فکر اقبال کا عمرانی مطالعہ ڈاکٹر صدیق جاوید اقبال اکادمی پاکستان ابتدائیہ پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کا شمار ان چند علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے جن کی عظمت ساری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے اور ہر جگہ ان کی عالمگیر دانش سے فیضان حاصل کیا جاتا ہے۔ ان خوش نصیب شخصیات کے سوانح اور علمی کارنامے تنقید و تحقیق کا ایک باقاعدہ اور مستقل موضوع قرار پاتے ہیں۔ گزشتہ ستر، اسی برس سے علامہ اقبال کی حیات اور ان کے فکر و فن پر بے شمار مقالات اور باقاعدہ کتابیں تصنیف ہو رہی ہیں۔ تقریباً1920ء سے جب پروفیسر نکلسن نے اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تو عالمی سطح پر اقبال کے اشعار اور افکار میں دلچسپی کا آغاز ہوا۔ جس میں وقت کے ساتھ اس حد تک اضافہ ہوا کہ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں میں بھی اقبال کو پی ایچ ڈی کے مقالات کا موضوع بنایا گیا۔ علاوہ ازیں کئی ملکوں میں بین الاقوامی سطح کی اقبال کانگرسیں منعقد ہو چکی ہیں۔ خصوصاً اقبال صدی کے موقع پر اقبالیات کے سلسلے کا جو وقیع تحریری سرمایہ سامنے آیا ہے، اس کے پیش نظر عام طور پر خیال ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے فکر و فن کے نئے پہلو دریافت کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر وقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو بیش تر صورتوں میں اقبالیات کے بہرہ تنقید و تحقیق میں اعادہ اور تکرار کا احساس ہو گا۔ گویا اقبالیات موضوعات کے اعتبار سے ایک تند دائرے کے اندر محصور ہے مگر یہ تاثر کلی صداقت کا حامل نہیں۔ اقبال ایک ایسی متنوع اور ہمہ گیر شخصیت ہیں جن کے فکر و فن کا مطالعہ نئے پہلو اور نئے زاویے سجھاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں سیاسی، تہذیبی اور اجتماعی شور کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے۔ انیسویں صدی اور خصوصاً اس صدی کا نصف آخر برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسا پر آشوب دور ہے جس میں سماجی اور سیاسی خلفشار اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ یہاں عمرانی اور معاشرتی اقدار انتشار کا شکار ہو گئیں۔ ان حالات میں جن دانشوروں نے قومی ترقی کی حرکیات پر غور کیا۔ ان میں علامہ اقبال ایک بہت اہم نام ہے۔ زیر نظر تحقیقی مطالعے میں حقائق اور واقعات کی روشنی میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ علامہ اقبال کے فکر و فن کی اساس ان کے عمرانی مقاصد پر قائم ہے۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے قلمبند کیا گیا اور اس پر یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی سند عطا کی تھی۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم زیر نظر تحقیقی مقالے کے حدود کا ایک سرسری تعارف پیش کر دیں ۔ پی شنظر تحقیقی مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں عمرانیات کے موضوع کا ایک اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں اقبال کی شخصیت کا عمرانی پس منظر فراہم کی اگیا ہے۔ یہ باب اس تحقیقی اصول کے پیش نظر مرتب کیا گیا ہے کہ کسی مصنف یا مفکر کی زندگی کے سیاسی اور سماجی احوال، اس کے فکری یا تصنیفی کارنامے کی تفہیم میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ تیسرے باب میں ادب کی عمرانیات کا ایک نئے ادبی موضوع کی حیثیت سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں یورپ کے عمرانی نقادوں کے نظریات پیش کرنے کے بعد اردو ادب میں سرسید، ان کے رفقاء محمد حسین آزاد اور اکبر الہ آبادی کے ہاں معاشرتی شعور کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں ادب کی عمرانیات پر کام کرنے کی بہت گنجائش ہے۔ اس سے گریز سے قطع نظر، آخر میں اقبال کے نظریہ ادب کے عمرانی زاویوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھا باب اقبالیات میں ایک دلچسپ اور نیا مطالعہ ہے اس میں1915ء تک اقبال کی منظومات میں عمرانیات کے ابتدائی نقوش ابھارے گئے ہیں۔ پانچویں باب میں اقبال کی تصنیف علم الاقتصاد اور دوسرے ابتدائی مقالات کی روشنی میں اقبال کے ان خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے جو اصلیت کے اعتبار سے عمرانی ہیں اور جو اقبال کے فلسفہ و فکر کی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ چھٹے باب کا عنوان ’’خودی: فکر اقبال کا ایک بنیادی عمرانی تصور‘‘ قائم کیا گیا ہے۔ یہ باب ایک حد تک تفصیلی ہے اس میں چار ذیلی عنوانات کے تحت مباحث کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتویں باب میں اقبال کے ہاں فرد اور جماعت کے حوالے سے رموز بیخودی میں جو مباحث سامنے آتے ہیں، ان کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ آٹھویں باب میں اقبال کی نظم و نثر میں مختلف عمرانی اداروں کے بارے میں اقبال کے تصورات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ یہاںاس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اصل مقالے کا یہ آٹھواں باب اقبال اور عمرانی ادارے چونکہ خاصا طویل ہے، اس لیے زیر نظر کتاب میں یہ باب جزوی طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔ اقبال اور عمرانی ادارے بعض خصوصی اضافوں کے ساتھ انشاء اللہ الگ کتابی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ بہرحال فکر اقبال کی تفہیم، تعبیر اور توجیہہ کے نئے زاویے زیر نظر مطالعہ کی ایک خصوصیت ہیں۔ مجھے اپنے استاد ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کا شکریہ ادا کرنا ہے جو میرے اس تحقیقی مقالے کے نگران تھے۔ مقالے کی تکمیل کے لیے میرے بے شمار بزرگوں اور عزیزوں کی مدد، نیک خواہشات اور دعائیں شامل رہیں۔میں فرداً فرداً ان سب کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ بہرحال اگر مجھے اپنے کام میں کسی قدر کامیابی نصیب ہوئی ہے تو یہ انہی کی معاونت، دعاؤں اور نیک خواہشات کا نتیجہ ہے۔ میں سب کا دلی طور پر شکر گزار ہوں۔ مقالے کی اشاعت استاذی ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کی توجہ اور دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ میں ان کی شفقت اور محبت سے ہمیشہ بہرہ یاب ہوا ہوں۔ میں مقالے کی کتابی شکل کے لیے ان کا ممنون ہوں۔ (ڈاکٹر) صدیق جاوید ٭٭٭ پہلا باب علم عمرانیات اور اس کے بنیادی تصورات سوشیالوجی (عمرانیات) کا لفظ سب سے پہلے انیسویں صدی کے نصف اول میں فرانسیسی مفکر آگسٹ کامٹ (August Comte) نے استعمال کیا۔ جس نے کہا کہ اس کا مقصد معاشرے کی ماہیت، اس کے طبعی اسباب اور طبعی قوانین دریافت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ اصطلاح کامٹ کی ایجاد ہے لیکن ایک زمانے تک عام استعمال میں نہ آئی۔ حتیٰ کہ عمرانیات کا مطالعہ ایک الگ علم بن گیا۔ تاہم اس سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ انیسویں صدی کے وسط تک عمرانیات بالکل ہی نیا موضوع تھا۔ ہزاروں سال پہلے اس اولین لمحہ سے جب انسانوں نے ان معاشروں کے متعلق، جن میں وہ زندگی گزارتے تھے، سوچنا شروع کیا تو ان کا یہ انداز فکر عمرانیوں کے طریق پر تھا۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو فلسفی گردانتے تھے۔ بہرحال افلاطون (427-348) مغرب کا پہلا فلسفی تھا جس نے فرد اور ریاست کے باہمی تعلق کا جائزہ لیا اور اس جائزے سے اس نے معاشرے کا اپنا عضوی نظریہ اخذ کیا۔ 1؎ علم عمرانیات کے تاریخی ارتقا کا مطالعہ کرتے ہوئے اکثر مصنفین یونانیوں کے عمرانی نظریات خصوصاً افلاطون کے ریاست اور ارسطو کے سیاست کے بارے میں تصورات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اہل روم کے معاشرتی نقطہ نظر، نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح کے سماجی مصلحین کے خیالات، ازاں بعد سترھویں صدی میں ہابز، لاک، روسو اور اٹھارویں صدی میں مانٹیسکو (Montesquieu) وغیرہ کے فلسفہ سیات میں معاہدہ عمرانی جیسے سیاسی اور سماجی تصورات کو عمرانیات کی تاریخ کے ابتدائی مراحل قرار دیتے ہیں۔ 2؎ علم عمرانیات کے آغاز کے سلسلے میں عمرانیات کے مشہور مصنف بلیک مار (Blackmar) نے لکھا ہے کہ: ’’ بہت سے مصنفوں نے مذہبی، سیاسی، معاشی، اخلاقی یا نفسیاتی مباحث کے سلسلے میں معاشرے کے متعلق جزوی خیالات ظاہر کئے ہیں۔ ان میں سے جو خیالات علمی معطیات پر مبنی تھے ان سے عمرانیات کی تدوین میں مدد ملی۔ ایسے مصنف عمرانیوں کے پیشرو کہے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے افکار کا رحجان معاشرے کے علمی مطالعے کی طرف تھا۔‘‘ غالباً علمی تحقیقات کے پانچ سلسلوں سے جو کبھی تو ایک دوسرے سے الگ الگ رہتے تھے اور کبھی باہم خلط ملط ہو جاتے تھے۔ عمرانیات کے مخصوص علم کی داغ بیل پڑی۔ حیاتیات، تاریخ بحیثیت علم صحیح کے، معاشیات فلسفہ اور اخلاقیات میں مصنفوں نے ان مباحث کے ضمن میں معاشرے پر مجموعی حیثیت سے نظر ڈالی، انہوں نے اس کی جدوجہد کے مطالعے کا ایک نیم علمی انداز پیدا کر دیا۔ 3؎ بلیک مار اسی باب میں ’’ عمرانیات کے بانی‘‘ کے ذیل میں لکھتا ہے: ’’ کونت (کامٹ) کو لوگ عمرانیات کا نقیب کہتے ہیں۔۔ اس کا بڑا کام یہ ہے کہ اس نے حیاتیات اور عمرانیات کے تعلق کو واضح کیا اور عمرانیات کی تدوین کا خاکہ مرتب کر کے اپنے بعد آنے والوں کی رہنمائی کی۔۔۔۔۔ اس لحاظ سے اسے عمرانیات کا بانی کہنا بیجا نہ ہو گا، لیکن جس طرح ایک ریاست کا بانی عموماً کوئی ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ متعدد اشخاص ہوتے ہیں اسی طرح ایک علم کے بھی کئی بانی ہوا کرتے ہیں۔ عمرانیات کا سنگ بنیاد کونت نے رکھا اور اس کی تعمیر ہربرٹ اسپنسر نے کی۔ اس کا نظریہ کونت سے مختلف تھا مگر اس نے کونت کے بنیادی اصولوں کو تسلیم کیا اور ان پر مفصل بحث کر کے ایک نئے علم کا پورا ڈھانچہ کھڑا کر دیا۔‘‘ 4؎ جدید عمرانیات کو جن ماہرین عمرانیات نے مضبوط علمی بنیادیں فراہم کیں اور نئے نظریات اور تصورات سے وسعت بخشی، ان میں تین نام اولین اہمیت کے حامل ہیں۔ یعنی فرانسیسی نژاد ایمل در خائم (Emile Durkheim) (1858-1917) جرمن نژاد میکس ویبر (Max Wehber) (1864-1920) اور اطالوی نژاد ولفرڈ پارٹیو (Vilfredo Pareto) (1848-1923) مشہور عمرانی مصنف پروفیسر ریمانڈ ایرون (Raymond Aron) نے اپنی کتاب (Main Crurrnts in Sociological Thought) کی دوسری جلد میں ان تینوں مفکرین کے افکار و تصورات کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور تینوں کے ہاں فکری یک نظری کا سراغ لگایا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ: All three, albeit in different ways, were of the opinion the European society was in cirsis.... in and case, (they) were