چوں مرگ آید علامہ اقبال کی بیماریوں اور مرض الموت کی تشخیص (خطوط، مستند حوالوں اور جدید طبّی تحقیقات کی روشنی میں) ڈاکٹر سید تقی عابدی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416-399-4 طبع اوّل : ۲۰۰۷ء تعداد : ۱۰۰۰ قیمت : ۔؍۱۵۰روپے مطبع : شرکت پریس ، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ فہرست ٭ انتساب ۷ ٭ مقدمہ ۹ ٭ علامہ کی بیماریاں ۱۳ ٭ عوارض چشم ۱۵ ٭ عارضۂ درد گردہ ۲۱ ٭ عارضۂ نقرس ۲۷ ٭ بیماریٔ قلب اختلاج قلب تمباکو نوشی ورزش سے گریز ۳۰ ۳۶ ۳۷ ۴۱ ٭ امراض حلق و سینہ پھیپھڑوں کی بیماریاں برونکائٹس، برونشت اور ام فی ضیما تنگیٔ نفس۔ دم پھولنا ورم ریوی اور نمونیا آواز کا بیٹھ جانا ۴۳ ۴۳ ۴۴ ۴۷ ۴۹ ۵۰ ٭ ناک اور حلق کی بیماریاں آواز کا بیٹھ جانا تبخیر معدہ ریح کاعارضہ قبض درد قولنج ۵۳ ۵۵ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۵ ٭ دانتوں کی بیماری ۶۷ ٭ کم خوابی ۶۹ ٭ میڈیکل معائنہ ، ٹسٹ اور طبّی آلات ۷۱ ٭ علامہ اقبال کے معا لجین ۷۹ ٭ علاج طبّی علاج ایلوپیتھک علاج بجلی کا علاج عملِ سرجری سے علاج ۸۲ ۸۵ ۹۸ ۱۰۱ ۱۰۹ ٭ تشخیص اور علاج کی کوتاہیاں ۱۱۰ ٭ خوراک اور پرہیز ۱۱۲ ٭ دواؤں کے نام ۱۲۰ ٭ کیا اقبال نے بیس (۲۰) سال عمر کم پائی؟ ۱۲۲ ٭ وبای جہانی سے نجات ۱۲۵ ٭ بیماری کے اثرات ۱۲۶ ٭ استقامت اور امید ۱۳۴ ٭ گزارش امراض ۔اقبال کے قلم سے ۱۴۲ ٭ اقبال کی میڈیکل ہسٹری اور معائنہ ۱۴۶ ٭ علامہ اقبال کی آخری علالت ۱۴۹ ٭ شاعر مشرق کا وقتِ آخر ۱۶۹ ٭ زندگی کے آخری لمحات ۱۷۱ ٭ علامہ اقبال کی آخری رات کاش آخری خواہش پوری ہوتی؟ ۱۷۳ ٭ علامہ اقبال کاجلوسِ جنازہ ۱۷۷ ٭ علامہ اقبال کامقبرہ ۱۸۲ ٭ فہرستِ خطوط ۱۸۶ ٭ کتابیات ۲۰۳ ٭ رَو میں ہے رخشِ عمر ۲۰۵ انتساب پُرخلوص گمنام حکیم کے نام جنھوں نے علامہ کی بیماری کی دوا تیار کرکے گورداس پور سے لاہور آکر علامہ کو پیش کی علامہ اپنے خط میں۳؍ اپریل ۱۹۲۲ء کو مولانا گرامی کولکھتے ہیں: ’’کل گورداس پور سے ایک حکیم صاحب خود بخود تشریف لے آئے تھے۔ انھیں کسی سے میری علالت کا حال معلوم ہوا تھا۔ دوا دے گئے ہیں۔ جس سے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس دوا سے فائدہ ہو جائے گا کیونکہ جن اجزا سے یہ مرکب ہے ان میں سے ایک اخلاص بھی ہے جو ان حکیم صاحب کو خود بخود میرے مکان تک لے آیا۔‘‘ ع= ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد مقدمہ کارخانۂ قدرت میں کسی چیز کا وجود بغیر مقصد نہیں، بعض مقاصد عیاں اور بعض مقاصد نہاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علامہ کی زندگی کے اُس پہلو پر گفتگو کی جائے جس سے صرف ان کی ذات کا تعلق تھا اُس سے عوام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے اور انتقال کے بعد خود علامہ کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ان تمام سوالوں کا تشفی بخش جواب اس کتاب کے ہر صفحہ پر سطور سے زیادہ بین السطور بیاض سحر کی طرح روشن ہے۔یہ کتاب اس لحاظ سے بھی انفرادیت رکھتی ہے کہ اس میں طبّی معلومات، بدنی کیفیات، روحانی اعتقادات کو خاص طریقہ سے برتا گیا ہے ۔ گفتگو لفظ بہ لفظ خطوں کے آئینے میں، مستند حوالوں کی روشنی میں کرکے نتائج اخذ کئے گئے ہیں جن کے مطالعہ سے عوام ہی نہیں بلکہ اقبالیات کے خاص طالب علموں کو بھی معلوما ت فراہم ہو سکتے ہیں۔ اس کتاب سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔ ا۔ اقبال اُن چند خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنھیں اُس زمان و مکان کے لحاظ سے بہترین طبّی امداد حاصل رہی۔ اقبالؔ کے تیس (30) سے زیادہ معالجوں میں حکیم، ڈاکٹر، اور دلسوز پرستار شامل تھے۔ مسیح الملک اجمل خان ہوں کہ افسر الاطبا حکیم نابینا، عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر متھراداس ہوں کہ چیف ریڈیالوجسٹ بھوپال ڈاکٹر عبد الباسط اور ان کے معاونین دن رات اِسی کوشش میں لگے رہے کہ علّامہ کا علاج بہترین طریقہ پر کیا جا سکے۔ تاریخ کے سیاہ اوراق پر جہاں فارسی کا عظیم شاعر فردوسی لاچارگی کی موت مرتا ہے ، عطاّر جیسا عظیم فارسی کا شاعر ایک معمولی سپاہی کی تلوار سے قتل ہوتا ہے، حافظؔ جیسا شاعر اپنی منکسر المزاجی کی وجہ سے بخش دیا جاتا ہے، جعفر زٹلّی حق گفتنی پر ہاتھی سے کچل دیا جاتا ہے اور انشا اللہ خاں جیسا عمدہ شاعر شاہی عتاب کانشانہ بنایا جاتا ہے اُسی گنبد بے در میں علامہ اقبالؔ کا علاج اور ان کے آرام کا خیال اس طرح سے کیا جا رہا تھا کہ بادشاہوں کے دلوں میں بھی اس کی حسرت رہ جائے۔ یہاں حکیم الامتؒ کے قدموں میں حکمت اور حکیم ان کی طبیعت کے موافق طب اور طبیب دن رات یوں مصروف تھے جیسے عبادت کر رہے ہیں۔حکیم قرشی ہاتھ سہلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد یوسف بازو داب رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القیوم علامہ کے غصّہ کو شہد کی طرح پیئے جا رہے ہیں۔ جرمن کے ڈاکٹر زیلشر(Dr.Selzer) یا لاہور کے فیملی ڈاکٹر جمعیت سنگھ یا آنکھ کے سرجن متھرا داس کوٹھی پر ہر وقت حاضر ہیں اور حضور ِاقبالؔ میں رہنا اپنا فرض سمجھ رہے ہیں۔ یہ امکانات ہر شخص کی قسمت میں نہیں۔ ع۔ ہر کہ خدمت کرد ،ا و مخدوم شد ب۔ اُردو و فارسی ادب کا شاید ہی کوئی دوسرا عظیم شاعر ہو۔جس نے علّامہ کی طرح اپنی بیماری کی کیفیتوں کو لکھا ہو۔ علّامہ کے مطبوعہ ساڑھے چودہ سو خطوں میں (251) خطوط ہمارے بیان کی سند ہیں۔ ج۔ اگرچہ اقبالیات کے طالب علم اُن چند افراد کے نام و نشان سے واقف ہیں جنھوں نے اقبال کے انتقال کے بعد اقبال کی قربت کو اپنے مقام کو بلند کرنے کے لیے صرف کیا اور بات کا بتنگڑ بنایا اور خود کو اقبال کے خدمت گزاروں کی صف میں سر فہرست رکھا۔ اقبال کے معالجین میں بعض افراد جو خصوصی طور پر اقبال کی نگاہ میں معتبر اور مہم تھے ان کا ذکر بھی نہیں کیا چنانچہ اس کتاب میں خطوں اور مستند حوالوں سے اُن حقیقی خدمت گزاروں کے نام اور کام سے بھی آشنائی ہو سکے گی۔ د۔ اقبال کی طبّ سے واقفیت اور وابستگی کا پتہ بھی ان کے تنقیدی سوالوں سے ملتا ہے وہ طبّ اسلامی کی ترقی کے خواہاں تھے اگرچہ انھوں نے طب سنتی پر ایک دو لکچر بھی دئیے تھے لیکن وہ اس طریقۂ علاج میں انقلاب کے منتظر تھے۔ ھ۔ اقبال کی علالت اور ان کے علاج کے دوران طبّی اور انگریزی علاج کا مقابلہ بھی ایک عمدہ تقابلی اسٹیڈی کے طور پر لیا جا سکتا ہے اگرچہ اقبال طبّی علاج کے خواہاں تھے لیکن انھوں نے ایلیوپیتھک علاج سے بھی حسب ضرورت فائدہ اٹھایا ۔ و۔ اقبال کی زندگی کے نجی پہلو جس میں ان کی قلندرانہ عادتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں ان کی بیماری اور اس سے مربوط علاج کی سرگزشت میں قدم قدم پر نظر آتی ہیں۔ ز۔ اقبال کے نظام اوقات کا مفصّل ذکر جس میں مسواک ، خوراک سے لے کر اجابت تک کے مسائل جو عموماََ بیان نہیں کئے جاتے اس گفتگو میں شامل ہیں۔ ح۔ جان انسان کی سب سے پیاری چیزہے چنانچہ جب جان خطرے میں پڑجاتی ہے تو جذبات کی گہرائیوں سے ایسے افکار ابلتے ہیں جو آب زلال سے بھی خالص اور بغیر کسی ملاوٹ اور بناوٹ کے ہوتے ہیں۔عمر اور بیماری کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کی قوت احساس بھی بڑھ جاتی ہے جب کہ قوت بدنی کم ہو جاتی ہے اس کشمکش زیاد اور کم سے جو جذبات میں تلاطم پیدا ہوتا ہے اُس کا سر چشمہ جو اقبالؔ کی کئی آخری عمر کی نظموں میں نظر آتا ہے قابل تفّکر و تائید ہے۔ ط۔ راقم کے تیس (30) سالہ طب کے تجربہ میں کئی بار یہ دیکھا گیا کہ جب کسی مریض کو اُس کے مہلک مرض کی اطلاع دی جاتی ہے تو بڑے سے بڑے بلند ارادہ شخص کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے۔لیکن جب لاہور کے ریڈیولاجسٹ ڈاکٹر ڈک سینے کے ایکس ریز کے معائنہ کے بعد علّامہ کے سینے میںمہلک ٹیومر کی تشخیص دیتے ہیں اُسی دن چند گھنٹوں بعد جو خط علّامہ نے سید نذیر نیازی کو حکیم نابینا سے مشورہ کرنے کے لیے لکھا ۔اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اقبال تمام آرامش قلب اور بغیر تشویش کے زندگی اور موت کے مباحثہ میں مشغول ہیں۔ یہی نہیں موت سے کچھ گھنٹے قبل درد کم کرنے کے لیے افیونی دواؤں کے استعمال کو یہ کہہ کر منع کر دیا کہ میں نیم بیہوشی یا بیہوشی میں مرنا نہیں چاہتا۔ علّامہ کے عزائم ، استقلال مزاج اور حقیقت حیات اور ممات کے مسائل اور مراحل بھی اِسی دفتر میں نظر آئیں گے کیوں کہ خود علّامہ ایک خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ ع۔ ہرچہ از دوست میرسد نیکواست ی۔ بیسوی صدی کی تیسری اور چوتھی دہای میں موجود بر صغیر میں طبّی سہولتوں کا بھی پتہ چلتا ہے کیوں کہ علّامہ کے مرض کی جدید طبّی آلات سے بھی تشخیص کی گئی تھی۔ ک۔ علّامہ کی آواز بیٹھ جانے ، دمہ قلبی ، رسولی اور مرض قلب وغیرہ کی صحیح علّت اور تشخیص جدید طبّی اصولوں سے اس کتاب میں پیش کی گئی ہے۔ ل۔ بیماری کی وجہ سے جو صدمات اقبالؔ کے جذبات اور زندگی کے روز مرّہ مسائل پر وارد ہوئے اس کا اجمالی ذکر بھی کیا گیا ہے۔ م۔ حکیم الامتؒ کی طویل علالت اور مرض الموت کی وجہ سے امت جن شاہکار تصانیف سے محروم رہی جس میں قابل ذکر مقدمتہ القرآن ، ایک گمشدہ پیغمبر کا صحیفہ، اور Reconstruction of Islamic Jurisprudence وغیرہ شامل ہیں۔ مستند حوالوں کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔ ن۔ علّامہ کے مرض کی تشخیص میں جو غلطیاں کی گئیں، علاج کے سلسلے میں جو غلط روش اختیار کر کے ڈاکٹرژیلشرSelzer ایلوپیتھک علاج کو قبول نہیں کیا گیا اور بعض مضر اجزا سے بنی ہوئی یونانی دواؤں کو استعمال کیا گیا۔ان سب حقائق کی نشان دہی بھی کی گئی ہے ۔بہرحال۔ ع۔ ہر کسی مصلحت خویش نکو می داند اور ان مطالب کو پڑھتے ہوئے ع۔ یک کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ام ص۔ مطالب عام فہم جملوں میں بیان کئے گئے ہیں ۔ بہرحال میڈیکل اصطلاحات کا حتی المقدور ترجمہ بھی کیا گیا ہے تاکہ عوام اور خواص جن میں طبیب اور غیر طبیب شامل ہیں سب استفادہ کر سکیں۔ ق۔ سب سے اہم نکتہ جو اس موضوع سے ہمارے سامنے اجاگر ہوتا ہے وہ حکیم الامتؒ کی کوشش جدوجہد ، محنت اور خدمت خلق و امّت ہے جو زندگی کے آخری لمحوں تک جاری رہی۔ ہم نے دیکھا ہے جب خطرہ کی گھنٹی بجتی ہے تو لوگ اپنے تمام تر شغل جس میں شاعری، رفاہی کام وغیرہ بھی شامل ہیں چھوڑ چھاڑ کر بستر علالت پر صرف افسردگی کے عالم میں موت کے منتظر رہتے ہیں جب کہ علّامہ جو یہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ چراغ سحری ہیں اور صرف کچھ دنوں یا گھنٹوں کے مہمان ہیں لیکن انتقال کی آخری شب تک اگر ان کے نظام اوقات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ اُسی انہماک اور کوشش سے امت کے کاموں میں مصروف ہیں جیسے انھیں کچھ ہوا ہی نہیں۔ علّامہ اقبالؔ کی یہ مثبت فکری ہمارے لیے بہت بڑا درس ہے اگرچہ۔ ع۔ فکر ہر کس بہ ہمت اوست ہے لیکن پھر بھی ان واقعات سے سیکھنے والے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آخر میں اپنے دوست اور کرم فرما ڈاکٹر محمد سہیل عمر ناظم اقبالؔ اکادمی پاکستان کامشکور ہوں جنھوں نے نہ صرف اس دستاویز کا نام تجویز کیا بلکہ اکادمی کی جانب سے اس کی اشاعت کا بیڑا بھی اٹھایا ۔ بقول آتش لکھنوی ۔ ع۔ بس عبارت ہو چکی مطلب پہ آنا چاہئے سید تقی عابدی ٹورانٹو۔ کینیڈا علّامہ کی بیماریاں I۔عوارض چشم(Eye Problems) ا۔ داہنی آنکھ کی ضعف بصارت ب۔ دونوں آنکھوں میں موتیا اترنا (Bilateral immature Cataract) ج۔ کمزور بینائی (جوانی سے چشمہ کا استعمال) II۔ عوارض گردہ (Kidney Problems) ۱۔ بائیں گردہ میں پتھر ی (Renal Calculus) ب۔ درد گردہ (بائیں طرف) (Left Renal Colic) ج۔ گردو ں کا ماؤف ہونا (Chronic Renal Failure) III۔ نقرس ) Gout ( دونوں پاؤں کے انگوٹھے اور بعض اوقات گھٹنے اور کمر کے جوڑوں میں درد اور سوجن IV۔ عوارض قلب (Heart Problems) ا۔ اختلاج قلب (Palpitation) ب۔ ضعف قلب ) (Right Congestive Heart Failure ج۔ عظم و اتسا ع قلب (Ischemic Heart Disease) د۔ درد شانہ (Angina) ھ۔ نبض غیر منظم (Irrhythemias) و۔ نملی نبض (Irregular Pulse) ز۔ دمّہ قلبی (Dyspnea on Exertion) ح۔ ورم بدن (استسقا) (Anasarca) ط۔ کمزوری ۔ نقاہت (Fatigue) ی۔ غشی کے حملے (Syncope) ک۔جگر کا پھیل جا نا (Passive Congestion of liver) V۔ عوارض ریوی (پھیپھڑوں کے عوارض)(Lung Problem) ۱۔ خفیف دمّہ (Bronhial Asthma) ب۔ برونکا ٹس (Chronic Bronchitis) ج۔ برونشت (Bronchiectasis) ھ۔ نفس تنگی (Shortness of Breath) و۔ نمو نیا (Pneumonia) ز۔ پھیپھڑوں میں پانی بھر جانا (Pulmonary Oedema) VI۔ عوارض گوا رشی (GI Problems) ۱۔ ورم معدہ (تبخیر معدہ ) (Gastritis) ب۔ ریح Gases) ( ج۔ سوئے ہا ضمہ (Dyspepsia) ھ۔ قبض (Contipation) و۔ قو لنج (Colitis / Dysentry) ز۔ بھو ک نہ لگنا (Loss of Apetite) VII۔ درد گلو (Throat Problems) ا۔ حلق کا د رد (Laryngitis) ب۔ آوازکا بیٹھ جا نا (Hoarseness of Voice) ج۔ نزلہ زکام کھا نسی (Common Cold) VIII۔ امراض دہا ن (Oral Problems) ا۔ مسوڑوں کا پھولنا (Gingivitis) ب۔ دانتوں کا درد (Dental Caries) IX۔ ملیریا (Malaria) X۔ کم خوابی(Insomnia) عوارض چشم (Eye Problems) خلا صہ : ۱۔ اقبال کی داہنی آنکھ (Right eye) بچپن سے کمزور تھی جب اقبال کی عمر ۲ سال کے قریب تھی۔ ۲۔ اقبال جوانی سے ہی عینک کا استعمال کرتے تھے۔ ۳۔ دا ہنی آنکھ کی کمزور بینائی کی وجہ سے ۱۹۰۱ء میں ایکسٹرااسٹینٹ کمشنری کے مقابلے میں طبّی معائنہ میں ناکام قرار دئے گئے۔ ۴۔ مارچ۱۹۳۷ء سے آنکھوں میں موتیا(cataract) اُترنا شروع ہو گیا۔ ۵۔ موتیا کا آپریشن مارچ ۱۹۳۸ء میں ہونے والا تھا لیکن دمّہ کے حملوں سے ستمبر ۱۹۳۸ء تک ملتوی کر دیا گیا۔ اقبال نے اس سے پہلے ہی اپریل ۱۹۳۸ء میں ہمیشہ کے لیے امّت کی آنکھیں کھول کر اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ۶۔ اقبال کی آنکھوں کے معالج ڈاکٹر متھراداس موگا والے غیر معمولی شہرت کے حامل تجربہ کار سرجن تھے۔ ۷۔ اقبال نے کبھی شیشے یا پتھّر کی آنکھ نہیں لگوائی۔ ۸۔ اقبال آخری مہینوں میں خط و کتابت اور مطالعہ کتب دوسرے افراد کی مدد سے کیا کرتے تھے۔ آنکھیں اور بصارت ۱۔ اقبال کی دا ہنی آنکھ (Right eye) بچپن سے کمزور تھی۔ الف۔’’دانائے راز‘‘ میں صفحہ (86) پر سید نذیر نیازی لکھتے ہیں۔ ’’اقبال دو سال کے ہوئے تو ایک بیماری کے علاج کے لیے ان کی بے جی (والدہ) نے ان کی داہنی آنکھ کے قریب جونکیں لگوائیں۔جونکوں نے فاسد خون چوس لیا۔ بیماری جاتی رہی لیکن آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی۔ یہاں تک کہ عمر کے ساتھ ساتھ یہ بینائی بالکل جاتی رہی‘‘۔ ب۔ روزگار فقیر میں صفحہ(203) پر فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں۔ ’’علّامہ اقبال کی ایک آنکھ بچپن ہی سے کمزور تھی ۔ ۱۹۰۱ء میں جب ایکسٹرا اسٹنٹ کے امتحانِ مقابلہ میں شریک ہوئے تو طبّی بورڈ نے آنکھ کی بینائی کمزور ہونے کے سبب اُن کو سرکاری ملازمت میں لیے جانے کی سفارش نہیں کی۔ یہ بظاہر ایک طرح کی ناکامی تھی، مگر علّامہ کے مستقبل کے تابناک اور کامیاب ہونے کا پیش خیمہ تھی۔ سرکاری ملازمت میں وہ کمشنر اور گورنر بن سکتے تھے، مگر ترجمان حقیقت او ر ’ ’حکیمِ مشرق‘‘غالباّ نہ بن سکتے۔‘‘ ج۔ زندہ رود میں صفحہ (597) پر ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں۔ ’’ایک آنکھ بچپن ہی سے تقریباّ بیکار تھی‘‘۔ د۔ اقبال درون خانہمیں صفحہ(194) پر اقبال کے بھائی عطا محمد کے نواسے اپنی والدہ و سیمہ مبارک کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ’’ایک آنکھ کی بینائی بچپن سے ہی کمزور تھی ا ور آپ لکھنے پڑھنے کے لیے چشمہ استعمال کرتے تھے۔ ۱۹۰۱ء میں ایکسٹرا اسٹیٹمنٹ کمشنری کے مقابلے کے امتحان میں بینائی کی اسی کمزوری کی بنا پر آپ کو طبّی معائنے میں ناکام قرار دے دیا گیا تھا۔ ویسے والدہ مکرمہ بتاتی ہیں کہ’’چچا جان کی ہمیشہ سے یہ عادت تھی کہ دور کی چیزیں دیکھتے ہوئے اپنی کمزور آنکھ بند کر لیا کرتے تھے۔‘‘ تحقیق و تبصرہ: طب قدیم اور طب یونانی میں جونک لگانے کا علاج عام تھا چنانچہ یہ علاج گزشتہ چالیس پچاس سال تک بر صغیر میں جاری تھا۔ جونکوں کو بھوکا رکھا جاتا تھا جو موقع پاتے ہی تیزی سے خون چوسنا شروع کر دیتی تھیں۔ چونکہ جونکوں کوکئی مریض افراد کیلیے استعمال کیا جاتا تھا اس لے وہ مختلف بیماریوں کے جراثیم کو ایک شخص سے دوسرے کو منتقل کر سکتیں تھیں۔ اگرچہ ہمارے پیش نظر ایسے کوئی دستاویزی حوالے نہیں لیکن یہ امر مسلّم ہے کہ مختلف حشرات اور حیوانات بیماریوں کو پھیلانے اور منتقل کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ آنکھ کو خون Opthalmic Artery کے ذریعہ جو Internal carotid Arteryکی شاخ ہے پہنچتا ہے اور یہی شاخ آنکھ کے اندرونی پردہ Retina کو بھی خون پہنچاتی ہے۔ اگرچہ Opthalmic Artery آنکھ کے حلقے کے اندر محفوظ رہتی ہے لیکن اس کی آخری دو شاخیں Supratrochlear Arteryاور Supra Orbital کنپٹی اور پیشانی اور آنکھ کے اطراف کی جلد اور عضلات کو خون پہنچاتی ہیں۔ اقبال کی عمر دو سال کے قریب تھی جب جونکوں کو آنکھ کے قریب لگایا گیا اس بات کا قوی امکان ہے کہ کمزور چھوٹے بچے کے جلد کے نیچے کی ان رگون سے جونکوں نے خون چوس کر ایک اچھی مدت تک آنکھ کے اندرونی پردہ Retina کو خشک کر دیا ہو۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ جراثیم کی حامل جونکیں، جراثیم کے ذریعہ یا لعاب دہن کی الرجک نوعیت کہ وجہ Temporal Artritis یا رگوں میں عفونت پیدا کرکے اس میں لحظہ خون یا Thrombus کی تولید کردیں اور اس طرح Retina کے خون کی سپلائی مسدود ہو جائے۔ بہرحال جو کچھ ہوا اُس کو ۲ سالہ اقبالؔ اس لیے بیان نہ کرسکا کہ کمسن تھا اور دوسری آنکھ بالکل نارمل تھی۔ بچوں میں بصارت کی کمی عام طور سے ضربہ مغزی یا Head Injury سے ہوتی ہے۔ جہاں تک ہمارے معلومات ہیں اقبال کو کوئی ایسا شدید صدمہ لاحق نہیں ہوا۔ پس اس واقعہ سے اس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ جونکوں نے یا تو Ischemic Retinitis (ریٹینا کے خون کی سپلائی بند ہونے سے ریٹینا کا خشک ہو جانا) یا Temporal Artrtis (آنکھ کی رگوں میں انفکشن یا ورم کی وجہ لحظہ خون سے جریان خون کا بندہو جانا )یا ممکن ہے دونوں صورتیں ایک ساتھ مل کر بینائی کو کم کردیں۔ ذیل کا خاکہ آنکھ کی رگوں اور آنکھ کی خون کی سپلائی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اقبال نے شاید دا ہنی آنکھ کی کمزوری کا ذکر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں کیا ہو لیکن اپنی تصنیفات یا تقاریر و خطبات میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ اقبال کی دوسری آنکھ نارمل تھی لیکن لکھنے پڑھنے کے لیے چشمہ استعمال کرتے تھے۔ زندگی کے آخری سالوں میں موتیا اترنا شروع ہو گیا۔ الف ۔ زندہ رود میں ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں۔۔ زندگی کے آخری سالوں میں ان کی دوسری آنکھ میں موتیا اترنے لگا۔ آخری ایّام میںاقبال کی نظر بے حد کمزور ہو گئی تھی۔ اس لیے راقم انھیں کبھی کبھار صبح اخبار پڑھ کر سنانا تھا۔ اگر کسی لفظ کا تلفظ غلط ادا ہو جاتا تو بہت خفا ہوتے اسی طرح رات کو راقم انہی کی کوئی غزل گا کر بھی سنایا کرتا۔ان دنوں راقم کو ان کی صرف ایک غزل یاد تھی۔ ع۔ گیسوئے تابدارکو اور بھی تابدار کر اقبال کے سامنے وہ غزل پڑھنا راقم کے لیے ایک عذاب ہوا کرتا۔ اگر کوئی شعر غلط پڑھا جاتا تو بہت ناراض ہوتے اور کہتے : شعر پڑھ رہے ہو یا نثر ب۔ روزگار فقیر میں فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں۔ ’’زندگی کے آخری سالوں میں آنکھ میں پانی اترنا شروع ہو گیا تھا۔ ۱۹۳۷ء کے آغاز میں موتیا بند کی اس قدر شدّت ہو گئی کہ معالجوں نے لکھنے پڑھنے کی بھی ممانعت کردی۔ ڈاکٹر متھراداس موگا والے آنکھوں کے علاج میں غیر معمولی شہرت رکھتے تھے۔ اس شہرت عزّت اور فنّی مہارت کے باوجود بڑے خلیق اور وضع دار تھے۔ شیخ اعجاز احمد صاحب سے اُن کے تعلقات تھے۔ شیخ صاحب کے ایماء پر ڈاکٹر صاحب علّامہ کی کوٹھی پر خود ہی تشریف لے آئے اور آنکھوں کا بڑی تفصیل کے ساتھ معائنہ کیا۔ ڈاکڑ متھرا داس نے رائے ظاہر کی کہ موتیا بڑی تیزی سے اتر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ مارچ ۱۹۳۸ء میں آپریشن کے لائق ہو جائے۔ انھوں نے فرمایا کہ فروری ۱۹۳۸ء میں وہ پھر معائنہ کریں گے اور اطمینان دلایا کہ جب بھی آنکھ آپریشن لائق ہو جائے گی وہ خود نہایت عمدگی کے ساتھ آپریشن کریں گے۔ اور امید ہے کہ پوری بصارت عود کر آئے گی۔ چونکہ ۱۹۳۸ء کے شروع ہی سے علّامہ پر دمّے کے شدید دورے پڑنے لگے لہٰذا آپریشن ستمبر ۱۹۳۸ء تک ملتوی کر دیا گیامگر ستمبر کے آنے تک وہ آنکھیں قیامت تک کے لیے بند ہو گئیں۔‘‘ علّامہ ضعف بصارت سے خاصے پریشان تھے کیوں کہ کئی کام جو ضروری تھے انھیں انجام دینے سے قاصرتھے۔ اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کو اس بابت لکھتے اور اس کے علاج کی تلاش میں رہتے لیکن مایوس نہ تھے۔ ذیل میں چند خطوں کا ذکر ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین قریشی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میری بصارت کمزور ہو گئی ہے اس واسطے اب میری خط و کتابت یا تو جاوید کرتا ہے یا دیگر احباب ۔ آپ کالی سیاہی سے سفید کاغذ پر لکھیں تو آپ کا خط میں خود بھی پڑھ سکوں گا۔‘‘ ۸؍دسمبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔ ’’ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میری آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے اور آپریشن ماہ مارچ میں ہوگا۔ حکیم صاحب کہ خدمت میں عرض کر دیجئے کہ وہ سرمہ جو آپ نے مجھے عنایت فرمایا تھا مفید ثابت نہ ہوا۔ کیا اسلامی طب میں موتیا کا علاج نہیں۔‘‘ ۳۰؍ دسمبر کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔ ’’سرمہ مرسلہ حکیم صاحب موصول ہو گیا ہے۔ میری طرف سے ان کی خدمت میں شکریہ ادا کیجئے۔‘‘ ۳؍فروری ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ ’’آپ حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کریں کہ اس سرمے سے بینائی میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ ڈاکٹر صاحب یہی کہتے ہیں کہ سرموں سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مارچ یا اس کے بعد میں آپریشن کا وقت بتاتے ہیں۔‘‘ ۱۶؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو شعیب قریشی جو نواب بھوپال کے سکریٹری تھے لکھتے ہیں۔۔ ’’ایک مدت سے تم کو خط لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا مگر آنکھوں میںموتیا بند اُتر آیا۔ اس کہ وجہ سے لکھنا پڑھنا محال ہو گیا۔ یہ خط اپنے دوست سید نذیر نیازی کے ہاتھوں لکھوا رہا ہوں۔ معاف کیجئے۔ آنکھ کا آپریشن ستمبر میں ہوگا۔ لیکن چونکہ ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق میری بیماری زیادہ اندوہناک صورت اختیار کر رہی ہے اس واسطے امید نہیں کہ کہ یہ آپریشن عمل میں آئے۔ ممکن ہے کہ میرا یہ خط تمہاری طرف آخری خط ہو اور اس کا مطلب جوکچھ ہے وہ تم اچھی طرح سے خود ہی معلوم کر سکتے ہو۔ جاوید اور منیرا دونوں نابالغ ہیں ایک کی عمر چودہ (۱۴) سال ہے۔ لڑکی کی عمر سات (۷) یا ساڑھے سات سال ہے۔ میری خواہش ہے کہ تمہاری وساطت سے اعلیٰ حضرت میرے بعد ان بچوں کی طرف توجہ فرمائیں۔ زیادہ کیا لکھوں ۔ صرف تم کو اور مسعود کو میرے حالات معلوم تھے۔ وہ بیچارہ تو چل بسا۔ اب میں تم پر بھروسہ کر سکتا ہوں۔ والسلام۔‘‘ ۱۱؍ستمبر ۱۹۳۷ء کو خواجہ غلام السیدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میری صحت پہلے سے اچھی ہے۔ آواز میں بھی کچھ فرق ہے مگر افسوس ہے کہ ضعف بصارت کی وجہ سے ڈاکٹروں نے لکھنے پڑھنے سے منع کر دیا ہے۔‘‘ ۲۲؍ اگست ۱۹۳۷ء کو مولوی عبد الحق کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے ضعف بصارت کی وجہ سے ڈاکٹروں نے لکھنے پڑھنے سے منع کر دیا ہے۔ یہ خط ایک دوست سے لکھوایا ہے۔ نظم کا ان سے دوسرا بند الٹا لکھّا گیا ہے ۔معاف فرمائیے۔‘‘ علّامہ کی بصارت کے بارے میں مولوی عبد الحق ’’اقبال اور عبد الحق‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اقبال کی ایک آنکھ توشروع ہی سے کمزور تھی دوسری آنکھ ان کے مرض الموت میں خراب ہونی شروع ہوئی مگر اس حالت میں بھی کسی نے انھیں اس وجہ سے دل شکستہ نہیں پایا۔ بلکہ ایک دفعہ جب ان کے ایک ملاقاتی نے اس ضعفِ بصارت پر ان سے ہمدردی کا اظہار کہا تو انھوں نے فرمایا کہ دیکھئے عجیب بات ہے جب میری نظر کمزور ہونی شروع ہوئی ہے میرا حافظہ بہت بہتر ہو گیا ہے۔‘‘ اقبال درون خانہ میں خالد نظیر صوفی اس افواہ کی تردید کرتے ہوئے کہ اقبال کی ایک آنکھ مصنوعی تھی لکھتے ہیں۔ ’’دورانِ گفتگو سعید صاحب نے یہ انکشاف کرکے مجھے بھی چونکا دیا کہ انھیں باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شاعر مشرق ؒ کی ایک آنکھ مصنوعی تھی۔میںنے اس کی تردید کی کیونکہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ مگر گوہر نوشابی صاحب نے بتایا کہ انھوں نے بھی بیشتر افراد سے یہ سنا ہے کہ چونکہ حکیم الامتؒ کی ایک آنکھ مصنوعی تھی ۔ میں نے اس کی تردید کی کیونکہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ مگر گوہر نوشابی صاحب نے بتایا کہ انھوں نے بھی بیشتر افراد سے یہ سنا ہے کہ چونکہ حکیم الامتؒ کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی اس لیے انھوں نے اس کی جگہ پتھر کی مصنوعی آنکھ لگوا رکھی تھی۔ میں یہ سن کر تذبذب میں پڑ گیا۔ چنانچہ وہاں سے واپس آکر میں نے اپنی والدہ ماجدہ ، والدِ مکرم اور خاندان کے دیگر بزرگوں سے اس سلسلے میں معلوم کیا تو ان سب نے اس کی تردید کی کہ علامہ مرحوم کی ایک آنکھ مصنوعی تھی۔ اقبال کی ایک آنکھ مصنوعی نہیں بلکہ کمزور تھی جو آخر عمر میں موتیا اُترنے کی وجہ سے بند ہو گئی تھی۔ ویسے والدہ مکرمہ بتاتی ہیں کہ ’’چچا جا ن کی ہمیشہ سے یہ عادت تھی کہ دور کی چیزیں دیکھتے ہوئے اپنی کمزور آنکھ بند کر لیا کرتے تھے۔‘‘ ہو سکتا ہے کسی نے انھیں اس طرح دیکھ کر یہ فرض کر لیا ہو کہ ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی ہے یا موتیے کی وجہ سے آنکھ کو کسی نے موتیے کے سفید پردے کی وجہ سے پتھر کی مصنوعی آنکھ تصور کر لیا ہو۔ روایات و حکایت : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے مضمون ’’اقبال کی وابستگی رسولِ کریمؐ سے‘‘ میں لکھتے ہیں ’’وفات سے کوئی آٹھ دس ماہ پہلے علّامہ کے ایک دوست مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ نے حج بیت اللہ کا عزم یا اور غالباََ ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ جواباََ انھیں لکھتے ہیں۔ــحج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت فرمائے تو یہ آرزو پوری ہو اور اگر آپ رفیقِ راہ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو۔ آپ ایسے با ہمّت جوان کیلیے تو یہ سفر قطعاََ مشکل نہیں۔ ہمّت تو میری بھی بلند ہے لیکن بدن عاجز و ناتوان ہے۔‘‘ علّامہ کی اہلیہ دو سال پہلے فوت ہو گئی تھیں اور اب دونوں بچوں(جاوید، منیرہ)کی نگہداشت انھیں کے ذمّہ تھی، ان کی اپنی صحت بھی روز برو گرتی جا رہی تھی اور ڈاکٹروں نے آنکھ کا آپریشن بھی تجویز کیا تھا۔ اس زمانے میں سفر کی دشواریاں بھی گوناگوں تھیں۔ بایں ہمہ وہ عزم سفر سے دست بردار نہیں ہوئے۔ انھوں نے حج پر جانے کے لیے مختلف جہاز راں کمپنیوں سے خط و کتابت شروع کر دی تھی۔ ایک بار گھر میں ان کے عزمِ حجاز کا ذکر چھڑا تو علّامہ کی ہمشیرہ نے کہا آپ کی آنکھوں میں پانی بھی تو اُتر رہا ہے ایسی حالت میں حج کا سفر کس طرح کر سکتے ہیں۔ اللہ خیر رکھے اگلے سال آپریشن کے بعد چلے جائیے گا۔ اس پر بڑے درد انگیز مگر پر شوق لہجے میں فرمایا : ’’ آنکھوں کا کیا ہے، آخر اندھے بھی تو حج کر ہی آتے ہیں۔‘‘ خ خ خ عارضۂ دردِ گردہ (Renal Colic) دردِ گردہ(Renal Colic) اقبال کو جوانی سے ہی ہو تا تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ رود اور فقیر وحید الدین نے روزگار فقیر میں لکھا ہے کہ ’’جب وہ جوان تھے تو اُسی زمانے میں کبھی کبھار دردِ گردہ کی شکایت ہو جاتی۔ یہ مرض انہیں اپنی والدہ سے ورثے میں ملا تھا۔‘‘ جہاں تک خطوط کا تعلق ہے ہمیں پہلا خط جس میں عارضہ درد گردہ کا ذکر ہے وہ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء کا ہے جس میں مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں بوجہ عارضۂ درد گردہ ایک ہفتہ تک صاحبِ فراش رہا۔ دو تین روز سے افاقہ ہو ا ہے۔ خدا نے فضل کیا مرض جاتا رہا میں باقی رہا۔‘‘ ۲۱؍ فروری ۱۹۱۵ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’درد گردہ کا دورہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کئی دن صاحبِ فراش رہا اسی وجہ سے عریضہ ٔ نیاز نہ لکھ سکا۔ الحمدللہ میں خدا کے فضل و کرم سے اب اچھا ہوں۔‘‘ ۱۱؍ مارچ ۱۹۱۵ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے درد گردہ کوئی دو سال سے ہوتا ہے۔ پانچ چھ ماہ کے بعد ہی دورہ ہو جاتا ہے۔ اب کے خلافِ توقع زیادہ عرصے کے بعد ہوا۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ دورہ رخصت ہو گیا۔‘‘ ۸؍ جولائی ۱۹۱۶ء کو خان محمد نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’تین روزے رکھّے تھے کہ درد گردہ کے دورے کی ابتدا محسوس ہوئی۔ دو روز سے روزے سے محروم ہوں۔‘‘ ۸؍مارچ ۱۹۱۷ء کو پروفیسر سلاح الدین محمد الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔ ’’کتاب المعیّت مل گئی تھی مگر میں درد گردہ کے دورے کی وجہ سے صاحبِ فراش تھا ور اب تک پورے طور پر صحت نہیں ہوئی گو پہلے کی نسبت بہت افاقہ ہے۔‘‘ ۲۰؍مارچ ۱۹۱۷ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں کئی دنوں سے بوجہ دور ہ درد گردہ کے مضمحل ہوں اس واسطے معذور ہوں۔‘‘ ۲۷؍ جون ۱۹۱۷ء کو خان محمد نیاز الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ واقعی آم درد گردہ کے مریض کے لیے اچھا ہے اور مجھ کو اس سے بہت محبت ہے۔ کھانے کی چیزوں میں صرف یہی ایک چیز ہے جس کے لیے میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے۔ باقی چیزوں کے لیے خواہش نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ روز مرّہ کا کھانا بھی عادت کے طور پر کھاتا ہوں۔‘‘ ۱۲؍ مارچ ۱۹۲۳ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’کل شام ہوائے سرد کی وجہ سے درد گردہ کا آغاز تھا۔ مگر میں نے فوراََ تدابیر اختیار کرلیں اور خدا کے فضل و کرم سے تندرست رہا۔‘‘ ۱۵؍ جون ۱۹۲۸ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے درد گردہ کی شکایت رہی جس کا سلسلہ ایک ماہ سے اوپر جاری رہا۔ جدید طبّی آلات کے ذریعہ گردہ کا معائنہ کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ گردہ میں پتھّر ہے اوریہ کہ عمل جراّحی کے بغیر چارۂ کار نہیں ہے۔ مگر تمام اعزا اور دوست عملِ جراّحی کے خلاف ہیں۔ درد فی الحال رک گیا ہے اور میں حکیم نابینا صاحب سے علاج کرانے کی خاطر آج شام دہلی جا رہا ہوں۔ وہاں چند روز قیام رہے گا۔‘‘ ۲۷؍جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’شاید میں نے پہلے نہیں لکھّا مجھے کئی سال تک درد گردہ کی شکایت رہی۔ اب آٹھ سال سے اس درد کا دورہ نہیں ہوا۔‘‘ ۲۲؍ جولائی ۱۹۳۷ء کو شیخ اعجاز احمد کو لکھتے ہیں۔۔ ’’حکیم صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ کچھ دنوں سے میرے دونوں گردوں کی طرف ایک بوجھ سا رہتا ہے اور گزشتہ رات بائیں جانب کے گردے میں خفیف سا درد بھی محسوس ہوتا رہا جو اس وقت نہیں ہے ۔ اسی بائیں جانب کے گردے میں دس سال ہوئے جب مجھے درد ہوا تھا جب حکیم صاحب نے اس کا علاج کیا۔ دس سال تک ذرا سی کسک بھی محسوس نہیں ہوئی۔ سوائے گزشتہ رات کے‘‘۔ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب کی خدمت میں مندرجہ ذیل باتیں فوراََ عرض کر دیجئے: اول۔ دس بارہ سال ہوئے جب مجھ کو درد گردہ ہوا تھا اور حکیم صاحب قبلہ نے ہی اس کا علاج کیا تھا۔ اس طویل عرصے کے بعد گزشتہ رات یعنی ۱۵ ؍اور ۱۶ ؍اکتوبرکی درمیانی رات کو پھر اس درد کا دورہ ہوا۔ دورہ شدید نہ تھا لیکن تمام رات اور دن کا کچھ حصّہ بے چین رکھنے کے لیے کافی تھا۔ اس وقت کہ قریباََ چار بجے ہیں مجھے افاقہ ہے۔ جو دوا حکیم صاحب میرے لیے تیار فرمائیں اس میں اس امر کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔‘‘ ۱۸؍نومبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’دوا کا استعمال باقاعدہ ہو رہا ہے لیکن پیٹھ کا درد جو پہلے روح الذہب کے کھانے سے دور ہو گیا تھا اب پھر ہوتا ہے یہ درد عموماََ رات کو ہوتا ہے ۔ دن میں نہیں۔ یہ شکایت سن کر جو کچھ حکیم صاحب ارشاد فرمائیں اس سے جلد مطلع فرمائیں‘‘۔ اس خط کے نو (۹) دن بعد ۲۷؍ نومبر ۱۹۳۷ء کو مظفر الدین صاحب کو لکھتے ہیں۔ ’’اس خط میں ایک پڑیہ ملفوف ہے جس میں وہ پتھّر کا ریزہ ہے جو کل میرے پیشاب کے ساتھ خارج ہوا ۔ حکیم صاحب نے جو دوا تقویت صلب کی ارسال فرمائی تھی اس پتھّر کا اتنی جلد خارج ہونا اسی دوا کا اعجاز معلوم ہوتا ہے۔ یہ پتھّر کا ریزہ ان کو دکھا دیجئے اور میری طرف سے ان کا شکریہ ادا کیجئے۔ نیز مندرجہ ذیل باتیں ان کی خدمت میں عرض کیجئے۔ اول۔ پشت کا درد۔ اس کے متعلق پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور آپ کے خط کا منتظر ہوں۔ یہ درد اب پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے ۔صرف رات کو ہوتا ہے دن کو نہیں ہوتا اور رات کو بھی جو سختی پہلے اس میں تھی اب اس میں تخفیف ہے‘‘ علّامہ کے مختلف خطوط سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انھیں جاڑے کے ساتھ بخار ہو جاتا تھا یا بعض اوقات صرف جاڑا ہی محسوس ہوتا تھا چنانچہ علّامہ اس کو ملیریا سمجھ کر ایک دو گولیاں کونین کی کھا لیتے اور تکلیف رفع ہو جاتی۔ ہماری دانست میں علّامہ کو شاید ایک آدھ بار ملیریا ہو گیا ہو لیکن یہ متعدد جاڑے یا سردی محسوس ہونے کے علائیم مثانہ یا گردہ کی عفونت یاInfectionسے ہو سکتے تھے۔ چونکہ ہم جانتے ہیں علّامہ کے گردوں میں پتھری تھی اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جب پیشاب سے خارج ہوتے تو علّامہ کو کئی دن تک اس کی تکلیف رہتی۔ یہ بھی بہت ممکن ہے گردہ مثانہ کے انفکشن کے علاوہ پتھّر کی خراش سے خون بھی پیشاب میں شامل ہو جائے۔ شاید ۵؍ اگست ۱۹۳۴ء کا خط جو سید نذیر نیازی کو لکھّا تھا ہمارے بیان کو بیشتر واضح کردے۔ لکھتے ہیں۔۔’’اس وقت 4 بجے شام ہے۔ میرا بدن ٹوٹ رہا ہے۔ بخار کی آمد آمد ہے۔ چونکہ سردی محسوس ہوتی ہے اس واسطے معلوم ہوتا ہے ملیریا ہے حکیم صاحب قبلہ کو مطلع کریں۔۔۔نیز یہ بھی دریافت کریں کہ کونین کھالوں۔ آج صبح مجھے پیشاب بہت سرخ آیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکیم صاحب کی دوائیں بھی گر م مزاج ہیں۔‘‘ دوسرے دن ۶؍ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نیازی کولکھتے ہیں۔۔ ’’کونین کھائی تھی بخار مجھے نہیں ہوا۔ الحمدللہ‘‘ ان دونوں خطوں سے معلوم ہوتاہے کہ گردہ میں پتھری کی وجہ خون پیشاب میں شامل ہو گیاجس کہ وجہ سے پیشاب میں گرمی کااحساس،لرزہ یاسردی کااحساس اور خفیف مثانہ کی عفونت کے سبب بدن کا درد اور سرخ رنگ کا پیشاب تھا۔ خطوں کے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ : ۱۔ اقبال جوانی یعنی پچیس (۲۵) تیس (۳۰) برس کی عمر سے اس دردگردہ میں مبتلا تھے۔ (خط بنام مہاراجہ کشن پرشاد۔ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۱۳ئ) ۲۔ اقبال کو یہ عارضہ اپنی والدہ سے ملا تھا (زندہ رود۔ روزگار فقیر) ۳۔ جدید طبّی آلات سے گردہ کی پتھری کی تشخیص ہوئی (خط بنام خان محمد نیاز الدین خان ۔ ۱۵؍ جون ۱۹۲۸ئ) اگرچہ اس خط میں اقبال نے جدید طبّی آلات کی توضیح نہ دی لیکن راقم کی نظر میں ابتدائی ایکس ریز کا استعمال ہو سکتا ہے ۔ (خط بنام محمد نیاز الدین خان ۔ ۱۵؍ جون ۱۹۲۸ئ) ۴۔ گردہ کی پتھری کا ثبوت وہ پتھّر کا ریزہ تھا جسے اقبال نے پڑیہ میں بند کرکے ڈاکٹر مظفر الدین کو بھجوایا تاکہ حکیم نابینا عبدالوہاب انصاری کو دکھا دیں۔ ۵۔ ڈاکٹروں نے گردہ کی پتھری کا علاج عملِ جراّحی(سرجری) بتایا۔(محمدنیازالدین خاں۔ ۱۵؍ جون ۱۹۲۸ئ) ۶۔ ڈاکٹروں کا مشورہ سرجری کیلیے اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ پتھری بڑی تھی اور گردے کی نالی(Ureter)اور مثانہ کی نالی (Urethra) سے خارج ہونا ممکن نہ تھا۔ (خط بنام ڈاکٹر مظفر الدین ۔ ۱۸؍ نومبر ۱۹۳۷ئ) ۷۔ اقبال کو بائیں طرف کے گردہ میں پتھری تھی (خط بنام شیخ اعجاز احمد ۔ ۲۲؍ جولائی ۱۹۳۷ئ) ۸۔ اقبال نے ۱۹۲۸ء میں حکیم نابینا عبد الوہاب انصاری کا علاج کروایا اور پھر دس سال تک درد نہ ہوا (خط بنام شیخ اعجاز احمد ۔ ۲۲؍ جولائی ۱۹۳۷ئ) ۹۔ حکیم نابینا کے علاج سے قبل گردہ کا درد ہر پانچ چھ ماہ کے بعد ہوتا تھا (خط بنام مہاراجہ کشن پرشاد ۔ ۱ا؍مارچ ۱۹۱۵ئ) ۱۰۔ اگرچہ اقبال کو گردہ درد کا دورہ شدید پڑتا اور کئی راتیں تکلیف میں گزرتی تھیں لیکن حکیم نابینا کے علاج کے بعد شدید درد میں افاقہ ہو چکا تھا لیکن اقبال کے کئی خطوط سے ہمارے اس اندیشہ کو تقویت ہوتی ہے کہ اقبال کو گردہ اور مثانہ کی عفونت یا انفکشن تھی جس کی وجہ سے انھیں دونوںگردوںکے مقام پر ہلکا سا بوجھ، سرخ اور گرم پیشاب ، بخار اور جاڑے کے دورے پڑتے جو خود بخود چند روز میں ختم ہوجاتے۔ اقبال ملیریا سمجھ کر کونین کی گولیاں کھاتے۔ دراصل یہ اُسی گردے کی پتھری کے چھوٹے چھوٹے ریزے تھے جو خارج ہوتے اورجراثیم کی تولید کرتے اور بعض وقت پتھری کی خراش سے گردہ یا مجری کے زخمی ہونے کی وجہ پیشاب میں خون شامل ہوجاتا اور عفونت اور خون کی وجہ سے پیشاب کا رنگ سرخ اور جلن کے ساتھ خارج ہوتا۔ ۱۱۔ اقبال کو نقرس (Gout)کی شکایت تھی جو یورک ایسڈ(Uric acid)کی خون میں زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہے۔چنانچہ میڈیکل اطلاعات کے مطابق تقریباََ دس پندرہ فی صد افراد جنھیں نقرس ہوتا ہے ان کو گردہ کی پتھری کا عارضہ بھی ہوتا ہے۔یعنیUric acid خون میں زیادہ ہونے کی وجہ گردہ میں جمع ہوجاتا ہے اور اس طرح پتھری بن جاتی ہے۔ ۱۲۔ ذکرِ اقبالمیں عبد المجید سالکؔ لکھتے ہیں۔ ’’اقبال گردہ کے درد کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ لالہ لاجپت رائے علّامہ سے ملنے آئے تو ان کو مشورہ دیا کہ آپ حکیم نابینا صاحب دہلوی سے علاج کرائیے چنانچہ وہ دہلی تشریف لے گئے۔‘‘ ۱۳۔ اقبال کے گردہ درد کا پتہ ہمیں ۱۹۰۲ء سے ملتا ہے جو ہر پانچ چھ ماہ کے بعد دورہ کی شکل میں ظاہر ہوتا تھا لیکن بقول فقیر وحید الدین ۱۹۲۸ء میں علّامہ کو درد گردہ کے شدید دورے سے دوچار ہونا پڑا۔ بڑی سخت تکلیف اٹھائی۔ اسی حالت میں حسبِ ذیل دعائیہ اشعار کہے جو روزنامہ انقلاب میں شائع ہوئے۔ ؎ دہ مرا فرصت ہُو حق دو سہ روزے دگرے کہ در ایں دیر کہن بندۂ بیدار کجاست ؎ میر و مرزا بہ سیاست دل و دیں باختہ اند جز برہمن پسرے محرم اسرار کجاست ؎ اندریں عصر کہ ’’لا‘‘ گفت من ’’الّا‘‘ گفتم ایں چنین بندۂ رہ بین بہ شب تار کجاست ؎ حرف نا گفتہ مجالِ نفسے می خواھد ورنہ مارا بہ جہانِ تو سرورکار کجاست ۱۴۔ ۱۹۲۸ء میں درد گردہ کے متواتر حملوں سے اقبال پریشان ہوگئے اور وہ اس عارضہ کو اپنی موت کا آغاز سمجھنے لگے۔ چنانچہ علّامہ اقبال نے ۲۶؍ اگست ۱۹۳۱ء کو ایک خط بصورت وصیّت نامہ سردار بیگم والدہ جاوید کو لکھ کر اپنے سکریٹری میاں امیر الدین کے حوالے کیا کہ اگر وہ دوسری گول میز کانفرس انگلستان سے زندہ واپس نہ ہوئے تو اُس صورت میں یہ خط سردار بیگم کو دیا جائے ۔ اِس خط میں سات (۷) نکات ہیں جس میں صرف پہلا نکتہ بیماری کے بارے میں ہے جسے ہم یہاں ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ’’زندہ رود‘‘ سے پیش کرتے ہیں۔ ’’(۱) عرصہ دو تین سال کا ہوا جب میں درد گردہ کی وجہ سے بیمار ہو گیا تھا اور زندگی کی امید منقطع ہو گئی تھی۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے صحت عطا کی۔ اس بیماری کے بعد میرے خیالات میں بڑا تغیّر ہوا اور چند روزہ زندگی کی حقیقت مجھ پر واضح ہو گئی۔ صحت یابی کے بعد میں نے مبلغ دس ہزار روپیہ جاوید کے نام ہبہ کرکے پنجاب نیشنل بنک لاہور میں اس کے نام جمع کرادیا۔۔۔‘‘ حکایت = غلام رسول مہر اقبال درونِ خانہ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ایک مرتبہ گرمیوں میں گردے کی تکلیف ہوئی اور وہ کئی روز بیمار رہے ۔ میں دوپہر کے وقت دفتر جاتے جاتے مزاج پُرسی کے لیے حاضرخدمت ہوا ۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں ان کی خواب گاہ کے پیچھے ایک کمرہ تھا جس کا دروازہ شمالی جانب تھا۔ اس میں تپش کم ہوتی تھی۔ فرش پر خوب پانی ڈلوا کر اس کمرے میں لیٹے ہوئے تھے ۔ میں نے خاموش بیٹھ کر ان کے چہرہ مبارک پر نظر جما لی۔ ہم لوگ عموماََ ان کی نگاہوں سے حالات کا اندازہ کرنے کے عادی تھے۔ اس اثنا میں ایک اور صاحب بھی عیادت کے لیے آگئے اور میر ے پاس بیٹھ گئے۔یکایک مرحوم نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا : مہر صاحب ! تکلیف انسان پر اس کے نفس کی طرف سے آتی ہے یا اللہ کی طرف سے؟ میں جواب میں حدیث جبریؑل سے وہ الفاظ دہرا دینا چاہتا تھا جو رسول اکرم ؐنے قیامت کے سوال پر فرمائے تھے، یعنی: ’’جس سے پوچھا گیا ہے اس کا علم پوچھنے والے سے زیادہ نہیں۔‘‘ لیکن میں کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ جو صاحب میرے پاس بیٹھے تھے، بول اُٹھے ! ڈاکٹر صاحب! سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی ان پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی، پہلے چیخ نکلی، پھر روتے روتے کہتے جاتے کہ’’اگر یہ تکلیف اللہ کی طرف سے ہے تو میری توبہ ، میری توبہ ، میری توبہ ، میںنے کیوں شکوہ کیا؟‘‘طبیعت کے معمول پر آنے پر پانچ سات منٹ صرف ہو گئے۔ خ خ خ عارضہ نقرس(Gout) نقرس کیا ہے؟ نقرس یا (Gout)ایک طبّی عارضہ ہے جس میں یورک ایسڈ کے خون میں زیادہ ہونے پر بدن کے بعض جوڑوں میں ورم اورشدید درد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یورک ایسڈ کے Crystals عام طور سے پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں ورم اورشدید درد پیدا کرتے ہیں بعض اوقات یہ درد انگوٹھے کے علاوہ گھٹنے یا کمر کے جوڑوں میں بھی ہوتا ہے درد عموماََ کچھ دنوں یا ہفتوں میں ورم کے کم ہونے کے ساتھ ساتھ کم ہو جاتا ہے لیکن وقتاََ فوقتاََ یہ عارضہ عود کر جاتا ہے۔ یورک ایسڈ کی زیادتی سے گردے میں پتھری بھی بن جاتی ہے چنانچہ تقریباََ دس فی صد افراد جنھیں نقرس ہوتا ہے گردہ کی پتھری کے درد میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ خلاصہ : ۱۔ اقبال ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۸ء یعنی انتقال تک نقرس میں مبتلا رہے خطوط اور مستند حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ یوں تو گاہے گاہے ہمیشہ خفیف نقرس کا درد ہوا کرتا تھا لیکن ۱۹۲۲ء اور ۱۹۲۹ء میں حملے شدید ہوئے۔ ۲۔ اقبال کو نقرس کا درد پاؤں کے انگوٹھے اور ذانو یا پیٹھ کے درد کی شکل میں ہوتا تھا۔ ۳۔ اقبال درد نقرس اورجوڑوں کے ورم کوکم کرنے کے لیے پینے کی دوا کے علاوہ لنٹ کی پٹی کو ایک خاص لوشن میں بھگا کر درد کی جگہ پر رکھ لیتے تھے۔ روزگار فقیر میں فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں۔ ’’صاحبِ درد‘‘ ہونا علّامہ کی قسمت میں لکھا تھا۔ دردِ گردہ گیا تو اُس کی جگہ نقرس نے لے لی۔ جو پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں ہوتا تھا۔ اُس کا دورہ جب بھی پڑتا، علّامہ کے لیے سخت تکلیف دہ ثابت ہوتا۔ ایک مرتبہ گرمی کی تعطیلات میں حسبِ معمول سیالکوٹ تشریف لائے اور وہاں دردِ نقرس شروع ہو گیا۔ درد کی شدّت کہ پوری رات کرب و بے چینی کے عالم میں تڑپتے گزر جاتی۔ پینے والی دواؤں کے علاوہ ڈاکٹر نے ایک لوشن بھی دیا، جس میں لینٹ (Lint)کی پٹّی آلودہ کرکے درد کی جگہ پر رکھی جاتی۔ اس عمل سے قدرے تسکین ہوئی۔ خُدا خُدا کرکے کئی دن کی تکلیف اور علاج معالجے کے بعد افاقے کی صورت نظرآئی۔‘‘ علّامہ نقرس کے علاج کے سلسلہ میں حکیم نابینا سے انگوٹھے پر لگانے کی دواکے متعلق ۲۴؍ مئی ۱۹۳۴ء کو لکھتے ہیں۔ ’’اس بات کا بھی خیال رہے کہ مجھے گاہے گاہے دردِ نقرس بھی ہو جاتا ہے اس کی روک تھام بھی ہوتی رہے۔ انگوٹھے پر لگانے کی دوا بھی ہو تو اور بھی بہتر ہے۔‘‘ ڈاکٹر جاوید اقبال زندہ رود میں لکھتے ہیں۔۔۔ اس کے بعد دردِ نقرس کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ اس کے دورے پڑتے تو لگاتار کئی راتیں کرب اور بے چینی کے عالم میں تڑپتے گزر جائیں۔ صبا لکھنوی کا اقبال اور بھوپال میں یہ لکھنا صحیح نہیں کہ ’’۱۹۳۴ء میں نقرس کی شکایت نے شدّت اختیار کرلی تو عرصے تک آپ نے دلّی کے مشہور طبیب حکیم نا بینا عبدالوہاب انصاری کا علاج کیا اور اس علاج معالجہ کے سلسلے میں نذیر نیازی اقبال کے ہر ممکن خدمت کرتے رہے۔ خطوط کے ذریعہ اقبال اپنا حال نذیر نیازی کو دلّی لکھ بھیجتے وہ سارا حال حکیم نا بینا کوجا جا کر سناتے دوائیں حاصل کرتے اور ذریعہ پارسل لاہور روانہ کردیتے۔‘‘ خطوں سے پتہ چلتا ہے کہ سید نذیر نیازی در حقیقت علّامہ کے گلو درد، آواز کے بیٹھ جانے، نفس تنگی اور دمّہ کے بارے میں نہ کہ نقرس کے علاج کے بارے میں اقدامات لازم اورہر ممکن خدمت کرتے تھے۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے ّکہ مختلف خطوط اور حوالوں میںuric acidکوBoric acidلکھّا گیا ہے جو ایک دوسری شئے ہے۔ علّامہ کے مختلف خطوط سے ان کے اس عارضہ پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ مارچ ۱۹۲۲ء میں پروفیسر محمد اکبر منیر کو لکھتے ہیں۔۔۔ میرے ایک دوست سردار جوگندر سنگھ ایڈیٹر ایسٹ اینڈ ویسٹ اصرار کر رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ کویٹے کے رستے ایران چلوں ۔ اگر ممکن ہو سکے تو ضرور ان کا ساتھ دوں گا۔ اس دفعہ مجھے دردِ نقرس(گوٹ)کی وجہ سے سخت تکلیف رہی۔ کامل دو ماہ چارپائی سے اُتر نہیں سکاچونکہ میری فطرت کو ایران سے ایک مناسبت خاص ہے ممکن ہے وہاں کی آب و ہوا کا اچھا اثر مجھ پر ہو۔ ۱۰ جولائی ۱۹۲۲ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں۔۔۔ مجھے نقرس کی بیماری تھی آپ کے دوست کو عرق النساء ہے وہ اورچیز ہے اور اُس کا علاج نقرس کے علاج سے بالکل مختلف ہے۔ ۱۷؍ اگست ۱۹۲۲ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں۔۔۔ افسوس کہ وہاں مجھے نقرس کی پھر شکایت ہو گئی اس واسطے اسی شام لاہور چلا گیادوا کے متواتر استعمال سے نقرس کی شکایت رفع ہو گئی ہے۔ جالندھر میں مولوی گرامی صاحب کی خدمت میں ٹھہرنے کا قصد تھا مگر نقرس کی شکایت نے مجھے رستے میں ٹھہرنے نہ دیا۔ ۲۲؍ ستمبر ۱۹۲۲ء کو اکبر شاہ نجیب آبادی کو لکھتے ہیں۔۔۔ امسال عارضہ نقرس کی وجہ سے تکلیف رہی۔ اب خد ا کے فضل سے اچھا ہوں۔ ۱۱؍ فروری ۱۹۲۴ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں۔۔۔ علی گڑھ جانے کا قصد تو تھا مگر سردی اور تواتر بارش کی وجہ سے کمر میں درد ہونے لگی۔ یورک ایسڈ کے دور کرنے کی دوائی پی رہا ہوں۔ اس اندیشہ سے کہ گوٹ کا حملہ نہ ہو جائے۔ ۱۱؍ اکتوبر۱۹۲۹ء کو خواجہ بشیر احمد کو لکھتے ہیں۔۔۔ افسوس ہے کہ میں مولوی صاحب مرحوم کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ مجھے اس سے دو ایک روز پہلے نقرس ہو گیا جس کی وجہ سے پاؤں میں سخت تکلیف تھی حرکت سے قاصر رہا۔ ۳۰؍ جنوری ۱۹۳۲ء کوغلام مہر کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ خیال تھا کہ گوٹ کی تکلیف جو مجھے گزشتہ رات ہو گئی تھی آج شام تک رفع ہو جائے گی میں نے اس کا علاج بھی کیا مگر اب گرگابی پہنی تو تکلیف بڑھ گئی۔ اس واسطے دہلی نہ جا سکوں گا۔ ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ مجھ کو چند روز سے نقرس کی شکایت ہے کل سے افاقہ ہوا ہے ابھی خفیف سا ورم پاؤں پر موجود ہے امید ہے دو چار روز تک دور ہو جائے گا۔ ۲۷؍ جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔ نقرس کی شکایت البتہ ہے کبھی کبھی اس کا دورہ ہوتا ہے مگر شدت کے ساتھ نہیں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔ ’’حکیم صاحب قبلہ کی فوری توجہ مندرجہ ذیل تین باتوں کی طرف دلائیں۔ (۳) معلوم ہوتا ہے کہ میرے جسم میں (یورک ایسڈ )کا مواد ہے جو کبھی نقرس کی شکل میں نمودار ہوتا ہے کبھی پیٹھ یا زانو کی تکلیف کی صورت میں حملہ اگرچہ شدید نہیں ہوتا تاہم کوئی مہینہ خالی نہیں جاتا جب یہ تکلیف نہ ہو‘‘ ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’دوسری بات جو حکیم صاحب کی توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ میرے انگوٹھے، زانو یا جسم کے اور حصّوں میں کبھی کبھی درد ہوا ہے یہ درد اگرچہ شدید نہیں ہوتا تاہم دو چار دن تکلیف ضرور دیا ہے۔ ہر مہینہ میں ایک آدھ دفعہ ضرور ہوتاہے‘‘۔ خ خ خ بیماریٔ قلب اس میں کوئی شک نہیں کہ علّامہ دل کے مریض بھی تھے۔ اقبال کی آخری علالت کے دوران کئی حکیموں اور ڈاکٹروں نے ان کے ضعف قلب کی تشخیص بھی دی تھی۔ اقبال کو جوانی سے اختلاج قلب (palpitation)کی شکایت تھی۔ آخری علالت کے دوران ان کو کئی غشی کے دورے (Syncope attacks)پڑ چکے تھے۔ انتقال سے ایک دو سال پہلے انھیں دنوں شانوں کے درمیان(Angina) کا درد ہوا کرتا تھا جو انتقال کی رات کو اور انتقال سے چند لمحات قبل بھی ہوا۔ اقبال کا دل پھیل چکا تھا جس کو(Ox Heart) یا(Cardiomegaly)کہا گیا۔اقبال کے دمّہ کی شکایت زندگی کے آخری سالوںمیں روز بروز بڑھتی گئی چنانچہ انتقال سے چند مہینے قبل متواتر دمّہ کے حملوں نے زندگی کو عذاب کر دیا تھا۔ اقبال کے ضعف قلب کی وجہ سے ان کا جگر بھی پھیل گیا تھا۔دونوں پاؤں اور آخری ایام زندگی میں چہرے اور تمام بدن پر ورم بھی آچکا تھا۔ اقبال کی نبض کو حکیموں اور ڈاکٹروں نے نملی نبض (week & slow pulse)کہا تھا۔ اقبال نے انتقال کے وقت دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ یہاں درد ہورہا ہے اور پھر چند لمحوں بعد ان کی حرکت قلب بند ہو گئی۔ جو کچھ اوپر کہا گیا ، اقبال کے خطوں،ڈاکٹروں اور حکیموں کے حوالوں اور اطرافیان کے بیانات میں موجود ہے۔ جن کے اقتباسات آگے پیش کئے جائیں گے۔ ان تمام قلبی علائم اور عوارض کے علاوہ ہمیں اُن مسائل اور اقبال کی عادتوں کا بھی علم ہے جو قلب کے لیے مضر ثابت ہوئی ہیں۔ ۱۔ اقبال نے کم از کم تیس (۳۰) پینتیس (۳۵) سال تک تمباکو نوشی کی۔ ۲۔ اقبال کی تساہل پسندی (Sedentary life)جس میں ورزش وغیرہ کا دخل نہ تھا۔ ۳۔ مرغن اور پُر چرب غذا کا استعمال مثلاََ دیسی گھی وغیرہ۔ ۴۔زیادہ نمک اور میٹھے کا مسلسل استعمال ۔ ۵۔ اکسیروں ، معجونوں، اور کشتوں کا استعمال جس میں سونے چاندی اور دوسری دھاتوں کا استعمال جو قلب و جگر کے لیے مضر تھے۔ ۶۔ برقی علاج کے تین کورس جو خون کی تولید پر نمایاںاثر کر سکتے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اقبال کے قلب کی رگیں تنگ ہو جانے کی وجہ سے قلب کے عضلات کو خون کی نارسائی نے کمزورکر دیا تھا۔چنانچہ قلب پوری طرح سے بدن کو خون پہنچانے کا کام نہیں کر سکتا تھااور دل میں خون ہمیشہ بھرا رہتا اور پھیپھڑے جگر اور بدن کے دوسرے حصّے اپنا خون اس میں خالی نہیں کر سکتے تھے جس کی وجہ سے پھیپھڑوں میں خون اور پانی جمع ہو کر تنگی نفس کی شکایت پیدا ہوتی جس کو دمّہ قلبی کہتے ہیں جس کے متواتر دورے اقبال کی آخری علالت کے دوران روز بروز زیادہ ہوتے گئے۔ اسی طرح سے جگر پھیل گیا تھا اور بدن میں پانی کے جمع ہونے سے بدن میں ورم ہو گیا تھا۔ قلب میں مسلسل خون بھرے رہنے سے اس کے اندرونی خانے بڑے ہو گئے اور پھیل گئے تھے جس کی وجہ سے دل بڑا ہو گیا جس کو Cardiomegalyکہتے ہیں اور اس زمانے کے ڈاکٹروں نے اس کوOx Heartکا نام دیا تھا۔ اس ضعف قلبی کی کیفیت کوCongestive heart Failureکہتے ہیں یعنی قلب کے عضلات کی کمزوری کی وجہ سے تمام بدن بخصوص پھیپھڑوںاور جگر میں خون کا انجماد Congestion رہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اقبال کے انتقال سے کچھ ہفتے قبل ایلوپیتھک جرمن ڈاکٹر زیلشرنے علّامہ کا معائنہ کرکے قلب کے مرض کی تشخیص بھی دی اور یہ بھی کہا کہ علّامہ کا دل پھیل کرOx Heartکی شکل اختیار کر لیا ہے اور اس کا علاج صحیح نہیں ہوا۔ ڈاکٹرژیلشر علّامہ کا علاج کرناچاہتے تھے لیکن ان کو اس کا موقع نہیں دیا گیا۔ علّامہ کے احباب اور حکیموں نے انھیںمشورہ دیا کہ جس طریقہ سے علاج جاری ہے اُسے اُسی طرح سے جاری رکھا جائے۔ علّامہ کا انتقال نقرس، درد گردہ، گردہ کی پتھری، گلو درد، آواز کا بیٹھ جانا یا دوسرے چھوٹے عوارض کی وجہ سے نہیں بلکہ قلب کی بیماری اوراس کے مضر اثرات سے ہوا جس کی بنا ان کی برونکاٹس اور برونشت نمونیا میں تبدیل ہو گئی تھی اس لیے کھانسی کی شدت کے ساتھ ساتھ سینہ میں درد اور بلغم میں بھی خون بھی آنے لگا تھا۔ بیماریٔ قلب پر مزید روشنی ڈالنے کے لیے ہم علامہ کے خطوط اور مستند حوالوں کو پیش کرتے ہیں۔علّامہ کی آخری علالت کے مضمون میں سید نذیر نیازی ایک دل چسپ واقعہ لکھتے ہیں جس سے ان کی قلب کی بیماری کا حال معلوم ہوتا ہے۔۔۔ ’’علّامہ نے خود مجھ سے بیان فرمایا کہ ایک روز جب انھیں پیٹھ کے درد کا ہلکا سا دورہ ہوا تو ڈاکٹروں نے سر راس مسعود سے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اس درد کا اصلی سبب ضعفِ قلب ہے لہٰذا اُنھیں چاہیے کہ نقل و حرکت میں احتیاط رکھیں۔ حضرت علّامہ کہتے ہیں: ’’ریاض منزل ‘‘ میں میرا قیام بالائی کمروں میں تھا۔ میں جب اوپر جاتا تو سید صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں ہاتھوں سے مجھے سہارا دیتے تاکہ زینہ چڑھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ایک آدھ روز تو خیر میں نے اپنے شفیق دوست کی پاسداری کے خیال سے کچھ نہ کہا۔ لیکن تیسری مرتبہ جب پھر یہی صورت پیش آئی تو میں نے کہا۔ آپ اور لیڈی صاحبہ ناحق تکلیف کرتے ہیں۔ اسی دن یا شاید اگلے روز میں چھت پر ٹہل رہا تھا کہ سر راس مسعود دوڑے دوڑے میرے پاس آئے اور گھبرا کر کہنے لگے ۔ ڈاکٹر صاحب آپ کیا غضب کرتے ہیں، آرام سے لیٹے رہیے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو انہوں نے بتلایا کہ ڈاکٹروں کے نزدیک میری بیماری کس قدر خطرناک ہیــ‘‘۔ علّامہ ۲۲؍ اگست کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے ابتدائے علالت میں بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہو جائے اور سر چکرائے۔ جوں جوں صحت ترقی کرتی گئی یہ بات رفع ہوتی گئی۔ چنانچہ اس سے تین چار روز پہلے تک اس کا نشان تک باقی نہ تھا۔ اب تین چار روز سے پھر ایسا ہوتا ہے حالانکہ میری صحت بہت اچھی ہے۔ مہربانی کرکے حکیم صاحب سے جہاں تک ہو سکے جلد اس کا تذکرہ کیجئے۔ اور ان کے جواب سے مجھے مطلع فرمائیے کہ اس کا باعث کیا ہے؟‘‘ ۲۸؍ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’وہ آنکھوں میں جو اندھیرا ہو جاتا تھا اس میں خود بخود کمی ہو گئی ہے‘‘۔ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میرے دونوں شانوں کے درمیان جو درد تھی اس سے افاقہ نہیں ہوا۔ بعض دفعہ میں رات کو اس وجہ سے سو نہیں سکتا ۔اٹھ کر سیدھا بیٹھ جاتا ہوں تو قدرے ریلیف ہوتا ہے۔ اگرعلی بخش دونوں ہاتھوں سے ذرا زور سے مل دے تو پھر تھوڑی دیر کے لیے آرام ہو جاتا ہے شاید دوران خون کی وجہ سے ہے کیا؟‘‘ ۲۹؍ مارچ ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’پیٹھ کا درد جس کا حال حکیم صاحب کو اچھی طرح سے معلوم ہے باقی ہے یا ایک مدت کے بعد عود کر آئی ہے۔ ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ اس درد کا تعلق بھی قلب کی کمزور ی سے ہے۔ پیٹھ کے اوپر کے نصف حصّہ میں یعنی گردن سے لے کر دونوں شانوں کے درمیان تک یہ درد ہوتی ہے‘‘۔علّامہ کو درد سے نجات دینے کے لیے انھیں نیند کی گولیاں بھی دی گئی جس کا معکوس اثر ایسا ہو ا کہ وہ پلنگ سے غش کھا کر فرش پر گر پڑے ۔ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں افیون ملائی ہوئی دوائیں بھی دی گئی چنانچہ جب آخری وقت انھیں ایسی دوا دی جانے لگی تو علّامہ نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں نیند اور بے ہوشی کی حالت میں مرنانہیں چاہتا ۔انہی منوم یا خواب آور دواؤں کے اثر نے اقبال کو Hallucinationنیم بے ہوشی اور مدہوشی کے سپرد کیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال زندہ رودمیں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ایک دفعہ تو بے خبری میں پلنگ سے فرش پر گر گئے۔ انہی ایام میں دمے کے پے در پے دوروں کے بعد نیم بے ہوشی کے عالم میں راقم نے انہیں دو مرتبہ اپنی خواب گاہ میں مرزا اسد اللہ غالبؔ اور مولانا جلال الدین رومیؔ سے باتیں کرتے سنا تھا۔ دونوں مرتبہ علی بخش کو بلوا کر پوچھا کہ مرزا غالبؔ (یا مولانارومیؔ) ابھی اٹھ کر گئے ہیں۔ دیکھنا کہیں چلے تو نہیں گئے اور علی بخش کے اس جواب پر کہ یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔ فرمایا : چلو ٹھیک ہے‘‘۔ ذکر اقبالمیں عبد المجید سالکؔ لکھتے ہیں۔۔۔ ’’جب ۱۹۳۸ء کا آغاز ہوا اور آل انڈیا پیمانے پر پہلا یوم اقبال نہایت کامیابی سے منایا جا چکا تو علّامہ کی حالت نے یک بیک ایک نیا پلٹا کھایا۔ اُس زمانے میں حکیم محمد حسن قرشی ان کا علاج کر رہتے تھے۔ علّامہ کو ضیق النفس کے خفیف دورے شروع ہوئے۔ پچھلی رات بے خوابی ہونے لگی۔ ضیق النفس کے لیے حکیم قرشی صاحب نے ایک ہلکا سا جوشاندہ تجویز کر رکھا تھا جس کے استعمال سے سکون ہو جاتا تھا۔حکیم صاحب کی تشخیص یہ تھی کہ علّامہ کا دمّہ قلبی ہے اور اسکی وجہ سے ضعف قلب ہے۔ چنانچہ ڈاکٹروں نے بھی اس تشخیص کی تائید کی۔ ان دنوں ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ علّامہ بستر پر بیٹھ کر تکیہ اپنے آگے رکھوا لیتے اور اس پر اپنا سر ٹیک دیتے۔ ۲۵؍ فروری کو دمّہ کا دورہ ہوا جوشاندہ پیا مگر افاقہ نہ ہوا۔ پھر ایلوپیتھک علاج شروع ہوا جس میں دورے کو روکنے اور نیند لانے کی تدبیر کی جاتی تھی۔ چند روز ذرا آرام سے گزر گئے۔ ۳؍ مارچ کی شب کا ذکر ہے علّامہ پر ضعفِ قلب سے غشی طاری ہوئی اور وہ اسی حالت میں پلنگ سے گر گئے۔ دوسرے دن حکیم صاحب نے ان کو دیکھا تو ان کے نیاز مندوں کو بتادیا کہ علّامہ کا قلب نہایت ضعیف ہے۔ جگر اور گردے بھی ماؤف ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر محمدیوسف، ڈاکٹر الٰہی بخش ، ڈاکٹر جمعیت سنگھ سے بھی کبھی کبھی مشورہ کر لیا جاتا اور وہ بھی انتہائی توجہ اور عقیدت سے علاج کرتے لیکن علّامہ ڈاکٹری دواؤں کی تلخی و ناگواری سے بے حد گھبراتے تھے اور علاج جاری نہ رہ سکتا تھا۔ معالج سب کے سب متفق تھے کہ علّامہ کو عظم و اتساع قلب کا عارضہ ہے چوں کہ قلب ضعف کی وجہ سے اپنے وظائف پوری طرح ادا نہیں کر سکتا۔ اس لیے دمہ عارض ہے…مرض الموت کی کیفیت یہ تھی کہ آخر میں استسقا ہوا۔ چہرے پاؤں پر ور م ہو گیا۔ درد پشت اور درد شانہ کے عوارض شروع ہو گئے…یہ واقعہ پانچ بج کر پانچ منٹ کا ہے۔ علّامہ نے علی بخش سے فرمایا۔ میرے شانوں کو دباؤ۔ پھر بستر پر بیٹھے بیٹھے اپنے پاؤں پھیلا دئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’یا اللہ! یہاں درد ہے ‘‘اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف ڈھلنے لگا ۔ حضرت حکیم الامتؒ نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں‘‘۔ روزگار فقیرمیں فقیر سید وحید الدین اقبال کے بھتیجے اعجاز احمد کے قول سے لکھتے ہیں۔۔۔ ’’علاج کرنے میں علّامہ کے معالجوں اور تیمارداروں کو تین دقتّوں سے دوچار ہونا پڑتا۔ ایک تو یہ کہ دوا اگر بد ذائقہ اورناگوار بُو والی ہوتی تو علّامہ اُس کو پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے جی چراتے تھے دوسرے جو لوگ اُن سے ملنے کے لیے آتے وہ کوئی نہ کوئی مجرب اور آزمودہ نسخہ ضرور بتا جاتے۔ علّامہ ان نسخوں کو بھی استعمال فرما لیتے۔ تیسری مشکل یہ تھی کہ طبیعت پرہیز کی پابندی سے کتراتی تھی۔ اس طرح باقاعدگی کے ساتھ مسلسل علاج معالجہ نہ ہو سکتا تھا‘‘۔ ہم یہاں ڈاکٹر جاوید اقبال کی شاہکار کتاب زندہ رود سے آخری ایام کے وہ جملے اقتباس کے طور پر پیش کریں گے جن کا تعلق اس موضوع سے ہے۔ لکھتے ہیں ۔۔۔ ’’وسط مارچ ۱۹۳۸ء سے اقبال کی حالت تشویش انگیز ہوتی چلی گئی۔ وہ ایلوپیتھک دوائیں پسند نہ کرتے تھے۔ ان سے انھیں کوئی فائدہ بھی نہ ہوتا تھا۔ دمّے کے دورے پڑتے تھے۔ شانے اور کمر کا درد بدستور تھا۔ قلب جگر گردے سب ماؤف ہو چکے تھے۔ فرماتے نیند نہیں آتی۔ کھانسی کا دورہ پڑتا۔ بعض اوقات کھانستے کھانستے غشی کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ چند ہفتے گزرنے کے بعد پاؤں متورم ہو گئے۔ ۱۹؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو بلغم میں خون آنے لگا۔ آخری شب کو اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لیے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ ڈاکٹر عبد القیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور میں بے ہو شی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ سید نذیر نیازی نے جن کے نام علّامہ کے سو سے زیادہ خطوط ان کی بیماری کے تعلق سے ہیں علامہ کے انتقال کے کچھ مہینے بعد ایک طویل مضمون ’’اقبال کی آخری علالت‘‘ شائع کیا جس میں لکھتے ہیں۔۔۔’’کہ حضرت علّامہ کا مرض فی الحقیقت کیا تھا؟ قرشی صاحب کہتے ہیں کہ انھیں عظم واتساع قلب کی شکایت تھی یعنی دل کے مناسب عمل میں نقص واقع ہو گیا تھا جس سے ان کے عضلی ریشے بڑے ہو کر لٹک گئے تھے اس طرح ان کے دل کی عضلی دیواریں دبیز اور ڈھیلی ہو گئیں اور ان کے جوف پھیل گئے ان کی رائے میں سانس کی تکلیف دمّہ قلبی کی وجہ سے تھی۔ حضرت علامہ کی کھانسی، بول زلالی، نبض کا ضعیف، سریع اور غیر منظم ہونا یہ سب اتساع قلب کے علامات ہیں۔مزید برآں ان کاجگر بھی بڑھا ہواتھا اور اگرچہ اتساع قلب میں بھی دوران خون کے اختلال کے باعث جگر بڑھ جاتا ہے مگر حضرت علّامہ کا جگر پہلے سے ماؤف تھا۔ ڈاکٹر زیلشر(Dr Selzer)کا بھی یہی خیال تھا کہ حضرت علّامہ کو اتساع قلب کا عارضہ ہے اور گلے کی تکلیف مقامی فالج کا نتیجہ ہے۔‘‘ اقبال خود الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔’’طویل بیماری سے قلب کی رگیں کمزور ہو گئیں ہیں۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں ذرا سا کام کروں یہاں تک کہ حمام میں ہاتھوں سے اپنا بدن ملوں تو دم پھولنے لگا ہے ۔ مجھے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چارپائی پر لے جایا جاتا ہے وغیرہ۔ جب بعض ڈاکٹروں نے Aortaکا پھیل جانا یا انورژم کی تشخیص دی تو سید نذیر نیازی کے قول کے مطابق حکیم نابینا نے فرمایا: ’’بے شک ڈاکٹر صاحب کے اعصاب کمزور ہیں اور ان کا قلب بھی ضعیف ہے لیکن مجھے ڈاکٹروں کی رائے سے اتفاق نہیں۔ حکیم صاحب نے مزید فرمایا۔علّامہ کے اعصاب میں برودت ہے قلب ضعیف ہے جگر میں حدّت پیدا ہو گئی ہے ان کو ہلکا سا دمّہ ہے ۔ ڈاکٹروں نے بلغم کے انجماد کو غلطی سے رسولی سمجھ لیا ہے‘‘۔ اختلاج قلب (Palpitation) علّامہ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اختلاج قلب کی شکایت جوانی سے تھی۔ چنانچہ ۱۲؍ مئی ۱۹۲۲ء کو اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کو لکھتے ہیں۔۔۔ بھائی صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ تم کو گیارہ روز میں دو دفعہ اختلاج قلب کی شکایت ہوئی ہے۔میرا خیال ہے کہ شاید اس کا باعث بائی سیکل کی متواتر سواری ہے … کسی عمدہ ٹانک کا استعمال ضروری ہوگا ۔ اس قسم کی شکایت مجھے بھی زمانۂ طالب علمی میں تھی۔گھبرانا نہیںچاہئے۔ اللہ تعالیٰ شفا دے گا۔ ۲۳؍ مارچ ۱۹۳۵ئکو محمد عباس علی خاں لمعہؔ کو لکھتے ہیں۔۔۔ گولیوں کا استعمال جاری ہے اور لسّی بھی استعمال کر تا ہوں۔ جس سے اختلاج میں ضرور افاقہ ہوتا ہے اس کے ساتھ آپ کی حسبِ خواہش آنولے کا مربّہ بھی استعمال کر رہا ہوں۔ سید نذیر نیازی نے اقبال کے حضورمیں لکھا ہے کہ۴؍ مارچ ۱۹۳۸ء کواختلاج کے دورے پڑے لیکن طبیعت جلد ہی سنبھل گئی۔ لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ اس اثنا میں حضرت علّامہ کو دو ایک بار اختلاج کا ہلکا سا دورہ ہو ااور اس لیے تشویش تھی کہ ان کے جذبات کی شدت کوئی اندیشہ ناک صورت نہ پیدا کردے لیکن قرشی صاحب نے نبض پر ہاتھ رکھا تو حضرت علّامہ سے کہنے لگے۔ یہ اختلاج نہیں ہے احتباس ریح کی وجہ سے قلب پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ آپ نے جو دوا ابھی استعمال کی ہے اس سے طبیعت بحال ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اختلاج کی کیفیت جاتی رہی۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔‘‘ تمباکو نوشی حقّہ اور سگریٹ کا استعمال علّامہ کی زیادہ تر بیماریوں کی جڑ تمباکو نوشی تھی۔ اگرچہ تمباکو کے مضر اثرات کا علم کئی سو سال پہلے سے معلوم ہو چکا تھا۔ لیکن گزشتہ نصف صدی میں تمباکو نوشی کے مضر اثرات کا ثبوت تحقیقی اور تجرباتی حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ اس لیے آج ڈاکٹر تمباکو نوشی کو سختی سے منع کرتے ہیں۔ آج کی جدید میڈیکل تحقیق کے بموجب برونشیت، برونکایٹس، ضعف قلبی، دمّہ ، گلو کی خرابی، گردہ کی بیماری اور آواز کا بیٹھ جانا وغیرہ سب کچھ تمباکو نوشی کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔ اقبال عموماََ حقّہ پیتے اور جب گھر سے باہر یا سفر پر ہوتے تو سگریٹ کا ڈبہ ساتھ رکھتے تھے۔ خطوط اور مستند حوالوں کی روشنی میں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے کم از کم تیس (۳۰) پینتیس (۳۵) سال تمباکو کا استعمال کیا ہے۔ حالات کے تبصروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی دمّہ کا دورہ ختم بھی نہیں ہوا۔ اقبال کے خدمت گزار علی بخش نے حقّہ پر تازہ تمباکو سے لدی چلم چڑھا دی۔ دن ہو یا رات، خلوت ہو یا جلوت، سفر ہو یا حضر تمباکو علامہ اقبال کا مونس و یاور بنا ہوا ہے۔ اقبال کی سگریٹ نوشی کا مستند حوالہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۰۵ء کے خط میں جو مولوی انشاء اللہ خان کو لکھا گیا نظر آتا ہے۔ لکھتے ہیں۔۔۔ ایک نوجوان مصری دکاں دارسے میںنے سگریٹ خریدنے چاہے اورباتوںمیںاس نے کہا۔ میں مسلمان ہوں؟ اقبال کی سگریٹ نوشی کا ایک اور حوالہ ہمیں فقیر وحید الدین کی کتاب روزگار فقیر میں ملتا ہے۔ لکھتے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر صاحب ایک بار سیالکوٹ سے ریل گاڑی میں لاہور جا رہے تھے، شیخ اعجاز احمد بھی اس ٹرین سے انٹر کلاس میں سفر کر رہے تھے ، سمبڑیال اسٹیشن پر جب ٹرین ٹھہری تو شیخ صاحب سکینڈ کلاس میں ڈاکٹر صاحب سے کھانے کے لیے دریافت کرنے کی غرض سے آئے۔ اسی ڈبے میںککے زئی خاندان کے ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے ، جب انہیں پتہ لگا کہ شاعرِ مشرق اُن کے ہم سفر ہیں۔ تو انھوں نے حیرت و مسرت کے ملے جلے انداز میں کہا ’’یہ ڈاکٹر محمد اقبال ہیں؟ ان سے میرا تعارف کرا دیجئے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اُن سے ہاتھ ملایا اور اپنی سگریٹ کی ڈبّی کھول کر ایک سگریٹ پیش کی، ہم سفر بزرگ نے ڈاکڑ صاحب کے ہاتھ سے وہ سگریٹ لے لی مگر سگریٹ سلگانے کی بجائے اُسے جیب میں رکھ لیا۔ ڈاکٹر صاحب کو حیرت ہوئی، انہوں نے پوچھا کہ آ پ نے سگریٹ سُلگائی نہیں، وہ صاحب بولے کہ یہ متبرک سگریٹ میرے خاندان میں یادگار کے طور پر محفوظ رہے گی۔ ڈاکٹر صاحب اس پر مسکرائے انہوں نے دوسری سگریٹ دیتے ہوئے فرمایا اچھا تو اس سے شوق فرمائیے ۔ ہم سفر بزرگ نے اس سگریٹ کو بھی سلگائے بغیر جیب میں رکھ لیا۔ ڈاکٹر صاحب متبسم ہو کر چُپ ہو گئے۔ فقیر وحید الدین ’’روزگار فقیر‘‘ میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حقّہ ان کی زندگی کا بہترین ساتھی تھا۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ وہ تو موجود ہوں اور حقّہ ان کے پاس موجود نہ ہو۔ علی بخش کو بھی سب سے زیادہ ان کے حقّہ کا ہی خیال رکھنا پڑتا۔ جب کسی دوست کے ہاں تشریف لے جاتے تو ان کی سب سے بڑی تواضع یہی سمجھی جاتی اور میزبان سب سے پہلے اسی کی فکر کرتا ۔ علّامہ اقبال کو دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ دلچسپی حقے سے تھی۔ اُن کے والد اور بڑے بھائی محمد عطا محمد بھی حقّے کے بڑے شوقین تھے۔ علّامہ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۱۲ء میں ان کے والد عطا محمدکیمبل پور میں تعیّنات تھے۔ انھی دنوں عدالتِ عالیہ کے بند ہو جائے پر علأامہ اقبال اپنے وطن سیالکوٹ تشریف لائے ہوئے تھے۔ اتفاق کی بات کے کیمبل پور سے ایک شخص آیا اور علّامہ کو مقدمہ کی پیروی کے لیے کیمبل پور لے جانا چاہا۔ علّامہ اقبال سفر سے بہت جی چراتے تھے لیکن اس خیال سے کہ اس بہانے بڑے بھائی سے کیمبل پور میں ملاقات بھی ہو جائے گی مقدمہ لے لیا۔ علّامہ کیمبل پور پہنچے شیخ اعجاز احمد اس سفر میں ان کے ہمراہ تھے۔ واپسی پر آدھی رات کے قریب وزیر آباد جنکشن سے سیالکوٹ کے لیے گاڑی بدلنی تھی جو صبح کے پانچ بجے چلتی تھی۔ سیالکوٹ جانے والی گاڑی میں علّامہ آکر بیٹھ گئے اب انھیں حقّہ کی طلب ہوئی۔ قلی جو سامان اٹھا کر لایا تھا اُس سے کہا کہ اگر اس وقت کہیں سے حقّہ لے آؤ تو تمہیں انعام ملے گا۔ قلی انعام کے لالچ میں اُلٹے پاؤں واپس ہوا اور تھوڑی سی دیر میں ایک بوسیدہ سا حقّہ لے کر آگیا۔ اس حقّے کی ہئیت یہ تھی کہ مٹی کا پیندا اور ٹوٹی ہوئی چلم۔ کہنگی اور بوسیدگی میں یہ حقّہ اپنی مثال آپ ہی تھا۔ مگر علّامہ اس حقّے کو دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔ انھوں نے اپنے بندھے ہوئے بستر کو پلیٹ فارم پر رکھوایا ۔ اس پر بیٹھ کر حقّے کے کش لگانے لگے۔قلی بھی وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور علّامہ اقبال حقّہ پیتے ہوئے اس قلی کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ جب علّامہ حقّہ پی کر سکینڈ کلاس کے ڈبّے میں آ گئے تو شیخ اعجاز احمد نے کہا کہ حقّہ تو بہت گندا تھا۔ نہ جانے قلی کہاں سے کس کا اٹھا لایا تھا۔ علّامہ نے اس کے جواب میں کہا کہ جس کو تمباکو کی عادت پڑ جائے اُسے طلب کے وقت ان نزاکتوں کا خیال ہی نہیں آتا۔ اقبال اکاڈمی کراچی کے سہ ماہی مجلے اقبال ریویو کے شمارۂ جنوری ۱۹۶۹ ء میں خواجہ عبد الوحید صاحب کا ایک مضمون ’’میری ذاتی ڈائری میں ذکر اقبال‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں خواجہ صاحب نے بھی علامہ ا قبالؒ پر شراب نوشی کے الزام کی اس طرح نفی فرمائی ہے: ’’میں نے حضرت علامہ کو شروع سے لے کر ان کی وفات تک (تقریباََ تیس برس) حقہ پیتے دیکھا اورکبھی یہ نہیں سنا کہ انھوں نے اس تمام زمانے میں شراب کو ہاتھ لگایا ہو۔‘‘ خواجہ عبد الوحید صاحب کے مندرجہ بالا بیان کے مطابق انھیں تقریباََ تیس برس حضرت علامہ کو قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، یعنی وہ علامہ صاحب کو ۱۹۰۸ء میں انگلستان کسے واپسی کے فوراََ بعد سے جانتے ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں علامہ صاحب کی عمر ۳۴، ۳۵ برس تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ علامہ علیہ الرحمۃ عالمِ شباب میں بھی شراب نوشی سے محفوظ تھے۔ خواجہ عبد الوحید صاحب کا بیان میری تحقیق کی تائید کرتا ہے کہ علامہ صاحب نے اپنی زندگی میں کبھی بھی شراب سے شغف نہیں رکھا۔ علامہ اقبال ہرگز شراب نوش نہ تھے بلکہ شراب نوشی کو خود کشی کے مترادف قرار دیتے تھے۔ یہاں یہ بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ قیامِ یورپ کے تین برسوں میں اور بعد میں بھی جب کبھی وہ یورپ گئے، انھوں نے گوشت بالکل استعمال نہ کیا، چہ جائے کہ شراب۔ واپس آکر وہ اکثرسنایا کرتے تھے کہ وہاں کوئی گوشت مسلمان کے کھانے کے قابل نہیں ہوتا کیونکہ غیر اسلامی طریق سے ذبح شدہ جانوروں اور سور کا گوشت ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ان کا یہ عمل حرام چیزوںسے اُن کی بے پناہ نفرت کی عیاں دلیل ہے۔ اس کے علاوہ جب وہ یورپ گئے تو عام ہندوستانی طلبا کی طرح وہاں کے چار تحائف : خمر و خنزیر و روزنامہ و زن سے مرعوب نہ ہوئے۔ برخلاف اس کے اُن پر ان کا بر عکس اثر پڑا۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ قیامِ یورپ کے دوران انھوں نے ہر اُس چیز سے پرہیز کیا جو اسلام کو رو سے حرام ہے، تو آخر اپنے ملک میں وہ کیوں ان سے دور نہ رہے ہوں گے؟ یورپ کے مسموم ماحول میں، جہاں بڑے بڑے پارساؤں کی پارسائی پانی کا بلبلہ ثابت ہوتی ہے، علامہ اقبالؒ جب ہر طرح ثابت قدم رہے تو پھر ہندوستان کے بدرجہا بہتر ماحول میں ان کے مضبوط قدم آخر کس طرح ڈگمگا سکتے تھے! ہم اب ایک خوبصورت واقعہ کی روداد پیش کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال سگریٹ اور حقّہ تو پیتے تھے لیکن شراب کو ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے۔ اقبال درونِ خانہ میں صوفی نظیر خالد نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے نقل کیا ہے جو اقبال کی حقیقی بھتیجی تھیں کہ’’جب اقبال مسلم لیگ ایجوکیشن کانفرس کی دعوت پرچنداہم لکچر زدینے کے لیے جنوبی ہندوستان گئے تو واپسی پر یہ واقعہ سنایا کہ ان کی ملاقات مدراس کے ریلوے اسٹیشن پر کونونٹ کی طالبہ حجاب اسماعیل سے ہوئی جنہیں ان کی ملّی نظمیں بہت پسند تھیں۔نظیر صوفی لکھتے ہیں۔اس واقعہ کو بعد میں حجاب اسماعیل جو حجاب اسماعیل تاج ہوئیں ہیں بیان کرتی ہیں۔’’جب میرے والد سید محمداسماعیل نے یہ مژدہ مجھے سنایا کہ علّامہ صاحب آرہے ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں ان کے ترانے چھ سات سال کی عمر ہی میں بہت جوش اور ولولے سے گایا کرتی تھی۔ میں نے اپنے والد سے کہہ دیا تھا کہ میں علّامہ کے دور قیام میں تمام وقت ان کے ساتھ رہوں گی۔ جب میں شاعرِ مشرق کے استقبال کے لیے اپنے والد ماجد کے ساتھ مدراس سے ایک اسٹیشن قبل ’’بیسن برج‘‘ پہنچی تو میں شوق و ولولہ کے ساتھ اپنی تصوراتی دنیا میںغرق تھی۔ خیال تھا صبح کا وقت ہے علّامہ صاحب ایک اعلیٰ درجے کے ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس ہوں گے۔ نکٹائی بھی میچ کر کے لگا رکھی ہوگی۔ انگلیوںمیں موٹا سا سگار سلگ رہا ہوگا۔ ٹرین پلیٹ فارم پر آکر رُکی۔ میں اور میرے والد اور ان کے چند دوست فرسٹ کلاس کے ڈبوں میں جھانک جھانک کر دیکھتے رہے مگر خلاف توقع علّامہ صاحب سکینڈ کلاس میں تھے۔ اس وقت مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ اتنا عظیم آدمی اور سکنڈ کلاس میں سفر! میں نے اپنے والد سے سرگوشی میں کہا کہ اگر کوئی انجمن مجھے سکنڈ کلاس کا ٹکٹ بھیج کر بلواتی یا میں علّامہ اقبال ہوتی تو صاف انکار کر دیتی۔ میرے والد نے کہا کہ بڑے لوگ چھوٹی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ شاعرِ مشرق کھڑے ہو کر لوگوں سے ہاتھ ملانے اور رسمی باتیں کرنے لگے۔ میں ایک کونے میں کھڑی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی کیا یہی علّامہ اقبال ہیں؟ وہ نہ اعلیٰ درجہ کے ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھے نہ اُن کی انگلیوںمیں موٹا سگار جل رہا تھا انھوں نے پنجابی شلوار پہن رکھی تھی اورکُرتے پر واسکوٹ اور پاؤں میں دیسی جوتی۔ میں انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھی کہ اچانک میرے والد نے نہ جانے کیا کہہ کر میرا تعارف کرایا۔ یہ بھی کہا کہ اُن کے قومی ترانے میری گھٹی میں پڑے ہیں۔ وہ مجھ سے ملنے کے لیے کھڑے ہو گئے پھر مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ بٹھاتے ہی ایک سگریٹ کا ڈبّہ کھول کر مجھے سگریٹ پیش کیا۔ اس پر میرے والد کے ایک دوست نے مسکرا کر کہا سگریٹ ! ابھی تو یہ سینٹ تھامسن کانوینٹ میں پڑھتی ہیں۔ کانونٹ کا نام سن کر علّامہ میری طرف متوجہ ہوئے۔ مسکرا کر فرمانے لگے۔ بتائیے کانوینٹ میں عیسائیت کا آ پ نے اب تک کتنا اثر قبول کیا ہے؟ میں نے کہا بہت تھوڑا سا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ اتنے دل نشین ترانے مثلاََ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے، سارا جہاں ہمارا ‘‘کیسے لکھتے ہیں۔ اس پر شاعرِ مشرق نے بے حد شگفتگی سے فرمایا ۔’’ اب میں مان گیا کہ عیسائیوں کے کانونٹ کا آپ نے ذرا بھی اثر قبول نہیں کیا جبھی تو آپ کا ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ پر ایمان ہے۔ سوابجے میںاپنے والدکے ساتھ لنچ کے لیے بساٹو ہوٹل پہنچی۔لنچ سے پہلے استقبالی کمرے میں مہمانوں کا ہجوم تھا۔ مجھے موقع نہ ملا کہ ان کے قریب جاتی۔ انھوں نے وہیں سے ہاتھ ہلا کر مجھے سلام کہا۔ اب وہ ایک ہلکے نیلگوں گرے رنگ کے سوٹ اورکالی ٹوپی میں ملبوس تھے۔ کمرہ طعام میں داخل ہوئے تو لمبی لمبی میزوں پر شراب کے گلاسوںکے پاس مہمانوں کی نشست کے لیے ان کے نام لکھے ہوئے تھے۔ مہمان کارڈ دیکھ دیکھ کراپنی نشستوںپر بیٹھنے لگے۔ لوگوں کو تعجب ہوا جب علّامہ نے خود اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف کی کرسی کھینچتے ہوئے میری طرف دیکھ کر فرمایا۔ کیا مضائقہ ہے اگر آپ یہاں تشریف رکھیں۔ جب میرے اور علّامہ کے آگے رکھے ہوئے گلاسوں میں مختلف قسم کی شراب بیروں نے ڈالنی شروع کی توایک بیرے سے میںنے آہستہ سے کہا۔ میرے لیے لیمونیڈ لے آؤ۔ علّامہ نے کہا آپ صرف لیمونیڈ پیئیں گی میںنے کہا میں شراب نہیں پیتی۔ آپ پی لیتے ہیں ؟ ہنس کر کہنے لگے۔ بالکل نہیں۔ آپ کو شاید معلوم نہیں میں نے اپنے قیام انگلستان کے دوران بھی کبھی شراب کا ایک قطرہ نہیں چکھا۔ یہ فقرہ سُن کر آس پاس جولوگ بیٹھے تھے انھوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ جاتے وقت انھوں نے کہا آپ سے مجھے مل کر بڑی خوشی ہوئی آپ ایک جوشیلی اور پر خلوص مسلمان بچی ہیں۔ ورزش سے گریز(Sedentary Life Style) بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی طرح مصروف زندگی کی وجہ سے علّامہ اقبال کی روز مرّہ کی زندگی تساہل پسندی کی طرف مائل تھی جو تمباکو نوشی کے اضافہ سے قلبی اور صدری بیماریوں کا شکار ہوئی۔ذیل کے خطوں اور مستندحوالوںسے یہ معلوم ہوتاہے کہ علّامہ صرف نوجوانی میںکچھ کسرت اور ورزش کرتے تھے لیکن بعد میں معمولی سیر یا ہوا خوری بھی نہیں کرتے تھے۔ علّامہ کے بھائی کے نواسے خالد نظیر صوفی اقبال درونِ خانہمیں لکھتے ہیں۔ ’’علّامہ فطرتاََ تساہل پسند تھے۔ چارپائی پر نیم دراز یا گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے رہنے کے بڑے دلدادہ تھے۔ صبح یا شام کو سیر کی عادت نہ تھی ۔ شام کے وقت صحن میں ہی دو ایک چکر لگا لیتے اور بس یہی ان کی سیر تھی۔‘‘ ۳۰؍دسمبر ۱۹۱۵ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں۔۔۔ میری صحت عام طور سے اچھی نہیں رہتی۔ کوئی نہ کوئی شکایت دامن گیر رہتی ہے۔ دوا پر مجھے چنداں اعتبار نہیں۔ ورزش سے گریز ہے ۔ اس واسطے یہ فیصلہ کر بیٹھا ہوں کہ چلو اگرمقررہ وقت سے کچھ عرصے پہلے رخصت ہو گئے تو کیا مضائقہ ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر ہمیشہ کہتے ہیں کہ ورزش وغیرہ سے عمر میں اضافہ ہوگا میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ دس سال پہلے کیا اور پیچھے کیا۔ آخر رخصت ہونا ہے تو کیوں دوا اورورزش کا درد سر خریداجائے۔ ۱۶؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ہوا خوری کی کوشش کروں گا مگر اس کی عادت پڑنا مشکل ہے کیوں کہ تمام عمر میں کبھی ایسا نہیں کیا۔ حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کیجئے گا کہ مجھے نماز کا پورا پابند کرنے اور ہوا خوری کی عادت ڈالنے کے لیے آپ کے روحانی اثر کی ضرورت ہے۔ مولانا غلام مہر رسول مہر اقبال درونِ خانہکے پیش لفظ میںلکھتے ہیں۔’’بالکل ابتدائی دور میں وہ پہلوانوں کے اکھاڑے میں جاتے اور ورزش کرتے تھے۔ ایک زمانے میں سیر بھی با قاعدہ کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ علّامہ کی طبیعت ابتدا ہی سے غور و فکر میں انہماک و استغراق کی طرف مائل تھی۔ رفتہ رفتہ یہ انہماک بڑھتا گیا اور نقل و حرکت بار خاطر ہونے لگی۔ اس وجہ سے ان کے جسم کا نچلا حصہ کمزور ہو گیا تھا۔ اگرچہ عام ملاقاتیوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا تھا وہ بیٹھنے کے لیے جو کرسی استعمال فرماتے تھے وہ بھی ایک حد تک آرام کرسی ہی تھی۔ مرحوم کی نشست کا معاملہ بھی عجیب تھا ان کے ارشادات کا سلسلہ جاری ہو جاتا تو وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ رہتا ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک روز مجھے فرصت تھی اور میں صبح ہی ان کی خدمت میں پہنچ گیا۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے وسیع بر آمدے میں باتیں شروع ہو گئیں جب میں اجازت لے کر اٹھا توگیارہ گھنٹے گزر چکے تھے۔ دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھایا اس اثنا میں کرسیاں تو اِدھر اُدھر کھسکاتے رہے لیکن اٹھے نہیں اور اتفاق یہ کہ اس روز کوئی ملاقاتی بھی صحبت میں دخل انداز نہ ہوا۔ مزید غلام رسول مہر لکھتے ہیں۔ دسمبر ۱۹۳۱ء میں وہ لندن سے روما نیپلز اور قاہرہ ٹھہرتے ہوئے یروشلم گئے تھے جہاں سید امین الحینی مفتی آعظم فلسطین نے موتمر اسلامی کے انعقاد کا انتظام کیا تھا۔ مجھے بھی ہم رکابی کا شرف حاصل تھا۔ ایک مرتبہ صدر بلدہ یروشلم کی جانب سے ایک ہوٹل میں عصرانے کا انتظام کیا گیا جو ہماری قیام گاہ سے قریباََ دو فرلانگ یا اس سے کسی قدر زیادہ فاصلے پر تھا ہم موٹر میں وہاں پہنچے۔ واپسی کے لیے موٹر کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ میں نے عرض کیا ہماری قیام گاہ کچھ دور نہیں ہے کیوں نہ ٹہلتے ٹہلتے پیدل وہاں پہنچ جائیں۔ فرمایا۔ ٹھیک ہے چلو لیکن پانچ دس قدم چل کر رک گئے اور فرمایا ۔ ہم تھک جائیں گے حسنِ اتفاق سے اسی وقت ایک موٹر آگئی اور ہم قیام گاہ پر پہنچ گئے ۔ غرض ان کے لیے دو فرلانگ بھی چلنا مشکل تھا اور یہ فکری انہماک میں نقل و حرکت سے گریز ہی کا نتیجہ تھا۔ خ خ خ امراض حلق و سینہ (Throat & Chest Diseases) علّامہ اقبال کے سینے (chest) کے عوارض کو چار حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ عوارض حلق یعنی گلے کا درد اور آواز کا بیٹھ جانا ۲۔ عوارض پھیپھڑے جس میں برونکائٹس، برونشت اور دمّہ شامل ہے۔ ۳۔ عوارض قلب جس میں دمّہ قلبی، اختلاج قلب، ضعف قلب اور قلب کا پھیل جانا شامل ہے۔ ۴۔ سینے کے اوپری حصّہ میں غیر تشخیص شدہ سایا۔انورژم یا ٹیومر؟ کیوں کہ عوارض حلق ،عوارض قلب اور سینے کے اوپری حصّہ میں غیر تشخیص شدہ سایا پر علیحدہ مفصّل گفتگو ہو چکی ہے اس لیے یہاںہم نے پھیپھڑوں کے ہر عارضے کو جدا طور پر بیان کیا ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماریاں علّامہ کے خطوط، مستند حوالوں اور ان کے ایکس ریزرپوٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کم از کم چھ پھیپھڑوں کی بیماریاں یا عوارض تھیں۔ ۱۔ برونکائٹس (Chronic Bronchitis) ۲۔ برونشت(Bronchectasis) ۳۔ دمّہ (Bronchial Asthma) ۴۔ام فی ضیما (Emphysema) ۵۔ ورم ریوی (Pulmonary Oedema) ۶۔ نمونیا (Terminal Pneumonia) برونکائٹس، برونشت اور ام فی ضیما Chronic Bronchitis, Bronchectasis, Asthma & Emphysema طب جدید میں فوق ذکر بیماریوں کو جس میں برونکائٹس ، برونشت، دمّہ اور ام فی ضیما شامل ہے۔(COPD) یعنی Chronic Pulmonary Obstructive Diseasesکہتے ہیں۔ اگرچہ ان چاروں بیماریوں کی علت ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن کم و بیش ان کے اثرات اور ان کے علاج میں مشترکہ عوامل زیادہ ہیں۔ اس لیے ہم اجمالی طور پر ان کے بارے میں ضروری اطلاعات فراہم کریں گے۔ اقبال نے کم از کم تیس (30) پینتیس(35) برس تمباکو نوشی کی۔ عمر کی آخری دو دہائیوں میں ہر روز صبح سفید رنگ کی بلغم نکلتی تھی جو سردیوںمیں زیادہ ہو جاتی تھی اور کبھی کبھی پک کر ذرد اور منجمد ہو جاتی جس سے انھیں تکلیف ہوتی چنانچہ یونانی دواؤںاورجوشاندوںسے آرام ملتا۔ جب تک بلغم خارج نہ ہوتی آواز صاف نہ ہوتی چنانچہ بعض اوقات کھانسی، بخار اور ذرد بلغم کو دورکرنے کے لیے ایلوپیتھک علاج بھی کرواتے۔ آج ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جولوگ بڑی مدّت تک تمباکو نوشی کرتے ہیں وہ برونکائٹس کا شکار ہوتے ہیں جس میں ہر روز صبح کے وقت سفید رنگ کی بلغم(Mucus) نکلتی ہے اگر بلغم ذرد اور سخت منجمد ہو جائے تو اس مین انفکشن کا امکان رہتا ہے۔ ذیل کے مختلف خطوط سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کو برونکائٹس کے علاوہ برونشت (Bronchiectasis)بھی تھی جس کی تشخیص ایکس ریز میں دی گئی تھی۔ جس میں پھیپھڑے کی نالی مقامی طور پر پھیل جاتی ہے اوراُس مقام پر بلغم کی تولید اور جمع آواری زیادہ ہوتی ہے ۔ سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’کل دوبارہ معائنہ کروایا تھا۔۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلغم اُس نالی میں پیدا ہوتی ہے جس کا مقام بقول ڈاکٹروں کے پھیل گیا ہے‘‘۔ اقبال ۵؍ جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’بلغم بھی نکلتی ہے مگر کچی کبھی کبھی منجمد بلغم بھی نکلتی ہے مگر بہت کم‘‘۔ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’کھانسی بہت کم ہو گئی ہے بلکہ جاتی رہی ہے ۔ انگریزی دوا سے بہت فائدہ ہوا ۔ زرد رنگ کی جمی ہوئی بلغم جو پہلے آتی تھی اب نہیں آتی البتّہ وہ معمولی بلغم جو زکام سے پہلے بھی آتی تھی ابھی آتی ہے۔ حکیم صاحب سے اب یہ عرض کرنا ہے کہ جو دوا وہ تجویز کریں اس میں تین باتوں کا لحاظ رکھیں۔ (۱) قوت جسمانی۔ (۲) آواز۔ (۳) بلغم کا سدّ باب کہ اسکا پیدا ہونا بند ہو۔ سردیوں میں اس بیماری میں بلغم زیادہ نکلتی ہے چنانچہ ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ ’’بلغم صبح کے وقت بہت نکلتی ہے اور اس کے نکلنے سے آواز بھی قدرے صاف ہو جاتی ہے‘‘۔ ۱۵؍ نومبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’معلوم نہیں یہ بلغم اتنی کہاں سے آتی ہے اور کیوں کر پیدا ہوتی رہتی ہے۔ میں کوئی ایسی چیز بھی نہیں کھاتا جس سے بلغم پیدا ہو۔ تاہم جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کھانا کھانے ،چائے پینے ، یاپانی پینے کے بعد بلغم نکلتی ہے اور نکلنے کے بعد آواز نسبتاََ صاف ہو جاتی ہے۔ تھوڑی مدت گزرنے کے بعد پھر اسی طرح ہو جاتی ہے‘‘۔ ۱۲؍ نومبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’کھاناکھانے،چائے پینے، مرغ کا شوربہ پینے یا پانی پینے کے بعد بلغم خاص طور پر نکلتی ہے ۔ علیٰ ہذا القیاس صبح کے وقت خاص طور پر نکلتی ہے پہلے یہ بلغم پختہ اور ٹھوس بھی ہوتی تھی اب اس قدر ٹھوس نہیں بلکہ لزوجت ہے‘‘۔ ۱۳؍ جون ۱۹۳۵ء کو پروفیسر الیاس برنی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’صبح بلغم نکلتی ہے علی ٰ ہذا القیاس کھانا کھانے کے بعد بھی سفید بلغم نکلتی ہے جس کے نکلنے سے آواز نسبتاََ بہتر ہوتی ہے‘‘۔ ۳۲؍ جون ۱۹۳۵ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’فی الحال میری شکایات یہی ہیں جو لکھ چکا ہوں۔ یعنی عام کمزوری، قلب کی کمزوری، دم پھولنا، قبض اور جگر کے فعل کی بے قاعدگی، بلغم وغیرہ اس سے پہلے کھانسی اور دمّہ بھی تھا اورجب کھانسی ہوتی تھی تو میں بے ہوش ہو جاتا تھا‘‘۔ ۵؍ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب …کی خدمت میں یہ بھی عرض کردیں کہ لاہور پہنچتے ہی مجھے زکام ہو گیا تھا جو تین دن رہا۔ بہیدانہ اور شربت پینے سے بلغم پک گئی ہے مگر ذرا وقت سے نکلتی ہے اس بات کا وہ دواتجویز کرنے میں خیال رکھیں بعض دفعہ بلغم نکالنے کی کوشش میں وہ حالت یا اس کاخفیف سا پرتو پیدا ہوجاتا ہے جس کو حکیم صاحب نے ہلکا سا دمّہ بتایا تھا‘‘۔ ۲۷؍ نومبر ۱۹۳۷ء ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’نیز مندرجہ ذیل باتیں ان کی خدمت میں عرض کیجئے… دویم۔ بلغم۔ میری طرف سے حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کیجئے کہ اس شکایت کی طرف خاص توجہ دیں۔ گرمی میں یہ بلغم بہت کم تھی۔ اب جوں جوں سردی زیادہ ہوتی جاتی ہے بلغم میں بھی زیادتی ہوتی جاتی ہے۔ صبح تقریباََ ایک گھنٹہ تک بلغم جاری رہتی ہے۔ دوسرے اوقات میں بھی کبھی آتی ہے کبھی نہیں آتی ہے۔ بلغم کچی ہوتی ہے اور اس کے نکل جانے سے آواز میں صفائی اور ترقی پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا یہ خیال ہے کہ قلب کے قریب سے جونالی گزرتی ہے اسی میں یہ بلغم پیدا ہوتی ہے ۔شاید اطباء اسکا سر چشمہ دماغ بتاتے ہیں ۔ بہر حال یہ خط حکیم صاحب کو سُنا دیجئے اور اگر کوئی دوا دافع بلغم تجویز فرمائیں تو مہربانی کر کے اسے جلد بھجوا دیجئے‘‘۔ ۳۱؍جنوری ۱۹۳۸ئکو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلغم اگر بند ہو جائے تو کسی قدر تکلیف دیتی ہے اور اگر ہر صبح آسانی کے ساتھ نکل جائے تو مقابلتاََ حالت بہتر رہتی ہے۔ بہرحال جو دوائی آپ نے اب بھیجی ہے اس کے استعمال کے بعد زیادہ یقین کے ساتھ کہہ سکوںگا‘‘۔ ۳؍ فروری کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ معجون جو آپ نے حکیم صاحب سے لے کر ارسال کی ہے وہ میں نے دو روز استعمال کی ہے اور دو روز میں اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ بلغم کا اخراج بہت کم ہو گیا ہے۔مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک معلوم نہیں ہوتا کہ بلغم کی تولید بھی کم ہو گئی ہے۔کیوں کہ بلغم کا اخراج نہ ہونے سے میری آواز پر نمایاں اثر پڑا ہے یعنی گلا بیٹھ گیا ہے۔ پہلے یہ تھا کہ بلغم کے ہر صبح اخراج ہو جانے سے آواز صاف رہتی تھی لیکن اس دوائی کے استعمال سے اخراج تو کم ہوتا ہے مگر آواز بیٹھ جاتی ہے‘‘۔ جیسا کہ ہمیں مختلف خطوط اور حوالوں سے معلوم ہوا ہے کہ علّامہ کو خفیف سا دمّہ جوانی سے تھا۔برونکائٹس اور برونشت کا عارضہ بھی لاحق تھا اور تمباکو نوشی بھی ہمیشہ کرتے تھے۔ اِس لیے ان کا امی فی ضیما سے دوچار ہونا ضروری تھا ۔ چنانچہ دمّہ قلبی کے ساتھ ساتھ ان کے پھیپھڑوں میں آکسیجن کو جذب کرنے کے مقام کی کمی بھی ہو گئی تھی اور ان تمام عوارض کی وجہ سے ان کے پھیپھڑوں میں پانی اور خون بھر گیا تھا اور آخری علالت کے دوران نمونیا بھی ہو گیا تھا۔ چنانچہ ان کے بلغم میں خون آنا شروع ہو گیا تھا جس کو ڈاکٹروں نے خطرناک علامت کہا تھا۔ تنگیٔ نفس ۔ دم پھولنا (Dyspnea) ہم نے عمداََ دمّہ یا Asthmaکی تشخیص اس لیے نہ دی کہ اقبال کا دم پھولنا Dyspnea یا shortness of breathقلب کے ضعف،ورم ریوی(پھیپھڑوں کے ورم)،Pulmonary Oedemaسے ہو سکتاہے۔بہت ممکن ہے خفیف دمّہAsthma Emphysema برونکاٹس Bronchitis اوربرونشت کے ساتھ جوانی کے زمانے سے ہو۔ علالت کے آخری دنوں میں دم پھولنے کی شکایت نمونیا Pneumoniaاور پھیپھڑوں کے ورم کی وجہ سے شدید ہو چکی تھی۔ اقبال کے خطوط اور اطرافیان کے مستند حوالوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دم پھولنے کی شکایت روز بروز بڑھتی گئی اور آخری علالت کے ایّام میں اقبال کو دمّے کے ایسے شدید متواتر دورے پڑتے کہ وہ تقریباََ بے ہوش سے ہو جاتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی دم پھولنے سے مکمل فراغت نہ ہوتی علی بخش تازہ تمباکو بھر کر حقّہ حاضر کر دیتا۔ ہم اپنی گفتگو کو یہاں ختم کر کے علّامہ کے کچھ خطوط پیش کرتے ہیں جس میں بڑی تفصیل سے دم پھولنا اور دمّہ کی کیفیت اور اس سے افاقہ کے حالات بیان ہوئے ہیں۔ اس فہرست میں اقبال کا آخری خط ان کے انتقال سے صرف دو دن قبل کا ہے۔ دم پھولنے یا دمّہ کے سلسلہ کا پہلا خط ہمیں مئی ۱۹۳۷ء کا ملتا ہے۔ اقبال ۲۰؍ مئی ۱۹۳۷ء کو شیخ اعجاز احمدکو لکھتے ہیں۔۔۔ (ii) دم بھی پھولتا ہے گو پہلے کی نسبت کم اس سے میں یہ اندازہ کرتا ہوں کہ دل کی تقویت کے لیے بھی کسی خاص موثر دوا کی ضرورت ہے۔ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ حکیم صاحب کی توجہ مندرجہ ذیل تین باتوں کی طرف دلائیں۔ (۱) وہ دوائی جو مونگ کے دانہ کے برابر روزانہ استعمال کے لیے تھی ایک مدّت سے استعمال ہو رہی ہے۔ مگر بلغم کی تولید پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ (۲) تھوڑی سی حرکت کرنے مثلاََ کپڑے بدلنے یا دس بیس قدم چلنے سے میرا دم پھول جاتا ہے اور اس کے بعدجب تک پانچ سات منٹ بیٹھ نہ جاؤں یا لیٹ نہ جاؤں دم ٹھیک نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں کہ یہ نتیجہ اعصاب کی کمزوری کا ہے یا پھیپھڑوں یا قلب کی کمزوری کی وجہ سے۔ یہ بات حکیم صاحب کی خاص توجہ کی مستحق ہے۔ اس سے پہلے اگرچہ دم پھولتا تھا تاہم اس طرح نہیں ہوتا تھا… مہربانی فرما کر آپ خود حکیم صاحب کے پاس جائیں اور لفظ بہ لفظ یہ خط ان کو پڑھ کر سنائیں اور جو کچھ وہ کہیں اس سے فوراََ مجھے مطلع فرمائیں۔ ۲۲؍ جنوری ۱۹۳۸ء ڈاکٹر مظفر الدین کو خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے معائنہ کے مطابق قلب اور پھیپھڑوں کی حالت اچھی ہے۔ حکیم قرشی صاحب جو ہمارے طبیہ کالج کے پرنسپل ہیں ان کو نبض بھی دکھائی گئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ نبض کی حالت بھی اچھی ہے۔ عام دیکھنے والے بھی میرے چہرے سے بیماری کا قیاس نہیں کر سکتے۔ بایں ہمہ میری سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ذرا سی حرکت سے میرا دم پھول جاتا ہے تھوڑا سا چلنا پھرنا ، کپڑے بدلنا، پاخانے آنا جانا، یہاں تک کہ مسلسل پانی کا آدھا گلاس پینا یہ سب چیزیں تنفّس پر اثر کرتی ہیں۔ بعض دفعہ رات کو پچھلے پہر بھی تنفّس تکلیف دیتا ہے اور حکیم قرشی صاحب کے جوشاندہ جس میں عناب، گاؤزبان اور ابریشم وغیرہ ہے کے پینے سے آرام ملتا ہے۔ ریح کے اخراج سے بھی تنفّس پر اچھا اثر پڑتا ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تنفّس کی تکلیف شدّت برودت کی وجہ سے ہے یا ریح کی وجہ سے۔ حکیم صاحب قبلہ بہتر اندازہ کر سکتے ہیں۔ غالباََ ریح کی وجہ سے ہے۔ قریباََ چار سال ہوئے حکیم صاحب نے فرمایا تھا کہ تمہاری بیماری اصل میں مرض دمّہ کی ایک ہلکی سی صورت ہے اب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ حکیم صاحب کا ارشاد بالکل بجا تھا۔ تنفّس کی یہ حالت اس سے پہلے کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ دم پھولتا تھا مگر موجودہ حالت صرف اسی موسم سرما میں ہوئی ہے اس سے پہلے نہ تھی۔ اس واسطے میری استدعا ہے کہ حکیم صاحب ان حالات کی طرف توجہ فرمائیں۔ ۱۶؍ فروری کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا ہے مجھ کو زیادہ تر شکایت ایسی بھی ہے کہ ذرا سی حرکت سے دم پھول جاتا ہے اور کبھی کبھی رات کو تنفّس کی تکلیف بھی ہوتی ہے۔ ۱۸؍ فروری ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ کل آپ کا خط لکھ چکنے کے بعد رات کو مجھے تنفّس کی بہت تکلیف رہی قریباََ ۱۲ بجے شب سے۳بجے صبح تک۔ صبح اٹھ کر میں نے ڈاکٹر کو بلوایا اورمعائنہ کروایا۔انھوںنے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ یہ دمّہ ہے۔ مگر اس دمّہ کو پھیپھڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ وہ دمّہ ہے جو قلب کے اعصاب کی کمزوری سے پیدا ہوتا ہے۔ میں تو یہ خیال کرتا تھا کہ شاید شدّت سرما یا ریح کے باعث تکلیف ہو جاتا ہے مگر اب معلوم ہوا کہ اس کی اصل وجہ قلب کی کمزوری ہے۔ حکیم صاحب کابھی یہی خیال تھااسی واسطے ان کو ڈاکٹری کے معائنہ کے نتیجے سے مطلع کرنا ضروری سمجھا ہے۔ تاکہ اگر کوئی میرے لیے معجون تیار کریں تو اس نتیجہ کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ ۲۹؍ مارچ ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ دمّہ کے متواتر دوروں سے بہت تکلیف رہتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت زندگی سے بھی مایوسی ہو گئی اس وقت نیازی صاحب کے اصرار سے یہ غلطی کی گئی کہ حکیم صاحب کی آمد کی کوشش کرنے کے لیے آپ کو تار دیا گیا۔ میں اس غلطی جس کے ذمہ دار زیادہ تر میرے احباب ہیں، بہت نادم ہوں۔ دو دوائیں جو آپ نے بھیجی تھیں ان کا استعمال آج آٹھ نو روز سے جاری ہے۔ دوروں کے تواتر میں بہت افاقہ ہے اور صحت اپنی اصلی حالت کی طرف رفتہ رفتہ عود کر رہی ہے۔ ۱۹؍ اپریل ۱۹۳۸ء علّامہ نے انتقال سے ۲ دن قبل ممنون حسن خاں صاحب کو اپنے آخری خط میں لکھا۔۔۔ آپ کا خط کئی روز ہوئے ملا تھا۔افسوس کہ شدید علالت کی وجہ سے جواب نہ لکھوا سکا۔ دمّے کے متواتر دوروں نے مجھے زندگی سے تقریباََ مایوس کر دیا تھا۔ مگر اب خدا کے فضل سے کچھ افاقہ ہے گو کُلّی طور پر ابھی صحت نہیں ہوئی۔ آنکھوں کا آپریشن مارچ میں ہونے والا تھا مگر دمّے کی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا۔ اب بشرط زندگی انشاء اللہ ستمبر میں ہوگا۔ ورم ریوی اور نمونیاPulmonary Edema & Pneumonia اپریل ۱۹۳۸ء اقبال کی زندگی کا آخری مہینہ تھا۔ اقبال کے احباب تشویش میں تھے۔ ان کے معالج مایوس ہو چکے تھے ۔ جاوید منزل پر دن رات چند لوگ موجود رہتے تقریباََ ہر روز دو تین حکیم اور ڈاکٹر اقبال کا معائنہ کرتے اور دوائیں تجویز اور تبدیل کی جاتیں۔ نیند کی کمی ، شانے کا درد، دمّہ کے متواتر دوروں نے زندگی کو سخت کر دیا تھا لیکن اقبال کی ہمّت بندھی رہی۔ سید نذیر نیازی ، حکیم قرشی ، ڈاکٹر جمعیت سنگھ ، ڈاکٹر عبد القیوم ملک، اور ڈاکٹر محمد یوسف ہفتہ میں ایک دو بار باہم مشورہ کرتے۔ یونانی اور ایلوپیتھک دونوں علاج جاری تھے۔ پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے کو ورم ریوی یاPulmonary Edemaکہتے ہیں۔ یہ اُسی صورت میں ہوتا ہے جب دل پھیل جاتا ہے اور اس کی حرکت میں پمپ کرنے کی قدرت کم ہو جاتی ہے چنانچہ پھیپھڑے اپنا خون دل میں خارج نہیں کر سکتے اور پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے کے باعث خون میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے اور دمّہ کا دورہ پڑتا ہے یہ عمل عموماََ رات میں زیادہ ہوتا ہے۔ اقبال کو دمّہ کے دورے یوں تو مرنے سے کئی مہینے قبل شروع ہو چکے تھے لیکن اپریل کے پہلے اور تیسرے ہفتہ میں ان حملوں کی شدّت میں اضافہ ہو گیا یہی نہیں بلکہ بلغم سخت ہو گئی اور اس میں خون آنے لگا جو بہت ممکن ہے Pulmonary Congestionاور نمونیہ Pneumoniaکا باعث ہو اورجب پھیپھڑے ماؤف ہو گئے تو اس کا معکوس اثرکمزورقلب پربھی پڑا۔ جناب نذیر نیازی آخری علالت میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مرض الموت کی رفتار کچھ عجیب سی رہی۔ اول استقا Asitisکا حملہ ہوا جس سے چہرے اور پاؤں پر ورم آگیا۔ پھر تمام جسم پر ورم پھیل گیا۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ کو بلوایا گیا تو انھوں نے معائنہ کے بعد قطعی مایوسی کا اظہار کیا۔ ۲۰؍ اپریل کے سہ پہر کو جب ان کے معالجین ایک ایک کرکے جمع ہوئے تو انہیں بتلایا گیا کہ علّامہ کو بلغم میں کل شام سے خون آرہا ہے۔ یہ علامت نہایت یاس انگیز تھی‘‘۔ آواز کا بیٹھ جانا (Hoarseness of Voice) ع۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی علّامہ کی آواز بیٹھ جانے کا معمّہ آج تک پوری طرح حل نہ ہو سکا۔کیونکہ اس کا جدید میڈیکل معلومات کی روشنی میں تجزیہ نہیںکیا گیا۔ ہم اس گفتگو میں اختصار کے ساتھ چندنکات پیش کریں گے تاکہ یہ دیرینہ معمّہ کسی حد تک حل ہو سکے۔ اگر چہ ہمارے پاس سوائے علّامہ کے خطوط، مستندحوالوں، اور اطرافیان کے بیانات کے کوئی میڈیکل رپوٹ،ایکس ریز، تکّہ برداری (Biopsy of tissue)وغیرہ نہیںہے پھر بھی مسئلہ کو بڑی حد تک سمجھنے کے لیے کافی تحریری مواد موجود ہے۔ علّامہ کی آواز جنوری ۱۹۳۴ء میں انفلونزا ہونے کے بعدبیٹھ گئی اور پھر کبھی کبھار اس میں کچھ بہتری ہوتی لیکن انتقال تک آواز پوری طرح سے ٹھیک نہ ہوسکی۔ پہلے ہم آلہ صوت یا Vocal cordکی اناٹومی اور اس کی کارکردگی پر روشنی ڈالیں گے۔ ووکل کارڈس حنجرہ یا Larynx کے اندر تنے ہوئے پردے ہوتے ہیں ۔ ان پردوں میں جو باریک پردے حرکت میں لائے جا سکتے ہیں اور ان کے تنگ اورڈھیلے ہونے سے آواز پیدا ہوتی ہے انھیں حقیقی ووکل کارڈ (True vocal cord)کہتے ہیںجن کے اعصاب یا نرو کو Recurrent Laryngeal nerve کہتے ہیں۔ یہی نروnerveکی وجہ سے ووکل کارڈ میں حرکت اور اسی حرکت سے ہوا کی نالی سے خارج ہونے والی ہوا کی مدد سے آواز پیدا ہوتی ہے چنانچہ آواز کے لیے ووکل کارڈ اور نرو دونوں لازم ہیں۔ اگر کسی وجہ سے نرو قطع ہو جائے یا نرو پر دباؤ پڑنے سے اس کے کام میں فرق ہو جائے تو آواز ختم یا بیٹھ جاتی ہے اورعموماََ اس میں بہتری کا امکان نہیں رہتا۔اگر نرو سالم رہے اور حرکت کرنے والے ووکل کارڈ کسی مقامی جراحت، گروتھ ٹیومر ورم کانسر کی وجہ سے خراب ہو جائے تو آواز پر اثر پڑتا ہے۔ کانسر یا ٹیومر بہت جلد ووکل کارڈ کے ساتھ حنجرہ یعنی حلق کی نالی کو بھی مسدود کر دیتا ہے اور جلد موت واقع ہو تی ہے۔ علّامہ اقبال کی آواز جب کئی مہینوں کے طبّی اور ایلوپیتھک علاج کے باوجود ٹھیک نہ ہو سکی تو لاہور کے ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر ڈک نے سینے کا ایکس رے لیا اوریہ تشخیص دی کہ دل کے اوپری حصّے میں ایک نئی گروتھ یا ٹیومر ہے جو ووکل کارڈس کی نرو پر دباؤ ڈال رہا ہے اس لیے علّامہ کی آواز بیٹھ گئی ہے چنانچہ اس گروتھ کو جو علّامہ کی زندگی کے لیے بھی خطرہ ہے ایکس ریز اکسپوژر یا ریڈیم سے جلا دینا چاہئے اور اس کے لیے لندن یا آسٹریا میں عمدہ علاج میسّر ہے۔ دوسرے ریڈیالوجسٹ ڈاکٹروں نے اس تشخیص کی مخالفت کی ۔حکیم نابینانے بھی اِسے قبول نہیں کیا چنانچہ بعد میں یہ تشخیص غلط سمجھی گئی۔اور یہ کہا گیا کہ گروتھ نہیں بلکہ شاہ رگ کا ایک حصّہ پھیل گیا ہے جس کو انورژم (Aortic Aneurysm)کہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں علّامہ کی آواز آخری چار ساڑھے چار سال میں کئی بار کچھ بہتر ہوئی اور پھر سردی زکام وغیرہ سے بدتر ہوگئی۔ اگر نرو کی وجہ سے آواز کا عارضہ ہو تو اس میں تبدیلی مشکل ہے اس کے علاوہ جب سینے میںکوئی ٹیومر وغیرہ نہ ہو تو نرو پر فشار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں تک Aorta کے انورژم کی تھیوری کا تعلق ہے وہ اُس نرو پر دباؤ نہیں ڈال سکتا اس کے علاوہ خود انورژم کی تھیوری صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ علّامہ کی آواز بیٹھ جانے کی اصلی وجہ خود ووکل کارڈ کی خرابی تھی جیساکہ ڈاکٹر ژیلشر نے بھی اُسے مقامی خرابی ہی کہا تھا۔ ووکل کارڈ کی حرکت میں کمی جس کو تار کا ڈھیلا ہونا بھی کہتے ہیں کئی وجہ سے ہوتی ہے جن میں اہم وجوہات حسب ذیل ہیں : ۱۔ آواز کا شدید اور پر زور مصرف جو گویّوں وغیرہ میں ہوتا ہے جس سے ووکل کارڈ پر دانے بن جاتے ہیں، جن کو Singers Nodulesکہتے ہیں۔ ۲۔ ووکل کارڈس پر مینچوں کی نشونما (warts & polyps) جو انھیں بے حرکت یا کم حرکت کر دیتے ہیں۔ ۳۔ ووکل کارڈ اور حلق کی نالی کا کینسر جو ووکل کارڈ کو تباہ کر دیتا ہے۔ ۴۔ Hypothyroidismتھیرائیڈ غددّے کی کم کارگی وغیرہ۔ ہم جانتے ہیں کہ علّامہ نے تقریباََ تمام عمر تمباکو نوشی کی چنانچہ ووکل کارڈ پرpolypکی پیداوار اسی وجہ سے ہو سکتی ہے اور polypکی وجہ سے ووکل کارڈ کی حرکت میں کمی ہو سکتی ہے چونکہ اقبال کو برونکاٹس اور برونشت تھی اور جب کبھی نزلہ و زکام ہو جاتا حلق کے ورم سے خراب ووکل کارڈ متورم ہو کر اور بھی بے حرکت ہو جاتے اس لیے آواز کبھی کم خراب اور کبھی زیادہ خراب رہتی۔ اقبال نے جتنا علاج اپنی آواز کو ٹھیک کرنے کے لیے کیا کسی اور مرض کے لیے نہیںکیا کیوں کہ آواز کے بیٹھ جانے کے بعد اقبال کی اجتماعی زندگی بہت متاثر ہو چکی تھی۔ان کی پراکٹیس جو ان کا ذریعہ معاش تھا ختم ہو چکی تھی۔ خطبات، تقاریر، اور مختلف کانفرسوں میں شرکت بھی اسی وجہ سے ختم ہوچکی تھی۔ تلاوت کا مزا ان سے چھن گیا تھا چنانچہ بعض اوقات کہتے تھے اگر آواز عود کر آئے تو اُسے خاص خدا کی رحمت تصور کروں گا۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ووکل کارڈ پر تمباکو نوشی کی کثرت سے polypsکی نشونما ہوئی جن کے وزن اور مقامی خرابی کی وجہ سے تار ڈھیلے ہو گئے اور ان کی حرکت کم ہو گئی جن سے hoarsenessپیدا ہوئی چنانچہ جب کبھی حلق میں ورم زیادہ ہوتا یا باریک بلغم جو برونکاٹس کی وجہ سے ووکل کارڈ پر جم جاتی ہے تو اور بھی آواز کا نکلنا مشکل کر دیتی ہے۔ برقی علاج سے عارضی طور پر ورم میں کمی ہوئی اور آواز کچھ بہتر معلوم ہوئی لیکن جیسے ہی کچھ دن گزرے اور کچھ سردی زکام اور کھانسی شروع ہوئی آواز پھر خراب ہوگئی۔ ہمیں کسی خط یا مستند حوالے سے یہ بات کا پتہ نہیں ملتا کہ ان کے حلق اور ووکل کارڈ کا معائنہ کبھی کیا گیا ہو شاید اُس زمانے میں اس قسم کے آلات میسّربر صغیر میں نہیں تھے جو آج موجود ہیں یہاں ڈاکٹر اپنی کلینک میں مریض کی ناک کے سوراخ سے ایک باریک تار کا اسکوپ ڈال کر ایک منٹ کے اندر ووکل کارڈ کا معائنہ کر لیتے ہیں اور اسی طرح سے با آسانی دانے اور polypکو ووکل کارڈ سے کھروچ کر نکال دیتے ہیں جس سے آواز ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن افسوس کہ علّامہ کو یہ علاج میّسر نہ ہوا اور ان کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔کاش اقبال لندن یا آسٹریا جاتے اور وہاں اس کی تشخیص اور علاج کرواتے۔ ع۔ یک کاشکی بود کہ بصد جا نوشتم ذیل کے خاکے میں ایک دانہ polypکی تصویر دکھائی گئی ہے جووکل کارڈ کی حرکت کم کرنے کے لیے کافی ہے۔ خ خ خ ناک اور حلق کی بیماریاں ناک اور حلق کی بیماریاں اگرچہ جان لیوا بیماریاں نہیں تھیں لیکن علّامہ اقبال کی روز مرہ زندگی میں بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ علامہ کے ڈیڑھ سو سے زیادہ مطبوعہ خطوط میں ان کا ذکر ہے۔ علّامہ کی ناک اور حلق کی بیماریوںکو چار عوارض میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱ نزلہ، زکام اور کھانسی Common Cold ۲ درد گلو Throat Pain, Tonsillitis ۳ درد حلق Laryngitis ۴ آواز کا بیٹھ جانا Hoarseness of Voice اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال قوی ارادہ اور تحمّل مزاج تھے لیکن تحمّل مزاجی میں ان کی نازک مزاجی اور صحت کی فکر و تشویش ہمیشہ شامل رہی۔ خطوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی سی کھانسی اور زکام کی وجہ سے سفر ملتوی کر دیتے۔ علاج اور پرہیز میں مشغول ہو جاتے اور اس کا تذکرہ اپنے دوست و احباب سے کرتے۔ بچپن سے ناک، حلق اور سینہ کمزور تھا ۔ اس پر مسلسل تمباکو نوشی کرتے اور ورزش اور چہل قدمی سے گریز کرتے۔ ہم اس تحریر میں نزلہ، زکام ، کھانسی ، درد گلو اور درد حلق پر سرسری نظر ڈال کر اپنی تمام توجہ اقبال کی آواز پر دیں گے جو علامہ کے لیے ان کی بیماریوں میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ خطوں اور حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی علّامہ کو خصوصاََسردیوں میں نزلہ، زکام، کھانسی، بخار اور بدن درد ہو جاتا تو فوراََ یونانی دوا جوشاندہ پیتے ، نسبتاََ کچھ آرام کرتے اور خوراک میں شوربہ وغیرہ کا استعمال ضرور کرتے۔چونکہ انھیں سردی کا احساس ہمیشہ زیادہ ہوتا اس لیے معمولی سی سردی کے وقت بھی انگیٹھی اپنے قریب رکھواتے ویسے انھیں گرمیوںمیں آرام سے بغیر پنکھے کے کام کرنے کی عادت تھی۔ خالد نذیر صوفی اقبال درونِ خانہمیں لکھتے ہیں۔۔۔ ــ’’گرمی کے مقابلے میں سردی کا احساس انھیں زیادہ ہوتا تھا۔ گرمیوں میں عام طور پر بغیر پنکھے کے بیٹھے رہتے لیکن سردیوںمیں جہاں بیٹھتے کوئلوں کی انگیٹھی قریب رکھواتے ، گھر پر پاؤں میں سلیپر کے بجائے سیاہ رنگ کا پمپ شو(گرگابی) پہنتے جس کے اوپر ’’بو ‘‘لگی ہوتی تھی۔ سردیوں میں جب کبھی انھیں نزلہ،زکام ہو جاتاتوان کی برونکائٹیس اوربرونشت میں شدّت ہو جاتی اور بلغم کی تولید بڑھ جاتی۔نہ جانے کیوں علّامہ کو اندیشہ تھا کہ انھیں ملیریا کے بخاراوردورے ہوتے ہیں چنانچہ کئی خطوں میں اس بات کا بھی ذکر ملتا ہے کہ بخار کچھ سردی کے ساتھ آیا اور پیشاب بھی تیز اور کچھ جلن سے ہوا چنانچہ ملیریا سمجھ کر کونین کی گولیاں کھائی جبکہ یہ بخار کسی بھی معمولی انفکشن یا وایرس کا باعث ہو سکتا تھا۔خصوصی طور پر جب پیشاب گہرے زردیا سرخ رنگ اور جلن کے ساتھ ہو تو یہ گردے مثانہ کی پتھری اور عفونت(Infection)کی اطلاع دیتا ہے۔ بہرحال اقبال عادتاََ کم پانی پیتے تھے جیسا کہ ان کی بھتیجی وسیمہ مبارک نے لکھا ہے۔ جبکہ نزلہ، زکام، کھانسی،بخاراورگردے مثانہ کی عفونت کے امراض کے لیے زیادہ پانی کا استعمال ضروری تھا اس لیے اقبال کے معمولی عارضے بھی ہفتوںمیں ٹھیک ہوتے تھے۔ اقبال نے اپنے خطوط میں گلو درد، اور حلق کے درد اور انفکشن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ انھیںLaryngitis ہو گیا تھا۔ عام طور سے گلو درد اور حلق درد کی تکلیف کی وجہ ٹھنڈی ہوا اور ٹھنڈے شربت لسّی، فالودہ جنھیں برف کے ساتھ بنایا جاتا ہے ، سمجھتے تھے۔ دہی کے بڑے شوقین تھے اور اس کا استعمال زیادہ کرتے تھے۔ کسی بھی خط یا اطرافیان کے حوالوں سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ کسی معالج نے ان کی تمباکو نوشی کانوٹس لے کر انھیں تمباکو نوشی سے پرہیز کی ہدایت کی ہو۔ البتّہ نہ جانے کیوں حکیم فقیر محمد نے علامّہ کو دودھ اور ہر وہ شئے جو دودھ سے بنی ہو اس کے استعمال سے منع کیا تھا۔ آواز کا بیٹھ جانا (Hoarseness of Voice) یہ سچ ہے کہ حلق کی بیماری، گلے کا درد اور آواز کے بیٹھ جانے کو ایک دوسرے سے بالکل جدا نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ اقبال کے اکثر خطوط میں ان عوارض کو ملا کر اور ایک ہی سمجھ کر مطرح کیا گیا ہے لیکن چونکہ آواز کے بیٹھ جانے کا مسئلہ اقبال کی بیماری اور خصوصاََ ان کی آخری علالت کا سب سے اہم موضوع بنا رہا اورمرض الموت کے جان لیوا حملوں میں بھی اس کا احساس شدید رہا۔ اور اس کی وجہ سے حلق اور سینے کے ایکس ریز لیے گئے۔ آواز کے بیٹھ جانے کی وجہ سے بھوپال میں تین مرتبہ بجلی کا علاج ہوا ۔ اسی عارضہ کی خاطر اقبال آسٹریا (ویانا) جانا چاہتے تھے اور اسی کے لیے مسلسل حکیم نا بینا سے اکسیر کے منتظر تھے۔اقبال کی آواز جنوری 1934ئسے بیٹھ گئی تھی اگرچہ وقتاََ فوقتاََ بعض اوقات اس میں کسی قدر افاقہ ہوتا یا بقول اقبال آواز میں انسانی خاصّہ کی کیفیت عود کر آتی لیکن انتقال کے وقت تک آواز کبھی نارمل یا طبعی نہ ہو سکی۔اقبال کی آواز بیٹھ جانے کی جو علتیں بیان کی گئی تھیں ان میں اکثر آج جدید طبّی نقطہ نظرسے مسترد کی جا سکتی ہیں۔ اقبال کے تیس(30) معا لجین میں اکثر معالجین اسی عارضہ کے علاج کرنے سے متعلق ہیں۔ خطوط اور اقبال کی میڈیکل ہسٹری کے بیانات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اقبال کا گلا صبح میں خراب رہتا اور جب تک باریک سفید بلغم خارج نہ ہوتی آواز صاف نہ ہوتی چنانچہ جب کبھی نزلہ ، زکام، کھانسی بخار اور انفلونزا یا گلو درد ہوتا تو آواز پر اثر انداز رہتا لیکن کچھ دنوں یاہفتوں میں آواز عود کر نارمل ہو جاتی مگر جنوری 1934ئمیں جب آواز بیٹھ گئی تو پھر علاج کرنے کے بعد بھی آواز کبھی نارمل نہ ہوسکی۔ ہم پہلے خود اقبال کی زبانی آواز کی گفتگو سنیں گے۔ اقبال ۱۳؍ جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’دو سال سے اوپر ہوگئے۔ جنوری کے مہینے میں عید کی نماز پڑھ کر واپس آیا سویّاں دہی کے ساتھ کھاتے ہی زکام ہوا۔ بہیدانہ پینے پر زکام بند ہوا تو گلا بیٹھ گیا ۔ یہ کیفیت دو سال سے جاری ہے بلند آواز سے بول نہیں سکتا ۔ اسی وجہ سے بالآخر بیرسٹری کا کام بھی چھوڑنا پڑا۔ انگریزی اوریونانی اطبادونوں سے علاج کیا مگر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس خط سے یہ پتہ چلتا ہے کہ علّامہ کی آوا زتقریباََ جنوری ۱۹۳۴ء سے بیٹھ گئی تھی جو ان کے انتقال یعنی سوا چار سال تک بحال نہ ہو سکی۔ جس کا علّامہ کی روزمرّہ زندگی، سیاسی زندگی کے ساتھ معاشی اور اقتصادی حالات پر گہرا اثر چھوڑا۔ (i) علّامہ نے جلسوں اور میٹنگوں میں قریباََ تقریر کرنا چھوڑ دیا۔ (ii) علّامہ نے بیرسٹری کا کام بھی پہلے کم اور بعد میں ترک کردیا۔ (iii) علّامہ نے قرآن کی باآواز بلند تلاوت جو ہر صبح کیا کرتے تھے چھوڑ دی۔ (iv) علّامہ نے سیاست اور انتخابات میں بھی شرکت کم کردی۔ (v) آواز کے بیٹھ جانے کے بعد علّامہ کی نفسیات بھی مجروح ہوئی اور عام طور پر علّامہ غم زدہ نظر آنے لگے جس کا ذکر علامہ کے احباب اور اطرافیان نے خاص طور پر کیا۔ علّامہ کے خطوط جن کے کچھ حصّے یہاں دئیے جا رہے ہیں مطالب کومزید واضح کر سکیں گے۔ ۱۷؍ جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ آواز میں جیسے کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں فرق آگیا ہے۔ عجب معاملہ ہے جس سے انسانی ضمیر کے اندر جو کچھ گزر رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ میری بیماری میں محض اس واسطے دلچسپی لے رہے ہیں کہ دیکھیں ڈاکٹروں کو کب شکست ہوتی ہے۔ حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کردیں کہ اب کی دفعہ اس سے زیادہ طاقت ور دوا ہو تو اور بھی اچھا ہے تاکہ معجزہ کا ظہور جلد ہو۔ حکیم صاحب اوقات خاص میں مجھے بھی یاد رکھیں۔ ۲۳؍ جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ پچھلے ہفتہ میں جو کسی قدر ترقی آواز میں ہوئی تھی دوسرے ہفتے میں اس پر کوئی اضافہ معلوم نہیں ہوا۔ حالت وہی ہے جو پچھلے ہفتے کے آخر میں تھی۔ حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کردیں، نیز یہ بھی معلوم کیجئے کہ بالعموم دن اور رات میں آواز بہتر ہوتی ہے۔ طلوع آفتاب و غروب آفتاب کے وقت حالت کچھ بہترنہیں ہوتی۔ معلوم نہیں اسکا کیا سبب ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ گلے کے دونوں اطراف جونک لگوانی چاہئے۔ حکیم صاحب اس بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ دہی، لسّی کا اچھا اثر نہیں ہوتا۔ علیٰ ہذا القیاس فالودہ بھی پی کر میں نے دیکھا ہے اس کا اثر بھی اچھا نہیں ہوا۔ ۲۴؍ جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ دوسرے ہفتہ کی دوا نے پہلے ہفتہ سے ترقی جو آواز میں ہوئی تھی کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ ترقی معکوس میں ہوئی اُن کے وجوہ جہاں تک سوچ سکتا ہوں تین ہو سکتے ہیں۔ ۱۔ میں نے دہی کھایا اور لسّی بھی پی ۲۔ فالودہ پیا (برف ڈال کر) ۳۔ آپ نے پچھلے خط میں لکھا تھا کہ دوا کی مقدار دوگنی کر دی گئی ہے شاید ڈوز کے بڑھ جانے سے آواز نے ترقی معکوس کی اقبال ۱۲؍ اپریل ۱۹۳۴ء کو ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ کو لکھتے ہیں۔۔ خدا کا شکر میری صحت عامّہ اب اچھی ہے۔ مگر حلق کی تکلیف ابھی باقی ہے۔ ۸؍ مئی ۱۹۳۴ء کو راغب احسن کو لکھتے ہیں۔۔۔ میں ابھی تک گلے کی تکلیف میںمبتلا ہوں۔ ۲۲؍ مئی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ گلے کی شکایت تو ابھی باقی ہے مگر اب رفتہ رفتہ صحت کی طرف ترقی ہے اور یہ ترقی نمایاں طور پر کل سے ہی شروع ہے۔ علاج ڈاکٹر یا ر محمد صاحب کا ہے۔ میں نے سُنا ہے کہ ہندوستانی دواخانہ دہلی میں کوئی شربت ہے جو گلے کی بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ گر یہ بات درست ہو تو آپ وہاں سے ایک بوتل شربت بذریعہ وی پی میرے نام بھجوا دیں۔ ۲۹؍ مئی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ آپ حکیم نابینا صاحب کی خدمت میں پھر میری طرف سے حاضر ہوں اور بیماری کے حالات عرض کریں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ گلے کے نیچے جو آلۂ صوت ہے اس کا تار ڈھیلا ہو گیا ہے اس وجہ سے آواز بیٹھ گئی ہے چار ماہ تک علاج ہوامگر کچھ خاص فائدہ اس سے نہیں ہوا ہے۔ درد گرہ کا پھر دورہ نہیں ہوا۔ جب سے ان کا علاج کیا ہے آج چھ سال ہو گئے اس درد نے پھر تکلیف نہیں دی۔ البتہ نقرس کی شکایت کبھی کبھی ہو جاتی ہے۔ بعض ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ نقرس کا اثر گلے پر پڑ سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ۱۱؍ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ آواز میں خفیف سی تبدیلی ہے۔ آواز میںHoarseness معلوم ہوتی ہے۔ بلغم کل سے کم نکلتا ہے۔ اگست ۱۹۳۴ء میں سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ چونکہ دو ماہ میں کوئی زیادہ محسوس ترقی آواز میں نہیں ہوئی اس واسطے اب ڈاکٹر صاحبان بغلیں بجاتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آواز درست نہ ہوگی۔ میں بھی کبھی مایوس ہو جاتا ہوں مگر حکیم صاحب کی توجّہ اوران کی روحانیت پر بھروسہ رکھتا ہوں۔ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۳۴ء ۔ سید عبد الواحد معینی کے نام۔۔۔ یونانی دوا کے استعمال سے صحت عامّہ بہت اچھی ہو گئی مگر آواز پر کوئی نمایاں اثر نہ ہوا۔ ۱۶؍ ستمبر ۱۹۳۴ء ۔ راغب حسن کے نام۔۔۔ میری صحت عامّہ حکیم نابینا کے علاج سے بہت اچھی ہوگئی ہے بلکہ تمام عمر میں ایسی نہ تھی البتہ ابھی تک آواز میںجو اصل شکایت ہے کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی گو بہ نسبت سبق قدر فرق ہے۔ باتیں کر سکتا ہوں۔خطابت نہیںکر سکتا نہ کچہری جا کر مقدمات پر بحث کر سکتا ہوں۔ غالباََابھی چندماہ اور علاج ہوگا توآواز اپنی اصلی حالت پر عود کرے گی۔علّامہ اپنی آواز،خواراک اور بیماری کے بارے میں ۱۲؍ نومبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ (i) کھانا کھانے ، چائے پینے ، مرغ کا شوربہ پینے یا پانی پینے کے بعد بلغم خاص طورپر نکلتیہے۔ علیٰ ہذا القیاس صبح کے وقت بھی خاص طور پر نکلتی رہتی ہے۔ پہلے یہ بلغم پختہ اور ٹھوس بھی ہوتی تھی اب اس قدر ٹھوس نہیں البتہ لزوجت ہے۔ (ii) بلغم نکلنے کے بعد آواز نسبتاََ صاف ہو جاتی ہے۔ (iii) کبھی کبھی دن میں ہچکی بھی ہوتی ہے۔ مگر صرف ایک دفعہ۔ ایسا دن میں ایک، دن بھر میں دو تین دفعہ سے زیادہ نہیں ہوتا (iv) رات کو یہ ہچکی مطلق نہیں ہوتی اور نیند خوب آتی ہے۔ (v) قبض رہتی ہے۔ پاخانہ کھل کر نہیں آتا۔ (vi) بھوک کسی قدر کم ہوگئی ہے۔اس دواسے پہلے جو دوا حکیم صاحب نے ارسال فرمائی تھی اس میں معلوم ہوتا ہے حکیم صاحب نے قبض کا خاص طورپر خیال رکھا تھا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید قبض کو بھی آواز کی ترقی، تعجیل نہ ہونے میں دخل ہو۔ بہر حال اس کا فیصلہ حکیم صاحب کریں گے۔ ۲؍جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ میری آواز کی حالت یہی ہے کہ کسی وقت تو بہت اچھی ہوتی ہے اورکسی وقت اچھی نہیں رہتی۔ بالعموم میں نے یہ نوٹس کیا ہے کہ دس بجے جو دوا پان میں کھائی جاتی ہے اس کے بعد آواز کسی قدر بیٹھ جاتی ہے ۔ اس دوا کا اثر اچھا نہیں پڑتا۔ اس سے پہلے جو دوا پان میں کھائی جاتی تھی اس کا اثر بھی اچھا نہ تھا۔ ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ کل میری آواز تمام روز نسبتاََ بہتر رہی۔ ۱۵؍اگست ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ صحت خوب ترقی کر گئی ہے۔ آواز میں بھی فرق ہے۔ امید ہے اب علاج سے فائدہ ہوگا۔ ۸؍اکتوبر ۱۹۳۵ء ۔ ڈاکٹر عبد الباسط کو لکھتے ہیں۔۔۔ خدا کے فضل و کرم سے میری صحت اچھی ہے اور آواز میں بھی امپرومنت ہے۔ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو سید خلیل احمد کو لکھتے ہیں۔۔۔ میں تقریباََ دو سال سے علیل ہوں۔ گلے کی بیماری ہے جس کی وجہ سے کسی قسم کی تقریر نہیں کر سکتا۔ یکم نومبر ۱۹۳۵ء کو ڈاکٹر عبد اللطیف کو لکھتے ہیں۔۔۔ تیس ماہ سے گلے کے عارضے میں مبتلا ہوں اور بغرض علاج ویانا جانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ ۳؍ جنوری ۱۹۳۶ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ میں خدا کے فضل سے اچھا ہوں۔ ایک ایرانی الاصل سید زادے کی دوا سے بہت فائدہ حاصل کیا ۔کیا عجب کہ آواز پھر عود کر آئے اس کا دعویٰ تو یہی ہے اس واسطے میں نے چند روز کے لیے بھوپال جانا ملتوی کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ سردی بھی بہت تھی۔ غالباََ جنوری کے آخر میں جاؤں گا۔ ۸؍فروری ۱۹۳۶ء ڈاکٹر عبد الباسط کو لکھتے ہیں۔۔۔ ان سردیوں میں مجھے نزلہ سے سخت تکلیف رہی جواب خاصی ہے۔ گو آواز میں کوئی خاص نمایاں ترقی نہیں۔ اب کے فوٹو سے معلوم ہو جائے گا۔ ۱۷؍ مارچ ۱۹۳۶ء کو پروفیسر فضل شاہ گیلانی کو لکھتے ہیں۔۔۔ میںچندروزسے اپنے گلے کے برقی علاج کے لیے مقیم ہوں۔معمولی ساافاقہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں میری صحت کُلّی طور پر خراب ہو چکی ہے اور مجھے اپنے باقی ماندہ دنوں میں حد درجہ محتاط رہنا ہوگا۔ ۲۴؍مارچ ۱۹۳۶ء کو سردار امراؤ سنگھ کو لکھتے ہیں۔۔۔ میںبالکل ٹھیک ہوں۔ میری صحت کافی بہتر ہوگئی ہے اور آواز بھی آہستہ آہستہ بہتر ہو رہی ہے پریس کوکچھ غلط فہمی ہوئی جس کی وجہ سے میرے دوستوں کو بے حد تردّد ہوا۔ بہرحال میں اچھا ہوں۔ ۲۸؍ اپریل ۱۹۳۶ء کو مولانا عبد الماجد دریابادی کو لکھتے ہیں۔۔۔ میں خدا کے فضل و کرم سے اچھا ہوں۔ صحت عامّہ تو تقریباََ بحال ہو گئی ہے البتّہ آواز میں ابھی کسر باقی ہے۔ یہاں کے کالجوں کے مسلمان طلبہ کی ایک جمعیت ہے انھوں نے ایک اپیل کی اخباروں اور ان کے ناظرین کو غلط فہمی ہوئی۔ ۲؍ مئی ۱۹۳۶ء کو سر راس مسعود کو لکھتے ہیں۔۔۔ کئی دن سے تمہارا خط نہیں ملا۔ میں منتظر ہوں۔ خیر خیریت تو لکھ دیجئے۔ اگر تم مصروف ہو تو ممنون صاحب سے کہہ دیجئے کہ دو حرف لکھ دیا کریں میری صحت خدا کے فضل سے بحال ہو گئی ہے بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس بیماری سے پہلے جو حالت تھی وہ عود کر آئی ہے۔ البتہ آواز میں ابھی اتنی ترقی نہیں ہوئی جتنی کہ امید تھی گو پہلے سے بہتر ہے۔ ۱۳؍جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔ ۴؍ اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ عود کر رہا ہے جو انسانی آواز کا خاصہ ہے گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ ۲۱؍ جون ۱۹۳۶ء کو خواجہ غلام السیّدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ میری عام صحت بہت اچھی ہے۔ آواز میں ترقی کی رفتار سست ہے۔ ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۶ء کو محمد عباس لمعہؔ حیدر آبادی کو لکھتے ہیں۔۔ میری صحت عامّہ پہلے سے بہتر ہے آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔ ۲۷؍جولائی ۱۹۳۶ء کو قاضی تلمّذ حسین مولف مراۃ المثنوی کو لکھتے ہیں۔۔۔ میری صحت عامّہ تو بہتر ہے مگر آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔ ۲؍اگست ۱۹۳۶ء کو محمد عباس لمعہؔ حیدر آبادی کو لکھتے ہیں۔۔۔ میری صحت اب بہتر ہے مگر آواز میں ترقی نہیں ہوئی۔ آپ کے مشورہ کا شکریہ۔ ۵؍اگست ۱۹۳۶ء کو نصر اللہ خان جو روزنامہ زمیندار سے وابستہ تھے لکھتے ہیں۔۔ افسوس کہ میں ابھی علیل ہوں اگرچہ پہلے کی نسبت کسی قدر افاقہ ہے عام صحت کسی قدر بہتر ہوگئی ہے مگر آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی اسمبلی کے آئندہ انتخابات میں حصّہ لینے کی ہمت ہے نہ ارادہ۔ والسلام۔ ۲۷؍نومبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ بلغم کچی ہوتی ہے اور اس کے نکل جانے سے آواز میں صفائی اور ترقی پیدا ہوتی ہے۔ ۳؍ فروری ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ بلغم کا اخراج نہ ہونے سے میری آواز پر نمایاں اثر پڑا ہے یعنی گلا بیٹھ گیا ہے۔ پہلے یہ تھا کہ بلغم کے ہر صبح اخراج ہو جانے سے آواز صاف رہتی تھی لیکن اس دوائی کے استعمال سے اخراج تو کم ہوتا ہے مگر آواز بیٹھ جاتی ہے۔ اقبال کے مختلف خطوط اور اطرافیان اقبال کی گفتگو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تقریباََ سواچار سال یعنی(52)مہینے علامہ کی آواز بیٹھ گئی تھی کبھی کبھار کچھ افاقہ ہوتا آواز میں عام آوازکی کیفیت ہوتی لیکن پھر آواز بیٹھ جاتی۔ اقبال کے خطوط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انتقال سے دو تین مہینے قبل وہ آواز سے مایوس ہو چکے تھے۔ اب ان کو آنکھوں کی بینائی اورجان لیوادمّہ کے دوروں کا سامنا تھا۔ وسیمہ مبارک جو علّامہ کی حقیقی بھتیجی اورعطا محمد کی چھوٹی بیٹی تھی جو اقبال کے گھر پلی بڑی ہوئی ۔اقبال درونِ خانہ میں بیان کرتی ہیں کہ اقبال کی آواز بیٹھ چکی تھی وہ بڑے زور اورگلے پر دباؤ ڈال کر مشکل سے بات کر سکتے تھے اس وقت ان کا چہرہ سرخ اور گردن کی رگیں پھول جاتی تھیں۔ حکایت ۔ اقبال کی بھتیجی وسیمہ مبارک اقبال درونِ خانہ میں لکھواتی ہیں۔ اقبال کی بیگم جو والدہ جاوید تھیں اور شدید بیمار بھی تھیں۔ اورخود علّامہ اقبال جن کو گلے کی تکلیف لاحق ہو گئی تھی اور آواز بند ہو گئی تھی اپنی بیماریوں کے باعث شادی میں شرکت نہ کر سکے۔ شادی کے کچھ عرصے بعدجب وسیمہ مبارک چچا اورچچی کی بیمار پرسی کے لیے لاہور گئی تو ان کی چچی زار و قطار رونے لگیں۔ چچا جان کو میرے آنے کی خبر ہوئی تو آپ فوراََ اندر تشریف لے آئے اور میرے پاس ہی بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد چچاجان نے میری ساس صاحبہ اورمجھ سے معذرت کی۔ آپ کے گلے میں اس وقت بھی شدید تکلیف تھی اور آپ بڑی مشکل سے بات کر رہے تھے۔ زورلگانے سے گلے کی رگیں پھول جاتیں اور چہرہ سرخ ہو جاتا۔ پھر تھوڑی دیر بعد آپ نے جذبات سے رندھی ہوئی آواز میں فرمایا ۔ ’’زندگی میں شاید اس سے زیادہ دکھ مجھے کسی اور بات سے نہیں پہنچا کہ بیماری نے سردار کو اور مجھے اس قدر معذور کر دیا کہ ہم دونوں اپنی پیاری بیٹی کی شادی میں شمولیت سے محروم رہے۔‘‘ ذیل کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال آواز بیٹھ جانے سے مایوس ہو جاتے لیکن ان کو روحانیت پر بھروسہ تھا وہ آواز کے پلٹ آنے کے لیے معجزہ ساز اکسیر کے منتظر تھے۔ ۲۲؍جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔ حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کردیں کہ اب ان کی عنایت سے میری صحت بہت اچھی ہو گئی ہے۔ صرف آواز کی کسر ہے اس لیے کوئی اکسیر تجویز کیجئے۔ ممکن ہے مجھے اس ماہ کے اندر اندر انگلستان جانا پڑے اس واسطے ان کی توجہ خاص کا طالب ہوں۔ ۲۳؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ اگر میری آواز اپنی اصلی حالت پر عود کر آئی تو میں اپنی اس بیماری کو خدا کی رحمت تصور کروں گا کیوں کہ اس بیماری نے حکیم صاحب سے وہ ادویّہ استعمال کرنے کا موقع پیدا کیا جنھوں نے میری صحت پر ایسا نمایاں اثر کیا ہے۔ تمام عمر میں میری صحت ایسی اچھی نہ تھی جیسی اب ہے۔ مجھ کو اب صرف آواز کی وجہ سے بے اطمینانی ہے اور بس۔ تبخیر معدہ (Gastritis) اقبالؔ کے خطوط اور ان کے اعزا اور احباب کے مستند حوالوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اوائل جوانی سے وہ تیز چٹ پٹے مرغن غذا کے ساتھ شلغم اچار کو شوق سے کھاتے تھے۔ انھیں بعض اوقات بد ہضمی، سوے ہاضمہ اور تبخیر معدہ کی شکایت ہو جاتی۔ دہی، لسّی اور فالودہ کا استعمال زیادہ تھا جو بڑی حد تک تبخیر معدہ کے لیے بہتر تھا۔ سوڈے کا استعمال جو تبخیر معدہ کے لیے مضر تھا اقبالؔ زیادہ کرتے تھے۔ آج کل تمباکو نوشی کو بھی تبخیر معدہ (Gastritis)کی علت بتایا جا رہا ہے جو اقبالؔ کا سب سے پسندیدہ شوق تھا۔ عجب نہیں کہ اقبال کی ہر روز یونانی اور ایلوپیتھک دوائیں معدہ کی دیوار کو متورم کر کے تبخیر پیدا کر دیتی ہوں۔ اقبال کی کئی دواؤں میں کشتہ ملا ہوتا جو کچی دھات یا ان کے مرکبات سے بنا ہوتا۔ جدید تحقیقات میں یہ تمام مرکبات اگرزیادہ مقدار میں ہوں تو مضر ہوتے ہیں۔ تبخیر معدہ کی وجہ سے اقبال کا معدہ کمزور ہو چکا تھا ان کی بھوک مر چکی تھی اور ان کی خوراک بھی کم ہو چکی تھی۔ آخری علالت کے دوران جی متلانے کی کیفیت زیادہ ہوتی جو قلب کے اتساع کی کیفیت بھی ہو سکتی تھی چنانچہ ان تمام کیفیات سے اندیشہ قوی ہوتا ہے کہ وہ قدیم تبخیر معدہ کے مریض تھے۔ فقیر وحید الدین روزگار فقیر میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’ڈاکٹر صاحب تبخیر معدہ اور بد ہضمی کے پرانے مریض تھے۔ سوڈے کی بوتلیں ان کے یہاں ہمیشہ رہتیں۔ یہاں تک کہ سیالکوٹ تشریف لے جاتے تو وہاں بھی سوڈ ے کی بوتلوں کا اہتمام ہوتا۔‘‘ ۲۲؍مارچ ۱۹۳۵ء کو محمد عباس علی خاں لمعہؔ کو لکھتے ہیں۔۔۔ یہاں اب گرمی شروع ہو چکی ہے ایسے موسم میں علی العموم میرا معدہ اور بھی خراب ہو جاتا ہے۔ آپ کا خیال بہت درست ہے اور میرا بھی یہی تجربہ ہے دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا مجھ کو تقلیل غذا مفید ہوتی ہے۔ ۲۷؍ جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ دودھ، بالائی ، دہی اور ترشی کے استعمال سے تکلیف ہوتی ہے۔ میں ترشی کے استعمال کا عادی تھا چوں کہ دو سال سے ترشی کا استعمال نہیں کر سکتا اس لیے میرا کھانا بالکل بے لطف ہو گیا ہے ۔ بھوک بھی کم لگتی ہے۔ ۲۱؍ جولائی ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ترشی میں ابھی تک نہیں کھا سکتا ہوں۔ ہاں دہی اگر میٹھا ہو تو کسی قدر کھالیتا ہوں۔ ریح کا عارضہ (Gas Trouble) علّامہ اقبال کا گوارشی نظام(Gastro Intestinal System)جوانی سے درہم برہم تھا۔معدہ کی تبخیر(Gastritis) ہمیشہ ہوتی اور سوڈے کا استعمال کرتے، قولنج یا(Colitis)کے دورے بھی شدید ہوئے۔ ہمیشہ قبض کی شکایت کبھی کم اور کبھی زیادہ رہی۔ آخری علالت کے دوران بھوک بھی نہیں لگتی تھی۔ اس کے علاوہ ریح کی تولید اور درد کا تذکرہ کئی خطوط میں نظر آتا ہے جو اس شکایت پر مزید روشنی ڈالتے ہیں۔ ۲؍ جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ریح کا اخراج پہلے کی نسبت کم ہوتا ہے ممکن ہے اخراج ریح نہ ہونے کی وجہ سے یہ درد ہو۔ ۵؍ جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ شانوں کے درمیان رات کو درد ہوتی ہے جس سے نیند میں خلل واقع ہوتا ہے اگر ریح کا اخراج ہوتا رہے تو درد سے افاقہ رہتا ہے۔ ۲۰؍ مئی ۱۹۳۷ء کو شیخ اعجاز احمد کو لکھتے ہیں۔۔۔ اپریل۳۷ء کے ابتدا میںجب حکیم صاحب سے ملا تھا توانھوںنے فرمایا تھا کہ تمہارا جگر ریح پیدا کرتا ہے اب اس کاعلاج ضروری ہے اس کے لیے انھوں نے ایک معجون عطا فرمائی تھی…چند خوراک باقی ہے اگر اسی کو جاری رکھنا ہو تو اس کے مقدار بھی کافی ارسال کریں مگر پیشتر اس کے لیے حکیم صاحب قبلہ اسی معجون کے استعمال کا حکم دیں یا اس میں کوئی ترمیم کریں مندرجہ ذیل امور ان کے گوش گزار کرنا لازم ہے۔ (۱) جگر بدستور ریح پیدا کررہا ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی غالباََ یہ معجون موثر نہیں ہوئی … (۲) ریح کا پیدا ہونا… (۳) ریح جو پیدا ہوتی ہے جب تک نہ نکلے کمر میں درد ہوتا ہے اور دونوں طرف کے گردوں پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ نکل جائے تو درد میں تخفیف ہوتی ہے۔ قبض(Constipation) علّامہ اقبال کو گوارشی عارضے تھے۔ سوئے ہاضمہ کی کیفیت قدیم تھی چنانچہ ہمیشہ سوڈے کا استعمال کرتے۔ جوانی میں پیچیش کی تکلیف بھی رہی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو قبض کی کیفیت ہمیشہ رہتی تھی جو آخری عمر میں زیادہ تکلیف دہ ہو گئی تھی۔۱۹۳۴ء سے اقبال کی آخری علالت شروع ہوتی ہے اور پھر شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا نہ ہو کہ اقبال نے کوئی دوا استعمال نہ کی ہو۔ کئی اکسیروں ،معجونوں، گولیوں ،جوشاندوں کے علاوہ کشتوں کا استعمال جن کو سونا، چاندی اور یاقوت وغیرہ سے بنایا جاتا ہے دوا کے طورپرمسلسل دئیے گئے چنانچہ بعض ثقیل دواؤں کا اثر شدید اور فوری ہوا جس کا اقبال نے اپنے خطوں میں ذکر کیا ہے۔ اقبال کی خوارک سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سبزیجات کی نسبت گوشت زیادہ کھاتے تھے۔ دودھ، دہی، لسّی، اور دوسری قبض آور غذاؤں کے شوقین تھے۔ اقبال کی بھتیجی وسیمہ مبارک کے قول کے مطابق پانی کم پیتے تھے چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ اقبال کو قبض کی شکایت اور بعد میں تکلیف رہی۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر بے محل نہیں کہ یونانی دوائیں قبض کو دور کرنے میں مجرب ثابت ہوئی ہیں اور آج کے اس ترقی یافتہ ایلوپیتھک دور میں بھی ایک بڑی تعدادمیں لوگ یونانی دواHerbal Medication کا استعمال کرتے ہیں۔ اقبال کے مندرجہ ذیل خطوط سے ہمارے بیان کی بڑی حد تک تائید ہو سکتی ہے۔ ۱۱؍اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ پہلے کسی قدر قبض تھی مگرپاخانہ کی حالت بہت اچھی تھی اب مجھے صبح پاخانہ توکُھل کر آتا ہے مگر بہت نرم تر قریباََ دست شاید جو دوا رات کو کھائی جاتی ہے وہ دست آور ہے۔ د ن کے وقت انجیر بھی ہر روز ملتان سے منگوا کر کھاتا ہوں۔ وہ بھی قبض کشا ہوتی ہے۔ ۲۹؍ ستمبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ دوا کا استعمال شروع ہے میں صبح کو بٹیر اور شام کو تیتر کھاتا ہوں۔ سبزی کا استعمال بہت کم کر دیا ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پاخانہ سدّہ بن کر گھٹلیوں کی طرح آتا ہے اس واسطے میں نے دریافت کیا تھا کہ آیا حکیم صاحب نے دوا میں قبض کا خیال رکھ لیا ہے یا نہیں۔ ۲۷؍ جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ قبض کی بھی شکایت رہتی ہے۔ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۳۶ء کو مولوی عبد الحق کو لکھتے ہیں۔۔۔ پہلے سے اچھا ہوں مگر افسوس کہ ابھی سفر کے لائق نہیں۔ خصوصاََ جب کہ سفر ۱۲ گھنٹے سے زیادہ ہو۔ رات بھر ریل میں سفر کرنے سے مجھے قبض ہو جاتی ہے جو سخت تکلیف دیتی ہے اور یہ سلسلہ کئی کئی دن رہتا ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ جو دوا حکیم صاحب میرے لیے تیار فرمائیں اس میں اس امر کاملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ دوئم۔ عام کمزوری سوئم ۔ عام قبض کی شکایت، چہارم ۔ خون میں سوداوی جراثیم۔ یہ سب باتیں حکیم صاحب کومعلوم ہیں۔ میں نے صرف یاد دہانی کے لیے عرض کیا ہے۔ ۳۱؍ جون ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ قبض کی شکایت بھی عموماََ رہتی ہے۔ ۲۹؍ مارچ ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ اس شکایت کے علاوہ دوسری شکایت یہ ہے کہ اجابت باقاعدہ اور کُھل کر نہیں ہوتی۔ دردِ قولنج قولنج عربی لفظ ہے جس کا مصدر قولن(colon)ہے۔ غالباََ انگریزی میں یہ لفظ عربی سے لیا گیا ہے۔ دردِ قولنج سے مراد پیٹ کا درد، بڑی آنت کا درد، وہ دردجو پسلی کے نیچے ہوتا ہے اور بعض اوقات پر کیسۂ صفرا(Gall Bladder)کے درد کو بھی قولنج کا درد کہا جا تا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ علّامہ اقبال نے چار بڑی بیماریوں اور تکلیفوں کا ذکر کیا ہے جس میں درد قولنج کا بھی ذکر ہے۔ اقبال کے حضورمیں سید نذیر نیازی لکھتے ہیں۔ ۱۱؍ مارچ ۱۹۳۸ء بروزجمعہ کو جب میںنے خیریت مزاج دریافت کی اور ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا ۔حضرت علّامہ نے حسبِ معمول فرمایا۔’’ الحمد للہ ۔ پھر اپنی صحت او ر علالت کا ذکر کچھ اس طرح کرنے لگے کہ اس میں یاس و حزن کا رنگ غالب تھا۔ ارشاد ہوا : مجھ پر چار حملے ہو چکے ہیں ایک قولنج کا دورہ، جو آج سے بہت پہلے بڑی شدت کے ساتھ ہو ا تھا۔ پھر ۱۹۲۸ء میں درد گردہ نے خاصا پریشان کیا۔ ۱۹۳۴ء میں گلا بیٹھ گیا اور اب چند دنوں سے جو حالت ہے اچھی نہیں ہے۔‘‘ ہمیں درد قولنج یاColitis کے بارے میں صرف ایک خط ملا جو مہاراجہ کشن پرشاد کو ۷؍ ستمبر ۱۹۱۷ء کو لکھا گیا لیکن دو تین خط انہی تاریخوں میں ایسے ہیں جن میں اس بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں اشارے ملتے ہیں۔ لاہور سے ۲۷ ستمبر ۱۹۱۷ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’بندۂ درگاہ اقبال۳۰؍ اگست کی شام کو یہاں سے روانہ حیدرآباد ہونے والا تھا کہ ۲۹؍ کی شام کو بخار نے آدبایا اور اس کے ایک دو روز بعد پیچش کا اضافہ ہوا۔ ہفتہ بھر سخت تکلیف کا سامنا رہا…ڈاکٹر صاحب ایک ہفتہ تک اجازت نہیںدیتے اورمیںنے بھی صحت کے خیال سے یہ بہتر سمجھا کہ سفرِ حیدرآباد ملتوی کردوں۔‘‘ ۶؍ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو مولانا گرامی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں حیدرآباد جانے کو تھا مگر بخار کی وجہ سے رک گیا۔ ‘‘ ۶؍ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حیدرآباد کے سفر کے لیے تیار تھا، مگر علالت کی وجہ سے رک گیا جیساکہ ایک عریضہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔‘‘ شاید اسی درد قولنج کے علاج کے لیے مولانا گرامی نے دوا روانہ کی تھی کیوں کہ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۷ء کے خط میں اس کا اشارہ موجود ہے۔ لاہور ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء ڈیر مولانا گرامی السلام علیکم۔۔۔ ’’کل ایک خط لکھ چکا ہوں امید کہ پہنچ کر ملاحظہ عالی سے گزرا ہوگا۔ یہ دریافت کرنا بھول گیا کہ آپ نے جو گولیاں مجھ کو دی تھیں ان کے استعمال کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اک روز کھائی جائے یا دو صبح و شام۔ اور نیز یہ کہ کس چیز کے ساتھ کھائی جائے اور پرہیز کس چیز سے ہو اس سے آگاہ کیجئے۔‘‘ اس بات کا امکان ہے کہ علّامہ کوDysentry یا پیچیش ہو گئی ہو جو پہلے خفیف اور بعد میں شدید صورت اختیار کر لی ہو جس کا اقبال نے مجرب علاج کروایاجیسا کہ اوپر کی تحریروںسے پتہ چلتا ہے اور اسی لیے یہ تکلیف برطرف ہو گئی ورنہ اقبال اس کا ذکر ضرور کرتے۔ خ خ خ دانتوں کی بیماری(Dental Caries) علّامہ کے دس سے زیادہ خطوں میں دانتوں اور مسوڑوں کی تکلیف کا ذکر ہے ۔ اقبال کی عمر کے آخری پندرہ سال میں یہ خطوط لکھے گئے جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اقبال کو مسوڑوں کی بیماری (Gingivitis)کے علاوہ دانتوں کی بیماری(Dental Caries)بھی تھا۔ چونکہ ۱۹۲۳ء میں مسوڑا پھول جانے کی وجہ سے آپریشن کروایا گیا تھا اس سے یہ بھی اندیشہ ہے کہ اقبال کے مسوڑوں کی بیماری جوانی سے تھی۔ مستند حوالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مسواک کا استعمال کرتے تھے۔ وہ منجن استعمال کرتے انھوں نے انگریزی برش یاTooth pasteکا استعمال نہیں کیا۔ چونکہ اقبال اسلامی طب اور اسلامی دواؤں کو پسند کرتے تھے شاید اسی لیے انھوں نے مسواک اور منجن کو ترجیح دی۔ Gingivitisیا مسوڑوں کے پھول جانے میں دانت اورمسوڑے کے درمیان جراثیم اور بعض اوقات غذا، دوا یا منجن کے ذراّت پھنس جاتے ہیں۔ اور انفکشن کی وجہ سے مسوڑہ پھول کر تکلیف دہ ہو جاتا ہے اور اس طرح کے حملے دانتوں کی جڑوں کو کمزور کر دیتے ہیں اور جراثیم کے مسلسل ترشحات سے دانت میں سوراخ بھی ہو جاتے ہیں جو دانتوں کے ٹوٹنے کا باعث ہوتے ہیں۔ ذیل کے خطوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے کچھ پیچھے کے چبانے کے دانت نکلوادئے تھے کیوں کہ اُس زمانے میں Dental Cariesکا علاج صرف خراب دانتوں کا نکلوانا تھا ۔ ہمیں کوئی ایسی تحریر نظر نہیں آتی جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ علّامہ نے خراب دانتوں کو نکال کر مصنوعی دانتوں کا چوکا (Denture)لگایا ہو۔ البتّہ مرنے سے ۲ سال پہلے تک موتی منجن کے استعمال، ڈنٹل سرجن سے علاج اور مسواک وغیرہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتقال کے وقت علّامہ کے اصلی دانت موجود تھے۔ ۲۵؍ مئی ۱۹۲۳ء کو خان محمد نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں۔۔۔ میرا مسوڑا پھول گیا تھا آپریشن کرایا گیا جس سے تکلیف میں اضافہ ہوا اب کچھ آرام ہے۔ ۱۳؍ جولائی ۱۹۲۴ء کو شیخ عطا محمد کو لکھتے ہیں۔۔۔ مسوڑے کے پھول جانے سے اب کے بہت تکلیف ہوئی آخر چیرا ہی دلانا پڑا۔ پرسوں سے بالکل آرام ہے۔ ۱۳؍ جولائی ۱۹۲۴ء کو خان محمد نیاز الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ میں کئی روز تک بیمار رہا۔ مسوڑا پھول گیا تھا جس کو کل چروادیا گیا ۔ اب خدا کے فضل سے آرام ہے۔ مگر گزشتہ ہفتہ سخت تکلیف رہی۔ ۲۵؍ مئی ۱۹۳۱ء کو مولوی صالح محمد ادیب تونسوی کو لکھتے ہیں۔۔۔ شام کو میں درد دندان میں مبتلا ہو گیا۔ اس واسطے مجبوراََ آج پاک پٹن کا سفر کرنے سے قاصر ہوں کہ دانت کو نکلوا دینے کا ارادہ ہے۔ ۷؍ جون ۱۹۳۱ء کو مولوی صالح محمد ادیب تونسوی کو لکھتے ہیں۔۔۔ چار روز کی سخت تکلیف کے بعد دونوں دانت جو دُکھتے تھے ان کو اکھڑوادیا گیا۔ ۳۱؍ اگست ۱۹۳۲ء راغب احسن کو لکھتے ہیں۔۔۔ میں دو چار روز سے علیل ہوں اورمضمحل ۔ وجہ شاید درد دنداں فلاح دنداں، اخراج دنداں، مگر اخراج سے گھبراتا ہوں اگرچہ اس کا تجربہ بھی پہلے کر چکا ہوں۔ ۱۹؍ جنوری ۱۹۳۵ء ۔ پروفیسر میاں محمد شریف کو لکھتے ہیں۔۔ مسوڑے پھول جانے کی وجہ سے سخت تکلیف رہی۔ دو آپریشن یکے بعد دیگری ہو چکے ہیں۔ گزشتہ رات جو آپریشن ہوا اس سے کسی قدر افاقہ ہوا۔ مگر اب تک صاحبِ فراش ہوں۔ چنانچہ یہ خط بھی لیٹے ہوئے لکھ رہا ہوں۔ ۲۳؍ جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ موتی منجن اور اکسیر آیل کی دو شیشیاں جن میں دو دو اونس دوا ہو مہربانی کرکے وی پی بھجوا دیجئے۔ ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۶ء کو محمد عباس علی خاں لمعہؔ حیدرآبادی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ڈینٹل سرجن صاحب جن کا آپ نے خط میں ذکر کیا ہے میں ان سے واقف نہیں ہوں۔ ۲۱؍ جولائی ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ موتی منجن اور تیل کے لیے میں نے آپ کی خدمت میں لکھا تھا کہ دوکاندار سے کہہ کر وی۔ پی بھجوا دیجئے وہ پارسل اب تک نہیں ملا۔ کم خوابی (Insomnia) یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ علّامہ سحر خیز تھے۔ اقبال نے اپنے کلام میں نالہ ھای نیم شبی کے ساتھ ساتھ افکار سحر خیزی کا ذکر کیا ہے۔ جس کا کوئی تعلق کم خوابیInsomniaسے نہیں جس کا ذکر آگے ہوگا۔ یوں تو علّامہ رات میں اپنی مصروفیات اور عبادات کی وجہ کم سوتے تھے جس کا ذکر عام طور سے اپنے مسلمان دوستوں سے نہیں کرتے تھے لیکن اپنے خاص دوست مہاراجہ کشن پرشاد کو ۱۱؍ جون ۱۹۱۸ء کے خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’سرکار کی صاحبزادی کی علالت کی خبر سُن کر متردّد ہوا ہوں۔ اللہ تعالیٰ صحت عاجل کرامت فرماوے۔ انشاء اللہ کل صبح کی نماز کے بعد دعا کروں گا۔ کل رمضان کا چاند یہاں دکھائی دیا۔ آج رمضان المبارک کی پہلی ہے۔ بندۂ روسیاہ کبھی کبھی تہجد کے لیے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گزر جاتی ہے سوخدا کے فضل وکرم سے تہجد سے پہلے بھی اور بعد میں بھی دعا کروں گا کہ اُس وقت عبادت الٰہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے کیا عجب ہے کہ دعا قبول ہوجائے۔‘‘ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۱۶ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتا ہوں۔ پھر اس کے بعد نہیں سوتا۔ سوائے اس کے کہ مصّلیٰ پر کبھی اونگھ جاؤں۔‘‘ اقبال نہ صرف سحر خیز تھے بلکہ ان کو دیر سے سونے کی عادت تھی۔ علّامہ کی بھتیجی وسیمہ مبارک جو اقبال کے گھر میں پلی بڑی ہوئی ، کہتی ہیں: ’’انھیں رات کودیر سے سونے کی عادت تھی۔ دس گیارہ بجے تک محفل جمی رہتی۔ محفل برخاست ہونے کے بعد کچھ دیر مطالعہ فرماتے یا حقہ منہ میں دبائے خاموش گہری سوچوں میں گم رہتے۔ اکثر نمازِ عشا ادا کر کے سوتے مگر پھر علی الصبح بیدار ہو جاتے۔ کبھی تہجد اور کبھی نماز ادا کرتے اور پھر حسبِ معمول بڑی خوش الحانی سے تلاوتِ کلام پاک فرماتے۔ ان کی سحر خیزی کا یہ عالم تھا کہ علی بخش کو فجر کی نماز کیلیے وضو کے پانی اور جائے نماز کا اہتمام رات کو سونے سے پہلے ہی کرنا پڑتا کیونکہ فجر کی نماز اول وقت میں ادا کرنا ان کا معمول تھا۔ آپ کو سونے میں خراٹے لینے کی عادت تھی۔ خراٹے بھی کوئی عام قسم کے نہیں بلکہ بہت بلند اور گرج دار۔ بعض اوقات ایسی بھیانک قسم کی آوازیں ہوتیں کہ گھر کے دوسرے افراد ڈر جاتے۔ انھیں سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر بسترکے ایک طرف لیٹنے کی عادت تھی۔ اس حالت میں ان کا ایک پاؤں اکثر ہلتا رہتا جس سے اندازہ ہوتا کہ ان کی نیند ابھی گہری نہیں ہوئی، لیکن جوں ہی نیند گہری ہوتی خراٹوں کا دور شروع ہوجاتا۔ میری والدہ مکرمہ بتاتی ہیں کہ ’’ رات کو سارے گھر میں چچا جان کے خراٹے گونجا کرتے اور سب اپنے اپنے بستروں میں دب کے ان کے بلند وبالا خراٹے سنا کرتے۔ بعض اوقات تو ایسی عجیب اور ڈراؤنی آوازیں ہوتیں کہ رات کی خاموشی میں کلیجا منہ کو آنے لگتا۔‘‘ اقبال کی رات کی نیند بیماریوں کی وجہ سے کم ہو گئی تھی۔ بدن کے درد، دمّہ کے دوروں اور پیٹھ کے درد سے کئی بار نیند سے جاگتے اور پھر مشکل سے سو پاتے۔ ۲؍ جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نذیرنیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ زیادہ تر رات کو نیند بھی مجھ کو پہلے کی بہ نسبت کم آتی ہے اور بھوک بھی کم لگتی ہے۔ ۳؍ فروری ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ حکیم صاحب کی خدمت میں یہ بھی عرض کریں کہ میری بھوک کم ہوگئی ہے اور نیند بھی پہلے کی طرح مسلسل نہیں آتی۔ رات کو میں چھ سات گھنٹے تو سو لیتا ہوں مگر یہ نیند مسلسل نہیں آتی۔ ۱۶؍ فروری ۱۹۳۸ء کو مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ کم خوابی کی بھی شکایت ہے۔مسلسل نیند صرف رات کے آخری گھنٹوں میں آتی ہے۔ پہلے گھنٹوں میں وقتاََ فوقتاََ اس میں خلل پیدا ہو جاتا ہے۔ ۲۹؍ مارچ ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ تیسری شکایت یہ ہے کہ رات کو نیند شب کے پہلے حصّے میں بہت کم آتی ہے۔ آخری حصّہ میں البتّہ کچھ نیند آتی ہے۔ خطوں اور مستند حوالوں سے یہ خبر ملتی ہے کہ علّامہ کی نیند بہت کم ہو چکی تھی۔ سید نذیر نیازی اقبال کے انتقال سے ایک مہینہ قبل کی یادداشت میں لکھتے ہیں۔ علّامہ کی طبیعت اگرچہ بظاہر سنبھل گئی تھی لیکن چہرہ بدستور مضمحل تھا۔ ضیق اور درد کی شکایت میں گو خاصی کمی تھی لیکن نیند نہیں آتی تھی۔ حکیم محمد افضل نے نیند کے لیے ’’روغن گل کی مالش‘‘ کومفید بتایا اس سے پہلے حکیم قرشی کانسخۂ روغن کامیاب نہیں ہوا۔ چنانچہ ڈاکٹر جمعیت سنگھ نے نیند کے لیے ایلوپیتھک دواتجویز کی لیکن نیند آور دوا کا اثر اقبال پر سخت ہوا چنانچہ اقبال پر غشی کی سی حالت طاری ہوگئی اور وہ بے خبری میں پلنگ سے فرش پر گر گئے۔ اقبال نے پھرنیند کی گولیاں نہ کھائی بلکہ ان کو دوسری ایلوپیتھک دواؤں سے بھی نفرت ہو گئی۔ خ خ خ میڈیکل معائنہ ، ٹسٹ اور طبّی آلات علّامہ اقبال اُن چند خوش نصیب افراد میں شامل ہیں جنھیں برصغیر کے ماحول میں اُس زمانے میں وہ تمام سہولتیں فراہم کی گئیں جو ترقی یافتہ مغربی دنیا میںموجود تھیں۔ خطوط اور مستند حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ I ۔ کئی بار اقبال کاطبّی کامل معائنہ کیا گیا اور بعض اوقات کئی تجربہ کار ڈاکٹروں نے تقریباََ پورا دن اس پر صرف کیا اور آخر میں میڈیکل رپورٹ میں بتایا کہ بلڈ پریشر نارمل ، قلب اور پھیپھڑے ٹھیک ہیں۔ ۵؍ جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میری عام صحت بالکل اچھی ہے۔ دل اور پھیپھڑے دونوں اب تک بالکل تندرست ہیں ان کا بارہا معائنہ کی گیا ہے‘‘۔ ۶؍ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’پھیپھڑوں اور دل کا دوبارہ معائنہ کرالیا ہے۔ سب کچھ درست ہے‘‘۔ علّامہ ۱۰ ؍ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں دو دفعہ پھیپھڑوں کا معائنہ کروایا تو معلوم ہوا کہ پھیپھڑے بالکل صاف ہیں‘‘۔ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’کل دوبارہ معائنہ کروایاتھا۔خون کا دباؤ نارمل ہے اور پھیپھڑوں کی حالت بالکل درست ہے‘‘۔ II۔ ڈاکٹروں کویہ شک تھا کہ علّامہ کے خون میں جراثیم ہیں چنانچہ اُس زمانے میں دوبار خون کا کلچر کروایا گیا ہوگا یا سلائیڈ پر خون ملکر جراثیم کو تلاش کیا گیا ہوگا۔ یعنی اقبا لؔ کے خون سے 1۔ بلڈ اسمیر اور جراثیم نگاری Blood Smear Stain for Bacteria 2۔ بلڈ کلچرBlood Culture ۳؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’دو دفعہ ڈاکٹروں نے خون کا معائنہ کیا ہے۔ پہلی دفعہ خون با سلیق سے لیا گیا تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ خون میں زہریلے جراثیم ہیں اور دوسری دفعہ پھر انگلی سے خون لیا گیا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ خون بالکل نارمل ہے‘‘۔ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’جو دوا حکیم صاحب میرے لیے تیار فرمائیں اس میں اس امر کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ دوئم ۔عام کمزوری،سوئم۔ عام قبض کی شکایت،چہارم ۔ خون میں سوداوی جراثیم ۔ یہ سب باتیں حکیم صاحب قبلہ کو معلوم ہیں ۔ میں نے صرف یاد دہانی کے لیے عرض کیا ہے‘‘۔ ۲۲؍ جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’خون کے زہریلے مادّوں کا ذکر میں نے حکیم صاحب کی خدمت میں کیا تھا اور ان سے استدعا کی تھی کہ وہ دواتجویز کرنے میں اس امر کا خاص خیال رکھیں۔مہربانی کرکے ان سے دریافت کرکے مجھے مطلع کریں اس کے لیے خاص طور پر کونسی دوا اِن چار دواؤں میں سے ہے‘‘۔ نوٹ ۔ہمیں خون میں جراثیم کی موجودگی پر شبہ ہے شاید صرف انتقال سے کچھ دن قبل جب اقبال کو نمونیہ تھا اُس وقت خون میں مہلک جراثیم یا(Septicemia)ہو کیونکہ بلغم میں خون آرہا تھا اور اقبال کا بلڈ پریشر اور نبض گر رہی تھی۔ ہمارے تجربے میںContaminationیا لیبارٹری میں موجود سطحی جراثیم کی وجہ غلطی سے خون میں جراثیم کی موجودگی تشخیص ہوئی ہوگی کیونکہ اُس زمانے میںعلّامہ کو سوائے آواز کی کمزوری اورکوئی شدید بیماری نہ تھی۔ III۔ ایکس ریز X-Rays بیسوی صدی کے پہلے ربع میں لاسلکی یاX-Raysکا استعمال شروع ہو چکا تھا۔ برصغیر کے صر ف کچھ ہسپتالوں میں یہ سہولت موجود تھی۔ اقبال کے گردے کی پتھری کی تشخیص بھی بہت ممکن ہے انہی ایکس ریز مشینوں سے کی گئی۔ ۱۵؍جون ۱۹۲۸ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں۔۔۔ مجھے درد گردہ کی شکایت رہی جس کا سلسلہ ایک ماہ سے اوپر جاری رہا۔جدید طبّی آلات کے ذریعہ گردہ کامعائنہ کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ گردہ میں پتھر ہے اور کہ عمل جراّحی کے بغیر چارۂ کار نہیں ہے۔ مگر تمام اعزّا اور دوست عمل جراّحی کرانے کے خلاف ہیں۔ درد فی الحال رُک گیا ہے اور میں حکیم نابینا صاحب سے علاج کرانے کی خاطر آج شام دہلی جا رہا ہوں۔ وہاںچند روز قیام رہے گا۔ اس طویل علالت نے مجھے کمزور کردیا ہے البتہ درد کا افاقہ ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اقبال کو جوانی سے درد گردے کے دورے پڑتے تھے اور یہ بیماری ان کو اپنی ماں سے ورثے میں ملی تھی۔سب سے پہلا خط جس میں دورہ درد کا ذکر ہے ۱۹۰۲ء کا ہے۔ مفتی سراج الدین کو لکھتے ہیں ۔۔۔ ’’دو تین روز سے طبیعت بہ سبب دورہ درد کے علیل ہے۔‘‘ نیاز الدین خان صاحب کو لکھے گئے خط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پتھری کافی بڑی تھی ۔ بہرحال پتھری اگر ایک سنٹی میٹر کی جسامت کی بھی ہو تو اس کا اخراج ممکن نہیں کیوں کہ ڈاکٹروں نے اس کا علاج صرف سرجری یا عمل جراّحی بتا یا تھا جس کی اقبال اور ان کے اعزّا و احباب نے مخالفت کی بہرحال حکیم عبد الوہاب انصاری کے علاج سے درد کم ہوا۔ گردے کا درد حکیم نابینا کے علاج کے بعد اقبال کو آٹھ سال تک نہیں ہوا یا اگر بعد میں محسوس بھی ہوا تو خفیف سا لیکن اقبال نے ہمیشہ پہلو میں خفیف دردجوکمر کی طرف کھنچتا محسوس کیا ہے علّامہ خطوط میں لکھتے ہیں کہ گردے کے مقام پر بوجھ سا مھسوس رہتا ہے آخری علالت کے دوران کچھ حملوں میں شدّت مگر جزوی رہی ۔ اقبال نے مرنے سے کچھ مہینے پہلے وہ پتھر کا ریزہ جو پیشاب میں خارج ہوا تھا ڈاکٹر مظفر قریشی کی وساطت سے حکیم نابینا جو اُن دنوں افسر الحکما نظام دکن بن کر حیدرآباد میں مقیم تھے، ملاحظہ کے لیے بھیجا تھا۔ گردے کے درد کا کم ہونا حکیم نابینا کا بڑا معجزہ تصور کیا گیا اور خود اقبال نے آخری علالت کے دوران جب اُن کی آواز بیٹھ گئی تو اپنے خط میں حکیم نابینا کے معجزہ علاج کا ذکر کرتے ہوئے اکسیر طلب کی تھی مجلّوں ، اخباروں اور شخصی خطوط میں لوگوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ اقبال کے گردے کا پتھر اتنا بڑا تھا کہ اگر اس کا فوری علاج نہ کروایا جاتا تو پتھری اقبال کے گردے کو پھاڑ کر باہر نکل آتی مگر حکیم نابینا کی دوا نے اس پتھر کو ریزہ ریزہ کر کے پیشاب کے راستے سے خارج کر ادیا۔ جدید طبّی تحقیقات سے یہ امکان آج موجود ہے کہ اشعاع لیزر (Laser Rays)اورمقناطیسی لہروں(Magnetic Waves) سے گردے کے پتھر کو مسلسل نشانہ بنا کر توڑ دیتے ہیں اور پھر پیشاب کی نالیUreterاور Urethra میں ایک عارضی نالی Stent جوڑ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو خارج کر دیتے ہیںلیکن صرف معجون یا خوراکی دوا سے بڑے پتھر کا ریزہ ریزہ کرنا ہمیں طبّی نقطہ نظر سے مشکوک معلوم ہوتا ہے۔ اقبال نے اپنے خط میں گردے کے درد سے افاقہ کا ذکر کئی جگہ کیا ہے حکیم نابینا کے علاج کے دس سال بعد صرف ایک چھوٹے ریزہ کو جو پیشاب میں خارج ہو ا تھا پڑیا میں بند کرکے حکیم صاحب کے ملاحظہ کے لیے روانہ کیا۔ اگر ۱۹۲۸ء کے حکیم نابینا کی دواسے بڑا پتھر ریزہ ریزہ ہوکر پیشاب میں نکلتا تواقبال ضرور اس کا ذکر کرتے۔ راقم نے(251)خطوں جس میں اقبال بیماری کی کیفیت اور اس کی تفصیل لکھتے ہیں لفظ بہ لفظ پڑھے ہیں۔ میری دانست میں گردے کے پتھر کے درد کا افاقہ حکیم نابینا کے علاج کا معجزہ نہیں بلکہ حُسن مبالغہ ہے اور بقول حافظؔ ع۔ چوں ندید ند حقیقت در افسانہ زدند سوال یہ ہے کہ درد گردہ کیسے کم ہوا؟ ہمیشہ خفیف سا درد گردے کے مقام پر کیوں تھا؟ آخری علالت کے ایک دو سال میں معمولی حملے کیوں ہوئے ؟ ان سب سوالوں کا جواب پوری طرح سے اس لیے نہیں دیا جا سکتا کہ (۱) اب نہ ہمارے پاس اقبال کی ان زمانے کی ایکس ریز تصاویر ہیںجو ۱۹۲۸ء میں لاہور میں لی گئیںاور نہ وہ تصویریں ہیں جو لاہور اور بھوپال میں ڈاکٹر ڈاک ریڈیالوجسٹ لاہور یا ڈاکٹر عبد الباسط انصاری ریڈیالوجسٹ حمیدیہ ہسپتال بھوپال نے لی تھیں اور انھیں بذیعہ رجسٹری آسٹریا ویانا ڈاکٹر مظفر علیENT اسپشیلسٹ(ماہر گوش و حلق و بینی) کے پاس روانہ کی تھی کہ وہاں کے ریڈیالوجسٹ سے اس بابت سوال کیا جائے جس کی تفصیل آئندہ ٹومر کی تشخیص کے تحت آئے گی۔ ہمیں اگر ستر(70) یا(80)برس قدیم ایکسرے کی فلمیں دستیاب ہو جاتی تو اتنی مدت گزرنے پر کار آمد نہ رہتی۔ میرے میڈیکل سکول کے ساتھی اور عمدہ دوست ڈاکٹر اظہر عباس ۔یم ۔ڈی جو آمریکن ریڈیالوجسٹ بورڈ کے تصدیق شدہ پختہ کار عمدہ ریڈیالوجسٹ ہیں اور آج کل سینٹ انتھونی میڈیکل سنٹر کے شعبہ ریڈیالوجی کے صدر بھی ہیں اپنے اکسپرٹ اوپی نین ماہرانہ مشورہ میں کہتے ہیں کہX-Raysیکس ریز فلمیں تیس، چالیس سال بعد تقریباََ بے کار ہو جاتی ہیں کیوں کہ اس میں استعمال شدہ سلور اور دوسرے مرکبات فلم پر گہرے دھبّے ، خراشیں اور دھندلا پن بکھیر دیتی ہیں چنانچہ علّامہ اقبال کے ایکس ریز جو اب موجود نہیں اگر آرکیوز میں محفوظ بھی ہوتے تو چنداں فائدہ بخش نہ ہوتے۔ (۲) علّامہ کے کسی عضو کا حصّہ ہمارے ہسپتال یا لیبارٹری میں محفوظ نہیں۔ علّامہ نے زندگی بھر سرجری نہیں کروائی اس لیے کوئی عضو یا اس کاحصّہ(Tissue) پیتھالوجی لیبارٹری میں موم کے اندر بلاک(Block)کی شکل میں بھی نہیں تاکہ اُس سے اسٹیڈی کی جاسکے۔ (۳) علّامہ نے جو پتھر کا ریزہ(Kidney Calculus) پڑیا میں بند کرکے حکیم نابینا کے ملاحظہ کے لیے بھیجا تھا اس کا پتہ نہیں۔ اگر پتھر کا ریزہ موجود ہوتا تو ہم کمیل تجزیہ Chemical Analysis کرکے یہ بتا سکتے کہ کیا اس کے مرکبات میںUric Acidکی کثرت ہے کیوں کہ اقبال کی گوٹ(Gout)یا نقرس تھا جو یوریک ایسڈ کے خون میں زیادہ رہنے سے جوڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور گوٹ Gout کے تقریباََ دس فیصد مریض گردے میں Urateسے بنی ہوئی پتھری کے عارضہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ (۴) اقبال کی مستند خون اور پیشاب کی رپورٹ کا پتہ نہیں ہم نے صرف اقبال کے ہاتھ سے لکھے گئے ان خطوط سے یہ مطالب اخذ کئے ہیں اور اس پر بحث کی ہے۔ (۵) اقبال کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا کیوں کہ اس کی ضرورت پیش نہ آئی ویسے بھی اُس زمانے میں مسلمانوں میں یہ رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ جدید طبّی تحقیات نے بات ثابت کردی ہے کہ جب پتھر گردے کے اخراجی نظام یعنی Pelvis اورUreterمیں داخل ہوتا ہے تو مریض کو اس کا بوجھ اور اثر محسوس ہو تا ہے چنانچہ اگر پتھری 4-5ملی میٹر یعنی چاول کے دانے کی جسامت کے برابر ہو توPelvis سے گزر کرUreter میں پہنچتی ہے اور پھرUreterکی حرکت سے مثانہ سے ہو کر خارج ہوتی ہے۔ عموماََ جب چھوٹی پتھری(Calculus)،Ureterسے گزرتی ہے تو درد شدید ہوتا ہے جس کوRenal Colicکہتے ہیں اور اگر پتھری ایک سنٹی میٹر کے قریب کی جسامت رکھتی ہو یعنی لوبیا کے دانے کی جسامت تو وہ Ureterمیں اٹک جاتی ہے اور مریض کو بہت شدید درد ہوتا ہے اور پیشاب اس مسدود نالی کے اوپر جمع ہو کر نالی کو پھیلاتا ہے اور گردے پر دباؤ ڈالتا ہے چنانچہ اس فشار اور دباؤ کے تحت وہ گردہ پیشاب کی تولید بند کر دیتا ہے اور طرح مزید درد نہیں ہوتا۔حسن اتفاق یہ ہے کہ حکیم نابینا کے علاج سے کچھ دن قبل گردہ کا درد ختم ہو چکا تھا جیسا کہ اقبال نے ۱۵؍جون ۱۹۲۸ء کو محمد نیا ز الدین کو خط میں لکھا۔۔۔’’درد فی الحال رُک گیا ہے اور میں حکیم نابینا صاحب سے علاج کرانے کی خاطر آج شام دہلی جا رہا ہوں‘‘۔ چنانچہ جب دوسرے دن حکیم صاحب نے علاج شروع کیا اُس کے بعد8-10سال تک اقبال کو درد گردہ نہیں ہوا۔ علّامہ کے جدید طبّی آلات یعنی ایکس ریز سے یہ ثابت ہے کہ ان کی پتھری اتنی بڑی تھی جو صرف جراّحی یا سرجری سے نکالی جا سکتی تھی شاید انھیں کلاسیکStaghorn Calculus پتھری ہو جو تقریباََ تمام گردے کے اخراجی نظام کو گھیر لیتی ہے اس طرح سے ایک تو گردے کی وہ جلد گھٹ جاتی ہے جو پیشاب تولید کرتی ہے ددسرے جو کچھ پیشاب تولید ہوتا ہے وہ پتھر کے اطراف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ یہاں یہ بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اقبال کا دوسرا گردہ بالکل نارمل تھا چنانچہ ایک گردہ بھی تمام عمر بدن کے لیے کافی رہتا ہے اور شاید اِسی لیے دوسرے گردہ کی کمزوری اقبال کی زندگی کو خطرے میںنہ ڈال سکی۔ان نکات کے سرسری طور پر بیان کرنے کے بعد ہم اصل مطلب پر آتے ہیں جو اقبال اور ان کے معا لجین کے لیے معمّہ بنا رہا۔ جب جنوری ۱۹۳۴ء میں اقبال کو انفلونزا کا بخار آیا اور دو تین ہفتے میں ان کی آواز بیٹھ گئی اور گلے میں مسلسل درد رہنے لگا ۔ یونانی اور ایلوپیتھک دواؤں سے چنداں فائدہ نہ ہوا آوازکبھی کبھار قدرے بہتر ہوتی لیکن نارمل نہ ہونے پاتی تو اقبال نے فیملی ڈاکٹر اور دوستوں کے اصرار پر لاہور کے بڑے ہسپتال کے ریڈیولاجسٹ ڈاکٹر ڈک سے سینے کے ایکس ریز نکلوائے جس میں ڈاکٹر ڈک اور ان کے ہمکار ڈاکٹروں نے یہ تشخیص دی کہ دل کے اوپر ایکGrowthیا ٹیومر ہے جوRecurrent Laryngeal Nerve پر دباؤ ڈال رہا ہے اور اس کی وجہ آواز میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔ اقبال ۲؍ جون ۱۹۳۴ء کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ڈاکٹروں نے مزید معائنہ کیا ہے اور چھاتی وغیرہ کی ایکس ریزX-Rayفوٹو لیے گئے۔ معلوم ہوا ہے کہ دل ے اوپر کی طرف ایک نئیGrowthہو رہی ہے جس کے دباؤ سے ووکل کارڈVocal Chordمتاثر ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک اس بیماری کا علاج الیکٹرک ہے اور بہترین الیکٹرک علاج یورپ میں ہی ہو سکتا ہے‘‘ ۔ اقبال ۵؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میںنے لکھا تھا کہ کرنل ڈک صاحب کے نزدیک دل کے اوپر کی طرف ایک نئی Growthپیدا ہوگئی ہے جس نے نرو پر دباؤ ڈال رکھا ہے اور اس دباؤ کی وجہ سے آلۂ صوت کا تار بیکار ہوگیا ہے۔ اس کا علاج ان کے نزدیک یا تو ریڈیم سے ہوگا یا ایکس ریز سے اور یہ دونوں علاج یورپ میں ہی بہتر ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ڈک صاحب اور دوسرے ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ فوراََ ویانا (آسٹریا) یالندن جانا چاہئے تاکہ علاج مذکور سے اسGrowthکا مزید نشونما رُک جائے یا کل ایکس ریز یا ریڈیم سے تحلیل ہو جائے۔ ان کے نزدیک اگر اس Growthکی طرف توجّہ نہ کی گئی تو زندگی خطرے میں ہے‘‘ ۔ ۸؍جون کو سید نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’آج معلوم ہوا کہ بعد بحث مباحثہ خود ان میں بھی اختلاف رائے ہے۔ میں چاہتا ہوں خود حاضر ہو کر حکیم صاحب کی خدمت میں جملہ حالات عرض کردوں۔اِس کے بعد اقبال دہلی گئے وہاں پر حکیم نابینا نے ان کامعائنہ کیا ۔ حکیم نابینا نے ٹیومر کی تشخیص کو غلط قرار دیا اور اقبال کو دوا دی ۔ اقبال کچھ دن دوا استعمال کرنے کے بعد ۲۲؍ جون کو لکھتے ہیں۔۔۔اس مواد کی تحلیل کے لیے جسے ڈاکٹرNew Growth بتاتے ہیں کس قدر عرصہ درکار ہوگا۔ حکیم صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ تحلیل ہو جائے گا۔ تخمیناََ کتنے عرصے میں ، تاکہ اگر دوبارہ ایکس ریز کر لیا جائے تو وہ کس وقت اور کتنی مدّت کے بعد لینا چاہئے‘‘۔ ۵؍جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ڈاکٹر یار محمد خاں کل کہتے تھے کہFresh Growthیا ٹیومر کی تھیوری غلط معلوم ہوتی ہے کیوں کہ یہ آپ کی صحت دیگر حالات سے مطابقت نہیں کھاتی۔ یہ ممکن ہے شاہ رگ اس مقام پر آکر ذرا پھیل گئی ہوجہاں وہ گروتھ نظر آتی ہے۔ اس دفعہ جو ایکس رے ہوگا اس سے یہ بات متفق ہو جائے گی ان کے نزدیک اگر شاہ رگ کا پھیلاؤ ہو تو پھر جیسا کہ اغلب ہے کوئی دوا اس کو اپنی اصلی حالت پر نہیں لا سکتی۔ ہاں دوا اس کے مزید پھیلاؤ کو روک سکتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آواز بھی نارمل حالت کی طرف عود نہیں کرسکتی‘‘۔ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۴ء سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ڈاکٹر اب کہتے ہیں گو ٹیومر نہیں ہے تاہم شاہ رگ کا پھیلاؤ ہے اور یہ ایک قسم کی Swellingہے ان کی رائے میں یہ مرض خطرناک نہیں ہے لیکن آواز کا نارمل حالت کی طرف عود کر آنا ان کے نزدیک بہت مشتبہ ہے۔ ان کے علم میں اب اس کا علاج صرف یہی ہے کہ موجودہ آواز پر اکتفا کیا جائے اور شاہ رگ کے مزید پھیلاؤ کو دواؤں کے ذریعہ روکنے کی کوشش کی جائے…میرے لیے اب ایسے نسخے کی ضرورت ہے جس کا فوری اثر آواز پر ہوتا کہ مجھے اطمینان ہو اور ڈاکٹروں کو بھی پوری شکست ہو وہ سمجھتے ہیں کہ آواز کا نارمل ہوجانا مشکل بلکہ ناممکن ہے‘‘۔ علّامہ ویانا جانے کے لیے ان کے دوست ڈاکٹر سر راس مسعود اور ان کے معالج ڈاکٹر عبد الباسط سے مشورہ کیا۔ اور دونوں کو ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو خط میں لکھا۔۔۔ ’’میرے ایک دوست جو یہاں کے سادات میں سے ہیںاور مرض ذیابیطس کے پرانے بیمار تھے حال میں تندرست ہو کر ویانا سے واپس آئے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ دورانِ علاج میں انھوں نے اپنے ڈاکٹر سے میرے مرض کا ذکر بھی کیا تھا جس پر ڈاکٹر نے کہا کہ اگر وہ بیمار یہاں آجائے تو میں گارنٹی کرتا ہوں کہ بالکل تندرست ہو جائے گا۔ شاہ صاحب فروری میں پھر ویانا جانے والے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ میں بھی اُن کے ساتھ چلوں اور وہاں چل کر علاج کرواؤں آپ اس بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں‘‘۔ ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۳۵ئکو سید محفوظ علی بدایونی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اب ویانا جانے کی فکر میں ہوں‘‘ ۔ ۱۵؍ اکتوبہر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ویانا جانے کا خیال ہے۔ ڈاکٹر انصاری صاحب سے خط و کتابت کر رہا ہوں ۔ انھوں نے نہایت مہربانی سے مدد کا وعدہ کیا ہے۔ اگر گیا تو فروری یا اپریل ۱۹۳۶ء میں جاؤں گا‘‘۔ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میںنے ڈاکٹرانصاری اور سید راس مسعود سے خط کتابت کی ہے اور دونوں حضرات نے ویانا جانے کا خیال کی تائید کی ہے‘‘۔ ۱۳؍جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’انگریزی اطبا کی تشخیص یہ ہے کہ ایک رگ جوAortaکہتے ہیں اورجو قلب کے قریب ہے ایک مقام سے پھیل گئی ہے اس کا دباؤ ووکل کارڈ Vocal chord پر پڑتا ہے جس کے سبب بولنے میں دقت ہوتی ہے۔ (شاید انگریزی اطبا نے Aortaکے پھیل جانے یاAnurysmکا فشار اُس اعصاب(nerve)پر بتایا ہو جسے Recurrent laryngeal nerveکہتے ہیں جو ووکل کارڈ کے کام پر اثر انداز رہتی ہے)۔ IV۔ ڈاکٹر متھرا داس جو معروف متخّص چشم (Eye Specialist)تھے اور سرجری کرتے تھے کئی بار اقبال کی آنکھوں کا معائنہ کرکے بتایا کہ ابھی موتیا پورا تیار نہیں اِس لیے کچھ مہینوں بعد آپریشن ہوگا۔اِس گفتگوسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں Opthalmoscopeسے اقبال کی آنکھ کا معائنہ ہوا تھا ۔ V۔ اقبال کے کسی خط سے یا ان کے اطرافیان کے کسی بیان یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے حلق Larynxصوت آلہ ووکل کارڈ کا معائنہ ہوا تھا۔ ہمارے خیال میں یہ سہولت اُس وقت میسّر نہ تھی جسےLaryngeoscopyکہتے ہیں اور آج کل تو یہ عمل کلینک میںENT متخص گوش و حلق بینی ۲ منٹ میں بغیر بے ہوشی کے مریض کے ووکل کارڈ کی حالت اور مرض کی تشخیص کرتا ہے۔ علامہ اقبال کے معا لجین علّامہ اقبال اُن چند خوش نصیب افراد میں شامل ہیں جنھیں اُس زمان اور مکان کے لحاظ سے عمدہ ترین معالجین کا علاج میسّر رہا۔ہماری تحقیق کے مطابق(۳۰)سے زیادہ حکیموں اور ڈاکٹروںکے نام ان کے معا لجین کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ان معا لجین میں ہندوستانی، انگلیسی، جرمنی، فرانسیوی اطبا کے زمرہ میں مسلمان، ہندو، سکھ، اور عیسائی شامل تھے۔ لاہور کے علاوہ حمیدیہ ہسپتال بھوپال میں علّامہ کا علاج ہوا جہاں تمام جدید طبّی سہولتیں ان کے لیے فراہم کی گئی تھیں۔دہلی اور حیدرآباد سے یونانی دواؤں کے نسخہ ہر وقت پہنچائے جا رہے تھے۔ کہتے ہیں بڑے شخص کی چھوٹی بیماری بھی بڑی ہوتی ہے۔ اقبال کی بیماری کی خبر تمام تر ہندوستان میں پھیل چکی تھی اور اطراف و اکناف سے نسخہ اور دواؤں کے شرطیہ علاج پہنچ رہے تھے۔ اقبال اپنے علاج کے سلسلے میں جب بھوپال گئے تو لوگوں نے وہاں بھی خیریت دریافت کرنے میں کوتاہی نہ کی۔ عبد القوی دسنوی علّامہ اقبال بھوپال میںلکھتے ہیں۔۔ علّامہ اقبال چونکہ بیمار تھے اس لیے روزانہ کافی خطوط ایسے آتے تھے جن میں صحت کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا۔یہ خطوط نوجوانوں سے لے کر والیان ریاست تک کے ہوتے تھے۔ خصوصاََ علی گڑھ کے طلبہ اور اساتذہ کے خطوط زیادہ آتے تھے جو دریافت صحت کے بارے میں ہوا کرتے تھے۔ بیرون ملک سے بھی اسی سلسلے میں زیادہ تر خطوط آتے تھے ۔ آل انڈیا ریڈیو سے علّامہ کی صحت کے بارے میں خبریں نشر ہوتی تھیں۔ علّامہ ایلوپیتھک علا ج پر یونانی علاج کو ترجیح دیتے تھے۔ علّامہ عموماََ اسپلشسٹ معالجین سے مشورہ کرتے لیکن جب علاج سے فائدہ نہ ملتا تو ہر کس و ناکس کے نسخہ استعمال کرنے میں اجتناب نہ کرتے البتّہ بعض اوقات اگر نسخہ عجیب و غریب ترکیبات سے بنا ہو تو حکیم نابینا سے سوال کرتے اور اغلب حکیم صاحب اس کے استعمال کو منع کر دیتے۔ خ خ خ فہرست معالجین شمارہ فن نام مقام نکات ۱ حکیم عبد الوہاب انصاری معروف بہ حکیم نا بینا دہلی دور حیات (1868-1941) 1917 سے اقبال کے انتقال تک (1938) خاص معالج رہے۔ حکیم عبد الوہاب انصاری المعروف بہ حکیم نا بینا برادر اکبر ڈاکٹر انصاری مرحوم۔ ۸؍دسمبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر مظفر الدین قریشی کو لکھتے ہیں۔۔ ’’حکیم صاحب کی خدمت میں میری طرف سے بہت بہت آداب عرض کریں۔ باقی رہا ان کا اعتراف کمال سو اس وقت ہندوستان کیا بلکہ تمام ایشیاء میں اسلامی طب انھیں کے نام سے زندہ ہے۔ میری طرف سے ان کی خدمت میں یہ دو شعر عرض کر دیجئے۔ جو ایک علیحدہ کاغذ پر لکھتا ہوں۔ والسلام۔ محمد اقبال ہے دو روحوں کا نشمین قالب خاکی مرا اک سراپا شور ومستی اک سراپا تاب و تب ایک جو اللہ نے بخشی مجھے روز ازل دوسری ہے آپ کی بخشی ہوئی روح الذہب اس سے زیادہ اور کیا لکھوں میں اے لقمان ملک رکھتا ہے بے تاب دونوںکو مرا حسن طلب ۲ حکیم اجمل خان دہلی دور حیات ( متوفی ۱۹۲۸ء ) طبّیہ کالج دہلی کے بانی۔ علّامہ اقبال کے نقرس کیلیے دوائیں روانہ کیں۔ ۳ ڈاکٹر عبد الباسط انصاری بھوپال چیف ریڈیالوجسٹ ۔جنھوں نے اقبال کا بجلی سے علاج کیا۔ ۴ ڈاکٹر احمد بخش خان بہادر بھوپال ریڈیالوجسٹ ۔ ڈاکٹر انصاری کے معاون ۵ ڈاکٹر رحمان بھوپال جنھوں نے حمیدیہ ہسپتال میں اقبال کا معائنہ کیا۔ ۶ ڈاکٹر سلطان بھوپال ڈاکٹر عبد الباسط کے اسیسٹنٹ تھے۔ ۷ ڈاکٹر بوس بھوپال ڈاکٹر عبد الباسط کے اسیسٹنٹ تھے۔ ۸ ڈاکٹر حسن محمد حیات بھوپال ڈاکٹر عبدالباسط کے اسٹیسٹنٹ تھے۔ اقبال ان ڈاکٹروں کے بارے میں ۵؍ فروری ۱۹۳۵ء کو لکھتے ہیں ۔۔۔۔طبی معائنہ کل ختم ہوا۔یہاں کے ڈاکٹر نہایت ہوشیار ہیں۔ اور ہسپتال بھی نہایت عمدہ ہے۔ ۹ ڈاکٹر مظفر علی ویانا یہ ویانا میں ENT سرجری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ علّامہ نے ان کے پاس ایکس ریز تشخیص کے لیے روانہ کئے۔ کیوں کہ ڈاکٹر انصاری اور ڈاکٹر احمد بخش میں اختلاف رائے تھا۔ ۱۰ حکیم افسر الاطبا سید ضیاء الحسن بھوپال اقبال نے ان سے مشورہ کیا۔ ۱۱ حکیم سلطان محمود بھوپال اقبال نے ان سے مشورہ کیا۔ ۱۲ ڈاکٹر ڈک لاہور ریڈیالوجسٹ جنھوں نے ٹیومر کو آواز بیٹھ جانے کی علّت بتائی۔ ۱۳ ڈاکٹر یار محمد خان لاہور ENT اسپیشلسٹ ۔ اقبال کے گلے کی بیماری کے معالج۔ ۱۴ ڈاکٹر کرم لاہور میو ہسپتال لاہور کے ریڈیالوجسٹ جنھوں نے اقبال کے ایکس ریز لیے ۱۵ ڈاکٹر کرنل امر چند لاہور لاہور کے مشہور ڈاکٹر ۱۶ ڈاکٹر کپتان الٰہی بخش دہلی کنگ ایڈورڈ کالج کے پرنسپل رہے۔ ۱۹۳۸ء میں اقبال کے معالج تھے۔ ۱۷ ڈاکٹر برج موہن ورما دہلی یم یس ڈی جو امریکہ اور برلن سے فارغ التحصیل تھے۔ علّامہ انھیں امریکی دوست کہا کرتے تھے۔ ۱۸ ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ حیدرآباد یم بی بی یس ڈاکٹر تھے ۔ علّامہ سے عقیدت رکھتے تھے اور طبّی مشورے دیتے تھے۔ ۱۹ ڈاکٹر ذیلنتر لاہور جنھوں نے علّامہ کا معائنہ کرکے بتایاکہ انھیں قلبی بیماری ہے۔ انھیں دوسرے اطباء کے علاج میں شک تھا۔ ۲۰ ڈاکٹر محمد یوسف لاہور ممتاز معالج ۔ ماہر امراض قلب۔ ۲۱ حکیم الیاس برنی علّامہ کو طبی مشورے دیتے تھے۔ علّامہ نے ان کو اپنی پوری کیفیت لکھ بھیجی تھی۔ ۲۲ ڈاکٹر متھرا داس لاہور اقبال کی آنکھ کے معالج جو اقبال کے موتیا (Cataract)کا آپریشن کرنے والے تھے ۔ ۲۳ ڈاکٹر جمعیت سنگھ لاہور اقبال کے فیملی ڈاکٹر تھے ۔ یہ اقبال کی آخری رات موجود تھے ۲۴ ڈاکٹر عبد القیوم ملک لاہور اقبال کے معالج۔یہ اقبال کی آخری رات موجود تھے۔ ۲۵ حکیم محمد حسن قرشی لاہور اقبال کے معالج۔یہ اقبال کی آخری رات موجود تھے۔ ۲۶ ڈاکٹر ڈنٹل سرجن جن کا نام خط میں نہیں جنھوں نے اقبال کے مسوڑے کا آپریش کیا۔ ۲۷ حکیم گورداس پور لاہور ایک عقیدت مند حکیم صاحب جن کی اقبال نے تعریف کی۔ ۲۸ حکیم سید زادہ لاہور ۳؍ جنوری ۱۹۳۶ کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ایک ایرانی الاصل سیّد زادہ کی دوا نے بہت فائدہ کیا۔کیا عجب کہ آواز پھر عود کر آئے۔ اس کا دعویٰ ہے اس واسطے میںنے چند روز کے لیے بھوپال جانا ملتوی کر دیا ہے۔ ۲۹ حکیم محمد افضل لاہور اقبال کی کم خوابی کے لیے روغن گُل تجویز کیا۔ ۳۰ حکیم فقیر محمد لاہور جنہوں نے دودھ اور اس سے بنی ہوئی چیزوںکے کھانے کو منع کیا تھا۔ خ خ خ علاج علّامہ اقبال کے علاج کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ طبّی علاج (یونانی علاج) ۲۔ ایلوپیتھک علاج (انگریزی علاج) ایلوپیتھک علاج کو مزید تین حصّوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ا۔ دوا، شربت، انجکشن وغیرہ ب۔ برقی علاج ج۔ سرجری ۱۔ طبّی علاج جو علّامہ کو پسند تھا جسے علّامہ طبّ اسلامی کہتے تھے جو علّامہ کی نظر میں اکسیر تھا چنانچہ اقبال کے خطوط اور اطرافیان کے بیانات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس علاج کی ترقی اور عالمگیری تشہیر کے بھی خواہاں تھے۔ یونانی علاج میں جڑی بوٹیاں، میوؤں برگ و ریشہ کے عصارہ، حیوانوں کے عضو اور ان کا تیل، دھاتوں کے کشتے ، جوشاندہ، معجون، شربت، لیپ، قرص،پاؤڈر وغیرہ وغیرہ ہر چیزہرشکل میںاستعمال کی جاتی ہے۔چنانچہ اقبال تقریباََ ہمیشہ یونانی علاج ہی کرواتے رہے جس کی تفصیل آگے علّامہ ہی کے خطوط سے پیش کی جائے گی۔ حکیم نابینا، حکیم ضیاء الحسن، حکیم قرشی ، حکیم اجمل خاں، حکیم سلطان محمود اور حکیم گورداس پور وغیرہ اسی طب کے معا لجین تھے۔ ۲۔ ایلوپیتھک علاج جو موجودہ انگریزی علاج کا دوسرا نام ہے۔ اقبال نے اس علاج سے بھی فائدہ اٹھایا ۔Stethescopeسے سینے کا معائنہ ، خون کا سلیق کے ذریعہ امتحان، خون میں میکروب شناسی، ایکس ریز اسی علاج کی سہولتیں ہیں۔ اگرچہ ایلوپیتھک علاج میں میوہ جات، ترکاریوں اور پرہیز کو پیش نظر رکھا جاتا ہے لیکن اسکو بطور دوا استعمال نہیں کیا جاتا۔ عام طور پر دواؤں میں کوئی اضافی عنصر اُسے خوش ذائقہ کرنے کے لیے نہیں ملایا جاتا اس لیے ایلوپیتھک دوائیں تلخ اور کڑوی ہوتی ہیں اور جیسا کہ ہمیں مختلف خطوط اور واقعات سے پتہ چلا ہے کہ اقبال تلخ کڑوی دواؤں سے بچوں کی طرح نفرت کرتے تھے انھیں ایلوپیتھک دوائیں پسند نہ تھیں۔ سونے پر سہاگہ اقبال کے اطراف قریبی دوستوں میں شامل کچھ حکیم اورکچھ نیم حکیموںنے بھی اس نفرت کی آگ کو ہوا دی اور اقبال کو ایلوپیتھک علاج سے بدظن کر دیا اور اقبال نے بعض اوقات ایلوپیتھک علاج سے صریحاََ انکار کر دیا۔لاہور کے جرمن ڈاکٹر ژیلشر Selzerکی صحیح تشخیص کے بعد ان کے علاج سے انکار راقم کی نظر میں ایک افسوس ناک اقدام تھا۔ سید نذیر نیازی اقبال کے حضورمیںلکھتے ہیں۔۔۔’’۲۱؍ مارچ ۱۹۳۸ء …دوپہر ہو رہی تھی اسی اثنا میں علّامہ نے کھانا کھایا۔ کوئی طبّی مرکب بھی استعمال کئے حقّے کے دو ایک کش لیے …خیال تھا کہ مشہور صحافی محمد اسد جو پہلے یہودی تھے آتے ہوں گے۔ اسد صاحب کا دیر سے خیال تھا کہ بعض جرمن ڈاکٹر جو لاہور میں مقیم ہیں اور مطب کر رہے ہیں کیوں نہ وہ بھی حضرت علّامہ کو دیکھ لیں۔ ان میں تو ایک ڈاکٹر ژیلشرSelzerتھے دوسرے ڈاکٹر کالیش Dr.Kailesh میں نے اسد صاحب سے کہہ رکھا تھا کہ آپ ان میں سے کسی سے بات کرلیں ہم انھیںجاوید منزل لے جائیں گے۔ اسد صاحب نے ٹیلیفوں کیا دوڈھائی بجے ڈاکٹر ژیلشر کے ہمراہ آئیں گے۔ ڈاکٹر ژیلسر نے کہا آپ کی علالت کا حال کم و بیش پورے طور پر سن چکا ہوں، میں چاہتا ہوں آپ کے قلب اور سینے کا معائنہ کروں۔ پھر بھی مجھے آپ سے دو ایک سوال پوچھنا ہے۔ علالت کی ابتدا کیسے ہوئی ، گلے کی کیفیت کیا رہتی ہے۔ ابتدا میں تشخیص کی گئی تو علاج ایلوپیتھک ہوا یا طبّی، برقی علاج کیسا رہا؟ ایلوپیتھک دواؤں سے طبیعت کیوں نفور ہے؟ پھر جب قلب اورسینے کا معائنہ ہو گیا تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے آپ کو انورزمAneurysmنہیں ہے۔ قلب البتّہ پھیل گیا ہے ہم اپنی اصطلاح میں اسےOx's heart’’بیل کا دل‘‘کہتے ہیں میں نسخہ لکھے دیتا ہوں۔ آپ میری دوائیں استعمال کریں آپ کو فائدہ ہوگا۔ ڈاکٹر ژیلشر کا خیال تھا کہ ابتدا میں علاج ٹھیک نہیں ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کا جی چاہتا ہے حضرت علّامہ کا علاج کریں۔ حضرت علامہ چودھری صاحب اور قرشی صاحب سے ڈاکٹر ژیلشر کا ذکر کر چکے تھے تو میں نے چودھری صاحب اور حکیم قرشی صاحب سے اپنی رائے کا اظہار کیا یہ کہ ڈاکٹر ژیلشر علاج پر آمادہ ہیں۔ تشخیص مختلف ہے کہتے ہیں صحیح دوائیں تجویز نہیں ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کی دواؤں کو آزمایا جائے یا نہیں؟ اس لیے کہ و ہ بھی اگرچہ ایلوپیتھک ہیں مگر ان کا طریق رائج الوقت ایلیوپیتھی سے مختلف ہے۔ بالآخر طے پایا کہ سردست علاج میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے ۔ ضرورت ہوئی تو ڈاکٹر ژیلشر سے پھر مشورہ کر لیا جائے گا۔ حضرت علامہ نے فرمایا ۔ ’’میرا فیصلہ تو یہ ہے کہ علاج صرف طبّی ہوگا، یوںمشورے میں کوئی ہرج نہیں مجھے طبّی ادویات پر زیادہ بھروسہ ہے ۔‘‘حکیم قرشی نے کہا آپ کی رائے نہایت صائب ہے ڈاکٹر صاحبان کے مشورے سے اب جس طرح علاج ہونا چاہئے ہورہا ہے جس کا تعلق دل سے ہے‘‘۔ اقبال کے فیملی ڈاکٹر جمعیت سنگھ،ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر عبد الباسط،ڈاکٹر بوس،ڈاکٹر سلطان، ڈاکٹر کرم، ڈاکٹر حیات، ڈاکٹر ڈک، داخلی ڈاکٹر احمد بخش، محمد یوسف، ڈاکٹر ژیلشر، ڈاکٹر الٰہی، ڈاکٹر امر چند، ڈاکٹر یار محمد، ڈاکٹر ملک،ENTاسپیشلسٹ ڈاکٹر مظفر علی کے علاوہ آنکھ کے معالج ڈاکٹر متھرا داس وغیرہ سب ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے مرض کی تشخیص اور معائنہ کامل کے لیے ایلوپیتھک زرائع اوراس کے علاج کے طبّی علاج پر زوردیا۔ ایلوپیتھک علاج کا ایک جدید طریقہ بجلی کا علاج ہے جس کوRadiationیا Radiation therapyکہتے ہیں۔ مختلف مقامات پر خطوں اور حوالوں میں بجلی یا برقی علاج بعض مقامات پر ایکس ریز اکسپوژر، ریڈیم اکسپوژر یاUltra Violet Rays وغیرہ لکھا گیا ہے۔ اقبال نے آواز کی خاطریہ علاج تین بار بھوپال جا کر کروایا جس کی تفصیل آگے پیش ہوگی۔ اقبال کی بجلی علاج کے تین کورس بھوپال میں ان کے تین بار قیام کے دوران ہوئے۔ ۱۔ ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۵ء سے ۷؍ مارچ ۱۹۳۵ء ۲۔ ۱۷ ؍ جولائی ۱۹۳۵ء سے ۲۸؍ اگست ۱۹۳۵ء ۳۔ ۲؍ مارچ ۱۹۳۶ء سے ۸؍ اپریل ۱۹۳۶ء ایلوپیتھک علاج میں سرجری کو بڑا دخل ہے۔ اقبال نے عمر بھر کوئی بڑی سرجری یا آپریشن نہیں کروایا ۔ اس بات کا اندیشہ تھا کہ ان کے سینے میں جوGrowthہے اس کے علاج لندن یا آسٹریا میں سرجری یا ریڈیشن سے ہوگا مگر تشخیص غلط ثابت ہونے سے یہ بات پیش نہ آئی۔ اقبال کے کئی خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں مسوڑے اور دانت کی خرابی کی تکلیف رہی چنانچہ کئی بار مسوڑہ پھول جانے پر اقبال نے اس کا آپریشن کروایا۔اقبال کے خطوط سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ طبّی علاج جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں اقبال کو فطری طور پر طبّی علاج پر بھروسہ تھا اور ان کو خصوصی طور پر حکیم نابینا عبدالوہاب انصاری کی طبابت پر ایمان تھا۔ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔’’ڈاکٹر صاحبان بغلیں بجاتے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ آواز درست نہ ہوگی ۔ میں بھی کبھی کبھی مایوس ہو جاتا ہوں مگر حکیم صاحب کی توجہ اور ان کی روحانیت پر بھروسہ رکھتا ہوں‘‘۔ سید نذیرنیازی اقبال کے حضورمیں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حضرت علامہ نے فرمایا۔ مجھے طبّی ادویات پر زیادہ بھروسہ ہے۔ طبّی علاج سینکڑوں برس کے تجربات پر مشتمل ہے ۔ سینکڑوں برس سے طبّی ادویات آزمائی جا رہی ہیں ان کی تاثیر اور فائدہ مندی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ یہ انسانی مزاج، طبیعت اور جسم کے زیادہ قریب ہیں‘‘۔ ۲؍ فروری ۱۹۲۸ء کو اقبال نے پنجاب لیجیسلیٹو کونسل میں یونانی اور آیورویدک طریق علاج کی حمایت کرتے ہوئے ایک تقریر میں کہا کہ’’ میرے نزدیک یونانی اور آیورویدک علاج سستا بھی ہے اور ہماری طبیعت کے موافق بھی۔ مزید یہ ہماری دوائیں صحت کے لیے زیادہ مفید ہیں‘‘۔ ۱۶؍ جون ۱۹۳۴ء کو اقبال سید نیازی کو خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ان دنوں میں آواز میں فرق ضرور آیا ہے مگر ایسا نہیں جس کو سب لوگ نوٹ کر سکیں…حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کر دیجئے اگر کوئی دوا اس سے زیادہ طاقتور ہو تو عطا فرمائیں کیونکہ یہاں کے تمام احباب منتظر ہیں کہ کب ڈاکٹروں کو شکست ہوتی ہے‘‘۔ ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کے خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کیجئے کہ آواز میں گزشتہ ہفتہ کچھ تبدیلی ہوئی تھی مگر اس سے آگے مزید تبدیلی نہیں ہوئی۔ البتہ صحت بہت اچھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نمایاں ترقی آواز میں ہو۔بلغم صبح کے وقت بہت نکلتی ہے اور اس کے نکلنے سے آواز بھی قدرے صاف ہو جاتی ہے۔ غرضیکہ اب آواز کی خاطرکسی ایسے اکسیر کی ضرورت ہے جو بہت جلد اور نمایاں اثر کرے اور آج کل ایسا اکسیر سوائے حکیم صاحب کے اور کس کے پاس ہے؟اگر پاس نہیں ہے توان کی خدمت میں عرض کریں کہ ایسا اکسیر ایجاد کریں اور اپنے طبّی ذوق کی گہرائیوں سے اسے پید ا کریں۔ میں نے آپ کولکھا تھا کہ خرگوش نر کے دماغ کا جوہر کسی کیمیاوی طریق سے تیار ہو سکتا ہے یا نہیں۔ مثلاََ عرق وغیرہ سے ماء اللحم تیار کرتے ہیں۔ یہ بات بھی حکیم صاحب سے دریافت کرنے کی ہے۔ اگر انھوں نے عرق کی رائے دی تو تیار کر دیا جائے گا یا اس کا ماء اللحم تیار کرایا جائے گا۔ ہم نے صرف اقبال کے خطوط سے ان کی مختلف بیماریوںکی شکایت اور ان کے طبّی علاج کو قارئین کی سہولت کی خاطرذیل میں پیش کیا ہے جس کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انھوں نے نہ صرف دوا کو سوچ سمجھ کرا ستعمال کیا بلکہ اس کے مختلف مرکبات پر بھی وقتاََ فوقتاََ سوالات کئے۔ مطالب کو آسانی کے ساتھ بیان کرنے کے لیے ہم نے ذیل کی سرخیوں میں بیانات اور حوالوں کو پیش کیا ہے۔ ۱لف۔ دواؤں کے نام ، ان کے اثرات، طریقہ استفادہ ، تلاش اکسیر ب۔ درد گلو اور آواز کا علاج ج۔ نقرس کا علاج د۔ نزلہ، زکام کا علاج ھ۔ قبض ، ریح کا علاج و۔ ملیریا کا علاج ز۔ دانتوں کا علاج ح۔ آنکھوں کا علاج ط۔ اختلاج کا علاج ی۔ دردِ گردہ کا علاج ۱۔ دواؤں کے نام، اثرات، طریقۂ استفادہ اور تلاشِ اکسیر ہم نے اقبال کا اپنے بھتیجے اعجاز احمد کے نام خط کو اس لیے یہاں پیش کیا ہے تاکہ اس سے اقبال کی غیر معمولی صلاحیت اپنے مرض اور اس سے مربوط دواؤں سے معلوم ہو سکے۔ اقبال کی کوشش یہ رہی کہ پوری کیفیت کو مختلف عارضوں اور شکایات میں تقسیم کرکے بیان کریں۔ ۲۰؍مئی ۱۹۳۷ء کو اعجاز احمد کو لکھتے ہیں۔ ’’برخوردار اعجاز طال عمرہ ‘ میں نے حکیم نابینا صاحب کی خدمت میں کچھ دن ہوئے ایک رجسٹرڈ خط لکھا تھا جس کا کوئی جواب اب تک نہیں ملا۔ مہربانی کرکے تم یہ خط خود جا کر ان کی خدمت میں پیش کرواور جو دوا وہ دیں اسے لے کر مجھے پارسل کردو!‘‘ (۱) سنہری گولی جو صبح بالائی میں رکھ کر کھائی جاتی ہے اب ختم ہو نے کو ہے۔ یہ گولی مجھے بہت مفید ثابت ہوئی ہے اس کے کھانے سے پیٹھ کی درد رفع ہوئی اس کی کافی تعداد اگر حکیم صاحب روانہ کردیں تو میں بہت ممنون ہوں گا۔ حکیم صاحب کو بار بارزحمت دینے کی ضرورت نہ رہے گی۔ (۲) سفید ورق والی گولی جو ناشتے میں کھائی جاتی ہے اس کی تعدادکافی ابھی میرے پاس موجود ہے اس کے روانہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (۳) سفید ورق والی جو پان میں رکھ کر کھائی جاتی ہے ۔ قریب الاختتام ہے صرف تین گولیاں باقی۔ یہ تولید بلغم کو روکنے والی گولی ہے اگر اس کا جاری رکھنا ضروری ہے تو یہ بھی کافی تعداد میں ارسال فرما کرمشکور فرمائیں۔ (۴) اپریل کے ابتدا میں جب میں حکیم صاحب سے ملا تھا تو انھوں نے فرمایا تھا کہ تمہارا جگر ریح پیدا کرتا ہے اب اس کا علاج ضروری ہے اس کے لیے انھوں نے ایک معجون مجھے عطا فرمائی تھی۔ اس معجون کا نسخہ اس خط میں ملفوف کرتا ہوں۔ وہ حکیم صاحب کو دکھا دیں تاکہ انھیں یاد آ جائے۔ یہ بھی اب قریب الاختتام ہے چند خوراک باقی ہے اگر اسی کو جاری رکھنا ہو تو اس کے مقدار بھی کافی ارسال کریں۔ مگر پیشتر اس کے کہ حکیم صاحب قبلہ اسی معجون کے استعمال کا حکم دیں یا اس میں کوئی ترمیم کریں۔ مندرجہ ذیل امور اُن کے گوش گزار کرنا لازم ہے۔ (i) جگر بدستور ریح پیدا کرتا ہے اس میںکمی نہیں ہوئی غالباََ یہ معجون موثر نہیں ہوئی۔ (ii) دم بھی پھولتا ہے گو پہلے کی نسبت کم اس سے میں یہ اندازہ کرتا ہوں کہ دل کی تقویت کے لیے کسی خاص موثر دواکی ضرورت ہے۔ (iii) قبض کی شکایت بھی کم و بیش ہے۔ (iv) اس معجون کے استعمال کے چند روز بعد پیٹھ کا درد بھی عود کر آیا حالانکہ اس کے استعمال سے پہلے مطلق نہ تھا میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کا عود کرآنا معجون کے استعمال کی وجہ سے ہے تاہم یہ واقعہ حکیم صاحب کے نوٹس میں لانا ضروری ہے۔بہرحال جو امور حکیم صاحب کی خاص توجہ کے مستحق وہ یہ ہیں۔ (i) ریح کا پیدا ہونا (ii) دم پھولنا (iii)قبض کی شکایت (iv) پیٹھ کے درد کا پھر عود کر آنا(v) ریح جو پیدا ہوتی ہے جب تک نہ نکلے کمر میں درد ہوتا رہتا ہے اوردونوں طرف کے گردوں پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ نکل جائے تو دردمیں تخفیف ہوتی ہے‘‘۔ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو مولانا گرامی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’یہ دریافت کرنا بھول گیا کہ جو آپ نے گولیاں مجھ کو دیں تھیں ان کے استعمال کا کیا طریقہ ہے؟ کیا ایک روز کھائی جائے گی یا دو صبح و شام اور نیز یہ کہ کس چیز کے ساتھ کھائی جائے اور پرہیز وغیرہ کس چیز سے ہو اس سے آگاہ کیجئے‘‘۔ ۴؍ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’آپ نے لکھا ہے کہ وسط ناشتہ میں جو دوا کھائی جائے وہ گُھلا کر کھائی جائے معلوم نہیں گھلا کر کھانے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ پہلے تو میں ناشتہ کے درمیان چائے کیایک گھونٹ کے ساتھ نگل لیا کرتا ہوں۔ شاید گھلا کر کھانے سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ گولی کو منہ میں کچھ دیر رکھا جائے حتیٰ کہ گُھل کر خود بخود حلق سے اُتر جائے۔ یہ مفصّل لکھئے کہ آپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘ علّامہ دواؤں کی تعداد سے گھبراتے تھے چنانچہ ۲۸؍ جولائی کے خط میں سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اب تک آواز بدستو ر ہے اور کوئی کشایش اس میں نہیں ہوئی چھینک دو چار دفعہ دن میں آتی ہے اوراس سے ریلیف بھی ہوتا ہے بلغم بھی کچھ خارج ہوتا رہتا ہے مگر آوازپر اثر نہیں ہوتا۔ پہلے روح الذہّب دیا جاتا تھا اس سے بہت فائدہ ہوا اب حکیم صاحب نے اس کا دینا بند کر دیا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ دواؤں کی تعداد گھٹا دی جائے اور چار پانچ دواؤں کی جگہ صرف ایک یا دو ہوں؟‘‘ ۸؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے اندر دوائی بھی ہے۔ صبح نو بجے حلوے کے ساتھ دوا کھانا غیر ممکن ہے کہ میں اگر حلوا کھا لوں تودن بھر بھوک نہیں لگتی اور میرے لیے حلوا سخت قابض ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کھانا ہمیشہ ۱۱ بجے کھاتا ہوں اگر آپ کی ہدایت کے مطابق اوقات خوارک میں تبدیلی کی جائے تو تمام نظام درہم برہم ہو جائے گا۔لہٰذا بہتر یہ ہے کہ وسط ناشتہ ہی میں دوا کا استعمال کیا جائے دیگرعرض یہ ہے کہ ان تمام دواؤں میں سے صرف ایک دوا (وسط ناشتہ والی) کھائی جائے تو کیا ہرج ہے؟ یا زیادہ سے زیادہ دو دوائیں ایک وسط ناشتہ اور دوسری رات کو سوتے وقت اگر حکیم صاحب ایک دوا کی اجازت دیں تو نہایت مناسب ہے کیونکہ اس طرح انگریزی دوا کے استعمال میں کوئی دقت نہ ہوگی۔ باقی حالات بدستور ہیں۔ عام صحت اچھی ہے۔ آواز کا وہی حال ہے جو بھوپال سے واپس آتے ہوئے تھا۔‘‘ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کیجئے۔ اس دوا سے اس وقت تک کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ حالت وہی ہے جو پہلے تھی میرے خیال میں جو دوا اس سے پہلے میں نے کھائی تھی وہ نسبتاََاس سے مفید تھی جیسا کہ میںنے پہلے عرض کیا تھا۔دوا میں تین چیزوں کا لحاظ ضروری ہے۔ ۱۔ بلغم کا استیصال کرے۔۲۔ قوت جسمانی میں ترقی ہوے۔۳۔ آواز پر موثر ہو۔‘‘ خالد نظیر صوفی اقبال درونِ خانہ میں لکھتے ہیں۔’’ میٹھی چیزیں انھیں بہت پسند تھیں یہاں تک کہ دوا بھی میٹھی ہی پسند فرماتے۔ خمیرہ گاؤزبان ان کی پسندیدہ دوا تھی۔ کڑوی کسیلی دوا پینا اُن کے لیے انتہائی مشکل ہوتا‘‘۔ علّامہ اقبال دواؤں کو وقت پر کھاتے تھے چنانچہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۳۷ء کو شیخ اعجاز احمد کو لکھتے ہیں۔۔۔’’حکیم صاحب کی بھیجی ہوئی دوائیں مل گئیں اب کے انھوں نے صرف دو معجون کھانے کے لیے ارسال کی ہیں ۔ اس سے قبل دوا کا دستور العمل یہ تھا‘‘۔ ٭ صبح سنہری گولی بالائی میں۔ ٭ آٹھ بجے سفید گولی ناشتے کے دوران میں۔ ٭ دس بجے سفید گولی دونوں معجونوں میں سے ایک کے ساتھ۔ ٭ چار بجے شام دوسری معجون۔ اب کے جیسا لکھا گیا ہے صرف دو معجونیں صبح و شام کے لیے موصول ہوئی ہیں۔ الگ کوئی گولیاں نہیں بھیجی گئیں۔ لہٰذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ سنہری اور سفید گولیاں جن کا اسعمال ہو رہا تھا ان معجونوں میں شامل کر دی گئی ہیں یا نہیں‘‘۔ ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء پروفیسیر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’آپ کا مرسلہ پیکٹ دواؤں کا مل گیا …دواؤں کے نام حسبِ ذیل ہیں : (۱) روح الذہّب (۲) روح الذہّب جدید (۳) حب تقویت صلب‘‘ ۲۲؍ جنوری ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کے خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’بعض دفعہ رات کو پچھلے پہر بھی تنفّس تکلیف دیتا ہے اور حکیم قرشی صاحب کے جوشاندہ میں عناب، گاؤزباں، اور ابریشم وغیرہ ہے کے پینے سے آرام ملتا ہے۔ حکیم قرشی صاحب فرماتے ہیں دوا المسک اور خمیرہ گاؤزبان عنبری کا استعمال میرے لیے بہت مفید ہوگا۔مہربانی فرماکر آپ اس بارے میں حکیم صاحب سے مشورہ فرمائیں اور جو کچھ ان کی رائے ہو اس سے مجھے مطلع فرمائیں‘‘۔ ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’روح الذہب کے ساتھ اگر کوئی معجون حکیم صاحب ایسی تیار فرمادیں کہ جس میں درد بلغم اور دم پھول جانے یعنی تینوں باتوں کا خاص لحاظ رکھا جائے تو شاید یہ معجون بہت موثر ہو‘‘۔ ب۔درد گلو اور آواز کا علاج جنوری ۱۹۳۴ء سے اقبال کی آواز بیٹھ گئی جو انتقال کے وقت تک ٹھیک نہ ہو سکی۔ اقبال نے آواز کے عود آنے کے لیے ایلوپیتھک، بجلی اور کئی طبّی علاج کئے لیکن فائدہ نہ ہوا ۔ ذیل میں صرف طبّی علاج کے نکات اقبال کے خطوط سے پیش ہو رہے ہیں تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ آواز کامسئلہ اقبال کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ آواز کے بیٹھ جانے کی وجہ سے اقبال جو بلند آوازمیں تلاوت قرآن کرتے تھے محروم ہو گئے،جلسوں،میٹنگوں، اور کانفریسوں میںجو خطبے دیتے تھے، ملتوی کر دیئے گئے۔ بیرسٹری کا کام بند ہوگیا یعنی اقبال گھر کی چاردیوای میں محصور ہو گئے ۔ کبھی لندن اور ویانا جانے کا قصد کیا ۔ تین بار بجلی کے علاج کے لیے بھوپال گئے۔ہر شخص کا نسخہ اور ٹونکا استعمال کیا۔ آخری علالت کے مہینوں میں آواز سے مایوس ہو گئے اور پھر دمّہ کے حملوں کے اسیر رہے۔اب اقبال کی توجہ آواز سے زیادہ تنگیٔ نفس پر تھی۔ ع۔ اے بسا آرزو کہ خاک شود تف بر تو اے چرخ پیر! تو نے اُس بر صغیر کی اذان صبح گاہی کی آواز کو دھیما کر دیا جو ملت کو خواب گراں سے جگا رہی تھی۔ ۲۲؍مئی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں نے سُنا ہے کہ ہندوستانی دوا خانہ دہلی میں کوئی شربت ہے جو گلے کی سب بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ گر یہ بات درست ہو تو آپ وہاں سے ایک بوتل شربت بذریعہ وی۔پی میرے نام بھجوا دیں‘‘۔ ۶؍جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’شملہ میں میرے ایک مہربان خواجہ حبیب اللہ ہیں وہ کہتے ہیں کشمیر کی گُل قند بشرطیکہ بہت پرانی ہو ووکل کارڈ کی تقویت کے لیے اکسیر ہے۔ پچاس سال پرانی گُل قند خواجہ صاحب کے پاس موجود ہے۔ مہربانی کر کے حکیم صاحب سے ذکر کریں اور ان سے پوچھئے کہ گُل قند کے استعمال کے متعلق کیا مشورہ دیتے ہیں۔ شہد کے استعمال کے متعلق بھی ہدایات معلوم کیجئے‘‘۔ فطرتاََعلّامہ دوا کے استعمال کے بعد فوری نتیجہ کے امیدوار تھے چنانچہ ۱۵؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’نئی دوا جس کو پان میں رکھ کر چبانے کی ہدایت ہے اور جو آواز کے لیے مخصوص ہے کچھ ایسی مفید ثابت نہ ہوئی آج اسے کھاتے ہوئے چار روز ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ قبض نہ ہوا کرے۔ حکیم صاحب کی خدمت میںعرض کیجئے قبض کی شکایت رفع نہیں ہوئی‘‘۔ ۲۲؍جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’تازہ انجیر کا انتظام ہو گیا ہے۔ ہر روز ملتان سے آجاتی ہے۔ اور انجیر بھی نہایت عمدہ ، کابل اور قندھار کی انجیروں سے بھی بہتر۔ سردہ کا بھی انتظام ہو گیا ہے مگر وہ اگست میں کابل سے آنا شروع ہوگا‘‘۔ ۲۷؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’جہاں تک آواز کا تعلق ہے ابھی تک کوئی دوا کارگر نہیں ہوئی۔ لیپ کا بھی کو ئی اثر نہیں ہوا‘‘۔ ۲؍ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’کل پرسوںسے آواز پھر کچھ رو بصحت معلوم ہوتی ہے مجھ کو یقین ہے کہ جواہر مہرہ ضرور مفید ثابت ہوگا۔ حکیم صاحب سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ جواہر مہرہ کے اجزا کیا ہوتے ہیں‘‘۔ ۸؍ستمبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’سردہ کابل سے منگوایا تھا دو تین روز تک کھایا مگر آواز پر اس نے اچھا اثر نہ کیا۔ اس واسطے میں نے پرسوں سے اس کا کھانا چھوڑ دیا‘‘۔ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’دیگر عرض یہ ہے کہ اب بہ نسبت سابقہ خفیف سی مزید تبدیلی آواز میں ہوتی ہے۔ خدا کرے اس میں ترقی ہو۔بادام تو روز کھاتا ہوں۔چلغوزہ مصری کے ساتھ کھانے کے بعد۔ پستہ چلغوزہ چند روز کھایا۔بعد ازاں خود بخودچھوٹ گیا۔ مجھے تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ بادام مع مصری پستہ و چلغوزہ سے زیادہ مفید ہے۔ بہر حال اگر پستہ و چلغوزہ کا التزام بھی ضروری ہے توکل سے پھر شروع کر دوں گا۔ پرندوںاور نر خرگوشوں کا مغز میں نے آج تک استعمال نہیں کیا میں نے اس سے پہلے آپ کی خدمت میں لکھا تھا کہ مغز خرگوش کا کھانا میرے لیے نا ممکنات سے ہے۔ علیٰ ہذا القیاس پرندوںکا مغز۔ مجھے مغز سے خواہ کسی بھی جانور کا ہو سخت کراہیت ہوتی ہے۔ بکر ے کا مغز پکا ہوا دیکھ لوں تو طبیعت متلا جاتی ہے۔ خرگوش کا روز ملنا بھی مشکل ہے۔ بکرے کا مغز تو شاید دل کڑا کر کے کھا بھی لُوں۔ خرگوش کا مغز یا چڑے کا مغز کھانا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کیجیے کہ ان کی جگہ کوئی اور دوا تجویز فرمائیں تو نہایت مہربانی ہوگی۔ دوا نہیں تو کوئی اور خوراک تجویز کر دیجئے‘‘۔ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’بادام ہر روز کھاتا ہوں۔ باقی رہا خرگوش کا دماغ سو اس کے لیے دریافت کروں گا کہ کوئی طریقہ ایسا نکلے جس سے کراہت نہ ہو۔مغز عصفور کا جوہر کس طرح تیار کرتے ہیں۔ اگر تیارہ شدہ ممکن ہو تو میں اس استعمال ضرور کرلوں گا۔ حکیم صاحب یا کسی ڈاکٹر سے دریافت کرکے مطلع کریں‘‘۔ حکیم نا بینا کی دواؤں سے آواز بہتر نہ ہوئی تو اقبال کی تشویش بڑھ گئی۔ حکیم صاحب سے اکسیر ایجاد کرنے کے طلب گار ہوئے اُدھر حکیم صاحب نے نر خرگوش اورمغز عصفور چڑیا کا بھیجہ (مغزBrain) کھانے کا نسخہ دیا۔ اقبال کی طبیعت میں ان چیزوں پر فکر کرنا بھی کراہیت کا باعث تھا۔ اُدھر دوسرے لوگوں نے مشک، چرس، خاص گوندوں سے بنی ہوئی لیپ کے علاوہ گلے کے دونوں طرف جونک لگانے کا مشورہ دیا۔ اقبال نے کہا کہ وہ حکیم صاحب کے مشورے کے بغیر کچھ نہیں کریں گے چنانچہ حکیم صاحب نے چرس وغیرہ کا استعمال سختی سے منع کردیا۔ ذیل کے مذکور اقبال کے خطوط ان مسائل کو مزید روشن کریں گے‘‘۔ ۱۶؍ جولائی ۱۹۳۴ء ایک اور خط میں سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اُمید ہے آپ نے میرے سب خطوط حکیم صاحب کو سُنا دیئے ہو ں گے۔ کل اتوار آپ کے خط کا انتظار تھا امید ہے آج ملے گا اور شاید دوا بھی ۔اگر حکیم صاحب نے کوئی اور دوا بدل دی ہے تودو ایک امور اور دریافت طلب ہیں حکیم صاحب سے معلوم کیجئے۔ (۱) مجھ کو بعض تجربہ کار لوگوں نے ہدایت دی ہے گلے کے دونوں طرف جونک لگوائی جائے۔ (۲ ) جراحوں کا ایک پُرانا خاندان لاہور میں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے پاس ایک لیپ ہے جو اس مریض کے گلے پر لگایا جاتا ہے۔ میں نے ان سب لیپ کے اجزا دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ چار قسم کے گوندوں سے بنا ہے جن کے اثر سے بلغم جل کر کافور ہو جاتی ہے۔ جراّح کا بھی یہی خیال ہے کہ آواز کی خرابی نزلے کی وجہ سے ہے۔وہ دعویٰ کرتا ہے کہ پانچ روز تک متواترلگانے سے آواز میں بہتر ترقی ہوگی بلکہ ممکن ہے کہ بالکل اچھی ہو جائے اور پھر کسی دوا لگانے یا کھانے کی ضرورت نہ رہے۔ غرضیکہ اس کو بہت دعویٰ اس پر ہے شہر کے لوگ جو ہمارے ہمدرد ہیں مجبور کر رہے ہیں۔ میں نے سب کو یہی جواب دیا ہے کہ حکیم صاحب کے مشورے کے بغیر کچھ نہ ہوگا‘‘۔ ۱۶؍اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ایک شخص نے مشک کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔ شاید موجودہ دوا میں یہ جزو پہلے سے ہی موجود ہے‘‘۔ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’ایک خط پہلے لکھ چکا ہوں ۔ اس کے جواب میں آپ کا کارڈ بھی مل گیا ہے۔ ایک شخص جو خود اس بیماری کا مریض رہ چکا ہے عراق میں اسے ایک ترک طبیب نے تمباکو میںچرس رکھ کر پلائی تھی اور اس کے ساتھ لپٹن کی چائے جس میں شکر کی جگہ گڑ ڈالا جائے۔اس نسخے سے اُسے فائدہ ہو گیا اور صرف تین چار روز کے عرصے میں اس کی آواز صاف ہو گئی۔ کہتا ہے کہ شرطیہ علاج کرتا ہوں۔ آپ حکیم صاحب سے اُس کا ذکر کریں کہ آیا چرس کا استعمال آواز کے لیے مفید ہے ۔چرس گولی کی صورت میں ہے اورگولی مکّی کے دانے سے بقدر نصف کے ہے۔ حکیم صاحب کی دوا کا استعمال جاری ہے۔ چونکہ آواز پر کوئی نمایاں اثر نہیں ہوتا اس واسطے طبیعت پریشان رہتی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ آواز کشا گولیوں کابھی اثر نہیں ہوا۔ سردہ کابل سے منگوایا تھا دوتین روز تک کھایا مگر آواز پر اس نے اچھا اثر نہیںکیا۔ اس واسطے میں نے پرسوںسے اس کا کھانا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ ۵؍ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب سے یہ بھی عرض کریں کہ کسی شخص نے کہا ہے کہ چاندی کا کشتہ جو لیموں میں تیار کیا جائے چالیس روز تک کھایا جائے تو آواز عودکر آئے گی‘‘۔ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء کوپروفیسر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ آیا سونے کے کشتہ کا استعمال میرے لیے مفید یا مضر ہے؟ حکیم صاحب کے ایک دوست جنھوں نے دیر تک ان کے ساتھ کام کیا ہے یعنی شاہزادہ غلام محمد خان کشتۂ طلا کا استعمال میرے لیے مفید بتاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کشتۂ یاقوت کا استعمال بھی وہ میرے لیے مفید بتاتے ہیں۔ میں نے اُن سے یہی کہا تھا کہ حکیم صاحب قبلہ کے مشورہ کے بغیر میں کوئی کشتہ استعمال نہیں کر سکتا‘‘۔ ج۔نقرس کا علاج (Gout) نقرس کے علاج کے سلسلے میں ہمیں صرف یہی معلوم ہے کہ علامہ نے بکری گائے کا گوشت کھانا کم یا بند کر دیا تھا اور زیادہ تر مرغ اور مچھلی وغیرہ استعمال کرتے تھے۔ مولانا گرامی کے نسخہ اور حکیم اجمل خاں دہلوی کا علاج بھی رہا۔ ایلوپیتھک دوائیں بھی استعمال کیں مگر فائدہ نہ ہوا۔ اقبال عموماََ انگوٹھے پر لیپ لگاتے تھے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ صہبا لکھنوی نے اقبال اور بھوپال میں جگہ جگہ اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اقبال تین بار بھوپال نقرس کے علاج کے لیے گئے اور ان کا نقرس کا علاج ڈاکٹر عبد الباسط نے کیا۔ کئی عبارتوں کے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے موصوف کو غلط فہمی ہوئی اقبال درد گلو اور آواز بیٹھ جانے کے سلسلے میں بجلی علاج کے لیے گئے چنانچہ بجلی کا علاج نقرس کے لیے نہیں تھا اور نہ ڈاکٹر عبد الباسط ریڈیلوجسٹ نے بجلی سے ان کے نقرس کا علاج کیا۔ یہ سچ ہے کہ اقبال کو نقرس کے خفیف دورے آخری عمر تک بھی پڑتے رہے لیکن اس کے علاج کا کوئی تعلق ان کے بھوپال جانے سے بھی نہیں تھا۔ ہم اقبال کے برقی علاج کے موضوع میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔ مولانا گرامی کو ۲۳ ؍ مارچ ۱۹۲۲ئکولکھتے ہیں۔۔۔ ’’میری حالت ابھی تک بدستور ہے چلنے پھرنے سے قاصر ہوں۔ انگریزی دواسے کوئی فائد ہ نہیں ہوا ۔ آج حکیم اجمل خاں صاحب کی دوا شروع کی ہے جوکل دہلی سے آئی تھی۔ آج پندرہ روز ہوگئے کہ مکان سے نیچے نہیں اتر سکا اور ابھی خدا جانے یہ قید کتنے روز باقی رہے‘‘۔ پھر ۲؍اپریل ۱۹۲۲ء کو مولانا گرامی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں ابھی تک علیل ہوں گو پہلے کی نسبت بہت افاقہ ہے ۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کامل صحت عطا فرمائے۔ حکیم اجمل خاںصاحب نے دہلی سے دوا بھیجی تھی مگر اس سے بھی بہت کم فائدہ ہوا۔ کل گورداس پور سے ایک حکیم صاحب خود بخود تشریف لے آئے تھے دوا دے گئے ہیں جس سے فائدہ معلوم ہوتا ہے…میں تو اپنے آپ کو اس درد کی وجہ سے رفتنی سمجھتا تھا مگر محض اس خیال سے تسکین تھی کہ پاؤں کا درد ہے۔ حرکت محال ہے رفتنی نہیں آمدنی ہوں‘‘۔ ۳۰؍جنوری ۱۹۳۶ء کو غلام رسول مہر کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’خیال تھا کہ گوٹGoutکی تکلیف جو مجھے گذشتہ رات ہوگئی تھی آج شام تک رفع ہو جائے گی میں نے اس کا علاج بھی کیا مگر اب گرگابی پہنی تو تکلیف بڑھ گئی‘‘۔ د۔نزلہ ، زکام اور کھانسی کا علاج(Common Cold) ۲۴؍مئی ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ ’’شربت صدر کی ایک شیشی جو آپ نے بھیجی تھی آپ کو معلوم ہوگا وہ میں نے اتفاقیہ پی تو اُس سے فائدہ محسوس ہوا۔ اس سے بلغم پک کر آسانی سے نکل جاتی ہے …اس بات کا بھی خیال رہے کہ مجھے گاہے گاہے درد نقرس بھی ہو جاتا ہے اس کی روک تھام بھی ہوتی رہے۔ انگوٹھے پر لگانے کی دوا بھی ہو تو اور بھی بہتر ہے‘‘۔ ۵؍ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے زکام ہو گیا تھا جو تین دن رہا۔ بہیدانہ اور بنفشہ شربت پینے سے بلغم پک گئی ہے‘‘۔ ھ۔قبض اور ریح کا علاج Constipation and Gas Trouble) ۱۶؍ جون ۱۹۳۴ء کو سید نیازی کو لکھتے ہیں۔۔ ’’قبض کی کسی قدر شکایت ہے پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔گلابی رنگ کی گولی حکیم صاحب نے ریح کے لیے دی تھی جو کھانے کے بعد کھائی جاتی ہے۔ اُس وقت میں نے شکایت کی تھی ریح جمع ہو کر تکلیف دیتی ہے۔ دو چار روز کے بعد استعمال سے ریح کی شکایت جو اس وقت تھی دور ہو گئی تھی اب وہ شکایت باقی نہیں۔ پھر وہ گلابی رنگ کی گولی کھانے کے بعد کھائی جائے یا اس کا استعمال اب چھوڑ دیا جائے؟ یہ تمام اُمور حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کردیجئے اور نیز یہ بھی عرض کیجئے کہ اگر کوئی اور دوا اِس سے زیادہ طاقتور ہو تو عطا فرمائیں کیونکہ یہاں کے تمام احباب منتظر ہیں کہ کب ڈاکٹروں کو شکست ہوتی ہے‘‘۔ ۱۶؍جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’رات کو دلیا مع دودھ کھاتا ہوں اگر ایسا نہ کروں تو قبض رفع نہیں ہوتی‘‘۔ ۱۱؍ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ ’’چند باتیں حکیم صاحب سے دریافت طلب ہیں۔ (۱) پہلے کسی قدر قبض تھی مگر پاخانہ کی حالت بہت اچھی تھی۔ اب مجھے پاخانہ تو کُھل کر آتا ہے لیکن نرم تر۔ شاید جو دوا رات کو کھائی جاتی ہے دست آور ہے۔ دن کے وقت انجیر بھی ملتان سے منگوا کر کھاتا ہوں وہ بھی قبض کشا ہوتی ہے۔ ہاں یہ کہنا بھول گیا کہ شام میں مرغ کے چوزہ کا شوربا پیتا ہوں۔ شاید نرم پاخانہ میں اس کا بھی دخل ہو‘‘۔ ۲۰؍مئی ۱۹۳۷ء کو شیخ اعجاز احمد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اس معجون کے استعمال کے چند روز بعد پیٹھ کا درد بھی عود کر آیا ۔ حالانکہ اس کے استعمال کے پہلے مطلق نہ تھا… ریح جو پیدا ہوتی ہے جب تک نہ نکلے کمر میں درد ہوتا ہے اور دونوں طرف کے گردوں پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے نکل جائے تو درد میں تخفیف ہوتی ہے‘‘۔ ۲۷؍ جون ۱۹۳۷ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’سفوف اور جواہر مہرہ کے استعمال کے متعلق جو ضروری ہدایات ہوں وہ بھی لکھ دیجئے ۔ کھانے پینے کے متعلق اگر کوئی ہدایت ہو تو وہ بھی فرما دیجئے‘‘۔ و۔ملیریا کا علاج اقبال کو شاید بچپن یا جوانی میں ملیریا ہوا ہوگا لیکن بعد میں سردی جاڑے کے بخار کی آمد جو صرف مختصر تھی اور بعض اوقات پیشاب کی جلن یا سرخ رنگ کے ساتھ تھی ان کے مثانہ یا گردے کے انفکشن سے مربوط ہو سکتی تھی۔ لیکن بہرحال اقبال نے کئی بار کونین کی گولیاں کھائیں جو ایلوپیتھک اور طبّی علاج ہے اُسے ہم نے یہاں پیش کیا ہے۔ یکم جون ۱۹۳۵ء سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے کبھی کبھی ملیریا بھی ہو جاتا ہے چند روزکونین کھاؤں تو رکا رہتا ہے چھوڑ دوں تو پھر ہو جاتا ہے ۔ گذشتہ ماہ میں دو تین دفعہ ایسا ہوا ہے‘‘۔ ز۔دانتوں کا علاج اقبال جب مسوڑے پھولتے تو آخر کار آپریشن سے کھولا دیتے۔ دانت جب خراب ہو جاتے تو اُسے اکھڑا دیتے لیکن وہ ہمیشہ مسواک استعمال کرتے اور خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ موتی منجن استعمال کرتے تھے۔ ۲۵؍مئی ۱۹۱۳ء مولوی صالح محمد ادیب تونسوی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’شام کو میں درد دنداں میں مبتلا ہو گیا اس واسطے مجبوراََ آج پاک پٹن کا سفر کرنے سے قاصر ہوںکہ دانت کو نکلوا دینے کا ارادہ ہے‘‘۔ ۷؍ جون ۱۹۳۱ئمولوی صالح محمد ادیب تونسوی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’چار روز کی سخت تکلیف کے بعد دونوں دانت جو دکھتے تھے ان کو اکھڑوا دیا گیا‘‘۔ ۲۱؍ جولائی ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میرا خیال ہے کہ جواہر مہرہ اور سفوف کی گولیوں سے پہلے ٹرائی کیا تو شاید بہتر نتائج نکلیں۔موتی منجن اور تیل کے لیے میں نے آپ کی خدمت میں لکھا تھا کہ دکاندار سے کہہ کر وی۔پی بھجوا دیجئے۔ وہ پارسل اب تک نہیں ملا‘‘۔ ح۔آنکھوں کا علاج اقبال کی بینائی بچپن سے کمزور تھی چشمہ کا استعمال کرتے۔انتقال سے ۲ سال قبل موتیا اُترنے لگا ۔ خط وکتابت سے معذور ہو گئے ۔ حکیم صاحب سے سرمہ استعمال کرتے رہے لیکن فائدہ نہ ہوا۔ ڈاکٹر متھرا داس جو ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے علّامہ کا موتیا کا آپریشن کرنے والے تھے لیکن زندگی نے اجازت نہ دی۔ ط۔اختلاج کا علاج ۲۲؍مارچ ۱۹۳۵ء کو محمد عباس علی خاں لمعہؔ کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’گولیوں کا استعمال جاری ہے اور لسّی بھی استعمال کرتا ہوں جس سے اختلاج میں ضرور افاقہ ہوتا ہے اس کے ساتھ آپ کی حسب خواہش آنولے کا مربّہ بھی استعمال کر رہا ہوں‘‘۔ ی۔درد گردہ کا علاج اقبال دردگردہ سے بہت پریشان رہے انھیں جوانی سے شدید درد گردہ(Renal Colic) کے دورے پڑتے تھے۔ ۱۹۲۸ء میں جب گردے کا دورہ شدید ہوا تو حکیم نابینا کی دوا روح الذہب سے علّامہ کو آرام ہوا۔ علّامہ نے اس معجزہ درمان سے متاثر ہو کر حکیم نابینا کے لیے اشعار لکھے۔جسے حکیم صاحب کے نبیرگان نے ایک کتابچہ میں اس تحریر کے ساتھ شائع کیا ۔ افتخار قوم و ملت علّامہ اقبال مرحوم کے بائیں گردے میں اس قدر بڑی پتھری تھی کہ ایکس ریز دیکھ کر ڈاکٹروںکاخیال تھا کہ گردہ اس کی ضخامت کی تاب نہ لا کر پھٹ جائے گا۔ اور آپریشن اس کے لیے محال بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو عرصے سے قلبی عارضہ تھا روح الذہب کے استعمال سے صرف ۲۴ گھنٹے میں پتھری بلا تکلیف ریزہ ریزہ ہو کر پیشاب سے خارج ہو گئی۔ علامہ موصوف نے مندرجہ ذیل اشعار لکھے تھے۔ ہے دو روحوں کا نشیمن قالب خاکی مرا اک سراپا شور و مستی اک سراپا تاب و تب ایک جو اللہ نے بخشی مجھے روز ازل دوسری ہے آپ کی بخشی ہوئی روح الذہب اس سے زیادہ اور کیا لکھوں میں اے لقماںملک رکھتا ہے بے تاب دونوںکو مرا حسن طلب خ خ خ ایلوپیتھک علاج ایلوپیتھک علاج کی سہولتوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ برائے تشخیص ب۔ برائے علاج خطوط اور حوالوں سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ علّامہ کے مرض کی تشخیص میں ایلوپیتھک طبّی آلات اور ایلوپیتھک طرزِ کار کو نمایاں حیثیث حاصل رہی ۔ 1 ۔ خون کے امتحان کو سلیق Syringe سے نکال کر معائنہ کیا گیا 2۔ ایکس ریز سے سینے کے متعدد فوٹو لیے گئے 3۔ استسکوپ کے ذریعہ قلب اور پھیپھڑوں کا معائنہ کیا گیا 4۔ بلڈ پریشر آلہ سے خون کا دباؤ معلوم کیا گیا 5۔ موتیا یا(Cataract)کی رسیدگی اور عمل کی تیاری کیلیے اسکوپ کا استعمال وغیرہ 6۔ برقی علاج کے ۳ کورس بھی ایلوپیتھک علاج کا جزو تھے 7۔ ایکسریز وغیرہ کا ویانا بھیجنا اورماہرین کی رائے بھی اسی ایلوپیتھک کا جزو تھے 8۔ جب علّامہ کے سینے کے ایکس ریز میں اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کوئیGrowth یا ٹیومر ہے تو اُس کے علاج کا بندوبست بھی اس زمانے میں ڈاکٹروں کے نزدیک ایکس ریز اکسپوژر یا ریڈیم بتایا تھا جو اُن دنوں یورپ میں میسر تھا۔ لیکن چونکہ تشخیص میں اختلاف ہوا اور پھر حکیم نابینا نے اس تشخیص کو غلط قرار دے کر اپنا طبّی علاج شروع کیا تو اس ایلوپیتھک علاج کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ذیل کے دو خطوں سے اس پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ ۵؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔ اس خط میں میں نے لکھا تھا کہ کرنل ڈک صاحب کے نزدیک دل کے اوپر کی طرف ایک نئی Growthپیدا ہو گئی ہے جس نے نرو(nerve)پر دباؤ ڈال رکھا ہے اور دباؤ کی وجہ سے آلۂ صوت کا بایاں تار بیکار ہو گیا ہے ۔ اس کا علاج ان کے نزدیک یا تو ریڈیم سے ہوگا یا ایکس ریز سے اور یہ دونو ں علاج یورپ میں ہی بہتر ہو سکتے ہیں۔ بہر حال ڈک صاحب اور دوسرے ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ یا تو فوراََ ویانا (آسٹریا) یا لندن جانا چاہئے تاکہ علاج مذکور سے اس Growthکا مزید نشونما رُک جائے یا کل ایکس ریز یا ریڈیم سے تحلیل ہو جائے۔ ان کے نزدیک اگر اس Growthکی طرف توجّہ نہ کی گئی تو زندگی خطرے میں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے یہ Growthبڑھ کر پھیپھڑوں پر بھی اپنا دباؤ ڈالے یا کسی اور طرح ان کے عمل پر موثر ہو۔ گروتھ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ایکس ریز کی تصویر لینے سے معلوم ہوئی۔ اس سے پہلے معلوم نہ تھی اور ڈاکٹر صاحبان ووکل کارڈ کے ضعف کے اصل سبب کے متعلق اندھیرے میں تھے۔ ممکن ہے اب تک وہ اندھیرے ہی میں ہوں اور اسGrowthکا بھی اس کے کوئی تعلق نہ ہو۔ چونکہ تصویر سے ایسا ہی معلوم ہوا ہے اوریہ لوگ تصویر پر ایمان رکھتے ہیں اس واسطے ان کے نزدیک اصلی علّت بیماری کی یہی ہے۔ معلوم نہیں آپ نے حکیم صاحب اور اپنے امریکن دوست سے اس Growthکا ذکر کیا یا نہیں کیا؟ ۸؍جون کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ آپ کا خط ابھی ملا ۔ تشویش صرف اس بات کی تھی کہ دل کے اُوپر کی طرف جو خالی ایریا ہوتا ہے وہاں ڈاکٹرایکس ریز کی تصویر دیکھ کر ایک Growthبتاتے ہیں جس کا بہتر علاج ان کے نزدیک ایکس ریز اکسپوژر یا ریڈیم ہے جو یورپ میں میسّر آئے گا۔ آج معلوم ہوا کہ بعد بحث مباحثہ خود ان میں اختلافِ رائے ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ خود حاضر ہو کر حکیم صاحب کی خدمت میں جملہ حالات عرض کردوں۔اس واسطے دو چار روز حکیم صاحب قبلہ کی دوا استعمال کرکے خود حاضر ہوں گا۔ میرا ارادہ صرف ایک روز آنے کا ہے۔ صبح وہاں پہنچوں گا اور اسی وقت حکیم صاحب سے مل لوں گا۔ شام کی گاڑی یا اس سے پہلے کسی گاڑی میں واپس آجاؤں گا۔ وہاں قیام کا ارادہ نہیں ہے۔ ہاں اگر حکیم صاحب فرمائیں کہ علاج کیلیے قیام ضروری ہے تو قیام کا بندوبست کرلوں گا۔ مجھے صرف تشویش اس Growthکی وجہ سے ہے باقی میری تمام صحت اس وقت تک خدا کے فضل سے اچھی ہے۔ صرف آواز اونچی نہیں نکل سکتی۔ اگر دہلی میں قیام ضروری ہوا تو اسٹیشن پر ہی چند گھنٹے قیام کروں گا۔ چلنے سے پہلے آپ کو خط لکھوں گا یا تار دے دوں گا۔ یہ سچ ہے کہ علّامہ کو طبّی دواؤں سے رغبت اور ایلوپیتھک دواؤں سے نفرت تھی اس کے باوجود وقتاََ فوقتاََ وہ ایلوپیتھک دوائیں بھی استعمال کرتے تھے۔ سید نذیر نیازی اقبال کے حضورمیں لکھتے ہیں۔۔۔ جب اقبال کو نیند کی شدت سے کمی محسوس ہوئی تو آپ کے فیملی ڈاکٹر جمعیت سنگھ نے نیند کی گولیاں (منوم گولیاں) تجویز کیں چنانچہ ایلوپیتھک دواؤں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ رات منوم دوا نے تو ایسا خراب اثر کیا کہ حضرت علّامہ پر غشی کی سی حالت طاری ہوگئی اور وہ بے خبری میں پلنگ سے فرش پر گر گئے۔ بعد میں علّامہ نے فرمایا میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ایلوپیتھک دوامیں استعمال نہیںکروں گا۔ ڈاکٹر عبد القیوم ملک کے بیان کے مطابق اقبال کی آخری رات ڈاکٹر جمعیت سنگھ نے Mersalylکا انجکشن لگانے کا فیصلہ کیا اور اس سے پہلے ’’المونیم کلورائیڈ ‘‘ دینا ضروری سمجھا تاکہ پیشاب کھل کر آ جائے چونکہ علّامہ کڑوی کسیلی دوا کے بہت خلاف تھے اس لیے اس کا ذائقہ گوارا بنانے کے لیے اس میں تھوڑا سا گلیسریزا (Ext.Glycerhiza Liquid)بھی ملا دیا لیکن اس کے باوجود جب دوا علّامہ کو پلائی گئی تو اس کا ذائقہ انھیں بہت ناگوار گزرا اور آپ نے برا سا منہ بنا کر فرمایا۔ ’’تم ڈاکٹروںکی دوائیں انتہائی بد ذائقہ ہوتی ہیں اور تم مریض کے مزاج کا قطعاََ خیال نہیں رکھتے۔‘‘ ذکراقبال میں عبد المجید سالک لکھتے ہیں کہ علّامہ کے انتقال سے کچھ وقت قبل ڈاکٹر عبد القیوم نے حسبِ ہدایت فروٹ سالٹ تیار کیا۔ حضرت علّامہ نے فرمایا ۔’’اتنا بڑا گلاس کیوں کر پیئوں گا؟ ‘‘اور پھر چپ چاپ سارا گلا س پی گئے۔ بجلی کا علاج(Ultraviolet Rays Treatment) علّامہ اقبال کے برقی علاج کے بارے میں کئی خطوط ، حوالوں ، رسالوں اورکتابوں میں لکھا جا چکا ہے۔ اس علاج کا سب سے مفصّل بیان صہبا لکھنوی کی شاہکار کتاب ’’اقبال اور بھوپال’’ میں ملتا ہے۔ علّامہ اقبال نے تین بار بجلی کے علاج کے سلسلے میں بھوپال میں قیام کیا۔ پہلی بار ۳۱؍جنوری ۱۹۳۵ء سے ۷؍ مار چ ۱۹۳۵ء تک، دوسری بار ۱۷؍ جولائی ۱۹۳۵ء سے ۲۸؍ اگست ۱۹۳۵ء تک اور تیسری بار ۲؍ مارچ ۱۹۳۶ء سے ۸؍ اپریل ۱۹۳۶ء تک۔ بھوپال کے ممتاز ہسپتال ’’پرنس آف ویلز ہسپتال‘‘ میں جس کا بعد میں ’’حمیدیہ ہسپتال‘‘ نام رکھا گیا علّامہ کا علاج کیا گیا۔ بھوپال کے قیام کے دوران جن ڈاکٹروں نے علّامہ کا طبّی معائنہ اور بجلی کا علاج کیا اُن میں ڈاکٹر عبد الباسط چیف ریڈیالوجسٹ، ڈاکٹر رحمٰن ، ڈاکٹربوس، ڈاکٹر حسن حمید کے علاوہ مشہور حکیم سید ضیاء الحسن اور حکیم سلطان محمود شامل تھے۔ لیکن بہرحال اس علاج کی سرپرستی ڈاکٹر عبد الباسط انصاری کے ہاتھ تھی۔ جب ڈاکٹر عبد الباسط انصاری اور خان بہادر ڈاکٹر رحمٰن کی تشخیصوں میں اختلاف ہوا تو اقبال کی میڈیکل ہسٹری اور سینے کے ایکس ریز کوویانا آسٹریا کے ماہرین کی ارائے (Consultation)کے لیے ڈاکٹر عبد الباسط کے بھانجے ڈاکٹر مظفر علی جو ویانا میں گوش و حلق و بینی کے متخّص تھے (ENT Specialist)بھیجا گیا تھا۔اقبال کا بھوپال میں تین بار علاج ہوا ور ہر بار8یا10(دس)دفعہ Ultraviolet Raysدئیے گئے۔ اقبال کا بجلی یا برقی علاج ان کے گلو کے درد اور خصوصاََ آواز کے بیٹھ جانے کے لیے ہوا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ صہبالکھنویؔ کویہ مغالطہ ہوا ہے کہ بھوپال میں اقبال کا نقرس کا علاج ہوا۔یہ سچ ہے ان کو تمام عمر خفیف اورکبھی کبھار شدید نقرس کا درد ہوتا تھا لیکن بھوپال کے بجلی کے علاج یاڈاکٹر عبد الباسط انصاری کے سینے کے ایکس ریز سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ صہبا لکھنوی ؔاقبال اور بھوپال کے صفحہ(88) پر لکھتے ہیں۔۔۔ ’’لیکن ۱۹۳۴ء میں نقرس کی شکایت نے شدت اختیار کر لی تو عرصہ تک آ پ نے دلّی کے مشہور طبیب حکیم نابینا عبد الوہاب انصاری کا علاج کیا اور اس علاج معالجہ کے سلسلے میں نذیر نیازی اقبال کی ہر ممکن خدمت کرتے رہے ۔خطوط کے ذریعہ اقبال اپنا حال نذیر نیازی کو دلّی لکھ بھیجتے وہ سارا حال حکیم نابینا کو جا جا کر سُناتے دوائیں حاصل کرتے اور ذریعہ پارسل لاہور روانہ کر دیتے…اسی سلسلے میں وہ اوائل ۱۹۳۵ء میں نواب بھوپال اور راس مسعود کی خواہش پر پھر بھوپال آئے اور بجلی کے ذریعہ نقرس کا علاج شروع کرایا۔ علاج کے سلسلے میں وہ تین بار بھوپال آئے‘‘۔ صہبا لکھنوی اقبال اور بھوپال کے صفحہ(193)پر لکھتے ہیں ۔۔۔’’بھوپال کے قیام اور نقرس کے علاج کے سلسلے میں اقبال کے خصوصی معالج کی حیثیث سے ڈاکٹر عبد الباسط کا نام سر فہرست ہے۔‘‘ اقبال اور بھوپالمیں کئی مقامات پر صہبا لکھنویؔ نے خطوط اور حوالوں کے ساتھ اقبال کے گلو درد اورآواز بیٹھ جانے کے علاج کا بھی ذکر کیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ صہبا لکھنوی ؔنے نقرس اور گلو درد کو ایک ہی مرض سمجھ کر گفتگو کی ہے چنانچہ اسی لیے ہم نے فوق ذکر گفتگو کرکے اس غلط فہمی کو دور کیا ہے۔ قصہ مختصر اقبال کا بجلی کا علاج کامیاب نہ ہوا ان کی آواز اُسی طرح بیٹھی رہی چنانچہ اقبال نے حکیم نابینا کو خط لکھ کر ان سے اس علاج کے لیے اکسیر طلب کی ۔اقبال نے حکیم صاحب کو بتایا کہ ڈاکٹروں کو آواز کی بابت مایوسی ہے اور مجھے آپ کی روحانیت پر بھروسہ ہے۔ آخری علالت کے ایّام میں اقبال آواز کی بہتری سے مایوس ہو چکے تھے۔ ذیل کے خطوط، اطرافیان کے بیانات اور مستند حوالوں سے بجلی کے علاج کے تمامتر گوشوں پر روشنی پڑتی ہے اس لیے ہم بغیر کسی تبصرہ کے یہاں پیش کر رہے ہیں۔ اقبال کا خیال آواز کے علاج کے لیے پہلے آسٹریا ویانا یا لندن جانے کا تھا لیکن بعد میں اس خیال کو ترک کرکے بھوپال گئے۔ ۱۱؍ مارچ ۱۹۳۴ء کو ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ کو لکھتے ہیں۔ ’’آپ کی حسبِ خواہش ضروربھوپال جا کر بجلی کے ذریعہ علاج کراؤں گا۔‘‘ ۶؍ اپریل ۱۹۳۴ء کو عباس علی خاں لمعہؔ کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’البتہ دو ڈھائی ماہ سےAcute Laryngitisکی شکایت ہے جس کی وجہ سے بولنے یا عام طور پر کلام کرنے میں تکلیف ہوتی ہے۔بہت علاج کیا مگر فائدہ نہیں ہوا۔ لندن انشاء اللہ اگلے سال جاؤں گا۔ اگر آواز نارمل نہ ہوئی تو ویاناجانے کا قصد ہے‘‘۔ ۱؍ دسمبر ۱۹۳۴ء کو ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’جناب کی گراں قدر رائے کا شکریہ۔ انشاء اللہ ضرور بھوپال جاؤںگا اور بجلی کے علاج سے بھی استفادہ حاصل کروں گا۔ میں نے صحت کی مجبوریوں کے باعث ولایت جانے کا قصد ترک کر دیا ہے‘‘۔ صہبا لکھنویؔ اقبال اور بھوپال میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اقبال اور راس مسعود کے تعلقات کی ابتدا ۱۹۲۹ء میں ریاست حیدرآباد میں ہوئی تھی جب راس مسعود ناظم تعلیمات تھے اور اقبال توسیعی لیکچروں کے سلسلے میں وہاں دوسری بار گئے تھے۔ یہ روابط آہستہ آہستہ دوستی اور محبت میں تبدیل ہوئے۔ پھر ۱۹۳۳ء میں اقبال راس مسعود اور علّامہ سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان کے سفر پر گئے جہاں یہ رشتے اور مستحکم ہو گئے۔ نومبر ۱۹۳۳ء میں بھوپال آنے کے بعد راس مسعود کو اقبال کی علالت کا علم ہو چکا تھا۔ دیگر نیاز مندوں کی طرح اُنہیں بھی اقبال کی مسلسل علالت سے پریشانی تھی۔حمیدیہ ہسپتال کے ماہر ڈاکٹروں سے مشورے کے بعد اُنھوں نے اقبال سے بھوپال آکر علاج کرانے پر اصرار کیا۔ نواب صاحب بھوپال بھی اقبال کی علالت سے فکر مند تھے ۔اور اُن کی خواہش بھی یہی تھی کہ اقبال بھوپال آکر اپنا علاج کرالیں۔ راس مسعود اور اقبال کے درمیان نومبر اور دسمبر ۱۹۳۴ء کے دوران مسلسل خط و کتابت رہی ۔ بالآخر اقبال نے بھوپال جانے کا قصد کر لیا۔ لیکن کوشش کے باوجود وہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۵ء سے پہلے بھوپال نہ پہنچ سکے۔‘‘ ۵؍جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کردیں کہ حالت میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ آواز بدستور ہے …میں یہاں سے اس ماہ کے آخر میں بھوپال جاؤں گا۔ آپ کو پہلے سے مطلع کردوں گا‘‘۔ ۲۶؍جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ ’’میں ۲۹؍ جنوری کی شام کو یہاں سے روانہ ہوکر ۳۰؍ کی صبح دہلی پہنچوں گا دہلی میں صرف ایک روز ٹھہر نے کا موقع ہوگا۔ مزید دوا کے لیے اسٹیشن پر گفتگو ہوگی پھر آپ اِسے بھوپال ارسال کردیں‘‘۔ اقبال بھوپال پہنچ کر مختلف احباب کو خطوں میں علاج کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ۵؍فروری ۱۹۳۵ء بنام سید نذیر نیازی۔۔۔۔ ’’طبّی معائنہ کل ختم ہوا۔ یہاں کے ڈاکٹر نہایت ہوشیار ہیں۔اور ہسپتال نہایت عمدہ ہے۔ طبّی معائنہ سے جو نہایت مکمل تھا حکیم صاحب کی بہت سی باتوں کی تائید ہوئی۔ بہرحال آج گیارہ بجے سےUltra Violet Raysکا غسل شروع ہوگا جو ابتدا میں صرف ۷ منٹ روزانہ ہوگا‘‘۔ ۶؍ فروری ۱۹۳۵ء کو ریاض منزل بھوپال سے راغب احسن کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ ’’بجلی یعنیUltra Violet Raysکے ذریعہ علاج کل سے شروع ہے۔ چند روز تک معلوم ہوگا کہ کس قدر فائدہ اس سے ہوتا ہے‘‘۔ ۹؍ فروری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’بجلی اورUltra violet Raysسے علاج شروع ہے ایک آدھ ہفتے کے بعد معلوم ہوگاکہ اس سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں؟ ڈاکٹر صاحبان یقین دلاتے ہیں کہ ضرور ہوگا‘‘۔ ۱۳؍ فروری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’بجلی کا علاج ابھی صرف چار دفعہ ہوا ہے کچھ خفیف سا فرق آواز میںہے مگر زیادہ وضاحت سے آٹھ دس دفعہ کے علاج کے بعد معلوم ہوگا‘‘۔ سر راس مسعود کے سکریٹری ممنون حسن خان کی زبانی اقبال کے پہلے اس سفر علاج کی جھلکیاں سنیئے۔ ’’مجھے یاد ہے سر راس مسعود بڑی بے چینی سے علّامہ کا انتظار کر رہے تھے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کا منتظر ہو۔ جب گاڑی آئی تو ایک صاحب افغانی ٹوپی ، شلوار اور پنجابی کوٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر اُترے۔ سر راس کی نظر اُن پر پڑی تو اس طرف تیزی سے آگے بڑھے اور ان کے منہ پر اس قدر بوسے لیے کہ لوگ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ جلد ہی سر راس مسعود میری طرف متوجہ ہوئے اور علامہ اقبال سے کہا ۔ اس لڑکے سے ملو یہ میرا سکریٹری ہے ۔ علّامہ کا قیام ریاض منزل میںہوا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر اقبال نے اپنی نظم’’ نگاہ‘‘ تخلیق کی تھی۔ رات کے کھانے کا انتظام سر راس مسعود نے خاص طور پر کیا تھا۔ علّامہ اقبال نے سر راس مسعود کے ساتھ ہی ڈائیننگ روم میں کھانا کھایا۔ کھانے کے درمیان ہی علّامہ اقبال نے کہا کہ میرا کھانا سادہ ہونا چاہئے اور میں ڈائیننگ روم میں کھانے کا عادی نہیں ہوں۔ کھانے کے بعد میںعلّامہ اقبال کا کمرہ دیکھنے گیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ بستر جو سر راس مسعود نے اپنے مہمان عزیز کے لیے بچھوایا تھا اُسے ان کے ملازم نے اٹھا دیا تھا اور اُس کی جگہ اقبال کامعمولی بستر لگا دیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ علّامہ اقبال کے بستر پر دو کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ایک مثنوی مولاناروم ؔاور دوسری دیوان غالبؔ ۔ ان کے پلنگ کے قریب ہی ایک پنجابی حقّہ رکھا ہوا تھا‘‘۔ ’’ریاض منزل‘‘ کے زمانۂ قیام کے ایک اور غیر معمولی واقعے کا تذکرہ سید نذیر نیازی کے مضمون بہ عنوان ’’ علّامہ اقبال کی آخری علالت ‘‘ میں ہمیں ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ بھوپال میں حضرت علّامہ کا قیام بالعموم سر راس مسعود مرحوم ہی کے یہاں رہتا تھا اور سر راس مسعود اُن کے آرام و آسائش کا اتنا خیال رکھتے کہ خود حضرت علّامہ کو بھی تعجب ہوتا۔ اُنھوں نے خود مجھ سے بیان فرمایا کہ ایک روز جب انھیں پیٹھ کے درد کا ہلکا سا دورہ ہوا توڈاکٹروں نے سر راس مسعود سے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اس درد کا اصلی سبب ضعفِ قلب ہے لہٰذا اُنھیں چاہیے کہ نقل و حرکت میں احتیاط رکھیں ۔ حضرت علّامہ کہتے ہیں : ’’ریاض منزل ‘‘ میں میرا قیام بالائی کمروں میں تھا۔ جب میں اوپر جاتا تو سید صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں ہاتھوں سے مجھے سہارا دیتے تاکہ زینہ چڑھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ایک آدھ روز تو خیر میں نے اپنے شفیق دوست کی پاسداری کے خیال سے کچھ نہ کہا لیکن تیسری مرتبہ جب پھر یہی صورت پیش آئی تو میں نے کہا۔ آپ اور لیڈی صاحبہ ناحق تکلیف کرتے ہیں۔ اسی دن یا شاید اگلے روز میں چھت پر ٹہل رہا تھا کہ سر راس مسعود دوڑے دوڑے میرے پاس آئے اور گھبرا کر کہنے لگے ۔ ڈاکٹرصاحب آپ کیا غضب کرتے ہیں ، آرام سے لیٹے رہیے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو اُنھوں نے بتلایا کہ ڈاکٹروں کے نزدیک میری بیماری کس قدر خطرناک ہے۔‘‘ برقی علاج کے سلسلے میں اقبال پہلی بار(37)دن بھوپال میں رہے۔ اس دوران انھوں نے ریاض منزل میں سات نظمیں لکھیں۔ ضرب کلیم میں موجود یہ نظمیں سلطانی، تصوف، وحی، مقصود، حکومت ، نگاہ اور اُمید اس علاج کی روداد کو تازہ کرتی رہیں گی۔ اس قیام کے دوران بھوپال کے نواب اقبال سے بہت متاثر ہوئے اور سر راس مسعود کو اُس گزارش پر پانچ سو روپیہ ماہوار کا وظیفہ مقرر کیا جس میں انھوں نے لکھا تھا ۔ ’’دورِ حاضر کے سب سے بڑے مسلم زندہ شاعر سر محمد اقبال کے نام نامی سے آپ ضرور واقف ہوں گے ان کا نہ صرف ہماری قوم کی ذہنی و فکری زندگی میں بلند ترین مقام ہے بلکہ مغربی دنیا آج انھیں ادب و فلسفہ ہر دو کے میدان میںمسلمانان ہند کی ثقافت کا عظیم نمائندہ تسلیم کرتی ہیں۔ بد قسمتی سے گزشتہ بارہ ماہ سے وہ حلق کے ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہیں اور اس کی کوئی امید باقی نہیں کہ وہ آئندہ کبھی اپنی بیرسٹری کی پریکٹس جاری کر سکیں گے جو ان کی معاش کا واحد وسیلہ تھی‘‘۔ چنانچہ بھوپال کے نواب کے پنشن کی اطلاع ملی تو یکم جون ۱۹۳۵ء کو سید نیازی کو لکھا۔ ’’نواب صاحب نے میری لائف پنشن پانچ سو روپیہ ماہوار کردی ہے۔خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے ۔ انھوں نے میرے ساتھ عین وقت پر سلوک کیا۔ اب اگر صحت اچھی رہی تو بقیہ ایام قرآن شریف پر نوٹ لکھنے میں صرف کردوں گا‘‘۔ اقبال کے اس پہلے برقی علاج سے آواز پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اقبال کم از کم تین مہینے بھوپال میں رہ کر بجلی کاعلاج کے کئی دورے کراوئیں لیکن لاہور میں ان کی بیوی سردار بیگم کی حالت تشویش ناک ہوتی جا رہی تھی اس لیے اقبال لاہور روانہ ہوئے چنانچہ واپس ہو کر ۱۹؍ مارچ ۱۹۳۵ء کو عرشی صاحب کو خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میری صحت عامّہ تو بہت بہترہوگئی ہے مگر آواز پر ابھی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ علاج برقی ایک سال تک جاری رہے گا۔ دو ماہ کے وقفے کے بعد پھر بھوپال جانا ہوگا‘‘۔ اُدھر ۹؍ مئی ۱۹۳۵ء کے خط میں سر راس مسعود نے لکھا۔۔۔ ’’مئی کے آخر تک یہاںآجاؤ اور اپنا علاج جاری رکھو‘‘۔ اقبال ۱۱؍جولائی ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میںدو چار روز تک بھوپال جاؤں گا اور قریباََ ڈیڑھ ماہ وہاں ٹھہروں گا‘‘۔ ۱۳؍ جولائی ۱۹۳۵ء کو نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں یہاں سے ۱۵؍ جولائی کی شام (فرنٹیر میل) بروز سوموار روانہ ہو کر ۱۶؍ کی صبح دہلی پہنچوں گا۔ وہاں تمام دن قیام رہے گاتاکہ جاویددہلی دیکھ سکے۔ آپ مجھ سے ریلوے اسٹیشن پر ملیں اور بھوپال کی گاڑی میں جو وہاںشام کو چلے گی میرے لیے دو سیٹ سکینڈ کلاس (لوئر برتھ) ریزور کروالیں‘‘۔ اقبال ۱۷؍جولائی ۱۹۳۵ء کو دوسری بار بھوپال پہنچے۔ اس بار ان کا قیام شاہی مہمان کی طرح شیش محل میں رہا ۔ دوسرے دن ہی اقبال کا معائنہ اور علاج شروع ہو گیا۔ اور چند ہی روز میں اقبال کی صحت ٹھیک ہونے لگی چنانچہ یکم اگست ۱۹۳۵ء کو سید نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’میری صحت ترقی کر رہی ہے ۔ الحمد للہ‘‘۔ ۵؍اگست ۱۹۳۵ء کو شجاع الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں بغرض علاج بھوپال میں مقیم ہوں اور اگست کے آخر تک یہاں رہوں گا میری صحت عامہ پہلے کی نسبت بہت اچھی ہے اور آوازمیں بھی کسی قدر فرق ہے۔ امید ہے کہ اس دفعہ کے علاج سے بہت فائدہ ہوگا‘‘۔ ۶؍ اگست ۹۳۵اء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں ۲۸ ؍ اگست تک اپنے علاج کا کورس ختم کرلوں گا‘‘۔ ۱۰؍ اگست ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’آواز میں بھی فرق ہے ۔ امید کہ اب کے علاج سے فائدہ ہوگا۔ میں غالباََ ۲۶ یا ۲۸ اگست کو یہاں سے روانہ ہوں گا۔ شاید ایک دفعہ اور بھوپال آنا پڑے‘‘۔ ۲۴؍ اگست ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں ۲۸؍ اگست کی شام کو یہاں سے روانہ ہو کر ۲۹؍ کی صبح آٹھ بجے دہلی پہنچوں گا۔ دن بھر ریلوے اسٹیشن پر قیام رہے گا۔رات کی گاڑی میں وہاں سے روانہ ہو کر ۳۰؍ کی صبح انشاء اللہ لاہور دہلی سے میرے لیے دو سیٹ سکینڈ کلاس لوئر برتھ ریزرو کرا چھوڑیں‘‘۔ بھوپال میں برقی علاج کے دوسرے دور نے اقبال کی صحت پر اچھا اثر ڈالا۔ یوں تو وہ علاج کے مسائل میں مصروف تھے لیکن شیش محل میں انھوںنے قرآن کریم پر نوٹس لکھنے کاکام بھی شروع کر دیا تھا۔ فکر اور استغراق میں ہمیشہ ڈوبے رہے۔ جب کبھی موقع ملتا اور طبیعت میں آمد کا نزول ہوتا تو شعر بھی کہتے۔ چنانچہ شیش محل کی پر سکون ماحول میں اقبال نے پانچ نظمیں لکھیں جو اب ضرب کلیم کی زینت ہیں۔ صبح، مومن، ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام، جمعیت اقوام شرق اور مسولینی وہ نظمیں ہیں جو اسی قیام کے دوران لکھی گئیں۔ یہی نہیں، بلکہ اقبال نے اس مختصر قیام کے دوران کئی مشاہیر احباب اور افراد سے خط و کتابت بھی کی اور اس طرح سیاست اور قومی مسائل میں پوری طرح شریک بھی رہے۔ بھوپال کے علاوہ دہلی کا لا ل قلعہ،قطب مینار اور نظام الدین اولیاء کے مزار کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے۔ اسی سفر کے دوران سروجنی نائیڈو سے بھی ملاقات رہی۔ اقبال برقی علاج کے دوسرے کورس سے لاہور واپس پہنچتے ہی شدید بیمار ہو گئے اور پھر عام بیماری آواز کی کیفیت، کھانسی، دمّہ اور بلغم وغیرہ کی شکایت بڑھنے لگی۔ تمام ستمبر اور اوائل اکتوبر بیماریوں کی نذر ہو گیا۔ چونکہ جشن حالیؔ پانی پت میں منایا جا رہا تھا اورا قبالؔ نے اس میں شرکت کا پہلے وعدہ کر لیا تھا اس لیے اِسی مضمحل کیفیت میں پانی پت پہنچے اور تقریب میں بھی شرکت کی لیکن خود آواز کی خرابی کی وجہ سے اشعار سُنا نہ سکے۔ جناب جمیل نقوی صاحب،صہبا لکھنوی ؔکو ایک خط میںجشن حالیؔکی رُدداد لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔ ’’سیدین صاحب نے اعلان کیا کہ علّامہ اقبال کی نظم ایک اور صاحب سنائیں گے کیوں کہ اُس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی آواز پر کسی عارضہ کا اثر تھا اور بہت آہستہ آہستہ بولتے تھے۔ نظم سنانے والے صاحب بڑے خوش الحان تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی گئی کہ نظم خوانی کے دوران ڈائس پر تشریف رکھنے کی زحمت گوارا کریں۔ پہلے ہی شعر پر داد کا شوربلند ہوا۔ مزاج ناقہ را مانند عرفیؔ نیک می دانم چوں محمل را گراںبینم حدی را تیز تر خوانم طواف مرقد حالی ؔسزاوار باب معنی را نواے او بجا نہا افگند شوری کہ من دانم خود نواب صاحب بھوپال جھک کر ڈاکٹر صاحب کو داد دیتے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس وقت کیا جذبات تھے ان کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ البتہ چہرہ پر سرخی دوڑ گئی تھی‘‘۔ خطوط اور حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال کی صحت پر پانی پت کے سفر کا برااثر پڑا۔ اقبال کے معالج ڈاکٹر عبد الباسط اور رفیق سر راس مسعود ان کو علاج کے سلسلے میں بھوپال بلوا رہے تھے پہلے تو انھوں نے بھوپال جانا ملتوی کر دیا۔ ۳؍ جنوری کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ایک ایرانی الاصل سید زادہ کی دوا نے بہت فائدہ کیا۔کیا عجب کہ آواز پھر عود کر آئے۔اس کا دعویٰ تو یہی ہے۔ اِسی واسطے میں نے چند روز کے لیے بھوپال جانا ملتوی کر دیا ہے‘‘۔ پھر ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۶ء کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں جنوری کے آخر یا مارچ کے پہلے ہفتہ میں بھوپال جانے کا قصد رکھتا ہوں‘‘۔ اقبال کے برقی علاج کا تیسرا اور آخری کورس ۲؍ مارچ اور ۸؍ اپریل ۱۹۳۶ء کے درمیان ہوا۔ ۳؍ مارچ سید نذیرنیازی کو اقبال لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں انشاء اللہ ۹؍ اپریل کی شام ساڑھے سات بجے لاہور پہنچ جاؤں گا‘‘۔ اس قیام کے دوران دن کا بیشتر حصّہ اقبال کا علاج کی نذر ہو جاتا تھا۔دوپہر اور شام کو شیش محل یاکسی دوست کے گھر پر دل چسپ موضوعات پر گفتگو رہتی۔ اسی قیام کے دوران اقبال نے ایک فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق کے نام سے لکھنی شروع کی جو لاہور جا کر تکمیل کی۔ اس مثنوی کی بابت ۲۹؍ جولائی ۱۹۳۶ء کو سر راس مسعود کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’۳؍ اپریل کی شب کو جب میں بھوپال میں تھا میں نے تمہارے دادا رحمتہ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا۔ مجھ سے فرمایا کہ اپنی علالت کے متعلق حضور رسالت مآبؐ کی خدمت میں عرض کر۔ میں اسی وقت بیدار ہو گیا اور کچھ شعر عرض داشت کے طور پر فارسی زبان میں لکھے۔ کل ساٹھ شعر ہوئے لاہور آ کر خیال ہوا کہ یہ چھوٹی سی نظم ہے اگر کسی زیادہ بڑی مثنوی کا آخری حصہ ہو جائے تو خوب ہو۔ الحمد للہ‘‘ ۔ علامہ اقبال کے چند اشعار جوان کی فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے ’’در حضوررسالتمآبؐ ‘‘ زیر عنوان نظم میں بیماری ، تندرستی اورتلخ دواؤں سے چھٹکارے کی دعا کرتے ہوئے لکھے گئے ، یہاں پیش کرتے ہیں۔ کار این بیمار نتوان بُرد پیش من چوں طفلاں نالم از دارویٔ خویش در نسازد با دوا ہا جان زار تلخ و بویش برمشامم ناگوار با پرستارانِ شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز (ترجمہ) یعنی بیماری سے چھٹکارا نہیں اور میں بچوں کی طرح کڑوی دواؤں سے گھبراتا ہوں۔ میں تاریکی پھیلانے والوں سے لڑ رہا ہوں کچھ اور تیل میرے چراغ میں ڈال دے۔اس تیسرے برقی علاج کے بعد بھی اقبال کی آواز ٹھیک نہ ہو سکی۔ عمل سرجری سے علاج(Surgical Procedures) الف= علّامہ اقبال کے کئی بار مسوڑے کے آپریشن ہوئے۔خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مسوڑہ پھول جاتا اور تکلیف شدید رہتی تو ڈنٹل سرجن سے مسوڑے کا آپریشن کرواتے۔ ب= ۱۹۲۸ء میںجب بائیں گردے میں پتھری کی تشخیص دی گئی توصرف عمل جراّحی یا آپریشن کے ذریعہ اس بڑی پتھری کو نکالنے کی رائے دی گئی تھی ۔ لیکن حکیم نا بینا کی دواؤں سے درد گردہ میں افاقہ ہوا اور آپریشن کی ضرورت لاحق نہ ہوئی۔ ج= ڈاکٹر متھرا داس آنکھ کے سرجن ستمبر ۱۹۳۸ء میں اقبال کی آنکھ کے موتیا(Cataract) کی سرجری کرنے والے تھے لیکن اس کی نوبت نہ آئی۔ د = علّامہ اقبال نے اپنے پاسپورٹ کے ورق پر شناختی علامت کے خانے میں Scar on Left foot لکھا ہے۔ بہت ممکن ہے یہScar بائیں پاؤں کے بڑے انگوٹھے پر نقرس کی گھٹلی tophus سے بنا ہو یا کوئی سرجری کے عمل کا نشانہ ہو۔ (ھو العلم)۔نیویارک امریکہ کے مشہور شاعر اورداخلی ڈاکٹر عبد الرحمان عبدؔ نے میرے سوال پر بتایا کہ اس بات کا امکان ہے کہ نقرس کی گھٹلی(tophus)کے جھڑ جانے کے بعد اُس مقام پرscar کا نشان ہمیشہ کے لیے رہ گیا ہو۔ خ خ خ تشخیص اور علاج کی کوتاہیاں طب نے قدم قدم پر لڑکھڑا کر اپنے قدموں پر چلنا سیکھا ہے۔ ہر کامیابی کے دامن مین درجنوں ناکامی کے تجربات نظر آتے ہیں اور انہی تجربات کی وجہ سے صحیح مطالب تک رسیدگی ہوئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ علّامہ کی تشخیص اور اُن کا علاج اُس زمان و مکان کے لحاظ سے عمدہ ترین کہا جا سکتا ہے لیکن اصول تنقید اور اصول ترقی کا یہ لازمہ ہے کہ تصویر کے دونوں رخوں کو دیکھا جائے۔ جہاں مثبت مسائل پر گفتگو ہوئی وہیں پر منفی مسائل پر بھی بات چیت ہونی چاہئے۔ ہم یہاںپر عادلانہ قضاوت کرکے یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ اگر یہ کوتاہیاں علاج کے راستے میں حائل نہ ہوتیں تو علّامہ کا علاج شاید کامیاب رہتا اور یہ چراغ جو بقول خود اقبال ع۔ با پرستارانِ شب دارم ستیز ظلمت اور اندھیرا پھیلانے والوں سے لڑ رہا تھا اور کچھ مدّت اپنی روشی سے فیض پہنچاتا۔ یہ سچ ہے کہ آج ستر(۷۰)سال گزرنے کے بعد جدید تحقیقات کی روشنی میں اُن سوالوں کے جواب دینا جو اُس زمانے میں معمّہ بنے ہوئے تھے بہت آسان ہے کیونکہ اُس زمانے کے حکیم اور ڈاکٹر ان حقیقتوں سے نا آشنا تھے اور بقول حافظؔ شیرازی ع۔ چوں نادیدن حقیقت در افسانہ زدند (ترجمہ) کیونکہ انھوں نے حقیقت نہیں دیکھی اِس لیے اِسے افسانہ سمجھا I۔ تمباکو نوشی، چربی اور خالص گھی کی غذائیں ، سونے چاندی، اور دوسری دھاتوں کے کشتوں کا استعمال، ورزش سے گریز پر کئی حکیموں اور ڈاکٹروں نے بعض اوقات دبے الفاظ میں منفی گفتگو ضرور کی لیکن ایسی کوئی مستند تحریر ہمیں نہیں ملی جس میں شدّت سے ان کے استعمال کو منع کیا گیا ہو اور دل پھیپھڑوں اور گلے کے مسئلہ سے اس کو ارتباط دے کر ترک کرانے کی کوشش کی گئی ہو جب کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بڑی شدت سے یہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح سے علّامہ کو نر خرگوش اور چڑیا کا بھیجہ ضرور کھلوایا جائے۔یا حکیم فقیر محمد صاحب نے علّامہ کو دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی ہر چیز کو کھانے سے منع کر دیا ۔یہ تو علّامہ نے بہت اچھا کیا کہ حکیم صاحب کے فرمان کو بالائے طاق رکھ کر جب دل چاہا لسّی ، دہی اور فالودہ سے دل کو سرد کیا۔ تمباکو نوشی، چربی کا استعمال، کشتوں کا مصرف اور ورزش سے گریز نے علّامہ کے بدن کو کمزور کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ دوسرے عوارض کا آسانی سے شکار ہو گئے۔حد یہ ہے کہ حکیموں اور ڈاکٹروں کی موجودگی میں ابھی دمّہ قلبی کا دورہ ختم بھی نہیں ہوا علی بخش نے تازہ تمباکو سے جلی چلم حقّہ پر رکھ کر حقّہ علّامہ کو پیش کر دیا۔ II۔ علّامہ کے آواز بیٹھ جانے کے علاج میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئیں۔ ا۔ ایسا لگتا ہے چڑیا کو مارنے کے لیے توپ استعمال کی گئی۔چنانچہ چڑیا تو اڑ گئی لیکن دیوار گر گئی۔ بھوپال میں تین برقی کورس جسے علّامہ نے اپنے خط میںultra violet raysکا غسل لکھا ہے غیر ضروری اگر نہیں تو ضروری بھی نہیں تھے۔ یہاں علّامہ کی زندگی اور موت کا سوال نہ تھا اس غیر کنٹرول ابتدائی برقی اکسپوژر کے کئی مضر اثرات ضرور ہوئے ہونگے۔ اگرچہ علاج کے بعد آواز ٹھیک نہ ہوئی لیکن علّامہ کا چہرہ زرد چہرے پر کبھی کبھار ورم، ضعف اور دمّہ قلبی کا اثر نمایاں اور زیادہ ہو گیا شاید اس علاج نے ہڈیوں پر اثر کر کے خون کوجلا دیا ہو اور علّامہ کم خونی (anemia) سے دوچار ہو گئے ہوں جس کا منفی اثر پھیپھڑوں اور قلب پر پڑا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کمزور پھیپھڑوں کو برقی علاج کی وجہ سے نقصان پہونچا ہو اور وہ سخت ہو کر پھیلنے اور سکڑنے کی کیفیت کو کھو چکے ہوں۔ اس علّت کوPulmonary Fibrosisکہتے ہیں جوRadiation کے مضر اثرات میں شامل ہے۔ گلے کے درد اور آواز کے بیٹھ جانے کے عارضہ کے علاج کے لیے اگر علّامہ کو لندن یا آسٹریا روانہ کیا جاتا تو وہاں ان کے ووکل کارڈ کا معائنہ ہوتا اور بہت ممکن ہے مقامی جراّحی سے مسئلہ حل ہو جاتا کیونکہ شاید ووکل کارڈ پر اُگے ہوئےpolypsکو نکالنے سے آلۂ صوت کے تار پھر اپنی کیفیت پر آجاتے اور آواز بحال ہو جاتی۔ III۔ بہتر ہوتا اگر طبّی (یونانی) اور ایلوپیتھک (انگریزی) دواؤں کو ایک وقت استعمال نہ کیا جاتا۔ جدید میڈیکل تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہdrug interactionاورdrug reaction یعنی دو قسم کی دواؤں کے تصادم سے بدن پر خراب اثرات ہوتے ہیں۔ حوالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علّامہ نے اِدھر ٹیکہ لگوایا انگریزی دوا کی گولی کھائی اُدھر چند منٹ بعدمعجون یا اکسیر کے ایک دو چمچہ نوش کئے۔ IV۔ جس زمانے میں علامہ مرض الموت سے صاحبِ فراش تھے اُسی زمانے میں لاہور میں جرمن کے دو عمدہ طبیب ڈاکٹر ژیلشر(Selzer)اور ڈاکٹر کیلاش مطب کر رہے تھے۔ ڈاکٹر ژیلشر نے صحیح تشخیص دی اور علاج کرنے کی خواہش کی لیکن انھیں صرف مشورہ دینے تک محدود رکھا اور ان کا علاج جوایلوپیتھک جدید علاج تھا نہیں کروایا گیا۔ کاش کہ انھیں علامہ کے علاج کرنے کا موقع فراہم ہوتا۔ V۔ ہمیں علّامہ کے خطوط، اطرافیان کے بیانات اورڈاکٹروں کی گفتگو سے یہ پتہ نہ چل سکا کہ علّامہ کے خون کے امتحان میں کبھی thyroid glandکے ہارمون کی آزمائش بھی کی گئی یا نہیں۔ ایک حالت جسےHypothyroidismکہتے ہیں اُس میں آواز کا بیٹھ جانا، سردی کا احساس زیادہ ہونا، نملی اورکمزور نبض کا ہونا، زرد چہرہ، چہرہ پر ورم، بھوک نہ لگنا اور قبض کی کیفیت رہنا شامل ہے۔ اور یہ تمام علامات علّامہ کو تھیں جو برقی علاج کے بعد بدتر ہوگئیں۔ یہ غدّہ Thyroidگردن میں آلہ صوت کے اوپر ہوتا ہے امکان یہ بھی ہے کہ hypothyroidismکی کیفیت برقی علاج کے مضر اثر سے شدت اختیار کر گئی ہو (واللہ العلم) بہرحال ؎ ہر آنکہ زاد بنا چار بایدش نوشید ز جام دہر مئے کُلُّ مَنْ عَلیھَا فان خ خ خ خوراک اور پرہیز علّامہ کا پاسپورٹ جو ۱۹۳۱ء میں یورپ جانے سے پہلے بنایا گیا تھا اُس کی فوٹو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علّامہ کا قد پانچ فٹ اور چھ انچ تھا۔ چونکہ علّامہ کے وزن کے خانہ کو خالی رکھا گیا تھا اس لیے اس مدرک سے ہمیں ان کا صحیح وزن معلوم نہ ہوسکا۔لیکن ان کی تصاویر اور اقبال کے اطرافیان کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا وزن قد کی نسبت سے متوازن تھا جو قریباََ65 اور75کیلوگرام ہونا چاہیے۔ علّامہ کے خدمت گزار علی بخش کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علّامہ نے جو کپڑوں کا ناپ جوانی کے زمانے میں درزی کو دیا تھا اُسی کو علی بخش اُن کی آخری عمر تک کپڑوں کی سلائی کے لیے استعمال کرکے کپڑے سلواتا رہا۔ روزگار فقیر میں فقیر وحید الدین لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بس ضرورت کے مطابق کپڑے سلواتے تھے، نہ فالتو جوڑے رکھتے اور نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے خریدنے کا بھی اُنہیں شوق نہ تھا۔ ہوتا یہ کہ جب کپڑے ختم ہو جاتے تو علی بخش سے ذکر فرمادیتے ۔ علی بخش ایک ان پڑھ اور پُرانی وضع کا سیدھا سادھا ملازم تھا۔ وہ اپنی پسند کا کپڑا بازار سے جا کر خریدتا۔ اور درزی کے سپرد کر آتا یا کبھی اُس درزی سے ہی کہہ دیا جاتا جس کے پاس اُن کے ناپ موجود تھے۔ درزی کپڑے تیار کر کے ڈاکٹر صاحب کو پہنچا دیتا۔ ڈاکٹر صاحب کسی کپڑے کی وضع قطع ، تراش اور سلائی پر کوئی اعتراض نہ کرتے۔ اور نہ کسی قسم کی تنقید فرماتے۔ علّامہ کی بھتیجی وسیمہ مبارک کہتی ہیں کہ اقبال آخری عمر میں تھوڑے سے نحیف اور لاغر ہو چکے تھے چنانچہ جب ان کے دوستوں اور رشتہ داروں نے یہ محسوس کیا کہ گردن کے پیچھے کا گوشت گھل چکا ہے تو اقبال سے کہا کہ شام کا کھانا جو کئی مہینوں سے بند ہو چکا تھا جاری کردیں۔ پس ہمیں ان حوالوں سے یہ معلوم ہوا کہ اقبال ایک متوسط قد و قامت کا بدن رکھتے تھے۔ یونانی علاج میں خوراک اور پرہیز کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اگرچہ ایلوپیتھک علاج میں بھی بعض بیماریوں میں خوراک اہمیت رکھتی ہے لیکن ہر بیماری میں اس طرف توجہ نہیں رہتی۔ بر صغیر کے ماحول میں غذا جو گھر پر تیار ہوتی ہے وہی ہمیشہ استعمال کی جاتی ہے اس کے برخلاف مغربی ماحول میں کم ازکم ہفتہ میں دو یا تین دن غذا ہوٹل یا ریسٹورنٹ سے خریدی جاتی ہے۔ اقبال کی غذا کیا تھی اور کن کن چیزوں کا پرہیز تھا اس کو جاننے کے لیے ہم نے خود اقبال کے خطوط اور اقبال کے اطرافیان کے بیانات جو انھوں نے اقبال کے گھر کے سب سے معتبر خدمت گزار علی بخش سے سُنے ہیں اس تحریر میں پیش کرتے ہیں۔ جن کے مطالعہ سے بڑی حد تک خوراک اور پرہیز کا حال معلوم ہوتا ہے۔ ۵؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ حکیم صاحب سے دریافت کرکے فوراََ مطلع کریں۔ میرا معمولی کھانا حسبِ ذیل ہے (۱) صبح مکھن توس اور ایک انڈانیم برشت یا نیم بائیل مع اچار (۲) گیارہ بجے دوپہر کھانا، گوشت سبزی اور کبھی کبھی پلاؤ۔ کبھی اس کے بعد آم بھی کھا تا ہوں (۳) چار بجے کے قریب بادام مقشر کی کھیر (۴) شام کو صرف نمکین چائے یا کھیر دلیا مع دودھ مکھن آم اور لیموں کے متعلق تو مجھے ہدایت مل گئی ہے۔ ان کے مطابق آئیندہ عمل کروں گا۔ یہ بھی معلوم کیجئے کہ کون سا پھل میں کھا سکتا ہوں۔ چائے اور انڈے کے استعمال کے متعلق ان کی ہدایت کیا ہے؟ ۶؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ پلاؤ کھچڑی اور خشکہ چاول کے متعلق حکیم صاحب سے مفصّل ہدایات حاصل کرکے مجھے مطلع کریں۔ رات کو روٹی کا استعمال میری طبیعت اور عادت کے خلاف ہے۔ اور چاول کے استعمال سے اندیشہ ہے کہ بلغم کی تولید نہ ہو۔ پھلوں میں سردہ کا اثر اچھا ثابت نہ ہوا۔ علیٰ ہذا القیاس انگور کا اثر بھی آواز پر اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ کیا پھلوں کی مائیت کی وجہ سے ہے۔ اس کے متعلق بھی مفصّل ہدایات حاصل کرکے مطلع کریں۔ ۱۲؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیار ی کو لکھتے ہیں۔۔۔ میں مع الخیر لاہور پہنچ گیا۔ سفر میںتو آواز کی حالت کچھ ایسی ہی رہی مگر لاہور پہنچ کر تمام دن (سوائے شام) آواز کی حالت بہ نسبت سابقہ بہتر ہے۔ حکیم صاحب سے مندرجہ ذیل امور دریافت کرکے مطلع فرمائیے: (۱) تربوز کھاؤںیا نہ کھاؤں (۲) دہی اور اُس کے رائتہ اور لسّی کے متعلق کیا ہدایت ہے؟ (۳) کسی سرد مقام مثلاََ مری، شملہ وغیرہ جانا اور وہاں قیام کرنے کے متعلق کیا ہدایت ہے؟ (۴) انھوں نے فرمایا تھا کہ شربت بنفشہ اور عناب صبح پیا جائے مگر صبح دوائی نہار کھانی پڑتی ہے۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد پھر ناشتہ کے ساتھ دوسری دوائی۔ شربت کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا۔ پھر شربت کس وقت پیا جائے؟ تیسرے پہر اگر بنفشہ یا عناب یا دیگر شربت جو آپ نے خریدے تھے پیئے جائیں تو کیا ہرج ہے؟ (۵) صبح جو دوائی کھائی جاتی ہے وہ پاخانہ کی فراغت کے بعد کھائی جائے یا پہلے بھی کھا سکتے ہیں؟ یہ سوال اس واسطے کیا ہے کہ بعض دفعہ پاخانہ دیر سے آتا ہے۔ (۶) خشکہ چاول کھانے کے متعلق کیا ہدایت ہے؟ (۷) دالوں میں کون سی دال کھائی جائے اور کس سے پرہیز کیا جائے؟ (۸) کشمیر کے مشہور گلاس کے متعلق کیا ہدایت ہے۔ اس میں کسی قدر ترشی ہوتی ہے۔ علی ہذا القیاس آلوچہ کے متعلق کیا حکم ہے؟ ۲۰؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ نیند بھی رات کو خوب آتی ہے۔ البتّہ آواز کے کھلنے کی رفتار کسی قدر سُست ہے۔ آج چلغوزہ کھایا ہے۔ تازہ انجیر کی تلاش جاری ہے۔ سردہ کا موسم ابھی شروع نہیں ہوا۔لیکن تُرشی کے لیے ترس گیا ہوں۔ لیموں کو تو میں ہاتھ لگاتا نہیں، کیونکہ حکیم صاحب نے منع فرمادیا ہے مگر کیا اور کسی قسم کا اچار بھی منع ہے؟ دہی کی اجازت حکیم صاحب نے دی تھی لیکن اس میں بھی ترشی ہے۔ اس واسطے ڈرتا ہوں۔ ایک روز دہی کا آرائتہ کھایا تھا مگر وہ دہی اس قدر میٹھا تھا کہ آرائتہ کا کوئی لطف نہ تھا۔ پودینہ اور اناردانہ کی چٹنی کے لیے کیا حکم ہے؟ بٹیر بھی مارکیٹ میں نہیں ملتے۔ چوزہ کا گوشت کھایا ہے مگر گرمی اس قدر ہے کہ بھوک نہیں لگتی۔ ۲۰؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔ فالودہ پینے کو کبھی کبھی دل چاہتا ہے مگر حکیم صاحب سے پوچھنا بھول گیا۔ آپ دریافت کرکے مطلع کریں۔ سردہ ابھی لاہور میں نہیں آیا ۔ کابل میں سردہ کا موسم تو اگست میں شروع ہوگا البتہ کوئٹہ کا سردہ شاید مل جائے میں نے وہاں لکھوایا ہے انجیر تازہ تلاش کرواؤں گا۔ حکیم صاحب کے نسخہ کی ایک مطبوعہ کاپی ارسال فرمائیں یعنی مطبوعہ کاغذ جس پر سبزی ترکاری وغیرہ کے استعمال کے متعلق ہدایات درج ہوں۔ ۲۷؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ یہ بھی دریافت کیجئے کہ شہد کھانے کی ممانعت تو نہیں ہے۔ دہی کھانے کی اجازت حکیم صاحب نے دی تھی مگر میں نے کھا کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کا اثر اچھا نہیں ہوتا۔ علیٰ ہذا القیاس فالودہ بھی کھایا۔ اسکااثر بھی گلے پر اچھا نہیں پڑا۔ بھنڈی ترئی کے متعلق حکیم صاحب کا کیا حکم ہے؟ قبض کی بھی کسی قدر شکایت رہتی ہے۔ اس دوا میں اس کا اہتمام ہو جائے تو خوب ہے۔ تازہ انجیر نہیں مل سکی۔ کابل و قندھار کی خشک انجیر مل سکے گی۔ اس کے متعلق بھی دریافت کیجئے۔ سردہ ابھی آنا شروع نہیں ہوا۔ ۱۲؍ نومبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ غذا میری آج کل حسبِ ذیل ہے: صبح اٹھتے ہی دوا کا استعمال آٹھ بجے کے قریب چائے مع اُبلے ہوئے انڈوں کے۔ قریباََ ۱۲ بجے یا ساڑھے گیارہ بجے کھانا جس میں روٹی اور سبزی میں پکا ہوا گوشت ہوتا ہے۔ کبھی شامی کباب بھی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد شہد خالص تین چار تولہ اور بادام۔ رات کو بہت کم کھاتا ہوں۔ یہ میری پرانی عادت ہے۔ بُھوک بھی کم ہوتی ہے۔ تاہم کبھی کبھی تھوڑا کھا لیتا ہوں۔ اورمُرغ کا شوربا بالالتزام پیتا ہوں خواہ کچھ کھاؤں یا نہ کھاؤں۔والسّلام خالد نذیر صوفی جو علّامہ کے بڑے بھائی عطا محمد کے نواسے تھے اپنی کتاب اقبال درون خانہمیں لکھتے ہیں۔ کھانے کے معاملے میں وہ سادہ مزاج ضرور تھے لیکن نفاست پسند تھے۔ جو کچھ کھانے کو مل جاتا بہ رضا و رغبت کھا لیتے، کبھی کسی چیز میں نقص نہ ڈالتے، البتہ اچھے کھانے کی تعریف ضرور کرتے۔ لیکن جو چیز آنکھوں کو بھلی معلوم نہ ہوتی اسے کھانے سے انکار کر دیتے۔ والدہ صاحبہ اس سلسلے میں ایک واقعہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک روز ہنڈیا بھوننے میں زیادہ سرخ ہو گئی جس کی وجہ سے سالن ذرا سیاہی مائل ہو گیا۔ چچا جان (علامہ صاحب)نے کھانے سے انکار کیا تو چچی جان (والدۂ جاوید) نے کہا کہ ’’مزے دار تو بہت ہے‘‘۔ چچا جان نے فرمایا: ’’جو چیز آنکھوں کو بھلی معلوم نہیں ہو رہی اس کے لذیذ ہونے کا کیا فائدہ؟‘‘ انھیں مغز یا کلیجی وغیرہ پکی ہوئی دیکھنی بھی گوارہ نہ ہوتی۔ ایک دفعہ بیماری کے دوران میں حکیم نابینا نے انھیں بکرے کا مغز بھون کر کھانے کا مشورہ دیا لیکن انھوں نے انکار کر دیا کہ کھانا تو ایک طرف ، مغز دیکھ کر ہی میری طبیعت متلانے لگتی ہے۔ ترش، چٹ پٹے اور مرغّن کھانے انھیں بہت مرغوب تھے۔ نمک مرچ تیز پسند کرتے تھے۔ کھانے کے بعد میٹھا ضرور کھاتے۔ عام طور پر والدۂ جاوید دودھ اور سویوں کی کھیر پکا کر رکھتیں جسے وہ بڑے شوق سے کھاتے۔ عید کے دن ہمیشہ سویوں پر دہی ڈال کر کھاتے اور فرماتے کہ یہ میری والدہ کی پسند ہے۔ہر قسم کا اچار انھیں بہت پسند تھا۔ خاص طور پر شلغم کا اچار بہت مرغوب تھا۔ فرمایا کرتے :’’ اچار شلغم ایک نعمت ہے‘‘۔ آم کا اچار جب ڈالا جاتا تو خاص طور پر ان کی ہدایت ہوتی کہ آم کی گھٹلی کے اندر کاگودا بھی اچار میں رہنے دیا جائے کیونکہ انہیں یہ بہت پسند تھا اور اچار کی پھانک کے ساتھ گودا بھی بڑی رغبت سے کھایا کرتے تھے۔ خشکہ ان کی طبیعت کو راس نہیں آتا تھا اس لیے عام طور پر روٹی ہی کھاتے۔ شب دیگ کے بہت شوقین تھے اورشب دیگ ہمیشہ خشکے کے ساتھ کھاتے تھے۔ میٹھی چیزیں انھیں بہت پسند تھیں۔ یہاں تک کہ دوا بھی میٹھی ہی پسند فرماتے۔ جب کبھی دوا کی ضرورت محسوس ہوتی، حکیم نابینا یا کسی دوسرے حکیم سے رجوع فرماتے تاکہ کسی میٹھی معجون یا خمیرۂ گاؤزبان ہی سے کام چل جائے۔ خمیرۂ گاؤزبان ان کی پسندیدہ دوا تھی۔ کڑوی کسیلی دوا پینا ان کے لیے انتہائی مشکل ہوتا۔ کسی دوسرے شخص کو خاموشی اور آرام سے کڑوی دوا پیتے دیکھ کر بہت حیران ہوا کرتے۔ آپ ریوڑیاں ، کشمش، اور اخروٹ کے مغز ملا کر بڑے شوق سے کھاتے۔ سیالکوٹ سے جو بھی لاہور جاتا، اُن کا یہ من بھاتا کھاجا ضرور ہمراہ لے کر جاتا۔ (ان دنوں سیالکوٹ کی ریوڑیاں بہت اچھی ہوتی تھیں۔ جب خود سیالکوٹ آتے تو روزانہ یہ کھاجا ضرور کھاتے)۔ آپ کھانا بڑی قلیل مقدار میں کھانے کے عادی تھے۔ صبح ہلکا سا ناشتہ ، دوپہر کے وقت کبھی تھوڑا سا پلاؤ یا ایک ڈیڑھ خمیری روٹی (انھوں نے کبھی پوری دو روٹیاں نہیں کھائیں)۔ اور رات کو مکمل فاقہ۔ البتہ رات کو نو دس بجے کے قریب دو خطائیاں اور نمکین کشمیری چائے (سبز چائے) کی ایک پیالی نوش فرماتے۔ دوپہر کے کھانے کے ہمراہ پانی بہت قلیل مقدار میں استعمال فرماتے، البتہ کبھی کھانے کے بعد چائے مل جاتی تو ایک پیالی پی لیا کرتے۔ گوشت سے رغبت زیادہ تھی لیکن ہر قسم کی سبزیاں بھی پسند کرتے تھے۔ پلاؤ اور شامی کباب ان کے پسندیدہ کھانے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ اسلامی کھانے ہیں۔ سیخ کباب بھی بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ ناناجان مرحوم نئی نئی قسم کے کھانے بہت پسند فرماتے تھے۔ والدہ مکرمہ بتاتی ہیں : ’’کہیں سے کوئی نئی ترکیب معلوم ہوتی تو چچی جان کو آکر بتاتے اور چچی جان اتنی ماہر تھیں کہ ان کی بتائی ہوئی نامکمل ترکیب ہی سے مطلوبہ کھانا تیار کر لیا کرتیں اور چچا جان بڑی رغبت سے کھاتے اور داد دیتے۔ ایک دفعہ آپ کہیں سے پلاؤ پکانے کی یہ ترکیب سن کر آئے کہ پلاؤ میں اگر ٹماٹروں کا پانی ڈال کر پکایا جائے تو بہت لذیذ ہوتا ہے۔ چچی جان سے ذکرکیا تو انھوں نے دوسرے ہی روز اس ترکیب کو آزما ڈالا۔ چچا جان نے تناول فرمایا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا : ’’یہ تو واقعی بے حد لذیذہے، اب جب بھی پلاؤ پکائیں تو یہی طریقہ استعمال کیا کریں۔ چنانچہ چچی جان ہمیشہ ہی ٹماٹر والا پلاؤ پکایا کرتیں۔‘‘ ان کی یہ ترکیب ایسی مشہور ہوئی کہ خاندان میں اس کا نام ہی ’’سردار چچی والا پلاؤ رکھ دیا گیا۔‘‘ جب انھیں درد گردہ کی شکایت ہوئی تو معالجین نے تشخیص کیا کہ رات کے فاقے کی بنا پر گردن پر سے چربی بالکل ختم ہو چکی ہے اس لیے رات کا کھانا فوراََ شروع کر دیا جائے۔ معالجین نے رات کے کھانے میں مرغِ مسلم تجویز کیا۔ چند روز تو آپ نے اس پر عمل کیا لیکن چونکہ عادت نہ تھی اس لیے ہاضمہ خراب رہنے لگا۔ چنانچہ مرغ دوپہر کے کھانے میں شامل کر دیا گیا اور رات کو تھوڑا سا دلیہ یا کھچڑی کھانے لگے۔ آم ان کی سب سے بڑی کمزوری تھے۔ خواہ بیمار ہوں، آم سے پرہیز ناممکن تھا۔ (نانا جان پرہیز کے بالکل قائل نہ تھے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ ’پرہیز کا میں قائل نہیں‘) گرمیوں میں تقریباََ روزانہ ہی اعلیٰ سے اعلیٰ اقسام کے آم منگوائے جاتے اور کام و دہن کو لطف اندوز کیا جاتا۔سہارن پور،الہٰ آباد، اور دلی وغیرہ سے ان کے نیاز مند دوست قسم قسم کے آم بھجواتے جنھیں وہ خود بھی بڑی رغبت سے کھاتے اور احباب کو بھی کھلاتے۔ وہ آم کی تعریف بڑے نرالے انداز میں کیا کرتے تھے، ان کافرمانا تھا کہ ’’قدرت نے میووں کو ترقی دے کر انگور بنائے اور انگوروں میں جو کمی رہ گئی تھی وہ آموں کی تخلیق میںپوری کر دی۔‘‘ اقبال ۲۷؍جون ۱۹۱۷ء کو نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’واقعی آم درد گردہ کے مریض کے لیے اچھا ہے اور مجھ کو بھی اس سے محبت ہے۔ گزشتہ سال مولانا اکبرؔ نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا میں نے پارسل کی رسید اس طرح لکھی۔ اثر یہ ترے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبرؔ الہٰ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا ۲۳؍ مارچ کو محمد عباس علی خاں لمعہؔ کو لکھتے ہیں۔۔۔ گوشت تو میں نے ترک کر دیا ہے۔ البتہ مرغ اورمچھلی استعمال میں ہے اور میں صرف ایک دفعہ دوپہر میں جو کچھ کھا لیتا ہوں کھا لیتا ہوںاور شب میں فاقہ اس طریق عمل سے مزاج صاف رہتا ہے۔ اقبال درون خانہمیں پرہیز کے بارے میں خالد نظیر صوفی لکھتے ہیں۔ پرہیز کے معاملے میں وہ ہمیشہ سے کمزور تھے ۔ اُس کے علاوہ دوا ہو یا غذا ایک خاص معیارِ نفاست مدِ نظر تھا۔ مثلاََ حکیم صاحب نے کہا کہ مغزِ عصفور یا مغزِخرگوش مفید رہے گا۔ لیکن علامہ نے کہا ’’معاذ اللہ ! مغز تو ایک طرف رہا، مجھے تو دل، کلیجی ، گردے وغیرہ بھی کھانے سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔‘‘ غرض مغز کسی صورت میں استعمال ہی نہیںکیا۔ روزگارفقیر میں فقیر وحید الدین اقبال کی خوراک پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔ عنفوان شباب کے بعد ڈاکٹر صاحب کو عمدہ قسم کے کھانوں اور زبان کے چٹخاروں سے کئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ علی بخش ان کا پرانا خادم جو ابھی بقید حیات ہے ان کے لیے ایک سالن اور دو پُھلکے پکا دیتا۔ وہ عام طور پر دوپہر کوکھانا کھاتے ، رات کا کھانا ناغہ کر دیتے لیکن جس دن اتفاق سے دوپہر کا کھانا نہ کھاتے ،اُس دن رات کاکھانا تناول فرماتے۔ اُن کا دن رات میں ایک بار کھانے کا معمول ایک دو سال نہیں کم و بیش ۲۰۔۲۵ سال قائم رہا۔ جب تک اندرون بھاٹی گیٹ اُن کا قیام رہا ، رات کو عموماََ دودھ پی لیا کرتے تھے۔ بعدمیں یہ معمول بھی منقطع ہوگیا۔ انگور،آم اور خربوزے بڑے شوق سے کھاتے جب حکیم نابینا نے گلے کی تکلیف میں سردہ ان کیلیے تجویز کیا تو حکومت افغانستان کی جانب سے انہیں سردے بھیجے جاتے ۔ اکبر الہٰ آبادیؔ انہیں آم بھیجتے لیکن ان مرغوب پھلوں کے لیے خود کوئی اہتمام نہ کیا جا تا تھا۔ اقبال کے خطوط اور مستند حوالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ: (۱) کھانے میں نفاست پسند لیکن سادہ خوراک تھے۔ ان کی غذا ہمیشہ قلیل مقدار ہوتی۔ (۲) غذا کی خوش مزگی کے ساتھ خوش رنگی پر زیادہ دھیان دیتے تھے۔ (۳) نمک مرچ تیز پسند کرتے۔ ترش چٹ پٹے اورمرغّن کھانے انہیں مرغوب تھے۔ آم اور شلغم کے اچار کے عاشق تھے۔ (۴) چاول کی نسبت روٹی زیادہ کھاتے۔شب دیگ کے شوقین تھے۔ (۵) کھانے کے بعد میٹھا ضرور کھاتے۔ (۶) گوشت سے رغبت زیادہ تھی لیکن بعدمیں نقرس کے علاج کے طور پر مچھلی اورمرغ کو گوشت پر ترجیح دیتے تھے۔ (۷) آم کے بہت شوقین تھے۔ انگور بھی ان کا پسندیدہ میوہ تھا۔ (۸) شامی کباب، ٹماٹر پلاؤ، مرغ کا شوربا، اور سبز چائے انھیں بہت پسند تھی۔ (۹) کھچڑی کے ساتھ اصلی گھی، اور سیخ کباب کھاتے اور کہتے یہ اسلامی کھانے ہیں۔ (۱۰) ہاضمہ خراب تھا اس لیے ہمیشہ سوڈے کی بوتلیں ساتھ رکھتے۔ (۱۱) دودھ، سویّاں، اور دہی کا استعمال ہمیشہ کرتے۔ (۱۲) لسّی، فالودہ، دہی اگرچہ حکیم صاحب نے آخری عمر میںآواز بیٹھ جانے کی وجہ سے بند کروادیا تھا لیکن بد پرہیزی کرتے اور پھر حکیم صاحب کو اطلاع بھی دے دیتے تھے۔ (۱۳) حکیم فقیر محمد نے تاکید کی تھی کہ دودھ اور اس سے بنی ہر شئے سے پرہیز کریں لیکن وہ توجّہ نہیں کرتے تھے۔ حکایات : ۱۔ علامہ اقبال نے دوران گفتگو اپنے دوستوں سے کہا جس طرح کا کھانا راجہ محمود آباد نے کانفرس کے شرکت کرنے والوں کو دیا اُس طرح کاکھانا میں نے عمر بھر نہیں کھایا۔ ۲۔ آم کے شوق کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال زندہ رود میں لکھتے ہیں۔ ’’جب وہ گرمیوں کے موسم میں دریائے راوی کے کنارے میاں نظام الدین کے آموں کے باغات میں راقم کو ساتھ لے کر جاتے۔ ایک بڑے حوض کے قریب محفل جمتی۔ نل کے ٹھنڈے پانی سے بھرے ہوئے حوض میں صبح ہی سے ڈھیروں چوسنے والے آم ڈال دیے جاتے۔ اقبال کی پسندیدہ قسم پیٹو آم تھا جس کا نام انھوں نے خود ہی رکھاتھا۔ راقم کپڑے اتار کر حوض میں اُتر جاتا اور ڈبکی لگا کر آم نکالتا ۔ خود بھی کھاتا اور انھیں بھی پیش کرتا۔ خ خ خ دواؤں کے نام کہتے ہیں بڑے آدمی کی چھوٹی بات بھی بڑی ہوتی ہے۔ جیسا کہ مختلف خطوں میں خود علّامہ نے لکھا کہ لوگ میری بیماری میں اس لیے دل چسپی لے رہے ہیں تاکہ دیکھیں ڈاکٹروںکوکب شکست ہوتی ہے یعنی ایلوپیتھک (انگریزی دواؤں) کو طبّی (یونانی دواؤں) سے کب شکست ہوتی ہے۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں ۔ ’’ڈاکٹر بغلیں بجا رہے ہیں کہ آواز ٹھیک نہ ہوگی مجھے حکیم صاحب پر بھروسہ ہے۔‘‘ کسی مقام پر کہتے ہیں اسلامی طب صدہا سالوں کا تجربہ ہے ایلویتھک دوائیں کیا ہیںآج ایجاد ہوئیں اور کل متروک ہو گئیں۔ جب ۱۹۲۸ء میں علّامہ کے گردہ درد کا دورہ شدید ہوا اور حکیم نابینا کی دوا روح الذہب سے فائدہ ہوا تو علّامہ نے حکیم نا بینا اور ان کی دوا روح الذہب کی تعریف میں یہ اشعار لکھے۔ ہے دو روحوں کا نشیمن قالب خاکی مرا اک سراپا شور و مستی اک سراپا تاب و تب ایک جو اللہ نے بخشی مجھے روز ازل دوسری ہے آپ کی بخشی ہوئی روح الذہب اس سے زیادہ اور کیا لکھوں میں اے لقماں ملک رکھتا ہے بے تاب دونوں کو مرا حسن طلب علّامہ نے جو روح الذہب استعمال کی اور اپنے خطوط میں اس کا اشارہ کیا اُس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے انتقال کے بعد بھی لوگ جوق در جوق اس کا استعمال کرنے لگے۔ نیویارک کے ممتاز طبیب اور شاعر ڈاکٹر عبد الرحمان عبدؔجو علّامہ اقبال سے والہانہ محبت کرتے ہیں مجھے ایک کتابچہ کی فوٹو کاپی روانہ کی جسے انھوں نے حکیم نابینا کے نبیرہ ڈاکٹر انصاری صاحب سے حاصل کی جن کے ہم مشکور ہیں جس میں روح الذہب کے معجزہ نما خواص پر گفتگو کی گئی ہے کہ یہ نسخہ پانچ ہزار سال قدیم ہے جس میں سونے کو بطور دوا استعمال کیا گیا ہے۔اس کتابچہ کے صفحات (30)اور(31)پر مزید لکھا ہے کہ ۔۔۔افتخار قوم و ملّت علّامہ اقبال مرحوم اعلی اللہ مقامہُ کے بائیں گردے میں اس قدر بڑی پتھری تھی کہ ایکس ریز دیکھ کر ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ گردہ اس کی ضخامت کی تاب نہ لاکر پھٹ جائے گا اور آپریشن اس کے لیے محال بتلایا گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو عرصے سے قلبی عارضہ تھا۔ روح الذہب کے استعمال سے صرف (۲۴) گھنٹے میں پتھری بلا تکلیف ریزہ ریزہ ہو کر پیشاب سے خارج ہو گئی۔ راقم نے درد گردہ Renal Colicکے بیان میں اس پر گفتگو کی ہے۔اس قسم کے معجزات کو جدید طب قبول نہیں کرتی۔ علّامہ اقبال کے خطوں اور مستند حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ کئی دوائیں اقبال نے استعمال کیں لیکن ان میں چند نام جو محفوظ رہے وہ یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ طبّی دوائیں: ۱۔ روح الذہب ۲۔ حُب تقویت صلب ۳۔ روح الذہب جدید ۴۔ گاؤزبان عنبری ۵۔ دو المسک ۶ ۔ گل قند ۷۔ جواہر مہرہ ۸۔ لیپ جو چار گوندوں سے بنایا جاتا ہے ۹۔ سرمہ ۱۰۔ روغن گُل ۱۱۔ موتی منجن ۱۲۔ روغن اوجاع ۱۳۔ اکسیر آئیل ۱۴۔ لنٹ کی پٹی جو محلول میں ڈبو کر لگائی جاتی تھی۔ ۱۵۔ بہیدانہ شربت ۱۶۔ شربت عناب ۱۷۔ شربت بنفشہ ۱۸۔ Embrocation Ointment ایلوپیتھک دوائیں: ۱۔ نیند کی گولیاں ۲۔ فروٹ سالٹ ۳۔ Mersyles کا انجکشن ۴۔ امونیم کلورائیڈ ۵۔ گلیسرین خ خ خ کیااقبال نے بیس(20)سال عمر کم پائی؟ یہ سچ ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ ہے انسان اپنی تقدیر کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور ایک عمر معیّن ساتھ لاتا ہے چنانچہ جب مرگ معیّن کا وقت آجاتا ہے تو کوئی اِسے ٹال نہیں سکتا۔ میر انیسؔ نے کیا خوب کہا ہے ! جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا جب سرورِؐ عالم نہ رہے کون رہے گا اس حقیقت کے اقرار کے ساتھ یہ بھی پوری طرح سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ طویل عمر کی نعمت بڑی حد تک موروثی ہوتی ہے۔ قدیم زمانے کے لوگ خصوصاََ عربی قبائل اس راز سے واقف تھے چنانچہ رشتہ کرتے وقت شجاعت اور طول عمر کو پیش نظر رکھتے تھے۔ تاریخ اور ادب میںاس کے کئی اشارے ملتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کا ایک بڑا شعبہ آج کل Genetic اسٹڈی میں مصروف ہےGenetic Treeکی جو اہمیت آج ہے ایسی کبھی بھی نہ تھی آج کل اس ٹیکنالوجی کی بدولت نہ صرف کئی سرطان، بیماریوں اور بدنی توانیوں کا پتہ چلتا ہے بلکہ اس سے عمر کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے چنانچہ اگر کوئی شخص حادثات اور مہلک بیماریوں سے نجات پائے تو اُس کی طبعیٔ عمر عموماََ پانچ دس سال کم و زیادہ اس کے والدین یا بھائیوں بہنوں سے ہوگی بشرطیکہ وہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدّ نظر رکھے اور اپنے جسم کو خطرہ میں نہ ڈالے۔ یہاں یہ بھی تذکرہ ضروری ہے کہ موروثی طولانی عمر میں عموماََ مہلک اور وبائی بیماریوں سے محفوظ رہنے کی طاقت یا immunityبھی رہتی ہے۔ ہم نے اس کتاب میں یہ بتایا ہے کہ علّامہ اقبال کمزور پھیپھڑوں کو رکھتے ہوئے بھی ۱۹۱۸ء کے جان لیوا انفلیونزا جس سے کڑوڑوں افراد جا ں بحق ہوئے، محفوظ رہے۔ یہی نہیں بلکہCholeraہیضہ، چیچک اور طاعون سے بھی امان میں رہے۔ شاید ان کے تمام خاندان میں یہ Immunity عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوگی۔ علّامہ اقبال نے اس زمانے کے لحاظ سے اچھی عمر پائی چنانچہ اُس دور میں جو جنگ جہانی دوّم کے اوائل کا دور ہے عام بر صغیر کے شخص کی طبعی عمر تقریباََ(55)سال تھی لیکن آج اوسط طبعی عمر(70)سال کے لگ بھگ ہے کیونکہ بہت سی بیماریوں کے دوائی موثر علاج اور جراّحی کے اعلیٰ آلات کے ساتھ کمپیوٹر اور لیزر(Laser) کے استعمال نے موت کو پیچھے ڈھکیل دیا ہے اور اب اگر کوئی شخص طولانی عمر کے عمدہ Genes رکھتا ہو تو وہ آسانی کے ساتھ سو برس جی سکتا ہے۔ اقبال کے خاندان کے افراد کی عمریں دیکھنے سے یہ معلوم ہتا ہے کہ اقبال کے والد نے (93) سال، والدہ نے (75) سال ، بھائی ، بہن، بیٹے سب نے اسّی(80)سال سے زیادہ اور اب بقید حیات فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال(83)سال اور بیٹی منیرہ بیگم(77)سال سے اوپر بفضل خدامتعال صحت و تندرستی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جو آسانی کے ساتھ اچھے عمدہ Genes ہونے کی وجہ سے انشاء اللہ سو سال سے زیادہ زندہ رھ سکتے ہیں۔ آمین۔ اقبال کی نسبتاََ کم عمری کی وجہ بچپن سے کمزور طبیعت، تساہل پسندی جس میں کوئی ورزش نہ تھی۔ فکری اور Stressful اعصاب فشاردہ زندگی، تمباکو نوشی، بد پرہیزی، کشتوں کا استعمال، Ultra Violet Raysکا بے وجہ استعمال ، نقرس کی دوائیں، گردے، دل، اور پھیپھڑوں کی بیماریاں اور ان کا شدید یونانی علاج جس میں drug effect کے مضر اثرات شامل ہو سکتے ہیں۔ ان تمام مسائل کو لکھنے کے بعدیہی کہنا صحیح ہے (ھو العالم) ع۔ سامان سو برس کا ہے کل کی خبر نہیں اور شاید اسی مختصر اورکار آمد عمر پر اقبال راضی بھی تھے اِسی لیے تو ۳۰؍ دسمبر ۱۹۱۵ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کولکھتے ہیں۔۔۔اس واسطے یہ فیصلہ کر بیٹھا ہوں چلو اگر مقررہ وقت سے کچھ عرصے پہلے رخصت ہوگئے تو کیا مضائقہ ہے؟ میرے دوست ڈاکٹر ہمیشہ کہتے ہیں کہ ورزش وغیرہ سے عمر میں اضافہ ہوگا میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ دس سال پہلے کیا اور پیچھے کیا آخر رخصت ہوناہے … علامہ اقبال کے خاندان کے افراد کی عمریں رشتہ نام ولادت وفات عمر شیخ محمد اقبال 1877 1938 61سال کچھ مہینے والد شیخ نور محمد 1837 1930 93 سال والدہ امام بی بی 1840 تخمیناََ 1914 75 سال بڑے بھائی شیخ عطا محمد 1859 1940 81 سال بڑی بہن طالع بی بی 1870 1902 32 سال کی عمر میں وبا کا شکار ہوکر مر گئی بڑی بہن فاطمہ بی بی نا معلوم نا معلوم نا معلوم چھوٹی بہن کریم بی بی 1878 1958 80 سال چھوٹی بہن زینب بی بی نا معلوم نا معلوم نا معلوم بڑی بیٹی معراج بانو 1895 1914 19 سال کی عمر میں ٹی بی سے مر گئی بڑا بیٹا آفتاب اقبال 1898 1979 81 سال چھوٹا بیٹا جاوید اقبال 1924 حیات 83 سال چھوٹی بیٹی منیرہ بیگم 1930 حیات 77 سال خ خ خ وبای جہانی سے نجات یہ بھی خدا کا فضل تھا کہ ۱۹۱۸ء کے جان لیوا انفلوئنزا وبا (Pandemic Influenza 1918) جس میں کئی ملین افراد مر گئے ۔ علامہ اقبال ضعیف پھیپھڑوں اور Chronic Bronchitis کے مرض میں مبتلا رہتے ہوئے بھی اس مہلک بیماری سے مصنون immune رہے۔ چنانچہ ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۱۸ء کا خط اکبر الہٰ آبادی کے نام اور ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۱۸ء کا خط محمد نیاز الدین خان کے نام اس جان لیوا بیماری کے لاہور پر اثرات کی مستند دستاویزیں ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی کو لکھتے ہیں۔۔۔’’ لاہورمیں وبائے انفلوئنزا کی بہت شدّ ت ہے۔ یہاں تک کہ گورکن میسّر نہیں آتے۔ دوا سے بھی اس مرض کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ اوّل تو معلوم ہی نہیں کہ اس کا علاج کیا ہے؟ دوسرا دواموجود نہیں اور ڈاکٹر خود اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ پنجاب میں اس وقت اس کا حملہ نہایت شدید ہے۔ لاہور میں قریباََ ڈھائی سواموات روزانہ ہیں اور ابھی کمی کے کوئی آثار نہیں۔ امرت سر میں بھی یہی کیفیت ہے۔ امید کہ الہٰ آباد میں خیریت ہوگی۔ مسلمانوں پر خصوصیت سے زیادہ نظر عنایت ہے۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمائے‘‘۔ نیز خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’لاہور میں وبا کی شدّت بہت ہے یہاں تک کہ گورکن بھی میسّر نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ سب جگہ اپنا فضل کرے اس بیماری کے جراثیم تمام دُنیا کی فضا میں پائے جاتے ہیں اور غضب یہ ہے کہ اطبا اس کی تشخیص سے عاری ہیں۔ دوائی سے اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا کہ دوائی میسّر نہیں ہوتی۔ دارچینی کا استعمال کہتے ہیں مفید ہے۔ قہوہ، دوچار دفعہ دن میں پینا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر رحم فرمائے۔‘‘ علّامہ طاعون کی وبا سے بھی محفوظ رہے۔ ۲۲؍ اپریل ۱۹۲۴ء کو خان محمد نیاز الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’لاہو ر میں طاعون کازورہے۔ میں چند دنوں سے مع اہل و عیال لدھیانہ میں ہوں ۔ دوچارروز میں واپس لاہور جاؤں گا۔ لاہور میں جب چیچک کی وبا پھیلی تو علّامہ اس سے بھی محفوظ رہے۔ ۱۹؍ مارچ ۱۹۳۳ء کو ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ ؔ کو لکھتے ہیں۔۔ ــ’’یہاں مرض چیچک کی وجہ سے لوگ بہت پریشان ہیں۔ اب کے کسی سرد مقام پر جانے کی فکر میں ہوں مگر اب تک مقام تجویز نہیں ہوا‘‘۔ علّامہ یکم جون ۱۹۳۵ء سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ حکیم صاحب سے بھی عرض کریں کہ مجھے کبھی کبھی ملیریا بھی ہو جاتا ہے چند روز کونین کھاؤں تورکا رہتا ہے۔ چھوڑوں تو پھر ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ میں دو تین دفعہ ہوا۔ علّامہ کو یہ وہم تھا کہ انھیں ملیریا ہے شاید بچپن میں ملیریا ہوا ہوگا لیکن متعدد بار بخار، لرز اور سرخ پیشاب کے آنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اقبال کوملیریا کے حملے نہیں بلکہ گردے اور مثانہ کی عفونت یا انفکشن باربار ہوا کرتی تھی، جس کو وہ ملیریا کابخار سمجھتے تھے (ھو العلم)۔ شاید پہلی بار ملیریا ہو گا ہو۔۲۱؍ مئی ۱۹۱۵ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’بخارمعمولی ملیریاتھا۔دو چار روز رہ کر اُتر گیا اب خدا کے فضل و کرم سے بالکل تندرست ہوں‘‘۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی خارج از محل نہیں کہ مصونیت (immunity)کا قوی اورکمزور ہونا بھی جدید طبّی تحقیقات کی رو سے موروثی ہے۔ شاید علامّہ کے genes میں ان مہلک امراض سے بچنے کی استطاعت خاندانی ہوگی۔ خ خ خ بیماری کے اثرات معذرت اور ترک مصروفیات اقبال جیسے فعّال شخص کو بیماری نے گھر کی چاردیواری میں نہ صرف محصور کر دیا تھابلکہ چارپائی پر صاحب فراش بھی کر دیا تھا۔ آواز کے ساتھ بینائی بھی جاتی رہی اور پھر سینے کی نفس تنگی نے جان تنگ کر رکھی تھی لیکن ان تمام بیماریوںاور مجبوریوں کے باوجود اقبال انتقال کے کچھ گھنٹے قبل بھی اپنے فرائض اور ملّت کے مسائل کو حل کررہے تھے۔ یہاںہم پہلے اُن نکات کو پیش کریں گے جو اقبال اپنی علالت کی وجہ سے پورا نہ کر سکے پھر خطوط اور حوالوں سے اشارے پیش کریں گے۔ ا۔ بیماری کی وجہ سے اقبال قرآن کے نوٹس ’’مقدمہ القرآن ‘‘ نہ لکھ سکے۔ ۲۶؍ اپریل ۱۹۳۵ء کو سر راس مسعود کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں قرآن کریم پر عہدِ حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصے سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کردینے کا سامان میسّر آجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیش کش مسلمانان عالم کو پیش نہیں کر سکتا۔اب اگر صحت اچھی رہی تو بقیہ ایام قرآن شریف کے نوٹ لکھنے پرصرف کردوں گا‘‘۔ دین محمد تاثیر کو ۲۲؍ جولائی ۱۹۳۵ء میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اب ذرا صحت اچھی ہو لے تو انشاء اللہ اس کتاب کو لکھنا شروع کروں گا اسی سال کے دوران میں امید ہے صور اسرافیل (ضربِ کلیم) بھی ختم ہو جائے گی۔ پھر کچھ مدّت کے لیے مقدمہ قرآن کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دوں گا۔ باقی اب زندگی میں کوئی دلچسپی مجھ کو نہیں رہی‘‘۔ مکتوبات اقبال کے آخری باب ’’خاتمہ سخن‘‘ میں سید نذیر نیازی لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ تعلیمات قرآنی کے بارے میں ان کا ایک خاص نقطۂ نظر تھا جس کی اپنے اشعار اور خطبات میں انھوں نے وضاحت بھی کی۔ لیکن جہاں تک ان کی تفسیری حاشیوں کا تعلق ہے وہ کبھی سپرد قلم نہیں ہوئے اور اس کی وجہ ظاہر ہے یعنی علالت۔ البتہ اس سلسلے میں ان کی دو ایک تحریریں ضرور دستیاب ہوئیں اور وہ شاید اب اقبال اکادمی کے پاس محفوظ ہیں۔ ایک تحریر میں توفقہ اسلامی کی بحث میں بعض قرآنی مصطلحات پر مشتمل ہے۔ لیکن ان دونوں تحریروں کی صورت حواشی کی نہیں۔ حضرت علّامہ نے ان تحریروں میں کوئی جملہ بھی رقم نہیں فرمایا۔ صرف چند الفاظ متفرانہ انداز میں لکھے ہیں جس سے کچھ مترشح ہوتا ہے تو یہی کہ انھوں نے اپنی یاد داشت کے لیے چند ایک باتیں بطور اشارات لکھ لیں تھیں۔ رہا یہ امر کہ وہ ان باتوں کی تشریح اور تفصیل کس انداز میں اور کس نہج پر کرتے اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے‘‘۔ اقبال ’’مقدمتہ القرآن‘‘ کے علاوہ ایک اور کتاب ایک فراموش شدہ پیغمبر کا صحیفہلکھنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ بھی بیماری کی وجہ سے لکھا نہ جا سکا۔ ۲؍ دسمبر ۱۹۳۴ء کو خواجہ غلام السیدین کو لکھتے ہیں ۔۔۔ ’’میرا خیال ہے کہ ایک کتاب بعنوان ایک فراموش شدہ پیغمبر کا صحیفہ لکھوں۔ عصر حاضر کے خلاف اعلان جنگ اس کتاب کا صرف تشریحی عنوان ہوگا۔‘‘ ب۔بیماری کی وجہ آواز بیٹھ جانے سے قرآن کی تلاوت سے محروم ہو گئے۔ خطوط، حوالوں اور اطرافیان کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال سحر خیز تھے اور قرآن کی تلاوت بڑے ذوق و شوق سے فرماتے جس کا ذکر مہاراجہ کشن پرشاد کے خط میں بھی کیا ہے۔ آخری علالت کے دوران آواز کے بیٹھ جانے، تنگی نفس کے عارضہ اور بینائی کے کم ہو جانے کے باعث جب تلاوت کا سلسلہ چھوٹ گیا تو ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کے نعتیۂ اشعار میں اس طرف حسرت بھرا اشارہ کرتے ہیں گرد تو گردد حریم کائنات از تو خواہم یک نگاہ التفات در نفس سوز جگر باقی نماند لطف قرآنِ سحر باقی نماند (ترجمہ) تمام کائنات ترے صدقے پھرتی ہے تجھ سے ایک محبت اور لطف کی نگاہ چاہتا ہوں میرے سینے میں وہ نفس (آواز و اثر) باقی نہ رہا اور سحر کے وقت تلاوت کا مزا باقی نہ رہا۔ ج۔ اقبال چاہتے تھے کہ انگریزی زبان میں اسلام کے فلسفۂ قانون پر ایک کتاب لکھیں چنانچہ میاںمحمد شفیع کو اپنی آخری علالت کے زمانے میں اس کے کچھ نوٹس بھی لکھوا ئے لیکن افسوس کہ وہ کتاب علالت کی وجہ سے کبھی تکمیل نہ ہو سکی۔ چند خاکے جو اقبال نے میاں محمد شفیع کو لکھوائے تھے وہ شائع ہوچکے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی اس کتاب کا نام Construction of Islamic Jurisprudence تھا۔ د۔ اقبال علالت کے باعث رہوڈز لکچر نہ دے سکے۔ ۲۶؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو ایڈورڈ تھامپسن کے نام ذاتی اور صیغہ راز خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’گزشتہ پانچ ماہ کے طبّی علاج سے کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ یہاں کے ڈاکٹر ویانا میں معالجہ کرانے کی رائے دیتے ہیں لیکن مجھ ایسے غریب آدمی کے لیے اس کے اخراجات کا متحمل ہونا دشوار ہے میں نہیں سمجھتا کہ ۱۹۳۵ء میں رہوڈز لیکچر دینا میرے لیے ممکن ہو سکے گا۔ لیکن میں چنددن اور انتظار کروں گا پھر لارڈ لوتھین کو اس بارے میں لکھوں گا‘‘۔ ۶؍ مارچ ۱۹۳۶ء کو محمد عبد الجلیل بنگلوری کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں بدستور بیمار ہوں۔ بھوپال میں برقی علاج ہو رہا ہے۔ بوجہ علالت رہوڈز لکچر ز فی الحال منسوخ کر دیے ہیں‘‘۔ روزگار فقیر میں فقیر وحید الدین لکھتے ہیں۔۔۔ ’’گلے کی تکلیف شروع ہوتے ہی ڈاکٹر صاحب کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ اس حادثہ نے ان کی رہی سہی مصروفیتیں بھی ختم کردیں اور انہوں نے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا۔ اس زمانے میں انہیں تُرکی اور مصر سے تقریر کرنے کی دعوتیں آئیں۔ ان دعوت ناموں کا ذکر آتا تھا تو کہتے تھے کہ میرا گلا ٹھیک ہولے تو ضرور جاؤں گا ، لیکن مرض بڑھتا گیا اور ڈاکٹر صاحب صحت کی جانب سے مایوس ہو گئے ایک دن بڑی مایوسی کے لہجہ میں فرمایا ۔ خدا نے مجھے زبان توعطا کی ہے لیکن آواز سے محروم رہا۔ یہ کہتے کہتے ان پر رقّت طاری ہو گئی‘‘۔ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو مولوی عبد الحق کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں تو علی گڑھ حاضر ہونے کا مصمّم ارادہ رکھتا تھا مگر افسوس کہ کمر کے درد سے ابھی تک افاقہ نہیں ہوا۔ اس بنا پر بقیہ علاج کیلیے بھوپال نہیں جا سکا علیٰ ہذا القیاس فلسطین کانفرس کی صدارت سے بھی اسی بنا پر انکار کرنے پر مجبور ہوا۔ حالانکہ مسئلہ فلسطین سے مجھے بے حد دلچسپی ہے‘‘۔ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۳۷ء کو راغب احسن کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں طویل علالت کے باعث کلکتہ میں منعقد ہونے والی فلسطین اور لیگ کے کانفرسوں میں شرکت سے معذور ہوں‘‘۔ علّامہ کو ڈی لٹ کی ڈگری علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے بطور اعزاز دی گئی اور ان کو آنے کی دعوت دی گئی تھی لیکن علّامہ نے اپنی بیماری کی وجہ سے معذرت کر لی۔ چنانچہ ۱۹؍ جنوری ۱۹۳۵ء کو پروفیسر میاں محمد شریف کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’علی گڑھ یونی ورسٹی نے میری جو قدر افزائی فرمائی ہے اس کے لیے میں ان کا نہایت شکر گزار ہوں یہ اعزاز اور بھی گراں قدر ہو جاتا ہے جب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ میرا کوئی حق اُس یونیورسٹی پر نہ تھا۔ امید نہیں کہ ایک ہفتہ تک اس شدت سرما میں سفر کے قابل ہوسکوں‘‘۔ ۳۱؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو عظمت الٰہی زبیری کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں ان دنوں گلوں کی خرابی میں مبتلا ہوں اور میرے لیے سفر کرنا مشکل ہے۔ تاہم اگر مجھے (علی گڑھ آنے سے) مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے امیدواروں کے نام ان کی تعلیمی استعداداور ان کی ادبی سرگرمیوں سے آگاہ کردیں تو میں آپ کو اپنی رائے لکھ بھیجوں گا‘‘۔ ۲۰؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’کل جنوبی افریقہ سے دعوت آئی ہے اور وہاں کے مسلمان مصر ہیں کہ یہاں کا دورہ ضروری ہے ۔ گزشتہ ہفتہ ایک خط جرمنی سے آیا جس سے معلوم ہوا ہے کہ ترکی کی طرف سے بھی تم کو دعوت دی جانے والی ہے بہر حال میری خواہش ہے کہ اس جہان سے رخصت ہونے سے پہلے بر آورد ہر چہ اندر سینہ داری سرودی نالۂ آہی فغانی‘‘ ۷؍ دسمبر ۱۹۳۴ء کو رجسٹرار مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’مجھے آپ کا خط ملا ۔ اس سے قبل آپ کا تار موصول ہوا تھا۔ یونیورسٹی کورٹ نے مجھے اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ کا میں بے حد ممنون ہوں اور آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ میرا شکریہ یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد تک پہنچا دیں۔ آپ کو شاید علم ہوگا کہ میں پچھلے ۱۱؍ ماہ سے گلے کی تکلیف میں مبتلا ہوں۔ اب میری آواز میں ذرا سا افاقہ نظر آ رہا ہے اور مجھے خوف ہے کہ ٹھنڈ لگ جانے سے میرامرض عود نہ کر آئے یا اس کے ٹھیک ہونے میں دیر لگ جائے میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اگر آپ براہِ کرم مجھے مطلع کریں کہ کیا یونیورسٹی کے قوانین و ضوابط اس بات کی اجازت دیں گے کہ ڈگری مجھے اگلے سال دے دی جائے۔ جب تک مجھے اُمید ہے کہ میں پوری طرح موجودہ بیماری سے نجات پالوں گا۔ میں ریل ک سفر کرنے کا خطرہ جاڑوں میں صرف اس صورت میں لے سکتا ہوں جب یونیورسٹی کے قوانین کے تحت میری موجودگی قطعاََ ناگزیر ہو‘‘۔ ح۔ بیماری کی وجہ سے اقبال متعدد علمی کانفرسوں، جلسوں اور جشنوں میں شرکت نہ کرسکے حکومت ایران نے فردوسیؔ کی ہزار سالہ جوبلی منانے کا اعلان کیا تو علّامہ کو بھی دعوت دی تھی محمد طاہر فاروقی صاحب اس زمانے میں حلیم مسلم ہائی اسکول کانپور میں ہیڈ مولوی تھے۔ انھوں نے علّامہ کو خط لکھ کر اپنے ارادہ کا اظہار کیا جس پر علّامہ نے اگست ۱۹۳۴ء میں لکھا…’’میں کچھ عرصے سے علیل ہوں ۔ ناسازیٔ طبع کے باعث سفر کا ارادہ ملتوی کر چکا ہوں۔ آپ کا قصد ہو توجائیں۔ قونصل جنرل ایران سے خط و کتابت کرکے جزئیات معلوم کرلیں‘‘۔ حیدرآباد دکن سٹی کالج کی مجلس انتظامی کو ۲۳؍ جنوری ۱۹۳۷ء میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’افسوس کہ میں ایک طویل علالت کی وجہ سے آپ کے جشن میں شرکت سے معذور ہوں۔ آپ نے یوم ولیؔ منا کر شاعر اعظم ولیؔ کی یاد کو جو تازہ کرنے کا ارادہ کیا ہے وہ قومیت اور اسلاف پرستی کا صحیح جذبہ ہے۔ خدا کرے یہ جلسہ کامیاب ہو‘‘۔ ۲۸؍ اپریل ۱۹۳۷ء کو مولوی عبد الحق کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’نیز انجمن کی رجسٹری کرانا بھی منظور ہے۔ اُردو کی اشاعت اور ترقی کے لیے آپ کا دلّی میں نقل مکان کرنا بہت ضروری ہے۔معلوم نہیں آپ کے حالات ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ کاش میں اپنی زندگی کے باقی دن آ پ کے ساتھ رہ کر اُردو کی خدمت کرتالیکن افسوس ایک تو علالت پیچھا نہیں چھوڑتی دوسرے بچوںکی خبر گیری اور ان کی تعلیم و تربیت کے فکر افکار دامن گیر ہیں‘‘۔ سید مظفر حسین برنی کلیّات مکاتیب اقبال میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’سید خلیل احمد دہلی میں مجسٹریٹ تھے۔ یہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں اینگلو عربک کالج اورینٹل سوسائٹی کے وائس پریسیڈنٹ تھے۔جب سوسائٹی نے ’’غالبؔ ڈے‘‘ منایا تو سر آغا خان نے غالبؔ کی تصویر کشائی کی تھی۔ اس موقع پر مشاعرے کی صدارت کی دعوت پر علّامہ اپنے جواب میں سید خلیل احمد صاحب کو ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں لکھتے ہیں۔۔۔میں قریباََ دو سال سے علیل ہوں ۔ گلے کی بیماری ہے جس کی وجہ سے میں کسی قسم کی تقریر نہیں کر سکتا میں اس رسم کو ادا کرنا اپنے لیے سرمایۂ افتخار جانتا ہوں مگر افسوس کہ علالت کی وجہ سے ایسا کرنامیرے لیے ممکن نہیں۔ میں آپ کی سوسائیٹی کو غالبؒ کی قدر شناسی پر مبارک باددیتا ہوں‘‘۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری کو یکم جنوری ۱۹۳۵ء کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’غالباََ آپ کو علم نہیں کہ میں پچھلے سارے سال بیمار رہا اور اوّل ڈاکٹروں کے اور بعد میں آپ کے بھائی صاحب کے زیر علاج رہا۔ میرا گلا بہت خراب ہو گیا ہے۔ اس عارضہ کی وجہ سے میں کسی قسم کی تقریر کرنے سے معذور ہو گیا ہوں۔ صرف دھیمی آواز میں گفتگو کر سکتا ہوں۔ حکیم صاحب نے مجھے یقین دلایا ہے کہ میں ٹھیک ہو جاؤں گا اور میری اواز میں بیّن افاقہ فروری کے مہینے میں ہو جائے گا۔میں اس وقت تک انتظار کروں گا اور اگر کوئی افاقہ نہیں ہوتا تو ویانا جانے کا قصد کروں گا۔ اس سلسلہ میں آپ کے مشورہ اور امداد کا طالب ہوں‘‘۔ ۱۵؍مارچ کو پروفیسر ورما جنھوں نے علّامہ کوہندی کانفرس میں دعوت دی تھی لکھتے ہیں۔۔ ’’اس اعزاز کے لیے جس سے آپ مجھے سرفراز کرنا چاہتے ہیں۔سراپا سپاس ہوں۔ یہ میری بد قسمتی ہے کہ میں اس سے محروم رہوں گا۔یہ بات کہ مجھے گلہ کی خرابی کا عارضہ ہے جس کا علاج ابھی ایک سال اور جاری رہے گا۔وہاںکے ڈاکٹروں نے مجھے مکمل ذہنی اور جسمانی آرام کرنے کی تاکید کی ہے‘‘۔ ۱۲؍ فروری ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میر ی طبیعت کئی دنوں سے علیل ہے اس لیے دہلی ڈاکٹر وہبی صاحب کے لکچر کی صدارت کے لیے نہیں جاسکوں گا‘‘۔ (ڈاکٹر بہجت وہبی ترکی سے پیرس منتقل ہو گئے تھے بڑے پر جوش اور غیو رمسلمان تھے) ی۔ بیماری ہی کہ وجہ سے اقبال نے سیاسی عملی شرکت بھی کم کر دی۔ ۱۵؍ اگست ۱۹۳۵ء کو نصر اللہ خاں جو روزنامہ زمیندار سے وابستہ تھے لکھتے ہیں۔۔ ’’افسوس کہ میں ابھی علیل ہوں اگرچہ پہلے کی نسبت کسی قدر افاقہ ہے۔عام صحت کسی قدر بہتر ہوگئی ہے مگر آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔اسمبلی کے آئندہ انتخابات میں حصّہ لینے کی نہ ہمّت ہے نہ ارادہ ‘‘۔ ۲۳؍ ستمبر ۱۹۳۷ء کو راغب احسن کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’یہ افسوس ہے کہ طویل علالت اور نیز ضعف قلب اور ضعف بصارت کہ وجہ سے حال کی تحریکوں میں کوئی عملی حصّہ لینے سے محروم ہوں‘‘۔ ک۔ اقبال آنکھ کی بینائی کی کمی کے باعث خط و کتابت سے محروم ہو گئے۔ ۲۳؍ اپریل ۱۹۳۷ء کو شیخ اعجاز احمد کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ڈاکٹر نے مجھ کو آنکھ کے دوسرے معائنہ تک لکھنے پڑھنے سے منع کر دیا ہے‘‘۔ ۱۹؍ فروری ۱۹۳۷ء کو محمد رمضان عطائی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں ایک مدّت سے صاحب فراش ہوں خط و کتابت سے معذور ہوں‘‘۔ اقبال درون خانہ میںاقبال کی بھتیجی وسیمہ مبارک کہتی ہیں۔۔۔ ’’نانا جان قبلہ کی نظر بہت کمزور ہو گئی اور وہ خود کچھ لکھنے سے معذور ہو گئے تو اکثر خطوط کے جوابات حمید صاحب سے لکھوایا کرتے تھے۔ البتہ خط کے نیچے دستخط خودکر دیا کرتے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دستخط تک کرنا ممکن نہ رہا، چنانچہ حمید صاحب ہی کو دستخط کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ آج بھی حمید صاحب کو یاد ہے کہ وہ کس طرح آپ کے دستخط کیا کرتے تھے۔ انھوںنے کپکپائے ہوئے ہاتھ سے دستخط کرکے مجھے دکھائے جو شاعر مشرقؒ کے دستخطوں سے کافی مشابہت رکھتے تھے‘‘۔ ۲۳؍ اپریل ۱۹۳۵ء کو اکبر شاہ نجیب آبادی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں ایک سال سے صاحب فراش ہوں تمام مشاغل ترک ہیں‘‘۔ ل۔ اس تحریر کے آخر میں ہم وہ مضمون پیش کریں گے جس میں بیماری کی معذوری کی وجہ سے سب سے زیادہ اقبال کو دکھ پہنچا۔علّامہ کے بڑے بھائی عطا محمد کی سب سے چھوٹی بیٹی وسیمہ مبارک کو قریباََ ۲ سال کی عمر میں علامہ کی بیگم سردار بیگم نے گود لے لیا تھا اور اس طرح انھوں نے اپنی شادی تک علّامہ اقبال کے زیر سایہ پرورش پائی ۔ وسیمہ مبارک کے بیٹے خالد نظیر صوفی لکھتے ہیں۔۔۔ ’’والدہ محترمہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’ شادی کے کچھ عرصے بعد میں چچا جان اور چچی جان کی بیمار پرسی کے لیے لاہور گئی تو چچی جان کی تشویش ناک حالت دیکھ کر کلیجہ مسوس کر رہ گئی۔ ابھی چند ماہ پیشتر میں انھیں اچھا بھلا چھوڑ کر گئی تھی مگر اس قلیل عرصے میں وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھیں اور چہرے کی رنگت سیاہ پڑ گئی تھی۔ اس روز ان کی ران پر نکلے ہوئے پھوڑے کا گھر پر ہی آپریشن ہوا تھا جس کی تکلیف سے وہ نڈھال ہو رہی تھیں۔ چچی جان میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتی رہیں اور روتی رہیں۔ چچا جان کو میرے آنے کی خبر ہوئی تو آپ فوراََ اندر تشریف لے آئے اور ہمیں روتا دیکھ کر خود بھی آبدیدہ ہو گئے اور گلوگیر آواز میں چچی جان کو مخاطب کر کے فرمایا: ’سردار ! سیما بے چاری اتنی دور سے تمہاری خبر لینے آئی ہے اور تم رُلا رُلا کر اسے ہلکان کئے دے رہی ہو۔ چچی جان نے یہ سُن کر بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایا اور مجھے بھی چپ کرایا۔ میں سیدھی ہو کر بیٹھی تو چچا جان نے پیار سے میرے سرکو تھپتھپایا اور میرے پاس ہی بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا کہ اس عرصے میں وہ بھی کافی کمزور ہو گئے تھے اور چہرے پر زردیاں کھنڈ رہی تھیں۔ آخر چچا جان ہی نے مہر سکوت توڑی اور بڑی افسردگی سے شادی میں شامل نہ ہو سکنے پر میری ساس صاحبہ سے (وہ بھی میرے ساتھ ان کی بیمار پرسی کے لیے گئی تھیں) اور مجھ سے معذرت کی۔ آپ کے گلے میں اس وقت بھی شدید تکلیف تھی اور آپ بڑی مشکل سے بات کر رہے تھے۔ زور لگانے سے گلے کی رگیں پھول جاتیں اور چہرہ سرخ ہوجاتا ۔ پھر تھوڑی دیر بعد آپ نے جذبات سے رندھی ہوئی آوا زمیں فرمایا : ’’ زندگی میں شاید اس سے زیادہ دکھ مجھے کسی اور بات سے نہیں پہنچا کہ بیماری نے سردار کو اور مجھے اس قدر معذور کر دیا کہ ہم دونوں اپنی پیاری بیٹی کی شادی میں شمولیت سے محروم رہے‘‘۔ آپ کا اتنا کہنا تھا کہ جذبات سے مغلوب ہو کر چچی جان پھر سے رونے لگیں اور میرے بھی آنسو نکل آئے۔چچا جان جلدی سے اٹھ کر باہر چلے گئے ۔ شاید وہ ہمارے سامنے آنسو بہانا مناسب نہ سمجھتے تھے۔‘‘ خ خ خ استقامت اور اُمید اقبال کے عقیدے میں ناامیدی کفر تھی اور استقامت و توکل ان کا ایمان تھا۔ اُن کی زندگی میں مشکل سے مشکل مواقع آئے اور انھوںنے انہی حربوں سے فتح حاصل کی۔ اگرچہ آخری زندگی میں بیماریوں نے انھیں دبوچ لیا تھا پھر بھی ان کے پائے استقامت اور عزم و ارادہ میں کوئی خاص فرق نہ ہوا۔اقبال کا یہ نصب العین ان کی جوانی سے آشکارتھا۔ حیات و ممات کے مسائل ان کے دل چسپ افکار استغراق تھے۔ چنانچہ اس کی جھلک ہمیں ان کے اُس خط میں نظر آتی ہے جو ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۹ء کو عطیہ فیضی کو لکھا۔ ۔۔ ’’بلاشبہ ہر شخص کے لیے زندگی موت کے انتظار کا نام ہے میں اگلے جہان کی سیر کا آرزومند ہوں۔ وہاں پہنچ کر چاہتا ہوں کہ اپنے خالق کی زیارت کروں اور اُس سے تقاضا کروں کہ میری ذہنی کیفیت کی عقلی وضاحت کی جائے اور یہ کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ مجھ سے آپ کو شکایت نہ ہونی چاہئے میں تو خود اپنے لیے بھی ایک معمّہ ہوں برسوں گزرے میں نے کہا تھا ؎ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میں ایک طوفان بپا کئے ہوئے ہیں عوام پر ظاہر ہو جائیں تو پھر مجھے یقین واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہوگی۔دنیا میرے گناہوںکی پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوؤں کا اخراجِ عقیدت پیش کرے گی۔‘‘ سیّد نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں : ’’ان حالات میں اگر کوئی ا نہیں دیکھتا جیسا کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں ، تو اسے معلوم ہو جاتا کہ حضرت علّامہ ایک زندہ انسان ہیں اور اس لیے زندگی سے انھیں جو ذوق وشوق ہے اس میں کوئی اضمحلال پیدا نہیں ہوا۔ نہ طرح طرح کے عوارض اور مرض کی روز افزوں شدت سے ان پر یاس و ناامیدی کی کوئی کیفیت طاری ہوئی نہ اس سے گھبرا کر انہوں نے کسی تلخی اور افسردگی کا اظہار کیا۔ وہ ہر لحظہ ’’زندہ‘‘تھے اور اس سے کہیں بڑھ کر یہ ان کا دل زندہ تھا۔دورانِ علالت میں بھی ان کے افکار میں وہی تازگی ، جذبات میں وہی نزاکت اور طبیعت میں وہی شگفتگی قائم رہی جو شروع ہی سے ان کے اندر چلی آرہی تھی‘‘۔ مولانا غلام رسول مہرؔ اقبال درون خانہ تصنیف خالد نظیر صوفی کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔ ’’ان کے بعض معاملات بڑے ہی عجیب تھے۔ وقتاََ فوقتاََ گردے اور نقرس کا درد ہو جاتا تھا۔ ایک مرتبہ گرمیوں میں گردے کی تکلیف ہوئی اور کئی روز بیمار رہے ۔ میں دوپہر کے وقت دفترجاتے جاتے مزاج پرسی کے لیے حاضر خدمت ہوا۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں ان کی خواب گاہ کے پیچھے ایک کمرہ تھا جس کا دروازہ شمالی جانب تھا اس میں تپش بہت کم ہوتی تھی فرش پر خوب پانی ڈلوا کر اس کمرے میںلیٹے ہوئے تھے۔میںنے خاموش بیٹھ کر ان کے چہرۂ مبارک پر نظر جما لی ۔ ہم لوگ عموماََ ان کی نگاہوں سے حالات کا اندازہ کرنے کے عادی تھے۔ اسی اثنا میں ایک اور صاحب بھی عیادت کے لیے آگئے اور میرے پاس بیٹھ گئے۔ یکایک حضرت مرحوم نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ ’’مہر صاحب ‘‘ تکلیف انسان پر اس کے نفس کی طرف سے آتی ہے یا اللہ کی طرف سے۔ میں جواب میں حدیثِ جبریؑل سے وہ الفاظ دہرا دینا چاہتا تھا جو رسولؐ اکرم ﷺ نے قیامت کے سوال پر فرمائے تھے’’جس سے پوچھا گیاہے اس کا علم پوچھنے والے سے زیادہ نہیں۔ ‘‘لیکن میں کچھ کہنے بھی نہیںپایا تھا کہ جو صاحب میرے پاس بیٹھے تھے بول اُٹھے۔ ڈاکٹر صاحب سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔یہ سُنتے ہی ان پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ پہلے چیخ نکلی پھر روتے روتے کہتے جاتے کہ ’’اگر یہ تکلیف اللہ کی طرف سے ہے تو میری توبہ، میری توبہ۔میں نے کیوں شکوہ کیا۔ طبیعت کے معمول پر آنے میں پانچ سات منٹ ہو گئے‘‘۔ روزگار فقیر میں وحید الدین لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ علیم وحکیم ہے اپنی حکمتیںاور اُن کے رموز وہی جانتا ہے۔بندہ کا کام تو اطاعت و فرمانبرداری ، ہر حالت میں اس کا شکر ادا کرنا اور صبر اختیار کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو یکے بعد دیگرے اتنی بیماریاں لاحق ہوئیں کہ زندگی اجیرن ہوگئی۔مگر ان بیماریوں کے باوجود اُن کی زندگی کے معمولات میں سرِمُو فرق نہیں آیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلسل علالتوں نے اُن کے مزاج کی سنجیدگی کو متغیر نہیں کیا۔ ورنہ عام طور پر مریضوں کو دیکھا گیا ہے کہ بیماری اُنہیں چڑچڑا بنا دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب تبخیر معدہ اور بد ہضمی کے پرانے مریض تھے، سوڈے کی بوتلوں کا اہتمام ہوتا۔پھر نقرس کا حملہ ہوا اور گردہ کی شکایت ہوئی ، ضیق النفس کے سبب آواز بیٹھ گئی ، بے چینی اور کرب نے مستقل رفاقت اختیار کرلی۔ آخر عمر میں بصارت بھی بڑی حد تک جواب دے گئی، مگر بیماریوں کے حملوں نے اُن کی حوصلہ مندی ، ثابت قدمی اور خوش ذوقی میں فرق نہ آنے دیا۔بیماریوں سے دل گرفتہ ہونا جیسے انہوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ذرا طبیعت سنبھلی تو وہی احباب کی محفلیں ، علمی مباحثے، سیاست ، مذہب ، فلسفہ ، منطق ، تاریخ اور تصوّف ان میں سے ہر موضوع پر نئے اور پرانے ملاقاتی اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر تبادلہ خیال کرتے اور علمی تشنگی بجھاتے۔ آخری عمر میں وہ بالکل نڈھال ہو گئے تھے ۔ بیماریوں کے حملوں پر حملے۔ مگر اس نقاہت اور ناتوانی کے عالم میں بھی پابندی کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر خطوں کا جواب دیتے اور جب لکھنے کی طاقت نہ رہی ، تو دوسروں سے خطوں کا جواب لکھواتے۔ کسی کو بے جا زحمت دینا کبیدہ خاطر کرنا بہرحال گوارا نہ تھا۔ انجمن حمایت اسلام (لاہور) کو وہ مسلمانوں کی تنظیم و تعلیم اور اشاعتِ دین کا موزوں پلیٹ فارم اور ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کے ساتھ ایک بار جو تعلق قائم ہوا اُسے مرتے دم تک منقطع نہیں ہونے دیا۔ حتٰی کہ شدید علالت اور معذوری کے سبب انجمن کی صدارت سے مستعفی ہونے سے پہلے تک یہ کیفیت رہی کہ کمزوری ٔ بصارت کے سبب پڑھنے میں دقّت ہوتی تو انجمن کے کاغذات پڑھوا کر سُنتے اور اُن پر نوٹ اور ضروری احکام لکھوا کر دستخط کرنے کی بجائے اپنے نام کی مُہر لگواتے۔ انجمن کے جلسوں میں پابندی کے ساتھ بالالتزام شرکت اور اپنی تازہ نظم پڑھنا، یہ اُن کا معمول رہا۔ انجمن حمایت اسلام کو یہ فخر حاصل ہے کہ اُس کے پلیٹ فارم سے حکیم مشرق نے بارہا اپنی نظمیں پڑھیں۔ اُن کی شہرہ آفاق نظم ’’شکوہ‘‘ بھی اسی انجمن کے سالانہ اجلاس میں اُن کی زبانی سُنی گئی۔ڈاکٹر صاحب آخری بار ۱۹۳۶ء میں انجمن کی سالانہ کانفرس میں شریک ہوئے مگر ناتوانی اور خرابی صحت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ خود نظم سنانے کے قابل نہ تھے۔ اُن کی یہ نظم جس کا پہلا مصرعہ ہے ’’خودی کا سرِّ نہاں لا الہٰ الا اللہ‘‘ کو کسی اور شخص نے پڑھا‘‘۔ اقبال بہت خوش عقیدہ مسلمان تھے۔ مختلف خطوں میں کہیں وہ شفا کو مکّہ کی صراحی سے حاصل کر رہے ہیں،کہیں کسی سید زادہ کے کہے ہوئے نسخہ کو استعمال کر رہے ہیں۔ کہیں انھیں حکیم نابینا کی روحانیت پر بھروسہ ہے، کہیں حضور پاک پر درود پڑھ کر باطنی درمان حاصل کر رہے ہیں ۔ شیش محل میں سر سید احمد خان کو خواب میں دیکھ کر نعتیۂ اشعار میں فرما رہے ہیں کہ میں تاریکیاں پھیلانے والوں سے لڑ رہا ہوں کچھ اور تیل میرے چراغ میں ڈال دے۔ با پرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز ذیل کے خطوں اور کچھ اطرافیان کے بیانات سے فوق مذکور مطالب مزید واضح ہوں گے اقبال جب نقرس کے مرض میں کئی ہفتے صاحبِ فراش ہوئے تو اپنے خط میں حکیم اجمل خاں دہلوی کے علاج کا ذکر کرتے ہوئے مولانا گرامی کو ۲۳؍ مارچ ۱۹۲۲ء میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’آپ مستجاب الدعوات ہیں۔ میرے لیے اوقات خاص میں دعا فرمائیے‘‘۔ ایک اور خط میں جو مولانا گرامی ہی کو لکھا گیا کہتے ہیں۔۔۔ ’’کل گورداس پور سے ایک حکیم صاحب خود بخود تشریف لے آئے تھے۔ انھیں کسی سے میری علالت کا حال معلوم ہوا تھا۔ دوا دے گئے ہیں جس سے فائدہ معلوم ہوتا ہے مجھے یقین ہے کہ اس دوا سے فائدہ ہو جائے گا کیوں کہ جن اجزا سے یہ مرکب ہے ان میں سے ایک اخلاص بھی ہے جو حکیم صاحب کو خود بخود میرے مکان تک لے آیا بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہوں‘‘۔ ۵؍جون ۱۹۳۴ء کو نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ ’’پیاس ہو توکیا پیا جائے ، کوئی شربت یاکچھ اور برف کے استعمال کے متعلق کیا ہدایت ہے؟ فی الحال میں ایک صراحی میں جو مکّہ شریف سے ایک شخص تحفہ لایا تھا پانی سرد کر لیا کرتا ہوں۔ کل شام ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر حکیم صاحب کامیاب ہو گئے تو ان کا یہ دوسرا معجزہ ہے‘‘۔ ۱۷؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کے خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کردیں کہ اب کی دفعہ کوئی اس سے زیادہ طاقت ور دوا ہو تو اور بھی اچھا ہے تاکہ معجزہ کا ظہور ہو۔ حکیم صاحب اوقات خاص میں مجھے بھی یاد رکھیں‘‘۔ یہاں علّامہ کو شفا میں معجزہ کی توقع ہے اور وہ دعا اور دوا دونوں کے اثرات دیکھنا چاہتے ہیں۔ ۲۰؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں ۔۔۔۔ ’’دوا کا پارسل ابھی ملا ہے جس کے لیے حکیم صاحب کی خدمت میں بہت بہت شکریہ عرض کیجئے۔ ان سے کہئے کہ آپ انصار ہیں میں مہاجرین سے ہوں کیونکہ میں نے زمانہ، حال سے خیر القرون کی طرف ہجرت کی ہے۔ روحانی نہیں تو دماغی اعتبار سے ہی سہی۔ اس واسطے میرا ان پر حق ہے اور میں ان سے اسی سُلوک کا متوقع ہوں جو انصار نے مہاجرین سے کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی میں ان کی کرامت کا مستحق ہوں۔ کہ مستحق کرامت گناہگار انند‘‘۔ ۱۶؍جولائی ۱۹۳۴ء سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کیجئے گا کہ مجھے نماز کا پورا پابند کرنے اور ہوا خوری کی عادت ڈالنے کے لیے آپ کے روحانی اثر کی ضرورت ہے‘‘۔ ۲۴؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اگر میری آواز اپنی اصلی حالت پر عود کر آئی تو میں اپنی اس بیماری کو خدا کی رحمت تصوّر کروں گا کیوں کہ اس بیماری نے حکیم صاحب سے وہ ادویّہ استعمال کرنے کا موقع پیدا کیا جنھوں نے میری صحت پر ایسا نمایاں اثر کیا ہے۔ تمام عمر میں میری صحت ایسی اچھی نہ تھی جیسی اب ہے‘‘۔ اگست ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ڈاکٹر صاحبان بغلیں بجاتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آواز درست نہ ہوگی میں بھی کبھی کبھی مایوس ہو جاتا ہوں مگر حکیم صاحب کی توجہ اور ان کی روحانیت پر بھروسہ رکھتا ہوں‘‘۔ ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو سید محفوظ بدایونی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میں گزشتہ ۱۸ماہ سے علیل ہوں سفر بہت کم کرتا ہوں۔ہر تیسرے مہینے بھوپال جاتا ہوں۔ وہاں برقی علاج ہے جس سے کچھ فائدہ ہے اب ویانا جانے کی فکر میں ہوں۔ یہ ظاہری علاج ہے باطنی علاج صرف اس قدر ہے کہ آپ جدّ پر درود پڑھتا ہوں ۔آپ بھی دعا فرمائیے‘‘۔ ۱۳؍جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’آپ عاشقانِ رسولؐ میں سے ہیں۔ اس واسطے ایک اور بات آپ کے گوش گزار کرنے کے لائق ہے‘‘۔ ’’۳؍ اپریل کی رات ۳ بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سر سید علیہ الرحمتہ کو خواب میں دیکھا ۔ پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو۔ میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدّت گزر گئی۔ فرمایا حضور رسالتمآبؐ کی خدمت میں عرض کرو۔ میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرض داشت کے چند شعر جواب طویل ہوگئی ہے میری زبان سے جاری ہو گئے۔ انشاء اللہ ایک مثنوی فارسی پس چہ باید کر د اے اقوامِ مشرقنام کے ساتھ یہ عرض داشت شائع ہوگی۔ ۴؍ اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف ترہے اور اس میں وہ رنگ عود کر رہا ہے جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔ گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ جسم میں بھی عام کمزوری ہے زیادہ کیا عرض کروں‘‘۔ ۱۳؍جون ۱۹۳۷ء کو ماسٹر عبد اللہ چغتائی کو لکھتے ہیں۔۔ ’’لیکن بہ حیثیت مجموعی ایک دائم المریض کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ تاہم صابر اور شاکر ہوں۔ انشاء اللہ جب موت آئے گی تو مجھے متبّسم پائے گی۔ قصد تو یہ تھا کہ زندگی کے باقی دن جرمنی اور اٹلی میںگزاردوں۔مگر بچوںکی تربیت کس پر چھوڑدوں۔ اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی تو زیادہ سے زیادہ مکّہ سے ہوتا ہوا ممکن ہے مدینہ تک پہنچ سکوں۔ مجھ ایسے گناہگاروں کے لیے آستان رسالتؐ کے سوا اور کہاں جائے پناہ ہے؟‘‘ اقبال کی سگی بھتیجی وسیمہ مبارک کا بیان ان کے بیٹے صوفی صاحب اقبال درون خانہ میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ناناجان مرحوم نے وفات سے چند روز پیشتر بڑے نانا جان (شیخ عطا محمد صاحب) کے دلاسا دینے پر اُن سے کہا تھا:’’بھائی صاحب! میں موت سے نہیں ڈرتا، انشاء اللہ مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کروں گا۔‘‘ پھر یہ شعر پڑھا : نشان مردِ مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسّم بر لبِ اوست ان کی وفات کے بعد جب بڑے ناناجان قبلہ لاہور پہنچے توجنازہ اٹھایاجاچکا تھا۔وہ بادشاہی مسجد پہنچے تو وہاں اس قدر ہجوم تھا کہ میّت تک رسائی نا ممکن تھی۔ حضرت علامہ کے بڑے بھائی زار و قطار رو رہے تھے اور پکار پکار کر کہتے تھے : ’’مجھے ایک دفعہ اقبال کا چہرہ دیکھ لینے دو۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ جب مردِ مومن فوت ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر تبسّم ہوتا ہے، مجھے دیکھنے دو کہ اس کا کہنا سچ ہوا یا نہیں۔‘‘ آخر جب بڑی تگ و دو کے بعد وہ علّامہ صاحب کی میّت کے سرہانے پہنچے اور اپنے عزیز اور عظیم بھائی کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھا تو شدّت غم سے رندھی ہوئی آواز میں کہا : ’’اقبال ! تو نے سچ کہا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ تیرے چہرے پر تبسم موجود ہے ۔ تو نے اس شعر کی بالکل صحیح تفسیر پیش کی ہے۔ خدا مجھے بھی تیرے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے!‘‘ جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے کہ علّامہ کا توّکل بے مثال اور ان کی ہمّت بے نظیر تھی۔ راقم کے تجربہ میں جب ہم کسی مریض کو ایسی تشخیص کی خبر دیتے ہیں جس میں موت کا خطرہ ہوتا ہے تو ہم نے دیکھا اچھے اچھے صابر و شاکر افراد کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے۔ راقم نے وہ سانحے بھی دیکھے کہ ٹیومر کی تشخیص سُن کر غشی طاری ہوگئی اور کئی ہفتے تک طبیعت سنبھل نہ سکی۔ ان تجربوں کو سامنے رکھ کر جب ہم علّامہ کے اُس خط کا جائزہ لیتے ہیں جو انھوں نے سید نذیر نیازی کو رسولی یا Growthکی تشخیص جو ڈاکٹر ڈک ریڈیالوجسٹ لاہور نے علامہ کے سینے کے ایکس ریز کی رپوٹ میں دی تھی جس پر علّامہ بڑے سکون اور بغیر کسی ہیجان اور پریشانی کے ان مطالب کو نیازی صاحب کو لکھ کر کہتے ہیں کہ’’ ان مطالب کو حکیم صاحب کو بتا دیں اور ان کا خیال میرے لیے لکھیں اگر حکیم صاحب خود معائنہ کرنا چاہیں تو میں دہلی بھی آسکتا ہوں‘‘۔ اگرچہ یہ تشخیص بعد میں غلط ثابت ہوئی لیکن بہرحال اُس وقت علّامہ کی ہمّت اور موت سے قربت سے حاصل سکون کا پتہ چلتا ہے۔ فقیر وحید الدین روزگار فقیرمیں لکھتے ہیں۔۔۔ گلے کی تکلیف میں ایک ڈاکٹر علّامہ اقبال کو دیکھنے آیا۔ اس نے چند دوائیں تجویز کیں۔ پھر کہنے لگا اس مرض میں پرہیز ضروری ہے۔فلاں فلاں چیزوں سے پرہیز کیجئے۔ علّامہ نے پوچھا لیکن اگر میں آپ کی ہدایات پر عمل نہ کروں تو، ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ۔ تو خدانخواستہ آپ کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی۔ حکیم الامتؒ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب کیا انسان کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا ہے جو موت کے خطرے سے خالی ہے۔ ڈاکٹر یہ سن کر حیران رہ گیا اور پھر کہنے لگا آپ کی سی طبیعت کا مریض میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ زندہ رودمیں ڈاکٹر جاوید اقبال ، اقبال کی آخری رات کے واقعات میں لکھتے ہیں۔۔۔ ’’اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لیے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ ڈاکٹر عبد القیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی ، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا:’’ دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ علی بخش اور میا ں شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تاکہ در د کی شدت کم ہو لیکن تین بجے رات تک ان کی حالت غیر ہوگئی‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال زندگی جو صحت کے ساتھ ہو اُسے سب سے بڑی نعمت جانتے تھے۔ سید نذیر نیازی سے ایک گفتگو کے درمیان علّامہ نے بتایا …’’زندگی نعمت ہے بہت بڑی نعمت لیکن اس کے ساتھ صحت کا ہونا کس قدر ضروری ہے میرا اشارہ انکار نعمت کی طرف نہیں بلکہ زوال نعمت کی طرف ہے۔ علم کی لذّت بڑی چیز ہے لیکن اس میں کچھ مزا ہے تو جب ہی کہ زندگی کے ساتھ صحت ہو۔ انسان کچھ کہے کچھ کر سکے۔ یہ نہیں تو زندگی کیا ہے ہیچ، حکمت و فلسفہ ہیچ‘‘۔ اقبال زندگی کے ہر لمحہ سے مثبت کام لیناچاہتے تھے۔ وہ صاحب فراش نہیں رہنا چاہتے تھے اسی لیے وہ ہر نسخہ کو آزمانے میں کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ وہ جلد از جلد صحت یاب ہو کر کام کرنا چاہتے لیکن بیماری کے زمانے میں بھی بستر مرگ سے قوم کو زندگی کا پیغام دینے میں مصروف رہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال زندہ رودمیں لکھتے ہیں۔۔۔ آواز کی اچانک خرابی اقبال کے لیے ایک نفسیاتی دھچکا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس مصیبت سے جتنی جلد ممکن ہو سکتا ہے،چھٹکارا حاصل ہو اور وہ معمول کے مطابق اپنی مصروفیات کی طرف متوجہ ہوں۔ ڈاکٹروں، حکیموں، اور جراحوں کے علاج نے ان پر مایوسی کی کیفیت طاری کری دی تھی۔ غالباََ اسی سبب وہ ٹونکوں یا چٹکلوں پر اتر آئے تھے یا کسی معجزہ کے منتظر تھے۔ بیماری کے باعث ملکی سیاست میں ان کی دلچسپی کچھ محدود سی ہوگئی، لیکن بالکل ختم نہ ہوئی۔ اس زمانے کے اخبارات بالخصوص انقلابمیں ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہم مسائل پر وہ اپنی رائے کا اظہار ضرور کرتے مثلاََ کشمیر میں ایجی ٹیشن ہنوز جاری تھی اور ریاستی پولیس سیاسی مظاہرین کو وحشیانہ سزائے بیدزنی دینے پر یا ان پر گولی چلانے سے باز نہ آتی تھی۔ اس سلسلے میں اقبال نے ۲۲؍ فروری ۱۹۳۴ء کو نہ صرف وائسرائے کو تار بھیجا بلکہ ۳؍مارچ ۱۹۳۴ء کو ایسی انسانیت سوز سزاؤں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے جمعیتِ اقوام کے نام ایک برقی پیغام بھی لندن ٹائمزمیں شائع کرایا۔ اس کو کہتے ہیں ’’حقوق بشر‘‘کی حفاظت اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جو اپنے کلام میں یوں پیغام دے۔ آدمیت احترام آدمی با خبر شو از مقام آدمی شعر را مقصود اگر آدم گری است شاعری ہم وارثِ پیغمبری است خ خ خ گزارش امراض ۔اقبال کے قلم سے(Medical History by Iqbal) شاید اُردو ادب میں کوئی ایسا شاعر اور ادیب نہ ہو جس نے علّامہ اقبال کی طرح مفصّل اپنی بیماریوں کی روداد لکھّی ہو۔ علّامہ نے(251)سے زیادہ خطوں میں مختصر اور مفصّل اپنی بیماریوں کی کیفیت بڑے ہی جامع اور مفید طور پر لکھّی ہے جس کے پڑھنے سے آج تقریباََ ستّر اسّی سال بعد بھی مرض کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ جوانی ہی سے اقبال کو بیماریوں نے گھیر رکھّا تھا چنانچہ وہ درد و دوا کے عادی تھے۔ یونانی دواؤں کو ایلوپتھک دواؤں پر ترجیح دیتے تھے۔ اگرچہ اکثر ڈاکٹر اور حکیم خود اقبال کی کوٹھی پر پہنچ کر ان کا علاج کرتے تھے لیکن جو ڈاکٹر اور حکیم لاہور سے باہر رہتے ان کو وہ اپنی بیماری کی ضروری ہدایات لکھ کر بھیجتے اور دوا دریافت کرتے تھے اور بعض اوقات خود ان سے ملنے لاہور سے باہر جاتے تھے۔ سید نذیر نیازی اور ڈاکٹر مظفر قریشی کے ذریعہ حکیم نابینا عبد الوہاب انصاری کو، بھوپال میں ڈاکٹر عبدالباسط اور ان کے مشاور و معاون ڈاکٹروں کو، اسٹریا، ویانا میں ڈاکٹر مظفر حلق و گوش بینی(ENT)اسپشلسٹ کو اور بعض دور دراز دوست و احباب کو اپنی بیماری سے مطلع کرتے اور جو شخص بھی کوئی نسخہ لکھ دیتا اُس پر عمل کرتے صرف سرجری یا جدید ایلوپتھک علاج سے قبل آخری عمر میں حکیم نابینا سے مشورہ کرلیا کرتے اور اُن کی رائے بغیر دوا استعمال نہ کرتے۔ کئی خطوں کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علّامہ نے اپنی بیماری کی گزارش کو جس طرح سے پیش کیا ہے کوئی دوسرا اس طرح سے پیش مشکل سے ہی کر سکتا تھا۔ بقول فارسی شعری مقولہ ؎ کس نخارد پشت من جز ناخن انگشت من یعنی کوئی چیز میری پیٹھ کو کھجانے میں میری انگلی سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ علّامہ کی تحریریں حکیموں، ڈاکٹروں ، دوستوں اور رشتہ داروں سے بہتر ان کی بیماری کی عکاسی کرتی ہیں۔ ذیل کے چند خطوں سے ہماری بات واضح ہو جائے گی۔ ۱۲؍ نومبر ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’آواز میں کچھ ترقی ہوئی تھی، مگر وہ ترقی عارضی ثابت ہوئی۔ میں کوئی بد پرہیزی بھی نہیں کرتا، البتّہ صحت کی حالت ایسی ہے کہ کوئی شخص مجھے بیمار خیال نہیں کرتا۔‘‘ سید نذیر نیازی اقبال کے حضور میںلکھتے ہیں۔ جمعہ ۱۱؍ مارچ ۱۹۳۸ء ’’میں نے خیریت مزاج دریافت کی اور اور ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا۔ حضرت علّامہ نے حسبِ معمول فرمایا : الحمد للہ۔ پھر اپنی صحت اور علالت کا ذکر کچھ اس طرح کرنے لگے کہ اس میں یاس و حزن کا رنگ غالب تھا۔ ارشاد ہوا : مجھ پر چار حملے ہو چکے ہیں۔ ایک قولنج کا دورہ، جو آج سے بہت پہلے بڑی شدت کے ساتھ ہوا تھا، پھر ۱۹۲۸ء میں درد گردہ نے خاصا پریشان کیا۔ ۱۹۳۴ء میں گلا بیٹھ گیا اور اب چند دنوں سے جو حالت ہے اچھی نہیں ہے۔ لیکن میں سمجھتا تھا کہ یہ قولنج اور درد گردہ تو خیر دو الگ الگ تکلیف تھیں البتہ ۱۹۳۴ء اور اب کا معاملہ در اصل ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاںہیں۔‘‘ ۹؍جنوری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’حکیم صاحب کی خدمت میں مندرجہ ذیل عرض ہے: (۱) چلنے پھرنے کی قوت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ عام صحت کسی قدر بہتر ہو گئی ہے۔ (۲) پاؤں پر کسی قدر ورم معلوم ہوتا ہے۔ (۳) کسی قدر خشک بواسیر بھی ہے۔ ممکن ہے یہ اس تبدیلی کی وجہ سے ہو جو حکیم صاحب قبلہ نے دوا میںکی تھی۔ (۴) پاخانہ تین چار دفعہ دن میں آتا ہے۔ (۵) بھوک کم ہے باقی رہا سو شانوں کے درمیان جو درد ہوتی تھی وہ Embrocation سے جاتی رہی ہے۔ آواز کی حالت بدستو ر ہے۔ بھوک میں کمی ہے۔ ۱۳؍ فروری ۱۹۳۵ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’بجلی کا علاج ابھی صرف چار دفعہ ہوا ہے کچھ خفیف سا فرق آواز میں ہے۔ نبض کی حالت اور علیٰ ہذا القیاس اور دل اور پھیپھڑوں کی حالت بہت عمدہ ہے۔‘‘ ۳۰؍ مارچ ۱۹۳۸ء کو ڈاکٹر مظفر الدین کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’کل میں آپ کو ایک خط لکھ چکا ہوں جس میں میں نے اپنی تین شکایتیں لکھی تھیں یعنی اجابت کا کُھل کر نہ ہونا، نیند کا نہ آنا ، اور پیٹھ کا درد۔ دو باتیں اور تھیں جن کو لکھنا بھول گیا۔یعنی پیشاب کا کم آنا، ایک پاؤں میں خفیف سا ورم ہونا، جو غالباََ خرابیٔ جگر کی علامت ہے۔‘‘ اقبال اپنے قلم سے پروفیسر الیاس برنی صاحب کو اپنی بیماری کی رپورٹ لکھتے ہیں۔۔۔ ’’لاہور ۔ ۱۳؍ جون ۳۶ء مخدومی پروفیسر صاحب السلام علیکم نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے نہایت شکر گزار ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کو طب میں بھی دخل ہے۔ اگر معلوم ہوتا تو ضرور آپ کی خدمت میں لکھتا۔ دو سال سے اوپر ہوگئے۔ جنوری کے مہینے میں عید کی نماز پڑھ کر واپس آیا۔ سِویّاں دہی کے ساتھ کھاتے ہی زکام ہوا۔ بہدا نہ پینے پر زکام بند ہوا تو گلا بیٹھ گیا۔ یہ کیفیت دو سال سے جاری ہے۔ بلند آواز سے بول نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے مجھے بالآخر بیرسٹری کا کام بھی چھوڑنا پڑا۔ انگریزی اور یونانی اطبا دونوں کا علاج کیا مگر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ مجھے کسی قدر دمہ کی بھی شکایت ہو گئی۔ حکیم نابینا صاحب نے فرمایا کہ تمہاری بیماری ایک ہلکا سا دمہ ہے۔ کھانسی اس شدّت سے آتی تھی کہ میں بے ہوش ہو جاتا تھا اب یہ کیفیت نہیں ہے۔ صبح بلغم نکلتی ہے علیٰ ہذا القیاس کھانا کھانے کے بعد بھی سفید بلغم نکلتی ہے۔ جس کے نکلنے سے آواز نسبتاََ بہتر ہو جاتی ہے۔ انگریزی اطبّا کی تشخیص یہ ہے کہ ایک رگ جسے Aortaکہتے ہیں اور جو قلب کے قریب ہے ایک مقام سے پھیل گئی ہے اس کا دباؤ ووکل کارڈ پر پڑتا ہے جس کے سبب سے بولنے میں دقت ہوتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ان کی تشخیص یہ بھی ہے کہ طویل بیماری سے قلب کی رگیں کمزور ہو گئیں ہیں اس واسطے عام کمزوری ہو گئی ہے اور مجھے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس میں Excitementپیدا ہو۔ ذرا سی محنت کرنے سے دم پھول جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ غسل کرنے میں اپنے ہاتھوں سے اپنا بدن بھی اگر ملوں تو دم چڑھ جاتا ہے۔ عام کمزوری بھی ہے۔یہ مختصر کیفیت میری بیماری کی ہے۔ اگر آپ کوئی دوا تجویز کریں گے تو ضرور مفید ہوگی۔‘‘ اقبال کا علاج بیک وقت کئی حکیم اور ڈاکٹروں کے ذریعہ ہو رہا تھا اس لیے اقبال تشخیص مرض اور اس کے علاج کاحال اپنے تمام معالج ڈاکٹروں اور حکیموں کو لکھ رہے تھے۔ چنانچہ حکیم نابینا کو سنانے کے لیے ۲؍ جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔ ’’اس سلسلے میں پہلے ایک خط لکھ چکا ہوں۔ اُمیّدکہ آپ حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہوں گے۔ اگر اب تک آپ ان کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکے تو جلد جائیں۔ ڈاکٹروں نے مزید معائنہ کیا ہے اور چھاتی وغیرہ کی اکس ریزX-Rays فوٹو لیے گئے۔ معلوم ہوا ہے کہ دل کے اوپر کی طرف ایک نئیGrowthہو رہی ہے جس کے دباؤ سے ووکل کارڈVocal Cord متاثر ہوتی ہے۔اُن کے نزدیک اس بیماری کا علاج الیکٹرک ہے اور بہترین الیکٹرک علاج یورپ میں ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ اسGrowthکا اثر پھیپھڑوں پر نہ پڑے۔ اس وقت تک پھیپھڑے اور دل اور دیگر اعضاء اندرونی بالکل صحیح اور تندرست حالت میں ہیں۔ ان اُمور کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ظاہر ہے کہ معاملہ پیچیدہ ہے لیکن میں اس سے پہلے مغربی اطبّا کا امتحان کر چکا ہوں۔ حکیم صاحب سے مشورہ کئے بغیر یورپ نہ جاؤں گا۔ اور یورپ کے علاج پر روپیہ خرچ بھی نہیں کر سکتا۔ پہلے حکیم صاحب کی عنایت سے ہی میں اچھّا ہو گیا تھا۔ اب پھر میرا بھروسہ انہی پر ہے۔ اگر ضروری ہوا تو میں خود بھی ان کی خدمت میں حاضر ہو کر سب حال عرض کروں گا۔ والسلام‘‘ علّامہ کے ایکس ریز میں پہلے یہ اندیشہ کیا گیا کہ دل کے اوپری حصّے میںکوئی ٹیومر یا نئی Growthہے لیکن اس تشخیص میں ڈاکٹروں کے درمیان اختلاف رائے تھا چنانچہ اس ضمن میں اقبال نے خود کئی خطوط لکھ کر اس پیچیدہ مسئلہ کا حل دریافت کیا۔ ۵؍جون ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کولکھتے ہیں۔۔۔ ’’ نیز حکیم صاحب اور اپنے امریکی دوست سے دریافت کریں کہ وہ اسGrowthکے متعلق کیا کہتے ہیں۔۔۔جس کو ڈک صاحب بیماریکی اصل علّت قرار دیتے ہیں۔ بلغم کے متعلق لکھ چکا ہوں زیادہ تر کچی بلغم نکلتی ہے کبھی کبھی منجمد بھی آتی ہے مگر کم۔ شام کے قریب بالعموم بہت بھاری ہو جاتی ہے۔ بات آہستہ کر سکتا ہوں اونچی آواز بالکل نکل نہیں سکتی نہ صبح نہ شام ۔ کہتے ہیں کہ ایکس رے ایکسپوژر سے یہGrowthیا تو تحلیل ہو جائے گی یا اس کی نشونما رک جائے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ حکیم صاحب کی دوا کے استعمال کے ساتھ ساتھ یہ علاج بھی جیسا کہ لاہور میں موجود ہے کیا جائے؟ــ‘‘ ۱۱؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو سید نذیر نیازی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ ابھی دوبارہ X-Ray سے سینہ دکھا کر آیا ہوں۔ یہ بات اب یقین ہو گئی ہے کہ ٹیومر یا Growthنہیں صرف شاہ رگ کا پھیلاؤ ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہ رگ کا پھیلاؤ یا تو خون کے سمی مادوں سے پیدا ہوتا ہے یا بعض پہلوانوں اور گویّوں کو بھی ہو جاتی ہے۔ نفس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے۔‘‘ ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو ڈاکٹر عبد الباسط کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’وہ فوٹو جو آپ نے میرے سینے کا لیا تھا اسے اکسپرٹ اوپینین کے لیے ویانا بھیج دیا جائے تو بہت مناسب ہے۔ ڈاکٹر خان بہادر صاحب سے بھی یہی عرض کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر رحمٰن صاحب سے کہہ کر اسے ویانا بھجوا دیں اور نیز اکسپرٹ کی جو فیس ہوگی وہ میں ادا کردوں گا۔ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے بھجوایا ہے یا نہیں۔ مہربانی کرکے ان سے دریافت کر کے جہاں تک ہو جلد اطلاع دیجئے۔‘‘ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو ڈاکٹر عبد الباسط کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’میںنے ڈاکٹرانصاری اور سید راس مسعود سے خط و کتابت کی ہے اور دونوں حضرات نے ویانا جانے کے خیال کی تائید کی ہے۔۔ڈاکٹر انصاری نے مجھے ڈاکٹر مظفر علی صاحب کا پتہ دیا ہے اور خود بھی ان کو خط لکھا ہے اب آپ مہربانی کرکے وہ فوٹو ڈاکٹر مظفر علی صاحب کی خدمت میں بھجوا دیں ۔ اس فوٹو کے ساتھ بیماری کی ہسٹری پر ایک نوٹ بھی ڈاکٹر رحمٰن صاحب سے یا ڈاکٹر خان بہادر صاحب سے لکھوا کر ان کی خدمت میں ارسال کریں۔ علاوہ اس کے جو تھوڑا سا اختلاف آپ میں اور ڈاکٹر رحمٰن صاحب میں فوٹو کے متعلق ہے اس پر بھی ایک نوٹ لکھ کر ڈاکٹر مظفر علی صاحب کو بھجوا دیں۔۔۔ ڈاکڑ مظفر علی صاحب کا پتہ ہے۔ Dr.M.Ali M.D IX Harmoniegasse 415 Wiena, Austria ۷؍ دسمبر ۱۹۳۵ء کو ڈاکٹر عبد الباسط کو لکھتے ہیں۔۔۔ ’’سید مسعود صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ فوٹو آسٹریا بھیج دئے گئے امید کہ آ ج کل میںمجھے وہاں سے جواب آئے گا۔ انشاء اللہ اب عنقریب حاضر خدمت ہوں گا مہربانی فرما کرمطلع فرمائیے کہ جنوری میں وہاں موسم کیسا ہوگا اور آیا دسمبر کی تعطیلات میں ہسپتال تو بند نہ ہوگا۔ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۳۵ء کو ڈاکٹر عبد الباسط کو لکھتے ہیں۔۔۔۔ ’’آج ڈاکٹر مظفر علی صاحب کا خط ویانا، آسٹریا سے آیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ بھوپال سے کوئی کاغذات ان کو موصول نہیں ہوئے۔‘‘ خ خ خ اقبال کی میڈیکل ہسٹری اور معائنہ آج سے پچیس(25)تیس(30) سال قبل جب میں گلاسگو اسکاٹ لینڈ انگلینڈ میں میڈسن کے تخصّص کی ڈگری حاصل کرنے لیے وہاں کے بڑے ہسپتال رایل انفرمری میں مشغول طبابت و تحصیل تھا ۔ اُس وقت میں نے پیتھالوجی ڈپارٹمنٹ کے میوزیم میں دو بڑے ڈھائی گز لمبے ۲ گز چوڑے سفید تختے دیوار پر چسپاں دیکھے ایک پر اُس ہسپتال کے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر ٹیچر نے اپنی زندگی میں خود اپنی پوسٹ مارٹم رپورٹ لکھی تھی اور دوسرے تختے پر ان کے اسٹینٹ نے پروفیسر ٹیچر کے مرنے کے بعد ان کا پوسٹ مارٹم کرکے رپوٹ لکھی تھی۔ میرے تعجب کی انتہا نہ تھی کیوں کہ دونوں رپوٹیں تقریباََ ایک ہی طرح کی تھیں صرف پروفیسر ٹیچر یہ سمجھتے تھے کہ ان کے دماغ کے سیدھے حصّے میں فالج کی وجہ سے کچھ حصّہ گھل کربڑا سوراخ بنا چکا ہے جو پوسٹ مارٹم کے بعد صحیح نہیں نکلا۔ شاید پروفیسر ٹیچر دنیا کے پہلے ڈاکٹر ہوں جنھوں نے 1940کے لگ بھگ اپنی زندگی میں اپنے تجربوں سے فائدہ اٹھا کر ایسا انوکھا کام کیا جو یادگار ہے۔ اِسی یادگار کام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے یہاں علّامہ اقبال کی میڈیکل معائنہ کی رپوٹ ، ان کے خطوط، حوالوں ، طبّی رپوٹوں سے تیار کی ہے جس سے علامہ کی صحت اور ان کی بیماریوں کی تشخیص جو ۱۹۳۸ء یعنی ان کے انتقال کے سال ہوئی ہے اس کا حال معلوم ہو سکے۔ Mohammed Iqbal Name Sheikh Nur Muhammad Father's Name Imam Bibi Mother's Name 14th November 1877 Date of Birth 61 years Age Sialkot-Punjab Place of Birth Married Marital Status One Brother & four sisters Siblings Two sons & two daughters Children Sedentry (Reference) Life Style Barrister Profession 5 Feet Six Inches (passport) Height 70 Kilograms (approximate) Weight Fair Complexion Kashmiri Race Muslim (Islam) Religion A scar on left foot (passport) Mark of Identification Grey (photo) Color of Hair Male pattern (Photo) Pattern of Hair Light blue color Color of Iris Moderate (photo) Built Natural teeh present(photo & Reference) Teeth Physical Examination: Normal or Low (Reference) Blood Pressure Clear or Rouchi or Creptation Lungs Pulse - Irregular (Reference) Heart Ascitis + hepatomegaly (Reference) Abdomen Feet Present (Reference) Edema Cataract (immature) (Reference) Eyes Diagnosis: - Congestive heart failure (Right) (Reference) - Ischemic heart disease (Angina) (Reference) - Bradycardia (Av block) - Cardiac Irrhythemia - Cardiomegaly (Reference) - Pneumonia - Pulmonary Edema - Pulmonary Congestion - Pleural Effusion - Hepatomegaly (Passive Venous Congestion) (Reference) - Ascitis, bilateral feet edema (anasarca) (Reference) - Left Renal Calculus - (Renal Colic) (Reference) - Gout (Reference) - Vocal cord polyps (hoarseness of voice) - insomina (Reference) Present History: 1. Shortness of Breath (Dyspnea) (Reference) 2. Congestive Heart Failure (Right) 3. Ischemic Heart Disease (Unstalbe Angina) (Reference) 4. Pneumonia and Cough 5. Insomina (Reference) 6. Hoarseness of Voice (Reference) 7. Bilateral immature cataract (Reference) 8. Fatigue (Reference) 9. Pulmonary Edema 10. Constipation (Reference) 11. On and off attacks of Gout (Reference) 12. On and off attacks of Renal colic (Reference) Family History: 1. Mother suffered from Renal colic attacks. (Reference) 2. Father had total blindness probably due to cataract.(Reference) 3. Father died at the age of 93 years (Reference) 4. Mother died at the age of about 75 years (Reference) Personal History: - Smoker = 30-35 years (References) - Alcohol = Never drank (References) - Druge Use= Not known - Herbal Medicine = Used regularly (References) - Unani Medicine = Used regularly ((References) Rarely in Kushta and majoons with metalic ingredients. (References) - Fatty and oily Diet ((References) Chief Complaints: 1. Shortness of Breath (Dyspnea) (Reference) 2. Sputum with blood and cough (Reference) 3. Pain in Shoulders (Reference) 4. Hoarseness of Voice (Reference) 5. Ascitis (Reference) 6. Edema of both feet (Reference) 7. Cataract in both eyes (Reference) 8. Insomnia (Reference) Medical Investigations: 1. Blood Test report - Septicemia, High uric acid (Reference) 2. X-Ray abdomen report - Renal Calculus (Reference) 3. X-Ray chest report - Cardiomegaly (Reference) 4. Bilateral Cataract (both eyes) (Reference) علامہ اقبال کی آخری علالت علّامہ اقبال کی آخری علالت یا مرض الموت کو سمجھنے کے لیے ہم سید نذیر نیازی کے مشہور مضمون ’’آخری علالت‘‘سے اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔ یہ پہلا اور جامع مضمون تھا جو نیازی صاحب نے علّامہ کے انتقال کے کچھ مہینوں بعد شائع کیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ علّامہ کے مرض الموت سے نیازی صاحب سے بہتر کون واقف ہو سکتا ہے۔ علّامہ کے سو سے زیادہ خطوط نیازی صاحب کے نام ہیں اورتقریباََ تمام خطوں میں علالت یا اس سے مربوط مسائل کا بیان ہے۔ ۱۹۳۴ء کا ذکر ہے، عید الفطر کا دن تھا۔ ۱۰؍ جنوری لاہور کے ہر گلی کوچے میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ حضرت علامہ بھی نہایت مسرور تھے۔ ان کا معمول تھا کہ اس مبارک تقریب پر ہمیشہ احباب کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ چودھری محمد حسین صاحب سے رات ہی سے کہہ رکھا تھا۔ ان کے آنے پر گاڑی منگوائی گئی اور حضرت علامہ ، چودھری صاحب، جاوید سلمہ اور علی بخش کے ساتھ شاہی مسجد روانہ ہو گئے۔ علی بخش کہتا ہے ۱۰؍ جنوری کا دن نہایت سرد تھا۔ صبح ہی سے تیز اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ حضرت علامہ لباس کے معاملے میں نہایت بے پروا تھے۔ سوٹ اسی وقت پہنتے جب کوئی خاص مجبوری ہوتی۔ گلوبند سے تو خیر انہیں نفرت تھی ہی موزے بھی استعمال کرتے تو نہایت باریک، بالعموم شلوار، کوٹ اور پگڑی ہی میں باہر تشریف لے جاتے۔ اس روز بھی ان کالباس یہی تھا۔ علی بخش کا خیال ہے کہ حضرت علامہ کو موٹر میں آتے جاتے ہوا لگی۔ اس پر طرہ یہ کہ جاڑے کی شدت سے زمین یخ ہو رہی تھی۔ جن حضرات نے شاہی مسجد کو دیکھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ دروازے سے محراب تک کتنا فاصلہ ہے۔ حضرت علامہ کو دوبار صحن سے گزرنا پڑا دونوں بار ان کے پاؤں نے سردی محسوس کی۔ واپس آئے تو حسب عادت سویاں کھائیں۔ پنجاب میں شیر خرما کا رواج بہت کم ہے۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ سویاں ابال کر رکھ لیں اور پھر جب جی چاہا ان میں دودھ اور شکر کا اضافہ کر لیا۔ لیکن حضرت علامہ نے اپنے والد ماجد مرحوم کی تقلید میں دودھ کی بجائے دہی استعمال کیا۔ عید کا دن تو خیر آرام سے گزر گیا لیکن اگلے روز ان کو نزلے کی شکایت ہو گئی۔ حضرت علامہ کا گلا بچپن ہی سے خراب رہتا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے آج سے انیس بیس برس پہلے جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت بھی وہ منٹ دو منٹ کے بعد زور زور سے کھنکار لیتے تھے۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ حکیم فقیر محمد صاحب مرحوم نے انہیں عرصے سے تاکید کر رکھی تھی کہ دودھ اور ہر اس شے سے جو دودھ سے بنی ہو پرہیز کریں۔ لہذٰا اس موقع پر انہیں قدرتاََ یہی خیال ہوا کہ یہ سردی میں دہی کھا لینے کا اثر ہے جو دو چار دن میں جاتا رہے گا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے کچھ دوائیں استعمال کیں جن سے بہت کم فائدہ ہوا اور ڈاکٹری (اور غالباََ طبی) جو بھی علاج کیا گیا ناکام رہا۔ علی بخش معمولاََ ان کی خواب گاہ کے پاس ہی بڑے کمرے میں سویا کرتا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اس تکلیف کو شروع ہوئے ۱۵ دن گزرے تھے کہ ایک شب کو دفعتاََ میری آنکھ کھل گئی ، اس وقت کوئی دو ڈھائی کا عمل ہوگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب چارپائی پر بیٹھے کھانسی سے بے حال ہو رہے ہیں۔ صبح تک یہی حالت رہی۔ اب کی دفعہ ان کے لیے مسہل تجویز کیا گیا۔ پھر ایسا ہوا کہ کھانسی تو جاتی رہی مگر گلا بیٹھ گیا۔‘‘ اس کے بعد ایک نہیں متعدد علاج ہوئے۔ اطبا اور ڈاکٹروں نے جو تدبیر سمجھ میں آئی کی۔ بعض دفعہ تو ایسا معلوم ہونے لگتا کہ حضرت علامہ بالکل تندرست ہیں لیکن گلے کو ٹھیک نہ ہونا تھا نہ ہوا۔معلوم نہیں ان کا مرض کیا تھا کہ اس کے سامنے تمام کوششیں اکارت گئیں۔ میں ان دنوں دہلی میں تھا اور ان حالات سے بالکل بے خبر۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر بہجت وہبی جامعہ ملیہ کی دعوت پر توسیعی خطبات کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر انصاری مرحوم کی خواہش تھی کہ سال گذشتہ کی طرح ان میں سے کسی ایک کی صدارت حضرت علامہ بھی کریں۔ یوں بھی جامعہ کا ہر طالب علم ان کی زیارت کا مشتاق تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر ذاکر صاحب کی فرمائش پر ایک عریضہ میں نے بھی ان کی خدمت میں لکھا۔ اس کا جواب موصول ہوا تو راقم الحروف نے تعجب سے دیکھا کہ والا نامہ توحضرت ہی کا ہے مگر تحریر کسی دوسرے ہاتھ کی۔ مضمون یہ تھا: ’’میری طبیعت کئی دنوں سے علیل ہے، اس لیے دہلی ڈاکٹر وہبی صاحب کے لیکچر کی صدارت کے لیے نہیں جا سکوں گا۔ ڈاکٹر انصاری کا تار بھی آیا تھا…ڈاکٹر ذاکر صاحب کا خط بھی اسی مطلب کا آیا ہے۔ میں علیحدہ ان کو نہیں لکھ سکا۔ آپ ہی انہیں اطلاع دے دیجئے گا نیز آپ کا لاہور آنے کا ارادہ ہو تو زیادہ اچھایہی ہے کہ اس وقت تشریف لائیں جب میں اچھا ہو چکوں گا۔‘‘ ۱۳؍ فروری ۱۹۳۴ء بظاہر یہ خط میرے اطمینان کے لیے کافی تھا اور اس کے بعد حضرت علامہ نے بھی اپنی بیماری کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن آخر اپریل میں جب مجھے کچھ دنوں کے لیے لاہور آنے کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ حضرت علامہ بدستور علیل ہیں۔ میں ان کی میکلوڈ والی کوٹھی میں حاضر خدمت ہوا تو ان کے زرد چہرے کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ آواز نہایت کمزور تھی، جیسے کوئی سرگوشیاں کر تا ہو۔ اٹھنے بیٹھنے میں ضعف و نقاہت کا اظہار ہوتاتھا۔ میںنے بادب عرض کیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب کیا ماجرا ہے۔ میں تو سمجھتا تھا آپ بالکل اچھے ہوں گے۔‘‘ فرمایا ’’کچھ پتا نہیں چلتا۔ کئی ایک علاج ہوئے لیکن گلے کی تکلیف بدستور قائم ہے۔ ممکن ہے نقرس کا اثر ہو میں نے زیادہ تفصیل سے حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ اول کھانسی تھی، پھر گلا بیٹھ گیا۔ اس کیلیے غرغرے تجویز ہوئے، دوائیں لگائیں گئیں مگر بے سود۔آخر رائے یہ ٹھہری کہ ایکس رے (X-Ray)کرایا جائے۔ ایکس رے ہوا تو پتہ چلا کہ قلب کے اوپر ایک رسولی بن رہی ہے۔ یہ علامات نہایت خطرناک تھی اس لیے کچھ دنوں کے بعد پھر اس عمل کا تکرار ہوا اور اب کے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ بہتر ہوگا ڈاکٹر صاحب وصیّت کردیں۔ میں نے ان حالات کو سُن کر عرض کیا ’’کیوں نہ حکیم نا بینا صاحب سے مشورہ کر لیا جائے۔ ۱۹۲۸ء میں جب ڈاکٹر صاحبان کی آخری اور قطعی رائے تھی کہ جراحت کے سوا گردوں کاکوئی علاج نہیں تویہ انہیں کی معجز نما دواؤں کا اثر تھا کہ آپ کو شفا ہوئی۔ فرمایا : عجب معاملہ ہے مجھے اس کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ اب تم دہلی جاؤ گے تو سب باتیں ان کی خدمت میں کہہ دینا۔ممکن ہوا تو ایک آدھ دن کیلیے میں بھی چلا آؤں۔غرض کہ ان حالات میںدہلی واپس آیا اور آتے ہی حکیم نابینا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حکیم صاحب قبلہ بڑی عنایت سے پیش آئے ۔ میں نے حضرت علامہ کے مرض کی ساری کیفیت بیان کی تو بہت متردد ہوئے اور پھر دیر تک سوچنے کے بعد کہنے لگے۔ نیازی صاحب ! گھبرائیے نہیں۔ بے شک ڈاکٹر صاحب کے اعصاب کمزور ہیں اور ان کا قلب بھی ضعیف ہے لیکن مجھے ڈاکٹروں کی رائے سے اتفاق نہیں۔ آپ انہیں اطمینان دلائیے ۔