بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق فن اور شخصیت ڈاکٹر سید معراج نیئر حصہ اول حرفے چند زیر نظر مقالہ میری ایک دیرینہ آرزو کی بدست دگر صورت اتمام ہے۔۔۔ بابائے اردوڈاکٹر مولوی عبدالحق میرا پہلا عشق اور میری پہلی ادبی ترجیح ہیں اور رہے ہیں۔ ان کی عمر عزیز کے آخری دو برسوں میں مجھے ان کی خدمت میں حاضری کی عزت اور سعادت حاصل رہی۔ میں نے کراچی اور پھر لاہور سے بابائے اردو کی شخصیت اور خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کی آرزو اور کوشش کی لیکن کراچی یونیورسٹی موضوع تحقیق اور پنجاب یونیورسٹی میں امیدوار تحقیق اصحاب مجاز کے لئے ناپسندیدہ اور معتوب ٹھہرا، اور مجھے دوسرے موضوعات کی طرف نکل جانا پڑا بایں ہمہ مولوی عبدالحق آج بھی میرا محبوب موضوع ہیں ان کی شخصیت اور خدمات کے بارے میں میری بعض کتابی کاوشوں کی کچھ قدر بھی ہوئی۔۔۔۔ میرے لئے اطمینان کی بات یہ بھی ہے کہ مجھے بابائے اردو کی ذات اور خدمات سے اپنے گہرے شغف کو اپنے بعض شاگردوں کا درد سر بنانے میں کسی قدر کامیابی ہوئی ہے۔ جن میں ڈاکٹر سید معراج نیر کا نام بہت نمایاں ہے۔ مولوی عبدالحق کے بارے میں پیش نظر مقالہ میری تجویز اور تحریک پر لکھا گیا اس کے لئے میں نے بطور خاص سید معراج نیر کا انتخاب کیا جن کی محنت، مستعدی اور شرافت نفس کا میں ان کی ایم اے کی طالب علمی کے زمانے سے معترف اور مداح رہا ہوں۔۔۔۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ زیر نظر مقالہ میری ایک دیرینہ آرزو کی بدست دگر صورت اتمام یا تعبیر نا تمام ہے! پنجاب یونیورسٹی لاہور کی جانب سے اس کام کی نگرانی کی ذمہ داری میرے اور ڈاکٹر عبید اللہ خان کے سپرد ہوئی لیکن خان صاحب نے اسے زیادہ موزوں خیال کیا کہ بے خلل وہی اس کام سے وابستہ رہیں مجھے موضوع اور مقالہ نگار کی عافیت نیک مطلوب تھی خان صاحب کی خوشی و خوشنودی کو مقدم جانا، بے دخلی اور دستبرداری (یا دستبرد) کو گوارا گیا۔ خیر اور خوشی کا پہلو یہ ہے کہ جیسے تیسے کام مکمل ہوا حد انتہا کس نے پائی ہے کار تحقیق کس سے، کب تمام ہوا ہے اور پھر اس کام کی دیکھ ریکھ میں میرا دخل ہوتا بھی تو کیا ضرور تھا کہ یہ کام ویسا ہی ہوتا۔ جس کا میں نے خواب دیکھا اور منصوبہ بنایا تھا۔ کسی عہد آفریں شخصیت کے کارناموں کا احاطہ یا حق ادا کرنا کسی ایک جست یا کوشش میں ممکن بھی نہیں ہوتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں ڈاکٹر سید معراج نیر کے اس کام سے بے نیاز ہو کر بابائے اردو مولوی عبدالحق کے علمی کارناموں کا کوئی جائزہ لینا ممکن نہیں ہو گا، اور یہ کچھ کم اہم بات نہیں! بابائے اردو مولوی عبدالحق کو اس خاکدان ارضی سے رخصت ہوئے ایک تہائی صدی ہو رہی ہے ڈاکٹر سید معراج نیر پاکستان کے پہلے اور واحد ریسرچ اسکالر ہیں جنہوں نے بابائے اردو پر تحقیقی کام کر کے پی ایچ ڈی کی سند فضیلت پانے کا قابل رشک امتیاز اور اعزاز حاصل کیا۔۔۔۔ میری خوشی دو چند ہوئی جب جمیل النبی صاحب نے میری خواہش پر اس مقالے کو بابائے اردو کی تینتیس ویں برسی کی مناسبت سے اپنے اشاعتی پروگرام میں شامل کیا، خدا انہیں جزائے خیر دے اور توفیقات عالیہ سے نوازے۔ امید ہے کہ اس علمی کام کی قدر کی جائے گی اور بات اسی مقالے تک نہیں رہے گی، مولوی عبدالحق کی خدمات،ا ن کے اثرات اور احسانات کا سلسلہ شناخت اور اعتراف، کارواں در کارواں آگے چلے اور بڑھے گا۔۔۔۔۔۔ لیکن اتفاق یا اختلاف، دونوں صورتوں میں سید معراج نیر کے اس کام کا حوالہ ناگزیر ہو گا، اسی میں ا س کتاب اور کام کی اہمیت اور منزلت مضمر ہے۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن پروفیسر و صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور ٭٭٭٭٭٭ پیش لفظ اردو زبان اور ادب پر مولوی عبدالحق کی ذات نصف صدی سے زیادہ چھائی رہی جس کے نتیجے میں اردو کا ذکر مولوی عبدالحق کے تذکرے سے اور مولوی عبدالحق کا تذکرہ اردو کے ذکر سے کچھ اس طرح پیوست ہو گیا کہ شاہد و مشہود کی تمیز نہ رہی۔ مولوی عبدالحق نے اپنا لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا سارے کا سارا اردو پر قربان کر دیا۔ انہیں ایک ہی دھن رہی کہ اردو زبان کو اس کا جائز مقام ملے اور وہ اتنی پھلے پھولے کہ بین الاقوامی زبانوں کے شانہ بہ شانہ چل سکے۔ انہوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے عملی میدان میں بھی قدم رکھا۔ تھکا دینے والی طویل مسافتوں کے سفر کئے، خطبات دئیے اور لوگوں کو اردو کی عظمت اور اہمیت کا قائل کیا۔ اس ضمن میں انہیں غیروں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا اور اپنوں کی ستم ظریفیوں کا بھی شکار ہونا پڑا۔ مضامین لکھے، خاکے قلمبند کئے، تبصرے تحریر کئے، رسالے نکالے، دور افتادہ مقامات پر اردو کے مدرسے قائم کئے، انجمن ترقی اردو کی شاخیں کھولیں، قاعدے لکھے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر قدیم مخطوطات منظر عام پر لائے تاکہ اردو کی قدامت کو ثابت کیا جا سکے ان کی یہی ولولہ انگیز شخصیت میرے لئے باعث کشش ہوئی اور جب میں نے پی ایچ ڈی کے لئے موضوع کا انتخاب کرنا چاہا تو مولوی عبدالحق کی ذات میرا محور بنی میں نے سوچا کہ ’’ مولوی عبدالحق احوال و آثار‘‘ پر کام کروں لیکن موضوع کی وسعت کے پیش نظر استاد گرامی خواجہ محمد زکریا صدر شعبہ اردو جامعہ پنجاب لاہور نے ازراہ شفقت مولوی عبدالحق کی ہفت پہلو شخصیت کے ایک گوشہ’’ مولوی عبدالحق بطور محقق‘‘ کا تعین کرایا موضوع طے ہوتے وقت یقینا مجھے یہ احساس نہ تھا کہ مولوی عبدالحق کا یہ پہلو بھی بہت وسعت رکھتا ہے اور اسے ہی سنبھالنا میرے لئے آسان نہ ہو گا پھر بپتا یہ پڑی کہ میں اس زمانے میں جب ذہنی اور عملی طور سے اس کام کا آغاز کر چکا تھا، درس و تدریس کے بجائے انتظامی امور کی سولی پر بطور پر نسپل متعین کر دیا گیا مجھے لاہور سے شہر بدر کر کے نارنگ منڈی کے دور افتادہ علاقے میں تعینات کر دیا گیا۔ اس دلبرداشتہ ہو جانے والی منزل پر میرے استاد اور مقالہ کے نگران و رہنما ڈاکٹر عبیداللہ خان صاحب اور ڈاکٹر سید معین الرحمن نے مجھے حوصلہ دیا آہستہ آہستہ کام آگے بڑھنا شروع ہوا سرکاری فرائض منصبی کی تکمیل کے لئے ریل اور مقالے کی تکمیل کے لئے اوراق پریشاں کا سفر جاری رہا۔ ابتدا میں مجھ پر ڈاکٹر عبید اللہ خان صاحب کی شخصیت کا اتنا رعب اور خوف تھا کہ میں ان کے پاس جاتے ہوئے پہلو تہی کرتا تھا لیکن جب تھوڑی سی جھجک دور ہوئی تو انہیں محبت اک ایک شجر سایہ دار پایا اور انہوں نے میرے ایک ایک نقطہ لفظ حرف اور سطر و جملے پر نہایت جاں فشانی سے دیدہ ریزی کی ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب نے بھی میری ہر منزل پر رہنمائی کی یہاں تک کہ ان کے ذاتی کتاب خانے کی نایاب کتب تک بھی رسائی ممکن رہی۔ یہ مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے پہلا باب مولوی عبدالحق کی زندگی کے احوال سے تعلق رکھتا ہے جبکہ دوسرے باب میں ان کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح اردو کے اس مرد مجاہد نے قلم کا جہاد جاری رکھا تیسرے باب میں فن تحقیق پر بات کی گئی ہے تاکہ جب ہم مولوی عبدالحق کا بطور محقق جائزہ لیں تو یہ باب میزان بن سکے چوتھے باب میں اردو میں تحقیق کی روایت کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ مولوی عبدالحق کے سامنے وہ کون کون سے پیش رو تھے جنہوں نے اس میدان میں ان سے پہلے دشت نوردی کی تھی پانچویں باب میں مولوی عبدالحق کی تحقیقی کاوشوں کا جائزہ لیا گیا ہے جب کہ چھٹے باب میں فن تحقیق کی روشنی میں مولوی صاحب کی تحقیق کی خصوصیات کا اجاگر کیا گیا ہے ساتویں باب میں اردو تحقیق کی روایت کی روشنی میں بطور محقق مولوی عبدالحق کے مقام و مرتبے کا تعین کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کی تحقیق نگاری نے اردو تحقیق پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں اور آخری باب میں اردو کے ان ارباب تحقیق کا ذکر ہے جنہوں نے مولوی عبدالحق کی تحقیقی کاوشوں اور خصوصیات کو آگے بڑھانے میں کار ہائے نمایاں انجام دئیے۔ مقالے کی تکمیل میں میرے اساتذہ کرام کے علاوہ بھی بہت سے بزرگوں اور احباب نے میری اعانت کی جن کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی ہو گا بالخصوص سید ابن حسن قیصر (مرحوم) اور ان کے چھوٹے بھائی مظفر احسن سید پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود گاہے گاہے میرے مدد کرتے رہے۔ اسی طرح میری زوجہ محترمہ رباب بانو نے بھی مقالہ کی تکمیل کے لئے پر سکون ماحول مہیا اور خواب گاہ و کمرہ طعام کو کمرہ تحقیق بنا رہنے دیا اور انہوں نے اپنی نفاست پسندی اور انتہائی حسن ترتیب کی عادت کے باوجود کتابوں اور کاغذات کے بکھرے رہنے پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ اس منزل پر عالم جوانی میں بچھڑ جانے والے دو افراد کی یاد بھی بہت ستا رہی ہے ایک لڑکپن کا دوست جمیل احمد صباجو جو شارجہ سے بھی فون کرتا تو مجھ سے زیادہ میرے مقالے کے متعلق پوچھتا دوسرا نو عمر بھانجا سید اسد عباس کہ جب بھی مجھے ملتا تو کہتا کہ ماموں آپ مقالہ کب مکمل کریں گے اور اب یہ مکمل ہوا تو دونوں ماضی کی داستان بن چکے ہیں دور افتاد بڑے بھائی ڈاکٹر ایس اے عباس اور بھابی ڈاکٹر رابعہ عباس بھی ہر کٹھن منزل پر حوصلہ دیتے رہے اور یقینا انہیں مقالے کی تکمیل پر مجھ سے زیادہ مسرت ہوئی ہو گی۔ اس مقالہ میں جن کتب کے حوالے دئیے گئے ہیں وہ لائبریری جامعہ پنجاب لاہور، پنجاب پبلک لائبریری لاہور، لائبریری گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور، لیاقت نیشنل لائبریری کراچی، کتب خانہ خاص و عام انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کی ذاتی اور راقم الحروف کی نجی لائبریری میں موجود ہیں میں مذکورہ بالا تمام ناظمین کتب خانہ جات اور پروفیسر ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے کتب خانوں سے مجھے استفادہ کرنے کی اجازت دی میں اس ضمن میں اختر وڑائچ، لائبریرین، گورنمنٹ کالج آف سائنس اور قیصر حسن کاظمی لائبریرین گورنمنٹ اسلامیہ کالج بدو ملہی کا خاص طور سے ممنون ہوں اس مقالے کو کتابی حسن و قبا عطا کرنے میں جمیل النبی صاحب کی سلیقہ شعاری اور کتاب سازی کی ان کی وہبی و تخلیقی استعداد کو بڑا دخل ہے میں ان کا بہ دل ممنون ہوں۔ ڈاکٹر سید معراج نیر استاد شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور ٭٭٭٭٭٭ ڈاکٹر سید معراج نیر زیدی۔۔۔۔ مقالہ نگار مشاغل لیکچرار شعبہ اردو اسلامیہ کالج چنیوٹ1974ء تا1978ء لیکچرار شعبہ اردو گورنمنٹ کالج جڑانوالہ1978ء تا1980ء لیکچرار شعبہ اردو گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور1980ء تا1988ء پرنسپل گورنمنٹ انٹر کالج نارنگ منڈی1988ء تا 1992ء اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن لاہور1992ء تا1993ء موجودہ مصروفیت استاد شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور تصانیف و تالیف 1رئیس الاحرار حسرت موہانی 2اردو شاعری کا ارتقا 3اقبال منفرد 4اقبال کا تجزیاتی مطالعہ 5حضرت شہباز قلندرؒ 6خواب رفتہ (انتخاب کلام شرقی) 7انتخاب کلام ظفر 8انتخاب کلام میر 9عطیہ فیضی (زیر طبع) 10مکاتیب قائد اعظم کا سیاسی و تاریخ پس منظر (زیر طبع) سفر: امریکہ، کینیڈا، شام، عراق، ایران، سعودی عرب وغیرہ ٭٭٭٭٭٭ پہلا باب مہد سے لحد تک انیسویں صدی برصغیر کی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں صدی تھی، جس کے آغاز میں برصغیر میں مغربی طاقتیں بر سر پیکار رہیں۔ وسط میں اس مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا جس کی داغ بیل ظہیر الدین بابر کے تابڑ توڑ حملوں نے1526ء میں ڈالی تھی اور بقیہ نصف صدی مسلمانوں نے اپنے کھوئے ہوئے وقار اور سماجی و معاشرتی شیرازہ بندی میں وقف کی۔ اس صدی کا ایک بڑا واقعہ1857ء کی جنگ آزادی ہے، جس کے ذریعے اہل ہند نے مغربی سامراج کا طوق غلامی اتار پھینکنے کے لئے بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا اس جنگ آزادی میں ہندوستان کے ایک شہر نے بہت شہرت حاصل کی یہ دلی کے قریب صوبہ یو پی کا شہر میرٹھ تھا، جہاں سے مجاہدین نے 6مئی 1857ء کو غدر برپا کیا اور طوفان کی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک بستی سے دوسری بستی تک پرچم حریت لہراتے ہوئے ختم ٹھونک کر میدان عمل میں آ گئے۔ اسی میرٹھ کے قصبے ھاپوڑ میں مولوی عبدالحق پیدا ہوئے۔ انہوں نے ساری زندگی اردو زبان و ادب کے لئے جہاد میں گزار دی اس کے لئے وہ بستی بستی اور قریہ قریہ میدان عمل میں رہے ان کے بھتیجے محمود حسین تحریر کرتے ہیں: ’’ دہلی سے چھتیس میل دور مراد آباد کی جانب میرٹھ میں ایک قصبہ ھاپوڑ واقع ہے ہم لوگ اس قصبے کے رہنے والے ہیں اگر آپ ھاپوڑ جائیں تو کوئی بھی آپ کو محلہ قانون گویان میں پتھر والے کنوئیں کا پتہ بتا دے گا۔ اس کنوئیں کے سامنے ایک بڑی سی عمارت دکھائی پڑتی ہے، جو آج سے تقریباً چالیس برس پہلے مٹی گارے کے کچے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہی بابائے اردو مولوی عبدالحق اور ہم سب کا آبائی مکان ہے۔ ہمارے اجداد یہیں رہتے تھے اور ان کے سپرد دور مغلیہ میں محکمہ مال کی قانون گوئی کی خدمتیں تھیں‘‘ مولوی عبدالحق کے بزرگ ھاپوڑ گے کا نستخیر تھے جنہوں نے مغلیہ عہد میں اسلام کی روشنی سے اپنے دلوں کو منور کیا۔ ان کے سپرد سلطنت مغلیہ میں ہمیشہ محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں و مراعات اور معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئی تھیں یہ معافیاں انگریزی حکومت نے بھی بحال رکھیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی احمد حسن کے بقول: ’’ میں ہی خاندان کا وہ آخری فرد ہوں جس نے بہ منظوری گورنمنٹ 1945ء میں اپنی خاندانی معافی کو ختم کیا۔‘‘ مولوی عبدالحق کے خاندانی حالات پر ان کے بھتیجے محمود حسین نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ یہ سب ہندو تھے اور کائستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے ان میں سے ایک صاحب عہد شاہجہانی میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور شیخ عبدالدائم نام پایا ان کی اولاد شمال مغربی ہند جس کو آج اتر پردیش کہا جاتا ہے کے تمام اضلاع میں پھیل گئی ان ہی میں سے ہمارے مورث اعلیٰ شیخ صادق حسین تھے، جن کی قبر آج بھی ہمارے خاندانی قبرستان ھاپوڑ میں موجود ہے شیخ صادق حسین مرحوم سے جو سلسلہ چلا اس میں میرے دادا یخ علی حسین صاحب مرحوم تھے، جن کی آٹھ اولادیں ہوئیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں اولاد نرینہ میں سب سے بڑے شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم تھے، اس کے بعد مولوی عبدالحق اب صرف میرے والد مولوی احمد حسن، جو بابائے اردو کے چھوٹے بھائی ہیں بقید حیات ہیں باقی سب بہن بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے۔‘‘ لیکن بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک خاص ملازم عبدالرشید جن کی تین پشتیں (دادا والد اور عبدالرشید) مولوی عبدالحق کے خاندان کی خدمت میں رہیں، اپنے ایک انٹرویو میں، جو انہوں نے مولوی عبدالحق کی وفات پر شمیم احمد کو دیا تھا، محمود حسین صاحب کے اس بیان سے اختلاف کیا ہے جس میں شیخ محمود حسین نے اپنے دادا کی آٹھ اولادیں بتائی تھیں صوفی عبدالرشید اپنی والدہ کی روایت سے بتاتے ہیں: ’’ مولوی صاحب سمیت تین بھائی اور تین بہنیں تھیں بھائیوں میں بڑے ضیاء الحق صاحب ھاپوڑ میں رہتے تھے منجھلے بھائی عبدالحق صاحب تھے اور چھوٹے احمد حسن، جو بھوپال میں انجینئر تھے مولوی صاحب کی بڑی بہن منشی اخلاق حسین محرر اور زمیندار کو بیاھی گئی تھیں، جو ھاپوڑ میں رہتے تھے باقی دو چھوٹی بہنیں بھی ھاپوڑ کے زمیندار گھرانوں میں بیاھی گئی تھیں۔‘‘ غیور عالم صاحب نے ’’ قومی زبان‘‘ کراچی1968ء میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سوانحی خاکہ اپنی ذاتی تحقیق کی بنیادپر تحریر کیا گو اس تحقیقی خاکے میں انہوں نے تحقیقی حوالے، شواھد اور روایتوں کا تذکرہ نہیں کیا، لیکن تحریر میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاندانی پس منظر پر اچھی خاصی روشنی پڑتی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاندان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔روائتیں کمزور ہیں ہاں صرف ان کے جد اولیٰ صادق علی کے نام کا پتہ چلتا ہے، لیکن درمیانی کڑیاں غائب ہیں اور ہمیں ان کے خاندان کا سلسلہ ان کے دادا صفدر بخش سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ شیخ صفدر بخش کے دو بھائیوں کے نام جو مجھے اپنی ذاتی تحقیق کے دوران میں معلوم ہوئے ان میں ایک کا نام شیخ بشارت علی اور دوسرے کا شیخ ضامن علی تھا۔ ان میں شیخ صفدر بخش ہی سب سے بڑے نکلے۔ شیخ صاحب نے دو شادیاں کیں ان میں پہلی بیوی سے شیخ امام بخش وغیرہ تھے جن کے خاندان کے افراد آج بھی ھاپوڑ میں موجود ہیں دوسری بیوی سے شیخ علی حسن تھے جو مولوی عبدالحق کے والد تھے۔‘‘ شیخ علی حسن کے سات اولادیں تھیں ان میں سب سے بڑے شیخ ضیاء الحق، شیخ احمد حسن اور چھوٹے محمود تھے، ان کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ بعض حضرات نے جب بابائے اردو کے خاندانی حالات پر روشنی ڈالی تو انہوں نے ان کے صرف تین بھائیوں کا تذکرہ کیا۔ شیخ احمد حسن نے بھی اپنے چھوٹے بھائی محمود کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے شاید اس وجہ سے کہ وہ بچپن میں انتقال کر گئے تھے اہمیت نہیں دی، لیکن میں نے یہ ذکر ضروری سمجھا، اس لئے کہ آئندہ تحقیقی اعتبار سے غلطی کا امکان نہ رہے۔دوسرے یہ کہ حالات کی گرد جب عبدالحق کے خاندانی حالات پر دبیز ہو جائے گی تو غلطی ایک حقیقت بن جائے گی، اور ان کے خاندانی حالات لکھنے والے تحقیق اور یقین کے ساتھ ان کے دو بھائیوں کا ذکر کریں گے۔ اس لئے میں نے زیادہ اختصار بہتر نہ سمجھا۔ بابائے اردو کے تین بھائیوں کا تو ذکر کر چکا ہوں، اس کے علاوہ ان کی تین بہنیں تھیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے خاندانی پس منظر کے سلسلے میں ہمیں مولوی عبدالحق صاحب کے بھائیوں کا تذکرہ تو تفصیل سے مل جاتا ہے لیکن بہنوں کے سلسلے میں صرف اشارے یا ان کی شادیوں کا ذکر ملتا ہے۔ مولوی عبدالحق کے بڑے بھائی کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ بے باک صحافی تھے بقول فضول احمد صدیقی: ’’ شیخ صاحب کی شہرت ان سے بہت آگے آگے چلتی تھی۔ پگڑیاں اچھالنے میں ان کا نام خاصا اونچا تھا اور وہ اونچی اونچی کی ھی خبر لیتے تھے مرحوم مولانا محمد علی جوھر اور خواجہ حسن نظامی میں جو بم خچ رہی اس سلسلے میں ھاپوڑی صاحب محتاج تعارف نہ تھے ایک ھاپوڑ کیا ان سے رجواڑے تک پناہ مانگتے تھے اس لئے شیخ صاحب کا ہر شہر میں ڈیکلریشن کا چھاپہ خانہ تھا اور وہ جہاں سے چاہتے اپنے عجیب عجیب دستخط شدہ پمفلٹ بڑے طرم بازوں کے خلاف بے دھڑک شائع کر دیتے۔‘‘ (۶) دراصل یہ زمانہ ہندوستان میں انگریزوں اور ان کے گماشتوں کے خلاف بغاوتوں کا دور تھا رجواڑے مغربی سامراج کی پناہ گاہیں تھیں جہاں کے عوام روایتی ظلم و ستم کا شکار تھے شہزادوں، ولی عہدوں اور نوابوں میں باہم جنگ تخت نشینی رہتی تھی اور دربار میں سازشیں پروان چڑھتی تھیں، اس لئے اخبار نویسوں کا ایک طبقہ جس کے علم بردار دیوان سنگھ مفتون تھے بے باک صحافت کی داغ بیل ڈال رہے تھے اس طبقے سے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بڑے بھائی ضیاء الحق صاحب کا تعلق تھا اس سلسلے میں فضل احمد صدیقی لکھتے ہیں: ’’ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ان کے شبدیز قلم نے بجائے ادب کے میدان سیاست کو جولاں گاہ بنایا جیسا کہ ان کی تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے وہ اردو کے بڑے زبردست اہل قلم، انشاء پرداز، ماہر صحافی تھے بابائے اردو کو سر سید، علی گڑھ کالج کی تعلیم اور ماحول نے شہرت پر پہنچا دیا مگر وہ اپنے وطن اور پنجاب ہی میں رہے جہاں ان کے والد بر سر ملازمت تھے۔ انیسوی صدی کے آخر دور میں انہوں نے دیسی والیاں ریاست کی بد عنوانیاں اور بد کرداریاں اور مظالم بے نقاب کرنے کے لئے قلم اٹھایا اور کتابچے لکھ کر شائع کرنا شروع کیے جن میں سنسنی خیز انکشافات کئے گئے ۔ جس کے نتیجے میں ان پر مقدمات دائر ہوئے۔۔۔۔ 1904 کی تقسیم بنگال اور جنگ روس و جاپان کے ایام میں ہندو بنگالیوں نے حکومت انگریزی کے خلاف منظم ہل چل شروع کر رکھی تھی صوفی اصبا پرشاد کا ایک اردو اخبار نکلتا تھا جس سے شیخ صاحب بھی وابستہ رہے اور ان کے ہم نوا اور شریک کار ہو گئے جب حکومت نے ان لوگوں کے خلاف اقدامات شروع کئے تو اجیت سنگھ، اصبا پرشاد اور شیخ صاحب ہندوستان سے ایران چلے گئے اصبا پرشاد کا ایران میں انتقال ہو گیا، اجیت سنگھ ایران سے لاپتہ ہو گیا شیخ صاحب انگریزی سفیر متعینہ ایران کی ایماء پر گرفتار کر لئے گئے اور سات سال کی سزا ہو گئی۔۔۔۔ ان کورشین اسپائی (روس جاسوس) قرار دیا گیا اور سینٹرل انٹیلی جنس (مرکزی سی آئی ڈی) نے نگرانی شروع کر دی۔‘‘ (۷) شیخ ضیاء الحق عمر کے آخری حصے میں بیمار رہنے لگے انہوں نے اپنے خط محررہ 8ستمبر 1936 ء میں سراج احمد عثمانی کو بیماری کے سلسلے میں تحریر کیا: ’’ ڈاکٹروں کے علاج سے کچھ فائدہ ہوا، مگر کل نہیں تین چار دن سے یونانی علاج ایک باہر کے حکیم کا ہے بخار بالکل نہیں رہا کچھ یرقان کا اثر ہے کھایا پیا کچھ نہیں جاتا بلا سہارے نہیں چل سکتا۔‘‘ اس خط کے کچھ عرصے بعد شیخ ضیاء الحق صاحب کا یرقان کے سبب انتقال ہو گیا۔ شیخ ضیاء الحق مرحوم کو کتب بینی کا بہت شوق تھا اور ہزاروں کی تعداد میں بیش قیمت کتابیں ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد یہ کتب خانہ نا قدری کا شکار ہو گیا اور یہ کتابیں ان کے صاحبزادے 1934ء میں دیوان سنگھ مفتوں کے حوالے کر آئے جنہوں نے اسے دہلی کے کتب خانہ نذیرہ کو دے دیا۔ مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی شیخ احمد حسن انجینئر تھے جن کی کفالت بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے کی شیخ احمد حسن نے اپنے مضمون’’ ابدی بھائی‘‘ مطبوعہ سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی 1936ء مرتبہ سید وقار عظیم صاحب میں تسلیم کیا ہے۔ ’’ انہوں نے 1897ء میں راقم الحروف کو بغرض تعلیم اپنے پاس حیدر آباد بلا لیا اور مدرسہ آصفیہ میں داخل کر دیا۔ فرصت کے اوقات میں خود بھی پڑھاتے رہے چھ سال تک میں ان کے پاس رہا۔ میرا رحجان ٹیکنیکل تعلیم (ڈرائنگ وغیرہ) کی طرف دیکھتے ہوئے نواب افسر الملک سے اس کا تذکرہ کیا ممدوح نے فرمایا کہ میجر اٹیکسن پرنسپل روڑ کی کالج میرے دوست ہیں احمد حسن کو اس کے پاس بھیج دیتا ہوں، جہاں لیاقت اور اہلیت کے مطابق اس کا داخلہ ہو جائے گا چنانچہ روڑ کی بھیج دیا گیا اور میجر اٹیکس پرنسپل تھامسن سول انجینئرنگ کالج روڑ کی نے امتحانی مقابلہ سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے میرا داخلہ کر لیا یہاں سے 1907ء میں میں نے ڈپلوما حاصل کیا زمانہ تعلیم میں بحیثیت واحد سرپرست بھائی صاحب مرحوم ہی میرے جملہ مصارف ادا کرتے رہے صرف یہی نہیں بلکہ گھر کے اخراجات اور بہن بھائیوں نیز والدین کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر رہی۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی ساری حیات علم و ادب کی نذر کی۔ لوگوں کے تذکرے لکھے، خاکے قلم بند کئے، افکار و حالات پر قلم اٹھایا لیکن انہیں اپنی مربوط اور منظم آپ بیتی لکھنے کی فرصت نہ ملی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ مولوی عبدالحق کا مولد اور تاریخ پیدائش کیا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے انتقال16اگست1961پر اخبارات میں ان کی عمر کے سلسلے میں کافی تضاد تھا اس ضمن میں افضل صدیقی صاحب نے اپنے مضمون’’ بزم سرسید کی آخری شمع‘‘ میں تحریر کیا: ’’ مولوی صاحب کی عمر گذشتہ کئی دنوں سے 93یا94سال لکھی جا رہی ہے، جو غلط ہے کل بھی مولوی صاحب کی صحیح تاریخ شائع نہیں ہوئی، مارچ1870ء لکھا گیا اصل میں بابائے اردو 20اپریل1870ء کو پیدا ہوئے اس حساب سے ان کی عمر91برس اور4مہینے ہوتی ہے یہ بھی غلط ہے کہ وہ ھاپوڑ میں پیدا ہوئے ھاپوڑ کے قریب ایک مقام ہے ’’ سسراواں‘‘ مولوی عبدالحق صاحب اس قصبے میں پیدا ہوئے۔‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب نے بھی مشفق خواجہ صاحب کے نوٹس کے حوالے سے جو انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کی زندگی میں لئے تھے اور اس پر ان کی زندگی میں منظوری بھی لے لی تھی، مولوی عبدالحق صاحب کی پیدائش20اپریل1870ء اور جائے ولادت ’’ سسراواں‘‘ نامی گاؤں بتایا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز حسن11سے قبل اور بعد کے مصنفین تحریر کرتے رہے کہ مولوی عبدالحق کا خاندان کائستھ سے عہد شاہ جہانی میں مسلمان ہوا تھا لیکن ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب کا کہنا ہے: ’’ ان کے بزرگوں نے جہانگیر کے عہد میں اسلام قبول کیا‘‘ شاہد عشقی نے مولوی عبدالحق کاسنہ ولادت1871ء اور جائے ولادت ضلع میرٹھ کا شہر ھاپوڑ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب 14نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کا سنہ ولادت اور زندگی کے ابتدائی حالات کے ضمن میں سب سے معتبر شہادت ان کے برادر خورد شیخ احمد حسن کی ’’ معلومات آفریں تحریر‘‘ 15کو قرار دیا ہے جس میں وہ (شیخ احمد حسن) تحریر کرتے ہیں: ’’ میرے دونوں بھائیوں کی پیدائش ھاپوڑ کی ہے اور جیسا اکثر لکھا گیا ہے کہ بھائی عبدالحق مرحوم سرواہ جو ھاپوڑ سے ملحق واقع ہے میں پیدا ہوئے، صحیح نہیں یہ بات ہمارے خاندانی رسم و رواج کے خلاف تھی کہ زچگی کا انتظام میکے میں ہو اس غلط فہمی کی وجہ شاید یہ ہو کہ والدہ مرحومہ اپنے ماں باپ کی واحد لڑکی اور اپنے بھائیوں کی ایک ہی بہن تھیں ہمارے نانا اور ماموں ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کا قیام سراوہ میں رہتا تھا لیکن جہاں تک بھائی صاحب کی پیدائش کا تعلق ہے ان کا مولد ھاپوڑ ہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے اس دلیل کا مزید ثبوت بابائے اردو مولوی عبدالحق کے 6مئی 1947ء کے اس اسلحہ کے فارم کی خانہ پری سے بھی دیا جس میں مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے قلم سے اپنی تاریخ ولادت اور وطن (ھوم ایڈریس) کی صراحت کی ہے جس کے مطابق مولوی عبدالحق صاحب کی تاریخ پیدائش20اگست1870ء ہے اور مولد ھاپوڑ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی شیخ احمد حسن تحریر کرتے ہیں: ’’ ہمارے خاندان میں نام حسن یا حسین پر رکھے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے سنا تھا کہ والد مرحوم شیخ علی حسین 18کے پیرو مرشد نے ان سے فرمایا کہ اپنے لڑکوں کے نام’’ حق‘‘ پر رکھنا لہٰذا پہلی دو نرینہ اولادوں کا نام حق پر رکھا گیا اب اسے محض حسن اتفاق کہئے یا پیر صاحب کی کرامت کی ہمارے خاندانی نام میںلفظ’’ حق‘‘ کا شامل ہونا بڑا مبارک ثابت ہوا۔‘‘ ’’ میرے دو بڑے بھائی تھے ایک حقیقی بھائی(شیخ ضیاء الحق مرحوم جرنلسٹ) دوسرے ’’ ابدی بھائی‘‘ کسے معلوم تھا کہ یہ غلط تلفظ ایک دن حقیقت ہو کر رہے گا اور بھائی عبدالحق صاحب اپنے اس عشق کی بدولت جو انہیں اردو سے تھا واقعی ابدی شہرت کے مالک ہو کر رہیں گے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کا خاندان اوسط درجے سے تعلق رکھتا تھا لیکن ان کے والد نے اپنے بچوں کی تعلیم پر پوری توجہ دی۔ ’’ یہاں تک کہ زمین بیج دی اور قرض بھی حاصل کیا ہر طرح کی مصیبت اٹھائی لیکن اپنے لڑکوں کی تعلیم کے لئے کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور ان کا دل کھیل کود کے بجائے لکھنے پڑھنے میں زیادہ لگتا تھا اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان کے بچوں کے ایک پروگرام میں مولوی عبدالحق صاحب نے ایک بچے کے سوال پر کہ انہیں کون سا کھیل پسند تھا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’ یوں تو بچپن میں انہوں نے گیڑیاں اور گلی ڈنڈا بھی کھیلا ہے لیکن وہ کھلنڈرے نہیں تھے وہ بچپن سے غور و فکر کرنے کے عادی تھی یہی وجہ ہے کہ سرسید احمد خان انہیں عبدالحق فلسفی کے نام سے یاد کرتے تھے۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مولد اور تاریخ پیدائش کی طرح ان کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اقبال یوسفی صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ ابتدائی تعلیم اپنے ننھیال سرواہ میں پائی جو ھاپوڑ کے قریب میرٹھ ہی کے ضلع میں واقع ہے پرائمری کے بعد مڈل تک ان کی تعلیم مشرقی پنجاب میں ہوئی۔‘‘ حکیم اسرار احمد صاحب کا بیان اس سے زیادہ واضح اور قرین قیاس ہے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ ابتدائی تعلیم ھاپوڑ اور سرواہ میں پائی (سرواہ ھاپوڑ کے قریب ایک گاؤں ہے جہاں مولوی صاحب کی ننھیال تھی) ابتدائی تعلیم سے فراغت پا کر وہ اپنے والد شیخ علی حسن مرحوم کے پاس فیروز پور پنجاب چلے گئے شیخ علی حسن صاحب سرکاری ملازم تھے اور ان دنوں فیروز پور میں تعینات تھے مولوی عبدالحق صاحب نے اردو مڈل تک یہیں تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ چلے گئے اور وہیں سے 1894ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب نے تحریر کیا ہے: ’’ مولوی صاحب ابھی کم سن ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کے ماموں شیخ امتیاز علی اور دوسرے ماموں نے جو پنجاب کے محکمہ مال میں ملازم تھے مولوی صاحب کی پرورش کی مولوی صاحب کی ابتدائی تعلیم کا دور پنجاب کے مختلف اضلاع مثلاً فیروز پور، گجرات وغیرہ میں گذرا میٹرک کا امتحان بھی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی ہی سے پاس کیا یہ 1890ء کا واقعہ ہے یعنی مولوی صاحب20سال کی عمر میں انٹر پاس ہوئے اس سال وہ علی گڑھ گئے۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے بھائی احمد حسن نے اپنے مضمون’’ ابدی بھائی‘‘ میں تحریر کیا کہ ان کی میٹرک تک تعلیم پنجاب میں ہوئی۔ مولوی عبدالحق صاحب کی ابتدائی تعلیم کے ضمن میں مختلف محققین بھی اس بات پر تو متفق ہیں کہ ان کی کم از کم مڈل تک تعلیم پنجاب میں ہوئی لیکن یہ بات حتی طور پر نہیں کہہ سکے کہ پنجاب کی وہ کون سی بستی اور درسگاہ تھی جس سے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے علم کا فیض حاصل کیا یا ان کے وہ کون سے ابتدائی معلمین تھے جن سے ان کے نیاز مندانہ مراسم تھے لیکن گوجرانوالہ کے ایک قانون گو شیخ خاندان کے چشم و چراغ خالد محمود ربانی مرحوم (صحافی) کی جستجو سے اس راز سے پردہ اٹھ گیا ہے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مڈل تک تعلیم گوجرانوالہ مشن ہائی سکول میں ہوئی جہاں خالد محمود ربانی مرحوم کے دادا ان کے معلم تھے اور مولوی عبدالحق صاحب کے ان سے نیاز مندانہ مراسم تھے اس سلسلے میں خالد محمود ربانی صاحب کے پاس مولوی عبدالحق صاحب کی وہ نایاب تحریر ہے جو انہوں نے خالد محمود ربانی صاحب کے والد محترم شیخ اکرم ربانی صاحب سپرنٹنڈنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کو ان کے اس خط کے جواب میں تحریر کی تھی جو انہوں نے مولوی صاحب کو گوجرانوالہ آنے کی دعوت کے لئے لکھا تھا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مرقومہ 17فروری 1953ء کے مکتوب سے ان کی ابتدائی تعلیم سے پردے اٹھ جاتے ہیں اور یہ بحث ختم ہو جاتی ہے کہ مڈل تک انہوں نے پنجاب میں کس جگہ تعلیم حاصل کی تھی مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ آپ کے والد شیخ کرم داد صاحب گوجرانوالہ کے مشن ہائی سکول میں معلم تھے اور میں طالب علم تھا وہ میرے حال پر بڑے مہربان تھے اور بہت شفقت فرماتے تھے کچھ دنوں بعد میں علی گڑھ چلا آیا اور ایم اے او کالج میں داخل ہو گیا اس کے چند سال بعد جب علی گڑھ کالج میں مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا اجلاس ہوا تو آپ کے والد بھی اس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے اس موقع پر ان سے ملاقات ہوئی وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے تعلیم سے فراغت کے بعد میں حیدر آباد دکن چلا گیا۔ بہت عرصے کے بعد جب میں صوبہ اورنگ آباد کا صدر مہتمم تعلیمات تھا آپ کے والد کا خط آیا(انہوں نے شاید اخباروں میں نام پڑھا تھا) اور مجھ سے دریافت کیا کہ تم وہی عبدالحق ہو جو کچھ دن گوجرانوالہ میں تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ میں وہی ہوں تو بہت خوش ہوئے ۔۔۔۔۔ معلوم نہیں ہے وہ مشن ہائی سکول اب ہے یا نہیں اس وقت گوجرانوالہ کوئی بڑا شہر نہیں تھا اب سنا ہے کہ بہت بڑا ہو گیا ہے، اور تجارت و صنعت کا مرکز ہے اس زمانے میں منشی محبوب عالم گوجرانوالہ ہی میں تھے اور انہوں نے اپنا ہفت روزہ ’’ پیسہ اخبار‘‘ وہیں سے نکالا تھا۔‘‘ اس وقت مشن ہائی سکول کے کھنڈرات کے سوا اس کے کچھ آثار نہیں ہیں خالد محمود ربانی صاحب نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے گوجرانوالہ مشن ہائی سکول میں داخل اور خارج ہونے کے ضمن میں مزید شہادتوں کے لئے گوجرانوالہ میونسپلٹی (جس کیزیر انتظام یہ ہائی سکول تھا) کا ریکارڈ نکالنے کی کوشش کی لیکن ریکارڈ کرم خوردہ اور ضائع ہو جانے کی وجہ سے ان کی کوشش بر آور نہ ہو سکی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے اس مکتوب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشن ہائی سکول گوجرانوالہ سے ہی علی گڑھ گئے لیکن انہوں نے میٹرک تک تعلیم یہاں حاصل نہیں کی کیوں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ تہذیب الاخلاق کا مطالعہ مجھے کھینچ کر علی گڑھ لے گیا اور میں کالج کے سکول میں داخل ہو گیا پہلے کانوں پر تکیہ تھا اب آنکھوں نے جلوہ دکھایا۔‘‘ کالج کے سکول میں داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق انٹرنس پاس کرنے سے قبل ہی علی گڑھ گئے اور یہ امتحان انہوں نے علی گڑھ کے زمانہ قیام میں پاس کیا۔ مولوی عبدالحق کو علی گڑھ کے مدرسے کا ماحول بڑا طلسماتی اور دلکش محسوس ہوا اس کا تذکرہ وہ بڑے پر لطف انداز میں کرتے ہیں، کہتے ہیں: ’’ میں جب اول روز مدرسۃ العلوم مسلمانان ایم اے او کالج علی گڑھ کے سکول میں داخل ہوا تو بورڈنگ ہاؤس میں پرنسپل صاحب کی عنایت سے کمرہ مل گیا، مجھے ایسا معلوم ہوا کہ نئی دنیا میں آ گیا ہوں وہاں کے طالب علم، ان کی عادات اور شرارتیں اور مصروفیات، وہاں کے ڈائننگ ہال اور اس کے کھانے، دنیا بدل گئی پر اس کا مزہ نہ بدلا، مسجد اور نمازیں اور موذن کی کڑک دار آواز، یہ سارا ماحول میرے لئے بالکل نیا اور عجیب سا تھا1888ء یا1889ء کی بات ہے، اس وقت طالب علموں کی تعداد تین سو سے زیادہ نہ تھی۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے علی گڑھ کے مدرسے میں بڑی دلجمعی سے پڑھا انہیں کھیل کود سے رغبت نہ تھی، بلکہ مسٹر بیک کمرے سے پکڑ انہیں کھیل کے میدان میں لے بھی جاتے، تو مولوی صاحب فیلڈ میں پہنچ کر غچہ دے کر دوسری طرف نکل جاتے مولوی صاحب کے ذہن پر اسکول کے اساتذہ کی بڑی گہری چھاپ تھی اور وہ بڑے خلوص اور عقیدت سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں مولوی صاحب کہتے ہیں: ’’ اسکول کے سب معلم ہندوستانی تھے سوائے ہیڈ ماسٹر ہیورسٹ کے، جو بلند قامت، گراں ڈیل شخص تھے اور کسی فوج کے کرنیل معلوم ہوتے تھے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر ولایت حسین تھے، جو بڑے محنتی اور فرض شناس تھے بورڈنگ ہاؤس کی نگرانی انہی کے ذمے تھی اور وہ بورڈنگ ہاؤس ہی کے کمرے میں رہتے تھے۔ ان کے ذمے اور بھی کئی کام تھے سر سید، محسن الملک اور دیگر اکابرین کے بہت عزت کرتے تھے میرے حال پر بڑی مہربانی فرماتے وہ ہماری جماعت کو ریاضی بھی پڑھاتے تھے۔‘‘ ’’ اسکول کے معلمین میں مولوی خلیل احمد صاحب کی دھج نرالی تھی وہ عربی کے استاد تھے چھوٹے قد کے، ٹخنوں سے اونچا شرعی پاجامہ، کوتاہ نظر، وہ بورڈنگ ہاؤس ہی میں رہتے تھے۔‘‘ اسکول کے زمانے کی طرح کالج کے ایام بھی بابائے اردو مولوی عبدالحق بہت یاد کرتے ہیں سر سید کی محبت، مسٹر بیک کا تذکرہ، کالج کا ماحول اور پروفیسروں کی شفقتیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی یادوں کا انمول خزانہ ہیں۔ مولوی عبدالحق ان ایام رفتہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ کالج میں تمام پروفیسر سوائے عربی، فارسی، سنسکرت اور ریاضی کے انگریز تھے، فارسی، عربی کے پروفیسر مولانا شبلی اور مولانا عباس حسین تھے ریاضی کے بابو مکر جی، مولانا شبلی، شاعر ادیب اور مورخ تھے ان کی جماعت میں بیٹھ کر جی خوش ہوتا تھا۔ موقع موقع سے ادبی نکات اور اساتہ کے اشعار اور لطائف سنا کر تاریخی واقعات اس طرح بیان کرتے تھے کہ درس کا حق ادا ہو جاتا تھا عباس حسین نرے ملا تھے ادبی ذوق سی عاری، البتہ ضلع جگت کے استاد تھے ضلع بولنے سے کبھی نہ چوکتے اور جو کوئی ان کے جواب میں ویسا ہی بول جاتا تو باغ باغ ہو جاتے۔۔۔۔۔ پروفیسر آرنلڈ کی حیثیت کالج میں خاص بلکہ امتیازی تھی وہ علم کے سچے طالب اور علم دوست تھے۔‘‘ کالج کے زمانے میں جو نامور شخصیات ان کی ہم جماعت تھیں ان میں ڈاکٹر ضیاء الدین، مولوی حمید الدین، مولانا ظفر علی خان، ولایت اللہ، سید محفوظ علی، خواجہ غلام الثقلین، شیخ عبداللہ، سیٹھ یعقوب حسین اور خان بہادر شوکت علی شامل تھے۔ ان تمام مباحث کا حاصل یہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انٹرنس(میٹرک) یا بی اے علی گڑھ سے کیا شہاب الدین ثاقب لکھتے ہیں ’’ 1892ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد مولوی صاحب بی اے کی جماعت میں پہنچے بی اے میں فلسفے سے شغف ہوا، اس وجہ سے شمس العلماء مولانا خلیل احمد مرحوم بہت دنوں تک انہیں فلاسفر کے لقب سے یاد فرماتے تھے۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے بی اے کرنے کے سلسلے میں بھی مختلف اور متضاد بیانات میں مثلاًافضل صدیقی، شاہد عشقی، ممتاز حسین، ڈاکٹر سید معین الرحمن اور حکیم اسرار احمد وغیرہ نے بی اے پاس کرنے کا سال 1894ء تحریر کیا ہے، جبکہ شہاب الدین ثاقب نے ایم اے او کالج کی ڈائریکٹری کے حوالے سے تحریر کیا ہے: ’’ مولوی عبدالحق صاحب نے 1895ء میں بی اے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔۔۔۔۔۔ ضیاء الدین احمد، ظفر علی خان، سید محفوظ حسین اور محمد ولایت اللہ وغیرہ مولوی صاحب کے ہم جماعت تھے اور سب نے ساتھ ہی 1895ء میں بی اے پاس کیا۔‘‘ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب نے 1895ء میں بی اے کیا۔ ڈاکٹر ممتاز حسین صاحب نے ’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ میں ان کے بی اے کے داخلے کے ضمن میں تحریر کیا ہے: ’’ مولوی صاحب ابھی کم سن ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ان کے بڑے ماموں شیخ امتیاز علی اور دوسرے ماموؤں نے جو پنجاب کے محکمہ مال میں ملازم تھے، مولوی عبدالحق کی پرورش کی۔‘‘ یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ بہت سے ایسے بیانات ملتے ہیں جن میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ملازمت کر لینے تک ان کے والد صاحب کا تذکرہ ملتا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بھائی شیخ احمد حسن نے مولوی صاحب کا علی گڑھ میں داخلے کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ بھائی صاحب مرحوم کو علی گڑھ میں داخل کر دیا گیا جہاں سے انہوں نے1894-95ء میں بی اے پاس کیا یہ ھاپوڑ کے پہلے شخص تھے جو انگریزی تعلیم کے لئے کالج میں داخل کئے گئے اس وقت ماحول اور شدید خاندانی مخالفت کے پیش نظر والد صاحب کا یہ اقدام بے حد جرأت مندانہ تھا۔‘‘ مندرجہ بالا بیان کی تصدیق کہ بابائے اردو کے والد کا سایہ بچپن میں نہیں اٹھا تھا، محمود حسین صاحب کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے اپنے خاندان سے تعلقات اور ان کی خاندان پروری کا ذکر بڑی سپاس گزاری سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ مولوی صاحب نے علی گڑھ سے بی اے کرنے کے فوراً بعد حیدر آباد کا رخ کیا اور نواب محسن الملک کے توسط سے آصفیہ سکول کے ہیڈ ماسٹر ہوئے بعد ازاں بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز رہے اور جو ترقی کی وہ سب پر ظاہر ہے ملازم ہوتے ہی اپنے چھوٹے بھائی یعنی میرے والد کو اپنے پاس بلا لیا اور ان کو تعلیم دلائی ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے خرچ پر انجینئری کی تعلیم کے لئے روڑکی بھیجا۔۔۔۔ دادا دادی کو برابر ماہانہ معقول رقم اخراجات کے لئے تاحین حیات بھیجتے رہے اور دادا دادی کے انتقال کے بعد یہی رقم اپنے بڑے بھائی شیخ ضیاء الحق مرحوم کو بھیجتے تھے۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق1888ء میں بحیثیت طالب علم علی گڑھ وارد ہو کر1895ء میں فارغ التحصیل ہوئے یہ زمانہ علی گڑھ کے عروج کا زمانہ تھا سر سید کی ولولہ انگیز شخصیت اور مولانا حالی کی پاس داری مولوی عبدالحق کی شخصیت پر وہ نقش اول تھا جو نقش آخر ثابت ہوا۔ پروفیسر آرنلڈ کی ’’ اخوان الصفا‘‘ نے مولوی عبدالحق کے لئے خطبات کی راہیں ہموار کیں اور طالب علموں میں بہت مشہور ہو گئے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ ایک مضمون میں سینٹ پال پر پڑھا اس دن سے لڑکے مجھے سینٹ پال کہنے لگے‘‘ علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی سے ہی مولوی عبدالحق کو مضمون نگاری کا چسکا پڑ گیا یہاں تک کہ انہیں1888-89ء میں ان کے ایک مضمون پر تمغہ لارڈلینسی ڈاؤن ملا۔ سر سید احمد خان جوہر شناس تھے انہوں نے جوہر قابل پایا تو: ’’ ان کی صلاحیتیں دیکھتے ہوئے سر سید نے تہذیب الاخلاق میں بھی ان سے کام لینا شروع کر دیا‘‘ مولد، سن ولادت اور تعلیم کی طرح ان کی شادی کا مسئلہ بھی روایات کی گتھیوں کا شکار ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے سرے سے شادی ہی نہیں کی اور اکثر یہ کہتے ہیں کہ کی تھی، لیکن گھر نہیں بسایا محمود حسین تحریر فرماتے ہیں: ’’ مولوی صاحب نے عمر بھر شادی نہیں کی۔۔۔۔ ایک دفعہ جب دادا دادی نے شادی کرنا چاہی تو منہ سے تو نہ کہہ سکے لیکن ایسا طریقہ اختیار کیا کہ یہ زنجیر ان کے پاؤں میں نہ پڑ سکی۔۔۔۔ میں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھوپال میں شادی کی تھی یا کچھ عرصہ ازدواجی زندگی گزاری تھی۔۔۔۔ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے صحیح اور حقیقی معنی میں ان کی شادی، جیسا کہ خود مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا تھا اردو سے ہو چکی تھی وہی ان کی محبوب ان کی اولاد‘‘ شاہد احمد دہلوی کا بھی یہی خیال ہے کہ مولوی عبدالحق نے شادی ساری عمر نہیں کی۔ لیکن بعض لوگوں نے اپنی تحریروں اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کا تذکرہ بڑے وثوق سے کیا ہے اور ان کی زوجہ کا نام تک تحریر کیا ہے صوفی عبدالرشید نے اپنی والدہ کے حوالے سے کہا: ’’ جب ان کی چھوٹی بہن کی شادی چھوٹے محل میں ہونے لگی جو ہاپوڑ کا ایک زمیندار گھرانہ تھا تو مولوی صاحب کی شادی بھی اسی گھرانے کی ایک لڑکی سے طے کر دی گئی تھی مولوی صاحب کی بیوی کا نام جعفری تھا یہ شادی مولوی صاحب نے زبردستی والدہ کے اصرار پر کی تھی مگر ان سے یہ زبردستی زیادہ دیر تک برداشت نہ ہوئی، اور بیوی سے بالکل تعلق نہ رکھا، اور علی گڑھ چلے گئے۔ تھوڑے عرصے بعد مولوی صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی شادی کسی دوسری جگہ ہو گئی پھر مولوی صاحب نے ساری عمر شادی نہ کی۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک دوسرے معتمد جن کی ساری عمر مولوی صاحب کی خدمت میں گزری، انہوں نے بھی اپنی والدہ سے روایت کی ہے کہ: ’’ جناب قبلہ مولوی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شادی نہیں کی، یہ بات غلط ہے انہوں نے شادی کی تھی اور جس لڑکی سے شادی کی تھی وہ بھی مولوی صاحب کے خاندان کی تھی یہ بات اس لئے اور پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ میرا مکان بھی مولوی صاحب کے بالکل قریب تھا اور میری والدہ صاحبہ برابر ان کے ہاں جایا کرتی تھیں اور جس دن مولوی صاحب کی شادی ہوئی، میری والدہ بھی شریک ہوئی تھیں۔ جب شادی سے فارغ ہو گئے تو سب اگلے دن صبح کو ولیمے کی تیاری میں مصروف تھے معلوم ہوا کہ دولہا میاں علی الصبح گھر سے روانہ ہو چکے ہیں، یہ بات بڑی مضحکہ خیز تھی گھر کے لوگوں کو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑی کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا مولوی صاحب قبلہ نے اپنی بیوی کا مہر وغیرہ سب کچھ ادا کر دیا ہے ان کی بیوی کافی عرصے تک میکے بیٹھی رہی اور پھر کافی عرصے بعد ایک دوسرے صاحب ممتاز حسین کے ساتھ ان کا نکاح ہوا اور کئی بچے بھی ان سے ہوئے جو اب تک ہاپوڑ میں موجود ہیں‘‘ غیور عالم صاحب نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں ہاپوڑ کے لوگوں کے حوالے سے ان کی شادی ہونے کی شہادت دی ہے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ مولانا کی شادی ہوئی تھی لیکن وہ شادی کے سخت خلاف تھے۔ ہاپوڑ میں بعض لوگوں نے بتایا کہ مولانا نے شادی کی شروع ہی سے مخالفت کی تھی، بقول ہاپوڑ کے ایک بزرگ’’ وہ کہتے تھے کہ میری شادی اور میری بہن کی شادی بدلہ میں مت کرو‘‘ اور بقول مقتدا خان شیروانی’’ میں بیوی کے حقوق ادا نہ کر سکوں گا‘‘ لیکن والدین نہیں مانے اور خصوصاً والدہ نے بہت اصرار کیا تو مولوی عبدالحق چپ ہو گئے لیکن ادھر دلہن رخصت ہو کر آئی، ادھر مولانا دوسرے دروازے سے نکل کھڑے ہوئے، اور حیدر آباد جا کر طلاق لکھ کر بھیج دی۔‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے یکم اگست1964ء کو بابائے اردو کے ایک قدیم دوست نواب معشوق یار جنگ کا ایک طویل انٹرویو لیا تھا جس میں انہوں نے ان سے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں بھی ایک سوال کیا تھا یہ انٹرویو’’ قومی زبان‘‘ کراچی کے 1964ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا ڈاکٹر سید معین الرحمن تحریر کرتے ہیں کہ میرے ایک سوال کے جواب میں نواب صاحب نے فرمایاـ: ’’ تجرد پسندانہ زندگی کی نعمتوں یا متاہلانہ زندگی کی برکتوں کا بھی کوئی ذکر مولوی صاحب نے مجھ سے کبھی نہیں کیا بلکہ کسی سے نہیں۔۔۔ ویسے میں نے سنا ہے کہ مولوی صاحب کی شادی ہو گئی تھی۔ لڑکی والوں نے پرانی رسموں کی انجام دہی پر اصرار کیا تو مولوی صاحب بدک گئے اور وہاں سے بمبئی بھاگ آئے۔ یہاں سے کچھ دنوں بعد حیدر آباد چلے گئے بعد میں سنا ہے، طلاق بھی ہو گئی۔۔۔۔ یہ میں کوئی شہادت نہیں دے رہا یہ ساری بات ہے میں نے جیسا سنا، آپ کو بتا دیا، اب صحیح صورت حال کیا تھی، اللہ جانے‘‘ مولانا عبدالماجد دریا آبادی صاحب نے بھی نواب معشوق یار جنگ سے ملتا جلتا بیان دیا ہے۔ انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک پرانے رفیق منشی ظفر الملک علوی مرحوم کاکوروی کے حوالے سے تحریر کیا ہے: ’’ منشی ظفر الملک مرحوم علوی کاکوروی سے یہ روایت سننے میں آئی تھی کہ شادی ٹھہر چکی تھی مگر بارات جس وقت پہنچی، اس وقت کوئی ایسا نا خوشگوار واقعہ پیش آ گیا، جس سے متاثر ہو کر موصوف نے عمر بھر مجرد ہی رہنے کا عہد کر لیا۔‘‘ شہاب الدین ثاقب نے مشفق خواجہ صاحب اور صوفی عبدالرشید کے حوالے سے یہی کہا ہے: ’’ جناب مشفق خواجہ اور صوفی عبدالرشید نے راقم الحروف کو کراچی میں ملاقات کے دوران بتایا کہ مولوی عبدالحق کی شادی ہوئی تھی لیکن بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے متعلق انہیں ناکامی کا احساس تھا اس لئے بیوی کو طلاق دینے کے سوا ان کے نزدیک چارہ کار نہ تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں جتنے بیانات سامنے آئے ہیں ان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ ان کا نکاح ضرور ہوا تھا لیکن بات نکاح سے آگے نہ بڑھ سکی اور وہ گھر بسانے اور گھریلو جھنجھٹوں سے آزاد رہے۔ ان کی ازدواجی زندگی سے آزادی، علم و ادب کے لئے نیک فال ثابت ہوئی اور ان کی بھر پور توجہ ان کے اپنے مشن یعنی اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے وقف ہو گئی۔ اردو کی خدمت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ اردو سے ان کا والہانہ عشق اس بلندی کو چھو گیا جہاں ان کی ذات اور اردو ایک دوسرے میں مدغم ہو گئیں۔ ٭٭٭٭٭٭ دکن کا دور اور انجمن ترقی اردو سے تعلق (1895ء تا1935ئ) ہندوستان میں جس طرح حصول علم کے لئے علی گڑھ مسلم نوجوانوں کے لئے مرکز نگاہ تھا، یہی حیثیت حصول روزگار کے لئے ریاست حیدر آباد دکن کو حاصل تھی۔ دکن میں پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی ہمت افزائی کی جاتی تھی اس کے نتیجے میں سارے ہندوستان اور بالخصوص بہار، بنگال، یوپی اور پنجاب سے پڑھا لکھا طبقہ حیدر آباد دکن کا رخ کرتا اور وہاں اپنے جوہر دکھاتا بقول محمد اعظم: ’’ مولوی عبدالحق کے علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے کا زمانہ وہ تھا جب ہندوستان کے طول و عرض سے اہل فضل و کمال کھنچ کھنچ کر اس عروس البلاد میں پہنچ گئے تھے، جو عہد عباسیہ کے بعد بغداد کی طرح علم و حکمت کا گہوارہ بنا ہوا تھا اور جہاں علم و فن کے با کمال کثیر تعداد میں جمع تھے۔ چنانچہ اس وقت اردو کے اکثر ممتاز ادیب، شعراء اور انشاء پرداز حیدر آباد میں موجود تھے مثلاً نواب حیدر یار جنگ، طبا طبائی، جوش ملیح آبادی، فصاحت جنگ، جلیل، سجاد مرزا بیگ دھلوی، مرزا ھادی رسوا اور مرزا فرحت اللہ بیگ وغیرہ۔‘‘ گو مولوی عبدالحق کے بھائی شیخ احمد حسن کا بیان ہے: ’’ وہ علی گڑھ سے بی اے پاس کرنے کے بعد سر سید کی ایماء پر محسن الملک کے خط کے ساتھ حیدر آباد گئے، جہاں نواب وقار الملک کمانڈنگ چیف نے مدرسہ آصفیہ میں بطور ہیڈ ماسٹر تقرری کرا دی۔‘‘ لیکن خود مولوی عبدالحق صاحب اور ان کے رفقاء کار کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے حیدر آباد جانے سے قبل بمبئی کا رخ کیا تھا جہاں وہ تجارت اور صحافت کا پیشہ اختیار کرنا چاہتے تھے۔ بمبئی میں ان کا تعلق لیڈی حیدری کے خاندان سے رہا جو روشن خیال سلیمانی بوھری کنبہ تھا گو وہ تاجر پیشہ تھے، لیکن علی گڑھ تحریک اور جدید علوم کے حامی تھے محمد حبیب اللہ رشدی کا بیان ہے: ’’ مولوی عبدالحق نے ایک مرتبہ گفتگو کے دوران میں فرمایا تھا کہ بمبئی میں لیڈی حیدری کے والد انہیں کام سکھاتے تھے‘‘ بمبئی کے سفر کا ذکر مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کانفرنس منعقدہ بمبئی1945ء میں بھی کیا تھا انہوں نے فرمایا: ’’ بمبئی کی اردو سے وابستگی خاصی پرانی ہے نوے سال پہلے بھی یہاں سے اردو اخبار نکلتے تھے جس میں کشف الاخبار، روضۃ الاخبار، ریاض الاخبار، برق خاطف کے نام اب تک ملتے ہیں ایک اخبار’’ پریم گوپال پرکاس‘‘ نام کو بھی تھا جو اردو میں شائع ہوتا تھا جب 1895ء میں یہاں آیا تو اس وقت بھی جاری تھا اور میں اس کے ایڈیٹر سے ملا تھا‘‘ تحسین سروری لکھتے ہیں: ’’ ریاست حیدر آباد کے معتمد مال نواب محسن الملک سے ان کی ملاقات ہوئی جو تبدیل آب و ہوا کی غرض سے وہاں ٹھہرے ہوئے تھے نواب صاحب نے مولوی صاحب کو عارضی طور پر پرائیویٹ سیکرٹری بنا لیا مولانا ظفر علی خان اور مولوی امین زبیری بھی وارد بمبئی ہوئے وہ محسن الملک سے ملے اور انہی کے ساتھ رہنے لگے ان تینوں نوجوانوں نے اپنے علم، اپنی روشن خیالی اور مستعدی سے نواب صاحب کو کافی متاثر کیا اور نواب صاحب ان نوجوانوں کو دل سے چاہنے لگے۔‘‘ لیکن مولوی عبدالحق اور ان کے ان رفقاء کا بمبئی میں قیام بہت مختصر اور عارضی تھا بالآخر امین زبیری صاحب نے بھوپال اور ظفر علی خان نے حیدر آباد دکن کا رخ کیا تحسین سروری تحریر کرتے ہیں: ’’ مولوی عبدالحق اور ظفر علی خان نے محسن الملک سے سفارشی خط لے کر1889ء میں حیدر آباد دکن کی راہ لی حیدر آباد میں اس وقت ہوم سیکرٹری مولوم عزیز مرزا تھے انہیں نے علی گڑھ کے ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی قدر کی اور اپنے دفتر میں ملازم رکھ لیا ان کے ذمے مترجمی کا کام تھا۔‘‘ لیکن ’’ نقوش‘‘ لاہور کے آپ بیتی نمبر1964ء میں مولانا ظفر علی خان کے حیدر آباد دکن پہنچنے کے سلسلے میں یوں تحریر ہے: ’’ مولانا ظفر علی خان یہاں (دکن)1896ء کے آخر میں پہنچے اور تیرہ سال قیام کیا‘‘ اور یہی سن حیدر آباد دکن جانے کا درست معلوم ہوتا ہے پروفیسر سید محمد نے اپنے مضمون’’ بیسویں صدی کا سرسید‘‘ میں لکھا ہے: ’’ مولوی صاحب علی گڑھ سے نکلتے ہی بمبئی میں نواب محسن الملک کے ہاں انگریزی مراسلت اور مضمون نگاری کے کام پر مامور ہوئے۔ دو سال کے اندر ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھ کر افسر الملک انہیں حیدر آباد لے آئے اور مدرسہ آصفیہ کی پرنسپلی پر ان کا تقرر کرا دیا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے بمبئی جانے کا سن1895ء بتایا ہے اور اگر وہ مولانا ظفر علی خان کے دو سال بعد حیدر آباد گئے تو یقینا1896ء کا آخر درست معلوم ہوتا ہے۔ حبیب اللہ رشدی کا خیال ہے کہ پہلے مولوی عبدالحق صاحب کو بریگیڈ آفس میں ملازمت ملی اس کے بعد مدرسہ آصفیہ ملک پیٹھ حیدر آباد کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا یہ مدرسہ نواب سر افسر الملک بہادر کمانڈر انچیف افواج کے ایما پر ان کے داماد میجر ممتاز الدولہ نے فوجیوں کے بچوں کے لئے قائم کیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب1908ء تک اس مدرسے کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے مدرسہ آصفیہ کے نظم و ضبط کے لئے ان تھک جدوجہد کی اور اس کا دائرہ فوجی افسروں کے بچوں سے بڑھا کر عام شہریوں تک وسیع کر دیا بہت جلد مدرسہ آصفیہ نے حیدر آباد کی درسگاہوں میں امتیازی مقام حاصل کر لیا بقول محی الدین صاحب: ’’ اب تک حیدر آباد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس مدرسے میں مولوی صاحب کے زمانہ صدارت میں تعلیم پائی تھی، وہ ان کے دل چسپ طریقہ تعلیم اور محبت آمیز برتاؤ کا ابھی تک ذکر کرتے ہیں۔‘‘ مدرسہ آصفیہ کی سربراہی اور رسالہ’’ افسر‘‘ سے مولوی عبدالحق کے تعلق کا تذکرہ ایک ساتھ چلتا ہے محی الدین احمد کا خیال ہے: ’’ مولوی عبدالحق صاحب نے اسکول میگزین کے طور پر سالہ ’’ افسر‘‘ جاری کیا جو کرنل افسر الملک بانی مدرسہ کے نام سے معنون ہے۔‘‘ یہ رسالہ 1897ء میں نواب افسر الدولہ نے حیدر آباد دکن سے جاری کیا تھا بعض محققین کا خیال ہے کہ مدرسہ آصفیہ کی صدر معلمی اور رسالہ ’’ افسر‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں مولوی عبدالحق کو ایک ساتھ سونپی گئی تھیں یہی خیال تحسین سروری کا ہے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ ایک موقعہ پر 1898ء مولوی عبدالحق کی ملاقات حضور نظام (نواب میر محبوب علی خان غفران مکان) کے ایڈی کانگ اور افواج آصفیہ کے سپہ سالار افسر الملک نواب افسر یار جنگ سے ہوئی افسر جنگ سپاہی زادے تھے، لیکن وہ علم و فضل کے بڑے قدر دان تھے چنانچہ مولوی صاحب کے علمی ذوق و شوق اور ان کی ادبی معلومات سے اتنے خوش ہوئے کہ انہیں اپنے رسالے (افسر) کی ادارت کے لئے منتخب کر لیا، اور ساتھ ہی اپنی قائم کی ہوئی درس گاہ مدرسہ آصفیہ کی صدر مدرسی کی پیش کش کر دی۔‘‘ مولوی عبدالحق کا مدرسہ آصفیہ سے تعلق 1897ء میں ہو چکا تھا1899ء میں رسالہ ’’ افسر‘‘ سے منسلک ہوئے اور جنوری1900سے رسالے کی باقاعدہ ادارت کرنے لگے یہ رسالہ پانچ سال جاری رہنے کے بعد سن1902ء کے وسط میں بند ہو گیا مولانا الطاف حسین حالی نے رسالے کے بند ہونے پر اپنے ایک مکتوب بنام مولوی عبدالحق صاحب محررہ 10جولائی 1902ء میں بہت افسوس کا اظہار کیا، انہوں نے لکھا: ’’ کیا’’ افسر‘‘ بالکل بند ہو گیا؟ افسوس ہے ہندوستان میں کوئی عمدہ رسالہ نہیں چل سکتا معارف، ادیب، حسن اور دیگر عمدہ میگزین چند روز کی دنیا کی ہوا کھا کر نوبت بہ نوبت راہئی ملک عدم ہو گئے پھر ’’ افسر‘‘ کے چلنے کی کیا امید ہو سکتی تھی؟ (بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں) جس چیز کی خریداری کا مدار زیادہ تر مسلمانوں پر ہو گا، اس کا رونق اور فروغ معلوم۔۔‘‘ مولانا ظفر علی خان بھی مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ حیدر آباد دکن وارد ہوئے تھے وہ مختلف خدمات انجام دیتے ہوئے 1900ء میں معتمدئی عدالت و امور عامہ کوتوالی میں صدر مترجم کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن درباری سازشوں نے مولانا ظفر علی خان کے قدم حیدر آباد دکن سے اکھاڑ دیے اور 9اکتوبر1909کو مولانا ظفر علی خان کو حیدر آباد سے اخراج کا حکم صادر ہوا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس واقعہ پر اس طرح روشنی ڈالی ہے: ’’ 9اکتوبر1909کو ہماری قسمت نے دفعتاً پلٹا کھایا، یعنی مشیت ایزدی عتاب الٰہی کی شکل میں نازل ہوئی۔۔۔۔ اگر13سال تک دولت آصفیہ کی سلک ملازمت میں منسلک رہنے کے بعد بلا اس بات کے آگاہ کئے ہوئے کہ میرا جرم کیا ہے، صرف اس مبہم علت پر کہ میں نے مولوی عزیز مرزا مرحوم کے ساتھ مل کر دولت آصفیہ کے ساتھ خفیہ ساز باز میں حصہ لیا، اور مجھے اڑتالیس گھنٹے کے اندر حیدر آباد کو ، جو میرا دوسرا وطن عزیز تھا چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو یہ سب کچھ سرمایکل اڈوائر کی عنایت کا نتیجہ تھا۔‘‘ حیدر آباد دکن سے مولانا ظفر علی خان کی ریاست بدری کے بعد مولوی عبدالحق کو ان کی جگہ بطور مترجم ہوم آفس مامور کیا گیا۔ فروری1911ء میں مسٹر گوبند رام چندر کالے مددگار مہتمم تعلیمات حیدر آباد رخصت پر گئے تو نواب سر بلند جنگ معتمد تعلیمات نے مولوی عبدالحق صاحب کو 7فروری 1911ء سے تین ماہ کے لئے اپنی نیابت میں لے لیا کالے صاحب نے مزید چھ مہینے کی رخصت لے لی تو مولوی عبدالحق صاحب مستقل طور پر محکمہ تعلیمات سے وابستہ ہو گئے وہ یہ خدمت بطور مہتمم تعلیمات1915ء تک انجام دیتے رہے اور ان کا مرکز اورنگ آباد ہو گیا۔ جہاں اس کے بعد وہ صدر مہتمم تعلیمات بھی مقرر ہوئے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے بطور مہتمم تعلیمات اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا اور ماہر تعلیمات کی حیثیت سے اپنی قابلیت تسلیم کر الی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے مہتمم تعلیمات ہوتے ہی اس شعبے میں جان ڈال دی۔ وہ بڑی پابندی سے مدرسوں کا معائنہ کرتے اور اساتذہ کی تدریسی کانفرنس منعقد کرتے مولوی صاحب کی ان انتظامی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے سید سجاد علی تحریر کرتے ہیں: ’’ مولوی صاحب نے صدر مہتمم تعلیمات کی حیثیت سے صوبہ اورنگ آباد کے اضلاع کی ہی نہیں بلکہ ملحقہ چھوٹے چھوٹے مقامات کی تحتانی مدارس تک کا تفصیلی دورہ کیا۔ وہاں کے حالات سے ذاتی واقفیت حاصل کی۔ انتظامات کی اصلاح کی طریقہ تدریس میں جدتیں پیدا کیں ریل، سڑک، بیل گاڑی، ٹٹو، پیدل، غرض جس طرح بنا، طویل دورے کئے۔ سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور صوبے میں تعلیم اور ترقی کا غیر معمولی جوش و ولولہ پیدا کیا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی تعلیمی اصلاحات کا آغاز ہی کیا تھا کہ دسمبر1912ء میں ان کے کندھوں پر انجمن ترقی اردو کی ذمہ داریاں بھی آن پڑیں۔ انجمن ترقی اردو کے معتمد عزیز مرزا صاحب تھے لیکن 1902ء میں ان کے انتقال کے بعد سے یہ عہدہ خالی پڑا تھا1911ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا تو اس میں اس عہدہ کے لئے مولوی عبدالحق صاحب کو منتخب کر لیا گیا اور انہوں نے مہتمم تعلیمات کے ساتھ ساتھ معتمد انجمن کے طور سے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی ملازمت کا مرکز اورنگ آباد تھا، اس لئے انجمن ترقی اردو کا مرکز بھی اورنگ آباد کو قرار دیا گیا اور انجمن کا دفتر جو پہلے علی گڑھ میں تھا اورنگ آباد منتقل ہو گیا یہاں مقبرہ درانی ہی انجمن اور مولوی صاحب دونوں کا مستقر مقرر ہوا۔ مولوی عبدالحق صاحب کو بطور معتمد انجمن ترقی اردو، وراثت میں رسی سے بندھا ہوا ایک چوبی صندوق ملا جس میں چند غیر مرتب مسودات، ایک رجسٹر اور قلم دوت تھی۔ ’’ لیکن 1912ء میں اجلاس کانفرنس کے انتخاب نے ان کی جولانی طبع کے لئے بالکل نیا اور وسیع میدان کھول دیا اور وہ ایسے تازہ شوق اور ولولے کے ساتھ اس اقلیم جدید میں داخل ہوئے جو سرکاری عہدہ داری یا تصنیف و تالیف کے عام مشغلوں میں پیدا نہ ہو سکتے تھے انجمن، زندگی کی نئی دھن اور سب سے بڑا مقصد حیات بن گئی۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی جدوجہد اور سر تن کی بازی سے انجمن ترقی اردو کی آبیاری کی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق کی ذات ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہو گئیں کہ جدا کرنا مشکل ہو گیا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کا معتمد بننے کے بعد اس کی تنظیم نو کی پسلو تارک کی ’’ مشاھیر یونان‘‘ لہکی کی ’’ تاریخ اخلاق یورپ‘‘ اور البیرونی کی ’’ کتاب الہند‘‘ جیسی نادر روزگار کتب کے تراجم کرا کے شائع کئے انجمن کی مطبوعات کی فروخت کا باقاعدہ انتظام کرنے کے لئے الناظر پریس لکھنو کو ایجنسی دی گئی انجمن کے لئے سرمایہ جمع کرنے کی تحریک چلائی اول عطیات و چندے امراء اور والیاں ریاست سے لئے گئے دوم انجمن کی ممبر سازی سے انجمن کی انتظامی مجلس بنائی گئی سرپرستوں سے یک مشت ہزار روپیہ دوامی ممبران سے پانچ سو روپیہ وصول کیا گیا۔ ارکان کی اعانت، اور خریدار ارکان کی مدد کا یہ ذریعہ نکالا کہ انہیں انجمن کی مطبوعات نصف قیمت پر دی جاتی تھیں اس طرح مختلف مدوں سے دو سال میں انجمن کا سرمایہ آٹھ ہزار روپیہ ہو گیا۔ ابتدا میں اعلیٰ حضرت نظام نے بارہ سو روپے سالانہ انجمن کے لئے منظور کئے، بعد میں مستقل طور پر پانچ ہزار روپے سالانہ امداد ملتی رہی۔ انجمن ترقی اردو کے دکنی دور میں نواب حیدر نواز جنگ (سر اکبر حیدری) کو ایک یونیورسٹی کے قیام کے لئے قائل کیا۔ ’’ کیونکہ ریاست کے لئے تنہا ڈگری کالج یعنی نظام کالج سے بقول شخصے سالانہ ڈیڑھ دو گریجویٹ نکلتے تھے یہ کالج مدراس یونیورسٹی سے ملحق تھا۔ مدراس یونیورسٹی ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں میں ایک عجوبہ سمجھی جاتی تھی تعلیمی نصاب اتنا مشکل رکھا گیا تھا جو طالب علموں کی تمام ذہنی قوتوں کا خاتمہ کر دیتا تھا۔‘‘ جامعہ عثمانیہ کا منصوبہ منظور ہوتے ہی اس کے عملی خد و خال کی تیاری کے لئے ناظم تعلیمات سر راس مسعود کے تحت دار الترجمہ قائم ہوا تو سر اکبر حیدری کی نگاہ انتخاب مولوی عبدالحق پر پڑی لیکن مولوی عبدالحق کو اورنگ آباد سے جو تعلق خاطر ہو گیا تھا اس وجہ سے وہ اورنگ آباد چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے بالآخر وہ اس شرط پر رضا مند ہو گئے کہ مہینے میں دس دن وہ اورنگ آباد میں رہا کریں گے اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولوی عبدالحق نے اپنے 7دسمبر1958ء کے مکتوب بنام محمد علی میں تحریر کیا ہے: ’’ سید ہاشمی صاحب کہا کرتے تھے کہ اورنگ آباد کے قدر دان اورنگ زیب عالمگیر تھے یا عبدالحق تم کو معلوم تھا کہ جب عثمانیہ یونیورسٹی کا منصوبہ منظور ہوا تو پہلے دار الترجمہ قائم کیا گیا اس کی نظامت مجھے بخشی گئی میں اورنگ آباد کو چھوڑنے کو تیار نہ تھا حیدری صاحب اور حبیب الرحمن خان شیروانی نے کہا کہ یہ سارا کارخانہ تمہارے مشورے اور تمہارے بھروسے پر کھڑا کیا گیا ہے اگر تم دار الترجمہ کی نظامت قبول نہ کرو گے تو یہ کارخانہ کیسے چلے گا؟ میں نے ان کے اصرار پر دو سال کے لئے یہ خدمت اس شرط پر منظور کی مہینے میں دس دن اورنگ آباد میں رہوں گا‘‘ مولوی عبدالحق نے اس دار الترجمہ میں بھی بڑی جانفشانی اور لگن سے کام کیا دار الترجمہ کا بنیادی مقصد جامعہ عثمانیہ کے لئے نصاب کو اردو میں منتقل کرنا تھا مولوی صاحب کے انتقامی شعور پر نظر ڈالتے ہوئے محی الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’ اس شعبے میں مولوی صاحب نے اپنے ذوق اور قابلیت کا پورا پورا ثبوت دیا جس فن کی کتاب کا ترجمہ کرنا ہوتا اس مضمون کا قابل ترین شخص جو دونوں زبانوں پر پوری مہارت رکھتا ہو، منتخب کیا جاتا۔ چنانچہ اس دار الترجمہ میں ہندوستان کا گویا عطر کشید کر کے رکھ دیا تھا۔ ان میں مولانا عبداللہ عمادی، سید ہاشمی فرید آبادی، مرزا ہادی رسوا، پروفیسر چودھری برکت علی، قاضی محمد حسین جیسے لوگ شامل تھے جو کتاب بھی ترجمہ کی جاتی وہ مختلف مراحل سے گذرتی۔ اول زبان و ادب کی جانچ ہوتی۔ جوش ملیح آبادی اس دار الترجمہ میں ناظر ادبی تھے اس کے بعد مولانا خیر المبین جو یہاں بڑے زبردست عالم دین تھے، وہ اور نواب حیدر یار جنگ صدر الصدور مذہبی امور پر مشتمل کمیٹی میں یہ کتاب پیش ہوتی، اور مذہبی نقطہ نظر سے جانچ پڑتال کی جاتی یہاں سے گزر کر جس فن پر کتاب ہوتی اس کے ماہر پروفیسروں کی کمیٹی میں پیش ہو کر فنی نقطہ نظر سے اس پر جرح و تنقید کی جاتی یہاں سے پاس ہونے کے بعد مسودہ مطبع میں جاتا اور اس کی طباعت عمل میں آتی ظاہر ہے کہ اس اہتمام سے جو کتاب تیار ہو اس کی افادیت میں کیا شبہ ہو سکتا تھا۔‘‘ 7اگست1919ء کو عثمانیہ یونیورسٹی کا افتتاح ہوا اور مولوی عبدالحق اپنے مشن کو مکمل کرنے دوبارہ مستقل طور پر بطور مہتمم تعلیمات اورنگ آباد آ گئے اور اپنے معمولات انجام دینے لگے۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام سے ریاست حیدر آباد دکن کے تعلیمی ماحول پر بڑے مثبت نتائج سامنے آئے۔ ’’ جامعہ عثمانیہ کے قیام نے ریاست حیدر آباد میں تعلیم اک شوق پیدا کر دیا تھا، جس سے مدارس کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اس زمانے میں محکمہ تعلیمات نے آپ سے فرمائش کی کہ میٹرک تک کی جماعتوں کے لئے اردو کی ریڈریں تیار کریں اس وقت تک انجمن کی ساکھ نہیں بندھی تھی، اس لئے محکمہ نے معاملہ آپ کی ذات سے کیا۔ انجمن سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا آپ نے بڑی محنت اور مشقت سے دس جماعتوں کے لئے درس عثمانیہ کے نام سے ریڈریں تیار کیں۔۔۔۔ ان ریڈروں کے علاوہ آپ کی قواعد اردو بھی میٹرک کے نصاب میں شامل تھی۔ یہ گیارہ کتابیں بیس پچیس برس اس وسیع ریاست کے تمام مدرسوں میں رائج ہیں، جن کی فروخت کی آمدنی دس لاکھ سے زیادہ تھی یہ سالانہ آمدنی انجمن کے حساب میں جمع ہوتی رہی آپ نے اس میں سے ایک پیسہ بھی نہ لیا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے نہ صرف ریڈریں مرتب کیں بلکہ ان کی کتابت اور طباعت تک اپنی نگرانی میں کرائی اس ضمن میں انہوں نے اپنے ایک مکتوب بنام غلام ربانی محررہ یکم نومبر1958ء میں بتایا ہے: ’’ دلی سے کاتب بلا کر وہاں رکھے ان کی مہمان داری اور ناز برداری کی اپنے سامنے اصول املا کے مطابق کتابت کرائی بہت سے سبق خود لکھے اور باقی سبقوں میں اصلاح اور ترمیم کی یہ کام دن رات ہوتا رہا۔ کئی مہینوں بلکہ ایک سال اس شغل میں صرف ہو گیا۔‘‘ 1923ء میں مدرسہ فوقانیہ مشرقیہ اور انگریزی ہائی سکول اورنگ آباد کو یک جا کر کے اورنگ آباد انٹرمیڈیٹ کا قیام عمل میں آیا مولوی عبدالحق کو صدر مہتمم تعلیمات اور معتمد انجمن کے ساتھ ساتھ اس کالج کی پرنسپلی بھی دی گئی 1924ء میں وہ صدر مہتمم کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے، لیکن بد ستور اورنگ آباد کالج کے پرنسپل رہے۔ یہاں سے انہوں نے 1929ء میں وظیفہ (پنشن) لیا مولوی عبدالحق صاحب کی زمانہ پرنسپلی میں اورنگ آباد کالج میں شاندار روایات کی بنیاد پڑی مثلاً کالج ڈے شاندار طریقے سے منایا جاتا تھا اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ہارون خاں شیروانی تحریر کرتے ہیں: ’’ مولوی صاحب نے عثمانیہ کالج اورنگ آباد کی صدارت کیا کی، وہاں کے جنگل کو منگل بنا دیا اور لوگ مقبرہ درانی کے باغ کو اردو باغ کہنے لگے سن1926ء میں انہوں نے مرزا فرحت اللہ بیگ مرحوم کی لکھی ہوئی ادبی تمثیل کو جس کا عنوان سن1261ء ہجری کا مشاعرہ تھا اپنے کالج میں پیش کیا اس تمثیل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حیدر آباد سے جو لوگ اسے دیکھنے کے لئے اورنگ آباد گئے تھے ان میں اس زمانے کے حیدر آباد کے روح رواں حیدری صاحب اور یہاں کے ممتاز ناظم تعلیمات مسعود جنگ بھی تھے اور ان کے ساتھ جامعہ عثمانیہ کے تقریباً تمام اساتذہ بھی (جن کی تعداد اس زمانے میں تیس چالیس سے زیادہ تھی) بلائے گئے تھے مولوی صاحب نے سب مہمانوں کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا ایسا انتظام کیا تھا کہ آج بھی اس کی یاد تازہ ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کے وظیفہ خدمت (پنشن) پر جانے کے بعد بھی کالج ڈے شاندار طریقے سے منایا جاتا رہا کالج کے منتظمین اور طلبا اپنے کالج ڈے پر مولوی عبدالحق صاحب کو ضرور بلاتے رہے اس قسم کے ایک اجتماعی میں طلباء نے انہیں ’’ بابائے اردو‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس زمانے میں واردھا سکیم کے نام پر اردو اور اسلامی ثقافت کے خلاف سازش کی گئی تھی جس کا مسلمانوں میں بھی شدید رد عمل تھا1935ء میں جب عثمانیہ کالج کے طلبا نے حسب معمول کالج ڈے منایا تو مولوی عبدالحق صاحب مہمان خصوصی تھے اس موقع پر مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کے حق اور واردھا اسکیم کی مخالفت میں بڑی جذباتی تقریر کی تھی۔ محمد احمد سبزواری لکھتے ہیں: ’’ تقریر بڑی مدلل اور موثر تھی۔ کچھ لوگ آبدیدہ بھی ہو گئے تھے دکن کے ایک جوشیلے نوجوان محمد یوسف نے نعرہ لگایا’’ اردو زندہ باد‘‘ ’’ بابائے اردو زندہ باد‘‘ بس پھر کیا تھا ساری محفل بابائے اردو زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی جب اس موقع کی خبر اورنگ آباد کے ایک ہفتہ وار اخبار شائع ہوئی تو سرخی تھی ’’ بابائے اردو کا کالج کے طلبا سے خطاب‘‘ پھر یہ خطاب حیدر آباد پہنچا اور اس کے بعد وہاں سے ساتھ ہی ساتھ سارے برصغیر میں پھیل گیا اور جب تک اردو زندہ ہے بابائے اردو کا نام بھی زندہ رہے گا۔‘‘ عثمانیہ کالج اورنگ آباد کی پرنسپلی کے زمانے میں مولوی عبدالحق کا ایک بڑا کارنامہ رسالہ نورس کا اجرا تھا جو عثمانیہ کالج اورنگ آباد کا علمی و ادبی جریدہ تھا یہ رسالہ 1925ء کے وسط سے شروع ہوا مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے ایک مکتوب محررہ 22فروری 1925ء میں سید ساجد علی کو اس رسالے کے ضمن میں تحریر کیا: ’’ میں کالج سے بھی میگزین شائع کرنے والا ہوں منظوری آ چکی ہے امید ہے کہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں پہلا پرچہ شائع ہو جائے گا یہ دو ماہی ہو گا، یعنی سال میں چھ پرچے نکلا کریں گے۔ اس کا نام میں نے بہت ہی اچھا رکھا ہے آپ سن کر خوش ہوں گے’’ نورس‘‘ ہر لحاظ سے مناسب ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب پنشن پر آنے کے بعد اپنی باقی عمر اورنگ آباد میں گزارنا چاہتے تھے تاکہ صبر و سکون سے وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کر سکیں لیکن حالات و واقعات کے دھارے اس کے خلاف جا رہے تھے 1929ء میں مولانا وحید الدین کا بہ سبب کینسر انتقال ہوا تو جامعہ عثمانیہ میں اردو کی پروفیسری کی آسامی خالی ہوئی شہاب الدین ثاقب کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر مولانا صاحب پنڈت کیفی کو لانا چاہتے تھے مہاراجہ کشن پرشاد، سر اکبر حیدری وغیرہ کی خواہش تھی کہ مولوی عبدالحق اس پر تعینات ہوں لیکن نہ تو مولوی صاحب راضی ہوتے تھے اور نہ قانون میں ایسی گنجائش تھی لیکن سر اکبر حیدری کی شخصیت نے مولوی عبدالحق کو راضی کر لیا اور ارباب جامعہ کو بھی پروفیسر مسعود احمد کا کہنا ہے: ’’ حیدر آباد کی ملازمت کے سلسلے میں انہیں600پنشن ملتی تھی پروفیسر کے کل 1000روپیہ‘‘ مولوی صاحب پھر اورنگ آباد سے حیدر آباد واپس آ گئے اور درس و تدریس میں مصروف ہو گئے انجمن کا کام اور تحقیق و تدوین کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ پروفیسر عبدالقادر سروری ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ ان کی پروفیسری بڑی طنطنہ کی تھی وہ ہفتے میں پانچ چھ گھنٹوں سے زیادہ درس نہیں دیتے تھے اور درس بھی جامع کی عمارت میں دینے کی بجائے اکثر سبزہ زار پر بیٹھ کر دیا کرتے تھے‘‘ جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری کے زمانے میں بھی انجمن کا مرکز بد ستور اورنگ آباد رہا اور وہ پروفیسروں کے ساتھ تن دہی سے انجمن کے اماور اور تحقیق و تدوین میں مصروف رہے۔ اس زمانے کا سب سے بڑا کارنامہ اردو کی جدید اور کلاں لغت کی تیاری ہے۔ جس کے لئے حکومت حیدر آباد نے بارہ ہزار سکہ عثمانیہ سالانہ کی مدد بھی فرمائی تھی ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب لکھتے ہیں: ’’ لغت کا دفتر حیدر آباد میں کھولا گیا جس قدر کام زیادہ ہوا۔ مولوی عبدالحق صاحب کے منصوبے بڑھتے رہے دس بارہ سال میں لغت کا اتنا کچھ سرمایہ فراہم ہو گیا کہ پہلے کسی کے خیال میں بھی نہیں آ سکتا تھا کتاب تکمیل کو نہ پہنچی چند اجزا حیدر آباد کے سرکاری مطبع میں چھپے تھے کہ آزادی ہند کی آندھیوں میں وہ دفتر ہی پراگندہ ہو گیا۔‘‘ جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری اور اورنگ آباد عثمانیہ کالج کی پرنسپلی کے زمانے میں مولوی عبدالحق کی نگاہیں جواہر قابل پر پڑتی رہیں اور انہوں نے بعض ایسے نامور افراد تربیت کئے جنہوں نے اردو ادب میں کافی شہرت حاصل کی بقول نصیر الدین ہاشمی: ’’ آپ نے جن طلبا پر توجہ فرمائی وہ آگے چل کر ہم چشموں میں ممتاز اور نامور ہو گئے مثلاً شیخ چاند مرحوم، سکندر علی وجد وغیرہ‘‘ ملکی حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے سیاسی کشمکش اور نشیب و فراز نے مذہبی اور لسانی تعصبات کی آگ بھڑکا دی تھی انگیزوں نے اہل ہند میں تعلیم عام کرنے کے لئے ’’ سارجنٹ سکیم‘‘ کے نام کا منصوبہ بنایا گاندھی جی نے اس کے جواب میں ودیا مندر اسکیم کا منصوبہ جاری کیا ان تمام اسکیموں کا نزلہ اردو اور اسلامی ثقافت پر پڑا سید ہاشمی فرید آبادی کا کہنا ہے: ’’ اردو اور ہندی کے اختلافات نے سب سے پہلے نزاع کی صورت بہار ہی میں اختیار کی تھی پھر یہ جھگڑا یہاں سے بڑھا اور آگے دو آب میں قدم بڑھاتا رہا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے پہلے مصالحت چاہی گاندھی جی سے خط و کتابت کی کانگریس کے ارباب سیاست سے بحث و مباحثے کیے لیکن جب یہ دیکھا کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے تو خم ٹھونک کر میدان عمل میں نکل پڑے حالات جس سمت لے کر جا رہے تھے اس کے لئے ضروری تھا کہ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کا مرکز جنوبی ہند سے وسط ہند کی طرف منتقل کریں تاکہ پورے ملک میں اردو اور اسلامی ثقافت کی بقا کے لئے جہاد کیا جا سکے چنانچہ25-24اکتوبر 1936ء کو علی گڑھ میں حالات کا جائزہ لینے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے اجلاس منعقد ہوا مولوی عبدالحق صاحب نے اس کی روداد میں تحریر کیا: ’’ 1936ء کی کانفرنس علی گڑھ میں منعقد ہوئی تھی ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ آئندہ انجمن کا صدر مقام کہاں ہو ڈاکٹر سر محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان اور دوسرے احباب کو اصرار تھا کہ انجمن کا صدر مقام لاہور ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کا کہنا تھا کہ اب اردو پنجاب ہی میں رہ جائے گی اس لئے یہیں رہ کر کام کرنا چاہئے سر راس مسعود (مرحوم) نے علی گڑھ کا سبز باغ دکھایا کیونکہ یونیورسٹی کی وجہ سے وہاں ہر قسم کے کام کرنے والے موجود تھے میری رائے دلی کی طرف مائل تھی۔۔۔۔ قطع نظر دیگر وجوہ کے، میں انجمن کو ان دو بلاؤں سے بچانا چاہتا تھا جو آجکل سارے ہندوستان پر مسلط ہیں۔ ایک بلا تو فرقہ واری اور دوسری صوبہ داری۔۔۔۔۔۔ اردو کسی خاص فرقے یا طبقے کی زبان نہیں نہ کسی خاص طبقے یا صوبے سے منسوب ہے، اور سوائے دہلی کے جہاں کہیں بھی انجمن کا صدر مقام ہوتا وہ صوبہ داری کے الزام سے نہیں بچ سکتا تھا۔‘‘ اس اجلاس میں انجمن ترقی اردو کو دہلی منتقل کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی انجمن کے دہلی منتقل ہونے سے پہلے یہ بھی لازم تھا کہ مولوی عبدالحق اورنگ آباد اور حیدر آباد کی مصروفیات سے فراغت حاصل کر لیں چنانچہ1937ء میں مولوی عبدالحق صاحب جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری سے سبکدوش ہو گئے اور انجمن کا دفتر دہلی منتقل ہو گیا۔ اورنگ آباد اور حیدر آباد میں مولوی عبدالحق صاحب انجمن ترقی اردو کے علاوہ درس و تدریس اور انتظامی امور کے بکھیڑوں میں بھی الجھے ہوئے تھے اس کے باوجود انہوں نے انجمن میں ایک نئی روح پھونک دی تھی انجمن کی رکن سازی کے لئے مختلف اضلاع کے دورے کیے انجمن کی شاخیں قائم کیں یہاں تک کہ چھ سال کی کوشش کے نتیجے میں: ’’ 1920ء سے ہمیں انجمن کے حوصلوں میں بلندی اور منصوبوں میں نمایاں وسعت نظر آتی ہے وہ دوسرے مفید تراجم و تصانیف کے علاوہ زبان کے ایسے بنیادی کاموں کو اٹھاتے ہیں جیسے اصطلاحات علم جدید، اصطلاحات پیشہ وراں، انگریزی سے اردو کی اور خود اردو کی بڑی لغت کے آخر الذکر کی تکمیل تو ابھی تک نہ ہو سکی مگر دوسری آٹھ جلدوں میں اور انگریزی اردو لغت بڑی تقطیع کے کوئی ہزار صفحات پر کئی سال کی محنت اور صرف کثیر سے طبع کرا دی گئی۔۔۔۔ انتخاب کلام میر اور فلسفہ جذبات جو چند ہی سال پہلے چھپی تھی دوسری دفعہ طبع کرائی گئیں۔‘‘ جنوری1921ء سے مولوی عبدالحق کی ادارت میں رسالہ ’’ اردو‘‘ کا اجرا ہوا1924ء میں انجمن کے آئین کی تجدید اور با ضابطہ مجلس ناظمین بنی اس سال اردو باغ میں انجمن کا اپنا ٹائپ کا مطبع قائم ہوا جنوری1928ء میں مولوی عبدالحق نے رسالہ سائنس جاری کیا جس کے بالترتیب مظفر قریشی، محمد احمد خان اور نصیر احمد مدیر تھے مولوی صاحب نے دکنی ادب کے قدیم نسخوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور دکنی زبانوں کی بیسیوں کتابوں کو گوشہ گمنامی سے شہرت دوام بخشی سید ہاشمی فرید آبادی کا تجزیہ ہے: ’’ اجمالی طور پر نظر ڈالئے تو انجمن ترقی اردو صحیح معنوں میں اورنگ آباد آ کر ہی علی گڑھ کی ماتحتی سے آزاد ہوئی مستقل ادارہ بنی اور ترقی اردو کے مقاصد استقلال و تسلسل کے ساتھ انجام دیے۔۔۔۔ انجمن جس وقت علی گڑھ سے اورنگ آباد آئی تو کل کائنات ایک ٹوٹا ہوا صندوق تھا اور جب یہاں سے دلی چلی تو مطبوعات کے ذخائر مال گاڑی کے کئی ڈبوں میں لادے گئے۔ چھاپے خانے کا کثیر بھاری سامان اور کلوں کو حمل و نقل کی دشواری کی وجہ سے اورنگ آباد ہی میں فروخت کر دینا پڑا۔‘‘ اس طرح مولوی عبدالحق صاحب کی زندگی کا ایک اہم دور، جو سن1896ء سے شروع ہو کر 1935ء تک کے چالیس سالوں پر محیط ہے، ایک نیا رخ اختیار کر لیتا ہے بقول حبیب اللہ رشدی صاحب: ’’ ایک گمنام نوجوان کی حیثیت سے حیدر آباد گئے اور تین چالیس سال کے بعد کل ہند شہرت کے مالک بن کر حیدر آباد سے لوٹے‘‘ ٭٭٭٭٭٭ دلی کا دور اردو کی اشاعت و مدافعت میں جہاد (1937ء تا1947ئ) مولوی عبدالحق دکن میں علم و ادب کی خاموشی سے خدمت کرتے رہے اور بحیثیت معتمد انجمن ترقی اردو مولوی صاحب نے اردو زبان اور ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں، جس سے اردو زبان اور ادب کے سرمائے میں اضافہ ہوا الہ آباد یونیورسٹی نے ان کی خدمات کے صلے اور اعتراف میں1937ء میں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ مولوی صاحب کی جانثاری اور جدوجہد جاری تھی سید معین الرحمن صاحب لکھتے ہیں: ’’ پہلی جنگ عظیم برصغیر پاک و ہند کی کشت سیاست کے لئے طوفان کا پہلا جھکڑ ثابت ہوئی تحریک خلافت اور ترک موالات کے مناشقوں نے اس طلاطم کو پر شور کر دیا۔ آگے چل کر یہ طغیانی اور طوفان ہندو مسلم فسادات اور اختلافات کی صورت میں متشکل ہوا۔ اس زمانے میں زبان کے مسئلے نے نہایت ناگوار اور اندیشہ ناک صورت اختیار کر لی مولوی عبدالحق صاحب اس لسانی یورش کے مقابل اردو کو بچانے اور منوانے والوں کے محاذ کے سپہ سالار تھے انہیں اردو کی محبت اور مدافعت میں ایک طویل جنگ لڑنا پڑی‘‘ 1936ء میں اردو کے خلاف باقاعدہ مورچہ قائم کیا گیا بھارتیہ سلھتیہ پریشد اور ودیا مندر اسکیم کے تحت اردو کے خلاف ہندی کو فروغ دینے کی مہم کاآغاز ہوا ابتدا میں مولوی صاحب نے اردو کے مخالفین سے مصالحت چاہی اور انہیں اردو کی اہمیت اور وسعت کا قائل کرنا چاہا لیکن مہاتما گاندھی کی حکمت عملی اور کانگریسی رہنماؤں کی ضد سے یہ اختلاف تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا اپریل 1936ء میں کل ہند زبان کا اجتماع’’ اکھل بھارتیہ سلھتیہ پریشد‘‘ کے زیر اہتمام گاندھی جی کی صدارت ہوا اس میں یہ قرار داد پیش ہوئی: ’’ اس پریشد کا ادیش ہو گا: (الف) ہندوستان کے سب پرانتوں کی بھاشاؤں کے ساتھ ساتھیوں اور ساہت کاروں میں آپس میں میل جول کرنا۔۔۔۔ (ب) اس سبھا کا کام ’’ ہندی ہندوستانی‘‘ میں ہو گا‘‘ ۔۔۔۔۔ مولوی عبدالحق صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ گاندھی جی اور ان کے چیلے ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں اور کوئی بھی معقول بات انہیں قائل نہیں کر سکتی تو انہوں نے سلھتیہ پریشد کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا اور اردو کی مدافعت میں خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے لیکن دکن کی زمین اس مہم کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے لئے ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی، جہاں سے ہر علاقے اور مقام پر نظر رکھی جا سکے چنانچہ اس سال علی گڑھ میں دسمبر1936ء میں انجمن ترقی اردو نے کل ہند کانفرنس منعقد کی جس میں بہت غور و خوض کے بعد یہ طے ہوا کہ انجمن ترقی اردو کا مرکزی دفتر دلی منتقل کر لیا جائے۔ مولوی عبدالحق صاحب حیدر آباد میں اپنے بکھرے ہوئے کام کو سمیٹ کر اور جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری ترک کر کے حیدر آباد سے دلی منتقل ہو گئے انجمن ترقی اردو کا دفتر بھی دلی منتقل ہوا بھاری عمر کم سامان اور پریس کی مشینیں وہیں فروخت کر دی گئیں۔ انجمن کی مطبوعات، کتب خانہ اور مسودات سے بھرے ہوئے صندوق مال گاڑی کے ڈبوں میں دلی روانہ کئے گئے اس ضمن میں سید ہاشمی فرید آبادی نے تحریر کیا: ’’ شروع شروع میں نئی دہلی کی ایک کوٹھی (القریش) انجمن کے واسطے کرائے پر لی گئی تھی مگر چند ماہ کے بعد احباب کے اصرار سے ڈاکٹر انصاری مرحوم کی کوٹھی ( نمبر1دریا گنج) کو کرائے پر لیا۔ آگے چل کر مرحوم کے وارثوں نے اسے سیٹھ صاحب کے ہاتھ فروخت کر دیا انجمن سیٹھ صاحب کی کرایہ دار ہو گئی دفتر، کتاب خانہ جناب مولوی صاحب، پنڈت کیفی صاحب اور عملے کے بہت سے افراد سن47ء (آزادی ہند کے فسادات) تک اس احاطے میں مقیم رہے۔‘‘ اب مقبرہ درانی اورنگ آباد کی خاموش اور پر سکون علمی و ادبی کاوشوں کی زندگی کی بجائے دریا گنج کی طوفانی اور مہم جو زیست تھی، اور مولوی عبدالحق اردو کے دفاع کے لئے مجاہدانہ خدمات کا آغاز کر چکے تھے اس دوران میں کانگریس کی عبوری وزارتوں نے اپنے عمل سے اردو کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور ہندی زبان، دیو ناگری رسم الخط مسلط کرنے کے لئے منصوبے بنائے لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کے تحفظ کے لئے دن کا چین اور رات کا آرام حرام کر لیا۔ اپنے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے سید ساجد علی کو تحریر کیا: ’’ اس بر اعظم پاک و ہند کا شاید ہی کوئی بڑا یا چھوٹا قصبہ ایسا ہو جس کی خاک میں نے نہ چھانی ہو شہر اور قصبے تو میری جولاں گاہ تھے، پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں اور سمندروں کی بھی جی بھر کر سیر کی جس دنوں مجھ پر اردو کا جن سوار تھا اور ہندی والوں اور کانگریسی حکومت سے معرکہ آرائی تھی تو سچ مچ زمین کا گز بنا ہوا تھا وہ دور عجیب و غریب تھا اگر تحریر میں لاؤں تو الف لیلیٰ کی داستان معلوم ہو گی۔‘‘ مہاتما گاندھی اور کانگریسی رہنماؤں نے اردو کی مخالفت بہار سے شروع کی تھی لیکن سی پی کی زمین اردو ہندی تنازعہ کا مرکز بن گئی۔ چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب کو سب سے زیادہ سی پی کی حکومت سے معرکہ آرائی کرنا پڑی۔ سی پی میں کانگریسی عبوری حکومت نے ’’ ودیا مندر اسکیم‘‘ کا جبراً نفاذ چاہا، لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اس کی شدید مخالفت کی اور اپنے دست راست حکیم اسرار صاحب کی قیادت میں31مارچ1938ء کو ناگپور سیکرٹریٹ میں ایک وفد روانہ کیا جس نے حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی کو اپنی شکایات پیش کیں اور مطالبہ کیا: 1ودیا مندر سکیم کا نام تبدیل کیا جائے اگر وہ اس سکیم کے لئے کوئی نام رکھنا ہی چاہتے ہیں تو ’’ پڑھائی گھر‘‘ رکھ لیں 2مسلمان بچوں کے لئے اردو تعلیم کا انتظام کیا جائے 3سی پی میں جو کتابیں رائج ہیں ان میں ہندو دیو مالا، ہندو سورماؤں اور بزرگوں کا حال درج ہے مسلم تہذیب و آداب یا مسلمان بزرگوں کا نام تک نہیں، اس ضرورت کو پورا کیا جائے۔ 4ودیا مندر سکیم کی رو سے کسی گاؤں میں مدرسہ جاری کرنے کے لئے چالیس لڑکے لڑکیوں کی شرط کی بجائے جہاں دس یا دس سے زائد بچے ہیں، اسکول کھولے جائیں اور جہاں پانچ بچے اردو پڑھنے والے ہیں وہاں اردو رسم الخط میں ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ اس مسئلے پر مولوی عبدالحق نے گاندھی جی کے نام کھلی چٹھی بھی لکھی جس میں ان پر واضح کیا گیا کہ اگر مسلمانوں کی تعلیمی شکایات رفع نہ ہوئیں تو ان پر ان ہی کے حربے استعمال ہوں گے۔ سی پی میں انجمن کے رضا کاروں اور کارکنوں نے سارے صوبے کا دورہ کیا۔ شہر شہر، قصبہ قصبہ انجمن کی شاخیں، کتب خانے اور مدرسے قائم کئے جس کے نتیجے میں نارتھ ارکاٹ، ساؤتھ ارکاٹ، ٹائر نکور اور کوچین جیسے اہم علاقوں میں انجمن کی شاخیں قائم ہو گئیں مجموعی طور پر سی پی اور برار میں تیرہ مدرسے اور صوبے بھر میں ایک سو آٹھ (108) انجمن کی شاخیں قائم ہوئیں۔ چھوٹے ناگپور میں رومن کیتھولک کا زور تھا چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب نے ان کے پادریوں کو اپنے اعتماد میں لے کر ان کے مدارس میں اردو کی تعلیم کا اجراء کیا جس کے نتیجے میں چھ ہزار عیسائی لڑکے اور لڑکیاں اردو زبان کی تدریس سے فیض یاب ہوئیں یہاں تک کہ کیتھولک ننوں نے اردو پڑھ کر اردو میں مڈل کا امتحان دیا۔ انجمن نے اچھوتوں کے لئے مدرسے قائم کئے اور سی پی کے تمام کالجوں میں جن کی تعداد آٹھ تھی اردو کی تدریس کے لئے لیکچرار مقرر کئے ڈاک خانوں کے فارموں اور ریل کے ڈبوں پر اردو تحریر کی جانے لگی سی پی کی اسمبلی میں اردو میں تقاریر کا آغاز ہوا۔ اسمبلی کی کارروائی اردو میں لکھی جانے لگی ’’ ناگپور‘‘ ’’ جاگپور‘‘ میں تبدیل ہو گیا مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی ان کامرانیوں کا اردو کانفرنس کراچی منعقدہ 1951ء میں بڑے فخر سے ذکر کیا: ’’ یا تو ایک وقت یہ حالت تھی کہ مسلمان اردو بولنے سے شرماتے تھے یا تھوڑے ہی عرصے میں یہ نوبت ہوئی کہ مرہٹے اردو بولنے لگے اور اردو میں تقریریں کرنے لگے ناگپور اردو کا خاص مرکز بن گیا۔‘‘ بنگال میں اردو تدریس کا معقول انتظام نہ تھا مولوی عبدالحق صاحب کی یہ خواہش تھی کہ یہ سر زمین اردو زبان سے فیض یاب ہو، چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب کی جدوجہد، کاوش اور منصوبہ سازی سے وہ بنگالی طلبا جو دلی کے عربی مدرسوں میں زیر تعلیم تھے، مسجد فتح پوری میں دو کمرے لے کر ان میں شبینہ مدرسہ قائم کر کے اردو کا درس لینے لگے۔ وہ آگے چل کر بنگال میں اردو کی ترویج کے لئے معاون ہوئے۔ مالا بار میں تقریباً آٹھ لاکھ عربی النسل موپلے آباد تھے۔ مولوی عبدالحق صاحب کی سعی سے انجمن نے وہاں ان کے لئے مدرسے قائم کئے اور انجمن کی شاخیں قائم کیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے سرکاری مدرسوں میں بھی اردو زبان رائج ہو گئی۔ صوبوں کے ساتھ ساتھ ریاستوں میں بھی اردو کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا تھا، بالخصوص کشمیر اور جے پور میں اردو کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ ان ریاستوں میں مدت سے فارسی زبان رائج تھی اس ضمن میں جے پور میں ریجنٹ کلائنٹس کی خدمت میں وفود جاتے اور اردو کے اخراج کا مطالبہ کرتے لیکن مرزا اسمعیل کے عہد وزارت سے قبل ایسا ممکن نہیں ہوا۔ بقول عبادت بریلوی صاحب:ـ ’’ جب مرزا اسماعیل اس منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو بلا تامل اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان بنا دیا۔ اور جو کام خود مہاراجہ نہ کر سکے، جو انگریزی ریجنٹ سے نہ ہو سکا اور جسے ہندو وزیر اعظم نے رد کر دیا وہ جناب مرزا صاحب سے بے خرخشے انجام پایا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے اس موقع پر بھی مرزا اسماعیل کے اس نازیبا اقدام پر سخت احتجاج کیا حالانکہ وہ کچھ عرصے کے بعد جب ریاست حیدر آباد دکن کے وزیر اعظم ہوئے تو انہوں نے انجمن کی وہ امداد بند کرا دی جو ریاست حیدر آباد کی سلطنت عثمانیہ انجمن کو اورنگ آباد سے دلی منتقل ہونے کے بعد پچیس ہزار روپے سالانہ اس شرط پر دیتی تھی کہ انجمن ہر سال بیس کتابیں شائع کرے گی۔ باوجود اس کے کہ مولوی صاحب اردو کے دفاع کے لئے بر سر پیکار تھے، وہ انجمن کے بنیادی مقصد یعنی اردو کی ترویج اور اشاعت سے کنارہ کش نہ ہوئے، بلکہ ان کے مقاصد میں وسعت اور عزم میںپختگی پیدا ہو گئی انہوں نے 1939ء میں کل ہند کانفرنس منعقد کی اس کانفرنس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سجاد مرزا صاحب لکھتے ہیں: ’’ مولوی صاحب کی تحریک پر اردو زبان کے متعلق چند اہم تحریکات منظور کیں، جن کے خد و خال پر اب بھی عمل ہو رہا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کی خواہش تھی کہ انجمن ترقی اردو کی دلی میں اپنی عمارت ہو اس کے لئے انہوں نے باقاعدہ فنڈ کا اجرا کیا، جس کی رسیدوں پر مجوزہ عمارت کا نقشہ دیا گیا تھا۔ یہ فنڈ جمع کرنے کے لئے تنخواہ دار کارکن مامور کئے گئے حکیم امامی صاحب کہتے ہیں: ’’ حیدر آباد دکن سے دہلی آنے کے بعد آپ نے دہلی میں ایک اردو کالج کا ڈول ڈالا آپ کی کوشش یہ تھی کہ دلی میں ایک یونیورسٹی قائم ہو جائے۔‘‘ سالہا سال کی کوشش کے بعد آپ نے دہلی میں ہزاروں روپے کی مالیت کا ایک وسیع قطعہ زمین حاصل کیا۔ یہ زمین انجمن کی عمارت کے لئے تھی اس عمارت کے لئے مولوی صاحب نے نہ صرف قوم سے ڈیڑھ لاکھ روپوں کا چندہ فراہم کیا، بلکہ اپنی عمر بھر کی کمائی 54ہزار روپے بھی اس کار خیر میں دے دئیے بابائے اردو کا ارادہ تھا کہ دہلی کی سر زمین پر ایک اردو گھر تعمیر ہو جائے اور بربک کوچک دہلی اردو زبان اور ادب کی اشاعت کا مرکز قرار دیا جا سکے۔ انجمن کو اورنگ آباد سے دلی منتقل کرنے کے بعد مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کے اشاعتی پروگرام اور سرگرمیوں کو نظر انداز نہ ہونے دیا، بلکہ اس جانب بھی پوری توجہ دی۔ دلی منتقل ہوتے ہی اپریل 1939ء سے پندرہ روزہ ’’ ہماری زبان‘‘ کا اجرا ہوا۔ پہلے ہی سال انجمن نے ’’ معلومات سائنس‘‘ اور’’ فرہنگ اصطلاحات پیشہ واراں‘‘ جیسی قابل قدر تحقیقی کتابیں شائع کیں 1946ء میں ماہنامہ ’’ معاشیات‘‘ کا اجرا ہوا۔ دلی کے اس سارے دور میں اشاعتی پروگرام میں بھی سرگرمی رہی۔ اس نو سال کی قلیل مدت میں انجمن نے تقریباً’’ ڈیڑھ سو کتابیں شائع کیں جس کے نتیجے میں انجمن کی مطبوعات کی کل تعداد اڑھائی سو کے لگ بھگ ہو گئی۔‘‘ 1961ء میں حیدر آباد دکن سے مولوی عبدالحق صاحب کی خدمات عالیہ کے اعتراف میں ’’ مجلس‘‘ نے مولوی عبدالحق نمبر شائع کیا جس میں پروفیسر سید محمد صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے دلی کے نو سالہ دور جہاد پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا: ’’ نو برس تک علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ اردو کے حقوق کی حفاظت اور حمایت کے لئے بالکل مجاہدانہ انداز میں مصروف رہے۔ مولوی صاحب کے طوفانی دورے، جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت اور ان کی صدارت، اس دور کے خطبات اور مضامین پر روشنی ڈالو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک جواں ہمت اور کبھی نہ تھکنے والا سپاہی، جو ہر محاذ پر مصروف جنگ ہے۔ اس کو نہ گرمیوں کی دھوپ اور لوکاڈر ہے، نہ جاڑے اور برسات کی سردی اور مینہ کا اندیشہ وہ اپنی پوری طاقت سے مخالفوں کا تن تنہا مقابلہ کر رہا ہے۔ ہر حملے کا منہ توڑ جواب دے رہا ہے اس کا یہ ایثار، اس کا یہ جوش عمل، اس کی یہ سرفروشی و مستعدی ایسی موثر اور ولولہ انگیز ثابت ہوئی کہ خود بخود اس کے گرد اردو ہوا خواہ جمع ہونے لگے۔ جو اپنی زبان کی خدمت کے فرض کو بھولے ہوئے تھے، وہ سب جاگ اٹھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس مرد مجاہد کی للکارنے دم کے دم میں سارے اردو دانوں کو بیدار کر دیا۔‘‘ لیکن دلی کی بزم بہت جلد درہم برہم ہو گئی۔ انقلاب کے جھکڑوں نے تمام منصوبوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کو خس وخاشاک کی طرح اڑا دیا۔ بقول مختار الدین احمد: ’’ انجمن کا کام پوری طرح دلی میں جم بھی نہیں سکا تھا کہ ملک کی سیاست کا رخ بدل گیا۔ مولوی عبدالحق صاحب اس کے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہو گئے۔ انہوں نے ہر محاذ پر اس کے لئے جنگ لڑی، مگر حالات روز بروز نا سازگار ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ ملک کی تقسیم کا اعلان ہو گیا۔ ہر طرف فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ دلی میں انجمن کا دفتر تباہ کر دیا گیا، جس میں کتنی قیمتی کتابیں اور کتنے قیمتی کاغذات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ ہو گئے۔‘‘ جب انجمن کے دفتر پر قیامت گزری تو مولوی عبدالحق صاحب دلی میں موجود نہ تھے، وہ انجمن کی امداد بحال کرانے اور رسالہ ’’ سائنس‘‘ اور سائنس کمیٹی کے معاملات طے کرنے حیدر آباد دکن گئے ہوئے تھے جب انہیں اپنے امور سے فراغت ہوئی تو وہ بھوپال میں منزل کرتے ہوئے دلی آنے کے عزم سے 3ستمبر1947ء کو حیدر آباد سے بھوپال روانہ ہوئے۔ بھوپال پہنچ کر مولوی عبدالحق صاحب کو دلی کے حالات سے آگاہی ہوئی۔ مولوی عبدالحق صاحب دلی روانہ ہونے کے لئے بضد تھے، لیکن ان کے رفیق خاص شعیب قریشی صاحب نے بمشکل تمام انہیں بھوپال رو کا ہوا تھا۔ وہاں انہیں رحم علی ہاشمی اور حکیم رشید احمد صاحب کے خطوط سے یہ معلوم ہوا کہ انجمن کا دفتر بلوائیوں نے تباہ کر دیا ہے اور تمام سامان لوٹ لیا ہے۔ ملازمین جان بچا کر بھاگ گئے ہیں۔ سید ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں کہ بقول مولوی صاحب: ’’ اس وقت مجھے سب سے بڑی فکر ان کتابوں کی تھی جو میرے کمرے میں تھیں اور کتب خانے کی جان تھیں۔ ان کی کیفیت معلوم نہ ہونے سے دل بے چین تھا میں چاہتا تھا کہ خود جاؤں اور دیکھوں کہ کیا گیا اور کیا رہا، کیا کھویا اور کیا پایا لیکن شعیب صاحب اور دوسرے افراد مانع آئے کہ یہ وقت دلی جانے کا نہیں۔‘‘ آخر مولوی صاحب نے اپنے ہمسفر اور رفیق خاص سید علی شبیر حاتمی کو دلی روانہ کیا جنہوں نے وہاں سے واپس آ کر اس بات کی تصدیق کی کہ انجمن کا دفتر اور مولوی صاحب کا ذاتی سامان لوٹ لیا گیا ہے اور سید ہاشمی کی موٹر کار توڑ پھوڑ دی گئی ہے صرف وہی سامان بچا ہے جو بلوائیوں سے اٹھ نہ سکا۔ 25ستمبر1947ء کو مولوی عبدالحق صاحب چار و ناچار بھوپال سے دوبارہ حیدر آباد دکن روانہ ہو گئے، لیکن ان کے دل کی دھڑکنیں دلی سے وابستہ ہیں۔ انہیں دلی کی اس تباہی پر بہت افسوس تھا انہوں نے اپنے خط محررہ6اکتوبر1947ء بنام ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کو تحریر کیا: ’’ آپ کا خط پہنچا آپ کا پہلا جملہ دلی تباہ ہو گئی ہے۔ ہر گز نہیں، مسلمان تباہ ہو گئے۔ اب دلی شاہجہان کی نہیں، سکھوں اور پٹیل کے گرگوں کی ہے۔۔۔۔۔ نادر شاہ کا قتل عام چند گھنٹے رہا اور اس میں ہندو مسلمان سبھی تھے۔ غدر کی تباہی میں اگرچہ مسلمان زیادہ تباہ ہوئے لیکن ہندو بھی نہیں بچے رہے۔ 1857ء کے بعد1947ء کی تباہی اور قتل و غارت گری سب سے بڑھی ہوئی تھی جو پورے نوے برس بعد ہوئی اور اس میں صرف مسلمان تباہ و برباد ہوئے۔ یہ منظم سازش تھی نیشنل ہیرلڈ لکھنو نے جو خاص کانگریس اخبار ہے۔۔۔۔ اس سازش کا راز فاش کیا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب تقریباً ایک ماہ بعد24اکتوبر کو پھر بھوپال پہنچے اور وہاں سے انہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد سے دلی میں رابطہ کیا اور دلی آنے اور ان کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے ان کا پیغام مثبت جواب میں دیا اور مولوی عبدالحق صاحب 8نومبر1947ء کو بھوپال سے روانہ ہو کر 9نومبر کو دلی پہنچے اور 10نومبر کو انجمن کا تباہ شدہ دفتر دیکھنے گئے تو دفتر کا دفتر ہی پلٹا ہوا تھا مولوی صاحب نے اس المناک رو داد کو خود قلم بند کیا ہے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ کتابوں کی متعدد الماریاں تھیں کھلی الماریوں کے سوا دو بڑی فولادی الماریاں جن میں خاص خاص نادر قلمی نسخے اور قدیم کاغذات اور بعض نامور اشخاص مثلاً ناسخ، غالب، سرسید، حالی، محسن الملک، اقبال، سرتیج بہادر وغیرہ کے خطوط اور اسی قسم کی بہت سی عزیز اور بیش بہا قیمتی اشیاء تھیں۔ ان کے علاوہ کئی بڑے صندوق تھے جن میں میرے نوٹ اور یاد داشتیں مختلف قسم کی خاص کر اردو لغت کے متعلق بہت سامان، الفاظ کی اصل کا تحقیقی سرمایہ اردو زبان کی تاریخ کی یاد داشتیں اور مضمون اور اردو اور ہندی تنازعہ کے متعلق بہت سے قدیم کاغذات (میرا ارادہ اس تنازعے کی تاریخ لکھنا تھا)۔۔۔۔۔۔ میرے کپڑے کی الماریاں اور صندوق تھے کپڑے اور دوسری چیزیں جو اس کمرے میں تھے، وہ تو لٹیروں نے سب لوٹ لیں جو صندوق، بڑے نئے اور اچھے تھے وہ انہیں بہت پسند آئے۔ کاغذات تو انہوں نے وہیں پھینک دئیے اور صندوق لے کر چلتے بنے فولادی مقفل الماریوں پر ان کی للچائی ہوئی نظریں پڑیں اور سمجھے کہ ان میں ضرور مال و زر ہو گا پتھر مار مار کر انہیں توڑ دیا جب ان کو کتابوں اور کاغذوں کے سوا کچھ نہ ملا تو بڑی مایوسی ہوئی اور غصے کے جانجھ میں وہ سب کاغذات اور کتابیں نکال کر باہر پھینک دئیے۔‘‘ مالک مکان نے کرائے کے لالچ میں یہ عمارت بھارت کمپنی کو دے دی اور لٹا پٹا اور بچا بچایا سامان ردی کی شکل میں غسلخانوں، برآمدوں، باورچی خانوں اور گوداموں میں ڈھیر کر دیا۔ مولوی عبدالحق صاحب، چودھری رحم علی، رفیق الدین احمد، محمد یعقوب اور حامد علی، ان ڈھیروں سے قلمی نسخوں کے کاغذات اور پرزوں سے ’’ جگر کے ٹکڑے‘‘ جمع کرتے رہے مولوی عبدالحق صاحب اور علی شبیر حاتمی مولانا ابو الکلام آزاد کی کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن دو تین دن بعد جب رفیق الدین احمد بھی آ گئے تو یہ لوگ نظام پیلس میں منتقل ہو گئے لیکن حیدر آبادی وفود کی آمد کی وجہ سے یہ جگہ ان کے لئے تنگ ہو گئی۔ دہلی کے حالات نا گفتہ بہ تھے، آخر مجبوراً مولوی عبدالحق صاحب کو کراچی آنا پڑا۔ لیکن ابھی مولوی عبدالحق کو یکسوئی حاصل نہ ہوئی تھی ان کا عزم ہندوستان میں اردو کی خدمت کرنے کا تھا اور حالات کے دھارے انہیں پاکستان کی سر زمین کی جانب دھکیل رہے تھے اس ضمن میں مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ میں دلی جانے کے لئے تڑپ رہا تھا۔ میرے سب دوست احباب سمجھاتے تھے کہ اب اس ملک میں اردو کے کام کے لئے کوئی گنجائش نہیں حکومت مخالف، اکثریت مخالف، کوئی کیا کام کر سکتا ہے۔ خصوصاً تمہارا وہاں جا کر کام کرنا خطرے سے خالی نہیں اور تو اور، ہمارے مخدوم علامہ کیفی صاحب بھی دلی میں رہ کر کام کرنے کے مخالف تھے وہ بھی کہتے تھے کہ ہندوستان میں تو اردو کا خاتمہ ہو گیا۔ اب یہ پینے گی تو پاکستان میں پپپنے گی۔‘‘ ملک تقسیم ہوتے ہی مولانا ابو الکلام آزاد بھی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق کے بھارت میں کام کرنے کے خلاف ہو گئے۔ حالات بھی خلاف جا رہے تھے لیکن مولوی عبدالحق صاحب اتمام حجت کی غرض سے ہندوستان جانا چاہتے تھے آخر تیرہ جنوری 1948ء کو مولوی عبدالحق صاحب حامد علی صاحب کو اپنے ساتھ لے کر ایک دفعہ پھر دلی پہنچے اس دفعہ ان کا قیام زاہد حسین صاحب کی عنایت سے پاکستان ہائی کمیشن میں تھا اور وہ پھر انجمن کے لٹے ہوئے کوچے کے چکر کاٹنے لگے جہاں ابھی تک ردی کی چھٹائی کا کام جاری تھا۔ 25جنوری1948ء کو مولوی عبدالحق صاحب کی درخواست پر اولڈ بوائز لاج علی گڑھ میں ہمدردان اردو کا ایک اجتماع ہوا۔ اس کے ایجنڈے میں یہ امور تھے۔ 1انجمن ترقی اردو کا صدر مقام اب کہاں ہو 2موجودہ حالات میں اس کا پروگرام کیا ہو سید ہاشمی فرید آبادی کا کہنا ہے: ’’ اس میں قریباً25حضرات تشریف لائے اس میں نواب اسماعیل خان صاحب وائس چانسلر، بیگم اعزاز رسول، شیخ عبداللہ، پروفیسر محمد شریف، پروفیسر منظور، آل احمد سرور، پروفیسر رشید احمد صدیقی، سید الطاف حسین، محمد بشیر الدین صاحب لائبریرین، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، امیر الدین وغیرہ تھے۔‘‘ 25جنوری1945ء کو مولوی عبدالحق صاحب الہ آباد گئے تاکہ انجمن ترقی اردو کے صدر سرتیج بہادر سپرو سے تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے وہ 31جنوری کو مولوی بشیر الدین صاحب سے ملاقات کرنے اٹاوہ گئے۔ لیکن ان سے ملاقات نہ ہو سکی کیوں کہ وہ ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم کی تدفین میں شرکت کے لئے علی گڑھ گئے ہوئے تھے مجبوراً مولوی صاحب دلی واپس آ گئے۔ یہاں ان کی مصروفیت انجمن ترقی اردو کے دفتر کو کسی نئی جگہ منتقل کرنا تھا۔ آنریبل قدوائی صاحب نے اینگلو عربک کالج میں انجمن کا دفتر منتقل کرنے کی تجویز پیش کی کیوں کہ ان دنوں فسادات کی وجہ سے یہ عمارت ویران پڑی تھی اس سلسلے میں کالج کمیٹی کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین خاں سے درخواست کی گئی جسے انہوں نے منظور کر لیا ابھی انجمن کا دفتر عربک کالج منتقل بھی نہ ہو پایا تھا کہ زاہد حسین صاحب کا دلی سے کراچی تبادلہ ہو گیا اور مولوی عبدالحق کا دلی میں رہنا پھر ایک دفعہ نا ممکن بن گیا چنانچہ مولوی صاحب 4مارچ1948ء کو لاہور چلے آئے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد یعقوب خان، حامد علی و دیگر ملازمین نے انجمن کا بچا کھچا اثاثہ اینگلو عربیک کالج میں منتقل کر دیا آثار تو یہ تھے کہ شاید اینگلو عربیک کالج کو سنبھالتے دو تین سال لگ جائیں گے اس سے پہلے درس و تدریس ممکن نہ ہو سکے گی، لیکن پاکستان سے جو سکھ اور ہندو مہاجرین کا ریلہ دہلی پہنچا، وہ ہندی سے آشنا نہ تھے، بلکہ اردو تعلیم کے خواہاں تھے۔ اس لئے ان کے لڑکے لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لئے اینگلو عربیک کالج کو جلد کھول دیا گیا اس لئے: ’’ ہم انجمن کا سامان اور کتب خانہ پھر نمبر 1دریا گنج میں منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے اس آر جار میں کتابوں کی ترتیب میں ابتری پیدا ہو گئی، اور شکست و ریخت سے نقصان پہنچا‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کے پاکستان میں ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں انجمن ترقی اردو بھی معتوب ہو گئی اور مولوی عبدالحق کی ذات کو شک و شبہ سے دیکھا جانے لگا اور انجمن کے خلاف نئی سازش کا جال بچھنا شروع ہوا۔ عبداللطیف خان مالک لطیفی پریس دلی نے بھی اس خبر کی تصدیق کی: ’’ اگر میں جلد دلی نہ پہنچا تو حکومت انجمن کو امداد بھی نہ دے گی (جس کی منظوری ہو چکی ہے) زمین بھی ضبط کر لے گی اور کتب خانے سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے اس خبر کے بعد دوبارہ ہندوستان جانے کی تیاریاں کیں۔ ہندوستان کے ہائی کمشنر متعینہ پاکستان سری پرکاش نے مولوی عبدالحق صاحب کے لئے ایک خصوصی پرمٹ جاری کیا، جس کے تحت یہ انجمن کی ضرورت کے لئے جب چاہیں ہندوستان جا سکتے ہیں اور واپس آ سکتے ہیں چنانچہ وہ 3اکتوبر1948ء کو دہلی روانہ ہوئے اور 5اکتوبر کو انجمن کے معاملات کے سلسلے میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملے۔ سید ہاشمی فرید آباد ی لکھتے ہیں: ’’ حقیقت حال بیان کی کہ انجمن کے لئے کوئی مکان نہیں ملتا انجمن کے نام سے لوگ کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ بہت بد گمانیاں ہیں آپ لاہور یا کراچی کو اپنا صدر مقام بنائیں یہ ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کی ایک ٹانگ یہاں اور ایک ٹانگ وہاں۔۔۔۔ جناب کیفی صاحب سے ملا وہ اس سے قبل ڈاکٹر تارا چند سے ملے تھے انہوں نے بھی ایسی ہی باتیں کیں کہ حکومت ہم سے بد گمان ہے۔‘‘ 12اکتوبر1948ء کو مولوی عبدالحق صاحب دوبارہ مولانا ابو الکلام آزاد سے ملے اور انہیں اپنے اس فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ انجمن کو کراچی لے جانے پر مجبور ہیں لیکن انہیں انجمن کا کتب خانہ لے جانے کے ساتھ ساتھ وہ رقم بھی واپس ملنی چاہئے جو انجمن نے حکومت ہند کو زمین کی قیمت میں ادا کی تھی مولانا ابو الکلام نے یہ معاملات حل کر دینے کا یقین دلایا۔ لیکن اس وعدے کے بر خلاف17اکتوبر1948ء کو دریا گنج میں انجمن کا دفتر سر بہر کر دیا گیا مولوی عبدالحق انتہائی مایوسی کے عالم میں21اکتوبر1948ء کو سرتیج بہادر سپرو صدر انجمن ترقی اردو کو نئی صورتحال سے آگاہ کرنے الہ آباد گئے۔ انہوں نے بھی واقعات سن کر افسوس کیا اور ڈاکٹر تارا چند اور مسٹر شنکر پرشاد چیف کمشنر کے نام مکاتیب میں انجمن کے معاملات کی طرف توجہ دلائی۔ کلکتے سے عبدالرحمن صدیقی دلی آئے اور مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین خان، تارا چند اور رفیع احمد قدوائی سے ملے اور انجمن کے معاملات میں بات چیت کی لیکن سرتیج بہادر سپرو اور عبدالرحمن صدیقی صاحب کی کوششیں لا حاصل رہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے خط محررہ 3جنوری 1953ء بنام مولانا امین زبیری صاحب، اس واقعہ کی داستان اس طرح بیان کی ہے: ’’ مد محفوظ بھارت کی انجمن کے پاس رہا اور امپریل بنک سے ہم کوئی رقم نکالنے نہ پائے تھے کہ بھارت کی انجمن نے کارروائی کر کے رقم رکوا دی۔ پولیس نے چیف کمشنر کے حکم سے کتب خانہ کو سر بمہر کر دیا۔ اس موقع پر سرتیج بہادر سپرو نے چیف کمشنر کو خط لکھا اور شکایت کی کہ یہ کارروائی نا مناسب اور نا جائز کی گئی ہے چیف کمشنر نے لکھا کہ یہ میں نے ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر تارا چند کے اشارے پر کیا ہے۔ سرتیج بہادر سپرو نے یہ نقل مجھے بھیج دی یہ بڑی لمبی داستان ہے خط میں اس کی گنجائش نہیں کبھی موقع ہو گا تو بیان کروں گا‘‘ پاکستان ہائی کمیشن کا فعل بھی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق صاحب کے حق میں مثبت نہ ہوا مولوی عبدالحق صاحب نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا:ـ ’’ مجھے سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہائی کمشنر اور ان کے عملے سے کسی قسم کی مدد نہ ملی صرف جھوٹے وعدے کرتے رہے۔ یہ ان کے متعلق عام شکایت تھی۔ لوگ حیران تھے کہ ایسے شخص کو ہائی کمشنر کیوں مقرر کیا گیا جو پاکستان سے زیادہ بھارت کا خیر خواہ ہے۔‘‘ دلی میں مولوی عبدالحق صاحب پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔ حکومت ہند نے مولوی صاحب اور ان کے رفقا کار پر باقاعدہ پولیس متعین کر دی جو ان کی نقل و حمل کی نگرانی کرتی اور بعض اوقات ان کے مہمانوں کو بھی ناجائز تنگ کرتی ان میں بعض ان کے ہمدرد بن کر مخبری کرتے۔ مولوی عبدالحق صاحب کا بیان ہے: ’’ اکثر ایک مرد معقول باریش مقطع ملنے آیا کرتے تھے اور اردو سے اور ہمارے کام سے بہت ہمدردی ظاہر کرتے تھے بڑے چرب زبان تھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا تعلق سی آئی ڈی سے ہے۔‘‘ آخر کار6جنوری1948ء کو مولوی صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر دلی سے مجبوراً ہجرت کی اور بھوپال کی راہ لی وہاں اٹھارہ دن قیام کر کے 24جنوری کو بمبئی گئے بقول سید فرید ہاشمی صاحب: ’’ دو ایک کام تھے وہ کئے آخر28جنوری1948ء کو بمبئی سے یہ شعر پڑھتا ہوا جہاز میں سوا ہوا:‘‘ رخصت اے ہندوستان، اے بوستان بے خزاں رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی مہمان ’’ وہ جو کہتے ہیں’’ شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کبھی کبھی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے حالی نے یہ شعر75سال پہلے لکھا تھا اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ کبھی ایسا وقت آئے گا!‘‘ جہاز ساڑھے بارہ بجے کراچی پہنچا ہوا خانے پر شعیب قریشی صاحب، سید ہاشمی، خان عبداللطیف خان صاحب اور حسام الدین راشدی ملنے آئے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر کیا کہ خیر و عافیت سے پاکستان پہنچ گئے اب یہاں نئی مہم کا آغاز ہو گا۔ ٭٭٭٭٭٭ کراچی کا دور انجمن ترقی اردو کی تاسیس اور جدوجہد 1948ء تا1961ء آزادی کا اعلان ہوتے ہی برصغیر فسادات کی لپیٹ میں آ گیا اور ایسی آگ لگی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی اس کے نتیجے میں انجمن ترقی اردو ہند کی بزم بھی تتر بتر ہو گئی دفتر لٹیروں نے لوٹ لیا عمارت انشورنس کمپنی کے قبضے میں چلی گئی ملازمین اور کارکن شہید ہو گئے یا جس کے جہاں سینگ سمائے چلے گئے۔ تمام ادارے تقسیم ہو کر رہ گئے۔ اس لئے تشکیل پاکستان کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی، جو ہندوستان کی انجمن ترقی اردو سے جداگانہ اور آزاد اپنے کام و سفر کا آغاز کر سکے کیونکہ تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کے علاقوں کی شاخوں کا الحاق ہندوستان کے مرکز سے رہنے کا جواز نہ تھا۔ صرف یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پاکستان میں انجمن ترقی اردو کا مرکز کہاں ہو۔ جس وقت اورنگ آباد سے انجمن کو منتقل کرنے کے لئے 24,25اکتوبر1936ء کو علی گڑھ میں کل ہند کانفرنس منعقد کی تھی تو اس میں پنجاب سے ڈاکٹر اقبال مرحوم کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا مگر وہ اپنی علالت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے تھے، لیکن انجمن کی اورنگ آباد سے منتقل کے بعد نئے مرکز کے سلسلے میں دعوت نامے کے جواب میں مولوی عبدالحق صاحب کے نام اپنے مکتوب 27ستمبر1936ء میں تفصیلی اور مدلل رائے دی تھی: ’’ میرے خیال میں اس کا مستقر لاہور ہونا چاہئے اور اس کے لئے ایک سے زیادہ وجوہ ہیں:‘‘ 1مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لئے جو لڑائیاں آئندہ لڑنی پڑیں گی ان کا میدان پنجاب ہو گا پنجابیوں کو اس میں بڑی دقتیں پیش آئیں گی کیونکہ اسلامی زمانے میں یہاں کے مسلمانوں کی مناسب تربیت نہیں کی گئی مگر اس کا کیا علاج کہ آئندہ رزمگاہ یہی سر زمین معلوم ہوتی ہے۔ 2آپ انجمن اردو سے متعلق ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کی کامیابی بھی لاہور ہی میں ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ایک بڑا پبلشنگ سنٹر ہے اور بہت سا طباعت کا کام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے انگریزی پبلشنگ کی طرف بھی یہاں کے مسلمان توجہ کر رہے ہیں۔ 3یہاں کے لوگوں میں اثر قبول کرنے کا مادہ زیادہ ہے سادہ دل صحرائیوں کی طرح ان میں ہر قسم کی باتیں سننے اور ان سے متاثر ہو کر ان پر عمل کرنے کی صلاحیت اور مقامات سے بڑھ کر ہے۔ ایک معمولی جلسے کے لئے آٹھ دس ہزار مسلمانوں کا جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ بیس ہزار کا مجمع بھی غیر معمولی نہیں یہ بات پنجاب کے ہندوؤں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار مولانا ظفر علی خان، حافظ محمود شیرانی اور پنجاب کے دیگر اکابرین نے کیا تھا اس لئے جب پاکستان میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی جانے لگی تو مولوی عبدالحق صاحب کے ذہن میں انجمن ترقی اردو کے مرکز کے لئے لاہور کا نام آیا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے لاہور میں پنجاب کے وزیر مہاجرین میاں افتخار الدین کو خط لکھا کہ وہ انجمن کا دفتر لاہور لانا چاہتے ہیں اور اسی مضمون کا مکتوب 19اکتوبر1947ء کو میاں بشیر احمد صاحب کو رقم کیا جس میں تحریر تھا: ’’ ہم سب کی رائے یہ قرار پائی ہے کہ اب انجمن کا صدر مقام لاہور ہونا چاہئے بشرطیکہ آپ صاحبان بھی اس سے اتفاق فرمائیں۔۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ ہندوؤں نے جو عمارتیں اور پریس وغیرہ چھوڑے ہیں ان کی تقسیم عمل میں آ رہی ہے۔ اگر آپ کی توسط اور عنایت سے ہمیں کوئی اچھا پریس اور ایسا مکان مل جائے جس میں انجمن کا دفتر اور کتب خانہ وغیرہ آ سکے تو ہم بخوشی اس کو خریدنے کے لئے تیار ہیں یہ بہت اچھا موقع ہے شاید پھر ایسا موقع نہ مل سکے میں نے اس مضمون کا ایک خط میاں افتخار الدین صاحب کو بھی لکھا ہے اگر ازراہ کرم تکلیف فرما کر اس بارے میں گفتگو کر کے کوئی انتظام فرما دیں تو بہت ممنون ہوں گا۔‘‘ لیکن مولوی عبدالحق صاحب کو لاہور سے میاں افتخار الدین نے کوئی جواب نہ دیا اس کے بعد مولوی عبدالحق صاحب خود لاہور آئے اور میاں بشیر احمد کو یاد دہانی کرائی اس ضمن میں ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کا نام ایک مکتوب میں مولوی عبدالحق صاحب نے میاں بشیر احمد کے رویے کے سلسلے میں تحریر کیا: ’’ انہوں نے لاہور کے ممتاز ادیبوں کو جو با اثر تھے، مدعو کیا جب اس معاملے کا ذکر آیا تو انہوں نے اس ڈھنگ سے گفتگو کی جس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ انجمن یہاں پر آئے پروفیسر حمید احمد خان صاحب بھی اس صحبت میں تھے۔‘‘ دوسری نظر انتخاب کراچی شہر پر پڑی جو پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی دار الحکومت بننے کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل کر رہا تھا اس کے علاوہ تقسیم ہند سے قبل بھی انجمن ترقی اردو کی کراچی شاخ بڑی سر گرم عمل رہی تھی اس لئے فیصلہ ہوا کہ پاکستان میں کراچی کو انجمن کا مرکز بنایا جائے اور اس کے لئے ایسے مکان کی تلاش شروع کر دی گئی جو انجمن کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ مکان کی تلاش سید علی بشیر صاحب کے ذمے تھی جنہوں نے پیر حسام الدین راشدی کے تعاون سے سہ منزلہ عمارت کا انتخاب کر لیا جو کہ گجراتی ایجوکیشن سوسائٹی کی ملکیت تھی اور جس میں لڑکیوں کا ایک ہائی سکول چلتا تھا سید ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں: ’’ چنانچہ اس کے لئے ہم نے ایک درخواست آنریبل پیر الہٰی بخش صاحب وزیر تعلیم کی خدمت میں پیش کی پیر صاحب نے ہماری درخواست پر سید ہاشم رضا کلکٹر کے نام سفارش کر دی۔‘‘ لیکن اس عمارت پر مہاجرین کا قبضہ تھا جب اس کا ذکر کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر حکیم محمد احسن صاحب سے ہوا تو انہوں نے شاردا مندر کی نشاندہی کی جو گجراتی ایجوکیشن سوسائٹی کی عمارت سے زیادہ وسیع اور بہتر تھی۔ اس عمارت کے حصول کے لئے از سر نو تگ و دو شروع ہوئی اور آخر کار یہ عمارت انجمن ترقی اردو پاکستان کے لئے الاٹ ہو گئی۔ ’’ شاردا مندر گجراتیوں کا سب سے بڑا ادارہ تھا، اور اس میں تخمیناً بارہ سو طالب علم تعلیم پاتے تھے انجمن کے لئے اس سے بہتر عمارت کراچی شہر میں نہیں مل سکتی تھی۔‘‘ کراچی میں انجمن ترقی اردو کا مرکز قائم ہو جانے کے باوجود مولوی عبدالحق صاحب مستقل پاکستان ہجرت کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ دونوں ملکوں میں اردو کی ترویج کرنا چاہتے تھے انہوں نے اضطرابی کیفیت میں بار بار دلی اور کراچی کے چکر کاٹے۔ پاکستان آ جاتے تھے تو دلی کی انجمن کے مسائل بے چین کر دیتے تھے اور دلی میں بے سر و سامانی دیکھتے تھے تو پاکستان آ جاتے تھے جب تک انہیں مولانا ابو الکلام آزاد، تارا چند اور ڈاکٹر ذاکر حسین خان صاحب نے بالکل مایوس نہ کیا، وہ ذہنی طور پر یہ بات قبول کرنے کو تیار نہ تھے کہ بھارت میں اردو کی خدمت نہیں کی جا سکتی 12فروری 1948ء کو انہوں نے دلی سے پیر حسام الدین راشدی کو تحریر کیا: ’’ جب کوئی مناسب مکان مل گیا تو دفتر و مکتب خانہ اس میں منتقل کر کے ضروری انتظامات کر کے کراچی چلا آؤں گا وہاں مجھے کسی علیحدہ مکان کی ضرورت نہیں شاردا مندر میں رہ کر کام کروں گا اور رات کو وہیں پڑ رہوں گا میرے پاس اب کیا ہے، جس کے لئے مکان کی ضرورت ہو ایک بچھونا اور دو چار جوڑے کپڑے ہیں اور بس۔۔۔۔۔ دوسرے مجھے تو دونوں ملکوں میں رہنا ہے پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی، کام کرنے والے ساتھیوں کی تلاش ہے۔۔۔۔۔ دونوں جگہ انتظام کرنے میں کچھ مدت لگے گی۔۔۔۔۔ سارے رسالے بند ہیں۔۔ انہیں پھر زندہ کرنے کی ضرورت ہے کتابوں کی اشاعت بھی رک گئی ہے، ان کا سلسلہ پھر سے قائم کرنا ہے۔‘‘ ’’ کوئی ڈیڑھ دو برس تک وہ اس رائے پر قائم رہے پاکستان میں انجمن کا یہ زمانہ کار گزاری کے اعتبار سے تذبذب اور تعطل کا زمانہ ہے۔ لیکن انہیں بھارت کے مرکز اور محاذ سے دست کش ہونے پر مجبور ہونا پڑا اور آخر1949ء میں صرف پاکستان میں رہ کر کام کرنے کے عزم و ارادے کے ساتھ مستقل بھارت کو خیر باد کہہ آئے۔‘‘ ہندوستان میں مولوی عبدالحق صاحب نے جو کچھ محنت کی تھی، وہ سب اکارت ہو چکی تھی۔ اب سب کچھ نئے سرے سے کرنا تھا انجمن کے اغراض و مقاصد کو نئے سرے سے مرتب کرنا تھا ادارے کی اشاعتی سرگرمیاں، کالج کی بنیاد، یونیورسٹی کی مہم، غرض ہر چیز کو نئے طریقے سے شروع کرنا تھا اس کے لئے مولوی عبدالحق صاحب اپنی پیرانہ سالی کی باوجود نئے عزم اور حوصلے سے میدان میں اتر آئے۔ انجمن کے پاس سرمایے کی شدید کمی تھی کیونکہ ہندوستان کی حکومت انجمن ترقی اردو کی تمام اثاثے منجمد کر دیے تھے، حالانکہ یہ وہ سرمایہ تھا جس پر انجمن کی ہر شاخ اور تنظیم کا حق تھا اور برصغیر کے دونوں ملکوں میں پھیلی ہوئی تھیں ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں: ’’ دہلی چھوڑنے سے پہلے یعنی ختم سال1946ء میں انجمن ترقی کے پاس تقریباً دو لاکھ روپیہ نقد اور مطبوعات، کاغذ وغیرہ کوئی تین لاکھ روپیہ مصدقہ کا اثاثہ تھا۔ فروخت کتب و رسائل سے ان کی آمدنی کم و بیش 65ہزار اور حیدر آباد کی امداد ملا کر ایک لاکھ روپیہ سالانہ سے بڑھ جاتی تھی نقد و جنس کا سارا اثاثہ بھارت کی حکومت نے غصب کر لیا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اپنی تیس سالہ زیست کی جمع پونجی تقریباً پچاس ہزار روپے دلی کے دور ہی میں انجمن پر نچھاور کر دیے تھے، تاہم کسی نہ کسی طرح حیدر آباد دکن سے اس کی سالانہ امداد مل گئی تھی اور بیس ہزار روپیہ حکومت پاکستان نے یک مشت، پچیس ہزار روپیہ سالانہ کراچی میونسپل کارپوریشن نے دینے کا وعدہ کیا 1951ء میں جب ممتاز حسین قزلباش ریاست خیر پور کے وزیر اعلیٰ اور مسٹر حسن حبیب سیکرٹری ریاست ہوئے تو پانچ ہزار کا عطیہ اور دو ہزار چار سو روپیہ سالانہ ریاست سے موصول ہوا۔ حکومت پنجاب نے 1952-53ء کے بجٹ سے 50ہزار روپے انجمن کو عطا کیے اس طرح انجمن ترقی اردو کی تجدید عمل میں آئی۔ 1948ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کا نیا دستور مرتب کیا اور انجمن کی باقاعدہ رجسٹری کروائی پاکستان کے معرض وجود میں آنے اور انجمن ترقی اردو کی پاکستان تنظیم نو پر سر شیخ عبدالقادر صاحب کو انجمن کا صدر مقرر کیا گیا اور مولوی عبدالحق بد ستور معتمد رہے۔ 1948ء میں جب انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی رسم افتتاح کے لئے بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو مدعو کرنے کی تجویز ہوئی ان سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے بخوشی 15اپریل 1948کے بعد کسی بھی دن آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔لیکن اس دوران میں انجمن کے معاملات نبٹانے کے لئے مولوی عبدالحق صاحب کو دلی جانا پڑا پھر قائد اعظم علیل ہو گئے اور آخر 11ستمبر1948ء کی شب ان کا انتقال ہو گیا چنانچہ انجمن کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور انجمن نے رسم افتتاح کے بغیر ہی اپنے نئے سفر کا آغاز نئے حوصلے اور عزم سے کیا اس سلسلے میں انہوں نے بیگم حسن قزلباش بانو کو11جون1948ء کو کراچی سے تحریر کیا: ’’ قائد اعظم کے پروگرام ایسے جلدی جلدی بدلے اور وہ کچھ علیل رہے اس وجہ سے وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے کوئٹہ جاتے وقت خاص طور سے بڑی معذرت کی اور کہا کسی اور سے افتتاح کرا لیجئے، میں کسی اور موقع پر انجمن آ جاؤں گا۔ اب ہم نے بغیررسم افتتاح کے کام شروع کر دیا۔‘‘ بند رسالے دوسری مرتبہ جاری کئے گئے سب سے پہلے مئی 1948ء سے انجمن ترقی اردو کا ترجمان ’’ قومی زبان‘‘ شائع ہونا شروع ہوا1949ء سے محمد سبزواری کی زیر ادارت رسالہ ’’ معاشیات‘‘ جاری ہوا لیکن1954ء میں ان کے امریکہ چلے جانے کے بعد1955ء سے یہ رسالہ بند ہو گیا سہ ماہی ’’ اردو‘‘ کا جنوری1950’’ سائنس‘‘ اور ’’ تاریخ و سیاست‘‘ کا1951ء میں اجراء ہوا انجمن نے اپنی مطبوعات کا سلسلہ از سر نو شائع کیا انجمن کی شاخیں کھل گئیں اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ مولوی عبدالحق صاحب کی کاوشوں سے کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں جہاں لوگ روپے کی ریل پیل کے پیچھے سرگرداں رہتے ہیں، دس ہزار کتابوں کے ذخیرے سے لائبریری کی بنیاد رکھی۔ اس میں ایک خاص کتب خانہ ترتیب دیا گیا جس میں مخطوطات اور علم و فن کی نایاب کتابیں رکھی گئیں یہ کتب خانہ آج کراچی کے بڑے اور اہم کتب خانوں میں صف اول میں شمار ہوتا ہے اس کتب خانے کے افتتاح کے لئے پاکستان کی پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو مدعو کیا گیا انہوں نے متحدہ ہند میں عبوری وزارتوں کے زمانے میں انجمن کے لئے چار لاکھ یک مشت اور چالیس ہزار سالانہ کی رقم منظور کی تھی۔ توقع تھی کہ اب جب وہ اس زمانے سے زیادہ با اختیار ہیں، انجمن کی دست گیری زیادہ اہم طریقے سے کریں گے۔ لیکن ان کی تقریر اور رویہ سے مولوی عبدالحق کو بہت دکھ ہوا جس کا ذکر انہوں نے ایک اپنے مکتوب محررہ 5اکتوبر1949ء بنام ڈاکٹر داؤد رہبر(ڈاکٹر محمد اقبال پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کے صاحبزادے) سے اس طرح کیا ہے: ’’ ہم نے ایک عام اردو کتب خانہ بھی قائم کر دیا، جس میں اب تک دس ہزار کتابیں فراہم ہو چکی ہیں۔ اس کے افتتاح کے لئے وزیر لیاقت علی خان صاحب کو تکلیف دی۔ بڑی شان سے جلسہ کیا ایک ایڈریس کالج کی طرف سے اور دوسرا انجمن کی طرف سے پیش کیا گیا، لیکن وزیر اعظم نے تحسین و تعریف تو ایک طرف ایک لفظ بھی ہمت افزائی کا نہ کہا اور امداد کی درخواست کا جواب انکار سے دیا انجمن کے بہی خواہوں کو اس جواب سے بڑی مایوسی ہوئی مرکز کا محکمہ تعلیم ہمارے کاموں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا وہ حسد کرتا ہے خود کچھ نہیں کرتا، دوسرے کرتے ہیں تو انہیں کرنے نہیں دیتا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے دکن کے قیام کے دوران اکبر حیدری کو جامعہ عثمانیہ کا منصوبہ پیش کیا تھا اور دلی میں اتنی مصروف ترین مجاہدانہ زندگی میں بھی اردو کالج قائم کرنا اپنے مشن میں شامل کیا تھا۔ اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان میں مولوی عبدالحق صاحب اپنے اس مشن سے دستبردار ہو جاتے۔ ان کی خواہش تو کراچی میں اردو کی بین الاقوامی جامعہ قائم کرنا تھی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس مشن کے آغاز کے لئے 23جون 1949ء کو ایک نہایت سادہ لیکن پر وقار تقریب میں ’’ انجمن ترقی اردو کالج‘‘ کی بنیاد رکھی جس میں ابتدا میں صرف علوم شرقیہ کی تعلیم دی جاتی تھی اس کے طلبا بطور پرائیویٹ امیدوار جامعہ پنجاب کے امیدوار بنتے تھے اس کالج کا پہلا پرنسپل پروفیسر مولوی عبدالغنی کو مقرر کیا گیا اور اس کالج میں25جون1949ء سے باقاعدہ تعلیم دی جانے لگی سندھ یونیورسٹی کو اس کالج کے الحاق کی درخواست دی گئی لیکن11جولائی 1949 ء کو سندھ یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی پنجاب یونیورسٹی کو یہ عذر تھا کہ یہ اس کی حدود و قیود سے باہر ہے یہ تمام صورتحال مولوی عبدالحق کے لئے غیر متوقع تھی اس لئے اس سے انہیں بڑی الجھن اور ذہنی پریشانی ہوئی۔ انہوں نے اس بات کا اظہار اپنے مکتوب 15 اکتوبر 1949ء بنام ڈاکٹر محمد داؤد رہبر سے اس انداز میں کیا ہے: ’’ پہلے ہی پریشانیاں کیا کم تھیں یہ کالج قائم کر کے میں نے بیٹھے بٹھائے ایک پریشانی اور مول لے لی کوئی یونیورسٹی اس کے الحاق کے لئے آمادہ نہیں۔ سندھ یونیورسٹی نے انکار کر دیا پنجاب یونیورسٹی کی حدود ارضیس ے باہر ہے اب میں اس سوچ میں ہوں کہ کروں تو کیا کروں اب بند کرتا ہوں تو بدنامی الگ اور بیچارے لڑکوں کی اتنے دنوں کی محنت اور روپیہ رائیگاں جائے گا انجمن نے باوجود بے سر و سامانی جو ہزاروں کا خرچ برداشت کیا وہ بھی ضائع ہو جائے گا ہم ہندوستان سے لٹ پٹ کر برباد ہو کر آئے تھے توقع تھی کہ اب پاکستان ہمارے آنسو پونچھے گا اور ہماری ہمت افزائی کرے گا، لیکن اب جو دیکھتا ہوں تو یہاں کا رنگ ہی کچھ اور ہے خدا ہمارے حال پر رحم کرے، کہاں تک لکھوں بڑی طولائی داستان ہے۔‘‘ قریب تھا کہ مولوی عبدالحق صاحب کا یہ سارا منصوبہ تلپٹ ہو جائے 1950ء میں بمشکل اس زمانے کے وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد اور وزیر تعلیم فضل الرحمن کی مدد سے سندھ یونیورسٹی نے کالج کا الحاق منظور کر لیا کالج میں ایف اے ایف ایس سی اور آئی کام سے لے رک پی ایچ ڈی تک نہ صرف تدریس ہونے لگی، بلکہ اس نے تمام قدیم کالجوں کے مقابلے میں بھی بہتر سے بہتر نتائج حاصل کئے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان کا پہلا صدر سر شیخ عبدالقادر صاحب کو منتخب کیا گیا تھا ان کا انتقال ہو گیا اور1950میں انجمن ترقی اردو پاکستان کی مجلس نظم نے مولوی عبدالحق کو اس کا صدر منتخب کیا۔ انجمن ترقی اردو نے اپنے دلی کے دور میں1939ء میں بڑی سج دھج اور جوش و ولولے سے کل ہند کانفرنس منعقد کی تھی، جس کی یاد برسوں تک دلوں کو گرماتی رہی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب انجمن کے آشیانے میں تنکے جمع ہونے لگے تو مولوی عبدالحق صاحب نے ایک بار پھر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ دلی کے دور میں کانفرنس ہندی اور اردو کے تنازعہ کے پس منظر میں منعقد ہوئی تھی اور اب پاکستان میں’’ قوم زبان‘‘ کا مسئلہ چھڑا ہوا تھا یہ کانفرنس 13 اپریل 1951کو سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں منعقد ہوئی اور اس کا افتتاح پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین صاحب نے کیا انہوں نے اپنے خطبے میں مشرقی پاکستان میں اردو کی ترویج کے لئے تجاویز پیش کیں۔ گو جون1948ء میں جامعہ کراچی قائم کر دی گئی اور پروفیسر اے بی اے حلیم کو اس کا وائس چانسلر نامزد کیا گیا، لیکن1953ء جامعہ کراچی کا شعبہ پروفیسر شپ سے محروم تھا جس کے نتیجے میں ان طلبا کو جو ایم اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کے خواہشمند ہوتے تھے، مایوس ہونا پڑتا تھا۔ پروفیسر اے بی حلیم، مولوی عبدالحق صاحب کو اس منصب پر فائز کرنا چاہتے تھے لیکن مولوی عبدالحق کسی طرح رضا مند نہ ہوتے تھے لیکن چند طالب علموں کی طلب علم نے مولوی صاحب کو رضا مند کر کے سکھ کا سانس لیا اس سلسلے میں ڈاکٹر ابو سعید نور الدین تحریر کرتے ہیں: ’’ وہ1952ء میں اقبال اکیڈمی میں ریسرچ فیلو تھے اور پی ایچ ڈی کرنے کے خواہشمند، جب وہ اس ضمن میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اے بی اے حلیم سے ملے تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب کو کراچی یونیورسٹی کا اعزازی پروفیسر اور نگران بننے پر راضی کر لیں تو وہ پی ایچ ڈی کی اجازت دے سکتے ہیں انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کی منت سماجت کی اور مولوی صاحب راضی ہو گئے۔۔۔ اس کے بعد یونیورسٹی کی طرف سے باقاعدہ کارروائی ہوئی اور مولوی صاحب کو اردو کا اعزازی پروفیسر مقرر کر دیا گیا اس عہدے پر وہ ڈیڑھ سال تک فائز رہے اس عرصے میں وہ میرے علاوہ پی ایچ ڈی کے کئی اور طالب علم ان کی نگرانی میں کام کرتے رہے۔۔۔ وہ اس عہدے سے غالباً 1953ء کے آخر میں سبکدوش ہو گئے۔‘‘ اس قسم کی روایت ابن انشاء صاحب نے بھی بیان کی ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کی جو پہلی کھیپ نکلی اس میں ہم بھی تھے ہر نئے ایم اے کے دل میں تحقیق اور پی ایچ ڈی کرنے کا سودا ہوتا ہے۔۔۔۔ اس وقت تک اردو کا پروفیسر یا صدر شعبہ کوئی مقرر نہ ہوا تھا وائس چانسلر صاحب نے کہا تمہارا داخلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اگر مولوی عبدالحق صاحب کو راضی کر لو کہ وہ اعزازی صدر شعبہ ہونا قبول کر لیں تو چشم ما روشن دل ما شاد ہم مولوی صاحب کے پاس گئے، بولے بھائی انکار کر چکا ہوں لیکن تمہارے داخلے کی یہی شرط ہے تو لاؤ قلم دوات، منظور کر لیتا ہوں چنانچہ یونیورسٹی کو مولوی صاحب مل گئے اور ہمیں داخلہ‘‘ پاکستان منتقل ہونے کے بعد مولوی صاحب کا ایک بڑا مشن اردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دلانا تھا بد قسمتی سے قومی اور سرکاری زبان جو خالصتاً ایک لسانی اور ثقافتی مسئلہ تھا، سیاسی گتھیوں میں الجھاکر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اس کے نتیجے میں ملک میں اچھی خاصی ہنگامہ آرائی رہی پاکستان کے معرض وجود میںآتے ہی مشرقی پاکستان کے نوجوانوں کے ایک طبقے نے بنگلہ زبان کو اس لئے قومی زبان بنانے کے لئے تحریک چلائی کہ آبادی کے اوسط کے لحاظ سے یہ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان تھی لیکن بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے اس شورش کے اثرات کو بھانپ لیا ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں: ’’ انہوں نے اپنی زندگی کو لسانی وحدت اور استحکام کی بازی پر لگا دیا۔ ایک پرانے (ڈیکوٹہ) جہاز میں ڈھاکہ پہنچے اور ان سر پھرے طلبا کو جنہوں نے دشمنان پاکستان کے کہنے میں آ کر اس قسم کا سوال اٹھایا تھا، سمجھایا کہ اگر تم پاکستان کو قائم رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ پاکستان کی زبان صرف اور صرف اردو ہو سکتی ہے کوئی اور زبان نہیں ہو سکتی۔‘‘ لیکن سیاستدان اور بیورو کریسی اس مسئلے کو الجھاتی چلی گئی یہاں تک کہ محمد علی بوگرہ کے عہد وزارت میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک ایسا بل منظور کرنے کی تیاریاں ہوئیں جس میں قائد اعظم کی خواہش اور مولوی عبدالحق کی تمنا کے خلاف اردو کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ جب مولوی عبدالحق صاحب کو اس امر کی اطلاع ملی تو بپھرے ہوئے شیر کی طرح (1954ئ) اسمبلی ہال میں پہنچ گئے۔ شاہد احمد دہلوی صاحب بیان فرماتے ہیں: ’’ مولوی عبدالحق صاحب کی للکار پر لاکھوں فدائی ان کے گرد جمع ہو گئے اور جس دن اسمبلی کے اجلاس میں بوگرہ کی تجویز پیش ہونے والی تھی مولوی صاحب اس ضعیفی اور کمزوری کے عالم میں انجمن کے دفتر سے پیدل روانہ ہوئے ان کے ساتھ لاکھوں کا مجمع تھا اسمبلی پہنچے تو مولوی صاحب اور ان کے ساتھ اتنا مجمع دیکھ کر سب سٹپٹائے، پولیس کے دستے لاٹھیاں لئے کھڑے تھے، اشک آور گیس کا بھی انتظام تھا اور گولی چلانے والے دستوں کا بھی، مجمع اس قدر مشتعل تھا کہ اگر پولیس ذرا بھی حرکت میں آتی تو غدر مچ جاتا اور یہ آگ کراچی سے پھیل کر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔‘‘ مجبوراً حکومت کو اسمبلی کا یہ اجلاس بغیر کسی قرار داد کے ملتوی کرنا پڑا اور حکمران بڑی عیاری سے یہ سارا معاملہ گول کر گئے جس کے نتیجے میں اردو کو قومی زبان کے ناطے سرکاری زبان کا وہ وقار حاصل نہ ہو سکا، جو پاکستان کے معرض وجود میں آ جانے کے فوراً بعد ہی مل جانا چاہئے تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے لئے نہ صرف عوامی تحریک چلائی اور گلی کوچوں میں نکل آئے، بلکہ قومی زبان کا درجہ دلانے کے لئے ایسے ٹھوس کام بھی کئے جس سے اردو زیادہ سے زیادہ اہم زبان بن سکے۔ اردو میں اصطلاحات کی ایسی کوئی لغت نہ تھی جو دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اس ضمن میں ضرورت مند ادارے اور دفاتر جب کسی اصطلاحی مشکل کا شکار ہوتے تھے، تو وہ مولوی عبدالحق صاحب سے رجوع کرتے تھے اس لئے مولوی عبدالحق صاحب نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہئے جو اس دفتری اصطلاحات کے خواہش مند اداروں، دفتر اور شعبوں کی رہنمائی کر سکے، چنانچہ حکومت نے مولوی عبدالحق صاحب ہی کے زیر صدارت ایجوکیشن ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مکتوب بنام مولانا عبدالماجد دریا بادی محررہ25جون1950ء میں تحریر کیا: ’’ میں نے حکومت سے کچھ رقم طلب کی ہے، تاکہ تمام دفتری اور عدالتی الفاظ و اصطلاحات کی ڈکشنری تیار کروں۔ علمی اصطلاحات جو اس وقت تک بن چکی ہیں، وہ سب جمع کر رہا ہے انجمن اور کالج کا کام اس سے الگ ہے۔‘‘ ’’ قاموس ادب‘‘ مولوی صاحب کے منصوبوں میں عرصے سے شامل تھی لیکن ہجوم کار مولوی صاحب کو اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کا موقع فراہم نہیں کر رہا تھا بہ مشکل تمام1955ء میں وہ اس کا آغاز کر سکے۔ 1953ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن ترقی اردو کی گولڈن جوبلی منعقد کی، جس کے اجلاس8مئی1953ء تا 12مئی1953ء جاری رہے۔ اس میں برصغیر کے دونوں ممالک کے نمائندے شامل تھے اس موقع پر سب سے یادگار کام’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ کی ترتیب و تدوین تھا جسے سید ہاشمی فرید آبادی نے انجام دیا تھا لیکن1947ء کی المناک تباہی کا حال و تذکرہ مولوی عبدالحق صاحب نے خود تحریر کیا تھا۔ پاکستان ہجرت کرنے سے قبل مولوی صاحب کا وظیفہ خدمت جو انہیں سرکار عثمانیہ سے ملتا تھا وہ نہ صرف ان کی، بلکہ آئے گئے کی کفالت کے کام آتا تھا۔ لیکن پاکستان آنے کے ایک سال بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ذاتی اثاثہ یہاں تک کہ تن کے کپڑے تک 1947ء کی لوٹ مار کی نذر ہو گئے، جس کے نتیجے میں ان پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے اس زمانے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے انہیں رائے دی کہ وہ انجمن سے کچھ مدد لیں لیکن مولوی عبدالحق صاحب جنہوں نے ساری عمر، اپنا تن من اور دھن نچھاور کیا تھا ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کر سکتی تھی مولوی عبدالحق صاحب نے 30جنوری1951ء کے اپنے مکتوب میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کی تجویز رد کرتے ہوئے کہا: ’’ تم کہتے ہو میں اب کچھ انجمن سے لے لوں یہ نا ممکن ہے مجھے فاقے کرنے منظور ہیں مگر انجمن سے کچھ لینا ہر گز منظور نہیں‘‘ اس زمانے میں انجمن ترقی اردو کی مالی حیثیت بھی بہت کمزور ہو چکی تھی انجمن کی امداد بند تھی ادھر اردو کالج کھلنے سے اخراجات کا مزید بوجھ بڑھ گیا تھا مولوی عبدالحق صاحب کی فیاضی کی حد تو یہ تھی کہ انہیں جو پنشن بھی ملتی تھی وہ بھی انجمن کو عطیہ کر دیتے تھے 1951ء کے آخر میں انہیں کچھ رکے ہوئے پیسے ملے تو وہ بھی انجمن کو دے دیے مولوی عبدالحق صاحب خود اس موضوع پر تحریر کرتے ہیں: ’’ حکومت نے جو پنشن میرے لئے اپنی فیاضی اور قدر دانی سے عطا فرمائی تھی وہ میں نے انجمن کو منتقل کر دی ہے۔ انجمن رکھنا سب سے مقدم ہے۔ میں یا مجھ جیسے دوسرے افراد رہیں یا نہ رہیں، انجمن کا رہنا لازم ہے میں نے حقہ، چائے وغیرہ ترک کر دئیے ہیں اور اپنی ضرورتیں بہت کم کر دی ہیں۔ کھانے کے لئے میں نے تریسٹھ روپے ماہانہ رکھے ہوئے ہیں چند روپے دھوبی حجام کے سمجھ لیجئے کپڑوں کی ضرورت ہے نہ جوتوں کی البتہ دو تین طالب علموں کو مدد دیتا ہوں وہ کچھ مدت دیتا رہوں گا۔‘‘ انجمن کی مالی حالت اس حد تک گر گئی کہ انجمن کے ملازمین کی تنخواہیں اور دفتر کے اخراجات بھی چلنا مشکل ہو گئے اور پیسے آنے کی کوئی سبیل نہ تھی، یہاں تک کہ انجمن کے تین رسالے (سائنس، معاشیات اور تاریخ سیاست) بھی تعطل کا شکار ہو کر بند ہو گئے اور انجمن کم و بیش چالیس ہزار روپے کی مقروض ہو گئی مجبوراً20فروری1951ء کو مولوی عبدالحق صاحب نے ملازمین کو سبکدوش کرنے کے نوٹس جاری کر دئیے جیسے ہی یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی، تہلکہ مچ گیا اور حکومت نے فوری طور پر پندرہ ہزار روپے کی قلیل رقم کی امداد کا اعلان کیا۔ ادھر یہ انجمن کا بحرانی دور تھا، ادھر مولوی عبدالحق صاحب اور انجمن ترقی اردو کی مجلس ناظمین کے درمیان پہلے غلط فہمیاں اور پھر اختلافات پیدا ہونے لگے جس کے نتیجے میں انجمن ترقی اردو انتشار کا شکار ہو گئی۔ ’’ اب وہ دور ابتلا آیا کہ انجمن کے کارکن جن سے مولوی عبدالحق کو توقعات تھیں، سازشیں کرنے لگے اور تخریبی کارروائیاں ہونے لگیں مولوی صاحب کا کتب خانہ سر بمہر کر دیا گیا اور ان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی غرض ایسی اذیت پہنچائی کہ شرافت کو شرم آنے لگی۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کے لئے یہ دور بڑی اذیت کا دور تھا مولوی عبدالحق نے اپنی ساری زندگی انجمن کے لئے داؤ پر لگا رکھی تھی اور اب وہی انجمن جسے مولوی عبدالحق صاحب نے پالا، پوسا، جوان کیا، ایک ایسے موڑ پر لے آئی تھی جہاں مولوی عبدالحق صاحب انجمن کو خیر باد کہنے کے لئے تیار ہو گئے انہوں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کو15جون1951ء کو تحریر کیا: ’’ میں اب انجمن سے بھی الگ ہونا چاہتا ہوں کالج اور انجمن کے کاموں میں الجھنیں پیدا ہونے لگی ہیں جس سے تضیع اوقات کے علاوہ طرح طرح کی فکریں دامن گیر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ انجمن کے سالانہ جلسے میں (جولائی میں کرنا چاہتا ہوں) انجمن کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں گا۔۔۔۔۔ اور دنیا سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا۔‘‘ اس سارے پس منظر پر تفصیلی روشنی شمیم احمد صاحب نے اپنے مضمون’’ شیخ عبدالخالق عبدالرزاق‘‘ میں ڈالی ہے شیخ رزاق مجلس ناظمین کے سر گرم رکن، انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے خازن اور اس تحقیقی کمیٹی کے رکن تھے جو مولوی عبدالحق اور ان کے حریف گروپ کے معاملات کی تحقیق کرنے کے لئے قائم ہوئی تھی ان کا کہنا ہے: ’’ ایک زمانے میں مولوی صاحب بہت علیل رہتے تھے، اس وقت ایک صاحب نے ان کی خدمت کی اور اس بنا پر مولوی صاحب ان پر اعتماد کرنے لگے تھے اور یہی صاحب انجمن اور مولوی صاحب کے لئے بے حد خطرناک ثابت ہوئے۔ ابتدا میں تو صورت حال زیاد سنگین نہیں ہوئی تھی لیکن جب انجمن اور پریس کے تمام حسابات معرض خطر میں پڑنے لگے تو بات خطرناک مرحلوں میں داخل ہو گئی مجلس نظما اور مولوی صاحب کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی گئی۔ مجلس معاملات کی گڑ بڑ کی وجہ مذکورہ صاحب کو سمجھتی تھی اور مولوی صاحب اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔۔ وہ ان صاحب کے خیال کے مطابق اس کی ذمہ داری مجلس کے اراکین پر عائد کرتے تھے اس کے علاوہ مولوی صاحب انجمن کے سلسلے میں اس وقت تک مطلق العنان ہستی رہے تھے بلکہ خود انجمن تھے وہ مجلس کے اعتراضات کو اپنے معاملات میں دخل اندازی کے مترادف سمجھتے تھے حالات اس قدر نازک ہو گئے کہ ایک تحقیقی کمیٹی قائم ہوئی جس کا ایک ممبر میں بھی تھا تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دونوں فریقوں کے بیانات آئے دونوں ایک دوسرے پر الزام لگا رہے تھے ہم لوگوں نے ایک طریقہ وضع کیا کہ مذکورہ شخص کے بیانات اور عائد کردہ الزامات کی تحقیقات پہلے کی جائے، کیوں کہ مولوی صاحب بھی اس سے متفق تھے، اور پھر صحیح نتیجے پر پہنچنے پر سختی سے ان حالات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ تحقیق شروع ہوئی اور ان صاحب کے الزامات غلط ثابت ہوئے۔ ہم نے یہی رپورٹ مرتب کر کے پیش کر دی۔ مولوی صاحب کو اس سے اتفاق نہ تھا انہیں صدمہ بھی ہوا اور وہ ہم لوگوں سے ناراض بھی ہو گئے، مگر ایسے نہیں کہ تعلقات ختم ہو جائیں، بس ایک غبار دل پر آ گیا۔‘‘ حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہو گئے کتب خانہ سر بمہر کر دیا گیا اور مولوی صاحب تن تنہا عمارت کی آخری منزل پر مقید ہو کر رہ گئے کبھی کبھار کوئی پریسی مولوی عبدالحق صاحب سے ملنے چلا آتا تو مولوی صاحب اپنی روداد غم سناتے۔ مولوی عبدالحق صاحب کی سب سے زیادہ ناراضگی انجمن کے کالج کے پرنسپل مولوی آفتاب حسن اور حکیم احسن اللہ خان سے تھی جس کا اظہار انہوں نے بار بار اپنے مکاتیب میں بھی کیا ہے اور نجی محفلوں میں بھی ذکر چھیڑا ہے۔ محمد طفیل مرحوم مالک ومدیر’’ نقوش‘‘ لاہور، نقوش کا مکاتیب نمبر شائع کرنے کے سلسلے میں مولوی عبدالحق صاحب سے ملے تو انہوں نے فرمایا: ’’ مولوی آفتاب (اردو کالج کے سابق پرنسپل) نے میرا ناطقہ بند کر رکھا ہے حتی کہ میری بوڑھی ہڈیوں تک کو پیس ڈالا ہے اب ایسی باتیں یاد نہ دلاؤ اور چپکے سے لاہور چلے جاؤ اور میری بد بختی کے دن کٹنے کی دعا کرو۔‘‘ اس تمام ہجوم غم نے مولوی عبدالحق صاحب کی صحت بگاڑ کر رکھ دی اور بیماریوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ انہوں نے19نومبر1957ء کو ڈاکٹر عبادت بریلوی کو تحریر کیا: ’’ میری صحت اچھی نہیں رہی۔ اب پھر خراب ہو گئی ہے کچھ دن ہوئے اسہال شروع ہوئے اب پیچش نے آ گھیرا ہے۔ ادھر انجمن کی حالت بہت خراب اور ناگفتہ بہ ہے اور روز بروز نازک ہوتی جا رہی ہے محمود حسن خان نے جب سے معتمد ہوئے ہیں، اب تک انجمن میں قدم رنجہ نہیں فرمایا سارے اختیارات حکیم احسن (احسن اللہ خان) کو دے رکھے ہیں اس نے اودھم مچا رکھی ہے تغیر، تبدل، تعطل و برطرفی کا بازار گرم ہے۔ مجھے طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی جاتی ہیں اصل کام معطل ہے، یہ بڑی طویل داستان ہے خط میں سمائی نہیں ہو سکتی۔‘‘ اس قسم کا اظہار انہوں نے 24فروری1959ء میں اسلامیہ کالج لاہور کی ’’ بزم فروغ اردو‘‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیاآپ نے فرمایا: ’’ مجھے تیس سال سے بڈھا بڈھا کہتے آ رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو کبھی بوڑھا نہ ہونے دیا۔ لیکن دو سال کے عرصے میں بعض غداروں اور دون فطرت ساتھیوں نے مجھ پر ایسے ایسے مظالم کیے کہ بڈھا ہو گیا ہوں۔‘‘ انہوں نے انجمن کو تباہ کرنے کی، میرے رفیقوں اور ہمدردوں کو مجھ سے الگ کرنے کی کوشش کی تاکہ مجھے ختم کر دیں لیکن مجھے پھر بھی ختم نہ کر سکے انہوں نے سوچا کہ اس کا کام چھین لیا جائے تو یہ مر جائے گا۔ میں پھر بھی نہ مرا۔ میں اپنی جوانی پھر واپس لاؤں گا۔ میں مرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور اس وقت تک نہیں مروں گا جب تک اردو یونی ورسٹی قائم نہ کر لوں۔ دوست احباب مولوی عبدالحق کو چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ لوگ جنہیں بچوں کی طرح پالا پوسا ان کی جان کے لاگو تھے اور مولوی عبدالحق صاحب کو محرومی اور احساس تنہائی کا شکار اور اسیر کر دیا تھا۔ نہ اخبار میں مولوی عبدالحق کا کوئی ذکر آتا تھا اور نہ کوئی خبر شائع ہوتی تھی اور وہ گوشہ تنہائی کے ساتھ ساتھ گوشہ گمنامی میں بھی چلے گئے تھے تحسین سروری صاحب کا بیان ہے: ’’ اب مولوی عبدالحق صاحب کے پاس صرف ابن انشا اور۔۔۔ جایا کرتے تھے میں بھی کبھی کبھی جاتا انجمن کا طباعتی پروگرام اور رسائل تو بند ہو گئے تھے لیکن ’’ قومی زبان‘‘ تھا جو مولوی عبدالحق کی نگرانی میں جاری رہا۔ جب حالات انتہا کو پہنچ گئے اور مولوی صاحب کی کسمپرسی دیکھ کر جی امڈنے لگا تو ابن انشاء سے نہ رہا گیا انہوں نے ’’ لیل و نہار‘‘ میں ایک مضمون لکھا جس میں مولوی صاحب کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے مولوی صاحب کی حالت زار کا نقشہ کھینچ دیا۔ اب کیا تھا، قوم چونکی اخبارات میں مولوی صاحب کی تائید میں بیانات اور ادارئیے چھپنے لگے اس کے چند ہی ہفتے بعد’’ لیل و نہار‘‘ نے ایک پورا’’ عبدالحق نمبر‘‘ نکال دیا جس کے سر ورق پر مولوی صاحب کی نہایت دیدہ زیب سہ رنگی تصویر چھپی۔‘‘ عبدالرؤف عروج ’’ نیا راھی‘‘ میں کام کرتے تھے انہوں نے بھی ایک ’’ عبدالحق نمبر‘‘ نکال دیا مولوی عبدالحق کا مخالف گروپ یہ پروپیگنڈہ بھی کر رہا تھا کہ بابائے اردو اصل میں اردو اور انجمن ترقی اردو کے حق میں نہایت غیر مخلص ہیں یہ عجیب بے عقلی کی بات تھی۔ عملی طور سے انجمن ترقی اردو اور اردو کالج سے مولوی عبدالحق صاحب کا اخراج ہو چکا تھا، کتب خانہ بند تھا اور انجمن کی ترقی معکوس شروع ہو چکی تھی کہ 18اکتوبر1958ء کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بر سر اقتدار آ گئے اور ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہو گیا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے مارشل لاء کی حکومت اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان سے انجمن کے معاملات میں مداخلت کی درخواست کی قدرت اللہ شہاب کے ذریعے مولوی عبدالحق صاحب کی ایوب خان صاحب سے ملاقات کا اہتمام اور انتظام ہو گیا: ’’ انقلاب کے بعد ایک روز بابائے اردو صدر ایوب خان سے ملنے آئے صدر نے انجمن کی داستان مصائب کو غور سے سنا اور ایک دم چپ ہو گئے اس کے بعد مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا مولوی صاحب تو اردو کے قائد اعظم ہوئے نا؟ انہیں انجمن سے بے دخل کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ پاکستان بن جانے کے بعد قائد اعظم کو دیس نکالا دے کر کسی اور ملک بھیج دیا جائے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مارشل لاء ریگولیشن تیار ہو گیا اور انجمن کا بابا از سر نو انجمن میں آ گیا۔‘‘ سر بمہر کتب خانہ کھل گیا کتابوں کی گرد صاف ہوئی کتب خانے سے مرے ہوئے پرندے اور بلیاں پھینکی گئیں اور مارشل لاء ضابطہ 21کے تحت انجمن اور اس کے ملحقہ مجلس ناظمین توڑ دی گئی حلقہ الف مارشل لاء کی نگرانی میں انجمن کی نئی مجلس ناظمین مولوی عبدالحق کی قیادت اور راہنمائی میں تشکیل دی گئی کالج کی بازیابی ہوئی اور مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن اور اردو کالج کے کام کا نئے عزم سے آغاز کیا ایک جامع لغت کے لئے ’’ ترقی اردو بورڈ‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کا صدر مولوی عبدالحق صاحب کو مقرر کیا گیا۔ 1959ء میں مولوی عبدالحق صاحب کو ان کی اعلیٰ خدمات کے صلے میں نشان قائد اعظم سے سرفراز کیا گیا اور دس ہزار روپیہ نقد انعام دیا گیا۔ لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اس موقع پر اپنی روایت کو نہ توڑا اور انعام کی یہ رقم اپنی ذات پر صرف کرنے کے بجائے فوری طور پر اردو یونیورسٹی کے نام منتقل کر دی تاکہ انجمن کی تحریک کو سنبھالا جا سکے اس موقع پر ان کے بہی خواہوں اور دوستوں نے انہیں تہنیت کے پیغامات روانہ کیے لیکن مولوی عبدالحق صاحب ایسی بھٹی سے نکلے تھے کہ خوشی و مسرت ان کے لئے بے معنی چیز ہو کر رہ گئی تھی اس سال مولوی عبدالحق صاحب کو ’’ آدم جی پرائز کمیٹی‘‘ کا صدر نامزد کیا گیا۔ مولوی عبدالحق عزم کا پیکر تھے۔لیکن اب وہ زندگی کے تیز و تند 90سال دیکھ چکے تھے اور انجمن کے المناک معاملات اور احباب کی چشم پوشیوں نے مولوی عبدالحق کو کھوکھلا کر دیا تھا اس لئے مولوی عبدالحق صاحب آئے دن بیمار رہنے لگے مجبوراً انہوں نے ’’ ترقی اردو بورڈ‘‘ سے استعفیٰ دے دیا۔ مولوی صاحب کا عمر بھر یہ وطیرہ رہا تھا کہ جو کچھ اور جہاں کہیں سے انہیں ملتا یا وہ کماتے انجمن کی نذر کر دیتے۔ اس لئے اس آخری دور میں مولوی عبدالحق کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ ڈھنگ سے اپنا علاج بھی کرا سکیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں یکم جون1961ء کو محمد علی صاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں (جو غالباً ان کی زندگی کا آخری مکتوب ہے) تحریر کیا: ’’ میں پچھلے دو تین مہینے سے پیچش اور یرقان میں مبتلا ہو گیا تھا گھر پر بہتیرا علاج معالجہ کیا لیکن حالت روز بروز بگڑتی ہی چلی گئی 5مئی 1961ء کو یہاں کے مشہور ہسپتال (جناح ہسپتال) میں داخل ہو گیا اور اب تک یہیں ہوں۔۔۔ یہاں کے مصارف بہت زیادہ ہیں اس لئے اب مجھے روپوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔‘‘ جناح ہسپتال کراچی میں کچھ فائدہ بھی ہوا لیکن بد قسمتی سے ان دنوں کراچی میں شدید گرمی کی لہر آئی جس سے مولوی صاحب کا مرض پھر شدت پکڑ گیا۔ دن رات حکیم اسرار کریوی اور اعظم سواتی خدمت کرتے رہے لیکن مرض میں کمی نہ آئی جب مولوی عبدالحق صاحب کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو فیلڈ مارشل ایوب خان صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے نام ایک تار میں انہیں مری آنے کی پیشکش کی جہاں ان کا کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں صدر کے ذاتی معالج بریگیڈیر سرور کی نگرانی میں علاج کرانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔ مولوی صاحب نے جنرل ایوب خان کی اس پیشکش کو قبول کر لیا اور23جون 1961ء کو تیز گام سے پنڈی روانہ ہو گئے 24جون ہی کو انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا جہاں مختلف معائنوں کے بعد پیچش اور یرقان کی شکایت تجویز ہوئی، لیکن دو ماہ کے مسلسل معائنوں کے بعد معلوم ہوا کہ مولوی عبدالحق صاحب کو جگر کا سرطان ہے۔ حکیم اسرار کریوی مولوی عبدالحق صاحب کے بہی خواہوں کو ان کی کیفیت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے 7جولائی 1961ء کو سید ساجد کو یہ مایوس کن اطلاع دی: ’’ دو ماہ سے ان کے ساتھ ہوں اور حالات کے گہرے مطالعے اور مشاہدے سے جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک ظاہر حالات و کیفیات کا تعلق ہے مولوی صاحب قبلہ کی جاں بری کے امکانات، خاکم بدہن ختم ہو چکے ہیں ان کے معالجوں کا بھی کم و بیش یہی خیال ہے دوائیں جاری ہیں اور قسم قسم کی، لیکن شاید دواؤں کا وقت ختم ہو چکا ہے اور صرف مخلص عقیدت مندوں کی دعائیں ہی کچھ کر سکتی ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کی طبیعت نہ سنبھل سکی، چنانچہ مولوی صاحب کو دوبارہ کراچی میں پاکستان نیول ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ ڈاکٹر شوکت علی کے زیر علاج رہے۔ 15اگست1961ء کو ان کی طبیعت ا چانک بگڑ گئی اور16اگست1961ء کو صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا علیہ راجعون کمشنر کراچی جے اے مدنی خود ہسپتال گئے تدفین کا انتظام کیا گیا ان کے خدمت گار اعظم سواتی نے غسل دیا۔ میونسپل کارپوریشن گراؤنڈ میں مولانا احتشام الحق تھانوی نے نما جنازہ پڑھائی اور14ربیع الاول 1338ء بمطابق16اگست1961ء چھ بجے شام ان کی خواہش کے مطابق انجمن ترقی اردو کے صحن اور اس عمارت کے عقب میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ٭٭٭٭٭ حواشی 1’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی15اگست1961ء ص72 2’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962 ص20 3’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1961ء ص72 4صوفی عبدالرشید از شمیم احمد ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1963ء ص226 5صوفی عبدالحق (سوانحی خاکہ) از غیور عالم۔۔۔’’ قومی زبان‘‘ کراچی1967ء ص 103-102 6’’ بابائے اردو بمبئی سے بلدیہ کراچی تک‘‘ از فضل احمد صدیقی ’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر)ص64 7’’ بابائے اردو کے بڑے بھائی‘‘ از سراج احمد عثمانی’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1961ء ص 180-181 8ایضاً۔۔۔۔۔ص187 9’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ء ص23 10’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست تا دسمبر1961 ص123 11’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ از ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور دسمبر1973 ص17 12 ایضاً 13’’ اردو کے دوسرے درویش کی کہانی’’ از شاہد عشقی ایم اے ‘‘ ماہنامہ ’’ الشجاع‘‘ کراچی‘‘ ڈاکٹر عبدالحق نمبر اگست1959ص:31 14’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1985ء ص 35 15’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص20 16ایضاً 17’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1985ء ص 22 18مولوی عبدالحق صاحب نے اسلحہ کے حصول کے لئے جو فارم بھرا اس میں اپنے والد صاحب کا نام علی حسن تحریر کیا 19’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص20 20ایضاً 21’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین قومی زبان کراچی15اگست1961ء ص72 22’’ چراغ انجمن افروز‘‘ از نصر اللہ خاں’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ء ص 92 23’’ اردو کا معمار اعظم۔۔۔۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق‘‘ از اقبال خان یوسفی ’’ برگ گل‘‘ عبدالحق نمبر1963ء ص321 24’’ اردو کا معمار اعظم‘‘ از حکیم اسرار احمد سہ ماہی’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص 58 25’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ء ص 17 26’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی 1962ء ص22 27غیر مطبوعہ خط بنام شیخ اکرام ربانی مرسلہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق 17فروری1953 28’’ بابائے اردو احوال و افکار‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن ص171 29’’ یادوں کے چراغ‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق قومی زبان اگست1960ئ ص 5 30ایضاً ص7 31ایضاً 32ذکر عبدالحق از ڈاکٹر سید معین الرحمن ص32 33’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب ص 24 34’’ بزم سر سید کی آخری شمع‘‘ از افضل صدیقی کراچی، ’’ قومی زبان‘‘ 15 اگست1961 ص123 35’’ اردو کے دوسرے درویش کی کہانی‘‘ از شاہد عشقی ایم اے ’’ الشجاع‘‘ کراچی ص31 36’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن، لاہور، مجلس ترقی ادب 1973ء ص 18 37’’ ذکر عبدالحق‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور1975ئ ص42 38’’ اردو کا معمار اعظم‘‘ از حکیم اسرار احمد، حیدر آباد دکن، سہ ماہی’’ مجلس‘‘ 1960 ص 58 39’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات اور علمی خدمات‘‘ شہاب الدین ثاقب، کراچی، انجمن ترقی اردو،1985 ص25 40’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ء ص17 41’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1962ء ص 23 42’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ئ ص78 43’’ ذکر عبدالحق‘‘ سید معین الرحمن لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز1985ئ ص32 44’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن، سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص32 45’’ تایا ابا‘‘ از محمود حسین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1961ء ص75-76 46’’ مولوی عبدالحق‘‘ از شاہد احمد دہلوی’’ قومی زبان‘‘ کراچی1964 ص16 47’’ صوفی عبدالرشید‘‘ از شمیم احمد’’ قومی زبان‘‘ اگست1963ئ ص226 48’’ بابائے اردو کی کہانی ان کے معتمد کی زبانی‘‘ ۔۔۔۔۔ از بشیر احمد قریشی ہاپوڑی کراچی ’’ فریڈم انٹر پرائزز‘‘ 1983ئ ص40 49مولوی عبدالحق (سوانحی خاکہ) از غیور عالم ’’ قومی زبان‘‘ کراچی1964ء ص 108 50’’ نواب معشوق یار جنگ سے ایک ملاقات‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1964ئ ص32 51’’ بابائے اردو‘‘ از مولانا عبدالماجد دریا بادی’’ قومی زبان‘‘ کراچی، اگست1961ء ص231 52’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق۔۔۔۔ حیات و علمی خدمات‘‘ شہاب الدین ثاقب انجمن ترقی اردو کراچی1985ئ ص28 53’’ یاد ایام عشرت‘‘ از محمد اعظم سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص49 54’’ ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی1962ئ ص13 55’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر1967ء ص 162 56’’ خطبات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن ترقی اردو کراچی 1964 ص 334 57’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ء ص169 58’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری قومی زبان کراچی 1966ء ص 169 59’’ نقوش‘‘ لاہور آپ بیتی نمبر1964ئ ص53 60’’ بیسویں صدی کا سرسید‘‘ از پروفیسر سید محمد’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص 26 61’’ سلسلہ روز و شب‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ کراچی1968ء ص 91 62’’ مولوی عبدالحق اور تعلیمات‘‘ از محی الدین ’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ئ ص 197 63’’ دکن پر مولوی صاحب کے احسانات‘‘ از محی الدین’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ئ ص70 64’’ حیدر آباد میں مولوی ڈاکٹر عبدالحق کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر‘‘ از نصیر الدین ہاشمی ’’ الشجاع‘‘ کراچی عبدالحق نمبر اگست1959 ص51 65’’ مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری’’ قومی زبان‘‘ کراچی1966ء ص 169 66’’ رسالہ افسر اور مولانا حالی ‘‘ از شیخ محمد اشماعیل پانی پتی’’ قومی زبان‘‘ کراچی ستمبر 1968ء ص85 67’’ مولانا ظفر علی خاں احوال و آثار‘‘ از ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی مجلس ترقی ادب لاہور جون1986ء ص:68 68’’ مولوی عبدالحق اور تعلیمات‘‘ از سید ساجد علی سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر1962 ص307 69’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ از: سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص27-28 70’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر1967ئ ص 193 71’’ مجلس‘‘ عبدالحق نمبر حیدر آباد دکن جنوری 1960ء ص222 72’’ دکن پر مولوی صاحب کے احسانات‘‘ از محی الدین احمد’’ قومی زبان‘‘ کراچی 1966ء ص74-73 73’’ عظیم انسان‘‘ از غلام ربانی ’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن1960ء ص17 74’’ قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر1970ء ص71 75’’ ڈاکٹر مولوی عبدالحق‘‘ از پروفیسر ہارون خاں شیروانی’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن جنوری 1960ء ص38 76’’ چند تاثرات‘‘ از محمد احمد سبزواری’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1964ء ص33-32 77’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970 ص136 78’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب، انجمن ترقی اردو کراچی 1985ء ص35 79پروفیسر محمود احمد خان (انٹرویو ) از ڈاکٹر سید معین الرحمن قومی زبان کراچی (بابائے اردو نمبر)1966ء ص276 80’’ مولوی عبدالحق۔۔۔۔۔۔میرے تاثرات‘‘ از پروفیسر عبدالقادر سروری’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن 1960ء ص55 81ذکر عبدالحق از: ڈاکٹر سید معین الرحمن1985ء ص55 82’’ حیدر آباد میں ڈاکٹر عبدالحق کی خدمات پر طائرانہ نظر‘‘ از نصیر الدین ہاشمی’’ الشجاع‘‘ کراچی ص52 83’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن اردو‘‘ مرتبہ، سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص76 84ایضاً ص106-105 85ایضاً ص40 86ایضاً ص56 87’’ بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر) 1967ء ص160 88ذکر عبدالحق ا ز ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور1985ئ ص60-59 89’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص62 90ایضاً ص63 91ایضاً ص 93 92’’ سید ساجد علی کے نام‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970ء ص 166-165 93’’ خطبات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن ترقی اردو کراچی 1964ء ص 525-524 94ایضاً ص522 95’’ اردو کا زخمی سپاہی‘‘ از سجاد مرزا مجلس حیدر آباد دکن 1960ء ص2 96’’ نقوش و تاثرات‘‘ حصہ اول از حکیم امامی انجمن ترقی اردو میسور1958ء ص 196-197 97’’ بیسویں صدی کا سرسید‘‘ از پروفیسر سید محمد’’ مجلس‘‘ حیدر آباد دکن جنوری 1960ء 98’’ عبدالحق۔۔۔۔۔۔ ہندوستانی ادب کے معمار‘‘ از مختیار الدین احمد ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی 1984ء ص41 99’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص175 100’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ ترتیب و مقدمہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور1984ء ص41 101’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص179 102ایضاً ص186-185 103ایضاً ص203 104ایضاً ص200 105ایضاً ص204-203 106’’ مکتوب بنام امین زبیری‘‘ قومی زبان کراچی(بابائے اردو نمبر)1967ء ص 144 107’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص227-226 108ایضاً ص227 109ایضاً ص228 110’’ اقبال اور عبدالحق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور1973ئ ص 44-43 111’’ اردو مصفے‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور ناشر ابو تمیم فرید آبادی فروری 1961ء ص254 112’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ئ ص115 113’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953 114ایضاً ص185 115’’ قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر اگست1964ء ص239 116’’ ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن1985ئ ص87 117’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص232 118’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی کراچی، مکتبہ اسلوب 1963ئ ص574 119’’ اردوئے مصفیٰ‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور ناشر ابو تمیم فرید آبادی 1961ء ص319 120ایضاً ص320-319 121’’ برگ گل‘‘ بابائے اردو نمبر کراچی اردو کالج 1963ء ص77-76 122’’ مولوی صاحب‘‘ از ابن انشاء قومی زبان کراچی 1971ء ص6 123’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص245 124’’ بزم خوش نفساں‘‘ از شاہد احمد دہلوی مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی کراچی مکتبہ اسلوب 1985ء ص45-44 125’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتب جلیل قدوائی اردو اکیڈمی کراچی 1963ء ص 225 126’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید 1984ء ص92 127ایضاً ص142 128’’ مولوی عبدالحق دید و شنید‘‘ از محمد حسین خاں زبیری’’ قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر)1966ء ص120 129’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ء ص116 130’’ شیخ عبدالخالق عبدالرزاق‘‘ از شمیم احمد’’ قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1966ء ص305 131’’ جناب‘‘ از محمد طفیل ادارہ فروغ اردو لاہور1970ء ص18 132’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از عبادت بریلوی لاہور ادارہ ادب و تنقید 1984ئ ص293 133’’ بابائے اردو اسلامیہ کالج لاہور میں‘‘ از پروفیسر حمید اللہ خاں سہ ماہی ’’ اردو ‘‘ کراچی 1962ء ص36 134’’ شمع انجمن فروزاں‘‘ از تحسین سروری قومی زبان(بابائے اردو نمبر) کراچی 1963ء ص118 135’’ اینٹ کا جواب روپیہ‘‘ از قدرت اللہ شہاب’’ قومی زبان‘‘ کراچی ستمبر1968ء ص14 136’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1970ء ص200 137ایضاً ص176 ٭٭٭٭٭٭ دوسرا باب مولوی عبدالحق کا تصنیفی و تالیفی سرمایہ مولوی عبدالحق صاحب 1888ء میں علی گڑھ آئے علی گڑھ اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان نوجوانوں کا مرکز نگاہ و قلب تھا برصغیر کے گوشے گوشے سے مسلمان طلباء علی گڑھ میں داخلہ لینا اپنی شان اور عزت تصور کرتے تھے یونین سازی، کھیل کود اور مختلف انجمنیں علی گڑھ کی جان تھیں مولوی عبدالحق صاحب نے بھی علی گڑھ کے ماحول میں اپنے لئے ادبی میدان چن لیا مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ میں کالج کا ایک مٹھا طالب علم تھا۔ نہ کبھی کھیلوں میں شریک ہوا نہ یونین میں حصہ لیا اور نہ انتخاب پریذیڈنٹ و سیکرٹری کے ہنگاموں میں شامل ہوا کالج میں کئی انجمنیں تھیں، میں نے نہ ان میں شرکت کی البتہ ’’ اخوان الصفا‘‘ میں جس کے بانی پروفیسر آرنلڈ تھے دو ایک مضمون پڑھے ایک مضمون میں نے سینٹ پال پڑھا اس دن سے طالب علم مجھے سینٹ پال کہنے لگے۔‘‘ علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی میں مولوی عبدالحق صاحب کو مضمون نویسی کے مقابلے میں ایک مضمون پر لارڈ ڈینس ڈاؤن تمغہ ملا۔ گو یہ سب کچھ طالب علمانہ سرگرمیاں اور شوق تھے لیکن سر سید احمد خان صاحب نے انہیں بھانپ لیا اور ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ میں ان سے کام لینا شروع کیا۔ سرسید احمد خان صاحب کی نظر کرم، حالی کا قرب اور شبلی کی شاگردی نے اس جوھر کو کندن بنا دیا اور علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی میں قلم سے جو رشہ جوڑا وہ بستر مرگ تک قائم رہا اور لکھنا پڑھنا ہی مولوی عبدالحق صاحب کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ مولوی عبدالحق نے اپنے ابتدائی مضامین کے سلسلے میں اپنے ایک خط مورخہ21ستمبر1951ء میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کو تحریر کیا: ’’ میرے تین مضمون مجلہ عثمانیہ میں چھپے تھے ایک ’’ ایہام‘‘ اور دوسرا ’’ چندہ‘‘ ’’ چندہ‘‘ تو کچھ لوگوں نے الگ بھی چھاپ دیا لیکن ’’ ایہام‘‘ مجلہ عثمانیہ سے مل سکتا ہے تیسرا’’ قدیم اردو میں قرآن مجید کے ترجمے‘‘ ’’ اردو‘‘ میں بھی چھپا تھا۔ ایک اور مضمون’’ انسانیت اور درندگی‘‘ مولوی ظفر علی خان کے رسالے میں چھپا تھا، جو کسی زمانے میں انہوں نے الہ آباد سے نکالا تھا یہ مضمون نصاب کی کتابوں میں بہت نقل ہوا ہے ایسے ہی مضامین قدیم علی گڑھ میگزین وغیرہ میں ہوں گے مگر وہ قابل ذکر نہیں’’ دکن ریویو‘‘ (ظفر علی خان) میں بھی کچھ مضمون لکھے تھے عالم اسلامی پر ایک مسلسل مضمون تھا جو کم و بیش300صفحوں پر ختم ہوا مگر اس قابل نہیں کہ مجموعہ میں شامل کیا جائے ، زمانہ بہت بدل گیا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کا باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1905ء میں مولانا ظفر علی خان کی کتاب’’ جنگ روس و جاپان‘‘ کے مقدمہ سے شروع ہوا اور اس کی آخری کڑی ’’ قاموس الکتب‘‘ کا مقدمہ ہے جو انہوں نے بستر مرگ پر 22جون 1961ء کو جناح ہسپتال کے کمرہ نمبرتیرہ میں مکمل کیا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی لوح و قلم کی اس طویل رفاقت نے اردو ادب کو انمول خزانوں سے بھر دیا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا دامن بہت وسیع ہے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں ان میں اردو کی نشوونما میں صوفیا کرام کا حصہ، مرحوم دلی کالج، سرسید احمد خان (حالات و افکار) افکار حالی، نصرتی ملک الشعراء بیجاپور، سر آغاز خان کی اردو نوازی، اردو زبان میں اصطلاحات کا مسئلہ، مرھٹی زبان پر فارسی کا اثر، انتخاب کلام میر، چند ہم عصر، قواعد اردو اور اردو صرف و نحو جیسی کتب شامل ہیں جب کہ تالیفی سرمایہ میں دی اسٹینڈرڈ اردو ڈکشنری، اسٹوڈنٹس ڈکشنری، جیسی لغات ہیں اور اس کے علاوہ بہت سی ایسی قدیم کتب کی تدوین و ترتیب ہے جو گوشہ گمنامی میں تھیں۔ ان پر معلومات افزاء مقدمات تحریر کئے جو اپنی جگہ خود تحقیقی و تخلیقی اور تصنیفی حیثیت رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کتب کے دیباچے و تعارف مولوی عبدالحق صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہیں انجمن ترقی اردو کی رو دادیں، اردو کی ترویج کی خاطر برصغیر کے گوشے گوشے اور کونے کونے میں دئیے گئے خطبات اور ہزاروں اپنوں اور غیروں کو لکھے گئے مکاتیب، یہ سب کچھ مولوی عبدالحق صاحب کا تصنیفی و تالیفی سرمایہ ہے، جس کی بدولت اردو زبان و ادب کا دامن وسیع ہوا۔ مولوی عبدالحق کے تصنیفی و تالیفی سرمایہ کا ایک کثیر حصہ ان کی زندگی میں ہی منظر شہود پر آ چکا تھا لیکن ان کی بعض کاوشیں اور بالخصوص ان کے بکھرے ہوئے خطوط ان کے انتقال کے بعد مرتب ہو کر طباعت کے زیور سے آراستہ ہوئے اور اب بھی ان کے بہت سے مضامین اور خطوط غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہوں گے ان کا جو بھی تصنیفی و تالیفی سرمایہ کتابی شکل میں سامنے آیا ہے اس کا عہد بہ عہد اور سال بہ سال جائزہ درج ذیل ہے: گلشن ہند (مشہور شعرائے اردو کا ایک تذکرہ) 1930ء کے سیلاب میں شہر حصار (دکن) کی ندی میں کچھ سامان بہتا ہوا آیا اس میں مولوی غلام محمد صاحب مددگار کیبنٹ کونسل دولت عثمانیہ کو ایک تذکرہ شعراء ہاتھ لگا۔ انہوں نے اسے عبداللہ خان کو دیا، عبداللہ خاں نے وہ تذکرہ 1906ء لاہور سے طبع کرایا اور حیدر آباد دکن سے فروخت کیا۔ یہ تذکرہ مشہور مستشرق جان گل کرسٹ کی فرمائش پر میرزا علی لطف نے 1801ء میں علی ابراہیم خاں کے فارسی تذکرہ شعراء ’’ گلزار ابراہیم‘‘ سے انتخاب کیا ہے انہوں نے تین سو بیس شعراء میں صرف اڑسٹھ شعراء کا حال فارسی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ مشفق خواجہ کی تحقیق ہے: ’’ فورٹ ولیم کونسل رپورٹ مرتبہ 4اپریل 1803ء کے مطابق اس تذکرے کو طباعت کے لئے پریس بھیج دیا گیا تھا (گل گرسٹ ص197)لیکن کسی وجہ سے یہ طبع نہیں ہوا‘‘ اس تذکرے کی اشاعت میں عبداللہ خاں نے طویل اقتباسات، حوالہ جات اور بعض شعراء کے کلام کو حذف کر دیا ہے۔ گارسان و تاسی نے اپنے پانچویں خطبہ (4دسمبر1854ء ) میں اس تذکرے کی زبان کو اسلامی ہندوستانی یعنی اردو کانام دیا ہے۔ عبداللہ خان نے اس تذکرے کی تصحیح شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی سے کرائی اور مولوی عبدالحق صاحب نے مقدمہ تحریر کیا چونکہ تذکرہ جان گل کرسٹ کے ایما پر وجود میں آیا ہے، مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمے میں مستشرقین کی اردو نوازی کا ذکر ضروری سمجھا اور فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات اور تصانیف و تالیفات کا بھی جائزہ لیا۔ مقدمے میں ’’ انجمن پنجاب‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے اور ’’ نیچرل نگاری‘‘ کی تحریک پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مولوی عبدالحق نے میرزا لطف علی کے حالات زندگی بھی بیان کئے ہیں اور ان کے ترجمہ کئے ہوئے تذکرے کی خوبیاں نمایاں کی ہیں۔ ان کی بعض تحریروں سے اختلاف بھی کیا ہے اور اپنے اختلاف کی دلیل میں دوسرے تذکروں کے مواد سے مدد لی ہے تذکرے کی زبان کے بارے میں مولوی عبدالحق صاحب رقم طراز ہیں: ’’ سو برس پہلے کی زبان ہے، جس سے زبان کے متعلق بہت کچھ پتہ لگایا جا سکتا ہے اور محقق علم اللسان اور نیز ان لوگوں کو جنہیں زبان کا چسکا ہے، بہت کچھ نئی باتیں معلوم ہو سکتی ہیں‘‘ یہ تذکرہ 1906ء میں رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا تھا۔ انتخاب مضامین رسالہ ’’ حسن‘‘ رسالہ ’’ حسن‘‘ حیدر آباد نے ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کے بعد علمی و ادبی دنیا میں بہت شہرت حاصل کی۔ یہ رسالہ 1887ء میں حیدر آباد دکن سے شائع ہونا شروع ہوا تھا اس رسالے کو ملک کے نامور اہل قلم کا تعاون حاصل تھا اور اس میں ہر قسم کے بلند پایہ مضامین شائع ہوتے تھے تعلیم یافتہ حلقے میں اسے تہذیب الاخلاق کا جانشین اور نعم البدل تصور کیا جاتا تھا۔ مولوی عبدالحق اس کی تحریروں کو بہت اہمیت دیتے تھے اور بقول خود رسالہ کی اس خصوصیت نے انہیں اس کی منتخب تحریروں کو یک جا کر کے محفوظ کرنے پر مائل کیا وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ لائبریوںمیں بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ بہت سی علمی تحقیقاتیں جو مدتوں کے مطالعہ اور محنت کے بعد تحریر کی جاتی ہیں ایک دفعہ چھپ کر ایسی گم ہو جاتی ہیں کہ ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے اس انتخاب میں درج ذیل نو مضامین شامل کئے ہیں: 1ابن رشد اور اس کے ہم عصر از نواب عماد الملک بہادر مولوی سید حسن بی اے 2علم اللسان از شمس العلما مولوی سید علی 3طلسم اعضائے انسانی ایضا 4قبل از اسلام اہل عرب کا حال از مولوی محمد ذکا اللہ 5تاج محل آگرہ از نواب عماد نواب جنگ بہادر 6اہرام مصر از مولوی محمد ابو الحسن صاحب 7قد آدم از محمد الکریم خاں صاحب آزاد 8نیچرل چیزوں کی تسخیر میں ہزار درجہ زیادہ فائدہ ملکوں کی تسخیر 9النظری التاریخ از مولوی غلام الثقلین اس انتخاب پر کہیں سن اشاعت درج نہیں ہے قومی زبان نے تحریر کیا ہے: ’’قیاس ہے کہ 1910ء سے پہلے شائع ہوا‘‘ مولوی عبدالحق کی ابتدائی تحریروں میں سے ایک مضمون’’ قاہرہ کی مسجد عمرو‘‘ رسالہ ’’ حسن‘‘ کے جون1894ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ رقعات اردو مولوی عبدالحق صاحب نے زمانہ صدر مدرسی مدرسہ آصفیہ، یہ کتاب نواب عماد الملک ڈائریکٹر انسٹرکشن ریاست حیدر آباد کے کہنے پر بک کمیٹی کے واسطے تحریر کی۔ اس کتابچہ میں پرائمری اور چوتھی جماعت کے طالب علموں کے لئے خطوط نویسی کے رہنما اصول بیان کئے گئے ہیں اور مختلف مراتب کے لوگوں کے لئے خطوں کے نمونوں سے ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ رقعات دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب ٹیکسٹ بک کمیٹی نے قاسم پریس حیدر آباد دکن سے شائع کی۔ لیکن کتاب کہیں بھی سن اشاعت نہیں دیا گیا۔ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام انگریز مصنف ریورنڈ ملکم میکال نے اپنے مضمون’’ کیا زیر حکومت اسلام اصلاحات کا ہونا ممکن ہے؟‘‘ کم پوری ریویواگست1881ء میں تحریر کیا تھا کہ ’’ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے‘‘ مولوی چراغ علی نے اس مضمون کے جواب میں انگریزی میں ایک کتاب بعنوان ’’ ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ تحریر کی تھی جس میں ملکم کے اعتراضات کا جواب دیا تھا جواب کو وزنی اور مدلل بنانے کے لئے قرآن مجید، احادیث اور تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ ملکم کا نظریہ درست نہیں ہے جب کہ اسلام روحانی، اخلاقی اور ذہنی ارتقاء میں آج بھی معاون ہے اور تعلیمات اسلامی ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مولوی چراغ علی نے اپنے خیالات کی تائید میں مغربی مفکرین کی آراء بھی دی ہیں۔ حکیم اسرار احمدکریوی تحریر کرتے ہیں: ’’ کتاب مولوی چراغ علی مرحوم نے ترکی کے سابق خلیفہ سلطان عبدالحمید مرحوم کے لئے لکھی تھی اور اسے انہیں کے نام معنون کیا تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے ’’ ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ کا’’ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔ دراصل ترجمہ کا آغاز خود مولوی چراغ علی نے کیا تھا لیکن یہ ترجمہ ابتدائی اوراق سے آگے نہ بڑھ سکا تھا مولوی عبدالحق نے ’’ اس قدر حصہ اپنے ترجمہ کا خارج کر کے مصنف کا اصل ترجمہ داخل کر دیا۔‘‘ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ مسلمانوں کی سیاسی و قانونی اصلاحات سے تعلق رکھتا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور عروج اور اقتدار میں کون کون سی انقلابی اصلاحات نافذ کیں اور کس طرح غیر مسلموں کو سیاسی آزادیاں عطا کیں اور فوائد پہنچائے مولوی عبدالحق فرماتے ہیں: ’’ مصنف نے اپنی کتاب میں سیاسی، تمدنی اور فقہی اصلاحات کی بنا قرآن پر رکھی ہے اور ان تمام اعتراضات کا جواب دیا ہے جو مخالفین کی جانب سے اسلام پر وارد کئے گئے ہیں نیز ان غلطیوں کو جو مسلمانوں میں رائج ہو گئی ہیں قرآن سے رد کیا ہے۔‘‘ مولوی عبداللہ خان نے اس حصہ کو 1910ء میں مفید عام پریس آگرہ سے شائع کیا تھا۔ دوسرا حصہ مسلمانوں کی تمدنی اصلاحات کے ذکر پر مشتمل ہے اس حصہ میں اسلام میں عورتوں کی حالت، ازدواج، طلاق، غلامی جیسے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مولوی عبدالحق نے نہ صرف اس حصہ کا ترجمہ کیا ہے بلکہ اٹھاسی صفحات کا ایک مقدمہ بھی تحریر کیا ہے یہ مقدمہ دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے میں مولوی چراغ علی کے خاندانی پس منظر، حالات زندگی اور ان کے تصنیفی کارناموں کا ذکر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا چراغ علی اپنے عہد کے بڑے محقق تھے انہیں کئی زبانوں پر عبور تھا نیز انہوں نے عیسائی مشنریوں اور مغربی مفکرین کے ان اعتراضات کے مدلل جواب تحریر کئے ہیں جو وہ سرکار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد کرتے رہے ہیں۔ مولوی صاحب نے اس مقدمہ میں مولانا چراغ علی کی کئی کتب کا بھی تعارف کرایا ہے۔ ان میں تعلیقات (پادری عماد الدین کی کتاب’’ تاریخ محمدی‘‘ کا جواب) تحقیق الجہاد، محمددی ٹرو پرافٹ، اسلام کی دینی برکتیں، قدیم قوموں کی مختصر تاریخ اور زیر بحث کتاب ’’ ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ شامل ہیں۔ مقدمہ کے دوسرے حصے میں مولوی چراغ علی کی کتاب’’ ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ یہ حصہ اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ یہ مولوی عبدالحق کی ہی زیر نگرانی 1911ء میں رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا تھا۔مجموعی اعتبار سے یہ کتاب اسلامی قانون سازی کے لئے بھی اساسی حیثیت رکھتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے بستر مرگ پر اپنی عیادت کے لئے آئے ہوئے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان سے اس کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ اس کتاب میں مولوی چراغ علی مرحوم نے اس سوال پر بڑی مدلل بحث کی ہے کہ فروعی مسائل میں حاکم مجاز کو مفاد ملت کے پیش نظر مناسب ترمیم کا حق حاصل ہے اور خلفائے اسلام کے طرز عمل سے اس کی جا بجا تائید ہوتی ہے۔‘‘ قواعد اردو مولوی عبدالحق صاحب نے یہ کتاب1914ء میں دار الاشاعت انجمن ترقی اردو لکھنو سے شائع کی تھی اور یہ قواعد کی کتاب مولوی عبدالحق صاحب نے اس زمانے میں لکھی تھی جب وہ اورنگ آباد (دکن) کے صدر مہتمم تعلیمات تھے یہ کتاب انگریزی قواعد نویسی کے اصولوں پر مرتب کی گئی تھی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس کتاب کے مقدمہ میں قواعد کی تعریف، تاریخ اور قواعد نگاری بالخصوص مستشرقین کی قواعد نگاری کے ضمن میں ان کی کاوشوں کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ ان لوگوں نے کتنی کاوش و محنت سے اردو زبان کی اس صنف کے لئے خدمات انجام دی ہیں۔ مقدمہ میں قواعد کی ان کتابوں کا بھی ذکر ہے جو مقامی لوگوں نے تحریر کی ہیں قواعد نگاری کے اس تناظر میں مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی قواعد مرتب کرنے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ عموماً ‘‘ اور اکثر کسی زبان کی صرف و نحو اس وقت لکھی گئی ہے جب کہ کسی غیر قوم کو اس زبان کی تحقیق یا اس کے سیکھنے کی ضرورت واقع ہوئی کیوں کہ اہل زبان اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں یہی حال اردو زبان کا ہوا اس کے صرف و نحو اور لغت کی طرف اول اول اہل یورپ نے بضرورت توجہ کی۔ اس کے بعد جب اہل ملک نے یہ دیکھا تو ان کے فائدہ کی غرض سے خود بھی کتابیں لکھنی شروع کیں ۔۔۔۔۔۔ زبان اردو ملک کی عام اور مقبول زبان ہو گئی ہے اور ملک میں کثرت سے بولی جاتی ہے اور ہر جگہ سمجھی جاتی ہے۔۔۔ اس زبان کو کچھ ایسے مقامات کے لوگ بھی پڑھتے اور سیکھتے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ اس لئے یہ ضرورت واقع ہوئی کہ اس زبان کے قواعد منضبط کئے جائیں اور مستند کتابیں لغت پر لکھی جائیں تاکہ زبان بگڑنے سے محفوظ رہے۔ میں نے اس کتاب کو لکھنے میں اس خیال کو مد نظر رکھا ہے اور صرف طلبائے مدارس کی ضرورت کا لحاظ نہیں کیا بلکہ زیادہ تر کتاب ان حضرات کے لئے ہے جو زبان کو نظر تحقیق سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مولوی عبدالحق نے ’’ قواعد اردو‘‘ کو چار فصلوں میں تقسیم کیا ہے۔ فصل اول میں ہجا، اعراب اور حروف شمسی و قمری پر بحث ہے اس فصل میں انہوں نے حروف کی تاریخ بیان کی ہے اور حروف تہجی کی موجودہ صورتوں کی وضاحت ہے۔ دوسری فصل میں علم صرف کا بیان ہے اس حصے میں اسم، اسم کی اقسام، صفت، اس کی مختلف صورتوں، ضمائر اور فعل پر روشنی ڈالی ہے۔ تیسری فصل مرکب الفاظ کے بیان پر مشتمل ہے فصل چہارم کا تعلق نحو سے ہے اس حصہ میں نحو تفصیلی اور نحو ترکیبی کا ذکر ہے اس نحوی تراکیب کے بیان میں انہوں نے انگریزی قواعد کے اصولوں کو مد نظر رکھا ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ انگریزی نحو (Syntax) کے ان عناصر کو جو اردو میں پورے اترتے ہیں اپنی قواعد میں شامل کر لیا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے قواعد کے آغاز میں الفاظ کی تعریف کی ہے اور پھر ان کی اقسام کی بحث کو چھیڑا ہے آخر میں رموز و اوقاف (Punctuations) کے اصول بتائے ہیں۔ قواعد اردو کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے ہیں1936ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1940ء میں انجمن ترقی اردو دہلی نے اس کے ایڈیش شائع کئے 1951ء میں مولوی عبدالحق نے اس پر نظر ثانی کر کے مزید اضافوں کے ساتھ انجمن ترقی اردو پاکستان کے تحت شائع کی 1975ء اور 1981ء میں انجمن ترقی (ہند) نے دہلی سے شائع کی جب کہ عبدالحق اکیڈمی دہلی، ادبی دنیا دہلی اور ناز پبلشنگ ہاؤس دہلی نے بھی اسے طبع کیا لیکن سن اشاعت تحریر نہیں کیا۔ لاہور سے لاہور اکیڈمی نے اس کا ایک نیا ایڈیشن 1987ء میں شائع کیا۔ قواعد اردو سے ماخوذ کچھ حصے الگ الگ ناموں سے بھی شائع ہوتے رہے۔1923ء میں’’ مختصر قواعد اردو‘‘ علی گڑھ سے شائع ہوئی جب کہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے 1937ء میں اور اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے 1969,1961ء میں’’ اردو صرف و نحو‘‘ کے عنوان سے مولوی عبدالحق صاحب کی کتابیں شائع کیں۔ دریائے لطافت ’’ دریائے لطافت‘‘ مرزا قتیل اور سید انشا صاحبان کی مشترکہ فارسی تصنیف ہے یہ کتاب 1222ھ مطابق 1802ء میں تالیف ہوئی تھی اور 1848ء مطبع آفتاب عالم مرشد آباد میں بہ تصحیح و اہتمام مسیح الدین خان بہادر کاکوری شائع ہوئی تھی۔ اس مایہ ناز کتاب کو 1916ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے مرتب کر کے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کی طرف سے الناظر پریس لکھنو سے شائع کیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ اس میں اردو صرف و نحو تو سید انشاء اللہ انشا کی تصنیف ہے اور دوسرا حصہ یعنی منطق، عروض و قافیہ و معانی مرزا محمد احسن قتیل کا تالیف کیا ہو اہے۔ کتاب کی جان پہلا ہی حصہ ہے۔ اگرچہ اس سے قبل بعض اہل یورپ نے متعدد کتابیں اردو قواعد پر لکھی تھیں لیکن یہ پہلی کتاب ہے جو ایک ہندی اہل زبان نے اردو صرف و نحو پر لکھی اور حق یہ ہے کہ عجیب جامع اور بے مثل کتاب ہے۔ اردو زبان کے قواعد، محاورات اور روز مرہ کے متعلق اس سے پہلے کوئی ایسی مستند اور محققانہ کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔‘‘ دریائے لطافت مندرجہ ذیل نو ابواب پر مشتمل ہے: 1اردو زبان کی کیفیت 2دھلی کے مختلف فرقوں اور محلوں کی زبان 3دھلی کے روز مرہ اور محاورے (بالخصوص عورتوں کے محاورے) 4حرف کا بیان (فعل کے صیغے ) 5نحو (اسم کا بیان) 6فعل 7حرکت و سکون 8فن بیان 9علم بدیع و اصناف شعر مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمہ میں سید انشاء اللہ خان انشا کی اس لسانی خدمت کا بھر پور تجزیہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ سید انشاء نے دوسرے صرفیوں اور نحویوں کی طرح (حالانکہ وہ بعد میں ہوئے ہیں) آنکھوں پر پٹی باندھ کر عربی فارسی کی تقلید نہیں کی بلکہ انہوں نے زبان کی فطرت اور ساخت کو سمجھ کر اس کے اصول قائم کئے ہیں ان کی حیثیت مقلد کی نہیں بلکہ مجتہد کی ہے انشا کی یہ آزادی نظر سب سے زیادہ قابل تعریف ہے۔‘‘ دوسری مرتبہ 1936ء میں مولوی عبدالحق نے ’’ دریائے لطافت‘‘ کو پنڈت برجموہن و تاتریہ کیفی دھلوی کے ترجمہ اور اپنے مقدمہ کے ساتھ انجمن ترقی اردو (ہند) اورنگ آباد سے شائع کیا جس میں پنڈت کیفی صاحب کا دیباچہ بھی شامل ہے۔ پنڈت صاحب لکھتے ہیں: ’’ دریائے لطافت کا سن تالیف انیسویں صدی عیسوی کا آٹھواں برس ہے۔ اس زمانہ میں اور یورپ کی زبانوں اور علم و ادب سے نا واقف محض ہونے کے باوجود سید انشا کا یہ کتاب تصنیف کرنا اواس کی یہ پرداز رکھنا، ان کی دقت نظر اور سائنٹیفک تنقید اس روشنی کے زمانے میں محیر العقول ہے۔‘‘ الغرض سید انشاء صاحب وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اردو زبان کی اصل اور ہیئت پر تحقیق کی اور ’’ دریائے لطافت‘‘ جیسی یادگار تالیف چھوڑی۔ انتخاب کلام میر مولوی عبدالحق نے 1921ء میں میر تقی میر کے کلام کا انتخاب مرتب کیا اور اسے ’’ انتخاب کلام میر‘‘ کے نام سے طبع کرایا۔ اس میں152صفحات پر مشتمل کلام اور 40صفحات کا مقدمہ ہے مقدمے میں میر کے ذاتی احوال کے علاوہ ادب میں ان کا مرتبہ و مقام متعین کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کا خیال ہے: ’’ کسی شاعر کے کلام پر اس کی طبیعت اور سیرت کا اس قدر اثر نہ پڑا ہو گا جتنا میر کے کلام میں نظر آتا ہے۔‘‘ اور اس نظریہ کی بنیاد پر مولوی عبدالحق نے میر تقی میر کے مخفی اور ظاہر حالات زندگی، ان کے خاندان و وطن، ان کی دلی میں آمد اور خان آرزو سے تعلقات ان کی پریشان حالی، دلی کی بربادی پر لکھنو کی طرف ہجرت اور وہاں کے روز و شب اور میر کی آشفتہ مزاجی وغیرہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مرتب نے ابتدا غزلیات سے کی ہے اور ان کی ردیف کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے اس کے بعد قطعات، رباعیات اور مستزاد ہندی ہیں۔ مخمسات میں مخمس در شہر گاما گفتہ شدہ اور شہر آشوب ہے، اور مثنویات میں جھوٹ، گھر کا حال، در ہجوخانہ خود، جوش عشق دنیا، مناجات در تعریف عشق اور خواب و خیال شامل ہیں۔ مولوی عبدالحق نے میر تقی میر کے بعض اردو اشعار کا شیخ سعدی کے ایسے فارسی اشعار سے موازنہ کیا ہے جو موضوع یا مفہوم کے اعتبار سے مماثلت رکھتے ہیں اور میر تقی میر کے کلام پر مجموعی تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے لکھا ہے: ’’ میر صاحب کی رباعیات میں کچھ کم لطف نہیں اور بعض تو بہت اچھی ہیں ان کے علاوہ متفرق مخمس، مستزاد اور فرد وغیرہ ہیں۔ لیکن میر کا اصل رنگ غزل میں ہی پایا جاتا ہے اور اس میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ کتاب 1921ء میں دائرۃ الافادہ حیدر آباد میں سے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے شائع کرائی تھی۔ مثنویٰ خواب و خیال میرا اثر کی یہ مثنوی مولوی عبدالحق صاحب نے پہلی مرتبہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) کے زیر اہتمام 1926ء میں مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کی تھی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے ناظر پرنٹنگ پریس کراچی سے نستعلیق میں1950ء میں شائع کیا گیا۔ میراثر، خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی تھے۔ مختلف تذکروں میں ان کا ذکر آیا ہے۔ تفصیلی حالات نہیں ملتے تاہم ہر کسی نے یہی لکھا ہے کہ یہ خواجہ میر درد کی طرح درویش صفت تھے اور گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے تھے اپنے بھائی میر درد کے مرید تھے اور سخن وری میں ان سے ہی تلمذ حاصل کیا تھا۔ قدرت اللہ شوق نے اپنے تذکرے ’’ طبقات الشعرائ‘‘ میں ان کا نام’’ میر محمدی‘‘ اور تخلص اثر لکھا ہے لیکن شوق کے علاوہ ہر تذکرہ نگاہ نے ان کا نام میر محمد لکھا ہے۔ صاحب تذکرہ ’’ گلشن ہند‘‘ نے ان کا ذکر ذرا تفصیل سے کیا ہے اور نمونہ کلام کے علاوہ ان کی مثنویٰ کے چند اشعار بھی دئیے ہیں مرزا علی لطف کا بیان ہے: ’’ اثر تخلص، میر محمد نام، شاہ جہاں آبادی، چھوٹے بھائی تھے خواجہ میر درد مرحوم کے واقف تھے فن تصوف سے اور آگاہ تھے علم معرفت سے بطور درویشاں صاحب معنی کے گوشہ نشینی اختیار کی تھی اور درد اثر کے ساتھ نہایت طبیعت ہموار تھی بھائی اپنے سے انہوں نے کسب کمال کا کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کلام ان کا چاشنی سے درد اثر کی آشنا ہے۔ ایک مثنویٰ بہت طولانی بیان عشق میں ان کی تصنیف ہے۔‘‘ میرا ثر کی یہ مثنوی کمیاب تھی لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے دو نسخوں کی مدد سے مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ ٹائپ میں شائع کی تھی مثنویٰ کا متن 135صفحات پر پھیلا ہوا ہے 16 صفحات کا مقدمہ اور ایک صفحہ غلط نامہ اس کے علاوہ ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے جن دو نسخوں کی مدد سے اس مثنویٰ کو مرتب کیا ہے اس میں سے ایک ان کے بڑے بھائی شیخ ضیا الحق صاحب نے انہیں فراہم کیا تھا جب کہ دوسرا نسخہ انجمن اصلاح زیسنہ (بہار) کے کتب خانے سے مولوی نجیب اشرف نے روانہ کیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمہ میں میر اثر کا تعارف کراتے ہوئے ان کے کلام کی قدر و قیمت پر روشنی ڈالی ہے اور میر اثر کی مثنویٰ ’’ خواب و خیال‘‘ اور مرزا شوق کی مثنویٰ ’’ بہار عشق‘‘ کے اشعار کا مقابلہ و موازنہ کر کے ثابت کیا ہے: ’’ اگر دونوں مثنویوں کے اس قسم کے اشعار برابر برابر رکھ کر پڑھے جائیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ مرزا شوق نے ’’ خواب و خیال‘‘ ہی کو اپنا نمونہ بنایا ہے۔‘‘ ’’ مثنویٰ خواب و خیال‘‘ ایسی مثنویٰ ہے جس میں کوئی مسلسل قصہ نہیں مختلف کیفیات و واردات قلبی بیان کی گئی ہیں اور محبوب کا سراپا کھینچا گیا ہے۔ موئے سر سے کف پا تک ہر ہر عضو پر مضمون باندھے گئے ہیں۔ مثنوی کا آغاز حمد و نعت سے ہوتا ہے اور اختتام پر مناجات دی گئی ہے۔ مناجات سے قبل ایک قطعہ اور ترجیع بند ہے جس میں میر اثر نے اپنے کلام پر خواجہ درد کے اثرات و تاثرات بیان کئے ہیں اور در کو اپنا پیر و خواجہ بتایا ہے۔ چمنستان شعرا رائے لچھمن نرائن شفیق کا تعلق لاہور کے کھتری خاندان سے تھا ان کے جد عالم گیری لشکر کے ہمراہ دکن آ گئے تھے۔ شفیق کے والد رائے منسا رام، نواب نظام الملک آصف جاہ کے عہد میں پیشکار و صدر نشین دکن تھے۔ وہ خود بھی صاحب تصنیف تھے اور ان سے ’’ ماثر نظامی‘‘ اور ’’ قانون دربار آصفی‘‘ منسوب ہے۔ شفیق 1185ء میں پیدا ہوئے اور گیارہ سال کی عمر سے شعر کہنے لگے ابتدا میں ’’ صاحب‘‘ تخلص کرتے تھے، لیکن بعد میں تبدیل کر دیا وہ لکھتے ہیں: ’’ اب کہ میری عمر اٹھارہ سال کی ہے، مجھے یہ معلوم ہوا کہ ایک صاحب میر محمد مسیح کا تخلص فارسی میں صاحب ہے، تو میں نے میر صاحب قبلہ (آزاد بلگرامی) سے تخلص کی التجا کی ۔ آپ نے از راہ شفقت، شفیق، تخلص عطا فرمایا۔‘‘ شفیق اردو و فارسی کے شاعر ہونے کے علاوہ صاحب تصنیف بھی تھے اور انہوں نے شعراء کے تذکرے اور تاریخی کتب تحریر کی تھیں۔ 1928ء میں مولوی عبدالحق نے ان کا تذکرہ ’’ چمنستان شعرا‘‘ نسخ میں اورنگ آباد سے شائع کیا تھا۔ تذکرے میں213شعراء کا بیان ہے۔ شعرا کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے دئیے ہیں تذکرے کا آغاز سراج الدین خاں آرزو سے کیا ہے اور خاتمہ پر سید غلام کا حال درج ہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمے میں رائے لچھمن نرائن شفیق کی دوسری تصانیف کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ان میں تاریخی کتب’’ حقیقت ہائے ہندوستان‘‘ ’’ تنبیق شگرف‘‘ مآثر آصفی’’ بساط الغنائم‘‘ اور’’ حالات حیدر آباد‘‘ شامل ہیں اور تذکرے’’ شام غریباں‘‘ ’’ گل رعنا‘‘ اور’’ چمنستان شعرائ‘‘ ہیں’’ چمنستان شعرائ‘‘ پر تفصیلی بحث کی ہے اور اس کا مرتبہ و مقام متعین کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’ شفیق نے یہ تذکرہ اٹھارہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور بغیر کسی کی مدد کے بہت تھوڑے عرصے میں ختم کر دیا ہے۔ اس عمر میں ایسی اچھی کتاب کا تالیف کرنا اعجاز سے کم نہیں ہے۔ کتاب کا نام’’ چمنستان شعرائ‘‘ تاریخی ہے اور اس سے 1175ھ سن تالیف نکلتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس نسخے کو کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد (دکن) کے مخطوطے کی مدد سے مرتب کیا تھا انہوں نے اپنے مقدمے میں رائے لچھمن نرائن شفیق کا کچھ کلام مع اپنے تبصرے کے بطور نمونہ بھی شامل کیا ہے۔ یہ کتاب انجمن ترقی اردو نے مطبع انجمن اورنگ آباد سے 1928ء میں شائع کی تھی۔ ذکر میر مولوی عبدالحق صاحب نے 1928ء میں میر تقی میر کی خود نوشت سوانح عمری انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سے ٹائپ میں شائع کی تھی جس پر انہوں نے ایک مقدمہ بھی تحریر کیا تھا۔ یہ خود نوشتہ سوانح عمری گوشہ گمنامی میں تھی۔ صرف ڈاکٹر سپونگر کی فہرست میں اس کا ذکر ملتا تھا۔ لیکن اتفاق سے 1222ھ (1808ئ) میں مولوی عبدالحق صاحب کو اس کا ایک کتابت شدہ نسخہ مسلم ہائی اسکول اٹاوہ کے بانی مولوی بشیر الدین صاحب سے مل گیا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اسے مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا جب پروفیسر محمد شفیع پرنسپل اورئینٹل کالج لاہور کو مولوی عبدالحق صاحب کے منصوبے کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنی ملک میں ایک دوسرے نسخہ کی اطلاع دی اور مولوی عبدالحق صاحب کو مستعار روانہ کیا۔ مولوی عبدالحق نے ان دونوں نسخوں کی مدد سے ’’ ذکر میر‘‘ مرتب کیا ان دونوں نسخوں کا موازنہ کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ پروفیسر صاحب کا نسخہ اچھا لکھا ہوا نہیں ہے جیسا اٹاوے کا ہے اور ناقص بھی ہے یعنی ایک چوتھائی سے زائد کم ہے معلوم ہوتا ہے کہ آخری حصہ میر صاحب نے بعد میں بڑھایا ہے چنانچہ لکھنو جانے کا حال لاہور کے نسخہ میں مطلق نہیں۔ جہاں کہیں ان دونوں نسخوں کی عبارت میں اختلاف تھا، اس اختلاف کو ہم نے حاشے میں (ن) کا نشان کر کے لکھ دیا ہے۔‘‘ ’’ ذکر میر‘‘ میر تقی میر نے فارسی میں رقم کیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس کی زبان فارسی ہی رہنے دی البتہ مضامین کے عنوانات شامل نسخہ نہیں تھے جو مولوی عبدالحق صاحب نے مرتب کرتے وقت تحریر کر دئیے ہیں۔ مشکل الفاظ اور محاورات کے معنی جس انداز سے میر تقی میر نے دئیے تھے، ویسے ہی چھاپ دئیے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے اس مقدمہ میں’’ ذکر میر‘‘ کی روشنی میں میر تقی میر کے حالات درج کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ’’ ذکر میر‘‘ وہ داخلی شہادت ہے جس کی روشنی میں میر تقی میر کے سلسلے میں مبالغہ، قیاس آرائیوں اور حکائتوں کی دھند صاف ہونے میں مدد ملی ہے۔ ’’ ذکر میر‘‘ سے میر کے خاندانی پس منظر، حالات زندگی، عادات و اطوار، آشوب زندگی اور اس کے رد عمل پر روشنی پڑتی ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ اس کتاب میں بعض مقامات ایسے آتے ہیں کہ اس کے پڑھنے کے بعد ان کی بعض نظموں کی اصل حقیقت معلوم ہوتی ہے اور لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔‘‘ ’’ ذکر میر‘‘ تاریخی نام ہے میر تقی میر نے اپنی اس کتاب کا قطعہ تاریخ خود لکھا تھا جس سے ان کی خود نوشت کا سال اتمام معلوم ہوتا ہے بقول مولوی عبدالحق: ’’ کتاب کا نام’’ ذکر میر‘‘ ہے جس کے عدد1170ھ ہوتے ہیں اس میں 27ملائیے تو سن تالیف1197ھ ہوئے۔‘‘ کتاب کی تالیف کے وقت میر تقی میر نے اپنی عمر ساٹھ سال بتائی ہے۔ جس سے مولوی عبدالحق صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ میر تقی میر کا سن پیدائش تقریباً1137ھ ہے۔ مخزن نکات شیخ محمد قیام الدین قائم قصبہ چاند پور، ضلع بجنور (روھیل کھنڈ) کے رہنے والے تھے اور ملازمت کے سلسلے میں عرصہ دراز تک دلی میں رہے۔ مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے: ’’ اگرچہ قائم چاند پور کے رہنے والے تھے لیکن ملازمت کے سلسلے میں ’’ بدو شعور‘‘ سے ان کا رہنا دلی میں ہوا شاہ عالم بادشاہ کے عہد میں وہ شاہی توپ خانے کے داروغہ ہو گئے۔‘‘ دلی زیر و زبر ہوتی ہی رہتی تھی ان کے عہد میں بھی ایسا ہی ہوا اور وہ دلی چھوڑ کر بجنور، ٹانڈہ اور رام پور میں تلاش معاش کے لئے سرگرداں رہے اور آخر1208ھ مطابق1793ء رام پور میں انتقال ہوا سن پیدائش محقق نہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اقتدا حسن کے اندازے کے مطابق ’’ قائم کی پیدائش1135ھ اور 1138ھ (1723ء اور 1726ئ) کے درمیان ہوئی ہے۔‘‘ قائم نے اپنے قیام دلی کے زمانے میں ایک تذکرہ شعرائے اردو رقم کیا تھا۔ جس کی تاریخ آغاز اور تاریخ اختتام انہوں نے کہیں درج نہیں کی، تاہم خواجہ اکرام کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ اکرام نے ایک قطعہ میں مخزن نکات سے اس تذکرے کی تاریخ1128ھ نکالی تھی اور یہی نام انہوں نے اپنے تذکرہ شعرائے اردو کے لئے پسند کر لیا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری تحریر کرتے ہیں: ’’ تذکرے کے مختلف تراجم کی روشنی میں محققین نے یہ رائے قائم کی ہے کہ مخزن نکات کا آغاز1168ھ سے بہت پہلے ہو چکا تھا اور مولف نے 1168ھ کے بعد تک اس میں اضافے کئے ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس تذکرے کے آغاز میں25صفحات کا ایک مقدمہ مع180 اشعار ایک رباعی اور ایک قطعہ تحریر کیا ہے مقدمے میں قائم کے حالات زندگی، ان کے اساتذہ اور تذکرہ کی تالیف پر روشنی ڈالی ہے۔ مقدمہ ٹائپ میں ہے باقی صفحات لیتھو پر خط نستعلیق میں شائع ہوئے ہیں، جو اصل متن اور مختصر سے صحت نامے پر مشتمل ہیں قائم نے اس تذکرے میں شعراء کے تین طبقات بنائے ہیں: طبقہ اول میں عرائے متقدمین کا بیان اور اشعار ہیں طبقہ دوم میں شعرائے متوسطین کا ذکر ہے طبقہ سوم میں شعرائے متاخرین کا تذکرہ ہے اس تذکرے میں صرف67شعرا کو شامل کیا گیا ہے آخری شاعر مولف خود ہیں ہر شاعر کے حالات کے ساتھ اس کے کلام کا انتخاب بھی دیا ہے۔ اس کتاب کو انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے انجمن کے مطبع خانہ سے 1929ء میں شائع کیا۔ دیوان اثر مولوی عبدالحق نے خواجہ میر اثر کے دیوان کا زیادہ حصہ دو قلمی نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے۔ ایک نسخہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے کتب خانے میں تھا جو انہیں ڈاکٹر ذاکر حسین خان نے مستعار دیا تھا اور دوسرا کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن سے فرحت اللہ بیگ نے نقل کر کے بھیجا تھا۔ باقی کلام مولوی عبدالحق نے مختلف تذکروں اور دوسرے ذرائع سے جمع کیا تھا۔ اس دیوان میں100غزلیں، 65رباعیات اور44متفرق مطلعے ہیں سب سے زیادہ غزلیں ردیف’’ ی‘‘ کی ہیں جن کی تعداد66ہے، ردیف’’ الف‘‘ میں24اور ردیف’’ ک‘‘ میں دو ہیں ب، ت،ث، ج، ح، د اور’’ ل‘‘ کی ردیف میں ایک ایک غزل ہے۔ ردیف’’ ن‘‘ میں بھی ایک نا مکمل غزل ہے دیوان کا آغاز ایک ایسی غزل سے ہوتا ہے ، جس میں اثر نے حمد، نعت اور منقبت کو سمو دیا ہے اثر نے چھوٹی بحرین استعمال کی ہیں زبان سلیس ہے اور بیان میں بے ساختگی، مولوی عبدالحق نے اس کے کلام کے اسلوب و انداز کا موازنہ میر تقی میر کے کلام سے کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کو تلاش کے باوجود اثر کے حالات زندگی نہ مل سکے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’’ افسوس ہے کہ اثر کے حالات کہیں نہیں ملتے اس سے قبل ان کا کلام بھی مفقود تھا۔ بارے غنیمت ہے کہ اب ان کا کلام مل گیا ہے۔ مثنوی پہلے چھپ چکی ہے۔ اب دیوان شائع کیا جاتا ہے۔ دونوں نہایت قابل قدر ہیں۔ اردو کی بڑی بد قسمتی ہوتی اگر یہ گمنامی میں پڑے رہتے اور شائع نہ ہوتے، یہی ان کی کائنات ہے اور اس میں ان کی حیات کا سارا سرمایہ ہے۔ اگر ان کی زندگی کے حالات معلوم نہیں تو نہ ہوں۔ ان کے کلام کامل جانا بہت بڑی فتح ہے۔ اردو کے دلدادہ کے لئے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔‘‘ انجمن ترقی اردو (ہند) اورنگ آباد نے یہ دیوان مسلم یونی ورسٹی پریس علی گڑھ سے 1930ء میں شائع کیا۔ باغ و بہار میرا من دھلوی کی ’’ باغ و بہار‘‘ اردو ادب کی لافانی تصنیف ہے جس کی ابدیت کے لئے میر امن دہلوی نے دعوے کیا ہے: خزاں کا نہیں اس میں آسیب کچھ ہمیشہ تروتازہ ہے یہ بہار مرے خون دل سے یہ سیراب ہے اور لخت جگر ہیں سب برگ و بار مجھے بھول جاویں گے سب بعد مرگ رہے گا مگر یہ سخن یادگار اس تالیف کو جان گلکرسٹ اور میرا من دہلوی دونوں نے فارسی سے ترجمہ بتایا ہے اور اس کا مصنف امیر خسرو کو قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے اپنے مختصر سے مقدمہ میں اس کا تعارف اس طرح کرایا ہے: ’’ اس کی تصنیف کا سبب یہ ہے کہ ایک دفعہ امیر خسرو کے پیرو مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی طبیعت نا ساز ہوئی تب دل بہلانے کے لئے امیر خسرو نے یہ قصہ فارسی زبان میں رقم کیا اور اس کا نام ’’ نو طرز مرصع‘‘ رکھا اردو میں اس کا ترجمہ سب سے پہلے میر حسین عطا خان تحسین نے کیا اور اس کا نام نو طرز مرصع رکھا لیکن اردو زبان کے ایک معیاری نمونے کی حیثیت سے ان کا ترجمہ ناقص قرار پایا کیونکہ اس میں عربی اور فارسی کے فقروں اور محاوروں کی بہتات ہے۔ اس نقص کو دور کرنے کے لئے میرا من عالم و فاضل دلی والے نے جو کہ فورٹ ولیم کالج سے وابستہ ہیں عطا خان تحسین کے ترجمے سے یہ نیا اسلوب (Version) نکالا ہے۔‘‘ میرا من دھلوی نے بھی جان گلکرسٹ کی اس بیان کی تائید اس طرح کی ہے: ’’ اب خداوند نعمت، صاحب مرو، نجیبوں کے قدر دان جان گلکرسٹ صاحب نے (کہ ہمیشہ اقبال ان کا زیادہ رہے، جب تک گنگا جمنا بہے) لطف سے فرمایا کہ اس قصہ کو ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ، ہندو مسلمان، عورت مرد، لڑکے بالے، خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں ترجمہ کرو موافق حکم حضور کے میں نے بھی اس محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے میرا من دھلوی کی ’’ باغ و بہار‘‘ پر1930ء میں توجہ دی اور اس پر ایک تفصیلی مضمون رسالہ ’’ اردو‘‘ کے جولائی 1930ء کے شمارے میں شائع کیا بعد میں جب مولوی صاحب نے ’’ باغ و بہار‘‘ مرتب کی تو اس مضمون کو بطور مقدمہ شامل کتاب کر لیا۔ مولوی عبدالحق نے جان گلکرسٹ کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ ’’ باغ و بہار‘‘ کا قصہ امیر خسرو کی چہار درویش سے ماخوذ ہے اور تحقیق کی ہے اس تالیف کا ماخذ صرف محمد حسین عطا خان تحسین اٹاوے والے کی تصنیف’’ نو طرز مرصع‘‘ ہے مولوی عبدالحق نے امیر خسرو سے منسوب تصنیف کی تردید جن بنیادوں پر کی ہے ان میں پہلی دلیل یہ دی ہے کہ امیر خسرو کی تصانیف میں کہیں بھی قصہ چہار درویش کا تذکرہ نہیں ملتا، دوسرے آغاز قصہ میں جو ’’ حمد‘‘ ہے اس کے مقطع میں’’ صفی‘‘ تخلص آیا ہے جو خسرو کا نہیں بلکہ کسی غیر معروف شاعر کا ہے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ خسرو جیسے زبردست اور پر گو شاعر سے یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی غیر معروف شاعر کی نظم حمد سے نقل کرتے، یہ ان کی طبیعت سے بعید معلوم ہوتا ہے اس سے یہ شبہ اور بھی قوی ہو جاتا ہے کہ یہ قصہ امیر خسرو کا لکھا ہوا نہیں تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے فارسی قصہ، نو طرز مرصع اور میرا من دھلوی کی باغ و بہار کے بعض حصوں سے عبارتوں کا مقابلہ اور موازنہ کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ میرا من کی باغ و بہار فارسی سے ترجمہ نہیں بلکہ اس کا ماخذ ’’ نو طرز مرصع‘‘ ہے اور بعض بعض مقامات پر جملے کے جملے اور الفاظ بھی وہی ملتے ہیں جو نو طرز مرصع کے ہیں مولوی صاحب کا کہنا ہے: ’’ تعجب اس بات کا ہے میرا من نے فارسی کتاب اور اس کے ترجمے کا تو ذکر کیا مگر نو طرز مرصع کا ذکر صاف اڑا گئے‘‘ مولوی عبدالحق کی یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ میرا من کی باغ و بہار کے سر ورق پر ہی درج ہے: ’’ باغ و بہار تالیف کیا ہوا میرا من دلی والے کا ماخذ اس کا نو طرز مرصع کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خان کا ہے فارسی قصہ چہار درویش سے۔‘‘ مولوی عبدالحق کے پیش نظر غالباً کوئی ایسا نسخہ تھا جس پر یہ سر ورق نہیں ہو گا اس کے باوجود مولوی صاحب موصوف نے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ ان کی تحقیقی صلاحیتوں اور بصیرت کے ترجمان ہیں۔ مقدمات عبدالحق (حصہ اول) مرزا محمد بیگ نے مولوی عبدالحق صاحب کے تحریر کردہ14مقدمات مولانا محمد حبیب الرحمان صاحب کے مقدمہ اور اپنے تحریر کئے ہوئے دیباچہ کے ساتھ بسلسلہ مطبوعات مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد (دکن) سے 1931ء میں شائع کئے تھے۔ مولانا محمد حبیب شیروانی صاحب نے ان مقدمات کی تعریف کرتے ہوئے اپنے مقدمہ میں تحریر کیا تھا: ’’ مولوی صاحب اپنے موضوع پر قلم اس وقت اٹھاتے ہیں جب اس پر پورا عبور حاصل کر لیتے ہیں نہ صرف کتاب پر بلکہ مصنف پر اور موضوع پر، اس لئے ان کے مقدمات میں یہ سہ گانہ پہلو روز روشن کی طرح عیاں نظر آتا ہے۔‘‘ مرزا محمد بیگ صاحب نے اپنے دیباچہ میں مولوی عبدالحق صاحب کے مقدمات کی قدر و منزلت کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب کے مقدمات ان کے لئے باعث کشش ہوئے انہوں نے ان مقدموں کو مرتب کرنا چاہا تو مولوی عبدالحق بہ مشکل اس بات پر رضا مند ہوئے پھر ان مقدمات پر مقدمہ لکھنے کے لئے اسی معیار کی شخصیت کی تلاش ہوئی۔ آخر نظر انتخاب مولانا محمد حبیب الرحمان شیروانی صاحب پر پڑی۔ مرزا محمد بیگ صاحب نے مقدمات عبدالحق پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ مولوی صاحب کا ہر وہ مقدمہ جو عموما ہر ٹکسالی کتاب پر مرتب ہوا ہے اپنا مرتبہ آپ حاصل کر چکا ہے بقول مولوی عبدالحق صاحب کے وہ ’’ مقدمہ باز‘‘ مشہور ہو چکے ہیں یہ لقب علمی معنی میں ایک ایسی خصوصیت رکھتا ہے کہ اردو مقدمہ نویسی کے فن میں مولوی صاحب کو زمانہ ہمیشہ معلم اول سمجھتا رہے گا۔‘‘ مرزا محمد بیگ نے ان چودہ مقدمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: الف اسلامیات ب سائنس و فلسفہ ج تاریخ و تذکرہ ’’ مقدمات عبدالحق‘‘ میں مندرجہ ذیل مقدمات شامل ہیں: 1اعظم الکلام فن ارتقاء الاسلام مصنف: مولوی چراغ علی مترجم: مولوی عبدالحق ناشر: مولوی عبداللہ خان کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد (دکن) مولوی چراغ علی صاحب نے یہ کتاب انگریز مصنف ریورنڈ ملکم کے اس مضمون کے جواب میں جو’’ ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا تھا، لکھی تھی جس میں اس نے تحریر کیا تھا کہ اسلام دور جدید کی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ہے مولوی عبدالحق صاحب نے نہ صرف مولوی چراغ علی صاحب کی اس کتاب کا ترجمہ کیا بلکہ دو حصوں پر مشتمل ایک مقدمہ بھی لکھا مقدمہ کے پہلے حصہ میں مولوی چراغ علی صاحب اور ان کی دیگر تصانیف کا تعارف ہے اور دوسرے میں متذکرہ کتاب کے نفس مضمون کو زیر بحث لائے ہیں۔ کتاب کے حصہ دوم میں بھی یہی مقدمہ جوں کا توں شامل ہے اس کتاب کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ یہ مولوی عبدالحق صاحب ہی کی نگرانی میں رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے 1911میں شائع ہوئی۔ 2تحقیق الجہاد مصنف:مولوی چراغ علی مترجم: مولوی غلام الحسنین ناشر:مولوی عبداللہ خان طابع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور سن اشاعت:1913ء 3معراج العاشقین مصنف: سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو درازؒ مرتب: مولوی عبدالحق ناشر: غلام محمد انصاری وفا مدیر’’ تاج‘‘ حیدر آباد طابع: تاج پریس حیدر آباد دکن سن اشاعت: 1343ھ 1943-ء 1 یہ کتاب امریکی مصنف واشنگٹن اورنگ کی اس کتاب کے جواب میں ہے جس میں اس نے تحریر کاے تھا کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا کتاب میں ثابت کیا ہے کہ حضور کریم ؐ کے تمام غزوات دفاعی تھے اور صحابہ نے مدافعت میں جہاد کئے ضمیمہ کا ترجمہ مولوی عبدالغفور صاحب نے کیا ہے۔ 2 ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کا دعوی ہے کہ خواجہ گیسو دراز’’ معراج العاشقین‘‘ کے مصنف نہیں ہے وہ لکھتے ہیں’’ اب یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ گیارھویں صدی ہجری کے اواخر یا بارھویں صدی ہجری کے اوائل کی تصنیف ہے اور اس کے مصنف مخدوم شاہ حسینی بیجا پوری ہیں۔‘‘ 4معرکہ مذہب و سائنس مصنف:ڈاکٹر جان ولیم ڈربیر مترجم: مولوی ظفر علی خان طابعـ: رفاہ عام پریس لاہور سن اشاعت1910ء 5مبادی سائنس مترجم: مولوی معشوق حسین خان ناشر: انجمن ترقی اردو حیدر آباد (دکن) طابع: مطبع اختر حیدر آباد(دکن) سن اشاعت1910ء 6مشاہیر یونان و روما مصنف: پلوٹارک مترجم: سید ہاشمی فرید آبادی ناشر: اجمن ترقی ہند، دہلی طابع: مفید عام پریس لاہور سن اشاعت1943ء 7جنگ روس و جاپان مصنف:ـ مولوی ظفر علی خان ناشر: مطبع اختر حیدر آباد دکن طابع: مطبع اختر حیدر آباد (دکن) سن اشاعت1905ء 8حیات النذیر تالیف: مولوی سید افتخار عالم مارھروی طابع: شمسی پریس دھلی سن اشاعت1912ء 9تذکرہ گلشن ہند مصنف: مرزا علی لطف مرتبہ: مولوی شبلی نعمانی ناشر:ـ عبداللہ خان، کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد (دکن) طابع: رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سن اشاعت1906ء 10ماثر الکرام مصنف: مولانا غلام علی آزاد بلگرامی ناشر: کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد (دکن) طابع: مفید عام پریس آگرہ سن اشاعت1910ء 1328ء 11تذکرہ مخزن نکات مصنف: محمد قیام الدین قائم چاند پوری مرتبہ: ملوی عبدالحق ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابعـ:مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سن اشاعت1929ء 12چمنستان شعراء مصنفـ: لچھمن نرائن شفیق اورنگ آبادی مرتبہ: مولوی عبدالحق ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سن اشاعت1928 13ذکر میر مصنف: میر تقی میر مرتبہـ: مولوی عبدالحق ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) طابع: انجمن اردو پریس اورنگ آباد (دکن) 14تمدن ہند مصنف: موسیو گستالیبان مترجم: مولوی سید علی بلگرامی ناشر: شمسی پریس آگرہ طابع: مطبع شمسی آگرہ سن اشاعت1913ء مقدمات عبدالحق(حصہ دوم) یہ حصہ اول سے پیوستہ ہے، اس لئے اس میں کوئی مقدمہ یا دیباچہ نہیں ہے یہاں تک کی فہرست کا سلسلہ بھی حصہ اول کی ترتیب سے آگے بڑھا ہے۔ مثلاً حصہ اول کی فہرست میں مقدمات کی تقسیم الف، ب، ج ہے تو اس میں د،ھ ،و وغیرہ یہ حصہ بھی سلسلہ مطبوعات ابراھیمیہ حیدر آباد (دکن)220کے تحت شائع ہوا تھا متن212صفحات پر پھیلا ہوا ہے کتاب کے آخر میں8صفحات کا غلط نامہ ہے کتاب مندرجہ ذیل مقدمات پر مشتمل ہے: 1انتخاب کلام میر مولفہ: میر تقی میر مرتبہـ مولوی عبدالحق ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع: ادارہ الافادہ حیدر آباد (دکن) سن اشاعت1921ء 2مسدس حالی مصنف: الطاف حسین حالی مقدمہ و تنقید: مولوی عبدالحق ناشر: دار الاشاعت کانپور طابع: نامی پریس کانپور سن اشاعت1929ء 3دیوان اثر مولفہ، محمد میر اثر مرتبہ: مولوی عبدالحق ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع:ـ مسلم یونی ورسٹی پریس علی گڑھ سن اشاعت1930ء 4مثنوی خواب و خیال مولفہ: محمد میر اثر مرتبہ: مولوی عبدالحق ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابعـ :ا نجمن اردو پریس اورنگ آباد سن اشاعت1936 5سی پارہ دل مصنف : خواجہ حسن نظارمی ناشر: خواجہ بک ڈپو دھلی طابع:ـدلی پرنٹنگ پریس دھلی سن اشاعت1921ء 6خطوط عطیہ بیگم مرتبہ: محمد امین زبیری (و) سید محمد یوسف قیصر ناشر: ظل السلطان بک ایجنسی بھوپال طابع: شمسی مشین پریس آگرہ سن اشاعت (س ن) 7باغ و بہار مصنف :ـ میرا من دھلوی مرتبہ: مولوی عبدالحق ناشر: انجمن ترقی اردو طابعـ یونیورسٹی پریس علی گڑھ سن اشاعت1944ء 8قواعد اردو مولفہ: مولوی عبدالحق ناشرـ ـ: دار الاشاعت انجمن ترقی اردو لکھنو طابعـ: الناظر پریس لکھنو سن اشاعت1914ء 9دریائے لطافت مولفہ: سید انشا اللہ خان انشا مترجم: برجموہن و تاتریہ کیفی ناشرـ: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت1916ء 10فرھنگ اصطلاحات علمیہ مرتبہ: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابعـ: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد ناشر: انجمن پریس اورنگ آباد سن اشاعت1925ء 11تجردو ازدواج مصنف: سید محمد تقی طابع: مطبع فیض عام علی گڑھ ناشر: مطبع فیض عام علی گڑھ سن اشاعت1907ء 12مطبوعات دار الترجمہ عثمانیہ مرتبہ: سرشتہ تالیف و ترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن طابع: عثمانیہ یونیورسٹی پریس ناشر: دار المطبع جامعہ عثمانیہ اشاعت1948ء سب رس مولوی عبدالحق کسی کتاب کو مرتب کرنے سے پہلے عموماً اس کا تعارف رسالہ ’’ اردو‘‘ میں کراتے تھے ملا وجہی کی ’’ سب رس‘‘ پر بھی انہوں نے اکتوبر1924ء میں ایک مضمون بعنوان اردو نثر کی ایک قدیم کتاب: سب رس لکھا جس میں کتاب کی قدامت کا ذکر انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے: ’’ اب تک اردو نثر کی پہلی کتاب فضلی سے منسوب کی جاتی تھی اور اس کی کربل کتھا اردو نثر کی پہلی کتاب سمجھی جاتی تھی لیکن حال ہی میں معلوم ہوا کہ فضلی سے کہیں پہلے نثر میں بہت سی کتابیں لکھی گئی تھیں مگر پردہ اخفا میں تھیں تحقیق و جستجو نے اب انہیں گمنامی سے نکالا ہے انہی میں ایک قابل قدر کتاب’’ سب رس‘‘ ہے‘‘ سب رس کا مصنف ملا وجہی تھا جو عبداللہ قلی قطب شاہ (1035ھ1082/ء 1625ء 1672/ئ) کا درباری شاعر تھا۔ ملا وجہی نے یہ قصہ عبداللہ قلی قطب شاہ کی فرمائش پر ہی قلم بند کیا تھا۔ مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ یہ قصہ ملا وجہی کا طبع زاد نہیں ہے بلکہ اس کا ماخذ مثنوی ’’ دستور عشق‘‘ ہے جو محمد یحیی ابن سیک فتاحی نیشا پوری کی تحریر ہے جسے اس نے’’ شبستان خیال‘‘ اور ’’ حسن و دل‘‘ کے ناموں سے الگ الگ بھی تحریر کیا ہے مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ میرا تو قیاس یہ ہے کہ وجہی کو فتاحی کی حسن و دل جو نثر میں ہے ہاتھ لگ گئی تھی۔‘‘ مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ ملا وجہی سے قبل بھی یورپ اور برصغیر کے بعض مصنفین و شعرا نے اس قصے کا فارسی، ترکی اور انگریزی وغیرہ میں ترجمہ کیا ہے۔ البتہ ملا وجہی کو اردو میں یہ قصہ تمثیل کرنے کی اولیت حاصل ہے اور ماخوذ ہونے کے باوجود وجہی نے اسے طبع زاد کے قریب تر کر دیا ہے۔ یہ قصہ تمثیلی انداز سے پند و نصائح کا مرقع بھی ہے اور حسن و عشق کی داستان بھی۔ مولوی عبدالحق نے وجہی کی ’’ سب رس‘‘ کا خلاصہ اپنے مقدمہ میں مروجہ اردو میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ سب رس کی زبان تین سو برس پہلے کی ہے اور وہ بھی دکن کی بہت سے لفظ اور محاورات ایسے ہیں جو اب بالکل متروک ہیں اور خود اہل دکن میں بھی نہیں سمجھے جاتے اس لئے کتاب کے آخر میں ایک فرھنگ بھی لگا دی ہے۔‘‘ ’’ سب رس‘‘ کا نسخہ مولوی عبدالحق نے دو قدیم نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے جس میں سے ایک نسخہ انہیں حیدر آباد دکن اور دوسرا بیجا پور سے ملا تھا یہ دونوں نسخے1171ھ اور1177ھ کے کتابت شدہ ہیں۔ ملا وجہی نے کہیں بھی قصہ کے آغاز کا سن نہیں دیا ہے لیکن قصہ کے اختتام پر نغلی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ بارے جس وقت تھا ایک ہزار و چہل و پنج اس وقت ظہور پکڑیا یو گنج جو کوئی صاحب اچھے گا، جو کوئی صاحب فن اچھے گا اسے یو سخن اثر کرے گا مست بے خبر کرے گا اپنا کرے گا اپنی ادھر کرے گا‘‘ وجہی کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب1045ھ میں اختتام پذیر ہوئی یہ کتاب1932ء میں انجمن اردو اورنگ آباد نے شائع کی تھی۔ جنگ نامہ عالم علی خان مولوی عبدالحق صاحب نے 1933ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سے غضتفر حسین مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون’’ جنگ نامہ عالم علی خان‘‘ مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا تھا اس جنگ نامہ کو ترتیب دیتے ہوئے مولوی عبدالحق صاحب کے پیش نظر تین نسخے تھے ایک نسخہ مولوی عبدالحمید صاحب وکیل کنٹر نے عنایت کیا تھا جب کہ دوسرا نسخہ مسٹر ولیم آرون کا وہ نسخہ تھا جو مسٹر ولیم نے مہاراجہ بنارس کے کتب خانہ سے حاصل کیا تھا مسٹر ولیم اردون اس نسخہ کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ رسالہ انڈین اینٹی کیوری (INDIAN ANTIQUARY) مارچ 1904ء کے شمارے میں شائع کرا چکے تھے اور تیسرا نسخہ مولوی عبدالحق صاحب کا ذاتی نسخہ تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے ’’ جنگ نامہ عالم خان‘‘ مرتب کرنے کے لئے اپنے نسخے کو بنیاد بنایا تھا اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’’ مسٹر ارون کا نسخہ اول و آخر سے ناقص ہے۔ عبدالحمید صاحب کے نسخہ میں شروع کے کچھ اشعار غائب ہیں میرا نسخہ مکمل ہے اور اس کی ترتیب اور تحریر دوسرے نسخوں سے بہتر ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے حاشیوں میں اپنے نسخے کا دوسرے نسخوں سے اختلاف تحریر کر دیا ہے اور جن دوسرے نسخوں کی مدد سے اشعار کا اضافہ کیا ہے اس پر بھی علامتیں ظاہر کر دی ہیں۔ اس جنگ نامہ میں نواب آصف جاہ نظام الملک مرحوم اور عالم علی خان صوبے دار دکن کی جنگ کا حال درج ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر1718ء میں سادات بارہ کے بیس سالہ سید عالم علی خان نے آصف جاہ نظام الملک کے لشکر سے بڑی مردانگی اور شجاعت سے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اسے تاریخی نظم قرار دیا ہے اور بتایا ہے: ’’ اس میں جو نام اور سنین آئے ہیں وہ تاریخ کی رو سے بالکل صحیح ہیں۔‘‘ مجموعی اعتبار سے اس جنگ نامہ میں491اشعار ہیں اختتامی اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ نامہ ربیع الاول1132ھ میں تکمیل پذیر ہوا۔ اس جنگ نامہ کے مصنف کے سلسلے میں اختلاف رائے ہے مسٹر ولیم ارون نے اس کا مصنف ’’ سو دشت‘‘ نامی دکنی شاعر بتایا ہے جب کہ مسٹر ولیم کے منشی نے اس کا وطن پنجاب قرار دیا ہے مولوی عبدالحق صاحب کے خیال میں اس کا مصنف دکنی ضرور تھا لیکن وہ ’’ سو دشت‘‘ نہیں بلکہ ’’ دلی‘‘ تھا مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ دلی اس زمانے میں زندہ تھا اور سنہ1132ھ میں دھلی میں تھا اور یہ واقعات بھی اس سن میں واقع ہوئے ہیں اس لئے غالباً اس کا مصنف ولی ہے۔‘‘ مرحوم دھلی کالج ’’ مرحوم دھلی کالج‘‘ کے نام سے مولوی عبدالحق نے ’’ دھلی کالج‘‘ کی تاریخ تحریر کی ہے اور مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر75کے تخت نسخہ ٹائپ میں شائع کیا ہے۔ اس کالج نے تقریباً ایک صدی تک اردو زبان اور علم و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں مولوی عبدالحق نے اس نادر روزگار تعلیمی ادارے کی داستان میں بتایا ہے کہ 1792ء میں غازی الدین کے مدرسے کی عمارت میں اس کی داغ بیل ڈالی گئی جب مشرقی اور انگریزی شعبے یک جا ہوئے تو کالج کتب خانہ دار شکوہ میں اٹھ آیا اور1875ء کی جنگ آزادی تک وہیں رہا۔ 1825ء میں سرکاری درسگاہوں کے قیام کی تحریک ہوئی تو اسے بھی پانچ سو روپیہ ماہانہ کی امداد ملی مسٹر جے ایچ ٹیلر مقامی مجلس کے سیکرٹری اور اس کے پرنسپل مقرر ہوئے 1828ء میں سر چارلس منکاف برٹس ریزیڈنٹ کمشنر کی سفارش پر انگریزی جماعت کا اضافہ ہوا لیکن اس کلاس کے اجراء سے بے چینی پھیلی اور اسے اس کالج کی زیر نگرانی علیحدہ شعبہ بنا دیا گیا۔ 1931ء تک انگریزی پڑھنے والوں کی تعداد تین سو تک پہنچ گئی اس طرح یہ ادارہ مشرقی و انگریزی جدا جدا شعبوں پر مشتمل تھا۔ 1835ء میں ایک حکم نامہ کے تحت دیسی علوم کی حوصلہ شکنی کی گئی مشرقی حصے کی امداد میں تخفیف ہوئی وظائف بند کر دئیے گئے حکومت نے اپنی اس پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ’’ حکومت برطانیہ کا بڑا مقصد اہل ہند میں یورپین لٹریچر اور سائنس اشاعت کرنا ہے اور جس قدر رقوم مقصد تعلیم کے لئے مخصوص ہیں وہ صرف انگریزی تعلیم پر صرف ہونی چاہیں۔‘‘ ان حوصلہ شکن سرکاری پالیسیوں کے باوجود مشرقی شعبہ، مغربی شعبے سے سائنس میں کہیں بڑھا ہوا تھا اور اس شعبہ میں تمام علوم بڑی کامیابی سے اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے ہنگاموں نے اس کالج کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا11مئی 1857ء بروز پیر دلی میں ہنگامہ ہوا تو کالج کے انگریز عملہ نے ’’ میگزین‘‘ میں پناہ لی لیکن جب اس پر بھی حملہ ہوا تو دھلی کالج کے پرنسپل مسٹر ٹیلر کو مولوی محمد باقر نے پناہ دی لیکن ٹیلر ان کے پاس سے بھی فرار ہوئے اور مجاہدین آزادی کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے انگریزوں نے ٹیلر کے قتل میں مولوی باقر کو مورد الزام ٹھہرا کر بر سر عام ’’ باڑ‘‘ مار کر ہلاک کر دیا۔ اس جنگ آزادی میں دھلی کالج پر بھی حملہ ہوا انگریزی کتابیں پھاڑ کر جلا دی گئیں باقی ذخیرہ تباہ ہو گیا سائنسی آلات ٹوٹ پھوٹ گئے اور ’’ دہلی کالج‘‘ غیر معینہ مدت کے لئے بند ہو گیا مئی 1863ء میں پروفیسر ھٹن کی زیر نگرانی یہ ادارہ دوبارہ منظم کیا گیا 14870-71ء میں ایم اے کلاسوں کا اجراء ہوا لیکنا پریل1877ء میں اس کالج کو توڑ دیا گیا اور یہاں صرف اسکول رہ گیا ’’ دہلی کالج‘‘ کی جگہ’’ مشن کالج‘‘ نے لے لی، یہ پہلے صرف ہائی اسکول تھا اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مولوی عبدالحق نے لکھا ہے: ’’ کالج سن1877ء تک اچھا خاصا چل رہا تھا کہ نہ معلوم گورنمنٹ کے جی میں کیا آئی کہ اسے اپریل1877 ء میں توڑ دیا اور اس کا سارا اسٹاف لاہور کالج بھیج دیا یعنی اس کالج کو لاہور کالج میں مدغم کر دیا۔۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دلی اپنے عزیز کالج سے محروم ہو گئی اور اب سب اساتذہ و طلبہ لاہور چلے گئے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں انگریزی اور مشرقی شعبے کے نصاب کا بھی جائزہ لیا اور لکھا ہے کہ 1843ء تک شعبہ مشرقی اور انگریزی کا نصاب علیحدہ علیحدہ تھا لیکن1854ء میں یکسانیت قائم کرنے کی کوشش کی گئی کتاب کے اس حصہ میں مولوی عبدالحق نے 1854ء تک کے دونوں نصابوں کے خاکے دئیے ہیں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کالج میں دینی تعلیم پر بھی زور دیا جاتا تھا مسلمانوں کے فقہی مسائل کو بھی پیش نظر رکھا جاتا تھا وہ لکھتے ہیں: ’’ کالج میں سنی اور شیعوں کی تعلیم کا الگ الگ انتظام تھا یعنی صرف تعلیم میں فرق تھا باقی نصاب ایک ہی تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں طلباء کی تعداد، وظائف اور فیسوں کا ذکر بھی کیا ہے لیکن اس ضمن میں انہوں نے سرکاری ذریعوں پر اعتبار نہیں کیا بلکہ ذاتی طور سے ریکارڈ جمع کیا ہے۔ مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ ان اعداد کے بہم پہنچانے میں بڑی دقت پیش آئی سرکاری مطبوعہ رپورٹوں میں اعداد کے متعلق بہت ہی بے احتیاطی کی گئی ہے اس لئے مختلف کاغذوں کو دیکھ کر ان کی تصحیح کی گئی۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں’’ دھلی کالج‘‘ کی ’’ دھلی ورنیکولر سوسائٹی‘‘ کا تفصیلی ذکر کیا ہے یہ سوسائٹی تالیف و ترجمہ کے لئے بنائی گئی تھی اور اس نے انگریزی کتب کے تراجم میں نمایاں خدمات انجام دیں ترجمہ کے اصول اور اصطلاحات طے کی گئیں جس کے نتیجہ میں دھلی کالج میں117کتب کی تدوین ہوئی۔ مولوی عبدالحق نے آخری حصے میں کالج کے عملہ کا بھی تعارف کرایا ہے جن میں16انگریز اور 17دیسی اساتذہ کا ذکر کیا ہے اس طرح ’’ دھلی کالج‘‘ کے24قدیم طلباء کا بھی ذکر ہے جس میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا محمد حسین آزاد، ماسٹر تارا چند اور منشی ذکا اللہ جیسے نامور لوگ شامل ہیں یہ کتاب انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے انجمن کے مطبع خانے سے 1933ء میں شائع کی تھی۔ مخزن شعراء مولوی عبدالحق نے قاضی نور الدین خان رضوی فائق کا تذکرہ’’ مخزن شعرائ‘‘ مرتب کر کے نستعلیق میں سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو71کے تحت1933ء میں شائع کیا تھا۔ یہ تذکرہ بارھویں اور تیرھویں صدی ہجری کے 111گجرات کے شعراء اردو کے حالات و ونمونہ کلام پر مشتمل ہے۔ فائق اسد اللہ خان غالب کے ہم عصر تھے اور غالب سے تعلق خاص بھی رکھتے تھے۔ فائق نے اس تذکرہ پر غالب سے نظر ثانی و تصحیح کرائی تھی جس کا ذکر غالب نے اپنے مکتوب میں اس طرح کیا ہے: ’’ محدوم و مکرم حضرت قاضی نور الدین حسین خان بہادر کی خدمت میں عرض ہے کہ برخوردار مرزا شہاب الدین خاں بہادر نے یہ اجزاء مجھ کو دئیے نظم سے میں نے بالکل قطع نظر کی۔ کامل صاحب کی نثر جو آغاز میں ہے اس کو بھی نہیں دیکھا۔ صرف آپ کی نثر کو دیکھا اور اس کو موافق حکم آپ کے بعض موقع پر منشائے اصلاح بھی لکھ دی ہے مجھ کو یہ پایہ نہیں کہ آپ کی نثر میں دخل کروں بضحوائے الادب الامرفوق حکم بجا لایا ہوں مرحبا آفرین بخدا خوب نثر لکھی ہے اللہ سبحانہ آپ کو مدارج اعلیٰ تک پہنچا دے اور سلامت رکھے‘‘ مرقومہ دو شنبہ14جولائی1863ء خوشنودی احباب کا طالب غالب اس تذکرہ کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلی کے گجراتی ہونے پر بحث کو چھیڑا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ولی کا تعلق سر زمین گجرات سے تھا۔ مصنف کا تعلق بھی سر زمین گجرات (بھروچ) کے علمی و ادبی خاندان سے تھا فائق کے والد سید احمد حسین رضوی شیرازی علمی و ادبی ذوق رکھتے اور اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب نے تحریر کیا ہے: ’’ فائق کا انتقال1286ء میں ہوا‘‘ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں اہل گجرات کی علمی و ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گجرات حکومت دھلی کا ایک ممتاز صوبہ تھا جس کے نتیجہ میں گجرات کی معاشرت اور زبان پر دہلی کے گہرے اثراب مرتب ہوئے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ اردو کی نشوونما دکن کی طرح گجرات میں بھی پہلے سے شروع ہو گئی۔‘‘ اس ضمن میں مولوی عبدالحق نے حضرت قطب عالم (ولادت 790ھ وفات850ھ) حضرت شاہ عالم (ولادت817ھ وفات880ھ) سلطان شاہ غزنی (وفات922ھ) شاہ علی جیو گام دھنی (وفات972ھ) اور میاں محمد چشتی (وفات1023ھ) کی لسانی و ادبی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے یہ تذکرہ دو نسخوں کی مدد سے مرتب کیا تھا جس میں سے ایک بمبئی یونی ورسٹی کی ملکیت تھا جب کہ دوسرا بھڑوچ سے فائق کے ایک پوتے اور ہم نام قاضی نور الدین نے انہیں عنایت کیا تھا۔ ’’ مخزن شعرائ‘‘ کتاب کا تاریخی نام ہے مولف نے ’’ مخزن شعرائ‘‘ سے اس کا سن تکمیل1268ھ نکالا ہے فائق کے علاوہ شیخ نجم الدین مشتاق میاں سمجو اور میر عباس علی شوق کے قطعات سے بھی 1268ھ ہی سن تالیف قرار پاتی ہے قاضی نور الدین فائق نے تذکرہ کی اختتامی سطور میں کتاب کی تکمیل شانزد ہم ماہ شوال یوم جمعہ1268ھ تحریر کی ہے کتاب کے آغاز میں میر کمال الدین حسین کامل نے کتاب کی تقریظ قلم بند کی ہے جب کہ دیباچہ خود مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ مرھٹی زبان پر فارسی کا اثر مولوی عبدالحق نے اپریل 1921ء کے سہ ماہی رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد میں ’’ مرھٹی زبان پر فارسی ادب کا اثر‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ قلم بند کیا تھا یہی مقالہ 1933ء میں مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر73کے تحت شیخ ٹائپ میں مرھٹی اقتباسوں کی درستی و تصحیح کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوا۔ مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں مرھٹی زبان پر فارسی کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ 1318ء سے 1728ء تک مرھٹی پر فارسی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’ فارسی کا اثر محض اسماء و صفات تک محدود نہیں رہا بلکہ زبان کے بنیادی عصر تک پہنچ گیا‘‘ اس کتاب کے آغاز تک مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آمد اور اس کے تاریخی سماجی اور معاشرتی اثرات اور ہندو مسلم روابط کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے: 1 سرکاری دفاتر میں فارسی رائج تھی رفتہ رفتہ مرھٹی زبان میں فارسی الفاظ گھل مل گئے اور جزو زبان بن گئے 2 سرکاری دفاتر میں آنے والے اور عدالتوں میں حاضر ہونے والے لوگوں کی زبان غیر ارادی طور پر بھی فارسی زبان کے اثرات مرتب ہوئے 3 فقیر فقراء کے ذریعہ فارسی عربی الفاظ کی دلکشی اور صداؤں کی موزونیت کی وجہ سے عام لوگوں کے خیال اور حافظے میں رہ گئے۔ 4 درویشوں، صوفیوں، واعظوں کی گفتگو اور درس میں فارسی اثرات سے مرھٹی زبان متاثر ہوئی 5 جو ہندو دائرہ اسلام میں آئے ان کے مسلمانوں سے ارتباط کی وجہ سے مرہٹی زبان میں فارسی اثر آیا۔ 6 سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لئے لوگوں نے فارسی زبان پڑھی 7 ہندو عورتوں نے مسلمانوں سے شادی کے باعث اپنے شوہروں کی زبان اپنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے فارسی نے مرھٹی پر اثرات ڈالے 8 مسلمانوں کی ایجادات عام ہونے سے بہت سے الفاظ بطور اصطلاحات مرہٹی میں آئے 9 فنون جنگ اور آلات حرب کے ناموں کے طفیل مرھٹی میں بہت سے الفاظ داخل ہوئے۔ ان تمام عوامل اور وجوہ کے اثرات سے فارسی کا مرھٹی پر گہرا اثر پڑا بقول مولوی عبدالحق:ـ ’’ ساڑھے تین سو سال کی یک جائی سے سینکڑوں فارسی الفاظ کا مرہٹی زبان میں آ جانا کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن تعجب اس امر کا ہے کہ مرہٹی پر فارسی کا ایسا گہرا اثر چڑھا کہ یہ اثر الفاظ ہی تک محدود نہ رہا بلکہ فارسی ترکیبیں تک اس میں داخل ہو گئیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اپنے لسانی جائزہ میں اس دور کی بہت سی تحریریں بطور نمونہ پیش کی ہیں اس میں مرہٹی زبان کے مشہور شعراء مثلا وتانیشور وغیرہ کے کلام سے اقتباسات دئیے ہیں۔ مولوی عبدالحق نے اس ضمن میں کتبے، فرمان اور عرض داشتوں کے نمونے بھی دئیے ہیں انہوں نے ان اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے جو مرھٹی زبان کی قواعد و تراکیب الفاط پر پڑرہے تھے ضرب الامثال کی ایک فہرست بھی دی گئی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرہٹی ضرب الامثال میں فارسی الفاظ بے تکلفی سے استعمال ہونے لگے تھے۔ مولوی عبدالحق نے مرہٹی کی موڑی طرز کتابت سے بحث کرتے ہوئے بتایا ہے:ـ ’’ چوں کہ فارسی کا شکستہ خط موجود تھا لہٰذا اس طرز اور نمونے پر موری کی کتابت ایجاد کر لی گئی‘‘ کتاب کے آخری حصہ میں چند مرھٹی شاعروں کا ذکر ہے اور ان کے کلام پر بحث کرتے ہوئے ان کے کلام پر فارسی کے اثرات کی نشان دہی کی ہے کتاب کے خاتمہ پر مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے: ’’ مرہٹی اور ہندوستانی (اردو) بہنیں بہنیں ہیں دونوں ہندی نژاد ہیں اور دونوں آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں کم و بیش دونوں نے فارسی کا دودھ پیا ہے اور آج کل دونوں پہلو بہ پہلو آباد ہیں۔‘‘ یہ کتاب انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے انجمن کے طبع خانے سے1933ء میں شائع کی تھی۔ کہانی رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی سید انشا اللہ خان انشا دھلوی معروف انشا پرداز ہیں انہوں نے جہاں’’ دریائے لطافت‘‘ جیسی خالص تحقیقی و علمی تالیفات کیں وہاں انہوں نے کہانی نویسی کے میدان میں بھی شہرت حاصل کی اس سلسلے کی ایک کڑی ’’ کہانی رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی‘‘ ہے اس کہانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فارسی اور عربی کا ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا گیا اور نہ ہی خالص ہندی و سنسکرت کی چھاپ ہے بلکہ اردو اور ہندی ہر دو طبقہ کے لوگ اسے اپنی زبان تصور کرتے ہیں۔ اس کہانی کو مولوی عبدالحق صاحب نے اپریل1926ء میں مرتب کر کے رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد میں شائع کیا تھا پھر اسے کتابی شکل دی گئی مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیںـ: ’’ اس داستان کا ذکر مدت سے سنتے آتے تھے لیکن ملتی کہیں نہ تھی آخر ایشیا ٹک سوسائٹی آف بنگال کی پرانی جلدوں میں اس کا پتا لگا مسٹر کلنٹ پرنسپل لا مارٹن کالج لکھنو کو اس کا ایک نسخہ دستیاب ہوا تھا جسے انہوں نے سوسائٹی کے رسالے میں طبع کرا دیا۔ سنہ1852ء میں ایک حصہ طبع ہوا اور دوسرا حصہ1855ء میں لیکن بہت غلط چھپی تھی مجبوراً اس کی ایک نقل میں نے رسالہ اردو جلد ششم ماہ اپریل 1926ء میں شائع کی اور جہاں تک ممکن ہوا اس کی تصحیح بھی کی۔‘‘ رسالہ ’’ اردو‘‘ میں چھاپنے کے بعد مولوی عبدالحق صاحب کو اس کہانی کا ایک نسخہ ناگری حروف میں مطبع لکھنو پنڈت منوھر لال زتشی سے ملا۔ جس کی مدد سے مزید تصحیح کر کے مولوی عبدالحق صاحب نے1933ء میں انجمن کے مطبع اورنگ آباد سے نستعلیق ٹائپ میں شائع کیا۔ 1955ء میں اس کا ایک نیا ایڈیشن شائع ہوا جس کے متن کو مولانا امتیاز علی عرشی صاحب نے رضا لائبریری رام پور کے دو نسخوں کی مدد سے درست کر کے اپنے حاشیوں کے ساتھ مرتب کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی نے شائع کیا لیکن اس ایڈیشن پر مولانا عرشی صاحب کا نام تو ایک طرف کہیں حوالہ تک نہ آیا اور یہ ایڈیشن بھی مولوی عبدالحق صاحب کے تحریر کئے ہوئے ’’ دیباچہ‘‘ کے ساتھ شائع ہوا جس سے قارئین کو یہ تاثر ملا کہ یہ ایڈیشن بھی مولوی عبدالحق صاحب کا مرتب کیا ہوا ہے جب مولوی عبدالحق صاحب کو اس بات کا احساس ہوا تو بقول شہاب الدین ثاقب صاحبـ: ’’ بابائے اردو نے اس کی معذرت کر لی اور اس غلطی کا ازالہ ا س کے تیسرے ایڈیشن میں کر دیا جو سید قدرت نقوی کی نظر ثانی اور فرھنگ الفاظ و مقدمہ کے ساتھ انجمن ترقی اردو کراچی سے 1975ء میں شائع ہوا۔‘‘ تذکرہ ہندی بابائے اردو مولوی عبدالحق نے غلام ہمدانی مصحفی کی تالیف’’ تذکرہ ہندی‘‘ کو1933ء میں سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو دکن سے نمبر54کے تحت شائع کیا تھا اور اس پر چودہ صفحات کا مقدمہ بھی قلمبند کیا ہے جس میں مصحفی کے تذکرہ ’’ ریاض الفصحا‘‘ کو بنیاد بنا کر مصحفی کے حالات زندگی، تعلیم و تربیت اور خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ مصحفی کا پہلا تذکرہ ’’ عقد ثریا‘‘ ہے اس کی تکمیل (1199ھ) کے بعد’’ تذکرہ ہندی‘‘ کی تالیف شروع ہوئی گارساں و تاسی نے اپنے 4دسمبر1854ء کے خطبہ میں اس کا ذکر اس طرح کیا ہیـ: ’’ مصحفی نے اپنا اردو شعراء کا تذکرہ میر مستحسن خلیق کی فرمائش سے لکھا جس میں محمد شاہ کے عہد سے لے کر اپنے وقت تک کے شعراء کا حال ہے جن کی تعداد تقریباً ایک سو پچاس ہے۔ مولف نے خاص کر اپنے ہم عصروں کے حالات بیان کرنے میں تفصیل سے کام لیا ہے۔‘‘ گارساں دتاسی کے بیان کا دوسرا حصہ درست نہیں اس کتاب میں تقریباً ایک سو پچاس نہیں بلکہ 193شعراء کا ذکر ملتا ہے جس میں خود مصفحی کی ذات اور پانچ شاعرات (دلہن بیگم، گنا بیگم، زینت، جینا بیگم اور موتی) بھی شامل ہیں۔ مصحفی نے اس تذکرے کی ترتیب میں حروف تہجی کا طریقہ اختیار کیا ہے البتہ شاعرات کا ذکر تذکرے کے آخر میں’’ تذکرہ شاعرات‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ اس حصہ میں حروف تہجی کی ترتیب نہیں برتی گئی۔ مولوی عبدالحق کے بقول مصحفی کے تذکروں میں: ’’ سب سے پہلا تذکرہ، فارسی گو شعراء کا ہے جس کا نام ’’ عقد ثریا‘‘ ہے۔۔۔۔ دوسرا تذکرہ اردو شاعروں کا ہے تیسرے تذکرہ کا نام ’’ ریاض الصفحا‘‘ ہے اس تذکرہ کی ضرورت یوں پیش آئی کہ جن لوگوں کے نام پہلے تذکرے میں لکھنے سے رہ گئے تھے ان کا ذکر اس میں کیا گیا ہے۔‘‘ ان تینوں میں تذکرہ نمبر2یعنی تذکرہ ہندی اصل ہے باقی کو اس کا تکملہ سمجھنا چاہئے۔ مصحفی نے ’’ تذکرہ ہندی‘‘ کی تالیف کے آغاز کے سلسلے میں صرف یہ تحریر کیا ہے کہ ’’ عقد ثریا‘‘ کی تکمیل کے بعد آغاز کیا ’’ عقد ثریا‘‘ کی تکمیل1199ھ میں ہوئی تھی گویا یہ تذکرہ 1199 ھ میں یا اس کے بعد شروع کیا البتہ تذکرہ ہندی کے اختتام کی تاریخ قطعہ میں’’ جلد بے نظیر‘‘ سے 1209ھ نکلتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے مصحفی کے تذکرے کا یہ نسخہ مختلف نسخوں کی مدد سے مرتب کیا تھا ان کا بیان ہے: ’’ ہندی گویاں کا پہلا تذکرہ ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال کے نسخے پر مبنی ہے البتہ اس کا مقابلہ خدا بخش خان کے کتب خانے کے نسخے سے کیا گیا بعض مشتبہ مقامات کا مقابلہ کتب خانہ مدرسہ ندوۃ العلما سے بھی کیا گیا باقی دو تذکرے خدا بخش خاں کے کتب خانے کے نسخوں کی نقل ہیں۔ بعد ازاں تینوں تذکروں کے بیاضوں کا مقابلہ کتب خانہ ریاست رام پور کے نسخوں سے ہوا۔ افسوس ہے کہ کتب خانہ خدا بخش خان اور رام پور کے نسخے بہت غلط اور بد خط نکلے تاہم مقابلے سے بعض مقامات کی کچھ نہ کچھ تصحیح ہو گئی۔‘‘ مولوی عبدالحق نے ’’ تذکرہ ہندی‘‘ کے مرتب کرنے میں جن جن نسخوں سے استفادہ کیا ہے ان کا حاشیوں میں اندراج کر دیا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا قول ہے: ’’ اس تذکرے کے ذریعہ اس زمانے کے مذاق ادبی، انداز سخن گوئی، شعراء کے حالات زندگی اور طرز فکر کے بارے میں بہت سی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں‘‘ انجمن ترقی اردو (ہند) اورنگ آباد نے 1933ء میں جامع برقی پریس دھلی سے شائع کرایا تھا۔ عقد ثریا(تذکرہ فارسی گویاں) ’’ عقد ثریا‘‘ غلام ہمدانی مصحفی کا ’’ تذکرہ فارسی گویاں‘‘ ہے مجموعی اعتبار سے 85شعراء کے تذکرے پر مشتمل ہے یہ تذکرہ مصحفی نے فارسی زبان میں رقم کیا تھا جس میں تین قبیل کے شعراء کا ذکر ہے: اول: وہ فارسی گو شعراء جنہوں نے کبھی بی سر زمین ہند پر قدم نہیں رکھا دوم: وہ شعرائے ایران جو ہندوستان آئے سوم: ہندوستانی فارسی گو شاعر مصحفی نے تذکرے کی تمہید میں ’’ زھے باغ باصفا‘‘ سے اس کی تاریخ اختتام 1199ھ نکالی ہے۔ یہ نسخہ مولوی عبدالحق نے ’’ عقد ثریا‘‘ کے تین مختلف نسخوں کی مدد و موازنہ سے جس میں دو نسخے کتب خانہ خدا بخش اور تیسرا ریاست رام پور کی ملکیت تھا، مرتب کر کے پہلی بار1934ء میں شائع کیا۔ مولوی عبدالحق نے ’’ تذکرہ‘‘ کر کے ابتدائی14صفحات میں ایک مقدمہ بھی درج کیا ہے جس میں’’ عقد ثریا‘‘ کے موفل ہمدانی مصحفی کے حالت زندگی اور ان کے ادبی کارناموں کا جائزہ لیا ہے۔ مولف نے اس تذکرہ میں جن شعراء کا ذکر کیا ہے اس کی ترتیب زبانی اعتبار سے نہیں کی ہے بلکہ حروف تہجی کا طریقہ اختیار کیا ہے اور اپنا ذکر بھی ردیف’’ میم‘‘ میں کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے غلام ہمدانی مصحفی کے اس انداز کو بڑا سراہا ہے کہ مصحفی نے اپنے ہم عصر شعراء یہاں تک کہ ان لوگوں کے ذکر میں بھی بڑے حوصلے سے کام لیا ہے جن سے مصحفی کی آویزش اور چشمک رہتی تھی یہ کتاب1934ء میں انجمن ترقی اردو نے شائع کی تھی۔ ریاض الفصحا (تذکرہ ہندی گویاں) انجمن ترقی اردو نے سلسلہ مطبوعات نمبر77کے تحت مصحفی کا تذکرہ ریاض الفصحا 1934ء جامع برقی پریس دھلی سے شائع کیا تھا جسے مولوی عبدالحق نے خدا بخش لائبریری پٹنہ کے اس قلمی نسخے سے مرتب کیا جسے رمضان بیگ طپاں نے 1237ء میں کتابت کیا تھا۔ ضخامت کے اعتبار سے مصحفی کا یہ تذکرہ اس کے مولفہ دونوں تذکروں (عقد ثریا اور تذکرہ ہندی) سے بڑا ہے مولوی عبدالحق نے تذکرہ ہندی میں اس کی وجہ تالیف اس طرح بیان کی ہے: ’’ اس تذکرے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ جن لوگوں کے نام پہلے تذکرے میں لکھنے سے رہ گئے تھے ان کا ذکر اس میں کیا گیا ہے۔‘‘ اس تذکرے میں321شعراء کا ذکر حروف تہجی کے اعتبار سے کیا گیا ہے مصحفی نے اس تذکرے میں اپنا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے ریاض الفصحا کی تصنیف کے وقت اپنی عمر80برس بتائی ہے۔ ’’ ریاض الفصحا‘‘ تذکرے کا تاریخی نام ہے اس سے اس کا سال تصنیف1221ھ نکلتا ہے۔۔۔ اس کا تمکلہ 1236ھ میں ہوا۔ ’’ ریاض الفصحا‘‘ کا مقدمہ مولوی عبدالحق کا تحریر کردہ وہی مقدمہ ہے جو اس سے قبل’’ تذکرہ ہندی‘‘ اور ’’ عقد ثریا‘‘ میں شامل تھا۔ تذکرہ ریختہ گویاں مولوی عبدالحق نے فتح علی گردیزی کی تالیف’’ تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ کو تین مختلف قلمی نسخوں کی مدد سے مرتب کر کے ’’ مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر76کے تحت اورنگ آباد (دکن) سے انجمن کے پریس سے1934ء میں ٹائپ میں شائع کیا۔‘‘ تذکرے کے آغاز میں17صفحات کا مقدمہ ہے مولوی عبدالحق کی فہرست کے مطابق 98شعراء کا ذکر ہے جب کہ فرمان فتح پوری صاحب لکھتے ہیں:ـ ’’ اس میں صرف97شاعروں کا ذکر بلحاظ حروف تہجی آیا ہے۔ مولوی صاحب کے مرتبہ نسخے میں98شعراء کی فہرست اور ترجمہ شامل ہے یہ درست نہیں ہے۔‘‘ ابتداء میں مولف کا ایک مختصر دیباچہ بھی ہے جس میں گردیزی نے اپنے تذکرے کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’ جن لوگوں نے اس سے قبل شعرائے ریختہ کے تذکرے لکھے ہیں، انہوں نے محض حسد سے ان پر نکتہ چینیاں کی ہیں، جس سے میں نے احتراز کیا ہے اور انصاف کو مد نظر رکھا ہے‘‘ یہ تذکرہ 5محرم الحرام1166ھ کو مکمل ہوا تھا اور شعبان1172ھ میں سید عبوالوالی صاحب عزلت کی فرمائش پر سید عبدالنبی ابن سید محمود نے نقل کیا تھا۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں مولف کے خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے: ’’ سید فتح علی حسینی اپنے وقت کے مشائخ اور صوفیا میں شمار کئے جاتے تھے اور جو شجرہ ان کا تحریر کیا ہوا مجھے ملا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مخدوم میر جہاں (خلیفہ مخدوم شاہ عالم محمدی خلیفہ میر سید محمد کبیر خلیفہ شیخ عبداللہ الہ آبادی) سے بیعت اور ان کے خلفا میں سے تھے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں سید فتح علی حسینی کی دیگر تصانیف(کشف الستارفی معرفتہ الاسرار، مراۃ العرفان، ابطال الباطل، نور ہدایت معرفتہ الفقر) پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ تنقیدات عبدالحق 1934ء میں محمد تراب علی خان باز نے ان 23تبصروں کو جو رسالہ ’’ اردو‘‘ میں1922ء سے 1933ء تک مولوی عبدالحق کے قلم سے نکلے تھے کتابی شکل میں ’’ تنقیدات عبدالحق‘‘ کے عنوان سے شمس الاسلام پریس حیدر آباد دکن سے شائع کیا۔ مرتب نے سنت دیرینہ کے عنوان سے 2صفحات کا دیباچہ تحریر کیا ہے غلطی سے انہوں نے اس مجموعہ میں تنقیدات کی تعداد24بتائی ہے جب کہ ان کی مجموعی تعداد23ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے: 1دیوان ولی رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد جنوری1924ء 2مکاتیب نواب محسن الملک و نواب وقار الملک اپریل1924ء 3سرگذشت الفاظ اپریل1924ء 4شرح دیوان غالب اپریل1924ء 5تذکرہ اعجاز سخن اپریل1924ء 6تلخیص عروض و قافیہ اپریل1924ء 7زبان اردو پر سرسری نظر جولائی1924ء 8خطوط غالب جولائی 1924ء 9بانگ درا اکتوبر1924ء 10مکاتیب امیر مینائی اکتوبر1924ء 11شعر الہند جنوری1926ء 12روح تنقید اپریل1926ء 13اصلاح سخن اکتوبر1926ء 14اردو شہ پارے اکتوبر1926ء 15گنجینہ تحقیق اکتوبر1926ء 16ارباب نثر اردو جولائی1930ء 17اکبر الہ آبادی اکتوبر1928ء 18پنجاب میں اردو جولائی1928ء 19فیضان شوق جولائی 1929ء 20اردو لٹریچر جولائی1933ء 21نور اللقات اکتوبر1923ء 22جامع القات اپریل1933ء 23مجموعہ نقد اکتوبر1933ء معراج العاشقین اخلاق و تصوف کے موضوع پر بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے 1934ء میں بندہ نواز خواجہ گیسو درواز کی ’’ معراج العاشقین‘‘ تاج پریس حیدر آباد (دکن) سے طبع کرا کے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن ) سے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کی تھی مولوی عبدالحق صاحب نے خواجہ صاحب کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا تھا: ’’ حضرت سید محمد حسینہ بندہ نواز گیسو دراز قدس سرہ، کا فیض زمین دکن پر عام ہے ان کا مزار مرجع خلائق ہے اور ان کی تصنیف اب تک لوگ تلاش کر کے شوق سے پڑھتے ہیں حضرت ان بزرگان دین میں ہیں جن کی تصانیف و تالیفات کثرت سے ہیں اور تقریباً سب کی سب فارسی میں ہیں لیکن تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ نے بعض رسالے ہندی یعنی دکنیا ردو میں بھی تصنیف فرمائے ہیں۔‘‘ (۸۱) مولوی عبدالحق صاحب کو حضرت سید محمد حسینی بندہ نواز کی ’’ معراج العاشقین‘‘ کا ایک نسخہ تصوف و اخلاق کے موضوع پر میسر آ چکا تھا لیکن وہ اس خدشہ سے کہ بعض دفعہ عقیدت مند اپنی بعض تصانیف و تالیفات اپنے مرشد کے نام منسوب کر دیتے ہیں اور کہیں یہ کتاب بھی اس قبیل کی نہ ہو، چپ سادھ لی۔ مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ مولوی غلام محمد صاحب انصاری وفا مدیر’’ تاج‘‘ نے ایک رسالے ’’ معراج العاشقین‘‘ کا پتا ڈاکٹر قاسم صاحب کے کتب خانے سے لگایا اور جب انہوں نے مجھے یہ نسخہ دکھایا تو چند سطریں پڑھنے کے بعد ہی مجھے خیال آیا کہ اس کا ایک نسخہ میرے پاس بھی موجود ہے نکال کر دیکھا تو ایک ہی کتاب کی دو نقلیں تھیں۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کو جب یہ یقین ہوا کہ یہ تصنیف سید محمد حسینی بندہ نواز کی ہے تو انہوں نے اسے مرتب کیا مولوی صاحب کو ان دونوں نسخوں کی مدد سے ایک نیا نسخہ مرتب کرنے میں بہت دقت ہوئی یوں کہ ان کے پیش نظر جو دو مختلف نسخے تھے وہ دونوں ہی بہت غلط، بد خط اور مسخ شدہ تھے۔ مولوی عبدالحق کا دل پھر نہیں ٹھکا ان کا خیال تھا: ’’ اگر یہ حضرت کی نہیں تو ان کے کسی ہم عصر یا اس سے قریب کی تصنیف ضرور ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کا شک بعد کی تحقیق نے سچ ثابت کیا کہ یہ کتاب بندہ نواز گیسو دراز کے بجائے مخدوم شاہ حسینی بیجا پوری کی تصنیف ہے لیکن اس کے باوجود اس نسخہ کو مرتب کرنا مولوی عبدالحق صاحب کے کارناموں میں سے ایک بڑا کارنامہ ہے۔ نکات الشعرا مولوی عبدالحق نے میر تقی میر کی تالیف نکات الشعراء کو انجمن ترقی اردو کے سلسلہ مطبوعات کے نمبر26کے تحت1935ء انجمن پریس سے ٹائپ میں طبع کرایا تھا۔ یہ تذکرہ103شعراء کے تذکرے پر مشتمل ہے جس میں میر تقی میر کی اپنی ذات بھی شامل ہے۔ میر نے اپنے اس تذکرے کے سن تالیف کا کوئی واضح ذکر نہیں کیا ہے صرف ضمناً رائے آنند رام مخلص کے ذکر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ تذکرہ کی تالیف سے ایک سال قبل مخلص کا انتقال ہوا تھا۔ مخلص کی تاریخ وفات کے سلسلے میں مولوی عبدالحق نے خزانہ عامرہ مولفہ آزاد بلگرامی مطبوعہ نو لکشور پریس کے صفحہ425کے حوالے سے مخلص کا سن وفات1164ھ تحریر کیا ہے۔ مشہور مستشرق موسیو گارساں دتاس نے بھی اپنے 4دسمبر1854ء کے خطبے میں کہا تھا: ’’ مخلص کی وفات1164ھ(1750-51ئ) میں ہوئی‘‘ مولوی عبدالحق نے تالیف کو اس قلمی نسخے کے مدد سے مرتب کیا جو سید عبدالولی عزلت کے لئے سید عبدالغنی ابن سید محمود نے 1172ھ میں کتابت کیا تھا۔ مولوی عبدالحق نے اس تذکرے کے آغاز میں چار صفحات پر مشتمل ایک مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جس میں اس تذکرے کی تقدیم کے سلسلے میں تاریخی اور علمی شواہد پیش کئے ہیں اور اس کا ادبی مرتبہ قائم کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ اگرچہ یہ تذکرہ مختصر ہے لیکن اس میں عموماً اور اکثر شعراء کے کلام پر منصفانہ اور بے باکانہ تنقید پائی جاتی ہے یہ بات دوسرے تذکروں میں نظر نہیں آئے گی دوسرے ایجاز کے ساتھ اس کی عبارت میں شگفتگی اور پختگی بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بعض باتیں پہلے پہل اس تذکرے سے معلوم ہوئیں مثلاً جو ریختہ شیخ سعدی شیرازی سے منسوب چلا آ رہا تھا سب سے پہلے اس کی تردید میر صاحب ہی نے کی اور یہ بتایا ہے کہ یہ شاعر سعدی دکنی تھا یا مرزا جان جاناں کا نام جو عام طور پر مشہور ہے وہ اصل میں جان جاں ہے اس طرح ولی کو سب سے پہلے اورنگ آبادی میر صاحب ہی نے لکھا۔‘‘ دیوان تاباں مولوی عبدالحق نے یہ نسخہ تین مختلف نسخوں کی مدد سے مرتب کیا تھا جس میں سے ایک پنڈت برجموھن دتا تریہ کیفی دھلوی کا عطیہ، دوسرا ریسرح انسٹی ٹیوٹ مدارس یونی ورسٹی کی ملکیت اور تیسرا انجمن ترقی اردو کی ملکیت تھا۔ مولوی عبدالحق نے میر عبدالحی تاباں کا ان الفاظ میں تعارف کرایا ہے: ’’ میر عبدالحی تاباں شاہ جاں آباد کے رہنے والے اور دور محمد شاہی کے شعراء میں تھے عین عالم شباب میںکثرت مے نوشی کے باعث انتقال کیا۔‘‘ ’’ دیوان تاباں‘‘ میں غزلوں کے علاوہ دیگر اصناف شعر بھی موجود ہیں۔ جن میں ایک مثلث 6مخمس،2مسدس،1ترکیب بند، 1مستزاد، 1قصیدہ، در مدح بادشاہ،1مثنوی اپنے استاد حشمت نواب عمدۃ الملک کی مدح میں، چند تضمین حافظ اور مظہر جان جاں کے مصرعوں پر اور آخر میں چھ قطعات تاریخ شامل ہیں۔ یہ قطعات جن حضرات کی وفات پر لکھے گئے ہیں ان کے نام یہ ہیں: سیدی احمد، شرف الدین، پیام، مضمون، روشن رائے، نواب امیر خان اور حشمت، آخری قطع تاریخ حشمت کا ہے جس سے حشمت کی تاریخ وفات1161ھ نکلتی ہے اور اسی سے مولوی عبدالحق نے یہ قیاس کیا ہے: ’’ ان کا انتقال1161ھ اور1165 ھ کے درمیان ہوا‘‘ کتائب تخ ٹائپ میں1935ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے انجمن پریس سے شائع کی۔ میٹریکولیشن کا نصاب اردو مولوی عبدالحق نے مجلس نصاب اردو جامعہ عثمانیہ کی ہدایت کے مطابق’’ میٹریکولیشن کا نصاب اردو‘‘ مرتب کیا تھا جو محمد صدیق حسن کے زیر اہتمام انجمن پریس اورنگ آباد سے1935ء میں شائع ہوا۔ اس نصاب کے مشمولات درج ذیل ہیں: سرسید احمد خان (امید کی خوشی، تعصب) مولانا الطاف حسین حالی(میرزا غالب کے اخلاق، سرسید کی طرز تحریر) شمس العلما مولوی محمد حسین آزاد(اورنگ زیب کی چڑھائی دکن پر، عبدالرحیم خان خاناں کی فیاضی و دریا دلی،سید انشا کا انجام اور ایران کا موسم) شمس العلماء مولانا نذیر احمد مرحوم (ایک ہندوستانی ڈپٹی کلکٹر کی ملاقات انگریز کلکٹر سے، کلیم کا باپ سے روٹھ کر مرزا ظاہر دار بیگ کے پاس جانا) مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی (ایثار نفس، ادبی تفریح) پنڈت رتن ناتھ سرشار (بچوں کو زیور پہنانے کے مضمرات، ایک فقیر کاجل) وحید الدین سلیم مرحوم(خطاب بہ طلبہ) مولوی محمد عنایت اللہ بی اے(مترجمہ: پیرک نیز کی مشہور تقریب تعزیت) ڈپٹی لال نگم (اخلاقی جرات) خطوط سرسید احمد خان (بنام الطاف حسین حالی و مشتاق حسین) اسد اللہ خان غالب(بنام میر مہدی مجروح تین خطوط) میر مہدی مجروح (بنام اسد اللہ خاں غالب تین خطوط) الطاف حسین حالی (بنام مولوی عبدالحق، مولانا شبلی نعمانی (بنام ایم اے مہدی 3خطوط، شیروانی 3خطوط عطیہ بیگم فیضی 3خطوط) حصہ نظم الطاف حسین حالی (انتخاب از مسدس) محمد اقبال (نیا شوالہ، ھمالہ، ایک پرندے کی فریاد، کنج عزلت) پنڈت برج نرائن چکبست (غزل1،رامائن کا سین) علی حیدر طباطبائی (گورستان) میر بیر علی انیس (مناجات، گھوڑا، گرمی کی شدت) انشا اللہ خان انشا (غزل) حضرت جوش ملیح آبادی(نغمہ سحری) مولانا ظفر علی خان (ندی کا راگ، شور محشر) احمد علی شوق قدوائی(بلبل کا ذوق آزادی) مولوی سید ہاشمی (کالی ناگن) سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی (2غزلیں، نظم بہاریہ، ایک شعر) میر حسن (مثنوی سے دو انتخابات) میر تقی میر (3غزلیں) محمد رفیع سودا (قصیدہ، شہر آشوب، 1غزل) شیخ ابراہیم ذوق(3غزلیں) خواجہ حیدر علی آتش(3غزلیں) حسرت موھانی(5غزلیں) سرور جہاں آبادی (گنگا جی) اسمعیل میرٹھی(مثنوی آب زلال) ابو الاثر حفیظ جالندھری (فردوس ھمالیہ) نظیر اکبر آبادی (ہولی) اصغر گونڈوی(2غزلیں) فانی (2غزلیں) پنڈت برجموہن وتاتریہ صاحب کیفی (طلوع سحر، حسن) امجد حیدر آبادی ( 3 رباعیات) گل عجائب مولوی عبدالحق نے اسد علی خان تمنا اورنگ آبادی کا تذکرہ شاعراں (گل عجائب) سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر86کے تحت انجمن کے پریس سے نستعلیق لیتھو میں اورنگ آباد سے 1936ء میں شائع کیا تھا۔ مولف نے تذکرہ کی تاریخ آغاز قطعہ تاریخ میں’’ آغاز صفحہ بگو‘‘ سے1192ھجری اور اختتام ’’ شکر خدائے جہاں‘‘ سے1194ھجری نکالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تذکرہ 1192ھ تا1194ھ کی درمیانی مدت میں تالیف کیا گیا۔ ’’ اس میں بارھویں صدی ہجری کے اواخر کے اکثر ان شعراء کا حال اور کلام ملتا ہے جو قلمرو آصفیہ میں تھے۔۔۔۔۔ اس تذکرے میں ایسے شاعروں کا حال ہے جو مولف کے ہم عصر تھے اور اکثر ان کے دوست اور ملاقاتی۔‘‘ مولوی عبدالحق نے یہ تذکرہ کتب خانہ آصفیہ کے نسخہ سے مرتب کیا ہے: ’’ جس نسخہ سے یہ تذکرہ مرتب کیا گیا ہے اکثر جگہ سے بوسیدہ اور مسخ و مجروح ہے اس لئے اس کی ترتیب میں بہت دقت اٹھانی پڑی۔ اس کے بعض حصوں کا کاتب بہت غلط نویس ہے، اکثر املا کی غلطیاں موجود ہیں اور اشعار غلط نویسی کی وجہ سے وزن اور بحر سے خارج ہو گئے ہیں اور ان کو دوسرے تذکروں اور دیوانوں سے یا سیاق و سباق سے درست کرنا پڑا بعض اشعار جو بالکل مہمل ہو گئے تھے مجبوراً خارج کرنے پڑے۔‘‘ اس تذکرے میں51شعراء کا ذکر ہے تذکرے کا آغاز میں قطعہ تاریخ آغاز اور خاتمہ پر دو قطعات تاریخ اختتام کے درج ہیں یہ تینوں قطعات مولف کے اپنے کہے ہوئے ہیں۔ ’’ تراجم نہ بہت مختصر ہیں نہ طویل، منتخبات البتہ خاصے طویل ہیں تراجم یوں قابل اعتبار ہیں کہ اس تذکرے کے مذکورہ شعرا سے تمنا ذاتی ور پر واقف تھے۔‘‘ اسد علی تمنا کے حالات زندگی گوشہ گمنامی میں ہیں تاہم مولوی عبدالحق نے مختلف تذکروں اور شاعروں کے احوال سے جو کھوج لگایا ہے اس کے مطابق تمنا کا پورا نام اسد علی خان اور تخلص تمنا تھا، وطن اورنگ آباد تھا یہیں ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی: ’’ آزاد بلگرامی اورنگ آباد میں کئی سال مقیم رہے اور اکثر لوگوں نے ان کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ تمنا کو بھی شعر و سخن میں انہیں سے تلمذ تھا۔‘‘ تمنا صاحب دیوان تھے اور اپنے وقت میں استاد کا درجہ رکھتے تھے اورنگ آباد کے محمد علی شوق نے تمنا کا اس طرح ذکر کیا ہے: ہوا شاعری کا جو مرغوب فن کیا میں تمنا سے شوق سخن تمنا اورنگ آبادی کا انتقال 1204ہجری میں ہوا محمد علی شوق نے ’’ وفات بہشتی کر اے دل رقم‘‘ سے تاریخ وفات نکالی۔ دی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری مولوی عبدالحق صاحب کے تالیفی سرمایہ میں’’ دی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری‘‘ بہت اہمیت رکھتی ہے اس تالیف کی مختلف منزلوں میں مولوی وحید الدین سلیم، مولوی غلام یزدانی صاحب، مولوی سید ہاشمی صاحب، ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب، ڈاکٹر عابد حسین صاحب اور شیخ چاند صاحب شریک کار رہے اور کئی سال کی لگاتار مشقت کے بعد یہ لغت پایہ تکمیل کو پہنچی۔ 1937ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے مولوی عبدالحق صاحب کے دیباچہ کے ساتھ بائبل کاغذ پر شائع کی۔ اس ڈکشنری میں تخمیناً2لاکھ الفاظ اور محاورات کی تشریح کی گئی ہے اور ایسے الفاظ شامل کئے گئے ہیں جو انگریزی زبان میں نو وارد تھے۔ ادبی، مقامی اور بول چال کے الفاظ کے ان الفاظ کے معنی بھی شامل ہیں جن کا تعلق علوم و فنون کی اصطلاحات سے ہے۔ ہر لفظ کے مختلف معانی اور فرق الگ الگ لکھے گئے ہیں اور ان الفاظ کی وضاحت بھی کی گئی ہے جن کا مفہوم آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر کوئی لفظ انگریزی کا مفہوم ادا کرنے سے قاصر ہو تو اس کے لئے مرکب اور مفرد الفاظ اور محاورات کی چھان بین میں تحقیق سے کام لیا گیا ہے اور ان متروکات کے بھی معنی دئیے ہیں جن کا خال خال استعمال ہوتا ہے۔ اس ڈکشنری کے اصول ترتیب میں کنسائزڈ آکسفورڈ کو نمونہ بنایا گیا ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے دیباچہ میں جہاں اپنے رفقاء کار کی کاوشوں کا تذکرہ کیا ہے وہاں لغت نویسی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ان مستشرقین کو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے جنہوں نے انگریزی اردو لغت نویسی کی داغ بیل ڈالی۔ مولوی عبدالحق صاحب کی سرکردگی میں تالیف ہونے والی یہ لغت1937ء کے بعد بالترتیب 1968ئ،1981ء اور1985ء میں بھی شائع ہوئی۔ اسٹوڈنٹس انگلش اردو ڈکشنری مولوی عبدالحق صاحب نے اسٹوڈنٹس اردو ڈکشنری 1938ء میں تالیف کر کے انجمن ترقی اردو (ہند) سے بسلسلہ مطبوعات 107اورنگ آباد (دکن) سے شائع کی تھی۔ یہ لغت’’ دی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری‘‘ مطبوعہ1937ء کی اختصاری شکل ہے۔ جس میں متروک اور غریب الفاظ، ایسی اصطلاحیں جو خاص فنون سے تعلق رکھتی ہیں اور اب ادب میں شاذو نادر استعمال ہوتی ہیں خارج کر دی گئی ہیں اس کے باوجود مولوی عبدالحق صاحب کے بقول: ’’ بہمہ وجوہ مکمل اور جامع ہے۔۔۔۔۔۔ ایک اعتبار سے یہ لغت زیادہ صحیح اور مکمل ہے کیوں کہ یہ بڑی کتاب کے بعد تیار ہوئی اور اس میں جو کہیں کہیں خامیاں رہ گئیں اور بعض الفاظ کے خاص معنی جو بعد میں معلوم ہوئے وہ اضافہ کر دئیے گئے۔‘‘ اس کے بہت سے اڈیشن شائع ہو چکے تھے۔ چند تنقیدات عبدالحق ’’ چند تنقیدات عبدالحق‘‘ انجمن ترقی اردو (ہند) نے دلی سے اپنے سلسلہ مطبوعات118 کے تحت1939ء میں شائع کی تھی کتاب پر کسی مرتب کا نام ہے نہ دیباچہ و مقدمہ، سر ورق پر کتاب کے نیچے یہ عبارت درج ہے: ’’ یعنی اردو کے محسن اعظم مولانا عبدالحق پروفیسر اردو (ھند) کی چند اہم تنقیدات کا مجموعہ‘‘ یہ تنقیدات مجموعی اعتبار سے دس ہیں یہ وہ تبصرے ہیں جو1924ء تا1933ء رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد میں مختلف کتابوں کے متعلق شائع ہوتے رہے جن کی فہرست درج ذیل ہے: 1سرگزشت الفاظ مولوی احمد دین رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد اپریل1924ء 2زبان اردو پر سرسری نظر رشید احمد صدیقی ایضاً جولائی1924ء 3مکاتیب امیر مینائی مرتبہ مولوی احسن اللہ خان ایضاً جولائی1924ء 4اصلاح سخن عبدالعلی شوق ایضاً اکتوبر1926ء 5اردو شہ پارے سید محی الدین قادری ایضاً اکتوبر1926ء 6اکبر آلہ آبادی طالب آلہ آبادی ایضاً اکتوبر1930ء 7فیضان شوق منشی احمد علی شوق ایضاً جولائی1930ء 8اردو لٹریچر ڈاکٹر گراھم بیلی ایضاً جولائی1933ء 9نور اللغات نور الحسننیر ایضاً اکتوبر1923 10مجموعہ نغز تالیف میر قدرت اللہ قاسم مرتب حافظ محمود شیرانی ایضاً اکتوبر1933ء قطب مشتری مولوی عبدالحق نے عہد قطب شاھی کے ملک الشعر ملا اسد اللہ وجہی کی تصنیف مثنوی ’’ قطب مشتری‘‘ کو دو مختلف نسخوں سے مقابلہ کر کے مرتب کیا جس میں سے ایک برٹش میوزیم لائبریری کے نسخہ کا عکس اور دوسرا خود مولوی عبدالحق کے پاس تھا۔ یہ مثنوی ملا وجہی نے1018ھ میں تمام کی تھی۔ مثنوی کے آخر میں وجہی نے اس کا سن تالیف اس طرح دیا ہے: ’’تمام اس کیا دیس بارا میں نے سنہ ایک ہزار ہور اٹھارہ بنے‘‘ یہ مثنوی روایتی شقیہ انداز سے تحریر کی گئی ہے جس میں سلطان محمد قلی قطب شاہ بادشاہ گولکنڈہ کے عشق کا حال بیان کیا گیا ہے۔ ’’ معلوم ہوتا ہے کہ مشتری وہی ہے جو بھاگ متی کے نام سے مشہور تھی اور اپنے رقص و موسیقی اور حسن و جمال کی وجہ سے شہرت رکھتی تھی۔ محمد قلی زمانہ شہزادگی میں اس پر عاشق ہوا۔‘‘ نصرتی یہ کتاب ملک الشعرائ’’ ملا نصرتی‘‘ کے حالات زندگی اور کلام پر مشتمل ہے جس کا تعلق دکن کے عادل شاھی عہد سے تھا جس نے عادل شاھی عہد کے تین حکمرانوں (محمد عادل شاہ، علی عادل شاہ اور سکندر عادل شاہ) کا زمانہ دیکھا اور اورنگ زیب عالم گیر کے فتح جے جا پور (1097ھ مطابق 1686-88ء ) تک بقید حیات تھے۔ مولوی عبدالحق نے تذکرہ’’ ریاض حسنی‘‘ کے حوالے سے تحریر کیا ہے: ’’ جب شاہ اورنگ زیب عالم گیر نے دکن فتح کیا تو وہاں کے شعراء کو حاضر کرنے کا حکم دیا ان میں نصرتی بھی تھے اور ان کے کلام کو سب سے افضل تسلیم کیا اور خطاب ملک الشعراء ہند سے سرفراز فرمایا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں نصرتی کے حالات زندگی کا کھوج لگا کر بہت سے گمنام گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے اور بہت سی غلط روایات کی بیج کنی کی ہے جو نصرتی کے حالات کو مسخ کر رہی تھیں۔ گارساں دتاسی نے تاریخ ادب ہندوستانی میں نصرتی کو برہمن تحریر کیا تھا چنانچہ گارساں دتاسی سے اس روایت نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ مولوی عبدالحق نے دتاسی کی اس غلطی کی تردید میں نصرتی کے بہت سے ایسے اشعار پیش کئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نصرتی برہمن نہیں بلکہ مسلمان تھا، عبدالحق لکھتے ہیں۔ ’’ گارساں دتاسی نے گلشن عشق کے ایک قلمی نسخے کی سند پر اسے برہمن بتایا ہے سر چارلس نے انسائیکلوپیڈیا برٹینکا میں اپنے مضمون ہندوستانی میں اسے برہمن لکھا ہے یہ بالکل غلط ہے خود اس کے کلام سے تردید ہوتی ہے نیز میں نے ذاتی ور پر اس کے خاندانی حالات کی جو تحقیق کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نسلاً بعد نسلاً مسلمان تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس کتاب کے آغاز میں نصرتی کے حالات زندگی، عادل شاھی حکمرانوں کی علم پروری، نصرتی کے خاندان، اس کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور دربار سے وابستگی کا ذکر کیا ہے۔ پھر اس کی تصانیف کا ذکر ہے جس میں گلشن عشق، علی نامہ اور تاریخ سکندری شامل ہیں۔ مولوی عبدالحق نے نصرتی کے قصائد، غزلیات اور کلام پر رائے دیتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ اس سے پہلے جو شاعر گذرے ہیں ان کی تقلید نہیں کی بلکہ فارسی شعراء کے رنگ میں بھی لکھا ہے اس کی زبان بھی ٹھیٹ دکھنی ہے لیکن دوسرے شعراء کے مقابلے میں مشکل ہے اس لئے کہ اس نے رزم و بزم کے دونوں میدانوں میں یکہ تازی کی ہے۔۔۔۔۔ نصرتی خود اپنے کلام کی قدر سمجھتا تھا اور اسے اس بات پر بجا فخر تھا کہ اس نے دکھنی زبان کو سنوارا ہے اور اس میں نیا رنگ پیدا کیا ہے اور وہ چیزیں لکھی ہیں جو اس سے پہلے ناپید تھیں دکھنی ایک بے مایہ اور بے حقیقت زبان تھی اس میں جان ڈالی اور سزا وار تحسین بنایا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے نصرتی کے دکھنی اشعار کا اردو مفہوم اشعار کے نیچے ہی دے دیا تھا تاہم کتاب کے آخر میں تقریباً سوا چار سو دکھنی الفاظ کی اردو فرھنگ بھی دی ہے۔ یہ کتاب1944ء میں انجمن ترقی اردو نے دھلی سے شائع کی۔ بچوں کے خطوط مولوی عبدالحق صاحب کو درس و تدریس سے بہت لگاؤ تھا اور عملی زندگی کے آغاز میں ان کا واسطہ بھی تعلیم کے شعبہ سے رہا تھا۔ مدرسہ وسطانیہ حیدر آباد دکن کے صدر مدرس، اورنگ آباد انٹر کالج کے پرنسپل اور نائب مہتمم و صدر مہتمم مدارس بھی رہے۔ اسی دوران انہیں نصابی معیار کی کمیابی کا احساس ہوا اور انہوں نے ذاتی دل چسپی سے نہ صرف نصابی کتب مرتب کرائیں بلکہ خود بھی نصابی کتب کی تدویب و تالیف کی ’’ بچوں کے خطوط‘‘ بھی ان کے تعلیمی منصوبہ کی کڑی ہے جو وسطانیہ (مڈل) کے لئے تیار کی تھی۔ علی بشر حاتمی صاحب نے اس کتاب کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے’’ چند باتیں‘‘ میں لکھا ہے: ’’ ایک کمی جو ارتقائی دور میں شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک بچوں کے املا اور انشاء کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بڑے بڑے طالب علموں کے خطوط میں بھی ایسی غلطیاں نظر آتی ہیں جو پڑھنے والے کو بہت ہی نا پسند ہوتی ہیں۔۔۔ ان خطوط کے متعلق صرف اس قدر لکھ دینا ہی کافی ہے کہ یہ خطوط میرے محترم بزرگ جناب مولوی عبدالحق صاحب سیکرٹری انجمن ترقی اردو (ہند) نے لکھے ہیں جن کا نام اس دور کے تاریخ ادب اردو میں سب سے زیادہ روشن نظر آتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے کتاب کے آغاز میں تفصیل سے ’’ خط لکھنے کے متعلق چند ضروری ہدایتیں ‘‘ تحریر کی ہیں اور اس کے بعد خطوط کے نمونے ہیں ان نمونوں میں چھوٹوں، بڑوں اور ہم رتبہ دوستوں کے نام خطوط، دعوت ناموں اور عرضیوں کے نمونے شامل ہیں۔ خطوط کے یہ مجموعے عبدالحق اکیڈمی حیدر آباد (دکن)1944ء میں شائع کئے تھے۔ انتخاب داغ مولوی عبدالحق صاحب نے1946ء میں انجمن اردو دھلی سے فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دھلوی کے کلام کا انتخاب مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ مولوی عبدالحق صاحب کا یہ مختصر سا مقدمہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصہ میں داغ کے خاندان پس منظر اور سوانحی حالات کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ داغ کی زندگی عیش و عشرت میں بسر ہوئی اور فارغ البالی سے گزر اوقات ہوتی رہی۔ بالخصوص1888ء حیدر آباد طلبی اور میر محبوب علی کی استادی کے شرف نے انہیں مالا مال کر دیا۔ مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ ابتداء میں تنخواہ ساڑھے چار سو روپے ماہوار مقرر ہوئی اور اسی حساب سے تین برس کی امیدواری کی بھی پوری تنخواہ مل گئی تین برس بعد ایک ہزار ہو گئی اس ایک ہزار کا حساب بھی امیدواری کے زمانے سے کیا گیا اور چالیس اکتالیس ہزار روپے یک مشت ملے ۔۔۔ علاوہ تنخواہ اور خطابات کے جاگیر بھی مرحمت فرمائی۔ حیدر آباد کا زمانہ بڑی خوش حالی بے فکری اور فارغ البالی سے گذرا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے مقدمہ کے دوسرے حصے میں داغ کے فن پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ انہیں زبان پر قدرت حاصل تھی فصاحت، سادگی، شوخی اور ظرافت ان کے کلام کے جوہر تھے انہوں نے چار دیوان اور ایک مثنویٰ ’’ فریاد داغ‘‘ یاد گار چھوڑی ہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ بہت سے ایسے محاورے اور روز مرہ کے جملے جو اب تک تحریر میں نہیں آئے تھے ان کے کلام کی وجہ سے محفوظ ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔ ان کے کلام کی مقبولیت کی وجہ زبان کی صفائی اور سلاست بیان کا بانکپن اور بے ساختہ پن، ظرافت اور شوخی، بول چال کا لطف اور خاص انداز بیان ہے۔‘‘ ادبی تبصرے ’’ دانش محل‘‘ لکھنو نے88صفحات پر مشتمل مولوی عبدالحق کے ان 15تبصروں کا مجموعہ 1947ء میں شائع کیا ہے جو1921ء تا1942ء رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد/دلی میں شائع ہوئے تھے اس مجموعہ پر کسی مرتب کا نام نہیں ہے البتہ سر ورق پر ’’ نوشتہ ڈاکٹر عبدالحق‘‘ تحریر ہے نہ ہی کوئی دیباچہ، تقریظ یا مقدمہ ہے ایک صفحہ کی فہرست اور پھر باقی صفحات پر متن ہے۔ جن کی فہرست درج ذیل ہے: 1روح ادب ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد جولائی1921ء 2مرہٹی و ناکوش ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد اکتوبر1921ء 3رسائل عماد الملک ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد اپریل1922ء 4روح سیاست ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد اپریل1922ء 5حزن اختر ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد جولائی1922ء 6جواہرات حالی ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد جنوری1923ء 7افادات مہدی ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد جنوری1923ء 8انجام زندگی ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد اپریل1924ء 9دیوان جان صاحب ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد اپریل1935ء 10ناٹک ساگر ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد جولائی1929ء 11ہندو عہد اورنگ زیب میں ماخوذ: رسالہ ’’ اردو ‘‘ اورنگ آباد جنوری1925ء 12مکتوبات حالی (مقدمہ) ’’ مکتوبات حالی‘‘ حالی پریس پانی پت 1925ء 13الناظر کا انعامی مضمون ماخوذ: رسالہ اردو دہلی اپریل1942ء 14ماورا ماخوذ: رسالہ اردو دہلی اپریل1942ء 15آیات و نغمات ماخوذ:رسالہ اردو دہلی اپریل1942ء مولوی عبدالحق کے بعض ’’ ادبی تبصرے‘‘ تنقیدات عبدالحق اور چند تنقیدات عبدالحق کے عنوان سے بالترتیب1934ء اور1939ء میں شائع ہو چکے ہیں لیکن بہت سے ادبی تبصرے ایسے ہیں جو مذکورہ بالا کتابوں میں شامل نہیں یہ تبصرے رسالہ ’’ اردو‘‘ کے اورنگ آباد، دہلی اور کراچی کے ادوار میں مختلف شماروں میں شائع ہوئے تھے ان میں قابل ذکر مندرجہ ذیل ہیں۔ مولوی عبدالحق کی مرتبہ یہ کتاب خان عبداللطیف خان نے سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر110کے تحت1939ء میں انجمن ترقی اردو کے لئے انجمن کے پریس سے چھاپی مقدمہ کے آغاز میں مولوی عبدالحق نے قصہ کا خلاصہ تحریر کاے پھر مختلف حوالوں سے ’’ قطب مشری‘‘ اور ملا وجہی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کیا: ’’ وجہی کا کلام بہت سلیس، صاف ستھرا ہے البتہ زبان قدیم ہے اور وہ اس کی اپنی اور اپنے زمانے کی زبان ہے اس لئے متروک اور قدیم الفاظ اور محاوروں کی وجہ سے مشکل معلوم ہوتی ہے۔ بعض بعض مقامات پر اس نے بعض خیالات بڑی خوبی سے بیان کئے ہیں۔‘‘ مثنوی میں بعض موقعوں پر غزلیں بھی دی گئی ہیں جو خود ملا وجہی کی لکھی ہوئی ہیں کتاب میں ایک باب ملا وجہی نے شعر کی خوبیوں پر ’’ در شرح شعر‘‘ کے عنوان سے دیا ہے۔ اپنے مرتب کردہ اس نسخے کے آخر میں مولوی عبدالحق نے ایک ضمیمہ بھی دیا ہے جس میں وہ مختلف مواد ہے جو زیر موازنہ نسخوں سے حاصل ہوا ہے (یعنی انہوں نے اپنے نسخے کا اصل متن دو نسخوں کے ایک جیسے مواد کو قرار دیا ہے اور مختلف کلام کو ضمیمے میں ڈال دیا ہے) مولوی عبدالحق نے حاشیے میں ان الفاظ کی بھی نشان دھی کی ہے جو نسخوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کتاب کے آخر میں نامانوس اور غریب الفاظ بالخصوص ٹھیٹھ دکنی الفاظ کی فرھنگ بھی دی گئی ہے۔ یہ کتاب انجمن ترقی اردو نے انجمن کے مطبع دھلی سے 1939ء میں شائع کی۔ خطبات عبدالحق مولوی عبدالحق صاحب کی ساری زندگی اردو کے لئے جہاد میں گذری اس کے لئے انہوں نے اپنوں پرایوں سے لڑائیاں مول لیں۔ دور دراز کے سفر اختیار کئے اور جگہ جگہ اردو کی ترویج کے لئے خطبات دئیے۔ مولوی عبدالحق صاحب کے یہ خطبات پہلی مرتبہ انجمن ترقی اردو نے اپنے سلسلہ مطبوعات نمبر124کے تحت1939ء میں لطیفی پریس دھلی سے خان صاحب عبداللطیف صاحب نے شائع کئے تھے۔ اس کتاب میں دسمبر1933ء سے جولائی1939ء کی درمیانی مدت کے خطبات شامل ہیں۔ ’’ خطبات عبدالحق‘‘ پر کسی مرتب کا نام درج نہیں ہے تاہم مرتب نے14اکتوبر1939ء کو مختصر سا پیش لفظ تحریر کیا ہے اس میں انہوں نے لکھا ہے: ’’ ڈاکٹر مولانا عبدالحق صاحب مدظلہ لائف آنریری سیکرٹری انجمن ترقی اردو (ہند) کے خطبات جو انہوں نے مختلف موقعوں پر دئیے، خاص اہمیت رکھتے ہیں ان میں سے بعض خطبات رسالہ ’’ اردو‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں اور کچھ دوسرے بلند پایہ رسائل میں لیکن بعض خطبے جو الگ شائع ہوئے ان کی مانگ اس قدر تھی کہ دفتر سے فرمائشوں کی تعمیل محال ہو گئی۔ ارباب شوق کا یہ اصرار دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ جس قدر خطبات فی الوقت مل سکیں انہیں جمع کر کے کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے۔‘‘ چنانچہ یہ مجموعہ پیش ہے ہمیں امید ہے کہ بہی خواہاں اردو کے لئے یہ خطبے مفید اور بصاورت افروز ثابت ہوں گے اور تاریخ ادب اردو کے طلبہ خصوصیت کے ساتھ ان سے استفادہ کریں گے۔ 1944ء میں اس ادارے کی جانب سے جلد دوم شائع ہوئی جس میں دس خطبات اور تین مضامین و مقالات کا اضافہ کیا گیا۔ 1939ء کے مجموعہ’’ خطبات عبدالحق‘‘ میں مندرجہ ذیل خطبات شامل ہیں: خطبہ مقام سن 1خطبہ صدارت اردو کانفرنس ناگپور بڑودہ دسمبر1933ء 2خطبہ صدارت شعبہ اردو ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد 12جنوری1936ء 3خطبہ صدارت انجمن حمایت اسلام لاہور 12اپریل1936ء 4خطبہ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین لکھنو لکھنو اپریل1936ء 5خطبہ صدارت بہار اردو کانفرنس پٹنہ 1936ء 6خطبہ صدارت آل انڈیا اردو کانفرنس علی گڑھ 28اپریل1937ء 7خطبہ صدارت سندھ پروانشل اردو کانفرنس کراچی 31دسمبر1937 8خطبہ صدارت اردو کانفرنس صوبہ متوسط ناگپور 223اکتوبر1938ئء 9خطبہ صدارت مسلم یونیورسٹی علی گڑھ دسمبر1938ء 10تقریر ہندوستانی کیا ہے (ریڈیو اسٹیشن) دہلی 21فروری1939ء جلدو دوم1944ء 1خطبہ صدارت اردو کانفرنس ناگپور 4مارچ1940ء 2خطبہ صدارت شعبہ صحافت امرئینٹل کانفرنس تروپتی(جنوبی ہند) 28مارچ1940ء 3خطبہ صدارت اردو کانفرنس لاہور 8دسمبر1940ء 4خطبہ صدارت اردو کانفرنس گوالیار 27جنوری1941 5خطبہ صدارت کل پنجاب اردو کانفرنس لائل پور (فیصل آباد) 23فروری1941ء 6خطبہ صدارت یوم اردو انجمن حمایت اسلام لاہور 2اپریل1941ء 7خطبہ صدارت شعبہ اردو آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ 14فروری1943ء 8خطبہ صدارت شمالی بنگال اردو کانفرنس دیناج پور 7مارچ1943ء 9خطبہ صدارت اردو کانفرنس کالی کٹ 7نومبر1943ء 10مخلوط زبان(مقالہ) الہ آباد 21دسمبر1941 11ہندی اردو جھگڑا 16جولائی1941ء 12حامیان اردو (مضمون) دہلی 14اپریل1944ء 13تقریر سندھ پروانشل اردو کانفرنس کراچی 8اپریل1944ء نوٹ: خطبات کی درج بالا ترتیب ’’ خطبات عبدالحق‘‘ کی فہرست کے مطابق ہے نصاب اردو(انٹرمیڈیٹ کے لئے) 1940ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے مدراس یونیورسٹی سے ملحق کالجوں کے لئے انٹرمیڈیٹ کی سطح کا نصاب مرتب کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (ہند) دھلی نے1940ء میں حیدر آباد پریس سے طبع کرا کے اپنے سلسلہ نمبر137کے تحت شائع کیا اس ’’ نصاب اردو‘‘ کی فہرست مضامین درج ذیل ہے: حصہ نثر 1امید کی خوشی سرسید احمد خان 2دنیا کی کل علم سے چلتی ہے یا عمل سے مولانا الطاف حسین حالی مرحوم 3اورنگ زیب کی چڑھائی دکن پر مولوی محمد حسین آزاد دھلوی مرحمو 4عبدالرحیم خان خاناں کی فیاضی اور دریا دلی ایضاً 5اچھی کتاب کا مطالعہ مولوی عبدالحق صاحب بی اے علیگ 6مرزا غالب کے اخلاق شمس العلما مولوی الطاف حسین حالی 7ایک ہندوستانی ڈپٹی کلکٹر کی ملاقات انگریز کلکٹر سے شمس العلما نذیر احمد مرحوم 8سرسید کی طرز تحریر مولانا الطاف حسین حالی مرحوم 9علماء کی صحبت مولوی غلام یزدانی صاحب ایم اے 10سید انشا کا انجام شمس العلما مولوی محمد حسین آزاد مرحوم 11ایران کے بہار نو روز ایضاً 12پشاور از خالدہ ادیب خانم مترجم: مولوی سید حاشمی صاحب 13تعصب سرسید احمد خان مرحوم 14کلیم کا باپ سے روٹھ کر مرزا ظاہر دار بیگ کے پاس جانا شمس العلماء مولانا نذیر احمد 15ایثار نفس مولانا محمد عبدالحلیم شرر لکھنوی مرحوم 16ادبی تفریح ایضاً 17بچوں کو زیور پہنانے کی مضرت پنڈت رتن ناتھ سرشار 18ایک فقیر کاجل ایضاً 19خطاب بہ طلبہ مولانا وحید الدین سلیم مرحوم 20پیرک لیذ کی مشہور تقریب تعزیت مترجمہ مولوی محمد عنایت اللہ صاحب 21اخلاقی جرات ڈپٹی لال نگم خطوط 22خواجہ الطاف حسین حالی کے نام سرسید احمد خاں 23بنام مشتاق حسین صاحب سرسید احمد خان مرحوم 24(1) نامہ غالب (بنام میر مہدی مجروح) مرزا اسد اللہ خان غالب مرحوم 25(2) جواب مجروح میر مہدی مجروح 26(3) نامہ غالب (بنام میر مہدی مجرومین) مرزا اسد اللہ خان غالب مرحوم 27(4) جواب مجروح میر مہدی مجروح 28(5) نامہ غالب مرزا اسد اللہ خان غالب 29(6) جواب مجروح میر مہدی مجروح 30(7) نامہ مجروح ایضاً 31(8) جواب غالب مرزا اسد اللہ خان غالب 32بنام مولوی عبدالحق صاحب بی اے الطاف حسین حالی مرحوم 33بنام ایم مہدی مولانا شبلی مرحوم 34بنام ایم مہدی مولانا شبلی مرحوم 35بنام ایم مہدی مولانا شبلی مرحوم 36بنام مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی مولانا شبلی مرحوم 37بنام عطیہ بیگم فیضی مولانا شبلی مرحوم 38بنام عطیہ بیگم فیضی مولانا شبلی مرحوم حصہ نظم 1انتخاب از مسدس حالی مولانا حالی مرحوم 2مرثیہ عارف مرزا اسد اللہ خان غالب مرحوم 3غزل ایضاً 4نیا شوالہ ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم 5ھمالہ ایضاً 6ایک پرندے کی فریاد ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم 7کنج عزلت ایضاً 8غزل پنڈت برج نرائن چکبست 9رامائن کا ایک سین ایضاً 10گور غریباں مولوی علی حیدر نظم طبا طبائی مرحوم 11مناجات میر ببر علی انیس 12گھوڑا ایضاً 13گرمی کی شدت ایضاً 14غزل انشا اللہ خان انشا 15ندی کا راک مولانا ظفر علی خان 16شور محشر ایضاً 17بلبل اسیر احمد علی صاحب شوق قدوائی 18ماتم بلبل ایک مسلمان خاتون 19بلبل کا ذوق آزادی مولوی غلام علی بھیک صاحب نیرنگ 20کالی ناگن مولوی سید ہاشمی صاحب 21غزل (1) سید اکبر حسین الہ آبادی مرحوم 22غزل بہاریہ (2) ایضاً 23رباعی (3) ایضاً 24نظم بہاریہ (4) ایضاً 25شعر(5) ایضاً 26وزیر زادی کا جوگن بننا میر حسن 27شادی کے وقت بدر منیر کی سواری ایضاً 28غزلیات (1,2,3) میر تقی میر 29قصیدہ شہر آشوب میرزا رفیع سودا 30غزل میرزا رفیع سودا 31غزلیات (1,2,3) شیخ ابراہیم ذوق 32غزلیات(1,2,3) خواجہ حیدر علی آتش 33غزلیات(1,2,3) حضرت صفی لکھنوی 34غزلیات(1,2,3,4) حسرت موھانی 35گنگا جی سرور جہاں آبادی 36مثنوی آب زلال اسمعیل میرٹھی 37فردوس ھمالہ ابو الاثر حفیظ جالندھری 38ہولی نظیر اکبر آبادی 39غزلیات(1,2,3) اصغر گونڈوی 40غزلیات (1,2,3) فانی 41طلوع سحر پنڈت برجموھن دتاتریہ کیفی 42حسن ایضاً 43رباعیات (1,2,3) امجد حیدر آبادی 44قطعہ اکبر الہ آبادی 45دل بے قرار سوجا سرور جہاں آبادی 46نیم کے پتے مولانا وحید الدین سلیم چند ہم عصر مولوی عبدالحق صاحب نے 90سال سے زیادہ عمر پائی اور ہزاروں لوگوں کو دیکھا اور ملاقات کی ان میں سے بعض سے وہ متاثر بھی ہوئے اور ان کی یادوں کو قلمی خاکوں میں محفوظ بھی کر لیا۔ ان ہم عصروں میں ادیب، شاعر، سیاست دان اور مصلحین قوم سے لے کر معمولی سپاہی اور مالی تک شامل ہیں کیوں کہ مولوی عبدالحق کے خیال میں: ’’ بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لئے سبق آموز ہو سکتی ہے انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کے 1900ء سے 1937ء تک کی درمیانی مدت کے خاکے شیخ چاند صاحب نے مرتب کئے لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ مولوی عبدالحق صاحب کے لکھے ہوئے خاکوں کو اپنی زندگی میں طبع نہ کرا سکے شیخ چاند مرحوم کا دسمبر1936ء میں انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے تین سال بعد یہ خاکے1940ء میں انجمن ترقی اردو (ہند) کے سلسلہ اشاعت192کے تحت زیور طباعت سے آراستہ ہوئے اس کے بعد بھی ’’ چند ہم عصر‘‘ کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے جن میں خاکوں کے اضافے بھی ہوئے اور چند حذف بھی کئے گئے۔ یہ خاکے دراصل مولوی عبدالحق صاحب کی بعض تقاریر ہیں جو تعزیتی مجلسوں میں کی گئیں، بعض خطوط ہیں بعض کتب پر تبصرے، مقدمات اور چند مضامین ہیں۔ ’’ چند ہم عصر‘‘ میں مندرجہ ذیل خاکے و مضامین شامل رہے ہیں۔ جن کی ترتیب فہرست کے مطابق ہے پہلا ایڈیشن (مطبوعہ: انجمن ترقی اردو ہند، دھلی 1940ئ) عنوان نوعیت مطبوعہ سن 1منشی امیر احمد مینائی مضمون رسالہ ’’ افسر‘‘ حیدر آباد دکن 1900ء 2پروفیسر مرزا حیات مضمون رسالہ ’’ افسر‘‘ حیدر آباد دکن 1900ء 3سید محمود تقریر جلسہ تعزیت منعقدہ حیدر آباد دکن 1903ء 4مولوی چراغ علی مقدمہ کتاب اعظم الکلام فی ارتقاء اسلام از مولوی چراغ علی 1911ء 5مولوی محمد عزیز مرزا 1912ء 6شمس العلماء ڈاکٹر مولوی سید علی بلگرامی مقدمہ کتاب’’ تمدن ہند‘‘ از ڈاکٹر بان مترجم مولوی سید علی بلگرامی 1913ء 7خواجہ غلام الثقلین 1915ء 8حکیم امتیاز الدین مکتوب بنام ہاشمی فرید آبادی محررہ اگست 1951ء 9وحید الدین سلیم مضمون رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد (دکن) 1929ء 10گدڑی کا لال، نور خان 1930 11محسن الملک مقدمہ تذکرہ محسن از محمد امین 1931ء 12مولانا محمد علی مرحوم تبصرہ سیرت محمد علی رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد (دکن) 1933ء 13شیخ غلام قادر گرامی تبصرہ سیرت دیوان گرامی رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد (دکن) 1933ء 14حالی مضمون مرحوم چاند کی فرمائش پر لکھا گیا 1937ء چوتھا ایڈیشن (اضافے) مطبوعہ انجمن ترقی اردو کراچی 1ڈاکٹر محمد اقبال مضمون 1953ء 2مولانا حسرت موہانی مضمون روزنامہ’’ امروز‘‘ 1953ء 3آہ عبدالرحمان صدیقی مضمون ’’ قومی زبان‘‘ کراچی 1953ء 4درویش پروفیسری ہٹ سک مضمون رسالہ ’’ افسر‘‘ حیدر آباد (دکن) 1901ء 5ڈاکٹر عبدالرحمان بجنوری مضمون یادگار بجنوری 1951ء پانچواں ایڈیشن(اضافے) (مطبوعہ: انجمن ترقی اردو کراچی1959ئ، اردو اکیڈمی سندھ سے پہلا ایڈیشن) 1نواب عماد الملک حسین بلگرامی مضمون رسالہ’’ اردو‘‘ 1956ء 2پروفیسر مرزا حیرت مضمون رسالہ ’’ افسر‘‘ حیدر آباد (دکن) 1900ء چھٹا ایڈیشن (مطبوعہ: اردو اکیڈمی سندھ، کراچی سے دوسرا ایڈیشن1961ئ) 1خالدہ ادیب خانم مضمون ہفت روزہ ’’ لیل و نہار‘‘ لاہور 12 اپریل 1959ء رسالہ ’’ اردو اورنگ آباد‘‘ 1حیات تبسم رمضان تبسم جنوری1921ء 2نکات غالب نظام الدین حسین نظامی اکتوبر1921ء 3کلیات ولی مرتبہ محمد اسلم سیفی جنوری1922ء 4(1) مقالات زرین از جوش ملیح آبادی جنوری1922ء (2) اوراق سحر (3)جذبات فطرت (4) آواز حق اپریل1922ء 5(1) خوں نا بہ عشق مترجم فیروز الدین اپریل1922ء (2) حکائت شرلک ھومز 6جوھر منظوم (اردو ترجمہ رباعیات سرمد) جولائی1922ء 7(1) صبح وطن از سدرشن اکتوبر1922 (2) آنریری مجسٹریٹ 8حشمت النساء سید حسین بلگرامی اکتوبر1922ء 9جان ظرافت نور الٰہی و محمد عمر 10تہذیب کے تازیانے بنکم چندر چٹر جی 11شہزادہ یوسف و حکیم بلوہر صفدر علی جنوری1923ء 12تذکرہ میر حسن دھلوی 13داغ جگر از جگر مراد آبادی 14مثنوی مشہور عالم از سلطانہ رضیہ بیگم 15روح نظیر نظیر اکبر آبادی 16اردو معلی اسد اللہ خان غالب 17مکاتیب اکبر اکبر حسین اکبر آبادی اپریل1923ء 18دیوان صدر صدر قصوری 19مجموعہ کلام جوھر محمد علی جوھر 20چندن (افسانے و ڈرامے) سد رشن 21قزاق مترجمہ ومولفہ محمد عمرو نور الٰہی جولائی1923ء 22نیرنگ ایس آر کے اکتوبر1923ء 23رباعیات عمر خیام مترجمہ جلال الدین جنوری1924ء 24(1) ظفر کی موت مولیر مترجمہ نور الٰہی و محمد عمر (2) بگڑے دل 25جولیس سیزر مترجمہ تفضل حسین اپریل1924ء 26حیات طیران مرزا یحی دولت آبادی 27(1) قوم پرست مترجمہ سدرشن اپریل1924ء (2) کنج عافیت 28محبت کا انتقام مترجمہ نور الٰہی و محمد عمر 29انتخاب میر انور الرحمن جولائی1924ء 30دیوان حسرت (حصہ پنجم تا نہم) حسرت موھانی اکتوبر1924ء 31خمخانہ کیفی برجموھن دتاتریہ کیفی جنوری1924 32تذکرہ شعراء اردو (موسوم بہ گل رعنا) سید عبدالحی جولائی1925ء 33دکن میں اردو مولوی نصیر الدین ھاشمی 34اردو زبان پر انگریزی زبان کا اثر سید عبدالطیف جولائی1925ء 35فوائد رضیہ غلام محمد جنوری1926ء 36کلیات اقبال مرتبہ عبدالرزاق اپریل1926ء 37نشاط روح اصغر گونڈوی 38شمیم فیاض علی 39التحفہ اعجاز ریاض الدین بریلوی 40ذیقہ امجد ابو الاعظم احمد حسین 41پردہ غفلت عابد حسین 42اردو قدیم شمس اللہ قادری جولائی1926ء 43نقش ار ژنگ جلال الدین اکبر 44مجموعہ قصائد مومن مرتبہ ضیاء احمد 45مطلع انوار امیر خسرو 46عقوبت گناہ نظر حسین حسین فاروقی اکتوبر1926ء 47محاکمہ قطعات ابن یمنی و سعدی علی بشیر اکتوبر1926ء 48اقبال احمد دین 49صبح وطن برج برائن چکسبت 50بزم ایران محمد رضا طباطبائی جنوری1927ء 51مثنوی سحر اقبال ورما 52یورپین شعراء اردو محمد سردار علی 53یورپین شعراء اردو محمد سردار علی 54غزال ایم اسلم 55خم خانہ عشق مولانا بخش ہمدرد اپریل1927ء 56بیوہ کی کہانی بیوہ کی زبانی محمد شمس الدین 57مضامین شرر (جلد ششم و ہفتم) عبدالحلیم شرر اپریل1927ء 58سبد گل اولاد حسین اپریل1927ء 59چار سہیلیاں ایم اسلم 60حکایات و احتساسات مترجم سجاد حیدر جولائی1927ء 61مرقع ادب صفدر مرزا پوری 62شعراء اورنگ آباد محمد سردار علی 63(1) خطوط محب مرتبہ افضل النساء (2)افکار محب 64عروس غربت ایم اسلم اکتوبر1927ء 65شاما کشن پرشاد جنوری1928ء 66جمال ہم نشیں اکرام خاتون 67پھول کی ڈالی محمد اسمعیل 68چندن سدرشن 69مصنوعی بیوی پول ایچ مترجمہ عباس حسین 70میرے پھول (ہندی) بنسی دھر 71شیریں خسرو (فارسی) امیر خسرو 72قصائد حسان (شرح شادمانی) نقی شادماں جنوری1928ء 73انتخاب کلام سودا مرتبہ مطلب حسین 74سیر گل احمد قدوائی 75خیابان خیل شعراء ٹونک 76طفل اشک مترجم محمد حسن اپریل1928ء 77مضامین فرحت فرحت اللہ بیگ 78مثنوی گلزار نسیم (شرح) منظور علی 79مثنوی میر حسن مرتبہ و مقدمہ حامد اللہ 80حکیم قاآنی محمد حسن 81پسند خاطر شیکسپئر مترجمہ ولادیت حسین 82پیغام درا برکت علی 83تصویر افکار کیفی رضی مرتبہ سرفراز علی 84درد دل ابو ظفر سیحی اپریل1928ء 85(1) حسین ناصر نذیر فراق (2) مے خانہ درد ناصر نذیر فراق 86لمحات اختر احمد میاں اختر اپریل1926ء 87سیلاب حوادث مترجم قمر احمد 88ابن یمن عبدالسلام ندوی جولائی1928ء 89جذبات یاور محمد بہادر خیر آبادی 90تذکرہ سلف(اسلامی قطعات) ضیا احمد 91خیالات اورنگ واشنگٹن ارونگ مترجم محمد یحی 92یاد وطن اعجاز حسین علوی 93مثنوی بحر المحبت شیخ مصحفی 94پیکر وفا اکرام خاتون 95جام صہبائی عبدالسمیع صہبائی 96اندر سبھا نور الٰہی و محمد عمر 97(1) دیوان شاہ حاتم مرتبہ حسرت موہانی اکتوبر1928ء (2)انتخاب دیوان مصحفی (3) انتخاب سخن 98پیغام سروش ایم اسلام 99جواب شکوہ محب الحق 100(1) ڈالی کا جوگ حامد اللہ افسر اپریل1929ء (2) پیام روح 101انند مٹھ بنکم چندر چٹرجی 102ماہ نو(مجموعہ نظم و نثر) محمد اکبر منیر جولائی1929ء 103عناصر اربعہ (رباعی) مسعود علی 104سادھو اور بیسوا کشن شاد کول 105اردو معلی حسرت موہانی 106دنیائے افسانہ عبدالقادر سروری جولائی1929ء 107پرتو خیال حمید الدین حمید 108غالب اور اس کی شاعری احمد الدین 109تاریخ ادبیات اردو سکسینہ مترجمہ مرزا محمد عسکری اکتوبر1929ء 110(1) منتخب عود ہندی مرتبہ احسن مارھروی (2) آل انڈیا مشاعرہ 111ادبی خطوط غالب مرتبہ محمد عسکری 112فغان درد عطا محمد درد درانی 113سیر المصنفین (جلد دوم) محمد یحی تنہا 114تابش خیال افسر صدیقی امروھوی جنوری1930ء 115کردار اور افسانے عبدالقادر سروری 116نوائے رضا سید آل رضا 117کائنات ادب حمید ایم اے اپریل1930ء 118سلیس نظمیں محمد یوسف جولائی1930ء 119مضامین فرحت (حصہ دوم) فرحت اللہ بیگ 120عالم حسیات نجی الحسن 121تجلیات سخن نظام الدین نظامی مرتبہ احمد فرشوری 122دیوان مرزا کامران مرزا ابن بابر مرتبہ محوظ الحق 123تذکرہ ریختی تمکین کاظمی 124کلیات نظم حالی(جلد اول) حالی مرتبہ محمد اسمعیل 125مراثی انیس(جلد سوم) مرتبہ حیدر یار جنگ جنوری1931ء 126پطرس کے مضامین اے ایس بخاری 127سرگزشت وزیر خان مرتبہ عبدالقوی فانی 128منتخبات کلام ہندی مرتبہ جعفر حسن 129(1) رباعیات کامل (حصہ دوم) غلام علی کامل اپریل1931ء 130صبح مثالی مرزا دبیر مرتبہ سر فر حسین 131دورنگی تحفہ محی الدین 132ہدیہ نسواں امیتہ الروف جولائی1931ء 133دختر فرعون (جلد اول) مترجم لطافت حسین 134روح جذبات اکبر حیدری 135اردو گلستان مترجمہ خلیل الرحمن اکتوبر1931ء 136ہنسانے فسانے ابوتمیم فرید آبادی 137بہار گلشن کشمیر تذکرہ شعراء کشمیری پنڈت برج کشن کول بے خبر اپریل1932ء 138ہندی اردو مالا ہری ہرشاستری اپریل1932 139شیطان سبھا (پیراڈئس لوسٹ) کیٹس مترجمہ آ حنیف 140رفیق تنہائی (افسانے) علی عباس حسینی جولائی1932ء 141دختر فرعون (جلد دوم) مترجمہ لطافت حسین 142گلزار عثمانی عبدالقوی فانی 143گنج معانی تلوک چند محروم جولائی1932ء 144شاعر کی راتیں جوش ملیح آبادی 145نقش و نگار جلیل قدوائی 146فاؤسٹ مترجمہ عابد حسین 147دیوان شمس تبریز مرتبہ عبدالمالک آروی 148شمیم فیاض علی اکتوبر1932ء 149نبرنگ ایس آر کے اکتوبر1932ء 150مفلح انوار مہاراج بہادر برق 151دیوان گرامی غلام قادر گرامی جنوری1933ء 152غالب عبداللطیف مترجم: معین الدین چشتی 153رباعیات حالی الطاف حسین حالی 154انگریزی ترجمہ ٹیوٹ 155مشاھیر اردو کے خطوط مرتبہ مہیش پرشاد 156حقیقی شاعرء (نظم) نصیر الدین نصیر 157ورڈز ورتھ اور اس کی شاعری میر حسن 158سرگذشت ادب ترکی ریاست علی ندوی جولائی1933ء 159طلسم زندگی بشیر احمد جولائی1933ء 160محشرستان محشر عابدی 161مونا وانا ماترنگ مترجمہ جلیل احمد قدوائی جولائی1933ء 162حدیث ادب احسان بن دانش جولائی1933ء 163زخم اولین (کلام اخگر) مرتبہ محمد عبداللہ 164بہار گلشن (جلد دوم) 165پھول کماری موھن دتیہ پیارے اکتوبر1933ء 166مجموعہ تاریخ (آئینہ جمال) محمد ھاشم مرتبہ مجتبی حسین 167نغمہ حیات (مضامین) ایم اسلم 168(1) بارہ پھلجھڑیاں ابو تمیم فریدی آبادی (2) فلم ایکٹریس نرغے میں 169خاقانی ہند (ذوق کی شاعری) محمد رفیق خاور جنوری1934ء 170روح ادب حیدر عباس 171نقد الادب حامد اللہ افسر 172نوادر محمد عسکری 173(1) میری نا تمام محبت (افسانے) حجاب اسمعیل اپریل1934ء (2) لاش (قصے) 174افسانے نہائے عشق مترجم حامد علی 176شریک اخلاص (مرثیہ محمد علی) احسان احمد 177چراغ ایمن صیانت الزمان فکری 178گلزار معنی دینا ناتھ مدن 179اصغر کے سو شعر اصغر گونڈوری 180گنج پنہاں(مرثیہ) میر انیس 181نغمہ روح اختر انصاری اکتوبر1934ء 182قربانی پنڈت کشن پرشاد کول جنوری1935ء 183اردو کا پہلا ناول نگار اویس احمد ادیب اپریل1935ء 184دیوان مومن(مع شرح) مرتبہ ضیاء احمد ضیاء 185دیوان غالب اسد اللہ غالب اپریل1935ء 186نذیر احمد کی کہانی محمود خان 187بال جبریل محمد اقبال 188منشورات برجموھن دتا تریہ کیفی 189سرور زندگی اصغر گونڈوی اپریل1935ء 190تذکرہ محسن محمد امین زبیری جولائی1935ء 191دیوان معروف الٰہی بخش معروف مرتبہ عبدالحامد قادری ا کتوبر1935ء 192مختصر تاریخ اردو اعجاز اپریل1936ء 193مثنویات امیر احمد علوی 194انتخاب کلام مظہر مرتبہ عبدالغفور احسن جولائی1936ء 195جوئے شیریں شاہ خان 196مرثیہ اندلس حفیظ نعیمی 197مضامین فلک پیما عبدالعزیز 198ضرب کلیم محمد اقبال اکتوبر1936 199غالب غلام رسول مہر 200داغ (حیات و کلام) نور اللہ محمد نوری جنوری1937ء 201تسخیر یاس شرف الدین یاس 202حمید کے سو شعر حمید الدین حمید 203فلسفہ عجم محمد اقبال مترجم امیر حسن 204پیلی یاس میلی ساند مترجم عثمانی جنوری1937ء 205(1) گلدستہ اکبر) مرتبہ عبدالل اپریل1937ء (2)ذوق کے سو شعر 206نظام شبیر سید علی شبیر 207طنزیات مانپوری مانپوری 208سراج سخن سراج الدین 209نورس (مضامین) حامد اللہ جولائی 1937ء 210مرقع سخن (جلد اول و دوم) مرتبہ محی الدین 211نخوران ایران در عصر حاضر (جلد دوم) محمد اسحاق 212انور (ناول) فیاض علی اکتوبر1937 213برھان معاصر مرتبہ مجلس مخطوطات فارسی دکن 214حیدر علی محمد محمود خان جنوری1938ء 215کفر عشق (دیوان) امرناتھ ساحر 216محبت اور نفرت اختر حسین 217مضامین رشید رشید احمد صدیقی 218حالی کی شاعری طاھر جمل جولائی1938ء 219مے خانہ الہام شاہ عظیم آبادی مرتبہ حمید عظیم آبادی جولائی1938ء 220آئی سیایس میر محمودی بیدار مرتب محمد حسین محوی 221محشر خیال مجاز لکھنوی اکتوبر1938ء 222اقبال اور اس کا پیغام تصدق حسین اکتوبر1938ء 223پھول والوں کی سیر فرحت اللہ بیگ رسالہ ’’ اردو‘‘ دھلی 224نغمہ عندلیب گوبند سنگھ جنوری1940ء 225معارف جمیل (مجموعہ کلام) حکیم آزاد انصاری 226کلام رونق پیارے لال رونق 227عصر نو محمد صادق ضیاء 228افکار سلیم (مجموعہ کلام) وحید الدین سلیم 229کلام مشتاق بہاری لال مشتاق 230اندھی دنیا اختر انصاری 231نادر خطوط غالب اسد اللہ خان غالب 232گل دستہ پتیمیہ (یتیمہ پر نظمیں ) مرتبہ محمد امام 233یاد چکبست انند نرائن ملا اپریل1940 234کلام عاصی عاصی لال دھلوی 235ہندو ادیب ناظر کاکوروی 236نشا کشن پرشاد کو اکتوبر1940ء 237پنچھی کنار شرما 238پیام کیف احسان احمد احسان اکتوبر1940ء 239میر کے بہتر نشر مرتبہ محمد فاضل 240روپ اختر جگناتھ پرشاد 241(1)ساگیت نگینرو (2)تمرا نندن پنت 242تذکرہ بے نظیر (شعراء فارسی) بد الوھاب افتخار جنوری1941ء 243نظم اردو ابو الکلام حکیم ناطق اپریل1941ء 244عشرت گیاوی کے سو شعر عشرت گیاوی جولائی1941ء 245متاع حرم تاجور عثمانی 246کلام داغ مرتبہ احسن مارھروی اکتوبر1941ء 247اردو شاعری پر ایک نظر کلیم الدین 248خم خانہ جاوید (جلد پنجم) سری رام جنوری1942ء 249واردات برج موہن وتاتریہ کیفی 250صبح بہار اختر شیرانی اپریل1942ء 251نئے ادبی رحجان اعجاز حسین جولائی1942ء 252اردو تنقید پر ایک نظر کلیم الدین احمد 253نقد و نظر حامد حسین اکتوبر1942ء 254تنقیدی اشارے آل احمد سرور 255شمیم عشرت احمد علی عشرت مرتبہ حسن امام اپریل1934ء 256امیر مینائی ممتاز علی آہ 257روداد مقدمہ مرزا غالب عظمت اللہ 258مضامین عظمت عظمت اللہ 259اسرار کائنات ٹالسٹائی مترجم: خورشید جیلانی جولائی1943ء 260چراغ لالہ محمد صادق عاصمی 261جواھر العلوم طنطاروی بوھری مترجم عبدالرحیم 262یادگار شعر مترجم طفیل احمد 263شیش محل شوکت تھانوی جولائی1943ء 264اردو ہندی ادیب قاسم علی اپریل1943ء 265حرب و ضرب یزدانی رام پوری 266دھوپ چھاؤں عبدالشکور جولائی1943ء 267رباعیات ابو سعید ابو سعید ابو الخیر 268فن داستان گوئی کلیم الدین احمد اکتوبر1943ء 269نگارستاں (مجموعہ کلام) ظفر علی 270اردو فارسی کے یورپین اور انڈویورپین شاعر 271انتخاب غالب امتیاز علی عرشی 272مسکراتے آنسو بھارے چند کھنہ جولائی1945ء 273نادرات شاھی شاہ عالم بادشاہ اکتوبر1945ء 274حسرت موھانی (حالات و کلام) مرتبہ عبدالشکور جنوری1946ء 275کروٹ (ریڈیائی ڈرامے) سعادت حسن منٹو 276موت و حیات شاطر حکیمی 277اصغر (حیات و کلام) مرتبہ عبدالشکور جنوری1946ء 278محراب حرم آرزو اکبر آبادی جولائی1946ء 279گل چیں نور احمد 280موت کے غار ایس اے وانگے اکتوبر1946ء 281نکہت گل محمود عالم فنا 282مقالات یوم اقبال 283معروضہ (اول، دوم) نعتیہ غزلیں الیاس برنی جنوری 1947ء 284شیطانی قہقہے محمود فاروقی 285رباعیات بابا طاھر ڈی سی ورتا 286اقبال اور اس کی شاعری اکبر علی 287دو شاعر بہنیں (1) مجموعہ کلام عروس سخن رسول جہاں اپریل 1947ء (2) مجموعہ کلام خون نابہ دل نور جہاں 288سجاد حیدر یلدرم سید مبازر الدین رفعت 289سنگ ریزے افسانوں کا مجموعہ شاہ خلیل الرحمن 290محبت کی ٹھوکریں نقش عالمی رسالہ ’’ اردو‘‘ کراچی 291سیر المصنفین مولوی محمد یحی جنوری1949ء 292مراۃ الشعراء اکتوبر1949ء 293بہترین ادب 1947ء چودھری برکت علی، میرزا ادیب اپریل1950ء 294چھان بین (تنقیدی مضامین) جعفر علی اثر لکھنوی جولائی1950 295مقالات یوم اقبال انٹر کالج رام پور 296تحقیقی نوادر مرتبہ آمنہ خاتون 297مرزا شوق لکھنوی خواجہ احمد فاروقی 298جہنم کے دروازے پر اسعد گیلانی اکتوبر1950ء 299سرود جاوداں صائب عاصمہ 300جرس احمد مجتبی دامق 301مسدس بے نظیر یار علی جان جنوری1951ء 302مراۃ الشعراء مولوی محمد خورشید 303ناول کیا ہے؟ محمد احسن اپریل1951ء 304انیس کی مرثیہ نگاری محمد احسن 305میر حسن اور ان کے خاندان کے شعراء محمود فاروقی اپریل1951ء 306اٹک کے اس پار فارغ بخاری و رضا ہمدانی جنوری1952ء 307پشتو لوک گیت مرتبہ فارغ بخاری 308(1) بال جبریل (شرح) یوسف سلیم چشتی جولائی1952ء (2) ضرب کلیم (شرح) (3) بانگ درا (شرح) 309ترجمان اسرار عبدالرحمن 310نوائے سینہ تاب جلیل قدوائی اپریل1954ء 311مشرقی بنگال میں اردو سید اقبال عظیم اکتوبر1954ء 312خضر راہ (انگریزی) اے کیو نیوز جنوری1955ء 313میر تقی میر (حیات و شاعری) احمد فاروقی اپریل1955ء 314دیر و حرم شنکر لال شنکر 315یاد رفتگان سلیمان ندوی 316رباعیات محروم (اصول رباعی) تلوک چند محروم 317ادبیات سرحد فارغ بخاری جولائی1955ء 318اقبالیات کا تنقیدی جائزہ احمد میاں اختر 319ذکر غالب مالک رام جولائی1955ء 320جزیروں کے گیت مترجم سید ضمیر جعفری اکتوبر1955ء 321(1)اردو ادب کی تاریخ محمد حسن اکتوبر1956ء (2) اردو ادب میں رومانی تحریک 322اردو زبان کا ارتقاء شوکت سبزواری اکتوبر1957ء 323ہمارا گاؤں و دیگر افسانے) علی عباس حسینی 324ارمغان امجد احمد حسین امجد 325صید و ہدف (طنز و مزاح) غلام احمد فرقت اکتوبر1957ء 326ادب کا مقصد سید نور الحسن 327روشنائی سجاد ظہیر 328مرزا نوشہ عشرت رحمانی جولائی1958ء 329دکھنی ہندو اور اردو نصیر الدین ھاشمی جولائی اکتوبر1958ء 330نمرود و خلیل صادق بخاری 331دیوان غالب مرتبہ امتیاز علی عرشی جنوری اپریل1958ء 332باغ و بہار مرتبہ ممتاز حسن 333ابو الظیت خلیل الرحمن اکتوبر1958ء مولوی عبدالحق کے مندرجہ بالا ادبی تبصروں سے ان کی وسعت علمی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری: ’’ ان کے موضوعات و عنوانات پر نظر ڈالئے تو اندازہ ہو گا کہ یہ اردو ادبیات کی جملہ شاخوں اور صنفوں پر محیط ہیں اور ان کے مصنفین بھی معمولی درجے کے نہیں، نامور اہل قلم ہیں شاعری، تذکرہ نگاری، مکتوب نویسی، لسانیات اور لغت سے لے کر تاریخ، زبان، تاریخ ادب، تحقیق، تدوین، تنقید، علم بیاں و عروض، سوانح نگاری اور شرح و تبصرہ تک علم و ادب کے سارے پہلوان کتابوں میں زیر بحث آئے ہیں۔‘‘ مولوی صاحب موصوف نے نہ صرف ادبی کتب پر تبصرے کئے، دیباچے لکھے اور تعارف کرایا بلکہ مذہب، فلسفہ، نفسیات، بچوں کا ادب، معاشیات، سیاست، تجارت، فنون لطیفہ، سیاحت غرض کہ علوم و فنون کے ہر شعبہ پر کئے ہوئے تبصروں کی ایک طولانی فہرست ہے۔ اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ مولوی عبدالحق نے اس کتابچہ میں اردو زبان میں علمی اصطلاحات کے مسئلہ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور اس ضمن میں جو اقدامات کئے جاتے رہے اور جو تجاویز آئیں ان کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ایک صدی قبل دھلی کالج میں تمام علوم اردو میں پڑھائے جاتے تھے اور کالج میں مجلس ترجمہ نے تخمیناً نہ صرف ڈیڑھ سو کتب کے تراجم کئے بلکہ اصطلاحات وضع کرنے کے اصول بھی تجویز کئے۔ جب نواب عماد الملک مولوی سید حسین بلگرامی نے اس مسئلہ کو چھیڑا، جس کے رد عمل میں بنگال کی حکومت نے طبی رسائل کی تالیف و ترجمہ کے لئے کمیٹی بنائی جس میں علم اللسان کے ماہر بابو راجندر لال متر، مولوی تمیز الدین خان بہادر، اور رائے سوھن لال کو شامل کیا گیا۔ا نہوں نے وضع اصطلاحات کے اصول پیش کئے اس کتابچہ میں مولوی عبدالحق نے سید حسین بلگرامی کی تجاویز کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمان بجنوری کی تجاویز کا بھی ذکر کیا اور انجمن ترقی اردو کے وضع کردہ 18 اصولوں کا تذکرہ کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کی تجویز ہے: ’’ علمی اصلاحات کے لئے متفقہ اصول بنائے جائیں اور جو اصطلاحی الفاظ ہماری قدیم کتابوں میں آئے ہیں وہ تلاش کر کے جمع کئے جائیں نیز گذشتہ سو ڈیڑھ سو برس میں مختلف اداروں اور اشخاص نے جو کچھ کیا اسے بہ نظر غور دیکھا جائے اور ان میں جتنے الفاظ ملتے ہیں انہیں اختیار کیا جائے۔‘‘ انجمن ترقی اردو پاکستان نے اسے العرب پریس کراچی سے 1949ء میں شائع کرایا۔ اردو کی فضیلت چند بنگالی اکابر کی نظر میں پاکستان بنتے ہی 1948ء میں اردو اس وقت متنازعہ مسئلہ بن گئی جب ڈھاکہ یونی ورسٹی کے چند طلباء نے قومی زبان کے مسئلہ پر ہنگامے شروع کر دئیے۔ یہاں تک کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کو بذات خود مشرقی پاکستان جانا پڑا۔ ان ہنگاموں سے یہ تاثر دیا گیا کہ اکثریتی آبادی کا صوبہ بنگال (مشرقی پاکستان) اردو کو قومی زبان بنانے کے حق میں نہیں ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس موضوع پر ’’ اردو کی فضیلت چند بنگالی اکابر کی نظر میں‘‘ مرتب کر کے 1950ء میں انجمن ترقی اردو (پاکستان) سے اردو ٹائپ میں شائع کی کتاب کے سر ورق پر بطور مرتب ان کا کہیں نام نہیں ہے لیکن کتاب کے ’’ تعارف‘‘ سے یہ شہادت ملتی ہے کہ اس کے مرتب مولوی صاحب ہیں تعارف میں وہ لکھتے ہیں: ’’ میں اس موقع پر بنگلہ اردو کے مسئلہ پر کچھ نہیں کہنا چاہتا بلکہ آپ کی خدمت میں مشرقی پاکستان کے بعض اہل نظر اور صاحب بصیرت حضرات کے مضامین اور اقوال پیش کرتا ہوں جن کے ملاحظہ کے بعد آپ پر ظاہر ہو گا کہ مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو جو اردو دشمنی کا الزام دیا جاتا ہے وہ سرا سر غلط اور محض بہتان ہے وہاں کے ذی فہم اور دور اندیش اصحاب اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کے حق میں ہیں۔‘‘ کتاب کے آغاز میں مصنفین پر تعارفی نوٹ ہیں جس میں ان کے علمی، ادبی سماجی اور سیاسی خدمات کا تذکرہ اور بالخصوص مشرقی پاکستان کے معاشرے میں ان کی قدر و منزلت اور مرتبہ کا ذکر ہے۔ ان شخصیتوں میں خان بہادر بدر الدین احمد صاحب، ڈاکٹر ابو ظفر محمد طاہر صاحب، سید قمر الاحسن صاحب، حکیم سلامت اللہ صاحب، مولانا عبداللہ الکافی القریشی صاحب، کوی غلام مصطفے صاحب اور شیر بنگال ابو القاسم فضل حق جیسی شخصیتیں شامل ہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب کا خیال تھا کہ اردو کے مخالفین کی تعداد مختصر ہے شریف گھرانوں کے بنگالی اردو کے حامی ہیں اپنی بات کو وزنی بنانے کے لئے انہوں نے مشہور بنگالی سیاسی رہنما خواجہ ناظم الدین صاحب کا قول بھی دیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا: ’’ مشرقی پاکستان کے شہروں کے تمام شریف خاندانوں کی زبان اردو ہے۔‘‘ اس کتاب کے مضامین کی فہرست درج ذیل ہے: 1مشرقی پاکستان کو فوری خطرہ خان بہادر بد الدین 2یوم اقبال کا جواب ڈاکٹر ابو ظفر محمد طاہر 3سرکاری زبان قمر الاسلام 4مراسلہ حکیم سلامت اللہ 5مشرقی پاکستان کو دعوت فکر 6سرکاری زبان ابوظفر محمد طاہر 7کیا بنگلہ زبان اردو زبان سے بہتر ہے 8ایک لمحہ فکریہ الحاج مولانا محمد عبداللہ الکافی القریشی 9پاکستان کی سرکاری زبان کوی غلام مصطفے 10 سید قمر الاسلام 11اردو کی اہمیت مولوی فضل حق اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم سائنس ’’ اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم سائنس‘‘ کے موضوع پر مولوی عبدالحق نے ٹائپ کے 74صفحات پر مشتمل کتابچے میں بتایا ہے کہ اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم سائنس کی تدریس میں اہم فریضہ انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے کتاب کے تعارف میں برصغیر میں انگریزی زبان بحیثیت ذریعہ تعلیم کے تسلط کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جب انگریزی کا تسلط اپنے عروج پر تھا اس زمانے میں بھی جامعہ عثمانیہ اور دلی کالج میں اردو زبان میں تعلیم کا تجربہ کامیاب ہو چکا ہے انہوں نے ترکیہ اور مصری یونی ورسٹیوں میں ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کے کامیاب تجربات کا بھی ذکر کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے 14ماہرین تعلیم 1ڈاکٹر رضی الدین،2ڈاکٹر رفعت حسین صدیقی ، 3 ڈاکٹر قاضی سعید الدین ،4میجر آفتاب حسن،5ڈاکٹر سید احمد فصیح،6کپتان رشید الحق،7 کپتان اطہر علی، 8ڈاکٹر رفیق احمد،9کپتان نور محمد، 10 شریف احمد وارثی،11 مسعود حسین خان، 12 کپتان فضل حسین کا تعارف کرانے کے بعد ان کی جانب سے ان سوالات کے جواب تحریر کئے ہیں جن میں ان سے پوچھا گیا تھا: 1کیا اردو ذریعہ تعلیم ہونی چاہئے؟ اور کیا اردو تمام مضامین میں خصوصاً سائنس میں اعلیٰ مدارج تک ذریعہ تعلیم ہو سکتی ہے؟ 2کیا مختلف مضامین میں مناسب کتابیں موجود ہیں؟ اگر نہیں، تو ان کے تیار کرنے اور مہیا کرنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ 3ذریعہ تعلیم کی تبدیلی کے سلسلے میں کن کن ابتدائی دشواریوں کا امکان ہے؟ کیا اساتذہ ذریعہ تعلیم کی تبدیلی کے لئے تیار ہیں؟ وہ کتنے عرصہ میں اس قابل ہو جائیں گے کہ اردو میں تعلیم دے سکیں؟ 4اس تبدیلی سے معیار تعلیم پر کیا اثر پڑے گا؟ کتاب کے آخر میں پاکستان کے سفیر متعینہ ترکیہ میاں بشیر احمد کا خط مورخہ12جون 1951ء کا اردو ترجمہ دیا گیا ہے جو انہوں نے مولوی عبدالحق کے مکتوب مرسلہ 6 مئی 1951ء کے جواب میں تحریر کیا تھا جس میں مولوی عبدالحق نے ’’ جدید ترکی میں ذریعہ تعلیم اور نئی اصطلاحات‘‘ کے سلسلہ میں معلومات حاصل کرنے کے لئے تحریر کیا تھا۔ اس خط سے منسلک پانچ ضمیمہ جات بھی دئیے گئے ہیں۔ انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے اس کتاب کو1951ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع کرایا تھا۔ سر آغا خان کی اردو نوازی اس صدی کے مسلم اکابرین میں سر آغا خان کا نام بڑی عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے تحریک پاکستان میں یہ ہر اول دستہ میں شامل تھے لیکن 1950ء میں ان کی شخصیت اس وقت متنازعہ ہو گئی جب انہوں نے اردو کے خلاف عربی کو نہ صرف پاکستان کی قومی زبان بنانے کی تجویز پیش کی بلکہ اردو کو عہد زوال اور لشکریوں کی زبان قرار دیا۔ مولوی عبدالحق صاحب سر آغا خان کے ان خیالات سے متفق نہ تھے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار اور سر آغا خان کے تصورات کی رد میں بیس صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ سر آغا خان کی اردو نوازی کے عنوان سے 1951ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام ادبی پریس کراچی سے شائع کرایا۔ اس کتابچہ میں سر آغا خان کے خیالات کے رد میں ٹھوس دلائل دئیے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے بتایا: ’’ اس وقت یورپ میں جتنی زبانیں مروج ہیں ان سب کی یہی کیفیت تھی۔ زبانیں عوام کی ہوتی ہیں انہیں بادشاہ یا امرا نہیں بناتے جن زبانوں کا تعلق عوام سے نہیں رہتا وہ مردہ ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ عوامی زبانیں لے لیتی ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے ثابت کیا ہے کہ اردو پاکستان کے ہر علاقے، طبقے اور گروہ میں بولی جاتی ہے اور اس میں قومی زبان ہونے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے اور اردو کی مقبولیت کا حلقہ پاکستان و بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس کتابچہ میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اردو عہد زوال کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے عروج کی زبان ہے اور اردو کا رواج چھٹی صدی ہجری سے ہو چکا تھا اور موجودہ زمانے میں اردو میں علم و ادب اور حکمت کے ہر شعبہ کی خدمت کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سر آغا خان کی تجویز چوں کہ ’’ عربی‘‘ کو قومی زبان بنانے کی تھی اس ضمن میں مولوی عبدالحق صاحب کا خیال ہے کہ سر آغا خان نے یہ صرف شوشہ چھوڑا ہے کیونکہ عربی دان طبقہ پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے اور سر آغا خان اس جذباتی نعرے کی آڑ میں در حقیقت انگریزی پرستی کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے۔ خطبات عبدالحق مولوی عبدالحق کے 20خطبات اور تین مضامین کا مجموعہ بالترتیب 1939ء اور 1944ء میں شائع ہو چکا تھا اور اس طرح ہاتھوں ہاتھ ختم ہو گیا کہ اس کی اشاعت کی دوبارہ ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ1952ء میں ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ’’ خطبات عبدالحق‘‘ کی سر نو تدوین کی اور ان میں1944ء کے بعد1951ء تک کے بارہ خطبات کا بھی اضافہ کیا جسے انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی نے شائع کیا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ان خطبات پر اپنا ایک مقدمہ تحریر کیا جس میں مولوی عبدالحق صاحب کے خطبات کی ادبی و لسانی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے ڈاکٹر عبادت بریلوی تحریر کرتے ہیں: ’’ یہ خطبات معنوی و صوری دونوں اعتبار سے ان گنت خصوصیات کے حامل ہیں اور ان میں اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہماری تہذیبی اور ثقافتی زندگی کی کش مکش کے آئینہ دار ہیں ہماری تہذیب و معاشرت کا قافلہ جن راہوں سے گزرا اس نے جو منزلیں بھی طے کی ہیں ان کا بیان کسی نہ کسی طرح ان خطبات میں ضرور ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنی قومی زندگی کے ارتقا اور تہذیبی و ثقافتی مدو جزر کو سمجھنے کے لئے ان کا مطالعہ ناگزیر ہے۔‘‘ ان خطبات کا دوسرا ایڈیشن 1964ء میں انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے کراچی سے شائع کیا تھا جس میں مزید چار خطبات کا اضافہ ہوا اور اس کے آخری ایڈیشن میں دسمبر1933ء سے 1959ء تک کے 38خطبات (جن میں بعض مضامین بھی ہیں) شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کی مرتبہ اس کتاب کے بارے میں جمیل الدین عالی صاحب معتمد اعزازی انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے ’’ حرفے چند‘‘ میں لکھا ہے: ’’ بابائے اردو مرحوم کے علمی کارناموں میں ان کے خطبات کو نمایاں مقام مل چکا ہے ان کا ہر خطبہ اپنے موضوع پر ایک مستقل مقالے کی حیثیت رکھتا ہے اور اردو زبان و ادب کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے والے ان خطبات کا مطالعہ ناگزیر سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ اس پر بابائے اردو کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ اور ان کا انداز بیان مستزاد ۔‘‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ان مقدمات کی تدوین میں مندرجہ ذیل خطبات کا اضافہ کیا: 1خطبہ صدارت اردو کانفرنس بمبئی 1945ء 2خطبہ صدارت پنجاب یونیورسٹی اردو کانفرنس لاہور 26,27جولائی 1948ء 3خطبہ صدارت کل گجرات اردو کانفرنس احمد آباد 3اپریل1948ء 4خطبہ صدارت سالانہ جلسہ بلوچستان ٹیچرز ایسوسی ایشن کوئٹہ 26جولائی1948ء 5خطبہ صدارت مجلس ادب لاہور 1949ء 6خطبہ صدارت خیر پور اردو کانفرنس خیر پور 4فروری1951ء 7خطبہ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین قومی زبان 12جولائی1952ء 8تقریر اردو کانفرنس کراچی مئی1951ء 9آسان اردو حیدر آباد (دکن) 1946ء 10ملک کے لئے نئے دور میں اردو کا مقام اورنگ آباد (دکن) 1947ء 11حالی اور انسانیت اشاعت1964ء کراچی 1951ء اضافے اشاعت1964ء 1خطبہ صدارت اردو کانفرنس بنگلور 1947ء 2خطبہ صدارت مغربی پاکستان اردو کانفرنس لاہور 22فروری 1959ء 3خطبہ صدارت مرکز علم و ادب میر پور خاص 9دسمبر1959ء 4خطبہ صدارت پاکستان رائٹرز گلڈ کراچی 31جنوری1959ء گلشن عشق ملا نصرتی ملک الشعراء محمد عادل بے جا پور کے تھے انہوں نے عادل شاہی عہد کے محمد عادل، علی عادل شاہ اور سکندر عادل شاہ کا زمانہ دیکھا تھا’’ تسخیر دکن کے بعد اورنگ زیب عالمگیر نے انہیں ملک الشعراء ہند کے خطاب سے سرفراز کیا۔‘‘ نصرتی نے غزلیات، قصائد اور رباعیات کے علاوہ گلشن عشق، علی نامہ اور تاریخ سکندری جیسی تصانیف چھوڑی ہیں۔ ’’ گلشن عشق نصرتی کی سب سے پہلی تصنیف ہے اور ایک عشقیہ مثنوی ہے۔ اس مثنوی میں بھی اردو، فارسی کی اکثر مثنویوں کی طرح دیووں، پریوں اور سحر و طلسمات کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اس سے قطع نظر کر لی جائے تو یہ مثنوی دکنی اردو میں خاص امتیاز رکھتی ہے اور حسن شاعری کی بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔‘‘ نصرتی نے اس مثنوی کا آغاز حمد سے کیا ہے اس کے بعد مناجات کے اشعار ہیں مناجات ختم ہونے پر منقبت حضرت علی رقم کی ہے اس کے بعد حضرت بندہ نواز کی بڑی عقیدت سے تعریف کی ہے پھر علی عادل شاہ کی مدح کی ہے اور آخر میں اپنے پدر بزرگوار کی اپنے اوپر عنایت خاص، تربیت اور ان کے رتبے کا ذکر کیا ہے: ’’کہ تھا مجھ پدر سو شجاعت ماب قدیم یک ملحدار جمع رکاب‘‘ اس مثنوی میں نصرتی نے عادل شاہ سے اپنے تعلق خاص کا بھی ذکر کیا ہے۔ قصے کا متن تشبیب سے شروع ہوتا ہے، باغ کا سماں، صبح کا منظر، چاندنی کی کیفیت اور قدرتی مناظر کا نقشہ بڑے دل کش انداز میں کھینچا ہے۔ ہجر اور فراق کا ذکر کرتے ہوئے انسانی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ نصرتی نے اس مثنوی میں منوھر و مد مالتی کا عشقیہ فسانہ بیان کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کا خیال ہے: ’’ تحقیق سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس سے قبل بھی تحریر میں آ چکا تھا۔ یہ کتاب اب تک دستیاب نہیں ہوئی ہے۔ اس کا حوالہ ایک دوسری کتاب مسمی ’’ کنور منوھر و مد مالتی‘‘ میں ملتا ہے یہ فارسی مثنوی ہے۔ مصنف کا نام معلوم نہیں ہوا البتہ سن تالیف1059ء ہے۔ اس میں مصنف نے شیخ منجھن کی ہندی کتاب کا ذکر کیا ہے اور اپنے قصہ کی بنیاد اس پر رکھی ہے۔‘‘ نصرتی نے مثنوی کے آخر میں عادل شاہ کے لئے دعائیہ اشعار تحریر کئے ہیں اور پھر ’’ در تعریف کتاب‘‘ اپنی تعلی کی ہے نصرتی نے ’’ مبارک یو ہے ہدیہ نصرتی‘‘ سے اس کی تاریخ تصنیف نکالی ہے جو1060ھ بنتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس مثنوی پر 12صفحات کا مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں نصرتی کے حالات زندگی اور اس کے تصنیفی کارنامے بیان کئے ہیں اور اس کی اس مثنوی کے بعض حصوں کا ’’ گلزار نسیم‘‘ سے موازنہ کیا ہے کتاب کے آخر میں30صفحات کی فرھنگ دی ہے۔ مثنوی کا اپنا متن 223 صفحات پر مشتمل ہے۔ تنقیدات عبدالحق ’’ تنقیدات عبدالحق‘‘ کے عنوان سے یہ کتاب ان 27تبصروں پر مشتمل ہے جو مولوی عبدالحق نے جولائی1921ء سے جولائی1942ء تک رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد اور دلی میں لکھے تھے۔ ایم اے قاضی نے کتاب کے آغاز میں ایک مختصر’’ پیش لفظ‘‘ تحریر کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کتاب کو امتحانی ضرورت کے تحت مرتب کیا گیا تھا۔ وہ تحریر کرتے ہیںـ: ’’ اس مجموعہ کی ترتیب کا ایک تو مقصد یہ ہے کہ ان منتشر اجزاء کو ایک جگہ جمع کر کے ایک ادبی خدمات انجام دی جائے۔ دوسرے ان طالب علموں اور اساتذہ کے لئے جو اردو کے مختلف امتحانات دیتے وقت ادبی تنقیدوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ایسا مواد بہم پہنچا دیا جائے جس سے وہ خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر فن تنقید کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور مختلف ادیبوں، شاعروں اور مضمون نگاروں کے محاسن اور نقائص سے اچھی طرح واقف ہو سکیں۔‘‘ ان کی فہرست درج ذیل ہے: 1سرگذشت الفاظ ماخوذ رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد اپریل1924ء 2زبان اردو پر سرسری نظر جولائی1924ء 3اردو لٹریچر جولائی1933ء 4تذکرہ اعجاز سخن اپریل1924ء 5پنجاب میں اردو جولائی1928ء 6ارباب اردو اکتوبر1928ء 7اردو شہ پارے 8دیوان ولی جنوری1924ء 9فیضان شوق جولائی1929ء 10مجموعہ نغز اکتوبر1933ء 11مکاتیب امیر مینائی اکتوبر1924ء 12دیوان جان صاحب اپریل1935 13شرح دیوان غالب اپریل1924ء 14خطوط سرسید جولائی1924ء 15جواھرات حالی جنوری1923ء 16مکتوبات حالی ماخوذ مقدمہ ’’ مکتوبات حالی ‘‘ حالی پریس پانی پت 1955ء 17افادات مہدی ماخوذ رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد جنوری1924ء 18اکبر آلہ آبادی اکتوبر1930ء 19بانگ درا اکتوبر1924ء 20رو1ح ادب جولائی1921ء 21آیات و نغمات دہلی اپریل1942ء 22الناظر کا انعامی مضمون اورنگ آباد اپریل1926ء 23ماورا دہلی اپریل1942ء 24روح تنقید اورنگ آباد اپریل1926ء 25نائک ساگر جولائی1929ء 26نور اللغات اکتوبر1923ء 27شعر الہند جنوری1926ء پاکستان میں اردو کا المیہ مولوی عبدالحق صاحب نے اس کتاب میں پاکستان میں اردو کے بحیثیت قومی زبان اختیار ہونے میں ان مساعی کا ذکر کیا ہے جو تشکیل پاکستان کے فوراً بعد سے شروع ہو گئیں۔ مولوی صاحب موصوف نے بالخصوص پاکستان کے رہنماؤں کی بے حسی پر اظہار افسوس کیا ہے جو بظاہر اردو کے حامی ہونے کے باوجود قانون ساز اسمبلی میں اردو کے حق میں حامیان اردو کا عملی ساتھ دینے سے قاصر رہے۔ مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں برصغیر میں ’’ اردو زبان‘‘ کی تاریخ و تحریک پر روشنی ڈالی ہے ابتدائی حصہ میں اردو کو قومی زبان بنانے کے سلسلے میں قائد اعظم کے بیان سے قبل کے حالات و معمولات کی بپتا بتائی ہے اور تحریر کیا ہے: ’’ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں جو اسے اردو سرکاری زبان قرار پائی اس وقت سے اغیار کی نظریں اس پر بے طرح پڑنے لگیں۔‘‘ دوسرے حصہ میں مولوی صاحب نے پاکستان میں’’ اردو بنگلہ‘‘ تنازعہ کی تفصیل اور جزئیات پر روشنی ڈالی ہے۔ بالخصوص’’ قومی اور قانون ساز اسمبلی‘‘ میں یہ مسئلہ (1953-52) بڑے بھونڈے انداز سے پیش ہوا اور ممبران کی مصلحت کوشیوں کا شکار ہو گیا اور 6فروری 1956ء کو قانون ساز اسمبلی نے طے کیا۔ ’’ وفاق پاکستان کی سرکاری زبانیں اردو اور بنگلہ ہوں گی‘‘ مولوی عبدالحق صاحب ان سیاسی مشکلات اور مصلحت کوشیوں سے دل برداشتہ نہیں ہوئے بلکہ اس مسئلہ پر اور بھی ڈٹ گئے اور انہوں نے مایوسی کے بجائے اس عزم کا اظہار کیا: ’’ اس قسم کی رکاوٹیں ہمارے کام میں تیزی پیدا کرتی ہیں۔ اردو نے مخالفتوں میں پرورش پائی ہے اس کا پایہ اس قدر مضبوط ہے کہ اس قسم کے طوفان و حوادث اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتے۔ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اب یہ کام خاص اصول اور منصوبے کے تحت انجام پائے گا۔ اعلیٰ ترین پایہ تک پہنچنے کے لئے ہمارے ادب میں جو کمی ہے اسے پورا کیا جائے گا جو خامیاں ہیں ان کی اصلاح کی جائے گی۔ دائرہ تحقیق وسیع تر کیا جاے گا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے یہ کتاب انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام 1956ء میں انجمن پریس سے شائع کرائی تھی۔ پاپولر انگلش اردو ڈکشنری یہ ڈکشنری انجمن کی اسٹوڈنٹس ڈکشنری کا خلاصہ ہے جسے مولوی عبدالحق صاحب نے 1957ء میں انجمن ترقی اردو کراچی سے شائع کیا تھا یہ ڈکشنری ہائی اسکول کے طلباء کے استفادہ کے لئے تالیف کی گئی تھی اس میں سے متروک الفاظ اور فنی اصطلاحات کو حذف کر دیا گیا ہے۔ سابق شریک معتمد عین الدین صاحب نے مختصر سا دیباچہ تحریر کیا ہے اس کے بھی بہت سے ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ پاپولر انگلش ڈکشنری کو ہی 1971ء میں جیبی سائز پر شائع کیا گیا اور اس کا نام’’ انگلش اردو پاکٹ ڈکشنری‘‘ رکھا گیا۔ ڈکشنری کی ابتداء میں ’’ پہلی اشاعت‘‘ کے عنوان سے معتمد اعزازی جمیل الدین عالی صاحب کا پیش لفظ ہے جب کہ آخری صفحات میں اختصار کی فہرست اور دنیا کی تاریخ کے اہم سنین، اوزان اور پیمائش کے چارٹ دئیے گئے ہیں۔ روز مرہ سائنس 1پانی کی دنیا 2بیماری سے جنگ 3تعمیری کارنامے 4سفر اور پیغام رسانی مذکورہ بالا چار کتابوں کا سیٹ لاہور اکیڈمی لاہور نے روز مرہ سائنس اور معلومات عامہ کے موضوعات پر 1958ء میں شائع کیا تھا ہر کتاب112صفحات پر مشتمل ہے کتابوں کے سر ورق پر بطور مرتب مولوی عبدالحق صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ اندرونی صفحات پر یہ عبارت درج ہے: ’’ یہ کتابیں حسب فرمائش یونسکو بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق صدر انجمن ترقی اردو پاکستان نے تیار کرائیں۔‘‘ ان کتابوں پر کسی مصنف کا نام نہیں دیا گیا ہے ’’ پانی کی دنیا‘‘ میں پانی کی اقسام چشمے، دریا، سمندر، سمندروں کے جانوروں اور سمندری دولت کا ذکر ہے جب کہ ’’ بیماری سے جنگ‘‘ میں بیماریوں کی تاریخ، ہندوستان، بابل چین، اسرائیل اور یونان کے قدیم طریقہ علاج سے دور جدید تک بیماری کے خلاف انسانی جدوجہد کی کہانیاں اور سائنسی تحقیقات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ’’ تعمیری کارناموں‘‘ میں رہائش کے قدیم طریقوں، گھر گھروندوں اور غاروں سے لے کر دور جدید کی فلک بوس عمارتوں ، پشتوں، بندوں اور پلوں کے حالات درج ہیں۔ اس طرح ’’ سفر اور پیغام رسانی‘‘ میں ابتدا سے لے کر ریل کار، ٹیلی فون اور ریڈیو تک انسانی ایجادات کی کہانی رقم ہے۔ ان چاروں کتابوں پر مولوی عبدالحق صاحب کا لکھا ہوا ایک ہی نوٹ ہے: ’’ کوئی چار سال پہلے کی بات ہے اقوام متحدہ کے تعلیمی سائنسی اور ثقافتی ادارے نے جو یونیسکو کے نام سے معروف ہے مجھے لکھا کہ ہمیں ایسے بالغوں کے لئے جنہوں نے قاعدہ اور ابتدائی کتابیں ختم کر لی ہوں ایسی کتابوں کی ضرورت ہے جن سے روز مرہ زندگی کی حقیقتوں اور سائنس کی ترقیوں کا حال ان پر کھل سکے، بالغ خواندگی کے لحاظ سے خواہ نو آموز ہی ہوں، بچوں سے ان کا ذہن مختلف ہوتا ہے۔ پختہ شعور ہونے کی وجہ سے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ وہ تعلیم سے محروم رہنے کے باعث اب تک نہ سیکھ سکے ایک ہی ہلے میں سیکھ جائیں۔ اس وجہ سے ان کی کتابیں بھی نسبتاً سنجیدہ نقطہ نظر سے لکھی ہونی چاہئیں۔ جن میں متعلقہ مضمون کی جملہ معلومات کا سیر حاصل جائزہ آسان عبارت میں آ جائے۔‘‘ ’’ چار کتابوں کا یہ سیٹ جو میں نے اپنی نگرانی میں تیار کرایا ہے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے امید ہے کہ یہ کوشش نا خواندہ لوگوں میں حصول علم کی پیاس پیدا کرے گی۔ انہیں پڑھ کر وہ اپنے کو با خبر محسوس کریں گے اور انہیں ان کتابوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں چنداں دقت محسوس نہ ہو گی جو تعلیم یافتہ بڑوں کے لیے لکھی گئی ہیں اور جن کا خدا کے فضل سے ہماری زبان میں وافر ذخیرہ موجود ہے۔‘‘ 15ستمبر1958ء کل پاکستان انجمن ترقی اردو کا المیہ مولوی عبدالحق صاحب کا انجمن ترقی اردو سے بہت قدیم تعلق تھا دسمبر1911ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشن نے لکھنو کے اجلاس میں مولوی عبدالحق صاحب کو انجمن ترقی اردو کا معتمد منتخب کیا اور انہیں وراثت میں رسمی سے بندھا ہوا ایک چوبی صندوق، کچھ غیر مرتب مسودات، ایک رجسٹر اور قلم و دوات نصیب ہوا لیکن ان تھک جدوجہد سے مولوی عبدالحق نے انجمن کو ایک فعال تحریک میں تبدیل کر دیا اور علمی و ادبی سرمایہ اور شہرت کی دولت سے مالا مال کیا۔ معتمد بننے کے بعد بقول سید ہاشمی فرید آبادیـ: ’’ انجمن زندگی کی نئی دھن اور سب بڑا مقصد حیات بن گئی۔‘‘ 1947ء میں تقسیم ہند کے پر آشوب زمانے میں ایک دفعہ سب کچھ تتر بتر ہو گیا لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے ہمت نہ ہاری کراچی کو انجمن ترقی اردو کا مرکز بنا کر نئے دور کا آغاز کیا لیکن یہاں انجمن کو بڑے نشیب و فراز سے واسطہ پڑا۔ انتظامی امور میں انجمن کی مجلس نظماء اور مولوی عبدالحق میں ٹھن گئی۔ مولوی عبدالحق پر تنقید و الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوئی اور بالآخر یہ سلسلہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی جانب سے 12اکتوبر1959ء کے اس آرڈینس نے ختم کر دیا جس کے تحت مولوی عبدالحق صاحب کو انجمن کا مستقل با اختیار صدر اور انجمن کو ٹرسٹ کی شکل دے دی گئی۔ مولوی عبدالحق صاحب کا یہ کتابچہ انجمن کے اس ہنگامہ پرور زمانے کے سلسلے میں ان کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے اس کتابچہ کے آغاز میں انجمن کی مختصر تاریخ کا جائزہ ہے اور بقیہ حصہ میں ڈاکٹر محمود حسین صاحب معتمد انجمن کے استعفے کے جواب میں ان الزامات کا جواب ہے جو مولوی عبدالحق صاحب پر عائد ہوئے تھے۔ سرسید احمد خان (حالات و افکار) مولوی عبدالحق کو اس بات پر ناز تھا کہ انہوں نے ’’ سرسید احمد خان کے ساتھ کام کیا ہے‘‘ اور ان کی تربیت میں سرسید کا اہم کردار ہے نیز ان کی تمنا تھی: ’’ مولانا حالی کی تصنیف’’ حیات جاوید‘‘ کے نہج سے کسی قدر ہٹ کر سرسید احمد خان کی لائف نئی نسل کے ذہن کو پیش نظر رکھ کر لکھی جائے تاکہ نئی نسل بھی اس بزرگ قوم کی مثال کو سامنے رکھ کر اپنے فکر و عمل کر وہم آہنگ کرنے کے لئے سوچے اور کام کرے۔‘‘ لیکن مولوی عبدالحق کو ہجوم کار نے اس کی مہلت ہی نہ دی کہ وہ سرسید پر باقاعدہ کوئی تصنیف ضبط تحریر میں لا سکیں البتہ وقتاً فوقتاً انہوں نے مضامین لکھے اور تقاریر کیں۔ یہ کتاب ان کے چھ مضامین اور ایک ریڈیائی تقریر پر مشتمل ہے او رکتاب کے مندرجات حسب ذیل ہیں: 1سرسید احمد خان رسالہ’’ اردو‘‘ کراچی اپریل1950ء 2سرسید احمد خان مرحوم رسالہ ’’ اردو‘‘ کراچی اورنگ آباد جنوری1936ء 3سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ رسالہ’’ اردو‘‘ جولائی1935ء 4ہماری باتیں ہیں سید کام کرتے تھے، تقریر نشریہ 27جولائی1955ء ریڈیو پاکستان کراچی 5سرسید احمد خان مرحوم کی مجوزہ اردو لغات کا نمونہ رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد اکتوبر1935ء 6مصلح اعظم سرسید احمد خان 7سرسید بحیثیت مفکر اعظم انجمن ترقی اردو پاکستان نے ’’ سرسید احمد خان حالات و افکار‘‘ کو1959ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع کیا تھا۔ ’’ اردو یونیورسٹی‘‘ وقت کا اہم تقاضہ مولوی عبدالحق کا نوشتہ یہ کتابچہ’’ اردو یونی ورسٹی‘‘ کے حق میں فخر ماتری نے شائع کیا تھا۔ اس میں مولوی عبدالحق نے اردو یونیورسٹی کے قیام کی تجویز کے ضمن میں غیر مادری زبان میں تعلیم کے مضمرات بیان کئے تھے اور تحریر کیا تھا کہ ’’ اردو یونیورسٹی‘‘ کا خیال سب سے پہلے سرسید احمد خان کو 1857ء میں آیا تھا جس کے لئے انہوں نے برٹش انڈیا ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک یاد داشت حکومت ہند کو پیش کی تھی جس میں ایکل ’’ درنیکلر یونیورسٹی‘‘ کے قیام کی تجویز دی گئی تھی بعد ازاں دلی کالج اور جامعہ عثمانیہ کے تجربات کامیاب رہے۔ اس کتابچہ میں غیر مسلم ماہرین تعلیم مثلاً انگریز پروفیسر اے آر بیری، مسٹر فریڈرک مواٹ سیکرٹری کونسل آف ایجوکیشن بنگال، سردار دلیشر لال، سر رادھا کشن وائس چانسلر بنارس یونیورسٹی وائس صدر جمہوریہ ہند اور سی، راج گوپال آچاریہ سابق صدر ہند وغیرہ کی آراء بھی اردو یونیورسٹی کے حق میں پیش کی گئی ہیں۔ مولوی عبدالحق نے اس کتابچہ کے آخری حصہ میں مجوزہ یونی ورسٹی کا خاکہ دیا ہے۔ حدود و اختیارات اور دستور عمل کی مجالس کا ذکر کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ کراچی میں اردو یونیورسٹی بن کر رہے گی یہ خود قضا اور قدر کا منشا ہے، سوال دیر سویر کا ہے۔ اگر آپ نے میری مدد کی اور یونیورسٹی کے قیام کے وسائل و اسباب مہیا کر دئیے تو جلد بن جائے گی اور میری زندگی میں بن جائے گی۔‘‘ مجوزہ یونیورسٹی کے لئے کم از کم پچاس لاکھ روپیہ کا تخمینہ لگایا تھا اور تحریر کیا تھا کہ اگر انہیں پانچ لاکھ روپیہ فراہم کر دیا جائے تو وہ اردو کالج کو ہی جامعہ اردو کی حیثیت دے سکتے ہیں۔ اس کتابچہ کو فخر ماتری سیکرٹری عارضی کمیٹی اردو یونیورسٹی نے 1960ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع کیا تھا۔ مکاتیب بابائے اردو (ڈاکٹر مولوی عبدالحق) بنام حکیم محمد امامی حکیم محمد امامی نے جنوبی ہند میں اردو کی ترویج و ترقی کے لئے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ بابائے اردو کی خواہش تھی کہ جنوبی ہند میں بھی انجمن کی شاخیں قائم ہوں وہ اس مقصد کے لئے 12 مئی 1937ء کو بنگلور بھی گئے لیکن کچھ بن نہ پڑا۔ آخر حکیم محمد امام امامی کی کوششوں سے 26 فروری 1942ء کو ریاست میسور و بنگلور میں انجمن ترقی اردو کی شاخ قائم ہوئی امامی اس کے اعزازی معتمد نامزد ہوئے۔ مولوی عبدالحق نے ان کا ان الفاظ میں تعارف کرایا ہے: ’’ انہوں نے نہایت مشکل حالات میں انجمن ترقی اردو کو قائم رکھا اس کی اشاعت میں کوشش کی اردو کا مدرسہ قائم کیا اور چلایا اردو کتب خانہ قائم کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اردو کے بے لوث خادم اور دھن کے پکے ہیں۔‘‘ حکیم محمد امام امامی کی مولوی عبدالحق سے انجمن کے مسائل، ریاست میسور میں اردو کی ترویج، مدراس اور کالی کٹ وغیرہ میں انجمن کی شاخوں مدرسوں کے قیام کتب و ریڈروں کی اشاعت، کانفرنسوں کے انعقاد، رسائل و جرائد کے اجرا اور انجمن کے مقامی معاملات پر خط و کتابت رہی ہے۔ مولوی عبدالحق نے ان مکاتیب میں حکیم محمد امام امامی کو مشورے بھی دئیے ہیں ہدایت بھی، اختیارات بھی تفویض کئے ہیں اور روک ٹوک بھی کی ہے۔ حکیم امامی نے ان کے 118 مکاتیب کو اس کتاب میں یکجا کیا ہے ابتداء کے 104مکاتیب امامی کے نام ہیں جب کہ بقیہ 14مکاتیب کے مخاطب عبدالحق کے معالج ڈاکٹر خان (بشیر حسن خان) ہیں ان مکاتیب میں مولوی عبدالحق نے اپنے معالج کو اپنا حال تحریر کیا ہے اور یہ سب کے سب خط اگست1957ء میں تحریر کئے گئے ہیں۔ وہ مکاتیب جو امامی کے نام ہیں ان میں سے102مکاتیب 18دسمبر1935ء سے 16 اپریل 1960ء تک کے تحریر کردہ ہیں، دو پر تاریخ درج نہیں ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے تحریر کیا ہے اور ان ’’ خطوط کی اہمیت‘‘ پر شاہد احمد دھلوی نے روشنی ڈالی ہے اور ایس اے نقوی نے ’’ مشاہدہ حق‘‘ کے عنوان سے ان خطوط پر تبصرہ کیا ہے:ـ ’’ بابائے اردو کے ان مکاتیب میں اردو سے عقیدت کے علاوہ انکساری اور عجز، کہیں صبر و شکر، عزم و استقلال، خلوص و محبت، حوادث زمانہ اور توکل کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ گویا یہ ان کی مختصر سی تاریخ ہے جس میں سب کچھ آپ کو دکھائی دے گا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کے خطوط کا یہ مجموعہ اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے 1960ء میں آفسٹ پریس کراچی سے شائع کیا۔ قدیم اردو ’’ دکنی ادب‘‘ پر مولوی عبدالحق کے مضامین وقتاً فوقتاً رسالہ اردو میں شائع ہوتے رہے ہیں ان میں سے چند مضامین کا مجموعہ’’ قدیم اردو‘‘ کے نام سے سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو نے خط نسخ میں1961ء میں کراچی سے شائع کیا۔ ان مضامین کی اشاعت کا آغاز اپریل1927ء کے رسالہ ’’ اردو‘‘ میں بیجا پور کے اولیاء اللہ کا ایک شاعر خاندان سے ہوا جب کہ اس کتاب میں شامل مضمون’’ مثنوی مثال خالق باری‘‘ جنوری1952ء کے شمارے میں شائع ہوا گویا اس میں ان مضامین کا انتخاب ہے جو مولوی عبدالحق کے قلم سے جولائی1927ء تا جنوری1952ء ضبط تحریر میں آئے۔ کتاب12عنوانات میں تقسیم ہے جن کی فہرست درج ذیل ہے: 1بیجا پور کے اولیا اللہ کا ایک خاندان 1حضرت شاہ میراں شمس العاشقین رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد اپریل1927ء 2حضرت شاہ برہان الدین جانم جولائی1927ء 3حضرت شاہ امین الدین اولا جنوری1928ء 2گجری یا گجراتی زبان 1شاہ علی محمد گام دھنی رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد جولائی1928ء 2میاں شیخ خوب محمد چشتی جنوری1929ء 3حسن شوقی جولائی1929ء 4قاضی محمد دریائی دھلی جولائی1940ء 3حیدر آباد کا ایک شاعر خاندان 1ملا عشرتی اورنگ آباد جولائی1931ء 2سید احمد ہنر 3علی احسان 4پرانی اردو میں قرآن شریف کے ترجمے اور تفسیریں جنوری1937ء 5دکنی اردو میں شاہنامے کی داستانیں کراچی اکتوبر1949ء 6اردو زبان کا ایک قدیم کتبہ اورنگ آباد اپریل1938ء 7کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ جنوری1922ء 8مثال خالق باری (ایک قدیم ترین کتاب) کراچی جنوری1952ء 9شرح ہمدانی (اردو نثر کی ایک بہت قدیم کتاب) اورنگ آباد اپریل1928ء 10مثنوی وفات حضرت فاطمہ (شمالی ہند کی قدیم مثنوی) کراچی اپریل1951ء 11سب رس از ملا وجہی رسالہ’’ اردو‘‘ کراچی اپریل1951ء 12سب رس منظوم 1وصال العاشقین مصنفہ سید شاہ حسین ذوقی جولائی1925ء 2گلشن حسن و دل مصنفہ مجموعی حواشی میں مولوی عبدالحق نے مشکل دکئی، گجری اور قدیم اردو کی جدید اردو میں لغت بھی دی ہے۔ اردو مصفے (ڈاکٹر مولوی عبدالحق بابائے اردو مدظلہم کے خطوط کا مجموعہ) ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی نوے سالہ جوبلی کے موقع پر جوبلی کمیٹی نے عبدالحق کے 368 مکاتیب کو یکجا کر کے ابوتمیم فرید آبادی کی زیر نگرانی لاہور سے 1961ء میں شائع کیا تھا۔ یہ مکاتیب 29شخصیات کے نام ہیں جس کے ذیلی حواشی جمیل قدوائی نے تحریر کئے ہیں۔ اس مجموعہ مکاتیب کا پیش لفظ سید ہاشمی فرید آبادی نے تحریر کیا ہے اور سید ابو تمیم فرید آبادی نے مولوی عبدالحق کے مختصر حالات زندگی رقم کئے ہیں۔ مکاتیب کی سب سے بڑی تعداد ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے نام ہے، جو109ہے دیگر خطوط اس طرح ہیں۔ مولوی محمد امین زبیری کے نام 42ڈاکٹر داؤد رھبر 67، مولوی سخاوت 24، میاں بشیر احمد23، بیگم حسن بانو قزلباش19، بشری کاظمی20، عزیز احمد9، سید ہاشمی فرید آبادی7، ڈاکٹر قطب النسا ہاشمی اور جمیل قدوائی پانچ پانچ، ضیا الدین برنی اور فخری تین تین، ڈاکٹر غلام مصطفے، نصر اللہ خان، محمد حسین زبیری، شفیع ادبی دو دو اور سر سکندر حیات، گاندھی جی، مولانا ابو الکلام آزاد، سرتیج بہادر سپرد، مختار احمد صدیقی، ڈاکٹر عابد حسین، غلام احمد حسن، بیگم ارجمند قزلباش، مس آمنہ ممت، خان عارف برنی اور نور احمد قادری کے نام ایک ایک مکتوب۔ ان مکاتیب سے مولوی عبدالحق کی آپ بیتی اور انجمن ترقی اردو کی بپتا تیار کی جا سکتی ہے۔ ان میں مولوی عبدالحق کا وہ تاریخی خط بھی شامل ہے جو انہوں نے گاندھی جی کے نام اردو ہندی تنازعہ پر، ہندوستان میں مسلمانوں کی بے بسی ہندوؤں کے مظالم اور کانگریسی حکومت کے بے حسی کے متعلق تحریر کیا تھا۔ سر سکندر حیات اور مولانا ابو الکلام آزاد کے نام خطوط میں بھی ان ہی حالت پر روشنی ڈال گئی ہے۔ 1947ء اور1948ء میں جو خطوط لکھے گئے ان میں برصغیر کے المناک ہنگاموں، مسلمانوں کی حالت زار اور انجمن کے مسائل و مصائب کا تذکرہ ہے۔ پاکستان میں انجمن کے قیام کے بعد تحریر کردہ خطوط میں انجمن کی تنظیم نو، قومی زبان کے لئے جدوجہد اور ان الجھنوں کا ذکر ملتا ہے جس سے وہ عمر کے آخری حصے میں دو چار ہوئے ابتدائی زمانے کے خطوط میں اردو کتب کی اشات و تدوین وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ قاموس الکتب (جلد اول)’’ مذہبیات‘‘ قاموس الکتب (جلد اول) آخری کتاب ہے جس پر مولوی عبدالحق نے مقدمہ تحریر کیا، یہ مقدمہ اپنے سفر آخرت سے صرف تین ماہ اور چار دن قبل (یعنی22جون 1961ئ) جناح ہسپتال کے کمرہ نمبر13میں تحریر کیا تھا۔ مولوی عبدالحق نے ’’ قاموس الکتب‘‘ کے مقدمہ میں کتاب کی اہمیت، افادیت اور ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس شخص کو’’ بنی نوع انسان کا بہت بڑا محسن‘‘ قرار دیا ہے جس نے تحریر کا فن ایجاد کیااور بتایا ہے کہ تحریر سے قبل صرف حافظے کے بل بوتے پر معلومات محفوظ کی جاتی تھیں۔ اس کے بعد مختلف وجوہ سے تباھی کے نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’ قاموس الکتب‘‘ کی اہمیت بیان کی ہے اور تحریر کیا ہے: ’’ سب سے اول اس کا خیال سر سید علیہ الرحمہ کے دماغ میں آیا۔۔۔ ایک مدت کے بعد جب 1902ء میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد پڑی تو اس کے ابتدائی پروگرام میں ایک ایسی فہرست کی تھی۔ پروفیسر محمد سجاد مرزا بیگ دھلوی نے اس کا بیڑا اٹھایا اور بیس سال کی محنت کے بعد اس کی تکمیل کی سابق دولت آصفیہ نے جو علم و ہنر کی بڑی سرپرست تھی مرتب فہرست کو مالی امداد سے سرفراز کیا لیکن افسوس کہ یہ فہرست نہایت ناقص ہے۔‘‘ مذکورہ بالا’’ قاموس الکتب‘‘ کا آغاز انجمن ترقی اردو نے خود کیا اور اس کے لئے مفتی انتظام اللہ شہابی کو جزو وقتی ملازم مقرر کیا لیکن بعد میں جب وزارت تعلیم حکومت پاکستان نے اس مقصد کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی مالی امداد دی تو انجمن نگرانی میں’’ قاموس الکتب‘‘ کی پہلی جلد مرتب کر لی جو اسلام اور دیگر مذاہب کے اردو مخطوطات و مطبوعات پر مشتمل ہے اس ’’ قاموس الکتب‘‘ کے پروف خود مولوی عبدالحق نے پڑھے تھے۔ ’’ لیکن آخر میں جب ضعف بصارت کی وجہ سے (مجھے) پروف پڑھنے میں دقت محسوس ہونے لگی تو یہ کام انجمن کے بعض کارکنوں نے انجام دیا۔‘‘ اس’’ قاموس الکتب‘‘ میں11767کتب کی فہرست ہے اور جن کتب خانوں، کتابوں، رسالوں، فہرستوں اور اداروں کے ذریعہ قاموس تیار کی گئی ہے اس کے حوالے دئیے ہیں۔ اسلام اور تعلیمات اسلامی کے حوالے سے اس میں10922کتب کا ذکر ہے جسے119 ضمنی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے اسلامی کتب کے بعد’’ دیگر مذاہب‘‘ سے تعلق رکھنے والی کتب کی فہرست ہے سب سے پہلے عیسائیت اور یہودیت پر کتابوں کا ذکر ہے جس کا آغاز تراجم توریت مقدس سے ہوتا ہے مسیحی مذہب کی کل 198کتابوں کا ذکر ہے اور یہودیت سے تعلق رکھنے والی صرف6کتابیں ہیں۔ عیسائیت کے علاوہ دیگر مذاہب پر کتابوں کی تعداد اس رح ہے ہندو مت444، آریہ مت72، سکھ مت38، برھمو سماج12، دیو سماوج2، رادھا سوامی4، جین مت37، جوتر10اور کبیر پنتھ6 قاموس الکتب کے متن کے بعد100صفحات کا اشاریہ ہے جب کہ فہرست عنوانات 2اور مقدمہ 6صفحات پر مشتمل ہے کتاب ٹائپ نستعلیق میں1961ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کے لئے انجمن پریس سے شائع ہوئی۔ افکار عبدالحق مرتبہ آمنہ صدیقی محترمہ آمنہ صدیقی صاحبہ نے مولوی عبدالحق کی زندگی ہی میں’’ افکار عبدالحق‘‘ کا مسودہ تیار کر کے مولوی عبدالحق صاحب کی خدمت میں پیش کیا تھا اس سلسلہ میں آمنہ صدیقی صاحبہ لکھتی ہیں: ’’ انہوں نے میری اس کوشش کو بہت سراھا اور یہ کہہ کر مسودہ اپنے پاس رکھ لیا کہ وہ انجمن ترقی اردو کی طرف سے اس کی طباعت کا انتظام فرما دیں گے۔ مجھے خوشی بھی ہے اور فخر بھی کہ بابا نے میرے کلام کو پسند فرمایا، لیکن افسوس کہ ان کی وفات کی وجہ سے یہ کتاب انجمن کی طرف سے شائع نہ ہو سکی۔ اب یہ کتاب اردو اکیڈمی سندھ کی طرف سے شائع کی جا رہی ہے۔‘‘ آمنہ صدیقی صاحبہ نے مولوی عبدالحق صاحب کے یہ افکار ان کی بکھری ہوئی مختلف کتابوں، مقالات، خطبات اور مضامین سے اخذ کئے ہیں اور مختلف ابواب کو مقالاتی شکل میں یکجا کیا ہے جو مندرجہ ذیل چھ حصوں میں تقسیم ہیں: 1ادب و شعر 2اسلوب 3تنقید و تحقیق اور دیگر اسلوب 4لسانیات 5حیات و کائنات 6مذہب و سائنس کتاب کا آخری حصہ ’’ مذہب و سائنس‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کا وہ مقدمہ ہے جو انہوں نے ڈریپر کی کتاب’’ مذہب و سائنس‘‘ کے مولانا ظفر علی خان صاحب کے ترجمہ کے لئے لکھا تھا یہ مقدمہ جوں کا توں شامل کتاب کر لیا گیا ہے کتاب کی ابتداء میں آمنہ صدیقی صاحبہ کا مولوی عبدالحق پر 1959ء کا لکھا ہے وہ مضمون بطور مقدمہ شامل ہے جس پر موصوفہ کو انعامی مقابلہ میں اول انعام ملا تھا (یہ مضمون اردو کالج کراچی کے جریدے ’’ برگ گل‘‘ کے بابائے اردو نمبر مطبوعہ 16اگست1963ء کے شمارے میں بھی شامل ہے) آمنہ صدیقی صاحبہ کے اس مضمون سے مولوی عبدالحق صاحب کے تمام تحریری پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ کتاب کے گرد پوش پر ڈاکٹر غلام مصطفے خا ن صاحب ، پیر حسام الدین راشدی صاحب، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی صاحب، پروفیسر رشید احمد صدیقی، مولانا غلام رسول مہر صاحب، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی صاحب، پروفیسر نجیب اشرف ندوی صاحب اور ڈاکٹر گیان چند صاحب کی آراء ہیں جن میں ان مبصرین نے آمنہ صدیقی صاحبہ کی اس کاوش کا مقام و مرتبہ متعین کیا ہے۔ 1مکتوبات عبدالحق 2مکاتیب عبدالحق یہ خطوط جلیل احمد قدوائی کے مرتب کردہ ہیں1963ء میں انجمن پریس سے شائع ہوئے تھے لیکن ان کی اشاعت میں ایک عجیب بات بھی ہے کہ یہ مکتوبات دو مختلف عنوانات اور دو مختلف ناشروں کے زیر اہتمام اشاعت پذیر ہوئے صرف نام کا فرق ہے ورنہ متن و ترتیب، تقطیع و تعداد صفحات، کتابت و طباعت ہر اعتبار سے ایک جیسے ہیں ایک کا نام’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ ہے اور دوسرے کا’’ مکاتیب عبدالحق‘‘ ’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ کا ناشر مکتبہ اسلوب کراچی ہے جس نے اپنے سلسلہ مطبوعات11کے تحت یہ کتاب شائع کی ہے سر ورق کی کتابت نستعلیق لیتھو میں ہے گرد پوش پر مولوی عبدالحق کا تصویری خاکہ ہے۔ ’’ مکاتیب عبدالحق‘‘ اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے شائع کی ہے اس کا سر ورق ٹائپ میں ہے۔ دونوں کتب کے آغاز میں آرٹ پیپر پر مولوی عبدالحق کی تحریر کے دو عکس دئیے گئے ہیں جس میں سے ایک حکیم امامی اور دوسرا شبیر علی کاظمی کے نام خطوط کے عکس ہیں، دونوں کتب نیوز پرنٹ پر شائع ہوئی ہیں، مقدمہ مولوی عبدالحق کی زندگی میں لکھا تھا گیا البتہ’’ غرض مرتب‘‘ ان کے انتقال کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد تحریر کی گئی ہے۔ اس مجموعہ میں کل 513خطوط ہیں جو52شخصیتوں کے نام تحریر کئے گئے ہیں ان میں مولوی عبدالحق کے رفقاء کار بھی ہیں اور مولوی عبدالحق اور ان کے مشن کے نکتہ چین بھی، بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کی مولوی عبدالحق سے معمولی شناسائی تھی ان خطوط میں363وہ خطوط ہیں جو ’’ اردو مصفے‘‘ میں شامل تھے۔ اردو مصفے میں ستاد صدیقی کے نام124خطوط تھے لیکن اس مجموعے میں ان کے نام مزید15 خطوط کا اضافہ ہے اسی طرح صدیق قدوائی کے نام مزید3اور گاندھی جی کے نام ایک اور خط کو شامل کیا گیا ہے جو کہ 23ستمبر1946ء کا تحریر کردہ ہے۔ اردو مصفے کے مخاطبین کے علاوہ اس مجموعے میں جن شخصیتوں کے نام خطوط ہیں ان میں ماجد دریا آبادی کے نام 37غلام رسول مہر27، شوکت سبزواری8، حکیم امامی17، رکن الدین قریشی8، غلام محی الدین زور1، مولوی عمر یافعی1، مفتون سنگھ1، عبدالعلیم نامی 1، کبیر احمد جائسی1، رحیم الدین کمال1، میاں عبدالحی1، سجاد مرزا1، اور منظور احمد1 20مئی1961کا لکھا ہوا ایک ایسا خط بھی ہے جو بیک وقت جانکی پرشاد، منظور احمد اور سجاد مرزا کے نام ہے دراصل یہ خط’’ ادارہ مجلس‘‘ کے زیر اہتمام نوے سالہ جشن میں شرکت سے معذرت نامہ ہے اس رح اس مجموعہ میں اردو مصفے کے مکاتیب میں150کا اضافہ ہے۔ مقدمات عبدالحق مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی مولوی عبدالحق صاحب کے مقدمات1931ء میں مرزا محمد بیگ صاحب مرتب کر کے شائع کر چکے تھے اور وہ اس طرح ہاتھوں ہاتھ لئے گئے تھے کہ جلد ہی اس کا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ مقدمات کی اس مقبولیت کے پیش نظر ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ان مقدمات کی سر نو ترمیم، تصحیح اور اضافے کے ساتھ شائع کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے اس ترتیب میں مرزا محمد بیگ صاحب کے مرتب کئے ہوئے تمام مقدمات کے علاوہ ان تمام مقدمات کو بھی جمع کیا جو اب تک کتابی شکل میں شائع نہیں ہوئے تھے مولوی عبدالحق صاحب نے ان سب مقدمات پر نظر ثانی ا ور ترمیم و اضافے کے بعد شائع کرنے کی اجازت دی۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے نہ صرف اپنے مرتب کئے ہوئے مقدمات پر ایک دیباچہ اور مولوی عبدالحق صاحب کے ’’ مقدمات‘‘ پر مقدمہ تحریر کیا بلکہ مرزا محمد بیگ اور مولانا حبیب الرحمان شیروانی صاحب کا اشاعت اول پر لکھا ہوا مقدمہ اور دیباچہ بھی شامل کر لیا اور اس طرح 1963ء میں اردو مرکز لاہور کے زیر اہتمام’’ مقدمات عبدالحق‘‘ شائع ہوئے۔ اس کتاب میں مجموعی اعتبار سے 49مقدمات شامل ہیں جن کی فہرست اور کتابیاتی کیفیت درج ذیل ہے: تذکرے 1نکات الشعراء مصنف: میر تقی میر مرتب: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد(دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت:1935ء 2تذکرہ ریختہ گویاں مولف: سید فتح علی حسینی گردیزی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت1934ء 3مخزن نکات مولف: شیخ محمد قیام الدین قائم مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر:ـانجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشات1929ء 4چمنستان شعراء مولف: رائے لچھمن نرائن شفیق مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر:انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت:1928ء 5گلشن ہند مصنف:ـ علی ابراہیم خان ترجمہ: میر علی لطف طابع: رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور ناشر:ـ عبداللہ کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد (دکن) سن اشات1906ء 6تذکرہ ہندی مصنفہ: غلام ہمدانی مصحفی مرتبہ:ـ مولوی عبدالحق طابع: جامع برقی پریس دھلی ناشر:ا نجمن ترقی اردو اورنگ آباد سن اشاعت1933ء 7گل عجائب مصنفہـ: اسد علی خان تمنا اورنگ آباد مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع اردو، اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو ، اورنگ آباد سن اشاعت1936ء 8مخزن شعراء مصنفہ: نور الدین حسین فائق مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع اردو، اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت1933ء منظومات 1قطب مشتری مصنف:ملا وجہی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو دھلی سن اشاعت1938ء 2گلشن عشق مصنف: ملا نصرتی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: انجمن پریس کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی سن اشاعت1952ء 3ذکر میر مصنفہ: میر تقی میر مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: انجمن اردو پریس اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت1928ء 4انتخاب کلام میر مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: دار الافادہ کاچی گوڑہ حیدر آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت1921ء 5دیوان اثر مصنف:ـ خواجہ محمد اثر مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع:ـ مسلم یونی ورسٹی پریس علی گڑھ ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد(دکن) سن اشاعت1930ء 6مثنوی خواب و خیال مصنف: خواجہ محمد میر اثر مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع:انجمن اردو پریس اورنگ آباد(دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو،ا ورنگ آباد(دکن) سن اشاعت1926ء 7دیوان تاباں مصنف: میر عبدالحی تاباں مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت1938ء 8انتخاب داغ مصنف: نواب مرزا خان داغ مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: کورونیش پرنٹنگ ورکس دھلی ناشر:ا نجمن ترقی اردو، دھلی سن اشاعت1946ء 9مسدس حالی مصنف: الطاف حسین حالی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: نامی پریس کان پور ناشر: دار الاشاعت کان پور سن اشاعت1929ء 10مسدس حالی (صدی ایڈیشن) مصنفہ: الطاف حسین حالی مرتبہ: ڈاکٹر سید عابد حسین طابع: جامع پریس ،دھلی ناشر: دھلی، حالی سن اشاعت1935ء نثر 1معراج العاشقین مصنفہ: سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: تاج پریس حیدر آباد (دکن) ناشر: غلام محمد انصاری وفا مدیرتاج حیدر آباد (دکن) سن اشاعت1343-1934ء 2سب رس مصنفہ: ملا وجہی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد سن اشاعت1932 3رانی کیتکی کی کہانی مصنفہ: انشا اللہ خان انشاء مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو،ا ورنگ آباد سن اشاعت1933 4باغ و بہار مصنفہ: میری امن دھلوی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: یونیورسٹی پبلشرز علی گڑھ ناشر: انجمن ترقی اردو(ہند) سن اشاعت1944ء 5حیات النذیر مصنفہ: افتخار عالم مارھروی طابع: شمسی پریس دھلی ناشر : شمسی پریس دھلی سن اشاعت1912 6مکتوب حالی مرتبہـ : خواجہ سجاد حسین طابع: حالی پریس پانی پت ناشر: حالی پریس پانی پت سن اشاعت1925ء 7ڈاکٹر بجنوری (1918ئ) مولفہ: ڈاکٹر بجنوری مرتبہ: محمد فاتح فرخ طابع: سول اینڈ ملٹری پریس کراچی سن اشاعت1961ء 8سی پارہ دل مصنفہـ: خواجہ حسن نظامی طابع: دلی پرنٹنگ ورکس دھلی ناشر: خواجہ بک ڈپو دھلی سن اشاعت جولائی1921ء 9تمدن ہند: مصنفہ ڈاکٹر لی بان مترجم: سید علی بلگرامی طابع: مطبع ہاشمی آگرہ ناشر:مطبع ہاشمی آگرہ سن اشاعت1913ء 10ماثر الکرام مولفہ: میر غلام علی آزاد بلگرامی طابع: مفید عام پریس آگرہ ناشر: عبداللہ خان، کتب خانہ آصفیہ، حیدر آباد(دکن) سن اشاعت1910ء 11خطوط عطیہ بیگم مرتبہ: محمد امین زبیری و سید محمد یوسف طابع: شمسی مشین پریس ، آگرہ ناشر: ظل السطان بک ایجنسی، بھوپال سن اشاعت ندارد 12اردو تنقید کا ارتقاء مصنفہ: عبادت بریلوی طابع: ادبی پریس کراچی ناشر:ا نجمن ترقی اردو(پاکستان) کراچی سن اشاعت1951ء لسانیات 1دریائے لطافت مولفہ: انشاء اللہ خان انشا (ر) مرزا قتیل طابع: الناظر پریس لکھنو ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت:1916ء 2قواعد اردو، مرتبہ مولوی عبدالحق طابع: الناظر پریس، لکھنو ناشر: دار الاشاعت انجمن ترقی اردو، لکھنو سن اشاعت1914ء 3فرھنگ اصطلاحات علمیہ مرتبہ: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد ناشر: انجمن پریس اورنگ آباد سن اشاعت:1925ء 4فرھنگ اصطلاحات پیشہ وراں تالیف: مولوی ظفر الرحمن دھلوی طابع: لطیفی پریس دھلی ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند) دھلی سن اشاعت:1939ء 5مطبوعات سر رشتہ مرتبہ: سر رشتہ تعلیم و ترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد طابع: دار المطابع جامعہ عثمانیہ سرکار عالی حیدر آباد دکن ناشر: سر رشتہ تعلیم و ترجمہ عثمانیہ حیدر آباد دکن سن اشاعت1909ء متفرقات 1مبادی سائنس مترجم: معشوق حسین خان طابعـ: مطبع اختر حیدر آباد(دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، حیدر آباد(دکن) سن اشاعت:1910ء 2معرکہ مذہب و سائنس مصنفہ: ڈاکٹر جان ولیم ڈربیر مترجم: مولوی ظفر علی خان طابع: رفاہ عام پریس لاہور سن اشاعت:1910ء 3اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام مصنفہ: مولوی چراغ علی مترجم: مولوی عبدالحق طابع: رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور ناشر: عبداللہ خان کتب خانہ آصفیہ، حیدر آباد سن اشاعت:1911ء 4تحقیق الجہاد مصنفہ: مولوی چراغ علی مترجم: مولوی غلام حسین طابع: رفاہ عام پریس لاہور ناشر: عبداللہ خان کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد سن اشاعت:ـ1913ء 5مشاھیر یونان و رومہ مصنفہ: پلوٹارک مترجم: ہاشمی فرید آبادی طابع: مفید عام پریس لاہور ناشر: انجمن ترقی ہند، دھلی سن اشاعت:1943ء 6جنگ روس و جاپان مصنف: مولانا ظفر علی خان طابع: مطبع اختر حیدر آباد دکن ناشر: مطبع اختر حیدر آباد دکن سن اشاعت1905ء 7جنگ نامہ عالم علی خان مولفہ:غضنفر حسین مرحوم مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت:1932ء 8حیات امیر خسرو مصنفہ: خان بہادر تقی محمد خان طابع: ٹائمز پریس کراچی سن اشاعت:1956ء 9تجردو ازدواج مصنفہ: سید محمد تقی طابع: مطبع فیض عام علی گڑھ ناشر: مطبع فیض عام علی گڑھ سن اشاعت:1907ء 10فرھنگ اصطلاحات کیمیا مرتبہ: انجمن ترقی اردو (پاکستان) طابع: انجمن پریس کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو(پاکستان) کراچی سن اشاعت:1953ء 11اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری زیر نگرانی: مولوی عبدالحق طابع: انجمن اردو پریس اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد سن اشاعت:1937ء 12آرٹ ان اردو پرئٹری مصنفہ: شہاب الدین رحمت اللہ طابع: مونیو پریس ڈھاکہ ناشر: دی پاکستان کو آپریٹو بک سوسائٹی لمیٹڈ ڈھاکہ سن اشاعت:1954ء 13چین و عرب تعلقات اور ان کے نتائج مصنفہ: مولوی بدر الدین حئی طابع: سول اینڈ ملٹری پریس کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی سن اشاعت:1949ء 14پر اسرار کائنات مصنفہ:سر جیمسن جینس مترجم: سید محمد تقی طابع: جاوید پریس لاہور ناشر: اکیڈمی آف ایجوکیشن ریسرچ کراچی سن اشاعت:1958ء 15وادی سندھ کی تہذیب مصنفہ: محمد ادریس صدیقی ناشر: محکمہ آثار قدیمہ مغربی پاکستان لاہور سن اشاعت:1959ء 16مضامین محفوظ علی مرتبہ: انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی طابع: انجمن پریس لارنس روڈ کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو(پاکستان) کراچی سن اشاعت:1956ء 17خطبات گارساں دتاسی مصنفہ: موسیو گارساں دتاسی طابع: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد دکن ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد دکن سن اشاعت:1935ء 18ناقابل فراموش مصنفہ: سردار دیوان سنگھ مفتون ناشر: ریجنٹ نیوز ایجنسی، دھلی سن اشاعت:1957ء رسائل 1رسالہ اردو جنوری 1921ء انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، انجمن پریس اورنگ آباد 2رسالہ معاشیات اگست1949ء انجمن ترقی اردو کراچی، سول اینڈ ملٹری پریس لاہور 3رسالہ سائنس جنوری1928ء انجمن ترقی اردو طابع: انجمن پریس اورنگ آباد کچھ اور مقدمات ’’ مقدمات عبدالحق‘‘ میں شامل مذکورہ مقدمات کے علاوہ بھی مولوی عبدالحق نے بہت سے مقدمات اور دیباچے تحریر کئے تھے ان میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں: 1مقدمہ ’’ انتخاب مضامین رسالہ حسن‘‘ مرتبہ:ـ مولوی عبدالحق مطبوعہ: حیدر آباد دکن، سن ندارد 2التماس ’’ کلیات ولی‘‘ مرتبہ :علی احسن، انجمن ترقی اردو1927ء 3دیباچہ’’ ترکوں کی اسلامی خدمات اور ان کی زبان و ادب پر تین لیکچر‘‘ مترجم: وہاج الدین مصنفہ جرمانس جولیس اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو1932ء 4دیباچہ ’’ تاریخ ادبیات ایران‘‘ مترجم: سید سجاد حسین اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو1932ء 5مقدمہ ’’ امہات الامہ‘‘ از ڈپٹی نذیر احمد دھلی، ادریس المطابع، 1935ء 6مقدمہ ’’ سودا‘‘ از شیخ چاند اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو1936ء 7مقدمہ’’ جائزہ زبان اردو‘‘ مرتبہ:ـ انجمن ترقی اردو دہلی انجمن ترقی اردو پریس اورنگ آباد1940ء 8پیش لفظ’’ معدنی دریافت‘‘ مصنفہ: امداد علی انجمن ترقی اردو دہلی 1940ء 9پیش لفظ’’ مدنی دباغت‘‘ مصنفہ: امداد علی دھلی، انجمن ترقی اردو1940ء 10فرھنگ اصطلاحات بنکاری مرتبہ: مجلس اصطلاحات پاکستان اسٹیٹ بینک کراچی، انجمن ترقی اردو1951ء 11دیباچہ’’ مقالات حالی‘‘ مرتبہـ: محمد اسماعیل (حصہ اول) (بار سوم) کراچی، انجمن ترقی اردو1955ء 12مقدمہ ’’ قاموس الکتب اردو‘‘ (جلد اول) مقدمہ: مولوی عبدالحق کراچی، انجمن ترقی اردو1961ء 13مقدمہ’’ مسافر حجاز‘‘ مصنفہ: آغا بدر عالم درانی کراچی’’ قومی زبان‘‘ یکم مئی یا یکم جون1926ء 14مقدمہ’’ لغات کبیر اردو‘‘ مولفہ و مقدمہ: مولوی عبدالحق کراچی، انجمن ترقی اردو1973ء مکتوبات بابائے اردو بنام پیر سید حسام الدین راشدی پیر حسام الدین راشدی صاحب اردو کے سندھی نژاد محسن تھے۔ پیر صاحب نے اردو کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا ۔ انجمن ترقی اردو کے پاکستانی دور میں پیر سید حسام الدین راشدی کی گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ انجمن ترقی اردو پاکستان کی مجلس نظماء کے رکن تھے اور انجمن کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ نیز انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق صاحب کو قیمتی مشورے دیتے تھے اور انجمن کے اشاعتی پروگراموں کے روح رواں تھے۔۔۔۔۔ پیر سید حسام الدین راشدی صاحب کی یہی اردو نوازی انہیں مولوی عبدالحق صاحب کے قریب لے آئی اور ان کا شمار مولوی عبدالحق صاحب کے پر اعتماد دوستوں میں ہونے لگا۔ بقول مشفق خواجہ صاحب: ’’ پیر حسام الدین صاحب راشدی ان معدودے چند بزرگوں میں سے ہیں جنہیں بابائے اردو کی انجمن اور خلوت دونوں تک رسائی حاصل تھی۔ان دونوں بزرگوں کی عمروں میں اگرچہ تقریباً چالیس ال کا فرق تھا۔ لیکن مزاج اور ذوق کی ہم آہنگی کی وجہ سے یہ فرق مٹ گیا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے ’’ شریک رنج و راحت‘‘ قسم کے دوست بن کر رہ گئے تھے۔ اس تعلق خاطر کی مکمل روداد ابھی لکھی نہیں گئی۔ اس روداد کا ایک حصہ مولوی صاحب مرحوم کے خطوط کی صورت میں محفوظ ہے۔۔۔۔ ان خطوط کے مطالعے سے کاتب اور مکتوب الیہ دونو کے کردار کے بعض روشن پہلو سامنے آتے ہیں اس لیے جہاں یہ خطو ط مولوی صاحب مرحوم کی ذہنی آپ بیتی کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں دوسری طرف پیر صاحب قبلہ کے اوصاف حمیدہ کا بھی آئینہ ہیں۔‘‘ یقینا پیر حسام الدین راشدی کے نام ان مکاتیب کو مکمل نہیں کہا جا سکتا بہت سے ایسے خطوط بھی ہوں گے جو ضائع ہو گئے ہوں۔ یا ابھی اوراق پریشاں کی صورت گم نامی میں ہوں پھر بھی ان مکاتیب کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ مجموعی اعتبار سے یہ 126مکاتیب ہیں یہ مکاتیب 1942ء سے لے کر 1954ء کی درمیانی مدت کے ہیں اور زیادہ مکاتیب کا موضوع انجمن اور اس کے مسائل ہیں۔ لیکن تمام مکاتیب سے مولوی عبدالحق صاحب کی پیر سید حسام الدین راشدی صاحب سے بے تکلفی ظاہر ہوتی ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب کے یہ مکاتیب1964ء میں منظر عام پر آئے تھے اور انہیں’’ قومی زبان‘‘ نے چھاپا تھا۔ خطوط عبدالحق مرتبہ محمد اکبر الدین صدیقی محمد اکبر الدین صدیقی صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے 293خطوط کا یہ مجموعہ حیدر آباد (دکن) اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام اعجز پرنٹنگ پریس چھتہ بازار حیدر آباد (دکن) سے 1966ء میں شائع کرایا تھا۔ ان خطوط میں260 خطوط اردو اور بقیہ 33انگریزی میں ہیں مولوی عبدالحق صاحب کے یہ وہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنے ان ماتحت حضرات کو لکھے تھے جو بلحاظ تنخواہ ایک اور بیس تا چالیس کا تناسب رکھتے تھے مرتب نے اپنے پیش لفظ میں ہر مکتوب الیہ کا تفصیلی تعارف کرایا ہے۔ جس میں مولوی عبدالحق صاحب سے ملاقات، ملازمت اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا تذکرہ ہے۔ سب سے زیادہ خطوط ظفر الرحمن صاحب کے نام ہیں جو کتاب کے 110 صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ان خطوط کا موضوع’’ فرھنگ اصطلاحات پیشہ ورانہ‘‘ ہے جب کہ سید ساجد علی کے نام68خطوط لغت کی تدوین کے سلسلے میں ہیں سید ساجد علی کے نام یہ خطوط12جون1920ء سے 1959ء کی درمیانی مدت میں لکھے گئے ہیں کچھ خطوط محمد علی صاحب اور غلام ربانی صاحب کے نام ہیں جو انجمن کے اور اپنے خانگی کاموں کے سلسلے میں لکھے گئے ہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب اپنے آخری دور میں بذات خود خط نہیں لکھ پاتے تھے اس زمانے میں حکیم اسرار احمد کریوی صاحب اور حکیم امامی صاحب مکتوب نویسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ عبدالرحمان فینسی کے نام 7خطوط عمر بانی صاحب کے نام4، رضا نواز جنگ تعلقہ دار صوبہ دار اورنگ آباد کے نام2، یوسف الدین مہتمم کتب خانہ جامعہ عثمانیہ، سخاوت مرزا، اور سید اکرام علی عرف مطلوب شاہ قادری کے نام ایک ایک خط ہے جب کہ پنڈت ونشی دھر کے نام 31خطوط انگریزی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ پنڈت ونشی دھر کے نام خطوط5جون1929ء سے 27فروری 1946ء کی درمیانی مدت کے تحریر کئے ہوئے ہیں۔ خطوط کے اس مجموعہ میں مولوی عبدالحق صاحب کا لکھا ہوا ایک مختصر مضمون بھی شامل ہے۔ عبدالحق کے خطوط عبدالحق کے نام الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب، مولوی عبدالحق صاحب کے پر اعتماد دوستوں میں تھے۔ الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے انتقال پر اپنے تعزیت نامہ میں مولوی عبدالحق نے ان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے۔ ’’ وہ حقیقی معنوں میں عالم اور علم دوست تھے عربی زبان اور اسلامی علوم پر ان کی گہری نظر تھی پہلے محمڈن کالج میں پروفیسر تھے پھر پرنسپل ہو گئے۔ مرحوم کی نگرامی اور سرپرستی میں اس کالج کا وقار بہت بڑھ گیا اور ان کا کالج مدراس کے ممتاز کالجوں میں شمار ہونے لگا اس کے بعد وہ مدراس کے قدیم اور مشہور کالج موسوم بہ پریسیڈنسی کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو گئے کچھ عرصہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں رہ کر وائس چانسلری کی خدمت انجام دی وہ جس عہدے اور منصب پر رہے اس کے فرائض بڑی تندھی اور انہماک سے انجام دئیے اور اپنی فرض شناسی اور خدمات کے جذبہ کی وجہ سے ہر جگہ مقبول رہے ان کا اصلی دوق تعلیم تھا۔۔۔۔ انہیں اردو زبان سے بڑی محبت تھی اور اس کی اشاعت اور ترقی کے لئے دامے قدمے ہر طرح حاضر تھے۔‘‘ ان ہی الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے نام 57خطوط کا مجموعہ ’’ عبدالحق کے خطوط عبدالحق کے نام‘‘ سے شائع ہوا ’’ حرف اول‘‘ الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے بیٹے محمد انواز الحق صاحب پرنسپل عثمانیہ کالج کرنول نے تحریر کیا جب کہ مقدمہ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے لکھا ہے جس میں صدیقی صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے اسلوب نگارش پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ خطوط10اگست1927ء سے 18جون1954ء کی درمیانی مدت میں لکھے گئے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق مدراس میں اردو کی ترویج اور سرگرمیوں سے ہے۔ ایک خط میں الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے اس خط کی نقل بھی شامل ہے جو انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کے خط کے جواب میں تحریر کیا تھا۔ خطوط کا یہ مجموعہ الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے انتقال کے بعد شائع ہوا تاہم وہ اسے اپنی زندگی میں مرتب کر چکے تھے اور جگہ جگہ انہوں نے خود ہی وضاحتی حاشیے بھی تحریر کئے تھے۔ اقبال اور عبدالحق ڈاکٹر ممتاز حسن نے یہ کتاب’’ مکتوبات اقبال کی روشنی میں‘‘ مرتب کی اور مجلس ترقی ادب لاہور نے علامہ اقبال کی ولادت کے جشن صد سالہ کی مناسبت سے زرین آرٹ پریس لاہور سے 1973ء میں شائع کی تھی۔ ممتاز حسن نے پیش لفظ اور مقدمہ خود تحریر کیا ہے کتاب میں مولوی عبدالحق کے نام علامہ اقبال کے آٹھ خطوط کے عکس دئیے گئے ہیں اور بعد میں یہی خط نسخ ٹائپ پر چھاپے گئے ہیں۔ بیشتر خطوط اردو اور انجمن ترقی اردو کے مسائل پر ہیں جب کہ ایک خط میں مولوی عبدالحق کو الہ آباد یونی ورسٹی سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا ہونے پر مبارکباد دی گئی ہے اور دوسرے خط میں سر راس مسعود کے انتقال پر اظہار افسوس کیا گیا ہے۔ کتاب کے حواشی بھی ممتاز حسن نے تحریر کئے ہیں کتاب میں آٹھ خطوط کے متن کے بعد نو ضمیمے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ 1علامہ اقبال کی اپنی اور علامہ پر لکھی جانے والی کتب پر تبصرے از مولوی عبدالحق تبصرہ بر ’’ بانگ درا‘‘ تبصرہ پر’’ اقبال‘‘ از احمد دین تبصرہ بر’’ کلیات اقبال‘‘ 2تقریر مولوی عبدالحق یوم اقبال1950ء 3تقریر مولوی عبدالحق یوم اقبال1953ء 4تصانیف مولوی عبدالحق 5سہ ماھی’’ اردو‘‘ میں اقبال کے بارے میں شائع شدہ مضامین کی فہرست 6سہ ماھی ’’ اردو ‘‘ میں اقبال سے متعلق تصانیف پر شائع شدہ تبصروں کی فہرست 7روداد آل انڈیا اردو کانفرنس1936ء 8عکس مکتوب قائد اعظم 9نامہ سر تنج بہادر سپرو بنام مولوی عبدالحق ضمیموں کے بعد کتابیات کی فہرست ہے اشخاص، مقامات، اداروں، کتب رسائل، اخبارات، مضامین اور نظموں کا اشاریہ احمد رضا نے مرتب کیا ہے۔ لغت کبیر مولوی عبدالحق صاحب کے تالیفی سرمایہ میں’’ لغت کبیر‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس لغت کی تالیف ان کی زندگی کی بڑی خواہشوں میں سے ایک تھی 1930ء میں مولوی عبدالحق صاحب اورنگ آباد کالج کی پرنسپلی سے سبکدوش ہونے کے بعد جامعہ عثمانیہ حیدر آباد (دکن) چلے آئے لیکن ان کے پیش نظر ایک جامعہ لغت کا منصوبہ رہا۔ اس زمانے میں انہوں نے بڑی مستعدی سے ’’ لغت‘‘ کی تالیف کا آغاز کیا اور رفقاء کار کی ایسی ٹیم تیار کی جو ان کے اس منصوبہ میں ان کا ہاتھ بٹا سکے اس سلسلے میں سید ہاشمی فرید آبادی صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ مولوی احتشام الدین حقی دھلوی مددگار مقرر ہوئے مرحوم اردو زبان کے ادیب ابن ادیب تھے اور ان سے بہتر اس کام میں مددگار ملنا مشکل تھا۔۔۔۔۔ نظر ثانی خود مولوی صاحب اور ایک کمیٹی کرتی رہی، جس میں ڈاکٹر عبدالستار صاحب صدیقی، جناب پنڈت کیفی اور راقم الحروف شریک تھے الفاظ کی اصل اور سرگزشت کا پتہ چلانے کے لئے سنسکرت اور ہندی زبانوں کے بعض ماہر (پنڈت ونشی دھر وغیرہ) مامور تھے۔ عربی الاصل الفاظ کے مادے عربی دان حضرات (ڈاکٹر صدیقی صاحب ی نگرانی میں) لکھ بھیجتے تھے۔‘‘ اس منصوبے پر بڑی تیزی سے کام ہوا بہت سا سرمایہ جمع ہو گیا تھا لیکن ابھی منصوبہ تکمیل پذیر نہیں ہو اتھا کہ 1947ء کے فرقہ وارانہ ہنگاموں نے سارے کرے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ بڑی مشکل سے مولوی عبدالحق صاحب کچھ اثاثہ کراچی منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس میں اس ’’ لغت‘‘ کے چند پلندے اور حوالے کے کارڈ بھی شامل تھے مولوی عبدالحق صاحب نے کراچی منتقل ہو کر بھی اس منصوبے کو ترک نہیں کیا اور اسے از سر نو مرتب کیا لیکن یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ مولوی عبدالحق صاحب کا انتقال ہو گیا مولوی عبدالحق صاحب کے انتقال کے بعد ان کے لکھے ہوئے مقدمہ کے ساتھ1973ء میں انجمن ترقی اردو نے مولوی عبدالحق کی کاوش کو شائع کیا۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری مدیر اول ترقی اردو بورڈ نے اس لغت کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا تھا: ’’ قارئین کو ان اوراق کے مطالعے سے اندازہ ہو گا کہ مولوی صاحب کی عمر بھر وفا کرتی اور وہ اردو کے اس ’’ لغت کبیر‘‘ کو مکمل فرماتے تو کتنا عظیم کام ہوتا اور اس سے اردو کو کتنا فائدہ پہنچتا۔‘‘ لغت کے ابتداء میں جمیل الدین عالی صاحب معتمد اعزازی کا ’’ حرفے چند‘‘ کے عنوان سے مختصر تاریخ اور ڈاکٹر شوکت سبزواری صاحب کا تعارف اور مولوی عبدالحق کا لکھا ہوا مقدمہ شامل ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمہ میں لغت نویسی کا بھر پور جائزہ لیا ہے مستشرقین اور اہل زبان کے لکھے ہوئے لغات کا تحقیقی ذکر کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے ’’ لغت کبیر‘‘ کی تالیف کے سلسلے میں لکھاہے: ’’ اس کی تالیف اور تکمیل میں پورے سترہ سال لگے اور لاکھوں روپیہ صرف ہوئے۔ مطالعہ کرنے والے 1300اشخاص تھے۔ انہوں نے پانچ ہزار کتابوں میں سے 3500000 اقتباسات انتخاب کئے۔ تنخواہ یاب کارکنوں کے علاوہ 30سب ایڈیٹروں اور ہزاروں مطالعہ کرنے والوں نے بلا معاوضہ کام کیا جن میں اکثر نے اس تندھی سے اپنا فرض ادا کیا تنخواہ یاب کیا کرے گا۔‘‘ اس ’’ لغت‘‘ کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں: 1اردو کے تمام مفرد اور مرکب الفاظ درج لغت ہیں۔ 2اعراب بڑی احتیاط اور کاوش سے لگائے گئے ہیں۔ 3ہر معنی کی شہادت کے لئے اردو ادب کو میزان بنایا گیا ہے۔ 4تمام الفاظ کے ماخذ بتائے گئے ہیں اور الفاظ کی معنی کے اعتبار سے قواعدی حیثیت واضح کی گئی ہے۔ ’’ لغت کبیر‘‘ کی جلد دوم1977ء میں انجمن ترقی اردو سے شائع ہوئی۔ جلد دوم میں بھی مولوی عبدالحق صاحب کا مقدمہ جمیل الدین عالی صاحب’’ حرفے چند‘‘ او رڈاکٹر شوکت سبزواری صاحب کا تعارف شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت میں ہاشمی فرید آبادی صاحب کا ’’ تاریخ تدوین کا خلاصہ تاریخ‘‘ شامل ہے۔ قاموس الکتب (جلد دوم)’’ تاریخیات‘‘ ’’ بابائے اردو نے مذہبیات پر قاموس الکتب کی پہلی اشاعت کے فوراً بعد تاریخ و سوانح کے موضوع پر کام شروع کر دیا تھا لیکن جلد ہی ان کی زندگی مستعار کی مہلت ختم ہو گئی اور کام تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔‘‘ بابائے اردو کے انتقال کے بعد انجمن ترقی اردو نے اس کی تکمیل کرائی اور نستعلیق آفسٹ پر اسے سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر361کے تحت1975ء میں انجمن ترقی اردو پریس سے شائع کیا گیا ابتدا میں قاموس کی تدوین کے مراحل کا ذکر ہے اور بطور مقدمہ مولوی عبدالحق کا وہی مقدمہ شامل اشاعت ہے جو انہوں ’’ قاموس الکتب‘‘ (حصہ اول) مذہبیات کے لئے تحریر کیا تھا۔ اس جلد میں4110کتب کا تعارف ہے جو موضوعات کے اعتبار سے فلسفہ تاریخ و نظریات، تاریخ تہذیب و تمدن، تعلیم و ثقافت، تاریخی مجموعے، جغرافیہ، آثار قدیمہ، سوانح، تاریخ اقوام یورپ و ایشیائ، افریقہ اور متفرقات میں منقسم ہیں۔ کتاب کے آخر میں دو اشاریے ہیں جن میں سے ایک مصنفین کے بارے میں اور دوسرا اشاریہ کتابوں کے بارے میں ہے۔ افکار حالی مولوی عبدالحق کا تعلق دبستان علی گڑھ سے تھا اور انہیں سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء کار بالخصوص مولانا حالی سے بے انتہا لگاؤ تھا۔ جمیل الدین عالی صاحب لکھتے ہیں: ’’ انہوں نے سر سید اور ان کے رفقائے کار کو نہ صرف دیکھا تھا بلکہ ان سے کسب فیض بھی کیا تھا تاہم ان کے خیالات اور طرز تحریر پر خواجہ الطاف حسین حالی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔‘‘ عبدالحق کی گوناں گوں مصروفیات نے اس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ حالی پر کوئی باقاعدہ تالیف چھوڑتے لیکن انہوں نے اپنے اس پیشوا پر بہت سے مضامین لکھے، تقاریب کیں، تبصرے رقم کئے اور دیباچے تحریر کئے۔ جن سے مولانا حالی کی شخصیت اجاگر ہوتی ہے ان ہی میں سے انتخاب ’’ افکار حالی‘‘ کے عنوان سے انجمن ترقی اردو پاکستان نے مولوی عبدالحق کے انتقال کے بعد نستعلیق آفسٹ پر شائع کیا۔ جس پر ادارہ کی جانب سے ’’ حالی اور عبدالحق‘‘ کے عنوان سے مولوی عبدالحق کے حالی سے مراسم کا جائزہ لیا گیا۔ کتاب کے آغاز میں جمیل الدین عالی نے ’’ حرفے چند‘‘ میں کتاب کا تعارف کرایا ہے۔ کتاب میں شامل مضامین کی فہرست درج ذیل ہیں: 1حالی کی شخصیت چند ہم عصر (شیخ چاند کی فرمائش پر مولانا حالی پر تو ایک مضمون لکھ دیا تحریر1937ء 2ایک مثالی کردار ریڈیائی تقریر مطبوعہ’’ قومی زبان‘‘ کراچی 16مئی1950ء 3حالی اور انسانیت تقریر’’ یوم حالی‘‘ انجمن ترقی اردو پاکستان 1951ء 4درد مند حالی تقریر عثمانیہ کالج، اورنگ آباد 5نومبر1934ء 5حالی کا جشن صد سالہ 6حالی کی شاعری خطبہ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین دکن 2مارچ 1954ء 7حالی اور ادب اردو دائرہ معارف اسلامیہ لاہور زیر عنوان’’ اردو‘‘ 8حالی کی تنقید نگاری 9ایک ہندی دوھے اور اردو شعر پر مولانا حالی کا محاکمہ سہ ماہی ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد 10مسدس حالی جنوری1936ء 11مقالات حالی (مرتبہ محمد اسمعیل) دیباچہ’’ مقالات حالی‘‘ جامعہ پریس دھلی 1934ء 12مکتوبات حالی مکتوبات حالی بنام مولوی عبدالحق 1محررہ 23ستمبر1903ء 2محررہ17 جنوری 1905ء 3 محررہ 6مارچ1912ء اور 4ایک غیر مکمل خط (ت ن) خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبداللہ چغتائی ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مولوی عبدالحق کے 77خطوط بنام ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اپنے مقدمہ اور چغتائی کے ایک مضمون بعنوان ’’ ڈاکٹر مولوی عبدالحق اور ان کے خطوط‘‘ کے ساتھ ترتیب دے کر شائع کئے ہیں۔ ان خطوط کا موضوع زبان اردو اور انجمن ہے۔ یہ خطوط1933ء سے1959ء کے درمیانی زمانے میں لکھے گئے ہیں۔ مولوی عبدالحق کے بعض خطوط عبداللہ چغتائی کے پاس محفوظ نہیں رہے۔ ان کی بابت خود چغتائی صاحب کا بیان ہے: ’’ میرے اور مولوی صاحب کے تعلقات1922ء سے لے کر ان کی وفات تک بد ستور نہایت خوشگوار رہے۔اس طویل عرصے میں ان سے جو خطوط کتابت برائے ترویج زبان اردو ہوتی رہی وہ بہت اہم اور دل چسپ ہے۔ اس سے تاریخ عہد پر بھی کافی روشنی پڑتی ہے۔ اگرچہ ان میں وہ ابتدائی خطوط نہیں جو بد قسمتی سے انتقال مکانی اور غفلت کے باعث ضائع ہو گئے۔‘‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اپنے مقدمہ میں مولوی عبدالحق کے خطوط کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے شائع کرنا’’ قومی خدمت‘‘ قرار دیا ہے اور عبداللہ چغتائی سے مولوی عبدالحق کے گہرے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے انہیں مولوی صاحب کا معتمد قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے اپنے مضمون میں مولوی عبدالحق کی زندگی کے اس اہم دور پر روشنی ڈالی ہے جب مولوی عبدالحق اردو کی ترویج کے لئے زبردست کوشش کر رہے تھے۔ مضمون کی ابتدا میں عبداللہ چغتائی نے پروفیسر حافظ محمود شیرانی کے توسط سے مولوی صاحب سے اپنے تعارف اور ابتدائی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس طرح مولوی عبدالحق کے قریب ہوتے گئے۔ پھر مولوی عبدالحق کی میزبانی، پھلوں سے دل چسپی، ان کے انداز زندگی، علمی دوروں، اردو اسٹینڈرڈ ڈکشنری کی تدوین اور اشاعت، انجمن کے لئے پریس کے حصول اور اس کے لئے سفر کلکتہ، قیام دھلی، سر اکبر حیدری سے قریبی تعلقات، جائزہ زبان اردو کی مہم، جائزہ زبان کا طریقہ کار اور پاکستان میں ہجرت جیسے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے بیشتر خطوط اورنگ آباد سے تحریر کئے ہیں انہوں نے 1934ء میں عبداللہ چغتائی کو ’’ جائزہ زبان‘‘ کے لئے اپنا سفیر بنایا تھا اس لئے زیادہ تر خطوط ’’ جائزہ زبان‘‘ کے موضوع پر ہیں جب کہ چند خطوط’’ اسٹینڈرڈ اردو ڈکشنری‘‘ چھاپے خانے اور اردو کانفرنسوں کے بارے میں ہیں۔ ان خطوط میں صرف سات خط انجمن ترقی اردو پاکستان کے قیام کے بعد تحریر کئے گئے ہیں۔ مختلف کتابوں کی اشاعت، استنبول کی اورینٹل کانفرنس اور لاہور اردو کانفرنس ان خطوں کے اہم موضوعات ہیں ایک خط ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی اہلیہ کے انتقال پر تعزیت کا بھی ہے۔ فرمودات عبدالحق مرتبہ ڈاکٹر سید معین الرحمن مولوی عبدالحق کے 681فرمودات پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر سید معین الرحمن نے 1978ء میں مرتب کر کے نذر سنز لاہور سے شائع کرائی تھی، بقول فرمان فتح پوریـ: ’’ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے ’’ فرمودات عبدالحق‘‘ میں بابائے اردو کے خطبات کی روح اور خوشبو اس عمدگی سے کشید کی ہے کہ باید و شاید اس کتاب کے مطالعہ سے مولوی عبدالحق کی شخصیت کی رنگا رنگی، ان کی زندگی کی باہمی، ان کی ہمہ گیر واقفیت، ان کی معاملہ فہمی، ان کی فکری استعداد، ان کی تبحر علمی، ان کے انداز بیان، ان کی جدت طبع اور ان کی بے باک اور بے جھپک رنگ طبیعت کا بھر پور انداز ہو جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے یہ ’’ فرمودات‘‘ مولوی عبدالحق کے ان 38نگارشات سے اخذ کئے ہیں جو ’’ خطبات عبدالحق‘‘ کی شکل میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مرتب کئے تھے۔ اس کتاب میں موضوع کے اعتبار سے فرمودات کی ترتیب اس طرح ہے: 1زبان و لسان پر 132 2اردو قومی زبان 086 3تعلیم و تعلیمات 042 4شعر و ادب، ادبی ادارے تحریکیں 150 5حیات و کائنات 271 کل 681 کتاب کے آخر میں زمانی و مکانی توضیحات اور ایک اشاریہ ہے جس میں موضوعات اسمائے الرجال، اسماء الکتب و رسائل، کانفرنسیں، جلسے، ادارے، انجمنیں، اماکن اور اسماء اللسان کی نشاندھی کی گئی ہے۔ کتاب کی ابتداء میں’’ حدیث رشید‘‘ کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد صدیقی کی تحریر کی ہوئی تقریظ اور ڈاکٹر سید معین الرحمن کی جانب سے ’’ عرض مرتب‘‘ ہے کتاب کے گرد پوش پر پروفیسر رشید احمد صدیقی صاحب، پروفیسر وقار عظیم اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کی وہ آراء ہیں جس میں ڈاکٹر سید معین الرحمن کی اس کاوش کو تحسین کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ یہ ’’ فرمودات‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے مولوی عبدالحق کے ان 38طویل خطبات سے اخذ کئے ہیں جو وہ برصغیر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک 1933ء سے 1959ء کی درمیانی مدت اردو زبان و ادب کی ترویج کے لئے دیتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب نے ان فرمودات کی لڑی ایک خاص معنوی ربط سے پروئی ہے اور اس بات کا اہتمام قائم رکھا ہے کہ کسی بھی حاشیہ آرائی سے مولوی عبدالحق صاحب کی اپنی رائے پر کوئی دوسرا رنگ نہ چڑھ سکے۔ بقول ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب: ’’ مقصد یہ تھا کہ اس سے ان کی سیرت، شخصیت، نقطہ نظر وسعت علم، اصابت فکر اور دوسری صفات کے مختلف پہلو سامنے آ جائیں اور اندازہ ہو جائے کہ اپنے خیالات، جذبات و افکار کے اظہار کے لئے انہوں نے جو زبان و لہجہ اور اسلوب اختیار کیا وہ موقع محل کے اعتبار سے کتنا حسب حال ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ اعلیٰ شخصیت اور اعلیٰ انشا پردازی کس طرح ایک دوسرے سے نشوونما اور ایک دوسرے کو جلا دیتے ہیں۔‘‘ مکاتیب عبدالحق بنام محوی مولانا محوی صدیقی مولوی عبدالحق کے رفقاء کار میں سے تھے جنہوں نے مولوی عبدالحق کے ساتھ مل کر اردو کی نشوونما اور ترویج میں حصہ لیا اور انجمن ترقی اردو کے شعبہ دار الاشاعت کے مہتمم بنائے گئے۔ اورنگ آباد میں جب انٹرمیڈیٹ قائم ہوا اور اس کے عملہ کے انتخاب کے اختیارات مولوی عبدالحق کو ملے تو انہوں نے محوی کو فارسی کا لیکچرار مقرر کیا۔ لغت کی تدوین میں ردیف’’ ن‘‘ تک محوی صدیقی مولوی عبدالحق کے معاون رہے لیکن 1930ء میں کالج اور انجمن سے علیحدہ ہو کر مدراس چلے گئے اور 1975ء میں ان کا بھوپال میں انتقال ہوا۔ مولوی عبدالحق سے ان کی اس زمانے سے خط و کتابت تھی جب مولانا محوی الناظر پریس اور الناظر رسالے سے منسلک تھے۔ پروفیسر عبدالقوی دسنوی نے مولوی عبدالحق کے 46خطوط کو اپنے پیش لفظ، مولانا محوی پر ایک خاکہ اور مولانا محوی اور عبدالحق کے حوالے سے ایک مضمون کے ساتھ شائع کئے ہیں۔ انجمن ترقی اردو پاکستان کے معتمد اعزازی جمیل الدین عالی نے ’’ حرفے چند‘‘ کے عنوان سے کتاب کا تعارف کرایا ہے اور بابائے اردو کے غیر مطبوعہ 46خطوط کو جمع اور محفوظ کرنا’’ ایک قومی اور ادبی فریضہ ‘‘ قرار دیا ہے۔ مجموعے میں شامل یہ 46مکاتیب 23اپریل1922ء سے 12 جنوری 1949ء تک کے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر مکاتیب میں مولوی عبدالحق نے مولانا محوی کی توجہ کتابوں کی اشاعت تدوین و ترتیب کی جانب دلائی ہے اور بعض خطوط انجمن کے پریس کے لئے ٹائپ اور فونڈری کے انتظامی امور پر لکھے ہیں۔ عبدالقوی دسنوی لکھتے ہیںـ: ’’ ان چار درجن خطوط کے مطالعہ سے ایک طرف جہاں ہمیں مولوی عبدالحق بابائے اردو کی خط نگاری اور ان کی شخصیت سے آگاہی ہوتی ہے وہاں محوی صدیقی سے ان کے گہرے تعلقات، بابا کی نگاہوں میں ان کی قدر و منزلت اور ان کی زندگی کی مختلف جھلکیاں ملتی ہیں۔ تمام خطوط میں بے تکلف اور پر خلوص دوستی کی فضا ہے۔‘‘ خطوط کا یہ مجموعہ انجمن ترقی اردو پاکستان نے 1980ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع کیا۔ مذہب اور سائنس یہ کتاب موڈرن پبلشنگ ہاؤس دھلی نے ’’ افکار عبدالحق‘‘ سیریز کے آخری حصہ کے طور پر 1983ء میں شائع کی اس کا متن67صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس کا آغاز صفحہ173سے ہوتا ہے جب کہ آخری صفحہ پر240درج ہے۔ کتاب کے آخر میں ’’ مقدمات عبدالحق‘‘ کا حوالہ ص53 تا 156ہے۔ ’’ مذہب اور سائنس‘‘ دراصل مولوی عبدالحق کا وہ مقدمہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر جان ولیم ڈریبر کی کتاب’’ کانفلیکٹ بٹوین ریلجن اینڈ سائنس‘‘ کے اردو ترجمہ کے لئے تحریر کیا تھا اس کتاب کا ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے 1910ء میں رفاہ عام پریس لاہور سے شائع کیا تھا۔ ڈاکٹر ڈربیر نے اپنے دلائل سائنس کے حق میں دئیے تھے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مذہب، سائنس سے متصادم ہے لیکن مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں مذہب اور سائنس کے اصولوں اور خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ دونوں کا مقصد انسانی فلاح و بہبود ہے۔ مولوی عبدالحق ڈربیر کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ جسے وہ (ڈربیر) مذہب کہتے ہیں وہ در حقیقت مذہب نہیں ہے بلکہ رومن ازم ہے اور جتنے حملے انہوں نے مذہب پر کئے ہیں وہ بلا شبہ رومن ازم پر ہیں۔۔۔ سائنس اور مذہب کا یہ اختلاف اور ان کی باہمی بدظنی و بدگمانی ابھی مدتوں رہے گی اور اسے برداشت کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی اسے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیوں کہ اس کی بنیاد غلط فہمی اور ہٹ دھرمی پر ہے۔ اہل مذہب کوسائنس کی صداقت پر اور اہل سائنس کو مذہب کی صداقت پر ایمان لانا چاہئے۔‘‘ خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبادت بریلوی ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مولوی عبدالحق کے 173خطوط فوٹو عکس کی مدد سے مرتب کر کے شائع کئے ہیں یہ تمام کے تمام خطوط ڈاکٹر عبادت بریلوی کے نام ہیں مکتوب الیہ نے ہی ان کا مختصر مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے ان کی اشاعت کی ضرورت و اہمیت کو اس طرح واضح کیا ہے: ’’ یہ صرف ذاتی خطوط نہیں ہیں ان کی نوعیت قومی اور ملی بھی ہے۔۔۔ اس حقیقت کے احساس نے میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ ان خطوط کو اس طرح شائع کر دیا جائے کہ بابائے اردو کی ان تحریروں کے عکس ایک البم کی صورت میں محفوظ ہو جائیں۔‘‘ یہ خطوط ڈاکٹر عبادت بریلوی کے ان خطوط کے جواب میں تحریر کئے گئے ہیں۔ جو وہ مولوی عبدالحق کو وقتاً فوقتاً تحریر کرتے رہے۔ ان میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے لئے تعلیم کے میدان میں رہنمائی بھی ہے، حصول ملازمت کے لئے دل جوئی بھی، ادبی سرگرمیوں کے لئے حوصلہ افزائی بھی اور تحسین و تعریف بھی۔ کچھ خطوط1947ء کے المناک حالات پر روشنی ڈالتے ہیں بعض خطوط میں پاکستان میں انجمن کی ابتدائی مشکلات اور مولوی عبدالحق صاحب کے عمر کے آخری حصے میں انجمن کی چشمک پر روشنی ڈالی ہے ان میں بلند حوصلگی کی باتیں بھی ملتی ہیں اور رنج و ملال کا احساس بھی۔ ان مکاتیب سے معاشرتی، سماجی، لسانی و سیاسی معاملات و واقعات پر روشنی پڑتی ہے عبادت بریلوی صاحب کا کہنا ہے: ’’ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اسلامیان پاکستان وھند کا گراں قدر قومی اور ملی سرمایہ ہے۔‘‘ خطوط کا یہ مجموعہ مجلس اشاعت مخطوطات ادارہ ادب و تنقید لاہور نے 1984ء میں فالکن پریس لاہور سے شائع کیا ہے۔ مندرجہ بالا تصنیفی و تالیفی سرمایہ کے علاوہ، ممکن ہے مولوی عبدالحق کی کچھ اور ایسی تحریریں بھی موجود ہوں، جن تک راقم الحروف کی دسترس نہ ہو سکی ہو۔ ٭٭٭٭٭ حواشی 1بحوالہ ذکر عبدالحق از ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور1985ء ص:32 2خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی ترتیب و مقدمہ: ڈاکٹر عبادت بریلوی1984ء ص:126 3جائزہ مخطوطات جلد اول از مشفق خواجہ لاہور، مرکزی اردو بورڈ1979ء ص:1080 4’’ گلشن ہند‘‘ از میرزا علی لطف، لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس1906ء ص:16 5’’ انتخاب مضامین رسالہ ’’ حسن‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، حیدر آباد دکن ص:7‘‘ 6قومی زبان کراچی اگست1963ء 7بابائے اردو مری میں از حکیم اسرار احمد کریوی، ماہنامہ’’ قومی زبان‘‘ کراچی جولائی، 1961ء ص:7 8اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام حصہ دوم، مترجم: مولوی عبدالحق لاہور، رفاہ عام پریس 1911ء ص:42 9ایضا،ص60 10بابائے اردو مری از حکیم اسرار احمد کریوی، ماہنامہ قومی زبان، کراچی جولائی 1961 ص: 7 11قواعد اردو از مولوی عبدالحق لکھنو دار الاشاعت انجمن ترقی اردو 1914ء ص1718 12مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات، از شہاب الدین ثاقب، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1985ء ص58 13دریائے لطافت، مولفہ سید انشاء اللہ انشائ، مرتبہ: مولوی عبدالحق ناشر انجمن ترقی اورنگ آباد 1916ء ص:75 14دریائے لطافت از سید انشا اللہ خان انشا مرتبہ مولوی عبدالحق اورنگ آباد دکن انجمن ترقی اردو 1916ص :ت 15ایضاً ص (ض،ق) 16انتخاب کلام میر مرتبہ: مولوی عبدالحق بی اے، معتمد انجمن ترقی اردو، حیدر آباد دکن، دائرہ الافادہ، کاچی گوڑہ،1921ء ص:26 17انتخاب کلام میر مرتبہـ: مولوی عبدالحق بی اے، معتمد انجمن ترقی اردو، حیدر آباد دکن، دائرہ الافادہ، کاچی گوڑہ،1921ص26 18تذکرہ طبقات الشعرا از قدرت اللہ شوق مرتبہ: نثار احمد فاروقی، ناشر: مجلس ترقی ادب لاہور،1968ء ص249 19تذکرہ گلشن ہند، مولفہ: مرزا علی لطف، لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس،1906ء ص36 20شیخ ضیاء الحق صاحب نامور صحافی تھے اور انہوں نے قید فرنگ کاٹی تھی 1936ء میں انتقال ہوا۔ 21خواب و خیال، مصنف: سید محمد میر اثر،ا ورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، 1926ء ص (ل ) 22چمنستان شعرا از رائے لچھمن نرائن شفیق، مرتبہ مولوی عبدالحق اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1928، ص:4 23چمنستان شعرا ا ز رائے لچھمن نرائن شفیق مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1928ء ص:16 24ذکر میر مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد (دکن) انجمن ترقی اردو،1928ص:د 25ذکر میر مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد (دکن) انجمن ترقی اردو1928ء ص:گ 26ایضا،ص:ن 27: ’’ مخزن نکات‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد (دکن) انجمن ترقی اردو،1929ء ص 1 28’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، لاہور، مجلس ترقی اردو ادب 1972ء ص:7 29’’ کلیات قائم‘‘ (جلد اول) مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر اقتداء حسن، لاہور، مجلس ترقی ادب 1968ص:7 30’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، لاہور، مجلس ترقی ادب 1972ء ص:7 31’’ دیوان اثر‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق ، علی گڑھ، مسلم یونیورسٹی پریس، 1930ص2 32’’ باغ و بہار‘‘ از میرا من دھلوی لندن، ولیم وائس پریس،1860ء ص258-259 33’’ باغ و بہار‘‘ از میرامن دھلوی، لندن، ولیم وائس پریس1860ص الف 34’’ باغ و بہار‘‘ از میر امن دھلوی، لندن ولیم وائس پریس1860ص:6-5 35باغ و بہار مرتبہ مولوی عبدالحق دھلی، انجمن ترقی اردو (ہند)1944ء ص2 36’’ باغ و بہار‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق دھلی، انجمن ترقی اردو (ہند)1944ئص4 37’’ باغ و بہار‘‘ مولفہ میرامن دلی والے، کلکتہ، ہندوستانی پریس1803ء سر ورق 38مقدمات عبدالحق (حصہ اول) مرتبہ مرزا محمد بیگ، حیدر آباد دکن مکتبہ ابراہیمیہ 1931ص3 39مقدمات عبدالحق (حصہ اول) مرتبہ مرزا محمد بیگ، حیدر آباد (دکن ) مکتبہ ابراہیمیہ اسٹیشن روڈ 1931ص15 40تاریخ ادب اردو (جلد اول) از ڈاکٹر جمیل جالبی، لاہور، مجلس ترقی ادب 1984ء 210 41یہ کتاب ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کی کتاب کن فلیکٹ بٹوین ریلیجن اینڈ سائنس کا ترجمہ ہے 42ہاشمی فرید آبادی صاحب نے پلوٹارک کی اس انگریزی کتاب کا چار جلدوں پر مشتمل اردو میں ترجمہ کیا تھا پہلی جلد مولوی عبدالحق کے مقدمہ کے ساتھ 1943ء میں شائع ہوئی جب کہ دوسری جلد1944ء تیسری 1945ء اور چوتھی 1946ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔ 43یہ مولوی عبدالحق کے قلم سے نکلا ہوا پہلا مقدمہ ہے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1914ء میں اسلایہ اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا تھا۔ 44سید میر غلام علی آزاد بلگرامی (1116ھ تا1200ھ) کے اس تذکرے کے علاوہ سرور آزاد، یدبیضا، خزانہ عامرہ اور روضۃ الاولیا مشہور تذکرے ہیں۔ ماثر الکرام دو حصوں میں تقسیم ہے۔ فصل اول میں80مشاہیر صوفیائے کرام کے حالات ہیں جب کہ فصل دوم میں73علماء کے حالات درج ہیں یہ کتاب 1913ء میں دوبارہ عبداللہ خان کے تحشیہ و تصحیح کے ساتھ مولوی عبدالحق کے زیر اہتمام رفاہ عام پریس لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ 45مولوی سید علی بلگرامی نے اسے فرانسیسی سے ترجمہ کیا تھا اور مولوی عبدالحق نے اس پر دو حصوں پر مشتمل مقدمہ لکھا پہلے حصے میں مترجم کے حالات زندگی اور دوسرے میں کتاب کے متن پر روشنی پڑتی ہے۔ 46’’ سی پارہ دل‘‘ خواجہ حسن نظامی کے 133مختصر مضامین کا مجموعہ ہے جسے انہوں نے 5 منزلوں میں تقسیم کیا ہے پہلی منزل عبد و معبور، دوسری ذوق و شوق، تیسری سرد لبراں، چوتھی دین و مسلک اور پانچویں معاشرت و تمدن سے تعلق رکھتی ہے۔ 47: کتاب کا اصل نام ’’ خطوط شبلی‘‘ ہے اور یہ مولانا شبلی کے ان مکاتیب کا مجموعہ ہے جو انہوں نے عطیہ فیضی اور زہرا بیگم کے نام17 فروری 1908ء تا 13جون1914ء کی درمیانی مدت میں لکھے بقول امین زبیری’’ غالباً اردو اور فارسی میں ایسے خطوط کا یہ پہلا مجموعہ ہے جو ایک علامہ دوراں نے خواتین کے نام لکھے ہوں اور اس میں عورتوں کی مختلف خصوصیات کے متعلق ایسے گرانما یہ خیالات ہوں‘‘ خطوط عطیہ بیگم مرتبہ محمد امین زبیری بھوپال، ظل السلطان بک ایجنسی ص3 48یہ کتاب 1242ھ بمطابق1802ء میں تصنیف ہوئی اس کے چھیالیس برس بعد مولوی مسیح الدین خان بہادر کاکوری نے اپنے مطبع آفتاب عالم تاب مرشد آباد سے بہ تصحیح و اہتمام مولوی احمد علی گوپا موئی سے طبع کرایا مگر اب یہ نسخہ کم یاب ہے اسی نسخے سے انجمن نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے (مقدمات عبدالحق مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی لاہور، اردو مرکز1964ء ص487) 49یہ کتاب شائع ہوتے ہی نایاب ہو گئی اور پاکستان کے کسی کتب خانے میں نہیں مل سکی خدا بخش اورینٹل کالج لائبریری پٹنہ (صوبہ بہار) بھارت سے اسسٹنٹ لائبریرین ابو ظفر عالم نے خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ میں اس کی موجودگی کی اطلاع دی اور مطلوبہ معلومات مہیا کی ہیں۔ قیصر ابن حسن (مقیم کراچی) نے مشفق خواجہ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ اس کے مصنف کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔ الناظر بک ایجنسی لکھنو کے ایک اشتہار سے معلوم وہتا ہے کہ مولوی سید محمد تقی صاحب منصب دار اول تعلقدار آبکاری حیدر آباد دکن تھے ’’ الناظر‘‘ لکھنو مارچ1915ء 50سہ ماہی رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد (دکن) اکتوبر1924ء ص1 51’’ تاریخ ادب اردو‘‘ جلد اول، از ڈاکٹر جمیل جالبی، مجلس ترقی اردو لاہور،1984ء ص384 52ایضاً 53’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی، مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1983ء ص41 54ایضاًص275 55ایضاً 56جنگ نامہ عالم علی خان، مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد1932ء ص4تا 6 57ایضاً ص6 58مرحوم دہلی کالج نوشتہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد انجمن ترقی اردو1933ء ص17 59ایضاًص72 60ایضاًص77 61ایضاً ص107 62’’ مخزن شعرا‘‘ مولفہ: قاضی نور الدین حسین خان رضوی فائق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1933ء ص119-120 63اردو شعرا کے تذکرے و تذکرہ نویسی از فرمان فتح پوری، مجلس ترقی ادب لاہور1972ء ص3 64مخزن شعرا مولفہ قاضی نور الدین حسین خان رضوی فائق اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1933ء ص4 65مرہٹی زبان پر فارسی کا اثر از مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو اورنگ آباد1933ء ص41 66ایضاً ص18 67ایضاً ص100-101 68ایضاًص123 69رسالہ اردو اپریل1926ء اورنگ آباد ص267 70’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق، حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب، انجمن ترقی اردو کراچی1985ء ص153 71’’ خطبات گارساں دتاسی‘‘ مقدمہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی1979ء ص94 72تذکرہ ہندی تالیف، غلام ہمدانی مصحفی، مرتبہـ : مولوی عبدالحق، جامعہ پریس دہلی 1933ء ص د 73ایضاً ص:م 74اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مجلس ترقی ادب لاہور ص199 75تذکرہ ہندی مرتبہ: مولوی عبدالحق، جامع برقی پریس دہلی 1933ء ص ز 76اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نویسی از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مجلس ترقی ادب لاہور1972ء ص234 77ایضاً ص116 78’’ خطبات گارساں دتاسی‘‘ مقدمہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ص86 79تذکرہ ریختہ گویاں مولفہ سید فتح علی گردیزی انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1933ء ص167 80ایضاً ص6 81معراج العاشقین مرتبہ مولوی عبدالحق، حیدر آباد’’ تاج‘‘ جلد نمبر 2 نمبر 4.5.6 (1934ئ)ص1 82ایضاً ص6 83ایضاً ص8 84’’ خطبات گارساں دتاسی‘‘ مقدمہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ص116 85نکات الشعراء مرتبہ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ص6 86دیوان تاباں مرتبہ:ـ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1935ء ص الف 87ایضاً صـ:د 88گل عجائب، تالیف:ـ اسد علی تمنا اورنگ آبادی (دکن ) انجمن ترقی اردو 1936ص (و ز) 89ایضاً ص: ح، ط 90اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مجلس ترقی ادب لاہور 1972ص:172 91گل عجائب مولفہ اسد علی تمنا اورنگ آبادی، انجمن ترقی اردو1936ء ص ب 92ایضاً 93ایضاً ص:ـح،ط 94اسٹوڈنٹس انگلش اردو ڈکشنری دیباچہ، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد1938ء 95یہ ترتیب چند تنقیدات عبدالحق کی فہرست کے مطابق ہے 96’’ قطب مشتری‘‘ مرتبہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو دہلی 1939ء ص109 97’’ تاریخ ادب اردو‘‘ (جلد اول) از ڈاکٹر جمیل جالبی لاہور، مجلس ترقی ادب 1984ء ص435 98’’ قطب مشتری‘‘ مرتبہ: مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو دہلی 1939ص6 99پیش لفظ از مرتب’’ خطبات عبدالحق‘‘ انجمن ترقی اردو دہلی 1939 100انجمن ترقی پسند مصنفین نے اپریل 1936میں اپنی کانفرنس کی صدارت کے لئے مولوی عبدالحق صاحب کو دعوت دی تھی جس کے اجلاس کے لئے مولوی صاحب نے یہ خطبہ تیار کیا تھا لیکن کسی مجبور کی وجہ سے وہ خود نہ جا سکے اور یہ خطبہ اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا۔ 101یہ مقالہ انجمن روح ادب الہ آباد کے اجلاس منعقدہ 21 دسمبر 1941ء کے اجلاس میں پڑھا گیا۔ 102ایڈیٹر وشال بھارت، شری رام شرما کے مضمون کے جواب میں خود شرما صاحب کی فرمائش پر لکھا گیا اور رسالہ ہماری زبان دہلی میں 16جولائی سنہ 1941ء میں شائع ہوا۔ 103یہ مضمون’’ ہماری زبان‘‘ دہلی کے 14اپریل 1944ء کے شمارے میں شائع ہوا 104’’ چند ہم عصر‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، اردو اکیڈمی، سندھ1961ء ص:124 105مولوی عبدالحق کی ہدایت کے مطابق یہ مضمون 1959ء کے ایڈیشن سے خارج کر دیا گیا کیونکہ مولوی عبدالحق کا خیال تھا ’’ یہ بہت سرسری مضمون ہے‘‘ (دیباچہ ’’ چند ہم عصر‘‘ از مولوی عبدالحق1959ء اردو اکیڈمی کراچی) 106یہ مضمون مولوی عبدالحق کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چند ہم عصر کے ایڈیشن مطبوعہ 1959ء میں تحریر کیا ہے ’’ یہ مضمون میرا لکھا ہوا نہیں ہے میرے ایک ایرانی نژاد دوست مرزا حیرت کا بچا کھچا کلام لائے تھے‘‘ اور اس کے ساتھ یہ مضمون مجھے دیا۔ اس کا ترجمہ اور حیرت کا کلام دونوں رسالہ ’’ افسر‘‘ میں شائع ہوئے شیخ چاند محروم نے یہ سمجھ کر کہ یہ میری تحریر ہے چند ہم عصر میں داخل کر دیا۔ دیباچہ چند ہم 107جب ’’ چند ہم عصر‘‘ کا پہلا ایڈیشن انجمن ترقی اردو (ہند) سے 1940ء میں شائع ہوا تو التماس مینجر کے عنوان سے اس ضمن میں نوٹ تھا’’ مرحوم چاند کی ایک فرمائش مولوی عبدالحق سے یہ تھی کہ سر سید احمد خان نواب عماد الملک اور مولانا حالی پر بھی اس قسم کے مضامین لکھ دیں کیونکہ مولوی صاحب ان تینوں بزرگوں سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ 108مرزا حیرت پر دوسرا ایڈیشن میں مضمون خارج کر دیا تھا لیکن 1959ء کے ایڈیشن میں دوبارہ شامل کر دیا اس ایڈیشن میں شامل کرنے کے سلسلے میں مولوی عبدالحق رقم طراز ہیں’’ علاؤ الدین خالد صاحب کا اصرار تھا کہ پروفیسر حیرت والا مضمون اس دفعہ ضرور شریک کیا جائے کیونکہ یہ یونیورسٹی کے نصاب میں داخل ہے‘‘ (دیباچہ چند ہم عصر مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ 1959) 109نصرتی مولفہ مولوی عبدالحق، کل پاکستان انجمن ترقی اردو کراچی 1961ء ص18-19 110’’ گلشن عشق‘‘ مرتبہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو، پاکستان، کراچی 1952ء ص2 111’’ گلشن عشق‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1952ص326-327 112’’ بچوں کے خطوط‘‘ مولوی عبدالحق، حیدر آباد دکن عبدالحق اکیڈمی 1944:3-4 113’’ انتخاب داغ‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو دہلی 1946ص:ـب 114ایضاً صـ:ج 115جب یہ کتاب طبع ہوئی اقبال کے اردو کلام کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا تھا احمد دین نے اپنی کتاب میں اقبال کا وہ تمام کلام شامل کر دیا جو مخزن اور بعض دوسرے رسائل نیز انجمن حمایت الاسلام کی رودادوں میں شائع ہوا تھا (اقبال از احمد دین، مرتبہ مشفق خواجہ، انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ص15) 116اس کتاب میں سر سید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی، چراغ علی، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا شبلی نعمانی، سید علی بلگرامی، رتن ناتھ سرشار، عبدالحلیم شرر اور منشی نول کشور کے حالات زندگی اور ان کے علمی و ادبی کارناموں کا ذکر ہے۔ 117علامہ اقبال کو اس مقالہ پر 1908ء میں میونح یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔ 118’’ بابائے اردو بحیثیت تبصرہ نگار‘‘ از ڈاکٹر قربان فتح پوری مطبوعہ ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ اگست1982ء ص:26 119’’ اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ‘‘ از مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کراچی 1949ء ص53-52 120’’ اردو کی فضیلت چند بنگالی اکابر کی نظر میں‘‘ انجمن ترقی اردو کراچی 1950ء ص2 121ایضاً ص1 122شیر بنگال مولوی فضل حق کے خیالات، ان کے آل انڈیا مسلم ایجوکیشن (منعقدہ کلکتہ 1939) کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت سے ماخوذ ہیں۔ 123’’ سر آغاخان کی اردو نوازی‘‘ از مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1951ء ص5 124’’ خطبات عبدالحق‘‘ مرتبہ بابائے اردو از ڈاکٹر عبادت بریلوی، انجمن ترقی اردو کراچی 1964ء ص14-13 125ایضاً حرفے چند 126یہ نشری تقریر تھی جو 1964ء میں ریڈیو حیدر آباد (دکن ) سے نشر ہوئی 127یہ نشری تقریر تھی جو 1947ء میں ریڈیو اورنگ آباد (دکن ) سے نشر ہوئی 128یہ مضمون ’’ یوم حالی‘‘ منعقدہ انجمن ترقی اردو کراچی 1951ء میں پڑھا گیا 129’’ نصرتی‘‘ مولفہ ڈاکٹر عبدالحق انجمن ترقی اردو کراچی 1961ء ص19 130’’ گلشن عشق‘‘ از ملا وجہی، انجمن ترقی اردو کراچی 1952ء ص4 131ایضاً ص30 132ایضاً ص10 133’’ تنقیدات عبدالحق‘‘ مرتبہ ایم اے قاضی دہلی، مکتبہ چنگاری گلی قاسم جان خان 1956ء ص3 134’’ پاکستان میں اردو کا المیہ‘‘ از مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کراچی 1956ص1 135روزنامہ ’’ امروز‘‘ لاہور7فروری 1956ء ص1 136’’ پاکستان میں اردو کا المیہ ‘‘ از مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1956ء ص1 137’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص28 138’’ پاک جمہوریت‘‘ فیروز سنز پاکستان سن (ن م) ص4 139’’ سر سید احمد خان‘‘ (حالات و افکار) انجمن ترقی اردو کراچی 1959ء ص4 140’’ اردو یونیورسٹی وقت کا اہم تقاضا‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی فخر ماتری سیکرٹری عارضی کمیٹی اردو یونیورسٹی 1960ص29 141مکتوبات بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق بنام حکیم محمد امامی اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1960ء ص207-208 142ایضاً ص32 143قاموس الکتب انجمن ترقی اردو کراچی 1961ء ص ج 144ایضاً ص:د 145ایضاً ص: د 146’’ افکار عبدالحق‘‘ مرتبہ آمنہ صدیقی، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ1962ء ص: ب ج 147: کتاب کا اصل نام خطوط شبلی ہے یہ خطوط بنام عطیہ بیگم اور زہرا بیگم ہیں جو مولانا شبلی نعمانی نے 1908ء سے 1911ء کی درمیانی مدت میں تحریر کئے تھے مولوی عبدالحق نے امین زبیری کی کتاب پر ایک خط تحریر کیا تھا جو انہوں نے بطور مقدمہ شامل کر لیا۔ 148’’ فرہنگ اصطلاحات علمیہ‘‘ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے جلد اول 1939ء میں مولوی عبدالحق کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی تھی باقی تمام جلدوں میں صرف مولف کے دیباچے ہیں آخری جلد1944ء میں دیال پرنٹنگ پریس دہلی سے طبع ہوئی اس فرہنگ میں مجموعی اعتبار سے تقریباً دو سو پیشوں کی قریباً سولہ ہزار اصطلاحات دی گئی ہیں 149فرہنگ اصطلاحات کیمیا کا پہلا ایڈیشن انجمن ترقی اردو دہلی نے 1939ء میں شائع کیا تھا لیکن اس ایڈیشن میں مقدمہ نہیں تھا بلکہ صرف ارکان مجلس کی فہرست دی گئی تھی جس میں ڈاکٹر مظفر الدین قریشی پروفیسر کیمیا، ڈاکٹر سید حسین پروفیسر طبیعات، محمد نصیر احمد عثمانی صاحب ریڈر طبیعات، محمود احمد خان ریڈر کیمیا، ڈاکٹر رضی الدین پروفیسر ریاضی، مولوی سید ہاشمی اسٹیٹ ہوم سیکرٹری اور مولوی عبدالحق سیکرٹری انجمن ترقی ہند کے نام شامل تھے۔ 150قیاس ہے کہ 1910ء سے پہلے شائع ہوا بحوالہ قومی زبان کراچی اگست1963ء 151ڈپٹی نذیر احمد نے یہ ہنگامہ پرور کتاب گڑ گاؤں کے پادری احمد شاہ شوق کی کتاب ’’ امہات مومنین‘‘ کے جواب میں1908ء میں تحریر کی تھی لیکن مولوی صاحب موصوف کے بعض خیالات سے عوام مشتعل ہو گئے مولوی صاحب کے خلاف سخت غم و غصہ پھیل گیا، کفر کے فتوے لگے اور یہ کتاب نذر آتش کر دی گئی مولوی عبدالحق نے اس کے دوسرے ایڈیشن پر مقدمہ تحریر کیا تھا اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن (اور یہ بھی بے کم و کاست) شاہد احمد دہلوی کے زیر اہتمام 1935ء میں چھپا تھا۔ بعد میں ہنگامے کے خوف سے کتاب کے تمام نسخے مرزا عظیم بیگ چغتائی مرحوم کے پاس جودھ پور بھیج دئیے گئے۔ انہوں نے جرات رندانہ سے کام لے کر کتاب کے اشتہار چھپوائے لیکن مشتعل عوام کے ایک ہجوم نے ان کے مکان کو گھیر لیا اور ایک مرتبہ پھر امہات الامہ کے تمام نسخے نذر آتش کر دئیے۔۔۔۔۔ امہات الامہ کو یہ امتیاز ضرور حاصل ہے کہ یہ اردو کی سب سے زیادہ ہنگامہ آفریں کتاب اور اپنے عہد کے ایک کامیاب و مقبول مصنف کی سب سے زیادہ ناکام و مردود تصنیف ٹھہری ’’ مولوی نذیر احمد احوال و آثار مولفہ ڈاکٹر افتخار صدیقی لاہور، مجلس ترقی ادب 1971ء ص307‘‘ 152یہ مولوی عبدالحق کی آخری تحریر ہے جو انہوں نے بستر مرگ پر 22جون 1961ء جناح ہسپتال کراچی کے کمرہ نمبر13میں رقم کی تھی۔ 153سر نامہ از مشفق خواجہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر6اگست1964ء ص218 154آخری کڑی از مولوی عبدالحق ماہانہ قومی زبان کراچی اگست1970ء ص65 155پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو مولوی سید ہاشمی فرید آبادی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1953ء ص54 156لغت کبیر جلد اول بابائے اردو مولوی عبدالحق کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1973ء ص7 157لغت کبیر جلد اول مولف: بابائے اردو مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1973ء ص56 158قاموس الکتاب جلد دوم، مرتب انجمن ترقی اردو کراچی 1975ء 159حرفے چند از جمیل الدین عالی افکار حالی، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1976ء ص4 160چند ہم عصر دہلی انجمن ترقی اردو (ہند)1942ء 161یہ مولوی عبدالحق کی ایک غیر مکمل تحریر ہے 162خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبداللہ چغتائی مرتب ڈاکٹر عبادت بریلوی ، لاہور، مجلس اشاعت مخطوطات اورینٹل کالج ص1 163فرمودات عبدالحق ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور نذر سنز 378ء (گرد پوش) 164فرمودات عبدالحق مرتب ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور نذر سنز1978ص16 165مکاتیب عبدالحق بنام محوی مرتب عبدالقوی دسنوی کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1980ء ص5 166مکاتیب عبدالحق بنام محوی مرتب عبدالقوی دسنوی کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1980ء ص3 167مذہب اور سائنس از مولوی عبدالحق دہلی، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس1980ء ص233 168خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبادت بریلوی ترتیب و مقدمہ ڈاکٹر عبادت بریلوی، لاہور مجلس اشاعت مخطوطات ادارہ ادب و تنقید1984ء صـ:3 169ایضاً اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ اول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق فن اور شخصیت ڈاکٹر سید معراج نیئر حصہ دوئم تیسرا باب تحقیق اور فن تحقیق تحقیق و جستجو انسانی خمیر کا حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ارتقاء انسانی میں تحقیق کا عنصر چھایا ہوا ہے تہذیب کی تمام جلوہ گری، تمدن کا عروج و زوال، کائنات کو مسخر کرنے کا جذبہ، عدم کو وجود پذیر کرنا، چھپے ہوئے قدرت کے رازوں کا ہم راز ہو جانا، فطرت سے ہم کلام ہونا، تاریخ کے گرد آلودہ اوراق کی تلاش، ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو ملانا اور سرے سے سرا جوڑنا سب کچھ تحقیق کے دائرے میں آ جاتا ہے اور پھر تحقیق منشائے خداوندی بھی ہے اسی لئے الہامی کتب میں تلاش حق کی دعوت دی گئی ہے بالخصوص کلام اللہ میں تحقیق و جستجو پر بہت زور دیا گیا ہے جگہ جگہ تحقیق کا ذکر ملتا ہے سورۃ الحجرات میں کہا گیا ہے: ’’ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم تحقیق کر لیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں نادانی سے کسی قوم کو ضرر پہنچا دو اور پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔‘‘ مندرجہ بالا سورہ میں’’ تحقیق‘‘ پر زور دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ غیر محقق باتیں فساد برپا کرنے کا باعث ہوتی ہیں اور اس سے قوم کو ضرر پہنچتا ہے۔ اس طرح سورۃ الدھر میں آیا ہے: ’’ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘ ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے اس کا لب لباب انسان کی تحقیقی جبلت قرار دیا ہے اور سورہ الدھر کی ان آیات میں’’ سننے اور دیکھنے والوں‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے: ’’ ہر حاسہ کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ موجود ہوتا ہے جو حواس کے ذریعہ سے آنے والی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو ترتیب دے کر ان سے نتائج نکالتا ہے اور رائے قائم کرتا ہے اور پھر کچھ فیصلوں پر پہنچتا ہے۔‘‘ اور یہی تحقیقی مدارج ہیں کہ اولاً معلومات جمع کی جائیں، دوم ان کو ترتیب دیا جائے اور نتائج اخذ کر کے کسی فیصلہ پر پہنچا جائے۔ اسی طرح قرآن حکیم میں اور بہت سے مقامات پر تحقیق کے بارے میں اشارے موجود ہیں محمد کرم شاہ الازھری نے مختلف آیات کے حوالوں سے فضیلت علم پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: ’’ علم سے مراد صرف چند مذہبی کتابوں کا علم ہی نہیں بلکہ غور و فکر، تحقیق و تدقیق اور پیہم تجربات سے حقائق سے پردہ اٹھانے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب اسلامی تعلیمات کی اساس رکھی گئی اور علم حدیث کی داغ بیل پڑی تو ’’ حدیث‘‘ کی پرکھ کے اصول مقرر ہوئے اور نہ صرف تحقیق کے اصول و ضوابط مقرر کئے گئے بلکہ داخلی شہادتوں، فطرت و عادات سے مطابقت، قیاس و رائے کے دخل وغیرہ پر زور دیا گیا۔ حتی کہ راوی کی شخصیت و کردار تک تحقیق کا معیار مقرر ہوا حدیث کے ایک ایک لفظ پر احتیاط برتی گئی جس کے نتیجہ میں علم الرجال جیسا اہم فن ایجاد ہوا۔ ڈاکٹر غلام مصطفے خان صاحب اپنے مضمون ’’ فن تحقیق‘‘ میں کہتے ہیں: ’’ اگر کسی راوی پر کذب، تہمت، بدعت، غفلت، ثقات کی مخالفت یا حافظے کی کمزوری وغیرہ کا الزام ہے تو محدثین نے بلا تکلف اس کو مجروح اور اس کی روایت کو مردود قرار دیا ہے۔‘‘ سیر و رجل کی تحقیق کے اس ذوق و شوق کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان محققین نے علم حدیث کے دائرے سے باہر بھی قدم رکھا اور انواع و اقسام کے تحقیقی کارنامے انجام دینا شروع کئے جن میں علم و ادب، تاریخ و سفر نامے وغیرہ شامل ہیں اور ان تمام موضوعات پر تحقیقی چھاپ موجود رہی۔ مسلمانوں کے ابتدائی عہد کے تحقیقی کارناموں میں محمد بن اسحاق ابن ندیم وراق (کنیت ابو الفرج) کی مشہور تصنیف ’’ الفہرست‘‘ قابل ذکر ہے جو اس نے چوتھی صدی ہجری میں تصنیف کی تھی اسحاق بھٹی مترجم کتاب ہذا کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ شعبان377ھ میں تصنیف کی اور جمعرات کے روز20شعبان 385ھ کو فوت ہوا‘‘ ’’ الفہرست‘‘ مسلمانوں کی ابتدائی تحقیقی کاوش کہی جاتی ہے جس میں چوتھی صدی ہجری تک کے تمام علوم و فنون، سیر و رجال، کتب و مصنفین پر تحقیق کی گئی ہے اور نہ صرف عرب بلکہ ہندوستان اور چین وغیرہ میں مروجہ مذاہب، رسوم و رواج اور علوم و فنون پر بھی تحقیق کی گئی ہے۔ اس کتاب میں لسانیات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے یہاں تک کہ مختلف زبانوں کے طریق کتابت، حروف کی ساخت اور ان کے ارتقاء کا ذکر ہے۔ خاص طور سے عرب و عجم کی زبانوں کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے اور ان کے رسم الخط اور کتابت کی شکلوں سے بحث کی گئی ہے۔ ابن ندیم وراق نے برصغیر میں اس عہد کی مروج زبانوں پر بھی روشنی ڈالی ہے ان میں سندھی زبان قابل ذکر ہے ابن ندیم وراق نے نہ صرف سندھی کے حروف تہجی کے نمونے دئیے یں بلکہ مختلف ادوار میں جو تغیر و تبدل ہوئے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسی طرح گیارھویں صدی ہجری کے تصنیفی سرمایہ میں ابن خلدون اور البیرونی کی تصانیف تحقیقی سرمایہ سے مالا مال ہیں حکیم ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی (متوفی 2رجب 440ھ) کے تحقیقی کارناموں میں ’’ تحقیق الہند‘‘ قابل ذکر ہے جو اس نے 421ھ اور423ھ کے درمیان مکمل کی تھی۔ قرآن مجید کے علاوہ دیگر الہامی اور مذہبی کتب میں ’’ تحقیق‘‘ کے عنوان پر بہت سا مواد ملتا ہے مشہور مسیحی مبلغ اور دانشور ایلن جی ہوائیٹ ’’ آدم و حوا‘‘ کی سرگذشت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ وہ سب کی ذات و صفات اور عادات سے واقف تھا۔ آسمانوں میں خدا کا جلال، بے شمار عالموں کی باقاعدہ گردش، بادلوں کا موازنہ، روشنی، آواز، دن اور رات کے راز یہ سب ہمار والدین کے مطالعہ کے لئے کھلے تھے۔۔۔۔۔۔ ہر وقت وہ کسی نہ کسی جذب نظر شے کی دریافت کرتے رہتے تھے جو ان کے دلوں کی گہرائی اور محبت سے بھر دیتی اور تازہ شکر گذاری کے اظہار پر آمادہ کر دیتی تھی۔۔۔۔۔ جب تک آدم و حوا الٰہی قوانین کی پابندی میں وفادار رہے اور ان کی دریافت کرنے، حظ اٹھانے اور پیار کرنے کی قابلیت متواتر بڑھتی گئی۔ وہ علم کے لئے خزانے اور خو ش حالی کے تازہ وسائل دریافت کرتے رہے اور خدا کی بے قیاس اور لا زوال محبت کے صاف ستھرے اور صریح تصورات انہیں متواتر بہم پہنچتے رہے۔‘‘ لیکن مجموعی اعتبار سے مسلمانوں کا دینی خزانہ تحقیق سے مالا مال ہے علم حدیث اور تدوین نے تحقیق کے میدان کو وسعت بخشی اور پھر تاریخ نویسی کی داغ بیل نے اسے اور بھی پروان چڑھا دیا۔ مشہور فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاولی بان کے حوالے سے عبدالقادر خان لکھتے ہیں: ’’ مسلمانوں نے برصغیر پر سب سے بڑا احسان یہ کیا کہ انہوں نے یہاں تاریخ نویسی کی بنیاد رکھی۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام علوم کی بنیاد’’ تحقیق‘‘ کے محور کے گرد گھومتی ہے لیکن مختلف علوم اپنے علمی نوعیت کے اعتبار سے مختلف دائرہ کار رکھتے ہیں اس لئے ان علوم کے اپنے اپنے میدانوں میں تحقیق کے مختلف انداز اور طریقے ہیں۔ ادبیات کے شعبہ میں تحقیق ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ادب میں تحقیق بجائے خود ایک شعبہ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جیسے ہی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے تحقیق بھی وجود میں آ جاتی ہے۔ بھارت کے مشہور محقق مالک رام نے اپنے مضمون’’ اردو میں تحقیق‘‘ کے عنوان سے تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ تحقیق عربی لفظ ہے اس کا مادہ ح، ق،ق ہے جس کے معنی کھرے کھوٹے کی چھان بین یا بات کی تصدیق کرنا ہے دوسرے الفاظ میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے علم وادب میں کھرے کو کھوٹے سے، مغز کو چھلکے سے، حق کو باطل سے الگ کریں، انگریزی لفظ ریسرچ کے بھی یہی معنی و مقاصد ہیں۔‘‘ مختلف لغتوں میں لفظ تحقیق کی مندرجہ بالا مفہوم سے ملتی جلتی تعریفیں اور معنی ملتے ہیں جن میں چند لغتوں میں دئیے گئے معنی درج ذیل ہیں: 1فرھنگ کارواں تحقیق ع مونث حق بات دریافت کرنا، اصلیت معلوم کرنا، سنی ہوئی بات کی تحقیق کرنا 2علمی اردو لغت تحقیق ع ،مونث، 1اصلیت معلوم کرنا، دریافت کرنا،2درستی، صحت،3تفتیش، جانچ پڑتال، 4سچائی، صداقت، اصلیت،5یقین،6تصدیق، پایہ ثبوت کو پہنچنا،7ٹھیک، سچا، اصلی، یقینی (افعال: کرنا، ہونا) 3قاموس مترادفات تحقیق 1حق جوئی، تفتیش، دریافت، جانچ، آزمائش، جانچ پڑتال، امتحان، تدقین، تشخیص، تصدیق، جستجو، پوچھ گچھ، چھان بین، ٹوہ، تجسس، سراغ، پتہ، تجزیہ 2، اصلیت، سچائی، حقیقت، صداقت 3اصلی ، یقینی، سچا، بے شک، بے ریب 4فیروز اللغات (حصہ اول) تحقیق ع مونت،1درست ، ٹھیک، صحیح2تصدیق،3ثبوت، تسلیم کردہ،4یقین،5اعتبار 6تلاش،7کھوج، پتہ،8دریافت، پوچھ گچھ،9شناخت، جانچ،10معتبر پکی بات،11تجزیہ، امتحان 5لغت کشوری تحقیق (ع، م) دریافت کرنا، کھوج لگانا 6جامع اللغات (جلد اول) تحقیق ع، مونث 1اصلیت معلوم کرنا2دریافت کرنا، دریافت، تفتیش، جانچ پڑتال کرنا (ہونا کے ساتھ) 3درستی، صحت،4سچائی، صداقت،5تیقن، یقین،6تصدیق، پایہ ثبوت، 7 اچھی طرح دریافت کیا ہوا 8درست، ٹھیک، سچا، اصلی، یقینی،9حقیقت میں، یقیناً 7لغت نظامی تحقیق، مونث، حقیقت معلوم کرنا، اصل معلوم کرنا، راست، صحیح، درست، ٹھیک، سچ، ثبوت، مسلم، یقین، اعتبار، تلاش، کھوج، جستجو، سراغ، دریافت، جانچ پڑتال، امتحان، تجزیہ، چھان بین، معتبر، پکی بات 8فرہنگ آصفیہ (جلد اول) تحقیق (ع، اسم مونث)1راست، صحیح، درست، ٹھیک، سچ حق،2تصدیق، 3ثبوت، 4 مسلم، تسلیم کردہ شے، 5یقین،6چھان بین، 7تلاش و تجسس، تفتیش،8دریافت پوچھ گچھ، 9 جانچ ، شناخت،10معتبر، پکی، واثق، قابل اعتبار، تحقیقی خبر،11امتحان تجزیہ 9فرہنگ عامرہ تحقیق (تح، قیق) تلاش، حقیقت جاننا، حق بات، ڈھونڈنا 10نور اللغات تحقیق (ع) دریافت کرنا، کھوج لگانا، (مونث) ایک کلمہ ہے جس سے یقین ہونا ظاہر کرتے ہیں جیسے تحقیق خدا بخشنے والا ہے یہ عام طور پر بولنے میں کم مستعمل ہے (حقیقت دریافت کرنا، پوچھ گچھ، جانچ (فقرہ) آپ اس خبر کی تحقیق کر کے مجھے مطلع کیجئے، تصدیق، پایہ ثبوت کو پہنچا (فقرہ) رویت ہلال کی خبر اڑی لیکن ہنوز تحقیق نہیں ہوئی تحقیق و تفتیش کا فرق تحقیق سے وہ عمل مراد ہے جس میں غور و فکر کے ساتھ کوئی معاملہ دریافت کر کے فیصلہ کیا جائے تفتیش صرف ابتدائی پوچھ گچھ کا نام ہے جو سرسری ہوتی ہے اس وجہ سے جو کچھ پولیس کرتی ہے اس کو تفتیش کہتے ہیں تحقیق و تدقین کا فرق تحقیق کسی مسئلہ کو دلیل سے ثابت کرنا اور تدقیق دلیل کو دلیل سے ثابت کرنا ہے۔ اردو لغت (جلد پنجم) تحقیق (مونث، سک ح۔ ی مع) الف امذ 1صحیح و درست، سچ مچ، ٹھیک، واقعی طور پر فانی عشق کوں تحقیق کہ مستی ہے کفر ومبدم زیست نے میری مجھے زنار دیا دیوان آبرو (ق) ہم نے اب جانا کہ جو کہتی تھی سچ کہتی تھی خلق بات تھی تحقیق اپنے دل سے وہ گھڑتی نہ تھی کلیات ظفر،164:2 (2) تصدیق کہی لا الہ الا للہ بیگ محمدؐ رسول ہیں سو تحقیق نیک 1638چندر بدن و مہیار،117 تحقیق ہوا عرس تو کر داڑھی کو کنگھی لے خیل مریداں وہ گئے بزم جہاں سے 1780سودا، ک،366:1 مسئلے احکام اسلام کے علمائے دین دار مشائخ پرہیز گار سے خوب تحقیق اور تنقیح کر کے طریقہ اہل سنت کا اختیار کرو 1830تقویۃ الایمان412 حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب ان مساجد کی تجدید کی تھی تو اہل مدینہ سے اس کی تحقیق کر لی تھی 1924سیرہ النبی، 94:2 3ثبوت ملعون رونے لگا اور عرض کیا یہ خیال محال ہر گز میرے دل سوں نہیں اور اگر تحقیق ہے پس حکم ہوئے کہ دونوں پانو میرے کاٹیں 1732کربل کتھا،81 4دراص، در حقیقت تیرے دل میں وہی بات تحقیق جان کہ تحقیق تجھ پر ہے حق مہربان ابوبکرؓ کہیں جسے جو صدیق دوسرے عادل عمرؓ ہے تحقیق 1700من لگن،14 تحقیق کہ ہم نین سے دیکھا کثرت ہے ظہور نام وحدت شاہ کمال،1809-450 حرم سے دیر گئے دیر سے حرم آئے کہیں خبر تری تحقیق ہم نے پائی نہیں 1927شاد عظیم آبادی، بادہ عرفان،113 5یقین اور اس کے کہنے پر سب عالم کوں تحقیق آیا، صالحاں پر سچے لوگاں پر پند کر نہاریاں پر درست آیا۔ 1628شرح تمہیدات ہمدانی،2 رہنمائی اپنی کر توفیق دے آشنائی دے مجھے تحقیق دے 1774مثنوی ریاض العارفین،5 6ضرور، بے شک ، یقینا کہی دو دن پکڑ رکھی جیو کہ اجڑیا جاے یو چندنا تمہیں تحقیق ملنے آؤں گی ہونے اندھارے میں 1697ھاشمی،د،184 مضمون آیہ کریمہ کا کہ تحقیق ہم نے تیرے تئیں زمین کے اوپر بادشاہ کیا۔ 1805جامع الاخلاق 290 7چھان بین، پہچان، صادق تلاش یا جستجو، حالات و واقعات کا معلوم کرنا اور بیان کرنا تحقیق کر سمجھ کہ مبدل کدھیں نہ ہوئے جسے رزق ہے عزیز ترا ہے مقدری 101-1678غواصی،ک جہاں تک کہ سچے مذہب کی میں تحقیق کر سکا میں نے اسلام ہی کو سچا مذہب پایا 1860خطبات احمدیہ 8 8کھوج، سراغ، تلاش مکان کس طرح تحقیق ہو خانہ بدوشوں کا فغاں کا گھر نہ پوچھو آشیاں عنقا نہیں رکھتا 1772فغان، د85 9دریافت، پوچھ گچھ یہ تو دعوی ہے مگر جب کرو اس کو تحقیق، پاؤ گے نام ہیں سب جھوٹے لقب ہیں بے جا 1866تہذیب الایمان 265 10(قواعد و ضوابط کے دائرے میں) جانچ، امتحان، تجربہ جو مری تحقیق میں آیا سو اب کرتا ہوں عرض راے تو ان کی غلط ہے یہ انہوں کا ہے شعار 1772فغان، د66 اس نے تحقیق کیا کہ آفتاب گرد اپنے محور کے گھومتا ہے 1880ماسٹر رام چندر،154 کم نکلے بندے وہ خدا کے، ہوں جو حرص و ھوا سے پاک کی گئی جب تحقیق دلوں کی ہر گھر اک بت خانہ تھا 1942سنگ و خشت،60 (ب) م ف یقینی طور پر بالیقیں مگر اتنا تحقیق معلوم ہے کہ وہ اپنی حالت کے مناسب انگریزی جاننے کے لئے بہتیری ہی کوشش کرتا تھا 1888ابن الوقت20 دراصل تحقیق (Research) کا لفظ فرانسیسی لفظ recharcher سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم و مطلب تلاش و تحقیق ہے اور یہی سبب ہے کہ اردو اور اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کی لغتوں میں بھی گہما پھرا کر یہی معنی دئیے گئے ہیں۔ لغوی اعتبار کے علاوہ بطور فن بھی اس کا مفہوم چھان بین، بات کی تصدیق اور حق و باطل کی پرکھ کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف محققین اور نقادوں کی فن تحقیق کی تعریفیں ملتی جلتی ہیں ڈاکٹر نجم الاسلام نے تحقیق کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مضمون’’ تحقیق کے روائتی اسلوب‘‘ میں تحریر کیا ہے: ’’ قدیم ہو جا یا جدید تحقیق ایک انداز فکر کے اثر سے پروان چڑھتی ہے جو ہمیں شے کی حقیقت و حکمت جاننے کی طرف مائل کرتا ہے اور بیانات یا امور کی اصلیت کا کھوج لگانے پر آمادہ کرتا ہے، یہی علم منبع ہے یہی اس کی توسیع یا اضافے کا وسیلہ‘‘ ڈاکٹر نجم الاسلام نے اپنے بیان میں شے کی حقیقت و حکمت جاننے اور اصلیت کا کھوج لگانے پر زور دیا ہے اور یہ امکانات اس وقت تک ممکن نہیں جب تحقیق کی اپنی ذات اور جذبات کی دخل اندازی نہ ہو اور تحقیق کا مقصد اپنے نظریات کے مطابق مخالف یا موافق میں پہلے سے طے شدہ نتیجہ حاصل کرنا نہ ہو ورنہ اس کی تحقیق تحقیقی عمل کو آگے نہ بڑھا سکے گی اور یہ توسیع و اضافے کا ارتقاء معطل ہو کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب نے اپنے ایک مضمون ’’ تحقیقی مباحث‘‘ میں خیال ظاہر کیا ہے: ’’ تحقیقی کام خالصتاً معروضی عمل ہے اس میں کسی نوعیت کے جذبات کا دخل بالکل قبول نہیں یا جا سکتایہ ایک سائنسی عمل ہے جس میں معروضات پر تجربے اور مشاہدے کے بعد حاصل ہونے والے نتائج کو محقق قلم بند کرتا چلا جاتا ہے۔‘‘ جب تحقیق معروضی اور سائنسی عمل ٹھہرا تو محقق کے لئے ’’ سائنس اور معروضی‘‘ ماحول اور احتیاط جیسے لوازم کی ضرورت پیش آتی ہے علمی و ادبی محقق میں مواد کی فراہمی کے لئے کتب و کت خانوں تک دسترس، مطالعہ میں وسعت، مطلوبہ معلومات کی چھان پھٹک، دستاویز اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ پروفیسر رشید حسن خان صاحب کا کہنا ہے: ’’ حقائق کی بازیافت صداقت کی تلاش، حقائق کا تعین اور ان سے نتائج کا استخراج، ادبی تحقیق کا مقصد ہونا چاہئے‘‘ جب ’’ بازیافت‘‘ تحقیق کا مقصد اور تعریف ہے تو اس میں تاویل اور قیاس کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی بلکہ حقائق کی تلاش تحقیق کا بنیادی مقصد ہو گا اپنے اس قول کی پروفیسر رشید حسن خان صاحب نے مزید اس طرح وضاحت کی ہے: ’’ تحقیق ایک مسلسل عمل ہے نئے واقعات کا علم ہوتا رہے گا کیوں کہ ذرائع معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی حقیقت کتنے پردوں میں چھپی ہوئی ہے اکثر صورتوں میں یہ حجابات بالتدریج اٹھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تحقیق میں اصلیت کا تعین اس وقت حاصل شدہ معلومات پر مبنی ہوتا ہے۔‘‘ پروفیسر عندلیب شادانی صاحب نے اپنے ایک مضمون ’’ تحقیقی اور اس کا طریقہ کار‘‘ میں خیال ظاہر کیا تھا: ’’ ریسرچ کا یہ مطلب ہے کہ یا تو نئے حقائق دریافت کئے جائیں یا پھر معلومہ حقائق کی کوئی ایسی تفسیر پیش کی جائے کہ اس سے ہماری معلومات میں معتدبہ اضافہ ہو جائے‘‘ یعنی معلومات میں اضافہ اور حقائق کی دریافت تحقیق کا مقصد اور منشا قرار پائی۔ ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب کی رائے میں: ’’ تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی ’’ حقیقت‘‘ کا اثبات ہے اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں’’ موجودہ مواد‘‘ کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب سے ملتا جلتا خیال قاضی عبدالودود صاحب نے بھی ظاہر کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ تحقیق کسی موضوع پر مناسب معلومات حاصل کرنے کی باضابطہ جستجو ہے۔ نیز تحقیق کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے۔‘‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کا کہنا ہے: ’’ ادب اور ادبی روایت میں تحقیق کو ایک نمایاںجگہ حاصل ہے وہ ادب کو سمجھنے او راس کی اصل روح سے واقفیت بہم پہنچانے میں بڑا سہارا لینا پڑتا ہے۔ تحقیق کے بغیر ادب کا مطالعہ ممکن ہی نہیں۔ ادب میں معیاروں کا خیال تحقیق ہی پیدا کرتی ہے کیونکہ معیاروں کی جستجو ہی تحقیق کا میدان ہوتا ہے معیار سامنے نہ ہو تو ادبی تحقیق کا بے مقصد ہو جانا یقینی ہے اس لئے تحقیق مقصد ہی نہیں بلکہ ذریعہ ہے، منزل نہیں بلکہ راستہ ہے۔‘‘ تحقیق کا خواہ کوئی مقصد ہو اور کوئی منزل لیکن اس کا ایک خاص مزاج بھی ہے اور وہ مزاج بقول ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب یہ ہے: ’’ تحقیق شرک گوارا نہیں کر سکتی اس کے لئے جس انہماک، یک سوئی اور ڈوب جانے والی کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے، ہنگامہ آلود زندگی اس کے منافی ہے۔‘‘ تحقیق کو مندرجہ بالا تعریفوں سے ملتی جلتی تعریفیں مغرب و مشرق کے دیگر محققین نے بھی کی ہیں لیکن سب تعریفوں کی روح اور قدر مشترک ہے کہ تحقیق حقیقت کی تلاش اور کھوج کا نام ہے مندرجہ بالا تعریفوں سے جو پہلو سامنے آتے ہیں ان میں چند درج ذیل ہیں: 1نئے حقائق کی تلاش اور دریافت تحقیق کا بنیادی مقصد ہے 2تحقیق ٹھہراؤ نہیں بلکہ مسلسل اضافے اور تسلسل کا عمل ہے 3اس کا مقصد صرف کوائف اور کھتونیوں کو جمع کرنا نہیں بلکہ حاصل کردہ مواد سے نتائج اخذ کرنا ہے 4ماضی کی تحقیق کو جدید سائنسی اصولوں سے زیادہ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ تحقیق کے معنی اور موضوع کے تعین کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ تحقیق‘‘ کی ضروریات کیا ہے؟ اور تحقیق کے مقاصد کیا ہیں؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش صاحبہ نے تحقیق کو مقاصد کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ وہ پہلے مقصد کو (Theoratical and Basic Research) کا نام دیتی ہیں اور یہ مقصد ’’ نظریے کی نشوونما اور ارتقاء ہے۔‘‘ جب کہ دوسری اطلاقی تحقیق (Factual applied research) اس مقصد سے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں اور تیسر تحقیق سے تجربات کو ہر صورت میں بہتر بنانا مقصود ہے۔ اس قسم کی تحقیق کو Action research کہتے ہیں تحقیق کو مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں نظریاتی اور اساسی تحقیق (Theoratical Basic Reserch) کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے محقق کو سائنسی طریقہ کار سے مدد لینی پڑتی ہے تحقیق کا یہ مقصد زندگی اور اس کے نئے تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اس کا ثمر ہمیشہ مستقبل کے لئے کار آمد ہوتا ہے۔ Applied researchاور Factual میں مسائل کو حل کرنے کے لئے حقائق کو یکجا کیا جاتا ہے اس کے حصول کے لئے سروے، گوشوارے، کوائف اور تاریخی حقائق کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا کہنا ہے: ’’ علمی کاموں میں سچائی اور حقیقت کو دریافت کرنے کا عمل تحقیق کہلاتا ہے اور اسے مختلف درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے تجربات، سروے، دستاویزات کے تجزئیے، تاریخی مطالعے، نظریات کی تشریح و توضیح، تدوین، صحت متن وغیرہ۔‘‘ تحقیق کے تیسرے مقصد کا تعلق عملی مسائل سے ہوتا ہے اس لئے اس مقصد کے حصول کے لئے محقق کو سائنٹفک طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے اور اس قسم کی تحقیق سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں اس کی مدد سے تجربات کو بہتر سے بہتر بنانا ہوتا ہے۔ زندگی اور اس کے مسائل میں بہت وسعت ہے اور ہمیں قدم قدم پر تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے زندگی اور اس کے مسائل کی وسعت کے ساتھ ساتھ تحقیق کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے اور زندگی کے ہر پہلو کے مسائل کی طرح تحقیق بھی اقسام کے خانوں میں بٹتی چلی جاتی ہے اور تحقیق موضوع کے اعتبار سے اپنی قسم کا تعین کر لیتی ہے۔ مثلاً 1تاریخی تحقیق 1فلسفیانہ تحقیق 3نظریہ کی ارتقائی تحقیق 4تجرباتی تحقیق 5سماجیاتی تحقیق 6عملی تحقیق 7معاشرتی سائنسی تحقیق 8موضوعاتی تحقیق 9ادبی تحقیق 10تعلیمی تحقیق 11مشاہداتی تحقیق 12بیانیہ تحقیق وغیرہ وغیرہ لیکن ماہرین تحقیق نے تحقیق کی اس وسعت کو بنیادی طو رپر پانچ حصوں میں بانٹ دیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں: 1تاریخی تحقیق تاریخی تحقیق سے مراد ایسی تحقیق ہے جس کا تعلق اور رشتہ ماضی سے ہوتا ہے خواہ ماضی سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیات ہوں یا اقوام، ماضی کے بڑے انسانی کارنامے ہوں یا قدرت کی کرشمہ سازیاں، فلسفے ہوں یا حکمت کے رموز سید جمیل احمد رضوی صاحب نے ’’ تاریخی تحقیق‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ تاریخ کا میدان بہت وسیع ہے اتنا ہی وسیع جتنی کہ انسانی زندگی یہ انسان کے تمام تر ماضی کے واقعات سے متعلق ہے حالات و واقعات کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کو اس طرح بھی دیکھنا چاہئے کہ وہ ایک خاص معاشرتی ماحول میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ان کا ظہور الگ نہیں۔‘‘ تاریخی تحقیق کو ہی دستاویزی تحقیق کا بھی نام دیا جاتا ہے کیوں کہ اس قسم کی تحقیق کے لئے چونکہ دستاویزات اور پرانے ریکارڈ کی مدد سے حقائق تلاش کئے جاتے ہیں یہ طریقہ تحقیق اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسانی تاریخ، فنی اعتبار سے اس طریقہ کار کا آغاز یونانی محققین نے کیا اور یہی وہ طریق کار تھا جسے ارسطو نے یونانی شاعری اور ڈرامہ کے مطالعہ کے لئے استعمال کیا تھا۔ مسلمانوں نے تاریخ نویسی کے فن کو مربوط انداز سے مرتب کیا اس لئے مسلمان محققین اور مفکرین نے اس کو وسعت بخشی اور باقاعدہ اس کے اصول مرتب کئے اور خود مغرب میں بھی احیائے علوم کی تحریک کے بعد اس طریقہ تحقیق کو اہمیت دی گئی ہے سترھویں صدی میں اسے سائنسی طریقہ کار کی مدد سے Francis Baeon نے باقاعدہ متعارف کرایا تھا اس کا کہنا تھا کہ جو موضوع پیش کیا جائے اس کا منطقی انداز میں تجزیہ کرنا چاہیے اس تجزیہ کے نتیجہ میں جو کچھ ملے گا وہی نتیجہ درست ہو گا خواہ اس کے مفروضات درست ہوں یا غلط۔ اس طریقہ کار میں ہم پہلے اپنے موضوع کی وضاحت کرتے ہیں اور موضوع کی حدود و قیود کا تعین کرتے ہیں تاکہ ہماری تحقیق ایک مخصوص حد کے اندر رہ کر نتیجہ خیز ثابت ہو۔ موضوع کے انتخاب کے وقت ہمارے ذہن میں یہ بھی رہنا چاہئے کہ ابھی تک اس موضوع پر دریافت حقائق کا دائرہ کہاں تک ہے ’’ تاریخی تحقیق‘‘ میں تجزیہ کے لئے محقق کو مواد تیار نہیں کرنا پڑتا بلکہ پہلے ہی سے مواد موجود ہوتا ہے اور اس کے ماخذ و منابع مندرجہ ذیل ہوتے ہیں ا: دستاویزات تاریخی تحقیق میں سب سے زیادہ اہمیت دستاویزات کو ہوتی ہے جس کی مدد سے ماضی کے بہت سے پوشیدہ حقائق سامنے آتے ہیں تاہم ہم دستاویزات کو حتمی یا مستند حقیقت قرار نہیں دے سکتے بلکہ ان دستاویزات کا تنقیدی اور تحقیقی مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور یہ پرکھا جاتا ہے کہ دستاویز بذات خود کتنی درست ہے پھر دستاویز کا مصنف، زمانہ اور خطہ کون سا ہے۔ یہاں تک کہ محتاط محقق کاغذ اور اس پر استعمال ہونے والی روشنائی تک کا تجزیہ کرتے ہیں کیوں کہ مختلف خطوں اور زمانوں میں مختلف قسم کے کاغذ اور روشنائی استعمال کی جاتی ہے اور مختلف جگہوں پر ان کا ارتقائی عمل مختلف ہوتا ہے۔ دستاویزی شہادتوں میں خوردبین، کیمرے، مائیکرو فلم اور روشنائی کی کیمیائی جانچ تک شامل ہے۔ اردو ادب کے محقق میں پروفیسر حافظ محمود شیرانی اس حد تک محتاط اور ماھر تھے کہ کاغذ کی موٹائی اور زبان سے چکھ کر کاغذ کے عہد کا اندازہ کر لیتے تھے۔ اس طرح مختلف خطوط میں طباعت کے لئے مختلف ٹائپ، روشنائی اور طریق طباعت جداگانہ رہا ہے اس لئے بھی دستاویز کی پرکھ میں مدد ملتی ہے دستاویزی تحقیق میں ہی مصنف کا طرز تحریر حروف کی بناوٹ اور اسلوب نگارش تک کی تحقیق شامل ہے ب: سرکاری ریکارڈ تاریخی تحقیق میں سرکاری ریکارڈ اچھی خاصی اہمیت رکھتا ہے ہر زمانے اور ہر عہد میں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ مختلف امور کا فیصلہ کرتے ہیں جو تاریخی اہمیت حاصل کر جاتے یہ فیصلے سرکاری ریکارڈ، گزٹ، فائلوں، رپورٹوں اور کارروائیوں کی شکل میں مل جاتے ہیں۔ اسمبلی کی کارروائیوں کے ریکارڈ سے سیاسی اتار چڑھاؤ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے پٹواریوں کے کھاتے، کھتونیوں، میونسپلٹی کے پیدائش اور اموات کے گوشواروں، تعلیمی اداروں کے داخلے و اخراج کے ریکارڈ، اسناد حقوق و مراعات جیسے مواد تاریخی تحقیق میں بہت کار آمد تصور کیا جاتا ہے۔ ج: اخبارات و جرائد کی فائلیں اور مطبوعہ کتب سرکاری ریکارڈ صرف حکومت کی منشا اور مرضی کی ترجمانی کرتا ہے اس لیے وہ ایک ذریعہ ضرور ہے لیکن تحقیق کے اعتبار سے یک طرفہ پہلو ہے اس لیے محقق کو سرکاری ریکارڈ کے علاوہ اخبارات و جرائد کی فائلوں سے بھی مواد حاصل ہوتا ہے پھر مطبوعہ کتب بھی تاریخی مواد کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ د: خطوط، یاد داشتیں اور سوانح تاریخی تحقیق میں ذاتی خطوط، یاد داشتیں اور سوانح کا سب سے مستند اور قابل اعتبار ذریعہ ہوتی ہیں کیوں کہ اس میں دئیے جانے والے حقائق واضح اور درست ہوتے ہیں اور لکھنے والا لا شعوری اعتبار سے بہت سی معلومات کا ذخیرہ جمع کر دیتا ہے۔ مثلاً اردو ادب میں غالب کے خطوط نہ صرف غالب کی آپ بیتی ہیں بلکہ غالب کے عہد اور بالخصوص 1857ء کے پر آشوب زمانے کی جگ بیتی بھی اور اسی طرح مولوی عبدالحق کے مکاتیب بیسویں صدی میں اردو زبان کی بپتا ہیں۔ یہی اہمیت سوانح، آپ بیتیوں اور یاد داشتوں کی ہے احسان دانش کی ’’ جہان دانش‘‘ جوش ملیح آبادی کی ’’ یادوں کی برات‘‘ مولانا ابو الکلام آزاد کی ’’ غبار خاطر‘‘ اور شورش کاشمیری کی ’’ پس دیوار زنداں‘‘ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں یہ یاد داشتیں ان کے عہد کی تہذیبی اور معاشرتی دستاویزات ہیں۔ ہ: یادگاریں کسی فرد یا واقعہ کی یاد میں تعمیر کی گئی کوئی عمارت’’ یادگار‘‘ کے زمرے میں آتی ہے مثلاً’’ تاج محل، قطب صاحب کی لاٹ، مینار پاکستان اور اسی طرح کی دوسی عمارتیں، یادگار ڈاک کے ٹکٹ، سکے اور کسی تاریخی شخصیت یا واقعہ کی مناسبت سے شائع ہونے والی تصانیف اس میں شامل ہیں تاریخی محققین کو ان ’’ یادگاروں‘‘ سے بہت مستند شہادتیں ملتی ہیں اردو ادب میں سر سید احمد خان نے ’’ آثار الضادید‘‘ کی تحقیق میں دلی کی قدیم عمارتوں کے کتبوں سے شہادتیں جمع کی تھیں اور اسی طرح مولوی عبدالحق نے شاہ جیو گام دھنی کے مقبرے (واقع دکن) کے قرب میں963ھ کی تعمیر شدہ مسجد کے ایک کتبہ سے ثابت کیا تھا:‘‘ ’’ یہ زبان جسے ہم اردو یا ہندوستانی کہتے ہیں ملک کے اطراف و جوانب میں صدیوں پہلے پوری طرح پھیل چکی تھی، یہاں تک کہ اس میں کتبے بھی لکھے جاتے تھے۔‘‘ و: آثار قدیمہ تاریخی تحقیق میں’’ آثار قدیمہ‘‘ تحقیق کا ایک بہت کار آمد ذریعہ ہیں مثلاً بابل نینوا، وادی نیل اور وادی سندھ کے تہذیبی آثار اور وہاں سے برآمد ہونے والی اشیاء تصاویر، برتن، سنگ تراشی کے نمونے، انسانی و حیوانی ڈھانچے، سکے، اور مہریں مستند تہذیبی حوالے ہیں جنہیں تاریخی محقق نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ن: کلاسیکی اور روایتی ادب و قصے کلاسیکی اور روایتی ادب اور قصے کہانیاں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں ان سے ایک ایسا مواد ملتا ہے جو تاریخی تحقیق میں جانچ پرکھ کے بعد کار آمد ثابت ہوتا ہے جس سے کسی مخصوص خطہ یا عہد کی تہذیبی روایات کی پرچھائیاں مل جاتی ہیں۔ ’’ تاریخی تحقیق‘‘ کے ذریعوں اور ماخذ تک رسائی بھی محقق کے لیے اچھا خاصہ مرحلہ ہے اور عین ممکن ہے کہ ہر محقق کی ہر ماخذ تک رسائی ممکن نہ ہو تاہم ’’ تاریخی یا دستاویزی‘‘ تحقیق کا ایک بہت بڑا ماخذ کتب خانے اور عجائب گھر ہوتے ہیں جہاں تہذیب انسانی کا وافر مقدار میں مواد یکجا مل جات اہے۔ مشرق کی ایک شان دار روایت ذاتی کتب خانے بھی رہی ہے جہاں نادر روزگار مخطوطے، دستاویزات اور کتب کے ذخائر ہوتے ہیں لیکن اول تو ان تک عام رسائی ممکن نہیں ہوتی اور پھر بے علمی او ربے خبری بھی آڑے آتی ہے اور اکثر ذاتی کتب خانوں کے مالک کسی دوسرے محقق کے لیے اسے عام نہیں کرتے۔ اس کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سی قیمتی اور انمول دستاویزات و کتب ذاتی کتب خانوں کے مالکوں کے انتقال کے بعد ان کے ورثا کی عدم توجہی کے سبب نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ تاریخی تحقیق میں بہت ذرائع اور ماخذ استعمال ہوتے ہیں اس لیے یہ طریقہ کار کافی پیچیدہ ہے۔ اس تحقیق میں محقق کو بہت محتاط ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کو بالکل الگ تھلگ رکھنا پڑتا ہے اور تعصب اور پسند و نا پسند کو نظر انداز کر کے تحقیق کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ اس طریقہ کار میں یہ بھی لازمی ہے کہ محقق کو اپنے عنوان اور موضوع کے علاوہ حوالہ جاتی علوم اور مستعمل ماخذ کے فنون پر بھی مہارت ہو ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب نے ’’ دستاویزی تحقیق‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’’ یہ طریقہ کار تحقیق حال کو ماضی کی روایات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اس سے حال اور ماضی مربوط ہوتے ہیں اور مستقبل کے لیے دستاویزی سرمایہ محفوظ ہوتا ہے۔‘‘ 1بیانیہ تحقیق بیانیہ تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش صاحبہ نے تحریر کیا ہے: ’’ اس طریقہ کار میں حقائق اور واقعات کو بعینہ اس طرح واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے جس طرح وہ اپنی اصلی حالت میں رونما ہوں‘‘ اس طریقہ کار میں’’ سروے‘‘ کا سہارا لیا جاتا ہے سوال نامے مرتب ہوتے ہیں اور اعداد و شمار کی روشنی میں رحجانات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ تعلیمی، معاشی اور سماجی تحقیق کے لیے یہ طریقہ تحقیق سب سے کار آمد تصور کیا جاتا ہے۔ اور اس طریقہ کار سے نہ صرف حقائق تلاش کئے جاتے ہیں بلکہ حقائق کی توضیح سے مسائل بھی حل کئے جاتے ہیں اس طریقہ کار میں ایک محقق مسئلہ کو براہ راست مطالعہ میں لاتا ہے اور اس پر غور کرتا ہے اور محقق طبقہ کے رحجانات کے متعلق تمام معلومات حاصل کر کے انہیں بیانیہ انداز میں پیش کر دیتا ہے دور جدید میں جب انسان کو قدم قدم پر معاشی، سماجی، تعلیمی، مذہبی اور معاشرتی مائل کا شکار ہونا پڑ رہا ہے تو محقق اس طریقہ سے مجموعی طور سے ایسے حل کے لیے تحقیق کرتا ہے جس سے انداز فکر اور عمل پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اور اس میں تحقیق میں زیر تحقیق مسئلہ کا حل مفروضہ (hypothesis) کی صورت میں دیا جاتا ہے اور پھر اس مفروضہ کو جانچنے کے لئے سائنسی طریقہ کار سے اعداد و شمار جمع کئے جاتے ہیں اور ان کو مرتب کر کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں اس قسم کی تحقیق میں مندرجہ ذیل اقدامات کرنے پڑتے ہیں: نمونہ بندی نمونہ بندی سے مراد یہ ہے کہ ہم جس حلقے سے اپنے تحقیقی حقائق تلاش کرنا چاہیں اس حلقے کے افراد یا اشیاء کو ایک ’’ آبادی‘‘ تصور کرتے ہیں مثلاً ہم تعلیمی اداروں میں ادبی رحجان کے حوالے سے تحقیق کرنا چاہیں تو ہم ’’ تعلیمی اداروں کو ایک‘‘ آبادی تصور کریں گے ایک آبادی کئی طبقات پر مشتمل ہوتی ہے تعلیمی اداروں کو اس ’’ آبادی‘‘ کو کوئی طبقات میں تقسیم کرنا ہو گا مثلاً ہائی اسکول، انٹرمیڈیٹ کالج، ڈگری کالج اور یونیورسٹی یا پھر اس کی تقسیم اس طرح بھی ہو سکتی ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے، نجی تعلیمی ادارے اور خود مختار تعلیمی ادارے یعنی تعلیمی اداروں کو ایک یا ایک سے زائد خصوصیات کی بنیاد پر طبقات میں تقسیم کیا جائے گا لیکن اس میں بھی یہ قباحت ہے کہ ہم تمام انفرادی اداروں کے رحجانات کا سروے نہیں کر سکتے اس لئے ہم بطور نمائندہ یا نمونہ چند اداروں کو منتخب کر لیں گے اور ان چند منتخب نمائندہ اداروں کے ادبی رحجان سے تمام تعلیمی اداروں کے ادبی رحجان کا اندازہ لگا لیں گے اس سلسلے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ اداروں سے نمائندگی حاصل کرنا چاہئے اس ’’ نمائندہ بندی‘‘ کا حلقہ نہ تو اتنا وسیع ہو کہ نتائج کا حصول غیر ممکن ہو جائے اور نہ ہی اتنا کم کہ نتائج غیر موثر ہو سکیں بلکہ ایک مناسب اور مکمل طبقات کی نمائندگی اور خصوصیات پر مشتمل ہونا چاہئے۔ نمونہ بندی سے نہ صرف اخراجات میں کمی آتی ہے بلکہ وقت کی بھی بچت ہو جاتی ہے اور کم اخراجات میں کم سے کم مدت میں تحقیق مکمل ہو جاتی ہے پھر ’’ حلقے میں با آسانی مطالعہ کیا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ حلقہ قابل رسائی ہوتا ہے اور نتیجتاً کم سے کم عملے سے بڑی تیز رفتاری سے تحقیق پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔‘‘ اعداد و شمار حاصل کرنے کا طریقہ کار جب ہم یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہم اپنے ’’ حلقہ تحقیق‘‘ کو کتنی وسعت دینا چاہتے ہیں پھر ہم طریقہ کار کا انتخاب کرتے ہیں جس طریقہ سے ہم ’’ بیانیہ تحقیق‘‘ کرنا چاہتے ہیں عام طور پر اس کے مندرجہ ذیل طریقے ہیں: (الف) سوال نامے محقق اپنی تحقیقی نوعیت سے اپنے موضوع پر سوال نامے تیار کرتا ہے اور ان سوال ناموں کو اپنے ’’ حلقہ تحقیق‘‘ تک پہنچاتا ہے خواہ ذاتی طور سے ایسا کرے یا دوست، احباب، اور اپنے عملہ کی مدد حاصل کرے یا پھر ڈاک کے ذریعہ ان سوال نامو ں کو پر کرائے جب ان سوال ناموں کے جواب حاصل ہو جاتے ہیں تو ترتیب وار جمع بندی سے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ 1 سوال نامہ مختصر اور واضح ہو تاکہ جواب دینے والے کا نہ تو وقت ضائع ہونے کا خدشہ ہو اور نہ ابہام کی وجہ سے جواب دینے میں کوئی دقت پیش آئے۔ 2 سوال نامہ میں حقائق معلوم کئے جائیں اور ذاتی رائے یا اندازے کی کم سے کم گنجائش ہو۔ 3 سوال نامے میں استعمال ہونے والی زبان عام فہم اور سادہ ہو۔ اس لیے سوال نامہ میں ذو معنی الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے ورنہ تحقیق سے خاطر خواہ نتائج سامنے آنے میں شکوک و شبہات جنم لیں گے 4 سوالات اہمیت کے اعتبار سے بہت اہم ہوں تاکہ جواب دینے والے اور تحقیق کرنے والے دونوں کا خواہ مخواہ وقت ضائع نہ ہو۔ 5 سوالات کی ترتیب منطقی ہونی چاہیے اور اس طرح ترتیب دی جائے کہ جواب دینے والے کو سہولت میسر رہے 6 جس طبقہ سے سوال پوچھا جائے سوال نامہ ان کی فکری، ذہنی و تعلیمی استعداد اور معیار کے مطابق ہو 7 جس انداز سے معلومات درکار ہوں اس کی واضح ہدایات دی جائیں تاکہ جوابات حسب ضرورت میسر آ سکیں۔ سوالات کے جوابات کے ساتھ ساتھ جواب دینے والے سے تجاویز بھی حاصل کی جائیں تاکہ جواب دینے والا اس تحقیق میں اپنے آپ کو شریک سمجھ سکے۔ الغرض ایک کار آمد سوال نامے کی یہی خوبیاں ہیں کہ وہ عام فہم، مختصر، صاف، واضح اور دلچسپ ہو اور اس میں اصطلاحات کی بھر مار نہ ہو۔ ’’ سوال ناموں ‘‘ کے طریقہ تحقیق کی خوبیوں کے باوجود اس طریق تحقیق میں چند خامیوں کی بھی گنجائش موجود ہے اولاً بعض اوقات جواب دینے والا اس سوال نامے کو وہ اہمیت نہیں دیتا جو محقق کی نظر میں ہے یا پھر اسے سرسری سمجھ کر بر وقت جواب نہیں دیتا یا سرے سے جواب دیتا ہی نہیں ہے کیوں کہ وہ جواب دینے کا پابند نہیں ہے۔ سولا نامے دو انداز سے تیار کئے جاتے ہیں۔ کھلے سوال نامے کھلے سوال نامہ سے مراد ایسا سوال نامہ ہے جس میں سوال تحریر ہوتے ہیں اور جس طریقہ سے سوال کیا جاتا ہے جواب اس کی صواب دید پر چھوڑ دیا جاتا ہے جواب دینے والا اپنی زبان اور طرز بیان سے سوال کا جواب دیتا ہے اس قسم کے سوال ناموں کے جواب دینے والے کی رائے ان کے کھلے ذہن کے مطابق ہوتی ہے جس سے جواب دینے والے کی رائے ’’ ہاں اور نہ‘‘ کے خانوں سے بھی آگے جا سکتی ہے اور وہ اپنی ذاتی رائے بھی شامل جواب کر سکتا ہے لیکن اس طریقہ کار میں چونکہ ہر رائے دھندہ کی رائے مختلف ہو سکتی ہے، اس لئے نتائج مرتب کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جواب دیتے وقت سوال کی اصل روح کو نظر انداز کر دے اور غیر ضروری معلومات کو شامل جواب کر دے۔ محدود جوابی سوال نامے محدود جوابی سوال ناموں سے ایسے سوال نامے مراد ہیں جن کے جواب تفصیل کے بجائے ’’ ہاں یا نہیں‘‘ میں دئیے جاتے ہیں اس قسم کے سوال ناموں کا جواب دینے والے کو ہر حالت میں ایک ہی جواب دینا ہوتا ہے اس قسم کے سوال ناموں کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ جواب دینے والے کو نہ زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی اس جواب میں کسی اضافے کا موقع ملتا ہے۔ اس قسم کے سوال نامے میں یہ خامی ضرور ہے کہ رائے دھندگان کی رائے کو محدود کر دیا جاتا ہے لیکن اس قسم کا سوال نامہ مرتب کرتے ہوئے سائنٹیفک طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے اور نتیجہ مرتب کرنے میں آسانی رہتی ہے عام طور سے سیاسی عمل کے لیے یہی طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے بالخصوص انتخابی عمل میں یہ طریقہ بہت زیادہ موثر ہے۔ سوال نامہ کو مرتب کرتے ہوئے محقق کو کافی سوچ بچار کے بعد اپنے موضوع کے اعتبار سے سوال نامہ مرتب کرنا ہوتا ہے اور سوال نامہ کے بہترین ’’ فارم‘‘ کا انحصار محقق کی اپنی محنت پر ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ کم سے کم وقت میں بہتر سے بہتر نتیجہ نکال سکتا ہے۔ (ب) انٹرویو بیانیہ تحقیق کا دوسرا طریقہ’’ انٹرویو‘‘ حاصل کرنا ہے گو اس طریقہ میں بھی بنیادی طور پر موضوع اور موضوع سے متعلق سوالات ہوتے ہیں لیکن یہ طریقہ کار’’ سوال نامے‘‘ کے طریقہ کار سے مختلف ہوتا ہے اور اس طریقہ کار میں انٹرویو لینے والے محقق کی اپنی ذات براہ راست شامل ہوتی ہے، بقول ڈاکٹر ش اختر: ’’ انٹرویو کے سلسلے میں سب سے اہم شے انٹرویو لینے والے کی اپنی شخصیت ہوتی ہے۔ وہ ایک تیکنیکی آدمی بن جاتا ہے کیوں کہ وہ اپنے سوالوں کو ترتیب دیتا ہے اور ان کے دائرہ کو متعین کرتا ہے، اس کا معیار طے کرتا ہے اور پھر معیاری سطح پر ہی انہیں تحریر کرتاہے اس عمل سے اسکالر کے جمع کئے ہوئے DATA کی آسانی سے ترتیب ہو جاتی ہے اور پھر تجزیہ میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوتی ایک انٹرویو لینے والے کا رابطہ چونکہ مختلف افراد سے ہوتا ہے اس لیے اسے انسانی نفسیات کا علم ہونا ضروری ہے۔ اسے انسان کی بنیادی کمزوریوں اور خوبیوں کا پتہ ہونا چاہیے۔‘‘ اس طریقہ تحقیق کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سوال کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں آمنے سامنے ہوتے ہیں اور اگر جواب دینے والے کی سمجھ میں کوئی سوال نہ آئے یا کوئی اصطلاح الجھن پیدا کرے تو سوال کرنے والا اس کی وضاحت کر سکتا ہے اور اس کی ’’ اصطلاحی‘‘ گتھی کو سلجھا سکتا ہے ویسے بھی اکثر لوگ تحریری جواب سے خواہ مخواہ گھبراتے ہیں جب کہ وہ زبانی جواب با آسانی دینا پسند کر لیتے ہیں۔ نوعیت کے اعتبار سے انٹرویو دو اقسام کے ہوتے ہیں: رسمی انٹرویو: رسمی انٹرویو، انٹرویو کی معیاری شکل تصور کئے جاتے ہیں اس طریقہ کار میں انٹرویو کے لیے پہلے ہی سے سوالات مرتب کر لیے جاتے ہیں اور بعض دفعہ جس سے انٹرویو مطلوب ہوتا ہے قبل از وقت اسے مہیا کر دئیے جاتے ہیں تاکہ انٹرویو دینے والے کو پہلے سے یہ علم ہو سکے کہ ’’ محقق‘‘ اس سے کس قسم کی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے اور بعض دفعہ ایس ابھی ہوتا ہے کہ ’’ انٹرویو‘‘ کے سوالات کا علم انٹرویو دینے والے کو پہلے سے نہیں ہوتا ہے لیکن ان دونوں طریقوں میں تعارفی کلمات ایک ہی جیسے ہوتے ہیں اور سوالات کا معیار ایک ہی سطح کا ہوتا ہے اور ہر سطح کے انٹرویو دینے والے کے لئے سوال کی نوعیت ایک ہی ہوتی ہے۔ غیر رسمی انٹرویو: اس قسم کی انٹرویو میں انٹرویو دینے والے کو محقق پہلے سے سوالات سے آگاہ نہیں کرتا اور نہ ہی مکمل اور حتمی شکل میں محقق کے پاس سوالات ہوتے ہیں بلکہ حسب ضرورت سوالات میں لچک پیدا کر لی جاتی ہے اس قسم کے انٹرویو میں جواب دینے والے کو بھی آزادی ہے کہ وہ سوال کے جواب میں کس طرح اور کیا رائے دیتا ہے۔ اس قسم کے محقق کو انسانی نفسیات پر بھر پور عبور ہونا چاہیے تاکہ وہ کسی بھی نفسیاتی حربے سے اپنے سوال کا جواب حاصل کر لے۔ اس قسم کے انٹرویو میں محقق سوالات کے سلسلے میں آزاد ہوتا ہے اور حسب ضرورت اور انٹرویو دینے والی ذات کے معیار، رتبہ اور شخصیت کے اعتبار سے سوالات پوچھتا ہے اور اپنے موضوع کی نوعیت اور اہمیت کے مطابق نوٹس قلم بند کرتا ہے وہ تمام غیر ضروری باتیں جو انٹرویو کے دوران پیش آتی ہیں انہیں نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے۔ تحقیق کا یہ طریقہ کار تحقیق کے ابتدائی مراحل میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے جسے بعد میں وہ اپنے مفروضہ کے لئے بطور ثبوت یا امثال پیش کرتا ہے۔ انٹرویو کا طریقہ کار خواہ رسمی ہو یا غیر رسمی اس میں مندرجہ ذیل باتیں کوئی بھی محقق نظر انداز نہیں کرتا (الف)محقق کو اپنے موضوع پر اس انداز سے سوال کرنا چاہئے کہ جواب دینے والا جواب دینے میں جھجک محسوس نہ کرے بلکہ فوراً جواب دینے پر تیار ہو جائے۔ (ب) اگر انٹرویو دینے والا اپنے دئیے ہوئے جوابات پر راز داری کا متمنی ہو تو جواب میں اس کا حوالہ نہ آنے پائے۔ جب اس کا انٹرویو لیا جائے تو کسی اور کی موجودگی نہ ہو تاکہ محقق اس کے سوال کا جواب بغیر کسی ہچکچاہٹ اور ناگواری کے دے سکے۔ (ج) جواب دھندی کے دئیے ہوئے جوابات پر اپنی پسند یا نا پسند کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ وہ جو بھی جوابات دے اسے پوری دل چسپی اور یک سوئی سے سنا جائے تاکہ انٹرویو دینے والے کی ذات مجروح نہ ہو۔ (د) ایک وقت میں ایک ہی سوال کیا جائے سوالات کی بوچھاڑ نہ ہو۔ (ہ) انٹرویو کے دوران دستیاب ہونے والی معلومات کو بڑی احتیاط اور غیر جانبداری سے ریکارڈ کیا جائے تاکہ حاصل شدہ اعداد و شمار اور معلومات ’’ حقائق‘‘ تک پہنچنے میں معاون ہوں۔ ادبی تحقیق میں بھی ’’ انٹرویو‘‘ کا طریقہ کار مروج ہے بالخصوص ادبی تحریکوں اور ادبی شخصیتوں کے انٹرویو کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مشرق میں زندگی کے بعض گوشے پوشیدہ رکھنا مشرقی روایت میں شامل ہے لیکن ایک انٹرویو کے طریقہ کار کا ماہر محقق اس میں بھی کامیاب رہتا ہے اور انٹرو یو دینے والی شخصیت سے اس کے وہ راز بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو وہ عام حالات میں بتانا پسند نہیں کرتا بقول ڈاکٹر ش اختر: ’’ انٹرویو لینے والا اگر ہنر مند ہے اسرار و رموز سے با خبر ہے تو وہ ان مشکلوں پر قابو پا لیتا ہے وہ افراد سے ایک ایسا تعلق پیدا کر لیتا ہے جس سے قربت کی فضا بنتی ہے اعتبار اور دوستی کی سازگار اس فضا کے ذریعہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر ایسا اسی وقت ممکن ہے، جب سوال کرنے والے کو تمام تکنیک معلوم ہو اور وہ جواب دینے والے میں یہ احساس پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرے کہ وہ تبادلہ خیال کے ذریعہ ایک اہم فرض پورا کر رہا ہے۔ اس لیے بات چیت بالکل غیر رسمی ہونی چاہیے۔ غیر رسمی گفتگو میں آدمی بہت کھل کر باتیں کرتا ہے اور اپنی زندگی کے تاریک پہلوؤں کی طرف اشارہ بھی کر دیتا ہے۔‘‘ ج مشاہدات بیانیہ تحقیق میں تیسرا طریقہ کار’’ مشاھدات‘‘ کا ہے اور یہ طریقہ انٹرویو اور سوال ناموں کی نسبت زیادہ نازک اور احتیاط طلب ہے گو بظاہر مشاہدہ عام معنوں میں دیکھنے اور پرکھنے کا نام ہے لیکن علم تحقیق میں اس طریق تحقیق کا زیادہ واسطہ تجرباتی تحقیق سے پڑتا ہے اور اس کا زیادہ تعلق سائنسی تحقیق سے ہے جہاں سائنسی تجربہ گاہ مشاہدہ گاہ ہوتی ہے لیکن یہ طریقہ تحقیق صرف سائنسی علوم تک محدود نہیں ہے بلکہ دور جدید میں عمرانی علوم میں بھی استعمال ہونے لگا ہے بار بار کے نتائج اور تجربے براہ راست مشاہدے میں آتے ہیں اس طریقہ کار میں محقق جس فرد یا ادارے کی تحقیق کرتا ہے وہ اس کو بتائے بغیر شامل ہو جاتا ہے اور اپنے ذاتی مشاھدے کے علاوہ بھی حاصل شدہ معلومات کو اپنے مشاہدے پر پرکھتا ہے بعض حالات میں مشاہداتی طریقہ کار نا گزیر ہے کیوں کہ بعض جگہ انٹرویو اور سوال نامے وہ نتائج نہیں فراہم کرتے جو ذاتی مشاہدے سے حاصل ہوتے ہیں مشاہدے کے عمل میں ذاتی توجہ کو اپنی تحقیق پر مرکوز کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے مشاہدے کا عمل اس وقت تک کارگر نہیں ہوتا جب تک اپنے موضوع یا زیر تحقیق عامل پر بھر پور توجہ نہ رکھی جائے اور دل چسپی کے عنصر کے ساتھ اپنی تحقیق میں مصروف رہے لیکن مشاہدے کے عمل کے لیے محقق کو اپنی ذات کو بالکل غیر جانب دار اور تعصب سے بالا تر رکھنا ہوتا ہے اس قسم کی تحقیق میں اپنے مشاہدہ کا خود ہی تجزیہ کرنا پڑتا ہے اس لیے تحقیق کا موضوع متناسب موضوع ہو جس پر با آسانی گرفت ہو سکے۔ مشاہدے کے عمل میں نہ صرف توجہ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ محقق کو اپنے حواس سے بھی کام لینا پڑتا ہے اس لیے مشاہداتی محقق کو متوازن ماحول میں اپنا مشاہدہ کرنا چاہیے اور ایسے وقت میں جب تھکاوٹ، عدم دل چسپی یا کسی قسم کی حواسی بے چینی ہو، تحقیق کو معطل کر دینا چاہیے۔ مشاہداتی طریق کار میں ادراک و شعور مرکزی حیثیت رکھتا ہے زیر تحقیق معاملات جب تک واضح نہ ہوں اور ان کے بارے میں فہم و ادراک نہ ہو، مشاہدہ ناقص اور نتائج غیر سود مند رہ جاتے ہیں یعنی زیر تحقیق موضوع کا محقق کی نظر میں بالکل واضح تصور ہو تاکہ کسی چیز کے مشاہدے کے سلسلے میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے لیکن اس طریقہ تحقیق میں کسی ایک فرد کے مشاہدے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا بلکہ کئی مشاہدوں کی تحقیقی یکسانیت سے نتائج اخذ ہو سکتے ہیں اور نتائج اخذ ہونے کے بعد قابل اعتبار تصور ہوتے ہیں ڈاکٹر احسان اللہ خان کے بقول: ’’ بیانیہ حقائق پر آسانی سے اعتماد کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر ان حقائق کی صحت اور جواز پر یقین کیا جاتا ہے جس کا عملاً اور اختیاری طریقہ پر جوڑ توڑ کرنے کے بعد اس بات کی تسلی کی جا چکی ہو کہ ان کے عناصر ترکیبی کیا ہیں اور کسی طرح رونما ہوتے ہیں۔‘‘ د کیس اسٹیڈی ڈاکٹر ش اختر صاحب نے کیس اسٹیڈی کی تعریف کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ کیس اسٹیڈی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص، خاندان، برادری یا قوم کی زندگی کے متعلق ان تمام پوشیدہ اور غیر پوشیدہ خصوصیتوں کی دریافت کی جائے، ان کا تجزیہ کیا جائے جن کی وجہ سے ان کی شناخت ممکن ہوتی ہے۔ یہ شناخت زیادہ تر ان رویوں کے ذریعے ہوتی ہے جو اشخاص کی طرز زندگی، حسن سلوک، عمل اور رد عمل کے ذریعے ظاہر ہوتی رہتی ہے اور ان کا ماحول سے ربط بڑا گہرا ہوتا ہے اس کے لیے جو ڈاٹا جمع کیا جاتا ہے اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص یا اکائی کی فطری تاریخ مرتب کی جائے اس کے سماجی اسباب اور واقعات سے رشتہ جوڑا جائے، جو اس کے مخصوص ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘‘ گو یہ طریقہ کار میڈیکل سائنسز میں زیادہ استعمال ہوتا ہے لیکن نفسیاتی اور ادبی موضوعات کا دامن بھی اس سے خالی نہیں ہے۔ اس طریقہ تحقیق سے ہم ادبی شخصیتوں کے نظریوں، موضوعات، کرداروں، نفس مضمون اور یہاں تک کہ ان کے فن پاروں میں استعمال ہونے والے جملوں تک کو بطور ’’ کیس اسٹیڈی‘‘ مطالعہ کرتے ہیں بہ الفاظ دیگر’’ کیس اسٹیڈی‘‘ میں نظریہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے خواہ یہ نظریہ کسی کی ذات سے تعلق رکھتا ہو یا فن پارے یا پھر عمل اور رد عمل سے۔ کیس اسٹیڈی میں ماضی و حال دونوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے لہٰذا اس طریقہ کار میں سروے، مشاہداتی اور دستاویزی تمام طریقوں کو یکجا کر دیا جاتا ہے۔ کیس اسٹیڈی میں جس شخص یا اس کے فن پارے کی تحقیق کی جاتی ہے اس کے ذاتی خطوط، ڈائری، آپ بیتی اور یاد داشتوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور اس ماحول اور خاندانی پس منظر کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے مثلاً میر تقی میر کی الم نگاری اور غالب کی انفرادیت کا پس منظر ان کے ماحول کے پس منظر اور ان کی بپتا سے لگایا جا سکتا ہے ’’ کیس اسٹیڈی‘‘ میں داخلی و خارجہ دونوں شہادتوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور ان کی چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ تحریری مواد کے ساتھ ساتھ انٹرویو اور اعداد و شمار کے ذریعہ بھی ’’ کیس اسٹیڈی‘‘ کی جاتی ہے یہ طریقہ تحقیق دور جدید کا جدید ترین طریقہ ہے جس کے ذریعہ ’’ اسباب و علل‘‘ کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان عوامل کی نشان دہی کی جاتی ہے جو کسی کو موجودہ منزل پر لانے میں محرک ثابت ہوئے۔ 3سائنسی طریقہ تحقیق سائنسی طریقہ کار سترھویں صدی عیسوی کے سائنسی انقلاب کا مرہون منت ہے جس میں نہ صرف سائنسی علوم کو سائنسی بنیادوں پر زیر تحقیق لایا جاتا ہے بلکہ معاشرتی علوم بھی اس زمرے میں شامل ہونے لگے اور علت و علل سے نتائج اخذ کئے جانے لگے مثلاً جب معاشرتی بد حالی اور طبقاتی کشمکش عروج کو پہنچتی ہے تو سیاسی انقلابات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس طریق کار کا حلقہ دور جدید میں ادبی رحجانات کے دائرے تک وسیع ہو گیا ہے۔ سائنسی طریقہ تحقیق میں مندرجہ ذیل مدارج سے گزر کر حقائق و نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ کسی بھی تحقیقی کام کو شروع کرنے سے پہلے انتخاب ہوتا ہے اور نتائج کے لیے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اس میدان میں کتنی تحقیق ہو چکی ہے اس طریق کار سے یہ بھی ممکن ہے کہ پچھلے نظریات باطل ہو جائیں اور سوچ و فکر میں نت نئی تبدیلی ظہور پذیر ہو۔ سائنسی طریق کار مشاہدے پر زور دیتا ہے اور اس طریق کار میں ایک سے زیادہ طریقوں کو ملایا جا سکتا ہے اس طریق تحقیق میں مواد اکٹھا کر کے ترتیب وار تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس سے نتیجہ نکالا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق کی پہلی خاصیت اس کی ریاضیاتی کیفیت ہوتی ہے اور جس طرح دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں اسی طرح نظریاتی طریقے سے تحقیق اٹل حقیقت ہوتی ہے اور اس میں آفاقیت پائی جاتی ہے اس طریق کار میں محقق کا رویہ غیر جانبدارانہ ہوتا ہے اور محقق کسی بھی قسم کے لالچ، خوف، ذاتی عناد اور خیر و شر کے جذبہ سے بلند و بالا ہوتا ہے۔ سائنس کس چیز کو اور کسی بھی تصور کو حتمی قرار نہیں دیتی بلکہ نئے نئے نظریات پچھلے نظریات کو تجربہ کی بنیاد پر رد کر سکتے ہیں مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ غلطی تحقیق و جستجو کی گھات میں لگی رہتی ہے۔ ادب کا کامل ذوق سلیم ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے نقاد اور مبصر فاش غلطیاں کر جاتے ہیں لیکن ان کے کام پر حرف نہیں آتا غلطی ترقی کی مانع نہیں ہے بلکہ وہ صحت کی طرف رہنمائی کرتی ہے پچھلوں کو بھول چوک آنے والے مسافر کو رستہ بھٹکنے سے بچا دیتی ہے۔‘‘ اس لیے تحقیق میں بھی اس کا یہ ہی انداز ہوتا ہے کیوں کہ وقت کی رفتار کے ساتھ علم کے نئے افق سامنے آتے رہتے ہیں اور تحقیق کی نئی توضیحات سامنے آ سکتی ہیں جس سے تحقیق کے نئے باب کھل سکتے ہیں۔ سائنسی طریقہ کار میں شہادت اور تجربہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ان سے حاصل کردہ شہادت کو منطقی اور ریاضیاتی اصولوں کے ذریعہ پرکھا جاتا ہے۔ مختلف طریقہ ہائے تحقیق میں سائنسی طریق تحقیق کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں آگے بڑھنے اور اپنی اصلاح کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے اور خوب سے خوب تر کا جذبہ محقق کو نئے نئے رازوں اور تحقیق سے آگاہ کرتا رہتا ہے سائنسی تحقیق کی ایک صورت تجرباتی تحقیق اور مطبی تحقیق (Clinical research) بھی ہے جس میں چند نمونوں کو مشاہداتی طریقوں، انٹرویو، لیبارٹری، اور اطلاتی اور معروضی حقائق کے ذریعہ زیر تحقیق لایا جاتا ہے ایک سائنسی محقق اور سائنسی تحقیق پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر عبدالرزاق قریشی صاحب نے اپنے ایک مضمون ’’ فن تحقیق‘‘ میں لکھا ہے: ’’ تحقیق میں جذبات یا قیاس آرائی کو دخل نہیں ہونا چاہیے اور نہ اسے حمایت یا مخالفت سے واسطہ رکھنا چاہیے۔ محقق کا نقطہ نگاہ وہ ہے جو مشتبہ حقائق سے لطف اٹھا سکے۔ سائنسی طریق کار کے ذریعہ آدمی شک کو واضح تلاش کے عمل میں تبدیل کر کے بار آور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ 4موضوعاتی تحقیق اس تحقیق کا میدان بہت وسیع ہے اور بالخصوص اس تحقیق کے دامن میں علم و ادب تصور کئے جاتے ہیں اس تحقیق کے ذریعہ ادبی موضوعات پر نئے نئے گوشے سامنے لائے جاتے ہیں اور اس طرح کی تحقیق کے ذریعہ ادبی اور لسانی تحقیق کی کڑیوں کو جوڑا جاتا ہے اور گم شدہ یا پردہ خفاء میں رہ جانے والے حقائق کو سامنے لایا جاتا ہے اس میں بھی تاریخی اور سماجی پس منظر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور تحقیق سے فکری اور فلسفیانہ نکات کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے موضوعات تحقیق میں پہلے اپنے موضوع کی حدود و قیود طے کی جاتی ہیں پھر سلسلہ وار مواد اکٹھا کیا جات اہے اور اسے ترتیب دے کر نا معلوم حقائق کو تحقیق کے ذریعے منظر عام پر لایا جاتا ہے اس قسم کی تحقیق میں ماخذ کی تلاش اہمیت رکھتی ہے ماخذ دو طرح کے ہوتے ہیں اول بنیادی ماخذ اور دوم ثانوی ماخذ، ماخذ کا دوسری، تیسری یا پھر اس کے بعد حوالے در حوالے یا ترجمہ کی صورت ہے تحقیق کے موضوع کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر ایم سلطانہ صاحبہ نے لکھا ہے: ’’ تحقیق کا موضوع بہت وسیع اور بسیط نہ ہو۔ وسیع ہونے کی صورت میں اس کا ایک جز تحقیق کے لئے منتخب کرنا بہتر ہو گا، ورنہ وسیع موضوع پر مواد کو سمیٹنے اور اس کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرنے میں تحقیق سے انصاف ممکن نہیں بہت محدود موضوع پر بھی تحقیق مشکل ہوتی ہے لہٰذا موضوع کے انتخاب میں بہت غور و حوض اور مفید مشورے درکار ہیں۔‘‘ ادب میں موضوعاتی تحقیق ہی مروج اور مقبول ہے اور اسی میں نت نئے تجربات ہو رہے ہیں اور اس طریقہ تحقیق سے ادب اور اصناف ادب اور ادبی شخصیتوں کے مخفی گوشے سامنے آ رہے ہیں اور تحقیق کا دائرہ ادبی تحریکوں، اداروں اور لسانی تقابلی جائزوں تک وسیع ہو گیا ہے۔ 5متنی تحقیق متنی تحقیق کا جائزہ لینے سے قبل ہمیں’’ متن‘‘ کے معنی و مطلب سے آگاہ ہونا چاہیے مختلف لغتوں میں’’ متن‘‘ کے جو معنی دئیے گئے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں: لغت نظامی ’’ متن(ئ) مذکر، پیٹھ، پشت، مضبوط، محکم، سخت، اور اونچی زمین، کتاب کی اصل عبارت جس کی شرح کی جائے، وسط، درمیان، بیچ درمیانی حصہ۔۔۔‘‘ فیروز اللغات اردو (جدید) ’’ متن (ع،ا، مذکر) کتاب کی اصل عبارت، درمیان، وسط، درمیانی حصہ ‘‘ اسی طرح مولوی عبدالحق صاحب کی تالیف دی اسٹینڈرڈ اردو انگلش ڈکشنری مندرجہ ذیل مطالب دئیے گئے ہیں: ’’ 1مصنف کے اصل الفاظ، کتاب کی TEXT اصل عبارت (شرح وغیرہ سے قطع نظر کر کے )2کتاب الٰہی (انجیل وغیرہ) کی آیت یا آیات جو کسی وعظ یا مقالے کے موقع یا سند کے طور پر استعمال کی جائیں 3متن (کتاب کا مضمون حواشی تصاویر وغیرہ سے قطع نظر کر کے 4جلی خط۔‘‘ مندرجہ بالا لغوی معانی و مطالب کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ متنی تحقیق سے مراد وہ طریقہ تحقیق ہے جس میں کتاب کی اصل عبارت یا متن کے حوالوں سے کسی موضوع یا متن کی تحقیق کی جاتی ہے۔ گو تاریخی اور موضوعاتی تحقیق میں بھی متن کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لیکن قطع نظر اس کے ماہرین تحقیق’’ متنی تحقیق‘‘ کو بھی تحقیق کی ایک مکمل قسم قرار دیتے ہیں یہ طریقہ تحقیق کافی پیچیدہ ہے اور محقق کو اس قسم کی تحقیق کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کی تحقیق میں زیادہ واسطہ زبان و متن سے پڑتا ہے اس لیے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی رائے ہے: ’’ محقق متن کے لئے لازم ہے کہ وہ زبان کے ہر دور کی مخصوص خصوصیات کو جانتا ہو، کہ مصنف کے دور کے تعین میں آسانی ہو، اس کے اس علم سے فائدہ یہ بھی ہو گا کہ وہ نامانوس اور نا آشنا لفظوں کا صحیح تعین کر سکے گا۔‘‘ متنی تحقیق، تحقیق کی دیگر اقسام کی نسبت قدرے مشکل تصور کی جاتی ہے کیوں کہ اس میں تحریری قسم، لسانی ارتقائ، الفاظ کا مختلف ادوار میں استعمال اور مصنف کے عہد سے زبان کا تعلق وغیرہ سب پر تحقیق ہوتی ہے۔ مثلاً جب ہم کسی مصنف یا مخطوطہ پر متنی تحقیق کرتے ہیں تو اولاً یہ جائزہ لینا پڑتا ہے کہ مخطوطہ جس مصنف سے منسوب ہے کیا واقعی اس مصنف کا ہے اس ضمن میں بنیادی بات مصنف کا اپنا اسلوب بیان ہے اور پھر جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں کیا مصنف وہی الفاظ انہی مرکبات کے ساتھ استعمال کرتا بھی تھا یا نہیں پھر یہ نسخہ یا مخطوط اس کی ادبی یا تحقیقی زندگی کے کس حصہ کی تحریر ہے اور اس کے ذہنی اور علمی ارتقاء کے ساتھ کیا کیا تبدیلیاں ظہور میں آتی رہیں اس سلسلے میں یقینا اس کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ سب سے زیادہ معتبر تسلیم کیا جائے گا کیوں کہ بعد کے کاتبوں اور پھر مختلف کاتبوں نے ممکن ہے کہ اس میں رد و بدل کیا ہو یا پھر زبان کو اس عصری اکائی سے خارج کر کے اپنے زمانے کے مستعمل الفاظ شامل کر لیے ہوں۔ متنی تحقیق میں ایک محقق کو تحقیق کی بہت سی مشکلات اور کٹھن منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے اس لیے متنی محقق کو تحقیقی عمل شروع کرنے سے پہلے وسیع مطالعہ اور گہری نظر کی ضرورت ہوتی ہے اسے اپنے موضوع کے علاوہ موضوع سے تعلق رکھنے والے عہد اور خط کی سماجی و ثقافتی ادبی اور سیاسی تاریخ اور لسانی ارتقاء پر بھی عبور حاصل کرنا ہوتا ہے کیوں کہ بقول ڈاکٹر خلیق انجم: ’’ جب وہ مختلف نسخے پڑھنے کی مشق کرے گا تو یقینا ایسے الفاظ ملیں گے جن کا وہ مطلب نہیں جانتا اور جو متروک ہو گئے ہیں ایسے الفاظ بھی ملیں گے جو اردو میں اب تک مستعمل ہیں لیکن جن کا مفہوم بدل گیا ہے ایسے الفاظ کی بھی کمی نہ ہو گی جن کا تلفظ اس عہد میں کچھ اور تھا اور جدید اردو میں کچھ اور ہے ان تمام الفاظ کے لیے ہندی، اردو، فارسی اور عربی کی لغتوں کا استعمال ضروری ہے۔‘‘ الفاظ کا گورکھ دھندا اتنا نازک ہے کہ قاری سرسری نظر میں الفاظ کی ہیئت، ترمیم و ترک پر غور ہی نہیں کر پاتا۔ کیوں کہ تصرف الفاظ کی حیثیت درخت کے پتوں کی مانند ہوتی ہے کہ جس طرح ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ پرانے پتے کب جھڑے ہیں اور ان کی جگہ نئے پتے کب نکلے ہیں۔ متنی محقق کے لیے ادبی، سیاسی و سماجی تاریخ کا مطالعہ اس لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں عہد کا تعین آسانی سے کر سکے اور اس ضمن میں اگر کوئی شعوری یا لا شعوری غلو ہے تو اسے پکڑ سکے اور زبان کی مہارت اسے مختلف نسخوں کے موازنہ و مقابلہ میں اس کی مشکلات حل کر دے گی۔ کسی بھی متنی محقق کے لیے حوالہ متن میں سب سے زیادہ اہمیت’’ اساسی متن‘‘ کی ہوتی ہے اس اساسی متن سے مراد خود مولف کا اپنا لکھا ہوا نسخہ تصور کیا جاتا ہے اس اساسی متن کے علاوہ دیگر تمام متن ثانوی ہوتے ہیں اور ان پر شک و شبہ کی کافی گنجائش برقرار رہتی ہے اس لیے ایک متنی محقق صحت متن کا متقاضی ہے۔ رشید حسن خان صاحب اس ضمن میں تحریر کرتے ہیں: ’’ یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ مستند نسخے کو ماخذ بنائے بغیر کسی اقتباس کو اس اعتماد کے ساتھ نہیں پیش کیا جا سکتا کہ اس سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ درست ہے اس احساس نے صحت متن کی اہمیت کو ذہن نشین کیا۔۔۔ تحقیق کی عادت پیدا کی اور اعتراض کرنا سکھایا اور اس بات کو ضروری سمجھا جانے لگا کہ شعر ہو یا عبارت اس کو معتبر ترین ماخذ سے معقول ہونا چاہیے۔ اس طرح ماخذ کی حقیقی اہمیت نمایاں ہوئی حوالہ ماخذ سے منقول نہیں، تو پیش کرنے والا کتنا ہی معروف شخص ہو اور کتنا ہی پڑھا لکھا ہو اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ تحقیق کے مسائل اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق میں تحقیق کی روایت بہت قدیم ہے اور اب قدیم روایت اور جدید اصولوں کے امتزاج سے تحقیق موضوعات پر بہت کچھ کام ہو رہا ہے لیکن ان کاوشوں کے باوجود تحقیق کی راہ میں بہت سی ایسی رکاوٹیں، مشکلات اور مسائل ہیں کہ جن کے حل ہو جانے سے نہ صرف تحقیق کا معیار بلند ہو سکتا ہے بلکہ تحقیق کی رفتار میں بھی خاطر خواہ پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ان مشکلات و مسائل میں سے چند کا تعلق فنی مسائل سے ہے اور بعض کا انتظامی امور سے، ان مسائل و مشکلات میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: 1اصطلاحات کا مسئلہ فیض احمد فیض صاحب نے اصطلاحات کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ اصطلاح اور عام لفظ میں فرق ہی یہی ہے کہ ایک عام لفظ کے اردو گرد بہت سے موہوم غیر معین تصورات کا ہالہ سا ہوتا ہے لیکن ایک اصطلاح کا مفہوم معین اور غیر مبہم ہوتا ہے اور اگر ایسا نہیں تو ہم اسے اصطلاح کہہ ہی نہیں سکتے، دوسری بات یہ ہے کہ ان اصطلاحات کی فنی یا قدری اہمیت بہت واضح نہیں ہم نے ابھی تک یہ پرکھنے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے مجوزہ محاسن و معائب ہیں بھی یا نہیں اگر ہیں تو کیوں ہیں۔‘‘ اور یہی وہ الجھن ہے جس سے محقق کو دو چار ہونا پڑتا ہے کیوں کہ جب وہ اپنے تحقیقی عمل میں اصطلاحات کا سہارا لینا چاہتا ہے تو اسے تنگ دامنی سے واسطہ پڑتا ہے اور اسے ضرورت کے مطابق تحقیق اصطلاحات نہیں ملتیں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ تحقیقی اصطلاحات موجود نہیں بلکہ ’’ جامعہ عثمانیہ‘‘ حیدر آباد دکن کے قیام اور انجمن ترقی اردو ہند کی کاوشوں سے ابتداء ہی سے اصطلاحات سازی ہوتی رہی خاص طور سے مولوی وحید الدین سلیم صاحب نے اس میدان میں تن تنہا اتنا کلام کیا کہ شاید بعض انجمن اور ادارے بھی نہ کر پاتے قیام پاکستان کے بعد اور بالخصوص وحدت مغربی پاکستان (One Unit) کے زمانے میں سرکاری سطح پر بھی دفتری اصطلاحات سازی کے ذریعہ اس پر توجہ رہی لیکن اس کے باوجود اصطلاحات کا خاطر خواہ ذخیرہ موجود نہیں ہے پرانی اصطلاحات کی از سر و تدوین کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور غالباً یہی وہ جذبہ ہے جس کی تحریک پر مقتدرہ قومی زبان کی جانب سے اصطلاحات کے موضوع پر قومی سطح پر سیمینار منعقد ہوئے۔ اصطلاحات سازی کے سلسلے میں دانش وروں کی مختلف رائے ہیں ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اصطلاحات میں انگریزی الفاظ من و عن قبول کر لینا چاہیں جب کہ بعض لوگ عربی اصطلاحات کے قبول کر لینے اور کچھ فارسی سے فائدہ اٹھانے کے حق میں ہیں لیکن اصطلاحات ایک نازک فنی و لسانی مسئلہ ہے جسے جذباتیت کے بجائے اعتدال پسندی سے اس طرح حل کرنا چاہیے کہ اصطلاحات ہمارے عصری، قومی اور لسانی مسائل کا حل کر سکیں۔ بقول ڈاکٹرو حید قریشی: ’’ اس میں بھی متوازن راستہ قابل قبول ہو گا اور اس کے لیے اردو کے مزاج کو بھی پیش نظر رکھنا نا گزیر ہے پاکستان حیدر آباد دکن نہیں یہاں کی سماجی زندگی اپنے خدو خال کے لحاظ سے جنوب سے مختلف ہے اس لیے اصطلاحات سازی میں عربی فارسی کا انتہا پسندانہ استعمال وہ نتائج پیدا نہ کر سکے گا جس کی ہمیں تلاش و جستجو یا توقع ہے۔‘‘ پھر مسئلہ کا حل اصطلاحات سازی تک نہیں ہے بلکہ اس میں ایسی آفاقیت پیدا کرنا ہو گی کہ تمام محقق اور صاحب علم اسی کو یکساں استعمال سے اپنے فن پاروں میں استعمال کریں۔ 2تحقیقی میدان میں باہمی ربط کا فقدان تحقیق کا دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ تحقیقی میدان میں کوئی ایسا ذریعہ ربط نہیں ہے جس سے یہ آگاہی ہو سکے کہ کس کس جگہ، کون کون سے ادارے یا افراد کس کس موضوع پر تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں اور ان کی کاوشیں کس منزل پر ہیں۔ اس باہمی ربط کے فقدان کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ بعض ادارے یا فرد ایک ہی موضوع پر ایک ہی وقت میں کام میں مصروف ہوتے ہیں جس سے کسی ایک کی محنت بیکار جاتی ہے اس ضمن میں پروفیسر گیان چند صاحب نے ’’ اردو کی تحقیق آزادی سے پہلے‘‘ اور ڈاکٹر خلیق انجم صاحب’’ ہندوستان میں اردو تحقیق اور تدوین کا کام (1947ء سے 1958ء تک ) اور ‘‘ ہندوستان میں شائع ہونے والی اہم تحقیق و تدوینی کتابیں (آزادی کے بعد) جیسے مقالات لکھے جب کہ ’’ ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں اردو تحقیق‘‘ پر سید فرحت حسین صاحب اور ’’ پاکستانی جامعات میں اردو تحقیق‘‘ پر ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب نے مقالات قلم بند کئے۔ متذکرہ آخری دونوں مقالات میں برصغیر پاک و ہند کی جامعات کے تحقیقی کام کی رفتار کا بھر پور جائزہ ہے جس سے ’’ تحقیق‘‘ کا ارادہ کرنے والے محقق کو یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ کن کن موضوعات پر اس وقت کام ہو رہا ہے یا پائے تکمیل کو پہنچ چکا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ سید فرحت حسین صاحب اور ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کے جائزوں کے طرز پر گاہے گاہے معلومات میسر آتی رہیں اور تمام اداروں اور نجی طور پر تحقیق کرنے والے افراد میں بخوبی باہمی ربط موجود ہو۔ رشید حسن صاحب کی تجویز ہے: ’’ آج مختلف منصوبوں کے تحت اجتماعی طور پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے بہت سے ایسے اہم کام ہیں جن کو کوئی شخص صحیح معنوں میں مکمل نہیں کر سکتا مثلاً تاریخ ادب، تاریخ زبان، قاموس الاسمائ، قاموس الکتب، مفصل لغت، قواعد صرف و نحو وغیرہ، ایسے کام جن کی نسبت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی فرد کی کاوش کے نتیجہ میں درجہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں، ان کو بھی اگر کسی منصوبے کے تحت اجتماعی ذمے داری کے ساتھ انجام دیا جائے تو اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں خوب تر والی بات پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘ 3کتب خانے اور محقق کسی بھی محقق کی دسترس سے باہر ہے کہ اس کے موضوع پر تمام مواد کا ذخیرہ اس کے پاس موجود ہو اس صورت میں مواد کی فراہمی کا ایک بہت بڑا ذریعہ کتب خانے ہی ہوتے ہیں خواہ یہ کتب خانے سرکاری ہو یا جامعات، کالجوں یا دیگر اداروں کے۔ ہمارے ملک میں موجود کتب خانے بھی اوقات کار کے لحاظ سے محقق کی خاطر خواہ خدمت کرنے سے قاصر ہیں جب کہ یورپ اور امریکہ بالخصوص کینیڈا میں راقم الحروف کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کتب خانے رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اور کتب کے حصول میں وہاں مایوسی نہیں ہوتی۔ کتب خانوں کے ضمن میں ایک متعلم اور استاد کے لیے ایک اور بھی مایوس کن مسئلہ یہ ہے کہ طویل تعطیلات (موسم گرما) کے زمانے میں کتب خانے بھی سالانہ اسٹاک چیکنگ کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔ تحقیق و تدوین تدوین کے لغوی معنی ’’ دیوان جمع کرنا، ترتیب دینا، تالیف کرنا‘‘ کے ہیں جب کہ تحقیق چھان بین، پھٹک اور حقیقت تلاش کرنے کے معنی میں تصور کی جاتی ہے ترتیب و تالیف میں بھی چھان پھٹک کا عنصر شامل ہوتا ہے اس لیے یہ دونوں فن بہت ہی خفیف اور نازک اختلاف سے جدا ہیں اور بقول رشید حسن خان صاحب: ’’ تحقیق و تدوین بجائے خود دو متصل موضوع ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی حدیں کہیں کہیں مل جاتی ہیں تحقیق کا لفظ عام طور سے ان دونوں پر حاوی سمجھا جاتا ہے مگر اچھا خاص غلط مبحث ہے۔‘‘ گویا کہ ایک مرتب یا مولف کو بھی محققانہ انداز اختیار کرنا پڑتا ہے اوران کے لئے لازم ہے کہ وہ تحقیق کے اصولوں سے بھی آشنا ہوں۔ تدوین میں مولف کو متن کی تصحیح و ترتیب کا کام کرنا پڑتا ہے اس لیے لازم ہے کہ وہ صحت متن کا مفہوم سمجھتا ہو، اختلاف نسخ و املا سے آشنا ہو۔ قواعد زبان اور ارتقاء زبان، حرف کی تحریف و ترمیم اور عہد بہ عہد اس کے تغیر و تبدل کی پرکھ کے فن سے واقف ہو اور اس کی اپنی ذات اپنے موضوع کی لگن کے علاوہ تعصب اور جانبداری کے جذبہ سے الگ تھلگ ہو۔ تذکیر و تانیث، عروض و قوافی، تلفظ اور اسلوب اور مواد کی یکسانیت اور اختلاف کی روح کو سمجھتا ہو ایک مولف کو تدوین کے لیے مختلف نسخوں اور مخطوطات سے واسطہ پڑتا ہے مولف و مرتب کو جتنے بھی اہم نسخے مل سکیں ان سے بھر پور فائدہ اٹھا کر اور موازنہ و مقابلہ کر کے اپنی ’’ تدوین‘‘ کو منزل مقصود تک پہنچائے ایک مرتب یا مولف کو زیر تدوین مواد کے عہد اور اس عہد کی دیگر تصانیف و تالیفات سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ مندرجہ بالا بحث سے روبینہ ترین کے خیال کے مطابق یہ اندازہ ہوتا ہے : ’’ گویا تدوین میں تحقیق کا کام شامل ہے اور تحقیق میں تدوین کا عمل ناگزیر ہے اس لحاظ سے دونوں لفظ مترادف صورت اختیار کر لیتے ہیں اور دونوں کو اکٹھا استعمال کرنے کی صورت میں چھان بین کر کے کسی چیز کو دیافت کرنا اور پھر اس کو ترغیب و ترتیب کے ساتھ شائع کرنا تحقیق و تدوین ہے۔‘‘ تحقیق و تدوین کے بعض اصول دونوں فنون میں یکساں اہمیت رکھتے ہیں مثلاً حوالہ متن اور اختلاف تسخ وغیرہ اور اس طرح تدوین کرنے والے کو تحقیق کا ہر منزل پر سہارا لینا پڑتا ہے تاہم دونوں الگ الگ فن ہیں اور تدوین کی منزل جب ختم ہو جاتی ہے تو محقق کا تجزیاتی نشتر مصروف عمل ہوتا ہے اور بقول پروفیسر مرزا ریاض: ’’ بعض اوقات تدوین کا کام تحقیق سے بھی مشکل ہوتا ہے‘‘ تحقیق و تنقید تحقیق جب تجزیاتی عمل سے گزرتی ہے تو اس میں تنقید کا عمل بھی شامل ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تحقیق کو تنقید سے جد انہیں کیا جا سکتا اور علماء ادب بھی تحقیق کو تنقید کا نقطہ آغاز اور تنقید کو تحقیق کا جزو اول قرار دیتے ہیں بقول ڈاکٹر یگندر: ’’ تحقیق و تنقید نہ صرف ہم جنس ہیں بلکہ ان کے زیر جنس بھی ایک ہی ہیں۔ لہٰذا دونوں میں بہت مماثلت ہے دونوں میں ہی تشریح اور تجزیہ سے کام لیا جاتا ہے اور کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تحقیق جسے ہم حقائق کا بیان کہتے ہیں وہ تنقید میں تشریح اور تجزیہ ہے۔‘‘ لیکن ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب تنقید اور تحقیق کی اس مماثلت سے متفق نہیں ہیں وہ تحقیق و تنقید کے مقاصد اور طریق کار اور بنیادی فرق کو اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’ یوں تو ’’ تحقیق و تنقید‘‘ میں بہ اعتبار معنی کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ تحقیق کے معنی ’’ حق کی تلاش و تصدیق‘‘ کے ہیں تنقید کا لفظ بھی کم و بیش یہی معنی دیتا ہے پھر بھی علمی و ادبی مباحث میں یہ لفظ نمایاں فرق کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔‘‘ تحقیق عموماً خارجی و تاریخی واقعات اور الفاظ و محاورات کی چھان بین پر نظر رکھتی ہے اس کے برعکس تنقید کسی ادبی تخلیق کے حسن کو نگاہ میں رکھ کر اس کے معیار اور حلقہ اثر کا تعین کرتی ہے۔ فنی اعتبار سے اس اختلاف پر بھی ڈاکٹر صاحب موصوف تحقیق کو تنقید سے جدا دیکھنے کے حق میں نہیں وہ اسی تحریر کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ دوسرے علوم پر قیاس کر کے ادب کو تحقیق اور تنقید کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنا کچھ زیادہ مفید نہیں ہے۔‘‘ تحقیق و تنقید میں مماثلت کے باوجود تنقید کا بنیادی مقصد کسی فن پارے کا معیار مقرر کرنا اور اس کے ادبی محاسن اور معائب کی تلاش اور اس کی ادبی درجہ بندی ہے جب کہ تحقیق کا محور جستجو و تلاش ہے وہ مخفی و گم شدہ کڑیوں کو سامنے لاتی ہے اور قیاس و خیال کے بجائے اپنے نظریہ کی بنیاد ٹھوس ثبوت پر استوار کرتی ہے رشید حسن خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ تنقیدی رائیں، تحقیق کے فراہم کئے ہوئے مواد پر مبنی ہو سکتی ہیں، لیکن تنقیدی سطح پر استخراج میں ہمیشہ اختلاف رائے رہے گا کیوں کہ تنقیدی سطح پر نتائج کا جس طرح تعین اور استخراج عمل میں آتا ہے۔ اس کا بڑا حصہ تعبیری ہوتا ہے اور یہ مسلم ہے کہ تعبیر کا اختلاف ہمیشہ کار فرما رہے گا اور اسی کے اثرات سے ایک ہی بات کے متعلق مختلف ناقدین، مختلف رایوں کا اظہار کرتے ہیں۔جب کہ تحقیق میں اس طرح کے اختلافات حقائق کے تعین پر ہوتے ہیں اور نتائج کے استخراج پر، جو غیر متعین حقائق کی بنا پر اخذ کئے جائیں گے وہ بھی متعین ہوں گے۔ جب اخذ نتائج میں تنقیدی تعبیر کا اثر شامل ہو گا تو اختلافات کی کرنیں پھوٹنا شروع ہو جائیں گی یہیں سے تنقید و تحقیق کے راستے الگ الگ ہو جاتے ہیں۔‘‘ اس ساری بحث سے یہ چیز سامنے آتی ہے کہ تنقید میں تحقیق کا عنصری جذبہ شامل ہوتا ہے اور تحقیق تنقید کے بغیر بے وزن سی کاوش ہے اور تدوین بھی تحقیق کا زینہ ہے۔ الغرض تحقیق تنقید اور تدوین ایک دوسرے سے اس طرح پیوست ہیں کہ کلی طور پر انہیں جد انہیں کیا جا سکتا۔ حواشی 1القرآن الحکیم: ترجمہ و تفسیر مولانا عبدالماجد دریا آبادی (جلد دوم) مطبوعہ تاج کمپنی لاہور1952ص1031 2تفہیم القرآن از مولانا ابو الاعلی مودودی (جلد ششم) ترجمان القرآن لاہور1979ء ص 196 3ایضاً ص186 4’’ مقالات‘‘ (جلد دوم) از محمد کرم شاہ الازہری ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور 1990ء ص156 5’’ نقوش‘‘ لاہور جنوری1966ء ص177 6’’ الفہرست‘‘ از محمد بن اسحاق ابن ندیم وراق مترجم اسحاق بھٹی ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور 1969ء ص6 7’’ قدیم آبادئی بزرگ انبیاء کی سوانح حیات‘‘ از ایلن جی ہوائیٹ لاہور دی اورینٹل واچ مین پبلشنگ ہاؤس 1962ء ص24 8’’ مطالعہ پاکستان‘‘ از عبدالقادر خاں لاہور،قومی نصاب گھر1989ء ص27 9’’ رہبر تحقیق‘‘ از مالک رام اردو سوسائٹی لکھنو یونیورسٹی 1972ء ص55 10’’ فرہنگ کارواں‘‘ مولفہ فضل الٰہی عارف لاہور مکتبہ کارواں1962ء ص204 11’’ علمی اردو لغت‘‘ مولفہ وارث سرہندی لاہور، علمی کتب خانہ 1983ء ص436 12’’ قاموس مترادفات‘‘ مولفہ وارث سرہندری لاہور، اردو سائنس بورڈ1986ء ص388 13’’ فیروز اللغات اردو‘‘ (جلد اول) طبع چہارم مولوی فیروز الدین لاہور فیروز سنز ص351 14’’ لغت کشوری‘‘ مولفہ مولوی تصدق حسین لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز 1986ء ص95 15’’ جامع اللغات‘‘ (جلد اول) مولفہ خواجہ عبدالمجید لاہور اردو سائنس بورڈ1989ء ص623 16’’ لغت نظامی‘‘ مولفہ ڈاکٹر سید ناظر حسین زیدی ڈاکٹر عبید اللہ خاں لاہور گلوب پبلشرز 1985ء ص196 17’’ فرہنگ آصفیہ‘‘ (جلد اول) مولفہ سید احمد دہلوی لاہور، مکتبہ حسن سہیل (س ن)ص 596-595 18’’ فرہنگ عامرہ‘‘ مولف:ـ عبداللہ خویشگی (بار چہارم) مطبوعہ: ٹائمز پریس کراچی 1957ء ص142 19’’ نور اللغات‘‘ مولفہ مولوی نور الحسن نیر لاہور، نیشنل بک فاؤنڈیشن ص182 20’’ اردو لغت‘‘ (جلد پنجم) کراچی، اردو ڈکشنری بورڈ1983ء ص12-13 21بحوالہ ’’ تحقیق و اصول و ضع اصطلاحات‘‘ مرتبہ اعجاز راہی، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص147 22ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1981ء ص34 23’’ ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ ‘‘ از رشید حسن خاں لاہور الفیصل 1989ء ص88 24ایضاً ص9 25’’ صحیفہ‘‘ لاہور جولائی 1965ء ص17 26’’ مباحث‘‘ از ڈاکٹر سید عبداللہ لاہور مجلس ترقی ادب 1965ء ص365-366 27’’ رہبر تحقیق‘‘ مالک رام اردو سوسائٹی لکھنو یونیورسٹی 1972ء ص48 28’’ تنقید اور اصول تنقید‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی لاہور، ادارہ ادب و تنقید1984ء ص 33 29’’ تحقیق غالب‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن کراچی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء ص12 30’’ اردو میں اصول تحقیق‘‘ (جلد اول) مرتبہ ایم سلطانہ بخش اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان1986ء ص6 31ایضاً ص7 32ایضاً ص7 33’’ تحقیق کی تین اقسام‘‘ از تبسم کاشمیری (مقالہ) مطبوعہ نگار پاکستان کراچی جون، جولائی 1981ء ص19 34’’ دستاویزی تحقیق‘‘ (مقالہ) از سید جمیل احمد رضوی بحوالہ ’’ اردو میں تحقیق‘‘ (جلد اول) 35’’ اردو زبان کا ایک قدیمی کتبہ‘‘ از مولوی عبدالحق رسالہ سہ ماہی ’’ اردو‘‘ اپریل 1938ء ص281 36’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ لاہور جلد1:15شمارہ مسلسل 224ص50 37’’ اردو میں اصول تحقیق‘‘ (جلد اول) مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطان بخش اسلام آبادہ مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص11 38’’ تحقیق کا طریقہ کار‘‘ از ڈاکٹر ش اختر’’ اردو میں اصول تحقیق‘‘ (جلد اول) مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص210 39’’ تحقیق کا طریقہ کار‘‘ از ڈاکٹر ش اختر بحوالہ ’’ تحقیق و اصول تحقیق‘‘ (جلد اول) مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش اسلام آباد مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص218 40’’ تعلیمی تحقیق اور اس کے مبادی و اصول‘‘ از ڈاکٹر احسان اللہ خاں لاہور بک ٹریڈرز 1978ء ص92 41تحقیق کا طریقہ کار از ڈاکٹر ش اختر بحوالہ اردو میں تحقیق کے اصول(جلد اول) مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش اسلام آبادہ مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص232 42’’ مقدمات عبدالحق‘‘ (جلد دوم) مرتبہ مرزا محمد بیگ، حیدر آباد (دکن) مکتبہ ابراہیمیہ 1931ء ص209 43’’ اردو میں اصول تحقیق‘‘ (جلد اول) مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش اسلام آباد مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص76 44’’ تحقیق اور اصول تحقیق‘‘ (جلد اول) مرتبہ ایم سلطانہ بخش اسلام آباد مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص15 45’’ لغت نظامی‘‘ تالیف ڈاکٹر ناظر حسین زیدی، ڈاکٹر عبید اللہ خان لاہور گلوب پبلشرز 1985ء ص730 46’’ فیروز اللغات‘‘ لاہور فیروز سنز 1978ء ص615 47’’ دی سٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری‘‘ (طبع چہارم) از ڈاکٹر عبدالحق، کراچی انجمن ترقی اردو 1985ء ص1208 48’’ تحقیق و تصحیح میں متن کے مسائل’’ از ڈاکٹر نذیر احمد ’’ نقوش‘‘ لاہور مارچ1963ء ‘‘ ص321‘‘ 49’’ متنی تنقید‘‘ از ڈاکٹر خلیق انجم دہلی، الجمعیۃ پریس1967ء ص23 50’’ ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ ‘‘ از رشید حسن خاں لاہور الفیص1989ء ص91 51’’ میزان‘‘ از فیض احمد فیض لاہور، ناشرین 1962ء ص46 52’’ پاکستانی قومیت کی تشکیل نو‘‘ از ڈاکٹر وحید قریشی لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز 1984ء ص115 53’’ ادبی تحقیق‘‘ مسائل و تجزیہ ’’ از رشید حسن خان لاہور الفیصل 1989ء ص78‘‘ 54’’ لغت نظامی‘‘ تالیف ڈاکٹر ناظر حسین زیدی، ڈاکٹر عبید اللہ خاں لاہور، گلوب پبلشرز 1985ء 55’’ ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ‘‘ از رشید حسن خاں لاہور الفیصل 1989ء ص88 56’’ تحقیق و تدوین چند اصولی مباحث‘‘ مقالہ از روبینہ ترین مطبوعہ ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی 57’’ حسرت موہانی‘‘ مرتبہ سید معراج نیر(تقریط پروفیسر مرزا ریاض) لاہور، مکتبہ میری لائبریری 1973ء ص: گردپوش 58’’ اردو میں اصول تحقیق (جلد دوم) مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش اسلام آباد مقتدرہ قومی زبان‘‘ 59’’ تحقیق و تنقید‘‘ از فرمان فتح پوری کراچی ماڈرن پبلشرز 1963ء ص7 60ایضاً 61’’ ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ‘‘ از رشید حسن خاں لاہور، الفیصل 1989ء ص109 ٭٭٭٭٭٭٭ چوتھا باب بیسویں صدی کے اوائل تک اردو میں تحقیق کی روایت اردو میں تحقیق کی روایت بہت پرانی نہیں۔ ہمیں اس کے بہت دھندلے نقوش تذکروں کی شکل میں ملتے ہیں مغلیہ عہد میں شعر و شاعری کا عام چرچا تھا، اور سخن فہمی، علمیت اور شرافت کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ بڑھ سج دھج سے بزم سخن سجائی جاتی اور بہت ہی ناز نخروں سے شعرا اس میں شرکت کرتے تھے۔ اس کا منطقی نتیجہ تھا کہ صاحب ذوق افراد اپنے ہم عصر شعرا کے اشعار نہ صرف حفظ کر لیتے تھے بلکہ قلم بند کر کے اپنی بیاضوں میں محفوظ بھی کر لیتے تھے یوں بیاض نویسی کی داغ بیل پڑی۔ ابتدا میں بیاضوں میں صرف شعراء کے اشعار جمع کئے جاتے تھے، پھر مختصر احوال، ان کے اساتذہ کے نام اور تخلص بھی لکھے جانے لگے اس طرح: ’’ تذکرہ بیاض سے آگے بڑھ کر نیم تاریخی، نیم تنقیدی اور نیم سوانحی فضا میں داخل ہو گیا۔‘‘ مغلیہ عہد میں ہندوستان میں فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا، اور علمی و ادبی تحریروں کے لیے بھی فارسی کا استعمال باعث فخر تھا۔ چنانچہ ابتدائی بیاطیس میں فارسی میں لکھی گئی یہاں تک کہ اردو شعراء کے تذکروں کا متن بھی فارسی میں دیا جاتا تھا۔ اردو کے ابتدائی دستیاب تذکروں میں گردیزی کا ’’ تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ قائم کا ’’ مخزن نکات‘‘ اور میر کا’’ نکات الشعرائ‘‘ قابل ذکر ہیں متذکرہ تینوں تذکرے ایک ہی نصف صدی (1165ھ تا 1208ھ) سے تعلق رکھتے ہیں لیکن میر کے تذکرے ’’ نکات الشعرائ‘‘ کو تقدیم کے اعتبار سے دلیت حاصل ہے۔ یہ تذکرہ 1165ھ میں تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ فنی اعتبار سے یہ بات جداگانہ ہے کہ ان میں سے بعض تذکرے حروف تہجی کے اعتبار سے لکھے گئے اور بعض میں شعراء کے طبقات بنائے گئے، لیکن ان میں یہ بات مشترک ہے کہ ذاتی پسند اور نا پسند، ماخذ اور شہادتوں کا فقدان، اور متن میں تشنگی کا عنصر چھایا ہوا ہے۔ بقول مالک رام: ’’ ہمارے تذکرہ نگار حالات جمع کرنے اور ان میں رطب دیا بس الگ الگ کرنے میں بڑے سہل انگار واقع ہوئے تھے۔ گویا ان کا مقصد سوانح سے زیادہ اچھے شاعروں کی بیاض مرتب کرنا رہا ہو۔ آسانی سے جتنے حالات مل گئے انہوں نے قلم بند کر دئیے اور اس بات کی کوشش نہیں کی کہ دوسروں سے پوچھ گچھ کر کے اس میں اضافہ بھی کیا جائے یا جو کچھ ان کے پاس ہے، اس کی درست اور نا درستی پر تنقیدی نظر ڈالی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تذکروں میں متضاد بیان بھی ملتے ہیں۔‘‘ ابتدائی تذکروں کی ایک بڑی خامی یہ بھی رہی ہے کہ ہمیں شاعروں کے اشعار یا کچھ نہ کچھ حالات تو مل جاتے ہیں لیکن نثاروں کا ذکر میسر نہیں آتا۔ سولھویں صدی تاریخ عالم کی انقلاب آفرین صدی تھی۔ اس صدی میں یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ بھاپ کی دریافت اور مشینوں کی ایجاد نے پرانے نظام معیشت، طرز سیاست اور طریقہ تجارت کے بخشے ادھیڑ دئیے اور علوم و فنون کے قدیم طلسم کی شعبدہ بازیاں پاش پاش ہو گئیں۔ مغربی سامراج کو اپنے صنعتی معاشرے کی ضروریات کا پیٹ بھرنے کیلیے نو آبادی نظام کی بنیاد رکھنی پڑی۔ کولمبس اور واسکوڈی گاما نے نئی منڈیوں کی تلاش کی خاطر ہیبت ناک سمندروں کے دل چیر کے رکھ دئیے۔ اس عہد کا خود کفیل ہندوستان سامراجی طاقتوں کے لیے سونے کی چڑیا تھا، سو اسے اسیر کرنے کے تگ و دو شروع ہو گئی، ہندوستان کی نئی آبی راہوں کی تلاش میں کولمبس1498ء میں نئی دنیا میں جا نکلا اور واسکوڈی گاما بحر اوقیانوس اور بحر ہند کو عبور کرتا ہوا کالی کٹ کے ساحل پر پہنچ کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ تجارتی مقاصد کے حصول کے رد عمل میں یہ صدی خود یورپ کے لیے بھی احیائے علوم اور نشاۃ ثانیہ کا سبب بنی دخانی جہازوں کی رہنمائی کے لیے فلکیاتی تجربات نئے سطور پر کئے گئے پرنی کس نے ’’ اجرام فلکی کی حرکت و گردش‘‘ کے عنوان سے اپنی نو دریافت معلومات کے ذریعے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچا دی کہ کائنات کا مرکز زمین کے بجائے سورج ہے، اور زمین اپنے محور کی گردش چوبیس گھنٹے میں پوری کرتی ہے۔ پرنس کس کے اس جدید نظریہ نے علم اور اعتقاد کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ گلیلیو نے ’’ مساوات وقت‘‘ کا نظریہ پیش کیا، جس کی پاداش میں اسے 1616ء میں کلیسا کی مذہبی عدالت کے رو برو جانا پڑا۔ بیرومیٹر اور تھرما میٹر اس صدی میں ایجاد ہوا۔ رابرٹ بوائل نے ’’ گیس کے دباؤ کا قانون‘‘ معلوم کیا نیوٹن نے ’’ کشش ثقل‘‘ دریافت کی۔ معاشیات اور سیاسیات میں بھی نت نئے نظرئیے سامنے آئے معیشت میں’’ مرکٹائل طریقہ کار‘‘ اور سیاست میں جان لاک کا نظریہ ’’ معاہدہ عمرانی ‘‘ پیش کئے گئے اور یہ دونوں نظرئیے ہی نو آبادی نظام کی اساس ثابت ہوئے۔ چھاپے خانے کی صنعت نے علم کے افق میں وسعت پیدا کی اور علم و اعتقاد کی دنیا کو زیرو زبر کرنا شروع کیا بقول سید سبط حسن: ’’ ادھر یورپ میں صنعتی، سماجی اور ذہنی انقلاب کے باعث زندگی کا پرانا نظام بدل رہا تھا اور انسان اپنے لیے ایک نیا ماحول، نئی دنیا تخلیق کر رہا تھا، لیکن ادھر ہمارے ملک کے فرماں روا اور امرائے سلطنت ان تغیرات سے بے خبر عالی شان عمارتیں بنوانے، رقص و سرود اور موسیقی کی محفلیں سجانے، شعر و سخن کی مجلسیں آراستہ کرنے، زرق برق لباس پہننے اور عمدہ عمدہ کھانے پکوانے میں مصروف رہتے تھے مغربی دریافتوں اور ایجادوں سے بہرہ اندوز ہونے کے اگر مواقع بھی ملتے تھے، تو بھی ان سے فائدہ نہ اٹھاتے تھے۔‘‘ ہندوستان کی علمی دل چسپیاں داستان پارینہ بن گئی تھیں اور اس عہد میں صرف غالب کی دور رس نگاہی تھی جو عصری تقاضوں کو پرکھ رہی تھی یہی وجہ ہے کہ جب سرسید احمد خان نے مرزا ابو الفضل کی ’’ آئین اکبری‘‘ کی تصحیح کی اور غالب سے اس پر تقریظ لکھنے کی فرمائش کی تو انہوں نے ایک منظوم تقریظ تحریر کی جس میں مغربی تہذیب و تمدن کے ثمرات کی دل کھول کر تعریف کی اور بر خلاف اس کے ’’ آئین اکبری‘‘ میں درج شدہ آئین کو ہیچ قرار دیا اس سلسلے میں مولانا الطاف حسین حالی تحریر کرتے ہیں: ’’ آئین اکبری کی تصحیح کو انہوں نے ایک فضول کام سمجھا گو ان کی رائے غلط تھی یا صحیح مگر جو کچھ ’’ آئین اکبری‘‘ اور تصحیح کی نسبت ان کا خیال تھا اس کو تقریظ میں ظاہر کئے بغیر نہیں رہے۔۔۔ چونکہ اس تقریظ میں آئین اکبری کی تنقیص کی گئی تھی اور سر سید نے جو ایک مفید کام کیا تھا اس کی کچھ داد نہیں دی گئی تھی بلکہ اس کو غیر مفید ظاہر کیا گیا تھا اس لیے انہوں نے آئین اکبری کے آخر میں مرزا کی تقریظ کو نہیں چھپوایا۔‘‘ یہ تقریظ ’’ کلیات غالب‘‘ میں ملتی ہے اس میں مغربی ایجادات کی برکتوں کو بہت سراہا گیا ہے ڈاکٹر یوسف حسین خان نے غالب کی اس تقریظ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ غالب کے نزدیک ماضی پرستی زندگی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔۔۔۔۔۔ جدید آئین میں عقل اور انصاف کو ایسا شیر و شکر کیا گیا ہے کہ اس کی مثال قدیم تاریخ میں نہیں ملتی۔۔۔۔ کشتی، ہوا اور موج سے بے نیاز ہو کر سمندر میں ہزاروں میل طے کرتی ہے۔ بغیر مضراب کے ساز سے نغمے برآمد ہوتے ہیں تار برقی میں انسانی آواز فضا میں تیرتی پھرتی ہے۔‘‘ سوسائٹی آف ایڈونچرس (Society of Adventures) کو ایسٹ انڈیا کمپنی میں تبدیل کر دیا آہستہ آہستہ یہ کمپنی ہندوستان میں مغربی طاقتوں کی دیگر تجارتی کمپنیوں پر غالب آ گئی اور اسے 31دسمبر1600ء میں ملکہ الزبتھ اول نے شاہی حکم نامے کے تحت قانونی تحفظ فراہم کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس عمل دخل سے یورپ کی دیگر تجارتی کمپنیوں سے اس کی تجارتی رقابتیں عروج پر پہنچ گئیں یہاں تک کہ ’’ امبونیا‘‘ میں ڈچوں نے انگریزی تاجروں کا قتل عام شروع کر دیا لیکن حالات کا پانسہ اور تاریخ کا دھارا انگریزوں کے حق میں پلٹ چکا تھا۔ ادھر ہندوستان کے حکمران باہمی جنگ اقتدار کا شکار ہو کر کمزور تر ہو گئے 1761ء میں پانی پت کی تیسری لڑائی نے مغلوں کے اقتدار کی شمع کو عملی طور سے گل کر دیااور وہ صرف علامتی حکمران ہی رہ گئے۔ انگریز1761ء میں شاہ عالم سے 26لاکھ روپیہ سالانہ کے عوض بنگال، اڑیسہ اور بہار کے بلا شرکت غیرے مالک بن گئے اور انہیں معاہدے کے تحت متذکرہ علاقوں کا مالیہ وصول کرنے کا اختیار مل گیا۔ اس طرح ہندوستان میں انگریز حکمرانی کی خشت اول رکھی گئی اور اب: ’’ کمپنی کی طاقت سیاسی طاقت کے طور پر ابھرنے سے تجارتی اغراض پر ملک گیری کی خواہشات چھا گئیں۔‘‘ دوسری جانب یورپی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ عیسائی مشنریوں کے لیے بھی یہ سر زمین باعث کشش ہوئی۔ یورپ سے پادریوں کے غول کے غول ہندوستان وارد ہوئے۔ ان کا مقصد برصغیر کے لوگوں، بالخصوص ہندوؤں کو بپتسمہ دے کر مشرف بہ عیسائیت کرنا تھا۔ گارسان نے اپنے 4دسمبر1865ء کے خطبے میں مسیحی مبلغین کی سرگرمیوں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے: ’’ مسیحی مبلغین اپنا جوش ظاہر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں دیتے، چنانچہ میلوں کے موقع پر جو مذہبی اور تجارتی دونوں اہمیت رکھتے ہیں وہ اپنے خیمے لگاتے ہیں، تقریریں اور وعظ کرتے اور رسالے تقسیم کرتے ہیں۔‘‘ کمپنی کو اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرنے اور عیسائی مبلغین کو ہندوستان کے عوام الناس تک پہنچنے کے لیے مقامی زبانوں سے آگاہی مصلحت کوشی بھی تھی اور عوامی تقاضا بھی۔ 22دسمبر1677ء کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے مراسلے کے ذریعے کمپنی کے ملازمین ک ومقامی بولیاں سیکھنے کی ہدایت کی اور بطور انعام 10پونڈ سے 20پونڈ تک رقم کا لالچ بھی دیا لیکن اس طریقہ کار کا نقص یہ تھا کہ یکساں معیار کی تدریس ممکن نہ تھی لیکن ایک صدی تک انہیں یہی طریقہ کار جاری رکھنا پڑا یہاں تک کہ جب لارڈ ولزلی ہندوستان وارد ہوئے تو انہوں نے کمپنی کے سامنے نو وارد انگریزوں کی تربیت اور مقامی زبانوں کی تدریس کے لئے ایک درس گاہ کے قیام کا منصوبہ پیش کیا لارڈ ولزلی کے پیش نظر اس کالج کے وسیع تر مقاصد تھے، لیکن: ’’ کمپنی نے یہ تجویز اس شکل میں منظور نہیں کی جو لارڈ ولزلی کے پیش نظر تھی البتہ ارباب کمپنی نے ایک ایسا کالج قائم کرنے کی اجازت دے دی، جس میں ملکی زبانوں کی تعلیم دی جائے۔‘‘ گورنر جنرل کی کونسل نے اس کالج کے قیام اور قواعد و ضوابط کی منظوری 10جولائی 1880ء کو دے دی تھی، لیکن لارڈ ولزلی نے اس مسودہ پر 4مئی 1880کی تبدیلی کی کیوں کہ 4مئی سقوط میسور کی تاریخ تھی جو انگریزوں کے لئے تاریخی دن تھا بقول ڈاکٹر انور سدید: ’’ ولزلی نے فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ساتھ ہی ایک سیاسی واقعہ کو وابستہ کر دیا اور اس غیر دیانت دارانہ مقصد کے حصول کے لیے متذکرہ دستاویز پر سابقہ تاریخ ثبت کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔‘‘ فورٹ ولیم کالج کے قائم ہوتے ہی تصنیفات و تالیفات کے ڈھیر لگنے لگے۔ 80کے قریب دیسی منشی بھی ملازم رکھے گئے اور مطبوعات کی اشاعت کے لئے 1802ء میں فورٹ ولیم کالج کے ’’ ہندوستانی پرنٹنگ پریس‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ دیگر دیسی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان پر بھی توجہ دی گئی۔ اس کالج کے ہندوستانی شعبے کے سربراہ جان گل کرسٹ اور دیگر مستشرقین نے ہندوستانی زبان و ادب میں دلچسپی لینی شروع کی رالف رسل مستشرقین کی مقامی زبانوں پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ اردو زبان میں برطانوی دلچسپی کا آغاز اٹھارویں صدی کے اواخر میں ہوا۔ اس کی دو مختلف نوعیتیں تھیں۔ ایک شعوری اور دوسری غیر شعوری‘‘ رالف رسل نے غیر شعوری دل چسپی کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے اس بیان کو اس طرح آگے بڑھایا ہے: ’’ اردو زبان و ادب میں دلچسپی کی دوسری قسم برطانوی سامراج کی ضروریات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔۔۔۔۔ اس دل چسپی کے پیس نظر نو وارد قوم کے بعض افراد نے سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر ایسے اقدام کر لئے جن سے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ جان گل کرسٹ اور ان کے ساتھیوں نے حاکم و محکوم اقوام کے درمیان سیاسی سطح پر رابطہ قائم کرنے کے لیے اردو کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی تاکہ حکمران جماعت کے افراد برصغیر کی مقبول عام زبان میں شد بد پیدا کر کے ملکی معاملات بخوبی انجام دے سکیں۔‘‘ برصغیر میں غیر ملکیوں کا ایک دوسرا طبقہ عیسائی پادریوں کا تھا، جو ہندوستانیوں کو مسیحیت کی پر اسرار کشتی میں سوار کر کے نجات کے ساحل پر اتارنا چاہتا تھا۔ انگریز حکمرانوں سے زیادہ ان کی مقامی بولیوں میں دل چسپی فطری عمل تھا۔ اس طرح مغرب سے آئے ہوئے دونوں طبقات نے دوسری مقامی بولیوں کیس اتھ اردو میں دلچسپی لینی شروع کی زبانیں سیکھی گئیں ذخیرہ الفاظ کو محفوظ کرنے کے لیے لغت نویسی کا آغاز ہوا۔ گرائمریں مرتب ہوئیں لسانی روابط پر زور دیا گیا۔ اردو کے آغاز و ارتقائے الفاظ اور ان کے لسانی روابط پر تحقیق ہوئی۔ ’’ سب سے پہلے علمائے دینیات نے یورپ میں مشرقی سامی زبانوں پر تحقیق کی طرف توجہ کی ان کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح بائبل (توریت مقدس12) کے خاص خاص محاوروں اور ان رسوم و روایات کو سمجھنے کی کلید کا پتہ لگایا جائے جن کی نسبت اس میں ذکر ملتا ہے چونکہ وہ رسوم یورپ کے رواجوں سے بالکل مختلف ہیں، اس لیے سامی زبانوں کا کھوج لگایا گیا تاکہ ان کی مدد سے انہیں سمجھا جا سکے، بہ نسبت کیتھولکوں کے پروٹسٹنٹوں نے مشرقی زبانوں کی تحقیق میں زیادہ کام کیا، اس لیے کہ ان کے عقائد تمام تر بائبل پر مبنی ہیں۔‘‘ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اردو کا ابتدائی تحقیقی سرمایہ اور لغت اور قواعد نویسی کا آغاز ان غیر ملکیوں کے ہاتھوں ہوا جو سات سمندر پار سے آئے تھے سب سے پہلے مسٹر کروچ (quartch) نے 1630ء کی تالیف شدہ ایک ہندوستانی لغت کا سراغ لگایا۔ ’’ یہ فارسی ہندوستانی، انگریزی پرتگالی الفاظ کی لغت ہے جو غالباً سورت کے انگریزی کارخانے کے لیے مرتب کی گئی تھی فارسی الفاظ، اصل رسم الخط اور رومن حروف میں ہیں اور ہندوستانی الفاظ، رومن اور گجراتی رسم الخط میں ہیں۔‘‘ 1704ء میں راھب فرانس تیورونی،1715ء میں جان جیشوا1772ء میں جان فرگوسن 1790ء میں ڈاکٹر گلکرسٹ،1817ء میں جان شیکسپرڈ بلو فلیس اور اسی قبیل کے دوسرے پردیسیوں کی لغت کو سید وقار عظیم نے اردو میں ’’ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب‘‘ قرار دیا ہے، جو مغربی لغت نویسی کے اصولوں کے مطابق مرتب کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا کا کھوج لگانے اور لغت نویسی کو مشغلہ بنانے میں مستشرقین کا اہم کردار ہے لیکن اس میدان میں دیسی لوگ بھی پیچھے نہ رہے۔ انشا اللہ خان نے 1222ھ میں ’’ دریائے لطافت‘‘ مرتب کی، ملا عبدالواسع ہانسوی نے ’’ غرائب اللغات‘‘ تالیف کی مولوی عبدالحق کا کہنا ہے: ’’ ابتدائی لغت نویسوں میں سراج الدین علی خاں آرزو کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے معنی کے ساتھ اکثر الفاظ کی تحقیق بھی کی ہے اور جگہ جگہ فارسی اور ہندی کے اشتراک و توافق کی طرف بھی اشارہ کیا ہے غالباً یہ پہلے شخص ہیں جن کی نظر اس ’’ لسانی نکتہ‘‘ کی طرف گئی ہے۔‘‘ مولوی بلگرامی، میر اوسط علی رشک لکھنوی، مولوی امام بخش صہبائی اور منشی چرنجی لال نے بھی اس میدان میں اپنے جوہر دکھائے ہیں، لیکن اس محنت اور کاوس کے باوجود دیسی اور پردیسی محققین کی اردو زبان میں تحقیق کا محور الفاظ کے کھوج، لسانی روابط اور زبان کی اصل او ارتقا سے آگے نہ بڑھ سکا اس لیے ہم ان کی ان جاں فشانیوں کو اس معنی میں تحقیق کا درجہ نہیں دے سکتے جو تحقیق کے مقاصد ہیں۔ اردو میں تحقیق کا جدید رحجان اردو ادب میں جدید تحقیقی رحجان کے حامل اور بانی سر سید احمد خاں تھے جو تحقیقی مزاج، تخلیقی ذہن، منطقی و استدلالی فکر لے کر آئے تھے سر سید احمد خان 1817ء میں پیدا ہوئے اور 1898ء میں ان کا انتقال ہوا سید طفیل احمد منگلوری لکھتے ہیں: ’’ سرسید احمد خاں مرحوم نے مسلمانوں کے شاہی دربار کا آخری ٹمٹماتا ہوا چراغ دیکھا تھا پھر ایک عہدہ دار ہونے کی حیثیت سے آپ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا نیا دور دیکھا‘‘ اس طرح عصری اعتبار سے سرسید کا عہد برصغیر کا سب سے نازک دور ہے یہی وہ زمانہ ہے جب یورپ کی طاقتوں اور سائنسی ایجادات کی یلغار نے ہندوستان کو گھیر رکھا تھا۔ برصغیر میں نو آبادیاتی نظام کے قائم ہوتے، اور کمپنی کی حکومت بنتے ہی مغرب کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور سائنسی انکشافات اور تہذیبی اثرات بڑی تیزی سے پھیلنا شروع ہوئے۔ برصغیر کے لوگوں کا ایک بڑا، بالخصوص مسلمان طبقہ جو عرصے سے برصغیر میں حکمران ہونے کا شرف رکھتا تھا اور جسے اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی اقدار کی برتری کا احساس تھا، مغرب کی تہذیب کی یلغار کا اثر قبول کرنے اور اس نئے ذہنی انقلاب سے متاثر ہونے کو تیار نہ تھا لیکن نوجوانوں کا ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو متذبذب ہو کر مایوسی اور احساس کمتری کا شکار ہو گیا تھا بقول شیخ محمد اسمعیل: ’’ اس عہد میں سرسید کی عظیم شخصیت نے ایک مضمحل اور مایوس قوم کو جس طرح سہارا دیا اور اسے اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا وہ انیسویں صدی کے تاریخی تناظر میں کسی اعجاز سے کم نہیں۔‘‘ سرسید احمد پہلے طبقے کی طرح مغربی تہذیبی اثرات کو شجر سمجھنے پر اعتقاد نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی کورا نہ تقلید پر ان کا ایمان تھا، وہ غیر متعصبانہ انداز، تجزیاتی طریقہ کار اور اجتہاد سے مسائل کے حل کے متلاشی تھے۔ سرسید کی عقل پرستی کا یہ اصول، انہیں تحقیق کے قریب لے گیا، اور جب انہوں نے قلم کا جہاد شروع کیا تو وہ جہاں اردو کے ایک صاحب طرز ادیب بنے وہاں وہ اردو میں تحقیق کے مجتہد بھی ٹھہرے۔ سرسید احمد خاں کی ابھی مسیں بھی نہ بھیگی تھیں کہ انہوں نے قلم سنبھالا اور صرف سترہ برس کی عمر میں اپنی بھائی سید محمد کے پرچے میں نہ صرف مضامین لکھنے شروع کئے بلکہ ادارتی شعبہ بھی سنبھالا، مذہب، تمدن، معاشرت، ادب، سیاست، غرض کوئی بھی ایسا شعبہ نہ چھوڑا جس میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔ ان کی باقاعدہ تصانیف کی تعداد اٹھائیس کے قریب ہے اور مضامین کا تو شمار ہی نہیں انگلستان سے واپسی پر تو احساس ہوتا ہے جیسے آتش فشاں کا دھانہ پھاڑ کر لاوا ابل پڑا ہو ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور ’’ رائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ کی فائلیں کی فائلیں ان کے مضامین سے بھری پڑی ہیں حضرت یوسف، قوم عاد اور قوم ثمود پر مضامین قرآنی اور تحقیقی کتابوں کے حوالوں سے پر ہیں اور دیگر تحقیقی مضامین میں شجروں، کتبوں، جغرافیہ، توریت، انجیل، کلام مجید، تواریخ، تفاسیر اور احادیث کے حوالوں سے اپنی باتیں ثابت کی ہیں۔ سرسید احمد خاں نے جدید تحقیقی اصولوں پر تعلیمی ومعاشرتی سروے رپورٹیں مرتب کر کے محمڈن ایجوکیشن کانگریس میں پیش کیں سرسید نے جو کچھ لکھا، وہ دلائل و براہین اور تحقیق سے لکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی ذات اور ان کے مذہبی اور فقہی خیالات تنقید کا ہدف بنے اور انہیں کافر، زندیق، ملحد، کرسٹان، نیچری اور مرتد تک کے فتوؤں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بے شمار ایسے اعتراضات کا شکار ہوئے لیکن ان کی تحریریں تحقیقی اعتبار سے بلند پایہ ہیں سید مرتضی حسن بلگرامی کا خیال ہے: ’’ سرسید وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فکر و ادب میں روایت و تقلید سے ہٹ کر آزادی رائے اور آزادی خیال کے انداز کی ابتدا کی اور ایک ایسے مدرسے (مکتبہ فکر) کی بنیاد رکھی جس کی اساس حقائق اجماع عقل اور مادے پر تھی۔‘‘ سرسید نے تاریخی، فلسفہ، منطق، تفسیر، علم الکلام، سیرت، سائنس، مذہب، جغرافیہ، سیاسیات، یہاں تک کہ طب و ہومیو پیتھی پر فارسی اور اردو میں تصانیف کے ڈھیر کے ڈھیر لگا دئیے تھے، لیکن ایسی کتابوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جو تحقیقی اصولوں پر مرتب کی گئی ہیں۔ سرسید احمد خاں کا تحقیقی سفر 1846ء سے شروع ہوتا ہے، جب وہ فتح پور سیکری سے تبدیل ہو کر دلی آئے اور دلی کی عمارتوں اور آثار قدیمہ پر تحقیق کا شوق ابھرا سرسید مولانا صہبائی کے ہمراہ اپنی چھٹیوں میں شہر کی عمارتوں اور آثار قدیمہ کی تحقیقات کے لیے شہر سے باہر نکل جاتے، عمارتوں اور کھنڈرات کے کتبے پڑھتے، شہادتیں جمع کرتے، چربے اتارتے، اس طرح انہوں نے تقریباً سو سوا سو عمارتوں کا تحقیقی مواد جمع کر لیا بعض دفعہ انہوں نے چھینکوں پر لٹک کر کام کیا مولانا حالی لکھتے ہیں: ’’ ان (کتبات) کو پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذ سے بندھوا لیا جاتا تھا اور خود اوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر چربہ اتارتے تھے۔۔۔۔۔ جس وقت چھینکے میں بیٹھتے تھے تو مولانا صہبائی فرط محبت سے بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا۔‘‘ ’’ آثار الصنادید‘‘ کا پہلا ایڈیشن1847ء میں شائع ہوا اور1854ء میں اس پر نظر ثانی کی پہلے ایڈیشن میں سر سید کا قلم ایک مصنف کا قلم ہے، جس میں صرف روایات اور داستان گوئی کا انداز ہے اور ماخذ کے حوالوں استدلال و تحقیق کی خامی پائی جاتی ہے۔ بقول محمود الٰہی: ’’ سرسید نے اس تصنیف کے پیچھے کتنے ہفت خواں طے کئے ہوں گے اور کتنا خون جگر صرف کیا ہو گا، مگر حق بات تو یہ ہے کہ وہ تحقیق جدید کے مبادیات تک نہ پہنچ سکے۔ اس میں نہ تو روایت کو درایت کی کسوٹی پر پرکھنے کا رحجان ملتا ہے اور نہ استدلالی طریقہ کار اپنانے کا میلان پایا جاتا ہے۔‘‘ لیکن 1854ء میں جب سرسید نے اس پر نظر ثانی کر کے شائع کرنے کا ارادہ کیا تو ان کے مزاج میں مغربی تحقیقی اصول رچ بس چکے تھے۔ چنانچہ نقش ثانی، نقش اول کے مقابلے میں جدید تحقیقی رحجان لئے ہوئے ہے اور نہ صرف اسلوب بیان کے لحاظ سے یہ ایڈیشن پہلے سے مختلف ہے، بلکہ اس میں ذیلی حواشی میں ماخذ اور حوالے بھی دئیے گئے ہیں اس طرح دوسرا ایڈیشن ایک تحقیقی تصنیف کا درجہ رکھتا ہے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ حیرت ہے، ایسے زمانے میں اور ایسی صحبتوں میں جب کہ ہمارے ادب کا رنگ کچھ اور ہی تھا اور شعر و سخن اور مذہبی تعلیم کے سوا دوسری جانب مطلق توجہ نہ تھی، اس قسم کی تحقیق کا خیال کیسے پیدا ہوا۔ اس کتاب کی تالیف میں جو محنت و مشقت انہوں نے اٹھائی، وہ بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے۔‘‘ ’’ آثار الصنادید‘‘ سے فارغ ہو کر سرسید ’’ آئین اکبری‘‘ کی ترتیب پر کمر بستہ ہو گئے اور سر سید نے اسے جدید تحقیقی اصولوں پر مرتب کیا کسی پرانی کتاب کو مختلف قدیم نسخوں کی مدد سے مقابلے اور تصحیح اور حواشی و مقدمے کے ساتھ مرتب کرنے کی، ہندوستان کی ادبی تحقیقی تاریخ میں یہ پہلی کوشش ہے۔ ’’ آئین اکبری‘‘ کے بہت سے قلمی نسخے دستیاب تھے، لیکن ان میں سے اکثر مسخ صورت میں ملتے تھے سرسید احمد خاں نے تمام دستیاب نسخوں کا موازنہ کیا، پھر جدید تحقیقی اصولوں پر اسے مرتب کیا۔ مختلف نسخوں کے اختلافات دور کئے۔ مصلحات و ثقیل الفاظ کی تشریح کی اصل متن میں جو جگہیں خالی تھیں ان کو دوسرے نسخوں کی مدد سے پر کیا، مفید حواشی قلم بند کئے دلی کے مشہور نقاشوں سے کئی سو سکوں کی تصاویر بنوا کر شامل کیں 1372ء میں پہلی اور تیسری جلد شائع ہوئی لیکن دوسری جلد کے تمام فرمے اور مسودے معہ مقدمہ 1857ء کی جنگ آزادی کے ہنگاموں میں تلف ہو گئے اس طرح ’’ آئین اکبری‘‘ مکمل صورت میں سامنے نہیں آئی پھر بھی: ’’ سرسید کا یہ کام بھی حیرت انگیز ہے جدید تحقیق و ترتیب سے اس وقت ہمارے ہاں کوئی آشنا نہ تھا اور نہ اس قسم کے کاموں کا کسی کو شوق تھا اور نہ کوئی قدر تھی تاہم ژرف نگاہی، محنت و مشقت اور تحقیق و تلاش سے اس کام کو انجام دیا، آج کل بڑے سے بڑا محقق بھی اس سے زیادہ نہیں کر سکتا‘‘ آئین اکبری کی تصحیح نے سرسید احمد خاں کو مغربی طرز کی تحقیق کا چسکا ڈال دیا تھا اور اس کے بعد ان کی جتنی بھی تحقیقی کاوشیں ہیں، ان میں وہ مغربی محقق کے انداز سے سامنے آتے ہیں۔ آئین اکبری کے بعد تاریخ فیروز شاھی(ضیا الدین برنی) کی ترتیب بھی ان ہی اصولوں پر کی گئی اور اسے چار مختلف نسخوں جس میں ایک ان کا ذاتی، دوسرا کتب خانہ شاہ دھلی کا، تیسرا سرہندی ایسٹ کا نسخہ اور چوتھا ایڈورڈ ٹامس کے نسخے کی مدد سے مرتب کیا۔ تصحیح توزک جہانگیری میں بھی سرسید نے یہی طریق کار اپنایا ہے۔ ’’ آثار الضادید‘‘ اور ’’ آئین اکبری‘‘ میں سرسید کا ادبی اور تحقیقی مزاج ابھرا تھا لیکن 1857ء کے پر آشوب ہنگاموں نے سرسید کا رخ موڑ دیا اور اب ان کا رحجان سیاست اور مذہب کے موضوعات کی جانب ہو گیا لیکن اس میں بھی انہوں نے تحقیق کا دامن نہ چھوڑا: ’’ سرسید نے غدر کی ہنگاموں کو ایک محقق کی نگاہ اور ایک مصنف کے دل و جگر کے ساتھ جھیلا ایک محقق سے جس حقیقت پسندی کی توقع کی جاتی ہے، وہ سرسید کی ذات میں تھی اور ایک مصنف جس حق گوئی اور بے باکی کا حامل ہوتا ہے، اس کے سرسید علم بردار تھے۔ ‘‘ ابھی غدر کی آگ پوری طرح ٹھنڈی بھی نہ ہونے پائی تھی کہ 1861ء میں یو پی کے لیفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور نے حضور کریم ؐ The life of Mohammed کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھ ماری جس نے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی، کیوں کہ اس کتاب میں حضور کریم ؐ کی ذات با برکات پر رکیک حملے کئے گئے تھے۔ اس کتاب سے سرسید احمد خان جیسی آزاد، مغرب پرست اور روشن خیال شخصیت بھی (جس کو اس کے اہل وطن کرسٹان اور ملحد کے خطاب سے یاد کرتے تھے) کرب میں مبتلا ہو گئی سرسید احمد پرولیم میور کی کتاب سے جو کیفیت گذری اس کا اندازہ ہم ان کے مکتوب بنام محسن الملک مولوی مہدی علی خاں محررہ 20اگست1869ء سے لگا سکتے ہیں، جس میں وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ ان دنوں میں ذرا قدرے دل کو شورش ہے ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرتؐ کے حال میں لکھی ہے اس کو دیکھ رہا ہوں اس نے دل کو جلا دیا، اور ان کی نا انصافیوں اور تعصب کو دیکھ کر دل کباب ہو گیا اور مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرتؐ پر جیسا کہ پہلے ارادہ تھا، کتاب لکھ دی جاوے اگر تمام روپیہ خرچ ہو جاوے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے قیامت میں تو یہ کہہ کر پکارا جاؤں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے داد محمد صلعم کے نام پر فقیر ہو کر مر گیا، حاضر کرو‘‘ ہندوستان میں بیٹھ کر تحقیقی مواد کی فراہمی سر سید کے لیے ایک مسئلہ تھی چنانچہ مواد کی فراہمی کے لیے انہوں نے 1869ء میں انگلستان کا سفر اختیار کیا اور وہیں رہ کر کتاب کا مواد جمع کیا حوالوں کے لیے فرانس، جرمنی اور مصر سے سیرت کی کتابیں منگوائی گئیں۔ اس تحقیقی کتاب کا خلاصہ 1870ء میں بارہ مقالات پر مشتمل شائع کرایا بعد ازاں1887ء میں یہ کتاب ’’ خطبات احمدیہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی سر سید احمد خاں نے یہ کتاب جدید تحقیق کے اصولوں پر مرتب کی ہے وہ خود اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں: ’’ مواعظ احمدیہ لکھنے میں شب و روز مصروف ہوں اس کے سوا اور کچھ خیال نہیں جانا، آنا، ملنا جلنا سب بند ہے آنحضرت ﷺ کے بارہ برس کی عمر تک کا حال لکھا ہے مگر ایسا جواب نہیں جیسا کہ ہمارے تمہارے ہاں کہ ملا مشرکین کو فی صفات النہوہ دیتے ہیں۔ نہایت محققانہ جواب ہے۔ یہ شرط ہے کہ کسی کے آگے ڈال دو، کیسا ہی بے دین کیوں نہ ہو، اگر وہ کہے کہ ہاں! نہایت سچ اور انصاف کا جواب ہے، تو میرا نام ورنہ میرا نام نہیں۔‘‘ سرسید احمد خاں کا عہد مناظرے کا عہد تھا اور طرز تحریر میں بھی مناظرے کا رنگ غالب تھا۔ لیکن اس کتاب میں مناظرے کے بجائے خالص علمی، ادبی و تحقیقی طریقہ کار اپنایا ہے اور ولیم میور کے اعتراضات کے جوابات تاریخی حوالوں اور تحقیقی ثبوت سے مہیا کئے ہیں۔ ولیم میور نے اپنے بیان میں جن کتابوں کے حوالے دئیے تھے سرسید احمد خاں نے ان کی صحت اور متن پر بحث کر کے ان کے غیر مصدقہ اور ضعیف ہونے کے ثبوت مہیا کئے ہیں۔ سرسید کی یہ تحقیقی کاوش جہاں تحقیقی روایت کو آگے بڑھانے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی وہاں اردو میں سیر کی کتب کا نقطہ آغاز بھی ہے۔ سرسید احمد خاں کا یہی تحقیقی طریقہ کار’’ تین الکلام‘‘ اور ’’ تفسیر القرآن‘‘ میں بھی جھلکتا ہے انہوں نے ان کتب میں بھی تقلید کے بجائے تحقیق، ماخذ کی چھان بین، صحت متن اور واقعات کی دریافت پر اپنے بیان کو استوار کیا ہے۔ تحقیقی روایت پر سرسید کا اثر سرسید احمد خاں کے تحقیق کارنامے ان کی ذاتی کاوشوں تک محدود نہ رہے، بلکہ اس کے اردو تحقیق پر دور رس نتائج نکلے اور انہوں نے جس تحقیقی روایت کا ڈول ڈالا، وہ بڑی تیزی سے پروان چڑھا اس طرحـ: ’’ سرسید نے اردو ادب کو جو نیا ذہن، بنیادی حقائق، آزادی فکر اور سوچنے سمجھنے کا سائنسی نقطہ نظر عطا کیا اس سے ان کے ’’ مکتب فکر‘‘ کے دوسرے اشخاص نے تقلیدی کم اور تحقیقی زیادہ بننے کی کوشش کی روایات اور قدیم اسالیب سے ہٹ کر اپنے لیے نئی راہیں پیدا کیں اور اس طرح تقلیدی کے بجائے تحقیقی اور غیر کلاسیکی کی بجائے کلاسیکی ادب کے زیادہ قریب ہو گئے۔‘‘ سرسید احمد خاں کے طرز استدلال اور طریقہ تحقیق کا جن لوگوں نے اثر قبول کیا وہ حلقہ کافی وسیع ہے مولانا چراغ علی، مولانا ذکا اللہ، محسن الملک، مولانا حالی، مولانا شبلی نعمانی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ محسن الملک سید مہدی علی خاں محسن الملک نواب سید مہدی علی خاں سرسید احمد خاں کے مشن کے روح رواں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید کا ذکر اس وقت تک مکمل تصور نہیں کیا جاتا جب تک اس میں محسن الملک کا تذکرہ نہ آئے۔ محسن الملک نے ہر انداز سے سرسید کے مشن کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے رسالہ ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کو اپنی فکر سے مالا مال کیا۔ ایم اے او کالج علی گڑھ کی تاسیس میں سرسید کے بازو بنے اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے سرسید کی ہم نوائی کی۔ تحقیقی میدان میں بھی محسن الملک نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان کی تصانیف میں رسالہ میلاد شریف، آیات بینات، تقلید و عمل بالحدیث، مکاتبات الخلاف فی اصول التفسیر و علوم القرآن وغیرہ ہیں۔ لیکن ان کی شہرت’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کے قلمی معاون کی وجہ سے بہت زیادہ ہے مندرجہ بالا موضوعات بھی ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کی زینت بنے اس طرح محسن الملک ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کا لازمی جزو تھے۔ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کے اجراء ثانی کے وقت محسن الملک علالت کی وجہ سے قلمی معاونت نہ کر سکے تو یہ کمی بہت محسوس کی گئی اور ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کے گرتے ہوئے معیار پر تشویش کا اظہار کیا گیا بالاخر سرسید احمد خان نے تہذیب الاخلاق کے قارئین کو مژدہ سناتے ہوئے تحریر کیا: ’’ ہمارے بعض دوستوں نے ہم کو لکھا ہے کہ افسوس ہے کہ تہذیب الاخلاق کی نسبت لوگوں کی نا امیدی روز بروز زیادہ ہوتی جاتی ہے اور تہذیب الاخلاق کے مضامین عالی اور مفید اور پر جوش نہیں ہوتے۔ سچ پوچھئے تو ان میں کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔‘‘ نواب محسن الملک مہدی علی خاں خدا کے فضل سے اب اچھے ہو گئے ہیں اور ان کے لکھے ہوئے مضامین ان تمام نقصانوں کا جو تہذیب الاخلاق میں ہوں تلافی کریں گے۔ نواب محسن الملک کے ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کا دائرہ کافی وسیع تھا۔ ان میں علمی، فکری و مذہبی مضامین بھی تھے اور خالص ادبی بھی لیکن ان سب میں ندرت بیان کا عنصر غالب ہے۔ ’’ یہ مسلمہ امر ہے کہ رسالہ تہذیب الاخلاق کی شہرت و مقبولیت میں سرسید کے بعد سب سے زیادہ محسن الملک کا خلوص اور ان کی شیریں گفتاری کار فرما رہی۔ انہوں نے سرسید کے مشن کی ترویج میں دست رات بلکہ زبان فصیح کا پارٹ ادا کیا۔ اس کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سرسید کے وفادار ترین دوست تھے مگر اس کا اندازہ لگانا غلط ہو گا کہ وہ سر سید کے بالکل اندھے مقلد بھی تھے۔‘‘ محسن الملک مہدی علی خان نے سرسید کے بعض خیالات سے بھر پور تحقیقی اختلاف بھی کیا ہے۔ سرسید احمد خاں نے ایک کتابچہ ’’ طعام اہل کتاب‘‘ تحریر کیا جس میں انہوں نے اہل کتاب کے ساتھ طعام کے حق میں دلائل دئیے تھے۔ مولوی امداد علی نے اس کا جواب تحریر کیا، لیکن وہ بھی تحقیقی اعتبار سے سرسید پر تنقید نہ کر سکے۔ نواب محسن الملک نے ان دونوں مصنفین کی کتب پر ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں ایک مضمون قلم بند کیا اور محققانہ انداز سے ان لوگوں کی تاویلات اور حوالہ جات سے اختلاف کیا۔ یہی پہلو محسن الملک کو سرسید احمد خان کے دیگر رفقاء کار سے ممتاز کرت اہے کہ وہ سرسید کے قابل اعتبار بازو ہونے کے باوجود سرسید کے افکار کی کورانہ تقلید نہیں کرتے بلکہ وہ سرسید کے افکار پر بھی محققانہ نظر ڈالتے ہیں ان کی یہی بصیرت فکر اور تحقیق کا ملکہ انہیں منفرد بناتا ہے۔ نواب محسن الملک کے پیش نظر تحقیق کے باقاعدہ اصول و ضوابط تھے جن پر وہ خود بھی کار فرما رہے اور دوسروں کے لیے بھی معیار قائم کرتے تھے۔ وہ اپنا تحقیقی نظریہ اس طرح پیش کرتے ہیں: ’’ بغیر اپنی ذاتی تحقیقات اور جانچ کے جو کچھ ہم سمجھیں اور جو کچھ اعتقاد کریں، وہ صرف سنا ہوا ہو گا اور کبھی غلطی کے احتمال سے محفوظ نہ رہے گا اور اطمینان قلبی جس شے کا نام ہے وہ کبھی حاصل نہ ہو گی۔ ہماری مثال ٹھیک ٹھیک اس اندھے کی ہو گی جس کو کوئی ہاتھ پکڑے ہوئے لئے جاتا ہو۔ اگر قسمت سے راہ بتانے والا اچھا ہو گا تو خیریت گذری، ورنہ کس گڑھے غار میں گر کر مٹی خراب ہوئی۔‘‘ تحقیق کرنے والوں کو ہر چیز کی تحقیقات کے لئے ضروری ہے کہ جو کچھ لوگوں سے سنا ہو یا جو کچھ اس نے خود سمجھ رکھا ہو اس سے اول اپنے دل و دماغ کو خالی کر لے اور کسی حقیقت اور صحت پر پہلے سے یقین نہ کرے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو یا تو تحقیقات کرنے پر اس کی توجہ نہ ہو گی، اس لیے کہ وہ اپنے خیالات کو یقینی سمجھ کر اپنے آپ کو مستغنی سمجھے گا یا تو تحقیقات کرتے وقت اس کے توہمات اور خطرات ایسے ہوں گے کہ وہ اس تحقیق میں خلل ڈالیں گے۔ ایسی تحقیقات کرنے والے کو چاہیے کہ وہ ان سب باتوں کو جو لوگوں سے سنی ہوں یا جو کچھ اس کے دل پر گذری ہوں، پیش نظر رکھے اور بغیر پیدا کئے یقین سے کسی پر وہ ان کی تحقیق بذریعہ اس آلے اور ذریعے کے جو اس کے امتحان کے لیے ہو کرے تاکہ اس کو خود معلوم ہووے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ مولوی چراغ علی سرسید احمد خاں کی تحقیقی روایت کو جن لوگوں نے آگے بڑھایا، ان میں مولوی چراغ علی قابل ذکر ہیں۔ مولوی چراغ علی کسی مدرسے یا کالج میں تحصیل علم سے محروم رہے، لیکن ذاتی کاوشوں سے حصول علم کی پیاس سے تشنہ نہ رہے۔ ’’ ان کی عربی مکمل تھی، انگریزی، عبرانی اور کالدی زبانیں اچھی طرح جانتے تھے، اور گریک (Greek) اور لیٹن (Latin) بقدر ضرورت جانتے تھے۔‘‘ وہ سرسید احمد خاں کے رفقائے کار میں تھے جنہوں نے ایک جانب عیسائی مشنریوں اور مغربی مفکرین کے ان اعتراضات کے مدلل جواب تحریر کئے جو وہ اسلام اور حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیؐ پر عائد کرتے تھے اور دوسری جانب مسلمانوں کے مقلدانہ عقائد کو اپنا موضوع بنایا۔ اس طرح: ’’ مولوی چراغ علی کو سید صاحب سے جو اتفاق رائے تھا، وہ شاید کسی اور کو نہ تھا اور اس لحاظ سے اگر نیچری کے لفظ کا اطلاق سید صاحب پر ہو سکتا ہے تو ہم مولوی چراغ علی کو کم نیچری نہیں کہہ سکتے۔‘‘ مولوی چراغ علی نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے زیادہ تر انگریزی کو استعمال کیا، تاکہ انگریز مصنفین کی کتب کے جواب ان حلقوں تک پہنچ سکیں جن پر معترضین کی گرفت ہے۔ اس سلسلے میں ان کی قابل ذکر کتب مندرجہ ذیل ہیں۔ 1 "Reforms under Muslim rule'' 2 Mohammad the true prophet 3 Critiel Erposition of popular jehad ان کتب میں مولوی چراغ علی نے انگریز مصنفین مثلاً ریورانڈر، مالکم، ارونگ، سرولیم میور، ڈاکٹر سپرنگر، ماکس ڈاڈا سمتھ اور پادری عماد الدین وغیرہ کی تاریخی، تحقیقی اور حوالہ جاتی اغلاط کے انجیل مقدس، کلام مجید اور تاریخی کتب سے ثبوت مہیا کئے ہیں اور مدلل طریقے سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جبر و ظلم سے اس کا واسطہ نہیں ہے اور نہ موجودہ دور کی ترقی میں حائل ہے۔ ان کی اردو کتب میں اسلام کی دنیوی برکتیں، قدیم قوموں کی مختصر تاریخ اور کتابچوں میں بی بی ہاجرہ، ماریہ قبطیہ، تعلیق نیاز نامہ وغیرہ شامل ہیں۔ مولوی چراغ علی کا دوسرا موضوع مسلمانوں کے مقلدانہ عقائد تھے۔ اس میدان میں بھی وہ سرسید احمد خاں کے بہت قریب ہیں انہوں نے نہ صرف سرسید احمد خاں کے رسالے ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، بلکہ باقاعدہ کتب بھی تحریر کیں۔ ان موضوعات پر بھی سرسید احمد خاں کی تحقیقی روایات کی چھاپ موجود ہے۔ سرسید احمد خاں کی تحریریں مسلمانوں کے ایک حلقے میں باعث ہدف تنقید تھیں۔ چنانچہ جب سرسید کا رسالہ ’’ ابطال غلامی‘‘ شائع ہوا تو مولوی سید محمد عسکری نے اس کا جواب تحریر کیا۔ مولوی چراغ علی نے اس کا جواب الجواب ’’ تہذیب الکلام فی حقیقت الاسلام‘‘ کے نام سے تحریر کیا اس طرح اس کتاب پر محمد علی کے اعتراضات کا جواب ’’ تدبیر الاسلام فی تحریر الامۃ والغلام‘‘ کے عنوان سے دیا۔ سرسید احمد خاں جدید علوم معقولات کی بنیاد پر رکھنا چاہتے تھے لیکن مسلمانوں میں ان کی اس سلسلے میں شدید مخالفت تھی اور یہ خیال عام تھا کہ مغربی علوم و فنون مسلمان نوجوانوں کو بے راہ روی کی سمت لے جائیں گے اور اس سے عقائد اسلام سے برگشتگی کی راہیں کھل جائیں گی۔ مولوی چراغ علی نے اس سلسلے میں بھی سرسید احمد خاں کا بھر پور ساتھ دیا اور اپنی تحقیقی کاوشوں سے مخالفین کے نظریات کا باطل ثابت کیا۔ مولوی چراغ علی نے اس سلسلے میں’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا اور اس موضوع کو دو حصوں میں تقسیم کیا پہلے حصے میں انہوں نے ان علماء کا ذکر کیا جو علوم معقولات کے خلاف تھے۔ ان میں امام شافعی سے سید علی تک کے خیالات قلم بند کئے گئے ہیں۔ اس حصے میں یہ بھی واضح کیا کہ ایک زمانے میں مسیحی علماء بھی علوم معقولات کی اسی طرح مخالفت کر رہے تھے جیسا کہ آج کل مسلمانوں کا ایک طبقہ دوسرے حصے میں علوم معقولات کے موافق طبقے کا ذکر ہے جس میں حلیمی سے لے کر نواب صدیق حسن تک کے لوگ شامل ہیں۔ انہوں نے دونوں گروہوں کے خیالات و افکار کا ذکر کر کے تحقیقی انداز سے شواہد اور حوالہ جات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حصول علم کے لیے: ’’ دین کے دشمنوں سے بھی علم سیکھنا مسنون اور مستحب ہے‘‘ غرض مولوی چراغ علی علمی و ادبی، و مذہبی اعتبار سے سرسید کے مقلد ہیں اور تحقیقی میدان میں بھی استدلال، طرز تحریر اور وسعت نظری میں ان کی ہی لکیر پر چلتے ہیں مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ وہ جب بھی کوئی موضوع منتخب کرتے ہیں، اس کی تہہ تک پہنچتے اور اس کے مالہ و ما علیہ کے سراغ میں پتے پتے اور ڈالی ڈالی پھرتے اور پاتال تک کی خبر لاتے۔‘‘ مولانا شبلی نعمانی اگر مولانا شبلی نعمانی کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ’’ تاریخ کے معلم اول‘‘ ہیں، تو یہ بات خود ہی ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ وہ صف اول کے محقق بھی تھے، کیوں کہ : ’’ معیاری تاریخ لکھنے کے لیے مورخ کو جتنے جتن کرنا پڑتے ہیں ان میں سب سے اہم تحقیق و تدقیق ہے۔ بعض لوگوں نے مورخ کو ’’ گورکن‘‘ اور تاریخ کو گڑے مردے اکھاڑنے کا دوسرا نام دیا ہے اور یہ بہت کچھ صحیح بھی ہے، اس لیے کہ تاریخ اندازوں کا کھیل نہیں کہ قیا سات کی رہنمائی میں منزل دیکھے بھالے بغیر قدم بڑھا لئے جائیں اور منزل ہاتھ میں آ جائے، بلکہ یہ ایک ایسی اندھیری راہ ہے جس پر کوشش و جستجو کے بغیر چلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے، اور اگر مورخ بے احتیاطی سے قدم بڑھائے تو ناکامی اور تاریخ کے دشمن اس کا استقبال کرنے کے لے ہر قدم پر تیار رہتے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جس میں تحقیق اور تدقیق کا مادہ نہ ہو وہ بڑا مورخ نہیں بن سکتا۔‘‘ مولانا شبلی کے تحقیقی کارناموں میں الفاروق، کتب خانہ سکندریہ، اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر، الجزیہ سوانح مولانا روم، سیرت النبی، شعر العجم، تذکرہ گلشن ہند کے حواشی اور وہ بہت سے مقالات ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہے ’’ معارف‘‘ اعظم گڑھ نے ان میں سے اکثر کو ’’ مقالات شبلی‘‘ کے عنوان سے آٹھ جلدوں پر مشتمل شائع کر دیا ہے۔ یہ مقالات مذہبی، ادبی، تعلیمی، تنقیدی، تاریخی، فلسفیانہ، اصلاحی اور سیاسی موضوعات پر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان میں محققانہ شان موجود ہے۔ بقول ڈاکٹر عبید اللہ خان: ’’ اس میں شک نہیں کہ مولانا شبلی نعمانی مرحوم کا مقصد اصلاحی تھا، لیکن ان کا یہ مقصد زبان و بیان پر حاوی نظر نہیں آتا، بلکہ وہ بڑی خوبصورتی اور نزاکت سے اپنے مقصد کو پیش کرتے ہیں کہ زبان میں مولویانہ اور واعظانہ انداز پیدا نہیں ہوتا بلکہ محققانہ انداز باقی رہتا ہے اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سمندر کی تہہ سے نایاب موتی نکال کر ببانگ دھل یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی سمندر میں غوطہ لگا کر ہم سے زیادہ قیمتی موتی نکال کر پیش کرے۔‘‘ یہی محققانہ شان ان کی دیگر تحقیقی تصانیف میں ملتی ہے۔ مولانا شبلی کا سب سے بڑا تحقیقی کارنامہ ’’ الفاروق‘‘ ہے بقول شیخ عطا اللہ: ’’ مولانا شبلی نعمانی الفاروق کو اپنی غزل مرصع سمجھتے تھے اور اس پر انہیں متعدد اعتبارات سے بجا طور پر ناز تھا۔‘‘ مولانا شبلی نعمانی نے 1894ء میں ’’ الفاروق‘‘ تصنیف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا انہوں نے مواد کے حصول کا کوئی طریقہ اور کوئی موقع ہاتھ سے نہ گنوایا۔ مصر، شام و ترکی وغیرہ سے کتب جمع کی گئیں کتاب کا خاکہ مرتب ہوا اور واقعات کی چھان پھٹک کے لیے اصول طے کئے۔ بنیادی طور سے تحقیقی اصولوں کا معیار’’ درایت‘‘ قرار دیا پرکھ یہ رکھی: 1واقعہ مذکورہ اصول و عادات کی رو سے ممکن ہے یا نہیں 2اس زمانے میں لوگوں کا میلان عام واقعہ کے مخالف تھا یا موافق؟ 3واقعہ اگر کسی حد تک غیر معمولی ہے تو اسی نسبت سے ثبوت کی شہادت قوی ہے یا نہیں؟ 4اس امر کی تفتیش کہ راوی جس چیز کو واقعہ ظاہر کرتا ہے، اس میں قیاس و رائے کا کس قدر دخل ہے 5راوی نے واقعہ جس صورت میں ظاہر کیا تھا، وہ واقعہ کی پوری تصویر ہے یا اس امر کا احتمال ہے کہ راوی اس کے ہر پہلو پر نظر نہیں ڈال سکا اور واقعہ کی تمام خصوصیتیں نظر نہ آ سکیں۔ 6اس بات کا اندازہ کہ زمانے کے امتداد اور مختلف راویوں کے طریقے نے اس روایت میں کیا کیا اور کس قسم کے تغیرات پیدا کئے ہیں۔ الفاروق دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ حضرت عمرؓ کے سوانح سے تعلق رکھتا ہے ۔ دوسرا حصہ ان کے ملکی اور مذہبی انتظامات، علمی کمالات اور اوصاف حمیدہ پر مشتمل ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے پہلے حصے میں بیانیہ انداز تحریر اختیار کیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں محققانہ طریقہ کار سے اپنی تحریر کو مدلل بنایا ہے۔ مولانا کو اپنی اس کتاب پر بہت ناز تھا۔ وہ اس کتاب کے دوسرے حصے کے سلسلے میں خود کہتے ہیں: ’’ تاریخی تحقیق کا وہ تماشہ گاہ ہے جو اب تک اس دنیا کی نگاہوں سے مخفی تھا۔‘‘ مولانا شبلی کا دوسرا بڑا تحقیقی کارنامہ ’’ کتب خانہ اسکندریہ‘‘ ہے مغربی مصنفین نے اپنی تحریروں سے یہ بات عام کر رکھی تھی کہ مسلمانوں نے اپنے عہد فتوحات میں بطلیموں کے کتب خانہ اسکندریہ کو خاکستر کر دیا تھا۔ مولانا نے اس الزام کا تحقیقی جواب دیا اور نہ صرف عربی بلکہ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن تصانیف کے حوالوں سے مغربی مصنفین کے اس دعوے کو باطل کیا، اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ بات مسلمانوں پر تہمت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کیوں کہ فتح اسکندریہ کے وقت سرے سے متذکرہ کتب خانے کا وجود ہی نہ تھا۔ مولانا عبدالحق نے ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب ’’ امہات الامہ‘‘ پر مقدمہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھاـ: ’’ طالب علمی کے زمانے میں جب میں انگریزی تاریخوں اور دوسری کتابوں میں یورپین مورخین کا یہ الزام پڑھتا تھا کہ مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے حکم سے اسکندریہ کے بے نظیر کتب خانے کو جلا کر خاکستر کر دیا تو بے حد رنج اور صدمہ ہوتا تھا۔ لیکن جب شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی نے ایک محققانہ رسالہ لکھ کر محکم دلائل اور پر زور شہادتوں سے اس کی تردید کی تو اس بے نظیر رسالے کو پڑھ کر پوری تسکین ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ یہ محض فسانہ اور یورپین مورخوں کا مسلمانوں پر افترا و بہتان۔‘‘ مولانا شبلی نعمانی جس زمانے میں کتب خانہ اسکندریہ رقم کر رہے تھے تو ان کو اس سے ملتا جلتا اور مواد بھی ہاتھ لگا چنانچہ (1892ء تا1898ئ) انہوں نے اسلامی ’’ شفاخانے‘‘ ’’ اسلامی کتب خانے‘‘ ’’ حقوق الذمین‘‘ اور’’ اسلامی مدرسے‘‘ وغیرہ بھی تحریر کئے۔ یہ مضامین بھی ان کے تحقیقی شاہکار تصور کئے جاتے ہیں۔ اورنگ زیب عالم گیر کی شخصیت مورخین نے بڑی متنازعہ بنا دی تھی اور انہیں متعصب، جابر اور قاہر کے القاب سے یاد کرتے تھے۔ اورنگ زیب عالم گیر کے خلاف الزامات کی ایک طولانی فہرست تھی جس کے دبیز پردے میں اورنگ زیب عالم گیر کی شخصیت دھندلا رہی تھی۔ مولانا شبلی نعمانی کو مورخین کی اس معتوب شخصیت سے عقیدت تھی۔ انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی فرمائش پر اورنگ زیب عالم گیر کا تحقیقی جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پروفیسر شیخ عطا اللہ لکھتے ہیں: ’’ مسٹر محمد علی نے مولانا شبلی سے درخواست کی کہ حضرت عالم گیر کے خلاف جو نت نئے تابڑ توڑ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ان سے متعلق امور خانہ تحقیق و تنقید کی اشد ضرورت ہے چنانچہ مولانا نے یہ اہم ذمہ داری اپنے اوپر لازمی کر لی۔‘‘ مرزا احسان احمد نے ایک کامیاب محقق کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ ایک کامیاب محقق کی سب سے بڑی خوبی بلکہ سب سے زیادہ مقدم اور ضروری شرط یہ ہے کہ تحقیق و تنقید کے وقت اس کا دماغ ہر قسم کے قومی اور مذہبی جذبات کی حکومت سے آزاد ہو، یعنی اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی حیثیت ایک وکیل کی نہیں ہے جو اپنے فریق کے بیان کو خواہ وہ کسی قدر غلط اور بے بنیاد ہو صحیح ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کی کوشش کرتا ہے، بلکہ اس کی حیثیت ایک حاکم عدالت کی ہے جو ایک غیر جانب دار انسان کی طرح صرف یہ دیکھتا ہے کہ زیر تحقیق واقعہ کی اصل کیا ہے اور اس کی تائید میں جو طرز استدلال اختیار کیا گیا ہے، اس میں کچھ جان بھی ہے یا نہیں یا صرف صادر ہوا ہے۔‘‘ جب ہم مندرجہ بالا اصول پر مولانا شبلی نعمانی کو پرکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ انہیں عالم گیر سے عقیدت تھے، انہوں نے اس تالیف میں ایک محقق کو غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا بلکہ اس مختصر سی کتاب کو جدید تحقیقی اصولوں پر تالیف کیا۔ پہلے ان الزامات کی فہرست دی جو اورنگ زیب عالم گیر کے خلاف عائد کئے جاتے رہے، پھر مستند کتب تواریخ اور واقعات کے حوالوں سے بالترتیب الزامات کی نفی کی ہے اور اورنگ زیب عالمگیر سے عقیدت رکھنے کے باوجود بحیثیت محقق اپنے آپ کو غیر جانب دار رکھا ہے: مولانا شبلی نعمانی نے اپنے مختلف تحقیقی مضامین میں حوالوں کے ماخذ کا ذکر تو اکثر کیا ہے، مگر بہت کم ماخذ کتب کے حوالوں کے صفحات نمبر دئیے ہیں۔ لیکن ان کی اس تصنیف میں حوالوں کی شہادتوں کے لیے کتب کے نام اور صفحات کے نمبر بھی درج ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی تحقیق میں زیادہ تر ان ہی کتابوں پر اعتماد کیا ہے جو خود عالم گیر کے عہد میں لکھی گئی ہیں۔ شیخ عطاء اللہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے۔ ’’ مولانا نے جو مستند تاریخی شہادتیں پیش کی ہیں وہ بے خطا اور طرز استدلال اور واقعات کا رشتہ باہم ملانے اور ان سے نتائج کا استنباط بے مثال ہے۔‘‘ ’’ الجزیہ‘‘ میں بھی ’’ اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر‘‘ جیسا ہی رویہ رکھا ہے اور جزیہ پر غیر مسلم مصنفین کے اعتراضات تاریخی اور تحقیقی حوالوں سے غلط ثابت کیے ہیں۔ بر خلاف اس کے ’’ سوانح مولانا روم‘‘ ان کے طرز تحقیق سے لگا نہیں کھاتی۔ انہوں نے اس کتاب میں مولانا روم کو ایک بلند پایہ متکلم ثابت کیا ہے اور ان کی مثنوی کو علم الکلام کے حقائق و اسرار کا ایک انمول خزانہ قرار دیا ہے۔ یقینا مولانا شبلی نعمانی نے اس تالیف میں بھی متعدد کتب سے استفادہ کیا ہے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ’’ مناقب العارفین‘‘ کو اپنا بنیادی ماخذ قرار دے کر باقی ماخذوں سے قاری کو محروم رکھا ہے، تعجب ہے: ’’ جن کتابوں سے انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے، ان کا مفصل حوالہ اپنی کتاب کے حاشیہ میں نہیں دیا اور نہ ہی کتابیات کے زیر عنوان ان کتابوں کی مکمل فہرست معہ سن طباعت یا سال تصنیف دیا ہے۔‘‘ مولانا شبلی نعمانی کے ان کارناموں میں جو تاریخی موضوعات سے ہٹ کر خالص ادبی کارنامے ہیں، ان میں ’’ شعر العجم‘‘ قابل ذکر ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب عملی تنقیدی کی کتاب ہے، لیکن اس کتاب میں بھی: ’’ آپ کی تنقید میں تحقیق اور بھر پور تجزیہ پایا جاتا ہے‘‘ مولانا شبلی اپنے عہد کے ادبی تذکروں سے مطمئن نہ تھے، بقول ان کے: ’’ شعراء کے تذکرے بہت ہیں لیکن وہ در حقیقت بیاض کے اشعار ہیں جن میں شعراء کے عمدہ اشعار انتخاب کر کے لکھ دئیے ہیں۔ شعراء کے حوالات اور واقعات کم اور نہایت کم ہیں اور شاعری کے عہد بعد انقلابات اور ان کے اسباب کا تو مطلق ذکر نہیں۔‘‘ مولانا شبلی نعمانی نے کتاب ے دیباچہ میں ان کتابوں کی فہرست دی ہے جو ان کے بنیادی ماخذ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی تقریباً ہر تصنیف کے آخری حصے میں زیادہ جوش و خروش اور تحقیق کا مظاہرہ ملتا ہے۔ چنانچہ اس تصنیف میں بھی: ’’ یہی حصہ گویا کتاب کی جان اور اس کی روح رواں ہے‘‘ مولانا شبلی نعمانی کے تحقیقی و تدوینی کارناموں میں ’’ تذکرہ گلشن ہند‘‘ کے حواشی ہیں۔ سرسید احمد خان نے ’’ خطبات احمدیہ‘‘ تالیف کر کے اپنے ہم عصروں میں اردو میں کتب سیر کا رحجان پیدا کر دیا تھا گو ترتیب کے لحاظ سے سیرت النبی مولانا شبلی نعمانی کی آخری تالیف ہے اور اس کا عہد تالیف وہ زمانہ ہے جب وہ علی گڑھ کو خیر باد کہہ کر ندوہ آ چکے تھے اور ان کو مکتبہ فکر علی گڑھ کے قطبین سے بالکل جدا ہو چکا تھا لیکن سرسید کی شخصیت اور ان کے ادبی و علمی اور تحقیقی ان مٹ نقوش شبلی پر رچے رہے۔ اس زمانے میں بھی سرسید احمد خاں کی ’’ خطبات احمدیہ‘‘ اس کے لیے چراغ راہ تھی۔ مولانا شبلی نے سرسید کی لیک پر چلتے ہوئے، معلومات کے تمام وسائل سے بے تکلف استفادہ کیا اور جن کتب و موضوعات تک ان کی دسترس نہ تھی، ان کے متن کے ضمن میں ان لوگوں سے رجوع کیا، جو اس فن کے ماہر تھے۔ مثلاً جب سیرت کی تالیف میں انجیل مقدس کے حوالوں کی ضرورت محسوس ہوئی، تو انہوں نے بلا جھجک مولانا حمید الدین صاحب سے رائے لی۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس تصنیف کو تحقیق کے اصولوں پر استوار کیا۔ کتاب کے شروع میں ایک مقدمہ درج کیا، جس میں فن روایت، سیرت، حدیث اور فن مغازی پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے تحقیقی روایت کے اصول قرآن مجید اور حدیث نبوی کی روشنی میں مقرر کئے ہیں مثلاً: 1سیرت کے واقعات کے متعلق جو کچھ قرآن مجید میں موجود ہے اس کو سب پر مقدم رکھا 2تفصیلی واقعات حدیث کی کتابوں سے ڈھونڈ کر مہیا کئے، جو اہل سیر کی نظروں سے اوجھل رہ گئے تھے 3روز مرہ کے عام واقعات کے لیے، ابن سعد، ابن ہشام اور طبری کی عام روائتیں کافی خیال کی ہیں لیکن ان کے متعلق بھی تحقیق اور تنقید سے کام لیا ہے۔ 4جن فرو گزاشتوں کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے، ان کی اصلاح اور تلافی کی ہے۔ 5صرف ان کتب کا حوالہ دیا ہے جو خود ان کی نظر سے گذری ہیں۔ 6اہم واقعات کے ضمن میں صحیح حدیثوں اور مستند تاریخی روایتوں کا حوالہ دیا ہے۔ 7ان قلمی کتب کا ذکر کیا ہے جو ان کے مطالعہ میں رہی ہیں اس طرح شبلی نعمانی کی سیرت النبی سیر کی کتاب ہونے کے باوجود ایک تحقیقی کتاب ہے جو روایت اور درایت کے تحقیقی اصولوں اور تحقیقی شہادتوں سے مرتب کی گئی ہے۔ متذکرہ تمام تحقیقی کارناموں کے باوجود جب ہم مجموعی اعتبار سے مولانا شبلی نعمانی کے کارناموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تمام کاوشیں تحقیقی تو ضرور ہیں اور اس کے لیے انہوں نے بڑی عرق ریزی کی ہے، حوالہ جات اور معلومات کا خزانہ جمع کیا ہے، لیکن ان کی تحقیق پر تاریخ نویسی کا رنگ اتنا غالب ہے کہ ان کے تحقیقی کارنامے ادبی سے زیادہ تاریخی ہیں بقول اختر وقار عظیم: ’’ شبلی کا مرکز خیال، خواہ کچھ ہی کریں، تاریخ ہی ہوتی ہے۔ وہ اول و آخر ایک مورخ ہیں، چنانچہ وہ جو کچھ بھی دیکھتے ہیں ایک مورخ کی آنکھ سے دیکھتے ہیں‘‘ مولوی ذکاء اللہ مولوی ذکاء اللہ سرسید کے دبستان کے اہم رکن اور سرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق کے مقالہ نگاروں میں سرفہرست تھے۔ لیکن ان کا باقاعدہ اور اصل کام 143کتب پر مشتمل ہے جو لگ بھگ سات ہزار صفحات پر محیط ہے۔ مولوی ذکاء اللہ کسی ایک شعبے یا صنف کے مصنف نہ تھے، بلکہ جو بھی موضوع ہاتھ آتا وہ اس پر لکھ ڈالتے، چنانچہ تاریخ، سیاسیات، اخلاقیات، ریاضی، کیمیا، طبیعات، جغرافیہ اور علم ہیئت میں سے وہ کون سا شعبہ تھا جس پر انہوں نے قلم نہ اٹھایا ہو لیکن وہ ریاضی اور تاریخ نویسی کا خصوصی ذوق رکھتے تھے۔ مولوی ذکاء اللہ کی بسیار نویسی کی وجہ شہرت تو بن گئی لیکن خود وہ مقام حاصل نہ کر سکے، جو شبلی حالی، چراغ علی اور محسن الملک وغیرہ کو حاصل ہوا ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے: ’’ مولوی ذکاء اللہ کا بیشتر کام مدرسانہ ہے کچھ ترجمے کا کام ہے اس زمانے کے عام امیر سے وہ بھی متاثر تھے، مگر اوریجنل فکر اور تصنیف میں وہ اپنے ممتاز معاصر بن مثلاً حالی، شبلی اور نذیر احمد وغیرہ سے فروتر ثابت ہوئے۔‘‘ مولوی ذکاء اللہ کا تحقیقی جوہر ان کی تاریخ نویسی میں سامنے آتا ہے، جس میں ان کا تحقیقی انداز مقصدی نہیں بلکہ غیر جانب دارانہ ہے اور انہوں نے تاریخ و روشن دونوں پہلوؤں پر نظر رکھی ہے۔ ان کا مشہور تحقیقی کارنامہ ’’ تاریخ ہندوستان‘‘ ہے جو اٹھارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ میں انہوں نے ہر معاملے میں تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہے وہ ’’ احوال شاہ جہانی‘‘ میں اپنے تحقیقی اصول کا اس طرح ذکر کرتے ہیں: ’’ میرا قاعدہ ہے کہ میں سلاطین کی تاریخ نویسی کے لیے وہ تواریخ لیتا ہوں، جن کے مولف عہد نو کے نہیں ہیں اور وہ سب کے سب معتبر اور مستند سمجھی جاتی ہوں۔ ان سے تاریخ حالات اخذ کر کے لکھتا ہوں اور پھر انگریزی تاریخوں سے، جن کا ایک انبار میرے پاس موجود ہے۔‘‘ شمس العلما مولانا الطاف حسین حالی سرسید کے رفقاء کار میں مولانا حالی کا درجہ بہت بلند ہے۔ انہوں نے نثر و نظم دونوں اصناف میں شہرت حاصل کی۔ ان کی ملی نظم ’’ مدو جزر اسلام‘‘ اتنی بلند پایہ تھی کہ سرسید نے اسے اپنی نجات کا ذریعہ تصور کیا۔ انہوں نے سوانح نگاری میں شہرت حاصل کی اور ’’ مقدمہ شعر و شاعری‘‘ لکھ کر تنقید نگاری کو بام عروج پر پہنچایا۔ اگر ہم مجموعی اعتبار سے ان کی تمام ادبی و علمی کاوشوں کا جائزہ لیں تو حالی اردو میں تحقیق نگاری کے علم بردار تسلیم کئے جائیں گے اور اس میدان میں انہیں دوسروں پر فوقیت حاصل ہے۔ مولانا حالی کے تحقیقی کارناموں کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں اول وہ نثری کتابیں ہیں جو انہوں نے مذہبی جذبے سے سر شار ہو کر لکھی ہیں حالی اس عہد کا ایک حصہ ہیں جس میں مغربی یلغار برصغیر کے مسلمانوں کے دینی نظریات پر حملہ آور ہو رہی تھی اور بڑی شد و مد سے پادری عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے۔ ان کا سارا زور اسلامی نظریات اور حضور اکرمؐ کی ذات بابرکات پر حملوں پر تھا۔ اس کے رد عمل میں برصغیر کے علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں پر مناظرانہ ماحول چھایا ہوا تھا بقول ڈاکٹر عبدالقیوم: ’’ مولانا حالی نے زمانے کے رواج کے مطابق مناظرے کا رنگ اختیار کیا مگر ان کی تحریروں میں جوش و خروش اور غم و غصہ کا اظہار نہیں بلکہ استدلال کا رنگ غالب رہا اور معقولیت و تہذیب کا رنگ کہیں پھیکا نہ پڑا۔‘‘ مولانا حالی کی اس سلسلے میں دو کتابیں قابل ذکر ہیں پہلی ’’ تریاق مسموم‘‘ (مطبوعہ 1867ئ) اور دوسری’’ تاریخ محمدی‘‘ (مطبوعہ1872ئ) یہ دونوں کتابیوں مشہور نو عیسائی مصنف پادری عماد الدین کی ان کتابوں کے جواب تھے جو انہوں نے اپنی تصانیف’’ تحقیق الایمان‘‘ اور ’’ تاریخ محمدی‘‘ میں اسلام اور حضور کریم ؐ کی ذات گرامی پر اعتراضات کے لئے لکھی تھیں۔ مولانا حالی کی یہ دونوں کتابیں مذہبی ہونے کے باوجود تحقیقی اصولوں پر مرتب کی گئی تھیں ان میں انہوں نے ثابت کیا تھا کہ پادری عماد الدین کی تالیفات روایات ماخذ کے اعتبار سے درست نہیں ہیں۔ اسی طرح ترجمہ و نقل میں بھی انہوں نے خیانت برتی ہے مولانا حالی نے بڑ تحقیق سے انجیل، توریت، کلام مجید اور تاریخ کے حوالوں اور دلائل و استدلال سے پادری عماد الدین کی تحقیق کو نا قابل اعتبار قرار دیا ہے مولانا حالی نے ’’ تریاق مسموم‘‘ کو قلم بند کرتے ہوئے تحقیقی نقطہ نظر سے کام لیا ہے وہ اس کتاب کے دوسرے باب میں معجزات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ سمعیات جب تک حد تواتر کو نہ پہنچیں مفید نہیں ہوتیں‘‘ حالی کے تحقیقی سرمایہ میں دوسری وہ سوانحی کتب ہیں، جن میں انہوں نے اپنے ’’ ہیروز‘‘ کے حالات زندگی اور خدمات کا تحقیقی جائزہ لیا ہے ان کتب میں’’ حیات سعدی‘‘ ’’ یادگار غالب‘‘ اور’’ حیات جاوید‘‘ شامل ہیں ہمیں ان کتب سے ان کے تحقیقی اصولوں کا علم ہوتا ہے اور تحقیقی مرتبے کا بھی۔ سعدی شیرازی ہندوستان میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے ایران میں لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت کے باوجود ان پر سوانحی مواد میسر نہ تھا۔ حالی دھن کے پکے اور کام کے سچے تھے، اس لیے مواد کی کم یابی حالی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی حالی نے اپنے تحقیقی رحجان کی بنا پر سعدی کے نا مکمل تذکروں، ان کے کلام، موازنہ اور شہادتوں سے حیات سعدی کی گم شدہ کڑیوں کو مکمل کیا۔ بقول مولوی عبدالحق: ’’ شہد کی مکھیوں کی طرح ذرہ ذرہ چن کر سعدی کی سیرت اور اخلاق اور حالات کو مرتب کیا ہے‘‘ مولانا حالی نے سعدی کے سلسلے میں قدیم تذکروں کی غیر مصدقہ روایات کی تردید کی ہے اور تحقیق سے نئی معلومات بہم پہنچائی ہیں، مثلاً سعدی کی عمر کے سلسلے میں تذکرہ نویسوں میں شدید اختلافات تھے مولانا نے تاریخی شواہد و استدلال سے ان کی عمر کا تعین کیا ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے۔ انہوں نے حیات سعدی کے مختلف زاویوں میں ابن جوزی کی بات کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ جوزی ایک محدث تھے اور انہوں نے سعدی کا ہندوستان آنا اور امیر خسرو سے ملاقات کرنا بھی غلط قرار دیا ہے مولانا حالی اس سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’ شیخ آزری نے بھی اپنی کتاب ’’ جواہر الاسرار‘‘ میں لکھا ہے کہ شیخ امیر کو دیکھنے کو شیراز سے ہندوستان میں آیا ہے مگر اس کا ثبوت کچھ نہیں ہے بلکہ شیخ اور امیر خسرو کے عصر کا مقابلہ کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کا امیر کے ملنے کے لئے آنا خلاف قیاس ہے۔ خسرو کی ولادت 651ھ میں ہوئی جب شیخ کی عمر ستر برس سے زیادہ ہو چکی تھی اب اگر امیر خسرو کی شہرت بغرض محال پچیس برس ہی کی عمر میں ایران تک پہنچ گئی تھی تو اس وقت شیخ کی عمر تقریباً سو برس ہونی چاہئے پس یہ کیوں کر خیال میں آتا ہے کہ ایک سو برس کا شیخ جو شاعری میں یگانہ وقت اور مقبول خاص و عام ہے ایک پچیس برس کے لڑکے کی شہرت سن کر ایران سے ہندوستان میں آئے البتہ معتبر حوالوں سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے قآن محمد سلطان ناظم ملتان نے جس کو خان شہید کہتے ہیں شیخ سے دوبار درخواست کی کہ آپ شیراز سے یہاں آئیے، اور چونکہ امیر خسرو اس وقت محمد سلطان کے مصاحبوں میں تھے، اس لیے ان کا کلام بھی شیخ کے ملاحظہ کے لئے بھیجا۔ شیخ اس وقت بہت معمر ہو گیا تھا، اس سبب سے وہ خود نہ آ سکا لیکن دونوں دفعہ اپنے دو دیوان اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے خان شہید کو بھیجے اور امیر خسرو کی نسبت یہ لکھا کہ اس جوہر قابل کی تربیت اور قدر افزائی کرنی چاہیے۔‘‘ مولانا حالی نے اس کتاب کو لکھنے میں تحقیق کے اصولوں کو مدنظر رکھا ہے اور اپنے ماخذ کا ذکر دیباچہ میں تفصیل سے کیا ہے انہوں نے بتایا ہے کہ اسے مرتب کرنے میں انہوں نے قدیم تذکروں سے فائدہ اٹھایا اور بعض حالات خود شیخ کے کلام سے استنباط کئے اور انگریزی کتب خانے سے بھی استفادہ کیا۔ حیات سعدی کا مرتبہ متعین کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں: ’’ حالی کی تحقیق بھی ہر جگہ قابل ستائش نہیں ہے ان کی کتابوں میں حیات سعدی سب سے اہم ہے، اور یہی کتاب قابل تعریف بھی ہے اس میں تحقیق کے اس بنیادی اصول کی پیروی کی گئی ہے کہ معلومہ مواد کو پوری طرح چھان بین کے بعد درج کیا گیا ہے۔ اگرچہ سعدی پر اس سے زیادہ تحقیق ہو چکی ہے، لیکن اس کی حیثیت اپنی جگہ پر ہے۔‘‘ مولانا حالی نے ’’ یادگار غالب‘‘ کی تالیف میں بھی اپنے ذوق تحقیق کے جوہر دکھائے ہیں اس میں بھی غالب کی تحریروں سے ان کے حالات زندگی اور اخلاق و عادات کا سراغ لگایا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے غالب کے بعض احباب اور شاگردوں مثلاً منشی نبی بخش حقیر، منشی ہرگوپال تفتہ، میر مجروح اور نواب علاؤ الدین سے مرزا غالب کے حالات جمع کئے ہیں۔ حالی کے پیش نظر مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ آب حیات‘‘ بھی رہی ہے، باوجود اس کے: ’’ معلوم مواد سے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھایا گیا‘‘ مولانا حالی کا تحقیقی سرمایہ بھی سوانح ہی ہے اور سوانح بھی ایک ایسے شخص کی اور ایک ایسے شخص کے قلم سے جو ہمیشہ نکتہ چینیوں کی زد میں رہتے تھے۔ مولانا حالی، سرسید کا اس طرح تعارف کراتے ہیں: ’’ ہم کو اس کتاب میں اس شخص کا حال لکھنا ہے، جس نے چالیس برس برابر تعصب اور جہالت کا مقابلہ کیا ہے، تقلید کی جڑیں کاٹی ہیں، بڑے بڑے علماء اور مفسرین کو لتاڑا ہے۔ اماموں اور مجتہدوں سے اختلاف کیا ہے، قوم کے پکے پھوڑوں کو چیرا اور ان کو کڑوی دوائیں پلائی ہیں۔ جس کو مذہب کے لحاظ سے ایک گروہ نے صدیق کہا ہے، تو دوسرے نے زندیق خطاب دیا ہے اور جس کو پالٹکس کے لحاظ سے کسی نے ٹائم سرور سمجھا ہے تو کسی نے نہایت راست باز لبرل جانا ہے۔‘‘ سرسید احمد خاں نے تحقیق میں عقل کی کسوٹی اور دلائل کو شش راہ بنایا مولانا حالی بھی اسی راستے پر چلے اور انہوں نے فیصلہ کیا: ’’ضرور ہے کہ اس کا سونا کسوٹی پر کسا جائے اور اس کا کھرا پن ٹھوک بجا کے دیکھا جائے۔ وہ ہم میں پہلا شخص ہے، جس نے مذہبی لٹریچر میں نکتہ چینی کی بنیا دڈالی ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ سب سے پہلے اسی کی لائف میں اس کی پیروی کی جائے اور نکتہ چینی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔‘‘ مولانا الطاف حسین حالی نے اس کتاب کے لیے خام مواد کو بڑی جان فشانی سے حاصل کیا۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، تہذیب الاخلاق، سرکاری رپورٹیں، اخبارات، سرسید کے مکاتیب، لیکچروں، ان کی تصانیف اور دیگر مدبران سلطنت کی تحریروں سے مواد حاصل کر کے ترتیب دیا۔ یہاں تک کہ سرسید اور ان کے دوستوں سے زبانی حالات جمع کئے ان کے حوالے ’’ حیات جاوید‘‘ میں جگہ جگہ ملتے ہیں۔ حالی نے اردو تحقیق میں دلائل کے ساتھ ساتھ زیادہ ماخذ سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا ہے داخلی شہادتیں خود اپنے ممدوح کی تصانیف ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد مولانا محمد حسین آزاد اردو کے صاحب طرز انشا پرداز ہیں ان کی تصانیف میں ’’ آب حیات‘‘ اپنی حامیوں کے باوجود تحقیقی کتاب تصور کی جاتی ہے وہ قدیم تذکروں سے مطمئن نہ تھے، اور اردو شعراء کا ایک ترتیب وار تذکرہ مرتب کرنا چاہتے تھے، جس میں ان کے کلام کے ساتھ ساتھ حالات زندگی بھی موجود ہوں۔ انہوں نے ’’ آب حیات‘‘ کی وجہ تصنیف اس طرح بیان کی ہے۔ ’’ نئے تعلیم یافتہ جن کے دماغوں میں انگریزی لالٹینوں سے روشنی پہنچی ہے، وہ ہمارے تذکروں میں اس نقص پر حرف رکھتے ہیں کہ ان سے کسی شاعر کی زندگی کی سرگزشت کا حال معلوم ہوتا ہے نہ اس کے کلام کی خوبی و قسم کی کیفیت کھلتی ہے، نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے معاصروں میں اور ان کے کلام میں کن کن باتوں میں کیا کیا نسبت تھی انتہا یہ کہ سال ولادت اور سال وفات تک نہیں کھلتا۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض خیالات مذکورہ بالا نے مجھ پر واجب کیا کہ جو حالات ان بزرگوں کے معلوم ہوں یا مختلف تذکروں میں متفرق مذکور ہیں، انہیں جمع کر کے ایک جگہ لکھوں اور جہاں تک ممکن ہو اس طرح لکھوں کہ ان کی بولتی چالتی، پھرتی چلتی تصویریں سامنے کھڑی ہوں اور انہیں حیات جاوداں حاصل ہو۔‘‘ مولانا محمد آزاد نے ’’ آب حیات‘‘ میں پہلی مرتبہ تاریخ زبان و ادب پیش کی ہے اور سب سے پہلے اردو زبان کی نشوونما اور ارتقاء پر عالمانہ بحث کی ہے۔ ’’ آب حیات‘‘ کے تنقید نگاروں نے اسے ادبی تحقیق کی بجائے، مولانا محمد حسین آزاد کی ذاتی پسند یا نا پسند کا مرقع قرار دیا ہے اور ان کے بہت سے بیانات کو اپنی تحقیق کے ذریعے غلط ثابت کیا ہے۔ لیکن ان تمام مباحث کے باوجود مولانا محمد حسین آزاد پہلے محقق ہیں جنہوں نے اردو زبان و ادب کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا کر اردو ادب اور لسانی تحقیق میں نئی راہیں کھولیں اور مباحث کے دروازے وا کئے۔ بقول ڈاکٹر مولوی عبدالحق: ’’ آزاد مرحوم کی آب حیات اپنی بعض واقعاتی غلطیوں کے باوجود اردو زبان میں ایک خاص پایہ رکھتی ہے‘‘ مولوی عبدالحق سرسید احمد خاں، مولوی چراغ علی، محسن الملک، مولانا شبلی نعمانی، مولوی ذکاء اللہ، مولانا حالی اور مولانا محمد حسین آزاد نے اردو میں جس تحقیق کی داغ بیل ڈالی، اسے اوڑھنا بچھونا بنا کر مولوی عبدالحق نے نہ صرف پروان چڑھایا، بلکہ زبان و ادب کو تحقیق کا موضوع بنا کر ایسی جہت دی جس کے دور رس نتائج ادبی تحقیق پر مرتب ہوئے۔ مولوی عبدالحق کے تحقیقی کارناموں کا تفصیلی جائزہ متعلقہ باب میں کیا گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ حواشی 1اردو تحقیق کا معیار از مالک رام ’’ آجکل‘‘ دہلی (تحقیق نمبر) اگست1967ء ص20 2ایضاً 3’’ پاکستان میں تہذیب کا ارتقا‘‘ از سید سبط حسن، کراچی، دانیال1983ء ص387 4’’ یادگار غالب‘‘ مرتبہ الطاف حسین حالی، لاہور، مکتبہ عالیہ ص93-95 5’’ غالب اور آہنگ غالب‘‘ از ڈاکٹر یوسف حسین خاں، دہلی، غالب اکیڈمی 1968ء 26-25 6’’ اردو زبان و ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ از ڈاکٹر رضیہ نور محمد لاہور، خیابان لاہور1985ء ص40 7’’ خطبات گارساں دتاسی‘‘ کراچی انجمن ترقی اردو1947ء ص60 8’’ فورٹ ولیم کالج‘‘ (تحریک اور تاریخ) از پروفیسر وقار عظیم، لاہور یونیورسل بکس، 1986ء ص20 9’’ اردو ادب کی تحریکیں‘‘ از ڈاکٹر انور سدید کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان1985ء ص255 10’’ انگریزوں کی اردو دوستی‘‘ از رالف رسل، افکار کراچی1981ء ص423 11ایضاً 12راقم الحروف کے خیال میں یہاں انجیل مقدس لکھا ہونا چاہیے لیکن حوالے میں توریت مقدس لکھا ہے 13’’ مقالات گارساں دتاسی‘‘ (جلد اول) کراچی انجمن ترقی اردو 1964ء ص278 14’’ لغت کبیر‘‘ مولفہ بابائے اردو مولوی عبدالحق، کراچی انجمن ترقی ارد1964ء ص16 15’’ فورٹ ولیم کالج‘‘ (تحریک اور تاریخ) تالیف وقار عظیم، لاہور یونیورسل بکس1986ء ص24 16’’ لغت کبیر‘‘ جلد دوم(حصہ اول) مولفہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کراچی، انجمن ترقی اردو 1987ء ص39 17’’ مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ از سید طفیل احمد منگلوری علیگ لاہور الکتبی (س ن) ص 214 18’’ مکتوبات سرسید‘‘ (جلد اول) مرتبہ شیخ محمد اسمعیل، لاہور مجلس ترقی اردو1976ء ص5 19’’ شبلی پر سرسید کا اثر‘‘ از سید مرتضی حسین بلگرامی، ادیب، علی گڑھ1960ء ص350 20’’ حیات جاوید‘‘ مولفہ مولانا الطاف حسین حالی، لاہور، نیشنل بک ہاؤس ص55 21’’ بازیافت‘‘ از ڈاکٹر محمود الٰہی، لکھنو، دانش محل1965ء ص8 22’’ سرسید احمد خاں حالات و افکار‘‘ از بابائے اردو مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1975ء ص35-36 23ایضاً ص36 24’’ بازیافت‘‘ از ڈاکٹر محمود الٰہی لکھنو، دانش حل1965ء ص19 25’’ مکتوبات سرسید‘‘ (جلد اول) از سرسید احمد خاں مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی لاہور، مجلس ترقی ادب1976ء ص431 26ایضاً ص442 27’’ شبلی پر سرسید کا اثر‘‘ از سید مرتضی بلگرامی ’’ ادیب ‘‘ (شبلی نمبر) علی گڑھ، ستمبر1960ء ص250 28’’ مقالات سرسید‘‘ (حصہ دہم) لاہور، مجلس ترقی ادب 1962ء ص74 29’’ وجہی سے عبدالحق تک‘‘ از ڈاکٹر سید عبداللہ، لاہور مکتبہ خیابان ادب 1977ء ص209 30’’ تہذیب الاخلاق‘‘ (جلد اول) مرتبہ منشی فضل الدین، لاہور مصطفائی پریس 1893ء ص4-3 31’’ ذکر شبلی‘‘ از امین زبیری لاہور، مکتبہ جدید1953ء ص7 32’’ سرسید کے ہم خیال علما کے دینی نظریات‘‘ از سید عبداللہ، اورینٹل کالج میگزین، لاہور نومبر1938ء ص56 33’’ تہذیب الاخلاق‘‘ یکم جمادی الاول1312ھ ص140 34’’ چند ہم عصر‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ، جنوری1961ء ص33 35’’ شبلی بحیثیت مورخ‘‘ از اختر وقار عظیم، لاہور تصنیفات1968ء ص43 36’’ مقالات یوم شبلی‘‘ مرتبہ عبید اللہ خاں، لاہور اردو مرکز1961ء ص187 37ایضاً ص159 38’’ الفاروق‘‘ مولفہ شبلی نعمانی، لاہور ایم فرمان علی اینڈ سنزص11-12 39’’ مولانا شبلی نعمانی بطور محقق‘‘ از مرزا احسان احمد، رسالہ ’’ ادیب‘‘ دہلی ستمبر1960ء ص36 40’’ امہات الامۃ ‘‘ از ڈپٹی نذیر احمد (طبع ثانی) دہلی، ادریس المطابع1935ء ص2 41’’ البصیر‘‘ مجلہ اسلامیہ کالج چنیوٹ1962ء ص3 42’’ مقالات شبلی‘‘ مرتبہ عبید اللہ خاں ، لاہور، اردو مرکز1961ء ص141 43’’ شعر العجم میں شبلی کا تنقیدی اسلوب‘‘ (مقالہ ایم اے اردو) از زرینہ خاتون( غیر مطبوعہ) جامعہ سندھ 1968ء ص58 44شعر العجم (حصہ اول و دوم) از مولانا شبلی نعمانی لاہور، شیخ مبارک علی (س ن) ص4 45ایضاً 46’’ شبلی نعمانی بحیثیت مورخ‘‘ از اختر وقار عظیم لاہور، تصانیف،1968ء ص107 47’’ سرسید‘‘ احمد خاں اور ان کے نامور رفقائے کار کی اردو نثر کا فنی اور فکری جائزہ از ڈاکٹر سید عبداللہ، اسلام آباد مقتدرہ قومی زبان1986ء ص186-187 48’’ تاریخ ہندوستان ‘‘ (جلد ہفتم) از مولوی ذکاء اللہ علی گڑھ مطبع انسٹی ٹیوٹ1916ء ص1 49’’ حالی کی نثر نگاری‘‘ از ڈاکٹر عبدالقیوم لاہور، مجلس ترقی ادب 1968ء ص68 50’’ تذکرہ حالی‘‘ مرتبہ شیخ اسماعیل پانی پتی، دہلی جامعہ پریس1934 51’’ افکار حالی‘‘ مصنفہ بابائے اردو مولوی عبدالحق، کراچی انجمن ترقی اردو1976ء ص89 52’’ حیات سعدی‘‘ از الطاف حسین حالی مکتبہ عالیہ ص26 53’’ مطالعہ حالی‘‘ از ڈاکٹر وحید قریشی لاہور، اردو بک سٹال1961ء ص23 54ایضاً 55’’ حیات جاوید‘‘ از مولانا الطاف حسین حالی، لاہور نیشنل بک ہاؤس، ص10 56ایضاً ص10-11 57’’ آب حیات‘‘ از مولانا محمد حسین آزاد، لاہور مکتبہ عالیہ، ص8 58رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، جنوری1934ء ص220 ٭٭٭٭٭ پانچواں باب مولوی عبدالحق کے تحقیقی کارنامے مولوی عبدالحق کی اردو ادب اور زبان کے لیے اتنی خدمات ہیں کہ ان کی کسی بھی خدمت کو کسی دوسری خدمت پر فوقیت دینے میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔ ایک طرف وہ اردو زبان کے ایسے دلاور سپاہی ہیں جن کی ساری عمر اردو زبان کی ترویج اور اردو زبان کو اس کا جائز مقام دلانے کی خاطر بیت گئی اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے زمین کا گز بن کر رہ گئے۔ دوسری جانب وہ اردو کے ایسے محقق ہیں جنہوں نے اردو ادب کی گم شدہ کڑیوں کو ملا کر بہت سے ایسے شاعروں اور ادیبوں کو افق ادب پر نمودار کیا جو گم نامی اور تاریخ کی ستم ظریفیوں کا شکار ہو چکے تھے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید کے ولولہ انگیز دور میں ان سے تربیت پائی، حالی اور شبلی کی صحبتوں سے فائدہ اٹھایا اور آرنلڈ وبیک جیسے اساتذہ سے فیض یاب ہوئے، اس لیے عالم شباب میں ان کا لوح و قلم سے ایسا رشتہ جڑا کہ سانس اکھڑنے پر ہی اکھڑا۔ اس کے نتیجے میں مولوی عبدالحق نے اردو میں تحقیق کی اس روایت کو آگے بڑھایا جس کی سرسید نے داغ بیل ڈالی اور جو مولوی چراغ علی، محسن الملک، ذکاء اللہ، مولانا شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی اور مولانا محمد حسین آزاد کے ہاتھوں پروان چڑھی تھی۔ مولوی عبدالحق کے میدان میں آنے سے قبل اردو تحقیق کا دائرہ مذہب اور تاریخ کے موضوعات تک محدود تھا اس کے برعکس مولوی عبدالحق نے خالص لسانی و ادبی تحقیق کی داغ بیل ڈالی اور مواد کی پرکھ کے لیے قیاس کے بجائے حقائق کی چھان بین اور مستند داخلی و خارجہ شہادتوں کو بنیاد بنا کر اردو تحقیق کو مغرب کی جدید تحقیق کا ہم پلہ بنا دیا۔ مولوی عبدالحق کی تحقیق کا دائرہ ادب کی بہت سی اصناف پر محیط ہے انہوں نے شعرائے اردو کے تذکرے مرتب کئے نثر و نظم میں گم شدہ کتب، نثار و شعراء ڈھونڈ کر نکالے اور اپنے خطبات، مکاتیب اور تبصروں میں بھی تحقیق کی شان برقرار رکھی اس لیے ان کے تحقیقی کارناموں کا جائزہ لینے کے لیے ان کی تحقیق کو موضوعات کے اعتبار سے پرکھنا ہو گا، جس کی شکل کچھ اس طرح بنتی ہے: 1شعراء اردو کے تذکرے 2قدیم اردو 3شمالی ہند کے اردو ادب پر تحقیق شعراء اردو کے تذکرے اردو زبان و ادب میں تذکرہ نویسی کو اہم مقام حاصل ہے اور تذکرہ نویسی ہی وہ ابتدائی ماخذ ہے جس سے اردو شاعری کی تاریخ کے خدو خال سامنے آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم تذکرے تحقیقی چھان بین کی روایت سے آشنا نہ تھے اور وہ ذاتی پسند و نا پسند اور معاصرانہ چمک سے خالی نہیں اور نہ ان میں شعراء کا سوانحی مواد وافر میسر آتا ہے، پھر بھی اٹھارویں اور انیسویں صدی کی شاعرانہ فضا کا ایک ھیولی ہمارے سامنے ابھرتا ہے۔ اس لیے۔ ’’ اردو شعراء کے تذکروں کو ادبی تنقید، سوانح اور تاریخ کی اساس خیال کرنا چاہیے۔ ان تذکروں کو نظر انداز کر کے نہ ہم اردو زبان و ادب کی ارتقائی منزلوں کا سراغ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کے ماضی، حال اور مستقبل میں کوئی رشتہ قائم کر سکتے ہیں چنانچہ کلاسیکی شاعری اور ادب دونوں کے متعلق ہم آج جو کچھ جانتے ہیں، ان ہی تذکروں کے توسط سے جانتے ہیں اور آئندہ بھی ادبی تاریخ یا تحقیق و سوانح نگاری کا کوئی کام ان قدیم ماخذ سے یکسر بے نیاز رہ کر نہیں کیا جا سکتا۔ تذکروں کی یہی وہ اہمیت ہے جو کسی ادیب یا ناقد کو ان کے تفصیلی مطالعہ پر اکساتی بھی ہے اور مجبور بھی کرتی ہے۔‘‘ شاید یہی وجہ تھی کہ اردو شعراء کے تذکرے مولوی عبدالحق کے لیے بھی باعث کشش ہوئے۔ مولوی عبدالحق نے جن تذکروں کو اپنا موضوع بنایا، مرتب کیا اور مقدمات لکھے، ان کی ترتیب سن اشاعت کے اعتبار سے اس طرح ہے: 1تذکرہ گلشن ہند 1906ء 2چمنستان شعراء 1928ء 3مخزن نکات 1929ء 4تذکرہ ریختہ گویاں 1933ء 5مخزن شعراء 1933ء 6تذکرہ ھندی 1933ء 7عقد ثریا 1934ء 8ریاض الفصحا 1934ء 9نکات الشعراء 1935ء 10گل عجائب 1936ء جب کہ مندرجہ بالا تذکروں کی مرقومہ عصری ترتیب اس سے مختلف اور اس طرح ہے: 1نکات الشعراء از میر تقی میر 1125ھ مطابق1752ء 2تذکرہ ریختہ گویاں از فتح علی گردیزی 1166ھ مطابق1753ء 3مخزن نکات از قائم الدین قائم 1168ھ مطابق1755ء 4چمنستان شعراء از لچھمن نرائن شفق 1175ھ مطابق1762ء 5گل عجائب از اسد علی خاں سھنا 1192ھ مطابق1778ء 6عقد ثریا از غلام ھمدانی مصحفی 1199ھ مطابق1784ء 7تذکرہ ھندی از غلام ھمدانی مصحفی 1209ھ مطابق1794ء 8گلشن ھند از مرزا علی لطف 1215ء مطابق1801ء 9ریاض الضحا از غلام ھمدانی مصحفی 1221ھ مطابق1806ء 10مخزن شعراء از نور الدین خاں فائق 1297ھ مطابق1880ء گلشن ہند: تقدیم کے اعتبار سے ان تذکروں میں میر تقی میر کے تذکرے نکات الشعراء کو اولیت حاصل ہے، جب کہ مولوی عبدالحق کا شعراء کے تذکروں میں تحقیق کا سفر گلشن ہند سے شروع ہوتا ہے اس کا تعارف سر ورق پر اس طرح کرایا گیا ہے: ’’ گلشن ہند مشہور شعراء اردو کا ایک تذکرہ جس کو مرزا علی متخلص بہ لطف نے بعہد مار کوئس آف دیلزلی، گورنر جنرل ہند اردو کے مشہور سر پرست جان گل کرسٹ کی فرمائش سے علی ابراہیم خاں کے فارسی تذکرے ’’ گلزار ابراہیم‘‘ سے مع اضافوں کے اردو زبان میں جو آج سے پانچ سو سال کی سادہ اردو نثر کا ایک عمدہ نمونہ ہے 1801ء میں تصنیف کیا اور 1906ء میں شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کی تصحیح و تحشیہ اور مولوی عبدالحق صاحب بی اے کے ایک عالمانہ مقدمے کے ساتھ اردو زبان کی خدمت کے لیے عبداللہ خاں نے حیدر آباد دکن سے شائع کیا اور دار الاشاعت پنجاب کے رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور میں چھپا۔‘‘ یہ تذکرہ1320ء میں مولوی غلام محمد صاحب مددگار کیبنٹ کونسل دولت آصفیہ کو اتفاقاً مل گیا تھا اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ 1230ھ میں حصار شہر (دکن) کے پہلو میں پہنچنے والی موسی ندی میں برساتی سیلاب آیا تھا۔ ’’ یہ سیلاب جہاں اور ہزاروں چیزوں کو اپنے ساتھ لایا، اس میں یہ تذکرہ بھی تھا۔ پبلک میں یہ آب آوردہ کتابیں کوڑیوں کے داموں بکیں۔‘‘ مولوی غلام محمد نے یہ نسخہ مولانا شبلی نعمانی کو دکھایا۔ انہوں نے اسے مرتب کر کے اس کے تحشیہ قلم بند کئے اور مولوی عبدالحق (جو ان دنوں دکن میں مدرسہ آصفیہ کے پرنسپل تھے) کے مقدمہ کے ساتھ شائع کرنے کا عزم کیا مولوی عبدالحق کا یہ مقدمہ ان کے ابتدائی مقدموں میں سے ہے مولوی عبدالحق نے بڑی کاوش سے مقدمہ لکھا جس میں اردو زبان کی نشوونما، قدیم تصانیف، بالخصوص فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی اردو تصانیف اور اردو سے متعلق انگریز مصنفین کے کارناموں کا ذکر تاریخ ادب کی طرف پہلا قدم سمجھا جاتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس مقدمہ میں ایسے نکات اٹھائے ہیں جس پر محقق نے اپنی تحقیقی کاوشوں کی عمارتیں کھڑی کی ہیں، مثلاً مولوی عبدالحق نے میرا من کی باغ و بہار کے سلسلے میں لکھا ہے: ’’ کتاب کا ماخذ امیر خسرو کی چہار درویش ہے۔ میرا من نے امیر خسرو کی تصنیف سے ترجمہ نہیں کیا بلکہ اس سے پیشتر ایک صاحب تحسین نامی ساکن اوٹاوہ نے اسے امیر خسرو کی کتاب سے ترجمہ کے اتھا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے تذکرہ گلشن ہند کے مقدمہ میں صاحب تذکرہ میرزا علی لطف کا احوال بڑی کاوشوں سے ان کے کلام کی داخلی شہادتوں سے حاصل کیا ہے، ورنہ: ’’ صاحب تذکرہ نے اپنے حالات کچھ نہیں لکھے ، دیباچہ میں تو ذکر ہی نہیں۔ شعراء ک سلسلے میں جہاں اپنا حال لکھا ہے، وہ بھی برائے نام ہے، بلکہ دوسرے شعراء کے مقابلے میں بہت کم اور ناکافی ہے۔ البتہ اپنا کلام بڑے شوق سے نقل کیا ہے اور شاید اس موقع کو غنیمت سمجھ کر سب کا سب درج کر دیا ہے۔ لہٰذا ہم نے کچھ ان کے کلام سے اور کچھ ادھر ادھر سے تھوڑا بہت حال بہم پہنچایا ہے۔‘‘ ڈاکٹر خلیق انجم نے ان کا ذکر سودا کے شاگردوں میں کیا ہے جب کہ نواب مصطفی خان شیفتہ نے تذکرہ گلشن بے خار میں انہیں میر تقی میر کا شاگرد بتایا ہے لیکن لطف کے اپنے بیان سے ان دونوں دعوؤں کی تردید ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ شعر ریختہ کا فقط اپنی ہی طبع نا صواب ہے‘‘ مولوی عبدالحق نے اسی طرح داخلی شہادتوں سے تذکرہ کر کے سن تالیف پر حتمی باتیں کی ہیں، مثلاً مرزا لطف کے دیباچہ میں گلکرسٹ کی تعریف و توصیف میں اس امر کی شہادت کہ یہ تذکرہ ان کی فرمائش پر 1215ھ مطابق1801ء میں لکھا گیا۔ نواب سعادت علی خاں بہادر کے ذکر میں مار کوئیس آف ولزلی کا تذکرہ قلم بند کرنے کی فرمائش کا حوالہ ملتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے ان دونوں حوالوں کے بعد تذکرہ کی مادہ تاریخ ’’ رشک بہشت‘‘ (1215-12-1227) سے بھی یہی ثابت کیا ہے یہ تذکرہ1215ھ میں تالیف ہوا گویا کہ اردو شعراء پر اردو میں قلم بند کیا جانے والا یہ پہلا تذکرہ اپنی تقدیم کے لحاظ سے اس لیے بھی اہم ہے کہ: ’’ یہ تذکرہ میرا من کی باغ و بہار سے بھی کچھ پہلے لکھا گیا ہے گویا اس زمانے کی تصنیف ہے جب کہ اردو ادب سے متعلق اردو نثر کا کوئی نمونہ یا معیار موجود نہ تھا اس لحاظ سے یہ تذکرہ قدیم نثر اردو کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق تذکرہ گلشن ہند کو بہت سے تحقیقی انکشافات کا ماخذ قرار دیتے ہیں مثلاً میر تقی میر کا فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں تصنیف و تالیف کے لیے ریذیڈنٹ لکھنو میں طلب کئے جانا، اور بوجہ پیرانہ سالی انتخاب نہ ہونا۔ وہ اس طرح ذکر کرتے ہیں: ’’ جن ایام میں کہ درخواست صاحبان عالی شان سطح زبان دانان ریختہ کے مقدمے میں کلکتہ سے لکھنو گئی تو پہلے کرنل اسکاٹ صاحب کے سامنے تقریب میر کی ہوئی لیکن علت پیری سے یہ بے چارے مجہول کے محمول ہوئے اور جوانان نو مشق مربی گری سے قوت بدنی کے مقبول ہوئے زمانہ خوش طبعون سے کبھی نہیں خالی ہے اکثر اہل لکھنو پکارتے تھے کہ کلکتہ میں شاعری کی جا درخواست حمال ہے۔‘‘ میر تقی میر کے سلسلے میں ہی ’’ آب حیات‘‘ کے اس بیان کا کمزور ہونا ثابت ہے کہ نواب آصف الدولہ سے کنارہ کشی کر کے ’’ فقر و افاقہ میں گذارتے رہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اپنے تحقیق مقدمے میں اس تذکرہ سے ان امور و واقعات اور حوالوں کی نشان دہی کی ہے جن پر اس سے قبل کم نظر جاتی تھی مثلاً لطف کے تذکرے میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن پر اردو شاعر ہونے کا گمان بھی نہیں ہوتا، مثلاً شاہ ولی اللہ، عبدالقادر بیدل اور تانا شاہ وغیرہ مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ شاہ ولی اللہ وہ نہیں ہیں جن پر صاحب تذکرہ کو گمان ہے بلکہ ’’ صاحب تذکرہ کو دھوکا ہوا ہے یہ شاہ ولی اللہ دوسرے صاحب ہیں، جن کا تخلص اشتیاق ہے بعد کی تحقیق سے یہ حقیقت معلوم ہوئی۔‘‘ تذکرہ کی تدوین کے سلسلے میں پبلشر نے دعوی کیا ہے: ’’ حتی الامکان اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کا ایک حرف بھی چھوٹنے نہ پائے البتہ صرف اتنا تصرف ہے کہ میر، سودا، درد اور مصنف کا نمونہ کلام جو اس مجموعے میں نہایت کثرت کے ساتھ درج تھا، اس میں سے صرف عمدہ نمونہ چن لیا گیا ہے اور اس خدمت کو بھی مولوی عبدالحق صاحب کے ذوق سلیم نے انجام دیا ہے۔‘‘ جب کہ مولوی عبدالحق اس تحریف کو پبلشر کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ مولف نے شعراء کا کلام جو بطور انتخاب کے درج کیا ہے، اس میں اتنا تصرف کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے کلام چھپ چکے ہیں ان کے انتخابی کلام کو پبلشر نے کم کر دیا ہے صرف اعلیٰ درجے کے اشعار رکھے ہیں مگر جن شعرا کا کلام نہیں چھپا ان کے کلام کو ویسا ہی رہنے دیا ہے۔ خود مولف نے اپنے کلام سے صفحے کے صفحے رنگ دئیے ہیں اس میں بھی انتخاب کر دیا گیا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کے اس مقدمے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اس تذکرے کو تحقیقی نظر سے پرکھا ہے بلکہ جن شعراء کا ذکر آیا ہے ان پر بھی بھر پور تحقیقی مواد کی نشان دہی کی ہے اور تذکرے کی لسانی خوبیوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ لطف نے ’’ گلزا رابراہیم‘‘ کے 320شعراء میں سے 69کے حالات اس طرح اخذ کر کے ترجمہ کئے ہیں کہ ان پر تالیف کا گمان ہوتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لطف نے جن شعراء کو اس میں منتخب کر کے ترجمہ کیا ہے ان کے احوال اور کلام میں اضافے بھی کئے ہیں انہوں نے اس تذکرہ میں شعراء کے وطن، تلمذ اور جائے سکونت وغیرہ کا بھی ذکر کیا ہے اور شعراء کے سلسلے میں قابل اعتبار مواد فراہم کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمے میں میرزا علی لطف کی اس کاوش کو ایک معاشرتی مرقع قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ اس کتاب سے زمانے کی سوسائٹی پر بھی روشنی پڑتی ہے اور یہ بات تو صاف صاف نظر آتی ہے کہ ہمارے شاعروں کا گروہ عجیب بے فکرا تھا اور دنیا و مافیہا کی کچھ خبر نہ تھی آخر میں جب بادشاہ نواب اور امراء اس طرف جھکے تو وہ بھی ایسے ہی ہو گئے۔ ان لوگوں نے رہا سہا انہیں اور کھو دیا۔ ملک گیری اور ملک داری بھی جا چکی تھی، الو العزی اور ہمت بھی اس کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی۔ جسمانی اور دماغی قوی میں انحطاط پیدا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس زمانے میں سب سے بڑی علمی اور مذہبی مجلسیں مشاعرے تھے، جن کے لیے بڑے بڑے اہتمام کئے جاتے تھے اس کے خاص آداب تھے۔ بڑے بوڑھے، نوجوان، بچے سبھی شریک ہوتے تھے باکمال سخن وروں کو دل کھول کر داد دی جاتی تھی کبھی کبھی بحث و مباحثے ہوتے ہوتے لڑائی جھگڑے ہو جاتے اور تکا فضیحتی تک نوبت پہنچ جاتی۔ نوجوان ان مشاعروں میں شریک ہوتے تھے اور اپنے کانوں سے تحسین و آفرین کے نعرے سنتے تھے، جو شعراء کے لیے سب سے بڑی داد اور سب سے بڑا انعام تھا۔‘‘ غرض مولوی عبدالحق نے ہر ہر پہلو سے اس تذکرہ کی افادیت بیان کر کے اس کی قدر و منزلت میں اضافہ کیا ہے۔ چمنستان شعراء چمنستان شعراء از لالہ لچھمن داس شفیق، مولوی عبدالحق نے 1928ء میں مرتب کیا تھا۔ مرتب کرنے سے قبل مولوی عبدالحق نے جولائی1927ء کے رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد میں لچھمن نرائن داس کا نمونہ کلام شائع کر کے ادبی حلقوں میں ان کا تعارف کرایا تھا۔ا س سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1927ء میں ہی مولوی عبدالحق چمنستان شعراء کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔ لالہ لچھمن نرائن داس شفیق نے یہ تذکرہ اٹھارہ سال کی عمر میں تالیف کیا۔ اس کا نام تاریخی ہے جس سے اس کا سن تالیف 1175 ھ نکلتا ہے مولوی عبدالحق صاحب نے اس بات کا اس طرح ذکر کیا ہے: ’’ سب سے قابل تعریف بات یہ ہے کہ شفیق نے یہ تذکرہ اٹھارہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور بغیر کسی کی مدد کے تھوڑے عرصہ میں ختم کر دیا۔ اس عمر میں اسی اچھی کتاب کا تالیف کرنا اعجاز سے کم نہیں۔ اس سے شفیق کی غیر معمولی ذہانت اور لیاقت کا اندازہ ہوتا ہے کتاب کا نام چمنستان شعراء تاریخی ہے اور اس سے 1175ھ سن تالیف نکلتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے شفیق کے اس تذکرے پر ایک طویل مقدمہ تحریر کیا ہے اور کھوج لگا کر شفیق اور ان کے والد منسا رام کی تالیفات سے اخذ کر کے خاندان کا پس منظر اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالی ہے اور تحریر کیا ہیـ: ’’ شفیق کھتری قوم سے تھے اور ان کے بزرگ لاہور کے رہنے والے تھے ان کے دادا بھوانی داس لشکر عالم گیری کے ہم راہ دکن میں آئے اور اورنگ آباد میں سکون پذیر ہو گئے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے بتایا ہے کہ شفیق کے والد بھی صاحب تصنیف و تالیف تھے انہوں نے 1175ھ میں ’’ قانون دربار آصفی‘‘ اور1200ھ میں آصف جاہ اول کے حالات پر ’’ ماثر نظامی‘‘ رقم بند کئے اس طرحـ: ’’ شفیق ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، جہاں علمی چرچا تھا اور خود ان کے والد صاحب تالیف و تصنیف تھے۔ شفیق کی ولادت 1185ھ میں ہوئی۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے شفیق کی ولادت کا سن 1185ھ تحریر کیا ہے جب کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے صفر1158ھ مطابق 1745ء بمقام اورنگ آباد اور نصیر الدین ہاشمی ’’ دکن میں اردو شاعری‘‘ میں شفیق کا سن ولادت1175ھ بتاتے ہوئے اور مولوی عبدالحق کے تحریر کردہ سن ولادت (1185ئ) کا تجزیہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ مولانا عبدالحق صاحب نے ’’ چمنستان شعرائ‘‘ کے مقدمے میں ان کا سن ولادت1175ھ لکھا اور چمنستان شعراء 1175ھ کی تالیف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سن کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس سن کو کتابت کی غلطی بھی نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ مقدمات عبدالحق میں یہی سن لکھا گیا ہے خود مولانا کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں اس تذکرہ کی تالیف ہوئی اس لیے صحیح سن پیدائش1175ھ ہے۔‘‘ تاہم یہ مصدقہ ہے کہ ’’ چمنستان شعرائ1175ھ کی تالیف ہے مولوی عبدالحق صاحب کے پیش نظر کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد کا واحد نسخہ تھا جس کی مدد سے انہوں نے ’’ تذکرہ چمنستان شعرائ‘‘ مرتب کیا ان کی تحقیق کے مطابق تذکرہ کا یہی ایک نسخہ ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے تذکرہ اپنے تحقیقی مزاج کے مطابق بڑی کاوش سے مرتب کیا، بعض عبارتیں اصل ماخذ کی کتب سے درست کیں، مشکوک اور کرم خوردہ اشعار کو شعراء کے اصل دیوانوں اور بیاضوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ٹھیک کیا اور اس پر جو حقائق سامنے نہ آ سکے یا ان کی صحت نہ ہو سکی، قیاس کی بجائے ان کے سامنے استفہام کی علامت لکھ دی تاکہ وہ آئندہ محقق کے لیے باعث توجہ رہیں۔ شفیق کے تذکرے سے قبل میر تقی میر کا نکات الشعراء (1165ھ) فتح گردیزی کا تذکرہ ریختہ گویاں (1166ھ) اور قائم کا تذکرہ مخزن نکات(11666ھ) نہ صرف تالیف بلکہ ادبی دنیا میں متعارف بھی ہو چکے تھے چنانچہ متذکرہ شفیق کے لیے بھی باعث تحریک ہوئے شفیق لکھتے ہیں: ’’ جب ہندوستان سے تازہ تازہ میر تقی میر اور فتح علی خاں کے تذکرے پہنچے تو سرے عالم میں غلغلہ پڑ گیا اور اشعار ہند کے اشتیاق میں ایک دنیا تہ و بالا ہو گئی۔ کیوں کہ اہل دکن کو ان اشعار کا پہنچنا دشوار ہے، اس لیے میری فکر ناقص میں بات آئی کہ ان دونوں تذکروں کے اشعار اور دوسرے جواہر پارے ان کو ساتھ ملا کر سفینہ تیار کروں اور تقریب سے بعض احباب سخن داں کے حالات و کلام جمع کرنے کو موقع بھی مل جائے گا دوست احباب نے بھی تائید کی بلکہ اصرار کیا اور میں اس کتاب کے لکھنے پر آمادہ ہو گیا۔‘‘ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شفیق نے اپنے پیش رو تذکرہ نگاروں سے نہ صرف استفادہ کیا ہے بلکہ اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ شفیق نے اپنے اس تذکرے میں213شعراء کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح یہ تذکرہ میر اور گردیزی کے تذکروں سے ضخیم بھی ہے۔ اپنے تذکرے میں شفیق نے نہ صرف ان کی سوانحی خاکہ نگاری کی ہے بلکہ ان کے عہد کے تعین کے لئے تاریخی مصرعے اور قطعات بطور سند پیش کر کے ان کے ذکر کو زیادہ مستند کر دیا ہے۔ شفیق نے اشعار کے انتخاب و انتساب میں بھی بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ اشتراک تخلص کی وجہ سے جن اشعار کے سلسلے میں یہ تعین مشکل تھا کہ یہ کس کے ہیں، انہیں تذکرے کے آخر میں جداگانہ جگہ دی ہے۔ مجموعی اعتبار سے ایسے اشعار کی تعداد25ہے۔ مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ شفیق نے گردیزی اور میر تقی میر کے علاوہ بھی چند دیگر تذکروں او ربیاضوں سے استفادہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’ کتاب کے مطالعہ میں بعض جگہ شاہ عبدالحکیم کے تذکرہ ’’ مردم دیدہ‘‘ تذکرہ ’’ مجمع النفاس‘‘ تالیف سراج الدین خاں آرزو، سرور، آزاد حاجی اکبر رمال اور رضا خاں کی بیاضوں کا حوالہ ملے گا۔‘‘ شفیق نے اس تذکرے میں رنگین بیانی کا اسلوب اختیار کیا ہے اور ہر شاعر کے ساتھ غیر جانب دارانہ رویہ رکھا ہے لیکن یقین کے ذکر میں ان کا دامن اعتدال سے تجاوز کر گیا ہے یقین کے ذکر میں شفیق کی یقین سے عقیدت کی جھلک ٹپکتی ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ میر تقی میر نے انعام اللہ خاں یقین پر رعونت اور تصرف اشعار پر جو تنقید کی تھی، وہ انہیں نہ بھائی اور انہوں نے میر پر جوابی تنقید کی۔ مولوی عبدالحق نے چمنستان شعراء کی ترتیب میں ان شعراء کا حال اور کلام جو اس تذکرے میں نہیں تھا، افضل بیگ خاں کے تذکرے ’’ تحفۃ الشعرئ‘‘ کے حوالے سے اضافہ کر کے حاشیہ میں درج کر دیا ہے۔ ایسے دس شعراء کا اضافہ کیا گیا ہے ان کے علاوہ چھ شعراء کے احوال اور اشعار میں بھی اضافہ کیا ہے، جو شفیق کے تذکرے میں موجود تھے۔ مولوی عبدالحق نے جن دس شعراء کا اضافہ کیا ہے، وہ یہ ہیں: 1میر عبدالوھاب افتخار 2محمد رضا قزلباش خاں 3مرزا علی نقی ایجاد 4میر یوسف خاں بسمل 5آقا امین ایلچدری وفا 6میر عبدالحی وقار 7نواب ذوالفقار الدولہ بہادر جنگ موزوں 8میر فخر الدین اورنگ آبادی 9نور الدین علی رنگین اور 10مولوی محمد باقر شہید اور جن شعراء کے حالات اور کلام میں اضافہ کیا ہے، وہ میر سراج الدین سراج، سید عبدالولی عزلت، عارف الدین خاں عاجز، نور محمد عاصی، فیض الدین نقشبندی، فضلی اور شیخ احمد فدا ہیں۔ ان اضافوں کی وجہ سے پڑھنے والا تحفۃ الشعراء کے مطالعے سے مستغنی ہو جاتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے بصیرت افروز مقدمے میں نہ صرف شفیق کا کلام درج کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ شاعری کے نکات سے خوب واقف تھے بلکہ اوسط درجے کے شعراء میں ان کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ مولوی عبدالحق نے اس تذکرے کے مقدمے میں شفیق کی دیگر تالیفات کا بھی ذکر کیا ہے جن میں حقیقت ہائے ہندوستان، تحقیق شنگرف، شام غریباں اور گل رعنا شامل ہیں۔ متذکرہ آخری دونوں کتب بھی تذکرے ہیں۔ شام غریباں ہندوستان کے ایرانی شعراء کا تذکرہ ہے اور گل رعنا ہندوستان کے فارسی گو شعراء کے ذکر پر مشتمل ہے۔ مخزن نکات مولوی عبدالحق نے 1929ء میں انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام محمد قیام الدین قائم کا تذکرہ ’’ مخزن نکات‘‘ اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کیا جس میں انہوں نے مخزن نکات اور مولف کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں جن سے تذکرے کے ماخذ، سال تصنیف اور قائم کے حالات زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔ قائم چاند پوری ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔ ان کا نام میر تقی میر نے محمد قائم اور مرزا علی لطف نے شیخ محمد قائم اور گارسان دتاسی نے شیخ محمد قائم الدین قائم تحریر کیا ہے، اور مولوی عبدالحق بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ان ک ااصلی نام محمد قیام الدین ہے۔ قائم خود بھی شاعر تھے خواجہ میر درد اور میرزا رفیع سودا کے شاگردوں میں تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے انہیں شاہ ہدایت کا بھی شاگرد بتایا ہے مولوی عبدالحق نے قائم کے تذکرے میں قائم سمیت114شعراء اور شہاب الدین ثاقب نے 120شعراء کا اندراج بتایا ہے جب کہ اس تذکرے میں119شعراء کا ذکر ہے جسے قائم نے تین طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ طبقہ اول میں متقدمین کا ذکر ہے جن کی تعداد27ہے اس طبقہ کا آغاز سعدی شیرازی سے ہوتا ہے اور خاتمہ میر جعفر کے ذکر پر ہے۔ طبقہ دوم کا آغاز شاہ مبارک آرزو سے کمتر ان تک ہے اس طبقے میں 32 شاعروں کے احوال اور اشعار ہیں۔ طبقہ سوم میر شمس الدین فقیر سے شروع کر کے اپنے احوال پر ختم کیا ہے اس طبقے میں60شاعر شامل ہیں ہر طبقے کے شروع میں اس دور کی خصوصیات ہیں جس سے یہ تذکرہ تاریخ ادب سے قریب تر ہو گیا ہے قائم کے اس تذکرے سے دکن کے شعراء ایک بڑی تعداد میں پہلی دفعہ شمالی ہند کے شعراء سے متعارف ہوتے ہیں۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں یہ ذکر نہیں کیا کہ یہ نسخہ کہاں سے دستیاب ہوا اور نہ انجمن ترقی اردو کے ذخیرے میں کوئی نسخہ موجود ہے۔ ڈاکٹر اقتدا حسن نے خلیل داودی کے حوالہ سے اس ڈمی پروف کا ذکر کیا ہے جس سے ان کا قیاس ہے کہ یہ تذکرہ تاجر کتب رستم علی کا مطبوعہ نسخہ تھا ڈاکٹر اقتدا حسن لکھتے ہیں کہ: ’’ معلوم ایسا ہوتاہے کہ بعد میں انجمن ترقی اردو نے اس کے حقوق حاصل کر لیے اور اس پر مولوی عبدالحق نے مقدمہ لکھ کر شائع کر دیا۔‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن کے ذاتی کتب خانے میں بھی متذکرہ ایک ایسا نسخہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جسے تاجر کتب رستم علی نے ڈیوڑھی مستقیم الدولہ، چھتہ بازار حیدر آباد دکن سے شائع کیا تھا۔ یہ نسخہ سنگی طباعت میں نستعلیق ہے، جس کی ابتدا میں مولوی عبدالحق نے بہ خط ٹائپ اپنا مقدمہ منسلک کر کے 1929ء میں اورنگ آباد سے شائع کیا۔ کتاب کے آخر میں صفحہ 80 پر تاجر کتب کا نام اور اشتہار موجود ہے۔ ڈاکٹر اقتدا حسن نے مخزن نکات کے ایک مخطوطہ کا ذکر اس طرح کیا ہے: ’’ مخزن نکات کے صرف ایک مخطوطے کا پتہ چل سکا ہے جو انڈین آفس لائبریری لندن میں محفوظ ہے اور قیاس یہ ہے کہ یہ شاہان اودھ کے کتب خانوں کا وہی نسخہ ہے جس سے اسپرنگر نے اپنی فہرست شعراء کی تیاری میں مدد لی ہے۔‘‘ یقینا مولوی عبدالحق کے پیش نظر مندرجہ بالا نسخہ نہیں تھا ورنہ وہ اس کا ضرور ذکر کرتے مخزن نکات میں خواجہ اکرام صاحب کی نکالی ہوئی مادہ تاریخ ہے جس سے سن تالیف1168ء نکلتا ہے لیکن بعد میں بھی اس میں اضافے ہوتے رہے جس کی داخلی شہادتیں محتشم علی خاں حشمت، میر درد، میر تقی میر اور محمد فقیہ درد مند کے تراجم کے متن سے ملتی ہیں۔ بقول امتیاز علی عرشی: ’’ قائم نے اپنا تذکرہ پہلے بیاض کی صورت میں مرتب کیا تھا اس بیاض کے آغاز کے بارے میں سب سے پہلی تاریخ 1157ھ ملتی ہے اس وقت تک اردو شاعری کا کوئی تذکرہ مرتب نہیں ہوا تھا1167ھ (1753-54ئ) میں احمد شاہ ابدالی کے معزول ہو جانے اور عالم گیر ثانی کے تخت نشین ہونے کے بعد اس بیاض نے تذکرے کی صورت اختیار کر لی اور مصنف نے اس کا تاریخی نام مخزن نکات رکھا، جس سے 1168ھ برآمد ہوتے ہیں اس تاریخ کے بعد بھی اس میں جا بجا اضافے کئے، جس کا سلسلہ 1176ھ (1762ئ) تک جاری رہا۔‘‘ قائم نے اس تذکرے میں بیاض عزلت، بیاض طالب اور رائے سنگھ عاقل کے تذکروں کے حوالے دئیے ہیں، تاہم یہ دعوی بھی کیا ہے کہ ان کے تذکرے سے قبل کوئی تذکرہ شعراء ریختہ کے بیان میں نہیں لکھا گیا مولوی عبدالحق کو قائم کے اس دعویٰ سے اختلاف ہے اور ان کا کہنا ہے: ’’ یہ دعوی صحیح نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ اس سے دو چار سال قبل میر تقی میر اور علی الحسینی گردیزی نے اپنے تذکرے لکھے تھے‘‘ مولوی عبدالحق قائم کے اس بیان سے بھی متفق نہیں ہیں کہ شیخ سعدی شیرازی ہندوستان تشریف لائے۔ قائم نے اس تذکرے میں اپنا بہت کم کلام درج کیا ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمے میں قائم کے 130اشعار، ایک رباعی اور ایک قطعہ کا انتخاب دے کر ان کی شاعرانہ صلاحیت پر روشنی ڈالی ہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمے کے ساتھ قائم کے تذکرہ کو جامع شکل میں شائع کرنے کی اولیت حاصل کی ہے۔ تذکرہ ریختہ گویاں مولوی عبدالحق نے تذکرہ ریختہ گویاں اپنے تحقیقی مقدمہ کے ساتھ مرتب کر کے 1933ء میں اورنگ آباد سے شائع کیا تھا۔ اس تذکرہ کا آغاز سید فتح علی گردیزی نے 1156ھ میں کیا تھا، جب کہ یہ 5محرم1166ھ کو تکمیل کو پہنچا امتیاز علی خاں عرشی کی تحقیق ہے: ’’ تکملہ کے سن کے بعد بھی اس میں کچھ اضافے ہوئے‘‘ گو مولوی عبدالحق نے اس تذکرے کو تین مختلف نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے لیکن انہوں نے صرف اس نسخہ کا ذکر کیا ہے جو سید عبدالوالی عزلت کے لیے سید عبدالنبی نے تذکرہ کے مرتب ہونے کے چھ سال بعد1172ھ میں نقل کیا تھا مولوی عبدالحق صاحب نے تذکرہ کے متن کے حواشی میں مختلف نسخوں کے اختلاف متن اور ملا کی نشان دہی بڑی دیدہ ریزی سے کی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یقینا ان کے پیش نظر عزلت کے نسخے کے علاوہ اور بھی نسخے تھے۔ اس مقدمہ میں بھی انہوں نے مصنف کے سوانحی حالات ڈھونڈ ڈھونڈ کر تحریر کئے ہیں جس سے مصنف کے احوال کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر تصانیف پر بھی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ سید فتح علی اپنے وقت کے مشائخ و صوفیاء میں شمار کئے جاتے تھے اور مخدوم میر جہاں (خلیفہ مخدوم شاہ عالم محمدی، خلیفہ میر سید محمد کبیر، خلیفہ شیخ محب اللہ الہ آبادی) سے بیعت تھے، نیز سید فتح علی حسینی گردیزی نے اس تذکرہ کے علاوہ تصوف پر بھی چند رسائل قلم بند کئے تھے جس میں وحدت الوجود کی تحقیق پر ’’ کشف الستار فی معرفت الاسرار‘‘ حصول معرفت و عرفان پر ’’ مراۃ العرفان‘‘ قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ ’’ ابطال الباطل‘‘ شیخ حزین کے کلام پر اعتراضات کا جواب اور ’’ نور ہدایت‘‘ ایک مذہبی رسالہ ہے۔ گردیزی نے اپنے عہد کے تذکروں سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے ان تالیفات پر علت نمائی، معاصرین سے ستم ظریفی اور ہم عصروں کی خوردہ گیری کا الزام لگایا ہے لیکن مولوی عبدالحق نے یہ ثابت کیا ہے کہ گردیزی کی پہنچ اپنے عہد کے تذکروں تک نہیں تھی اور نہ ہی ان کے تذکرہ میں ان کے حوالے ملتے ہیں تاہم ان کے پیش نظر میر تقی میر کا تذکرہ نکات الشعراء تھا جس پر گردیزی نے کڑی تنقید بھی کی ہے اور اس سے استفادہ بھی کیا ہے۔ مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ میر کا تذکرہ ان کی نظر سے ضرور گذرا ہے اور دیباچہ میں جو اس نے تذکرہ نویسوں کے خلاف زہر اگلا ہے، اس کا ہدف نکات الشعراء ہی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے ثابت کیا کہ گردیزی نے اپنے عہد اور بالخصوص میر تقی میر کے تذکرہ کے جن نکات پر تنقید کی عمارت کھڑی کی تھی وہ خود بھی اس کا شکار ہو گئے۔ گردیزی نے کل ستانوے شعرا کا ذکر کیا ہے، ان میں72شعراء ایسے ہیں جن کا ذکر میر تقی میر کے تذکرے میں بھی ملتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمے میں نکات الشعراء سے گردیزی کے تذکرہ کا موازنہ کرتے ہوئے گردیزی کے تذکرہ کی بعض خصوصیات کا اعتراف کیا ہے، مثلاً گردیزی کے تذکرے سے ہمیں بعض ایسے شاعروں کے احوال سے آگاہی ہوتی ہے جن کے ذکر سے میر کا تذکرہ خالی ہے۔ اسی طرح مولوی عبدالحق کے اس مقدمہ میں گردیزی اور میر کے تذکروں کا تقابلی جائزہ بھی ہے۔ گردیزی نے اپنے اس تذکرے کو حروف تہجی کے اعتبار سے رقم کرنا چاہا تھا مگر: ’’ اس کی ذیلی ترتیب میں حروف تہجی کا کہیں لحاظ نہیں رکھا‘‘ مجموعی اعتبار سے مولوی عبدالحق کا یہ مقدمہ بڑا متوازن ہے میر کے مداح ہونے کے باوجود انہیں گردیزی میں جہاں کوئی خوبی نظر آئی ہے اسے بڑی فراغ دلی سے اجاگر کیا ہے۔ مخزن شعراء مخزن شعراء قاضی نور الدین حسین خاں رضوی فائق کا شعراء گجرات کا تذکرہ ہے جس میں انہوں نے111گجراتی اردو شاعروں کا تذکرہ کیا ہے اسے مولوی عبدالحق نے 1933ء میں اورنگ آباد سے شائع کیا تھا۔ ’’ مخزن شعرائ‘‘ تاریخی نام ہے اس کا قطعہ تاریخ مولف نے خود کہا تھا جس سے اس کا سن تالیف1268ھ نکلتا ہے میاں سمجھو نجم الدین مشتاق اور میر عباس علی شوق نے بھی قطعات تاریخ کہے ہیں جن سے یہی سن تالیف نکلتا ہے میر عباس علی شوق نے بی قطعات تاریخ کہے ہیں جن سے یہی سن تالیف نکلتا ہے میر کامل نے کتاب کی تغریظ اور مولف نے خود دیباچہ لکھا ہے جس میں یہ کتاب ’’ دھلی، لکھنو وغیرہ اساتذہ کی خدمت میں شعراء گجرات‘‘ کے ذکر سے ہے۔ یہ تذکرہ اس لیے بہت اہم ہے کہ اس پر غالب پر نظر ثانی کی تھی اس کے اعتراف میں کتاب کے آخر میں غالب کا ایک مکتوب مرقومہ 14جولائی 1896ء شامل ہے غالب لکھتے ہیں: ’’ برخوردار مرزا شہاب الدین خان بہادر نے یہ اجزا مجھ کو دئیے۔ نظم سے میں نے قطع نظر کی کامل صاحب کی نثر جو آغاز میں ہے ، اس کو بھی نہیں دیکھا آپ کی نظر کو دیکھا اور اس کو موافق حکم آپ کے بعض جگہ درست کر دیا بعض موقع پر منشائے اصلاح بھی لکھ دیا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے یہ تذکرہ دو نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے، ایک بمبئی یونی ورسٹی کے کتب خانہ کی ملک تھا اور دوسرا انہیں فائق کی پوتے نے دیا تھا۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمے کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصے میں خطہ گجرات کا تاریخی پس منظر اور اس خطے سے مسلمانوں کے تعلق پر تحقیق ہے دوسرے حصے میں مسلمان فاتحین کی لشکر کشی کے نتیجے میں معاشرتی اور لسانی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ان صوفیائے کرام اور شعراء کا ذکر کیا ہے جو ’’ گجری اردو‘‘ میں لسانی خدمات انجام دے رہے تھے تیسرے حصے میں صاحب تذکرہ کے احوال کا کھوج لگایا ہے۔ مولوی عبدالحق نے گجرات میں زبان کی اجمالی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت قطب عالم (متوفی850ھ) حضرت شاہ عالم (متوفی922ھ) شاہ علی جیو گام (متوفی972ھ) میاں محمد چشتی (متوفی1023ھ) اور سید شام غلام ہاشمی (متوفی1059ھ) کا ذکر کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اگرچہ: ’’ یہ حضرات اپنی زبان کو عربی و عجمی گجراتی کہتے تھے، جس کے معنی قدیم گجراتی اردو کے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن خالص پرانی اردو میں ہیں۔ البتہ کہیں کہیں گجراتی لفظ بھی آ جاتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کی تحقیق اور مخزن الشعراء کے متن سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اردو کی نشوونما گجرات میں بہت پہلے شروع ہو گئی تھی اور دکن و دلی کی طرح گجرات بھی اردو کا ایک مرکز تھا مولوی عبدالحق نے اس تذکرے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ اگرچہ صاحب تذکرہ نے اس راہ انکسار محاورہ شعرائے گجرات کے متعلق اہل دھلی اور لکھنو سے معذرت کی ہے لیکن حق یہ ہے کہ ان شعراء نے زبان اردو کو بڑی خوبی سے لکھا ہے اور ان کی زبان کس طرح دلی اور لکھنو کے عام شعراء سے کم نہیں، بلکہ بعض ان میں استادانہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان کی زبان کی فصاحت اور صفائی میں کلام نہیں ہو سکتا۔ تذکرہ کے مطالعہ کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ گجرات میں اس کثرت سے شاعر تھے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے جہاں تذکرہ نگار اور تذکرہ کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے، وہاں ان کی تحقیقی نگاہ خامیوں پر بھی گئی ہے وہ اس بات کو بری طرح محسوس کرتے ہیں کہ اس میں قدیم شعرائے گجرات کو نظر انداز کیا گیا ہے جس سے ایک تاریخی خلا رہ گیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ کیا اچھا ہوتا کہ وہ قدیم گجرات اردو شعراء کے حالات بھی اس تذکرے میں شریک کر دیتے۔ مولف نے اس بارے میں یہاں تک احتیاط کی ہے کہ اگر کسی شاعر کے کلام میں کچھ اشعار پرانی زبان کے آ گئے ہیں تو دانستہ ان کے انتخاب سے پہلو تہی کیا ہے۔۔۔۔۔ مولف کو قدیم زبان سے کچھ انس نہیں اور اس لیے نہ تو انہوں نے قدیم شعراء کا ذکر کیا ہے اور نہ متاخرین کے ایسے اشعار درج تذکرہ کئے ہیں جن میں قدیم زبان کی بوباس پائی جاتی ہے تذکرے میں بارھویں اور زیادہ تر تیرھویں صدی کے شعراء کا ذکر ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ شعراء کے حالات سے بحث نہیں کرتے اور نہ اس بارے میں تحقیق و تلاش کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ سن وفات وغیرہ کے سلسلے میں سوائے دو چار کے کسی کا ذکر نہیں کیا۔‘‘ فائق نے اپنے تذکرہ میں دلی کے گجراتی ہونے کا ذکر کر کے پرانی بحث کو چھیڑ دیا ہے کہ دلی گجراتی تھا یا دکنی؟ مولوی عبدالحق مختلف تذکروں کے حوالوں سے اس موضوع کو زیر بحث لائے ہیں، لیکن وہ اس کو سمیٹ نہ سکے اور لکھا: ’’ یہ اختلاف ایک مدت سے چلا آ رہا ہے اور اس وقت اس کا قطعی فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے‘‘ مولف نے اپنا ذکر تین صفحات میں کیا ہے اور اپنے کل 27اشعار درج تذکرہ کئے ہیں۔ تذکرہ پرانی روایت کے مطابق حروف تہجی کے اعتبار سے قلم بند کیا گیا ہے۔ مصحفی کے تذکرے مولوی عبدالحق نے غلام ہمدانی کے تین تذکرے ’’ تذکرہ ہندی‘‘ اور’’ عقد ثریا‘‘ دونوں1933ء اور ’’ ریاض الفصحا‘‘ 1934ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کے زیر اہتمام مرتب کر کے شائع کئے تھے۔ان تینوں میں تقدیم کے لحاظ سے ’’ عقد ثریا‘‘ کا سن تالیف1199ھ مطابق1774ء ’’ تذکرہ ہندی گویاں‘‘ 1209ھ مطابق1794ء اور’’ ریاض الفصحا‘‘ کا 1221ھ مطابق 1806ء ہے۔ مولوی عبدالحق نے ان تینوں تذکروں کے لیے ایک ہی مقدمہ تحریر کر کے تذکروں کی ابتداء میں شامل کر دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تینوں تذکروں پر بیک وقت کام کیا تھا ان کے اس مقدمہ سے مصحفی کے احوال زندگی اور ان کے متذکرہ تذکروں پر روشنی پڑتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس مقدمہ کے لیے مختلف داخلی و خارجی شہادتوں کے حوالے دئیے ہیں جن سے نہ صرف مصحفی بلکہ تذکروں کے شاعروں کے زمانے کا سماجی و معاشرتی اور ادبی ماحول بھی سامنے آ جاتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے مصحفی کے احوال کے لیے ان کے اس بیان کو بنیاد بنایا ہے جو ان کے تذکروں میں بکھرا ہوا ہے اس کے علاوہ بھی دیگر تذکرہ نگاروں کی تالیفات سے بعض شہادتیں ی ہیں اور جو شہادتیں کمزور نظر آئیں ان سے اختلاف بھی کیا ہے اور کسی معتبر شہادت سے اس کی نفی کی ہے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ مولانا حسرت موہانی نے اپنے تذکرے میں سن پیدائش 1164ھ لکھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا مصحفی اپنے تذکرہ ریاض الفصحا میں اپنے حالات کے آخر میں لکھتے ہیں کہ اس وقت میری عمر80 برس کی ہے یہ تذکرہ1221ھ میں شروع ہوا اور 1236ھ میں اختتام کو پہنچا اس حساب سے ان کی پیدائش1141ھ اور1156ھ کے درمیان واقع ہوئی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے مصحفی کے حالات کے لیے ان کے تذکرہ ہندی سے اسد، امین، فراق، مشتاق، محشر اور نالاں کے احوال کی کڑیاں جوڑی ہیں اس کے علاوہ میر حسن، قدرت اللہ قاسم اور میر محمد خاں کے تذکروں سے بھی استفادہ کیا ہے مصحفی کی امروہہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی شہادت سید محمد زمان کے ذکر سے حاصل کی ہے جس میں وہ زمان کو اپنا ہم مکتب بتاتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کو مولانا محمد حسین آزاد کے اس بیان سے اختلاف ہے: ’’ مرزا سلیمان شکوہ کی غزل مصحفی بنایا کرتے تھے جب انشا پہنچے تو ان کے کلام کے سامنے ان کے شعر کب مزا دیتے‘‘ مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ مصحفی پہلے سے دربار میں تھے اور انشا بعد میں آئے، یہ صحیح نہیں ہے۔ مصحفی کے سن وفات کا بھی صحیح علم نہیں ہے۔ لیکن مولوی عبدالحق نے شیفتہ کے تذکرہ کے اس بیان سے کہ: ’’ آج کے دن مصحفی کو مرے ہوئے دس سال ہوئے ہیں‘‘ یہ قیاس کیا ہے کہ مصحفی کا سن وفات1240ھ اور عمر84سال ہے، کیوں کہ شیفتہ نے اپنا تذکرہ1250ء میں لکھا تھا۔ مصحفی کو اس بات میں بھی فوقیت حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے تذکرے میں’’ اردو‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے مولوی عبدالحق اس کا اس طرح تذکرہ کرتے ہیں: ’’ ایک بات اور قابل لحاظ ان تذکروں میں پائی جاتی ہے ۔ جہاں تک تحقیق ہوا ہے اردو شعراء میں مصحفی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اردو کا لفظ زبان کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ ان تذکروں میں کئی جگہ یہ لفظ آیا ہے۔‘‘ عقد ثریا مصحفی کے تذکروں میں تالیف کے اعتبار سے عقد ثریا کو تقویم حاصل ہے یہ تذکرہ 1199ھ میں تکمیل پذیر ہوا مولوی عبدالحق نے نسخہ خدا بخش خان اور نسخہ رام پور کی مدد سے مرتب کر کے اسے 1933ء میں شائع کیا۔یہ تذکرہ فارسی گو شاعروں کا ہے جس میں تین قسم کے شاعر ہیں۔ ’’ اول شعرائے ایران جو ہندوستان کبھی نہیں آئے، دوسرے وہ شعرائے ایران جو ہندوستان آئے اور تیسرے ہندوستانی فارسی گو شاعر‘‘ تذکرہ ہندی عقد ثریا کی تکمیل کے بعد مصحفی نے اپنے شاگرد میر مستحسن خلیق کی فرمائش پر ’’ تذکرہ ہندی‘‘ شروع کیا اور1209ھ میں مکمل کر کے مرزا محمد سلیمان شکوہ کی نذر کیا مصحفی نے تذکرے کے آخر میں ایک قطعہ ہدیہ مرزا شکوہ کے لیے اور دو قطعات تاریخ تحریر کئے۔ مصحفی نے ’’ تذکرہ ہندی‘‘ میں188شاعروں اور5شاعرات کا ذکر کیا ہے۔اس میں ان کا اپنا ذکر بھی شامل ہے کل تعداد 193ہے۔ مصحفی نے شاعروں کا ذکر تخلص کے اعتبار سے حروف تہجی کے لحاظ سے کیا ہے۔ تذکرے کے آغاز میں ایک مختصر دیباچہ قلم بند کیا ہے اس سے تذکرہ کی وجہ تصنیف معلوم ہوتی ہے اس تذکرے میں محمد شاہ بادشاہ سے شاہ عالم بادشاہ کے عہد تک شاعروں کا ذکر ہے۔ ان میں اکثریت مصحفی کے ہم عصر ہیں اور بہت سے ان کے واقف کار مصحفی نے اس تذکرے میں اکثر شاعروں کے کلام پر رائے بھی دی ہے۔ مولوی عبدالحق نے تذکرہ ہندی کی تدوین ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال کے نسخے سے کی ہے اور اس کا مقابلہ کتب خانہ خدا بخش پٹنہ اور کتب خانہ ندوہ کے نسخوں سے کیا ہے اور اختلاف کی نشاندہی کر دی ہے۔ ریاض الفصحا مصحفی کی تذکرہ نگاری کی آخری کڑی ’’ ریاض الفصحا‘‘ ہے جو انہوں نے 1221ھ میں لکھا تھا۔ تذکرہ کا نام تاریخی ہے جس سے اس کا سن تالیف نکلتا ہے۔ تذکرے کے آخر میں بھی مصحفی نے ایک قطعہ دیا ہے جس سے 1236ھ نکلتا ہے گویا یہ تذکرہ 1221ھ میں شروع ہو ااور 1236ھ میں تکمیل کو پہنچا مصحفی کا یہ تذکرہ 323شاعروں کے ذکر پر مشتمل ہے۔ یہ تذکرہ مولوی عبدالحق نے خدا بخش لائبریری پٹنہ کے قلمی نسخے کی بنیاد پر مرتب کیا ہے جو 1238ھ میں رمضان بیگ طپان نے رقم کیا تھا۔ مصحفی نے اس تذکرے میں بالخصوص ان شعراء کا ذکر کیا ہے جو اس سے پہلے تذکروں میں رہ گئے ہیں اور اس طرح: ’’ ریاض الفصحا کو دونوں کا تکملہ کہہ سکتے ہیں‘‘ اس تذکرے میں بعض ایسے شاعروں کا بھی ذکر ہے جو پہلے تذکرے میں شامل ہیں ڈاکٹر حنیف تحریر کرتے ہیں: ’’ انہوں نے چند لوگوں کا تعارف کرایا ہے ان میں ایک بڑی تعداد ان شعراء کی ہے جو ان کے سلسلہ تلمذ میں منسلک یا ان کے احباب و معاصرین کے شاگرد تھے اس کے علاوہ بہت سے شاعر وہ ہیں جن کو پہلی مرتبہ کسی تذکرے میں جگہ ملی ہے۔‘‘ مصحفی کے یہ تینوں تذکرے تذکرہ نگاری میں اہمیت رکھتے ہیں جس سے اس دور کی مجلسی زندگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ مصحفی کے زیر تحریر ان لوگوں کے اکثریت تھی جن کے متعلق وہ کوئی ذاتی نظریہ رکھ سکتے تھے لیکن ان کے تینوں تذکروں کی بڑی خوبی یہ ہیـ: ’’ انہوں نے اپنی رائے کو محض ایک رائے کے طور پر پیش کیا ہے اور اس میں قطعیت نہیں ہے یہ بات ان کی تنقید کو متوازن اور سنجیدہ بناتی ہے کہ انہوں نے کسی نزاعی مسئلے کو نہیں چھیڑا ہے، کسی کی سیرت پر بے جا نکتہ چینی بھی نہیں کی ہے اور تہذیب و شائستگی کے دامن کو کہیں ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔‘‘ نکات الشعراء مولوی عبدالحق صاحب جن تذکروں کو منظر عام پر لائے ان میں سب تالیف کے اعتبار سے نکات الشعراء کو تقدیم حاصل ہے لیکن مولوی عبدالحق اسے مرتب کرنے سے قبل بہت سے تذکرے مرتب کر چکے تھے۔ مولوی عبدالحق نے نکات الشعرا 1935ء میں مرتب کیا۔ میر تقی میر نے اسے کب تالیف کیا؟ میر نے اس کی کہیں صراحت نہیں کی ہے۔ البتہ انہوں نے آنند رام مخلص کے ذکر میں یہ تحریر کیا ہے کہ مخلص کے انتقال کو ایک سال بیتا ہے گارسان دتاسی اور آزاد بلگرامی نے مخلص کا سن وفات1164ء تحریر کیا ہے اس سے یہ قیاس مشکل نہیں کہ نکات الشعراء 1165ھ کی تالیف ہے۔ میر کا دعوی ہے نکات الشعراء اردو کا پہلا تذکرہ ہے یہی دعوے اس عہد کے دیگر تذکرہ نگاروں نے بھی کئے ہیں۔ لیکن ان کے یہ دعوے درست نہیں: ’’ اس لئے کہ تذکرہ قائم تو تذکرہ میر کے بعد لکھا گیا مخزن نکات 1168ھ میں لکھا گیا اور نکات الشعراء کا سال تصنیف1165ھ یا 1950-51ء ہے۔ اب امام الدین خاں آرزو و سودا و خاکسار کے تذکرے موجود نہیں ہیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جتنے تذکرے موجود ہیں، ان میں تذکرہ نکات الشعراء کو تقدیم حاصل ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے یہ تذکرہ جس قلمی نسخے سے مرتب کیا ہے، وہ 1172ھ میں سید عبدالوالی عزلت کے لیے سید عبدالحی نے رقم کیا تھا اس تذکرے میں میر سمیت101شاعروں کا ذکر ہے۔ ’’ نکات الشعراء شروع سے آخر تک دلی میں لکھا گیا ہے اور سوائے دکن کے چند شعراء اور بعض قدیم ریختہ گو شعراء کے باقی سب کے سب دلی کے شاعر ہیں اور ان میں بھی اکثر ایسے جن سے میر صاحب بذات خود واقف تھے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں اس تذکرہ کی علمی و ادبی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، اور ان حقائق کی نشان دہی کی ہے جن سے بہت سے تحقیقی و تاریخی و تنقیدی گوشے کھلتے ہیں مثلاً ’’ جو ریختہ شیخ سعدی شیرازی سے منسوب چلا آ رہا تھا، سب سے پہلے اس کی تردید میر صاحب نے ہی کی اور بتایا کہ یہ شاعر دکھنی تھا۔ میرزا جان جاناں کا نام جو عام طور پر مشہور ہے وہ اصل میں جان جاں ہے اسی طرح ولی کو اورنگ آبادی سب سے پہلے میر صاحب نے ہی لکھا ہے۔‘‘ میر تقی میر کے اس تذکرہ سے ان کے تنقیدی شعور کا بھی احساس ہوتا ہے کیوں کہ انہوں نے عموماً شعرا کے کلام پر تبصرہ و تنقید بھی کی ہے میر نے یہ تذکرہ جس زمانے میں مرتب کیا ان دنوں ان کے تعلقات اپنے ماموں سراج الدین آرزو سے کشیدہ تھے لیکن ان کے ذکر میں ان کے ذاتی تعلقات حائل نہ ہوئے اور میزان قلم نے جنبش نہ دکھائی اور انہیں ان کے مرتبے کے اعتبار سے جگہ دی۔ مولوی عبدالحق کا خیال ہے: ’’ میر صاحب پہلے تذکرہ نویس ہیں جنہوں نے تنقید سے کام لیا ہے اور جہاں کوئی سقم نظر آیا، بے رو رعایت اس کا اظہار کر دیا اور ہر شاعر کے متعلق جو ان کی رائے ہے اس کو ظاہر کرنے میں انہوں نے مطلق تامل نہیں کیا۔‘‘ مولوی عبدالحق کے لکھے ہوئے مقدموں میں نکات الشعراء کا مقدمہ مختصر ترین ہے لیکن اس کے باوجود اس میں وہ ایسی بنیادی باتیں تحریر کر گئے ہیں جن سے نکات الشعراء کی تاریخی و سوانحی اہمیت اور میر کے طرز بیان پر بھر پور روشنی پڑتی ہے۔ ’’ بہر حال نکات الشعراء اردو تذکرہ نگاری کا سنگ میل ہے۔ تذکرہ نگاری کا پہلا دور اسی سے شروع ہوتا ہے اور میر اس دبستان کے بانی ہیں۔‘‘ گل عجائب مولوی عبدالحق نے 1939ء میں اسد اللہ خاں تمنا کے تذکرے کو مرتب کر کے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سے شائع کیا تھا۔ مولوی عبدالحق نے اسے جس نسخہ کی مدد سے مرتب کیا تھا۔ ’’ اس کا ایک خستہ و خراب قلمی نسخہ کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد میں محفوظ تھا اسے مولوی عبدالحق نے بڑی عرق ریزی سے مرتب کیا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے بھی اس قلمی نسخہ کے بوسیدہ اور مسخ و مجروح ہونے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے: ’’ اس کی ترتیب میں بہت دقت اٹھانی پڑی۔ اس کے بعض حصوں کا کاتب بہت غلط نویس ہے۔ اکثر املا کی غلطیاں موجود ہیں اور اشعار غلط نویسی کی وجہ سے وزن و بحر سے خارج ہو گئے ہیں۔‘‘ اس لیے مولوی عبدالحق کو اس تذکرے کو دوسرے تذکروں اور دیوانوں اور سیاق و سباق سے درست کرنا پڑا اور بعض اشعار کو مجبوراً خارج بھی کرنا پڑا لیکن انہوں نے کہیں بھی اس بات کی نشان دہی نہیں کی کہ انہوں نے کن کن شاعروں اور اشعار کی درستی کے لئے کون کون سے دیوانوں سے استفادہ کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کا تحقیقی طریقہ کار ہے کہ پہلے وہ مصنف کے حالات چن چن کر جمع کرتے ہیں اور پھر اس کی تحریر کی خوبیوں اور خامیوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس مقدمہ میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ ’’ گل عجائب‘‘ میں مولف کے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی لیکن مولوی عبدالحق نے اس اشاروں سے جو دوسروں کے ذکر میں کہیں کہیں مل جاتے ہیں، مولف کے حالات کا تانا بانا بنا ہے۔ مثلاً انہوں نے محمد سیف اللہ انور کے بیان سے یہ بات حاصل کی ہے کہ محمد سیف اللہ انور اور وہ (تمنا اورنگ آبادی) نہ صرف ہم جماعت تھے بلکہ وہ دونوں داور صاحب کے شاگرد تھے، اور ان کے ہم مکتبوں میں صوفی شاہ کاظم اور میر رمز بھی شامل تھے۔ اسی طرح اسد اللہ خاں تمنا کی نواب صمصام الملک صارم اورنگ آبادی، دیوان دکن کی تعلق داری کا ذکر منعم خاں قدر کے بیان سے معلوم ہوتا ہے اسی طرح آزاد بلگرامی کا شاگرد ہونا وغیرہ ایسی گم شدہ کڑیاں تھیں جو مولوی عبدالحق نے اپنے تحقیقی مزاج کی بدولت جمع کی ہیں۔ اسد علی خاں تمنا نے تذکرہ کے آغاز میں ایک قطعہ تاریخ لکھا ہے جس کے حروف ’’ آغاز صفحہ بگو‘‘ سے تاریخ1192ھ نکالی ہے جب کہ تذکرہ کا سن 1194ھ نکلتا ہے یعنی اس تذکرہ کا آغاز1192ھ میں ہوا اور یہ تذکرہ دو سال میں مکمل ہوا مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ اس تذکرہ کا نام پہلے ورق کی پیشانی پر یوں لکھا ہے‘‘ رنگ دوم گل عجائب من مقالات الغرائب اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمنا کی کوئی تالیف ’’ مقالات الغرائب‘‘نام کی تھی جو کئی مقالوں پر مشتمل تھی ہر مقالے کو اس نے ’’ گل‘‘ سے موسوم کیا ہے اور ہر گل کے ذیلی باب کو ’’ رنگ‘‘ کا نام دیا ہے۔ چونکہ پوری کتاب اب تک دستیاب نہیں ہوئی اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں کتنے گل اور کتنے رنگ ہیں اور ان میں کن کن مضامین سے بحث کی گئی ہے مولف نے اس حصہ کا نام جو تذکرہ شاعروں پر مشتمل ہے ’’ گل عجائب‘‘ رکھا ہے، جیسا کہ تاریخ اختتام تذکرہ سے ظاہر ہے۔ گل عجائب میں بارھویں صدی ہجری کے آخری دور کے کل 51شاعروں کا ذکر ہے جن میں سے زیادہ تمنا کے ہم وطن ہیں اور تمنا ان سے ذاتی طور پر واقف ہیں اس لیے ان کے ذکر میںت فصیل بھی اور سنین وغیرہ کا اندراج بھی بر خلاف اس کے بعض ایسے شاعر ہیں جن کا ذکر سرسری ہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں تذکرے کے متن کے حوالے سے تذکرے کے عہد کے ان عوامل پر روشنی ڈالی ہے جو لسانی ارتقا پر اثر انداز ہو رہے تھے وہ پائے تخت کے دلی سے اورنگ آباد اور اورنگ آباد سے حیدر آباد کی منتقلی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ ترک مقام، تغیرات حالات، ماحول اور مرور زمانہ سے زبان میں فرق آ گیا۔ یہ تذکرہ اس ادبی دور انقلاب کا پتہ دیتا ہے۔ اس نظر سے اس کا مطالعہ کچھ نہ کچھ ضرور بصیرت افروز ہو گا اس سے معلوم ہو گا کہ تیس چالیس سال کے عرصے میں دکن میں اردو نے قواعد، محاورہ و روز مرہ اور لب و لہجہ کے اعتبار سے کیا صورت اختیار کر لی تھی۔‘‘ مولوی عبدالحق نے تذکرے کے متن سے مزیدجن نئی معلومات کو اجاگر کیا ہے، ان میں آزاد بلگرامی کے اردو میں صاحب دیوان شاعر ہونے اور عروج کے تذکرہ ’’ بہار و خزاں‘‘ کا 1192ھ سے قبل لکھے جانے کا ذکر ہے۔ گل عجائب کی تدوین اور مقدمہ مولوی عبدالحق کا تذکرہ نگاری پر آخری کام تھا۔ ویسے بھی یہ زمانہ مولوی عبدالحق کی زندگی میں ایک اہم موڑ تھا 1936ء میں وہ جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری سے دست بردار ہو کر اور دکن سے ترک وطن کر کے دلی کو اپنا مستقر بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے جہاں ان کی نئی جہت انہیں زمین کا گز بنانے کے لیے بے چین کر رہی تھی۔ قدیم اردو مولوی عبدالحق کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے جو ادبی تحقیق کی ان میں سے بیشتر کا پہلے رسالہ اردو میں تعارف کرایا اس کے بعد تفصیلی کام پر متوجہ ہوئے اور پوری طرح اپنے موضوع سے انصاف کیا جس کے نتیجے میں وہ ایسے تحقیقی گوشوں کا پتہ چلا لیتے تھے جو دوسروں کی نظروں سے مخفی ہوتے تھے، یہی ملا وجہی اور ان کے ادبی کارناموں کے سلسلے میں ہوا ملا وجہی قدیم اردو کے بہت بڑے نثار اور قادر الکلام شاعر گذرے ہیں اور ان کی تین کتابیں مولوی عبدالحق کی دریافت ہیں۔ ایک سب رس، دوسری قطب مشتری اور تیسری تاج الحقائق اکتوبر1924ء میں مولوی عبدالحق نے رسالہ اردو اورنگ آباد میں ’’ سب رس‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا جس میں انہوں نے انکشاف کیا: ’’ اب تک اردو نثر کی پہلی کتاب فضلی سے منسوب کی جاتی تھی اور اس کی کربل کتھا اردو نثر کی پہلی کتاب سمجھی جاتی تھی لیکن حال ہی میں معلوم ہوا کہ فضلی سے کہیں پہلے نثر میں بہت سی کتابیں لکھی گئی تھیں مگر پردہ خفا میں تھیں۔ تحقیق و جستجو نے اب انہیں گم نامی سے نکالا ہے ان میں سے ایک قابل قدر کتاب سب رس ہے۔‘‘ اس کے بعد مولوی عبدالحق نے سب رس مرتب کی اس کے دقیق الفاظ کی فرھنگ تیار کی اور پھر اسی مضمون کو بطور مقدمہ شامل کر کے 1932ء میں اورنگ آباد سے کتابی شکل میں شائع کر دیا اور اس طرح ملا وجہی کا وہ کارنامہ جس سے ابھی تک ادبی دنیا محروم تھی، اس کو اس سے استفادہ کا موقع ملا مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ کے پہلے حصہ میں سب رس کے مصنف وجہی اور اس کے عہد کا تعارف کرایا ہے جس سے قدیم اردو کے بہت سے گوشے سامنے آئے ہیں مثلاً ’’ سب رس کا مصنف وجہی ہے یہ عبداللہ قلی قطب شاہ کا درباری شاعر تھا قطب شاہی بادشاہوں کے عہد میں دکنی یعنی قدیم اردو کو بہت فروغ ہوا یہ علم وہنر کے بڑے سرپرست تھے شعراء اور علما ان کے دربار کی رونق تھے خود ان میں سے بعض بڑے پایہ کے شاعر ہوئے ہیں۔‘‘ جنوبی ہند میں قطب شاہی عہد علم پروری کا عہد تصور کیا جاتا ہے سلطان محمد قلی شاہ (988ھ تا 1020ھ)ضخیم کلیات کا مالک تھا اور شاعری میں اس کی قادر الکلامی مسلم تھی محمد قطب شاہ (1035ھ تا 1083ھ) بھی صاحب دیوان تھا اور اس کے دربار سے بڑے بڑے شعراء منسلک تھے برہان قاطع جیسی مشہور فارسی لغت اسی کے عہد میں لکھی گئی۔ ملا نظام الدین احمد نے محمد قطب شاہ کے احوال میں’’ حدیقۃ السلاطین‘‘ رقم کی غواصی کی ’’ سیف الملوک بدیع الجمال‘‘ اور ابن نشاطی کی ’’ پھول بن‘‘ قطب شاہی عہد سے تعلق رکھتی ہیں۔ بقول مولوی عبدالحق: ’’ یہ کتاب سب رس بھی وجہی نے قطب شاہ ہی کی فرمائش پر لکھی تھی۔‘‘ ملا وجہی نے قطب شاہی عہد کے چار بادشاہوں کو دیکھا تھا مولوی عبدالحق کہتے ہیں: ’’ ملا وجہی نے ’’ وجہی‘‘ اور’’ وجئی‘‘ دونوں طرح اپنا نام لکھا ہے۔‘‘ ملا وجہی نے سب رس میں ایک عام انداز میں عشق و محبت کی داستان رقم کی ہے جس میں قصہ پن کے تمام جواہر مثلاً عشق و محبت کی واردات قلبی، تجسس، کشمکش سب کچھ پایا جاتا ہے ملا وجہی نے اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ اس نے یہ قصہ کہاں سے لیا ہے۔ لیکن وجہی سے پہلے بھی یہ قصہ سننے میں آیا تھا اس لیے مولوی عبدالحق اس بات سے متفق نہیں کہ یہ قصہ وجہی کے دماغ کی ایچ ہے بلکہ ان کا کہنا ہے: ’’ یہ پر لطف داستان سب سے پہلے محمد یحییٰ ابن سیبک فتاہی نیشا پوری نے لکھی۔ یہ نیشا پوری علاقہ خراسان کے مشاہیر میں اور شاہ رخ مرزا کے عہد میں تھے انتقال کی تاریخ سنہ 852ھ ہے تخلص فتاحی ہے تذکروں میں لکھا ہے کہ یہ بہت فاضل او قادر الکلام شاعر تھے لیکن چونکہ طبیعت میں قناعت تھی اور دربار کے گون کے نہ تھے، اس لیے ان کا کلام زیادہ مشہور نہ ہوا علاوہ دیوان کے ان کے کئی تصنیفات ہیں ان میں سے ایک دستور عشاق یعنی حسن و دل کا قصہ ہے۔‘‘ اس داستان کو ملا وجہی نے بڑی چابک دستی سے تحریر کیا ہے۔ ملا وجہی سے پہلے بھی یہ کتاب یورپ تک مشہور تھی اور کئی بار اشاعت کی منزل سے گذر چکی تھی مولوی عبدالحق نے ’’ گب‘‘ کی کتاب’’ لوٹومن پوئٹری‘‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کو سب سے پہلے ارتھر برون (ڈپلن) نے 1801ء میں ترجمہ کیا دوسرا ترجمہ ولیم پرائس نے 1828ء میں شائع کیا اور سب سے آخر میں جرمن ڈاکٹر روڈ الف دوراک نے وی آنا اکیڈمی کی روداد میں1889ء میں ترجمہ شائع کیا۔ اس کتاب کی طرف ترکی علمائے ادب کی نگاہ بھی گئی اور انہوں نے ترکی تراجم کئے جن میں آھی (متوفی 1517ئ) والی اور صدقی قابل ذکر ہیں ہندوستان میں خواجہ محمد بیدل نے اس قصے کو پر تکلف نثر میں لکھا ہے مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں ایک اور منظوم کتاب کا ذکر کیا ہے جو انہیں بمبئی یونی ورسٹی کے کتب خانے میں ملی تھی اس کتاب کے سلسلے میں مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ اس کے مصنف دادو ایلچی ہیں جنہوں نے اپنی مثنوی حسن و دل سنہ 1054ء ھ میں نظم کی‘‘ مولوی عبدالحق نے دکنی اردو میں مزید چار شاعروں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس قصہ کو نظم کیا ان میں بحر العرفان شاہ حسین ذوقی نے 1109ھ میں ’’ وصال العاشقین‘‘ شاہ بید اللہ مجرسی بیجا پوری نے 1086ھ میں ’’ گلشن دل‘‘ سید ولی اللہ قادری نے 1880ء میں ’’ سب رس‘‘ ہی کے عنوان سے ایک اور کتاب لکھی اور خواجہ خیر الدین نے بھی ایک مثنوی ’’ حسن و دل‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ حافظ محمود شیرانی کا بھی کہنا ہے: ’’ فتاحی نیشا پوری نے حسن و دل کا ایک مثالی افسانہ نویں صدی ہجری میں اولاً فارسی نظم اور بعد میں نثر میں لکھا اس کے بعد متعدد اشخاص نے اس پر طبع آزمائی کی۔‘‘ غیور عالم بھی اسے ملا وجہی کا طبع زاد قرار نہیں دیتے، بلکہ ترجمہ بتاتے ہیں وہ لکھتے ہیں: ’’ سب رس دکنی زبان میں پہلا ادبی تخلیقی ترجمہ ہے جس طرح ہم باغ و بہار کو میرا من کا قطعی کارنامہ نہیں کہہ سکتے اس طرح سب رس کو بھی ہم وجہی سے قطعی طور پر منسوب نہیں کر سکتے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے فتاحی کی حسن و دل کے متن سے وجہی کی سب رس کا موازنہ و مقابلہ کر کے یہ ثابت کیا ہے: ’’ وجہی کو فتاحی کی حسن و دل جو نثر میں ہے ہاتھ لگ گئی تھی۔ دستور عشاق اس کی نظر سے نہیں گذری تھی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ وجہی نے اپنی نثر میں اسی کا طرز اڑایا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ جن امور کا ذکر دستور عشاق میں مفصل ہے اور نثر کے خلاصہ میں سرسری یا برائے نام ہے ان کی تفصیل وجہی کے ہاں بھی نہیں پائی جاتی۔‘‘ مولوی عبدالحق نے صرف اس کا تخفیفی و تقابلی جائزہ لیا ہے بلکہ قصہ کا خلاصہ بھی لکھ دیا ہے اور جس جس منزل پر وجہی کے فتاحی کے داستان سے بیان میں تبدیلی آئی ہے اس کی نشان مولوی عبدالحق نے نہ صرف قصہ کا تقابلی جائزہ لیا ہے، بلکہ لسانی جائزہ بھی تحقیقی نوعیت ہے جس میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ سب رس میں عربی و فارسی کے ساتھ ساتھ ہندی کے الفاظ بھی کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ سب رس کی زبان تین صدی قبل کی دکنی اردو ہے جس کے بہت سے الفاظ اور محاورات اب متروک ہیں اس لیے مولوی عبدالحق نے بڑی جاں فشانی سے کتاب کے آخر میں اس کی فرہنگ بھی مرتب کی دی ہے۔ مولوی عبدالحق نے ملا وجہی کی سب رس کا لسانی جائزہ ان الفاظ میں لیا ہے: ’’ وہ اپنی زبان کو دکنی نہیں، ہندی کہتا ہے قصہ کے شروع میں وہ ’’ آغاز داستان ہندوستان‘‘ لکھتا ہے جگہ جگہ نہایت بے تکلفی سے ہندی، دکنی، فارسی، عربی، مرہٹی ضرب الامثال، دوھڑے اور اقوال، اشعار، آیت، حدیث روانی میں سب لکھتا چلا جاتا ہے اگرچہ وجہی گولکنڈہ کا ہے اور گولکنڈہ اور حیدر آباد تلنگا نے میں ہیں، لیکن عجب بات یہ ہے کہ وہ مرہٹی مثل تو ایک آدھ جگہ لکھتا ہے اور ایک آدھ گجراتی لفظ اور شعر بھی استعمال کرتا ہے مگر کہیں تلنگی مثل یا فقرہ یا لفظ (سوائے ذرا درائی کے جس کے متعلق مجھے شبہ ہے) اس کتاب میں نہیں آیا اہل ہند سے مراد مصنف کی ہمیشہ شمالی ہند والے ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق کے مقدمہ اور مرتبہ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ محمود شیرانی نے لکھا ہے: ’’ ادبی پہلو سے قطع نظر اور اوصاف ہیں جن کی بنا پر یہ کتاب گونا گوں دلچسپیوں کا مرکز بن جاتی ہے لغت و لسان اور قدیم صرف و نحو کے محقق اس کو ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھیں گے‘‘ مولوی عبدالحق کو اس کتاب کے چار نسخے ملے تھے ان میں سے دو نہایت ہی ناقص تھے مولوی عبدالحق نے ان ناقص نسخوں کے لیے نہیں بتایا کہ وہ کس کے اور کس سنہ کے تھے۔ البتہ بقیہ دو نسخوں کا انہوں نے اس طرح ذکر کیا ہے: ’’ مدت ہوئی مجھے سب رس کے دو نسخے دستیاب ہوئے تھے، ایک حیدر آباد میں اور دوسرا بیجا پور میں ان میں سے ایک تو بمقام دولت آباد سنہ 117ھ کا لکھا ہوا ہے اور دوسرا1177ھ کا یہ دونوں نسخے صاف لکھے ہوئے ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے ان میں سے کس نسخے کا بنیاد بنا کر سب رس مرتب کی ہے مولوی عبدالحق کے یہ چاروں نسخے نیشنل لائبریری کراچی میں انجمن ترقی اردو کے عطا کردہ ذخیرے میں موجود ہیں سید قدرت اللہ نقوی کا خیال ہے کہ مولوی عبدالحق کو ـ: ’’ پہلے نسخے کے سن تحریر میں تسائخ ہوا ہے صحیح1171ھ ہے۔۔۔۔ میرے خیال میں1177ھ والے مخطوطے کو بنیاد بنانا چاہئے تھا کیوں کہ وہ صاف نستعلیق میں لکھا ہوا ہے۔‘‘ باوجود اس کے کہ مولوی عبدالحق اور دیگر محققین اس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ سب رس ملا وجہی کی طبع زاد نہیں ہے اور انہوں نے اسے فتاحی کی داستان حسن و دل سے اڑایا ہے، سب ہی وجہی کی سب رس کو اردوئے قدیم میں بڑی اہمیت دیتے ہیں مولوی عبدالحق اعتراف کرتے ہیں: ’’ باوجود اس کے کہ ہم وجہی کو استاد مانتے ہیں اور جو کام اس نے کیا اس کا احسان نہ ماننا حقیقت میں نا انصافی ہے اس زمانے میں اردو نثر کا نام نہ تھا اور نہ نثر لکھنا کوئی کمال سمجھا جاتا تھا ایک دو رسالے جو اس سے قبل پائے جاتے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ محفل ادب میں جگہ پائیں سب رس اردو نثر کی پہلی کتاب ہے جو ادبی اعتبار سے بہت بڑا درجہ رکھتی ہے اور اس کی فضیلت اور تقدیم کو ماننا پڑتا ہے۔‘‘ صاحب ’’ تاریخ ادبیات مسلمانان پاک وہند‘‘ نے بھی سب رس کی اس اہمیت کو تسلیم کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ دکنی نثر میں سب سے اہم نام شاہ امین الدین اعلی کے ہم عصر ملا وجہی کا ہے جنہوں نے دکنی نثر کو ایک نیا آہنگ دیا اور اسے پہلی بار ادبی سطح پر استعمال کیا۔۔۔۔۔ اور اردو نثر میں پہلی بار مذہبی رنگ و موضوعات سے ہٹ کر داستان و تمثیل کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ اس کی زبان دوسری دکنی تصانیف کے مقابلے میں نسبتاً صاف ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے ایک اور منظوم سب رس بھی دریافت کی ہے جو ’’ گلشن حسن و دل‘‘ کے نام سے فارسی سے اردو میں ترجمہ و تلخیص ہے۔ مولوی عبدالحق نے جولائی1925ء کے رسالہ اردو ’’ اورنگ آباد‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں اس کا اس طرح تعارف کرایا ہے: ’’ یہ بھی سب رس ہی کا قصہ ہے جو نظم میں بیان کیا گیا ہے اس کے مصنف مجرصی ہیں۔ مجرصی تخلص ہے اصل نام شاہ بید اللہ ہے۔۔۔ رہنے والے بیجا پور کے معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ لکھتے ہیں کہ اس قصہ کو حمید الدین سامانی کے روضے میں تمام کو پہنچایا حضرت حمید قادری کا روضہ بیجا پور میں ہے اور وہیں انتقال فرمایا۔۔۔۔۔ کتاب کے آخر میں مصنف نے خود ہی سبب تصنیف بتا دیا ہے کہ‘‘ ہیو بارھویں صدی یوں قصہ تمام جو چودہ برس نہیں ہوئے تھے تمام یعنی اس حساب سے سنہ 1114ھ ہجری تصنیف کا سال ہے مجرصی نے قصہ بہت مختصر کر دیا ہے اور نظم بھی صاف اور بہت معمولی ہے۔ مولوی عبدالحق نے یہ نہیں بتایا ہے کہ انہیں یہ منظوم سب رس کہاں سے ملی اور اس کا کاتب کون ہے اور اس مخطوطے کا سن کتابت کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کے تحقیقی کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ ملا وجہی کی منظوم کتاب ’’ قطب مشتری‘‘ کی تدوین و تحقیق ہے جو انہوں نے 1939ء میں انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام دھلی سے شائع کی تھی۔ اس مثنوی میں رقاصہ بھاگ متی اور گولکنڈہ کے سلطان محمد علی قطب شاہ کے عالم شہزادگی میں عشق کی داستان لکھی گئی ہے اور اس میں بہت سے تاریخی و نیم تاریخی واقعات بیان کئے گئے ہیں وجہی کی یہ مثنوی نہ صرف اپنی قدامت کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہے بلکہ اس میں بہت سے ادبی نکات ظاہر کئے گئے ہیں یہ اردو کی پہلی کتاب ہے جس میں شعر و شاعری کی فنی خوبیوں پر بحث کی گئی ہے۔ ’’ جس طرح سب رس دکن کی نثری روایت کی تکمیل کی ایک کڑی ہے اس طرح قطب مشتری کی زبان دکن کی شعری لسانیات کی تکمیل کا ایک اہم موڑ ہے اس کی زبان صاف اور سلیس ہے اس میں بیک وقت فارسی اور مقامی زبانوں کی لسانی تشکیل کے کامیاب نمونے ملتے ہیں۔ قطب مشتری نہ صرف لسانی اعتبار سے دکنی ادب کی اہم کڑی ہے بلکہ مرقع نگاری کے اعتبار سے بھی قابل ذکر ہے۔‘‘ ڈاکٹر خان رشید نے تاریخ فرشتہ کے حوالے سے اسے محمد قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کے عشق کا حقیقی قصہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ اس مثنوی کے لیے جس عشقیہ داستان کو وہ نظم کرنا چاہتے تھے وہ فرضی اور روائتی نہ تھی بلکہ خود حکمران وقت کی داستان عشق تھی اور اس معاشقے میں چونکہ اصل ہیروئن یعنی بھاگ متی ایک بازاری طبقے کی عورت تھی تاہم قطب شاہ کی ملکہ تھی اس لیے بڑی احتیاط کی ضرورت تھی اس لیے سب سے پہلے وجہی نے عشق کی اہمیت کو واضح کر کے ’’ عشق پر زور نہیں‘‘ کو ثابت کرنا چاہا ہے اور اس طرح محمد قلی قطب شاہ کے لیے اعتراض کا ایک پہلو نکالا ہے نیز بھاگ متی کو مشتری کا روپ عطا کر کے اس کی اصل حیثیت پر نہ صرف پردہ ڈالا ہے بلکہ اس کے رتبہ کو بڑھا دیا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ خود بھی یہی چاہتا تھا جیسا کہ تاریخ فرشتہ کے بیان سے واضح ہو جاتا ہے اسی مقصد کے لیے اس نے ’’ بھاگ نگر‘‘ کا نام بدل کر حیدر آباد رکھا۔ ظاہر ہے اس داستان معاشقے کو نظم کرنا بڑا نازک معاملہ تھا اور ذرا سی لغزش بھی وجہی کی ساری امیدوں پر پانی پھیر سکتی تھی۔‘‘ لیکن مولوی عبدالحق خان رشید کے اس بیان سے متفق نہیں ان کا خیال ہے: ’’ کتاب سے اس کا کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا مثنوی میں جو واقعات بیان کئے ہیں، بھاگ متی کے عشق سے ان کا کوئی تعلق نہیں پایا جاتا۔ وجہی کا مقصد اس مثنوی کے لکھنے سے بادشاہ کے حسن و جمال، شجاعت اور لیاقت کی تعریف کرنا ہے اور بس۔‘‘ مولوی عبدالحق کو اس بات میں بھی شک ہے کہ ملا وجہی نے ابراہیم قطب کا عہد دیکھا تھا اس سلسلے میں انہوں نے اس کا قیاس بھی اس طرح لگایا ہے: ’’ سلطان قطب محمد قلی قطب شاہ 988ھ میں تخت نشین ہوئے اور 1020ھ میں انتقال کر گئے اس سے ظاہر ہے کہ مثنوی سلطان کے انتقال سے دو سال قبل لکھی گئی اور اس وقت سلطان کے والد ابراہیم قطب شاہ زندہ نہ تھے اور اس لیے اس مثنوی میں ابراہیم قطب شاہ کی جو مدح ہے، وہ قصے کے تعلق سے، نہ کہ شاہ وقت ہونے کے لحاظ سے ہے اور محمد قلی قطب شاہ کی مدح اس لیے نہیں کہ خود قصہ کے ہیرو ہیں سب رس عبداللہ قطب کے عہد میں1045ھ میں یعنی اس مثنوی سے ستائیس یا اٹھائیس برس میں لکھی گئی۔ اس وقت ابراہیم قطب شاہ کو مرے ہوئے اٹھاون برس ہوئے تھے۔ اس حساب سے یہ امر بہت مشتبہ ہے کہ وجہی نے ابراہیم قطب شاہ کا زمانہ دیکھا تھا یا اس کے دربار سے کچھ تعلق تھا۔ البتہ یہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بچپن ابراہیم قطب شاہ کے آخری عہد میں بسر ہوا ہے کیوں کہ جس وقت ا سنے یہ مثنوی لکھی ہے وہ مشاق شاعر تھا جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس نے پوری مثنوی بارہ دن میں کہہ ڈالی۔‘‘ مولوی عبدالحق نے یہ مثنوی دو نسخوں کی مدد سے مرتب کی تھی جن میں سے ایک ان کا اپنا تھا اور دوسرا انہیں برٹش میوزیم لندن سے دستیاب ہوا تھا وہ ان دونوں نسخوں کا تعارف ا س طرح کراتے ہیں: ’’ ایک قلمی نسخہ میرے پاس موجود ہے جو پرانا معلوم ہوتا ہے لیکن ناقص اور نا مکمل ہے اور اول و آخر اور بیچ بیچ سے ورق غائب ہیں دوسرا نسخہ برٹش میوزیم کا ہے جس کا عکس منگایا گیا تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق کا ذاتی نسخہ ناقص تھا، اس لیے انہوں نے برٹش میوزیم کے نسخہ کو بنیاد بنایا اور اپنے نسخے سے مدد لیتے رہے۔ ان کا اپنا نسخہ مواد کے اعتبار سے بڑا تھا اور اس کی بعض چیزیں برٹش میوزیم کے نسخے میں نہیں تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے نسخے کے زائد مواد کو 20صفحات پر مشتمل ضمیمہ کے طور پر شامل کر دیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے بڑی کاوش سے غیر مانوس ٹھیٹ دکنی الفاظ کی فرہنگ بھی دی ہے۔ جو کتاب کے 31صفحات پر مشتمل ہے۔ وجہی نے اس مثنوی میں موقع موقع سے اپنی غزلیں بھی دی ہیں اور خاتمہ کتاب پر بطور اختتامیہ سات اشعار دئیے ہیں جن کے آخری مصرعے سے مثںوی کا سنہ اختتام 1018ھ نکلتا ہے مصرعہ یہ ہے: ’’ سنہ یک ہزار ہور اٹھارہ منے‘‘ مولوی عبدالحق نے وجہی کی تیسری کتاب ’’ ‘‘تاج الحقائق بتائی ہے لیکن انہوں نے نہ تو اسے مرتب کیا اور نہ مزید روشنی ڈالی تاہم ’’ تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند‘‘ میں اس کا ذکر اس طرح ہے: ’’ وجہی کی نثر کی دوسری کتاب تاج الحقائق بیان کی جاتی ہے اس کتاب میں مرشد کی طرف سے مریدوں کی ہدایت و تلخیص کے لیے فقر و غنا اور وحدت الوجود کے مسائل بیان کئے گئے ہیں ایک وقت میں ڈاکٹر زور نے یہ کتاب مرتب کی تھی، مگر ابھی تک شائع نہ ہو سکی۔ انہوں نے اس بارے میں شک کا اظہار کیا ہے کہ یہ کتاب وجہی کی تصنیف ہے بھی یا نہیں۔‘‘ نصرتی اور اس کی تصانیف مولوی عبدالحق نے نصرتی اور اس کی تصانیف کو 1934ء کی ابتدا میں متعارف کرایا تھا اور جنوری 1934ء کے رسالہ اردو اورنگ آباد میں نصرتی کی مثنوی ’’ گلشن عشق‘‘ اپریل 1934ء میں ’’ علی نامہ‘‘ جولائی1934ء میں ’’ تاریخ اسکندری‘‘ پر روشنی ڈالی تھی اور اکتوبر1934ء میں نصرتی کے قصائد، غزلیات اور کلام پر رائے تحریر کی تھی بعد ازاں یہی مضامین 1944ء میں دلی سے نصرتی کے حالات زندگی اور خصوصیات کلام کے جائزے کے ساتھ ’’ نصرتی‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں یکجا کر کے شائع کئے اور یہ خیال ظاہر کیا نصرتی کا تعلق عادل شاہی حکمرانوں سے ہے جن کی ہنر مندی اور ادب پروری دکنی تاریخ میں مشہور ہے۔ خود عادل شاہ ثانی دکنی اردو کا قابل ذکر شاعر ہے اور اس کا ’’ نورس نامہ‘‘ بہت مشہور ہے۔ نصرتی نے عادل شاہی عہد کے تین بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھا جن میں محمد عادل شاہ، علی عادل شاہ ثانی اور سکندر عادل شاہ شامل ہیں۔ مولوی محمد عبدالحق نے نصرتی کے احوال جمع کرنے میں ان کے کلام کی شہادتیں دی ہیں جن میں ان کے بیجا پور کی حکومت سے تعلق اور ابتدائی تعلیم کا ذکر ملتا ہے نصرتی کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ لا ولد فوت ہوئے، یہاں تک کہ صاحب ’’ روضتہ الاولیا بیجا پور‘‘ محمد ابرہایم (سن تالیف 1241ئ) نے بھی لکھا ہے: ’’ مولوی شیخ نصرتی ملک الشعراء کو آل ہے اولاد نہیں‘‘ مولوی عبدالحق نے ذاتی کاوشوں سے جو معلومات حاصل کی ہیں ان سے اس بات کی تردید کی ہے اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’’ بیجا پور جا کر میں نے مزید حالات کی تحقیق و تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ مولانا نصرتی کی اولاد اب تک موجود ہے ایک مہربان کی بدولت محمد ملتانی قادری عرف جعفر صاحب جاگیردار گونسکی (ضلع بیجاپور) سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنی عنایت سے اپنے خاندان کی سند جاگیر جس میں خاندان کا شجرہ بھی ہے میرے حوالے کر دی یہ سند انعام شہنشاہ اورنگ زیب کے عہد کی ہے اور اس پر امانت خاں عالم گیر شاہی اور مرید شاہ عالم گیر کی مہریں ثبت ہیں یہ در حقیقت قدیم عادل شاہی سند کی تجدید ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس سند سے دو تحقیقی نتائج نکالے ہیں اول یہ کہ نصرتی لا ولد نہیں تھے اور دوم یہ کہ نسل در نسل مسلمان چلے آ رہے تھے ان کے مسلمان ہونے کا ثبوت انہوں نے نصرتی کے کلام کی داخلی شہادتوں سے بھی مہیا کیا ہے ورنہ اس سے پہلے گارسان دتاسی نے انہیں برہمن بتایا تھا مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ گارسان دتاسی نے گلشن عشق کے ایک نسخے کی سند پر اسے برہمن بتایا ہے سر چارلس لائل نے انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں اپنے مضمون میں اسے برہمن لکھا ہے یہ بالکل غلط ہے خود اس کے کلام سے تردید ہوتی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے نصرتی کے مسلمان ہونے کا ثبوت گلشن عشق کے اس شعر سے بہم پہنچایا ہے: بحمدؓ اللہ کرسی بہ کرسی مری چلی آتی ہے بندگی میں تری اور یقینا یہاں کرسی بہ کرسی سے مراد پشت در پشت ہے۔ مولوی عبدالحق نے جہاں نصرتی کے دوسرے حالات کا کھوج لگایا ہے وہاں ان کی قبر کا بھی پتہ لگایا ہے مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ میں نے بیجا پور میں نصرتی کی قبر کا پتہ لگایا۔ یہ اسی نگینہ باغ میں ہے جس کا ذکر سند انعام میں آیا ہے اور اب یہ زمین گورنمنٹ ہائی سکول کے احاطے میں ہے۔۔۔۔۔۔۔ مقبرے کے جائے وقوع کی تصدیق روضۃ الاولیا سے بھی ہوتی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کا نصرتی پر تحقیق کا دوسرا موضوع ان کی تصانیف ہیں جن میں گلشن عشق کو خاص اہمیت حاصل ہے انہوں نے اس مثنوی کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ یہ نصرتی کی سب سے پہلی تصنیف ہے اور ایک عشقیہ مثنوی ہے جس میں منوھر و مد مالتی کے عشق کا فسانہ بیان کیا گیا ہے۔ قصہ کہاں سے لیا گیا ہے اس کا معلوم کرنا دشوار ہے، کیوں کہ نصرتی نے اس کا کہیں اشارہ نہیں کیا صرف اس قدر لکھا ہے کہ ان کے دوست نبی ابن عبدالصمد نے اس قصہ کو لکھنے کی ترغیب دی۔ تحقیق سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس سے قبل بھی تحریر میں آ چکا تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ یہ قصہ ہندی میں شیخ منجن نے، اس کے بعد ایک مقلد (جس کا نام معلوم نہ ہو سکا) نے فارسی میں1059ھ میں اور1065ھ میں عاقل رازی عالم گیری نے رقم کیا تھا۔ اس طرح نصرتی کے بعد بھی شاعر و ادیب اس قصہ کو ضبط تحریر میں لاتے رہے، بالخصوص حسام الدین نے 1071ھ میں اسی قصہ کو لکھا: ’’ اگرچہ ان سب کتابوں میں قصہ ایک ہے، لیکن ہر مصنف نے کسی قدر رد و بدل یا اختصار سے بیان کیا ہے۔ ان سب میں گلشن عشق بہت جامع اور ضخیم ہے۔ نصرتی نے اصل قصہ چپناوتی اور چندر سین کی داستان بڑی خوبصورتی سے ملائی ہے۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ کس نے کس سے اس قصہ کو لیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں یہ قصہ بہت مقبول اور مشہور تھا اور ہر مصنف نے اسے اسی طرح بیان کر دیا جیسا کہ مقامی طور پر مشہور چلا آ رہا تھا۔‘‘ نصرتی نے مثنوی گلشن عشق1068ھ میں تصنیف کی تھی جیسا کہ اس نے خود مثنوی کے آخر میں’’ مبارک یو ہے ہدیہ نصرتی‘‘ کے مصرعہ سے تاریخ نکالی ہے مولوی عبدالحق نے مکمل مثنوی گلشن عشق 1953ء میں مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ انجمن ترقی اردو پاکستان کے سلسلہ نمبر259 کے تحت چھاپی تھی جس میں ان کا دعویٰ تھا: ’’ میرے پاس اس کتاب کے کئی نسخے ہیں ان میں سب سے قدیم 1093 ھ کا ہے، یعنی تصنیف سے 25سال بعد کا‘‘ لیکن انہوں نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ دوسرے کون کون سے نسحے ہیں اور ان کا سن کتابت کیا ہے اور انہوں نے گلشن عشق مرتب کرتے ہوئے کس کس نسخے سے استفادہ کیا ہے تاہم مولوی عبدالحق نے بڑی دیدہ ریزی اور جان فشانی سے یہ مثنوی مرتب کی ہے اور ہر صفحہ کے حاشے پر مشکل دکنی الفاظ کے معنی دئیے ہیں کتاب کے آخر میں30صفحات کی فرہنگ بھی دی ہے۔ نصرتی کی دوسری قابل ذکر مثنوی علی نامہ ہے جو رزمیہ داستان ہے اس میں انہوں نے علی عادل شاہ کی ان مہمات کا ذکر کیا ہے جن سے اسے اپنی ابھرتی ہوئی جوانی (عمر18سال) میں ہی دو چار ہونا پڑا۔ مولوی عبدالحق نے اس مثنوی کے ضمن میں تحریر کیا ہے: ’’ نصرتی کا بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے تاریخی واقعات کی صحیح ترتیب کو بڑی احتیاط اور صحت کے ساتھ بیان کیا ہے جس بیان اور کلام کے تمام اسلوب ہوتے ہوئے کہیں تاریخی صحت سے تجاوز نہیں کیا۔ تاریخ سے واقعات کو ملا لیجئے، کہیں فرق نہ پائیے گا۔ بلکہ بعض باتیں اس میں ایسی ملیں گی جن کے بیان سے تاریخ قاصر ہے۔‘‘ لیکن مولوی عبدالحق نے یہ کہیں نہیں بتایا کہ نصرتی نے علی نامہ کب لکھا اور نہ یہ ظاہر کیا کہ انہوں نے اسے کس نسخہ کی مدد سے مرتب کیا ہے۔ نصرتی کی تیسری مثنوی ’’ تاریخ اسکندری‘‘ بھی رزمیہ ہے جو انہوں نے عبدالکریم خاں کی شجاعت کے باب میں تحریر کی ہے۔ عادل شاہ ثانی (متوفی1083ھ) کے انتقال کے بعد شیوا جی کی سرکشی فرو کرنے اور عبدالکریم بہول خان کی فتح مندی کے گن گائے ہیں۔ مولوی عبدالحق کا دعوی ہے: ’’ جہاں تک تحقیق کیا گیا ہے، دنیا میں اس مثنوی کا صرف ایک ہی نسخہ ہے جو میرے کتب خانے میں ہے نام اس کا تاریخ اسکندری ہے جو خود نصرتی نے اپنے ایک شعر میں بتا دیا ہے۔۔۔۔ سن تالیف 1083ھ ہے جو نصرتی کے ایک مصرعہ سے ظاہر ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس مثنوی کی تفصیل سے بے خبر رکھا ہے کہ انہوں نے یہ نسخہ کہاں سے حاصل کیا اور اس کے سن کتابت اور کاتب کون ہے۔ مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کا ذکر صرف مرزا ابراہیم زبیری کی کتاب بساتین السلاطین میں دیکھا ے۔ یہ مثنوی علی نامہ اور گلشن عشق کے مقابلے میں بہت مختصر ہے اور صرف554اشعار پر مشتمل ہے مولوی عبدالحق اس مثنوی کو زور بیان اور شگفتگی کے لحاظ سے مثنوی علی نامہ سے کم تر نہیں سمجھتے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ تاریخ اسکندری کا مقابلہ علی نامہ سے اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ علی نامہ علی عادل شاہ کے ہنگامہ پرور دس سالہ دور کی بڑی مہمات کی تاریخ ہے اور تاریخ اسکندری صرف دو روزہ جنگ کی داستان ہے جس میں شیوا جی سے قلعہ پٹیالہ واپس لیا گیا تھا۔ اس کا مقابلہ پورے علی نامہ سے کرنے کے بجائے اگر کسی ایک جنگ کے بیان سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں وہی زور بیان، وہی شگفتگی اور وہی شاعرانہ قوت موجود ہے جو نصرتی کا طرہ امتیاز ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نصرتی کو رزمیہ شاعری میں بہت بلند مرتبہ دیتے ہیں ان کا خیال ہے اگر مولانا شبلی نعمانی کو نصرتی کی رزمیہ شاعری دیکھنے کا موقعہ ملتا تو انہیں اعتراف کرنا پڑتا: ’’ میر انیس سے قبل بھی ایک ایسا با کمال شاعر گذرا ہے جس نے مسلسل رزمیہ نظمیں لکھی ہیں‘‘ نصرتی کے سنہ وفات میں کافی اختلافات ہیں محی الدین زور نے 1081ھ نصیر الدین ہاشمی نے 1085ھ اور مولوی عبدالجبار نے تذکرہ شعرائے دکن میں1095ھ درج کیا ہے اور اورنگ زیب عالم گیر نے بیجا پور 1097ھ میں فتح کیا تھا مولوی عبدالحق کی دلیل ہے کہ اگر یہ سنین درست ہے تو یہ درست نہیں: ’’ جب شاہ اورنگ زیب عالمگیر نے دکن فتح کیا تو وہاں کے شعراء کو حاضر کرنے کا حکم دیا ان میں نصرتی بھی تھے اور ان کے کلام کو سب سے افضل تسلیم کیا اور خطاب ملک الشعرائے ہند سے سرفراز فرمایا۔‘‘ مولوی عبدالحق ان مثنویوں کے علاوہ اپنی تحقیق سے نصرتی کے قصائد اور غزلیات بھی منظر عام پر لائے ان کی رائے میں ملا نصرتی قدیم اردو کے قادر الکلام شاعر تھے اور: ’’ اس نے دکھنی زبان کو سنوارا ہے اور اس میں نیا رنگ پیدا کیا ہے اور وہ چیزیں لکھی ہیں جو اس سے پہلے ناپید تھیں۔ دکھنی ایک بے مایہ اور بے حقیقت زبان تھی اس نے اس میں جان ڈالی اور اسے سزا وار تحسین بنایا۔‘‘ بیجا پور کے اولیا شعراء جب مغلیہ سلطنت انتشار کا شکار ہوئی اور مرکز کی گرفت ڈھیلی پڑی تو جنوب میں گولکنڈہ اور بیجار پور کی ریاستوں نے خود مختاری حاصل کر لی اور مغلیہ مرکز سے جدا اپنی شمع منور کی۔ عادل شاہی بادشاہوں نے دکن میں اپنی ریاست کی بنیاد رکھی تو بیجاپور کو اپنا مستقر بنایا نتیجہ یہ نکلا کہ بیجا پور علم و ادب کا مرکز بن گیا۔ شعرائ، ادبا اور اولیاء نے بھی بیجاپور کو رونق بخشی اور نادر روزگار شخصیتیں بیجا پور سے ابھریں اسی لیے مولوی عبدالحق کی تحقیق کے لیے بیجاپور بھی دلچسپی کا مرکز بنا اور انہوں نے سہ ماہی رسالہ ’’ اردو میں‘‘ بیجا پور کے اولیا اللہ کے شاعر خاندان پر اپریل 1927ء سے ایک سلسلہ وار تحقیقی مضمون کا آغاز کیا۔ اس مضمون میں جن شاعروں کا ذکر ہے ان میں میران شمس العشاق پر اپریل 1927ء میں، حضرت شاہ برھان الدین جانم پر جولائی 1927ء میں اور حضرت شاہ امیر الدین اعلی پر جنوری 1928ء کے شمارے میں مضامین قلم بند کئے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے ان تحقیقی مضامین میں ان اولیاء اللہ کے خاندان کی سوانحی اور ادبی خدمات کا کھوج لگایا ہے۔ حضرت شاہ میران جی شمس العشاق کی ولادت کب ہوئی یہ کسی تذکرے میں نہیں ملتا۔ ہاں اتنا ذکر ضرور ملتا ہے کہ علوم ظاہری کی تکمیل شہر کے علماء و فضلا سے کی اس کے بعد حرمین شریف زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں مدت دراز تک رہے۔ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں بارہ سال تک قیام کیا اور ہر سال حج سے مشرف ہوئے وہاں سے عازم دکن ہوئے اور شہر پناہ بیجاپور کے باہر اقامت اختیار کی روضۃ الاولیاء (در حال اولیاء بیجاپور) اور محبوب ذی التعین تذکرہ اولیاء نے ان کے دکن وارد ہونے کا زمانہ عادل شاہ اول کا ابتدائی عہد بتایا ہے۔ لیکن مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ حضرت شاہ میران جی شمس العاشقین کی دکن آمد کا زمانہ یوسف عادل شاہ کا عہد ہے ان کی دلیل ہے: ’’ عادل شاہ اول کا عہد941ھ سے 988ھ تک رہا اور حضرت کی وفات 902ھ میں ہوئی یہ سلطنت عادل شاہی کے بانی یوسف عادل شاہ کا زمانہ ہوتا ہے۔‘‘ حضرت شاہ میراں جی شمس العاشق کی تاریخ وفات بھی تذکرہ اولیاء بیجا پور میں 910ھ تحریر ہے مولوی عبدالحق نے اس پر بھی تحقیق کی ہے اور اس کی بھی نفی کی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ تذکرہ اولیائے دکن میں ان کی تاریخ وفات 910ھ ہے مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتی کیوں کہ ’’ شمس العاشق‘‘ سے ان کی وفات کی تاریخ نکلتی ہے جو 902ھ ہوتی ہے اور یہ مادہ تاریخ شاہ حسین ذوقی کا کہا ہوا ہے۔ صاحب روضۃ الاولیا نے جو بیجا پور کے اولیاء اللہ کے حالات میں ہے ان کے انتقال کی تاریخ نہیں دی۔ البتہ مجھے ایک پرانا مرثیہ ملا ہے جو کسی نے حضرت میراں جی کی وفات پر لکھا تھا اس سے ان کی وفات کی تاریخ 25 شوال 902ھ معلوم ہوتی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس دلیل میں وہ مرثیہ بھی دیا ہے جس سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا وصال 25شوال 902ھ کو ہوا بلکہ یہ بھی علم میں آتا ہے کہ وہ شب پنجشنبہ تھی: ’’ آپ کا گنبد حصار بیجاپور کے باہر شاہ پور میں ایک ٹیلہ پر واقع ہے۔‘‘ حضرت میراں شمس العاشق بہت بڑے عالم اور اولیا اللہ تھے جس کے لیے آپ اس زبان کو استعمال کرتے تھے جو: ’’ اس وقت ہندی کہلاتی تھی اور جسے ہم ابتدائی اردو کہتے ہیں وہ اس زبان کے شاعر بھی تھے چنانچہ اس زبان میں ان کے نظم و نثر کا کلام اب بھی موجود ہے۔ اگرچہ بہت کمیاب ہے۔ تاہم بعض چیزیں تلاش سے اب بھی مل جاتی ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے ان کی جو چیزیں دریافت کی ہیں، ان میں 1068ھ کی کتابت شدہ صوفیانہ مثنوی ’’ خوش نغز‘‘ ہے جو سوالاً جواباً علم عرفان کے موضوع پر ہے یہ نظم 72 اشعار پر مشتمل ہے مولوی عبدالحق نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ کہاں سے دستیاب ہوئی اور اس کا سنہ کتابت کیا ہے۔ تیسرا منظوم رسالہ ’’ شہادت الحقیقت‘‘ ہے جو مندرجہ بالا دونوں رسالوں سے ضخیم ہے اور پانچ سو تریسٹھ اشعار پر مشتمل ہے مولوی عبدالحق نے اس کا تعارف یوں کرایا ہے: ’’ اس کے بھی دو نسخے ہیں ایک میں تو صاف حضرت میراں جی کی تصنیف بتائی ہے، دوسرے میں کسی کا نام نہیں لکھا لیکن خود نظم میں بھی اس کی شہادت موجود ہے کہ یہ انہیں کی تصنیف ہے۔ حمد و نعت اور منقبت کے بعد خاندان چشتیہ اور اپنے پیر حضرت شاہ کمال بیابانی کا ذکر ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کا کہنا ہے: ’’ یہ بیاض انہیں اس خاندان کے کسی معتقد ’’ ایک بزرگ‘‘ نے عنایت کی۔‘‘ مولوی عبدالحق نے حضرت شمس العشاق میراں جی کاایک مختصر نثری رسالہ بھی دریافت کیا ہے اس میں بھی مسائل تصوف ہیں اور اس میں جو آیات قرآنی اور احادیث نبوی کا استعمال ہے۔ اس کا ترجمہ اور مختصر تشریح بھی ہے۔ مولوی عبدالحق کے پاس اس کے بھی دو نسخے موجود تھے حضرت میراں جی شمس العشاق کے یہ چاروں مخطوطے انجمن ترقی اردو کے ذخیرے میں موجود ہیں۔ حضرت میراں جی کے بیٹے اور خلیفہ حضرت شاہ برہان الدین جانم کا شمار بھی بیجا پور کے اولیا اللہ اور شاعروں میں کیا جاتا ہے آپ نے تصوف اور سلوک پر متعدد رسالے تحریر کئے ہیں۔ علوم ظاہری و باطنی میں اپے والد میراں جی سے فیض حاصل کیا۔ ’’ مولف روضۃ الاولیاء بیجا پور نے ان کی تاریخ وفات صرف پانزدہم جمادی الآخر لکھی ہے سنہ نہیں لکھا ہے۔ تذکرہ اولیائے دکن کے مولف نے آپ کے وصال کا سنہ 950ہجری لکھا ہے۔‘‘ لیکن مولوی عبدالحق ان تاریخوں سے متفق نہیں ہیں۔ ان کی تحقیق ہے کہ ان کا وصال 990ھ میں ہوا اس ضمن میں انہوں نے ان کے رسالے ’’ ارشاد نامہ‘‘ کو بطور شہادت پیش کیا ہے۔ ارشاد نامہ برہان الدین جانم کا آخری رسالہ ہے اور اس کا سن تالیف خود انہوں نے 990ھ بتایا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس سن ہجری تک زندہ تھے۔ مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیںـ: ’’ ہمارے خیال میں یہ ان کی آخری تصنیف ہے اور اسی سال میں انتقال فرما دیا۔ علاوہ اس کے ان کی ایک نظم نکتہ واحد کے نیچے ان کے دو فرمان لکھے ہیں جس میں سے ایک کی تاریخ 6ماہ صفر 967ھ اور دوسرے کی ماہ صفر977ھ درج ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ان سنن تک زندہ تھے والد ماجد کے مقبرے میں مدفون ہوئے۔۔۔۔۔ ان کا عرس 16جمادی الآخر کو ہوتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے تصوف اور سلوک پر شاہ برہان الدین کے گیارہ رسائل کا تعارف کرایا ہے جن میں وصیت الہادی، سک سیلا، نکتہ وحدت، نسیم الکلام، رموز الواسلین، بشارت الذکر، صحبت السبقا، مسافرت شیخ، جان میاں، بیان خلاصہ شاہ برھان الدین صاحب اور ارشاد نامہ شامل ہے ان نظموں میں سب سے طویل نظم ارشاد نامہ ہے جو ڈھائی ہزار اشعار پر مشتمل ہے مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ یہ ان کی آخری نظم ہے مولوی عبدالحق نے پاس اس کا جو نسخہ تھا وہ 13صفر1068ھ کا کتابت شدہ تھا اس کے علاوہ بھی مولوی عبدالحق کے پاس ان کے کلام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا لیکن ان میں سے بعض غیر تحقیق شدہ ہیں اس لیے مولوی عبدالحق نے انہیں نظر انداز کر دیا ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ علاوہ نظم کے نثر میں بھی ان کے بعض رسالے ہیں، خصوصاً کتاب کلمۃ الحقائق جس کے میرے پاس دو نسخے ہیں، قابل ذکر ہے۔ یہ رسالہ اچھا بڑا ہے اور اس میں تصوف کے مسائل جواب و سوال کے طرز پر بیان کئے ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس مضمون میں تحقیقی جائزے اور شاہ برہان جانم کی تصانیف کے حوالوں سے دکنی قدیم اردو کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ حضرت میراں جی کے پوتے شاہ معین الدین اعلی بھی ولی اللہ تصور کئے جاتے ہیں۔ ’’ آپ شاہ برھان الدین کے فرزند ہیں اور اپنے والد کی وفات کے بعد تولد ہوئے۔ مادر زاد ولی سمجھے جاتے تھے اور ان کی کرامات کے تذکرے کتابوں میں بہت پائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس پر سب تذکرہ نویسوں کو اتفاق ہے کہ ولی کامل اور مجذوب واصل تھے اور باوجود جذب کمال اور محویت کے معارف و اسرار کی تلقین فرماتے تھے۔‘‘ مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ شاہ امین الدین کی وفات 1086ھ میں ہوئی ’’ تذکرہ اولیاء دکن‘‘ میں جو تاریخ وفات1116ھ اور مادہ تاریخ ختم الوری 1117ھ لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ مولوی عبدالحق کو شاہ امین الدین اعلی کا جو کلام دستیاب ہوا ہے اس میں ایک قصیدہ در مدح حضرت برہان شاہ، کتاب محب نامہ (یا محبت نامہ) رمز السالکین (یا رموز السالکین) روح اور وحدت الوجود پر ایک نظم ہے اس کے علاوہ بھی چند نظمیں ہیں لیکن امین الدین کے کلام کے سلسلے میں مولوی عبدالحق کی تحقیق ان کی ریختہ گوئی پر ہے اور انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ ایک بلند پایہ ریختہ گو شاعر بھی تھے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ ایک بات نئی ان کے کلام میں یہ پائی جاتی ہے کہ بخلاف اپنے والد کے انہوں نے ریختہ میں غزلیں بھی کہی ہیں ایک غزل تو بالکل اس زبان میں ہے جسے ابتدا میں ریختہ کہتے تھے، یعنی آدھا مصرعہ فارسی اور آدھا ہندی۔‘‘ صاحب ’’ دکن میں اردو‘‘ لکھتے ہیں: ’’ شاہ صاحب کے چند رسالے نثر میں بھی ہیں۔ ان میں سے بعض کلیہ جامعہ عثمانیہ کے کتب خانے اور بعض انجمن ترقی اردو اور بعض ادبیات اردو میں موجود ہیں۔‘‘ گجری یا گجراتی اردو نے جہاں جہاں ارتقا حاصل کیا اور اپنا اثر و رسوخ جمایا وہاں وہ مقامی بولیوں کے اختلاط سے نت نئے ناموں سے پکاری جانے لگی اور جس طرح دکن میں اسے دکنی کہا گیا تو گجرات میں گجری یا گجراتی کے نام سے روشناس ہوئی۔ ایک زمانے میں گجرات جنوبی ہند کا بہت بڑا صوبہ تصور کیا جاتا تھا جس کے ساحلوں پر تقریباً سترہ بندرگاہیں تھیں بالخصوص سورت کی بندرگاہ حجاج کے لیے آبی دروازہ کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کا ہمیشہ کسی نہ کسی انداز سے دھلی سے تعلق رہا تھا۔ یہاں تک کہ جب 806ھ میں تاتار خاں نے محمد شاہ کے لقب سے اقتدار حاصل کر کے خود مختار گجرات کی بنیاد ڈالی تب بھی یہاں صوفیائے کرام تبلیغ کرتے اور اپنا حلقہ اثر بڑھا رہے تھے۔ اس سلسلے میں شمس اللہ قادری لکھتے ہیں: ’’ ویسے بھی گجرات چونکہ سمندر سے ملا ہوا تھا اس لیے ایران و عرب و مصر کے باشندے اس ملک میں آیا جایا کرتے تھے۔ ان تعلقات نے گجرات کو ارباب فضل و کمال کا مرکز و مرجع بنا دیا اور علما و محدثین کی جماعت کثیر بلاد اسلام سے یہاں آ کر آباد ہو گئی۔‘‘ جہاں تک تصنیف و تالیف کا تعلق ہے تو اہل گجرات نے نویں صدی ہجری کے وسط سے اس گجری یا گجراتی میں تصانیف و تالیفات اور شاعری کا سلسلہ شروع کر دیا جسے ہم قدیم اردو کہتے ہیں مولوی عبدالحق نے گجرات کے پانچ شاعروں پر رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد میں مضامین کا سلسلہ جاری کیا، جس میں شاہ علی محمد جیو گام دھنی پر جولائی1928ء میاں محمد چشتی پر جنوری 1929ء میں، حسن شوقی پر جولائی 1929ء میں اور قاضی محمود دریائی پر جولائی 1940ء میں اپنے تحقیقی مضامین لکھے جن میں ان کے سوانحی اور ادبی کارناموں پر روشنی ڈالی ہے۔ شاہ علی محمد جیو گام دھنی گجرات کے صاحب کرامت ولی اللہ شمار کئے جاتے تھے آپ کا نام شاہ علی محمد تھا اور گام دھنی لقب یعنی گاؤں کے مالک یا محافظ۔ مولوی عبدالحق صاحب نے لکھا ہے: ’’ آپ کا سلسلہ نسب سید کبیر رفاعی تک پہنچتا ہے اور کنہیال کا سلسلہ محبوب سبحانی سے ملتا ہے۔۔۔ آپ کا مولد و منشا احمد آباد گجرات ہے۔ آپ نے علماء گجرات سے تحصیل علم کیا اور اپنے والد قطب العالم شاہ ابراہیم جمال اللہ سے خلافت حاصل کی۔ آپ گجرات کے کال عارفوں اور درویشوں میں سے ہیں اور اہل گجرات پر آپ کی تعلیم و ہدایت کا بہت اثر ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ جیو گام دھنی صاحب دیوان شاعر تھے اور آپ کا کلام آپ کے مرید ابو الحسن شیخ محمد ابن (ابو) عبدالرحمان القرشی الاحمدی نے جمع کیا۔ حافظ محمود شیرانی نے بھی مولوی عبدالحق کی اس بات کی تائید کی ہے اور ان کے دونسخوں کا ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ شاہ علی جیو کے کلام کو ان کی زندگی میں ان کے مرید شیخ حبیب اللہ ابن عبدالرحمن القرشی الاحمدی نے ایک مختصر دیباچہ کے ساتھ مدون کیا ہے اور اس کا نام جواہر اسرار رکھا۔۔۔۔ اس کی دوسری اشاعت شاہ علی جیو کے پوتے سید ابراہیم بن شاہ مصطفی بن شاہ علی جیو نے مرتب کی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ دونوں نسخوں میں کوئی خاص رد و بدل نہیں ہے اور وہی اصل کلام ہے جو ابو الحسن کے مجموعے میں تھا یا پھر ایک عربی خطبے کا اضافہ ہے مولوی عبدالحق نے جو نمونہ کلام دیا ان میں جو لفظ مشکل ہیں ان کے معنی بھی درج کئے ہیں مولوی عبدالحق کا کہنا ہے: ’’ میرا نسخہ خط نسخ میں لکھا ہو اہے جس میں عموماً قدیم دکنی زبان کی کتابیں لکھی جاتی تھیں خط صاف اور اچھا ہے اور قلم بھی میں کسی قدر جلی ہے د ڑ، ج چ، ک گ میں کچھ فرق نہیں گیا۔‘‘ سید شمس اللہ قادری لکھتے ہیں: ’’ 2جمادی الآخر973ھ کو آپ کا انتقال ہوا احمد آباد میں اندرون حصار دروازہ رائے گیر کے قریب سلطان شاہ غزنی کے پاس آپ کا مزار واقع ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے گجری کے جس دوسرے شاعر کا ذکر کیا ہے وہ میاں شیخ محمد چشتی ہیں۔ یہ بھی گجرات (احمد آباد) کے رہنے والے تھے ان کی مشہور کتاب ’’ خوب ترنگ‘‘ ہے اور اس کی شرح انہوں نے فارسی میں’’ امواج خوبی‘‘ کے نام سے قلم بند کی تھی ایک کتاب ’’ شرح جام جہاں نما‘‘ ہے ان تینوں کتابوں کا موضوع مسائل تصوف ہیں۔ مولوی عبدالحق نے خوب ترنگ کا سال تصنیف مصنف کے شعر سے 986ھ بتایا ہے جب کہ ’’ امواج خوبی‘‘ کے سلسلے میں وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ اس کتاب کی شرح امواج خوبی کی تکمیل کی تاریخ پورے ایک ہزار سنہ ہجری ہے۔ یہ عین وہ زمانہ ہے جب شاہان گجرات پر زوال آ چکا تھا امراء خود سر تھے اور سارے ملک میں طوائف الملکی کی شان نظر آتی تھی۔‘‘ میاں شیخ محمد چشتی نے شرح امواج خوبی میں اپنی زبان کو عربی، عجمی آمیز گجراتی بتایا ہے، حالانکہ در حقیقت یہ اردو کی ایک صورت ہے جو گجرات میں رائج تھی اور گجری کہلاتی تھی بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ دونوں ایک ہی زبانیں ہیں صرف مقامی رنگ کی کہیں کہیں جھلک نظر آتی ہے مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ میاں خوب محمد کا سن وفات جیسا کہ تحفۃ الکرام میں1103ھ لکھا ہیــ: ’’ یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ خوب ترنگ کا سن تالیف986ھ لکھا ہے اور شرح کی تکمیل کا سنہ 1000ھ یہ قرین قیاس نہیں کہ ان کی عمر اس قدر ہو علاوہ اس کے ان کی تاریخ وفات’’ خوب تھے‘‘ سے نکلتی ہے جس کے عدد بحساب ابجد1023ھ ہوتے ہیں اور یہی ان کا سن وفات ہے میاں صاحب کا انتقال گجرات میں ہی ہوا اور ان کی قبر چوک احمد آباد متصل مسجد فرحت الملک دروازہ خاور میں ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے گجری ادب کے مشہور شاعر حسن شوقی پر بھی قلم اٹھایا ہے جو سلطان محمد عادل شاہ (1037ھ تا1067ھ) کے عہد کا نامور شاعر تھے۔ مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اس کا ذکر کسی تذکرہ میں نہیں ملتا۔ ’’ لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مشہور شعراء میں سے تھا چنانچہ ابن نشاطی نے اپنے قصے پھول بن کے آخر میں جہاں چند مشہور اور نامور دکنی شعراء کا ذکر کیا ہے وہاں شوقی کا نام بھی لیا ہے:ـ‘‘ حسن شوقی اگر ہوتا فی الحال ہزاراں بھیجتا رحمت منج اپرال پھول بن کا سن تصنیف1066ھ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حسن شوقی کا انتقال ہو چکا تھا۔ مولوی عبدالحق نے شوقی کی غزلیات کے علاوہ ان کی دو مثنویاں بھی دریافت کی ہیں ایک ’’ ظفر نامہ نظام شاہ‘‘ اور دوسری ’’ میزبانی نامہ سلطان محمد عادل شاہ‘‘ ان میں سے پہلی مثنوی رزمیہ ہے جب کہ دوسری میں سلطان محمد عادل شاہ کی شادی کا ذکر ہے مولوی عبدالحق نے ظفر نامہ کے سلسلے میں بتایا ہے کہ ان کے پاس اس کے: ’’ دو نسخے ہیں جن میں سے ایک نسخہ ناقص ہے ناقص نسخے کے آخر میں اشعار زائد ہیں ان میں فتح کا سن بھی دیا ہے اور نظام شاہ کو بہت بہت دعائیں دی ہیں۔‘‘ گجری ادب کے موضوع پر مولوی عبدالحق کے مضمون کی آخری کڑی قاضی محمود دریائی پر ہے۔ ’’ قاضی محمود بیر پور علاقہ گجرات کے رہنے والے تھے ان کے باپ دادا اولیاء کرام میں سے تھے۔ والد قاضی حمید عرف شاہ چالندہ حضرت عالم کے مرید تھے اور دادا قاضی حمید عرف شاہ چالندہ حضرت عالم کے مرید تھے اور دادا قاضی محمد حضرت قطب العالم سید برہان الدین سے ارادات رکھتے تھے۔۔۔۔۔ قاضی صاحب نے علم باطنی اپنے والد سے حاصل کیا اور انہیں سے بیعت کی۔‘‘ قاضی محمود دریائی پر مولوی عبدالحق کی معلومات کا ایک بڑا حصہ تحفۃ الکریم کے بیانات پر مشتمل ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے خلیفہ ہوئے اور ’’ عالم آب‘‘ کی خدمت ان کے سپرد کی گئی جس نسبت سے ’’ دریائی‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے، انہوں نے ساری عمر جنگلوں اور بیابانوں میں ریاضتیں کیں۔ ’’ سنہ 920ھ میں اپنے وطن مالوف بیر پور چلے گئے اور 67سال کی عمر میں 941ھ (سن1534ئ) میں انتقال فرمایا اس حساب سے ان کی ولادت کا سن 874ھ(سن1469ئ) ہوتا ہے۔‘‘ مولانا عبدالحق نے ان کا ضخیم کلام بھی دریافت کیا ہے جس کی شہادت سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے کلام میں مخصوص راگ استعمال کئے ہیں۔ ’’ تمام کلام صوفیانہ ہے ہندی زبان اور ہندی رنگ میں ہے لیکن اس سے اردو کی ارتقائی حالت اور ابتدائی تاریخ کا پتہ لگتا ہے اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان جو برج بھاشا کے مقابلے میں ناشائستہ سمجھی جاتی تھی اور دھلی کے قرب و جوار کے علاقے کے عوام کی زبان خیال کی جاتی تھی رفتہ رفتہ کس طرح نا معلوم طور پر ارتقائی مدارج طے کر کے اعلا مرتبے کو پہنچ گئی۔‘‘ بیجار پور اور گجرات کے شاعروں کی طرح مولوی عبدالحق کی تحقیق حیدر آباد کے ایک شاعر خاندان پر بھی ہے جس میں انہوں نے ملا عشرتی، سید احمد ہنر اور علی احسان کے حالات اور کلام پر اپنی تحقیق پیش کی ہے۔ ان کا یہ مضمون ابتدا جولائی 1931ء کے سہ ماہی رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد کے شمارے میں پیش ہوا تھا مولوی عبدالحق کو اس حیدر آبادی خاندان کی کتابیں نواب عنایت جنگ بہادر کی عنایت سے مطالعہ کے لیے دستیاب ہوئیں۔ ملا عشرتی کا تعلق عادل شاہی عہد سے ہے اور انہوں نے نہ صرف عالمگیر کا زمانہ دیکھا بلکہ اس کی مدح سرائی بھی کی ہے مولوی عبدالحق نے ان کی دو کتابوں کی نشان دہی کی ہے جن میں ایک ’’ دیپک پتنگ‘‘ اور دوسری ’’ چت لگن‘‘ ہے مولوی عبدالحق کا بیان ہے: ’’ چت لگن میری نظر سے نہیں گذری لیکن دیپک پتنگ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عشرتی ایک پختہ شاعر تھا کلام میں حسن ذوق پایا جاتا ہے زبان صاف اور فصیح لکھتا ہے‘‘ ملا عشرتی کی مذکورہ کتاب حسن و عشق کے موضوع پر دکنی اردو میں ہے۔ اس خاندان کا دوسرا شاعر عشرتی کا بیٹا سید احمد ہنر ہے۔ مولوی عبدالحق نے ان کی بھی دو کتب ’’ نیہ درپن‘‘ اور ’’ اوتاربن‘‘ کا تعارف کرایا ہے عجب اتفاق ہے کہ ان میں سے بھی ایک مثنوی ’’ نیہ درپن‘‘ مولوی عبدالحق کے مطالعہ میں رہی جو روایتی داستانی طرز کی مثنوی ہے اس مثنوی میں شاعر نے ایک مصرعہ تالیف کے باب میں درج کر دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے: ’’ یہ کتاب 1114ھ میں تمام ہوئی‘‘ اس حیدر آبادی خاندان کے جس آخری شاعر کا مولوی عبدالحق نے ذکر کیا ہے وہ علی احسان ہیں جو عشرتی کے پوتے اور سید احمد ہنر کے بھتیجے تھے۔ انہوں نے قصہ حاتم کو فارسی سے دکنی اردو میں 1129ھ میں تحریر کیا تھا۔ ان کی اس مثنوی کے ابتدائی حصے میں متذکرہ حیدر آبادی خاندان کے احوال پر بھی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاندان حیدر آباد دکن کا نابغہ روزگار خاندان تھا۔ قدیم اردو میں قرآن شریف کے ترجمے اور تفسیریں مولوی عبدالحق کی تحقیق کا میدان قدیم اردو ادب ہے لیکن اردوئے قدیم کی جستجو انہیں ادب کے دائرے سے بھی باہر قدم رکھنے کے لیے بے چین کر دیتی ہے چنانچہ وہ مذہب اور سائنس کے موضوعات پر بھی اردو قدیم کی تحقیق کرتے ہیں تاکہ اردو کی قدامت کی نشان دہی ہو سکے۔ ان کے اس جستجوئے شوق نے انہیں قدیم اردو میں قرآن شریف کے ترجموں اور تفاسیر پر تحقیق کی جانب متوجہ کیا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:ـ ’’ اس قسم کی سب سے پرانی کتاب جو دستیاب ہوئی ہے وہ پرانی گجراتی اردو زبان ہے۔ افسوس ہے کہ اول و آخر سے ناقص ہے۔ اس لیے مصنف اور سنہ تصنیف کا پتہ چلانا غیر ممکن ہے البتہ زبان کے ڈھنگ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دسویں صدی ہجری کے اواخر یا گیارھویں کے اوائل کی تالیف ہے کیوں کہ اس کی زبان امین کی یوسف زلیخا کی زبان ہے کہ وہ گجراتی اردو میں ہے، بہت پرانی ہے۔ امین کی یوسف زلیخا 1109ھ میں لکھی گئی اور یہ یقیناً اس سے پہلے کی ہے یہ سورہ یوسف کی تفسیر ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کو دکنی اردو میں ایک اور ایسا نسخہ ملا تھا جس میں قرآن شریف کے آخری پارے کی سورتوں کا ترجمہ ٹھیٹ دکنی میں تھا اور ان کا اندازہ ہے کہ یہ نسخہ دسویں صدی ہجری کے اوائل کا ہے اس میں ترجمے کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں مختصر تفسیر بھی ہے۔ مولوی عبدالحق کا کہنا ہے: ’’ دکنی میں سورۃ یوسف، پارہ عم اور سورۃ رحمن کے متعدد ترجمے اور تفسیریں پائی جاتی ہیں مجھے سورہ رحمن کا مقفی ترجمہ بھی ملا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے ایک ایسے نسخے کا سراغ بھی لگایا ہے جو تفسیر حسینی کا ترجمہ پرانی دکنی میں ہے جس کے آخر میں کاتب نے دن، وقت، تاریخ (روز جمعہ بوقت عصر دو ماہ جمادی الاخر) تو لکھا ہے ، لیکن سنہ ندارد ہے۔ اس ضمن میں مولوی عبدالحق کا تحقیق کا ایک خاص کارنامہ 1147ء کی بابا قادری کی تفسیر کلام مجید ہے جو 25ذیقعد 1147ھ کو مکمل ہوئی یہ تفسیر سورہ تنزیل کی ہے جس کی تصریح کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے: ’’ خدا تعالیٰ نے جیسا کہ اس سورے (ناس) کے تین پانچ ناس پر تمام کیا اس طرح اس تفسیر تنزیل کو بھی پانچ شخصوں پر تمام کیا۔ اول یہ تفسیر یعنی مصنف سید بابا قادری، دوم حاجی میاں محمد علی، سوم محمد عبدالغفور خاں، یہ دونوں اس امر میں بہت کوشش رکھتے تھے چہارم محمد مسافر جوان صالح اور لائق خوش مزاج خوش نویس اور پنجم محمد واجد علی کہ یہ دو شخص لکھنے والے تھے کہ خدائے تعالیٰ نے ان دو شخصوں کے لکھنے سے تفسیر تمام کروایا۔‘‘ اس کے بعد مولوی عبدالحق نے جن تفاسیر و تراجم کا ذکر ہے ان کی کڑیاں معلومات کے لحاظ سے مکمل اور ملتی چلی گئی ہے مثلاً 1184ھ میں شاہ مراد اللہ بنھیلی نے خدا کی نعمت معروف مرادیہ کے عنوان سے تفسیر لکھی۔ برصغیر کے مشہور محدث اور عالم شاہ ولی اللہ دھلوی کے فرزندگان کی تفاسیر جن میں مولانا شاہ رفیع الدین (متوفی 1249ھ) اور شاہ عبدالقادر کی تفسیر 1205ھ (مطابق 1791ھ) ہیں جب کہ شاہ رفیع الدین احمد کی تفسیر کا حتمی سال تصنیف تحقیق نہیں ہے بلکہ مولوی عبدالجلیل نعمانی نے اپنے دیباچہ میں اس کا سن ترجمہ 1222ھ بتایا ہے۔ ’’ لیکن اس کی صراحت نہیں کہ یہ سن انہوں نے کہاں سے تحقیق کیا۔‘‘ بادشاہ شاہ عالم کے عہد میں کاظم علی جو ان نے فورٹ ولیم کالج سے اسی قسم کو ایک کوشش کی اسی زمانے کی ایک تفسیر عزیز اللہ ہمرنگ کی تفسیر’’ چراغ ابدی‘‘ اور مولانا شاہ غلام مرتضی کا منظوم ترجمہ ’’ تفسیر مرتضوی‘‘ مطبوعہ1259ھ ہے۔ مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ 1240ھ میں بابا عبدالقادری دکنی کی ’’ فوائد البدیسیہ‘‘ محرم 1242ھ مین تفسیر اکرام الدین،1268ھ میں’’ منظوم سورہ یوسف‘‘ حکیم محمد اشرف متوطن قصبہ کاندھلہ اور 1287ھ ’’ تفسیر دھابی‘‘ ضبط تحریر میں آئیں۔ مولوی عبدالحق نے ان تراجم و تفاسیر سے چیدہ چیدہ حوالے دے کر قدیم اردو کے ارتقا پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ان مفسرین اور مترجمین کے دینی کارنامے لاشعوری اعتبار سے قدیم اردو کی ترویج اور ارتقا میں معاون رہے اور ان سے اردو کی قدامت کی تاریخ کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اکتوبر1949ء میں مولوی عبدالحق نے 2924اشعار پر مشتمل ’’ شاہ نامہ فردوسی‘‘ کے ایک قدیم دکنی ترجمہ کا سراغ لگایا تھا لیکن ان کا کہنا ہے: ’’ افسوس کہ مصنف کا نام نہ معلوم ہو سکا دکنی مخطوطات میں کہیں اس کا نام نہیں اس لیے کتاب میں کہیں اس کا اشارہ تک نہیں کیا اور نہ اس کا سنہ تصنیف معلوم ہو سکا۔‘‘ جس طرح سرسید احمد خاں نے ’’ آثار الصنادید‘‘ کی کڑیاں جوڑنے کے لیے کتبوں کے حوالے جمع کئے تھے اس طرز پر مولوی عبدالحق نے قدیم اردو کے کھوج کے لیے کتبوں کا سہارا بھی لیا اور اس ضمن میں انہوں نے شاہ علی جیو گام دھنی کے مزار کے قرب میں احمد شاہ بادشاہ گجرات کے عہد میں 963ھ کی ایک تعمیر شدہ مسجد میں ایک اردو کتبے کا سراغ لگایا ہے جس سے مسجد کے سن تعمیر کا پتہ لگتا ہے مولوی عبدالحق کہتے ہیں: ’’ اس پر جو کتبہ اس زمانے کی اردو کا نمونہ ہے اس لحاظ سے یہ کتبہ بہت قابل قدر ہے اور اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ یہ زبان جسے ہم اردو یا ہندوستانی کہتے ہیں ملک کے اطراف و جوانب میں صدیوں پہلے پوری طرح پھیل چکی تھی، یہاں تک کہ اس میں کتبے تک لکھے جاتے ہیں۔‘‘ کلیات سلطان محمد قطب شاہ ایک عرصے تک ادبی دنیا میں یہ تصور مسلمہ رہا کہ ولی اردو کا پہلا شاعر ہے لیکن جدید تحقیق نے دلی کے سر سے اولیت کا تاج چھین لیا کیوں کہ ولی سے قبل بھی شعراء دکن کی غزلیات اور دیوان سامنے آ گئے۔ مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر گولکنڈہ کا پانچواں بادشاہ سلطان قطب شاہ (1565ء (973ھ) تا1611ئ) تھا جو نہ صرف اعلیٰ علمی و ادبی ذوق رکھتا تھا بلکہ علما و شعراء کی دل کھول کر سرپرستی بھی کرتا تھا مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ سلطان محمد قلی قطب شاہ دسویں صدی ہجری کا شاعر اور اکبر کا ہم عصر ہے۔ جہاں تک تحقیق نے رسائی کی ہے، یہ کلام اردو میں سب سے قدیم ہے۔ بعض مذہبی مثنویاں اس سے پہلے کی بھی پائی جاتی ہیں لیکن تعزل کے کوچے میں کسی دوسرے مسافر کا پتہ ابھی تک نہیں لگا۔‘‘ مولوی عبدالحق کو یہ کلیات شاہی کتب خانے سے ملا تھا جو بڑی تقطیع اور اعلیٰ درجہ کے قدیم کاغذ پر خط نسخ میں خوش خط لکھا ہوا ہے اور تقریباً اٹھارہ سو صفحات پر مشتمل ہے جسے اس کے جانشین اور بھتیجے محمد قطب شاہ نے بڑے اہتمام اور خلوص سے ترتیب دیا تھا۔ ’’ کتابت کا سن خود قطب شاہ نے اپنی تحریر میں1025ھ بتایا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اورنگ زیب نے حیدر آباد فتح کیا تو شاہی کتب خانے سے بعض کتابیں بھی دوسرے مال غنیمت کے ساتھ دلی چلی گئیں اور جب دلی پر آفت آئی اور وہاں کتب خانہ برباد و غارت ہوا تو کتاب پھرتے پھراتے کلکتہ پہنچی اور آخر پھر۔۔۔۔۔ اپنے اصل مقام یعنی حیدر آباد پہنچ گئی۔۔۔۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ باوجود ان حوادث و انقلابات کے یہ کتاب صحیح سالم بچ گئی اور وہیں آ گئی جہاں سے چلی تھی۔‘‘ اس کلیات کے شروع میں سلطان محمد قلی شاہ کے بھتیجے سلطان محمد قطب شاہ نے منظوم دیباچہ قلم بند کیا ہے جس میں ابتدا میں اس کی ترتیب دی گئی ہے اس منظوم دیباچے سے سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کلام پر ایسا تبصرہ ہے جس سے ان کی شاعری کے اوصاف سامنے آتے ہیں، مثلاً ظل اللہ محمد قطب شاہ کا تخلص ہے۔ انہوں نے تقریباً پچاس ہزار اشعار کہے۔ وہ تعلی نہیں کرتے اور مقطع پر تبرکاً آنحضور حضرت محمد مصطفی ﷺ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لاتے ہیں۔ سلطان محمد قطب شاہ کے کلیات میں اردو کے علاوہ فارسی تلنگی اور دکھنی کے اشعار ملتے ہیں اور ان کا دیوان کسی بھی پیشہ ور شاعر کے دیوان کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے تحقیق مقالہ میں نہ صرف اس کلیات کا لسانی جائزہ لیا ہے بلکہ فنی تجزیہ بھی کیا ہے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں ایک بات نئی دیکھی گئی ہے جو اردو شعراء میں سوائے سودا اور نظیر کے کسی دوسرے کے کلام میں نہیں پائی جاتی۔ وہ یہ ہے کہ اس نے اپنی شاعری وک صرف عشق و محبت، حمد و نعت، منقبت اور مرثیہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ انسانی معاشرت اور مظاہرہ قدرت پر بھی نظر رکھی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے کلیات سلطان قطب شاہ کا مقدمے میں بھر پور انداز سے لسانی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ دکن میں جب ہندی نے ادبی صورت اختیار کی تو اس پر فارسی رنگ چڑھ گیا لیکن بہت سے ہندی الفاظ ترکیبیں جوں کی توں رہیں اور ’’ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی زبان میں گنگا جمنی ترکیبوں کی جھلک نظر آتی ہے اور ایرانی عشق کے پہلو بہ پہلو ہندی پریم کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ صورت ایک ہے، مگر جلوے دو ہیں۔ بات ایک ہے، مگر مزے دو ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق کے کلیات پر اس تحقیق نے مزید تحقیق کی دعوت فکر دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سلطان محمد قلی قطب شاہ کا کلام بالکل ابتدائی اردو کا کلام نہیں ہے، بلکہ ’’ اس حد تک پہنچنے کے لیے ضرور ہے کہ اس سے پہلے بھی بہت سے عاشق مزاجوں اور موزوں طبع لوگوں نے مصر شعر کی کوچہ گردانی کی ہو اور طبع آزمائی سے غزل، مثنوی، قصیدہ اور دیگر اصناف سخن کو اس درجہ پہنچایا ہو جو قطب شاہ کے کلام میں دیکھتے ہیں‘‘ مولوی عبدالحق نے کلیات کے اس نسخے کے علاوہ بھی دیگر نسخوں کا سراغ لگایا ہے جس میں سے ایک: ’’ سلطان قلی کا دیوان ٹیپو سلطان کے کتب خانے میں موجود تھا اور سالار جنگ کے کتب خانے میں اس کا ایک نسخہ ہے۔‘‘ ولی دکنی ولی نے ادبی دنیا میں جتنی شہرت حاصل کی اتنے ہی ولی کے حالات پردہ خفا میں رہے اور جب تحقیق نے ان کے حالات اور کلام سے گرد جھاڑی، ان سے منسوب بہت سے ایسی باتیں جو ان کے حالات کا جزو تھیں، بے بنیاد اور غلط ثابت کر دیں۔ ولی مولوی عبدالحق کے لیے بھی ایک تحقیقی موضوع ہے۔ مولوی عبدالحق نے ولی پر تین پہلوؤں سے تحقیق کی ہے اور نئے انکشافات سے تحقیقی دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ اولاً یہ بات عام تھی کہ ولی اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا اور ’’ سن2جلوس میں شاہی 1132ھ ولی کا مکمل دیوان دلی پہنچا‘‘ اول تو’’ مخزن نکات‘‘ کا یہ بیان تحقیق طلب ہے اور اگر اسے درست مان بھی لیا جائے تو مولوی عبدالحق نے کلیات سلطان محمد قلی شاہ دریافت کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ولی سے قبل بھی جنوبی ہند میں شاعر موجو دتھے اور ولی کے بجائے یہ اولیت سلطان محمد قلی شاہ کو حاصل ہے جو اکبر کا ہم عصر تھا اور ان کا دیوان ان کے بھتیجے محمد شطب شاہ نے مرتب کیا تھا۔ سید نور الحسن ہاشمی کا کہنا ہے: ’’ کتابت کا سن خود قطب شاہ نے اپنی تحریر میں1025ھ بتایا ہے‘‘ مولوی عبدالحق کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ ولی کے دیوان سے تقریباً سو سال قبل اردو شاعری میں صاحب دیوان گزر چکے تھے۔ مولوی عبدالحق کی ولی پر تحقیق کا دوسرا پہلو ولی کا سن وفات ہے ولی کے سن وفات پر کافی اختلافات پائے جاتے ہیں چنانچہ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ ولی کا سن وفات ابھی غیر محقق ہے اور اردو شعراء کے جس قدر تذکرے اس وقت تک دستیاب ہوئے ہیں وہ سب اس بارے میں خاموش ہیں۔ البتہ مولوی عبدالجبار خان مرحوم مولف تذکرہ شعراء دکن نے اس کا سن وفات1155ھ لکھا ہے لیکن کوئی حوالہ یا ثبوت پیش نہیں کیا۔‘‘ کیوں کہ ولی کا سن وفات صرف تذکرہ شعراء اردو میں ہی ملتا ہے اس لیے بعد کے مصنفین اسے ہی درست تسلیم کر کے نقل کرتے رہے اسی طرح ایک شعر دل ولی کا لے لیا دلی نے چھین جا کہے کوئی محمد شاہ سوں ولی سے منسوب ہو گیا۔ چنانچہ یہ تصور کیا جانے لگا کہ ولی کا زمانہ محمد شاہ کا عہد تھا جب کہ اسے کس سن جلوس 1031ھ ہے۔ مولوی عبدالحق نے تحقیق کیا ہے کہ مندرجہ بالا شعر کا تعل ولی سے نہیں کیوں کہ انہوں نے بارہ قلمی نسخوں کا مطالعہ کیا ہے اس میں کہیں بھی یہ شعر نہیں ملتا اور نہ کسی مطبوعہ یا قلمی دیوان میں یہ شعر یا اس زمین میں کوئی غزل ملتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے تحقیق کیا کہ ولی کیو فات1119ھ میں ہوئی اور اس کی شہادت انہوں نے ’’ دیوان ولی‘‘ کے اس نسخے سے لی جو جامعہ مسجد بمبئی کے کتب خانے میں نمبر4279کے تحت موجود ہے اور اس نسخے میں مولوی حسن کا کہا ہوا ایک قطعہ تاریخ بھی ہے یہ نسخہ شہوار بیگ نے سنہ 21جلوس محمد شاہی میں رقم کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس کی مزید صحت احمد آباد کے ایک خانگی کتب خانے کی بیاض سے بھی کی ہے تاہم مولوی عبدالحق کا خیال ہے: ’’ ولی کی زندگی اور کلام کے متعلق ابھی اور کئی امور مشتبہ اور تحقیق طلب ہیں۔‘‘ چناں چہ مولوی عبدالحق کے بتائے ہوئے ولی کے سن وفات پر مزید تحقیق ہوئی اور جدید تحقیق نے مولوی عبدالحق کے اس خیال کو درست ثابت نہیں کیا کہ ولی کا سن وفات1119ھ ہے اس سلسلے میں مولوی عبدالحق کے مضمون کے شائع ہوتے ہی بحث و تحقیق کے دروازے کھل گئے اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے: ’’ اپریل 34ء کے زمانہ کانپور میں محمد یحییٰ تنہا نے ولی کے سن وفات کی تحقیق کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور بتایا کہ ولی کا سن وفات 1119ھ غلط ہے، صحیح سن وفات1155ھ ہے۔‘‘ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے مضمون’’ ولی کا سن وفات‘‘ مطبوعہ اورینٹل کالج میگزین (جشن صد سالہ نمبر1972ئ) میں مختلف مخطوطات کے مطالعے اور مباحث کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کے مطابق مولوی عبدالحق کا تحریر کردہ سن وفات 1119ھ تاریخی اور تحقیقی شواہد کی بنا پر مشکوک ہو جاتا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ 1134ھ میں جب فراقی نے ’’ مراۃ الحشر‘‘ لکھی، ولی بقید حیات تھے، لیکن جب ثنا اللہ نے 1138ھ میں ’’ دیوان ولی‘‘ نقل کیا یا جب وجدی نے 1144ھ میں اپنی مثنوی’’ مخزن عشق‘‘ لکھی تو ولی وفات پا چکے تھے ان شواہد کی روشنی میں ولی کا سال وفات1119ھ کے بجائے جو یقینا غلط ہے 1133ھ کے بعد اور1138ھ سے پہلے متعین ہوتا ہے یہ اتنا سیدھا سادا حساب ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔‘‘ معراج العاشقین (خواجہ بندہ نواز) خواجہ سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز (متوفی 825ھ 1421/ئ) دکن کے مشہور بزرگوں اور خواجہ نصر الدین چراغ دھلوی کے خلفا میں تصور کئے جاتے تھے اور 30سے زیادہ تصانیف آپ سے منسوب ہیں۔ مولوی عبدالحق نے 1924ء میں خواجہ بندہ نواز کی قدیم دکنی میں کتاب ’’ معراج العاشقین‘‘ مع اپنے مقدمے کے شائع کی۔ مولوی عبدالحق کے پاس پہلے سے اس کتاب کا نسخہ موجود تھا لیکن یہ بات تحقیق طلب تھی کہ یہ خواجہ گیسو دراز ہی کی تصنیف ہے ان کے اس نسخہ کی سن کتابت906ھ تھی۔ لیکن جب مولوی غلام محمد انصاری مدیر’’ تاج‘‘ نے ڈاکٹر محمد قاسم کے کتب خانے سے معراج العاشقین کا پتہ لگایا تو مولوی عبدالحق نے اس کا موازنہ اپنے نسخے سے کیا۔ مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ جب دو نسخے ہاتھ آ گئے اور مصنف اور زمانے کے متعلق کافی اطمینان ہو گیا تو میں نے حضرت وفا کی فرمائش سے ایک صحیح نسخہ مرتب کرنا شروع کیا۔‘‘ مولوی عبدالحق کے پیش نظر دونوں نسخے نہایت بد خط، بد املا اور بہت غلط تھے۔ انہیں بڑی کاوش سے مرتب کیا مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں خواجہ گیسو دراز کے حالات زندگی اور ان کی دکنی تصنیف معراج العاشقین پر تحقیق کی ہے۔ مقدمہ کے پہلے حصہ میں خواجہ گیسو دراز کے سوانحی حالات، خاندانی پس منظر اور ان کی دینی و علمی خدمات پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ خواجہ گیسو دراز نے تقریباً105سالہ زندگی پائی اور تیموری انقلاب میں دہلی کے بڑے نشیب و فراز دیکھے۔ مولوی عبدالحق کی تحقیق کا دوسرا پہلو خواجہ گیسو دراز کی تصانیف و تالیفات ہیں۔ مولوی عبدالحق اس ضمن میں بڑے محتاط نظر آتے ہیں وہ لکھتے ہیں: ’’ میرے پاس حضرت کے متعدد رسالے اس زبان میں تصنیف کئے ہوئے موجود ہیں لیکن ان کے شائع کرنے کی جرات نہیں ہوئی، اس لیے کہ ہمارے ہاں قدیم سے یہ دستور رہا ہے کہ لوگ اپنی تصانیف کو بعض مشاہیر اور نام آور بزرگان دین سے منسوب کر دیتے ہیں اس بنا پر مجھے ہمیشہ یہ شبہ رہا ہے کہ جو رسالے میرے پاس موجود ہیں وہ حقیقت میں بندہ نواز کی تصنیف ہیں یا نہیں۔‘‘ لیکن جب مولوی عبدالحق کو خواجہ بندہ نواز کے مرید محمد عبداللہ بن عبدالرحمن چشتی کی تصنیف عشق نامہ (828ھ 862-ھ) میں اس کتاب کا خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے منسوب ہونے کا ذکر ملا تو وہ مطمئن ہو گئے لیکن پھر بھی ان کا خیال ہے: ’’ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے، تو اس کے ماننے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا کہ یہ سن 906ھ سے قبل کی تصنیف ہے حضرت بندہ نواز کا سن وفات825ھ ہے یعنی اس رسالے کی کتابت حضرت کی وفات سے 81سال بعد کی ہے اس سے بھی یہ امر قرین قیاس بلکہ اغلب معلوم ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو یہ حضرت ہی کی تصنیف ہے اگر ان تمام قیاسات اور شہادتوں سے قطع نظر کر لی جائے تو ابھی اتنا ضرور ماننا پڑے گا کہ اگر یہ تصنیف حضرت کی نہیں تو ان کے کسی ہم عصر یا اس سے قریب زمانے کی تصنیف ضرور ہے اس لحاظ سے بھی یہ قدیم اردو کا نہایت قابل قدر نمونہ ہے اور اس سے قبل کی تحریری زبان کا نمونہ ملنا مشکل دشوار ہے۔‘‘ ایک مدت تک ’’ معراج العاشقین‘‘ خواجہ گیسو دراز ہی کی تصنیف مانی جاتی رہی لیکن مولوی عبدالحق کے دل میں جو شک و شبہ گھر کئے ہوئے تھا وہ پورا ہوا اور جدید تحقیق نے یہ ثابت کر دکھایا کہ ’’ معراج العاشقین‘‘ خواجہ گیسو دراز کی تصنیف نہیں اور نہ ہی یہ اردو کی اس دور کی پہلی نثری تصنیف ہے بلکہ: ’’ اس کا مصنف خواجہ گیسو دراز کے بجائے مخدوم شاہ حسینی بیجا پوری ہیں جنہوں نے گیارھوں صدی کے نصف یا آخر یا بارھویں صدی کے اوائل میں’’ تلاوۃ الوجود‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا تھا اس کی مزید تحقیق اس بات سے ہوتی ہے کہ شاہ محمد علی سامانی نے جو بارگاہ خواجہ بندہ نواز کے مرید و خادم تھے ’’ سیر محمدی‘‘ کے نام سے جو تالیف831ھ 1427/ء میں کی تھی انہوں نے اس میں بندہ نواز کی 37تصانیف کا ذکر کیا ہے اور کسی اردو تصنیف کا حوالہ نہیں ملتا۔‘‘ ان تمام کے باوجود معراج العاشقین کا اردو قدیم میں اپنا مقام ہے اور اپنی زبان کی قدامت اور موضوع کے اعتبار سے اس کا ذکر ادبیات اردو میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ شمالی ہند کا اردو ادب اس میں کوئی شک نہیں کہ مولوی عبدالحق کا ایک بہت بڑا کارنامہ دکنی ادب کی گم شدہ کڑیوں کو ملانا اور مخفی ادبی خزانوں کو منظر عام لانا ہے ورنہ ادب کا ایک بہت بڑا خزینہ تاریخ ادب سے اوجھل رہ جاتا۔ انہوں نے شمالی ادب پر بھی گہری نظر رکھی۔ اس سلسلے میں ان کا خاص موضوع میر تقی میر اور ان کی تصانیف رہیں۔ نکات الشعراء کی تدوین(جس کا تفصیلی ذکر پہلے آ چکا ہے) کے علاوہ خواجہ سید محمد میر اثر کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ اور ان کے دیوان کو بھی منظر عام پر لائے، میرا من دھلوی کی ’’ باغ و بہار‘‘ پر تحقیقی مقدمہ قلم بند کر کے ادبی دنیا میں ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ میر تقی میر شمالی ہند کے شاعروں اور ادیبوں میں مولوی عبدالحق کا خاص موضوع تحقیق میر تقی میر اور ان کی تصانیف ہیں۔ انہوں نے 1921ء میں کلام میر کا انتخاب کیا اور اس پر سیر حاصل مقدمہ لکھا۔ میر کی خود نوشت ’’ ذکر میر‘‘ کو ترتیب دیا اور اس کی آخری کڑی ’’ نکات الشعرائ‘‘ کی تدوین و تحقیق ہے۔ مولوی عبدالحق نے ’’ انتخاب کلام میر‘‘ میں اپنے تحقیقی نظریہ سے میر تقی میر کے بکھرے ہوئے حالات زندگی کو مختلف تذکروں کی مدد سے مرتب کیا۔ حالات بتانے کے لئے مختلف حوالے جمع کئے اور اس طرح یہ مقدمہ نہ صرف ایک ادبی تعارف ہے بلکہ تحقیقی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ میر جیسا کہ خود انہوں نے اپنے تذکرہ نکات الشعراء میں لکھا ہے متون اکبر آباد است بہ سبب گردش لیل و نہار از چندے در شاہجہاں آباد است‘‘ علی ابراہیم کے تذکرہ گلزار ابراہیم میں جس کا ترجمہ میرزا علی لطف نے مسٹر جان گلکرسٹ کی فرمائش سے اردو میں کیا ہے، یہ لکھا ہے میر تخلص، نام نامی اس نگین خاتم سخن آفرینی کا میر محمد تقی ہے متوطن اکبر آباد کے، سراج الدین علی خاں آرزو تخلص آپ کے رشتہ داروں میں دور کے تھے۔ ابتدائے سن شعور سے پرورش انہوں نے دار الخلافہ شاہ جہاں آباد میں پائی اور خان مذکور کی صحبت سے نظم ریختہ کی کیفیت باریکیوں کے ساتھ اٹھائی ہے۔ اسی طرح اپنے مقدمہ میں’’ گلشن ہند‘‘ کے حوالے سے ان کا دلی سے نقل مکانی کا تذکرہ کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس مقدمہ میں ہی ادبی دنیا کو یہ مژدہ سنایا تھا: ’’ میر صاحب کا تذکرہ نکات الشعراء ہندی بہت نایاب ہے اتفاق سے دستیاب ہو گیا ہے اور عنقریب انجمن ترقی اردو کی طرف سے شائع ہو گا۔‘‘ اس طرح ذکر میر کی پیش بندی بھی انتخاب کلام میر اپنے مقدمہ میں کر دی تھی وہ لکھتے ہیں: ’’ میر کا کلام اور ان کی سیرت دونوں قابل مطالعہ ہیں‘‘ انتخاب کلام میر مولوی عبدالحق نے 1921ء میں حیدر آباد دکن اور ذکر میر 1928ء میں اورنگ آباد سے شائع کیا۔ ذکر میر مطالعہ میر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس کتاب سے نہ صرف میر بلکہ میر کے ماحول اور اس عہد کی معاشرت پر بھر پور روشنی پڑتی ہے مولوی عبدالحق نے میر کے تاریخی شعور پر اپنے مقدمے میں خاص طور پر بحث کی ہے اور انہیں اعلی درجہ کا مورخ ثابت کیا ہے مولوی عبدالحق ذکر میر کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ آپ بیتی میں جو مزا ہے وہ جگ بیتی (تاریخ) میں کہاں، مورخ ہزار بے لاگ ہو اور تحقیق و تلاش میں سر مارے، آپ بیتی لکھنے والوں کو نہیں پہنچ سکتا۔ بعض اوقات اس کے بے ساختہ جملے سے وہ اسرار حل ہو جاتے ہیں جو مدتوں تاریخ کی ورق گردانی کے بعد بھی میسر نہیں ہوتے۔ ہر شخص جس نے دنیا دیکھی بھالی ہے اپنی آپ بیتی آپ لکھ جایا کرے تو ادب کے خزانے میں یہ جواہرات انمول ہوں۔‘‘ میر کا زمانہ پر آشوب تھا۔ نادر شاہی حملوں، مرہٹوں، جاٹوں اور لودھیوں کی اودھم بازی نے دلی کو زیر و زبر کر رکھا تھا میر کی اس آپ بیتی میں یہ تمام احوال چشم دید گواہ کی حیثیت سے میسر آ جاتا ہے اس لیے مولوی عبدالحق کا کہنا ہے: ’’ میر صاحب نے ان واقعات اور حالات کو بڑی صحت اور خوبی سے لکھا ہے اور اس زمانے کی تاریخ کے لیے یہ کتاب بھی ایک قیمت رکھتی ہے بعض مقامات پر وہ مورخ کی حیثیت سے رائے بھی دیتے ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے ذکر میر کے متن سے میر کے متعلق بہت سی ایسی کڑیوں کو جوڑا ہے جو تحقیق طلب تھیں مثلاً انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ میر کے والد کا نام میر متقی تھا ورنہ اس سے پہلے مولانا آزاد نے ’’ آب حیات‘‘ میں اور میرزا علی لطف نے ’’ گلزار ابراہیمی‘‘ میں ان کے والد کا نام میر عبداللہ بتایا تھا مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ ساری کتاب میں کہیں اس کا اشارہ تک نہیں کہ سوائے اس کے (میر متقی) ان کا کوئی اور نام بھی تھا۔ جہاں کہیں انہوں نے والد کا ذکر کیا ہے علی متقی یا درویش کے نام سے کیا ہے۔‘‘ اس طرح مولوی عبدالحق نے متنی شہادتوں سے مولانا محمد حسین آزاد اور صاحب تذکرہ شورش غلام حسین کے اس بیان کی بھی نفی کی ہے کہ میر سید نہ تھے بلکہ میر محض ان کا تخلص تھا عبدالحق نے ثابت کیا ہے کہ میر نے اپنے تذکرہ میں اپنے والد کے نام کے ساتھ بھی ہر جگہ میر متقی لفظ استعمال کیا ہے مولوی عبدالحق نے ’’ ذکر میر‘‘ سے خان آرزو سے ان کی ناچاقی کے اسباب کو بھی تلاش کیا ہے اور یہ بھی کہ شعر و سخن میں انہوں نے کسی کی شاگردی نہیں کی بلکہ میر سعادت کی تحریک پر ریختہ میں شعر موزوں کرنا شروع کئے مولوی عبدالحق کہتے ہیں:ـ ’’ اس وقت سے ان کی شعر گوئی کی بنیاد پڑی۔ میر صاحب نے بھی ایسی جان توڑ کر محنت کی اور مشق بہم پہنچائی کہ تھوڑے عرصے میں ان کی شہرت سارے شہر میں پھیل گئی حقیقت یہ ہے کہ وہ کس کے شاگرد نہ تھے بلکہ شاعر پیدا ہوئے تھے۔‘‘ مولوی عبدالحق سے قبل میر کے سن ولادت کے بارے میں شدید اختلافات تھے میر کا سن وفات1225ھ مطابق1808ھ ہے۔ ’’ آزاد سو سال کی عمر بتاتے ہیں اس حساب سے ولادت 1125ھ 1713/ ولادت قرار پائی تذکرہ ہندی گویان مصحفی ان کی عمر اسی سال قرار دیتے ہیں جس سے ولادت 1137ھ 1724ء قرار پایا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے مختلف تذکروں کے حوالہ جات اور ذکر میر کے سال تصنیف سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے: ’’ اگر سن پیدائش1137ھ اور سن وفات1225ھ ہو تو میر صاحب کی عمر تقریباً89برس ہوتی ہے، بہر حال 90سال سے زائد کسی حال میں نہیں اور میری رائے میں یہی صحیح بھی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق کو یہ نادر الوجود کتاب خاں بہادر مولوی بشیر الدین سے ملی تھی اس کا ذکر مولوی عبدالحق نے یوں کیا ہے: ’’ سوائے ڈاکٹر اسپنگر کے اس نے اپنی فہرست میں اس کا ذکر کیا ہے اور کہیں اس کا پتہ نہیں یہ محض اتفاق ہے کہ یہ کتاب خان بہادر مولوی بشیر الدین احمد صاحب بانی مسلم ہائی اسکول اٹاوہ کے ہاتھ لگ گئی اور ان کی عنایت سے ہمیں دیکھنی نصیب ہوئی اور اس کے شائع ہونے کا موقع ملا میں مولوی صاحب کے اس لطف و کرم کا بے حد ممنون ہوں یہ نسخہ بہت صاف اور اچھا لکھا ہو اہے کتابت سن1222ھ (سنہ 1808ئ) کی ہے کہیں کہیں مشکل الفاظ اور محاورات کے معنی بھی دئیے ہیں جو ہم نے بخسہ چھاپ دئیے ہیں البتہ مضامین کے عنوان اس میں نہیں تھے وہ ہم نے اضافہ کئے ہیں۔‘‘ ابھی کتاب چھپ ہی رہی تھی کہ مولوی عبدالحق کو ایک او رنسخے کا پتہ لگا جولاہور میں پروفیسر محمد شفیع کے پاس تھا مولوی عبدالحق نے چھپائی رکوا دی اور اسے مگنوا کر اس سے اس کا مقابلہ کیا مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ اس سے بعض جگہ بہت مدد ملی، پروفیسر صاحب کا نسخہ ایسا چھا لکھا ہوا نہیں جیسا اٹاوے کا ہے اور ناقص بھی ہے، یعنی ایک چوتھائی سے زائد کم ہے معلوم ہوتا ہے کہ آخری حصہ میر صاحب نے بعد میں بڑھایا ہے، چنانچہ لاہور جانے کا حال لاہور کے نسخہ میں مطلق نہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے نسخے کی تدوین میں جہاں جہاں دونوں نسخوں میں اختلاف ہے اسے حاشیہ میں دے دیا ہے اور اس کے لیے ن کو بطور نشان دہی مقرر کیا ہے آخر میں کچھ تاریخی اہمیت کے لطائف بھی جمع کر دئیے اور بعض ایسے لطائف بھی جمع کر دئیے جو بقول مولوی عبدالحق متانت اور تہذیب کے خلاف تھے مولوی عبدالحق نے ’’ ذکر میر‘‘ کی تدوین کرتے ہوئے انہیں خار کر دیا۔ میر تقی میر نے اپنے تذکرہ کی تصنیف1185ھ میں شروع کی تھی قطعہ تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تذکرہ1197ھ میں تکمیل کو پہنچا۔ حسب روایت مولوی عبدالحق نے کتابی شکل دینے سے قبل اپریل 1926ء میں سہ ماہی اردو اورنگ آباد میں اس کا اردو خلاصہ شائع کیا تھا بہر حال: ’’ ذکر میر تاریخی معلومات کا گنجینہ ہے افسوس ہے کہ ہمارے مورخوں نے ابھی تک اس کو تاریخی ماخذ کے طور پر استعمال نہیں کیا اس میں محمد شاہ کے انتقال سے لے کر غلام قادر روہیلہ کے جور و ستم تک کے تمام واقعات دئیے ہیں آخری دور مغلیہ، مرھٹوں، سکھوں، جاٹوں اور انگریزوں کے متعلق اس میں ایسی معلومات درج ہیں جو دوسری جگہ اس انداز سے نہیں ملتیں۔‘‘ میر تقی میر کی نکات الشعراء پر متعلقہ حصے میں تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے۔ میر اثر اور اس کی تصانیف سید محمد میر اثر خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی، جانشین اور شاگرد تھے جن کی تربیت خواجہ میر درد نے بڑی جان فشانی اور ناز سے کی تھی لیکن خواجہ میر درد کی تناور شخصیت ان پر اتنی چھا گئی کہ ان کی انفرادیب دب کر رہ گئی۔ مولوی عبدالحق نے میر اثر کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ اور دیوان اثر مرتب کر کے انہیں ان کا انفرادی مرتبہ بخشا۔ مولوی عبدالحق نے میر اثر کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ کا اپریل 1926ء اور نمونہ کلام (غزلیات) جولائی1926ء میں رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد میں شائع کر کے ادبی دنیا سے متعارف کرایا۔ بعد ازاں’’ مثنوی خواب و خیال‘‘ انجمن ترقی اردو اورنگ سے مع اپنے مقدمہ مرتب کر کے 1926ء ہی میں شائع کی جب کہ ’’ دیوان اثر‘‘ مسلم یونیورسٹی پریس علی گڑھ سے 1930ء میں شائع ہوا۔ مولوی عبدالحق نے ’’ مثنوی خواب و خیال‘‘ کو دو نسخوں کی مدد سے مرتب کیا تھا جس کا ذکر وہ اس طرح کرتے ہیں: ’’ ان کے دیوان کی طرح ان کی مثنویاں بھی بہت کمیاب ہیں۔ مجھے ایک مدت سے اس کی تلاش تھی۔ اتفاق سے اس کا ایک نسخہ میرے برادر معظم شیخ ضیاء الحق صاحب نے مجھے بھیجا جو انہیں کہیں سے مل گیا تھا۔ میں اس کی اصلاح و تربیت میں مصروف تھا کہ مولوی تجیب اشرف صاحب ندوی نے اطلاع دی کہ انہیں ایک نسخہ انجمن اصلاح ڈسنہ (بہار) کے کتب خانے میں دستیاب ہوا ہے اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں انجمن کی طرف سے اسے شائع کرنے والا ہوں تو کمال عنایت سے وہ نسخہ میرے پاس بھیج دیا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اپنے تحقیقی مقدمے میں اس مثنوی کا موازنہ مرزا شوق کی مثنوی ’’ زہر عشق‘‘ کے متن سے کر کے یہ ثابت کیا ہے: ’’ اگر دونوں مثنویوں کے اس قسم کے اشعار برابر رکھ کر پڑھے جائیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ مرزا شوق نے ’’ خواب و خیال‘‘ کو ہی اپنا نمونہ بنایا‘‘ مولوی عبدالحق کو مثنوی خواب و خیال کے بعد ان کے دیوان کی جستجو ہوئی۔ بالآخر انہیں اس کے دو نسخے دستیاب ہو گئے ایک نسخہ انہیں جامعہ ملیہ دھلی کے کتب خانے سے جامعہ کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ذاکر حسین خان نے مہیا کیا جب کہ دوسرا کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن سے مرزا فرحت اللہ بیگ نے نقل کر کے بھیجا۔ ان دونوں نسخوں کے علاوہ بھی مولوی عبدالحق نے مختلف تذکروں سے میر اثر کا کلام جمع کیا اور اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کر کے ادبی سرمایہ میں اضافہ کیا۔ مولوی عبدالحق ’’ دیوان اثر‘‘ کا اس طرح تعارف کراتے ہیں: ’’ افسوس ہے کہ اثر کے حالات کہیں نہیں ملتے۔ اس سے قبل ان کا کلام بھی مفقود تھا۔ بارے غنیمت ہے کہ ان کا کلام مل گیا ہے مثنوی پہلے چھپ چکی ہے، اب دیوان شائع کیا جا رہا ہے۔ دونوں نہایت قابل قدر ہیں۔ اردو کی بڑی بد قسمتی ہوتی اگر یہ گمنامی میں پڑے رہتے اور شائع نہ ہوتے یہی ان کی ساری کائنات ہے اور ان کی زندگی کا سرمایہ ہے۔ اگر زندگی کے حالات معلوم نہیں تو نہ ہوں ان کا کلام مل جانا بہت بڑی فتح ہے اردو کے دلدادہ کے لیے اس سے بڑی نعمت ہو نہیں سکتی۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ میر اثر کے حالات زندگی تاریخی تواتر سے میسر نہیں لیکن ان کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ بلا واسطہ ان کی خود نوشت ہے اور ان کی غزلیں اور مثنوی ایک ہی مزاج کی ترجمانی کرتی ہیں بقول ڈاکٹر جمیل جالبی: ’’ ان کی غزلوں پر مثنوی کے مزاج کی اور مثنوی پر غزلوں کے مزاج کی گہری چھاپ ہے۔ مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ ایک طویل غزل ہے اور دیوان اثر کی غزلیں مختصر مثنویاں ہیں۔‘‘ باغ و بہار مولوی عبدالحق کا ایک بڑا تحقیقی کارنامہ ’’ باغ و بہار‘‘ کی تحقیق ہے مولوی عبدالحق نے ’’ باغ و بہار‘‘ پر اپنے مقدمہ میں اس تصنیف کے ماخذ پر جو بحث کی ہے وہ فی الحال حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’ باغ و بہار‘‘ کے مصنف میرا من کا یہ قول درست نہیں کہ ’’ باغ و بہار‘‘ کا ماخذ امیر خسرو کا وہ قصہ چہار درویش ہے جو امیر خسرو نے اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیا کی بیماری میں ان کا دل بہلانے کے لیے سنایا تھا بلکہ اس کا ماخذ میر محمد حسین عطا خاں کی اردو تالیف ’’ نو طرز مرصع‘‘ ہے۔ میرا من دھلوی نے اپنے دیباچہ میں اس ’’ قصہ چہار درویش‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا ہے:ـ ’’ یہ قصہ چہار درویش کی ابتدا امیر خسرو دھلوی نے اس تقریب سے کیا کہ حضرت نظام الدین اولیا زری بخش جو ان کے پیر تھے اور درگاہ ان کی دلی میں قلعہ سے تین کوس لال دروازے کے باہر مٹیا دروازے سے آگے لال بنگلے کے پاس ہے، ان کی طبیعت ماند ہوئی، تب مرشد کے دل بہلانے کے واسطے امیر خسرو یہ قصہ ہمیشہ کہتے اور تیمار داری میں حاضر رہتے۔ اللہ نے چند روز میں شفا دی تب انہوں نے غسل صحت کے دن یہ دعا دی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا خدا کے فضل سے تندرست رہے گا جب یہ قصہ فارسی میں مروج ہوا۔‘‘ مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ سارے قصے میں کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ امیر خسرو کا لکھا ہوا ہے نہ ہی امیر خسرو کی تصانیف میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ امیر خسرو اپنے عہد کے نامور شاعر تھے جب کہ اس قصے کے آغاز میں جو حمد ہے وہ ایک غیر مصروف شاعر صفی کی ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ خسرو جیسے زبردست اور پر گو شاعر سے یہ توقع کہاں ہو سکتی ہے کہ وہ کسی دوسرے غیر معروف شاعر کی نظم حمد میں نقل کرتے۔ یہ ان کی طبیعت سے بھی بعید معلوم ہوتا ہے اس سے یہ شبہ اور قوی ہوتا ہے کہ یہ قصہ امیر خسرو کا لکھا ہوا نہیں ہے یہ ممکن ہے کہ انہوں نے حضرت سلطان اولیاء کو بیماری کے زمانے میں یہ قصے سنائے ہوں، انہوں نے دعا دی اور اس سے یہ قصہ ان کی طرف منسوب کر دیا گے اہو۔ امن کے آخری فقرے سے بھی کہ ’’ جب یہ قصہ فارسی میں مروج ہوا‘‘ صاف صاف نہیں معلوم ہوتا کہ یہ فارسی قصہ جو تحریر میں آیا امیر خسرو کی تصنیف ہے۔‘‘ حافظ محمود شیرانی نے بھی مولوی عبدالحق کے اس نظریہ کی تائید کی ہے کہ اس قصہ کا امیر خسرو کی تصانیف سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ زبان و بیان کے اعتبار سے یہ قصہ امیر خسرو اور ان کے عہد سے لگا نہیں کھاتا۔ حافظ محمود شیرانی نے اس ضمن میں جو دلائل دئیے ہیں ان کے مطابق: ’’ اس کا کوئی فارسہ مخطوطہ بارھویں صدی ہجری سے پیشتر کا نہیں۔ نہ ہی اس سے قبل کسی تحریر میں اس کا ذکر ملتا ہے۔۔۔۔ امیر خسرو کی تصانیف میں بھی چار درویش کا نام کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔۔۔۔ امیر خسرو کی نثر بڑی مرصع، دقیق اور صنائع بدائع سے پر ہوتی ہے۔ چار درویش کے کسی متن کا اسلوب ایسا نہیں۔‘‘ میرا من نے باغ و بہار1215ھ میں شروع کی،1217ھ مطابق1802ء میں مکمل ہوئی اور 1803ء میں کلکتہ کے ہندوستانی چھاپہ خانے سے شائع ہوئی اور سر ورق پر جو عبارت دی گئی اس پر لکھا گیا: ’’ باغ و بہار تالیف کیا ہوا میرا من دلی والے کا ماخذ اس کا نو طرز مرصع کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خاں کا ہے فارسی قصہ چہار درویش سے۔‘‘ سرورق کی اس عبارت سے ساری گتھی سلجھ جانی چاہیے تھی لیکن میرا من نے دھباچہ میں اس مسئلہ کو الجھا کر بحث میں ڈال دیا وہ فارسی قصے کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں: ’’ اب خداوند نعمت مروت نجیبوں کے قدر دان گل کرسٹ صاحب نے (کہ ہمیشہ اقبال ان کا زیادہ رہے جب تلک گنگا جمنا بہے) لطف سے فرمایا کہ اس قصے کو ٹھیٹ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ ہندو مسلمان، عورت مرد، لڑکے بالے، خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں، ترجمہ کرو۔‘‘ مولوی عبدالحق نے میر امن کی باغ و بہار کا فارسی کتاب اور میر محمد حسین عطا خاں تحسین اٹاوے والے کی نو طرز مرصع سے مقابلہ و موازنہ کیا ہے اور انہیں عبارتوں پر عبارتیں لفظوں پر لفظ اور جملوں پر جملے ایسے ملتے ہیں جو نو طرز مرصع سے لگا کھاتے ہیں یہاں تک کہ بعض نام اور واقعات فارسی کے بر خلاف تحسین کی نو طرز مرصع سے ملتے جلتے ہیں۔ اور جہاں کہیں نو طرز مرصع اور فارسی کتاب میں اختلاف ہے باغ و بہار میں نو طرز مرصع کا اتباع کیا گیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں جا بجا اپنی بحث کو اس قسم کے حوالوں سے وزنی بنایا ہے وہ لکھتے ہیں:ـ ’’ فارسی اور نو طرز مرصع کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ باغ و بہار فارسی کتاب کا ترجمہ نہیں بلکہ اس کا ماخذ نو طرز مرصع ہے تعجب اس بات کا ہے کہ میرامن نے فارسی کتاب اور اس کے ترجمے کا تو ذکر کیا مگر نو طرز مرصع کا ذکر صاف اڑا گئے۔‘‘ لیکن ان تمام مباحث کے باوجود کہ میرا من دھلوی کی باغ و بہار فارسی سے ترجمہ تھی، امیر خسرو کی طبع زاد تھی یا نہیںـ؟ یا اس پر نو طرز مرصع کی کتنی چھاپ ہے، اردو ادب میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ وہ پہلی کتاب ہے جسے داستان اور ناول کی درمیانی کڑی کہا جاتا ہے اور اس میں میرا من کے ذاتی احوال کے ساتھ پہلے ہندوستانی شخص سے ہندوستانی زبان کے ارتقاء کا لا شعوری اعتبار سے ذکر ملتا ہے اور اس میں اردو کی تاریخ کا سراغ موجود ہے۔ میرامن نے اپنے دیباچہ میں اردو کا مختصر خاکہ پیش کر کے اس اصول کی نشان دہی کی ہے جس کے تحت زبان وجود میں آئی۔ اگر ہم مجموعی اعتبار سے میرا من کی باغ و بہار کا جائزہ لیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں: ’’ میرامن کا ترجمہ نقل بھی ہے اور اصل بھی نقل اس معنی میں ہے کہ انہوں نے قصہ چہار درویش کے بنیادی خد وخال میں جو نو طرز مرصع میں پائے جاتے ہیں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے اور اصل اس معنی میں کہ باغ و بہار کسی دوسری زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ نہیں اور نہ کسی ترجمے کی اصلاح یافتہ صورت ہے بلکہ اپنا ایک آزاد وجود رکھتا ہے میرامن نے نو طرز مرصع کے مطالب کو ذہن میں رکھ کر اسے اپنے محاورے، اور گفتگو میں اس طرح بیان کیا ہے کہ قصے کے قالب میں ایک نئی جان آ گئی ہے۔‘‘ اور باوجود اس کے کہ مولوی صاحب کے پیش نظر ’’ باغ و بہار‘‘ کا جو ایڈیشن تھا اس کا وہ سر ورق نہیں تھا جس پر نو طرز مرصع کا حوالہ تھا اور مولوی عبدالحق نے ساری بحث کا تانا بانا میر امن کے اس بیان پر بنا تھا جس میں امن نے قصہ کو امیر خسرو سے منسوب کیا تھا لیکن یہ مولوی عبدالحق کی تحقیقی بصارت تھی کہ انہوں نے جو نتائج اخذ کئے وہ آج بھی مسلم ہیں باغ و بہار کے اس مقدمہ اور ان کی تحقیقی کاوش سے کتاب کی قدر و قیمت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ چند قدیم کتب یوں تو مولوی عبدالحق کی تحقیقات کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن ان کی نظر جب بھی کسی قدیم نسخے پر پڑتی وہ اسے اپنی تحقیق کا موضوع بنا لیتے ہیں اس ضمن میں جہاں دیگر قدیم کتب پر ان کی تحقیقات ہیں (جن کا تفصیلی ذکر ہو چکا ہے) وہاں شمالی اور جنوبی ہند کی تین کتابوں کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہے۔ مثل خالق باری (ایک قدیم ترین کتاب) خالق باری اپنے عہد کی مقبول ترین کتاب تھی جس کا مقصد متبدبوں کو فارسی سکھانا تھا۔ جب تک چھاپہ خانے نہیں تھے اس کے قلمی نسخے ملتے تھے۔ اس کتاب کے لیے ایک مدت تک یہ مشہور رہا کہ اس کے مصنف مشہور عوامی شاعر امیر خسرو تھے لیکن حافظ محمود شیرانی نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ امیر خسرو کی تصنیف نہیں بلکہ: ’’ یہ کتاب بچوں کو فارسی زبان سکھانے کے لیے لکھی ہے اس کا نام حفظ اللسان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بابائے اسحق حلوائی کی فرمائش پر یہ تالیف وجود میں آئی مصنف کا نام خسرو اورلقب ضیا الدین ہے جس سے ظاہر ہے کہ وہ مشہور حسن الدین خسرو نہیں ہے بلکہ کوئی اور جس کو طوطی ہند کے نام میں اشتراک کے سوا کوئی اور وجہ مماثلت نہیں۔ سال تصنیف 1031 ھ ہے جو مادہ تاریخ نصف آخر سے برآمد ہے۔ حضرت امیر خسرو 725ھ میں وفات پاتے ہیں اور یہ خسرو1031ھ میں بعہد جہانگیر اپنی تالیف کرتا ہے۔‘‘ لیکن مولوی عبدالحق نے اس سے بھی قدیم ’’ مثل خالق باری‘‘ کا پتہ لگایا ہے اور اس کا سن تالیف 920ھ 1552/ء ہے۔ اس مثل خالق باری کا مصنف اجی چند سپروانی سکندر آباد کا رہنے والا تھا۔ ’’ سال تصنیف920ھ مطابق1552ء ہے یہ سلیم شاہ سوری کا زمانہ ہے کتاب کے اکیس صفحے ہیں، اور کل شعر375مصنف نے اپنے اور کتاب کے متعلق بہت کچھ بتا دیا ہے، لیکن کتاب کا نام کہیں نہیں بتایا اس کتاب میں29عنوان ہیں اور شروع کے تین عنوان چھوڑ کر باقی سب اس وقت کی معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے بتایا کہ اس کتاب میں زیادہ تر اسماء کا ذکر ہے اور اسماء کے ساتھ ضرورت کے مطابق ضمنی طور پر افعال وغیرہ آ گئے ہیں کتاب کا ہر عنوان آئین اکبری کے طرز پر کسی نہ کسی شعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔ شرح تمہید ہمدانی اپریل1928ء کے رسالہ اردو میں مولوی عبدالحق نے اردو نثر کی ایک قدیم ترین کتاب کا سراغ لگایا ہے جو عبداللہ بن محمد المیاں جی عین القضات ہمدانی (متونی533ھ) کی تصوف کے موضوع پر مشہور کتاب ’’ تمہیدات عین القضات‘‘ کی شرح دکنی اردو میں ہے۔ یہ شرح حضرت میاں جی نے قلمبند کی تھی (میراں جی کا تفصیلی ذکر شعراء بیجا پور میں آ چکا ہے) مصنف کے حالات کا ایک بڑا ماخذ اولیا دکن ہے۔ لیکن مولوی عبدالحق نے ان کی اکثر روایات کو کمزور قرار دیا ہے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ ان کا سن وفات جہاں تک میں نے تحقیق کیا1072ھ ہے لیکن مولف تذکرہ اولیاء دکن 1125ھ بتاتے ہیں۔ مولف موصوف نے سنوں کے بیان میں اکثر بے احتیاطی کی ہے اور تحقیق سے کام نہیں لیا یہ سن بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس ضمن میں خود مولف تذکرہ کے اس بیان کو دلیل بنایا ہے جس میں انہوں نے سلسلہ قادریہ میں ان کی بیعت شاہ محمود خوش دہاں ہے (خلیفہ شاہ برھان جانم) سے بتائی ہے، جن کا سن وفات965ھ ہے یعنی اس بات کو اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو میراں صاحب ایک سو ساٹھ سال زندہ رہے۔ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتی۔ مولوی عبدالحق کے پاس اس کتاب کے دو نسخے تھے۔ سب سے قدیم نسخے میں سن کتابت 1012ہجری لکھا ہے جو یقینا مولف کے زمانے کا لکھا ہوا ہے دوسرے نسخے کی کتابت سنہ 1067ھ ہے۔ پہلے نسخے کے سن کتابت سے اس کی قدامت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دریافت کے وقت سب سے قدیم اردو نثر کی کتاب تھی۔ مولوی عبدالحق نے اس کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ میرے ایک قلمی نسخے کے آخر میں یہ لکھا ہے کہ اصل کتاب عین القضات عربی میں ہے۔ اس کی شرح فارسی میں حضرت بندہ نواز گیسو دراز نے لکھی ہے سید میران حیدر آبادی نے اپنی شرح دکنی زبان میں لکھی ہے۔ یہ صحیح نہیں اصل کتاب فارسی میں ہے چونکہ بندہ نواز کی شرح میری نظر سے نہیں گزری، اس لیے وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ سید میراں شاہ کی شرح حضرت بندہ نواز کی شرح کا ترجمہ ہے۔ میرے پاس اس کے دو نسخے ہیں۔ ایک میں اس کا نام شرح تمہید ہمدانی ہے اور دوسرے میں جو زیادہ قدیم (بلکہ مصنف کے زمانہ کا ہے) اس سے یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ یہ حضرت بندہ نواز کی شرح تمہید کی شرح یا اس کا ترجمہ ہے یہ کوئی جدید شرح نہیں بلکہ اصل تمہید کا دکھنی ترجمہ ہے۔‘‘ مثنوی وفات نامہ حضرت فاطمہؓ مولوی عبدالحق کو شمالی ہند کے ادبی ذخیرے سے جو قدیم مثنوی دستیاب ہوئی ہے وہ ’’ مثنوی وفات نامہ حضرت فاطمہؓ‘‘ ہے مولوی عبدالحق نے اس مثنوی کا تعارف کراتے ہوئے دکنی اردو ادب کی قدامت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گودکن میں اس کا سلسلہ آٹھویں صدی ہجری سے ملتا ہے، لیکن: ’’ شمالی ہند میں اس وقت تک جو پرانی اردو کتابیں دستیاب ہوئیں ان میں سب سے پرانی کتاب جو مجھے ملی ہے وہ مثنوی وفات نامہ حضرت فاطمہؓ ہے۔ اس کا مصنف کوئی اسمعیل ہیں جو امروہہ کے رہنے والے تھے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے اس مثنوی کا تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ اس مثنوی کی زبان دکنی اردو سے بہت ملتی جلتی ہے۔ جمع کا طریقہ، افعال کی ساخت، ضمائر کا استعمال اور قدیم الفاظ میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گیارھویں صدی کے آخر اور بارھوں صدی کی ابتدا میں امروھے اور دلی کے آس پاس کے اضلاع کی زبان کا کیا رنگ تھا۔ جب ہم اس زبان کا مقابلہ دکنی زبان سے کرتے ہیں تو ان میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ دونوں کے افعال اور ضمائر وغیرہ ایک ہیں بہت سے ہندی یا ہندی سے بگڑے ہوئے لفظ دونوں کے ہاں یکساں استعمال ہوتے ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق نے مثنوی کے مصنف اسمعیل کے سلسلے میں زیادہ معلومات نہیں دیں، علاوہ اس سرسری فقرے کے کہ وہ امروحہ کے رہنے والے تھے یا پھر ولی کے ہم عصر تھے لیکن اب اسمعیل کے حالات مخفی نہیں رہے ہیں محمد سلیم الرحمن نے نائب حسین نقوی کی کتاب پر تقریظ میں اس سلسلے میں معلومات فراہم کی ہیں: ’’ اسمعیل (1054ھ1123-ھ) کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے تھا جس کے متعدد افراد مغلیہ دور میں اہم منصبوں پر فائز رہے تھے۔ اسمعیل اورنگ زیب عالم گیر کے عہد میں کسی علمی منصب پر مامور تھے ان کا شمار امروہہ کے علما کی صف میں ہوتا تھا ان کی تصانیف میں صرف یہی دو مثنویاں زمانے کی دست برد سے باقی بچی ہیں ایک اور مثنوی ’’ سوت ندی‘‘ کا صرف ذکر ملتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کے مندرجہ بالا قابل ذکر وہ بڑے بڑے تحقیقی کارنامے تھے جو انہوں نے انجام دئیے۔ لیکن ان کی تحقیق صرف اردو شعراء کے تذکروں، قدیم اردو اور شمالی ہند کے اردو ادب پر تحقیق کے موضوعات تک محدود نہیں ہے، بلکہ مزاج کے اعتبار سے محقق ہونے کی وجہ سے ان کی ہر تحریر اور تقریر میں تحقیق کا عنصر موجود ہوتا تھا۔ کتابوں پر تبصرے، مقدمات، مکاتیب، قواعد و لغت نویسی اور خطبات جس میدان میں بھی انہوں نے قدم رکھا تحقیق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اس طرح بیسویں صدی کے آغاز (1906ئ) سے صدی کے وسط سے بھی زیادہ (1961ئ) مولوی عبدالحق صاحب تحقیق کے میدان کے شہ سوار رہے اور اردو تحقیق پر اپنے انمٹ نقوش ثبت کر گئے۔ ٭٭٭٭٭٭ حواشی 1’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نویسی‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’’ نگار پاکستان‘‘ (تذکروں کا تذکرہ نمبر) کراچی 1964ص7 2’’ گلشن ہند‘‘ از میرزا علی لطف، لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس1906ء سر ورق 3ایضاً ص6 4ایضاً ص6 5ایضاً ص12 6’’ مرزا محمد رفیع سودا‘‘ از ڈاکٹر خلیق انجم، علی گڑھ انجمن ترقی اردو 1966ء ص950 7’’ گلشن بے خار‘‘ از نواب مصطفی خان شیفتہ، کراچی نفیس اکیڈمی،1933ء ص235 8’’ گلشن ہند‘‘ از میرزا علی لطف، لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس1906ئ، ص15 9’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، لاہور مجلس ترقی ادب 1972ء ص211 10’’ گلشن ہند‘‘ از میرزا علی لطف لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس،1906ء ص9 11’’ آب حیات‘‘ از مولانا محمد حسین آزاد، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز1957ء ص25 12’’ گلشن ہند‘‘ از مرزا علی لطف، لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس،1906ء ص25 13ایضاً ص: پبلشر کی التماس 14ایضاً ص30 15ایضاً ص20 16’’ چمنستان شعرا‘‘ از لالہ لچھمن نرائن شفیق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، 1928ء ص16 17ایضاً ص1 18ایضاً ص2 19ایضاً ص2 20’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، لاہور، مجلس ترقی ادب،1972ء ص138 21’’ دکن میں اردو‘‘ از نصیر الدین ہاشمی، لاہور مرکز،1952ء ص344 22’’ چمنستان شعرا‘‘ از لالہ لچھمن نرائن شفیق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1928ء ص12 23ایضاً ص13 24’’ نکات الشعرا‘‘ مولفہ میر تقی میر، کراچی، انجمن ترقی اردو،1979ء ص115 25’’ گلشن ہند‘‘ از مرزا علی لطف، لاہور، دار الاشاعت، پنجاب1906ء ص191 26’’ خطبات گارسان دتاسی‘‘ (حصہ اول) مقدمہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان،1979ء ص89 27’’ مخزن نکات‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو1929ء ص1 28’’ آب حیات‘‘ از مولانا محمد حسین آزاد، لاہور، شیخ غلام علی ایند سنز،957ء ص156 29’’ مخزن نکات‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو1929ء ص6 30’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات اور علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب، کراچی انجمن ترقی اردو 1985ء ص123 31’’ مخزن نکات‘‘ مرتبہ ڈاکٹر اقتدا حسن، لاہور، مجلس ترقی ادب، 1966ء ص48 32ایضاً ص13 33’’ دستور الفصاحت‘‘ از سید احمد علی یکتا، مرتبہ امتیاز علی عرشی، رام پور، ہندوستانی پریس،1934ء ص59 34’’ مخزن نکات‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1929ء ص6 35ایضاً ص6 36’’ دستور الفصاحت‘‘ از احمد علی یکتا، مرتبہ ، امتیاز علی خاں عرشی، رام پور، ہندوستانی پریس،1943ء ص48 37’’ تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ از سید فتح علی حسین گردیزی، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1933ء ص1 38ایضاً ص12-11 39’’ بابائے اردو مولوی عبدالحق، حیات اور علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب، کراچی، انجمن ترقی اردو، 1985ء ص121 40’’ مخزن شعرا‘‘ از قاضی نور الدین حسین خاں رضوی فائق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1933ء ص11 41ایضاً ص120 42ایضاً ص4 43ایضاً ص6 44ایضاً ص4 45ایضاً ص5 46’’ تذکرہ ہندی‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو1933ء ص الف 47ایضاً 110 48’’ آب حیات‘‘ از مولانا محمد حسین آزاد، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، 1957ء ص308 49’’ تذکرہ ہندی‘‘ از مولانا محمد حسین آزاد، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز،1957ء ص ز 50ایضاً ص ل 51’’ عقد ثریا‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1978ء ص13 52رسالہ ’’ نگار‘‘ کے ’’ تذکروں کا تذکرہ نمبر‘‘ میں سہوا شاعروں کی تعداد 191ہے، جبکہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنی کتاب ’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ میں یہ تعداد193لکھتے ہیں۔ 53’’ عقد ثریا‘‘ اور ’’ تذکرہ ہندی‘‘ 54تلخیص ’’ عقد ثریا‘‘ مرتبہ سید شاہ عطا الرحمن کاکوری، پٹنہ، عظیم الشان بک ڈپو،1967ء ص7 55’’ شعرائے اردو کے تذکرے ‘‘ از ڈاکٹر حنیف لکھنو، شمیم بک ڈپو،1976ء ص555 56رسالہ ’’ مشرب‘‘ کراچی (تاریخ ادب نمبر) جون، جولائی 1956ء ص295 57’’ خطبات گارسان دتاسی‘‘ مقدمہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1979ء ص116 58’’ خزانہ عامرہ‘‘ از غلام آزاد بلگرامی، کانپور، نول کشور پریس،1900ء ص425 59’’ نکات الشعرائ‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان،1979 ص9 60’’ کلاسیکی ادب‘‘ از خواجہ احمد فاروقی، دہلی، آزاد کتاب گھر1953ء ص55 61’’ نکات الشعرا‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1979ء ص6 62ایضاً ص100 63ایضاً ص11 64ایضاً ص87 65ایضاً ص6 66’’ تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1935ء ص12 67’’ اردو تذکروں میں نکات الشعرا کی اہمیت‘‘ از ایم اے ناطق لکھنو، دانش محل 1962ء ص186 68’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، لاہور مجلس ترقی ادب،1072ء ص171 69’’ گل عجائب‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1936ء ص ح 70ایضاً ص13 71ایضاً ص125 72ایضاً ص99 73ایضاً ص:ہ 74ایضاً ص:ز 75’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان،1952ء ص1 76’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1952ء ص2 77ایضاً ص3 78ایضاً ص5 79ایضاً ص6 80ایضاً ص7 81حافظ محمود شیرانی نے ’’ مقالات شیرانی‘‘ (جلد اول)ص217مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور 1966ء میں یہ نام لا معی دیا ہے۔ 82’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1952ء ص8 83’’ مقالات شیرانی (جلد اول) مرتبہ مظہر محمود شیرانی لاہور، مجلس ترقی ادب 1968ء ص217‘‘ 84’’ سب رس اور اس کا اسلوب‘‘ از غیور عالم ’’ قومی زبان‘‘ کراچی، دسمبر1967ء ص42 85’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1952ء ص10 86مولوی عبدالحق نے اس تقابلی جائزے میں ان قصوں کو بھی رکھا ہے جو دکنی میں لکھے گئے تھے 87ملا وجہی نے آغاز داستان میں اپنے دیباچہ میں اس طرح رقم کیا ہے ’’ آج لگن کوئی اس جہاں میں ہندوستان میں ہندی زبان سوں اس لطافت اس چھندال سو نظم ہور نظر ملا کر گلا کر یونین بولیا ‘‘ بحوالہ ’’ سب رس‘‘ ملا وجہی، مطبوعی انجمن ترقی اردو کراچی 1952ء ص11 88’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1952ء ص38 89’’ مقالات حافظ محمود شیرانی‘‘ (جلد اول) مرتبہ مظہر محمود شیرانی، لاہور مجلس ترقی ادب ص221 90سب رس ا ملا وجہی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1952ء ص50-514 91’’ مولوی عبدالحق اور سب رس‘‘ از سید قدرت اللہ نقوی، ’’ قومی زبان‘‘ کراچی اگست1982ء ص33 92’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1952ء ص37 93’’ تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند‘‘ (جلد ششم) لاہور پنجاب یونیورسٹی، 1971ء ص893 94سہ ماہی ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، جولائی1925ء 95’’ تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند‘‘ (جلد ششم) لاہور، پنجاب یونیورسٹی، 1971ء ص417 96’’ اردو کی تین مثنویاں‘‘ از خان رشید کراچی، اردو اکیڈمی سندھ،1960ء ص97 97’’ قطب مشتری‘‘ از ملا وجہی، نئی دہلی، انجمن ترقی اردو 1939ء ص3 98ایضاً ص3-2 99ایضاً ص17-18 100’’ تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند‘‘ (جلد ششم) لاہور پنجاب یونیورسٹی 1971ء ص416 101نصرتی از مولوی عبدالحق، دہلی، انجمن ترقی اردو ہند1961ء ص15 102ایضا ً ص15 103ایضاً ص2 104ایضاً ص5 105’’ نصرتی‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1961ء ص19 106ایضاً ص20 107ایضاً ص11 108ایضاً ص82 109ایضاً ص220 110ایضاً ص220 111ایضاً ص296 112’’ اردو شہ پارے‘‘ از محی الدین قادری زور، حیدر آباد دکن مطبع ابراہیمیہ ص60 113’’ دکن میں اردو‘‘ از نصیر الدین ہاشمی، لاہور، مکتبہ معین الادب 1952ء ص175 114’’ نصرتی‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1961ء ص19 115ایضاً ص19 116ایضاً ص19 117ایضاً ص327 118’’ قدیم اردو‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1961ء ص7-6 119ایضاً ص7 120ایضاً ص7 121’’ اردوئے قدیم‘‘ از شمس اللہ قادری، لکھنو، نول کشور، 1925ء ص81 122’’ قدیم اردو‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان،1961ء ص8 123ایضاً ص18 124’’ اردو کی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1953ء ص46 125’’ قدیم اردو‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1961ء ص25 126’’ قدیم اردو‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1961ء ص25-26 127ایضاً ص44 128ایضاً ص49 129ایضاً ص50 130ایضاً ص54 131’’ دکن میں اردو‘‘ از نصیر الدین ہاشمی، لاہور، مکتبہ معین الادب1952ء ص190 132’’ اردوئے قدیم‘‘ از شمس اللہ قادری، لکھنو، نول کشور1925ء ص44 133’’ قدیم اردو‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1961ء ص58 134’’ پنجاب میں اردو‘‘ از حافظ محمود شیرانی، لاہور، مکتب معین الادب (س ن) ص217 135’’ قدیم اردو‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1961ء ص66 136’’ اردوئے قدیم‘‘ از سید شمس اللہ قادری، لکھنو، نول کشور1925ء ص47 137’’ قدیم اردو‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1961ء ص69 138ایضاً ص73 139ایضاً ص73 140ایضاً ص74 141ایضاً ص74 142ایضاً ص93 143ایضاً ص94 144ایضاً ص96-97 145ایضاً ص101 146ایضاً ص101 147ایضاً ص109 148ایضاً ص122 149ایضاً ص126 150ایضاً ص128 151ایضاً ص132 152’’ دکنی اردو میں شاہنامے کی داستانیں‘‘ از مولوی عبدالحق، سہ ماہی ’’ اردو‘‘ کراچی اکتوبر 1949ء ص10 153’’ اردو زبان کا ایک قدیم کتبہ‘‘ از مولوی عبدالحق، سہ ماہی، ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، اپریل 1938ء ص281 154رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، جنوری 1922ء ص14 155ایضاً ص16 156ایضاً ص25 157ایضاً ص19-20 158ایضاً ص14 159’’ اردوئے قدیم‘‘ از شمس اللہ قادری، لکھنو نول کشور،1925ء ص59 160’’ دکن میں اردو‘‘ از نصیر الدین ہاشمی، لاہور، مکتبہ معین الادب 1952ء ص49 161’’ کلیات دلی‘‘ مرتبہ سید نور الحسن ہاشمی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1954ء ص24 162رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، جنوری 1934ء ص196 163ایضاً ص198 164’’ دلی کا سن وفات‘‘ از ڈاکٹر جمیل جالبی، لاہور، ’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ (صد سالہ جشن نمبر) جون 1972ء ص56 165ایضاً ص67 166’’ معراج العاشقین‘‘ تصحیح و ترتیب ڈاکٹر مولوی عبدالحق، تاج حیدر آباد دکن، 1943جلد 2 نمبر4,5,6ص8 167ایضاً جلد 2نمبر4,5,6ص5 168ایضاً ص8 169’’ تاریخ ادب اردو‘‘ (جلد اول) از ڈاکٹر جمیل جالبی، لاہور، مجلس ترقی ادب 1984ء ص159-160 170’’ انتخاب کلام میر‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، حیدر آباد دکن، دار الافادہ، 1921ء ص2 171ایضاً ص25 172ایضاً ص33 173’’ مقدمات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی، سہ ماہی’’ اردو‘‘ کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1962ء ص169 174’’ ذکر میر‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، 1928ء ص: الف 175ایضاً صـ ج 176ایضاً ص:د 177ایضاً ص:ح 178’’ لکھنو کا دبستان شاعری‘‘ از ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، کراچی، غضنفر اکیڈمی 1987ء ص166 179’’ ذکر میر‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1928ء ص:س 180ایضاً صـ ق 181ایضاً ص:ق 182’’ کلاسیکی ادب‘‘ از خواجہ احمد فاروقی، دہلی آزاد کتاب گھر1935ء ص51 183’’ مثنوی خواب و خیال‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1926ء صج 184ایضاً ص:ـل 185’’ دیوان اثر‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پریس،1930ء ص2 186’’ تاریخ ادب اردو‘‘ (جلد دوم) از ڈاکٹر جمیل جالبی، لاہور، مجلس ترقی ادب 1987ء ص802 187’’ باغ و بہار‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، دہلی، انجمن ترقی اردو، 1944ء ص1-2 188ایضاً ص2 189’’ اردو کی نثری داستانیں‘‘ از ڈاکٹر گیان چند جین، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1969ء ص166-165 190’’ باغ و بہار‘‘ از میرا من دہلوی، کلکتہ، ہندوستانی چھاپہ خانہ،1803ء سر ورق 191ایضاً 192’’ باغ و بہار‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، دہلی، انجمن ترقی اردو، 1944ء ص4 193ایضاً ص4 194’’ نقد حرف‘‘ از پروفیسر ممتاز حسین، کراچی مکتبہ اسلوب 1985ء ص272 195’’ حفظ اللسان معروف بہ خالق باری‘‘ مرتبہ حافظ محمود شیرانی، دہلی، انجمن ترقی اردو ہند، 1944ء ص53 196رسالہ ’’ اردو‘‘ کراچی، جنوری1952ء ص5 197رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، اپریل 1928ء ص137 198ایضاً ص155 199سہ ماہی رسالہ ’’ اردو‘‘ کراچی، اپریل 1951ء ص5 200ایضاً ص8 201’’ اردو کی قدیم مثنویاں‘‘ مرتبہ نائب حسین نقوی، لاہور، مجلس ترقی ادب1969ء ص: سر ورق ٭٭٭٭٭٭ چھٹا باب مولوی عبدالحق کی تحقیقی خصوصیات مولوی عبدالحق کو علی گڑھ میں دوران تعلیم ہی سے تحقیق کا چسکا پڑ گیا تھا کیوں کہ انہیں ابتدا میں جن ارباب علم و ادب سے واسطہ پڑا ان میں سرسید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی جیسے محققین اور علم کے رسیا شامل تھے۔ شیخ چاند اپنے ایک مضمون ’’ مولوی عبدالحق صاحب کا مقصد زندگی‘‘ میں تحریر کرتے ہیں: ’’ آج سے چالیس سال قبل آپ علی گڑھ کی طالب علمی کے زمانے میں اورنگ آباد پن چکی کے کتب خانے کی تلاش میں آئے تھے۔ اس زمانے میں اورنگ آباد تک ریل جاری نہ ہوئی تھی اس لیے آپ کو احمد نگر کے راستہ سے آنا پڑا لیکن افسوس کہ اس سے بہت پہلے کتب خانہ لٹ چکا تھا۔ آپ کو دکنی زبان کی چند کتابوں کے سوا کچھ نظر نہ آیا لیکن اس سے آپ کی طلب میں کاہش نہ آئی بلکہ دھن کے پکے اور ہر آن اس کو لو لگ گئی اور جب آپ سرسید کی بزم سے اٹھے تو اٹھتے ہی اردو بھاشا بھگتی میں لگ گئے۔‘‘ 1895ء میں تعلیم و تدریس سے فارغ ہو کر مولوی عبدالحق نے اپنی عملی زندگی کے آغاز کے لیے حیدر آباد دکن کا رخ کیا اور وہاں مختلف النوع خدمات انجام دیتے رہے۔ مدرسہ آصفیہ کے ہیڈ ماسٹر رہے، رسالہ ’’ افسر‘‘ کی ادارت کی، ہوم سیکرٹریٹ میں مترجم ہوئے، ناظم تعلیمات مقرر ہوئے، انسپکٹر آف سکولز کے فرائض انجام دئیے۔ سر رشتہ تالیف و ترجمہ کی نگرانی کی، پرنسپل عثمانیہ کالج بنے اور جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کے صدر شعبہ اردو کا منصب سنبھالا لیکن کسی بھی منزل پر تحقیق کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ یہاں تک کہ 1921ء میں جب رسالہ ’’ اردو‘‘ کا اجراء کیا تو اس کا بنیادی مقصد بھی تحقیق ہی قرار دیا۔ مولوی عبدالحق رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد کے اجراء کے موقع پر تحریر کرتے ہیںــ: ’’ میں چاہتا ہوں کہ یہ رسالہ اردو زبان اور ادب کی ایسی مفید اور محققانہ بحثوں سے مالا مال ہو کہ شائقین ادب اسے غور اور شوق سے پڑھیں اور فائدہ اٹھائیں اور اہل ملک کے ذوق پر اس کا اچھا اثر ہو اور وہ دن آئے کہ لوگ اس کے پرچے ڈھونڈتے پھریں۔‘‘ گویا مولوی عبدالحق کے مقاصد حیات میں تحقیق کو نہایت اہم مقام حاصل تھا۔ انہوں نے کتابوں کا کھوج لگایا، مخطوطات تلاش کئے، موازنہ و متابلہ کیا، چھان پھٹک کر کے متن تیار کئے اور نہایت جان فشانی سے انہیں مرتب کر کے ادبی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ مولوی صاحب کا یہ ریاض نصف صدی سے کہیں زیادہ طویل عرصہ پر محیط ہے۔ ان کی تحقیقی کاوش کا آغاز مولانا شبلی نعمانی کے مرتبہ تذکرے ’’ گلشن ہند‘‘ پر مقدمہ لکھنے سے ہوتا ہے اور آخری کڑی 1962ء میں ’’ قاموس الکتب‘‘ ہے جس کے ساتھ ہی ان کی زندگی کا آفتاب غروب ہو گیا۔ مولوی عبدالحق کی یہ تحقیقی کاوشیں اتنی عظیم اور قابل قدر ہیں کہ اتنا کام کئی انجمنوں اور اداروں کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔ مولوی عبدالحق کے تحقیق کے دائرے میں اردو زبان بھی ہے اور اردو ادب بھی انہوں نے لسانی مسائل پر بھی تحقیق کی اور اس کی روشنی میں قواعد اور علم السنہ کے اصول و ضوابط وضع کئے، لغات مرتب کیں، پرانے تذکروں کا کھوج لگایا، دیوان تلاش کئے، صوفیائے کرام کی لسانی و ادبی کاوشوں کی کڑیاں جوڑیں اور اس تحقیق میں قدیم و جدید اصول تحقیق کا توازن برقرار رکھا۔ رشید حسن خان کی رائے میں: ’’ کسی امر کی اصل شکل کی دریافت اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ صحیح صورت حال معلوم ہو سکے۔ اس لیے جو شہادتیں مہیا کی جائیں اور جو معلومات حاصل کی جائیں وہ ایسی ہونا چاہئیں کہ استدلال کے کام آ سکیں۔ تاکہ واقعات کی ترتیب میں صحیح طور پر اس سے مدد ملے اور حدود تحقیق کے اندر نتائج نکالے جا سکیں۔ اس لیے یہ لازم ہو گا کہ جن امور پر استدلال کی بنیاد رکھی جائے وہ اس وقت تک کی معلومات کے مطابق بہ ظاہر حالات، شک سے بری ہوں اور جن ماخذ سے کام لیا جائے وہ قابل اعتماد ہوں۔ غیر متعین، مشکوک اور قیاس پر مبنی خیالات کا مصرف جو بھی ہو ان کی بنیاد پر تحقیق کے نقطہ نظر سے قابل قبول نتائج نہیں نکالے جا سکے۔‘‘ مولوی عبدالحق کی تحقیق، تحقیق کے مندرجہ بالا اصول پر پوری اترتی ہے۔ وہ ان شہادتوں کے قائل تھے جو قابل اعتماد ہوں اور غیر متعین، مشکوک یا قیاس پر مبنی نہ ہوں یہی وجہ ہے کہ مولوی عبدالحق نے اپنی تحقیق میں خارجی اور داخلی شہادتوں سے اپنی بات کو پایہ ثبوت تک پہنچایا ہے۔ مثلاً مولوی عبدالحق نے 1929ء میں شیخ محمد قیام الدین قائم کا تذکرہ ’’ مخز نکات‘‘ متعارف کرایا تو شیخ صاحب کے حالات ناپید تھے لیکن انہوں نے میر تقی میر کے تذکرے ’’ نکات الشعرائ‘‘ میر حسن کے تذکرے ’’ تذکرہ شعرائے اردو‘‘ علی ابراہیم کے تذکرے ’’ گلزار ابراہیم‘‘ لطف کے تذکرے ’’ گلشن ہند‘‘ گردیزی کے تذکرے ’’ تذکرہ ہندی‘‘ اور گارساں دتاسی کی کتب کے حوالوں سے شہادتیں جمع کی ہیں۔ مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ شیخ محمد قیام الدین قائم چاند پور ضلع بجنور کے رہنے والے تھے، ان کا نام مختلف تذکرہ نویسوں نے کسی قدر اختلاف سے لکھا ہے مثلاً میر صاحب اپنی کتاب (نکات الشعرائ) میں اور میر حسن اپنے تذکرے میں محمد قائم لکھتے ہیں۔ علی ابراہیم اور لطف نے بھی محمد قائم ہی لکھا ہے۔ کمال اور گارساں دتاسی قائم الدین بتاتے ہیں لیکن اصل نام محمد قیام الدین ہی ہے جیسا کہ خود انہوں نے اس تذکرے کے شروع میں لکھا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے قیام الدین کی وفات کے سلسلے میں کافی کھوج لگایا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ ان کے سن وفات میں کافی اختلاف ہے مصحفی کا تذکرہ 1207-1208 ھ میں لکھا گیا علی ابراہیم اور (لطف) فیلن اور کریم الدین نے سن 1210ھ بتایا ہے۔ شیفتہ اور بعض تذکرہ نویسوں نے بھی اسی کو نقل کر دیا ہے۔ گارساں دتاسی نے 1207ھ لکھا ہے۔ جرات نے قائم کے انتقال کی تاریخ اس شعر سے نکالی ہے۔‘‘ جرات نے کہی یہ رو کر تاریخ وفات یکتائی کے ساتھ قائم بنیاد شعر ہندی نہ رہی کیا کہئے اب آہ اس مصرع سے 1208ھ ہی نکلتے ہیں اور یہ صحیح ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اقتدا حسن نے قائم کے دیوان اور مخزن نکات کو ترتیب دیتے وقت قائم پر تفصیلی کام کیا ہے۔ پروفیسر موصوف نے بھی مولوی عبدالحق کے مندرجہ بالا بیان کی تصدیق کی ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ 1190ھ کے قریب لکھنو میں بھی کچھ عرصے ان کا قیام رہا۔ پھر رام پور سے دعوت ملنے پر وہاں کی سکونت اختیار کر لی۔ وفات سے پہلے اپنی ضبط شدہ املاک کی بحالی کے سلسلے میں لکھنو کا ایک اور سفر بھی کیا اور رام پور جا کر 1208مطابق 1793-94میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس وقت قمری حساب سے ان کی عمر تقریباً73سال ہو گی۔‘‘ قائم نے اپنے تذکرے میں اپنا کلام بہت کم تعداد میں دیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے مختلف تذکروں کی مدد سے ان کا لکھا ہوا کافی کالم (180اشعار) بطور نمونہ جمع کر دیا ہے، اور بعض ایسے کلام کی نشان دہی کی ہے جو قائم اور سودا کے اشعار میں صرف تخلص کے فرق سے مشترک پائے جاتے ہیں مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ بعض نظمیں سودا اور قائم دونوں کی کلیات میں مشترک پائی جاتی ہیں مثلاً موسم سرما کی ہجو میں جو مثنوی ہے اور جس کا مطلع ہے:‘‘ سردی اب کے برس ہے اتنی شدید صبح نکلے ہے کانپتا خورشید دونوں کے کلیات میں بے کم و کاست درج ہے۔۔۔۔۔ لطف یہ ہے کہ مثنویوں کے آخر میں سودا کے کلیات میں سودا اور قائم کے کلیات میں قائم کا تخلص موجود ہے۔ اسی طرح کئی مثنویاں جن میں چھوٹے چھوٹے قصے اور حکائتیں ہیں دونوں کے کلام میں مشترک پائی جاتی ہیں۔ مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں مصحفی، علی ابراہیم لطف، آزاد، میر حسن، کریم الدین اور شیفتہ کے حوالوں اور آراء کی روشنی میں قائم کا بحیثیت شاعر مرتبہ متعین کیا ہے۔ انجمن ترقی اردو ہند نے 1929ء میں ’’ مخزن نکات‘‘ شائع کی تھی جس پر بطور مرتب مولوی عبدالحق کا نام درج تھا تحقیق نے یہ انکشاف کیا ہے کہ مولوی عبدالحق نے مرتب نہیں کیا بلکہ صرف متعارف کرایا ہے اس ضمن میں ڈاکٹر اقتدا حسن تحریر کرتے ہیں: ’’ مکرمی جناب خلیل الرحمان داودی صاحب کی عنایت سے راقم کو اس نسخے کی جو مطبوعہ ’’ ڈمی‘‘ اور ابتدائی پروف دستیاب ہوئے ہیں ان سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس تذکرے کا متن اصل میں ڈیوڑھی مستقیم الدولہ، چھتہ بازار، حیدر آباد دکن کے ایک تاجر کتب سید رستم علی نے لیتھو میں چھپوایا تھا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ بعد میں انجمن ترقی اردو نے اس کے حقوق حاصل کر لیے اور اس پر مولوی عبدالحق مرحوم نے مقدمہ لکھ کر شائع کروا دیا۔ صفحہ 80پر تاجر کا نام اور اشتہار چھپ چکا تھا جسے کاغذ کے دبیز پردے پر محفوظ کرا دیا گیا۔‘‘ اس مطبوعہ ڈمی کا ایک نسخہ پروفیسر ڈاکٹر سید معین الرحمن صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور کے ذاتی کتب خانے میں بھی موجود ہے۔ قائم کے حالات کی طرح مولوی صاحب موصوف نے ’’ چمنستان شعرائ‘‘ کے مولف رائے لچھمن نرائن شفیق کے حالات زندگی کا تانا بانا شفیق کے والد منسا رام کی کتاب ’’ قانون دربار صفیہ ‘‘ اور ’’ ماثر نظامی‘‘ کی داخلی شہادتوں سے تیار کیا ہے اور اس سلسلے میں شفیق کی اپنی تالیفات کا بھی جائزہ لیا ہے ان میں’’ حقیقت ہائے ہندوستان‘‘ ’’ تحقیق شگراف‘‘ ’’ تاثر آصفی‘‘ بساط الغنائم، شام غریباں’’ گل رعنا‘‘ اور ’’ چمنستان شعرائ‘‘ شامل ہیں۔ ’’ گل عجائب‘‘ کے مولف اسد تمنا کے حالات بھی کہیں نہیں ملتے تھے لیکن مولوی عبدالحق نے جب ’’ گل عجائب‘‘ کو مرتب کیا تو تذکرے کے متن کی داخلی شہادتوں کی بنیاد پر تذکرے میں شامل دوسرے شعراء کے حالات سے اسد تمنا کے حالات کی کڑیاں ملا کر تمنا کے حالت زندگی ڈھونڈ نکالے اور بعض دوسرے قلمی نسخوں کی مدد سے اسد خان تمنا کا کلام بھی جمع کیا۔ مصحفی کے حالات زندگی کے حصول میں بھی یہی تیکنیک استعمال کی۔ تذکرہ ہندی، عقد ثریا اور ریاض الفصحا کی داخلی شہادتوں سے مصحفی کے حالات زندگی ترتیب دئیے اس ضمن میں انہوں نے دوسرے تذکرہ نویسوں کے تذکروں سے بھی پورا پورا استفادہ کیا مثلاً ’’ تذکرہ ہندی‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ’’ نام غلام ہمدانی ولد ولی محمد ابن درویش محمد مصحفی وطن امروہہ اور مولد اکبر پور۔۔۔۔۔ ابتدائی تعلیم مکتب میں امروہہ ہی میں ہوئی اس کا اشارہ انہوں نے سید محمد زمان زمان تخلص ساکن امروہہ کے حال میں کیا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے میر تقی میر پر قلم اٹھایا تو میر کے خانگی حالات بھی چن چن کر اکٹھا کئے ان کی نجی زندگی اور ان کی تصانیف کا ذکر، ذکر میر، نکات الشعراء اور بعض مثنویوں کے حوالوں کے ذریعہ سامنے لائے۔ مولوی صاحب دیگر تذکرہ نویسوں یا مصنفین و مولفین کے حوالوں کو ہی داخلی شہادت نہیں بناتے بلکہ نتائج اخذ کر کے اپنی رائے کا بھی برملا اظہارکرتے ہیں مثلاً میر تقی میر کی عمر کے سلسلے میں مختلف شہادتوں اور بحث کو سمیٹتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ اگر سن پیدائش1137ھ اور سن وفات1225ھ ہو تو میر صاحب کی عمر تقریباً89برس ہوتی ہے، بہر حال 90سے زائد کسی حال میں نہیں اور میری رائے میں یہی صحیح بھی ہے۔‘‘ اسی طرح نکات الشعراء کے سن تالیف کے سلسلے میں داخلی شہادت کے سہارے سے سن تالیف کا تعین کر دیتے ہیں مثلاً مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ میر صاحب نے اپنے تذکرے کے سن تالیف کے متعلق کہیں صراحت نہیں کی ہے ابتدا میں انند رام مخلص کے حال میں یہ فقرہ ان کے قلم سے نکل گیا ہے جس سے اس کی نسبت قیاس قائم ہو سکتا ہے وہ لکھتے ہیں:’’ قریب یک سال کہ در گذشت‘‘ یعنی جس وقت یہ تذکرہ زبر تالیف تھا مخلص کو مرے ایک سال ہوا تھا۔ مخلص کا سن وفات1164ھ ہے (ملاحظہ ہو خزانہ عامرہ مطبوعہ نول کشور صفحہ 425) لہٰذا یہ قیاس بالکل بجا ہے کہ اس کا سن تالیف 1165ھ ہے۔‘‘ ’’ تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ میں مولوی صاحب موصوف نے سید فتح علی گردیزی کے اپنے بیان سے ان کے خاندانی حالات کی کڑیاں جوڑی ہیں اور میر قدرت اللہ قاسم کے کلام سے یہ ثابت کیا ہے کہ گردیزی کے خاندان کا شمار’’ اپنے وقت کے بزرگان دین شیوخ میں تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق اپنی تحقیق میں موضوع زیر بحث کی داخلی اور خارجہ شہادتوں کے لیے چند مستند کتابوں سے حوالے جمع کرتے ہیں لیکن قصہ آرائی سے گریز کرتے ہیں۔ مولوی چراغ علی کے خاکے میں لکھا ہے: ’’ تحقیق و تفتیش کی چٹک تھی وہ جس مضمون کا خیال کرتے اس کی تہہ تک پہنچتے اور اس کے مالہ و ما علیہ کے سراغ میں پتے پتے ڈالی ڈالی پھرتے اور پتال تک کی خبر لاتے اپنی کتاب کی واسطے سامان جمع کرنے کے لئے کتابوں کے دفتر چھان ڈالتے۔‘‘ یہی طریقہ کار خود مولوی عبدالحق کا اپنا بھی تھا’’ دریائے لطافت‘‘ کے ترجمہ کا دیباچہ لکھتے ہوئے انہوں نے خیال ظاہر کیا تدوین کا کام اس وقت تک مشکل ہے جب تک کہ ذہن تحقیق کی طرف مکمل طور پر مائل نہ ہو۔ اس کے علاوہ ذخیرہ معلومات، صحت متن اور اختلاف نسخ کے مطلب سے آگاہی اور زبان و قواعد وغیرہ سے بخوبی واقفیت ضروری ہے۔ تدوین کا ایک اور مسلمہ اصول ہے کہ کسی متن کے جتنے اہم نسخوں کا حصول ممکن ہو ان سب سے استفاد کیا جائے۔ وہ جب کسی کتاب کا مقدمہ درج کرتے تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر متعلقہ معلومات پیش کرتے۔ وہ جس مصنف یا کتاب پر قلم اٹھاتے تو سب سے پہلے کتاب کے مصنف یا مولف کا مکمل تعارف کراتے۔ اس کے سوانحی حالات پیش کرتے ہوئے اس کے عہد کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی و سماجی پس منظر کو بھی بیان کرتے، اس کی کاوشوں کا ذکر کرتے اور زیر بحث کتاب پر نئے مواد کا اضافہ کرتے ہوئے اس کی دیگر کتب کا بھی تعارف کراتے۔ اس طرح جن مصنفین کی کتب پر مقدمے لکھتے ہیں ان کے حالات کے تمام خدو خال سامنے آ جاتے ہیں۔ انہوں نے پہلا تحقیقی مقدمہ ’’ گلشن ہند‘‘ پر لکھا تو ابتدائی حصہ میں کتاب کی نایابی کا ذکر کیا اور تذکرہ کی تالیف کے عہد کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا: حقیقت اس کتاب کی یہ ہے کہ نواب وزیر ملک آصف الدولہ آصف جاہ کے عہد اور امیر الملک لارڈ وارن ہیٹنگر گورنر جنرل کے زمانے میں علی ابراہیم خان نے ایک تذکرہ شعراء ہند کا فارسی میں لکھا تھا اور اس کا نام گلزار ابراہیم رکھا تھا، کوئی بارہ برس کی محنت کے بعد 1198ھ مطابق 1784ء میں جا کر ختم ہوا۔ اتفاق سے یہ تذکرہ اردو کے بڑے قدر دان اور محسن مسٹر گلکرسٹ کی نظر سے گذرا انہوں نے مولف تذکرہ ہذا سے فرمائش کی کہ اگر اس کا ترجمہ سلیس اردو میں ہو جائے تو بہت خوب ہو۔ ان کا منسا اس سے یہ تھا کہ انگریز بھی اس سے پڑھ سکیں اور ان میں اردو زبان اور اردو شاعری کا ذوق پیدا ہو جائے۔ اس طرح یہ کتاب اردو میں لکھی گئی لیکن یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ نرا ترجمہ ہے بلکہ مترجم نے اس میں بہت کچھ اضافہ کیا ہے۔ حالات میں بھی اور کلام میں بھی جس سے بالکل نئی صورت پیدا ہو گئی ہے اور ایک تالیف کی حیثیت ہو گئی ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب کے مندرجہ بالا بیان سے ’’ گلشن ہند‘‘ کے ترجمے کا سارا پس منظر سامنے آ جاتا ہے انہوں نے اس تحقیقی مقدمہ میں فورٹ ولیم کالج کے مقاصد کے علاوہ اس سے منسلک دیسی مصنفین مثلاً حیدر بخش حیدری، میر بہادر علی حیسنی، میرامن دھلوی، میر شیر علی افسوس، نہال چند لاہوری، کاظم علی جوان اور مظہر علی ولا وغیرہ کی خدمات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ متذکرہ افراد کے تذکرے کی ضرورت پر مولوی عبدالحق نے تذکرہ ’’ گلشن ہند‘‘ کے مقدمے میں اسی طرح روشنی ڈالی ہے: ’’ بلا مبالغہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو احسان ولی نے اردو نظم پر کیا تھا، اس سے زیادہ نہیں تو اس قدر احسان جان گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا۔‘‘ چونکہ یہ تذکرہ بھی اسی نامور اور قابل شخص کی تحریک سے لکھا گیا تھا لہٰذا اس مقام پر مختصراً یہ بیان کرنا کہ اس کی نگرانی میں یا انگریزوں کی سعی سے کیا کیا کام ہوا اور اردو زبان میں کس قدر اضافہ ہوا، نا مناسب نہ ہوگا۔ مولوی عبدالحق تحقیق کے جس دبستان سے فیض یاب ہوئے تھے اس کے ستون سرسید احمد خان، حالی اور شبلی نعمانی تھے یہ لوگ تحقیق میں تاریخ کی جانب مائل تھے اس لیے مولوی عبدالحق بھی تاریخی تناظر پیش کرتے ہیں اور جن منصنفین اور کتب کا تعارف کراتے ہیں ان کے حالات، ماحول، ماحول کی خصوصیات کے سلسلے میں قاری کو اتنا مواد فراہم کر دیتے ہیں جو کسی اور ذریعہ سے میسر نہیں آ سکتا۔ خود مولوی عبدالحق نے مرزا محمد بیگ کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر کیا ہے: ’’ اعظم الکلام اور تمدن ہند کے مقدموں میں ایک حصہ مصنفین کے ذاتی حالات کا ہے۔ یہ حصہ زیادہ قابل قدر ہے کیوں کہ ان دونوں کے حالات اس نہج سے کہیں نہیں ملیں گے اور ان کاموں کو سمجھنے کے لیے ان کا ہونا ضروری ہے بعض صاحبوں نے ان حالات کی بہت قدر کی تھی کیوں کہ وہ اس طرح لکھے گئے ہیں کہ ان مصنفین کی سیرت کا پڑھنے والوں کو صحیح اندازہ ہو جائے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے ’’ گلشن ہند‘‘ مرتب کی تو ’’ عادل شاہی عہد‘‘ پر روشنی ڈالی اور تاریخی پس منظر میں شعر و سخن کے چرچوں کا ذکر کیا اور ’’ گلشن عشق‘‘ کی داخلی شہادتوں سے گارساں دتاسی اور سر چارلیس لائل کی ’’ انسائیکلو پیڈیا برلٹینکا‘‘ کے اس بیان کو غلط ثابت کیا کہ نصرتی برہمن تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’ نصرتی‘‘ میں بڑی تفصیل سے تحقیقی دلائل پیش کرتے ہوئے جگہ جگہ نصرتی کے اشعار کے حوالے دئیے ہیں جس سے گارساں دتاسی اور سر چارلیس لائل کے بیان کی تردید ہوتی ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے نہ صرف ’’ گلشن عشق‘‘ بلکہ علی نامہ تاریخ سکندری اور نصرتی کی غزلیات، رباعیات اور قصائد کا تفصیلی سے ذکر کر کے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ولی سے تقریباً ساٹھ ستر سال قبل نصرتی اردو فارسی کے امتزاج سے اردو شاعری کا نیا انداز پیش کر چکے تھے اور یہ کہ نصرتی کا درجہ بطور شاعر ولی سے بلند تھا۔ وہ اس ضمن میں فرماتے ہیں: ’’ جس کی اولیت کی فضیلت ولی کو دی جاتی ہے، نصرتی نے آج سے اڑھائی سو برس پہلے اور ولی سے کم از کم ساٹھ ستر سال قبل فارسی اور اردو کے ظاہر و باطن کے میل سے وہ بات پیدا کی ہے جس کی فرمائش شاہ سعد اللہ گلشن نے ولی سے کی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت شاعر نصرتی کا درجہ ولی سے کہیں بلند ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ رسالہ ’’ اردو‘‘ کے شمارہ ماہ جنوری 1922ء میں اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ کلام سلطان محمد قطب شاہ‘‘ میں ولی کی اولیت کے نظریہ کو باطل قرار دیتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ ولی سے کہیں پہلے اردو شاعری معرض وجود میں آ چکی تھی یہاں تک کہ غزل کے میدان کے شہسوار بھی موجود تھے۔ جدید تحقیق کے مطابق ولی کا سال وفات بقول ڈاکٹر جمیل جالبی: ’’ 1133ھ کے بعد اور1138ھ سے پہلے تعین ہوتا ہے۔‘‘ جب کہ اس سے کہیں قبل دسویں صدی ہجری میں سلطان محمد قطب شاہ غزل گوئی کے میدان میں آ چکے تھے مولوی عبدالحق صاحب کی تحقیق کے مطابق: ’’ سلطان محمد قطب شاہ دسویں صدی ہجری کا شاعر اور اکبر کا ہم عصر ہے۔ جہاں تک تحقیق نے رسائی کی ہے یہ کلام اردو میں سب سے قدیم ہے بعض مذہبی مثنویاں اس سے قبل کی بھی پائی جاتی ہیں لیکن تغزل کے کوچے میں کسی دوسرے مسافر کا پتہ اب تک نہیں لگا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کے خیال میں سلطان محمد قطب شاہ سے قبل بھی یقینا اردو سخن در گذرے ہوں گے جنہوں نے اس روایت کو سلطان محمود قطب شاہ تک پہنچایا ہو گا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ محمد قلی قطب شاہ کے کلام کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی کلام اردو کا نہیں ہے۔ اس حد تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے پہلے بہت سے عاشق مزاجوں اور موزوں طبع لوگوں نے مصر شعر کی کوچہ گردی کی ہو اور اپنی مشاقی اور طبع آزمائی سے غزل، مثنوی، قصیدے اور دیگر اصناف سخن کو اس درجہ تک پہنچایا ہو جو ہم محمد قطب شاہ کے کلام میں دیکھت ے ہیں۔ افسوس ہے کہ ان قابل قدر بزرگوں اور اردو کے سچے محسنوں میں سے کسی کا کلام اب تک دستیاب نہیں ہوا۔ ممکن ہے کہ آئندہ جستجو انہیں ڈھونڈ نکالے اور ہمارے علیم و تحقیق میں اضافہ کرے۔‘‘ اردو منظوم ادب کی طرح مولوی صاحب نے اردو نثر میں بھی نئی دریافتیں کی ہیں اور پرانی تحقیق کی کایا پلٹ دی ہے مثلاً ایک مدت تک فضلی کی ’’ کربل کتھا‘‘ اردو کی پہلی نثری کتاب تصور کی جاتی رہی لیکن مولوی عبدالحق نے 1932ء میں ملا وجہی کی ایک تصنیف ’’ سب رس‘‘ شائع کر کے اردو نثر کی عمر میں اضافہ کر دیا۔ یہ کتاب ملا وجہی نے 1045ء میں تصنیف کی تھی۔ جمیل الدین عالی نے ’’ سب رس‘‘ کی پانچویں اشاعت کے موقع پر ’’ حرف چند‘‘ کے عنوان سے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا تھا: ’’ سب رس کی اشاعت بابائے اردو کے بہت سے کارناموں میں اہم حیثیت رکھتی ہے پہلے اس کتاب کا حوالہ ضرور ملتا تھا مگر عام اردو دنیا اس کے فیض سے 1932ء تک محروم رہی۔ اسے ایک طرح بابائے اردو مرحوم کی دریافت سمجھا جاتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق نے ملا وجہی کی اس تصنیف کو مرتب کر کے اس پر ایک سیر حاصل مقدمہ لکھا جس میں ’’ سب رس‘‘ کے ماخذ اور اس کے مصنف ملا وجہی اور اس کے عہد کا بھی نہ صرف تعارف کرایا ہے بلکہ اس میں استعمال ہونے والے دقیق الفاظ کی فرہنگ بھی تیار کی ہے۔ ’’ اردو ادب کے بہت سے بیش بہا خزانے پردہ خفا میں تھے۔ جن کی حقیقت قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہ تھی مولوی صاحب نے اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنے بے پایاں شوق اور تجسس کے سہارے ان کو ڈھونڈ نکالا۔ ان قدیم مخطوطات کی تلاش کر کے اردو ادب کی تاریخ ہی بدل ڈالی دنیا اب تک اردو شاعری کاباوا آدم ولی دکنی کو سمجھتی تھی مگر ان کی محنت شانے اولیت کا سہرا قطب شاہ کے سر باندھ دیا اور اس اعتماد اور یقین کے ساتھ کہ آج تک کہیں سے تردید کی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔‘‘ بطور محقق مولوی عبدالحق صاحب میں مصنف یا مولف سے آگے بڑھ جانے کا جذبہ کار فرما رہتا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں بڑی عرق ریزی سے کام کرنا پڑتا تھا لیکن وہ یہ کر گذرتے تھے جس سے زیر تالیف نسخے کی اہمیت دگنی ہو جاتی تھی۔ اس طریقہ کار کا ایک قابل قدر نمونہ ’’ چمنستان شعرائ‘‘ کی ترتیب ہے مولوی عبدالحق نے ’’ چمنستان شعرائ‘‘ مرتب کرتے ہوئے افضل بیگ خان قاقسال اورنگ آبادی کی تالیف ’’ تحفۃ الشعرائ‘‘ (سن تالیف1165ھ) کو سامنے رکھا بقول خود مولوی عبدالحق: ’’ ایک کام اس کی ترتیب میں اور کیا گیا ہے جسے غالباً ناظرین پسند فرمائیں گے یعنی ’’ تحفۃ الشعرائ‘‘ تالیف فضل بیگ قاقسال اورنگ آبادی (سن تالیف1165ھ) سے ان ریختہ گو شعراء کا حال اور کلام جو شفیق کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں حاشے میں درج کر دیا ہے۔ جن جن شاعروں کا اس میں اردو کلام نہیں وہاں صرف حالات لکھ دئیے گئے ہیں اور جہاں حالات میں کوئی نئی بات نہیں ہے وہاں صرف کلام پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مشترک کلام ہر جگہ درج کر دیا ہے بعض شاعر ایسے بھی ہیں جن کا ذکر چمنستان شعراء میں نہیں ہے ان سے پڑھنے والوں کو ضرور بصیرت ہو گی اور وہ تحفۃ الشعراء کے مطالعے سے مستغنی ہو جائیں گے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے چمنستان شعراء مطبوعہ 1938ء (انجمن ترقی اردو اورنگ آباد) میں جن شاعروں کے حالات یا شعار کا اضافہ کیا ان میں میر یوسف خان بسمل (ص65) آقا امین ایلچیوری تخلص وفا (ص113) میر عبدالحی وقار (ص115,116,117) مرزا جان جاناں مظہر (ص250,253,254) نواب ذوالفقار الدولہ خواجم قلی خان ’’ موزوں‘‘ (ص288,289) میر سراج الدین اورنگ آبادی (ص398) سید عبدالوالی عزلت (ص445) عارف الدین خان عاجز (ص463,464,465) شیخ نور الدین عاصی (ص478) (شاہ فضل اللہ نقشبندی ’’ فضلی‘‘ (ص484,483) رضا طلب فدا شاہ جہاں آبادی، شیخ احمد فدا اورنگ آبادی (ص486,487,488) نور الدین علی رنگین (ص517) اور مولوی محمد باقر شہید (ص532) شامل ہیں۔ اس طرح تذکرہ ’’ گل عجائب‘‘ کے مولف اسد علی خان تمنا کے تذکرے میں جن شعراء کا ذکر کیا تھا ان میں بعض شعراء کے احوال سے مولوی عبدالحق صاحب کو کچھ اشارے مل گئے جنہیں یکجا کر کے مولوی صاحب ان کے حالات زندگی کا کھوج لگانے میں کامیاب ہو گئے چنانچہ انہوں نے تذکرہ ’’ گل عجائب‘‘ مطبوعہ 1936ء (انجمن ترقی اردو اورنگ آباد) میں محمد یوسف اللہ انور (ص13) میر سید علی رمز (ص56) میر علی شاہ مہر (ص154) آزاد بلگرامی (ص68) خواجہ محمد منعم خان قدر (ص125) محمد کریم بخش سالم (ص61) کے احوال سے کڑیاں جوڑ کر تذکرہ ’’ گل عجائب‘‘ کے مولف اسد علی خان تمنا کا احوال تحریر کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ مولوی عبدالحق صاحب کے مصنف اور مولف سے آگے بڑھ جانے کے اس جذبے نے تحقیق کو ایک نئی راہ دکھائی وہ حاشیہ نگاری کی تحقیق میں متنی تقابل کے بڑے رسیا تھے۔ یہ کام بڑی دیدہ ریزی کا اور محنت کا ہوتا ہے لیکن تحقیق مولوی صاحب کا مزاج اور محنت و لگن ان کی عادت میں شامل تھی وہ اگر محنت کا جذبہ ایک مالی میں بھی دیکھتے ہیں تو اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتے ’’ نام دیو مالی‘‘ کے خاکے میں انہوں نے جذبہ محنت کی اس طرح ستائش کی ہے: ’’ کام اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں لذت آنے لگے بے مزہ کام، کام نہیں بیگار ہے۔‘‘ سب رس، باغ و بہار، مثنوی خواب و خیال اور قطب مشتری کی ترتیب میں خاص طور سے مولوی عبدالحق صاحب نے اسی محنت طلب راہ کو اختیار کیا ہے اس ضمن میں وہ ممکن الحصول نسخوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے اور زیادہ سے زیادہ مواد قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے جب وہ ’’ قطب مشتری‘‘ مرتب کرنے لگے تو اسے دو مختلف نسخوں کی مدد سے مرتب کیا اور دونوں کے متن سے استفادہ کیا۔ ان میں سے ایک ان کا ذاتی تھا اور دوسرا میوزیم کا مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ میرے نسخے کی دو خصوصیات قابل ذکر ہیں ایک تو یہ کہ وہ زیادہ بڑا ہے یعنی اس میں بعض بیان ایسے ہیں جو برٹش میوزیم کے نسخے میں نہیں مثلاً سفر میں شہزادے کی جو مہمیں پیش آئی ہیں وہ لندن والے نسخے میں صرف دو ہیں اژدھے اور دیو کی لڑائی، لیکن میرے نسخے میں سیمرغ کا بھی مقابلہ ہے اسی طرح اور بھی کئی مقامات میں اضافہ ہے اگر بیانات مکمل ہوتے تو میں مثنوی کے متن میں شامل کر دیتا۔ اس لئے مجبوراً جتنا حصہ موجود ہے وہ ضمیمے کے طور پر اضافہ کر دیا گیا ہے بعض بعض مقامات پر اشعار بھی زیادہ ہیں، وہ شعر داخل کر دئیے گئے ہیں اور ان کے شروع میں ن دیا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ میرے نسخے سے لئے گئے ہیں ‘‘ میرے نسخے میںایک غزل بھی زائد نکلی جو داخل کر دی گئی ہے کتاب کے حاشے میں جو لفظ دئیے گئے ہیں وہ میرے نسخے میں ان لفظوں کا بدل ہے جو برٹش میوزیم کے نسخے میں ہیں اور پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ میرے نسخے کے لفظ زیادہ مناسب اور بر محل ہیں۔ عبدالحق صاحب نے ’’ سب رس‘‘ پر قلم اٹھایا تو سب سے پہلے تحقیق کی کہ یہ قصہ کس کس زبان میں لکھا گیا ہے اور کون سا نسخہ ملا وجہی کی ’’ سب رس‘‘ کا ماخذ ہے مولوی عبدالحق صاحب مختلف ایڈیشنوں کے تقابلی مطالعہ اور جائزہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے: ’’ ان تمام مصنفین نے اس قصے کے بیان کرنے میں خواہ نثر میں ہو یا نظم، میں مولانا فتاحی سے خوشہ چینی کی ہے گو ملا وجہی نے قصے کے اصل کی طرف اشارہ نہیں کیا مگر دونوں کتابوں کو پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وجہی نے قصے کی واردات حرف بہ حرف فتاحی سے لی ہے اپنی طرف سے کوئی اضافہ کیا ہے تو یہ کہ جابہ جا موقع بے موقع پند و موعظمت کا دفتر کھول دیا جس کا اصل کتاب میں نام و نشان نہیں۔‘‘ سب رس کی طرح ’’ باغ و بہار‘‘ کے ماخذ پر تحقیق بھی مولوی عبدالحق کا ایک بہت بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے مولوی عبدالحق صاحب نے اس کے ماخذ پر بھی بصیرت افروز بحث کی ہے میر امن دھلوی نے اپنی کتاب ’’ باغ و بہار‘‘ کے دیباچہ میں اسے فارسی سے ترجمہ بتایا ہے میر امن دھلوی نے لکھا ہے: ’’ اب خداوند نعمت صاحب مروت نجیبوں کے قدر دان جان گل کرسٹ صاحب نے (کہ ہمیشہ اقبال ان کا زیادہ رہے جب تک گنگا جمنا بہے) لطف سے فرمایا کہ اس قصے کو ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ ہندو مسلمان، عورت لڑکے بالے، خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں ترجمہ کرو۔‘‘ دوسری بات یہ بھی مشہور چلی آ رہی تھی کہ یہ قصہ ’’ چار درویش‘‘ امیر خسرو کا لکھا ہوا ہے اور میرا من دھلوی نے اسے فارسی سے ترجمہ کیا تھا مولوی عبدالحق صاحب نے ان دونوں مفروضات کو اپنی تقابلی اور متنی تحقیق سے غلط ثابت کیا ہے انہوں نے اس قصہ کو امیر خسرو کی تصنیف نہ ہونے کی دلیل میں لکھا ہے: ’’ مشہور چلا آتا ہے کہ فارسی قصہ چار درویش، امیر خسرو کا لکھا ہوا ہے لیکن نہ تو ان کی تصانیف میں کہیں اس کا ذکر ہے اور نہ فارسی قصے میں کہیں اس کا پتا لگتا ہے فارسی نسخے کے شروع میں جو منظوم حمد ہے اس کے مقطع میں ’’ صفی‘‘ تخلص ہے۔۔۔۔۔ خسرو جیسے زبردست اور پر گو شاعر سے یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی دوسرے غیر معروف شاعر کی نظم حمد میں نقل کرتے۔ یہ ان کی طبیعت سے بعید معلوم ہوتا ہے اس سے یہ شبہ اور بھی قوی ہوتا ہے کہ یہ قصہ امیر خسرو کا لکھا ہوا نہیں ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے اس کتاب کی تحقیق میں بھی تقابلی جائزے کے طریقہ کار کا اصول اپنایا اور فارسی قصہ ’’ چار درویش‘‘ ’’ نو طرز مرصع‘‘ اور میرا من دھلوی کی ’’ باغ و بہار‘‘ کے متن، واقعات، قصہ اور زبان و بیان کے گوشے کھنگال ڈالے اور تحقیق سے ثابت کر دیا: ’’ اصل یہ ہے کہ ترجمہ ان دو میں سے کوئی بھی نہیں فارسی قصے کو اپنی زبان میں بیان کر دیا ہے۔ لیکن جہاں کہیں نو طرز مرصع اور فارسی کتاب میں اختلاف ہے‘‘ نو طرز مرصع کا اتباع کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے ’’ باغ و بہار‘‘ جیسا کہ اس کا ماخذ نو طرز مرصع ہے۔ بعض مقامات پر تو الفاظ کے الفاظ اور جملے کے جملے وہی لکھ دئیے جو نو طرز مرصع میں ہیں۔ مولوی صاحب موصوف نے اپنے مندرجہ بالا بیان کی سند میں متذکرہ تینوں کتب سے اقتباسات دئیے ہیں اور تحقیق صحیح نتائج نکال رہی ہے لیکن یہ محض اتفاق ہے کہ مولوی عبدالحق کے پیش نظر کوئی ایسا نسخہ رہا ہو گا کہ جس کا سر ورق موجود نہیں ہو گا ورنہ میرا من دھلوی نے ’’ باغ و بہار‘‘ کے سر ورق پر یہ اقرار پہلے ہی کر لیا تھا: ’’ باغ و بہار ‘‘ تالیف کیا ہوا میرا من دلی والے کا ماخذ اس کا نو طرز مرصع کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خان کا ہے فارسی قصہ چہار درویش سے۔ ’’ قصہ چہار درویش‘‘ کی طرح مولوی عبدالحق نے میر اثر کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ اور شوق کی مثنوی ’’ بہار عشق‘‘ کا متنی اور تقابلی جائزہ لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ میر اثر کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ مرزا شوق کی مثنوی ’’ بہار عشق‘‘ کا ماخذ ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب کی تحقیق کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جس کتاب پر مقدمہ لکھتے یا مرتب کرتے تو اس کے مصنف کے حالات بھی پیش کر دیتے۔ اس سلسلے میں انہوں نے حالات کا کھوج لگایا، بکھرے ہوئے سوانحی حوالوں کو مرتب کیا اور مصنف کا مختصر اور بعض دفعہ تفصیلی ذکر کر کے اس کی شخصیت کا عکس واضح کیا۔ اس سلسلے میں جب ’’ تمدن ہند‘‘ کے ترجمہ پر مقدمہ تحریر کیا تو مقدمہ کا ایک حصہ اس کے مترجم شمس العلماء ڈاکٹر مولوی سید علی بلگرامی صاحب کی ذات پر محیط کیا جس میں ان کے نجی و خاندانی حالات، تصانیف و تالیفات، علمی و ادبی کارنامے اور ان کے مقام و مرتبہ کا تعین کرنے کے بعد کتاب کے موضوع اور ان کے ترجمہ کا تحقیقی جائزہ لیا چنانچہ اس مقدمہ میں مصنف کی ذات سے آگے بڑھ جانے کا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب اس مقدمہ میں بھی لسانی تحقیق سے نہیں چوکتے، جب گوتم بدھ کے عہد کا ذکر کیا تو طرز تحریر کے ماخذ سے بھی بحث کی اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں: ’’ سب سے قدیم کتبے زمانہ بدھ کے ہیں جو راجہ اشوک کے عہد میں نصب کئے گئے تھے یہ راجا سلوقس کا ہم عصر تھا اور اس کا سفیر راجا کے دربار میں کئی سال تک رہا۔ راجہ نے اپنی وسیع سلطنت میں مختلف مقامات پر کتبے نصب کرائے اور اس کی حکومت کا زمانہ 222-259(ق م) تک تھا۔ ان کتبوں کی یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہو گی کہ یہ دو قسم کے ابجدوں میں لکھے ہوئے ہیں ایک تو سیدھی طرف سے بائیں جانب کو جیسے فارسی عربی لکھی جاتی ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ابجد سامی ہے اور ہندی ابجد میں سے ماخوذ ہے اور دوسری بائیں جانب سے داھنی جانب کو جیسے ہندی یا انگریزی وغیرہ مگر یہ بھی سامی ابجد سے حاصل کی گئی ہے اسے حسب ضرورت اپنے طور پر بنا لیا گیا ہے یہ دوسری قسم کی ابجد تمام ہندی ابجدوں کا ماخذ ہوئی۔ ا س سے پورے طور پر یہ ثابت ہے کہ فن تحریر کتبوں میں تیسری صدی (ق م) سے قبل استعمال نہیں ہوا تھا۔ میگھا تیسنز (سفیر سلوقس) نے صحیح لکھا ہے کہ ہندی لکھنا نہیں جانتے تھے اور ان کے قانون تحریر میں نہیں آئے تھے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے یہی تحقیقی طریقہ کار مولوی چراغ علی کی کتاب ’’ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام‘‘ میں روا رکھا ہے یہ مقدمہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہے، پہلے حصہ میں مصنف کی شخصیت واضح کی گئی ہے اور اس کے علمی و ادبی مشاغل اور علمی مرتبہ پر روشنی ڈالی ہے اور دوسرے حصہ میں ان کی کتاب کے نفس مضمون پر اس طرح سیر حاصل تبصرہ و تحقیق ہے کہ مولوی صاحب مصنف کی ذات سے آگے بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مولوی چراغ علی صاحب نے اپنی اس کتاب میں مغربی مفکرین کی اسلام پر نکتہ چینی کا جواب تاریخی نوعیت کا دیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے بھی تحقیقی انداز سے مصنف کے خیالات کی وکالت کی ہے اور اپنے دلائل اور تحقیقی و تاریخی حوالہ جات سے مصنف کے دلائل کو پایہ ثبوت تک پہنچایا ہے مولوی صاحب نے ان ہی خطوط پر مولوی چراغ علی صاحب کی ایک دوسری کتاب تحقیق الجہاد (ترجمہ از خواجہ غلام الحسنین صاحب) کا بھی تعارف کرایا ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب اپنی تحقیق میں استدلالی طریقہ کار اختیار کرتے تھے چنانچہ جب وہ ’’ دیوان اثر‘‘ اور خواجہ میر اثر کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ کو مرتب کرنے لگے تو انہوں نے مولانا شبلی نعمانی صاحب کے اس نظریہ کو کہ خواجہ اثر کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ میرزا شوق کی مثنوی کی بنیاد نہیں ہے، اپنے دلائل سے غلط ثابت کیا۔ اس سلسلے میں بحث کا دائرہ کافی وسیع ہے مولانا حالی نے ’’ مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں اس مثنوی کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کیا تھا: ’’ یہ بات تعجب سے خالی نہیں کہ نواب مرزا شوق کو اپنے اسکول کے بر خلاف مثنوی میں ایسی صاف اور با محاورہ زبان برتنے کا خیال کیوں پیدا ہوا جب سوسائٹی کا رخ پھرا ہوا ہوتا ہے تو اس کے مخالف رخ بدلنے کے لیے کسی خارجی تحریک کا ہونا ضروری ہے۔ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر دھلوی نے ایک مثنوی لکھی جس کا نام غالباً خواب و خیال رکھا تھا اور جس کی شہرت ایک وجہ سے زیادہ تر یورپ میں ہوئی تھی۔ اس مثنوی میں جیسا کہ ہم نے اپنے بعض احباب سے سنا ہے تقریباً40,45 شعر اس قسم کے ہیں جیسے کہ شوق نے بہار عشق میں اختلاط کے موقع پر ان سے بہت زیادہ لکھتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ شوق کو ایسی زبان برتنے کا خیال اس مثنوی کو دیکھ کر پیدا ہوا اور چونکہ وہ ایک شوخ طبع آدمی تھا اور بیگمات کے محاورات پر بھی اس کو عبور تھا اس نے اپنی مثنوی کی بنیاد انہیں 40-45شعروں پر رکھی اور ان معاملات کو جو خواجہ میر اثر کے ہاں ضمناً مختصر طور پر بیان ہوئے تھے اپنی مثنویوں میں زیادہ وسعت کے ساتھ بیان کیا اور جس قسم کے محاوروں کی انہوں نے بنیاد قائم کی تھی، شوق نے اس پر ایک عمارت چن دی۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ خواب و خیال کے اکثر مصرعے اور شعر تھوڑے تھوڑے سے تضاوت سے بہار عشق میں موجود ہیں۔‘‘ مولانا شبلی نعمانی نے مولانا حالی کی اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے تحریر کیا ’’ مولوی حالی صاحب نے اپنے دیوان کے مقدمے میں لکھنو کی شاعری میں صرف نواب مرزا شوق کی مثنویوں کا اعتراف کیا ہے لیکن چونکہ ان کے نزدیک شعرائے لکھنو سے ایسی فصاحت اور سلاست کی توقع نہیں ہو سکتی، اس لیے اس کی وجہ یہ قرار دی کہ نواب مرزا نے خواجہ اثر کی مثنوی دیکھی تھی اور اس کا طرز اڑایا تھا۔ یہ اشعار اسی مثنوی کے ہیں اس کا فیصلہ خود ناظرین کر سکتے ہیں کہ یہ مثنوی نواب مرزا کا ماخذ اور نمونہ ہو سکتی ہے۔‘‘ کچھ عجیب اتفاق ہے کہ مولانا شبلی نعمانی نے جس کتاب میں ناظرین کو بحوالہ بالا دعوت فکر دی تھی اس کا مقدمہ مولوی عبدالحق کے قلم سے نکلنے والا پہلا تحقیقی مقدمہ تھا چنانچہ اس امر کی تحقیق اور فیصلے کے لئے انہوں نے ٹھانی اور مولوی صاحب نے تحقیق سے شبلی کے مقابلہ میں مولانا الطاف حسین حالی کے نظریہ کی تائید کی اس سلسلے میں مولوی عبدالحق نے مرزا شوق کی مثنوی ’’ باہر عشق‘‘ اور خواجہ میر اثر کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ کا تقابلی اور متنی جائزہ لیا اور دونوں مثنویوں کے ہم خیال ایسے اشعار کے ڈھیر لگا دئیے جو الفاظ کے معمولی ردو بدل کے ساتھ دونوں مثنویوں میں موجود ہیں جس سے بلا شبہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ مرزا شوق کا ماخذ و نمونہ تھی مولوی عبدالحق کا کہنا ہے: ’’ اگر دونوں مثنویوں کے اس قسم کے اشعار برابر برابر رکھ کر پڑھے جائیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ مرزا شوق نے ’’ خواب و خیال‘‘ ہی کو اپنا نمونہ بنایا ہے اور اسی مثنوی سے انہیں اس قسم کی زبان لکھنے کا خیال پیدا ہوا کیوں کہ شوق کے زمانے میں لکھنو کی شاعری لفظوں کا گورکھ دھندا ہو کے رہ گئی تھی اور تصنع اور تکلف انتہا درجے کو پہنچ گیا تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق کی اس طرح مرتب کی ہوئی کتابوں میں ایک ہی انداز اور طریقہ کار کی یکسانیت ملتی ہے۔ بعض تنقید نگاروں نے اسے مولوی صاحب کی سہل انگاری سے تعبیر کیا ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ کار اتنا آسان بھی نہیں ہے جتنا بظاہر نظر آتا ہے اور نہ ہی مولوی عبدالحق کی اس تدوینی تکنیک سے ان کے مقاصد میں کسی قسم کا فرق آتا ہے یہی وجہ ہے کہ تنقید نگاروں نے مولوی عبدالحق کی اس تحقیقی روش کو یک قلم رد بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر انصار اللہ نظر اپنے ایک مضمون ’’ اردو میں تدوین‘‘ میں ایک ذیلی عنوان ’’ بابائے اردو بحیثیت محقق‘‘ کے تحت تحریر کرتے ہیں:ـ ’’ مولوی عبدالحق صاحب نے جتنی کتابیں مدون کی ہیں ان میں تدوین کے معیار اور اصول کی حد تک حیرت انگیز یکسانیت ملتی ہے اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ مولوی صاحب نے کام کی اہمیت کو محسوس کرنے کے باوجود کماحقہ، محنت اور کاوش نہیں کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے معیاری تدوین کے بجائے اس بات پر زور دیا ہے کہ زیادہ کتابوں کے متن شائع کر دیں اور اہل تحقیق و تدوین کے لیے خام مواد فراہم کر دیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس طرح جو متن سامنے آیا ہے اس میں ہر قسم کی اغلاط موجود ہیں لیکن اس کی بڑی افادیت یہ ہے کہ ان سب کتب کے تقابلی مطالعے سے صحیح نتائج تک پہنچنا بڑی حد تک ممکن ہو گیا چنانچہ مولوی صاحب کے مدون کئے ہوئے اور ان کے انجمن ترقی اردو کے شائع کئے ہوئے متون کی مدد سے ہی اردو تحقیق کا رواج ممکن ہوا۔ مولوی صاحب کے بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی تحقیق کے سلسلے میں ان کے کاموں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق تحقیق میں شک کے قائل نہ تھے یہی وجہ ہے کہ وہ ایک عرصہ تک ’’ معراج العاشقین‘‘ کے نسخہ کو زیور طباعت سے آراستہ کرنے کے سلسلے میں شش و پنج میں مبتلا رہے کیوں کہ انہیں شک تھا کہ کہیں قدیم روایت کے مطابق کسی عقیدت مند نے یہ رسالہ حضرت سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز کے نام منسوب نہ کر دیا ہو کیوں کہ بقول مولوی عبدالحق: ’’ بعض رسالے جن کی نسبت متعدد ذرائع اور متواتر روایتوں سے یہ معلوم ہوا تھا کہ حضرت نے دکھنی میں لکھے تھے تحقیق کرنے سے ثابت ہوا کہ اصل فارسی میں موجود ہیں اور یہ ان کا ترجمہ ہیں یہ ممکن ہے کہ حضرت نے بعض رسالے فارسی اور دکھنی دونوں زبانوں میں تصنیف فرمائے ہوں لیکن جب تک کوئی قطعی شہادت اس کی تائید میں نہ ہو یہ قیاس زیادہ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔‘‘ نتیجتاً مولوی عبدالحق صاحب مسلسل کھوج میں لگے رہے تاکہ اس مسئلہ پر اطمینان ہو جائے تو ’’ معراج العاشقین‘‘ کو شائع کرایا جائے اس دوران میں رسالہ ’’ تاج‘‘ کے مدیر مولوی غلام محمد انصاری وفا صاحب نے ڈاکٹر محمد قاسم صاحب کے کتب خانے میں ایک نسخہ کی نشان دہی کی اور جب مولوی صاحب نے اس نسخہ کو اپنے ذاتی نسخے سے ملایا تو معمولی لفظ و عبارت سے اسے یکساں پایا۔ مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ جب دو نسخے میرے ہاتھ آ گئے اور مصنف اور زمانے کے متعلق کافی اطمینان ہو گیا تو میں نے حضرت وفا کی فرمائش سے ایک صحیح نسخہ مرتب کرنا شروع کیا۔‘‘ ابتدا میں ’’ معراج العاشقین‘‘ معہ مقدمہ کے 1334ھ میں غلام انصاری وفا کے رسالہ ’’ تاج‘‘ کی جلد 2شمارہ6,5,4 میں شائع ہوئی لیکن مولوی عبدالحق صاحب کا تحقیقی مزاج اس کی اشاعت سے مطمئن نہ تھا ان کے پاس ’’ معراج العاشقین‘‘ کے سلسلے میں کافی شہادتیں موجود تھیں لیکن ان کا کہنا ہے: ’’ اگر ان تمام قیاسات اور شہادتوں سے قطع نظر کر لی جائے تو بھی اتنا ضرور ماننا پڑے گا کہ اگر حضرت کی نہیں تو ان کے کسی ہم عصر یا اس سے قریب کے زمانے کی تصنیف ضرور ہے اس لحاظ سے بھی یہ قدیم اردو کا نہایت قابل قدر نمونہ ہے اور اس سے قبل کی تحریری زبان کا نمونہ ملنا مشکل ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کا یہ شک و شبہ غلط نہ تھا اور بالآخر تحقیق نے ’’ معراج العاشقین‘‘ کی تصنیف خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے کارناموں سے خارج کر دی اور یہ معلوم ہو گیا کہ اس کے اصل مصنف شاہ محمد علی سامانی ہیں ڈاکٹر جمیل جالبی ’’ معراج العاشقین‘‘ کے سلسلے میں تحریر کرتے ہیں: ’’ اس کے مصنف خواجہ گیسو دراز کے بجائے مخدوم شاہ حسین بیجاپوری ہیں جنہوں نے گیارھویں صدی ہجری کے نصف آخر یا بارھویں صدی کے اوائل میں ’’ تلاوۃ الوجود‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا تھا اس کی مزید تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ شاہ محمد علی سامانی جو بارگاہ خواجہ بندہ نواز کے مرید و خادم تھے ’’ میر محمدی‘‘ کے نام سے جو تالیف831ھ 1427ء میں کی تھی اور جس کے باب پنجم میں بندہ نواز کی 37تصانیف کا ذکر کیا ہے، کسی اردو تصنیف کا حوالہ نہیں ملتا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کی تحقیق کا ایک پہلو منطقی اور استدلالی نقطہ نظر بھی ہے انہوں نے بہت سے نسخوں کی چھان بین میں اسی طریقہ کار کو اختیار کیا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے تاریخی تناظر کو بھی دلیل کے طور پر استعمال کیا ہے مثلاً ملا وجہی کی دوسری تصنیف ’’ قطب مشتری‘‘ کی تحقیق میں مولوی عبدالحق نے یہی طرز اختیار کیا ہے۔ مثنوی ’’ قطب مشتری‘‘ کے سلسلے میں بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس مثنوی میں سلطان محمود قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کے عشق کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ مولوی صاحب نے مثنوی کے متن میں کسی بھی ایسے اشارے کی نفی کی ہے بلکہ خیال ہے کہ وجہی کا مقصد بطور ہیرو بادشاہ کے حسن و جمال کی تعریف کرنے تک محدود ہے اس سلسلے میں مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ مثنوی میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں بھاگ متی کے عشق سے ان کا کوئی تعلق نہیں پایا جاتا وجہی کا مقصد اس مثنوی کے لکھنے سے بادشاہ کے حسن و جمال، شجاعت اور لیاقت کی تعریف کرنا ہے اور بس۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے مثنوی ’’ قطب مشتری‘‘ کے اتنساب کے سلسلے میں تاریخی تناظر میں اس طرح دلیل دی ہے: ’’ سلطان محمد قلی قطب شاہ سنہ 988ھ میں تخت نشین ہوئے اور سنہ 1020ھ میں انتقال کر گئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مثنوی سلطان کے انتقال سے دو سال قبل لکھی گئی اور اس وقت سلطان کے والد ابراہیم قطب شاہ زندہ نہ تھے اور اس لیے مثنوی میں ابراہیم قطب شاہ کی جو مدح ہے وہ قصے کے تعلق سے ہے نہ کہ شاہ وقت ہونے کے لحاظ سے اور محمد قلی قطب شاہ کی مدح اس لیے نہیں کہ وہ خود قصے کے ہیرو ہیں۔ سب رس عبداللہ قطب شاہ کے عہد میں سنہ 1045ھ یعنی اس مثنوی سے ستائیس اٹھائیس برس بعد لکھی گئی۔ اس وقت ابراہیم قطب شاہ کو مرے ہوئے تقریباً اٹھاون برس ہوئے تھے۔ اس حساب سے یہ امر بہت مشتبہ ہے کہ وجہی نے ابراہیم قطب شاہ کا زمانہ دیکھا تھا یا اس کے دربار سے کچھ تعلق تھا البتہ یہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بچپن ابراہیم قطب شاہ کے آخر عہد میں بسر ہوا ہے کیوں کہ جس وقت ا س نے یہ مثنوی لکھی ہے وہ مشاق شاعر تھا جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے پوری مثنوی بارہ دن میں کہہ ڈالی۔‘‘ مولوی عبدالحق اپنے زیر تحقیق عنوان کے چھوٹے اور بڑے سے بڑے پہلو پر تحقیق میں ایک بات کا کھوج لگاتے ہیں مختلف ماخذ سے حوالے تلاش کرتے ہیں اور بلحہ خر جب وہ کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں تو وہ اپنا فیصلہ بھی صادر کر دیتے ہیں اس ضمن میں خود مصنف کا کوئی قول یا حوالہ ان کے لیے زیادہ قابل قبول ہوتا ہے مثلاً عبدالحی تاباں کو مختلف تذکرہ نویسوں نے جن میں لطف، نساخ، قاسم، آزاد اور مصحفی شامل ہیں شاہ حاتم اور بعض نے حشمت کا شاگرد قرار دیا ہے مولوی عبدالحق نے تاباں کے ایک دیوان سے یہ ثابت کیا ہے کہ محمد علی حشمت کو تاباں کا استاد ہونے کا شرف حاصل ہے مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں: ’’ حشمت کی شاعری کا ایک قطعی ثبوت تاباں کے دیوان میں ایسا موجود ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا۔ تاباں نے ایک مثنوی اپنے استاد اور عمدۃ الملک امیر خاں انجام کی مدح میں لکھی ہے جس میں وہ صاف صاف حشمت کی شاگردگی کا اعتراف کرتے ہیں:‘‘ نہ استاد کی مجھ کو تاب ثنا کہوں گر تو کب ایسی فکر رسا کمالوں میں جن کے نہیں کچھ قصور دے سب طفل مکتب ہیں اس کے حضور کسی کو کہاں اس سے ہے برتری کہ ہے نام اس کا محمد علی تخلص بھی حشمت ہے اس کا بجا وہ اہل سخن بیچ ہے بادشاہ اس سے بڑھ کر کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہیں۔ مولوی عبدالحق کو جن حوالوں یا شہادتوں پر شک ہوتا تھا وہ اس کا برملا اظہار کر دیتے تھے۔ مثلاً شاہ میران جی شمس العشاق کے ذکر میں وہ صاحب روضہ الاولیا اور تذکرہ اولیائے بیجاپور کے اس بیان سے متفق نہیں کہ میراں جی، علی عادل شاہ کے ابتدائی دور میں بیجا پور آئے۔ مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: ’’ روضۃ الاولیاء (در حالات اولیاء بیجاپور) اور محبوب ذی المنن تذکرہ اولیائے دکن دونوں نے یہ لکھا ہے کہ عادل شاہ اول کے ابتدائی عہد میں وارد بیجا پور ہوئے لیکن یہ صحیح معلون نہیں ہوتا۔‘‘ اس سلسلے میں مولوی صاحب موصوف نے دلیل دیتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ عادل شاہ اول کا عہد 941ھ سے998ھ تک رہا اور حضرت کی وفات902ھ میں واقع ہوئی یہ سلطنت عادل شاہی کے بانی یوسف عادل شاہ کا زمانہ ہوتا ہے۔‘‘ اسی طرح مولوی عبدالحق صاحب شاہ برہان الدین جانم کے سلسلے میں بھی مولف روضۃ اولیاء کی لکھی ہوئی تاریخ وفات سے مطمئن نہیں ہیں مولوی عبدالحق کا خیال ہے: ’’ مولف روضۃ الاولیاء بیجاپور نے ان کی تاریخ وفات صرف پانزدھم جمادی لکھی ہے سن نہیں لکھا تذکرہ اولیائے دکن کے مولف نے آپ کے وصال کا سنہ 950ہجری لکھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ ان کا رسالہ (جس کا ذکر آگے آئے گا) سنہ 990ھ کی تصنیف ہے اور چونکہ یہ سنہ انہوں نے خود اپنی نظم میں لکھ دیا ہے اس لیے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔۔۔۔ اور اسی سال میں انتقال فرمایا۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب تبصرہ نگاری میں بھی تحقیقی انداز اختیار کرتے تھے اور جب کسی محقق کی تحقیقی کاوش کا جائزہ لیتے تو اس کی تحقیقی کاوشوں کی چھان پھٹک کرتے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر گراہیم بیلی کی کتاب ’’ اردو لٹریچر‘‘ کے تبصرے میں مولوی عبدالحق صاحب نے گراہیم بیلی کی بہت سی لغزشوں کا ذکر کیا ہے جو تحقیقی اعتبار سے درست ثابت نہیں ہوئیں۔ مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ ان لغزشوں کی کئی وجوہ ہیں ایک تو نقل در نقل ہونے سے، دوسرے ایسے ماخذوں سے استفادہ کرنے سے جو نا قابل اعتبار ہیں تیسرے ایسے ماخذ جن سے انہوں نے رجوع کیا، ہیں تو قابل اعتماد لیکن کاتب کی غلطی سے بعض الفاظ یا نام غلط چھپ گئے ہیں اور وہ ویسے ہی نقل کر دئیے گئے اور چونکہ فاضل مولف نے ایسے مقامات پر حوالہ دینے سے احتراز کیا ہے اس لیے وہ سب غلطیاں انہی پر تھپ گئی ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے گراہیم بیلی کی بہت سی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے مثلاً گراہیم بیلی نے قصہ ابو ثمحہ کا مصنف محمد امین لکھا ہے جب کہ مولوی عبدالحق کا کہنا ہے: ’’ میرے پاس اس کے متعدد نسخے میں کسی میں امین یا محمد امین نہیں آیا بلکہ ہر نسخہ کے آخر میں اس کا نام ’’ اولیا‘‘ لکھا ہوا ہے۔‘‘ گراہیم بیلی نے ملک خوشنود کی تصنیف زلیخا بتائی ہے اور ان کے خیال میں یہ امیر خسرو کی کتاب ’’ یوسف زلیخا‘‘ کی پیروی میں لکھی گئی ہے، مولوی عبدالحق کا کہنا ہے: ’’ خوشنود نے یوسف زلیخا نہیں لکھی اور نہ امیر خسرو کی تصنیف کوئی مثنوی یوسف زلیخا ہے۔‘‘ گراہیم بیلی نے قصہ ملکہ مصر و قصہ فیروز شاہ کا مصنف ’’ محمد علی عاجز‘‘ لکھا ہے جب کہ مولوی عبدالحق صاحب بتاتے ہیں: ’’ مصنف قصہ ملکہ مصر و قصہ فیروز شاہ کا نام ’’ محمد علی عاجز‘‘ غلط ہے۔ اس نے خود اپنی تصنیف ملکہ مصر میں اپنا نام محمود بتایا ہے۔ عاجز تخلص بھی غلط ہے چنانچہ وہ کہتا ہے:‘‘ اے محمود اب پیر کا ناؤں لے ختم کد درازی سو اب چھوڑ دے گراہیم بیلی کی اس قسم کی تقریباً 33غلطیوں کی مزید نشان دہی کی ہے مولوی عبدالحق نے اپنے تبصروں میں بھی تحقیقی معیار برقرار رکھا ہے وہ کسی بھی تحریر میں تحقیق کے لپکے سے نہیں چوکتے اور جہاں تحقیقی اعتبار سے کوئی بات غلط ملتی ہے وہ بے باکانہ انداز سے اظہار خیال کر دیتے ہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب نے مولوی احمد الدین صاحب کی کتاب ’’ سرگزشت الفاظ‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولوی احمد صاحب کی تحقیق پر تحقیق کی ہے مثلاً مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ اگر وہ صلواۃ کے لغوی معنی کی تحقیق کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ لفظ کس طرح ادنی سے اعلیٰ ہو گیا اور پھر اردو میں جمع کی صورت میں کن ذلیل معنوں میں استعمال ہونے لگا۔۔۔۔ ’’ جلاب ‘‘ انگریزی میں بیلب میکسیکو کے ایک شہر جلابا کا نام سے ہے قابل مولف نے یہ نئی بات لکھی ہے جو درست معلوم نیں ہوتی یہ لفظ گلاب کا معرب ہے۔ کراھت سے بچنے کے لے مسہل کے لیے استعمال ہونے لگا۔ رضائی محمد رضا موجود کے نام پر ہے جہاں تک ہمارا خیال ہے یہ لفظ دراصل رزائی ہے چونکہ یہ عموماً رنگے ہوئے کپڑے کی بنائی جاتی ہے اس لیے یہ نام پڑ گیا۔‘‘ پاکھنڈ کے لغوی معنی مولف نے وید کے بر خلاف بدعت بیان کئے ہیں اور اصطلاحی معنی وہ عبادت جو دکھاوے کی ہو۔ حرام زدگی، بد ذاتی، شرارت لیکن لفظ کی تحقیق سے گریز کیا ہے۔ پاکھنڈ مرکب ہے پا اور کھنڈ سے پا کے معنی پالنے والے یا حفاظت کرنے والے کے ہیں جس سے مراد دھرم لی جاتی ہے اور کھنڈ کے معنی منتشر کرنے اور توڑنے کے ہیں۔ مولوی عبدالحق کی تحقیق میں تنقید کا عنصر بھی موجود رہتا ہے وہ جب کسی نسخے کے مقام و مرتبہ کا تعین کرتے ہیں تو یہ تنقیدی پہلوان کا معاون و مددگار بنتا ہے، ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مولوی عبدالحق کی اس خصوصیت کو اپنی مرتبہ کتاب ’’ مقدمات عبدالحق‘‘ کے مقدمہ میں اس طرح تحریر کیا ہے: ’’ تفصیل اور جزئیات کو پیش کرتے ہوئے وہ تمام تحقیقی پہلوؤں کی طرف متوجہ رہتے ہیں لیکن ان سے ملی جلی تنقید بھی ان کے یہاں نظر آتی ہے چنانچہ ان مقدمات میں انہوں نے تحقیق و تنقید کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے جن کتابوں پر وہ مقدمات لکھتے ہیں ان کی لسانی اور ادبی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے وہ تنقید سے بھی کام لیتے ہیں اس لیے تحقیق اور تنقید دونوں ان کے یہاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور اس طرح تحقیق و تنقید میں ایک توازن پیدا ہو جاتا ہے اور ایک ہم آھنگی نظر آنے لگتی ہے۔‘‘ مولوی صاحب موصوف مصنف اور مولف کی کاوشوں پر گہری نظر ڈالتے ہیں وہ بڑے فراخ دلانہ انداز سے اس کی خوبیوں کا اعتراف اور خامیوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ انہوں نے ’’ مخزن شعرائ‘‘ کے مولف قاضی نور الدین فائق کی تساہل پسندی پر اس طرح تنقید کی ہے: ’’ وہ شعراء کے حالات سے زیادہ بحث نہیں کرتے اور نہ اس بارے میں تحقیق و تلاش کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ سن وفات وغیرہ میں سوائے دو چار کے کسی کا نہیں لکھا۔‘‘ بر خلاف اس کے مولوی عبدالحق صاحب نے میر تقی میر کے تذکرے ’’ نکات الشعرائ‘‘ کے اسلوب نگارش کو بہت سراہا ہے اور اس طرح تعریف کی ہے: ’’ یہ تذکرہ اس زمانے کے رواج کے مطابق فارسی میں ہے اگرچہ مختصر ہے لیکن اس میں عموماً اور اکثر شعراء کے کلام پر منصفانہ اور بے باکانہ تنقید پائی جاتی ہے یہ بات دوسرے تذکروں میں نظر نہیں آئے گی دوسرے ایجاز کے ساتھ اس کی عبارت میں شگفتگی بھی ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مختصر مقدمہ میں میر تقی میر کے اسلوب پر بھی روشنی ڈالی ہے اور تحریر کیا ہے: ’’ یہ میر کی ابتدائی تصنیف اور عالم جوانی کی مشق ہے اس وقت ان کی عمر تقریباً29برس ہو گی لیکن عبارت کی متانت اور شگفتگی، تنقید نظر اور نکتہ رسی سے صاف ظاہر ہے کہ ذوق ادب اور ذوق سخن ابتدا سے بہت صحیح اور سلیم تھا۔‘‘ فتح علی حسینی گردیزی مولف تذکرہ ’’ ریختہ گویاں‘‘ کو اس بات کا گلہ تھا کہ تذکرہ نویسوں نے اپنے ہم عصروں سے انصاف سے کام نہیں لیا اور بے اعتنائی برتتے ہوئے نظر انداز کیا ہے چنانچہ گردیزی نے خود ایک تذکرہ لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ نامور شعراء کے حالات بے رو رعائت درج کرے۔ گردیزی کے اس تذکرہ ’’ ریختہ گویاں‘‘ کو مولوی عبدالحق نے اپنے تحقیقی مقدمہ کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیا انہوں نے اس تذکرے کے تحقیقی مقدمہ میں گردیزی کے اس دعوے پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے لکھا: ’’نوواردوں کی اولاد کا دور آیا تو ترک مقام، تغیر حالات و ماحول اور مرور زمانہ سے زبان میں بھی فرق آ گیا۔ یہ تذکرہ اس ادبی دور انقلاب کا نشان دیتا ہے۔ اس نظر سے اس کا مطالعہ کچھ نہ کچھ ضرورت بصیرت افزا ہو گا۔ اس سے معلوم ہو گا کہ تیس چالیس سال کے عرصہ میں دکن میں اردو نے قواعد، محاورہ و روز مرہ اور لب و لہجہ کے اعتبار سے کیا صورت اختیار کر لی تھی۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب تحقیق میں کسی بھی مخطوطہ کے ایک سے زیادہ نسخوں کے تقابل و موازنہ کے قائل تھے تاکہ بنیادی نسخے میں اگر غلطیاں ہوں تو اسے دوسرے نسخوں کے ذریعے درست کیا جا سکے۔ کیوں کہ کسی بھی مخطوطے کا کوئی سا بھی نسخہ غیر اہم تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مولوی عبدالحق کو اردو کی قدیم اور جدید زبانوں پر عبور تھا اس لیے مخطوطات سے پورا پورا استفادہ کرتے تھے انہوں نے مخطوطات کی تلاش میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور انہیں جب بھی کوئی مخطوطہ میسر آتا وہ اس کا فوراً انکشاف کر دیتے تھے۔ مولوی صاحب موصوف جب لچھمن نرائن شفیق کا تذکرہ مرتب کرنے لگے تو انہوں نے بتایا:ـ ’’ جہاں تک تحقیق کیا گیا اس تذکرے کا صرف ایک ہی نسخہ ہے، جو کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد میں ہے یہ اسی نسخے کی نقل ہے، اس کی تصحیح میں بے حد دقت اٹھانی پڑی۔ بعض عبارتیں اصل کتاب سے جو اس کا ماخذ ہیں صحیح کرنی پڑیں، کہیں قیاس سے کام لینا پڑا اور بعض مقامات پر کچھ الفاظ جو کتاب کے ازی دشمن کیرے چٹ کر گئے ہیں ویسے ہی چھوڑنے پڑے اور ان کی جگہ نقطے دے دئیے ہیں۔ بہت سے اشعار جو تذکرے میں مشکوک یا کرم خوردہ تھے اور ان کی صحت نہ ہو سکی ان کے سامنے استفہام کی علامت لکھ دی۔‘‘ مندرجہ بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولوی عبدالحق تحقیق اور صحت متن کے لیے کیسی محنت اور کاوش سے کام لیتے تھے تب کہیں جا کر کسی نسخے کو مرتب کرتے تھے۔ مصحفی کے تذکرے ’’ تذکرہ ہندی‘‘ کی تالیف میں بھی مولوی عبدالحق صاحب کو اس قسم کا اہتمام کرنا پڑا اس کا بنیادی نسخہ ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال کے نسخے پر مبنی تھا جس کا مقابلہ خدا بخش لائبریری پٹنہ کے نسخے سے کیا گیا، مشتبہ مقامات کا مقابہ ندوۃ العلماء کے نسخے اور رام پور کے نسخے سے کیا گیا پھر ’’ تذکرہ ہندی‘‘ مرتب ہوا۔ اسی قسم کی محنت مولوی صاحب موصوف و ’’ گل عجائب‘‘ کی ترتیب میں بھی کرنا پڑی۔ اسد علی خان تمنا کا تذکرہ ’’ گل عجائب‘‘ بد خطی اور کانٹ چھانٹ کے عیب سے بھرا ہوا تھا اور بعض اشعار غلط نویسی کی وجہ سے وزن اور بحر سے خارج تھے جنہیں مولوی عبدالحق صاحب نے دوسرے تذکروں اور دیوانوں کی مدد سے درست کیا اور بعض مہمل اشعار بہ حالت مجبوری حذف کرنا پڑے۔ تقریباً اس قسم کی کٹھن منزلوں سے انہیں دیگر تذکروں، دیوانوں اور قصوں کو مرتب کرنے میں گزرنا پڑا لیکن یہ تجسس کا فرہاد تحقیق کے تیشے سے کام لیتا رہا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی بہت سے کتابیں جو گوشہ گمنامی میں تھیں ادبی افق پر نمودار ہوئیں اور اس طرح ہمارا تہذیبی اور تاریخی ورثہ نہ صرف محفوظ ہو گیا بلکہ ادب کے دامن میں وسعت آئی اور مولوی عبدالحق کی تحقیق نے اردو ادب اور اردو زبان کی تاریخ میں کئی صدیوں کا اضافہ کر دیا۔ مولوی عبدالحق نے تذکرہ نویسی، شاعری، قصہ گوئی، لسانیات، قواعد، سائنس، مذہب غرض ہر موضوع پر تحقیقی قلم اٹھایا لیکن انہوں نے اپنی تحریر میں زہر خشک کی زبان استعمال کرنے کے بجائے زمانے کا ساتھ دینے والی تحقیق اور عصری تقاضوں کو پورا کرنے والی زبان کا وسیلہ اظہار بنایا۔ اس کے باوجود ان کی زبان و بیاں میں عالمانہ رکھ رکھاؤ بھی رچا بسا ہوا ہے اور ہر جگہ منطقی ترتیب بھی نمایاں ہے ان کی تحریر میں سرسید کی مقصدیت، مولانا حالی کا استدلال اور مولانا شبلی نعمانی کا ولولہ موجود ہے۔ ٭٭٭٭٭ حواشی 1دو ماہی رسالہ ’’ نورس‘‘ (عبدالحق نمبر) جلد4نمبر1اورنگ آباد کالج، اورنگ آباد،1930ء ص130-131 2رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، جنوری1921ء ص4 3’’ ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ‘‘ از رشید حسن خاں، لاہور، الفیصل ناشران کتب1989ء ص8 4’’ مخزن نکات‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، 1929ء ص1 5ایضاً ص4 6’’ تذکرہ مخزن نکات‘‘ مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر اقتداء حسن، لاہور، مجلس ترقی ادب 1966ء ص18 7’’ مخزن نکات‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو (ہند)1929ء ص10-9 8’’ مخزن نکات‘‘ مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر اقتدا حسن، لاہور مجلس ترقی ادب 1966 ء ص48-47 9ذیلی حاشیہ، مولوی عبدالحق، تذکرہ ہندی، ص247 10ایضاً تذکرہ میر حسن ص190 11ایضاً تذکرہ ہندی گویاں ص110 (دیکھئے صفحہ277حال محزون، ص138حال شہید) 12’’ تذکرہ ہندی‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1933ء ص الف 13’’ ذکر میر‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو (ہند) 1928ء ص (ص) 14’’ نکات الشعرائ‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو (پاکستان)1979ء ص4 15’’ ریختہ گویاں‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو1933ء ص2 16’’ چند ہم عصر‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، اردو اکیڈمی، سندھ1959ء ص33 17’’ تذکرہ گلشن ہند‘‘ مرتبہ شمس العلماء مولوی شبلی، لاہور، دار الاشاعت پنجاب1906ء ص1-2 18ایضاً ص:5 19’’ مقدمات عبدالحق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی، لاہور اردو مرکز سندھ،1964ء ص ندارد 20’’ گلشن عشق‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو (پاکستان)1952ء ص12 21’’ دلی کا سن وفات‘‘ از ڈاکٹر جمیل جالبی ’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ لاہور1972ء ص67 22’’ کلام سلطان محمد قطب شاہ‘‘ از عبدالحق، رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، جنوری 1922ء ص14 23ایضاً ص14 24’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی، مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1983ء 25’’ بابائے اردو‘‘ از آنسہ نغمہ کیفی، رسالہ ’’ برگ گل‘‘ (بابائے اردو نمبر) کراچی، 16 اگست1963ء ص75 26’’ چمنستان شعرائ‘‘ لچھمن نرائن شفیق، مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1938ء ص17 27’’ چند ہم عصر‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق، کراچی،ا ردو اکیڈمی سندھ،1961ء ص226 28’’ قطب مشتری‘‘ از ملا وجہی مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو (پاکستان) 1953ء ص16-17 29’’ سب رس‘‘ از ملا وجہی، مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو پاکستان 1983ء ص10 30’’ باغ و بہار‘‘ از میرا من دہلوی مرتبہ مولوی عبدالحق، دہلی انجمن ترقی اردو (ہند) 1944ء ص3-2 31ایضاً ص4-5 32’’ باغ و بہار تالیف کاے ہوا میرا من دہلی والے کا‘‘ کلکتہ، ہندوستانی پریس1806ء سر ورق 33’’ مقدمات عبدالحق‘‘ مرتبہ عبادت بریلوی، کراچی اردو اکیڈمی سندھ1963ء ص414-415 34’’ مقدمہ شعر و شاعری‘‘ از خواجہ الطاف حسین حالی، لاہور مکتبہ عالیہ، ص203-204 35’’ گلشن ہند: تصحیح و تحشیہ‘‘ از مولانا شبلی نعمانی، لاہور، دار الاشاعت، پنجاب1906ء ص38 36’’ خواب و خیال‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1950ء ص (ل م) 37ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی، ستمبر1968ء ص41 38’’ معراج العاشقین‘‘ ترتیب مولوی عبدالحق، رسالہ ’’ تاج‘‘ جلد نمبر6,5,4 1343ء ص6-5 39ایضاً ص8 40ایضاً ص8 41’’ تاریخ اردو ادب‘‘ (جلد اول) از ڈاکٹر جمیل جالبی، لاہور مجلس ترقی ادب 1984ء ص159-160 42’’ قطب مشتری‘‘ از ملا وجہی مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان،1953ء ص3 43ایضاً ص2 44’’ دیوان تاباں‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1925ء 45’’ قدیم اردو‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو(پاکستان) 1961ء ص7 46کتابت کی غلطی ہے یہ سن بھی سن ہجری ہے 47’’ قدیم اردو‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو (پاکستان)1961ء ص7 48ایضاً ص26 49’’ تنقیدات عبدالحق‘‘ مرتبہ محمد تراب علی خاں باز، حیدر آباد دکن، شمس الاسلام پریس 1934ء ص155 50ایضاً ص155 51ایضاً ص155 52ایضاً ص156 53ایضاًص12-13 54’’ مقدمات عبدالحق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ،1964ء ص ندارد 55’’ مخزن شعرائ‘‘ مولفہ قاضی نور الدین فائق، مرتبہ مولوی عبدالحق، دہلی انجمن ترقی اردو 1933ء ص5 56’’ نکات الشعرائ‘‘ مولفہ میر تقی میر، مرتبہ مولوی عبدالحق، کراچی انجمن ترقی اردو (پاکستان) 1979ء ص6 57ایضاً ص8 58’’ تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ از فتح علی گردیزی مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، 1939ء ص15-14 59’’ تذکرہ ہندی‘‘ مولفہ غلام ہمدانی مصحفی، مرتبہ مولوی عبدالحق، دہلی، انجمن ترقی اردو، 1933ء ص ل 60’’ گل عجائب‘‘ مولفہ اسد علی خاں تمنا، مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1936ء ص و 61’’ تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ از فتح علی گردیزی، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو،1939ء ص17 62’’ گل عجائب‘‘ از اسد علی خاں تمنا، مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1936ء ص ز 63’’ چمنستان شعرائ‘‘ از لچھمن نرائن شفیق، مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1938ء ص18-17 ٭٭٭٭٭٭ ساتواں باب تحقیق کی روایت میں مولوی عبدالحق کا مقام و مرتبہ کسی بھی شعبہ زندگی میں کسی شخصیت کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کے دو طریقے ہیں پہلا تو یہ کہ اس شعبہ زندگی میں کون کون سے کارہائے نمایاں انجام پا چکے ہیں اس تجزیہ کی روشنی میں یہ پرکھا جاتا ہے کہ کسی شخصیت نے اس میدان میں کیا کیا کچھ اضافہ کیا ہے اور کس طرح اپنے پیش رو، ہم پیشہ اور ہم شیوہ کے کام کو آگے بڑھایا ہے اور وہ کون سی انفرادیت ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز و منفرد کرتی ہے۔ دوسرا طریقہ کار شخصیت کے مقصد حیات اور اس کے حصول کے لیے اس کی جدوجہد اور کام یابی و کامرانی کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ جہاں تک مولوی عبدالحق کا تعلق ہے ان کی ساری زندگی اس صدی کی لسانی، ادبی اور تحقیقی جدوجہد سے عبارت ہے اردو کی بقاء کے لیے جہاد اور اسے دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے ہم پلہ بنانے اور اسے نقطہ عروج پر پہنچانے کا عزم ان کی زندگی کا محور رہا ہے چنانچہ وہ بڑے انہماک اور والہانہ انداز سے اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں رہے وہ اپنی منزل کے حصول کے لیے تن تنہا بھی مصروف کار رہے اور اپنے ہم عصروں کو بھی قدم سے قدم ملا کر چلنے کا حوصلہ عطا کرتے رہے۔ انہوں نے اردو کی ترویج و ترقی کے لیے اپنی ذات کو وقف کر دیا لیکن ان کے مزاج کی ساخت پر ارباب علی گڑھ نے نمایاں اثر ڈالا تھا۔ بقول ڈاکٹر سید معین الرحمن: ’’ انہوں نے شعور کی آنکھ کھولی تو سرسید، آزاد، نذیر احمد، حالی اور شبلی کا شہرہ تھا جنہیں اردو نثر کے عناصر خمسہ کہا جاتا ہے مولوی عبدالحق کو سرسید اور حالی ایسے علمی مذاق کے مالک مشاہیر کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان ہی کی تربیت اور فیض محبت نے مولوی صاحب کے مذاق کو نکھارا، طبیعت میں ٹھہراؤ، تحمل اور ضبط پیدا کیا۔ نتیجتاً متانت، اعتدال، قوت، صفائی اور سادگی ان کی تحریر کے امتیازی نشان ہیں۔۔۔۔۔ گردوپیش پر پھیلے ہوئے ماحول کے زیر اثر انہوں نے ابتدا ہی سے جو شغل اختیار کیا وہ مضمون نگاری تھا۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالحق کے عہد تک اردو زبان و ادب میں بہت کچھ ترقی ہو چکی تھی اور فورٹ ولیم کالج، علی گڑھ تحریک اور غالب کے اثر نے اردو ادب کو مقفی و مسجع طرز نگارش سے نجات دلا کر سادگی اور بے ساختگی عطا کر دی تھی اور تراجم و تالیفات نے اردو میں نئی اصطلاحیں اور الفاظ کا تصرف شامل کر دیا تھا۔ شعوری اور لا شعوری اعتبار سے اردو نے دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ زبانوں کی جانب پیش قدمی شروع کر دی تھی لیکن پھر بھی ادب کے بہت سے گوشے اور شعبے ایسے تھے جن میں کام نہ ہونے کے برابر تھا یا چھیڑا ہی نہیں گیا تھا اور اگر داغ بیل پڑ بھی چکی تھی تو توانا نہیں ہوئی تھی اور جدید اور سائنٹفک طرز عمل اور طریقہ کار سے آشنا نہ تھی ان ہی میں تحقیق کا شعبہ بھی شامل ہے۔ سرسید، شبلی، حالی اور ان کے بعد مولوی چراغ علی، ذکاء اللہ اور محسن الملک جیسے رفقاء کار تحقیق کا ڈول ڈال چکے تھے (ان محسنوں کی تحقیقی کاوشوں کا تفصیلی ذکر متعلقہ باب میں آ چکا ہے) لیکن ان کی تحقیقی جدوجہد تاریخی موضوعات تک محدود تھی یا بالفاظ دیگر ان لوگوں نے تاریخ کے موضوع پر تحقیقی مزاج سے کام کیا تھا لیکن یہی ابتدائی نقوش مولوی عبدالحق کے لیے سنگ میل ثابت ہوئے انہوں نے ان نقوش کو ابھارا اور انہیں اپنی ذاتی صلاحیتوں اور ذوق و لگن سے مغربی تحقیق کا ہم پلہ بنا دیا۔ مولوی عبدالحق کے پیش رو قافلے نے تاریخ کو اپنا موضوع بنایا تھا انہیں بھی تاریخ سے دل چسپی تھی لیکن اس دلچسپی نے تاریخ ادبیات کا رخ اختیار کیا۔ انہوں نے قدیم مخطوطات کی چھان پھٹک کی اور انہیں اپنے تحقیقی اور تعارفی مقدمات کے ساتھ منظر عام پر لائے۔ ادب و تاریخ و زبان کی گم شدہ کڑیوں کا دور حاضر سے رشتہ جوڑا اور ان کی سعی و تلاش نے اردو زبان و ادب کی کتابوں کو صدیوں پیچھے تک کھینچ دیا۔ بہت سے دیوان اور تذکرے مرتب کئے اور مقدموں، تبصروں اور خطبوں میں تحقیقی روش کو اس حد تک اختیار کیا کہ اردو میں تحقیق بذات خود ایک شعبہ کا درجہ حاصل کر گئی۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کے دیوان کی تحقیق نے نہ صرف ولی سے اردو شاعری کا آغاز کا شرف چھین لیا بلکہ اردو کو ’’ لشکری‘‘ کے ماخذ سے کہیں قبل تک پہنچا دیا اور یہ ثابت کر دکھایا کہ اردو کے نقوش مغلوں کی آمد سے قبل ہی ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔ مولوی عبدالحق سے قبل تحقیق کی روایت میں تاریخی تناظر تو موجود تھا لیکن رواں اور بنانیہ انداز قصہ گوئی، اور قصہ نویسی کا اسلوب حاوی تھا۔ محققین حوالوں کی عادت اور شہادت سے عاری تھے اور اگر حوالے ملتے بھی تھے تو سیاق و سباق کی جانب بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔ مولوی عبدالحق نے تحقیق میں باقاعدہ اور با ضابطہ حوالے کا رواج ڈالا اور سیاق و سباق کی تشنگی کو دور کیا۔ مولوی عبدالحق کی زندگی محنت سے عبارت تھی اور محنت بھی ایسی جس میں لگن تھی۔ زندگی کا یہی پہلو ان کے تحقیقی طریقہ کار پر چھایا ہوا ہے وہ بڑی جستجو سے مخطوطات تلاش کرتے، دیدہ ریزی سے ان کا مطالعہ کرتے اور تحقیقات کو علمی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے دوسری زبانوں پر بھی عبور حاصل کرتے اور تعلیقات کا اتنا انبار جمع کر دیتے کہ قاری مصنف کی ذات پر موضوع پر کسی دوسرے مطالعہ سے بے نیاز ہو جاتا یہی امتیاز پسندی انہیں اوروں سے منفرد کرتی ہے۔ مولوی صاحب سہل انگاری کو جرم تصور کرتے تھے چنانچہ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس منعقدہ کراچی 12جولائی 1952ء کے خطبہ صدارت میں فرماتے ہیں: ’’ انسان فطرتاً کاہل معلوم ہوتا ہے، محنت کرنا نہیں چاہتا۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ سب انسان نیک ہیں سوائے کاہل کے کاہلی جرم ہے، گناہ ہے، عطیہ الٰہی سے انحراف اور کفران نعمت۔۔۔۔ کام سے انسانیت آتی ہے، سیرت اور اخلاق بنتے ہیں ظاہر و باطن کی اصلاح ہوتی ہے ہم جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں مگر کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس سے پتا مارنا پڑتا ہے عزیز اشغال اور محبوب عادتوں کو ترک کرنا پڑتا ہے۔‘‘ مولوی عبدالحق ایک ایک لفظ کو پرکھتے تھے اور ان تھک صبر آزما جدوجہد کے بعد قاری کے لیے پیش کرتے تھے۔ اردو تحقیق میں مولوی عبدالحق کا مرتبہ اس لیے بھی منفرد ہے کہ انہوں نے تحقیق میں اجتماعی کام کی بنیاد ڈالی۔ ان سے قبل اردو تحقیق و تالیف میں انفرادی انداز سے کام کئے جاتے تھے اور محقق اکثر اپنی معلومات و ماخذ کو چھپا چھپا کر رکھتے تھے لیکن مولوی صاحب کی ذات گرامی نے اسے فصیل ذات سے باہر نکالا اور اپنے ہم عصروں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کا تجربہ کیا، ان کی ہمت افزائی کی، مخفی صلاحیتوں کو بیدار کیا اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ مولوی صاحب موصوف کے اس اجتماعی کام کے جذبے کے سلسلے میں جلیل قدوائی تحریر کرتے ہیں: ’’ وہ قابل اور ذمہ دار اہل رائے اور اہل قلم کی معاونت، مشاورت، مفاہمت، تائید، امداد اور اعتماد حاصل کرنے کے لیے دل و جان سے کوشاں بلکہ بے چین و مضطرب رہتے ہیں نیز انہوں نے جتنے بڑے کام کئے ہیں ان میں ایسے تمام احباب کو شریک رکھا ہے۔‘‘ اس ضمن میں ان کا سب سے بڑا کام اردو کی جامع لغت ہے اس کے منصوبے کے سلسلے میں مولوی عبدالحق نے 27مئی 1953ء کو سید ساجد علی کو تحریر کیا: ’’ تعطیل ہونے سے قبل میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ کن سائز آکسفورڈ ڈکشنری Concise oxford Dictionaryکا اردو ترجمہ لکھواؤں کیوں کہ انگریزی میں اردو لغت کی بہت ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ اس خیال کو سب لوگوں نے پسند کیا اور غالباً یہ پہلا کام ہو گا جو اس طرح باہمی اتحاد سے انجام پائے گا۔‘‘ مولوی صاحب موصوف نے اپنے اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے جواہر قابل ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کئے اور اس لغت کی تدوین، تالیف اور تراجم کے لیے ان کی صلاحیت سے پورا پورا استفادہ کیا۔ مولوی احتشام الحق حقی دھلوی، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، پنڈت کیفی، سید ہاشمی فرید آبادی، پنڈت ونشی دھر، سجاد حیدر پلدرم، عبدالماجد دریا بادی اور ڈاکٹر عابد حسین لغت کی تیاری میں معاون اور صلاح کار تھے جو بے لوث اس کام پر جت پڑے جنہیں نہ صلے کی پروا تھی اور نہ ستائش کی تمنا جس کی زندہ مثال مولوی احتشام الحق حقی دھلوی ہیں ان کے سلسلے میں شاہد احمد دھلوی لکھتے ہیں: ’’ یہ صاحب اٹھارہ گھنٹے روزانہ لغت کا کام کرتے تھے اور اس محنت اور جانفشانی سے کہ پورا اردو بورڈ مع اپنے وسیع وسائل کے نہیں کر رہا ہے۔ حقی صاحب کو مولوی صاحب پانچ سو روپے دیتے تھے اس میں ان کے اخراجات مشکل سے پورے ہوتے تھے، کام کے لیے کام کرتے تھے اور جب وہ کام میں منہمک ہوتے تھے تو انہیں دین ار دنیا کی خبر تک نہیں رہتی تھی ان کی بیگم بار بار دروازے کے قریب آ کر کہتی تھیں ’’ کھانا کھا لیجئے‘‘ اور حقی صاحب ’’ اچھا‘‘ کہتے اور بھول جاتے۔ یہ تماشا میں نے حیدر آباد میں بھی دیکھا اور دلی میں بھی دلی میں جب انجمن کی امداد کم ہوئی تو مولوی صاحب نے حقی صاحب کے پانچ سو کے بدلے ڈھائی سو روپے کر دئیے تھے مگر حقی صاحب کے کام کرنے کے انداز میں فرق نہ آیا اب ان کا بڑھاپا بھی آ گیا تھا اور صحت خراب رہنے لگی تھی مگر وہ دھن کے پکے تھے جب تک جاگتے رہتے تھے کام کئے جاتے تھے جب انجمن کی امداد بند ہو گئی تو مولوی صاحب نے حقی صاحب سے کہہ دیا کہ کام بند کر دو، تمہیں تنخواہ نہیں ملے گی مگر حقی صاحب عمر بھر کی اس عادت کو کیسے چھوڑ سکتے تھے؟ اور اب تو صرف آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی تھیں! لہٰذا بے مزد کام کرتے رہے ادھر وہ اپنا کام ختم کر رہے تھے، ادھر ان کی زندگی ختم ہو رہی تھی لغت کے آخری حصہ کی نظر ثانی کر رہے تھے کہ اعصابی نظام نے جواب دے دیا چند روز ہسپتال رہ کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔‘‘ اس لغت کی تیاری کا طریقہ کار یہ تھا کہ مختلف اہل کمال کو مختلف حروف تقسیم کر دئیے گئے وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے اپنے اپنے مسودے مولوی صاحب کو واپس کرتے تھے جہاں ان کی نگرانی میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، پنڈت کیفی اور سید ہاشمی فرید آبادی پر مشتمل کمیٹی نظر ثانی کرتی اور حسب ضرورت ہدایات جاری کرتی تھی اس سلسلے میں سید ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں: ’’ الفاظ کی اصل سرگزشت کا پتہ چلانے کے لئے سنسکرت اور ہندی زبانوں کے بعض ماہر(پنڈت ونشی دھر وغیرہ) مامور تھے عربی الاصل الفاظ کے مادے عربی دان حضرات (ڈاکٹر صدیقی صاحب کی نگرانی میں) لکھ کر بھیجتے تھے نظم و نثر کی مستند کتابوں سے الفاظ و اسناد ڈھونڈھنے میں کئی کئی صاحب مصروف رہے مگر ان سب کاموں کو خود مولوی صاحب بار بار دیکھتے اور جزوی تلاش و تحقیق تک شریک ہوتے تھے طرفہ تر یہ کہ جس قدر کام زیادہ ہوا، مولوی صاحب کے منصوبے بڑھتے رہے چنانچہ دس بارہ برس میں لغت کا اتنا کچھ سرمایہ فراہم ہو گیا کہ پہلے کسی کے خیال میں بھی نہ آ سکتا تھا۔‘‘ اجتماعی کاوشوں کا ایک اور نمونہ ’’ گارساں دتاسی‘‘ کے مقالات و خطبات ہیں جو سر راس مسعود (نواب مسعود یار جنگ بہادر) عبدالباسط، ڈاکٹر یوسف حسین خان، مسز پکھتال، پروفیسر عزیز احمد، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی مشترکہ کاوش کا نمونہ ہے۔ ہندوستانی علم و ادب پر گارساں دتاسی کی ان تصانیف کی دریافت کا سہرا سر راس مسعود کے سر ہے موصوف دتاسی کی ان تصانیف سے انگلستان کی انڈین آفس لائبریری میں واقف ہوئے تھے مولوی عبدالحق نے ان کے حوالے سے تحریر کیا: ’’ نواب صاحب فرماتے تھے کہ جب میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو میرے دل کی عجیب کیفیت تھی اور اس خیال سے میری مسرت اور فخر کی کوئی انتہا نہ رہی ہے ایک نامور عالم جو غیر ملک کا رہنے والا ہے، سالہا سال تک میری مادری زبان کے مطالعے اور عالمانہ تحقیق میں مصروف رہا! اس لیے نہیں کہ وہ ہندوستان کے کسی بڑے سرکاری عہدے پر مامور تھا بلکہ اس لیے کہ بغیر کسی دنیاوی غرض کے محض علم کی خاطر اس زبان سے محبت کرتا تھا، اسی وقت انہوں نے ٹھان لی کہ اس کتاب کا ترجمہ اردو میں ضرور ہونا چاہئے۔‘‘ مولوی صاحب نے گارساں دتاسی کے خطبات کے ترجمے کی فرمائش بھی سر راس مسعود سے کی چنانچہ انہوں نے ابتدائی چھ خطبوں کا ترجمہ کر دیا لیکن وہ خاطر خواہ وقت نہ نکال سکے۔ پھر مولوی صاحب کو اس طرح کے ایسے لوگوں کی تلاش ہوئی جو فرانسیسی اور اردو دونوں پر دسترس رکھتے ہوں انہیں ایک ایسی ٹیم میسر آ گئی تین خطبوں (ساتویں، آٹھویں اور نویں) کا ترجمہ عبدالباسط سے کرایا جب کہ پانچویں خطبے کا ترجمہ مسز پکھتال اور باقی سب کا ڈاکٹر یوسف حسین خان کے سپرد ہوا۔ مولوی صاحب نے اس پر ایک سیر حاصل مقدمہ لکھا اور 1935ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سے کتابی شکل میں شائع ہوا یہ کتاب جب اہل علم تک پہنچی تو اس ترجمے کی خوبیاں اور خامیاں بھی سامنے آئیں اس ضمن میں جمیل الدین عالی تحریر کرتے ہیں: ’’ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب نے جو پیرس میں مقدم ہیں بابائے اردو کو لکھا کہ انہوں نے گارساں دتاسی کے اصل اور ترجمے سے مقابلہ کر کے یہ معلوم کیا ہے کہ اصل اور ترجمے میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے ڈاکٹر موصوف سے درخواست کی کہ وہ مقالات و خطبات کے اردو ترجمے پر نظر ثانی فرما دیں ڈاکٹر صاحب نے اس کام کو پورا کرنے کی حامی بھر لی اور تقریباً چھ سات سال کی محنت کے بعد یہ کام مکمل کر دیا۔‘‘ اس طرح ’’ مقالات گارساں دتاسی‘‘ پر بھی مجموعی کام ہوا ان مقالات میں تین مقالات (بالترتیب مقالہ 1870ء مقالہ 1871ء اور مقالہ 1872ئ) کا ترجمہ ڈاکٹر یوسف حسین خان، دو کا (بالترتیب مقالہ 1873ء اور مقالہ 1874ئ) کا پروفیسر عزیز احمد اور بقیہ تین (بالترتیب 1875ء مقالہ 1876ء اور مقالہ 1877ئ) کا ترجمہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا ان مقالات پر بھی پروفیسر ڈاکٹر محمد حمید اللہ (مقیم پیرس) نے نظر ثانی کرنے کے علاوہ ایک اختتامیہ بھی قلم بند کیا جس میں گارساں دتاسی کے حالات زندگی، دنیائے اردو سے تعلق اور ان کی تالیفات کاتعارف کرایا ہے۔ مولوی عبدالحق نہ صرف اجتماعی کاموں میں لوگوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے بلکہ مصنفین اور بالخصوص نوجوانوں کی انفرادی کاوشوں کی بھی بھرپور ہمت افزائی کرتے۔ وہ باقاعدہ ان کی تربیت میں دلچسپی لیتے اور ذوق سلیم کو جلا بخشتے۔ اختر رائے پوری، سید ہاشمی فرید آبادی، معشوق یار جنگ کے چھوٹے بھائی لطافت حسین خان اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں نواب معشوق یار جنگ نے مندرجہ بالا افراد کا نام لیتے ہوئے فرمایاـ: ’’ یہ مولوی صاحب ہی کے صحبت یافتہ ہیں ان کے ذوق صحیح کی نمو مولوی صاحب ہی کے فیض تربیت کا نتیجہ ہے۔‘‘ لطافت حسین خان نے ’’ مبادی سائنس‘‘ ’’ بجلی کے کرشمے‘‘ اور ’’ دیباچہ الصحت‘‘ جیسی مفید کتابیں مولوی صاحب کی تحریک اور ہمت افزائی پر لکھی ہیں اس طرح اورینٹل کالج لاہور کے پروفیسر محمد اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر محمد داؤد رہبر پروفیسر انقرہ یونی ورسٹی کے تصنیفی کارناموں پر نظر رکھی اور ہمت افزائی کی اس ضمن میں ’’ مستشرقین یورپ کا تذکرہ‘‘ اور ’’ براون کی تیسری جلدی‘‘ کا ترجمہ انہوں نے مولوی صاحب موصوف کی تحریک پر قلم بند کیا۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے براون کے ترجمے کی تکمیل کی خبر پر ڈاکٹر رہبر کو اپنے ایک مکتوب محررہ 24 مئی 1945ء میں لکھا: ’’ بڑی مسرت ہوئی کہ براؤن کی تیسری جلد کا ترجمہ مکمل ہو گیا۔ اب ابا جان کو پکڑئیے وہ ویسے قابو نہیں آئیں گے جب تک آپ ان کے سر پر سوار نہیں ہوں گے ان کی یہ رائے بہت مناسب اور معقول ہے کہ حواشی وغیرہ کا کام بھی ساتھ ساتھ ہوتا جائے۔ اس سے یہ ترجمہ اصل کتاب سے بھی زیادہ کار آمد ہو جائے گا۔‘‘ ایک مدت سے مولوی صاحب کی خواہش تھی کہ ’’ مستشرقین یورپ کا تذکرہ‘‘ فرانسیسی سے اردو میں منتقل ہو اس ضمن میں انہوں نے کئی لوگوں سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا اور ترجمہ کے لئے کہا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے یہ ذمہ داری ڈاکٹر محمد داؤد رہبر پر عائد کی انہوں نے اپنے مکتوب محررہ 3اپریل 1946ء میں تحریر کیا: ’’ مستشرقین یورپ کا تذکرہ بہت کار آمد اور ضروری چیز ہے۔ جامعہ عثمانیہ کے ایک صاحب نے فرانسیسی کتاب کا ترجمہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن دو تین سال تک وعدہ کرتے رہے اور کچھ نہ کیا۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کتاب پرانی ہے متاخرین کا تذکرہ بھی بعد تحقیق اضافہ کر دیا جائے۔۔۔۔ مجھے خوشی ہو گی اگر تم اس کام کو اپنے ذمے لے لو اور خدا کا نام لے کر شروع کر دو۔‘‘ سید شبیر علی کاظمی، مولوی عبدالحق کے قریبی احباب میں سے تھے اور علمی و ادبی سرگرمیوں میں مولوی صاحب سے معاونت کرتے رہتے تھے۔ ایک زمانے میں وہ مشرقی پاکستان میں چٹگام کیڈٹ کالج میں بطور لیکچرار متعین تھے اور انہوں نے ’’ اردو اور بنگلا زبانوں میں انڈو آریائی نسل کے مشترک الفاظ‘‘ پر تحقیق شروع کی تھی مولوی صاحب کو جب اس بات کا علم ہوا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی انہوں نے 30اپریل1975ء کو کاظمی صاحب کو لکھا: ’’ یہ معلوم کر کے مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے بنگلہ اردو کے مشترک الفاظ کی فہرست تیار کر لی ہے یہ بہت بڑا کام کر ڈالا۔‘‘ اور جب تک کاظمی صاحب نے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا مولوی صاحب بار بار اسے مکمل کرنے کا تقاضا کرتے رہے اور اس موضوع پر انہیں جب بھی معلومات میسر آتی رہیں وہ کاظمی صاحب کو منتقل کرتے رہے۔ ان کی نظر سے اس موضوع پر کسی پادری کی کوئی کتاب گزری تھی۔ چنانچہ انہوں نے 17جون 1975ء کو تحریر کیاـ: ’’ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک پادری نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ تمام الفاظ ہیں جو اردو بنگلہ میں مشترک ہیں۔ میرے پاس مصنف اور کتاب کا نام اور پتہ لکھا ہوا تھا۔ اس وقت نہیں ملا تلاش کر کے اطلاع دوں گا یہ کتاب کلکتہ پٹٹ مشن پریس میں طبع ہوئی ہے پانچ چھ ہزار الفاظ پر مشتمل ہے میں نے یہ کتاب نہیں دیکھی کیا آپ کی نظر سے گزری ہے۔ اگر نہیں تو ضرور منگا کر دیکھئے آپ کے لئے مفید مطلب ہو گی میں ان الفاظ کی فہرست شکریہ کے ساتھ اردو میں شائع کروں گا۔‘‘ صرف یہی نہیں کہ مولوی صاحب نے مواد کی فراہمی میں ان کی معاونت کی بلکہ اس کی تدوین میں باقاعدہ رہنمائی کے فرائض بھی انجام دئیے 8اکتوبر1975ء کے ایک خط میں انہیں لکھا: ’’ خاص الفاظ جن کی تشریح کی جائے یا ایسے ہی الفاظ جو تشریح کے درمیان آئیں، بہت احتیاط سے صاف لکھے جائیں۔ نقطے ہر حرف پر اصلی جگہ دئیے جائیں’’ و‘‘ اور ’’ د‘‘ کے لکھنے میں امتیاز کیا جائے رسم الخط کا لحاظ رکھا جائے میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ کمپوزیٹر کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں ویسے پڑھے لکھے لوگ بھی الفاظ کی اصل اور ان کے اشقاق وغیرہ میں نا واقف ہوتے ہیں اس لیے چھپنے میں غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‘‘ آپ نے ابجدی ترتیب کا خیال بھی نہیں رکھا مثلاً انکا نا کے بعد آننھی یا کاک کے بعد گنگال میں مولوی عبدالحق نے اسی قسم کی معلمانہ شفقت کا ایک خط 15فروری 1955ء کو سخاوت مرزا کو تحریر کیا تھا لکھتے ہیں: ’’ ایک بات آپ سے عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریر کے وقت موجودہ رسم الخط کا لحاظ رکھا جائے مثلاً آپ جہاں کو جھان لکھ جاتے ہیں اور اسی طرح کہا اور کھا میں فرق نہیں کرتے کھا کو کہا اور کہا کو کھا۔‘‘ دکنی میں کو، کوکوں بولتے اور لکھتے ہیں۔ اس کے آخر میں نون غنہ ہے آپ نے ہر جگہ کوں اور سوں اور کہاں، یہاں وغیرہ کے نون میں نقطہ دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پرف کی تصحیح میں بڑی مشکل ہوتی ہے۔ میں نے اس لیے لکھا ہے کہ اس سے وقت بچے گا اور کتاب کی صحت میں آسانی ہو گی معافی چاہتا ہوں۔ مولوی صاحب کے اکثر مخاطب ان سے کم عمر تھے اور ان کی حیثیت ان کے لئے معلم کی تھی اور ان کی تربیت ان کے پیش نظر تھی اس لیے بعض دفعہ ان کا طرز تخاطب تنقید کا رنگ اختیار کر لیتا تھا مثلاً 28جون1929ء کو انہوں نے حاجی احمد فخری کے طرز تحریر پر اس طرح اظہار خیال کیا: ’’ آپ کی تحریر میں بہت ڈنک بھرے ہوئے ہیں۔ وہ سب نکالنے پڑیں گے اس قسم کی علمی تحریروں میں طعن و تشنیع اور دل آزاد چوٹیں ہرگز نہیں ہونی چاہیں۔‘‘ سخاوت مرزا نے جب ’’ شاہ نصیر اور ان کے استاد سائل کی اصلاحیں‘‘ کو موضوع بنایا تو اس پر مولوی عبدالحق سے برابر ان کی خط و کتابت ہوتی رہی اور اصلاح طلب باتوں کی نشاندہی کرتے رہے یا وہ جن باتوں سے متفق نہیں تھے ان پر تبادلہ خیال کیا اور ان کے مضمون میں غلط حوالوں کی صراحت کی۔ مولوی صاحب اپنے خط محررہ 15فروری 1955ء میں تحریر کرتے ہیں: ’’ بارا باٹ والا شعر زبردستی تانا شاہ کے سر منڈھ دیا گیا ہے۔۔۔۔ بال شبہ بحری کا ہے۔ میں بہت پہلے اسے بحری کے کلام میں دیکھ چکا تھا۔ بات یہ ہے کہ جب ایک شخص (اور وہ بھی اگر معتبر ہے) کوئی بات لکھ دے تو سب اسے بغیر تحقیق کے نقل کر دیتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ہیں مثلاً وہ قطعہ جو میر تقی میر سے منسوب ہے۔‘‘ کیا بود و باش پوچھتے ہو پورب کے ساکنو! ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے میر صاحب کے کلام میں کہیں نہیں پایا جاتا اور جو قصہ آزاد نے اس کے ضمن میں لکھا ہے وہ بھی غلط ہے۔ اصل میں یہ قطعہ مصحفی کا ہے۔ صرف الفاظ میں کچھ ردو بدل کر دیا ہے۔ کلیات ولی کا سب سے قدیم نسخہ میرے ذاتی کتب خانے میں ہے۔ اس کی کتابت1135ء ہجری میں ہوئی۔ یعنی ولی کی وفات کے پندرہ سال بعد کاتب نے اس کی کتابت اورنگ آباد وفات کے پندرہ سال بعد کاتب نے اس کی کتابت اورنگ آباد میں کی اس میں دلی کی یہ غزل (کہو کسی سوں بولنا) نہیں ہے ۔ یہ بحری ہی کی ہے۔ مولوی عبدالحق کے موضوعات میں قدیم اردو ان کا ایک محبوب موضوع تھا جس پر مضامین کا طویل سلسلہ رہا اس ضمن میں ’’ میراں جی‘‘ پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا تھا جو عادل شاہی عہد کا شاعر تھا۔ سخاوت مرزا نے مولوی صاحب کے اس مضمون پر تنقید کی تھی جس کی وضاحت کے لئے مولوی صاحب کی ان سے طویل خط و کتابت رہی۔ انہوں نے 30جنوری 1956ء کو انہیں تحریری: ’’ آپ نے نسل نامہ شاہ میراں جی میں شاہ صاحب کے سن وفات سے بحث کی ہے۔ میں نے902ھ دو وجوہ سے قرار دیا تھا۔ ایک تو ان کے مرید نے ان کے مرثیہ میں بصراحت یہ سنہ لکھا ہے۔ دوسرے حسین ذوقی نے شمس العاشق سے یہ سنہ نکالا ہے۔‘‘ مرثیہ کے اشعار پر آپ نے اعتراض کیا ہے کہ اس میں میراں جی کا نام نہیں۔ مرثیہ بہت طویل ہے، اس لئے میں نے صرف وہی اشعار اپنے مضمون میں درج کئے تھے جن میں سنہ وفات کا ذکر تھا ویسے میں نے اس مرثیے میں میراں جی کا نام دو تین جگہ لیا ہے۔ چنانچہ پہلے شعر میں ہی کہتا ہے: شاہ میراں جی جگ رتن سو ہے رتن مجھ دل کندن لیتا چھتا اپنی اذن جو کچھ حکم الٰہی کاً دوسری جگہ لکھتے ہیں: سو ہی میراں منجہ سر ہے اسی روز گار دستگیر ہے تجبن میں نے سیر ہے جیکجہ حکم الٰہی کا تجھ سو زیر ہی داغ پر جیوں موم گلتا آگ پر یوں دو کہہ لکھیا منجھ بھاگ پر جیکچہ حکم الٰہی کا شاہ حسین ذوقی کی تاریخ پر آپ نے شبہ ظاہر کیا ہے اور لکھا ہے۔’’ شمس العاشق‘‘ کا لقب عطائے رسول ہے اور بہت قدیم ہے۔ اس کا حوالہ مجھے نہیں ملا۔ آپ نے جو نسل نامہ میراں جی کا اپنے قلم کا لکھا ہوا نقل کیا ہے۔ اس میں کہیں اس لقب کا ذکر نہیں۔ البتہ ایک دلیل آپ کی بہت قوی ہے کہ خود میراں جی نے اپنی تحریر میں لکھا ہے ’’ ہر حکم پیر فقیر در عہد علی عادل شاہ آمدہ۔۔۔۔ ساکن و مقیم شوم‘‘ یہ امر تحقیق طلب ہے کہ یہ تحریر خود انہیں کی ہے؟ اس میں مجھے شبہ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی صاحب تحقیقی موضوعات پر اپنے ہم عصروں سے تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے اور کسی دوسرے کی رائے میں اگر وزن ہوتا تھا تو وہ ان کے لئے قابل قبول بھی ہوتا تھا مثلاً مولانا محوی صدیقی نے مولوی عبدالحق کو ان کی تالیف ’’ قواعد اردو‘‘ کے سلسلے میں چند اضافوں کی تجویز پیش کی تو انہوں نے ان مشوروں پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے خط مرسلہ 12جون 1933ء میں تحریر کیا: ’’ مشورہ کا شکریہ۔۔۔۔۔ قواعد اردو کا جب نیا ایڈیشن شائع ہو گا تو اس کا ضرور خیال رکھوں گا اس میں معانی و بیان صنائع بدائع وغیرہ کا اضافہ کر دیا جائے گا۔‘‘ مولانا محوی صدیقی نے اردو علم و ادب کی بہت خدمت کی ہے اور ساری زندگی اردو کی محبت و خدمت میں گذار دی۔ شاعری، تدوین، تراجم ترتیب اور تحقیق غرض کوئی شعبہ ایسا نہ چھوڑا جس پر قلم نہ اٹھایا ہو۔ مختلف النوع تقریباً تیس تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ ان میں اکثر مولوی عبدالحق کی تحریک اور خواہش پر لکھی گئی ہیں۔ انتخاب مومن، سودا، ظفر، آتش، رند، ناسخ اور خواجہ و زیر وہ موضوعات تھے جس پر مولوی صاحب، محوی صاحب سے بار بار تقاضہ کرتے رہے اور مواد کی فراہمی میں ان کی اعانت کی مولوی عبدالحق نے اس ضمن میں بھی انہیں 27اگست1940ء کو لکھا: ’’ قاقشال کا تذکرہ حیدر آباد سے طبع ہو چکا ہے۔ کئی سال ہوئے۔ یوسف زلیخا ہاشمی کا نسخہ بھیجتا ہوں۔ دیوان ابن یمین ایران میں طبع ہو چکا ہے۔ غالباً میرے پاس قلمی نسخہ بھی ہے مہربانی کر کے یوسف زلیخا کا نسخہ مقابلہ کر کے واپس کر دیا جائے۔‘‘ مولوی صاحب نے محوی صاحب کی صلاحیتوں سے رسالہ ’’ اردو‘‘ میں بھی استفادہ کیا ہے بالخصوص شعری مجموعوں پر تبصرے ان کے سپرد کئے اور ان کے کئے ہوئے تبصروں میں ان کا اشارتی نام م، ح یا صرف م ہے۔ ’’ رفتار ادب‘‘ اور ’’ بادہ کہن‘‘ پر بھی ان ہی کی رائے سے عمل ہوتا رہا۔ مولوی عبدالحق نوجوان نسل کے رحجانات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے جب وہ ’’ انسائیکلو پیڈیا‘‘ کے لئے اردو ادب کے موضوع پر ایک مقالہ تحریر کرنے لگے تو اپنے خیالات کا موازنہ کرنے کے لئے ڈاکٹر عبادت بریلوی سے اس موضوع پر رائے لینی چاہی۔ انہیں2جون 1956ء کو تحریر کیا: ’’ میں نے اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے لئے اپنا مقالہ ’’ اردو‘‘ پر لکھ دیا ہے۔ میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ جدید عہد کے چوٹی کے نقاد، افسانہ نگار اور شعرا کے نام مع مختصر خصوصیات لکھ بھیجئے۔۔۔۔ آپ نے وعدہ کیا تھا مگر بھول گئے یوں تو میں نے یہ سب کچھ لکھا دیا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج کل کے نوجوانوں کے خیالات کا میں ان سے اپنے بیانات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے تذکروں میں فن شاعری کے موضوع پر مولوی عبدالحق سے رہنمائی چاہی تو انہوں نے 16مئی 1946ء کو نہیں بتایا: ’’ اردو تذکروں میں فن شاعری پر شاید ہی کہیں بحث ہو۔ البتہ شعر کے متعلق کبھی کبھی کچھ لکھ جاتے ہیں۔ سب سے قدیم شخص جس نے اس بارے میں چند شعر لکھے ہیں وہ وجہی ہے۔ آپ اس کی مثنوی قطب مشتری دیکھئے اس کے دیباچہ میں، میں نے اس کا ذکر کیا ہے۔‘‘ میر تقی میر نے اپنے تذکرے نکات الشعراء میں شعر کے متعلق تو نہیں البتہ ریختہ کے متعلق بعض خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مولوی عبدالحق جب تحقیقی و تصنیفی کام کسی کے سپرد کرتے تو اس سے بالکل بے تعلق نہیں ہو جاتے تھے بلکہ کام کی تکمیل تک اس سے مسلسل رابطہ رکھتے۔ جلد مکمل کرنے کا تقاضہ کرتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کی اسی مشفقانہ تربیت کا نتیجہ ہے کہ تحقیق و تالیف اور تراجم کے ذریعہ اردو ادب مالا مال ہوا ہے۔ ان ہی بلند پایہ کاموں میں ایک کارنامہ کارل مارکس کی شہرہ آفاقی کتاب ’’ داس کیپٹال‘‘ کا وہ ترجمہ بھی ہے جو انہوں نے سید محمد تقی کے سپرد کیا تھا۔ اس ترجمہ کی تکمیل کے موقع پر مولوی صاحب پر جو کیفیت طاری ہوئی اس سلسلے میں سید محمد تقی تحریر کرتے ہیں: ’’ میں علمی مسرت اور خوشی کے ان آنسوؤں کو کبھی نہیں بھلا سکتا جو انجمن ترقی اردو کے صدر کی آنکھوں میں اس وقت چمکے تھے جب انہوں نے مارکس کی کتاب۔۔۔۔۔۔ داس کیپٹیال کا ترجمہ سنا تھا۔ وہ پچھلے چالیس سال میں بار بار اس کتاب کا تراجمہ کرانے کی سعی کرا چکے تھے اس مقصد کے لیے چند آدمیوں کا بورڈ بھی کام کر چکا تھا لیکن یہ مساعی کامیاب نہ ہو سکیں۔۔۔۔ انہوں نے ’’ داس کیپیٹال‘‘ کا ترجمہ بغور سنا چند مفاہیم کی وضاحت چاہی اور یہ اندازہ لگا کر کہ ’’ کیپیٹال‘‘ کو اردو میں منتقل کرنے کا کام ہو گیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو چمکنے لگے۔ یہ علم کی محبت کے آنسو تھے یہ فکری ارتقاء کی کامیابی کی مسرت تھی جو ان کی آنکھوں میں چمک رہی تھی۔‘‘ غرض کہ مولوی عبدالحق ان محققین میں سے ہیں جنہوں نے سرسید، حالی، شبلی اور ان کے رفقاء کار کی تحقیقی کاوشوں کو آگے بڑھانے میں خاص کردار ادا کیا۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی سعی سے تحقیق اردو میں ایک مستقل شعبہ ادب کی حیثیت اختیار کر گئی۔ مولوی صاحب نے سیاق و سباق کے حوالوں کی روایت ڈالی اور اپنے تحقیقی عمل سے سہل انگاری کی نفی کی اور اپنے زیر اثر ایک ایسا حلقہ چھوڑ گئے جس نے تحقیقی کام کو آگے بڑھانے میں اہم فریضہ انجام دیا جس کا تفصیلی ذکر اگلے باب میں کیا گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ حواشی 1مولوی عبدالحق کا مرتبہ از ڈاکٹر معین الرحمان ’’ برگ گل‘‘ (بابائے اردو نمبر) کراچی،16 اگست1963، ص243-244 2’’ خطبات عبدالحق‘‘ (اشاعت ثانی) مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی، کراچی، انجمن ترقی اردو 964ء ص452 3’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی، کراچی، مکتبہ اسلوب،1963ء ص10 4ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی، اگست1970ء ،ص131-132 5’’ مولوی عبدالحق‘‘ از شاہد احمد دہلوی، ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی 16اگست1964ء ص22-23 6’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، کراچی، انجمن ترقی اردو 1953ء ص54-55 7’’ خطبات گارسان دتاسی‘‘ (اشاعت ثانی) مقدمہ مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو 1979ء ص21 8ایضاً ص19 9’’ خطبات گارسان دتاسی‘‘ پر ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین نے بھی کام کیا ہے وہ تحریر کرتے ہیں: ڈاکٹر ثریا حسین نے 155کتابوں اور مقالات کا کھوج لگایا ہے ڈاکٹر حمید اللہ نے مزید تین کا اضافہ کیا ہے راقم نے اس تعداد میں ترمیم و اضافہ کاے ہے۔ (تعلیقات ’’ خطبات گارسان دتاسی‘‘ از ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین، لاہور مجلس ترقی ادب 1987ء ص4) 10’’ بابائے اردو اپنے ایک قدیم دوست کی نظر میں‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن، ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی 16اگست ص132 11’’ پروفیسر محمد اقبال پروفیسر اورینٹل کالج لاہور‘‘ (مارچ1923ء تا مئی1948) بحوالہ ’’ تاریخ اورینٹل کالج‘‘ مرتبہ ڈاکٹر غلام حسین، لاہور، جدید اردو ٹائپ پریس 1962ء ص166 12’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی، کراچی، مکتبہ اسلوب1963ء ص267 13ایضاً ص273 14ایضاً ص531 15ایضاً ص532 16ایضاً ص534 17’’ اردو مصفے‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور، سید ابو تمیم فرید آبادی 1961ء ص357-358 18ایضاً ص134 19’’ اردو مصفے‘‘ میں’’ پوچھتے ہو‘‘ ہی تحریر ہے 20’’ اردو مصفے‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق جوبلی کمیٹی سید ابو تمیم فرید آبادی، لاہور 1961ء ص357-358 21ایضاً ص363-364 22’’ مکاتیب عبدالحق بنام محوی‘‘ مرتبہ عبدالقوی دسنوی کراچی، انجمن ترقی اردو 23ایضاً ص36-37 24مولوی عبدالحق کا یہ مقالہ ’’ اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ جلد2طبع اول مطبوعہ دانش گاہ پنجاب لاہور،1966ء میں س331تا369شائع ہوا۔ 25’’ خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ لاہور ادارہ اشاعت مخطوطات و ادارہ ادب و تنقید1984ء ص275 26ایضاً ص33 27’’ اردو تاریخ نئے موڑ پر‘‘ از سید محمد تقی، ماہنامہ ’’ الشجاع‘‘ (عبدالحق نمبر) کراچی اگست 1959ء ص45 ٭٭٭٭٭٭ آٹھواں باب اردو تحقیق پر مولوی عبدالحق کے اثرات مولوی عبدالحق کی بے پناہ تحقیقی کاوشوں اور ان تھک محنت کا ا ثر ان کے ہم عصروں نے بھی قبول کیا اور ان کی دیکھتی آنکھوں محققین کی ایک جماعت کی جماعت تحقیقی میدان میں اتر آئی۔ ان میں اکثر ایسے محقق ہیں جنہوں نے مولوی صاحب کے ہی تحقیقی اصولوں کو اپنایا اور بعض نے تو مولوی صاحب موصوف کے موضوعات پر نئی دریافتوں کے ذریعہ تحقیق کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا بقول پروفیسر طاہر فاروقیـ: ’’ مولوی صاحب تحقیق، تنقید، تصنیف اور لسانی خدمت کی صورت میں جو کچھ کر چکے یا کر رہے ہیں وہ نا قابل فراموش کارنامہ ہے۔ لیکن اس سے کم درجہ نہیں ان اثرات کا جو آپ نے طویل زمانے میں دوسروں پر ڈالے کتنے ادیب، نقاد اور محقق ہیں جو مولوی صاحب کے آغوش میں تربیت پا کر آپ کی تحریروں سے متاثر ہو کر آپ کی روش پر چلے اور ہمارے آسمان ادب پر چمکے۔‘‘ اور اس طرح مولوی عبدالحق نے سرسید، شبلی اور حالی سے اردو ادب کی خدمت کا جو جذبہ اور تحقیق کی لگن حاصل کی تھی وہ اپنی ذات تک محدود نہیں رکھی بلکہ اپنی شخصیت کی بنیادی خصوصیات کو نئی نسل میں منتقل کرنے کی کوشش کی چنانچہ حافظ محمود شیرانی، محی الدین قادری زور، نصیر الدین ہاشمی، قاضی عبدالودود، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، شیخ چاند اور پیر حسام الدین راشدی جیسے محقق سامنے آئے ان لوگوں نے بھی مولوی عبدالحق کی روش کو اختیار کر کے تحقیق کو بطور شعبہ اردو اپنایا ان لوگوں کی تحقیقی کاوشوں کا اجمالی ذکر درج ذیل ہے۔ حافظ محمود شیرانی (5اکتوبر1880ء تا 15فروری 1946ئ) حافظ محمود شیرانی5اکتوبر1880ء کو ریاست راجپوتانہ میں ٹونک کے مقام پر پیدا ہوئے 1901ء میں اورینٹل کالج لاہور سے فاضل فارسی کیا اور 1904ء میں لنکران کالج انگلستان بیرسٹری پڑھنے چلے گئے۔ اس کالج سے انہوں نے رومن لائ، آئینی قانون اور تاریخ قانون میں امتحان پاس کیا1908ء میں لندن کو لوزک اینڈ کمپنی میں اسلامی مخطوطات اور آثار عتیقہ کے مشیر کی حیثیت سے مالزم ہو گئے اسی کمپنی کے دوران ملازمت انہیں تحقیق کا چسکا پڑا اور آثار عتیق اور مخطوطات سے جو لگاؤ ہوا وہ مرتے دم تک دم ساز رہا۔ لندن کے دوران قیام میں1905ء سے ہی ان کی بہت سے نظمیں اور مضامین ’’ مخزن‘‘ لاہور کی زینت بننا شروع ہو گئے تھے لیکن باقاعدہ تحقیقی و علمی زندگی کا نقطہ آغاز ڈاکٹر ہنری اسٹب کی کتاب ’’ طلوع اور عروج اسلام‘‘ کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں تھی اس کتاب کو انہوں نے 1911ء میں اپنے ضمیمہ کے ساتھ مرتب اور ترجمہ کر کے ’’ لوزک اینڈ کمپنی‘‘ لندن کے زیر اہتمام شائع کیا تھا اس کے بعد1928ء میں ’’ پنجاب میں اردو‘‘ 1933ء میں ’’ مجموعہ نثر،1942ء میں فردوسی پر چار مقالے اور ’’ تنقید شعر العجم‘‘ 1943ء میں ’’ پرتھی راج راسا‘‘ 1944ء میں ’’ خالق باری‘‘ شائع ہوئی۔‘‘ 1920ء سے 1945ء تک تحقیقی موضوعات پر ان کے مقالات مختلف ادبی جرائد میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے ان جرائد میں رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد دھلی اور ’’ اورینٹل کالج میگزین ‘‘ لاہور قابل ذکر ہیں1966ء سے 1976ء کی درمیانی مدت میں’’ مجلس ترقی ادب‘‘ لاہور نے ان بکھرے ہوئے مقالات کو ان کے پوتے مظہر محمود شیرانی سے مرتب کرا کے شائع کیا ’’ مکاتیب حافظ محمود شیرانی‘‘ بھی مظہر محمود شیرانی نے مرتب کئے اور ’’ مجلس یادگار شیرانی‘‘ لاہور کے زیر اہتمام شائع کئے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کا کہنا ہے: ’’ پروفیسر شیرانی نے تھوڑے ہی عرصہ میں جو بڑے بڑے کام کر دکھائے، ان میں ایک امر لائق توجہ یہ ہے کہ انہوں نے ارزاں تصنیف اور سہل الحصول مورخانہ خامہ فرسامی کے راستے بند کر دئیے۔ تاریخی تحریروں پر سخت اور کڑی تنقید کر کے لکھنے والوں میں ذمے داری کا احساس پیدا کیا مصنفوں کو محنت کا عادی بنایا اور قدیم ادب کو سمجھنے کا ایسا گر بتایا جو لوگوں کو اگر معلوم بھی ہوتا تو اس پر عمل نہیں ہوا کرتا تھا۔‘‘ لسانی تحقیق اور مطالعہ میں حافظ محمود شیرانی کی شہرہ آفاق کتاب ’’پنجاب میں اردو‘‘ ہے یہ کتاب حافظ صاحب نے اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل عبداللہ یوسف علی کی فرمائش پر لکھی تھی اور اسے سب سے پہلے انجمن ترقی اردو اسلامیہ کالج لاہور نے1928ء میں شائع کیا تھا حافظ صاحب لکھتے ہیں: ’’ جب پرنسپل عبداللہ یوسف علی نے مجھ سے اردو کے آغاز و قدامت کے موضوع پر لکھنے کے لیے ارشاد کیا تو میں نے ان سے عرض کی تھی کہ ’’ مضمون اگرچہ دلچسپ ہے لیکن اس پر ہماری موجودہ معلومات کی روشنی میں قلم اٹھانا قبل از وقت معلوم ہوتا ہے ‘‘ اور صحیح اطلاعات کی بہم رسانی کے لیے شاید ابھی ایک عرصہ درکار ہو گا۔۔۔۔۔!‘‘ حافظ محمود شیرانی نے اس کتاب کو اس دلیل کی روشنی میں تصنیف کیا ہے کہ افغانستان کے راستے حملہ کرنے والے پنجاب میں آ کر دم لیتے تھے اور یہاں کے لوگوں سے میل جول اور بول چال کے نتیجہ میں فارسی اور پنجابی کے اختلاط سے اردو معرض وجود میں آئی اس سلسلے میں انہوں نے دونوں زبانوں کے لسانی روابط، قواعد کے اشتراک اور پنجابی و اردو کے افعال و اسماء کی یکسانیت کے حوالوں سے دلائل دئیے ہیں حافظ محمود شیرانی سے قبل برج بھاشا کو اردو کا ماخذ تصور کیا جاتا تھا حافظ صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ جب ہم اردو کے ڈول میں اس کی ساخت اور وضع قطع کو دیکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا ڈھنگ اور ہے اور برج بھاشا کا رنگ اور ہے۔ دونوں کے قواعد و ضوابط و اصول مختلف ہیں۔ اردو برج بھاشا کے مقابلہ میں پنجابی اور بالخصوص ملتانی سے مماثلت قریبہ رکھتی ہے برج سے چند ترمیمیں قبول کر لینا یا الفاظ کا مستعار لینا دوسری بات ہے لیکن جہاں تک برج سے اس نے الفاظ مستعار لیے ہیں وہاں برج پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے اور برج پر کیا موقوف ہے ہندوستان کی دوسری زبانیں بھی اردو کے پر تو سے خالی نہیں۔‘‘ شیرانی صاحب نے اس کتاب کی تصنیف کے لیے فارسی اور عربی کے بتہ سے مصنفین کی تصانیف و تالیفات سے اردو الفاظ، محاورات اور امثال کا مواد اخذ کیا ہے۔ شیرانی صاحب کی اس کاوش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو کے سلسلے میں اسی نہج سے صوبائی اور علاقائی کڑیاں سامنے آئیں اور دکن میں اردو، گجرات میں اردو، سرحد، بنگال، بہار میں اردو کے موضوعات پر کتابیں لکھی گئیں اور ان لوگوں نے تاریخی معلومات کو بہن پہنچایا مولوی عبدالحق نے جولائی 1928ء کے رسالہ ’’ اردو‘‘ میں ’’ پنجاب میں اردو‘‘ پر جو تبصرہ کیا وہ حافظ شیرانی کی توقعات کے بر خلاف تھا چنانچہ شیرانی صاحب نے ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے نام اپنے ایک خط میں تحریر کیا: ’’ عبدالحق صاحب کے تبصرے نے مجھ کو سخت مایوس کیا ہے میں اس کو بیداد سمجھتا ہوں۔‘‘ ہر چند کہ مولوی عبدالحق نے حافظ محمود شیرانی کی اس تصنیف پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کو اردو دان طبقہ کے لیے قابل فخر قرار دیتے ہوئے لکھا تھا: ’’ انہوں نے ایسی تحقیق کی ہے جو نہایت قابل قدر ہے۔ اس میں شمالی ہند اور پنجاب کے قدیم اردو لکھنے والوں کو جو انہوں نے کھوج لگا کر نکالا ہے، وہ بالکل نئی چیز ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی ادبی اور لسانی نکات ایسے پائے جاتے ہیں جو ہر لحاظ سے لائق تحسین ہیں۔‘‘ حافظ محمود شیرانی کا ایک تحقیقی کارنامہ ’’ شاہنامہ فردوسی اور محمود غزنوی‘‘ کے موضوع پر مقالات ہیں ان مقالات کا آغاز انہوں نے ’’ شاہ نامے کے نظم کے اسباب و زمانہ‘‘ (مطبوعہ ماہنامہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد) جولائی 1921ء سے کیا۔ اس کے بعد ’’ ہجو سلطان محمود غزنوی‘‘ ماہنامہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد میں اپریل 1922ء فردوسی کا مذہب جنوری 1935ء ’’ دیباچہ قدیم شاہنامہ‘‘ اورینٹل کالج میگزین لاہور کے شمارہ فروری 1928ء ’’ شاہ نامے کا دیباچہ قدیم‘‘ فروری 1929ء اور ’’ شاہ نامے سے فردوسی کے حالات‘‘ فروری1930میں شائع ہوئے۔ شاہنامہ فردوسی اور سلطان محمود کے سلسلے میں صدیوں سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ محمود غزنوی کے ایما اور انعام و اکرام کے صلے کی خاطر ’’ شاہ نامہ‘‘ لکھا گیا تھا لیکن محمود اپنے وعدے سے مکر گیا اور اس عہد شکنی کی سزا دینے کے لئے فردوسی نے ہجو کہی تھی حافظ محمود شیرانی نے اپنے ان مقالات میں داخلی اور تاریخی شہادتوں سے محمود غزنوی کو بری الزمہ ثابت کیا ہے اس ضمن میں انہوں نے دلیل دی ہے کہ سلطان کی وفات421ھ میں ہو چکی تھی جب کہ فردوسی کے شاہ نامہ کی تاریخ اختتام423ہجری ہے سجاد مجو کہ لکھتے ہیںـ: ’’ پروفیسر شیرانی نے اس ہجو میں کئی ایسے اشعار کی نشان دہی کی ہے جو ’’ دیباچہ شاہ نامہ‘‘ اور ’’ مقدمہ یوسف زلیخا‘‘ سے لئے گئے ہیں ایک شعر جو ہجو مذکورہ کے علاوہ ’’ مجلس المومنین بمبئی ‘‘ اور نو لکشوری نسخوں کی ہجو میں بھی ملتا ہے۔‘‘ شیرانی صاحب نے فردوسی اور اس کے شاہ نامہ پر کام کرنے کے لیے شاہ نامے کے مختلف مخطوطوں کا تقابلی مطالعہ کیا تھا۔ ان نسخوں میں بعض ایران، عرب اور ہندوستان کے کاتبوں کے لکھے ہوئے تھے وہ شاہنامے کے مروجہ نسخے کو اپنے تقابلی مطالعہ کی بنیاد پر ناقابل یقین قرار دیتے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں اپنے ایک مکتوب بنام مولوی عبدالحق تحریر کیا: ’’ میں ایک عرصہ سے شاہنامہ فردوسی پر کام کر رہا ہوں اور وقتاً فوقتاً اس پر مضامین بھی لکھتا رہتا ہوں جن میں سے بعض شائع ہو گئے ہیں اور باقی شائع ہونے کے منتظر ہیں جہاں تک فردوسی کے حالات اور زمانہ کے متعلق کام کیا ہے وہاں شاہ نامہ کے متن پر بھی نگاہ ڈالی ہے اور ایک طویل مطالعہ کے بعد یہ رائے قائم کی ہے کہ مروجہ شاہنامے چنداں قابل اعتبار نہیں ہیں ان میں کچھ ترمیم و اصلاح کی ضرورت ہے مختلف قلمی نسخوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اور مطبوعہ شاہناموں میں نمایاں اختلاف ہے۔‘‘ حافظ صاحب مروجہ نسخوں کو ٹرنر میکن کے نسخے مطبوعہ 1829ء کلکتہ سے ماخوذ و مقلد قرار دیتے ہیں ان کی نظر میں متذکرہ نسخے بذات خود ستم کا شکار رہے وہ اس نسخے میں مندرجہ ذیل نقائص کا خصوصیت سے ذکر کرتے ہیں: 1الحاق: اس سے میرا مقصد ہے کہ اس میں ایسے اشعار بھی موجود ہیں جو فردوسی سے تعلق نہیں رکھتے۔ 2منسوخ: اس سے مراد ہے کہ مختلف موقعوں پر فردوسی کے اصل اشعار خارج کر دئیے گئے ہیں 3اختلافی: اس سے میرا مطلب ہے کہ فردوسی کے اصل کام میں جا و بیجا اصلاح کی گئی ہے۔ 4بے ربطی: یعنی اشعار میں مختلف مقام پر ربط بیان میں تقدیم اور تاخیر پائی جاتی ہے جو شعر پہلے آنا چاہیے بعد میں لکھا گیا ہے اور جو بعد میں لایا جاتا پہلے آ گیا ہے۔ حافظ محمود شیرانی کے ان مقالات نے ادبی اور تحقیقی دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی اور اس دور کے ارباب علم و ادب نے اسے بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا۔ اس بات کا اندازہ مولوی عبدالحق کے مکتوب محررہ26نومبر1921ء سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ میں نہایت خوشی سے آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ کے مضامین نہایت وقعت اور قبولیت کی نظر سے دیکھے گئے ہیں خصوصاً ہجو محمود کا مضمون اس کے متعلق متعدد خطوط میرے پاس پہنچے۔ مولوی حبیب الرحمن خان صاحب شیروانی نے لکھا ہے کہ لکھنے والے کے ہاتھ چوم لینے چاہئیں اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کی کاوش و جستجو اور تنقید ہر طرح قابل تحسین اور لائق قدر ہے یہ مضامین اردو زبان میں بالکل نے ہیں اور جو ڈھنگ آپ نے تنقید کا اختیار فرمایا ہے اس سے ہمارے ہاں کے انشا پرداز اور ادیب بالکل نا واقف ہیں۔‘‘ شاہ نامے اور اس کے مصنف کے سلسلے میں حافظ محمود شیرانی جو لکھ لکھ گئے ہیں وہ فی الحال نا قابل تردید ہے۔ شیرانی نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ فردوسی نے شاہنامہ کے علاوہ ’’ یوسف زلیخا‘‘ کے عنوان سے کوئی نظم بھی کہی تھی۔ ’’ تنقید شعر العجم‘‘ پر اکتوبر1922ء سے جنوری1927ء تک رسالہ ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد میں حافظ محمود شیرانی کے تنقیدی مضامین کا قسط وار سلسلہ جاری رہا۔ بعد میں یہ مقالات کتابی شکل میں 1943ء میں انجمن ترقی اردو دھلی کے زیر اہتمام شائع ہوئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شبلی پر یہ تنقیدی مضامین ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت لکھے گئے جس کا مقصد شبلی کے رتبہ کو کم کرنا تھا۔ اس کا محرک مولوی عبدالحق کو تصور کیا جاتا تھا لیکن حافظ صاحب نے ان دونوں الزامات کی تردید کرتے ہوئے لکھا: ’’ میں نہایت وثوق سے عرض کرتا ہوں کہ تنقید ہذا مولانا شبلی مرحوم کی فضیلت علمی کی منقفت نہیں ہے بلکہ محض احتجاج ہے اس مروجہ روش کے خلاف جس میں ہمارے مصنفین تحقیق کے بجائے تقلید اور عقل کی جگہ نقل سے کام لیتے ہیں ہم تاریخی واقعات اور سوانح و حالات لکھتے وقت اس قدر تکلیف گوارا نہیں کرتے کہ ان کو نقد و نظر کی کسوٹی پر رکھ لیں اور ان کی صحت و درستی کے متعلق اپنا اطمینان کر لیں ان بزرگوں کے ساتھ بھی اتفاق نہیں کرتا جو شعر العجم کو حسن و عشق کا صحیفہ کہہ کر تاریخی پہلو کی اہمیت کو گھٹانا اور تنقید کی ضرورت کو اس سے مٹانا چاہتے ہیں۔‘‘ حافظ صاحب بطور محقق صرف ایک تیز و تند و بے رحم تنقید نگار ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے زیر تحقیق و تنقید موضوعات اور ان کے مصنفین کی علمی قابلیت کی تعریف و توصیف بھی کی ہے مولانا شبلی نعمانی کی ’’ شعر العجم‘‘ کے سلسلے میں بھی ان کا یہ متوازن طریق کار قائم ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ علامہ شبلی مرحوم زمانہ حال کے چند چند مستند افاضل میں سے ہیں جن کا وجود مسلمانوں کے لیے ہمیشہ مایہ ناز رہے گا۔ ان کی متعدد تصانیف نے آسمان علم پر ان کو آفتاب بنا کر چمکایا ہے۔۔۔۔ فارسی نظم کی تاریخ میں اردو زبان کی بے بضاعتی محسوس کر کے علامہ نے شعر العجم تصنیف کی اس موضوع پر اب تک فارسی اور اردو میں جس قدر کتابیں لکھی گئی ہیں، شعر العجم ان میں بغیر کسی استثنا کے بہترین مانی جا سکتی ہے۔ ملک نے بھی اس کی قدر کرنے میں حوصلہ سے کام لیا۔‘‘ باوجود اس کے کہ شیرانی صاحب کا خیال تھا کہ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی اس کتاب میں مورخانہ اور محققانہ فرائض کی نگہداشت میں غفلت برتی ہے اور دسترس کے باوجود ماخذ پر گرفت نہیں کی اور تلاش و تحقیق کے جذبے سے عاری رہے نتیجتاً بعض واقعات میں تضاد کا شکار ہوئے اور بعض جگہ تاریخی کے بجائے افسانوی واقعات نے تحقیق میں جھول ڈال دیا ہے۔ وہ ماخذ کا ذکر صاف اڑا گئے ہیں اور بعض ماخذ نہایت کمزور ہیں حافظ شیرانی لکھتے ہیں: ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے اس میں حصہ شعر العجم کے لیے (جو اس مضمون کے دوران میرے زیر نظر ہیں) مجمع الفصحا اور تذکرہ دولت شاہ پر زیادہ اعتماد کیا ہے، ان تصانیف میں ہر قسم کا رطب و یا بس نظر آتا ہے میرے خیال میں لباب الالباب محمد عونی ’’ بزم آرا‘‘ یا مخزن الفرائب زیادہ مفید ہوتیں، پچھلی دونوں کتابوں سے مولانا واقف نہیں معلوم ہوتے البتہ ’’ لباب الالباب‘‘ کا نام فہرست کتب میں سب سے اول ہے جسے لب لا لباب ‘‘ عوضی یزدی (کدا) کے نام سے یاد کیا ہے۔ شیرانی صاحب مولانا شبلی کے اس بیان پر نہیں کہ رود کی نے اتفاقاً بچوں کو اخروٹ کھیلتے دیکھ کر ’’ وزن رباعی‘‘ نکالا تھا ایجاد قرار نہیں دیتے بلکہ چہار بیتی کی ارتقائی شکل کہتے ہیں وہ ان اشعار کو بھی تصور نہیں کرتے جو انہوں نے رود کی سے منسوب کر دئیے ہیں اس طرح انہوں نے شبلی کے دئیے ہوئے بعض سنین کی صحت سے بھی اختلاف کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ میں دیکھتا ہوں کہ تاریخ و سن جو تاریخی معلومات کا ایک نہایت اہم حصہ ہے، اول تو اس کا وہ بہت کم ذکر کرتے ہیں اتفاقیہ اگر ذکر کر بھی دیا ہے تو اکثر حالات میں غلط ہے۔‘‘ اس ضمن میں انہوں نے امیر نصیر کی تخت نشینی کے سن اور اس کی تخت نشینی کی عمر کے سلسلے میں دئیے ہوئے سن کا حوالہ درست قرار نہیں دیا اور تاریخی شہادت سے اس کی تردید کی۔ دقیقی کا نام مولانا شبلی نعمانی نے منصور بن احمد دیا ہے اور اسے بخارا کا رہنے والا بتایا ہے جب کہ شیرانی نے ان کا نام ابو منصور محمد بن احمد، اور بخاری کے بجائے طوسی ثابت کیا ہے۔ شیرانی صاحب مولانا شبلی کے بیانات کے تضاد کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ بعض موقعوں پر دیکھا جاتاہے کہ علامہ شبلی نعمانی کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں بعد میں ایک واقعہ ایسا بیان کر دیتے ہیں جس سے پہلے واقعہ کی تردید ہو جاتی ہے اور ناظر اس شش و پنج میں رہ جاتا ہے کہ ان متضاد بیانات میں سے کسی بیان پر اعتماد کرے۔۔۔۔۔۔ ایک تازہ مثال یہاں گذارش ہوتی ہے فرماتے ہیں:‘‘ ’’ محمودی شعراء اگرچہ بے شمار ہیں لیکن جن ناموروں کو محمود نے ندما میں داخل کر لیا تھا اور جو آسمان سخن کے سیارے تھے یہ ہیں عنصری، فردوسی، اسدی، مسجدی، غفاری، فرخی، منوچہری‘‘ دوسرے موقع پر ارشاد کیا ہے: ’’ محمود کے دربا رمیں چار سو شعراء تھے جن میں فرخی، مسجدی، غفاری، منوچہری جیسے قادر الکلام بھی شامل ہیں‘‘ یہاں دیکھا جاتا ہے کہ دو مقام پر منوچہری محمود کے شعرا اور ندما میں دخل ہے لیکن منوچہری کے حالات میں فرماتے ہیں: ’’ لیکن منوچہری کے دیوان میں سلطان محمود کی شان میں کوئی قصیدہ نہیں، اس سے قیاس ہے کہ وہ سلطان محمود کے مرنے کے بعد غزنین میں آیا اور اس لیے فردوسی کا ہم بزم نہیں ہو سکتا ‘‘ (شعر العجم ص187) حافظ محمود شیرانی نے اس قسم کی تاریخی، واقعاتی اور متضاد بیانات کی بہت سے مثالوں کو پیش کیا ہے اور ان کی تردید میں ثبوت اور شہادتیں پیش کی ہیں کیوں کہ مظہر شیرانی کے مطابق: ’’ شیرانی کے نزدیک دوسرے محققین کی اغلاط کی نشان دہی کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ وہ اس ضمن میں درست واقعات و حقائق کا انکشاف کر کے انہیں ضبط تحریر میں لانا بھی ضروری سمجھتے ہیں‘‘ مولوی عبدالحق نے ’’ قدیم اردو‘‘ کے ضمن میں جنوبی ہند کو اپنا موضوع بنایا تھا اور اس سلسلے میں مرھٹی، گجری اور دکنی ان کی توجہ کا مرکز رہے۔ حافظ محمود شیرانی نے بھی عبدالحق کی راہ پر چل کر ان موضوعات کو چھیڑا۔ اس سلسلے میں ان کا ایک مضمون ’’ گوجری یا گجراتی اردو دسویں صدی ہجری میں‘‘ نومبر1930ء اور فروری 1931ء کے ’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ لاہور میں دو قسطوں میں شائع ہوا تھا ان مضامین میں حافظ محمود شیرانی نے ثابت کیا ہے: ’’ اردو زبان کو ادبی شکل سب سے پہلے صوبہ گجرات میں ملتی ہے یہ صوبہ 696ھ میں سلطنت دھلی کے زیر نگیں آتا ہے اور مسلمان آباد کار اس میں داخل ہوتے ہیں تقریباً ایک صدی تک گجرات دھلی کے تابع رہا، بعد میں آزاد ہو گیا۔۔۔۔۔۔ تیموری تاخت کی بنا پر لوگوں کی ایک کثیر تعداد صوبہ دھلی سے ہجرت کر کے گجرات میں جا کر آباد ہو جاتی ہے۔‘‘ اپنی بات کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لیے حافظ صاحب نے سید برہان الدین ابو محمد عبداللہ قطب عالم (متوفی 857ھ) شاہ عالم عرف شاہ منجھن (متوفی 888ھ) شیخ بہاو الدین باجن (متوفی 912ھ) محمود شاہ بیگڑہ (متوفی917ھ) قاضی محمود دریائی (متوفی920ئ) شاہ جیو گام دھنی(متوفی 973ئ) وغیرہ کے کلام سے حوالے فراہم کئے ہیں۔ اردو کی وسعت کو ثابت کرنے کے لئے اس نہج پر ہریانی اور راجھستانی وغیرہ کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ مولانا محمد امین چڑیا کوٹی نے ’’ خالق باری‘‘ کا مصنف امیر خسرو کو بتایا تھا اور یہ روایت اتنی پکی ہو گئی کہ عرصہ دراز تک اسے خسرو کی ہی تخلیق تسلیم کیا جاتا رہا، مولانا محمد حسین آزاد نے بھی ان کی تقلید کی اور اسے کئی جلدوں پر مشتمل بتایا جب کہ یہ نصابی کتاب دو ڈھائی سو اشعار پر مشتمل ہے شیرانی صاحب نے اس کتاب کا لسانی تجزیہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ زبان کے اعتبار سے یہ کتاب خسرو کی طرز تحریر اور اس کے عہد کی زبان سے علاقہ نہیں رکھتی بلکہ یہ عبدالواسع ہانسوی کی حمد باری سے ملتی جلتی ہے اور ان دونوں کا ایک ہی عہد ہے۔ ’’ پرتھی راج راسا‘‘ عرصہ دراز سے جہلہ اور فضلاء دونوں میں یکساں مقبول تھی اور دونوں طبقوں سے خراج تحسین وصول کرتی رہی۔ محققین اسے پرتھی راج کے عہد سے تعلق رکھنے والے ’’ بروائی‘‘ نام کے مصنف سے منسوب کرتے تھے اس کتاب کو ہندو راجپوتوں کے زمانے، تاریخ اور نسب کا قدیم ترین ماخذ مانا جاتا تھا۔ حافظ محمود شیرانی نے ’’ پرتھی راج راسا‘‘ کے عنوان سے مئی 1927ء تا اگست 1928ء گیارہ قسطوں پر مشتمل ’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا اور اپنی تحقیق سے کتاب کی تالیف و مصنف سے لے کر واقعات تک کو ابتہام اور تالیفی فریب کاری ثابت کیا۔ یہی مقالات ’’ پرتھی راج راسا‘‘ (مطالب و تنقید وغیرہ) کے عنوان سے انجمن ترقی اردو (ہند) دھلی نے 1943ء میں کتابی شکل میں شائع کئے۔ حافظ محمود شیرانی تحریر کرتے ہیں: ’’ راسا ان خوش قسمت مگر جعلی کتابوں میں سے ہے جو اپنے بعض گونا گوں مفروضہ اوصاف کی بنا پر دنیا سے عرصہ دراز تک خراج ستائش و تحسین وصول کرتی رہی اور زمانہ تصنیف سے لے کر اب تک عوام الناس پر اپنے اقتدار کا سکہ جمائے ہوئے ہے۔ اس کے پر ستار اس کو صحیفہ آسمانی سے کم درجہ نہیں دیتے کوئی اس کی قدامت پر مفتوں ہے کوئی اس کی شاعری پر اور کوئی اس کے تاریخی مواد پر۔۔۔۔۔۔ عوام تو درکنار خواص اور محققین پر بھی اس کا جادو چلا۔‘‘ ’’ ہندو مورخین اور محققین کا معاملہ جداگانہ ہے اس کتاب کے جادو سے مسلمان مورخین و محققین بھی محفوظ نہیں تھے یہاں تک کہ مولانا محمد حسین آزاد نے قصص ہندو دیگر تعلیمی کتب میں اس کے بعض مطالب کی اشاعت کی ہے اور اردو زبان کی تاریخ میں سب سے قدیم دستاویز کی حیثیت سے جگہ دی ہے۔‘‘ حافظ محمود شیرانی اس کتاب کی کسی بھی حیثیت اور پہلو سے متفق نہیں ہیں خود کتاب کے اپنے بیانات و مواد میں ایسی شہادتیں ملتی ہیں جسے بنیاد بنا کر شیرانی صاحب نے اسے مضحکہ خیز اور جعلی کتاب ثابت کیا ہے۔ اولاً یہ کتاب پرتھی راج کے عہد کے مصنف ’’ بروائی‘‘ سے منسوب کی جاتی ہے جب کہ اس کتاب میں جن رسم و رواج اور آلات حرب کا تذکرہ ہے و ہ ’’ پرتھی راج‘‘ کے عہد سے کہیں بہت بعد رواج پذیر ہوئے شیرانی صاحب لکھتے ہیں: ’’ راسا کو جدید تصنیف ماننے کے لیے ایک دلیل ہمارے پاس یہ بھی ہے کہ ا س میں متعدد مقامات پر توپ تفنگ، گولوں گولیوں، گولندازوں، زنبوروں اور تھھنال وغیرہ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تالیف ایک ایسے زمانے کی یادگار ہے جب آتشی آلات ہندوستان میں عام تھے۔‘‘ شیرانی صاحب نے بتایا ہے کہ ہندوستان میں آتشی اسلحے کا رواج لودھیوں کے عہد میں نویں صدی کے قرب و جوار میں شروع ہوا اور کہیں اکبر کے عہد میں عام ہوا۔ اس طرح راسا میں تاریخی اغلاط کی بھر مار اور جگہ بھی ملتی ہے خاص طور سے شہاب الدین غوری کے نام کی جو وجہ تسمیہ ’’ راسا‘‘ میں ملتی ہے وہ بڑی مضحکہ خیز ہے راسا کے بقول شہاب الدین کو غوری اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ماں نے شاہی محل سے فرار ہو کر ایک گور (قبر) کو اپنا مسکن بنا لیا تھا شیرانی صاحب اس پر تبصرے کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ گویا شہاب الدین کے گوری (غوری) کہلائے جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے ایک گور میں ولادت اور پرورش پائی تھی نہ وہ وجہ جو مسلمان مورخین بیان کرتے ہیں کہ ملک غور اس کا وطن تھا ایسی نکتہ سنجیاں راسا کے مصنف کی جہالت اور تاریخ سے اس کی بے خبری کا پردہ فاش کرتی ہیں۔‘‘ اسی طرح ’’ راسا‘‘ نے سلطان کے امراء و خواص کے جو نام دئیے ہیں وہ بھی مغلوں سے قبل نہیں تھے اور یہ خالص ایرانی نام ہیں مثلاً بہرم، جہانگیر اور سلیم وغیرہ پرتھی راج کا سیاہی حریف شہاب الدین غوری کو تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ راسا‘‘ نے اپنی تنقید کا ہدف غوری کو رکھا ہے لیکن علمی کمی کا یہ عالم ہے کہ اسے غوری کے اصل نام تک کا علم نہیں ہے سلطان کے حلیفوں میں گکھڑوں کا نام دیا گیا ہے حالانکہ پرتھی راج کے عہد تک ان کا سراغ نہیں ملتا۔ مولوی عبدالحق نے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں کلام مجید کے ایک قدیم نسخے کا ذکر کیا تھا۔ ان ہی خطوط پر شیرانی صاحب نے بھی ’’ قرآن پاک کی ایک قدیم تفسیر‘‘ ڈھونڈ نکالی اور اولاً یہ تفسیر ’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ کے مئی 1932ء کے شمارے میں شائع کرائی۔ شیرانی صاحب نے اس تفسیر کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ یہ تفسیر اپنی قدیم طرز کتابت، مخصوص رسم الخط، حرفی و لسانی خصوصیات و دیگر گونا گوں دلچسپیوں کی بنا پر ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے ہم کو اس میں ایسا ذخیرہ ملتا ہے جو فارسی زبان کی قدیم حالت اور دوسرے خصائص عصری پر جدید معلومات کا حاصل ہے۔۔۔۔ تفسیر ہذا جو کسی بڑی تفسیر کا ایک جزو ہے پارہ الم کے ساتویں رکوع کے نصف سے شروع ہو کر پارہ سیقول کے رکوع دوم کے خاتمہ سے ایک آیت پہلے۔۔۔۔۔۔ پر ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ حافظ صاحب اس نسخے کو کہنہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور نہ ہی اسے جعلی نسخہ تصور کرتے ہیں انہوں نے مختلف راویوں کے ناموں سے اندازہ لگایا ہے کہ یہ تفسیر عصری اعتبار سے چوتھی صدی یا پھر فوراً اس کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ اس فہرست میں اکثر نام قدیم ہیں۔ پچھلے چار نام ایسے ہیں جو چوتھی صدی یا اس کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی نام کم از کم مصنف کے زمانہ کے تعین میں ایک حد تک ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔‘‘ شیرانی صاحب نے راویوں کے ضمن میں داخلی شہادت کی بنیاد پر کہا ہے: ’’ ہم اس کی تاریخی تالیف کو 333ھ اور470ھ کے مابین حصر کر سکتے ہیں۔‘‘ نسخے میں کہیں یہ بھی صراحت نہیں کی گئی کہ اس کا راقم و کاتب کون تھا۔ حافظ محمود شیرانی کی تحقیق کا اردو تحقیق پر صحت مند اثر پڑا اور تحقیقی تنقید نے سل انگاری کی ہمت شکنی کی کیوں کہ بقول ڈاکٹر وحید قریشی: ’’ ان اصحاب کمال کے ہاں تحقیقی کام میں غفلت یا عدم احتیاط جرائم میں داخل تھی اور ایسے موقع پر ان کی گرفت سخت ہوتی تھی اس محاسبے کی زد میں چاہے سید سلمان ندوی ہوں یاپروفیسر حبیب ان کی کڑی تنقید معاف کرنا نہیں جانتی تھی پروفیسر شیرانی کی تنقید شعر العجم، تنقید بر آب حیات، مغلوں سے قبل فارسی ادب، خزائینا لفتوح اسی رحجان کی عظیم یادگاریں ہیں اب چاہے اسے کوئی منفی طریقہ قرار دے، چاہے ظالمانہ کہے حقیقت یہ ہے کہ اسی سخت رویے نے ہمارے تحقیقی معیار کو مدتوں گرنے نہیں دیا اور کسی بڑے سے بڑے محقق کو بھی یہ جرات نہ تھی کہ ’’ طومار نویسی‘‘ کو شعار بنا کر کھر ے کھوٹے کی تمیز مٹا سکے شیرانی کا بے رحم قلم طنز و تعریض کے راستے اپنا کام کر جاتا تھا۔‘‘ اس طرح مولوی عبدالحق نے جس تحقیق کی بنیاد رکھی اسے شیرانی نے ثمر آور بنایا اور کھرے کھوٹے کو پرکھنے کے طریقہ کا رواج دیا۔ ڈاکٹر قاضی عبدالودود (1897ء تا25جنوری1984ئ) حافظ محمود شیرانی کے بعد ڈاکٹر قاضی عبدالودود قابل ذکر محقق ہیں۔ انہوں نے تحقیق میں تنقید کے عنصر کو اہمیت دی بقول خلیق انجم: ’’ تحقیق کے معیار مقرر کئے اور بتایا کہ حقائق کی چھان بین اور واقعات کے بیان میں کس احتیاط سے کام لینا چاہئے قاضی صاحب کے ان تبصروں نے بہت سے محققین کو محتاط کر دیا۔‘‘ قاضی صاحب 1898/1897ء میں پیدا ہوئے فارسی، عربی اور اردو کی تعلیم کے بعد کیمبرج یونی ورسٹی میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی اور وہاں کے علمی اور ادبی حلقوں اور کت خانوں کیمرج سے فیض حاصل کیا۔ انگریزی اور فرانسیسی پر دسترس حاصل کی اور انگلستان سے واپس آنے پر قانون کے پیشے کو اختیار کرنے کے بجائے علم و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور تحقیق کے میدان میں شہرت حاصل کی۔ قاضی صاحب کی مستقل تالیفات و تصانیف اور تدوین میں دیوان رضا، دیوان جوشش، قطعات دلدار، تذکرہ ابن طوفان، قاطع برہان، رسائل متعلقہ عیارسان اور اشتر سوزن شامل ہیں ان کے تحقیقی مضامین لا تعداد ہیں اہم اور قابل ذکر مضامین میں جہان غالب، غالب بحیثیت محقق، آزاد بحیثیت محقق، مولوی عبدالحق بحیثیت محقق، یاد داشت قاضی عبدالودود، سودا، مومن، انشا میر کے علاوہ اردو زبان اور ادب سے متعلق تحقیقات بھی شامل ہیں۔ قاضی صاحب کی تحقیق کا زور مصنفین کی انشا و املا کی غلطیوں کی جانب زیادہ رہتا تھا اور یہ تحقیق تیز و تند تنقید کا لہجہ اختیار کر لیتی تھی اس سلسلے میں خواجہ احمد فاروقی کی ’’ میر تقی میر‘‘ نور الحسن ہاشمی کا ’’ دلی کا دبستان شاعری‘‘ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کا لکھنو کا دبستان شاعری اکٹر اور دنیوی کی بہار میں اردو زبان کا ارتقائ، ’’ مثنویات راسخ‘‘ اور دیوان فدوی پر اسی قسم کی تحقیقی تنقید ہے مولوی عبدالحق کی جو کتابیں ان کی تحقیقی تنقید کی زد میں آئیں ان میں ’’ انتخاب کلام میر‘‘ ’’ نکات الشعرائ‘‘ ’’ گلشن ہند‘‘ خطبات گارساں دتاسی اور ’’ عقد ثریا‘‘ قابل ذکر ہیں ان تصانیف پر تحقیقی تنقید کا سلسلہ 1960/1959ء عیسوی کے سہ ماہی رسالہ ’’ معاصر‘‘ پٹنہ کے شماروں میں جاری رہا۔ قاضی عبدالودود مولوی عبدالحق کی مرتبہ ’’ گلشن ہند‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’ متن بہت غلط ہے مگر مقدمہ نگار کو اس کا مطلقاً احساس نہیں، اگر ہوتا تو طبع دوم میں اس کی تقریباً کل غلطیاں موجود نہ ہوتیں، جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے طبع ثانی شائع کردہ انجمن ہے۔‘‘ اسی طرح ’’ نکات الشعرائ‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق پر ودود صاحب لکھتے ہیں: ’’ وہی دیر وہی بت وہی مالا۔۔۔۔ یہی انشاء اللہ تعالیٰ (کذا) ص45 ڈاکٹر عبدالحق سے استدعا ہے کہ وہ بتائیں کہ یہ شعر کس بحر کا ہے اور دونوں مصرعے ہم وزن ہیں یا نہیں اگرہیں تو تقطیع کس طرح ہو گی۔‘‘ قاضی عبدالودود نے غالب پر تحقیق کے سلسلے میں بڑی شہرت حاصل کی، اس ضمن میں ان کی تحقیق کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ملا صمد کا وجود بطور استاد تاریخی شہادتوں کے اعتبار سے درست نہیں ہے اور یہ غالب کی محض افسانہ طرازی تھی جس کا مقصد اپنے آپ کو بے استاد ہونے کے طعنہ سے بچانا تھا قاضی صاحب نے سارا زور اسی پہلو پر لگایا ہے کہ ملا صمد کا وجود فرضی تھا۔ ان کے اس تحقیقی پہلو پر مظفر علی سید کی رائے ہے: ’’ قاضی عبدالودود کی غالب کے ایرانی نژاد پر تحقیق سے صرف اتنا ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کا فسانہ غالب کی اپنی تصنیف تھا یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا لوگوں کو منہ بند کرنے کے علاوہ اس افسانہ سازی کی کوئی نفسیاتی ضرورت بھی تھی یا نہیں ملا صمد کا وجود عالم خارج میں نہ سہی عالم باطن میں تو تھا لیکن قاضی صاحب کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ایک شاعر کی سوانح لکھنے کے لئے اس قسم کے نفسیاتی واقعہ کی بھی کچھ اہمیت ہو سکتی ہے۔‘‘ قاضی صاحب نے غیر معتبر حوالوں سے گریز، احتیاط اور زبان و بیان کی درستگی پر اتنا زور دیا ہے کہ انہیں تحقیق میں معلم المحققین کے نام سے یاد کیا جانے لگا اور محققین اپنی تحریروں میں احتیاط اور محنت کی روش اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے پروفیسر گیان چند کے الفاظ میں: ’’ قاضی صاحب کو مصمم المحققین یا تنبیہہ الغافلین کہنا چاہئے انہوں نے تحقیق کا جو اعلیٰ معیار مقرر کیا ہے، اس پر بہت کم محقق اور تحقیقی کارنامے پورے اتر سکتے ہیں۔ تحقیق میں غیر معتبر حوالوں اور غیر ثقہ متون سے بچنا اور انتہا کا حزم و احتیاط ان کا شیوہ خاص ہے انہوں نے تحقیق کے بڑے بڑے جغادریوں کے کاموں کا جائزہ لیا اور ان کے پڑخچے اڑا دئیے اردو کی ادبی تحقیق کو جس حد تک قاضی صاحب نے متاثر کیا ہے اتنا کسی اور نے نہیں کیا ان کی تنبیہہ کے خوف سے بڑوں بڑوں کا زھرہ آب ہو جاتا ہے۔‘‘ قاضی صاحب نے تحقیق میں تیز و تند اور بے لاگ تنقید کو رواج دیا لیکن انہیں خود پھر انہیں اصولوں کا شکار ہونا پڑا ان کے تحفظات، طویل طویل حوالوں کا استعمال اور نتائج کی منزل پر پہلو تہی پر بھی سخت گرفت کی گئی۔ ڈاکٹر وحید قریشی کا کہنا ہے: ’’ وہ مختلف KEYS دے کر بات کو گنجلک بنا رہے تھے شروع شروع میں وہ استخراجی نتائج بھی نکالتے تھے جہاں اس کا حل دیکھتے تھے یا تو کہتے تھے کہ کہیں اور بیان کر آیا ہوں یا یہ کہتے تھے کہ میرا مسلک نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ پڑھنے والے کے لئے گورکھ دھندا چھوڑ جاتے تھے دوسرا یہ کہ انتقال کے دس سال پہلے کے عرصہ میں لکھے ہوئے مضامین نکال کر دیکھ لیں انہوں نے جس قدر اقتباسات دئیے ہیں اگر انہیں اٹھا کر واپس رکھ دیں تو مضمون کی جگہ خالی صفحات ہی نظر آتے اور اقتباسات کو جس طرح کی عبارت کا مربوط حصہ بنانا چاہیے وہ نہیں کر سکتے۔‘‘ ان تمام قباحتوں کے باوجود قاضی عبدالودود اردو تحقیق میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور انہوں نے بھی مولوی عبدالحق کی اس تحقیقی تحریک کو آگے بڑھایا ہے جس کے تحت تحقیق بذات خود ایک صنف ادب بنی۔ محی الدین قادری زور (25دسمبر1905ء تا22ستمبر1962ئ) دکنیات پر تحقیق کا آغاز مولوی عبدالحق نے کیا تھا جس کی سب سے گہری چھاپ ڈاکٹر محی الدین قادری زور پر پڑی۔ انہوں نے مولوی عبدالحق کی دکنیات پر تحقیقی روایت کو آگے بڑھانے میں خاص کردار ادا کیا۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ جدید تحقیق کی روشنی میں ’’ دکنی ادب کی تاریخ‘‘ مرتب کر کے محققین کو مستند معلومات بہم پہنچانا ہے۔ زور صاحب 25دسمبر1905ء عیسوی مطابق 8رمضان المبارک 1323ہجری جہاں آباد (حیدر آباد دکن) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دکن میں حاصل کی اور1925ء میں جامعہ عثمانیہ سے ایم اے کرنے کے بعد انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے 1928ء میں ’’ آریائی زبانوں کی لسانی تحقیق‘‘ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی واپس آ کر درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوئے جامعہ عثمانیہ میں اردو کی تدریس کی دار العلوم حیدر آباد اور چادر گھاٹ کالج کے پرنسپل رہے 22ستمبر1962ء کو ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے بے شمار تحقیقی مقالات قلم بند کئے اور بہت سی کتابیں تصنیف، تالیف اور مرتب کیں۔ سرگزشت حاتم، صوتیات، سرگزشت غالب، سلطان محمد قلی قطب شاہ، سلطان محمود غزنوی، گارسان دتاسی اور اس کے ہم عصر بہی خواہاں اردو، عہد عثمانی میں اردو کی ترقی، ہندوستانی لسانیات اور شاد عظیم آبادی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے باغ و بہار، خوب محمد کی مثنوی ’’ خوب ترنگ‘‘ اور احمد حسین مائل کی ’’ بادہ سخن‘‘ مرتب کی ہیں۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور پر جامعہ پنجاب لاہور سے محترمہ تحریم اختر صاحبہ نے ایم اے اردو کے لئے تحقیقی مقالہ 1964ء میں لکھا اور محترمہ سلطان زمان بیگم نزہت اکرام کو ’’ ڈاکٹر زور حیات اور علمی خدمات ‘‘ پر1976ء میں پنجاب یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ ابتدا میں ڈاکٹر زور کا تحقیقی رحجان لسانیات کی جانب رہا ہے اس ضمن میں ان کی تحقیق آج بھی نقش اول ہونے کے باوجود نقش محکم کا درجہ رکھتی ہے اس سلسلے میں ان کی دو تحقیقی کتابیں قابل ذکر ہیں پہلی کتاب ’’ صوتیات‘‘ ہے جس میں جد ید تحقیق اور سائنٹفک طریق کار استعمال ہوا ہے اور اردو کے مصنفین اور محققین کے کارناموں کا جائزہ لیا گیا ہے ان کا دوسرا کارنامہ ’’ ہندوستانی لسانیات‘‘ ہے اس کتاب میں زبانوں کی صوتی تبدیلی اور اس کے اسباب، دنیا کی زبانوں کے خاندان، ہند آریائی گروہ بندی سے بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر محی الدین کی لسانیت پر یہ تحقیق دو حصوں میں تقسیم ہے پہلے حصہ میں علم لسان کے مقاصد، فوائد، تاریخ، ماہیت، آغاز، تشکیل، دنیا کی مختلف زبانوں کے خاندان، ہند آریائی ارتقائ، جدید ہند آریائی زبانیں اور ہند کی آریائی زبانوں پر تحقیق کی گئی ہے جب کہ دوسرے حصے میں اردو کے آغاز، ارتقائ، گجراتی، دکنی اور شمالی ہند کی زبانوں کی دیگر شاخوں، ہندوستانی کی ہمہ گیری اور اردو ہندی جھگڑے کے اسباب و علل کا تذکرہ ہے آخر میں ہندوستانی زبانوں اور اردو زبان کے پھیلاؤ کے نقشے دئیے گئے ہیں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی تحریر کرتے ہیں: ’’ لسانی تحقیق کے دو ذریعے ہیں ایک فلسفی دوسرا تاریخی دونوں کا ساتھ ساتھ چلنا ضروری ہے اگر ان میں ایک بھی کم زور ہو تو تحقیق ناقص ہو گی منطق اور فلسفے کا کام یہ ہے کہ جو مواد حاصل ہو، اس کی تقسیم اور ترتیب کر کے لسانی قوانین دریافت اور اصول قائم کرے، لیکن ضروری مواد کا مہیا کرنا تاریخی ذریعہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے اگر صرف موجودہ زبانوں کی محض موجودہ حالت کو دیکھ کر اصول قائم کر لئے جاتے ہیں تو انہیں زبانوں کی تاریخ پر ایک سرسری نظر اکثر سارے اصول کو تہ و بالا کر دینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر زور نے مندرجہ بالا اصول کے پہلے حصے کے مطابق اپنی تحقیق کی بنیاد استوار کی اس لگن اور محنت سے کام کیا کہ ان کی تحقیق کو ابھی تک آگے نہیں بڑھایا جا سکا۔ وہ اردو کے آغاز کے سلسلے میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں: ’’ اردو نہ پنجابی سے مشتق ہے اور نہ کھڑی بولی سے بلکہ اس زبان سے جو ان دونوں کی مشترک سر چشمہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ بعض باتوں میں پنجابی سے مشابہ ہے اور بعض میں کھڑی بولی سے لیکن مسلمانوں کے صدر مقام صدیوں تک دھلی اور آگرہ رہے ہیں اس لیے اردو زیادہ تر کھڑی بولی سے متاثر ہوتی گئی۔‘‘ ڈاکٹر زور نے ہندوستانی کے ارتقاء کا جائزہ لیتے ہوئے ان تاریخی اور جغرافیائی اسبسب سے بھی بحث کی ہے جو زبان کے مرکزی اختلاف اور تقسیم کا سبب بنے۔ ڈاکٹر موصوف اردو کے پہلے محقق و مصنف ہیں جنہوں نے فرانس کے مشہور مستشرق اور اردو زبان کے محقق ’’ گارساں دتاسی‘‘ کو اردو داں طبقہ میں متعارف کرایا ان کا یہ تحقیقی کارنامہ اس موضوع کو چھیڑنے والوں کے لئے بنیادی ماخذ بن گیا۔ انہوں نے گارسان دتاسی کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے: ’’ وہ پہلا شخص ہے جس نے اردو ادب پر تحقیقات شروع کی اس نے ہمارے مصنفوں اور تصنیفوں پر ناقدانہ نظر ڈالی اور فرانسیسی زبان میں ہندوستانی ادب کی ایک مبسوط تاریخ لکھ کر تین جلدوں میں شائع کی۔‘‘ محی الدین قادری زور نے اس کتاب میں جہاں دتاسی کی خدمات، اس کے کتب خانے کے اردو مخطوطات اور طریقہ تعلیم پر تحقیقی مواد فراہم کیا ہے وہاں یورپ کی اردو درسگاہوں سے بھی قارئین کو متعارف کرایا۔ اس کتاب میں دتاسی کے زمانے کے یورپین اردو اساتذہ اور ان میں ہم عصر مستشرقین کا بھی تفصیلی ذکر ہے ڈکٹر زور کی یہ کتاب اس قدر اہمیت کی حامل بنی اور انہوں نے اس میں اتنا مواد جمع کر دیا کہ دیگر محققین نے اسی کو اپنا ماخذ بنایا۔ یہاں تک کہ مولوی عبدالحق بھی جب گارسان دتاسی کے مقالات اور خطبات چھاپنے لگے تو اس سے بے نیاز نہ رہ سکے اور انہوں نے ان کتابوں میں شامل اپنے مقدمات میں اسے ہی اپنا محور بنایا ڈاکٹر زور لکھتے ہیں: ’’ گارسان دتاسی کے خطبات بھی (1935ء میں) شائع ہو چکے ہیں جن کے آگے مولوی عبدالحق صاحب کا ایک مختصر سا مقدمہ شامل ہے اس مقدمہ میں دتاسی کے حالات اس تذکرے سے نقل کئے گئے ہیں اور اگرچہ ماخذ کا حوالہ درج نہیں کیا لیکن اردو کی دنیا میں یہ کوئی تعجب اور افسوس کی بات نہیں افسوس اس کا ہے کہ ’’ خطبات دتاسی‘‘ پر جیسا مقدمہ لکھنا چاہیے تھا نہیں لکھا تھا۔‘‘ مولوی عبدالحق نے بہت سے مخطوطات گوشہ گمنامی سے نکالے، شعراء کے تذکرے مرتب کئے، کلیات کی تدوین کی اور ادب کی گم شدہ کڑیوں کو جوڑا زور نے بھی مولوی صاحب کی اس راہ کو اختیار کیااور اس روش کو اپنایا اس ضمن میں کلیات محمد قلی قطب شاہ، دکنی مخطوطات، انتخاب کلام میر، شمس الدین محمد فیض، شاد عظیم آبادی ’’ خوب ترنگ‘‘ (مثنوی خوب محمد) اسی قسم کے کارنامے ہیں۔ بقول ڈاکٹر سلطان زمان بیگم نزھت اکرام: ’’ مولوی عبدالحق صاحب اور ڈاکٹر زور کی جدوجہد کا ایک قابل لحاظ حصہ یکساں تھا۔ دونوں نے دکن کے ادیبوں کو تلاش بسیار کے بعد ادبی دنیا سے روشن کیا۔ مخطوطات پر کام کیا دونوں نے اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے تن دہی سے بے لوث خدمت کی زندگی بھر اردو کے فروغ کے لئے کوشاں رہے۔‘‘ ڈاکٹر زور نے شعراء دکن کے تعارف کا سلسلہ شروع کیا تھا اسی سلسلے میں1937ء میں قطب شاہی عہد کے شاعر میر شمس الدین محمد فیض کا منتخب کلام مع اپنے مقدمہ کے شائع کیا تھا۔ اس انتخاب کے ساتھ موصوف نے جو مقدمہ لکھا ہے اس سے اردو شاعری کے چار سو سالہ دور پر روشنی پڑتی ہے انہوں نے ان چار سو سالہ دور کو سات ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ مختلف ادوار میں جن نامور شاعروں کا ذکر ہے ان میں ابن نشاطی، نصرتی، غواص، معانی، ملا وجہی، حسن شوق اور خیالی جیسے نامور شعراء شامل ہیں۔ زور کے ممدوح فیض کا تعلق دکنی شاعری کے چھٹے دور سے تھا وہ 1195ھ میں پیدا ہوئے اور 1269ھ میں وفات پا گئے۔ ان کے عہد کے نامور شعراء میں خاموش، تمیز اور ناجی شامل ہیں میر شمس الدین محمد فیض کا تعارف کراتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں: ’’ حضرت فیض نے مختلف موضوعات پر اتنی کتابیں لکھی ہیں کہ قطب شاہی دور کے بعد حیدر آباد کے کسی بلند مرتبہ اردو شاعر نے نہیں لکھیں۔‘‘ انتخاب فیض کی طرز پر ہی 1937ء میں عہد آصفیہ کے پچاس شاعروں کا تذکرہ ’’ مرقع سخن‘‘ کے عنوان سے تحریر کاے یہ کتاب بھی پانچ ابواب میں تقسیم کی گئی دور اول کا آغاز1150ھ پر کیا گیا۔ الغرض محی الدین زور مولوی عبدالحق کے ان ہم عصروں میں سے ہیں جنہوں نے لسانیات، دکنیات اور قدیم اردو ادب اور مخطوطات کو اپنا موضوع بنایا اور اردو کی ترویج کے لئے بھر پور جدوجہد کی۔ نصیر الدین ہاشمی (15مارچ1895ء تا26ستمبر1964ئ) نصیر الدین 15مارچ1895ء کو حیدر آباد دکن کے ایک ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اسکول کے زمانے سے ہی علم و ادب کا ذوق تھا خود انہی کے بقول: ’’ مجھے تعلیم سے زادہ انجمن ثمرۃ الادب کے سیکرٹری کے فرائض انجام دینے میں دلچسپی ہو گئی تھی جو اس دارالعلوم میں طلبہ کی یونین تھی۔‘‘ لیکن گھریلو حالات اور حیدر آباد دکن کی قحط سالی کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور ملازمت اختیار کر لی 1927ء میں دکھنی ادب پر مواد جمع کرنے انگلستان گئے 1929ء میں انگلستان سے واپس آ کر سینٹرل ریکارڈ آفس سے منسلک ہوئے 1950ء میں بلدیہ حیدر آباد سے پنشن لے کر خالص علمی و ادبی کاموں میں مصروف ہو گئے 26ستمبر1964ء کو ان کا انتقال ہوا ۔ مولوی عبدالحق نے دکنیات پر جس تحقیق کی بنیاد رکھی اس کی ترویج اور ارتقاء میں نصیر الدین ہاشمی نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ان کی تمام تر تحقیق کا محور دکنیات کے گرد گھومتا ہے۔ یورپ میں دکنی مخطوطات، دکن میں اردو، دکنی کلچر، دکنی (قدیم اردو) کے چند تحقیقی مضامین، خواتین دکن کی اردو خدمات، عہد آصفی کی قدیم تعلیم، کتب خانہ آصفیہ کے اردو مخطوطات، مقالات ہاشمی، مدارس میں اردو اسی ضمن کی کڑیاں ہیں ان کے علاوہ بتہ سے تحقیقی مضامین قلم بند کئے۔ نصیر الدین ہاشمی کی جس تحقیقی کتاب نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی و ہ ’’ دکن میں اردو ‘‘ ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1922ء میں شائع ہوئی تھی۔ تحقیق میں کوئی معلومات اور دریافت حرف آخر نہیں ہوتی۔ نئی دریافتیں تحقیق کے افق کو وسیع تر کرتی رہتی ہیں۔ ہاشمی صاحب کے مزاج میں یہی خوبی ہے اس لیے کتاب کی طباعت کے بعد بھی اپنی موضوع کو ختم نہیں کیا بلکہ نئی دریافت اور مواد کے حصول کا عمل جاری رہا۔ نتیجتاً نئے ایڈیشنوں میں اضافے اور ترمیم ہوتی رہی یہاں تک کہ کتاب کی ترتیب ہی بدل کر رہ گئی ہاشمی صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’ یورپ میں جو کچھ مواد فراہم ہوا اس کو ’’ یورپ میں دکھنی مخطوطات‘‘ کے نام سے شائع کیا جا چکا ہے اور پھر اس کے بعد دکنی اردو کے متعلق جو کچھ مزید معلومات فراہم ہوتی گئیں اس کو بھی مختلف مضامین کی صورت میں ہندوستان اور دکن کے مشہور رسالوں میں شائع کر دیا گیا۔ اس طرح آج سے تیس سال کی بہ نسبت جب کہ ’’ دکن میں اردو‘‘ کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا تھا زمین آسمان کا فرق ہو گیا۔‘‘ ’’ دکن میں اردو‘‘ ایک مستقبل سعی و کوشش کا مقدمہ ثابت ہوئی اور ا سکے شائع ہونے کے بعد مختلف اصحاب ذوق اس موضوع کی جانب متوجہ ہو گئے اور اب نتیجہ یہ ہے کہ پرانے نظرئیے بہت کچھ بدل گئے اور جدید معلومات کا بے حد اضافہ ہوا اور اب یہ کتاب ایک جداگانہ صورت اختیار کر چکی ہے۔ ابتدا میں جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اردو کے آغاز و ارتقائ، قطب شاہی و عادل شاہی اور مغلیہ اردو کے بعد صرف سلطنت آصفیہ کے عہد تک چار ادوار کا جائزہ لیا گیا تھا۔ ایک باب ’’ مدراس میں اردو‘‘ سے تعلق رکھتا تھا طباعت ثانی میں جدید مواد کی فراہمی او رنئی معلومات کے اضافے کے بعد اسے سات ابواب تک پھیلا لیا گیا جب کہ اردو کی ابتداء کے مباحث پر مشتمل بیان اس کے علاوہ تھا اس طرح نقش ثانی میں747ہجری سے1370ھ تک کے ان شاعروں اور نثر نگاروں کا ذکر ہے جنہوں نے اردو کی ترویج اور ارتقاء میں نمایاں خدمات انجام دیں نثر نگاروں اور شاعروں کے علاوہ اردو کی ادبی انجمنوں، رسائل اور دیگر اداروں کی کاوشوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ’’ مدراس میں اردو‘‘ کے باب کو اس کتاب سے خارج کر کے جداگانہ کتابی صورت دے دی گئی ہے مرتضیٰ جعفری کا کہنا ہے: ’’ نصیر الدین ہاشمی نے دکن میں اردو لکھ کر محی الدین قادری اور مولوی عبدالحق کے کام کو آگے بڑھایا۔ ان کی کتاب میں دکنی دور کے نظم و نثر میں تحقیق کے بعد جو اس علاقے کے ادب کا جائزہ لیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آج تک اس کتاب کی آب و تاب برقرار ہے۔‘‘ ’’ یورپ میں دکنی مخطوطات‘‘ نصیر الدین ہاشمی کی ابتدائی لیکن ایک بہت اہم کاوش ہے اس کتاب میں انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور پیرس کے کتب خانوں کے دکنی مخطوطات کی تفصیل دی گئی ہے دکنی مصنفین اور شعراء کے حالات اور نمونہ کلام کے ساتھ اردو اور فارسی کے متفرق نسخوں کے اختلافات بھی درج ہیں اس کتاب پر ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کا مقدمہ ہے زور صاحب لکھتے ہیں: ’’ یورپ میں دکھنی مخطوطات‘‘ کا موضوع کئی وجوہ سے اہم ہے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں جن کتابوں اور مصنفوں کی نسبت معلومات پیش کی گئی ہیں وہ اردو زبان کے قدیم ترین کارنامے اور اساتذہ ہیں اور یہ کارنامے اور اساتذہ اس لیے قابل وقعت ہیں کہ ان کے سوا آج سے دو برس پہلے کے اردو لکھنے والوں یا کتابوں کا بہت کم پتہ چلتا ہے۔ نصیر الدین ہاشمی نے اپنے تحقیقی سفر یورپ میں متذکرہ کتب خانوں کے کٹیلاگ کی تصحیح بھی کی اس سلسلے میں انڈین آفس لائبریری اور برٹش میوزیم لائبریری کے کٹیلاگ خاص طور سے قابل ذکر ہیں اس سلسلے میں خود مذکورہ لائبریریوں نے ان کی اس محنت اور کاوش کو بڑی اہمیت دی ہے اور تشکرانہ الفاظ سے یاد کیا ہے۔ ’’ انڈین آفس لائبریری‘‘ کے لائبریرین سی اسٹوری نے اپنے مکتوب محررہ 13 جون 1929ء میں انہیں لکھا: ’’ میں آپ کا خاص طور پر شکر گزار ہوں کہ آپ نے پروفیسر بلوم ہارٹ کی انڈیا آفس لائبریری کے اردو مخطوطات کے کٹیلاگ کی غلطیوں کی تصحیح کی اور ان مخطوطوں پر چند اور نوٹ لکھے۔‘‘ اس قسم کا ایک تعارفی مکتوب برٹش میوزیم لائبریری سے موصول ہوا س مکتوب میں لائبریری کے محافظ پف پارنٹ نے انہیں7اپریل 1929ء کو تحریر کیا: ’’ میں آپ کا ممنون ہو کہ آپ نے ہمارے ہندوستانی کٹیلاگ کی غلطیوں کی اصلاح بہم پہنچائی‘‘ ’’ دکن میں اردو مخطوطات‘‘ کی طرز پر کیٹلاگ کا دوسرا ہم کام ’’ کتب خانہ آصفیہ کے اردو مخطوطات‘‘ ہے یہ فہرست ’’ کتب خانہ خواتین دکن‘‘ کی لائبریری سے تیار کی گئی ہے ’’ کتب خانہ خواتین دکن‘‘ دراصل کتب خانہ آصفیہ کا شعبہ ہے جس کا جداگانہ قیام1943ء میں ہوا تھا۔ ہاشمی صاحب نے اس فہرست کی ترتیب کی ضرورت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ محققین اردو، ریسرچ اسکالروں کو اس امر کا علم نہیں تھا کہ اسٹیٹ لائبریری حیدر آباد دکن (کتب خانہ آصفیہ) میں کس قدر اردو مخطوطات محفوظ ہیں اور کن کن موضوعات سے متعلق ہیں اب اس فہرست سے ان کو اپنے ریسرچ کے متعلق مخطوطات کا علم ہو سکے گا۔‘‘ گو حافظ محمود شیرانی، امیر خسرو کو ’’ خالق باری‘‘ کا مصنف تسلیم نہیں کرتے (اس بحث کی تفصیل شیرانی صاحب کے ذکر میں آ چکی ہے) لیکن نصیر الدین ہاشمی نے اپنی فہرست مخطوطات میں ایک ایسی ’’ خالق باری‘‘ کا ذکر کیا ہے جس کا مصنف امیر خسرو کو بتایا گیا ہے ہاشمی صاحب نے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے: 580خالق باری نمبر کتاب (3643جدید) سائز5/1-2+9 انچ صفحات 14 سطور15خط طبعی نستعلیق نام مصنف حضرت امیر خسرو تاریخ تصنیف قبل700ھ آغاز: خالق باری سر جن ھار واحد ایک بداں کرتار اسم اللہ خدا کا ناؤں گرما دھوپ سایہ چھاؤں آخر میں دو ورق غیر متعلقہ رسالہ ہے (خالق باری، نصاب امیر خسرو کے نام سے مشہور ہے) اختتام: خواہم اما سید کہ سو جو نگاہ میں خواھی اما سید کہ سو جیگا نہیں ’’ ناقص آلاخر‘‘ اسی طرز پر ھاشمی نے ’’ دکنی کلچر‘‘ خواتین دکن کی اردو خدمات، دکنی (قدیم اردو) کے چند تحقیقی مقالات، مدراس میں اردو وغیرہ کتب تحریر کی ہیں ان کی ساری زندگی دکنی اردو کی تحقیق اور ترویج میں گزر گئی۔ گو دکنی ادب پر تحقیق مولوی عبدالحق کے موضوعات اور تحقیق کا ایک حصہ تھا اور ان کی تحقیق وسیع تر دائرے تک پھیلی ہوئی تھی لیکن دکن کے ان محققین نے دکنیات کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور تحقیق میں نئے نئے مباحث اور مواد کو سامنے لائے۔ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے دکنی ادب پر تحقیقی کرنے والے ان محققین کی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ دکن میں ڈاکٹر زور اور ان کے رفقاء خصوصاً سید محمد، ڈاکٹر سروری اور نصیر الدین ھاشمی نے دکنی ادب کے متن کی تصحیح کا کام شروع کیا اور لسانی لحاظ سے زبان کے ارتقاء کا جائزہ لیا اس تحقیقی روایت میں یہ کمی رہ گئی کہ متن کی تصحیح میں مرتبین نے قلمی نسخوں کے تمام اختلافات کو اپنے ہاں درج کرنے کا جھگڑا نہیں پالا۔ دوسرے فطری بحثوں اور ادبا و شعراء کے حالات کی تلاش میں اپنا زیادہ سروکار ادبی کتابوں تک رکھا اور تاریخوں سے حاصل ہونے والی معلومات کو ادبی مواد سے مطابقت دینے کی زیادہ کوشش نہیں کی اسی لیے ان محققین کے علمی کارناموں میں واقعات و سنین کی غلطیاں زیادہ ہیں تاہم اس علمی مرکز نے دکنیات کے ذخیرے کو زندہ کیا اور لسانیات کو فلا لوجی کی حدود سے نکال کر صوتیات کے علم سے ملا دیا۔‘‘ دکن کے محققین بالخصوص نصیر الدین ہاشمی اور محی الدین قادری کے تحقیقی کارناموں کا جائزہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مولوی عبدالحق نے اردو تحقیق اور خاص طور سے ’’ دکنی ادب‘‘ کے جس تحقیقی جائزے کی بنا ڈالی اور جس طرح دکنی مخطوطات ڈھونڈ ڈھونڈ کر منظر عام پر لائے اسے توانائی بخشنے میں ان رفقاء کار نے اہم کردار ادا کیاہے۔ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی (26جولائی 1885 تا28دسمبر1972) ڈاکٹر عبدالستار صدیقی مولوی عبدالحق کے قابل اعتماد رفقاء میں سے تھے وہ ابتداء ہی سے مولوی صاحب کے تحقیقی کاموں میں شریک رہے۔ صدیقی صاحب 26دسمبر1885ء مطابق59ربیع الاول1303ھ سندیلہ ضلع ہردوئی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن میں حاصل کی اور بعد میں علی گڑھ سے 1907ء میں بی اے کر کے گورنمنٹ ہائی اسکول کافی سے بطور معلم عملی زندگی کا آغاز کیا 1912ء میں الہ آباد یونی ورسٹی سے ایم اے کیا اور عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی چلے گئے جہاں سے انہوں نے ’’ قدیم عربی میں دخیل فارسی الفاظ‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یورپ کے دوران قیام انہوں نے عربی کے علاوہ سریانی، ترکی، پہلوی و جدید فارسی اور سنسکرت زبانوں میں مہارت حاصل کی مستشرقین کے ساتھ مل کر احادیث کا انڈکس تیار کیا واپس آ کر فروری 1920ء سے ستمبر1920ء تک تقریباً چھ ماہ ایم اے او کالج علی گڑھ میں عربی کے پروفیسر رہے اس کے بعد 1920ء سے 1924ء تک عثمانیہ یونی ورسٹی کالج حیدر آباد دکن کے پرنسپل رہے 1924ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے صدر رہے 1928ء میں الہ آباد یونی ورسٹی چلے آئے جہاں ان کے ذمہ عربی اور فارسی کے شعبوں کی صدارت اور پروفیسر شب تھی اور یہیں سے 1946ء میں ریٹائر ہو گئے 28جولائی 1972ء مطابق 16جمادی الثانی 1393ھ کو الہ آباد میں انتقال ہوا۔ مولوی عبدالحق کی نظر میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی جو منزلت اور ان سے جو تعلق خاطر تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے جلیل قدوائی تحریر کرتے ہیں: ’’ موصوف سے انہیں ایسی عقیدت ہے اور ان کی علمیت، قابلیت، وسعت نظر اور معاملہ فہمی پر اتنا اعتماد ہے کہ بعض دفعہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مدد اور مشورے کے بغیر وہ ایک قدم آگے نہیں چل سکتے۔ متعدد معاملات میں وہ ان کی رائے لیتے ہیں۔۔۔ علم و ادب کے دو بوڑھوں کا یہ رابطہ و تعلق دیدنی ہے جو کچھ عرصہ کے بعد شنیدنی بن جائے گا اس لیے کہ اب زمانے نے ایسے با وضع اور مخلص انسان بنانے والے ڈھانچے توڑ ڈالے ہیں۔‘‘ مولوی عبدالحق اپنے ہر بڑے کام میں صدیقی صاحب کو شریک کار رکھنے کے متمنی رہتے تھے اردو انگریزی کا لغت تیار ہونے لگا تو مولوی صاحب نے عربی الاصل الفاظ کے کام کی نگرانی ان کے سپرد کی اور وہ ان کے کام سے پوری طرح مطمئن تھے انہوں نے 30اکتوبر1930ء کے مکتوب میں انہیں تحریر کیا: ’’ یہ خوب ہوا کہ آپ نے لغت کا کام شروع کر دیا شروع شروع بے شک آپ کو ہر ہر لفظ کے لئے بداتیں دینی پڑیں گی لیکن کچھ دنوں کے بعد غالباً سہولت ہو جائے گی آپ نے جو ڈھنگ اختیار کیا ہے وہ بہت ٹھیک ہے۔‘‘ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے یوں تو کوئی باقاعدہ تصنیف نہیں چھوڑی لیکن 1905ء سے 1961ء تک بہت سے تحقیقی مقالات تحریر کئے جن میں سے بعض مقالات ان کے بیٹے مسلم صدیقی نے ’’ مقالات صدیقی‘‘ کے عنوان سے 1983ء میں مرتب کر کے کتابی شکل میں شائع کئے بقول محمود الٰہی: ’’ ڈاکٹر صدیقی کا ہر مقالہ ایک کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صدیقی کا زیادہ رحجان لسانیات کی جانب تھا اس لیے ان کے تحقیقی مقالات کی ایک بڑی تعداد تحقیق الفاظ، صرف و نحو اور صحت املا سے تعلق رکھتی ہے۔ اردو املا، اردو صرف و نحو کی ضرورت، تماہی کی ترکیب، ہندوستان بغیر واؤ کے صحیح ہے، ذال مجمہ فارسی میں ’’ جز‘‘ اور ’’ جزو‘‘ کی بحث بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق ’’ افسوس‘‘ (لفظ کا ایک بھولا ہوا مفہوم) لفظ ’’ مغد‘‘ کی تحقیق اردو میں ضمائر مضعولی احوال اسم اور وضع اصطلاحات پر تبصرہ اسی قسم کے مضامین ہیں موصوف اپنی بات کا استدلال لغات اور اہل علم کے کلام میں استعمال ہونے والے طریقوں سے دیتے ہیں مثلاً ’’ وہ‘‘ جز اور جزو کی بحث میں تحریر کرتے ہیں: ’’ فرھنگ جہانگیری، فرھنگ رشیدی اور برھان قاطع میں نہ ’’ جز‘‘ ملتا ہے اور نہ ’’ جزو‘‘ اور یہ ٹھیک بھی ہے اس لیے کہ ان کتابوں میں ٹھیٹ فارسی لفظ درج کئے گئے ہیں عربی لفظوں سے مطلق بحث نہیں۔‘‘ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے ’’ کلیات ولی‘‘ پر کام کیا تب بھی ان کی تحقیق کا رخ ’’ دلی کی زبان‘‘ پر رہا انہوں نے دکنی زبان کے وجود اور ارتقائی مدارج کا تفصیلی جائزہ لیا اور بتایا: ’’ دسویں صدی ہجری کے آخر تک دکن میں ہندوستانی زبان کی دو صورتیں ہو گئی تھیں، ایک وہ جو دولت آباد کے علاقے سے باہر دکن کے دراوڑی علاقوں میں رائج تھی اور جسے دلی کی زبان کے ساتھ تعلقات کو تازہ کرنے کے موقع بہت کم ملے اور جس میں ایک طرف گول کنڈے کے قطب شاہیوں، دوسری طرف صوفیوں نے ایک خاص دکنی ادب پیدا کر دیا تھا۔ دوسری صورت زبان کی وہ صورت تھی جو دولت آباد اور اس کے نواح میں رائج تھی گیارہوں صدی کے آغاز میں مغلوں نے دکن کا رخ کیا اور اس کا اثر تیزی سے بڑھتا گیا۔ انہوں نے بھی اپنا مرکز دولت آباد ہی کو بنایا اورنگ زیب نے دولت آباد سے چند میل ہٹ کر اورنگ آباد بسایا شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے زمانے میں لوگ دلی سے جوق در جوق اورنگ آباد آئے اور اپنے ساتھ دلی کی اردو معلا لائے۔ جس نے دولت آبادی علاقے کی زبان کو تازگی بخشی اور دلی کی نئی زبان کو اورنگ آبادیوں نے شوق سے اختیار کیا۔‘‘ جس پر وہ آج بھی فخر کرتے ہیں یہی وہ زبان ہے جس ہم ولی کے کلام میں پاتے ہیں اور سوائے چند خفیف اختلافات کے یہ وہی زبان ہے جو ولی کے زمانے میں دلی میں بولی جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ جب اس کا دیواند لی پہنچا تو دلی والوں نے اسے سو آنکھوں پر رکھا شاعروں نے اس کی غزلوں پر غزلیں کہیں اور زبان دانوں نے اس کے کلام کو سند پکڑا۔ لسانیات کے علاوہ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی تحقیقی کاوشوں میں غالب کے رقعات پر تحقیق قابل ذکر ہے۔ جب مولوی عبدالحق کو اس بات کی بھنک پڑی کہ صدیقی صاحب کو بلگرامی خاندان سے کچھ رقعات ہاتھ آئے ہیں اور وہ انہیں مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے 19ستمبر 1926کو انہیں لکھا: ’’ میرے پاس ایک مجموعہ مرزا صاحب کے خطوط کا تھا جو مجھے میاں صاحب نے دیا تھا مرزا صاحب کے خطوط میں آپ نے میراں صاحب کا ذکر اکثر دیکھا ہو گا۔ وہ میرے حال پر بہت مہربان تھے مرزا صاحب کے دو قلمی خط بھی انہوں نے مجھے دئیے تھے جو اب تک میرے پاس تھے اس مجموعہ میں بعض خط ایسے تھے جو اب تک شائع نہیں ہوئے تھے اردو رقعوں کا انتخاب میں نے دیکھا ہے۔ میری رائے میں اس انتخاب کی تمہید، سبب تالیف اور وہ رقعہ جو اب تک شائع نہیں ہوا ہے آپ اپنے مجموعے میں ضرور شریک کر لیں، جو غلط چھپے ان کی تصحیح کر کے کامل چھاپنے چاہئیں ۔ بلگرامیوں کے خط الگ چھپنے چاہئیں فارسی رقعات کی قدر کرنے والا اب کوئی نہیں رہا انکا چھاپنا محسن مرزا کے نام کی خاطر ہو گا۔‘‘ صدیقی صاحب کو بلگرامی گھرانے سے کچھ پرا گندہ ورق ہاتھ آئے تھے جن میں بعض نایاب چیزوں میں مرزا غالب کی تحریروں کی نقل بھی تھیں گو اکثر تحریریں کتابت کی تاریخ سے محروم تھیں پھر بھی جن پر تاریخیں موجود تھیں وہ 19اپریل 1865ء سے 23اکتوبر1879کی درمیانی مدت سے تعلق رکھتی تھیں غالباً بغیر تاریخ کی تحریریں بھی اسی مدت کی تھیں ان اوراق کے بلگرام میں دستیاب ہونے سے لکھنو کے مضافات میں غالب کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے اس سلسلے میں صدیقی صاحب لکھتے ہیں: ’’ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ بلگرام اور اس کے قرب و جوار کے ادبی حلقوں میں ’’ غالب ‘‘ کا آوازہ بلند تھا اور لوگ نہ صرف شعر میں بلکہ اردو کی انشا پردازی اور خاص کو خطوط نویسی میں غالب کا تتبع کرنے میں کوشاں تھے قدر اور صغیر کے علاوہ کچھ اور بلگرامیوں کو بھی غالب سے تلمذ تھا ان میں ایک شیخ لطیف احمد لطیف بلگرامی تھے۔‘‘ صدیقی صاحب کے ہاتھ ’’ غالبیات‘‘ کا یہ ذخیرہ اسی شیخ خاندان کے لطف سے آیا تھا جسے اس کے بھائی ’’ وجد‘‘ نقل کر کے احباب میں بہم پہنچاتے تھے صدیقی صاحب کا خیال ہے: معلوم ہوت اہے کہ بلگرام کے ادیبوں میں ’’ غالب‘‘ کے رقعوں کی بڑی مانگ تھی اور خطوط نویسی میں وہی ڈھنگ اختیار کرنے کی کوشش اکثر لوگ کرتے تھے۔ ان ’’ کچھ بکھرے ہوئے اوراق‘‘ میں غالب کے خطوط اور تقریظیں شامل تھیں بعض اوراق پہلے بھی منظر عام پر آ چکے تھے اور بعض ستار صدیقی کی کاوش سے پہلی مرتبہ شائع ہوئے صدیقی صاحب نے ان پر حاشے بھی تحریر کئے ’’ لفظ بغداد پر تحقیق‘‘ سے ان کی وسیع معلومات، علمیت، گہرے مطالعہ، تقابلی جائزے اور جستجو کا اندازہ ہوتا ہے انہوں نے اس لفظ پر اتنا مواد فراہم کر دیا کہ کسی اور جگہ ملنا مشکل ہے صدیقی کی ماخذ کی یہی چھان بین اور نتائج اخذ کرنے میں ان کی بصیرت و استدلال انہیں اپنے ہم عصر تحقیق نگاروں میں ممتاز کر دیتی ہے۔ شیخ چاند (1906ء تا دسمبر1936ئ) شیخ چاند ان محققین میں سے ہیں جن کی تربیت مولوی عبدالحق نے خاص طور سے کی تھی۔ انہوں نے مولوی صاحب کی نگرانی میں ’’ سودا‘‘ پر تحقیقی مقالہ قلم بند کیا جو بعد ازاں1936ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا مولوی صاحب کے لکھے ہوئے خامے ’’ چند ہم عصر‘‘ ابتداء میں ان ہی کی کاوش سے مرتب ہوئے، خطبات گارسان دتاسی پر انہوں نے مولوی صاحب کے ساتھ کام کیا۔ ’’ سودا‘‘ پر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کے لئے مقالہ مولوی صاحب ہی کی سفارش اور نگرانی میں شروع کیا اس موقع پر مولوی عبدالحق نے ’’ جامعہ‘‘ کو ان کی سفارش کرتے ہوے تحریر کیا تھا: ’’ ان کو ادب سے خاص ذوق ہے اور تحقیقی و تنقیدی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ مقالہ مکمل ہونے پر مولانا حبیب الرحمن شیرانی شیخ چاند کے ممتحن مقرر ہوئے تھے انہوں نے چاند کی تحقیق پر رائے دیتے ہوئے تحریر کیا: ’’ پورے مقالے کے مطالعہ کے بعد میری یہ پختہ رائے ہے کہ شیخ چاند صاحب مقالہ نگار نے فراہمی مواد، مطالعہ، بحث اور ترتیب و بیان مطالب میں بھی پوری کاوش اور محنت کی ہے اور اس طرح پوری تیار کے بعد مقالہ لکھا ہے اظہار رائے میں تحقیق اور آزادی دونوں سے کام لیا ہے۔‘‘ چاند نے اس مقالہ میں ’’ سودا‘‘ کے فن و ادب پر تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالی ہے اور بعض ایسی غلط روایات و بیانات کی تردید کی ہے جو بغیر تحقیق قلم بند ہوتے آ رہے تھے اس سلسلے میں ان کی مثنوی ’’ سبیل ہدایت‘‘ پر تحقیق کا پہلو قابل ذکر ہے۔ بعض تذکرے نویسوں نے غلطی سے اس مثنوی کے مصنف محمد تقی دھلوی کو میر تقی میر تصور کر رکھا تھا مولانا شبلی نعمانی اور سودا نے بھی اسے میری تقی میری کی مثنوی سمجھ کر اس کی زبان و بیان پر اعتراضات کئے تھے اور ان کی فنی خامیوں پر تنقید کی تھی لیکن شیخ چاند نے تحقیق کی کہ اس کا تعلق میری تقی میر سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے تقی ہیں چاند لکھتے ہیں: ’’ بعض معتبر ادیبوں نے اور چند تذکرہ نویسوں نے غلطی سیا س مرثیہ نگار کو میری تقی میر سمجھ لیا تھا حالانکہ تمام قلمی نسخوں میں ’’ تقی‘‘ ہی کا تخلص ملتا ہے یہ غلطی غالباً دونوں کے ناموں سے مشابہت کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے میر تقی میر سے اس مثنوی کا کوئی تعلق نہیں دیوان سودا کے قلمی نسخوں میں صاف طور سے ’’ تقی‘‘ تخلص استعمال ہوا ہے۔۔۔۔ تمام قلمی دوا وین میں یہی تخلص موجود ہے فہرست مخطوطات انڈیا آفس نشان نمبر147پر سودا کے اس کلیات کا ذکر ہے جس کی کتابت یقین کے بیٹے مقبول نبی خان نے سنہ 1213ھ میں شاہ جہاں آباد میں کی تھی اس میں صاف طور سے محمد تقی دھلوی عرف میر گھاس شاگرد فخر الدین لکھا ہے یہ وہی شاعر ہے جس کا ذکر میری حسن نے بھی اپنے تذکرے کے صفحہ پر کیا ہے ان شواہد کی موجودگی میں ’’ تقی‘‘ کو میر سمجھ لینا کسی طرح صحیح اور قبول نہیں۔‘‘ شیخ چاند کی یہ واحد تحقیقی کتاب علمی و تحقیقی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی پروفیسر گیان چند نے ان کی تحقیق نگاری پر اظہار خیال کرتے ہوئے تحریر کیا: ’’ ان کی تحقیقی کتاب ’’ سودا‘‘ پر 1936ء میں شائع ہوئی اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے اردو میں منفرد ادیبوں پر تحقیقی مقالے لکھنے کی نہج مقرر کی۔‘‘ جب یہ تحقیقی مقالہ چھپنے لگا تب بھی مولوی عبدالحق نے اس کا مقدمہ تحریر کرتے ہوئے اعتراف کیا: ’’ قابل مقالہ نگار نے اپنے مضمون کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور جہاں تک ممکن ہوا ہے تمام ضروری ماخذوں سے بخوبی کام لیا اور سودا کے کلام اور خصوصاً اس کی حیات پر محققانہ نظر ڈالی ہے۔ اور بعض نئی معلومات کا اضافہ کیا ہے۔‘‘ شیخ چاند کے بعض تحقیقی مقالات و مضامین رسالہ ’’ اردو‘‘ کی بھی زینت بنتے رہے تھے انہوں نے اپریل 1934ء میں ’’ سودا کی حیات اور کلام کے متعلق غلط فہمیاں اور غلط بیانیاں‘‘ پر مضمون قلم بند کیا اور اسی طرح اکتوبر1932ء میں ’’ یورپ میں دکنی مخطوطات پر ایک تنقیدی نظر‘‘ شائع ہو چکا تھا۔ شیخ چاند عالم جوانی میں انتقال کر گئے اور ان سے تحقیق کے میدان میں جو امیدیں وابستہ تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں تاہم مختصر کام ہی ان کی ادبی اور تحقیقی بقا کا ضامن ہے انہوں نے بیماری کی حالت میں ہی ’’ سودا‘‘ پر تحقیقی کام جس انداز سے کیا وہ محققین کے لئے چراغ راہ ہے۔ پیر حسام الدین راشدی (20ستمبر1911ء تا یکم اپریل) تشکیل پاکستان کے بعد جو لوگ مولوی عبدالحق سے فیض یاب ہوئے اور تحقیق میں ان کی روایت کے امین بنے ان میں پیر حسام الدین راشدی قابل ذکر ہیں پیر حسام الدین راشدی 20ستمبر1911کو ضلع لاڑکانہ کے قصبہ بہمن میں پیدا ہوئے اور یکم اپریل 1983ء کو کراچی میں انتقال ہوا پیر صاحب موصوف کے خاندان کا شمار زمینداری، پیری مریدی اور علمی و ادبی سرگرمیوں میں سندھ کے نامور خاندانوں میں کیا جاتا ہے لڑکپن سے ہی انہیں لکھنے پڑھنے کا شفق رہا۔ 1924ء میں ان کے بھائی پیر علی محمد راشدی نے لاڑکانہ سے ایک جریدہ ’’ الرشید‘‘ کا آغاز کیا تو موصوف بھی ان کا ہاتھ بٹانے لگے لیکن باقاعدہ صحافتی زندگی سے ان کا تعلق1930ء میں ماہنامہ ’’ المینار‘‘ سکھر کی معاون ادارت سے ہوا۔ اس سلسلے میں پیر علی محمد راشدی تحریر کرتے ہیں: ’’ یہ واقعہ 1929ء کا تھا جب میری عمر24سال کی اور حسام الدین کی 18سال کی تھی حسام الدین ہمیشہ میرے ساتھ رہتا تھا میں ایڈیٹر بن کر سکھر آ گیا تو وہ بھی گھر اور زمینداری چھوڑ کر وہاں آ گیا اور میرے انڈر اسٹیڈی بن کر کام سیکھنے لگا۔‘‘ میں نے یہ بات اس کے دل میں بٹھا دی تھی کہ اس وقت کے حالات کے تحت اخبار نویسی اور سیاست کٹھن کام ہیں پہلی شرط ہے کہ انسان میں توکل، محنت، جفاکشی، سخت جانی اور مقصدیت سے کام کی لگن Tptal dedicatotopm کے اوصاف ہوں وقت کی قدر و قیمت معلوم ہو علم کی اہمیت اس کو محسوس ہو یعنی لیلائے صحافت کا وصال مطلوب ہو تو مجنوں ہی بننا پڑے گا۔ یہ شرطیں مرحوم نے کھلے دل سے منظور کر لیں اور اخباری اور علمی طور پر ہمارا ساتھ شروع ہو گیا۔۔۔۔ وقت گزرتا رہا، کام بڑھتا رہا۔ میرے لئے مشکل ہو گیا کہ کھوڑو مرحوم کے سیکرٹری کے طور پر سیاست بھی کرتا رہوں اور اخبار کے لئے بھی لکھتا رہوں چنانچہ 1930ء میں کھوڑو صاحب نے حسام الدین راشدی کو مدیر معاون بنا کر وہاں لگا دیا۔ حسام الدین کی عمر بیس برس کی تھی اس میں اتنی صلاحیت آ گئی تھی کہ وہ ایڈیٹوریل لکھ سکے تحریر میں زیادہ تندی ہوتی تھی اور لفاظی سے زیادہ دلائل پر زور تھوڑے ہی عرصہ میں اس نے نام پیدا کر لیا۔ صحافتی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد پیر حسام الدین مسلسل علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ مولوی عبدالحق اور انجمن سے تعلق داری و وابستگی ہوئی تو مرتے دم تک بری سرگرمی سے انجمن ترقی اردو کے کاموں میں دل چسپی لی اور انجمن کو پروان چڑھانے میں مولوی صاحب کی معاونت کی۔ انجمن ترقی اردو کی مجلس نظماء کے رکن رہے اور رسالہ ’’ اردو‘‘ کی مجلس ادارات میں شامل ہوئے۔ انہیں سندھی، فارسی اور اردو پر عبور تھا۔ چنانچہ ان کی تحقیق کا دائرہ بھی مذکورہ زبانوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے سندھی، فارسی اور اردو میں تقریباً پچاس کتابیں تحریر کیں۔ جب کہ مقالات کی تعداد سینکڑوں تک ہے۔ پیر صاحب موصوف نے بھی مولوی عبدالحق کی صحبت کے فیض اثر سے بہت سی قدیم کتابوں کو نئی روح بخشی، مخطوطات گوشہ گمنامی سے نکالے اور انہیں تحقیقی اصولوں کی روشنی میں مرتب کیا، حواشی اور تعلیقات کو بڑی لگن سے قلم بند کیا ڈاکٹر جمیل نے پیر حسام الدین راشدی کی تحقیق نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ پیر حسام الدین راشدی بنیادی طور پر تاریخ کے عالم تھے اور تاریخ کے حوالے ہی سے ان کی نظر مختلف علوم و فنون پر تھی پیر صاحب نے سندھ کی تاریخ و تہذیب کے ان بنیادی ماخذ کو مرتب کر کے سندھ کی علمی و تہذیبی زندگی کو حیات نو بخشی۔ آج جو سندھ کی نئی نسل علمی و تحقیقی کام کر رہی ہے پیر صاحب کی تالیفات ہی سے روشنی حاصل کر رہی ہے پیر صاحب نے جدید تحقیقی روایت کو اہل سندھ سے روشناس کرایا ان کی یہ خدمت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔‘‘ لیکن خود پیر صاحب کی تحقیق پر مولوی عبدالحق کے اثرات بہت گہرے تھے اور انہوں نے اپنی تحقیق میں مولوی صاحب کے انداز تحقیق سے روشنی حاصل کی ہے مولوی صاحب موصوف میں مصنف کی ذات سے آگے بڑھ جانے کا جذبہ تھا جس کے نتیجہ میں وہ متعلقہ موضوع پر مزید معلومات کا ذخیرہ جمع کر کے قاری کو دوسرے ماخذ سے بے نیاز کر دیتے تھے مثلاً چمنستان شعراء کی ترتیب میں مولوی عبدالحق کا یہی اندازا رہا کہ انہوں نے حواشی میں اتنا مواد جمع کر دیا کہ قاری تحفۃ الشعراء کے مطالعہ سے مستغنی ہو گیا راشدی بھی مولوی صاحب کی طرح اکثر کتابوں کی ترتیب میں موضوع زیر بحث کو دور جدید تک مواد سے مالا مال کر دیتے تھے محمد اصلاح مرزا کے تذکرے ’’ تذکرہ شعراء کشمیر‘‘ کی ترتیب و تدوین میں یہی طریقہ کار اختیار کیا اور اس میں تقریباً تین سو شعراء کا احوال، اشعار اور ضروری معلومات کا اضافہ کر دیا۔ یہی تکنیک ’’ مکی نامہ‘‘ کی تدوین میں استعمال کی ہے جس کے نتیجہ میں ’’ مکلی نامہ‘‘ پر پیر صاحب کے لکھے ہوئے حواشی بذات خود تحقیقی دریافت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو میں پیر حسام الدین راشدی کی چار کتب اور کم و بیش بیس مقالات زیور طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں تصانیف کی تفصیل درج ذیل ہے: 1مرزا غازی ترخان بیک اور اس ک بزم ادب 2ہفت مقالہ 3دود چراغ محفل 4مولانا محب علی سندھی 1مرزا غازی ترخان اور اس کی بزم ادب مرزا غازی ترخان بیگ عہد جہانگیری کی معروف علم دوست شخصیت تھی اور انہیں نہ صرف شاعری محفلوں کا مرکز تھا اور بہت سے شاعر ان کے دربار سے منسلک اور وابستہ تھے پیر حسام الدین رادی نے مرزا غازی بیگ ترخان اور اس کی بزم ادب پر بڑی کاوش سے مواد جمع کیا۔ اور اپنی اس کتاب میں میرزا غازی بیگ ترخان کے دربار سے وابستہ 39شعراء کے حالات اور نمونہ کلام، ماخذ اور متن کے حوالوں سے دیا ہے اس تحقیقی کتاب کے سلسلے میں اختر حسین (ھلال پاکستان) صدر انجمن ترقی اردو نے لکھا ہے: ’’ زیر نظر کتاب اردو، سندھی اور فارسی کے ممتاز محقق سید حسام الدین راشدی کی تقریباً ربع صدی کی تلاش و تحقیق کا نتیجہ ہے، جس میں انہوں نے سندھ کی ادبی تاریخ کے ایک اہم باب کو قلم بند کیا ہے۔۔۔۔ متعدد اہم شعراء کے حالات پہلی مرتبہ پوری تفصیل سے سامنے آئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی بعض غیر معروف شعراء کو گوشہ گمنامی سے نکال کر متعارف کرایا ہے۔‘‘ پیر حسام الدین راشدی حوالہ جات اور تعلیقات پر بڑی احتیاط اور محنت کرتے تھے اور مختلف تذکرہ نویسوں اور مورخین کے بیانات کا مقابلہ و موازنہ کر کے اپنی رائے قائم کرتے تھے مثلاً انہوں نے اس کتاب میں مولانا محوی اروبیلی کے بیان پر حاشیہ میں لکھا ہے: ’’ میخانہ 868صاحب میخانہ کی تاریخیں اکثر غلط ہیں مثلاً لکھا ہے کہ محوی 1024ھ میں اپنے مخدوم کے ساتھ اجمیر پہنچا، حالانکہ ترک جہانگیری کے مطابق26جمادی الثانی 1021ھ کو مرزا رستم کے تقرر کا فرمان نکلا10محرم 1022ھ کو ٹھٹھ پہنچا اور پھر معزول ہو کر 26اردی بہشت (ربیع الاول)1023ھ کو اجمیر پہنچا130مکلی نامہ 625,273,271‘‘ 2 ہفت مقالہ انجمن ترقی اردو کے ممتاز جریدہ ’’ اردو‘‘ میں وقتاً فوقتاً فارسی ادب اور زبان کے موضوع پر مضامین شائع ہوتے رہے ہیں پیر حسام الدین راشدی نے انہی مطبوعہ مضامین میں سے سات مقالات پر مشتمل کتاب ’’ ہفت مقالہ‘‘ مرتب کی تھی جسے انجمن کے سابقہ معزول و مرحوم شہنشاہ ایران کی جشن تاج پوشی کی نسبت سے 1967ء میں شائع کیا تھا کتاب میں مندرجہ ذیل مقالت شامل ہیں: 1تصنیفات شیخ فرید الدین عطار حافظ محمود شیرانی 2شاہنامہ فردوسی کا دیباچہ قدیم حکیم شمس اللہ قادری 3فردوسی کا مذہب پروفیسر شیخ محمد اقبال 4رباعیات عمر خیام عبداللہ باری آسی لکھنوی 5خیام مولفہ سید سلیمان ندوی پر ایک معشوق حسین اطہر ہاپوڑی 6فارس کے زیر سایہ اردو کی ترقی ڈاکٹر سید عبداللہ 7نواب صمصام الدولہ شاہنواز خان (صاحب ماثر الامرا محمد حسین محوی صدیقی یہ ساتوں مقالے تحقیقی نوعیت کے ہیں اور بقول پیر حسام الدین راشدی: ’’ یہ مقالات اس زمانے میں لکھے گئے ہیں جب کہ ہمارے بزرگوں کی تحقیقات اور فکر کا دائرہ آج کی طرح محدود اور مسدود نہیں بلکہ وسیع اور ہمہ گیر تھا اور ان کا قلم عالم اور دنیائے دانش کے لیے چلتا تھا۔‘‘ 3دود چراغ محفل ’’ غالب کے صد سالہ جشن کی مناسبت و موقع پر پیر حسام الدین راشدی نے درج ذیل پانچ مقالات پر مشتمل کتاب تصنیف کی تھی۔‘‘ 1ناطق مکرانی مقرض غالب 2خادم بردوانی غالب کا ملاقاتی 3رسوا بجنوری غالب کا ہم نوا 4شاہ باقر بگائی شاگرد غالب 5مولانا طرز ہاپوڑی شاگرد غالب ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں: ’’ دود چراغ محفل‘‘ جس میں اور مفید معلومات کے علاوہ غالب کے شاگرد ناطق مکرانی کے بارے میں، معلومات فراہم کی ہیں وہ نادر اور اچھوتی ہیں۔ 4مولانا محب علی سندھی مولانا محب علی سندھی، سندھ کے ایک بزرگ، عالم اور شاعر تھے۔ انہوں نے عہد مغلیہ کے تین بادشاہوں اکبر اعظم، جہانگیر اور شاہ جہان کا عہد نہ صرف دیکھا تھا بلکہ اکبر اور جہانگیر کے درباری امراء میں شمار کئے جاتے تھے دراصل یہ 37صفحات کا ایک مقالہ ہے جو مولانا موصوف کی خدمات جلیلہ پر لکھا گیا تھا اس کتاب کا تعارف ’’ تقریب‘‘ کے عنوان سے قاضی احمد میاں جونا گڑھی نے کرایا تھا۔ پیر صاحب موصوف کے مقالات میں اردو کے حوالے سے قابل ذکر مقالہ ’’ سندھ میں اردو‘‘ ہے۔ اس مقالہ میں1700ء مطابق1112ھ نبوی سے لے کر 1900ء مطابق1318ھ نبوی تک کے سندھی نژاد شعراء کے سلسلے میں مفید معلومات فراہم کی ہیں اور نمونہ کلام بھی دیا ہے انہوں نے اس مقالہ میں صرف سندھی نژاد شعراء کی اردو خدمات پر روشنی ڈالی ہے سندھ میں اردو کے آغاز کے سلسلے میں انہوں نے انکشاف کیا ہے: ’’ جہاں تک تحقیق کی رسائی ہوئی ہے قدیم اردو میں باقاعدہ شاعری کا آغاز قطب شاہی عہد میں ہوا اور محمد قلی قطب شاہ (988تا1020ھ) پہلا شاعر تھ جس کا کلام مختلف اصناف میں ہم تک پہنچا ہے۔ آپ کو شاید یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ٹھیک اس زمانے میں ہم کو سندھ کے اندر ایک بہت ہی مقبول عام اردو شاعر کا سراغ ملتا ہے اس شاعر کا نام میر محمد فاضل بکھری، تاریخ محصور کے مصنف میر معصوم بکھری کا چھوٹا بھائی تھا ذخیرۃ الخوانین میں لکھا ہے۔‘‘ شعر بزبان ہندی از قسم کافی کمال فصاحت میگفت و قبولیت داشتہ پیر حام الدین راشدی نے تحقیق کو سائنٹفک بنیادوں پر استوار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحقیق صلاحیتوں کی بنیاد پر انہیں ادارہ سندھیالوجی جامعہ سندھ (حیدر آباد)1962ء ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان جامعہ پنجاب لاہور (1963ء را1970ئ) اور ایزیشن قومی عجائب گھر کراچی (1958ء تا1980ئ) کی گورننگ باڈی کا رکن نامزد کیا گیا اور مشاورتی کمیٹی قومی آرکائیوز لائبریری پاکستان کراچی (1968ء تا1970ئ) اور اس کی لائبریری کے لئے دستاویزات اور کتب کے انتخاب کے لیے مشاورتی کمیٹی کا رکن نامزد کیا جاتا رہا۔ ان قومی نوعیت کے تحقیقی اداروں سے وابستگی یقینا قومی اعزاز کے ساتھ ساتھ نہایت ذمہ داری اور محنت کا کام تھا لیکن پیر حسام الدین راشدی نے ان اداروں میں بھی اپنی تحقیقی صلاحیتوں سے تحقیق اور دریافت کی صحیح رہنمائی کی راشدی صاحب بلا شبہ مولوی عبدالحق کے سلسلہ تحقیق کی ایک بہت روشن علامت تھے۔ ٭٭٭٭٭٭ حواشی 1’’ مولوی عبدالحق‘‘ از طاہر فاروقی، سہ ماہی ’’ اردو‘‘ کراچی 1962ء ص87 2مقدمہ ’’ مقالات حافظ محمود شیرانی‘‘ جلد اول مرتبہ مظہر محمود شیرانی، لاہور، مجلس ترقی ادب، 1966ء ص13 3’’ پنجاب میں اردو‘‘ از محمود شیرانی (طبع چہارم) لاہور، مکتبہ معین الادب، ص1 4ایضاً ص48 5’’ مکاتیب حافظ محمود شیرانی‘‘ مرتبہ مظہر محمود شیرانی، لاہور، مجلس یادگار حافظ شیرانی، 1981ء ص203 6سہ ماہی ’’ اردو‘‘ اورنگ آباد، جولائی 1928ء ص471 7’’ حافظ محمود شیرانی ‘‘ از سجاد مجوکہ مقالہ ایم اے اردو برائے امتحان1964-65 (غیر مطبوعہ) جامعہ پنجاب لاہور، ص13 8مکاتیب حافظ محمود شیرانی مرتبہ مظہر محمود شیرانی، لاہور، مجلس یادگار حافظ محمود شیرانی 1981ء ص140 9ایضاً ص143 10ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ اکتوبر1980ء ص29 11تنقید شعر العجم مولفہ پروفیسر محمود شیرانی، دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند) 1942ء ص الف ب 12ایضاً ص1-2 13ایضاً ص4-3 14ایضاً ص25 15ایضاً ص62-61 16’’ حافظ محمود شیرانی اور ان کی علمی و ادبی خدمات‘‘ از مظہر محمود شیرانی، تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی اردو (غیر مطبوعہ)1976ء جامعہ پنجاب لاہور، ص365 17’’ مقالات حافظ محمود شیرانی‘‘ (جلد اول) مرتبہ مظہر محمود شیرانی، لاہور، مجلس ترقی ادب 1966ء ص160-161 18’’ پرتھوی راج راسا‘‘ (مطالب و تنقید وغیرہ) از پروفیسر محمود خاں شیرانی، دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند) 1943ء ص2-1 19ایضاً ص3 20ایضاً ص276 21ایضاً ص116 22’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ لاہور1932ء ص1 23قاضی ابو عاصم رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ ابو جعفر منسر، با منصور ما تریدی، خواجہ امام 24’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ مئی 1932ء لاہور، ص10-11 25ایضاً ص13 26’’ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ‘‘ از ڈاکٹر وحید قریشی، لاہور، مکتبہ ادب جدید 1965ء ص11 27’’ ہندوستان میں اردو تحقیق‘‘ از خلیق انجم، بحوالہ ’’ اردو میں اصول تحقیق‘‘ (جلد دوم) مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان،1988ء ص226 28قاضی عبدالودود کا بیان ہے مجھے اپنی پیدائش کا صحیح سنہ معلوم نہیں، لیکن 1900ء سے دو تین سال بیشتر ہو گا رسالہ ’’ نقوش‘‘ لاہور(آپ بیتی نمبر)1964ء ص1016 29عبدالحق بحیثیت محقق ’’ از قاضی عبدالودود، سہ ماہی، معاصر پٹنہ نومبر1959ء ص69‘‘ 30ایضاً ص15 31’’ تحقیق و تنقید کا ربط باہمی‘‘ از مظفر علی سید بحوالہ تحقیق اور اصول وضع اصطلاحات پر مختلف مقالات مرتبہ اعجاز راہی اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص170 32’’ اردو تحقیق آزادی سے پہلے‘‘ از پروفیسر گیان چند، بحوالہ اردو میں اصول تحقیق (جلد دوم) مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان 1988ء ص216 33’’ روداد سیمینار اصول تحقیق‘‘ مرتبہ اعجاز راہی، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان،1986ء ص77 34’’ ہندوستانی لسانیات‘‘ از ڈاکٹر محی الدین قادری زور، حیدر آباد دکن، مکتبہ ابراہیمیہ 1932ء ص6 35ایضاً ص90 36’’ گارسان دتاسی اور اس کے ہم عصر بہی خواہان اردو‘‘ (طبع ثانی) از ڈاکٹر محی الدین قادری زور، حیدر آباد دکن، سب رس کتاب گھر 1941ء ص9 37ایضاً ص4-3 38’’ ڈاکٹر سید غلام الدین قادری زور: حیات اور علمی کارنامے‘‘ از بیگم سلطان زمان نزہت اکرام مقالہ پی ایچ ڈی (غیر مطبوعہ) جامعہ پنجاب لاہور، 1982ء ص307 39’’ فیض سخن‘‘ مرتبہ محی الدین قادری زور، حیدر آباد دکن، مطبوعہ شمس المطبع1937ء ص7 40دار العلوم حیدر آباد دکن 41رسالہ ’’ نقوش‘‘ لاہور (آپ بیتی نمبر) جون 1964ء ص1235 42’’ دکن میں اردو‘‘ (چوتھا ایڈیشن) مولف نصیر الدین ہاشمی، لاہور، اردو مرکز 1952ء ، ص1-2 43’’ روداد سیمینار اصول تحقیق‘‘ مرتبہ اعجاز راہی، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص106 44’’ یورپ میں دکنی مخطوطات‘‘ مولفہ نصیر الدین ہاشمی، حیدر آباد دکن، شمع المطبع 1933ء 1350/ھ ص ج 45ایضاً ص1 46ایضاً ص 2 47’’ اردو مخطوطات‘‘ مولفہ نصیر الدین ہاشمی، حیدر آباد دکن، خواتین دکن انسٹیٹیوٹ 1961ء ص4 48ایضاً ص357 49’’ تحقیق کے تقاضے‘‘ از ڈاکٹر وحید قریشی بحوالہ ’’ اردو میں اصول تحقیق‘‘ (جلد اول) اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان 1986ء ص25-24 50’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی، کراچی مکتبہ اسلوب،1963ء ص15-14 51ایضاً ص75 52’’ مقالات صدیقی‘‘ (جلد اول) مرتبہ مسلم صدیقی، لکھنو اتر پردیش، اردو اکادمی 1983ء ص ج 53ایضاً ص96 54ایضاً ص231 55’’ مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی، کراچی، مکتبہ اسلوب،1963ء ص43 56ایضاً ص463 57رسالہ ’’ ہندوستان ‘‘ الہ آباد، اکتوبر1933ء ص463 58’’ سودا‘‘ از شیخ چاند، دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند) 1936ء ص ج 59ایضاً ص ط 60ایضاً ص90 61’’ اردو کی ادبی تحقیق آزادی سے پہلے‘‘ از پروفیسر گیان چند، بحوالہ ’’ اردو میں صول تحقیق‘‘ (جلد دوم) مرتبہ ایم سلطانہ بخش، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان،1988ء ص219 62’’ سودا‘‘ از شیخ چاند، دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند) 1936ء ص ف 63’’ حسام الدین مرحوم کیسے حسام الدین بنا؟‘‘ از پیر علی محمد راشدی، ماہنامہ قومی زبان کراچی دسمبر1982ء ص52 64’’ پیر حسام الدین راشدی‘‘ از ڈاکٹر جمیل جالبی، ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی، دسمبر1982ء ص53 65’’ مرزا غازی بیگ ترخان اور اس کی بزم ادب ‘‘ از سید حسام الدین راشدی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1970ء ص11-12 66ایضاً ص458 67’’ ہفت مقالہ ‘‘ مرتبہ سید حسام الدین راشدی، کراچی انجمن ترقی اردو 1967ء ص7-6 68’’ پیر حسام الدین راشدی‘‘ از ڈاکٹر جمیل جالبی، ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی، دسمبر1982ء ص64 69’’ سندھ کے اردو شعرائ‘‘ از پیر حسام الدین راشدی، ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ کراچی دسمبر1982ء ص8 حصہ کتابیات اس کتابچہ پر مولوی عبدالحق کے علاوہ شاہد احمد دہلوی، ممتاز مفتی اور ابن انشا کا نام بھی درج ہے۔ 1اس تاریخ کو مرتب کرنے کے لئے بہت سے لوگوں پر مشتمل ایل مجلس ادارت تھی جس پر پروفیسر علاؤ الدین صدیقی مدیر اعلیٰ اور گروپ کیپٹن سید فیاض محمود مدیر عمومی تھے جب کہ اس جلد کے لئے ڈاکٹر وحید قریشی مدیر خصوصی تھے۔ ٭٭٭٭٭٭ کتابیات 1آزاد، مولانا محمد حسین آب حیاب مکتبہ عالیہ لاہور 1979ء 2آمنہ صدیقی (مرتبہ) افکار عبدالحق اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1962ء 3ابو الاعلیٰ مودودی (مولان) تفہیم القرآن (جلد ششم) ادارہ ترجمان القرآن لاہو 1979ء 4ابواللیث صدیقی (ڈاکٹر) لکھنو کا دبستان شاعری غضنفر اکیڈمی کراچی 1987ء 5احسان اللہ خان (ڈاکٹر) تعلیمی تحقیقی اور اس کے اصول و مبادی اقبال 1978ء 6احمد دین انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء 7اختر وقار عظیم شبلی بحیثیت مورخ تصنیفات لاہور 1968ء 8اردو ڈکشنری بورڈ اردو لغت(جلد پنجم) اردو ڈکشنری بورڈ کراچی 1983ء 9اسمعیل پانی پتی، شیخ محمد تذکرہ حالی جامعہ پریس دھلی 1934ء 10 مقالات سرسید (حصہ دھم) مجلس ترقی ادب لاہور 1962ء 11 مکتوبات سرسید (جلد اول) 1979ء 12اعجاز راھی (مرتبہ) روداد سیمینار اصول تحقیق مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد 1986ء 13اعجاز راہی (مرتبہ) تحقیق اور اصول وضع مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد 1986ء 14افتخار احمد صدیقی (ڈاکٹر) مولوی نذیر احمد احوال و آثار مجلس ترقی ادب لاہور 1971ء 15اقتدار حسن (ڈاکٹر) مرتبہ کلیات قائم (جلد اول) 1965ء 16 مخزن نکات 1966ء 17الطاف حسین حالی، مولانا حیات سعدی مکتبہ عالیہ لاہور 1986ء 18 حیات جاوید مکتبہ عالیہ لاہور 1984ء 19امین زبیری (مرتبہ) خطوط عطیہ بیگم ظل السلطان بک ایجنسی بھوپال 20 ذکر شبلی مکتبہ جدید لاہور 1953ء 21انجمن ترقی اردو (مرتبہ) قاموس الکتب 1961ء 22 قاموس الکتب (جلد دوم، تاریخ) 1975ء 23انشاء اللہ خان انشاء دریائے لطافت انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1916ء 24انور سدید (ڈاکٹر) اردو ادب کی تحریکیں انجمن ترقی اردو (پاکستان) 1985ء 25ایم سلطانہ بخش اردو میں اصول تحقیق 1986ء 26اردو میں اصول تحقیق مقتدرہ قومی زبان 1988ء 27ایم کے ناطق اردو شعراء میں نکات الشعراء کی اہمیت دانش محل لکھنو 1962ء 28باز محمد تراب علی خان (مرتبہ) تنقیدات عبدالحق شمس الاسلام پریس حیدر آباد دکن 1934ء 29بشیر احمد قریشی ہاپوڑی بابائے اردو کی کہانی 1983ء 30بلگرامی، غلام آزاد خزانہ عمارہ نول کشور پریس لکھنو 1900ء 31پیر کرم شاہ الازھری مقالات (جلد دوم) ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور 1990ء 32تصدق حسین رضوی لغت کشوری سنگ میل پبلی کیشنز لاہور 1986ء 33تمنا اسد اللہ خان گل عجائب انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1939ء 34ثاقب، شہاب الدین بابائے اردو مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کرا چی 1985ء 35جلیل قدوائی (مرتبہ) مکتوبات عبدالحق مکتبہ اسلوب کراچی 1963ء 36 مکاتیب عبدالحق مکتبہ اسلوب کراچی 1963ء 37جمیل جالبی (ڈاکٹر) تاریخ ادب اردو مجلس ترقی ادب لاہور 1984ء 38 تاریک ادب اردو (جلد دوم) مجلس ترقی ادب لاہور 1987ء 39حالی، الطاف حسین حیات سعدی مکتبہ عالیہ لاہور س ن 40 یادگار غالب مکتبہ عالیہ لاہور 1984ء 41 حیات جاوید مکتبہ عالیہ لاہور 1984ء 42حنیف نقوی (ڈاکٹر) شعرائے اردو کے تذکرے نسیم بک ڈپو لکھنو 1976ء 43خان رشید اردو کی تین مثنویاں اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1960ء 44خلیق انجم (ڈاکٹر) مرزا محمد رفیع سودا انجمن ترقی اردو علی گڑھ 1966ء 45 متنی تحقیق انجمن پریس دھلی 1967ء 46ذکا اللہ مولوی تاریخ ہندوستان (جلد ہفتم) مطبع انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ 1916ء 47راشدی، حسام الدین سید ہفت مقالہ انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 1970ء 48 مرزا غازی بیگ ترخان اور اس کی بزم ادب 1989ء 49رشید حسن خان ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ الفیصل لاہور 1989ء 50رضیہ نور محمد (ڈاکٹر) تعلیقات خطابات گارساں دتاسی مجلس ترقی ادب لاہور 1987ء 51سبط حسن سید پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء دانیال کراچی 1983ء 52سلطان محمود حسین (ڈاکٹر) تعلیقات خطابات گارساں دتاسی مجلس ترقی ادب لاہور 1987ء 53سید احمد دھلوی فرھنگ آصفیہ جلد اول س ن 54شاہد احمد دھلوی بزم خوش نفساں مکتبہ اسلوب کراچی 1985ء 55شبلی نعمانی مولانا الفاروق مکتبہ عالیہ لاہور 56شبلی نعمانی مولانا شعر العجم (حصہ اول و دوئم) شیخ مبارک علی لاہور س ن 57شفیق، رائے لچھمن نرائن چمنستان شعراء انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1928ء 58شمس اللہ قادری اردو قدیم نول کشور پریس لکھنو 1925ء 59شوق، قدرت اللہ طبقات الشعراء مجلس ترقی ادب لاہور 1968ء 60شیخ چاند سودا انجمن ترقی اردو دھلی (ہند) 1936ء 61شیرانی، حافظ محمود پنجاب میں اردو (طبع چہارم) مکتبہ معین الادب لاہور س ن 62 تنقید شعر العجم انجمن ترقی اردو (ہند) دھلی 1942ء 63 پرتھی راج راسا انجمن ترقی اردو (ہند) 1943ء 64شیرانی، حافظ محمود حفظ اللسان معروف بہ خالق باری انجمن ترقی اردو (ہند) دھلی 1944ء 65شیرانی، مظہر محمود (مرتبہ) مقالات حافظ محمود شیرانی مجلس یادگار حافظ محمود شیرانی 1981ء 66 مکاتیب حافظ محمود شیرانی مجلس یادگار حافظ محمود شیرانی 1981ء 67شیفۃ نواب مصطفے خان گلشن بے خار نفیس اکیڈمی کراچی 1963ء 68طفیل احمد بنگلوری سید مسلمانوں کا روشن مستقبل الکتبی لاہور س ن 69عارف فضل الٰہی فرھنگ کارواں مکتبہ کارواں لاہور 1962ء 70عبادت بریلوی (ڈاکٹر) مرتبہ خطبات عبدالحق انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی 1964ء 71 مقدمات عبدالحق اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1964ء 72 خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبداللہ چغتائی مجلس اشاعت مخطوطات اورینٹل کالج لاہور 1972ء 73 تنقید اور اصول تنقید اداورہ ادب و تنقید لاہور 1984ء 74 خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ء 75عبدالحق، مولوی (مترجم و مقدمہ) اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام رفاہ عام پریس لاہور 1911ء 76 (مرتبہ انتخاب مضامین رسالہ حسن س ن 77عبدالحق، مولوی (مترجم و مقدمہ) اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام 78 اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام (حصہ دوم) رفاہ عام پریس لاہور 1911ء 79 قواعد اردو الناظر پریس لکھنو 1914ء 80(مرتبہ) انتخاب کلام میر دائرہ الافادہ حیدر آباد (دکن) 1921ء 81(مرتبہ) ذکر میر انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1928ء 82 مخزن نکات 1929 83 دیوان اثر 1930ء 84 جنگ نامہ عالم علی خان انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1932ء 85 مرھٹی زبان پر فارسی اثر 1933ء 86 مرحوم دھلی کالج 1933ء 87 مخزن شعراء 1933ء 88 دیوان تاباں 1935ء 89(مولفہ) اسٹوڈنٹس انگلش اردو ڈکشنری 1938ء 90(مرتبہ) قطب مشتری 1939ء 91 انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 1953ء 92عبدالحق، مولوی (مرتبہ) چند ہم عصر انجمن ترقی اردو ہند دھلی 1940ء 93 اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1959ء 94 بچوں کے خطوط اردو اکیڈمی حیدر آباد دکن 1961ء 95 نصرتی انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 1944ء 96 انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 1961ء 97 باغ و بہار انجمن ترقی اردو (ہند) دھلی 1944ء 98 انتخاب داغ 1946ء 99 اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 100 اردو کی فضیلت چند بنگالی اکابر کی نظر میں 1950ء 101 سر آغاز خان کی اردو نوازی 1950ء 102 گلشن عشق 1951 103 پاکستان میں اردو کا المیہ 1952ء 104 پاک جمہوریت فیروز سنز پریس لاہور س ن 105عبدالحق، مولوی اردو یونیورسٹی وقت کا اہم تقاضہ فخر ماتری کراچی 1960ء 106 قدیم اردو انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی 1961ء 107(مولفہ) لغت کبیر 1964ء 108 سرسید احمد خان (حالات و افکار) 1975ء 109 افکار حالی 1976ء 110(مقدمہ) خطبات گارساں دتاسی (حصہ اول) 1979ء 111(مرتبہ) نکات الشعراء 1979ء 112 مذہب و سائنس 1983ء 113 سب رس انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 1983ء 114عبدالحق جوبلی کمیٹی (مرتبہ) اردو مصفے ابو تھمیم فریدی آبادی لاہور 1961ء 115عبدالقادر خان مطالعہ پاکستان قومی نصاب گھر لاہور 1989ء 116عبدالقوی دسنوی مکتوبات عبدالحق بنام محوی انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی 117عبدالقیوم ڈاکٹر حالی کی نثر نگاری مجلس ترقی ادب لاہور 1968ء 118عبداللہ سید(ڈاکٹر) مباحث 119 وجہی سے عبدالحق تک مکتبہ خیابان ادب لاہور 1977ء 120 سرسید احمد خان اور ان کے نامور رفقاء کار کا فکری اور فنی جائزہ 1986ء 121عبدالماجد دریا بادی، مولانا القرآن الحکیم (جلد دوم) اردو سائنس اکیڈمی لاہور 1952ء 122عبدالمجید خواجہ جامع اللغات (جلد اول) اردو سائنس بورڈ لاہور 1989ء 123عبید اللہ خاں (ڈاکٹر) مقامات یوم شبلی اردو مرکز لاہور 1961ء 124عطا الرحمن کاکوی شاہ (مرتبہ) تلخیص عہد ثریا عظیم الشان بک ڈپو پٹنہ 1967ء 125علی لطف، مرزا گلشن ہند رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور 1906ء 126غلام حسین ذوالفقار (ڈاکٹر ) تاریخ اورینٹل کالج جدید اردو پریس لاہور 962ء 127فاروقی، خواجہ احمد کلاسکی ادب آزاد کتاب گھر دھلی 1953ء 128فتح علی گردیزی، سید تذکرہ ریختہ گویاں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1933ء 129فرمان فتح پوری (ڈاکٹر) تحقیق و تنقید ماڈرن پبلشرز کراچی 1963ء 130 اردو شعراء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری مجلس ترقی ادب لاہور 1972ء 131فیروز الدین، مولوی فیروز اللغات اردو (جلد اول) فیروز سنز لاہور س ن 132فیض احمد فیض میزان ناشران لاہور 1962ء 133قاضی ایم اے تنقیدات عبدالحق مکتبہ چنگاری دھلی 1956ء 134قائم الدین قائم مخزن نکات انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1929ء 135گیان چند جین (ڈاکٹر) اردو کی نثری داستانیں انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی 136مالک رام رھبر تحقیق لکھنو یونی ورسٹی لکھنو 1972ء 137محمد امامی، حکیم نقوش و تاثرات انجمن ترقی اردو میسور 1958ء 138 مکتوبات مولوی عبدالحق بنام حکیم محمد امام امامی اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1860ء 139محمد بیگ مرزا مقدمات عبدالحق (حصہ اول) مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد دکن 140 مقدمات عبدالحق (جلد دوئم) 1931ء 141محمد طفیل جناب ادارہ فروغ ادب لاہور 1970ء 142محمد فضل دین منشی (مرتبہ) تہذیب الاخلاق مصطفائی پریس لاہور 1893ء 143محمود الٰہی (ڈاکٹر) بازیافت دانش محل لکھنو 1965ء 144محی الدین قادری زور (ڈاکٹر اردو شہ پارے مطبع مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد دکن 145 ہندوستانی لسانیات 1932ء 146 فیض سخن شمس الطبع حیدر آباد دکن 1937ء 147 گارساں دتاسی اور اس کے بہی خواہاں اردو سب رس کتاب گھر 1941ء 148مختار الدین احمد (ڈاکٹر) عبدالحق ساہتیہ اکیڈمی دھلی 1948ء 149مسلم صدیقی مقالات (حصہ اول) اتر پردیش اکادمی لکھنو 1983ء 150مشفق خواجہ جائزہ مخطوطات (جلد اول) مرکزی اردو بورڈ لاہور 1979ء 151مصحفی غلام مصطفے تذکرہ ہندی جامعہ برقی پریس دھلی 1933ء 152 ریاض الفصحا انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1934ء 153 عقد ثریا انجمن ترقی اردو (پاکستان) 1978ء 154معراج نیر سید (مرتبہ) حسرت موہانی مکتبہ میری لائبریری لاہور 1973ء 155معین الرحمن سید (ڈاکٹر) فرمودات عبدالحق نذر سنز لاہور 1978ء 156 تحقیق غالب اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1981ء 157 بابائے اردو احوال و افکار سن میل پبلیکشینز لاہور 1982ء 158 ذکر عبدالحق 1985ء 159ملا وجہی قطب مشتری انجمن ترقی اردو (ہند) دھلی 1939ء 160 گلشن عشق انجمن ترقی اردو (پاکستان) 1952ء 161 1961ء 162 سب رس 1952ء 163ممتاز حسن (مرتبہ) اقبال اور عبدالحق مجلس ترقی ادب لاہور 1973ء 164ممتاز حسین (پروفیسر) نقد صرف مکتبہ اسلوب کراچی 1985ء 165میر اثر دھلوی خواب و خیال انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1926ء 166 دیوان اثر 1930ء 167میرا من دھلوی باغ و بہار ہندوستانی چھاپہ خانہ کلکتہ 1803ء 168 1880ء 169مناظر حسن زیدی سید (ڈاکٹر) لغت نظامی گلوب پبلشرز لاہور 1985ء 170نذیر احمد ڈپٹی امہات الامہ (طبع ثانی) ادریس پریس لاہور 1935ء 171نظیر حسین زیدی (ڈاکٹر) مولانا ظفر علی خان احوال و افکار مجلس ترقی ادب لاہور 1986 172نقوی نائب حسین اردو کی قدیم مثنویاں 1969 173نور الحسن نیر مولوی نور اللغات مقبول اکیڈمی لاہور 1988ء 174وارث سرہندی قاموس مترادفات اردو سائنس اکیڈمی لاہور 1963ء 175 علمی اردو لغت علمی کتب خانہ لاہور 1963ء 176وحید قریشی (ڈاکٹر) مطالعہ حالی اردو بک اسٹال لاہور 1961ء 177 کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ مکتبہ ادب جدید لاہور 1965ء 178 تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند 1971ء 179 پاکستان قومیت کی تشکیل نو سنگ میل پبلیکشنز لاہور 1984ء 180وراق محمد بن اسحاق ابن ندیم الفہرست ادارہ ثقافت اسلامیہ 1969ء 181وقار عظیم سید (پروفیسر) فورٹ ولیم کالج (تحریک و تاریخ) یونی ورسل بکس لاہور 1986ء 182ہاشمی فرید آبادی پنجاہ سالہ تاریک انجمن ترقی انجمن ترقی اردو کراچی (پاکستان) 183نصیر الدین یورپ میں دکنی مخطوطات شمس المطابع حیدر آباد 1933ء 184 دکن میں اردو(چوتھا ایڈیشن) اردو مرکز لاہور 1952ء 185ہاشمی، نصیر الدین اردو مخطوطات خواتین دکن انسٹی ٹیوٹ حیدر آباد دکن 1961ء 186ہوائٹ، ایلن جی قدیم آبادئی بزرگ دی اورینٹل واچ مین پبلشنگ ہاؤس 187یکتا، اسد علی و امتیاز علی عرشی (مرتبہ) دستور الفصحات ہندوستانی پریس رام پور 1943ء 188یوسف حسین (ڈاکٹر) غالب اور اھنگ غالب غالب اکیڈمی 1968ء 189 Abdul Haq (DR) the Standard English-urdu Dictionary (Fourtb Edition) Anjuman e Taraqqi e Urdu (Pakistan) Karachi 1985 مقالات 1اکرام بیگم سلطانہ زمان نزہت ڈاکٹر سید غلام محی الدین قادری زور مقالہ پی ایچ ڈی جامعہ پنجاب لاہور،1985ء 2زرینہ خاتون شعر العجم میں شبلی کا تنقیدی اسلوب مقالہ ایم اے (اردو) جامعہ پنجاب لاہور 1987ء 3سجاد مجوکہ حافظ محمود شیرانی مقالہ ایم اے (اردو) جامعہ پنجاب لاہور، 1964ء 4شیرانی، مظہر محمود حافظ محمود شیرانی اور ان کی علمی و ادبی خدمات مقالہ پی ایچ ڈی، جامعہ پنجاب لاہور،1976ء جرائد 1ماہنامہ آجکل دھلی (تحقیق نمبر) اگست1957ء 2ادیب علی گڑھ (شبلی نمبر) ستمبر1960ء 3سہ ماھی اردو اورنگ آباد (دکن) جنوری 1921ء جنوری1922ء اکتوبر1924ء جولائی 1925ء اپریل1926ء جنوری 1934ء جولائی 1834ء اپریل 1936ء اپریل1938ء اکتوبر1949ء اپریل1951ء جنوری1952ء اگست1952ء 4رسالہ ماھنامہ افکار کراچی 1961ء 5البعیر مجلہ اسلامیہ کالج چنیوٹ (عالم گیر نمبر) مئی1962ء 6ماہنامہ الشجاع کراچی اگست1959 7روزنامہ امروز لاہور 7فروری1956ء 8ماہنامہ اورینٹل کالج میگزین شمارہ4جلد2-15 9 مئی1932ء 10 نومبر1938ء 11 (صد سالہ جشن نمبر) جون1972ء 12ماہنامہ الناظر لکھنو مارچ1915ء 13برگ گل مجلہ اردو کالج کراچی(عبدالحق نمبر) اگست1963ء 14رسالہ تاج حیدر آباد دکن جلد نمبر 6,5,4, /1934 15رسالہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ یکم جمادی الاول 1312ء 16 قومی زبان کراچی جولائی1965ء 17ماہنامہ قومی زبان کراچی 16اگست1960ء 18 1961ء 19 1963ء 20 1964ء 21ماہنامہ قومی زبان (بابائے اردو نمبر) کراچی 16اگست1966ء اگست1967ئ، دسمبر1967، ستمبر1968ئ، اگست1970ئ، ستمبر1971ئ، اکتوبر1980ئ، اگست1981ئ، 1982ئ، دسمبر1982ئ، اگست1984ء 22سہ ماہی مجلس حیدر آباد دکن (عبدالحق نمبر) 1961ء جون جولائی1956ء 23رسالہ مشرب (تاریخ ادب نمبر) کراچی جون جولائی1956ء 24سہ ماہی معاصر پٹنہ نومبر1959ء 25رسالہ نقوش لاہور مارچ1963ء 26 (آپ بیتی نمبر) مارچ1964ء 27ماہنامہ نگار پاکستان (تذکروں کا تذکرہ نمبر) کراچی 1964ء 28 حیدر آباد دکن جون جولائی 1981ء 29دوماھی نورس (عبدالحق نمبر) مجلہ اورنگ آباد کالج 1935ء 30رسالہ ہندوستانی الہ آباد اکتوبر1933ء ڈاکٹر سید معراج نیئر ’’ میں ڈاکٹر معراج نیر کی محنت و مستعدی اور شرافت نفس کا ایک مدت سے معترف اور مداح چلا آ رہا ہوں۔ وہ پاکستان کے پہلے اور واحد ریسرچ اسکالر ہیں، جنہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق پر تحقیقی کام کر کے پی ایچ ڈی کی سند فضیلت پانے کا قابل رشک امتیاز اور اعزاز حاصل کیا۔‘‘ کسی عہد آفریں شخصیت کے کارناموں کا احاطہ یا حق ادا کرنا کسی ایک جست یا کوشش میں ممکن نہیں ہوتا لیکن مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں ڈاکٹر سید معراج نیر کے اس کام سے بے نیاز ہو کر، بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے علمی کارناموں کا کوئی جائزہ لینا ممکن نہیں ہو گا۔۔۔۔ اور اتفاق یا اختلاف، دونوں صورتوں میں ڈاکٹر سید معراج نیر کا حوالہ ناگزیر ہو گا۔ اسی میں اس کتاب اور کام کی اہمیت مضمر ہے۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End