dicidedly of the opinion the Europeam society was passing through a phase of profound change as sociologist they also rediscovered comtes idea, namely, that societies can maintain their coherence only through common belifs But preeisely because they were scientific sociologists, they recognised the neessity, for social stability, of the religious beliegs subjected to reosion by the advance of science. as scoiologists, they could see that traditional religion was beiung wxhausted as sociologists also, they were inclined to belive and cohrernce only on condition that a common faith bind together the members of the collectivity. (تینوں درخائم، ویبر، پاریٹو) مختلف انداز میں یہ رائے رکھتے تھے کہ مغربی معاشرہ بحران کی حالت میں تھا۔ بہرحال وہ متفق الرائے تھے کہ مغربی معاشرہ ایک غائر تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔ بطور ماہر عمرانیات انہوں نے کامٹ کے اس تصور کی بازیافت کی کہ معاشرے اپنا ارتباط صرف مشترکہ عقائد کے ذریعے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ سائنسی مکتب فکر کے ماہر عمرانیات تھے۔ اس لئے انہوں نے معاشرتی استحکام کے لئے ان مذہبی عقائد کی ضرورت محسوس کی جو سائنس کی ترقی کی وجہ سے فرسودگی کا شکار ہو گئے۔ عمرانیوں کی حیثیت میں وہ دیکھ رہے تھے کہ روایتی مذہب دم توڑ رہا تھا۔ وہ یہ یقین کرنے کی طرف مائل تھے کہ معاشرہ صرف اس شرط پر اپنی ساخت (Structure) اور ارتباط باقی رکھ سکتا ہے کہ ایک مشترکہ عقیدہ ہی گروہ کے افراد کو باہم پیوست کرتا ہے۔ (ترجمہ ) 2؎ علم عمرانیات کی نشوونما اور ترقی میں انیسویں صدی کے سماجی، نفسیاتی اور سائنسی علوم کے ماہرین کے افکار نے بھی قابل قدر کردار ادا کیا ہے پی جسبرٹ (P. Gisbert) کے بقول متذکرہ عمرانیوں کے علاوہ دوسرے مصنفین مثلاً کارل مارکس، چارلس ڈارون اور بعد ازاں سگمنڈ فرائڈ نے عمرانی فکر پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے، لیکن ان میں سے کوئی بھی باقاعدہ سوشیالوجسٹ نہیں تھا۔ یہاں شاید یہ تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ پاکستان کے فاضل ماہر عمرانیات ڈاکٹر بشارت علی کو مغرب کے علماء اور مورخین عمرانیات سے اتفاق نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب (Muslims: the first sociologists) میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان مغربی مصنفین کا عمرانیات کے آغاز و ارتقاء کے متعلق بیان اور 1839ء میں کامٹ کے عمرانیات کی اصطلاح وضع کرنے کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔ اگر یہ تصورات کسی مبتدی کے ہوتے تو حیرت نہ ہوتی مگر افسوس تو یہ ہے کہ ٹماشف (Timasheff) سوروکن (Sorokin) بوگارڈس (Bogardus) اور بہت سے دوسرے مستند علماء بھی یہ تصور رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر بشارت علی کے مطابق قرآن اور حدیث نے عمرانی فکر کے ارتقاء میں مسلمانوں کے لئے محرک (Incentive) کا کام کیا۔ جس نے بعد ازاں ایک معین علمی نظام اور منظم سائنسی علم کی شکل اختیار کی۔ اسلام میں عمرانیات اپنے تشکیلی دور میں (جیسا کہ ابن خلدون نے واضح کیا ہے) مختلف عقلی تحریکوں کی پیداوار ہے۔ خوارج، اشاعرہ، معتزلہ اور اخوان الصفا کے بعد دنیائے اسلام میں وقتاً فوقتاً اور جا بجا اٹھنے والی مذہبی سیاسی تحریکوں نے بھی عمرانیات کی تشکیل میں حصہ لیا ہے۔ 