے ہیں تو صاحبِ مزار سے گفتگو کرکے اپنے مسائل پر رہنمائی حاصل کرتے ہیں مگر بانگ درا میںبادشاہوں کے قبرستان میں وہ بادشاہوں کو اسلامی تاریخ کا ایک جلال انگیز پہلو تسلیم کرنے کے بعد وہ برسات کے بادل کی طرح آنسو برساتے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا بادشاہ اب واپس آنے والے نہیں ہیں۔ سوال یہ تھا کہ اگر بادشاہ واپس نہیں آئیں گے تو پھر انگریزوں کے جانے کے بعدمسلمان معاشرے پر حکومت کون کرے گا؟ جواب واضح تھا۔ جو معاشرے کا دوسرا ستون تھا اب صرف وہی باقی رہ گیااِس لیے پورے معاشرے کی تشکیل وہی کرے گا۔ وہ راز جو پہلے خانقاہوں تک محدود تھے اب زندگی کے ہر پہلو میں دکھائی دیں گے۔ نظامِ حیات کی تشکیل محبت کے اصول پر ہو گی۔ اپنے دل کی تربیت کر کے اُس میں خدا کے جلوے بے حجاب دیکھنے کا کرشمہ پہلے خانقاہوںتک محدود تھا مگر اب سب کی دسترس میں ہو گا: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا ۲؎ صوفی اپنی خانقاہ میں آنے والے اچھے سے اچھے اور برے سے برے انسان کی تربیت کر کے اُسے تہذیب کا بہترین فرد بنانے کے طریقے جانتا تھا۔ اب سارے معاشرے کی تربیت کر دے گا۔ اُس کی روح میں جنت آباد تھی، اب وہ جنت معاشرے میں بھی دکھائی دے گی: کبھی جو آوارۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا۳؎ اب دیکھیے کہ خطبۂ الٰہ آباد میں اقبال اسی بات کو تصوف کی اصطلاحات سے نکال کر سیاسی فلسفے کی شکل دے رہے ہیں: Islam does not bifurcate the unity of man into an irreconcilable duality of spirit and matter. In Islam God and the universe, spirit and matter, church and state, are organic to each other. Man is not the citizen of a profane world to be renounced in the interest of a world of spirit situated elsewhere. To Islam matter is spirit realizing itself in space and time. یہ خیال کہ روح اور مادہ درحقیقت ایک ہیں صرف اسلامی فکر سے مخصوص نہیں۔ خالص فلسفے کے طور پر اِس کی تشریح ویدانت میں بڑی وضاحت کے ساتھ ہوئی ہے۔ اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اُس نے معاشرے کے ہر ادارے اور قدر کی بنیاد روح اور مادے کی یگانگی پر رکھنے کو اپنا مقصد بنایا۔چنانچہ جایدنامہ میں اقبال ایک مثالی دنیا پیش کرتے ہوئے اس کے وجود میں آنے کی وجہ صرف یہی بتاتے ہیں کہ وہاں بسنے والوں کے جدِامجد برخیا کو شیطان نے ایک ایسی دنیا کا لالچ دیا تھا جہاں نہ خدا ہو گا نہ مذہبی بندشیں بلکہ صرف مسرت ہو گی اور برخیا نے شیطان کی پیش کی ہوئی دنیا رد کر دی تھی۔ اس کے انعام میں خدا نے مریخ کی مثالی دنیا اُسے عطا کر دی۔ اگر اس برخیا کو وہی ’’نیا آدم‘‘ فرض کر لیا جائے جس کا تذکرہ پیامِ مشرق کے دیباچے میں ہے کہ زندگی کی گہرائیوں میں فطرت ایک نیا آدم اور اُس کے رہنے کے لیے نئی دنیا تخلیق کر رہی ہے تو ظاہر ہے کہ اقبال کے نزدیک ایک مثالی دنیا کا قیام نہ سیکولر معاشرے کے اُس تصور میں ہے جو شخصی آزادی کے مضمرات کی وجہ سے ہمیں دلکش دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کمیونزم میں ہے جسے اقبال پیٹ کی مساوات قرار دیتے ہیں۔ دراصل یہی متبادل دنیائیں جو اُس زمانے میں انسان کے سامنے موجود تھیں برخیا کے شیطان کا وہ بہکاوا ہے جسے رد کرنے پر جاویدنامہ کی وہ مثالی دنیا وجود میں آتی ہے جہاں یک اندیشی ہے یعنی روح اور مادے کی تقسیم نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ میں جنگ اور محبت کی تقسیم روح اور مادے کی یگانگت کے اصول کے خلاف تھی مگر تاریخی مصلحت کی وجہ سے ضروری ہو گئی۔ میرے استاد جناب عباس محمد حسین نے اپنے ایک لیکچر میں اس قسم کی مصلحت کو خواجہ خضرکے دیوار مضبوط کرنے سے تشبیہ دی ہے۔ یہ تشبیہ بہت مناسب ہے اور اقبال کے خیال میں اسلام کی دفن شدہ میراث یہ ہے کہ دنیا جنت بن جائے کیونکہ آدم کو زمین پر اسی لیے بھیجا گیا تھا کہ خدا کی رحمت کا بخشا ہوا فردوس جو اُس نے اپنی بیداری کے تقاضے پر قربان کیا تھا اُسے اپنے خونِ جگر سے کشید کر کے اِس زمین پر پیدا کر دے۔ اگر یہ اسلام کی میراث ہے کہ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب وہ یتیم بڑا ہو گا اور دیوار کے نیچے چھپے اس خزانے کو بے نقاب کر کے استعمال میں لائے گا؟ اقبال نے مارچ ۱۹۰۷ء میں محسوس کیا کہ اب وہ وقت دُور نہیں ہے۔ کبھی جو آوارۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے! اِسی بات کو خطبۂ الٰہ آباد میں اس طرح دہرایا کہ انسان جس دنیا کا باشندہ ہے وہ ناپاک نہیں کہ اُسے کسی بلند روحانی نصب العین کے لیے ترک کرنا پڑے۔ اسلام کے مطابق مادہ بھی وقت اور مکان میں ظاہر ہونے والی روحانیت ہے۔خواجہ خضر نے ایک بچے کو قتل بھی کیا تھا کیونکہ وہ نیک ماں باپ کی اولاد تھا مگر فتنہ پرور بننے والا تھا جس سے اُنہیں تکلیف ہوتی اور بزرگ جانتے تھے کہ اُس کے بدلے ماں باپ کو ایک صالح اولاد ملے گی جو اُن کے مقاصد پورے کرے گی۔ اسلام کی نافرمان اولاد وہ حکومت تھی جس سے امام حسن نے لاتعلقی اختیار کر کے گویا اُس سے اُس کا مذہبی استحقاق واپس لے لیا: کشتیٔ مسکین و جانِ پاک و دیوارِ یتیم علمِ موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش۴؎ ہم دیکھتے ہیں کہ آگے چل کر وہ حکومت عرب استعمار میں بدل گئی جسے تاریخ کی مصلحت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسلام کے اُن مقاصد سے قدرے دُور ہٹنا پڑا جن کا تعلق انسانیت کی وحدت سے تھا اور جو قرآن کی اِس دعوت میں مضمر تھے کہ تمام انسان الگ الگ مذاہب اور قومتیوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اُن اصولوں پر اشتراکِ عمل کریں جو سب کے درمیان یکساں ہیں۔ اقبال نے محسوس کیا کہ اب وہ وقت دُور نہیں جب یتیم بڑا ہو کر اپنی میراث دیوار کے نیچے سے نکال لے گا۔ اسلام کی ہزار سالہ حکومت جو ختم ہو گئی ہے اُس کی جگہ ایک نئی قسم کا اقتدار ملے گا گویا نافرمان بچے کی جگہ نئی اولاد پیدا ہو گی۔ اب ممکن ہو گا کہ اسلام کے انسانی نصب العین کو کسی مصلحت سے سمجھوتہ کیے بغیر بے نقاب کیا جائے: Indeed the first practical step that Islam took towards the realization of a final combination of humanity was to call upon peoples possessing practically the same ethical ideal to come forward and combine. The Quran declares, "O people of the Book! Come let us join together on the 'word' (Unity of God), that is common to us all." The wars of Islam and Christianity, and, later, European aggression in its various forms, could not allow the infinite meaning of this verse to work itself out in the world of Islam. Today it is being gradually being realized in the countries of Islam in the shape of what is called Muslim Nationalism: سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر استوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا۵؎ وہ کون سا عہد تھا جو صحرائیوں سے باندھا گیا تھا؟ انسانیت کا حتمی اجتماع۔ جس شیر نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا وہ کون تھا؟ اقبال ہی کی زبانی سنیے: مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا؟ زورِ حیدرؓ، فقرِبوذرؓ، صدقِ سلمانیؓ!۶؎ سب جانتے ہیں کہ زورِ حیدر، فقرِبوذر اور صدقِ سلمانی کے استعارے کس طرف اشارہ کر رہے ہیں مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کو مستشرقین کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مذہبی حلقے بھی اِس روّیے سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکے مثال کے طور پر خلافت اور ملوکیت کی بحث جس طرح اٹھائی جاتی ہے وہ مسلمان بادشاہوں کے بارے میں مستشرقین کے پیش کیے ہوئے نظریے کو اُصولی طور پر رد کرنے کی بجائے اُسے درست تسلیم کرتے ہوئے بادشاہت کی پوری تاریخ ہی کو اپنے ماضی سے خارج کرنے کی خواہش کا ثمر معلوم ہوتی ہے۔ مستشرقین کے جس رویے کی وجہ سے اس قسم کی قباحتیں پیدا ہوئی ہیں وہ اسلامی تاریخ کو بادشاہوں، سائنسی کارناموں اورقانون سازی تک محدود کرنا ہے۔ یہ تینوں شعبے کسی مخصوص عہد کی عارضی تاریخی حقیقتوں سے ہمیشہ بہت قریب ہوتے ہیں لہٰذا اِن کا ایک عالمی مذہب کے ہمیشہ زندہ رہنے والے ضمیر اور اُس کے کبھی نہ بدلنے والے پہلوؤں سے دُور ہونا بھی لازمی ہے۔ مغربی نقطہ نظر کی وجہ سے برطانوی عہد میں اور پاکستان بننے کے بعدبھی بادشاہت، سائنسی ترقی اور قانون سازی ہماری تاریخ کے بنیادی حوالے بن گئے جبکہ یورپی تسلط سے پہلے مسلمانوں کے ضمیر نے کبھی اپنی شناخت کو اِن حوالوں تک محدود کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اگر کسی قوم کا ادب اُس کی داخلی زندگی کی عکاسی کر سکتا ہے تو اسلامی ادب میں ہمیشہ بادشاہ، حکیم اور ملّا کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے اور انہیں حقیقت کے ادراک سے محروم تصور کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ بادشاہوں کی تعریف میں لکھے ہوئے قصیدوں کو پرکھنے کے جو اصول ہماری تنقید میں ہمیشہ متعین رہے وہ بھی صرف قصیدے کے حسنِ بیان سے متعلق تھے اور کبھی ان قصیدوں میں کی گئی بادشاہوں کی تعریف کو امرِ واقع نہ سمجھا گیا۔ اس اصول پر قصیدہ لکھنے والا شاعر، اُسے لکھوانے والا بادشاہ اور اُسے پڑھنے والے قارئین ہمیشہ متفق رہے۔ہماری روایت کے ضمیر سے ناواقف مستشرقین یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اسلامی مشرق میں بادشاہوں اور قانون سازوں کو زندگی کے اعلیٰ ترین مقاصد کے اظہار سے وابستہ نہیں سمجھا گیا بلکہ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے شاعر نے زندگی کے اعلیٰ حقائق کی دریافت کے لیے اُن استعاروں پر انحصار کیا جو خاص تصوف سے منسلک ہیں۔ چنانچہ مغربی مستشرقین کے زیرِاثر ہمارے تاریخی شعور میں پہلی خرابی یہ پیدا ہوئی کہ ہم اپنی عظمتِ رفتہ کا استعارہ بادشاہوں اور اسلامی قانون کی بالادستی کو بنا بیٹھے: ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک۷؎ روایتی اسلامی دانش بادشاہت اور قانون سازی، ان دونوں اداروں کو عارضی سمجھتے ہوئے اصل حقیقت کی تلاش ہمیشہ کسی دوسری سمت میں کرتی تھی اور وہ سمت تصوف سے لازم و ملزوم ہوتی تھی: رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی ہمیشہ تازہ ۔و۔ شیریں ہے نغمۂ خسرو۸؎ مغربی مستشرقین کی بے خبری اور اس کے نتیجے میں ہماری اپنی غلط فہمی کی روشن مثال اکبراعظم سے دینِ الٰہی کا منسوب کیا جانا ہے۔ اکبر نے مذہب کے حوالے سے جو تجربہ کیا اُسے اُس نے دینِ الٰہی کا نام نہیں دیا نہ ہی ایک نئے دین کی طرح پیش کیا۔ اُس کے درباری مورخ ابوالفضل نے پورے اکبرنامہ میں کہیں یہ نام استعمال ہی نہیں کیا بلکہ ’’آئینِ رہنمونی‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے یعنی رشد و ہدایت کے قوانین۔ اکبر کے مخالف ملّا عبدالقادر بدایونی نے دل کھول کر تنقید کرتے ہوئے بھی عام طور پر مریدی، ارادہ، اخلاص اور روش کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اکبر کی وفات کے بہت بعد ایک کتاب دبستانِ مذاہب میں اُس کے طریقے کو دینِ الٰہی کا نام دیا گیا مگر یورپی ذہن اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ اسلام میں کلیسا جیسے کسی ادارے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے نئے فرقوں اور سلسلوں کا وجود میں آنا کوئی بہت بڑی بات نہیں رہی ہے۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ جس معنی میں الگ مذاہب قرار پاتے ہیںیورپی مستشرقین نے اکبر کے سلسلے کو بھی اُسی طرح سمجھنے کی کوشش کی اور مزید ظلم یہ ہوا کہ ابوالفضل کے انگریز مترجم نے ’’آئینِ رہنمونی‘‘ کا ترجمہ ہر جگہ ڈیوائن فیتھ کیا۔ بیسویں صدی میں یہ ترجمہ اصل فارسی کتاب سے زیادہ مقبول ہو جانے کی وجہ سے کئی مقامی مورخ بھی اُس غلط بیانی کے مرتکب ہوئے جس کی توقع ایک ادنیٰ طالب علم سے بھی نہیں کی جا سکتی۔ یورپی مستشرق اور اُن سے متاثرہ مقامی مورخ یہ تصور کرنے کی قابلیت سے بھی محروم تھے کہ تصوف کسی قوم کی تاریخ میں ایک وقیع قوت کے ظہور کا حوالہ بن سکتا ہے چنانچہ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اکبر نے ایک قسم کا صوفی سلسلہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی مگر مذاہب کے درمیان جس قسم کا اشتراک اُس نے تجربے کی بیرونی سطح پر دریافت کرنے کی کوشش کی وہ صرف داخلی سطح پر رونما ہو سکتا ہے ورنہ مصلحت آمیزی اور گمراہی ہو گا۔ چنانچہ اقبال نے اکبر کی کوشش کو الحاد کے بیج کی پرورش کرنے سے تشبیہ دی ہے۔ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی مشرق میں رومی اور حافظ سے لے کر اکبراعظم اور ابوالفضل تک ہر صاحبِ ذوق نے معاشرتی زندگی کی عمیق تر صداقتوں کے اظہار کی تلاش بادشاہت اور قانون سازی میں نہیں بلکہ اُس روحانی روایت کے ضمیر میں کی ہے جسے تصوف کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ اسلام کا اصل خزانہ اُسی دیوار کے نیچے دفن ہے۔ مارچ ۱۹۰۷ء میں اقبال نے کہا کہ ُانہوں نے قدسیوں یعنی فرشتوں سے یہ بات سنی۔ اس استعارے پر غور کرنا چاہیے کیونکہ فرشتے کائنات کے اصولوں سے متعلق ہیں۔ تاریخ ہمیں واقعات دکھاتی ہے مگر اُن کا دارومدار ایسے اصولوں پر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے۔ اقبال کے نزدیک جدید دنیا میں یہ صورتحال بدل گئی ہے۔ اب اصول خودبخود ظاہر ہیں مگر اُن کا اطلاق دریافت کرنا پڑتا ہے۔ گویا سائنس کی مدد سے فطرت کی طاقتوں کو بے نقاب کر کے اب ہم زندگی کے باطن میں پہنچ گئے ہیں جہاں خارجی مظاہر کی بجائے انہیں ظہور میں لانے والے اصول ہمارے شعور سے زیادہ قریب ہیں۔ نیوٹن کے لیے درخت سے سیب کا گرنا ایک مشاہدہ تھا اور کششِ ثقل کا اصول وہ راز تھا جسے بہت جستجو کے بعد ہی دریافت کیا جا سکتا تھا۔ آج اس سے بھی زیادہ پیچیدہ راز ایک بچہ چھوٹی سی عمر میں سیکھ لیتا ہے مگر جن خارجی مظاہر سے وہ راز وابستہ ہیں اُن کا مشاہدہ ایک عمرِدراز طلب کرتا ہے۔ مغربی سائنس کی اس ترقی میں اقبال پچھلی تہذیبوں کو بھی حصہ دار ٹھہراتے ہیں مگر مغرب سے انہیں یہ شکایت ہے کہ فطرت کی پوشیدہ قوتوں کو بے نقاب کر کے اپنے قابو میں لانے کے بعد بھی یہ تہذیب انسان کے ضمیر میں وہ انقلاب پیدا نہیں کر سکی جو اِس تسخیرِ فطرت کا منطقی نتیجہ ہونا چاہیے تھا۔ خارجی دنیا میں ایسی زبردست تبدیلی جس کی بدولت زندگی آسان اور نفیس ہو جائے اِس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ انسانی فطرت لالچ، بے صبری اور ہوس سے بلند ہو جاتی مگر یورپی استعمار نے سائنسی علوم کی ترقی سے حاصل ہونے والی قوت کواُن اقوام کے خلاف استعمال کیا جو ابھی تیروں اور تلواروں سے آگے نہیں بڑھ سکی تھیں اور اس طرح سورج کی توانائی پر دسترس رکھتے ہوئے کوئلے کی دلالی میں اپنے ہاتھ سیاہ کرتے رہے: دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہو گا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا۹؎ یہاں ’’تمھاری تہذیب‘‘ سے مراد وہ یورپی استعمار ہے جو اُس وقت قائم تھا۔ اُس کے بارے میں یہ بات اقبال کے سوا اور لوگ بھی کہ۔َ رہے تھے کہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے چنانچہ آپس کی دو جنگوں کے نتیجے میں وہ تسلط ختم ہو گیا اورعام طور پر محکوم قوموں کو کسی خاص میدانِ جنگ میں اپنے یورپی آقاؤں کے ساتھ نبرد آزما نہیں ہونا پڑا۔ بعض لوگ غلطی سے سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اقبال یورپی ممالک کی مکمل تباہی اور اُن کے نظامِ معاشرت کے تہس نہس ہو جانے کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔ یہ بالکل فضول بات ہے۔ اقبال ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب تک ہم جزئیات میں الجھنے کی بجائے مجموعی صورت حال کی وسعت کا جائزہ لینے پر آمادہ نہ ہو جائیںاُس وقت تک ایسی باتیں ظہور میں آتی رہیں گی جو ہماری توقع کے خلاف ہوں گی: سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا۱۰؎ تاریخ کے خارجی مظاہر سے اُس کے باطنی مشاہدے کی طرف یہ سفر اقبال سے پہلے مولانا شبلی نعمانی کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ اُن کی علمی خدمات کے آغاز میںخلافت، بادشاہت اور قانون سازی کے مظاہر کی جستجو ہے مگر جس زمانے میں اقبال نے مارچ۱۹۰۷ء والی غزل لکھی اتفاق سے اُسی زمانے میں شبلی بھی سوانح مولانا روم اور شعرالعجم مرتب کر رہے تھے۔ شائد یہ اسلامی تاریخ کی خصوصیت ہے کہ اِس کا صحیح مذاق پیدا ہونے پرخارجی عوامل سے باطنی اساس کی طرف سفر ناگزیر ہو جاتا ہے: چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا۱۱؎ اقبال نے اِس جستجو کو ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ میں بھی ظاہر کیا ہے۔ ’شکوہ‘ میں وہ اگلے زمانے کے مسلمانوں کے توپ سے لڑ جانے، تلواروں کے سائے میں کلمہ پڑھنے اور بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کا ذکر کرتے ہیں مگر ’جوابِ شکوہ‘ میں جواب دیتے ہوئے خدا اُن کی توجہ کسی اور طرف مبذول کرواتا ہے: عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری۱۲؎ مادی ہتھیاروں پر انسان کی نفسیاتی قوتوں کی برتری کلامِ اقبال کا مستقل موضوع ہے اور ’طلوعِ اسلام‘ میںبھی اِس اصول کی وضاحت ہوئی ہے کہ یقیں محکم، عمل جہادِ زندگانی میں مردوں کی شمشیریں ہیںگویا دوسری والی اب اُن لوگوں کے لیے رہ گئی ہیں جن میں نفسیاتی طاقت حاصل کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اب محبت فاتحِ عالم ہے۔ اب سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قیصر و کسریٰ کے استبداد کو صرف شہسواروں کی معرکہ آرائی نے نہیں مٹایا تھا بلکہ اُس معرکہ آرائی کے پیچھے زورِ حیدر، فقرِ بوذر اور صدقِ سلمانی جیسی داخلی قوتیں بھی تھیں۔ یہی اصل تلواریں ہیں جو ہاتھ آ جائیں تو دنیا ہتھیاروں سے بے نیاز ہو سکتی ہے: گیا ہے تقلید کا زمانہ، مجاز رختِ سفر اٹھائے ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا!۱۳؎ اقبال اس غلط فہمی میں مبتلا دکھائی نہیں دیتے کہ ہتھیاروں کا زمانہ بالکل ہی ختم ہو گیا ہے کیونکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے یورپ دوش تا کمر زرہ میں ڈوب گیا ہے اور جہاد ترک کی تعلیم دراصل یورپ کو ملنی چاہیے جس کے پنجۂ خونیں سے دنیا کو خطرہ درپیش ہے۔ تاریخی طور پر بھی اسلامی تاریخ میں نہ صرف سماجی اصلاح کی اکثر تحریکوں کے پیچھے تصوف کا اثر رہا ہے بلکہ انیسویں صدی کے یورپی استعمار کا مقابلہ میدانِ جنگ میں کرنے والوں میں بھی صوفیوں کے نام شامل ہیں۔ عسکری قوت حاصل کرنے کی ضرورت اُس وقت تک ضرور درپیش ہے جب تک نسلِ انسانی اجتماعی طور پر وہ ماحول تخلیق کرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتی جو نئے دَور کا تقاضا ہے مگر نئے دَور کا اپنا تقاضا بہرحال یہی ہے کہ رُوح اور مادّے کی وحدت تسلیم کی جائے۔ اکثر مذاہب نے روح اور مادے کو وحدت ہی قرار دیا تھاالبتہ کسی بھی قسم کا استحصال چونکہ عموماً اس اصول کی نفی سے شروع ہوتا ہے چنانچہ بالادست قوتوں نے اکثر دین اور دنیا کو اصولی طور پر الگ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مذہب کی اجارہ داری بھی اسی میں شامل ہے کیونکہ کسی بھی قسم کی اجارہ داری بہرحال غیریت کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔ مذہب کی اجارہ داری گویا مذہب کا ایسا تصور ہے جو مذہب کی اصل رُوح یعنی انسانی شخصیت کی تعمیر کے اصول سے خالی ہو۔ یہ بھی اسی مفروضے پر قائم ہوتا ہے کہ مذہبی حقیقتوں کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت مجازی ہے ۔ یہ دین اور دنیا کو یکجا کرنے کی صورت نہیں ہے بلکہ درحقیقت ان دونوں کی علیحدگی ہی کی ایک اور شکل ہے۔ تصوف کے سینے میں جو راز پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر دنیا میں ہر چیز جوڑوں کی صورت میں پیدا ہوئی ہے تواِن جوڑوں کے متضاد ارکان کے درمیان وحدت بھی ہے۔ مرد اور عورت کی وحدت یہ ہے کہ دونوں انسان ہیں اور یہ بات بھلا دینے سے ناانصافی جنم لیتی ہے۔ اِسی طرح سیاست اور مذہب کی وحدت یہ ہے کہ دونوں انسانی شخصیت کی نشو و نما سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بات بھلا دینے سے سیاسی استحصال اور استعمار جنم لیتا ہے: جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا۱۴؎ دین اور سیاست کی علیحدگی کے نئے طریقے سے علاقائی وطنیت کے تصور نے جنم لیا جس کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ اس نے انسانیت کی وحدت کو رنگ، نسل اور وطن میں تقسیم کر دیا ہے ۔مغرب کا اپنا ضمیر اُسے ملامت کر رہا ہے اور یورپ متحد ہونے کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ یہ وحدت کلیسا نے پہلے بھی عطا کی تھی اور سائنسی ترقی کے بعدموقع تھا کہ یورپ کی وحدت کی نئی تشکیل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیش کیے ہوئے انسانی اخوت کے تصور کو ایک حقیقت بنا دیا جاتا۔ اسلامی مشرق میں اس قسم کے خواب کی تکمیل اقبال کو اِس لیے آسان بلکہ ناگزیر نظر آئی کیونکہ یہ معاشرہ ابھی اپنی روایتی ساخت سے قریب تھا۔ اِس ساخت کو سمجھنے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ مذہب کی نمائندگی کرنے والی اکثر تحریکیں چونکہ مغربی فکری یلغار کے ردِ عمل میں شروع ہوئیں لہٰذا وہ خود بھی اُس فکر سے برآمد ہونے والے اسلامی تاریخ کے تصور کو قبول کرتی ہیں۔ مثال کے طور پرانگریزی عدالتوں میں مسلمانوں کے نجی معاملات کا فیصلہ اسلامی قانون کے تحت کیا جاتا تھا مگر چونکہ اسلامی قانون سے مراد وہ فقہ تھی جو انگریزوں کے غلبے کے وقت پہلے سے رائج تھی لہٰذاانگریزی عدالتوں میں اُس فقہ کے کسی پہلو کے خلاف قرآن سے دلیل پیش نہیں کی جا سکتی تھی۔ فقہ کی قرآن پر یہ بالادستی انگریزوں کی مذہبی رواداری کے سبب ایک مسلمہ اصول بنی مگر ظاہر ہے کہ اسلامی تاریخ کے کسی بھی دور میں اسے بحیثیت اصول قبول کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا خواہ عملاً کبھی اِس سے بھی بری صورت حال رہی ہو۔ اس قسم کے مذہبی جمود میں پیدا ہونے والی تحریکیں اُس وقت تک اپنی تاریخ سے رشتہ استوار نہیں کر سکتیں جب تک وہ جمود اور زندگی کے بنیادی فرق کا براہِ راست تجربہ نہ کریں۔ چنانچہ مغربی تہذیب کی وہی خرابی جس پر مذہب تنقید کرتا ہے وہ کسی اور صورت میں بعض مذہبی تحریکوں میں منتقل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ خرابی انسان کومحدود سمجھتے ہوئے اُس کے ضمیر میں موجود خدا ئی صفات سے اغماض کرنا ہے۔ اِنسان کا اسلامی تصور قبول کیا جائے تو پھر ہر انسان معاشرے کا ایک زندہ عنصر ہے جواپنی ذات میں پورا معاشرہ ہے بالکل اُسی طرح جیسے معاشرہ اپنی خودی میں ایک فردِ واحد کی طرح ہے۔ اقبال کے نزدیک اسلام کا اخلاقی نصب العین یہی ہے: ...an ethical ideal which regards man not as an earth-rooted creature, defined by this or that portion of the earth, but as a spiritual being understood in terms of a social mechanism, and possessing rights and duties as a living factor in that mechanism. کہا جو قمری سے میں نے اِک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں توغنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۱۵؎ روحانی جمہوریت اس قسم کے اصولوں پر مبنی معاشرے کا فطری تقاضا ہے۔ اگر ہر شخص محترم ہے تو اُسے معاشرے کی تشکیل میں اور قانون سازی میں دخل دینے کا حق بھی ملنا چاہیے۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اجتہاد کی اہلیت بعض خصوصیات کے بعد پیدا ہوتی ہے تو وہ خصوصیات عام کرنا اس معاشرے کی ذمہ داری ہے اور تصوف سے یہ امید کی جا سکتی ہے۔ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ جن کتابوں سے ہم تصوف کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں وہ اِس لحاظ سے ناکافی ہیں کہ صوفی سلسلوں میں وہ کسی نہ کسی قسم کی سرگرمیوں کا حصہ ہوتی تھیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اُن کی پہلی کتاب اسرارورموز جس کا حصہ اول اسرارِ خودی کے نام سے ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا وہ مولانا روم کی غزل کے اقتباس سے شروع ہوئی اور اُس میں اُنہوں نے کہا: باز بر خوانم ز فیض پیر روم دفتر سر بستہ اسرار علوم۱۶؎ ’’رومی کے فیض سے میں اسرارِ علوم کا سربستہ دفتر دوبارہ کھولنے جا رہا ہوں۔‘‘ اپنی کتاب کا مقصد انہوں نے یوں بیان کیا: خاک من روشن تر از جام جم است محرم از نا زاد ہای عالم است فکرم آن آہو سر فتراک بست کو ہنوز از نیستی بیرون نہ ۔جست سبزہ ناروئیدہ زیب گلشنم گل بشاخ اندر نہان در دامنم۱۷؎ میری خاک جامِ جمشید سے زیادہ روشن ہے کیونکہ جو باتیں ابھی دنیا میں واقع نہیں ہوئیں یہ اُن سے بھی واقف ہے۔ جو ہرن ابھی عدم سے وجود میں نہیں آیا وہ میرے شکاری تھیلے میں موجود ہے، جو سبزہ ابھی پیدا نہیں ہوا وہ میرے گلشن کی زینت بنا ہوا ہے اور میرے دامن میں وہ پھول ہے جو ابھی شاخ سے پھوٹا نہیں ہے۔ مستقبل اور غیب کے احساس کی یہ روشنی حقیقت کے مکمل ادراک کے لیے بھی ضروری ہے اور اُس مجوزہ معاشرے کی تمام سطحوں کو سمجھنے کے لیے بھی ہم اسے نظرانداز نہیں کر سکتے۔ حقیقت صرف ماضی اور حال میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ مستقبل سے بھی جُڑی ہوئی ہے۔ مستقبل سے ہمارا روحانی رشتہ صرف اسباب و علل کا تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ تعلق تو جبر ہے۔ مستقبل سے ہمارا رشتہ یہ بھی ہے کہ ہم وقت کا حصہ ہیں اور وقت اپنے وجود کا اظہار ہماری روح کے بغیر کر ہی نہیں سکتا: یہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھی رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شررفشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہو گا نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا۱۸؎ خ…خ…خ…خ [٭یہ مقالہ جناب محمد سہیل عمر ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان کی صدارت میںحلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس مورخہ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۶ء لاہور میں ’’اقبال اور تہذیبی مکالمہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو میں محرکِ بحث کے طور پر پڑھا گیا۔] حوالے ۱- اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۴ئ، ص۱۵۰۔ ۲- ایضاً، ص۱۵۰۔ ۳- ایضاً، ص۱۵۰۔ ۴- ایضاً، ص۲۶۸۔ ۵- ایضاً، ص۱۵۱۔ ۶- ایضاً، ص۲۸۵۔ ۷- ایضاً، ص۱۶۸۔ ۸- ایضاً، ص۷۵۔ ۹- ایضاً، ص۱۵۱۔ ۱۰- ایضاً، ص۱۵۱۔ ۱۱- ایضاً، ص۱۵۱۔ ۱۲- ایضاً، ص۲۲۱۔ ۱۳- ایضاً، ص۱۴۸۔ ۱۴- ایضاً، ص۱۵۲۔ ۱۵- ایضاً، ص۱۵۲۔ ۱۶- اقبال، ’’اسرار و رموز‘‘، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص۳۸۔ ۱۷- ایضاً، ص۲۵-۲۶۔ ۱۸- اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۴ئ، ص۱۵۲۔ خ…خ…خ…خ  کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی احمد جاوید ۱۔ کلامِ اقبال (اردو) فرہنگ و حواشی کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ۲۔ حواشی میں مندرجہ ذیل امور کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ الف:۔ اعلام اور تلمیحات: یعنی اقبال نے جن شخصیات، واقعات اور مقامات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا ضروری تعارف۔ ب:۔ مشکلات.۔.... یعنی ایسے مقامات جہاں خیال دقیق ہو یا الفاظ مشکل ہوں یا کوئی بنیادی تصور بیان ہوا ہو۔ ان مقامات کی تشریح، توضیح اور تفصیل۔ اس میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ عام قاری کی مشکل کو سادہ اسلوب میں حل کیا جائے اور وہ مقامات جہاں اہلِ علم الجھ سکتے ہیں یا غور و فکر پر مجبور ہوسکتے ہیں، ان پر علمی انداز سے قلم اٹھایا جائے تاکہ اس خیال اور تصور کی عظمت جسے عام سطح تک نہیں لایا جاسکتا، مجروح نہ ہو۔ ج:۔ تکنیکی اور فنی محاسن: یعنی شعر میں پائی جانے والی لفظی رعایتوں، معنوی مناسبتوں اور فنی باریکیوں کا تجزیہ۔ ۳۔ فرہنگ میں کلیدی الفاظ اور اصطلاحات کو کھولا گیا ہے اور اس میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا ہے جو حواشی کی شق ’’ب‘‘ میں بیان ہوا۔ ہر لفظ اور اصطلاح کے تمام معانی ایک ہی اندراج میں نہیں دیے گئے۔ ہر اندراج میں وہی معنی لکھے گئے ہیں جو اس خاص مقام پر اقبال کے پیشِ نظر تھے۔ حتمی تدوین کے بعد کسی لفظ کے تمام معنوی پہلو یکجا حالت میں سامنے آجائیں گے۔ m صفحات ذیل میں فرہنگ و حواشی کے چند نمونے قارئین کی نذر کیے جارہے ہیں۔ ص کلیات۔ ۷۲-عقل و دل: ابتدائی متن ۴۰؍اشعار اور دو بند پر مشتمل ایک قطعے کی صورت میں ’’خطِ منظوم‘‘ (پیغامِ بیعت کے جواب میں) کے عنوان سے مئی ۱۹۰۲ء کے مخزن میں شائع ہوا تھا۔ نظر ثانی میں پہلا بند بالکل حذف کردیا گیا اور دوسرے کے بھی صرف ۱۳ اشعار باقی رکھے گئے۔ نوادرِ اقبال میں ابتدائی متن کے ۴۱ اشعار دیے گئے ہیں۔ تفتہ دل: دل جلا، عاشق یعنی پروانہ۔ ’تفتہ دل‘ وصل اور ہجر دونوں کیفیات کو کبھی بیک وقت اور کبھی الگ الگ ظاہر کرتا ہے۔ ۱- محبوب کا وصال کبھی کامل نہیں ہوتا۔ وصل کا ہر مرحلہ عاشق کو اگلے مراحل کی طرف متوجہ کردیتا ہے جو ہنوز اس کی رسائی سے باہر ہیں۔ اور یہ سلسلہ لاانتہا ہے۔ جزوی وصل اور کلی فراق کی یہ مستقل کیفیت رکھنے والا عاشق ’تفتہ دل‘ کہلاتا ہے ۲- تصوف میں ’تفتہ دل‘ طریق عشقی پر چلنے والا وہ سالک ہے جو صفات کے اجمالی وصل اور ذات کے کلی فراق میں فنا ہوچکا ہو۔ ۳- تصوف ہی میں اس اصطلاح کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نسبتِ عشقی رکھنے والے سالک پر جب محبوب حقیقی کی تجلی جلال پڑتی ہے تو اس حالت میں اُسے ’تفتہ دل‘ کہا جاتا ہے۔ ۴- وہ عاشق جو محبوب کے وصل سے بھی فنا ہوجاتا ہے اور ہجر سے بھی۔ ص کلیات۔ ۱۳۱ گوش بہ دل: دل کی طرف کان لگائے، دل کی طرف متوجہ۔ ص کلیات۔ ۱۴۰ دلِ آگاہ: ۱- وہ دل جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ ۲- خدا، انسان اور کائنات کی حقیقت جاننے والا، مردِ عارف۔ ص کلیات۔ ۱۵۵ سومناتِ دل: ۱- خدا سے خالی اور ماسوی اللہ سے بھرا ہوا دل۔ ۲- دل ایک خاص قسم کی صوفیانہ شعری اصطلاح میں عقل، خیال اور احساس کا منبع ہے اور انسان کا مجموعی تشخص اسی کی بنیاد پر بنتا ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ خدا کا گھر ہے جو زوال کی زد میں آکر بت خانہ بن جاتا ہے۔ یعنی معنی سے کٹ کر محض صورت میں محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ صورت کا اصول کثرت ہے مگر چونکہ وحدت سے بے نیاز ہوکر کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوسکتی لہٰذا کثرت بھی اپنے اندر ایک غیر حقیقی یا اُفقی وحدت کا پہلو رکھتی ہے تاکہ اسے اپنے وجود کی وہ اساس میسر آجائے جس کے بغیر انسان کا ’فطری شعور‘ نہ تو اُس کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے اور نہ اُس کا ثبات کرسکتا ہے۔ اُس غیر حقیقی وحدت کے اظہار کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً فرد پرستی، قومیت، وطنیت، دنیا پرستی وغیرہ۔ ’پیام عشق‘ میں ان تمام صورتوں کو رد کیا گیا ہے۔ ۳- اس نظم کے پہلے مخاطب ہندی مسلمان ہیں اور ہندوستان کے تناظر میں دل جسے کعبہ ہونا چاہیے کو سومنات کہنا بہت معنی خیز ہے۔ جس دور میں یہ نظم لکھی گئی تھی، اُس وقت برصغیر میں متحدہ قومیت اور ہندو مسلم بھائی بھائی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ ہندو مت تو نمک کی کان ہے، ان رحجانات سے اُس کا کچھ نہ بگڑتا بلکہ اُلٹا فائدہ پہنچتا۔ اگر متاثر ہوتا تو ظاہر ہے کہ اسلام ہی ہوتا کیونکہ اس دین کی تو بنیاد ہی حق کی وحدتِ مطلق پر ہے یعنی حق اپنی حقیقت اور اجمال میں بھی ایک ہے اور ظہور و تفصیل میں بھی۔ دین آخر واکمل حیثیت سے اس کا پہلا دعوی ہی یہ ہے کہ مجھ سے باہر جو کچھ ہے وہ حق نہیں ہے۔ جب کہ ہندومت ’دین‘ نہیں بلکہ ایک مابعدالطبیعی روایت ہے جو حق کے اُن ظاہری تعینات کو قبول نہیں کرتی جن کی بنیاد پر حق اور ناحق یا ایمان اور کفر کی وہ ’شرعی‘ تقسیم عمل میں آئے جو اپنے اطلاق میں مستقل اور عالمگیر ہو۔ اسی لیے ہندو ذہن حق کے اُس مرتکز کائناتی ظہور کو سمجھ ہی نہیں سکتا جو اسلام کا جوہر بلکہ خود اسلام ہے۔ مسلمان کے لیے اُس کا دین حق کی واحد صورت ہے، مابعدالطبیعی معنی میں بھی اور قانونی و شرعی معنی میں بھی۔ اور چونکہ دین کے لیے لازمی ہے کہ اُس میں شریعت مابعدالطبیعیات پر غالب ہو۔ لہٰذا مسلمان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی بھی ضرورت یا تاویل سے اسلام کی مطلق اور لاشریک حقانیت کو کسی بھی سطح پر غیر اسلام یعنی باطل سے مخلوط کرے۔ مثلاً ’ہندو مسلم بھائی بھائی‘ کا تصور گو کہ ہندئووں کی ایک چال تھی مگر فرض کرلیتے ہیں کہ یہ اُس زمانے کا ایک سیاسی تقاضا تھا جسے نظر انداز کرکے ہندوستان کی آزادی محال ہوجاتی تو بھی مسلمان اس مؤاخات کو قبول نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ اس طرح اُس کے دین کی بنیاد ڈھے جاتی… اس پس منظر میں ’سومناتِ دل‘ کا مطلب ہوگا وہ دل جس میں ہندوستان کی محبت حجاز کی محبت پر غالب آگئی ہو۔ ص کلیات۔ ۲۲۸ دلِ دیوانہ: ۱- وہ دل جس میں محبت، ادب پر غالب آجائے۔ ۲- وہ دل جس کی گستاخی بھی محبوب کو بھلی لگے۔ ۳- وہ دل جو اظہارِ محبت میں کسی ضابطے کا پابند نہ ہو۔ جس کے لیے تکلفات بے معنی ہوں۔ ص کلیات۔ ۲۳۳ قلبِ سلیم: ۱- قرآن شریف میں سیدنا ابراہیمں کی ایک دُعا منقول ہے جس میں قلب سلیم کا ذکر آتا ہے: {وَلاَ تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ o یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ o اِِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo} (جس دن سب زندہ ہوکر اُٹھیں گے اُس دن مجھے رسوا نہ کرنا۔ اُس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے۔ ہاں مگر وہ جو اللہ کے پاس بے روگ اور کفروشرک سے پاک دل لے کر آئے گا۔) ۲- سادہ، پاک اور روشن دل۔ ۳- اسلام کی محبت سے معمور دل۔ ۴- وہ دل جس میں کوئی کجی نہ ہو۔ ۵- وہ دل جس میں کوئی غلط خیال یا خواہش داخل نہ ہوسکے۔ ۶- وہ دل جس کو اللہ نے اپنی محبت، خوف اور معرفت عطا فرمائی ہو۔ ۷- روحانی طور پر صحت مند دل جو صرف مومن کا ہوسکتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ کافر کا دل بیمار ہوتا ہے: فی قلوبہم مرضٌ۔ ۸- حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے بقول وہ دل جو کلمۂ توحید کی گواہی دے اور شرک سے پاک ہو۔ ص کلیات۔ ۲۴۱ اے دلِ کون و مکاں کے رازِ مضمر فاش ہو ۱- یعنی اے مسلمان تو کائنات کے سینے میں چھپا ہوا راز ہے، اب خود کو ظاہر کردے ۲- کائنات کے دو راز ہیں: ایک اس کی حقیقت اور دوسرا اس کی غایت۔ ص کلیات۔ ۲۴۵ دل سوختۂ گرمی فریاد: جس کا دل فریاد کی گرمی سے جل چکا ہو، نامُراد، شمشاد کو پھل نہیں لگتا۔ لہٰذا اس کو دل سوختہ کہنا ایک اضافی معنوی حسن رکھتا ہے۔ [دل سوختہ= دل جلا، جس کا دل جل گیا ہو، گرمی، فریاد] ص کلیات۔ ۲۴۷ گفتارِ دل آزار: دل دُکھانے والی بات۔ ص کلیات۔ ۲۵۵ دلِ آگاہ: ۱- جاننے والا دل، معرفت رکھنے والا قلب۔ ۲- دل جو چیزوں سے عقل کی بنیاد پر متعلق ہو، جذبے کی بنیاد پر نہیں۔ ص کلیات۔ ۲۵۵ ع دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں، گریاں نہیں ۱- یعنی وہ دل جس نے جان لیا کہ انسان مجبورِ محض ہے، اسے کسی بات، کسی واقعے پر نہ حیرانی ہوتی ہے نہ خوشی نہ غم… کیونکہ حیران، خوش اور غمگین ہونے کے لیے بھی کسی درجے میں بااختیار ہونا ضروری ہے۔ ۲- دل جب عقل کے تابع ہوجائے تو احساس فنا ہوجاتا ہے اور جذبہ معدوم۔ ص کلیات۔ ۲۶۴ دل آسائی: دلاسائی، تسلی، دل کو بہلانا۔ ص کلیات۔ ۲۶۸ دلیل مردہ دلی: ۱- دل کے مُردہ ہونے کا ثبوت۔ ۲- روحانی نشاط، عشق اور غیرت سے محروم ہونے کی دلیل۔ ص کلیات۔ ۲۷۴ بیدار دل: ۱- جاگتا دل رکھنے والا۔ ۲- جس کا دل اللہ کی یاد سے زندہ ہو۔ ۳- جو غافل نہ رہتا ہو۔ ۴- روحانی طور پر بیدار، صاحب بصیرت۔ ص کلیات۔ ۲۷۴ دلِ آگاہ: ۱- حقیقت کی خبر رکھنے والا دل۔ ۲- صورت سے گزر کر معنی تک پہنچ جانے والا دل۔ ۳- تقدیری بصیرت رکھنے والا قلب۔ ۴- وہ دل جس کے بارے میں کہا گیا ہے ’’العقل فی القلب‘‘ یعنی عقل دراصل قلب میں ہے۔ ص کلیات۔ ۳۰۶ پھر اُٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی زمیں جولاں گہِ اطلس قبایانِ تتاری ہے اس شعر میں چند لفظی محاسن کی نشاندہی ضروری ہے: ۱- ’ایشیا کے دل‘ سے مراد وسطِ ایشیا ہے جو ترکوں اور تاتاریوں کا اصلی وطن ہے۔ یہ علاقہ محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی ایشیا کا دل ہے اور اہمیت کے لحاظ سے بھی۔ ۲- دل، بدن کو خون فراہم کرتا ہے اور وسطِ ایشیا، براعظم ایشیا کو۔ خون کے جتنے بھی مثبت معنی ہوسکتے ہیں، وہ سب کے سب ترکوں میں مجسم ہوگئے ہیں۔ زندگی، حرارت، حرکت، جوش، بہادری… حتیٰ کہ رنگت بھی۔ ۳- ’اطلس قبایانِ تتاری‘ کو ’محبت کی چنگاری‘ کہنا، تشبیہ کا کمال ہے اور یہی اس شعر کی جان ہے۔ ترکوں کی دین کے ساتھ جذباتی وابستگی، شجاعت، سرفروشی، گرم جوشی، حریت پسندی، غیرت وغیرہ کا بیان شاید اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔ ۴- ’محبت کی چنگاری‘ میں ترکوں کا جلال وجمال یکجان ہوگیا ہے۔ اور محبت کے پھیلائو کے لیے معرکہ آرائی کی تصویر کھنچ گئی ہے۔ ۵- ’اطلس قبا‘ اور ’چنگاری‘ میں سرخی اور چمک مشترک ہونے کی وجہ سے ظاہری مشابہت بھی ہے۔ ۶- ’چنگاری‘ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اپنے مقصود کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد سردستِ ابتدائی مراحل میں ہے۔ ص کلیات۔ ۳۱۳ تسلی دلِ ناصبور: ۱- بے کل دل کی تسکین۔ جسے کسی پہلو قرار نہ ہو، اُس دل کی تسکین۔ ۲- ’دلِ ناصبور‘ وہ دل ہے جو محبوب کو پاکر بھی بے چین رہے۔ ۳- عاشقِ ذات کی بے تابی کا علاج جس کے لیے وصل فراق کا ایک نیا تجربہ ہے اور کچھ نہیں۔ ۴- اُس عاشق کی بے چینی کا ازالہ جومحبوب میں فنا ہونے پر راضی نہ ہو اور بلکہ اُسے اپنے اندر جذب کرلینا چاہتا ہو۔ ص کلیات۔ ۳۴۵ چیر گئی دلِ وجود: وجود کی تہ میں جو کچھ ہے، اُس تک پہنچ گئی… یعنی ہستی کی انتہائی حقیقت تک رسائی حاصل کرلی۔ ص کلیات۔ ۳۴۷ قلب و نظر: ۱- دل اور نگاہ۔ ۲- دل جو محبوب کی معرفت کے لیے ہے اور چشمِ دل جو محبوب کے دیدار کے لیے ہے۔ ۳- ’نظر‘ اگر ’فکر‘ کے ساتھ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوں گے استدلال، غور، خیال اور اگر ’قلب‘ کے ساتھ ہو تو اس سے مراد یا تو صرف ’آنکھ‘ ہوگی یا ’چشمِ دل‘۔ اہل منطق نے ’فکر‘ کو جنس اور ’نظر‘ کو اس کا فصل قرار دیا ہے۔ یہی اصول ’قلب ونظر‘ پر بھی وارد ہوتا ہے۔ ’نظر‘ کو ’قلب‘ کا فعل ذاتی سمجھنا چاہیے۔ ۴- ’قلب و نظر شکار کر‘ یعنی حب عشقی عطا فرما۔ ص کلیات۔ ۳۵۰ نامحکمی دل کی: ۱- دل کی کمزوری، دل کا ایک جگہ پر نہ ہونا۔ ۲- دل کی نامحکمی کے اسباب: الف) معرفت، محبت اور خشیت کا فقدان ب) عشقِ رسول ا سے محرومی ج) بے یقینی د) ذہن کا غلبہ ر) حب دنیا ص کلیات۔ ۳۵۴ دلِ غمیں: غمگین دل، وہ دل جس کو محبوب کی جدائی کا روگ لگا ہو۔ ص کلیات۔ ۳۵۵ خوے دل نوازی: شفقت و مہربانی کی عادت، دل موہ لینے والی خوش خلقی۔ ص کلیات۔ ۳۵۷ دلِ بے قید: ۱- دلِ آزاد۔ ۲- دُنیاوی خواہشات سے آزاد دل۔ ۳- وہ دل جس کے لیے دنیا کا عیش و غم یکساں ہوگیا ہو۔ ۴- وہ دل جو غیر اللہ سے خائف ہو نہ اس کی طرف مائل۔ ص کلیات۔ ۳۶۸ دل نوازی: ۱- شفقت، مہربانی، حسنِ سلوک۔ ۲- دوسروں کے دل کی ٹھنڈک بن جانا۔ ص کلیات۔ ۳۶۹ دل یاشکم!: یعنی: ۱- اللہ کی محبت یا دُنیا کی ہوس۔ ۲- روحانیت یا مادیت۔ ۳- اسلام یا اشتراکیت۔ ۴- روح کی زندگی یا موت۔ ۵- نورِ الٰہی یا مرغ و ماہی۔ ۶- آزادی یا غلامی۔ ص کلیات۔ ۳۷۱ غزل۱۴ دلِ بیدار: ۱- جاگا ہوا دل۔ ۲- غفلت سے پاک دل۔ ۳- حقیقت کی معرفت رکھنے والا قلب۔ ۴- عقل اور ارادے کو راہِ راست پر رکھنے والا دل۔ ۵- اللہ اور اللہ کے رسول ا کے ساتھ کامل تعلق رکھنے اور اس تعلق کی نگہبانی کرنے والا دل۔ ۶- عشق کے احوال و معارف میں ڈوبا ہوا دل۔ ص کلیات۔ ۳۷۱ دل و نظر کا حجاب: ۱- دل اور آنکھ پر پڑنے والا پردہ۔ ۲- وہ رکاوٹ جو دل کو عشقِ حقیقی سے روکتی ہے اور آنکھ کو جمالِ حق کے مشاہدے سے۔ نیز دیکھیے: ’دل ونظر‘ ص کلیات۔ ۳۷۲ دل نواز: دل لبھانے والی۔ ص کلیات۔ ۳۷۸ حدیث دل: ۱- دل کی بات، دل کے معاملات۔ ۲- عشق کے رموز، محبت کی تعلیم۔ ۳- محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول ا کا بیان۔ ص کلیات۔ ۳۹۶ دل کی کشاد: ۱- دل کی کشادگی اور اطمینان جو دین کی روح میں اُتر کر میسر آتا ہے۔ ۲- روحانی و باطنی مشکلات کا حل۔ ۳- قلب کی صفائی، نفس کا تزکیہ۔ ص کلیات۔ ۳۹۹ لالۂ دل سوز: ۱- گلِ لالہ کے پیالے میں اندر کی طرف ایک سیاہ دھبا ہوتا ہے، جس کی مناسبت سے اُسے یہاں ’دل سوز‘ کہا گیا ہے۔ یعنی دل جلا لالہ، گلِ لالہ جس کے دل میں آگ لگی ہے۔ ۲- محبوب سے جدائی کی آگ میں جلنے والا عاشق جو اپنے اس حال پر راضی ہے۔ ۳- مسلمان جس کا دل اللہ اور اللہ کے رسول ا کے عشق سے ایسا بھرا ہوا ہے کہ اُسے دنیا کی محبت اور اس کی چمک دمک راس آہی نہیں سکتی۔ ۴- اُمتِ محمدیہ جس کے اصولِ تمدن و معاشرت میں فطرت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ صحرا اور پہاڑ فطرت کا ظاہر ہیں اور قلبِ انسانی اس کا باطن۔ گویا اسلامی زندگی تین چیزوں کا مجموعہ ہے: سادگی، جفا کشی اور محبت۔ ص کلیات۔ ۴۰۲ دل و نظر: دل، محبوب کی ذات کا مشاہدہ کرتا ہے اور نظر، جمال کا۔ دل اپنے مقصود کو بھولتا نہیں ہے اور نظر اسے اوجھل نہیں ہونے دیتی۔ دل کا رُخ انفس کی طرف ہے اور نظر کا آفاق کی جانب۔ ص کلیات۔ ۴۳۸ قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں ’ذوق و شوق‘ کا یہ پہلا شعر گویا وہ بیج ہے جس سے یہ عظیم نظم درخت کی طرح پھوٹی ہے۔ اس کے لفظ لفظ کو کھولنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اُس گہرائی اور پھیلائوں کا کچھ اندازہ ہوجائے جو اس شعر میں پایا جاتا ہے اور جس نے پوری نظم کو اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے: ۱-قلب ونظر: دونوںکا کام مشاہدہ ہے۔ قلب، حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے اور نظر، صورت کا۔ چونکہ دونوں کے مشاہدے کا ہدف ایک ہی ہے۔ یعنی جمالِ حق، لہٰذا قلب، نظر کو حقیقت سے مانوس رکھتا ہے اور نظر، صورت کو قلب سے اوجھل نہیں رہنے دیتی۔ اس طرح دونوں اپنے اپنے مشاہدات کو آپس میں جوڑ کر وہ کلیت تشکیل دیتے ہیں جس کے بروے کار نہ آنے سے مشہود ادھورا رہ جاتا ہے۔ یہ کلیت قلب میں صرف ہو کر معرفت اور عشق کا حال پیدا کرتی ہے۔ ۲- قلب ونظر کی زندگی: یعنی حقیقت جمال اور صورتِ جمال کا مشاہدہ قلب ونظر کی روح ہے۔ ’زندگی‘ کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ دل اور آنکھ کا موضوع جمال ہے۔ ۳- دشت: اس کی دو جہتیں ہیں، واقعی اور علامتی۔ اپنی واقعی جہت میں یہ دشت مدینہ یا اور پھیلا کر دیکھیں تو دشت حجاز ہے، یعنی رسولِ اکرم ا کا مولد و مسکن۔ اس کے علامتی معنی بھی اسی واقعی جہت سے نمودار ہوتے ہیں۔ یہاں یہ زمین کا بے پردہ اور خالص روپ ہے جس پر کوئی اضافی اور آرائشی تہ نہیں چڑھی۔ یہ انسان کے باطن کی اُس حالت کا آئینہ دار ہے جب وہ اپنی اصلی وفطری سادگی اور پاکیزگی کے ساتھ حق کے آگے ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ ۴- صبح: آسمان کے حوالے سے ’صبح‘ کے وہی معنی ہیں۔ ص کلیات۔ ۱۳۸ حقیقت حسن: ۱- یہ نظم مارچ ۱۹۰۶ء کے مخزن میں ’حسن اور زوال‘ کے عنوان سے، اقبال کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی تھی: ’اصل خیال جرمن نثر میں دیکھا گیا۔ میں نے ناظرینِ مخزن کے لیے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اُردو میں منتقل کردیا۔‘ ۲- ریاض الحسن صاحب کی تحقیق کے مطابق اس نظم کا ماخذ گوئٹے کی ایک نظم ’VIERJAHRESZEITEN‘ہے (اقبال ریویو۔ جنوری ۱۹۷۴ئ)۔ ص کلیات۔ ۱۵۳ جلوۂ حسن: ابتدائی متن کے دو شعر منسوخ۔ ص کلیات۔ ۳۵۳ حسنِ معنی: ۱- معنی کا حسن جو لفظ کا محتاج نہ ہو، وہ جمال جس کی تخلیق اور اظہار میں انسان کو کوئی ہاتھ نہ ہو، کمالِ معنی جو لفظ میں نہیں سما سکتا۔ ۲- وہ حسن جسے شاعری وغیرہ کے ذریعے سے دریافت کیا جاتا ہے نہ کہ ایجاد۔ ص کلیات۔ ۳۶۱ غلامی کیا ہے؟ ذوقی حسن و زیبائی سے محرومی ۱- تصورِ حسن اور ذوقِ جمال کی تشکیل مندرجۂ ذیل عناصر سے ہوتی ہے: ۱) روحانی نشاط۔ ۲) طبیعت کی جولانی، تخلیقی اُمنگ۔ ۳) تہذیبی اقدار۔ ۴) معنی کو صورت پر غالب دیکھنے اور رکھنے کی قوت۔ یہ چاروں عناصر انسان کی مکمل آزادی سے مشروط ہیں ۲- غلامی پورے وجود پر چھا جانے والی افسردگی ہے جو ذوقِ حسن و زیبائی کو بھی نگل جاتی ہے۔ ۳- خارجی دنیا انسان کے داخلی کمال سے ہم آہنگ ہوجائے تو ذوقِ حسن اور شعورِ زیبائی پیدا ہوتا ہے۔ غلامی خارجی دنیا سے آزادانہ نسبت استوار کرنے کا ہر راستہ بند کردیتی ہے اور آدمی کے باطنی امکانات اور داخلی کمالات کو دھندلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس طرح وہ ہم آہنگی ہر سطح پر ناممکن ہوجاتی ہے جو جمال کے ادراک اور احساس کی بنیاد ہے۔ ص کلیات۔ ۴۳۸ حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں پچھلے شعر سے ربط ۱:۱- پہلے شعر میں ’دشت میں صبح کا سماں‘ کو ’قلب و نظر کی زندگی‘ کہ۔َ۔ کر اشارتاً یہ جتا دیا گیا تھا کہ یہ منظر جس حسن کو منعکس کررہا ہے۔ وہ الوہی (Divine) ہے۔ غیر الوہی جمال کم از کم ’قلب کی زندگی‘ نہیں بن سکتا۔ اس شعر میں وہ اشارہ بیان بن گیا ہے۔ ۲:۱- مطلعے میں ’حسن ازل کی نمود‘ کے لیے جو بیرونی ماحول درکار تھا، وہ بیان کیا گیا تھا۔ اس شعر میں اس نمود سے پیدا ہونے والی اندرونی فضا دکھائی گئی ہے۔ مگر اس طرح کہ وہ بیرونی ماحول جو اس نمود کی تمہید تھا، مجروح نہیں ہوا بلکہ ایک زیادہ وسیع اور گہرے اندرونی پن سے متصف ہوگیا ہے۔ ۳:۱- ’حسن ازل‘ کا تعلق باطن سے ہے اور اس کا ناظر قلب ہے۔ ’نمود‘ کا تعلق ظاہر سے ہے اور اس کی ناظر آنکھ ہے۔ پہلے شعر میں قلب و نظر کی زندگی کا سامان اسی لیے کہا گیا تھا کہ قلب حسنِ ازل کو دیکھ سکے اور نظر ’حسن ازل کی نمود‘ کو۔ ۱:۳:۱- ’نمود‘ ایک ظاہری چیز ہے لیکن ’حسنِ ازل‘ کی نسبت سے اس میں اندرونی پن بھی پیدا ہوگیا۔ ۲:۳:۱- ’حسن ازل کی نمود‘ اس حال میں ہورہی ہے کہ ’پردۂ وجود‘ چاک ہے۔ یہ منظر سب مناظر کی طرح خارجی تو ہے مگر جس سطح پر واقعہ ہورہا ہے، وہ آخری حد تک داخلی ہے۔ ۴:۱- مطلعے کا پورا منظر خارجی واقعی ہے اور آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ محض ’قلب‘ کے لفظ سے پورا منظر بدل گیا، یا اگر بدلا نہیں تو بھی اس کی ظاہری قطعیت ختم ہوگئی، اور صورت پر معنی کے غلبے کی راہ ہموار ہوگئی۔ اس غلبے کی تکمیل اس شعر میں آکر ہوئی ہے۔ ۱:۴:۱- ’دشت‘، ’صبح‘، ’چشمۂ آفتاب‘، ’نور‘۔ ان میں سے کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جسے آنکھ سے نہ دیکھا جاسکے۔ ص کلیات۔ ۲۷۵ زمزمِ ملت: ۱- دین کا سرچشمہ، اسلام کی بنیادی روایت جو سیدنا ابراہیمں سے جاری ہوئی۔ ۲- ’زمزم‘ دینی روایت اور اس کا تاریخی تسلسل ہے جو تغیر سے محفوظ ہے، معنی میں بھی اور صورت میں بھی۔ ’ملت‘ مظہر ہے دینی اصول اور ان کی آفاقیت کا۔ ’زمزمِ ملت‘ میں حرکت و ثبات یکجا ہوکر اسلام کے ہمہ زمانی اور ہمہ مکانی ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور یہ دلالت تامہ ہے جو مدلول کے وجود کی دونوں لازمی نسبتوں یعنی زماں ومکاں سمیت احاطہ کرتی ہے ۳- اس ترکیب میں ایک حُسن یہ بھی ہے کہ اس سے رسول ا کی تمام نسبتوں کا اظہار ہوجاتا ہے۔ نسب کی بھی اور نبوت کی بھی۔ ۴- ’زمزم‘ میں تغیر کی نفی ہے اور ملت میں تعدد کی۔ یعنی اسلام کی صورت میں حق کا ظہور دائمی ہے۔ ۵- زمزم کا مرکز لا الٰہ الا اللہ ہے اور ملت کا محمد رسول اللہ ا ۔ جس طرح ملت کے بغیر زمزم بے معنی ہے، اسی طرح رسولِ اکرم ا کا انکار کرکے توحید کا اقرار لایعنی ہے۔ دین کامل یعنی حق کے ظہورِ کا اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نہیں ہوسکتا۔ ۶- زمزم ملّت جس کمالِ ظہور کا استعارہ ہے، اس کی دو شرائط ہیں: دوام اور وحدت۔ زمزم سے دوام کی شرط پوری ہوتی ہے اور ملت سے وحدت کی۔ یعنی دینِ محمدی علی صاحبہِ التحیّۃ والسلام ہمیشہ کے لیے ہے اور سب کے لیے ہے۔ ص کلیات۔ ۲۹۲ قومیت: قوم پرستی، قومیت کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق پیدا کرنا، کسی خاص قوم سے تعلق رکھنے کو مدارِ فضیلت تصور کرنا، ایک قوم کو دوسری پر ترجیح دینا، نسل اور علاقے کو عقیدے اور نظریے پر فوقیت دینا۔ ص کلیات۔ ۳۰۱ احرارِ ملت: ملت کے مردانِ آزاد یعنی ترک۔ ص کلیات۔ ۳۰۷ سرِ خاکِ شہیدے برگ ہاے لالہ می پاشم کہ خونش با نہالِ ملت ما سازگار آمد (میں اُس شہید کی تربت پر گلِ لالہ کی پتّیاں بکھیر رہا ہوں جس کا خون ہماری ملت کے پودے کو راس آگیا) ص کلیات۔ ۳۷۴ ہفتاد و دو ملت: بہتر فرقے، منتشر اُمت۔ّ۔ ص کلیات۔ ۳۷۵ وہ قوم: مراد ہندی مسلمان بالخصوص مغل جو تیمور کے وارث تھے۔ ص کلیات۔ ۵۶۰ ملتِ مرحوم: یعنی ملتِ اسلامی جس پر اللہ نے رحمت فرمائی۔ نیز دیکھیے: ’اُمت مرحوم‘ خ…خ…خ…خ  اقبال کا مکالمہ- عصر حاضر سے ڈاکٹر صابر آفاقی خلاصہ اقبال وسعت علم و نظر اور وسیع القلبی کے اوصاف کی بدولت شاعر انسانیت تھے جنھیں نہ کسی نظریے سے بے جا نفرت تھی اور نہ کسی عقیدے سے بے جواز محبت۔ نظریے کی وسعت اور فکر کی یہی رفعت اقبال کو شاعر انسانیت کا اعزاز عطا کرتی ہے۔ سرسید اور غالب کے بعد اقبال برصغیر کے تیسرے عظیم مفکر ہیں جنھوں نے بین المذاہب ہم۔آہنگی اور بین الاقوامی حسن تفاہم کے فروغ کی جدوجہد کی۔ اقبال نے اپنے کلام میں نانک، مہاتما بدھ، رام، نیٹشے اور قرۃ العین طاہرہ سے حسن عقیدت کا اظہار کیا جو اپنے اپنے مذاہب کی نمایندہ شخصیات ہیں۔ شاعر انسانیت ہوتے ہوئے اقبال نے امن کے فروغ کی خاطر تہذیبوں اور قوموں کو مکالمے کی دعوت دی۔ اللہ کے رب العالمین اور رسول اللہؐ کے رحمت للعالمین ہونے کو اقبال جنگوں کے خاتمے کی دو دلیلوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اقبال نے مذہبی تنگ نظری اور تعصب کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مسلمانوں کو ساری قوموں پر شفیق و مہربان ہونے کی تعلیم دی۔ اقبال کے نزدیک تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی مضبوط اساس احترامِ آدمیت ہے جو تمام قوموں کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور مذہبی حقوق کی بحالی سے عبارت ہے۔ خ…خ…خ علامہ اقبال نے دنیا بھر کے فکروفلسفہ، شعروادب اور تصوف و عرفان کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ انھوں نے مشرق و مغرب کی اہم ادبی، دینی اور سیاسی شخصیات کے افکاروخیالات سے بھرپور استفادہ فرمایا تھا۔ یہ شاعر انسانیت ایک وسیع القلب فیلسوف اور مفکر کی حیثیت سے ہمیشہ حکمت و دانائی کا جویا رہا۔ اسے نہ کسی نظریے سے بے جا نفرت تھی اور نہ کسی عقیدے سے بے جواز محبت۔ وہ نہ مشرق سے دوستی رکھتا تھا نہ مغرب سے بیر۔ مشرق و مغرب کے بارے میں وہ کہتا ہے: مشرق خراب و مغرب ازان بیشتر خراب عالم تمام مردہ و بے ذوقِ جستجوست۱؎ اقبال دراصل ارتقائے انسانیت کا قافلہ سالار اور صبحِ انقلاب کا مؤذن تھا۔ وہ ستاروں سے آگے کے جہانوں کا رمز آشنا اور اعلیٰ منازل کا مسافر تھا۔ اس کے نزدیک زندگی ’’ہر دم جواں پیہم رواں‘‘ ہے۔ جس کی کوئی منزل آخری منزل نہیں۔ نظریے کی یہی وسعت اور فکر کی یہی رفعت اقبال کو شاعر انسانیت کی مسند پر بٹھاتی ہے۔ مستقبلیات کے معروف ایلون ٹوفلر نے Creation of New Civilizations میں پہلے ہزاریے کو زراعت کا دوسرے کو صنعت کا اور تیسرے کو میڈیے کا ہزاریہ قرار دیا ہے۲؎ مگر میں اس سفر کو دوسری طرح دیکھتا ہوں میرے نزدیک پہلا قتل وقتال، دوسرا بحث و جدال اور تیسرا مکالمہ و حسن مقال کا ہزاریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز سے ہی انسانی ذہن و شعور نے انگڑائی لی اور ایک عالمی سماج کا احساس پیدا ہونے لگا۔ نت نئے سائنسی انکشافات اور گونا گوں ذرائع ابلاغ کی ایجاد نے بلند و بالا پہاڑوں، وسیع صحرائوں اور گہرے سمندروں کی رکاوٹیں ہٹا دیں۔اس قیامت خیز تبدیلی نے زمین کی طنابیں کھینچ لیں اور کرۂ ارض کو ایک ہی شہر بنا دیا۔ دست نامرئی نے دھرتی کی طنابیں کھینچ لیں فاصلہ قلب بشر میں اب کہاں رہ جائے گا۳؎ سائنس اور ٹکنالوجی کی پیش رفت سے جغرافیائی سرحدیں کالعدم ہوگئیں۔ ملکوں کے درمیان فاصلے کم ہوگئے۔ مگر اس تبدیلی کا ایک خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ متعدد مغربی اقوام، مشرقی اور افریقائی ممالک پر چڑھ دوڑیں۔ ۱۸۳۰ء سے لے کر ۱۹۱۲ء تک کی مختصر سی مدت میں الجیریا، تیونس، مراکش، مصر، سوڈان، لیبیا اور برصغیر مغرب کے طالع آزمائوں کے قبضے میں چلے گئے۔ انسان کے مادی قرب نے اس کے ذہنوں کی خلیج وسیع کردی۔ ان غاصبانہ اقتدارات کے نتیجے میں مسلم مفکرین کا نو آبادیاتی تسلط کے سامنے مزاحمت کا رویہ اختیار کرنا قدرتی امر تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے عالم گیر تشدد آمیز رویوں کا سراغ اسی استعمار پرور صدی میں تلاش کرنا ہوگا۔ اس عہد میں مذاہب کے درمیان مناظرہ ومجادلہ کا آغاز ہوا۔ سرسیّد نے انیسویں صدی میں اہل مذہب کی صورت حال جس طرح بیان کی ہے ڈاکٹر محمدعلی صدیقی نے اس کا حوالہ یوں دیا ہے:’’(مذہبی لوگ) غیر مذہب سے دوستی و محبت اور ان کے ساتھ ہمدردی کو کفروالحاد جانتے ہیں۔ ان کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ سوائے اپنے اور کسی کو دیکھ نہیں سکتے‘‘۴؎ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے لکھا ہے کہ ۱۸۳۵ء میں برصغیر کے آٹھ ہزار علما نے انگریزی زبان کی تعلیم کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔۵؎ دوسری طرف سرسید نے ۱۸۶۵ء میں تبیین الکلام جیسی اہم کتاب لکھ کر برصغیر میں بین المذاہب مکالمے اور اعتدال پسندی کی روایت قائم کی اور حاکم و محکوم کے درمیان حسن تفاہم کا ایک پل تعمیر کیا۔ یہی وہ دور تھا جب ترکی میں نامق پاشا، مصر میں محمد عبدہ، ایران میں سید علی محمد باب اور شام میں شکیب ارسلان نے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں فکروعمل کی نئی راہیں دکھائیں۔ شکیب ارسلان نوآبادیاتی نظاموں کے خلاف نبرد آزمائی کے حق میں نہ تھا وہ اسباب زوالِ اُمت میں لکھتا ہے: ہمارے تنگ خیال لوگوں نے اسلام کو جو نقصانات پہنچائے وہ ملحدوں کے نقصانات سے کسی طرح کم نہیں۔ تنگ خیال قدامت پسندوں نے اسلام کے دشمنوں کا راستہ صاف کردیا۔۶؎ ادھر برصغیر میں مرزا غالب نے روشن خیالی، برداشت اور مسالمت کا فلسفہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ۔اگر مذاہب کے اصل عقائدوتعلیمات کو ظاہری رسوم سے علیحدہ کرکے دیکھا جائے تو یکتائی کا نظام روبہ عمل آسکتا ہے۔ ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں۷؎ غالب کو سنگین حالات نے کرۂ ارض کی بقا اور نسل انسانی کی سلامتی کو جنگوں کے بجائے باہمی گفت وشنید، میل ملاپ، ملاقات اور مذاکرات کے ذریعے یقینی بنانے کی راہ دکھائی تھی۔ سرسید اور غالب کے بعد برصغیر کا تیسرا عظیم مفکر اور شاعر اقبال تھا جس نے بین المذاہب ہم آہنگی اور بین الاقوامی حسن تفاہم کے فروغ کے لیے جدوجہد کی۔ فکر اقبال کا پس منظر جاننے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ اقبال کشمیر کا برہمن زادہ تھا۔ مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی برہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز است۸؎ وہی کشمیر جسے بدھ مت کے علما نے مقدس سرزمین قرار دیا۔ وہی بہشت زمین جہاں مذاہب کے درمیان ہمیشہ ہم آہنگی رہی۔ وہی خطہ گل و لالہ جہاں تاریخ کے کسی دور میں بھی مقامی پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا۔ اقبال کے اجداد میں بابا لول حج نے صوفیہ کے سلسلہ ریشیہ کے بانی شیخ نور الدین ولی (متوفی ۸۴۲ھ) کے چوتھے خلیفہ بابا نصیر الدین کے ذریعے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ شیخ نور الدین صلح کل کی روش کے باعث ہندئووں میں نندرشی کہلاتے ہیں۔ وسیع محبت، رواداری اور برداشت کی یہی توانا روایت آگے چل کر شیخ نور محمد کے ذریعے ان کے لائق فرزند علامہ اقبال تک پہنچی۔ غالب کی طرح اقبال بھی تنازع للبقا کے قائل نہ تھے۔ بلکہ تعاون للبقا کے مبلغ تھے کہ کائنات کے تمام عناصر باہمی تعاون وایثار ہی کی بدولت زندہ و فعال ہیں۔ اقبال پیام مشرق کے دیباچے میں لکھتے ہیں: یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کردیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کررہی ہے۔ اقبال نے مختلف مذاہب سے وابستہ شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کرکے تہذیبوں کے درمیان قصرِ مذاکرہ کی خشت اول رکھی اور اس امر کا ثبوت بہم پہنچا دیا کہ وہ نظریہ وحدت الوجود کے قائل تھے۔ فرماتے ہیں کہ حرم ہو یا دیر ہر جگہ محبت کی باتیں ہی ہوتیں ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ دونوں ادارے ایک دوسرے سے بے خبر اور لاتعلق ہیں۔ چہ حرم چہ دیر ہر جا سنحنی ز آشنائی مگر اینکہ کس زرازِ من و تو خبر ندارد۹؎ اقبال نے نانک، رام، نٹشے اور قرۃ العین طاہرہ سے حسن عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ جو اپنے اپنے مذاہب کی نمایندہ شخصیات ہیں۔ ان کے علاوہ علامہ نے جاوید نامہ کے سفرِ افلاک کے دوران گوتم بدھ، زرتشت، مزدک اور مسیح سے حتیٰ کہ فرعون و ابلیس سے بھی مکالمہ کیا ہے۔ آپ نانک کے بارے میں کہتے ہیں: پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے۱۰؎ ’’رام‘‘ کے عنوان سے ان کی نظم کا یہ خوبصورت شعر دیکھیے: ہے رام کے وجود سے ہندوستان کو ناز اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند۱۱؎ نٹشے کو آدھا مومن قرار دیتے ہوئے کہا: آنکہ بر طرح حرم بت خانہ ساخت قلب او مومن دماغش کافر است۱۲؎ اقبال نے ایران کی انقلابی بہائی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے: غالب و حلاج و خاتون عجم شورہا افگندہ در جان حرم۱۳؎ قرۃ العین طاہرہ نے ۱۸۵۰ء میں تعصبات وتاریکی کے پرآشوب دور میں ایک تابناک مستقبل کا خواب دیکھا اور کہا صبح ہدایت طلوع ہوگئی اور کائناتِ انفس و آفاق منور ہورہی ہے۔ دیرینہ عداوتوں کا حکم اٹھالیا گیا اور اب انس و محبت کی بساط بچھائی جارہی ہے۔ ہاں صبح ہدیٰ فرمود آغاز تنفس روشن ہمہ عالم شد زآفاق و زانفس مرفوع شود حکم خلاف از ہمہ آفاق تبدیلی شود اصل تباین بہ تجانس۱۴؎ اقبال نے پہلی عالم گیر جنگ کے دوران اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا کہ دنیا میں سیاسی، معاشی، اقتصادی، صنعتی اور تمدنی تبدیلیاں آرہی ہیں اور قوموں کے درمیان قرب و تعاون کا آغاز ہوچکا ہے۔ اقبال قرۃ العین طاہرہ کی ہم نوائی میں کہتا ہے: آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسمان! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک۱۵؎ اقبال کی ایک فارسی غزل کے ایک شعر کا مفہوم یوں ہے کہ زندگی نئے جہاں کی تعمیر کررہی ہے۔ چشم بکشای اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پئے تعمیر جہاں دگر است۱۶؎ وہ ہمیں پرانی تہذیب کے کھنڈرات پر نئی عمارت کھڑی کرنے کا احساس دلاتے ہیں: وقت آنست کہ آئین دگر تازہ کنیم لوح دل پاک بشوئیم و زسرتازہ کنیم۱۷؎ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کا فلسفہ چار بنیادی موضوعات کی تفسیر و تعبیر کا عکاس ہے۔ کرہ ارض میں ساری قومیں ’’کنفس واحدہ‘‘ ہیں۔ گلوب ایک ہی شہر ہے۔ نوع انسانی عشق کی بدولت ایک عالم گیر انسانی برادری میں متحد ہورہی ہے۔ ارتقا کا لامتغیر۔ّ قانون فطرت ستاروں سے آگے کے جہانوں کی تسخیر کی طرف بشر کی رہنمائی کررہا ہے۔ وہ ان چار موضوعات کو ’’آئین نو‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔جس سے ڈرنا قوموں کی ارتقا پذیر زندگی میں ایک دشوار گذار منزل بن جاتا ہے۔ آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۱۸؎ آج ہمیں عصری تقاضوں کے تناظر میں اقبال کو ازسر نو دریافت کرنا ہوگا۔ ایک ایسے اقبال کو جو قریۂ عالمی کے تصور سے بھی آگے آفاقیت کا فلسفہ پیش کرتا اور کہتا ہے: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں شاعر انسانیت اقبال اقوام کا سچا محسن ہے کہ اس نے بیسویں صدی میں تہذیبوں کو سمجھنے تمدنوں کو جاننے اور متنوع ثقافتوں کو پہچاننے کا ہنر ہمیں سکھایا۔ اس نے انسان کو امن کے فروغ کی خاطر اس عہد میں مکالمے کی دعوت دی جب اکثر قومیں ’’ھل من مبارز‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان جنگ میں اتر چکی تھیں۔ شعرا میں اقبال وہ عظیم مفکر ہے جس نے امن عالم اور صلح جہانی کا حیات بخش پیغام دیا۔ باز در عالم بیار ایام صلح جنگجویان را بدہ پیغام صلح۱۹؎ یہ فلسفی شاعر جنگوں کے خاتمے کے لیے دو دلیلیں پیش کرتا ہے۔ پہلی دلیل یہ کہ خدائے یکتا تمام مخلوق کا خالق اور کل مذاہب کا معبود ہے۔ وہ ساری کائنات پر مہربان و رحیم ہے اور اس کی عنایات مومن و کافر تک پہنچتی ہیں۔ لہٰذا انسانوں کو بلاتفریق مذہب و ملت سب پر مہربان و رحیم ہونا چاہیے۔ وہ مسلم امہ کے لیے کہتے ہیں: آب و نانِ ما ست از یک مائدہ دودۂ آدم کنفس واحدہ۲۰؎ اقبال دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ وہ ایک ایسے منجی امم اور پیغمبر انسانیت کے پیرو ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ’’رحمتہ للعالمین‘‘ کے لقب سے نوازا ہے، بنابریں مسلمانوں کو عالم گیر محبت، وسیع اتحاد، بے ریا رواداری اور عدم تشدد کا نمونہ بننا چاہیے۔ ما زحکم نسبت او ملتیم اہل عالم را پیام رحمتیم۲۱؎ قوموں کے درمیان بات چیت، میل ملاپ، گفت وشنید اور افہام و تفہیم کی راہ میں چار عناصر حائل نظر آتے ہیں اور اقبال نے ان عناصرِاربعہ کے مضرات کے بارے میں اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ وہ عناصر یہ ہیں۔ تقلید، تعصبات اور جمود، ہوس ملک گیری، ہوسِ اقتدار اور ہوسِ مال وزر نے ملتوں کو برسر پیکار کررکھا ہے۔ ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انسان کو اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہوجا۲۲؎ یہی مقصود فطرت ہے یہی راز مسلمانی اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی۲۳؎ اقبال اندھی تقلید کے سخت خلاف نظر آتا ہے اور بلاتحقیق دوسروں کی راہ پر چلنے کو ایک عذاب سے کم نہیں سمجھتا۔ وہ نصیحت کرتا ہے کہ اپنا راستہ اپنے ہی تیشے سے تراشنا چاہیے۔ تراش از تیشہ خود جادۂ خویش براہِ دیگران رفتن عذاب است گر از دست تو کار نادر آید گناہی ہم اگر باشد ثواب است۲۴؎ اقبال ایسا انسان دوست شاعر ہے جو محدود وطن پرستی اور ہر نوع کے مذہبی ونسلی تعصبات کی مذمت کرتا نظر آتا ہے۔ وہ مذہب کو ایک قوی ترین سماجی اور روحانی طاقت سمجھتا ہے۔ اس حکیمِ انسانیت کے نزدیک کوئی مذہب آپس میں عداوت، نفرت اور بیر رکھنا نہیں سکھاتا۔ اقبال کا مذہب آدمی کو سراپا محبت بنا کر بے کراں ہونے کا درس دیتا ہے۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا اقبال دھرتی کے باسیوں کی نجات محبت میں دیکھتا ہے۔ دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے اقبال کہتا ہے کہ نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم چمن زادیم وازیک شاخساریم تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم۲۵؎ ہمیں سب سے پہلے بے رنگ وبو آدم بننا ہے۔ اس کے بعد ہم کسی ملک سے منسوب ہوسکتے ہیں کہ اقبال کا دائرہ انسانیت، مذہب ووطن کے دائروں سے وسیع تر ہے۔ ہنوز از ہند آب و گل نہ رستی تو گوئی رومی و افغانیم من من اول آدم بے رنگ و بویم ازان پس ہندی وتورانیم من۲۶؎ اقبال نے وطن پرستی کے پیراہن کو مذہب کا کفن قرار دیا ہے۔ اِن تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیراہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے۲۷؎ تاریخ کے قدموں کی چاپ سننے والا اقبال، سارے جہاں کو اپنا وطن سمجھتا ہے۔ وہ ایک دعائیہ شعر میں کہتا ہے: بستۂ رنگِ خصوصیت نہ ہو میری زبان نوع انساں قوم ہو میری، وطن سارا جہاں۲۸؎ اقبال نے مذہبی تنگ نظری اور تعصب کے خلاف آواز اٹھائی اور کہا کہ ایک سچے مسلمان کا طرزعمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ ساری قوموں پر شفیق و مہربان ہو۔ اس مرحلے پر اقبال مومن وکافر میں کسی فرق کو بلاجواز قرار دیتا ہے۔ وہ کعبہ و بت خانہ کو ایک ہی خدائے رحیم ورحمان کی جلوہ گاہ سمجھتا ہے۔ فرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بت خانہ این جلوت جانانہ آن خلوت جانانہ۲۹؎ حقیقی عشق کا مذہب آزادگان خلقت کو شفقت ورحمت سے متخلّق ہونا سکھاتا ہے۔ حرفِ بد را برلب آوردن خطاست کافر و مومن ہمہ خلق خدا است بندہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق کفرودیں را گیر در پہنائے دل دل اگر بگریزد از دل وائے دل۳۰؎ قریہ عالمی کا شاعر اقبال مذہب وتمدن کی اساس احترام آدمیت پر استوار کرتا ہے۔ یہ نظریہ معروضی حالات میں بے حد اہم ہے کہ یہ ہر قسم کے باہمی تعاون کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اقبال مذکورہ تین اشعار میں اسلامی عقائدوتعلیمات کے خلاف بات نہیں کرتا بلکہ مذہب و وطن سے وابستہ رہتے ہوئے مذاہب و اوطان کا احترام کرنا سکھاتا ہے کہ قرآن نے اسی تکریم آدم کے قانون کو ماننے کا حکم دیا ہے۔ اقبال غیر مسلم اقلیتوں کے تمام سیاسی، سماجی، معاشرتی اور مذہبی حقوق کی بحالی کو شرط آدمیت قرار دیتا ہے۔ ؎ آدمیت احترام آدمی باخبر شو از مقام آدمی۳۱؎ تہذیبوں کے درمیان مذاکرہ ومکالمہ کا راستہ یہی احترام آموز رویہ ہموار کرتا ہے۔ اقبال ہر نوع کے جنگ وجدال کی نفی کرتے ہوئے محبت اور دل نوازی کو فاتح عالم قرار دیتا ہے۔ یہ نہایت بلیغ اور خوبصورت شعر دیکھیے: بہ ملازمانِ سلطان خبری دہم زرازی کہ جہاں توان گرفتن بہ نوائے دل گدازی۳۲؎ اقبال کو یقین ہے کہ زمین پر صلح و آشتی کا ایک انقلابی اور منفعت بخش نظام آرہا ہے۔ جونسل انسانی کی بقا کا ضامن ہوگا، وہ اس مثبت نظام کو ’’الا۔ّ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ در مقام ’’لا‘‘ نیاساید حیات سوی ’’الا۔ّ‘‘ می خرامد کائنات۳۳؎ اقبال زندگی میں حرکت، تبدیلی، انقلاب اور ارتقا کا قائل ہے۔ وہ جمود کو موت سمجھتا ہے کہ زندگی کی مثال موج آب کی سی ہے۔ موج ز خود رفتۂ تیز خرامید و گفت ہستم اگر میروم گر نروم نیستم۳۴؎ ایسی کوششوں کو سراہتے ہوئے جو ہماری نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کرکے عالمی بنادیں اقبال پیام مشرق کے دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کرکے ان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابل احترام ہے۔۳۲؎ متخاصم اقوام اور متحارب قوتوں کے مابین صلح و آشتی کے فروغ کے لیے اقبال نے ’’آئین وصال‘‘ کی اصطلاح وضع کی ہے۔ قطرہ ہا دریاست از آئین وصل ذرّہ ہا صحراست از آئین وصل۳۵؎ حق بات یہ ہے کہ اقبال فصل کا نہیں وصل کا،آویزش کا نہیں آمیزش کا، انقطاع کا نہیں اتصال کا، ستیزہ کاری کا نہیں بردباری کا، تشدد کا نہیں تلطف کا، افتراق کا نہیں اتفاق کا شاعر ہے۔ اگر آزادی سے پہلے لہو کو گرم رکھنے کے لیے جھپٹنا ضروری تھا تو آج عالمی دور میں لہو کو ٹھنڈا کرنے کی اہمیت بڑ ھ گئی ہے۔ اقبال کے فارسی اور اُردو کلام میں عصر حاضر کے حوالے سے متعدد عالمی مسائل پر راہنمائی ملتی ہے کہ اقبال شاعرِ فردا کی نوا تھا۔ نغمہ ام از زخمہ بے۔پرواستم من نوائے شاعر فرداستم۳۶؎ اقبال نئی دنیا کی تعمیر اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں فرماتے ہیں کہ: باد بہاری سے کہ۔َ۔ دو کہ وہ میرے خیال اور مدعا کو سمجھے اور وادی ودشت کو اس طرح کے نقش و نگار سے آراستہ کرے جیسے میں چاہتا ہوں۔ باد بہار رابگو، پے بخیالِ من برد وادی ودشت را دہد نقش ونگار این چنین۳۷؎ یہ عجیب بات ہے کہ ان کے کلام میں مسئلہ کشمیر پر ہندو پاک کی موجودہ سیاسی کشیدگی پر بھی رہنمائی ملتی ہے۔ مثنوی پس چہ باید کرد میں اقبال کشمیر کے لیے ’ہمالہ‘ پاکستان کے لیے ’دریائے اٹک‘ اور بھارت کے لیے ’رود گنگا‘ کی علامتیں استعمال کرکے تینوں قوموں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تم کب تک اپنے مسائل کا حل تلاش نہیں کرو گے۔ تم کب تک نفرتوں بدگمانیوں اور وسوسوں کی فضا میں رہو گے۔ تم کب تک سیاسی اقتصادی، تجارتی، مذہبی اور ثقافتی زندگیوں کو بے رونق، بے مزا، بے جان اور بے آب ورنگ بنائے رکھو گے۔ اقبال کی روح ان تینوں ملکوں سے اس اہم سوال کا جواب سننے کے لیے آج بھی بے تاب ہے۔ اے ہمالہ اے اطک اے رُود گنگ زیستن تاکے چنان بی آب و رنگ۳۸؎ خ…خ…خ…خ حوالے ۱- اقبال، ’’زبور عجم‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص۴۴۲۔ ۲- The Way out of Dead End،ص۱۲۔ ۳- ڈاکٹر صابر آفاقی، سارے جہاں کا درد۔ ۴- سرسیداحمد خاں،تہذیب الاخلاق، ۱۸۸۰ئ، ص۳۷۲۔ ۵- ڈاکٹر محمد علی صدیقی، سرسید احمد خان اور جدت پسندی،۲۰۰۲ئ۔ ۶- زوال امت بحوالہ، سرسید احمد خان اور جدت پسندی،۲۰۰۲ئ۔ ۷- دیوانِ غالب، تاج کمپنی، لاہور۔ ۸- اقبال، ’’زبور عجم‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص۴۰۵۔ ۹- ایضاً، ص۴۴۹۔ ۱۰- اقبال، کلیات اقبال(اُردو)، الفیصل لاہور، ص۱۸۴۔ ۱۱- ایضاً، ص۱۳۴۔ ۱۲- اقبال، ’’پیام مشرق‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۹۰ئ، ص۳۷۱۔ ۱۳- اقبال- ’’جاوید نامہ‘‘ کلیات اقبال (فارسی)، ص۷۰۴۔ ۱۴- ڈاکٹر صابر آفاقی، قرۃ العین طاہرہ، کراچی، ۱۹۸۶ئ، ص۱۰۶۔ ۱۵- اقبال، کلیات اقبال(اُردو)، الفیصل لاہور، ص۱۹۵۔ ۱۶- اقبال، ’’پیام مشرق‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۳۶۲۔ ۱۷- اقبال’’اسرار رموز‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۱۶۱۔ ۱۸- اقبال، کلیات اقبال(اُردو)، ص۱۳۲۔ ۱۹- اقبال، ’’اسرار رموز‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۴۶۔ ۲۰- اقبال ’’جاوید نامہ‘‘،کلیات اقبال(فارسی)، ص۶۶۹۔ ۲۱- اقبال، ’’اسرار رموز‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۱۰۱۔ ۲۲- اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اُردو)، ص۲۱۱۔ ۲۳- ایضاً، ص۲۰۸۔ ۲۴- اقبال، ’’پیام مشرق‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۲۲۹۔ ۲۵- ایضاً، ص۲۲۲۔ ۲۶- ایضاً، ص۲۴۸۔ ۲۷- اقبال، کلیات اقبال(اُردو)، ص۱۲۱۔ ۲۸- ایضاً، ص۳۰۔ ۲۹- اقبال، ’’پیام مشرق‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۳۳۵۔ ۳۰- اقبال، ’’جاوید نامہ‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۷۹۳۔ ۳۱- ایضاً، ص۷۹۳۔ ۳۲- اقبال، ’’پیام مشرق‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۳۲۰۔ ۳۳- اقبال، ’’پس چہ باید کرد‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۸۱۵۔ ۳۴- اقبال، ’’پیام مشرق‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۲۹۸۔ ۳۵- اقبال، ’’اسرار رموز‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۵۷۔ ۳۶- ایضاً،ص۶۔ ۳۷- اقبال، ’’زبور عجم‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۴۱۰۔ ۳۸- اقبال، ’’پس چہ باید کرد‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص۸۲۹۔ خ…خ…خ…خ  سہ ماہی۔ صحیفہ میں اقبالیاتی ادب محمد اصغر ’’اقبالیاتی ادب‘‘ کا ایک قابلِ لحاظ حصہ، حوالہ جاتی لوازمے (reference material) پر مشتمل ہے اس میں کتب، رسائل اور فہارس وغیرہ شامل ہیں۔ اقبالیاتی تحقیق و تنقید کی پیش رفت میں اس طرح کے حوالہ۔جاتی لوازمے کا کردار کلیدی نوعیت کا حامل ہے۔ اقبالیات کے حوالہ جاتی کام کئی طرح کے ہیں۔ ان میں کشف الابیات، کلیدیں اور اشاریے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ رسائل و جرائد میں اقبالیات سے متعلق مختلف موضوعات پر ہزارہا مقالات محفوظ ہیں۔ بعض رسائل کی مکمل اور نامکمل فہارس شائع ہوچکی ہیں۔ موجودہ شمارے میں سہ ماہی صحیفہ لاہور میں شائع شدہ اقبالیاتی ادب کا اشاریہ شائع کیا جارہا ہے۔ مجلس ترقی ادب کا مجلہ صحیفہ جون ۱۹۵۷ء میں لاہور سے جاری ہوا تھا اور آج تک شائع ہورہا ہے۔ اس کی مجلسِ ادارت میں سید عابد علی عابد، امتیاز علی تاج، کلب علی خاں، احمد ندیم قاسمی، یونس جاوید اور احمدرضا وغیرہ شامل رہے ہیں۔ آج کل اس کی مجلسِ ادارت جناب شہزاد احمد، ڈاکٹر رفاقت علی شاہد اور اشرف جاوید پر مشتمل ہے۔ صحیفہ نے اقبالیات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عمومی شماروں میں اقبالیاتی مضامین کی اشاعت کے علاوہ صحیفہ نے ۱۶؍ اقبال نمبر شائع کیے ہیں، جن کی فہرست بھی اشاریے میں شامل ہے۔ [مرتب] خ…خ…خ مقالات مصنف؍مرتب مضمون ماہ و سال صفحات نمبر ابو سعادت جلیلی اقبالیاتِ جابر علی سیّد جنوری۱۹۹۷ئ ۵-۱۶ اجمل نیازی اقبال کا ایک مداح شاعر- منظور حسین منظور[انتظاریہ] اکتوبر۱۹۸۸ئ ۱۱۶-۱۱۸ احمد پناہی اقبال و شعر فارسی اکتوبر۱۹۷۱ئ ۶۶-۷۲ احمد حسین قریشی اقبال ، معاصرین کی نظر میں اکتوبر۱۹۷۳ئ ۲۴۲-۲۴۵ احمد ندیم قاسمی اقبال کی ایک نظم __’’شمع اور شاعر‘‘ اکتوبر۱۹۸۴ئ ۹۲-۱۰۲ // // عہد ساز اقبال اکتوبر۲۰۰۱ئ ۵-۸ اختر پرویز کلامِ اقبال میں ’’ مسمط ‘‘کا جائزہ اکتوبر۱۹۸۷ئ ۱۴۴-۱۵۹ اختر راہی ڈاکٹر اقبال اور مولانا انور شاہ کشمیری اکتوبر۱۹۷۳ئ ۲۸۱-۲۸۶ // // مولانا ظفر علی خاں اور علا۔ّمہ اقبال نومبر۱۹۷۷ئ ۱۵۹-۱۶۸ اختر علی فاشز م کے بارے میں علا۔ّمہ اقبال کے نظریات جنوری۱۹۸۷ئ ۱-۹ ادارہ اُردو شاعری پر افکارِ اقبال کے اثرات[مذاکرہ] جنوری۱۹۸۵ئ ۱-۱۲ ارشاد احمد ارشد تضمینات ِاقبال اکتوبر۱۹۶۱ئ ۴۰-۶۸ ارشاد شاکر اعوان اقبال اور خاک ِمدینہ و نجف اپریل۱۹۸۸ئ ۹۲-۱۰۱ // // اقبال اور متحدہ قومیت اکتوبر۱۹۹۰ئ ۲۶-۵۸ // // اقبال اور عشق و خرد[تقویمِ خودی میں تقدیر اور عشق کی حقیقت] جنوری۱۹۹۳ئ ۲۲-۳۴ // // علا۔ّمہ اقبال اور ’’ پاکستانی سکیم ‘‘ جنوری۱۹۹۴ئ ۱۳-۳۷ // // اقبال کا تصورِ ملت اور آزادیِ ہند اکتوبر۱۹۹۹ئ ۵-۴۴ ارشد کیانی مضمون ’’ملفوظاتِ اقبال‘‘ از یوسف سلیم چشتی جنوری۱۹۶۵ئ ۸۴-۸۶ ارشد کیانی مضمون ’’خودی اصلی ہستی و وجود‘‘ از ضامن نقوی جنوری۱۹۶۵ئ ۸۶-۸۸ اسد ادیب شعری مہارتوں کا شاعر ، اقبال جولائی۱۹۷۸ئ ۲۶-۳۷ اسلم عزیز درانی علا۔ّمہ اقبال اور طالوت اکتوبر۱۹۹۹ئ ۷۳-۹۷ اسلوب احمد انصاری اقبال کے ہاں حرکی پیکر اکتوبر۱۹۸۲ئ ۶۲-۷۴ افتخار احمد صدیقی اقبال کا تحقیقی مقالہ ’’ فلسفۂ عجم‘‘ نومبر۱۹۷۷ئ ۱۱-۲۲ افتخار حسین شاہ ’’ اقبال مست ‘‘ __آغا صادق [۱۹۰۹ تا ۱۹۷۷ ] جنوری۱۹۹۲ئ ۲۶-۴۷ افضل حق قرشی علا۔ّمہ اقبال سے متعلق غیر مدوّن تحریریں [خطوط، مرثیہ وغیرہ] جنوری۱۹۷۱ئ ۷۷-۹۳ // // نادرات ِ اقبال [غیر مدوّن تحریریں] اکتوبر۱۹۷۳ء ۱۹۷-۲۳۷ اقبال،علا۔ّمہ میکٹیگارٹ کا فلسفۂ فکر [مترجم: غلام رسول مہر] اکتوبر۱۹۸۷ئ ۱۲-۲۵ اقبال،علا۔ّمہ لسان العصر اکبر کے کلام میں ہیگل کا رنگ [مترجم: عبداللہ قریشی] اکتوبر۱۹۸۸ئ ۱-۷ اکبر حیدری کشمیری اقبال کی ایک نظم ’’ فاطمہ بنت ِ عبداللہ ‘‘ اور ’’ الہلال‘‘ جولائی۱۹۹۳ئ ۲۶-۴۱ // // اقبال اور ’’ ہزار داستان‘‘ اکتوبر۱۹۹۳ئ ۵-۱۴ // // اقبال کی زبان پرا یک ادبی معرکہ اکتوبر۱۹۹۴ئ ۵-۴۱ // // ڈاکٹر اقبال اور ڈاکٹر لمعہ حیدر آبادی اکتوبر۱۹۹۹ئ ۴۵-۶۰ // // اقبال کا ایک شعر جولائی۲۰۰۰ئ ۵-۲۵ // // اقبال اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس اکتوبر۲۰۰۰ئ ۲۵-۳۸ // // کلامِ اقبال اکتوبر۲۰۰۱ئ ۹-۲۳ اکبر رحمانی جامعہ ملیّہ میں غازی رئوف پاشا اور اقبال- ایک واقعاتی مغالطہ مارچ۱۹۹۰ئ ۴۱-۵۳ // // علا۔ّمہ اقبال کو برقی علاج کے لیے بھوپال جانے کا مشور ہ کس نے دیا؟ اکتوبر۱۹۹۹ئ ۶۱-۷۲ اکبر علی خاں نوادر ِاقبال [چند اطلاعیں] جون۱۹۵۹ئ ۲۴-۳۲ // // گنج بارآورد[بہ سلسلۂ اقبالیات] دسمبر۱۹۵۹ئ ۲۱-۳۷ // // نوادرِ اقبال[اشک ِخون] شمارہ۱۳/۱۹۶۰ئ ۶۲-۷۵ امان اللہ خاں لذت ِ ایجاد [اقبال اور کائنات] اکتوبر۲۰۰۱ئ ۳۳-۳۷ امجد اسلام امجد اقبال کی شعری لسانیات نومبر۱۹۷۷ئ ۱۱۴-۱۲۸ امیر حمزہ خان اقبال کی مختصر نظمیں__ایک جائزہ جنوری۲۰۰۱ئ ۲۸-۳۴ // // اقبال __ایک قلندر اکتوبر۲۰۰۱ئ ۶۱-۶۶ // // اقبال کا تصورِ رسالت اکتوبر۲۰۰۲ئ ۷۰-۷۳ انور سدید اقبال کے کلاسیکی نقوش جولائی۱۹۷۷ئ ۲۲۷-۲۵۰ انور محمود خالد قائداعظم ،علا۔ّمہ اقبال کی نظر میں ستمبر۱۹۷۶ئ ۱۲۰-۱۶۸ انیس ناگی اقبال : انحراف کا شاعر جولائی۱۹۷۷ئ ۱۳۲-۱۳۷ ایس اے رحمن اقبال اور مسئلہ ارتقا اکتوبر۱۹۷۳ء ۲۵۳-۲۸۰ ایس اے رحمن ’’اقبال کی شخصیت اور شاعری ‘‘ پر ایک نظر مارچ۱۹۷۶ئ ۱-۶ اے بی اشرف رنگ ِ اقبال کا مقلد،ایک فراموش کردہ شاعر [حکیم احمد شجاع ] اکتوبر۱۹۸۶ئ ۵۳-۷۹ اے بی اشرف غالب اور اقبال کا تقابلی مطالعہ اکتوبر۱۹۸۷ئ ۹۰-۱۱۵ بشیر احمد ڈار مضمون ’’تاویلاتِ اقبال‘‘ از علی عباس جلال پوری اپریل۱۹۶۳ئ ۱۱۴-۱۱۵ بشیر احمد ڈار اقبال کے چند نادر خطوط نومبر۱۹۷۷ئ ۱-۱۰ بصیر رضا[مترجم] اقبال کی شاعری میں آفاقی عنصر [حمید احمد خاں] اکتوبر۱۹۹۶ئ ۵-۲۳ تحسین سروری اقبال کی دو نظمیں اور اِن کا پس منظر اکتوبر۱۹۷۳ئ ۶۱-۷۱ جابر علی،سیّد اقبال کے ایک مصرعے (خندہ زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر) کی تشریح جولائی۱۹۷۷ئ ۱۲۱-۱۲۴ // // کلامِ اقبال میں صناعی کے عناصر اکتوبر۱۹۸۲ئ ۸۳-۹۸ جگن ناتھ آزاد اقبال اور برگساں کا ذہنی قرب و بعد جولائی۱۹۷۷ئ ۱۱۳-۱۲۰ جمیل جالبی مطالعۂ اقبال کے نئے گوشے اکتوبر۱۹۸۲ئ ۳۸-۴۳ جمیل جالبی[مترجم] اقبال، جدیدیت اور نو بین الاسلامیت [عزیز احمد] اپریل۱۹۸۹ئ ۱۳-۱۶ جمیل یوسف فکر ِ اقبال کا مآخذ نومبر۱۹۷۷ئ ۱۶۹-۱۸۰ جیلانی کامران فکر ِ اقبال اور مذہبی تجربہ اکتوبر۱۹۸۲ئ ۷۵-۸۲ // // فکر ِ اقبال اور چند نئے سوال اکتوبر۱۹۸۷ئ ۲۶-۳۰ // // فکر ِاقبال اور عورت کا مقام جنوری۱۹۸۸ئ ۱ تا۱۲ // // فکر اقبال کے چند انسانیاتی رویے جنوری۱۹۹۰ئ ۱-۶ // // فکر ِ اقبال اور مسلم کلچر کا مزاج جنوری۱۹۹۶ئ ۵-۱۲ // // اقبال اور بدلتی ہوئی دنیا اکتوبر۲۰۰۰ئ ۲۱-۲۴ حامد علی خان سر اقبال دے نال میل [پنجابی میں لیے گئے اقبال کے انٹرویو کا اُردو ترجمہ] جولائی۱۹۷۷ئ ۶۰-۶۵ حبیب اللہ خان اقبال کا تصورِ پاکستان اور ان کی فکری و عملی خدمات اپریل۲۰۰۲ئ ۵۰-۵۶ // // قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط کا تحقیقی مطالعہ اکتوبر۲۰۰۲ئ ۳۸-۴۶ حمید احمد خاں اقبال کی شاعری میں آفاقی عنصر [مترجم:محمد بصیر رضا] اکتوبر۱۹۹۶ئ ۵-۲۳ حمید یزدانی[مترجم] اقبال کی تصنیفات اور اسلوبِ شعر پر بحث[علامہ خطیبی] اکتوبر۱۹۸۶ئ ۳۶-۵۲ حیات خاں سیال اقبال اور فکر ِ مغرب اکتوبر۱۹۸۲ئ ۱۸-۲۲ خالد اقبال یاسر اقبال اور تعلیم و تربیت اکتوبر۱۹۹۲ئ ۸۰-۸۴ خالد اقبال یاسر اقبال کے سفر ۱۹۲۹ء تا ۱۹۳۴ئ جنوری۱۹۹۶ئ ۳۲-۳۶ خطیبی اقبال کی تصنیفات اور اسلوبِ شعر پر بحث[مترجم:حمید یزدانی] اکتوبر۱۹۸۶ئ ۳۶-۵۲ خورشید رضوی[مترجم] اقبال [طہٰ حسین ] نومبر۱۹۷۷ئ ۸۱-۹۰ در شہوار ابراہیم اقبال کا فلسفۂ حرکت وعمل اور اس کے محرکات مارچ۱۹۷۸ئ ۴۹-۶۴ رحیم بخش شاہین شیخ نور محمد __پدر و مرشد اقبال جولائی۱۹۷۷ئ ۲۵۱-۲۷۵ رشید ملک بر سبیل تذکرہ [اقبال نمبر،اکتوبر۸۶ کے بارے میں] جنوری۱۹۸۷ئ ۹۶-۹۸ // // اقبال انڈسٹری [مکتوب] اپریل۱۹۹۰ئ ۹۲-۹۸ رضی الدین صدیقی اقبال کے نظامِ فکر میں سائنس کا مقام جولائی۱۹۷۷ئ ۱۷-۲۸ رفیع الدین ہاشمی کتابیات ِ اقبال اکتوبر۱۹۷۳ء ۳۲۷-۳۵۸ // // اقبال کے پانچ غیر مدوّن خطوط نومبر۱۹۷۷ئ ۱۲۹-۱۳۷ // // ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب__ایک مختصر جائزہ اکتوبر۱۹۸۷ئ ۱۲۰-۱۴۳ ریاض احمد شاد اقبال کے پنجابی تراجم جولائی۱۹۷۷ئ ۱۷۶-۱۹۴ ریاض صدیقی اقبال اور علم نومبر۱۹۷۷ئ ۱۸۱-۱۹۰ زاہدہ پروین اقبال کا تصور ِ خدا جولائی۱۹۹۸ئ ۵۹-۷۰ // // اسلامی ثقافت : اقبال اور پاکستان اکتوبر۲۰۰۰ئ ۳۹-۵۱ زمرد کوثر اقبال کا تصور ِ فقر اپریل۱۹۹۹ئ ۳۹-۵۱ سراج منیر فکر ِ اقبال __پس منظر و پیش منظر نومبر۱۹۷۷ئ ۱۵۲-۱۵۸ سعادت سعید مذاکرہ: اقبالیات - ایک جائزہ [میزبان: احمد ندیم قاسمی، شرکا: سعادت سعید، سراج منیر، رفیع الدین ہاشمی، خواجہ محمد زکریا، عبداللہ قریشی، مرزا محمد منور] اکتوبر۱۹۸۵ئ ۹۳-۱۰۴ سعادت سعید[مترجم] اقبال ایک عالمی ورثہ [وائی چولائی شیو جم] اکتوبر۲۰۰۲ئ ۱۵-۲۴ سلیم اختر تو شب آفریدی چراغ آفریدم[اقبال کا تصورِ فن] جولائی۱۹۷۷ئ ۱۳۸-۱۵۳ // // علا۔ّمہ اقبال کی رباعیات اکتوبر۱۹۸۲ئ ۹۹-۱۰۹ // // اقبال کا مثالی انسان،نفسیاتی تناظر میں اکتوبر۲۰۰۲ئ ۵-۱۴ سمیع اللہ قریشی خطباتِ اقبال کا پس منظر جنوری۱۹۷۴ئ ۲۲-۳۳ // // اقبال کا ایک جزوی منبع فکر- باہوؔ اکتوبر۱۹۹۰ئ ۲۰-۲۵ // // فکر ِ اقبال میں سائنس کا مقام-۱ اکتوبر۱۹۹۲ئ ۱-۱۸ // // فکر ِ اقبال میں سائنس کا مقام-۲ اپریل۱۹۹۳ئ ۱۸-۳۷ شاہدہ یوسف ادب میں انحطاطی رویوں کے خلاف اقبال کا اجتہاد اپریل۱۹۹۶ئ ۶۸-۸۹ // // می شود پردۂ چشم پر کاہے گاہے[زندہ رود ازجسٹس جاوید اقبال پر ایک نظر] جولائی۱۹۹۷ئ ۵۱-۷۲ شاہدہ یوسف عصر حاضر میں اقبال کے خطبۂ ششم کی اطلاقیت اکتوبر۱۹۹۹ئ ۹۸-۱۱۶ // // فلسفہ وحدت الوجود کے مباحث اور اقبال کا ردِّعمل اکتوبر۲۰۰۰ئ ۸۴-۸۸ // // اقبال کی شاعری میں فطرت اکتوبر۲۰۰۲ئ ۴۷-۶۹ شاہین ملک اقبال- ایک نقاد اکتوبر۱۹۸۴ئ ۱۵-۲۷ شریف کنجاہی اقبال کی بچوں کی نظمیں مارچ۱۹۷۸ئ ۱-۷ // // خفتگانِ خاک سے استفسار[بسلسلۂ اقبال] جولائی۱۹۷۷ئ ۸۲-۸۹ // // اقبا ل کی دعائیں اکتوبر۱۹۸۲ئ ۲۳-۲۹ شفیق احمد اقبال کی نظم ’’ ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام‘‘ کی موضوع شخصیت[انتظاریہ] اکتوبر۱۹۸۸ئ ۱۰۹-۱۱۵ شمس الدین صدیقی اقبال کا تصورِ کائنات اکتوبر۱۹۷۳ئ ۲۴۶-۲۵۲ شمس الدین صدیقی جمہوریت ، اقبال کی نظر میں جولائی۱۹۷۷ئ ۴۳-۵۴ شہزاد قیصر؍طارق فاروق اقبال کے تصورِ آزادی کا ناقدانہ جائزہ اکتوبر۱۹۸۷ئ ۱۱۶-۱۱۹ صابر آفاقی مولانا رومی کا فلسفۂ عشق و سرمستی[بہ سلسلۂ اقبالیات] اکتوبر۱۹۹۰ئ ۶۶-۷۴ صابر کلوروی مکاتیب ِ اقبال کے مآخذ __چند مزید حقائق جنوری۱۹۸۴ئ ۳۵-۴۸ صابر کلوروی اقبال کی نظم ’’سلیمی۔ٰ‘‘ جنوری۱۹۸۸ئ ۷۷-۸۸ صادق زاہد علا۔ّمہ اقبال اور ایبٹ آباد اکتوبر۱۹۸۸ئ ۶۵-۷۵ صدیق جاوید اقبال یورپ میں __چند تاریخی مغالطے جولائی۱۹۷۷ء ۲۷۶-۳۰۵ // // علا۔ّمہ اقبال،مستشرقین اور آرنلڈ جنوری۱۹۸۲ئ ۳۶-۵۳ // // اقبال کا تصورِ آزادی،امپیریل ازم کے عمرانی پس منظر میں-۱ جولائی۱۹۸۹ئ …… // // اقبال کا تصورِ آزادی،امپیریل ازم کے عمرانی پس منظر میں-۲ جنوری۱۹۹۰ئ ۵۳-۶۹ // // رموزِ بے خودی کا ایک تحقیقی محرک- ایک تحقیقی مطالعہ اکتوبر۱۹۹۰ئ ۷۹-۸۷ صفدر محمود علا۔ّمہ اقبال کو گوشوارۂ آمدنی اکتوبر۱۹۷۳ئ ۱۳-۵۱ صلاح الدین حیدر فیض اور پیامِ مشرق[بسلسلۂ اقبال] اکتوبر۲۰۰۱ئ ۲۴-۳۲ طاہر کامران مذہبی فکر اور فلسفہ [بہ سلسلۂ اقبالیات] اکتوبر۱۹۹۰ئ ۹۷-۱۰۳ طہٰ حسین اقبال [مترجم: خورشید رضوی] نومبر۱۹۷۷ئ ۸۱-۹۰ ظہیر فتح پوری اقبال کی اُردو غزل مئی۱۹۷۹ئ ۱-۵ عابد علی عابد،سیّد اقبال جنوری۱۹۶۵ئ ۶۸ عامر سہیل ڈاکٹر سیّد عبداللہ اور مطالعۂ اقبال کے زاویے جولائی۲۰۰۳ئ ۲۹-۴۱ عبدالحمید سر سیّد، اکبر اور اقبال مئی۱۹۷۹ئ ۶-۱۳ عبدالرشید،صوفی اقبال اور قصیدہ بردہ اپریل۱۹۹۹ئ ۵-۲۳ عبدالرئوف شیخ سر سیّد اور اقبال کے مابعد الطبیعی تصورات اکتوبر۱۹۹۸ئ ۵۷-۶۱ عبدالسلام خورشید اقبال مستقبل شناس سیاست دان کی حیثیت سے جنوری۱۹۷۴ئ ۱۴-۲۱ عبدالعزیز کامل اقبال اور جدید علمِ کلام اکتوبر۱۹۸۲ئ ۱۱۰-۱۳۱ عبدالغنی علا۔ّمہ اقبال کی تصنیف _ایک قطعۂ تاریخ مارچ۱۹۷۷ئ ۲۰-۳۰ // // علا۔ّمہ اقبال مزارِ بابر پر نومبر۱۹۷۷ئ ۲۳-۲۹ عبدالقوی ضیا اقبال کی اُردو نعتیہ شاعری اکتوبر۲۰۰۰ئ ۶-۲۰ عبداللہ چغتائی لاہور میں علا۔ّمہ اقبال کی قیام گاہیں اکتوبر۱۹۷۳ئ ۵۲-۶۰ // // اقبال کا نظریہ__فن تعمیر کے بارے میں نومبر۱۹۷۷ئ ۳۰-۴۸ عبداﷲ،سیّد اقبال اور حافظ کے ذہنی فاصلے ستمبر۱۹۵۷ئ ۹-۲۴ // // اقبال کے نظریۂ علم کے چند پہلو جنوری۱۹۷۴ئ ۱-۱۳ // // اقبال اور ’’ دانتے ‘‘ کے ذہنی فاصلے جنوری۱۹۷۶ئ ۱-۶ // // اقبال کے غیر مسلم مداح اور نقاد جولائی۱۹۷۷ئ ۱-۱۶ // // اقبال کے کچھ غیر ملکی مداح اکتوبر۱۹۸۲ئ ۱-۱۷ عبداللہ قریشی نوادرِ اقبال [مہاراجا کشن کے نام اقبال کے غیر مطبوعہ پچاس خطوط] اکتوبر۱۹۷۳ئ ۷۲-۱۸۸ // // داستانے از دکن آوردہ ام[اقبال کا سفرِ جنوبی ہند] جولائی۱۹۷۷ئ ۶۶-۸۱ // // حیات ِ جاوداں(اقبالیات)-۱ مارچ۱۹۷۸ئ …… // // حیات ِ جاوداں(اقبالیات)-۲ مئی۱۹۷۸ئ …… // // اقبال کی باتیں اور ملاقاتیں اکتوبر۱۹۸۲ئ ۴۴-۶۱ // // حیات ِ جاوداں(اقبالیات)-۱ اکتوبر۱۹۸۴ئ ۱-۱۴ // // حیات ِ جاوداں(اقبالیات)-۲ جنوری۱۹۸۵ئ ۱۳-۲۷ // // آفتاب اقبال بن علامہ اقبال اکتوبر۱۹۸۵ئ ۱۸-۴۲ // // اقبال کا سب سے پہلا سوانح نگار [محمد دین فوق] اکتوبر۱۹۸۶ئ ۱۴-۲۰ // // علا۔ّمہ اقبال اور سیّد سلیمان ندوی [ایک علمی مذاکرہ] اکتوبر۱۹۸۷ئ ۱-۱۲ عبداللہ قریشی[مترجم] لسان العصر اکبر کے کلام میں ہیگل کا رنگ [علامہ اقبال] اکتوبر۱۹۸۸ئ ۱-۷ عبدالواحد معینی اقبال اور رومی جنوری۱۹۷۴ئ ۳۴-۴۱ عزیز احمد اقبال، جدیدیت اور نو بین الاسلامیت[مترجم: جمیل جالبی] اپریل۱۹۸۹ئ ۱۳-۱۶ عشرت رحمانی گلشن رازِ جدید [ایک سرسری و مختصر جائزہ/ بسلسلۂ اقبال] جولائی۱۹۷۷ئ ۱۲۵-۱۳۱ علی عباس،سیّد مکاتیب ِ علا۔ّمہ اقبال بنام قائداعظم کا پس منظر اور اساسِ پاکستان نومبر۱۹۷۷ئ ۴۹-۶۰ عندلیب شادانی اقبال اور مسئلہ جبر وقدر اکتوبر۱۹۶۸ئ ۱۴۴-۱۴۹ غلام شبیر،رانا اقبال کے تصورِ عشق اور پنجابی شعرا کے تصورِ عشق میں مماثلت اکتوبر۱۹۸۸ئ ۳۲-۶۴ // // خواجہ غلام فرید اور علا۔ّمہ محمد اقبال جنوری۱۹۹۱ئ ۶۱-۷۹ // // اقبال اور علی حیدر اکتوبر۱۹۹۲ئ ۳۱-۶۰ غلام رسول مہر[مترجم] میکٹیگارٹ کا فلسفۂ فکر [علامہ اقبال] اکتوبر۱۹۸۷ئ ۱۲-۲۵ غلام حسین ذوالفقار اقبال کے ایک پیر و مرشد ، اکبر الٰہ آبادی اکتوبر۱۹۸۵ئ ۱-۲۱۷ غلام حسین یوسفی اقبال __شاعر حیات [فارسی/ مترجم: محمد ریاض] نومبر۱۹۷۷ئ ۹۱-۱۱۳ فتح محمد ملک سوویت یونین میں اقبال شناسی نومبر۱۹۷۷ئ ۷۵-۸۰ فرحت شاہ جہاں پوری اقبال و خوشحال کی اقتدارِ مشترک کے تعین میں عبدالصمد خاں کی مساعی جولائی ۱۹۶۲ئ ۱۰۲-۱۲۰ فرمان علی طاہر اقبال شناسی کی روایت اورحیدر آباد دکن اکتوبر۲۰۰۱ئ ۶۷-۷۶ فیاض محمود،سیّد استفسار [بسلسلہ اقبال ] جولائی۱۹۷۷ئ ۵۵-۵۹ // // اقبال کے کلام میں شیطان کا تصور اکتوبر۱۹۹۰ئ ۱-۱۹ کلب علی خاں اقبال کی شاعری کا آغاز جولائی۱۹۷۷ئ ۳۰۶-۳۱۱ // // علم اور احساسِ مذہب [بسلسلہ اقبال] اکتوبر۱۹۸۲ئ ۳۴-۳۷ // // علامہ اقبال کی ولادت کا صحیح سنہ اکتوبر۱۹۸۲ئ ۱۴۸-۱۵۴ کلیم اختر علا۔ّمہ اقبال کا سفر کشمیر جولائی۱۹۷۸ئ ۴۷-۵۶ گلینہ شبنم اقبال اور مسئلہ جبر و قدر اکتوبر۲۰۰۱ئ ۵۲-۶۰ گیان چند اقبال سے متعلق کچھ تحقیق پارے اکتوبر۱۹۸۶ئ ۱-۱۳ محمد اسلم ضیا اقبال کے اُردو کلام کا عروضی تجزیہ مئی۱۹۷۹ئ ۴۲-۷۴ محمد اکرم،سیّد عصراقبال کا سیاسی پس منظر اکتوبر۱۹۷۱ئ ۵۰-۶۵ محمد باقر اقبال کے اجداد کا سلسلۂ عالیہ اکتوبر۱۹۷۳ئ ۱-۱۲ محمد تقی،سیّد اقبال- چند فکری بحثیں جولائی۱۹۶۵ئ ۹-۱۶ محمد حنیف شاہد علا۔ّمہ اقبال کی پانچ غیر مدوّن تحریریں اکتوبر۱۹۷۳ئ ۲۳۸-۲۴۱ // // سر ہو گئے اقبال نومبر۱۹۷۷ئ ۱۳۸-۱۵۱ محمد ریاض ابیا ت ِ اقبال کے معانی اکتوبر۱۹۸۷ئ ۵۴-۸۹ محمد ریاض[مترجم] اقبال __شاعر حیات [فارسی/ غلام حسین یوسفی] نومبر۱۹۷۷ئ ۹۱-۱۱۳ حمیرا ا رشاد فکر ِ اقبال کے ارتقا میں ’’ قومی زندگی ‘‘ کی اہمیت اکتوبر۲۰۰۱ئ ۴۴-۵۱ محمد صدیق علا۔ّمہ اقبال کے ذاتی کتب خانے میں چند قانونی کتابیں مارچ۱۹۷۹ئ ۳۰-۴۸ محمد عثمان کیا مذہب ممکن ہے؟ [اقبال کے ساتویں خطبے کی تلخیص و توضیح] جنوری۱۹۷۴ئ ۴۲-۵۹ محمد منور،مرزا علامہ اقبال کی فارسی غزل جنوری۱۹۷۴ئ ۶۰-۱۳۹ // // علا۔ّمہ اقبال بحضور ِقرآن نومبر۱۹۷۷ئ ۶۱-۷۴ // // علامہ اقبال کا شعری آہنگ اور ضربِ کلیم اکتوبر۱۹۸۲ئ ۱۳۲-۱۴۷ محمود شیرانی،حافظ داستانِ پشاور [اقبال کی نظم] اکتوبر۱۹۸۶ئ ۱۰۰-۱۱ مزمل حسین علا۔ّمہ اقبال کا تنقیدی شعور ،تحقیقی و تنقیدی جائزہ اکتوبر۲۰۰۰ئ ۸۹-۹۸ مسعود احمد خاں علا۔ّمہ اقبال کا تصورِ خودی اور انسان دوستی جولائی۱۹۹۸ئ ۴۲-۴۷ // // اقبال کے فارسی کلام کا منظور اُردو ترجمہ اکتوبر۲۰۰۲ئ ۲۵-۳۷ مسعود احمد راہی اقبال اور زوالِ مشرق اکتوبر۱۹۸۸ئ ۲۶-۳۱ // // برصغیر میں مسلم تشخص اور اقبال اکتوبر۱۹۹۰ئ ۵۹-۶۵ مظفر حسن ملک اقبال، فکر و عمل کا اتحاد جولائی۱۹۸۴ئ ۳۲-۵۹ // // علا۔ّمہ اقبال اور مزدور اکتوبر۱۹۸۷ئ ۳۱-۵۳ // // علا۔ّمہ اقبال اور افغانستان اکتوبر۱۹۹۲ئ ۱۹-۳۰ معین الدین عقیل سیّد جمال الدین افغانی اور اقبال جولائی۱۹۷۷ئ ۱۹۵-۲۲۶ // // دنیائے اسلام میں وطنی قومیت کا مسئلہ اور اقبال مارچ۱۹۸۳ئ ۱۵-۷۱ ممتاز حسن قارئین اقبال کے لیے گوئٹے کی اہمیت جنوری۱۹۷۴ئ ۱۴۰-۱۴۵ ممتاز منگلوری اندلس __کلامِ اقبال کے آئینے میں اکتوبر۱۹۷۳ء ۲۸۷-۳۲۶ منظور حسین،خواجہ علا۔ّمہ اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط [بنام سجاد حیدر یلدرم] اکتوبر۱۹۷۳ئ ۱۸۹ منیر سلیچ اقبال کا ایک مکتوب الیہ [ماسٹر طالع محمد] اکتوبر۱۹۹۰ئ ۷۵-۷۸ مہ جبین زیدی ’’اُمّی‘‘ -معنی اور مفہوم[بہ سلسلۂ اقبالیات] اکتوبر۱۹۹۰ئ ۸۸-۹۶ میرزا ادیب علا۔ّمہ اقبال کی ایک مثنوی’’ مسافر ‘‘ جولائی۱۹۷۷ئ ۹۰-۱۱۲ نثار احمد فیضی اشاریہ علامہ اقبال صحیفہ اکتوبر۱۹۹۹ئ ۱۱۷-۱۲۲ نظیر صدیقی اقبال اور رادھا کرشنن اکتوبر۱۹۸۶ئ ۸۰-۹۹ نوازش رباب اقبال کا تصورِ امت ، مسلم بین الاقوامیت اکتوبر۲۰۰۱ئ ۳۸-۴۳ نور محمد قادری،سیّد سیّد نذیر نیازی کی ایک نادر تحریر،[ جاوید نامہ کا ایک خاکہ] اکتوبر۱۹۸۲ئ ۳۰-۳۳ // // نوادرات ِ اقبالیات اکتوبر۱۹۸۶ئ ۲۱-۳۵ وائی چولائی شیوجم اقبال ایک عالمی ورثہ [مترجم: سعادت سعید] اکتوبر۲۰۰۲ئ ۱۵-۲۴ وحید قریشی آثارِ اقبال [تین خطوط بنام سردار احمد خان] اکتوبر۱۹۷۳ئ ۱۹۰-۱۹۶ // // اقبال اور عبدالرحمن چغتائی جولائی۱۹۷۷ئ ۲۹-۴۲ // // علا۔ّمہ اقبال کا نظریہ حیات اپریل۱۹۸۸ئ ۱-۵ // // افکارِ اقبال اکتوبر۱۹۸۸ئ ۸-۲۵ وسیم انجم اقبالیات مجلہ نیرنگِ خیال اکتوبر۲۰۰۰ئ ۵۲-۸۳ نظمیں شاعر نظم ماہ و سال صفحات نمبر احمد ندیم قاسمی سورج کو نکلتا ہے ، سو نکلے گا دو بارا جولائی۱۹۷۷ئ ۱۷۴ اسرار زیدی وجہِ قرار و راحت دل زدگاں ہے تو کہ میں جولائی۱۹۷۷ئ ۱۶۵ امجد اسلام امجد ہجومِ صید میں دیکھا گھرا ہوا صیاد جولائی۱۹۷۷ئ ۱۶۸ ایس اے رحمن اقبال کے حضور جولائی۱۹۷۷ئ ۱۵۴-۱۵۵ پروین شاکر کس شہر میں لائی خوش کلامی جولائی۱۹۷۷ئ ۱۶۹ سلیم شاہد تضمین جولائی۱۹۷۷ئ ۱۶۰ شہرت بخاری نہ فلک حریف میرا، نہ عدو مرا زمانہ جولائی۱۹۷۷ئ ۱۶۴ صابر ظفر وفا کے خستہ دلوں کا لشکر وطن پہ جب بھی نثار ہوگا جولائی۱۹۷۷ئ ۱۷۳ عابد علی عابد،سیّد اقبال جون۱۹۵۷ئ ۱۴۳-۱۴۴ غلام مصطفی تبسم اقبال [فارسی] جولائی۱۹۷۷ئ ۱۵۸ // // اقبال [پنجابی] جولائی۱۹۷۷ئ ۱۵۹ // // اقبال جولائی۱۹۷۷ئ ۱۵۶-۱۵۷ غلام محمد قاصر ایسے اسیر ہوگئے لوگ طلسمِ ذات میں جولائی۱۹۷۷ئ ۱۷۲ کشور ناہید لوگ کہتے ہیں کہ تھا ہر زخم کا محمل بھی تو جولائی۱۹۷۷ئ ۱۶۷ مرتضیٰ برلاس دریچوں سے کرن پھوٹی، نہ روزن سے پیام آیا جولائی۱۹۷۷ئ ۱۶۶ نجیب احمد اے سادہ دلاں ہشیار، جاں دینے کی رُت آئی جولائی۱۹۷۷ئ ۱۷۱ یوسف حسن اقبال کے حضور جولائی۱۹۷۷ئ ۱۶۱ خ…خ…خ…خ تبصرہ کتب مبصر کتاب؍ مصنف ماہ و سال صفحات نمبر ادارہ علامہ اقبال کے صدسالہ جشن پر مجلس ترقی ادب کی ۱۳کتب کی اشاعت جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۲-۳۱۵ // // اقبال کا تصورِ زمان و مکان از رضی الدین صدیقی جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۲ // // اقبال معاصرین کی نظر میں از سیّد وقار عظیم جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۳ // // اقبال اور عبدالحق از ممتاز حسن جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۳ // // شذراتِ فکرِ اقبال از جسٹس جاوید اقبال جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۳ // // اقبال کی تیرہ نظمیں از اسلوب احمد انصاری جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۳ // // خطباتِ اقبال (پنجابی ترجمہ) از شریف کنجاہی جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۴ // // جاوید نامہ (پنجابی ترجمہ) از شریف کنجاہی جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۴ // // اقبال بحیثیتِ شاعر از رفیع الدین ہاشمی جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۴ // // معاصرین،اقبال کی نظر میں [مجلس ترقی ادب] جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۴ // // روایاتِ اقبال از محمد عبداللہ چغتائی جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۵ // // اقبال کی صحبت میں از محمد عبداللہ چغتائی جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۵ // // اقبال کے شعری مآخذ از وزیرالحسن عابدی جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۵ // // اقبال کی اُردو نثر از عبادت بریلوی جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۵ افتخار احمد صدیقی اقبال کا تصورِ زمان و مکان از رضی الدین صدیقی جنوری۱۹۷۶ئ ۹۱-۹۵ انتظار حسین اقبال اور بعض دوسرے شاعر از خواجہ منظور حسین جولائی۱۹۷۸ئ ۱۰۲-۱۰۴ تبسم کاشمیری علامہ اقبال بھوپال میں از عبدالقوی دسنوی جنوری۱۹۷۰ئ ۱۶۷-۱۶۸ جیلانی کامران اقبال اور اس کے تصورات از ایم ایم شریف اپریل۱۹۶۵ئ ۶۲-۶۳ // // گلشن راز جدید اور بندگی نامہ از علامہ اقبال [انگریزی مترجم: بشیر احمد ڈار] اپریل۱۹۶۵ئ ۶۰-۶۱ رحیم بخش شاہین حیاتِ جاوداں (اقبالیات) از عبداللہ قریشی اکتوبر۱۹۸۷ئ ۱۶۰ رفیع الدین ہاشمی A Study in Iqbal's Philosophy از بشیر احمد ڈار جنوری۱۹۷۳ئ ۱۶۴-۱۶۸ س۔ر شعر اقبال از …… شمارہ۱۲/۱۹۶۰ئ ۱۴۶-۱۵۰ شبیہ احمد،سیّد اقبال بنام شاد از عبداللہ قریشی اکتوبر۱۹۸۸ئ ۱۰۳-۱۰۸ عابد علی عابد،سیّد فکر اقبال از خلیفہ عبدالحکیم ستمبر۱۹۵۷ئ ۲۵۶-۲۵۷ عبداللہ، سیّد اقبال کی شخصیت اور شاعری از حمید احمد خاں نومبر۱۹۷۷ئ ۱۹۱-۱۹۶ غلام حسین ذوالفقار مکاتیبِ اقبال بنام گرامی از عبداللہ قریشی جنوری۱۹۷۰ئ ۱۳۶-۱۳۸ // // ولی سے اقبال تک از محمد عبداللہ اکتوبر۱۹۶۹ئ ۱۲۶-۱۲۸ ف۔ش خوشحال و اقبال از میر عبدالصمد خاں جنوری۱۹۶۲ئ ۱۳۲-۱۳۶ کلب علی خاں ماہنامہ ’برگِ گل‘ کراچی کا علامہ اقبال نمبر [مدیر: محمد خلیل اللہ] نومبر۱۹۷۸ئ ۹۱ محمد باقر ارمغانِ حجاز از علامہ اقبال [سندھی ترجمہ: لطف اللہ بدوی] جنوری۱۹۶۳ئ ۹۳ محمد زکریا،خواجہ معاصرین __اقبال کی نظر میں از عبداللہ قریشی نومبر۱۹۷۸ئ ۸۸-۹۰ محمود احمد ناظر پلگرمیج آف ایٹرنٹی (جاوید نامہ کا منظوم انگریزی ترجمہ ) از شیخ محمود احمد جنوری۱۹۶۳ئ ۱۱۵-۱۱۹ میرزا ادیب خطوطِ اقبال از رفیع الدین ہاشمی مئی۱۹۷۷ئ ۹۶-۹۸ وارث سرہندی انوارِ اقبال از بشیر احمد ڈار جنوری۱۹۷۰ئ ۱۲۵-۱۲۶ // // گفتارِ اقبال از رفیق افضل اپریل۱۹۷۰ئ ۱۶۰-۱۶۱ // // نقش اقبال از عبدالواحد معینی اپریل۱۹۷۰ئ ۱۶۱-۱۶۲ // // مطالعات اقبال از اسلم ملک اپریل۱۹۷۰ئ ۱۶۳-۱۶۴ // // Letters and Writings of Iqbal از بی اے ڈار جولائی۱۹۷۲ئ ۱۵۰ وحید قریشی Iqbal's Philosophy and Education از میاں محمد طفیل اپریل۱۹۶۷ئ ۱۰۲ // // Studies in Iqbal از سیّد عبدالواحد جولائی ۱۹۶۸ئ ۱۸۴ خ…خ…خ…خ صحیفہ کے اقبال نمبر مدیر ماہ و سال صفحات وحید قریشی اکتوبر۱۹۷۳ئ ۴۱۶ احمد ندیم قاسمی جنوری۱۹۷۴ئ ۱۴۵ // // جولائی۱۹۷۷ئ ۳۱۶ // // نومبر۱۹۷۷ئ ۱۹۶ // // اکتوبر۱۹۸۲ئ ۱۵۴ // // اکتوبر۱۹۸۴ئ ۱۰۲ // // اکتوبر۱۹۸۵ئ ۲۱۰۴ // // اکتوبر۱۹۸۶ئ ۱۵۰ // // اکتوبر۱۹۸۷ئ ۱۶۲ // // اکتوبر۱۹۸۸ئ ۱۲۷ // // اکتوبر۱۹۹۰ئ ۱۲۱ // // اکتوبر۱۹۹۲ئ ۸۴ // // اکتوبر۱۹۹۹ئ ۱۲۲ // // اکتوبر۲۰۰۰ئ ۹۴ // // اکتوبر۲۰۰۱ئ ۷۶ // // اکتوبر۲۰۰۲ئ ۸۸ خ…خ…خ…خ  اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف نبیلہ شیخ ڈاکٹر محمد اقبال شاہد: ’’علامہ اقبال اور قدیم ایرانی مذاہب‘‘، قومی زبان، فروری ۲۰۰۷ئ، ص۳۵-۳۹۔ اقبال نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے حصہ اوّل کو ایرانی دوگرائی (دو خدائوں کا تصور) سے موسوم کیا ہے۔ ایرانی اساطیر کے مطابق ’’اورمز‘‘ نیکی کا اور ’’اہرمن‘‘ بدی کا خدا ہے۔ اقبال کے مطابق ظہور زرتشت کے زمانے میں قدیم ایرانی دو گروہوں میں منقسم تھے۔ ایک نیکی اور خوبی کی ذاتی قوتوں کے پیروکار، دوسرے بدی اور بیگانہ قوتوں کے طرف دار۔ زرتشت نے بھی اپنے مذہبی فلسفے کی بنیاد انھی دو قوتوں پر رکھی اور بری قوتوں کو نیک خدا کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں مشغول ہوگیا۔ اقبال اسے زرتشت کی مجاہدت نارسایا بے فائدہ سعی کا نام دیتا ہے۔ اقبال اپنے آثار میں زرتشت کی نمایندہ روشنی اور شیطان کے خلاف برسر پیکار مبارز، شاعر اور پیامبر ایران کے ناموں سے تعریف کرتا ہے۔ مانی زرتشت کے برعکس ثنویت (دوگانہ خدا کے تصور) کو مادی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے خیال میں نیکی اور بدی کی آمیزش اصل جہان ہے۔ نور اور ظلمت ایک دوسرے سے جدا اور مستقل وجود کی حامل قوتیں ہیں۔ نور کے دس خواص ہیں: حلم، معرفت، فہم، علم خفی، بینش، عشق، ایقان، ایمان، نیک خواہی اور عقل جبکہ ظلمت کے پانچ خواص ہیں: دھند، دھواں، آگ، آندھی اور اندھیرا۔ اقبال کے نزدیک مانی کی یہ تعبیر بچگانہ ہے۔ لیکن تاریخ فلسفہ میں مانی کا ایک منفرد مقام ہے اور وہ پہلا حکیم ہے جس نے شیطان کو فعالیت کا سبب اور فطرتاً برا (بد) کہا ہے ۔ اقبال کے منثور و منظوم آثار میں مشہور کمیونسٹ مزدک کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جس نے انسانی برابری اور مساوات کا پرچار کیا۔ اقبال کے نزدیک مزدک اپنے فکری نظام میں زیادہ حساس ہے اور اس کی تعلیمات کا نمایاں ترین پہلو اس کا انسان سے رابطہ اور اس کا احساس اور خیال رکھنا ہے۔ اقبال مزدک کے درسِ مساوات کو پسند کرتا ہے لیکن رستخیز کے بغیر ایمان و ایقان کو جدال محض سے تعبیر کرتا ہے آخر میں اقبال مذکورہ قدیم ایرانی مذہبی فکر و فلسفہ کا تجزیہ یوں کرتا ہے۔ ایرانیوں کا نمایاں ترین امتیاز ان کی فلسفیانہ عقل پسندی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایرانی ذہن فکری حقائق کے سلسلہ میں بے صبر واقع ہوا ہے اور کلی طور پر پراگندہ حقائق کے مشاہدہ کی طاقت و توانائی کا حامل نہیں۔ نازک خیال ہندی برہمن وحدت کلی کو زندگی کی تمام جزوی آزمائشوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انھیں جہان کے گوناںگوں مظاہر میںمنعکس پاتا ہے جبکہ ایرانی فلسفے کی مثبت خدمت کو غزالی کی چھوٹی سی کتاب مشکوۃ الانوار میں دیکھا جاسکتا ہے۔ غزالی نے اس کتاب کا آغاز قرآن کی آیت سے کیا ہے: ’’اللہ ہی آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔‘‘ اس کے بعد غزالی نے کہا ہے جہان ظلمت سے پیدا ہوا لیکن اللہ نے اس پر اپنا نور ڈال دیا۔ اقبال اپنے آثار میں وحدت خداوندی کے بعد رسالت کو بنیادی رکن اور راہِ حق کے لیے روشن مشعل قرار دیتا ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: ’’اقبال کہانی‘‘، اخبار اُردو، اسلام آباد، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص۸۰۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال نوجوان نسل کے شاعر ہیں۔ وہ عظیم شاعر جو اس دنیا میں تبدیلی اور انقلاب کا سرچشمہ نوجوانوں کو سمجھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم نوجوان بھی شاہین کی طرح جھپٹنا، پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا سیکھ لیں۔ ’اقبال کہانی‘ بھی مصنف ڈاکٹر افتخار کھوکھر کی ایسی ہی کاوش ہے جس میں انھوں نے اقبال کے افکار و خیالات کو کہانی کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٭٭٭ سیّد طارق رضوی: ’’عصر حاضر اور بصیرت اقبال‘‘، افکارِ معلم، لاہور، جنوری ۲۰۰۷ئ، ص۴۰-۴۴۔ بیسویں صدی میں دنیائے اسلام کے فکری اُفق پر جو نام بہت منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے وہ حکیم الامت علامہ اقبال کا ہے۔ ان کی عہد ساز شاعری ہمارے اجتماعی شعور کی صورت گر ہے اور اس میں مستقبل کی پیش۔گوئی کی غیر معمولی صلاحیت کی حامل ہے۔ مذہبی، تاریخی اور تہذیبی حوالے سے اقبال کی فکر کا سب سے اہم پہلو مغرب پر تنقید ہے۔ اقبال نے مغربی تہذیب کے کمزور پہلوئوں کو واضح کرتے ہوئے اسلامی تہذیب اور اسلامی تصورات کی برتری کو نہایت مدلل انداز میں پیش کیا۔ اقبال کا دور کشمکش کا دور تھا، تحریک حریت اور استقلال کا دور تھا۔ اقبال کو خدا نے بصارت کے ساتھ بصیرت بھی دی تھی۔ وہ مرد مسلمان تھے۔ تدبر کے ساتھ انھیں فراست مومنانہ بھی عطا ہوئی تھی۔ وہ مستقبل کے مناظر کو دیکھ رہے تھے، انھیں معلوم تھا یہ دور استعمار ختم ہوگا۔ اقبال کی شاعری کے سرسری مطالعہ سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے ہاں عقل اور دل یا خرد اور عشق کے درمیان تضاد کا تذکرہ دراصل مغربی تہذیب کی مذمت اور تنقید سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبال نے اپنی پوری تخلیقی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے عشق اور دل کو اسلامی تہذیب کے استعارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اقبال نے اُمت مسلمہ کے بارے میں اور مغربی تہذیب کے مستقبل کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی ہیں ان میں سے بہت سی پوری ہوچکی ہیں۔ اُمت مسلمہ کے روشن مستقبل کا تذکرہ وہ اپنے کلام میں نہایت یقین سے کرتے ہیں اور اپنے ایمانی جذبے کی سرشاری سے وہ سب کو سرشار کردیتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر جاوید اقبال: ’’اقبال ایک باپ کی حیثیت سے‘‘، تہذیب الاخلاق، لاہور، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص۱۱-۱۹۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ مقالہ علامہ اقبال کی گھریلو اور خاندانی زندگی کے کچھ گوشوں کو بیان کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں علامہ نے مجھے شاذ و نادر ہی کوئی ایسا موقع دیا ہوگا جس میں ان کی شفقت یا اس الفت کا اندازہ لگا سکتا، جو انھیں میری ذات سے تھی۔ والدین اکثر بچوں کو پیار کرتے ہیں، انھیں گلے لگاتے ہیں، انھیں چومتے ہیں مگر مجھے ان سے کبھی اسی قسم کی شفقت پدری کا احساس نہ ہوا۔ ان کی محبت کے اظہار میں ایک اپنی طرز کی خاموشی تھی جس میں عنفوان شباب کے وقتی ہیجان کا فقدان تھا۔ اس محبت کی نوعیت فکری اور تخیلی تھی جس تک پہنچنے کی اہلیت میرا ذہن نارسا نہیں رکھتا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ میں ان کے بڑھاپے کی اولاد تھا۔ بہرحال جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں ان سے محبت کرنے کی بجائے خوف زیادہ کھاتا تھا۔ جاوید اقبال صاحب نے زیر نظر مقالے میں اپنے بچپن اور لڑکپن میں پیش آنے والے واقعات اور اپنے والد سے وابستہ توقعات اور محسوسات کو پیش کیا ہے۔ ٭٭٭ فضل حسین قلیل: ’’فقر نگاہِ اقبال میں‘‘، تہذیب الاخلاق، لاہور اپریل ۲۰۰۷ئ، ص۲۵-۲۷۔ فقر، وہ فقر نہیں جو ترک دُنیا کی ترغیب دیتا ہے۔ فقر کا پہلا مطالعہ نفس سے جہاد ہے۔ نفس کو تابع فرمان رکھ کر دنیا کے غیر ضروری، منفی اور راہ سلوک سے بھٹکانے والے مظاہرے سے دامن کش ہوکر رہنا۔ اقبال شیخ نور محمد جیسے درویش خدامست کی آغوش پدری کے پروردہ تھے جنھوں نے دور طفولیت میں ہی اقبال کے تحت الشعور میں روحانی اقدار کے احساسات کو مستحکم کردیا تھا۔ پھر اقبال کو حضرت میر حسن جیسے دانا، بینا اور صاحبِ سخن دلنواز استاد میسر آئے۔ جنھوں نے اقبال کی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اور اقبال کی خداداد صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ علامہ کو دانشور کہلانے والے تو کثرت سے ملتے رہے لیکن ان کو حقیقی فقر کی وہ نگاہ کہیں نظر نہ آئی جس کی عمیق توجہ ان کے قلب و نظر کے اضطراب کو دائمی سکون سے آشنا کرسکتی۔ علامہ فرماتے ہیں وہ فقر صالح، جس کے عمل سے قم باذن اللہ کے بطن سے کرامات و معجزات کے سوتے اُبلتے تھے، جس کے آستین سے ظہور پذیر ہونے والے یدِبیضا سے کلیمانہ تجلیات کی خیرہ کن کرنیں پھوٹتی تھیں نایاب ہے۔ بے شک ایسے خرقہ پوش اور بوریہ نشین صاحبِ فقر کے حضور تالیف قلب کے لیے سرتسلیم کرنا واجب ہے۔ یہ وہ گہرہائے نایاب ہیں جو شاہانِ عالم کو نصیب نہیں۔ ٭٭٭ خواجہ محمد زکریا: ’’علامہ اقبال اور ہمارے مسائل‘‘، ادب دوست، لاہور جنوری، ۲۰۰۷ئ، ص۸-۱۱۔ علامہ اقبال نے تقدیر پرستی کو مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ تقدیر پرستی پر یقین رکھنے کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا کہ روزِ ازل لوح محفوظ پر جو کچھ لکھ دیا گیا ہے وہ پورا ہوکر رہے گا اس لیے ہمیں جستجو کرنے کی ضرورت نہیں۔ مسلمان فلسفیوں اور متکلموں نے یہاں تک لکھا ہے کہ انسان کو اتنا متوکل ہونا چاہیے جتنا کہ مردہ ہوتا ہے جو غسال کی کوشش سے حرکت کرتا ہے۔ قوم کا اجتماعی عقیدہ یہ ہے کہ دُعا سے قضا بدل جاتی ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔ محنت سے جی چرانے اور ہر شعبے میں کوشش اور جستجو سے کام نہ لینے کی وجہ سے ہم علوم جدید میں کئی نسلیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اقبال کے افکار میں نہایت قیمتی جوہر نظریہ اجتہاد ہے۔ قرآن مجید نے نظام چلانے کے لیے رہنما اصول دیے ہیں جن کی روشنی میں ہر دور میں پیدا ہونے والے نئے مسائل کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اقبال کو ادراک تھا کہ اسلام ایک حرکی مذہب ہے نہ کہ سنگ بستہ اور جامد۔ اگر اس میں لچک نہ ہوتی تو اب تک یہ مٹ چکا ہوتا۔ آپ نے اپنی عمر عزیز کے آخری دس بارہ سال اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت پر غور کیا اور کئی معاملات میں اجتہاد کے لیے جدوجہد کی۔ اب ہمارے بہت سارے مسائل اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں۔ مثلاً رویت ہلال، سود کا مسئلہ اور انشورنس وغیرہ۔ اقبال نے کم از کم اس بات کا ادراک تو کیا کہ نیا زمانہ بہت سے نئے مسائل لے کر سامنے آئے گا جن کے لیے مسلمانوں کو اجتماعی طور پر کوئی لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ اقبال نے ان مسائل کے حل کے لیے اپنی سوچ کو کبھی حرف آخر قرار نہیں دیا بلکہ اس بات کا صاف صاف لفظوں میں اقرار کیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید حل سامنے آئیں گے اور وہ بہتر حل ہوسکتے ہیں۔ ٭٭٭ ادارہ: ’’اقبال کی صحبت میں‘‘ قومی ڈائجسٹ، لاہور، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص۹۴-۱۰۰۔ علامہ اقبال کی مجلس میں بیٹھنے والے چند مشاہیر کی دل افروز یادیں بیان کی گئی۔ یہ عام قاری کے لیے دلچسپ ہیں اور اقبال کے افکار اور ذاتی زندگی کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ان مشاہیر میں شیخ عبدالقادر، سراج نظامی، مولانا غلام رسول مہر، ڈاکٹر تاثیر اور فقیر سید وحید الدین شامل ہیں۔ فقیر سید وحید الدین بیان کرتے ہیں کہ میں نے زمانے کی قدر ناشناسی کا ذکر کیا اور کہا لوگ شاعروں کی قدر نہیں کرتے تو ڈاکٹر صاحب نے کسی قدر تامل کے بعد فرمایا تم غور کرو تو معلوم ہوگا کہ جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہے تو دنیا کی بند ہوجاتی ہیں اور جب شاعر کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتی ہیں تو دنیا کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اور وہ صدیوں تک اس کی تعریف و توصیف کے گیت گاتی رہتی ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کیا یہ صحیح ہے کہ انسان بغاوت کا دوسرا نام ہے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا بالکل صحیح۔ آخر تم ہی کہو تم نے اپنے والدین کے احکام کی تعمیل کہاں تک کی ہے۔ کیا تم میں سرکشی کی روح نہیں میں نے شرمندہ ہوکر نگاہیں جھکالیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر نصرت جہان: ’’تاثیر رومی در افکارِ اقبال‘‘ ،دانش، اسلام آباد، جنوری ۲۰۰۷ئ، ص۷۷-۸۴۔ رومی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، ان کے افکار تمام جہاں کے لیے درخشندہ اور ان کی تعلیمات نژادِ نو کے لیے مشعل راہ ہے۔ فارسی زبان میں مثنوی معنوی کو قرآن پہلوی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اقبال نے ہمیشہ مولوی کو مرشد یا پیر کے نام سے یاد کیا اور ان کے کلام کے اثرات اقبال کے کلام میں موجود ہیں۔ اقبال لکھتے ہیں کہ ’’میں نے بیماری کے باعث عرصے سے مطالعہ کتب ترک کردیا ہے اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو وہ قرآن مجید ہے یا مثنوی معنوی۔‘‘ جاوید نامہ میں اقبال نے مولوی کو اپنا راہبر بنایا۔ گلشن راز جدید کے علاوہ اقبال کی تمام مثنویاں اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، بندگی نامہ، جاوید نامہ، مثنوی مسافر و پس چہ باید کرد بحررمل مسدس مجذوب میں لکھی گئی ہیں جو مولانا روم کی پسندیدہ بحر ہے۔ بالِ جبریل کے مشہور منظومے پیرومرید میں اقبال نے مثنوی کے ۲۸؍اشعار نقل کیے ہیں مکالماتی انداز میں حقیقتِ انسان، اکلِ حلال، جہاد، جلوت و خلوت، جبر و قدر، بیداری دل، خودی اور بے خودی جیسے موضوعات کو واضح کیا۔ اگرچہ اقبال اور رومی دو مختلف زمانوں کے شاعر تھے لیکن ان ادوار کے سیاسی، اجتماعی، مذہبی اور فکری حالات یکساں تھے۔ ساتویں صدی ہجری میں منگولوں کی یورش سے ملت اسلامیہ میں منفی عقاید، خانقاہ نشینی قناعت اور فقر پروان چڑھے جبکہ چودھویں صدی میں مغربی استعمار کے ہاتھوں مسلمان تن آسانی، درویشی، قناعت اور یاس کو اپنائے ہوئے تھے۔ رومی اور اقبال، جستجو، طلب، عظمت و ہمت کے مبلغ تھے انھوں نے اپنے ولولہ انگیز کلام سے قوم کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی اور تن آسانی، بے کاری و رہبانیت کی مذمت کی۔ ٭٭٭ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی:’’ علامہ اقبال کی وابستگی رسولؐ:چند پہلو‘‘، ترجمان القرآن، لاہور، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص۴۷-۶۰۔ علامہ اقبال کی زندگی، شخصیت، شاعری اور نثر نگاری کا مطالعہ کریں تو نبی اکرمؐ کے ساتھ تعلق خاطر، ایک قلبی و ذہنی وابستگی اور عشق و محبت کا جذبہ مطالعہ اقبال کا ایک نمایاں اور زریں باب نظر آتا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر دور میں عشق رسولؐ ایک زندہ توانا اور انقلاب انگیز جذبے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ اقبال سب سے پہلے انسانیت پر آپؐ کے احسان عظیم کا ذکر کرتے ہیں کہ آپؐ نے اسے لات و منات اور چوپایوں اور کاہنوں کی عبدیت کے بوجھ سے آزاد کیا اور امرا و سلاطین کی غلامی کے چنگل سے نجات دلائی۔ پھر افراد اُمت کی موجودہ حالت زبوں کا ذکر کرتے ہوئے افرادِ اُمت کے مختلف طبقوں کی ذہنی پس ماندگی پر رنج و تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں حب رسولؐ کا جذبہ چند ظاہری آداب تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، لیکن اقبال کی محبت رسولؐ فقط آپ کی زبان کلامی توصیف تحسین تک محدود نہیں وہ محبت رسولؐ کو خدمت رسولؐ اور خدمت رسولؐ کو خدمت دین کے مترادف سمجھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی باطل کے خلاف سراپا جہاد تھی۔ عصر حاضر میں بھی گوناگوں باطل نظریات اسلام کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کے خاتمے کے لیے کاوش ایک طرح سے سنت نبویؐ ہے۔ خود علامہ اقبال اپنے تئیں احیائے اسلام کے لیے کاوش و کوشش کا فریضہ ادا کرنے کی سعی کرتے رہے اور انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے خدمت اسلام اور خدمت رسول میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ محبت رسولؐ کے ضمن میں علامہ اقبال کو اپنی نسبت حجازی بھی بہت عزیز تھی۔ اسی طرح حجازِ مقدس کے سفر اور زیارت روضۂ رسولؐ کی تمنا کا بہ تکرار اظہار ملتا ہے۔ بارہا سفر حجاز کا ارادہ کیا مگر بوجوہ یہ ارادہ بروئے کار نہ آسکا۔ اقبال کا سفر حجاز کا خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور نہ ان کی میرم در حجاز کی تمنا بروئے کار آسکی۔ لیکن جب وہ اس عالم فانی سے رخصت ہوکر عالم جاودانی کو سدھارے تو وہ عالم گیری مسجد لاہور کے سایۂ دیوار میں سپرد خاک ہوئے۔ جہاں آج تک نماز اور زیارت مسجد کے لیے آنے والے ہزاروں لاکھوں مسلمان ان کے لیے مستقلاً دست بدعا رہتے ہیں۔ یہ رتبہ بلند ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا اور ایسا اعزاز و افتخار عشق رسول کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا۔ ٭٭٭ ڈاکٹر شیر زمان فیروز:’’ھمسانی ہادر اشعار حکیم ناصر خسرو و علامہ اقبال‘‘، دانش، اسلام آباد، جنوری ۲۰۰۷ئ، ص۳۹-۵۸۔ حکیم ناصر خسرو (۱۰۰۴ء م) پہلے فلسفی اور شاعر تھے جنھوں نے خود شناسی کو موضوع بنایا۔ نو صدیوں بعد علامہ اقبال نے اپنے کلام میں فلسفہ خودی کو بیان کیا۔ ناصر خسرو کے دور میں ایران کی سرزمین غزنویوںاور سلجوقیوں کے زیر تسلط تھی اور عوام الناس سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی حقوق سے محروم تھے اس طرح اقبال کے دور میں برصغیر پر تاج برطانیہ کا قبضہ تھا۔ یہ دونوں شاعر اپنے وطن کے ان حالات سے خوش نہ تھے جس کا اظہار انھوں نے اپنے کلام میں کیا۔ یہ دونوں شاعر انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے قرآن مجید اور کمالِ انسانیت کی بقا کے لیے علم و حکمت کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ ناصر خسرو بھی اقبال کی طرح خودی کی تکمیل کے لیے اطاعت، ضبط و نفس اور نیابت الٰہی کے داعی ہیں۔ واقعہ کربلا، عشق رسولؐ، انسان کامل، روحانی استاد، روح، تقلید، تقدیر، ملوکیت کی مذمت اور صلح کل جیسے موضوعات پر ان دونوں شاعروں نے اپنے اپنے دور میں اظہارِ خیال کیا مقالہ نگار نے اشعار کے ذریعے ان مشترکات کو واضح کیا ہے۔ ٭٭٭ محمد موسیٰ بھٹو: ’’فکر اقبال کا مطالعہ‘‘، بیداری، حیدرآباد، جنوری۲۰۰۷ئ، ص۶۴-۷۷۔ درحقیقت یہ مضمون علامہ کے خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے سندھی زبان میں شائع ہونے والے ترجمے کا مقدمہ ہے، جس میں مصنف نے خوب صورتی سے فکر اقبال کا خلاصہ بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ جناب محمد موسیٰ بھٹو صاحب پاکستان کے علمی اور مذہبی حلقوں میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کے فکروفلسفے کی نوعیت کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ : ’’عالم اسلام کے فلسفی اور حکیم کی حیثیت سے اسلام اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں علامہ اقبال کے سامنے کئی اہم چیزیں پیش نظر تھیں۔‘‘ انھوں نے ان کی وضاحت بھی کی ہے۔ ریاستی نظام کی تشکیل کے بارے میں اقبال کی رہنمائی، اقبال کی شخصیت کی ہمہ جہتی، مذہب سے خالی فلسفے کے اثرات، فکری جمود اور اجتہاد سے غفلت کے نتائج، مذہب کی اہمیت، انسان کی ابدیت، مطالعہ تاریخ کی اہمیت، مذہب زندگی کی اعلیٰ سطح سے آشنائی کا ذریعہ، مذہب کی تجرباتی اور محسوساتی سائنس، جدید سائنس کی ناکامی، انسان کے باطن میں موجود غیر معمولی قوتوں کی نشاندہی، مذہب کا مقصد، خیر و شر کی باطنی قوتوں کے درمیان تکرار، فلسفہ ادب عالیہ کا ذریعہ اور اس کی حدودِکار، مندرجہ بالا عناوین کے تحت مختصر اور جامع وضاحتیں درج ہیں۔ یہ تمام عناوین علامہ کے خطبات ہی سے ماخوذ ہیں۔ آخر میں خطبات پر کیے جانے والے اعتراضات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اور مضمون نگار نے اقبال کی شخصیت و فکر کے بارے میں انتہائی معتدلانہ روّیہ اختیا رکیا ہے۔ ٭٭٭  تبصرہ کتب ٭ خطبات اقبال ، الطاف احمد اعظمی، مبصر: محمد خضر یاسین ٭ مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں، عبداللہ شاہ ہاشمی، مبصر: محمد ایوب لِلّٰہ ٭ اقبالیات: تفہیم و تجزیہ ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مبصر: ڈاکٹر خالد ندیم ٭ اقبال اور قادیانیت ،بشیر احمد ، مبصر: ڈاکٹر وحید عشرت ٭ سہ ماہی اجتہاد ، مدیر: ڈاکٹر محمد خالدمسعود، مبصر: محمد خضر یاسین الطاف احمد اعظمی: خطبات اقبال: ایک مطالعہ۔ ناشر:دارالتذکیر، لاہور، صفحات۲۷۱، قیمت۔؍۱۸۰ روپے اقبال کی شاعری اور نثر پر مسلسل کام ہورہا ہے۔ ہر مصنف نے ایک مخصوص زاویۂ نگاہ سے ان کا مطالعہ کیا ہے اور حسب منشا مطالب اخذ کیے ہیں۔ فکر اقبال کے ردوقبول کے اس عمل میں ان کی شاعری اور خطبات پر اعتراضات کی نوعیت مختلف ہے۔ اقبال کے خطبات یوم اول سے موضوع بحث چلے آرہے ہیں۔ مذہبی نقطہ نظر سے جو اعتراضات وارد کیے گئے ہیں وہ فلسفیانہ نہیں اور فلسفیانہ نقطہ نظر سے جو اعترضات اٹھائے گئے ہیں وہ مذہبی نہیں ہیں۔حالانکہ مذہب کی جہت سے عقیدے کی نظری تشکیل کا کوئی مطالبہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی فلسفے کی رو سے نظری تصورات کی صحت پر پوری طرح اصرار کے باوجود وہ تصورات عقیدے کے درجے پر فائز ہوسکتے۔ تاہم خطباتِ اقبال پر نقد کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ ناقد عالم دین ہوتو فلسفیانہ شعور بھی رکھتا ہو اور اگر فلسفی ہو تو دینی شعور سے بھی بہرہ مند ہو۔ الطاف احمد اعظمی صاحب نے اس کتاب میں یہی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی کتاب قرآنی زاویہ نگاہ سے خطبات اقبال کا اولین جائزہ ہے۔ نتیجتاً انھوں نے اقبال کے بنیادی افکار سے زیادہ تر تعرض ان مقامات پر کیا ہے جہاں قرآن مجید کی آیات کو دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ بنیادی تصورات پر بحث نہیں کی گئی۔ بنیادی تصورات کو بلانقد بیانیہ انداز میں تحریر کردیا گیا ہے۔ ان تصورات سے اختلاف فقط اسی صورت میں کیا گیا ہے جب وہ مصنف کو اپنے مزعومہ خیالات وعقائد سے متصادم نظرآئے ہیں۔ کتاب کے مقدمے میں مصنف نے اقبال کے فکری مغالطوں کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔ -i مغربی فکر سے اسلامی فکر کا مطالعہ -ii مذہبی حقائق کے ادراک کے لیے روحانی وجدان کو ذریعہ تصور کرنا -iii آیات قرانیہ سے دورازکار مفاہیم اخذ کرنا مگر مصنف نے پوری کتاب میں مغربی فکر کے حدود اربعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ اسلامی فکر کیا ہے؟ مغربی اور اسلامی فکر میں امتیازات اور مماثلات کیا کیا ہیں؟ پہلے خطبے پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے مذہبی حقائق کے ادراک کے لیے وجدان کی نارسائی کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ روحانی وجدان سے کیا منکشف ہوتا ہے اور جو کچھ منکشف ہوتا ہے وہ مذہبی حقائق سے کیونکر متصادم ہوتا ہے؟اسی طرح قرآنی آیات کے مفاہیم کا معاملہ بھی خاصا الجھا ہوا ہے۔ مصنف کو بیشتر آیات کے حوالے سے اصرار ہے کہ وہ اخروی زندگی سے متعلق ہے جبکہ اقبال نے آیات سے جو استشہاد کیا ہے وہ دینوی زندگی سے متعلق ہے۔ آیاتِ قرآنیہ کی اخروی جہت سے متعلق تو اقبال کو بھی کوئی اعراض نہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ان آیات میں ہمارے مشاہدے سے زندگی کی یا کائنات کی کوئی مابعد الطبعی جہت منکشف ہوتی ہے؟ اور کیا ہم اس انکشاف کی بدولت فلسفیانہ تصور حقیقت یا تصور کائنات وضع کرسکتے ہیں؟ ممکن ہے الطاف احمد اعظمی صاحب کا جواب نفی میں ہو مگر ایک مفکر کا ان سے متفق ہونا ناممکن ہے۔ کیونکہ حقیقت کی نسبت تصور کا قیام انسان کا فطری داعیہ ہے جسے وہ نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ متن کے مقصد کو اس طرح نظر انداز کردیا جائے کہ وہ بالکل ہی نئی بات بن کر رہ جائے تو ایسی تعبیر ضرور قابلِ مواخذہ ہے۔ مصنف کو اقبال وحدت الوجودی نظرآتے ہیں وہ اس امر پر زیادہ اصرار کرتے ہیں کہ یہ وحدت الوجودی فکر غیراسلامی ہے۔ وجدان کو ذریعہ ادراک تصور کرنا بھی ارباب وجودی کا شیوہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اس سلسلے میں اقبال نے متعدد قرآنی آیات سے استشہاد کیا ہے لیکن اکثر مقامات پر یہ استشہاد صحیح نہیں ہے… انھوں نے قرآن مجید کا مطالعہ، خواہ اس کے اسباب کچھ بھی رہے ہوں، بالکل سرسری نگاہ سے کیا تھا۔ (صفحہ۲۵) اس کے بعد وہ ان قرآنی آیات کو یکے بعد دیگرے نقل کرتے ہیں اور یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآنی آیات کے مفاہیم میں دانستہ نہ سہی بہرحال تحریف کی گئی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے علامہ اقبال نے سورہ نور کی آیت نمبر۴۴ سے مرور زمان پر استدلال کیا ہے۔ مصنف اس آیت لیل ونہار سے آخرت کی آمد کو تو یقینی تصور کرلیتے ہیں مگر خود لیل ونہار کے ظہور کا جوہر یعنی ’’زمان‘‘ انہیں غیر متعلق معلوم ہوتا ہے۔ مصنف کی یہ روش ناقابل فہم ہے کہ مشہود سے غائب پر استدلال تو ممکن ہے مگر مشہود کے موجود خصائص ناقابل تجزیہ و تحلیل ہے اور ناقابل استشہاد ہیں۔ فاضل مصنف وحدت الوجود کے بارے مخصوص قسم کے تحفظات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں اقبال کی فکر میں ہر طرف وحدت الوجود ہی نظر آتا ہے۔ اور بعض مقامات پر انہوں نے وحدت الوجود کی ایسی تعبیر پیش کی ہے جو خود وحدت الوجود کے قائلین کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ فاضل مصنف روحانی تجربے کے خصوصیات پر معترض ہوتے اور اعتراض کا رخ نتیجے کی جانب ہے اور وہ اقبال اور دیگر مسلم ائمہ وصوفیہ کے اس موقف کا تائید نہیں کرتے کہ ذات بحت کا مشاہدہ ممکن ہے۔ وہ اقبال کے بعض خیالات کا ماخذ غیرمسلم مفکرین کو قرار دیتے ہیں۔ روحانی تجربے میں القائِ۔شیطانی کے امکان کے لیے اقبال کے قرآنی آیات سے استشہاد کو غلط ثابت کرتے ہیں اگرچہ روحانی تجربے میں القائِ شیطانی کے خود قائل نظر آتے ہیں۔ دوسرے خطبے میں اقبال نے وجودِ باری تعالیٰ پر قائم تینوں دلائل یعنی کونیاتی، غائی اور وجودیاتی کو رد کیا ہے اور ایک اصول بیان کیا ہے کہ اگر اس کو قبول کرلیا جائے تو ان دلائل سے نتائج کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ مصنف نے اقبال کی کونیاتی دلیل کی تنقید کو قبول کیا ہے مگر غائی دلیل کی تنقید پر معترض ہوئے ہیں۔ دوسرے خطبے میں قرآنی آیات سے اقبال کے استدلال کو غلط بتایا ہے مگر یہاں پر ایک بات کا اضافہ کردیا ہے کہ: ’’یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ اقبال نے اپنے نظریۂ زمان کے اثبات میں جنتی آیات نقل کی ہیں وہ سب نامکمل ہیں۔ انھوں نے دیدہ و دانستہ ہر آیت کا صرف وہی ٹکڑا نقل کیا ہے جس میں اختلاف لیل۔ونہار کا ذکر ہے……۔‘‘ اس ’’دیدہ و دانستہ‘‘کے مضمرات پر توجہ فرمائیں تو مصنف کے علمی شعور کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہے گا۔ علاوہ ازیں جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ مصنف کا ذہن چند طے شدہ مفروضات میں محصور ہے۔ جس کے باعث وہ آیاتِ قرآنیہ کے حاضر مفہوم سے اعراض کر نے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔ جبکہ علامہ اقبال کی کوشش ہے کہ موجود وحاضر حقیقت کوقرآن مجید کی آیات کے ظاہری معنی سے مستند بنائیں۔ مصنف نے اقبال کے تصور تقدیر کو زیربحث لاتے ہوئے ایک ایسی بات کہہ دی ہے جو کم ازکم افکار کی تنقید لکھنے والے شایانِ شان نہیں ہوسکتی۔ وہ لکھتے ہیں کہ: اقبال پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہستی میں جو کچھ ہوچکا یا ہونے والا ہے وہ سب زمان میں بطور ممکنات اس طرح موجود ہے جس طرح تخم میں درخت۔ کیا تخم میں درخت معین اور مشخص صورت موجود نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے۔ تو یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ ماہیت وجود میں ممکنات معین اور مشخص صورت میں موجود نہیں ہوتے۔ ص۷۹ بالقوہ اور بالفعل میں جب امتیاز کرنا ناممکن ہوتو شعور کی سطح ادراک اتنی رہ جاتی ہے کہ تخم میں درخت معیّن اور مشخّص صورت میں موجود ہوتا ہے۔ ہماری رائے میں مصنف کی اس عبارت پر مزید تبصرہ کرنا غیرضروری ہے۔ زمان کی بحث میں بھی مصنف نے بلاوجہ دست درازی کی ہے۔ وہ زمان کی ماہیت اور غایت میں اقبال کے نقطہ نظر کو نہیں سمجھ سکے۔ اور نہ ہی انھوں نے ’’انا‘‘ اور زمان کے تعلق اور واقعیت پر بحث کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے یا شاید اس موضوع پر بات نہ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی ہے۔ ان کے خیال میں خدا کی نظر میں عالم ممکنات اور عالمِ وجود یکساں ہے۔ (صفحہ۷۹) باین ہمہ انہیں اقبال کے نظریہ زمان پر معترض ہونے کی سوجھتی ہے۔ اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ممکنات اور وجود کا یکساں علم کیا معنی رکھتا ہے؟ تیسرے خطبے میں اقبال نے خداتعالیٰ کی ذات کے تصور اور عبادت کے مفہوم پر بحث کی ہے۔ مصنف نے یہاں بھی قرآنی آیات کے حوالے سے اقبال کی گرفت کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کے نزدیک اقبال نے سورہ اخلاص سے ذات باری تعالیٰ کی فردیت کا جو مفہوم اخذ کیا ہے وہ فردیتِ کامل کے بجائے ذات باری تعالیٰ صفت احدیت کو واضح کرتا ہے۔ ان کے خیال میں احدیت فردیت کے منافی ہے۔ غالباً مصنف کے ہاں فردیت اور انفرادیت میں امتیازات واضح نہیں ہیں۔ اسی طرح انھیں اقبال کے لفظ انائے مطلق پر بھی اعتراض ہے۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ہم انسان محض صفات کا ادراک رکھتے ہیں اور ذات کو نہیں پاسکتے انھیں یہ کہتے ہوئے خیال تک نہیں آیا کہ اقبال کی فکر کو قیاس محض پر مبنی قرار دینے والے نے ’’ذات‘‘ کا تصور ہی قیاسی کر رکھا ہے کیونکہ اگر ہم ہر شے سے اس کی ان صفات کو یکے بعد دیگرے ختم کرنا شروع کردیں تو آخری شے مکان ہوگا اگر مکان کو بھی محو کردیں تو پھر نہ ذات رہے گی اور نہ صفات میں سے کوئی چیز بچ سکے گی۔ لہٰذا ذات کا تصور جن اساسیات پر قائم ہے وہ یقینا حسّی ہیں اور خود ذات یقینا قیاسی ہے۔ مزید فرماتے ہیں اس میں شبہ نہیں کائنات رنگ وبو میں آخری حقیقت مادہ نہیں انرجی ہے۔ کیا یہ دعویٰ کہ آخری حقیقت مادہ نہیں ہے انرجی ہے، قیاسی نہیں ہے؟ آگے چل کر وہ اقبال کی عبارت نقل کرتے اور اس میں شرک کو ملبوس بتاتے ہیں اور قرآن مجید میں نحن اقرب الیہ من حبل الورید …والی آیت کی تشریح فرماتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس سے مراد قرب ذاتی نہیں ہے بلکہ قرب علمی ہے۔ یہ قرب علمی کیا چیز ہے؟ اسے جناب الطاف اعظمی صاحب ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اقبال پر تنقید اور وحدت الوجود کے فہم سے دور ہونے نے فاضل مصنف کو ایک ایسے فکری مغالطے میں مبتلا کردیا کہ جس کے نتیجے میں قرآن کے محکمات متشابہات میں بدل گئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اقبال نے بقائے نفس کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ محض ایک فلسفی کی عقلی نکتہ آفرینی ہے، حقیقتِ واقعہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’حقیقت واقعہ‘کیا ہے؟ جس سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں ہے اس بارے میں مصنف بالکل خاموش ہے۔ باین ہمہ ان کے نزدیک یہ ایک غیرفلسفی کی نکتہ آفرینی نہیں ہوگی۔ فرماتے ہیں راقم کے نزدیک اقبال کے تصور علم کی خامی یہ ہے کہ اس سے علم اور تخلیق میں تفریق پیدا ہوتی ہے حالانکہ دونوں لازم وملزوم ہیں۔ (صفحہ۱۲۰) حیرت ہے کہ علم اور تخلیق کی تفریق سے تصور علم کی خامی ظاہر ہورہی ہے حالانکہ اقبال نے یہ موقف اختیار کرکے کہ ’’وہ علم جو اپنے معلوم کا خالق ہے‘‘، سے اس تفریق کی نفی کردی ہے۔ قصہ آدم کی تعبیر و تشریح میں مصنف نے اقبال کی مدح کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ تشریح بڑی جامع اور بصیرت افروز ہے۔ مصنف کو اقبال کے تصورِ عبادت سے اختلاف ہے اور مصنف کا تصورِعبادت روایتی اور مذہبی ہے اور وہ اس تصور میں تصرف کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اقبال نے بھی روایتی اندازِ عبادت پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ عبادت کے مفہوم میں نکتہ آفرینی سے اقبال کے پیشِ نظر کچھ اور مقاصد پیدا کرنے مقصود تھے۔ نفس انسانی، اس کی آزادی اور بقا میں بھی انھیں قرآنی آیات کے غلط مطالب کی شکایت ہے اور پھر صحیح مفہوم وضع کرتے ہوئے متن میںموجود لفظی اور معنوی رعایتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں کوئی تردد نہیں ہوا۔ اس طرح کسی لفظ کے معنی کو اصطلاحی فرض کرنا اور دوسرا مفہوم وضع کرنا بھی شاعرانہ نہ سہی ادبیانہ نکتہ آفرینی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ مصنف کی عربی دانی شک وشبہ سے بالاتر ہوگی باین ہمہ خلق اور امر کے لیے انھوں نے سیاقِ کلام سے زیادہ لفظ کے ظاہری معنی پر اصرار کیا ہے۔ ہمارے خیال میں کسی بھی مفہوم کے لیے قرینے کی موجودگی کو پوری طرح نظرانداز کرنا اہل علم کا شیوہ نہیں ہے۔ مصنف اپنے مزعومہ خیالات کی نسبت حقیقت ہونے کے ایسے گھمنڈ میں مبتلا نظرآتے ہیں کہ انھیں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ سورہ نجم کی آیت کی تشریح میں عجیب قسم کی مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ معراج النبی ا پر رویت باری تعالیٰ کے بارے میں اُمت کے جلیل القدر اصحاب میں اختلاف موجود ہے۔ اعظمی صاحب کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ مگر اُن کا اپنی رائے کی نسبت پیغمبرانہ تیقّن اپنے محدود ذہن سے لامحدود آرزو وابستہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ مصنف نے علامہ کے پانچویں خطبے یعنی ’اسلامی ثقافت کی روح‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے پیغمبر اور ولی کے مابین امتیازات بیان کیے اور علامہ کے نقطہئِ نظر سے بجا طور پر اختلاف کیا ہے۔ ختم نبوت کے معاملے میں علامہ اقبال کی دلیل کو وقیع قرار دیا ہے تاہم اس کے نقائص بھی بیان کیے ہیں۔انھوں نے اقبال کے اس خیال کہ موجودہ اسلام میں مجوسی اثرات موجود ہیں سے پوری طرح اتفاق کیا ہے۔ حیرت ہے کہ قرآن کریم اپنی پوری صحت کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہے اس کے باوجود ہم اغیار کے زیر اثر ہیں۔ اور شاید یہ اثر کا تاثر بھی انھی اغیار ہی کا پیدا کردہ ہے۔ اسلام میں اصولِ حرکت والے خطبے کے بہت سارے محتویات سے مصنف متفق نظرآتے ہیں مگر ایک عجیب بات یہ ہے کہ ایک مشہور حدیث کے متعلق محض ظن و تخمین سے فرض کرلیا ہے کہ وہ وضعی یا موضوع ہے۔مصنف کا رجحان بھی اجتہاد کے لیے علامہ کے تجویز کردہ گروہِ اول کی جانب نظر آتا ہے جو آزادانہ طور پر اجتہاد کرسکتے تھے۔ اور شرعی احکام میں مصلحتوں کو صورِ احکام سے زیادہ اہم سمجھ لیا ہے۔ ناسخ و منسوخ احکام و شرائع سابقہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ احکام میں تغیر کا امکان موجود ہے۔ مصنف نے سنت کے لیے جو مفہوم اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبرعلیہ السلام کی سنت آپ کے اجتہادات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ علما کے اجتہادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں۔ تو پیغمبر علیہ السلام کی حیثیت ایک زیرک انسان کی ہوکر رہ جاتی ہے اور خدا کے فرستادہ کی نہیں رہتی۔ اور اصلاح انسانیت کی جو اہلیت پیغمبرعلیہ السلام میں ہے وہی آپ کے علاوہ لوگوں میں بھی موجود ہے۔ مصنف فرماتے ہیں کہ پیغمبر علیہ السلام کے بہت سے اجتہادات مقامی نوعیت کے ہیں، تو وہ دائمی کیونکر ہوسکتے ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کے شعور پر نہ تو قانون کی ماہیت واضح ہے اور نہ ہی یہ اس کی غایت کا اداراک رکھتے ہیں اور بعینہٖ یہ اجتہاد کے نام سے تو باخبر ہیں مگر اس کے مضمرات کا کوئی اندازہ نہیں رکھتے۔ جناب الطاف اعظمی صاحب نے قرآن مجید کی آیات سے معنی کے اخذوقبول کے باب میں پیغمبرانہ اجتہادات سے کام لیا ہے۔ اقبال کے تصور پر تنقید یا تشریح سے زیادہ اپنے خیالات وضع کرنے میں زیادہ زور صرف کیا ہے۔ انھیں تصوف اور اہل تصوف سے علمی وفکری کد ہے اور ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ قرآنی آیات کے معنی میں ایسی نکتہ آفرینی کی جائے جو پیغمبرانہ اجتہاد کے مقابلے میں ان کا ذاتی اجتہاد بن جائے۔ مثلاً ’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘ والے خطبے میں احسان کے مذہبی اور عرفانی مفہوم کو نظرانداز کرتے ہوئے اور ایک نئی راہ وضع کرتے ہیں۔ انھیں پیغمبر علیہ السلام کی حدیث مبارکہ کی جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ اس حدیث میں احسان کے جو معنی بیان کیا گیا ہے وہ ان کی ذہنی عداوت سے مناسبت نہیں رکھتا اس لیے وہ احسان کے ان معنوں کی طرف متوجہ ہونے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ ہمارے رائے میں یہ کتاب اقبال کی فکر کی عامیانہ شرح ہے۔ مصنف کا فکری پس منظر ایک مخصوص مذہبی حوالہ رکھتا ہے جس نے ان کے فہم اور بصیرت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ وہ قرآنی نقطہ۔نظر سے جائزہ لینے کے مدعی ہیں مگر ان کے خیال میں علم، حقیقت، مشاہدہ وغیرہ بس یک بُعدی فضیلتیں ہیں جو ان کے شعور پر منکشف ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک قرآنی آیات میں معنوی امکانات کا کوئی وجود نہیں ہے لہٰذا آیات کا اطلاق بھی فقط اسی حد تک محدود ہے جہاں ان کا شعور انھیں لے جاتا ہے۔ اور یہ امر بہرحال طے ہے کہ مصنف کی ذہنی سطح فلسفیانہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ مذہبی اعتبار سے کسی مستند طریق کے حامل ہیں۔ مصنف کا تصور بہت ہی عامیانہ اور جدت پسندوں کی ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ اجتہاد اور اس کے مضمرات کا انتقادی جائزہ آئندہ کسی تحریر میں عرض کیا جائے گا۔ ___محمد خضر یاسین ٭٭٭ عبداللہ شاہ ہاشمی: مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، صفحات۱۸۲، قیمت۔؍۱۵۰ روپے حضرت علامہ اقبال کے ساتھ جن لوگوں کا بھی تعلق رہا، وہ امر ہوگئے۔ نیز جن لوگوں نے حضرت علامہ کو موضوع بنایا انھوں نے بھی شہرت و ناموری میں حصہ پایا۔ مولوی احمد دین نے اقبال پر پہلی باقاعدہ کتاب لکھی جس کے بعد یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ افکارِ اقبال کی نت نئی تعبیریں سامنے آرہی ہیں۔ نیا لوازمہ سامنے آنے سے اقبال کی شخصیت اور فکر کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے، ان کے مکاتیب بھی بہت اہم ہیں۔ مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں کا نیا اڈیشن شائع ہوا ہے۔ مکاتیب کا یہ مجموعہ اگرچہ اس سے قبل دو مرتبہ بزمِ اقبال لاہور سے ۱۹۵۴ء اور ۱۹۹۵ء میں اور ایک مرتبہ اقبال اکادمی پاکستان لاہور سے ۱۹۸۶ء میں شائع ہوچکا تھا، اس کے باوجود نئی تدوین و تحقیق کے ساتھ اس کا شائع ہونا ضروری تھا۔ عبداللہ شاہ ہاشمی نے مذکورہ تینوں اشاعتوں کو سامنے رکھنا کافی خیال نہیں کیا بلکہ سچے محقق کی خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھوں نے اصل خطوط تک رسائی کی کوشش کی اور چونکہ طلب صادق تھی اس لیے گوہر مراد ہاتھ آگیا، یعنی اصل خطوط حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے نتیجے میں متن کی بہت سی اغلاط رفع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فکر اقبال کو سمجھنے کا سب سے بڑا ذریعہ بلاشبہ اقبال کی شاعری ہے لیکن اقبال کی نثر بھی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں۔ خطوط اگرچہ نجی تحریر ہوتے ہیں لیکن شخصیت کو سمجھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان خطوط سے اقبال کی ذاتی زندگی کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ نیز اس عہد اور ماحول کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ان خطوط سے جہاں تک اقبال کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے تو ان کی چند جھلکیاں اجمالاً اس طرح ہیں کہ اقبال اپنے ہم عصر اکابرین سے خاص محبت رکھتے تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ عشق رسول ا کا جذبہ ان کی تحریروں میں خاص طور پر جھلکتا ہے۔ اسمبلی کی نشست حاصل کرنے کے لیے کسی دوست سے محروم ہونا انھیں گوارا نہیں تھا۔ وکالت جو ان کا پیشہ تھا اس میں بھی ان کی نظرمحض پیسہ کمانے پر نہ تھی بلکہ اس معاملے میں بے رغبتی کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل سے خاص دلچسپی تھی۔ مدرسہ وخانقاہ سے اقبال محض اپنی شاعری ہی میں نمناک دکھائی نہیں دیتے بلکہ خطوط میں بھی یہی کیفیت نظر آتی ہے۔ تہذیب مغرب پر اقبال کے ہاں جو چوٹ کی گئی ہے، اس کا عکس ان خطوط میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور اس تہذیب کی بے راہ روی کی طرف کئی ایک مقامات پر اشارے ملتے ہیں۔ اقبال کے بعض ایسے ارادوں کا ذکر بھی ملتا ہے جنھیں وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے مثلاً مثنوی اسرار و رموز کا تیسرا حصہ وغیرہ۔ ان خطوط میں اقبال کی کبوتروں سے دلچسپی کے متعدد نمونے بھی ملتے ہیں۔ کبوتروں کی عمدہ اور کم۔یاب نسلوں کی جمع آوری بھی اقبال کے مشاغل میں شامل تھی۔ تعلیقات و حواشی اگرچہ متن کا حصہ نہیں ہوتے لیکن ان کی مدد سے متن کو سمجھنے اور مطالب تک رسائی میں بہت آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ مرتب نے اس خطوط کے مجموعے پر جو حواشی لکھے ہیں، ان کی افادیت اس بنا پر بھی اہم ہے کہ یہ فکر اقبال کی تفہیم میں بے حد اہم ہیں۔ مرتب نے اپنے مقدمے میں اس مجموعے کے تمام اڈیشنوں کا ذکر کیا ہے جو اس سے قبل شائع ہوچکے تھے۔ ان میں باہمی تقابل کے ذریعے ان اختلافات کو بھی ظاہر کیا ہے جو ان اڈیشنوں میں موجود تھے نیز انھوں نے از سر نو حواشی لکھنے کی ضرورت و اہمیت بھی بیان کی ہے۔ خان نیاز الدین خاں کے سوانحی کوائف کو مرتب کرنے میں بھی انھوں نے دقت نظری کا ثبوت دیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس خاندان کے لوگ کہاں کہاں آباد ہوئے اور کہاں کہاں ملازمتیں اختیار کیں نیز کن اہم عہدوں پر فائز رہے ان کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال اور خان نیاز الدین خاں کے باہمی تعلقات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ عبداللہ شاہ ہاشمی اقبال اور نیاز کے تعلقات کے آغاز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ حتمی طور پر اس سلسلے میں کسی تاریخ کا تعین نہیں کیا جاسکتا البتہ مشترک دلچسپی کے موضوعات سے بہت جلد ان کے درمیان رابطہ قائم ہوگیا۔