اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:director@iap.gov.pk Website:www.allamaiqbal.com مندرجات خ مابعد جدیدیت احمد جاوید ۷ خ علامہ محمد اقبال کی تجدیدی فکر ڈاکٹر محمد البہی؍ سمیع مفتی ۲۳ خ اقبال، ابن عربی اور وحدت الوجود ڈاکٹر علی رضا طاہر ۵۹ خ اقبال اور فیض: قربتیں اور فاصلے ڈاکٹر ریاض قدیر ۷۷ مہمان مقالات خ اقبال اور علی شریعتی ڈاکٹر شگفتہ بیگم ۹۵ خ اقبال اور صلاح الدین سلجوقی ڈاکٹر عبدالرئوف ۱۰۵ خ انتظامی علوم کے بنیادی عناصر اور فکر اقبال محمد منیر احمد ۱۱۵ بحث و نظر خ استفسار احمد جاوید ۱۲۹ خ جمہوری ادب خرم علی شفیق ۱۴۳ خ سہ ماہی فکرونظر میں ذخیرۂ اقبالیات سمیع الرحمن ۱۴۹ خ اقبالیاتی ادب: علمی مجلات کے مقالات کا تعارف ادارہ ۱۵۵ تبصرۂ کتب ۰ Man and Destiny، عبدالرشید صدیقی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۷۵ ۰ Problem of Evil in Muslim Philosophy: A Case Study of Iqbal، ڈاکٹر محمد معروف شاہ محمد خضر یاسین ۱۷۷ ۰ اقبال کا تیسرا خطبہ: تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ڈاکٹر محمد آصف اعوان محمد خضر یاسین ۱۸۱ ۰ چوں مرگ آید، ڈاکٹر تقی عابدی خالد اقبال یاسر ۱۸۲ ۰ مقائسہ ارمغانِ حجاز، ڈاکٹربصیرہ عنبرین قاسم محمود احمد ۱۸۳ ۰ اشاریہ معارف اعظم گڑھ، محمد سہیل شفیق ڈاکٹر خالد ندیم ۱۸۵ قلمی معاونین احمد جاوید نائب ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر محمد البہی اسلامی مفکر و سابق وزیر اوقاف، مصر محمد سمیع مفتی ریسرچ سکالر، المورد، ۵۱،کے، ماڈل ٹائون، لاہور ڈاکٹر علی رضا طاہر استاد، شعبۂ فلسفہ ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ڈاکٹر ریاض قدیر ایسوسی ایٹ پروفیسر (اردو)، گورنمنٹ کالج آف سائنس، لاہور ڈاکٹر شگفتہ بیگم اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ فلسفہ ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی منیجر، الائیڈ بینک، گوالمنڈی چوک، کوئٹہ محمد منیر احمد چیف منیجر، ایس بی پی بی ایس سی (بینک)، گوجرانوالہ خرم علی شفیق رفیق علمی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ایچ ای سی ، ایمی ننٹ پروفیسر ، شعبہ اقبالیات، پنجاب یونیورسٹی،لاہور سمیع الرحمن رکن، مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹جے ، ماڈل ٹائون، لاہور خالداقبال یاسر ڈائریکٹر، اردو سائنس بورڈ،لاہور ڈاکٹر خالد ندیم استاد، شعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج آف کامرس، شیخوپورہ قاسم محمود احمد استاد، شعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج سانگلہ ہل، شیخوپورہ مابعد جدیدیت احمد جاوید مابعدِ جدیدیت کا فکری رجحان ایک سلبی رویے کا پروردہ ہے۔ اس رویے کا مرکزِ تحریک موجود سے اعراض اور مطلوب کو حتمیت کے ساتھ متعین کرنے سے گریز ہے۔ مابعد جدیدیت کے اساطین میں نٹشے، ہائیڈیگر اور سارتر ہیں ان سب کے ہاں مذکورہ بالا حقیقت کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے نزدیک متضاد اور باہم متصادم تصورات عقل کے لیے ناقابلِ قبول ہوں گے مگر زندگی انھی حقائق سے عبارت ہے۔ ژاک دریدہ نے مابعدجدیدیت کو پس ساختیات کے نام پر ادبی نظریہ بنا دیا ہے۔ اس کے نزدیک لفظ بھی معانی کا ویسا ہی ظرف ہے جیسا کہ ذہن ہے۔ مابعد جدیدیت میں دو نظریے ایسے ہیں جو اَب ان کا سرمایہ کہلا سکتے ہیں، یعنی نسائیت اور پس ساختیات۔ جدید مفکرین میں مشل فوکو ایک ایسا آدمی ہے جس کے ساتھ اپنے تعلق میں جو چیز سب سے زیادہ بامعنی اورپرکشش لگتی ہے ، وہ ہے چڑ کی حد کو پہنچا ہوا اختلاف۔ بڑے آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں۔ مکمل اختلاف اورمکمل اتفاق کی مصنوعی فضا سے بلند۔ فوکو غالباًجدیدیت کاآخری بڑا نظریہ ساز (Theorizer) ہے۔ یہاں نظریے یا تھیوری کا مطلب یہ ہے کہ ایسا معرف (Definer) وضع کیا جائے جس سے تمام چیزیں Define ہو جائیں ___ اپنے اختلافات اور تضادات سمیت۔ اس کی ایک ضمنی تھیوری ہے جسے وہ Episteme کہتا ہے۔ Episteme کا ایک لفظ یا اصطلاح میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مادۂ علم بھی ہے، حدِّعلم بھی ہے اورمزاجِ علم بھی۔ فوکو کہتا ہے کہ ہر تہذیب کی یا بالفاظ دیگر ہر زمانے کی ایک مخصوص Epistemeہوتی ہے۔ اس تہذیب میں برپا ہونے والی کوئی علمی تحریک اورنظری سر گرمی اس سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ ایک زمانے کیisteme Epدوسرے وقت کے لیے حوالہ تو ہے لیکن حجت نہیں بن سکتی۔ ایک ہی چیز کو دیکھنے کے لیے مستقل تناظر کامیابی کے ساتھ دریافت کرلینا یا انھیں ان کی کلیت اورجامعیت کے ساتھ قبول کرلینے کا کوئی مؤثر ضابطہ ایجاد کرلینا، Episteme ہے Post Modernism یاPost Modernity اس دورکا ایسا Episteme ہے جسے ابھی خود Defineہونا ہے ۔ یہ کچھ ایسے نادیدہ اور غیر محسوس حدود کو نافذاور قائم کر دینے والا ایک دائرہ ہے جس کا قطر اَبھی ناپا جانا ہے۔انسانوں کی تہذیبی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ اپنے تمام تسلسل کو ، اپنی تمام بنیادوں کو، ان کے تمام اجزا سمیت منہدم کرکے ایک نئے Episteme کی دریافت کا دعویٰ اوراپنی تمام علمی، جمالیاتی، تہذیبی بلکہ قرارواقعی شدت پیدا کرنے کے لیے کہاجائے تو وجودی سرگرمیوں کو اس Episteme پر عملاًقائم کرکے دکھا دینا، Post Modernism ہے۔یہ رویے علمی، ادبی، تہذیبی مظاہر میں نمودار ہونے کے باوجود اپنا تعارف نہیں کرواتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی نظریے یا تہذیبی رویے کو اپنے تعارف کے لیے ماضی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے Post Modernism خود کو بے نیاز دکھانا چاہتا ہے۔ تاہم ایک سادہ تعارف یہ ہے کہ جدیدیت ناکام ہو چکی ہے، کلاسیکیت لغو ہو چکی ہے، حقیقت کو دریافت کرنے کے تمام زاویے فنا ہو چکے ہیںاور حقیقت کی ترجمانی کرنے والے سبھی تصورات مضحکہ خیز حد تک بے معنی ہو چکے ہیں۔ اب انسان کو اوراس کے متعلقات کو چند نئی تعریفات سے define ہوناہے۔انسان کو اپنے علمی اور عملی Objects کے ساتھ تعلق کو بالکل نئی معنویت اور طرزِ احساس کے ساتھ از سر نو استوار کرنا ہے،یہ ہیں Post Modernism کے بنیادی مقاصد۔ مگرانھیں بتانے والا ان کا کوئی سیاق و سباق متعین کرکے نہیں دکھاتا۔ حتیٰ کہ خود اپنا تعارف بھی نہیں کرواتا۔ سو اس ساری گفتگو میں عین ممکن ہے کہ یہ چیز سامنے نہ آسکے کہ Post Modernism اپنی تعریف میں دیگر فکریthemes کی طرح کچھ متعین اشارے یا واضح حدود رکھتی ہے یا نہیں۔ جس طرح ہم جدیدیت کی تعریف مقرر کرلیتے ہیں یا کلاسیکیت کے اصول بیان کر سکتے ہیں، اس طرح سردست Post Modernism کو define نہیں کرسکتے۔ ویسے کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی کسی تعریف تک سہولت سے پہنچا جا سکے۔ اس گفتگو کے تین حصے ہیں: -1 Post Modernism کے محرکات کا تعین۔ -2 اپنی موجودہ شکل میں یہ کن اجزا سے مرکب ہے؟ -3 اس پر تنقید گویا پہلا حصہ اس کے تاریخی محرکات پر مشتمل ہوگا، دوسرا حصہ اس کے احوال کا بیان ہوگا اور تیسرے میں اس پر نقد و نظر کا عمل ہوگا۔ کارتیزی روایت کی آمد کے بعد مغرب میں ایک چیزسے دستبرداری کا چلن شروع ہو گیااور وہ یہ تھی کہ دیکارت سے پہلے غالب رجحان یہ تھا کہ چیزیں اپنے مظاہر اور دائرۂ ہستی کے فرق کے باوجود ہم اصل ہیں۔ وہ چاہے مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہوں، چاہے ما بعدالطبیعی عالم سے___ دونوں اصل میں ایک ہیں۔ اور جس اصول کی بدولت یہ واحد الاصل ہیں وہ اصول اپنی ماہیت میں ما بعدالطبیعی ہے۔ اس کے ساتھ دوسری روایت یہ تھی کہ چیزیں خواہ مابعد الطبیعی عالم وجود سے تعلق رکھتی ہوں یا طبیعی دنیا سے متعلق ہوں، ان کے Ontological استناد کا عمل ایک ہے۔ یعنی ان کی Ontological Logic ایک ہے۔ بہرحال اصولی رویہ یہی تھا کہ چیزوں کے ظاہری امتیازات کا اقرار کرتے ہوئے، ان کے طبیعی حدود کے فرق کو ملحوظ اورمحفوظ رکھتے ہوئے ان کی اصل کو دریافت کیا جاتا تھا۔ مگر دریافت کا یہ عمل ان کے ظاہری امتیازات اورفعلیت کی بنیادپر نہیں بلکہ ایک ما بعد الطبیعی منطق کی روشنی میں ہوتا تھا۔ اس سے بہت سارے مسائل بھی پیداہوئے۔ ان مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے یہ طریقہ تو پرانا ہے کہ آدمی اس منطق ہی کا انکار کردے، تاہم ایساکرکے یہ کبھی نہیں ہوا کہ آدمی طبیعی اور مادی دنیا کے حقائق کو بھی خیر باد کَہ دے۔ ہوتا یہی آیا ہے کہ مابعد الطبیعی تصورات پر مبنی منطق کا انکار ہستی کے Metaphysical اصول کا انکار بن جاتا ہے۔ لیکن اس انکار سے بھی وہ مسئلہ طے نہ ہوسکا جو آخر میں آکر دیکارت نے طے کیا ___یعنی یہ دونوں اقلیمیں ، طبیعی اور ما بعد الطبیعی یا مادی اور روحانی، ایک دلیل کا مدلول نہیں ہیں، ایک اشارے کا مشارٌالیہ نہیں ہیں اورایک بنیاد پر قائم جڑواں منارے نہیں ہیں۔ ان کا قانون اثبات ، ان کی فعلیت کا نظام ، ان کی معنویت کا مرتبہ، ان کی حقیقت کادرجہ … سب مختلف ہیں۔ اسی وجہ سے اس نظریے کو ثنویت کہا گیا ۔ دیکارت کا اصرار یہ تھا کہ جب تک ہم ان دونوں کو ایک دوسرے سے متوازی اورمستغنی حالت میں حقیقی اورمؤثر نہیں مانیں گے ، اس وقت تک ہم ان مسائل کا نہ ادراک کرسکتے ہیں اور نہ انھیں حل کرسکتے ہیں جوانسانوں کو اپنی علمی، عملی اوراخلاقی نشوونما میں تقدیری انداز میں پیش آتے رہے ہیں۔ جدید مغرب دیکارت کے دیے ہوئے اس حل سے آج تک وفادار چلا آرہا ہے۔ روح اورمادہ دونوں ایک سی قطعیت کے ساتھ موجود ہیں لیکن موجودہونے کی کیفیت،احوال اورمعنویت میںبالکل مختلف ہیں۔ ایک کاقانونِ حرکت دوسرے پرلاگو نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک کا اُسلوبِ ہستی دوسرے میں نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔ مغرب کی تمام تر تہذیبی پیش رفت اصل میں اسی نظریے سے پیداہوئی۔ اسی طرح جدید مغرب کی تشکیل میں دوسرا بڑا ہاتھ نٹشے کا ہے۔ نٹشے وہ آدمی ہے جس نے تمام انسانی حدود و قیود کا انکار کیا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے وجود کے اس سانچے ہی کو حقارت سے توڑ دیا جس میں انسان ڈھلتے ہیں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ جدید مغرب کی صورت گری میں سب سے بڑا ہاتھ کس کا ہے؟ تو کم از کم میں تو یہی کہوں گا کہ نٹشے کا۔ Post Modernistبھی پچھلے لوگوں میں سے اگر کسی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، یا یوں کَہ لیں اس کی تردید پر مائل نہیں ہیں تو وہ یہی نٹشے ہے۔ نٹشے وہ آدمی ہے جس نے اہل جدیدیت اور ارباب ما بعدجدیدیت کی طرح انسان کی تشکیل نو کی بات نہیں کی بلکہ وہ انسان کو اس کی وجودی ساخت ہی میں فنا کر دینا چاہتا تھا۔ اس کے نزدیک انسان اس وجودی نقص میں مبتلا ہے جو اصلاح کا نہیں، انہدام کا متقاضی ہے۔ جب تک human conditions کو تمام مظاہر سمیت تہس نہس نہیں کر دیا جاتا، زندگی کی تکمیلی صورتیں پیدا نہیں ہوںگی۔ یہیں سے نفیِ محض کے اس رویے کی بنیاد پڑی جو Post Modernism کی غالباًسب سے بڑی اساس ہے۔ تیسرا مرکزی آدمی ہے مارٹن ہائیڈیگر اس نے واضح لفظوں میں لیکن نہایت پیچیدہ اُسلوب کے ساتھ یہ بتایا کہ انسانی نفس میں سب سے قوی داعیہ ، داعیہ ٔ بودن نہیں ہے بلکہ داعیۂ نابودن ہے۔ انسان کا سب سے گہرا تجربہ، اس کاسب سے پرکشش حال، اس کی شخصیت کی ساخت میں سب سے ضروری اورمضبوط عنصر، اس کے تمام تصورات کی تشکیل میں سب سے زیادہ بامعنی اورکارآمد جوہر اس کی موت ہے، زندگی نہیں۔ آدمی کا سب سے حقیقی، سب سے انفرادی اور سب سے مکمل تجربہ موت کا تجربہ ہے۔ چیزیں اس وقت تک مکمل نہیں ہوتیں جب تک وہ انفرادی نہ ہو جائیں یا انفرادیت کے ساتھ زندہ مناسبت نہ پیدا کرلیں یاانفرادیت کی ملکیت اورحصہ نہ بن جائیں۔ ہائیڈیگروہ شخص ہے جس نے نفس انسانی کی پیچیدگیوں اور گہرائیوں کو عقلی اورجمالیاتی شعور کے پورے امتزاج کے ساتھ کھولااور کھنگالا ہے۔ اب تک کی جرمن فلسفیانہ روایت کے برخلاف اس نے حقائق کی تمام سطحوں کو نفس انسانی کے احوال کاحصہ بنا کر دکھایا ہے۔ حقیقت کی طرف فلسفیانہ پیش قدمی کی پوری روایت میں ہائیڈ یگر شاید پہلا فلسفی ہے جس نے نفس اورلفظ کے غیر محدود تجزیے کو حقائق تک رسائی کا بنیادی ذریعہ بنایا ۔ہائیڈیگرعلامہ اقبال کا معاصر تھا، ان دونوں کا تقابلی مطالعہ ہمیں خاصے دلچسپ نتائج تک پہنچا سکتا ہے۔ حقائق کی اقلیم میں انسان کو مرکزی منصب پر فائز کر دینے کا رویہ دونوں کے یہاں شدت سے موجود ہے۔ اقبال اس مرکز حقائق انسان کو ایک ایسے تناظر میں دیکھتے ہیں جواخلاقی Idealism یا مذہبی Romanticism کے عنوان کے تحت لایا جاسکتا ہے، لیکن ہائیڈیگر اپنے دوسرے نامور معاصر برگساں کی طرح اپنی انسان مرکزی کی اکثر بنیادیں نفس انسانی کی شعوری+حیاتیاتی ساخت پر رکھتا ہے۔ گویا اقبال Ideal Man کوactualizeکرناچاہتے ہیںاور ہائیڈیگر actual manکو Idealizeکرکے دکھاتا ہے۔ بہرحال ہائیڈیگر کے نزدیک انسان کی اصل قوت اور اس کی حقیقی urge جذبۂ زندگی نہیں بلکہ جذبۂ مرگ ہے۔ سب سے بڑے معنی موت میں ہیں۔ زندگی معنی کا ناکافی ظرف ہے۔ یہ پیالہ ذرا سابھر کر چھلک جاتا ہے۔ اس چھلکنے کی وجہ ایک تو اس کا چھوٹا ہونا ہے اور دوسرا اس کا متحرک ہونا ۔اور یہ حرکت بھی ایک فضول سے زمانی بہائو کی مرہون منت ہے۔ آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ یہ باتیں جس طرزِ احساس کی تسکین کرسکتی ہیں، ہم غالباًاس کے امیدوار بھی نہیں ہیں۔ ہائیڈیگر نے اس Nihilism کو ایک نفسیاتی بنیاد فراہم کر دی جس میں نٹشے نے ایک مابعدالطبیعیاتی شکوہ پیدا کردیا تھا۔ نٹشے اظہار میں اور تخیل میں جس شکوہ کا گویا موجد ہے، اس کی وجہ سے انسان اورانسانی دنیا جس احساسِ تحقیر میں مبتلا ہوگئی، انسان کے بارے میں پیداہونے والی کسی روایت میں اس کی جھلک بھی نہیںملتی۔ نٹشے نے فلسفیانہ سطح پر Absurdism کا ایک ایسا مینار کھڑا کردیا جس کی بلندی معنی کے تمام structures سے کہیں زیادہ معلوم ہوتی ہے۔نٹشے کا نا ممکن حد تک پہنچا ہوا خطیبانہ شکوہ Metaphysics پر پڑنے والا سب سے طاقتور گھونسا ہے، لیکن اس میں کارفرما ساری طاقتMetaphysical ہی ہے۔ نٹشے اپنے اہداف کو اس قدراونچائی پر رکھتا ہے کہ وہ ممکن الحصول نہیں لگتے اور نٹشے کا مقصدبھی یہی تھا___ مخاطب کی تحقیر اور اس کے اندر ترسنے کی مستقل کیفیت پیدا کر دینا ۔ اس نے بہت کامیابی کے ساتھ ہمیں یہ باور کروا دیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تجربے میں جھونک دیاکہ اصل معنی یا حقیقت انسانیت کی سمائی سے بالکل باہر ہے۔ انسان اپنے ہی وہم سے بھری ہوئی ایک متحرک پرچھائیں ہے، جوکائناتِ وجودکے کچھ حصوں پر کالک کی طرح منڈھ جاتی ہے۔ ہائیڈیگر نے نٹشے ہی کے چلن پر چلتے ہوئے کمال یہ کیا کہ جذبۂ مرگ کو جیسے محسوس کروا دیا___حس کی سطح پر بھی اوران سطحوں پر بھی جہاں ایسے تصورات بنتے ہیں جن کوآدمی شعور کی مجموعی قوت اور یکسوئی کے ساتھ Idealize کرتا ہے۔ایک پہلو سے دیکھیں تویوں لگتا ہے کہ ہائیڈیگر نے نٹشے کی کچھ باتوں کو زیادہ قابلِ عمل، زیادہ مؤثر اور زیادہ مانوس بنا دیا۔ نٹشے نےNihilism میں جو مجذوبانہ زور پیدا کیا تھا، ہائیڈیگر نے اسے شعور کا بنیادی حال اور حاصل بنا دیا۔ اس نے گویا ایسا کام کیا کہ نٹشے کا Ideal سکڑ کر قابل عمل بن گیا۔یعنی ایک مناسب سائز میں آکر actualize ہونے کے قابل ہوگیا۔ Postmodernism کے سلسلے میں ایک بہت بنیادی بات یہ ہے کہ اس سے نٹشے کےIdeals یا توactualize ہو گئے ہیں یا اس عمل سے گزر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا حال ہی ہمارا مستقبل بعید ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ مستقبل میں ہوتے ہیں۔ یہ اگر دو ہزار سال قبل مسیح میں بھی پیداہوئے ہوں تو بھی ان کی موجودگی ہمارے مستقبل میں ہے۔ وجودیوں میں میرا خیال ہے کہ ایسی شخصیت صرف ہائیڈیگر کی ہے۔ دوسرے لوگ ہمارا ماضی ہیں۔ اس کی Being and Timeکسی بھی اعتبار سے فلسفے کی کسی کتاب سے فروتر نہیں ۔ اس میں مباحث کی اکثریت ایسی ہے جو بالکل original ہے اورجو موضوعات بظاہر روایتی ہیں انھیں بھی دیکھنے کا تناظر یکسر نیا ہے اوران کی logicization بھی ایسی ہے جو ہائیڈیگر سے پہلے موجود نہ تھی۔ یعنی اس نے یا تونئی چیزبنا کر دکھائی ہے یا پھر پرانی چیز پر پڑے ہوئے تمام ہاتھ ہٹا کر اس کو اپنے قبضے میں لیا ہے۔ یہ ایسا آدمی تھا جس نے شعورانسانی کے تمام اجزا کو ایک ماوراے عقل جمالیاتی حس و شعورکے ساتھ نہایت پختگی، کمال اور گہرائی کے ساتھ قایم کیا۔ہم میں سے بہت سے لوگ شاید اس بات سے بھی خوش ہو جائیں کہ ہائیڈیگر نے شاعر کو فلسفی پر غالب کیا ہے یعنی افلاطون سے ہمارا بدلہ لے لیا۔ ان تین کے بعد کئی لوگ آئے جنھوں نے Post Modernism کی اصطلاح کو ایک فکری پیرائے میں استعمال کیا۔ Architecture، موسیقی ، سینما وغیرہ سے ہوتا ہوا یہ لفظ ادب میںآیا اورپھر وہیں اس کے تھیوری بننے کے مراحل شروع ہوئے۔ فلسفے میں ابھی اس کا کوئی بڑا نمونہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے تصورات کو فلسفیانہ تعریفات کے دائرے سے فی الحال دور ہی رکھنا چاہیے۔ یوں اس کی فلسفیانہ بنیادیں بتائی تو جاتی ہیں لیکن وہ سب اس کی پیدائش سے پہلے کی ہیں۔ چونکہ ہمیں اس کی تاریخ بیان نہیں کرنی اس لیے مناسب یہی ہے کہ ترتیب کا بہت زیادہ لحاظ رکھے بغیر اس کے اہم ترین اجزا کو کہیں اختصار اور کہیں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔ کوشش یہی ہوگی کہ کوئی ضروری بات نظر انداز نہ ہو، باقی رہا مصنفین اور کتابوں کا تذکرہ تو وہ یہاں ہمارا مقصود نہیں ہے۔ ممکن ہے کچھ اہم نام رہ جائیں لیکن اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ بنیادی مباحث بہرحال اس گفتگو میں آ جائیں گے۔ ما بعدجدیدیت کا مجموعی فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بنیادی دعوے کو سمجھا جائے۔ وہ دعویٰ یہ ہے کہ حقیقت وغیرہ کا کوئی بھی بیان آفاقی و ابدی، ہمہ گیر و مستقل اور عمومی و واجب التسلیم نہیں ہوسکتا۔ یہاں دو باتوں کا خیال رہے کہ اہل ما بعدجدیدیت کے نزدیک کل وجودبیان محض ہے۔ جسے ہم حقیقت کہتے ہیں وہ بھی فقط ایک بیان ہے جس میں اصطلاحات وجودی استعمال ہوئی ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ بیان جسے وہ Narrative کہتے ہیں ، تصور اور تصدیق کی منطق سے بے نیاز ہوتا ہے لہٰذا اس میں جاننے یا ماننے کا مطالبہ داخل کرنا لغو اور بے معنی ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو وہ یہ کَہ رہے ہیں کہ حقائق وغیرہ ایک خاص شعور کے تصورات ہیں جن میں عموم اور ہمیشگی کا گذر ہو ہی نہیں سکتا۔ عمومی اور مستقل بیان کو Grand یا Meta Narrative کہا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ تصور ہوتا ہے جس سے واقعی اورحقیقی دنیا پر زبردستی کوئی تعبیر تھوپی جائے اور یہ طے کر دیا جائے کہ فلاں چیز یہ ہے اور اس کا مقصد و حقیقت یہ ہے۔ یعنی حقیقت بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو خود چیز کے علاوہ ہوتی ہے، ان لوگوں کی نظر میں یہ ایک چالاکی ہے جس کے ذریعے سے آدمی چیزوں پرغالب اور متصرف ہونے کا راستہ نکالتا ہے۔بقول سوشیور حقیقت وغیرہ کچھ نہیں ہے، بس ایک زاویۂ نگاہ ہے۔ میں چیزکو جس زاویے سے دیکھتا ہوں، اس کی حقیقت بدل جاتی ہے مگر چیز وہی رہتی ہے۔ Grand Narrative نے ہمیں جس دھوکے میں رکھا ہوا ہے، اس سے نکلے بغیر ہم انسان اور دنیا کے تعلق کے حقیقی درو بست اور واقعی مطالبات تک نہیں پہنچ سکتے۔ تمام چیزیں، تمام سچائیاں چھوٹے چھوٹے وقتی پیمانوں پر ہیں اورایک سادہ سے خارجی حضور (presence) سے عبارت ہیں ۔ Grand Narratives کی حاکمیت نے ان لوگوں کے نقطۂ نظر سے صرف علمی نقصان ہی نہیں پہنچایا بلکہ ان کا ضرر سیاسی اور سماجی بھی ہے۔ ان سے جبریت، عدمِ مساوات، مطلق العنانی اورظلم نے جنم لیا ہے۔ اسی لیے اکثر Post Modernist سوسائٹی اور اسٹیٹ کے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سماجی نظام ہے، سوشل اسٹرکچر ہے۔ معاشرہ چونکہ اقدار پر قائم ہوتا ہے اور اقدار میں عموم اور استقلال کم از کم تصور کی سطح پر لازم ہے،اس لیے یہ لوگ معاشرے کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔ان کی نظر میں اقدار بھی Grand Narratives ہیں۔ ان کے خیال میں معاشرہ ایسی وسعت کا حامل ہونا چاہیے جس میں اختلاف اور تصادم کی گنجائش موجود ہو۔ البتہ چیزوں کا ایک عملی مصرف ہے، اس میں نہ کوئی اختلاف ہوتا ہے اور نہ ہونا چاہیے۔ مثلاًمیرے اور آپ کے عقیدے میں فرق ہے تو پانی پینے کے مسئلے پر ہمارا کوئی اختلاف نہیں ، میری اورآپ کی رائے میں تصادم ہے تو بہرحال بس پر سوار ہونے میں ہم آپس میں متفق ہیں۔ اسی اتفاق سے ہمارے درمیان ایک نظام تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت اور پرداخت کرنی چاہیے۔ باقی آپ کی رائے صحیح ہے تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور میری رائے غلط ہے تو اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ لیوتار (Leyotard) کہتا ہے۔ بظاہر یہ بھی ایک Grand Narrrative ہی ہے جس نے ما بعد جدیدیت کی تشکیل میں بہت بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی کتاب کی بسم اللہ ہی یہ ہے کہ سچائیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں، مقامی ہوتی ہیں اور وقتی ہوتی ہیں ۔ ان کو ان کی اپنی شرائط کے ساتھ تسلیم کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ اپنے وقتی تعلق کو تہ دل سے ماننا ہوگا اور اپنی زندگی کے انداز کو خیالات کی بجائے اسی living presence سے ہم آہنگ رکھنا ہوگا۔ اس کے بعد انسان کے لیے وہ مسائل پیدا نہیں ہوں گے جو اس پر مصیبتیں لاتے ہیں۔ ما بعد جدیدیت کو نظریے کے لحاظ سے Theory of Derealization بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ Post Modernism پر نٹشے کس حد تک اثر انداز ہوا ہے۔ انسان اوردنیا کے باہمی تعلق سے پیدا ہونے والے ہر تصور اورہر واقعیت کو مکمل طور پر رد یا نظر انداز یا مسمار کیے بغیر اس انسان اوراس دنیا کووجود نہیں مل سکتا جن پرPostmodern Condition کا قیام ہے۔ لیوتار نے کہیں کہا ہے کہ آخری Grand Narrative مارکس نے وضع کیا۔ اس کے نظریے پر مبنی جو سوسائٹی متشکل ہوئی یا جو State Structure وجود میںآیا وہ اپنی اساس میں اتنا ہی مجرد تھا جتنا کہ وہ تمام اجتماعی نظام تھے جن کی تردید پر مارکسی تھیوری کا دارومدار ہے۔ دوسرے یہ کہ اس تھیوری کے نتیجے میں پیداہونے والا نظام بھی جبر کی شدت میں انھی نظاموں کی طرح تھا جن سے لڑنے کے لیے مارکس کھڑا ہواتھا۔ لیوتار کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا کہ اگر مارکس غلط ہو سکتا ہے توسب کچھ غلط ہوسکتا ہے۔ یہاں سلسلۂ کلام کو ذرا دیر کے لیے معطل کرنا ہوگا کیونکہ یہ دریدا کے ذکر کا بہت مناسب موقع ہے۔ ژاک دریدا وہ آدمی ہے جس نے Post modernism کو ایکLiterary Theory بننے میں کامیابی دلوائی اس تھیوری کا نام ہے Deconstruction Theoryیعنی ردِتشکیل کا نظریہ۔ Deconstruction کیا ہے؟لفظ میں مفروضہMeaning structure اور ذہن میں موجود Meaning Form کو ختم کر دو۔ یعنی لفظ میں پہلے سے موجود معانی کو لفظ سے خارج کرو،دماغ میں پہلے سے راسخ تصورات کو مٹائو ___ اس کے بعد ہی تم منتہائے اظہار اور منتہائے ادراک کو یکجان کر سکتے ہو۔ انسانی شعور کی سب سے بڑی تمنا دریدا کے نزدیک یہ ہے کہ غایتِ ادراک اورغایتِ اظہار ایک ہو جائے۔ وہ کہتا ہے کہ لفظ کے معانی ذہن میں موجود معانی سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے معانی انسانی ذہن کی پکڑ میں نہیں آ سکتے۔ حتیٰ کہ منشاے متکلم کا بھی اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں کیونکہ متکلم کا انحصار بھی ذہن میں موجود معانی پر ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے فلسفے یا نظریے کوالتواے معنی کافلسفہ یانظریہ کہتا ہے۔ یعنی معانی ہمیشہ ملتوی ہوتے رہتے ہیں اور جو کچھ ہماری تحویل میںآتا ہے وہ معنی نہیں ہے بلکہ معنویت کا ایک جزو ہے۔ وہ معنی اور معنویت (Meaning and Meaningfullness)میں فرق کرتا ہے۔ شے کے معنی گرفت میں نہیں آسکتے ، اسے اپنے شعور کے لیے مفید استعمال بنانے کی خاطر شعورشے سے کچھ معانی منسوب کردیتا ہے۔ یہی معنویت ہے یعنی معنی کا احتمال جو حصول معنی کوایک بعیداز رسائی مقصودکے طورپر زندہ رکھتا ہے اورشعور کو اس کی طرف یکسو رہنے میں مدد دیتا ہے۔ معنویت اجتماعی نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ذاتی اور انفرادی ہوتی ہے۔ چیزیں اپنا اظہار کرکے اپنے معنی کو مکمل یا متعین یاظاہر نہیں کرتیں بلکہ انھیں ملتوی کرتی چلی جاتی ہیں۔ تھیوری کی سطح پر اگر Postmodernism کے پاس کچھ ہے تو وہ یہی Deconstruction Theory ہے یا پھر Femiminism کو بھی Postmodern Theory کہا جاتا ہے۔ سردست ما بعد جدیدیت کے پاس یہی دوtheories ہیں۔ Feminism کی صورت یہ ہے کہ حقوق نسواں یا خواتین کے سماجی مرتبے کا تصور بہت قدیم سے چلا آرہا ہے، اس تھیوری میں اس تصور کا کوئی بڑا کردار نہیں ہے۔ اس باب میں ما بعد جدیدیت کا تناظر بالکل الگ ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں حقائق کو حقائق کہنے کے جو دلائل بنائے گئے ہیںوہ سب مردانہ ہیں۔ یعنی جس چیز کوکوئی نام دیا گیا ہے یا کوئی معنی دیے گئے ہیں وہ تمام اسما و معانی مردانہ ذہن اور اختیار کی پیداوار ہیں۔ ہم نے دنیا کو، چیزوں کو حتیٰ کہ خودانسانیت کو عورتوں کی نظر سے دیکھاہی نہیں۔ اسی وجہ سے شعور کی نسائی ساخت ہمیشہ سے معطل چلی آرہی ہے۔ صرف سیاسی اور تہذیبی معنوں میں نہیںبلکہ یہ ایک کلی تھیوری ہے۔ اب تو اس کے نام سے باقاعدہ ایک مکتب تنقید وجود میں آچکا ہے جس کا نام ہی Gynae Criticism ہے۔ اس کا ہدف یہ ہے کہ عورتیں اپنے شعور کی ساخت سے وفادار رہتے ہوئے پورے نظامِ معنی کو نئے سرے سے ترتیب دیں اور اس کے اظہار کے نسائی زاویے اور سانچے بنائیں۔ Postmodernism یا Postmodernity پر گفتگو کرتے ہوئے دو چیزوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے: ایک اس کی تھیوری اور دوسرے اس کے تخلیقی مظاہر۔ اگر آپ کو تھیٹر کی تاریخ سے دلچسپی ہو تو بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایک بہت بڑی تحریک چلی تھی جس نے شیکسپیئر کے بعد سب سے بڑے ڈراما نگار پیداکیے۔ بلکہ میری رائے میں ان میں کچھ لوگ ایسے تھے جنھوں نے شاید شیکسپیئرکو چھو لیا تھا۔ میری مراد Theater of the Absurd یا Absurd Theater کی تحریک سے ہے۔اس تحریک نے واقعۃً ڈراما نگاری کی پوری روایت کو منقلب کر دینے والے لوگ پیدا کیے، مثلاً Eugene Ionesco، Samuel Buckett وغیرہ۔ یہ دونوں خاص طورپر بعض اعتبارات سے شیکسپیئر کو بھی پیچھے چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طورپر Waiting for Godot کا مرکزی کردار اپنی الجھنوں میں Hamlet سے بلکہ شیکسپیئر کے کسی بھی کردار سے زیادہ وسعت، گہرائی اورمعنی خیزی رکھتا ہے۔Absurd ڈرامے ظاہر ہے سمجھ میں آنے کے لیے نہیں لکھے گئے تھے لیکن ان کو نہ سمجھ سکنے کی حالت بھی اتنی کیفیت انگیز اور معنی خیز ہے کہ آدمی اپنے دستیاب طرز احساس اور اُسلوبِ ادراک سے اسے سہارنہیں سکتا۔ دیکھیے نٹشے یہاں بھی موجود ہے۔ یہ ایک عجیب چیز ہے جس کا ہمیں تجزیہ کرنا چاہیے کہ کوئی چیز بالکل سمجھ میں نہیں آتی لیکن اس کے باوجود ہم اسے عظمت کے آخری درجے پر کیوں رکھتے ہیں۔ یہ کوئی ہمارے اندر ذوق کا اصول کار فرما ہے جو فہم کو ناگریز نہیں رہنے دیتا؟بہرحال چیزوں سے ذہنی کے ساتھ ایک ذوقی تعلق بھی ہوتا ہے اور ذوق کی تسکین بعض مرتبہ فہم کو نظر انداز کرکے بھی ہو جاتی ہے۔ مابعد جدیدیت میں چاہے اس بات پر کچھ اختلاف ہو لیکن مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ Postmodernism کے ادبی اثاثے کا سب سے قیمتی حصہ Absurd Plays ہی ہیں۔Absurdدراصل وہ حقیقت یا معنی ہے جو انسانی ذہن کی گنجائش سے زیادہ ہے۔Absrud Theater نہ ہوتا تو د ریدا اپنے بنیادی نظریۂ التواے معنی تک شاید نہ پہنچ سکتا۔ Waiting for Godotنہ ہوتا تو دریدایہ شہرۂ آفاق فقرہ شاید نہ کَہ سکتا: Meanings are beyond presence مختصر یہ کہ Postmodern Theory میں Deconstruction، Post Structuralism ، Gender Crisis ، Gynae Criticism وغیرہ شامل ہیں___ جب کہ اس کا دوسرارخ Postmodern Condition ہے۔ یعنی یہ ایک تھیوری بھی ہے اور ایک صورت حال بھی۔ اکثر لوگوں کا زور اس کے تھیوری نہ ہونے پر ہے، کیونکہ تھیوری بنتے ہی یہ خود ایک Meta Narrative بن جائے گا۔ان کا زیادہ اصرار یہ ہے کہ Postmodern Condition کو سمجھا جائے یعنی اس presenceتک محدود رہا جائے جس کو Postmodern کہا جا رہا ہے۔ ویسے ایک رخ سے یہ بات خاصا وزن رکھتی ہے۔ اگر ذرا سا غور سے دیکھا جائے تو بالکل واضح طورپر احساس ہو جائے گاکہ یہ ایک نئی صورت حال ہے اور اس کی معنویت کو جاننے کے لیے کچھ نئے اسالیبِ فہم درکار ہیں۔ مابعد جدیدیت کا ایک سادہ سا ایجنڈا بھی ہے جو ہم ایسے عوام الناس کے لیے بنایاگیا ہے۔اس کے تین حصے ہیں: -1 صرف ایک چیز ایسی ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا اور وہ چیز ہے انسان کی آزادی۔ انسانی آزادی کا تصور اوراس کی اطلاقی صورتوں پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ اس آزادی کو سلب کرلینے والا سب سے بڑا ذریعہ انسانی شعور کا اعتقادی (Doctrinal) حصہ ہے۔ یعنی جب شعور کسی چیز کو مستقل مان لیتا ہے اوراپنے ماضی کے عمل سے اپنی موجودہ صورت حال کو ردّ و قبول کرنے کا عادی بن جاتا ہے تو یہ انسانی آزادی کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ ہم انسانی ذہن کی اعتقادی حالت کوبدل کر رہیں گے۔ اعتقاد (Doctrine) سے ان کی مراد ہے کسی بھی طرح کا متعین نظام اور کسی بھی طرح کی کوئی ایسی فکر جوانسان کی تمام سرگرمیوں کو اپنے قبضے میں کرلے، جیسے مارکسزم یا کوئی بھی مذہب۔ عقایدیا عقیدے جیسا تحکم رکھنے والے نظریات انسان کی وجودی پروازکا رخ اپنی طرف کرلیتے ہیں۔ آزادی کی اس سے بڑی نفی ممکن نہیں۔ -2 ہمیںانسان کی سمجھ میں اضافہ نہیں کرنا۔ ہم انسان کے شعور کو چیزوں کا جمالیاتی احیا اور اعادہ کرنے والی قوت بنانا چاہتے ہیں۔ اسی سے وہ سادہ، خالص اور حقیقی presence شعور کی پوری پوزیشن کو بدل دینے والی طغیانی کی طرح تجربے میں آئے گی۔ -3 منشاے متکلم کوئی چیز نہیں۔ قاری متن سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، وہی متن کی حقیقت ہے۔ مغرب کی وہ تحریکیں جنھوں نے اس کی علمی و تہذیبی تاسیس کی ہے، ان سے واقفیت پیداکرنا بہت ضروری ہے۔ مغرب کی تشکیل اور ردِّ تشکیل کے چند مراحل میں ___ پہلا مرحلہ وہ ہے جب عیسائیت کو Romanize کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مغرب نے اپنی بعض بنیادی علمی اور تہذیبی اقدار حاصل کیں۔ اس کے بعددوسرا مرحلہ آتا ہے نشاۃ ثانیہ کا۔ عیسائیت کی Romanization نے مغرب کی جو علمی اور تہذیبی تشکیل کی تھی، اس مرحلے پر ان تشکیلات کو خاصی حد تک مسترد کیا گیا۔ اس صورت حال میں مغرب نے اپنی ردِّ تشکیل کا ڈول ڈالا، علمی بنیادوں پر بھی اورتہذیبی بنیادوں پربھی۔اس کے بعد تیسرا اہم ترین مرحلہ ہے: جدیدیت ۔ جدیدیت کا وہ مطلب نہیں ہے جو عام طورپر ہم لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ دراصل Enlightenment Project تھا۔جدیدیت گویا نشاۃ ثانیہ کی تکمیل بھی ہے اور تجدید بھی۔ جدیدیت کا المیہ یہ ہے کہ مابعدالطبیعیات یا زیادہ صحیح لفظوں میں مذہبی و روایتی مابعدالطبیعیات کا انکار کر دینے کے باوجود اس کا اپنا انداز نظر وہی تھاجو مابعدالطبیعی حقائق کو ماننے سے پیدا ہوتا ہے۔ جدیدیت حقیقت کی واحد تعریف سے بغاوت کا نتیجہ تھی۔ اس کے نزدیک ایسی کوئی تعریف جو کل پر صادق آئے اور تغیر کے امکان سے پاک ہو، ممکن نہیں۔ ا س کی نظر میں یہ قابل عمل بھی نہیں ہے اور سائنس وغیرہ کی ترقی سے علمی استدلال اور مشاہداتی استناد میں جو تبدیلی آئی ہے، یہ تصور اس کے مطابق بھی نہیں ہے۔ یہیں سے Enlightenment Project کے نام سے ایک ایسا خیال سامنے آیا جسے Modernism کہتے ہیںاور Modernityبھی۔ اس خیال کا مقصود یہ تھا کہ انسان چیزوں کو اس نظر سے نہ دیکھے کہ وہ انھیں ذریعہ بنا کرکسی مفروضہ حقیقت تک پہنچ جائے گا۔ روایتی انسان شے کو صورت ومعنی اور حقیقت و مظاہر جیسے متوازی تضادات میں دیکھنے کا عادی تھا۔ اہل جدیدیت کے نزدیک ان متقابلات میں محبوس ہو کرشعور حقیقت کو تو کیاپاتا خود شے سے بھی دور ہوگیا۔ چیزوں میں کئی ایسے امکانات بر سر عمل ہوتے ہیں جواس انداز نظر کے جبر کی وجہ سے اوجھل ہو کر رہ گئے۔ چیزوں کو ان کے خالص پن اور ان کی ساخت میں کارفرما پیچیدگی اور تہ داری کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔ یہیں سے وہ علمی اور تہذیبی فیصلے وجود میں آئیں گے جو دنیا کو ہر معنی میں انسانی بنا دیں گے۔یہ مغرب کی تشکیل نو تھی۔ مگر اس کو بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہونا پڑا۔ مارکس کی مقبولیت کا پھیلائو، پہلی جنگ عظیم اور پھردوسری جنگ عظیم کے آثار کی نمود___ ان تین تاریخی مظاہر کو بیک وقت نظر میں رکھنا چاہیے۔ پہلی جنگ عظیم میں مغربی تہذیب کی نظریاتی بناوٹ کمزور پڑی، مارکس کی آمد اور مقبولیت نے مغربی تہذیب کی بنیادی ترین ساختوں کوادھیڑ کر رکھ دیا___ یعنی مارکس وہ آدمی تھا جس نے مغرب کے اُسلوبِ حیات کو الف سے یا تک تبدیل کردیا___ یہ خطرے کی دوسری گھنٹی تھی جو مغرب جدید نے سنی۔ پھر جب دوسری جنگ عظیم ابتدائی مراحل میں تھی اورنظریاتی شکل بھی اختیار کرتی چلی جارہی تھی ، یعنی قوم پرستی، اس وقت کچھ لوگوں کو یہ خیال آیا کہ جدیدیت کوئی منزل نہیں بلکہ محض ایک راستہ تھا جس نے ہمیں تباہی کے صحرا میں لا پہنچایا۔ ہم نے چیزوں کو ان کو اپنی اپنی حد میں رکھتے ہوئے اپنے اعمال کا ایک پورانظام ترتیب دیا، لیکن اس کا بس یہ نتیجہ نکلا کہ اب ہمارے ہاں ایسی خود کش صورت حال پیداہو رہی ہے ، اورکوئی ایسا نکتہ بھی ہمارے پاس نہیں رہا جو ہمیں ایک دوسرے سے ٹکرا کرتباہ ہونے سے روک سکے۔ مابعدجدیدیت دراصل وہی نقطہ ہے جو جدیدیت کے ناکام ہو جانے کے بعد مغرب کو میسر آیا۔ اس لیے Postmodernism کا سیدھامطلب یہ ہے: ’’جدیدیت کے بعد پیداہونے والا نظریہ یا صورت حال‘‘۔ اس نظریے نے جدیدیت کو جن بنیادوں پر چیلنج کیا، وہ بنیادیں بہت گہری ہیں۔ یہ انسانی تشخص کو تمام موجود حدود، تعریفات اور اصطلاحات سے آزاد کروانے کے موقف پر استوار ہے۔ اس نظریے کی روسے انسان وہ وجود ہے جسے اپنے موجود ہونے کے کسی بھی حصے میں باہر سے کسی سند کی ضرورت نہیں۔ ایسا خودمنحصر تشخص شاید پہلی مرتبہ بیان میںآیا ہے۔ تاریخ فکر میں تمام بڑے بڑے خیالات، تمام بڑے بڑے فلسفے اپنے آپ کو با ضابطہ خیال یا باقاعدہ فلسفہ کہلوانے کے لیے سب سے پہلے ایک سوال کا جواب دیتے ہیں: تمھارا تصور انسان کیا ہے؟Postmodernism اس امتحان پر پورااترتا ہے۔اس کے پاس باقاعدہ ایک تصورِ انسان ہے جو اجنبی ہونے کے باوجود کم از کم زندگی کے اضطراری شعور کی تائید ضرور کرتا ہے۔ ایک Postmodernist یہ کَہ سکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کا تصور انسان بالکل نیا ہے بلکہ اس تصور میں وہ طاقت۔ور واقعیت بھی پوری طرح کارفرما ہے جس کے بل پر تمام روایتی تصوراتِ انسان کو رد کیا جا سکتا ہے۔ جدیدیت نے حقیقت محض کا انکار تو کیا تھا لیکن اس کے منطقی جواز کو چیلنج نہیں کیا تھا بلکہ اسے شعور کی بعض سر گرمیوں میں دخیل بھی رہنے دیا تھا۔ Postmodrnism میں حقیقت محض وہ تصور ہے جس نے شعور کی اس ساخت میں جنم لیا تھا جو حقیقی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے فنا ہوچکی ہے۔حقیقت کا تصور جس دماغ میں پیدا ہوتا تھا وہ دماغ اب آثار قدیمہ کا حصہ ہے، لہٰذا یہ بات مہمل سے بھی مہمل ہے کہ فلاں چیز کی یہ حقیقت ہے، اس حقیقت کی یہ دلیل ہے اوراسے ماننے کا یہ فائدہ ہے۔ یہ ساری سکیم ، یہ ساری ترتیب انسان کی کئی صدیاںضائع کرکے بالآخر اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اس مبحث میں پوسٹ ماڈرنسٹوں کی شدت کا یہ عالم ہے کہ وہ حقیقت کو خواب اور تصور کے طورپر بھی قبول کرنے پرآمادہ نہیں ہیں۔ ان کی نگاہ میں حقیقت موہومِ محض ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ان کی ایک بنیادی اصطلاح ڈسکورس(discourse) ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر چیز محض presence ہے۔یعنی ہر چیز ظاہر ہی ظاہر ہے، اور اس ظاہر کی بناوٹ اسی طرح کی ہے جیسے کتاب میں الفاظ کی ہوتی ہے تو ہمارے اور چیزوں کے درمیان اورہمارے آپس کے تعلق کی اصلیت فقط اتنی ہے جتنی کتاب اور قاری کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کو وہ بین المتنیت (Intrtextuality) کہتے ہیں۔بین المتنیت ادب میں دوسرے معنوں میں ہے لیکن اپنے دیگر اطلاقات میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ڈسکورس کے اجزا آپس میں اس طرح متعلق ہوتے ہیں جیسے ایک متن دوسرے متن سے۔ جب تک ہم تعلق کی اس سطح کو دریافت نہیں کریں گے، ہم نہ صرف یہ کہ اپنی آزادی کا شعور قایم نہیں کر پائیں گے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کی آزادی کو ملحوظ اورمحفوظ رکھنے کا ذریعہ بھی نہیں بن سکیں گے۔ اسی لیے ان لوگوں کے نزدیک دو چیزوں میں اختلاف ان کے تعلق ہی کی ایک نوع ہے۔ اس پر کوئی حکم نہیںلگایا جا سکتا۔ جدیدیت انسانی شعور کی کچھ عمومی بنیادوں کی قائل تھی لیکن Postmodernism کے خیال میں شعور انسانی کو کسی بنیاد پر قایم رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تصور ہی بے معنی ہے کہ چیزوں کو دیکھنے کاایک بے لچک یا مستقل زاویہ تلاش کیا جائے۔ انسانی شعور اس کے لیے بنا ہی نہیں۔ انسانوں نے زبان کی ایجاد کے بعد لفظ سے مغلوب ہو کر اپنے شعور کو اس وہم میں مبتلا کر رکھا ہے کہ ہم شے کو دیکھنے اورجاننے کا ایک مستقل تناظرپیدا کرسکتے ہیں۔ لفظوں کی فتح قبول کرلینے کی وجہ سے شعور انسانی ایک ہمہ گیر بگاڑ میں مبتلا چلا آ رہا تھا جس کوا پنی دانست میں ان لوگوں نے ٹھیک کر دیا ہے۔ اس موضوع پر پوری بات جاننے کے لیے ژاک دریدا کی Of Grammatology کو محنت اور غور سے پڑھنا چاہیے۔یہ اتنی اہم کتاب ہے کہ جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی وہ بہت کچھ پڑھنے کے باوجود بہت پڑھا لکھا نہیں ہے۔ دریدا معنی کو موجود ہی نہیں مانتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم کسی متن کے ساتھ اپنی موجودہ ذہنی یا نفسی ضروریات کے تحت ایک تعلق ساپیدا کر لیتے ہیں اور اس سے کچھ مطلوب معانی منسوب کردیتے ہیں۔ اس عمل سے دراصل ہم متن کا مطالبہ پورا کرتے ہیں اورپھر جب شعور کی ضرورت بدل جاتی ہے تو پھر وہی متن ہم سے کچھ اور معانی کا تقاضا کرتا ہے اوراس کو بھی ہم اسی طرح پورے وثوق سے قبول کرلیتے ہیں۔ دریدانے مطالعۂ متن کے فلسفے کو شروع نہیں کیا ہے بلکہ آخری حد تک پہنچادیا ہے۔ مابعد جدیدیت کے تناظرمیں اس تھیوری کا بانی رولاں بارتھ (Roland Barthes) تھا۔ اس کا مشہور فقرہ ہے: ’’تحریر خود کو لکھتی ہے، مصنف نہیں‘‘۔ یعنی تحریر ایک ڈسکورس ہے، مصنف اس کے وجود میں آنے کا صرف ایک سبب ہے۔ یہ ایسی بات ہے جسے صرف ادبی رنگ میں سمجھاجا سکتا ہے، منطقی رنگ میں نہیں۔ اس ڈسکورس کے وجود میںآنے کے دیگر اسباب اسے پڑھنے والے فراہم کریں گے۔ یعنی ایک تخلیق وجود میںآنے کے پہلے مرحلے سے اس وقت گزرتی ہے جب لکھنے والا اسے لکھتا ہے۔ دوسرا مرحلہ اس وقت طے ہوتا ہے جب پڑھنے والا اسے پڑھتا ہے اور معنی یابی اورمعنی رسانی کے تعامل سے اس کتاب کو سمجھنے کی سر گرمی شروع کرتا ہے۔ رولاں بارتھ کے نزدیک یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ تخلیق متن میںزیادہ بڑا کردار مصنف کا ہوتا ہے یا قاری کا۔ اسی بات کو دریدا نے التوائے معنی کا فلسفہ بنا دیا۔ کسی اظہار کا کوئی حتمی، واحد اورbinding مفہوم نہیں ہوسکتا کیونکہ متن صرف فہم کومخاطب نہیں کرتا بلکہ قاری کی معلوم یا نا معلوم خلّاقی کو ابھارتا ہے۔ رولاں بارتھ کا مطلب یہ تھا کہ کتاب کی تخلیق کا عمل اس کے طبع ہو جانے سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ پڑھے جانے سے اپنی تکمیل کاسامان کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی پوسٹ ماڈرنسٹ یہ نہیں مانتا کہ مصنف کا کوئی مقصد ہوتا ہے یا مصنف کوئی بات کہنا چاہتا ہے۔ مصنف کچھ کہنا نہیں چاہتا، وہ توبس ایک فعال وسیلۂ اظہار ہے۔ وہ خود اپنی تحریر کامطلب نہ بتا سکتا ہے نہ معین کر سکتا ہے اور نہ اسے اس کا حق ہے۔ تحریرمکمل ہوتے ہی مصنف کی حیثیت بھی قاری کی رہ جاتی ہے، اورمتن سے برآمد ہونے والی اقلیم معنی کی حکومت ہر قاری کو حاصل ہے، اس میں دوسرے سے کمک لینا بے معنی ہے۔ قاری کی آزادی کا نظریہ اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کو ٹھیٹھ طبیعی اور تجربی علوم پر بھی وارد کردیا گیا ہے۔ سائنسی نظریات یا ثابت شدہ اموراور تجربی و حسّی حدود کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سب ارادی ہیں۔ یعنی سائنس جو چیز جس انداز میں دریافت کرنا چاہتی ہے، اسی انداز میں دریافت کرلیتی ہے۔ معاشرے کو Organization کی طرح بنا دینے والی جدیدیت اس طرح کی چیزوں میں ایک جبری او رمفاد پرستانہ اتفاق کی فضا پیدا کر دیتی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگرکسی کے پاس سائنس کے طریقہ کار کو عمل میں لانے والے وسائل ہوں اور اگر اس کا ارادہ اور خواہش کچھ اور ہو توانھی چیزوں کو کچھ اور ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس کو پوسٹ ماڈرنسٹوں کی کامیابی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے چیزوں کیconceptual propertiesکو بدل دیا ہے۔ جس طرح اشیا ہمارے دماغ میں آتی ہیں، ان کے آنے کے مزاج کو تبدیل کر دیا ہے۔ چیزیں جس طرح ہمارے احساسات میں آتی ہیں، ان کے محسوس ہونے کے اُسلوب اور کیفیت کو بدل دیا ہے۔ ٹیری ایگلٹن جو خود ممتاز پوسٹ ماڈرنسٹ تھا ، اسی سے بدک گیا۔ اس نے کہا یہ تو مجھے خود کشی پراکسا رہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ میں پورے کا پورا خود کو مار کر پھردوبارہ ان کے ہاتھوں سے اپنی تعمیر نو قبول کر لوں۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی شایدمفید ہوگا کہ پوسٹ ماڈرنزم کوشروع سے آج تک میدان خالی نہیں ملا۔ ایسا نہیں ہے کہ نشاۃ ثانیہ کی طرح آئے اور چھا گئے۔ انھیں علم اور تہذیب کی بڑی بڑی قوتوں کی مخالفت کا سامنا رہا ہے مثلاآج کل ہیبرماس ہے جو خودکو ماڈرنسٹ اور مارکسسٹ کہتا ہے۔ دریدا کے ساتھ اس کی بحثیں معروف ہیں۔ یہ وہ آدمی ہے جس نے آج تک پوسٹ ماڈرنسٹوں کو یہ دعویٰ کرنے کی اجازت نہیں دی کہ وہ مغرب کے واحد نمائندے ہیں ۔ وہ تو یہ کہتا ہے کہ ما بعدجدیدیت بھی دراصل جدیدیت ہی ہے جو اناڑی لوگوں کے ہاتھ میں آکر اس حال کو پہنچ گئی ہے۔ یہ بات اس لحاظ سے درست لگتی ہے کہ Enlightenment Project جو نشاۃ ثانیہ سے شروع ہو کر مختلف تہذیبی، مذہبی، سیاسی اور فکری تحریکوں میں سرایت کیے ہوئے بالآخر سرمایہ داری نظام اور جمہوریت پر منتج ہوا، ا س کی اندرونی بناوٹ اوراس کے وجود میں آنے کے اسباب ما بعدجدیدیت سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔حتیٰ کہ جدیدیت کے مقاصد بھی اپنی منطق اور طریق کار میں مختلف ہونے کے باوجود بڑی حد تک ما بعدجدیدیت سے مشابہت رکھتے ہیں۔ جدیدیت اورما بعدجدیدیت میں ایک بنیادی فرق یقینا ہے ___ اور وہ یہ ہے کہ جدیدیت معروضیت (Objectivity) یا ایک طے شدہ معروضیت پر زور دیتی ہے جب کہ مابعدجدیدیت چیزوں کو ایک مجرد داخلیت میں سمو دیتی ہے۔ یہ داخلیت لگتا ہے کہ ایک کونیاتی یا وجودی اصول ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بھی یہ انسانی داخلیت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان اس اصول داخلیت کا ایک فعال مظہر ہے۔ اس فرق کا بھی اگر دورتک تجزیہ کیا جائے تو اس میں سے نکلتا کچھ نہیں ہے۔ جدیدیت کی معروضیت بھی کوئی خاص چیز نہیں ہے۔ اس کے ذریعے سے دنیا کو انسان مرکز بنایا جا سکتا ہے جو جدیدیت کامقصد ِاعلیٰ ہے۔ ورنہ اصل میں یہ بھی ایک طرح کی داخلیت ہی ہے جس کی بدولت انسان کا تصورِ شے نفسِ شے پر غالب آگیا بلکہ اس پر حاکم ہوگیا۔ لیکن بہرحال ما بعد جدیدیت کا یہ امتیاز ضرور ہے کہ اس نے جدیدیت کی اساس یعنی انسان مرکزی کو ہمیشہ کے لیے فراموش کرنے کاسامان پیدا کردیا اورچیزوں کو ان کی تعریفات (Definitions) کی زنجیروں سے آزاد کردیا۔ مابعد جدیدیت اس پہلو سے جدیدیت کی ناکامی کی سب سے بڑی دستاویز ہے۔ اس کی وجہ سے اہل جدیدیت کوان تمام نیم کلاسیکی عناصر سے لا تعلق ہونا پڑا جن کا جدیدیت کی تعمیر میں بڑا حصہ تھا۔ مثلاًکلیہ سازی، نظام بندی، تجربیت وغیرہ۔ اب اگر ہم اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق پوسٹ ماڈرنزم پر کوئی تنقید تیار کرنے چلیں تو میرے خیال میں سب سے پہلے ان کے تصور زبان کا جائزہ لینا ہوگا۔اسی کے ضمن میں انسان کے شعور اور استعدادِ علم کے بارے میں ان کے نظریات کو بہت غور سے دیکھنا ہوگا۔ یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پوسٹ ماڈرنزم لا یعنیت (Absurdism) اورمنطقی ایجابیت (Logical Positivism) کا ملغوبہ ہے۔ اس پر کوئی جرح کا رگر نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ اس کے نظری حدود کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی اساسیات اور اس کے پیدا کردہ حالات و احوال کو رد کرنے کی قوت نہ حاصل ہو۔ یہ بالکل چھپکلی کی طرح ہے، اس کانظریہ اس کی دم ہے، جو کٹ بھی جائے تو اس کی زندگی کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ خیر سے وہ تہذیبی قوت تو ہمارے پاس رہی نہیں جوmodern Condition Postکے انہدام کے لیے ضروری ہے، لہٰذا نظری، منطقی اورجمالیاتی نظریہ سازی شاید ہمیں اس کی زد میں پوری طرح آنے سے روک سکے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ انسانی شعور میں کسی مستقل ادراک پر رہنے کی صلاحیت یا خاصیت یا میلان نہیں پایا جاتا، اس کو رد کرنے کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہوسکتی ہے کہ خود یہ اصول بھی انسانی شعور ہی کا Reflection ہے۔ یہ دعویٰ بھی انسانی شعور کی مستقل قبولیت کی صلاحیت پر دلالت کر رہا ہے۔ اپنے بارے میں شعور کا یہ فیصلہ کہ میں متغیر ہوں اورکسی ایک بات پر قایم نہیں رہ سکتا، خودشعوری کی اٹل بنیاد پر ہی تو ہے! اس میں جو گہرا مسئلہ ہے وہ خودشعوری ہے ___ شعور کی خود شعوری ___اس سے خود یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ شعور کسی مستقل دعوے یا کسی absolute notion of knowledge کی قابلیت اور استعداد رکھتا ہے۔اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعور کے مستقل مسلمات چاہے صورتاًسلبی ہوں، ماہیت میں ایجابی ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایجابی ماہیت کے بغیر شعور کسی اصول کو contain کر ہی نہیں سکتا۔پوسٹ ماڈرنسٹوں کی غلطی یاشرارت یہ ہے کہ انھوں نے شعور کی واقعی فعلیت کو اس تصور کے تابع کر دیا جو یہ شعور کے بارے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کہنا بڑی حد تک درست ہوگا کہ Enlighenment Project یعنی جدیدیت نے جس طرح abstract کو concrete بنایا، ما بعد جدیدیت اس رویے کو منقلب کرکے concrete کو abstract بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ چیزچونکہ تصورات کی منطق سے نسبت رکھنے کی بجائے اخلاقی آزادی کی تمنا سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا اس میں سے کلّیت اور دوام کا عنصر تکلف کے ساتھ خارج کر دیا گیا ہے۔ انسانی شعور کی خلقی اور فطری فعلیت کو حسبِ دلخواہ تجرید کے عمل میں صرف ہوتے ہوئے دکھانے کا بنیادی مقصد محض اتنا نہیں ہے کہ واقعیت کو تصور کے دیرینہ غلبے سے نکالا جائے ___ اس کا آخری ہدف یہ معلوم ہوتا ہے کہ شعور میںراسخ مذہبی تناظر کوختم کردیا جائے اور اس شعور کی بلاواسطہ یابالواسطہ اثراندازی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تہذیبی اور نفسیاتی اقدار کو بھی زندگی کے تمام دائروں سے نکال باہر کیا جائے۔ ما بعد جدیدیت پر فلسفیانہ یا جمالیاتی تنقید کارگر نہیں ہو سکتی کیونکہ فلسفیانہ اور جمالیاتی تصورات کی تشکیل قریب قریب پوری طرح لفظ اساس ہو چکی ہے، یعنی اب تصور و تخیل کی ساری کارکردگی بس یہ رہ گئی ہے کہ لفظ میں موجود یا لفظ میں ممکن معنوی ساختوں کو زیادہ سے زیادہ اعجوبگی سے برآمد کر دکھایا جائے اور شعور انسانی کی تمام ’’عادات‘‘ کو اس عمل کے زور سے توڑ دیا جائے۔ سامنے کی بات ہے کہ ہر تحریر کا ایک اُسلوب بھی ہوتا ہے جو مصنف کے فرق کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اگر تحریر آپ اپنی محرر ہے تو اُسلوب کو کس کے کھاتے میں ڈالا جائے گا؟ سٹائل مصنف کے وجود پر گواہی دیتا ہے نہ کہ تحریر کے وجود پر۔ بظاہر یہ اعتراض فنی اور جمالیاتی ہے لیکن ما بعد جدیدیت اس اعتراض کی دھار کند کرکے اسے اپنا بنا لینے کی پوری مہارت اور گنجائش رکھتی ہے۔ اس لیے اس اعتراض کو شعور کی غیر جمالیاتی قوتوں کو بھی یکجا کرکے اٹھانا چاہیے جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ آدمی کا جمالیاتی موقف بھی شعور کے غیر جمالیاتی مطالبات کو نظرانداز کرکے تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ مصنف یا منشائے متکلم بالکل غیر اہم چیز ہو تو ہماری اجتماعیت کی آخری بنیاد بھی گر جائے گی کیونکہ ہمیں باہم متعلق رکھنے والی کوئی بھی چیزموجود نہیں رہ جائے گی۔ یہی حال Meta Narrative کے انکار کا ہے۔کچھ دیر پہلے تذکرہ آچکا ہے کہ موجودہ مغرب نے دراصل نٹشے کے غیر متوازن دماغ سے جنم لیا ہے۔واقعی اتنا اثر انداز ہونے والا آدمی تاریخ فکر میں پیدا نہیں ہوا۔ Meta Narrative کے انکار کا تمام تر زور نٹشے ہی نے فراہم کیا ہے۔ اس نے جب خدا کی موت کا اعلان کیا تو دراصل وہ اعلان Meta Narrative کی موت کا تھا۔نطشے کی بات تو خیرایک مجذوبانہ اور خطیبانہ تحکم کی بنیادپر ایک خاص قسم کی تاثیر اورمعنویت رکھتی ہے لیکن پوسٹ ماڈرنسٹوں نے اسے جس طرح ایک ذہنی یا منطقی مسلمے کے طورپر پیش کیا ہے، وہ مضحکہ خیز ہے۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ Meta Narrative کے انکار کی زدمیں ہر Narrative کوآنا چاہیے کیونکہ اگر ایک چیزسادہ واقعاتی سطح پر اپنا وجود ثابت کر دے تو اس کی qualified existance چاہے رد بھی ہو جائے تو بھی اس چیز کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خود Narrative کو ماننا اس بات کا ثبوت ہے کہ Meta Narrative کی موجودگی ناگزیز ہے ۔ اس کی اصالت میں تعطل آ جانے سے شعور کی تمام سرگرمیاں باہم مربوط نہیں رہیں گی اورایک انتشار کا شکار ہوجائیں گی۔ پھرپوسٹ ماڈرنسٹوں کا یہ اصرار کہ لفظ اورشے میں یا لفظ اوراس کے معنی میں کوئی ذاتی رشتہ نہیں ہے۔ یعنی’معنی‘ لفظ کی essential property نہیں ہے۔ معنی تو ہم دیتے ہیں ۔ اس پر ایک اعتراض یہ ہے کہ معنی دینے کا عمل بھی لفظ ہی کرتے ہیں کیونکہ انسان کوئی ایسی بات نہیں سوچ سکتا جو لفظ میں نہ ہو۔ ہمارے اندر کوئی ایسا احساس اور خیال موجود نہیں جو ملفوظ نہ ہو۔ لفظوں کو معنی بھی وہی دیے جاتے ہیں جو لفظ میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں، ملکات کی طرح ___لفظ میں معانی واقعات کی طرح بھی ہوتے ہیں اورملکات کی طرح بھی ___ہمارا انسانی شعور ابھی اتنا پختہ نہیں ہے کہ ہم اپنی زبان کو تجزیے کی اس سطح تک لے جا سکیں۔ ہمارے یہاں تھیوری کے نام پر جو کچھ موجود ہے اسی سے ظاہر ہے کہ ہم بڑے مسائل اور معاملات میں صرف شامل باجا کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ بہرحال پوسٹ ماڈرنزم مکمل انار کی ہے۔ کاش ہم دیکھ سکتے کہ یہ انارکی ہم پر کن پہلوئوں سے اثر انداز ہو سکتی ہے اور ہماری کن قدروں کو متاثر کرسکتی ہے۔ ژ…ژ…ژ علامہ محمد اقبال کی تجدیدی فکر ڈاکٹر محمد البہی ترجمہ: محمد سمیع مفتی بیسویں صدی عیسوی میں مغربی صلیبی استعمار کی فکری و تہذیبی یلغار نے مسلم شناخت اور تہذیب کو بری طرح متاثر کیا۔ اس عرصے میں بعض مسلم مفکرین کی ایسی فکری اور انقلابی کاوشیں سامنے آئیں جن کی بنیاد پر مسلمان اپنے تشخص کی بحالی کے لیے بیدار ہونے لگے۔ علامہ اقبال بھی اس عہد کی ایک توانا آواز تھے۔ انھوں نے بنیادی طور پر بیداریِ ملت کے اس عمل میں اپنی شاعری کو ذریعۂ اظہار بنایا اور فلسفیانہ و سائنسی انداز میں بات کرنے کے لیے انھیں مدراس میں چھ خطبات پیش کرنے کا موقع ملا۔ اقبال کی تجدیدی فکر کو سمجھنے کے لیے محض شاعری تک محدود رہنا مناسب ہے نہ محض خطبات کا سہارا لینا، بلکہ ان دونوں ذرائع اظہار کے امتزاج سے جو فکرتشکیل پاتی ہے اس کی روشنی میں اُن کی آرا کا مطالعہ کرنا مناسب ہے۔ تاہم خطباتِ اقبال کو اس موضوع پر مشخص و مصور کاوش قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان خطبات کی رُو سے اقبال کے اصلاح کے محرکات میں ہم عصر مسلمان، دورِ حاضر کا یورپی انسان، اسلام کا مزاج اور دینی فکر کی اصلاح اہم عناصر ہیں۔ اس تناظر کو بنیاد بنا کر وہ عالم واقعی، انفرادی آزادی، وجود کے ادراک، وحدت الوجود اور انفصالیت، دین اور سائنس، انسانی ذات اور اس کا خلود اور ذاتِ کلی کے نکات پر عالمانہ اور فلسفیانہ انداز میں بحث کرتے ہیں۔ اس بحث میں وہ اسلام کی اصل صورتِ حال اور مبنی بر حقائق تعلیمات کو پیش کرتے ہیں۔ اُنیسویں صدی وہ وقت ہے جب کہ اسلامی مشرق پر مغرب کا استعمار اور تسلط قائم تھا ۔ اس تسلط کے زمانے میں اہل مغرب میں مصنوعی حقیقت پسندی کی سوچ کا غلبہ ہو گیا تھا۔ ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو مشرق او راہل مشرق میں معاشرتی اور سیاسی اعتبارسے انسانی زندگی پر کلی بھروسہ کرنے کا رویہ غلبہ پاگیا۔ اس صورت حال میں بعض اسلامی مفکرین نے انھیں غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کا کام کیااور اسلامی مشرق کا درج ذیل حوالوں سے مطالعہ کرنے پر اُبھارا۔ ٭ مشرق کے ممالک میںاستعماری صلیبی قوت ۔ ٭ مغرب کی اس مادی فکر کی طرف میلان اور اس سے پیدا ہونے والے منفی اثر کا امکان،جو مسلمانوں کی کمزوری میں اضافہ کیے دے رہا تھا۔ ٭ ایک لمبی مدت سے پیدا ہونے والا کثیر جہتی ضعف، جس نے مسلمان اقوام کاانفرادی اور اجتماعی دونوں اعتبارات سے احاطہ کررکھا تھا۔ ان مسلمان مفکرین کی نظر میں اسلام اسلامی جماعتوں کے مابین ایک مضبوط رشتہ پیدا کرنے والے ذرائع میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں یہ ان میں نئے سرے سے قوت پیدا کرنے والا پہلا مصدر ہے، وہ قوت کہ جو ان کے ہاں سفر کی ابتدا میں پائی جاتی تھی، اور انھوں نے خدائے واحد کے علاوہ کسی کے آگے سر نہ جھکایا۔ مغربی صلیبی استعمار نے بعض مسلم مفکرین کو بیدار کیا،اور انھوں نے مسلمانوں کو اس استعمار کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے پر ابھارا، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔ ان قائدین نے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اسلامی مشرق کی قوموں کو ان بیرونی قوتوں کے خلاف بیدار کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اسلام کو اس مقصد کے حصول کے لیے ابتدائی ذریعے کے طور پراختیار کریں۔ یہ بیرونی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف اس وقت سے انتقام کے جذبے کے ساتھ بر سر پیکار ہیں، جب تیرھویں صدی میں مسلمانوں نے صلیبی جنگوں میں برتری حاصل کی ہے۔ ان قائدین نے چاہا کہ وہ ان اقوام کی تمام تر قوت کو اکٹھا کریں تاکہ مسلمان ممالک کو بیرونی قوتوں سے پاک کیا جا سکے۔ انھوں نے مسلمانوں کو ابھارا کہ وہ اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے اُسلوب میںتبدیلی کریں ۔ انھوں نے انھیں اس بات کی تعلیم دی کہ وہ اسلامی تعلیمات اور اس زمانے میں زندگی کے تقاضوں کے ما بین ہم آہنگی اور مناسبت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ انھوں نے دعوت دی کہ وہ اصل اسلام کے چہرے سے نقاب اٹھائیں ، وہ اسلام کہ جو زندگی میں قوت کا مصدر بھی ہے اور اس کی غایت بھی۔ مسلمان اسلام کے ساتھ زندگی بسر کریں، تو انھیں بہادروں کی زندگی بسر کرنی چاہیے، اور اگر وہ کسی مقصد کے ساتھ زندگی بسر کریں تو وہ صرف اور صرف اسلام ہونا چاہیے، کیوں کہ یہی اسلام زندگی میں بھی اور عالم حقیقی میں بھی انسان کا پیغام ہے ۔ اس زمانے میں دینی اصلاح کے میدان میں دو اسلامی شخصیتیں ابھریں: ٭ ان میں سے ایک عربی تھی یعنی شیخ محمد عبدہ ٭ اور دوسری آریائی ہندی، یعنی علامہ محمد اقبال وہ دونوں انیسویں صدی میں پیدا ہوئے اور بیسویں صدی تک زندہ رہے، وہ مشرق میں پیدا ہونے کے باعث مشرق کی زندگی کے لیے وقف ہو گئے، ان دونوں نے مغرب کی طرف سفر کیا وہاںکی زندگی کو دیکھا، اور ایک مدت وہاں بسر کی، وہ دونوں تصوف کی طرف مائل ہوئے، اور انھوں نے اس میں نفس انسانی کے لیے بلندی اور پاکیزگی پائی۔ اس میں انھوں نے حوادث اور مشکلات برادشت کرنے کی بھی قوت پائی۔ ان میں سے ایک اسلامی ثقافت کا اتنا ہی گہرا علم رکھتا تھا جتنا دوسرامغربی فکر کا، پہلے نے اسلامی فکرکے پڑھنے ،پڑھانے اور اس میں تحقیق کرنے کی اتنی ہی مشق کی جتنی دوسرے نے مغربی ا فکار کے مطالعہ وتحقیق میں محنت کی۔ پہلا بیسویں صدی کی ابتدا تک زندہ رہا جب کہ دوسرا بیسویں صدی کے پہلے نصف کے تقریبا آخر تک۔ مغربی استعمار اورمغربی صلیب نے اسلام کی شکل کو بگاڑکر اوراس میں تحریف کرکے کل کے مسلمان قائدین کی نظر میں اسلام کو نا پسندیدہ بنانے کی جو مہم شروع کررکھی تھی، شیخ محمد عبدہ نے جمال الدین افغانی کے ذریعے اسے روکنے کی کوشش کی۔ جب کہ علامہ محمد اقبال نے مغرب کے مادی افکار اور اس سے پیدا ہونے والے الحاد کا مقابلہ کیا اور اس کے لیے یورپی لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے اور انھیں صحیح شعور دینے کا راستہ اختیار کیا۔ معاصر مسلمان کی سمت اور اسلام کے ساتھ اُس کے تعلق پر اس یلغار کے اثرات کا بھی مقابلہ کیا۔ ان دونوں میں سے ہر کوئی اس بات پر مجبور ہوا کہ وہ مسلمانوں کو زندگی اور عمل میں اسلام کی قدرو منزلت کو نمایاں کرے ، انھوںنے بعض مواقع پر مغربی صلیبی افکار اوران کے اہداف کا مقابلہ کرنے میںاپنے نقطہ نظر اور اس کی اہمیت کو واضح کیا اور بعض مواقع پرمغربی مادی ملحد افکار کے مقابلے کے لیے اپنے نقطہ نظر کو بیان کیا۔ اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد عبدہ اور محمد اقبال دونوں ہی اسلامی مفاہیم کی تبدیلی میں اصلاحی تحریک لے کر کھڑے ہوئے، اس ارادے سے کہ وہ اسلام کی توجیہ میں مثبت قدر بیان کر سکیں۔ اس طرح ہم کَہ سکتے ہیں کہ یہ کام انھوں نے ایک بیرونی دباؤ کی وجہ سے کیا ، ان میں سے ایک یعنی محمد عبدہ نے صلیبی استعمار اور اس کی حکمرانی کے دباؤ کے تحت، جبکہ دوسرے یعنی محمد اقبال نے مادی طبیعی افکار اور یورپ میں ان کے استیلا کے دباؤ کے تحت۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ہندوستان میں سر سید احمد خان کے ذریعے سے ان ا فکار کی عام دعوت دی جارہی تھی۔ جب کہ ترکی میں ترکی شاعر توفیق فکرت کے ذریعے سے، جو کہ وہاںتجدید اسلامی کی تحریک میں آگسٹ کومٹ کے مذہب کے داعیوں میں سے تھے۔ وہ دونوں اپنی کوشش میں بے حد مخلص تھے، اور انھوں نے اس کے لیے قابلِ قدر مساعی انجام دیں۔ مگر محمد عبدہ کی کوشش کو اسلامی ثقافت کے میدان سے قریب سمجھا جاتا ہے ، جب کہ اقبال کی کوششوں کو مغربی افکارکے میدان کے قریب تر۔ اس بات کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان میں سے ایک اسلام کی روح کے قریب ہے اور دوسرا مغرب کی روح کے ، بلکہ اس بات کا معنی یہ ہے کہ ایک کے ہاں سوچنے کے انداز میں، الفاظ اور عبارات کے اختیار میں، سوال اٹھانے اور جواب دینے کے انداز میں اور مجادلے میں اختیار کی جانے والی مغربی طبع غالب ہے۔ جبکہ دوسرے کے ہاں، مشرقی انداز کی تنکیر، زبان کے اسالیب کا استعمال اور مناقشے کا اندازپایا جاتاہے۔ ان دونوں کو ایک بندھن جوڑے ہوئے ہے، اور وہ مغربی استعمار کابراہ راست مقابلہ کرنے کا داعیہ ہے۔ یہ بندھن اپنی حقیقت میں دونوں کا ہدف بھی ہے اور اسلام کا دفاع بھی ۔ یعنی وہ ہدف جو ان دونوں کی طرف منسوب افکار اور اصلاحی کوششوں میں پایا جاتا ہے۔ اقبال کی فکری تحریک کچھ دیر سے رونما ہوئی ، اس وقت تک مغربی صلیبی استعمار مشرق اسلامی میں ایک عرصے سے غلبہ اور تمکن حاصل کر چکا تھا، خاص طور پر ہندوستان اور مصرمیں۔ اقبال کے افکار خاص طور پر ایک ایسی تحریک تھی جس نے استعمار کے ذریعے سے مغرب اور مشرق کے مابین قائم ہونے والے فکری اتصال کا سامنا کیا،اس حال میں کہ اسے استعمار کا براہ راست سامنا نہیں کرنا پڑا، اس لیے اسے شیخ عبدہ کی تحریک کا استمرار نہیں کہا جا سکتا، اگرچہ دونوں کا ہدف مشترک تھا۔ بہترین چیز جس سے افکارِ اقبال کی اصلاحی کوششوں کو مصور دیکھا جا سکتا ہے ، وہ ان کے چھ لیکچرز ہیں جو انھوں نے مدراس میں۱۹۲۸ میں دیے، اور بعد میں الہ آباد اور علی گڑھ میں انھیں مکمل کیا اور انھیں ’اسلام میں دینی افکار کی تجدید ‘ The Reconstruction of Religious Thought in Islamکا نام دیا۔ ان لیکچرز کے ذریعے قاری کے لیے ممکن ہے کہ وہ ان محرکات تک پہنچ سکے جو علامہ اقبال کو فکری اصلاح کی اس کوشش تک لے گئے ۔ اور ان محرکات سے بھی قاری مطلع ہو سکے جواس کی فکرکے اس طرح تشکیل پانے پر اثر انداز ہوئے ، اور بالآخر اس مرکزی فکر پر جس سے اس کا اصلاحی فلسفہ عبارت ہے۔ اصلاح کے محرکات اجمالی طور پر ایک ہی چیز ہے جو اقبال کے لیے اصلاحی سوچ کا محرک ثابت ہوئی، وہ مسلمانوں کا طبیعی علوم اور عالم واقع میں مادی اور اقتصادی قوت میںحصہ لینے اور شرکت کرنے سے پیچھے رہ جانا ہے۔باوجود اس کے کہ اس کے لیے اسلام کے اندر ایک پُرزور روحانی قوت موجود ہے۔مسلمانوں کے ہاں اسلام کا ایک غلط مفہوم پایا جاتا ہے، جو ان کے اندر غیروں کے ساتھ خلط ملط ہو کر رہنے کے باعث در آیا ہے۔ اسلام کے مفاہیم و معانی پر تدبر میں جمو د اور ٹھہراؤ کے باعث غلط فہمی نے ان پر غلبہ پا لیا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ یہ عالم طبیعی جس میں ہم رہ رہے ہیں، ضروری ہے کہ ہم اس سے دور رہیں، اور یہ کہ مادہ ایک ایسا شر ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ اقبال کے بقول یہ ایک ایرانی تصوف ہے جس نے مسلمانوں کو کائنات اور حقیقت پر حاوی حیاتِ انسانی سے دور کر دیا ہے۔ اسی لیے اقبال یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان کو عمل کی طرف مائل کریں تاکہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھا رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان کو یہ بات سمجھائیں کہ یہ دنیا جس میں ہم رہ رہے ہیںیہ کوئی انسان کے نفس سے مختلف اور مخالف چیز نہیں ہے اور نہ یہ اللہ کی روح اور اس کے مقدس وجود سے بے انتہا دورہے۔وہ اسے قوت کی طرف اور اپنی ذات اور اپنی شخصیت کی حفاظت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ اقبال کو ان کی اصلاحی سوچ کی طرف لے جانے والا بنیادی عنصرہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو ان کی تحریروں میں ان کی اس اصلاحی فکرکے اسباب کے حوالے سے نظر آتاہے۔ یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ اساسی عنصر ہے جواقبال کی شاعری اور دیگر کتابوں میں نظر آتا ہے۔ اصلاح کے یہ محرکات درج ذیل ہیں: ۱- ہم عصرمسلمان اقبال اپنے ہم عصر مسلمان کے حالات پر بات کرتے ہیں، اور اسے وہ ایک ایسے محرک کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ان کے ہاں اصلاحی سوچ کے مختلف محرکات میں سے ہے ۔ یہ انسان کے حالات ہیں جن کے باعث وہ حقیقت پر مبنی سر سبز قدیم اور چمکتے ہوئے جدید کے مابین متردد ہے ۔ ایک ایسے جدید کے ساتھ کہ جس کی چمک سے آنکھوں کے خیرہ ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ وہ اس جدید کو اپنی موجود صورت حال کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے اس طرح زندگی بسر نہ کر سکا جیسے دوسرے کر رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: گزشتہ پانچ سو برسوں سے اسلامی فکر عملی طور پر ساکت و جامد چلی آ رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب مغربی فکر اسلامی دنیا سے روشنی اور تحریک پاتا تھا۔ تاریخ کا یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ اب دنیائے اسلام ذہنی طور پر نہایت تیزی سے مغرب کی طرف بڑھ رہی ہے، گو یہ بات اتنی معیوب نہیں کیونکہ جہاں تک یورپی ثقافت کے فکری پہلو کا تعلق ہے، یہ اسلام ہی کے چند نہایت اہم ثقافتی پہلوؤں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ ڈر ہے تو صرف یہ کہ یورپی ثقافت کی ظاہری چمک کہیں ہماری اس پیش قدمی میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس ثقافت کی اصل روح تک رسائی میں ناکام نہ ہو جائیں۔ ہماری ذہنی غفلت کی ان کئی صدیوں میں یورپ نے ان اہم مسائل پر پوری سنجیدگی سے سوچا ہے جن سے مسلمان فلاسفہ اور سائنس دانوں کو گہری دل چسپی رہی تھی۔ ازمنۂ وسطیٰ سے لے کر اس وقت تک جب مسلمانوں کی الٰہیات کی تکمیل ہوئی، انسانی فکر اور تجربے میں فروغ کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا ہے۔ ماحول اور کائنات پر اختیار اور فطرت کی قوتوں پر برتری نے انسان کو ایک نئے اعتماد سے سرشار کیا ہے۔ نئے نئے نقطہ ہائے نظر وجود میں آئے ہیں۔ نت نئے تجربات کی روشنی میں پرانے مسائل کو نئے انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ کئی نئے مسائل نے جنم لیا ہے۔ یوں نظر آتا ہے جیسے انسانی عقل، زمان و مکان اور علت و معلول کی خود اپنی حدود پھلانگنے کو ہے۔ سائنسی فکر کی ترقی کے ساتھ علم و ادراک کے ہمارے تصور میں بھی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت سے کائنات کے بارے میں نیا رویہ سامنے آیا ہے او ریہ اس بات کا مقتضی ہے کہ مذہب اور فلسفے کے درمیان مشترک مسائل پر نئے زاویوں سے غور کیا جائے۔ اب اگر ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی نوجوان نسل اسلام کی نئی تعبیر چاہتی ہے تو یہ کوئی زیادہ تعجب خیز بات نہیں۔ تاہم مسلمانوں کی بیداری کے اس عہد میں ہمیں آزادانہ طور پر یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ یورپ نے کیا سوچا ہے اور جن نتائج تک وہ پہنچا ہے ان سے ہمیں اسلام کی الٰہیاتی فکر پر نظر ثانی کرنے یا اگر ضروری ہو تو اس کی تشکیل نو کرنے میں کیا مدد مل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم مذہب، خصوصاً اسلام، کے خلاف وسط ایشیا (سابقہ اشتراکی روس، جو آزاد مسلم ریاستوں میں تبدیل ہو چکا ہے) کے پراپیگنڈے کو نظر انداز کریں جس کی لہر پہلے ہی برصغیر تک آ پہنچی ہے۔ اس تحریک کے چند داعی مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے جن میں سے ایک ترک شاعر توفیق فکرت ہے جو کچھ ہی عرصہ قبل فوت ہوا ہے۔ اس نے تو ہمارے عظیم فلسفی شاعر مرزا عبد القادر بیدل اکبر آبادی کی فکر کو اس دعوت کی تائید میں استعمال کیا ۔ یقینی طور پر یہ مناسب وقت ہے کہ اسلام کی اساسیات کا جائزہ لیا جائے۔ ان خطبات میں اسلام کے چند بنیادی تصورات پر میں نے فلسفیانہ پہلو سے بحث کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ نوع انسانی کے لیے ایک عالمگیر پیغام حیات کے طور پر یہ اسلام کی تفہیم میں معاون ہوں گے۔۱؎ یہ کوشش جسے اقبال رو بہ عمل لانا چاہتے ہیں، اس کے نتیجے میں ،ان کے نقطۂ نظر سے ، اسلام کو ایک عمومی اعتماد حاصل ہو گا، جب اس کے پوری انسانیت کے لیے ہونے کو بیان کیا جائے گا، بالخصوص اس زمانے میں جب کہ انسانی معرفت پر تجرباتی مزاج غلبہ پائے ہوئے ہے ،یہ بات مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ہوگی۔ سو یہ کوشش اسلام کو ایک عمومی قدروقیمت دینے ہی کی کوشش نہیں بلکہ تجربی انسان کو اس کی قدر وقیمت سے متعارف کرانے کی بھی کوشش ہے۔ ا س سے مراد موجودہ دور کے مغربی تجربی انسان ہیں۔اور مسلمان بھی جو ان کے وقت میں ان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے۔ ۲- دور حاضر کا یورپی انسان اقبال دور حاضر کے مسلمان کی زندگی میں صورت حال کی تبدیلی کی ضرورت کو سامنے رکھ دینے کے بعد اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ وہ اس دور کے مغربی انسان کی ایک تصویر بن جائے، جیسا کہ ان سے پہلے ’ مصر میں ثقافت کا مستقبل‘ کے مصنف اس بات پر راضی ہوئے کہ مصر کا مسلمان رویے اور سوچ میں مغربی انسان جیسا ہونا چاہیے‘ اور انھوں نے اس مسئلے میں بے حد اصرار کیا۔ اقبال اس پر راضی نہیں ہوئے کیوں کہ: لہٰذا جدید دور کا انسان اپنی عقلی سرگرمیوں کے نتائج سے مکمل طور پر مسحور ہونے کی بنا پر باطنی لحاظ سے روحانیت سے محروم زندگی گزار رہا ہے۔ فکریات کے میدان میں وہ خود اپنے آپ سے تصادم میں مبتلا ہے اور معاشی اور سیاسی دنیا میں وہ دوسروں سے کھلے تصادم کا شکار ہے۔ اپنی بے مہار انانیت اور زر و سیم کی بے پناہ بھوک اس کی ذات میں ودیعت شدہ تمام اعلیٰ محرکات و اقدار کو بتدریج مسل اور کچل رہی ہے۔ اور اسے سوائے زندگی سے اکتاہٹ کے اور کچھ دینے سے قاصر ہے۔ موجودہ حقائق میں کھو جانے کی وجہ سے وہ مکمل طور پر خود اپنے اعماقِ وجود سے کٹ گیا ہے۔ منظم مادیت کے رویے نے اس کی توانائیوں کو مفلوج کر دیا ہے جس کے بارے میں ہکسلے نے پہلے ہی خدشے اور تاسف کا اظہار کر دیا تھا۔۲؎ جدید لا دین سوشلزم جس کے اندر ایک نئے مذہب کا سارا ولولہ اور جوش موجود ہے ایک وسیع نظر رکھتا ہے مگر چونکہ وہ اپنی فلسفیانہ بنیاد ہیگل کی بائیں بازو کی سوچ پر رکھتا ہے وہ اس بنیاد ہی کے خلاف عمل پیرا ہے جس نے اسے قوت اور مقصدیت بخشی ہے۔ قومیت اور لادین سوشلزم دونوں، کم از کم انسانی روابط کی موجودہ صورت میں، تشکیک اور غصے کی نفسیاتی قوتوں سں توانائی حاصل کرنے کے لیے مجبور ہیں جس سے انسان کی روح مرجھا جاتی ہے اور توانائی کے چھپے ہوئے روحانی خزانوں تک اس کی رسائی ممکن نہیں رہتی۔ نہ تو قرون وسطیٰ کے متصوفانہ اسلوب، نہ نیشنلزم اور نہ ہی لادین سوشلزم اپنی بیماری سے مایوس انسانیت کو صحت بخش سکتا ہے۔۳؎ اس سے معلوم ہوا کہ اس دور کایورپی انسان، چاہے وہ عقلی فلسفے والوں میں سے ہو یا حسی اور واقعی فلسفے والوں میں سے، یا مارکس کی ملحد اشتراکیت کے حامیوں میں سے ہو، وہ اپنے لیے نہ کوئی جائے قرار پاتا ہے اور نہ اطمینان، وہ اکیلا ہو یا کسی کے ساتھ، ہر صورت میں ایک دائمی قلق اور اضطراب میںرہتا ہے۔ اسی وجہ سے اقبال نہیں چاہتے کہ دور حاضر کا مسلمان دور حاضر کے یورپی انسان جیسی صورت حال میں جا پڑے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ مسلمان نہ صرف اپنے دین پر ایمان رکھنے والا ہو، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ عصری تقاضوں اور احوال کے ساتھ مناسبت بھی رکھتا ہو۔ وہ نیا معاشی تجربہ جو مسلم ایشیا کے ہمسائے میں ہو رہا ہے اسلام کی منزل اور اس کی باطنی معنویت کو اجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔۴؎ ۳- اسلام کا مزاج اقبال دور حاضر کے مسلمان کی معاصر یورپی شکل وصورت سے بالکل راضی نہیں ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ یہ اپنے انداز میں اس جیسا ہو۔ اقبال دیکھتے ہیں کہ اسلام ایک دین ہونے کے اعتبار سے اپنے اندر بعض ایسی خصوصیات رکھتا ہے جن کی بنا پر ایک اصلاح کرنے والے مفکر کو ابھارتا ہے کہ وہ اسے رہنمائی کرنے والے منبع ایمان کے طور پر اختیار کرے۔ اگر اسلام اس سے مختلف کوئی چیز ہوتا جیسا کہ ہم عنقریب بیان کریں گے، تو اقبال اس کی بنا پر اپنی فکری تحریک برپا نہ کرتے جسے وہ ’اسلامی فکر کی تجدید‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمان کی حالیہ زندگی میں اس صورت حال کی تبدیلی کتنی ضروری ہے۔جب کہ کوئی ایسی بات نہیں جو کہ خود اسلام کو ایسی تبدیلی کی ضرورت کی طرف لے جانے والی ہو۔مسلمان کی اس ذمہ داری کے ادا کرنے میںکوئی چیز اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اسلام کا ایک پہلو تو دین کا پہلو ہے او رایک دوسرا پہلو عقائد او رانفرادی اصولوں کا ہے، اس دینی پہلو سے اقبال کی رائے ہے: حیاتیاتی احیا آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور مذہب ، جو کہ اپنی اعلیٰ ترین صورت میں نہ تو ایک اندھا اذعانی عقیدہ ہوتا ہے اور نہ رہبانیت اور نہ رسم و رواج ، تنہا جدید انسان کو اخلاقی طور پر وہ ذمہ داری اٹھانے کے قابل بنا سکتا ہے جو جدید سائنس کی ترقی کے نتیجے میں اس پر آن پڑی ہے اور انسان کے ایمان کو بحال کر کے ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کر سکتا ہے جسے وہ موت کے بعد بھی باقی رکھ سکے۔ انسان اپنی اصل اور اپنے مستقبل، اپنے آغاز اور انجام کے بارے میں بلند نگاہی حاصل کر کے ہی اس سماج پر فتح پانے کے قابل ہو سکے گا جو غیر انسانی مسابقت کا شکار تھے اور اس تہذیب پر جو مذہبی اور سیاسی اقدار کے تنازعات اور تصادم کے نتیجے میں اپنی روحانی وحدت گم کر چکی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مذہب ایک اقدام ہے جو اخلاقی اقدار کے مطلق اصولوں کو اپنی گرفت میں لا کر شخصیت کی خود اپنی قوتوں کو متحد کرتا ہے۔۵؎ جب کہ اسلام، اپنے دوسرے پہلو یعنی عقائد کے حوالے سے جن میں کہ وہ دوسرے مذاہب سے بالکل منفرد ہے ، اقبال بیان کرتے ہیں: تنہا اسلام ہی مسلمانوں کو وہ روحانی ڈیموکریسی دے سکتا ہے، جو ان کی تمام کوششوں کی غرض وغایت ہے.... آج کے دور میں انسانیت تین چیزوں کی محتاج ہے: ٭ کائنات کی روحانی تاویل ٭ فرد کی روحانی آزادی ٭ ان اہم ترین بنیادی اصول و قواعد کی تعیین جو انسانی معاشرے کو روحانی بنیاد پر ترقی دینے کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوں۔ اس بات میں چنداں شک نہیں کہ آج کے جدید یورپ نے انھی بنیادوں پر مثالی نظام قائم کیے ہیں، لیکن تجربے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ عقلِ محض جس حقیقت کو دریافت کرتی ہے اسے سچے مضبوط ایمان کی چنگاری تک پیدا کرنے کی قدرت حاصل نہیں۔ وہ چنگاری جسے صرف دین ہی بھڑکا سکتا ہے۔ یہ اس بات کا بھی سبب ہے کہ مجرد افکار اور سوچ ماضی میں لوگوںپر کم ہی اثر انداز ہوئے۔جبکہ دین کے لیے ہمیشہ ممکن ہوا کہ وہ تمام کے تمام لوگوں کو بیدار کرسکے، اور انھیں ایک حال سے دوسرے میں منتقل کر سکے۔ یورپ کی مثالیت پسندی اس کے لیے کبھی بھی زندہ عنصر نہیں بن سکی جس کے نتیجے میں ان کی بگڑی ہوئی خود غرضی ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے والی ان جمہوریتوں کی شکل میں اپنا اظہار کر رہی ہے جن کا مقصد وحید امیر کے مفاد کے لیے غریب کا استحصال ہے۔ یقین کیجیے کہ آج کا یورپ انسان کی اخلاقی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے برعکس ایک مسلمان وحی کی بنیاد پر ایسے قطعی تصورات رکھتا ہے جو زندگی کی گہرائیوں میں کار فرما ہیں اور اپنی بظاہر خارجیت کو داخلیت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کے لیے زندگی کی روحانی اساس ایمان کا معاملہ ہے جس کی خاطر ایک نہایت کم علم انسان بھی اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے۔ اسلام کے اس بنیادی نظریے کی رو سے کہ اب مزید کسی نئی وحی کی حجیت باقی نہیں رہی ہمیں روحانی اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ آزاد اور نجات یافتہ قوم ہونا چاہیے۔ قرون اولیٰ کے مسلمان جنھوں نے قبل اسلام کے ایشیا کی روحانی غلامی سے نجات حاصل کی تھی اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ اس بنیادی نظریے کی اصل معنویت کو جان سکیں۔ آج کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اس اہمیت کو سمجھیں، بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنی عمرانی زندگی کی از سر نو تشکیل کریں اور اسلام کے اس مقصد حقیقی کو حاصل کریں جس کی تفصیلات تاحال ہم پر پوری طرح واضح نہیں ہیں۔ یعنی روحانی جمہوریت کا قیام۔۶؎ آج کے مسلمان کے لیے اقبال نے جو وصیت کی ہے ، اس میں فرماتے ہیں : ’’اس دور کے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کا اندازہ لگائے.......‘‘ اس متن کے آخر میں وہ یہ کہتے ہیں: .....اس کی اصلاحی فکر پوشیدہ ہے، اس کی اصلاحی فکر، اسلامی اجتماعی زندگی کی خود اسلام ہی کے اصول وقواعد پر تعمیر کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ خاص طور پر جو اس میں سے بے حد ضروری اور متفق علیہ ہیں۔ اس طرح اس اصلاحی فکر سے مقصدپوشیدہ ہے۔یہ اصل میں وہ روحانی جمہوریت ہے جو کہ فرد کی ذات کی تیاری ، فطرت اور واقع پر اس کا اقتداراور اس کے اپنے اصل وجود کی حقیقت کے ادراک پر قائم ہے۔ اور وہ اللہ جل شانہ ہے۔ دینی فکر کی اصلاح اقبال جب اپنی فکری تحریک کو ’’اسلام میں دینی فکرکی تشکیل جدید‘‘ نہ کہ ’’دینی اصلاح‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں تو بہت جُز رسی سے کام لیتے ہیں۔ کیوںکہ کو ئی بھی انسانی کوشش جو اسلام کے دائرے میں ہورہی ہو اس کا تعلق اس کے اصول ومبادی کو تبدیل کرنے سے ہوتا ہے، جب تک کہ حتمی تاکیدی اور ابدی صفات کا حامل قرآن مجید اس کا منبع ہے۔ اس کے بعد اسلام میں کوئی بھی اصلاحی تحریک ، دراصل اسلامی دائرے اور اسلام کے اصول ومبادی کے حوالے سے مسلمانوں کے فہم کے دائرے میں ہو گی۔ اسلام کے حوالے سے جو بھی ارتقا ہو لازم ہے کہ مسلمانوں کے فہم اور اسلام کے بارے میں ان کی تفسیر کے دائرے کے اندر ہو۔ خود اسلام کے اندر کسی قسم کا کوئی ارتقا نہیں ہوسکتا، کیوںکہ وحی تو رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ختم ہو گئی، اسی طرح ان کی رسالت کے ساتھ الٰہی رسالت بھی اختتام پذیر ہو گئی۔ اس وجہ سے یہ ممکن نہیں کے خود اسلام کے اندر کسی قسم کی کوئی تبدیلی کا امکان مانا جائے۔جیسا کہ مارٹن لوتھر نے مسیحیت میں مانا ہے۔ اس کی وجہ انجیل کی روایت میں غیر یقینی صورت حال اور اس کی تائید میں کسی ایک حتمی روایت پر اتفاق نہ ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے اس نے کئی دروازے کھول دیے جن سے مسیحیت میں کئی نئے مفاہیم اور رسو م ورواج داخل ہو گئے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مسیحیت کا جزو لا ینفک بن گئے۔اور اس کے ساتھ لوتھر اور اس جیسوں کو اس میں اصلاح کا موقع مل گیا۔ اقبال کے نزدیک اسلام میں دینی فکر کی اصلاح کا انحصار ، اس حالت میں تبدیلی پر ہے،جس میں اس وقت کا مسلمان اور پوری اسلامی جماعت آن پہنچی ہے، اور وہ حالت ایک ایسے مریض کی حالت ہے جو کمزور، زندگی سے خوف زدہ اور حقیقت واقع سے بھاگنے والاہے۔ اسی طرح اس فکر کا انحصار مسلمان کے زندگی سے فرار کو ختم کرنے،مادے اور فطرت پر کنٹرول کی اس کے ہاں عدم قدرت کے ختم کرنے پر ہے… ا س فکر کا انحصار اس وحدت الوجود کا سامنا کرنے پر ہے کہ جو انسان کو مطلق حقیقت میں فنا ہو جانے، اور زندگی میں سلبی رویے کے اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کا انحصار،انا اور ذات انسانی کے استحکام پراستوار ہے تاکہ وہ اس کے فنا اور اس کے جبر کے درمیان میں حائل ہوجائے۔ اس کا انحصارخودی کے حصول پر ہے۔اسی طرح واقعیت کے حصول پر یعنی زندگی سے فرار نہ حاصل کرنے کی روش پر ہے۔ حقیقت پسند ہونے کی بات جو وہ کرتے ہیں وہ مادی مصنوعی الحاد نہیں ہے بلکہ وہ جیسا کہ خود بیان کرتے ہیں برہمیت، اشراقی تصوف اور عجمی تصوف کے امتزاج کا نام ہے۔ اقبال اس صورت حال کو ، جس میں اس وقت مسلمان آن پڑا ہے یالے جایا گیا ہے ، ان الفاظ سے بیان کرتے ہیں: بے شک طاقت ور مسلمان جسے صحرا نے نشو ونما دی تھی،جسے طوفانوں اور آندھیوں نے مضبوط بنا دیا تھا، اسے عجم کی ہواؤں نے کمزور کر دیا ہے، وہ یہاںبے حد کمزور اور نحیف ہو گیا ہے۔ وہ جو کبھی شیر کو ایک بکری کی مانند ذبح کر دیا کرتا تھا، اب پاؤں پر چیونٹی کے چڑھ آنے سے خوف زدہ ہو جاتا ہے۔وہ جس کا نعرہ تکبیر پتھروں کو پگھلا دیتا تھا، وہ پرندوں کی سیٹیوں سے ڈرنے لگا ہے، وہ جس نے پہاڑ جیسے ارادوںکو ہلا کر رکھ دیا ، اس کے ہاتھوں اور پاؤںکو دوسروں پر انحصار کرنے کے اوہام کی زنجیریں پہنا دی ہیں،وہ اپنا ہی سینہ پیٹنے لگا ہے، وہ جس کے قدموں نے زمین پر ایک انقلاب برپا کر دیا تھا ،اس کی دونوں ٹانگیں تنہائی میں رہتے رہتے ٹوٹ گئیں، وہ جس کا حکم ایک زمانے پر نافذ ہوتا تھا اور جس کے دروازے پر بادشاہ حاضری دیا کرتے تھے، وہ کوشش کرنے کے بجائے دوسروں کے سامنے جھکنے اور ہاتھ پھیلانے کی روش پر قناعت کرگیا۔ عالم واقعی اسلام کی نظرمیں سابقہ تین محرکات کا ذکر کرنے کے بعد ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ ان کی اصلاحی فکر درج ذیل دو بنیادی عناصر پر قائم ہے: ۱- عالم فطرت یا عالم واقع کے مفہوم کی تبدیلی۔ یا دوسرے الفاظ میںیہ کہا جا سکتاہے کہ اس کا مفہوم ابتدائی مسلمانوں کی بیان کردہ تعبیر پر لوٹا دیا جائے یعنی عالم فطرت ،انسان کی حرکت، اس کی کوشش اوراس کی معرفت کا میدان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے اس مخفی یا سری عالم کے مفہوم سے دور کیا جائے جس تک وہ جا پہنچاہے ۔ ۲- اسلام کے بعض مبادی واصولوں کی وضاحت: جیسا کہ ختم رسالت،توحیداور اجتہاد۔ اس حوالے سے کہ یہ اس عالم واقعی میں انسان کو حرکت اور سعی کی طرف دھکیلنے کے محرکات ہیں۔ اقبال’ اسلام میں دینی فکر کی اصلاح‘ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ : مسلمانوں کو دوبارہ قوت حاصل ہو جائے۔وہ یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان کی قوت مغرب کے فلسفوں میں سے کسی فلسفے کی پیروی میں نہیں بلکہ اسلام کا صحیح مفہوم جاننے میں ہے۔ جس طرح سے اسے پہلوں نے سمجھا، نہ کہ اس مفہوم میں جسے ٹھہراؤ کے اس زمانے میں سمجھا گیا ، یا سمجھا جا رہا ہے۔ اسلام کا صحیح مفہوم مسلمان کو عالم فطرت اور عالم واقع کے اوپر ویسے ہی اقتدار دلائے گا، جیسے مغرب نے اس پر اپنا اقتدار قائم کیا ہوا ہے، اس عمل کے نتیجے میں اس کے ہاں پایا جانے والا مغربی زندگی کا روکھاپن اور نفسیاتی قلق بھی دور ہو جائے گااو را س طرح وہ حقیقت کے زیادہ قریب ہو جائے گا۔ مغربی انسان نے اپنے مادی مذہب کی بنیاد پر اگرچہ فطرت کو مسخر کر لیا ہے اور اس پر اقتدار حاصل کر لیا ہے لیکن اس نے حقیقت کے صرف ایک پہلو کا ادراک حاصل کیا ہے، وہ اس کا ایک جزئی پہلو ہے۔ جبکہ کلی حقیقت جو کہ مطلق ذات کی حقیقت ہے ا س تک وہ بالکل نہیں پہنچ سکا، بلکہ اس نے اپنی سخت دلی ، قلق اور اضطراب کے باعث اس کا انکار کر دیا ہے۔اس نے اس حقیقت کا انکار کیا ہے کیوں کہ اس نے اسی تجربی وسیلے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے،جس سے وہ جزوی چیزوںکے حقائق تک رسائی حاصل کرتا ہے جب کہ یہ عالم واقع یاعالم حقیقت ہے۔ اس کی کلی حقیقت تک رسائی کے لیے بھی اس نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے، اس لیے وہ اس تک پہنچنے میں ناکام ہو گیا ہے، پھر اس نے اس حقیقت کا انکار ہی کر دیا جس تک وہ پہنچ نہیں سکا۔ انفرادی آزادی اقبال کی نظر میں اسلام کا صحیح مفہوم عالم مادی یا عالم واقع کو شر قرار نہیں دیتا بلکہ ’انا اور خودی‘کے لیے اسے میدانِ جدوجہد بنا دیتا ہے، اس واقع سے وہ ذات کو تقویت دیتا ہے، خاص طور پر اس میں جد وجہد کے ذریعے سے ، اسے دوام اور خلود حاصل ہو جاتا ہے۔ اقبال ذات اور شخصیت کا دوام ، مسلسل جدوجہد میں پاتے ہیں نہ کہ سستی ،کاہلی اور آرام طلبی میں۔ وہ اس کی ترقی اور بلندی گھاٹیوں کے عبور کرنے میں دیکھتے ہیں ناکہ ان سے پہلو تہی میں۔ زندگی مسلسل ترقی اور آگے بڑھنے کا نام ہے، یہ ہر اس گھاٹی کو مسخر کرلیتی ہے جو اس کے راستے میں حائل ہو،اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ نئے مطالب اور مثالیں وضع کرے۔اس کی ترقی اور اس میں وسعت پیدا کرنے کے لیے حواسِ خمسہ کے آلات اور قوت ادراک اس کو دیے گئے ہیں، تاکہ ان کے ذریعے سے ان گھاٹیوں کو پار کر سکے ۔ زندگی کے راستے کی مشکل ترین گھاٹی مادہ یا فطرت ہے، لیکن مادہ اپنی ذات میں شر نہیں ہے جیسا کہ اشراقی فلسفہ دان کہتے ہیں، بلکہ یہ تو ذات کو بلندی پر فائز کرتا ہے۔ کیوں کہ خودی کی مخفی قوتیں ان گھاٹیوںکو عبور کرنے اور ان کی دشواریوں کو سہنے کے بعد جلا پاتی ہیں، اور جب تم اس کے راستے کی تمام چوٹیوں کو عبور کر لو گے تو تم ’اختیار ‘کی منزل کو جا پہنچو گے۔ خودی کے اپنے اندر ’جبر واختیار ‘ موجود ہے، لیکن جب یہ مطلق ذات (یعنی اللہ تعالی) سے جا ملتی ہے، تو مکمل آزادی پا لیتی ہے اور زندگی اسی ’اختیار‘ کو پالینے کی کوشش کا نام ہے۔خودی کا اصل مقصود اپنی کوشش سے ’اختیار ‘کو پا لینا ہے۔۷؎ وجود کا ادراک اقبال کی نظر میں اسلام کا صحیح فہم ، وجود کو اجزامیں تقسیم کرتا ہے لیکن ان اجزاکا وجود اصل میں ایک زنجیر کے حلقوں کی مانند ہے، اور وہ اللہ، انسان اور عالم ہے۔ عالم واقع انا اور خودی سے مغایرت نہیں رکھتااور نہ مطلق ذات (اللہ) سے کلی مغایرت رکھتا ہے۔ بے شک یہ عالم اللہ تعالی کی تجلی ہے ، سارے کا سار ا وجود جوکہ اول و آخر بھی ہے اور ظاہر وباطن بھی وہ اللہ اور عالم ہے۔(ہیگل کا نقطہ نظر) یہ ایک ہی حقیقت ہے جس کا اصل بھی ہے اور مظہر بھی، لیکن وہ اتحاد پر قائم نہیں ہوئی، اس کے اجزا میں سے ایک جزو، دوسرے جزو میں فنا نہیں ہو سکتا، عالم انسان میں تبدیل نہیں ہوسکتا اور نہ وہ اللہ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جیسا کہ انسان اللہ میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ وجود کے تین اجزا ہیںاور یہی حقائق ہیں، ان کی اپنی شخصیت اور اپنی انفرادیت ہے۔ تجربے سے یہ سارے کے سارے سمجھے جا سکتے ہیں، لیکن عالم واقع اور عالم مادی کے ادراک کا تجربہ،ان بلند تر حقائق (یعنی کلی حقیقت )کے تجربے سے بالکل مختلف ہے۔ تجربے کی دو قسمیں ہیں: واقعی تجربہ اور دینی تجربہ (یعنی صوفی روحانی تجربہ)، دونوں تجربوں کے مابین کو ئی اختلاف نہیںہے۔اور ان حقائق کے ما بین کوئی اختلاف ہے اور نہ اس حقیقت میں کوئی اختلاف ہے جس کی طرف یہ دونوں لے جاتے ہیں۔ اقبال کی فکری جدوجہد کا مرکز ان دونوں تجربوں کے مابین تعلق اور واقعی حقیقت کے مابین اور دیگرروحانی کلی حقیقت کے مابین تعلق کا قیام ہے۔ اسلام کے ایک دین ہونے کی حیثیت سے جب مادی تجربی سائنس کا اس کے خلاف کوئی اعتراض کمزور پڑتا یا معدوم ہو جاتا ہے تو ان دونوں کے مابین کوئی تصادم یا کشمکش نہیں ہوتی۔ مسلمان اپنے دین کی رہنمائی کے باعث، حقیقت پسند ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالم واقع اور فطرت کی حقیقت کو جانے تاکہ اس پر حکمرانی کرسکے۔ اس لیے نہیں کہ اس کے ذریعے سے سخت دل ہو جائے، کیوں کہ یہ بات صحیح نہیں ہو گی کہ وہ اپنی روحانیت کو بھول جائے، جو کہ مطلق ذات (اللہ) کا ادراک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا مسئلہ مذہب اور تہذیب کی دو قوتوں کا پیدا کردہ ہے جو باہم کھچاؤ اور ساتھ ہی آپس میں لگاؤ رکھنے والی ہیں۔ اسی طرح کا مسئلہ مسیحیت کو بھی ابتدائی دور میں درپیش تھا۔ مسیحیت کا بنیادی سوال یہ تھا کہ روحانی زندگی کے لیے کسی ایسے مستقل اساسی وجود کو تلاش کیا جائے جو حضرت مسیح کی بصیرت کے مطابق بیرونی دنیا کی قوتوں کا آفریدہ نہیں بلکہ خود انسان کے اندر روح کے اپنے انکشافات سے عبارت ہو۔ اسلام کو اس بصیرت سے پورا اتفاق ہے مگر وہ اس میں اس قدر اضافہ کرتا ہے کہ اس نئے عالم کی دریافت عالم مادی سے بیگانہ نہیں بلکہ اس کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے۔ پس عیسائیت ، جس روح کی بحالی کی خواہاں ہے وہ بیرونی قوتوں کے انکار سے ممکن نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی روحانیت سے منور ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اندر سے حاصل کردہ روشنی میں ان قوتوں کے اپنے روابط کو مناسب طور پر استوار کرنا ہو گا۔۸؎ نہ انفصالیت نہ وحدت الوجود اس آخری نص کے ذریعے سے : ٭ اقبال اس مشکل کو متعین کرتے ہیں جس کا سامنا اسلام عصر حاضر میں ایک دین ہونے کی حیثیت سے کررہا ہے۔یعنی دین اور تہذیب کے مابین کشمکش اور ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی جنگ جاری ہے۔ ٭ پھر وہ عیسائیت کا اس مشکل کے سلسلے میں موقف بیان کرتے ہیں کہ وہ روحانیت کے عالم کوصرف تلاش کرنے پر انحصار کرتی ہے۔وہ نفس انسانی کو اس روحانیت کا ایک سٹور قرار دیتی ہے۔ وہ اس کے راستے میں دور یا اس منہج پر کھڑی ہو گئی ہے جس کے ذریعے سے وہ اس سٹور کو تلاش کر سکے۔ اس نے عالم خارجی کو بالکل چھوڑ دیا ہے او راس بات کی بالکل کوشش نہیں کی کہ وہ ان دونوں راستوں کے ما بین ربط تلاش کرے یا اس کو سیکھنے کی کوشش کرے یعنی داخلی حقیقت اور خارجی حقیقت کے مابین۔ ٭ اقبال کی رائے ہے کہ اس سلسلے میں اسلام کا موقف نہ تو ’مستقل بالذات ‘کے عدم وجود کا ہے اور نہ برابر کی سطح پر ’وجودکے اتحاد ‘ کا، یعنی خودی اور عالم واقع کے مابین علیحدگی کا نہ ہونا او رخودی اور مطلق ذات(اللہ) کے ما بین اتحاد کا نہ ہونا۔ تو عالم واقعی خودی سے کوئی الگ چیز نہیں ہے کہ اس سے بھاگا اور دور رہا جائے اس خیال سے کہ یہ ایک ایسا شر ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔ ایک دوسرے پہلو سے، انسان کی خودی جتنی بھی بلند ہو جائے، وہ اپنی روح کی پرورش کر لے ، اپنے نفس کا تزکیہ کرلے، ذات مقدس میں فناکے درجے کو نہیں پا سکتا۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ وجود کے حوالے سے اسلام کا موقف یہ ہے کہ انسان یا اس کی خودی ، دو حقیقتوں کے مابین تعلق قائم کرتی ہے: یعنی کلی ذات کی حقیقت، جو کہ اصل وجود ، اللہ کے مابین اور عالم خارجی کی حقیقت کے مابین جو کہ اس اصل کی تجلی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ہی ذریعے کو استعمال کرنے سے ہوسکتا ہے یعنی تجربے کے ذریعے کو۔ اور اس ذریعے سے کہ انسان کے نفس میں داخلی حقیقت دوسری خارجی حقیقت تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف صوفی روحانی ریاضت کے ذریعے سے پہنچتا ہے۔ اور یہ کہ صحیح معرفت انسان کے نفس کے داخل میں موجود عالم سے پھوٹنے والے نور کی روشنی میں عالم خارجی کے ساتھ تعلق کو استوار کرنا ہے۔ دین اور سائنس کے میدان میں تجربہ ہو سکتا ہے اقبال کی اس تعبیر ’اس کے نفس کے داخل میں موجود عالم سے پھوٹنے والے نور کی روشنی میں ‘سے ان کا میلان حقیقی دینی یا روحانی قیادت کی طرف سمجھا جائے، اور یہ سمجھا جائے کہ انھوں نے اسے خارجی حقیقت کی معرفت میں اثر پذیری قرار دیا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کا معنی اس حقیقت کے خود مختار ہونے پر حرص سمجھا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ کہ حقیقت پسندوں اور وضعیوں کے نزدیک تحقیق میں تجربی طریق۔کار، صرف حقیقت کا حقیقت ہونے کے اعتبار سے اختیار کرنا ہی نہیں بلکہ خارجی حقیقت کے ما سواکے انکار پر بھی مشتمل ہے، اس جگہ یہی دینی یا روحانی حقیقت ہے ۔ اقبال کی اسلام کے( ایک حقیقی دینی مصدر ہونے کے اعتبار سے ) اس کے اور تجربی مذہب کے مابین موافقت پیدا کرنے کی کوشش کے مابین دراڑ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک انیسویں صدی کے وضعی مذہب کے موسس آگسٹ کومٹ کی بیان کردہ حدود میں تجربے کو سمجھا جاتا رہے۔ اس وجہ سے اقبال واضح کرتے ہیں کہ وضعی مذہب کا تجربہ تمام حقیقتوں کے اختیار کا طے کردہ ذریعہ نہیں ہے، خاص طور پر جب کہ خارجی حقیقت (جو کہ وضعی مذہب کے تجربے کا موضوع ہے) اوردوسری حقیقت (دینی حقیقت، جو کہ اس ذریعے کے سامنے جھک نہیں سکتی) کے ما بین فرق ہے۔ یہ فرق دین کے میدان اور فطرت کے ساتھ منسلک علوم کے میدان کی طرف لوٹتا ہے ، مثلاً طبیعیات اور کیمیا کا علم۔ ایک او راعتراض (جس کا تعلق تجربی مذہب والوںکے دینی حقیقت پر اعتراض سے ہے)کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ، اقبال اس فرق کو واضح کرتے ہیں، وہ اعتراض ادیان کی نشأۃ ثانیۃ کے حوالے سے ہے، کہ یہ انسان میں مخفی لاشعورکی تعبیر ہے ،کے طور پر فرائڈ کی طرف سے کی گئی وضاحت میں پوشیدہ ہے۔ فرائڈ کی اس رائے کی بنیاد پر، تمام ادیان خیالات اور خواہشات قرار پاتے ہیں، اور ان کے اکثر حقائق تجربے پر مبنی حقائق ہیں۔ اس مذہب (فرائڈ) کے ماننے والوں کی رائے میں دین محض ایک اختراع ہے جسے لوگوں کی ناتمام خواہشات نے جنم دیا ہے، تاکہ وہ اپنی مرضی سے کیے گئے کاموں پر ،بغیر کسی رکاوٹ کے ، ایک خیالی جنت حاصل کرسکیں۔ وہ یہ کہتے ہیں: عقائد اور دینی آرا دراصل فطرت کے بارے میںابتدائی نظریات سے زیادہ کچھ نہیں۔ انسان نے انھیں حقیقت کے اصلی بدنما چہرے سے جان چھڑانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔اس حقیقت کا اظہار دل کو مطمئن کرنے والے زندگی کے حقائق کی شکل میں کیا ہے۔ دنیا میں ایسے کئی مذاہب اور فن کی صورتیں موجود ہیں جو ہمارے لیے زندگی کے حقائق سے فرار کے راستے مہیا کرتی ہیں۔ میں جس بات میں اس کے ساتھ مباحثہ کر رہا ہوں یہ ہے کہ یہ بات تمام مذاہب کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی، کیوں کہ بلا شبہ دینی آرا اورعقائد کی ایک ما بعد الطبیعیاتی حکمرانی ہوتی ہے۔ لیکن اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ تجربے کے حقائق کی تفسیریں نہیں ہیں بلکہ مذاہب ہیں ، جو فطرت سے متعلق علوم کا موضوع ہیں،جب کہ دین نہ تو فطرت کے علم کا نام ہے اور نہ علم کیمیا کا نام ہے۔ وہ فطرت کی سائنسی حقائق سے مطابقت رکھنے والی کسی تفسیر کا متلاشی نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد حقیقت میں اس سے مکمل طور پر مختلف میدان میں تفسیر ہے۔ وہ انسانی تجربے کااور حقائق کا میدان ہے، یہ کسی اور میدان کے حقائق کے علم کی طرف نہیں منتقل ہو سکتا۔در حقیقت ضروری ہے کہ یہ کہا جائے : بلا شبہ دین دینی زندگی میں واقعی تجربے کی ضرورت کے ساتھ منسلک ہے۔اس سے پہلے کہ ایک لمبے عرصے میں سائنس سے بات سیکھے۔ دین اور سائنس کے ما بین اختلاف یہ نہیں ہے کہ ان میں سے ایک واقعی تجربے کی بنیاد پر کھڑا ہے اورد وسرا ایسی جگہ پر نہیں ہے، تو وہ دونوں واقعی تجربے کی تلاش کے لیے نکلنے اور شروع کرنے کے ایک ابتدائی نقطے کے طور پر تلاش کررہے ہیں ۔ ان کے مابین اختلاف کا سبب اس ادراک میں غلطی ہے کہ دونوں ایک ہی واقعیت کا بیان کر رہے ہیں جو کہ تجربے کا موضوع ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ دین کا مقصد تجربے کی ایک قسم کے حقیقی معنی تک پہنچنا ہے۔۹؎ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دینی ریاضت میں صوفیا کے طریقے کی بحث، اپنے وصف میں علم الٰہی کا مصدر ہے، اور یہ زمانی اعتبار سے اسی مقصد کے حصول کے انسانی تجربے کی دیگر اقسام سے قدیم تر ہے۔۱۰؎ اقبال کی نظر میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ طبیعی علوم کے میدان میں تجربے کی منطق کو لیا جائے اور دینی منطق کو چھوڑ دیا جائے۔ اور یہ کہ تجربے کے موضوع کا اختلاف، اپنے نتائج کے اعتبار سے تفرقہ پیدا نہیں کرتا۔اقبال اس بات کی وضاحت ایک اور جگہ کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: درحقیقت بعض وجوہات کی بنا پر جن کا میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں ، مذہب ، سائنس سے کہیں زیادہ اس تک رسائی کا آرزو مند ہے۔ اور دونوں کے لیے خالص معروضیت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تجربے کی تطہیر اور چھان بین کی ضرورت ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجربے کی دو سطحوں کے مابین امتیاز قائم کرنا چاہیے۔ ایک تجربہ وہ ہے جو حقیقت کے ظاہر، قابل مشاہدہ کردار یا فطری امر واقعہ کا عمومی نقشہ پیش کرتا ہے اور دوسرا وہ جو حقیقت کی باطنی ماہیت کے بارے میں ہمیں اطلاع دیتا ہے۔ ایک فطری امر واقعہ کی حیثیت سے نفسیاتی اور عضویاتی سیاق و سباق کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے جبکہ حقیقت کی باطنی ماہیت کو معلوم کرنے کے لیے ہم اس سے مختلف معیارات کو استعمال کرتے ہیں۔ سائنس کے میدان میں ہم حقیقت کے خارجی کردار کے حوالے سے ہی معانی کی تفہیم حاصل کر سکتے ہیں۔ مذہب کے میدان میں اسے کسی حقیقت کا نمائندہ سمجھ کر اس کے معنی کی دریافت ہم اس لیے کرتے ہیں کہ حقیقت کی باطنی ماہیت کا ادراک کر سکیں۔ سائنسی اور مذہبی طریق کار دونوں گویا ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں۔ دونوں درحقیقت ایک ہی دنیا کی تشریح و تعبیر ہیں۔ ان میں اختلاف یہ ہے کہ سائنسی عمل میں خودی ایک تماشائی کا سا نکتۂ نظر رکھتی ہے، جبکہ مذہبی عمل میں خودی اپنے مختلف رجحانات میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے اور ایک یکتا اور منفرد کردار سامنے لاتی ہے جس میں مختلف تجربات مرکب دعویٰ کی صورت میں ایک ہمہ گیر رویے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں رویوں ، جو دراصل ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، کے محتاط مطالعے سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی اپنے اپنے میدان میں تجربے کی تطہیر کا عمل کرتے ہیں۔ ایک مثال میرے مطالب کی واضح طور پر تشریح کرے گی۔ انگلستان کے فلسفی ڈیوڈ ہیوم کی نظریہ علت پر تنقید کو فلسفے کی بجائے سائنس کی تاریخ کا ایک باب سمجھا جانا چاہیے۔ سائنسی حسیت کی روح کے لحاظ سے یہ درست ہے کہ ہم کسی ایسے تصور پر کام نہیں کر سکتے جو موضوعی نوعیت کا ہو۔ ڈیوڈ ہیوم کی تنقید کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تجربی سائنس کو ’قوت‘ کے تصور سے رہائی دلائی جائے جس کا حسی تجربے میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ سائنسی عمل کی تطہیر کی جانب جدید ذہن کی یہ پہلی کاوش تھی۔ کائنات کے بارے میں آئن سٹائن کے ریاضیاتی نکتے نے تطہیر کا وہ عمل مکمل کر دیا جس کا ڈیوڈ ہیوم نے آغاز کیا اور ہیوم کی تنقید کی حقیقی روح کے مطابق اس نے قوت کے تصور سے نجات دلائی۔ وہ پیرا گراف جو میں نے ممتاز مسلمان صوفی کے حوالے سے اوپر دیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی نفسیات کا عملی طالب علم بھی تطہیر کے بارے میں ایسا ہی نکتۂ نظر رکھتا ہے ۔ اس کی معروضی حس بھی اسی طرح انہماک رکھتی ہے جس طرح کا انہماک کوئی سائنس دان اپنے میدان عمل میں رکھتا ہے۔ وہ ایک تجربے کے بعد دوسرے تجربے سے محض ایک تماشائی کے طور پر نہیں گزرتا بلکہ ایک ناقد کا کردار ادا کرتا ہے جو اپنے دائرۂ تحقیق سے مخصوص تکنیکی مہارت سے کام لیتے ہوئے اپنے تجربے سے ہر طرح کے نفسیاتی اور عضویاتی موضوعی عناصر ختم کر دیتا ہے تاکہ بالآخر وہ ایک مطلق معروضیت تک پہنچ جائے۔ یہ حتمی اور قطعی تجربہ نئے عمل حیات کا انکشاف ہوتا ہے جو طبع زاد، اساسی اور فوری ہوتا ہے۔ خودی کا حتمی راز یہ ہے کہ جس وقت بھی وہ اس حتمی انکشاف تک پہنچتی ہے وہ اسے بغیر کسی معمولی سی ہچکچاہٹ کے اپنے وجود کی انتہائی اساس کے طور پر شناخت کر لیتی ہے۔ تاہم اس تجربے میں بذاتہ کسی قسم کی کوئی سریت نہیں اور نہ ہی جذبات انگیخت کوئی چیز ہے۔ اس تجربے کو جذبات سے محفوظ رکھنے کے لیے یقینا مسلمان صوفیا کی تکنیک یہ رہی ہے کہ انھوں بالالتزام عبادت میں موسیقی کے استعمال کو ممنوع قرار دیا اورمعمول کی روزانہ پڑھی جانے والی باجماعت نمازوں کی ادائیگی پر زور دیا تاکہ خلوت کے مراقبے سے غیر معاشرتی اثرات کا تدارک ہو سکے۔ یوں یہ تجربہ ایک مکمل طور پر فطری تجربہ ہے اور خودی کے لیے ایک اہم ترین حیاتیاتی جواز کا حامل ہے۔ یہ تجربہ انسانی خودی کی فکر محض سے بلند تر پرواز اور دوامیت کے انکشاف کے ذریعے اپنی نا پائیداری پر قابو پا لینے سے عبارت ہے۔ اس مقدس الوہی تلاش میں خودی کو جو واحد خطرہ درپیش ہے وہ اس کی اپنی کوشش میں سست خرامی ہے جو اس تجربے میں لطف اندوزی کے سبب پیدا ہوتی ہے کیونکہ آخری تجربے کی طرف بڑھتے وقت مختلف کم تر تجربات اسے جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرقی صوفیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے برصغیر کے اس عظیم صوفی نے اصلاح کی ابتدا کی جس کی تحریر سے میں پہلے ہی اقتباس پیش کر چکا ہوں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ خودی کا حتمی مطمحِ نظر کسی شے کا دیدار کرنا نہیں بلکہ خود کچھ بننا ہے۔ خودی کی اپنی کوشش کہ وہ کچھ بن جائے اسے یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی معروضیت کا زیادہ گہرا ادراک پیدا کرتے ہوئے زیادہ مستحکم بنیاد پر ’’میں ہوں‘‘ کہہ سکے۔ اس ’میں ہوں‘ کی شہادت اسے ڈیکارٹ کی ’میں سوچتا ہوں‘ میں نہیں بلکہ کانٹ کی ’میں کر سکتا ہوں‘ میں ملتی ہے۔ خودی کی جستجو کی انتہا انفرادیت کی حدود و قیود سے آزادی نہیں بلکہ اس کے برعکس خود اپنی انفرادیت کا صحیح فہم ہے۔ آخری عمل محض عقلی عمل نہیں بلکہ ایک حیاتیاتی عمل ہے جو خودی کے وجود کو اور گہرائی میں لے جاتا ہے اوراس کے ارادے کو اس تخلیقی ایقان سے تیز تر کرتا ہے کہ دنیا محض دیکھنے یا تصورات کے ذریعے جاننے کی چیز نہیں بلکہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم مسلسل عمل سے پیہم تعمیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ خودی کے لیے یہ ایک اعلیٰ روحانی مسرت اور ساتھ ہی ساتھ ابتلا اور آزمائش کا ایک عظیم لمحہ بھی ہے۔۱۱؎ ٭ اس سے معلوم ہوتاہے کہ انسان اور عالم واقعی کے مابین ایک تعلق ہے۔ ٭ اس عالم واقعی کی حقیقت اور اصل وجود کی حقیقت، یعنی حقیقت مطلق (اللہ) کے مابین ایک تعلق ہے۔ ٭ حقیقت کے ادراک میںتجربے کے ذریعے سے بالآخر ایک اشتراک موجود ہے، اگرچہ تجربے کی نوعیت، اسی میدان کے تابع ہوتی ہے جس میں اسے حاصل کیا جائے۔ یہ بات جس کا اقبال اس جگہ ا س طرح سے ذکر کر رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ وہ اسے اسلام کے اصلی مصدر (قرآن )میں سے بھی برآمد کریں، وہ فرماتے ہیں: قرآن ، جو انسانیت کی روحانی زندگی میں اختیاری رویے کو ایک امر لازم تصور کرتا ہے حقیقت مطلقہ کے علم کے حصول میں انسانی تجربے کے تمام پہلوؤں کوبرابر اہمیت دیتا ہے۔ جس حقیقت کی علامات انسان کے ظاہر اور باطن میں منکشف ہوتی رہتی ہیں۔ حقیقت کو جاننے کا ایک طریقہ توبالواسطہ ہے جس میں وہ حواس کے ذریعے ہم سے سابقہ رکھتی ہے او رادراک بالحواس سے اپنی علامات ہم پر منکشف کرتی ہے، تا ہم دوسرا طریقہ حقیقت سے براہ راست تعلق کا ہے جو ہمارے اندرون میںہم پر اپنا انکشاف کرتی ہے۔ قرآن کے مطالعہ فطرت پر زور دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا فطرت سے گہرا تعلق ہے۔ فطرت کی قوتوں کو مسخر کرتے وقت غلبہ محض کے بجائے اس مقصد کو پیش نظر رکھنا زیادہ ضروری ہے کہ روحانی زندگی اعلیٰ مدارجِ کمال کی طرف آزادی سے بڑھ سکے۔ لہٰذا حقیقت کا ایک مکمل وقوف حاصل کرنے کے لیے ادراک بالحواس کے پہلو بہ پہلو دل، جسے قرآن قلب یا فؤاد کہتا ہے، کے مشاہدات سے بھی کام لینا چاہیے: الَّذِیْ أَحْسَنَ کُلَّ شَیْْء ٍ خَلَقَہُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِیْنٍ. ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِن سُلَالَۃٍ مِّن مَّائٍ مَّہِیْنٍ. ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِن رُّوحِہِ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ. (السجدہ ۳۲:۷-۹) جس نے بہت خوب بنایا جس چیز کو بھی بنایا ، اور ابتدا فرمائی انسان کی تخلیق کی گارے سے، پھر پیدا کیا اس کی نسل کو ایک جوہر سے یعنی حقیر پانی سے، پھر اس (قد وقامت) کو درست فرمایا اور پھونک دی اس میں اپنی روح اور بنا دیے تمھارے لیے کان، آنکھیں اور دل۔ تم لوگ بہت کم شکر بجا لاتے ہو۔۱۲؎ اب اس کے حوالے سے اقبال کی رائے یہ ہے کہ قرآن صرف اس بات کی طرف ہی دعوت نہیں دیتا کہ انسان واقعی طبیعی سائنس کے ساتھ تعلق میں ہی تجربہ حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسی علم کو دریافت کرے اور اسی پر انحصار کرے، بلکہ وہ اس سے بھی نہیں روکتا ہے کہ وہ خود دین ہی کے میدان میں تجربہ کرے ، یہ میدان دل ہے اور اس کی دینی ریاضت کے تجربے کی اقسام میں سے ایک قسم ہے جو سائنس کے ساتھ جڑتی ہے، اس کی حیثیت فطرت اور واقع کے میدان کے دوسرے تجربوں کی باقی اقسام سے کسی صورت بھی کم نہیں۔ اقبال کی رائے میں، انسان اسلام کے نقطہ نظر سے، فطرت سے کٹا ہوا نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس کا ایک جزو بھی ہوتا ہے اور اس کے دوسرے اجزا کے ساتھ منسلک بھی ہوتا ہے۔ یہ تجربے کی دو قسموں کی طرف انسان کامیلان ہے۔ ان دونوں میں تجربے کا میدان ہی اصل میدان ہے، اوراس حوالے سے دین اور سائنس کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔ معلوم ہوا کہ سائنس کا دین کے ساتھ ایک متوازی اور متوازن تعلق ہے، وہ دونوں حقیقت کو تلاش کرتے ہیں، دونوں تلاش کے اس عمل میں تجربے کے راستے کو اختیار کرتے ہیں، دونوں معرفت میں اور حقیقت کی دریافت میں ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں: جہاں تک عام تجربے کا تعلق ہے خارجی دنیا کے بارے میں ہمارے علم کا انحصار حسی مواد کی مختلف تعبیرات پر ہوتا ہے۔ اسی طرح صوفیانہ تجربے کے باب میں تعبیرات ہی خدا کے بارے میں ہمارے علم کا باعث بنتی ہیں۔ صوفیانہ تجربے کے بلاواسطہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا کا اسی طرح سے علم حاصل کرتے ہیں جیسے کسی اور شے کا۔۱۳؎ معرفت کی ان دونوں قسموں کے مابین فرق سے ۔۔ جیسا کہ اقبال کی رائے میں صوفیانہ معرفت براہ راست معرفت ہے۔۔یہ بات واضح ہے کہ اس سے دوسروں کو مطلع کرنا ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیانہ حالات عقل کے ذریعے سے کیے گئے احساس کی مانند ہیں۔ ایک صوفی اپنے دینی احساسات کی تفصیلات جو دوسروں تک منتقل کرتا ہے اس کے لیے انھیں صرف واقعات ہی کی شکل میں لوگوں کو بتانا ممکن ہوتا ہے ، جبکہ خود دینی شعور کی تفصیلات پر کسی دوسرے کا مطلع ہونا یا کسی اور تک انھیں منتقل کرسکنا ناممکن ہے۔ قرآن مجید تجربی علم پر ابھارتا ہے ، اور اس بات پر بھی کہ انسان معرفت کے حصول کے لیے تجربے کی منزل سے گزرے۔ اقبال کی رائے میں درج ذیل آیات میں اس کی دلالت پائی جاتی ہے۔ أَلَمْ تَرَ إِلَی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَائَ لَجَعَلَہُ سَاکِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیلًا۔ ثُمَّ قَبَضْنَاہُ إِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیرًا (الفرقان۲۵: ۴۵-۴۶) تم نے نہیں دیکھا کہ تمھارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا۔ ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا، پھر (جیسے جیسے سورج اٹھتا جاتا ہے) ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کَیْْفَ خُلِقَتْ۔ وَإِلَی السَّمَائِ کَیْْفَ رُفِعَتْ۔ وَإِلَی الْجِبَالِ کَیْْفَ نُصِبَتْ۔ وَإِلَی الْأَرْضِ کَیْْفَ سُطِحَتْ (الغاشیہ۸۸: ۱۷- ۲۰) (یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسا اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ او رزمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟ اقبال ان دونوں آیات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بے شک قرآن حکیم کے نزدیک مشاہدہ فطرت کا بنیادی مقصد انسان میں اس حقیقت کا شعور اجاگر کرنا ہے جس کے لیے فطرت کو ایک آیت یا نشانی قرار دیا گیا ہے، مگر مقام غور تو قرآن کا تجربی رویہ ہے جس نے مسلمانوں میں واقعیت کا احترام پیدا کیا اور یوںانھیں بالآخر عہد جدید کی سائنس کے بانی کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اسلام نے مسلمانوں میں تجربی روح اس دور میں پیدا کی جب خدا کی جستجو میں مرئی کو بے وقعت سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے، قرآن حکیم کے مطابق کائنات ایک اہم مقصد رکھتی ہے۔ اس کی تغیر پذیر حقیقتیں ہمارے وجود کو نئی صورتیں قبول کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ہماری ذہنی کاوش اس راہ کی مشکلات دور کرتی ہے جس سے ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ انسانی مشاہدے کے نازک پہلوؤں کو جان سکیں۔ اور مرور زمانی میں اشیا کے تعلق ہی سے لازمانی کے بارے میں نظر بصیر پیدا ہوتی ہے۔ حقیقت خود کو اپنے مظاہرات ہی میں عیاں کرتی ہے۔ چنانچہ انسان جو متزاحم ماحول میں اپنی زندگی بسر کرتا ہے محسوس کو پس پشت نہیں ڈال سکتا۔ قرآن حکیم ہی نے ہماری آنکھیں تغیر کی حقیقت کے بارے میں کھولیں کہ صرف اسی کو جان کر اور اس پر حاوی ہو کر ایک پائیدار تہذیب کی بنیاد رکھنا ممکن ہے۔ ایشیا کے، بلکہ درحقیقت تمام قدیم دنیا کے سارے تمدن اس لیے ناکام ہوئے کہ انھوں نے حقیقت کو خاص طور پر داخلی تصور کیا اور داخل سے خارج کی طرف رخ کیا۔ اس طریق علم سے وہ ایسے تصور پر پہنچے جو طاقت سے محروم تھا اور طاقت سے محروم کسی تصور پر کسی پائیدار تہذیب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔۱۴؎ ٭ یہاں تک اقبال نے عالم واقع کے بارے میں ایک مسلمان کے اسلام اور اس کی دینی کتاب قرآن کے پس منظر میں، مطلوبہ موقف کے حوالے سے اپنی رائے بیان کی ہے۔ ٭ اسی طرح انھوں نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ حقیقی معرفت کا مفید ترین ذریعہ تجربی ذریعہ ہے اور یہ کہ جس طرح عالم واقع اور عالم فطرت کے حوالے سے تجربی ذریعہ فائدہ مند ہے ، اسی طرح اسے دینی میدان میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی اللہ کی معرفت کے حصول کے لیے ، جو کہ حقیقت کلی ہے۔ ٭ انھوں نے یہ بات واضح کی کہ اسلام تجربے کی عمومی دعوت دیتا ہے، اور اس کے دینی استعمال سے منع نہیں کرتا۔ ٭ آخر میں یہ بات بھی ان سے چھوٹ نہیں گئی کہ صوفیانہ ریاضت معرفت تک لے جانے والے دینی تجربات کی نوع میں سے ہے، بالکل اسی طرح جس طرح تجربہ طبیعیاتی چیزوں کے مختلف اجزا کے ادراک میں معرفت تک لے جاتا ہے۔ ٭ اِس کے اور اُس کے بعد اقبال نے اسلام اور عیسائیت کے درمیان فرق کو واضح کیا ان کی رائے میں اگرچہ مسیحیت کا مزاج ما بعد الطبیعیاتی ہے اور روح کے میدان کی حد تک یہ معرفت پر موقوف مزاج رکھتی ہے لیکن یہ عالم خارجی سے بالکل غیر متعلق ہے۔ جب کہ اسلام اس میدان سے بڑھ کرخود فطرت تک جاتا ہے۔ یہ بات اس وقت کہی جا سکتی ہے جب ہم انسان کا اس کے ارد گرد کی دنیا یعنی مادی حسی دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے والی مخلوق ہونے کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر دیکھتے ہیں۔ ٭ اقبال دین اور سائنس کے مابین اختلاف کے دائرے کو حقیقت میں اختلاف سے کم کر کے تجربے کی نوعیت کی حد تک لے آئے ہیں۔ ٭ اسی طرح انھوں نے دنیا میں تبدیلی کے اصول کو طاقت ور انسانی تہذیب جس پر عالم استوار ہے، کی بنیاد کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ لیکن اس نے ا س تبدیلی کا دائرہ اخلاقی اقدار اور الٰہیاتی میدان سے ہٹا کر فطرت کے ساتھ محدود کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی اس تحریر میں ان غلطیوں کو بھی بیان کیا جن میں اس وضعی مذہب(مادیت) والے جا پڑے، مثلادینی الوہیت کا انکار، دینی اقدار کو تبدیلی کے اصول کے سامنے سرنگوں کرنا۔ انھوں نے یہ بات واضح کی کہ غلطی اصل میں یہ ہے کہ طبیعی چیزوں میں استعمال ہونے والے تجربے کو معرفت کی تمام اقسام کے حصول کے لیے ایک عام وسیلے کے طور پر اختیار کر لیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ انسان اسے حاصل کر سکتا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ معرفت کے حصول کی غرض سے جو ذریعہ اختیا رکرنا چاہیے وہ تجربہ ہے، لیکن یہ تجربہ حقیقت کے میدانوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ہو جاتا ہے۔ دل کا ادراک تجربے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جو یقین اور حسی ادراک کے بارے میں حقیقت کے کشف سے کم نہیں۔ یہ وضعی لوگوں کے نزدیک بہترین ذریعہ ہے۔ ٭ تو اسلام ، اقبال کی نظر میںتمام ادیان سے ممتاز ہے ، خاص طور پر عیسائیت سے، اسی طرح ما بعد الطبیعیاتی اور عقلی فلسفے سے ممتاز ہے۔ اپنے اسی امتیاز کی وجہ سے وہ اپنے مد مقابل (یعنی تجربے سے حاصل کی گئی معرفت )کے ساتھ مقابلے میں رکا نہیں رہتا ، یا وضعیت کے مقابلے میں ، جو انیسویں صدی میں قیادت کے مقام پر رہی، اس نے دین کے ساتھ جنگ کی، بالخصوص مابعد الطبیعیات اور مثالی عقلیت کے ساتھ، وہ ہماری اس بحث سے خارج ہے اس پر ہم تنقید نہیں کر رہے، نہ اسے اس کوتاہ دیدی کا طعنہ دے رہے ہیں جس کا طعنہ وضعیت نے اسے اور معرفت کے باقی مذاہب کے ساتھ ساتھ علم وحقیقت کے منابع، فلسفہ اور دین کو بھی یکساں طور پر دیا تھا۔ اقبال کی یہ بات ان کے اس فلسفے کے ساتھ موافقت رکھنے والے کومجبور کرتی ہے کہ وہ یہاں دوبارہ بات کو دہرائے کہ انیسویں صدی کی یورپی فکر کے بعض مذاہب کو نقل کرنے کے ذریعے سے فکر اسلامی کی تجدید کی بات کرنا، اور ان مذاہب اسلامی کی اہمیت کم کرنے کی غرض سے استعمال کرنا، ایک ایسے معاملے کی تردید ہے جس کا اسلامی معاشرے میں کوئی موضوع نہیںاور نہ اس کا اسلام کے ساتھ ، اس معاشرے میں رخ دینے والے منبع کی حیثیت سے کوئی تعلق ہے۔ انسانی ذات کی وحدت اور اس کا خلود اب تک ، اقبال نے مسلم انسان کے حوالے سے عالم واقعی جو کہ مادے اور طبیعیات کا عالم ہے، کی قدر وقیمت کو واضح کیا ہے۔ جیسا کہ انھوں نے وضاحت کی ہے کہ مسلمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ دریافتیں کرنے والے ایک تجربہ کار کے اتصال کی ماننداس سے منسلک ہو، تاکہ وہ اس کی قوتوں پر اپنی روحانیت کی تقویت کے لیے غلبہ حاصل کر سکے، کسی غیر محمود مقاصد کے لیے نہیں۔ انھوں نے اس قدر وقیمت کو ایک سے زیادہ نصی دلائل کے ذریعے سے مؤکد کیا، جنہیں ہم ذیل میں منتقل کر رہے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے : ٭ مسلمان اپنے دین کے معاملے میں حقیقت پسند ہے۔ ٭ وہ نہ تو عیسائی راہب ہے، او رنہ فنا کی فکر رکھنے والا صوفی۔ ٭ اس عالم میں موجود شر سے دوررہنے کے حوالے سے اس کا تصور لازم ہے کہ اس رائے کے مخالف رائے میں تبدیل ہو جائے۔ عالم مادی کے فہم میں یہ تبدیلی ان افکار میں سے ہے ، جن کے بارے میں اقبال نے اصرار کیا ہے کہ وہ لازماً تبدیل ہونے چاہییں، اور خالص اسلامی بنیاد پر ان کی تجدید ہو، اس کانام انھوں نے ’ اسلام میں دینی فکر کی تجدید ‘ رکھا ہے۔ اقبال نے یہ سب اس لیے کیا ہے تاکہ وہ مسلمان کو حقیقی زندگی کی طرف حرکت کرنے پر مجبور کریں، اور وہ اس حرکت میں مغربی آدمی کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی اپنے ہاں پائی جانے والی داخلی وحی کے ذریعے سے شامل ہو، نہ کہ اس مغربی آدمی کامقلد بنتے ہوئے ۔ اس جگہ ہم اقبال کو اس رنگ میں دیکھتے ہیں جس پر وہ انسان کی ذات کو تصورکرتے ہیں، اس کے لیے خود مختاری کو تصور کرتے ہیں، اسے مسلسل حرکت میں جدید رنگ کے ساتھ دیکھتے ہیں، وہ رنگ جو دوام میں خلود کے ساتھ مشابہ ہے اور موت کے ذریعے سے منقطع ہونے والا نہیں ہے۔ وہ مسلمان کو عالم واقعی میں دوبارہ متحرک ہونے پر ابھارتاہے اور قوت کے حصول میں کام کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ انھوں نے بیان کیا اس میں اہم بات کلی حقیقت (اللہ) کے بارے میں اور اسے پانے اور حاصل کرنے کے حوالے سے ایک ذریعے کے طور پر صوفی ریاضت کے بارے میں کی گئی بات ہے۔ اس سے ان کی مراد توازن ہے یا ان کا مقصدواقعی اور حقیقی نقصانات سے خبردار کرنا اور ان کے نتائج کے متوقع خطرات کو روکنا اور دور کرنا ہے۔جیسا کہ شخصیت کے اندر ٹھہراؤ کا پیدا نہ ہوسکنا، دل کی پاکیزگی میں کمی اورمال کے حصول کی غرض سے تلخ جدوجہد۔ زندگی انفرادی ہوتی ہے اور کلی زندگی کے لیے خارجی وجود نہیں ہے، جہاں زندگی روشن ہوتی ہے ، انسان یا فرد یا چیز کے اندر روشن ہوتی ہے، اسی طرح خالق بھی فرد ہے، لیکن وہ ایسا منفرد ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں۔۱۵؎ زندگی کی لذت خودی کے خود مختار ، مضبوط اور مستحکم ہونے اور اس کی توسیع میں ہے۔ اس حقیقت کا فہم حیات بعد الممات کی حقیقت کے فہم کے لیے تمہید ہے۔۱۶؎ ان دونصوص اور چند دوسری نصوص جن کا ذکر آگے آرہا ہے،کے ذریعے سے اقبال انسان کے بارے میں اپنے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ اسے فرد پاتے ہیںنہ کہ جماعت، یعنی جماعت اس سے تشکیل پاتی ہے نہ کہ اسے بناتی ہے، وہ جماعت کا مغز ہوتا ہے نہ کہ جماعت اس کا مغز، وہ فرد کو مستقل ذات دیکھتے ہیں ، جو غیر میں فنا نہیں ہوسکتی۔ یہاں تک کہ وہ ذات خداوندی میں بھی صوفی ریاضت کے ذریعے سے فنا ہو سکتی ہے۔جیساکہ ان لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے جنھوں نے حلاج کی بات ’أنا الحق‘ کی تفسیر ’فنا فی اللہ‘ سے کی ہے۔ وہ انسان کی ذات کو ایک ابدی اور دائمی ذات مانتے ہیں، جس کے لیے عمل میں ہمیشگی اور دوام ہے۔ اور یہ کہ موت آرام کی حالت ہے، بعث بعد الموت، سامان کو الگ کرنے کا نام ہے۔ دوزخ کوششوںکی ناکامی کی تکلیف کے ادراک کا نام ہے، جنت کمزور کردینے والی قوتوں پر قابوپانے کی خوشی کے ادراک کا نام ہے۔ اقبال نے چاہا کہ مسلمان خود ہی اپنے نفس کو اور زندگی میں اس کی قدر وقیمت کو محسوس کرے، وہ اپنے نفس کو پروان چڑھائے تاکہ وہ اسے ایک خالق قوت کے طور پر شمار کرے ، جیسا کہ وہ نیٹشے کی رائے میں ’کامیاب انسان‘ ہے۔ اس کے ہاں یہ شعور پیدا ہوتا ہے، جو اسے زندگی اور عالم واقع میں حرکت کی طرف دھکیلتا ہے، اور اب جب اس نے اس کی طرف اسلامی پہلو سے توجہ کی ہے تو وہ اسے دوبارہ بنانے والا ہو گیا ہے، اور اقبال کی رائے میںیہ شر نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی حرکت اور اس کی ذات کو نشو ونما دینے والا طبیعی میدان ہے۔ لیکن اقبال نے ایک مسلم انسان کے لیے چاہا کہ وہ طاقتور بن جائے او رزندگی کی طرف رواں دواں اور حقیقت کا متلاشی ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے ،اسلام کی تفسیر کرتے ہوئے وہ نہ صرف جمہور مفسرین کی رائے کی مخالفت کر لیتے ہیں بلکہ عربی زبان کے اسالیب پر قرآن کے نصوص کی تخریج میں تکلف کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں، اور بعض اوقات وہ تخریج میں اس تکلف کے ذریعے سے ، کوئی تاویل کرنے کی غرض سے تحریف تک جا پہنچتے ہیں۔ وحدت ذات کے حوالے سے وہ یہ بھی فرماتے ہیں: میری رائے میںانسان کا دینی اور اخلاقی ہدف اپنی خودی کا اثبات ہے نہ کہ اس کی نفی‘جتنا وہ منفرد اور تنہا ہو گا،اتنا ہی وہ اس ہدف کے قریب ہو گا۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’تخلقوا بأخلاق اللّٰہ‘ تو جتنا انسان اس وحید ذات کے مشابہ ہو گا اتنا ہی وہ منفرد ہوگا کہ اس جیسا کوئی نہ ہو، اپنی ذات پر قائم ودائم۔ پس انسان جسمانی اور روحانی دونوں پہلووں سے زندگی کا مرکز ہے جو اپنی بنیاد پر قائم ہے، لیکن جب وہ فرد کامل کے مرتبے کو جا پہنچتا ہے، اللہ کے قریب ہوجاتا ہے۔ لیکن اس قرب کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انسان اپنا وجود اللہ کے وجود میں فنا کر لے، جیسا کہ اشراقی فلسفیوں کی رائے ہے۔ یہاں تو صورت حال اس سے برعکس ہے کہ خالق اپنے آپ کو ممثل کرتا ہے۔۱۷؎ جیسا کہ وہ فرماتے ہیں: قرآن حکیم اپنے سادہ مگر پر زور اسلوب میں انسان کی فردیت اور یکتائی پر اصرار کرتا ہے اور میرے خیال میں وہ زندگی کی وحدت کے لحاظ سے انسانی تقدیر کا ایک قطعی تصور رکھتا ہے۔ انسان کی یکتائی کا یہی منفرد نظریہ اس بات کو بالکل ناممکن بناتا ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کا بوجھ اٹھائے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ہر انسان صرف اسی کا حق دار ہے جس کے لیے اس نے ذاتی کوشش کی ہو گی۔ اسی وجہ سے قرآن نے کفارے کے تصور کو رد کر دیا ہے۔۱۸؎ انسان اپنی انفرادیت او رخود مختاری کو برقرار رکھے ہوئے ہوتاہے ، صوفیانہ ریاضت اس کی یہ خود مختاری کسی صورت میں اس سے سلب نہیں کرتی۔ اسلام میں مذہبی تجربہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق صاحب تجربہ میں خدائی صفات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس تجربے کا اظہار ایسے جملوں میں ہوا ہے کہ : انا الحق ’’میں ہی تخلیقی سچائی ہوں‘‘ (حلاج) انا الدہر ’’ میں وقت ہو‘‘ ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ’’میں قرآن ناطق ہوں‘‘ (علیؓ) ’’ میں عظیم الشان ہوں‘‘ (بایزید بسطامی) ۔ اسلام کے اعلیٰ تصوف میں وحدت کا یہ تجربہ متناہی خودی کے لامتناہی خودی میں گم ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ لا متناہی خودی ہے جو متناہی کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔۱۹؎ اس خود مختار انسانی ذات کے ابدی خلود کے بارے میںاقبال فرماتے ہیں: ذات انسانی کے خلود میں ایک امید ہے،جو اسے پانا چاہے اسے چاہیے کہ وہ محنت کرے اور اس تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کرے۔ اس کا پانا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم اس زندگی میں فکر وعمل کی راہ پر چلیں، وہ توازن کے قائم رکھنے میں ہمیں مدد دے گی، بودھ مت ہمیں اس امید تک ہر گز نہیں لے جا سکتا، نہ ہی عجمی تصوف یہ کام کر سکتا ہے اور نہ ہی ان دونوں جیسا کوئی دوسرا نظامِ اخلاق۔ ان تمام راستوں نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے، ہمیں بھٹکایا ہے اور سُلا دیا ہے۔ یہ تمام مذاہب ہماری زندگیوں میں تاریک راتیں ہیں۔ اگر ہم اپنے افکار اور اعمال کے ذریعے سے ، اپنی ذات کے اندر توازن کی حالت برقرار رکھنے کی خواہش کریں، تو غالب گمان یہ ہے کہ موت کا دھکا اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔ موت کے بعد آرام کا حال اسے دیا جائے گا، جسے قرآن مجید برزخ کا نام دیتا ہے۔ یہ حال حشر تک قائم رہے گا۔ آرام کی اس مدت کے بعد صرف وہی نفوس باقی رہیں گے جنھوں نے زندگی کے دنوں میں اپنی ذات کو مستحکم کیا ہو گا۔۲۰؎ اس جگہ اقبال نفس کے خلود کو ایک شاعر کی حیثیت سے بیان کرتے ہوئے بعث او رحشر کا انکار نہیں کرتے ، اور نہ ان سے پہلے موت کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ وہ تو انسان کی انفرادیت کے خواہشمند ہیں تاکہ وہ اسے قوت کا مصدر بنا دے، وہ خواہش مند ہیں کہ وہ سوچے او رعمل کرے، دوسروں پر بھروسہ کرنا اور بھیک مانگنا چھوڑ دے۔ عمل کرنے والا قوی نفس ہی وہ نفس ہے جو اس زندگی میں زندہ رہتا ہے، اور یہی ہے جو دار الجزا میں بھی زندہ رہے گا۔ وہاں اس کے لیے موت کا مرحلہ صرف منتقل ہونے کا مرحلہ قرار پائے گا۔ یہ نفس اپنے کام میں اسی طرح جاری رہے گا۔ اپنی زندگی میں بھی جاری رہے گا یہ اس معنی میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ مسلمان کو قوت اور کام پر ابھاریں، وہ اسے بیک وقت مکمل طور پر دھکا لگائیں، لیکن اس کی ذات کے داخل سے، نہ کہ اس کے خارج سے۔ وہ قوت اور عمل کے ساتھ عشق کرتے ہیں۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ مسلمان کو ایک طاقتور اور کام کرنے والے کی صورت میں دیکھیں، جو نہ دوسروں کے سامنے جھکا ہوا ہو نہ ان پر توکل کرنے والا ہو، کیوں کہ ایک طاقتور مسلمان کمزور مسلمان سے بہتر ہے۔ خودی کی قوت سے علم زندگی پاتا ہے، زندگی اس قوت کی مقدار کے مطابق میسر ہوتی ہے، پانی کی ایک بوندجب اس کی خودی قوی ہو جاتی ہے تو وہ موتی بن جاتی ہے۔ایک پہاڑ جب اپنی ذات سے غافل ہو جاتا ہے تو وہ چٹیل میدان بن جاتاہے اور سمندر اس پر چڑھ آتا ہے۔۲۱؎ کسی دوسرے کو ملنے والی نعمت میں اپنا رزق تلاش مت کرو، پانی کی بھی بھیک نہ مانگو، حتی کہ نہ سورج کی آنکھ سے ہی ۔ اللہ سے مدد مانگو اور ایام کے ساتھ جہاد میں بر سر پیکار رہو۔ ملت بیضا کے چہرے کی رونق نہ اجاڑو۔ اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جسے پیاس اور دھوپ کی تمازت سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن وہ سبزے سے زندگی کا پانی حاصل کرنے کے لیے دست سوال دراز نہ کرے۔۲۲؎ اس معنی میں نہ کہ موت سے انکار کے معنی میں او رنہ عالم کے فنا کے معنی میں یا بعث کے عدم موجود ہونے کے معنی میں۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں: متناہی ہونا بدقسمتی کی بات نہیں: إِن کُلُّ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِیْ الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۔ لَقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا۔ وَکُلُّہُمْ آتِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْداً۔ (مریم ۱۹:۹۳-۹۵) ’’آسمانوں اور زمین میں کوئی نہیں کہ وہ بندہ ہو کر اس کے ہاں نہ آئے۔ اس نے سب کچھ گھیر رکھا ہے اور انھیں گن رکھا ہے اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلا اکیلا آنے والا ہے۔‘‘ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے اور اسلام کے نظریۂ نجات کے بارے میں ایک شفاف بصیرت حاصل کرنے کے لیے اس کو صحیح طریقے سے جاننا بہت ضروری ہے۔ اپنی فردیت کے ناقابل تغیر اکلاپے کے ساتھ متناہی خودی، لا متناہی خودی کے سامنے پیش ہو گی، تاکہ اپنے ماضی کے اعمال کے نتائج دیکھ لے۔ وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآئِرَہُ فِیْ عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَاباً یَلْقَاہُ مَنشُوراً۔ إِقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْْکَ حَسِیْباً.(بنی اسرائیل ۱۷:۱۳-۱۴) ہر انسان کے مقدر کا طوق ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے اور ہم روز حساب اس کے اعمال کی کتاب نکالیں گے جو ایک نوشتہ ہو گا اور اسے کہا جائے گا کہ اس کتاب کو پڑھو اب تو خود اپنا احتساب کرنے کے لیے کافی ہے۔ انسان کا حتمی مقدر جو کچھ بھی ہو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اپنی انفرادیت کھو دے گا۔ قرآن نے انسان کی مسرت کی انتہائی حالت متناہیت سے مکمل آزادی کو قرار نہیں دیا۔ انسان کا اعلیٰ ترین مقام اس کی انفرادیت اور ضبط نفس میں بتدریج ارتقا اور خودی کی فعالیت کی شدت میں اس قدر اضافہ ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے کی عالمگیر تباہی بھی اس ارتقا یاب خودی کے کامل سکون کو متاثر نہیں کر سکے گی۔ وَنُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَائَ اللَّہ. (۶۸:۳۹) ’’اس دن جب صور پھونکا جائے گا اور وہ سب مر کر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں سوائے ان کے جنھیں اللہ زندہ رکھنا چاہے گا۔‘‘ یہ استثنیٰ کس کے لیے ہے؟ یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کی خودی اپنی شدت کے نقطۂ عروج پر ہو گی۔ ترقی کا یہ ارفع مقام صرف اس صورت میں آتا ہے جب خودی اپنے آپ کو مکمل طور پر خود برقرار رکھ سکے گی: اس صورت میں بھی جب خودی کا براہ راست تعلق سب پر محیط خودی سے ہو گا جیسا کہ قرآن حکیم ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خودی مطلق کے دیدار کے بارے میں کہتا ہے: مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی. (النجم ۱۷: ۵۳) ’’نہ نگاہ ہٹی اور نہ اس نے تجاوز کیا۔‘‘ ایک مثالی اور مکمل انسان کا اسلام میں یہی تصور ہے۔ قرآن مجید کی نظر میں، انسان کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ کائنات کے مفہوم سے اپنے آپ کو منسلک کرکے ابدی ہو جائے۔ کیوں کہ وجود میں آنے کا عمل کروڑوں سال میں مکمل ہوا۔ اس بات کا ہرگز احتمال نہیں کہ اسے یونہی پھینک دیا جائے گا جیسے کوئی سامان پھینکا جاتا ہے۔ نہیں وہ ایسا نہیں ہے، وہ ایسا نفس ہے جو تسلسل کے ساتھ اپنا تزکیہ کر رہا ہے، جب کہ اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ کائنات کے معنی کے ساتھ منسوب ہو۔ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا۔ فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا۔ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا۔ (الشمس۹۱: ۷-۱۰) ’’نفس گواہی دیتا ہے اور جیسا اسے سنوارا، پھر اس کی نیکی اور بدی اس کو سمجھا دی کہ مراد کو پہنچ گیا وہ جس نے اس کا پاک کیا، او رنامراد ہوا وہ ، جس نے اسے آلودہ کیا۔‘‘ تونفس کا تزکیہ اور فساد سے اس کی رہائی کیسے ممکن ہو گی؟ وہ تو عمل کرنے سے ہی ہو سکتی ہے، اللہ کا ارشاد ہے: تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ ۔ الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ۔ (الملک۶۷: ۱،۲) ’’بہت بزرگ اور فیض رساں ہے وہ پروردگار جس کے ہاتھ میںعالم کی پادشاہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی جس نے موت او رزندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔‘‘ پس زندگی نفس کے عمل کے لیے میدان مہیا کرتی ہے، اور موت عملی سرگرمی میں پہلی آزمائش ہے ۔ اس دنیا میں ایسے کوئی اعمال سر انجام نہیں دیے جاسکتے جولذت کو دائمی کرسکیں، نہ ایسے اعمال جو درد کو دائمی کر سکیں۔ بلکہ ایسے اعمال ہیں جو نفس کے لیے بقا لازم کرنے والے ہیں یا اس کے لیے فنا لازم کرنے والے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمل ہی وہ چیز ہے جو نفس کو فناکے لیے تیار کرتی ہے یا مستقبل کی زندگی کے لیے کفایت کرتی ہے۔ وہ عمل جو زندگی کے لیے بقا لازم کرتا ہے وہ : میرا او رمیرے علاوہ دوسرے لوگوں کا احترام ذات ہے۔ اس پر دیکھیں تو خلود ہمیں ایک حقدار کی حیثیت سے حاصل نہیں ہوتا ، بلکہ اس تک ہم ذاتی کوشش سے پہنچتے ہیں۔ مادیت کی سب سے مایوس کن غلطی یہ مفروضہ ہے کہ متناہی شعور اپنے موضوع کا ہر طرح سے مکمل احاطہ کرلیتا ہے۔ فلسفہ اور سائنس موضوع تک پہنچنے کا محض ایک ذریعہ ہیں۔ موضوع تک پہنچنے کے کئی اور راستے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ اگر ہمارے اعمال نے خودی کو اس قدر مستحکم کردیا ہے کہ ہمارے جسم کے ختم ہونے پر بھی یہ برقرار رہ سکے تو موت بھی ایک راستہ ہے۔ قرآن اس راستے کو برزخ کہتا ہے۔۲۳؎ تلاش کوئی ایسا حادث نہیں ہوتی جو ہمیں خارج سے ملتی ہو، وہ تو نفس کے داخل میں زندگی کی حرکت کے لیے اوجِ کمال ہے، چاہے آخرت میں دوبارہ زندہ کیا جانا فرد کے لیے ہو یا کائنات کے لیے، اس لیے کہ وہ تو سامان کو ترتیب میں لانا یا اسے گننے کاعمل ہے، ان اعمال کے لیے جو نفس سرانجام دے رہا ہے ، یا انھیں سر انجام دینے کاامکان اس کے لیے باقی ہے۔ ’’تاہم قرآن کی تعلیمات کے مطابق انسان کو جب دوبارہ اٹھایا جائے گا تو اس کی نظر بہت تیز ہو گی (۵۰:۲۲) جس کے باعث وہ صاف طور پر اپنی گردن میں پڑی ہوئی خود اپنے اعمال سے بنائی ہوئی تقدیر کو دیکھ لے گا۔ جنت اور دوزخ دونوں حالتیں ہیں مقامات نہیں۔ قرآن میں ان کی تصویر کشی انسان کی داخلی کیفیت یعنی کردار کا بصری اظہار ہے۔ قرآن کے الفاظ میں دوزخ دلوں پر مسلط خدا کی دہکائی ہوئی آگ ہے جو انسان کو اس کی ناکامی کے اذیت ناک احساس میں مبتلا رکھتی ہے اور جنت انسانی خودی کو تباہ کرنے والی قوتوں پر قابو پانے کا احساس کامرانی و شادمانی ہے۔ اسلام میں ابدی عذاب ایسی کوئی چیز نہیں۔ بعض آیات میں دوزخ سے متعلق ’ہمیشہ‘ (خالدین) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قرآن نے کئی اور مقامات پر خود واضح کر دیا ہے کہ اس کا مطلب بھی ایک مخصوص عرصہ ہے۔ انسانی شخصیت کے ارتقا سے وقت کو بالکل غیر متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیرت کا رجحان پختگی کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا نئی صورت میں ڈھلنا وقت کا تقاضا کرتا ہے۔ دوزخ، جیسا کہ بیان کیا ہے، ایسا گڑھا نہیں جو ایک منتقم مزاج خدا نے انسان کو مستقلاً عذاب دینے کے لیے بنایا ہے بلکہ یہ انسان کی اصلاح کا تجربہ ہے جو خدا کی رحمت کے حصول کے لیے ایک پتھرائی ہوئی خودی کو زیادہ حساس بنا سکتا ہے۔ نہ ہی جنت کوئی تعطیل ہے۔ زندگی یکتا اور متسلسل ہے۔ انسان ہمیشہ حقیقت مطلقہ سے تازہ روشنی حاصل کرنے کے لیے آگے کی سمت بڑھتا رہتا ہے جو ہر لحظہ نئی آن اور نئی شان سے ظاہر ہوتی ہے اور خدا سے روشنی کا حصول محض انفعالی نہیں۔ آزاد خودی کا ہر عمل ہر دم ایک نئی صورت حال پیدا کرتا ہے اور یوں وہ تخلیقی کشود کے مزید مواقع فراہم کرتا ہے۔۲۴؎ انسان کی زندگی میں اس اتصال کے ذریعے سے، اقبال نے دنیا اور آخرت کے مابین دوری کو کم کیا ہے او رانسانی زندگی کو ایک ایسے راستے سے تعبیر کیا ہے جسے وقت ختم نہیں کر سکتا، اور اسے مسلسل عمل کے ایک نئے میدان سے تعبیر کیا ہے۔ وہ عقائد جو اسلام نے دیے ہیں: بعث بعد الموت، حشراور برزخ وغیرہ جو کہ تاریخ وجود میں ایک کڑی تصور کیے جا سکتے ہیں، ان پر ایک زندگی اختتام پذیر ہوتی ہے اور دوسری شروع ہوتی ہے، یہ مرحلۂ ابتلا کی تصویر ہیں، انسان کے سابقہ اعمال کی گنتی ہیں، جس کے بعد زندگی کے تسلسل کامرحلہ آتا ہے اور اس کے بعد نئے سرے سے انسانی عمل کی حرکت کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے عقائد بھی اسلام نے بیان کیے ہیں مثلا جنت اور دوزخ وغیرہ، جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ دوسری زندگی کے لیے ، اس دنیا وی زندگی میں رہنے والی جگہوں سے الگ مستقل جگہیں ہیں، ان کا بیان اس انسانی شعور کی تصویر کشی کے لیے آیا ہے، جو انسان کے اپنے دائرہ میں حرکت اور عمل کے شمار کے نتیجے کی نوعیت کے ساتھ منسلک ہے۔ جب کہ جنت انسان کے شعور، بقا اور ماضی میں کی گئی جدوجہد میں کامیابی کے شعور کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ دوزخ، انسان کی امید کے ناکام ہونے اور ماضی میں کی گئی جدوجد کے رائگاں جانے کے شعورکے علاوہ کچھ نہیں۔ اس بات کا معنی یہ ہے کہ جو گزرے وقت میں ناکام ہوا، وہ اپنی نئی جدوجہد میں کامیاب ہوجائے اور بقا اور خلود کا شعور حاصل کرلے، یا اس کے لیے نئے سرے سے جنت مل جائے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ امید کی ناکامی وقتی ہے اوردوزخ ہمیشہ کے لیے نہیں ، بلکہ ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہے۔ وہ دائمی اور ہر آن نئی شان والی زندگی، مسلسل عمل، پیہم جدوجہدہے۔ اس میں نہ کوئی تکرار ہے، نہ دائرے میں گھومنے والے مدار میں حرکت، بس ایک خطِ مستقیم ہے جس کی کوئی انتہا نہیں، عالم وجود میں انسانی میدان عمل کو صرف اسی سے تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ذات کی فردیت مٹائی نہیں جا سکتی، اس کا وجود بوسیدہ نہیں ہو سکتا، لا متناہی (لا مکان) سے اس کا قرب، اس کی اپنے کام میں روانی کی حرکت کی غایت، اس قرب کے بعد کوئی انتہا نہیں، کیونکہ لا متناہی ذات، اپنے وجود اور تخلیق میں دائمی ہے۔ اس سارے تصور کے ذریعے سے اقبال، انسان اور اس کی زندگی کی تصویر کشی کرتے ہیں، تاکہ انسان اس لیے عمل کرے کہ اس کی زندگی کی کوئی انتہا نہیں، اور اس لیے کہ اپنے اندر سے ناامیدی کو اس وقت تک کے لیے نکال دے جب تک وہ جد وجہد کا فریضہ پورا کر رہا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے کوشاں ہے۔ اس کی امید کے ناکام ہونے اور مسلسل کوشش میں رہنے میں اس کے لیے ’ابدیت‘ ایک صفت کے طور پر پوشیدہ ہے، یہ صفت اس میں اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ اس کوشش میں رہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اقبال نے قرآن مجید کی ان مذکورہ نصوص سے یہ معنی کیسے مراد لیا ہے؟ بظاہر یہ معنی لینے میں انھوں نے اپنے سے ماقبل کئی مفسرین کی رائے کی مخالفت کی ہے، تو اس سوال کے جواب میں ہم ، اقبال کی تجدیدی اصلاحی فکر پر ’اقبال میری رائے میں‘ کے عنوان کے تحت تبصرہ کرتے ہوئے اپنی رائے بیان کریں گے۔ اس سے پہلے ہم ان کی بات کو مکمل طور پر بیان کریں گے۔ کلی ذات کلی ذات کے حوالے سے اقبال یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ حقیقت وجود ہے، یا پھر وحدت الوجود، اور اس کے وجود کی دلیل تجربہ ہے، لیکن یہ دین میں تجربہ ہے نہ کہ فطرت میں۔ جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ عالم طبیعی اور واقعی سے الگ نہیں، اس معنی میں نہیں کہ وہ اس میں جسمانی شکل میں ہے بلکہ اس معنی میں کہ اس کی ذات کی تجلی اس میں نظر آتی ہے۔ یہ کائنات یہ عالم طبیعی وواقعی اس وقت تک باقی رہے گا جب تک یہ اللہ کی تجلی ہے۔ (ہیگل کا زاویۂ نظر) پہلی ذات ہمیشگی میں پائی جاتی ہے، اس میں ایسا تغیر نہیں پایا جاتا کہ ایک حال کے بعد دوسرے احوال اس سے مخالف آئیں۔ ذات ،مسلسل تخلیق میں ہونے کو اپنی حقیقی صفت کے طور پر پاتی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے : وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ (سورۃ ق ۵۰: ۳۸) ’’اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہ ہوئی۔‘‘ لاَ تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلاَ نَوْمٌ (البقرۃ۲: ۲۵۵) ’’اسے نہ اونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیند‘‘ تو اللہ کا وجود اس کی ذات کی تجلی ہے، نہ کہ اعلی مثل کے پیچھے بھاگنا، جب کہ مقصد اس تک پہنچنا ہو، انسان کے حوالے سے جس کا معنی کوشش اور طلب ہے ، اور بعض اوقات اس کا معنی متحرک ہونا ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ کے حوالے سے جو ابھی تک نہیں ہوا، اس کا معنی ’ایک حق جو ابھی تک امکان وجود میں نہیں آیا ہے۔ یعنی اس امکانِ وجود میں جو خالق کے لا محدود امکانیات، جو اپنی کامل مکمل وحدت کے وجود میںاس کی تجلی کے ذریعے سے حفاظت کرتے ہیں۔۲۵؎ ’’اب ہم اس مقام پر ہیں کہ اس آیت کا مطلب سمجھ سکیں: وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ أَرَادَ أَن یَذَّکَّرَ أَوْ أَرَادَ شُکُوراً. (الفرقان ۲۵:۶۲) ’’اور یہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا دیا ہے ان کے لیے جو خدا کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں او رخدا کا شکر ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘‘ تواتر زمانی کا اظہار جس طرح ہماری ذات میں ہوتا ہے اس کی تنقیدی تعبیر ہمیں حقیقت کے اس تصور تک لے جاتی ہے کہ وہ ایک خالص استدام ہے جس میں فکر و حیات اور غایت ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہو کر ایک عضویاتی وحدت قائم کرتے ہیں۔ ہم اس وحدت کا ادراک نہیں کر سکتے ما سوا اس کے کہ ہم اسے وحدت نفس گردانیں جو سب پر محیط ایک موجود فی الخارج نفس ہے اور جو تمام افراد کی زندگی اور فکر کا منبع مطلق ہے۔۲۶؎ کلی ذات کوئی ایسی ذات نہیں جو اس عالم سے الگ تھلگ ہو، اور یہ عالم بھی اس کا غیر نہیں۔ پہلی ذات ، قرآن مجید کی تعبیر میں جہانوں سے غنی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: فَإِنَّ اللّٰہ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ (اٰل عمران۳:۹۷) ’’پس وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے‘‘ جب کہ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ یہ دعوی نہیں کر سکتا ہے کہ یہ اس کے مقابلے میں دوسری ذات ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو لازم تھا کہ پہلی ذات ، ہماری متناہی ذاتوں جیسی ہو، اس کے اور دوسروں کے مابین مکانی نسبت ہو۔ جسے ہم فطرت یا دوسری ذات کا نام دیتے ہیں، وہ اللہ کے وجود کے مقابلے میں سوائے ایک گزرنے والے لمحے کے کچھ نہیں، اللہ کا وجود اس کی اپنی ذات سے ہے نہ کہ ا س کے غیرسے، وہ ایک ازلی مطلق وجود ہے۔ ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم اس ذات کا مکمل تصور کر سکیں۔ وہ ذات جیسا کہ قرآن مجید بیان کرتا ہے: لَیْْسَ کَمِثْلِہِ شَیْْء ٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ۔ (الشوریٰ۴۲ :۱۱) ’’کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے ، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ عقل کے لیے تو یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ ایک وجود کا تصور کر سکے کجا یہ کہ وہ اس کے ساتھ کسی صفت کو بھی ملحق کرے۔یعنی سلوک سے ہٹے ہوئے راستے کے علاوہ۔ فطرت، جیسا کہ ہم نے دیکھا، خالص مادیت سے بنا ہوا کوئی ڈھیر نہیں ہے جو فراغت کے اوقات میں مشغول کرنے والا ہو، بلکہ یہ حوادث یا سلوک کے منتظم منہج سے بنی ہوئی ہے ۔اور یہ اپنے اس وصف کے ساتھ پہلی ذات کے لیے بنیادی ہے۔ فطرت الٰہی ذات کے حوالے سے ویسی ہی ہے جیسے نفس انسانی کے لیے ایک صفت ہے۔ اور یہ قرآن مجید کی شاندار تعبیر کے مطابق اللہ کی سنت ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: سُنَّۃَ اللَّہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً (الفتح۴۸:۲۳) ’’یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘ اس حوالے سے دیکھیں تو جو رائے ہم نے بنائی ہے، ایک نیا روحانی معنی دیتی ہے، وہ یہ کہ: فطرت کا علم ہی اللہ کی سنت کا علم ہے،فطرت کے مشاہدے سے درحقیقت ہم مطلق ذات کے ساتھ ایک قسم کا مضبوط رشتہ استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ عبادت کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔۲۷؎ اس کے بعد اقبال اللہ کی ذات سے عالم طبیعی کے عدم غیر ہونے کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ وہ یہ فرماتے ہیں: وہ بنیادی سوال جس کا ہم جواب دینا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کیا کائنات خدا کی ذات سے مقابل کوئی غیرذات ہے اوردونوںکے درمیان کیا کوئی بعد مکانی موجود ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ الوہی نقطہ نظر سے تخلیق کوئی ایسا خاص واقعہ نہیں جس کا کوئی ما قبل اور کوئی ما بعدہو، کائنات کو ایسی خود مختار حقیقت تصور نہیں کیا جا سکتا جو خدا کے متقابل موجود ہو، کیوں کہ یہ نقطۂ نظر خدا اور دنیا کو دو ایسی اکائیوں میں بدل دیتا ہے جو لا متناہی مکان کی وسعتوں میں ایک دوسرے کے بالمقابل پڑے ہوں۔ قبل ازیں ہم دیکھ چکے ہیں کہ زمان ومکان اور مادہ ، خدا کی آزادانہ خلاق توانائی سے متعلق فکر کی محض مختلف تعبیرات ہیں۔ وہ قائم بالذات نہیں بلکہ حیات خداوندی کی تفہیم کے عقلی پیرائے ہیں۔ ایک بار معروف بزرگ حضرت بایزید بسطامی کے مریدں میں تخلیق کا سوال سامنے آیا۔ ایک مرید نے فہم عامہ کے نقطہ نظر کے مطابق کہا: ایک ایسا لمحہ وقت تھا جب خدا ہی موجود تھا اور خدا کے سوا کچھ نہ تھا، جواباً حضرت با یزید بسطامی نے فرمایا: ’’اب بھی تو وہی صورت ہے جو اس وقت تھی۔‘‘ یہ مادی دنیا کوئی ایسا مواد نہیں جو خدا کے ساتھ ہمیشہ سے تھا اور خدا گویا فاصلے پر بیٹھا اس پر عمل پیرا ہے۔ بلکہ اس کی حقیقی فطرت تو ایک مسلسل عمل کی ہے جسے فکر نے الگ تھلگ چیزوں کی کثرت میں بانٹ رکھا ہے۔۲۸؎ قرآن حکیم کا ارشادہے: یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ مَا یَشَاء (فاطر۳۵:۱) ’’خدا اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔‘‘ جوہر کی حقیقت اس کی ہستی سے الگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہستی ایک صفت ہے جو جوہر کو خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے۔ اس صفت کو پانے سے قبل جوہر خدا کی تخلیقی توانائی کے طور پر گویا خوابیدہ پڑا ہوتا ہے۔ اس کے ہست میں آنے سے مراد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ خدا کی تخلیقی توانائی مشہود ہوگئی ہے۔۲۹؎ اگر صورت حال ایسی ہے کہ کلی ذات ،عالم واقعی سے الگ کوئی چیز نہیں ہے اور اگر عالم واقعی کوئی جامد مادہ نہیں ، بلکہ وہ اللہ کی تخلیق کے تصور کے مسلسل ہونے والے واقعات کی ترتیب کا نام ہے، اس کے تصور کی تجلی کا نام ہے ، تو انسان کے فہم میں اس کی اصل اور اس کے مستقبل کا نئی سطح تک بلند ہونا، ایک ہی بات ہے۔ وہی ہے جو آخر کار ایک ایسے معاشرے میںکامیابی کا کفیل ہے، جسے ایک مقابلے کی بگٹٹ دوڑ چلا رہی ہے، اور ایک ایسے معاشرے پر کامیابی کا کفیل ہے جو دینی اقدار اور سیاسی اقدار کے مابین ہونے والے مقابلے کا میدان بننے کے باعث اپنی روحانیت کھو چکا ہے۔ یہ تو ایک پہلو ہے جب کہ ایک دوسرے پہلو سے ہم یہ کہیں گے کہ اگر اللہ اور اس مادی عالم کے مابین غیریت یا انفصال ہے تو اس کے ما بین اتحاد کرنے والی کوئی چیز نہیں، اس کے ساتھ ساتھ ایک انسان کبھی بھی ذات الٰہی کا فرد بن نہیں سکے گا، خواہ وہ اس ذات کو کتنا ہی کیوں نہ پالے۔ اور اس کا اس ذات کو قریب میں پانا، لازماً اسے دور کر دے گا کہ وہ حقیقت پسندی میں ڈوب جائے، یعنی ظاہری حس کے مصدر میں، نہ کہ وہ اس کے اور اس کے متحرک ہو نے اور اس کی قوتوں پر تسلط حاصل کرسکنے کے مابین حائل ہو۔ ٭ اقبال ایک پہلو سے ذات الٰہی اور ایک دوسرے پہلو سے انسان اور عالم واقعی کے مابین تعلق قائم کرتے ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ حقیقت پسندی اور روحانیت کے مابین تعلق قائم کریں ٭ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلام میں اشراقی تصوف کو ابتدائی زمانۂ اسلام کے زہد میں تبدیل کر دیں۔ اس میں سے دنیا سے فرار کو نکال دیںاور اس میں سے اللہ کے ساتھ اتحاد کو ہٹا دیں۔ ٭ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس دور کی جدید حقیقت پسندی، جس نے انسان کو عالم کی قوتوں پر تسلط دیا ہے، جو اس سے پہلے اسے حاصل نہ تھا، لیکن اس نے اس کا ایمان ، انجام کے ساتھ منسلک کر دیا ہے، وہ اسے (حقیقت پسندی کو)ایک ایسی حقیقت پسندی میں تبدیل کر دیں، جو انسان کو اس کے نہاں خانہ وجودسے اللہ کے ساتھ منسلک کردے، تا کہ مال کے ساتھ اس کی محبت حد سے بڑھی ہوئی نہ رہے، ایسی محبت جو دھیرے دھیرے اس کے اندر سے دفاع کی قوت کو ختم کر دیتی ہے، اور اس کے پاس سوائے زندگی کی تھکن کے کچھ باقی نہیں رہتا۔ اقبال کی نظر میں ذات الٰہی یعنی وحدت الوجود یا کلی حقیقت تک پہنچنے کا راستہ صرف دین ہے نہ کہ سائنس۔کیوں کہ سائنس فطرت کی جزئیات کو تلاش کرتی ہے، ان میں سے ہر جزو کا خاص علم ہے، جب ہم فطرت یا اس کی جزئیات کے علوم کے ما بین ترتیب کو تلا ش کرنے لگیں، تو ہم نہیں پا سکیں گے۔ تو ثابت ہوا کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دین کو کل سمجھتے ہوئے ، اس میں عبادت یعنی نماز کوحقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھیں۔ ’’اب سوال یہ ہے کہ حقیقت تک رسائی کا راستہ جو حواس کا مرہون منت ہے کیا اس حقیقت مطلق تک پہنچتا ہے جو لازمی طور پر مذہب کی حقیقت مطلق سے مختلف ہے۔ کیا فطری علوم آخرش مادیت سے وابستگی رکھتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کے نظریات قابل اعتماد علم کی تشکیل کرتے ہیں کیونکہ وہ قابل تصدیق ہیں اور ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم فطرت کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں اور اسے قابو میں رکھ سکیں ۔ مگر ہمیں یقینا یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ جسے ہم سائنس کہتے ہیں وہ حقیقت تک رسائی کا کوئی واحد منظم ذریعہ نہیںہے بلکہ یہ فطرت کے جزوی مطالعات کا ایک مجموعہ ہے۔ ایک کلی تجربے کے جزوی مطالعات جو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔ فطری علوم کا تعلق مادہ، زندگی اور ذہن سے ہے لیکن جونہی آپ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مادہ، زندگی اور ذہن کس طرح آپس میں متعلق ہیں تو آپ کو ان علوم کے جزوی رویوں کا یقین ہو جاتا ہے اور اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ان علوم میں سے کوئی بھی علم آپ کے سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ حقیقتاً ان علوم کی حیثیت فطرت کے مردہ جسم پر منڈلانے والی گدھوں کی سی ہے جو اس کے جسم سے گوشت کے مختلف ٹکڑے ہی حاصل کر سکی ہیں۔ سائنس کے موضوع کے طور پر فطرت ایک مصنوعی سی بات بن جاتی ہے۔ اسی تصنع کی وجہ وہ انتخابی عمل ہے جو سائنس کو اپنے نتائج میں حتمیت حاصل کرنے کی خاطر اپنانا پڑتا ہے۔ جس لمحے آپ سائنس کے موضوع کو مکمل انسانی تجربے کے پس منظر میں دیکھتے ہیں وہ اپنا ایک بالکل مختلف کردار ظاہر کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ مذہب، جو حقیقت کو کلی طور پر جاننا چاہتا ہے اور جو انسانی تجربے کی کلیت میں یقینی طور پر ایک مرکزی مقام رکھتا ہے، کو حقیقت کے کسی جزوی نقطئہ نظر سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔ فطری علوم اپنی فطرت میں جزوی ہیں۔ اگر یہ علوم اپنی فطرت اور اپنے وظیفے کے بارے میں سچے ہیں تو وہ کلی نہیں ہو سکتے اور نہ کوئی ایسا تصور قائم کر سکتے ہیں جو حقیقت کے کلی تصور پر مشتمل ہو۔ لہٰذا علم کی تشکیل میں جو تصورات ہم کام میں لاتے ہیں ،وہ اپنی نوعیت میں جزوی ہوتے ہیں اور ان کا اطلاق کسی تجربے کی مخصوص سطح کی مناسبت سے اضافی ہوتا ہے۔۳۰؎ جب دین ہی ذات کلی کی معرفت کا ذریعہ ہے تو، اقبال کی نظر میں، اس میں عبادت بالخصوص نماز ہی کلی ذات کے قریبی ادراک تک داخلے کا راستہ ہے۔ ’’مذہب محض تصورات پر قناعت نہیں کرتا۔ یہ اپنے مقصود کے زیادہ گہرے علم اور اس کی قربت کا خواہاں ہوتا ہے ۔ وہ ذریعہ جس سے یہ قربت حاصل ہوتی ہے عبادت یا نماز ہے جو روحانی تجلی کا باعث بنتی ہے۔۳۱؎ تو دعا اپنی اصل میں جبلی ہے۔ علم حاصل کرنے کی حیثیت سے دعا کا عمل تفکر سے مشابہت رکھتا ہے لیکن اپنی اعلی ترین صورت میںیہ مجرد فکر سے کہیں زیادہ ہے ۔ دعا اپنی انتہا میں تفکر کی طرح ہے۔ یہ اپنے عمل میں انجذاب واکتساب ہے۔ تاہم مدعا کا اکتسابی عمل بعض اوقات بڑھ کر ایسا نقطۂ ارتکاز بن جاتا ہے کہ فکر خالص کے لیے اس کی حیثیت اجنبی رہتی ہے۔ فکر میں ذہن مشاہدہ کرتا ہے اور حقیقت کی کار گزاری کو دیکھتا ہے۔ دعا کے عمل میں یہ سست خرام کلیت کے متلاشی کے بطور اپنا کردار ترک کر دیتا ہے اور حقیقت کی زندگی میں ایک شعوری کردار ادا کرنے کے نقطہ نظر سے اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے فکر سے بلند تر اٹھتا ہے ۔ اس امر میں کچھ بھی پر اسرار نہیں ۔ دعا روحانی تابندگی کے لیے ایک معمول کا عمل ہے جس کے ذریعے ہماری شخصیت کا چھوٹا جزیرہ زندگی کے بڑے کل میں اچانک اپنا مقام پا لیتا ہے۔۳۲؎ درحقیقت دعا فطرت کے عقلی مشاہدے کا حتمی تتمہ تصور کی جانی چاہیے۔ فطرت کا سائنسی مشاہدہ ہمیں حقیقت کے کردار سے قرب عطا کرتا ہے او ریوں ہمارے اندرونی ادارک کو اس کے گہرے وقوف کے لیے تیز کرتا ہے۔۳۳؎ کائنات کے دہشت ناک سکوت میں انسان کی انفرادی یا اجتماعی عبادت اس کے باطن کی اس تمنا سے عبارت ہے کہ کوئی اس کی پکار کا جواب دے۔ یہ دریافت کا ایک منفرد عمل ہے جس میں خودی اپنی مکمل نفی کے لمحے میں اپنا اثبات کرتی ہے اور یوں کائنات کی زندگی میں ایک متحرک عنصر کی حیثیت سے اپنی قوت اور جواز کی یافت کرتی ہے۔ عبادت میں ذہنی رویے کی نفسیات ہی کے عین مطابق اسلام کی عبادات کی نفی اور اثبات کے رموز موجود ہیں۔۳۴؎ ٭ اس سے معلوم ہوا کہ دین بالخصوص عبادت ‘ اور صوفی کی اپنی نماز سے ریاضت اس سے بھی خاص طور پر، انسان کے علم کے لیے اوروجود پر اس کے وقوف کے لیے اس کی کئی جزئیات ہونے کے باوجود ، اس کے ایک عالم اصل اور کلی حقیقت ہونے کے باوجوداس کے لیے ضروری منبع ہیں۔ ٭ دین حس اور معرفت انسانی کے تیسرے منبع ’انسانی تاریخ‘ کے تجربے کو مکمل کرنے والی چیز ہے۔ ٭ قرآن مجید نے ان تینوں منابع کا ذکر کیا ہے۔ قرآن مجید نے، سورج ، چاند، سائے کے پھیلنے ، رات اور دن کے فرق میں سے جن کا ذکر کیا ہے وہ حسی تجربے کا حکم دینے والی چیزیں ہیں۔ اس کے علاوہ جو رنگوں اور زبانوں کے اختلاف اور دنوں کے الٹ پھیر کا ذکرکرتا ہے، وہ حقیقت کو دریافت کرنے کے لیے تاریخ کے استعمال کی دعوت ہے۔ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- علامہ محمد اقبال، تجدید فکریات اسلام ،مترجم: ڈاکٹر وحید عشرت، نظرثانی: ڈاکٹر عبدالخالق، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص۲۱-۲۲۔ ۲- ایضاً، ص۲۲۲۔ ۳- ایضاً، ص۲۲۲-۲۲۳۔ ۴- ایضاً، ص۲۱۱۔ ۵- ایضاً، ص۲۲۳۔ ۶- ایضاً، ص۲۱۱۔ ۷- دکتور عبد الوہاب عزام، محمد اقبال: سیرتہ وفلسفتہ وشعرہ ،مطبوعات الباکستان ، ۱۹۵۴، ص۵۶-۵۷۔ ۸- تجدید فکریات اسلام ، ص۲۲۔ ۹- ایضاً، ص۲۳۴۔ ۱۰- ایضاً۔ ۱۱- ایضاً، ص۲۳۰۔ ۱۲- ایضاً، ص۳۱۔ ۱۳- ایضاً، ص۳۴۔ ۱۴- ایضاً، ص۳۰-۳۱۔ ۱۵- محمد اقبال: سیرتہ و فلسفتہ و شعرہ ، ص۵۶۔ ۱۶- ایضاً، ص۲۵۴۔ ۱۷- ایضاً، ص۶۵۔ ۱۸- تجدید فکریات اسلام ، ص۱۱۹۔ ۱۹- ایضاً، ص۱۳۳۔ ۲۰- محمد اقبال: سیرتہ و فلسفتہ و شعرہ ، ص۵۸۔ ۲۱- ایضاً، ص۷۴۔ ۲۲- ایضاً، ص۷۸۔ ۲۳- تجدید فکریات اسلام ، ص۱۴۰-۱۴۲، ۱۲۶-۱۲۷۔ ۲۴- ایضاً، ص۱۴۸-۱۴۹۔ ۲۵- ایضاً، ص۷۸۔ ۲۶- ایضاً، ص۷۴۔ ۲۷- ایضاً، ص۷۵۔ ۲۸- ایضاً، ص۸۶-۸۷۔ ۲۹- ایضاً، ص۸۹۔ ۳۰- ایضاً، ص۶۰-۶۱۔ ۳۱- ایضاً، ص۱۱۰-۱۱۱۔ ۳۲- ایضاً۔ ۳۳- ایضاً، ص۱۱۱۔ ۳۴- ایضاً، ص۱۱۳۔ ئ……ئ……ء اقبال، ابن عربی اور وحدت الوجود ڈاکٹر علی رضا طاہر علامہ محمد اقبال تصوف کے ناقد بھی رہے اور معترف بھی۔ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے The Development of Metaphysics in Persia میں انھوں نے تصوف پر بحث کی۔ اس مقالے میں انھوں نے وحدت الوجود کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس تصور کے ناقد نہیں ہیں۔ ان کا یہ موقف قیامِ یورپ تک رہا۔ پھر یورپ سے واپسی سے لے کر ۱۹۱۹ء تک وہ اس نظریے پر تحقیق و تنقید کرتے رہے۔ پہلے دور میں وہ ابن عربی کے مداح نظرآتے ہیں اور دوسرے دور میں شدید ناقد۔ ان ادوار کے بعد ان کے خیالات میں نہ تنقید کی شدت نظر آتی ہے اور نہ تحسین کی۔ ان مباحث میں علامہ کا انحصار ابن عربی کے خیالات پر رہا لیکن انھیں ابن عربی کو براہِ راست پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ابن عربی کی فتوحات اور فصوص کی بعض عبارتوں پر اپنے سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم ابن عربی کی شخصیت بہرحال اُن کے نزدیک قابلِ احترام تھی اور وہ ان کے عظیم خیالات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ اپنے ایک مقالے ’’ابن عربی اور اقبال‘‘ میں جناب محمد سہیل عمر رقمطراز ہیں: ابن عربی کو کسی ایک خانے میں بند کرنا ممکن نہیں۔ تصوف کی تاریخ میں اُن کو ایک الگ اور منفرد مقام حاصل ہے۔ گزشتہ سات سو سال میں ملت اسلامیہ کی روحانی و فکری زندگی اور عقلی سرگرمیوں پر جتنا گہرا اور دوررس اثر ان کا رہا ہے ویسا کسی اور شخصیت کا نہیں رہا۔ یہ اہمیت اور معنویت انھیں تاریخِ اسلام کا قطبی تارہ بنادیتی ہے۔ کوئی ان کی جانب چلے یا اُن کے مخالف، سمت کا تعین اُنہی کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔۱؎ مسلمان مفکرین اور صوفیا میں مولانا روم کے علاوہ ابن عربی وہ شخصیت ہیں جن کی طرف علامہ بالواسطہ ہی سہی ہمیشہ کھنچتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ہاں شیخ اکبر کے مکتبِ فکر کے بارے میں علامہ کی آرا میں زندگی کے مختلف ادوار میں تغیرات ضرور پائے جاتے ہیں، شیخ اکبر کی تعلیمات کے بارے میں علامہ کا ردّعمل مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے اور کشش و گریز کے رویّے کا آئینہ دار ہے۔۲؎ ابن عربی کے بارے میں علامہ اقبال کی آرا کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (۱) قیام یورپ تک کا فکری دور (۲) یورپ سے واپسی کے بعد سے لے کر ۱۹۱۹ء تک کا دور (۳) فکر کا نہائی دور (یعنی ۱۹۲۰ء سے لے کر اِلی آخر) علامہ اقبال کے ہاں ابن عربی کا ذکر پہلی مرتبہ اُن کے مقالے بعنوان: "The Doctrine of Absolute Unity as Expounded by Abdul Karim al-Jili" ’’عبدالکریم جیلی کا تصور توحید مطلق‘‘ میں ملتا ہے۔ یہ مقالہ بمبئی کے انگریزی مجلّے ’’انڈین اینٹی کیوری‘‘ کی ستمبر ۱۹۰۰ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ بعد ازاں علامہ نے یورپ میں جب The Development of Metaphysics in Persia کے نام سے اپنا Ph.D کا تحقیقی مقالہ تحریر کیا تو مذکورہ بالا مقالے کو بھی اُس میں شامل کردیا۔ اقبال کے Ph.D کے مذکورہ بالا تحقیقی مقالے میں ابن عربی کا ذکر پہلی بار Introduction میں اس وقت ملتا ہے جب اقبال ایک برہمن اور ایرانی ذہن کے باہمی تطابق و توافق اور امتیاز و اختلاف پر بحث کرتے ہوئے اسلامی تصوف تک پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں: The student of Islamic Mysticism who is anxious to see an all-embracing exposition of the principle of Unity, must look up the heavy volumes of the Andalusian Ibn al-‘Arabi, whose profound teaching stands in strange contrast with the dry-as-dust Islam of his countrymen.3 ابن عربی کا ذکر دوسری بارباب نمبر ۵ ’’(Sufiism) تصوف‘‘ میں عبدالکریم الجیلی کے تعارف میں ملتا ہے، اس باب میں صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے مختلف پہلو بیان کرتے ہوئے، ایک پہلو کے طور پر صوفیا کے اس مکتب کو بیان کیا ہے جو حقیقت کو بطور فکر لیتے ہیں اور یہ پہلو اقبال نے عبدالکریم الجیلی کے حوالے سے بیان کیا ہے عبدالکریم الجیلی کے متعلق اپنے تعارفی بیان میں، اقبال نے ابن عربی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: Al-Jili was born in 767 A.H., as he himself says in one of his verses, and died in 811 A.H. He was not a prolific writer like Shaikh Muhy al-Din ibn 'Arabi whose mode of thought seems to have greatly influenced his teaching. He combined in himself poetical imagination and philosophical genius, but his poetry is no more than a vehicle for his mystical and metaphsical doctrines. Among other books he wrote a commentry on Shaikh Muhy al-Din ibn 'Arabi',s al-Futuhat al-Makkiya, a commentary on Bismillah, and the famous work Insan al-Kamil (printed in Cairo).4 تیسری مرتبہ بھی ابن عربی کا ذکر عبدالکریم الجیلی کے مباحث میں ہی اس وقت ملتا ہے، جب اقبال نے الجیلی کے حوالے سے اس کے انسان کامل کی صفات بیان کرتے ہوئے تخلیق کائنات کے مسئلے پر الجیلی کے ابن عربی سے ایک عالمانہ اختلاف کا ذکر کیا ہے۔۵؎ ابن عربی کے بارے میں اقبال کے مذکورہ بالا بیانات سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں: ۱-اقبال نے ابن عربی کو اصول وحدت (توحید اسلامی) کے ایک بڑے مفسر اور شارح کے طور پر پیش کیا ہے اور اسلامی تصوف کے ایک عظیم نمائندے کے طور پر ذکر کیا ہے۔ ۲-اقبال نے ابن عربی کے مکتب تصوف کو الجیلی کے حوالے سے بڑے واضح اور عمدہ انداز میں پیش کیا ہے، جس میں بالخصوص’’ نظریہ انسان کامل‘‘ ہے۔ ۳-ابن عربی جدید تخیل پیش کرنے والے عارف تھے۔ ۴-الجیلی مؤلف ’’الانسان الکامل‘‘ ابن عربی کے زیر اثر تھے۔ علامہ نے ’’مابعد الطبیعیات ایران‘‘ میں وحدت الوجود کا تقریباً پندرہ مرتبہ ذکر کیا ہے۔ باب نمبر ۱ جو کہ Pre-Islamic Persian Thought کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے اور جس میں زرتشت مانی اور مزدک کے افکار و خیالات بیان کیے گئے ہیں اس کے Retrospect میں اقبال مذکورہ بالا عنوانات کے متعلق اپنے مباحث کو سمیٹتے ہوئے درج ذیل الفاظ میں ’’وحدت الوجود‘‘ کا ذکر کرتے ہیں: The principle of Unity as a Philosophical ground of all that exists, in but dimly perceived at this stage of intellectual evolution in Persia. The controversy among the followers of Zoroaster indicates that the movement towards a monistic conception of the Universe had begun; but we have, unfortunately, no evidence to make a positive statement concerning the pantheistic tendencies of Pre-Islamic Persian thought.6 باب نمبر ۳ Islamic Rationalism میں اقبال، عقلیین (معتزلہ) کے نظریۂ توحید (نظریۂ خدا) کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: It is, therefore, clear that some of the rationalists almost unconsciously touched the outer fringe of later pantheism for which, in a sense, they prepared the way, not only by their definition of God, but also by their common effort to internalise the rigid externality of absolute law.7 مذکورہ باب ہی میں اقبال اسلامی دنیا میں جب معتزلہ کے ساتھ ساتھ اس دور میں معرض ظہور میں آنے والی دیگر اسلامی تحریکوں میں اسماعیلیہ اور اخوان الصفا کا ذکر کرتے ہیں تو ان حالات و واقعات، جو ایسی تحریکوں کے کسی بھی فکری فضا میں معرض ظہور میں آنے کا سبب بنتے ہیں کا یورپ کی اٹھارہویں صدی عیسوی میں معرض ظہور میں آنے والی فکری تحریکوں سے تقابل کرتے ہوئے کہتے ہیں: In the 18th Century history of European thought we see Fichte, starting with a sceptical inquiry concerning the nature of matter, and finding its last word in Pantheism. Schleiermacher appeals to Faith as opposed to Reason, Jacobi, points to a source of knowledge higher than reason, while Comte abandons all metaphysical inquiry and limits all knowledge to sensuous perceptions.8 اسی باب میں اشاعرہ کے تسلسل میں غزالی کا تذکرہ کرتے ہوئے وحدت الوجود (Pantheism) کا ذکر یوں کرتے ہیں: With their view of the nature of substance, the Asharite, rigid monotheists as they were, could not safely discuss the nature of the human soul. Al-Ghazali alone seriously took up the problem, and to this day it is difficult to define, with accuracy, his view of the nature of God. In him, like Borger and Solger in Germany, Sufi pantheism and the Asharite dogma of personality appear to harmonise together, a reconciliation which makes it difficult to say whether he was a Pantheist, or a Personal Pantheist of the type of Lotze.9 مذکورہ بالا مباحث کے تسلسل میں ہی الغزالی کے نظریۂ روح کے بیان میں وحدت الوجود کا کچھ اس طرح تذکرہ ملتا ہے: The soul, according to Al-Ghazali, perceives things. But perception as an attribute can exist only in a substance or essence which is absolutely free from all the attributes of body. In his Al-Madnun, he explains why the Prophet declined to reveal the nature of the soul, There are, he says, two kinds of men; ordinary men and thinkers. The former, who look upon materiality as a condition of existence, cannot conceive an immaterial substance. The latter are led, by their logic, to a conception of the soul which sweeps away all difference between God and the individual soul. Al-Ghazali, therefore, realised the Pantheistic drift of his own inquiry, and preferred silence as to the ultimate nature of the soul.10 باب نمبر ۵ "Sufiism" کے ایک ذیلی عنوان ’’تصوف کا ماخذ اور قرآن سے اس کا جواز‘‘ میں مغربی محققین و مستشرقین (فان کریمر، ڈوزی، نکلسن، پروفیسر براؤن وغیرہ) کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے، جو انھوں نے اسلامی تصوف کو غیر اسلامی اثرات کے تحت ثابت کرنے کی کوشش میں کیے۔ اس دور کے مختلف قسم کے سیاسی، مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور فکری حالات (آٹھویں صدی ۷۴۹ئ) کے آخر میں اموی حکومت کا خاتمہ، زنادقہ پر ظلم و تعدی، ایرانی ملحدین کی بغاوت (سندیہ ۷۵۵ تا ۷۵۶ئ) (استہ "Ustadhis" ۷۶۶ تا ۷۶۸) خراسان کا نقاب پوش پیغمبر ۷۷۷ تا ۷۸۰) نویں صدی کے آغاز میں ہارون کے بیٹوں مامون اور امین میں حصول اقتدار کے لیے جنگ و جدل) مزد کی بابک (Mazdakite Babak) کی مسلسل بغاوت ۸۳۸-۸۱۶) بعض آزاد ایرانی خاندانوں کے آغاز و استحکام (طاہریہ ۸۲۰، صفاریہ ۸۶۸، سامانیہ ۸۷۴) کے ساتھ ہی شعوبیہ مناقشہ کی ابتدا کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: It is, therefore, the combined force of these and other conditions of a similar nature that contributed to drive away spirits of devotional character from the scene of continual unrest to the blissful peace of an ever-deepening contemplative life. The Semitic character of the life and thought of these early Muhammadan ascetics is gradually followed by a large hearted pantherism of a more or less Aryan stamp, the development of which, in fact, runs parallel to the slowly progressing political independence of Persia.11 مذکورہ بالا مباحث کے تسلسل میں ہی تصوف کا قرآن مجید سے جواز و ثبوت پیش کرنے کے لیے چند آیات مبارکہ کا حوالہ (سورۃ البقرہ آیات ۲،۱۴۶، سورۃ الذاریات آیت ۲۱، ۲۰، سورۃ ق آیت ۱۵، سورۃ الطور آیت ۳۵، سورۃ الشوری آیت ۹) دینے کے بعد کہتے ہیں۔ There are some of the chief verses out of which the various Sufi commentators develop pantheistic views of the Universe. They enumerate the following four stages of spiritual training through which the soul the order or reason of the Primal Light ("Say that the soul is the order or reason of God.") has to pass, if it desires to rise above the common herd, and realise its union or identity with the ultimate source of all things.12 تصوف کے باب میں ہی اقبال نے صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے تین پہلو بیان کیے ہیں۔ ان تین پہلوؤں میں سے صوفیا کے اس مکتب، جو ’’حقیقت کو بطور جمال‘‘ لیتے ہیں اور جنھوں نے بقول اقبال نوفلاطونی نظریۂ تخلیق اختیار کرلیا تھا ان کا وحدت الوجود کے ذریعے نوفلاطونی نظریے سے چھٹکارا حاصل کرنا یوں بیان کرتے ہیں: The teachers of this school adopted the Neo-Platonic idea of creation by intermediary agercies; and though this idea lingered in the minds of Sufi writers for a long time, yet their Pantheism led them to abandon the Emanation theory altogether.13 صوفیا کے مذکورہ بالا مکتب ’’حقیقت بطور جمال‘‘ کا حسین منصور حلاج کے ذریعے مکمل وحدت الوجودی بننے کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: The school became wildly pantheistic in Husain Mansur who, in the true spirit of the Indian Vedantist, cried out, "I am God" - Aham Brahma asmi.14 تصوف کے مذکورہ بالامکتب کے مباحث کو سمیٹتے ہوئے اقبال نے اس مکتب کے تین اساسی تصورات کو بیان کرنے کے بعد اسی زمانے میں ان تصورات کے بین بین معرض ظہور میں آنے والے تین قسم کے ردعمل کا ذکر بھی کیا ہے ان میں سے ایک تیرھویں صدی میں واحد محمود کا تکثیری ردعمل ہے۔ اسی کی وضاحت میں اقبال نے تاریخ فکر کے چند قوانین ارتقا کا ذکر کرتے ہوئے سپائی نوزا کی وحدت الوجود کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: Speaking from a purely philosophical standpoint, the last movement is most interesting. The history of Thought illustrates the operation of certain general laws of progress which are true of the intellectual annals of different people. The German systems of monistic thought invoked the pluralism of Herbart; while the pantheism of Spinoza called forth the monadism of Leibniz. The operation of the same law led Wahid Mahmud to deny the truth of contemporary monism, and declare that Reality is not one, but many.15 تصوف کے باب میں ہی شیخ الاشرق شیخ شہاب الدین سہروردی کے نظریات کو تصوف کے اس مکتب کے تحت بیان کرنے کے بعد جو ’’حقیقت کو بطور نور‘‘ لیتے ہیں شیخ الاشراق کی حکمت و فلسفے پر تبصرہ کرتے ہوئے وحدت الوجود کا ذکر یوں کرتے ہیں: Such is the philosophy of the great Persian martyr. He is, properly speaking, the first Persian systematiser who recognises the elements of truth in all the aspects of Persian speculation, and skilfully synthesises them in his own system. He is a pantheist in so far as he defines God as the sum total of all sensible and ideal existence.16 شیخ الاشراق کے نظام فکر پر ہی تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں: No Persian thinker is more alive to the necessity of explaining all the aspects of objective existence in reference to his fundamental principles. He constantly appeals to experience, and endeavours to explain even the physical phenomena in the light of his theory of illumination. In his system objectivity, which was completely swallowed up by the exceedingly subjective character of extreme pantheism, claims its due again, and, having been subjected to a detailed examination, finds a comprehensive explanation.17 صوفیانہ مابعدالطبیعیات کا تیسرا پہلو وہ ہے جو حقیقت کو ’’بطور نور اور فکر‘‘ کے لیتا ہے۔ ’’حقیقت بطور نور‘‘ شیخ الاشراق شیخ شھاب الدین سہروردی کے حوالے سے ہے جس کا ذکر گذشتہ سطور میں آچکا ہے اور ’’حقیقت بطور فکر‘‘ عبدالکریم الجیلی کے حوالے سے ہے۔ الجیلی کے نظریۂ خدا و فطرت کو بیان کرنے کے بعدعلامہ اس پر ان الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں: This instance leads him to guard against the of looking upon God as immanent in nature, or running through the sphere of material existence. He says that immanence implies disparity of being; God is not immanent because He is Himself the existence. Eternal existence is the other self of God, it is the light through which He sees Himself. As the originator of an idea is existent in that idea, so God is present in nature. The difference between God and man, as one may say, is that His ideas materialise themselves, ours do not. It will be remembered here that Hegel would use the same line of argument in freeing himself from the accusation of Pantheism.18 الجیلی نے انسان کے روحانی کمال کی جو منازل بیان کی ہیں ان میں وحدت الوجود کا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے: We have already noticed that man in his progress towards perfection has three stages: the first is the meditation of the name which the author calls the illumination of names. He remarks that "When God illuminates a certain man by the light of His names, the man is destroyed under the dazzling splendour of that name: and "when thou calleth God, the call is responded to by the man." The effect of this illumination would be, in Schopenhauer's language, the destruction of the individual will, yet it must not be confounded with physical death; because the individual goes on living and moving like the spinning wheel, as Kapila would say, after he has become one with Prakriti. It is here that the individual cries out in pantheistic mood: She was I and I was she and there was none to separate us.19 ’’مابعدالطبیعیاتِ ایران‘‘ کے نتیجے (Conclusion) میں اقبال قبل از اسلام ایرانی مفکرین (زرتشت مانی، مزدک) کے نظاماتِ فکر کا ناقدانہ جائزہ لے کر ایرانی فکر میں وحدت الوجودی میلانات کے سفر و ارتقا کو یوں بیان کرتے ہیں: There are, therefore, two weak points in their systems: 1- Naked Dualism. 2- Lack of analysis; The first was remedied by Islam, The second by the introduction of Greek Philosophy. The advent of Islam and the study of Greek Philosophy, however, checked the indigenous tendency towards monistic thought; but these two forces contributed to change the objective attitude characteristic of early thinkers, and aroused the slumbering subjectivity, which eventually reached its climax in the extreme Pantheism of some of the Sufi schools.20 جس دوران اقبال یورپ میں اپنا پی-ایچ-ڈی کا تحقیقی مقالہ (’’ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا) تحریر کررہے تھے اور ’’تصوف‘‘‘ اور ’’وحدت الوجود‘‘ پر تحقیق میں بطور خاص مصروف تھے انھی دنوں انھوں نے ’’تصوف‘‘ اور ’’وحدت الوجود‘‘ پر معلومات حاصل کرنے کے لیے ہندوستان میں اپنے قدیمی دوست خواجہ سید حسن نظامی کو بھی یورپ سے ایک خط تحریر کیا جس کا یہاں پر تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ٹرینٹی کالج کیمبرج سے اپنے ۸؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کے محررہ خط میں سید حسن نظامی سے یوں گویا ہوتے ہیں: اسرار قدیم سید حسن نظامی، ایک خط اس سے پہلے ارسال کرچکا ہوں، امید ہے کہ پہنچ کر ملاحظہ سے گزرا ہوگا۔ اس خط کے جواب کا انتظار ہے اور بڑی شدت کے ساتھ۔ اب ایک اور تکلیف دیتا ہوں اور وہ یہ کہ قرآن شریف میں جس قدر آیات صریحاً تصوف کے متعلق ہوں ان کا پتہ دیجیے۔ سپارہ اور رکوع کا پتہ لکھیے۔ اس بارہ میں آپ قاری شاہ سلیمان صاحب یا کسی اور صاحب سے مشورہ کرکے مجھے بہت جلد مفصل جواب دیں، اس مضمون کی سخت ضرورت ہے اور یہ گویا آپ کا کام ہے۔ قاری شاہ سلیمان صاحب کی خدمت میں میرا یہی خط بھیج دیجیے اور بعد التماس دعا عرض کیجیے کہ میرے لیے یہ زحمت گوارا کریں اور مہربانی کرکے مطلوبہ قرآنی آیات کا پتہ دیویں۔ اگر قاری صاحب موصوف کو یہ ثابت کرنا ہو کہ مسئلہ وحدۃ الوجود یعنی تصوف کا اصل مسئلہ قرآن کی آیات سے نکلتا ہے تو وہ کون کون سی آیات پیش کرسکتے ہیں اور ان کی کیا تفسیر کرتے ہیں۔ کیا وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ تاریخی طور پر اسلام کو تصوف سے تعلق ہے۔ کیا حضرت علیؓ مرتضیٰ کو کوئی خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی، غرضکہ اس امر کا جواب معقولی اور منقولی اور تاریخی طور پر مفصل چاہتا ہوں، میرے پاس کچھ ذخیرہ اس امر کے متعلق موجود ہے، مگر آپ سے اور قاری صاحب سے استصواب ضروری ہے، آپ اپنے کسی اور صوفی دوست سے بھی مشورہ کرسکتے ہیں۔ مگر جواب جلد آئے۔ باقی خیریت ہے۔۲۱؎ ’’مابعد الطبیعیات ایران ‘‘ میں کہیں بھی وحدت الوجود کے متعلق منفی نقطۂ نظر نہیں ملتا بلکہ علامہ قرآن مجید سے تصوف پر استشہاد لانے کے لیے آیات کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اقبال اس منزل فکر پر وحدت الوجود کو ہی تصوف سمجھتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وحدت الوجود کو تصوف کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اور اسی کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اسی کے لیے تاریخ اسلام سے استشہاد لانا چاہتے ہیں۔ ______________ آئیے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ’’مابعدالطبیعیاتِ ایران‘‘ کے بعد کی تحریروں میں اقبال نے ابن عربی اور وحدت الوجود کے متعلق کیا نقطۂ نظر اختیار کیا۔ بیسویں صدی عیسوی کا اوائل برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کے لیے بالعموم انتہائی پستی اور زبوں حالی کا دور تھا۔ یورپ میں اقبال نے زندگی کے ہر میدان میں اقوام مغرب کی ترقی و پیش رفت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ یورپ سے واپسی پر اقوام مغرب کی ترقی اور ملت اسلامیہ کی تنزلی کے اسباب کا تقابلی مطالعہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بالعموم پوری ملتِ اسلامیہ اور بالخصوص مسلمانان برصغیر کے زوال و انحطاط کے جملہ اسباب میں سے ایک اہم سبب راہبانہ تصوف ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کرچکا ہے اور جس کے نتیجے میں ملت اسلامیہ اضمحلال، سستی، پستی اور تنزلی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ قوت فیصلہ و قوت ارادی سے محروم ہوچکی ہے۔ بحیثیتِ فرد و قوم ان کی خود اعتمادی اس حد تک مجروح ہوچکی ہے کہ وہ حالت صحو کی بجائے حالت سکر کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ان کے خیال میں تصوف وجودی یعنی وحدت الوجود نے بالخصوص تمام مسلمانوں اور بالعموم عامۃ الناس میں رہبانیت اور بے عملی و بدعملی پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ان نتائج تک پہنچنے کے بعد اقبال نے تقریباً ۱۹۱۰/۱۹۱۱ کے دوران اپنی پہلی مثنوی اسرار خودی کی تصنیف کا آغاز کیا۔ ۱۹۱۵ء میں انھوں نے اپنی فارسی مثنوی اسرارِ خودی مع تصوف پر ایک دیباچہ شائع کی۔ جس میں اُنھوں نے افراد اور اقوام و ملل کے عروج و زوال کے عالمگیر قانون کی وضاحت، ’’خودی‘‘ یا ’’انا‘‘ کے تصور کے حوالے سے کی اور کہا کہ قوموں کا عروج، خودی کی دریافت، نمو، اور تشکیل کے ساتھ مربوط ہے جب کہ اُن کا زوال ’’خودی‘‘ یا ’’انا‘‘ کی فراموشی اور شناخت سے محرومی کے سبب ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُنھوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ آج ملت اسلامیہ میں بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں میں بالخصوص خود فراموشی، نفی خودی، اور عرفان خودی سے محرومی کا سبب وحدت الوجود ہے۔ یوں ابن عربی اور وحدت الوجود کے حوالے سے اُن کی اختلافی آرا کا سلسلہ شروع ہوا۔ شیخ اکبر کے حامیوں اور وحدت الوجود کے نمائندگان کی طرف سے اقبال کے اعتراضات کے جواب اور اقبال کی طرف سے جواب الجواب کا یہ سلسلہ تقریباً ۱۹۱۹ء تک جاری رہنے کے بعد یہ علمی اور نظری جنگ سرد پڑجاتی ہے۔ چونکہ یہ مباحث بہت طویل ہیں لہٰذا ہم اپنے موضوع کی مناسبت سے صرف منتخب اقتباسات کی مدد سے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ ’’خودی‘‘ کیا ہے اقبال اس کا تعارف یوں کراتے ہیں: یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات و تمنیات مستنیر ہوتے ہیں۔ یہ پراسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے۔ یہ ’’خودی‘‘ یا ’’انا‘‘ یا ’’میں‘‘ جو اپنے عمل کی رو سے ظاہر اور اپنی حقیقت کی رو سے مضمر ہے جو تمام مشاہدات کی خالق ہے۔