اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:director@iap.gov.pk Website:www.allamaiqbal.com مندرجات خ اقبال ___ فکری تناظر اور عصری معنویت محمد سہیل عمر ۱ خ عقل - فلسفیانہ، ادبی اور عرفانی مفاہیم فضل الرحمن:ولیم چیٹک؍ خضر یاسین ۲۱ ؍محمد سہیل عمر خ شرح کلامِ اقبال - نظم’’مرزا غالب‘‘ احمد جاوید ۳۵ خ متن کی تفسیر___ ایک فلسفیانہ تحلیل حیات عامر حسینی ۵۹ خ علامہ اقبال اور راس مسعود ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۸۵ خ عبدالہادی داوی ___ ’پیام مشرق‘ کا اولین افغان مبصّر ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی ۹۵ خ اقبال - اجداد کے دیس میں ڈاکٹر ظفر حسین ظفر ۱۰۱ خ سابق سوویت یونین میں اقبال اور اقبالیات طاش مرزا ۱۱۷ اقبالیاتی ادب خ علمی مجلات میں شائع شدہ مقالات کی فہرست ادارہ ۱۲۱ خ اقبالیات مجلہ ’حکمتِ قرآن‘ لاہور سمیع الرحمن ۱۲۵ تبصرۂ کتب خ ارمغان افتخار احمد صدیقی ڈاکٹر خالد ندیم ۱۳۱ خ کتاب الاسفار من نتائج الاسفار خضر یاسین ۱۳۶ خ اسلامی اور مغربی تہذیب کی کشمکش(فکر اقبال کے تناظر میں) خضر یاسین ۱۳۸ قلمی معاونین محمد سہیل عمر ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ڈاکٹر فضل الرحمن سابق ڈائریکٹر،ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد ولیم سی چیٹک استاد، شعبۂ ایشیائی و ایشیائی- امریکی مطالعات، سٹونی بروک یونی ورسٹی، نیویارک احمد جاوید نائب ناظم(ادبیات)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور حیات عامر حسینی استاد ، شعبۂ فلسفہ، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۲۸۔ ڈی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی منیجر، الائیڈ بینک، گوال منڈی چوک، کوئٹہ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر استاد، شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج راولا کوٹ، آزاد کشمیر طاش مرزا خالمرزائف انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز، تاشقند ڈاکٹر خالد ندیم استاد، شعبۂ اردو، سرگودھا یونی ورسٹی، سرگودھا خضر یاسین ریسرچ سکالر، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سمیع الرحمن رکن، مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹ جے ماڈل ٹائون، لاہور ۱قبال- فکری تناظر اور عصری معنویتَ محمد سہیل عمر علامہ اقبال ہمارے لیے کیوں اہم ہیں؟ اس سوال کی گونج ہم کئی سطحوں پر سن رہے ہیں۔ اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ایک حالیہ سیمی نار (اپریل۲۰۱۰ئ) کا عنوان تھا ’’اقبال کی عصری معنویت‘‘ یعنی آج کل ہمارے لیے علامہ کی اہمیت، حوالہ اور بامعنی تعلق کی بنیاد کیا ہے۔ اس سے تین دن پہلے ۲۱؍اپریل، یومِ اقبال کے جلسے ہوئے۔ ان کے ساتھ ساتھ لاہور میں بہت بڑی کانفرنس منعقد کی گئی۔ ’’انٹرنیشنل اُردو، ادبی، ثقافتی کانفرنس‘‘۔ اس کے پہلے سیمی نار کا موضوع بھی یہی تھا، یعنی ’’اقبال اور اکیسویں صدی‘‘۔ الٰہ آباد میں مئی میں کانفرنس کا اعلان ہوا جس کا عنوان تھا ’’اقبال کی عصری معنویت‘‘۔ تہران میں ۳؍مئی ۲۰۱۰ء کو ایک کانفرنس رکھی گئی، اس کا عنوان بھی یہی تھا۔ اس ضمن میں گذشتہ دس پندرہ سال پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ ۱۹۹۷ء میں مَیں نے بطور ناظم اقبال اکادمی کا انتظام سنبھالا تھا۔ ۱۹۹۷ء ہی میں ایک اقبال کانفرنس بلجیم میں ہوئی۔ اس کا عنوان تھا "Iqbal and the Present Era" ۔ اس کے بعد نیویارک میں، لندن میں، کیمبرج میں، ہائیڈل برگ میں جو کانفرنسیں ہوئیں ان کا ایک سا عنوان ہوتا تھا"Iqbal in the Twentieth Century, Iqbal in the Twenty First Century, Iqbal in the Present Era, Iqbal's Relevance Today, Iqbal's Contemporary Significance۔ یعنی آپ کا ادبی معاشرہ عنوان بدل بدل کر ایک ہی بات، ایک ہی سوال اپنے آپ سے پوچھ رہا ہے! گذشتہ تیرہ، چودہ سال سے اس معاشرے کا خود سے ایک ہی استفسار ہے۔ یہ اپنی شعری اور ادبی روایت کے سب سے بڑے آدمی کی معاصر معنویت کی تلاش میں ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیونکر؟یہ ایک غور طلب چیز ہے۔ جب کوئی ادبی معاشرہ ایسے سوال اُٹھانے لگے، اپنی چیزوں کو دیکھنے کے لیے دوسروں سے آنکھیں مانگنے چلے تو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہوتا ہے۔ اپنی مایۂ ناز چیزوں، اپنی ثقافتی اقدار، اپنے شعری، ادبی، سماجی شاہکاروں، علم وہنر کی قابلِ فخر یادگاروں، اپنے بڑے لوگوں اور اپنی تہذیبی اوضاع کی معنویت، اہمیت اور قدروقیمت جب آپ مستعار حوالوں سے، مانگے تانگے کی اقدار اور اُن پیمانوں کے مطابق متعین کرنے لگیں جو کسی اور ادبی معاشرے سے متعلق ہوں تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ سوچنا چاہیے کہ آخر ہم پندرہ سال سے اپنے آپ سے یہی ایک سوال کیوں کررہے ہیں؟ کیا یہ کوئی فکری وبا ہے، کیا یہ ہماری نفسیاتی ضرورت بن گیا ہے یا یہ سوال ہماری کسی چھپی ہوئی طلب کی تسکین کررہا ہے جس سے ہم کھل کر آنکھیں چار کرنے سے گھبراتے ہیں! بات اپنی اصل میں غلط نہیں ہے۔ اس کی بنیاد ایک جائزسوال ہی ہے۔ ہر عہد اپنے آپ سے، ہر معاشرہ، ہر ادبی معاشرہ اپنے بڑے لوگوں، اپنے بڑے مفکرین، اپنے بڑے شاعروں کے بارے میں یہ سوال کرتا ہے اور یہ ایک جائز سوال ہے۔ معنویت کی تلاش، اپنی میراثِ فکر سے، تہذیبی اور ادبی میراث سے تعلق استوار کرنے کی خواہش اور اس تعلق کو بامعنی بنانے کی جستجو ایک مثبت اور جائز چیز ہے خصوصاً اس معاشرے میں جو اس وقت طغیانِ صارفیت کی زد میں آیا ہوا ہے اور بنابریں ایک آنکھ سے دیکھنے والا،یک رُخا، معاشرہ بنتا جارہا ہے۔ اس معاشرے میں یہ سوال اور اہم ہوجاتا ہے لیکن غور طلب چیز یہ ہے کہ سوال کرتے ہوئے کس چیز کو حوالہ بنایا جارہا ہے؟ اہمیت کس حوالے سے متعین ہورہی ہے؛ قدروقیمت کس پیمانے سے ناپی جارہی ہے؛ معنویت کن اُصولوں، کونسی اقدار اور کیسے مفاہیم کو بنیاد بنا کر جانچی جارہی ہے؟ کیا معنویت کی تلاش صرف عصرِحاضر ، ۲۱ویں صدی کے حوالے سے کی جانا چاہیے؟اور وہ بھی حکیمانہ شاعری کے اس عظیم نمائندے کی معنویت جو اپنی ضربِ کلیم کو ’’اعلانِ جنگ، عصرِحاضر کے خلاف‘‘ بتا رہا ہو! جس کی نظر میں اس کا زمانہ ’’عصر ما وا رفتۂ آب و گل است‘‘ ہے یعنی ایک ایسا زمانہ اور اس کا فکری تناظر جو جہانِ رنگ و بو اور عالم آب و گل ہی کو پوری حقیقت جانتا ہے، جس کی نظر میں اس زمانے کا فکری سانچا اور تناظر ’’عذاب دانشِ حاضر‘‘ کے مترادف ہے! سو یہاں ذرا رک کر یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ عصر حاضر، ۲۱؍۲۰ویں صدی کیا ہے۔ ہسٹن سمتھ نے لکھا ہے کہ : The twentieth century, the most barbaric in history makes the myth of progress read like a cruel joke. 160 million human beings slaughtered by their own kind not for religion but in the name of secular ideologies: more people dying of starvation in a single decade than in all of history up to the twentieth century; epidemics in Africa and elsewhere; the widening gap between the rich and the poor; the population explosion; the environmental crisis; the threat of nuclear holocaust __ the list goes on and on. The crises that the world finds itself in as it swings on the hinge of a new millennium is located in something deeper than particular ways of organizing political systems and economies. In different ways, the East and the West are going through a single common crisis whose cause is the spiritual condition of the modern world. That condition is characterized by loss __ the loss of religious certainties and of transcendence with its larger horizons. The nature of that loss is strange but ulitmately quite logical. When, with the inauguration of the scientific worldview, human beings started considering themselves the bearers of the highest meaning in the world and the measure of everything, meaning began to ebb and the stature of humanity to diminish. The world lost its human dimension, and we began to lose control of it. یہ ہے وہ زمانہ جسے علامہ نے ’’تا مزاج عصر من دیگر فتاد‘‘ کہا، وہی جس کی دہلیز سے ذرا آگے بڑھ کر ہم خود سے یہ سوال کر رہے ہیں۔آج کی محفل کا سوال بھی اصل میں یہی ہے کہ اقبال ہمارے لیے کیوں اہم ہیں؟ اس سوال پر غور کرنے کے لیے اور اس کی جائز حیثیت میں اس کا سامنا کرنے کے لیے آغاز اس بات سے کیا جانا چاہیے کہ علامہ کی وہ کیا بنیادی حیثیات ہیں جن کے حوالے سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے اور یہ سوال کیا جانا چاہیے۔ اس استفسار کی ایک جائز حیثیت ہے۔ ہر عہد کو اس کے رُوبرو ہونا چاہیے اور اپنے لیے اقبال کی معنویت کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال کی وہ کون سی حیثیات ہیں جو اس معنویت کا تعین کرنے کے لیے صرف آج، اکیسویں صدی ہی میں نہیں بلکہ زمانے کی قید سے آزاد ہوکر، مستقل رہنے والی بنیادیں فراہم کرتی ہیں؟ وہ کون سی ایسی پائیدار کائناتی، عالمگیر بنیادیں ہیں جو دائمی ہیں جن پر آپ بڑی شاعری کو ، بڑے ادب کو، بڑی فکر کو ہمیشہ پرکھ سکتے ہیں، اس سے بامعنی تعلق استوار کرسکتے ہیں اور اپنے لیے اس کی معنویت تازہ رکھ سکتے ہیں؟ وہ ادبی معاشرہ جو اپنے آپ سے یہ سوال کرنے لگے، یا اقبال سے عدم دلچسپی کا خوف انھیں ستانے لگے، اُن کو یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ اس میں نقصان کس کا ہے! اُس ادبی معاشرے کا اور اُس نسل کا جس کے اندر یہ سوال، اتنا چبھتا ہوا سوال بن گیا ہے۔ علامہ اقبال کی یہ تین حیثیات اگر سمیٹ کر بیان کی جائیں تو کچھ یوں ہوں گی: اسلامی تہذیبکے اسلوب بیان میں تصورِ خدا، تصورِ کائنات اور تصورِ انسان نیز ان کے باہمی ربط کواعلیٰ ترین فکری اور ادبی سطح پر ایک نہایت بامعنی اور پُرتاثیر بیان میں ڈھال کر عہدِجدید میں علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفیانہ تحریروں نے پیش کیا ۔ ان کی بلند مقام شخصیت کے تین پہلو ہیں جن سے ان کی معنویت کا تعین ہونا چاہیے اور جو فکرِانسانی کے لیے غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ عہدِجدید کی فکر کے مقابل ان کا تخلیقی رویّہ جو اُن کی انگریزی کی فلسفیانہ تحریروں میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ان کی پہلی اہم حیثیت ہے۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ انسان کے بنیادی سوالات کے بامعنی جواب میں اسلام کے تصورِ خدا، تصورِ کائنات اور تصورِ انسان کا اُردو، فارسی شاعری کے وسیلے سے بیان جو حسنِ اظہار اور ہنرمندی کی بلندترین سطحوں کو چھولیتا ہے۔ اُن کی تیسری حیثیت ایک سماجی اور سیاسی مصلح اور رہنما کی ہے جو اپنی قوم کی رہنمائی اور مسائل کے حل کے لیے تجاویز دیتا ہے اور ان پر عمل کی راہ دکھاتا ہے۔ علامہ کے ابتدائی کلام پر نظر ڈالیے تو تین بنیادی خیالات،تین موضوعات لوٹ لوٹ کر اُبھرتے ہیں اور تادمِ آخراُن کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔ ان تین میں سے پہلا خیال جو آپ کو بانگِ درا کے تینوں حصوں میں تواتر سے نظر آئے گا یہ ہے کہ جس دھرتی پہ میں پیداہوا ہوں، جس لمحۂ تاریخ میں مَیں نے آنکھ کھولی ہے، جس ہندوستان میں زندہ ہوں، یہاں یہ کیا قربِ فراق آمیز ہے، یہ سرزمین کیسی ہے کہ رہتے ساتھ ہیں مگر دل پھٹے ہوئے ہیں اور اس سے ہندوستان والوں کو بہت سے خطرات ہیں۔ یہ چیز لوٹ لوٹ کے مختلف انداز میں ان کے کلام میں وارد ہوتی ہے: سرزمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا، یاں تو اِک قربِ فراق آمیز ہے بدلے یک رنگی کے یہ ناآشنائی ہے غضب ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب جس کے پھولوں میں اُخوت کی ہوا آئی نہیں اس چمن میں کوئی لطفِ نغمہ پیرائی نہیں لذتِ قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں مَیں اختلاطِ موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں مَیں۱؎ اس سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر شاعر کو کیا کرنا چاہیے؟ ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں کب زباں کھولی ہماری لذتِ گفتار نے! پھونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے۲؎ جب سرسیّد کی لوحِ تربت پر حاضر ہو کر اُنھوں نے اہلِ سیاست، اہلِ تعلیم اور اہلِ قلم جن میں شعرا سرِفہرست ہیں، اُن کے بارے میں تین الگ الگ باتیں کیں تو یہی سوال دوبارہ سامنے آیا: مدعا تیرا اگر دُنیا میں ہے تعلیمِ دیں ترکِ دُنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے۳؎ پھر سیاست دانوں۴؎ سے مخاطب ہوتے ہیں: تو اگر کوئی مدبّر ہے تو سن میری صدا ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے قوتِ فرمانروا کے سامنے بے باک ہے۵؎ اور پھر وہ سوال سامنے آیا کہ ایسے حالات میں شاعر کا منصب کیا ہے؟ ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم شیشۂ دل ہو اگر تیرا مثالِ جامِ جم پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذِ رحمانی ہے تُو ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمنِ باطل جلا دے شعلۂ آواز سے۶؎ کچھ سالوں کے بعد فرماتے ہیں: رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں۷؎ ………… ………… وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو! تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۸؎ ………… ………… محبت سے ہی پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے ………… ………… اُجاڑا ہے تمیزِ ملت و آئیں نے قوموں کو مرے اہلِ وطن کے دل میں کچھ فکرِ وطن بھی ہے؟۹؎ یہ اُن کے سامنے پہلا مسئلہ تھااور اُن کے کلام میں لوٹ لوٹ کر ہمارے سامنے آتا ہے کہ ہندوستان کے موجودہ حالات کیسے ہیں؟ دوسرا یہ کہ شاعر کا منصب کیا ہے؟ اس کو اگر یہ ملکہ، یہ استعداد، یہ صلاحیت قدرت نے دی ہو تو اس کو کیا کرنا چاہیے۔ اب تیسرا سب سے اہم سوال سامنے آتا ہے جو اس جہت سے متعلق ہے جو فلسفے کی جہت ہے۔ ایک نئی چیز فکری سطح پر پیدا ہوگئی ہے: آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں اے دردِ عشق! اب نہیں لذت نمود میں ہاں! خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو منت پذیر نالۂ بلبل کا تُو نہ ہو!۱۰؎ کیوں؟ یہ انجمن ہے کشتۂ نظّارۂ مجاز مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز ہر دل مئے خیال کی مستی سے چور ہے کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طُور ہے۱۱؎ یہ نئی ہوا کیا آئی تھی ہندوستان میں اور اس دور کے، ’’آج کل‘‘ کے کلیموں کا طُور اور کیا تھا۔ یہ تیسرا موضوع ہے جو لوٹ لوٹ کر آتا ہے۔ ’’شکوہ‘‘ میں ایک اور انداز میں کہتے ہیں۔ یہاں انداز دوسرا ہوگیا، ’’نئی ہوا چلی تھی‘‘، ’’نئے کلیم اور نئے طور تھے اُن کے‘‘۔ اس کے اثرات کیا تھے؟ عہدِ نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے ملتِ ختمِ رسلؐ شعلہ بہ پیراہن ہے۱۲؎ دُنیا میں بھی ہے، عالمِ اسلام میں بھی ہے اور ’’ملتِ ختم رسل‘‘ پر بھی کچھ فکری اثرات وارد ہو رہے ہیں۔ آئیے اب ذرا عالمِ اسلام کی صورتِ حال اور ملتِ اسلامیۂ ہند کی صورتِ حال پر غور کریں کہ علامہ اقبال جس لمحے میں یہ تینوں باتیں کَہ رہے ہیں اس وقت ہماری تاریخی صورتِ حال تھی کیا۔ ہم انگریزی استعمار کی غلامی میں جاچکے، نوآبادیات میں سے ایک بن گئے، انگریز یہاں سیاسی غلبہ اور اقتدار حاصل کرچکا تھا، مغربی تہذیب اپنے سیاسی، فوجی، اقتصادی اور بعد میں تعلیمی غلبے کے ساتھ ہندوستان میں وارد ہوچکی تھی۔ ہندوستان ہی میں نہیں اس سے پہلے ترکی، مصر یعنی عالمِ اسلام کی بڑی مرکزی جگہوں پر یہ صورتِ حال پیدا ہوچکی تھی۔ یہ صورتِ حال اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ پیدا ہوئی کہ اسلامی تہذیب کو کسی ایسی دوسری تہذیب سے فکری سطح پر تصادم کا سامنا کرنا پڑا ہو جس کا اپنا ایک تصورِ کائنات ہو۔ دیکھیے، تاتاریوں نے عالمِ اسلام کو ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پامال کرکے رکھ دیا، اس پر قابض ہوگئے لیکن تاتاری آپ کو سیاسی اقتدار سے محروم کرسکتے تھے، اقتصادی اقتدار سے محروم کرسکتے تھے، بہت سی محرومیاں دے سکتے تھے لیکن ایک چیز نہیں کرسکتے تھے، وہ آپ کے علمی اقتدار اور فکری تناظر پر قابض نہیں ہوسکتے تھے، ان کے پاس تھا ہی کچھ نہیں۔ علامہ نے کہا تھا کہ: ؎ حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اِک عارضی شے تھی نہیں دُنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا۱۳؎ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ ’’تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ‘‘ کبھی ہم غالب، کبھی وہ غالب۔ نہ ہم سپین میں رہے نہ کل کو امریکہ یہاں رہ سکے گا۔ یہ زمانوں کا اُلٹ پھیر ہے۔ کبھی کسی کا اقتدار، کبھی کسی کا اقتدار۔ یہ ایک اور چیز ہے لیکن جس لمحۂ تاریخ میں وہ برصغیر پاک و ہند میں وارد ہوتے ہیں وہ ایک اور اعتبار سے بہت نازک دور تھا۔ سیاسی اقتدار تو بہت مرتبہ گیا، جیسے مَیں نے عرض کیا کہ تاتاریوں نے بھی کیا تھالیکن مسلم تہذیب کو اپنی پوری تاریخ میں کبھی اس سے پہلے اس طرح کی کسی چتائونی کا، اس طرح کے کسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ ایسا فکری تصادم کبھی نہیں ہوا تھا کہ پہلے سیاسی اقتدار ایک اجنبی تہذیب کے ہاتھوں میں چلا جائے، پھر آپ سماجی غلبے سے محروم ہو جائیں، ہمارا تعلیمی نظام بدل جائے، پھر مالیاتی نظام دوسروں کے قبضۂ قدرت میں چلا جائے اور وہ تہذیب جس نے یہ سب کچھ کیا وہ تاتاریوں کے برعکس اپنا ایک الگ تصورِ کائنات،الگ تصورِ انسان اور جدا تصورِ خدا رکھتی ہو اور وہ اتنا مختلف ہو کہ وہ دُنیا کی ساری پہلی تہذیبوں، تمام دینی تہذیبوں سے گویا ایک طرح سے تضاد کی نسبت رکھتا ہو۔ ایسے ٹکرائو کا اسلامی تہذیب کو اس سے پہلے کبھی فکری سطح پر سامنا نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک بہت ہی سنگین چیلنج تھا، بہت سنگین چتائونی تھی۔ ایک ایسی اجنبی تہذیب نے دیگر مسلم جگہوں کے علاوہ ہندوستان پر بھی غلبہ حاصل کر لیا تھا، اسے colonize کرلیا تھا جو تاریخ فکرِاسلامی میں پہلی مرتبہ ایک دوسرا تصور کائنات لے کر آئی تھی جو آپ کے تصورِ کائنات سے براہِ راست ٹکراتا تھا۔ ہم سے ہی نہیں ٹکراتا تھا ہر مذہبی paradigm ، ہر مذہبی فکری تناظر سے براہِ راست ٹکراتا تھا۔ ایسے فکری تصادم کا ملت ِ اسلامیہ کو اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ سامنا کرنا پڑا تھا۔ علامہ اقبال نے تصور ِحقیقت کے حوالے سے ایک سوال کیا تھا: ’’چیست عالم، چیست آدم، چیست حق‘‘؟۱۴؎ ساری انسانی تاریخ میں، تمام تہذیبوں میں تصورِ خدا، تصورِ انسان اور تصورِ کائنات سے متعلق اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ایک ہی روزنِ دید تھا، حقیقت پر نظر کرنے کا ایک ہی دریچہ تھا: پیغامِ خدا وندی ۔ پھرایک انحراف ہوا۔ مغربِ جدید کی تہذیب کے فکری سفر کا رخ کسی اور جانب ہوگیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایک فکری انقلاب واقع ہوا۔ جدیدیت کا روزنِ دید کچھ اور تھا ، حقیقی اور غیر حقیقی کا تعین ایک اورزاویے، کسی اور دریچے سے کیا گیا تھا: تصورِ خداتبدیل ہوا، تصورِ انسان میں تغیر آیا اور تصورِ کائنات بدل گیا۔ ان کے جلو میں انسان، کائنات اورانسانی معاشرے کی ہر چیز کے معنی بدل گئے اور رفتہ رفتہ حیات وکائنات کی معنویت، جوازِوجوداور منتہا و مقصود کا سارا سوال بے معنویت کی نذر ہوگیا۔ انسان کی وہ مشترکہ میراثِ فکر جس کی ’’جلوہ گاہ تہ نقاب‘‘ پنہاں تھی رد کر دی گئی کہ ’’محفل نو‘‘ کی نگاہ ظاہر پرستی کی اسیر ہو چکی تھی۔ چمن ہست و بود ایک نئی ہوا کی زد میں تھا: پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے ظاہر پرست محفلِ نَو کی نگاہ ہے آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں اے دردِ عشق! اب نہیں لذّت نمود میں۱۵؎ ’کچھ اورآج کل کے کلیموں کا طور‘ تھا۔ یہ انجمن ہے کُشتۂ نظّارۂ مجاز مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز ہر دل میٔ خیال کی مستی سے چُور ہے کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طُور ہے۱۶؎ تاریخ فکرِ انسانی پر وحیِ خدا وندی کے بعد اگر کوئی چیز اس گہرائی و گیرائی سے اثر انداز ہوئی تھی تو وہ جدیدیت کا لایا ہوا یہ فکری انقلاب تھا! اس فکری انقلاب نے صحنِ مغرب سے نکل کر باقی دنیا اور عالم اسلام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ’’عہدِ نو‘‘ کی اس برقِ خرمن سوز سے کوئی صحرا، کوئی گلشن ایمن نہ رہا۔ عہدِ نَو برق ہے ، آتش زنِ ہر خرمن ہے ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گُلشن ہے۷؎۱ ’’اس نئی آگ کا اقوامِ کہن‘‘ بھی ایندھن بنیں اور’’ملت رختمِ رسل ؐ بھی ’’شعلہ بہ پیراہن ‘‘ہو گئی۔ اس نئی آگ کا اقوامِ کُہن ایندھن ہے ملّتِ ختمِ رُسُلؐ شُعلہ بہ پیراہن ہے۱۸؎ ’’دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش‘‘۔ پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شرابِ خانہ ساز دل کے ہنگامے میٔ مغرب نے کر ڈالے خموش۱۹؎ علامہ ہی نے کہا تھا کہ: عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل۲۰؎ یہ اقبال کی نظم ونثر کا محوری، مرکزی سوال رہا ہے۔ عہدِ جدید کا، دانشِ حاضر کا فکری مزاج کیا ہے اور یہ ’’مئے مغرب‘‘ دل کے ہنگامے کیوں خاموش کردیتی ہے؟ فرنگ ’’دل کی خرابی، خرد کی معموری‘‘ کیوں ہے؟ یہ کیسا فکری انقلاب ہے جس نے تصورِ خدا، تصورِ انسان اور تصورِ کائنات (اور ان کے باہمی ربط) سبھی کو تلپٹ کردیا ہے! بقول علامہ اقبال ’’آج کا زمانہ ہندوستان میں اور طرح کا ہے۔ اس کی نبض شناسی ضروری ہے۔‘‘۲۱؎ یہ ایک تیسرا سوال ہے کہ اگر ’’نئی ہوا چمن ہست وبود‘‘ میں آئی ہے، ایک ’’آتشِ نو‘‘ پیدا ہوئی ہے جو ’’عہدِ کہن‘‘ کو جلائے دے رہی ہے اور یہ ایک فکری تبدیلی کا معاملہ ہے تو پھر اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا کہ پہلے جب بھی انسان نے یہ سوال کیا کہ حقیقت کیا ہوتی ہے، تصورِ کائنات کے بارے میں جو انسان بڑے سوال کرتا ہے کہ مَیں کیا ہوں، یہ کائنات کیا ہے، اس کے پیچھے کیا ہے، کچھ ہے یا نہیں ہے، اس کا مجھ سے کیا تعلق ہے، اس کے بعد کی زندگی سے میرا کیا تعلق ہے، موت کیا ہے، موت کے بعد کیا ہے؟ یہ بڑے بڑے انسانی سوالات جو ہیں ان پر انسان نے جب بھی غور کیا اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس ایک ہی دریچہ، ایک ہی روزنِ دید ہوتا تھا۔ وہ کیا تھا، آپ کے مذہبی صحیفے، وحی، پیغامِ خداوندی۔ لیکن تاریخ فکرِانسانی میں یہ عہد پہلی مرتبہ ایسا آیا تھا جس کے کلیموں کا طور کچھ اور تھا! سوال کا جواب یا ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے یہ کسی اور جگہ سے رجوع کرتے تھے۔ ان کے لیے Laboratory science سے پیدا ہونے والے جوابات حتمی اور آخری ہوتے تھے۔ مغرب کا تصورِ کائنات یہ تھا کہ جو چیز محسوس ہے وہی موجود ہے۔ جس چیز کو حقیقی قرار دینے کے لیے سائنس کے لیبارٹری ٹیسٹ نے کَہ دیا وہ حقیقی ہے اس کے سوا ہر چیز غیر حقیقی ہے۔ یہ وہ تصور کائنات تھا جس سے پہلی مرتبہ اسلامی تہذیب کو ٹکرائو کا سامنا کرنا پڑا۔ علامہ اسی کو ’’آتشِ نو‘‘ کَہ رہے ہیں، اسی کو ’’نئی ہوا‘‘ کَہ رہے ہیں، اسی کو ’’آج کل کے کلیموں کا‘‘ نیا طور کَہ رہے ہیں۔ یہ چیز کیا ہے، وہ فکری تناظر کیا تھا جس کا تصادم ہماری فکری کائنات سے ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کے تصورِ کائنات پر غور فرمائیے ؟ اس سے پہلے کوئی تہذیب ایسی نہیں تھی جس نے سیاسی طور پر مسلم تہذیب کو مغلوب کیا ہو اور اس کا اپنا ایک فکری تناظر ہو جو اتنا مختلف ہو____ یعنی تصورِ کائنات، تصورِ خدا، تصورِ انسان تینوں مل کر ایک مجموعہ قائم کرتے ہیں____ وہ اس کا اوراسلامی تہذیب کا بنیادی طورپر مختلف ہے۔ وہ تہذیب اپنا بنیادی مقولہ یہ لے کر آئی تھی کہ جو چیز محسوس کی جاتی ہے، جو حواس کی زد میں ہے وہ تو حقیقی ہے اس کے علاوہ ہر چیز غیر حقیقی ہے۔ آپ نے غور فرمایا کہ یہ فکری تناظر صرف اسلام ہی سے نہیں ہر مذہبی تناظر سے براہِ راست ٹکراتا ہے۔ یہ empiricism کا بنیادی مقولہ ہے۔ اس پس منظر میں اب تیسرا سوال دیکھیے: علامہ اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ صورتِ حال ہے ،یہ نئی ہوا چلی ہے، یہ آتشِ نو جو لپیٹ میں لے رہی ہے اور ہمارے درمیان یہ صورتِ حال نفاق کی ہے تو اس صورتِ حال میں ایک شاعر، صاحب ِ شعور ہستی، بالا ترشعور رکھنے والے آدمی، دیدۂ بینا کا منصب کیا ہے، مختصر الفاظ میں کہ شاعر کو کیا کرنا چاہیے۔ مجھے کیا کرنا چاہیے ،میں صاحب ِ فکر ہوں، صاحب ِشعور ہوں، شاعری کا غیرمعمولی ملکہ رکھتا ہوں تو میرا فریضہ کیا بنتا ہے؟ What's the function of a poet ۔ ان تین سوالوں کے حوالے سے علامہ کی تین بنیادی حیثیات کچھ یوں ہوں گی: پہلی حیثیت ان کی اس شاعر کی ہے جس نے اسلامی تہذیب کے اسلوب فکر و اظہار میں تصورِ کائنات، تصورِ خدا اور تصورِ انسان اور ان تینوں کے باہمی ربط کو اپنی اُردو، فارسی شاعری کے ذریعے سے حسنِ بیان کی اعلیٰ ترین سطح پر آپ کے سامنے پیش کر دیا جسے ہماری طویل میراثِ فکر ، ہماری شعری اور ادبی روایت میں حکیمانہ شاعری، د انش کی شاعری، فلسفیانہ شاعری، الہامی شاعری اور عارفانہ شاعری کہتے ہیں۔ علامہ اس کے سب سے بڑے امین، سب سے بڑے مظہر اور سب سے بڑے نمائندے کے طور پر بیسویں صدی کے ہندوستان میں اُبھرتے ہیں۔ یہ ان کی پہلی حیثیت ہے اور یہ ان کی سب سے بڑی اور اہم حیثیت ہے۔ یاد رہے کہ یہاں صرف اسلام کی بات نہیں ہورہی، دُنیا کی بڑی شاعری ہمارا حوالہ ہے۔ بڑی شاعری لازماً وہ ہوتی ہے جو انسان کو انسان کے بنیادی سوالوںسے رُوبرو کرتی ہے۔وہ سوال جوا نسان کے سوال ہیں، ہندو مسلم کے سوال نہیں ہیں، پاکستانی غیر پاکستانی کے سوال نہیں ہیں، وہ انسان کے بنیادی سوال ہیں کہ میں کون ہوں؟ کہاں جا رہاہوں؟ کائنات کیا ہے؟خدا کیا ہے ؟اس کائنات کے بعد کیا ہے؟ اس کے ساتھ میرا تعلق کیا ہے؟ یہ بہت بنیادی سوالات ہیں۔ بڑی شاعری ان سوالات سے آپ کو رُوبرو کرتی ہے۔ اگر نہیں کرتی تو وہ بڑی شاعری نہیں ہے۔ علامہ کی شاعری بڑی شاہکار شاعری انھی سوالوں سے آپ کو رُوبرو کرتی ہے اور اس کی معنویت جانچنے کا سب سے بڑا پائیدار پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ اس لحاظ سے آپ سے کوئی بامعنی بات کرتی ہے تو اس کی معنویت کل بھی تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ انگریزی میں اس تخلیقی عمل کو ہم poetically mediated thought کہتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات پر غور کرنا ضروری ہے۔ ہم لوگ شاعرِمشرق کی ترکیب بکثرت استعمال کرتے ہیں اور جو لفظ بہت زیادہ استعمال ہوں وہ اپنی دھار، اپنی تاثیر کھو بیٹھتے ہیں، کند ہوجاتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ علامہ اقبال کوشاعرِ مشرق کیوں کہا جاتا ہے۔ کیا یہ صرف ایک اتفاقی بات ہے ، کیا یہ صرف ایک جذباتی بات ہے، محض اظہارِ عقیدت ہے یا اس میں کوئی نکتہ کوئی گہری بات ہے۔ دیکھیے اس ترکیب میں دو الفاظ ہیں جن سے مل کر یہ ترکیب بنتی ہے: شاعر اورمشرق۔ جب مَیں مشرق کہتا ہوں تو اس سے مراد ہندو تہذیب، بدھ تہذیب ، عیسوی تہذیب، یہودی تہذیب، مسلم تہذیب سبھی ہوتی ہیں۔سب میں تصورِشعر کیا رہا ہے ہمیشہ؟ renaissance تک اور جدید دور شروع ہونے سے پہلے تک؟ ان سب تہذیبوں کا تصورِشعر ایک ہی تھا جو Wordsworth کے زمانے تک ایک ہی رہا اس کے بعد تبدیل ہوگیا۔ ورڈسورتھ کاقول تو آپ سنتے ہی آئے ہوںگے کہ شاعری کیا ہوتی ہے؟ spontaneous overflow of powerfull feelings۔ یہ ایک definition ہے اس کی۔ ہم بھی ایم اے میں یہی پڑھتے تھے۔ جب غور کیا کہ شاعر اورمشرق ، ان دونوں میں کیا تعلق ہے توایک نکتہ سامنے آیا کہ ہم علامہ کو صرف بر بنائے عقیدت شاعرِمشرق نہیں کہتے، اس میں بڑی گہری بات پوشیدہ ہے۔ اور اس سیشعر، تخلیقی عمل منصب شاعری اور منصب شاعر کے بارے میں ساری مشرقی تہذیبوں کے نقطۂ نظر کی نمائندگی ہوتی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ساری اسلامی زبانوں میں شعر، شاعراورشعورایک ہی لفظ سے نکلتے ہیں، ایک ہی مادے سے نکلتے ہیں۔ ش-ع-ر جس کے بنیادی معنی ہیں شعور رکھنا، جاننا ،ادراک کرنا کسی چیز کا۔ تو کیا یہ اتفاق ہے____ ہر گز نہیں۔ ہمارے ہاں ابنِ سینا سے لے کر آج تک شعر کی جتنی تعریفیں متعین کی گئی ہیں یعنی جدید دور میں آنے سے پہلے، ان سب کی تَہ میں یہ بات موجود ہے کہ شعر کا تعلق شعورسے ہے اور شاعر وہ ہستی ، بالا تر سطحِ شعور رکھنے والی ہستی ہوتاہے، جو دوسرے لوگوں سے کسی وجہ سے اونچا ہے۔ اب اگر یہ شعور جو دوسروں سے مختلف ہے، بالا تر ہے تو یہ شاعر کو شاعر بناتا ہے۔ صاحب ِ شعور ہونا اس کا اوراس کی بالا تر سطحِ شعور ۔ تو اَب آپ سوچ سکتے ہیںاور پو چھ سکتے ہیں کہ شاعری تو جوش بھی کرتے تھے ، چرکین بھی کرتے تھے۔ پھر مولانا روم، سنائی، سعدی ، اقبال اوران میں کیا فرق ہے تو ہماری ساری definition میں یہ چیز بہت واضح رہی ہے کہ کچھ شاعر وہ ہوتے ہیں جن کو صرف ایک چیز کا شعور ہوتا ہے۔ ردیف اور قافیے کا ، آہنگ کا، rythm کا harmony, کا۔ یہ پہلی سطح ہے شاعری کی۔ قانون کے مطابق تو شاعری ہو گئی۔ ایک دو تین چار/ پانچ چھ سات آٹھ۔ شاعری ہو گئی۔ لیکن اس میں کیا ہے؟ صرف rythm ہے اور کچھ بھی نہیں۔ اس سے ذرا اوپر اُٹھیے تو وہ شاعر ہیں جن کی سطحِ شعور قدرے بلند ہے۔ ان لوگوں کو آہنگ کا شعور بھی ہے، قافیہ اور ردیف کا شعور بھی ہے۔ اس میں جو حسنِ بیان پیدا کرنے کے لیے عناصر شامل کیے جاتے ہیں تشبیہ، استعارہ وغیرہ وغیرہ اس کا بھی شعور ہے لیکن وہ یہیں تک رہ جاتا ہے۔ یہ شاعری اور شعور کی دوسری سطح ہوئی۔ اس سے تھوڑا اور اوپر اُٹھیے تو وہ شعرا ہیں جنھیں ردیف ، قافیے اورآہنگ کا بھی شعور ہے جو اس میں حسنِ بیان پیدا کرنے کے عناصر کا بھی استعمال جانتے ہیں اوراس کے ساتھ وہ اس میں انسانی احساسات و جذبات و تجربات کو سمیٹ کر اس کا بیان بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک درجہ ہوگیا جس میں فیض احمد فیض ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ ذرا اور اوپر اُٹھیے تو پھر وہ شاعر آتے ہیں جن کے ہاں ان سارے عناصر کے ساتھ یعنی قافیہ، ردیف، حسنِ بیان کے اسالیب اور حسنِ اظہار کے جو صنائع بدائع ہوتے ہیں سب کی رعایت اور بھرپور استعمال کے ساتھ اور تجرباتِ انسانی کو سمو کر بیان کرنے کے ساتھ ایک سطح اوپر اُٹھتی ہے کہ وہ فلسفہ ، تذکیر و نصیحت اور دیگر اہم موضوعات جو انسان کے بڑے موضوعات ہیں، ان کو بھی شامل کرتے ہیں۔ سب سے اوپر کی صف میں وہ شعرا آتے ہیں جن میں یہ سارے عناصر حسنِ بیان کے عناصر بھی موجود ہیں، حسنِ معنوی بھی موجود ہے اور وہ بیانِ حقائق کا کام بھی کرتے ہیں۔ یہ دانشِ برہانی اور دانشِ نورانی کے شاعرہیں۔ وہ انسان کی ان باتوں سے آپ کو رُوبرو کرتے ہیں، انسان کے ان سوالوں سے آپ کو روبرو کرتے ہیں جو انسان کے بنیادی سوال ہیں اور ساری بڑی شاعری اگر آپ کو ان بنیادی سوالوں سے رُوبرو نہ کرے تو بڑی شاعری نہیں ہوتی۔ علامہ اقبال بلاشبہ دُنیا کے بڑے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی شاہکار شاعری بڑی شاعری میں شمار ہوتی ہے تو وہ اس اساسی شرط کو پورا کرتے ہیں کہ ان ساری سطحوں کو سمیٹتے ہوئے بیانِ حقائق کے ساتھ یہ جو بڑی باتیں اور بڑے مفہوم ہیں ان کو آپ کے رُوبرو کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے چار بڑے شاعر کہے گئے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ، ڈبلیو بی ییٹس، پابلونرودا اور علامہ اقبال۔ ان سب میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ وہ اُن بڑے سوالوں سے آپ کو آنکھیں چار کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور کس طرح؟ لفظ کے وسیلے سے، تلاشِ جمال کرتے ہوئے۔ یہ شاعری کا بنیادی منصب ہے کہ وہ بڑے معانی تک آپ کو لے جائے، آپ کو بڑے مفاہیم کے رُوبرو کرے، بنیادی سوالات سے آنکھیں دوچار کروائے اور کس وسیلے سے کروائے، حسنِ بیان کے وسیلے سے کروائے، لفظ کے وسیلے سے تلاشِ جمال کرتے ہوئے کروائے۔ان پانچ درجاتِ شعر کو ذہن میں رکھیے۔ علامہ اس میں صفِ اوّل کے شعرا میں آتے ہیں اور یہ جو آخری اعلیٰ ترین سطح ہے یہ وہ سطح ہے جہاں شاعری اور حکمت ودانش آکر گھل مل جاتے ہیں، ایک دوسرے میں حل ہوجاتے ہیں، ان کو آپ الگ نہیں کرسکتے۔ اور شاعر یہ کَہ سکتا ہے: ’’بہ جبریل امیں ہم داستانم‘‘ یا ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کہ شاعری میں بھی پیغمبری کی ذرا سی رمق ہوتی ہے۔ اُردو فارسی میں علامہ اقبال اس بلند ترین سطحِ شعور اور حکیمانہ شاعری یا شعر حکمت کا آخری بڑا اظہار ہیں۔ ایک بات ہم اکثر بھول جاتے ہیں جو میں شاعری کے حوالے سے آپ کو یاد دلارہا ہوں کہ علامہ اقبال کی نسل میں ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں تھا جو بیک وقت دُنیا کی پانچ بڑی زبانوں (زبانیں تو وہ سات جانتے تھے) کے شعر و ادب کے ذخیرے پر دسترس رکھتا ہو اور اس کے محاسن، اس کے سارے موتی، نگینے اپنے قارئین تک پہنچا سکتا ہو۔ یہ کون کونسی زبانیں ہیں؟ اُردو تو ظاہر ہے اس کے علاوہ فارسی، عربی، انگریزی، جرمن اور چھٹی زبان ہے سنسکرت۔ علامہ نے سوامی رام تیرتھ کے ساتھ مل کر بہت گہری سنسکرت سیکھی تھی اور سنسکرت شاعری کے جتنے گہرے اثرات، ان کی شعری کردار سازی، عناصرِ قدرت کے درمیان مکالمے وغیرہ میں پائے جاتے ہیں وہ اور کسی کے ہاں نظر نہیں آتے۔ تو ایسا دوسرا آدمی تو کوئی تھا ہی نہیں نہ بعد میں ہوا جو پانچ یا چھ شعری زبانوں کے ذخیرے کو استعمال کرکے اس کے عناصرِ خوبی کو آپ تک منتقل کرسکے۔ اس کے ساتھ ایک اور چیز بھی دیکھیے کہ جو شاعر اس منصب پر فائز ہے اس کے پاس کچھ اور بھی امتیازی چیزیں ہیں۔ اقبال سے پہلے یا ان کے بعد آپ کے علم میں کوئی دوسرا آدمی ایسا ہے جو تین سال میں مغرب کی تین بڑی یونی ورسٹیوں سے تین اعلیٰ ترین ڈگریاں لے کر آیاہو، کوئی دوسرا ہے؟ گاندھی سے ہوا، نہیں ہوا، جناح سے ہوا، نہیں ہوا، نہرو سے ہوا، نہیں ہوا، چھوٹے لوگوں کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجیے۔ یہ واحد آدمی تھا جو تین سال میں تین بڑی ڈگریاں تین بڑی یونی ورسٹیوں سے لے کرآیا تھا۔ ’’ہر فکر نہیں طائر فردوس کی صیاد‘‘۔ یہ ہم نے جس اعلیٰ ترین سطحِ شعور کی بات کی اور علامہ کی تین حیثیات متعین کیں، ان میں ایک تو یہ ہوئی شعر کے حوالے سے۔ دوسری یہ کہ اگر وہ آدمی ایک معاشرے کا ذمہ دار فرد ہے، ملّی وجود کا جزو ہے، ایک تہذیبی اور مذہبی پس منظر رکھتا ہے تو جس عہد میں وہ زندہ ہے اس میں اس کی کوئی تہذیبی، سماجی ذمہ داری social responsibility بھی ہے۔ کچھ سوالات ایسے پیدا ہوں گے جہاں اس کا معاشرہ اس سے رہنمائی کا تقاضا کرے گا، سماج سدھار کا تقاضا کرے گا۔ جب علامہ پر یہ وقت آیا تو اُنھوں نے اس کا تقاضا بھی بخوبی پورا کیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے سماجی ذمہ داری پورا کرنے کے اس نکتے پر بات مکمل کرلی جائے۔ ایک خاص عہد میں ہندوستان میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اس وقت سماجی سطح پر، سیاسی سطح پر سب سے بڑا سوال کیا تھا، وہی جسے communal problem (تقسیمِ اقتدار کا مسئلہ یا قومیتوں کا مسئلہ) کہتے ہیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس سرزمینِ ہند میں ایک تو بہت بڑی اکثریت ہے، ہندو اکثریت، دوسری طرف ایک بہت بڑی اقلیت ہے مسلمانوں کی۔ اس کے علاوہ اور بھی اقلیتیں ہیں۔ اُن سب پر ایک تیسری قوت حاکم ہے اور تیسری قوت کی کمرٹوٹ گئی ہے، اُسے اب یہاں سے چلا جانا ہے۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تیسری قوت چلی جائے گی تو پھر یہ جو ایک بڑی اقلیت اور ایک بڑی اکثریت ہے یہ آپس میں power sharing کیسے کریں گے؟ یہ کیسے رہیں گے مل جل کر؟ ان کا سیاسی نظام کیا ہوگا؟ یہاں دورائیں تھیں، ایک رائے یہ تھی کہ ہندوستان ایک وحدت ہے، ایک اکائی ہے It is a monolithic whole اور اس کا ایک ہی وکیل ہے۔ تیسری طاقت جو باہر جارہی ہے اس کے ساتھ یہ وکیل معاملہ کرلے گا۔ جب وہ چلی جائے گی تو پھر گھر والے بیٹھ کر بھائی چارے سے آپس میں فیصلہ کرلیں گے۔ دوسری رائے یہ تھی کہ نہیں صاحب! ہندوستان monolithic whole نہیں ہے، اکائی نہیں ہے یہ تو pluralistic society ہے۔ اس میں بڑی بڑی اقلیتیں ہیں اور وہ ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے اتنی مختلف ہیں کہ ان کا ایک وکیل اور نمائندہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ جس طبقے کو ہم نے بطور وکیل سیاست میں آزمالیا، ہم اس پر اعتماد نہیں کرسکتے، ہمیں اس بات پر بھروسا نہیں رہا کہ آپ negotiate کرکے جانے والی قوت سے ہمیں ہمارا حق دلا سکتے ہیں۔ نہیں صاحب، آپ ہمارے وکیل نہیں ہوسکتے، ہمیں اس کے ساتھ خود معاملہ طے کرنا ہے؛ اپنی جگہ، اپنا حق، اپنا حصہ حاصل کرنا ہے، اپنا راستہ خود طے کرنا ہے۔ اس کے لیے علامہ اقبال نے سیاسی رہنمائی بھی فراہم کی۔ علمی تجاویز بھی دیں، فکری قیادت بھی فراہم کی، قائدین کو قائل بھی کیا اور بالآخر وہ حل دیا جس کو ہم آپ نظریۂ پاکستان کہتے ہیں۔ (اس مسئلے پر علامہ کی زندگی کے آخری ایام کی ایک گفتگو سے اقتباس تحریر کے آخر میں ملاحظہ کیجیے۔ َ ) یہ اُن کی تیسری حیثیت ہے جس کو مَیں باعتبار اہمیت تیسرے درجے ہی پر رکھتا ہوں کیونکہ یہ ایک خاص عہد کا سوال تھا اور وہ ہم سے تریسٹھ سال پیچھے رہ گیا۔ ہمارے لیے وہ بہت اہم ہے لیکن اگر اسی ایک حیثیت سے، اس تیسری حیثیت سے، علامہ کو define کرتے چلے جائیں، ان کی تعریف، ان کی پیش کش، صرف ایک ہی اعتبار سے کرتے جائیں تو نقصان ہوجاتا ہے۔ اس وقت پنڈال بچوں سے بھرا ہوا ہے۔ جب مَیں ملک سے باہر جاتا ہوں، امریکہ میں، یورپ کے مختلف شہروں میں گفتگو کا موقع آتا ہے اور اسی طرح نوجوانوں سے خطاب ہوتا ہے تو وہ ایک سوال کرتے ہیں اور جائز سوال کرتے ہیں کیونکہ ہم لوگ، میری نسل اور مجھ سے پہلے کی نسل، ایک غلطی کرتی چلی آئی ہے جس کی طرف مَیں نے ابھی اشارہ کیا ہے کہ for the sake of national discourse علامہ کی اس تیسری حیثیت کو جو وقتی حیثیت تھی، اس کو اُن کی کل حیثیت بنا کر اُن کا تعارف کرواتے ہیں۔ سوال کیا ہوتا ہے؟ بچے مجھ سے کہتے ہیں کہ جی آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ آپ نے جو کہا یہ سب بہت اچھا ہے۔ میرے اباجان، تایاجان، داداجان مجھے یہ بتاتے ہیں کہ اقبال میرے لیے اس وجہ سے اہم ہیں کہ وہ مصورِ پاکستان ہیں، اُنھوں نے تعبیرِ پاکستان دی۔ ٹھیک ہے جی احتراماً مان لیتا ہوں لیکن مجھے یہ بتائیے کہ مَیں تو پیدائشی امریکی ہوں، انگریزی بولتا ہوں، اسلام سے مَیں مخلص ہوں لیکن میری پہلی شناخت identity امریکی مسلمان کی ہے۔ اگر اقبال کی معنویت مجھے یہ بتائی جائے کہ وہ مصورِ پاکستان تھے تو ٹھیک ہے، مَیں احتراماً تو مان لیتا ہوںلیکن میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا اس آدمی کے پاس مجھ سے کہنے کے لیے، ایک نوجوان born American Muslim سے کہنے کے لیے کوئی بامعنی بات موجود ہے؟ How do I relate to him۔ ہمارے اردگرد بہت سارے مسائل ہیں ۔ بڑے بڑے سوالات ہیں۔ کچھ انسان کے بنیادی سوال ہیں اور کچھ آج کے نئے سوالات، Gender Issues ہیں، Economic disparity ہے، Religious pluralism کا مسئلہ ہے، Intolerance کا قضیہ ہے، Terrorism کا عذاب ہے، ecological crisis کا خطرہ ہے، Global warming کی دہشت ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا اقبال ان کے بارے میں کوئی بامعنی باتیں، کوئی بصیرت، کوئی insight رکھتے ہیں۔ How do I relate to him?۔ یہ بہت جائز سوال ہے ۔ اگر آپ اقبال کی تعریف صرف ان کی اس تیسری حیثیت سے متعین کریں گے اور ان کی پہلی شعری حیثیت جو اُن کو تاریخِ ادبیاتِ عالم میں صفِ اوّل کی جگہ دیتی ہے اور ان کی دوسری فکری حیثیت جو فلسفے کے میدان میں اور عہدِجدید میں پیدا ہونے والے چیلنج کے مقابلے میں اُن کو سرکردہ مفکرین کی صف میں جگہ دیتی ہے، اسے پسِ پشت ڈال دیں گے تو پھر نقصان ہوجائے گا۔ اگر ہم اقبال کی شناخت ، ان کی definition ، ان کا بیان، ان کا تعارف صرف ایک ہی حوالے سے کراتے چلے جائیں گے اور عالمی فکر کی تاریخ میں ان کو جو حیثیت اپنی حکیمانہ شاعری کی وجہ سے حاصل ہے اورجو ان کی فلسفیانہ تحریروں کی وجہ سے غیر متغیر طور پر ثبت ہو چکی ہے ، اس کو تعارف کی بنیاد نہیں بنائیں گے تو پھر یہ ادھوری بات ہو گی۔ عرض کرنے کا خلاصہ یہ ہے کہ علامہ نے اُس نئی ہوا کے پیشِ نظر، ہماری سوچ،ہمارے تہذیبی رویوں، ہمارے فکری تناظر اور ہماری دینی تعبیرات کی ایک نئی تعبیر فراہم کی۔ اس کی بنیاد انھوں نے ایک جانب اپنی حکیمانہ شاعری پر رکھی اور دوسری جانب فلسفیانہ تحریروں پر۔ اور ہمیں ان بنیادی سوالوں سے رُوبرو کیا جو ہمیشہ رہنے والے سوال ہیں۔ ان کے حوالے سے علامہ کی معنویت ان کی زندگی میں بھی تھی، اُن کے بعدبھی رہی، آج بھی ہے اورکل بھی رہے گی۔ ہر عہد، ہر زمانہ، ہر انسان، ہر تہذیب ہر معاشرہ یہ سوالات اپنے آپ سے کرتا ہے، علامہ نے اس کو سمیٹ کر ایک مصرعے میں یوں کہا تھا کہ ’’چیست عالم، چیست آدم، چیست حق‘‘۔ یعنی انسان کیا ہے، کائنات کیا ہے، خدا کیا ہے؟ تصورِ خدا، تصورِ کائنات ، تصورِ انسان اور ان کا باہمی ربط! صحرائے کالاہاری کے باشندوں کی ایک کہاوت ہے کہ بھوک دو طرح کی ہوتی ہے، "big hunger" ’’بڑی بھوک‘‘ اور "little hunger"’’چھوٹی بھوک‘‘۔ چھوٹی بھوک غذاکا مطالبہ ہے، بڑی بھوک معانی کی طلب ہے، بڑے سوالوں کے جواب کا تقاضا ہے۔ بڑی شاعری اس بڑی بھوک کو جگا دیتی ہے۔ ایک معروف مفکر کا قول ہے کہ: There is within us_in even the blithest, most light-hearted among us_a fundamental dis-ease. It acts like an unquenchable fire that renders the vast majority of us incapable in this life of ever coming to full peace. This desire lies in the marrow of our bones and deep in the regions of our soul. All great literature, poetry, art, philosophy, psychology, and religion tries to name and analyze this longing. We are seldom in direct touch with it, and indeed the modern world seems set on preventing us from getting in touch with it by covering it with an unending phantasmagoria of entertainments, obsessions, and distractions of every sort. But the longing is there, built into us like a jack-in-the-box that presses for release. 22 اس حوالے سے ذرا اس بارے بھی غور فرمائیے کہ گذشتہ دس پندرہ سال سے مولانا روم ساری مغربی دُنیا کے بالعموم لیکن شمالی امریکہ کے بالخصوص مقبول ترین شاعر کیوں بن گئے ہیں؟ صرف اسی بنیادی وجہ سے کہ وہ اس معاشرے میں پیدا ہونے والے اس خلا کو پر کرتے ہیں؟اس بنیادی سوال کا جواب دیتے ہیں۔ آخر کوئی وجہ ہے کہ ایک مشرقی شاعر اس بڑی بھوک کو جگانے کی وجہ سے شمالی امریکہ کا مقبول ترین شاعر ہے۔ ایک تو وہ شعر کی زبان میں کلام کرتے ہیں اور شعر ہمیشہ سے رُوحِ انسانی کا وسیلۂ اظہار رہا ہے، ہر تہذیب، ہر زمانے میں۔ دوسرا یہ کہ وہ ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے عارفانہ بات بھی کرتے ہیں اور یہ ایک winning combinationہے جب عرفانی نقطۂ نظر اور شعر کا وسیلۂ اظہار اکٹھا ہوجائے تو اس سے بہتر امتزاج اور کوئی نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال کے ہاں بھی یہی دو اجزا پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ خود ہی اعلان کرتے ہیں کہ : چوں رومی در حرم دادم اذاں من ازو آموختم اسرارِ جاں من۲۳؎ کہ رومی کی طرح مَیں نے بھی ملتِ اسلامیہ کے حرم میں اذان دی۔ ’’ازو آموختم اسرارِ جاں من‘‘۔ یہ جو گہری نکتے کی باتیں ہوتی ہیں حیات، کائنات کے بارے میں یہ مَیں نے ان سے سیکھی ہیں۔ ’’ بہ دورِ فتنۂ عصرِ کہن او‘‘۔ پرانے زمانے میں جو ایک فتنۂ فکر پیدا ہوا تھا اس کے لیے کون تھا، رومی۔ ’’بہ دورِ فتنۂ عصرِ رواں من‘‘ آج کے عہد میں جو یہ فتنۂ فکر پیدا ہوا ہے اس کے لیے کون ہے، مَیں۔ اور یہ چیز جڑ گئی وہاں آکر۔ یہ جو دوسری ’’نئی ہوا‘‘ چلی تھی اس میں علامہ اقبال اپنے آپ کو رومی کا وارث قرار دے کر یہ دعویٰ کررہے ہیں۔ ایک اور جگہ بھی کہتے ہیں: ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار اک بحر پُرآشوب و پُراسرار ہے رومی تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام کہتے ہیں چراغِ رہِ احرار ہے رومی۲۴؎ غور فرمائیے کہ یہ کون سے سوالات ہیں۔ علامہ نے یہ جو کہا تھا کہ’’چیست عالم، چیست آدم، چیست حق‘‘۔ تو ’’عذاب دانش حاضر‘‘ کے مقابل انھیں کچھ کرنا ہے، اپنی دوسری حیثیت میں، اور شعر کے وسیلے سے۔ اس کے لیے اُنھوں نے اپنا لائحہ عمل کیا بنایا۔ اقبال کہتے ہیں کہ مَیں نے دو طرح کے کام کیے اور یہ ان کی انھی دو بڑی حیثیات کی طرف اشارہ ہے جن کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ من بطبعِ عصرِ خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف! حرفِ پیچا پیچ و حرف نیش دار تا کنم عقل و دلِ مرداں شکار! حرفِ تہ دارے باندازِ فرنگ نالۂ مستانۂ از تارِ چنگ! اصلِ ایں از ذکر و اصلِ آں ز فکر اے تو بادا وارثِ ایں فکر و ذکر! آب جویم از دو بحر اصلِ من است فصلِ من فصل است و ہم وصلِ من است! تا مزاجِ عصرِ من دیگر فتاد طبعِ من ہنگامۂ دیگر نہاد!۲۵؎ ’’میں نے اپنے زمانے کا مزاج دیکھ کر اس سے دو باتیں کہیں میں نے دو دریائوں کو دو کوزوں میں بند کردیا ہے پیچ در پیچ بات اور دل میں کھب جانے والا کلام تاکہ میں (ان کے ذریعے سے) مردانِ کار کے عقل اور دل کو شکار کروں مغربی اُسلوب میں ایک تَہ دار حرف چنگ کے تار سے نکلا ہوا ایک نالۂ مستانہ! اس کی اصل ذکر سے نکلی ہے اور اُس کی فکر سے اے پسر! خدا تجھے اِس ذکر وفکر کا وارث بنا دے میں ندی ہوں، دو سمندروں سے پھوٹی ہوں میری جدائی جدائی بھی ہے اور میرا وصل بھی چونکہ میرے دور کا مزاج بدل گیا ہے میری طبیعت نے (اسی لیے) ایک نیا ہنگامہ ایجاد کیا ہے‘‘ ’’حرفِ پیچاپیچ و حرف نیش دار‘‘۔ ایک وہ ہے جو منطق و استدلال کی پیچیدگیوں کے وسیلے سے بات کرتا ہے کہ یعنی فکرِاستدلالی، فلسفے کی زبان، اور دوسرا ’’حرفِ نیش دار‘‘ وہ جو سیدھا دل پر اثر کرتا ہے، دل میں اُتر جاتا ہے۔ ’’حرف پیچاپیچ و حرف نیش دار‘‘… ایک طرف لوگوں کی فکری اصلاح ’’عقل و دلِ مرداں شکار‘‘۔ دونوں کا شکار کیا جاسکے، ایک کا شعر سے دوسرے کا فلسفے سے۔ ’’حرفِ تہ دارے بہ انداز فرنگ‘‘۔ مغربی فلسفے سے جو چیلنج آیا تھا اسی کے انداز میں، اسی کے اُسلوب میں، اسی کے اندازِ فکر اور اندازِ استدلال میں جواب دے رہا ہوں، ’’حرفِ تہ دارے باند از فرنگ‘‘۔ ’’نالۂ مستانۂ از تارِ چنگ!‘‘۔ یہ شعر کی زبان ہے۔ نالہ وہ اپنے سارے شعری بیان کے لیے کنایے کے طور پر ہمیشہ استعمال کرتے ہیں۔ ’’تا مزاجِ عصرِ من دیگر فتاد‘‘ میرے زمانے کا فکری خمیر، فکری مزاج جب خراب ہوگیا تو ’’طبعِ من ہنگامۂ دیگر نہاد!‘‘ تو مَیں نے یہ دوکام کرنے کی ٹھانی اور انھیں انجام دیا۔ یہ ان کی ان دونوں حیثیات کا خلاصہ ہے، ایک بہ زبان شعر اور دوسرا بہ اُسلوبِ استدلال و فلسفہ۔ اپنے شعری بیان میں اُنھوں نے جو کارنامہ انجام دیا وہ ان کی فلسفیانہ تحریروں سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ شعر میں اُنھوں نے وہ کیا جو اِن چار بڑے شاعروں کی آرزو تھی بلکہ دُنیا کے تمام بڑے شاعروں کی آرزو ہوتی ہے۔ شعرِ دانش، حکیمانہ شاعری کا منتہائے کمال یہ ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جو تصور میں ہے، جو فکری سطح پر ہے، وہ آپ کے احساس میں اور وجود کی ساری سطحوں کو متاثر کرنے والی حیثیت میں ڈھل جائے۔ علامہ اپنے شعر سے یہی بڑا کام لیتے ہیں کہ وہ بڑے معنی، وہ بنیادی سوالات صرف فکر کی سطح پر نہیں رہتے، صرف تصوراتی سطح پر نہیں رہتے بلکہ انسانی وجود کی جتنی سطحیں ہیں یعنی احساس، جذبات اور تشکیلِ اعمال، ان سب پروارد ہوکر آپ کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ وہ بڑی معنویت ہے جو ہر عہد کے لیے معنویت ہے: کل بھی تھی، آج بھی ہے اور کل بھی ہوگی۔ ئ……ئ……ء حواشی ۱- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اُردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص۷۴-۷۳۔ ۲- ایضاً، ص۷۴۔ ۳- ایضاً، ص ۸۴۔ ۴- اُردو میں ’’مدبر‘‘ اہلِ سیاست کو کہتے تھے، ’’تدبیر کرنے والا‘‘، سیاسی تدبیر، تدبیرِ اُمور۔ ۵- کلیاتِ اقبال، (اُردو)، ص۸۴۔ ۶- ایضاً، ص۸۶۔ ۷- ایضاً، ص۹۹۔ ۸- ایضاً، ص۱۰۰۔ ۹- ایضاً، ص۱۰۳۔ ۱۰- ایضاً، ص۸۲۔ ۱۱- ایضاً، ص۸۳۔ ۱۲- ایضاً، ص۲۳۴۔ ۱۳- ایضاً، ص۲۰۷۔ ۱۴- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص۵۱۰۔ ۱۵- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (اُردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ، ص۸۲۔ ۱۶- ایضاً، ص ۸۳۔ ۱۷- ایضاً، ص۲۳۴۔ ۱۸- ایضاً۔ ۱۹- ایضاً، ص۲۱۶۔ ۲۰- ایضاً، ص۳۹۱۔ ۲۱- اقبال نامہ، شیخ عطاء اللہ (مرتب)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص۳۰۳۔ -۲۲ Huston Smith, Religion-Significance and Meaning in an Age of Disbelief, Suhail Academy, Lahore, 2002, p.28. ۲۳- علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۹۳۸۔ ۲۴- کلیاتِ اقبال، (اردو)، ص ۴۷۹۔ ۲۵- کلیاتِ اقبال، (فارسی)، ص۶۶۹۔ ئ……ئ……ء َ علامہ کی گفتگو سے اقتباس: فرمایا:’’ہندوئوں کی طرح ہمارا بھی ایک نقطۂ نظر ہے اور اس ملک کے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا یہ کہ ہم اس نقطۂ نظر کو خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں۔ ہمارے ذہن میں بھی آزادی کا کوئی مثبت تصور ہونا چاہیے۔‘‘ فرمایا: ’’آزادی سے مراد ہے اس امر کا اختیار کہ جیسا کسی قوم کا کوئی سیاسی اور اجتماعی نصب العین ہے اور جیسے جیسے اس کے اخلاقی اور مذہبی تصورات ہیں وہ معاشرے کی تعمیر ان کی بنا پرکرے۔ لہٰذا شرط اوّل یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو اسلام کا نقطۂ نظر اس باب میں کیا ہے۔ اگر معلوم ہے تو سوچنے کی بات یہ ہوگی کہ کانگرس کی متحدہ یا زمانۂ حاضرہ کی وطنی قومیت کی صورت میں ہم اپنے معاشرے کی تعمیر کیا اس نقطۂ نظر کے مطابق کرسکیں گے؟ کیا آزاد ہندوستان میں جیسا کہ کانگرس کی خواہش ہے حیات فرد اور جماعت کی وہی شکل ہوگی جو ازروئے اسلام ہونی چاہیے۔‘‘ فرمایا: ’’یہ آزادی کا معاملہ محض آزادی یعنی انگریزی اقتدار سے نجات و استخلاص کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے جیسے بھی آئندہ حالات ہوں گے ان کو اپنے اپنے طریقِ زندگی کے مطابق ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کا معاملہ ہے۔ ایک ہمارا طریقِ زندگی ہے۔ ایک ہندوئوں کا۔ بظاہر ان کا زور سیاسی اتحاد پر ہے۔ بہ باطن ایک نئے طریقِ زندگی پر۔ فرض کیجیے ہمارے سامنے سرے سے ایک نیا طریقِ زندگی ہے اور زمانے کا تقاضا یہ کہ ہم اسے اختیار کرلیں، ہندوئوں اور مسلمانوں کی طرح سوچنا چھوڑ دیں۔ اس صورت میں بھی یہ نیا طریقِ زندگی جب ہی اختیار کیا جاسکتا ہے کہ ہندو مسلمانوں یا مسلمان ہندوئوںمیں جذب ہوجائیں۔ لیکن ہندو تو مسلمانوں میں جذب ہونے سے رہے۔ البتہ ان کی یہ ضرور خواہش ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر جذب کرلیں، یا اگر جذب نہ ہوسکیں تو بطور ایک سیاسی عنصر کے ان کی ہستی کالعدم ہوجائے۔ دراصل وہ جب ایک نئے طریقِ زندگی کا نام لیتے اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں چاہیے ہندوئوں کی طرح سوچیں نہ مسلمانوں کی طرح تو اس لیے کہ عصرِحاضر کے سیاسی، معاشی تصورات کی بنا پر ایک متحدہ قومیت کا نشوونما اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کا مغربی اُصول اس مقصد کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔۱؎ یوںہندو معاشرہ کی ہستی تو جوں کی توں قائم رہے گی۔ نہیں رہے گی تو مسلمانوں کی۔۲؎ اس پر شاید قریشی صاحب نے کہا، کانگریسی خیال مسلمان بالخصوص ان کے ہم خیال علما کو اس خطرے کا بخوبی احساس ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ ہماری اوّلین ضرورت آزادی ہے۔ ہندوستان آزاد ہوگیا تو ہم اپنے طریقِ زندگی کا تحفظ آپ کرلیں گے۔ ارشاد ہوا ’’یونہی سہی لیکن کیسے؟ از روئے مفاہمت یاخانہ جنگی؟ مفاہمت کا خیال ہے تو اس کی ابتدا ابھی سے ہوجانی چاہیے۔ کیوں نہ اس جدوجہد کے لیے جو کل پیش آنے والی ہے ہم آج ہی اپنے آپ کو تیار کریں۔ کیوں نہ ہم آج ہی سمجھ لیں کہ آزاد ہندوستان میں اسلامی معاشرے کی تعمیر کن حالات میں ممکن ہوگی۔ ہمارا کوئی سیاسی اجتماعی نصب العین ہے تو کیا یہ لازم نہیں آتا کہ آزادی کی اس جدوجہد میں جو اس وقت درپیش ہے ہم اپنے مقاصد کا تعین اس نصب العین کے حوالے سے کریں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’قوموں نے اس معاملے میں اکثر غلطیاں کیں اور نقصان بھی اُٹھایا کہ حالات کے غلط اندازے یا کسی خیال اور فرضی مصلحت کی بنا پر بعض باتوں کا فیصلہ ملتوی رکھا، حالانکہ یہ باتیں فوری طور پر فیصلہ طلب تھیں۔ مگر یہاں تو حالت یہ ہے کہ ہمیں ان مسائل کا کوئی واضح تصور بھی نہیں جو کل پیش آنے والے ہیں اور جو اس ملک میں اسلامی معاشرے کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں۔ اب اگر ہندوستان میں آزادی کی وہی صورت ہوئی جو کانگرس کے سامنے ہے تو یہ حضرات کس کا اور کیسے تحفظ کریں گے۔‘‘۳؎ ہم نے عرض کیا: ’’کچھ ایسا ہی خیال وطنیت پسند مسلمانوں کا ہے۔ کانگریس کی ہندوانہ ذہنیت کے پیشِ نظر ان کے تغلب پسند مقاصد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تو ان کے ہم نوا یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک عارضی دور ہے، ہمارا حقیقی مقصد تو آزادی اور استخلاص ہے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک سب سے پہلا سوال یہی حصول آزادی کا ہے۔ باقی مسائل اندرونی ہیں۔ ہم ان مسائل سے بعد میں نپٹ لیں گے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’وہ کیسے؟ یہ سارا مسئلہ تو آئینی ہے، یعنی حکومت سے ایک بات منوانے کا۔‘‘ پھر متاسف ہوکر فرمایا: ’’مسلمان بڑے سادہ ہیں۔ کیسے کیسے مغالطوں میں گرفتار ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’کانگریس کی حمایت سے تو مسلمانوں کے استخلاص اور آزادی کا راستہ نہیں کھلتا۔ یہ راستہ تو ضعف و انحطاط اور افتراق و انتشار کا ہے۔ طاقت اور قوت اتحاد و ارتباط کا نہیں ہے۔ طاقت اور قوت حاصل ہوگی تو متحدہ قومیت یا کانگریس کی اصطلاح میں ہندوستانی قوم کو۔ آزادی بھی اسی کو ملے گی اور ہندوستان کا سیاسی اقتدار بھی اسی کے ہاتھ میں رہے گا۔ یہ راستہ آئینی جدوجہد سے طے کیا جائے، یا غیر آئینی طریقوں سے، دونوں صورتوں میں جو بھی فیصلہ ہوگا اکثریت کے حق میں ہوگا۔ اس لیے جب تک یہ طے نہیں ہوتا کہ جو لوگ اس جدوجہد میں شریک ہیں ان کی حیثیت بمقابلہ ایک دوسرے کے کیا ہے، یہ کہنا بہت بڑی غلطی ہوگی، بلکہ خود کشی کے مترادف کہ سرِدست مسئلہ صرف آزادی کا ہے۔ باقی مسائل بعد کے ہیں ہندو ایسے سادہ لوح نہیں ہیں جیسے اس خیال کے مسلمان انھیں سمجھتے ہیں۔‘‘ ----------------------------- ۱- کہ ہندو مسلمان ایک قوم ہیں اور انھیں ایک قوم ہی کی حیثیت سے آزادی حاصل کرنی چاہیے۔ ۲- چنانچہ کانگرس نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے خلاف بھی تحریک شروع کردی تھی۔ ۳- نگہ دارد برہمن کار خود را نمی گوید بہ کس اسرار خود را بمن گوید کہ از تسبیح بگذر بدوش خود برد زنار خود را [ ارمغانِ حجاز فارسی، ص۹۷] [سیّد نذیر نیازی، اقبال کے حضور، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۳۲۵-۳۲۴] ئ……ئ……ء عقل-فلسفیانہ، ادبی اور عرفانی مفاہیم Intellect, Intelligence, Reason(خرد، فہم، بدھی، سمجھ، دانش) ڈاکٹر فضل الرحمن؍ ولیم سی چیٹک ترجمہ: خضر یاسین؍ محمد سہیل عمر عام مفہوم عرب ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ عقل کی اصطلاح کے اصلی معنی ہیں ’’روکنا‘‘ یا ’’باندھنا‘‘۔ بعد کو یہ لفظ ’’خرد‘‘ کے معنوں میں اس لیے استعمال ہونے لگا کہ ’’یہ انسان کو گراوٹ میں پڑنے سے روکتا ہے‘‘۔۱؎یہ لفظ اسلامی فلسفے، کلام، تصوف اور ادب میں اپنا وسیع استعمال رکھتا ہے مگر ہر ایک میں اس کا مختلف رنگ ہے۔ خاص طور پر فلسفے اور کلام میں اس کا استعمال فنی نوعیت کا ہے اور یونانی فلسفیانہ تصورات کے زیر اثر ارتقا پذیر ہوا ہے۔ ان فنی اصطلاحات میں یہ یونانی لفظ Nous اور Diلnoia کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ الفارابی نے اپنے رسالۃ فی العقل۲؎ کے آغاز میں ’’عقل‘‘ کے مختلف معانی کو ارسطو کے فکری تناظر میں ایک دوسرے سے الگ کیا ہے، ان میں سے ایک کو اس نے متکلمین کی طرف منسوب کیا ہے۔ لفظ ’’عقل‘‘ کے فلسفیانہ استعمال کی رُو سے، ’’عقل‘‘ کلیات (Universals) کا ادراک کرتی ہے جبکہ اس کے برعکس ’’حسی ادراک‘‘ صرف جزئیات (Particulars) کو گرفت میں لاتا ہے۔ عقل کا وظیفہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے موضوعِ ادراک کو مادّے اور مادّی نسبتوں سے الگ اور مجرد کر دیتا ہے اور اس سے ایک تصور وضع کرتا ہے جس کا اس نوع کے تمام افراد پر اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل جس طرح سے انجام پاتا ہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ ذہن حافظے میں ذخیرہ شدہ مدرکات کی صورتوں میں تالیف اور تفریق کا عمل کرتا ہے جس سے اس کے اندر عقل فعال سے معقولات کلیّہ کو قبول کرنے کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے۔عقل فعال وہ کائناتی عقل ہے جو انسان کی عقل بالقوہ پر اثر انداز ہو کر اسے عقل بالفعل بنا دیتی ہے۔ چنانچہ ’’معقولاتِ کلیہ‘‘ ذہن میں موجود صورتوں سے ’’برآمد‘‘ نہیں ہوتے بلکہ اس پر ’’خارج سے‘‘ وارد ہوتے ہیں۔ مسلم فلسفیوں میں ابن سینا نے عقل کے متعلق سب سے زیادہ مفصل نظریہ وضع کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تعقل (intellection) کے ذریعے سے انسان اپنے اندر تخلیقی علم کی استعداد پیدا کر لیتا ہے۔ اس استعداد یا قوت کو وہ ’’العقل البسیط‘‘ کا نام دیتا ہے۔(قرون وسطیٰ کے لاطینی فلسفے میں یہ لفظ Scientia Simplex کا مترادف ہے)۔العقل البسیط انسان کو ایک ایسا علم از سر نو (ab initio) تخلیق کرنے کے قابل بنا دیتی ہے جسے اس نے پہلے کبھی حاصل نہیں کیا ہوتا۔ اس نو تخلیق کردہ علم کو ابن سینا ’’علم استدلالی‘ کا نام دیتے ہیں۔۳؎ اپنے ارتقا کے اعلیٰ ترین درجے پر جہاں عقل انسانی عقل فعال سے مشابہت پیدا کر لیتی ہے، پیغمبرانہ عقل وجود میں آتی ہے جہاں تمام حقائق ایک مخزن کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اور یہیں سے نبی کے ذہن میں عقلی وحی الہامی پیغامات بن کر اُٹھتی ہے۔۴؎ نوفلاطونیت کے نظریۂ صدور کے زیر اثر مسلم فلاسفہ نے دس مابعدالطبیعی عقلوں (عقول عشرۃ) کا نظریہ وضع کیا۔ عقلِ اوّل بلا واسطہ خدا سے صادر ہوتی ہے جس سے ایک طرف عقل ثانی اور دوسری طرف فلک اوّل کا صدور ہوتا ہے۔ ہر عقل اپنے متعلقہ فلک میں حرکت کرتی ہے اور عقول اور افلاک کا یہ سلسلہ دسویں عقل (عقل عاشر) تک جاری رہتا ہے۔ دسویں عقل اس قدر ناقص ہو چکی ہوتی ہے کہ کسی اور عقل کو صادر نہیں کر سکتی، وہ صرف زیرِ قمر عالمِ مادی کو پیدا کرتی ہے۔ یہی وہ عقل ہے جو عقل فعال کہلاتی ہے جو زمانی و مکانی کائنات کے مراتب موجود ات کو مختلف صورتیں دیتی ہے جو پیغمبرانہ عقل میں اپنے منتہا کو پہنچتی ہیں جہاں یہ کائنات عقل فعال سے از سرِ نو جڑ جاتی ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے فلاسفہ چاہے مسلمان ہوں یا ان کی پیروی میں لاطینی مفکرین ہوں جیسے سینٹ تھامس ایکونس، اس نظریے کو جس چیز نے ان کے اذہان میں ناقابلِ انکار بنا دیا تھا وہ یہ تھی کہ یہ علمی اور مذہبی دونوں طرح کے مطالبات کے لیے بہ یک وقت قابلِ اطمینان تھا۔ سائنسی نقطۂ نظر سے اس میں آٹھ سیارے اور ایک فلک اعظم (جو تمام ساکن ستاروں کو محیط ہے) پایا جاتا تھااور مذہبی نقطۂ نظر سے اس لیے کہ ملائکہ ٔ بزرگ کی تعداد کو افلاک کی تعداد کے برابر مانا جاتا تھا۔۵؎ جہاں تک علم کلام کا تعلق ہے تو اس میں عقل و خرد کے بارے میں کوئی مفصل نظریہ وضع نہیں کیا گیا، مگر جیسا کہ حوالۂ بالا میں الفارابی نے بیان کیا ہے، متکلمین بار ہا ’’عقلِ فطری‘‘( عقل بالفطرۃ)اور ’’عقلِ سلیم‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس تصور کا مبدأ رواقیوں کا ’’ عقلِ غریزی‘‘ کا تصور ہے جسے وہ (Lumen naturale) یا فطری نور بھی کہتے ہیں۔ معتزلہ کے نزدیک یہ فطری عقل انسان کی رہنمائی کے لیے خود کفیل ہے اور وحی کی احتیاج سے مستغنی ہے جبکہ علماے کلام اس کی فعلیت کو قطعی طور پر وحی کے تابع قرار دیتے ہیں۔ قانون و شریعت کے معاملے میں تو وہ عقل کی خود مختاری کے تصور کو بالخصوص رد کرتے ہیں۔ ___(ڈاکٹر فضل الرحمن) فارسی ادبیات میں عقل کی اصطلاح مسلمانوں کی تصانیف میں کثرت سے موضوعِ بحث رہی ہے اور یہ امر ہرگز باعث تعجب نہ ہونا چاہیے کیونکہ ’’علم‘‘ جو اگر کسی اعتبار سے عقل کا عین نہ بھی ہو تو بھی عقل کا محتویٰ تو ہے ہی اوراسلامی تہذیب میں اس کی حیثیت مرکزی ہے نیز’’ مسلمانوں کی عقلی، روحانی اور عمرانی زندگی کے تمام پہلوئوں پر اس کا غلبہ رہا ہے۔‘‘۶؎ مختلف علوم کے کئی ماہرین کے یہاں اس لفظ کا حقیقی مصداق متنازع رہا ہے اور اس کی تعریفات میں بھی اختلاف عام ہے۔ بالعموم اسے مختلف انواع میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ فلسفیانہ بحث اوپر دیے گئے حوالے میں ملاحظہ کیجیے۔۷؎ معروف متکلم ابوحامد غزالی (متوفی ۱۱۱۱؍۵۰۵) کا کہنا ہے کہ عقل کی ماہیت کے بارے میں اختلاف رائے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ چار مختلف حقائق پردلالت کرتا ہے:۸؎ ۱- وہ صفت جو انسان کو حیوانات سے متمیز کرتی ہے اور اسے علوم و فنون سیکھنے کے قابل بناتی ہے۔ اس حیثیت سے عقل ایک خلقی اور غریزی ملکہ (Innate Capacity) ہے جو علم سے وہی نسبت رکھتی ہے جو آنکھ کو بینائی سے ہے۔ ۲- وہ علم جو بچوں میں ایک فطری ملکے کی طرح موجود ہوتا ہے۔اس کا اظہار اُس وقت ہوتا ہے جب بچے یہ تمیز کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ مثلاً : دو چیزیں زیادہ ہوتی ہیں ایک چیز سے۔ ۳- وہ علم جو تجربے کے ذریعے حاصل کیا جاتاہے۔ ۴- انسان کی وہ فہم جو اسے علم کی فطری استعداد سے میسر آتی ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ ہر عمل کے کچھ نتائج ہوتے ہیں اور یہ کہ خواہشات اور ذاتی مفاد کو لازماً حد کے اندر رہنا چاہیے۔ غزالی کہتے ہیں عقل کی ان اقسام میں سے پہلی قسم بنیاد اور منبع ہے۔ دوسری قسم پہلی کا ابتدائی نتیجہ ہے۔ تیسری قسم پہلی اور دوسری اقسام کے اشتراک کا حاصل ہے اور چوتھی قسم حتمی نتیجہ اور آخری مقصود ہے۔ پہلی دونوں اقسام وہبی ہیں جبکہ آخری دو اکتسابی ہیں۔۹؎ ابتدائی اسلامی کتب اور غزالی جیسیعلماء کے مباحث میں عقل کا کردار انتہائی مثبت قرار دیا گیا ہے۔ تاہم فارسی ادبیات اور تصوف میں عقل کی نارسائی کو اکثر مورد تنقید بنایا گیا ہے، بالخصوص عشق و محبت کے مقابلے میں۔ اس مضمون کے باقی ماندہ حصے کا مرکزی موضوع عقل اور عشق کا یہی تقابل ہو گا۔ اگرچہ عقل کا لفظ قرآن مجید میں وارد نہیں ہوا تاہم اسی فعل کے مختلف صیغے مثلاً ’’یعقلون‘‘، ۴۹ مرتبہ استعمال ہوئے ہیں اور ہر بار مثبت معنوں میں آئے ہیں۔ عقل ہی سے انسان خدا کی نشانیوں(آیات الٰہی) کو سمجھتا ہے چاہے یہ آیات مظاہر فطرت سے تعلق رکھتی ہوں۱۰؎ یا خود قرآن مجیداور دیگر صحف کی آیات ہوں۔۱۱؎ عقل انسان کو جہنم میں گرنے سے بچا لیتی ہے (القرآن ۱۰:۶۷) اور اسے یہ سمجھنے کے قابل بناتی ہے کہ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بہتر ہے۔۱۲؎ خدا تعالیٰ کی نظر میں اس کی مخلوق میں بدترین وہ لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (القرآن ۲۲:۸)۔ عقل کی اہمیت اس بات سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ قرآن مجید میں اولوا الالباب کے ’’لُبّ‘‘ کا لفظ ۱۶مرتبہ آیا ہے اورمفسرین کے نزدیک یہ لفظ عقل کا مرادف ہے۔ اس آیت کو بطور مثال دیکھیے: ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون و ما یتذکر الا اولوا الالباب (القرآن ۹:۳۹)’’ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔ فقط اولوا الالباب ہی نصیحت حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ اہلِ سنت کے ہاں احادیث کے ابتدائی مجموعوں میں عقل کے متعلق جو معدودے چند احادیث ہیں ان میں بھی قرآن مجید ہی کی طرح عقل کو اسی مثبت معنی میں لیا گیا ہے۔ متاخرتصانیف میں ایسی متعدد احادیث کا حوالہ ملتا ہے جن میں عقل کی تحسین کی گئی ہے۔۱۳؎ اہلِ تشیع کے مجموعہ ہائے احادیث عقل کی توصیف میں خاص طور پر پُرثروت ہیں۔۱۴؎ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع دونوں کی روایات میں عقل اور صحیح عقیدہ و عمل کے مابین تعلق پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ غزالی (محولہ ماقبل) نے پیغمبر علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے کہدعامۃ المؤمن عقلہ فبقدر عقلہ تکون عبادتہ ’’عقل مومن کا ستون ہے، جتنی اس کی عقل ہو گی اسی قدر اس کی عبادت‘‘ اسی طرح امام جعفر صادق عقل کی تعریف کرتے ہیں کہ ’’عقل وہ شے ہے جس سے رحمان کی عبادت کی جاتی ہے اور جنت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘۱۵؎ شیعہ مآخذ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ تمام مثبت اخلاقی فضائل عقل پر منحصر ہیں۔ آگے چل کر جب تصوف میں کمالِ روحانی کے باقاعدہ مقامات پر گفتگو کا آغاز ہوا تو اُن مباحث میں یہی صفات اُن مقامات کے اُصول و مبادی کی حیثیت سے نظر آتی ہیں۔۱۶؎ اگرچہ ابتدائی مآخذ میں عقل کی بے حد تعریف کی گئی ہے تاہم اسے ہمیشہ خداکی خلق کردہ چیز کی حیثیت دی گئی ہے اور خدا کا ہمسر اور شریک کوئی نہیں۔ بنابریں عقل کچھ حدود کی پابند ہے: ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ عقل کے ادراک میں اتنا ہی آتا ہے جتنا وہ خود کو اس پر ظاہر کرنا چاہے، خواہ یہ کام کتابوں کے ذریعے سے ہو یا اس کی پیدا کردہ کائنات کے ذریعے سے ہو۔ مگر انسان صاحبِ عقل ہوتے ہوئے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کا ویسا ادراک نہیں کر سکتا جیسا کہ وہ اپنی ذات میں ہے۔ اس موقف کے اثبات کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت اکثر پیش کی جاتی ہے: وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ(القرآن ۷۴:۲۲)۔ اسی طرح اس موضوع پر پیغمبر علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایاکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق پر تفکر کرو، اُس کی ذات پر غور و فکر نہ کرو۔۱۷؎ حضرت علیؓ نے نہج البلاغۃ میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کی ذات کو پوری طرح سمجھنے کے بارے میں عقل کی نارسائی بیان کی ہے۔۱۸؎ عام طور پر علم کلام میں ’’تنزیہ‘‘ پر بہت زور دیاگیا ہے، یعنی یہ تصور کہ خدا تعالیٰ مخلوقات کی طرح نہیں ہے اور ہمارے فہم سے ماورا ہے۔ یہ تصور عقل کی اس نا رسائی کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی کنہِ ذات کا ادراک نہیں کر سکتی تاہم آدمی کی عقل اس قابل ضرور ہے کہ وہ اس کی بدولت صحیح عقیدہ اختیار کر سکے اور اعمالِ صالح بجا لا سکے۔ متقدمین صوفیہ میں بہتوں نے عقل کی حدود کی وضاحت کی ہے۔ ابوالحسن نوری (متوفی ۹۰۸؍۲۹۵) نے کہا ہے کہ’’ عقل عاجز ہے اور یہ جس کی نشاندہی کرتی ہے وہ بھی اسی کی طرح عاجز ہے۔‘‘۱۹؎ عقل کو اس لیے بھی مشتبہ گردانا جاتا رہا کہ فلاسفہ اور بہت سے متکلمین یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے عقائد عقل کی دریافتوں پر مبنی ہیں جبکہ امت کی اکثریت یہ محسوس کرتی تھی کہ یہ مفکرین اسلام کے ظاہر اور باطن سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ ’’عاقل‘‘، ’’اہلِ عقل‘‘،کی اصطلاح زیادہ تر تحقیر کے لیے برتی جاتی ہے جس سے عموماً عقل پرست فلسفی یا مفکر مراد ہوتا ہے جو عقل کو وحی سے بھی برتر درجہ دیتا ہو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سنائی (متوفی۳۱۔ ۱۱۳۰؍ ۵۲۵) لکھتے ہیں کہ عقل حبِ ایمانی میں نابینا ہے، ’عاقلی‘ تو بس بو علی سینا (ایسے لوگوں کا) شیوہ ہے۔۲۰؎ سنائی اپنے دیوان میں عقل پر شریعت کی برتری پر زور دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ابن سینا تجھے ’’شفا‘‘ دینے کے لائق ہے نہ ’’نجات ‘‘۔۲۱؎ اسی طرح وہ بتاتے ہیں کہ عقل وحی کے بغیر بے معنی ہے اور یہ کہ عقلِ جزوی قرآن مجید کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ ’’مکڑی کا کیا کام کہ ققنس کا شکار کرے۔‘‘۲۲؎ خاقانی۲۳؎ اور رومی۲۴؎ نے بھی بوعلی سینا کو ’’عقل‘‘ کے نمایندے کے طور پر مورد تنقید بنایا ہے۔ مثنوی کے ایک معروف شعر۲۵؎ میں رومی نے سرکردہ متکلم فخر الدین رازی کو بھی اسی درجے میں رکھا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنے مرشد شمس تبریزی کے رویے ہی کی عکاسی کر رہے ہوں، جو کہتے ہیں ’’اگر ان معانی کا ادراک مطالعے اور مباحثے سے کیا جا سکتا تو جنید اور بایزید کو افسوس اور پریشانی کی وجہ سے پورے جہاں کی خاک اپنے سر پر ڈال لینی چاہیے کہ فخر الدین رازی کے مقام کو حاصل نہ کر سکے۔‘‘ ۲۶؎ جب ایرانی شعراء عقل کے مثبت کردار پر غور کرتے ہیں اور مذہبی عقائد و اعمال میں اس کی معاونت کی تعریف کرتے ہیں تو وہ فقط اسی تصویر سے متاثر نہیں ہوتے، جو قرآن مجید اور ابتدائی مذہبی تصانیف میں پیش کی گئی ہے،بلکہ یونانی فلسفے کے علاوہ خود ایرانی ماخذوں میں کی جانے والی مدح کا بھی اثر لیتے ہیں۔۲۷؎ یہ تاثر جس درجے کا بھی ہو اس نے اسلام میں عقل کے مثبت کردار کو ابھارنے کا کام انجام دیا ہے۔ وولف نے شاہنامۂ فردوسی کا جو اشاریہ مرتب کیا اس پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار مثالیں ایسی ہیں جن میں ’’خرد‘‘ کے مختلف مشتقات جیسے خرد مند (عاقل) ہمیشہ مثبت معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔۲۸؎ ناصر خسرو (متوفی ۸۹۔۱۰۸۸؍۴۸۱) مشائی فلسفے کے ماہر تھے۔ اُنھوں نے کئی اشعار میں عقل کی اس طرح تعریف کی ہے کہ یہ انسان کا دین میں ناگزیر ساتھی ہے۔ ۲۹؎ بایں ہمہ فارسی شعراء ذاتِ حق کے معاملے میں عقل کی نارسائی اور نا اہلی کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ عقل کا یہ منفی پہلو عشق و محبت کے بیان میں بہت کھل کر سامنے آتا ہے۔ عشق کے بارے میں ابتدائی زمانے سے ہی یہ خیال چلا آ رہا تھا کہ وہ عقل کی ضد ہے۔ عشق اور جنوں کے مابین تعلق نیز جنون کا عقل یا ’’عاقلی‘‘ کی ضد ہونا ہر ایک کے لیے واضح ہے، لیلیٰ و مجنوں کی حکایت اسی فہم حقیقت کا ایک اساطیری بیان ہے۔ قبل ازیں فردوسی کَہ گئے تھے کہ عشق آتا ہے تو عقل چلی جاتی ہے۔۳۰؎ بالکل اسی طرح کے اشعار فخر الدین اسعد گورگانی کی ویس ورامین میں پائے جاتے ہیںجو ۱۰۵۴؍۴۴۶ میں لکھی گئی ہے۔۳۱؎ ’’عقل کا وظیفہ ہے کہ خیر و شر میں تمیز کرے لیکن جونہی عشق آتا ہے دل میں عقل نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی‘‘۔۳۲؎ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فارسی غزل میں عقل اور عشق کا تقابل ایک متداول معیاری مضمون کی حیثیت اختیار کر گیا۔ عقل کے مثبت کردار پر اسلام نے جو غیر معمولی اصرار کیا ہے اس کے پیش نظر توقع کی جا سکتی ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے عشق کو اس وقت غلط کہا جائے گا جب وہ عقل کی مخالفت پر اتر آئے اور یہ انداز نظر ہمیں ابن الجوزی کی کتاب ذم الھویٰ جیسی تصانیف میں ملتا بھی ہے۔۳۳؎ تاہم صوفیہ انسان کے دیگر اوصاف کی نسبت حب الٰہی پر زیادہ اصرار کرتے چلے آئے تھے۔ علم کلام کے معروف عالم ابو حامد الغزالی یہاں تک لکھ گئے کہ’’حب الٰہی تمام روحانی مقامات کا آخری مقصود ہے… اس کے بعد حاصل ہونے والا ہر مقام اسی کا ثمر ہے، اور اس محبت سے پہلے کے مقامات بھی اسی کی طرف لے جاتے ہیں۔‘‘۳۴؎ مذہب میں عشق کی مرکزی اہمیت کے بارے میںجیسے جیسے صوفیہ کی تحریروں میں اضافہ ہوا تو اُنھوں نے وہ تمثیلات و مضامین اور اسالیب بیان برتنے شروع کر دیے جو نظم و نثر میں عورت کے لیے مرد کے عشق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ فارسی ادب کے ارتقا میں ابو حامد الغزالی کے چھوٹے بھائی احمد الغزالی (متوفی ۱۱۲۶؍۵۲۰)کی کتاب سوانح کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جو فارسی نثر کا شاہکار ہے۔اس رسالے میں عقل کے بارے میں جس ایجاز اور جامعیت سے ان کا تبصرہ نقل ہوا ہے اس نے صوفیانہ عشق کے سارے آیندہ استعمالات کی راہ متعین کر دی۔قرآن مجید کی آیت ہے یسألونک عن الروح۔ قل الروح من امر ربی (۷۵:۱۷) ’’وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کریں گے آپ کَہ دیجیے روح میرے پروردگار کا امر ہے۔‘‘ اس کی تفسیر میں اُنھوں نے لکھا ’’روح (جان) کے ادراک کے سلسلے میں عقل کی آنکھ بند ہے جو عشق کے گرد ایک خول ہے۔’’علم کو اس خول تک تورسائی حاصل ہے نہیں پھر تو یہ اس کے اندر مخفی گوہر تک پہنچنے کی راہ کیسے پا سکتا ہے۔‘‘۳۵؎ عقل اور عشق کے تعلق کے نظریے کی بھرپور وضاحت احمد الغزالی کے مرید عین القضاۃ ہمدانی (متوفی ۱۱۳۱؍۵۲۵) نے کی ہے۔ عربی میں لکھی گئی کتاب زبدۃ الحقائق میں بالخصوص بیان کرتے ہیں کہ ’’عشق انسان کے مرتبۂ کمال سے تعلق رکھتا ہے، جو ورائے طورِ عقل ہے‘‘۔۳۶؎ فارسی میں اس سے مفصل تر کا کام ہمدانی کی تمہیدات ہے۔ اس میں زیادہ تر ماہیت عشق کا بیان ہے اور اُن تشبیہات و تمثیلات کی شرح کی گئی ہے جو عشق کے بیان میں بروے کار آتی ہیں۔ عقل کی حدود و قیود کا تذکرہ گو دلالتاً سارے مبحث میں موجود ہے لیکن عقل کی ان تحدیدات کا صراحت سے بیان صرف چند مصرعوں میں کیا گیا ہے۔۳۷؎ شعراء میں عین القضاۃ کے ہم عصر حکیم سنائی نے عقل کی توصیف کرنے کی روایت جاری رکھی اور بتایا کہ مذہب کے معاملے میں عقل انسان کی بڑی مدد گار ہے۔۳۸؎ مگر اُنھوں نے اس عقل میں جو انسان کی خدا کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور اس جعلی عقل میں جو شیطان کے تصرف میں ہے امتیاز کیا ہے۔۳۹؎ اُنھوں نے عقل کی پناہ میں آنے والے انسان کے روحانی عروج کو بیان کیا ہے کہ وہ ’’عقل کے پرتو سے سورج بن جاتا ہے‘‘، پھر اُسے خدا تعالیٰ کے شوق کی ردا میسر آ جاتی ہے اور وہ عقل کلی سے بھی آگے چلا جاتا ہے جو خدا تعالیٰ کی اولین خلقت ہے۔‘‘۴۰؎ حدیقۃ کے آغاز میں سنائی نے خدا تعالیٰ کی حقیقت کو سمجھنے میں عقل کی نارسائی کو بیان کیا ہے۔۴۱؎ حدیقۃ کے پانچویں باب میں سنائی ہمیں بتاتے ہیں کہ عشق، عقل اور روح سے بالاتر ہے اور یہ اس ثنویت کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے جس کا ادراک عقل کفر و ایمان کی صورت میں کرتی ہے۔۴۲؎حدیقۃ کی نسبت سنائی کے دیوان کا بیشتر حصہ عشق کے لیے مخصوص ہے چنانچہ اس میں بالعموم عقل کے حوالے سے زیادہ تنقیدی زاویۂ نگاہ ملتا ہے۔ عشق ایسی دنیا سے وابستہ ہے جو عقل سے ماورا ہے۔ مؤخر الذکر جائز اور ناجائز کے چکر میں رہتی ہے جبکہ مقدم الذکر کی دلچسپی ’’نابود ‘‘ سے ہے۔۴۳؎ بہ الفاظ دیگرخدا تعالیٰ کا عاشق اپنے محبوب کے ما سویٰ ہر شے کا پھندہ توڑ پھینکتاہے (بشمول اپنی ذات کے)۔ ’’عشق کے سوا ہر شے کو دردِ دل (غم) کہو‘‘۔۴۴؎ سنائی کے اشعار نے فارسی شاعری میں عقل اور عشق کے مابین تقابل کے لیے سانچا بنا دیا۔ تاہم اُنھوں نے عقل کے کونیاتی کردار پر بھی زور دیا تھا؛ نتیجے کے طور پر یہ فارسی شاعری کا عمومی وصف بن گیا، بالخصوص صوفیہ کے ہاں۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اوّل ما خلق اللّٰہ العقل ’’عقل خدا کی پہلی مخلوق ہے۔‘‘ یہ حدیث سنّی اور شیعہ دونوں ماخذوں میں پائی جاتی ہے اگرچہ اس کے استناد پر کچھ علماء نے اعتراض کیا ہے۔ فلاسفہ کے ہاں بھی اس کا اکثر حوالہ ملتا ہے۔ یہ لوگ اس میں نوفلاطونی تعلیمات کا اثبات دیکھتے تھے اور سنائی تو فلسفیانہ روایت میں بھی رسوخ اور مہارت رکھتے ہیں۔۴۵؎ متاخرین صوفیہ کی طرح سنائی بھی انسان کے مبدا و غایت کی وضاحت کرتے ہوئے اسلامی نقطۂ نظر کو فلسفیانہ تصورات میں بہ اطمینان بیان کرتے تھے۔ اس لیے وہ عقل کو تمام موجودات کی علت قرار دیتے ہیں۴۶؎ اور بتاتے ہیں کہ عقل کلی خدا تعالیٰ کی قریب ترین چیز ہے۔۴۷؎ وہ سیرالعباد الی المعاد میں عقل کل یا کلی کے کونیاتی کردار پر قدرے وضاحت سے روشنی ڈالتے ہیں۔۴۸؎ عطار (متوفی ۱۲۲۰ئ؍۶۱۸ھ)نے اپنے دیوان اور مثنویوں کو زیادہ تر عشق اور اس کے لوازم کے لیے وقف رکھا ہے۔اس لیے ان کے ہاں عقل کے مثبت کردار پر شاذو نادر ہی کچھ ملتا ہے۔ اس کی جگہ وہ عشق کے مقابل عقل کی نارسائی اور عدم استعداد پر زور دیتے ہیں اور شرابِ عشق کی مستی اور روئے محبوب کے دیدار کے نتیجے میںپیدا ہونے والی حیرت اور دیوانگی کو سامنے لاتے ہیں جو عاشق پر غلبہ کیے رہتی ہے۔۴۹؎ سنائی کے مقابلے میں عطار کائنات میں عقل کے کردار کو شاذ و نادر بیان کرتے ہیں۔ عطار کے معاصرین میں متعدد اہم نثر نگاروں نے عقل اور عشق کی بحث میں حصہ لیا ہے۔ فارسی کے صاحب طرز نثر نگار شہاب الدین سہروردی مقتول (متوفی ۱۱۹۱ئ؍۵۸۷ھ) نے اگرچہ اپنی عارفانہ تمثیلی تحریروں میں عقل کے متعلق مسلسل لکھا ہے۵۰؎ تاہم ان کے ہاں زور عقل کے مثبت کردار پر ہے کہ یہ اس علم کا مبدا ہے جس کے ذریعے سے روحانی انقلاب واقع ہوتا ہے۔ اس مقام پر وہ نہ صرف صوفیہ کے روحانی تحقق کے تصورات سے متاثر ہیں بلکہ ابن سینا کی کونیات اور نفسیات کے بھی زیر اثر ہیں۔ سہروردی کے خیال میں عقل فعال جسے ملائکہ کی درجہ بندی میں جبریل کہا جاتا ہے، انسان کی فوز و فلاح کے لیے ایک باطنی رہنما ہے۔۵۱؎ روز بہان بقلی (م ۱۲۰۹ئ؍۶۰۶ھ) مباحث عشق کے نظریہ ساز مصنف ہیں۔ اُنھوں نے عقل پر مفصل تنقید تو نہیں کی، بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ یہ خدا سے بیگانہ ہے۔۵۲؎ تاہم بقلی نے عقل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انسان کی بندگی کا وسیلہ ہے۔ اُنھوں نے اس کی چار مختلف اقسام بتائی ہیں،اور یہ دکھایا ہے کہ عقل کی اعلیٰ ترین نوع انبیاء اور اولیاء کی ہوتی ہے۔۵۳؎ صوفی بزرگ نجم الدین رازی (متوفی ۱۲۰۶ئ؍۶۵۴ھ)نے اپنی کتاب عشق و عقل میںعشق اور عقل کے باہمی تعلق پر تفصیل سے کلام کیا ہے اور اس بحث کو ترتیب سے بیان کیا ہے۔۵۴؎ ان کے کہنے کے مطابق عشق کونیاتی بنیادوں پر عقل سے برتر ہے۔ نتیجۂ بحث یہ کہ عقل کا وظیفہ ہے اشیاء کے فرق و امتیاز پر نظر کرنا، بنا بریں کثرت اور تکوین کائنات۔ مگر عشق فاصلے مٹاتا ہے، رخنے پر کرتا ہے اور کثرت کو مٹا دیتا ہے۔ عشق اور عقل کے تضاد کی بنیاد اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ’’عقل روحانی اور جسمانی دو دنیائوں کو تشکیل دینے والی سب سے بڑی قوت(قہرمان) ہے، جبکہ عشق آگ ہے جو خس و خاشاک کو جلا دیتی ہے اور دونوں دُنیائوں کو اُٹھا پھینکتی ہے‘‘۔۵۵؎ چنانچہ عشق اپنے آپ کو مٹا دینے (نیستی) کے ذریعے عاشق کو محبوب تک لے جاتا ہے مگر عقل اپنے حامل کو اپنے معروض سے آگے نہیں لے جا سکتی۔ ’’اور عقلاء اور حکماء اس پر متفق ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی کی عقل کا موضوع نہیں بن سکتا۔‘‘۵۶؎ عشق اور عقل کے بارے میں انتہائی دقیق اور مفصل ترین بحث جلال الدین رومی (متوفی ۱۲۷۳ء ؍ ۶۷۲ھ) کی تمام تحریروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ جن تصورات کو وہ بیان کرتے ہیں اور شعری تمثیل اور علائم و رموز کا جو نظام وہ استعمال میں لاتے ہیں، اسے اس تمام روایت کا نقطۂ کمال قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کے بعد آنے والے شعراء کی اکثریت نے عقل کی بحث میں حصہ لیا مگران کی کاوشیں نئے اسالیب بیان یا تمثیلات و تصورات پیش کرنے کے بجائے زبان کے فنی پہلوئوں میں باریکیاں اور لطافت پیدا کرنے اور حسنِ اظہار اور لطفِ سخن کے وسائل کو ترقی دینے تک محدود رہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ رومی کے بعد اہلِ تصوف کی تحریروں میں ایک بہت اہم تبدیلی رونما ہوئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابن عربی کے تصورات اور اصطلاحات فارسی میں کثرت سے وارد ہوچکی تھیں تاہم عقل و عشق کے تقابل کے موضوع پر اس تبدیلی سے اگر کوئی اثر پڑا بھی تو اس کی حیثیت ناقابلِ ذکر رہی۔ مثلاً مغربی (متوفی ۱۴۰۶ئ؍ ۸۰۹ھ) ایسا شاعر ہے جس پر ابن عربی کی تعلیمات کامکمل غلبہ ہے۔ وہ اگر چند مقامات پر عقل و عشق کی نسبتِ تضاد کی جانب اشارات فراہم کرتا بھی ہے تو اس کے تصورات،علامتیںاور تمثیلات ان شعراء سے مختلف نہیں ہیں جو اس سے قبل ہوگذرے ہیں)۔۵۷؎ ابن العربی اور ان کے پیروکار عشق پر اس قدر زور نہیں دیتے جتنا صوفی شعراء مثلاً سنائی، عطار اور رومی نے دیا ہے۔ یہ لوگ ماہیت وجود کے بارے میں ایک مفصل نظریہ وضع کرنے میںزیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس میں عقل کو بہت اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے، کم ازکم کونیات سے متعلق۔ مگر عقل اور وہ علم جس کے حصول میں یہ مدد گار ہوتی ہے ہمیشہ اس علم کے ماتحت رہتا ہے جو خدا تعالیٰ سے بلاواسطہ حاصل کیا جاتا ہے، جسے عموماً ’’کشف‘‘(پردہ ہٹانا، کھولنا) کہا جاتا ہے۔۵۸؎ رومی کے ہاں اس امرکا اثبات تو ہے کہ عشق آخر الامر عقل سے برتر ہے مگر وہ عقل کے مثبت پہلو کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ سنائی اور نجم الدین رازی سے بڑھ کر عقل کو کائنات میں اور روحانی ارتقا کے ان مدارج میں واضح کردار ادا کرنے کا موقع دیتے ہیں، جوسالک طریق کو طے کرنا ہوتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ عقل اور ملائکہ کا جوہر ایک ہے اور عقل اللہ تعالیٰ کی جستجو میں پیہم مصروف ہے۔ وہ اس کا تقابل ’’نفس‘‘ سے کرتے ہیں جو اصلاً اپنے جوہر میں شیطانی تھا۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے ان کا نفس عقل کے نور کا پردہ بن جاتا ہے اس لیے ان کی عقل فی الواقعہ جزوی ہوتی ہے، صرف انبیاء اور اولیاء عقل کلی سے اپنا تعلق بحال کر لیتے ہیں، جس کے ذریعے سے تمام اشیاء تخلیق کی گئی ہیں۔ اگر عقل کی ایک منفی جہت ہے تو یہ اس لیے ہے کہ عقلِ جزوی نے ’’عقل‘‘ کو بدنام کر دیا ہے۵۹؎ تاہم عقل کے اساساً مثبت کردار کے باوجودخدا کی تلاش میں اسے بالآخر پیچھے چھوڑنا ضروری ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جبریل معراج میں پیغمبر علیہ السلام کی راہنمائی کسی حد تک ہی کر سکتے تھے۔ اس لیے عقل کی بھی آخر کار نفی کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس کا سروکارعالم خلق یعنی ثنویت سے ہے۔ عقل سالکوں کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جا سکتی ہے۶۰؎ مگر ’’عقل سایہ ہے اور خدا کی ہستی سورج : سایہ، سورج کے حضور کیوں کر قرار پکڑ سکتا ہے؟‘‘۶۱؎ چنانچہ رومی نے کتنے ہی اشعار میں، بالخصوص اپنے دیوان میں، عقل پر عشق کے نقطۂ نظر سے تنقید کی ہے، عشق جو دوئی کو خاک کر دیتا ہے، صرف خدائے واحد باقی رہتا ہے۔اسی طرح رومی نے عقل اور’’صحو‘‘ کے مابین واضح ربط بھی بیان کیا ہے اور عشق اور مستی کے مابین تعلق بھی بتایا ہے۔ صورتِ عقل جملہ دل تنگی است صورتِ عشق نیست جُز مستی۶۲؎ (عقل کی صورت ساری کی ساری دل تنگی ہے۔ عشق کی صورت، مستی کے سوا کچھ نہیں) ___ (ولیم سی چیٹک) ژ…ژ…ژ حواشی و حوالہ جات ۱- عربی کی معیاری لغات سے رجوع فرمائیں۔ ۲- فارابی، رسالۃ فی العقل، تدوین: بوئجس، بیروت، ۱۹۳۸ئ۔ 3- Ibn Sina, De Anima, Arabic Text, ed. F. Rahman, Oxford, 1959, pp. 241. 4- F. Rahman, Prophecy in Islam, Chicago, 1979, pp. 30-36. 5- E. Gilson, Les sources greco aralies de l'augustinisme avicennisant, in Archives d'Histoire Doctrinale et Litterature du Moyen ۸Age, 1938. 6- F. Rosenthal, Knowledge Triumphant: The Concept of Knowlege in Medieval Islam, Lieden, 1970, p.334. 7- S. M. Afnan, A Philosophical Lexicon in Persian and Arabic, Beirut, 1969, pp. 178-185. ۸- ابوحامد الغزالی، احیاء علوم الدین، قاہرہ،۱۹۰۹؍۱۳۲۷، ج ۱، ص ۶۴۔ ۹- اس کے بعد امام غزالی نے حضرت علیؓ ابن ابی طالب کے تین اشعار نقل کیے ہیں جن سے علوم کی مذکورہ تقسیم کی روایتی اساس ثابت ہوتی ہے۔ ابو طالب مکی، قوت القلوب، قاہرہ ۱۹۶۱، ج ۱، ص ۳۲۴۔ روزنتھال نے عقل کی جگہ پر لفظ ’’علم‘‘ کے ساتھ انھی اشعار کا ترجمہ کیا ہے، ملاحظہ کیجیے Knowledge Triumphant، ص ۱۸۴۔ ۱۰- قرآن حکیم، ۱۶۴:۲، ۴:۱۳، ۱۲:۱۶، ۸۰:۲۳ وغیرہ۔ ۱۱- ایضاً، ۴۴:۲، ۶۵:۳، ۱۱۸:۳، ۱۶:۱۰، ۵۱:۱۱۔ ۱۲- ایضاً، ۳۲:۶، ۱۶۱:۷، ۱۰۹:۱۲، ۶۰:۲۸۔ ۱۳- امام غزالی، احیائ،ج۱، ص ۶۴-۶۳۔ ۱۴- مجلسی، بہار الانوار، نشر مکرر، بیروت، ۱۹۸۳ئ۔ کتاب العقل و الجہل، ص ۱۶۲-۸۱۔ ۱۵- ایضاً، ج ۱، ص ۱۱۶۔ ۱۶- ایضاً، پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا عقل کی سو شاخیں ہیں، ص ۱۱۹-۱۱۷۔ امام جعفر کے نزدیک عقل کے ۷۵ سپاہی ہیں۔ جس کے مقابل جہل کے بھی ۷۵ سپاہی ہیں،ص ۱۱۱-۱۰۹۔ ۱۷- امام غزالی، کیمائے سعادت، تدوین: احمدآرام، تہران،۱۹۴۰ئ، ص ۷۷۹۔ ۱۸- حضرت علیؓ، نہج البلاغۃ، تدوین: ایس، صالح، بیروت، ۱۹۶۷، ص ۲۱۷،۲۲۵،۲۳۸؛ تقابل کیجیے: ولیم، سی چیٹک، A Shiite Anthology، البنی، ۱۹۸۱ئ، ص ۲۸، ۳۲۔ اسلامی تناظر میں خدا تعالیٰ کو جاننے کی انسانی اہلیت کی پوری وضاحت کے لیے دیکھیے: روزنتھال، Knowledge Truimphant، ص ۱۴۲-۱۲۹۔ ۱۹- ابوالحسن نوری، خلاصۂ شرحِ تعرف، تدوین: الف، الف رجائی، تہران ۱۹۷۰ئ، ص ۱۵۵۔ تقابل کیجیے: نور بخش، Sufism; Meaning,Knowledge and Unity ، نیویارک، ۱۹۸۱ء ، ۴۶-۷؛ کلا باذی؛The Doctrine of the Sufis ، مترجم؛ اے ، جے آربری، لاہور، ۱۹۶۶ء ، ص ۵۵-۵۱۔ ۲۰- سنائی، حدیقۃ الحقیقۃ ، تدوین: مدرس رضوی، تہران ۱۹۵۰ئ، ص ۳۰۱-۳۰۰۔ ۲۱- شفا اور نجات، بو علی سینا کی کتابوں کے نام ہیں؛دیوان سنائی، تدوین :مدرس رضوی، تہران ۱۹۶۲ء ، ص ۴۳۔ نیز، ص ۱۲۷، ۵۷۔ ۲۲- ایضاً، ص ۱۹۱۔ ۲۳- عراقی، تحفۃ العراقین، تدوین: یوسف قریب، تہران ۱۹۵۴ء ، ص ۶۶-۶۵۔ ۲۴- رومی، مثنوی، تدوین: آر، اے نکلسن، لندن، ۴۰ - ۱۹۲۵ئ، دفتر چہارم شعر ۵۰۶۔ تقابل کیجیے: عطار ، اسرار نامہ، تدوین: صادق گوہرین، تہران ۱۹۵۹ء ، ص ۵۱-۴۹، جس میں خاص طور پر شعر نمبر ۱۰۸، میں دلائل دیے گئے کہ فلسفیانہ عقل انسان کو دین محمدی سے باہر لے جاتی ہے۔ ۲۵- ایضاً، ج ، پنجم، شعر ۴۱۴۴۔ ۲۶- فخر الدین رازی، مقالات، تدوین: محمد علی موحد، تہران، ۱۹۷۷ئ، ص ۱۳۵۔ عقل پر صوفیہ کی تنقید درست ہے کہ نہیں؟اس پیچیدہ مسئلے پردیکھیے: حسین نصر،"The Relation between Sufism and Philosophy in Persian Culture", Hamdard Islamicus, 6/4- 1983, p. 33-44. ۲۷- ر۔ک: ادب؛ انداز خرد (پہلوی میںxrad ) عقل کی متبادل کے طور پر آیا ہے۔ 28- F. Wolf, Glossar zu Firdosis Schahname,Hildesheim,1965. تقابل کے لیے دیکھیے:محمد دبیر سیاقی، کشف ابیات شاہنامہ فردوسی، تہران ،۱۹۶۹ئ، ج۱، ص ۶۶۳- ۴۶۱۔ تقریباً ایک سو مصرعے ایسے ہیں جن کا آغاز لفظ ’’خرد‘‘ سے ہوتا ہے۔ ۲۹- ناصر خسرو، دیوان، تدوین: مجتبیٰ مینوی اور مہدی محقق، تہران، ۱۹۷۴ئ، ص ۴۴، ۸۴، ۲۷۰، ۲۷۳، ۳۱۳، ۴۵۲، ۴۵۳۔ ۳۰- فردوسی، شاہنامہ، تدوین: بروخیم ، ج ۱، ص ۱۵۲، شعر ، ۴۴۱۔ ۳۱- فخرالدین اسعد گورگانی، ویس ورامین، تدوین: ایم ، ایم تو دہ واے اے گوخریا، تہران، ۱۹۷۰ئ، ص ۹۴، ۱۱۷، ۱۱۸۔ ۳۲- ایضاً، ص ۱۱۷۔ 33- J. N. Bell, Love Theory in Later Hunbalite Islam, Albany, 1979, p.37. ۳۴- امام غزالی، احیائ، ج ۴، ص ۲۰۹۔ ۳۵- احمد الغزالی، سوانح، تدوین: نصر اللہ پور جوادی، تہران، ۱۹۸۰ء ، ص ۵۵، ر۔ک :ص۴۲،۴۳؛ مزید دیکھیے بہار الحقیقۃ، تدوین: یہی مرتب، تہران، ۱۹۷۷ئ، ص ۲، ۶۔ ۳۶- عین القضاۃ ہمدانی، زبدۃ الحقائق، تدوین: عفیف عسیران، تہران، ۱۹۶۲ئ، ص ۳۶-۲۵۔ ۳۷- عین القضاۃ ہمدانی، تمہیدات مع زبدۃ الحقائق، ص ۱۵۷،۱۱۶۔(بیش ترعلماء نے عقل کا مقام دماغ کی بجائے دل بتایا ہے اور قرآن مجید(۴۶:۲۲) میں بھی اسی طرح آیا ہے) ۳۸- سنائی، حدیقۃ الحقیقۃ، تدوین : مدرس رضوی ، تہران ، ۱۹۶۲ء ، باب چہارم، ص ۳۱۴،۲۹۵۔ ۳۹- ایضاً، ص ۳۰۳۔ ۴۰- ایضاً ، ص ۳۰۸۔ ۴۱- ایضاً ، ص ۱۶۔ عقل کے بے نتیجہ ہونے کا یہ اعتراف مابعد کی بہت سی مثنویات کے لیے توحید کے باب میں معیار کی حیثیت اختیار کر گیا۔ مزید دیکھیے؛جے، اے بوئیل، الٰہی نامہ ، ترجمہ: فرید الدین عطار، مانچسٹر ۱۹۷۶ئ، ص۲-۱؛ جی، ایم ویکن، مترجم Morals Pointed and Tales Adornad: The Bustan of Sadi ٹورنٹو، ۱۹۷۴ئ، ص ۶-۵۔ ۴۲- ایضاً، ص ۳۲۸۔ ۴۳- ایضاً ، ص ۳۳۷۔ ۴۴- ایضاً، ص ۴۹۹۔ 45- J. T. P. de Bruijin, Of Piety and Poetry: The Interaction of Religion and Literature in the Life and Work of Hakim Sanai of Ghazana, Leiden, 1983, pp. 208 ff. ۴۶- حکیم سنائی، حدیقۃ الحقیقۃ، ص ۲۹۵۔ ۴۷- ایضاً، ص ۲۹۸۔ ۴۸- حکیم سنائی،سیرالعباد الی المعاد، تدوین: مدرس رضوی، در مثنوی ہائے حکیم سنائی، تہران، ۱۹۶۹ئ، ص ۱۴- ۲۱۲۔ ۴۹- عطار، منطق الطیر، تدوین: صادق گوہرین، تہران، ۱۹۶۳ئ، ص ۸۷-۱۸۶؛اسرار نامہ ، تدوین: یہی مرتب، تہران، ۱۹۵۹ئ، ص ۳۵؛ دیوان ، تدوین: تفضلی، تہران ، ۱۹۶۶ئ، ص ۶، ۱۲، ۳۱، ۳۲،۳۸، ۵۳، ۵۶، ۵۷، ۶۱، ۷۲، ۷۷، ۷۸، ۸۲، ۱۰۸، ۱۱۰، ۱۳۵، ۱۳۶، ۱۵۰، ۱۵۶، ۱۶۹، ۱۷۶، ۱۹۲، ۲۰۰، ۲۰۹، ۲۱۶، ۲۳۵، ۲۴۱، ۲۴۳، ا۲۷، ۲۸۳، ۲۹۶، ۲۹۹، وغیرہ۔ ۵۰- مجموعہ آثار فارسی، تدوین: حسین نصر ، تہران ، ۱۹۷۷ئ۔ نیز دیکھیے ڈبلیو، ایم، تھکسٹون (مترجم) Mystical and Visionary Treatises of Suhrawardi, 1982. ۵۱- سہروردی، عقلِ سرخ۔ ۵۲- روز بہان بقلی،غلطات السالکین، تدوین: نور بخش، مع رسالۃ القدس، تہران، ۱۹۷۷ئ، ص ۸۳۔ ۵۳- رسالۃ القدس، ص ۷۴-۷۱۔ ۵۴- نجم الدین رازی، عشق و عقل، تدوین: تفضلی، تہران، ۱۹۶۶ئ۔ ۵۵- ایضاً، ص ۶۳۔ ۵۶- ایضاً، تقابل کے لیے دیکھیے: عقل اور عشق کے مابین تصادم پر رازی کی وضاحت ان کا رسالہ The Path of Gods Bondsmen, Tr. H. Alger, Delmar, N.Y. 1982, pp.87- 90. ۵۷- دیوان کامل شمس مغربی، تدوین: میر عابدینی، تہران ۱۹۷۹ئ، غزلیں ، شعر: ۴۳،۴۷۸، ۷۴۴، ۷۸۹، ۱۱۱۱، ۱۳۳۰، ۱۳۳۶ ترجیعات شعر: ۵۲، ۲۶۰ تا ۱۸۵۔ ۵۸- ابن العربی، الفتوحات المکیۃ ، بیروت، جدید اڈیشن،جلد ۱، ص ۹۲- ۹۱، ترجمہ: روزنتھال،Knowledge pp.188-92 ، Triumphant۔ان کے مکتب فکر کی فارسی مثالوں کے لیے دیکھیے: صدرالدین قونوی، مطالع ایمان، تدوین: ولیم سی چیٹک، Sophia Perennis، ۱؍۴، ۱۹۷۸ئ، ص۷۲، ۷۱؛مزید تقابل کے لیے دیکھیے، ولیم سی چیٹک،" "Mysticism vs Philosophy in Earlier Islamic History، No17 ، Religious Studies، ۱۹۸۱ئ، خاص طور پر صفحات ۹۵، ۸۹۔ ۵۹- رومی، مثنوی، دفتر پنجم، شعر : ۴۶۳۔ ۶۰- ایضاً، دفتر ششم، شعر : ۴۱۳۹۔تقابل کے لیے دیکھیے، قرآن مجید ۱۴:۵۳۔ ۶۱- ایضاً، دفتر چہارم، شعر :۲۱۱۱۔ ۶۲- رومی، دیوان شمس تبریز، شعر: ۳۳۷۸۱۔ ژ…ژ…ژ کتابیات 1- Encyclopedia of Islam, Vol.iii, Leiden. ۲- بو علی سینا، کتاب الاشارات والتنبیہات، مع تبصرئہ فخر الدین رازی و ناصر الدین طوسی، استنبول، ۱۸۷۳؍۱۲۹۰۔ 3- F. Rahman, The Philosophy of Mulla Sadra, Albany, N. Y. 1975. 4- A. Schimmel, Mystical Dimensions of Islam, Chapel Hill, 1975. 5- Idem, The Triumphal Sun: A Study of the Works of Jalaloddin Rumi, London, 1976. 6- Idem, As Through a Veil, N. Y. 1982. 7- W. C. Chittick, The Sufi Path of Love, Albany, 1983. ژ…ژ…ژ  شرح کلامِ اقبال- نظم ’مرزا غالب‘ تقریر :احمد جاوید تسوید و تدوین : محمد سہیل عمر مرزا غالب فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پر مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا تھا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا دید تیری آنکھ کو اُس حسن کی منظور ہے بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار تیری کشتِ فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار زندگی مضمر ہے تیری شوخیِ تحریر میں تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر محو حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر خندہ زن ہے غنچۂ دلّی گُلِ شیراز پر آہ! تو اجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں آہ! اے نظارہ آموزِ نگاہِ نکتہ بیں گیسوئے اردو ابھی منّت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائیِ دل سوزیِ پروانہ ہے اے جہان آباد! اے گہوارۂ علم و ہنر ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در ذرّے ذرّے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر دفن تجھ میں کوئی فخرروزگار ایسا بھی ہے؟ تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟ ’’مرزا غالب‘‘ اقبال کی جوانی کی نظم ہے۔ رسمی مدّاحی کے باوجود اِس میں غالب کے بارے میں کچھ اہم باتیں ملتی ہیں۔ اقبال جس شعری روایت کی طرف بڑھ رہے تھے اس بظاہر معمولی سی نظم میں اس کی طرف اشارے ملتے ہیں اور وہ تصورِ شعر ملتا ہے جو موجود تو پہلے سے ہے لیکن اقبال نے اس کو گویا اپنی منزل بنا کر اور غالب سے منسوب کرکے اس نظم میں بیان کیا۔ اس نظم پر ایک نظر ڈالنے سے ہمیں ایک طرف تو غالب کے بارے میں کچھ بصیرت حاصل ہو جائے گی، دوسرے خود اقبال اور اُن کے نظریۂشعر کے بارے میں کچھ اہم نکات کا پتا چل جائے گا۔ اس نظم پر غور کرنے کا تیسرا اور سب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ اس سے ہمیں شاعری کے بارے میں ایک بنیادی نظریے کا علم حاصل ہو گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اقبال کے شعر کی بناوٹ، اس کے فنی پہلو کی تشکیل میں اُردو کی حد تک غالب کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ یعنی اقبال کے اُردو شعر کے فنی سانچے، ان کے شعری ہنر کی عمارت غالب کی بنائی ہوئی بنیاد پر قیام پکڑتی ہے۔ جیسے ان کا فارسی شعر حافظ اور نظیری کی بنیاد پر استوار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سنگِ بنیاد تو وہاں ملتا ہے لیکن اس پر عمارت بہرحال علامہ اقبال نے بنائی ہے۔ اقبال نے غالب کے اسالیب کو بعض نئے اسالیب کی پیدائش کا ذریعہ بنایا مگر یہ عمل اس نظم کے بہت بعد میں شروع ہوا، اس لیے یہ تذکرہ یہاں بے محل اور بے موقع ہو گااور خود غالب کے بارے میں گفتگو کرنے کا یہ موقع نہیں ہے کہ غالب کی اہمیت سب جانتے ہیں۔ فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا نظم کے پہلے ہی شعر میں اقبال نے غالب کی عظمت کے اصل وصف کو پکڑ لیا ہے۔ غالب ہمارا شاعرِ اعظم ہے، اس کی عظمت میں جو چیز سب سے زیادہ شریکِ حال ہے اس کو اقبال نے پہلے ہی شعرمیں پکڑ لیا ہے۔ وہ ہے غالب کا تخیل، ع ’’ہے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا‘‘ تخیل کے بارے کچھ نکات عرضِ خدمت ہیں۔ خیال انسان کا وہ ملکہ ہے جس کی بنیاد پر وہ صورت کو معنی کا کامل متبادل بناتا ہے یعنی تخیل ذہن کی وہ قوت ہے جوصورت کی اساس پر معنی و صورت کو عینیت دیتی ہے، identical بناتی ہے ۔سادہ لفظوں میں کہیں تو تخیل وہ ملکہ ہے جس کی بنیاد پر ذہنِ انسانی صورت ہی کو معنی بنا دیتا ہے۔ اس کی فنی اور اصطلاحی تفصیل یہ ہے کہ خیال ایک حس ہے جو حافظے میں موجود صورتوں کو نئے پیکر دیتی ہے جو غیر عقلی انداز سے با معنی ہوتے ہیں۔ غیر عقلی انداز یا فکر سے مختلف طور پر بامعنی ہونے کا مطلب ہے کسی چیز کی معنویت دو پیرایوں میں ہوتی ہے۔ ایک پیرایے کو ہم مفہوم کہتے ہیں اور دوسرے کو حضور (presence) ۔مفہوم سے نسبت رکھنے والا سارا نظامِ معنی عقلی ہوتا ہے۔ جہاں چیز کو مفہوم میں صرف کر دیا جائے تو اس کو کہیں گے کہ یہ عقلی اندازِ معنویت ہے۔ دوسراپیرایہ ہے کہ معنی حضور (presence) کی حیثیت رکھے۔ ’’حضور‘‘ کیا ہے؟ وہ جو مشاہدے اور اپنے سے متعلق احساسات کا موضوع ہو، یعنی جس درجے کا اسے احساس درکار ہو، اُس احساس سے محسوس ہو اورجس درجے کی اُسے دید مطلوب ہو، اس درجۂ دید پر وہ حاضر ہو۔ اس کا دائرہ محسوسات سے وجدانیات تک ہے۔ اس اندازِ معنی کو کہتے ہیں غیر عقلی، بالائے فکر۔ مطلب یہ کہ غیر عقلی معنی، شعور میں بننے والا وہ کُل ہے جس کے اجزا کاربط منطقی اور میکانکی نہیں بلکہ ساختیاتی ہو۔ مراد یہ کہ میرا object ، میرا ہدفِ ادراک مجھ میں دو چیزیں منتقل کرتا ہے۔ ایک طرف وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ مجھے شدتِ دید درکار ہے، مجھے دیکھنے کا بہت اچھا روزن تلاش کرو۔ ایک موضوع ادراک وہ ہے جو آپ کو اشارہ کرتا ہے کہ مجھ سے وابستگی کے لیے احساس کی گہرائی درکار ہے۔ جب ہدف و موضوعِ ادراک کو مدرک بنا کر یہ دونوں تقاضے لے کر اس پر عمل کرتا ہوں تو اس کو کہیں گے غیر عقلی معنویت کا انداز۔ تیسرا اس کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ مجھے سمجھو ---- یعنی میرے اجزا میں اور اپنے ذہن کے مطالبات میں ایک ہم آہنگی پیدا کرو۔ اس کو اس کی مفہومی صورت کہتے ہیں۔ یعنی ہم چیز کے بارے میں تین تناظر، اسالیبِ ادراک رکھتے ہیں: اِس کو سمجھنا، اس کو محسوس کرلینا، اس کو دیکھنا۔ ایک وہ پیرایۂ ادراک ہے جہاں دیکھنا اورمحسوس کرنا سمجھنے کو ثانوی بنا دیتا ہے۔ اس کاتجربہ ہم سب کو ہے کہ بعض چیزوں کو دیکھنا اورمحسوس کرنا اُن کے سمجھنے کے سوال کو نہیں اُٹھنے دیتا ۔ اس سطح پر ذہن اور اس کے ہدفِ ادراک کا جو تعلق ہے وہ ورائے طورِ عقل ہے، فکر سے مختلف ہے، حضوری ہے۔ تخیل کہتے ہیں صورت کو معنی کا عین بنا دینا۔ یعنی معنی کے قیام کو صورت پر منحصر کر دینا، تخیل ہے۔اس کی شعری تعریف میں یہ ٹکڑا بھی شامل کرنا چاہیے کہ صورت کو خود تصورِ معنی سے زیادہ کامل اور با معنی بنا دینا۔ یہ تخیل کا انتہائی درجہ ہے۔ اب آپ تخیل کی اس تعریف کو ذہن میں رکھیں اور دیکھیں کہ اقبال یہ کَہ رہے ہیں کہ تخیل کے منتہائے کمال کو اگر دیکھنا ہو تو غالب کودیکھو۔ یہ تو اس شعر کا سادہ سا مطلب ہے۔ اس میں ایک ٹیڑھ ہے کہ ’’فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا‘‘۔ یہاں فکر کے کیا معنی ہیں؟ تخیل کے معنی تو ہم نے کسی حد تک بیان کر دیے۔ فکر کا پہلا مطلب ہے: انسان کی استعدادِ فکر، سوچنے کاملکہ۔ یہ مطلب لفظ سے ہی ظاہر ہے۔ ذرااصطلاحی الفاظ میں کہیے تو دوسرا مطلب ہے مجہول، نامعلوم کو ذہن میں دریافت کرنا، پالینا، حاصلاتِ شعور کا حصہ بنا لینا۔ یہ فکر کی معیاری تعریف ہے، ’’یافتنِ مجہول در ذہن‘‘۔ پہلے سے موجود معلومات کی مدد سے نامعلوم کا ادراک۔ یہ فکر کی کتابی تعریف ہے۔ اب اس میں سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں معلومات کی نئی تنظیم، ترتیب یا رہنمائی میں معلوم سے نامعلوم کی طرف حرکت کرنا فکر ہے تو یہاں معلومات سے ہماری مراد صرف ذہن کے محتویات سے ہوتی ہے، ان کا خارج میں موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ یعنی شعور اپنے محتویات کی ترتیبِ نو سے جب نامعلوم تک پہنچے، یعنی نا معلومیت کے رقبے کو کم کرے، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجھے گولائی معلوم ہے اور میں پہیا ڈھونڈ رہا ہوں یا پہیا میں نے خارج میں دیکھا ہے، اب گولائی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ فکر ہمیشہ اپنے اندر موجود تصورِ شے کوکامل کرتے رہنے کے عمل کا نام ہے۔ معلوم کہتے ہیں اس تصورِ شے کو جو موجود فی الخارج شے سے زیادہ کامل ہے اور اپنی اس شدتِ کمال کی وجہ سے شعور کے لیے وہ تصور، نفسِ شے سے زیادہ حقیقی ہے۔ شعور کے پہلے سے راسخ اور مسلّم تصورات کو ہم نے معلومات کہا ہے۔ ان معلومات کی نئی تنظیم، نئی ترتیب، نئی منطقی صف بندی یا جو بھی اس کو نام دے دیں، وہ اپنے انھی تصورات کی تکمیل کا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ اس کوکہتے ہیں معلوم سے مجہول تک حرکت کرنا۔ مزید واضح کرکے کہیے تو علم نام ہے تصوراور تصدیق کا۔ علمِ صحیح کہتے ہیں تصور اور تصدیق کا ایک دوسرے پہ پورا منطبق ہو سکنا،اور یہ ناممکن ہے۔یہ خود ایک تصور ہے اور عملاًیہ ناممکن ہے۔ لہٰذا فکر نام ہے تصدیق کے نقائص کے تجربے سے گزرنے کے بعد تصورات کی تکمیل کے متواتر اور مسلسل عمل کا۔ فکر تصدیق کی فراہمی کی کوشش نہیں ہے۔ یہ تصدیقات کے کسی سلسلے کو دریافت کرنے کی کاوش نہیں ہے۔ فکر نام ہے تصور میں توسیع اور تکمیل کے مسلسل عمل کا، چاہے اجزا کی صورت میں ہو چاہے کلیت میں ہو۔ یعنی چاہے یہ ایک دائرے کو بڑا کرنے کا عمل ہو، یا ایک زنجیر کو لمبا کرنے کا۔یہ دونوں فکر ہیں۔ تو بڑے آدمی کی فکر دائرے کی توسیع ہوتی ہے، چھوٹے ذہن کی فکر زنجیر کو مزید لمباکرنا ہوتا ہے۔ چیزیں جب فن بنتی ہیں تو فنی تعریفات میں چھوٹے آدمی کو معیار بنایا جاتا ہے، یہ ضروری ہے۔ تو چھوٹے آدمی کو معیار بنا کر کہا گیا ہے کہ یہ معلوم سے مجہول تک حرکت ہے، یعنی زنجیر کی چار کڑیاں میسر ہیں اب پانچویں گھڑ رہا ہوں۔ یہاں اقبال یہ کَہ رہے ہیں کہ فکر کو چاہے تصورات کی زنجیر مکمل کرنے والی طاقت سمجھو، چاہے دائرے کو بڑا کرنے والی قدرت جانو، دونوں معنی میں اس استعداد کو اپنی مطلوبہ تکمیل کا تجربہ اس وقت ہوا جب اُس نے غالبؔ کودیکھا۔ اب یہ دیکھیے کہ اس شعر میں چھپی ہوئی تیسری بات کیا ہے؟ وہ ہے فکر اور تخیل کا ربط۔ مطلب یہ کہ وصف تخیل کا بتا رہے ہیں، دریافت فکر سے کروا رہے ہیں۔ یہ دونوں الگ الگ صلاحیتیں ہیں۔ یہ ایک صلاحیت کا نام نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فکراور خیال ایک ہی چیز کے دونام ہوں، یہ دو مستقل الگ قوتیں ہیں۔ یہ جو پانچ باطنی حواس ہیں ان میں فکر ایک علیحدہ حس ہے، خیال علیحدہ ایک حس ہے۔ ان کے علاوہ وہم ہے، حافظہ ہے، حس مشترک ہے۔ یہ پانچ حواس کس لیے ہیں؟ اِس لیے کہ محسوس و معقول میں مستقل جوڑ پیدا ہو جائے۔ یعنی محسوس و معقول میں جوڑپیدا ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ شعور کے تناظر کا قیام ممکن ہو جائے، حیطۂ ادراک مکمل ہو جائے۔ اگر یہ پانچ حسیں نہ ہوں تو شعورِ انسانی اپنے تناظرات قائم نہیں کر سکتا، اپنا حیطۂ ادراک تشکیل نہیں دے سکتا۔ علامہ اقبال غالبؔ کے ہاں سے یہ نکتہ نکال کر دکھا رہے ہیں، وہ تخیل کی انتہا اور دریافت کروا رہے ہیں فکر سے۔ یعنی منظر تخیل۱؎ ہے،ناظر فکر۲؎ ہے۔اقبال یہ کَہ رہے ہیں کہ اس بنیادی تصور کو جو انسانی شعور کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اس کی ایک جہت میں غالب کے کمالات کی تحسین کے لیے اس کی دوسری جہت سے متعلق قوت سے تصدیق کروائی جارہی ہے۔ یہ صورت تیرے اندر راسخ معنی سے فروتر تو نہیں ہے؟اقبال کَہ رہے ہیں کہ فکر کی جمع پونجی یعنی فکر میں راسخ معانی سے یہ صورت زیادہ مکمل ہے جو غالب نے بنائی ہے۔ تھا سراپا رُوح تُو، بزمِ سخن پیکر ترا زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا یہ ایک روایتی مضمون کا خوبصورت اظہار ہے۔ یعنی تجھے لوگوں نے پورا نہیں سمجھا لیکن تیری ادھوری سمجھ بھی تجھے سب سے بڑا منوانے کے لیے کافی تھی۔ رُوح سے مراد رُوحِ روایت ہے۔ بزمِ سخن روایتِ سخن ہے۔ تُو جس روایتِ شعری میں آیا تھا اس روایت کو اُصولی حیثیت تو نے دی۔ روایت تجھ سے پہلے موجود تھی لیکن اس کو اصل و اساس تو نے فراہم کی۔ جس طرح اُصول اپنے ظہور سے ظاہر بھی ہوتا ہے اور اس ظہور و نمود سے زیادہ ہونے کی وجہ سے مخفی بھی رہتا ہے۔ اُردو کی شعری روایت میں تیری حیثیت اسی طرح کی ہے۔ تو اُردو روایت سے ظاہر بھی ہے کیونکہ اُردو روایت ہی تیرے ظہور کا نام ہے اور پنہاں بھی ہے کیونکہ تو اس روایت سے بڑا ہے۔ اقبال یہ کَہ رہے ہیں کہ تیرا رُوح بن جانا تیری ایک اُمنگ کی وجہ سے ممکن ہوا، یعنی تیرے اندرایک تقاضائے اظہار تھا جس کا انعام یہ ملا کہ تو روایت کی رُوح بن گیا۔ وہ امنگ اور تقاضا کیا تھا؟ دید تیری آنکھ کو اُس حسن کی منظور ہے بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے کیونکہ تو رُوح کائنات کی دید، روحِ حیات کے مشاہدے پر مصر تھا اور اس کی طرف تیری پیش رفت اتنے کمال کے ساتھ تھی کہ اس پیش رفت نے تجھے رُوحِ روایت بنا دیا۔ اس شعر میں اقبال نے بڑے شاعر کا ایک اوروصف بیان کر دیا ہے۔ انسانی شعور کی کسی بھی نوع، کسی بھی صنف یا انسانی شعور کی کسی بھی روایت میں بڑائی حاصل کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس عظمت کو تمام میدانوں میں کیسے متعین کیاجاتا ہے؟ اس کا ہدف اور موضوع کیا ہوتا ہے ؟ بڑی فکر، بڑی شاعری کے پاس ایک sole definer ہوتا ہے، اس کے پاس ایک نقطۂ وحدت ہوتا ہے جس سے یہ سارا وجود ی انتشار channelize ہو جاتا ہے اور یک اصل ہو جاتا ہے۔ ہر بڑے آدمی کی یہ پہچان ہو گی۔ جس طرح عارف چیزوں میں ایک رُوحانی یا ما بعد الطبیعی یا الٰہیاتی وحدت دریافت کرتا ہے اسی طرح بڑا شاعر چیزوں میں ایک جمالیاتی وحدت دریافت کرتا ہے۔ چیزوں کی اصلیت کے مختلف تناظر ہیں اور غالبؔ ان چیزوں کی اصلیت کے جمالیاتی تناظر کا بانی بھی ہے اور خاتم بھی۔۳؎ یہاں ’’سوزِ زندگی ‘‘ بہت اہم ہے۔ ا نسان کی سعیِ وحدت کے تین اُصول، تین اسالیب ہیں یا یوں کَہ لیں کہ تلاشِ وحدت کے لیے کیے جانے والے سفر کی تین منزلیں ہیں جو ہم معنی ہیں۔ وہ تین منزلیں ہیں: حق، حسن اور خیر۔ تو اس میں اصل حیثیت حق کو حاصل ہے اور حسن اور خیر حق کے لازمی تناظر ہیں۔ تو اقبال فرما رہے ہیں کہ شاعر حق کو حسن کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یعنی وہ یہ کہنے کے قابل ہو جاتا ہے کہ حسن ہی حق ہے۔ ایک اس بات کو نظر میں رکھنا ضروری تھا کہ تیری ساری کاوش کا مقصود و منتہا یہ ہے کہ تو خود کو وہاں تک پہنچا دینا چاہتا ہے جہاں تو یہ کَہ سکے کہ حسن ہی حق ہے۔ نیز یہ کہ خود حق فہم کا بھی موضوع ہے، تعمیل کا بھی اور دید کا بھی ۔ کیونکہ یہ کل ہے، ساری چیز اسی پر قائم ہے۔ حق دید میں آ جائے تو حسن ہے، حق عمل میں آ جائے تو خیر ہے۔ یعنی اگر اس کو ہم بہت صحت کے ساتھ کہنا چاہیں تو یہ کہ حق مشاہدے میں آجائے تو حسن ہے، حق نفس پر غالب آ جائے تو خیر ہے۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ حق کسے کہتے ہیں؟ حق اُسے کہتے ہیں جس کے دو اوصاف ہوتے ہیں: ایک تنزیہ اور دوسرا تشبیہ یعنی اخفا اور اظہار۔ یعنی حق کی دو صفات ہیں: باطن اور ظاہر۔ حق وہ ہے جو اِن دواصاف کا بیک آن اور معاًحامل ہوگا: ظاہر اور باطن، اخفا یا اظہار۔ تو اب جو اس کا اظہار ہے، اس کی تشبیہ (imminence) ، ظہور ہے، اُس کی خلاقیت اور فعلیت ہے۔ حق کی تشبیہ کے کیا معنی ہیں، حق کے ظہور یا اظہار کے کیا معنی ہیں؟ حق کا اظہار غیرِ حق کا مایۂ وجود ہے۔ ظہور حق کی سب سے بڑی غایت، سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ غیر حق کا، اپنے غیر کا مایۂ وجود اور اساسِ ہستی بن جائے۔ یہ ’سوزِ زندگی‘ وہی مایۂ ہستی ہے۔ ’سوزِ زندگی‘ کا کیا مطلب ہے، زندگی نام ہے حرارت کا۔آپ یہ سمجھیں کہ سوزِ زندگی مایۂ وجود ہے۔ چوتھا مطلب اس کا اب میں مکمل کرکے عرض کر رہا ہوں۔ حق کے ظہور کا جو اُصول ہے اس کو اصطلاح میںحرکتِ حبی کہتے ہیں ۔ حُب کہتے ہیں کسی چیز کا چھلک پڑنا۔ تو حق کاظہور اس کے چھلک پڑنے سے عبارت ہے۔ اب اس کی تفصیل میں مت جائیں ورنہ بہت گہری تصوف والی باتیں شروع ہو جائیں گی۔ لیکن اس سے اس شعر کا فہم اور تحسین بڑھ جائے گی۔ اس لیے اس کا میں حوالہ دے رہا ہوں کہ حق کے ظہور کو کہتے ہیں محبوب کا اپنے جمال سے چھلک پڑنا۔ وفورِ جمال کی وجہ سے محبوب کا حسن چھلک پڑا۔ یہ حرکت حبی ہے جس کو زمانی اورمکانی پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا۔ کب چھلکا اور کہاں تک چھلکا۔ یہ تو خیر ہم جانتے ہیں کہ یہ باتیں وہاں نہیں وارد ہوتیں۔ اب اس کے چھلک پڑنے سے جو پوری کائناتِ ظہور تیار ہو گئی ہے یہ پوری کائنات کیا ہے، اس کی حرکتِ حبی یعنی اس کے چھلک پڑنے کا نتیجہ ہے۔ ظہور کے بھی یہی معنی ہیں چھلک پڑنا۔ توکائنات کی اصل، حق کی حرکتِ حبی ہے اور کائنات کی بناوٹ اس حرکتِ حبی کا دوسرا سرا ہے جس کو ہم عشق کہیں گے۔ تو کائنات اپنی قوتِ عشق سے اس حرکت حبی کو سنبھالے ہوئے ہے، اس حرکتِ حبی کا مظہر بنی ہوئی ہے ۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ وہ حرکتِ حبی جو اس پورے نظامِ عالم کی اصل ہے اور ایک جذبۂ عشق کے طور پر جاری و ساری ہے۔ تُو اس کی دید کا طالب ہے اور تیری شدتِ طلب نے وہ شاعری پیدا کی جس نے سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ شاعری کے بنیادی مضامین تمام علوم کے بنیادی اُصول کی طرح اس بنیادی روایت سے اُٹھے ہوتے ہیں جو اپنی ساخت میں عارفانہ ہوتی ہے۔ عارفانہ سے مطلب متصوفانہ نہیں ہے۔ عارفانہ کامطلب ہے کہ چند ایسی معنوی اقدار کی حفاظت اور اس کا مستقل انطباق جن میںتغیر اور تبدیلی نہ آ سکے، اور انسانوں کے سارے شعوری اعمال یعنی انسانوں کاسارا عمل اور سارا فعل و انفعال جو شعور کی اصل حرکت ہے، سارا فعل وانفعال ان اقدار کے حوالے سے متعین ہو تو اس وجہ سے شاعری میں جب معانی ڈھونڈے جاتے ہیں تو وہ اس روایت سے لیے جاتے ہیں جس روایت میں وہ شاعری ہو رہی ہو۔ یعنی شاعری اپنے نظامِ صورت میں خود کفیل ہے، اپنے نظامِ معنویت میں محتاج ہے۔ سوزِ زندگی کو اس حوالے سے سمجھیے، سوزِ زندگی کا ایک پہلو عشق بھی ہے کہ اس کائنات کے دومایۂ وجود ہیں یا اس کائنات کاجو مایۂ وجود ہے وہ خالق کی جہت سے دیکھو گے تو اس کی حرکتِ حبی ہے، مخلوق کی جہت سے دیکھو گے تو اس کا جوہرِ عشق ہے۔ محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار ’’محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار‘‘ یعنی تیرے سازِ شاعری سے محفلِ ہستی میں ایک گہرائی اور وفور پیدا ہوا ہے یا یوں کَہ لیں کہ تو جس نظامِ ہستی کا حصہ ہے اس نظامِ ہستی میں جمالیاتی معموری تیرے احساس سے پیدا ہوئی ہے۔ تیری شاعری ایسی شاعری ہے جو محفلِ ہستی میں ایک جمالیاتی اُصول کو زندہ رکھے ہوئے ہے یا یوں کَہ لیں کہ تیری شاعری اتنی بڑی ہے کہ اس نے محفلِ ہستی کے ستون کو جمالیاتی بنا دیا۔ ہستی کی یہ عمارت جن ستونوں پر کھڑی ہوئی ہے تو نے ان ستونوں کو جمالیاتی بنا دیا۔ یہاں ’سرمایہ دار‘ بہت بنیادی لفظ ہے۔ سرمایہ ہمیشہ اصل سے تعلق رکھے گا۔ سرمایہ کا لفظی مطلب بھی ہے اصل دولت، اصل پونجی، رأس المال، اس محفلِ ہستی کی جتنی جمالیاتی بضاعت ہے وہ تو نے فراہم کی ہے۔ ’’جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار‘‘۔ اب کیونکہ شاعری میں تشبیہ تو دینی پڑتی ہے۔ یہ تشبیہ کم تر ہے پہلے مصرعے سے نکلنے والے معنی سے۔ تشبیہ نے اس مطلب کو گرا دیا۔ تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ وار یہاں قدرت سب سے اہم ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ یہاں یہ سمجھا جائے کہ قدرت کسے کہا گیا ہے! قدرت کا مطلب کیا ہے؟ یہاں قدرت کا مطلب ہے فطرت، خارجی فطرت یعنی عالمِ فطرت، عالمِ طبعی۔ یہ اگرچہ واضح ہے لیکن ’قدرت‘ سے لوگ کچھ اور بھی سوچ سکتے ہیں۔ اس مصرعے میں ایک حسن ہے اور ایک نظریۂ شعر ہے۔ حسن، فردوس اور بہار کی نسبت سے پیدا ہوا ہے۔ فردوس اور بہار کے اور تلازمات تو بے شمار موجود ہیں لیکن تیرے فردوس سے بہار ہے۔ تیرا فردوس۔ فردوس جو ہم نے نہیں دیکھا، بہار جو ہم نے دیکھی ہے یہ بہار اس فردوس سے ہے۔۴؎ بہار یہاں استعارہ ہے۔ فطرت میں جتنا حسن ہے اس کے اظہار کا فردوس اشارہ ہے کہ جو حسن فطرت میں اور فطرت سے ظاہر ہے وہ حسن آیا کہاں سے ہے! یعنی فردوس اس حسن کا کارخانہ ہے جو حسن فطرت کی کل پونجی ہے۔یہ تو ہوا اس شعر کا حسن۔اس میں نظریہ یہ ہے کہ ارسطو نے کہا تھا: art یعنی تخلیقی فنون فطرت کی نقالی ہیں۔ یعنی تخیل وہی خوبصورت ہے، وہی تخلیقی ہے جو فطرت کو علیٰ حالہٖ منعکس کردے۔ یہ مشہور نظریہ صدیوں مروّج رہا ہے۔ یہ کَہ رہے ہیں کہ نہیں، فطرت خود اپنا حسن، تخیل سے مستعار لیتی ہے۔ پچھلی گفتگو یاد کیجیے کہ فطرت کی بہار یا کل عالمِ فطرت، یہ کیا ہے؟ یہ صورتوں کا انبار ہے۔ تخیل کا میدانِ عمل ہی صورتیں ہیں۔ تو تیرا تخیل فطرت کی ناقص صورتوں کو کامل بناتا ہے اور فطرت کی صورتوں کو کامل بنا کر اس کی طرف پلٹا دیتا ہے۔ فطرت کی صورتیں ناقص کیوں ہیں، خیال کی صورت کامل کیوں ہے؟ فطرت کی صورت ناقص یوں ہے کہ یہ اوّل تو معنی پردلالت خود سے نہیں کرتی، یہ محتاج ہے کہ اس کے معنی پر دلالت شعور سے کی جائے۔ یعنی فطرت وہ صورت ہے جو خود سے بامعنی نہیں ہے۔ تخیل کی صورت وہ صورت ہے جو خود سے بامعنی ہے۔ دوسرا درجہ نقص کا یہ ہے کہ فطرت کی صورتیں معانی سے مغلوب ہیں یا معانی سے اُن کا فاصلہ ہے۔ دونوں بِنائے نقص ہیں۔ تخیل میں موجود صورتوں کا ایک تو معانی سے فاصلہ نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ وہ معانی پر غالب ہیں۔۵؎ تو اب فرما رہے ہیں کہ تیرا تخیل جو حسن کا کارخانہ ہے وہ فطرت کو حسن بخشتا ہے، فطرت کی استعدادِ حسن کو بڑھاتا ہے۔ فطرت کے اظہارِ حسن کو مکمل کرتا ہے۔ ’تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزوار‘ یعنی عالم کی صورت کے نقص کو تیرے تخیل نے پورا کیا، عالم کے معنی کے نقص کو تیری فکر نے زائل کیا۔ زندگی مضمر ہے تیری شوخیِ تحریر میں تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں شوخیِ تحریر سے آپ کو یاد آیا کچھ؟ یہاں شکایت کی گنجائش پیدا ہوگئی۔ غالب نے ’شوخیِ تحریر‘ باندھا تھا اللہ کی شوخیِ تحریر کے معنی میں۔ اقبال نے اس کو اسی معنی میں باندھ دیا ہے غالب سے منسوب کرکے۔۷؎ یہاں ’شوخیِ تحریر‘ بہت اہم ہے، یہاں شوخی، تحریر کا وصف ہے۔ تو وصفِ شوخی دو اجزا سے مرکب ہے: ایک خوبصورتی اور دوسرا زندگی اور حرکت۔ تو گویا شوخی تحریر وہ تحریر ہے جس میں حسن اور حرکت یا زندگی پائی جاتی ہو۔ شوخ آدمی اُسے کہتے ہیں، جو ساکن نہ بیٹھے۔ شوخی سکون کی ضد ہے۔ دوسری طرف شوخی افسردگی اور بدصورتی کی ضد ہے۔ تو تیری تحریر میں ایسا معنوی چونچال پن پایا جاتا ہے، تیری تحریر میں اتنی خوبصورتی ہے، اتنا تحرک و قوت ہے کہ گویا زندگی اپنے دیگر مظاہر کے مقابلے میں تیری تحریر میں زیادہ سمائی ہوئی ہے۔ بڑا شاعر، بڑی قدرتِ اظہار رکھنے والا آدمی ہستی پر چھائے ہوئے سکتے کوتوڑ دیتا ہے۔ نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر شاہدِ مضموں تصدق ہے ترے انداز پر خندہ زن ہے غنچۂ دلّی گلِ شیراز پر شاعری کے جودوعام اوصاف ہیں یا شاعری کے جو دو ضروری اجزا ہیں یہاں ان کو سامنے رکھ کر غالب کی تحسین کررہے ہیں۔ وہ بنیادی اجزا ہیں :اظہار اور مضمون۔ یعنی لفظ کا حسن اور معنی کا حسن۔ اس سے پہلے جو اُنھوں نے تعریف کی تھی وہ تخیل اور فکر کے حوالے سے تھی۔ یعنی تخیل اور فکر سے لفظ و معنی پر ایک خلاقانہ قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہاں اقبال قانونی اُصول پر بات کررہے ہیں کہ شاعری نام ہے اظہار اور مضمون کا۔ اس میں تیرا درجہ یہ ہے کہ شاعری جس اظہار و حسنِ بیان کا نام ہے وہ تیری قدرتِ اظہار پر فدا ہے، یعنی شاعری نے اپنی روایت میں اظہار کی جو سطح حاصل کر دکھائی تھی وہ سطح بھی تیری قدرتِ اظہارپر حیران ہے۔ مطلب یہ کہ تو نے شاعری کی روایتِ اظہار میں ششدر کردینے والے اضافے کیے ہیں۔ یہاں ’لبِ اعجاز‘ نطق کے حوالے سے اہم لفط ہے۔ نطق کہتے ہیں ایسے بامعنی اظہار کو جس کی معنویت ذہنی بھی ہو اور حِسی بھی۔ نطق انسان کا فصلِ اخیر یا فصلِ حقیقی ہے۔ اسی کی بنیاد پر انسان حیات رکھنے والے تمام موجودات سے ممتاز ہے۔ لب آلۂ نطق ہے۔ ’لبِ اعجاز‘ کا مطلب ہے وہ جو لفظ کو معنی سے بڑھا دے اور اظہار کو ادراک پر غالب کردے۔ تو غالب تو وہ شاعر ہے جس نے شاعروں کے سب سے بڑے خواب کی تعبیر کو مجسم کیا۔ جس نے شاعروں کی سب سے بڑی آرزو کو پورا کیا۔ وہ آرزو یہ ہے کہ ادراک پر اظہار غالب آجائے۔ لفظ معنی پر حاوی ہوجائے۔شاعری میں لفظ کے جو آخری محاسن ہوتے ہیں وہ معنی سے آزاد ہوکر پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں یہ دیکھیے کہ اقبال تخیل اور فکر سے آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ کَہ رہے ہیں کہ تیری قدرتِ اظہار ایسی ہے جو نفسِ اظہار کو ششدر اور حیران کردیتی ہے، یعنی اظہار کی جو کُل بضاعت ہے وہ تیرے کمالِ اظہار کے آگے شرمندہ ہے۔ ’محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر‘۔ یہ ایک رسمی مصرع ہے۔ ’شاہدِ مضموں تصدق ہے ترے انداز پر‘۔ یہ البتہ وہ مصرع ہے جو اس بند کا ایک بڑا تعمیری جزو ہے، سنگِ بنیاد ہے ۔ جیسے پہلا اور تیسرا مصرع۔ ان دونوں سے غالب کی مدح بامعنی ہوجاتی ہے جبکہ دوسرے اور چوتھے مصرعے سے جذباتِ مدح کی تسکین ہوتی ہے، ان کے معنی زیادہ نہیں ہیں۔ ’’شاہدِ مضموں‘‘ کیا ہے؟ مضمون گویا کوئی حسین دُلہن ہے، تو جو حسین ہو اس کی تو طلب کی جاتی ہے، اس پر نثار ہوا جاتا ہے لیکن تیرے ساتھ معاملہ اُلٹا ہے، وہ تجھ پر نثار ہے۔یہاں اس مصرعے میں صرف ایک چیز سمجھنی ضروری اور مفید ہے، وہ ہے’ مضمون‘۔ ’شاہد مضموں‘ کَہ کر گویا آپ کو پابند کردیا ہے کہ آپ مضمون کو جمالیاتی اور شعری معنی میں لیں۔ شاعری میں معنویت کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک کو معنی ہی کہتے ہیں اور دوسری کو مضمون۔ معنی کُل ہوتا ہے، ساکن ہوتا ہے اور حتمی ہوتا ہے۔ مضمون اجزا میں ہوتا ہے۔ تو مضمون گویا اس کے برخلاف اوصاف رکھتاہے کیونکہ یہ اجزا کی باہمی نسبت سے پیدا ہوتا ہے۔ تو جس چیز کی تخلیق اجزا کی باہمی نسبت سے ہو، وہ کبھی کُل نہیں ہوگی۔ نیز مضمون ساکن نہیں ہوتا متحرک ہوتا ہے، یعنی واقعاتی انداز کا ہوتا ہے۔ معنی کی بناوٹ فکری اور تخیلی ہوتی ہے، مضمون کی بناوٹ تاریخی اور واقعاتی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اس میں حرکت پائی جاتی ہے۔ نیز یہ حتمی نہیں ہوتا، یعنی کسی معنی میں ضم ہوجاتا ہے چاہے وہ معنی اس بیان میں فعلاً موجود نہ ہوں یا مراد نہ ہوں۔ سو ان دونوں میں وہی نسبت ہے جو مثال کے طور پر علم اور فہم میں ہے۔ تو مضمون کو آسان لفظ میں کہنا ہو تو یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ شعر میں بات کیا ہے؟ یہ بات جو ہے یہ مضمون ہے۔۸؎ علامہ یہاں یہ کہتے ہیں کہ مضمون جس کے پیچھے شاعر مارے مارے پھرتے ہیں وہ مضمون بھی تجھ پر فدا ہے یعنی کہ وُہ مضمون بھی تجھے ڈھونڈتا پھر رہا ہے کہ میں اس کی زبان سے اظہارپا جائوں۔ یہاں مضمون اور معنی کے فرق میں ایک گہری بات ہے۔ مضمون کہتے ہیں کائنات یا وجود کے افقی معنی کو، جو کائنات کے اجزاء میں موجود نسبتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ معنی کہتے ہیں اس کی عمودی جہت کو کہ معنی اس پوری صورتِ حال پر نازل ہوتے ہیں ۔۹؎ تو اسی وجہ سے شاعری میں عام بات ہے کہ آپ پڑھیں گے کہ الہام معنی کا ہوتاہے، مضمون ہمیشہ سوجھتا ہے۔ یہ مضمون اور معنی میں بڑا فرق ہے اس کو یاد رکھیے گا لیکن یہاں مضمون افقی معنی میں ہے۔ ’’خندہ زن ہے غنچۂ دلّی گلِ شیرازپر‘‘۔ کہہ رہے ہیں اے غالب ؔتیرے مرتبے کا یہ حال ہے کہ تو ابھی اپنے امکانات کو پورا کرنے کے ابتدائی مرحلے پر ہے۔ اس ابتدائی مرحلے پر بھی توشیراز کے اُن شاعرانِ اعظم سے بڑھ گیا جو اپنے تمام امکاناتِ اظہار و بیان کو مکمل کرکے جا چکے ہیں۔یہ حد ہے مبالغے کی اور گلِ شیراز سے جو بھی مراد لیں غالب ان کو اپنا پیرو مرشد مانتے ہیں یعنی سعدی شیرازی، حافظ شیرازی، عرفی شیرازی۔ یہ تین شیرازی زیادہ مشہور ہیں۔ تو کہہ رہے ہیں کہ گلِ شیراز سے تو تو بہت ہی بڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ درجہ ہے تو کہتے ہیں کہ: آہ تو اُجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے یعنی تیری ناقدری کا یہ عالم ہے کہ اُجڑی ہوئی دلّی تجھے دفن کے لیے ملی جب کہ تیرا ہم نوا یعنی تجھ جیسا شاعر، گوئٹے ویمر کی جنت میں سویا ہوا ہے۔ اس کو جنت کی مٹی ملی تجھے ویرانے کی مٹی ملی۔ مطلب یہ کہ اس شعر میں ایک المیہ پیدا کیا ہے ---- اور مدح کے جوش میں المیے کو داخل کرنا بڑا کمال ہوتا ہے ، یعنی مدح میں بہت شکوہ بیان چلا جارہا ہے اور اس کے بعداس میں ایک المیہ لہر دوڑا دینا۔ فن میں یہ ایک اچھی چیز ہے لیکن یہ کیونکہ ابتدا کی نظم ہے اس لیے دلّی، دلّی دو متصل مصرعوں میں آ گیا ہے۔ اگروہ بعد میں یہ کہتے تو دوسرے مصرعے میں دلّی نہ لاتے۔ اسی طرح ’اجڑی‘ کے ساتھ ’آرامیدہ‘ کی نسبت نا مناسب اور ناقص ہے۔ گوئٹے کو غالب کا ہم نوا کئی معنوںمیں کہا ہے۔ ایک تو گوئٹے شاعر ہونے کی حیثیت سے صاحب فکر تھا، تو وہ غالب بھی تھا یعنی اگر ہمارے ہاں کوئی آدمی شاعر کی حیثیت سے صاحب فکر ہے تو وہ غالب ہے۔ صاحب فکر ہونے کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں: ایک مفکر کی حیثیت سے صاحب فکر ہونا اور ایک شاعر کی حیثیت سے صاحب فکر ہونا ---- تو ایساشاعر صرف غالب ہے۔ اقبال فلسفے کے طالب علم اور مفکر کی حیثیت سے صاحب فکر ہیں۔ غالب شاعر کی حیثیت سے صاحب فکر ہیں۔ اور اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ گوئٹے نے حقائق میں ایک جدلیاتی تعلق پیدا کرنے کا شوق پالا ہوا تھا یعنی حقائق میں جدلیاتی سانچے پیدا کرنا، یہ جدیدیت ہے جو گوئٹے کے ہاں تھی اور عین یہی مزاج غالب ؔکا ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ جنت سے اس لیے بیزار ہوں کہ یہاں ہر چیز طے شدہ ہے، کوئی لڑائی جھگڑے کی گنجائش نہیں ہے۔ ابلیس بھی یہاں سے غائب ہے تو دل نہیں لگتا۔۹؎ لطفِ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں آہ! اے نظارہ آموزِ نگاہِ نکتہ ہیں گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے اس بند میں غالب کی جو مدح کی گئی ہے اس کاخلاصہ کہ اس کے ا بتدائی دومصرعے ہیں باقی جذبات ہیں۔ اس میں بڑی شاعری کے تین اجزا بیان کر دیے۔ وہ تین اجزا کیا ہیں: لطف گویائی ، تخیل اور فکر کامل۔ لطف گویائی سے مراد ہے جمالیاتی اظہار۔ کیونکہ آپ نے پڑھا ہوگا کہ شاعری کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ہے کہ وہ کلامِ موزوں جو فرحت بخشے۔ یعنی ’لطف گویائی‘ کا مطلب ہے جمالیاتی اظہار۔۱۰؎ اس جمالیاتی اظہار میں تیری ہمسری نا ممکن ہے۔ دوسرا جز ہے تخیل، تیسرا جز ہے فکر کامل۔ بڑی شاعری ان تینوں ہی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ کمالِ اظہار (height of expression) ،کمالِ تخیل (height of imagination) ، کمالِ معنویت (height of conception) ۔یہ بہت اہم شعر ہے۔ ایک ایک کو مناسب ِ حال کھولنا ہوگا۔ لطف ِ گویائی کا آخری مطلب ہے غائب کو حاضر کرنا۔ لفظ میں حضور معانی (presence of meaning) کی جتنی بھی استعداد پائی جاتی ہو، اس کو صرف کرنا اور اس استعداد میں اضافہ کرنا۔ مثال یہ ہے کہ لفظ آواز ہے، یہ آواز سمجھی جاتی ہے، سنی جاتی ہے اوردیکھی جاتی ہے۔ لطف ِ گویائی میں اس آواز کو دیکھے جانے کے قابل بنا دیا جاتا ہے، سننے اور سمجھانے کی جہتوں کو برقرار رکھتے ہوئے۔ اسی کو کہا جارہا ہے کہ لفظ ایک استعدادِ حضور ہے۔ بڑا شاعر اِس پوری استعدادِ حضور کو اپنے اظہار میں صرف کرتا ہے اور اس استعداد میں اپنی طرف سے اضافہ بھی کردیتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں لطف ِ گویائی۔ جیسے یہ کہا جائے کہ فرض کیا کہ مرکز ِ وجود حق ہے۔ ایک بڑا مصلح آکر اس حق کو خیر بنا دیتا ہے، ایک بڑا شاعر آکر اُس حق کو حسن بنا دیتا ہے۔ حق کا وصف اصلی (main property) کیا ہے، حق کی اصل ماہیت کیا ہے؟ وہ ہے غیاب، کیونکہ شہود اور ادراک کے دائرے میں کوئی بھی موجود چیز موجودات کا ابدی اورازلی مرکز نہیں بن سکتی جیسے وجود اورموجود۔ تو وجود کی صفت ہے غیب، موجود کی صفت ہے حضور۔ کیونکہ اگر وجود بھی حاضر ہے تو وہ یکے از موجودات ہو جائے گا۔ وہ اپنے سے علاوہ موجودات کی اصل نہیں بن سکے گا تو اصل ہمیشہ اپنے مظاہر سے ماورا ہوتی ہے یعنی غائب ہوتی ہے۔ علامہ یہ کہ رہے ہیں کہ جمالیاتی اظہار یعنی غیب کو شہود میں لے آنے والی قدرت جیسی تجھے حاصل ہے، حق کو جمال بنا دینے والی جو قوت تیرے پاس ہے وہ کہیں اور نہیںہے۔ ’’ہو تخیل کانہ جب تک فکر ِ کامل ہم نشیں‘‘ ۔ یہ ’لطف گویائی‘ محض زبان پرروز مرہ کی یا لغوی یا فنی گرفت سے نہیں پیدا ہوتی۔ یہ ’لطف گویائی‘ تخیل اور’ فکر ِ کامل‘ کے ملاپ سے پیدا ہوتی ہے۔ تخیل اورفکر کی تعریف ہم کر چکے ہیں اب یہاں لطف گویائی کی مناسبت سے تعریف کر دیں تو اچھا ہے اوروہ ہوگی کہ فکر غیب کو حضورِ ذہنی دیتا ہے۔ غیب کی تعریف یہ ہے کہ جو خارج سے بھی غائب ہو اورذہن سے بھی غائب ہو۔ تو اب علامہ کَہ رہے ہیں کہ فکر ِ کامل اگر ہوگا تو غیب کو ذہنی حضور دے دے گا اور تخیل اگرمکمل ہوگا تو وہ غیب کو حسی اور صوری حضور دے گا یعنی غیب کو ذہن میں قابل ِ دریافت معنی بنا دے گا اور تخیل کے ذریعے سے وہ غیب کو کسی صورت میں حاضر کر دے گا۔ دیکھیے کہ کتنی بڑی بات ہے یہ! بہرحال مختصر تعریف یہ ہے کہ تخیل غیب کو حضور ِ حسی دیتا ہے اور فکر غیب کو حضور ِ ذہنی دیتا ہے اور غیب فی نفسہٖ (as such) ان دونوں سے ماورا ہونے کی حالت کا ہی نام ہے۔اب یہ کتنا بڑا کام ہے جو غالب سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ غالب کے ہاں یہ چیزیں بہت کثرت سے ہیں۔ ’’ہائے اب کیا ہوگئی ہندوستان کی سر زمیں‘‘۔ یہاں ا ب وہ انتہائے مدح پر پہنچ کر نزول کرتے ہوئے کَہ رہے ہیں کہ ہم تیری ذات سے یہاں تک پہنچ گئے تھے لیکن افسوس ہم تیری روایت کو، تیری رفعت کے چلن کو جاری نہ رکھ سکے۔ تو اب ہندوستان کی سر زمین کیا ہو گئی ہے کہ اے غالب! تونے متلاشی نگاہ کو دیکھنا سکھایا تھا۔ وُہ نگاہ جو حقیقت کی متلاشی تھی لیکن حقیقت کو دیکھ سکنے والے اندازِ دید سے ناواقف تھی، تو نے آکر اُسے اس اسلوب ِ دید سے واقف کروایا تھا کہ وہ حقیقت کو دیکھنے کے لیے درست روزنِ دید اور صحیح زاویۂ نگاہ لے سکے۔ تیرا یہ کارنامہ ہے لیکن تیرے یہ سکھانے کا کوئی اثر نہیں ہوا، نہ ہم پر کوئی اثر ہوا نہ ہماری زبان پر ۔ جس زبان میں تونے ’لطفِ گویائی‘ کے جوہر دکھائے تھے اس زبان نے بھی تیرا اثر قبول نہیں کیا کہ’’گیسوئے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے‘‘ تو نے اس گیسوئے اُردو کو جس طرح سنوارا تھا ہم لوگوں کی نالائقی سے وہ بال پھر بکھر گئے ہیں ، اُجڑ گئے ہیں، ایک دوسرے میں گتھ گئے ہیں۔اب اس کو پھر اس کنگھے کی تلاش ہے جو تو لے کر آیا تھا۔ ’’شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے‘‘ اُردو کی محبوبیت بھی متاثر ہو چکی ہے اور اُردو کے عاشق بھی غائب ہوچکے ہیں۔ اے جہان آباد! اے گہوارۂ علم و ہنر ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در ذرّے ذرّے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے؟ تجھ میں پنہاں کوئی موتی آب دار ایسا بھی ہے؟ غالب سے مناسبت رکھنے والی دوچیزوں کا باری باری ذکر ہے۔ اقبال کے ذہن میں تنظیم بہت تھی۔ یہ نظم بطورنظم بہت اونچے درجے کی نہ بھی ہو لیکن اس نظم میں اقبال کے ایک آئندہ وصف کی نشاندہی ملتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ نظم کہنے والے کا ذہن جتنا مرتب اور منظم ہونا چاہیے وہ اس میں نظرآتا ہے۔ پہلے انھوں نے غالب سے نسبت رکھنے والی پہلی چیز اُردو زبان کا ذکر کردیا۔ اب غالب سے نسبت رکھنے والی دوسری چیز یعنی دلّی۱۱؎ کاذکر کرکے نظم کو ختم کر دیا۔ ابھی تک یہ غالب میں رہے تھے اورآخری دو بندوں میں یہ غالب کے متعلقات کی طرف منتقل ہوئے اور غالب سے بڑی نسبت اس کی زبان کو تھی لہٰذا پہلے اس کاذکر کیا۔ غالب سے دوسری نسبت دلّی کو تھی پھر اس کا ذکر کرکے نظم ختم کر دی۔ تو اس آخری بند کے معنی رسمی سے ہیں کہ دلّی ظاہر ہے گہوارۂ علم و ہنر تھا جو اب نہیں رہا ’ بڑے بڑے لوگ یہاں دفن ہیں لیکن ان مدفونین میں کوئی غالب ایسا صاحبِ کمال نہیں ہے۔ اس نظم کے مضامین رسمی ہیں لیکن ان مضامین کو جس ضبط و ترکیب سے بیان کیاگیا ہے اس سے یہ اُمید بندھتی ہے کہ ایسی نظم کہنے والا شاعر آگے چل کر معمولی شاعری نہیں کرے گا۔ ء ء ء حواشی و حوالہ جات ۱- یہاں ہم فکر کو فہم سے بلند کرکے سمجھیں کیونکہ فہم ہمیشہ منحصر بر غیر ہوتا ہے فکر منحصر بر غیر نہیں ہے۔ یہ اپنے ہی بیج سے پیڑاُگاتی ہے۔ خود تصور دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے: معنی اور صورت۔ تصور کے لفظ میں ہی صورت داخل ہے۔ اس میں معنی بھی ہوتے ہیں۔ اسے یوں سمجھیں کہ ذہن نے اپنی پوری استعداد کے ساتھ ایک تصور قائم کیا ہے۔ اس تصور کی صوری تفصیل اور نزاکتیں، نوک پلک جو ہے وہ تخیل کے ذمے ہیں، منفعل حالت میں بھی اور فاعلی حالت میں بھی۔ یعنی وہ تصور ہے تو اس کی تشکیل، حفاظت، تکمیل، توسیع سارا عمل تخیل کے سپرد ہے۔ یعنی یہ تصور کی ایک بنیادی بات ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے کوئی معانی بھی تو ہوں گے۔ اس سے نکل سکنے والے معانی کا ذمہ فکر کو حاصل ہے۔ ۲- صورت کو تخیل کی ملکیت کہنے کا مطلب ہے صورتِ اصلی۔ تخیل اپنی ہر صورت کو صورت اصلی کے طور پر محفوظ رکھتا ہے۔ فکر اپنے ہر معنی کو معنیِ اصلی کے طور پر محفوظ رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ شعور کی زیریں سطح ہے، باطنی مرتبہ ہے۔ اس کے باطنی ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ یہ اصلیت رکھتا ہو۔ غلط، صحیح، کامل، ناقص یہ بعد کی بات ہے، ان کا طرزِ احتوا اور حصول یہ ہے کہ یہ اصل کو محتوی ہے۔ ایک اصلِ فعال لیے ہوئے ہے۔ تو جب ہم اصل پر جائیں گے تو وہاں بڑی بڑی باتیں ہیں لیکن فی الحال ہم یہیں تک محدود رہتے ہیں کہ یہ اصل کو اس کے dynamism کے ساتھ contain کیے ہوئے ہیں، اس کی صورت کو تخیل کی تحویل میں دے کر اس کے معنی کو فکر کی نگہ داری میں رکھ کر۔ ۳- یہاں ایک ضمنی نکتے پر بھی غور کر لیجیے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ جمالیاتی ذوق، اخلاقی حس اور عرفانی ادراک میں ایک درجے کا کمال اکثر نظر نہیں آتا۔ اس کا سبب کیا ہے؟ اس تفاوت کی وجہ یہ ہے کہ یہ تصور ہی تصور میں ہو رہا ہے۔ اخلاق کا تعلق تصدیق سے ہے اور تصور سازی عالمِ تصدیقات سے غیر مطمئن رہنے کا نام ہے۔ ۴- فردوس اور بہار کا تلازم ایک نادر چیز ہے جو علامہ نے مولانا روم سے لے لی گو یہ رائج نہیں ہوئی۔ مولانا کی غزل ہے: ای نوبھار خندان از لامکاں رسیدی چیزی بہ یار مایی، از یار ما چہ دیدی خنداں و تازہ رویی، سر سبز و مشک بویی ھمرنگ یار مایی یا رنگ ازو خریدی ای فصلِ خوش چو جانی، وز دیدہ ھا نھانی اندر اثر پدیدی، در ذات ناپدیدی ای گل چرا نخندی، کز ھجر باز رستی ای ابر چون نگریی، کز یار خود بریدی گل، چمن بیارا، می خند آشکارا زیرا سہ ماہ پنھان، درخار می دویدی ای باغ خوش بپرور، این نو رسیدگان را کاحوال آمد۔نشان از رعد می شنیدی ای باد شاخھا را در رقص اندر آور بر یاد آن کہ روزی بر وصل می وزیدی بنگر بدین درختان، چون جمع نیک بختان شادند ای بنفشہ، از غم چرا غمیدی سوسن بہ غنچہ گوید، ہر چند بستہ چشمی چشمت کشادہ گردد، کز بخت در مزیدی ترجمہ اے کھلکھلاتی نوبہار ! تو لا مکاں سے اُتری ہے۔ تجھ میں ہمارے دوست کا رنگ پایا جاتا ہے، بتا تو سہی تونے اُس میں کیا دیکھا؟ ہنستی کھلکھلاتی اور شاداب چہرے والی، سرسبز اور مشک کی مہک میں بسی ہوئی۔ تو ہمارے دوست کی ہم رنگ ہے یا یہ رنگ اُس سے مول لیا ہے؟ اے دل کو نہال کر دینے والے موسم! تو روح کی طرح ہے اور آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اپنی نشانیوں میں نمودار اور اپنی ذات میں مخفی۔ اے گلِ سرخ! بھلا تو کیوں نہ کھلکھلائے! آخرجدائی سے نجات پائی ہے۔ اے ابر! تو کیوں نہ آنسو برسائے، آخر تجھے اپنے دوست سے منقطع ہونا پڑا ہے۔ اے گل! چمن سجا دے، کھل۔ُ۔ کر خندہ کر کیونکہ تجھے تین ماہ تک کانٹوں میں چھپ کر تگ ودو کرنا پڑی۔ اے باغ! اِن نوواردوں کو خوب اچھی طرح پال پوس جن کی آمد کا احوال تونے بادلوں کی گرج سے سُن رکھا تھا۔ اے ہوا! شاخوں کو رقص میں لے آ اُس دن کی یاد میں جب تو باغِ وصال میں اٹھکیلیاں کیا کرتی تھی۔ ان درختوں کو دیکھ، جیسے طالع مندوں کا کوئی مجمع ہو۔ سب خوش ہیں، اے بنفشہ! تو کیوں سر نیھوڑائے پڑا ہے؟ سوسن، غنچے سے کہتا ہے، ہر چند کہ تیری آنکھ بند ہے، تاہم یہ بس کھلنے کو ہے، کیونکہ تو نے خوش بختی کا مزہ چکھ لیا ہے۔ سبحان اللہ۔ اے دل کو نہال کردینے والے موسم تو رُوح کی طرح ہے اور آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اپنی نشانیوں میں نمودار اور اپنی ذات میں مخفی۔ یہاں دیکھیں رعایت کیا ہے یہ کَہ رہے ہیں اندر اثر پدیدی، یہ نہیں کَہ رہے کہ تو از اثر پدیدی۔ موزوں ہوجائے اگر کَہ دیں اور زبان بھی صحیح ہے تو از اثر پدیدی کَہ دیتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ تو اپنی نشانیوں سے ظاہر ہے۔ یہ کَہ رہے ہیں تو اپنی نشانیوں میں نمودار ہے۔ کیا کہنے، اس میں بڑی باریک بات ہے، بہرحال تو اپنی نشانیوں میں نمودار اور اپنی ذات میں مخفی۔ اے گُلِ سرخ بھلا تو کیوں نہ کھلکھلائے آخر جدائی سے نجات پائی ہے۔ اے ابر! تو کیوں نہ آنسو برسائے آخر تجھے اپنے دوست سے منقطع ہونا پڑا ہے۔ لیکن ایک بات میں عرض کردوں کہ مولانا وغیرہ چونکہ بہت عارف اور بہت ہی بڑی چیزیں ہیں اور یہ مضمون روایتی آدمی نہیں کَہ سکتا کہ اے شخص تیرے فردوسِ تخیل سے فطرت کی بہار ہے ----- تو ہم یوں کہیں گے کہ اقبال نے مولانا سے بہار کی لامکاں سے آمد کو گویا ذرا کم تر کردیا ہے کیونکہ ہو کیا رہا ہے، اس میں گڑبڑ کیا ہوگئی ہے۔ اب یہ ان کا حوالہ آگیا ہے تو کَہ رہا ہوں کہ گڑبڑ یہ ہوگئی ہے کہ اقبال نے Principle کو، مصدر کو انسان میں تحقیق کیا ہے جبکہ مصدر اور اصل مابعد الطبیعی ہے، خدائی ہوتی ہے۔ بس یہ ہے وہ ظاہر، وہ وبا ہے جدید ذہن کی… لیکن بہرحال ہم تو شاعری کی طرح دیکھ رہے ہیں ۔ ۵- دیکھیں معنی اور صورت میں صورت معنی سے بڑھ جاتی ہے۔ وہ مثال دیتا ہوں۔ وہ جو اصل روایتی مبحث ہے نا وہ ہے حقیقت اور صورت کا۔ روایتی مبحث کبھی معانی اور صورت کا نہیں ہے۔ معنی و صورت کا مبحث روایتی فن کا مبحث ہے لیکن روایتی دانش کا مبحث حقیقت و صورت ہے تو وہ ہر کوئی مانے گا۔ ۶- یہ مبالغہ ہے لیکن بہرحال یہ ہے علامہ کا بیان۔ ۷- یہ نوجوانی کی باتیں ہیں بعد میں اقبال ایسا نہیں کرتے۔اقبال نے تو شوخیِ تحریر کی ترکیب غالب کے لیے صرف کر دی لیکن غالب کے اکثر پڑھنے والے اور بعض شارحین اس کو غالب ہی سے منسوب کرتے رہے ہیں اور اکثر لوگ اسے یہی سمجھ کر پڑھتے ہیں کہ گویا غالب نے یہ مصرع اپنے شعر کے وصف میں کہا۔ جبکہ یہ تعبیر کسی طرح ، ظہور و خفا، تخلیق، مقصد آفرینش یا محرک تخلیق کے مباحث سے متعلق نہیں کی جا سکتی۔ یہ شرح غلط ہے۔ اگر اتنی غلط فہمی ہے تو اس شعر کو سمجھنے کا ایک اُصول بتا رہا ہوں کہ اَمرِ تخلیق کامل ہے اثرِ تخلیق ناقص ہے۔ تو مخلوق کَہ رہی ہے کہ یااللہ ہمیں اپنے اَمر کا مظہر بنایا ہوتا۔ فریاد کا سبب یہ ہے تو کیونکہ تو نے کاغذ کو یعنی مادّے کو ہماری حدِ وجود بنا دیا ، اگر اَمر کو حدِوجود بنا دیتا تو کیا تھا۔ ۸- مثلاً حافظ کا ایک شعر ہے جہاں یہ دونوں چیزیں اپنی انتہا پر ہیں۔ حافظ جیسا شاعر دوسرا نہیں ہے۔ اس معاملے میں بلکہ کسی بھی معاملے میں ؎ ستارۂ بدرخشید و میرِ مجلس شد دلِ رمیدۂ مارا انیس و مونس شد اب ایک تو واقعہ ہے کہ ستارہ چمکا اور مجلس کی صدارت اس نے سنبھال لی یعنی ناظرینِ جمال کی کوئی مجلس ہے اس عشاق کی تو وہاں صرف طالب ہی طالب ہیں مطلوب غائب ہے۔ تو ایک شدتِ انتظار اور طولِ انتظار کے بعد اچانک وہ مطلوب ظاہر ہوا اور وہ خود نہیں اس کا ظہور میرِ مجلس ہوگیا۔ یعنی مجلس اپنے مقصود تک پہنچ گئی جس کے لیے وہ مجلس بپا ہوئی تھی۔ وہ مقصد گویا مطلوب کے ظہور سے اور ایسے ظہور سے جو اچانک ہے اس سے حاصل ہوگیا۔’’دلِ رمیدۂ مارا انیس و مونس شد‘‘کہ ہمارا دل ہم سے تو بھاگ ہی چکا تھا، اب وہ گویا بیچ میں تھا۔ ہم سے وہ بھاگ چکا ہے اور کس کے لیے بھاگا ہے وہ غیر حاضر ہے۔ تو آپ اس کیفیت کا اندازہ لگائیے کہ گھر چھوڑ دیا ہے اور منزل غائب ہے۔ ستارے کی اس درخشانی نے یعنی مطلوب کے اس جلوے نے اس کی ڈھارس بندھائی ہے، اس کو تسکین دی یعنی اس کا مایۂ تسکین بھی بنااور منزل تسکین بھی بنا۔ انیس کہتے ہیں مایۂ انس بننے والے کو اور مونس کہتے ہیں کہ جو اپنی طرف مہربان ہو۔ مطلب کہ جو تسکین کے تمام وسائل فراہم کرتا چلاجائے اپنے آپ کو سامنے دکھا کر۔ یعنی جو میرے اندر بھی ہو اور مجھ سے باہر بھی ہو۔ وہ محبوب جو میرے اندر رہ کرمیرے لیے سرمایۂ انس ہے اور وہ محبوب جو مجھ سے باہر ہو کر میرے لیے منزلِ اُنس ہے۔ تو اب کیا ہوا کہ مضمون یہ بن گیا۔مضمون کو ایک حرکت کے ساتھ سمجھتے چلے جائیں تو معنی اس میں اتنے بڑے بڑے ہیں کہ سو میں سے سمجھیں آدھا یہ بتایا ہے۔ یعنی اس شعر میں عاشق اور محبوب کی تمام عرفانی جہات، ان کے اندازِ تعلق، ان کے مراتب کا احاطہ ہو گیا ہے۔ تو اس کا ہر لفظ اپنے مضمون کی طرف بھی قوی دلالت کر رہا ہے اور اپنے معنی کی طرف بھی محکم اشارہ کر رہا ہے۔ ۹- الہام معانی کے ضمن میں ولی کا شعر یاد کیجیے: ولی اس گوہرِ کانِ حیا کا وصف کیا لکھوں وہ یوں آتا ہے میرے گھر میں جوں سینے میں راز آوے اُردو شاعری میں جواعلیٰ تشبیہات، جو سب سے بلند تشبیہات تخلیق کی گئی ہیں اُن میں سے یہ یقینا ایک ہے۔ وہ یوں آتا ہے میرے گھر میں جوں سینے میں راز آوے، مطلب اس میں verticalبھی ہے کہ اللہ کی شان محبوبیت، محبوبانِ مجازی سے ظاہر ہوتی گئی۔ ۱۰- اظہار اور بیان بطورِ اصطلاح برابر نہیں ہیں، ان میں فرق ہے بیان میں معنی کو غلبہ ہے اظہار پر اور اظہار میں بیان کو غلبہ ہے معنی پر۔ یعنی اظہار میں ’کہنا ‘غالب ہے، اس پر ’جو کہا گیا‘ ہے اوربیان میں ’جو کہا گیا‘ ہے اُسے غلبہ ہے ’کہنے‘ پر۔ اِس وجہ سے بیان کا مفہوم بننا شرط ہے، اظہار کا مفہوم بننا شرط نہیں ہے۔ جب شعر کی بحث ہو رہی ہوتی ہے تو اس کی فنی اصطلاح میں اظہار کا لفظ بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ بیان اس کے لیے عمومی عنوان ہے۔اس لیے کہ اظہار فنی اصطلاح نہیں ہے۔ ہم نے ان دو اصطلاحوں کو قبول کر لیا۔ ہم سے کوئی پوچھے کہ تم ان میں فرق کیا کرتے ہو۔ اظہار کی جگہ بیان کیوں نہیں بولتے تو ہم کہیں گے کہ وجہ یہ ہے کہ ہمارافن مدوّن ہونے کے بعد پھر آگے بڑھایا نہیں گیا۔ یہ ایک کمزوری ہے کہ ہمارے اکثر فنون کے جتنے حدود ان کے بانیوں نے مقرر کر دیے تھے ہم نے اس میں اضافے نہیں کیے۔ اسے علم بیان میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ بیان میں ،بلاغت میں، فصاحت میں یا اصطلاحاًکہیے تو معانی و بیان میں۔ شعر کا اندرونی نظام معانی ہے، بیرونی نظام بیان ہے۔ بلاغت میں بیان اور معنی دونوں کو سکیڑا جاتا ہے۔ اس میں ارسال معنی شرط ہے۔ بلاغت کہتے ہیں مقتضائے حال کے مطابق کلام کرنا۔ اگرمقتضائے حال بلند ہو تو اس کی مطابقت بے معنی چیز ہے۔ اس وجہ سے بلاغت بڑے معانی پر جاری نہیں ہوتی۔ مقتضائے حال یہ ہے کہ جو کہنا ہے اس کی ضرورت اور مخاطب کے اندر اس کی سمجھ متکلم پر واضح ہونا چاہیے۔ تو جو کہنا ہے وہ پورا مخاطب تک پہنچا دینا بلاغت ہے۔ جو کہنا ہے اس میں روانی اور رنگینی پیدا کر دینا فصاحت ہے بلکہ یوں کہیں کہ زبان کتابی بھی ہوتی ہے اور اہل زبان میں بولی بھی جاتی ہے تو زبان جس بہائو کا نام ہے وہ بہائو اگر کتابی ہو تو بلاغت ہے اور اہل زبان والا ہو تو فصاحت ہے۔ ویسے لطف گویائی کایہ ترجمہ ہے، حسن اظہار یا حسن بیان کا۔ ایک اور مفید بات تخیل اور فکر کے تعلق کے حوالے سے عرض کر دوں۔ اس میں جو فکرکامل ہے اس میںکامل زائد نہیں ہے تو فکر کامل وہ ہے جو ذہن کے ہر مجہول کو ذہن کے لیے معلوم بنا دے ۔ تخیل اور فکر کے تعلق میں تین حسیں ایسی ہیں جو آپس میں بہت قریب ہیں اور اکثر ہم کاری میں ظہور کرتی ہیں۔ یہ تین حسیں ایک دوسرے سے الگ الگ کرنابہت مشکل ہو گا۔ فکر، خیال اور وہم۔ خیال جو ہے وہ محسوسات پر تصرف کا نام ہے۔ فکر تصورات پر تصرف کا نام ہے۔ وہم معقولات پر تصرف کانام ہے۔ یہ میں روایتی تعریف بتا رہا ہوں یعنی ذہن اپنے مشمول و معمول پر تصرف ضرور کرتا ہے۔ ذہن کے مدرَک و محمول تین ہی قسم کے ہیں: حسی ، تصوری اور عقلی۔ تو ان تینوں تصرفات کے لیے اس کے پاس یہ تین قوتیں دستیاب ہیں۔ جس طرح حسی اور تصویری اور عقلی ایک دوسرے سے متعلق ہوئے بغیر ذہن میں محفوظ نہیں ہو سکتے اسی طرح یہ تینوں حواس ِ باطنی ایک دوسرے کے ساتھ ہم کاری پیدا کیے بغیر اپنے راستے پر کامیابی سے نہیں بڑھ سکتے۔ تو فکر کامل اور تخیل کا پیوند جب عمل میں آتا ہے تو ان کا حاصل وہم کی تحویل میں چلا جاتا ہے یا وہم کے تصرف میں چلا جاتا ہے۔ خیال کا مخزن حافظہ ہے۔ فکر کا خزینہ مصورہ ہے جو تصورات والی ہے۔تصورات کا خزانہ مصورہ ہے اور محسوسات کا خزانہ حافظہ ہے۔ حافظہ بھی حس باطنی ہے۔ وہم ان سب پر آزاد تصرف کرتا ہے خیال پر بھی اور فکرپر بھی۔ تو تخیل اور فکر کامل اگر ہم نشین یعنی باہم مربوط ہو جائیں اور ایسے نتائج پیدا کرنے لگیں جو دونوں کی تحویل میں رہنے کے قابل ہوں یا دونوں کو مطلوب ہوں تو ان نتائج کو وہم کے تصرف اور تحویل میں دے دیا جاتا ہے۔ اس سے پھر تصورات ِ حقائق پیدا ہوتے ہیں۔ میرے موضوع یعنی شعور کے محتویات کے تین درجات ہیں۔ کوئی مشمول ان تین درجات میں سے ایک کو بھی اپنے اندر سے منہا کیا جانا قبول نہیں کرے گا: صورت، معنی اور حقیقت۔ ہرچیز ان تین ستونوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ صورت پر تصرف تخیل کرتا ہے، معنی پر تصرف فکر کرتی ہے۔ حقیقت پر تصرف وہم کرتا ہے۔ تو کیونکہ وہم کا عمل آخر میں شروع ہوتا ہے اور یہ تکمیلی عمل کرتا ہے تو اس کو شاعری کی زبان میں تخیل ابداعی کہتے ہیں یعنی اس کو انگریزی میں fancy کہتے ہیں جو تخیل (imagination) کی آخری قسم ہے۔اس کو ہمارے ہاں ابداعی تخیل کہتے ہیں یعنی ایجاد کرنے والا کسی مسالے کے بغیر۔ تو اب لطف ِ گویائی کیا ہے کہ وہم کے مشمول و محتوی (content) کو اظہار میں لے آئے۔ fancy وہم کا تقریباًترجمہ ہے، عرفانی معنی میں نہیں شاعرانہ معنی میں۔ عرفانیات میں وہم کا مطلب اتنا نہیں ہے جو میں نے بتایا ہے۔ facny کہتے ہیں اس ملکہ کو جس میں شعور، رغبت اور تیقن پیدا کرلے۔ وہ ماورائے تصدیق تصور جس میں شعور رغبت اور تیقن پیدا کر لے۔شعور کا جو تیقن غیر متزلزل ہوتا ہے وہ دلیل پر نہیں ہوتا کیونکہ شعور اپنی generated دلیل پر ہمیشہ مشتبہ رہتا ہے۔ شعور اپنی فعلیت پرکبھی قانع نہیں ہوتا۔ شعور کے پاس یقین کی جتنی بھی سکت موجود ہے وہ اس کے انفعال میں ہے اس کی فعلیت میں نہیں ہے کیونکہ شعور اگر اپنی فعلیت سے یقین پر پہنچے گا تو وہ اپنے آپ کو degrade ہوتا ہوا محسوس کرے گا کیونکہ object کے آگے اُسے surrender کرنا ہے لیکن خیر یہ تو دوسرا موضوع ہے ۔ آپ دیکھیں نا تخیل وہ تصور ہے جوتصدیق سے پیدا ہوتا ہے یعنی محسوسات سے پیدا ہوتا ہے۔ فکر وہ تصور ہے جو تصدیق کی تلاش میں ہوتا ہے۔ وہم وہ تصور ہے جوتصدیق سے ماورا ہوجاتا ہے، جو تصدیق سے بے نیاز کر دیتا ہے اورشعور کی تشکیل میں سب سے زیادہ بڑا حصہ لیتا ہے۔ آپ کے تمام جو جمالیاتی اور فکری عقلی فلسفیانہ مواقف ہیں وہ وہم کے بغیرممکن نہیں ہیں۔ آپ کے علوم کی ہر Methodology چند ایسے بنیادی مفروضات پر مبنی ہے جس کا تصدیق سے منقطع ہونا آپ کو معلوم ہے لیکن آپ اس کے لیے تصدیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ تو یہ آسان ہے نا۔ تینوں تصورات میں، وہم سے لے کر تخیل تک کی پونجی۔ مثال کے طور پر تصور idea ہے، تخیل کا idea مبنی ہے تصدیق پر۔تصدیق پراضافہ ہے تخیل کا تصور۔ یعنی کہ تخیل کے تصور کا ماضی ہے، فکر کے تصور کا مستقبل ہے۔ وہم کا تصور لازمانی ہے۔ اب آپ یہ اوصاف دیکھتے جائیں ۔ وہ تصور جو تصدیق سے پیدا ہووہ form ہے۔ وہ تصور جو تصدیق کی تلاش میں ہوmeaning ہے۔ وہ تصور جو تصدیق سے ماورا ہو وہ حقیقت ہے۔ آپ کبھی scientific ذہن کو بھی کام میں لا کر دیکھیں تو اس کے حقائق وہ ہیں جو تصدیق سے منقطع یا ماورا یا بے نیاز ہیں۔اور ایک حِس ہے حِس مشترک۔ وُہ ایسی حِس ہے جو وہم سے بھی مانوس ہے اور جو ٹھیٹھ علم ہے اس سے بھی مانوس ہے۔ وہ اُس اصول کو بھی نبھاتی رہتی ہے کہ تصدیق کے بغیر نہ مانو اوراس کو بھی نبھاتی رہتی ہے کہ ماننے والی چیز تصدیق سے ماورا ہے۔ مطلب وسعت کے اعتبار سے ہے، بلندی کے اعتبار سے واہمہ ہے۔ آپ دیکھیں نا صورت سے مطابقت رکھنے کے لیے حواس ظاہری ہیں، معنی سے مطابقت رکھنے کے لیے حواس باطنی ہیں، حقائق سے مطابقت رکھنے کے لیے بھی کچھ چیزیں ہیں، وہ practice ہیں۔ میرا تجربہ یہی ہے کہ حقیقت کا main perspective جمالیاتی ہوتا ہے وہ عقلی نہیں ہوتا، وہ اخلاقی نہیں ہوتا۔ حقیقت کا جو اصل روزن ہے وہ حضور ہے، علم نہیں یعنی وہ total passivity of consciousness ہے۔ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ علم وہی بڑا ہوگا جو حضور پیدا کر دے ۔ ۱۱- پہلے غالب کو مخاطب کیا، پھر دلی کی طرف اشارہ کیا۔ یہ گریز ہے یعنی مخاطب بدلتے جاتے ہیں، مخاطب بدلنے اور دلّی کومخاطب کرنے میں غالب کی جس عظمت کی طرف یہ اشارہ کرتے ہیں ، کرنا چاہتے ہیں وہ اور اُبھر آتی ہے۔ اگر یہ غالب ہی سے یہ بات پوچھ لیتے کہ تم خود بتائو کہ تم جیسا کوئی موتی دفن ہے دلّی میں تو یہ سپاٹ ہو جاتا۔ اب تک یہ غالب کے بارے میں اپنے دعوے کیے جارہے تھے۔ آخری بند میں اس دعوے پر ایک شاہد لے آئے ہیں کہ دیکھو دلّی میری گواہ ہے۔ ء ء ء فرہنگ و حواشی فردوسِ تخیل : فردوس = باغ ،جنت ،جنت کاطبقہ اعلیٰ ۔ تخیل = خیال باندھنا ،کسی چیز کو صورت دینا ،ذہن کا حواس ظاہری کے ذریعے سے چیزوں کی صورت کاادراک کرکے اُن صورتوں میں تصرف کرنا -----اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ آدمی میں ادراک کے دو ذریعے ہیں: عقل اور حواس ۔اسی طرح ادراک کی دوحالتیںہیں:معنی اور صورت۔عقل معنی کا ادراک کرتی ہے اور حواس صورت کا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ صورت معنی کے دائرے سے خارج ہے اور معنی،صورت کے۔ معنی، صورت کے بغیر ممکن ہے مگر صورت معنی سے الگ وجود نہیں رکھتی، یعنی ہوسکتا ہے کہ معنی موجود ہواور صورت غائب، لیکن یہ محال ہے کہ صورت موجود ہو اور معنی غائب۔ عقل اور حواس کا معاملہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ حواس کا کوئی عملِ ادراک عقل کی شمولیت کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا البتہ واقع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ادراک بالعقل کی وہ جہت جو اشیاء کی صورت سے متعلق ہے، حواس کو واسطہ بنائے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ فرق یہ ہے کہ عقل اپنے ادراک میں آنے والی صورتوں کے ہر تعین سے اوپر اُٹھ کر اُنھیں مجردمعانی میں تبدیل کردینے پر قادر ہے، جبکہ حواس میں یہ استعداد نہیں ۔ان کے ادراک کی ساخت ایسی ہے کہ وہاں صورت ہی معنی ہے۔ نسبتاً غیر تکنیکی انداز میں کہا جاسکتا ہے کہ عقل اور حواس دونوں کے حاصلات ایک ہی گودام میں جمع ہوتے ہیں، ہم اپنی سہولت کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ وہ ذہن یانفس ہے۔یہاں اُن کی اُس تشکیل کا عمل شروع ہوتا ہے جو اُنھیں شعور کی دیگر سطحوں تک لے جاتا ہے۔ عقل کے حاصلات یعنی معقولات شعور کی مجموعی فضا میں داخل ہو کر دو قوتو ں کے تابع ہوجاتے ہیں: وہم اور فکر ۔جن عقلی ادراکات پر صورت کاغلبہ ہوتا ہے وہ وہم کے حصّے میں چلے جاتے ہیں اور جن پر معنی غالب ہوتے ہیں یاصورت مفقود ہوتی ہے فکر کے زیر تصرف آجاتے ہیں۔ یہاں وہم کے لفظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے ۔ اصطلاح میں ’وہم‘ انسان کے شعور حقیقی کا وہ آلہ ہے جو اگر عقل سلیم سے ہم آہنگ ہوتو معدوم کو موجود کردکھاتا ہے اور وجود کی ماوراے نفی واثبات حالتوں کا ایک تصور پیدا کر دیتا ہے تاکہ ہمارا شعور اُن سے منقطع ہوکر نہ رہ جائے۔ گویا وہم بھی ایک طرح کا خلاّقانہ تفکر ہے جو فکر کی طرح ارادئہ ذہنی سے مشروط نہیں۔ اسی طرح حواس کے حاصلات یعنی محسوسات تخیل کا موضوع بن جاتے ہیں۔ یوں تو وہم بھی محسوسات میںتصرف کرتا ہے مگر اس کا تصر ف اپنی ماہیت اور نتائج کے اعتبار سے تخیل کے مقابلے میں چند امتیازات رکھتا ہے۔ مثلا ًوہم ادراک کی ہر نوع کو، حسّی ہو یا عقلی، دوسری نوع میں بدل سکتا ہے، جبکہ تخیل میں یہ استعداد نہیں، اس کا اصول صورت گیری وصورت گری ہے۔ اس طرح جہت سے اس کابہت کچھ انحصار وہم کی فراہم کردہ صورتوں پر بھی ہوتا ہے۔ تخیل کی بنیادی ساخت اس کی مختلف قسموں اور وہم وغیرہ سے اس کے تعلق پر تفصیلی گفتگو ہم آگے کسی مناسب مقام پرکریں گے، البتہ زیر نظر مصرعے کے معنوی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ترکیب کو خالص شعری نقطۂ نظر سے یوں کھولا جاسکتا ہے کہ شاعری اور خاص کر بڑی شاعری کا ایک مقصود تخلیق جمال ہو تا ہے۔ تخیل اسی مقصود کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ کائنات صورتوں کا ایک ڈھیر ہے جسے شاعر اپنے تخیل کے ذریعے جمالیاتی تنظیم دیتا ہے۔ اشیاء کی اقلیمِ اظہار یعنی عالم خارجی زمان و مکان کے ایسے ضابطوں میں جکڑا ہوا ہے جو جمال، یعنی صورت ومعنی کی وحدت کے ظہور کو ناممکن بنا دیتے ہیں۔ یہاں ہر ظہور ناممکن اور ہردید اُدھوری ہے۔ شاعرانہ تخیل زمان ومکان کی اس نسبت اور اس کے کائناتی قوانین سے اوپر اُٹھ کر اس دوہرے ادھورے پن کو مکمل کرتا ہے۔ وہ دیکھی اور ان دیکھی صورتوں کو ایک غیر ارضی ترتیب کے ساتھ آپس میں جوڑ کر اظہار کی ایک کلیت ایجا د کرتا ہے اور یہی تخلیق جمال ہے جسے زمان ومکان کے مختلف مراتب کی موجودگی میں یک لازمانی ولامکانی تو نہیں کہا جاسکتا جیسا کہ رومانیوں کا دعویٰ ہے، البتہ یہ کہنے میں شاید کوئی حرج نہ ہو کہ عالم خارجی میں وقت فنا و فرسودگی کا پیمانہ ہے اور مکان فاصلہ ودوری کا، مگر کائنات تخیل میں زمانہ حیات وتازگی کی ایک سیال آن بن جاتا ہے اور مکان قرب کا ایک ہمہ گیر پھیلا ئو ۔وہاں کا زمان ایک ناگذشتنی ’ابھی‘ ہے اور مکان ایک اٹل ’یہیں‘ ---- اقبال نے ’فردوس تخیل‘ کَہ کر انتہائی فنی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ سب اوصاف ایک معروضی پیرایے میں اگر کہیں جمع ہیں تو وہ فردوس ہے۔ جنت عالم جمال ہے، ابدی ہے اور مقامِ قرب ومشاہدہ ہے اور تخیل کا مقصود بھی تو یہی کچھ ہے ----مشاہدۂ جمال اور حصولِ ابدیت ! مزید دیکھیے ،فکر ،تخیل ،خیال ۔۔۔۔۔ نطق :گویائی ،کلیات کا ادراک و اظہار کرنے والی وہ قوت جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کر تی ہے ۔ نطق کو سوناز ہیں تیرے لب اعجاز پر : اس مصرعے میں غالب کو حوالہ بنا کر بڑی شاعری کا ایک عجیب وصف بیان کیا گیا ہے۔تمام مخلوقات میں ایک انسان ہی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اُس کا شعور مشاہدے اور تجربے کی عمومی سطح یاوجود کے ریزہ ریزہ ظہور سے بلند ہو کر اُن معانی کا ادراک کرسکتا ہے جن کی نسبت کے بغیر کائنات محض ایک بکھرائو ہے جہاں چیز یں اپنے حقیقی تناظر سے کٹ کر بس حیوانی حسن کا موضوع بن جاتی ہیں اس کے علاوہ وہ اپنے ادراکات کو بیان کر نے کی قدرت بھی رکھتا ہے نطق اسی ادراک واظہار کا مبدء ہے جسے منطق میں انسان کا فصل حقیقی کہا جاتا ہے گویا انسان کا حقیقی امتیاز اظہار ہے اور غالب کی شاعری اظہار کی ناممکن بلندی کو چھوتی نظر آتی ہے۔ اس طرح کلام غالب نے انسان کے نوعی شرف میں اضافہ کردیا ہے۔ اس کے ذریعے سے آدمی کا آدمی ہونا اور زیادہ واضح ہو گیا ہے ۔یہی جو ہر ہے دُنیا کی تمام بڑی شاعری کا ۔ نیز دیکھئے نطق، لبِ اعجاز ۔ لب ِاعجاز: معجز ے دکھانے والی زبان ،وہ لب جس سے ایسا کلام صادر ہو جو ماوراے اظہار حقائق کو بھی اپنی گرفت میں لے آئے۔ یہ ترکیب عام طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی شان سچائی کابیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اقبال نے اس نسبت سے بھی فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ بتا یا ہے کہ سید نا مسیح علیہ السّلام اپنے نفس جاں بخش سے مُردے کو زندہ کر دیتے تھے اور غالب اپنے اعجاز کلام سے مخفی کو ظاہر ۔ شاہد ِمضموں :شعر کا مضمون جو گویا طر حدارمحبوب ہے ۔ شاہد ِمضموں تصدّق ہے ترے انداز پر : اس مصرعے سے ایک تصو ّرِ شعر بھی برآمد ہوتا ہے شاعری کا مقصود ہے حقیقتِ حسُن کا جمالیاتی بیان۔ غالب کے حسن اظہار کا یہ عالم ہے کہ خود حسُن اس پر نثار ہے۔ اس بات سے ایک اور نکتہ نکلتا ہے، شاعری دو چیزوں سے مرکب ہے: کیاکہاگیا ہے اور کیسے کہاگیا ہے ------ ان میں ’کیسے کہاگیا ہے‘ کی اہمیت زیادہ ہے ۔ نیز دیکھیے ،شاہد مضموں ۔ خندہ زن ہے غنچۂ دلّی گل شیراز پر : غنچۂ دلّی غالب ہے اور گل شیراز سعدی، حافظ اور عُرفی۔اس مصرعے کا خلاصہ یہ ہے کہ غالب کی بنا کر دہ شعری روایت گوکہ ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے مگر اس کے باوجود فارسی شاعری کے نقطہ کمال کو پیچھے چھوڑ گئی ہے ۔ ویمر : جرمنی کا ایک چھوٹا سا شہر جہاں عظیم جرمن شاعر گوئٹے مد فون ہے ۔ مزید دیکھیے :گلشن ویمر میں تیر اہم نواخوابیدہ ہے ۔ گلشن ویمر میں تیرا ہم نواخوابیدہ ہے : بعض بنیادی مماثلتوں کی وجہ سے گوئٹے کو غالب کا ہم نو اکہاگیا ہے۔ گو ئٹے کا مختصر تعارف یہ ہے :جوہان ولف گانگ فان گوئٹے جرمنی کا عظیم ترین شاعر اور ڈرامانگار ۔۲۷؍اگست ۱۷۴۹ء کو فر ینکفرٹ میں ایک نسبتاً خوش حال اور علم دوست گھرانے میںپیدا ہوااور۲۲؍مارچ ۱۸۳۲ء کو ویمر میں وفات پائی۔ گوئٹے کا شمار عالمی ادب کی سب سے قد آور شخصیات میں ہوتا ہے۔ مختلف علو م وفنون پر اس جیسی قدرت رکھنے والا آدمی تاریخ ادب میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ شاعر اور ڈرامانگار کے علاوہ وہ فلسفی، سائنس داں ،نقاد، صحافی، مصور، قانون داں ،ماہر تعلیم، عالم موسیقی اور سیاست داں بھی تھا۔ صر ف نیچر ل سائنس پر اُس کا مجموعی کام چودہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ شعری اور ادبی جہت سے دیکھا جائے تو اُس کے یہاں اسالیب اور تصور ات کی ایسی رنگارنگی اور جامعیت نظر آتی ہے جس کی مثال شاید اور کہیں نہیں ملتی۔ اگر اُس کی تخلیقی عظمت کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو کچھ چیزیں پہلے ہی قدم پر مل جاتی ہیں ۔ ۱- انسانی فطرت میں مستقل طور پر موجود سوالات کاسامنا کرنا اور اُنھیں فکر ،تخیل اور احساس کی ہر سطح سے جوڑ کر دیکھنا ۔ ۲- جمالیات کی تصویری ،صوتی اور معنوی جہتوں کو یک جان کردینا ۔ہمارے یہاں تغزل کا یہی مطلب ہے مگر اس کی اساس مابعدالطبیعی ہے جس سے گوئٹے کو کوئی تعلق نہیں ۔اُس کا تصورِ جمال ہر پہلو سے انسانی ہے ۔ ۳- بڑی شعری روایات میں اکثر سے استفادہ کرنا ۔ ۴- کثر ت اسالیب ۔ اس کی کتابوں میں نوجوان ور تھر کی داستان غم اور فاؤسٹ عالمگیر شہرت کی حامل ہیں۔ ان کا شمار ایسی کتابوں میں ہوتا ہے جن سے قوموں کی اجتماعی زندگی کی تشکیل ہوتی ہے۔ نو جوان ور تھر کی داستان غم گو ئٹے کی نوجوانی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب نے جرمنی بلکہ مغربی یورپ میں تہلکہ مچادیا تھا۔ فاؤسٹ اُس نے عمر کے آخری حصے میں مکمل کی۔تقدیر اور خیر وشر وغیرہ کے مباحث کا ایک مکمل انسانی تناظر میں اگر کوئی مطالبہ ہوا تو یہ کتاب اُس کا بنیادی حوالہ ہوگی ۔دیگر شعری روایات کے ساتھ گوئٹے نے ایرانی روایت سے بھی فائدہ اُٹھا یا ۔خاص طور پر حافظ شیرازی سے بہت متاثرتھا ۔اُس کا مشہور دیوان غربی وشرقی ،اس اثر کے تحت لکھاگیا ۔اقبال نے پیام مشرق کے نام سے فارسی میں اس کا جواب لکھاتھا۔ لُطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں اقبال نے اس شعر میں بڑی شاعری کے عناصر ثلاثہ بتادیے ہیں ۔ ۱، لطف گویائی یعنی حسُن اظہار ۔ ۲، تخیل یعنی محسوسات میں تصرّف اور اُن کی جمالیاتی تشکیل ۔ ۳، فکر ِکامل یعنی معقولات میں تصرّت اور نئے معانی کا حصول ۔ شانہ:کنگھی جہان آباد:شاہجہان آباد۔ دلّی کا دورا نام،جو مغل بادشاہ شاہجہان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ متن کی تفسیر ----- ایک فلسفیانہ تحلیل حیات عامر حسینی کسی بھی متن یا فن پارے کے معانی کا تعین ایک مہم جوئی ہے۔ کہنے کو تو یہ بات آسان ہے کہ فلاں شاعری اچھی ہے اور فلاں اچھی نہیں ہے، یا اس متن کے یہ معنی ہیں اور یہ نہیں ہیں۔ لیکن جب یہ بات کہی جاتی ہے تو کیا کہنے والے کے ذہن میں کوئی ایسا معیار یا اصولی نظام ہوتا ہے جو واضح ہو اور جس میں کوئی منطقی ربط ہو؟ یہاں پہ کئی ایسے پیچیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں جو بہت ہی پریشان کن ہیں۔ مثلاً (الف) کیا کوئی ایسا معیار یا معیارات ہیں جو متن کی تفسیر میں ایک منطقی اصول کا کام کرتے ہیں؟(ب) کیا متن کی تفسیر وتوضیح میں منطق یا منطقی اصول کام کرتے ہیں ؟(ج) کیا متن ،شاعر اور شارح میں کوئی رشتہ ہے اور اگر ہے تو اس کی عملی و معنوی حیثیت کیا ہے وغیرہ؟ یہ سوالات اس لیے بھی پیدا ہوجاتے ہیں کہ فن بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے منطقی عمل نہیں ۔ اس میں نفسیات ،احساسات، انحرافات، اقدار کا تعین یا ان سے انحراف، زبان اور اس کی داخلی اور خارجی ہیئت، الفاظ کے معانی اور الفاظ اور معانی کے درمیان رشتہ ، فصاحت وبلاغت کے معنی اور ان کے اطلاقات، سماجی تغیرات، اسطور، جمالیات، مذہب، مذہبی اعلام، مذہبیت اور مابعدی اور وجودی تقاضے اورقضایا جیسے اہم سوالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اور ان چیزوں کا منطق یا منطقی نظام یا منطقی تعبیرات سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر ایسا کوئی تعلق ہے بھی تو وہ مشروط ومحدود ہے اور اس کی اپنی حدود اور قضایا ہیں۔ اب یہ سوال کہ کسی فن پارے کی تشریح و توضیح کیسے ہو ایک واضح مسئلہ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم کسی فن پارے کی توضیح و تشریح نہیں کرسکتے یا اس کو سمجھ نہیں سکتے،یا اس کے معانی کا ادراک نہیں کرسکتے اور نہ میں دریدا اور اس کے متبعین کی طرح ایک بے ہنگم بے معنویت کی بات کرتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تخلیق کے بعد تخلیق کار غائب ہے اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ فن پارے کی تشریح اس پر لادا گیا ایک عمل ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فن پارے میں تخلیق کا ر ہوتا بھی ہے اور ہوتا بھی نہیں۔ میری اس بات کو وحدۃ الوجودی صوفیہ اور اشاعرہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ الفاظ کا اپنا ایک ظاہری خول ہے اور اس کے اندر معانی کی ایک دنیا آباد ہے۔ لیکن یہ دنیا اس میں نہ تو قید ہے اور نہ اس سے باہر ہے اور نہ کہیں کھوگئی ہے بلکہ یہ اس میں پرا سرار طور پر سرایت کیے ہوئے ہے۔اس کی شناخت ڈاکٹر کی نبض شناسی کی طرح ہے ۔ اگر فن پارے اور اس میں برتے ہوئے الفاظ کی نبض پر ہاتھ نہ پڑا تو یہ کہنا کہ اس کے معنی ہی نہیں، یا یہ معنی ہیں اور یہ معنی نہیں ہیں ایک بے معنی عمل ہے۔ حواس، عقل اور وجدان تینوں کا تعلق اس عمل نبض شناسی سے ہے۔ ان میں سے محض ایک سے کام نہیں چلے گا اور اگر ہم ایسا کرنے کی کوشش کریں تو فن پارے کے نہ تو معانی کااظہار ممکن ہے اور نہ اس کے اندر مستور کائنات کی نقاب کشائی۔ ارسطو نے جب بو طیقا لکھی تو شاید اس کے سامنے یہی مسائل تھے ۔ اس نے کسی فن پارے کی تشریح نہیں کی اور نہ اس کے الفاظ کو کھولا اور نہ ان کے معانی بتادیے بلکہ اس نے ان قدروں کا تعین کرنے کی کوشش کی جو ایک المیہ کی فہم وتفہیم میں الف لیلیٰ کے اڑتے ہوئے قالین کا کام کرتی ہیں۔ بات جہاں سے شروع ہوئی تھی پھر وہیں پر آکررک گئی، مسئلہ یہ ہے کہ کیا فن کی کوئی منطقی تحلیل ممکن ہے یا ایسا کوئی قالین ہے جو ہمیں اس جہاں میں پہنچا سکتا ہے جہاں فن کا یہ خوبصور ت پودا پھوٹا ہے، یا جو اس کی اساس ہے، یا جہاں سے اس کی معنوی جہتوں کا پتا چل سکتا ہے۔ اس سوال کی تحلیل ایک دوسرے سوال کو پیدا کرتی ہے کہ کیا الفاظ یا زبان یک زمانی اور جامد (Synchronic) ہیں یا یہ ارتقا پذیر (Diachronic) ہیں۔ یہ وہ واضح فرق اور اساسی سوال تھا جو ارسطونے اٹھایا تھا اور جس نے المیہ سے متعلق ہزاروں سوالات کو جنم دیا۔ ذرا اور گہرائی سے دیکھیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ محض المیہ سے متعلق سوال نہ تھا، بلکہ یہ ایک ایسا مختلف الجہت سوال تھا جس کا بنیادی تعلق فن، زبان، الفاظ، اور ان کی تشریح وتعبیر اور معانی کے فہم اور گرفت سے ہے۔ لیکن کیا ارتقا پذیر کے معنی لازمانی اور ہمہ زمانی ہوسکتے ہیں اوریک زمانی کے تحدید، محدود ارضی یا وقتی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو نہ ارسطونے اٹھائے اور نہ دریدانے۔ پھر یہ سوال اپنے آپ ہی بھوت کی طرح نمودار ہورہا ہے کہ فن یا متن کی تشریح یا اس کے معانی کا ادراک کیسے کیا جائے اور اس کی عملی گرفت کے کیا معانی اور حدود ہوسکتے ہیں؟ یادرہے کہ ’گرفت‘ اور ’حدود‘ خود یک زمانی ہیں لازمانی نہیں۔ اگر ان کے ساتھ غیر زمانی کا لفظ جوڑ دیاجائے تو یہ سوالات (اور اصطلاحات) مابعد الطبیعیاتی صورت اختیار کرلیتے ہیں نہ کہ تہذیبی ،وجودی، دینیاتی اور ارضی۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ فن کا تخلیقی عمل زمانی ہونے کے باوجود ’لازمانی‘ ہوتا ہے کیونکہ اس کا تعلق ایک بہت بڑی حدتک وجودی بنیاد وں اور لاشعور سے ہوتا ہے ، جنھیں ’زبان‘ کی قید میں لانا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ لیکن الفاظ اور زبان کے حوالے سے اس کا تعلق زمان ومکان سے جڑجاتا ہے ۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بہت ضروری ہے کہ ’تخلیقی عمل‘ اپنے معانی ومفاہیم اور وسعتوں میں لازمانی ہوتو ہو/ یا ہے، اپنی ساخت میں زمانی اور محدود ہے ۔ یہ وہ بنیادی سوال تھا جسے معتزلہ اور اشاعرہ نے خلق قرآن کے حوالے سے اٹھایا تھا۔حالانکہ انہوں نے اس پہلو کو سمجھنے کے بجائے صفات اور ذات خداوندی کے حوالے سے اس کی ہیئت ، اور اس کے وجود ومعانی پر بحث کی اور اسے اپنے اپنے دینیاتی نظام کے ساتھ استوار کیا اور اس کے دینیاتی اور مابعد الطبیعی مضمرات پر بحث کی، جو اپنے کلی نتائج میں کلامی اخلاقیات، سماجیات اور سیاسیات کی بحثوں اور مضمرات میں سامنے آگئے ۔ فن، الفاظ اور زبان کا تعلق ترسیل وابلاغ سے بھی ہے جو ایک روحانی ،مابعد الطبیعی اور وجودی مسئلہ بھی ہے کیونکہ زبانیت (Linguisticality) یا ترسیل محض ایک زمانی قضیہ نہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح جنسیت (Sexuality)یا مذہبیت (Religiosity) یا نروان یا دیدار خداوندی کوئی زمانی قضیہ نہیں۔ معتزلہ نے دیدار خداوندی اور ترسیل کو ایک زمانی قضیہ بنانے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے قرآن حکیم کے کلام خدا یعنی صفت خداوندی ہونے سے انکار کیا اور دیدار خداوندی کو ’زمان ومکان اور سمت‘ کے قضایا سے جوڑ کر اس کے وجود سے ہی انکار کردیا۔ اب اگر زبان یا الفاظ کا معاملہ اس طور سے دیکھیں تو ان کے ادراک اور کردار کا مسئلہ اور مشکل ہوجاتا ہے ۔ کلام ایک صفت خداوندی ہے ( صفات خداوندی لازمانی بھی ہیں اور زمانی بھی) لیکن اس کا ادراک کیسے ہو اور اس پر گرفت اور اس کی تفہیم وتشریح کیسے ہو،ایک بہت ہی پیچیدہ سوال کی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ یہی مسئلہ تو علم الکلام کی بنیاد بناتھا اور اسی مسئلہ نے اسلامی تاریخ کے دھارے کو بدل دیا تھا۔ اسی کے نتیجے میں معتزلہ اور اشاعرہ کی کلامی موشگافیاں اور مفسرین کی نکتہ آرائیاں سامنے آئیں اور یہی اسلامی تفسیر یات (Hermeneutics) کی بنیاد بنا تھا۔ اب اس معاملے سے جڑے ہوئے کئی اہم سوال سامنے آتے ہیں جو یوں ہیں: (۱) کیا تاویل وتفسیر ممکن ہے (۲) تفسیر کے ساتھ ’فہم‘ کا کیا تعلق ہے (۳) فہم کے کیا معنی ہیں اور اس کی حدود کیا ہیں اور (۴) یہ کہ کس کا فہم ‘--- کیا’دنیا‘ کا بحیثیت ’معروض‘ یا انسان کا بحیثیت ’وجود‘ (۵) اور ان دونوں کا یا صرف ’انسان‘ بحیثیت ’وجود‘ کا متن سے تعلق اور اس کا فہم ۔ یوں یہ سوال تین واضح جہتوں اور حیثیتوں میں آگے بڑھتا ہے، علمیاتی، اخلاقی اور مابعد الطبیعی ۔ تاریخی طور پر تفسیر وتوضیح کا مسئلہ ’صحائف آسمانی‘ کے متن سے جڑا ہوا ہے۔ اگر یہ بات اتنی ہی صاف اور سیدھی ہوتی تو کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا، یا اگر مسائل پیدا ہوبھی جاتے تو وہ مذہب یا دینیات تک محدود ہوجاتے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ تفسیر کا تعلق ہمیشہ ایک طبقے ، روایات اور زمانے کے فکر و فلسفے سے بھی رہا ہے اور اس سوال سے بھی کہ کوئی تحریر کس تناظر میں لکھی گئی؟ چونکہ تفسیر ایک نظریہ ،علامت یا نظام علامات اور صحیح معانی کی دلالت کرتا ہے اس لیے یہ سوال پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے کہ تفسیری بحث کا فلسفے سے کیا تعلق ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ایک متن کے کئی معانی ہوسکتے ہیں اور یہ وہ بھول بھلیاں ہے جو الجھی ہوئی بھی ہے اور مربوط بھی۔ اس میں کوئی یک سطحی یا یک رخی علامات کا نظام کام نہیں کرتا ۔ ایسا صرف منطق میں ہی ممکن ہے۔ اس میں دلائل کی منطق بھی کام نہیں کرتی کیونکہ متن کا تعلق اشخاص کے فہم و ادراک سے بھی ہے اور اسطور ، علامات اور استعارات وتمثیلات سے بھی اور جب بات اس ڈھنگ سے کی جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ متن کے معانی کی تلاش میں محض تفسیر سے کام نہیں چلتا، بلکہ اس کا پہلا زینہ متن کا فہم و ادراک ہے۔ اس بات کی طرف اولین اشارے ارسطوکی (On Interpretation) Peri Hermeneias میں ملتے ہیں۔ یوں متن کی تفسیر زبان اور معانی کے مسائل سے جڑجاتی ہے ۔ جدید فلسفیانہ تناظر پر غو رکر نے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ شلر مارکر اور ڈیلتھے نے اٹھایا اور اسے فلسفے سے جوڑ دیا۔ اولین سطح پر یہ مسئلہ محض علمیاتی تھا اور طبعی سائنس کی طرح تاریخی علوم اور فلسفیانہ مسائل کو کھولنے سے متعلق تھا۔ لیکن فلسفہ سائنس نہیں اور نہ سائنس فلسفہ ہے۔ اس لیے بات نکلی تو دور تک چلی گئی پہلے تو سوال محض تفسیر ومعنی کا تھا، لیکن اب مسئلہ اٹھا متن کے داخلی روابط کے اصول وقوانین ،اور ان کا متن کے سیاق و سباق سے تعلق اور سماجی، تہذیبی اور جغرافیائی حدود وتناظرات کا۔ اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ نفسیاتی تناظرات اور تاریخی تنا قضات کے مسائل بھی اس سے جڑگئے۔ یہ سوال بھی بہت اہم بنا کہ ایک تاریخی وجود کیسے تاریخ کو تاریخی طور پر سمجھ لے، یا بالفاظ دیگر یہ کہ زندگی کیسے اپنے آپ کی تجسیم کرے اور اس عمل میں وہ کیسے ان معانی کو سامنے لائے جنھیں کسی دوسرے زمانے کا ’وجود ‘ ہی سمجھ سکتا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ قوت اور معنی کے درمیان کیا رشتہ ہے ۔ کیا زندگی معنی یا معانی کی حامل ہے اور ذہن اس قابل کہ معانی کو مربوط کردے۔ اور اگر زندگی بامعنی نہیں اور اس کا کوئی مقصد نہیں تو فہم ناممکن ہے ۔ ان سوالات کا جواب جدید فلسفیانہ تحلیلیت، وجودیت اور لسانیات نے دینے کی کوشش کی۔ غور سے دیکھا جائے تو ان فکری مدرسوں کی تہذیبی جڑیں یہودی وعیسائی کلام اور بعد میں دور جدید میں کارتیسی مناہج اور کانٹ اور ہیگل کے فلسفے میں پھیلی ہوئی ہیں۔رسل، مور، وٹگنسٹین، وزڈم، ہسرل،ہیڈیگر ، ریکور، کرپ کے، چومسکی ، سڑاس اور دوسرے مغربی مفکرین نے اس مسئلے کی مختلف جہتوں کو اپنے فلسفیانہ مباحث ومناہج میں پھیلادیا۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ دوسری تہذیبوں میں بھی یہ مسئلہ کسی نہ کسی صورت میں اٹھا، ویدوں کی تفسیر اپنشد ہے ۔ یہ ’تفسیر یات‘ کا ایک بڑا اور مربوط سلسلہ ہے۔ ہندو تفسیر سے جڑی ’سمرتیاں‘ اور ’دیومالائی‘ کہانیاں بھی ہیں جن کا ہندومت کی عملی و نظری تفسیر سے بہت گہرا تعلق ہے۔ جین مت میں معانی کی مختلف جہتوں کا مسئلہ ’انی کانتاواد‘ اور ’سیاد واد‘ کے فلسفہ میں الجھاہوا ہے۔ یونانی تہذیب میں سقراط کی منطقی اور توضیحی جدلیت جو بعد میں نہ صرف افلاطون اور ارسطو بلکہ پورے مغربی فلسفہ و فکر کی منہاج بنی اور جس نے اس کے نظام ہائے فلسفہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اسی تفسیر ی رویے کی ایک صورت ہے۔یونانی فلسفہ وفکر سے الگ یونانی تہذیب میں تفسیر و تشریحات کا ایک الگ سلسلہ بھی ہے، جس کا تعلق ان کے مذہب اور فن سے ہے۔ یہ سلسلہ’دیومالا‘یا اسطورسے جڑا ،یا اسطوری ہے۔ ہندی تہذیب کی طرح یونانی تہذیب کی جڑیں بھی ان کی دیو مالامیں پیوست ہیں اس لیے ان کے ذہنی، نفسیاتی ، مذہبی ،سماجی ، عمرانی ،معاشی اور سیاسی عقائد کو سمجھنے کے لیے ان کی اسطور سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ اب غور سے دیکھیے اور سوچیے کہ یہ عمل ’لطیف‘ تو ہے لیکن کیا یہ پرُلطف بھی ہے؟ یہ مسئلہ کئی ذہنی اور نفسیاتی تو جیہات کو سامنے لے آتا ہے۔ اس سوال کا ایک نازک عملی پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ زبان کے ارتقائی عمل میں ’الفاظ‘ کے معانی بدل جاتے ہیں اور وہ عملاً اپنے بنیادی معانی سے دور جاپڑتے ہیں، لیکن کیا اس طرح ان کی معنویت اور فادیت کم ہوجاتی ہے۔ افادیت کا معاملہ یہ ہے کہ یہ کم بھی ہوسکتی ہے لیکن معنویت کم نہیں ہوسکتی کیونکہ معنویت کا تعلق اس کے اساسی نظم (ڈھانچے) سے ہے۔ حالانکہ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ افادیت کا معاملہ بھی ایک فن پارے کے وجود سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے حقیقی طور پر افادیت بھی کسی طور کم نہیں ہوسکتی ۔ نئے فن پاروں میں متروک الفاظ کا استعمال نئی معنوی جہتوں کے ساتھ ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے ۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ الفاظ کے معانی اپنے اشتقاق سے کلی اور دائمی طور پر جڑے نہیں رہتے اور نہ ان کے استعمال سے ان کے معانی کا کلی اطلاق ہوتا ہے اب اگر ماضی یا قدماء کی زبان کا استعمال زمانۂ حال کے لیے ایک دائمی اصول اور ضروری عمل نہیں تو پھر حال اور مستقبل پر بھی اس اصول کااطلاق ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ زبان کا بہتر استعمال اس کی سند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اچھی زبان اور بہتر استعمال کے کیا معنی ہیں؟ یہ کون سی زبان ہے اور کس کی زبان ہے ؟زبان تو ترسیل ہے اور یہ اپنے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق ہوتی ہے ،لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ضرورت کے کیا معنی ہیں اور اس کی ہم کیسے توجیہ کریں۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ ماضی میں بولی جانے والی زبان کیوں بری ہے اور آج کی زبان کیسے اچھی ہے اور پھر یہ کہ اس کی معنوی جہتوںیا اس کے معانی کی گرفت کے لیے کون سی منہاج صحیح ہے؟ الفاظ اپنی ہیئت کیسے بدلتے ہیں اور ہیئت کی تبدیلی کے ساتھ ان کی معنوی جہتیں کیسے بدل جاتی ہیں، کیا یہ ایک اتفاقی امر ہے یا ایک ارتقائی عمل؟ یہ سوال معنیات کا مسئلہ ہے لیکن ہم اس سے کنارہ نہیں کرسکتے کیونکہ اس سوال کی تشریح کا تعلق فلسفہ اور فن کے بنیاد ی مسائل اور ابعاد سے بھی ہے۔ اس لیے اس پر ان کے حوالوں سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس مسئلے کی طرف دور جدید کے مغربی مفکرین میں سوسیور Sausure نے توجہ کی ۔ اس نے کہا کہ اس مسئلے کے فہم کے لیے ضروری ہے کہ زبان کے مختلف کوائف ،زبان کا زمانی مطالعہ (یا کسی وقت کی مستعمل زبان) اور اس کے زمانی ارتقا میں ہمیں واضح اور کلی فرق کرنا ہوگا۔ یہی مسئلہ زبان کے جمود وارتقا سے بھی جڑا ہوا ہے۔ وہ ان دونوں مناہج کو جن کا ابتدائی سطور میں ہی ذکر ہوا کلی طور پر ایک دوسرے سے الگ مانتا ہے اور اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ ان کو کسی طور باہم مربوط نہیں کیا جاسکتا۔ ایک زبان کی حالت یا کیفیت ایک مخصوص دور میں کیا تھی ایک اہم سوال ہے جس کا تعلق اس کے قواعد سے ہے ،جن میں صرف ونحو اور صوتیات شامل ہیں، صرف ان میں کوئی ایک ہی نہیں۔ یہ سوال اس کے زمانی تغیرات سے متعلق ہے۔ ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا زبان کلی طور پر ایک حرکت پذیر عمل ہے یا اس کی حصہ بندی ارتقا پذیر اور جامد بھی ہوسکتی ہے۔ یہ سوال اس مسئلے کو بھی جنم دیتا ہے کہ کیا حرکت پذیر ی اور جمود میں کوئی واضح حدفاصل ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی دور کو جمود سے تعبیر کریں تو اس زمانے کے ادب و فن اور علم کی حیثیت کیا ہے؟ سوسیور تو یہ کہتا ہے کہ ہمیں اس دور کے تمام علم کو نظر انداز ہی نہیں رد کر دینا چاہیے، اس لیے کہ یک زمانی حقائق یا دور جمود کے حقائق کا ارتقا پذیر حقائق ومعارف سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا تعلق دو مخصوص، درجوں اور حالتوں سے ہے۔ ارتقا پذیر تناظران مظاہر سے متعلق ہوتا ہے ، جن کا ایک نظام یا نظاموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ،حالانکہ وہی اس کے وجود کے لیے ناگزیز ہیں۔ زبان کی حالت یاکیفیت کھیل میں پیدا ہونے والی کیفیت جیسی ہے جس کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک تماشا بین بھی اس طرح کھیل کھیل سکتا ہے جس طرح ایک کھلاڑی، سوسیور اس کے لیے علم الاقتصاد کی مثال دیتا ہے۔ اقتصادی سیاسیات اور تاریخ اقتصادیات دو الگ مظہر اور موضوع ہیں اور ان کی تقسیم علم الاقتصاد میں نتیجہ خیز اور عملی تقسیم کا نتیجہ ہے اور یہ تقسیم نتیجہ خیز، دور رس اور انقلابی مضمرات کی حامل ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ زبان کا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے باوجود سوسیور کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ وہ دوسرے علوم پر ان کا اطلاق نہیں کرتا یا کرنہیں سکتا اور اس خیال کو سامنے لے آتا ہے کہ اسے دوسرے علوم جیسے ارضیات، قانون، تاریخ، سیاسیات ،فلکیات وغیرہ میں ان دونوں پہلوئوں کو باہم ملانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سوسیور کا یہ نظر یہ قابل عمل ہے اور کیا انسانی زندگی میں اس طرح کی ناقابل تنسیخ تحدید اور تقسیم ممکن ہے۔ اس سوال کے ساتھ کئی اور اہم سوال بھی جڑجاتے ہیں مثلاً فن اور ادب میں ان دونوں پہلوئوں کو کیسے لیا جائے؟ کیا پرانافن اور ادب اب متروک ہوگیا، کیا اب اس کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ ہمارے ہم عصر ادب، تاریخ اور ارتقا کا لازمی جز ہے اور اگر ہے تو ان کے زمانی ومکانی تعلق میں کیسے اور کیا تطبیق کی جائے اور اس کی تشریح و توضیح کیسے کی جائے ، اور یہ بھی --کہ کیا ارتقائی عمل یا ارتقاپذیر اور زمانۂ حال میں تخلیق ہونے والے ادب اور فن پاروں کی تشریح ممکن ہے اور اگر ہے تو متروک یایک زمانی فن وادب کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے؟ اور اگر تعلق ہے تو ان دونوں کی تشریحات کے کیا معیارات اور طریقے ہیں، یا ہیں ہی نہیں؟ ان مسائل سے جڑا ہوا ایک اور سوال بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ فن پارے کی تشریح میں کیا وہ عناصر لازمی اور مددگار ہیں،جن کا تعلق ماضی سے ہے، جیسے فن پارے میں شامل الفاظ کی ساخت، یا تاریخی اعلام، جگہیں، دستاویزات، فن کار یا فن پارے پر اثرات ،فن کار کی سوانح حیات ، یا حالات زمانہ کی تاریخ وغیرہ۔ اس سوال کا تنا ظر بدل سکتا ہے اگر ہم ان چیزوں سے صرف نظر کرکے یہ رویہ اختیار کرلیں کہ ایک فن پارہ ’نامعلوم‘ ہے اور اس کا کسی سے کوئی تعلق نہیں اور اس میں برتے گئے الفاظ، اعلام، اشیائ، اور تصورات کا فن پارے سے کوئی تعلق نہیں، اور ان کے بغیر اس کا فہم اور تشریح ممکن ہے۔ لیکن کیا یہ رویہ صحیح اور مثبت ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا زندگی ،فن اور وقت کی ناقابلِ تنسیخ تقسیم ممکن ہے، کیا انھیں مختلف خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے ؟کیونکہ زندگی ،وقت اور فن (تخلیقی عمل) سیل رواں ہیں، ان پر کیسے کوئی بند باندھا جاسکتا ہے اور انھیں کیسے ایک دوسرے سے کلی طور پر علیحدہ کیا جاسکتا ہے؟ زندگی ایک ارتقا پذیر عمل ہے۔ اس کاہر جز دوسرے جز سے جنم لیتا ہے۔ ہر جز دوسرے جز سے جڑا ہوا ہے۔ یہ سارا سلسلہ وقت سے مربوط ہے۔ فن کا دوسرا نام تخلیقی عمل ہے اور تخلیقی عمل کا تعلق انتخاب سے نہیں، بے ساختہ روانی سے ہے،جس کا ہر لمحہ ،ہر جز دوسرے لمحہ اور جز سے برق کی رو کی طرح جڑا ہوا ہے۔ تخلیقی عمل کا تعلق نظم سے نہیں بلکہ بے ساختہ وحدانی عمل سے ہے۔ اور اس کی جڑیں تاریخ، وقت، زبان اور زندگی کے دھاروں سے لاشعوری طور پر جڑی ہوئی ہیں یا جڑی ہوتی ہیں۔ شعور کا تعلق اس کے نظم اور فارم سے ہے۔۔۔ ورنہ جن چیزوں کو ہم اعلام، دستاویزات، حالات زمانہ یا تاریخ وغیرہ کہتے ہیں وہ لاشعوری رو کی صورت میںتخلیقی عمل میں شامل ہوتی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ انسان سوتے ہوئے بھی جاگتا ہے اور جاگتے ہوئے بھی سوتا ہے۔ ایک فن پارے کے الفاظ اور مواد کا انتخاب ریاضی کے فارمولے کی طرح نہیں ہوتا۔ یہ ایک بے اختیار انہ عمل ہے ہر عمل کی کوکھ زمانے کا سیل رواں ہے، جس کی لہروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ناممکن ہے۔ ادب وفن کی تفہیم و تشریح میں ماضی، حال اور مستقبل کا تعلق بہت ہی نازک اور پیچیدہ عمل ہے اور یہ آگہی کا متقاضی ہے۔ عقلی دلائل سے محض اس کے ٹکڑے بخرے ہوسکتے ہیں لیکن اس کی نزاکتوں، وسعتوں اور معانی کونہیں سمجھا جاسکتا۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ فن پارے کی تفہیم وتشریح میں اس کی زبان ،الفاظ اور مواد سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ حال ماضی سے ابھرتا ہے اور ماضی حال میں مستور ہوتا ہے، لیکن یہ خیال رہے کہ زندگی اور وقت کی طرح زبان اور الفاظ کو بھی ناقابلِ تنسیخ خانوں میں بانٹا نہیں جاسکتا کیونکہ ان کا تعلق ترسیل و ابلاغ سے ہے،جو ایک وحدانی ،مابعد الطبیعی وجودی عمل ہے۔ الفاظ گونگے نہیں ہوتے وہ بولتے ہیں اور ان میں معانی کا سیلاب پوشیدہ ہوتا ہے ،معاملہ صرف ان کی پرتوں کو سمجھنے کا ہے ۔سوسیور کا علوم، وقت اور زبان سے متعلق رویہ بہت حدتک انحرافی ہے اور اس کی ناکامی ان کی دوسرے سماجی و سائنسی علوم سے متعلق نقطۂ نظر سے صاف ہوجاتی ہے۔ شدت پسند انحراف جمود، نفرت،گمراہی اور زوال کو جنم دیتا ہے جیسا کہ مارکسیت، تحلیل نفسی، تحلیلیت، وجودیت ،جدیدیت اور مابعد جدید یت کا ہوّا۔ مارکسی ادب، نفسیاتی ادب، وجود ی ادب، سماجی ادب، مذہبی ادب اور اسی طرح مارکسی تنقید، جمالیاتی تنقید، نفسیاتی ،وجودی، مذہبی اور سیاسی تنقید بے معنی مفروضے اور کلیشے ہیں ۔ ہم مختلف نظریات یا تناظرات کے آئینوں میں ایک مظہر کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن ایسایک رخے طور پر کرنا ایک بے معنی عمل ہے۔ معاشیات، جمالیات ،سیاسیات اور نفسیات وغیرہ زندگی کے مختلف پہلو ہیں، زندگی نہیں۔ معانی کی یک رخی تخریج یا نظریات کا یک رخااطلاق زندگی کی تشریح نہیں کرتا، بلکہ اس کی تحدید کرتا ہے۔ ایسا کرنا اسے قید کرنے کے مترادف ہے اور قید میں ہمیشہ دم گھٹ جاتا ہے اور ارتقا کا عمل رک جاتا ہے ۔زندگی اور تخلیقی عمل ایک آزاد اور ارتقائی ارتفاعی عمل ہے اس کو مختلف الجہت رویوں سے وسیع تناظرات میں دیکھنے سے ہی ان کے معانی کا ادراک ممکن ہے۔ یہ حقیقت قرآن پاک کے متن سے بالعموم اور اس میں موجود مختلف رہ نمایا نہ الفاظ سے واضح ہوجاتی ہے ۔ آیات ،حقائق اور اسماء کے فہم کے لیے قرآن پاک میں محض ایک رویے اور راہ کو اختیار کرنے کا حکم نہیں بلکہ باربار مختلف رویوں ،پہلوئوں اور موضوعات کی طرف تعقلون، تشعرون ، یتدبرون اور تتفکرون جیسے الفاظ سے اشارے ملتے ہیں، جن کی اپنی مختلف اور مثبت زمانی، مکانی ،تہذیبی، سماجی، نفسیاتی، کونیاتی، وجودی، ادبی، اخلاقی اور مابعد الطبیعیاتی جہتیں، رویے اور اطلاقات ہیں۔ اس حقیقت پر غور کرنے سے لفظ ومعانی سے متعلق حقائق کی مختلف جہتیں سامنے آتی ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ جو پہلی ہی سطح پرپیدا ہوتا ہے وہ الفاظ اور متن کے داخلی اور خارجی تعلق کا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ متن الفاظ سے ہی ترتیب پاتا ہے اور ہر لفظ کی معانی،تصاویر،تصورات اور نتیجتاً تعبیرات کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ متن الفاظ کے داخلی و خارجی تعلق، نظم اور ساخت کا نام ہے۔ معانی کا تعلق ان تعلقات اور ان کی ساختیات سے بھی ہے جو خارجی اور داخلی دونوں سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ معانی کا اطلاق کلی طور پر خارج سے یا خارج پر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ایسا مکمل طور پر باطن پر ہوسکتا ہے۔ یہ جسم وجان کی طرح ایک ایسا معما ہے جسے مختلف سطحوں ،حدود اور دائرہ ہائے کار میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہاں یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ ہر شے، لفظ، نام، تصور، خیال، نظم ،نظریہ، یامتن کا ایک حوالہ جاتی اور استنادی ڈھانچا بھی ہوتا ہے جس کے بغیر اس کا فہم ممکن نہیں۔ اور جب ان کا اطلاق کیا جاتا ہے تو متن کی ساری دنیا بدل جاتی ہے ۔ متن کی دنیا بدل جانے سے میری مراد معانی کا تہہ درتہہ یا مختلف الجہت حصول و ادراک ہے۔ اگر اس حقیقت (یا حوالہ جاتی اطلاقات ) سے انکار کیا جائے تو کیا یہ بات سامنے نہیں آتی کہ اس کی غیر ضروری، دوراز کار، سطحی اور غلط تعبیر کی جاتی ہے۔حالانکہ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ ایسا پہلی صورت میں بھی ممکن ہے اگر ان کا اطلاق صحیح اور برمحل نہ ہو۔ ایک اہم سوال جو یہاں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم جن معانی کا حصول و ادراک کرتے ہیں ، کیا وہی معانی و اقعتا متن کی تخلیق کے وقت فن کار کے ذہن میں تھے، یا کیا اس متن کے حقیقی معنی یہی ہیں؟ یہ بحث تنقید کی اساس، معانی، حیثیات اور جہتوں کو سامنے لاتے ہوئے تاریخ سے متعلق مذکورہ بالا دونوں رویوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتی ہے۔ یہ سوال کہ تنقید کیا ہے جب ہمارے سامنے آتاہے تو یہ کئی اور مسائل اور سوالات کو اپنے ساتھ لے آتا ہے ،لیکن ان میں یہ سوال کہ ’ہم زمانی‘ یا ماضی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے بہت اہم ہے۔ یہ بات تو اپنی جگہ ہے کہ کسی بھی سوال کو زیر بحث لاتے ہوئے ماضی یا اس سوال سے جڑے ’گذرے ہوئے کل‘ کا وجود اولین اہمیت کا حامل بن جاتا ہے ۔کیونکہ کوئی بھی شے خلامیں وجود نہیں پاتی، اس کی جڑیں دور کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان تک رسائی ہے کہ نہیں یا ان کا فہم ہے کہ نہیں۔ سوالات کے ساتھ جب ان کی تشریح کا معاملہ سامنے آتا ہے تو مذکورہ حقیقت یا اس سے جڑے حقائق سے انحراف ممکن ہی نہیں۔ ایک منظر کو دیکھتے ہوئے ہم اس کی وحدت میں کھوجاتے ہیں اور بہت سی چیزیں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں، لیکن کسی شے کا نظروں سے اوجھل ہو جانا، اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک منظر کو دیکھتے ہوئے دور اور پاس کا مسئلہ بھی بے معنی بن جاتا ہے۔ ادب کے بارے میں یہ مسئلہ اور زیادہ نازک اور پیچیدہ بن جاتا ہے۔ فن پارے میں زمان مکان اور مکان زمان کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ہم فن پارے کو ایک حالت اور کیفیت کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ اس میں قدیم وجدید بے معنی بن جاتا ہے اور ہم اس کی پرکھ موجود معیارات سے کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ قدیم فن پر ہم کسی اور تنقید ی معیار کا اطلاق کریں اور جدید پر کسی اور کا۔ فن زندگی کی طرح ایک وحدت، ایک سیل رواں ہے، جس کو خانوں میں بانٹا نہیں جاسکتا ۔ اس کو سمجھنا ہے، یا اس کی تحلیل کرنی ہے یا اس کے حقائق کا ادر اک اورتعین کرنا ہے تو اسے ایک کل، ایک بہائو اور ایک کیفیت کی صورت میں سمجھنا ہوگا۔ یہی تعین و ادراک و فہم اور شرح کا عمل تنقید ہے۔ اب ایک اور اہم سوال تنقید اور زماں کے حوالے سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ کیا تنقید کا تعلق یک زمانی یا ہم وقتی تاریخ سے ہے یا تاریخی ارتقا سے ۔ ظاہرہے تاریخی ارتقا میں کسی موضوع کے اصول بنتے بگڑتے اور اس کی کیفیات تغیرپذیر رہتی ہیں۔ ان ہی تنقید ی رویوں کی مختلف شکلیں سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن کوئی واضح تنقید ی نظریہ یا اصول مبہم رہتے ہیں۔ اس لیے ان مسلسل تبدیلیوں کے عمل میں یا ان کے ساتھ ادب کا مطالعہ تنقید نہیں کہلاسکتا ۔ یک زمانی تاریخ اور تاریخی ارتقا دوطریق عمل ہیں جو ایک دوسرے سے کلی طور پر مختلف ہیں، اس لیے نہیں کہ ایک تنقید ی ہے اور دوسرا نہیں ، بلکہ اس لیے کہ ادب یافن کے ارتقائی مطالعہ کا تعلق اقدار کی تبدیلی اور استنباط سے ہے۔ جب کہ تنقید ان کا مطالعہ ایک حقیقی معروض کی حیثیت سے کرتی ہے ۔ مؤخر الذکرمیں اقدار کی ماہیت کے معنی یا تعریف واضح نہیں، کیونکہ کسی تبدیل ہوتی شے کی حیثیت (یاحیثیات )اور لازماً تعریف وتوضیح بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے، جبکہ اول الذکرمیں اقدار واضح ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ یا ماضی میں ساری ہی اقدار کی تعریف متعین کی گئی ہو۔ اور ایسا ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ کچھ چیزیں ایک زمانے میں غیر واضح رہ جاتی ہیں اور دوسرے زمانے میں ان کی تعریف متعین ہوتی ہے۔ ہاں! ہر زمانہ اشیاء واقدار میں انتخاب ضرور کرتا ہے اور انتخاب کے معنی محض کسی قدر یا شے کو لینے اور کسی کو چھوڑ دینے کے ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں فرق کرنے کے بھی ہیں۔ کیونکہ فرق کرنے کے بعد ہی ہم کسی شے کو رد اور کسی کو قبول کرتے ہیں۔ یہی تنقید ہے اور اس انتخابی عمل کو ’متن کی تنقید ‘ اور ’تنقیدی رویہ‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ تنقید کا مسئلہ سامنے آتے ہی’ ادب کی تاریخ‘ کا مسئلہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ تاریخ کیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں اس بات سے مجھے اس وقت کوئی بحث نہیں، لیکن ایک بات کہنا ضروری ہے کہ مؤرخین کے مختلف رویے ہیں اور انھیں ’زمانے کی رو‘ یاوقت کی تبدیلی اور طریق عمل سے محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک مؤرخ ماضی کی داستان لکھے اور دوسرا اس داستان کے پیچھے کارفرماعوامل کو زیر بحث لائے یا اپنے زمانے کے تغیر پذیر حالات پر بحث کرے اور پھر بحث میں کسی بھی موضوع کو زیر بحث لائے، جیسے سائنس ،معاشیات، سیاسیات، تہذیب، فلسفہ، مذہب،ادب وغیرہ ------ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ان دونوں رویوں کو باہم ملاتے ہوئے تاریخ لکھے۔ مؤرخین کی ترتیب یا درجہ بندی بھی اسی انتخابی عمل یا رویوں میں انتخاب پر منحصر ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے پاس مربوط اور قابل اعتماد تاریخ کابہت ہی محدود ریکارڈ اور سرمایہ ہے۔ کیا اسطور، بادشاہوں کی الف لیلوی کہانیاں، جنگ وجدل کے افسانے اور جنس زدہ دیو تائوں کے قصے تاریخ کہلانے کے حقدار ہیں؟ تو پھر اقوام وملل کی تاریخ کا استخراج کیسے کیا جائے ۔ یہ وہ سوال ہے جس کا تعلق فلسفۂ تاریخ سے ہے، جو اس وقت ہمارے زیر بحث نہیں۔ میں یہاں جس مسئلے کی طرف اشارہ کررہا ہوں وہ ’ادب میں تاریخ‘ اور ’ادب کی تاریخ‘ کا مسئلہ ہے۔ قدیم زمانے سے لے کر مغرب کے خود ساختہ دور نشاۃ ثانیہ تک دنیا کے مختلف حصوں میں جو تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں’تاریخی شعور‘ کی ذراسی رمق بھی نہیں۔ مغرب میں یہ بات اٹھارویں صدی میں پیدا ہوجاتی ہے ۔والٹیر، ہیوم ،گبن، روسو اور ان کے بعد کانٹ ہیگل ،کامٹ، مارکس ،درکھیم اور بعد کے فلاسفہ، ماہر ین سماجیات واقتصادیات اور سیاسی مفکرین نے تاریخ کے پس پشت عوامل پر بحثیں کیں۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ’تاریخی شعور‘ اور دنیا اور انسان کو بدلنے والے عوامل پر سب سے پہلے جس کتاب میں بہت مضبوط اور منفرد اصولوں کا بیان ہوا وہ اللہ کی کتاب قرآن پاک ہے ۔ احادیث نبویؐ میں ان حقائق پر کہیں واضح اور کہیں اجمالی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ اصول بنیادی طور پر اخلاقی ہیں اور زندگی کے ہر گوشے سے ان کا تعلق ہے۔ اس حیثیت سے بھی اسلامی تہذیب کو دنیا کی دوسری اقوام وملل پر فوقیت حاصل ہے کہ کانٹ ،ہیگل، کامٹ اور مارکس سے صدیوں پہلے ابن خلدون نے پہلی بار اپنے معرکہ آرا مقدمہ میں فلسفۂ تاریخ اور سماجیات کے نئے علوم سے دنیا کو متعارف کرایا اور بادشاہوں کی سچی جھوٹی کہانیاں لکھنے کے بجائے اس نے ان عوامل پر بحث کی جو تاریخ کو مرتب کرنے اور تہذیبوں کے عروج و زوال میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ادب میں تاریخی شعور اور عوامل کو تاریخ کے ساتھ ملا کر پیش کرنے کا عمل ہمیں پہلی بار سروالٹر سکاٹ کے ناولوں میں ملتا ہے۔ اس کے پیش رو رچرڈسن کی تحریر وں میں ’تاریخی شعور‘ کابہت گہرا اور شدید احساس موجود ہے ۔رابرٹ سن کی تاریخ امریکہ اس طرز کی ایک اہم تحریر ہے جس کی ہر سطر میں تاریخی شعور موجیں مار رہا ہے اور زماں ’حال‘ کی صورت میں موجود ہے جس میں کوئی بکھرائو نہیں۔ ماضی حال کے اندر سمایا ہوا ہے اور حال ماضی میں، لیکن اس طرز تحریر کو اپنی انتہائی معتبر شکل میں والٹر سکاٹ نے برتا۔ اس طرح کی تحریر کے لیے ’مرا سلاتی طرز‘ سے بہتر کوئی طرز نہیں۔ بر صغیر میں مراسلات کو تاریخ اور فن بنانے والا عظیم شاعر’غالب‘ ہے۔ اس نے برصغیر کی تاریخ کے ایک انتہائی اہم اور نازک دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یورپی سامراج نے اپنی سیاسی سازشوں ،عسکری، معاشی، جدید سائنسی اور علمی قوت اور توانائی سے ہندی مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اقتدار کو زیر وزبر کردیا۔ دہلی جو مسلمانان ہند کی سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی قوت اور آرزوؤں کا مرکزتھا، بکھر گیا۔ دہلی تاراج ہوگئی اور حویلیاں اندھیروں میں ڈوب گئیں ۔ غالب نے اس دل دہلادینے والے زوال کو ایک انتہائی بالغ نظر نابغہ کی آنکھوں سے دیکھا اور اس کا اظہار اپنے خطوط اور شاعر ی میں کیا ۔ لیکن اس کے ہاں نہ توخط محض وقائع نگاری اور نہ شاعری ایک کھوکھلی نظم نگاری بنتی ہے ، بلکہ یہ فن بن جاتے ہیں’ جس میں تاریخ‘ وقت اور مابعد الطبیعی ،مذہبی ،سماجی، سیاسی اور وجودی مسائل اور حقائق ایک گہرا احساس بن کر جاگتے ہیں۔ اس کی تحریروں میں فرد اجتماع اور اجتماع فردبن جاتا ہے۔ زمان ،مکان اور مکان زمان کی صورت اختیار کرتا ہے۔ فرد کا ئنات بن جاتا ہے اور کائنات فرد-فرد کا المیہ تاریخ اور قوموں کا المیہ فرد کی یاد داشت میں سموجاتا ہے۔ تاریخ ماضی نہیں حال بن جاتی ہے جس کے ہر پل کو وہ محسوس کررہا ہے اور جی رہا ہے۔ وہ فن کو ایک نئی شکل، وسعت اور نئے ابعاد اور الفاظ کو نئی صورت اور نئے معانی دے دیتا ہے۔ اس کی تحریروں میں ’تجزیہ ‘ تاریخ بن جاتی ہے اور تاریخ تجزیہ یا تاریخی عمل۔ یوں اس کی تحریروں میں ہم زمانی اور ارتقا پذیر تاریخ کے دھارے باہم مل جاتے ہیں --- لیکن جو کچھ وہ کررہا ہے اس کا ایک وسیع منظر نامہ ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو مغرب میں شیکسپیر کے سوا دوسرا کوئی اس کا ہم پلہ نظرنہیں آتا۔ دونوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ ’تاریخ‘ نہیں لکھتے بلکہ تاریخ کے اسرار و رموز، اس کے مختلف رویوں ، اور قوموں کے کردار پر افراد یا ایک واقعہ یا نکتہ کو مرکز بناتے ہوئے ا ن کی وجودی حیثیات کا ایک وسیع منظر سامنے لے آتے ہیں، جن کا تعلق ان کے اقدار ،رویوں ،نفسیات، عمل اورزندگی کے برتنے کے طریقوں اور ایسے ہی سوالات سے ہے۔ یوں یہ فلسفہ ،فلسفۂ تاریخ اور تاریخ کو مبہم طور پر باہم ملاتے ہیں۔ یہ کلیشوں کی بنیاد پر فن کی تعمیر نہیں کرتے ،بلکہ وجود اور زمان ومکان کی اتھاہ گہرائیوں میں جاکر، پراسرار اور گنجلک مابعد الطبیعی، نفسیاتی ،سماجی ،مذہبی، لسانی اور وجودی حقائق کی تلاش کرتے ہیں او رپھر انھیں فن کی صورت دے دیتے ہیں۔ شیکسپیر اور غالب کا فن محض استعارہ نہیں بنتا بلکہ استعارات کی ایک نئی دنیا کو سامنے لے آتا ہے۔ اس مسئلے پر میں آگے کہیں بات کروں گا ۔ یہاں جو مسئلہ میرے سامنے ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ’ارتقا پذیز‘ تاریخ انتخابی ہوتی ہے۔ جب کہ ہم زمانی تاریخ انتخابی نہیں ہوتی کیونکہ ماضی کوئی بہتاہوا دریا نہیں،بلکہ ایک گزرا ہوا دریا ہے، جس کی ہر شے واضح ہے۔ اس کاجائزہ لیا جاسکتا ہے، اس پر بحث کی جاسکتی ہے اور اس میں ہوئے ہر عمل اور واقعہ کی قدر و قیمت کا تعین کیا جاسکتا ہے، لیکن ارتقا پذیر یا بیانیہ تاریخ میں یہ بات ممکن نہیں کیونکہ اس میں سارا ماضی یا ماضی ایک کل کی حیثیت سے ہمارے سامنے نہیں ہوتابلکہ اس میں موقع‘ حالات یا فائد ہ کی مناسبت سے بحث کو استوار کیا جاتا ہے۔اس کے باوجود ہم ان دونوں کو ایک دوسرے سے کلی طور پر الگ نہیں کرسکتے۔ یہ دونوںرویے ایک دوسرے سے مربوط اور ہم آہنگ ہیں۔ کیونکہ ا ن کا تعلق انسانی فطرت کی دو بنیادی ضروریات اور تقاضوں سے ہے، جنھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا اور نہ جنھیں مٹایا جاسکتا ہے۔ انسان ماضی کو جاننا چاہتا ہے۔ وہ اس تلاش میں رہتا ہے کہ اس پر گزرے ہوئے کل کے حقائق واشگاف ہوں ۔ وہ ماضی کو جاننا چاہتاہے کیونکہ ’آج‘ یا حال اسی سے جڑا ہوا ہے یا اسی کی کوکھ سے پھوٹا ہے اور اس تلاش میں وہ ’افادیت‘ کو جواز کے طور پر پیش نہیں کرتا اور اس سے اُسے ایک یک گونہ سکون، خوشی اور لطف کااحساس ہوتا ہے۔ یہ اس کی اس شدید اور انتہائی خواہش کا جواب ہے جو ہر عمل اور فن کی بنیاد ہے۔ ایک فن کار فن کی تخلیق اس لیے نہیں کرتا کہ اسے مالی فائدہ ملے گا، یا اسے شہرت ملے گی، بلکہ اس لیے کرتا ہے کہ اس کے پاس اس کے بغیر تخلیقی کرب کی آگ سے خلاصی کا اور کوئی طریقہ ہی نہیں ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو انسانی اعمال کی انتہاطمانیت،سکون اور فرحت ہی ہے۔ چاہے آپ اسے کوئی بھی نام دیں، چاہے اسے دیدار خداوندی یا راضی المرضیہ کہیں یا سعادت اخروی کہیں جیسا کہ مسلم مفکرین و صوفیہ نے کہا یا مسرت کَہ دیں جیسا کہ ارسطو نے کہا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ تاریخ کے تناظر میں ہی ہم دنیا کو دیکھ لیتے ہیں، اس کو سمجھتے ہیں، اس کا ادراک کرتے ہیں اور حال اور مستقبل کے اعمال کا تعین کرتے ہیں۔ فراموش کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم تاریخ سے کوئی سبق ہی نہ لیں لیکن تاریخ کا امتیازی پہلو یہی ہے کہ ہم ماضی کے واقعات کی روشنی میں انسانی تجربات کو ایک کل کی صورت میں دیکھ لیتے ہیں۔ یہ انسانی احساسات کاایک حیثیت سے جواب بھی ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال کہ تاریخ کو کیسا اور کیا ہو نا چاہیے ایک بے معنی سوال ہے، کیونکہ یہ محض ایک ادعا ہے۔ یا ایسا سوال جس کا تعلق ایک شخص کے اعتقادات سے ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہوئی کہ شاعر یا فن کو ایسا ہونا چاہیے ۔حالانکہ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ فن ایک تخلیقی عمل ہے … ایک بہتا ہوا دریا ہے جو اپنا راستہ خود طے کرتا ہے، اسے کسی مروجہ یا باہر سے لادی ہوئی ساخت، اجزاء اور معانی کا غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے ، اس کے موزوں ومتوازن فہم کے لیے اسے مختلف حصوں اور زمانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ ہم دوسرے ادوار یا زمانوں کو فراموش کردیتے ہیں۔ ’ارتقائی تاریخ‘ ان ادوار یا زمانوں کو مخصوص بناکر ان کو دوسرے زمانوں سے الگ کرتی ہے اور ان کے خصائص کو سامنے لاتی ہے۔ یہ مطالعہ اختصاصی مطالعہ ہوتا ہے، جو دوسرے مطالعات سے الگ ہونے کے باوجود یکسرالگ نہیں ہوتا۔ اس سے اس بات کا بھی احساس ملتا ہے کہ زمانے کو پلٹا نہیں جاسکتا۔جو زمانہ بیت گیا وہ بیت گیا۔وہ حال اور مستقبل تھا، لیکن اب ماضی ہے۔اس سے یہ بات صادق نہیں آتی کہ ماضی ہماری رہنمائی نہیں کرتا، یا ہم اس سے استفاد ہ نہیں کرسکتے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا ہر عمل ہمارے اعمال کا تعین بھی کرتا ہے اور ہماری رہنمائی بھی۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہمارا حال ماضی کی یاد داشت کے سوا کچھ نہیں۔ حال ماضی میں پیوست ہونے کے باوجود ایک الگ حقیقت ہے، اس درخت کی طرح، جس کا وجود ایک بیج میں پیوست ہوتا ہے، لیکن وہ بیج درخت نہیں ہوتا۔ اس درخت کی ہر شاخ، ہر میوہ، ہرپتا، ہر جڑ، اسی بیج میں موجود ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود اس بیج اور درخت کے درمیان کوئی مماثلت نہیں۔ ہر زمانے کا اپنا ایک تناظر ہوتا ہے۔ اور ہر زمانے کی اپنی سوچ، اپنے احساسات اور اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ ’ارتقائی تاریخ‘ ان تنا ظرات کو زیادہ اہم سمجھتی ہے۔ ایک صداقت پسند، محتاط اورفہم و فکر کا حامل مؤرخ اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ ماضی میں جایا نہیں جاسکتا، لیکن وہ اپنی قوت فہم وفراست سے اس کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ’بیانیہ یا ارتقا ئی تاریخ‘ یا مؤرخ یہی کام کرتا ہے۔ مؤرخ کایہ عمل انسان کی فکری وعملی آزادی کا اعلامیہ ہے اور جبر کے خلاف ایک مضبوط آواز۔ قدامت پسندی اس حدتک اچھی ہے کہ ماضی کے حرکی اصولوں سے استفادہ کرکے حال اور مستقبل کی تعمیر کی جائے نہ کہ زندگی کے بہتے ہوئے دریا کا رخ موڑنے کی بے معنی اوٹ پٹانگ میں اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع کیا جائے اور دوسروں کی آزادی پر قابض ہو کر ان سے زندگی کی توانائی، حرکت اور تمنائوں کو چھین لیا جائے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ’ہم زمانی تاریخ‘ کا مطالعہ تاریخ کے ایک دور یا ماضی کا مکمل جائزہ ہے جب کہ ’ارتقا پذیر تاریخی مطالعہ کا تعلق ایک شخص کے ذہنی تناظریا بصیرت سے ہوتا ہے۔ اول الذکر معلومات کاخزانہ ہوتا ہے۔ لیکن مؤخرالذکر ان معلومات یا حقائق یا واقعات کے پس پشت یاان کی تہہ میں چھپے حقائق، وجوہ اور مـضمرات ونتائج پر بحث کرتا ہے۔ اور یہ ہر دور میں علوم کے ارتقا کے نتیجے میں آنے والے نئے مناہج اور حقائق ومعلومات کو ساتھ لے کر ، ان کا اطلاق سابقہ ایام کے واقعات و حقائق و معلومات (تاریخ) پر کرکے نئے نتائج کا ادراک واظہار کرتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس طرح ہم نہ تو زمانے کی گھڑی کو پیچھے موڑ دیتے ہیں اور نہ ہم کسی غیر حقیقت پسند انہ رومانیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رومان پسندی اپنے آپ میں کوئی بری شے نہیں، لیکن حقیقت پسند اور موزوں عقلیت پرستی اور سائنسی رویے کوتج کراگر معاملات کو محض جذبات اور جذباتی وابستگی کے بل پر سمجھنے کی کوشش کی جائے، تو یہ ایک مصیبت بن جاتی ہے،جو انسانی سماج اور علوم کے ڈھانچے کو کھوکھلا،یک رخا اور غیر منطقی بنا دیتا ہے۔ اس طرح کی تشریحات ہر دور کے شدت پسندوں کا خاصہ رہا ہے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ حقائق کے معتدل اور متوازن فہم وعرفان کے لیے ایک درجہ رومانی ہونا بہت ضروری ہے۔ ادب اور فن کے حقائق کا ادراک اور ان کا تاریخی شعور اور ان کے ارتقا یا تنزل تک رسائی ’ہم زمانی تاریخ‘ یا تاریخی ریکارڈ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ ہم کسی فن پارے کو اس زمانے کے مروجہ اقدار یا کسوٹی کے بل پر ہی جانچ سکتے ہیں اور اس کے بغیر ان کا فہم ناممکن ہے۔ یہ بات تو ہمیں ماننی پڑے گی کہ تاریخ کا ہر دور محدود ہوتا ہے اور اس کے اپنے مخصوص کوائف ہوتے ہیں۔ ہم ہر دور کوجی نہیں سکتے اور نہ ان میں جاسکتے ہیں اور نہ انھیں ایک دوسرے سے کلی طور پر الگ کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ان کے ارتقا کو سامنے رکھتے ہوئے،انھیں مختلف علمی، سائنسی اور عملی تبدیلیوں کے روبرو کردیں اور ایک وسیع تناظر یا تناظرات میں ان کو جانچنے کی کوشش کریں ۔یہ رویہ انتہائی ناقدانہ ہے،لیکن غیر منصفانہ، گنجلک ،کھو کھلا اور نامعتبر نہیں۔ ہر دور کے فن کا ایک ’وحدت‘ کے طور پر مطالعہ خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ایک وحدت کو ترتیب دینے والے اجزاء کا مطالعہ کیاجائے تاکہ اس کی صحیح شناخت ہوسکے۔ یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تک ہمارے سامنے کوئی نظر یہ ٹھیک اور متوازن ڈھنگ سے آیا ہے جو ’تاریخ ادب‘ کو تاریخ سیاسیات ،تاریخ اقتصادیات، تاریخ مذہب یا مذاہب ،تاریخ فلسفہ واخلاقیات، اور اسی طرح کی دوسری تاریخوں سے ممیز کرسکے۔ جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہ ان مطالعات پر مشتمل ہے جو مختلف مفروضات کو باہم ملادیتے ہیں اور جو ایک دوسرے سے متصادم نہ سہی متغیر ضرور دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمارے سامنے تاریخ ادب کی صورت میں جو کچھ ہے وہ اس زمانے کی سماجی اور قومی تاریخ کی تشریح کے ساتھ مختلف فن کا روں اور مصنفین کی حیات کے خاکوں پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس میں ادبی مواخذے اور اثرات اور کچھ حدتک سائنسی ایجادات، آلات اور ان کے اثرات کی بات ملتی ہے۔ اس سے ہمیں سلسلۂ واقعات کا پتا تو چلتا ہے، لیکن ان عوامل کاکچھ پتا نہیںچلتا جو ان کے تخلیقی شعور کا سرچشمہ ہیں۔ حالانکہ فن کاروں کو اس بات کا احساس ہوتا ہے ، کہ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں ایک زمانے میں ہونے یاایک زمانی عمل ہونے کے باوجود ہم سے یا ہمارے معاملات سے زمانی طور الگ ہے۔ تاریخ ادب کی ترتیب میں ایک زمانے کے نظریات اور آراء کا حال، احساسات اور اصطلاحات ومحاورات کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ کیونکہ یہ آراء ہی ہیں جو احساسات اور ان کے ادراک کو جنم دیتی ہیں اور اصطلاحات ومحاورات کی صورت میں زبانوں پر جاری ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایک سائنسی عمل نہیں جو ایک لیبارٹری میں صورت پذیر ہوجاتا ہے بلکہ اس سے کلی طور پر مختلف ہے کیونکہ اس میں مختلف قسم کے عوامل اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں، اسی لیے اس میں بہت مختلف الجہت تغیرات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ کبھی اس کا تعلق ماضی سے جڑ جاتا ہے کبھی الفاظ ومعانی اور ان کے استعمال سے اور کبھی مختلف نظریات اور زمانی حالات سے۔ آرائ،احساسات اور محاوارت یا اصطلاحات کا اپنا ایک منظرنامہ ہوتا ہے۔ سترھویں صدی کے میکانیکی فلسفے نے اپنے مرکزی اور بنیادی استعارے ’ایک میکانیکی کائنات ‘ کے ساتھ ایک ایسے تاریخی شعور واحساس کو جنم دیا جس کے مطابق کائنات کا ہر عمل ایک میکانیکی اصول کے تابع ہے۔ اگر غور کریں تو اسلامی تاریخ میں معتزلہ کی عقلیت پسندی یا وحی پر عقل کے تفوق اور ہر معاملے میں عقل کی بالادستی نے ایک ایسے شعور کو جنم دیا، جس کے مطابق ہرشے کی عقل کے ذریعے تفہیم ممکن ہے اور اشاعرہ کے عقل پر وحی کے تفوق اور فلسفۂ کسب نے جبریت کو ایک نئی زندگی بخش دی ۔تصوف نے روحانیت، تخلیقی عمل، انسانی آزادی اور اس کے تخلیقی مقصد کو ’داخلیت‘ کے استعارے میں مستور کردیا۔ جس کا اظہار منصور حلاج کی طواسین میں نور محمدیؐ اور ابن عربی کے فصوص الحکم میں اعیان ثابتہ اور ظل کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ ابن الفارض، رومی، حافظ، جامی، شبستری، اور ایسے ہی کتنے بڑے شاعروں کا بنیادی استعارہ ، یہی فلسفہ اور اس سے وابستہ لوازمات و تشریحات بن جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کی شاعری ’عشق‘ اور بدن کا استعارہ بن جاتی ہے۔ لیکن مغل سلطنت کے خاتمے کے ساتھ ہی سرسید کے فلسفۂ اعتزال اور عقلی تشریحات کے زیر اثر اردو شعر و ادب کا منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ حالی کی مسدس مسلمانوں کی عظیم تاریخ اور موجودہ حالات کی ایک المیاتی داستان ہے جو ایک حرکی ،تخلیقی اور انقلابی نشاۃثانیہ کے پیغام کی صورت اختیار کرتی ہے۔ سرسید اور حالی کی سائنسیت، عقلیت پسندی اور مغربی تہذیب کا شعور برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، لیکن ان کا منظر نامہ بہت محدو دتھا۔ علامہ محمد اقبال نے مشرق و مغرب کو بہت غور اور نزدیک سے دیکھا ۔ اسے تاریخ ،تاریخی عمل اور تاریخیت کا بہت گہرا شعور ہے اور اس کا بنیادی محور اسلام کی بنیادی تعلیمات (قرآن وسنت نبویؐ) اور تاریخ ہے۔ وہ اسی حوالے سے دنیا کی تاریخ کے دوسرے فکری دھاروں، شخصیات اور واقعات کو دیکھتے ہیں، جس کا ایک حوالہ جاتی اظہار جاوید نامہ، بال جبریل اور ارمغان حجاز میں برملا ملتا ہے۔ بر صغیر کی تقسیم کے نتیجے میں مسلمانوں کی پاکستان ہجرت کے حوالے سے انتظار حسین اسلامی تاریخ کے مختلف دھاروں کی نئی تشریح کرتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی آگ کا دریا ہندآریائی مشرکانہ تہذیب اور اس کے بعد کے ناولوں کا مرکزی استعارہ لکھنو کے حوالے سے تاریخ و تعمیر سے ناواقف نوابوں اور ان کے مردہ اور تعیش پسند ذہن اور مسلمانوں کی شکستہ تہذیب کی داستان ہے ۔ اسی دور کے دو بڑے نام ماہر القادری اور نسیم حجازی ہیں جنھیں مغرب زدہ ناقدین نے کوئی اہمیت نہ دی کیونکہ ان کے احساسات اور شعو ر وفکر کا محور مغرب اورمشرق کی مشرکانہ تہذیبیں نہیں ہیں بلکہ معرکۂ حق و باطل میں حق یعنی توحید کے مقابل قوتیں یا شرک ہے۔ یہ دو دائمی متصادم فلسفۂ ہائے حیات ہیں۔ اسی لیے ان کے ناولوں میں ان مشرکانہ تہذیبوں کی تقدیس کا کوئی راگ نہیں الاپا گیا۔ بلکہ ان کے منفی اقدار اور استحصالی نظام اخلاقیات اور انسانیت کش اعمال کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ماہر القادری کی دریتیم کا محور اور بنیادی استعارہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ و ہ رمز کائنات جس کے گرد ساری کائنات رقص کرتی ہے اور جو حق وباطل کی واحد کسوٹی ہے۔ پیغمبرانِ عظام کا وہ آخری سرا جس نے تہذیب کے ہر پہلو کو نئے اور ابدی معانی دیے۔ نسیم حجازی کے ناولوں کا محور اسلامی تاریخ اور وہ معرکہ حق وباطل ہے ، جس میں مختلف مشرکانہ تہذیبیں اسلامی تہذیب سے مقابلہ آرا ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کا ناول کئی چاند تھے سرآسمان برصغیر کی اسلامی تاریخ، اس کے داخلی تصادم ، تضادات اور اس کی شناخت کے مسائل سے الجھ رہا ہے۔ میں نے یہ چند مثالیں اس لیے دیں تاکہ ادب کی فہم یا تو ضیح و تشریح کے مسئلے کی طرف توجہ دیں جو بڑا ہی گنجلک ،پرفریب، مسحور کن اور گمراہ کن ہے جس کے کئی ابعاد، کئی رخ، کئی تناظرات اور کئی دھارے ہیں، جن کو ایک مختلف الجہت وحدانی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب ا س حوالے اور اس تناظر میں جب ہم ادب کی شرح و توضیح اور تاریخ ادب کی بات کریں تو ہمارے سامنے حقائق کھل کر آجاتے ہیں۔ ادراک واحساس کے جس تصور کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ۔اردو شاعری کے ذیل میں اس کو بہت ہی وسیع تناظر میں سمجھنا اگرچہ ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔ ہاںانگریز ی اور دوسری یورپی زبانوں کے ادب کے حوالے سے اس کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ وجہ وہ تاریخی، سائنسی، مشینی ،علمی، فلسفیانہ، مذہبی، سماجی، اقتصادی اور تہذیبی ارتقا اور تیز رفتار تبدیلی ہے جس کا مغرب نے تجربہ کیا اورجس کے نتیجے میں مغرب کا ادب ، اس کی زبان اور اس کے استعارے اور علامتیں بدلتی رہیں۔ اٹھارویں صدی میں انگلستان میں رومانیت کی تحریک اٹھی اور یہ اصطلاح ایک کلی اور ہمہ جہت استعارے کی صورت میں سامنے آئی۔ اس نے ایک ایسے احساس و ادراک کو جنم دیا جس نے محسوسات کی دنیا (ایسی دنیا جس کا ہمیں تجربہ ہوتا ہے) کو ہمہ جا، متنوع، وسیع و افزوں، مرکز گریز قوت (جو فرد کے لائق ہو) کے معانی میں مانا۔ اس فکر نے حب الوطنی کو دلوں میں بھر دیا اور جذبات کو عقل اور تجربے کو ماہیت پرفوقیت دی۔ انگریزی ادب میں کو لرج نے اس کا اظہار کیا اور ورڈزورتھ نے اسے وسیع بنیادوں پر پھیلایا اور استوار کیا۔ اردو میں ہمیں گاہے گا ہے ایسے تجربات تو ملتے ہیں، لیکن اس طرح کی تحریک جس نے پورے ادبی وفکر ی تنا ظر کو بدل دیاہو نظرنہیں آتی اور ایسا ہونا ممکن بھی نہیں ہے۔ اسی طرح ترقی پسند تحریک ،وجود یت اور جدیدیت بھی اردو ادب میں کوئی استعارہ نہ بناپائی۔ تجربے کے شوق ،ذہنی وفکری آوارگی وغلامی اور اپنے تمام تناظرات کو یکسرفراموش کرکے محض نقالی سے کچھ کھوکھلی چیزیں پیدا تو کی جاسکتی ہیں ، لیکن کسی ادبی فارم یا تحریک کو برپانہیں کیا جاسکتا کیونکہ نقالی تخلیق کی ہم پایہ نہیں ہوسکتی۔ میں تخلیق کو یک سطحی اور یک رخے طور پر نہ تو دیکھنے کا قائل ہوں اور نہ سمجھنے کا اور یہ نقطۂ نظر ایک ایسی تاریخ ادب اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کا متقاضی ہے جس میں مذہب، سوانح عمری، نفسیات، لسانیات، فنی اسالیب وقواعدکا فہم اور پابندی ،اصطلاحات اور ان کی تاریخ وتحقیق اور برتائو و معانی کی مختلف جہتیں ،الفاظ کا انتخاب اور طرز تحریر، استعارات، تشبیہات و تصورات ،تاریخ اور عمرانیات کے فن سے تعلق اور اس پر اثرات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اس طرح کی تاریخ مغالطوں اور خطرات سے خالی نہیں ہوگی ۔لیکن کسی صحیح نتیجہ، فہم یا توضیح تک رسائی کے لیے ان کو سمجھنا بھی ہوگا اور ان سے مقابلہ آرا بھی ہونا ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ادب کی فہم وتوضیح میں مختلف اور متنوع علوم، ذرائع علم اور مناہج کا استعمال کرسکتے ہیں اور ایسا کرنا بھی چاہیے، لیکن اس کے باوجود یہ بات بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کی اپنی حیثیت، زبان، مسائل اور مناہج کو اس کے داخلی و خارجی تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا چاہیے ۔ ادب کی اپنی کیمسٹری ہے، لیکن ادب کیمسٹر ی نہیں اور نہ اسے کیمسٹری بنایا جاسکتا ہے ۔ادب کی تاریخ ہے، لیکن ادب تاریخ نہیں، حالانکہ یہ تاریخ کے سمجھنے میں اہم کردار ادا کرسکتا یا کرتا ہے۔ ادب ادب ہے اور اسے اسی زاویۂ نگاہ سے دیکھنا چاہیے ۔کیونکہ کسی مضمون کو دوسرے مضمون سے بدل دینے یا اس کی مناہج کا بلاضرورت اور بغیر سمجھے استعمال اور اطلاق ،اس کی اہمیت کو بدل دینے کے مترادف ہے۔ فن (یاشاعری) کا ایک ڈھانچا، ایک ترتیب، ایک نقشہ ہے۔ اس کی اپنی حدود ہیں، اس کاریاضی یا کیمسٹری سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ فن (یاشاعری) کیمسٹری یا ریاضی نہیں، کوئی ماہر کیمیا یاریاضی دان، مؤرخ، سیاست دان یا مذہبی عالم کبھی اپنے مضمون کو شاعری نہیں کہتا،وہ ایسا کہنے کی اجازت دے گا اور نہ اس پر دوسرے مضامین کی مناہج کا غیر ضروری اور غیر منطقی اطلاق چاہے گا۔ فن (یاشاعری) کو ہم نے کیا ایک بنجر کھیت سمجھ رکھا ہے، جس کی اپنی کوئی حیثیت یا شنا خت ہی نہیں۔ اس طرح کا رویہ ایک بے معنی عمل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمارے سامنے اب جو سب سے اہم سوال ابھرتا ہے وہ فن (متن)، اس کی تشریح اورتنقید کی حیثیت اصلی سے متعلق ہے۔ فن کی بنیاد یا بنیادیں کیا ہیں، کیا اس کا ایک منبع یا کئی منابع ہیں۔ ان کی وسعت اور جہات کیا ہیں۔ یہ سوال ’زبان کے فلسفہ ‘ اور ’سماجی علوم کی بنیادوں‘ سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ کیونکہ زبان ایک سماجی مظہر ہے اور تمام فن اسی مظہر کی حدود کے اندر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ یہاں اس بات(یا ایک اہم فلسفیانہ سوال) کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا زبان ایک سریا معما (Mystery) ہے اور کیا کوئی زبان نجی یا ذاتی (Private) بھی ہوتی ہے۔ پہلے سوال کا تعلق سرّیت سے ہے اور دوسرے کاWelt-Anschauung سے۔ ہم ان موضوعات یا سوالات پر اس وقت بحث نہیں کررہے ہیں البتہ یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ان سوالات کو ایک دوسرے سے کلی طور پر الگ نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ یہ سوالات نہ صرف زبان کی حیثیت اصلی بلکہ فن (یامتن) کی تشریح وتوضیح کے مسئلے سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ہیڈیگر اور ریکور تو اس بات پر متفق ہیں کہ ’انسان زبان ہے‘ اور یہ بات کہ ’زبان ایک سماجی مظہر ہے‘ اس حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ زبان کی منطق یا اس کی ساخت اور انسان کی تاریخیت اور اس کی معاشرت پسندی بنیاد ی اور پراسرار طور پر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ کچھ فلاسفہ زبان کو محض ایک ’میکانیکی عمل ‘ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان کے دلائل کی تہہ میں جائیں تو ان کا فلسفہ ایک مذاق نظر آتا ہے۔ ان سوالات کو آسٹن، سٹراسن اور وٹگنسٹین نے مختلف حیثیتوں سے برتا اور ان کے بعد آنے والے مغربی فلاسفہ نے بھی ان کا جواب دینے کی کوشش کی۔ہسرل کا فلسفۂ مظہریت اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ اس کی منہاج نے جدید فلسفہ ، لسانیات، عمرانی علوم اور طبعی علوم پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ ساختیات کے حوالے سے زبان اور فلسفۂ زبان پر اس کے اثرات کا اندازہ ہیڈیگر اور ریکور کے فلسفہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ریکور نے ان سوالات کا جواب زبان کی ساخت اور ’بیان کے عمل‘ کے درمیان تعلق میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور ہیڈیگرنے وجود یات اور Dasein کی تشریح کے حوالے سے لیکن یہ خیال رہے کہ یہاں وجود سے مراد ’وجود فہم‘ یا ’کس کا فہم‘ ہے عام وجود نہیں۔ کیونکہ یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ ایک نفس مدر کہ کس طرح متن یا تاریخ کو سمجھتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی ذات یا وجود ہے جس کا وجود فہم پر منحصر ہے۔ ہیڈیگرنے اسے Dasein کہا ہے اس طرح اس کا مسئلہ ’وجود کی تحلیل‘ ہے۔ ہیڈیگر اس مسئلے کو معنیات (Semantics) اور فکر (Reflection) کے حوالے سے بھی سامنے لاتا ہے۔ اس سوال سے جڑا مرکزی سوال یا اس ساری بحث اور تحلیل کے سارے فلسفے اور مباحث سے جڑا ہوا سوال یہ ہے کہ زبان اور وجود میں بنیاد ی اہمیت کسے حاصل ہے۔ الفاظ کے معنی یاتو لغت یا استعمال سے جڑے ہیں، یا ان میں موجود ہیں ----- لیکن کیا ایسا ہی وجود کے ساتھ بھی ہے،جیسا کہ نہیں ہے۔ یہ بنیادی سوال تمام عینی، عقلیت پسند اور وجودی فلاسفہ نے اٹھایا اور ہیڈیگر نے اسے بنیادی اہمیت کے سوال کے طور پر برتا۔ معاملہ یہ ہے کہ اصل مسئلہ وجود، اس کی توجیہات او راس سے متعلقات کا ہے۔ اگر ’وجود‘ سے انکار کیا جائے تو ساری زبان یا ترسیل کا عمل ایک میکانیکی اور نتیجتاً بے معانی عمل بن جاتا ہے ،لیکن اگر اس کا اقرار کیا جائے تو ساری علمیاتی بحثیں مختلف الجہت معانی کی حامل اور مابعد الطبیعی بن جاتی ہیں۔ مسئلہ ذات یا وجود فی الذات یعنی وجود اصلی اور وجود الذات یعنی اشیاء کا ہے اور یہی مسئلہ کو نیاتی، دینیاتی، وجودی، عمرانی، فنی، تخلیقی اور اخلاقی مسائل اور حیثیات کو سامنے لے آتا ہے۔ اشیاء کا وجود ان سوالات کا متحمل ہی نہیں ہے اور نہ یہ سوالات ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی لیے سائنسیت اور میکانیت ایک بے معنی مفروضہ بن جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا مباحث کا ایک اہم سرا یورپی فلاسفہ اور ماہر ین لسانیات سے جاملتا ہے جو ہسرل اور ہیڈیگر جیسے فلاسفہ سے کلی طور پر مختلف ہے۔ لیکن جو چیزہمیں ان کا تذکرہ کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ ریکور کا فلسفہ ہے، جس میں ان کے فلسفے کے حوالے سے کچھ اہم انحرافات اور نکات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یورپی فلاسفہ زبان کو متکلم کا عمل یا مدرک کا اظہار مانتے ہیں۔ ریکور نے یورپی اور امریکی فلاسفہ جن میں جرمن اور فرانسیسی مفکر ین جن میںلیوی سٹراسن بہت اہم ہے کے فلسفہ زبان پر بہت اہم مباحث اٹھائے اور ان سوالات کو جو تشنہ ہیں اور جن کا ابھی کوئی حتمی جواب نہیں دیا گیا، ’تشریح‘ کے سوال سے جوڑدیا ، جس میں ’گفتار کے عمل‘ اور زبان کی ساخت یا منطق کے درمیان ایک رشتہ نظر آتا ہے لیکن اس ضمن میں وہ مظہریت اور استعارہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ’سادہ زبان‘ کے تصور کے بہت زیادہ نزدیک نظر آتے ہیں جس کی مختلف جہتوں کا ادراک اس نے آسٹن ،سٹراسن اور وٹگنسٹین سے کیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس میں ایک واضح اثر ساختیات کا بھی نظر آتا ہے ۔ اس نے ساختیات کی لسانیات پر سوالات اٹھائے اور اس کے عملی اور بنیادی مفروضات کا بہت ہی واضح تنقید ی جائزہ لیا ۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ اس نے ساختیات سے دامن جھاڑ لیا بلکہ فلسفۂ زبان کو فلسفہ کار تیسیت سے الگ کرتے ہوئے جس کی بنیاد ’جسم ‘ اور ’روح‘ کی دوئی پر ہے، زبان کے داخلی رشتوں کو قبول کیا۔ اسی نکتے پر وہ ہیڈیگر اور مارلی پونٹی سے اختلاف کرتا ہے۔ پونٹی کی بحث ’زبان کے ایک نظام‘ کے بجائے کلام کی مظہریت پر اور ہیڈیگر کی بحث ’فہم کے وجود‘ پر منتج ہوجاتی ہے۔ ہیڈیگر کا نقطۂ نظر’ کلام اور زبان‘ کے سوال کو بالکل بدل دیتا ہے۔ ریکور کا خیال ہے کہ ہیڈیگر کا یہ فلسفہ بنیادی وجود یت اور معاصر علمیات میں انتخاب پر مجبور کردیتا ہے۔ پونٹی اور ہیڈیگر کا منہاج فلسفہ علوم لسانیات کو خارج کرنے کے مترادف ہے، اس کے علی الرغم ریکور کا خیال ہے کہ منہاجی ضروریات کے مطابق ’وجودیات‘ کا مختلف درجوں پر ادراک کیا جاسکتا ہے، لیکن علوم لسانیات کا ادراک معاصر علمیات اور تفسیریات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لسانیات کے ان پیچیدہ اور اہم مباحث کو جو ’زبان کے اندورنی تعلق‘ اور ساختیات اور ’زبان ‘ کی اپنی حیثیات اور سطحوں کے متعلق ہیں ہم نظر انداز کرتے ہوئے ریکور کے فلسفے کے ایک اہم نکتے کی طرف آتے ہیں جو ’لفظ‘ سے متعلق ہے اور جس کا ان کی تفسیریات میں ایک کلیدی کردار ہے۔ ’لفظ‘ کیا ہے؟ ایک اہم سوال ہے، کیا لفظ ایک نظام ہے، یا ایک عمل، ایک ’ساخت‘ ہے یا تاریخ یا یہ سب۔ اگر مذہبی کتابوں علی الخصوص قرآن کے حوالے سے دیکھیں تو وہاں اس کی یہ ساری جہتیں واضح ہو جاتی ہیں ۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ وہاں لفظ ’امرربی‘ کے معانی میں استعمال ہوا ہے اور ’روح‘ اور ’حکم‘ کے معانی میں بھی ۔ انسان کے حوالے سے یہ اس کی شناخت ہے ، اس کے ’ایمان‘ ’عمل‘ اور ’ایمانیات‘ کے تمام حوالے اسی سے متعین ہوتے ہیں۔ ریکور کے خیال میں زبان کی تفسیریات کا محور کچھ الفاظ ہیں، جنھیں وہ ’علامتی الفاظ‘ کا نام دیتا ہے۔ یہ کثیر الجہت ہیں اور تفسیریات بنیادی طور پر ان الفاظ کی تشریح وتفسیر اور تحقیق و تفہیم کا نام ہے۔ اس طرح دیکھیے تو ریکور کی تفسیریات کا بنیادی مسئلہ ان الفاظ کی تفسیرہے جن کی ایک تفسیری اہمیت ہے اور جن کی ایک ’استعاراتی ‘ ساخت ہے۔ اس مسئلے کی وضاحت لفظ ’علامت‘ کی تشریح سے ہوتی ہے۔’علامت‘ معانی کی وہ ساخت ہے جس میں ایک بلاواسطہ ’ بنیاد ی لغوی معنی دوسرے بالو اسطہ ثانوی ، اور مجازی معانی کی تخصیص و صراحت کرے اور جس کی فہم اول الذکرمعانی کے ذریعے ہی ممکن ہو۔ یوں تفسیریات کے معنی کثیر الجہت معانی کا ادراک ہے۔ تفسیر و تشریح تفکر و تعقل کاکام ہے، یہ ظاہری معانی میں مستور باطنی معانی کا ادراک کرتا ہے اور ان کی تفسیرکرتا ہے، ان کی مختلف جہتوں اور سطحوں کو سامنے لے آتا ہے جن پرلغوی معانی دلالت کرتے ہیں۔ اس طرح ’تفسیریات‘ قدیم مذہبی متنی تفسیر ی روایت سے جڑجاتی ہے۔ عامیانہ یا سیدھی اور سپاٹ زبان کبھی بھی فنی، فلسفیانہ ،علمیاتی اور مذہبی متن کی زبان نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ان کے بیانات کی متحمل نہیں ہوتی او رنہ ہوسکتی ہے۔ کبھی اور کہیں اگر اس طرح کی شاذ مثال اگر مل جاتی ہے تو وہ انتہائی تہ دار، مختلف الجہت اور تمثیلی اور مجازی زبان ہوتی ہے جیسے غالب، میر اور مومن کی شاعری ، اور مذہبی متن کی ایسی اعلیٰ ترین مثال قرآن پا ک کی آیات اور حدیث نبوی کی زبان ہے۔ اسے ہم سہل ممتنع کَہ سکتے ہیں، جس کا خاصہ فصاحت ،بلاغت ، مجاز، تمثیل، استعارات وعلامات اور مختلف الجہتی ہے اور ان کی کوئی سطحی اور یک رخی توجیہ و تفسیر نہیں ہوسکتی ۔ سطحی معانی حقائق، فراست اور گہرے پن کو چھپا دیتے ہیں، کیونکہ ان کا تعلق محض لغت سے ہوتا ہے اصطلاحی اور دیگر ممکن اور مطلوبہ معانی سے نہیں۔ یوں یہ ایک لفظ کے مختلف تعلقات، جہتوں اور سطحوں کو نظر انداز کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متن کی حقیقت چھپ جاتی ہے او راس کا ادراک نہیں ہوتا۔ تفسیر انھی حقائق اور گہرا ئیوں کو کھول دینے کا عمل ہے۔ تفسیریات کا تعلق اسی عمل سے ہے۔ ریکور نے مغرب کی قدیم اور کلاسیکل تفسیری روایت جس کا تعلق محض مذہبی اور دینیاتی متن اور علامات سے ہے کو ایک فلسفیانہ مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔ یا یوں کہیے کہ چونکہ وہ مظہریت سے بہت زیادہ متاثر تھا اس لیے اس نے اسے مظہر یاتی فلسفہ بنانے کی کوشش کی۔ یوں اس کا فلسفۂ تفسیریت ایک طرح کی تفسیری مظہریت ہے۔ ریکور نے اس عمل کو تین سطحوں پر برتا۔ الف: علامتی بیان کی متنی تحلیل ،جس میں وہ تقابلی منہاج پر زور دیتا ہے، جس کے ذریعے وہ اعلیٰ اور بنیادی معانی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی عمل میں علامات یا علامتی الفاظ اسطور میں داخل ہوجاتے ہیں لیکن میرے خیال میں اسطور بجائے خود علامات کا ایک نظام ہوتا ہے، جس کی تحلیل یک رخے طور پر ممکن نہیں، بلکہ مختلف سطحوں پر اورجہتوں میں اس کے معانی اور اثرات کی تحلیل ضروری ہے ، جس کے لیے تقابلی منہاج سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ ب: وجود کا تفسیری فلسفہ ۔ اس نکتہ کے تانے بانے بننے اور تشریح میں ریکور نے ہیگل کی عینیت اورفرائڈ کی تحلیل نفسی کو منہاج کے طور پر برتا ہے ۔ریکور نے فرائڈ کی خوابوں کی تحلیل اور تشریحات کا مطالعہ محض سطحی یا طبی نقطۂ نظر سے نہیں کیا بلکہ اسے ایک تفسیری منہاج کی صنف کی صورت میں سمجھا۔ اس کا خیال ہے کہ فرائڈ کی تفسیر زبان کے دائروں تک محدود ہے جب کہ خواب کامتن ،محض متن نہیں بلکہ اس کا تعلق ذات یا نفس انسانی سے ہے۔ ریکور کے خیال میں فرائڈ کی تحلیل میں نفس انسانی محض ایک متن کی صورت اختیار کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ’متن‘ انسانی نفس کے حوالے سے علامتی متن بن جاتا ہے جس کی تفسیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ تفسیر کے وہ طریقے اختیار کیے جائیں جو متن (ذات انسانی) کے مخفی معانی تک ہماری رہنمائی کریں اور ہمیں ان کا ادراک کرائیں۔ ج: ریکور کے فلسفۂ تفسیرمیں ہیگل اور فرائڈ کو ایک اساسی اہمیت حاصل ہے لیکن دونوں ایک دوسرے سے مخالف و معکوس سمتیں اختیار کرلیتے ہیں۔ دونوں میں صرف ’بے یقینی‘ اور’ آگہی یا شعور کا شک‘ قدر مشترک ہے اور انھی کے ذریعے وہ داخلیت خصوصاً کار تیسی داخلیت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور وہ ہیگل اور فرائڈ میں ایک ایسی تفسیری جہت کا اندازہ کرتا ہے جو ذات یانفس مدرک میں اہمیت کی ایسی تہوں کا اظہار کرتا ہے جو اب تک مخفی تھیں۔ فرائڈ کی تحلیل نفسی نفس مدرک کی عتیق حقیقتوں اور پرتوں کو کھول دیتی ہے۔ اس کے علی الر غم ہیگل کا فلسفہ روح کی غایتیت کو پیش کرتا ہے۔ اس تفسیر ی عمل میں جدلیت کی کلیدی اہمیت ہے۔ یہاں معانی کا اظہار ارتقا کے ذریعے ہوتا ہے ۔ جب نفس ادنی طبقے سے اعلیٰ طبقے کی طرف بڑھتا ہے تو گزرے ہوئے طبقے کے حقائق کا اظہار خود بخود ہوجاتاہے۔ مراجعت اور ارتقا تفسیر کی تقلیب ہے لیکن اس بحث سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ریکورہیگل اور فرائڈ کو دہر ا تا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ ان دونوں کے علی الر غم مظہر ی جدلیت کے ذریعے ان دونوں کے اسطور کو توڑ دیتا ہے، وہ ہیگل کے تصور کلی کی عینیت اور فرائڈ کے ’لاشعور‘ کی حقیقت یا شیئت پسندی کو مسترد کردیتا ہے۔ یہ بحث ذہن میں ہو توشعور یا آگہی کے حوالے سے مظہریت کے بارے میں جب اسے ایک تفسیری منہاج مانا جائے جو شعور کا بلا واسطہ مطالعہ کرتی ہے، سوالات اٹھنا لازمی ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ سوالات اپنا جواب آپ ہیں کیونکہ ہسرل کی علم نفس کی عام زبان کے باجود ہسرل کے خیال میں نفس مدرک اپنے آپ کو بلا واسطہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ دنیا یار شتوں اور تعلقات کے حوالے سے اپنے آپ کو سمجھتا ہے، اس طرح مظہریت کی جدلیت ایک انتہائی مظہریت کے راستے کھول دیتی ہے۔ اسی مرحلہ پر ریکور اسے دوسرا رخ دے دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں باطل شعور کی غیر واضح اور مصنوعی تشریح اگر مظہریت کی ساتھی ہے تو مظہریت واضح طور پر عقیدے کی تفسیر ہے۔ اسی موڑ پر ریکور کے خیال میں تفسیر یت صحائف آسمانی (انجیل ،توریت) اور ایمان واعتقاد جیسے سوالات کے لیے تفسیر کا ایک نمونہ سامنے لے آتی ہے۔ تفسیریت کے پس منظر میں ایمان و اعتقا د کا سوال موجود ہے ۔تفسیریت کی جدلیت وجود ی اور مذہبی مسائل اور حقائق کے حقیقی معانی کے سنگ سنگ فراموش شدہ حقیقی معانی کو ساتھ لیے ان تمام تشریحات کے مقابلے میں آجاتی ہے جو ان کو مسنح کرنا یا مٹا دینا چاہتی ہیں۔ یہ ریکور کی تفسیری مظہریت کی ایک پہچان ہے۔ جب مظہر یت مشکوک، مصنوعی اور باطل تفسیریت کو محو کردیتی ہے تو وہ سیدھے سادھے ایمان واعتقاد کی بازیافت نہیں کرتی بلکہ اس کا مطمح نظر ایک تنقید ی اور باخبر ایمان واعتقاد ہے ۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پر اساطیری تحریروں کی اساطیریت کا ازالہ ہوجاتا ہے ۔ اور اس کے معنی تشریح وتفسیر کے ایک ایسے عمل کو سامنے لانا ہے جو بلا واسطہ معقولیت کے ذریعے ادعات کو علامتی مکالمات میں باطل کردیتا ہے ۔ادعات کا یہ زیاں وجودی پہلو کی بازیافت ہے ۔ریکور کے خیال میں علامت یا علامات کے ذریعے ہی انسانیت مقدس (خدا، روح القدس اورمسیح) سے رشتہ استوار کرسکتی ہے ۔ اور اس نقطے پر اس کی فکر میں ہیگل کو فرائڈ پر فوقیت مل جاتی ہے۔ ہیگل اور فرائڈ کو ریکور نے اپنی فکر میں جن زاویوں سے برتا ہے ،وہاں نہ تو لاشعور اور نہ تصور مطلق کا کوئی وجود رہتا ہے۔ ایمانیات کے حوالے سے وہ تفسیریت کی ایک نئی بحث کو سامنے لے آتا ہے۔ وہ ایمان و عقائد کو اولیت دیتا ہے اور دینیات کو تیسرے درجے کی چیز قرار دیتا ہے ۔ تفسیریت دینیات کا ہی ازالہ کرتی ہے ۔ استعار اتی علامات وجود یا حقیقت اشیاء کے قریب ہیں نہ کہ دینیات کے۔ علامات کو اولیت حاصل ہے اور اسطور کو ثانوی حیثیت۔ Symbolism of evil میں وہ شرکے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے ان باتوں کا اظہار کرتا ہے ۔ اس کے خیا ل میں دینیات سے پہلے یہ مسئلہ اولیت کا حامل ہے کہ شر کے تجربات میں مستور ابتدائی غایات کی بازیافت کی جائے۔ دینیات ان تجربات کے اہم پہلوئوں کو باطل اور خود ساختہ عقلیت یا عقلی دلائل کے ذریعے مستور کرتی ہے۔ تفسیریات، دینیات کے جال کو توڑ دیتی ہے ۔ اور یہ ان اساسی، قدیم اور استعاراتی علامتوں کو جو دینیات کے علی الرغم اصلِ اشیاء کے قریب ہیں کے معانی کو سمجھنے کا عمل ہے۔ اس کی مثال ’شر‘ ہے اور اس کے اظہارات مظہریت کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ دینیات کا تعلق مذہبی مظہر سے وہی ہے جو مابعد الطبیعیات کا سائنسی مظہر سے۔ حقائق ومظاہر تک پہنچے کے لیے ان تمام پردوں کو ہٹا نا ہوگا جو دینیات کی دین ہیں۔ اصلِ اشیاء تک پہنچنے کے لیے ریکور کی منہاج اور طرز اظہار ہسرل سے مختلف ہے ۔ ایک سادہ یا معلوم حقیقت کی تلاش ہسرل کی مظہریت کا مسئلہ ہے، جب کہ معلوم حقیقت کوئی چیز ہے ہی نہیں ، بلکہ یہ تو ایک انکشافی حقیقت ہے۔ ریکور علامت کی نقاب کشائی کے ذریعے دینیات کے اصل چہرے کو سامنے لاتے ہوئے عقائد کو بھی تنقید کی کسوٹی پر لانے کی بات کرتا ہے، اس عمل میں ’عقیدہ‘ کی جگہ ’اُمید‘ کو جو انسانیت کے مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے ، ایک اساسی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے، یوںریکور کانٹ سے بہت زمانی بُعد کے باوجود ’عقیدہ‘ کے نقطے پر نزدیک آجاتا ہے۔ یہ کانٹ ہی تو ہے جس نے عقیدہ کے سوال کو ’اُمید‘ سے جوڑ دیا ہے۔ اصل میں عقیدہ ،امید ،علامت ، دینیات ، مستقبل ، حشر ، رسالت، تاریخ، شر اور ایسے ہی کتنے دوسرے الفاظ اور تصورات تفسیریات کا محور ہیں۔ لیکن جس چیز کی طرف اشارہ بہت ضروری ہے وہ مغربی فلاسفہ کے فلسفہ ومنہاج میں ان کی مستور یہودیت او رعیسائیت، شرک اور دوسرے مشرکانہ مذاہب و فلسفو ں سے قربت ہے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ہیگل ،فرائڈ اور ریکور اور ایسے ہی دیگر مغربی فلاسفہ کا تمام فلسفیانہ اور نفسیاتی نظام عیسائیت کے تصورِ گناہ اورتثلیثی الٰہیات میں پیوست ہے جوایک طرف اسطور اور دوسری طرف علامات کے جال بنتے ہیں۔ اسطور تو تمام مشرکانہ مذاہب اور عقائد کی داخلی اور اساسی ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر ان کی ساری کائنات بے معنی ہوجاتی ہے ۔ ان کی مذہبی اور معاشرتی تعلیمات میں شر (جوجنسی خواہشات اور مباشرتی عمل کا نتیجہ ہے) سے آزادی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ انسانی لاشعور کی ساری داستان اسی سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا معتبر تخلیقی اخلاقیات سے کوئی رشتہ کہیں نظر نہیں آتا ۔ جب کہ توحید ی مذہب میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہاں تاریخ حق وباطل کی کشمکش ہے۔ باطل یا شر خدا اور اس کے فرستادہ سے بغاوت ہے۔ یہ سارا عمل ایک وسیع اور اعلیٰ اخلاقیات سے جڑا ہوا ہے جس میں مربوط و متوازن خواہشات اور جائز عمل مباشرت کو ایک مثبت اور تخلیقی اور تہذیبی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں لاشعور کا تعلق میثاق اول اور میثاق دوم سے ہے، جس میں اللہ کی وحد انیت اور ربوبیت اور پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار ہے۔ یہاں خدا کے سوا کوئی دوسری قوت ہے ہی نہیں جو معبودیت کا حق رکھتی ہو۔ یہاں کسی دیوی دیوتا کاکوئی تصور ہی نہیں۔ پیغمبر کوئی دیوتا نہیں۔ اس کا خدا سے کوئی نسبی رشتہ نہیں، کیونکہ خدا تمام مخلوق کا خالق ہے، لیکن نہ وہ کسی سے جنا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا ہے۔ پیغمبر ایک انسان ہے وہ کوئی غیر مرئی مخلوق نہیں ۔ وہ انسان کی ہدایت کے لیے اللہ کا منتخب فرستادہ ہے۔ اسلام میں کسی اسطور کی کوئی گنجائش نہیں ہاں مختلف تعلیمات اور شخصیات کو علامات کی حیثیت ضرورحاصل ہے۔یہ علامتیں اسلام کے نظامِ اخلاقیات و سماجیات سے مربوط ہیں لیکن انھیں معبود کا درجہ حاصل نہیں اور نہ یہ کسی حیثیت سے خدا کی خدائی پر اثر انداز ہوتی یا ہوسکتی ہیں۔ یہ تو محض معرکۂ حق وباطل اور اسلام کے نظام حیات کے اطلاق کی نمائندہ یا اس کی مخالف ہیں۔ جیسے توحید ،رسالت، طاغوت، فرعون، موسیٰ، ابراہیم، نمرود،شیطان، کعبہ، بدر ، کربلا ،حج ،نماز ،قربانی وغیرہ وغیرہ۔ یہاں کسی گناہ اول کا کوئی تصور نہیں جو مذہب، اخلاقیات یا سماجیات کی بنیاد بن سکے۔ شر ایک منفی قدر اور عمل ہے جو خدا اور پیغمبر کی تعلیمات کے خلاف ہے، جب کہ اسلام کا سارا نظام توحید کے اساسی اصول پر قائم اور استوار ہے۔ اس کا اپنا ایک مخصوص نظام اقدار ہے، جو مثبت اور تخلیقی ہے ۔ اس کے ذریعے انسان خدا سے اپنا رشتہ قائم کرتا ہے اور اس میثاق اول کو یاد کرتا ہے جس کا اقرار آدم کی تخلیق سے پہلے اس نے کیا تھا۔ تاریخ ان مثبت تخلیقی اقدار اور منفی اقدار کے درمیان کشمکش کا نام ہے۔ یوں توحید ایک نظام اقدار ہے اور شرک بھی ایک نظام اقدار، جوایک دوسرے کے مخالف او رایک دوسرے سے متزاحم ہیں۔ انسانی لاشعور اسی کشمکش سے جڑا ہوا ہے ،کیونکہ خود اس کی انفرادی زندگی بھی انھی اقدار اور ان کے درمیان کشمکش کی داستان ہے۔ توحید کا خاصہ شفافیت اور سیدھی راہ، صلح کل ،امن عالم اور فلاح دارین ہے۔ اس لیے توحید میں کسی قسم کے اسطور کی کوئی گنجائش نہیں ۔ البتہ علامات کو اس میں ایک اساسی اہمیت حاصل ہے اور یہی علامتیں اس کے بنیادی اور تو ضیحی تانے بانے کو مرتب کرتی ہیں۔ تفسیر کا تعلق انھی علامتوں سے ہے۔خود قرآن محکمات ومتشابہات کے اصولوں کو سامنے لایا ہے۔ محکمات وہ بنیاد ی اصول ہیں جن پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے اور متشابہات کا تعلق ان عوالم یا معاملات سے ہے جن کو مختلف معانی دیے جاسکتے ہیں لیکن ان کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ۔ تمام تر فقہی ، تہذیبی ،سماجی اور مذہبی فتنے ان متشابہات پر ایک متشددانہ رویہ اپنا نے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔قرآن نے اس طریق کار کو غلط اور جہنم کی طرف لے جانے والا بتایا ہے ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو بنیادی تفسیر ی رویے کو چھوڑ کر جس کی سند خود قرآن اور رسولؐ سے ملتی ہے ، بعد کی تمام تفسیری موشگافیاں انھی متشابہات کے گرد گھومتی ہیں۔ مشرکانہ مذاہب کا خاصہ دوئی، تفریق، چھوت چھات، استحصال، انتشار اور ذہنی و روحانی اور جسمانی پراگندگی اور کثافت ہے اس لیے وہ ہمیشہ متشا بہات کو بنیاد ی اصول بنا دیتے ہیں۔ اور اس عمل کو مزیدمحکم بنانے کے لیے اسطور کا ایک پورا ڈراما رچاتے ہیں ۔ تمام قدیم مشرکانہ مذاہب اور تہذیبیں اور ان کے جدید شارحین جیسے ہیگل ،فرائڈ، ریکور، اسٹراسن کا فلسفہ اور جدید مشرقی و مغربی تحریکیں اور ان مذاہب کا احیا اسی اسطوری عمل کی جعل ساز یوںاور ان کی تفسیری کا وشوں کا نام ہے۔ اسطور گری شرک کی مجبوری ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کا وجود قائم نہیں رہ سکتا ۔ اسطور بنیادی طور پر جرم کی سیاہ داستان ہے، جس کی گرفت میں خدا، انسان اور ساری کائنات آتی ہے ۔انسان اور کائنات کو ایک خدائے واحد کی تخلیق ماننے کے بعد کہانیاں گھڑنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ عقیدہ خدا کو خالق ومالک، رب، کار ساز اور ہمہ جاموجود اور ہرشے کا عالم اور انسان کو اس کی تخلیق اورخلیفہ مانتا ہے۔ اس حیثیت میں وہ(انسان) آزاد، فعال اور عزت وحرمت کا حامل قرار پاتا ہے اور یہ ساری کائنات اس کے زیر نگیں ہوجاتی ہے جس کے استعمال کے لیے اسے اعلیٰ اقدار کے دائرے میں ہرجائزعمل کا حق حاصل ہے۔یہی توحید کاخلاصہ ہے ۔ نتیجہ ایک ہمہ جہت استحصال ہے، جس سے انسان چھٹکارا پانا چاہتا ہے لیکن چھٹکارا پانے کے لیے وہ ان تمام بداعمالیوں کو اصولی حیثیت دینے اور انھیں اپنے مذہبی، مابعد الطبیعی ،اخلاقی، تہذیبی اور سیاسی عوامل بنانے کے لیے اسطور گری کرتا ہے اور اس دلدل میں پھنستا ہی چلاجاتا ہے۔ فزادھم اللہ مرضا۔ یہ ایک لایعنی نفسیاتی جال ہے جس میں مشرکانہ تہذیبیں پھنسی ہوئی ہیں۔ مغرب اور مشرق کی مشرکانہ تہذیبوں کی ساری تفسیری کا وشیں اور فلسفہ ، اسی لایعنی جال کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کا ایک رائگاں عمل ہے۔اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو تفسیریات کی ایک نئی بحث ،نئی شکلیں اور نئے زاویے سامنے آجاتے ہیںجو الہٰیات، اخلاقیات، سیاسیات، سماجیات، نفسیات، معاشیات اور ادب اور فنون لطیفہ سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ کلی طور پر اس تفسیر یات سے الگ ہے جو مغرب اور مشرق کے مشرکانہ فلسفیانہ مکاتب اور مذاہب نے پیش کی ہے۔ ژژژ علامہ اقبال اور راس مسعود ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی یوں تو علامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلق خاطر تھا، وہ گنے چُنے ہی تھے اور ان میں سر راس مسعود (۱۸۹۴ء - ۱۹۳۷ئ) کا نام سر فہرست ہے۔ اقبال نے ان کا نام متعدد خطوں میں جیسی والہانہ محبت اور جس درجہ گرم جوشی کا اظہار کیاہے،وہ کسی اور معاصر کے لیے نظر نہیں آتی۔ اسی لیے راس مسعود کی وفات پر انھوں نے اپنے رنج و غم کا اظہار ’’مسعود مرحوم‘‘ کے عنوان سے ایک منظوم مرثیے کی صورت میں کیا، اس کے چند اشعار حسب ذیل ہیں: رہی نہ آہ زمانے کے ہاتھ سے باقی وہ یادگارِ کمالاتِ احمد و محمود زوالِ علم و ہنر مرگِ ناگہاں اس کی وہ کارواں کا متاع گراں بہا مسعود مجھے رُلاتی ہے اہل جہاں کی بے دردی فغان مرغ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود نہ کہہ کہ صبر میں پنہاں ہے چارئہ غم دوست نہ کہہ کہ صبر معمّاے موت کی ہے کشود ’’دلے کہ عاشق و صابر بود، مگر سنگ است ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است‘‘ ۱؎ (سعدی) ایسی کسک ، ایسی محرومی اور ایسے دکھ کا اظہار، اس سے پہلے صرف اس رثائی نظم میں نظر آتا ہے جو اقبال نے ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔۲؎ ۲ نواب مسعود جنگ بہادر سر راس مسعود (۱۵؍فروری ۱۸۸۹ء علی گڑھ- ۳؍جولائی ۱۹۳۷ء بھوپال) سر سید احمد خاں کے پوتے اور سید محمود کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ابتدائی تعلیم (قرآن مجید، گلستان، بوستان، نوشت و خوان، حساب کتاب) گھر پر حاصل کی جس میں ان کی والدہ اور داداسر سید احمد خاں کا دخل تھا۔ راس مسعود کی رسم بسم اللہ کی روداد بڑی دلچسپ ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ تقریب علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں ۳۰؍دسمبر ۱۸۹۳ء کو منعقد ہوئی۔ تقریب کیا تھی ایک طرح کا جشن تھا۔ سب سے پہلے راس مسعود نے بسم اللہ اور پھر کلمۂ طیبہ اپنی زبان سے ادا کیا۔ اس موقعے پر خود سر سید احمد خاں اور ان کے نہایت گہرے اور قریبی دوست راجا جے کشن داس بھی موجود تھے۔ راجا صاحب نے راس مسعود کو ۵۰۰ روپے دیے۔سر سید نے پوتے سے سوال کیا: ’’بیٹے اتنے بہت سے روپوں کا تم کیا کرو گے؟ پونے پانچ برس کے بچے نے روپے دادا کی طرف بڑھاتے ہوئے برجستہ جواب دیا: لیجیے آپ انھیں کالج کے کام میں لگا دیجیے‘‘۔۳؎ راس مسعود پانچ سال کی عمر میں سکول جانے لگے۔ بالعموم وہ اپنے دادا کے پاس ہی رہتے تھے۔ ۱۸۹۸ء میں سر سید فوت ہو گئے تو راس مسعود کو ان کی جدائی اور ان کی شفقت سے محرومی کا شدید احساس ہونے لگا۔اس وقت ان کے والد سید محمود لکھنؤ میں مقیم تھے۔ وہ علی گڑھ آ گئے لیکن مشاورت کے بعد، راس مسعود کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر موریسن اور ان کی بیگم کی نگرانی میں دے دیا گیاتاکہ وہ اپنے تجربات کی مدد سے راس مسعود کی تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام کر سکیں۔ کچھ عرصے بعد موریسن کی کوششوں سے راس مسعود کو انگریزی وظیفے پر مزید تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیج دیا گیا۔ انگلستان کے زمانۂ طالب علمی میں راس مسعود کو برطانوی سوسائٹی کے شرفائ، اُدباء اور دیگر باذوق لوگوں سے میل ملاقات کے وافر مواقع میسر آئے جس سے ان کی ذہنی تربیت کے ساتھ ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا۔ ۴؎ آکسفورڈ میں انھیں عبدالرحمن بجنوری، ڈاکٹر انصاری اور معروف انگریزی ادیب ای ایم فاسٹر کی صحبت میسر رہی۔ اس زمانے میں کبھی کبھی وہ اپنے پرانے ہم جماعتوں ہارون خاں شیروانی اور نواب سعید سے ملنے کے لیے پیرس بھی چلے جاتے تھے۔ پیرس آمدورفت کا یہ فائدہ ہوا کہ انھوں نے فرانسیسی زبان سیکھ لی، بلکہ اس میں خوب مہارت پیدا کر لی۔ ۱۹۰۹ء میں آکسفورڈ سے بی اے آنرز اور ۱۹۱۲ء میں لنکنزاِن سے بیرسٹر ایٹ لا کی ڈگری حاصل کرکے واپس آئے اور پٹنہ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔۵؎ مگراپنی افتادِ طبع کی بنا پر وہ اس مصروفیت کو زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکے۔ انھیں اندازہ ہو گیا کہ ان کے لیے وکالت کا پیشہ ناموزوں ہے۔ ۱۹۱۳ء میں انھوں نے انڈین ایجوکیشنل سروس میں شمولیت اختیار کی اور گورنمنٹ ہائی سکول پٹنہ کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے، بعدازاں گورنمنٹ ماڈل کالج کٹک (اڑیسہ) میں تاریخ کے سینئر پروفیسر رہے۔ آخر میں ریون شا کالج کٹک (اڑیسہ) کے پرنسپل ہو گئے ۔۶؎ سر اکبر حیدری کی تحریک پر ۱۹۱۶ء میں انھیں حیدر آباد دکن میں ڈی پی آئی (تعلیم) مقرر کیا گیا۔ ان کی نظامت میں ریاست حیدر آباد نے تعلیم کے شعبے میں غیر معمولی ترقی کی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ۱۹۱۹ء میں جامعہ عثمانیہ اور دارالترجمہ کا قیام ہے۔ ۱۹۲۲ء میں وہ چاپان گئے۔ تقریباً تین ماہ کے قیام میں وہاں کے تعلیمی نظام کا بغور جائزہ لیا اور ایک تفصیلی رپورٹ بعنوان Japan and its Educational System کے نام سے شائع کی (۱۹۲۵ء میں انھوں نے دوبارہ جاپان کا سفر کیا)۔۔۔مذکورہ رپورٹ میں بعض ایسی تعلیمی اصلاحات تجویز کی گئی تھیں جو بے حد دور رس نتائج کی حامل تھیں۔ جلیل قدوائی لکھتے ہیں: راس مسعود کی اصلاحات سے ’’امتحانات اور تعلیم کا معیار بلند ہوا، نصاب بدلے گئے۔ اسلامیات ، دینیات، جغرافیہ، اردو اور خصوصیت سے سائنس اور تربیت اساتذہ کے شعبے (جس میں زراعت ایک مضمون کے طور پر شامل ہوا، بلند ترین معیار پر لائے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ یونی ورسٹی کی ڈگریوں کی ہندوستان بھر میں دھوم مچ گئی اور انھیں حکومت اور قومی اداروں نے قابلِ وقعت سمجھا۔‘‘۷؎ طلبہ کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا۔راس مسعود نے بعض نئی سکیمیں بنائیںاور ذاتی اثر و رسوخ اور کاوش سے انھیں سرکار سے منظور کرایا۔بہت سے نئے کالج کھولے گئے۔۔۔ مختصر یہ کہ محمد حبیب اللہ رشدی کے الفاظ میں:’’ان کا دور سر رشتہ تعلیمات ریاست حیدر آباد کی تاریخ کا درخشاں دور تھا‘‘۔۸؎ ان کی خدمات پر نظام دکن نے انھیں ’’نواب مسعود جنگ بہادر‘‘ کا خطاب دیا۔ ۱۹۲۸ء میں راس مسعود نے یہ ملازمت چھوڑ دی۔ اگلے ہی برس انھیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ ۳ سر راس مسعود اور علامہ اقبال کی اوّلین ملاقات کب ہوئی؟ اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ علامہ اقبال اور راس مسعود دونوں ۱۹۰۵ء میں عازمِ انگلستان ہو گئے۔ اقبال ۱۹۰۸ء تک اور راس مسعود ۱۹۱۲ء تک وہاں مقیم رہے۔ ممکن ہے اس زمانے میں کبھی ملاقات بھی ہوئی ہو، مگر دونوں کی کسی ملاقات یا رابطے کی کوئی شہادت میسر نہیں۔ اقبال نے اپنے قیام انگلستان کا زیادہ تر عرصہ کیمبرج میں گزارا راس مسعود آکسفورڈ میں مقیم رہے اور جب ۱۹۰۹ء میں راس مسعود بار ایٹ لا کے لیے لندن آ کر لنکنزاِن میں داخل ہوئے۹؎ تو اقبال چند ماہ قبل (جولائی ۱۹۰۸ء میں) واپس ہندوستان جا چکے تھے۔ قیاس یہ ہے سر راس مسعود اور اقبال کی پہلی ملاقات اور تعلقات کی ابتدا ۱۹۲۹ء میں حیدر آباد دکن میں ہوئی۔۱۰؎ ۱۸؍نومبر۱۹۲۹ء کو جب علامہ اقبال انگریزی خطبات پیش کرنے کے لیے علی گڑھ پہنچے۱۱؎ اور ایک ہفتہ وہاں مقیم رہے تو راس مسعود اور اقبال ایک دوسرے سے مزید قریب آ گئے اور واقفیت باہمی دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ علی گڑھ میں اقبال ہر روز ایک خطبہ پیش کرتے۔ ایک ہفتگی قیام میں، وہ متعدد دعوتوںاور ضیافتوں میں بھی شریک ہوئے۔ طلبہ اور اساتذہ سے بھی ملتے رہے۔ انھیں سر راس مسعود کی غیر معمولی صلاحیتوں کا کچھ اندازہ ہوا۔ راس مسعود کو چند ماہ قبل ہی ایسے حالات میں یونی ورسٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا ، جب بقول مولوی عبدالحق یونی ورسٹی کی ’’بدنامی اور رسوائی دور دور تک پہنچ گئی تھی‘‘۔۱۲؎ راس مسعود نے اس کی نظامت سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں کہا: میں چاہتا ہوں کہ اس یونی ورسٹی کے نوجوان علم ، کھیل، راست بازی اور اخلاق میں اعلیٰ مرتبے کے مالک ہوں اور اس یونی ورسٹی میں کوئی چیز مجھے گوارا نہیں جو دوسرے درجے کی ہو۔۱۳؎ پھر انھوں نے اپنے عزم صمیم، ان تھک محنت اور پُر خلوص کاوشوں سے یونی ورسٹی کی کایا پلٹ دی۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: مسعود سا وائس چانسلر مسلم یونی ورسٹی کو کبھی نصیب ہوا تھا، نہ شاید آیندہ ملے۔ … مسعود کے آتے ہی رنگ بدل گیا۔ اس نے اپنی ذاتی وجاہت اور اثر اور کوشش سے بدنامی کا دھبا مٹا دیا کھوئے ہوئے وقار کو قائم کیا، بڑھایا اور اوج تک پہنچا دیا۔ مایوسی کو امید سے بدل دیا۔ طلبہ اور اساتذہ میں ایک نئی زندگی پیدا کر دی۔۱۴؎ اصلاح احوال کے لیے راس مسعود کی کوششوں سے متاثر ہو کر اقبال نے ۹ ؍جنوری ۱۹۳۰ء کو، مولانا عبدالماجد دریا بادی کو ایک خط میں لکھا: میں بھی ایک ہفتے کے لیے علی گڑھ گیا تھا۔ سید راس مسعود بہت مستعد آدمی معلوم ہوتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان کی مساعی سے یونی ورسٹی کی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی ہوگی۔۱۵؎ علی گڑھ میںقیام کے دوران میں، علامہ اقبال کو یونی ورسٹی سٹوڈنٹس کی اعزازی لائف ممبر شب بھی دی گئی۔ اقبال اور راس مسعود کو باہمی ملاقاتوں، گفتگوئوں اور تبادلۂ خیالات کا وافر موقع میسر آیا۔ سر راس مسعود ایک طبّاع شخص تھے۔ قوتِ حافظہ غیر معمولی تھی۔ طبیعت نکتہ رس پائی تھی۔ اپنی دلچسپ اور شاندار گفتگو سے حاضرین کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔اقبال کو راس مسعود کی غیر معمولی شخصیت اور ذہانت کا اندازہ ہوا۔ دوسری طرف راس مسعود کو اقبال کے عبقری ذہن اور کمال فن کو سمجھنے کا موقع ملا۔ پھر اس تعلق نے ایک دلی ارتباط کی شکل اختیار کر لی۔ اکتوبر ۱۹۳۳ء میں شاہِ افغانستان کی طرف سے دونوں کو دورئہ افغانستان کی دعوت ملی۔ راس مسعود اور اقبال کو اس سفر میں مسلسل بارہ روز تک شب و روز ایک دوسرے کے ساتھ رہنے، ملنے جلنے اور علمی ، سیاسی اور ادبی موضوعات پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ اسی طرح متعدد دعوتوں، تاریخی مقامات و مقابر کی زیارتوں اور افغانی اکابرواعیان سے ملاقاتوںمیں بھی وہ اکٹھے رہے۔۱۶؎ یوں دورئہ افغانستان دونوں کے لیے باہمی قربت و یگانگت کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا۔ ۴ جنوری ۱۹۳۴ء میں علامہ اقبال کی طویل علالت کا آغاز ہوا۔ ان کا گلا بیٹھ گیا اور آواز قریب قریب بند ہو گئی۔ طرح طرح کے علاج آزمائے گئے۔۱۸؎ اس اثنا میں راس مسعودعلی گڑھ سے مستعفی ہو کر ریاست بھوپال سے وابستہ ہو چکے تھے۔ انھیں اقبال کی علالت کا علم ہوا تو انھوں نے علامہ کو بھوپال کی طرف سے ، بھوپال آ کر علاج معالجے کی پیش کش کی ۔ اقبال نے یہ پیش کش قبول کر لی۔ یہاں سے راس مسعود اور اقبال کے باہمی مراسم و تعلقات میں ایک نئے دورکا آغاز ہوتا ہے۔ بھوپال میں علاج کے لیے پہلی بار آمد( ۳۱ ؍جنوری ۱۹۳۵ئ) کے موقع پر، اقبال کو لینے کے لیے راس مسعود بذات خود ریلوے اسٹیشن پہنچے، پنجاب میل آ کر رُکی اور علامہ افغانی ٹوپی، شلوار اور پنجابی کوٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر اُترے تو راس مسعود نے بڑے والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔ آگے بڑھ کر بغل گیر ہوئے اور ان کی پیشانی کے بوسے لیے۔ پلیٹ فارم پر کھڑے لوگ اس منظر پر حیران ہوئے مگر راس مسعود کے محبت بھرے خلوص نے انھیں متاثر بھی کیا۔ مئی ۱۹۳۵ء میں جب اقبال بھوپال میں ماورا بنفشی شعاعوں کے علاج کا پہلا مرحلہ مکمل کرکے واپس لاہور آ چکے تھے۔ ریاست بھوپال کی طرف سے اقبال کے لیے پانچ سو ماہوار وظیفے یا پنشن کا اجرا عمل میں آیا۔ اس زمانے میں اقبال کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ وکالت سے آمدنی تقریباً ختم ہو چکی تھی۔کتابوں کی رائلٹی سے کچھ رقم مل جاتی، وہی ان کی گزر بسر کا ذریعہ تھا۔ ان حالات میں جب وہ اپنے بقول ’’چاروں طرف سے آلام و مصائب میں محصور تھے‘‘۱۹؎ مذکورہ وظیفہ، ان کے لیے خاص تقویت کا باعث ہوا۔ یہ سب راس مسعود کی کوششوں کا نتیجہ تھا اور اقبال کو اس کا بخوبی احساس تھا، مگر ان سے ایک دلی موانست تھی اس لیے انھیں لکھا :’’آپ کا شکریہ کیا اداکروں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی سادات کی آبائی میراث ہے‘‘۔۲۰؎ جواباً راس مسعود نے انھیں لکھا:’’یہ یاد رکھو کہ مجھے تم سے اس قدر گہری قلبی محبت ہے کہ جو کچھ خدمت میں تمہاری کر سکتا ہوں، اس میں کمی کبھی نہ آوے گی‘‘۔۲۱؎ اسی زمانے میں علامہ کی بیگم (والدئہ جاوید اقبال) فوت ہو گئیں۔ اقبال سخت پریشان ہوئے، راس مسعود کو لکھا: ’’دونوں بچے میرے لیے ایک مسئلہ بن گئے ہیں، جس کی سنگینی کو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیںکیا تھا۔‘‘۲۲؎ جواباً راس مسعود نے لکھا:’’تم سے ملنے کو میرا دل پھڑک رہا ہے۔ خاص کر جب سے تمھیں یہ صدمہ اٹھانا پڑا ہے۔ میں اور میری بیوی تمھاری طرف سے بے حد پریشان ہو گئے ہیں۔خدا ہمیشہ تمھارا محافظ رہے۔یہ بھی لکھے دیتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں جاوید کی طرف سے تمھیں کوئی خاص فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘۲۳؎ ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء میں علاج کے سلسلے میں علامہ اقبال تین بار بھوپال گئے اور کئی کئی ہفتے وہاں مقیم رہے۔ اقبال اور راس مسعود کو اس زمانے میں باہمی ملاقاتوں اور گفتگوئوں کے لیے وافر وقت اور مواقع میسر آئے۔ شام کے اوقات میں بسا اوقات راس مسعود، اقبال کی قیام گاہ پر اور کبھی اقبال، راس مسعود کے ہاں چلے جاتے۔ رات نو دس بجے تک دونوں کے درمیان مختلف موضوعات پر گفتگو رہتی۔۲۴؎ دراصل راس مسعود طرح طرح سے اقبال کا دل بہلانے کی کوشش کیا کرتے۔ مقصود یہ تھا کہ اپنی بیماری اور والدئہ جاوید کی تشویش ناک علالت سے ان کی توجہ ہٹی رہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ اختر جمال اپنے والد کے حوالے سے راوی ہیں کہ: ایک محفل میں آٹھ بجے سے دس بجے تک اقبال اور سر راس کے درمیان بیت بازی ہوئی۔ سر راس نے یہ شرط رکھی تھی کہ شاعرِ مشرق کے علاوہ اور کسی کے شعر قبول نہیں کیے جائیں گے۔ بیت بازی میں سر راس کی جیت ہوئی اور اقبال نے اعتراف کیا کہ انھیں اپنے اتنے اشعار یاد نہیں، جتنے راس مسعود کو یاد ہیں۔۲۵؎ اس طرح کی بے تکلفی نے انھیں ایک دوسرے سے اور قریب کر دیا۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں پانی پت میں مولانا حالی کی صد سالہ جوبلی منائی گئی۔ سر راس مسعود اس میں شرکت کے لیے پانی پت گئے اور (غالباً انھی کے ایما پر) علامہ اقبال نے بھی بعض احباب کے ہمراہ پانی پت کا سفر اختیار کیا۔ سر راس مسعود اپنی بے تکلفانہ افتادِ طبع کی بنا پر کبھی کبھی علامہ اقبال سے بھی بے تکلفی کیا کرتے تھے۔ پانی پت میںقیام کے دوران میں ایک صبح اس طرح کا واقعہ پیش آیا۔ راس مسعود بیٹھے حجامت بنا رہے تھے۔ شیو کے لیے منہ پر صابن ملا ہوا تھا۔ اقبال قریب ہی نیم درازتھے۔ دورانِ گفتگو، راس مسعود، علامہ کے کسی شعر پر وجد میں آ گئے تو جُھک کر علامہ اقبال کا منہ چوم لیا۔ اُن کا رخسار بھی صابن کے جھاگ سے لتھڑ گیا اور راس مسعود نے قہقہہ لگایا۔۲۶؎ اقبال نے اپنے قیام بھوپال کے زمانے میں راس مسعود کو بہت قریب سے دیکھا اور انھیںایک سچا دوست اور نہایت مخلص خیر خواہ پایا۔دورئہ افغانستان میں انھیںاندازہ ہو چکا تھا کہ ملک و ملت کی خیر خواہی میں وہ اپنے دادا کے اخلاص اور درد مندی کی روایت کے امین تھے۔ اس طرح ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے دونوں کی دلچسپیاں مشترک تھیں۔ راس مسعود کے اسی اخلاص اور بے لوث محبت کی بنا پر اقبال نے ایک خط میں انھیں لکھا: ’’میں آپ کو اپنا دوسرا self خیال کرتا ہوں‘‘۔۲۷؎ بچوں کی پرورش اور حفاظت کے مسئلے پر اقبال نے ۷؍جون۱۹۳۷ء کے خط میں راس مسعود کو لکھا: ’’میں اپنے حقیقی عزیزوں سے زیادہ تم پر بھروسا رکھتا ہوں‘‘۔۲۸؎ راس مسعود پر اس اعتماد کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے اپنے وصیت نامے میں ترمیم کرتے ہوئے، اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کی جگہ راس مسعود کو بچوں کا سرپرست (guardian) تجویز کیا۔۲۹؎ راس مسعودکا خیال تھا کہ گارڈین لاہور میں یا لاہور سے قریب تر ہو تو بہتر ہوگا تاہم وہ بچوں کی ۲۲ سال کی عمر تک ان کی ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہوں گے بشرطیکہ وہ خود زندہ رہے۔ ۱۴؍جون ۱۹۳۷ء کے خط میں انھوں نے اقبال کو ’’نہایت پیارے اقبال‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ایک بڑی ذمہ داری میں اپنے اوپر اس عشق کے ثبوت میں لے رہا ہوں جو مجھے تم سے ہے ۔۔۔ ضرورت پیش آئی تو یقین رکھو کہ تمھارے ان دونوں بچوں کے لیے، ان کی تعلیم کے مسئلے میں، وہی کروں گا جو اپنی اولاد کے لیے…۳۰؎ مختصر یہ کہ بقول جلیل قدوائی:’’اپنی زندگی کے آخری ایّام میں دونوں ایک دوسرے سے قریب ترین یعنی یک جان دو قالب ہو گئے تھے‘ ‘۔۳۱؎ مارچ ۱۹۳۷ء میں سر راس مسعود کے ہاں بچی پیدا ہوئی عام مسلم گھرانوں میں لڑکی کی ولادت پر ایک تاسف یا سرد مہری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے مگر علامہ اقبال نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بموجب، اسے اللہ تعالیٰ کی عنایات کا حصہ سمجھتے ہوئے مسرت و شادمانی کا اظہار کیا۔ انھوں نے بچی کا نام نادرہ رکھا ا ور ایک تاریخی قطعہ بھی قلم بند کیا ، اس کے دو شعر ہیں: یادگارِ سیّدِ والا گہر نور چشمِ سیّدِ محمود ہے خاندان میں ایک لڑکی کا وجود باعثِ برکاتِ لا محدود ہے۳۲؎ ۵ جولائی ۱۹۳۷ء میں سر راس مسعود علیل ہو گئے۔ اقبال کو اطلاع ملی تو سخت پریشان ہوئے۔ ممنون حسن خاں کو لکھتے ہیں: میں بہت متردد ہوں ، بارہ دن کا ملیریا اور اس پر مسلسل سر درد مجھے اندیشہ ہے کہ مسعود بہت کمزور ہو گئے ہوں گے۔ خدا تعالیٰ ان کو جلد صحت کامل عطا فرمائے۔ میرا یہ خط وصول کرتے ہی آپ ان کی خیر خیریت سے آگاہ کریں تاکہ تردد رفع ہو۔۳۳؎ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ۳۰؍جولائی کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے، اقبال نے لیڈی مسعود کے نام تعزیتی خط میں جو کچھ لکھا، اس سے راس مسعود کے ساتھ ان کے قلبی تعلق کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ خط ایک طرح سے راس مسعود کو اقبال کا خراج تحسین بھی ہے۔ لکھتے ہیں: میں آپ کو صبر و شکر کی تلقین کیوں کر کروں، جب کہ میرا دل تقدیر کی شکایتوں سے خود لبریز ہے۔ مرحوم سے جو میرے تعلقات تھے، ان کا حال آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ اس بنا پر میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں،آپ کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ غالباً مرحوم کے دوستوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جس کے دل پر مرحوم نے اپنی دل نوازی ، بلند نظری اور سیر چشمی کا گہرا تعلق نہ چھوڑا ہو۔ مسعود مرحوم اپنے باپ دادا کے تمام اوصاف کا جامع تھا اس نے قدرت سے دادا کا دل اور باپ کا دماغ پایا تھا؛ اور جب تک جیا، اس دل و دماغ سے ملک و ملت کی خدمت کرتا رہا۔خدا تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے۔۳۴؎ اس زمانے میں اقبال افسردگی اور رنج و الم کی ایک مسلسل کیفیت سے دو چار رہے۔ ممنون حسن کے نام ایک خط میں لکھا:’’مسعود کا غم باقی رہے گا، جب تک میں باقی ہوں‘‘۔۳۵؎ دو ماہ بعد انھیں لکھتے ہیں: ’’مسعود نہیں بھولتا‘‘۔۳۶؎ در حقیقت راس مسعود نے جس خلوص اور والہانہ پن سے اقبال کی رفاقت و اعانت کی اور ان کی خیر خواہی کے لیے کوشاں رہے۳۷؎ اس کے پیش نظراقبال کا اس قدر رنجیدہ ہونا فطری تھا۔ راس مسعود کا انتقال، ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک الم ناک سانحہ تھا۔ ای ایم فوسٹر نے غلط نہیں کہا تھا: There never was anyone like him and there never will be anyone like him.38 راس مسعود کے اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے اقبال کو ان سے جس درجہ محبت تھی، اور ان کی جوانی کی موت سے اقبال کو جس درجہ صدمہ ہوا، اس کا ایک اظہار اس مرثیے سے بھی ہوتا ہے، جو ’’مسعود مرحوم‘‘ کے عنوان سے ارمغان حجاز میں شامل ہے:اس مرثیے میں (جس کے چند اشعار اس مضمون کی ابتدا میں نقل کیے جا چکے ہیں) اقبال نے حیات و ممات ، خودی اور عشق کے موضوعات پر فلسفیانہ انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔ اقبال کا اظہار رنج و غم صرف مرثیہ گوئی تک محدود نہ تھا، وہ راس مسعود کے پس ماندگان سے مسلسل رابطہ میں رہے، حتی الوسع ان کی خیر خواہی کرتے رہے۔ راس مسعود کے بیٹے انور امپیریل پولیس سروس میں جانے کے خواہش مند تھے، ان کی کامیابی کے لیے، اقبال کوشش و تدبیر میں لگے رہے۔۳۹؎ علامہ اقبال نے اپنے کتبۂ مزار کے لیے حسب ذیل فارسی رباعی کَہ رکھی تھی۔ راس مسعود کی وفات پر وہ رباعی ممنون حسن کو کتبۂ مزار کے لیے لکھ بھیجی : نہ پیوستم دریں بستاں سرا دل ز بندِ این و آں آزادہ رفتم چو بادِ صبح گردیدم دمِ چند گلاں را رنگ و آبے دادہ رفتم اور ساتھ ہی انھیں لکھا: ’’رباعی کا مضمون مجھ سے زیادہ ان کی زندگی اور موت پر صادق آتا ہے‘‘۔۴۰؎ علامہ اقبال سے تعلق خاطر کے سلسلے میں راس مسعود کے دو اقدامات ایسے ہیں جنھیں ان کے کارناموں میں شمار کرنا چاہیے: اوّل : بھوپال میں اقبال کے برقی علاج کا اہتمام و انصرام دوم : بھوپال سے اقبال کے لیے ماہانہ وظیفے کا اجرا اس ضمن میں پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں: زندگی کے آخری عہد میں مرحوم کا توسُّل دربار بھوپال سے ہو گیا تھا۔ اس تعلق کے پیدا کرنے میں سر سید راس مسعود مرحوم کی کوششوں کا بڑا دخل تھا۔ اقبال کو جن دقتوں کا سامنا تھا، اب اُن سے نجات ہو گئی تھی۔ دور آخر کی بعض مشہور نظمیں مرحوم نے بھوپال ہی میں لکھیں۔ بھوپال کا تنہا یہ کارنامہ میرے نزدیک اُن کارناموں میں سے ہے جن کو آیندہ آنے والی نسلیں کبھی فراموش نہ کر سکیں گی۔ اگر افراد کے مانند اداروں کی بھی کوئی معاد ہے تو اسی ایک نیک کام کے صلے میں بھوپال کی نجاتِ اُخروی متیقّن ہے۔۴۱؎ ہمارے خیال میں علامہ اقبال کے دوست ، احباب اور معاصرین میں دوسرا کوئی شخص نہیں ملتا، جس کے ساتھ ان کی دوستی اور قربت اس درجہ تعلقِ خاطر میں بدل گئی کہ اقبال اسے دوسرا self خیال کرنے لگے ہوں۔ خخخ حواشی وحوالہ جات ۱- علامہ محمد اقبال، ارمغان حجاز (کلیات اقبال، اردو)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۳ئ، ۲۴۔ ۲- بانگ درا (کلیات اقبال، اردو) ص ۲۲۶۔ ۳- نورالحسن نقوی ،نامورانِ علی گڑھ، دوم ، علی گڑھ یونی ورسٹی، ۱۹۸۶ئ، ص ۲۹۵۔ ۴- ایضاً، ص ۲۹۶۔ ۵- جلیل قدوائی (مرتب) ، شعلۂ مستعجل، راس مسعود ایجوکیشن اینڈ کلچر سوسائٹی آف پاکستان ، کراچی، ۱۹۸۲ئ، ص ۳۰۔ ۶- ایضاً ، ص ۱۷۲۔ ۷- ایضاً، ص ۲۹۔ ۸- ایضاً، ص ۳۱۔ ۹- ایضاً ، ص ۱۳۔ ۱۰- فقیر سید وحید الدین ، روزگارِ فقیر، دوم ، لائن آرٹ پریس ، کراچی، ۱۹۶۳ء ، ص ۵۱؛ صہبا لکھنوی،اقبال اور بھوپال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۰ء ، ص ۹۰۔ ۱۱- اصغر عباس، سر سید ، اقبال اور علی گڑھ، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ، ۱۹۸۷ئ، ص ۴۱۔ ۱۲- عبدالقوی دسنوی،چند ہم عصر، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، ۱۹۵۹ئ، ص ۱۹۶۔ ۱۳- جلیل قدوائی (مرتب) ، مرقّعِ مسعود، راس مسعود ایجوکیشن اینڈ کلچر سوسائٹی آف پاکستان، کراچی، ۱۹۸۲ئ، ص ۱۹۔ ۱۴- ایضاً، ص ۱۹۶- ۱۹۵۔ ۱۵- شیخ عطاء اللہ (مرتب)، اقبال نامہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۵ء ، ص ۲۱۶۔ ۱۶- تفصیل کے لیے دیکھیے: علامہ سید سلیمان ندوی، سیر افغانستان، مجلس نشریات اسلام، کراچی۔ ۱۷- تفصیل کے لیے دیکھیے: ڈاکٹر سید تقی عابدی، چو مرگ آید، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ئ۔ ۱۸- اختر جمال، فنون، مئی جون ۱۹۷۰ئ؛عبدالقویء دسنوی، اقبال بھوپال میں، علوی پریس بھوپال، ۱۹۲۷ئ،ص ۱۱۔ ۱۹- ڈاکٹر اخلاق اثر (مرتب)، اقبال نامے، مدھیہ پردیش اقبال اکادمی، بھوپال، ۲۰۰۶ء ، ص ۱۷۷۔ ۲۰- ایضاً، ص ۱۷۸۔ ۲۱- ایضاً، ص ۸۰۔ ۲۲- ایضاً ، ص ۱۷۴۔ ۲۳- ایضاً، ص ۱۸۲- ۱۸۱۔ ۲۴- اقبال اور بھوپال، ص ۲۰۸ئ۔ ۲۵- فنون، مئی جون ،۱۹۷۰ئ۔ ۲۶- مرقّع مسعود، ص ۱۴۶؛ شعلۂ مستعجل، ص ۶۰۔ ۲۷- اقبال نامے، ص ۱۹۸۔ ۲۸- ایضاً، ص ۲۱۲۔ ۲۹- ایضاً، ص ۲۱۹-۲۱۸۔ ۳۰- ایضاً، ص ۲۲۳۔ ۳۱- شعلۂ مستعجل، ص ۵۱۔ ۳۲- روزگار فقیر، اوّل، ص ۱۶۴۔ ۳۳- اقبال نامہ، ص ۲۴۷۔ ۳۴- ایضاً، ص ۲۹۳-۲۹۲۔ ۳۵- ایضاً ، ص ۲۵۰۔ ۳۶- ایضاً، ص ۲۵۳۔ ۳۷- اقبال اور بھوپال، ص ۲۴۲۔ ۳۸- بحوالہ شعلۂ مستعجل، ص ۴۵۔ ۳۹- اقبال اور بھوپال، ص ۲۹۵-۲۹۴۔ ۴۰- اقبال نامہ، ص ۲۵۰۔ ۴۱- رشید احمد صدیقی، اقبال: شخصیت اور شاعری، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۶ء ،ص ۱۷-۱۶۔ خخخ عبدالہادی داوی __ ’پیام مشرق‘ کا اوّلین افغان مبصّر ڈاکٹر عبدالرئوف خان رفیقی یکم مئی ۱۹۲۳ء کو پیام مشرق کی اشاعت ۱؎ کے بعد جہاں علم و ادب کو فکر اقبال کے نئے گوشوں کا پتا چلا وہاںاقبال کی فکری و معنوی جہتوں کو نئے زاویوں سے دیکھنے والے ارباب علم و دانش کو نئے موضوعات ملے۔ چنانچہ پیام مشرق کے مشمولات اور موضوعات پر فنی و فکری حوالوں سے تبصروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ افغانستان میں اس وقت کے مؤقر جریدے امان افغان کابل کے شمارہ ۹،۱۰،۱۱،۱۳،۱۷ ، میں پیام مشرق پر ایک مفصل تبصرہ شائع ہوا۔ ہمیں امان افغان کے متعلقہ شمارے تو نہیں ملے مگر یہی تبصرہ ایک اور ماخذ صدیق رہپوکی مرتبہ افغانستان و اقبال میں مل گیا لیکن یہاں تبصرہ نگار کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔۲؎ اس مقالے کو راقم الحروف نے اپنی تالیف سیر اقبال شناسی در افغانستان میں شائع کیا۔۳؎ ۱۹۵۵ء میں قاضی احمد میاں اختر جوناگڑہی نے اقبالیات کا تنقیدی جائزہ میں اس تبصرے کو آغا ہادی حسن سے منسوب کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: آغا ہادی حسن صاحب ، وزیر تجارت نے جو پہلے انگلستان میں افغانستان کے سفیر تھے امان افغان کابل میں پیام مشرق پر تبصرہ کے طور پر مضامین کا ایک سلسلہ تحریر کیا تھا جو کئی نمبروں میں چھپا۔۴؎ اس تبصرے کے حوالے سے جو ناگڑھی صاحب کے الفاظ کو ذرا ترمیم کے ساتھ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے یوں نوٹ کیا ہے: امان افغان کابل میں جناب آغا ہادی حسن صاحب وزیر تجارت جو پہلے افغانستان کی طرف سے سفیر تھے ایک سلسلہ مضامین پیام مشرق پر بطور تبصرہ لکھا تھا جو کئی نمبروں میںشائع ہوا۔۵؎ متعلقہ تبصرہ افغانستان میں اقبال شناسی کے حوالے سے ابتدائی تحریرات میں شمار ہوتا ہے جبکہ استاد محترم جناب ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم اپنے تحقیقی مقالے ’’افغانستان اور ایران میںاقبال پر مقالات اور کتب‘‘ میں اس اہم تحریر کے حوالے سے خاموش ہیں۔۶؎ آغا ہادی حسن کے نام سے فطری طور پر ذہن معروف و مشہور دانشور جناب پروفیسر آغا ہادی حسن کی جانب جاتا ہے،جو اقبال کے معاصر ، سفرِ افغانستان کے دوران ان کے ہمرکاب اور فارسی ادب کے معروف سکالر تھے۔’’آپ نواب محسن الملک کے بھتیجے اور مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں سائنس کے استاد تھے۔ سر راس مسعود کے ساتھ آپ بطور سیکریٹری افغانستان گئے تھے۔‘‘۷؎ پروفیسر ہادی حسن سے متعلق سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: پروفیسر ہادی حسن میرے پرانے دوست ہیں۔ ان سے بارہ برس کی ملاقات ہے نواب محسن الملک کے بھتیجے ہیں۔ پہلے سائنس میں ڈگری لینے کے لیے انگلستان گئے تھے پھر واپس آکر جامعہ ملیہ میں رہے وہاں سائنس کلاس کو ترقی دی۔ پھر مسلم یونی ورسٹی چلے گئے۔ فارسی ایک حیثیت سے ان کی مادری زبان ہے اور ایرانی فارسی ایرانی لب و لہجہ میں اچھی بولتے ہیں۔ اور ماشاء اللہ مردانہ حسن و صورت اور اعتدالِ قامت سے بھی سرفراز ہیں۔ فارسی میں اب جاکر پی ایچ ڈی کی ڈگری لندن سے حاصل کی ہے اور ایرانی جہاز رانی پر انگریزی میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔۸؎ ان بیانات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ افغانستان میں پیام مشرق کے اوّلین مبصر آغا ہادی حسن نہیں بلکہ افغانستان کے سابق سفیر اور وزیر تجارت عبدالہادی خان داوی تھے۔ عبدالہادی داوی علمی ، سیاسی پس منظر کے حامل فرد تھے۔ افغانسان میں ان کی خدمات بہت معروف ہیں۔ یہ ابہام اس وقت اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا جب حضرت علامہ کے صد سالہ جشن ولادت کی تقریبات کے سلسلے میں افغانستان میں مشہور افغان اقبال شناس جناب عبدالہادی داوی کی آثار اردوی اقبال زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔ عبدالہادی داوی اپنی تحریر کسی اور سے منسوب دیکھ کر قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کے’’اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘‘ میںعبدالہادی خاں کے بجائے آغا ہادی حسن لکھنا ان کا سہو قرار دیتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیں کہ یہ مقالہ آغا ہادی حسن کا لکھا ہوا نہیں بلکہ عبدالہادی خاں داوی کا ہے۔ لکھتے ہیں: بندہ از مدت ہا قبل با آثار دری علامہ علاقہ پیدا کرد، بودم چنانچہ در امان افغان نام جر مجلہ سابقہ مقالاتی عاید بہ علامہ اقبال و آثار او نوشتہ بودم ولی مجمل و مختصر چنانچہ مؤلف کتاب’’جائزہ تنقیدی اقبال‘‘ غفراللہ لہ کہ از طرف (اکادمی اقبال) بہ زبان اردو در سنہ ۱۹۶۵ء طبع شدہ است این مقالات مرا ذکر ولی نام مرا سھو نمودہ است۔۹؎ جناب عبدالہادی داوی متذکرہ بالا تحریر کے حاشیے میں لکھتے ہیں: در کتاب مذکور صفحہ ۳۵ نام مرا آغا ہادی حسن نوشتہ اند غالباً نوشتہ ی کہ بمولف مذکور رسیدہ، بحطہ شکستہ مغشوشی بودہ کہ کلمہ ’’عبد‘‘ را آغاو ’’خان‘‘ را حسن خواندہ است زیرا باین نام شخصی در محیط ما موجود نیست و نہ مقالہ درامان افغان نوشتہ است بلکہ ترکیب این نام در وطن ما مروج نیست۔ البتہ و ظائف رسمیدمرا صحیح در کتاب مذکور کردہ است کہ وزیر تجارت و قبل از آن سفیر افغانستان در لندن بودم ۔۱۰؎ عبدالہادی خان داوی کا بنیادی تعلق کندھار سے تھا۔ ان کے والد گرامی عبدالاحد خان کندھار کے مشہور اطباء میں سے تھے۔ امیر عبدالرحمان خان نے انھیں کابل بلا کر درباری اطباء میں شامل کر لیا تھا۔۱۱؎ عبدالہادی داوی کابل کے باغ علی مردان میں ۱۳۱۳ھ ق ؍۱۴ جمادی الاوّل بمطالق ۱۲۷۲ ھ ش؍ ۱۸۹۵ء پیدا ہوئے۔ ۱۲۷۹ ھ ش میں کابل کے حبیبیہ لیسہ میں داخل ہوئے۔ ۱۲۹۰ ھ ش میں یہاں سے سندِ فراغت لی۔ یہاں پر آپ مولوی عبدالرب اور مولوی محمد آصف کے حلقۂ تلامذہ میں رہے۔ جن کی خصوصی توجہ سے آپ کی سیاسی فکر کو تقویت ملی۔ علاوۂ ازیں یہاں پر فارسی کے اساتذہ ملک الشعراء قاری عبدالرشید اور عبدالغفور ندیم کی صحبت میں ادبی ذوق کو جلا نصیب ہوئی۔ مولوی محمد ظفر اور مولوی محمد حسین خان نے آپ کے سیاسی اور مجموعی ذوق کو پروان چڑھایا۔ انھی اساتذہ کی بدولت اردو زبان سے آشنائی ہوئی۔ ۱۲۹۰ ھ ش میں افغانستان میں صحافت کے بانی علامہ محمود طرزی کے بلانے پرسراج الاخبار افغانیہ‘‘ سے منسلک ہوئے۔ یہاں پر کابل میں شعبۂ حزب کے مدیر علی آفندی سے ترکی زبان سیکھی۔ عربی صرف و نحو تو طالب علمی میں پڑھی تھیں۔ لیکن شام اور مصر کی جدید عربی سے جناب محمود طرزی کے ذریعے سے شناسائی حاصل ہوئی جو عربی کے بہت بڑے ماہر اور افغان دانشور تھے۔۱۲؎ محمود طرزی شاہِ افغانستان امان اللہ شاہ غازی کے سسر تھے۔ ۱۲۹۶ ھ ش میں امیر حبیب اللہ خان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ داوی اس پاداش میں سات مہینے تک جیل میں رہے۔ آپ ابھی نظر بند ہی تھے کہ امیر حبیب اللہ خان ایک اور قاتلانہ حملے میں مارے گئے۔ جیل سے رہائی کے بعد سراج الاخبار افغانیہ جس کا نام اس وقت امان افغان رکھا گیا تھا، کے مدیر مسئول مقرر ہوئے۔ ۱۳۰۰ ھ ش میں افغانستان میں وزارت خارجہ کے ہندوستان اور یورپی شعبے کے مدیر مقرر ہوئے۔ اس دوران افغانستان کی مستقل آزادی اور خود مختاری کے لیے علامہ محمود طرزی کی قیادت میں ایک وفد برطانیہ بھیجا گیا۔ اس خصوصی وفد میں عبدالہادی داوی بھی شامل تھے۔ ۱۳۰۱ ھ ش میںافغان خارجہ امور میں متشاور دوم کی حیثیت سے تعیناتی عمل میں آئی ۔ ۱۳۰۲ھ ش حکومت افغانستان کی جانب سے بخارا میں سفیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۰ء کے اواخر تک بخارا میں رہے۔ افغان اور برطانوی حکومتوں کے مذاکرات کے نتیجے میں انگریزوں نے افغانستان کی آزاد حیثیت تسلیم کر لی تو ۱۳۰۲ھ ش میں عبدالہادی خان داوی افغانستان کے سب سے پہلے وزیر مختار کی حیثیت سے لندن میں تعینات ہوئے۔۱۳؎ ۱۳۰۵ ھ ش میں وہاں سے مستعفی ہونے کے بعد افغانستان کے وزیر تجارت کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران افغانستان میں بچہ سقہ کا انقلاب (۱۹۲۹ئ) برپا ہوا۔ عبدالہاد ی خان داوی کچھ عرصہ کے لیے جیل بھیج دیے گئے۔ رہائی کے بعد سقوی حکومت کے خلاف محاذ آرائی شروع کی۔ اس سلسلے میں قندہار، قلات اورشاہ جوئی کے سفر کیے لیکن نامساعد حالات سے مجبور ہو کر بمبئی چلے گئے۔ اقتصادی بحران کی وجہ سے کراچی آئے اور افغاں ملت کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ لاہور سے افغانستان کے نام سے ایک فارسی جریدے کا اجرا کیا۔ اسی نام سے مصر سے عربی جریدے کا بھی اجرا کیا۔ ۱۳۰۸ھ ش میں افغانستان میں نادر شاہ کی حکومت کی بحالی کے بعد دوبارہ آپ کو کابل بلایا گیا اور جرمنی میں وزیر مقرر کیے گئے۔ ایک سال وہاں رہنے کے بعد حج کی سعادت حاصل کر کے وطن واپس آئے۔ ۱۳۱۱ ھ ش میں افغانستان کی انجمن ادبی کے اعزازی رکن منتخب ہوئے۔ ۱۳۱۲ ھ ش میں حضرت علامہ اقبال اور ان کے علمی رفقاء سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی نے افغانستان کا علمی دورہ کیااور انجمن ادبی افغانستان کو ان زعماء کی میزبانی کا شرف حاصل رہا۔۱۴؎ اس سال اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ اور عبدالہادی داوی کو تیرہ سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔۱۵؎ ۲۵ قوس ۱۳۲۵ ھ ش جیل سے رہائی ملی۔ ۱۳۲۷ ھ ش المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ کے دربار سے منسلک ہوئے۔ ۱۳۲۸ ھ ش ’’دہ سبز‘‘ کے عوام کی جانب سے افغانستان کی ملی شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن منتخب ہوئے۔ ملی شوریٰ میں ’’نمائندگان شوریٰ‘‘ کی جانب سے ملی شوریٰ کے رئیس منتخب ہوئے۔ ۱۳۳۲ھ ش میں افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے مصر تشریف لے گئے۔ ۱۳۳۴ ھ ش میں افغان سفیر کی حیثیت سے انڈونیشیا تبادلہ ہوا۔ چار سال تک وہاں رہنے کے بعد خرابی صحت کی بنا پر وطن واپس آ ئے ۔۱۶؎ ۱۳۴۴ ھ ش میں کابل میں ’’مشران جرگہ‘‘کے ممبر اور بعد میں اس جرگہ کے رئیس منتخب ہوئے۔ چار سال تک یہی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران جسمانی معذوری لاحق ہوئی۔قوت سامعہ جواب دے گئی۔ تحریر اور اشاروں سے بات کرتے رہے۔ ۱۳۶۰ ھ ش میں ضعف اور معذوری کے باوجود ’’پلار وطنہ ملی جبہ‘‘ کانفرنس میں شرکت کی۔ ۲۷؍اسد ۱۳۶۱ھ ش ؍ ۱۴۰۲ھ ق ؍۱۹۸۲ء کو کابل میں وفات پائی اور اگلے روز پورے اعزاز و تکریم کے ساتھ کابل کے شہدائے صالحین میں سپرد خاک کیے گے۔۱۷؎ پشتو اور فارسی کے اس مقتدر اہل قلم نے سیکڑوں موضوعات پر مقالات تحریر کیے۔مقالہ نگاری کے علاوہ کئی مستقل آثار و تالیفات منصہ شہود پر آئیں۔ ۱- زما پاک رسولؐ (عبدالحمید قریشی کی اردو کتاب پیغمبر اسلام کا پشتو نثر میں ترجمہ) مطبوعہ لاہور ۱۳۳۸ ھ ش۔ ۲- تجارت مابا س ۔ س ۔ س ۔ر ۔ (فارسی) مطبوعہ انیس کابل ۱۹۲۲ء ۔ ۳- غیاصہ (منظوم پشتو) ۱۳۶۵ ھ ش ۔ ۴- گل خانہ یا مجموعۂ پریشان (منظوم) اس میں بعض متاخرین اور متقدمین شعراء کا کلام شامل ہے۔ ۵- نغمہ (منظوم)۔ ۶- رجال وطن (تذکرہ) افغانستان کے بعض مشاہیر ادباء و شعراء کا تذکرہ۔ ۷- لالی ریختہ (شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کی اردو کلام کا منظوم فارسی ترجمہ) ۔ ۸- آثار اردوی اقبال (افغانستان میں حضرت علامہ کے صد سالہ جشن ولادت کی تقریبات کے حوالے سے شائع شدہ ،کابل ۱۹۷۷ء (۲ جلد)۔۱۸؎ جناب عبدالہادی خان داوی کے متذکرہ سوانحی نوٹ اور منقولہ بالا حوالہ جس میں مؤرخین نے عبدالہادی داوی کو ہادی حسن نقل کیا ہے، کے علمی، ادبی و تاریخی انکشاف کے بعد اس حقیقت میں کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ یہ پیام مشرق پر تبصرہ جو امان افغان کابل میں شائع ہوا تھا عبدالہادی داوی کا تحریر کردہ ہے نہ کہ آغا ہادی حسن کا۔ ویسے بھی عبدالہادی خان داوی کو افغانستان میں پہلے اقبال شناس کا اعزاز حاصل ہے جنھوں نے حیات اقبال ہی میں نہ صرف علامہ کے فن و شخصیت پر لکھا بلکہ ان کے اردو کلام کا منظوم فارسی ترجمہ کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کی اقبالیاتی خدمات میں علامہ پر مستقل تصانیف بھی ہیں۔ - لالئی ریختہ (علامہ اقبال کے اردو کلام کا منظوم فارسی ترجمہ) غیر مطبوعہ۔ - آثار اردو اقبال (فارسی) ۲ جلدیں۔ مطبوعہ کابل۱۹۷۷ئ۔ عبدالہادی خان داوی نے حضرت علامہ کو فارسی میں منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا ہے۔ ’’خطاب بہ اقبال‘‘ صبا بگوئی بہ اقبال خوش بیان از من کلام تست کہ سرتا بہ پای آن اثر است صدای زندگی از سر زمیں مردہ خوش است کہ نالہ ہائی اسیران ز سوزش جگر است عجب نباشد اگر سرزدہ است از ظلمات کہ آب چشمۂ حیوان و کوکب سحر است جگونہ ظلمت آفاق را سخن ندارد کہ از سپیدہ مجزا ’’امید‘‘ منفجر است چرا خراب نسازد چگونہ در ندھد چو سیل تند و چوں صہبلی ناب شعلہ ور است چرا زمین دل آسیا نخندا اند کذاب دیدہ ابر بہار پاکتر است جز ور جامعہ را آب میدھد جودت ہم آن فروغ گرا نمایہ را سروثمر است شعار نظم تو تریاق سم استعمار نظام نثر تو اہسام ظلم را سپر است چو تیشہ تو زبان اشناسی کوہسار است بہ گوش کاھن مانیز گرم و پرشر است تو بہ تو بہ ایں ملتِ بلند خیال زروشنای قلب و ز پاکی گہر است خطابہ تو بہ عنوان ’’ای جواں عجم‘‘ بہشت گوش پریشان سرمۂ بصر است دل و دماغ منور کجاست تا داند چہ تپش گوی صادق چہ کشف معتبر است۱۹؎ خخخ حواشی وحوالہ جات 1- Khuram Ali Shafique, Iqbal an Illustrated Biography, Iqbal Acadmy Pakistan, 2005, P.206. ۲- صدیق رہپو (مرتب)، افغانستان و اقبال، وزارت اطلاعات و کلثور موسسئہ انتشارات بیہقی کابل ،۱۳۵۶ ھ ش؍۱۹۷۷ئ، ص ۱۔ ۳- ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی (مرتب)، سیر اقبال شناسی در افغانستان، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۲۰۰۴ء ص ۱۴۸-۱۶۶۔ ۴- قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی، اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی پاکستان، کراچی، ۱۹۵۵ئ، ص ۴۴۔ ۵- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب ، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص۱۸۳۔ ۶- ڈاکٹر سلیم اختر (مرتب) ، اقبال ممدوح عالم، بزم اقبال ، لاہور،۱۹۷۷ئ، ص ۲۸۴-۳۰۵۔ ۷- اقبال ریویو، اقبال اکادمی پاکستان،جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۳۹۔ ۸- سید سلیمان ندوی، سیر افغانستان، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، س۔ن ، ص ۷۔ ۹- عبدالہادی داوی، آثار اردوی اقبال، جلد اوّل، وزارت اطلاعات و کلثور مؤسسہ انتشارات بیہقی کابل ۱۳۵۶ ھ ش ، ص۸۔ ۱۰- ایضاً ، ص ۸۔ ۱۱- زرین انزور، دا افغانستان و ژور نالیزم مخکشان، مطبع دولتی کابل ۱۳۶۵ ھ ش ؍۱۹۸۷ء ، ص ۶۶۔ ۱۲- عبدالرئوف بینوا، اوسنی لیکوال، جلد اوّل، مطبع دولتی کابل، ۱۳۴۰ھ ش ، ص ۳۶۸-۳۸۳۔ ۱۳- افغانستان کالنی، مطبع دولتی کابل، ۱۳۵۰ ھ ش ، ص ۲۲۰۔ ۱۴- سیر افغانستان، ص ۸۔ ۱۵- اوسنی لیکوال ، جلد اوّل، ص ۳۷۳۔ ۱۶- ایضاً ، ص ۳۷۳۔ ۱۷- عبداللہ بختانی خدمت گار، پشتا نہ شعرائ، جلد ۵ ، اکادمی علوم افغانستان کابل، ۱۹۸۸ء ، ص ۳۲۲۔ ۱۸- ایضاً ، ص ۳۲۷-۳۲۸۔ ۱۹- د افغانستان کالنی، شمارہ، مسلسل، ۴۵-۴۶،۱۳۵۹ ھ ش، مطبوعہ کابل، ص ۱۰۰۸۔ خخخ اقبال اجداد کے دیس میں ڈاکٹر ظفر حسین ظفر ۱ اسلامی تہذیب و تمدن کے قدیم مراکز کو اقبال اپنا ورثہ تصور کر تے تھے۔ بغداد ، ہسپانیہ ، قرطبہ، فلسطین،دلی اور حجاز مقدس کے تذکرے کلام اقبال میں موجود ہیں۔ عالم اسلام کے دیگر تہذیبی مراکز اقبال کے نطق و کلام کا جزو ہیں تو کشمیر کی حیثیت دو گونہ ہے کہ آپ نسلاً کشمیری تھے۔ کشمیر ہزاروں سال سے اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز رہا ہے۔ اسے اہل نظر نے’’ ایران صغیر‘‘ سے تعبیر کیا۔غنی کشمیری، شاہ ہمدان، انور شاہ کاشمیری اور اپنے جدا علیٰ بابا لول حج( جو سلسلہ ریشیاں سے وابستہ تھے) سے اقبال کی روحانی وابستگی تھی۔ آپ کے اجداد نے چودھویں یا پندرھویں صدی میں کشمیر سے ہجرت کی اور سیالکوٹ آکر آباد ہو گئے۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کشمیر سے ان کی والہانہ محبت ان سے نہایت جذباتی اشعارکی تخلیق کا باعث بنتی نظر آتی ہے گویا وہ ابھی تک اپنے کالبدِ خاکی کو کشمیر ہی کی گلزار آفریں خاک کا پتلا سمجھتے تھے۔ ۱؎ تنم گلے ز خیابان جنت کشمیر دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است۲؎ میرا جسم تو کشمیر جنتِ نظیر کی کیاری/کے باغ کا ایک پھول ہے جب کہ میرا دل حجاز کا گھر اور میری نوا شیراز سے ہے۔ ۳؎ اقبال وطنیت کے مغربی تصور کے سخت خلاف تھے ۔ اس کے پیرہن کو مذہب کا کفن سمجھتے تھے۔’’لیکن وہ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو کشمیر ہی کے کنعان کا گم گشتہ یوسف سمجھا تھا‘‘ ۴؎ کشمیریوں کی داستانِ الم بھی بہت قدیم ہے۔ فطری حسن سے مالامال یہ سرزمین ہمیشہ بیرونی جارحوں، غاصبوں اور لٹیروں کی زد میں رہی ہے۔ اس قوم کا حال و مستقبل ہمیشہ غیر یقینی کیفیات سے دوچار رہا ہے۔ اس کو تقدیر کا لکھا سمجھیں یا خود فراموشی …؟کشمیر کی پوری تاریخ کشمکش اور جدوجہد سے عبارت ہے۔ بیرونی حملہ آوروں نے آتش و آہن کے ذریعے یہاں کے مکینوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔ اہل کشمیر نے دل سے کبھی بیرونی جارحیت اور غلامی کو قبول نہ کیا۔ تاریخ کشمیر کے ہر دور میں حریت فکر کا چراغ روشن رہا اگرچہ اس کی روشنی مدہم رہی اور اندھیر نگری کا دور طویل ہوتا رہا۔اقبال اگر نسلاً کشمیری نہ بھی ہوتے، پھر بھی حرّیت ِفکر اور خودی کے ترجمان کی حیثیت میں وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ اور درد کو ضرورمحسوس کرتے۔ یہ تو کشمیریوں کا بخت ہے کہ اس خاک سے اقبال کا خمیر اٹھا، جو عہد حاضر میں ’’جہانِ شعرو ادب کا پیغمبر‘‘ ٹھہرا۔۵۱؎ اقبال اور کشمیر ایک جذباتی اور روحانی موضوع ہے۔ اقبال کو کشمیر سے اور کشمیر کو اقبال سے علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں مولوی میر حسن کا فیضانِ نظر، گورنمنٹ کالج لاہور میں آرنلڈ کی صحبت ، کیمبرج اور ہائیڈل برگ کی رومان پرور فضاؤں کا عمل دخل ضرور ہے ’’لیکن ان کی شخصیت کی مجموعی تشکیل و تعمیر میں ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ ان کے آباء و اجداد کے گونا گوں اثرات کا بھی دخل ہے، جن کا خون اقبال کی رگوں میں گردش کر رہا تھا‘‘ ۶؎ میں اصل کا خاص سومناتی آبا مرے لاتی و مناتی تو سید ہاشمی کی اولاد میری کفِ خاک برہمن زاد۷؎ اقبال کے جد اعلیٰبابا لول حج برہمنوں کی ایک گوت’’ سپرو‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ سپرو کی تفصیل اقبال نے محمد دین فوق کو ۱۶؍ جنوری ۱۹۳۴ء کے ایک خط میں لکھی: جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمہ کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف بوجہ قدامت پرستی یا کسی اور وجوہ کے توجہ نہ کرتے تھے۔ اس قوم میں سے پہلے جس گروہ نے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کر کے حکومتِ اسلامیہ کا اعتماد حاصل کیا وہ ’’سپرو‘‘ کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے۔ ۸؎ ’’سپرو ‘‘ ایک صفاتی نام ہے جس کی خاندانِ اقبال کے ساتھ خاص نسبت قائم ہو گئی۔ پروفیسر چمن لعل سپرو، ’’سپرو‘‘ کو ایک خاندانی Nickname تسلیم کرتے ہیں: سپرو، سہ+پرو سے بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے تین زبانوں کا جان کار۔ مسلم دورِ حکومت میںہمارے خاندان کو اس بات کا شرف حاصل رہا ہے کہ ہم سنسکرت کے ساتھ عربی اور فارسی کے بھی عالم تھے اور یہ سلسلہ میرے دادا نارائن جُو سپرو تک قائم رہا۔ جس طرح دو، تین اور چار ویدوں کے عالم کو دوویدی ، ترویدی اور چترویدی کہتے ہیں اسی طرح تین زبانوں کے عالم کو سہ پروکہا گیا، جو بعد میںسپرو مشہور ہو گیا۔ ۹؎ محققین نے’’ بابا لول حج کو سپرو خاندان کا پہلا نو مسلم قرار دیا ہے۔‘‘ ۱۰؎ لول، لالہ یا لال کشمیری میں پیارو محبت کی علامات ہیں۔ آج بھی یہ لفظ انھی معنوں میں مستعمل ہے۔ محمد دین فوق، اقبال کے قریبی احباب میں سے تھے۔ فوق کے نام اقبال کے۲۵ خطوط ہیں۔ فوق لکھتے ہیں: سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے زمانے (تخت نشینی ۸۲۶ھ وفات ۸۷۴ھ) میں حضرت شیخ العالم شیخ نور الدین ولی کے ارادت مندوں میں حضرت بابا نصرالدین ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں…بابا نصرالدین کے مریدوں میں بابا لولی حاجی ایک بزرگ تھے جنھوں نے کئی حج کیے تھے اور بارہ سال تک کشمیر سے باہر سیروسیاحت ہی میں رہے تھے۔ ۱۱؎ اقبال کے جدّ اعلیٰ کب مسلمان ہوئے؟ اس پر مختلف آراء ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحقیق کے مطابق:’’اقبال کے جدّ اعلیٰ پندرھویں صدی عیسوی میں مسلمان ہوئے۔‘‘۱۲؎ اقبال کے اجداد کی کشمیر سے پنجاب میںہجرت کی کوئی متعین سامنے تاریخ نہیں آئی۔’’قرائن یہ ہیں کہ اٹھارھویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یہ ہجرت ہوئی ہوگی۔‘‘۱۳؎ بہرحال اٹھارھویں صدی ختم ہو رہی تھی یا انیسویں شروع ۔ شیخ محمد اکبر کے پوتے یا پڑپوتے شیخ جلال الدین تھے ان کے چاروں بیٹے انھیں لے کر پہاڑوں سے نیچے اتر آئے۔ عبدالرحمٰن ، محمد رمضان اور محمد رفیق سیالکوٹ میں آباد ہوئے۔ جب کہ سب سے چھوٹے عبداللہ نے موضع سیالکوٹ کے ضلع جھٹیکے میں سکونت اختیار کی۔۱۴؎ کشمیر پر رنجیت سنگھ نے ۱۸۲۹ء میں قبضہ کیا جو ۱۸۴۶ء تک جاری رہا۔ یہ افراتفری، انارکی، جورو جبر اور ظلم کا عہد تھا۔ امکان ہے کہ مہاجرت اختیار کرنے والے سپرو خاندان کے یہ افراد سکھا شاہی کے ظلم سے تنگ آئے ہوں گے۔اس بات پر اتفاق ہے کہ وادی گل رنگ سے مہاجر ہونے والا یہ قافلہ پہلے پہل براستہ جموں سیالکوٹ میں داخل ہوا اور یہیں سکونت پذیر ہو گیا:’’اسی شہر کی خوابیدہ اور خاموش گلیوں میں اقبال کا بچپن گزرا۔‘‘۱۵؎ ۲ اقبال نے کشمیر کے مرغزاروں اور پہاڑوں کے بجائے پنجاب کے میدانوں میں آنکھ کھولی۔ پنجاب کے آب و گل سے اقبال کو ایک نئے سانچے میں ڈھل جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا… کشتِ کشمیر کی خاک اقبال کی رگوں میں خون بن کر گردش کرنے لگی۔ ان کا جسم پنجاب کے میدانوں میں سرگرم عمل رہا جب کہ روح ان پہاڑوں میں محوِ ترنم رہی، جہاں سے ان کے اجداد اترے تھے۔ یہ مٹی کی محبت تھی یا بابا لول حج کی روحانی کشش… اقبال کشمیر اور اہل کشمیر کی یاد سے کبھی غافل نہ رہے۔ کشمیر جنت نظیر سے اقبال کے وجودِ معنوی کو کچھ ایسا گہرا ربط ہے کہ اگر ہم اقبال کی شخصیت اور شاعری کو علامتی صورت میں دیکھنا چاہیں تو تخیل میں وادی کشمیر کے جلیل وجمیل نقوش ابھر آتے ہیں ۔ اس کے برف پوش ، پُر جلال کہسار، اقبال کے فکر روشن کی تاب ناک رفعتوں کے عکاس ہیں اور اس کی گل بہ داماں وپُر بہار وادیاں ،کلام اقبال کی شعری اور فنی رنگینیوں کی آئینہ دار۔ اقبال کی مفکرانہ شخصیت ہمیں ان مہاتماؤں کی یاد دلاتی ہے ، جو ہمالیہ کے دامن میں دھونی رمائے ، آسن جمائے،چپ چاپ گیان دھیان میں محو رہتے تھے اور اس کی شاعرانہ فطرت کو وادی کے باسیوں کے ذوق جمال، حسن آفرینی و ہنر مندی سے ایک نسبت خاص ہے… اور کیوں نہ ہو کہ اقبال خود بھی اسی گلشن کا گل سرسبد ہے۔۱۶؎ اقبال ستمبر ۱۸۹۵ء میں سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہو ئے۔ لاہور میں قیام کے دوران باقی مشاغل کے ساتھ اقبال ’’مجلس کشمیری مسلمانانِ لاہور‘‘ (قیام ۱۸۹۶ئ) کے اجلاسوں میں اپنے دوست محمد دین فوق کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ اس مجلس کے قیام کے موقع پر اقبال نے اپنی طویل نظم ’’فلاحِ قوم‘‘ پڑھی، جو بعد میں رسالہ مجلس کشمیری مسلمانانِ لاہور میں شائع ہوئی۔اقبال اس انجمن کے سیکریٹری بھی بنے اور کشمیری مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے کاموں میں گہری دل چسپی لیتے رہے۔ اقبال قیام لاہور کے دوران ہی سیاحت کشمیر کی خواہش رکھتے تھے۔ فکر معاش ، ازدواجی الجھنیں اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ روانگی (۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ئ) جیسے کئی مسائل آڑے آتے رہے۔ چنانچہ یہ خواہش،خواہش ہی رہی۔ اپنی اس دیرینہ آرزو کا تذکرہ متونِ اقبال میں کئی مقامات پر ملتا ہے۔ ۲۱ مئی ۱۹۱۵ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں: لاہور کی گرمی سے سخت گھبرا رہا ہوں۔ جون کے مہینے میں اگر فرصت کے دو ہفتے مل گئے تو کشمیر چلا جاؤں گا۔ آج کل وہاں کا موسم نہایت دل فریب ہے… معلوم نہیں آپ نے کبھی کشمیر کی سیر کی یا نہیں۔۱۷؎ جون ۱۹۱۵ء ، جولائی ۱۹۱۵ء کے خطوط بھی مہاراجہ کے نام ہیں اور ان میں یہی آرزو مچلتی ہے:’’گرمی کے موسم میں کشمیر کی سیر ہو اور آپ کے ہم رکاب تو اس سے بڑھ کر اور کیا مسرت ہو سکتی ہے؟ خدا نے چاہا تویہ موقع بھی آجائے گا۔‘‘۱۸؎ ۱۱؍ستمبر ۱۹۱۶ء محمد نیاز الدین خان اور ۲۸؍ جون ۱۹۱۷ء مولانا گرامی کے نام لکھے گئے خطوط میں بھی ارادے بنتے اور پھر ٹوٹ جاتے ہیں لیکن عزم کی چنگاری ہے کہ سرد نہیں ہوتی۔ ع کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو۱۹؎ مولانا گرامی کو لکھتے ہیں:’’کشمیر کی سیر کا آپ کی معیت میں لطف ہے۔ غنی کشمیری کی روح خوش ہو گی کہ گرامی جالندھری اس کے مزار پر آئے ہیں۔‘‘۲۰؎ محمد الدین فوق کا رسالہ رہنمائے کشمیر نظر سے گزرا تو ۸؍ جون ۱۹۱۷ء کو فوق کے نام لکھتے ہیں:’’افسوس کہ میں نے آج تک کشمیر کی سیر نہیں کی لیکن امسال ممکن ہے کہ آپ کا رسالہ مجھے بھی ادھر کھینچے۔‘‘۲۱؎ اقبال سیاحت کشمیر کاجب بھی ارادہ باندھتے وہ تشنہ تکمیل رہتا۔ہر بار کیفیت یہ ہوتی ہوگی: ع جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے۲۲؎ شاید اقبال اپنے دل کو ڈھارس دیتے ہوں گے: نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی۲۳؎ بالآخر اس نالۂ خام کو کاتب تقدیر نے شرف باریابی بخشا اور جون ۱۹۲۱ء میں اقبال لاہور سے راولپنڈی روانہ ہوئے۔ براستہ مری، کوہالہ مظفرآباد سے ہوتے ہوئے سری نگر پہنچے۔راولپنڈی اور سری نگر کے درمیان ۲۰۰ میل لمبی سڑک پرتاب سنگھ (۱۹۲۵ئ-۱۸۸۵ئ) کے دور میں شروع ہوئی۔ کوہالہ سے راولپنڈی تک ۶۴ میل کا علاقہ پاکستان کی حدود میں ہے۔ جب کہ کوہالہ سے سری نگر ۱۳۳ میل کے لگ بھگ ہے۔ آج یہ پوری سڑک (راولپنڈی تا سری نگر) دو رویہ ہے۔ گاڑیاں برق رفتار ہیں۔ جب کہ جون ۱۹۲۱ء میں کیفیت اس کے برعکس تھی۔ ’’اس زمانے میں ٹھوس ٹائروں والی گاڑی چلتی تھی جو آرام دہ نہیں تھی‘‘۔۲۴؎ تب راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان’’تانگہ کمپنی‘‘ بھی چلتی تھی۔ اس کے علاوہ ’’ایمپیریل کیرنگ کمپنی‘‘ اور این دی ہری رام اینڈ برادرز جیسی کمپنیوں کے پاس لاری اڈوں کے ٹھیکے تھے۔ ۱۹۴۷ء کے زمانے میں راولپنڈی سے سری نگر نندہ بس اور الائیڈ چراغ دین اور آر ایس ٹی چلتی تھی۔۲۵؎ اقبال نے یہ طویل اور تھکا دینے والا سفر کتنے دنوں میں مکمل کیا۔ راستے میں کہاں کہاں پڑاؤ ڈالا ؟ اس حوالے سے کوئی شواہد موجود نہیںہیں۔ البتہ قیاس ہے کہ اقبال سری نگر اور کوہالہ کے درمیان کسی مقام پر ضرور رکے ہوں گے۔ اس شاعر فطرت شناس کی نگاہیں قدرتی حسن سے مالا مال اس گزرگاہ پر کئی بار اٹکی ہوں گی: فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور۲۶؎ ملکۂ کوہسار مری کے دلفریب مناظر ، کوہالہ سے مظفرآباد تک کنارِ جہلم سفر اوراس جوئے آب کااچھلنا، سنبھلنا، سرکنا ، لچکنا،بل کھانا یقیناً اقبال کے لیے خوشی اور فرحت کا باعث ہوا ہو گا۔جون کے مہینے میں یہ آب جو اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ پہاڑوں کے دل چیر تی ہے۔ کناروں سے سرمارتی ہے اور اپنی منزل کی جانب سبک رفتاری سے رواں دواں ہوتی ہے۔ شاید اقبال کو اس سفر میں ہائیڈل برگ اور دریائے نیکر کی رومان پرور یادیں بھی عود کر آئی ہوں۔ یہ سب قیاسات ہیں لیکن اس سڑک پر جس نے بھی سفر کیا اس کی طبیعت فطرت سے ہم آغوش ضرور ہوئی ۔ اقبال اپنے فرزند جاوید اقبال سے کہتے ہیں کہ خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر۲۷؎ اس کی روشنی میں کیایہ قیاس حقیقت کے قریب نہیں ہے کہ اس دل فریب سفر کے دوران لالہ وگل کا سکوت ٹوٹا ہوگا اور اقبال ان سے ہم کلام ہوئے ہوں گے ۔ پھر بارہ مولہ سے سری نگر تک ۳۴ میل کا بالکل ہموار کشادہ اور دو رویہ سایہ دار دیوہیکل چناروں سے ڈھکا ہوا سفر کس قدر رومان انگیز ہوا ہو گا؟مسٹر نائٹ برطانوی فوجی افسر تھا اُس نے ۱۸۸۱ء میں کشمیر کا دورہ کیا وہ ڈیڑھ مہینا کشمیر میں مقیم رہا۔ بھمبر کے راستے داخل ہوا اور مظفرآباد کے راستے واپس آیا ۔اُس نے اس (بارہ مولہ تا سری نگر) ۳۴ کلومیٹر سڑک کے ٹکڑے کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ دنیا کی خوبصورت ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔‘‘۲۸؎ اقبال نے یہ سفرِ شوق نندہ بس سروس یا کسی دوسری ٹرانسپورٹ سروس کے ذریعے کیا ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ سیٹھ محمد بخش نے اقبال کے لیے الگ سواری کا انتظام کیا ہو ۔ بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اقبال کے سفر کے حوالے سے یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کے سفر کے لیے سیٹھ صاحبان نے پرائیویٹ سواری کا انتظام کیا ہو؟ راستے میں مسافروں کے قیام و طعام کا انتظام اس شاہراہ پر اس دور میں موجودہوتا تھا۔ اقبال اس طویل سفرکے دوران لازماً ضرورت کے مطابق رکے ہوں گے لیکن تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ کشمیر سے خاص نسبت کے باعث اقبال کے اس سفر میں جوش و ولولہ، حسرتِ دید اور والہانہ پن فطری تھا۔ یقینا وہ منزل پر پہنچنے کے لیے بے تاب ہوئے ہوں گے۔’’ساقی نامہ‘‘ بالِ جبریل کے یہ اشعارآپ کے قلب و روح کی کیفیت کے عکاس ہیں: مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا مری خاک جگنو بنا کر اڑا جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینوں میں بیدار کر۲۹؎ اقبال نے یہ سفر ۴۴ سال کی عمر میں کیا۔ سفر کا سبب ایک مقدمہ بنا۔ مولوی احمد دین وکیل اور منشی شیخ طاہر دین آپ کے ہم رکاب تھے۔ آپ نے دو ہفتے کشمیر میں قیام کیا ۔ اس حوالے سے بھی متضاد بیانات ہیں۔ صحیح تاریخ کا تعین بھی نہیں ہے۔۱۹۲۱ء ریاست شخصی حکومت کی مطلق العنانیت کا شکار تھی۔۱۸۴۶ء کے بیع نامۂ امرتسر کے بعد کشمیر اپنے مکینوں سمیت ایک شخص کی ذاتی جاگیر تھی۔ بے پناہ قدرتی حسن اور وسائل سے مالامال اس خطہ جنت نظیر کو گلاب سنگھ کی ذرّیت اپنی ذاتی ملکیت اور اس کے ذہین و فطین فرزندوں کو اپنامزارع اور زرخرید غلام تصور کرتی تھی۔ اقبال تاریخ کشمیر کے نشیب و فراز سے واقف تھے۔ کشمیریوں کے حال و مستقبل کے بارے میں اقبال کی پریشانی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ پل پل کی خبر نہ سہی(یہ ان کے لیے ممکن بھی نہ تھا) لیکن عمومی معاملات اور مسائل اقبال کی نگاہ میں تھے۔ سیاحت کشمیر سے اس شاعر فطرت نے ضرور حظ اٹھایا ہوگا لیکن سینہ چاکانِ چمن کی حالت زار سے وہ بہت بیزار اور مضطرب ہوئے۔ آپ کے قلب و ذہن پر اہل کشمیر کی مجبوری اور مقہوری اور ان کے طرز عمل نے بہت اثرات ڈالے۔ گلِ لالہ کی سرخی سے اقبال نے اپنے دل کو تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا: حاجت نہیں اے خطۂ گل شرح و بیاں کی تصویر ہمارے دلِ پُرخوں کی ہے لالہ۳۰؎ حضرت اقبال کشمیر پہنچے تو ان کی مصروفیت کے کئی دائرے اور ابعاد تھے۔ پیشہ ورانہ طور پر انھیں سیٹھ شیخ محمد بخش اور سیٹھ کریم بخش کے مقدمے کی پیروی کرنا تھی۔ مقدمہ اے ڈی حکیم سیشن جج کی عدالت میں تھا۔ مقدمے کا فیصلہ اقبال کی واپسی لاہور کے بعد ہوا۔ فیصلہ حسبِ منشا نہ ہوا جس کا اقبال کو قلق رہا۔ اس دوران اقبال کو قتل کا ایک اور مقدمہ ملا۔ رحمن راہ ایک کشمیری مقدمۂ قتل میں گرفتار تھا۔ آپ نے پیروی کی تو مقدمے کی سزا عمر قید میں بدل گئی۔ ۲۰؍ اپریل ۱۹۲۲ء کو منشی سراج الدین کے نام لکھا: افسوس کہ رحمان راہ کامل طور پر نہ بچا گو پھانسی سے بچ گیا۔ اگر رحمان راہ کے وارثوں کا ارادہ اپیل کرنے کا مصمم ہو تو میں بغیر کسی مزید فیس کے ان کی اپیل لکھ دوں گا۔ آپ یہ امر ان کے گوش گزار کر دیں۔۳۱؎ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال نے ہر دومقدمات کے لیے مناسب فیس وصول کی تھی۔اقبال محض قانونی موشگافیوں میں الجھے ہوئے وکیل نہ تھے بلکہ ایک ’’پُر سوز نغمہ خواں‘‘ شاعر فطرت تھے۔ قانونی امور سے فراغت کے بعد اقبال سربہ فلک برف پوش چوٹیوں، بکھری بکھری شاداب جھاڑیوں،ڈل کے حسین اور شوخ جھرنوں ، ڈل کے پانی پر تیرتے ہوئے ان گنت شکاروں کی دوڑ دھوپ اور نشاط باغ کے سایہ دار چناروں کی رعنائیوں سے لطف اٹھاتے رہے۔ ۳ اقبال کے دل فطرت شناس نے نشاط باغ۳۲؎ اور شالامار باغ۳۳؎ کے خاموش سبزہ زاروں کو ساقی نامہ پیام مشرق اور ارمغانِ حجاز کی نظموں میں نطق وکلام عطا کیا ہے۔ دنیائے رنگ و بو کی یہ بے مثال وادیِ کشمیر اقبال کے اجداد کی سر زمین تھی۔قدرت نے اقبال کو صرف ایک ہی بار اس کے نظر کش نظاروں کو اپنے قلب و روح میں اتارنے کا موقع فراہم کیا وگرنہ اپنی عمر کے آخری حصے تک اقبال نیرنگی فطرت کی اس تفسیر کو دیکھنے کی خواہش رکھے ہوئے تھے۔صاحبزادہ محمد عمرکشمیری۳۴؎ کے مطابق: ان ناقابل فراموش ایام (اقبال کے قیام سری نگر) میں ایک دن جناب مولوی احمد الدین مرحوم وکیل لاہور، منشی نور الٰہی مرحوم(میرے ازلی شریک کار) اور اس خاکسار نے بڑی جدوجہد کے بعد حضرت والا کو جھیل ڈل کی سیر پر مجبور کیا۔ جنھیں آنحضرت کا شرف قرب حاصل ہے ان پر مخفی نہیں کہ آپ کو کسی جگہ تشریف ارزانی فرمانے پر آمادہ کرنا کس قدر مشکل مہم تھی۔ موٹر کے ذریعے نشاط باغ جا کر ڈل کی بہار دیکھنا آپ نے مصنوعی( خلاف فطرت) قرار دیا اورہم تینوں آنحضرت کے ساتھ شکارے(ایک ہلکی سی کشتی) میں بیٹھ کر ڈل کی طرف روانہ ہوئے۔ شالامار، نسیم اور نشاط باغ کو پسند کیا اور ’’زہد شکن‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ کیا جامع تعریف ہے۔ واپس ہوئے تو دونوں وقت مل رہے تھے۔ آفتاب آخر منزل پر پہنچ رہا تھا، شفق پھول رہی تھی اور یہ منظرسالم کا سالم ڈل کے شفاف پانی میں تیر رہا تھا۔ تھوڑی دیر تک صحیفۂ قدرت کے اس سنہری ورق کا خاموشی سے مطالعہ کرنے کے بعد خلاق معانی بحرِ فکر میں غوطہ زن ہوئے اور وہ در شہوار نکال لائے۔ جناب (اقبال) کا ارادہ انھیں ایک نظم میں منسلک کرنے کا تھا مگر طبیعت کا رجحان کسی اور طرف ہو گیا اور یہ دو اشعار میرے پاس پڑے رہے جو امانت آج میںآج کل[ماہنامہ دہلی سے شائع ہوتا تھا] کے حوالے کرتا ہوں۔۳۵؎ تماشائے ڈل کُن کے ہنگامِ شام دہد شعلہ را آشیاں زیرِ آب بشوید ز تن تا غبارِ سفر زند غوطہ در آبِ ڈل آفتاب (شام کے وقت ڈل کا تماشا تو کیجئے ( کیوں کہ اس وقت) ڈل شعلہ کو پانی کی تہہ میں آشیاں دیتا ہے۔ بدن سے سفر کی گرد دھو ڈالنے کی غرض سے سورج جھیل ڈل میں غوطہ زن ہوتا ہے۔) ڈل کی سیر کے دوران ہی ان کے پاس بعض کشمیری بچے ایک شکارے میں ’’ترانہ ہندی‘‘ گاتے جا رہے تھے۔ اس غیر متوقع چیز کو دیکھ کر اقبال بے حد خوش ہوئے۔‘‘۳۶؎ جھیل ڈل۳۷؎ نشاط باغ کے قدموں میں ہے۔ دونوں کے درمیان بس ایک سڑک حائل ہے۔ نشاط اور شالیمار باغ جھیل کے مشرق میں بالکل اس کے سر پر ہیں۔ لگتا ہے اس کی تاج پوشی پر مقرر ہیں جب کہ نسیم باغ مغرب میں (قدموں میں) قدم بوسی پر مامور ہے۔نشاط یا شالیمار کی بارہ دری سے غروب آفتاب کے وقت جھیل ڈل کا نظارہ ایسا ہے ’’جیسے ایک دلہن حیا سے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ آئینے پر ایک آخری نظر ڈال کر، شب وصل کے لیے جا رہی ہو۔ ‘‘۳۸؎ اقبال بھی لطیف ہواؤں کے ملائم جھونکوں کے درمیان موسم بہار(جون) کے جوبن پر نشاط باغ کی بارہ دری سے حیرت انگیز رنگینیوں سے ہم کلام ہوئے اور اپنے جذبوں کو ’’ساقی نامہ‘‘ کی صورت نظم کر دیا۔پھولوں ، دریاؤں اور جھیلوں کی اس سرزمین کے بے پناہ حسن کو حضرت اقبال سمیت ان گنت شعراء اور ادیبوں نے لفظوں کا تقدس عطا کیا جب کہ مغلوں نے فن تعمیر کے بے مثال نقش اس خاک پر چھوڑے ہیں۔ شاعر نے درست ہی کہا ہے کہ: اک سبق دیتی ہیں تعمیریں پرانی ہی سہی نقش باقی ہے، ہمارا نفس فانی ہی سہی۳۹؎ اقبال محض شاعر نہ تھے ۔وہ بیسویں صدی کی عالمی اسلامی احیائی تحریک کے پر جوش داعی بھی تھے۔ خطہ کشمیر کے قدرتی مناظر سے وہ متاثر ضرور ہوئے لیکن ڈوگروں کی شخصی حکومت کے استبداد اور کشمیریوں کی خوئے غلامی نے بھی اقبال کو بہت بے چین رکھا۔ کشمیر میں قیام کے دوران اور اس کے بعد آپ نے کشمیر سے متعلق جو کچھ لکھا اس میں اپنے بنیادی مقصد سے انحراف نہ کیا۔ اقبال کی شاعری ملت کے لیے ایک نئے دور نشاط انگیز کی نوید تھی۔ عرفانِ خودی، یاد ایام سلف، جہانگیری و جہانبانی کے ساتھ ساتھ اقبال شخصی اور قومی آزادی کے علمبردار تھے۔ محکومی اور غلامی کی ہر ادا اور انداز سے اقبال کو نفرت تھی۔ استعماری ، سامراجی اور چنگیزی طرز حکومت کے خلاف تو آپ تھے ہی، اس نظام پر راضی رہنے والے یا اس کے خلاف بغاوت نہ کرنے والوں کو بھی اقبال کوستے ہیں۔ اقبال کا مردِ مومن :ع ’’دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں‘‘کی مانند ہوتا ہے۔ ایسے مردان حُر اقبال کو کشمیر میں نظر نہ آئے۔ اقبال کی خواہش ہو گی کہ کشمیری نوجوانوں میں بیداری اور خودی کا جذبہ پروان چڑھے تاکہ وہ شخصی استبداد کے خلاف صف بستہ ہوں اور دریائے جہلم کی شوریدہ سر لہریں ان کے وجود سے لرز جائیں۔ حریت فکر اور جدت فکر کا یہ نمائندہ شاعر جب کشمیریوں کی حالت زار دیکھتا ہے جن میں جوش عمل کا فقدان ہے تو تڑپ اٹھتا ہے۔’’ساقی نامہ‘‘ میں اقبال نے اہل کشمیر کی مفلوک الحالی ، استحصال، توہم پرستی، تنگ نظری اور جہالت کا مکمل نقشہ کھینچاہے‘‘۔۴۰؎ پہلے دس اشعار میں کشمیر کے حسین قدرتی مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے: تو گوئی کہ یزداں بہشت بریں را نہاد است در دامن کوہسارے کہ تا رحمتش آدمی زادگاں را رہا سازد از محنتِ انتظارے۴۱؎ (یہ قدرتی مناظر دیکھ کر)یوں لگتا ہے جیسے خدا تعالیٰ نے بہشت بریں کو نیچے لا کر پہاڑ کے دامن میں رکھ دیا ہے (یہ مناظر بے حد دل کش اور روح افزا ہیں) تاکہ اس ذات اقدس کی رحمت انسانوں کو انتظار کی محنت/اذیت سے نجات دلادے۔ یعنی اصل بہشت تو قیامت کے بعد ہی ملے گی لیکن خدا کی رحمت نے انسان کے لیے اسے زمین پر رکھ دیا ہے تاکہ وہ (انسان) یہیں اس میں گھومے پھرے اور زندگی کا لطف اٹھائے)۔۴۲؎ اقبال سے تین سو سال پہلے مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی اس جنت نشاں کو دیکھ کر بے ساختہ کہا تھا : گر فردوس بر روئے زمیں است ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است (اگر زمین پر کوئی بہشت ہے تو وہ یہی ہے، وہ یہی ہے ، وہ یہی ہے) ’’ساقی نامہ ‘‘ کے آخری دس اشعار میں علامہ نے کشمیریوں کی غلامی اور ان کی معاشی صورت حال پر دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اقبال ساقی( اللہ تعالیٰ) کے حضور ملتجی ہیں کہ کشمیریوں کی حالت زار بدل دے اور ان میں احساسِ زیاں، خودی اور آزادی کی تڑپ پیدا کر دے۔ بریشم قبا خواجہ از محنتِ او نصیب تنش جامۂ تار تارے نہ در دیدۂ او فروغ نگاہے نہ در سینہ او دل بے قرارے ارزاں مے فشاں قطرۂ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے۴۳؎ (اس کی محنت کی بدولت اس کے آقاؤں کا لباس تو ریشم کا یعنی بہت قیمتی ہے جب کہ اس کے اپنے جسم کے مقدر میں پھٹا پرانا لباس ہے۔ اسے محنت مزدوری کا معمولی صلہ ملتا ہے جب کہ کارخانوں وغیرہ کے مالک خوب دولت کما رہے ہیں۔ اس( کشمیری) کی آنکھوں میں نہ تو نگاہ کی چمک؍ روشنی ہے اور نہ اس کے سینے میں بے قرار دل ہی ہے۔ یعنی مسلسل غلامی کے باعث اس کا دل سوز و جذبہ سے خالی ہو چکا ہے اور وہ پوری طرح بے حس ہو کر اس طرح کی ذلت بھری زندگی کو قبول کیے ہوئے ہے۔اے ساقی تو اس شراب کا قطرہ کشمیری کے دل پر گرا جس سے اس کی گیلی مٹی(بے حس جان) سے شرارے پیدا ہوں۔ ان میں ایسا سوز و جذبہ اور ولولہ پیدا ہو کہ وہ اپنی آزادی اور سربلندی کے لیے جدو جہد کر کے موجودہ ذلت کی زندگی سے نجات پا جائیں)۔۴۴؎ ارمغانِ حجاز میں اقبال نے کشمیری مزدوروں کی حالت کا نقشہ اس انداز سے کھینچا ہے: سرما کی ہواؤں میں ہے عریاں بدن اس کا دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دوشالہ۴۵؎ اقبال، خضر کو استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمالہ کے دامن میں آباد قومیں کب خواب سے بیدار ہوں گی: ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک خضر سوچتا ہے وُلر کے کنارے۴۶؎ جھیل ڈل کی مشرقی سمت پر چشمہ شاہی۴۷؎ ، شالیمار باغ، نشاط باغ اور ہارون ہے۔ ان باغات اور سیر گاہوں کی پشت پر زبربن کا پہاڑ ہے۔ اقبال نے پیامِ مشرق میں ’’کشمیر‘‘ کے عنوان سے ایک اور نظم لکھی اُس میں بھی اِس جنت نشاں کے حسن کا دل کش تذکرہ ہے۔ نظم کے دوسرے شعر کے حوالے سے ایک الجھن باقی ہے: باد بہار موج موج، مرغ بہار فوج فوج صلصل و سار زوج، زوج برسرِ ناروَن نگر۴۸؎ (موسم بہار کی ہوا گویا موجوں کی صورت میں یعنی بہت چل رہی ہے۔(جو دل کی کشادگی کا باعث بن رہی ہے) بہار کے پرندے فوج در فوج/بکثرت اڑ رہے ہیں۔ فاختاؤں اور سارسوں کو جوڑوں کی صورت میں یعنی بکثرت ناروَن کے درخت پر بیٹھے اور چہچہاتے دیکھ) کلام اقبال کی جملہ شرحوں میں ’’ناروَن‘‘ کو ایک گھنے درخت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ لفظ مزید تحقیق کا طالب ہے۔ نشاط، شالیمار اور ہاروَن میں ناروَن کا کوئی درخت نہیں ہے۔ چناروں کے دیو ہیکل درخت ہیں، جن کا اقبال نے ذکر کیا ہے۔ ممتاز اقبال شناس ڈاکٹر بشیر احمد نحوی (ڈائریکٹر اقبال انسٹیٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی سری نگر) نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ لفظ نارون نہیں بلکہ ہارون ہے۔ کتابت کی غلطی سے یہ اب غلط العام ہے۔ نارون بروزن ہارون غلطی کا امکان تو ہے۔ ’’ساقی نامہ‘‘ کے علاوہ اقبال نے جاوید نامہ میں حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی اور غنی کشمیری سے اپنی ملاقات کو منظوم کیا ہے۔ ان ملاقاتوں میں بھی کشمیر اور اہل کشمیر کی غلامی اور جد و جہد آزادی زیربحث ہیں۔’’آنسوئے افلاک‘‘ میں بھی وطن کے احوال ہیں۔ اقبال رجائیت پسند تھے۔ مایوسی اور پریشانی کے باعث اگر طبیعت کبھی مکدر ہوئی بھی تو عارضی، وہ تو ملّت کی نئی شیرازہ بندی کی تعلیم دیتے ہیں: اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں نفس سوختۂ شام و سحر تازہ کریں۴۹؎ اقبال ایک جداگانہ اور منفرد پیغام کے داعی تھے۔وہ کارگاہِ حیات میں ’’محشر اٹھانے‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ ع : زمانہ دیکھے گا جب میرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا۵۰؎ مایوسی، قنوطیت اور محکومی کی زندگی گزارنے والوں کو اقبال خوش خبری دیتے ہیں کہ: گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چُھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا۵۱؎ اقبال پختہ یقین رکھتے تھے کہ استعماری اور سامراجی تسلط عارضی ہے اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔ اس مقصد کے لیے وہ ملت کی نئے اطوار پر تعمیر اور شیرازہ بندی کے قائل تھے۔ مسلمان نوجوانوں میں تن آسانی کے بجائے سخت کوشی کی صفت دیکھنا چاہتے تھے۔ محکومی اور غلامی کے مقابلے میں بہادری کے ساتھ آزادی اور حریت کا پرچم سربلند رکھنا ان کی آرزو تھی۔ شیشہ گرانِ فرنگ سے انھیں نفرت تھی۔ ہندو بنیے کی شاطرانہ چالوں سے وہ واقف تھے۔ بلاد اسلامیہ، جو استعماری شکنجے میں تھے ان کی آزادی اقبال کا خواب تھا۔اس تسلسل میں وہ کشمیریوں کی محکومی پر دل گرفتہ تھے لیکن انھیں کشمیریوں کی حالت اور طرزِ عمل بھی نا پسند تھا۔ کشمیری غلامی کو مکافات عمل سمجھ کر قبول کر چکے تھے۔ ان کی زندگی جدو جہد اور تگ و دو سے خالی تھی۔ اقبال کو یہ روش پسند نہ تھی۔ اس لیے اقبال آرزو کرتے ہیں کہ کشمیریوں میں کوئی ایسا دیدہ ور پیدا ہو جائے جو انھیں:’’ حاضر و موجود سے بیزار کرے‘‘۵۲؎ دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرمادے فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے۵۳؎ صدیوں کی پیچ در پیچ غلامی کے باعث یہ کوئی سہل کام نہ تھا۔ ’’ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کی بیاض‘‘ کو استعارہ بنا کر اپنے وطن کے ابلتے ہوئے چشموں کی سیمابی کو موضوع بناتے ہیں اور کسی مرد درویش کی تلاش میں ہیں ،جو اس مظلوم قوم کی کشتی کو شرمندہ ساحل کر دے۔ بیدار ہوں دل جس کی فغانِ سحری سے اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب اے وادیٔ لولاب۵۴؎ اقبال نے بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں کشمیری مسلمانوں کے لیے آزادی کی جدوجہدکرنے کی آرزو کی ہے۔ حیات اقبال ہی میں کشمیر میںبیداری اور جدو جہد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کشمیری مسلمانوں کا ایک جم غفیر سامراجی جبر کے سامنے ڈٹ گیا اور ۲۲ مسلمانوں نے شہادت کا جام پیا۔بیسویں صدی کے اختتام پر کشمیریوں کی جدو جہد آزادی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ غلامی اور غلامی کے ہر نشان کو مٹانے کے لیے کشمیر میں ایک زبردست عوامی تحریک برپا ہوئی ۔ جس نے ریاست کی تہذیب ، کلچر اور انداز فکر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ علامہ نے فرمایا تھا کہ ’’ برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خار زار ہوگا‘‘۵۵؎ گویا آج کا کشمیر ۱۹۲۱ء سے یکسر مختلف ہے۔ آتش اور آہن کی بارش آج بھی جاری ہے لیکن لمحہ موجود میں شیخ محمد اقبال کے کشمیر کی نسل غلامی اور محکومی کو مکافات عمل اور تقدیر کا لکھا نہیں سمجھتی بلکہ آج کی نسل اقبال کے اس شعر کی تفسیر ہے: گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو تھرتھراتا ہے جہانِ چار سو و رنگ و بو۵۶؎ البتہ تنظیم ، باہمی اعتماد اور کسی متفقہ قیادت کے فقدان کے باعث یہ جدو جہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہیں ہو سکی ہے لیکن یقین ہے کہ شاعر مشرق کی یہ حکیمانہ پیشین گوئی بھی پوری ہوگی کہ چھپے رہیں گے زمانے کی آنکھ سے کب تک گُہر ہیں آبِ وُلر کے تمام یک دانہ۵۷؎ ’’آتش چنار‘‘ کی تپش کشمیریوں کا لہو گرماتی رہے گی اور آب ولر کے موتیوں کی مانند بکھرے ہوئے ترد ماغ اور چرب دست کشمیری ایک مالا کا روپ دھار لیں گے۔ غلامی اور محکومی کا جوا ان کی گردنوں سے اتر جائے گا۔ تب بادشاہی مسجد کے پہلو میں آسودہ ٔ خاک ایک کشمیری سپرو کی روح کس قدر اطمینان محسوس کرے گی؟ ۴ سری نگر دوہفتے کے قیام کے بعد اقبال جولائی کے پہلے عشرے میں براستہ مظفرآباد واپس لاہور آئے۔ اقبال کی واپسی کی تفصیلات …سواری، طعام و قیام کے حوالے سے معلومات موجود نہیں، بس ۱۱؍جولائی ۱۹۲۱ء کے خط بنام منشی سراج الدین ، اقبال خود بتاتے ہیں کہ ’’آپ سے رخصت ہو کر پانچ بچے شام راولپنڈی پہنچ گئے اور چھے بچے شام کی ٹرین بھی مل گئی۔‘‘۵۸؎ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال سری نگر سے صبح ہی چلے ہوں گے۔ پانچ بجے راولپنڈی پہنچے۔ واپسی پر ۱۲؍ جولائی کو اقبال نے مولانا گرامی کو لکھا کہ ’’کشمیر سے بیمار واپس آیا۔ ٹانگ میں درد ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دقت ہے۔‘‘۵۹؎ اقبال ایک ہی بار کشمیر گئے۔ اگرچہ وطن مالوف جانے کی خواہش اور تڑپ دم آخریں تک برقرار رہی۔۱۹۳۳ء میں اقبال آل انڈیا مسلم کشمیر کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے کشمیر جانے کا قصد باندھا لیکن مہاراجہ کی شخصی حکومت نے اقبال کے ریاست میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق: جولائی ۱۹۳۷ء کے اوائل میں اقبال نے گرمیوں کے چند ماہ کشمیرمیں گزارنے کا ارادہ کیا۔ خیال تھا کہ موسم گرما کی تعطیلات کے لیے راقم کا اسکول بند ہونے پر(راقم ان ایام میں سنٹرل ماڈل اسکول میں پڑھاتا تھا) ۱۲؍ جولائی ۱۹۳۷ء کے بعد سری نگر روانہ ہواجائے۔ اقبال کے ایک عقیدت مند سید مراتب علی نے سفر کے لیے اپنی اسٹیشن ویگن جس میں سات آٹھ آدمی بیٹھ سکتے تھے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کشمیر میں اقبال کا داخلہ تحریک کشمیر کے ایام سے ممنوع تھا۔ چناںچہ ریاستی حکام سے اس سلسلہ میں اجازت حاصل کرنے کے لیے خط و کتابت کی گئی۔ پہلے تو خاصی مدت تک اقبال کوکوئی جواب موصول نہ ہوا۔ مگر بالآخر جب ریاستی حکام نے سفر کشمیر کی اجازت دی تو موسم گرما گزر چکا تھا۔ یوں وہ زندگی میں آخری بار اپنے آبائی وطن کی زیارت کرنے سے بھی محروم رہے۔۶۰؎ اقبال کے کشمیر میں داخلے پر پابندی ۱۹۳۷ء تک برقرار رہی۔ ۱۹۳۴ء کے بعد اقبال کی صحت کے بدستور خراب رہنے کے باعث کشمیر جانے کی دوبارہ خواہش تشنہ تکمیل رہی لیکن جس طرح رموز بے خودی (۱۹۱۸ء ص۱۷۰) میں بیان کردہ ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی کہ :’’آرزو دارم کہ میرم در حجاز‘‘(میری آرزو ہے کہ مجھے موت آئے تو سر زمین حجاز میں) اسی طرح ’’تنم گُلے ز خیابانِ جنت کشمیر‘‘ (میرا بدن خیابانِ کشمیر کا پھول ہے)کہنے والا اقبال جس باغ کا پھول تھا اس سے دوبارہ ہم دوش نہ ہوسکا۔اور ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو عالمِ جاودانی کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس آفاقی شاعر کی موت، موت العالم کے مصداق تھی۔ پنجاب اور لاہور کی سرزمین میں توکہرام بپا ہونا ہی تھا۔ پورے عالم اسلام میں صفِ ماتم بچھ گئی۔کشمیر میں جب یہ اندوہناک خبر پہنچی تو ماحول پر تاریکی اور سناٹا اور گہرا ہو گیا۔ کیوں نہ ہوتا کہ صدیوں کے بعد کشمیر کے لالہ زاروں سے ایک رومی(اقبال رومی کو مرشد معنوی تصور کرتے تھے) اٹھا تھا جس نے آب و گِل کشمیرسے غلامی کے ہر نشان کو مٹانے کے لیے خونِ جگر کی روشنائی سے فکر تازہ پیش کی تھی۔ اقبال کے انتقال پُر ملال کی دل گداز خبر جونہی سری نگر پہنچی تو یہاں صفِ ماتم بچھ گئی۔ پروفیسر غلام نبی فراق نے اپنے ایک کشمیر ی مقالہ میں لکھا ہے کہ وہ ان ایام میں اسلامیہ ہائی سکول گوجوارہ سری نگر میں زیرِ تعلیم تھے۔ اقبال کے فوت ہونے کی خبر پہنچتے ہی سکول بند ہو گیا۔ ساری دکانیں فوری بند کر دی گئیں اور رات گئے تک ہر کشمیری گھر میں اس محسنِ کشمیر کے چرچے رہے۔۶۲؎ ئ……ئ……ء حواشی وحوالہ جات ۱- ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم،فکر اقبال،بزم اقبال لاہور ۲۰۰۵ئ، ص۵۵۔ ۲- کلیاتِ اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ،۱۹۷۳ئ، ص۳۴۸۔ ۳- عبدالحمید یزدانی،شرح پیام مشرق،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۴ئ، ص،۲۳۷-۲۳۶ ۔ ۴- فکرِ اقبال، ص۵۵۔ ۵- جگن ناتھ آزاد،اقبال اور کشمیر،مکتبہ علم و دانش مزنگ لاہور، ص۹۔ ۶- ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، علامہ اقبال:شخصیت اور فن،اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۰۸ئ،ص۱۵۔ ۷- کلیاتِ اقبال(اردو) ،اقبال اکادمی پاکستان، طبع ہشتم ،۲۰۰۷ئ،ص۵۳۰۔ ۸- بشیر احمد ڈار،(مرتب)،انوارِ اقبال،اقبال اکادمی پاکستان کراچی، بار اول، ۱۹۸۷ئ، ص۷۶۔ ۹- ’’اقبال کے آبا و اجداد…بعض مباحث‘‘، ماہنامہ شیرازہ، جموں اینڈ کشمیر کلچرل اکیڈمی، جلد ۳۴، شمارہ ۴۔۵، ۲۰۰۳، ص۱۷۴۔۱۷۵۔ ۱۰- عروج اقبال،بزم اقبال، کلب روڈ ،لاہور، بار اول،۱۹۸۷ئ، ص۳۔ ۱۱- ڈاکٹر جاوید اقبال،زندہ رود(حیات اقبال کا اختتامی دور)،شیخ غلام علی اینڈ سنز۱۹۸۷ئ، ص ۳۔ ۱۲- زندہ رود، ص۶۔ ۱۳- ایضاً، ص۱۱۔ ۱۴- ایضاً،ص۱۱ ۱۵- علامہ اقبال:کی شخصیت اور فن، ص۱۵۔ ۱۶- عروج اقبال، ص۳۔ ۱۷- محمد عبداللہ قریشی،روح مکاتیبِ اقبال،اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۷۷ئ، ص۱۲۲۔ ۱۸- ایضاً، ص۱۲۵۔ ۱۹- کلیاتِ اقبال ،ص۳۵۰۔ ۲۰- محمد عبداللہ قریشی،روح مکاتیبِ اقبال،ص۱۷۶۔ ۲۱- ایضاً، ص۱۷۵۔ ۲۲- کلیاتِ اقبال(اردو) ،اقبال اکادمی پاکستان طبع ہشتم ۲۰۰۷ئ،ص۳۵۰۔ ۲۳- ایضاً،ص،۳۱۰۔ ۲۴- ڈاکٹرصابر آفاقی،مظفرآباد،مقبول اکیڈمی لاہور،۲۰۰۹ئ،ص۸۸۔ ۲۵- ایضاً،ص۸۹۔ ۲۶- کلیاتِ اقبال (اردو) ،ص۴۵۰۔ ۲۷- ایضاً، ص۴۷۷۔ ۲۸- شیرازہ ،جلد نمبر ۶، شمارہ نمبر۱۱، ص۳۲۱ تا ۳۴۹۔ ۲۹- کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۵۲۔ ۳۰- ایضاً، ص۷۵۰۔ ۳۱- روحِ مکاتیبِ اقبال، ص ۲۸۹۔ ۳۲- نشاط باغ: شالیمار سے 3.2کلومیٹر دور ہے۔ یہ بھی ڈل کے کنارے ہے اور اس کی پشت پر بھی زبر بن پہاڑ ہے۔ اس باغ کو 1633ء میں بیگم نور جہاں کے بھائی آصف خان نے تعمیر کرایا تھا۔ باغ کے دس Terracesہیں جو ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ درمیان میں ایک نہر ہے جو ہر Terraceمیں ایک چھوٹی سی آبشار کی صورت گرتی ہے۔ ۳۳- شالیمار باغ:زبر بن پہاڑ کے دامن میں چار روشوں (Terraces)میں منقسم ہے۔ درمیان سے نہر بہتی ہے۔ جس کا پانی مین گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹی سے آبشار کی مانند سڑک کے ساتھ چھوٹے سے تالاب میں گرتا ہے جس کی آخری منزل جھیل ڈل ہے۔ باغ کی لمبائی چوڑائی 182m x 539mہے۔ شالیمار باغ مغل بادشاہ جہانگیر نے اپنی بیگم نور جہاں کی فرمائش پر بنوایا تھا۔ جہانگیر نے خود ۱۱ مرتبہ کشمیر کا سفر کیا بلکہ وہ سفر کشمیر کے دوران راستے میں فوت ہوا۔ ۳۴- محمد عمر:محمد عمر’جموں‘ کے اہل قلم تھے۔ آپ نے اپنے وقت میں دل پسند ڈرامے لکھے اور ڈراموں کے متعلق مقالے بھی۔ جموں میں آپ اسسٹنٹ کمشنر تھے۔نور الٰہی اس زمانے میں جموں کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ دونوں دوست تھے بلکہ یک جان دو قالب کی مثال تھے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ محمد عمر اپنی ادبی تحریروں میں ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ نور الٰہی کا نام بھی بالالتزام لکھا کرتے تھے۔ چناں چہ ادبی دنیا میں محمد عمر ’’محمد عمر نور الٰہی ‘‘کے نام سے مشہور ہو گئے۔ (جگن ناتھ آزاد،اقبال اور کشمیر ، ص۱۰۸)۔ ۳۵- ڈاکٹر بدر الدین بٹ، جامعہ کشمیر اوراقبالیات، اقبال انسٹیٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی سری نگر،۲۰۰۹ئ،ص ۵۹۔۶۰۔ ۳۶- ماہنامہ آج کل، اکتوبر ۱۹۴۵، منقول از جگن ناتھ آزاد ص ۱۰۸۔۱۰۹۔ ۳۷- جھیل ڈل:8کلومیٹر لمبی اور 4کلومیٹر چوڑی جھیل ہے۔ اس کے مشرق میں چشمہ شاہی، شالیمار باغ، نشاط باغ اور ہارون ہیں ۔ جب کہ مغرب کی طرف نسیم باغ، یونیورسٹی آف کشمیر، حضرت بل واقع ہیں۔ جھیل کے اندر ایک جزیزہ نماہے جس میں چار چنار ایستادہ ہیں اسے ’’چار چناری‘‘ کہتے ہیں۔ یہ صدیوں پرانے درخت ہیں۔ جن کے درمیان ایک چھوٹا سا پارک ہے۔ اس کے علاوہ جھیل کے اندر نہرو پارک بھی ہے۔ جھیل کی سطح پر کنول کھلتے ہیں۔ کناروں پر مستقل ’’ہاؤس بوٹ‘‘ ہیں۔ جھیل کے درمیان میں بھی ہاؤس بوٹ ہیں۔ کناروں پر سبزی کے کھیت ہیں ۔ جھیل کے اوپر ہی ہاؤس بوٹ مارکیٹیں ہیں، جہاں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں دستیاب ہیں۔جھیل سے خشکی تک رابطے کا ذریعہ شکارا (چھوٹی کشتی) ہے۔ ہاؤس بوٹ صدیوں پہلے کسی انگریز کی ذہن رسا کی خوب صورت اختراع ہے۔ ۳۸- یوسف ٹیک،(مرتب) ،طامس مور، چنار رنگ،جموں و کشمیر کلچرل اکیڈمی سری نگر،۱۹۷۷ئ، ص،۲۰ ۔ ۳۹- ایضاً، ص ۱۵۵۔ ۴۰- غلام نبی خیال، اقبال اور کشمیر،اقبال اکادمی پاکستان ۱۹۹۹ئ،ص۹۶۔ ۴۱- کلیاتِ اقبال فارسی، ص۲۸۵۔ ۴۲- عبدالحمید یزدانی ،شرح پیامِ مشرق، ص ۱۳۵۔ ۴۳- کلیاتِ اقبال(فارسی)، ص۲۸۶۔ ۴۴- شرح پیامِ مشرق، ص۱۳۷۔ ۴۵- کلیات اقبال (اردو)، ص۷۵۰۔ ۴۶- کلیات اقبال، ص۷۴۶۔ ۴۷- چشمہ شاہی:سری نگر شہرسے 8.8کلو میٹر فاصلے پر ہے۔ جھیل ڈل کے مشرقی کنارے پر اور گورنر ہاؤس کے قریب ہے۔ عقب میں زبربن کی پہاڑی ہے۔ چنارکے دیوہیکل درختوں نے اس باغ کو گھیرا ہوا ہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہان نے اسے بنایا تھا۔ اس کا پانی طبی نقطۂ نظر سے مشہور ہے۔ سینہ گزٹ ہے کہ جواہر لعل نہرو اس کا پانی پینے کے لیے منگواتے تھے اور مہاراجا ہری سنگھ بھی خصوصی مواقع پر یہی پانی نوش کرتے تھے۔ ۴۸- کلیات اقبال فارسی، ص ۳۰۲۔ ۴۹- کلیات اقبال (اردو) ،ص،۳۲۷۔ ۵۰- ایضاً ،ص۱۶۲۔ ۵۱- ایضاً ،ص ۱۶۷،۱۶۶۔ ۵۲- ایضاً ،ص ۵۶۲۔ ۵۳- ایضاً ،ص ۵۶۳۔ ۵۴- ایضاً ،ص ۷۳۸۔ ۵۵- ایضاً ،ص۱۶۶۔ ۵۶- ایضاً ،ص۷۲۹۔ ۵۷- ایضاً ،ص۷۴۵۔ ۵۸- روح مکاتیبِ اقبال، ص۲۶۳۔ ۵۹- ایضاً،ص۲۶۴۔ ۶۰- ڈاکٹرجاوید اقبال،زندہ رود(حیات اقبال کا اختتامی دور)،ص۶۱۱۔ ۶۱- کلیاتِ اقبال (اردو) ،ص۶۷۴۔ ۶۲- شیرازہ (کشمیر خصوصی اشاعت)جلد ۱۳، شمارہ ۴، ۱۹۷۷ئ، ص۷۶۹۔ ئ……ئ……ء سابق سوویت یونین میں اقبال اور اقبالیات (ایک مختصر جائزہ) طاش مرزا سابق سوویت یونین میں علامہ محمد اقبال پر زیادہ تر کام تین ریاستوں روس، ازبکستان اور تاجکستان میں ہوا۔ جس میں بنیادی کردار ماسکو نے ادا کیا۔ تاجکستان میں علامہ سے متعلق کام زیادہ تر اُن کے فارسی کلام کی نشر و اشاعت سے متعلق ہے، جو مختلف رسائل اور اخباروں میں شائع ہوتا رہا۔ علامہ کا ایک مجموعۂ کلام پیام مشرق دوشنبہ سے تاجک زبان میں شائع ہوا۔سید عبدالواحد کی Thoughts and Reflections of Iqbal کا ترجمہ بھی شائع ہوا۔ علامہ پر تاجک محقق عبداللہ غفاروف کی تحقیق بھی قابل ذکر ہے۔ تاجک اقبالیات کے فروغ میں اقبال اکادمی، لاہور کا کردار قابلِ ذکر ہے۔ ۱۹۹۹ء میں اکادمی نے لاہور سے تاجک زبان میں اقبال نامہ شائع کیا جو تاجک اقبال شناسوں کے اٹھارہ مضامین پر مشتمل مجموعہ ہے۔ ان مضامین کے متنوع موضوعات میں علامہ کی فکر کے مختلف پہلوئوں کو موضوع تحقیق بنایا گیا ہے۔چند مضامین کے موضوعات یہ ہیں:’’محمد اقبال اور مولانا رومی‘‘،’’اقبال اور آج کی دنیا‘‘،’’علامہ کی شاعری میں جدت پسندی‘‘، ’’اقبال کے فلسفہ میں آزادیِ انسان‘‘، ’’قومی مسائل اور اقبال‘‘ وغیرہ۔ اپنے موضوعات کے لحاظ سے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے تاجکستان میں علامہ محمد اقبال کی فکر سے شناسائی بڑھے گی اور اقبالیات کے نئے محققین کے لیے معاون بھی ہو گی۔ سوویت عہد میں علامہ محمد اقبال پرسب سے زیادہ تحقیقی اورعلمی کام روس میں ہوا۔ علامہ کے کلام اور ان کے نظریات پر مشرقی فلسفے کے نامور محقق Nikolay Anikeev نے قابل قدر کام کیا۔ انھوں نے ’’اقبال کے فلسفہ میں فرد کے مسائل‘‘ اور’’ اقبال کے سماجی و سیاسی نظریات‘‘ جیسے مقالے روسی زبان میں لکھ کر اہل نظر سے شاعرِ مشرق کا تفصیلی تعارف کرایا۔ پھر فاضل محقق نے ایک کتاب محمد اقبال: عظیم مفکر اور شاعر تحریر کی۔ یہ کتاب کئی ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں ’’انسان اور اس کی زندگی کا مقصد‘‘ ، ’’شاعر کی سماجی سرگرمیاں‘‘،’’فرد اور معاشرہ: اقبال کے نظریات‘‘، ’’سرمایہ داری نظام کا نکتہ چیں‘‘ اور ’’مستقبل کے معاشرہ کا تصور‘‘ جیسے موضوعات پربحث کی گئی ہے۔اس کے علاوہ انیکیئف نے علامہ محمد اقبال پر متعدد مقالات مختلف روسی جریدوں میں شائع کیے۔ مشرقی فلسفے کی ایک مشہور محقق خاتون Margarita Stepanyants نے بھی کافی تحقیقی کام کیا ہے۔ انھوں نے روسی میں تحریر کردہ اپنی کتاب Philosophy & Sociology in Pakistan میں علامہ محمد اقبال کے فلسفیانہ شعور کا ہمہ گیر اور گہرا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اقبال پر متعدد مضامین بھی تحریر کیے۔ روس میں مطالعۂ اقبال کے حوالے سے L. Gordon-Polonskaya کا نام خاص طور پر قابلِ ذکرہے۔ انھوں نے اقبال اور مسلم نیشنلزم پر کافی تحقیقات پیش کیں۔ ماسکو سے اقبال کے ایک سو سولہ اشعار پر مشتمل شائع ہونے والی بانگ درا نامی کتاب پر انھوں نے ایک طویل دیباچہ لکھا۔ علاوہ ازیںاقبال پر سب سے زیادہ اور جامع کام ایک اور خاتون دانشور Natalia Prigarina نے انجام دیا۔پریگارینا روسی اقبالیات کی نامور شخصیت ہیں۔ ان کا روسی میں لکھا مقالہ ’’اقبال کی فلسفیانہ شاعری میں انسان دوستی‘‘ اور دو نہایت ہی عالمانہ کتابیں Poetics of Iqbal's Works اور Muhammad Iqbal's Poetry خاص طور پر پسند کی گئیں۔ ان کتابوں میں مصنفہ نے اقبال کی شاعری اور اس کی شعری خصوصیات کا جامع تجزیہ کیا ہے۔ پریگارینا کی علامہ محمد اقبال پر تصانیف کا دوسرا پہلو کلامِ اقبال کے ترجمے اور نشر و اشاعت سے متعلق ہے۔ آپ نے ۱۹۸۱ء میں انتخاب کلامِ اقبال کے نام سے روسی میں ایک ضخیم کتاب مرتب کرکے شائع کی۔ اس کتاب میں علامہ کے دو سو تیس اشعار شامل کیے گئے تھے۔ کتاب مصنفہ کے ایک خوبصورت پیش لفظ سے شروع ہوتی ہے، جس میں اقبال کی حیات اور کار ناموں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔نتالیہ پریگارینا کے ایک مقالے میں علامہ محمد اقبال کی شعری اصطلاحات کا عمیق مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں ماسکو سے ہندوستانی شعراء کے کلامکے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی جس میں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں لکھنے والے دس شعراء کا کلام شامل تھا۔ ان میں سب سے زیادہ جگہ اقبال کو دی گئی ہے۔ اس مجموعے میں شاعرِ مشرق کے ساڑھے چار سو اشعار کا روسی ترجمہ دیا گیا ہے۔ ۱۹۸۲ء روسی اقبالیات کے حوالے سے بہت اہم رہا۔ اس سال ماسکو سے علامہ محمد اقبال پر کم و بیش بیس مقالات پر مشتمل ایک عالمانہ مجموعہ شائع ہوا۔ اس میں روسی محققین کے علاوہ جرمنی کی مشہور اقبال شناس این میری شمل، ہندوستان کے علی سردار جعفری اور جگن ناتھ آزاد کے پُر مغز مضامین بھی شامل ہیں۔ کتاب میںعلامہ کی شخصیت اور ان کی بعض تصانیف کا تعارف و تجزیہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ کچھ مقالے تقابلی انداز میں تحریر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ’’جلال الدین رومی اور اقبال کا انسان کامل، ’’محمد اقبال اور گوئٹے‘‘،’’اقبال اور دانتے‘‘ اور ’’نذیر احمد اور محمد اقبال‘‘۔ یہ مقالے تحقیقی تجزیے کے اعتبار سے نہایت عمدہ ہیں۔ جناب جگن ناتھ کا مقالہ ’’اقبال، اسلام اور موجودہ دور‘‘ اپنی اہمیت کے حوالے سے خاص طور پر قابلِ توجہ ہے۔ ازبکستان میں بھی علامہ محمد اقبال پر کافی قابلِ توجہ کاوشیں سامنے آئیں، جن میں تحقیق اور ترجمے کے کام بھی ہیں۔ ازبک اقبالیات میں ڈاکٹر سعد اللہ یولداشیف کا نام سرِ فہرست ہے۔ علامہ محمد اقبال پر ان کے لکھے ہوئے مقالات کی تعداد بیس سے متجاوز ہے۔ موصوف کو اقبالیات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی ملی ہے۔ اُن کے مقالے کا عنوان تھا: Iqbal's Philosophy of Life ۔ ان کے چند مقالات کے عنوانات یہ ہیں: ’’اقبال کے ہاں احترام آدمی‘‘، ’’علامہ کا فلسفیانہ شعور‘‘، ’’محمد اقبال‘‘، ’’اقبال فلسفی شاعر کی حیثیت سے‘‘، ’’محمد اقبال: آئیڈیل معاشرہ کے بارے میں‘‘ وغیرہ۔ ان کے تحقیقی مقالات ازبکستان سے باہر بھی شائع ہوتے رہے۔انھوں نے لاہور میں منعقدہ تیسری بین الاقوامی اقبال کانگریس (۱۹۹۸ئ) میں شرکت کی اور ’’وسط ایشیا، محمد اقبال کی نظر میں ‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پڑھا جو بعد میں وہاں سے شائع بھی ہوا۔ اس مقالے میں فاضل محقق لکھتے ہیں کہ محمد اقبال مشرق کے البیرونی، ابونصر فارابی اور ابن سینا جیسی عظیم ہستیوں سے کافی متاثر تھے اور انھوں نے اپنے تحقیقی مقالےDevelopment of Metaphysics in Persia کو مرتب کرنے میں ان حضرات کی فکر سے بھی کافی استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ سعد اللہ یولداشیف نے کچھ ایسے مقالے بھی تحریر کیے، جن میں علامہ محمد اقبال کا موازنہ مسلم مشرق کے مشہور علماء و فضلاء سے کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’ابونصر فارابی اور محمد اقبال کے ہاں مثالی معاشرے کا تصور‘‘۔ اقبال کے حوالے سے یولداشیف کا ایک اور قابلِ تحسین کام یہ ہے کہ انھوں نے اقبال کے اسّی اشعار کا انتخاب کیا اور ازبک زبان کے نامور شاعروں سے ان کا ترجمہ کروایا اور اپنے تعارفی کلمات کے ساتھ تاشقند سے کتابی شکل میں شائع کیا۔ یہ شعری مجموعہ ازبک قارئین میں بہت مقبول ہوا۔پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہونے والی یہ کتاب ایک سال میں ہی ختم ہو گئی۔ حال ہی میں علامہ محمد اقبال پر سعد اللہ یولداشیف کی ایک کتاب The Eternal Philosophy of Allama Muhammad Iqbal اقبال اکادمی لاہور نے شائع کی ہے۔ فاضل مصنف کو اسے مطبوعہ شکل میں دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ وہ اس سے پہلے ہی تاشقند میں اچانک انتقال کر گئے تھے۔ سعد اللہ یولداشیف کی وفات سے ازبکستان میں اقبال شناسی کی روایت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ ۱۹۵۸ء میں تاشقند سے روسی زبان میں شعرائے ہند کے عنوان سے ایک ضخیم مجموعہ شائع ہوا جو برصغیر کی آٹھ زبانوں میں لکھنے والے پچاس شاعروں کے کلام پر مشتمل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں بھی سب سے زیادہ جگہ علامہ محمد اقبال کے اشعار کو دی گئی تھی۔ اس میں اقبال کے ’’ساقی نامہ‘‘، ’’جگنو‘‘، ’’شاعر‘‘، ’’چانداور تارے‘‘، ’’بہار‘‘ اور بہت سی دیگر نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے بعد بھی اقبال کے بعض اشعار ازبکستان کے ’’پراودا واستوکا‘‘ ، ’’شرق یولدوزی‘‘ اور دوسرے اخباروں اور جریدوں میں چھپتے رہے، جو یہاں کے قارئین میں بہت مقبول اور مشہور ہوئے۔ ازبکستان میں علامہ محمد اقبال پر دیگر محققین عاشوربائف اور آرتے قوف کے مقالات بھی شائع ہوئے ہیں۔ جب یونیسکو نے ۱۹۷۷ء کو ’’سال محمد اقبال‘‘ کے طور پر منائے جانے کا اعلان کیا تو ازبکستان میں بھی اس حوالے سے متعدد تقریبات منعقد ہوئیں، مقالے لکھے اور پڑھے گئے۔ بعد میں تاشقند سے روسی زبان میں ایک کتاب محمد اقبال مشرق کا عظیم شاعرو مفکر شائع ہوئی۔ اس میں علامہ کے اشعار اور ان کے نظریات کی مختلف جہتیں اجاگر کرنے والے آٹھ مقالات شامل تھے۔ مثلاً ’’اقبال کی شاعری‘‘، ’’علامہ کے کلام میں وطن اور انسان‘‘،’’اقبال کی سیاسی اور اجتماعی سرگرمیاں‘‘،’’علامہ کا فلسفیانہ شعور‘‘ اور ’’شاعر کی حیات اور کارنامے‘‘۔ اس مجموعے میں ایک مقالہ ’’محمد اقبال آزادی پسند افغانوں کا ترجمان‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کے مؤلف از بکستان کے نامور پشتو شناس ڈاکٹر عارف بیگ عثمان تھے۔ ڈاکٹر عارف نے اپنی ساری زندگی پشتو زبان و ادب کے مطالعے اور تبلیغ کے لیے وقف کیے رکھی۔ اپنی تحقیق کے سلسلے میں انھوں نے کئی سال افغانستان میں بھی گذارے۔فاضل محقق کی یہ دِلی تمنا تھی کہ وہ سرحد کے اس پار یعنی پاکستان میں مقیم پختونوں کے طرز زندگی اور ان کی زبان و ادب پر بھی تحقیقی کام کریں لیکن اُن کی یہ آرزو دل ہی میں رہ گئی۔ ان کے اس خواب کو پورا کرنے کی سعادت ان کے صاحب زادے آئبیگ عثمان کو نصیب ہوئی، جو آج کل پاکستان میں ازبکستان کے سفیر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ علامہ محمد اقبال اور اردو کے حوالے سے یہاں یہ وضاحت نامناسب نہ ہوگی کہ ازبکستان میں اردو زبان و ادب کی درس و تدریس ۱۹۴۷ء یعنی برصغیر کی آزادی کے زمانے سے اب تک باقاعدگی سے ہورہی ہے۔ جب ۱۹۹۲ء میں ازبکستان میں ’’تاشقند مشرقیاتی انسٹی ٹیوٹ‘‘ نامی ایک بڑا تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا تو شعبۂ اردو بھی یہاں منتقل ہو کر اس کا جزو لاینفک بن گیا۔ اور آج تک وہ اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ دو سال قبل اس شعبے میں ایک نہایت ہی خوش آئند اضافہ ہوا، جس کا انتظار ہمیں مدتوں سے تھا۔ سفارت خانۂ پاکستان کی طرف سے اس انسٹی ٹیوٹ کے لیے ایک عمدہ ’’پاکستان سنٹر‘‘ بھی تعمیر کیا گیا۔ یہاں آج کل اردو کی کلاسیں اور مختلف پروگرام ہوتے ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے ازبک - پاکستان دوستی انجمن اور مشرقیاتی انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ و طلبہ، پاکستانی سفارتخانے کے اشتراک و تعاون سے نومبر میں شاعرِ مشرق پر پروگرام منعقد کر رہے ہیں۔ اب ان سرگرمیوں میں نئے قائم شدہ پاکستان سنٹر کے ارکان بھی فعال کردار ادا کریں گے۔ امید ہے کہ اس روایت کو برقرار رکھ کر علامہ محمد اقبال کے ازبک شائقین اقبال شناسی اور اردو زبان و ادب کی شمع فروزاں کیے رکھیں گے۔ خخخ اقبالیاتی ادب علمی مجلات میں شائع شدہ مقالات کی فہرست ادارہ - ابرار خٹک،’’ایران میں اقبال شناسی۱۹۵۰ء -۱۹۵۸ء تک: چند توجہ طلب پہلو‘‘، المعارف،ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور، جنوری - مارچ۲۰۱۰ئ، ص ۸۷-۷۱۔ - پروفیسر عالم خوندمیری، ’’زماں ---- اقبال کے شاعرانہ عرفان کے آئینے میں‘‘، المعارف، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور، جنوری - مارچ۲۰۱۰ئ، ص ۵۵-۳۳۔ - پروفیسر عبدالمغنی، ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘، ضیائے آفاق، لاہور، جنوری- جولائی ۲۰۱۰ئ، [مطبوعہ کتاب کو قسط وار شائع کیا جا رہا ہے ]۔ - پروفیسر محمد منور، ’’علامہ اقبال۔ مردِ یقین‘‘، نوائے جرس ، لاہور،[قسط اوّل] جنوری۲۰۱۰ئ، ص ۷-۶۔[قسط دوم] اپریل ۲۰۱۰ء ص ۸-۷۔ - ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ’’جسٹس(ر) ڈاکٹر جاوید اقبال - ایک تعارف ‘‘، پیغام آشنا،ثقافتی قونصلیٹ اسلامی جمہوریۂ ایران، اسلام آباد، جنوری - مارچ ۲۰۱۰ئ، ص ۲۱۱-۱۹۹۔ - محمد موسیٰ بھٹو، ’’اقبال کا فلسفۂ عشق اور اس کے اسرار و رموز‘‘(آخری قسط)، بیداری،حیدر آباد سندھ،جنوری ۲۰۱۰ئ، ص ۷۹-۶۸۔ - پروفیسر عبدالجبار شاکر، ’’عالمی تہذیبی کشمکش اور علامہ اقبال‘‘، معارف فیچر سروس، کراچی، یکم جنوری۲۰۱۰ء ، ص ۱۳-۱۰۔ماخوذ از دعوت ،اسلام آباد، اپریل ۲۰۱۰ئ۔ - ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ’’شام میں پیام اقبال کی صبح‘‘، اخبار اردو، اسلام آباد، مارچ ۲۰۱۰ئ، ص ۳۱-۲۸۔ - ڈاکٹر عائشہ جلال (ترجمہ: مراد علی شاہ)، ’’مسلم شناخت اور جنوبی ایشیا ‘‘، اجتہاد، اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد، جنوری ۲۰۱۰ئ، ص ۹۴-۸۷۔ - ڈاکٹر محمد قمر اقبال، ’’اقبال اور قرار دادِ پاکستان‘‘، قومی ڈائجسٹ، لاہور، مارچ۲۰۱۰ئ، ص ۱۲۲-۱۲۰۔ - محمد شعیب، ’’علامہ اقبال کے طنزیہ و ظریفانہ کلام پر ایک نظر ‘‘، پیغام آشنا،ثقافتی قونصلیٹ اسلامی جمہوریۂ ایران، اسلام آباد، جنوری - مارچ ۲۰۱۰ئ، ص ۱۹۸-۱۹۰۔ - شاہد بخاری، ’’علامہ اقبال یادگاری خطبہ‘‘، ادبِ لطیف، لاہور، مارچ-اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۱۴۵-۱۴۱۔ - اداریہ، ’’اقبال کا تصور پاکستان اور فرزندِ اقبال‘‘، الاقرباء ، اسلام آباد، اپریل - جون ۲۰۱۰ئ، ص ۱۵-۵۔ - انتخاب،’ ’علامہ اقبال کی زندگی کا ایک دن ‘‘[علامہ کے خادم علی بخش کے ایک انٹرویو سے اقتباس]،علم و آگہی، فیصل آباد، اپریل ۲۰۱۰ئ، ص ۲۲۔ - انعم نواز، ’’اقبال، اردو اور مشرقی ثقافت‘‘، قومی زبان، انجمن ترقیِ اردو پاکستان ،کراچی، اپریل ۲۰۱۰ئ، ص ۸-۵۔ - ایم۔ آر۔ عمرانی، ’’حکیم الامت علامہ اقبال پر ایک محققانہ نظر‘‘،نظریۂ پاکستان، لاہور، اپریل ۲۰۱۰ئ، ص ۲۰-۱۷۔ - پروفیسر منظور الحق، ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور،اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۲۳-۲۱۔بحوالہ اردو ڈائجسٹ، لاہور، ۲۰۰۶ئ، - ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ’’علامہ اقبال ---- جیسا میں نے انھیں دیکھا‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور، اپریل ۲۰۱۰ئ، ص ۱۴-۱۱۔ - ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، ’’شرح بانگ درا‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور،اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۴۔ - ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ’’لبنان، اردو اور اقبال‘‘، اخبار اردو، اسلام آباد، اپریل ۲۰۱۰ئ، ص ۷-۲۔ - ڈاکٹر سید محمد اکرم اکرام، ’’اسلام ، پاکستان اور اسلام‘‘، تہذیب الاخلاق، اپریل ۲۰۱۰ء ، ص ۹-۶۔ - ڈاکٹر سید وسیم الدین، ’’خطبہ الٰہ آباد کا تحقیقی مطالعہ‘‘، قومی زبان، انجمن ترقیِ اردو پاکستان ،کراچی، اپریل ۲۰۱۰ئ، ص ۱۲-۹۔ - ڈاکٹر لطف الرحمن فاروقی، ’’بنگلا دیش میں مطالعۂ اقبال :مشکلات و امکانات‘‘، دعوۃ، اسلام آباد، اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۸۰-۵۴۔ - سیدہ نغمہ زیدی، ’’اقبال کا تصورِ زندگی‘‘، الاقرباء ، اسلام آباد، اپریل - جون ۲۰۱۰ئ، ص ۵۴-۴۵۔ - صاحبزادہ سلطان احمد علی، ’’خانقاہی نظام ۔ حضرت سلطان باہو اور علامہ محمد اقبال کے افکار کا جائزہ‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور،اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۴۱-۳۶۔ - غلام محمد،’’بہادر یار جنگ اور فکر اقبال ‘‘، تہذیب الاخلاق، لاہور، اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۳۱-۲۸۔ - کلیم اختر، ’’علامہ محمد اقبال کا تحریک حریتِ کشمیر سے تعلق‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور،اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۲۹-۲۴۔ - محمد حنیف شاہد، ’’ملت کے دو عظیم رہنما‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور،اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۱۰-۵۔ - محمد شریف بقا،’’علامہ اقبال کے یورپی اساتذہ کرام ‘‘، تہذیب الاخلاق، لاہور، اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۲۵-۲۰۔ - ناصر زیدی، ’’علامہ اقبال کی شگفتہ بیانیاں‘‘، نظریۂ پاکستان، لاہور،اپریل۲۰۱۰ئ، ص ۱۶-۱۵۔ - انتخاب، ’’اقبال کا تصور تعلیم‘‘نوائے جرس ، لاہور،[قسط اوّل] مئی۲۰۱۰ئ، ص ۹-۶۔ - ثاقب اکبر، ’’آنے والی نسلیں اقبال کو انگریزی میںپڑھیں گی!‘‘، معارف فیچر سروس، کراچی، ۱۶مئی ۲۰۱۰ء ، ص ۹۔ - حافظ شاہد رسول، ’’زندگی کی حقیقت اور اقبال کے نظریات‘‘،پاک جمہوریت، لاہور، [وزارتِ اطلاعات و نشریات کا جریدہ]، مئی ۲۰۱۰ئ، ص ۳۷-۳۵۔ - سید ابوالحسن ندوی، ’’اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر‘‘پاک جمہوریت،لاہور،[وزارتِ اطلاعات و نشریات کا جریدہ]، مئی ۲۰۱۰ئ، ص ۴۰-۳۸۔ - میر رضی، ’’علامہ اقبال کے لندن میں شب و روز‘‘، پاک جمہوریت،لاہور،[وزارتِ اطلاعات و نشریات کا جریدہ]، مئی ۲۰۱۰ئ، ص ۳۴-۳۱۔ - ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ’’علامہ اقبال اور مسئلۂ فلسطین‘‘، ترجمان القرآن، لاہور،جون ۲۰۱۰ئ، ص۷۰-۶۳۔ - ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ’’دانش گاہِ تہران میں ذکرِ اقبال‘‘،اخبار اردو،اسلام آباد،جولائی ۲۰۱۰ئ، ۱۰-۸۔ - ڈاکٹر محمد سلیم، ’’علامہ محمد اقبال اور میر غلام بھیک نیرنگ‘‘، ماہِ نو، اسلام آباد،[وزارتِ اطلاعات و نشریات کا جریدہ] جولائی۲۰۱۰ئ، ص ۱۲-۹۔ ژژژ اقبالیاتِ مجلہ ’حکمت قرآن‘ لاہور مارچ۱۹۸۲ء ___ جون۲۰۰۹ء سمیع الرحمن مجلہ حکمتِ قرآن کا آغاز ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم نے کیا تھا۔ اس پرچے میں جہاں خصوصی طور پر قرآنیات کے حوالے سے مضامین شائع ہوتے رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ عمومی مضامین کے علاوہ فکرِ اقبال کے حوالے سے بھی مضامین شائع ہوئے۔ اُن مضامینِ اقبالیات کا اشاریہ ان صفحات میں شائع کیا جارہا ہے۔ حکمتِ قرآن ڈاکٹر محمد رفیع الدینؒ کے بعد ڈاکٹر ابصار احمد، ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی زیرنگرانی شائع ہوتا رہا ہے۔ آج کل یہ حافظ عاکف سعید، حافظ عاطف وحید، حافظ خالد محمود خضر اور حافظ محمد زبیر کی مجلسِ ادارت میں شائع ہورہا ہے۔ حیاتِ اقبال احمد افضال علامہ اقبال سے ایک گفتگو نومبر۱۹۸۳/۲۱-۳۲ ڈاکٹر ابصار احمد علامہ محمد اقبال [اداریہ] مارچ۱۹۸۴/۵-۶ راحت نسیم سوہدروی علامہ اقبال کی حجازِ مقدس کے لیے تڑپ اپریل۲۰۰۳/۶۷-۷۲ راغب احسن اقبال پر ایک محققانہ نظر اور ان کی نفسیاتی تشریح دسمبر۱۹۹۱/۱۶-۲۷ شفقت رضوی مکاتیب: سر محمد اقبال بنام مولانا سیّد سلیمان ندوی مئی۱۹۹۳/۶۳ ظفر اقبال محسن علامہ اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد کے تعلیمی نظریات [مترجم: محمد سردار اعوان]-۲ اپریل۱۹۹۸/۳۳-۴۸ ظفر اقبال محسن علامہ اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد کے تعلیمی نظریات [مترجم: محمد سردار اعوان]-۳ مئی۱۹۹۸/۴۵-۵۵ ظفر اقبال محسن علامہ اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد کے تعلیمی نظریات [مترجم: محمد سردار اعوان]-۱ مارچ۱۹۹۸/۵۲-۸۷ عبدالمالک جامعی اقبال کا مقام جنوری۱۹۸۸/۱۷-۲۱ فرقان دانش خان علامہ اقبال کے تصورات اپریل۱۹۹۹/۵۴-۴۰ یوسف سلیم چشتی۔ حیات وسیرت اقبال، ایک اجمالی خاکہ نومبر۱۹۸۸/۳-۱۲ سعید الرحمن علوی (مبصر) علامہ اقبال اور مولانا محمد علی از ابو سلمان شاہ جہان پوری مئی۱۹۹۳/۶۴ قرآنِ کریم اور اقبال انور علی بخاری محاضراتِ قرآنی بعنوان افکار و پیغامِ اقبال اور قیامِ پاکستان اور انقلابِ ایران اور پاکستان میں دستورِ خلافت کی تکمیل …[روداد] جون۱۹۹۷/۵۳-۶۳ تنویر قیصر شاہد قرآنِ کریم سے اقبال کی محبت جنوری۱۹۸۹/۵۹-۶۳ تنویر قیصر شاہد قرآنِ کریم سے اقبال کی محبت مئی۱۹۹۵/۱۴-۱۸ ڈاکٹر اسرار احمد دور ِحاضر کا ترجمان القرآن اور داعیِ قرآن : اقبال[خطاب] اپریل۲۰۰۱/۲۷-۵۱ سیّد نذیر نیازی اقبال اور قرآن نومبر۱۹۸۸/۳۹-۶۴ محمد بدیع الزمان دنیوی زندگی پراقبال کے قرآنی تصورات نومبر۱۹۹۵/۷-۱۴ محمد منور، مرزا علامہ اقبال اور کتابِ زندہ -۱ فروری۱۹۸۳/۹-۱۶ محمد منور، مرزا علامہ اقبال اور کتابِ زندہ -۲ مئی۱۹۸۳/۱۰-۲۰ محمد منور، مرزا علامہ اقبال اور کتابِ زندہ -۳ جون۱۹۸۳/۱۱-۱۶ محمد منور، مرزا علامہ اقبال اور کتابِ زندہ -۴ جولائی۱۹۸۳/۳۱-۳۶ نعیم احمد خان علامہ اقبال: ایک عظیم عارفِ قرآن نومبر۱۹۹۷/۹-۲۳ افکارِ اقبال ادارہ خصوصی اشاعت ’ اقبال نمبر‘ [اداریہ] نومبر۱۹۸۸/۲ بھاسکر راج سکسینہ علامہ اقبال کے اندازِ فکر پر ویدانت کا اثر دسمبر۱۹۸۹/۸-۱۶ حافظ عاطف وحید فکرِاقبال تنقید کی زد میں [اداریہ] فروری۲۰۰۷/۲ حافظ عاکف سعید اقبال اور دورِ ابلیسیت جنوری۲۰۰۳/۲۱-۲۸ حافظ عاکف سعید سالِ اقبال ۲۰۰۲ء [اداریہ] جنوری۲۰۰۳/۲ حافظ عاکف سعید محمد رفیع الدین کی کتاب حکمت ِ اقبال [اداریہ] جنوری۱۹۸۷/۳-۴ حافظ عاکف سعید یومِ اقبال [اداریہ] جنوری۱۹۹۱/۲ ڈاکٹر ابصار احمد کیا مذہب کا فلسفیانہ اعتبار سے امکان و جواز ہے؟[تفہیم فکرِ اقبال] مئی۱۹۸۶/۳۱-۶۴ ڈاکٹر ابصار احمد یومِ اقبال اور فکرِ اقبال جنوری۱۹۸۷/۵-۱۱ ڈاکٹر اسرار احمد ہدایت قرآن کے چار پہلو اور قرآن کالج کا منصوبہ [… فکرِ اقبال سے …] جون۱۹۸۷/۳-۲۸ ڈاکٹر اسرار احمد علامہ اقبال اور ہم [ایک اہم اور خصوصی خطاب] جولائی۱۹۹۵/۷-۳۹ ڈاکٹر اسرار احمد علامہ اقبال کا پیغام اُمتِ مسلمہ کے نام جون۱۹۸۵/۳۵-۵۰ ڈاکٹر اسرار احمد علامہ اقبال کے افکار و خیالات- ۲ اگست۱۹۹۸/۱۷-۴۰ ڈاکٹر اسرار احمد علامہ اقبال کے افکار و خیالات-۱ جولائی۱۹۹۸/۲۷-۴۲ ڈاکٹر اسرار احمد فکرِ اقبال کی روشنی میں حالات ِحاضرہ اور ہمار ی قومی ذمہ داریاں جون۱۹۸۹/۱۹-۴۳ ڈاکٹر عبدالخالق خودی اور تعمیرِ معاشرہ جنوری۱۹۸۵/۲۷-۳۳ سیّد قاسم محمود نصیحت [علامہ اقبال کی ایک نظم] اپریل۲۰۰۵/۳۸-۴۰ طارق محمود سیّدنا صدیق اکبر ص… علامہ اقبال کی نگاہ میں نومبر۲۰۰۰/۵۵-۵۷ عبدالغنی فاروق علامہ اقبال اور جاگیرداری نظام جنوری۱۹۹۶/۲۱-۲۷ علائو الدین احمد حکیم الامت علامہ اقبال اور مسئلہ تقدیر اگست۱۹۹۷/۲۵-۳۲ محمد رفیع الدین دیباچہ حکمتِ اقبال مئی۱۹۸۲/۱۱-۱۳ محمد رفیع الدین سائنس کی بے خدائیت کے خلاف اقبال کا جہاد ستمبر۱۹۹۶/۱۵-۲۲ محمد سہیل قریشی اقبال کی حکمت ’ لا و اِلٰہ‘-۱ جولائی۲۰۰۳/۴۴-۴۶ محمد سہیل قریشی اقبال کی حکمت ’ لا و اِلٰہ‘-۲ اگست۲۰۰۳/۱۹-۲۰ محمد سہیل قریشی علامہ اقبال کا حیات بخش پیغام: اگر خواہی حیات اندر خطرزی جولائی۲۰۰۳/۴۴-۴۶ محمد ندیم صدیقی عالمی سیاست اور علامہ اقبال کی پیش گوئیاں-۱ اگست۲۰۰۰/۳۴-۵۲ محمد ندیم صدیقی عالمی سیاست اور علامہ اقبال کی پیش گوئیاں-۲ اکتوبر۲۰۰۰/۶۴ محمد یونس جنجوعہ علامہ اقبال اور پاکستانی قوم مئی۲۰۰۲/۳۱-۵۳ مظفر حسین اسرارِ لاالٰہ بزبانِ اقبال جولائی۱۹۸۳/۱۴-۲۴ نغمہ زیدی علامہ اقبال کی نظر میں عورت کا مقام ستمبر۲۰۰۳/۲۱-۳۳ یوسف سلیم چشتی۔ اقبال اور وحدت الوجود اگست۱۹۹۶/۱۷-۳۴ یوسف سلیم چشتی۔ اقبال اور وحدت الوجود فروری۲۰۰۴/۴۱-۵۵ یوسف سلیم چشتی۔ فلسفۂ اقبال، ایک اجمالی خاکہ [اسرارِ خودی] نومبر۱۹۸۸/۱۳-۲۴ یوسف سلیم چشتی۔ ملتِ اسلامیہ کے نام اقبال کا پیغام [خلاصہ رموزِ بے خودی] نومبر۱۹۸۸/۲۵-۳۸ یوسف سلیم چشتی۔ علامہ اقبال کا پیغام اپریل۲۰۰۵/۴۱-۴۸ محمد یونس جنجوعہ (مبصر) مثالی اُستاد (مع اقبال کے تعلیمی نظریات) از حافظ محبوب احمد مئی۲۰۰۶/۶۳-۶۴ فلسفۂ خودی [سلسلہ وار] محمد رفیع الدین اقبال کا مقامِ عظیم، سلسلہ نمبر۶ ستمبر۱۹۸۷/۳۵-۴۸ محمد رفیع الدین اقبال کے افکار،حکمت ِمغرب سے ماخوذ نہیں، سلسلہ نمبر۷ اکتوبر۱۹۸۷/۳۹-۴۶ محمد رفیع الدین آرزوئے حسن و علم کا باہمی تعلق، سلسلہ نمبر۲ فروری۱۹۸۷/۵۹-۶۹ محمد رفیع الدین حکمتِ اقبال پر ایک عمومی نظر، سلسلہ نمبر۱ جنوری۱۹۸۷/۳۳-۴۳ محمد رفیع الدین حکمتِ اقبال کی خصوصیت ، سلسلہ نمبر۴ مئی۱۹۸۷/۴۴-۵۴ محمد رفیع الدین خودی اور ذکر ، سلسلہ نمبر۶۵ جون۱۹۹۵/۷-۱۵ محمد رفیع الدین خودی اور رحمتہ للعالمینؐ، سلسلہ نمبر۲۴ تا ۲۹ اگست۱۹۹۰/۳۹-۴۴، ستمبر۱۹۹۰/۳۷-۴۲، اکتوبر۱۹۹۰/۴۲-۴۸، نومبر۱۹۹۰/۲۷-۳۲، دسمبر۱۹۹۰/۲۵-۳۰، جنوری۱۹۹۱/۲۹-۳۸ محمد رفیع الدین خودی اور سائنس ، سلسلہ نمبر۳۱،۳۲ مارچ۱۹۹۱/۲۵-۳۴، جون۱۹۹۱/۲۸-۳۶، جولائی۱۹۹۱/۳۴-۴۰ محمد رفیع الدین خودی اور سوشلزم، سلسلہ نمبر۴۹تا۵۶ مئی۱۹۹۳/۱۲-۱۸، جون۱۹۹۳/۲۵-۳۴، جولائی۱۹۹۳/۳۱-۴۲، اگست۱۹۹۳/۱۷-۲۷، ستمبر۱۹۹۳/ ۱۵-۳۰، اکتوبر۱۹۹۳/۳۲-۴۴، نومبر۱۹۹۳/۴۲-۴۸، جون۱۹۹۴/۷-۱۶ محمد رفیع الدین خودی اور عقل، سلسلہ نمبر۳۰ فروری۱۹۹۱/۳۱-۴۰ محمد رفیع الدین خودی اور علومِ مروجہ، سلسلہ نمبر۵۷تا۶۴ جولائی۱۹۹۴/۱۰-۲۶، ستمبر۱۹۹۴/۲۳-۳۷، اکتوبر۱۹۹۴/۹-۱۴، نومبر۱۹۹۴/ ۱۴-۲۰، دسمبر۱۹۹۴/ ۳۰-۳۶، جنوری۱۹۹۵/۲۶-۳۳، فروری۱۹۹۵/۵۳-۶۰، مئی۱۹۹۵/۱۹-۲۶ محمد رفیع الدین خودی اور فلسفہ سیاست، سلسلہ نمبر۴۴تا۴۸ اکتوبر۱۹۹۲/۱۶-۲۴، نومبر۱۹۹۲/۳۱-۴۰، جنوری۱۹۹۳/۷-۱۴، فروری۱۹۹۳/۲۳-۳۴، مارچ۱۹۹۳/۴۶-۶۴ محمد رفیع الدین خودی اور فلسفۂ اخلاق، سلسلہ نمبر۳۴،۳۵ اگست۱۹۹۱/۲۰-۲۵ ،ستمبر۱۹۹۱/۲۱-۲۸ محمد رفیع الدین خودی اور فلسفۂ تاریخ، سلسلہ نمبر۲۱تا۲۳ مارچ۱۹۹۰/۳۲-۳۶، جون۱۹۹۰/۲۷-۳۲، جولائی۱۹۹۰/۳۶-۴۲ محمد رفیع الدین خودی اور نشر توحید، سلسلہ نمبر۴۳ ستمبر۱۹۹۲/۱۰-۱۸ محمد رفیع الدین خودی اور آرٹ، سلسلہ نمبر۳۶،۳۷ اکتوبر۱۹۹۱/۲۶-۳۸،نومبر۹۱ /۱۴-۲۲ محمد رفیع الدین خودی کا انقلاب ، سلسلہ نمبر۳۸تا۴۲ دسمبر۱۹۹۱/۲۸-۳۶، فروری۱۹۹۲/۴۱-۴۷، مارچ۱۹۹۲/۴۷-۶۰، مئی۱۹۹۲/۱۵-۲۲، جون۱۹۹۲/۳۹-۴۹ محمد رفیع الدین خودی کی حقیقت، سلسلہ نمبر۹ تا ۲ دسمبر۱۹۸۷/۲۱-۳۲، فروری۱۹۸۸/۵۷-۷۰، جون۱۹۸۸/۳۸-۵۰، جولائی۱۹۸۸/ ۵۸-۶۴، اگست ۱۹۸۸/۴۴-۶۰، اکتوبر۱۹۸۸/۱۷-۲۳، دسمبر۱۹۸۸/۴۱-۵۰، جنوری ۱۹۸۹/۳۷-۴۶، جولائی۱۹۸۹/۵۳-۶۴، ستمبر۱۹۸۹/۵۱-۶۲، اکتوبر۱۹۸۹/۱۴-۱۹، نومبر۱۹۸۹/۵۷-۶۲ محمد رفیع الدین غلط فلسفہ بھی غلط محبت سے پیدا ہوتا ہے، سلسلہ نمبر۵ جولائی۱۹۸۷/۵۳-۶۶ محمد رفیع الدین فلسفۂ خودی کی تشریح ہمیشہ ترقی کرتی رہے گی، سلسلہ نمبر۸ نومبر۱۹۸۷/۴۷-۵۵ محمد رفیع الدین وجدان اورعقلی استدلال کا تعلق، سلسلہ نمبر۳ اپریل۱۹۸۷/۲۱-۳۰ شاعری سیّد قاسم محمود نصیحت [علامہ اقبال کی ایک نظم] اپریل۲۰۰۵/۳۸-۴۰ عبدالعزیز بخاری علامہ اقبال کے ایک شعر کی تشریح [خرد نے کَہ بھی دیا ………] اپریل۱۹۹۵/۲۹-۳۵ عصمت جاوید عکس اسرار خودی [منظوم ترجمہ’ اسرار خودی‘ یعنی فلسفہ خودی ] تمہید-۱ نومبر۱۹۹۱/۵۱-۵۶ عصمت جاوید منظوم ترجمہ اسرار خودی- حیات خودی اور تخلیق مقاصد -۳ فروری۱۹۹۲/۴۹-۵۰ عصمت جاوید منظوم ترجمہ اسرار خودی- خودی اور تعینات وجود -۲ دسمبر۱۹۹۱/۴۹-۵۰ عصمت جاوید منظوم ترجمہ اسرار خودی- خودی اور مفلسی -۵ جنوری۱۹۹۳/۶۳-۶۴ عصمت جاوید منظوم ترجمہ اسرار خودی- عشق اور استحکامِ خودی -۴ مارچ۱۹۹۲/۹۳-۹۶ نسیم الدین خواجہ علامہ اقبال کے ایک شعرکی تشریح [اے طائر لاہوتی اس رزق …] جون۱۹۹۵/۲۵-۳۰ نسیم الدین خواجہ علامہ اقبال کے دو شعروں کی تشریح ستمبر۱۹۹۵/۲۳-۲۸ ئ……ئ……ء تبصرۂ کتب ارمغانِ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی،مرتبین: پروفیسر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر عزیز ابن الحسن، ناشر: شعبۂ اردو‘ پنجاب یونی ورسٹی، اورینٹل کالج، لاہور،۲۰۰۹ئ، صفحات :۳۱۲، قیمت ۔؍۳۰۰ روپے (مجلد)۔ شعبۂ اردو،پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور نے اپنے سابقہ اساتذہ کی خدمات کے اعتراف میں ارمغان پیش کرنے کا سلسلہ۲۰۰۲ء سے جاری کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ بہت دیر سے شروع ہوا اور اس کے درمیانی وقفے بھی نسبتاً طویل رہے ہیں، لیکن اس قابلِ قدر روایت کا تسلسل خوش آئند ہے ۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کے بقول: ’’زندہ معاشرے اور بیدار مغز افراد اپنے بچھڑنے والوں کو ہمیشہ یاد کرتے اور ان کی چھوڑی ہوئی روشنی سے اپنے دِیے جلانے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں‘‘ (ص۲۷)؛ چنانچہ ارمغانِ شیرانی[حافظ محمودشیرانی] (فروری ۲۰۰۲ئ)اور ارمغانِ ڈاکٹر سید عبداللّٰہ(اکتوبر ۲۰۰۵ئ) کے بعد شعبۂ اردو نے اسی تسلسل میں ارمغانِ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی پیش کی ہے ۔ اور یہ بات مزید اطمینان کا باعث ہے کہ مستقبل میں ارمغانِ سید وقار عظیم، ارمغانِ ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ارمغانِ سجاد باقر رضوی کا وعدہ بھی دہرایاگیا ہے۔ ارمغان کے پہلے حصے میں ڈاکٹرخواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر سیف اللہ خالد اور سلمیٰ صدیقی کے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے بارے میں مضامین شامل ہیں، جب کہ اسی حصے کے آخر میں صدیقی صاحب کی غیر مطبوعہ آپ بیتی کے منتخب حصے پیش کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے ستمبر ۱۹۶۰ء سے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کی رحلت تک ان سے اپنے تعلقات اور یادداشتوں کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے، جب کہ مضمون کے دوسرے حصے میں ان کے علمی کارناموں کا تعارف پیش کیا ہے۔ خواجہ صاحب نے محض تصانیف و تالیفات کا تعارف ہی نہیں کرایا، بلکہ ان پر بڑی دیانت داری سے تنقیدی نگاہ بھی ڈالی ہے۔ ’بیادِ افتخار احمد صدیقی‘ اپنے مندرجات اور اندازِ بیان کے اعتبار سے پُراثر مضمون ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے اس مضمون کا آغاز و اختتام موت کی سنگینی اور اس کے اثرات کے حوالے سے اچھوتے انداز میں کیا ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کی تحقیق، تدوین، ترتیب، تراجم اور شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے بعض اہم واقعات نہایت اختصار، لیکن جامعیت سے بیان کیے ہیں۔ صدیقی صاحب کے حافظے کے انحطاط سے رونما ہونے والی صورتِ حال کو صاحبِ مضمون نے بڑی دل گرفتگی سے قلم بند کیا ہے،بلا شبہ حقیقی جذبات نگاری اورمؤ ثر اندازِ بیان کے اعتبار سے یہ مضمون چیزے دِگر ہے۔ ’’افتخار احمد صدیقی: بے لوث معلم‘بے بدل محقق‘‘ میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے زمانۂ طالب علمی سے وابستہ اپنی یادوں کے حوالے سے بطور معلم اور بطور ممتحن، صدیقی صاحب کی شخصیت کے بعض پہلوئوں سے پردہ اٹھایا ہے، ان کے خطوط کی مدد سے ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے عدم اعتراف سے رونما ہونے والے المیے کا ذکر کیا ہے۔ جزئیات نگاری، استخراجِ نتائج اور دل چسپی کے اعتبار سے یہ ایک عمدہ اور پُر اثر تحریر ہے۔مضمون کے آخر میں صدیقی صاحب کے گیارہ خطوط (مع حواشی و تعلیقات) پیش کیے گئے ہیں، جن سے صدیقی صاحب کے کئی منصوبوں، خواہشات، رویوں اور اسلوبِ حیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ پروفیسر سیف اللہ خالد نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے ان ایام کو یاد کیا ہے، جو انھوں نے اسلامیہ کالج، لاہور میں گزارے تھے۔ صدیقی صاحب کی غیر مطبوعہ خودنوشت نقشِ دوام کے اقتباسات پر مشتمل یہ مضمون بہت سی تلخ و شیریں یادوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ بقول مرتب، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کی خود نوشت تقریباًسو صفحات پر مشتمل ہے، جس میں آبا و اجداد، بچپن، لڑکپن، تعلیمی مراحل، ہجرت، ملازمت، اسلامیہ کالج، یونی ورسٹی اورینٹل کالج اور اسلامیہ یونی ورسٹی کے حوالے سے صدیقی صاحب نے اپنے تفصیلی حالات اور مشاہدات و تجربات قلم بند کیے ہیں۔ مرتب نے اس کے کچھ منتخب حصے پیش کیے ہیں، جن سے قارئین کو مرحوم کے مراحلِ حیات اور افتادِ طبع اور مقاصدِ حیات کی تکمیل کے لیے ان کی جدوجہد کا کچھ اندازہ ہو سکے گا۔ (ص۹۶-۹۷) بائیس صفحات پر پھیلے ہوئے یہ اقتباسات اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ مرتب نے اس بات کی کامیاب کوشش کی ہے کہ قاری ان منتخبات کے مطالعے کے نتیجے میں صدیقی صاحب کے تمام حالات سے نہ سہی، تمام مراحلِ حیات سے ضرور شناسا ہو جائے ۔ ’روشنی کا سفر‘ میںسلمیٰ صدیقی نے جس کرب اور خلوص سے اپنے والد گرامی کو یاد کیا ہے، وہ اندازِ تحریر بجاے خود تڑپا دینے والا ہے۔ سلمیٰ نے بجا طور پر ایک بیٹی کے جذبات کی عکاسی کی ہے اور حقیقی معنوں میں اپنے والد کی یاد آوری کا حق ادا کر دیا ہے۔ انھیں بات کہنے کا سلیقہ بھی آتا ہے اور گفتگو کو پُرتاثیر بنانے کا ہنر بھی۔ والد کی ابتر ہوتی ہوئی ذہنی حالت کے پس منظر میں ایک بیٹی کی نفسیاتی کیفیات اورذہنی کرب کا اس سے بہتر بیان شاید ہی ممکن ہو۔ ارمغان کا دوسرا حصہ صدیقی صاحب کے پسندیدہ موضوعات، بلند پایہ اور معیاری مضا مین پرمشتمل ہے۔ مضمون نگاروں میں ایک طرف ہماری تحقیقی روایت کے امین دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب تازہ واردانِ تحقیق اپنی کاوشوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ڈاکٹر حنیف نقوی، پروفیسر عبدالحق اور ڈاکٹر عارف نوشاہی کے مضامین خالص تحقیقی نوعیت کے ہیں۔ یہ مضامین اپنے مندرجات اور نتائج کے اعتبار سے خاصے کی چیز ہیں۔ ڈاکٹر حنیف نقوی نے ’غالب سے منسوب تین جعلی تحریریں‘ کے نام سے اپنے مضمون میں صفدر مرزا پوری کے دریافت کردہ غالب کے دو خطوط (بنام:مولانا احمد حسین مینا مرزا پوری) اور پتنگ کے موضوع پر غالب کی قدیم ترین نظم کو قوی دلائل کے ساتھ جعلی قرار دیا ہے۔ محقق کے نزدیک تحقیق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی راوی صریحاً غلط بیانی یا جعل سازی کا مرتکب پایا جائے تو اس کی کوئی روایت قبول نہیں کی جا سکتی۔ صفدر مرزا پوری، غالب کے دو خطوط وضع کر کے اپنی ثقاہت کا بھرم کھو چکے ہیں … یہاں یہ وضاحت بھی بے محل نہ ہو گی کہ صفدر مرزا پوری لکھنؤ میں وصلؔ بلگرامی کی قیام گاہ کی اس محفل کے مستقل شرکاء میں شامل تھے، جس میں آسی صاحب احباب کی فرمائش پر اکثر ’غالب کا غیر مطبوعہ کلام‘ پیش کرتے رہتے تھے۔ (ص۱۳۲-۱۳۳) ڈاکٹر حنیف نقوی کی اس تحقیق کو غالبیات میں بِلا تامّل ایک اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’’تذکرئہ الٰہی کا نایاب اور واحد خطی نسخہ‘‘ میں پروفیسر عبدالحق نے میر الٰہی ہمدانی کے حالاتِ زندگی، معاصرین و اکابرین کی آرائ، تذکرئہ الٰہی کا تعارف اور دیگر نسخوں سے اس کا تقابل پیش کیا ہے۔ ان کے خیال میں: ’’فردِ واحد کی فن کاروں کی جامع فہرست سازی، معلومات کی فراہمی، تخلیقات کا استناد کے ساتھ انتخاب اور انتقاد، ہمت اور حوصلے کی دلیل ہے‘‘۔ محقق کا یہ کہنا بجا ہے کہ میر الٰہی ہمدانی جیسے ادبی تاریخ کے گنجینۂ گہر شاعری میں کم سہی، مگر ادبی تاریخ کے مؤرخوں اور محافظوں کی صف میں ممتاز اور محترم مقام کے مالک ہیں۔ان کی راے میں: ’’اگر فردوسی و انوری و سعدی تخلیق کی تثلیث ہیں تو عوفی و اوحدی اور میر الٰہی تاریخ و تنقید کے سہ تن پیمبرانند کیوں نہیں؟‘‘ (ص۱۴۲) ڈاکٹر عارف نوشاہی نے اپنے مضمون ’ثواقب المناقب اولیاء اللہ‘ میں مولانا روم اور ان کے خاندان اور وابستگان پر ایک جامع ترین ماخذ، یعنی شمس الدین احمد افلاکی عارفی (م:۷۶۱ھ) کی قابلِ قدر تالیف: مناقب العارفین کی ایک اہم تلخیص ثواقب المناقب اولیاء اللّٰہ (از عبدالوہاب بن جلال الدین محمد ہمدانی)کا تعارف پیش کیا ہے۔ فاضل محقق نے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں اس تلخیص کے تین غیر مطبوعہ قلمی نسخوں کی نشاندہی بھی کی ہے، جن کی بنیاد پر انھوں نے ایک مستند نسخہ مرتب کر کے شائع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اقبالیاتی حوالے سے غلام رسول ملک، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور ڈاکٹر خالد ندیم کی تحریریں شامل ہیں۔ پروفیسر غلام رسول ملک کے تحقیقی و تجزیاتی مضمون کو اگر ارمغان کی تابندہ تر تحریر قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انھوں نے چھے صفحات کو محیط اپنے مختصر مضمون میں اردو کی نعتیہ شاعری کے مرکزی خیال کو گرفت میں لیتے ہوئے اقبالؒ کے ادراک و تخیل اور قلب و رُوح میں جاگزیں مقامِ مصطفویؐ کی نشان دہی کی کوشش کی ہے۔ ان کے خیال میں ’’اقبال کی نعتیہ شاعر ی(بلکہ حق یہ ہے کہ ان کی تمام شاعری) میں مقامِ محمدیؐ کا یہ عرفان وسیع تر، جمیل تر اور مؤثر تر انداز میں سامنے آیا ہے۔ انھوں نے مقامِ محمدیؐ کی جامعیت اور اُن کے انقلابی کارنامے کے مختلف ابعاد کا احاطہ کیا ہے اور پھر دیوانہ وار اپنی عقیدت مندیاں اس پر نچھاور کی ہیں‘‘۔ (ص ۱۵۷) ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کا شمار اگرچہ نوواردانِ اقبالیات میں ہوتا ہے، لیکن ان کی تحریروں میں علمی متانت، تحقیقی سنجیدگی اور اسلوبیاتی شگفتگی سے ان کے درخشندہ ادبی مستقبل کی نشان دہی ہوتی ہے۔ ’علامہ اقبال کا علامتی اسلوب‘ میں انھوں نے کلامِ اقبال کے علامتی نظام کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ شاہین، لالہ، پروانہ، جگنو، نَے، خونِ جگر، ساقی، آہو اور فقر جیسی علامات اور ان کے تلازمات اور اسی طرح بطور تلمیح معاشرتی ، سیاسی، جغرافیائی، تہذیبی، علمی اور مذہبی شخصیات اور ان کے علامتی اظہار پر سیر حاصل گفتگو کے بعد انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلامی ثقافت و تہذیب کے باطن میں جھانکنے میں یہ علامتیں معاون ٹھہرتی ہیں۔ تلمیحی کردار بڑی سہولت کے ساتھ علامتی کرداروں میں مبدل ہو گئے ہیں۔ ان مرکزی علامتوں کی موجودگی نے کلامِ اقبال میں فکری عناصر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے فنی اعتبار سے بھی حسن وعذوبت کا مرقع بنا دیا ہے۔ مزید برآں ’’اقبال کے علامتی اشعار میں تشبیہ، استعارہ، تجسیم، تمثیل اور تمثال جیسے دل کش عناصر کی آمیزش نے عجیب و غریب رنگ دِکھائے ہیں اور ان کی وساطت سے علامہ کے مواقف زیادہ نکھر کر سامنے آئے ہیں۔ یوں ایک بڑی سطح پر دیکھیں تو اقبال کی شاعری خود ایک علامت بن گئی ہے ____تحریک، تیقّن اور انقلاب کی علامت!‘‘ (ص۱۹۶-۱۹۷) ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اردو غزل کا تکنیکی، ہیئتی اور عروضی سفر کے توسط سے اپنی علمی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں۔’ ’اقبال کا ایک شاگرد اور مقلد: اسلم‘ ‘میں ناشاد اپنے دائرۂ تحقیق کی وسعتوں کا احساس دلانے میں کامیاب رہے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں انھوں نے محمد اسلم خان کا تعارف کرایا ہے، جو غالباً اقبال سے اصلاح لیتے رہے ۔ بقول محقق: ’’اسلم محض فکرِ اقبال کے خوشہ چیں اور مقلد نہیں، بلکہ لفظیات، اسالیبِ بیان، تکنیک، ہیئت اور فن کے دیگر آرائشی عناصر کے استعمال میں بھی وہ اقبال کی پیروی کرتے دِکھائی دیتے ہیں‘‘۔ (ص۲۶۶) چنانچہ اسلم کے ہاں موضوعات و عناوین کے ساتھ ساتھ اس کے مجموعۂ کلام کے نام (نغمۂ جاوید)میں بھی فیضانِ اقبال کی جلوہ گری محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس قسم کی تقلیدی روِش کواقبال کے پیغامِ خودی سے متصادم قرار دیا جا سکتا ہے، اسی لیے علم و ادب کی دنیا میں ایسی روش تحسینی کلمات کی مستحق نہیں ٹھہرتی، تاہم محقق کی جستجو کی داد دینی چاہیے، جنھوں نے سکندر خاں کی کتاب دامنِ اباسین میں موجود ایک سرسری ذکر کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا اور اقبال کے ایک شاگرد اور مقلد کے کوائف جمع کر دیے۔ ’آلِ احمد سرور کے چند اقبالیاتی خطوط‘ میں راقم نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نام سرور کے چار ایسے خطوط مرتب کیے ہیں، جن میں اقبالیاتی حوالے سے بعض اہم امور زیرِ بحث آئے ہیں۔ خطوط سے پہلے مکتوب نگار کا تعارف، اقبال سے وابستگی، مکتوب الیہ سے تعلقات کی نوعیت اور خطوط کی بعض خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ خطوط کی بہتر تفہیم کے لیے حواشی و تعلیقات کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی اور ڈاکٹر عزیز ابن الحسن کے مضامین سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شاعر ہی نہیں نقاد کے طور پر بھی ،حالی کس قدر اہم اور توجہ کے قابل ہیں۔پروفیسر ابوالکلام قاسمی اپنی تحقیقی ژرف نگاہی اور تنقیدی اُپج کے حوالے سے اردو زبان و ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ’الطاف حسین حالی اور غزل کی تنقید‘ میں انھوں نے غزل سے متعلق حالی کے نظریات کے پس منظر میں غزل کے عصری مباحث کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ غزل پر کیے گئے حالی کے اعتراضات اور سادگی، اصلیت، جوش اور لفظ پرستی جیسے تصورات کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد قاسمی صاحب کہتے ہیں: بیسویں صدی میں غزل کے اسالیب میں جو تنوع پیدا ہوا، اسے تنقیدی طور پر شعری اظہار کے نئے مباحث اور مغربی تنقید میں رائج ہونے والی صناعی، پیکرتراشی، پیراڈوکس، تناؤ، طنزیہ تہ داری وغیرہ سے سہارا ملا اور بدلی ہوئی شعریات میں اس نوع کی جدید غزل بہت سے نئے مباحث کا پیش خیمہ بن گئی۔ ان مباحث میں زبان کے استعمال کی نوعیت غزل کی صنف کے لیے اس باعث زیادہ اہمیت اختیار کر گئی کہ جس رویّے کو حالی نے لفظ پرستی کہا تھا، وہ شعری تنقید کا نیا حوالہ بن کر سامنے آئی۔ (ص ۱۵۴) ’مقدمۂ شعر و شاعری: ایک تجزیاتی مطالعہ‘ میںڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے مولانا حالی کے تنقیدی افکار و خیالات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور مقدمے کے اکثر مباحث کا مفصل تجزیہ کیا ہے۔ مقدمے کے مندرجات پر تحقیقی و تنقیدی حوالے سے یہ ایک قابلِ قدر تحریر ہے، جو علمی اعتبار سے بھی مفید ہے اور تدریسی اعتبار سے بھی۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیراردو ادب کے استاد اور ذمہ دار نقاد ہیں۔ ان کی تحریریں ہمارے جدید اردو تنقیدی رویوں پر ان کی گہری نگاہ کی غماز ہیں۔ ’وسطی جدید اردو تنقید: مغربی تناظر میں‘ کے تحت انھوں نے بیسویں صدی کے پہلے چار عشروں میں اردو تنقید پر مغربی اثرات کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ استعماری تہذیبی غلبے کے نتیجے میں نوآبادیات کی فکری انفعالیت، یورپ سے درآمدہ تنقیدی نظریات کی بلا حیل و حجت قبولیت اور ان کے زیرِ اثر وجود میں آنے والی نشاۃ ثانیہ کی بعض تحاریک کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ مضمون اپنے نظری افکار اور علمی متانت کے پیش نظر ارمغان کی قابلِ قدر تحریر قرار دیا جا سکتا ہے۔ کتاب کے آخر میں قاسم محمود احمد نے مضمون نگاروں کامختصر تعارف مرتب کر کے قارئین کے ذوقِ مطالعہ کو تحریک دینے کاسامان کر دیا ہے۔ ان کی یہ کاوش قاری اور مضمون نگار کو زیادہ قریب لانے کا باعث بنے گی۔ اس ارمغان کو مرتب کرنے میںمرتبین نے جس مستعدی اور جاںفشانی سے کام لیا ہے، وہ بجاے خود داد کے قابل ہے۔ یہ ارمغان اپنے مندرجات اور طباعت، ہر دو اعتبارسے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے شایانِ شان قرار دیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں فاضل مرتبین کے ساتھ ساتھ صدرِ شعبۂ اردو کو بھی مبارک باد دی جانی چاہیے، کہ انھوں نے کم وقت اور محدود وسائل کے باوجود صاحبِ ارمغان سے اپنی محبت اور احترام کا عملی اظہار کیا ہے۔اس سلسلۂ ارمغان سے جامعہ پنجاب نے دیگر جامعات کے لیے ایک قابل تقلید اور روشن مثال بھی قائم کی ہے۔ ------ڈاکٹر خالد ندیم ژژژ کتاب الاسفار عن نتائج الاسفار، مصنفہ ، شیخ اکبر محی الدین محمد ابن عربی۔ ؒ اردو ترجمہ:روحانی اسفار اور ان کے ثمرات، از ابرار احمد شاہی۔ ناشر: ابن عربی فاونڈیشن راولپنڈی ، صفحات ۲۵۰، قیمت: (پاکستان)-؍۴۴۰، (بیرون ملک) -؍ ۲۵ ؍ امریکی ڈالر۔ عربی متن کے ساتھ شائع ہونے والی یہ کتاب شیخ اکبرکا ایک رسالہ ہے ۔عربی متن کی تحقیق ڈینس گرل (فرنچ) اور فاضل مترجم نے کی ہے ۔ شیخ اکبر ؒ کے مطالب و معانی کا ترجمہ یا ترجمانی خاصا مشکل کام ہے ، اس کی وجہ فقط ایک زبان سے دوسری زبان میں ان کو منتقل کرنے کی دقت نہیں ہے بلکہ شیخ اکبر ؒ کا اپنا ایک مخصوص اندازِنگارش ہے ، جس میںمتن انتہائی آسان عربی میں ہوتا ہے مگر معانی و مطالب انتہائی دقیق پرتوں میں ملفوف ہوتے ہیں ۔شیخ ؒ کے انداز بیان نے بڑے بڑوں کو فکر و نظر کی مشکلات میں مبتلا کیے رکھا ہے۔ زیر نظر رسالے سے شیخ اکبرؒ کا پورا نظامِ ادراک واضح ہوجاتا ہے۔ رسالے میں درج آخری سفر’’ سفر الحذر‘‘ میں وہ لکھتے ہیں : لایعرف ابداً الّا بالعجز عن معرفتہٖ۔ و ذلک ان نقول : لیس کذا و لیس کذا مع کوننا نثبت لہ ما اثبتہ لنفسہٖ ایماناً لا من جہۃ عقولنا و لا نظرنا، فلیس لعقولنا الا القبول منہ فیما یرجع الیہ، فہو الحی {ہُوَ اﷲُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَج اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ}، {عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِج ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ}، {الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ} {الْحَکِیْمُ} [الحشر، ۳۹: ۲۲۔ ۲۴]، بہذا وامثالہ اخبرنا عن نفسہ فنؤمن بذلک کلہ علی علمہ بذلک لا علی تأویل منا لذلک؛ فانہ {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیٌْج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ}[الشوریٰ، ۴۲: ۱۱]، فلا ینضبط لعقل ولا لنظر فیما لنا من العلم بہ من طریق الاثبات الا ما اوصلہ الینا فی کتبہ وعلی السنۃ رسلہ المترجمین عنہ لیس غیر ذلک۔ ونسبۃ ہذہ الاسماء الیہ غیر معلومۃ عندنا؛ فان المعرفۃ بالنسبۃ الی امر ما موقوفۃ علی علم المنسوب الیہ وعلمنا بالمنسوب الیہ لیس بحاصل، فعلمنا بہذہ النسبۃ الخاصۃ لیس بحاصل، فالفکر والتفکر والمتفکر یضرب فی حدید بارد۔ جعلنا اﷲ وایاکم ممن عقل ووقف عند ما وصل الیہ منہ- سبحانہ - ونقل۔ (ص۱۹۸) وہ ہمیشہ اپنی معرفت کے عدم سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ ہمارا یوں کہنا ہے: وہ ایسا نہیں ، وہ ایسا نہیں، لیکن ہم اس (ذات) کے لیے ایمان سے- نہ کہ اپنی عقل اور فکر سے -وہ ثابت کرتے ہیں جو اُس نے خود کے لیے ثابت کیا۔ ہماری عقلوں کے لیے بھی اس میں سے صرف وہی قبول کرنا ہے جو اُسی کی طرف لوٹتا ہے۔ پس وہی زندہ ہے {جس کے سوا کوئی معبود نہیں المالک، القدوس، السلام، المومن، المہیمن، العزیز، الجبار اور المتکبر ہے۔} {غیب و شہادت کا جاننے والا ہے، الرحمن اور الر حیم ہے} {وہ الخالق ، الباری، المصور اور الحکیم ہے } (الحشر: ۲۲-۲۴) اس نے ہمیں اِن (صفات ) اور ان جیسی (صفات) کا خود کو حامل بتایا ہے چنانچہ ہم ان سب (صفات) پر اس کے بتانے سے ایمان رکھتے ہیں، اپنی (عقلی) تاویل سے نہیں کیونکہ {اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے} (الشوریٰ :۱۱) اس لیے وہ عقل اور فکر کی قید میں نہیں آسکتا۔ یوں ہمارے پاس اثبات کے راستے سے اس (ذات) کا وہی علم ہے جو اس نے اپنی کتابوں میں یا اس کی ترجمانی کرنے والے اپنے رسولوں کی زبانی ہم تک پہنچایا، اِس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان اسماء کی اُس (ذات) سے نسبت ہمیں معلوم نہیں کیونکہ کسی معاملے میں نسبت کی معرفت، منسوب الیہ (جس کی طرف نسبت کی جارہی ہے) کے علم پر موقوف ہوتی ہے جبکہ ہمیں منسوب الیہ (یعنی اُس ذات پاک ) کا کوئی علم نہیں لہٰذا ہمیں اس خاص نسبت کا بھی کچھ پتا نہیں۔ فکر ، تفکر اور مفکر ٹھنڈے لوہے پر ضرب لگاتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو ایسا بنادے جو فہم رکھتے ہیں اور جب ان کی طرف اس پاک ذات سے کچھ آتا ہے یا لایا جاتا ہے تو اسی پر توقف کرتے ہیں۔(ص ۱۹۹) فاضل مترجم نے ترجمہ کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ متن کے قریب قریب رہیںاور ان کی یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی۔ بعض مقامات پرالبتہ متن اور ترجمہ میں دوری کا احساس ہوتا ہے، متن میں چند مقامات ایسے ہیں جن کے لفظی ترجمے سے شیخ ؒ کے مطالب کا ابلاغ ممکن نہیں تھا، اسی طرح کہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ترجمانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے شیخ ؒ کا مدّعا عیاں ہونے کے بجائے مستورہو گیا ہے ۔بایں ہمہ ترجمہ کرنے کی سعی لائق ستائش ہے اور محترم مترجم سے التماس ہے کہ وہ اپنی اس استعداد پر مزید توجہ دیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ شیخ کے مطالب کو بیان کرنے میں بہتری کی جانب اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ کتاب کو اچھے اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔ آفسٹ بک پیپر استعمال کیا گیا ہے، سرورق کو دیدہ زیب بنایا گیاہے ۔ شروع میں فاضل مترجم نے ایک مقدمہ بھی لکھا ہے جس میں شیخ اکبر ؒ کی چند اصطلاحات کی توضیح کے علاوہ تصوف سے متعلق مفید معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ کتاب کا اصل متن ۱۵۴ صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں دائیں جانب عربی متن ہے اور بائیں طرف اردو ترجمہ۔اس کے بعد عربی حواشی اور پھر اردو حواشی درج ہیں ۔ شیخ اکبر ؒ کے دست نوشت مخطوطے کا عکس بھی شامل کیا گیا ہے ۔ آخر میں شیخ ؒ کے زیر نظر رسالے کے مخطوطات کے متعلق تفصیل درج ہے ۔ ------خضر یاسین ژژژ اسلامی اور مغربی تہذیب کی کشمکش (فکر اقبال کے تناظر میں)، ڈاکٹر محمد آصف، ناشر: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ۲۰۰۹ئ۔ صفحات:۵۷۵، قیمت: ۔؍۵۰۰ روپے۔ زیر نظر کتاب کا عنوان معاصر علمی موضوعات میں سے ایک ہے۔ موضوع دلچسپ لیکن خاصا پیچیدہ ہے۔ ’’فکر اقبال کے تناظر میں‘‘ کے لاحقے نے موضوع کو محدود اور متعین کر دیا ہے۔ مصنف نے موضوع کو سمیٹنے کے لیے چار ابواب بنائے ہیں۔ پہلے باب میں ’’تہذیب کی ماہیت‘‘ کو تعلیمی (Academic) انداز سے زیر بحث لایا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ’’اسلام اور مغرب کے مابین روابط‘‘ کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں ’’اقبال کی شخصیت کے تہذیبی عوامل‘‘ پر بحث کی گئی ہے۔ چوتھے اور آخری باب میں کتاب کے اصل موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ آخر میں اختتامیہ اور کتابیات کی فہرست دی گئی ہے۔ یہ کتاب پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے لکھا جانے والا مقالہ ہے۔ نفسِ موضوع کا تقاضا ہے کہ اسے ایک مخصوص Academic ماحول سے ہٹ کے ہونا چاہیے تھا لیکن بہرحال یہ بھی غنیمت ہے کہ مصنف نے ایک ایسے موضوع پر محنت کی ہے جو ہمارے موجودہ شعوری مزاج کے لیے بہت کم کشش کا باعث بنتا ہے۔ مصنف نے حوالہ جات سے اپنے موقف کو ثابت کرنے کی سعی کی ہے، بہتر ہوتا اگر وہ تہذیب یا حضارت کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر قائم کرتے۔ تہذیب کی تعریف میں ۱۵ حوالے نقل کیے ہیں مگر نتیجہ ایک دو سطروں میں انتہائی مبہم اور غیر واضح بیان کرنے پر قناعت کر لی ہے۔ علاوہ ازیں ’’تہذیب‘‘ کے معنی کو متعین کرنے میں متضاد تصورات اکٹھے کر دیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مصنف جب بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں وہ ایک نئے مدلول کی جانب اشارہ کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ’’اسلام اور مغرب کے مابین روابط‘‘ کے عنوان کے تحت دوسرے باب میں تہذیبوں کے مابین تعلقات اور اسلام اور مغرب کے مابین روابط پر روشنی ڈالی ہے۔ اس باب میں مصنف نے لکھا ہے کہ ’’مسلم تہذیب کے رو نما ہونے کے بعد اسلام ایک عالمی نظام اور عالم گیر ریاست تو بن گیا لیکن عالمی تہذیب نہیں بن سکا‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تہذیب اور ریاست ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ اگر تہذیب کے مدلول کے بارے میں مصنف کا ذہن واضح ہوتا تو وہ یہ بات نہ لکھتے۔ اسلام نہ تو کبھی عالمی نظام رہا ہے اور نہ کبھی عالم گیر ریاست بنا ہے۔ تہذیب ہوا میں معلق شے ہونے کی بجائے عمرانی اقدار کے شعور سے عبارت ہے۔ اس لیے جغرافیائی حدودکے تناظر اور زمان و مکان کے ابعاد میں اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔ علامہ ؒ کے متعلق ابواب میں بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ بعض موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔مصنف نے اچھے اچھے نکات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب دلچسپ ہے اور معلومات کا خزانہ ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ مصنف اپنی علمی کاوشوں کو جاری رکھیں گے۔ ------خضر یاسین ژژژ