ان روابط کا قیاس خطوط کے آغاز سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس بارے میں ہاشمی صاحب لکھتے ہیں: ۱۹؍جنوری ۱۹۱۶ء کو اقبال نے نیاز کے نام پہلا خط تحریر کیا۔ ان دنوں تصوف کے بارے میں اقبال کے خیالات و نظریات پر تنقید ہورہی تھی۔ ایک گروہ ان کی حمایت میں مضامین و مقالات لکھ رہا تھا جب کہ دوسرا گروہ مخالفت کررہا تھا۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ نیاز نے عجمی تصوف کے خلاف کچھ لکھا ہو یا اقبال سے استفسارات کیے ہوں اور پھر خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہو…(ص ۳۶) عبداللہ شاہ ہاشمی نے خطوط کے متون پر عمیق نظر ڈالی ہے۔ مثلاً خط نمبر ۷۲ پر مندرج تاریخ ان کے نزدیک علامہ اقبال کے ہاتھ سے نہیں لکھی گئی اور نہ یہ خط رقم کرنے کی تاریخ ہے۔ داخلی شواہد کی بنا پر انھوں نے تاریخ کی درستی کردی ہے۔ جناب عبداللہ شاہ ہاشمی نے خطوط میں درج اشعار کی تخریج کا کام بھی بہت عمدہ طریقے سے سرانجام دیا ہے۔ ان اشعار میں سے بعض تو خود اقبال کے ہیں جن کو تلاش کرنا آسان تھا لیکن ان میں بعض مصرعے ایسے بھی تھے جو کلیاتِ اقبال میں موجود نہیں اور جنھیں باقیات سے اخذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح اقبال نے بعض احباب کی فرمائش پر بعض اشعار اور مصرعوں میں تبدیلی بھی کی ہے، یہ تبدیلیاں البتہ ایسی ہیں کہ جن میں سے بعض تو محض خطوط کی حد تک ہی ہیں یعنی اقبال نے انھیں اپنا کلام مرتب کرتے ہوئے نظر انداز کردیا ہے جب کہ بعض تبدیلیوں کو برقرار رکھاہے۔ مرتب نے ان تبدیلیوں کی، جہاں تک ممکن تھا نشان دہی کردی ہے۔ نیز فارسی اشعار کا ترجمہ بھی درج کردیا ہے۔ خطوط میں بعض اشعار اور مصرعے دیگر معروف و غیر معروف شعرا کے بھی ہیں۔ انھوں نے ممکنہ حد تک ان کی تخریج بھی کردی ہے۔ عبداللہ شاہ ہاشمی کے تحریر کردہ تعلیقات و حواشی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحقیق کا دائرہ کار محدود ہوتو اس پر بہت بہتر انداز میں کام کیا جاسکتا ہے۔ ان تعلیقات و حواشی سے اس مجموعہ مکاتیب کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے تاہم حواشی و تعلیقات کو ہر خط کے آخر میں دینے کی بجائے اگر ہر صفحے کے پاورق میں دیا جاتا جو معیاری طریقہ بھی ہے، تو زیادہ بہتر تھا۔ مرتب نے اس مجموعے میں بعض ضمیمہ جات (مثلاً مولانا گرامی کے خطوط خان نیاز الدین خاں کے نام، مسئلہ خلافت کی حقیقت، از خان نیاز الدین خاں اور اقبال کے دست نوشت چند مکاتیب کے عکوس) شامل کرکے اس کو مزید قیمتی بنا دیا ہے۔ کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے ۔ کتابت کی غلطیاں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم بعض جگہوں پر کچھ کمیاں نظر آتی ہیں جن کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، مثلاً حرف اول میں مرتب نے بتایا ہے کہ اقبال اپنے نام کے جزو محمد کے ساتھ ہمیشہ ’’۔ؐ‘‘ لکھتے تھے۔ خط نمبر ۴۷ صفحہ ۱۰۰، خط نمبر ۵۹ صفحہ ۱۱۱، خط نمبر ۶۴ صفحہ ۱۱۶، خط نمبر۶۸ صفحہ ۱۲۰ اور خط نمبر ۷۳ صفحہ ۱۲۵ پر یہ علامت موجود نہیں۔ اسی طرح بعض حواشی میں بھی کچھ کتابت کی غلطیاں موجود ہیں مثلاً صفحہ۵۱ حاشیہ نمبر۱۲ پر ’’زبانی‘‘ کی جگہ ’’زمانی‘‘ صفحہ ۶۹ پر حاشیہ نمبر۲ میں ’’کیا‘‘ کی جگہ ’’کہا‘‘ درست ہے۔ خطوط میں بعض الفاظ کا استعمال اس طرح ہوا ہے جو آج مستعمل نہیں مثلاً صفحہ ۴۹ خط نمبر۶ میں ’’بمع‘‘ صفحہ ۶۵ خط نمبر ۱۸ میں ’’دوائی‘‘ صفحہ ۱۳۰ خط نمبر ۷۹ میں ’’مشکور‘‘ وغیرہ موجود ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اس مقالے کے اگرچہ نگران نہیں تھے لیکن محقق کے خضرراہ ضرور تھے، ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ خضر کی طرح دو چار سوالوں کا جواب دینے کے بعد یہ نہیں کہتے کہ اب تمھارا اور میرا راستا الگ الگ ہے بلکہ محقق میں سوال اُٹھانے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں اور جواب دینے میں کسی بخل سے کام نہیں لیتے۔ ___ محمد ایوب لِلّٰہ ٭٭٭ اڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: اقبالیات: تفہیم و تجزیہ۔ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، صفحات۳۲۰، قیمت۔ ۲۵۰روپے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا نام علمی و ادبی اور اقبالیاتی حلقوں میں بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا ہے اور ان کے تحقیقی و تنقیدی کام کو تحسین و تقلید کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اقبالیات میں اب تک مجموعی طور پر ان کی سترہ کتب شائع ہوچکی ہیں، جن میں ان کے مضامین کے چار مجموعے بھی شامل ہیں۔ اقبالیات: تفہیم و تجزیہ ان کا چوتھا مجموعہ مضامین ہے، جس میں گذشتہ تیس برس میں لکھے گئے بعض مقالات کو یک جا کردیا گیا ہے، تاہم یہ سب مضامین اقبالیات کے حوالے سے کسی نہ کسی نقطہ نظر یا کسی جہت کی تعبیر و توضیح کے مقصد کے تحت تحریر کیے گئے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے مطابق آغازِ کار میں ہاشمی صاحب کی دلچسپی زیادہ تر سوانح و واقعاتی چھان پھٹک تک محدود تھی، [لیکن] اس مجموعے میں تنقیدی حصے کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان مقالات میں انھوں نے فکر اقبال کے بعض ایسے گوشوں کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے، جنھیں دوسرے نقادوں نے یا تو یک سر نظر انداز کردیا، یا ان کی طرف معمولی اشارے کرکے آگے نکل گئے۔ اس مجموعۂ مضامین کو ہاشمی صاحب نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں دو، دوسرے میں چھے، تیسرے میں چار اور چوتھے میں دو مضامین کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ آخر میں ضمیمے کے طور پر رشید حسن خاں کے مضمون ’کلامِ اقبال کی تدوین‘ کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ مجموعے کا پہلا مضمون ’علامہ اقبال اور سر اکبر حیدری‘ ہے، جس میں ہاشمی صاحب نے اقبال اور اکبر حیدری کے درمیان ۱۹۱۰ء سے شروع ہونے والے مراسم اور بعد ازاں ان تعلقات میں در آنے والے شکوک وشبہات اور تکدر کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کے خیال میں ان تعلقات میں اس وقت تعطل کا آغاز ہوا، جب حیدرآباد ہائی کورٹ میں جج کی خالی ہونے والی ایک اسامی کے لیے منشی دین محمد نے اقبال کا نام تجویز کیا تو اخبارات میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ حیدرآباد میں مہاراجا سرکشن پرشاد، سر اکبر حیدری، مولانا گرامی اور دیگر مداحوں کی موجودگی میں یہ تجویز اقبال کے لیے باعث کشش تھی۔ اس موقع پر ہاشمی صاحب کے خیال میں ریاست حیدرآباد کی سب سے مؤثر شخصیت سر اکبر حیدری کی طرف سے متوقع گرم جوشی کا مظاہرہ نہ ہو سکا۔ بعد ازاں اقبال کی زندگی کے آخری برسوں میں ان کی علالت اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے بعض مخلص احباب ان کے لیے مستقل اعانت یا وظیفے کے لیے تدابیر کرنے لگے، چنانچہ نواب حمید اللہ، والیِ بھوپال نے نظام دکن سے اقبال کے لیے ایک ہزار ماہوار وظیفے کی درخواست بھی کی، جو سراکبر حیدری کی ریاست میں اعلیٰ منصب پر موجودگی کے باوجود مسترد کردی گئی۔ ان واقعات سے سراکبر کے بارے میں اقبال کے دل میں تکدر پیدا ہوگیا۔ ہاشمی صاحب نے سر اکبر حیدری کی شخصیت، ان کی حیثیت اور ان کے مزاج کو بھرپور انداز میں پیش کرکے ان تعلقات میں در آنے والے ناخوش گوار پہلوئوں کی دیانت دارانہ توضیح و توجیہہ کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سر اکبر حیدری ایک منجھے ہوئے، تجربہ کار اور دُور اندیش بیوروکریٹ تھے۔ ’تو باز ما نہ بساز‘ کا مفہوم بخوبی سمجھتے تھے، چنانچہ انھوں نے حیدرآباد میں غیر معمولی عروج حاصل کیا۔ ایک ’غیر ملکی‘ ہونے کے باوجود ترقی کرتے کرتے وزیراعظم بن جانا، معمولی بات نہ تھی۔ا س زمانے میں مختلف اُمور کی نگرانی کے لیے ریاستوں میں انگریزی ریذیڈنٹ اور دیگر افسران موجود رہا کرتے تھے۔ حکومتی عہدے دار بالعموم ان کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے، جاہ و منصب کی اس ترقی میں ایک عنصر انگریز دوستی یا انگریزوں کی حمایت کا بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف مغربی تہذیب اور یورپ کی سامراجی طاقتوں، بالخصوص نوآبادیاتی سامراج پر اقبال کی شدید تنقید کے بعد حکومت کے عہدے داروں کو اقبالیاتی سرگرمیوں میں شریک ہونے سے منع کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت ذہین،دُور اندیش، سیکولر خیالات کے حامل اور ملّی تحریکوں کے مخالف سراکبر حیدری اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے کہ علامہ اقبال سے اپنے نہایت نیاز مندانہ تعلقات کے باوجود کوئی مؤثر کردار ادا کرسکیں، تاہم اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ بقول عبدالرئوف عروج: ان دونوں کے باہمی تعلقات کی ناہمواری میں اقبال کے بعض عاقبت نااندیش حاشیہ نشینوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہاشمی صاحب نے نہایت اخلاص سے لکھا ہے کہ سراکبر، سر اقبال کی خاطر بعض اُمور میں بہت آگے جانے میں بوجوہ متامل رہے۔ ممکن ہے، اس میں سر اکبر کی بعض قرار واقعی مجبوریوں کو بھی دخل ہو، مگر سر اکبر کے تامل اور ان کی سرد مہری نے باہمی تعلقات کو بہرحال متاثر کیا۔ دوسرا مضمون میر انیس اور علامہ اقبال کے تقابلی مواز نے یا جائزے پر مشتمل ہے۔ پروفیسر سیّد وقار عظیم کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے ہاشمی صاحب نے نہایت لطیف انداز میں انیس و اقبال کی شخصیات، فکر و نظر اور ان کے شعر و سخن کے اشتراکات و تضادات کی نشان دہی کی ہے اور تقابل کے مروّجہ اصول و ضوابط اور طریق کار کے برعکس کسی ایک کو بلند تر ثابت کرنے کے لیے دوسرے کو نیچا دکھانا ضروری خیال نہیں کیا۔ ان کے خیال میں انیس کے ہاں ذکرِ شبیر نجات کا ذریعہ ہے تو اقبال کے ہاں نجات سے بڑھ کر اُمت مسلمہ کے عروج کا زینہ۔ گویا ایک ہی موضوع انیس کے ہاں آنسو اور اقبال کے ہاں ولولہ بن جاتا ہے۔ مصنف نے انیس کے ہاں حجاز سے ہند کی طرف فکری سفر کی نشان دہی کی ہے، جب اقبال کے ہاں ہندو عجمیت سے حجاز کی جانب مراجعت کا سراغ ملتا ہے۔ یوں ایک ہی موضوع سے متعلق ہونے کے باوجود ہاشمی صاحب نے ان دونوں کی ذہنی و فکری سمتوں کا درست تعین کردیا ہے۔ ۲۹-۱۹۲۸ء کے دوران مدراس، بنگلور، میسور، حیدرآباد اور علی گڑھ کے علمی اور عوامی جلسوں میں دیے گئے اقبال کے انگریزی خطبات پہلی مرتبہ ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئے۔ مجموعے کا نام تھا: Six Lectures on the Reconstruction of Religious Thought in Islam ، جب کہ ایک مضمون کے اضافے کے ساتھ دوسرا اڈیشن ۱۹۳۴ء میں منصہ شہود پر آیا۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ، بشیر احمد ڈار، امیر شکیب ارسلان، ڈاکٹر سیّد ظفر الحسن، پروفیسر وحیدالدین، پروفیسر عبدالمغنی اور نذیر نیازی سمیت بہت سے دانش ور اِن خطبات کی تحسین کرتے رہے ہیں، تاہم ڈاکٹر جاوید اقبال کے ساتھ ساتھ سیّد عبداللہ اور نذیر نیازی نے ان خطبات کے اشکالات اور ابہامات کے بارے اظہارِ خیال بھی کیا ہے۔ نذیر نیازی کے بقول تو خود اقبال بھی خطبات کے بعض مقامات کو فکری سے زیادہ وجدانی کیفیات کا نتیجہ قرار دیتے تھے، جن کی تفہیم بھی عالمِ وجدان ہی میں ممکن ہے۔ خطبات کے ان اشکالات کے باوجود ماہرین اقبال کا ایک طبقہ عصر حاضر میں ان کی افادیت کا معترف رہا ہے، تاہم کچھ دانش ور اِن کے موضوع اور برآمدہ نتائج کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ خطباتِ اقبال پر ایک نظر میں مولانا سعید اکبر آبادی نے خطبات کی بعض کمزوریوں کی تاویل کی کوشش کی، جب کہ بعض معاملات میں علامہ کی فروگزاشتوں کا اعتراف بھی کیا۔ مولانا مودودیؒ کے خیال میں ان خطبات میں وقت کے حالات کا اثر بھی پایا جاتا ہے اور بعض مسائل کے بیان میں خامیاں بھی ہیں، اس لیے کوئی اسے فکرِ اسلامی کی ترتیب نو کے معاملے میں حرفِ آخر کہے تو غلط ہوگا۔ اور بقول مولانا ابوالحسن ندوی… سیّد سلیمان ندوی کی تمنا تھی کہ یہ لیکچر شائع نہ ہوتے تو اچھا تھا۔ تاہم فاضل مؤلف کے نزدیک مطالعہ خطبات کے سلسلے میں انتہا پسندی کے بجاے ہمیں اعتدال اور توازن کی راہ اختیار اختیار کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے انھوں نے پروفیسر مرزا محمد منور کا یہ بیان نقل کیا ہے، جس کے مطابق اقبال کے خیالات مسلسل ارتقا پذیر رہے، لہٰذا یہ کیوں فرض کرلیا جائے کہ ۲۹-۱۹۲۸ء میں انھوں نے جو کچھ کہا اور ان کی سوچ کا جو رُخ وفات سے آٹھ نو برس پہلے ان خطبات میں نظر آتا ہے، وہ ۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۸ء تک کے عرصے میں جوں کا توں رہا، اسی لیے ہاشمی صاحب نے اہلِ علم کے اس احساس کی طرف توجہ دِلائی ہے کہ خطبات کے فلسفیانہ مباحث کو باربار سمجھنے سمجھانے اور اس کے مزید گہرے مطالعے کی ضرورت ہے، اس لیے بھی کہ ان خطبات میں ایک طرح کا ابہام موجود ہے۔ چونکہ علامہ اقبال کو اپنی بعض آرا پر شرحِ صدر نہ تھا، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ خطبات کے بعض اجزا علما کی نظر سے گزر جائیں تو اچھا ہے۔ جہاں تک اقبال کی شاعری یا خطبات کے تقابلی مطالعے یا ایک پہلو کو دوسرے پر ترجیح دینے یا برتر ثابت کرنے کا رجحان ہے، پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر محمد عثمان، ضیاء الحسن فاروقی، ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ اور ڈاکٹرمشیر الحسن کی آرا پیش کرنے کے بعد مؤلف نے درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خطبات کی اہمیت مسلمہ اور فکرِ اقبال میں ان کی ناگزیر حیثیت بھی بجا، مگر یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ اقبال کا فکر، تمام و کمال انھی خطبوں پر منحصر و محیط ہے۔ اقبال کے کارنامۂ علمی و فکری اور شعری و ادبی کی دریافت، شاعری اور خطبات، شاعری اور نثر کے دونوں کے مطالعے اور ربط و ارتباط ہی سے ممکن ہے۔ مؤلف کی کاوش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تفہیم خطبات کے سلسلے کا اب تک کا تمام علمی و فکری سرمایہ ان کی نظر میں ہے۔ ترجمہ اور تفہیم و تشریح پر مشتمل تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد ان کے مطالعے میں آچکا ہے۔ وہ تمام مضامین، جن میں ان خطبات کے بارے میں کسی نہ کسی رائے کا اظہار کیا گیا ہے، ان کی نظر سے گزر چکا ہے، حتیٰ کہ مختلف ریڈیائی مباحثوں، مذاکروں اور پروگراموں سے بھی وہ پوری طرح آگاہ ہیں، جن میں خطباتِ اقبال کے سلسلے میں گفتگو ہوتی رہی ہے۔ ’فکرِ اقبال اور مغرب کی تمدنی اور استعماری یلغار‘، ’اقبال اور نئے عالمی نظام کی تشکیلِ نو‘، ’اقبال کے ہاں ذوقِ سحر خیزی‘ اور ’اقبال کا تصورِ جہاد ‘ میں فاضل مؤلف نے اُمت مسلمہ کو عہدِحاضر کے مختلف مسائل و مشکلات کے حل کے لیے فکرِ اقبال کی روشنی میں راہ سجھانے کی کوشش کی ہے۔ ’فکرِ اقبال اور مغرب کی تمدنی اور استعماری یلغار‘ میں فاضل مؤلف نے بیسویں صدی کے دوران پورے مشرق اور عالم اسلام پر مغرب کے معاشی و تہذیبی و سیاسی تسلط کے سامنے اقبال کی جرأت مندانہ آواز کو ایک بڑا کارنامہ تسلیم کیا ہے۔ اب مغربی سامراجیوں و استعماریوں کی مجرمانہ یلغار کا نشانہ اسلامی ممالک ہیں، جن میں سے اکثر کو مغربی طاقتوں نے اندرونی سازشوں کے ذریعے اپنی گرفت میں رکھنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں، جب کہ بعض ممالک کو براہِ راست جارحیت کرتے ہوئے پامال کردیا ہے۔ ہاشمی صاحب کے خیال میں اس مایوسانہ صورتِ حال میں فکرِ اقبال آج بھی ہماری راہ نما ہے۔ ان کے نزدیک وہ افراد، ادارے، تحریکیں اور ممالک قابل تحسین ہیں، جو اقبال کے ہم آواز ہو کر مغرب کی اس یلغار کے خلاف مدافعت کر رہے ہیں۔ اس مضمون کے حواشی نمبر بارہ، چودہ، سولہ اور سترہ کے تحت فاضل مؤلف کی تحقیقی و تنقیدی و تہذیبی بصیرت کا برملا اظہار ہوتا ہے۔ ’اقبال اور عالمی نظام کی تشکیل نو‘ میں بتایا ہے کہ اوائل عمری میں اقبال قوم پرستی کے جذبات سے مملو تھے، تاہم قیامِ یورپ نے انھیں سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت، جمہوریت اور ان کے نتیجے میں قوم پرستی کے مضمرات سے آگاہ کردیا۔ کچھ وقت کے لیے اشتراکیت نے بھی ان کی توجہ حاصل کی، لیکن جلد ہی اقبال پر اس کی حقیقت کھل گئی۔ چنانچہ بقول فاضل مؤلف، نظامِ عالم کی تشکیل نو کے ضمن میں اقبال نے اگرچہ کوئی باقاعدہ اور مرتب نقشہ تو نہیں چھوڑا ، تاہم وہ چاہتے تھے کہ مشرق، بالخصوص مشرق کی مسلمان قومیں آگے بڑھ کر نظامِ عالم کی تشکیل نو میں اپنا کردار ادا کریں۔ اقبال کے نزدیک نظامِ عالم کی تشکیل نو صرف اسی وقت بامعنی ہوسکتی ہے، جب اس کی بنیاد حق و صداقت اور انصاف و مساوات پر ہو اور ہر طرح کے نسلی امتیاز اور لسانی و جغرافیائی تفریق کو ختم کردیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ عالمی اداروں کے غیر جانبدارانہ و غیر منصفانہ کردار سے اقبال کبھی مطمئن نہیں ہوئے، چنانچہ فاضل مؤلف نے مجوزہ عالمی نظامِ تشکیل میں اقبال کے اس شعر کو بطور ماٹو تسلیم کیا ہے: آدمیت احترامِ آدمی باخبر شواز مقامِ آدمی ’علامہ اقبال کے ہاں ذوقِ سحر خیزی‘ میں فاضل مؤلف نے قرآن و حدیث کے ذریعے شب بیداری اور سحر خیزی کی فضیلت اور انسان کی کردار سازی میں اس کے اثرات کا جائزہ لے کر اقبال کے تصورِ صبح گاہی کی تشریح و توضیح کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ افرادِ ملت سے اقبال کو یہی شکوہ ہے کہ انھوں نے سحر خیزی کی عادت ترک کردی تو ذلت و نکبت کا شکار ہوگئے، تاہم اقبال کے نزدیک اگر شب بیداری رسم یا دینداری کی نمائش بن کر رہ جائے تو اس ساری مشق کا حاصل کچھ بھی نہیں۔ وہ تو اس سحر گاہی کے قائل تھے، جس کا ثمر استحکامِ خودی ہو۔ چنانچہ فاضل مؤلف نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علامہ اقبال عمر بھر جس ’جہانِ تازہ‘ کی تلاش و تشکیل کے لیے آرزو مند رہے اور اس کی فکر میں غلطاں و پیچاں رہے، اس کی رمز اسی ذوقِ سحر خیزی اور نواہاے سحر گاہی میں پوشیدہ ہے۔ ’اقبال کا تصورِ جہاد‘ میں فاضل مؤلف نے اقبال کی بعض منظومات، (مثلاً ’بلادِ اسلامیہ‘، ’ترانۂ ملّی‘، ’شکوہ‘، ’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘، ’شمع و شاعر‘، ’حضورِ رسالت مآبؐ میں‘، ’جوابِ شکوہ‘، ’فاطمہ بنت عبداللہ‘، ’دعا‘، ’جنگ یرموک کا ایک واقعہ‘، ’خضرِ راہ‘، ’طلوعِ اسلام‘ وغیرہ) کے حوالے سے ملتِ اسلامیہ کی سیکڑوں سالہ جہادی سرگرمیوں اور مجاہدین کے فاتحانہ کارناموں کی مدح و ستائش کی ہے۔ اقبال کے خیال میں گذشتہ تیرہ چودہ سو برسوں میں اسلام کی قوت اور اُمت مسلمہ کی بقا کا انحصار جہاد فی سبیل اللہ پر رہا ہے۔ ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے اس مضمون میں جہاد کی معنوی وسعت اور ہمہ گیری پر تفصیل سے بات کی ہے اور اقبال کے تصورِ فقر، قلندری، درویشی اور تصورِ خودی اور تصورِ عشق کی روشنی میں ان کے تصورِ جہاد کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے خیال میں اقبال نے اس معذرت خواہانہ طرزِ فکر کو قطعی رَد کردیا ہے، جس کا بیج سرسیّد نے تعلیم یافتہ ذہنوں میں بویا تھا اور قادیانی مذہب؛ انگریزی استعمار سے وفاداری کی خاطر اس کی آبیاری کر رہا تھا، چنانچہ فاضل مؤلف نے عصر حاضر کی بدترین صورتِ حال کے تناظر میں اقبال کے پیغام کی تفہیم و تشریح کی کامیاب ترجمانی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں مغربی اقوام کی ہوس پرستیوں، ستم رانیوں، ملک گیریوں، دہشت گردیوں اور انسانی ہلاکتوں کے مقابلے میں جہاد کی برکات کا ذکر کیا ہے اور مثال کے طور پر خالدؓ بن ولید اور عبداللہ بن الجراح کے ہاتھوں دمشق کی فتح اور اس فتح کے بعد دمشق کے عیسائی باشندوں کے قبولِ اسلام کو پیش کیا ہے۔ یہ حوالہ جہاں جہاد کی پاکیزگی اور اس کے ثمرات سے مزین ہے، وہیں محقق کے مطالعے کی وسعت اور استخراجِ نتائج کا امین بھی ہے۔ ’اسلامی نشاتِ ثانیہ اور علامہ اقبال‘ دراصل ’اقبال کا تصورِ جہاد‘ ہی کا تکملہ ہے۔ مؤلف کے نزدیک تجدید و احیاے دین کی تمنا بالکل ابتدائی زمانے ہی سے اقبال کے ہاں موجود تھی اور یہ کبھی سرد نہیں ہوئی، بلکہ عمر کے ساتھ اس جذبے کی حرارت و شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے اقبال کے مجموعی کام کو تین دائروں میں تقسیم کیا ہے: یعنی فرد کی تعمیر سیرت، فکری اور علمی کاوشیں اور پاکستان کا تصور اور اس کے لیے عملی جدوجہد۔ چنانچہ انھوں نے فرد کی تعمیر کے لیے قرآنِ مجید، اسوۂ حسنہ اور تعمیر و تشکیل خودی اور اقبال کے تصورِ عشق و فقر کا ذکر کیا ہے۔ اقبال کے خیال میں اسلامی نشات ثانیہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نام نہاد صوفیہ کا غلط روّیہ اور علماے سو کا منفی کردار رہا ہے۔ فکری حوالے سے عالم اسلام کو قوم پرستی، دین و دنیا میں دوئی اور مغربی تہذیب سے مرعوبیت نے سخت نقصان پہنچایا ہے، چنانچہ فکرِ مغرب کے جو ثمرات سوشلزم، نام نہاد جمہوریت اور سرمایہ داری کی شکل میں دنیا کے سامنے رونما ہوئے تھے، اقبال نے ان سب کو باطل اور بہر طور ناقابل قبول ٹھہرایا ہے۔ جہاں تک تصورِ پاکستان اور اس کے لیے عملی جدوجہد کا تعلق ہے، وہ تو ان کے وفات کے بعد ہی ایک اسلامی مملکت کی صورت میں ظہور پذیر ہوگیا، تاہم ان کے نشاتِ ثانیہ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے میں ابھی شاید مزید وقت درکار ہے۔ فاضل مؤلف نے اقبال کے آخری ایام میں عالمِ اسلام کی بیداری اور ملت اسلامیہ کے احیا کے لیے ان کی تڑپ اور بے قراری کو مختلف حوالوں سے پیش کیا ہے اور ان کے اس یقین کا ذکر کیا ہے کہ اسلام کی عظمت کا زمانہ ان۔شائ۔اللہ قریب آرہا ہے۔ (اللہ کرے، وہ وقت واقعی قریب آچکا ہو) اقبال سے منسوب ایک درسی کتاب سے متعلق اپنے مضمون ’تاریخ ہند: چند تصریحات‘ میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے خوب خوب دادِ تحقیق دی ہے۔ اقبال سے منسوب اس کتاب (مطبوعہ ۱۹۱۳ئ) کے ابتدائی تذکرے، اس کے نسخوں کی دست یابی اور اقبال اکادمی میں اس کے نسخوں کی صورتِ حال سے متعلق انھوں نے بھرپور معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ اس کے نسخہ اکادمی اور نسخہ کفایت میں پائے جانے والے اختلافات اور ان کی تقدیم و تاخیر کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے اور کتاب کے مشمولات میں حضور نبی کریمؐ سمیت نامور اکابرین کے بارے میں نازیبا عبارات کا حوالے دیتے ہوئے اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے کہ جناب بشیر احمد ڈار اور جناب ممتاز حسن نے کتاب کے مندرجات پر سرسری نظر بھی نہ ڈالی اور اسے اقبال سے منسوب کرتے رہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین لائق صد تحسین ہیں کہ انھوں نے اپنی دیانت دارانہ تحقیق سے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ کتاب اقبال جیسے مسلم مفکر کی کاوش ہرگز نہیں ہوسکتی، چنانچہ اقبال کا بجز سرورق کے، کتاب کے مباحث و مندرجات سے کچھ علاقہ نہیں۔ مضمون کے آخر میں سیّد شکیل احمد کی فراہم کردہ دلچسپ معلومات کا ذکر کردیا گیا ہے، جس کے مطابق یہ کتاب ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۷ء کے دوران حیدرآباد دکن کے امتحاناتِ السنہ الشرقیہ کے نصاب میں شامل رہی، تاہم بعد میں اسے نصاب سے خارج کردیا گیا مگر مسلم اکابرین کے بارے میں اس میں شامل غلط اور گمراہ کن معلومات اور نازیبا الفاظ پیش نظر نہیں تھے، بلکہ روزنامہ صحیفہ (۲؍مئی ۱۹۱۸ئ) کے ایک مضمون نگار نے اعتراض کیا تھا کہ کتاب میں خانوادۂ آصفی کے بعض سابقہ حکمرانوں کے بارے میں مصنف کا لب و لہجہ نامناسب ہے اور معلومات بھی بے ادبی اور غلط تاویلات پر مبنی ہیں۔ ’بالِ جبریل کا متروک کلام‘ میں فاضل محقق نے اقبال کے فکری و شعری ارتقا کی تفہیم و تجزیے کی غرض سے بالِ جبریل کا متروک کلا م مدوّن کیا ہے اور اقبال کے عقیدت مندوں کی طرف سے پہلے سے باقیاتِ اقبال کے جمع و ترتیب کی کاوشوں کی تفصیل بھی دی ہے۔ اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کی تیاری کے دوران ڈاکٹر ہاشمی صاحب کی نظر سے اقبال کی بعض قلمی بیاضیں اور مسودے بھی گزرے، جن میں انھیں بہت سے ایسے اشعار ملے، جنھیں علامہ نے قلم زَد کردیا تھا، لیکن یہ باقیات کے کسی مجموعے میں شامل نہ ہوسکے تھے۔ محقق کی انفرادیت یہ ہے کہ ان سے پہلے کے محققین نے باقیات کے مطبوعہ ذخیروں سے متروکات و باقیات کے مجموعے ترتیب دیے، جب کہ انھوں نے یہ اشعار براہِ راست اقبال کی قلمی بیاضوں اور ذاتی مسودوں سے اخذ کیے۔ محقق کے خیال میں شاعر بالعموم اچھا نقاد نہیں ہوتا، چنانچہ بعض اوقات اس کے متروکات میں بہت اعلیٰ درجے کے فن پارے بھی مل جاتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے اس مضمون کی تحریر کے بعد، مرتب ہونے والے صابر کلوروی کے کلیاتِ باقیاتِ اقبال کی تحسین بھی کی ہے اور اس کے بعض تسامحات کی نشان دہی کا ذکر بھی۔ اس مضمون میں غزلوں کے اکتالیس اور منظومات سے اسی اشعار شامل کیے ہیں۔ ’کچھ غیر مطبوعہ کلام‘ دراصل سابقہ مضمون کا تکملہ ہے، جس میں بانگِ درا سے بتیس، ضربِ کلیم سے تیرہ اور ارمغانِ حجاز سے گیارہ اشعار پیش کیے گئے ہیں، جبکہ بالِ جبریل سے وہ دو اشعار شامل کیے، جو سابقہ مضمون میں شامل نہیں ہوسکے تھے۔ یہ دونوں مضامین تحقیق کی اعلیٰ ترین سطح اور معیار کے حامل ہیں اور اقبالیات میں ان کی افادیت اور اہمیت ہمیشہ مسلم رہے گی۔ ‘غیر مطبوعہ رقعات بنام پرویں رقم‘ میں ہاشمی صاحب نے عبدالمجید پرویں رقم کا مکمل تعارف اور اقبال کے شعری مجموعوں کی کتابت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس مضمون میں علامہ اقبال میوزیم، جاوید منزل، لاہور میں محفوظ اقبال کے تین رقعات بنام پرویں رقم دیے گئے ہیں۔ ان رقعات میں سے صرف ایک پر تاریخ درج ہے، تاہم وہ بھی بغیر سنہ کے، یعنی ۱۷؍ستمبر۔ فاضل محقق کی تحقیق کے مطابق یہ رقعات بالِ جبریل کے پہلے اڈیشن کی کتابت سے تعلق رکھتے ہیں اور بالِ جبریل کی کتابت ۹؍ستمبر ۱۹۳۴ء کو شروع ہوئی تھی۔ ان تینوں رقعات میں بالِ جبریل کی غزلوں کی کتابت کے درمیان خالی جگہوں کے لیے اقبال نے بالترتیب ایک، تین اور پانچ رباعیات پرویں رقم کو لکھ بھیجیں۔ مضمون کے آخر میں فاضل محقق نے ان ’رباعیات‘ کو بالِ جبریل کی غزلوں سے الگ کرکے جمع کردینے کو نامناسب قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں ’ضروری تھا کہ کلام کی وہی ترتیب برقرار رکھی جاتی، جو پرویں رقم کے کتابت کردہ نسخوں میں ہے، کیوںکہ غزلیات و رباعیات [یا قطعات] کی ترتیب میں کسی طرح کی تبدیلی یا تقدیم و تاخیر قطعی جائز نہیں ہے۔‘ حواشی میں ڈاکٹر صاحب نے پرویں رقم کے لیے اقبال سے منسوب اس بیان کو بے بنیاد قرار دیا ہے، جس کے مطابق اقبال نے کہا تھا کہ اگر پرویں رقم میرے اشعار کی کتابت نہیں کریں گے تو مَیں شاعری ترک کردوں گا۔ ’اقبال صدی کی سوانح عمریاں‘ میں اقبال پر اولین سوانحی تحریر کا کھوج لگاتے ہوئے انھوں نے شیخ عبدالقادر کے ایک مضمون مطبوعہ خدنگ نظر، مئی ۱۹۰۸ء کو پہلی کوشش قرار دیا ہے، جب کہ اس سلسلے میں دوسری اہم کاوش محمد دین فوق کی ہے، جن کا مضمون اپریل ۱۹۰۹ء میں کشمیری میگزین میں شائع ہوا۔ ہاشمی صاحب کے خیال میں آگے چل کر اقبال کی سوانح عمریوں کی بنیاد انھی دو مضامین پر اُٹھائی گئی۔ انھوں نے اقبال کی وفات کے بعد مجلس اقبال کے قیام اور اقبال کی باقاعدہ سوانح عمری کے لیے مولانا غلام رسول مہر کی تجویز کا ذکر کیا ہے، تاہم مجلس اقبال یا مہر صاحب کی طرف سے عملی قدم نہ اُٹھائے جانے پر محقق نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق قیامِ پاکستان سے قبل طالب فارسی لکھنوی، چراغ حسن حسرت، محمد طاہر فاروقی اور عبدالسلام ندوی کی سوانحی کوششیں علامہ کی مطلوبہ سوانح نگاری کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر رہیں۔ ۱۹۵۱ء میں قائم ہونے والی بزمِ اقبال کے زیر اہتمام عبدالمجید سالک کی تالیف کردہ ذکرِ اقبال کے متعلق محقق نے نامور ماہرین اقبالیات اور عام قارئین کی بے اطمینانی کا ذکر کیا ہے اور وہ خود بھی اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ اقبال صدی کے سلسلے میں یادِ اقبال کے مؤلف، جناب صابر کلوروی کی محنت، عقیدت اور لگن کو سراہتے ہوئے فاضل محقق کا خیال ہے کہ اگر مؤلف کو مناسب رہنمائی ملتی اور وہ اس پر مزید کچھ عرصہ کام کرتے تو اس سے کہیں بہتر کتاب لکھ سکتے تھے۔ اقبال صدی کے موقع پر دوسری کاوش محمد حنیف شاہد کی مفکر پاکستان ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مؤلف کے دعووں کی روشنی میں کتاب کے ناموزوں نام، ابواب کی بے ترتیبی، ماخذات کے وسیع دائرے، معلومات کی فراوانی، بعض عجیب و غریب ریمارکس، اقتباسات کی بہتات، حوالوں کی ابتری اور بعض مقامات پر مؤلف کی بے نیازی پر تفصیل سے گفتگو کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مفکر پاکستان بلاشبہ اقبال کی ضخیم ترین سوانح عمری ہے، مگر اس کے جواہر کو خذف ریزوں سے الگ کرنا آسان نہیں، اسے روانی سے پڑھنا مشکل ہے اور اس سے اخذ و استفادہ کرنے والوں کی تعداد کم تر ہوگی۔ مصنف کے غیر محتاط تالیفی روّیے اور دِقت نظر کے فقدان نے مفکر پاکستان کے استناد کو مجروح کیا ہے۔ اقبال صدی کی تیسری کوشش ایم ایس ناز کی حیاتِ اقبال ہے۔ ہاشمی صاحب نے کتاب کے مجموعی طور پر غیر تحقیقی انداز کے باوجود ابتدائی حصے کے تحقیقی معیار کو سراہا ہے، جب کہ ’اقبال… عوامی عدالت میں‘ کو سوانح اقبال کے ذخیرے میں ایک نیا اور قابل توجہ باب قرار دیا ہے، جس میں اقبال پر لگائے جانے والے چار مختلف اعتراضات کو جملہ دستیاب شہادتوں کی مدد سے بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی تصنیف سرگذشتِ اقبال پر محقق نے بڑی تفصیل سے بات کی ہے، تاہم اس کا نتیجہ یہ برآمد کیا ہے کہ خورشید صاحب ذکرِ اقبال کے سحر سے آزاد ہو کر لکھتے تو شاید زیادہ کامیاب رہتے۔ سیّد نذیر نیازی کی داناے راز دو فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل ۱۸۹۵ء تک کے حالات کا احاطہ کرتی ہے، اس فصل کے بارے میں محقق کا خیال ہے کہ نذیر نیازی نے حیاتِ اقبال کے اس تشکیلی دور پر اس مربوط انداز میں نظر ڈالی ہے کہ اقبال کا ذہن اور شاعرانہ ارتقا واضح ہو کر سامنے آگیا ہے، (تاہم دوسری فصل، جو ۱۹۰۸ء تک کے حالات پر مشتمل ہے) کے بارے میں محقق کا کہنا ہے کہ اس میں ربط و جامعیت اور استنباطِ نتائج کی وہ صورت مفقود ہے، جو فصل اوّل میں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس تمام عرصہ میں بھارت میں اقبال کی سوانح عمری کے لیے کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ اس سلسلے میں پہلی کوشش جگن ناتھ آزاد کی محمد اقبال… ایک ادبی سوانح حیات (۱۹۸۳ئ) ہے۔ ہاشمی صاحب کے خیال میں اس کتاب میں حیاتِ اقبال کے ضروری کوائف اور دستیاب و موجود لوازمے کو زیادہ تر زمانی ترتیب سے بیان کردیا گیا ہے۔ چند ایک تسامحات کے باوجود ان کے نزدیک عام قارئین، خصوصاً بھارتی قارئین کے لیے اس کی افادیت مسلم ہے۔ اقبال کی سوانح عمریوں میں اہم ترین تصنیف ڈاکٹر جاوید اقبال کی زندہ رُود ہے، جو تین جلدوں میں شائع ہوئی۔ اس سوانح عمری کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف خود اقبال کے فرزند ہیں۔ اس کی پہلی جلد کے بارے میں مؤلف کی رائے ہے کہ اس کے مباحث کا انداز باقی جلدوں کے مقابلے میں نسبتاً تحقیقی ہے۔ ان مباحث کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ ان پر خاطر خواہ تحقیقی نظر ڈالے بغیر کوئی نتیجہ اخذ کرنا گمراہ کن ہوسکتا تھا۔ ہاشمی صاحب اس جلد (مطبوعہ ۱۹۷۹ئ) سے مجموعی طور پر مطمئن ہونے کے باوجود بعد میں ہونے والے تحقیقی و سوانحی کام کے پیش نظر زندہ رُود میں تشنگی کا احساس پاتے ہیں۔ اس جلد کی اشاعت پر ہاشمی صاحب نے اپنی معلومات و بساط کے مطابق فاضل مصنف کو بعض اُمور کی طرف متوجہ کیا تھا۔ دوسری جلد (۱۹۸۱ئ) کے بارے میں ہاشمی صاحب نے پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی اس رائے کو درست تسلیم کیا ہے، جس کے مطابق بحیثیت مجموعی زندہ رُود کی دوسری جلد بھی، پہلی جلد کی طرح سیر حاصل بحث اور منصفانہ محاکمے اور مواد کی تنظیم اور تنقیح کے اعتبار سے ایک قابل قدر کارنامہ ہے۔ زندہ رُود کی تیسری جلد شخصیت کے اعتبار سے نہایت اہم ہے۔ اس حصے میں مصنف نے اقبال کی نجی زندگی سے متعلق بہت سی نادر معلومات فراہم کی ہیں، خاص طور پر جاوید منزل کے شب و روز کے بارے میں وہ تفصیل، جو انھوں نے اپنی یادداشتوں کے حوالے سے قلم بند کی ہے۔ ہاشمی صاحب کے خیال میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے لیے علامہ کی زندگی پر قلم اُٹھانا، بیک وقت آسان بھی تھا اور مشکل بھی۔ آسان یوں کہ جو بنیادی مآخذ اور دستاویزات ان کی دسترس میں تھے، اُن تک کسی اور کی رسائی تقریباً ناممکن تھی اور مشکل اس لیے کہ اپنی نسبی حیثیت کی وجہ سے حیاتِ اقبال کے بعض اُمور پر بلاخوف لومۃ الائم کچھ لکھنا خاصی نازک ذمہ داری تھی۔ اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک سوانح نگار کی ذمے داریوں سے انحراف نہیں کیا۔ اقبال کے سوانح نگار اپنے مخصوص تاثرات و تعصبات کا شکار ہوجاتے ہیں یا بعض مقامات سے سرسری گزر جاتے ہیں، زندہ رُود کے مصنف کے ہاں ہمیں ایک توازن اور معروضیت نظر آتی ہے۔ ہاشمی صاحب نے اپنی رائے کی تقویت کے لیے پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی یہ رائے نقل کی ہے کہ زندہ رُود کے مصنف نے کہیں بھی جذباتی، جارحانہ یا متعصبانہ انداز اختیار نہیں کیا، بلکہ مواد کا تجزیہ، بے لاگ پن اور بہت بے جھپک انداز سے کیا ہے، یہی اس سوانح عمری کا سب سے بڑا امتیاز ہے، جس کی بنا پر اسے اقبالیات میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھنا بے جا نہ ہوگا۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے زندہ رُود کو حیاتِ اقبال پر حرفِ آخر قرار نہیں دیا، لیکن ان کی نظر میں مستقبل میں اقبالیات کا کوئی بھی طالب علم، مصنف یا مؤرخ زندہ رُود سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ مضمون کے آخر میں ہاشمی صاحب نے ان کتابوں کا ذکر کیا ہے، جنھیں سوانح عمری کے ذیل میں تو شمار نہیں کیا جاسکتا، مگر ان میں حیاتِ اقبال کے متعلق قیمتی لوازمہ ملتا ہے۔ بعض یادداشتوں کا حوالہ دیا ہے، جن میں بعض اہم نکات پر اچھی بحث کی گئی ہے اور کچھ اہم مضامین کے بارے میں معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حیاتِ اقبال اقبالیات کا اہم اور بنیادی موضوع ہے۔ گو اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، مگر ابھی بعض پہلوئوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ بعض روایات تصدیق طلب ہیں اور بہت سی جزئیات کی مزید تفاصیل مطلوب ہیں۔ مزید تلاش و تفتیش سے اقبال کے سوانحی ذخیرے میں یقینا اضافہ ہوگا اور نقد و تنقیح سے موجودہ ذخیرے کو زیادہ استناد و اعتبار کا درجہ حاصل ہوگا۔ جہاں تک مجموعے کے آخری مضمون ’کلامِ اقبال کی معیاری تدوین و اشاعت‘ کا تعلق ہے، اسے رشید حسن خاں کے مضمون ’کلامِ اقبال کی تدوین‘ کا استدراک ہی سمجھنا چاہیے۔ تاہم ان دونوں مضامین کے مطالعے کے بعد شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ المیہ اقبال کے مجموعۂ ہائے نظم و نثر کوکہیں زیادہ توجہ کے ساتھ مدّون کرنے کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر یہ وقیع مجموعۂ مضامین طالبان و عالمانِ اقبال کے لیے نئی منزلوں کا تعین کرے گا۔ تاہم بڑے خلوص کے ساتھ کچھ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ ایک تو یہ کہ املا کے حوالے سے ہاشمی صاحب نے حرفِ اوّل میں جن اُمور کی جانب توجہ مبذول کرائی، کتاب کے مندرجات میں، ان میں سے بالخصوص اجتہاد نمبر۴ کی پاسداری نہیں کی جاسکی اور بعض تراکیب، اصطلاحات، عبارت کے خاص ٹکڑوں، جملوں اور مضامین یا نظموں کے عنوانات پر ایک کوما [’ ‘] کے بجائے واوین [’’ ‘‘] ہی کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ اس کی تمام تر ذمہ داری کاتب پر عائد ہوتی ہے، لیکن کتاب کے مصنف کو اس سے بری الذمہ قرار یوں نہیں دیا جاسکتا کہ آخری پروف لازماً اس کی نظر سے گزرنے چاہییں۔ مزید یہ کہ بین الالفاظ کوما اور مذکورہ بالا واوین کی جگہ اکیلا کوما دونوں کو ایک ہی انداز میں استعمال میں لایا گیا ہے اور یہ بات قاری کے لیے ذہنی کوفت کا سبب بنتی ہے۔ ان مضامین میں سرسیّد احمد خاں کے بارے میں ہاشمی صاحب کی متضاد آرا سے حیرت ہوئی، کیوں کہ انھوں نے ’اقبال کا تصورِ جہاد‘ میں سرسیّد احمد خاں کو قادیانی مذہب کے ساتھ بریکٹ کیا ہے (ص۱۱۹)، جب کہ ’اسلامی نشاۃِ ثانیہ اور اقبال‘ میں امام احمد بن حنبلؒ، امام غزالیؒ، مجدد الف ثانیؒ، ٹیپو سلطان، شاہ ولی اللہؒ اور سید احمدؒ شہید کے ساتھ (ص۱۳۸)۔ ایک طرف انھیں ترکِ جہاد کے معاملے میں مرزا قادیانی کے کوششوں سے جوڑ کر مطعون کیا گیا ہے، دوسری جانب تجدیدی کاوشوں کے حوالے سے ان کا رشتہ اکابرین اسلام سے منسلک کیا گیا ہے۔ کتاب کے سلیقے اور پروف خوانی سے لحاظ سے یہ ایک نہایت کامیاب پیش کش ہے۔ بلاشبہ اقبالیات کے موضوع پر اس قدر سنجیدہ کوشش اور علمی متانت روز افزوں ذخیرۂ اقبالیات میں ایک نادر مثال ہے۔ ’تقدیم‘ کے تحت ڈاکٹر وحید قریشی کے اختلافی نوٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے کتاب میں شامل کرنا ہاشمی صاحب کی علمی اعلیٰ ظرفی کی شاندار مثال ہے۔ ہم محبانِ اقبال ڈاکٹر صاحب کی آیندہ کاوشوں کے بڑی شدت سے منتظر رہتے ہیں۔ __ خالد ندیم ٭٭٭ بشیر احمد ایم۔اے: اقبال اور قادیانیت۔ ناشر: مجلس علم و دانش، پوسٹ بکس۶۳۹، راولپنڈی صفحات۲۸۳، قیمت۔؍۲۰۰ روپے قادیانیت؛ عالم اسلام کا ناسور ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے قادیانیوں کو ’’اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار‘‘ قرار دیا تھا۔ اس لیے کہ وہ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو مذہبی اور روحانی طور پر برطانوی سرمایہ دارانہ استعماریت کا غلام، ان کی غلامی پر قانع اور خوگر بنانے کی تعلیم و ترغیب دیتے رہے ہیں اور سیاسی طور پر یوں کہ وہ برعظیم پر انگریزی حکومت کو سایۂ رحمت قرار دے کر آزادی کی تحریکوں سے بدظن کرتے رہے اور انگریزی چھتر چھایا تلے خود کو مستحکم، مالی طور پر مضبوط اور سیاسی طور پر بالادست رکھنے کے جتن کرتے رہے۔ انھوں نے کشمیر میں آزادی کی تحریک کے پس پردہ قبضہ کی کوششیں کیں۔ قادیانی جماعت کے سربراہ بشیرالدین محمود کشمیر کمیٹی کے صدر اور علامہ اقبال اس کے سیکرٹری تھے۔ اسی زمانے میں ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے اقبال کو احساس ہوا کہ بشیر الدین محمود کی صدارت کی آڑ میں قادیانی اپنا لٹریچر بڑے پیمانے پر تقسیم کررہے ہیں اور اہل کشمیر کی غربت اور آزادی کی خواہش کا استحصال قادیانیت کی تبلیغ کے ذریعے کررہے ہیں، جس پر اقبال نے کشمیر کمیٹی کی سیکرٹری شپ سے استعفا دے دیا۔ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ قادیانی علامہ اقبال کی مقبولیت کی آڑ میں اور انھیں خفیہ طور پر قادیانی قرار دے کر انجمن حمایت اسلام میں بھی موثر ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ قادیانیوں نے بلوچستان میں بھی قادیانیت کا مرکز قائم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ مگر جب قادیانیوں نے پنڈت نہرو اور کانگرس کے توسط سے چودھری ظفر اللہ خاں کی زیر قیادت پریوی کونسل کے اثر و رسوخ سے مسلم لیگ کی ٹکٹوںپر قادیانیوں کو کھڑا کرکے خود تحریک پاکستان کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کیں تو علامہ محمد اقبال نے سب سے آگے بڑھ کر انھیں اسلام اور ہند کے غدار قرار دے کر انھیں بے نقاب کردیا۔ اس پر پنڈت نہرو بھی بہت سٹپٹائے اور قادیانیوں کی حمایت میں ان کے وکیل بن کر لکھنے اور بیان دینے لگے اور قادیانیوں نے اقبال کے خلاف مہم بازی شروع کردی۔ محترم بشیر احمد ایم-اے جو فیچر سکول آف لا اینڈ ڈپلومیسی یو-ایس-اے سے وابستہ ہیں۔ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اقبال اور قادیانیت کے نام سے کتاب لکھ کر اس کے تعاقب میں اپنا کردار بخوبی ادا کیا اور اس مقصد کے لیے مجلس علم و دانش قائم کی ہے۔ بشیر احمد ایم۔اے نے اس کے علاوہ بھی کچھ اور گمراہ تحریکوں پر کتب رقم کی ہیں۔ اور اپنی کتاب قادیان سے اسرائیل تک (۱۹۹۰ئ) میں قادیانیت کے ڈانڈے اسرائیل سے ملتے ہوئے عیاں کیے ہیں اسی طرح انھوں نے Ahmadiyyah Movement British- Jewish, Connections میں انگریزی خواں دنیا کے لیے قیمتی کتاب لکھی ہے۔ محترم بشیر احمد نے اسی طرح اسرائیل سے بہائیت کے تعلقات پر ۱۹۹۲ء میں کتاب لکھی، فری میسنری تحریک جو اسلام دشمن خفیہ یہودی تنظیم ہے، اس پر ۱۹۹۶ئ، بائبل کا تحقیقی جائزہ ۲۰۰۳ء اور Pakistan and the World Trade ۲۰۰۰ء میں رقم کی۔ ان کے کام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عالم اسلام کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سازشوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں اور علمی اور تحقیقی بنیادوں پر ان کے محاسبے کی اہم ترین مہم پر سرگرم ہیں۔ بشیر احمد صاحب کے حسب ذیل اقتباس سے ہماری رائے کی تائید ہوتی ہے: اب قادیان پاکستان اور مسلم لیگ کی طرف جھکنے لگے کیونکہ ان کے لیے اب اور کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ ظفر اللہ نواب بھوپال کے آئینی مشیر تھے جو ہندوستان ریاستوں کے چیمبر آف پرنسز کے چانسلر تھے۔ ابھی تک ظفر اللہ نے تحریک پاکستان کے لیے کوئی خدمت انجام نہ دی تھی۔ لیکن لیگی قیادت کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے وہ خضر حیات سے ملے اور اسے وزارت اعلیٰ سے استعفا دینے کی تجویز پیش کی۔ تاکہ مسلم لیگ حکومت سازی کرسکے جو اس نے مجبوراً مان لی۔ (ص۲۷۱) اس کے صلے میں وہ بعد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے مگر قائداعظم نے انھیں وزیر خارجہ بنا دیا جس کی پریس نے قادیانیت کی بنا پر مخالفت کی۔ پھر ظفر اللہ مسلم لیگ کے رکن بھی نہیں تھے۔ قادیانیت کے ہندوئوں اور سکھوں سے بھی تعلقات تھے چنانچہ ۱۹۴۶ء میں ایک سکھ لیڈر وریام سنگھ اکال دل کی طرف سے قادیانیوں کو قادیان میں محدود حکومت کی پیش کش کی گئی تھی مگر بشیر الدین محمود نے ظفر اللہ خاں کے ذریعے خود کو پاکستان میں زیادہ مؤثر تصور کرتے ہوئے، اسے قبول نہ کیا (الفضل، ۲۳؍اپریل ۱۹۵۵ئ)۔ اس کتاب کے دیباچے میں اس کتاب کے محرک شکیل عثمانی نے جسٹس (ر) عطاء اللہ سجاد کے ایک مضمون کا اقتباس دیا ہے۔ جو علامہ اقبال کی قادیانیت سے مکمل برگشتگی پر روشنی ڈالتا ہے، وہ لکھتے ہیں: ۱۹۳۵ء کی بات ہے کہ میں روزنامہ احسان لاہور کے چیف ایڈیٹر مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش کے ہمراہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاـضر ہوا۔ ان دنوں میں احسان میں رکن ادارہ کی حیثیت سے کام کرتا تھا، دورانِ گفتگو سب سے زیادہ نمایاں موضوع قادیانیوں کے بارے میں حضرت علامہ کی بیان تھا۔ میں نے حضر ت علامہ سے دریافت کیا کہ آپ قادیانیوںکے اخبار میں لکھتے رہے ہیں اور ان کے ساتھ بعض معاملات میں تعاون بھی کرتے رہے ہیں تو پھر اچانک آپ کا روّیہ ان کے بارے میں اس قدر شدید کیوں ہوگیا کہ آپ نے مطالبہ کیا ہے کہ قادیانیوں کا عالم اسلام سے الگ اقلیت قرار دیا جائے۔ حضرت علامہ نے کہا کہ میں ان کی جماعت کو اچھا سمجھتا تھا اور مسئلہ کشمیر کے متعلق انھوں نے جو جماعت بنائی تھی میں اس کا سکریٹری بھی رہا لیکن میری بیماری جو ۱۰؍جنوری ۱۹۳۴ء کو شروع ہوئی، میرے لیے باعث رحمت بن گئی کہ خدا نے مجھ پر حق و صداقت کے دروازے کھول دیے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے الیاس برنی کی ایک کتاب (قادیانی مذہب) جو قادیانیوں کے عقائد کے خلاف تھی، پڑھی اور پھر اس کے بعد قادیانیوں کی اصل کتابیں منگوا کر ان کا مطالعہ کیا کیونکہ میرے پاس کافی وقت تھا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ مسلمانوں کے مختلف فرقے، ایک دوسرے سے بعض معاملات میں شدید اختلاف رکھتے ہیں لیکن ختم نبوت کے معاملے میں اُمت میں کوئی اختلاف نہیں… ان کے بعد فصاحت اور علم قرآنی کی ایک دریا بہہ نکلا اور علامہ اقبال نے حضور ا کی ختم نبوت اور اُمت اسلامیہ کے وجود اور اتحاد سے اس کے تعلق کو اس طرح جوڑا کہ علم و آگہی کے موتی بکھر نے لگے اور میں اور مولانا میکش وہ موتی سمیٹتے رہے…(روزنامہ نوائے وقت لاہور ، ۲۱؍اپریل ۱۹۹۹ئ) علامہ اقبال کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ قادیانیت کے بارے میں وہ جنوری ۱۹۳۴ء کے بعد مکمل طور پر یکسو ہوئے اور انھوں نے قادیانیوں کو اسلام اور ہند کے غدار قرار دیا۔ تاہم اگر علامہ اقبال کا قادیانیوں کے بارے میں روّیہ دیکھا جائے تو وہ ۱۹۰۲ء سے مسلسل قادیانیت کے خلاف لکھتے رہے ہیں، مثلاً مئی ۱۹۰۲ء میں مخزن لاہور میں اور ۱۱؍جون ۱۹۰۲ء میں محمد دین فوق کے رسالہ پنجہ فولاد میں بیعت کی دعوت آنے پر یہ شعر لکھے: تو جدائی پہ جان دیتا ہے وصل کی راہ سوچتا ہوں میں بھائیوں میں بگاڑ ہو جس سے اس عبادت کو کیا سراہوں میں مرگِ اغیار پر خوشی ہے تجھے اور آنسو بہا رہا ہوں میں (باقیات، ص۱۱۳) ۱۹۰۳ء میں ’’فریاد اُمت‘‘ نظم انجمن حمایت اسلام میں پڑھی جس میں قادیانیوں کے مثیل مہدی کے دعویٰ کو رد کردیا۔ ۱۹۱۱ء میں ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں قادیانی فرقے کو So-called فرقہ کہا۔ ۱۹۱۴ء میں لکھا: ’’قادیانی جماعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد نبوت کی قائل ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ ۱۹۱۵ء میں لکھا: پس خدا بر ما شریعت ختم کرد بر رسولِ ما رسالت ختم کرد لانبی بعدی ز احسان خدا است پردۂ ناموس دینِ مصطفی است حق تعالیٰ نقش ہر دعویٰ شکست تا ابد اسلام را شیرازہ بست ۱۹۱۶ء میں اقبال نے لکھا:’’جو شخص نبی اکرمؐ کے بعد کسی ایسے نبی کا قائل ہو جس کا انکار مستلزم بہ کفر ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (گفتارِ اقبال، ص۲۴) ختم نبوت پربحث کرتے ہوئے پانچویں خطبے میں لکھا: ’’اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچی ہے کیونکہ اس نے اپنے ہی خاتمے کی ضرورت کو محسوس کرلیا ہے اس میں یہ ادراک گہرے طور پر موجود ہے کہ زندگی کو ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے پر نہیں رکھا جاسکتا۔‘‘ (تجدید فکریات اسلام مترجم ڈاکٹر وحید عشرت، ص۱۵۵ ) ۱۹۳۳ء میں قادیانیوں کے بارے میں کشمیریوں کو آگاہ کیا کہ ’’میں مسلمانانِ کشمیر سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ان تحریکوں (قادیانیوں) سے خبردار رہیں جو ان کے خلاف کام کررہی ہیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کریں‘‘ (اقبال نامہ، جلد اوّل، ۶؍جون ۱۹۳۳ئ) ۲۰؍جون ۱۹۳۳ء کو قادیانیوں کی کشمیر کمیٹی سے استعفا دے دیا اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو اہل قلم کو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کی سازشوں سے آگاہ کرنے کے لیے بیان دیا۔ ۹؍فروری ۱۹۳۴ء کو پٹنہ کے وکیل نعیم الدین کے نام خط میں کشمیر کانفرنس کے لوگوں کے قادیانیوں سے تعلقات کے خدشے کا اظہار کیا اور لکھا: ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حالات کے پیش نظر ایک مسلمان کسی ایسی تحریک میں شامل ہوسکتا ہے جس کا مقصد غیرفرقہ وروں کی ہلکی سی آڑ میں کسی مخصوص جماعت کا پراپیگنڈا کرنا ہے۔‘‘ (حرفِ اقبال، ص۲۰۴) ۱۹۳۵ء میں ضربِ کلیم نے قادیانیوں کے خلاف محاذ کھول دیا: وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگِ حشیش جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام جہاد کے خلاف قادیانیوں کے فتوے کے بارے میں لکھا: فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر پھر کہا: فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے ۱۷؍اگست ۱۹۳۶ء میں لکھا: ’’الحمدللہ اب قادیان فتنہ پنجاب میں رفتہ رفتہ کم ہورہا ہے۔‘‘ یعنی اقبال صرف ۱۹۳۵ء میں قادیانیت کے خلاف نہیں نکلے بلکہ ۱۹۰۲ء سے مسلسل متحرک رہے۔ ۲۷؍مئی ۱۹۳۷ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں: ’’قادیانی تحریک یا یوں کہیے کہ بانی تحریک کا دعویٰ مسئلہ بروز پر مبنی ہے۔ مسئلہ بروز کی تحقیق تاریخی لحاظ سے ازبس ضروری ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ مسئلہ عجمی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے۔ نبوت کاسامی تخئیل اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے۔ میری ناقص رائے میں اس مسئلے کی تاریخی تحقیق قادیانیت کا خاتمہ کردے گی۔‘‘ مجھے اس مسئلے کی تحقیق شیخ عبدالماجد قادیانی ساتھ مناظرے میں کرنا پڑی دیکھیے: میرا مقالہ ’’اقبال اور بروز‘‘، سورج، جولائی ۲۰۰۳ء ۔ محترم بشیر احمد نے اس کتاب کے پہلے باب ’’اقبال اور قادیانیت‘‘ میں غلام احمد قادیانی کے خاندان کا تعارف کرایا ہے۔ لفظ قادیانی، قادیان سے مشتق ہے اور قادیان دراصل لفظ قاضیان ہے جو پنجابی میں قادیان بن گیا۔ بشیر احمد نے اس طرف اشارہ نہیں کیا۔ غلام احمد قادیانی کا باپ مرزا غلام احمد مرتضیٰ سکھ فوج میں ملازم تھا اور ہزارہ اور شمالی ہند میں سید احمد شہید بریلوی اور شاہ اسمٰعیل شہید کے خلاف بھی سکھ فوج میں موجود تھا۔ ۱۸۶۹ء میں سکھ حکومت کے بعد انگریزوں سے مل گیا۔ یعنی غلامی اس خاندان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ مجموعی طور پر غلام احمد قادیانی کے خاندان کے بارے میں معلومات کم ہیں۔ بشیر احمد صاحب نے ۱۸۴۹ء اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے حوالے سے انگریزوں کے اس غلام خاندان کے بارے میں بتایا ہے کہ انھوں نے پچاس گھوڑے مع سوار انگریز کو جنگ آزادی کچلنے کے لیے دیے۔ غلام احمد قادیانی کی تعلیم واجبی تھی۔ ۱۸۶۴ء میں اس کے باپ نے اسے انگریزوں سے درخواست کرکے کچہری میں اہل مد بھرتی کروایا۔ وہ سیالکوٹ کے کشمیری محلے میں عمرا کشمیری کا کرایہ دار تھا۔ یہیں کشمیری محلے میں علامہ کے والد شیخ نور محمد سے اس کی ملاقات ہوئی۔ یہیں عیسائیوں سے بحث مباحثے میں وہ مناظر بن گیا۔ مرزا قادیانی کی ابتدائی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی نے یہیں انگریزوں سے تعلقات قائم کیے۔ ۱۸۶۸ء میں وہ قادیان چلا گیا جہاں باپ کی وفات پر بڑے بھائی نے جایداد پر قبضہ کرلیا اور ۱۸۷۷ء میں یہ قادیان سے واپس سیالکوٹ آگیا۔ ۱۸۸۰ء میں اس نے براہین احمدیہ میں مختلف دعوے شروع کیے۔ بشیر احمد کی اس کتاب کے مطالعے سے مرزا قادیانی کا پس منظر جاننے میں بڑی معاونت ملتی ہے۔ مرزا قادیانی کے دعاوی ابہام سے پُر ہوتے۔ اس کی وفات کے دن لاہور کے ایک اخبار میں اس کا یہ بیان شائع ہوا: میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میںخدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک کہ اس دنیا سے گذر جائوں۔ (ص۴) بشیر احمد نے مرزا قادیانی کے ایسے تمام دعاوی اس کی مستند کتب سے دیے ہیں۔ بشیر احمد نے درست لکھا ہے کہ شیخ نور محمد کی مرزا قادیانی سے بیعت کی روایات کا آغاز مئی ۱۹۳۵ء میں اس وقت ہوا جب علامہ اقبال نے ان کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ اس سے قبل انھوں نے شیخ نور محمد کے بارے میں کچھ نہ لکھا۔ سب سے پہلے مرزا بشیر الدین محمود نے ۲۴مئی ۱۹۳۵ء کو اپنے ایک خطبے میں یہ انکشاف کیا مگر بشیر احمد، بشیر الدین محمود کی بجائے مرزا محمود احمد کا نام لکھتے ہیں۔ پھر شیخ عطاء اللہ کے بارے میں کہنا شروع کردیا، تاہم علامہ کا بھتیجا شیخ اعجاز احمد قادیانی تھا۔ اس نے مظلوم اقبال کے نام سے کتاب لکھی اور کہا کہ علامہ اقبال قادیانی نہیں تھے مگر قادیانیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور عطاء اللہ شاہ بخاری نے انھیں قادیانیت کے خلاف سرگرم کیا۔ اس کتاب میں انھوں نے علامہ کے خطوط میں بھی کتربیونت کی اور اس خط کی صحت کا بھی انکار کیا جو علامہ نے اسے جاوید اقبال اور منیرہ بیگم کی اتالیقی سے ہٹانے کے لیے لکھا تھا۔ اقبال نامہ کے چند ابتدائی فروخت ہونے والے نسخوں میں یہ خط موجود تھا مگر اس اڈیشن کے بعد کے نسخوں میں سے یہ خط محرف ہوگیا۔ ان کی تفصیل مظلوم اقبال کتاب پر میرے تبصرے اور اقبالیات میں ہی چھپے ہوئے مقالہ ’قصہ ایک خط کا‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بشیر احمد نے ان مضامین کو نہیں دیکھااور نہ شیخ عبدالماجد کی کتاب پر پندرہ روزہ مہارت میں میرے مضامین دیکھے ہیں اور شیخ عبدالماجد قادیانی کی دوسری کتاب بھی نہیں دیکھی جس میں میرے خلاف تفصیل سے لکھا گیا۔ ان کی کتاب میں اس کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ سیرت المہدی میں شیخ نور محمد کے قادیانی جماعت میں شامل ہونے کا افسانہ موجود ہے۔ بشیر احمد نے شیخ نور محمد، شیخ عطا محمد اور خود علامہ اقبال کے جماعت قادیانی سے نسبت کے بارے میں دعاوی کو مسترد کردیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی زندہ رود میں بیعت کی تاریخوں میں تضاد کے حوالے سے ان دعاوی کو غلط اور جھوٹ قرار دیا۔ خود چودھری ظفر اللہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا: ’’ڈاکٹر اقبال نے جہاں تک میرا علم ہے بیعت نہیں کی۔‘‘ بشیر احمد نے ان سارے تضاد کو جھوٹ بتایا ہے، بشیر احمد نے نومسلم سعد اللہ لدھیانوی کی اقبال کی ہجو کے بارے میں پہلی مرتبہ بتایا ہے کہ قادیانیوں نے اقبال کی زندگی میں کبھی اس کا تذکرہ نہ کیا بلکہ ۱۹۳۵ء کے بعد اس کو اچھالا۔ یہ نظم اقبال کی مطبوعہ کتاب یا کلیات میں بلکہ باقیات اقبال میں بھی نہیں۔ لہٰذا یہ قادیانی ذہن کی اپنی اختراع ہے۔ اس لیے شورش نے لکھا ہے کہ یہ نظم خود ساختہ ہی نہیں بلکہ پھسپھسی ہونے کے علاوہ لغو بھی ہے۔ اس قسم کے شوشے چھوڑنا مرزائیوں نے اپنا وظیفہ حیات بنالیا۔ کیونکہ قادیانیوں کی اپنی کتاب آئینہ حق (۱۹۱۲ئ) کے سوا یہ کہیں نہیں دیکھی گئی۔ باب دوم میں مرزا قادیانی کے بارے میں اقبال کی پہلی تحریر عبدالکریم الجیلی کے مقالے میں موجود ہے جو ۱۸۹۸ء میں چھپا مگر اس وقت تک قادیانی مرزا نے کھلے بندوں نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اس کی مناظر اسلام کی حیثیت کا مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی اعتراف کیا مگر بعد میں جب انھوں نے بے جوڑ دعاوی کرنے شروع کیے تو علامہ نے اس کی مخالفت کی۔ بشیر احمد نے تاریخی تسلسل سے مرزا قادیانی سے اقبال کی بیعت کا انکارکیا ہے۔ اقبال کے بارے میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ قادیانیت سے نسبت کے بارے میں حوالے خود قادیانیوں کے گھڑے ہوئے ہیں۔ کسی غیر قادیانی کا ایک بھی حوالہ نہیں۔ بشیر احمد نے خود قادیانی دستاویزات سے علامہ اقبال کے بارے میں قادیانی دعاوی چھاپ کر ان کے جھوٹ کو واضح کیا ہے۔ ایک بھی دستاویز ایسی نہیں جو اقبال کے اعتقادات کے بارے میں غیرقادیانی کی ہو۔ اس سے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ دستاویزات خانہ زاد اور قادیانی پریسوں میں چھاپی گئی ہیں۔ باب سوم علامہ اقبال پر انگریز نوازی کے الزام کے جواب میں ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال کی ساری تحریریں مغرب اور استعمار دشمنی پر مبنی ہیں۔ علامہ نے اگر کسی مجبوری کے تحت کہیں انگریز کی تعریف کی بھی تو مسلمانوں کے فائدے کے لیے مگر انھوں نے ایسی تمام چیزوں کو بعد میں مسترد کردیا اور اپنے مجموعہ کلام میں شامل نہیں کیا۔ جب کہ قادیانیوں کا وطیرہ اس سے بالکل مختلف رہا ہے۔ بشیر احمد نے اس کو بھی تیسرے باب میں واضح کیا ہے۔ باب چہارم دلچسپ ہے اور میرے لیے بھی نیا ہے جو حکیم نور الدین اور اقبال کے روابط پر مشتمل ہے میر حسن اور نور الدین کے درمیان قریبی تعلقات تھے۔ مرزا قادیانی کی ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء میں مرگ کے بعد حکیم نور الدین اس کا نائب بنا جو مرزا قادیانی کی بیعت کرنے والے اوّلین لوگوں میں سے تھا، اس باب میں اس کا تعارف بھی موجود ہے۔ یہ بیعت ۱۸۹۸ء میں مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کے ساتھ ہی ہوئی۔ حکیم نور الدین اور اقبال کے حوالے سے بشیر احمد لکھتے ہیں: نہ جانے یہ اقبال کی انکساری تھی یا ان کے استاد میر حسن سے حکیم صاحب کی گہری دوستی تھی یا ان کا حکیم صاحب کے بارے میں حسن ظن تھا یا قادیانی پروپیگنڈے کے زور پر ان کا ایک ایسا امیج بنا دیا گیا تھا کہ وہ ان کے علم و فضل کے قائل ہوگئے تھے۔ حکیم صاحب کا اتنا بڑا علمی مقام ہو یا نہ ہو علامہ اقبال نے ایک دو سوال پوچھ کر ان کو صاحب علم و حکمت اور ایک ممتاز فقیہ کی صفت میں کھڑا کردیا۔ (ص۵۵، ۵۶) ہمارے خیال میں اس کی وجہ میر حسن پر اقبال کا ضرورت سے اعتماد تھا کہ یہاں تک لکھتے ہیں کہ اسی سید کے گھر سے مجھے فیضان پہنچا ہے۔ اقبال کی وضع داری تھی کہ وہ اپنے استاد کے دوستوں کا بھی احترام کرتے تھے۔ نیز اس وقت ان کے گرد قادیانی گھیرا ڈالے ہوئے تھے جن میں مرزا جلال الدین ایڈووکیٹ، عبدالمجید سالک، یعقوب بیگ اور محمد علی لاہوری تھے۔ ممکن ہے کہ اقبال کو انھوں نے ترغیب دی ہو کہ وہ حکیم نور الدین سے رجوع کریں۔ خوش گمانی اقبال کی ہمیشہ کمزوری رہی ہے وہ اسٹالن کو محمد اسٹالن تصور کرکے مسلمان سمجھ بیٹھے اور کمال اتاترک، رضا شاہ، امان اللہ والیِ کابل سے بڑی بڑی اُمیدیں باندھ لیں۔ وہ کشن پرشاد، سلیمان ندوی، سر راس مسعود، والیِ بھوپال اور نواب بہاولپور کی تعریف کرنے لگتے اور بعد میں مایوس ہوتے۔ بہرحال اقبال انسانی کمزوریوں سے تہی نہیں تھے۔ بشیر احمد نے اقبال کے چاروں سوالات اور ان کے حکیم نور الدین کے جوابات بھی درج کردیے ہیں۔ یہ سوالات و جوابات ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۳ء تک کے عرصے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حکیم نور الدین نے علامہ اقبال کے خط کا جو جواب دیا، وہ جہالت کا اشتہار ہے جو اخبار بدر قادیان میں ۳۱؍جولائی ۱۹۱۳ء کو شائع ہوا۔ اس پر کتاب کے ص۶۲ پر محمد الغزالی ادارہ تحقیقات اسلامی کا تبصرہ دیکھ لینا کافی ہوگا۔ میر حسن کے بھائی میر حسام الدین قادیانی تھے ان کی مسجد کے ایک حجرے میں اقبال نے میر حسن سے تعلیم حاصل کی۔ فصوص اور فتوحات کے درس میں مرزا قادیانی، میر حسام الدین، میر حسن، شیخ نور محمد اور کئی لوگ شامل ہوتے، خود اقبال بھی یہاں آتے جاتے۔مسجد کے سامنے ہی مرزا قادیانی ایک چوبارے میں رہتا تھا اور چھت پر سے ہی مسجد میں آتا جاتا تھا۔ بعد میں اس نے اس کے قریب ہی ایک گھر لے لیا۔ لہٰذا مرزا قادیانی سے لوگوں کی خوش عقیدگی کوئی خاص بات نہ تھی جبکہ ابھی اس نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ مرزا قادیانی نے خود کھل کر کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ حکیم نور الدین بھی اسے ’’مرزا‘‘ ہی لکھتا تھا۔ یہ بشیر الدین محمود تھا جس نے مرزا قادیانی کو باقاعدہ نبی بنا دیا۔ اور مرزا قادیانی کے الہام اور دعاوی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے۔ اقبال نے تعلیم الاسلام ربوہ میں آفتاب اقبال کو محض اعلیٰ معیاری تعلیم کے لیے بھیجا کیونکہ آفتاب کنک منڈی سیالکوٹ کے اسی اسکاچ مشن سکول میںپڑھتا تھا جہاں اقبال نے پڑھا تھا کہ کسی دوست نے تعلیم الاسلام مدرسے کی تعریف کی اور اس زمانے میں تعلیم الاسلام مدرسے کا قادیانی تشخص عام نہیں ہوا تھا۔ لاہوری جماعت چونکہ مرزا قادیانی کو نبی تصور نہیں کرتی تھی بلکہ مصلح تصور کرتی تھی، اسی باعث اقبال کے ہاں اس جماعت کے بارے میں شروع میں روّیہ معقول تھا مگر جب اقبال نے اس جماعت کے نظریات تک براہِ راست رسائی حاصل کی تو اس کے سخت خلاف ہوگئے۔ بشیر احمد صاحب کی ساری کتاب حوالہ جات سے پر اور مدلل ہے۔ سہل لب و لہجہ میں عام فہم ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے کیونکہ انھوں نے بڑی کاوش سے اس موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ اس کتاب کے باب دوم میں بانی قادیانیت کے متعلق اقبال کی ابتدائی تحریر اور باب سوم میں اقبال پر قادیانیوں کے جوابی جملے کہ اقبال بھی انگریز نواز تھے، کا جواب دیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں اقبال اور حکیم نور الدین کے حوالے سے اہم انکشافات ہیں جس سے اقبال کی اس جماعت سے ناروا خوش عقیدگی کا تاثر ملتا ہے جس کی بنا پر قادیانی ان کو قادیانی سمجھتے ہیں۔ پانچویں باب میں علامہ اقبال کی عملی سیاست میں قادیانیوں سے معرکہ آرائیاں ہیں جو قادیانیوں نے تحریک پاکستان اور مسلمانوں کی جنگ آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیں۔ بشیر احمد صاحب سے پہلے الیاس برنی، بشیر احمد ڈار، عبدالمجید ساجد، عبدالرزاق، شورش کاشمیری اور کئی دوسرے لوگوں نے قادیانیت کا تعاقب کیا۔ انھیں کا ثمرہ ہے کہ اب قادیانی اقبال کو دشمن قادیانیت تصور کرتے ہیں۔ نجی محفلوں میں ان پر تبرا کرتے ہیں اور عام محفلوں میں ان کی تحریریں توڑ مروڑ کراپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ ___ ڈاکٹر وحید عشرت ٭٭٭ ڈاکٹر محمد خالد مسعود:سہ ماہی اجتہاد۔ ناشر: اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد حصہ اوّل میں علامہ کے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ کے سلیس اُردو ترجمے کے علاوہ اس موضوع سے متعلق ۸ مضامین ہیں، جن میں علامہ کے نظریۂ اجتہاد پر کئی پہلوئوں سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ’’فکر دوراں‘‘، ’’فکر تازہ‘‘، ’’عالم اسلام اور اجتہاد‘‘، ’’اسلام اور مغرب‘‘ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے تعارف، منصوبوں اور عالم اسلام سے کونسل کے روابط وغیرہ پر مبنی کل چھے حصے ہیں۔ تقدیم میں محترم مدیر مسئول نے رسالے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے، لکھا ہے: رسالہ اجتہاد کا مقصد اجتہاد پیش کرنا نہیں بلکہ اسلامی دنیا میں جاری فکری عمل کا جائزہ پیش کرکے دعوت فکر و عمل دینا ہے۔ عالم اسلام نہ تو کسی فکری پس ماندگی کا شکار ہے اور نہ ہی تنگ نظری، رجعت پسندی اور مغرب زدگی کا یرغمال ہے۔ یہ رسالہ اسلام اور عالم اسلام کے بارے میں مثبت تاثر پیش کرکے پاکستان کے قارئین کو اس پیش رفت سے آگاہی فراہم کرے گا جو پاکستان میں آسانی سے دستیاب نہیں۔ مدیر مسئول نے رسالہ کی مجلس مشاورت اور اس کے اجلاس اور ایجنڈے پر بڑی صراحت سے روشنی ڈالی ہے۔ اداریے میں خورشید ندیم صاحب نے اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت بیان کی ہے۔ ان کے خیال میں علامہ اقبالؒ نے جن مسائل کی نشان دہی کی ہے ان کو مخاطب کیے بغیر جدید مسلم معاشرے کا قیام ممکن نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ کی روشنی میں انھوں نے مندرجہ ذیل چند سوالات کی نشاندہی کی ہے۔ ۱- دورِ جدید میں اجتہاد ایک انفرادی معاملہ ہے یا اجتماعی؟ ۲- ایک مسلم ریاست میں کیا پارلیمنٹ کو حق اجتہاد حاصل ہے؟ ۳- آج اجتہاد مطلق کی ضرورت ہے یا اجتہاد فی المذہب کی؟ ۴- اجتہاد کے لیے نصوص کی تفسیر قدیم کفایت کرتی ہے یا آج نصوص کی تفہیم نو کی ضرورت ہے؟ ۵- کیا ایک اسلامی ریاست کے لیے جمہوری ہونا بھی ضروری ہے؟ جناب خورشید ندیم صاحب نے کراچی کے ماہنامے ساحل کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں سیّد سلیمان ندوی صاحب کے امالی شائع ہوئے ہیں۔ جن میں علامہ اقبال کی فکر پر بالعموم اور ان کے نظریۂ اجتہاد پر بالخصوص تنقید کی گئی ہے۔ جناب خورشید ندیم صاحب کے نزدیک اجتہاد کے لیے سازگار ماحول کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف رائے کا احترام کیا جائے۔ رسالہ اجتہاد میں کلیدی مضمون علامہ اقبال کا چھٹا خطبہ ہے۔ علامہ اقبال کے انگریزی زبان میں دیے گئے خطبات کے بہت سے اُردو تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ زیر نظر رسالے میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کا ترجمہ لیا گیا ہے جو چراغِ راہ میں شائع ہوچکا ہے۔ علامہ کے اس خطبے کے بعد جناب الطاف احمد اعظمی صاحب کا مضمون ’’خطبۂ اجتہاد پر ایک نظر‘‘ شامل ہے جو ایک معنی میں علامہ کے نظریہ اجتہاد کا تجزیہ ہے۔ اس تجزیے میں جناب اعظمی صاحب جن مفروضوں سے اپنی رائے قائم کرتے ہیں خود ہی ان کی نفی بھی کردیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے خطبے پر دوسرا تجزیہ اور تنقید مولانا زاہد الراشدی صاحب کی ہے۔ مولانا راشدی کا خیال ہے کہ علامہ اقبال کے نزدیک اجتہادِ مطلق چونکہ اصولی نوعیت کا اجتہاد ہے اس لیے اس کا دروازہ بند ہونے کی وجہ نہ عدم اہلیت ہے نہ شرائط کی تکمیل کا فقدان، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس قسم کے اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے تجزیے کے اختتام پر مولانا راشدی نے فرمایا: ’علامہ اقبال کا خطبہ ۱۹۳۰ء میں دیا گیا تھا اور اب ۲۰۰۷ء ہے لہٰذا عالمی تناظر اور بین الاقوامی ماحول میں اپنی ضروریات و ترجیہات کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے۔‘ رسالے کا چوتھا مضمون بہ عنوان ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ ہے۔ اس مضمون کے مؤلف محترم طارق مجاہد جہلمی ہیں۔ اس مضمون میں اجتماعی اجتہاد کے امکان پر مختلف علما کے افکار کو یک جا کردیا گیا ہے۔ مضمون میں فکری انتشار بہت واضح ہے۔ محترم جہلمی صاحب اگر مختلف حوالوں کو یک جا کرنے کے بجائے ان سے اخذ مطلب پر توجہ دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ بالخصوص ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب کا حوالہ تو حیران کن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی محولہ عبارت تو قانون سازی سے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی و تہذیبی مسائل کے حل ہونے کے امکان کو ہی رد کررہی ہے۔ معلوم نہیں جہلمی صاحب نے کیا سمجھ کر اس کا حوالہ دے دیا ہے۔ پانچواں مضمون ’’اقبال کا نظریہ اجماع اور اس کا ارتقا‘‘ ہے۔ یہ مضمون جناب ثاقب اکبر کا ہے۔ جس میں اجماع کی تعریف اور اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاریخی پس منظر میں یہ بتایا گیا ہے مطلق العنان حکمرانوں نے اس اہم ماخذ قانون کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کی صورت میں اجماع کی تشکیل پر بحث کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں موجودہ ایران کی قانون سازی کی ہیتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایران کے آئینی ادارے ’’شورائے نگہبان‘‘ اور ’’شوریٰ مصلحت نظام‘‘ کا پاکستان کے ادارے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ سے تقابل بھی پیش کیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے تصورِ اجتہاد پر سرسری سا تبصرہ کیا گیا ہے اور آخر میں قانون سازی کی اہلیت کے حامل افراد کی وہ شرائط بیان کی گئی ہیں جو آئین پاکستان میں درج ہیں۔ چھٹا عنوان ’’خطباتِ اقبال کا ناقدانہ جائزہ‘‘ ہے، جو ڈاکٹر غلام محمد سے منسوب امالی پر مشتمل ہے۔ یہ کراچی کے رسالے ساحل میں شائع ہونے والے مندرجات ہیں اور اس سے متصل اگلا مضمون ’’خطبات اقبال اور ساحل‘‘ محترم احمد جاوید صاحب کے ساحل کے مندرجات کے تبصرے پر مشتمل ہے۔ اجتہاد میں ان شائع شدہ مضامین کی اشاعت ناقابل فہم ہے۔ اس سے ایک طرف تو اسلامی نظریاتی کونسل نے ساحل کے وضع کردہ ’’امالی‘‘ کو بالواسطہ طور پر ہی سہی، ایک مستند دستاویز تسلیم کرلیا اور دوسری طرف یہ اعتراف کرلیا کہ پاکستان میں علامہ اقبال کے خطبات پر سنجیدہ کام کا فقدان ہے ورنہ ایسی مشکوک تحریر کو شامل اشاعت کرنے کی نوبت نہ آتی۔ ساتواں مقالہ بہ عنوان ’’اقبال کا خطبہ اجتہاد اور سیّد سلیمان ندوی‘‘ ڈاکٹر محمد خالد مسعود صاحب کا ہے۔ اس مقالے میں ڈاکٹر صاحب نے ساحل میں شائع ہونے والے ’’امالی‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔ یہ جائزہ عالمانہ اور محققانہ ہے۔ مقالہ نگار نے سیّد سلیمان ندوی اور علامہ اقبالؒ کے مابین مراسلت کو پیش نظر رکھ کر سیّد سلیمان ندوی کے ان جوابات کا تجزیہ کیا ہے جو انھوں نے علامہ اقبال کے استفسار پر لکھے۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے یہ ثابت کیا ہے کہ سیّد سلیمان ندوی صاحب کے جوابات علم و تحقیق پر مبنی نہیں تھے بلکہ ان کے دعوے ناکافی تحقیق و تفحص کے غماز ہیں۔ آٹھواں مضمون ’’اقبال کا نظریہ اجتہاد اور عصری تقاضے: ماہرین اقبال اور اہل علم کی نظر میں‘‘ ہے۔ یہ مضمون گیارہ افراد کی آرا پر مبنی ہے۔ ہم معذرت کے ساتھ عرض کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اس موضوع پر متفرق آرا کو جمع کرنے کے بجائے صاحبانِ فن سے رجوع کیا جاتا تو موجودہ مواد سے کہیں بہتر علمی کام ہو سکتا تھا۔ ان مقالات کے بعد دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جس کا عنوان ہے ’’فکرِ دوران‘‘۔ اس حصہ کے عنوان سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے ماہرین فن کی تحقیقات سے قارئین کو روشناس کروایا جارہا ہو۔ مگر یہ تمام مندرجات پہلے سے شائع شدہ ہیں۔ یہ مواد دراصل ۷؍نومبر ۲۰۰۴ء کے روزنامہ جنگ کی سروے رپورٹ کے کچھ حصے پر مبنی ہے۔ اس میں مختلف مسالک کے علما کے علاوہ ماہرین قانون کا نقطہ نظر بھی پیش کیا گیا ہے۔ رسالے کا تیسرا حصہ ’’فکرِ تازہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام ۲۶؍جون ۲۰۰۶ء کو منعقدہ ایک مذاکرے کی رپورٹ ہے۔ جس کا عنوان تھا ’’نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ جدید مسائل اور اجتہاد‘‘۔ صدرِ مجلس جناب جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب اور مقررین میں ڈاکٹر منظور احمد، ریکٹر بین۔الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد اور ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے مدیر زاہد الراشدی صاحب تھے۔ رسالے کا چوتھا حصہ ’’عالم اسلام اور اجتہاد‘‘ ہے۔ اس میں دو مضامین مراکش سے متعلق ہیں۔ پہلے کا عنوان مراکش کے عائلی قوانین میں اصلاحات‘‘ جبکہ دوسرا ’’مراکش: عائلی قوانین میں اصلاحات اور دورِ حاضر‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا۔ پہلا مضمون مراکش کے عائلی قوانین کی اصلاح بالخصوص دوسری شادی سے متعلق ہے۔ المدوّنۃ کا جو حصہ نقل کیا گیا ہے وہ نکاح اور طلاق کے بارے میں ہے۔ اسی طرح دوسرے مقالے میں خالصتاً عائلی قوانین کی اصلاحات ہی زیر بحث ہے۔ تیسرا مضمون ’’ملائشیا- حدود کے نفاذ کا مسئلہ‘‘ یہ پروفیسر ہاشم کمالی کی کتاب پر تبصرہ ہے۔ تبصرہ نگار راشد بخاری ہیں۔ آخری حصہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ سے متعلق معلومات پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں دسمبر ۲۰۰۵ء کی روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ بھی شامل ہے جو اسلامی نظریاتی کونسل کی کارکردگی کے بارے میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے تبصروں اور تجاویز پر مشتمل ہے۔ سہ ماہی اجتہاد کو پاکستان کا ایک اہم اور مؤقر سرکاری ادارہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ شائع کررہا ہے۔ اس لیے ادارے سے بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ اہم ترین مسائل پر کارآمد مواد فراہم کرکے قوم کی علمی و نظری رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔ آخر میں رسالے کے سرورق کے حوالے سے ایک اہم بات عرض کرنا ضروری ہے۔ اجتہاد کا سرورق گہرے سیاہ رنگ میں ہے جس میں ایک بجھی ہوئی موم بتی دکھائی گئی ہے جس سے اُٹھتے ہوئے دھویں میں اقبال کی صورت کا دکھایا جانا کسی طور سے مناسب نہیں ہے۔ اقبال کی ایسی مایوس کن تمثال فکرِ اقبال سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔ اقبال بجھے ہوئے دیے سے ہویدا ہونے والی شخصیت نہیں بلکہ خود نورِ آفتاب ہے، اُمید ہے، زندگی اور روشنی ہے۔ ___ محمد خضر یاسین ٭٭٭ ABSTRACTS OF THIS ISSUE ALLAMA ASAD AND THE PUNJAB UNIVERSITY- AFFILIATION AND SEPARATION Dr. Zahid Munir Amir This article describes the relationship of Allama Muhammad Asad with the Punjab University. Muhammad Asad was a visionary scholar of wide erudition and insights. After the creation of Pakistan he was affiliated with the Punjab University. He was offered the Chairmanship of Islamiyat Department in February 1949. Asad served in that capacity for eleven months. He was also asked by the university to teach German language. In collaboration with Moulvi Tameezuddin, he arranged the All Pakistan Political Science Conference in 1950. His last contact with the Punjab University was in connection with the Intentional Islamic Colloquium. He assumed the responsibility of the Director Colloquium on the 1st of March, 1957. With the end of this assignment he permanently severed his relationship with the Punjab University. خ…خ…خ ALLAMA MUHAMMAD IQBAL AND HIS HIGHNESS MUHAMMAD NADIR SHAH Dr. Abdur Rauf Rafiquee Allama Iqbal had a deep love and association with the Afghans. After Ghazi Amanullah, Allama had close relationship with Muhammad Nadir Shah among the political personalities of Afghanistan. Allama provided all possible cooperation to Nadir Shah for the reconstruction of Afghanistan. After the restoration of Nadir Shah, Allama visited Afghanistan on his invitation. When Nadir Shah was assassinated, Allama called it a huge loss for the Muslim World. خ…خ…خ DR. M. D. TASEER AS AN IQBAL SCHOLAR Dr.Riaz Qadeer Dr. M. D. Taseer is a renowned figure of the twentieth century Urdu literature. He was a poet, a stylist in prose and an authentic critic. He had a deep interest in Iqbaliyat too. He wrote more than one hundred articles on art and literature. Thirty of these articles are about the personality and thought of Allama Iqbal. Taseer had the privilege of being one of Iqbal's younger friends and associates. His close relationship with Allama gave him a deep acquaintance of Allama's personal life, art and thought. This relationship makes his writings on Iqbal extraordinarily significant. He was the first one who used the title of "Poet Philosopher" for Iqbal. Taseer thinks Iqbal is an Islamic poet because his poetical thought is based on the Holy Quran. Taseer divides the poetry of Iqbal in three periods, the period of individualistic thought and sentimental poetry, the period of community concerns and third period of universality and shared human values. When the debate of inconsistency in Iqbal's thought erupted it was Taseer who logically refuted this thesis in his article "Iqbal Mein Tazad Naheen" (There is no ontradiction in Iqbal). Taseer also wrote about the literary contribution of Iqbal for Urdu Ghazal and compared Iqbal with Tagore. خ…خ…خ IQBAL AND ISLAM ___ A DISCOURSE Muhammad Suheyl Umar The relationship of Islam and Iqbal is much deep and multidimensional. The fundamental concepts of Iqbal are derived from Islam. Iqbal is an Islamic thinker in every respect. Iqbal has elucidated his views on man, universe and God in his prose and poetry. These issues of great poetry are also the issues of Iqbal's poetry and philosophy. The first Ghazal of Bal-e-Jibreel describes the concept of man in a universal perspective. It also alludes to the Iqbal's concept of universe and God. These issues are also discussed in the Reconstruction in detail. Iqbal's concept of universe is a part of his concept of man. For elaboration of these concepts Iqbal has taken into consideration all those aspects of Islam, which can contribute to its understanding. Iqbal adopts the synthesis approach in theological issues. Restatement is an important aspect of Iqbal's relationship with Islam and he resolves all those difficulties that are faced by the modern man. خ…خ…خ IQBAL'S THOUGHT AND THE DIMENSIONS OF UNDERSTANDING THE HOLY QURAN Dr. Tahir Hamid Tanoli Iqbal's thought is based on the Holy Quran and the explanatory dimension of his thought covers our future. Iqbal described only the spirit of the Holy Quran in his poetry. Iqbal was keenly interested in the Holy Quran because he thought that his ideal Mard-e-Momin is possible only through the teachings of Holy Quran. Iqbal introduced new methodology of understanding the Holy Quran. His methodology enables reader to strengthen his belief in Quranic teachings, to revive the decayed nation, to get rid of the downfall and in enlighten every aspect of life in the light of Quranic teachings. Iqbal also speaks about the extraordinary status of Holy Quran, that it covers all aspects of life and ensures the achievement of standards it has set for its reader. Iqbal's thought and methodology introduces fresh dimension of Quranic understanding. For example Iqbal interprets Sura Ikhlas not in the perspective of Tawhid only, but he infers social, political, moral and national principles from this Sura too. Similarly in Sura Yousaf one can find intellectual, economic, legal, political, psychological, moral, dogmatic and practical teachings and principles applying Iqbal's methodology. Here every teaching of not Holy Quran becomes a vital reality of life surpassing the intellectual or dogmatic limits. خ…خ…خ IQBAL'S CRITICISM OF FREUD Dr. Asif Awan Sigmund Freud specified three dimensions of Human Conscious; Sub-Consciousness and un- Consciousness. He considered all motives of thought and action bound to these dimensions and refuted the ultra-intellectual status of religion. According to Freud no motive of human thought or action existed beyond the human mind. In Iqbal's thought the original motive of human thought is metaphysical. Iqbal refutes this concept that human mind is a reservoir of erotic thought and sex impulses. Freud's approach is limited to materialism and simple mechanical aspect of life, while Iqbal believes in meta-physical facts too. About religion too, Iqbal's approach in contrary to that of Freud. Iqbal does not consider religious concepts dependent on the material phenomena. Because man can appreciate metaphysical facts, which are beyond his human personality, in religious passion. While Psychology is limited to human conscience only. That is why these is no space for any metaphysics in Freudian psyco-analysis. While Iqbal, contrary to Freud, considers the cognitive aspect of religious experience beyond the human conscience. خ…خ…خ AN ADDRESS TO ARBAB-I-ZOUQ Khurram Ali Shafique Eastern and Western wisdom both provide the sources of Iqbal's poetry. Dialogue among Civilizations, a burning topic of today is also a part of Iqbal's thought. Iqbal named his ideal society as 'Marghadeen' in Javid Nama. According to Iqbal there are five levels of experiencing any reality. Iqbal's ideal society 'Marghadeen' can be experienced on these five levels. Historically king and Sufi were two pillars of Islamic society. The king was the symbol of war and the Sufi was the symbol of love. Love is the foundation of an Islamic society. Because Sufi makes every one a useful part of the society and civilization. When Iqbal said that matter and sprit and religion & State are one whole, he was describing the political philosophy in terms of Tassawuf. However, Orientalist's partial understanding of Islamic history made him to consider it the history of kings, scientific achievements and legislation. While, contrary to it, every man of wisdom is Muslim East approached spiritual tradition of Islam not Kingship or Legislation to understand the truth of life. It is only Tassawuf, the spiritual tradition of Islam that can prepare individuals who will play their role for spiritual democracy with the unity of religion and state. خ…خ…خ IQBAL'S DIALOGUE WITH THE MODERN AGE Dr. Sabir Afaqi Iqbal being a man of universal vision was the poet of humanity. In the sub-continent after Sir Sayyid and Ghalib, Iqbal is the prominent thinker who talked about the inter-religion dialogue and international understanding. Iqbal pays tributes to Nanak, Mahatma Buddha, Raam, Nietzsche and Quratul Ain Tahira in his poetry. All these are the representative of their religions and schools of thought. To promote peace, Iqbal calls for dialogue among nations and civilizations. To eradicate the culture of war Iqbal gives two arguments, Allah is the Sustainer of all worlds and the Holy Prophet (SAW) is peace for all worlds, so the peace must he preferred on war. Iqbal asks Muslims to be affectionate and all-love for every nation of the world. Iqbal considers respect of humanity as the foundation of dialogue among civilizations. And this respect can be realized through the restoration of social, political, religious and other rights. خ…خ…خ…خ