۲۲؎ اقبال کہتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں اوّل تو اس ’’خودی‘‘ کو فراموش کردیا گیا اور دوسرے اس کی ایسی تفسیر و تشریح کی گئی جس سے ’’خودی‘‘ کی نفی کی روش فروغ پاگئی اور اقبال کے نزدیک ’’وحدت الوجودی تصوف‘‘ نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جیسا کہ وہ مثنوی اسرار خودی کے دیباچے میں کہتے ہیں: مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک بھی ایک نہایت زبردست پیغام عمل تھی گو اس تحریک کے نزدیک انا ایک مخلوق ہست ہے، جو عمل سے لازوال ہوسکتی ہے، مگر مسئلہ انا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے اور وہ یہ کہ جس نقطہ خیال سے سری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی، اسی نقطہ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی، جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے، شیخ اکبر کے علم و فضل اور ان کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کی، جس کے وہ انتھک مفسر تھے، اسلامی تخیل کا ایک لاینفک عنصر بنادیا۔۲۳؎ اور یوں اقبال کی بحث کا دائرہ ’’وحدت الوجود‘‘ سے بڑھ کر ابن عربی تک پھیل جاتا ہے اور وحدت الوجود کے اسلامی دنیا پر منفی اثرات کا وہ یوں ذکر کرتے ہیں: مختصر یہ کہ ہندو حکما نے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعرا نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا، یعنی انھوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کردیا۔۲۴؎ اقبال کے بقول مغربی اقوام کو بھی اپنے ارتقا اور بقا کے سفر میں وحدت الوجودی فکر کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے عمل ذوق کی بدولت انھوں نے اپنے آپ کو بہت جلد وحدت الوجود کے منفی اثرات سے آزاد کرالیا: مغربی اقوام اپنی قوت عمل کی وجہ سے تمام اقوام عالم میں ممتاز ہیں اور اسی وجہ سے اسرار زندگی کو سمجھنے کے لیے ان کی ادبیات و تخیلات اہل مشرق کے واسطے بہترین راہنما ہیں، اگرچہ مغرب میں فلسفہ جدید کی ابتدا ہالینڈ کے اسرائیلی فلسفی کے نظام وحدت الوجود سے ہوتی ہے لیکن مغرب کی طبائع پر رنگ عمل غالب تھا، مسئلہ وحدت الوجود کا۔ یہ طلسم جس کو ریاضیات کے طریق استدلال سے پختہ کیا گیا تھا، دیر تک قائم نہ رہ سکتا تھا۔ سب سے پہلے جرمنی میں انسانی ’’انا‘‘ کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا اور رفتہ رفتہ فلاسفۂ مغرب بالخصوص حکمائے انگلستان کے عملی ذوق کی بدولت اس خیالی طلسم کے اثر سے آزاد ہوگئے۔۲۵؎ جب اقبال نے وحدت الوجود، ابن عربی، اُن کی فصوص الحکم اور وحدت الوجود سے منسوب بعض بنیادی عقائد و نظریات مثلاً قدم ارواح کملا یا مسئلہ تنزلات ستہ وغیرہ پر اپنے اعتراضات وارد کیے تو بعض حلقوں کی طرف سے اقبال کو تصوف مخالف قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں اپنے نقطہ نظر کو اقبال یوں واضح کرتے ہیں: فلسفیانہ اور مورخانہ اعتبار سے مجھے بعض ایسے مسائل سے اختلاف ہے جو حقیقت میں فلسفے کے مسائل ہیں مگر جن کو عام طور پر تصوف کے مسائل سمجھا جاتا ہے، تصوف کے مقاصد سے مجھے کیونکر اختلاف ہوسکتا ہے کوئی مسلمان جو ان لوگوں کو برا سمجھے جن کا نصب العین محبت رسول اللہ ہے، اور جو اس ذریعہ سے ذات باری سے تعلق پیدا کرکے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر میں تمام صوفیا کا مخالف ہوتا تو مثنوی میں ان کی حکایات و مقولات سے استدلال نہ کرتا۔۲۶؎ یہاں اس بات کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اقبال نے مذکورہ بالا مندرجات اور اقتباسات میں جس نقطہ نظر کی نفی کی ہے اور اپنی بیزاری ظاہر کی ہے، ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء یورپ میں ’’مابعدالطبیعیات ایران‘‘ کی تحریر کے دوران اسی نقطہ نظر کو اسلامی تصوف قرار دیتے ہوئے مسئلہ وحدت الوجود، شیخ الاشرق شیخ شھاب الدین سہروردی، عبدالکریم الجیلی اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے متعلق نہایت عمدہ پیرائے میں گفتگو کی اور ایرانی مابعدالطبیعیات کی تاریخ میں ان مسائل کو نہایت تحقیق و تدقیق سے ثابت اور بیان کیا۔ جب کہ یہاں اقبال ایک بالکل تبدیل شدہ نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ______________ اگرچہ ابن عربی اور وحدت الوجود کے متعلق اقبال کا مذکورہ بالا نقطہ نظر زیادہ سے زیادہ ۱۹۱۹ء تک نظرآتا ہے ، مگر ان کے بارے میں ان کے مطالعات تمام عمر جاری رہے۔ آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ اپنی نہائی فکر میں اقبال ان کے بارے میں کیا نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں۔ ضرب کلیم میں ابلیس ویزداں کے مابین ایک مکالمے میں یزداں کی زبان سے ابلیس پر جو تنقید کرتے ہیں وہ محی الدین ابن عربی سے ماخوذ ہے۔ اقبال اس کو یوں بیان کرتے ہیں: یزداں (فرشتوں کی طرف دیکھ کر) پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے کہتا ہے تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام ظالم اپنے شعلہ سوزاں کو خود کہتا ہے دود (ماخوذ از محی الدین ابن عربی)۲۷؎ تشکیل جدید میں ابن عربی کا ذکر دو جگہ ملتاہے۔ پہلی مرتبہ حکمائے اسلام اور صوفیا کے حوالے سے مسئلہ زمان و مکان پر بحث کرتے ہوئے ابن عربی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: According to Muhyuddin Ibn al-Arabi, Dahr is one of the beautiful names of God, and Razi tells us in his commentary on the Quran that some of the Muslim saints had taught him to repeat the word Dahr, Daihur, or Daihar.28 دوسری جگہ مابعدالطبیعیات کے وجود و مکان پر کانٹ کے استدلال کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے ابن عربی کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ: Kant's view of the thing-in-itself and the thing as it appears to us very much determined the character of his question regarding the possibility of metaphysics. But what if the position, as understood by him, is reversed? The great Muslim Sufi philosopher, Muhyddin Ibn al-Arabi of Spain, has made the acute observation that God is a percept; the world is a concept.29 شیخ اکبر کے متعلق اقبال کے مطالعات و تحقیقات تمام عمر جاری رہے مثلاً ماسٹر محمد عبداللہ چغتائی۳۰؎ کے نام ۲۲ اکتوبر ۱۹۲۷ کے مکتوب میں اُن سے فصوص الحکم کا قلمی نسخہ طلب کرتے ہیں، مولانا سید سلمان ندوی۳۱؎ سے اپنے ۸؍اگست۱۹۳۳، ۱۷؍ستمبر۳۲۱۹۳۳؎ ، ۱۸؍نومبر۳۳۱۹۳۳؎ اور ۱۵؍دسمبر۳۴۱۹۳۳؎ کے مکتوبات میں شیخ اکبر کے زمان و مکان اور دہر کے حوالے سے آرا و نظریات کے بارے میں استفسار کرتے ہیں۔ اسی طرح پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی۳۵؎ کے نام اپنے ۸؍اگست۱۹۳۳ کے مکتوب میں بھی شیخ اکبر کی زمان و مکان کے بارے میں تعلیمات کے متعلق استفسار کرتے ہیں۔ اس سے جہاں اس مسئلے کی اقبال کے نزدیک اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ابن عربی کے حوالے سے اقبال کے تحقیقی سفر کی طرف نشان دہی بھی ہوتی ہے۔ شاہد حسین رزاقی لکھتے ہیں: ۱۹۳۵ء میں جب ملت اسلامیہ کے نقطۂ نظر کو بیان کرتے ہوئے اقبال نے قادیانیت پر چند ایک مضامین تحریر کیے تو پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی ’’ہندوؤانہ ذہنیت‘‘ سے مجبور ہوکر ’’قادیانیت‘‘ کی حمایت میں ایک مضمون تحریر کیا۔ اقبال نے اس کے جواب میں ایک طویل مضمون بعنوان ’’پنڈت جواہر لال نہرو کے سوالات کا جواب‘‘ تحریر کیا۔ اقبال نے اس مضمون میں قادیانیوں اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے بعض ’’شطحیات‘‘ کی اپنے مذموم مقاصد ’’قادیانی نبوت‘‘ کی خاطر غلط اور مذموم تعبیر کرنے کی کوشش کا نہایت عمدگی سے جواب دیتے ہوئے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا نہایت خوبصورتی سے دفاع کیا۔۳۶؎ ماسٹر عبداللہ چغتائی کے نام اپنے ۱۳ جون ۱۹۳۷ء کے ایک خط میں مغربی دنیا پر اسلام کے اثرات کے بیان میں، اٹلی کے مشہور شاعر دانتے کی Divine Comedy کو شیخ اکبر کے افکار و تخیّلات سے لبریز قرار دیتے ہیں۔۳۷؎ ______________ ابن عربی اور وحدت الوجود کے متعلق اقبال کی مذکورہ بالا تمام آرا کو خلاصۃً ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے: ۱- ۱۹۰۸ء تک اقبال وحدت الوجود کے حامی تھے، اور اتنے زیادہ حامی کہ تصوف کو وحدت الوجود کا مرادف سمجھتے تھے اس دور میں قرآن سے اس کا جواز تلاش کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے تحقیقی مقالے میں پوری فکر ایران میں وحدت الوجود کو ہی ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ابن عربی کا ذکر نہایت احسن پیرائے میں کرتے ہیں اور اسے اسلامی توحید کا عظیم مفسر اور عارف قرار دیتے ہیں۔ ۲- یورپ سے واپسی کے بعد سے لے کر تقریباً ۱۹۱۹ء تک اقبال وحدت الوجود اور ابن عربی کے سخت معترض اور ناقد نظر آتے ہیں، وحدت الوجود کو غیر اسلامی اثرات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور تمام وحدت الوجودی صوفیا شعرا اور اس مکتب کے حامیوں کے متعلق سخت برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہاں وحدت الوجود کے متعلق پہلے دور کے بالکل برعکس رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ۱۹۰۸ء تک وحدت الوجود کے انتہائی معترف اور مداح تھے تو ۱۹۰۸ء کے بعد ۱۹۱۹ء تک وحدت الوجود کے انتہائی ناقد، معترض اور مخالف نظرآتے ہیں۔ حتی کہ وحدت الوجود کو الحاد اور زندیقیت کا نام دیتے ہیں اور وحدت الوجود کو یورپ کا مذہب قرار دے کر، اس مذہب سے اپنے تائب ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ ۳- اقبال اور وحدت الوجود کے حامیوں کے درمیان نزاعی مباحث ۱۹۲۰ء تک اختتام پذیر ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ اقبال نے تمام عمر وحدت الوجود سے الگ راہ اپنائے رکھی مگر ابن عربی اور وحدت الوجود کے متعلق ان کے مطالعات تمام عمر جاری رہے۔ ۱۹۲۰ء سے شروع ہونے والے اس دور میں مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔ (i) ابن عربی کی فصوص الحکم اور وحدۃ الوجود کے متعلق الحاد وزندیقیت کے الفاظ استعمال کرتے نظر نہیں آتے۔ (ii) ابن عربی کے نظریۂ زمان و مکان اور دہر کی تحقیق و تفہیم میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور یہ کوشش تمام عمر تا دم واپسیں جاری دکھائی دیتی ہے اور تشکیل جدید الہیات اسلامیہ میں زمان و مکان اور دہر کے مباحث میں ابن عربی کے نظریات کو ذکر کرتے اور ان سے استشہاد لاتے ہیں۔ (iii) اس وقت کے نامور عرفا (پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف) اور علما (مولانا سید سلیمان ندوی) سے ابن عربی کے نظریات زمان و مکان اور فصوص الحکم کے بارے میں مکاتبہ کرتے ہیں۔ (iv) ۱۹۳۵ء میں قادیانیوں کے ساتھ ان کی مذہبی حیثیت کے بارے میں جب جمہور مسلمانوں کا نزاع شروع ہوا تو اقبال نے اس میں امت مسلمہ کی نمائندگی میں نہایت عالی قدر محققانہ مضامین تحریر کیے۔ اس تحریری جنگ میں قادیانیوں نے اپنے گمراہ کن عقائد کے تحفظ کے لیے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے مکاشفات اور روحانی تجربات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش کی تو اقبال نے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے قادیانیوں اور ان کے ہم نواؤں کے گمراہ کن رویے کی نشاندہی کی اور ان کی سخت گرفت کرتے ہوئے شیخ اکبر کے نظریات، مکاشفات اور روحانی تجربات کا انتہائی کامیاب دفاع کیا۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ آخر عمر میں اقبال کی وحدت الوجود کے بارے میں انتہائی مخالف روش اعتدال میں بدل جاتی ہے اور ان کے انتہائی سخت رویے میں قدرے نرمی آجاتی ہے۔ اقبال، ابن عربی اور وحدت الوجود کے مباحث ایک الگ کتاب کا موضوع بن سکتے ہیں اس ضمن میں یہاں تفصیلی مباحث کا یارا نہیں بہرحال اس موضوع پر اپنی گزارشات کو ہم ان الفاظ میں تمام کرتے ہیں: (i) علامہ اقبال کی سوانح کے مطالعہ سے ہمیں یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ انھیں بچپن سے ہی ابن عربی سے شناسائی حاصل ہوگئی تھی اور ابن عربی کے تعلیمات سے انھیں تمام عمر دل چسپی رہی۔ لیکن ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ اُنھوں نے کسی مستند عالم یا عارف اور اُن کی تعلیمات کے شارح سے کبھی باقاعدہ درس لیا ہو اور یا پھر ابن عربی کے فوراً بعد آنے والے شارحین اور مفسرین کی تالیفات سے استفادہ کیا ہو جب کہ شناورانِ اقلیم عرفان کے لیے یہ دونوں وسائل از حد ضروری ہیں۔۳۸؎ (ii) اقبال کی تحریروں میں ابن عربی کی تالیفات کے بلاواسطہ حوالے بہت کم ملتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابن عربی کے بارے میں علامہ کے موقف اور آرا کا تعین بالعموم شیخ اکبر کی تصانیف کے براہِ راست مطالعے سے نہیں ہوا۔۳۹؎ (iii) اقبال نے ابن عربی کے بلاواسطہ شارحین مثلاً صدرالدین قونوی وغیرہ سے استفادہ نہیں کیا جو ابن عربی کی تفہیم کے حوالے سے انتہائی معتبر مقام رکھتے ہیں بلکہ قونوی کے بعد کی نسل کے عرفا کی تحریروں اور شروح پر زیادہ تر انحصار کیا ۔ (iv) اقبال نے ابن عربی کو وحدت الوجود کے ایک مفسر کے طور پر ذکر کیا ہے جب کہ ابن عربی کے ہاں یہ اصطلاح کہیں بھی نہیں ملتی۔ یہ تو صدرالدین قونوی کے بعد آنے والے عرفا نے وضع کی ہے۔ (v) اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے میں ’’وحدت الوجود‘‘ کو انگریزی اصطلاح Pantheism کے مترادف لیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ Pantheism بعد از نشاۃ یورپ کا ایک علمی و فکری مذہب ہے جو کہ مسلمان عرفا کے وحدت الوجودی مسلک کے ہم معنی نہیںہے۔ عرفا میں Pantheism کا معنی حلول لیا جاتا ہے نہ کہ ’’وحدت الوجود‘‘۔ ایرانی دانشور اور محقق ڈاکٹر سید حسین نصر نے اپنے ایک خط میں اقبال پر اعتراض کیا ہے کہ وہ وحدت الوجود (عرفا کے مسلک) اور Pantheism (سترھویں صدی کے بعد کے علمی و فلسفی مذہب) میں فرق کو نہیں سمجھ سکے۔ (ڈاکٹر حسین نصر کا یہ خط راقم کے پاس موجود ہے) اور اس سلسلے میں ڈاکٹر سید حسین نصر نے مغربی ماہرین فلسفہ کے اس اشتباہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: All of these accusations are false, however, because they mistake the metaphysical doctrines of Ibn Arabi for philosophy and do not take into consideration the fact that they way of gnosis is not separate from grace and sanctity.40 (iv) جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ اقبال کے ابن عربی کی تالیفات کی بلاواسطہ تفہیم کے کم شواہد نظرآتے ہیں۔ اُنھوں نے ابن عربی کی تعلیمات کے سب سے بڑے شارح اور مفسر صدر الدین قونوی کے بعد کی نسل کے شارحین اور مفسرین سے زیادہ تر استفادہ کیا لہٰذا ہوسکتا ہے کہ (ا) ابن عربی کی تعلیمات اور فصوص الحکم اور فتوحات کی جو تفہیم اُن تک پہنچی ہو وہ ابن عربی کی مراد نہ ہو۔ (ب) اقبال نے ابن عربی پر مسئلہ ’’تنزلات ستّہ‘‘ اور مسئلہ ’’قدم ارواح کملائ‘‘ کے نظریات کی بنا پر جو اعتراض کیا ہے عین ممکن ہے کہ ابن عربی کے ہاں ان کا وہ مفہوم ہی نہ ہو جو اقبال نے یا ابن عربی کے بعد کی صدیوں میں شارحین نے اُن سے اخذ کیا۔ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- محمد سہیل عمر، ’’ابن عربی اور اقبال‘‘، ماہنامہ سیارہ ، لاہور، دسمبر۱۹۹۵ئ، ص۳۶۔ ۲- ایضاً، ص۳۶۔ 3- Muhammad Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia, Bazm-i-Iqbal Lahore, 1964, p.64. اس کتاب کا اردو ترجمہ میر حسن الدین نے کیا جو فلسفہ عجم کے نام سے نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا۔ ترجمہ: اسلامی تصوف کے متعلم کو جسے اُصولِ وحدت کی ایک جامع و محیط تشریح سے واقف ہونے کی خواہش ہو اُندلسی فلسفی ابن عربی کی ضخیم مجلدات دیکھنی چاہییں۔ (فلسفہ عجم ، مترجم میر حسن الدین ص۱۴ ) 4- Ibid, p.64. ترجمہ: الجیلی جیسا کہ خود اس نے اپنے کسی شعر میں کہا ہے ۷۶۷ھ میں پیدا ہوا۔ ۸۱۱ھ میں وفات پائی۔ الجیلی ایسا مصنف نہیں تھا جس نے شیخ محی الدین ابن عربی کی طرح کوئی جدید تخیل پیش کیا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ الجیلی کی تعلیمات پر شیخ محی الدین ابن عربی کے طریقہ تفکر کا بہت گہرا اثرا پڑا ہے، اس میں شاعرانہ تخیل اور فلسفیانہ دقیق النظری گھل مل گئی تھی۔ لیکن اس کی شاعری، اس کے صوفیانہ اور مابعد الطبیعی نظریات کے اظہار کا محض ایک آلہ تھی۔ اس نے منجملہ اور تصانیف کے شیخ محی الدین ابن عربی کی شرح بسم اللہ پر جو فتوح المکیہ کے نام سے موسوم ہے ایک شرح لکھی اور انسان کامل بھی اس کی مشہور تصنیف ہے۔ [فلسفہ عجم، ص۱۹۴، ۱۹۵] 5- Ibid, 6- Ibid, p.17. ترجمہ: ایرانیوں کو عقلی ارتقا کی اس منزل پر اس بات کا دھندلا سا ادراک ہوا تھا کہ اُصول وحدت تمام موجودات کی فلسفیانہ بنیاد ہے، پیروان زرتشت کے باہمی مناقشات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کے توحیدی تصور کی تحریک شروع ہوگئی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی ایسی شہادت نہیں ہے جس سے قبل اسلامی فلسفہ ایران کے وحدت الوجودی میلانات کے متعلق کوئی ایجابی بیان پیش کرسکیں۔(فلسفہ عجم، ص۴۱،۴۲) 7- Ibid, p.42. ترجمہ: بعض عقلیین غیرشعوری طور وحدت الوجود کی سرحد تک پہنچ گئے تھے۔ اور ایک لحاظ سے انھوں نے خدا کی جو تعریف کی ہے اور قانون مطلق کی خارجیت کو باطنیت میں منتقل کرنے کی جو مشترکہ کوشش کی ہے اس سے وحدت الوجود کے لیے راستہ صاف ہورہا تھا۔(فلسفہ عجم، ص۷۸) 8- Ibid, p.47. ترجمہ: تاریخ فلسفہ یورپ کی اٹھارہویں صدی میں فشٹے (Fichte) بھی ماہیت مادہ کی تحقیق کا آغاز ایک ارتیابی نقطہ نظر سے کرتا ہے اور اس کا فلسفہ وحدت الوجود پر منتہی ہوتا ہے، شلائر ماخر (Schleiermacher) بجائے عقل کے ایمان کو متاثر کرتا ہے، جاکوبی (Jacobi) عقل سے بالاتر مبداے علم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔(فلسفہ عجم، ص۸۵) 9- Ibid, p.47. ترجمہ: اشاعرہ توحید کے زبردست حامی تھے ماہیت جوہر کے اس تخیل کے ساتھ روح انسانی کی ماہیت پر محفوظ طریقے سے بحث نہیں کرسکتے تھے۔ صرف الغزالی نے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کو اُٹھایا۔ اور صحت کے ساتھ یہ بیان کرنا آج تک دشوار ہے کہ ماہیت خدا کے متعلق ان کا کیا خیال ہے۔ جرمنی کے بورگر (Borger) اور سول گر (Solger) کی طرح ان میں بھی صوفیانہ وحدت الوجود اور اشاعرہ کا عقیدہ شخصیت گھل مل گیا ہے۔ یہ ایسا امتزاج ہے کہ اس کی وجہ سے یہ بتلانا نہایت دشوار ہے کہ یہ محض وحدت الوجود کے قائل ہیں یا لوٹزے (Lotze) کی طرح شخصی وحدت الوجود کو مانتے ہیں۔(فلسفہ عجم، ص۱۰۵) 10- Ibid, p.11. ترجمہ: الغزالی کے خیال کے مطابق روح اشیا کا ادراک کرتی ہے۔ لیکن ادراک بحیثیت ایک عرض کے ایسے جوہر یاذات میں قائم رہ سکتا ہے جو جسمانی صفات سے کلیتہً پاک ہو۔ اپنی کتاب المضنون میں وہ تصریح کرتے ہیں کہ پیغمبر علیہ السلام نے ماہیت روح کو ظاہر کرنے سے کیوں انکار کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمیوں کی دو قسمیں ہیں، عوام اور مفکرین، اول الذکر جو مادیت کو وجود کی شرط سمجھتے ہیں وہ غیرمادی جوہر کا تعقل کرنے سے قاصر ہیں اور آخرالذکر اپنی منطق کے ذریعے سے روح کا ایسا تصور قائم کرتے ہیں، جو خدا اور انفرادی روح کے باہمی فرق کو بالکل مٹا دیتا ہے۔ الغزالی نے محسوس کر لیا تھا کہ ان کی تحقیقات کا رُخ وحدت الوجود (Pantheism) کی طرف ہے اور اسی وجہ سے روح کی انتہائی ماہیت کے متعلق انھوں نے سکوت اختیار کیا۔(فلسفہ عجم، ص۱۰۶-۱۰۵) 11- Ibid, p.78. ترجمہ: غرض کہ یہ اور اسی قبیل کے دیگر حالات کی متحدہ قوت نے ایسے لوگوں کو جن کی سیرت زاہدانہ واقع ہوئی تھی، اس مسلسل بے چینی کے منظر سے ہٹا کر ایک پرسکون مراقبہ کی زندگی کی طرف رجوع کردیا۔ ان ابتدائی مسلمان مرتاضیین کی حیات وفکر کی سامی نوعیت کے ساتھ ساتھ وحدت الوجود کا ایک وسیع نظریہ بتدریج وجود میں آگیا۔ جس پر کم وبیش آریائی رنگ چڑھا ہوا تھا۔ اس نظریہ کا ارتقا ایران کی سیاسی آزادی کے نشوونما کے متوازی تھا۔(فلسفہ عجم، ص۱۳۶) 12- Ibid, p.85. ترجمہ: یہ چند خاص آیات ہیں جن کی بنا پر صوفی مفسرین نے کائنات کے ایک وحدت الوجودی نقطۂ نظر کو نمو دیا ہے، یہ لوگ روحانی تربیت کے حسب ذیل چار منازل پیش کرتے ہیں۔ روح کو امر ربی کہا جاتا ہے، قل الروح من امرربی۔ اگر کوئی ادنی درجے سے ترقی کرکے اشیائے عالم کے مبدا سے اتحاد و وصل کی خواہش کرے تو اس کو ان منازل میں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔(فلسفہ عجم، ص۱۴۷) 13- Ibid, p.88. ترجمہ: اس مکتب کے معلمین نے اس نوفلاطونی تصور کو اختیار کرلیا کہ تخلیق درمیانی مراحل کے توسط سے ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ تصور صوفی مصنّفین کے ذہنوں میں ایک زمانہ تک باقی رہا۔ لیکن انھوں نے وحدت الوجود کے نظریہ کی راہنمائی میں صدور کے نظریہ کو بالکل ترک کردیا۔(فلسفہ عجم، ص۱۵۲) 14- Ibid, p.89. ترجمہ: اس مکتب کو حسین منصور نے بالکل وحدت الوجودی بنا دیا اور ایک سچے ہندو ویدانتی کی طرح اناالحق (اہم برہما اسمی) چلّا اُٹھا۔(فلسفہ عجم، ص۱۵۲-۱۵۳) 15- Ibid, p.93. ترجمہ: اگر خالص فلسفیانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو آخری تحریک بہت ہی دل چسپ ہے۔ تاریخ فکر چند عام قوانین ارتقا کا عمل ہم پر واضح کردیتی ہے۔ یہ قوانین مختلف اقوام کی عقلی تاریخ میں بھی پائے جاتے ہیں، جرمنی کے توحیدی نظاماتِ فکر سے ہر بارٹ کی کثرتیت پیدا ہوجاتی ہے۔ سپائی نواز کے وحدت الوجود سے لائینیز کی فردیت وجود میں آتی ہے۔ اسی قانون کے اثر سے واحد محمود نے بھی اپنے زمانہ کی وحدیت سے انکار کردیا۔(فلسفہ عجم، ص۱۵۹-۱۶۰) 16- Ibid, p.114. ترجمہ: اس عظیم ایرانی شہید کے فلسفہ کا یہ ماحصل ہے۔ صحیح معنوں میں یہی پہلا صاحب نظام ایرانی ہے جس نے یہ تسلیم کیا کہ ایرانی تفکر کے تمام شعبوں میں صداقت کے عناصر موجود ہیں اور خود اپنے نظام فلسفہ میں ان عناصر صداقت کو دقیق النظری سے مرتب و منضبط کرتا ہے۔ جب وہ خدا کی یہ تعریف کرتا ہے کہ وہ تمام محسوس تصوری وجود کا مجموعہ ہے تو اس لحاظ سے وہ ہمہ اوست وحدت الوجود (Pantheism) کا قائل ہے۔(فلسفہ عجم، ص۱۹۲) 17- Ibid, p. ترجمہ: اس ایرانی شہید سے زیادہ کسی اور ایرانی مفکر کو اس ضرورت کا احساس نہیں ہوا کہ وجود خارجی کے تمام پہلوئوں کی توجیہ اس کے اساسی اُصول کے حوالے سے کی جائے۔ وہ ہمیشہ تجربے کی طرف رجوع ہوتا ہے اور طبعی مظاہر کی توجیہ بھی اپنے نظریہ تجلی کی روشنی میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خارجیت جو ہمہ اوست (وحدت الوجود Pantheism) کی انتہائی باطنیت میں بالکل دب گئی تھی اس کے نظام فلسفہ میں ابھر آتی ہے۔ جس میں اس کی تفصیلی تحقیق و تفتیش کے بعد ایک جامع توجیہ کی گئی ہے۔(فلسفہ عجم، ص۱۹۳) 18- Ibid, p.126. ترجمہ: وہ (الجیلی) کہتا ہے کہ خدا کا فطرت کے اندر موجود ہونا ہستی کے اختلال کو مستلزم ہے۔ خدا فطرت کے اندر نہیں ہے، کیوں کہ وہ خود موجود ہے۔ خارجی وجود خدا کی ذات کا دوسرا رُخ ہے۔ ایک روشنی ہے، جس کے ذریعے سے خدا اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ جس طرح ایک تصور کو پیدا کرنے والا خود اس تصور کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا فطرت کے اندر موجود ہے کوئی شخص یہ کَہ سکتا ہے کہ خدا اور انسان میں فرق یہ ہے کہ خدا کے تصورات مادی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور ہمارے تصورات نہیں کرتے۔ یہاں یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ہیگل بھی اپنے آپ کو ہمہ اوست (وحدت الوجود Pantheism) کے الزام سے بری رکھنے کے لیے اسی قسم کا استدلال کرے گا۔ (فلسفہ عجم، ص۲۱۰) 19- Ibid, p.128. ترجمہ: ہم نے پہلے ہی یہ معلوم کرلیا ہے کہ انسان کو کمال کی طرف ترقی کرنے کے لیے تین منازل سے گزرنا پڑتاہے۔ پہلی منزل میں اس اسم پر استغراق و مراقبہ کرنا پڑتا ہے جن کو ہمارا مصنف تمام اسما کی تجلی سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب خدا کسی خاص شخص کو اپنے اسما کے نور سے منور کردیتا ہے تو یہ شخص اس اسم کی چکاچوند کر دینے والی روشنی میں فنا ہوجاتا ہے اور جب تم خدا کو پکارتے ہو تو یہی شخص اس آواز کا جواب دیتا ہے اور اس تنویر کا نتیجہ شوپنہائر (Schopenhauer) کی زبان میں یہ ہوگا کہ انفرادی ارادہ فنا ہوجائے گا تاہم اس کو جسمانی موت سے خلط ملط نہ کرنا چاہیے، کیوں کہ بقول کپیلا کے فرد پرا کرتی سے متحد ہوجانے کے بعد بھی زندہ اور چرخہ کی طرح متحرک رہتا ہے۔ اس موقع پر کوئی فرد ’’ہمہ اوست‘‘ وحدت الوجود (Pantheism) کے نشہ میں پکار اٹھتا ہے: میں اس میں تھا اور وہ مجھ میں اور ہم کو کوئی جدا کرنے والا نہ تھا۔(فلسفہ عجم، ص۲۱۳) 20- Ibid, p.147-148. ترجمہ : ان (قدیم ایرانی مفکرین قبل از اسلام) کے نظام میں دو کمزوریاں پائی جاتی ہیں: ۱- عریاں ثنویت ۲-فقدان تحلیل پہلی کمزوری کو اسلام نے دور کردیا، اور دوسری کمزوری یونانی فلسفہ کی اشاعت (تعارف) سے رفع ہوگئی بہرصورت اسلام کی آمد اور یونانی فلسفہ کے مطالعہ سے ایرانیوں کے میلان وحدیت میں مزاحمت پیدا ہوگئی لیکن ان دو قوتوں نے اس خارجی نقطہ نظرکو بدل دیا، جو ابتدائی مفکرین کی امتیازی خصوصیت تھی اور باطنیت کو گہری نیند سے بیدار کردیاجو بالآخر بعض صوفیانہ مکاتب کی وحدت الوجود میں آکر اپنے منتہائے کمال کو پہنچ گئی۔(فلسفہ عجم، ص۲۳۸) ۲۱- محمد اقبال، اقبال نامہ، حصہ دوم، (مرتبہ: شیخ عطاء اللہ)، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۵۱ئ، ص۳۵۳-۳۵۵۔ ۲۲- محمد اقبال، مقالات اقبال، (مرتبہ: سید عبدالواحد معینی)، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۶۳ئ، ص۱۵۳۔ ۲۳- ایضاً، ص۱۵۵۔ ۲۴- ایضاً، ص۱۵۶۔ ۲۵- ایضاً، ص۱۵۷۔ ۲۶- ایضاً، ص۱۶۴۔ ۲۷- محمد اقبال، کلیات اقبال، اردو، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۹۱ئ، ص۵۱۱۔ 28- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy Pakistan Lahore, 1989, p.147-148. ترجمہ: محی الدین عربی کہتے ہیں دھر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور ایسے ہی رازی نے بھی تفسیر قرآن میں لکھا ہے کہ بعض صوفی بزرگوں نے انھیں لفظ دھر، دیہور یا دیہار کے ورد کی تلقین کی تھی۔(تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجم: نذیر نیازی، ص۱۱۱) 29- Ibid, p.59. ترجمہ: کانٹ نے تو اُس مسئلے میں کہ مابعد الطبیعات کا وجود کیا ممکن ہے جو فیصلہ صادر کیا ہے، اس نظریے کے ماتحت کہ ایک تو شے ہے ’’بذاتہ‘‘ اور ایک شے ہے ’’بظاہر‘‘ لیکن فرض کیجیے معاملہ یوں نہ ہو جیسا کانٹ کا خیال تھا بلکہ اس کے برعکس۔ چنانچہ اسلامی اندلس کے (مشہور) عظیم صوفی فلسفی محی الدین ابن عربی کا یہ قول کیا خوب ہے کہ وجود مدرک تو خدا ہے، کائنات معنی۔ (تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجم: نذیر نیازی، ص۲۸۱) ۳۰- محمد اقبال، اقبال نامہ، حصہ دوم، (مرتبہ: شیخ عطاء اللہ)، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۵۱ئ، ص۲۳۷۔ ۳۱- ایضاً، ص۱۶۴۔ ۳۲- ایضاً، ص۱۶۸-۱۶۹۔ ۳۳- ایضاً، ص۱۷۸۔ ۳۴- ایضاً، ص۱۷۹-۱۸۰۔ ۳۵- ایضاً، ص۴۴۲-۴۴۳۔ 36- Muhammad Iqbal, Discourses of Iqbal, Edited by Shahid Hussain Razzaqi, Iqbal Academy Pakistan Lahore, 2003, p.238. ۳۷- اقبال نامہ، حصہ دوم، ص۳۴۲۔ ۳۸- محمد سہیل عمر، ’’ابن عربی اور اقبال‘‘، ماہنامہ سیارہ ، لاہور، دسمبر۱۹۹۵ئ، ص۳۷۔ ۳۹- ایضاً، ص۳۶۔ 40- Syed Hussein Nasr, Three Muslim Sages, Suheyl Academy, Pakistan,1988, p.104-105. ترجمہ : (اُن) لوگوں نے ابن عربی کے مابعد الطبیعیاتی عقائد کو فلسفہ سمجھ لیا ہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے کہ طریق عرفان فیض و برکتِ الٰہی سے جدا نہیں۔(تین مسلمان فیلسوف، مترجم: مرزا محمد منور، ص۱۴۵) ئ……ئ……ء اقبال اور فیض: قربتیں اور فاصلے ڈاکٹر ریاض قدیر اقبال اور فیض کی شاعری بیسویں صدی کی دو نمایاں آوازیں ہیں۔ ان دونوں شخصیات کی ہم عصری یوں ہے کہ ایک کا سورج غروب ہورہا تھا اور دوسرے کا چاند طلوع ہورہا تھا۔جس طرح شخصیات کی بلندیِ درجات کا تقابل ان کی فکر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اقبال کے ساتھ فیض کاموازنہ بھی بہت سے فرق واضح کردیتا ہے۔ اس موازنے سے محض اقبال کی فکری بلندی ہی سامنے نہیں آتی بلکہ شخصی مزاجوں کا فرق بھی ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم اس حقیقت کے باوجود یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دونوں نے فکروفن کاکامیاب امتزاج پیش کیا ہے۔ انقلاب کو شعر و نغمہ کا آہنگ عطا کرنا بہتر انسانی معاشرے کی تعمیر کی غرض سے تھا جو دونوں شعرا کا مشترکہ وصف دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ دونوں خوابوں، آرزئوں اور دعائوں کے شاعر ہیں۔ اردو شاعری میں کلامِ غالب سے جس جدید طرز احساس کا آغاز ہوا، اقبال اور فیض کا کلام اس کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ تیز ترین سماجی تبدیلیوں سے دو چار ہوتے ہوئے انسانوں کے جذبات و احساسات اور عصری شعور کو غالب کے بعد اقبال اور فیض احمد فیض نے ہی تخلیقی تجربے میں ڈھالنے کے بعد منظم فنی انداز میں پیش کیا۔ فیض صاحب نے جس دور میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا، اقبال اردو شاعری میں ایک تحریک اور روایت کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ جس سے باہر نکلنا کسی بھی اردو شاعر کے بس کی بات نہ تھی۔ جوش، حفیظ اور اختر شیرانی اقبال کے اثرات کے باوجود اردو شاعری میں اپنا اپنا رنگ جمانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ کوششیں بھی دراصل اقبال کے شاعرانہ اثرات ہی کا رد عمل تھیں۔ جب فیض کے ادبی سفر کا آغاز ہوا اس وقت اردو شاعر ی کی دنیا میں اقبال کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اقبال اردو شاعری کا وہ برگد تھا جس کے زیر سایہ کوئی شاعر قد نہ نکال سکتا تھا۔ فیض کی شاعرانہ انفرادیت اسی میں تھی کہ وہ اس برگد سے ایک فاصلے پر رہتا۔ یہ فاصلہ زمانی بھی ہے اور ذہنی بھی۔ اقبال کی وفات (۱۹۳۸ئ) کے وقت فیض کی عمر تقریباً ستائیس برس تھی اور وہ اپنے ادبی سفر کا آغاز کر چکے تھے مگر خوش قسمتی سے فیض کی شاعری کو عروج اور شہرت حاصل کرنے کے لیے اقبال کی وفات کے بعد ایک طویل زمانی فاصلہ مل گیا تھا۔ اقبال کی زندگی میں بھی فیض اقبال کے قریب نہ آ سکے۔ اگرچہ دونوں کا تعلق ایک ہی شہر (سیالکوٹ) سے تھا اور فیض کے والد چوہدری سلطان کے ساتھ علامہ اقبال کے دوستانہ مراسم بھی تھے۔ اقبال کی دو تین سرسری ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ جن کا ذکر فیض نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ بقول فیض: ہماری طالب علمی کے آخری دن تھے۔ گورنمنٹ کالج کے سالانہ مشاعرے میں ایک مقابلہ ہوا تھا۔ موضوع دیا گیا تھا ’’اقبال‘‘ اس پر بھی ہمیں انعام ملا تھا۔ صوفی تبسم نے ہم سے کہا تم بھی نظم سنا دو تو ہم نے کہا تھا ’’علامہ اقبال کے سامنے تو ہم نظم نہیں سناتے ۔ صوفی صاحب نے کہا نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ بہت اچھی نظم ہے پڑھ دو ۔ چنانچہ وہ نظم ہم نے پڑھ دی ۔ اس کے بعد تاثیر صاحب اور سالک صاحب کے ساتھ دو تین دفعہ حاضری کا موقع ملا۔۱؎ فیض صاحب کے اندازِ گفتگو سے واضح ہے کہ یہ ملاقاتیں اتفاقی اور سرسری تھیں اور انھیں خود بقول فیض اقبال کے حضور حاضری ہی کہا جا سکتا ہے۔ فیض جاوید منزل پر ہونے والی اقبال کی محفلوں میں کبھی شعوری طور پر ذوق و شوق سے شامل نہ ہوئے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے کیا ہو سکتی ہے کہ فیض کا مزاج اقبال سے مختلف تھا اور وہ فکرِ اقبال سے ذہنی ہم آہنگی نہیں رکھتے تھے۔ وہ اقبال سے جذباتی طور پر متاثر نہ تھے اور نہ کبھی اقبال سے ان کا تعلق خاطر ہی پیدا ہو سکا۔ انھوں نے اقبال پر جو دو نظمیں کہی ہیں۲؎ ان میں اقبال کی شخصیت کے ساتھ شاعر کی کسی جذباتی وابستگی کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہ دونوں نظمیں اقبال کی قومی اور شعری خدمات کو رسمی خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ فیض اقبال سے جذباتی لگاؤ نہ رکھتے تھے۔ اقبال اور فیض کی شاعری میں بعض اتفاقی اور شعوری مماثلتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اقبال اور فیض دونوں اپنی شاعری کے ابتدائی ادوار میں رومانویت کے اسیر ہیں۔ اردو میں رومانوی تحریک کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل میں ہوا۔ اس تحریک کے پیچھے کارفرما دیگر محرکات کے علاوہ ایک اہم محرک یہ تھا کہ اس زمانے میں ہندوستان کے سکولوں اور کالجوں کے نصابات میں انگریزی رومانوی شعرا کی نظمیں خاص طور پر شامل ہوتی تھیں۔ انگریزی کے اِن رومانوی شعرا کی شاعری کی طلسمی فضا نے برصغیر پاک و ہند کے نوجوان تعلیم یافتہ طبقے کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ اقبال اور فیض اسی نظام تعلیم کے پروردہ تھے۔ اقبال کی ابتدائی شاعری میں رومانویت کی شدت کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جو ایک طرف اقبال کی طبع زاد نظموں میں انسانی حسن اور حسنِ فطرت سے لگاؤ، انتظار اور تنہائی کی کیفیات اور جذبہ و تخیل کی فراوانی کی صورت میں ظاہر ہوئی ہیں تو دوسری طرف رومانوی انگریزی شعرا کے منظوم اردو تراجم کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ ہمالہ، ایک آرزو، شمع و پروانہ، پرندے کی فریاد، پیامِ صبح (ترجمہ لانگ فیلو)، عشق اور موت (ماخوذ از ٹینی سن)، رخصت اے بزم جہاں (ماخوذ از ایمرسن)، موجِ دریا، چاند، صبح کا ستارہ اور حقیقت حسن، جیسی نظموں پر رومانویت کی چھا پ نہایت گہری ہے۔ رومانویت کے یہ اثرات فیض کی نقش فریادی کے ابتدائی حصے کی نظموں پر بھی بہت واضح ہیں۔ آخری خط، تنہائی، مری جاں اب بھی، حسینۂ خیال سے (براؤ ننگ)، سرود، ایک رہگزر پر، یاس، تہِ نجوم، حسن اور موت، ایک منظر اور مرے ندیم، رومانوی فضا میں ڈوبی ہوئی نظمیں ہیں۔ اقبال اور فیض کے تخلیقی سفر میں ایک عجیب مماثلت پائی جاتی ہے کہ دونوں شعرا کی شاعری کا آغاز رومانوی رجحانات کے زیر اثر ہوا لیکن دونوں شعرا نے اپنے شاعرانہ سفر کی ابتدا کے چند برس بعد رومانویت سے شعوری انحراف کرتے ہوئے اپنے فن شعر گوئی کو مخصوص نظریات سے وابستہ کرنے کا اعلان کیا۔ اقبال کی شعر گوئی کا آغاز ۱۹۹۸ء میں ہوا اور انھوں نے اپنے فنی سفر کے آٹھویں برس مارچ ۱۹۰۷ء میں ملت اسلامیہ کی حالتِ زار کا احساس کرتے ہوئے اپنے نئے ادبی نصب العین کا اعلان کر دیا کہ: میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا۳؎ اسی طرح فیض کو بھی اپنی شعر گوئی کے آغاز کے چند برس بعد ۱۹۳۶ء میں معاشرے کے مفلوک الحال غریبوں کا درد ستانے لگا اور انھوں نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام نقش فریادی کے وسط تک جاتے جاتے دلے بفروختم و جانے خریدم۴؎ کا نعرہ بلند کر دیا۔ غمِ روزگار کی شدت نے انھیں محبوب کی یاد سے بیگانہ کر دیا۔ محبوب سے معذرت کر لی اور غم جاناں سے غم دوراں کی طرف چلے آئے۔ اقبال اور فیض دونوں نے شاعری میں شعوری طور پر مقصدیت کو اپنایا۔ ایک نے مفلوک الحال ملت اسلامیہ کی المناکیوں کا مداوا کرنا چاہا اور دوسرے نے غربت و افلاس کے مارے محروم انسانوں کے دکھوں کی دوا کرنا چاہی۔ مقصدیت دونوں کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔ دونوں ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے راستے پرگامزن ہیں اور دونوں کے فکر و فن میں کامیاب تخلیقی امتزاج پایا جاتا ہے۔ اقبال اور فیض دونوں مثالی معاشرے کا آدرش رکھتے ہیں۔ بہتر زمانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے کی صورت میں اور دوسرا غیر طبقاتی معاشرے کی صورت میں۔ دونوں اپنے آدرش کے حصول کی شدید آرزو رکھتے ہیں۔ دونوں جذبۂ شوق اور تڑپ سے سرشار ہیں: اقبال کہتے ہیں: مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے۵؎ فیض کا کہنا ہے: عرصۂ دہر کے ہنگامے تہِ خواب سہی گرم رکھ آتش پیکار سے سینہ اپنا۶؎ دونوں کی شاعری عزم و یقین اور حوصلہ مندی کی پیغام بر ہے۔ اقبال: غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں۷؎ فیض: اے خاک نشینو اُٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اُچھالے جائیں گے۸؎ دونوں حصولِ منزل کے لیے عمل اور جدوجہد پر اکساتے ہیں۔ اقبال: عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۹؎ فیض: کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے۱۰؎ دونوں کا لہجہ رجائی ہے۔ دونوں کی شاعری اندھیروں میں امید کی روشنی دکھاتی ہے اور روشن مستقبل کی نوید دیتی ہے۔ اقبال: شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے۱۱؎ فیض: دل نہ امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۱۲؎ یہاں طوالت سے بچنے کے لیے اقبال اور فیض کے کلام سے ایک ایک شعر کی مثال دی گئی ہے ورنہ دونوں شعرا کا کلام ایسے مضامین کے اشعار سے بھرا پڑا ہے۔ فیض اقبال کو اس لیے اہمیت دیتے ہیں کہ انھوں نے اردو شاعری میں حکمت اور مقصدیت کو پروان چڑھایا اور شاعری کو ذاتی اور تفریحی سطح سے اُٹھا کر اجتماعی مقاصد کا ترجمان بنایا۔ فیض اعتراف کرتے ہیں کہ اقبال نے فکر و فن کے امتزاج سے اردو شعر و ادب کے لیے ایک نئے مقام کا تعین کیا۔ بقول فیض: آفاقی طریقہ سے سوچنے کا ڈھب، اور اس کو سوچنے کی ترغیب ہمارے ہاں اقبال نے پیدا کی اور آخری چیز جو میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے تخلیق کی وہ شعر و ادب کے لیے ایک نئے مقام کا تعین تھا۔یہ مقام اس سے پہلے ہمارے ہاں نہ شعر کو حاصل تھا نہ ادب کو۔ ہمارے ہاں اس سے پہلے شعر یا تو تفریحی چیز سمجھی جاتی تھی یا ایک غنائیہ سی چیز سمجھی جاتی تھی یا زیادہ سے زیادہ محض ایک اصلاحی چیز سمجھی جاتی تھی یہ بھی حالی کے بعد۔ شعر میں فکر اور شعر میں حکمت اور شعر میں وہ عظمتیں جن کو ہم شاعروں سے نہیں فلاسفروں سے متعلق کرتے ہیں وہ محض اقبال کی وجہ سے ہمارے یہاں پیدا ہوئی ہیں۔۱۳؎ فیض نے اقبال کے قائم کردہ اس نئے مقام کو اپنا یا اور فنِ شعر کو ایک فکر اور مقصد کے لیے وقف کیا اور اپنے مقصد کو شعر میں فنی کامیابی کے ساتھ آمیخت کیا۔ اقبال اور فیض دونوں کے ہاں شعر میں فکر و فن کا امتزاج کامیاب ہے۔ مگر دونوں کے نظریات اور مقاصد حیات میں خاصا بُعد ہے۔ اقبال کے نزدیک انسانی زندگی کا مقصد تعمیر و تکمیل خود کے ذریعے تسخیر کائنات اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ جب کہ فیض کی شاعری سے جو مقصد حیات سامنے آتاہے وہ استحصال اور ظلم و ستم سے پاک انسانی معاشرے کا قیام ہے۔ ظاہر ہے کہ اقبال کی مقصدیت میں حیات انسانی کی جامعیت اور وسعت ہے جب کہ فیض کی مقصدیت انسانی زندگی کے صرف مادی ومعاشی پہلو تک محدود ہے۔ اقبال کا مردِ مومن جملہ جسمانی اور روحانی اوصاف سے متصف ہو کر کارزارِ حیات میں ارفع مقاصد کے حصول کے لیے برسرپیکار ہے۔ فیض کی شاعری کا انسان معاشی جبر میں گھری ہوئی ایک بے بس اور مجبور مخلوق ہے۔ اقبال کا مردِ مومن ستاروں سے آگے جہانوں میں محوِ پرواز ہے، راکبِ تقدیرِ جہاں ہے۔ وہ آفاق میں گم نہیں ہوتا بلکہ آفاق اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ وہ روحانی طاقت اور باطنی توانائی سے مالا مال ہے جب کہ فیض کا انسان استحصالی معاشرے کا مظلوم انسان ہے۔ جو آرزو اور آدرش تو رکھتا ہے آزادی کی جدوجہد بھی کرتا ہے مگر اقبال کے مردِ مومن کی صلابتِ کردار سے محروم ہے۔ اور نہ تعمیرِ کردار کے ان مراحل سے ہی گزرتا دکھائی دیتا ہے جو اقبال کے مردِ مومن کا خاصا ہے۔ اس ضمن میں اقبال کی نظم ’’طارق کی دعا‘‘ اور فیض کی نظم ’’کتے‘‘ کا موازنہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ پہلے اقبال کی نظم پڑھیے۔ یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذتِ آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی خیاباں میں ہے منتظرِ لالہ کب سے قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے کِیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا خبر میں نظر میں، اذانِ سحر میں طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں کُشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرۂ ’لاتذر‘ میں عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے۱۴؎ اب اسی بحر میں فیض کی علامتی نظم ’’کتے‘‘ ملاحظہ ہو۔ یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے یہ مظلوم مخلوق گر سر اُٹھائے تو انسان سب سرکشی بھول جائے یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہلا دے۱۵؎ اقبال کی مقصدیت ارفع اور وسیع ہے۔ اس میں ایک جامعیت اور آفاقیت ہے جب کہ فیض کی مقصدیت اقبال کے مقابلے میں محدود ہے۔ اقبال کا شعری کینوس وسعت کا حامل ہے۔ اس میں زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ آسمانی اور ما بعد الطبیعیاتی حقائق ( خدا، جنت، دوزخ، حورو فرشتہ اور ابلیس وغیرہ) کا ادراک و شعور کلامِ اقبال کو ایک وسیع تناظر عطا کرتا ہے۔ جب کہ فیض کی شاعری انسان کی زمینی خواہشات اور مادی آرزؤں کے اظہار تک سمٹی ہوئی ہے۔ اقبال کی شاعری میں زندگی کی کلیت ہے جس کا ایک جزو انسان کی معاشی محرومیاں بھی ہیں ۔ اقبال نے غربت ، افلاس اور استحصال جیسے موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا کیونکہ یہ حیات انسانی کے اہم مسائل اور انسانیت کا بڑا المیہ ہیں۔ اقبال استحصالی معاشرے کو قبول نہیں کرتا اور مساوات اور انصاف پر مبنی معاشرے کا خواہاں ہے۔ اقبال نے متعدد اردو اور فارسی نظموں میں سرمایہ داری اور معاشی استحصال کی شدید مذمت کی ہے۔ بندہ مزدور کے تلخ احوال کی عکاسی کی ہے اور اسے بیداری اور انقلاب کا پیغام دیا ہے۔۱۶؎ اقبال کے ہاں یہ مسائل زندگی کا ایک حصہ ہیں پوری زندگی نہیں جب کہ فیض انسان کے معاشی مسائل ہی کو اس کی پوری زندگی سمجھتا ہے۔ فیض کی شاعری کا جزو اعظم مادیت اور معیشت ہے جب کہ اقبال کی شاعری کا جزو اعظم مذہب ہے۔ اقبال زندگی کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے جس کے مطابق زندگی دارالعمل، دارالامتحان اور انسانی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی جگہ ہے۔ قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانندِ حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی۱۷؎ یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے۱۸؎ مقامِ پرورشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن نہ سیرِ گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے۱۹؎ فیض زندگی کو گناہ کی فرصت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اک فرصتِ گناہ ملی، وہ بھی چار دن دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے۲۰؎ یہ بجا ہے کہ اقبال اور فیض دونوں نے زاہدِ تنگ نظر اور کم فہم ملا پر جا بجا طنز کیاہے جو کسی حد تک فارسی اور اردو شاعری کی روایت کا تتبع ہے اور بڑی حد تک مذہب کے ظاہری اور جمودی پہلو پر چوٹ۔ مگر اقبال نے فی نفسہٖ مذہب کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ اقبال کے ہاں مذہب انسانی قوت و عظمت کا حقیقی سر چشمہ ہے۔ اقبال کی پوری شاعری خدا اور انسان کے روحانی تعلق کی تفسیر ہے جسے اقبال نے عشق، سوز، شوق اور آرزو و جستجو سے تعبیر کیا ہے: تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ تو ہی مری آرزو تو ہی مری جستجو۲۱؎ شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نے میں ہے نغمۂ ’اللہ ھو‘ میرے رگ و پَے میں ہے۲۲؎ سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خداوندی۲۳؎ فیض کی شاعری خدا اور انسان کے اُس روحانی تعلق سے عاری ہے جو اقبال کی شاعری کی کلید ہے۔ یہ تعلق معبود اور عبد کا بھی ہے اور اللہ اور خلیفۃ اللہ کا بھی۔ اقبال کا مردِ مومن اطاعتِ الٰہی، ضبطِ نفس اور عشقِ رسول کے مراحل طے کرتا ہوا نیابتِ الٰہی کے منصب پر فائز ہے۔ اقبال انسان کے مقام عبودیت کو اس کی عظمت کا اصل راز قرار دیتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے: متاعِ بے بہا ہے درد و سوز و آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی۲۴؎ جب کہ فیض نے اپنی پنجابی نظم ’’ربّا سچیا‘‘ میں انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کا مذاق اڑایا ہے۔ ربا سچیا توں تے آکھیا سی جا اوے بندیا جگ دا شاہ ہیں تو ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں ساڈا نَیب تے عالیجاہ ہیں توں ایس لارے تے ٹور کد پچھیا ای کِیہہ ایس نمانے تے بیتیاں نیں کدی ساروی لئی او رب سائیاں تیرے شاہ نال جگ کِیہہ کیتیاں نیں کِتے دھونس پولیس سرکار دی اے کِتے دھاندلی مال پٹوار دی اے اینویں ہڈّاں چ کلپے جان میری جیویں پھاہی چ کونج کرلاوندی اے چنگا شاہ بنایا ای رب سائیاں پولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے مینوں شاہی نئیں چاہیدی رب میرے میں تے عزت دا ٹکر منگناں ہاں مینوں تاہنگ نئیں محلاں ماڑیاں دی میں تے جیویں دی نُکڑ منگنا ہاں میری منّیں تے تیریاں میں مناں تیری سونہہ جے اک وی گلّ موڑاں جے ایہہ مانگ نئیں پجدی تیں ربّا فیر میں جاواں تے رب کوئی ہور لوڑاں۲۵؎ فیض کا انسان زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا اسیر ہے۔ وہ کم حوصلہ ہے اور اپنی خواہشوں کے پورا نہ ہونے کی صورت میں اپنے رب سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہے جب کہ اقبال کا انسان کسی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ وہ اپنے مصائب پر شکوہ کناں تو ہوتا ہے مگر خدا سے اپنا تعلق نہیں توڑتا ۔ بلکہ دعا گو رہتا ہے کہ اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزی دے برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے۲۶؎ اقبال مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں جب کہ فیض صاحب مذہب سے بدکتے ہیں اور اقبال کی شخصیت اور شاعری کے اس پہلو سے گریز کرتے ہیں۔ فیض صاحب نے اقبال پر جو چند مختصر اور تاثراتی تحریریں لکھی ہیں۔ ان میں فکرِ اقبال کے مذہبی پہلو سے شعوری طور پر پہلو تہی کی گئی ہے۔ ان تحریروں میں فیض نے اقبال کے فن شاعری کو تو سراہا ہے مگر فکرِ اقبال کو زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ خصوصاً فکرِ اقبال کے مذہبی پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جہاں کہیں اس کا ذکر ناگزیر ہو گیا ہے وہاں فیض اقبال کی مذہب سے وابستگی کا اعتراف تو کرتے ہیں مگر فکرِ اقبال کے مذہبی نقش کو مدھم کرنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً ایک مضمون ’’کلامِ اقبال کا فنی پہلو‘‘ میں لکھتے ہیں: میں یہ وضاحت کر دوں کہ مذہب سے گہری وابستگی کے باوصف اقبال دوسری دنیا کا ذکر ہی نہیں کرتا یا اگر کرتا ہے تو صرف استعارے کے طور پر ۔ اس کے ہاں عاقبت کا تذکرہ کہیں کہیں ملتا ہے دوسری زندگی میں انعام یا سزا کا اس کے ہاں ذکر نہیں۔۲۷؎ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شاعر مذہب سے گہری وابستگی تو رکھے مگر مذہب کے بنیادی عقیدہ (آخرت یعنی دوسری دنیا) کا ذکر نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں حیات بعد الموت (دوسری دنیا) کا ایک واضح تصور موجود ہے۔ اپنی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اقبال کہتے ہیں: وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہانِ بے ثبات مختلف ہر منزلِ ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے ہے وہاں بے حاصلی کشتِ اجل کے واسطے ساز گار آب و ہوا تخمِ عمل کے واسطے۲۸؎ اسی طرح اقبال کا شہرہ آفاق فارسی مجموعہ کلام جاوید نامہ دوسری دنیا میں موجود مرحوم عالمی شخصیات کی ارواح کے احوال پر مشتمل ہے۔ اور فیض صاحب کہتے ہیں کہ اقبال دوسری دنیا کا ذکر تک نہیں کرتا۔ اصل بات یہ ہے کہ فیض صاحب کلامِ اقبال کے ایسے مقامات سے لا شعوری طور پر دامن بچاتے ہیں۔ مثلاً ۱۹۷۷ء میں ولادتِ اقبال کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں فیض صاحب نے پیام مشرق کی منتخب نظموں کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔ نظموں کا انتخاب کرتے وقت فیض صاحب نے قریباً نصف کلامِ اقبال کو ترجمے کے لیے منتخب کیا اور ’’حسنِ اتفاق‘‘ یہ ہے کہ اقبال کے وہ اشعار، نظمیں اور رباعیات ہی حذف ہوئے ہیں جن میں اقبال نے اسلامی تعلیمات، عقائد اور ملتِ اسلامیہ سے اپنی محبت و عقیدت کا والہانہ اظہار کیا ہے۔۲۹؎ فیض اقبال کی فکر کی بجائے ان کے فن سے زیادہ متاثر ہیں۔ بقول فیض : میرے نزدیک اقبال کی عظمت اس بات میں ہے کہ وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ ۳۰؎ اپنے ایک انٹرویو میں فیض صاحب نے اقبال کے اسلوبِ شاعری سے اکتسابِ فیض کا اعتراف بھی کیا ہے۔کہتے ہیں: اقبال کے اسلوب سے میں نے بہت کچھ لینے کی کوشش کی۔ میں نے یہ اقبال سے سیکھا ہے کہ فن ریاضت چاہتا ہے۔ ریاضت کے بغیر شعر میں نغمگی، موسیقی اور تاثیر پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال کی زندگی کے مطالعے ہی سے میں نے جانا کہ شاعری ہمہ وقتی انہماک ، توجہ اور ریاضت کا تقاضا کرتی ہے۔۳۱؎ اقبال نے پرانے استعاروں اور تشبہیات کو قائم رکھا۔ صرف ان میں نئے مضامین اور نئے خیالات ڈال دیے جن سے ان کے لیے بے جان جسموں میں پھر سے خون دورہ کرنے لگا ہے۔۳۲؎ کلامِ اقبال کے بارے میں فیض صاحب کی یہ رائے خود ان کے اپنے کلام پر بھی صادق آتی ہے۔ اقبال کی طرح فیض نے بھی اردو شاعری کی مروجہ علامات کو نئے سیاسی و سماجی تناظر میں استعمال کیا اور ان علامات کو معنوی وسعت سے ہمکنار کیا۔ گل و بلبل، گلشن اور چمن کی علامتیں کلاسیکی اردو شعرا کے ہاں ایک فرد کی نفسی کیفیات کی عکاسی کرتی ہیں۔ جب کہ اقبال نے ان علامتوں کو خارجی دنیا اور ملتِ اسلامیہ کے احوال کا ترجمان بنا دیا۔ صرف ایک مثال ملاحظہ ہو۔ بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمّازِ چمن عہدِ گل ختم ہوا، ٹوٹ گیا سازِ چمن اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک۳۳؎ یہی علامتیں فیض کے ہاں وطن، اہلِ وطن اور محب وطن لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمان بن جاتی ہیں۔ نوائے مرغ کو کہتے ہیں اب زیانِ چمن کھلے نہ پھول اسے انتظام کہتے ہیں ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد فیض گلشن میں وہی طرزِ فغاں ٹھہری ہے۳۴؎ بادہ و جام، مئے خانہ اور ساقی کی علامتیں کلاسیکی شاعری میں خراباتی کیفیات کے لیے مخصوص ہیں یا پھر ساقی کی علامت سے محبوب کی صفات بھی منسلک کر دی گئیں۔ لیکن مئے اور مئے خانہ اقبال کے ہاں جذبہ ایمان، روحانی قوت، عشق الٰہی اور عشق رسول کی کیفیات کی عکاسی کرتی ہیں۔ اسی طرح ’’ساقی‘‘ کی علامت اقبال کے ہاں خدا تعالیٰ اور ساقی کوثر (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی عنایات کی غمازی کرتی ہے۔ لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی۳۵؎ ترے شیشے میں مئے باقی نہیں ہے بتا، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے؟ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے۳۶؎ فیض کے ہاں یہ علامتیں نئے سیاسی و سماجی احوال کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ساقیا رنج نہ کر جاگ اٹھے گی محفل اور کچھ دیر اٹھا رکھتے ہیں پینا اپنا۳۷؎ محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے رند کا، ساقی کا، مئے کا، خم کا، پیمانے کا نام۳۸؎ فیض نے محتسب، قفس، صیاد اور زنداں کی علامتوں کو خاص طور پر پاکستان کے سیاسی جبر کے تناظر میں نئے معانی سے آشنا کیا۔ یہ علامتیں ان کے ہاں آمریت اور جبریت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہیں۔ چمن پہ غارتِ گل چیں سے جانے کیا گزری قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے۳۹؎ اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں جو دریا جھو م کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے ۴۰؎ ’’رات‘‘ کلاسیکی شاعری میں مصیبت اور غم کی علامت ہے۔ اقبال نے ملت اسلامیہ کے عہدِ زوال کو ’’رات‘‘ سے تعبیر کیا۔ تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی!۴۱؎ فیض نے اس علامت کو مزید معنوی وسعت دی اور اسے تیسری دنیا کے مظلوم انسانوں کی محرومیوں، مصائب اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جدوجہد کی علامت بنا دیا۔ فیض کی نظم ’’ملاقات‘‘ میں یہ علامت ایک وسیع معنوی تناظر کی حامل ہے۔ یہ رات اس درد کا شجر ہے جو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر ہے عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں میں لاکھ مشعل بکف ستاروں کے کارواں گِھر کے کھو گئے ہیں ہزار مہتاب اس کے سائے میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں۴۲؎ فیض شعرِ اقبال کی جس دوسری فنی خوبی سے خاص طو پر متاثر ہیں وہ کلامِ اقبال کی غنائیت اور نغمگی ہے۔ اس ضمن میں فیض صاحب کا خیال ہے کہ وہ (اقبال) لفظوں کی صوتی لہروں سے شعر میں ایسی نغمگی پیدا کر دیتے ہیں کہ کان ان کی نغمگی کو بار بار سننے کے لیے بیتاب ہو جاتے ہیں اور زبان انہیں بے ساختہ دہراتی ہے۔۴۳؎ کلامِ فیض کے بغور مطالعے سے انداز ہوتا ہے کہ فیض نے کلامِ اقبال کی اس فنی خوبی کو شعوری طور پر اپنے کلام میں برتاہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اقبال کی طرح فیض صاحب کے ہاں بھی الفاظ اور حروف کی آوازوں کا گہرا شعور ملتا ہے۔ وہ اپنے کلام میں جس قسم کی کیفیت یا تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں ویسی ہی آوازوں پر مشتمل الفاظ اور عروضی بحروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو اس کیفیت سے نہ صرف ہم آہنگ ہوتی ہیں بلکہ کلام یا نظم کے تاثر کو مزید گہرا کر دیتی ہیں۔ مثلاً اقبال کی نظم ’’ایک شام‘‘ اور فیض کی نظم ’’سرودِ شبانہ‘‘ میں سکوتِ شام کو موضوع بنایا گیا ہے۔ دونوں نظمیں ملاحظہ ہوں۔ پہلے اقبال کی نظم ’’ایک شام‘‘ : خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا۴۴؎ اب فیض کی نظم ’سرودِ شبانہ‘! نیم شب، چاند خود فراموشی محفل ہست و بود ویراں ہے پیکر التجا ہے خاموشی بزم انجم فسردہ ساماں ہے آبشارِ سکوت جاری ہے چار سو بے خودی سی طاری ہے زندگی جزوِ خواب ہے گویا ساری دنیا سراب ہے گویا سو رہی ہے گھنے درختوں پر چاندنی کی تھکی ہوئی آواز کہکشاں نیم وا نگاہوں سے کَہ رہی ہے حدیثِ شوقِ نیاز سازِ دل کے خموش تاروں سے چل رہا ہے خمارِ کیف آگیں۴۵؎ ان دونوں نظموں میں س، ش، ز، خ اور ف کی صوتی تکرار خاموشی، سناٹے اور سکوت کی فضا طاری کر دیتی ہے۔ جو نظموں کے معنیاتی تاثر کو شدید تربنا دیتی ہے۔ صوتیات کے حوالے سے اقبال اور فیض کے کلام میں ایک حیرت انگیز مشترک خصوصیت یہ پائی جاتی ہے کہ دونوں شعرا کے ہاں طویل مصوتوں (Vowels) کا چلن بہت زیادہ ہے ۔ دونوں کے کلام کا صوتیاتی تجزیہ کیا جائے تو اقبال اور فیض کے ہاں فی شعر طویل مصوتوں کا تناسب بالترتیب سولہ اور پندرہ ہے۔ اس میدان میں اردو کا صرف ایک اور بڑا شاعر میر اِن کے ہم پلہ ہے جس کے ہاں طویل مصوتوں کا فی۔شعر تناسب سولہ ہے جب کہ غالب کے ہاں یہ تناسب گیارہ مصوتے فی شعر ہے۔ مصوتے (Vowels) مصرعے میں آواز کی سمت کو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مثلاً اردو کے دو طویل مصوتے ’’ا‘‘ اور ’’ی‘‘ آواز کو بالترتیب اٹھانے اور گرانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح اردو میں شعری غنائیت بڑی حد تک طویل مصوتوں کی مرہونِ منت ہے۔ اقبال اور فیض کے ہاں طویل مصوتوں کی بہتات نے ان کے کلام کی نغمگی اور آہنگ میں اضافہ کیا ہے۔ ان دونوں کے کلام میں مصوتوں کے درو بست سے موسیقیت کے زیادہ سے زیادہ مواقع ہاتھ آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں شعرا کا کلام موسیقاروں او رگلوکاروں کی توجہ اپنی طرف کھینچتا رہا ہے۔ جس سے ان دونوں شعرا کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اقبال اور فیض دونوں انقلاب کے شاعر ہیں۔ دونوں کے ہاں رجائیت ہے پھر بھی دونوں کے شاعرانہ لہجے میں ایک عمومی افتراق ہے۔ اقبال کے پیغام میں زندگی کی حرارت اور تیزی ہے جو شعلہ بن کر لپکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جذبے کی شدت اور خروش نے اقبال کے لہجے کو بلند آہنگ، پر شکوہ اور پُر جوش بنا دیا ہے۔ اس میں ایک تندی اور تیزی ہے۔ دگر گوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی دل ہر ذرہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی۴۶؎ عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات۴۷؎ فیض کے کلام میں زندگی کی حرارت ایک مدھم آنچ کی صورت سلگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان کا لہجہ دھیما، نرم اور قدرے سست رو ہے۔ ان کی اکثر نظمیں (خصوصاً موضوعِ سخن، ہم لوگ، صبح آزادی، نثار میں تری گلیوں کے، یاد، تنہائی، دو عشق، شام، منظر، زنداں کی ایک صبح، زنداں کی ایک شام) ان کے اسی دھیمے لہجے کی غمازی کرتی ہیں۔ اقبال اور فیض دونوں کے ہاں خطابیہ انداز ملتا ہے۔ اقبال کے خطاب میں ایک شکوہ اور شان ہے وہ ایک بلند سطح سے مخاطب ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ خدا تعالیٰ سے مخاطب ہوتے وقت بھی وہ اپنی سطح برقرار رکھتا ہے۔ کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا۴۸؎ اے لا اِلہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں گفتارِ دلبرانہ ، کردارِ قاہرانہ۴۹؎ اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب! لا مکاں تیرا ہے یا میرا؟۵۰؎ فیض کا اندازِ تحاطب فقیرانہ ہے۔ اس میں نرمی اور التجا ہے جو انھیں اقبال کے لہجے سے دور اور میر کے لہجے کے قریب لے جاتی ہے۔ ہم خستہ تنوں سے محتسبو! کیا مال منال کا پوچھتے ہو جو عمر سے ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے دیتے ہیں۵۱؎ تم مرے پاس رہو! میرے قاتل! مرے دلدار! مرے پاس رہو۵۲؎ اقبال اپنے پورے کلام میں خدا، انسان اور فطرت سے ایک قوتِ اعتماد اور طمطراق کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے۔ مگر فیض کے خطابیہ انداز میں ایک آہستگی اور لہجے میں سرگوشی ہے ۔ فیض کے مزاج کی دروں بینی اسے کہیں کہیں خود کلامی کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ ان کی نظم تنہائی، نثار میں تری گلیوں کے…… اس کی مثالیں ہیں۔ غزلوں کے اشعار میں بھی کئی مقامات پر وہ خود کلامی پر اُتر آتے ہیں۔ جانے کیا وضع ہے اب رسم وفا کی اے دل! وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں۵۳؎ ان سے جو کہنے گئے تھے فیض! جاں صدقہ کیے ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد۵۴؎ اقبال اور فیض کے شاعرانہ لہجے کا فرق دراصل ان دونوں شعرا کے شخصی مزاجوں کا فرق ہے۔ اقبال کا مزاج جلال و جمال کا امتزاج ہے۔ جب کہ فیض صاحب کا مزاج جمال ہی جمال ہے۔ مزاج کے اس اختلاف کے باوجود دونوں نے فکر و فن کا کامیاب فنی امتزاج پیش کیا۔ دونوں نے انقلاب کو شعر و نغمہ میں ڈھالا۔ اقبال اور فیض کے فکری مدار اگرچہ الگ الگ ہیں مگر دونوں کی منزل بہتر انسانی معاشرے کی تعمیر ہے۔ دونوں خوابوں، آرزؤں، اور دعاؤں کے شاعر ہیں۔ اقبال اپنے کلام میں ایک بڑا فکری و فنی دائرہ بناتا ہے۔ جب کہ فیض کا فنی دائرہ قدرے چھوٹا ہے۔ فیض کی شاعری کا چاند اقبال کی شاعری کے سورج سے ایک فاصلے پر رہ کر اپنی انفرادیت و اہمیت منواتا رہے گا۔ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- فیض احمد فیض، متاعِ لوح و قلم، مکتبہ دانیال لاہور، مارچ ۱۹۸۱ئ، ص ۱۱۸۔ ۲- پہلی نظم جو فروری ۱۹۳۳ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبال کی آمد کے موقع پر پڑھی گئی،فیض کے زمانہ طالب علمی کی کاوش ہے۔ اس نظم کی فنی سطح اس قدر پست ہے کہ خود فیض نے اپنے کسی مجموعۂ کلام میں اس نظم کو شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ دوسری نظم اقبال کی وفات پر لکھی گئی اور فیض کے اوّلیں مجموعہ کلام نقش فریادی میں ’’اقبال‘‘ کے نام سے شامل ہے۔ ۳- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۶ئ، ص۱۶۸۔ ۴- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۱۹۸۶ئ، ص ۵۹۔ ۵- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو)، ص۹۴۔ ۶- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۴۶۔ ۷- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۳۰۱۔ ۸- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۱۳۸۔ ۹- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۳۰۵۔ ۱۰- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۱۳۸۔ ۱۱- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۲۲۲۔ ۱۲- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۷۱۔ ۱۳- فیض احمد فیض، اقبال، (مرتب)شیما مجید، مکتبہ عالیہ، لاہور ، ۱۹۸۷ئ، ص ۳۲، ۳۳۔ ۱۴- علامہ محمد اقبال،بال جبریل، کلیات اقبال(اردو) ، ص۴۳۲۔ ۱۵- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۷۹۔ ۱۶- دیکھیے اقبال کی نظمیں: خضر راہ (بانگ درا)، لینن خدا کے حضور، الارض للہ، (بال جبریل) مزدک، نوائے امروز، محاورہ مابین حکیم فرنسوی آگسٹس کو مٹ و مردِ مزدور ، قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور (پیام مشرق) اور ارض ملکِ خداست (جاوید نامہ)۔ ۱۷- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۲۸۸۔ ۱۸- ایضاً، ص ۲۸۹۔ ۱۹- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص ۳۷۹۔ ۲۰- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۶۳۔ ۲۱- علامہ محمد اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۴۱۸۔ ۲۲- ایضاً،ص ۴۲۲۔ ۲۳- ایضاً، ص ۳۹۷۔ ۲۴- ایضاً،ص ۳۵۲۔ ۲۵- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۵۹۴۔ ۲۶- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۱۹۷۔ ۲۷- فیض احمد فیض، اقبال، (مرتب)شیما مجید، ص۴۶۔ ۲۸- علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال(اردو) ، ص۲۶۵۔ ۲۹- ملاحظہ ہو انتخاب پیام مشرق ،منظوم اردو ترجمہ : فیض احمد فیض، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۷۷ئ۔ ۳۰- فیض احمد فیض، اقبال، (مرتب)شیما مجید، ص۸۳۔ ۳۱- ایضاً، ص ۸۵۔ ۳۲- ایضاً، ص ۷۹۔ ۳۳- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۱۹۸۔ ۳۴- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص۔ ۳۵- علامہ محمد اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۳۵۱۔ ۳۶- ایضاً،ص ۳۴۶۔ ۳۷- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۴۶۔ ۳۸- ایضاً، ص ۱۵۲۔ ۳۹- ایضاً، ص ۱۳۲۔ ۴۰- ایضاً، ص ۱۳۸۔ ۴۱- علامہ محمد اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۳۵۱۔ ۴۲- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۲۴۸۔ ۴۳- فیض احمد فیض، اقبال، (مرتب)شیما مجید، ص۸۳۔ ۴۴- علامہ محمد اقبال، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۱۵۴۔ ۴۵- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۳۴۔ ۴۶- علامہ محمد اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص۳۵۰۔ ۴۷- ایضاً، ص ۴۲۱۔ ۴۸- ایضاً، ’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اردو) ، ص ۲۰۷۔ ۴۹- ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، ص ۳۸۴۔ ۵۰- ایضاً، ص ۳۴۶۔ ۵۱- فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، ص ۳۴۳۔ ۵۲- ایضاً، ص ۳۶۷۔ ۵۳- ایضاً، ص ۱۴۱۔ ۵۴- ایضاً، ص۵۳۸۔ ئ……ئ……ء علامہ اقبال اور علی شریعتی ڈاکٹر شگفتہ بیگم فکر اقبال کی شمع کو آگے بڑھانے کے لیے جن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے اُن میں ایران کے انقلابی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی کا نام بہت اہم ہے ۔ اقبال اور علی شریعتی کے افکار میں حیرت انگیز طور پر مماثلت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ علی شریعتی نے فکراقبال پر غوروخوض کرنے کے بعد اُس سے اثر قبول کیا ہے، تاہم اس میں بھی شبہ نہیں کہ جس قسم کے حالات سے اقبال کو سابقہ پڑا کم وبیش ویسے ہی حالات کا ایرانی قوم کو بھی سامنا تھا۔ ایرانی نوجوان نسل یورپی تہذیب کی چمک دمک کے سامنے اپنا نظریاتی اور اسلامی تشخص کھو چکی تھی۔ جس طرح اقبال نے اپنی فکر کو مضبوط مذہبی اور فلسفیانہ بنیادوں پر استوار کیا بعینہٖ علی شریعتی نے بھی اپنی فکر کی بنیاد اسلام کو ہی قرار دیا۔ جدید فلسفیانہ رجحانات کے پیشِ نظر انھوں نے عمرانی مسائل پر بڑے حکیمانہ انداز میں روشنی ڈالی اور اقبال کے تتبع میں اپنی قوم کے اندر صحیح اسلامی، سیاسی اور ملی شعور بیدار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ علومِ جدیدہ سے جس طرح اقبال نے استفادہ کیا، علی شریعتی نے بھی اُن سے آشنائی پیدا کرنے اور انھیں ترقی کے لیے استعمال کرنے کا درس دیا ہے۔ علی شریعتی ایک سوشل ریفارمر ہیں اس طرح ان کی فکر کے ساتھ فکراقبال کا ربط و اتصال،فکر اقبال کی اہمیت کو دوچند کردیتا ہے۔ اقبال اور علی شریعتی دونوں مسلمان مفکر ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر امت مسلمہ کی حالت زار پر افسردہ ہیں۔ اقبال سے متعلق علی شریعتی لکھتے ہیں: وہ ایسے آفت زدہ دور میںمیدان میں آئے جب اسلام پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔غم و اندوہ سے اسلامیوں کا دل ہر چند ملول تھا لیکن بیداری ان کے نزدیک نہ پھٹکی تھی اور مغربی استعمار نے یہاں پنجے گاڑ رکھے تھے۔ اقبال نے نہ صرف اپنی شاعری سے بلکہ اپنے ’’وجود ‘‘سے بھی اس دور کے استعمار زدہ مسلمانان عالم میں نئی روح پھونک دی۔۱؎ اقبال اور شریعتی کے فکری دھارے ایک ہی رخ پر بہتے ہیں۔ ان کے پیش نظر مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی ہے چاہے وہ تعلیمی میدان میں ہو یا صنعتی میدان میں۔وہ اپنی سوئی قوم کو جھنجھوڑ کربیدار کرتے ہیں اور ان کو ان کا شاندار ماضی یاد دلاتے ہیں۔اس ضمن میںوہ سب سے پہلے انسان کی بحیثیت انسان پہچان کرواتے ہیںاور بعد میں بحیثیت مسلمان۔ اسلام ان کا دین ہے اور اپنے فکر کی اٹھان اسلام ہی سے اٹھاتے ہیں۔اقبال اپنی نظم و نثر میں جا بجا قرآن کو اپنا رہبرو رہنما اور مقتدا و پیشوا کہتے ہیںاور اپنی فکر کا ماخذ قرآن کوٹھہراتے ہیں۔ گر دلم آئینہ بے جوہر است ور بحرفم غیر قرآن مضمر است روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ پا کن مرا علی شریعتی کہتے ہیں : بہتیرے مسائل ایسے ہیں جن کی تفہیم مجھے قرآن سے حاصل ہوئی ۔قرآن میں موجود مواد سے مجھے تاریخ اور عمرانی مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی ہے۔۲؎ ایک اور جگہ کہتے ہیں: دوسری منزل یہ ہو گی کہ قرآن کو جانا جائے کہ کس قسم کی کتاب ہے ؟یہ کس قسم کے مسائل پر غور کرتا ہے۔۳؎ فکر اقبال کا عملی نفاذ انقلاب ایران کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔علی شریعتی اقبال سے بہت متاثر ہیں۔ایرانی انقلاب کے داعیوں نے بھی فکر اقبال سے استفادے کا اعتراف کیا ہے۔ علامہ نے دلوں کو جو ولولہ تازہ دیا تھا اس کا بھرپور اظہار ڈاکٹر علی شریعتی کے افکار میں ہوا جو انقلاب ایران کے پیشرووں میں سے ہیں اور تحریک انقلاب کے زمانے میں اچانک انقلابی شعور کا مظہربن کر ابھرے۔ انھی کے مشہور ادارے ’’حسینیہ ارشاد‘‘ نے ۱۹۷۰ء میں علامہ اقبال کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس میں خود ان کا مقالہ حاصل جلسہ تھا۔۴؎ ڈاکٹر علی شریعتی نے انقلاب ایران کے لیے اقبال سے راہنمائی حاصل کی اور آخر کار اپنی قوم میں مذہبی وملی شعور بیدار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انقلاب کا یہ رہبر حکیم الامت کے افکار سے دیوانہ وار متاثر تھا اور علامہ اقبال پر اس کی دوتصانیف سامنے آ چکی تھیں یعنی ’’اقبال معمار تجدید بنائی تفکر اسلامی‘‘ اور ’’ماوا اقبال‘‘ دونوں میں معاصر اسلامی بالخصوص ایرانی معاشرے کے تناظر میں پیغام اقبال کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ علامہ اقبال کو ’’مصلح متفکر انقلابی اسلامی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔۵؎ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کی توجہ حصول آزادی کی طرف دلائی۔ انھوں نے اپنے فلسفے کی روحانی غذا اسلام سے حاصل کی لیکن مغربی علوم و فنون کے فوائد کو بھی قبول کیا۔ انھیں جدید علوم کے ساتھ خواہ مخواہ کی کوئی دشمنی نہیں۔ مغرب اور مغربی تہذیب کے بارے میں اقبال اورعلی شریعتی کے رویوں میں بلا کی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں: میری ان باتوں سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ میں مغربی تہذیب کا مخالف ہوں،اسلامی تاریخ کے ہر مبصر کولامحالہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارے عقلی اور ادراکی گہوارہ کو جھلانے کی خدمت مغرب نے ہی انجام دی ہے۔۶؎ مسلمانوں کو بیشک علوم جدیدہ کی تیز پا رفتار کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی تہذیب کا رنگ خالص اسلامی ہو۔۷؎ علی شریعتی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اقبال نے اسلام کے افکار کے ساتھ ساتھ دنیا کے باقی فلسفیانہ نظریات کا بھی بغور مطالعہ کیا ہے۔ علی شریعتی کے الفاظ میں: اقبال ان رجعت پسندوں اور ماضی پرستوں میںسے نہیں ہیں جو جدید یا مغربی تہذیب کی ہر نئی چیز سے چھانے پھٹکے اور سمجھے بوجھے بغیر خواہ مخواہ کی دشمنی رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن میں نقد و انتخاب کی جرأت نہیں اور جو مغربی افکار اور مغرب کے مقلد محض ہیں۔ اگر ایک طرف وہ علم کی خدمت کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ اس بات کو بھی محسوس کرتے ہیں کہ انسان کی تمام مقصدی تگ و دو کی ضرورتوں اور تکمیل بشریت کے تمام تقاضوں کے لیے علم نہ صرف ناکافی ہے بلکہ ضرر رساں بھی ہے۔ اقبال کے پاس اس دشواری کا حل بھی موجود ہے، بہرحال وہ ایک ایسے شخص ہیں جو مشاہدہ عالم کے لیے اپنا ایک نقطہ نظر دنیا اور انسان کے بارے میں جو روحانی فلسفہ پیش کرتا ہے اور اس تمدن و تاریخ کی بنیادوں پر اپنے سماجی مکتب فکر کی اساس رکھتے ہیں جو ان کے نقطہ نظر اور روحانی فلسفے سے تال میل کھاتا ہے۔۸؎ اقبال اور شریعتی دونوں بین الاقوامی سطح پر نمایاں شخصیات ہیں جنھوں نے نہ صرف یہ کہ اسلامی ثقافت کے فروغ کے لیے کوششیں کیںبلکہ امت مسلمہ میں خود آگاہی بھی پیدا کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغرب نے ثقافتی اور فکری طور پر مسلم نوجوانوں کو خود شناسی سے محروم کر رکھا تھا۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی ایسی شخصیت ہو جومسلمانوں کو مغربی فکر اور ثقافتی غلامی سے نجات دلاسکے۔ ایسے میں اقبال اور شریعتی ایسی شخصیات تھیں جنھوں نے مسلم نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری فکر سے آگاہی دی اقبال نہ صرف استعمار دشمن اور ترقی یافتہ آزادی پسند مسلمان ہیں بلکہ انھوں نے مغرب کے جدید علوم و فنون میں مشرقی اور قومی روح پھونک دی ہے اور اپنے مخصوص فلسفیانہ نظریے ’’فلسفۂ خودی‘‘ کی تعبیرو تفسیر بالکل نئے انداز سے کی ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر علی شریعتی بھی اقبال کی طرح جدید علوم سے دشمنی نہیں رکھتے مگر مغربی تہذیب کو ناپسندیدگی کی نظر سے اس لیے دیکھتے ہیں کہ اس کی بدولت ایران کے نوجوان ذہنی الجھن، پریشانی اور ناآسودگی میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹر عزتی کے نزدیک: شریعتی کی شخصیت جدید مغربی اور اسلامی علوم کے عمیق مطالعے سے عبارت ہے۔ شریعتی نے ان دو متضاد و متخالف علوم کا اپنی زندگی میں ایسا حسین امتزاج پیش کر دیا ہے جن کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ انھوں نے صرف مغربی یونیورسٹیوں میں ہی تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ مغرب کی تمام خوبیوں اور خامیوں کا بھی عرفان حاصل کیا اور مغرب کے انداز فکر و نظر سے بخوبی آگاہی حاصل کی۔۔۔ وہ اسلام اور اسلام مخالف افکار و نظریات، اسلامی فکر اور غیر اسلامی فکر، اسلام کے نظری علوم اور مغرب کے نظری علوم ہر چیز سے محرمانہ طور پر آگاہ تھے۔ اپنے اسی گہرے مطالعے اور مشاہدے کی وجہ سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مشرق اور بالخصوص ایران کے عوام جس ذہنی الجھن، پریشانی اور ناآسودگی کا شکار ہیں وہ سب کے سب استعمار کے پیداکردہ ہیں۔ استعمار نے اپنے پیر مضبوط کرنے کے لیے پہلے تو ایران کی زبان اور اس کے تمدن و تہذیب پر حملہ کرکے ان کی صورت مسخ کر دی اور جب اس زبان، تہذیب و تمدن کے حاملین ہی ان کی صورت پہچاننے سے قاصر رہنے لگے تو اس نے اپنی زبان، تہذیب و تمدن ان کے معاشرے میں رائج کر دیے۔ اس صورت حال کا ازالہ شریعتی کے نزدیک صرف اسی طرح کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنی اصل کی طرف مراجعت کرے تاکہ دوبارہ مسلمان ہو کر ان غیر اسلامی افکار و نظر یات کو اپنے معاشرے سے اکھاڑ پھینکے جو دیمک کی طرح اس کے معاشرے کو چاٹے جا رہے ہیں۔۹؎ علی شریعتی نہ صرف یہ کہ فکر اقبال سے متاثر ہیں بلکہ انھوں نے فکر اقبال کو اپنی فکر کے لیے مشعل راہ بھی بنایا ہے جس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں: I am one among thousand of persons who are writing their current and future history using diction of Iqbal.10 اقبال اور شریعتی نے اسلام کی تشریح و تعبیر اس طرح سے کی ہے کہ زندگی کا کوئی پہلوایسا نہیں رہا جس پر ان کے خیالات موجود نہ ہوں۔ تمام بنی نوع انسان ایک ہی قوم ہے اور اس کا مقصد حیات بھی ایک ہی ہے۔اسلامی تمدن کی روح دو بنیادی اصول توحید اور رسالت ہیں۔ انھی دو اصولوںپرانفرادی واجتماعی زندگی کی عمارت کھڑی ہے۔اصل میں اسلامی ثقافت کی اساس اصول توحید پر ہے۔ مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے، ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے نا اشتراک وطن ،نا اشتراک اغراض اقتصادی،بلکہ ہم لوگ برادری میں جو جناب رسالت مآب انے قائم فرمائی تھی اس لیے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے۔۱۱؎ اقبال نے اپنے خطبات کے ذریعے الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کی ہے اور علی شریعتی نے بھی اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے اسلام کا ایک واضح تصور قائم کیا ہے۔ ان دونوںمفکرین کے سامنے مغربی اقوام کی ترقی کے ساتھ ساتھ وہ اقدامات بھی تھے جو وہ اسلام کی اصل روح کو نقصان پہنچانے کے لیے کر رہے تھے۔اقبال اور شریعتی نے اسلام کی تشریح و تعبیر اس ڈھنگ سے کی کہ دنیا پر اسلام کے مثبت اور آفاقی پہلو اُجاگر ہوئے۔ The biggest contribution made by Iqbal and Shariati is that they presented Islam to the world as a complete code of life. These two muslim scholars completely erased the image of Islam as a system embodying outdated concepts and teachings as it had been projected through western propaganda.12 اقبال جیسے مفکر جو عظیم، آشنا، نواندیش اور قدروقیمت کے حامل ہیں کے وسیلے سے دقیق النظری اور علمی طریقے سے اسلام کی معرفت حاصل کرنا ایک معنوی، معاشرتی، علمی، تاریخی اور سیاسی ضرورت ہے۔۱۳؎ اقبال اسلامی انقلاب کے ایک مفکر اور مصلح ہیں اور ایران میں اسلامی انقلاب کے نقیب بھی ۔ اسی لیے ڈاکٹر علی شریعتی نے اقبال کے افکار کا بذات خود مطالعہ کیا اور پھر اپنی انقلابی تقاریر اور تحریروں کے ذریعے اقبال کو ایران میں متعارف کروایا۔ فکر اقبال کو نہ صرف اقبال کے ایرانی قارئین نے خوش آمدید کہا بلکہ بہت سارے ایرانی مفکرین کا یقین ہے کہ اقبال نے ایران میں اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ نہ مصطفٰی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی Dr. Ali Shariati, a socialogist thinker of international calibre, himself conducted a study on the works of Iqbal and then introduced him in Iran through his revolutionary speeches and writings. Not only was Iqbal received well by his Iranian readers but many Iranian thinkers believe that Iqbal lay the foundations for the Islamic revolution.... ..14 شریعتی ایران کے ممتاز راہنمائوں میں سے ایک ہیں۔ انھوںنے ہیجان انگیز اور انقلاب آفرین خیالات سے ایران میں تحریک انقلاب کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انقلاب کے اس راہنما کے فلسفہ زندگی اور انقلابی مزاج پر علامہ اقبال کے افکار کا گہرا اثر ہے۔اقبال قدیم اندازمیںتبدیلی لانے کے خواہش مند ہیں۔وہ مذہب،معیشت ،حکمرانی اور اخلاق و کردار کے شعبوںمیں تبدیلی لا کر پورے نظام کی تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں۔ آپ دنیا میں برپا ہونے والی ہر انقلابی تحریک کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اقبال نے ہندوستان کے عظیم معنوی سرمائے اور اسلام کی عظمت و رفعت اور روح بصیرت کے درمیان آنکھ کھولی اور اپنی بصیرت کے سرمائے کی بدولت آگاہی پائی کہ اسلام کے فکری مکتب کے درہم برہم اجزا کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ان کی از سر نوتشکیل کی جانی چاہیے ۔ اقبال ’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ میں کہتے ہیں: اسلام میں قومیت کا مفہوم خصوصیات کے ساتھ چھپا ہوا ہے، اور ہماری قومی زندگی کا تصور اس وقت تک ہمارے ذہن میں نہیں آ سکتا جب تک کہ ہم اصول اسلام سے پوری طرح باخبر نہ ہوں۔بالفاظ دیگر اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔۱۵؎ اقبال نے اسلامی فلسفہ، تاریخ اورمغربی علوم کے فکری تغیرات کی وسعت اور گہرائی سے واقفیت اور قرآن پاک سے گہرے لگائو اور آشنائی کی بدولت اپنے فلسفہ خودی کی تعمیر کی۔ اس فلسفے کی بدولت اقبال کے کائنات ، خدا اور انسان کے تعلق کی وضاحت ہوتی ہے۔ اقبال کے خطبات کا مرکزی نقطہ ہی یہ ہے کہ اسلام پر وقت کے جدید تقاضوں اور بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں گہری نگاہ ڈالی جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے قرآن کو اپنے علم کا مرکزی مصدر و منبع قرار دیا ہے۔ خطبات اقبال میں جا بجا قرآنی حوالوں کو اپنی بات کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ہمیں اپنا راہنما قرآن کو بنانا چاہیے اور اسی سے علم حاصل کرنا چاہیے۔ علی شریعتی بھی اقبال کے تتبع میں لکھتے ہیں: The Quran itself, or Islam itself was the source of the ideas. A philosphical theory and scheme of sociology and history opened themselves up before me.16 علی شریعتی کے نظریات مذہبی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ تاہم یہ نظریات علمیاتی، فلسفیانہ، تاریخی اور معاشرتی طور پر مضبوط بنیادوں کے حامل ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں نظریاتی تبدیلی لائی جائے۔ اور آج کی تیزی سے بدلتی جدید دنیا میں نظریاتی اور Intellectualتبدیلی کی سخت ضرورت ہے۔ علی شریعتی بنیادی طور پر ایک سوشل ریفارمر ہے۔ سوسائٹی میں مثبت تبدیلی لانے کا خواہاں یہ راہنما علمیاتی، فلسفیانہ اور مذہبی حوالوں سے فرد اور سوسائٹی سے بحث کرتا ہے۔ وہ اسلام کی راہنمائی پر مکمل اعتماد رکھتا ہے لیکن اسلام کا علم حاصل کرنا ضروری خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک معاشرے میں اگر تبدیلی لائی جا سکتی ہے تو اس جانب پہلا قدم اسلام کا درست اور صحیح علم حاصل کرنا ہے۔ ہمیں ان تجربوں سے استفادہ کرنا چاہیے جو ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہم ایک عظیم مذہب کے ذمہ دار پیروکار ہیں اور ہمیں اسلام کے بارے میں صحیح اور مناسب معلومات حاصل کرنی چاہییں۔۱۷؎ چونکہ علی شریعتی ایک سوشیالوجسٹ ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان تمام کاموں کو عمرانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے تاریخ ، فلسفۂ تاریخ، مذہب، شریعت اور سوشیالوجی کو توحید کے اصول کے تحت جانچا ہے۔ .... he examined history, the philosophy of history, religion and sharia and sociology, all within the frame work of the general world-view of tauhid, so that tauhid became the intellectual and ideological foundation of both of philosophy of history, uncovering the past fate of man and human society, and a prediction of their future destinies.18 فکر اقبال میں وحدت ایک بنیادی تصور ہے۔ وہ خدا کی احدیت اور انسان کی وحدت کے قائل ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں: گویا بہ حیثیت ایک اصول عمل توحید اساس ہے۔ حریت، مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔۱۹؎ توحید عقل کو راز ہستی سمجھنے اور فطرت کو تسخیر کر کے اپنے قابو میں کرنے کا درس دیتی ہے اور انسان کو کائنات میں اس کا مقام بتاتی ہے ۔اسلامی تصور ملت توحید اور رسالت پر قائم ہے۔ اہل حق را رمز توحید ازبر است در الی الرحمن عبدًا مضمر است علی شریعتی کے الفاظ میں: تیس برس قبل اقبال نے یہ اعلان کیا تھا آج کسی اور چیز سے کہیں زیادہ انسانیت کو کائنات کی ایک روحانی تعبیر کی ضرورت ہے۔یہ حقیقت اگرچہ اقبال کے الفاظ میں مستور ہے مگر ہمیں واضح طور پر کہنا چاہیے۔ دنیا کو نوع انسانی کی روحانی شرح کی بھی ضرورت ہے۔۲۰؎ تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ میں خطبہ’ الاجتہاد فی الاسلام‘ کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں: عالم انسانی کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے ۔ کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کا روحانی استخلاص اور وہ بنیادی اُصول جن کی نوعیت عالمگیر ہو۔۲۱؎ نوع انسانی کی روحانی تشریح سے زندگی میں نئی تحریک پیدا ہو گی اور اسلام اس میںاہم کردار ادا کرے گا۔اسی توحید کے اصول کو اگر پھیلا دیا جائے تو یہی اصول ڈاکٹر علی شریعتی کے عمرانی نظریات کا اساسی اصول قرار پاتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے اس لیے انسانی مباحث کا پسندیدہ موضوع ہے۔ کسی بھی فرد کے لیے جو کسی معاشرے میں کسی قسم کے کردار اور ذمہ داری کا حامل ہے اس کے لیے انسان کی صحیح پہچان اور اس کی تمام خصوصیات سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ قرآن مجید بھی انسان کو باربار اپنی اصلی پہچان کی تلقین اور ہدایت کرتا ہے اور انسان کو فطرت الٰہیہ کی طرف لوٹ جانے کی دعوت دیتا ہے۔ علی شریعتی نے بھی انسان کو اپنی اصلیت پہچاننے کا سبق دیا ہے۔ اگر واقعی ہمیں اعتراف ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے حقیقی وجود کو ثابت کرنا چاہیے کہ پہلے انسان کی اصلیت اور اپنی انسانیت سے آگاہی حاصل کر لیں اور اپنا مقام اور حیثیت متعین کر لیں اور اس طرح وجود کی شخصیت اور اقبال کے بقول اسرار خودی سے آگاہی حاصل کریں۔ وہ فرماتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور اسلام ایک نظریہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے تاریخی روح، ثقافتی رسوم، عادات، اجتماعی روح، انفرادی اور اجتماعی سلوک اور ضوابط حیات جیسی ہدایات کا حامل ہے اور ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ ، ہماری ذمہ داریاں، جہاں شناسی اور بالآخر ہماری چند پہلو اور انقلابی شخصیت کو ہمار ے لیے معین اورطے کرتا ہے، ہمارے لیے توحید، رسالت اور قیادت پر ایمان خداوند متعال سے فطری میثاق کا اظہار ہے۔ غیروں کی ثقافتی یلغار نے ہمیشہ کوشش کی ہے تاکہ انسانوں کو تہذیبی اور تعلیمی میدانوں میں غیر ترقی یافتہ بغیر تشخص اور آخر کار، حقیقی اسلام سے بالکل بے بہرہ، اسلامِ واقعی سے دور عناصر کے طور پر پیش کرے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔۲۲؎ شریعتی کے نزدیک فطرت اور انسانیت دو اساسی موضوعات ہیں جن کے باہمی رشتوں کے تحت مذہب ، فلسفہ اور عمل کے شعبے وجود میںآتے ہیں جن سے تین دھارے تصوف، مساوات اور آزادی پھوٹتے ہیں۔ اقبال کی فکر میں بھی یہ تینوں موضوعات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ عقیدہ وحدت انسانی اور وحدت حیات کا مظہر ہے اور اس کی مدد سے ہی انسان کو کائنات میں اپنے مرتبے کا علم ہوتا ہے۔توحید اسلامی کے اس عقیدے کی بنیاد فلسفیانہ اور دینی نہیںبلکہ فلسفۂ تاریخ،عمرانیت اور حیاتیات کے سرچشمے بھی اس سے پھوٹتے ہیں۔۲۳؎ تصورِ خودی اقبال کی فکر کا مرکزی نکتہ ہے اس نے اپنے اس تصور کا اظہار اپنی کئی نظموں میں کیا ہے اور بالخصوص اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں خاص طور پر اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ آپ نے اسرارِ خودی میں فرد اور رموزِ بے خودی میں ملت کو موضوعِ سُخن بنایا ہے۔ تشکیلِ جدید الہٰیات اسلامیہ میں چوتھا خطبہ خودی، جبرو قدر، حیات بعد الموت کے نام سے موسوم ہے۔ اسرارِ خودی کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں اقبال خودی کو جن معنوں میں لیتے ہیں علی شریعتی اُنہی معنوں میں بیان کرنے کے لیے خود سازی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ علی شریعتی اپنی کتاب ’’باز گشت برخویشتن‘‘ میں یوں اظہار کرتے ہیں: اپنے آپ کی طرف واپس لوٹو، وہاں سب کچھ پالو گے، کیونکہ وہاں سب کچھ ہے ۔۔۔باہر تاریکی ہے۔ ان چشموں سے سوائے دکھ کے اور کچھ نہیں اُبلتا، گوتم بُدھ سچ کہتا تھا۔ نروان باطن میں ہی ہے۔بُدھ کا نروان بھی اسی ’’مَیں‘‘ہی میں تھا۔ اب میں اپنے آپ کو اس کی آغوش میں پاتا ہوں۔ یہ میرا اپنا آپ ہی ہے۔ اپنا آپ یعنی خودی کہ جس کو میں نے ظاہری ’’من ہا ‘‘ (انائوں) کے انبار سے استخراج کیا۔ اس کے چہرے کو آلائشوں سے صاف کیا تو وہ زیادہ روشن اور شناختہ تر ہوگئی۔۔۔۲۴؎ اقبال اور شریعتی کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان مسلم مفکرین نے مغربی پروپیگنڈہ سے پیدا ہونے والے اس تصور کو بالکل ختم کر دیا کہ اسلام پرانی اور بوسیدہ تعلیمات پر مشتمل ایک نظام ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری اور خطبات کے ذریعے اور شریعتی نے اپنی تحریروں اور تقاریر کے ذریعے یہ درس دیا کہ مسلمانوں کو قرآن اور سنت کو اپنا ذریعہ علم بنانا چاہیے۔ اقبال کے فلسفے میں اصول حرکت ایک بنیادی اصول کے طورپرکام کرتا ہے۔زندگی نہ محض ثبات ہے اور نہ تغیر۔اس کے اندر کچھ عناصر غیر متبدل ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی لیکن کچھ عناصر میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ ان دونوں پہلوئوںپرنظر رکھنا اور حالات و ضروریات کے تحت ان کے ساتھ چلنا ضروری ہے۔اسلام ایک حکیمانہ اور معقول المعنی مذہب ہے ۔ ایک متحرک اور ارتقا پذیر معاشرے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ مطابقت اختیار کرے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا ۔وہ فقہ کی تدوین نو کرنے کے بڑے خواہش مند تھے۔ اقبال کہتے ہیں: تہذیب و ثقافت کی رو سے دیکھا جائے تو بحیثیت ایک تحریک اسلام نے دنیائے قدیم کا یہ نظریہ تسلیم نہیں کیا کہ کائنات ایک ساکن و جامد وجود ہے ۔بر عکس اس کے وہ اسے متحرک قرار دیتا ہے۔۲۵؎ علی شریعتی کہتے ہیں: سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کے اس عظیم مکتبِ فکر جو اس کے اختیار میں ہے، کے احکام و اصول کی بنیادوں پر اس زمانے کی حرکت اور ضرورت کے مطابق جس میں کہ وہ زندگی گزار رہا ہے، اس خاطر کہ اس کا مذہب بھی زندہ رہے، اُسے چاہیے کہ زمانے کے ساتھ زمانے کی ضروریات، اُس زمانے کی نسل اور ضروریاتِ بشر کے مطابق کوشش کر کے مسائل کے حل کا استنباط و استخراج کریں تاکہ مذہب اُن پرانی اور گزشتہ شرائط کے چوکھٹے میں محدود نہ رہے جو کہ اب ماضی بن چکی ہیں۔ نہ تو منجمد ہو اور نہ ہی اپنے زمانے سے پیچھے رہے۔۲۶؎ علی شریعتی کا احیائے فکرِ دینی کا تصور فکرِ اقبال سے ہی ماخوذ ہے اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالکریم سروش کا بیان ملاحظہ ہو شریعتی کا اصل کام بھی فکرِ دینی کی تجدید تھا اور مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ خیال اُس نے اقبال لاہوری سے لیا تھا۔۔۔۲۷؎ علی شریعتی نے بھی اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے بار بار اس امر پر زور دیا ہے کہ ہمیں مذہب کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنا چاہیے اس مقصد کے لیے انھوں نے بھی اجتہاد پر بہت زور دیا ہے، تاہم اس ضمن میںیہ بات بڑی اہم ہے کہ علی شریعتی نے اجتہاد کے متعلق تمام خیالات کو فکرِ اقبال سے ہی اخذ کیا ہے۔ شریعتی اپنے اجتہادی افکار کے لحاظ سے اگرچہ اپنے مذہب، ملک اور ملکی حالات کے تحت کاملاً اقبال کا ہم خیال تو نہیں البتہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے اور شریعتی کی تحریروں سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اجتہادی افکار کے لحاظ سے بنیادی طور پر علامہ کے اُن لیکچروں سے ہی متاثر ہو کر نظریہ ’’باز سازی‘‘ یعنی فکرِ مذہبی کی تعمیر نو کا داعی بنا۔۲۸؎ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- ڈاکٹر علی شریعتی، ’’ہم اور اقبال ‘‘ مشمولہ افکار شریعتی، ادارہ منہاج الصالحین، لاہور۔۲۰۰۱ئ، ص۵۰۹۔ ۲- ڈاکٹر علی شریعتی، ’’اسلامی معاشرے میں اسلام ہی کے افکار سے تبدیلی آتی ہے‘‘مشمولہ افکار شریعتی، ص ۳۰ ۔ ۳- ایضاً، ص۱۹۔ ۴- مجموعہ مقالات۔ بین الاقوامی فکر اقبال سیمینار،نومبر ۱۹۹۴ئ، ص، ۲۹۵۔ ۵- ایضاً، ص ۲۹۵۔ ۶- علامہ محمد اقبال، ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘مشمولہ مقالاتِ اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی، محمد عبداللہ قریشی۔ شیخ محمد اشرف (س۔ن ) ص ۱۳۴۔ ۷- ایضاً، ص۱۳۵۔ ۸- ڈاکٹر علی شریعتی، علامہ اقبال۔مصلح قرن آخر، مترجم: کبیر احمد جائسی، فرنٹئرپوسٹ پبلی کیشنز، ص۴۴، ۴۵۔ ۹- ایضاً، ص ۲۶۔ ۱۰- آغا شوکت علی، (مرتبہ) Vision، جلد ۵، جنوری ۱۹۹۲، ص ۴۲۔ ۱۱- مقالاتِ اقبال، ص ۱۵۹۔ ۱۲- Vision، ص ۴۰۔ ۱۳- ڈاکٹر علی شریعتی، افکار شریعتی، ص۴۹۳۔ ۱۴- Vision، ص۳۔ ۱۵- مقالات اقبال، ص ۱۲۴۔ ۱۶- ڈاکٹر علی شریعتی، On the Sociology of Islam، Mizan Press Berkley ، 1979، ص۴۳۔ ۱۷- ڈاکٹر علی شریعتی، افکار شریعتی، ص۱۳۔ ۱۸- On the Sociology of Islam، ص۳۲۔ ۱۹- علامہ محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزم اقبال ، کلب روڈ لاہور۔۱۹۸۶ء ص۲۳۸۔ ۲۰- افکار شریعتی، ص۲۱۷۔ ۲۱- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۷۵۔ ۲۲- آغا شوکت علی (مرتبہ)، Vision ’’ڈاکٹر علی شریعتی سیمینار نمبر‘‘ ،جولائی ۱۹۹۲، ص ص ۴۲، ۴۳۔ ۲۳- افکار شریعتی، ص۵۲۴۔ ۲۴- پروفیسر شبیر افضل، علی شریعتی کے انقلابی افکار اور اقبال، پورب اکادمی ، اسلام آباد ۲۰۰۷ئ، ص ۱۸۴۔ ۲۵- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۲۳۔ ۲۶- علی شریعتی کے انقلابی افکار اور اقبال ، ص ۲۸۶۔ ۲۷- ایضاً ، ص ۲۴۴۔ ۲۸- ایضاً ، ص ۲۸۵۔ ئ……ئ……ء اقبال اور صلاح الدین سلجوقی ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی افغانستان کے اُمور سے دلچسپی اور افغانوں کی قومی صفات سے عقیدت کا اظہار علامہ کے کلام اور گفتگوئوں میں نمایاں ہے۔ سفر افغانستان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ صلاح الدین سلجوقی ان شخصیات میں سے ہیں جنھیں افغانستان کے سیاسی و علمی حلقوں میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔ وہ افغانستان کے اہم سرکاری مناصب پر فائز رہے اور متعدد علمی تصنیفات یادگار چھوڑیں۔علامہ اقبال کے ساتھ ان کا گہرا تعلق رہا۔ سفر افغانستان کے سلسلے میں افغان قونصل خانے کا ذکر ہے، اس کے کونسلر صلاح الدین سلجوقی تھے۔ بمبئی میں جب بھی علامہ کا جانا ہوتا انھی کے ہاں قیام رہتا۔ یہ فکر اقبال کے ساتھ ان کی عقیدت کے بیّن اور بے تکلف اظہار کا غماز ہے۔ صلاح الدین سلجوقی ۱۸۹۶ میں ہرات کے گازرگاہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی گازرگاہ ہے جہاں پیر ہرات حضرت خواجہ عبداللہ انصاری محو خواب ابدی ہیں۔۱؎ آپ کے والد سراج الدین مفتی سلجوقی ہروی کا شمار ہرات کے زعما میں ہوتا ہے۔۲؎ وہ فارسی کے زبردست شاعر اور مکتبِ شیرازی کے مشہور پیرو تھے۔۳؎ صلاح الدین سلجوقی نے عربی و فارسی کی ابتدائی کتب اپنے والد محترم سے پڑھیں۔ تحصیلِ علم کے بعد مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۱۴ء میں محکمہ شرعیہ ہرات میں مفتی (نائب قاضی) مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۰ء میں مکتب حبیبہ کابل میں دینیات کے معلم مقرر ہوئے۔۴؎ جب کہ بقول نعمت حسین آپ اس دوران مکتب حبیبہ میں استاد ادبیات فارسی و عربی مقرر ہوئے۔۵؎ ۱۹۲۱ء میں مدیرمعارف اور مدیر جریدہ ، فریاد ہرات مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۳ء میں وزارت معارف میں دارالتالیف کے مصحح مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۵ء میں کابل میں مکتب استقلال اور مکتب دارالمعلمین میں ادبیات کے استاد بنے۔۱۹۲۶ء تا ۱۹۲۸ء شاہی دارالتحریر کے شعبہ سوم میں سرکاتب مقرر ہوئے۔۶؎ ۱۹۳۰ء میں افغانستان کے کونسل کی حیثیت سے بمبئی میں خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۳۳ء کو افغان قونصل خانہ دہلی کے کونسلر جنرل مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۹ء میںجب افغانستان میں پہلی بار مطبوعات کا مستقل شعبہ وجود میں آیا تو صلاح الدین سلجوقی اس کے پہلے رئیس بنائے گئے۔ آپ کے اس شاندار دور میں آپ کے درج ذیل کارہائے نمایاں افغانستان کی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے:آریانا دائرۃ المعارف کی رئیسی کا آغاز ہوا۔ ۱۹۴۱ء میں ریڈیو افغانستان کی نشریات کا افتتاح ہوا۔ ہفت روزہ انیس نے روز نامہ کی حیثیت اختیار کی۔ کابل میں کتب خانہ عمومی وجود میں آیا۔ مختلف صوبوں فاریاب ، پکتیا، بدخشاں ، سیستان(فراہ) اور دیگر صوبوں میں اخبارات اور مطبوعات کا اجرا ہوا۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان میں افغان سفارتخانے سے منسلک رہے۔۱۹۴۹ء میں اہلِ ہرات کی جانب سے افغانستان کے شورائی دورۂ ہفتم کے لیے وکیل منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۳ء میں دوسری مرتبہ مطبوعات کے مستقل رئیس منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۴ء میں قاہرہ میں جمال عبدالناصر کے دورِ حکومت میں افغانستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ اس دوران سوڈان، لبنان اور یونان میں بھی افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۲ء کے اواخر تک جاری رہا۔ بعد ازاں مستعفی ہو کر عازمِ وطن ہوئے۔۷؎ سرکاری عہدو ں سے سبکدوشی کے بعد تصنیف و تالیف اور مطالعے میں مصروف رہے۔ کابل کے دارالامان میں ۶؍جون ۱۹۷۰ء ہفتے کی شب حرکت قلب بند ہونے کے سبب خالق حقیقی سے جاملے اور کابل کے شہدائے صالحین کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔۸؎ علامہ سلجوقی فارسی کے علاوہ عربی و انگریزی زبانوں سے بھی استفادہ کر سکتے تھے۔ علامہ سلجوقی کی تالیفات و تصانیف حسب ذیل ہیں۔ ۱- تاریخ فتوحات اسلامیہ سید حسن بن سید زین دحلانی کا یہ عربی اثر استاد صلاح الدین سلجوقی ، حاجی عبدالباقی، میر غلام حیدر، ملا تاج محمد اور چند دیگر زعما نے مشترکہ طور پر ترجمہ کیا جو عبدالرحیم خان نائب سالار کی زیرِ نگرانی ملا فخر الدین سلجوقی کے اہتمام سے مطبع فخریہ سے ۵۴۰ صفحات میں شائع ہوا۔ ۲- مقدمہ علم اخلاق جلد اوّل استاد سلجوقی کا ۴۰۲ صفحات پر مشتمل تالیف و ترجمہ ۱۹۵۲ء میں کابل کے مطبع عمومی سے شائع ہوا۔ اس کتاب کی جلد دوم بھی اسی سال ۳۵۲ صفحات پر شائع ہوئی۔ ۳- علم اخلاق (نیکو ماکوسی) علم اخلاق سے متعلق یونانی فلسفی ارسطو کا یہ اثر صلاح الدین سلجوقی نے فارسی میں ترجمہ کیا۔ ۳۳۰ صفحات پر مشتمل یہ ترجمہ ۱۹۹۲ء میں منظرِعام پر آیا۔ ۴- تہذیب اخلاق ابنِمسکویہ کا یہ اثر بھی استاد سلجوقی نے ترجمہ کیا۔ اور موسسہ نشراتی اصلاح کی جانب سے ۱۹۰۰ء میں ۸۶صفحات پر مشتمل شائع ہوا۔ ۵- افکارِ شاعر فارسی ادبیات کے کلاسیک شعرا کے آثار و افکار سے متعلق استاد سلجوقی کا یہ اثر ’’اصلاح‘‘ اخبار کے ادارے کی جانب سے پہلی بار ۱۹۴۷ء اور بعد ازاں ۱۹۵۵ء میں کابل کے مطبع عمومی کی جانب سے شائع ہوا۔ تعداد صفحات ۷۳ ہے۔ ۶- جبیرہ استاد سلجوقی کا یہ اثر کابل کی وزارت مطبوعات کے شعبۂ نشریات کی جانب سے ۳۲۴ صفحات میں شائع ہوا۔ ۷- نگاہی بہ زیباہی سلجوقی کی تالیف و ترجمے پر مشتمل یہ کتاب بھی کابل سے ۱۹۶۳ء میں ۱۷۳ صفحات کی ضخامت میں شائع ہوئی۔ ۸- محمد درشیر خوارگی و فردسائی یا سرگذشت یتیم جاوید: مصر کے محمد شوکت التوی کے عربی اثر کا فارسی ترجمہ۔ ۱۹۶۳ء میں شائع ہوا۔ ۹- نقد بیدل بیدل شناسی کے حوالے سے استاد سلجوقی کا یہ گراں بہا علمی اثر ۵۷۰ صفحات پر کابل سے ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا۔ ۱۰- تجلی خدا در آفاق وا نفس دینی و عرفانی مسائل پر مشتمل استاد سلجوقی کا ۳۲۳ صفحات کا یہ اثر ۱۹۶۵ء میں کابل کے دولتی مطبع سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ مثلاً فکرت خدا جوئی، عقیدہ بوجود خدا، علم و معرفت خدا، فکرت خدای دینی قدیم و جدید، دین و تصوف و فلسفہ ، الحاد و اقسام آن، تجلی خدا در آفاق ،تجلی خدا درنفس وغیرہ۔ ۱۱- اضواء علی میا دین الفلسفہ و العلم واللغہ و فن الادب استاد سلجوقی کا یہ عربی اثر ۱۳۸۱ھ میں مصر سے شائع ہوا۔ ۱۲- اثرالاسلام فی العلوم و الفنون (عربی) استاد سلجوقی کی یہ کتاب ۱۳۷۵ھ میں مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳- تقویم الانسان استاد سلجوقی کا یہ اثر ان کی وفات کے بعد ۱۹۷۳ء میں کابل سے ۳۴۴ صفحات پر شائع ہوا۔ ۱۴۔ اخلاق غازی امان اللہ خان کے دورِ حکومت میں رشید یہ کلاسز کے لیے مرتب کی گئی درسی کتاب۔ ۱۵- ادبیات درسی کتاب معارف کے طالب علموں کے لیے غازی امان اللہ خان کے دور میں شائع ہوئی۔ ۱۶- ثروت یہ بھی امانی دور کی درسی کتاب ہے۔ ۱۷- قواعد عربیہ (تدریس) استاد صلاح الدین سلجوقی قاری عبداللہ اور ہاشم شائق کی مشترکہ کاوش۔ ۱۸- آئینہ تجلی (رسالہ منظوم) استاد سلجوقی اور مایل ہروی کی مشترکہ تالیف۔ شائع شدہ ۱۹۶۵ء ۔ اس رسالے میں بعض امور سے متعلق مائل ہروی کے منظوم سوالات اور سلجوقی کے منظوم جوابات شامل ہیں۔۹؎ جناب خلیل اللہ خلیلی نے آثار ہرات میں استاد صلاح الدین سلجوقی کی بہت تحسین کی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب استاد سلجوقی بمبئی میں افغانستان کے کونسلر تھے۔ ایک معاصر نقاد، ادیب اور شاعر سے اتنا زبردست اعتراف استاد سلجوقی کے حصے میں آنا معمولی بات نہیں۔ وہ لکھتے ہیں: شاعر زبردستی کہ بایک روح شجاع و یک خامہ مقتدر درزمیہ نظم و نثر علم تصرف بر افراشتہ بعبارت دیگر فرزندہا ہوشی کہ بہ مزایای علم و فضل و ببازدی یک فطرت زندہ بیدار نام تاریخی در ادبیات ہرات گذاشتہ آقائی سلجوقی است۔۱۰؎ صلاح الدین سلجوقی اور علامہ اقبال کے درمیان باقاعدہ مراسم کے آغاز سے متعلق ڈاکٹر عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: مولوی محمد علی قصوری بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ۱۹۰۹ء سے لے کر ۱۹۱۱ء تک گورنمنٹ کالج ، لاہور علامہ اقبال سے پڑھا تھا جب وہ فلسفے کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے کئی انگریزی نظمیں بھی علامہ اقبال سے پڑھی تھیں ان کا بیان ہے کہ علامہ اقبال دوران لیکچر اکثر مطالب سمجھانے کے لیے فارسی اشعار بطور مثال پیش کرکے انگریزی شعروں کا مفہوم واضح کیا کرتے تھے۔ انھوں نے بیان کیا تھا کہ ہم نے ملٹن کی نظم Paradise Lost اور ورڈز ورتھ کی نظم Ode to Immortality علامہ ہی سے پڑھی تھی۔ آپ نے ان کو اس خوش اسلوبی سے سمجھایا کہ آج تک یاد ہے۔ میں نے اپنی یاد داشتوں کو ایک مرتبہ علامہ صلاح الدین سلجوقی افغان کے سامنے بیان کیا جو ان دنوں بمبئی میں افغان گورنمنٹ کے کونسلر تھے۔ تو ان کو بھی علامہ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ علامہ صلاح الدین سلجوقی مرحوم اسلامی رنگ کے خاص شان کے مالک تھے۱۱؎ مولانا محمد علی قصوری ایم اے اقبال کے مشہور معاصر تھے۔ ان دنوں بمبئی میں کاروبار کرتے تھے۔ وہاں افغان کونسل خانے میں علامہ اقبال اور علامہ سلجوقی کی محفلوں کے حوالے سے روایت کرتے ہیں: جب میں نے بمبئی میں کاروبار شروع کیا تو افغانستان کی طرف سے علامہ صلاح الدین سلجوقی بمبئی میں کونسلر افغانستان مقرر ہوئے۔ علامہ موصوف بعد میں کونسلر جنرل ہو گئے تھے۔ پاکستان بن جانے کے بعد سفیرِ مختار افغانستان کے مشیرِ خصوصی بن کر آئے تھے۔ آج کل کابل میں ہیں اور افغان پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ انھیں ڈاکٹر اقبال سے بڑی محبت تھی۔ ڈاکٹر صاحب ولایت جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے انھی کے پاس ٹھہرا کرتے تھے۔ میرے بھی علامہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان کے پاس ٹھہرتے تو مجھے ضرور بلایا جاتا۔ میں نے بھی ان کے اعزاز میں ایک پارٹی دی تھی۔۱۲؎ مولوی محمد علی قصوری علامہ سلجوقی اور علامہ اقبال کی ملاقاتوں میں مترجم کا کام بھی سرانجام دیتے تھے۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں: میں ایک خصوصیت بیان کردوں کہ ڈاکٹر صاحب اگرچہ متعدد فارسی نظم کی کتابوں کے مصنف تھے اور ان نظموں کی وجہ سے ان کے کلام کو تمام اسلامی ممالک میں ہمہ گیر شہرت حاصل تھی لیکن وہ فارسی میں گفتگونہیں کرتے تھے انگریزی بولتے تھے یا اردو۔ علامہ صلاح الدین سلجوقی اس زمانے میں انگریزی سمجھ لیتے تھے لیکن بولتے نہیں تھے اس وجہ سے ان کی بات چیت میں مترجم کی خدمات مجھے سر انجام دینا پڑتی تھیں۔۱۳؎ صلاح الدین سلجوقی کے نام اقبال کے متعدد مکتوبات ملتے ہیں اور بعض مکاتیب میں علامہ سلجوقی کا ذکر موجود ہے ۔ اقبال کا پہلا مکتوب جس میں صلاح الدین سلجوقی (کونسلر افغانستان مقیم بمبئی) کی دعوت کا ذکر ملتا ہے یہ خط اقبال نے ۲۱؍ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ملوجا جہاز میں ساحلِ فرانس پر پہنچنے سے پہلے بحرِ روم سے گزرتے ہوئے منشی طاہر الدین کے نام لکھا۔ بمبئی پہنچتے ہی سردار صلاح الدین سلجوقی کونسلر افغانستان مقیم بمبئی نے دعوت دی۔ ان کے ہاں پر لطف صحبت رہی۔ اسی شام عطیہ بیگم صاحبہ کے ہاں سماع کی صحبت رہی۔۱۴؎ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: ۱۹۳۲ء میں جب علامہ اقبال نے تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کے سیاسی مستقبل پر غور و خوض کے سلسلے میں انگلستان کا سفر کیا تو سید امجد علی شاہ اس سفر میں آپ کے ہمرکاب تھے۔ لاہور سے سفر شروع کیا۔ جب بمبئی پہنچے تو افغان کونسل خانے کے سر براہ مسٹر سلجوقی نے آپ کا استقبال کیا۔۔۔۔۱۵؎ حضرت علامہ نے سفرِ افغانستان کے دوران ’’التجائے مسافر‘‘ اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق لکھی۔ مثنوی مسافر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ سفرِ افغانستان ہی منظومات کا سبب بنا اور اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ سفرِ افغانستان کا سبب اگر ایک طرف خود علامہ کے جنرل نادر خان کے ساتھ مراسم تھے تو دوسری طرف علامہ سلجوقی کی کاوشوں کا نتیجہ بھی تھا کیونکہ ’’دورانِ سفرِ کابل علامہ سلجوقی بھی حضرت علامہ کے ہمراہ تھا‘‘۔۱۶؎ سفرِ افغانستان کے سلسلے میں اقبال کے مکتوبات میں افغان کونسل خانہ بمبئی کا تذکرہ تواتر کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ مکتوب بنام سید سلیمان ندوی محررہ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۳۳ء ،لکھتے ہیں: اگر آپ کو پاسپورٹ ۱۷ کومل جائے تو کونسلر جنرل بذریعہ تار مطلع کر دیں اور لاہور ۱۹ کو شام کو پہنچ جائیں۔۱۷؎ اسی طرح اگلے روز یعنی ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو حضرت علامہ نے پھر سید سلیمان ندوی کو لکھا کہ : دعوت نامہ جو کونسلر صاحب کی طرف سے مجھے موصول ہوا ہے ارسال خدمت ہے۔ آپ پاسپورٹ کے لیے درخواست دیں۔۱۸؎ ان دنوں ہندوستان میں افغان کونسلرجنرل سردار سلجوقی تھے۔ دیگر سٹاف کی تفصیل ذیل ہے: جنرل کونسل ع ۔ ص ۔ صلاح الدین خان سرکاتب س ۔ صالح محمد خان کاتب عبدالخالق خان کاتب صالح محمد خان۔۱۹؎ علامہ اقبال سید نذیر نیازی کے نام بھوپال سے ۲۷؍فروری ۱۹۳۵ء کو لکھے گئے خط میں دہلی میں قیام کے دوران سردار صلاح الدین سلجوقی کے ساتھ ٹھہرنے کے لیے نیازی صاحب کو اطلاع کی تاکید کرتے ہیں: میں ۷ یا ۸ مارچ کی شام یہاں سے چلوں گا اور ۸ یا ۹ کو ساڑھے نو بجے دہلی پہنچوں گا وہاں ایک دو روز قیام کروں گا۔ آپ سردار صلاح الدین سلجوقی کو بھی مطلع کر دیں۔۲۰؎ سردارصلاح الدین سلجوقی سے علامہ کے تعلقات اس حد تک بڑھے کہ دہلی میں قیام کے دوران حضرت علامہ صلاح الدین سلجوقی کے ساتھ افغان کونسل خانے میں قیام فرماتے تھے۔ سید نذیر نیازی کے نام ۳۰ جنوری ۱۹۳۵ء کے مکتوب میں حضرت علامہ تحریر فرماتے ہیں: بھوپال کے متعلق مفصل اطلاع دوں گا مگر ایک دو روز میں۔ لیکچر کی صدارت ممکن ہوئی تو اس سے بھی انکار نہیں۔ دہلی ٹھہر سکا تو افغان کونسل خانے میں ہی ٹھہروں گا۔ مشرق کی روحانیت اور مغرب کی مادیت کے متعلق جو خیالات انھوں نے (خالدہ ادیب خانم نے) ظاہر کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظریت محدود ہے۔ انھوں نے انھی خیالات کا اعادہ کیا ہے جن کو یورپ کے سطحی نظر رکھنے والے مفکرین دہراتے ہیں۔۲۱؎ بھوپال سے ۴؍مارچ ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کے نام ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں: میں ۷ کی شام کو یہاں سے چلوں گا ۸ کی صبح کو دہلی پہنچ جائوں گا۔ ۸ کا دن دہلی ٹھہروں گا اور ۹ کی شام کو لاہور روانہ ہو جائوں گا۔ آپ سردار صلاح الدین سلجوقی صاحب کو مطلع کر دیں۔ حکیم صاحب سے بھی ۹ کی صبح کا وقت مقرر کر دیں۔ ان سے ملے بغیر لاہور جانا ٹھیک نہیں۔ ہاں راغب احسن صاحب کو بھی مطلع کر دیں۔۲۲؎ متذکرہ بالا مکتوب سے اقبال کے صلاح الدین سلجوقی سے گہرے مراسم کا عندیہ ملتا ہے۔ بھوپال سے لاہور جاتے ہوئے راستے میں صلاح الدین سلجوقی کو سید نذیر نیازی کے ذریعے اطلاع دینا باہمی تعلقات کے پختہ تر ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت علامہ کی رفیقہ حیات کی رحلت پر تعزیت کے سلسلے میں صلاح الدین سلجوقی نہ صرف خود اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے بلکہ شاہ افغانستان ظاہر شاہ کا پیغام بھی پہنچایا ۔ ملاحظہ ہو اقبال کا مکتوب بنام سید راس مسعود محررہ ۱۵؍ جون ۱۹۳۵ء از لاہور: مجھے اس خط کا انتظار ہے جس کا ذکر میں نے اپنے گذشتہ خط میں کیا تھا۔ کل اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ کا تار اور تعزیتی خط آیا تھا۔ اور آج سردار صلاح الدین سلجوقی اعلیٰ حضرت کا زبانی پیغام لائے تھے۔ بہت حوصلہ افزا اور دل خوش کن پیغام تھا۔ لارڈ لو دین کا خط بھی لندن سے آیا تھا وہ پوچھتے ہیں کہ ’’رہوڈز لیکچر‘‘ کے لیے کب آئو گے؟ اب بچوں کو چھوڑ کر کہاں جا سکتا ہوں۔۲۳؎ افغان کونسل خانہ میں قیام افغانوں سے عقیدت اور اقبال سے صلاح الدین سلجوقی کی انتہائی محبت کے باعث ہی ممکن تھا۔ سلجوقی کا اصرار اقبال سے ان کی بے تکلفی کی غمازی کرتا ہے۔ملاحظہ ہو مکتوب اقبال بنام سید نذیر نیازی محررہ فروری ۱۹۳۶ء از لاہور: ۲۸؍فروری یا یکم مارچ کو بھوپال کا قصد رکھتا ہوں۔ جاتی دفعہ دہلی نہ ٹھہروں گا۔ ان شاء اللہ واپسی پر کونسل خانے میں ایک آدھ روز قیام رہے گا کہ سردار صلاح الدین سلجوقی اصرار کرتے ہیں۔۲۴؎ سرراس مسعود اور اقبال دیگر مراسم کے علاوہ سفرِ افغانستان کے دوران ہمرکاب بھی رہے تھے۔ موصوف کی وفات کے بعد سردار صلاح الدین سلجوقی کونسل جنرل افغانستان کی حیثیت سے شملہ میں تعینات تھے۔ لیڈی مسعود کے نام تعزیتی تار سلجوقی نے اقبال ہی کے ذریعے بھجوایا تھا۔ اقبال ۳۱ ؍جولائی ۱۹۳۷ء کو لاہور سے ممنون حسن خان کے نام لکھتے ہیں: صبح میں آپ کو لکھ چکا ہوں آج صبح سے دوپہر تک مرحوم کے جاننے والے اور ان کے غائبانہ معترف تعزیت کے لیے آتے رہے۔ راس مسعود کا رنج عالمگیر ہے۔ یہ تار جو اس خط کے ساتھ بھیج رہا ہوں سردار صلاح الدین سلجوقی کونسل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا ہے۔ آپ یہ تار لیڈی مسعود اور مرحوم کی والدہ کو دکھا دیں۔۲۵؎ اسی طرح یکم اگست ۱۹۳۷ء کو لیڈی مسعود کے نام مکتوب میں پھر اس تعزیتی تار کا تذکرہ کرتے ہیں: اس کے بعد ہزایکسیلنسی سردار صلاح الدین سلجوقی کونسل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا تعزیتی تار بھی میرے نام آیا جس میں انھوں نے خواہش کی تھی کہ ان کا پیغام ہمدردی مرحوم کے اعزہ تک پہنچا دیا جائے۔ یہ تار بھی میںنے بھوپال ہی بھیج دیا تھا۔ امید ہے کہ آپ تک پہنچ جائے گا۔۲۶؎ یہاں یہ اضافہ بھی کردوں کہ سر راس مسعود کی وفات پر مجلہ کابل نے ان کی تصویر کے ساتھ ان کی ایک تعزیتی رپورٹ بھی شائع کرائی ہے جس میں حضرت علامہ کے ساتھ ان کے سفرِ افغانستان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔۲۷؎ سید عبدالواحد علامہ سلجوقی اور علامہ اقبال کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ایک انکشاف کرتے ہیں کہ سردار صلاح الدین سلجوقی نے علامہ اقبال کی شاعری اور پیغام پر کئی مقالات لکھے تھے اور اسے کتابی شکل دی تھی۔۲۸؎ مجھے اقبال کے فکروفن یا شخصیت پر اُن کی کوئی تحریر نہیں ملی۔ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- حسین وفا سلجوقی، علامہ صلاح الدین سلجوقی، سلسلہ نشرات اتحادیہ ژور نالستان، مطبع دولتی، کابل، ۱۳۶۶ھ، ص۸۔ ۲- زرین انزور، د افغانستان د ژور نالیذم مخکشان، مطبع دولتی ، کابل، ۱۳۶۵ھ، ۱۹۸۷ئ، ص۲۱۹۔ ۳- خلیل اللہ خلیلی، آثار ہرات، مطبع فخریہ سلجوقی چار باغ، ہرات قوس، ۱۳۱۰ھ، جلد۳، ص۱۴۴۔ ۴- مجلہ کابل، فروری ۱۹۴۰ئ، ص۲۷۔ ۵- نعمت حسینی، سیما ھاوآورھا، مطبع دولتی، کابل، ۱۳۶۷ھ، جلد۱،ص۳۸۴۔ ۶- د افغانستان د ژور نالیذم مخکشان، ص۲۲۰۔ ۷- ایضاً، ص۲۲۱۔ ۸- آریانا دائرۃ المعارف پبنتو شپزم تموک، مطبع دولتی، کابل ، افغانستان، ۱۳۵۵ھ، ص۴۶۸-۴۶۹۔ ۹- د افغانستان د ژور نالیذم مخکشان، ص۲۲۲-۲۲۶۔ ۱۰- آثار ہرات، جلد۳ص۱۴۹۔ ۱۱- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص۳۲۔ ۱۲- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، روایاتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۹ئ، ص۱۷۱۔ ۱۳- ایضاً، ص۱۷۱۔ ۱۴- رفیع الدین ہاشمی (مرتب)،خطوط اقبال، اقبال صدی پبلی کیشنز ، نئی دہلی، ۱۹۷۷ئ، ص۲۰۴۔ ۱۵- اقبال کی صحبت میں، ص۲۶۷۔ ۱۶- ایضاً، ص۳۷۷۔ ۱۷- ایضاً، ص۱۷۵۔ ۱۸- ایضاً، ص۱۷۰۔ ۱۹- سالنامہ کابل، مطبع دولتی، کابل، ۱۳۱۳ھ، ص۴۴۔ ۲۰- محمد عبداللہ قریشی، روح مکاتیب اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص۵۵۰۔ ۲۱- ایضاً، ص۵۴۶۔ ۲۲- ایضاً، ص۵۵۱۔ ۲۳- شیخ عطاء اللہ(مرتب) ، اقبال نامہ، جلد ۱، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۴۴ئ، ص۳۶۴-۳۶۵۔ ۲۴- روح مکاتیب اقبال، ص۵۹۶۔ ۲۵- اقبال نامہ، ص۳۲۷-۳۲۸۔ ۲۶- صہبا لکھنوی، اقبال اور بھوپال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۰ئ، ص۶۴۳۔ ۲۷- مجلہ کابل، اگست ستمبر۱۹۳۷ئ، ص۸۹-۹۰۔ ۲۸- ڈاکٹر سلیم اختر (مرتب) ، اقبال ممدوح عالم ، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص ۳۱۔ ئ……ئ……ء انتظامی علوم کے بنیادی عناصر اور فکر اقبال محمد منیر احمد علامہ محمد اقبال کی شاعری میں زندگی کے بہت سے پہلوئوں پر اظہارِ خیال ملتا ہے۔ انتظامیات بھی ایک ایسا پہلو ہے جس پر علامہ کی شاعری سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ اقبال نے اگرچہ ان افکار کو اس مخصوص عنوان کے تحت بیان نہیں کیا تاہم انھوں نے تنظیم، تحریک، جستجو، تلاش، جرأت و بہادری اور علم و عمل وغیرہ کے بارے میں جہاں اور جس انداز میں بھی بات کی ہے اس سے ان کی فکری رسائی کے وسیع تر حدود کی نشاندہی ہوتی ہے۔ فکر اور سوچ فراہم کرنا، جہد مسلسل کی ترغیب دینا، اشتیاق عمل پیدا کرنا، امید و رجا سے آشنا کرنا، تحقیق و تجسس سے کام لینا، اپنے علم کو منضبط کرنا اور قائدانہ کردار کے ساتھ آگے بڑھنا وہ پہلو ہیں جن پر عہدِحاضر کی انتظامیات کی بنیادیں استوار ہیں۔ ان تمام عناصرِ ترکیبی کو اقبال کی شاعری میں بھرپور انداز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ کلامِ قبال سے بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے مگر ضرورت اس فکر کو اپنانے اور اسے عام کرنے کی ہے جو علامہ نے پیش کی۔ اگرچہ انتظامیات کا مضمون خاصا پرانا ہے مگر اس کی اہمیت یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد بڑھنا شروع ہوئی۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انتظامیات تین چیزوں کو کنٹرول کرنے کا نام ہے اور وہ ہیں Man,Machine and Material ۔ صنعتی دور میں Machine and Material بہت اہمیت کے حامل تھے۔ اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کی کوئی خاص وقعت نہیں تھی کیونکہ وہ صرف Worker تھے۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں کو ترقی کی دہائیاں کہا جاتاہے۔ اس دور میں پہلی بار اداروں میں کام کرنے والے افراد کی اہمیت اور ان کی صلاحیتوں پر توجہ دی گئی۔ اداروں میں HR (انسانی ذرائع)کے ڈیپارٹمنٹ بنائے گئے۔ افراد اور ادارے کی ضروریات کو ہم آہنگ کرنے پر زور دیا گیا۔ ان دہائیوں میں Management کے مضمون میں بہت ترقی ہوئی اور MBA کی ڈگری کو بڑی پذیرائی ملی۔ بیسویں صدی کے آخر میں اس مضمون میں مزید وسعت آئی اور ایک Corporate World وجود میں آئی۔ Information Tehcnology نے ایک نئی جہت کا آغاز کیا۔ قصۂ مختصر Management Science آج انسانی زندگی کو منظم اور کامیاب انداز میںگزارنے کا سبق دے رہی ہے۔ بے شمار کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں جو کامیابی اور اعلی کارگردگی کے طریقے بتاتی ہیں۔ Management کا مضمون بہت وسیع ہے مگر موجودہ دورمیں چار چیزوںکی بہت اہمیت ہے ۱- خوب سے خوب تر کی تلاش (Motivation for Excellence) ۲- تحقیق و ترقی (Creative Thinking and Development) ۳- انضباطِ علم Knowledge Management) ( ۴- مینجر بطور رہنما (Manager as a Leader) ۱-خوب سے خوب تر کی تلاش آج کے دور میں صرف Management کوئی کمال کی بات نہیں۔ بلکہ خوب سے خوب تر کا حصول ہی ایک Manager کی منزل ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے ایک خاص جذبہ اور لگن کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر جب Bill Gates کو IBM نے اپنے نئے PC کے لیے Operating System چھ ماہ میں بنانے کا Contract دیا تو Bill Gates نے اپنی ماں کو فون پر بتایاکہ اب وہ اسے چھ ماہ کے بعد ملے گا۔ اور اس نے دن رات کام کرکے اپنا Task پورا کر لیا۔ Stephen Covey نے اپنی کتاب The 8th Habit میں خوابیدہ صلاحیتوں کو جاننا Management کا انتہائی اہم پہلو قرار دیا ہے۔ وہ اسےFind Your Voice کا نام دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ اپنے آپ کی پہچان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اپنی آواز کی پہچان ہو جائے تو دوسروں کو ترغیب دی جائے تا کہ وہ بھی اپنی آواز کو پہچان لیں۔ گویا زندگی میں کمال اس وقت ہی پیدا ہو گا جب انسان فطرت کی عطاکردہ خوابیدہ صلاحیتوں سے آگاہ ہو جائے۔ اپنے نقطہِ نظر کو واضح کرنے کے لیے وہ حافظ کی ایک نظم کا سہارا لیتے ہیں کہ فطرت نے انسان کو اس کی پیدائش کے وقت کئی Birthday Gifts دیے ہیں مگر یہ تحائف ابھی تک کھولے نہیں گئے۔ انسانی زندگی کا کمال انھیں تحائف کو سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے میں ہے۔ وہ بنگلہ دیش کے پروفیسر محمد یونس کو بطور مثال پیش کرتے ہیں جنھوں نے بنگلہ دیش کے غریب عوام کی ضرورت کو محسوس کیا اور اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے ۲۵ سال کی جدوجہد کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ انھوں نے پہلے اپنی آواز پہچانی پھر دوسروں کو اس پر آمادہ کیا جس کے نتیجے میں Grameen Bank وجود میں آیا جو کہ ایک معجزہ فن ہے۔ دوسرے الفاظ میں Motivation اس وقت آئے گی جب انسان اپنی خوابیدہ صلاحیتوںسے آگاہ ہو جائے گا۔ پھر وہ بڑے سے بڑا معرکہ بھی سر کر سکے گا۔ علامہ اقبال کی زبان میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان میں جب عقا بی روح بیدار ہوتی ہے تو اسے اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے۔ ۲- تحقیق و تجسس دورِ حاضر کیManagement کا دوسرا طرۂ امتیاز سوچ بچار اور تحقیق و تجسس ہے جسے ہم Creative Thinking اور Research and Development کے ناموں سے جانتے ہیں۔ Edward De Bono عہدحاضر کے مشہور Management Scholar ہیں Thinking کی اہمیت پر بہت زور دیتے ہیں۔ "Lateral Thinking" کے نام سے انھوں نے ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے جسے Oxford English Dictionery نے یوں بیان کیا ہے: Unconvential approach to solving problems - a way of solving problems by unconvential or apparently illogical means rather than using a traditionally logical approach. ان کا کہنا ہے کہ معجزہ فن کے لیے Lateral Thinking سے کام لینا ضروری ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ۱۹۸۴ء میں Los Angles میں منعقد ہونے والے اولمپکس گیمز کی مثال دی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں مانٹریال میں ہونے والے اولمپکس گیمز کی انتظامیہ کو بہت زیادہ نقصان اُٹھانے کی وجہ سے ۱۹۸۴ء میں کوئی شہر ان کھیلوں کے لیے تیار نہیں تھا۔ Los Angles بھی اس لیے تیار ہوا کہ اسے Organizing Committee نے نقصانات پورے کرنے کی گارنٹی دی تھی۔ مگر ان کھیلوں کے انعقاد میں Lateral Thinking کی Technique استعمال کی گئی اور انتظامیہ کو اس میچ سے ۲۲۵ ملین ڈالر کا منافع ہوا۔ Peter Uoberrothجو کہ منتظمِ اعلیٰ تھا اس نے ایک رہنما کی طرح اپنی Team کو Motivate کیا اور ان کا slogan تھا: "Ignite your Inner Light" Edward De Bono نے دوسری اصطلاح Six Thinking Hats کے نام سے دی یعنی سوچ و بچار کو رنگوں سے منسلک کر دیا۔پھرانھوں نے Opportunity کو نئے انداز سے بیان کیا کہ Opportunity وہ نہیں ہے جو کہ موجود ہو Opportunity وہ ہے جو نظر آ جائے اور جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ سوچ بچار اور نگا ہ کی بات ہے۔کائنات تو ازل سے موجود ہے نام اسی کا ہوا جس نے اسرارِ کائنات کو جان لیا۔بتدریج سائنسی ترقی اس بات کی گواہ ہے۔ تحقیق و تجسس کی عملی شکل Research & Development کے ادارے ہیں جن میں مغرب کی موجودہ ترقی مضمر ہے۔ ہر ادارے میں بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ R & D کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں امریکہ میں اس مد میں ۳۳۰ ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ چین میں ۱۵۰ ارب ڈالر خرچ ہوئے اور جاپان میں اس ضمن میں خرچ ۱۳۰؍ ارب ڈالر تھا۔ ۳- انضباطِ علم جذبہ و لگن اور تحقیق و تجسس کے نتیجے میں ایک ماحول وجود میں آئے گا جسے ہم علمی ماحول (Knowledge Environment) کہتے ہیں اور جو آج Management Science کا اہم ترین جزو ہے۔ Management کا تیسرا بڑا سکالر Peter Drucker ہے جو پچھلے ۵۰ سال تک Management کے علم پر چھایا رہا۔ اس کا کہنا ہے کہ آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت Knowledge Management ہے وہ Knowledge Work اور Knowledge Worker کا بار بار ذکر کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صنعتی دور یا اس سے پہلے Knowledge بہت کم لوگوں کے پاس تھا۔ زیادہ لوگ Worker تھے یعنی وہ Knowledgeable نہیں تھے۔ اب علم ہر جگہ ہے اور عام ہے۔ اس لیے Knowledge Management Manager کی ذمہ داری ہے۔ ۴- مینجر بطورِ رہنما انتظامیات میں Leader کا کردار مرکزی ہے۔ جذبہ و شوق، تحقیق و تجسس اور علم کو منظم کرنا، منتظم (Manager) جو کہ ایک لیڈر بھی ہے اس کی ذمہ داری ہے۔ ایک لیڈر کو کیسا ہونا چاہیے۔ اس میں کیا خوبیاں ہوں اس کے بارے میں بہت زیادہ لڑیچر دستیاب ہے۔ بہت سی نئی theories سامنے آئی ہیں۔ مثلاً Servant Leadership, Spiritual Leadership, Leader as Teacher یعنی رہنمائی خدمت کے مترادف ہو گئی۔ ملازم، گاہک اور پوری community کی خدمت لیڈر کی ذمہ داری ہے۔اس خدمت کے لیے ضروری ہے کہ لیڈر دردمند ہو۔ لوگوں کی بات غور سے سنے، ان میں Motivation پیدا کرے، اس میں دور اندیشی ہو اور دوسروں کی خدمت کا جذبہ ہو۔ بیسویں صدی کے آخر میں لیڈر کو spiritual رول بھی دے دیا گیا۔لیڈر کا کام افراد میں ایک ربط پیدا کرنا ہے۔ اس کے حصول کے لیے وہ افراد کے actions کو کنڑول کے ساتھ ساتھ ان کے souls کو بھی influence کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اب فرد کی روحانی motivation کی بات شروع ہوئی۔ Stephen Covey نے ۲۰۰۴ء میں "Whole Person" کی ترکیب میں body, mind, heart and spirit کا ذکرکیا اور معجزہِ فن کے لیے heart and spirit کی آسودگی اور بالیدگی لازمی قرار دی۔ انتظامیات کے بنیادی عناصر اور علامہ اقبال کے افکار علامہ اقبال روایتی شاعر نہیں ہیں انھوں نے شعر کی زبان میں انسان کو کامیاب زندگی گذارنے کا طریقہ بتایا ہے جو فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ اوپر ہم نے ان ستونوں کا ذکر کیا جن پر موجودہ دور کی Management Science کھڑی ہے۔ اب ہم انھی ستونوں کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات بیان کرتے ہیں جو ان کے شعروں میں موجود ہیں۔ ۱- خوب سے خوب تر کی تلاش Management کے سارے مکاتبِ فکر اس بات پر متفق ہیں کہ Organization کی کوئی بھی قسم ہو، چاہے وہ Manufacturing concern ہو یا کوئی ہسپتال ہو یا فوجی تنظیم یا ریسرچ کا ادارہ ہو۔ اعلی ترین کارکردگی انتہائی جد و جہد اور انتھک محنت کے بعد سامنے آتی ہے۔ اس چیز کو علامہ اقبال یوں بیان کرتے ہیں۔ رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود یہ کوئی اتفاقی شعر نہیں ہے انھوں نے اس بات کو بار بار بیان کیا ہے: نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے علامہ اقبال بنیادی طور پر motivation کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک زبردست تحریک ہے۔ جذبہ ابھارنے والے اشعار بار بار ملتے ہیں۔ وہ خوابیدہ صلاحیتوں کی اہمیت اور عظمت سے انسان کو آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تو فروغِ دیدۂِ افلاک ہے تو عروجِ آدمِ خاکی کے منتظر ہیں تمام یہ کہکشاں، یہ ستارے، یہ نیلگوں افلاک علامہ اقبال تخیلِ پرواز کی بات کرتے ہوئے انسان کو اعلی ترین سوچ کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اقبال mediocrity کے قائل نہیں ہیں۔ ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے تری پرواز لولاکی نہیں ہے یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری تری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے یہ ساری وہی باتیں ہیں جنھیں Stephen Covey نے ۲۰۰۴ء میں Find your voice کا نام دیا ہے۔ جب جوش و خروش کا ذکر آتا ہے تو علامہ اقبال کا اپنا انداز ہے۔ ان کا بیان دل کو چھوتا اور انسان میں جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے۔ ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے عبث ہے شکوہِ تقدیرِ یزداں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟ اقبال انسان کو جہدِ مسلسل کا سبق دیتے ہیں کہ زندگی چلتے رہنے کانام ہے۔ منزل مقصود نہیں ہے۔ ذوقِ سفر ہی زندگی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس سے معجزۂ فن وجود میں آتا ہے: تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوے آب بڑھ کے ہو دریائے تندوتیز ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول علامہ اقبال افراد کے ساتھ قوموں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جب ذوق و شوق معاشرے کے تمام افراد کی زندگی میں شامل ہو جاتا ہے تو وہ قومیں دنیا میں ممتاز ہو جاتی ہیں۔ نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں کمالِ صدق و مروت ہے زندگی ان کی معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں علامہ اقبال زندگی اسی کو کہتے ہیں جس میں کوئی آرزو ہو۔ کیونکہ زندگی نام ہی آرزو اور خواہش کا ہے۔ آرزو اور تمنا میں ہمیشہ ایک قسم کی بے تابی، تڑپ اور جستجو ہوتی ہے۔ اور یہی احساسات ترقی اور زندگی کے نشانات ہیں: متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں پیام مشرق میں علامہ کہتے ہیں کہ موج اس وقت تک قائم ہے جب تک اس میں پیچ و تاب ہے۔ اگر پیچ و تاب نہیں تو موج نہیں گویا پیچ و تاب اور بے قراری ہی موج کا نام ہے۔ ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا تڑپ جا ، پیچ کھا کھا کر بدل جا نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا ذوق و شوق کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال تحقیق و تجسس پر بہت زور دیتے ہیں۔ پوری کائنات انسان کے لیے ہے اور اسے سوچ بچار کی دعوت دے رہی ہے۔ مگر اس کے لیے نگاہ ِشوق کی ضرورت ہے۔ یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا کہ ذرے ذرے میں ہے ذوقِ آشکارائی کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبارِ جہاں نگاہِ شوق اگر ہو شریکِ بینائی ۲- تحقیق و تجسس علامہ اقبال فہم و ادراک اور تحقیق و تجسس کی بات بھی بڑی تاکید کے ساتھ کرتے ہیں۔ نئے نئے فکر و عمل کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ آج کے دور میں Edward De Bono کہتے ہیں سوچ بچار کے لیے مروجہ طریقوں کو چھوڑ کر نئے نئے انداز سے سوچ بچار کرنا چاہیے، سوچنے کا یہ انداز ہی معرکے سر کرے گا۔ علامہ اقبال نے ان رازوں سے ۱۹۳۰ء میں ہی پردہ اٹھا دیا تھا۔ ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ذوقِ انقلاب ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے،ملت کا شباب ندرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی ندرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارا لعلِ ناب بعض اوقات فہم و ادراک کو اجاگر کرنے کے لیے انسان کے لہو کو اس طرح گرماتے ہیں: آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے کھو گیا کس طرح ترا جوہرِ ادراک کس طرح ہوا کُند ترا نشترِ تحقیق ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک اب تک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں نے گرمیِ افکار نہ اندیشۂ بے باک اگر منزلِ مقصود کے حصول کا ذکر ہو تو علامہ اقبال کی شوخیِ تحریر مجسم تحریک بن جاتی ہے۔ ملے گا منزلِ مقصود کا اسی کو سراغ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ ایک اور جگہ جذبۂ تحقیق و تجسس کو یوں بیان کیا ہے: کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی نگاہِ شوق کا حصول کوئی آسان چیز نہیں ہے۔ دنیا میں مقصدِ زندگی کو حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ کل کی ترقی کے لیے اپنا آج قربان کرنا پڑتا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری ایسے افکار سے بھری پڑی ہے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں: جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ایک اور جگہ اسی چیز کو دوسرے انداز میں بیان کیا ہے: وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامۂِ فردا جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ ایک جگہ زندگی کو جہد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیرِ کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر یعنی زندگی کسی قوم کا حق نہیں ہے بلکہ جو قومیں زیورِ علم سے آراستہ اور محنت کی خوگر ہیں انھی کو دنیا میں زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیںکہ تعلیم کے اندر ہی دینی و دنیوی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ جس قوم میں جہالت کے آثار پیدا ہوئے، سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قوم صفحۂ ہستی پر کچھ دنوں کی مہمان ہے۔ زمانہ بہت جلد نقشِ باطل کی طرح اس کو مٹا کر خدا کی زمین کو اس کے وجود سے پاک کر دے گا۔ ۳- انضباطِ علم علامہ اقبال نے ۱۹۰۳ء میں اردو زبان میں معاشیات پر علم الاقتصاد لکھی۔ بر صغیرمیں معاشیات پر یہ پہلی اُردو کتاب تھی۔ اس کتاب میں علامہ اقبال نے تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا ۔ تعلیم کو معاشی ترقی اور ملکی پیداوار کی افزائش کا لازمی وسیلہ قرار دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۱۹۰۳ء میں مروجہ معاشی علم کے مطابق ذرائع پیداوار سرمایہ، قدرتی ذرائع اور محنت اور لگان تک محدود تھے۔ مغربی دنیا کی نظر میں پیداوار اور تعلیم میں کوئی واضح رشتہ نہیں تھا۔ knowledge worker کی اصطلاح سے اہل مغرب مکمل طور پر نابلد تھے۔ ۱۹۳۰ء تک HRD کا کوئی وجود نہیں تھا۔ مگر اس سے بہت پہلے علامہ اقبال نے اپنے شعروں میں علم کی اہمیت کو بیان کیا۔ بانگ درا میں بچوں کے لیے جو دعا لکھی اس میں بچے کی زبانی کہتے ہیں: زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب معاشرے کی ترقی کے لیے علامہ اقبال تعلیم کو بہت ضروری قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک قوم کے مرض کی دوا تعلیم ہے۔ اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے واجب ہے صحرا گرد پر تعلیم فرمانِ خضر افراد کو ان کی عظمت سے آگاہ کرنے کے لیے علم کی بات کرتے ہیں: ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہاں گیری یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی Knowledge Management بھی علامہ اقبال کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حصولِ علم اور انضباط علم کا معاشرے کی ترقی پر کیا اثر پڑے گا۔علم و فن زندگی میں کمال کا پیش خیمہ کس طرح بنے گا۔ یہ سب چیزیں علامہ اقبال کے شعروں میں عیاں ہیں۔ Knowledge Management کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ علامہ اقبال علم کو ملت کے نظم اور اعتبار کے برابر خیال کرتے ہیں۔ علم و دولت نظم کارِ ملت است علم و دولت اعتبارِ ملت است علم از سامانِ حفظِ زندگی است علم از اسبابِ تقویمِ خودی است ۴- قائدانہ کردار اب ہم Management کے چوتھے اور انتہائی اہم پہلو leadership کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات دیکھتے ہیں۔ وہ لیڈر کو اکثر میرِ کارواں کہتے ہیں کبھی شاہین یا کبھی مو من کو بھی بطور لیڈر پیش کرتے ہیں۔ لیڈر میں خوئے دل نوازی کوبہت اہم خیال کرتے ہیں۔ خوئے دل نوازی کا انگریزی ترجمہ کریں تو کچھ ایسا تاثر ابھرے گا Soft skills for motivation and conflict resolution۔ آج کے دور کی Management Science میں یہ خوبیاں ایک کامیاب Manager کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ دیکھیے علامہ کیا کہتے ہیں: کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوے دل نوازی ہے کیوں ہجوم زیادہ شراب خانے میں صرف یہ کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق دور حاضر میںLeader کی دوسری بڑی خوبی اس کا Visionary ہونا ہے۔ تاکہ وہ دستیاب مواقع (existing opportunities)کو دیکھ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میںمقصد کو حاصل کرنے کے لیے commitment ہو۔ دوسرے الفاظ میںآج جب ہم کسی کامیاب لیڈر یا مینجر کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی کامیابی کو تین زاویوں سے جانچا جاتا ہے۔ ۱- اس کا Visision کیا تھا۔ ۲-وژن بنانے کے لیے اس کا Mission کیا تھا۔ ۳- Vision and Mission کو support کرنے کے لیے اس کی Core Values کیا تھیں۔ یہ تینوں چیزیں اب اس قدر اہم ہو گئی ہیں کہ ان کو کتبے کی شکل میں لکھ کر ادارے میں رکھا جاتا ہے۔ letter pad پر اسے نمایاں کرکے لکھا جاتا ہے۔ اور یہ دور حاضر کی دریافت ہے۔ ۲۵، ۳۰ سال پہلے ان چیزوں کے بارے میں اتنی واقفیت نہیں تھی۔ جب علامہ اقبال کے یہ دو شعر پڑھیں تو لگتا ہے کہ یہ شعر اکیسویں صدی کے کسی مشہور Management Scholar کے ہیں۔ نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے پہلے شعر میں مثالی لیڈر کا خاکہ پیش کیا ہے۔ دوسرے شعر میں اس کی خوبیاں بیان کی ہیں۔ علامہ اقبال نے یہ شعر غالباً ۱۹۳۰ء میں کہے تھے۔ اس وقت بر صغیر میں ایسے لیڈر یا مینجر کا ماحول نہیں تھا۔ ہم یہ بھی نہیں کَہ سکتے کہ علامہ اقبال نے اس شعر کا مفہوم مغرب سے لیا ہے۔ کیونکہ وہاں بھی اس وقت لیڈر کا یہ تصور موجود نہیں تھا۔ ۱۹۳۰ء اور اس کے لگ بھگ یورپ پر کساد بازاری کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ سرمایہ داری نظام کی جڑیں مضبوط ہو رہی تھیں۔ منیجر کا کردار ظالم کا تھا اور مزدور مظلوم تھا۔ مشینوں کی حکومت تھی۔ فرد کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ علامہ نے یورپ کے اس دور کی یوں عکاسی کی ہے: تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ایسے ماحول میں افراد کی۱ ہمیت، احساسِ مروت، میر کارواں کی خوے دل نوازی اور بلند نظری کا بیان علامہ اقبال کو ایک وسیع النظر Management Scholar کے طور پر پیش کرتا ہے۔ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ آج ہم جن لوگوں کو Management Sciene کے بہت بڑے سکالر کے طور پر جانتے ہیں انھوں نے Management کے صرف ایک ایک پہلو کو بیان کیا ہے۔ مثلاً Stephen Covey نے find your voice کی بات کی ہے۔ Edward De Bono کو thinkingکا سکالر مانا جاتا ہے۔ Knowledge Management اور Effective Executive کے حوالے سے Peter Drucker کی پہچان ہے۔اسی طرح Servant leadership کے حوالے سے Robert Greenleaf کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن علامہ اقبال نے Management کے یہ سارے پہلو اپنے شعروں میں بیان کیے ہیں۔ اس بنا پر ہم کَہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال Management کی دنیا کے سب سے بڑے سکالر ہیں۔ خاص طور پر Human Resource Development کی تحریک کے تو وہ بانی ہیں۔ اپنے زورِ تخیل اور نورِ بصیرت کی بنا پر انھوں نے Management کے زریں اصول وقت سے پہلے بیان کر دیے جن سے مغرب کی دنیا آہستہ آہستہ واقف ہوئی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ علامہ اقبال اپنے اعلیٰ خیالات کو پیش کرتے ہوئے فرد کی سطح سے اٹھ کر قوم کے مقام پر آجاتے ہیں۔ اور پورے معاشرے کی فلاح کی بات کرتے ہیں۔ ہوس وخود غرضی کی برائی بیان کرتے اور اخوت ومحبت کی فراوانی کی تعلیم دیتے ہیں: ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا ، محبت کی زباں ہو جا سبق پڑھ پھر صداقت کا، شجاعت کا، عدالت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا یہی مقصودِ فطرت ہے یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہاں گیری ، محبت کی فراوانی بڑی حیرت کی بات ہے کہ علامہ اقبال کے ان خیالات کی جھلک بھی Management کے تازہ ترین ادب سے مل رہی ہے۔ Servant Leadership اور Spiritual Leadership کا ذکر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ Stephen Covey کی کتاب The 8th Habit اس سلسلے میں بہت زبردست پیش رفت ہے۔ Find your voice جو کہ اس کتاب کا theme song ہے، سارا زور خوابیدہ صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں اجاگر کرنے پر دیتا ہے۔ ایک جگہ تو وہ یہاںتک کہتے ہیں کہ"Indentity is Destiny" ۔ اہل مغرب کا خودی کی پہچان کے سلسلے میں یہ پہلا قدم ہے۔ Edward De Bonoکی حالیہ کتاب H+, The New Religion جو ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی، علامہ اقبال کی زبان بولتی ہے۔ وہ اپنی کتاب کی یوں وضاحت کرتے ہیں: In H+ there is only a belief in the potential of yourself and in the potential of your fellow human beings. H+ sets a framework for the development of this potential. ان سطور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال ایک غیر روایتی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری انسان کو منظم اور کامیاب زندگی گزارنے کا پیغام دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے یہ پیغام ایسے وقت میں دیا جب بر صغیر میں ان کے خیالات کو سمجھنے کے لیے عملی طور پر ایسا ماحول نہیں تھا۔ یعنی industrial activity نہ ہونے کے برابر تھی نہ ہی کوئی Enterprising Environment تھا۔ مغرب میں بھیmanagement thought ابتدائی مراحل میں تھا۔ وہاں بھی مشینوں کی حکومت تھی۔ ایسے وقت میں فرد کی اہمیت، جذبہِ شوق اور لیڈر شپ کا بیان علامہ اقبال کی Management کے بارے میں وسعتِ نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلاشبہ کلامِ اقبال ہماری میراث ہے مگر ہم نہ اسے خود جان سکے نہ دوسروں کو اس پیغام کے بارے میں بتا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی Management Science علامہ اقبال کے نام سے نا آشنا ہے۔ حالانکہ وہ Motivation اور تحقیق و تجسس اور لیڈر شپ کے بہت بڑے سکالر تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ اقبال کے پیغام کو عام کیا جائے کیونکہ یہ ان کی خواہش بھی تھی۔ جوانوں کو مری آہِ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے خدایا! آرزو میری یہی ہے مرا نورِ بصیرت عام کر دے ئ……ئ……ء استفسار احمد جاوید میں فلسفے اور ادبیات میں فارغ التحصیل ہوں۔ زیادہ وقت مغربی فلسفہ و ادب کے مطالعے میں گزرا ہے۔ مشرقی اور اسلامی روایتوں کے بارے میں بھی جتنا کچھ پڑھا ہے اس کا بڑا حصہ انگریزی میں تھا۔ اب شوق پیدا ہوا ہے کہ اپنی قریبی تاریخ کے اہم مفکروں اورشاعروں کا بھی تفصیلی علم حاصل کروں۔ اس مقصد کے لیے اقبال ایک فطری انتخاب ہیں۔ میں چاہتاہوں کہ مجھ ایسے لوگوں کے لیے ان کا ایک مفصل تعارف اس انداز سے لکھ دیا جائے جس سے یہ سمجھنا آسان ہو جائے کہ وہ روایتی فکر و شعر کے اصول سے کتنے مختلف یا موافق ہیں ۔ عبداللہ احمد (کینیڈا) مشرق کے شاعروں اورمفکروں میں اقبال کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے فکر انسانی کے مشترک موضوعات و مسائل پر غور کرتے ہوئے ___ خواہ غور کا یہ عمل عقلی ہو تخییلی ___ اس روایتی تقسیم کو تقریباًنظر انداز کر دیا جو مشرق و مغرب کو مستقل بنیادپر ایک دوسرے سے جدارکھتی تھی۔ انھوں نے اپنے لیے کچھ آزادانہ اورلچکدار ترجیحات وضع کیں جن کی مدد سے وہ خیالات و تصورات کی ایک ایسی ترکیب تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے جسے معیاربنا کر تجربیت (Empiricism) اور ما بعدالطبیعیات کے حتمی اور اصولی اختلاف کو حل کیا جا سکے۔ اس کے لیے وہ فکر و استدلال کے مسلمہ حدود پر قناعت کرنے کی بجائے دلائل کی تعمیر نو اور استدلال کے نئے اصول بنانے سے بھی دریغ نہیںکرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کو اپنے بیش تر تصورات اور افکار کو بیان کرنے کے لیے شاعری کا بھی سہارا لینا پڑا۔ ان کی شاعری کی معنوی ساخت فلسفیانہ ہے۔لیکن ایک پیغمبرانہ آواز اوراس کی گونج سے اس میں ایسی شدت اظہار سرایت کر گئی ہے کہ منطق ہو یاواقعیت، دونوں کے حدود تنگ پڑ جاتے ہیں، اورآدمی کے اندر یوں لگتا ہے جیسے ایک نئی سطح اثبات اورایک نیا دعواے تیقن پیداہو رہا ہے۔ حقائق، ادراک کا ہدف بننا قبول نہیں کرتے لیکن اقبال کی شاعری میں وہی حقائق ایک حسی presence اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ عمل حقیقت کے قابلِ ادراک ہو جانے سے بھی بڑا عمل ہے۔ ویسے ما بعد الطبیعی علم اسی presence سے عبارت ہے، تاہم اقبال ما بعدالطبیعیات کے اس اصول سے اتفاق نہیں رکھتے کہ انسانی کائناتِ ادراک میں محض معلوم حقیقی ہے، علم اور عالم نہیں۔ اقبال کے لیے معلوم اتنا ہی حقیقی ہے جتنا وہ عالم کی توسیع و تکمیل کرتا ہے۔ یہ موقف اقبال کی فکری عمارت کا سنگ بنیاد ہے۔ اس کی روسے فقط حرکت ہی حقیقی ہے اور وجودکے تینوں مراکز یعنی کائنات، انسان اور خدا، ایک ہی حرکت سے روبکمال ہیں۔ یہ حرکت اصولی جو اپنی ماہیت میں غیر زمانی ہے، کائنات میں طبیعی ، انسان میں تاریخی اور خدا میں تخلیقی شان رکھتی ہے۔ یہ ارتقائی حرکیت گو کہ فلسفے اور سائنس کے لیے کوئی نامانوس نظریہ نہیں لیکن اقبال کے ہاں اس کی جو تالیفی صورت بنی وہ ہیگل، ڈارون، نٹشے وغیرہ کے اثرات کی حامل ہونے کے باوجود اپنی تکمیل شدہ حالت میں کسی مخصوص فلسفیانہ اورسائنسی منہاج سے مطابقت یا کم از کم ایسی مطابقت نہیں رکھتی کہ اس پر کسی پہلے سے موجود عنوان کا اطلاق کیا جاسکے، البتہ اقبال کا بنیادی مسئلہ یا موادِ فکرکلاسیکی ہے۔ قدیم فلسفیوں کی طرح ان کا فلسفہ بھی، چاہے نثر میں ہو یا منظوم، اسی مطلقیت پر استوار ہے جس کا سوال بھی کلی ہوتا ہے اورجواب بھی۔ مثلاً Knowledge and Religious Experience کے موضوع پر گفتگو کا آغاز ہی اس طرح کرتے ہیں: What is the character and general structure of the universe in which we live? Is there a permanent element in the constitution of this universe? How are we related to it? What place do we occupy in it, and what is the kind of conduct that befits the place we occupy? These questions are common to religion, philosophy, and higher poetry.)The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Institute of Islamic Culture, Lahore, 1986, p.1.) ان سوالات سے جو کل تشکیل پاتا ہے وہ علمی اور عقلی نہیں بلکہ عملی اور اخلاقی ہے۔ کانٹ نے جس سخت گیری سے عقل کے واقعی حدود اور علم کی صحت کے معیارات مقرر کیے ہیں، اس نے فلسفے اور ما بعد الطبیعیات کے بیش تر مباحث کو لا یعنی کرکے رکھ دیا۔ کانٹ کی تنقید سے پیداہونے والی اس صورت حال میں اقبال کو بھی Idealist ہونے کے باوجود فلسفے کی بلندیوں پر چھائی ہوئی دھند سے باہر نکلنا پڑا۔حالانکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ حقائق کی ادراک پذیری کے قائل تھے مگر Critique of Pure Reason نے ان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہ چھوڑا کہ موضوع کی حقیقت و ماہیت کے بجائے اس کی عملی معنویت اور اخلاقی غایت پر زور دیا جائے۔ تاہم کانٹ کے نظریۂ علم کے بنیادی دعوے کو تسلیم کرنے کے باوجود اقبال نے تجربی توثیق اور حسی تصدیق کی ساخت میں کچھ ایسی جہتیں دریافت کیں جن کی اساس پر چیزیں اپنے حسی تعین سے دستبردار ہوئے بغیر شعور کو نیا مواد فراہم کر سکتی ہیں۔ یہ مواد نوعیت کے اعتبار سے حسی ہی ہوتا ہے مگر اس کی تشکیل و تکمیل عقل میں نہیں بلکہ وجدان میں ہوتی ہے۔ وجدان جو عقل اور حواس کی تشکیل نو کرکے ان کے درمیان اس نسبتِ اصلی کا انکشاف کرتا ہے جس کی گمشدگی نے واقعی (Actual) اور حقیقی (Real) کی مغایرت انگیز عینیت کو انسان کی مفروضہ استعدادِ علمی کے لیے نا قابل اثبات بنا دیا۔ اقبال کے نظریۂ علم کی بنیادی بات یہ ہے کہ یہ حقائق کی تصدیق کے تجربی اصول کو پوری طرح قبول کرکے اس کی توسیع کے امکانات تلاش کرتا ہے۔ اس عمل سے منطق اور تجربے کا فاصلہ قدرے کم ہوجاتا ہے۔ شعور علمی اورشعورِ اخلاقی کے واجب الاثبات مشمولات بہرحال ایک نوعی مطابقت ضروررکھتے ہیں، جس کا ممکن ہے سردست کوئی clinical تجزیہ نہ کیا جا سکے۔ مگر اس سے جو وحدانی ہیئت بنتی ہے، اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا یا نہیں کیا جانا چاہیے۔شعور کی تمام صورتیں بلکہ حالتیں بھی اسی ہیئت سے پھوٹتی ہیں۔ علم یا شعور کی یہ منتہائی وحدانیت اپنی ماہیت میں نہ ذہنی ہے نہ تجربی۔ اس کے subject اور object میں اگر کوئی فصل ہے تو محض منطقی۔ فی الحقیقت ان میں دوئی کا کوئی ایسا اصول کارفرما نہیں جوان کے درمیان ایک مستقل لا تعلقی پیدا کر دے۔ اگرایسا ہوتا تو علم خواہ تجربی ہو یا عقلی، محال ہو جاتا۔ چونکہ تجربہ ، صحت علم کی لازمی شرط ہے لہٰذا اقبال کو بھی اس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ ورائے تجربی حقائق کا اثبات کس طرح ممکن ہے؟ ان کا موقف یہ ہے کہ تجربہ محض حواسِ ظاہری پر منحصر نہیں ور نہ خود انسان یا توشے بن کر رہ جائے گا یا پھر اس عالمِ محسوسات سے خارج ہو جائے گا۔ تجربہ یعنی بلاواسطہ ادراک کا ایک ایسا درجہ بھی ہے جہاں آدمی حقیقت کوظاہری اجزائیت میں دیکھنے کی بجائے من حیث الکل ادراک کرتا ہے۔ یہ کل conceptual نہیں بلکہ essential ہے، اس لیے وقوف (cognition) اور حضور (presence) کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے ___ اور تجربی تصدیق کے لیے درکار ہے۔ اس مرحلے پر دین اور فلسفہ و طبیعیات مقابل آ جاتے ہیں۔ اقبال اس تقابل کو مخاصمانہ نہیں بنانا چاہتے۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ انھیں ایسے اٹل حدود میں متعین کر دیا جائے کہ یہ کم از کم ایک دوسرے کی تردید پر مجبور نہ ہو سکیں، اورایک ایسی صورتِ حال عمل میں آجائے کہ دینی حقائق، فلسفیانہ اور سائنسی معیار پر بھی لائقِ اثبات ہوجائیں۔ Reconstruction کا غالب موضوع یہی ہے۔ یہ ایسا ہفت خواں ہے جسے سر کرنے کے لیے موجود قواے علم ناکافی ہیں۔ اس کے لیے علم کی ایک نئی استعداد کی دریافت یا ایجاد ضروری ہے۔ مزید برآں حقائق کی معلومات کی غیر معمولی صورتوں کا انکشاف بھی درکار ہے تاکہ علم و معلوم کی وہ نسبت جو معمول کی نسبتوں کو منقلب کرکے ظہور میں آتی ہے، محض منطقی قضیہ بن کر نہ رہ جائے، اسے structural ہونا چاہیے۔ اقبال نے ان تمام مطالبات کا ہر پہلو سے سامنا کیا ہے۔ مثلاًReconstruction ہی سے چند اقتباسات دیکھیے: In its attitude towards the Ultimate Reality it is opposed to the limitations of man; it enlarges his claims and holds out the prospect of nothing less than a direct vision of Reality.( p.1) ___________ Religion is not a departmental affair; it is neither mere thought, nor mere feeling, nor mere action; it is an expression of the whole man. Thus, in the evaluation of religion, philosophy must recognize the central position of religion and has no other alternative but to admit it as something focal in the process of reflective synthesis. Nor is there any reason to suppose that thought and intuition are essentially opposed to each other. They spring up from the same root and complement each other. The one grasps Reality piecemeal, the other grasps it in its wholeness. The one fixes its gaze on the eternal, the other on the temporal aspect of Reality. The one is present enjoyment of the whole of Reality; the other aims at traversing the whole by slowly specifying and closing up the various regions of the whole for exclusive observation. Both are in need of each other for mutual rejuvenation. Both seek visions of the same Reality which reveals itself to them in accordance with their function in life.(p.2) __________ There seems to be no reason, then, to accept the normal level of human experience as fact and reject its other levels as mystical and emotional. The fact of religious experience are facts among other facts of human experience and, in the capacity of yielding knowledge by interpretation, one fact is as good as another. Nor is there anything irreverent in critically examining this region of human experience. The Prophet of Islam was the first critical observer of psychic phenomena. Bukha`ri`and other traditionists have given us a full account of his observation of the psychic Jewish youth, Ibn Sayyad, whose ecstatic moods attracted the Prophet's notice. He tested him, questioned him, and examined him in his various moods. Once he hid himself behind the stem of a tree to listen to his mutterings. The boy's mother, however, warned him of the approach of the Prophet. Thereupon the boy immediately shook off his mood and the Prophet remarked: 'If she had let him alone the thing would have been cleared up.' The Prophet's companions, some of whom were present during the course of this first psychological observation in the history of Islam, and even later traditionists, who took good care to record this important fact, entirely misunderstood the significance of his attitude and interpreted it in their own innocent manner. Professor Macdonald, who seems to have no idea of the fundamental psychological difference between the mystic and the prophetic consciousness, finds 'humour enough in this picture of one prophet trying to investigate another after the method of the Society for Psychical Research. A better appreciation of the spirit of the Qur'an which, as I will show in a subsequent lecture, initiated the cultural movement terminating in the birth of the modern empirical attitude, would have led the Professor to see something remarkably suggestive in the Prophet's observation of the psychic Jew. However, the first Muslim to see the meaning and value of the Prophet's attitude was Ibn Khaldun, who approached the contents of mystic consciousness in a more critical spirit and very nearly reached the modern hypothesis of subliminal selves. As Professor Macdonald says, Ibn Khaldun 'had some most interesting psychological ideas, and that he would probably have been in close sympathy with Mr. William James's Varieties of Religious Experience'. Modern psychology has only recently begun to realize the importance of a careful study of the contents of mystic consciousness, and we are not yet in possession of a really effective scientific method to analyse the contents of non-rational modes of consciousness. With the time at my disposal it is not possible to undertake an extensive inquiry into the history and the various degrees of mystic consciousness in point of richness and vividness. All that I can do is to offer a few general observations only on the main characteristics of mystic experience. 1. The first point to note is the immediacy of this experience. In this respect it does not differ from other levels of human experience which supply data for knowledge. All experience is immediate. As regions of normal experience are subject to interpretation of sense-data for our knowledge of the external world, so the region of mystic experience is subject to interpretation for our knowledge of God. The immediacy of mystic experience simply means that we know God just as we know other objects. God is not a mathematical entity or a system of concepts mutually related to one another and having no reference to experience. 2. The second point is the unanalysable wholeness of mystic experience. When I experience the table before me, innumerable data of experience merge into the single experience of the table. Out of this wealth of data I select those that fall into a certain order of space and time and round them off in reference to the table. In the mystic state, however, vivid and rich it may be, thought is reduced to a minimum and such an analysis is not possible. But this difference of the mystic state from the ordinary rational consciousness does not mean discontinuance with the normal consciousness, as Professor William James erroneously thought. In either case it is the same Reality which is operating on us. The ordinary rational consciousness, in view of our practical need of adaptation to our environment, takes that Reality piecemeal, selecting successively isolated sets of stimuli for response. The mystic state brings us into contact with the total passage of Reality in which all the diverse stimuli merge into one another and form a single unanalysable unity in which the ordinary distinction of subject and object does not exist. 3. The third point to note is that to the mystic the mystic state is a moment of intimate association with a Unique Other Self, transcending, encompassing, and momentarily suppressing the private personality of the subject of experience. Considering its content the mystic state is highly objective and cannot be regarded as a mere retirement into the mists of pure subjectivity. But you will ask me how immediate experience of God, as an Independent Other Self, is at all possible. The mere fact that the mystic state is passive does not finally prove the veritable 'otherness' of the Self experienced. This question arises in the mind because we assume, without criticism, that our knowledge of the external world through sense-perception is the type of all knowledge. If this were so, we could never be sure of the reality of our own self. (pp.13-15). وجدان کے حاصلات استدلالی سطح پر ناقابل تجزیہ اور حسی سطح پر ناقابل انتقال ہونے کے باوجود اگر تجربی وقعت رکھتے ہیں تو اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ انسانی تجربہ اپنی تمام حالتوں میں جس عمل ادراک کی تکمیل کرتا ہے خود وہ بھی نا قابل تجزیہ اور ناقابل انتقال ہے۔ لہٰذا وجدان کو ایک یقینی ذریعہ علم ماننے میں یہ چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ اس کا حاصل معمولی شعور کے لیے لائق تصدیق نہیں ہے۔ رہا یہ دعویٰ کہ شے فی نفسہٖ (Thing in itself)کا علم نا ممکن ہے ،تو اقبال کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ، ان کی فکر کا کوئی حصہ اس کی زد میں نہیں آتا۔ اس اعتبار سے وہ اس قدیم روایت کے ماننے والے ہیں جس کی رو سے حقیقتِ شے وجود ہے جس کا علم محال ہے۔ کانٹ نے زمان و مکاں کو علم اور وجود کی لازمی شرط قرار دیا ہے۔ معلوم اگر واقعی ہے تو زمان و مکاں سے باہر نہیں ہوسکتا ___ اس دشواری سے نکلنے کا بس یہی راستہ تھا کہ زماں و مکاں کی مطلقیت کا انکار کر دیا جائے اور انھیں اضافی ثابت کرکے ان کیResubjectivization کی جائے۔ اقبال نے یہی کیا۔ کلاسیکی علم الکلام میں زمانہ ان زمانیات کے ادراک کی شرط ہے جن کا اصول تغیر واحد ہے، یعنی ان کا زمانی نظام ایک ہے۔ وجود کی ایسی بے شمار سطحیں ممکن ہیں جو زمانیات کے اس سانچے سے مطابقت نہیں رکھتیں اور ان کی تغیر پذیری کا اسلوب ایسی حرکیت (Dynamism) سے عبارت ہے جسے ہم اپنے زمانے کی نسبت سے غیرزمانی کہہ سکتے ہیں۔ بلند ترین سطح جہاں تغیر ایک داخلی حرکت اور وقت ایک آنِ مطلق بن جاتا ہے، ’’ابدیت‘‘ہے: لا زمان و مکاں ___یہ ’’وجود‘‘ یعنی حقیقت الحقائق کی شان ذاتی ہے جو اپنے اثبات و انکشاف کے لیے ہمارے ہر عقلی ، حسی مزاج علم کو قبول کرتی ہے مگر ورائیت کے ساتھ ۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ فکر اقبال کامرکزی نقطہ کیا ہے، تو اس کا ایک ہی جواب ہوگا: خودی ___یہ تصور ان کے ہاں اتنی قطعیت اورہمہ گیری رکھتا ہے کہ بعض مقامات پر اس کا اثبات ایک جارحانہ شدت اختیار کرلیتا ہے جسے فلسفہ نہیں سہار سکتا ___اقبال شاعر نہ ہوتے تو ذات یا انا یا خودی کے اس خاکے کی تکمیل نہ ہو سکتی جس سے ان کے فکر و وجدان کے تمام خطوط متعین ہوتے ہیں۔ اقبال کے تصور خودی کی استدلالی اور تخییلی بناوٹ کا ذرا گہرا تجزیہ کیا جائے تو اس میں حیرت انگیز طورپر وہی وحدۃ الوجود ی منطق کارفرما نظر آتی ہے جسے وہ پوری قوت کے ساتھ رد کردینا چاہتے تھے۔ I have conceived the Ultimate Reality as an Ego; and I must add now that from the Ultimate Ego only egos proceed. The creative energy of the Ultimate Ego, in whom deed and thought are identical, functions as ego-unities. The world, in all its details, from the mechanical movement of what we call the atom of matter to the free movement of thought in the human ego, is the self-revelation of the 'Great I am'. Every atom of Divine energy, however low in the scale of existence, is an ego. But there are degrees in the expression of egohood. Throughout the entire gamut of being runs the gradually rising note of egohood until it reaches its perfection in man. That is why the Qur'an declares the Ultimate Ego to be nearer to man than his own neck-vein. Like pearls do we live and move and have our being in the perpetual flow of Divine life.(The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Institute of Islamic Culture, Lahore, 1986, p.57-58) بظاہر یہ ایک وحدۃ الوجودی بیان ہے۔ انا سے انا کا صدور اور ’’ہر انا میں سے مطلق انا کا ظہور‘‘ وجودی قضا یا ہی ہیں، تاہم ان کے معانی بالکل مختلف ہیں۔ گو کہ اس تصور میں جو وجودی وحدت و عینیت کے جواب میں ظاہر ہوا ہے،بعض ایسی دشواریاں نظرآتی ہیں جو قریب قریب لاینحل ہیں تاہم اقبال کی مجبوری یہ ہے کہ وہ حقائق کی جس غیر استثنائی کلیت تک پہنچنا چاہتے ہیں، اس کے تصور کی تائید اسی منطق سے میسر آتی ہے جو خود وحدۃ الوجود کا مایۂ استدلال ہے ___ یعنی کلیات اساس منطق ___ اقبال حقائق کی جس اقلیم سے پلوٹائنس ، شنکر اچاریہ اور ابن عربی کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں اس کی بنیاد انھی لوگوں نے ڈالی ہے اور وہاں کا قانون ہی وحدت و عینیت ہے۔ اقبال اس قانون کو توڑنے کی پوزیشن یا ارادہ نہیں رکھتے، اس لیے انھوں نے خودی کی شکل میں وہ اصولِ مشترک دریافت کیا جو اوپر سے نیچے تک کل موجودات کو اس طرح محیط ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا ذاتی اور وجودی امتیاز برقرار رہتا ہے۔ یہاں ’’موجود‘‘ ، ’’وجود‘‘ پر غالب ہے۔ اس مبحث میں کئی سوالات پیداہو سکتے ہیں ، مثلاًاگر انا مدارِ غیریت ہے تومطلق انا سے دیگرانائوں کا صدور کیسے ہوا؟ مطلق انا اور مقید انا کا امتیاز اگرمستقل ہے تو پھر مطلق کے کیا معنی ہوئے؟ اگر انا سے اناصادر ہوسکتی ہے تو وجود سے وجود کیوں نہیں ہوسکتا؟ اور کیا خودی کوئی غیر وجودی امر ہے؟… اقبال کے مقاصدچونکہ فلسفیانہ کم تھے اوراخلاقی زیادہ ، اس لیے انھوں نے تصور خودی پر وارد ہوسکنے والے سوالات اور اشکالات سے اعتنا نہیںکیا۔ اخلاقی شعور میں حقائق کی قبولیت کا انداز فلسفیانہ شعور سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے مسلمات محض عقلی جرح کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے تصور خودی کوشعور کے اخلاقی مقصود سے نہ صرف یہ کہ غیر متعلق نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے معقولات کی قبیل میں جانے سے روکنا بھی ضروری ہے۔ غالباًیہی وجہ ہے کہ اقبال کے بنیادی تصورات شاعری میں زیادہ کمال اور قوت سے اظہار کرتے ہیں۔ شاعری میں اقبال تصورات کی ذہنی تشکیل اور عقلی اثبات سے دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہاں ان کی آواز وجود کی ان ساکن گہرائیوں تک پہنچتی ہے جہاں ’’لازمانی‘‘ حقائق اپنی ماورائے استدلال جہت کے ساتھ ایک دائمی محرک کے طورپر موجود ہیں۔ Martin Hiedeggerسے منقول یہ قول ایک طرح سے فلسفی اقبال اور شاعراقبال کے مرتبے کافرق واضح کر دیتا ہے۔ Only Image formed keeps the vision yet image formed rests in the poem. ایک غیر متغیر تصورِ حقیقت پربنا رکھنے کی وجہ سے مشرق کی بنیادی روایت تنزیہی ہے۔ مشرقی شعریات میں لفظ اپنے معینہ معنی سے زیادہ حقیقی ہوتا ہے کیونکہ تنزیہ کو مجروح کیے بغیر اگراس کی کوئی دلالت ہو سکتی ہے تو وہ ہمیشہ لفظی ہی ہوگی۔ حقیقت کا ہر انعکاس ’’بیان محض‘‘ ہے، اور اسے ’’مفہوم‘‘ بنانے کا کوئی بھی عمل اس پر وہ حدود لازماًوارد کرے گا جنھیں قبول کرکے حقیقت کا ذاتی تشخص برقرار نہیں رہ سکتا۔ لفظ یا بیان ، حقیقت کے پھیلائو کو سکیڑے بغیر unconceal کرتا ہے۔ اقبال اس روایت سے کسی قدر متعلق ہونے کے باوجود، بحیثیت مجموعی، اس رو ایت کے شاعر نہیں ہیں۔ وہ اس شاعرانہ وجدان کو تو قبول کرتے ہیں جوحقائق کا تجربہ اور فوق عقلی اثبات فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے مشمولات کو نئے سرے سے ترتیب دیناچاہتے ہیں تاکہ فلسفۂ ما بعد الطبیعیات کے اثرات سے بچا جا سکے اور صاحب ِ حال انا کو بھی ایک وجودی تحفظ اور تحقق مہیا کیا جا سکے۔ اقبال کے ہاں کائنات میں انسان کی مرکزیت ایک ما بعدالطبیعی آہنگ اختیار کرلیتی ہے۔ جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقت ان کے ہاں تصور سے زیادہ ایک جذباتی امنگ سے percieve کی گئی ہے۔آدمی کی عظمت اورمرکزیت کا اتنا شدیدا حساس شاید ہی کسی اورشاعر میں دکھایا جا سکتا ہو۔ آدم ستائی کا یہ وفور جو بعض اوقات ایک نوع کے Anthropomorphism تک جا پہنچتا ہے، اس تنزیہ سے مناسبت نہیں رکھتا جو مشرق کی عرفانی اور عشقیہ شاعری کاکل سرمایہ ہے۔ اقبال کے ہاں معرفت اورعشق کی اہمیت محض اس لیے ہے کہ ان سے عارف اور عاشق کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔ تکمیل خودی کی یہ لگن اتنی شدید ہے کہ خدااورکائنات کا حقیقی ہونا اسی حد تک لائق تصدیق محسوس ہوتا ہے جس حد تک یہ دونوں اس مقصود کے حصول میںانسان کی معاونت کرتے ہیں۔ چونکہ یہ ساری صورت حال روایتی مسلمات سے متصادم ہے لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال غیر روایتی شاعرہیں۔ البتہ جدید ذہن غیر روایتی سے جومفہوم اخذ کرتا ہے وہ ان پرصادق نہیں آتا۔ اقبال کے غیر روایتی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا، انسان اورکائنات کے روایتی تصورات کو قبول نہیں کرتے لیکن شاعری کی تکنیکی روایت کی پوری طرح پاسداری کرتے ہیں۔ گویا ان کا اختلاف معنی سے ہے، صورت سے نہیں۔ ان کے تمام اوضاع، لفظیات اور اسالیب روایتی ہی ہیں مگرچونکہ اکثر بڑے شاعروں کی طرح اقبال کے ہاں بھی ہر شعری قوت ، مثلاًجذبہ، تخیل وغیرہ، فکرکے تابع ہیں لہٰذا ان کی شاعری معنی کی شاعری ہے ___ معنی جوغیر روایتی ہیں۔ اگر کلاسیکی شاعری کا اصول بیان کرنا ہو تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ : جمال سے مغلوب ہو کر اس کا اظہار یا انعکاس۔ یعنی جمال، خواہ معنوی ہو یا ظاہری، تمام تخلیقی فنون کی اصل ہے۔ شاعری اس کا ایسالفظی اظہار ہے جو بالقصد بھی ہے تاکہ فنی تقاضے بھی ملحوظ رہیں اور حسن صرف ایک انفعالی حس کا موضوع بن کر نہ رہ جائے، بلکہ اس کی روشنی سے شعورکاوہ حصہ بھی منور ہو جائے جہاں وہ نسبتیں محفوظ ہوتی ہیں جوانسان اور ظہور ِ حق یعنی جمال کے درمیان پائی جاتی ہیں۔ اقبال نے جمال کی ہرسطح سے ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ ان کا حسن صوت، بلندی ٔ فکر اوربے مثال منظر کشی اس پر شاہد ہیں۔ تاہم یہاں بھی وہی بات ہے کہ ان کی شاعری سے منعکس ہونے والا حسن روایتی تنزیہ نہیں رکھتا بلکہ انسان کے ذوق دید کا پابند ہے۔ نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد! اقبال کی شاعری کا ایک بنیادی وصف اس کا سمبلزم بھی ہے۔ علامت ، حقیقت کا ظرف ِ اظہار اور وسیلۂ ادراک ہے۔ اس میں جتنی کلیت، ارتکاز اورہمہ گیری ہوگی، اتنی ہی یہ مکمل علامت کہلانے کی مستحق ہوگی۔ اقبال کی بیش تر علامتیں وہ پورا پن رکھتی ہیں جو حقائق کی قائم مقامی یا ان کا مظہر بننے کے لیے درکار ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ مشرق کی اصلی روایت تنزیہی ہے لیکن چونکہ تنزیہ محض ہر نسبت، ہر ادراک اورہر تصورسے ماورا ہے اورشعور انسانی کے لیے وہ زاویہ بھی معدوم ہے جس سے اس کااثبات ہی کیا جا سکے، لہٰذا کچھ ایجابی اور سلبی تعینات ضروری ہیں جن کی مدد سے حقائق کو کسی حد سے محدود کیے بغیر ان کے کچھ اعتبارات قائم کیے جا سکیں اور ان کا حضور باور کیا جا سکے۔ یہ تعینات ذہن انسانی کی تخلیق نہیں ہیں بلکہ حقائق کے وہ امتیازات ہیں جوانھی سے صادر ہوئے ہیں۔ ان تعینات کی particularity کا ہر اظہار علامت ہے۔اقبال کی علامتیں شعرکی عارفانہ روایت سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود ایک ایسی فضا بناتی ہیں جس سے مانوس ہونے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ درکار ہے، وہ ہے ایک عارف کا طرزِ احساس ___ ان کی ہر علامت صورت ومعنی اورظہور و حقیقت(خواہ وہ ما بعدالطبیعی نہ ہو) کے فصل کوایک شاعرانہ زور سے کم کر دیتی ہے۔ اس کی بہترین مثال مسجدقرطبہ ہے جس میں زمان و مکاں کو مدغم کرکے جس طرح حقیقت کی کائناتی معنویت تک مارکی گئی ہے اس کی مثالیں بڑی شاعری کی پوری تاریخ میں کمیاب ہیں۔ تمام روایتی شاعروں کی طرح اقبال کی شاعری کا معنوی اور احساساتی سٹرکچر ’’عشق‘‘ پر استوار ہے۔ یہ ان کے جہانِ شعر میں سورج کی حیثیت رکھتا ہے ___ہرچیز اسی کی روشنی سے موجود ہے۔ اقبال کے تمام تصورات، احساسات بلکہ جذبات تک اسی بیج سے پھوٹنے والے درختوں کی طرح ہیں۔ روایتی شاعری میں عشق اپنی ہر جہت میں ذوق فنا اورنفی خودی کے شدید روحانی، ذہنی اور نفسیاتی جذبے سے عبارت ہے اور عشق سے بننے والی دنیا میں ہر طرح کی مرکزیت صرف محبوب کو حاصل ہے۔ اقبال نے اس پوری روایت کو یکسر بدل ڈالا۔ ان کے ہاں عشق سرافگندگی اورخود سپردگی نہیں ہے، بلکہ فاتحانہ قوت ہے جو محبوب کو بھی مغلوب کرنے کے درپے ہے۔ یہاںاصل اہمیت عاشق کو حاصل ہے، محبوب کی حیثیت ثانوی لگتی ہے۔ غرض اقبال کا عاشق ایک مرد پیکار ہے جو ہر مقابل کوفتح کرنا چاہتا ہے ___ محبوب کو بھی ۔ در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ بہ ظاہر یہ شعررومی سے ماخوذ ہے۔ مولانا روم نے فرمایاتھا: بہ زیر کنگرۂ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر دونوں اشعار کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں صرف لہجے کاشکوہ اور طنطنہ مشترک ہے، اصل مضمون بالکل مختلف ہے۔ مثال کے طورپر دونوں کے Locale کا تعین کیا جائے توواضح ہے کہ رومی کا Locale الوہی ہے اور اقبال کا انسانی ۔یعنی رومی کا بنایا ہوا منظر انسان کی باطنی اور خارجی کائنات سے باہر کا ہے اور اقبال کا منظر اسی دنیا کا ہے۔ کنگرۂ کبریاش ، ہی سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ وجود کے جس عالم میں برپا ہوا ہے وہ انسان کی اقلیم ہستی سے تعلق نہیں رکھتا ۔ اسی طرح ’’دشت جنون من‘‘ سے بالکل واضح ہے کہ یہ انسان کی دنیا ہے مزید برآں رومی کے مردوں اور اقبال کے مردوں میں بھی بہت بڑا فرق واضح ہے۔ رومی کے مردانسان نہیں ہیں۔ خیر یہ توایک جملۂ معترضہ تھا۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ روایتی اصطلاح میں عشق ظہور حق کا اصول ہے۔ انسانی مراتب میں اس کی کارفرمائی کا مقصد یہ ہے کہ اس ظہور کی purity متاثر نہ ہونے پائے۔غیریت اور خودی کی نفی کیے بغیراہل روایت کے نزدیک یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ جب کہ اقبال کا عشق عاشق اور محبوب میں ایک ہم آہنگ متوازیت پیدا کرتا ہے۔ عشق انسانی وجود کے مستقل امتیاز اور دوام کی بنیاد فراہم کرتا ہے اوراسی کے ذریعے سے آدمی موجود ہونے کے خدائی احوال حاصل کر سکتا ہے، یعنی اپنی خودی کے لا محدود امکانات کے تکمیلی عمل سے گزر سکتا ہے۔ یہ ایک نازک معاملہ ہے اور اس میں ذرا سی لغزش بھی اقبال کے قاری کو یہاں تک پہنچا سکتی ہے کہ گویا خدا انسان کے لیے ایک وجودی model ہے جو خودی کی تکمیل کے نتیجے میں حاصل ہوسکتا ہے۔ ز من گو صوفیان باصفا را خدا جویان معنی آشنا را! غلام ہمت آں خود پرستم کہ با نور خودی بیند خدا را ژژژ کرا جوئی، چرا در پیچ و تابی کہ او پیداست تو زیر نقابی تلاش او کنی جز خود نہ بینی تلاش خود کنی جزا او نہ یابی اقبال کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شعور کی وہ سطح کیسے دریافت کی جائے جہاں حقائق کی historicization ہو سکے۔ اس مسئلے کا اظہار The Reonstruction سے زیادہ ان کی شاعری میں پایا جاتا ہے۔اس لاینحل مسئلے کو انھوں نے اس طرح حل کیا کہ وہ مصطلحات جن سے مراتب وجود اور مدارج ِ حقیقت کا روایتی بیان تشکیل پاتا ہے، ان کا رخ انسان کی طرف کردیا۔ لفظوں کا meaning end بدل جانے سے ایک بنی بنائی فضا میسر آگئی اور روایت نے عقل، تخیل اورجذبے کو جن تسخیری کلمات سے مسخر کر رکھا تھا، وہ اقبال کے کام آ گئے۔ عشق، جنوں، دل وغیرہ وہ الفاظ ہیں جو اردواور فارسی شاعری کے پڑھنے والوں پر جادو کاسا اثر رکھتے ہیں ، چاہے ان کے معانی کا ابلاغ ہو یا نہ ہو۔ تاثر اور تحقق(Realization) کے درمیان پائے جانے والے اس خلا نے اقبال کو وہ راستہ فراہم کیا جس سے گزر کر پہلے سے موجود تخییلی شدت اور جذباتی قوت کو ایک معنوی انقلاب میں صرف کیا جا سکتا ہے اورانھوں نے یہ کرکے دکھایا ___ دائرے کو برقرار رکھا، مرکز تبدیل کر دیا۔روایتی شعرا دلالت بدلتے تھے، اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے مدلول بدل ڈالا۔ میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں تونے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں اقبال کی شاعری کا معنوی شکوہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کی فنی خوبیاں جیسے چھپ کر رہ گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ فن شعر کے اکثر مطالبات کو بلند ترین سطح پر پورا کرتے ہیں۔ فنی اعتبار سے لفظ کے تین پہلو ہیں: آواز، تصویر اورمعنی۔ روایتی اصطلاح میں انھیں ظہور لطیف ، ظہور کثیف اور تنزیہ یا روح، نفس اور عقل کے تناظر میں بھی سمجھاجا سکتا ہے اورشنیدن ، دیدن، دانستن کے مراحل کی علامتیں بھی گردانا جاسکتا ہے۔ نیز ادراک کے تین روایتی ذرائع سمع، بصر اور فؤاد کو بھی ان پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ کہنا ممکن ہوتا ہے کہ لفظ اپنے معنی سے زیادہ حقیقی ہے۔ اقبال نے لفظ کے ان تینوں پہلوئوں کو جس طرح یکجان کیا ہے وہ صناعی کا معجزہ ہے۔ شاعری میں جتنا صوتی تنوع ممکن ہے وہ ان کے یہاں موجود ہے۔ اقبال کی امیجری ان کی آواز کے مقابلے میں قدرے مدھم ہے تاہم جاوید نامہ ، مسجد قرطبہ، ساقی نامہ اور ذوق و شوق ایسی نظموں میں خیالات اورماحول کو مدغم کرکے جس طرح بیان کیاگیا ہے وہ معنی کو تصویر کرنے کا ایک نہایت کامیاب عمل ہے۔ ان کی امیجری کا بڑا وصف یہ ہے کہ بے رنگی بھی مصور ہو جاتی ہے مثلاً: اُٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں نفس سوختۂ شام و سحر تازہ کریں اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولاں بھی نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا وہ دانائے سبلؐ، ختم الرسلؐ، مولائے کلؐ جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا! عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم! عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل حسب ارشاداقبال کے فکر وشعر کا روایت کے تقابل میں ایک اجمالی تعارف تحریر تو کر دیا ہے لیکن گزارش ہے کہ اس کو کسی بھی اعتبار سے مکمل نہ سمجھا جائے۔ بہت سے پہلو رہ گئے ہیں جنھیں طوالت سے بچنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ پھر یہ بھی خیال تھا کہ آپ فلسفہ و ادبیات کے پرانے اُستاد ہیں، آپ ان پہلوئوں تک زیادہ بہتر رسائی رکھتے ہوں گے۔ ژ…ژ…ژ  سہ ماہی فکر و نظر میں ذخیرۂ اقبالیات جولائی۱۹۶۳ ء تا دسمبر۲۰۰۸ء سمیع الرحمن ’’اقبالیاتی ادب‘‘ کا ایک قابلِ لحاظ حصہ، حوالہ جاتی مواد (reference material) پر مشتمل ہے اس میں کتب، رسائل اور فہارس وغیرہ شامل ہیں۔ اقبالیاتی تحقیق و تنقید کی پیش رفت میں اس طرح کے لوازمے کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان میں کشف الابیات، کلیدیں اور اشاریے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ رسائل و جرائد میں اقبالیات سے متعلق مختلف موضوعات پر ہزارہا مقالات محفوظ ہیں۔ بعض رسائل کی مکمل اور نامکمل فہارس شائع ہوچکی ہیں۔ سہ ماہی فکر ونظر اسلام آباد نے بھی اس ضمن میں قابل قدر کام کیا ہے۔ اقبالیات کے موجودہ شمارے میںفکر ونظر میں شائع شدہ اقبالیاتی ادب کا اشاریہ شائع کیا جارہا ہے۔ سہ ماہی فکر ونظر کی مجلس ادارت میں ڈاکٹر فضل الرحمن، ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتا، مظہر الدین صدیقی، ڈاکٹر رفیق احمد، قدرت اللہ فاطمی، محمد خالد مسعود، محمد سرور وغیرہ شامل رہے ہیں۔ آج کل اس کے مدیر صاحبزادہ ساجد الرحمن صدیقی ہیں۔ مقالات ابصار احمد اقبال کا فلسفہ خودی اپریل۱۹۷۴ ۳۳-۴۰ ابو الحسن علی ندوی عورت ، اقبال کے کلام میں اپریل۱۹۸۲ ۵۵-۶۳ ابو سعید بزمی فکر و نظر کے مضمون ’’اقبال مسجد قرطبہ میں‘‘ پر ایک نظر اکتوبر۱۹۷۷ ۲۱۵-۲۱۶ ابوالاعلیٰ مودودی اقبال میرا روحانی سہارا نومبر۱۹۷۷ ۱۰۷-۱۱۰ احمد خان مترجمِ اقبال الشیخ الصاوی علی شعلان جنوری۱۹۶۹ ۵۴۱-۵۴۶ اختر راہی بعض مستشرقین اور مسلم محققین کی کتب کے بارے میں اقبال کے تاثرات ستمبر۱۹۸۲ ۳۰-۴۷ افتخار احمد صدیقی کلام اقبال میں رجائیت اکتوبر۱۹۷۵ ۳۳۲-۳۳۷ // // معرکۂ دین وطن [فکرِ اقبال] جولائی۱۹۷۵ ۱۴-۳۹ اقبال،علامہ افکارِ پریشان [مترجم: فضل احمد شمسی] جنوری۱۹۷۸ ۵-۱۴ الطاف جاوید فرد اور جما عت کا رشتہ [ حکمت اقبال کی روشنی میں] اپریل۱۹۶۶ ۶۶۱-۶۷۲ ایم اسلم علامہ اقبال سے متعلق ایم ایس ناز سے انٹرویو اپریل۱۹۷۸ ۴۹-۵۷ ایم ایس ناز انٹرویو: غلام احمد پرویز اور ڈاکٹر جاوید اقبال [بسلسلہ اقبال] نومبر۱۹۷۷ ۱۱۱-۱۴۳ // // انٹرویو: غلام مرشدو سیّد عبداللہ و عبداللہ قریشی [بسلسلہ اقبال] جنوری۱۹۷۸ ۵۵-۹۴ آغا حسین ہمدانی اقبال اور مسلم لیگ اپریل۱۹۷۹ ۱۰۹-۱۱۸ بختیار حسین صدیقی اقبال ___مقاصدِ تعلیم اپریل۱۹۸۰ ۶-۲۸ ثروت صولت زکی ولیدی طوغان کی ’’سر گزشت‘‘ کلام اقبال میں-۱ مارچ۱۹۷۳ ۵۰۹-۵۱۷ // // زکی ولیدی طوغان کی ’’سر گزشت‘‘ کلام اقبال میں-۲ مئی۱۹۷۳ ۶۵۲-۶۶۶ // // عاکف اور اقبال اگست۱۹۷۵ ۷۶-۹۱ جامعہ دہلی، ماہنامہ افکار اقبال سے بے اعتنائی[انتخاب] اگست۱۹۶۸ ۱۴۹تا۱۵۱ جاوید حسین،قاضی اقبال کا نظریہ زمان و مکان اپریل۱۹۷۹ ۹-۲۳ خالد علوی اقبال اور حدیث جنوری۲۰۰۸ ۲۵-۶۴ رحیم بخش شاہین اقبال اور اسلامی ثقافت فروری۱۹۷۷ ۳۹۶-۴۰۸ // // اقبال کے تعلیمی نظریات دسمبر۱۹۷۳ ۳۱۶-۳۴۹ // // رسالت مآب اور اقبال مارچ۱۹۷۶ ۷۶۳-۷۷۶ رشید احمد جالندھری اقبال اور علما نومبر۱۹۷۷ ۹۳-۱۰۷ رفیع الدین ہاشمی اقبال اور احیائے اسلام فروری۱۹۸۱ ۷۱-۹۲ // // اقبال اور ذوقِ سحر خیزی اپریل۱۹۷۳ ۵۸۳-۵۹۷ // // اقبال کا نظامِ فکر جون۱۹۷۵ ۷۴۹-۷۶۱ // // تحریکِ پاکستان میں اقبال کا حصہ اگست۱۹۷۳ ۹۳-۱۱۳ شرف الدین اصلاحی اقبال اور تعلیم ستمبر۱۹۷۲ ۱۶۶-۱۷۳ // // اقبال اور حسنِ ازل اپریل۱۹۷۶ ۸۵۲-۸۵۹ // // اقبال بحیثیتِ قومی شاعر اپریل۱۹۷۳ ۵۹۸-۶۱۲ شرف الدین اصلاحی اقبال مادی یا روحانی سہارا [مولانا سیّد مودودی سے انٹرویو] جنوری۱۹۷۸ ۹۵-۹۶ // // اقبال میرا مادی سہارا دسمبر۱۹۸۱ ۳۷-۴۱ شیر محمد حمید اجتہاد- علامہ اقبال کی نظر میں جولائی۱۹۶۶ ۵۹-۶۴ صباح الدین عبدالرحمن موجودہ ہندوستان میں اقبال جنوری۱۹۸۸ ۱۹۹-۲۱۸ صدیق جاوید اقبال مسجد قرطبہ میں ستمبر۱۹۷۷ ۱۲۸-۱۴۵ صغیر حسن معصومی اقبال کا نظریۂ اجتہاد جون۱۹۷۰ ۸۸۷-۸۹۵ صلاح الدین اقبال پیمبر حرکت و حرارت اپریل۱۹۷۱ ۷۶۱-۷۷۳ طالب حسین سیال اقبال کا تصورِ عمل اور دعا جولائی۲۰۰۲ ۱۱۳-۱۳۶ عبدالرحمن طاہر سورتی اقبال کا جاوید نامہاور معری اپریل۱۹۷۷ ۵۱۱-۵۳۴ // // تصانیفِ اقبال کے عربی تراجم مارچ۱۹۷۵ ۵۲۲-۵۲۸ // // تفسیر سورۃ اخلاص [فکرِ اقبال] جنوری۱۹۷۸ ۱۵-۳۰ عبدالرحمن،سیّد اقبال اور پاکستان کی نظریاتی اساس قومی و ملی تقاضوں کا امتزاج جولائی۱۹۸۵ ۱۲۳-۱۳۶ عبداللہ عمرانی محمد اقبال فلسفی شاعر [مترجم:محمد الغزالی] فروری۱۹۷۵ ۴۷۶-۴۹۰ عبداللہ،سیّد اقبال اور معراج النبی ا مارچ۱۹۷۶ ۶۹۲-۷۰۲ عبدالمجید سالک وطن پرستی اور اسلام [علامہ اقبال سے ایک گفتگو/ انتخاب] دسمبر۱۹۶۵ ۴۵۲-۴۵۴ عبدالودود اقبال اور تعمیرِ سیرت جون۱۹۸۱ ۴۴-۵۵ علی رضا نقوی اقبال دانائے راز جون۱۹۷۵ ۷۲۴-۷۲۹ // // ایران اقبال کی نظر میں [مترجم:محمود احمد غازی] جولائی۱۹۷۲ ۴۷-۵۳ // // رسول اللہ ا اقبال کی نظر میں اپریل۱۹۷۵ ۶۱۲-۶۲۲ // // عظمتِ انسانی اقبال کی نظر میں اپریل۱۹۷۹ ۶۰-۷۶ غلام حیدر آسی اقبال کا تصورِ ملت جولائی۱۹۷۰ ۷-۲۳ // // علامہ اقبال کا نظریہ تعلیم و تربیت مئی۱۹۷۰ ۸۳۱-۸۴۸ // // ہیئتِ اجتماعیہ انسانیہ- فکرِ اقبال کی روشنی میں اکتوبر۱۹۷۳ ۲۰۵-۲۳۱ غلام عبدالحق اقبال بحیثیتِ مفسرِ قرآن اگست۱۹۷۶ ۱۲۲-۱۲۸ غلام مرتضیٰ آزاد رباعیاتِ اقبال اپریل۱۹۷۱ ۷۷۴-۷۸۲ فضل الرحمن اقبال کے فلسفہ خیر و شر پر لمحہ تفکر مئی۱۹۶۴ ۹-۱۲ فضل حمید اقبال کا فلسفۂ خودی اور تصورِ خدا دسمبر۱۹۶۶ ۳۴۳-۳۵۶ فضل غنی اقبال کی نظر میں عارفانہ تجربہ اور فلسفہ نومبر۱۹۷۷ ۲۶-۴۰ کرار حسین کیا مذہب ممکن ہے؟[اقبالیات] نومبر۱۹۷۷ ۴۱-۷۰ کرم حیدری اقبال اور حبِ رسول ا فروری۱۹۷۹ ۵۴-۶۷ محمد اجمل ترکِ سبب [اقبالیات] دسمبر۱۹۷۷ ۳۰۲-۳۰۷ // // علم اور مذہبی واردات [اقبالیات] نومبر۱۹۷۷ ۹-۲۵ محمد ایوب شاہد اقبال اور محنت کش اپریل۱۹۷۹ ۹۹-۱۰۸ // // اقبال اور جدید و قدیم کی کشمکش [بعض اعتراضات کا جائزہ] جنوری۲۰۰۰ ۱۰۷-۱۳۲ // // کیا اقبال کے ہاں تضاد ہے؟ اکتوبر۲۰۰۱ ۹۱-۱۲۸ محمد حامد اقبال اور تحقیقاتِ اسلامی جولائی۱۹۷۷ ۱۴-۲۹ محمد حامد اقبال کے خطوط کے نظریاتی پہلو اپریل۱۹۷۶ ۸۷۳-۸۸۵ محمد حنیف شاہد اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد اپریل۱۹۷۷ ۵۵۱-۵۶۴ محمد خالد مسعود اسلامی احکام اور عادات [شاہ ولی اللہ،علامہ شبلی اور علامہ اقبال] جنوری۱۹۹۵ ۶۳-۸۰ // // خطباتِ اقبال میں اجتہاد کی تعریف:برصغیر اور مسئلہ اجتہاد جلد۱۵شمارہ۹ ۲۰-۴۹ // // خطباتِ اقبال میں اجتہاد کی تعریف:اجتہاد کا تاریخی پس منظر جنوری۱۹۷۸ ۳۱-۵۴ محمد ریاض اقبال اور تحقیقاتِ اسلامی ستمبر۱۹۸۱ ۴۲-۵۸ // // اقبال اور عالمِ اسلام اپریل۱۹۸۴ ۱۷-۳۰ // // اقبال اور عبادات و شعائر اسلامی جون۱۹۸۰ ۲۲-۳۶ // // ایران میں مطالعہ اقبال اپریل۱۹۷۶ ۸۳۴-۸۴۱ // // اُندلس اور علامہ اقبال اپریل۱۹۹۱ ۴۵۹-۵۰۰ // // آمریت اور استبداد کے خلاف اقبال کا فکری جہاد اپریل۱۹۷۹ ۲۴-۵۹ // // خطباتِ اقبال جنوری۱۹۹۰ ۷۳-۱۰۴ // // علامہ اقبال اور زوال و عروج ملتِ اسلامیہ نومبر۱۹۸۳ ۹-۲۴ // // علامہ اقبال اور علوم و فنون کی اسلامی منہاج اکتوبر۱۹۸۴ ۱۱۵-۱۳۴ محمد ریاض کلام اقبال میں کلمہ طیبہ کا استعمال مئی۱۹۷۳ ۶۶۷-۶۷۶ محمد ریاض مطالعۂ اقبال کی روشنی میں مرد مسلمان پر سیرتِ رسولؐ کے اثرات مئی۱۹۷۲ ۷۳۹-۷۴۸ // // وسط ایشیا اور اقبال جولائی۱۹۹۷ ۷۳-۱۰۴ محمد سرور اقبال کا پیغام مئی۱۹۶۷ ۷۳۱-۷۴۱ // // تاریخ فکرِ اسلامی میں اقبال کا مقام اپریل۱۹۶۵ ۶۱۴-۶۲۳ محمد سلیم اختر سیّد محمد محیط طبا طبائی اور جاوید نامہ اقبال جولائی۲۰۰۴ ۸۵-۱۱۰ محمد علی جوہر،مولانا شاعر اسلام: اقبال مئی۱۹۶۷ ۷۲۱-۷۳۰ محمد معز الدین اقبال اور ملتِ اسلامیہ کے اقتصادی مسائل جون۱۹۷۷ ۵۹۳-۶۰۰ // // مولانا سیّد سلیمان ندوی اور علامہ اقبال نومبر۱۹۷۵ ۴۱۴-۴۲۳ محمود احمد غازی اقبال کا تصورِ فقر جون۱۹۷۲ ۸۱۲-۸۳۵ // // شیخ صاوی علی شعلان: کلامِ اقبال کے ایک عرب ترجمان جنوری۱۹۷۶ ۵۸۸-۵۹۶ محمود الرحمن علامہ اقبال مسجد قرطبہ میں اپریل۱۹۹۱ ۵۰۱-۵۰۸ مشتاق الرحمن صدیقی اقبال اور نوجوان اپریل۱۹۸۰ ۲۹-۴۷ مظہرالدین صدیقی اقبال اور مسئلہ اجتہاد جون۱۹۶۶ ۷۲۱-۷۵۶ // // علامہ اقبال اور عصرِ جدید کی جمہوریت اپریل۱۹۷۷ ۵۳۵-۵۴۲ ممتاز لیاقت علامہ اقبال اسلامی نشاۃ ثانیہ کا علم بردار اپریل۱۹۷۹ ۷۷-۹۸ منظور احمد اقبال، سائنس اور مذہب نومبر۱۹۷۷ ۷۱-۹۲ نظیر صدیقی اقبال کی شاعری میں انسانی عظمت کا تصور نومبر۱۹۷۹ ۵۲-۵۷ وحید اختر اقبال اور مشرقی فکر نومبر۱۹۷۶ ۲۵۰-۲۶۱ اداریے شرف الدین اصلاحی اقبال حکیم الامت اپریل۱۹۷۱ ۷۲۲-۷۲۵ قدرۃ اللہ فاطمی نذرِ اقبال مئی۱۹۶۴ ۳-۸ محمد سرور فقہ اسلامی کی تشکیل نو علامہ اقبال کی نظر میں جلد۵ ۳۲۲-۳۲۵ مدیر سالِ اقبال نومبر۱۹۷۷ ۳-۵ مدیر فکر ِ اقبال اور اقبال نمبر اپریل۱۹۷۹ ۳-۷ نظمیں اقبال،علامہ ایک نظم جولائی۱۹۶۵ ۱۱۱ اقبال،علامہ نذرِ عقیدت بحضور ختمی مرتبتؐ [منقول از اسرار خودی] جولائی۱۹۶۴ ۹-۱۰ اقبال،علامہ نعت اگست۱۹۶۵ ۱۱۴ ناصر زیدی بیاد شاعر مشرق [نظم] اپریل۱۹۷۹ ۸ تبصرے ابو سلمان A Bibliography of Iqbal از خواجہ عبدالحمید اگست۱۹۶۵ ۱۷۵-۱۷۷ خالد علوی اقبال اور قادیانیت‘ تحقیق کے نئے زوایے از بشیر احمد اپریل۲۰۰۸ ۱۵۵-۱۵۹ // // علامہ اقبال اور اس کے ہم عصر مشاہیر:باہمی تعلقات کے آئینے میں از محمد سلیم جنوری۲۰۰۷ ۱۳۳-۱۳۶ رفیع الدین ہاشمی اقبال کا فکر و فن از محمد الدین تاثیر [مرتب: افضل حق قرشی] اگست۱۹۷۸ ۵۷-۶۰ ساجدالرحمن صدیقی اقبال اور مسلم تشخص از خالد علوی جنوری۲۰۰۳ ۱۱۳-۱۱۴ شرف الدین اصلاحی اقبال اور برصغیر کی تحریکِ آزادی از محمد ریاض نومبر۱۹۷۸ ۶۶ // // اقبال اور مسئلہ تعلیم از محمد احمد خان مارچ۱۹۸۱ ۶۶-۷۴ عبدالرحمن طاہر سورتی سہ ماہی اقبال لاہور [بزمِ اقبال لاہور] جلد۷ ۸۷۹-۸۸۰ علی رضا نقوی اقبال، ایک صوفی شاعر از سہیل بخاری اپریل۱۹۹۰ ۷۷-۷۹ محمد سرور حیاتِ اقبال از محمد عثمان ستمبر۱۹۶۵ ۲۴۷-۲۴۹ محمد طفیل نذرِ اقبال از محمد حنیف شاہد جولائی۱۹۷۵ ۵۵-۵۶ ئ……ئ……ء جمہوری ادب خرم علی شفیق ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اقبالیات کے مارچ-جون ۲۰۰۸ء کے شمارے میں صفحہ ۱۰۹ پر اپنے مضمون ’پاکستان میں اقبالیاتی ادب‘ میں سلیم احمد کی کتاب اقبال: ایک شاعر کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے: سلیم احمد کے ان سوالات کا تشفی بخش جواب سامنے نہیں آ سکا کہ ہمارے شعرا کے تخلیقی وجدان نے اقبال کے اثرات کیوں قبول نہیں کیے؟ اور ہمارے اہم ترین نقادوں (عسکری، مجنوں، فراق وغیرہ) نے اقبال سے خاطرخواہ اعتنا کیوں نہیں کیا؟ میرے خیال میں یہ سوال بہت سے ذہنوں میں ہو گا۔ خود میں نے اس پر کئی برس غور کیا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس سوال کے پیچھے جو مفروضے ہیں اُن پر بھی غور کرنا چاہیے یعنی(۱) کیا واقعی ہمارے شاعروں کے تخلیقی وجدان نے اقبال کے اثرات قبول نہیں کیے؟ (۲) کیا حسن عسکری، مجنوں اور فراق وغیرہ ہمارے اہم ترین نقاد تھے؟ مجھے ان دونوں باتوں میں اس وجہ سے شبہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ: ہم تا بہ اَبد سعی و تغیّر کے وَلی ہیں ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ جمیل الدین عالی کی یہ شعری تخلیق ۱۹۷۴ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر خاص و عام کی زبان پر آئی۔ اسے قبولِ عام کی سند حاصل ہے۔ اقبال کی فکر کے ساتھ اس کا گہرا تعلق یوں بنتا ہے کہ اقبال کی آخری طویل نظم ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ (۱۹۳۶ئ) میں ابلیس نے اپنے مشیروں سے کہا تھا کہ مسلمانوں کو الٰہیات میں اُلجھا کر مزاجِ خانقاہی میں پختہ کر دیا جائے۔ اس کے بعد کی اردو شاعری میں یہ ابلیس کے اعلان کا غالباً سب سے بلند بانگ جواب اور براہِ راست جواب ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے نقاد اس بارے میںاور ایسی ہی سیکڑوں دیگر تخلیقات کے بارے میں خاموش رہے جو معیار میں بھی کم نہیں اور جنھیں قبولِ عام کی سند بھی حاصل ہے؟ کیا ایسی چیزوں کے ہوتے ہوئے ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ ’’ہمارے‘‘ شاعروں کے تخلیقی وجدان نے اقبال کا اثر قبول نہیں کیا؟ ادبِ عالیہ میں جو تنقید مروج ہے وہ مجھے اس قسم کی تخلیقات کے ساتھ انصاف کرتی نظر نہیں آتی تھی لہٰذا مجھے یہ طریقہ اختیار کرنا پڑا کہ ادب کو مغربی کسوٹیوں کی بجائے تین بنیادی اسالیب یعنی ایمان، کفر و الحاد اور نفاق کے لحاظ سے تقسیم کر کے دیکھا جائے۔ اب ایک بہت ہی عجیب و غریب بات سامنے آئی۔ معلوم ہوا کہ ۱۹۳۶ء کے بعد ہمارے ادبِ عالیہ پر مومنانہ اسلوب کے دروازے بند ہو گئے اور صرف بقیہ دونوں اسالیب کو ادب عالیہ میں شامل سمجھا گیا! مومنانہ اسلوب کے تحت وہ ادب رکھا جا سکتا ہے جس میں مصنف اپنے سامع یا قاری کو خیر کی طرف بلاتا ہے یعنی اُس چیز کی طرف جسے وہ اپنی زبان سے خیر کَہ رہا ہو۔ ضروری نہیں کہ وہ مذہبی نقطۂ نظر سے بھی نیکی ہو کیونکہ ممکن ہے کہ جو بات مصنف کی نظر میں خیر ہو وہ علمائے کرام کی نظر میں نہ ہو۔ بہرحال اپنے اسلوب کی حد تک مصنف اپنے اور قاری کے تعلق کو خیر کی دعوت پر قائم کرتا ہے۔ اس کی تین مثالیں رومی، غالب اور اقبال ہیں۔ ملحدانہ اسلوب کے تحت ہم اُس ادب کو رکھیں گے جس میں مصنف اپنے سامع یا قاری کو کفر، الحاد اور رندی کی دعوت دیتا ہے۔ الحاد کے پردے میں معرفت کے نکات بھی ہو سکتے ہیں، منافقت کے خلاف بغاوت کا درس بھی ہو سکتا ہے اور سچ مچ کا الحاد بھی ہو سکتا ہے۔ تین مثالیں حافظ شیرازی، میرتقی میر اور فیض احمد فیض ہیں۔ تیسرا اسلوب وہ ہے جس کی تعریف بودلئر کے مجموعہ کلام شر کے پھول (۱۸۵۷ئ) کی تمہید کے آخری مصرع میں ہوئی، ’’اے منافق قاری! میری شبیہ، میرے بھائی!‘‘ (ایلیٹ نے ’ویسٹ لینڈ‘ میں بھی یہ مصرع دہرایا)۔ یعنی بودلئر اور ایلیٹ کی سند پر ہم اسے منافقانہ اسلوب کَہ سکتے ہیں کیونکہ اس میں شاعر خیر کی طرف بلاتا ہے نہ شر کی طرف بلکہ منافقت کو بطور اسلوب اختیار کرتا ہے (بعض شعرانے اسے منافقت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے علاج بالمثل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کی ہے)۔ اُردو میں اس طرزِ بیان کے سرخیل پطرس بخاری اور سلیم احمد ہیں، مثلاً سلیم احمد کی نظم ’مشرق ہار گیا‘ کو یہ سمجھ کر نہیں پڑھا جا سکتا کہ سلیم احمد اُنھی رویوں کو فروغ دینا چاہتے تھے جنھیں نظم میں اپنی طرف منسوب کیا۔ نظم کا مفہوم پانے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کے اسلوب کو منافقانہ سمجھا جائے۔ اب ہم اپنے بنیادی سوال کو یوں بدل سکتے ہیں: کیا اقبال کے بعد بھی ہماری شاعری میں مومنانہ اسلوب کی مثالیں ملتی ہیں؟ ایک مثال تو عالی کی یہی نظم ہے۔ اس کے علاوہ ایسے تمام نغمے، غزلیں اور منظومات جنہیں پاکستان میں قبولِ عام کی سند حاصل ہوئی وہ اسی قبیل میں آتے ہیں۔ کیا یہ ادبِ عالیہ ہے؟ ہرگز نہیں، اس لیے کہ ۱۹۳۶ء کے بعد پست سے پست چیز بھی ملحدانہ اسلوب میں لکھی جاتی تو ترقی پسند اُسے ادب میں داخل کرلیتے، منافقانہ اسلوب میں لکھی جاتی تو اُسے حسن عسکری کے مکتب فکر کے نقادادب کا درجہ دیتے لیکن مومنانہ اسلوب کی اعلیٰ ترین تخلیقات بھی ادب عالیہ سے خارج تھیں کیونکہ یہ اسلوب ہی ممنوعہ قرار دے دیا گیا تھا (یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ ترقی پسندوں یا حسن عسکری کے مکتب فکر والوں نے جب کبھی اقبال پر قلم اُٹھایا اقبال کے اسلوب کو ملحدانہ یا منافقانہ ثابت کرنے کی کوشش کی)! غالباً اب یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ ’’بڑے نقادوں‘‘ نے اقبال کو کیوں درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ فرق نظریے کا نہیں اسلوب کا تھا۔ اب اگر یہ عالم ہو کہ جن تخلیقی کاوشوں میں اقبال کے اثرات یعنی مومنانہ اسلوب کا شائبہ بھی گزرے اُنہیں ادب عالیہ سے باہر کر دیا جائے تو پھر یہی معلوم ہو گا جیسے ہمارے شعرا کے تخلیقی وجدان نے اقبال کا اثر قبول نہیں کیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ادب کا بیشتر حصہ ایسا ہے جس پر اقبال کے اثرات واضح ہیں اور صرف اسی ادب کو قبولِ عام کی سند حاصل ہے۔ اس میں شاعری، ڈراما، انشاپردازی اور تنقید سبھی کچھ ہے مگر اُسے سرے سے ادب ہی نہیں سمجھا گیا۔ کیا واقعی ان چیزوں کا معیار پست ہے؟ نمونے کے طور پر عالی کی ’ہم مصطفوی ہیں‘ کا ایک سرسری جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ مختصر تخلیق ہے مگر اس کے ہر مصرعے کے کئی معانی نکلتے ہیں لہٰذا اپنی تاثیر میں یہ طویل نظموں جیسی ہے اور اسلوب کے لحاظ سے حالی اور اقبال کی شاعری کا تسلسل نظر آتی ہے۔ مندرجہ ذیل نکات کو اقبال کی فکر کی روشنی میں دیکھنے کے بعدان کی روشنی میں اقبال کی فکر میں اجتہاد بھی کیجیے اور پھر معیار کا فیصلہ خود ہی کر لیجیے۔ آج سے اڑتیس برس پہلے اسرار ناروی نے ادبِ عالیہ والوں کی ناانصافی کے خلاف کہا تھا: سنتے رہیں کسی بھی دریدہ دہن کی بات ہم بھی کھلے تو جوششِ گفتار دیکھنا لیجیے اب جوششِ گفتار دیکھیے! ابتدائیہ ہم تا بہ اَبد سعی و تغیّر کے وَلی ہیں ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں دین ہمارا دینِ مکمل استعمار ہے باطلِ ارذل خیر ہے جِدّو جَہدِمسلسل عنداللہ عنداللہ اللہ اکبر، اللہ اکبر ۱- شاعر نے ’’تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی‘‘ ہونے کا تعلق اس بات سے جوڑا ہے کہ ’’ہم مصطفوی ہیں‘‘۔ نورِ محمدی کے بارے میں آپ کے جو بھی عقائد ہوں اُس کی روشنی میں دونوں مصرعوں کا باہمی ربط سمجھ لیجیے۔ لفظ ’’ولی‘‘ کے انتخاب کی داد دیجیے کہ نبوت کے ساتھ یہ لفظ کیا کیا معانی پیدا کر سکتا ہے۔ پھر غور کیجیے کہ نسبتِ مصطفوی سے ابد، سعی اور تغیر کے درمیان کیا تعلق ثابت ہوتا ہے اور وہ یہاں ظاہر ہو رہا ہے یا نہیں : ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی ۲- ’’ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں‘‘ میں مصطفوی تین دفعہ آیا جس سے دعوے میں زور پیدا ہوتا ہے مگر اس کے بعدتین ہم قافیہ مصرعے اپنے آپ کو مصطفوی کہنے کے تین جواز پیش کرتے ہیں: ا- دین ہمارا دینِ مکمل یعنی اگر ہم مصطفوی نہ ہوتے تو ہمارا دین، دینِ مکمل نہ ہوتا۔ ب- استعمار ہے باطلِ ارذل، کیونکہ آنحضرتؐ نے اسے صرف باطل قرار ہی نہیں دیا بلکہ اس پر فتح حاصل کرکے اسے عملاً باطل کر دکھایا (اکثر دوسرے الفاظ کی طرح ’’باطل‘‘ بھی بیک وقت اپنے تمام معروف معانی کے ساتھ آیا ہے۔) ج- جدو جہدِ مسلسل ہمارے لیے ’’خیر‘‘ اس لیے ہے کیونکہ ہم مصطفوی ہیں لہٰذا الکاسب حبیب اللّہ سے لے کر جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق بولنے کی فضیلت تک تمام احادیث اور اپنے جوتے کی سلائی خود کرنے سے غزوۂ احزاب میں خندق کھودنے تک تمام سنتیں یاد کیجیے تو جدوجہد ’’عنداللہ‘‘ کی ساری قسمیں سامنے آ جاتی ہیں۔ ۳- ابد، سعی اور تغیر پہلے مصرعے کے موضوعات تھے۔ دوسرے مصرعے میں تین دفعہ مصطفوی کی تکرار ان تینوں موضوعات کو مصطفوی ہونے سے متعلق بتا رہی ہے۔ اگلے تین مصرعے ایک ایک موضوع سے پیوستہ بھی ہیں: ٭ ابد کا تعلق دینِ مکمل سے ہے ٭ سعی کا تعلق جدوجہدِ مسلسل سے ہے ٭ استعمار کو ہٹانا وہ تغیر ہے جس کے ہم ولی ہیں ۴- ولی کا مطلب سرپرست بھی ہوتا ہے اور نبی کا جانشین بھی۔ ہم دونوں لحاظ سے ولی ہیں یعنی ’’تابہ ابد سعی و تغیر‘‘کے سرپرست اور آنحضرتؐ کے جانشین ہیں۔ ۵- باطل کی ضد حق ہے مگر ان مصرعوں میں اس کے مقابلے پر ’’خیر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا۔ خیر وہ ہے جو حق کے ساتھ رشتے کو قائم کرے چنانچہ ’’حق‘‘ آخری مصرعے میں آئے گا اور باطل مٹ جائے گا مگر اس سے پہلے خیر کو اپنا کام کرنا ہے اور اگلے دونوں بند اسی کا نمونہ ہیں۔ پہلا بند سبحان اللہ، سبحان اللہ، یہ وحدت فرقانی روحِ اُخوّت، مظہرِ قوّت، مرحمتِ رحمانی سب کی زباں پر سب کے دِلوں میں اِک نعرہ قرآنی اللہ اکبر، اللہ اکبر ۶- ’’وحدت فرقانی‘‘ کی ترکیب قابلِ غور ہے۔ وحدت تمام فرق مٹا دیتی ہے مگر ہماری قومی وحدت حق و باطل کا فرق قائم کرتی ہے۔ یہ انسان کے بس کی بات نہیں لہٰذا ’’سبحان اللہ، سبحان اللہ۔۔۔‘‘ اس کے علاوہ فرقان، قرآن کا لقب ہے اور چونکہ یہ وحدت قرآن کی وجہ سے قائم ہوئی اس لیے بھی ’’فرقانی‘‘ ہے۔ ۷- ’’روحِ اخوت‘‘ اور ’’مظہرِ قوت‘‘ میں بالترتیب باطن اور ظاہر کی طرف اشارے ہیں۔ روح اور جسم کا رشتہ جوڑنا انسان کے بس میں نہیں اس لیے ’’مرحمتِ رحمانی‘‘ ہے (خدا کے بہت سے ناموں میں سے یہاں رحمان آیا جسے پچھلے مصرع کے قافیے ’’فرقان‘‘ سے معنوی نسبت بھی ہے)۔ ۸- ’’سب کی زباں پر، سب کے دلوں میں۔۔۔‘‘ یہ پھر ظاہر و باطن کی اُس ہم آہنگی کی طرف اشارہ ہے جو پچھلے مصرع کا موضوع تھی۔ بیک وقت روزِ الست، مناظر حج اور روزِ قیامت کا تصور اُبھرتا ہے۔ جس موقع پر یہ نظم گائی جائے اُس کی عظیم الشان مماثلت ان تینوں مواقع کے ساتھ قائم ہو جاتی ہے۔ ۹- تینوں مصرعوں کے ہم قافیہ الفاظ فرقانی، رحمانی اور قرآنی ان مصرعوں میں مسلمانوں کے اجتماع کی کیفیات بتانے کے لیے استعمال ہوئے لیکن یہ تینوں الفاظ قرآن کے ساتھ بھی ایک خاص نسبت رکھتے ہیں۔ یوں شاعر نے لسانی اعتبار سے قاری اور قرآن کو ایک کر دکھایا ہے: یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن دُوسرا بند امن کی دعوت کل عالم میں مسلک عام ہمارا دادِ شجاعت دَورِ ستم میں، یہ بھی کام ہمارا حق آئے باطل مٹ جائے، یہ پیغام ہمارا اللہ اکبر، اللہ اکبر ۱۰- اسلام کے لفظی معانی کو سلامتی سے نسبت ہے لہٰذا سارے جہاں میں امن کی دعوت ہمارا مسلک عام ہے لیکن ہم سعی و تغیر کے ولی بھی ہیں اس لیے دورِ شجاعت میں دادِ ستم دینا بھی ہمارا کام ہے۔ نتیجہ دونوں باتوں کا یہ ہے کہ ’’حق آئے باطل مٹ جائے‘‘! یہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت کی طرف تلمیح ہے جو آنحضرتؐ نے فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ سے بتوں کو ہٹاتے ہوئے پڑھی تھی۔ ۱۱- یہ فقرہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بھی ہمارا پیغام ہے کیونکہ شروع میں استعمار کو باطلِ ارذل قرار دیا گیا اور اب اُس کے مٹ جانے کی بشارت ہے۔ لیکن یہ اس وجہ سے بھی ہمارا پیغام ہے کیونکہ ہم مصطفوی ہیں اور آنحضرتؐ نے فتح مکہ کے موقع پر یہی پیغام دیا تھا۔ ۱۲- یہ شعری تخلیق مترنم اُردو میں لکھی گئی لیکن دنیا کے کسی بھی مسلمان کے سامنے پڑھی جائے تو خواہ وہ اُردو نہ جانتا ہو تب بھی سمجھ سکتا ہے کہ اُس کے منشور کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے اور نظم کی تاثیر بھی کسی حد تک منتقل ہو سکتی ہے۔ نئے سوالات اس پورے تجزیے کے بعد میرے ذہن میں کچھ نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں: ۱- یہ ادب عالیہ نہیں ’’ادبِ عالی‘‘ ہی سہی لیکن اسے چونتیس برس ہونے کو آئے، ہمارے ’’شاعروں‘‘ کے تخلیقی وجدان نے اس کا اثر کیوں قبول نہیں کیا؟ ۲- میں نے قریباً ایک ہزار گیت اور نظمیں، پچاس فلم اسکرپٹ اور ڈھائی سو ناول منتخب کیے ہیں جن میں سے ہر ایک کی تشریح اسی طرح کی جا سکتی ہے، ان میں ایسے معانی موجود ہیں جن سے ہمارا ادبِ عالیہ خالی ہے اور یہ تمام شاہکار پاکستان میں قبولِ عام کی سند حاصل کر چکے ہیں یعنی ہر طبقے میں سب سے زیادہ مقبول یہی ہیں مگر ہمارے نقادوں نے کبھی ان پر شب خون مارنا بھی گوارا نہیں کیا۔ یہ ادبِ عالیہ نہیں تو کیا ہم اِسے ’’جمہوری ادب‘‘ کَہ سکتے ہیں؟ ۳- ہم جس چیز کو ادبِ عالیہ کہتے ہیں اُس نے عشقِ رسولؐ کی اُس والہانہ کیفیت کو برقرار رکھنے کی بھی کوشش کی ہے جو سر سید احمد خاں سے اقبال کے عہد تک ہمارا قومی مزاج بن گئی تھی؟ میں نے اس مضمون میں اسرار ناروی کے ایک شعر کا حوالہ دیا۔ اُسی غزل کا آخری شعر اب میری سمجھ میں آیا ہے: فرصت ملے جو ’’لال حویلی‘‘ کے درس سے اِک بوریہ نشیںؐ کے بھی افکار دیکھنا ئ……ئ……ء اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف ادارہ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’اقبال کی عصری تلمیحات‘‘ ، اخبار اُردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۰۷، ص ۲-۶۔ جدید شاعری میں عصری تلمیحات کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ اقبال کو اگر ایک مفکر اور ایک مبلغ اعظم قرار دیا جاتا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ وہ شاعری میں اپنی ذات سے منسلک بعض معروف افراد و وقایع کا ذکر کرنے کے علاوہ دنیا کے نقشے پر رونما ہونے والے احوال و حوادث کا بیان کرنے پر یکساں قادر ہیں۔ ایسی تلمیحات اقبال کے پسندیدہ اشخاص کا نشان یا سراغ دیتی اور ان کے عصری شعور کی عکاس ہونے کے سبب سے انھیں ماقبل کے شعرا پر فائق بھی ٹھہراتی ہیں۔ علامہ کی پیش کردہ عصری تلمیحات میں علمی و ادبی سیاسی و سماجی شخصیات کا تذکرہ اہم ہے جس کو متعارف کراتے ہوئے وہ تحسینی و تردیدی ہر دو طرح کے انداز اپناتے ہیں۔ علمی و ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات کو بھی اقبال بطور تلمیح اپنے کلام میں لائے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تلمیحات ان کے دور کے سیاسی و تہذیبی منظرنامے کا نقشہ اتارنے میں ممدد ومعاون ثابت ہوتی ہیں۔ اقبال کی تلمیحات و اشارات کو دیکھنے کے بعد ایک ہی رائے قائم کرنی پڑتی ہے، اور وہ یہ کہ ان کا ایک پیغام ہے ایک نصب العین ہے۔ اسی پیغام اور نصب العین کو عام کرنے کے لیے وہ تاریخ عالم کی بعض شخصیات اور تحریکوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان شخصیات اور تحریکوں میں سیاسی، تاریخی، ادبی، اخلاقی، مذہبی اور فلسفیانہ پہلو شامل ہیں جن سے ان کے نصب العین کی تائید ہوتی ہے۔ ٭٭٭ رفعت سروش، ’’اقبال شاعر رنگ و بو‘‘، اخبار اُردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۰۷، ص۷-۱۲۔ اقبال کا کلام مناظر قدرت کا چمنستان ہے۔ پہاڑ، دریا، آبشار، صبح، شفق، رنگ، خوشبو، پھول، پرندے سب کچھ ان کی شاعری میں ہے۔ اقبال سیاسی افکار کے اعتبار سے ہی شاعر مشرق نہیں ہیں بلکہ صحیح معنوں میں شاعر مشرق ہیں۔ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کے دلدادہ، صبح کے مناظر کے والا و شیدا، شفق کی سرخی ان کے دیوان میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہے۔ اسی طرح پھولوں کی سرخ پوشاک کی جلوہ گری اور رنگا رنگ پھولوں کی سج دھج ان کی شاعری کو پربہار کرتی ہے۔ ہمالہ ، گل رنگین، ذوق و شوق، ساقی نامہ جیسی نظمیں اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ علامہ اقبال فطرتاً رجائیت پسند ہیں اور اپنے آپ کو موج نسیم سحری سے تعبیر کرتے ہیں۔ پھولوں میں زندگی گزارنا ان کی فطرت ہے اور یہی پیغام اپنے بیٹے جاوید کو دیتے ہیں جو دراصل پوری قوم بلکہ دنیا کے نوجوانوں کے لیے ہے۔ اقبال کی نگاہ نکتہ شناس مظاہر فطرت کو حرف حرف پڑھتی ہے اور گل لالہ کی پتی پر وہ اسرار حیات کا مطالعہ کرتی ہے۔ اور یہ مطالعہ علم کتابی سے کہیں زیادہ بامعنی ہے۔ گل لالہ کے استعارے کو اقبال نے مختلف نظموں میں مختلف معنوں میں پیش کیا۔ غرض کہ کلام اقبال میں رنگ و نور و نکہت کا ایک جہاں آباد ہے اور اقبال کی خلاق طبیعت نے ان علائم کو بڑے فنکارانہ انداز سے استعمال کیا ہے۔ اقبال کا مطالعہ کرتے وقت اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ محض شاعر نہیں بلکہ فلسفی بھی ہیں۔ اس لیے ان کے بظاہر مناظر قدرت اور گل و بلبل کے متعلق جو اشعار ہیں ان کا ایک مصرع کائنات کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے اور دوسرا اس کی نفی یا تشکیک کا پہلو نمایاں کردیتا ہے۔ اقبال سے پہلے شعراے کرام نے مناظر قدرت کو نظم کیا مگر اقبال نے اس میدان سخن میں جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ بے مثال ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد اشرف کمال، ’’علامہ اقبال اور قومی زبان اُردو‘‘ ، اخبار اُردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۰۷، ص۲۱-۲۵۔ بیسویں صدی میں اردو زبان اور مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے جن شخصیات نے بھرپور کردار ادا کیا ان میں سے ایک علامہ اقبال بھی ہیں۔ اقبال کو مشرقی رسوم و رواج اور اردو زبان سے والہانہ لگاؤ تھا۔ علامہ اقبال انگریزی، جرمنی، عربی، فارسی اور پنجابی زبان پر دسترس رکھنے کے باوجود اردو زبان کو پسند کرتے تھے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک اردو زبان برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی تہذیبی و ثقافتی روایات اور ورثے کی امین تھی۔ اقبال کی علم الاقتصاد اردو میں اپنی اولیت اور اہمیت کے لحاظ سے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ اقبال نے اردو زبان میں اس قدر تخلیقی کام کیا ہے کہ اب اقبال اور اردو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہوگئے ہیں۔ علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے لیے زبان کی اہمیت اور نزاکت سے پوری آگاہی رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اردو زبان کے تحفظ اور دفاع سے غفلت نہ برتی جائے اس زبان میں نت نئے علمی و ادبی امکانات کو راستہ دیا جائے۔ علامہ اقبال نے اپنی انگریزی، فارسی، عربی زبان پر مہارت کو اردو زبان کی توسیع و ترقی کے لیے استعمال کیا۔ ٭٭٭ ڈاکٹر اشرف کمال، ’’اقبال: عشق و نظریۂ تحرک‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۰۷،ص۵-۱۲۔ عشق انسان اور کائنات کے اندرونی ارتقا میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کائنات کی ہر شے میں عشق کی جلوہ گری نظرآتی ہے۔ عشق ایک مکمل فلسفہ حیات کا نام ہے جو انسانی جذبوں اور لطیف احساسات کو زندگی کی تابندہ پائندہ بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ اقبال عشق سے تسخیرکائنات کا کام لیتا ہے اور دوسرے شاعروں کی طرح نام نہاد رسمی عشق کا قائل نہیں بلکہ اس کا عشق زندگی کا ایک زبردست محرک ہے۔ اقبال نے عشق کے نظامِ جذب و کشش کو نیا اور وسیع تر فلسفیانہ مفہوم عطا کیا ہے۔ انھوں نے تاریخی شعور سے کام لیتے ہوئے اپنی فکر کو مستحکم بنیادیں فراہم کی ہیں۔ اقبال کے نزدیک عقل انسان کو فطرت اور کائنات کی غلام بنادیتی ہے جب کہ عشق انسان کو تمام پابندیوں سے چھٹکارا دلاکر اسے رنج و غم سے دور کردیتا ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق سوزو تب و تاب جادوانہ کے سوا کچھ نہیں ہے اور عشق کا یہ سوز اور تڑپ اقبال کے مرد مومن ہی میں اپنی انتہا کو پہنچتی ہے۔ گویا مردمومن کائنات کی تڑپ کا نمایندہ ہے۔ اقبال کا عشق انھیں عشق رسول تک لے جاتا ہے۔ یہ عشق ان کے قلب و جگر میں اطمینان اور سکون کا باعث ہے۔ علامہ اقبال عشق کو ایک نصب العین کے طور پر اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اقبال زندگی کو حرکت سے تشبیہہ دیتے ہیں اس تحرک میں عشق اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کی تمام شاعری ذوق عمل کی سرمستیوں کی ترجمان ہے۔ ٭٭٭ محمد سرور، ’’میرانشیمن نہیں درگہ میر و وزیر‘‘، اُردو ڈائجسٹ، لاہور، دسمبر۲۰۰۷، ص۲۳۱-۲۳۲۔ علامہ اقبال ایک عظیم شاعر اور مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ انھوں نے ملت اسلامیہ کو ایک عظیم پیغام دیا۔ اقبال قدیم و جدید انسانی معاشروں اور شرق و غرب کے کئی علوم اور فکری تحریکوں پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ ان کے پیغام اور دعوت کی اساس قرآن مجید اور اس کی علمی تفسیر فلسفہ خودی ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی سے مراد خود شناسی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اقبال کی فکر کا اصل سرچشمہ قرآن اور مرکز فکر خودی ہے۔ اقبال کے کلام کی ایک خصوصیت منظر نگاری ہے۔ انھوں نے واردات قلب، جذبات قلب اور نکاتِ فلسفہ کو دلکش اور مؤثر بنانے کے لیے منظر نگاری سے کام لیا ہے۔ ٭٭٭ حکیم راحت نسیم سوہدروی، ’’علامہ اقبال مسجد قرطبہ میں‘‘، میثاق، لاہور، نومبر۲۰۰۷۔ فتح اندلس کا دور امت مسلمہ کے لیے مسرت انگیز تھا، مگر دوسرا پہلو المناک ہے کہ جب اندلس کے ان مجاہدوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ وہ عقیدۂ توحید اور امامت عالم کے امین ہیں تو خداوند لاشریک نے بھی انھیں فراموش کردیا۔ اس زوال کا سبب داخلی اتحاد کی کمزوری اور شمشیروسناں کو چھوڑ کر طاؤس ورباب کا دلدادہ ہونا تھا۔ اسلامی اقتدار کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو ملک بدر کردیا گیا۔ مساجد پر فاتح راہبوں نے قبضہ جمالیا۔ اس طرح مسجدِ قرطبہ بھی عیسائی راہبوں کے تسلط میں آگئی جنھوں نے اسے گرجا میں تبدیل کردیا۔ منبر اور دیوان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی۔ البتہ اذان اور نماز پر پابندی عائد کردی گئی۔ تقریباً آٹھ صدیاں گزرنے پر علامہ اقبال کو یہ شرف و امتیاز حاصل ہوا کہ انھوں نے اس پابندی کے باوجود مسجد قرطبہ میں نہ صرف اذان دی بلکہ نماز ادا کی۔ اگرچہ اس حوالے سے اقبال کی کوئی تحریری شہادت نہیں تاہم تصویری ثبوت موجود ہے۔ مسجد قرطبہ میں بنائی گئی اقبال کی دو تصاویر ہیں جو روزگار فقیر ص۴۸،۴۹ پر موجود ہیں۔ یہ تصاویر مسجد کے اس مقام پر لی گئیں جو بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔پتا چلتا ہے کہ علامہ اقبال نے نماز ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کے تاریخی اور تہذیبی پس منظر کو ذہن میں لاتے ہوئے اس جگہ کا انتخاب کیا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ علامہ نے طے شدہ پروگرام کے مطابق نماز ادا کی، یہ کسی اضطراری حالت کا نتیجہ نہیں جیسا کہ بعض تذکرہ نگار یہ تاثر دیتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’اقبال کی مذہبی اور صوفیانہ تلمیحات‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۰۷، ص۲۷-۳۳۔ کلام اقبال میں اسلام، یہودیت، عیسائیت، بدھ ازم اور ہندوازم کے علاوہ سکھوں، پارسیوں اور بابیوں کے مذاہب و مسالک سے منسلک مختلف اشخاص و واقعات اور تصورات کو توسیع و ترسیل مطالب کے لیے غیرمعمولی بے ساختگی اور رچاؤ سے تلمیح کیا گیا ہے۔ اسی طرح تصوف کے بنیادی نظریات، اصطلاحات اور نمایندہ صوفیا کی تلمیحات جابجا ہیں۔ بعض اوقات اقبال اسلامی تلمیحات کے ساتھ دیگر مذاہب کی تلمیحوں کو آمیخت کرکے حیران کن نتائج کا استخراج کرتے ہیں اور ایسی ملی جلی تلمیحات میں ان کا اسلوب خاصا مدلل بھی ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے ادیان اور مسلکوں کا تذکرہ شعر اقبال میں آتا بھی اس لیے ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت اور اکملیت کو تقابل سے عیاں کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر اقبال کی صوفیانہ تلمیحات اس لیے بھی لائق استحسان ہیں کہ ان کی وساطت سے علامہ نے ایک ایسے دور میں تصوف کے متداول و مرغوب نظریے وحدۃ الوجود کا ایراد کیا جب اس کے خلاف لکھنا ایک بہت بڑی بدعت شمار کیا جاتا تھا۔ اندریں حالات اس کے مقابلے میں اثبات خودی کا تصور پیش کرکے انھوں نے مروجہ طریق سے انحراف کیا۔ گویا اقبال کی مذہبی و صوفیانہ تلمیحات پیغامبری کا مؤثر ذریعہ قرار پانے کے ساتھ ساتھ اس دور کے ہندوستان کے مذہب و تصوف پر مبنی تصورات کو سمجھنے میں ممدو معاون ٹھہرتی ہیں۔ ٭٭٭ سید ظفر رضوی، ’’اقبال کا تصور اسلام‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۰۷، ص۳۵-۴۳۔ تعلیم، شاعری، فلسفہ اور سیاسیات وہ چار بنیادی ستون ہیں جن سے ہم اقبالیات اور اقبال کے تصور اسلام کا منظر دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں۔ اقبال کے تصور اسلام کے عنوان میں تصور کے عام لفظ کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے۔ تصور کے لغوی معنی ہیں دل میں تصویر بنانا، دھیان، مراقبہ، خیال، منطق کی اصطلاح میں کسی چیز کا حکم کے بغیر عقل میں آنا۔ اقبال کے تصور اسلام میں ہر انسان اپنے اخلاق کو حسن بخش سکتا ہے اور اس میں خودداری، مساوات، انکساری، وسعت نظریہ، اطمینان اور عقل، رجائیت، توکل، ضبط نفس اور خوش مزاجی جیسی خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اقبال کے تصور اسلام میں عام انسانوں کو بھی حسن ارادت کی شمع جلائے رکھنے کا عملی ثبوت ملتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اقبال کا تصور اسلام مناجات، تسبیحات کے اثر سے پر امن زندگی اور اطمینان قلب کی دولت کا وسیلہ ہے وہ کسی بھی الہام، وجدان، عرفان اور روحانی تجربے کو ناپسندیدہ قراردیتے ہیں جس سے انسانی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ضرب کلیم میں اسلام اور مسلمان کے عنوان سے بیشتر مختصر نظمیں تحریر کیں۔جو ان کے افکار و خیالات اور نظریات کی وضاحت کرتی ہیں۔ علامہ اقبال نے ہندوستانی خانقاہیت کو بھی برہمنیت سے آزاد کرنے کی ترغیب دی۔ علامہ اقبال کے تصور اسلام کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ انھوں نے مشرقی ملائیت اور مغربی ملائیت پر تنقید کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کے ظالمانہ نظام اور اس کی پیدا کردہ تہذیب و تمدن پر بھی ناقدانہ نظرڈالی ہے۔ اور روح عصر کو اصل تصور فطرت سے ہم آہنگ رکھنے کی آرزو کو نمایاں کیا ہے۔ اقبال کے تصور اسلام کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے کلام کی نورانی کیفیت اور ان کی تقاریر و مضامین کی دانش برہانی کو اپنے فکر و خیال میں جگہ دینا ہوگی۔ ٭٭٭ رابعہ سرفراز، ’’کلام اقبال میں فکری و فنی ہم آہنگی‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۰۷، ص۴۴-۴۹۔ اقبال کے اکثر ناقدین اس قسم کے بیانات کو بنیاد بناتے ہیں کہ وہ غزل کی زبان سے باخبر نہیں۔ حالانکہ اقبال کو سخن وری کا فن آتا ہے۔ اقبال کی غزل عام روایت کے برعکس ایک تصور پر مبنی ہے۔ اقبال مینا و جام کے شاعر نہیں بلکہ زندگی کے حقائق کے نغمہ خواں ہیں۔ تخلیق کا یہ کٹھن عمل عظیم فن کاری کے بغیر ممکن نہیں۔ تخلیقی آزادی شاعر کے مقصدِ تخلیق کی عطا ہے۔ اقبال کی شاعری شعر برائے شعر نہیں بلکہ صحیح معنوں میں زندگی کی تزئین ہے۔ اقبال کی اکثر نظموں میں غزل کی تکنیک استعمال کی گئی۔ اقبال کی شاعری محض بیان کی وسعت اور اخلاق کی اصلاح تک محدود نہیں ہے۔ اقبال جیسے منفرد فن کار سے روایتی اصناف، اسالیب، مضامین اور زبان کا تقاضا غلط ہوگا۔ ان کے کلام میں تغزل کی شان فوری طور پر پیدا ہونے والی کیفیت ہے۔ بال جبریل اور ارمغان حجاز کی متعدد غزلیں غیرمعمولی تغزل کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کلام میں موسیقیت گہری معنویت پیدا کرتی ہے۔ کلام اقبال کے شعری آہنگ میں وہی رنگارنگی ہے جو کائنات کے عناصر میں کارفرما ہے۔ اسی طرح اقبال تشبیہوں کے انتخاب میں آزادی سے کام لیتے ہیں اور تشبیہہ سے ایک ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جو ذہن کو خودبخود اقبال کے پسندیدہ موضوع کی طرف مائل کرتی ہے۔ اقبال ایک ایسے ذہین فن کار تھے جنھوں نے اپنی شاعری میں تقریباً تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور کامیاب رہے۔ ان کی شاعرانہ نظر نے بہت سے خواب دیکھے جو ان کی خوبصورت شاعری کی بنیاد ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر طاہر تونسوی، ’’فکر اقبال کے ترقی پسندانہ زاویے‘‘، قومی زبان، کراچی،نومبر۲۰۰۷، ص۵۰-۵۴۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں جن خیالات و افکار کو منکشف کیا ہے اس کی تفہیم کے لیے اقبالیات کی اصطلاح وضع کی جاچکی ہے۔ انھوں نے جن تصورات اور نظریات کو شعر کے قالب میں ڈھالا اس کی وسعت، ہمہ گیری اور آفاقیت کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنھوں نے کلام اقبال کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ علامہ کے کلام سے پتا چلتا ہے کہ ان کے باطن میں جو دردمندی اور سوز تھا وہی ان کے فکری نظام کی اساس بنا۔ استحصالی طبقوں کے خلاف اقبال کی صدائے احتجاج سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ اقبال کے ہاں ان ترقی پسندانہ رویوں کی ابتدا بانگ درا کی نظم ’خضرراہ‘ کے زیرعنوان سرمایہ محنت سے ہوتی ہے اور پھر اس کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اور جوں جوں اقبال کا مطالعہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے ان رویوں اور زاویوں میں تیزی اور تندی آتی جاتی ہے۔ اقبال اپنی نظموں اور متفرق اشعار میں ان رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن میں سماج کے دشمنوں کی مذمت بھی ہے اور ان کے عزائم کو بے نقاب بھی کیا گیا ہے اور ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ کا درس دیتے ہوئے انھیں ایسی منفی قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی جانب واضح اشارات کیے ہیں۔ ٭٭٭ کیفی حسینی، ’’اقبال پھر اقبال ہے‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۰۷،ص۵۵-۶۱۔ شعراے اردو میں حالی و اکبر کے بعد اقبال ہی واحد شاعر ہے جس نے ملت کی زبوں حالی سے متاثر ہوکر اسے ذلت کے گڑھے اور مغربی افکار و تہذیب اور سرمایہ دارانہ حیلوں اور مغربی لادینی فلسفے کے معاشرتی ردعمل سے نکالنے میں اپنی عمر گزاردی۔ اقبال نے مسلمانوں کو مغربی فکر کے غلبے سے بچانے کی بجائے جارحانہ طرزعمل اختیار کیا اور قدرت نے اقبال کی فکری تربیت کے لیے ایسے مواقع بھی فراہم کردیے تھے کہ جس کے سبب اقبال نے مغربی افکار کو قیامِ یورپ کے دوران پورے شعور سے قلب کی نگاہوں سے دیکھا، جانچا، پرکھا اور ہندوستان واپسی کے بعد مغربی تہذیب و تمدن اور افکار کو ہدف تنقید بناکر ان عوامل کی نشاندہی فرمائی جو بظاہر بہت عظیم الشان نظر آتی تھی۔ اقبال کے نزدیک آرٹسٹ کا مقصد زندگی کی خدمت ہے۔ اقبال نے شعر کے ذریعے زندگی کی صحیح ترجمانی کی ہے اور حرکی عناصر کو خاص طور پر اجاگر کیا ہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں زندگی کی نسبت جس قدر تشبیہیں، استعارے، تراکیب استعمال کی ہیں ان کی مثال فارسی اردو کے کسی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں ملتی۔ زندگی کے موضوع کو فارسی اور اردو میں سب سے پہلے اقبال نے پیش کیا۔ اقبال کے کلام میں ندرت اور جدت کا پہلو ہے جو پہلے شعرا میں نسبتاً کم تھا۔ اقبال نے شاہین اور خودی کا تصور پیش کیا۔ اقبال کا فلسفہ خودی قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہے اور اس کے عناصر ترکیبی اطاعت و ضبط نفس، نیابت الٰہی ہے۔ وہ حرکت و عمل اور جدوجہد کے نقیب ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی نام ہے تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم کا۔ اقبال نے ملت کو نہ صرف بیدار کیا بلکہ تفکر کے ایسے ایسے اسلوب عطا کیے جو اقبال سے پہلے اردو شاعری میں عنقا تھے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر عبدالغنی فاروق، ’’مغرب پرستوں پر اقبال کی تنقید‘‘، تکبیر، کراچی، ۸-۱۴ نومبر۲۰۰۷، ص۴۴-۴۶۔ اقبال ان لوگوں سے بے زار تھے جو نام و نسب کے مسلمان ہیں، جن کے دل و دماغ یورپ کے نظریات و افکار سے متاثر ہیں۔ بدقسمتی سے یہ طبقہ اقبال کی زندگی میں خاصی بڑی تعداد میں تھا اور دور حاضر میں بھی ساری خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ آج آزادی کے کم و بیش ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اس طبقے پر اقبال کی تنقید میں روزِ اول کی سی تازگی نظرآتی ہے۔ آج پاکستانی قوم جن بے شمار بحرانوں میں مبتلا ہے اس کا سبب بھی یہی مغرب پرست طبقہ ہے اور پاکستان کی ساری تاریخ اس پر شاہد عادل ہے۔ اس طبقے سے وابستہ شعرا، ادبا، دانشور امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں مگر امریکہ ہی ان کا آئیڈیل ہے۔ یہ طبقہ یورپ کی مدح و تحسین میں تو رطب اللسان رہتا ہے مگر یورپ کی خوبیوں کو قبول نہیں کرتا اور نہایت عاقبت نااندیشی اور حماقت سے وہاں کی خامیوں کو سینے سے لگاتا ہے۔ اقبال اس تلخ حقیقت سے بڑے پریشان تھے کہ مغربی تقلید نے خصوصاً مسلمان نوجوانوں سے ان کی ساری خوبیاں چھین کر انھیں عیش پسندی اور مادہ پرستی کی دلدل میں دھکیل دیا وہ شاہینی صفات کھوبیٹھے ہیں اور کرگس کی ہوس ناکی اور بدذوقی انھوں نے اختیار کرلی ہے۔ اس طبقے میں عام نوجوان ہی نہیں سیاست دان، حکمران، ذمہ دار افسران اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، ’’حضرت انسان اور اقبال‘‘، الاقربا، اسلام آباد، اکتوبر- دسمبر۲۰۰۷، ص۲۲-۲۸۔ مختلف ادیان کے انسان سے متعلق دو عمومی رجحان ہیں اول یہ کہ کچھ ادیان انسان کو کمزور، ناقص اور بے بس تصور کرتے ہیں۔ اس کی نجات ایک غیر متحرک جامد طرز عمل میں تجویز کرتے ہیں۔ ان کے ہاں انسانی عظمت کا تصور نفی ذات اور فنا میں پوشیدہ ہے۔ بدھ مت، ہندو مت، عیسائیت، افلاطونی مکاتب فکر اور دورِ جدید میں وہ تمام سلسلہ ہائے فکر جن کی بنیاد محض عقلیت اور نری مادیت کی پیدا کردہ تشکیک اور تثلیت پر استوار ہے۔ دوم وہ ادیان جو انسان کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہیں۔ ان میں اسلام سرفہرست ہے پھر زرتشت مسلم فلاسفہ و حکما میں ابن عربی، الجیلی، محمود شبستری، رومی، جامی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ کے نام آتے ہیں۔ مغربی حکما میں نطشے فوق البشر کے حوالے سے نمایاں ہے۔ نطشے کا فوق البشر مسیحی الہٰیات کا رد عمل ہے۔ اقبال کی علمی توجہ، تحقیق اور تعبیر کا بنیادی موضوع حضرت انسان ہے۔ اقبال کے نظام فلسفہ کے اساسی عناصر یعنی خودی اور بے خودی، انسان کی حیثیت، دائرہ کار، اختیار اور علم اور ارادے کی حدود اور ان کے ہمہ پہلو نتائج سے متعلق نوع بہ نوع مباحث کی طرف اشارے کرتے ہیں۔ اقبال قدیم قصص میں بیان کردہ بے بس انسان سے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہبوط آدم کے قصے کی قرآنی صورت کو بے حد اہمیت دیتے ہوئے اس کی مثبت توضیح کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ جس عمل کو انسان کی پہلی نافرمانی یا گناہ قرار دیا گیا وہ دراصل انسان کا پہلا اختیاری عمل تھا جس میں اس کا ارادہ شامل تھا۔ انسان کا زمین پر نزول سزا کے واسطے نہیں بلکہ یہ تو اس اعتماد کا اظہار ہے جو خالق نے اپنی مخلوق پر کیا۔ انسان کے اعمال، افعال متعین ہیں۔ اسے اختیار دیا گیا ہے۔ اس نفس متناہیہ کے سامنے خیر و شر دونوں راستے موجود ہیں۔ اسے اختیار ہے کہ جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ اقبال نے ہبوط آدم کے قرآنی تصور کی روشنی میں ایک لائحہ عمل پیش کیا جس پر عمل پیرا ہوکر انسان درجۂ کمال کو پہنچ سکتا ہے۔ یہ لائحہ عمل اسرارخودی اور رموز بے خودی کی مربوط شکل میں پیش ہوا۔ ٭٭٭ محمد بدیع الزماں، ’’کلام اقبال میں قم اور قم باذن اللہ کی معنویت‘‘، دارالسلام، مالیرکوٹلہ، بھارت، نومبر۲۰۰۷۔ ’’قم‘‘ اقبال نے یہ اصطلاح مسلمانوں کی مردہ روح میں نئی جان ڈالنے کے معنوں میں استعمال کی ہے۔ قم باذن اللہ کے لغوی معنی ہیں: اللہ کے حکم سے اُٹھ، اس اصطلاح سے اقبال کے کلام میں ضرب کلیم میں قم باذن اللہ نام کی نظم ہے۔ اقبال نے اس نظم میں مسلمانوں کو اللہ کے حکم سے سرگرم عمل ہونے کی تلقین کی ہے۔ اس اصطلاح سے اقبال یہ بھی باور کراتے ہیں کہ تجھ میں سرگرم عمل ہونے کے لیے حسین ابن منصور حلاج کی طرح وہی خون موجود ہے جس نے نوائے اناالحق کو آتشیں کردیا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ فرنگی یعنی مغربی تعلیم نے تیرے مذہبی عقائد کو پراگندہ اور بے شعور کردیا ہے مگر تو اللہ اور رسول کی زندگی بخش تعلیمات سے اس پراگندگی کو دور کرکے سرگرم عمل ہوکر فرنگیوں کے اس افسوں یعنی جادو کو توڑ سکتا ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’اقبال کا کنائی اسلوب‘‘، اورینٹل کالج میگزین، لاہور، ۲۰۰۷، ص۲۰۷-۲۲۵۔ کنایہ دراصل پوشیدہ سخن گوئی، ترکِ تصریح یا کھل کر بات نہ کہنے کا ڈھب ہوتا ہے۔ اس میں لفظ کے دو معنی ہوتے ہیں جو آپس میں لازم و ملزوم ہوتے ہیں لہٰذا کہنے والا ان دونوں کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ سننے والے کا ذہن معنی نزدیک سے معنی بعید تک منتقل ہوسکے۔ کنایے کے ظاہر الفاظ و معانی ’’مکنی بہ‘‘ اور معنی مقصود مکنی عنہ‘‘ کہلاتے ہیں اور ان دونوں کے معنوں کے درمیان ارتباط و انسلاک ضروری ہے۔ وہ کنایہ جس میں ذہن معنی منظور تک بہ آسانی رسائی کرے کنایہ قریب ہے اور وہ صورت جس میں واسطوں کی کثرت کے باعث ایسا کرنا بہ سہولت ممکن نہیں کنایہ بعید کہلاتا ہے۔ اقبال کے ہاں کنایہ قریب کی مثالیں ملتی ہیں۔ کنایے کی صورتیں صفت و موصوف کے اعتبار سے وضع کی گئی ہیں۔ علامہ نے بھی ان چار صورتوں کو متنوع رنگ و آہنگ سے پیش کیا ہے: ۱- تعریض: بنیادی طور پر عرضہ سے مشتق ہے جس کے معنی جانب یا طرف کے ہیں۔ اس کنائی وصف کے تحت شاعر یہ کوشش کرتا ہے کہ موصوف کا ذکر نہ کرے اور اشارہ ایک جانب سے کرے اور مراد دوسری جانب ہو۔ علامہ کے تعریض پر مبنی اشعار بڑے جاندار اور دوٹوک ہیں (۲)تلویح کے لفظی معنی دور سے اشارہ کرنے کے ہیں۔ اسے ایک اعتبار سے کنایہ بعید سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس طریقے سے اقبال کنایے کے ذریعے پوشیدگی اور پیچیدگی پیدا کرکے اپنے کلام کو زیادہ بلیغ اور بامعنی بنادیتے ہیں اور ان کے تلویحاً رقم کیے گئے ان کثیر الجہاتی اشعار پڑھنے والا داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ (۳)رمز کے لفظی معنی راز، اشارہ یا علامت کے ہیں۔ اس کے برعکس رمز کے پس منظر میں ایک ہی مطلب ہوتا ہے جو زیادہ تر طے شدہ اور ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ ہوتا ہے۔ اقبال کے ہاں رمز کی صورت گراں خواب چینی، شراب، الست سے شاعر نے بالترتیب مقصد کے حصول میں نہ ہونے، افیون کے نشے میں ڈوبے اہل چین، روز ازل خدا سے انسان کا عہد و پیمان کے معانی مراد لیے ہیں۔ اور ان تمام مطالب کی جانب انتقال ذہن بہت دشوار نہیں ہے۔ (۴)ایما کے معنی اشارے کے ہیں۔ اسے کنایہ قریب یا کنایہ واضح یا آشکار سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اقبال نے کنایے کی ایمائی صورت کو بکثرت پیوند کلام کیا ہے۔ ٭٭٭ محمد سرور، ’’عشق کی اِک جست نے طے کرد یاقصہ تمام‘‘، اُردو ڈائجسٹ، لاہور، جنوری ۲۰۰۸ئ، ص۱۷۶-۱۷۸۔ علامہ اقبال کے نظام فکر میں عشق کو ایک بنیادی مقام حاصل ہے۔ وہ عشق کو بے پایاں لگن کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک ایسی لگن جو راستے میں آنے والی مشکلات اور تکالیف کو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ پوری قوت اور جدوجہد کے ساتھ منزل کی جانب اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ اقبال نے عشق کے مفہوم میں بڑی گہرائی اور وسعت پیدا کردی۔ عشق کی بدولت ایک شخص اپنی خودی سے آگاہ ہوجاتا ہے تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور اللہ کا نائب ہے۔ عشق کی بدولت جب شانِ فقر پیدا ہوگیا تو ایک عالم اس کے زیرنگین ہوگیا۔ آہ سحر گاہی اقبال کی اصطلاح ہے۔ اس سے مراد صبح کے وقت آہ و فریاد ہے اقبال اس سے مراد عاشقانہ زندگی لیتے ہیں۔ تنہا علم بے سود ہے جب تک اس کے ساتھ مخلصانہ عمل موجود نہ ہو۔ اس کے لیے آہ سحرگاہی از حد ضروری ہے۔ اسی طرح لاہوت تصوف کی ایک اصطلاح ہے یعنی سالک کی آخری منزل جہاں اسے فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ طائر لاہوتی سے مراد مسلمان ہے۔ طائر لاہوتی سے مراد یہ ہے کہ مسلمان کا مقصد حیات اس بلند روحانی مقام کا حصول ہے جہاں پہنچ کر اس کے اندر اللہ کی صفات کا پرتو نظرآنے لگے جسے تصوف کی اصطلاح میں فنا فی اللہ کا مرتبہ کہتے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر محمد معزالدین، ’’اقبال کا پیغام قوم کے نوجوانوں کے نام‘‘، تہذیب الاخلاق، لاہور، جنوری۲۰۰۸ئ، ص۱۱-۱۸۔ اقبال پیرانِ کہن سے ناامید ہوگئے تھے اور انھوں نے اپنی تمام تر امیدیں نوجوان نسل سے وابستہ کرلی تھیں۔ چونکہ اقبال اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی بازیافت کے لیے قوم کو تیار کررہے تھے، لہٰذا ان کے پیش نظر پوری نسل کی فکری، اخلاقی اور ذہنی تربیت تھی۔ اس مقصد سے انھوں نے بچوں کے لیے بھی دل پذیر اور سبق آموز نظمیں لکھیں۔ اس طرح تدریجی طور پر شاہین بچوں سے لے کر نوجوانوں اور پھر قوم کے ہر فرد کو وہ مرد مومن کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اقبال نوجوانوں میں ذاتی جوہر پیدا کرنا چاہتے تھے ان میں یہ صفت حفاظتِ خودی کے ذریعے حاصل ہوسکتی تھی۔ اقبال کو نوجوانوں کے تعلیمی مسائل اور جدید تعلیم کے منصوبے اور رجحانات اور اثرات کی بڑی فکرتھی۔ ان کو خداوندانِ مکتب سے سخت شکایت تھی کیوں کہ دنیاوی مفاد کی تعلیم تو دی جاتی ہے مگر نوجوانوں کی روح میں ایمان کی حرارت نہیں پہنچتی۔ اعلیٰ اخلاقی قدروں سے عاری نوجوانوں کو دیکھ کر علامہ اقبال سخت دل گرفتہ ہوتے تھے۔ ’’سخنے بہ نژادنو‘‘ کے تحت جو اشعار انھوں نے لکھے وہ نوجوانوں کے لیے حد درجہ سبق آموز ہیں۔ ’’خطاب بہ جوانان اسلام‘‘، کے عنوان سے نظم بھی نوجوان نسل کے نام پیغام سے لبریز ہے۔ ٭٭٭ محمد سرور، ’’اقبال کا تصور علم و عقل اور عشق‘‘، اُردو ڈائجسٹ، لاہور، فروری۲۰۰۸، ص۱۶۴-۱۶۶۔ اقبال عشق کو علم، عقل اور حکمت کے مدمقابل یا ان سے بالاتر خیال کرتے ہیں یا یوں سمجھیے کہ عقل کو عشق کے تابع خیال کرتے ہیں۔ وہ معرفت اور عرفان کے قائل ہیں اور حصول علم کا مقصد بھی یہی خیال کرتے ہیں۔ عشق اقبال کی باطنی زندگی میں ارتقا پاکر عشقِ رسول بن گیا۔ اگر عقل دلیلوں سے کام لیتی ہے تو اس کے مقابلے میں عشق سے انسان ذات باری تعالیٰ کا دیدار کرسکتا ہے۔ جب تک دل دنیاوی آلائشوں سے لتھڑا رہتا ہے اس وقت تک حقیقت پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ آنکھ کے نور سے صرف چیزوں کی ظاہری شکل و صورت نظر آتی ہے لیکن دل کے نور سے چیزوں کی اصل حقیقت کا پتا چلتا ہے۔ اقبال کو دلی افسوس ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ جن کے دلوں میں جذبہ عشق فروزاں ہو، خدمت اسلام اور جہاد کا جذبہ موجود ہو۔ انھیں کوئی صاحبِ عشق نظر نہیں آتا۔ اقبال دل بیدار پیدا کرنے پر زور دیتے ہیں کیوں کہ اسی سے باطل قوموں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ ٭٭٭ مشتاق احمد تنولی، ’’براؤننگ اور اقبال‘‘، شعر و سخن، مانسہرہ، جنوری تا مارچ۲۰۰۸، ص۱۸-۲۱۔ رابرٹ براؤننگ کا شمار عہد وکٹوریہ کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ اقبال کی طرح براؤننگ کو بھی فلسفی شاعر کہا جاتا ہے۔ براؤننگ کا اس کائنات کے خالق اور سزا و جزا کے دن پر پختہ ایمان ہے۔ اقبال کی طرح براؤننگ کو بھی اپنے عہد کی قنوطیت نے مایوسی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ فنی حوالے سے براؤننگ نے جس صنف شاعری میں کمال حاصل کیا اسے ڈرامائی مونولاگ کہتے ہیں۔ ڈرامائی مونولاگ میں کردار مختلف ادوار، مختلف اقوام سے لیے گئے اور ان کی زندگی کا دلچسپ نفسیاتی اور روحانی تجزیہ کیا گیا ہے۔ اقبال کی بھی کئی نظمیں ایسی ہیں جن کو ڈرامائی نظمیں کہا جاسکتا ہے۔ بعض میں فرضی کردار بھی پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں شعرا کی بعض نظمیں آپس میں گہری مماثلت رکھتی ہیں۔ مثلاً (incident of French Camp) اور اقبال کی ’’جنگ یرموک کا ایک واقعہ‘‘ تقریباً ایک جیسی نظمیں ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں عرب اور براؤننگ نے اٹلی کے قدرتی مناظر دکھائے ہیں۔ دونوں شعرا کے لیے فطرت انسان سے الگ اپنی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال کی طرح انتھک محنت اور جہد مسلسل اس کا بھی پسندیدہ موضوع ہے۔ براؤننگ اور اقبال کی شاعری نہ صرف دکھی انسانیت کے لیے امید کا پیغام ہے بلکہ بھٹکے ہوئے انسانوں کے لیے مشعل راہ کا کام بھی دیتی ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر اسرار احمد، ’’ابلیس کی مجلس شورٰی اور حالاتِ حاضرہ‘‘، میثاق، لاہور، اپریل۲۰۰۸، ص۶۳-۱۰۰۔ علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق نظم ’’ابلیس کی مجلس شورٰی‘‘ ان کی آخری ایام کی نظموںمیں سے ایک ہے۔ یہ درحقیقت اُن کے عمرانی فکر کی معراج ہے۔ قریباً ۸۰ سال قبل لکھی گئی اس نظم میں علامہ نے ابلیس کی ایک مجلس شورٰی کا نقشہ کھینچا ہے جس میں آج کے تمام حالات کا نقشہ بھی پوری طرح موجود ہے۔ نظم کے ابتدائی اشعار صدر مجلس کے افتتاحی خطاب پر مبنی ہیں جن میں ابلیس نے اپنے خیالات اور طریقہ کار کو بیان کیا ہے۔ اس خطاب میں ابلیس نے تاریخی زبان میں اور حال و مستقبل کی طرف اشاروں کے ذریعے اپنی بات کو واضح کیا ہے اور دراصل یہ ساری تقریر عہد حاضر کی استعماری قوتوں کے طریقہ کار اور ان کی خفیہ و علانیہ پالیسیوں سے بحث کرتی ہے۔ ان کی اصلیت سے پردہ کشائی کرتی ہے حتیٰ کہ مسلمان بھی ابلیس کے دامِ تزویر میں پھنسے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ملا و صوفی کی نفسیات بیان کرتے ہوئے ان کی منصبی ذمہ داری یاددلائی گئی ہے۔ مومن کے ایمان کی کمزوری اور دین کے احکام کو بدل ڈالنے کی روش کا ذکر کیا گیا ہے۔ جمہوریت کی غوغا آرائی اور ملوکیت کی مضرت رسانی کے درس بڑے سہانے نظرآتے ہیں مگر یہ ان کے اپنے تیار کردہ لبادے اور لباس ہیں وہ جس کے لیے چاہتے ہیں بادشاہی کو جمہوری لباس پہنادیتے ہیں لیکن کائنات میں انسان کا منصب اور مقصود یہ نہیں ہے۔ مغربی جمہوریت خود اندر سے تاریک اور بیرون سے چمکدار ہے۔ ابلیس کی اس گفتگو میں اس کے مشیر بھی شامل ہوجاتے ہیں اور وہ بھی اس نظام حکمرانی کی توضیحات پیش کرتے ہیں۔ اس کا تجزیہ بھی کرتے ہیں کہ کیا چیز کتنی مناسب و مفید ہے اور کیا غیر مفید اور ضرررساں ہے۔ ابلیس کے مرید کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام جادوگر تیرے مرید ہیں مگر وہ ہمارے لیے بااعتماد نہیں کہ کہیں وہ کسی قدیم روح کا عکس نہ بن جائیں جو ہمارے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچنے دیں۔ ابلیس کے مشیران ومریدان کمیونزم، یہودیت، کارل مارکس کے خیالات، مغربی تہذیب کے دجالی فتنے کا ذکر کرنے کے بعد ان کے بے فائدہ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ابلیس ان میں سے کسی سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی کمزوریاں بیان کرتا ہے۔ البتہ امت مسلمہ سے خوفزدگی کا اظہار ضرور کرتا ہے اور پھر اس کے خصائص و خوبیاں بیان کرتا ہے اور اس کی خامیاں اور کمزوریاں بھی عیاں کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ کہیں شریعت محمدؐ آشکار نہ ہوجائے اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہمارے لیے کہیں جائے پناہ نہیں ہوگی کیوں کہ اسلام کے نظام میں عدل و انصاف موجود ہے۔ وہ زمین پرامن و سلامتی کی فضا قائم کرنے کا ضامن ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس کو الٰہیات کے کلامی مسائل میں الجھا رہنے دیا جائے تاکہ ہمیں گوشۂ عافیت میسر رہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر خالد علوی، ’’اقبال اور حدیث‘‘، فکر و نظر، اسلام آباد، جنوری-مارچ۲۰۰۸، ص۲۵-۶۴۔ بدقسمتی سے پاکستان کے کچھ طبقات اقبال کو متجددین کا امام ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ ان کی اسلامیت کو تجدد کا چولا پہنانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے لیے سب سے زیادہ لوازمہ علامہ کے خطبات سے حاصل کیا گیا۔ اس کشید کے لیے اقبال کا چھٹا خطبہ استعمال کیا گیا۔ دراصل استعماری طاقتوں نے اپنے غلبے کے بعد یہ حکمت عملی وضع کی کہ مسلمانوں کے لیے اپنی روایت، دینی اساس اور علمی اثاثے پر اعتماد کو متنزلزل کیا جائے۔ یہ کام مغرب کے اہل علم نے سنبھالا اور قریباً تمام موضوعات پر معتدبہ لٹریچر تیار کیا۔ گولڈزیہر اِن میں سے ایک نام ہے جس نے حدیث پر کام کیا۔ یہ سوء اتفاق ہے کہ علامہ کے دور میں گولڈزیہر کا طوطی بول رہا تھا اور مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان نئی تحقیقات کے سحر میں تھا۔ چونکہ اُردو اور انگریزی میں اس موضوع پر کوئی زیادہ کام نہیں ہوا تھا اس لیے علامہ اس حوالے سے مختلف سوالات اٹھاتے نظرآتے ہیں۔ تاہم علامہ کا حدیث رسول پر اعتقاد و یقین کسی شک و شبہہ سے بالاتر ہے البتہ وہ نقد حدیث سے واقفیت رکھنے والے دانشور کی حیثیت سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک قانون دان کی حیثیت سے علامہ کے سامنے اصل مسئلہ احادیثِ احکام کی حجیت کا تھا اور یہ فکر مندی درست ہے البتہ جو بات واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اقبال کے سامنے اصولِ حدیث کے رجال فن کی آرا تھیں یا نہیں؟ علامہ کے استفسارات میں اصول فقہ کی کتابوں کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن اصول حدیث کی کسی کتاب کا ذکر نہیں ملتا۔ احادیث کو دین کا ماخذ تسلیم کرنے کے باوجود قانونی احادیث کی عالمگیریت اور ابدیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا ایک سبب مغربی محققین کے نتائج تھے دوسری وجہ شاہ ولی اللہ کی رائے ہے۔ قانونی احادیث کی عالمگیریت اور ابدیت دراصل وہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں علامہ الجھن کا شکار ہیں اور اس کا سبب یہی ہے کہ انھیں اسلامی فقہ کے لٹریچر میں اس کی کوئی واضح اساس نہیں ملی۔ بہرحال عمومی طور پر حدیث کے بارے میں ان کی رائے مثبت ہے۔ انھوں نے نظم و نثر میں احادیث سے استدلال کیا ہے حتیٰ کہ ضعیف اور موضوع احادیث سے بھی استشہاد کیا ہے۔ ٭٭٭ محمد فیصل مقبول عجز، ’’اقبال کے نظامِ فکر میں سائنسی علوم کی اہمیت‘‘، اخبار اُردو، اسلام آباد، نومبر ۲۰۰۷،ص۱۳-۲۰۔ علامہ اقبال سائنسی علوم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ انھوں نے نہ صرف سائنسی علوم سے بحث کی ہے بلکہ بہت سے سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ علامہ جدید علوم و فنون بالخصوص علم فلکیات، طبیعیات، حیاتیات، علم نجوم اور ان سے متعلقہ دیگر علوم سے بحث کرتے ہیں۔ طبیعیات میں وہ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت کی حمایت کرتے ہیں اور حرکت و سکون اور زمان و مکاں کے مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ اس عہد تک پیش کیے گئے مروجہ سائنسی نظریات مثلاً کوپرنیکس، ٹائیکو براہو، میکس پلانکس اور نامور علم سائنس دانوں کے نظریات پر بھی بحث کرتے ہیں حتیٰ کہ ایٹمی طبیعیات پر بھی علامہ نے بات کی ہے۔ علم فلکیات پر بات کرتے ہوئے وہ قدیم و جدید مسلم و غیر مسلم اہل علم کی آرا نقل کرتے اور ان کے درمیان ترجیح قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ علم نجوم کے بارے میں مروج باطل نظریات کی نفی کرتے ہیں۔ اسی طرح کیمیا، حیاتیات اور قدرتی آفات کے حوالے سے بھی بہت مفید مطلب بحث کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اس کائنات کی تسخیر کے لیے ضروری ہے کہ انسان آیاتِ الٰہیہ پر غور و فکر کرے اور ایسے ذرائع تلاش کرے جن کی بدولت وہ فی الحقیقت فطرت پر غلبہ پاسکے۔ ٭٭٭ محمد شفیع بلوچ، ’’علامہ اقبال اور ابن عربی‘‘، پیام، اسلام آباد، نومبر ۲۰۰۷ئ، ص۱۹-۲۹۔ علامہ اقبال اور شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی کے درمیان ذہنی روابط اور فکری فاصلوں کی عجب گریزوکشش کی سی صورت نظر آتی ہے۔ شیخ کے افکار و خیالات کے بارے میں علامہ کی اپنی ایک رائے تھی جو مختلف ادوارمیں مختلف رہی۔ پہلے دور (۱۹۰۱ء سے ۱۹۱۰ء تک) علامہ شیخ اکبر کے نظریۂ وحدت الوجود کے قائل تھے۔ دوسرے دور میں ۱۹۱۱ء سے ۱۹۱۷ء تک ہے۔ انھوں نے ابن عربی اور ان کے نظریات سے اختلاف کیا۔ آخری دور میں انھوں نے اپنی کتب پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں وحدت الوجودی افکار کو سمویا ہے۔ شواہد سے یہ بات محقق ہوتی ہے کہ اقبال ایک خاص مرحلے کے علاوہ کبھی وحدت الوجود کے مخالف نہیں رہے۔ اور اقبال اس تصور میں شیخ اکبر کے نظریہ سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کے خوشہ چین بھی تھے۔ ٭٭٭ آیت اللہ سید علی خامنہ ای، ’’علامہ اقبال، مشرق کا بلند ستارہ‘‘، پیام، اسلام آباد، نومبر ۲۰۰۷ئ، ص۱۵-۲۸۔ اقبال نے مختلف طرزوں مثلاً ہندی اور خراسانی وغیرہ میں شعر کہے تھے اور تمام طرزوں میں اچھے شعر کہے ہیں۔ انھوں نے فارسی میں جس اعلیٰ ادبیت کے حامل شعر کہے ہیں اس کی حیثیت بہت نمایاں ہے حالانکہ وہ مروجہ فارسی بولنے اور لکھنے والے نہیں تھے۔ اقبال محض شاعر نہیں بلکہ ایک عظیم مصلح اور حریت پسند رہنما ہیں۔ اور ایسے حریت پسند رہنما جو کسی ایک خطے کو درسِ حریت نہیں دیتے بلکہ پورے مشرق اور اسلامی دنیا کو یہ سبق پڑھاتے ہیں۔ اقبال کی عظمت کو جاننے کے لیے اس عہد کے معاشرے کے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی و علمی رجحانات اور مسائل کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ اس وقت کا ہندوستان کن حالات سے گزر رہا تھا اور اس کو کیسی حکمت عملی کی ضرورت تھی اس کو محسوس کرنے والا فرد دراصل ایک عظیم دانشور اور مفکر ہی ہوسکتا تھا جو علامہ اقبال کے سوا کوئی نہیں تھا۔ ٭٭٭ جاوید احمد غامدی، ’’یومِ اقبال پر خطاب‘‘، اشرا ق، لاہور،نومبر ۲۰۰۷ئ، ص۲-۵۔ اقبال نے قومیت کا ایک تصور پیش کیا تھا آج علامہ اقبال کے تصورِ قومیت کے حوالے سے نظریے اور عمل کا جو تصادم پیدا ہوگیا ہے وہ ہماری نئی نسل کے ذہن میں ایک لاینحل مسئلے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیابی کا خواب بھی دیکھا تھا۔ ہم نے اس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے جو لائحۂ عمل اختیار کیا ہے وہ درست ہے؟ اقبال نے شریعت کے موجودہ ڈھانچے کو دعوت کے لیے موزوں خیال نہیں کیا تھا مگر یہ المیہ ہے کہ کسی نے اسے لائق اعتنا نہیں سمجھا۔ ان مسائل کی نوعیت محض افراد کی غلطیوں کی نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ اب ملت کے گناہ بن گئے ہیں اور ان پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔ ٭٭٭ ناصر عباس نیر، ’’اقبال اور جدیدیت‘‘، قومی زبان، کراچی، نومبر ۲۰۰۷ئ، ص۱۳-۲۰۔ اقبال نے ماڈرن ازم سے راست ربط ضبط نہیں رکھا مگر ماڈرن ازم کے بعض تصورات اور اقبال کی شاعری کے بعض موضوعات میں تقابل و تماثل دلچسپی سے خالی نہیں۔ ماڈرن ازم کی تجربہ پسندی، روایت شکنی، تاریخی و جمالیاتی عدم تسلسل اقبال کے یہاں اپنے مغربی سیاق کے ساتھ موجود نہیں۔ انھوں نے نئی ہیئتوں کی تلاش کی بجائے روایتی ہیئتوں کو ہی اپنے لیے موزوں سمجھا ہے۔ تاہم اسلوبی سطح پر اقبال نے تجربہ پسندی اور روایت شکنی کا مظاہرہ ایک خاص مفہوم میں بہرحال کیا ہے۔ اقبال ماڈرنیٹی کے نکتہ چیں بھی تھے اور مداح بھی۔ اقبال دراصل اپنی اسلامی ثقافتی نہاد کو قائم و برقرار رکھتے ہوئے مغربی جدیدیت سے اخذ و استفادے کے قائل نظر آتے ہیں۔ ایک خاص مفہوم میں یہ ایک جدید اور ترقی پسندانہ نقطۂ نظر تھا۔ ٭٭٭ ڈاکٹر رفیق احمد، ’’اقبال کے تمدن دوست معاشی تخیلات‘‘، (قسط اول)، نظریۂ پاکستان، لاہور، جنوری ۲۰۰۸ئ، ص۳۷-۴۱۔ اگرچہ علامہ اقبال معروف معنوں میں ماہر معاشیات نہیں تھے لیکن ان کے فلسفیانہ اور عمرانی نظریات کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ اس کے اندر انسان کے معاشی مسئلے کو ایک مؤثر منطقی انداز میں اُجاگر کیا گیا ہے۔ ان کا لب لباب یہ ہے کہ معاشی فلاح و بہبود کا مقصد انسان کی ذات اور اس کے حوالے سے ان کی تہذیب و تمدن کی حفاظت اور پرورش ہے۔ اقبال کی جن نثری تحریروں میں معاشی معاملات پر رائے زنی کی گئی ہے۔ ان میں علم الاقتصاد کے علاوہ درج ذیل مضامین شامل ہیں: قومی زندگی،ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر، ۱۹۲۷ء اور ۱۹۳۰ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں کی گئی تقاریر، خطبۂ الٰہ آباد، خطبہ لاہور ۱۹۳۰ئ، خطبۂ لاہور ۱۹۳۲ء (آل انڈیا مسلم کانفرنس)، ضبط تولید پر تحریر (رسالہ الحکیم نومبر ۱۹۲۷ئ)، ۱۹۳۶ئ، ۱۹۳۷ء میں قائداعظم کو لکھے گئے خطوط… علاوہ ازیں ان کی شاعری اور نجی گفتگوئیں بھی اس ضمن میں معاون ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر مظہر حامد، ’’اقبال کے بعد شاعری میں ہیئت اور اسالیب کے نئے سانچے‘‘، الاقربا، اسلام آباد، جنوری تا مارچ۲۰۰۸ئ، ص۱۴۶-۱۵۵۔ اظہار کا وہ سانچہ جسے چند اجزائے ترکیبی کے ساتھ مخصوص کردیا جائے ہیئت کہلاتا ہے۔ ہیئت کے طور پر اپنی شناخت رکھنے والے اصناف ادب یہ ہیں: قصیدہ، غزل، واسوخت، رباعی، قطعہ، مرثیہ، مستزاد، مربع، مخمس، مثنوی، ترجیع بند، ترکیب بند، نظم معریٰ، آزاد نظم، مثمن سانیٹ وغیرہ۔اردو شاعری نے جو نیا طرز اختیار کیا اس نئے رجحان میں مغربی اثرات کی چھاپ نمایاں رہی۔ اقبال کی شاعری میں ہیئت کے تجربوں کو تلاش کریں تو کوئی نیا تجربہ نہیںملتا جسے ہم ان کی ذات سے منسوب کریں۔ تاہم انھوں نے ترکیب بند اور ترجیع بند کو اپنے فکری اظہار کے لیے نہ صرف منتخب کیا بلکہ انھیں اس انداز سے برتا کہ ان میں ایک نئی روشنی اور ایک نئی توانائی پیدا ہوگئی۔ اقبال نے اپنے عہد کی سب سے مقبول اور پامال صنف یعنی غزل کو صرف عشقیہ مضمون تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ ایک تنگ دائرے کو توسیع دے کر فکر و خیال کے لامحدود بحرنا پیداکنار کی عظمت عطا کردی۔ اقبال کی شاعری میں تخاطبی اسلوب کی نشاندہی ہوتی ہے۔ نظموںمیں حرف ندا یعنی خطاب کا وہ منفرد انداز ہے جو ہمیں اقبال سے پہلے نہیں ملتا۔ دوسری خاص بات جو نظموں میں پائی جاتی ہے وہ پیام رسانی ہے۔ اقبال نے اپنے حکیمانہ انداز اور فلسفے سے غور و فکر کا جو نظام مرتب کیا وہی ان کا اسلوبیاتی طرز کہلایا۔ اقبال کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ انھوں نے الفاظ کو تراکیب و تشبیہات کے ذریعے نئے معنی عطا کیے اور یہی عمل ان کا فکری اجتہاد ہے۔ اقبال نے اپنے ہم عصر شعرا کو اپنے افکار، موضوعات، ہیئت اور اسلوب سے اس قدر متاثر کیا کہ اس کی ہر جہت کی تقلید کی گئی۔ اقبال کے معاصرین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ اقبال کے فکر و فن کی دنیا بہت وسیع ہے۔ زبان و اسالیب کے لحاظ سے بیسویں صدی میں صرف اقبال ہی وہ واحد شاعر ہے جس نے اپنے بعد کے شعرا کو متاثر ہی نہیں کیا بلکہ نئی راہوں سے روشناس کرایا۔ ٭٭٭ نسیم عباس، ’’اقبالیات اور قرۃ العین حیدر‘‘، الاقربا، اسلام آباد، جنوری تا مارچ ۲۰۰۸، ص۱۵۶-۱۶۹۔ قرۃ العین حیدر اردو ادب میں علامہ اقبال کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور انھیں بیسویں صدی کا بہترین شاعر تصور کرتی ہیں۔ علامہ اقبال کی عظمت کا واضح اور ٹھوس ثبوت پیش کرتی ہیں کہ یو این او کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے عظیم اور قومی شاعر کی کتب کو اہمیت حاصل ہے۔ قرۃ العین حیدر اردو ادب کی ترقی اور ادیبوں کی اصلاح کے لیے اقبال ایوننگ قائم کرنے کی خواہاں تھیں تاکہ دور جدید کے ادیب علامہ اقبال کے افکار و نظریات سے آگاہ ہوسکیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں برطانیہ میں تگ و دو کی تاکہ لوگ اقبال کے نظریات کے فروغ کے لیے مزید کوشاں ہوں۔ قرۃ العین پاکستانیوں کے بارے میں اظہار تعجب کرتی ہیں کہ پاکستانی اپنے قومی شاعر کے متعلق اس قدر آگاہ نہیں جس قدر ہندوستانی آگاہ ہیں۔ قرۃ العین حیدر کے نزدیک اقبال کے افکار و نظریات سے فقط ادبا ہی مستفید نہیں ہورہے بلکہ بڑے بڑے روسا اور نواب کلام اقبال سے زندگی کے تلخ حقائق کا حل تلاش کرتے ہیں۔ قرۃ العین نے اپنی تصانیف میں افسانوں اور ناولوں کے موضوعات میں جابجا علامہ اقبال کے افکار و نظریات علامات و اصطلاحات اور اشعار سے خوب صورتی پیدا کی ہے۔ حکومتِ ہند نے انھیں ’’اقبال سمان‘‘ کا ایوارڈ بھی ۱۹۸۷ء میں عطا کیا۔ ٭٭٭ ڈاکٹر عاصی کرنالی، ’’اقبال اور نوجوان‘‘، الاقربا، اسلام آباد، جنوری تا مارچ ۲۰۰۸، ص۱۱۴-۱۲۵۔ علامہ اقبال اس رمز سے آشنا تھے کہ نوجوان ہی ملت اسلام کے وہ افراد ہیں جو اس کی قسمت کے تابناک ستارے اور اس کے مستقبل کے نگہبان ہیں، اس لیے ان کی ذہنی اور فکری تربیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس تربیت کے لیے صحیح خطوط مرتب ہونے چاہییں۔ اس تربیت کا سرچشمہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور اپنے دین و تہذیب کی روشن قدریں ہی ہوسکتی ہیں۔ اقبال کی شاعری اور نظام فکر کی یہ خوبی ہے کہ وہ کسی غلط بات پر صرف تنقید یا نکتہ چینی ہی نہیں کرتے بلکہ متبادل صورت تجویز کرتے ہیں ان کے نزدیک وہی تعلیم درست ہے جو نوجوانوں کو خدا اور رسول سے وابستہ رکھے، جو قرآن کی روشنی اُن کے قلب میں اُتارے۔ اصل میں اقبال نوجوانوں میں ذوق عمل اور جوش عمل کا جوہر دیکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک عمل زندگی ہے اور بے عملی موت ہے۔ جاوید کے پردے میں اقبال تمام نسل نو کے ہر فرد کو حسن، خیر اور صداقت کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ بڑی درد مندی کے ساتھ خدائے کارساز کی بارگاہ میں نوجوانوں کی اصلاح کے لیے دعاگو ہیں۔ ٭٭٭ محمد اسماعیل قریشی، ’’علامہ اقبال بہ حیثیت مفسر قرآن‘‘، الاقربا، اسلام آباد، جنوری تا مارچ۲۰۰۸، ص ۱۰۷- ۱۱۳۔ علامہ اقبال کی ہمہ گیر شخصیت ان کی شاعری، ان کے فلسفے، آرٹ، تہذیبی اور تمدنی ارتقا اور بے خودی کے اسرار و رموز، زندگی کے مسائل اور حقائق کے بارے میں ان کے افکار عالیہ پر گراں قدر تصانیف موجود ہیں جن کا ماخذ ان کی شاعری، ان کے خطبات اور ان کے سفر اور حضر کی مجالس کی نکتہ رس گفتگو ہے۔ علامہ کی زندگی کا ایک پہلو جس کا تعلق قرآن حکیم سے ہے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ساز سخن یا شاعری سے وہ مسلمانوں کے ہجوم آوارہ کو قرآن کی پکار پر پوری قوت کے ساتھ متحد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دل میں قرآن اپنے جمال وجلال کے ساتھ اتر گیا ہو۔ قرآن سے اسی ربط و تعلق کی وجہ سے ان پر حقیقت آشکار ہوئی کہ قرآن انسانی زندگی کو اس کائنات میں اور اس سے بھی آگے کی دنیا میں کن بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ قرآن کے حقائق اور معارف کی روشنی میں علامہ نے کلام الٰہی کی تعبیر و تفسیر پیش کی ہے۔ ٭٭٭ پروفیسر اکبر حیدری کشمیری، ’’اقبال کا ورودِ کشمیر‘‘، حکیم الامت، بڈگام، اپریل۲۰۰۸، ص۴-۷۔ علامہ اقبال جون ۱۹۲۱ء میں پہلی اور آخری مرتبہ کشمیر تشریف لائے اور یہاں دو ہفتے قیام فرمایا۔ انھوں نے کشمیریوں کی پریشان کن حالت دیکھی۔ اقبال نے ساقی نامہ کے عنوان سے نظم نشاط باغ سری نگر میں لکھی اور اس کے ذریعہ کشمیریوں میں نئے سرے سے خوداعتمادی کی روح ڈالی۔ علامہ ۱۸۹۵ سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کررہے تھے اور ان کے ہر دکھ درد میں شریک رہتے تھے لیکن وہ کشمیر کے روشن اور درخشندہ مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ ایسا زرخیز ملک، ایسے روشن دماغ اور ذہین و ذکی لوگ اور ایسی صناع و ہشیار قوم ہمیشہ کے لیے کبھی غلام نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ بعد کے واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ ہندوستانی ریاستوں کی چھ کروڑ آبادی میں سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں ہی نے جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی دیکھا دیکھی باقی ریاستوں کی رعایا نے بھی قدیم نظام حکومت بدلوانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ’’کلام اقبال میں گلِ لالہ کے رنگ‘‘، اخبار اُردو، اسلام آباد، اپریل۲۰۰۸، ص۲-۶۔ شعریات اقبال میں لالہ کی علامت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اندازہ ہے کہ ان کے ہاں تقریباً دو سو مقامات پر لالہ کا ذکر آیا ہے جو ان کی اس پھول سے وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اقبال نے لالہ کے گوناگوں ابعاد کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی معنی خیز فضائیں تشکیل دی ہیں۔ یہ علامت ایک ارتقائی کیفیت بھی رکھتی ہے اور علامہ کے مختلف ادوارِ شعری میں اس کے نئے نئے رنگ نظرآتے ہیں۔ اقبال کی شعری علامتوں میں لالہ غالباً ایک ایسی واحد علامت ہے جو معنوی تصورات کی بے شمار سطحوں کا اظہار کرتی ہے۔ لالہ جذبہ عشق کی نکھری ہوئی صورت کے طور پر شوق شہادت کا عکاس بھی ہے اور محض حسن و رعنائی کی علامت بھی۔ خاص طور پر جب اقبال اسے تہذیب حجازی کی علامت کے طور پر متعارف کراتے ہیں تو لطف دوگونہ ہوجاتا ہے۔ اقبال لالے کی آتش قبائی، خودروئی، دل سوزی، سرخوشی و رعنائی اور چاک پیرہنی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رمز بلیغ و دلنشین کو تلقین عمل کے لیے بھی بڑی خوبی سے برتتے ہیں۔ اور وہ دقیق سے دقیق معانی اس پھول کی وساطت سے ادا کرتے ہیں۔ ٭٭٭ حسین البنا، ’’اقبال اور جمہوریت‘‘، اخبار اُردو ، اسلام آباد، اپریل۲۰۰۸، ص۷-۹۔ اقبال یورپی اور امریکی جمہوریت سے نفرت کرتے تھے کیوں کہ ان کی جمہوریت سرمایہ داری کے اثرات سے آزاد نہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جمہوریت اپنی ایک خاص شکل میں موجود تھی۔ اس میں شوریٰ کا تصور بنیادی تھا اور انتخاب گویا قبائل کے نمایاں افراد کے ذریعے سے تھا۔ اس میں تنقید کی بھی اجازت تھی مگر اموی دور میں اس کی جگہ شہنشاہیت نے لے لی۔ اقبال اسلامی جمہوریت کو پسند کرتے تھے کیوں کہ اسے سماج میں زیادہ آزادی ملتی ہے اور اس جمہوریت میں تنقید کی بھی اجازت ہے۔ اقبال اشتراکیت کو پوری طرح پسند نہیں کرتے تھے کیوں کہ جمہوریت میں سماج کا ایک طبقہ ظالم اور طاقتور بن جاتا ہے جب کہ اشتراکیت میں سماج کا ایک طبقہ کمزور سے کمزور تر بن جاتا ہے۔ عوام دوستی، جمہوریت پسندی، سماجی مساوات، اخوت انسانی پر ایمان رکھنے کے باوجود اقبال کی حقیقت بین نظریں مغربی جمہوریت کے تاریک باطن کو بھی دیکھ لیتی ہیں۔ اقبال نے جمہوریت کے تصور پر تنقید کو اپنے کلام میں واضح طور پر پیش کیا۔ ئ……ئ……ء تبصرۂ کتب Man and Destiny ، عبدالرشید صدیقی، ناشر: اسلامک فائونڈیشن، مارک فیلڈ کانفرنس سنٹر، رَیٹبی لین، مارک فیلڈ، لیسٹر شائر LE69-9SY ، برطانیہ۔ صفحات۱۲۳، قیمت درج نہیں۔ ڈاکٹر نکلسن کا ترجمہ اسرار خودی(۱۹۲۰ئ) انگریزی دنیا میں اقبال کے تعارف کا سب سے پہلا حوالہ ثابت ہوا۔ اقبال کی زندگی میں اقبالیات سے متعلق انگریزی میں متفرق مضامین کے علاوہ گنی چنی کتابیں ہی شائع ہوئیں، جن میں کلامِ اقبال کے بعض انگریزی تراجم بھی شامل ہیں، مثلاً نواب ذوالفقار علی خاں کی کتاب A Voice from the East (۱۹۲۲ئ)، شیخ اکبر علی کیIqbal: His Poetry and Message(۱۹۳۲ئ)، خواجہ غلام السیدین کی Iqbal's Educational Philosophy (۱۹۳۸ئ)۔ اگلے دس سالوں میں اقبال پر عبداللہ انور بیگ، بشیر احمد ڈار اور ڈاکٹر سنہا کی کتابیں منظرعام پر آئیں اور اقبال کے منتخب اُردو کلام کا انگریزی ترجمہ Poems of Iqbal وکٹر کیرنن نے ۱۹۴۷ء میں بمبئی سے شائع کیا، چند سال بعد اس کی دوسری اشاعت جان مرے، لندن سے عمل میں آئی۔ انگریزی میں جو کتابیں برعظیم میں چھپتی تھیں، اُن کی بہت کم تعداد انگلستان پہنچتی ہوگی۔ اس صورتِ حال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ۱۹۲۰ء سے قیامِ پاکستان تک کے عرصے میں، انگریزی خواںطبقے کے لیے نکلسن کے ترجمہ اسرار خودی اور کیرنن کے منتخب کلام کے ترجمے کے سوا اور کوئی کتاب میسر نہ تھی، خاص طور پر انگلستان میں مقیم قارئین کے لیے۔ البتہ اس عرصے میں اخبارات و رسائل میں اقبال پر گنتی کے چند مضامین چھپے ہوں گے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں تاریخ، سیاسیات، اسلامی فکر اور برعظیم کے مطالعات کے ضمن میں انگریزی اور امریکی اساتذۂ جامعات کی تحریروں اور بعض دائرہ معارف (انسائی کلو پیڈیا) قسم کی کتابوں میں اقبال کا ذکر ضرور ملتا ہے بایں ہمہ انگلستان میں مقیم مسلمانوں کی نوجوان نسل، اقبال برعظیم کے دیگر مسلمان زعما اور مشاہیر سے بے بہرہ ہی رہی اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیوں کہ برطانوی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ نوجوان، جن اداروں میں زیرتعلیم رہے، وہاں مسلم مشاہیر کو متعارف کرانے کا کوئی اہتمام نہیں تھا۔ زیر نظر کتاب اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے مرتب کی گئی ہے۔ مصنف دیباچے میں اس کتاب کی تصنیف کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ اقبال پر نامور مصنفین نے سیکڑوں کتابیں لکھ ڈالی ہیں، اس کے باوجود عام قارئین خصوصاً مغرب کی نوجوان نسل کے لیے اس کتاب کی ضرورت تھی۔ کیونکہ یورپ میں پلے بڑھے مسلمان نوجوان فکراسلامی میں اقبال کے کارنامے سے بے خبر ہیں۔ میں نے انھی لوگوں کے لیے اقبال کے فلسفۂ خودی اور مردِ کامل کے تصور کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے کتاب کے تفصیلی فاضلانہ تعارف میں اقبال کی شاعری، فکر، خطباتِ مدراس، خطبۂ الٰہ آباد اور اقبال کے تصورِ اسلام کی بڑی عمدگی سے وضاحت کی ہے۔ انھوں نے فکراقبال پر بحث کرتے ہوئے اپنی بات جس نکتے پر ختم کی ہے ،اس کی وضاحت علامہ اقبال ایک مصرعے میں اس طرح کر چکے ہیں۔ ع جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا دیباچہ نگار نے مصنف کی زیرنظر کاوش کو سراہتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ یہ خوب صورت کتاب نئی مسلم نسل کو اقبال کے پیغام کی بہتر تفہیم میں مدد دے گی اور اس سے مسلم نشاتِ ثانیہ کے لیے دورِ حاضر کی مجموعی کاوشوں کو بھی آسانی سے سمجھا جاسکے گا۔ کتاب کا ضمنی عنوان ہے: Some Reflections on Iqbal's Concepts of Khudi and Perfect Man چنانچہ بنیادی طور پر یہ کتاب اقبال کے صرف دو تصورات (فلسفۂ خودی اور تصورِ مردِ کامل) کی توضیح و تشریح پر مشتمل ہے۔ مصنف نے فلسفۂ خودی کی تشریح سے پہلے، اقبال کے مجموعی فکروفلسفے کی وضاحت کی ہے، جس میں اُمتِ مسلمہ کی حالتِ زار، فکرِ اقبال کی نشوونما، انسان، کائنات اور خدا کا تصور اور باہمی ربط، زمان و مکاں، فرد اور معاشرہ اور اقبال کے سیاسی فکر جیسے پہلوئوں پر کلام کرتے ہوئے اقبال کی شاعری اور نثر کی مدد سے اُن کا ربط اقبال کے فلسفۂ خودی اور تصورِ مردِ کامل سے قائم کیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اقبال کی فلسفیانہ فکر کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خودی اور مردِ کامل کے تصورات اقبال کی فلسفیانہ فکر کے دو کلیدی اجزا ہیں۔ خودی کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف نے کہا ہے کہ اقبال نے خودی کا لفظ قدرے تاَمّل کے بعد اختیار کیا ہے اور پھر کوشش یہ کی ہے کہ ’’خودی‘‘ کے منفی مفاہیم سے بچتے ہوئے اسے عرفانِ ذات (self-realization) کے تناظر میں پیش کیا جائے۔ اسی لیے اقبال کہتے ہیں: خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے بلاشبہ مصنف نے کلامِ اقبال کی مدد سے خودی کے مختلف پہلوئوں کی بخوبی وضاحت کی ہے۔ اُمتِ مسلمہ کے لیے فلسفۂ خودی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ خودی، کشمکش حیات میں انسانی آزادی اور بقائے دوام کے ضمن میں انسان کی معاون ہے اور اُسے منزلِ مقصود تک پہنچنے میں اُس کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہے۔ خودی کی توضیح کے بعد، مصنف کا منتخب کردہ دوسرا اہم مبحث تصورِ مردِ کامل ہے۔ اُن کے مطابق اقبال کا مردِ مومن اُن تمام انسانی اور اخلاقی صفات سے متصف ہے جن کی نشان دہی قرآن حکیم اور سنتِ نبوی میں کی گئی ہے۔ پھر وہ قرآن اور حدیث سے اقبال کی شاعری کی مطابقت کی نشان دہی کرتے چلے گئے ہیں۔ اس ضمن میں اقبال کے تصورِ شاہین کا تذکرہ بھی آیا ہے اور اقبال کے مردِ کامل اور نطشے کے سپرمین کا تقابل بھی کیا گیا ہے۔ عبدالرشید صدیقی خودی اور مردِ کامل کے تصورات کو اقبال کی شاعری کا نچوڑ قرار دیتے ہوئے اِن کا رابطہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کی اس تحریک سے قائم کرتے ہیں جس کی ایک منزل قیامِ پاکستان ہے۔ اُن کے نزدیک اقبال کے ہاں فکری ارتقا اور غیرمعمولی سیاسی بصیرت کا منطقی نتیجہ تصورِ پاکستان کی شکل میں سامنے آیا، جس نے آگے چل کر برعظیم میں پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ، آزاد ریاست کی شکل اختیار کی۔ تاہم مصنف کہتے ہیں کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات پر مبنی جس جمہوری اور ترقی پسند معاشرے کا خواب دیکھا تھا، اُس کی تعبیر ہنوز باقی ہے۔ (ص۲۱) کتاب کے آخری حصے میں بال جبریل کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ اور اقبال پر ایک سوانحی شذرہ شامل ہے۔ مصنف نے فکر اقبال کی توضیح کے لیے سادہ اور سہل اُسلوب اختیار کیا ہے جو بجا طور پر نوجوانو ںکے لیے تفہیم اقبال میں معاون ثابت ہوگا۔ قارئین کو اقبال کی شاعری سے مانوس کرنے اور اس طرح انھیں مفکر شاعر سے قریب تر لانے کے لیے جابجا اشعارِ اقبال کی مثالیں دی ہیں۔ مولف نے بڑی کاوش سے اردو؍ فارسی شعروں کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔ اپنے موضوع پرہر اچھی اور معیاری کتاب کی طرح، اس کتاب میں بھی کتابیات، توضیح الفاظ اور اشاریوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ___ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ٭٭٭ Problem of Eevil in Muslim Philosophy :A Case Study of Iqbal ڈاکٹر محمد معروف شاہ۔ ناشر: انڈین پبلشرز، ڈسٹری بیوٹرز، ۱۵۶،ڈی کملانگر، دہلی، بھارت ۔ ۲۰۰۷ئ، صفحات۱۹۴، قیمت ۔؍۳۹۵روپے۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب Introduction میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ نام نہاد دورِ جدید کے مفکرین نے Evil (بدی)سے کیا مراد لی ہے؟ مصنف کے نزدیک برائی یا بدی اور مصائب و آلام سب ایک ہی لفظEvilکے دائرے میں آتے ہیں اور جدید دور کے مفکرین کا یہ نقطۂ نظر ہے کہ دنیا کے منظرنامے میں انسان کے تجربے میں آنے والے Evils اس حقیقت کو واضح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مقدمے اور نتیجے میں جو عقلی ربط پایا جاتا ہے، اس کا کوئی نام ہونا چاہیے جسے مصنف نے بیان نہیں کیا۔ پہلے باب میں مختلف اقوال نقل کرکے ان کی صحت کا جائزہ لیے بغیر مذہب اور مذہبی حقائق کو گونگا بہرا ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذاہب کے تصورات میں مقارنت بلکہ عینیت کا دعویٰ کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے مذہب کی منطق پر شعوری محنت کرنے سے اِعراض برتا ہے۔ دوسرے باب A Brief Overview of Muslim Philosophy to Problem of Evil میں مسلم فکر میں Evil کی مشکل کا مختصر تاریخی جائزہ لیا گیا ہے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کے تجزیے سے بالکل واضح نظر آتاہے کہ مصنف نے بنیادی ماخذوں تک رسائی حاصل نہیں کی۔ دوسری بات جسے مصنف نے بار بار دہرایا ہے، جدیدمغرب کی وہ سوچ ہے جو خدا اور خدائی نظام سے باغی ہے مگر وہ یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ انسان اپنی محدود عقل پر مبنی لا محدود سوالات فقط اسی وقت اٹھاتا ہے جب اس کا اپنے محدود وسائلِ علم سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ نظری تشکیل سے پیدا ہونے والی مشکل فقط اسی وقت جائز اور درست ہو سکتی ہے جب یہ مفروضہ قبول کر لیاجائے کہ نظری تشکیل اپنے متوازی حقیقت بالکل ویسے ہی رکھتی ہو جیسی کہ نظری تشکیل میں متشکل ہوتی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ شعور مذہبی میں جس ذات کو خدا تعالیٰ کہا گیا ہے اس کے علم ، قدرت، حکمت، ارادہ ، تخلیق وغیرہ پر ایمان رکھا جاتا ہے اور دنیا میں رونماہونے والے واقعات کی توجیہ کی دنیوی وجوہات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹر معروف شاہ کے نزدیک Evil کی جتنی انواع ہیں، ان کے وقوع پذیر ہونے کی مادی وجوہات سے انسانی علم و شعور مطمئن ہو جاتا ہے تو ماورائی حقائق کا انکار یا اقرار کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ مصنف نے دو اہم ترین اصولوں کو بری طرح پامال کرکے جن اوہام کو فکرجدید سے تعبیر کیا ہے وہ نہ تو نظری منطق پر پورے اترتے ہیں اور نہ مذہبی منطق سے جواز پاتے ہیں۔ اشاعرہ اورمعتزلہ کے موقف پر مصنف کی تنقید سطحی اور سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ اشاعرہ نے ارادۂ ایزدی کو پہلے مرحلے پر ہی انسانی ارادے سے متمیز کیا ہے۔ اس لیے ارادۂ ایزدی انسانی ارادے کی تحدیدات سے ماورا ہے اور یہی مذہبی شعور کی بنیادی ضرور ت ہے۔ شوان کے نقطۂ نظر کو بہت اہم بنا کر پیش کیا گیا ہے مگر مصنف نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ شعور مذہبی کو ان نظری تناقضات سے کوئی سروکار نہیں ہے جن پر شعورِ نظری کی پوری منطق ایستادہ ہے۔ شعور مذہبی کا اعلیٰ ترین نمونہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے ہاں کل اورجز کی یہ تقسیم کبھی نہیں کی گئی جسے شوان نے مذہبی حقائق کی قابل اعتماد توجیہ سمجھ کر پیش کیا ہے حالانکہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہا تھا کہ کُل اورجز میں باہمی ربط منقطع ہوئے بغیر کُل کُل نہیں بن سکتا اورجز جز نہیں بن سکتا، بعینہٖ مصنف کی بھی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ شوان نے جس التباس میں پڑکر اس مذہبی حقیقت کو نظری منطق کے جن ہیاکل میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے وہ قدیم متکلمین کی منطق سے کہیں زیادہ عقل و فکر کی بنیادی ضرورتوں سے بعید ہیں۔ باب کے آخر میں اقبال اورجمال خواجہ کے نقطۂ نظر کا جائزہ پیش کیاگیا ہے۔ تیسرا باب Iqbal's Approach to the Problem of Evil اقبال کے فکر وفلسفے میں Evil کی مشکل سے متعلق ہے۔ مصنف نے جو عمومی تاثر قائم کیا ہے وہ قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی اس دعوے کو قبول کرلے کہ اقبال کا فکر مغربی مفکر ین کی عطا ہے اور یہ کہ اقبال بری طرح ناکام فلسفی ہے جو اپنے فلسفے کے بنیادی ماخذوں سے بے وفائی کرکے ایک ناقص اورنا تمام عمارت کو تعمیر کرنے کے درپے رہا ہے۔ اس باب کے آغاز میں مصنف نے جو فرمایا ہے، اس سے ان کے فہم و ادراک کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ فرماتے ہیں : All religion is an attempt to respond to this problem. (p.52) کیا مذہب کی فقط یہی غرض و غایت ہے؟ کیا واقعتاادب اور اس سے وابستہ جمالیات فقط قبح وشر کی وجہ سے کوئی معنی رکھتے ہیں؟ کیا اقبال کے فکر وفلسفے کے لیے جذبۂ محرک فقط بدی کاوجود ہے؟ جیسا کہ مصنف نے پورے طمطراق سے لکھا ہے: His whole philosophy of ego and love could be interpreted as a response to the problem of evil in a broader sense. His hope in the ultimate victory of good over evil is essentially a religious solution to this problem which believed on faith but could not logically and rationally prove. (p.52) مندرجہ بالاعبارت کے دوسرے جملے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس باب میں مزید کیا بیان ہوا ہے۔ سب سے پہلے تو خود Problem of evil کی Logicاور Rationality کو ثابت کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی Logic اور Rationality سے یہ مسئلہ واقعتا یہ صورت اختیار کر سکتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی مذہب، کلام، فلسفہ وادب قائم نہیں رہ سکتے تو پھر اس منطق اور عقلیت کو ہی تمام انسانی اقدار پر فوقیت حاصل رہے گی۔ہمارا خیال ہے کہ مصنف یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ تمام انسانی اقدار و فضائل کو کسی ایسی منطق کی نذر کر دیا جائے جس میں انسان خو د بدی کا نمونہ بن جائے۔اور اس کا پورا ماحول بدکاری اور معصیت انگیزی سے لبریز ہو جائے۔ فلسفے کی ایک اصطلاح ہے جسے Misuse of Categories کہا جاتا ہے یعنی مقولات کا ناروا استعمال۔ انسانی تجربے کی دنیا لا محدود مظاہروں سے اٹی پڑی ہے۔ جمادات اور نباتات، حیوانات اور انسان گوناگوں مظاہر ہیں۔ ہم انسان اپنے شعور کے تحقق کے لیے ہر ہر مظہر کو الگ الگ بیان کرتے ہیں اوراس لیے الگ الگ بیان کرتے ہیں تاکہ وہ الگ الگ رہیں۔ فقط ایک لفظ سے تمام مظاہر کی توجیہ کو اضطراری توجیہ یا توجیہ بالجبر تو کہا جاسکتا ہے مگر وہ درست کبھی نہیں ہوگی ۔ اور ایک ہی مظہر کو سب کچھ کَہ دینانہ کوئی علمی بات ہے اور نہ فکری موقف ہے۔ مصنف نے ’’شر‘‘ کے وجود کو اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ انسان اپنی وجودی سطح پر نہ خیر کا تصور کر سکتا ہے اور نہ خیر کا جواز پیش کر سکتا ہے۔ اسی باب میں اقبال کا تقابل شوان سے کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں فکراقبال کے ماخذ بیان کرتے ہوئے یہ خیال نہیں رکھا گیا کہ فکر کے باب میں ظاہری مماثلتیں اتنی اہم نہیں ہوتیں کہ غایتِ فکر بے معنی ہو کررہ جائے۔ مصنف نے متعدد لوگوں کی آرا کو جمع کر دیا ہے اور مذہب کے بنیادی وجدان کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے غیرضروری خیالات حتمی صداقتوں کے طورپر پیش کیے ہیں کہ قاری کے لیے یہ سمجھنا دشوار ہو جاتا ہے کہ مذہب، انسانی وجدان میں کوئی صداقت ہے یا پھر محض فریب فکر و فہم ہے۔ مصنف نے الزام لگایا ہے کہ فکر اقبال اشعری و معتزلی اورجدید افکار کا ملغوبہ ہے۔ اگرچہ وہ اس کی قابل فہم تشکیل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں (ص۷۷) پھر شوان کے خیالات کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اقبال کا فکر بھی شوان کی تنقید کی زد میں ہے (ص۷۸)۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مصنف نے نہ صرف اقبال کی فکر کوسمجھنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ شوان کے محرکاتِ فکرسے بھی پوری طرح باخبر ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ علاوہ ازیں شوان کے نقطۂ نظر میں کیا یہ خوبی موجود ہے کہ ہماری مسلم روایت فکر اسے اپنے اندر جذب کرلے۔ جب کہ مصنف نے بار بار اس بات کو دہرایا ہے کہ اقبال کی فکر مسلم روایتِ فکر کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ بایں ہمہ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ مصنف نے اقبال کے نقطۂ نظر کاجائزہ لینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ چوتھا باب Pantheistic Response to Evil and Iqbal کے عنوان سے ہے۔ اس میں بھی مصنف نے اپنے طرز تحریر کو برقرار رکھتے ہوئے اقبال کی فکر کا جائزہ ایک اور انداز سے لیا ہے۔ پانچواں باب Concluding Remarks کے عنوان سے خاتمۂ کتاب ہے۔ اس باب میں اقبال کے تقریباًپورے فکر کا ایک عمومی سا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہاں بھی مصنف نے شوان کو مذہبی فکر میں سند کے طورپر پیش کیا ہے۔ باب کے آغاز سے اندازہ ہوتا ہے جیسے مصنف نے اقبال کے ہاںشر کے مسئلے تک اپنے مطالعے کو محدود رکھا ہے مگر آگے چل کر اس کے علاوہ دیگر مسائل سے بھی تعرض کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ ماحصل کا باب ہے اس لیے محض ’’شر‘‘ سے ہی وابستہ نتائج فکر پر بات کی جاتی تو بہتر تھا۔ بہرحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ فقط اس باب کے پڑھ لینے سے مصنف کے نقطۂ نظر کی اجمالی صورت سامنے آسکے۔ مجموعی طورپر ایک قاری جو فکر و فلسفے سے دلچسپی رکھتا ہو، اس کے لیے کتاب کی ایک اہم خوبی اچھی انگریزی نثر کی ہے۔ علاوہ ازیں مصنف کے اس رجحان کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ ان کے پاس حوالے کے لیے بہت ریکارڈ موجود ہے۔ لیکن اگرکوئی چاہے کہ وہ یہ سمجھے کہ مصنف کا اپنا موقف کیا ہے تو اسے اس کڑوے سچ کے ساتھ مصنف کے موقف تک رسائی حاصل کرنا پڑتی ہے کہ ان کا اپنا موقف تنقید کے اصول پر پرکھا ہوا نہیں ہے اور وہ اقبال پر جس کڑی تنقید سے حملہ آور ہوتے ہیں، اس تنقید کی تلوار سے خود اپنے آپ کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ ہمارے پیش نظر اقبال کا دفاع کرنا نہیں ہے، بلکہ فقط کتاب کے مندرجات کی نسبت یہ بیان کرنا ہے کہ مصنف کس حد تک ان اصولوں کی پابندی کرتے ہیں جن سے وہ دوسروں کو پرکھتے ہیں۔ محمد خضر یاسین ٭٭٭ اقبال کا تیسرا خطبہ: تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ڈاکٹر محمد آصف اعوان۔ ناشر: مثال پبلشرز، فیصل آباد، رحیم سینٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار ،۲۰۰۶ئ، صفحات۲۴۷، قیمت ۔؍۲۰۰ روپے۔ علامہ کا تیسرا خطبہ ’’تصور خدا اور دعا کا مفہوم ‘‘ہے۔ اس خطبے کا توضیحی مطالعہ اس امر کا تقاضا کرتاہے کہ پہلے تصورِ خدا کو بیان کیا جائے اور ممکن ہو تو اس پر تنقید کر دی جائے تاکہ پورا تصور واضح ہو جائے۔ مصنف نے جو طریق اختیار کیا ہے وہ بڑی حد تک Academic ہے۔ انھوں نے پورے تصور سے تعرض کیے بغیر ایک ایک جملے کو دوبارہ عبارت کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں تحقیقی مطالعے کی صورت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اقبال نے جن علما کے حوالے دیے ہیں ان میں سے چند کی اصل عبارتوں کو نقل کر دیاگیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ کتاب فکر اقبال کی توضیح پیش کرنے کے باب میں کوئی خاطرخواہ اضافے کا باعث نہیں ہے۔ کیونکہ مصنف نے اقبال کی عبارتوں کی وضاحت کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن فکر اقبال کے کلی نظام میں دخیل ہونے کی سعی نہیں کی۔ علاوہ ازیں بعض مقامات پر اقبال کی عبارت کا مفہوم سمجھنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔مثلاًاقبال نے کبھی نہ یہ کہا ہے اور نہ کَہ سکتے ہیں کہ وجود دراصل فکر کی تجسیمی صورت ہے یا دنیا کے وجود کا ارتقا فکر کے ارتقا کے ساتھ وابستہ ہے(ص۱۹)۔ اسی طرح اس خطبے میں جتنے مسائل بیان کیے گئے ہیں ان سے تصور خدا قائم کرنے میں فکری سطح پر کیا معاونت حاصل ہوتی ہے مصنف کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے وہ بس سامنے کی عبارت لے کر اس کا اپنی حد تک مفہوم تحریر کر دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تحقیق اور تو ضیح میں ایسا طریق کارآمد نہیں ہوسکتا۔ کتاب پر متعدد اہل علم نے توصیفی آرا کا اظہار کیا ہے۔ معلوم نہیں یہ آرا لکھتے وقت مذکورہ بالا پہلو اُن کی نظروں سے کیوں اوجھل ہو گئے۔ __محمد خضر یاسین ٭٭٭ چوں مرگ آید، ڈاکٹر تقی عابدی۔ ناشر اقبال اکادمی پاکستان،چھٹی منزل،ایوان اقبال، ایجرٹن روڈ، لاہور، ۲۰۰۷ئ، صفحات۲۰۶، قیمت۔؍۱۵۰روپے۔ اقبال کی شخصیت اور شاعری کے یوں تو بہت سے پہلو ہیں اور پچھلے تقریباً سو برسوں سے ان پہلوئوں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے گوشے ابھی پوشیدہ ہیں۔ ناقدین اور اقبال شناسوں نے ان کی شاعری، خطوط، شخصیت، مزاج، خطبات اور حسِ مزاح سے لے کر ان کی زندگی کے مثبت و منفی پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے، حتیٰ کہ معاصر شعرا نے اقبال کی شاعری پر اعتراضات بھی اٹھائے ہیں اور ناقدین نے ان اعتراضات کے مکمل وضاحت کے ساتھ جوابات بھی دیے ہیں لیکن اقبال کی زندگی میں آنے والی بیماریوں اور مرض الموت میں مبتلا ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملنے کی حقیقی داستان بہت کم لوگوں نے رقم کی ہے۔ اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ عرصہ قبل اقبال کی بیماریوں اور مرض الموت کی تشخیص کے حوالے سے منظرِعام پر آنے والی ڈاکٹر سید تقی عابدی کی کتاب چوں مرگ آید اس لحاظ سے ایک منفرد کاوش ہے کہ اس سے پہلے اقبال کی بیماریوں اور ان کی تشخیص اور علاج کے بارے میں کوئی مستند کتاب موجود نہیں تھی۔ تقریباً دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں شاعر کی طویل علالت اور مرض الموت میں مبتلا رہنے کی لمحہ بہ لمحہ روداد شامل ہے۔ یہ کتاب اقبال کے بیمار ہونے سے لے کر موت تک کے واقعات کی مکمل سرگذشت ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے۔ اگرچہ اقبال شناسوں اور ان کے چاہنے والوں کے لیے کتاب کا مطالعہ بہت سے حقائق جان لینے کے ساتھ ساتھ انتہائی اذیت اور دکھ کا باعث بھی ہے کہ شاعرِ مشرق اپنی زندگی میں کیسی کیسی موذی بیماریوں سے نبردآزما رہے اور آخرکار موت نے انھیں اپنے دامن میں سمیٹ لیا، لیکن تمام عمر حتیٰ کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی اقبال نے اپنے آپ کو مایوس نہیں ہونے دیا اور ایک عزم اور اُمید سے بیماریوں کے خلاف لڑتے رہے اور ان بیماریوں کی شدت کو زائل کرنے کے لیے استقامت سے ڈٹے رہے۔ کتاب میں اقبال کی بیماریوں کے نام ، میڈیکل معائنہ، ٹیسٹ اور طبی آلات کا ذکر ہے۔ اقبال کے تیس معالجین کی فہرست بھی شامل ہے۔ اقبال کے مرض کی تشخیص اور علاج میں ہونے والی کوتاہیوں پرمختصر مگر جامع طور پر لکھا گیا ہے۔ اس وقت کے اعتبار سے اقبال کا بہترین علاج کیا گیا لیکن تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہورہی ہے کہ اقبال کے معالجین نے سختی سے انھیں نہ تو کسی پرہیز پر مجبور کیا اور نہ دوائوں، کشتوں اور برقی کورس کی وجہ سے صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کو کنٹرول کرسکے۔ اس سے اگلا باب ’’خوراک اور پرہیز‘‘ ہے جہاں اقبال کے خطوط اور مستند حوالوں سے یہ بات منظرِ عام پر آئی ہے کہ شاعرِ مشرق کھانے میں نفاست پسند اور کم خور ہونے کے باوجود تیز نمک مرچ، ترش، چٹ پٹی، اور مرغن غذائوں کے شوقین بھی تھے۔ اپنی پسندیدہ چیزیں کھانے کی وجہ سے وہ بعض اوقات خوش خوراکی کا مظاہرہ کرتے اور ہر طرح کی پرہیز چھوڑ دیتے تھے جس کی وجہ سے بیماریوں سے افاقہ ہونے کی بجائے اُن میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس کتاب میں اقبال کے زیرِ استعمال رہنے والی دوائوں کے نام بھی شامل ہیں اور دوائوں کے منظرِعام پر آنے کے بعد ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوگیا ہے جو مختلف موقعوں پر لوگوں نے پھیلا رکھی تھیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کتاب مدلل انداز سے اقبال کی ذات پر اُٹھنے والے منفی سوالات کا محاکمہ بھی کرتی ہے۔ کتاب کا وہ حصہ بہت اہم ہے جس میں مصنف نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ کیا اقبال نے بیس سال کم عمر پائی تھی؟ اس بات کی تصدیق کے طور پر انھوں نے اقبال کی موت کی وجوہات اور اسباب بھی بیان کیے ہیں اور اقبال کے خاندان کے افراد کی عمریں بھی تحریر فرمائی ہیں۔ چند حادثاتی اموات سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو اقبال اپنے قریبی رشتہ داروں میں سب سے کم عمر تھے اور انھوں نے اپنے دوسرے عزیزوں کے مقابلے میں پندرہ سے بیس سال کم عمرپائی۔ یوں تو کتاب کا ایک ایک صفحہ اقبال شناسوں کو پڑھنا چاہیے لیکن ان موضوعات میں سے استقامت اور اُمید، گزارشِ امراض- اقبال کے قلم سے اور علامہ اقبال کی آخری رات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ استقامت اور امید کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اقبال کے عقیدے میں نااُمیدی کفر تھی اور بقول مصنف استقامت و توکل ان کا ایمان تھا۔ ان کی زندگی میں مشکل سے مشکل مواقع بھی آئے جن میں انھوں نے انھی طریقوں سے فتح حاصل کی۔ اسی طرح گزارشِ امراض میں اقبال کے ۲۵۱خطوط کا ذکر ہے جن میں انھوں نے اپنی بیماریوں کا ذکر کیا۔ بقول مصنف وہ اُردو ادب کے واحد شاعر ہیں جنھوں نے بذریعہ خطوط اپنی بیماریوں کی تفصیل بیان کی ہے۔ ___خالد اقبال یاسر ٭٭٭ مقائسہ ارمغانِ حجاز،فارسی، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین۔ ناشر: بزمِ اقبال،۲کلب روڈ،،لاہور، صفحات ۱۹۲، قیمت ۔؍۱۵۰روپے۔ ارمغانِِ حجاز علامہ کا آخری شعری مجموعہ ہے، اس کے دو حصے ہیں اُردو اور فارسی۔ زیر نظر کتاب فارسی حصے کی تحقیق سے متعلق ہے۔ اس میں اقبال کی قلمی بیاض اور مطبوعہ نسخوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اور متنِ اقبال کی ترمیمات اور متروکات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے ایم اے فارسی کا مقالہ ہے۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں انھوں نے رباعی اور دوبیتی میں فرق کو موضوع بنایا ہے۔ اس میں رباعی اور دوبیتی کے اوزان و بحور پر سیرحاصل بحث کی ہے اور مختلف حوالوں سے رباعی کے لییلاحول ولا قوۃ الا باللہ (مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع) کی بحر مخصوص قرار دی ہے۔ یہ بحر ہزج کہلاتی ہے اور اس کے چوبیس مختلف اوزان مخصوص ہیں۔ ان کے نزدیک رباعی کے لیے ہر مصرع چہار رکنی ہونا چاہیے اور دوبیتی کے لیے سہ رکنی تاہم دوبیتی بھی بحر ہزج میں لکھی جاتی ہے۔ معروف علماے ادب اور بابا طاہر عریاں کی شاعری سے ۸۸ حوالوں اور حواشی سے انھوں نے رباعی اور دوبیتی پر سیرحاصل گفتگو کی ہے۔ دوسرے باب ’’اقبال کی دوبیتی__ ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں وہ کہتی ہیں: ’’شعرِ اقبال میں رباعیات کے تحت مرقوم دو بیتیاں رباعی کے مروجہ نظامِ اوزان اور شرائط وقیود سے مکمل طور پر انحراف کرکے خود اپنا ایک نظام تشکیل دیتی ہیں۔‘‘ اوزان و بحور کی بنا پر رباعی اور دوبیتی کے سبب مصنفہ کے خیال میں اقبال کے ہاں رباعیات کی تعداد بہت کم ہے اور رباعیات کے زیر عنوان لکھی جانے والی اُردو اور فارسی دو بیتیوں کی تعداد ۶۱۱ بنتی ہے۔ یوں پہلے دو ابواب کا تعلق ایک ہی موضوع سے ہے جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اقبال نے بابا طاہر کے سوزوگداز، نغمگی اور روانی سے متاثر ہوکر ان کے تتبع میں جو کچھ لکھا، وہ رباعیات نہیں بلکہ دو بیتیاں ہیں۔ صوفی غلام محی الدین کے نام ۲۴؍مئی ۱۹۳۲ء کے خط میں اقبال نے کہا ہے کہ یہ رباعی کے مخصوص اوزان میں نہیں ہیں۔ البتہ انھیں رباعی کہنے میں مضائقہ نہیں۔ اقبال نے متعدد جگہوں پر انھیں رباعیات ہی کہا ہے۔ تیسرے باب میں ارمغانِ حجاز کی بیاض اور مطبوعہ نسخوں کا تقابلی جائزہ ہے۔ اس میں ایسی دو بیتیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو متروک و مسترد ہونے کے باوجود ارمغانِ حجاز میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایسی دو بیتیاں جن کا متن واضح طور پر بیاض سے مختلف ہے یا بعض بیاض میں شامل نہیں وہ بھی موجود ہیں۔ چوتھا باب ترمیماتِ ارمغانِ حجاز سے بحث کرتا ہے۔ اس باب میں مصنفہ نے اقبال کی دست نوشت ترمیمات کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ بیاض میں جن مصاریع یا اشعار میں اقبال نے ترمیم یا تبدیلی کی، انھیں زیرنظر باب میں درج کیا گیا ہے۔ پانچواں باب باقیاتِ ارمغانِ حجاز سے متعلق ہے۔ اس میں بیاض اور ۱۹۳۸ء کے مطبوعہ نسخے کا موازنہ کرتے ہوئے ان دو بیتیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو مطبوعہ نسخے میں موجود نہیں۔ کتاب کے آخر میں اقبال کی دست نوشت رباعیات کے نمونے دیے گئے ہیں۔ اقبال کی تفہیم اور فکری ارتقا کے ادراک کے لیے ان کی بیاضوں کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ارمغانِ حجازکے حوالے سے یہ مطالعہاور بھی ناگزیر ہوجاتا ہے کیوں کہدیگر شعری مجموعے تو اقبال کی زندگی میں خود انھی کے ہاتھوں مرتب ہو کر شائع ہو گئے تھے، مگر ارمغان حجاز کو ترتیب دینے کی مہلت انھیں نہیں ملی۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کی یہ تحقیقی کاوش بلاشبہ تحقیق متنِ اقبالیات کا ایک عمدہ نمونہ اور اقبالیات میں گراں قدر اضافہ ہے۔ اقبال کے فارسی متن پریہ اپنی نوعیت کا پہلا تحقیقی کام ہے۔ یہ کتاب اقبالیات کے طلبہ اور سکالروں کے لیے حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔ کتاب کی طباعت و پیش کش ناشر کے حسنِ ذوق کی عکاس ہے۔ ___قاسم محمود احمد ٭٭٭ اشاریۂ معارف اعظم گڑھ، محمد سہیل شفیق۔ ناشر:قرطاس، کراچی، ۲۰۰۶ئ، صفحات۶۴۴، قیمت۔؍۵۵۰ روپے، مجلد، مجلاتی سائز۔ معارفاپنے علمی و تحقیقی معیار کے اعتبار سے اردو کا ایک نمایاں مجلہ ہے۔ علامہ شبلی نعمانی (م:۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ئ)ندوۃ العلما لکھنؤ سے قطع تعلق کر کے جب اپنے آبائی شہر اعظم گڑھ آئے تو انھوں نے ایک علمی و تحقیقی ادارے اور ایک کتب خانے کے قیام اور ایک علمی مجلے کے اجرا کا خواب دیکھا تھا ، جو اُن کی زندگی میں تو شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا، تاہم۱۹۱۴ء کے اواخر میں ان کے تلامذہ و معتقدین نے دارالمصنفین کے نام سے علمی و تحقیقی ادارہ قائم کر لیا، جس میںتصنیف و تالیف اور ترجمے کے ساتھ ساتھ، ایک علمی ماہ نامے کے اجرا کا فیصلہ بھی کیا گیا، چناںچہ سید سلیمان ندوی (۱۲؍دسمبر ۱۸۸۴ ء - ۲۲؍نومبر ۱۹۵۳ئ)نے رمضان المبارک ۱۳۳۴ھ بمطابق جولائی ۱۹۱۶ء میں علامہ شبلی نعمانی کی خواہش کے مطابق معارف کا پہلا شمارہ مرتب کر کے اعظم گڑھ سے شائع کر دیا، جس کے مقاصد میں سے بقول مرتب: ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اسلام اور اسلامی علوم و فنون کی تاریخ مرتب کی جائے اور اسے جدید اسلوب و انداز میں پیش کیا جائے۔ پرچے کے بانی مدیر سید سلیمان ندوی نے معارف میں خود بھی تاریخ اسلام، بالخصوص ہندوستان کی تاریخ کے علمی، تمدنی اور تہذیبی پہلوؤں پر مقالات لکھے، مستشرقین اور ان کے ہم نوا مؤرخین کی دروغ گوئی کی تردید کی اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے رفقا کے علاوہ ملک کے دوسرے اہل علم کے تحقیقی کارناموں سے قارئین کو رُوشناس کرایا۔ اس پرچے کے متعلق مولانا ابوالکلام آزادنے لکھا: صرف یہی ایک [قابلِ ذکر] پرچہ ہے، اَور ہر طرف سناٹا ہے۔ الحمدللہ! مولانا شبلی مرحوم کی تمنائیں رائگاں نہیں گئیں اور صرف آپ[سلیمان ندوی] کی بدولت ایک ایسی جگہ بن گئی ، جو خدمتِ علم و تصنیف کے لیے وقف ہے۔ عالمِ اسلام کے عظیم دانش ور اور مؤرخ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے نزدیک: واقعہ تو یہ ہے کہ آج کل ساری دنیاے اسلام میں ، عرب ہو کہ عجم، کوئی اسلامی رسالہ اسلامیات پر اعظم گڑھ والے معارف کے معیار کا نہیں، اَوروں کے ہاں کاغذ اور طباعت بہتر ہوسکتی ہے، لیکن مضامین کے مندرجات میں علمی معیار بدقسمتی سے کچھ بھی نہیں۔ خدا معارف کو سلامت باکرامت رکھے۔ مَیں خود معارف میں جگہ پاؤں تو اپنے لیے باعثِ عزت سمجھتا ہوں۔ معارف کے مدیران کے تعارُف سے پرچے کے آیندہ سفر اور اس کے علمی، تحقیقی اور ادبی معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔ معارف کے شاندار ماضی ، قابلِ ذکر حال اور تابناک مستقبل میں اس کے فاضل مدیران ، یعنی سید سلیمان ندوی (۱۹۱۶ء تا ۱۹۴۹ئ)، شاہ معین الدین احمد ندوی(۱۹۴۹ء تا ۱۹۷۴ئ) ، عبدالسلام قدوائی ندوی (۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۹ئ) سید صباح الدین عبدالرحمن(۱۹۷۵ء تا ۱۹۸۷ئ) ، ضیاء الدین احمد اصلاحی (۱۹۸۷ء تا حال) کی شبانہ روز دیانت دارانہ سعی جمیلہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے نزدیک معارف کا فیضان آج بھی اپنی قدیم روایات کے ساتھ جاری ہے۔ اسے بجا طور پر علومِ اسلامیہ کی اردو انسائی کلو پیڈیا کا نام دیا جاتا ہے، کیوںکہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق جو تحقیقی سرمایہ، صرف معارف نے پیش کیا ہے، اگر اسے جمع کیا جائے تو سیکڑوں معرکہ آرا کتابیں شائع ہو سکتی ہیں۔ تاریخ اسلام اور اسلامی علوم و فنون کا شاید ہی کوئی پہلو یا تذکرہ ہو، جو معارف کے صفحات میں اجاگر نہ کیا گیا ہو۔ معارف کے مستقل اور مثبت کردارکے پیش نظر ضروری تھا کہ اس کا ایک اشاریہ ترتیب دیا جائے۔ زیر نظر اشاریے سے پہلے بھی چار جزوی اشاریے مرتب کیے جا چکے ہیں۔ لیکن کوئی اشاریہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا ۔مبارک باد کے مستحق ہیں اس اشاریے کے مرتب کہ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی قیمت پر انھوں نے معارف کا یہ اشاریہ ترتیب دیا اور تشنگانِ علم و آگہی کی پیاس بجھانے کا سامان بہم پہنچایا۔ اس اشاریے کا مقدمہ مقالے کی نگران ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے لکھا ہے اور حق تو یہ ہے کہ انھوں نے مقدمہ لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ معارف کے اجرا کے سلسلے میں مولانا شبلی نعمانی کے خواب کو شرمندئہ تعبیر و تکمیل کرنے میں سید سلیمان ندوی کے کردار،معارف کے اجرا اور اس کی نوے سالہ تاریخ ، مدیران کے تعارف اور ان کے کارناموں، اردو کی دینی صحافت میں معارف کے کردار، معارف کے مختلف اشاریوںاور محمد سہیل شفیق کی لگن اور جستجو کے متعلق انھوں نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ مرتب نے اس اشاریے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں صفحہ نمبر ۲۳ سے صفحہ نمبر ۲۱۱ تک زمانی اعتبار سے ایک سو پچھتّر جلدوں کے چار ہزار تین سو پچانوے مقالات کی فہرست دی گئی ہے،جس میں جلد نمبر، عدد (شمارہ نمبر)، تاریخ (عیسوی و ہجری ماہ و سال)، موضوع، مصنف اور اُس کتب خانے کا اندراج کیا گیا ہے، جہاں یہ شمارہ یقینی طور پر موجود ہے۔ کتب خانے کے مکمل نام کے بجائے مخففات سے کام لیا گیا ہے، جن کی وضاحت اشاریے کے آخری صفحے پر کر دی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں مقالات کو چھتیس مختلف موضوعات کے تحت صفحہ ۲۱۵ سے ۲۶۷ تک زمانی اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔اس میں مختلف موضوعات کے تحت مضامین و مقالات کے اندراج کے سامنے جلد نمبر اور کولن (:) کے بعد شمارہ نمبر دیا گیا ہے۔ ایک مضمون کو دوسرے سے ممتاز کرنے کے لیے درمیان میں سکتہ (،) لگایا گیا ہے، جب کہ کسی مقالے کا ایک سے زائد موضوعات سے تعلق ہونے کی صورت میں اسے متعلقہ تمام موضوعات میں درج کر دیا گیا ہے۔ اس اشاریے سے معلوم ہوتا ہے کہ پرچے میں سب سے کم مضامین اقتصادیات کی ذیل میں شائع ہوئے، یعنی آٹھ؛ جب کہ سب سے زیادہ شخصیات کے ضمن میں، یعنی چھے سو تہتر۔ اس باب میں مختلف موضوعات کے تحت مضامین کو زمانی ترتیب سے درج کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اسے الف بائی ترتیب سے درج کیا جانا چاہیے تھا، تاکہ قاری کسی معلومہ مضمون کے شمارے تک بآسانی رسائی حاصل کر سکتا۔ تیسرا حصہ صفحہ ۲۷۱ سے ۲۹۴ تک محیط ہے، جو الف بائی ترتیب سے آٹھ سو انہتر مصنفین کے اشاریے پر مشتمل ہے۔ اس میںمقالہ نگاروں کے نام کے سامنے ان کے مطبوعہ مقالات کے حوالے سے جلد نمبر اور شمارہ نمبر درج کیا گیا ہے۔ صفحہ ۲۹۷ سے ۵۳۲ تک پھیلے ہوئے چوتھے حصے میں زمانی اعتبار سے تبصرہ شدہ کتب کی فہرست دی گئی ہے۔اس میں جلد نمبر، شمارہ نمبر، عیسوی و ہجری ماہ و سال، کتاب کا نام، مصنف؍ مؤلف؍مترجم ؍ مرتب کا نام، کتاب کے ناشر اور شہر کا نام اور آخر میں کتاب کے صفحات کا اندراج کیا گیا ہے، تاہم مبصرین سے شناسائی نہیں ہوتی، جس کی ایک وجہ غالباً پرچے میں مبصرین کے لیے بالعموم مخففات کا استعمال ہے۔ الف بائی ترتیب سے چار ہزار تین سو تہتر تبصرہ شدہ کتب کی فہرست صفحہ ۵۳۵ سے ۶۲۱ تک پانچویں حصے میں پیش کی گئی ہے۔یہاں کتاب کے نام کے سامنے جلد نمبر اور شمارہ نمبر تحریر کیا گیا ہے۔ درج بالا دونوں ابواب میں تبصرہ شدہ کتب کی زمانی اور الف بائی ترتیب دی گئی ہے، تاہم تبصرہ شدہ کتب کے مصنفین، مبصرین اور ناشرین کے اشاریے کی کمی کھٹکتی ہے۔ اگرچہ کسی بھی تحقیق کی کچھ نہ کچھ حدود متعین کرنا ہی پڑتی ہیں اور محقق کسی دائرے میں رہتے ہوئے ہی کام کر سکتا ہے، تاہم اگر مبصرین اور ناشرین کا اشاریہ غیر ضروری سمجھا جائے تو بھی مصنفین کے اشاریے کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چھٹے حصے میں صفحہ ۶۲۵سے ۶۳۷ تک وفیات کا الف بائی اندراج کیا گیا ہے۔ اس میں دو سو اکسٹھ شخصیات کا تذکرہ ہے۔ ا س حصے میں شخصیت، تاریخ پیدائش؍ عمر، تاریخ وفات، تذکرہ نگار، تاریخ اطلاع، معارف کی جلد اور شمارہ نمبر کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ساتویں باب میں معارف کے ایک ہزار اسّی شماروں میں جلد نمبر، ہجری ماہ و سال کے حوالے سے پائے جانے والے ایک سو پانچ تسامحات کی تصحیح کی گئی ہے۔ محقق نے نہایت عرق ریزی سے ہجری ماہ و سال میں چوالیس، عیسوی ماہ و سال میں تین، جلد کے حوالے سے انسٹھ اور شماروں کے اندراج میں تین مقامات پر در آنے والی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ آخری حصے میں کتب خانوں کے لیے استعمال کیے گئے مخففات کی وضاحت کی گئی ہے۔کراچی کے کتب خانوں میں کتب خانۂ خاص انجمن ترقی اردو پاکستان (ا ت ا پ)، بہادر یار جنگ اکیڈمی لائبریری (ب ی ج ل) ، شرف آباد بیدل لائبریری (ش ب ل )، کراچی یونی ورسٹی لائبریری (ک ی ل )، مشفق خواجہ لائبریری (م خ ل)، مجلس علمی لائبریری (م ع ل) اور ہمدرد یونی ورسٹی لائبریری (ہ م ل) شامل ہیں، علاوہ ازیں گوجرانوالہ میں عبدالمجید کھوکھر لائبریری (ع ک ل) اور دارالمصنفین شبلی اکیڈمی (د ش ا) سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ اس اشاریے میں جس قدر حسن و خوبی پائی جاتی ہے، اس میں مرتب کی لگن کے ساتھ ساتھ عطا خورشید اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کی رہنمائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جن کے مشورے کے بعد مرتب نے اشاریے میں تبصرہ شدہ کتب کو زمانی ترتیب سے درج کرنے کے علاوہ اس کا الف بائی انداز میں اشاریہ بھی مرتب کیا۔ مزید ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ہدایت پر انھوں نے وفیات کو بھی شامل اشاریہ کیا۔ چناںچہ اس سے اشاریے کی افادیت اور قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا۔ موجودہ حالت میں یہ کاوش اردو اشاریہ سازی کی تاریخ میں ایک عمدہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے پیش نظر امید کی جانی چاہیے کہ جامعات میں ترتیب دیے جانے والے اشاریے اسی اعلیٰ علمی سطح کے حامل ہوں گے۔ سید معراج جامی کے خیال میں ’’معارف کا یہ اشاریہ علم و ادب کی دنیا میں یقینا وقیع اور کارآمد دستاویز کی حیثیت سے محققین اور علم کے جویا حضرات کے لیے مفید ثابت ہو گا۔‘‘(بحوالہ فلیپ) اس اشاریے کے مطالعے کے بعد مرتب کے علمی اخلاص اور محنت و کاوش کا اعتراف نہ کرنا علمی وسعتِ ظرفی کے خلاف ہے۔ یہ اشاریہ اپنی علمی وسعت اور حسن ترتیب کی بدولت مسافرانِ علم و ادب کو ہر مرحلے پر اپنی اہمیت و افادیت کا احساس دِلاتا رہے گا۔ ___ڈاکٹر خالد ندیم ٭٭٭ ABSTRACTS OF THIS ISSUE Postmodernism Ahmed Javid The intellectual approach of postmodernism is the consequence of a negative attitude. This attitude avoids the existence as well as specification of the object with finality. The main representatives of postmodernism are Nietzsche, Heidegger and Sartre. This trait is common among all these thinkers. Though these opposite and intra-conflicting concepts are unacceptable for these thinkers, but life consists of these realities. Darrida developed the literary theory of post structuralism from postmodernism. He considers word as well as mind the container of meaning. The significant outcome of postmodernism is the theory of feminism and post structuralism. خ…خ…خ Allama Muhammad Iqbal's Thought of Revival Dr. Muhammad Albahee The onslaught of western thought immensely affected the Muslim civilization in the twentieth century. In these times many Muslim thinkers made efforts for the revival of Muslim Ummah. Iqbal was an effective voice of this age. He used his poetry for awakening Ummah. His six lectures delivered at Madras cover the philosophical aspect of his thought. It will not be appropriate to keep the study limited only to his poetry or lectures to understand his philosophy. The study of these both traits of his legacy can give a comprehensive view. However, his lectures describe his thought in more elaborative way. In his lectures Iqbal has focused on the contemporary situation of Muslims, European civilization and its impact on Muslim world, different aspects of Islam and revival of Muslim religious thought. He also discusses here individual self, freedom of self, religion and science and social structure of Islam. He has endeavored to present the teachings of Islam keeping in view the contemporary intellectual quest. خ…خ…خ Iqbal, Ibn' Arabi and Wahdatul Wujud Dr.Ali Raza Tahir Iqbal's Ph D dissertation The Development of Metaphysics in Persia discusses various aspects of Sufism. His views about Wahdatul Wujud in this book don't show him a critic of this concept. He had this view during his stay in Europe. After he returned from Europe, he had been pondering upon this issue till 1919. In his first period he was admirer of Ibn 'Arabi, while in his second period he criticized him. However, in his later age his appreciation or understanding of Ibn 'Arabi changed. However, he was an admirer of Ibn 'Arabi and his contribution. خ…خ…خ Iqbal and Faiz: Association and Distance Dr.Riaz Qadeer The poetry of Iqbal and Faiz are two significant voices of the twentieth century. Both are contemporary in the way that the setting of one's sun was the rise of other's moon. The greatness of any personality is measured by his thought. The comparison of Iqbal with Faiz brings forth many differences. This explains both the intellectual greatness of Iqbal as well as the difference of tendencies of both poets. Both have presented a successful combination of thought and art. Describing the message of change with the melody of poetry is a common trait of both poets. Both of these poets are the harbingers of change and bearer of dreams, ideals and prayers. خ…خ…خ Allama Iqbal and Ali Shariati Dr. Shagufta Begum There is a strange similarity between the thought of Iqbal and Ali Shariati. When Ali Shariati came under the influence of Iqbal's thought the Iranian nation was facing the same circumstances which were in the times of Iqbal. Iranian youth had lost its own identity annihilating herself in the western civilization. Like Iqbal Ali Shariati also based his thought on the teachings of the Holy Quran. He studied modern social issues in the light of modern philosophical tendencies and, like Iqbal, created Islamic, political and national spirit in his nation. As Iqbal exploited modern sciences to elaborate his view, Ali Shariati too stressed the need to develop modern sciences. Ali Shariati is a social reformer and the significance of his thought becomes manifold when it shows resemblance with the thought of Allama Muhammad Iqbal. خ…خ…خ Allama Muhammad Iqbal and Salahuddin Saljuqi Dr.Abdul Rauf Rafiqi The affiliation of Allama Iqbal with Afghanistan and his love for the national traits of Afghans is evident from his works. His journey to Afghanistan was an effort to contribute for their uplift and welfare. Salahuddin Saljuqi was an important political and intellectual personality of Afghanistan. He had relationship with Iqbal. This article studies his affiliation with the works and thought of Iqbal. Afghan counsel is also discussed in his Afghan travelogue. Salahuddin Saljuqi was counselor there. Whenever Iqbal visited Bombay, he stayed with him. Salahuddin Saljuqi remained on many governmental positions in Afghanistan. He was also auther of many books. خ…خ…خ Management Sciences and the thought of Allama Muhammad Iqbal Muhammad Munir Ahmed Various aspects of life are discussed in the poetry of Allama Muhammad Iqbal. His thought gives guidance in the area of Management Sciences too. Though this subject is not discussed in the poetry of Iqbal under the same title, but the basic themes of this subject like organization, discipline, curiosity, search, courage, knowledge and action are described in the poetry of Iqbal and these show his approach. Thinking and exploring new horizons, perpetual struggle, hope, research, and organization of knowledge and the heading forth with the role of leadership are the foundation stones of modern management science. All these ideas can be found in the poetry of Iqbal. Indeed, the poetry of Allama Iqbal can contribute in many dimensions but there is need of disseminating his thought properly. خ…خ…خ