میں نسخہ تجویز کئے دیتا ہوں انشاء اللہ جلد صحت ہوگی۔ بس یہ دن تھا جب حکیم نابینا صاحب کا علاج شروع ہوا اور باوجود طرح طرح کے قیمتی مشوروں اور تدابیر کے، جو نئی اور پرانی طب کے ماہرین نے کیں، تادم آخر قائم رہا۔ حقیقتاََ انہیں جس قدر فائدہ ہوا، حکیم صاحب ہی کے علاج سے ہوا اور جب ان کی تدابیر ناکام ثابت ہوئیں تو پھر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ حضرت علامہ نے حکیم صاحب کی دواؤں کے ساتھ مزید احتیاط یہ کی کہ جدید طریقہ ہائے تشخیص سے برابر مدد لیتے رہتے اور پھر ان کے نتائج سے بلا کم و کاست مجھے اطلاع کرتے رہتے جب میں حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا اور سب حالات بیان کردیتا۔اس اثنا میں ڈاکٹروں نے کئی نظریے قائم کئے مگر حکیم صاحب اپنے خیال پر جمے رہے۔ ان کا ارشاد تھا : ڈاکٹر صاحب کے اعصاب میں برودت ہے قلب ضعیف ہے جگر میں حدت پیدا ہو گئی ہے۔ ان کو ہلکا سا دمہ ہے۔ ڈاکٹروں نے بلغم کے انجماد کو غلطی سے رسولی سمجھ لیا ہے۔ راقم الحروف کو اگرچہ فنی اعتبار سے رائے زنی کاکوئی حق نہیں پہنچتا لیکن اتنا مجبوراََ کہنا پڑتا ہے کہ اگر لفظی اختلافات سے قطع نظر کر لی جائے تو بعد کے امتحانات سے حکیم صاحب ہی کی تشخیص کم وبیش صحیح ثابت ہوئی۔ حضرت علامہ ۲۹؍ مئی ۱۹۳۴ء کے عنایت نامے میں لکھتے ہیں : ڈاکٹر کہتے ہیں کہ گلے کے نیچے جو آلہ صوت(Larynx)ہے اس کا تار ڈھیلا ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے آوازبیٹھ گئی ہے۔ چار ماہ تک علاج ہوا، کچھ خاص فائدہ اس سے نہیں ہوا جسم کی کمزوری بڑھ رہی ہے۔ درد گردہ اور نقرس کا حال تو حکیم صاحب کو خود ہی معلوم ہے…بعض ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ نقرس کا اثر بھی گلے پر پڑ سکتا ہے۔ واللہ اعلم! پھر فرماتے ہیں : ڈاکٹروں نے مزید معائنہ کیا ہے اور چھاتی وغیرہ کی ایکس ریز(X-Rays)فوٹو لیے گئے۔ معلوم ہوا کہ دل کی اوپر کی طرف ایک نئی Growth ہو رہی ہے جس کے دباؤ سے ووکل کارڈ(Vocal Cord)متاثرہوتی ہے ان کے نزدیک اس بیماری کا علاج الیکٹرک ہے اور بہترین الیکٹرک علاج یورپ میں ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ اسGrowthکا اثر پھیپھڑوں پر نہ پڑے۔ اس وقت تک پھیپھڑے دل اور دیگر اعضاء اندرون بالکل صحیح اور تندرست حالات میں ہیں …لیکن میں اس سے پہلے مغربی اطبا کا امتحان کر چکا ہوں۔ حکیم صاحب سے مشورہ کئے بغیر یورپ نہ جاؤں گا اور یورپ کے علاج پر روپیہ خرچ بھی نہیں ہو سکتا۔ ۲؍ جون ۱۹۳۴ء ابھی میں ان باتوں کو حکیم صاحب کے گوش گزار نہ کرنے پایا تھا کہ اگلی ہی صبح کو ان کا دوسرا خط موصول ہوا: ’’دو دفعہ ڈاکٹروں نے خون کا معائنہ کیا ہے۔ پہلی دفعہ خون باسلیق سے لیا گیا تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ خون میں زہریلے جراثیم ہیں اور دوسری دفعہ پھر انگلی سے خون لیا گیا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ خون کی حالت بالکل نارمل ہے۔‘‘ میں اس اثنا میں حکیم صاحب کے مشورے سے ایک عریضہ لکھ چکا تھا اس کے جواب میں فرمایا : آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ خیرت ہے۔ میرے تمام احباب کو تشویش ہے اور میرے معالجوں کو بھی۔ مگر میں خود حکیم صاحب قبلہ پر کامل اعتماد رکھتا ہوں اور موت و حیات کو اللہ کے ہاتھ میں سمجھتا ہوں…ڈاکٹر یہی سمجھتے ہیںکہ فوراََ ویانا (آسٹریا) یا لندن جانا چاہئے …ان کے نزدیک اسGrowthکی طرف توجہ نہ کی گئی تو زندگی خطرے میں ہے …معلوم نہیں آپ نے حکیم صاحب اور امریکن دوست سے اسGrowthکا ذکر کیا یا نہیں کیا۔ کل شام ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر حکیم صاحب کامیاب ہو گئے تو یہ ان کا دوسرا معجزہ ہوگا۔ ۵؍جون۱۹۳۴ء ان اقتباسات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبان کے نزدیک حضرت علامہ کا مرض کس قدر خطرناک تھا۔ لہٰذا انہیں بار بار مشورہ دیا جا رہا تھا کہ یورپ یا انگلستان تشریف لے جائیں۔ میں نے حکیم صاحب کی طرف سے ایک تسلی آمیز خط لکھا تو جواب آیا: تشویش صرف اس بات کی تھی کی دل کے اوپر کی طرف جو خالیAreaہوتا ہے وہاں ڈاکٹر ایکس ریز کی تصویر دیکھ کر ایک Growth بتاتے ہیں جس کا بہتر علاج ان کے نزدیک ایکس ریز ایکسپوژر یا ریڈیم ہے جو یورپ میںمیسر آئے گا۔ آج معلوم ہوا کہ بعد بحث مباحثہ خود ان میں بھی اختلاف رائے ہے۔ … میری تمام صحت اس وقت تک خدا کے فضل سے اچھی ہے۔ صرف آواز اونچی نہیںنکل سکتی… میں چاہتا ہوں خود حاضر ہو کر حکیم صاحب کی خدمت میں جملہ حالات عرض کردوں۔ (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ خط کا یہ آخری جملہ ترتیب کے لحاظ سے خط میںپانچویں سطر میں ہے جبکہ پہلے دو جملے خط کے تقریباََ آخر میں درج ہیں)۔ لہٰذا ۱۱؍ جون کو صبح علامہ حکیم صاحب سے مشورے کی خاطر ایک روز کے لیے دہلی تشریف لائے ۔ حکیم صاحب نے انہیں دیکھا تو ہر طرح سے اطمینان کا اظہار کیا ۔ حضرت علامہ بھی نہایت خوش و خرم واپس گئے۔ اب کے جو دوا تجویز ہوئی اس کے اثرات کے متعلق فرماتے ہیں: ’’آواز میں جیسے کہ پہلے لکھ چکا ہوں فرق آگیا ہے۔ عجب معاملہ ہے جس سے انسانی ضمیر کے اندر جو کچھ گزر رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ میری بیماری میں محض اس واسطے دلچسپی لے رہے ہیں کہ دیکھیں ڈاکٹروں کو کب شکست ہوتی ہے …اب کی دفعہ کوئی اس سے زیادہ طاقتور دوا ہو تو اور بھی اچھا ہے تاکہ معجزے کا جلد ظہور ہو۔‘‘ ۱۷؍جون ۱۹۳۴ء مختصراََ یہ کہ حکیم صاحب قبلہ کا علاج یہاں تک کامیاب ہو رہا تھا ۔لیکن صحت کی اس تدریجی ترقی کے ساتھ حضرت علامہ نے پرہیز کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ اس معاملے میں ان کا مزاج بڑا نازک تھا۔یوں وہ کوئی بہت زیادہ کھانے والے نہیں تھے۔ مگر کھانے پینے کی چیزوں میں شاعری توکر سکتے تھے۔ ان کا برسوں سے معمول تھا کہ رات کو صرف دودھ دلیا پر اکتفا کرتے اور جی چاہتا تو کشمیری چائے بھی استعمال کر لیتے۔ اس موقع پر حضرت علامہ کے نیاز مند بالائی کی تقسیم پر خوب خوب لڑا کرتے تھے (بنی ہوئی بالائی جو عام طور پر دود ھ میں ہوتی ہے) ان کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا۔ یعنی گوشت میں پکی ہوئی سبزی ، ناشتہ صرف لسی یا ایک آدھ بسکٹ اور چائے اور وہ بھی روز مرہ نہیں۔ خوراک کی مقدار بھی کم تھی اور اس کا اہتمام اس سے بھی کم۔ آخری دنوں میں جب بچوں کی جرمن اتالیق آگئی تو ان کی تربیت کے خیال سے میزکرسی کا انتظام کیا گیا۔ یہ چیزیں موجود تو تھیں مگر اتفاقی ضروریات کے لیے اور حضرت علامہ بھی ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہونے لگے۔ مگر پھر دو ہی تین دن میں اپنی عادت سے مجبور ہو جاتے۔ فرماتے ۔ علی بخش میرا کھانا یہیں لے آؤ۔علی بخش پانی اور چلمچی لیے کمرے میں داخل ہوا۔ حضرت علامہ لیٹے لیٹے اٹھ بیٹھے اور وہیں پلنگ پر نشست جما لی۔ تولیہ یا رومال زانوؤں پر ڈال لیا۔علی بخش نے کھانے کی کشتی سامنے رکھ دی۔ احباب میں سے اگر کوئی صاحب بیٹھے ہیں تو انہوں نے کہا ’’آپ بھی آئیے‘‘ کہہ کر کھانا کھانا شروع کر دیا۔ ہاں اگر کھانے کے بعد پھل بھی آگئے تو وہ باصرار ہر شخص کو ان میں شریک کر لیتے۔ یہ تھا ان کے کھانا کھانے کاانداز اور ہر چند کہ اس میں تکلف یا اہتمام کو کوئی دخل نہ تھا۔ مگر ان کی رائے تھی کہ جو چیز بھی کھائی جائے خوش مذاقی سے کھائی جائے۔اس کا ذائقہ عمدہ ہو، رنگ اور بو خوشگوار ہو۔ ترشی اورسرخ مرچ انہیںبہت پسند تھی۔پھلوں میں آم کے تو وہ گویا عاشق تھے۔ غذاؤں میں کباب اور بریانی خاص طورسے مرغوب تھی فرمایا کرتے تھے یہ ’’اسلامی غذا‘‘ہے۔ گرمیوں میں برف کے استعمال کو ہر شخص کا جی چاہتا ہے لیکن حکیم صاحب نے گلے کی تکلیف کے خیال سے منع کر رکھا تھا۔ حضرت علامہ بار بار پوچھتے برف کے متعلق کیا رائے ہے؟ ایک دفعہ لکھامکہ شریف سے ایک شخص صراحی لایا تھا اسی میں پانی ٹھنڈا کر لیتا ہوں۔ مگر جب صحت کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو استفسارات کی بھرمار ہونے لگی…اب مزاج میں بھی لطافت اور شگفتگی آ چکی تھی۔ حکیم صاحب قبلہ ان تحریروں کو سنتے اور سن سن کر کبھی ہنستے کبھی کوئی فقرہ چست کر دیتے ان کے منہ سے حضرت علامہ کے لیے سینکڑوں دعائیں نکلتیں اور وہ ان خطوں پر اس مزے کی گفتگو کرتے کہ گھنٹہ دو گھنٹے ان کے یہاں خوب صحبت رہتی۔ ان کا قاعدہ تھا کہ حضرت علامہ کی فرمائشوں کا حتی الوسع خیال رکھتے۔ مغزیات اور پھلوں کے استعمال کی انہوں نے خاص طور سے ہدایت کر رکھی تھی۔ یوں بھی ان کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کی غذا نہایت زود ہضم اور مقوی ہونی چاہئے مگر معلوم ہوتا ہے حضرت علامہ کبھی کبھی بد پرہیزی بھی کر لیتے۔ ۲۴ ؍جون کے گرامی نامے میں لکھتے ہیں: … پہلے ہفتے سے ترقی جو آواز میں ہوئی تھی کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ ترقی معکوس میں ہوئی ان کے وجوہ جہاں تک سوچ سکتا ہوں تین ہو سکتے ہیں: ۔ (۱) میں نے دہی کھا لیا اور لسی بھی پی۔ (۲) فالودہ پیا (برف ڈال کر) (۳) آپ نے پچھلے خط میں لکھا تھا کہ دوا کی مقدار دگنی کر دی گئی ہے۔ ایک دوسرا خط ہے: ’’حکیم صاحب قبلہ سے ہر چیز کے متعلق فرداََ فرداََ دریافت کرکے مجھے مطلع کیجئے… چائے، سبزی، ترکاری، پھل پھول ، گوشت اور پینے کی چیزیں وغیرہ علیٰ ہذا القیاس چاول و خشک پلاؤ ، شہد وغیرہ۔۲۷؍جون ۱۹۳۴ء تقریباََ یہی انداز طبیعت ان کا دواؤں کے متعلق تھا۔ دوا جو بھی ہولطیف ہو، خوش ذائقہ ہو، خوش رنگ ہو، بو ایسی کہ ناگوار نہ گزرے، خوراک کم اور موثر لیکن چونکہ حکیم نابینا صاحب کی دوائیں اس معیار پرپوری اُترتی تھیں۔ اس لیے ان سے زیادہ تر اختلاف کھانے پینے کی چیزوں میں ہوتا۔ وہ کہتے ڈاکٹر صاحب کے لیے مغز عصفور یا مغز خرگوش بہت مفید رہے گا۔ حضرت علامہ فرماتے مغز اور اس کا استعمال؟ معاذ اللہ ! یہ کیسے ممکن ہے؟ مجھے تو اس کے دیکھنے ہی سے کراہیت محسوس ہوتی ہے۔ میں گوشت تو کھا لیتا ہوں مگر دل، گردہ، کلیجی وغیرہ کبھی نہیں کھائی۔ حکیم صاحب تدبیریں سوچتے۔ اگر مغز کو شوربے یا چاول میں ملا دیا جائے تو ڈاکٹر صاحب کو پتہ نہیں چلے گا میں علی بخش کو الگ خط لکھتا مگر علی بخش کی تربیت ہی اسی طرح ہوئی تھی کہ وہ کوئی کام حضرت علامہ کے خلاف منشا نہ کر سکتا۔ وہ فوراَ َ کہہ دیتا : نیازی صاحب نے اس طرح کا کوئی خط بھجوایا ہے۔ حضرت علامہ ان باتوں کو سنتے اور سنتے ہی مجھے لکھ دیتے کہ اگر مغز کا استعمال ایسا ہی ضروری ہے تو کیوں نہ اس کا جوہر تیار کر لیا جائے! غرض کہ ایک مہینے کے اندر حکیم صاحب کی دواؤں سے اس قدر فائدہ ہوا کہ حضرت علامہ شدید گرمیوں کے باوجود سفر کے لیے تیار ہو گئے۔ اب کے قصد سرہند کا تھا۔ رفتہ رفتہ حضرت علامہ کی صحت اس قدر اچھی ہونے لگی کہ ڈاکٹروں کو بھی اپنی رائے بدلنی پڑی۔ ۵ جولائی ۱۹۳۴ء کا خط ہے: ’’ڈاکٹر یار محمد خان کل کہتے تھے کہFresh Growth یا ٹیومر کی تھیوری غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ آپ کی صحت دیگر حالات سے مطابق نہیں…انگریزی ڈاکٹر اب یہ کہتے ہیں کہ اگر ٹیومر ہوتا تو عام صحت اس قدر جلد ترقی نہ کر سکتی۔ بلکہ روز بروز بدتر ہو تی جاتی۔‘‘ ’’یہ بات اب یقینی ہو گئی ہے کہ ٹیومر یا گروتھ نہیں صرف شاہرگ کا پھیلاؤ ہے…یہ شاہرگ کا پھیلاؤ یا تو خون کے سمی مادوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا بعض پہلوانوں اور گویوں کو بھی ہو جاتی ہے۔ نفس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے۔‘‘ گویا قدیم اور جدید کے درمیان جو تصادم مہینوں سے جاری تھا۔ اس کا خاتمہ بالآخر قدیم ہی کی فتح پر ہوا۔ حکیم نابینا صاحب کے اس اعجاز کا شہر بھر میں چرچا تھا۔ اس اثنا میں حضرت علامہ خود بھی اظہار تشکر کے لیے دہلی تشریف لائے۔ ان کی بیماری کو اب کم و بیش چھ مہینے گزر چکے تھے۔ شروع کے چار مہینوں میں ایلو پیتھک علاج ہوتا رہا۔ حکیم صاحب کی تدابیر کا نتیجہ یہ تھا کہ: اگر میری آواز اصلی حالت پر عود کر آئی تو میں اس بیماری کو خدا کی رحمت تصور کروں گا کیونکہ اس بیماری نے حکیم صاحب سے وہ ادویہ استعمال کرنے کا موقع پیدا کیا جنہوں نے میری صحت پر ایسا نمایاں اثر کیا ہے تمام عمر میںمیری صحت ایسی اچھی نہ تھی جیسی اب ہے۔۲۳ جولائی ۱۹۳۴ء لیکن حکیم صاحب کی اس معجز نماکامیابی کے باوجود آواز کا مسئلہ جوں کا توں قائم رہا۔اب حضرت علامہ نے گھبرا کر دواؤں کے متعلق رائے زنی شروع کردی۔ یہ دوا ٹھیک نہیں۔ اس دوا سے فائدہ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔ نئی گولیاں کس شکایت کے لیے ہیں۔ انہیں گھلا کر استعمال کروں؟ گھلا کر استعمال کرنا تو مشکل ہے۔ فلاں دوا کی مقدار نہ بڑھادی جائے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ دوسرے ہفتے آواز پر کوئی اثر نہیں ہوا؟ چنانچہ اب ان کے والاناموں میں اس قسم کے اشارات ہونے لگے: ’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ گلے کے دونوں اطراف جونک لگوانی چاہئے۔‘‘ ۲۳؍ جون ۱۹۳۴ء ’’میرے ایک مہربان…کہتے ہیں کہ کشمیر میں گلقند بشرطیکہ پرانی ہو تقویت کے لیے اکسیر ہے۔‘‘ ۶؍جولائی۱۹۳۴ء ’’جراحوں کا ایک پرانا خاندان لاہور میں ہے وہ کہتے ہیں کہ ا ن کے پاس ایک لیپ ہے۔‘‘ ۱۶ جولائی ۱۹۳۴ء ’’ایک شخص نے مشک کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔ ‘‘ ۱۶ اگست ۱۹۳۴ء ’’عراق میں اسے ایک ترک طبیب نے تمباکو میں چرس رکھ کر پلائی تھی اور اس کے ساتھ لپٹن چائے، جس میں شکر کی جگہ گڑ ڈالا جائے اور صرف تین چار روز کے عرصے میں اس کی آواز صاف ہو گئی۔‘‘ حکیم صاحب قبلہ ان تجاویز کو سنتے اور سن کر پریشان ہو جاتے مگر حضرت علامہ کے پاس خاطر سے کبھی آواز کشا گولیاں اور کبھی کوئی لیپ روانہ کر دیتے جن سے شاید فی الحقیقت دفع الوقتی مقصود ہوتی۔ یوں وہ اپنی دواؤں میں اس بات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے کہ آواز کی ترقی ہو لیکن حضرت علامہ تعجیل کے خواہاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ جس قدرجلدی ممکن ہو انگلستان تشریف لے جائیں اور روڈز لیکچرز کے سلسلے میں فلسفہ اسلامی کے تصورات مکان و زماں کی تشریح کر سکیں۔ ان دنوں حضرت علامہ نے صرف دو شکایتیں اور محسوس کیں۔ اول یہ کہ وسط اگست میں ان کا سر دفعتاََ چکرایا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آگیا مگر یہ شکایت کچھ دنوں کے بعد خود بخود دور ہوگئی۔ ممکن ہے یہ اولین علامت ہو موتیا بند کی، جس نے تین سال کے بعد ۱۹۳۷ء میں باقاعدہ ظہور کیا۔ ثانیاََ یہ کہ ان کے دونوں شانوں کے درمیان کبھی کبھی ہلکا سا درد ہو نے لگتا۔ یہ تکلیف اگرچہ روغن اوجاع کی مالش سے جاتی رہی لیکن سال چھ مہینے کے بعد اس کا دورہ ضرور ہوتا۔ بہر کیف ۳۰؍ جنوری کی صبح کو حضرت علامہ دہلی تشریف لائے اور خالدہ ادیب خانم کے ایک خطبے کی صدارت کے بعد بھوپال روانہ ہو گئے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں خاتون موصوفہ کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ کچھ نہ سمجھیں جیسا کہ ان کے خطبات اور بعد کی تصنیف سے ظاہر ہوتا ہے۔ بھوپال میں حضرت علامہ کا قیام شروع مارچ تک رہا ۔ وہ اس عمدگی ہوا اور حسن مناظر کی اکثر تعریف فرمایا کرتے تھے اور اپنے معالجین اور میزبانوں کے خلوص و توجہ کے دل سے شکر گزار تھے۔ ۵؍ فروری کے عنایت نامے میں لکھتے ہیں: ’’موسم نہایت عمدہ ہے…طبی معائنہ سے جو نہایت مکمل تھا حکیم صاحب کی بہت سی باتوں کی تائید ہوئی بہرحال آج گیارہ بجے سےUltra Violet Raysکا غسل شروع ہوگا۔‘‘ اس دوران میں حکیم صاحب کی دوائیں بند کر دی گئیں تاکہ نئے علاج میں حارج نہ ہوں۔ اس طرح جو اثرات ان کی صحت پر مرتب ہوئے ان کا مفاد یہ تھا : ’’بجلی کا علاج ابھی صرف چار دفعہ ہوا۔ کچھ خفیف سا فرق آواز میں ہے مگر زیادہ وضاحت سے آٹھ دس دفعہ کے علاج کے بعد معلوم ہوگا…نبض کی حالت اور علیٰ ہذا القیاس دل اور پھیپھڑوں کی حالت بہت عمدہ ہے۔ ۸ ؍مارچ کی صبح کو حضرت علامہ بھوپال سے دہلی تشریف لائے۔ حکیم صاحب کو نبض دکھلائی اور دو روز ہز ایکسی لینسی سردار صلاح الدین سلجوقی قونصل جنرل دولت مستقلہ افغانستان کے اصرار پر قیام فرما کر ۱۲؍ کی صبح کو لاہور پہنچ گئے۔ اب حضرت علامہ کا معمول یہ تھا کہ اصل علاج تو حکیم صاحب ہی کارہا ، ہاں بیچ میں کوئی ہنگامی شکایت پیدا ہو گئی تو مقامی اطبا یا ڈاکٹروں سے رجوع کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ آواز کی اصلاح گودیر میں ہوگی لیکن بہت ممکن ہے طبی علاج کے ساتھ بجلی کا علاج اور بھی کار گر ہو لیکن افسوس ہے کہ اس زمانے میں والدہ جاوید سلمہ کی حالت دفعتاََ خراب ہوگئی آخر اپریل میں مجھے لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو میں نے انہیں بہت متردد پایا۔ ویسے ان کی اپنی صحت بہت اچھی تھی اور آمد شعر کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ چنانچہ ازراہ شفقت اپنے اکثر اشعار سناتے رہے۔ کہنے لگے اگر کتاب مکمل ہو گئی تو اس کا نام صور اسرافیل ہو گا (یہ وہی مجموعہ ہے جو بعد میں’’ضرب کلیم‘‘ کے نام سے شائع ہوا) ان دنوں انہیں سب سے زیادہ فکر گھر کی علالت کی تھی۔ میں دہلی واپس آیا تو ان کے والا ناموں میں زیادہ تر اسی کا ذکر ہوتا۔ آخر ۲۴؍ مئی کے مکتوب میںیہ افسوسناک خبر سنی: ’’کل شام چھ بجے والد ہ جاوید اس جہان سے رخصت ہو گئیں ۔ ان کے آلام و مصائب کا خاتمہ ہوا اور میرے اطمینان قلب کا، اللہ فضل کرے۔ ‘‘ ع۔ ہرچہ از دوست مے رسد نیکوست بھوپال سے واپسی کے بعد حضرت علامہ کی صحت ایک خاص نقطے پر آکر رک گئی۔ ہنگامی تکلیف کا تو انہیں زیادہ خیال نہیں تھا۔ کبھی کبھی ڈاکٹر جمعیت سنگھ صاحب تشریف لے آتے اور ان کے دل اور پھیپھڑوں کے معائینے سے اپنا اطمینان کر جاتے۔ لیکن بجلی کے علاج اورحکیم صاحب کی دواؤں کے باوجود مرض کا استیصال نہ ہوا۔ اس طرح صحت اور بیماری کے درمیان جو کشمکش مدت سے رونما تھی، اس کا نتیجہ کبھی کبھی ایک خراب رد عمل کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا۔ بھوپال سے واپس آکر انہیں ایک حد تک کمزوری کا احساس ہو رہا تھا۔ لہٰذا انہوں نے پھر حکیم صاحب سے فرمائش کی: ’’دوا میں تین چیزوں کا لحاظ ضروری ہے : (۱) بلغم کا استیصال کرے۔ (۲) قوت جسمانی میں ترقی ہو۔ (۳) آواز اگر صرف قوت جسمانی کے لیے کوئی جوہر حکیم صاحب تیار کریں تو شاید باقی دونوں کے لیے بھی مفید ہوگا‘‘ ۲۷؍ ستمبر۱۹۳۴ء ۱۵؍ اکتوبر کے کرم نامے میں لکھتے ہیں : ’’ویانا جانے کا خیال ہے۔ ڈاکٹر انصاری سے خط و کتابت کر رہا ہوں۔ انہوں نے نہایت مہربانی سے مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔ اگر گیا تو فروری یا اپریل میں جاؤں گا۔ یوں حضرت علامہ کی علالت کو کم و بیش چار سال گزر گئے۔ پانچویں برس یعنی ۱۹۳۸ء کا آغاز ہوا تو ان کی طبیعت نے یک بیک پلٹا کھایا۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ۱۹۳۶ء کے بعد حضرت علامہ پھر کبھی بھوپال نہیں گئے۔ البتہ ۱۹۳۷ء میں دو ایک روز کے لیے دہلی ضرور تشریف لے گئے تاکہ حکیم صاحب کو نبض دکھا سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مرض کے ازالے کا کچھ بہت زیادہ موثر طریق نہ تھا۔ معلوم نہیں ان کے آخری عوارض کی ابتدا کب ہوئی لیکن جہاں تک میں اپنی قوت مشاہدہ پر اعتماد کر سکتا ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ان کی صحت آخر ۱۹۳۷ء سے ہی سے گرنا شروع ہو گئی تھی۔ میں اس زمانے میں حضرت علامہ کو دیکھ کر اکثر گھبرا جاتا۔ بسا اوقات وہ اس قدر لاغر اور نحیف معلوم ہوتے جیسے ان کے بدن میںخون ہی نہیں۔ بایں ہمہ ان سے جو کوئی بھی خیریت مزاج دریافت کرتا ، فرماتے ’’ الحمد للہ ‘ بہت اچھا ہوں۔‘‘ اس زمانے میں حکیم محمد حسن صاحب قرشی نے ان کے لیے چند مرکبات تجویز کر رکھے تھے جن سے فائدہ ہوا لیکن ۱۹۳۸ء کا آغاز اور ’’یوم اقبال‘‘ کی تقریب خیر و خوبی سے گزر گئی تو انہیں دفعتاََ ضیق النفس کے خفیف سے دورے ہونے لگے۔ ایک روز انہوں نے شکایت کی کہ پچھلی رات کا اکثر حصہ بے خواب گزرتا ہے۔ پھر ایسا معلوم ہوا جیسے گردے کے مقام پر درد ہے۔ دو ایک دن نقرس کی تکلیف بھی رہی مگر اس کے بعد بتدریج افاقہ ہوتا گیا۔ رہی نیند کی کمی سو خیال تھا کہ شاید تبدیلی وقت کی وجہ سے ایسا ہو۔ کیونکہ حضرت علامہ دن کا اکثر حصہ سو لیا کرتے تھے اور بے خوابی کے باوجود تھکن یا بے چینی محسوس نہ کرتے۔ ضیق النفس کے لیے قرشی صاحب نے اک ہلکا سا جوشاندہ تجویز کر رکھا تھا جس کے استعمال سے فوراََ سکون ہو جاتا۔ ان کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کو دمہ قلبی(Cardiac Asthma)ہے ضعف قلب کے باعث اور ڈاکٹروں نے اس کی تائید کی۔ اس تکلیف میں حضرت علامہ اکثر بیٹھے بیٹھے سامنے کی طرف جھک جاتے اور بسا اوقات پائینتی پر تکیہ رکھے اپنا سر اس پر ٹیک دیتے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان ایام میں انہوں نے دفعتاََ مایوسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ علی بخش سے اکثر کہا کرتے تھے : ’’۱۹۳۸ ء خیریت سے گزر جائے تو سمجھنا کہ اچھا ہوں‘‘۔ ۲۲؍ فروری کی شام کو مجھ سے شوپن ہاور کے متعلق گفتگو کرتے کرتے بیک کہنے لگے : ’’نیازی صاحب اس فلسفہ میں کیا رکھا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘ میں سمجھا ان کا اشارہ ہے عقل کی بے مایگی کی طرف۔ کہنے لگے ’’علم کی مسرت کوئی مسرت نہیں۔ مسرت یہ ہے کہ انسان کو صحت ہو تندرستی ہو۔‘‘ اس کے تین روز بعد یعنی ۲۵ ؍فروری کی شام کو انہوں نے ضیق کو روکنے کے لیے حسب معمول جوشاندہ پیا مگر دورے کی شدت میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اگلے روز ایلوپیتھک علاج شروع کیا گیا۔ اس میں کچھ دوائیں غالباََ دورے کو روکنے اور کچھ نیند کے لیے تھیں۔ اس طرح چند روز آرام سے گزر گئے مگرپھر ۳؍ مارچ کو آخر شب میں ان پر ضعف قلب کے باعث غشی طاری ہوگئی اور وہ اسی حالت میں پلنگ سے نیچے گر گئے۔ قرشی صاحب کا قاعدہ تھا کہ صبح کی نمازکے بعد حضرت علامہ کی خیریت معلوم کرنے اکثر جاوید منزل تشریف لے جاتے۔ اس روز بھی حسن اتفاق سے ایسا ہی ہوا۔ قرشی صاحب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت علامہ دم کشی کے باعث تکلیف میں ہیں انہوں نے جہاں تک ممکن تھا اس وقت مناسب تدابیر کیں اور پھر سیدھے میرے ہاں چلے آئے ان کی اس غیر متوقع تشریف آوری پر مجھے ایک گونہ تعجب ہوا لیکن میں ابھی دریافت حالات نہ کرنے پایا تھا کہ انہوں نے خود ہی صبح کے پر خطر واقعہ کا ذکر کر دیا۔ کہنے لگے ’’ دل نہایت ضعیف ہے۔ جگر اور گردے ماؤف ہو رہے ہیں۔ مگر اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے، مناسب تدابیر اور احتیاط سے افاقہ ہو جائے گا۔‘‘ میں کچھ اور پوچھنا چاہتا تھا کہ انہوں نے کہا ۔ ’’آپ فوراََ جاوید منزل چلے جائیے اور حضر ت علامہ کی حالت سے مجھے اطلاع دیجئے۔ میں دوائیں بھجواتا ہوں۔‘‘ یہ گویا آغاز تھا حضرت علامہ کے مرض الموت کا لیکن اس وقت بھی ان کے استقلال اور دل جمعی کی یہ کیفیت تھی کہ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو حسب معمول نہایت اطمینان سے باتیں کرنے لگے۔ ’’آج کیا خبر ہے؟ لڑائی ہوئی ہے یا نہیں؟ آسٹریا کا کیا حال ہے؟‘‘ دو تین گھنٹے کی نشست کے بعد جب میںنے یہ دریافت کیا کہ قرشی صاحب سے کیا عرض کر دیا جائے تو مسکرا کر فرمایا ۔ ’’میری طبیعت اچھی ہے اس قدر اچھی کہ اگر موضوع پر تقریر کرنا پڑے تو اس کا سلسلہ تین گھنٹے تک جاری رکھ سکتا ہوں۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ الفاظ اس لیے فرمائے کہ انہیں زیادہ گفتگو سے منع کر دیا گیا تھا۔ طبی اصطلاح میں ان کی نبض اگرچہ ’’نملی‘‘ تھی یعنی چیونٹی کی طرح نہایت ضعیف لیکن ان کا ذہن برابر صفائی سے کام کرتا رہا۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی قلب و دماغ عطا کئے تھے۔ ان کے معالج اگرچہ ا بتدا میں گھبرا جاتے۔ لیکن ان کی قوت دماغی سے چند ہی روز کے بعد امید بندھ جاتی کہ ابھی صحت کے امکانات باقی ہیں۔ یوں حضرت علامہ کے اس نظریے کی تائید ہو جاتی تھی کہ ہر شخص کی طب انفرادی ہے اور دوران علاج میں مزاج کا خیال رکھنا از بسکہ ضروری۔ حضرت علامہ کے تیمار داروں کے لیے یہ دن بڑے اضطراب کا تھا۔ بالخصوص اس لیے کہ شام کو انہیں ذرا ذرا سی دیر کے بعد ضعف قلب کا دورہ ہو نے لگتا ظاہر ہے کہ اس تشویش انگیز حالت میں خطوں پر اکتفا کرنا نا ممکن تھا اور اگرچہ حکیم صاحب کی خدمت میں مفصل اطلاع کر دی گئی مگر اب عملاََ علاج قرشی صاحب ہی کا تھا۔ یوں بھی حضرت علامہ انہیں اکثر مشورے کیلیے طلب فرما لیے کرتے تھے اور پچھلے برس سے تو ان کا معمول ہو گیا تھا کہ ہر دوسرے تیسرے روز جاوید منزل تشریف لے جاتے…حضرت علامہ کو ان کی ذات پر بے حد اعتماد تھا اور وہ ان کی لیاقت وصداقت سے متاثر ہو کر اکثر فرمایا کرتے تھے : ’’شمالی ہندمیں اب ان کے سوا اورکون ہے؟ اگر ان کا وجود ایک چھوٹے سے ادارے کی شکل اختیار کرلے تو ہندوستان میں نہ سہی کم از کم پنجاب میں ہماری طب کو بہت کافی فروغ ہو سکتا ہے‘‘۔ قرشی صاحب نے بھی جس خلوص اور دلسوزی سے حضرت علامہ کی خبر گیری کی ہے اس کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی ہو گا کہ ان کا تعلق محض طبیب اور مریض کا نہیں بلکہ ایک عقیدت مند اور خدمت گذار دوست کا تھا۔ وہ ان ایام میںحضرت علامہ کی بیماری کے سوا سب کچھ بھول گئے۔ کتنے مرکبات تھے جو انہوں نے محض حضرت علامہ کے لیے اپنے زیر نگرانی تیار کئے وہ صبح و شام ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور گھنٹوں ان کے پاس بیٹھ کر کبھی دوا کھلاتے کبھی مزے مزے کی باتوں سے ان کا جی بہلاتے ۔ اکثر وہ ان کی ہتھیلیاں سہلانے لگتے اور پھر چپکے چپکے ان کے چہرے اور پاؤں کا معائنہ کر لیتے۔ یہ اس لیے کہ ان کو ابتدا ہی سے خیال ہو چلا تھا کہ حضرت علامہ کا رجحان استسقا کی طرف ہے۔ خود حضرت علامہ کی یہ کیفیت تھی کہ ادھر قرشی صاحب نے جاوید منزل میں قدم رکھا اور ادھر ان کی تمام شکایات دور ہوگئیں۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے’’میرا سب سے بڑا علاج یہی ہے کہ حکیم صاحب پاس بیٹھے رہیں۔‘‘ لہٰذا قرشی صاحب کی محنت اور توجہ سے تھوڑے ہی دنوں میں یہ حالت ہوگئی کہ حضرت علامہ کو لحظہ بہ لحظہ افاقہ ہونے لگا اور بعض دفعہ وہ اپنی خواب گاہ میں چل پھر بھی لیتے۔اس اثنا میں حکیم نابینا صاحب کی دوائیں آ گئی تھیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر مظفر الدین صاحب بھی ان سے ضروری ہدایات لیتے آئے کیونکہ حکیم نابینا صاحب اس وقت حیدر آباد تشریف لے جاچکے تھے۔ اس طرح اطمینان کی ایک اور صورت پیدا ہو گئی مگر ان کے بعض نیاز مندوں کا خیال تھا کہ اگر قرشی صاحب کے علاج میں ڈاکٹری مشورہ بھی شامل کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔ ممکن ہے ایسا کرنا مفید ہی ثابت ہو۔ یہ سوچ کر ڈاکٹر محمد یوسف صاحب سے رجوع کیا گیا اورا نہوں نے پورے خلوص اور توجہ سے اس امر کی کوشش کی کہ تخفیف مرض کی کوئی صورت نکل آئے۔ کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر کپتان الٰہی بخش صاحب سے بھی مشورہ ہوا۔ مگر حضرت علامہ کی اپنی طبیعت کا یہ عالم تھا کہ ایلوپیتھک دواؤں سے بار بار گھبرا تے اور ایک خاص میعاد مقرر کرنے کے بعد ان کا استعمال چھوڑ دیتے۔ یہاں پہنچ کر قدرتاََ یہ سوال پیدا ہو گا کہ حضرت علامہ کا مرض فی الحقیقت کیا تھا۔ قرشی صاحب کہتے ہیں کہ انہیں عظم و اتساع قلب کی شکایت تھی یعنی دل کے مناسب عمل میں نقص واقع ہو گیا تھاجس سے ان کے عضلی ریشے بڑے ہو کر لٹک گئے تھے ۔ اس طرح ان کے دل کی عضلی دیواریں دبیز اور ڈھیلی ہوگئیں اور ان کے جوف پھیل گئے ان کی رائے میں سانس کی تکلیف دمہ قلبی کی وجہ سے تھی۔ بالفاظ دیگر چونکہ دل کا عمل پورا نہ ہوتا تھا اس لیے تکلیف رونما ہو جاتی۔ قرشی صاحب کی رائے تھی کہ’’ حضرت علامہ کی کھانسی، بول زلالی، نبض کا ضعیف، سریع اور غیر منظم ہونا یہ سب اتساع قلب کے علامات ہیں۔ مزید برآں ان کا جگر بھی بڑھا ہوا تھا اور اگرچہ اتساع قلب میں بھی دوران خون کے اختلال کے باعث جگر بڑھ جاتا ہے مگر حضرت علامہ کا جگر پہلے سے ماؤف تھا۔ اتنا تو مجھے بھی یاد ہے کہ حکیم نابینا صاحب حضرت علامہ کے جگر کی اصلاح کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ قرشی صاحب کے نزدیک حضرت علامہ کے گردے بھی متاثر تھے اور ان کو شروع ہی سے خیال ہو گیا تھا کہ استسقا کا خدشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسری تشخیص یہ تھی کہ حضرت علامہ کو انورزم اور طی (aneurysm Aorta) یعنی شہ رگ کی رسولی ہے۔ یہ اس لیے کہ جب ان کا دل کمزور ہو گیا تو خون کے مسلسل دباؤ نے شہ رگ میں جو ربڑ کے غبارے کی مانند پھیل گئی تھی۔ ایک گڑھا سا پیدا کردیا جس نے رفتہ رفتہ ایک دموی رسولی کی شکل اختیار کرلی۔ یہی سبب وقت نفس کا تھا کیونکہ قصبتہ اریحہ (ہوا کی نالی) پر اس رسولی کا دباؤ پڑتا تھا۔ اس طرح حضرت علامہ کو مسلسل کھانسی ہوتی رہتی اور انورزم کے باعث چونکہ آواز کے ڈورے کھل گئے تھے لہٰذا ان کا گلا بیٹھ گیا۔ حضرت علامہ کے عوارض کی ان دو تشخیصوں کے متعلق جن کی تفصیل کیلیے میں قرشی صاحب کا ممنون احسان ہوں، اگرچہ راقم الحروف کا کچھ کہنا بے سود ہوگا لیکن اتنا ضرور عرض کرنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر اتفاق رائے غالباََ پہلی تشخیص پر ہی تھا۔ ۲۱ مارچ کو جب محمد اسد صاحب مترجم بخاری حضرت علامہ کی عیادت کے لیے آئے ہیںاور ان کے ساتھ ڈاکٹر زیلتسر (Selzer)بھی تھے تو ان کا (ڈاکٹر زیلتسر کا) بھی یہی خیال تھا کہ حضرت علامہ کو اتساع قلب کا عارضہ ہے اور گلے کی تکلیف مقامی فالج کا نتیجہ۔ بہر کیف قرشی صاحب کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کو لطیف مقویات اور مغزیات کا زیادہ استعمال کر نا چاہئے اور ان کے لیے مشک عنبر اور مروارید بہت مفید رہیں گے۔ ان دواؤں کا فی الواقع یہ اثر بھی ہواکہ حضرت علامہ اگر کبھی تبدیلی علاج بھی کرتے تو ان کا استعمال برابر جاری رکھتے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی خیالات اور تجربات کی بنا پر طب قدیم کی خوبیوں کے قائل ہو چکے تھے۔ جدید نظریوں پر انہیں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ان میں انسان کی حیثیت محض ایک شے کی رہ جاتی ہے اور اس کے نفسیاتی پہلوؤں کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ اول تو ان کی رائے یہ تھی کہ طب کا علم ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم زندگی کی کنہ سے با خبر ہیں جو بداہتاََ ایک غلط سی بات ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ایک حد تک طب ممکن بھی ہے تو ہر شخص کی طب دوسرے سے جداگانہ ہوگی کیونکہ ہر اَنا(Ego)بجائے خودیکتا اور منفرد ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے اس امر کی طرف اشارہ بھی کیا کہ اس نقطۂ نظر کے ما تحت اٹلی میں ایک جدید طب کی تشکیل ہو رہی ہے ۔ وہ کہا کرتے تھے علم طب نے کیا ترقی کی ہے؟ حالانکہ نوع انسانی کو اس کی ضرورت بدو شعور ہی سے محسوس ہو رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ علم ہو تا یا پھر اس کی ابتدا اس وقت ہوگی جب تمام علوم و فنون کا ارتقا مکمل ہو جائے۔ لیکن جہاں تک عملی مجبوریوں کا تعلق ہے ان کے لیے دواؤں کا استعمال ناگزیر تھا۔ مگر وہ ایلوپیتھک دواؤں سے بہت ناراض تھے اس لیے کہ ان میں نہ ذائقے کا خیال رکھا جاتا ہے نہ پسند کا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدمت خلق کی بجائے تجارت کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ ان کے مقابلے میں طبی دوائیں ہیں۔ کس قدر لطیف اور خوش مزہ ! ان سے مسلمانوں کے ذوق جمال اور نفاست مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ جب وہ قرشی صاحب کے تیار کردہ خمیرہ گاؤزبان عنبری یا دواء المسک کو مزے لے لے کر چاٹتے تو اس امر پر اظہار افسوس ظاہر کرتے کہ ان کی خوراک کس قدر کم ہے۔ نہ چھ نہ سات فقط تین ماشے پھر ان کا ذاتی تجربہ بھی یہ تھا کہ درد گردہ کی شکایت جوا نہیں مدت سے تھی۔ حکیم نابینا صاحب ہی کے علاج سے دور ہوئی اور ۱۹۳۴ء میں جب ڈاکٹروں نے بار بار ان کی صحت سے مایوسی کا اظہار کیا تو یہ حکیم صاحب ہی کی دوائیں تھیں جن سے امید کی ایک جھلک پیدا ہوئی اور وہ کم و بیش چار برس تک اپنے مشاغل کو جاری رکھ سکے۔ دوران علاج میں حضرت علامہ نے بارہا اس امر کا مشاہدہ کیا جدید آلات سے بالاخر انکشافات نبض ہی کی تصدیق ہوتی۔ لہٰذا یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ ان کا اعتماد قدیم دواؤں پر دن بدن بڑھتا گیا۔ وہ کہا کرتے تھے ہماری دواؤں کے اثرات صدیوں کے تجربے سے ثابت ہو رہے ہیں۔ آج کل کی دواؤں کا کیا ہے، ادھر ایجاد ہوئیں ادھر متروک۔ ۱۷ ؍مارچ کے بعد جب سے طبی علاج از سر نو شروع ہوا حضرت علامہ کی صحت میں خفیف سا مد و جزر پیدا ہوتا رہا۔ اس خیال سے کہ اگر ان حالات کی اطلاع عام ہو گئی تو شاید لوگوں کی عقیدت مندی ان کے آرام میں حارج ہو حضرت علامہ کی خرابی صحت کی خبر مخفی رکھی گئی۔ ان دنوں معمول یہ تھا کہ حضرت علامہ کے متعدد احباب کے علاوہ ہم لوگ یعنی چودھری محمد حسین، راجا حسن اختر،قرشی صاحب اور راقم الحروف صبح و شام حضرت علامہ کی خیریت معلوم کر آتے اور پھر رات کوباقاعدہ ان کی خدمت میں جمع ہو جاتے یا پھر محمد شفیع صاحب جاوید منزل ہی میں اٹھ کر آئے تھے تاکہ حضرت علامہ کی دیکھ بھال اور دواؤں کا خیال رکھیں۔ خدمت گزاری کے لیے علی بخش اور دوسرے نیاز مند موجود تھے۔ علی بخش بے چارا تو کئی راتیں سویا ہی نہیں۔ حضرت علامہ کو دن میں تو نسبتاََ آرام رہتا تھا اور وہ کچھ وقت سو بھی لیتے تھے لیکن رات کو ان کی تکلیف بڑھ جاتی۔ کبھی اختلاج ہوتا۔ کبھی ضعف، کبھی احساس ریاح۔ ضیق کے دورے بالعموم پچھلے پہر میں ہوتے تھے اور شفیع صاحب کو اس کی روک تھام کے لیے خاص طور سے جاگ جاگ کر دوائیں کھلانا پڑتیں۔ علی بخش، رحما، دیوان علی(حضرت علامہ کے ملازمین) اور احباب ا ن کا بدن دباتے۔ جب رات زیادہ ہو جاتی تو چودھری صاحب اور راجا صاحب ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیتے تاکہ حضرت علامہ سو جائیں۔ اس وقت قرشی صاحب اور بھی زیادہ قریب ہو بیٹھتے اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضرت علامہ دیوان علی سے بلھے شاہ کی کافیاں یا پنجابی گیت سنتے اور مجھ سے فرماتے کہ ’’میں بغداد یا قرطبہ کا کوئی ایسا افسانہ بیان کروں جس سے ان کو نیند آ جائے۔‘‘ اس طرح کچھ دنوں کے بعد حضرت علامہ کی طبیعت یہاں تک سنبھل گئی کہ راجا صاحب سے (سرکاری مشاغل کی مجبوریوں کے باعث) ناغے ہونے لگے اور قرشی صاحب سے دوا اور غذا کے متعلق چھیڑ چھاڑ شروع ہوگئی۔ حضرت علامہ ان سے ہر دوسرے تیسرے روز اس امر کی خواہش کرتے کہ ان کی غذا کی فہرست میں اضافہ ہو تاکہ انتخاب میں سہولت رہے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے : ’’ پلاؤ کھانے کو بہت جی چاہتا ہے۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا آپ کھچڑی کھا لیجئے۔‘‘ فرمایا: ’’بھنی ہوئی؟ کافی گھی کے ساتھ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’نہیں ، گھی کم ہونا چاہئے کیونکہ آپ کا جگر بڑھ گیا ہے۔‘‘ حضرت علامہ کہنے لگے: ’’ لو پھر اس میں کیا لذت ہوگی۔اس میں دہی کیوں نہ ملا لیا جائے۔‘‘ قرشی صاحب بولے: ’’ مگر آپ کو کھانسی ہے…دہی مضر ہے۔‘‘ فرمایا: ’ ’ تو پھر اس کھچڑی سے نہ کھانا اچھا ہے۔‘‘بقول قرشی صاحب آخری ایام میں ان کی قوت تنقید بہت بڑھ گئی تھی اور مزاج میں بے حد ذکاوت اور نفاست پیدا ہو چکی تھی اس لیے ان کے سوالات کا جواب دینا کوئی آسان با ت نہ تھی۔‘‘ ۱۶؍ اپریل کی شام کو جب راجا صاحب اور سید عابدعلی حسب معمول تشریف لائے ان سے مصلحتاََ یہ کہا گیا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں تو حضرت علامہ بہت خفا ہوئے۔ کہنے لگے : ’’میں جانتا ہوں یہ باتیں تعلق خاطر کی بنا پر کہی جاتی ہیں۔ مگر اس طرح سننے والے غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔‘‘ دواؤں کے متعلق بھی ان کا کہنا یہ تھا کہ میں انہیں صحت کیلیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اس لیے کہ شدت مرض میں میری خودی (Ego)کو نقصان نہ پہنچے۔ اس رفتار میںمرض الموت کی رفتار کچھ عجب سی رہی۔ اول استسقا کا حملہ ہوا جس سے چہرے اور پاؤں پر ورم آگیا۔ اب پیٹھ کے درد سے بھی خاصی تکلیف رہتی تھی اور حضرت علامہ فرمایا کرتے تھے : ’’میری دواؤں کی آزمائش اس میں ہے کہ پیٹھ کا درد جاتا ہے یا نہیں‘‘ ۔ مگر پھر رفتہ رفتہ ان علامات میں تخفیف ہونا شروع ہو گئی حتٰی کہ قرشی صاحب ایک خاص مجبوری کے باعث دو روز کے لیے راولپنڈی تشریف لے گئے۔ لیکن اگلے ہی روز بیماری نے کچھ ایسا زور پکڑا کہ حضرت علامہ کے بائیں جانب تمام جسم پر ورم پھیل گیا۔ اس حالت میں ڈاکٹر جمعیت سنگھ صاحب کو بلوا گیا۔ انہوں نے معائنے کے بعد قطعاََ مایوسی کا اظہار کیا اور دو ایک باتیں ان کے حالت کے متعلق صاف صاف کہہ دیں۔ بایں ہمہ حضرت علامہ مطلق پریشان نہ ہوئے بلکہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو سن کر اس طرح سوالات کرنا شروع کر دیے جیسے کسی امر کی تنفیح مقصود ہو۔ ڈاکٹر صاحب گئے تو ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب نے کوشش کی کہ دو چار کلمات تسلی کے کہیں مگر حضرت علامہ الٹا ان کی تسکین کی خاطر فرماتے ہوئے کہنے لگے : ’’میں مسلمان ہوں۔ موت سے نہیں ڈرتا۔‘‘ اس کے بعد اپنا یہ شعر پڑھا : نشان مرد مومن باتو گویم چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست تو انہوں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کاغذ قلم لے آؤ خط لکھوانا ہے۔ یہ ان کا آخری خط تھا ۔ تیسرے پہر ڈاکٹر جمعیت سنگھ پھر تشریف لائے۔ ڈاکٹر یار محمد خاں صاحب ساتھ تھے۔ شام کو کپتان الٰہی بخش صاحب بھی آگئے اور باہمی مشورے سے دواؤں اور انجکشنوں کی تجویز ہو نے لگی۔ دوسرے روز قرشی صاحب بھی پہنچ گئے۔ اب ہر قسم کی تدابیر ہو رہی تھیں۔ قدیم و جدید سب۔ بالآخر وہ وقت آ پہنچا جس کا کھٹکا مدت سے لگا ہوا تھا۔ ۲۰ ؍ اپریل کی سہ پہر کو جب میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بیرن فلٹ ہائم(Von Veltheim)اور ان کے ایک پارسی دوست سے گفتگو کر رہے تھے اور گوئٹے اور شلر اور معلوم نہیں کس کس کا ذکر تھا۔ فلٹ ہائم گئے توچند اور احباب آگئے جن سے دیر تک لیگ، کانگریس اور بیرونی سیاسیات پر تبادلہ ٔ خیالات ہوتا رہا۔ شام کے قریب جب ان کے معالجین ایک ایک کرکے جمع ہوئے تو انہیں بتلایا گیا کہ حضرت علامہ کو بلغم میں کل شام سے خون آرہا ہے۔ یہ علامت نہایت یاس انگیز تھی اس لیے کہ خون دل سے آیا تھا۔ اس حالت میں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ شاید وہ آج کی رات جان بر نہ ہوسکیں۔ مگر انسان اپنی عادت سے مجبور ہے۔ تدبیر کا دامن آخر تک نہیں چھوڑتا۔ قرشی صاحب نے بعض دوائیں تلاش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو موٹر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتفاق سے اسی وقت راجا صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے پوچھا گاڑی ہے؟ کہنے لگے :’’نہیں مگر کیا مضائقہ ہے ابھی لیے آتا ہوں۔‘‘ چونکہ ان کی اپنی گاڑی خراب تھی لہٰذا اتنا کہہ کر راجہ صاحب موٹر کی تلاش میں نکل گئے۔ ادھر ڈاکٹر صاحبان کی رائے ہوئی کہ کرنل امیر چند صاحب کو بھی مشورے میں شامل کر لیا جائے۔ اس اثنا میں ہم لوگ حضرت علامہ کا پلنگ صحن میں لے آئے تھے۔ کرنل صاحب تشریف لائے تو ان کی حالت کس قدر سنبھل چکی تھی۔ مطلب یہ کہ ان کے حواس ظاہری کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دفعہ پھر امید بندھ گئی۔ لہٰذا طے ہوا کہ کچھ تدابیر اس وقت اختیار کی جائیں اور کچھ صبح۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحبان چلے گئے اور ڈاکٹر عبد القیوم صاحب کو رات کے لیے ضروری ہدایات دیتے گئے۔ اب ہوا میں ذرا سی خنکی آچکی تھی۔ اس لیے حضرت علامہ بڑے کمرے میں اٹھ آئے اور حسب معمول باتیں کرنے لگے۔ دفعتاََ انہیں خیال آیا کہ قرشی صاحب غالباََ شام سے بھوکے ہیں اور ہر چند کہ انہوں نے انکار کیا لیکن حضرت علامہ علی بخش سے کہنے لگے کہ ان کے لیے چائے تیار کرے اور نئے بسکٹ جو میم صاحبہ نے بنائے ہیں، کھلائے۔ اس وقت صرف ہم لوگ یعنی قرشی صاحب، چودھری صاحب، سید سلامت اللہ اور راقم الحروف ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو یادفرمایا تو ان سے عرض کیا گیا کہ وہ کام سے گئے ہیں۔ ۱۱ بجے تو اس خیال سے کہ ہم لوگ شاید ان کی نیند میں حارج ہورہے ہیں چودھری صاحب نے اجازت طلب کی لیکن حضرت علامہ نے فرمایا: ’’میں دوا پی لوں، پھر چلے جائیے گا۔‘‘ اس طرح بیس پچیس منٹ اور گزر گئے حتیٰ کہ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لے کر آگئے۔ حضرت علامہ کو ایک خوراک پلائی گئی مگر پیتے ہی ان کا جی متلانے لگا اور انہوں نے خفا ہو کر کہا ’’ یہ دوائیں غیر انسانی(Inhuman) ہیں۔ ‘‘ان کی گھبراہٹ کو دیکھ کر قرشی صاحب نے خمیرہ گاؤزبان عنبری کی ایک خوراک کھلائی جس سے فوراََ سکون ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت علامہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ایلوپیتھک دوا استعمال نہیں کریں گے اور جب شفیع صاحب نے یہ کہا کہ انہوں اوروں کے لیے زندہ رہنا چاہیے تو فرمایا:’’ ان دواؤں کے سہارے نہیں‘‘(Not on these medicines) اس طرح گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ بالآخر یہ دیکھ کہ کہ حضرت علامہ نیند کی طرف مائل ہیں ہم نے اجازت طلب کی۔ انہوں نے فرمایا : بہت اچھا۔لیکن معلوم ہوتا ہے انکی خواہش تھی کہ ہو سکے تو قرشی صاحب ٹھہرے رہیں۔ بایں ہمہ انہوں نے اس امر پر اصرار نہیں کیا۔ اس وقت بارہ بج کر تیس منٹ ہوآئے تھے اور کسی کو یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ آخری صحبت ہوگی جاوید منزل کی! ہم لوگ حضرت علامہ کی خدمت سے اٹھ کر آئے ہی تھے کہ راجا صاحب تشریف لے آئے اور آخر شب تک وہیں حاضر رہے۔ شروع شروع میں تو حضرت علامہ کو سکون رہا اوروہ کچھ سو بھی گئے لیکن پچھلے پہر کے قریب بے چینی شروع ہو گئی۔ اس پر انہوں نے شفیع صاحب سے کہا ’’قرشی صاحب کو لے آؤ۔‘‘ وہ ان کے ہاں آئے تو سہی لیکن غلطی سے اطلاع نہ کرسکے۔ شاید ۳ بجے کا وقت ہوگا کہ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو طلب فرمایا ۔ ان کا (راجا صاحب) کا اپنا بیان ہے کہ جب میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت علامہ نے دیوان علی سے کہا :’’تم سوجاؤ البتہ علی بخش جاگتا رہے کیونکہ اب اس کے سونے کا وقت نہیں‘‘۔ اس کے بعد مجھ سے فرمایا : پیٹھ کی طرف کیوں بیٹھے ہو سامنے آجاؤ۔ میں ان کے متصل ہو بیٹھا کہنے لگے : قرآن مجید کا کوئی حصہ پڑھ کر سناؤ۔ کوئی حدیث یاد ہے؟ اس کے بعد ان پر غنودگی سی طاری ہوگئی میں نے دیا گل کر دیا اور باہر تخت پر آبیٹھا۔ راجا صاحب چلے آئے تو ایک دفعہ پھر کوشش کی گئی کہ حضرت علامہ رات کو دوا ستعمال کریں مگر انہوں نے سختی سے انکار کردیا۔ اک مرتبہ فرمایا :’’جب ہم حیات کی ماہئیت ہی سے بے خبر ہیں تو اس کا علم (science) کیونکر ممکن ہے؟‘‘ تھوڑی دیر کے بعد راجا صاحب کو پھر بلوایا گیا۔ حضرت علامہ نے ان نے کہا کہ آپ یہیں کیوں نہیں آرام کرتے اور پھر ان سے قرشی صاحب کے لانے کے لیے کہا ۔ راجا صاحب کہتے ہیں ۔’’میں اس وقت کی حالت کا مطلق اندازہ نہ کرنے پایا تھا۔ میں نے عرض کیا حکیم صاحب رات دیر سے گئے ہیں۔ شاید ا ن کا بیدار کرنا مناسب نہ ہو۔‘‘اس پر حضرت علامہ نے فرمایا : ’’کاش ان کو معلوم ہوتا مجھ پر کیا گزر رہی ہے۔‘‘ پھر اپنی رباعی پڑھی جو گذشتہ دسمبر میں انہوں نے کہی تھی سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟ نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟ سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید؟ راجا صاحب کہتے ہیں۔ میں نے ان اشعار کو سنتے ہی عرض کیا کہ ابھی حکیم صاحب کو لے آتا ہوں۔ یہ واقعہ ۵ بج کر۵ منٹ کا ہے ۔راجا صاحب گئے تو حضرت علامہ خواب گاہ میں تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر عبد القیوم نے حسب ہدایات فروٹ سالٹ تیار کیا۔ حضرت علامہ بھرے ہوئے گلاس کو دیکھ کر کہنے لگے :’’اتنا بڑا گلاس کس طرح پیوںگا؟‘‘ اور پھر چپ چاپ سارا گلاس پی گئے۔ علی بخش نے چوکی پلنگ کے ساتھ لگا دی۔ اب اس کے سوا کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔ حضرت علامہ نے اول اسے شانوں کو دبانے کے لیے کہا پھر دفعتاََ لیٹے لیٹے اپنے پاؤںپھیلالیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا:’’یا اللہ ۔‘‘ پھر فرمایا: ’’میرے یہاں درد ہے۔‘‘اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا۔ علی بخش نے آگے بڑھ کر سہارا دیا تو انہوں نے قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کرلیں۔ اس طرح وہ آواز جس نے گذشتہ ربع صدی سے ملت اسلامیہ کے سینے کو سوز آرزو سے گرمایا تھا۔ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ علامہ مرحوم نے خود اپنے ارشادات کو کاروان اسلام کے لیے بانگ درا سے تعبیر کیا تھا اور آج جب ہماری سوگوار محفل ان کے وجود سے خالی ہے تو انہیں کا یہ شعر بار بار زبان پر آتا ہے: جس کے آوازے سے لذت گیر اب تک گوش ہے وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟ اِنّا للّٰہِ وَاِنّا اِلیہِ رَاجعُون خ خ خ شاعرِ مشرق کا وقتِ آخر علّامہ اقبال کے بھائی کے نواسے خالد نظیر صوفی اقبال درونِ خانہمیں لکھتے ہیں۔۔۔ آج کئی اصحاب اس کے دعوے دار ہیں کہ نانا جان قبلہ نے جس وقت اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کی تو یہ لوگ آپ کے پاس موجود تھے۔ بعض تویہاں تک کہتے ہیں کہ وقتِ نزع شاعرِ مشرق ؒ کا سر ان کو گود میں تھا یا وہ آپ کے پاؤں داب رہے تھے۔ لیکن ڈاکٹر عبد القیوم صاحب کے اس انکشاف نے ان کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا ہے کہ اُس رات نانا جان کے پاس صرف ملک صاحب اور علی بخش تھے اور جس وقت نانا جان کی روح جسم کی قید سے آزاد ہوئی تو اُس وقت صرف علی بخش آپ کے پاس تھا۔ ڈاکٹر ملک صاحب، نانا جان مغفور کی زندگی کی آخری رات کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے اخبارات اور کتابوں میں کئی ایک ’بزرگان قوم‘ کے بیانات اُس رات کے متعلق دیکھے ہیں لیکن چونکہ میںکسی کو جھوٹاثابت کرنا اور اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے آج تک خاموش رہا۔ میں نے چونکہ وہ رات جاوید منزل ہی میں گزاری تھی اس لیے مجھے سب معلوم ہے کہ اُس رات کیا کیا واقعات پیش آئے۔ ۲۰ ؍ اپریل کی شام کو ڈاکٹر جمعیت سنگھ ، جو حکیم الامت ؒ کے فیملی ڈاکٹر تھے، تشریف لائے تو علّامہ مرحوم کی حالت کے پیشِ نظر انھوں نےMersalylکا ٹیکہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ مجھ سے انھوں نے مشورہ کیا تو میں نے بھی تائید کی۔ اُن دنوں چونکہ اس ٹیکے سے پیشتر ’’ایمونیم کلورائیڈ ‘‘ (نوشادر) دینا ضروری سمجھا جاتا تھا تاکہ پیشاب کھل کر آ جائے اس لیے ڈاکٹر سنگھ نے میری ڈیوٹی لگائی کہ میں بازار سے ’’ ایمونیم کلورائیڈ‘‘لاکر علّامہ مرحوم گو پلادوں تاکہ ٹیکہ لگایاجا سکے۔ چنانچہ میں اسی وقت بازار سے مطلوبہ دوا لے آیا۔’’ایمونیم کلورائیڈ ‘‘چونکہ بہت تیز اور بد ذائقہ ہوتا ہے اور مجھے علّامہ مرحوم کے مزاج سے واقفیت تھی کہ آپ کڑوی کسیلی دواکے بہت خلاف ہیں اس لیے دوا کے ذائقے کو گوارا بنانے کے لیے اس میں تھوڑا سا’’گلیسریزا ‘‘بھی ملا دیا ، لیکن اس کے باوجود جب دوا آپ کو پلائی گئی تو اس کا ذائقہ انھیںبہت ناگوار گزرا اور آپ نے برا سا منہ بنا کر فرمایا: ’’تم ڈاکٹروں کی دوائیں انتہائی بد ذائقہ ہوتی ہیں اورتم مریض کے مزاج کا قطعاََ خیال نہیں رکھتے۔‘‘اس رات ڈاکٹر سنگھ کو اور مجھے اس کا احساس تھا کہ یہ رات علّامہ مرحوم کے لیے خطرناک ہے کیونکہ ان کی حالت اس کی غمازی کر رہی تھی کہ وہ شاید ہی آج کی رات گزار سکیں۔ اس لیے ڈاکٹر سنگھ اور میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ رات کو میں جاوید منزل ہی میں ٹھہروں گا، چنانچہ اسی فیصلے کے تحت مرحوم کی زندگی کی آخری رات میںان کے پاس موجود رہا۔‘‘ ملک صاحب بتاتے ہیں کہ : ’’اُس رات حکیم الامت ؒ کا بستر جاوید منزل کے پورچ (Porch)میں لگایا گیا تھا۔ ساری رات آپ وہیں بستر میں خاموش لیٹے رہے اورایک پل کے لیے بھی آنکھ نہیں جھپکی۔ پچھلے پہر کچھ خنکی ہو گئی اس لیے صبح ہونے کے بالکل قریب آپ نے فرمایا:’’بھائی ! مجھے اندر کمرے میں لے چلو۔‘‘یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو علّامہ مرحوم نے وفات سے چند لمحے قبل کہے۔ میں اور علی بخش انھیں چارپائی سمیت اٹھا کر ان کے کمرۂ خاص میں لے گئے جو جاوید منزل کی نشست گہ سے ملحق ہے اور جس کی دو کھڑکیاں باہری برآمدے میں کھلتی ہیں۔ رات بھر جاگنے سے میری طبیعت کسلمند ہو رہی تھی اس لیے کچھ دیر سستانے کی خاطر باہر لان میں آکر لیٹ گیا اور علّامہ مرحوم کے پاس اندر صرف علی بخش رہ گیا۔ میں ابھی لیٹا ہی تھا کہ علی بخش نے کمرے میں سے چلا کر مجھے پکارا کہ ڈاکٹر صاحب جلدی آئیے۔ میں بھاگ کر اندر پہنچا توآپ اللہ کوپیارے ہو چکے تھے۔گردن ڈھلک کر چہرہ خود بخود قبلہ رو ہو گیا تھا۔ آنکھیں نرمی سے بند اور لبوں پر ہلکا سا تبسم رقصاں تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اب بڑے آرام سے محوِ استراحت ہیں۔ میںنے جلدی سے آپ کی نبض ٹٹولی اور مایوس ہو کر ’’اِنّا للّٰہِ وَاِنّا اِلیہِ رَاجعُون‘‘پڑھتے ہوئے جب چادر سے آپ کا چہرہ ڈھانپا تو علی بخش آپ کے قدموں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اُس وقت ہر جانب سے صبح کی اذانوں کی پر سطوت صدائیں آرہی تھیں۔ خ خ خ زندگی کے آخری لمحات عبد المجید سالکؔ نے ذکرِ اقبال میں ان کی زندگی کے آخری لمحات بیان کئے ہیں جو سید نذیر نیازی کے مضمون آخری علالت سے کچھ مختلف اور تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ ہم اس کا اقتباس یہاں پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ علّامہ کی علالت کا سلسلہ ۱۹۳۴ء سے جاری تھا۔ لیکن جب ۱۹۳۸ء کا آغاز ہوا اور آل انڈیا پیمانہ پر پہلی بار یومِ اقبال نہایت کامیابی سے منایا جا چکا، تو علّامہ کی علالت نے یک بیک ایک نیا پلٹا کھایا ۔ اُس زمانے میں حکیم محمد حسین قرشی ان کا علاج کر رہے تھے۔علّامہ کو ضیق النفس کے خفیف دورے شروع ہوئے۔ پچھلی رات بے خوابی ہونے لگی۔دو ایک دن نقرس کی تکلیف بھی رہی۔ ضیق النفس کے لیے حکیم قرشی صاحب نے ایک ہلکا سا جوشاندہ تجویز کر رکھا تھا جس کے استعمال سے سکون ہو جاتا تھا۔ حکیم صاحب کی تشخیص یہ تھی کہ علّامہ کو دمہ قلبی ہے اور اس کی وجہ سے ضعف قلب ہے۔ چنانچہ ڈاکٹروں نے بھی اس تشخیص کی تائید کی۔ اُن دنوں ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ علّامہ بستر پر بیٹھ کر تکیہ اپنے آگے رکھوا لیتے اور اس پر اپنا سر ٹیک دیتے۔ ۲۵؍ فروری کو دمہ کا دورہ ہوا۔ جوشاندہ پیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ پھر ایلوپیتھک علاج شروع ہوا۔ جس میں دورے کو روکنے اور نیند لانے کی تدبیر کی جاتی تھی۔ چند روز ذرا آرام سے گزر گئے۔ ۳۰ ؍ مارچ کی شب کا ذکر ہے علّامہ پر ضعف ِ قلب سے غشی طاری ہوئی اور وہ اسی حالت میں پلنگ سے گرگئے۔ دوسرے دن حکیم قرشی صاحب نے ان کو دیکھا تو ان کے نیاز مندوں کو بتا دیا کہ علّامہ کا قلب نہایت ضعیف ہے۔ جگر اور گردے بھی ماؤف ہو چکے ہیں۔ مگر اللہ پر بھروسا رکھنا چاہئے۔ مناسب تدابیر اور احتیاط سے افاقہ ہو جائے گا۔ ڈاکٹر محمد یوسف، ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر جمعیت سنگھ سے بھی کبھی کبھی مشورہ کر لیا جاتا اور وہ بھی انتہائی توجہ اور عقیدت سے علاج کرتے۔ لیکن علّامہ ڈاکٹری دواؤںکی تلخی اور ناگواری سے بے حد گھبراتے تھے اور علاج جاری نہ رہ سکتا تھا۔ معالج سب کے سب متفق تھے کہ علّامہ کو عظم و اتساع قلب کا عارضہ ہے۔ چونکہ قلب ضعف کی وجہ سے اپنے وظائف پوری طرح ادا نہیں کر سکتا ، اس لیے دمہ عارض ہے۔ گردوں کی کیفیت دیکھ کر حکیم قریشی صاحب کا خیال تھا کہ استسقاء کا اندیشہ ہے۔ مرض الموت کی کیفیت یہ تھی کہ آخر میں استسقاء ہوا۔ چہرے پاؤں پر ورم ہو گیا۔ دردِ پشت اور دردِ شانہ کے عوارض شروع ہوگئے۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ نے دیکھا تو مایوسی ظاہر کی۔ ۱۹؍ اپریل کی شام سے حضرت علّامہ کو بلغم میں کسی قدر خون آرہا تھا اور یہ علامت سب کے نزدیک یاس انگیز تھی۔ ڈاکٹر امیر چند آگئے اور ڈاکٹر عبد القیوم کو چند ہدایات دے کر چلے گئے۔اس کے بعد علّامہ کو خیال آیا کہ حکیم قرشی شام سے بھوکے بیٹھے ہیں۔ کھانا نہیں کھایا۔آپ نے علی بخش سے کہا کہ حکیم صاحب کو بسکٹ کھلاؤ اور چائے پلاؤ۔ چودھری محمد حسین ، حکیم قرشی صاحب، سید سلامت اللہ شاہ اورسید نذیر نیازی خدمت میں حاضر تھے ۔ راجہ حسن اختر کے متعلق دریافت فرمایا تو بتایا گیا کہ وہ ایک کام سے گئے ہیں۔ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لے کر آئے ، مگر اس کے پیتے ہی علّامہ کا جی متلانے لگا۔ اس پر حکیم صاحب نے خمیرہ گاؤزبان عنبری کی ایک خوراک دی۔ جس سے طبیعت بحال ہو گئی۔ عبد القیوم نے حسبِ ہدایت فروٹ سالٹ تیار کیا۔ حضرت علّامہ نے فرمایا ۔ اتنا بڑا گلاس کیوں کر پیوں گا؟ اور پھر چپ چاپ سارا گلاس پی گئے۔ علی بخش نے چوکی پلنگ کے ساتھ لگا دی۔ اُس وقت علی بخش کے سوا کمرے میں کوئی دوسرا نہ تھا۔ علّامہ نے اس سے فرمایا ’’میرے شانوں کو دباؤ۔‘‘ پھربیٹھے بیٹھے اپنے پاؤں پھیلا لیے ، اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’یا اللہ ! یہاں درد ہے‘‘ ۔ اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا۔ علی بخش نے بڑھ کر سہارا دیا ، تو حضرت حکیم الامت نے قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کر لیں اور اپنے پیدا کرنے والے کے دربار میں سرخرو حاضر ہو گئے۔ انّا للّٰہِ وانّا الیہ راجعون۔ کل من علیھا فان۔ ویبقی وجہ ربک ذوالجال والاکرام۔ خ خ خ علامہ اقبال کی آخری رات کاش آخری خواہش پوری ہوتی! کہتے ہیں ’’بڑے گھر کی چھوٹی بات بھی بڑی ہوتی ہے‘‘۔ جاوید منزل ویسے کوئی عالی شان کوٹھی نہ تھی لیکن اس کا مکین جو قلندرانہ صفت کا حامل تھابہت بڑا شخص تھا اور اس کی نسبت سے وہ گھر بھی بڑا گھر بن چکا تھا، چنانچہ علماء شرفا اور عوام اس پر حاضری دینا اپنے لیے باعث عزت و فخر سمجھتے تھے۔لاہور کی جاوید منزل ہی نہیں بلکہ سیالکوٹ کی ’’اقبال منزل‘‘ جس میں علامہ کی ولادت ہوئی اُس میںبھی حاضری دینے کے لیے مشاہیر عالم تشریف لاتے رہے۔ اپریل ۱۹۴۴ء میں قائد اعظم محمد علی جناح ۱۹۵۲ء میںمحترمہ فاطمہ جناح اورمصر کے مشہور ادیب عبد الوہاب مصری نے اس پر حاضری دی۔ ۱۹۵۶ء میں ایران کے عظیم ادیب علامہ سعید نفیسی جنہیں علامہ اقبال سے بے پناہ محبت تھی اقبال منزل آئے اور اجازت لے کر ایک پوری رات اس میں مقیم رہے۔ ۲۰؍ اپریل کے دن ڈھلنے کے بعد جو رات آئی وہ علامہ کی زندگی کی آخری رات تھی جس کی سحر علامہ نے نہیں دیکھی۔ چنانچہ ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء مطابق ۱۹ صفر صبح سوا پانچ بجے علامہ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ہم نے جب اس رات کا تفصیلی اورتحقیقی جائزہ لیا تو معلوم ہواکہ واقعات بیان کرنے والوں کی گفتگو یکسان نہیں بلکہ مختلف ہے اور ان کے بیانات میں شدید اختلافات ہیں۔ لوگوں نے علامہ سے قربت ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے جھوٹے واقعات بیان کئے ہیں جیسے وہ ساری رات جاوید منزل میں موجود تھے کوئی علامہ کے پاؤں داب رہا تھا کوئی علامہ کے درد کمر کو کم کرنے کے لیے مالش کر رہا تھا کوئی متلی کو رفع کرنے کے لیے معجون کھلا رہا تھا اور کسی کی آغوش میں علامہ نے آخری ہچکی لی وغیرہ وغیرہ۔ علامہ اقبال کے انتقال کے فوری بعد وہ افراد جو علامہ کے قریبی دوست اور رشتے دارجانے جاتے تھے واقعات کو بغیر کسی تحقیق کے بیان کرنے لگے چنانچہ ضد و نقیص بیانات، کتابوں، رسالوں، اخباروںمیں برابر شائع ہوتے رہے اور نصف صدی سے زیادہ گزرنے کے بعد اصلی واقعات کو جھوٹے اور فرضی بیانات سے جدا کرنا بڑا دشوار کام ہو گیا۔ علامہ کے فرزند جسٹس جاوید اقبال اس وقت آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے وہ اس رات علامہ سے ملاقات کر کے جس کا ذکر آگے ہوگا آرام کرنے چلے گئے۔ علامہ کی اپنی بیٹی منیرہ اس وقت صرف ساڑھے سات سال کی تھی چنانچہ اس رات کی وہ مکمل ترجمان نہیں ہو سکتی۔ بہرحال جسٹس جاوید اقبال کو اپنی تصنیف زندہ رود میں ان افراد کے اقوال اور بیانات لکھنے پڑے جو علامہ کے قریبی دوست اور احباب تھے اور خود کو چشم دید گواہ کہتے تھے ۔ ۱۹؍ اپریل سے بلغم میں خون بھی آنے لگا تھا جس کو اطباء نے تشویش ناک حالت بتائی اس لیے اس رات چودھری محمد حسین نے جاوید منزل پر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو طلب کیا جس میںڈاکٹر محمد یوسف، ڈاکٹر امیر چند، ڈاکٹر یار محمد، ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر جمعیت سنگھ اور ڈاکٹر عبد القیوم شامل تھے۔ ڈاکٹروں نے دوسرے دن سے علامہ کے علاج میں تبدیلی کا ارادہ کیا اور ڈاکٹر عبد القیوم صاحب کو ضروری ہدایات دی گئی اسی لیے وہ ساری رات جاوید منزل پر جاگتے رہے۔ چنانچہ ہمیں اس رات کے واقعات کو صحیح طور پر بیان کرنے کے لیے علامہ کے خادم علی بخش اور ڈاکٹر عبد القیوم کے بیانات کو بھی اہمیت دینی پڑے گی جو تمام رات جاوید منزل میںموجود تھے۔ ۲۰؍ اپریل کو ساڑھے چار بجے سہ پہر جب علامہ کمر کے درد اور دمّہ کی کیفیت سے بے چین تھے اتفاقاََ ان سے ملنے کے لیے ان کے اقامت جرمن کے زمانے کے ایک ہم جماعت بیرن فلٹ حائم آگئے۔ اقبال نے ان سے اپنی طالب علمی کے زمانے کی باتیں بڑے لطف اور خوشی سے کیں اور کچھ لمحے کے لیے اپنی بیماری اور درد بھول گئے چنانچہ ان کے جانے کے بعدبھی دوسرے دوستوں سے مسلم لیگ اور گانگریس کی باتیں جاری رہیں۔ جاوید اقبال زندہ رود میں لکھتے ہیں کہ اس شام کو ہوا میں بہار کے پھولوں کی خوشبو بکھری ہوئی تھی چنانچہ اسی لیے علامہ کی چارپائی کو شام سے ہی کمرے سے باہر لاکر دالان میں بچھایا گیا تھا۔ منیرہ جو تقریباََ ساڑھے سات سا ل کی تھی اور روزانہ دو تین بار علامہ سے بستر پر جا کر باتیںکرتی تھی اس شام کو بھی آپا جان کے ہمراہ دالان میں آکر علامہ سے لپٹ کر اپنی بلبل زبانی میں باتیں کرنا شروع کیں لیکن وہ اس شام کو علامہ کے پاس سے اٹھنا نہیں چاہتی تھی اگرچہ آپا جان نے کئی مرتبہ چاہا کہ منیرہ کو علامہ سے جدا کرے لیکن منیرہ نہیں اٹھی۔ اس وقت علامہ نے مسکر ا کر آپا جان سے انگریزی میں کہا۔ شاید اس کی حِس اس کو اس بات کا احساس دلا رہی ہے کہ یہ باپ کے ساتھ آخری ملاقات ہے۔ منیرہ جب علامہ سے خدا حافظی کر کے جدا ہوئی تو گرلس اسلامک کالج کی پرنسپل فاطمہ بیگم علامہ کے حضور میں آئیں اور کچھ دیر تک قرآن کی تعلیم کے سلسلہ میں گفتگو جاری رہی۔ تقریباََ رات کے ساڑے آٹھ بجے سید نذیر نیازی، حکیم محمد حسن قرشی، سید سلامت شاہ ، چودھری محمد حسین اور راجہ حسن اختر جاوید منزل آئے جہاں پہلے ہی سے محمد شفیع اور ڈاکٹر عبد القیوم موجود تھے۔ جاوید اقبال کہتے ہیں تقریباََ ۹ بجے رات وہ علامہ کے سرہانے پہنچے لیکن علامہ نے ا نہیں نہیں پہچانا اور سوال کیا کون ہے؟ جب جاوید نے اپنا نام بتایا تو علامہ مسکرائے اور کہا کہ جاوید بن کر دکھاؤ پھر جاوید کو اپنے سے لپٹا لیا اور پھر چودھری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ جاویدنامہ سے وہ اشعار پڑھیںجو انہوں نے جاوید سے خطاب کرکے کہے ہیں۔ جب چودھری محمد حسین نے وہ اشعار پڑھے جس کا آخری شعر تھا ؎ سرِّ دین مصطفیؐ گویم ترا ہم بہ قبر اندر دعا گویم ترا تو علی بخش ڈھاریں مار کر رونے لگا۔ چودھری محمد حسین نے علی بخش کو خاموش کرنے کی کوششیں کی تو علامہ نے کہا۔ ’’ اسے رونے دو آخر چالیس سال کی رفاقت کا ساتھ ہے۔‘‘ علامہ کے بڑے بھائی عطا محمد کے نواسے خالد نظیر صوفی اقبال درون خانہمیں لکھتے ہیں۔ علامہ کو کڑوی کسیلی دواؤں سے سخت نفرت تھی اور وہ ان کے استعمال سے گھبراتے تھے چنانچہ جب رات انہیں کڑوی دوا دی گئی تو جی متلانے لگا۔ علامہ نے خفا ہو کر شفیع صاحب سے کہا یہ دوائیں غیر انسانی(Inhuman)ہیں۔ اور پھر صاف کہہ دیا کہ وہ ایلوپیتھک دوا استعمال نہیں کریں گے۔ جب شفیع صاحب نے کہا کہ انہیں اوروں کے لیے زندہ رہنا ہے تب اقبال نے کہا (Not on these medicines). علامہ اقبال کے بڑے بھائی عطا محمد کے نواسے خالد نظیر صوفی اقبال درون خانہمیں ڈاکٹر عبد القیوم کی زبانی بیان کرتے یں۔ اُس رات حکیم الامتؒ کے پاس ۱۲ بجے تک کافی لوگ موجود تھے۔ باتیں ہو رہی تھیں۔ لیکن علامہ مرحوم زیادہ تر خاموش ہی رہے اور صرف ’’ہوں‘‘، ’’ہاں‘‘ ہی میں کسی کسی بات کا جواب دیا۔ہاںجس چیز کا انہوں نے بار بار ذکر کیا وہ پنجابی کی کوئی نعت تھی جو آپ نے کبھی سُنی تھی اس کے متعلق اُن کا فرمانا تھا کہ ویسی نعت انہوں نے اردو ، فارسی یا عربی میں کہیں پڑھی اور نہ ہی کبھی سُنی ہے۔ وہ اپنے احباب سے اُس نعت کی تعریفیں کرتے رہے کہ پنجابی زبان کی وہ نعت اس قدر بلند پایہ ہے کہ اپنی ساری زندگی میں کوشش کے باوجود وہ خود بھی اس کے ہم پلہ کوئی نعت نہیں کہہ سکے۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ ایک دفعہ پھر وہ نعت اُس آدمی کی زبانی سنیں جس سے کہ پہلے سُنی تھی اس خواہش کا اظہاربار بار انہوں نے اپنے دوستوں سے کیا چنانچہ سارے دوست ایک ایک کرکے یہ کہہ کر چلے گئے کہ اُس نعت خواں کو لے کر آئیں گے۔ مگر صد افسوس کہ وعدہ کرکے جانے والوں میں کوئی بھی واپس نہ آیا اور شاعرِ مشرق کی آخری خواہش تشنہ تکمیل رہی۔ ‘‘ واقعات اور معتبر بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباََ 10-12افراد اُس وقت رات میں موجود تھے علامہ نے پنجابی نعت کا ذکر کیا اور اُس کے سُننے کی خواہش ظاہر کی، لیکن افسوس کہ ان لوگوں میں سے بعض افراد نے کتابوں کے صدہا اوراق سیاہ کئے لیکن اس نورانی خواہش کا ذکر تک نہ کیا یہاں تک کہ ڈاکٹر عبد القیوم جو اس واقعہ کے راوی ہیں انہوں نے بھی اس پنجابی نعت کو دریافت کرنے کی توجہ نہ کی۔ اے کاش ہمیں معلو م ہو جاتا وہ کون سی نورانی نعت ہے جس کی آرزو ہمیشہ کے لیے علامہ کے دل کی روشنی بنی رہی۔ اُس رات جب دوست احباب چلے گئے تو علامہ ساری رات بستر میں خاموش لیٹے رہے اور ایک پَل کے لیے بھی آنکھ نہ جھپکی۔ پچھلے پہر سے پہلے جب کچھ سردی محسوس ہوئی تو فرمایا۔ ’’ بھائی مجھے اندر کمرے میں لے چلو۔‘‘ چنانچہ علامہ کو علی بخش اور ڈاکٹر عبد القیوم نے چارپائی سمیت اُٹھا کر ان کے خاص کمرے میں لے گئے۔ پھر ڈاکٹر عبد القیوم چونکہ رات بھر جاگے ہوئے تھے سستانے کے لیے باہر دالان میں آکر لیٹ گئے اور اُس وقت علی بخش کے سوا کمرے میں کوئی دوسرا نہ تھا ۔ چنانچہ تقریباََ صبح کے پانچ بج رہے تھے علامہ نے علی بخش سے کہا ’’میرے شانوں کو دباؤ‘‘۔ پھربیٹھے بیٹھے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کہا یہاں درد ہو رہا ہے اور پھر ’’یا اللہ ‘‘ زبان سے نکلا اور علامہ کا منکا ڈھل گیا اور چہرہ خود بخود قبلہ رو ہوگیا۔ ڈاکٹر عبد القیوم کہتے ہیں کہ علی بخش نے چلا کر پکارا ڈاکٹر صاحب جلد آئیے اور جب میں پہنچا جو علامہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ آپ کی آنکھیں بند اور لبوں پر ہلکا سا تبسم تھا۔ علی بخش قدموں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔تقریباََ صبح کے سوا پانچ بجے تھے اور اس وقت فضا میں ہر طرف اذانوں کی پر سطوت صدائیں گونج رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر عبد القیوم نے ٹیلیفون پر ریڈیو اسٹیشن والوں کو علامہ کے انتقال کی اطلاع دی اور دن چڑھتے ہی دوست احباب اور عوام جوق در جوق جاوید منزل کی طرف آنے لگے اور علامہ کے چہرے کی زیارت کرتے رہے۔ اخباروں نے ضمیمہ شائع کیا۔ اسکول، کالج، سرکاری دفاتر، عدالتیں اور بازار بند ہو گئے۔ علامہ کا جنازہ شام کے پانچ بجے جاوید منزل سے بر آمد ہو کر اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں پہنچا جہاں نماز پڑھنے کے لیے تقریباََ بیس ہزار افراد جمع تھے۔ جنازے کے جلوس میں تقریباََ پچاس ہزار مسلمان ہندو اور سکھ شریک تھے جو تقریباََ ۷؍ بجے شام ہی مسجد پہنچا اور پھر پونے دس بجے سپرد خاک کیا گیا۔ یہاں تجہیز و تکفین کے مسائک اور ان پر گفتگو کے لیے خود ایک علیحدہ مضمون درکار ہے جسے ہم ناتمام رکھ کر یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیںکہ جیسا مختلف کتابون رسالوں اور بیانات سے واضح ہے کہ علامہ نے انتقال سے چند منٹ پہلے اپنی معروف رباعی کہی تھی یہ بات صحیح نہیں۔ یہ رباعی علامہ نے ستمبر ۱۹۳۷ء میں لکھی تھی۔ سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمی از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگارِ ایں فقیری دگر داناے راز آید کہ ناید انتقال سے چند روز قبل علامہ کے بڑے بھائی عطا محمد نے ان سے موت کے موضوع پر گفتگو کی تو بھائی کو مخاطب ہو کر علامہ نے کہا میں مسلمان ہوں اور موت سے نہیں ڈرتا اور پھر یہ شعر پڑھا ؎ نشانِ مردِ مومن با توگویم چو مرگ آید تبسم برلب اوست علامہ کے انتقال کے وقت عطا محمد سیالکوٹ میں تھے لاہور پہنچتے وقت شام ہو چکی تھی اور جنازہ شاہی مسجد پہنچ چکا تھا چنانچہ وہ روتے ہوئے مجمع کو ہٹاتے جاتے اور کہتے تھے لوگو مجھے میرے بھائی کا چہرہ دیکھ لینے دو۔اس نے کہا تھا اس کے چہرے پر مرنے کے بعد تبسم ہوگا۔ہاں یقینا اقبال کے چہرے پر تبسم تھا۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا خ خ خ علامہ اقبال کاجلوسِ جنازہ شہر لاہور کے دوجلوسِ جنازہ خاص اہمیت اور کیفیت کے حامل تھے جن کی نظیر ہمیں لاہور کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ایک جلوسِ جنازہ شہید علیم الدین کا جس کو علامہ اقبال اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے اور دوسرا خود اقبال کا جنازہ جس کو ہر فردِ ملّت کندھا دے رہا تھا اور بلا تفریق مذہب و ملت تمام تر شہر لاہور اس میں شریک تھا۔ہم اس تحریر میں عنوانِ تحریر کا خیال کرتے ہوئے شہید علیم الدین کے جنازے کے تعلق سے مختصر گفتگو کریں گے تاکہ علامہ کے عشقِ رسولؐ کی ایک ہلکی سی جھلک اس تحریر میں بھی نمایاں ہو جائے۔ جب ایک معتصب شخص راج پال نے حضورؐ اکرم کی شان میںگستاخانہ کتاب رنگیلا رسولؐ نشر کی اور اس کتاب کی وجہ سے بر صغیر کے مسلمانوں میں غم اور غصہ کی لہر دوڑی لیکن حکومتِ برطانیہ نے راج پال ہی کا ساتھ دیا تو اس وقت ایک نوجوان علیم الدین نے راج پال کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اس قتل کے اقرار پر حکومت برطانیہ نے علیم الدین کو پھانسی دے کر ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کر دیا۔ جب راج پال کے قتل کی اطلاع اقبال کو ہوئی تو اقبال نے کہا۔ ’’ہم پڑھے لکھوں سے تو وہ ان پڑھ ترکھان (بڑھی) کا لڑکا کہیں زیادہ عقل مند نکلا ۔ ہم بحثوں میں الجھے رہے وہ کامیاب ہو گیا۔‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ جب شہید علیم الدین کے جنازے کا جلوس جس میں ہزاروں افراد شامل تھے علامہ کی کوٹھی کے سامنے سے گزرا تو علامہ اپنی شدید بیماری اور کمزوری کے باوجود اس جنازے کے استقبال کے لیے اپنے گھر کی پھاٹک پر چند احباب کے ساتھ منتظر تھے ۔آپ نے اس بیماری کے عالم میں آگے بڑھ کر بڑی دور تک جنازے کو کندھا دیا ۔ علامہ کا چہرہ سرخ تھا اور ان کی آنکھوں میں شہید کی کامیابی پر خوشی کے آنسو چھلک رہے تھے۔ یہ تھی علامہ کی حضورؐ اور ان سے محبت رکھنے والوں سے محبت۔ علامہ خود فرماتے ہیں۔ اصل سنت جز محبت ہیچ نیست علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست یعنی اصلی سنت محبت کے علاہ کچھ نہیں۔ دین حق بھی شریعت کے سوا کچھ نہیں۔ آخری ایام زندگی میں علامہ طولانی بیماری اور کڑوی کسیلی دواؤں سے تنگ آچکے تھے۔ چنانچہ مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرقکے ’’ در حضور ؐ رسالتمآبؐ ‘‘میں تندرستی اور ان دواؤں سے چھٹکارے کی دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کار این بیمار نتوان بُرد پیش من چوں طفلاں نالم از دارویٔ خویش درنسازد بادوا ہا جانِ زار تلخ و بویش برمشامم ناگوار با پرستارانِ شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز یعنی بیماری سے چھٹکارا نہیں اور میں بچوں کی طرح کڑوی دواؤں سے گھبراتا ہوں۔ میں تاریکی پھیلانے والوںسے لڑ رہا ہوں کچھ اور تیل میرے چراغ میں ڈال دے۔ بہر حال یہ چراغِ عشقِ محمدیؐ ۲۱؍ اپریل کی سحر کو نسیم سحر کے جھونکے سے گل ہو گیا۔ ڈاکٹر ملک بتاتے ہیں کہ اس وقت فضا میں ہر جانب صبح کی اذانوں کی پر سطوت آوازیں بکھر رہی تھیں اور صبح کے کوئی سوا پانچ بجے تھے۔ایک طرف علامہ کے قدموں سے لپٹ کر علی بخش پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اور دوسری طرف علّامہ کے چہرے پر ہلکا سا تبسم مومن کی علامت دکھا رہا تھا جس کی پیشن گوئی خود اقبال نے کی تھی۔ نشانِ مردِ مومن باتو گویم چو مرگ آید تبسم برلبِ اوست (مردِ مومن کی علامت تجھ سے کہتا ہوں کہ جب اس پر موت آئے تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ رہتی ہے)۔ ڈاکٹر ملک نے علّامہ کے انتقال کے کچھ لمحوں بعد ٹیلیفون پر ریڈیو اسٹیشن والوں کو اطلاع کردی۔ علامّہ کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سار ے شہر میں پھیل گئی کچھ ہی دیر میں علامہ کے تمام تر مصاحب جاوید منزل پہنچ گئے۔ جن میں چودھری محمد حسین، خلیفہ شجاع خان، سعادت علی خان، سید محسن شاہ، میاںنظام الدین ،میاں امیر الدین، مولانا غلام رسول مہرؔ، عبدالمجید سالک، مولانا غلام مرشد، راجہ حسن اختر اور ڈاکٹر مظفر قریشی قابل ذکر ہیں۔ جاوید منزل میں جاوید اقبال اور منیرہ سراسمیگی کی حالت میں علامّہ اقبال کے کمرے کی طرف دہلیز پر کھڑے ان واقعات کو دیکھ رہے تھے۔ خود جاوید اقبال زندہ رودمیں لکھتے ہیں۔ ’’میں اور منیرہ کمرے کے دروازے پر سہمے کھڑے تھے اور ہم پر ایک خوف سا طاری تھا۔ منیرہ کمرے کے اندر کے حالت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اقبال اپنے تخت پر آرام کی نیند سو چکے تھے ان پر ایک سفید چادر اوڑھا دی گئی تھی جو ہوا کے نرم جھونکوں سے کبھی اٹھتی تو اقبال کا چہرہ نمودار ہوتا۔آپ کی آنکھیں بند اورلبوں پر تبسم تھا۔ ابھی کچھ بالوں میں خضاب کا کالا رنگ باقی تھا جسے جاوید کی خواہش پر علامّہ نے کیا تھا۔‘‘ ریڈیو مسلسل علامّہ کے انتقال کی خبر نشر کر رہا تھا۔ تقریباََ تمام اخباروں نے خصوصی ضمیمہ شائع کئے تھے۔ اسکولس، کالجس سرکاری اور پرائیویٹ ادارے ،عدالتیں، اور اسلامی ادارے بند کر دئے گئے تھے بازار بھی بڑی حد تک تعطیل ہوا تھا۔ بقول عبد المجید سالک ؔ جاوید منزل اس بیوہ کی طرح نظر آرہی تھی جس کا سہاگ اجڑ گیا ہو۔ ہزاروں افراد علامّہ کے آخری دیدار کے لیے جاوید منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ جاوید منزل میں علامّہ کے دوست کفن اور دفن کے مسائل میں مصروف تھے وہ جانتے تھے کہ علامّہ کا مزار صدیوں ’’ سجدہ گاہِ صاحب نظراں‘‘ ہو گا انھیں کسی ممتاز مقام پر دفن کرنا چاہتے تھے۔ سب سے پہلے چودھری محمد حسین نے علامّہ کو مسجد شاہی کے کسی حجرے میں دفن کرنے کی تجویز پیش کی اور اسی غرض سے مظفر الدین قریشی اور کئی دوسرے حضرات کے ساتھ شاہی مسجد پہنچے اور وہاں جانے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسجد کا حجرہ مناسب نہیں بلکہ مسجد کی سیڑھیوں کی بائیں جانب جو قطعہ زمین خالی ہے وہ علامّہ کے مزار کے لیے مناسب ہے اس کے لیے مرکزی حکومت کی منظوری ضروری تھی جسے بڑی مشکلات ور تدبیر علمی سے حاصل کر کے قبر کھودوانے کا انتظام شروع کیا گیا۔ ادھر جاوید منزل میں عوام قطار در قطار علامّہ کا تبسم آمیز چہرہ دیکھ کر زار و قطار گریہ کر رہے تھے۔ یہ سلسلہ عقیدت مندوں کا کوئی پانچ بجے عصر تک جاری رہا اور اس وقت علامّہ کا جنازہ جاوید منزل سے برآمد ہوا جنازے کی چارپائی کے ساتھ دونوں طرف لمبے لمبے بانس باندھے گئے تاکہ ہر شخص آسانی سے کندھا دے سکے۔ جنازہ کی چارپائی کے اوپر کڑھائی کی ہوئی کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات والی سیاہ رنگ کی چادر تھی ۔ خواجہ عبدالمجید لکھتے ہیں۔’’ جنازے میں شامل مسلمان اونچی آواز میں کلمۂ شہادت اور کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے۔ جلوس میں اسکولوں کے با وردی سکاوٹ، سوار اور پیادہ پولس،ملٹری افراد، سرخ پوش اور نیلی وردی پوش والینٹرس، الہلال اور خاکساران کے کارکن اپنی خصوصی وردیوں میں جنازے کے ساتھ ساتھ تھے اس کے علاوہ خاکساروں کا ایک جیش سیاہ ماتمی علم اٹھائے ساتھ ساتھ چل رہا تھا جنازہ لوگوں کے کندھوں پر سفر کرتا ہوا جرنیلی روڈ سے گزرتا ہوا جب لاہورا سٹیشن کے قریب پہنچا تو وہاں ایک بڑی تعداد جلوس میں شامل ہو گئی۔ ہر طرف نوجوان، جوان ،میانہ سال اور بوڑھے افراد جنازہ کو کندھا دینے کے لیے بڑھ رہے تھے اورجب جنازہ برانڈرتھ روڈ پہنچا تو ہزاروں بچے خواتین اور مرد مکانوں کی کھڑکیوں اور چھتوںپر سوگوار کھڑے ہو کر نظارہ کر رہے تھے۔ علامّہ اقبال کے جلوس جنازہ کی انفرادیت یہ بھی تھی کہ اس میں ہر مذہب و ملت ہر قوم و قبیلہ کا شخص موجود تھا۔ جلوس میں وزرا، حکومتی عہدیدار، ججس،پروفیسر، شعرا، صحافی،ادیب،علماء تاجر،بازارگان،طلبااوردیہات کے باشندے بھی موجود تھے۔ ہر شخص کا چہرہ سوگوار اور بہت سوں کی آنکھیں نم تھیں۔جاوید اقبال آخر صفوں میں تھے جن کے اطراف علامّہ کے دوست اور احباب موجود تھے اور سب جاوید پر نظر شفقت ڈال رہے تھے۔جنازہ قلعہ گوجر سنگھ اور خیابان فلیمنگ سے ہوتا ہوا اسلامیہ کالج سے گزر کر جب قلعہ لاہور کے قریب پہنچا تو وہاں ہزاروں لوگ کندھے دینے کے لیے منتظر تھے۔ حضوری باغ میں کئی نوجوان، جوان درختوںپر چڑھ کر اس مردِ قلندر کے جنازے کی رسومات دیکھ رہے تھے۔ جب جنازہ شاہی مسجد کے سیڑھیوں کے قریب پہنچا تو جنازے کے آگے آگے شہر کے مشاہیر اور معزز ین بڑی خاموشی سے سر جھکائے چلے آرہے تھے ۔ ان کے بعد شہر کے مشہور ہندو، سکھ، عیسائی معززین موجود تھے اور ان کے پیچھے جنازہ اورجنازے کے پیچھے عوام الناس کا ایک سیل رواں تھا اور اس وقت جنازے میں تقریباََ 50-60ہزار افراد موجود تھے۔ جنازہ شام کے سات بجے مسجد شاہی کے صحن پہنچا اور تقریباََ ڈیڑھ گھنٹہ علامہ کے بڑے بھائی کا انتظار ہوا پھر مولانا غلام مرشد صاحب نے ساڑے آٹھ بجے نماز جنازہ پڑھوائی۔ علامّہ کی بھتیجی کہتی ہیں ’’تار چونکہ دیر سے ملا تھا اس لیے لاہور پہونچنے تک جنازہ گھر سے اٹھ چکا تھا۔ سب لوگ بادشاہی مسجد پہنچ چکے تھے اُس وقت نماز جنازہ ادا کی جار ہی تھی۔مرد توجنازے میں شامل ہو گئے اور ہم سب عورتیںقبر کے پاس بیٹھ گئیں۔ نماز جنازہ کے بعد جب میت قبر کے پاس لائی گئی تو اس قدر ہجوم تھا کہ ہم کہیں سے کہیں جا پہنچے ۔ بڑی تگ و دو کے بعد پھر قبر کے قریب پہنچے مگر میت تک رسائی نا ممکن نظر آتی تھی۔ آخر علامّہ کے حقیقی بھانجے خورشید بھائی نے گرج دار آواز میں کہا ۔ ’’اگر آپ لوگ اس طرح ہمیں منہ تک نہیں دیکھنے دیں گے تو ہم ابھی میت کو سیالکوٹ لے جائیں گے ہمارے ساتھ عورتیں بھی ہیں جو سیالکوٹ سے آخری دیدار کے لیے آئی ہیں لیکن آپ لوگ ہماری سنتے ہی نہیں۔‘‘ ان کا اتنا کہنا تھا کہ مجمع کائی کی طرح چھٹ گیا سب نے علامّہ صاحب کا آخری دیدار کیا۔ میں نے انہیں پرسکون انداز میں لیٹے ہوئے دیکھا جیسے کتاب پڑھتے پڑھتے سو گئے ہوں۔ چہرے پر ہلکی سی زردی تھی۔ لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ۔‘‘ تقریباََ رات کے سوا دس بجے علامّہ کے جسد خاکی کو خاک کے سپرد کر دیا گیا۔ خواجہ عبدالمجید لکھتے ہیں۔’’ اقبال کے جلوس جنازہ کی تین باتیں میرے ذہن پر ہمیشہ نقش رہیں گی۔ایک اس روز شہر کی فضا میںایسی خاموشی تھی جسے بُھلایا نہیں جا سکتا، دوسرے شہر کی سڑکوں پرکوئی سواری نظر نہیں آئی تھی کیونکہ عوام سب جنازے میں شریک تھے، تیسرے یہ جلوس آغاز سے انجام تک انتہائی وقار اور امن کے ساتھ منظّم طور پر اختتام کو پہنچا‘‘۔ علامّہ کے دیرینہ دوست خواجہ حسن ؔنظامی نے انتقال کے دوسرے ہفتہ یعنی ۲۹؍ اپریل ۱۹۳۸ء کے منادی میں لکھا ۔ ’’میرے دوست اور فلسفیانہ شاعری کے آفتاب جناب ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال نے جمعرات کے دن ۱۹؍ صفر ۱۳۵۷ ہجری صبح صادق کے وقت اس دنیا سے کوچ فرمایا۔ وہ چونکہ محبّ اہلبیتؑ تھے اسلیے قدرت نے ان کو چہلم سید الشہدؑا سے ایک دن پہلے کی تاریخ عطا فرمائی‘‘۔ ہم اس گفتگو کو علامّہ اقبال کے اس مصرعہ پر ختم کرتے ہیں جس سے ان کی سنہ تاریخ وفات ۱۳۵۷ ہجری نکلتی ہے۔ ع۔ صدق و اخلاص و صفا باقی نہ ماند 1357 علامّہ اقبال کا مقبرہ ع۔ آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے علامّہ اقبال نے ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء روزجمعرات مطابق ۱۹؍ صفر ۱۳۵۷ہجری صبح کے سوا پانچ بجے داعیٔ اجل کو لبیک کہا کچھ ہی دیر میں جاویدمنزل میں دوست و مصاحب جمع ہو گئے جن کے لیے سب سے اہم مسئلہ علامّہ کے دفن کے مقام کا تعیّن تھا چنانچہ ظاہری واقعات یہ بتاتے ہیںکہ چودھری محمد حسین اور راجہ حسن اختر جو تقریباََ بارہ سال تک علامّہ سے فیضیاب رہے ڈاکٹر مظفر الدین قریشی کے ہمراہ سب سے پہلی بار اس خیال کا اظہار کیا کہ اقبال کو شاہی مسجد لاہور کے کسی حجرے میں دفن کیا جائے مگر جب یہ افراد دوسرے دوستوں کے ساتھ شاہی مسجد گئے تو ان کے خیالات بدل گئے اور انہوں نے شاہی مسجد کی سیڑھیوں کی بائیں جانب خالی قطعہ زمین کا انتخاب کیا۔ ہم اس مقام پر صرف اس نکتہ کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ علامّہ جیسا دور اندیش مرد ِ مومن جو ایک طولانی بیماری کے بعد اس دارِ فانی سے کوچ کرتا ہے جو ایک نہیں بلکہ تین وصیتیں چھوڑتا ہے جس نے اپنے بڑے بھائی کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ موت سے نہیں ڈرتا بلکہ موت کا استقبال تبسم کے ساتھ کرے گا وہ اپنے کفن اور دفن کے بارے میں اپنے دوست و احباب سے کچھ نہ کہے۔ شاید شاہی مسجد کا انتخاب خود دبے الفاظ میں علامّہ اقبال کا انتخاب ہو جس پر چودھری محمد حسین اور راجہ حسن اختر نے پافشاری کی۔ اس بات کا امکان ہے کہ علامّہ اپنی حیات میں اس مسئلہ کو اس لیے پیچیدہ مسئلہ بنانا نہیں چاہتے تھے کہ مسجد آثارِقدیمہ کے تحت تھی اور زندگی میں اجازت کے لیے بعض افراد کی رضا مندی ضروری تھی جنہیں علامّہ پسند نہیں کرتے تھے اور شاید یہی سو چ کر اقبال نے اس مسئلہ کو اپنے خاص دوستوں پر چھوڑ دیا تاکہ پس از مرگ یہ مسئلہ آسان ہو جائے۔ بہر حال واللہ العالم کہہ کر ہم مضمون کو آگے بڑھاتے ہیں۔ علامّہ اقبال کی اس خواہش کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں بھی کیا ہے کہ ’’اے خدا میری قبر پر تیری دیوار کا سایا ہو اور میرے نصیب کے ستارے کو بیدار نگاہ بخش دے۔‘‘ ان کی دعا مستجاب ہوئی۔ کوکبم را دیدۂ بیدار بخش مرقدی را سایۂ دیوار بخش شاہی مسجد کے احاطے میں دفن کرنے کے لیے سرکاری اجازت ضروری تھی۔ صوبائی حکومت کے سربراہ سکندر خان حیات پنجاب سے باہر کلکتہ دورے پر گئے ہوئے تھے۔میاں امیر الدین نے ان سے ٹیلگراف کے ذریعہ مذکورہ مقام پر تدفین کی اجازت طلب کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور تجویز پیش کی کہ اسلامیہ کالج کا میدان اس مقصد کے لیے موضوع ہوگا۔ بہت سے مسلمان، ہندووزراء اور سکھ انجمن کے سربراہ بھی شاہی مسجد میں اقبال کے مدفن کے مخالف تھے اور بعض افراد ایک دوسرے مقام جو گنبد آبی مسجد کے روبرو تھا۔ علامہ کے مقبرے کے لیے موزوں سمجھ رہے تھے۔ لیکن علامّہ کے دوست اور احباب اپنے فیصلہ پر جمے رہے اور انہوںنے براہ راست صوبہ کے گورنرسرہنری کریگ سے رابطہ کرکے دہلی سے اجازت منگوا لی اور مسجد شاہی کے بائیں جانب والی قطعہ زمین پر علامہ کی لحد کی تیاری شروع ہو گئی۔ علامہ کی تدفین کے چند مہینوں بعد مقبرہ سازی کے لیے ایک مزار کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سرپرستی چودھری محمد حسین نے کی لیکن موجودہ مقبرہ کی تعمیر کا آغاز ۱۹۴۶ء تک نہ ہو سکا اس وقت تک اقبال کا مقبرہ معمولی تھا۔ پہلے چند سال مزار کمیٹی کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ جب میاں امین الدین لوکل سلف گورنمنٹ کے محکمہ کے سکریٹری ہوئے تو انہوں نے تعمیر مزار کی رکاوٹوں کو دور کر دیا اور صرف یہ شرط رکھی گئی کہ مقبرہ کسی صورت میں بھی صحن کے فصیل سے اونچا نہ ہو اور عمارت اپنے گرد و پیش کی تعمیرات کے عین مطابق ہو۔ مزار کمیٹی نے پہلے ہی سے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ مزار کی تعمیر کے لیے عوام سے چندہ نہیںلیں گے اور نہ وہ گورنمنٹ سے کسی مدد کے خواستگار ہوں گے چنانچہ اسی لیے مزار کمیٹی نے ایک بڑے تاجر کی اس پیش کش کو رد کر دیا جس میں اس نے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ تمام تر مصارف برداشت کرنے پر آمادہ ہے لیکن اس کے نام کی تختی بھی مزار کے ساتھ نصب کی جائے۔ مزار کمیٹی اس عمل کو علامّہ اقبال جیسے قلندر کی آرام گاہ کے لیے ننگ سمجھتے تھے۔ ع۔ غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول چونکہ مقبرہ کی تکمیل پاکستان کے قیام کے بعد ۱۹۵۰ء میں ہوئی اس لیے مسٹر غلام محمد وزیر مالیات نے حکومت کی جانب سے تعمیر مزار میں مدد دینی چاہی لیکن مزار کمیٹی نے اسے بھی قبول نہیں کیا۔بہر حال مقبرہ کی تعمیر کے اخراجات ا قبال کے عقیدت مندوں، دوستوں، اور خیرخواہوں نے برداشت کئے، حکومت اور عوام سے مدد نہیں لی گئی۔مزار کمیٹی نے مقبرہ کی تعمیر کے سلسلے میں ان تمام ماہرین فن تعمیر کے مشوروں سے استفادہ کیا، جن تک آسانی سے رسائی ہو سکتی تھی۔ حکومت افغانستان نے اٹلی کے ماہرین فن تعمیر سے مقبرہ کا نقشہ بنوا کر مزار کمیٹی کے سپرد کیا جسے قبول نہیں کیا گیا کیوںکہ اس میں کیتھولک صنعتی فنِ تعمیر شامل تھا اور اقبال کو دونوں ہاتھ سینے پر بندھے بتایا گیا تھا۔ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ماہر فن تعمیر نواب زین یار بہادر جنگ سے نقشہ بنوایا گیا ۔ پہلا نقشہ کمیٹی نے اس لیے مسترد کر دیا کہ اس میں کبوتر کو قفس طلائی میں محصور بتایا گیا تھا۔چودھری محمد حسین نے نواب صاحب کو لاہور مدعو کیا اور انہیں شاہی مسجد لے گئے۔ چودھری صاحب کے ساتھ راجہ حسن اختر، میاں امین الدین اور سکندر خان حیات بھی تھے۔ شاہی مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر چودھری صاحب نے کہا ’’نواب صاحب! مزار کے مغرب میں شاہی مسجد ہے جس سے اسلام کی روشنی طاقت کی آئینہ داری ہوتی ہے اس کے مقابل مشرق میں شاہی قلعہ ہے جو دنیاوی عظمت کا مظہر ہے ، تیسری سمت رنجیت سنگھ کی مڑی ہے جو اسلام سے بغاوت کی یادگار ہے ، چوتھی جانب حکیم الامتؒ کا مزا ر ہے۔ جنہیں مجدد ملت کہا جا سکتا ہے ۔ مزار اقبال کا نقشہ کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ سنگ و خشت کی خاموش زبانیں حقیقت کی ترجمانی کر یں اوران کی ترتیب و تعمیر سے اس حقیقت کا انکشاف ہو کہ اقبال کا کلام اور اس کا پیام فقر و سلطنت، درویشی اور شاہی کا ایک حسین امتزاج تھا۔‘‘ نواب صاحب نے دوسرا نقشہ بنایا جو کمیٹی نے قبول کیا اور پھر چودھری فتح ملک کے زیر نگرانی محمد سلیمان اور میاں بشیر احمد انجینئر نے تعمیر شروع کی۔ اقبال کا مقبرہ ایک خوبصورت مستطیل شکل کی چھوٹی سی عمارت ہے۔ یہ عمارت باہر سے سنگِ سرخ اور اندر سے سنگِ مرمر کی بنی ہوئی ہے۔ شاہی مسجد کی مناسبت سے مقبرہ کا بیرونی حصہ سنگِ سرخ سے بنایا گیا ہے۔ چنانچہ سنگِ سرخ کی چار سیڑھیاں چڑھ کر عمارت میں داخل ہوتے ہیں جس میں دو داخلی دروازے مشرق اور جنوب کی جانب ہیں۔ مشرقی دروازہ صرف خاص ایام میں کھولا جاتا ہے عموماََ جنوبی دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ دونوں دروازے سنگ مرمرکی حسین جالیوں سے بنے ہوئے ہیں ۔ شمالی دیوار میں سنگ مرمر کی جالی سے بنی ایک کھڑکی ہے اور مغرب میں دیوار میں تین روشن دان ہیں۔ سنگ سرخ اور مکرانی سنگ مرمر کی سیلیں راجپوتانہ سے درآمد کی گئیں۔ مقبرہ کی چھت خاص اشاریت کی حامل ہے۔ چھت کے وسط میں اسم’’محمدؐ ‘‘کندہ ہے۔ چاروں کونوں میں اقبال کا نام ہے اور اقبال کے نام سے نام ’’ محمدؐ ‘‘ایک لہر کے ذریعہ جڑا ہوا ہے۔اس تمثیلی اشاریت سے یہ اظہار مقصود ہے کہ اقبال نے جس مرکز نور سے اقتباسِ نور حاصل کیا ہے وہ ذات ختمی مرتبت ؐ ہے۔ کہتے ہیں کہ چودھری صاحب نے مقبرہ کے لیے قرآنی آیات اور اقبال کے اشعار کا انتخاب کیا ۔ مقبرے میں تین آیات قرآنی خط کوفی میں نہایت خوب صورت تحریر میں سنگ موسیٰ سے کندہ کی ہوئی ہیں۔ مزار کی چار دیواری پر سنگ موسیٰ سے کندہ خط نستعلیق میں وہ اشعار ہیں جو علامہ کے کلام کے خلاصہ ہو سکتے ہیں وہ تمام اشعار فارسی میں ہیں۔ مزار کا تعویذ حکومت افغانستان کا عطیہ ہے۔ اس وقت اس کی قیمت تین لاکھ افغانی تھی۔ تعویذ ایک قیمتی پتھر سنگ لاجوادی Laphlazaliسے بنا ہوا ہے۔ یہ پتھر اتنا سفید اور حسین ہے کہ روشنی کو ایک طرف سے دوسرے طرف منعکس کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کابل میں شہنشاہ بابر کے زمانے میں بھی اس پتھر سے استفادہ کیا گیاہے۔ تعویذ مزار ایک کشادہ سنگ مرمر کے چبوترے پر واقع ہے ۔ مزار کے سرہانے ایک سنگ مرمر کی تختی نصب ہے ۔اس تختی پر بہ جانب تعویذ فارسی اور عربی کے اشعار لکھے گئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ تعویذ کے دونوںجانب بلند شمع داں بھی تھے لیکن افغانستان سے حمل و نقل کے دوران ٹوٹ گئے اور اب تعویذ میں شامل نہیں۔ مقبرے کے آیات کو حافظ محمد یوسف سدیدی اور اشعار کی خطاطی کو ماہر فن استاد عبد المجید پروین نے رقم کی۔ یہی نہیں بلکہ مقبرے کی بیرونی دیوار جو شاہی مسجد کی سیڑھیوں کی جانب ہے ایک تختی پر دو اشعار فارسی میں کندہ ہیںجس میں ہماری بے روح مردہ قیادت پر سخت تنقید کی گئی ہے ۔ یقینا علامّہ اقبال کا مقبرہ لاہور کی سرزمیں پر صدیوں ’’سجدہ گاہ صاحب نظر اں ‘‘ رہے گا کیوں کہ بقول اقبال ع۔ زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری فہرست خطوط شمارہ تاریخ سنہ مقام نام ملا حظات ۱ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۴ ء لاہور منشی دیانرائین نگم ذکر علالت ۲ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء لاہور مہاراجہ کشن پرشاد درد گردہ ۳ ۳؍ دسمبر ۱۹۱۳ ء لاہور مہاراجہ کشن پرشاد درد گردہ ۴ ۲۱؍ فروری ۱۹۱۵ ء لاہور مہاراجہ کشن پرشاد درد گردہ ۵ ۱۱ ؍ مارچ ۱۹۱۵ ء لاہور مہاراجہ کشن پرشاد درد گردہ ۶ ۸ ؍ جولائی ۱۹۱۶ ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں درد گردہ ۷ ۸ ؍ مارچ ۱۹۱۷ ء لاہور پروفیسر سلاح الدین محمد الیاس برنی درد گردہ ۸ ۲۱ ؍ مارچ ۱۹۱۷ ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں درد گردہ ۹ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۱۸ ء لاہور اکبر ؔ الہ آبادی دانت کا درد ۱۰ ۱۲ ؍ اکتوبر ۱۹۱۸ ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں بخار (ملیریا) ۱۱ ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۱۸ ء لاہور اکبر ؔ الہ آبادی وبائے انفلونزا ۱۲ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۱۸ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں وبائے انفلونزا ۱۳ ۲ ؍ دسمبر ۱۹۱۸ ء لاہور سید سلیمان ندوی وبائے انفلونزا ۱۴ فروری ۱۹۱۹ء لاہور مولانا گرامی علالت ۱۵ ۲۷ ؍ ستمبر ۱۹۱۹ ء لاہور سید سلیمان ندوی علالت ۱۶ ۱۸ ؍ نومبر ۱۹۱۹ ء لاہور وحید احمد مسعود بدایونی بخار + علالت ۱۷ ۱۷ ؍ جولائی ۱۹۱۲ ء لاہور شیخ عطا محمد زکام + بخار ۱۸ ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۹۲۱ء لاہور مہاراجہ کشن پرشاد نقرس ۱۹ ۲۳ ؍ مارچ ۱۹۲۲ء لاہور مولانا گرامی نقرس ۲۰ ۲ ؍ اپریل ۱۹۲۲ ء لاہور مولانا گرامی نقرس ۲۱ ۱۲ ؍ اپریل ۱۹۲۲ ء لاہور ضیاء الدین برنی نقرس ۲۲ ۲۰ ؍ اپریل ۱۹۲۲ ء لاہور سید سلیمان ندوی نقرس ۲۳ ۱۲ ؍ مئی ۱۹۲۲ ء لاہور شیخ اعجاز احمد اختلاج قلب ۲۴ ۱۵؍ جولائی ۱۹۲۲ ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں نقرس ۲۵ ۳؍ اگست ۱۹۲۲ ء لاہور سید سلیمان ندوی نقرس ۲۶ ۱۷؍ اگست ۱۹۲۲ ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں نقرس ۲۷ ۲۲؍ ستمبر ۱۹۲۲ ء لاہور اکبر شاہ نجیب آبادی نقرس ۲۸ ۱۱؍ فروری ۱۹۲۴ ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں نقرس ۲۹ ۱۳؍ جولائی ۱۹۲۴ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں مسوڑے کا درد ۳۰ ۱۳ ؍ جولائی ۱۹۲۴ء لاہور شیخ محمد عطا مسوڑے کا درد ۳۱ ۷؍ مئی ۱۹۲۵ ء لاہور سید نصیر الدین ہاشمی نقرس ۳۲ ۱۵؍ جون ۱۹۲۸ ء لاہور خان محمد نیاز الدین خاں درد گردہ ۳۳ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۲۹ ء لاہور خواجہ بشیر احمد نقرس+ درد دنداں ۳۴ ۶؍ فروری ۱۹۳۰ ء لاہور راغب احسن گلے کا درد ۳۵ جولائی ۱۹۳۰ ء لاہور راغب احسن گلے کا درد ۳۶ ۲۵؍ مئی ۱۹۳۰ ء لاہور صالح محمد ادیب تونسوی درد دندان ۳۷ ۲۸ ؍ مئی ۱۹۳۰ ء لاہور صالح محمد ادیب تونسوی درد دندان ۳۸ ۲۶؍ اگست ۱۹۳۰ ء لاہور سردار بیگم بیماری +درد گردہ ۳۹ ۳۰ ؍ جنوری ۱۹۳۰ء لاہور غلام رسول مہر درد دنداں ۴۰ ۱۹؍ مارچ ۱۹۳۳ ء لاہور ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ بیماری ۴۱ ۳۱؍ اگست ۱۹۳۳ء لاہور راغب احسن در دِدنداں +مسوڑھے کی تکلیف ۴۲ ۲۷؍ فروری ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری + علاج ۴۳ ۱۱؍ مارچ ۱۹۳۴ء لاہور ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ بیماری + علاج ۴۴ ۶؍ اپریل ۱۹۳۴ء لاہور ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ گلے کا درد ۴۵ ۱۰؍ اپریل ۱۹۳۴ء لاہور ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ گلے کا درد ۴۶ ۱۲؍ اپریل ۱۹۳۴ء لاہور ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ گلے کا درد ۴۷ ۸؍ مئی ۱۹۳۴ء لاہور راغب احسن گلے کا درد ۴۸ ۲۲؍ مئی ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۴۹ ۲۹؍ مئی ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۰ ۲؍جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۱ ۳؍ جون ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۲ ۵ ؍ جون ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۳ ۵ ؍ جون ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۴ ۸؍ جون ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۵ ۱۲؍ جون ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۶ ۱۳؍ جون ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۷ ۱۶؍ جون ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۸ ۱۷؍ جون ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۵۹ ۲۰؍ جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۰ ۲۰؍ جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۱ ۲۲؍ جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۲ ۲۳؍ جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۳ ۲۴؍ جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۴ ۲۷؍ جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۵ ۲۷؍ جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۶ ۲۹؍جون۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۷ ۲؍ جولائی۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۸ ۳؍ جولائی۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۶۹ ۵؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو +آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۷۰ ۶؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو +آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۷۱ ۱۰؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو +آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۷۲ ۱۱؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو +آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۷۳ ۱۳؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۷۴ ۱۶؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۷۵ ۱۶؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۷۶ ۲۲؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو + آواز کا بیٹھ جانا + علاج و غیرہ ۷۷ ۲۳؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی پرہیز+ بیماری + خوراک وغیرہ ۷۸ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور محمود خان محمود علالت ۷۹ ۲۶؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور ایڈورڈ تھامپسن علالت ۸۰ ۲۷؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور فقیر سید وحید الدین گلے کی خرابی + آواز ۸۱ ۲۷؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری + علاج + مشورہ حکیم صاحب ۸۲ ۲۸؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری + علاج + مشورہ حکیم صاحب ۸۳ ۲۸؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور مس فارک ہرسن بیماری ۸۴ ۳۰؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید یامین ہاشمی علالت ۸۵ ۳۰؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی گلے کی خرابی + تشخیص + علاج + مشورہ حکیم ۸۶ ۳۱؍ جولائی۱۹۳۴ء لاہور سیدنذیر نیازی گلے کی خرابی + تشخیص + علاج + مشورہ حکیم ۸۷ ۳۱؍ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور عظمت الہٰی زبیری گلے کی خرابی + آواز کا بیٹھ جانا ۸۸ جولائی ۱۹۳۴ء لاہور محمد طاہر فاروقی بیماری ۸۹ ۲؍ اگست ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ علاج+ مشورہ+ پرہیز وغیرہ ۹۰ ۳؍اگست ۱۹۳۴ء لاہور رجسٹرار علی گڑھ یونیورسٹی علالت ۹۱ ۴؍ اگست ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ علاج+ مشورہ حکیم+ پرہیز وغیرہ ۹۲ ۵ ؍ اگست ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ علاج+ مشورہ حکیم+ پرہیز وغیرہ ۹۳ ۶؍ اگست ۱۹۳۴ ء لاہور عظمت الہٰی زبیری بیماری+ علاج+ مشورہ حکیم+ پرہیز وغیرہ ۹۴ ۷؍ اگست ۱۹۳۴ ء لاہور عظمت الہٰی زبیری بیماری+ علاج ۹۵ ۱۵ ؍ اگست ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۹۶ ۱۱؍ اگست ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۹۷ ۱۶؍ اگست ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۹۸ اگست ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۹۹ ۱۹؍ اگست۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۱۰۰ ۲۲؍ اگست۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۱۰۱ ۲۸؍ اگست۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۱۰۲ ۲۸؍ اگست۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۱۰۳ ۳؍ ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۱۰۴ ۴؍ ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۱۰۵ ۶؍ ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی درد گلو+ بیماری+ علاج+ تحقیقات+ پرہیز وغیرہ ۱۰۶ ۹؍ ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۰۷ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۰۸ ۱۲؍ستمبر۱۹۳۴ ء لاہور سید عبد الواحد منعمی علالت +بیماری+ علاج ۱۰۹ ۱۶؍ ستمبر۱۹۳۴ ء لاہور راغب احسن بیماری +آواز+علاج ۱۱۰ ۱۸؍ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری +علاج+مشورہ حکیم صاحب ۱۱۱ ۲۱؍ ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۱۲ ۲۵؍ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۱۳ ۲۹؍ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۱۴ ۳۰؍ستمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۱۵ ۵؍اکتوبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۱۶ ۶؍اکتوبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۱۷ ۶؍اکتوبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۱۸ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۱۹ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۲۰ ۱۹؍ اکتوبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۲۱ ۲۰؍اکتوبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۲۲ ۲۵؍اکتوبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۲۳ ۲۸؍اکتوبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۲۴ ۳۱؍اکتوبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۲۵ ۵؍نومبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری+ پرہیز+ علاج+ مشورہ حکیم وغیرہ ۱۲۶ ۹؍نومبر۱۹۳۴ء لاہور پروفیسر ضیاء احمد بدایونی بیماری + علاج + آواز ۱۲۷ ۱۰؍نومبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+ علاج+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۲۸ ۱۲؍نومبر ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+ علاج+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۲۹ ۱۳؍نومبر ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+ علاج+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۳۰ ۱۹؍نومبر ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+ علاج+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۳۱ ۱۹؍نومبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+ علاج+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۳۲ ۲۰؍نومبر۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+ علاج+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۳۳ ۲۹؍نومبر ۱۹۳۴ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+ علاج+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۳۴ ۲۹؍نومبر۱۹۳۴ لاہور خواجہ غلام السیدین بیماری +علاج ۱۳۵ یکم دسمبر ۱۹۳۴ء لاہور ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہؔ گلو درد+ علاج ۱۳۶ ۲؍دسمبر۱۹۳۴ء لاہور خواجہ غلام السیدین بیماری +آواز+ علاج ۱۳۷ ۴؍دسمبر ۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +علاج+ بیماری +پرہیز+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۳۸ ۵؍دسمبر۱۹۳۴ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +علاج+ بیماری +پرہیز+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۳۹ ۶؍دسمبر ۱۹۳۴ء لاہور سیدنذیر نیازی آواز +علاج+ بیماری +پرہیز+ خوراک+ مشورہ حکیم ۱۴۰ ۶؍دسمبر ۱۹۳۴ء لاہور محمد عبدالجمیل بنگلوری بیماری+ آواز+ علاج ۱۴۱ ۷؍دسمبر ۱۳۹۴ء لاہور رجسٹرار علی گڑھ یونیورسٹی علالت+ علاج ۱۴۲ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۴ء لاہور راغب احسن بیماری +آواز+ علاج ۱۴۳ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۴ء لاہور راغب احسن بیماری +آواز+ علاج ۱۴۴ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۴ء لاہور ڈاکٹر عباس لمعہؔ بیماری +آواز+ علاج ۱۴۵ یکم جنوری ۱۹۳۵ء لاہور ڈاکٹر مختار احمد انصاری بیماری +علاج +آواز ۱۴۶ ۲؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری +آواز+علاج +مشورہ حکیم صاحب ۱۴۷ ۳؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور قاضی تلمذ حسین آواز+ بیماری+ علاج ۱۴۸ ۵؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+علاج+خوراک پرہیز +مشورہ حکیم ۱۴۹ ۶؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+علاج+خوراک پرہیز +مشورہ حکیم ۱۵۰ ۹؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+علاج+خوراک پرہیز +مشورہ حکیم ۱۵۱ ۹؍ جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+ بیماری+ علاج+ خواراک پرہیز+ مشورہ حکیم ۱۵۲ ۹؍ جنوری ۱۹۳۵ء لاہور ڈاکٹر مختار احمد انصاری بیماری + علاج ۱۵۳ ۱۲؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ پرہیز+ مشورہ حکیم صاحب ۱۵۴ ۱۷؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری + آواز ۱۵۵ ۱۷؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز +علاج+ پرہیز ۱۵۶ ۱۹؍جنوری۱۹۳۵ء لاہور پروفیسر محمد میاں شریف بیماری+ آواز +علاج+ پرہیز ۱۵۷ ۲۱؍جنوری۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+ مشورہ حکیمصاحب ۱۵۸ ۲۳؍جنوری۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+آواز+ علاج+ پرہیز+ مشورہ حکیم صاحب ۱۵۹ ۲۶؍جنوری۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+ مشورہ حکیم صاحب ۱۶۰ ۲۷؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+ مشورہ حکیم صاحب ۱۶۱ ۲۷؍جنوری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+مشورہ حکیم صاحب ۱۶۲ ۵؍ فروری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+مشورہ حکیم صاحب ۱۶۳ ۶؍ فروری ۱۹۳۵ء لاہور راغب احسن بیماری+ آواز+ علاج ۱۶۴ ۹؍ فروری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+آواز+علاج+ رہیزمشورہ حکیم صاحب ۱۶۵ ۱۱؍ فروری ۱۹۳۵ لاہور سید نذیر نیازی بیماری+آواز+ علاج+ پرہیزمشورہ حکیم صاحب ۱۶۶ ۱۱؍ فروری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+آواز علاج+ پرہیزمشورہ حکیم صاحب ۱۶۷ ۱۲؍فروری ۱۹۳۵ء لاہور محمد عباس علی خاں لمعہؔ بیماری + علاج + آواز ۱۶۸ ۱۳؍فروری ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیزمشورہ حکیم صاحب ۱۶۹ ۱۱؍مارچ ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+مشورہ حکیم صاحب ۱۷۰ ۱۵؍مارچ ۱۹۳۵ء لاہور پروفیسر ایس۔پی۔ورما علالت+ علاج ۱۷۱ ۱۹؍مارچ ۱۹۳۵ء لاہور حکیم محمد حسن قرشی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+مشورہ حکیم صاحب ۱۷۲ ۲۰؍مارچ ۱۹۳۵ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+ مشورہ حکیم صاحب ۱۷۳ ۲۳؍مارچ ۱۹۳۵ ء لاہور محمد عباس علی خاں لمعہؔ آواز +علاج ۱۷۴ ۲۷؍مارچ۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز+ علاج+ پرہیز+ مشورہ حکیم صاحب ۱۷۵ مارچ ۱۹۳۵ ء لاہور حسن لطیفی علالت+ آواز+ علاج ۱۷۶ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۵ ء لاہور اکبر شاہ نجیب آبادی آواز+ علالت +علاج ۱۷۷ ۱۱؍مئی ۱۹۳۵ ء لاہور محمد عباس علی خاں لمعہؔ آواز + علاج ۱۷۸ ۲۰؍مئی ۱۹۳۵ ء لاہور محمد حسن لطیفی علالت +علاج ۱۷۹ ۲۴؍مئی۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز +علاج+ پرہیز +مشورہ حکیم صاحب ۱۸۰ یکم جون ۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز +علاج+ پرہیز +مشورہ حکیم صاحب ۱۸۱ ۵؍جولائی۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی بیماری+ آواز +علاج+ پرہیز +مشورہ حکیم صاحب ۱۸۲ ۱۹؍جولائی۱۹۳۵ ء لاہور سید سلیمان ندوی آواز +علاج ۱۸۳ ۲۲؍جولائی۱۹۳۵ ء لاہور محمد دین تاثیر آواز +علالت+ علاج ۱۸۴ ۲۴جولائی ۱۹۳۵ء لاہور خواجہ عبد الرحیم علالت+ علاج ۱۸۵ یکم اگست۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۸۶ ۶؍اگست۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۸۷ ۱۵؍اگست۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۸۸ ۵؍ستمبر۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۸۹ ۱۵؍ستمبر۱۹۳۵ ء لاہور سیدنذیر نیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۹۰ ۱۰؍ستمبر۱۹۳۵ ء لاہور ڈاکٹر ظفر الحسن بیماری +علاج ۱۹۱ ۱۲؍ستمبر۱۹۳۵ ء لاہور سیدنذیرنیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۹۲ ۱۲؍ستمبر۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۹۳ ۲۷؍ستمبر۱۹۳۵ ء لاہور خواجہ سجاد حسین بیماری +آواز +علاج ۱۹۴ ۲؍اکتوبر۱۹۳۵ ء لاہور سیدنذیرنیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۹۵ ۲؍اکتوبر۱۹۳۵ ء لاہور سر راس مسعود آواز+علاج ۱۹۶ ۲؍اکتوبر۱۹۳۵ ء لاہور ڈاکٹر عبد الباسط آواز+بیماری+تشخیص +علاج ۱۹۷ ۹؍اکتوبر۱۹۳۵ ء لاہور سیدنذیر نیازی آواز +بیماری + دو ا + پرہیز + مشوہ حکیم صاحب ۱۹۸ ۱۴؍اکتوبر۱۹۳۵ ء لاہور سید محفوظ علی بدایونی بیماری +علاج ۱۹۹ ۱۵؍اکتوبر۱۹۳۵ ء لاہور سید نذیر نیازی آواز+بیماری+علاج ۲۰۰ ۱۷؍اکتوبر۱۹۳۵ ء لاہور حکیم محمد حسن عرشی بیماری+علاج ۲۰۱ ۱۸؍اکتوبر۱۹۳۵ ء لاہور ڈاکٹر عبد الباسط بیماری +علاج +آواز ۲۰۲ یکم نومبر۱۹۳۵ ء لاہور ڈاکٹر عبد اللطیف آواز+بیماری+علاج ۲۰۳ ۷؍دسمبر۱۹۳۵ ء لاہور ڈاکٹر عبد الباسط آواز+بیماری +علاج ۲۰۴ ۱۳؍دسمبر۱۹۳۵ ء لاہور ڈاکٹر عبد الباسط آواز+بیماری +علاج ۲۰۵ ۳۱؍دسمبر۱۹۳۵ ء لاہور ڈاکٹر عبد الباسط آواز+بیماری +علاج ۲۰۶ ۳؍جنوری۱۹۳۶ ء لاہور سیدنذیر نیازی آواز+علاج+بیماری ۲۰۷ ۸؍فروری۱۹۳۶ ء لاہور ڈاکٹر عبد الباسط آواز+علاج+بیماری ۲۰۸ ۳؍مارچ۱۹۳۶ ء لاہور سیدنذیر نیازی آواز +علاج+بیماری ۲۰۹ ۱۳؍جون ۱۹۳۶ ء لاہور پروفیسر الیاس برنی آواز +بیماری+علاج ۲۱۰ ۲۱؍جون۱۹۳۶ ء لاہور خواجہ غلام السیدین بیماری +علاج ۲۱۱ ۲۳؍جون۱۹۳۶ء لاہور پروفیسر الیاس برنی گلو درد +آواز + علاج ۲۱۲ ۲۷؍جون۱۹۳۶ء لاہور پروفیسر الیاس برنی گلودرد + آواز +علاج ۲۱۳ ۱۴؍جولائی۱۹۳۶ء لاہور محمد عباس علی خاں لمعہؔ بیماری +آواز +علاج ۲۱۴ ۲۱؍جولائی۱۹۳۶ء لاہور پروفیسر الیاس برنی آواز +بیماری +علاج ۲۱۵ ۲؍اگست۱۹۳۶ء لاہور محمد عباس علی خاں لمعہؔ بیماری +علاج ۲۱۶ ۵؍اگست۱۹۳۶ء لاہور نصر اللہ خان آواز +علاج ۲۱۷ ۷؍اگست۱۹۳۶ء لاہور سید سلیمان ندوی آواز +علاج ۲۱۸ ۲۷؍ستمبر۱۹۳۶ ء لاہور مولوی عبد الحق آواز +علاج ۲۱۹ ۱۵؍جنوری۱۹۳۷ ء لاہور سر راس مسعود بیماری +علاج ۲۲۰ ۱۹؍فروری۱۹۳۷ ء لاہور محمد رمضاں عطائی بیماری ۲۲۱ ۱۲؍مارچ۱۹۳۷ ء لاہور آل احمد سرور آواز +بیماری ۲۲۲ ۲۰؍مئی۱۹۳۷ ء لاہور شیخ اعجاز احمد آواز +بیماری +علاج ۲۲۳ ۱۳؍جون۱۹۳۷ ء لاہور ماسٹر عبداللہ چغتائی آواز +علاج ۲۲۴ ۲۲؍جولائی۱۹۳۷ ء لاہور شیخ اعجاز احمد آواز +بیماری +علاج ۲۲۵ ۳۱۱ستمبر۱۹۳۷ ء لاہور خواجہ غلام السیدین آواز +علاج ۲۲۶ ستمبر۱۹۳۷ ء لاہور فضل کریم علالت +علاج ۲۲۷ ۲۳؍ستمبر۱۹۳۷ ء لاہور راغب احسن بیماری +علالت +علاج ۲۲۸ ۲۴؍ستمبر۱۹۳۷ ء لاہور شیخ اعجاز بیماری +علاج ۲۲۹ ۵؍اکتوبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفرالدین آواز +بیماری +دوا +مشورہ حکیم صاحب ۲۳۰ ۵؍اکتوبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین آواز +بیماری +دوا +مشورہ حکیم صاحب ۲۳۱ ۱۶؍اکتوبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین آواز +بیماری +دوا +مشورہ حکیم صاحب ۲۳۲ ۲۵؍اکتوبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین آواز +بیماری +دوا +مشورہ حکیم صاحب ۲۳۳ ۱۸؍نومبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین آواز +بیماری +دوا +مشورہ حکیم صاحب ۲۳۴ ۲۷؍نومبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین آواز +بیماری +دوا +مشورہ حکیم صاحب ۲۳۵ یکم دسمبر۱۹۳۷ء لاہور شیخ اعجاز احمد آواز+بیماری+دوا+علاج ۲۳۶ ۲؍دسمبر۱۹۳۷ء شیخ اعجاز احمد آواز+بیماری+دوا+علاج ۲۳۷ ۸؍دسمبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قرشیی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۳۸ ۱۳؍دسمبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قریشی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۳۹ ۱۸؍دسمبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قرشیی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۰ ۳۰؍دسمبر۱۹۳۷ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قرشیی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۱ ۲۲؍جنوری ۱۹۳۸ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قرشیی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۲ ۲۲؍جنوری ۱۹۳۸ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قرشیی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۳ ۳۱؍جنوری۱۹۳۸ء ڈاکٹر مظفر الدین قرشیی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۴ ۳؍فروری۱۹۳۸ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قریشی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۵ ۱۶؍فروری۱۹۳۸ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قریشی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۶ ۱۸؍فروری۱۹۳۸ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قرشی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۷ ۲۹؍مارچ۱۹۳۸ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قریشی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۸ ۳۰؍مارچ۱۹۳۸ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قریشی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۴۹ مارچ۱۹۳۸ء لاہور ڈاکٹر مظفر الدین قریشی آواز+بیماری+دوا+مشورہ حکیم صاحب ۲۵۰ ۱۶؍اپریل۱۹۳۸ء لاہور شعیب قریشی آواز+ بیماری+ علاج +متفرق مسائل ۲۵۱ ۱۹؍اپریل۱۹۳۸ء لاہور ممنون حسن خان آواز+ بیماری+ علاج متفرق مسائل کتابیات ۱ زندہ رود ڈاکٹر جاوید اقبال ۲ کلیات مکاتیب اقبال جلد اوّل سید مظفر حسین برنی ۳ کلیات مکاتیب اقبال جلد دوّم سید مظفر حسین برنی ۴ کلیات مکاتیب اقبال جلد سوم سید مظفر حسین برنی ۵ کلیات مکاتیب اقبال جلدچہارم سید مظفر حسین برنی ۶ روزگار فقیر فقیر سید وحید الدین ۷ ذکر اقبال عبد المجید سالک ۸ اقبال درون خانہ خالد نظیر صوفی ۹ اقبال کے حضور سید نذیر نیازی ۱۰ اقبالیات سید نذیر نیازی عبد اللہ شاہ ہاشمی ۱۱ اقبال اور بھوپال صہبا لکھنوی ۱۲ اقبالیات کے سو سال ڈاکٹر سہیل عمر ۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر وحید عشرت ۱۳ Iqbal, An illustrated Biography خرم علی شفیق ۱۴ اقبال نامہ شیخ عطا اللہ ۱۵ اقبال کی ابتدائی زندگی ڈاکٹر سلطان محمود حسین ۱۶ سرود رفتہ ابو الحسن ندوی ۱۷ دانائے راز ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۸ روح الذہب حکیم عبد الغنی انصاری رَو میں ہے رخشِ عمر نام : سیّد تقی عاؔبدی ادبی نام : تقی عاؔبدی تخلّص : تقی ؔ والد کا نام : سیّد سبط نبی عابدی منصف (مرحوم) والدہ کا نام : سنجیدہ بیگم تاریخ پیدائش : یکم مارچ 1952 ء مقام پیدائش : دہلی (انڈیا) تعلیم : ایم بی بی ایس (حیدرآباد، انڈیا) ایم ایس (برطانیہ) ایف سی اے پی (یونائیٹڈ اسٹیٹ آف آمریکہ) ایف آر سی پی (کینیڈا) پیشہ : طبابت ذوق : شاعری اور ادبی تحقیق شوق : مطالعہ اور تصنیف قیام : ہندوستان، ایران، برطانیہ، نیویارک اور کینیڈا شریک حیات : گیتی اوالاد : دو بیٹیاں (معصوما اور رویا) دو بیٹے (رضا اورمرتضیٰ) تصانیف : (۳۱) شہید(1982)۔ جوشِ مودّت۔ گلشن رویا۔ اقبال کے عرفانی زاویے۔ انشاء اللہ خاں انشاؔء ۔ رموز شاعری۔ اظہارِ حق۔مجتہد نظم مرزا دبیرؔ، طالع مہر۔سلکِ سلام دبیرؔ۔ تجزیہ یادگار انیسؔ۔ ابواب المصائب، ذکر دُرباران۔ عروس سخن۔مصحفِ فارسی دبیرؔ۔مثنویاتِ دبیرؔ۔ کائنات نجم ؔ۔روپؔکنوار کماری۔دُربارِ رسالت۔ فکر مطمئنہ۔خوشۂ انجم۔دُرِ دریائے نجف۔تاثیر ماتم۔نجمی ماؔیا (اُردو+ہندی)۔ مصحفِ تغزل ۔روش انقلاب۔ھو النجم۔غالبؔدیوان نعت و منقبت۔سبد سخن زیر تالیف : تجزیہ شکوہ جواب شکوہ۔ رباعیات دبیرؔ۔ فانی لافانی۔ مصحفِ تاریخ گوئی۔ تعشق لکھنویؔ۔تجزیہ روپ (رباعیات فراقؔ)