6؎ ڈاکٹر بشارت علی کی تحقیقات اپنی جگہ وقیع ہیں اور ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قرآنی عمرانیات اور ابن خلدون کی بطور ایک عمرانی عالم (سوشیالوجسٹ) کے حیثیت اور مقام ایسی حقیقت ہیں جنہیں یورپ اور امریکہ کے عمرانیاتی حلقوں نے تسلیم کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود یورپ میں کامٹ نے جس علم عمرانیات کی بنیاد رکھی ہے وہ ایک الگ اور جداگانہ علمی نظام ہے، اس کی علمی روایات کا ایک اپنا تسلسل ہے جن کی بنیاد پر عمرانیات کی مبادیات اور اس کے اصول و قوانین مرتب و مدون کئے گئے ہیں۔ چونکہ اس علم نے معاشرتی مسائل کے حل میں اپنی افادیت ثابت کر دی تھی خصوصاً فرد اور معاشرہ کے باہمی روابط کی تفہیم میں اس نے بہت مدد دی تھی۔ اس لئے اس کو ایک تدریسی مضمون کی شکل دے دی گئی۔ اب کم و بیش دنیا کے ہر ملک میں ثانوی سکول اور کالج کی سطح پر عمرانیات کو ایک نصابی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور دنیا میں شاید ہی کوئی قابل ذکر یونیورسٹی ایسی ہو گی جہاں عمرانیات کا تدریسی شعبہ نہیں ہو گا۔ تعلیم و تدریس کے علاوہ اب زندگی کے ہر شعبے کے مسائل کے حل کے لئے عمرانی مطالعات پر مبنی تحقیقات جاری ہیں جو نہ صرف علم عمرانیات کو وسعت دینے اور ہمہ گیر بنانے میں حصہ لے رہی ہیں بلکہ انسان اور انسان کے درمیان مفاہمت اور انسان اور معاشرہ کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کا فریضہ بھی انجام دے رہی ہیں۔ اب یہاں علم عمرانیات کے نفس مضمون اور وسعت کا ایک تعارفی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس علم کے خدو خال نمایاں طور پر دیکھے جا سکیں۔ کسی علم کے نفس مضمون سے آگاہی کے لئے اس کی تعریف بڑی ممد ہوتی ہے عمرانیات کی تعریف مختلف ماہرین نے اپنے اپنے انداز میں کی ہے۔ ولیم گراہم سمنر (Willian Graham sumner) اورلیسٹر فرینک وارڈ (Leaster Frank ward) نے سب سے مختصر اور سادہ تعریف کرتے ہوئے اسے معاشرہ کا علم قرار دیا ہے۔ مشہور ماہر عمرانیات درخائم (Duekheim) نے اسے معاشرتی حقائق اور معاشرتی اداروں کا علم قرار دیا ہے پارک (Park) عمرانیات کو اجتماعی رویے کی سائنس کہتا ہے 7؎ ولیم ایف آگبرن (William F. ogburn) اور ایم ایف نمکاف (M. F. nimkoff) اپنی کتاب میں کہتے ہیں۔ ’’ عمرانیات سماجی زندگی کا سائنسی مطالعہ ہے‘‘ 8؎ آر ایم میک ایور (R.M. Maciver) اور چارلس ایچ پیچ (C.H. Page) اپنی کتاب سوسائٹی میں لکھتے ہیں۔ ’’ عمرانیات سماجی تعلقات کا مطالعہ ہے۔۔۔ سوسائٹی ان تعلقات کا تانا بنانا ہے‘‘ 9؎ فرینک ڈبلیو بلیک مار نے کہا ہے پروفیسر گڈ نگز (Giddings) کی تعریف سے زیادہ جامع و مانع کوئی نہیں وہ تعریف یہ ہے: ’’ عمرانیات ایک کوشش ہے اس بات کی کہ طبعی، حیاتی اور نفسی اسباب کے متحدہ عمل ارتقاء کے لحاظ سے معاشرے کی ابتدا اور نشوونما اس کی ساخت اور جدوجہد کی توجیہہ کی جائے‘‘ 10؎ اس کے بعد بعض دوسری تعریفوں کے حوالے س بلیک مار نے لکھا ہے: ’’ حقیقت یہ ہے کہ عمرانیات ایک ایسا علم ہے جو روز بروز ترقی کر رہا ہے اور اس کی ایسی مختصر اور جامع تعریف کرنا جو ہر صورت میں موزوں ہو، بہت مشکل ہے‘‘ 11؎ اگرچہ عمرانیات کی مندرجہ بالا تعریفوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عمرانیات کی کوئی ایک مسلمہ تعریف موجود نہیں ہے مگر جب ان تعریفوں کا ماحصل تلاش کرنے کی کوشش کریں تو واضح طور پر جو سب سے وقیع اور جامع تعریف سامنے آئے گی، اس کا محور سوسائٹی یا معاشرہ ہو گا۔ گویا عمرانیات کی ماہیت کو سمجھنے کے لئے معاشرے کے تصور کی ضرورت ہے۔ معاشرہ عام طور پر سماجی رشتوں کے پیچیدہ نظام پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر انسان دوسرے انسان کے ساتھ باہمی طور پر متعلق ہو جاتاہے۔ ای جے ولکنز (E. J. Wilkins) کے مطابق: ’’ معاشرہ ایک ایسی جامع اصطلاح ہے جو انسانی رشتوں کے سارے نظام کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ رشتے انسانوں کے آپس میں ملنے سے پیدا ہوتے ہیں اس ملاپ کی بنیاد ذاتی بقاء کی خواہش ہوتی ہے۔‘‘ 12؎ معاشرتی رشتہ سے مراد دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے درمیان دو طرفہ آگاہی یا کسی نوع کے اشتراک کا احساس ہے۔ دو طرفہ شناخت، وہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ، اور اشتراک ہر سماجی رشتے کے امتیازی پہلو ہیں۔ لیکن اس اشتراک کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ اختلاف اور افتراق کے امکان ہی کو خارج سمجھا جائے۔ اختلاف معاشرے کا ایک فطری معاشرتی پہلو ہے۔ دوسرے لفظوں میں اشتراک اور اختلاف پر مبنی سماجی رشتے معاشرہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ سماجی رشتے کی معنویت کی تفہیم کے لئے سماجی زندگی کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے جسبرٹ نے سماجی زندگی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: Social life in its developed form consists of a system of reciprocal actions, of a give and take. which goes beyond the sphere of nearly selfish interest. there is in it an cinflict, of agreement and dissent, apart from which society cannot be understood but over and above all this, likeness, commoness, and co-operation are the foundation of society. ’’ معاشرتی زندگی اپنی ترقی یافتہ شکل میں دو طرفہ اور باہمد گر تبادلہ کے افعال کے نظام پر مشتمل ہے۔ جو خالص خود غرضانہ مفادات کے دائرہ سے باہر واقع ہوتا ہے۔ اس میں مشابہت اور اختلاف، تعاون اور تصادم اتفاق اور عدم اتفاق کا غیر متعینہ تعامل ہے جس سے الگ ہو کر معاشرے کو سمجھا نہیں جا سکتا، لیکن اس سب کے علاوہ مشابہت، عمومیت اور معاونت معاشرے کی اساس ہیں۔‘‘ 13؎ بعض عمرانیوں نے سوسائٹی کے تصور کو واضح کرنے کے سلسلے میں سماجی گروہوں کو بنیاد بنایا ہے۔ سماجی گروہ سے ان کی مراد افراد کے اس مجموعے سے ہوتی ہے جو اپنی سماجی زندگی میں زیادہ یا تھوڑے عرصہ کے لئے باہمدگر شریک ہوتے ہیں اور ان کے پیش نظر کوئی متعین مقصد ہوتا ہے۔ معاشرہ اور گروہ میں فرق یہ ہے کہ گروہ نوعیت کے لحاظ سے محدود ہوتا ہے جب کہ معاشرہ کے حدود زیادہ وسیع ہوتے ہیں اور سماجی گروہ اپنے وجود کے لئے معاشرہ کا مرہون منت ہوتا ہے۔ مگر اصولی طور پر دونوں کا کردار ایک ہوتا ہے، لیکن دونوں صورتوں میں بنیادی حقیقت مشترکہ زندگی ہے جس میں سماجی گروہ یا معاشرہ کے افراد شریک ہوتے ہیں۔ آرتھر فیربینکس (Arthus Fairbanks) نے معاشرہ اور سماجی گروہ کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: The word society may be applied to the larger body in which the social group exist. A society differes from these smaller groups in that it is not called in to existence to preform and deginite function, for apparently it exists to be served rather than to serve. ’’ سوسائٹی کا لفظ ایک زیادہ بڑی تنظیم پر منطبق کیا جا سکتا ہے جس کے اندر معاشرتی گروہ کا وجود ہوتا ہے۔ ایک معاشرہ ان نسبتاً چھوٹے گروہوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ کوئی متعین اور مقرر مقصد پورا کرنے کے لئے وجود میں نہیں لایا جاتا کیونکہ بدیہی طور پر اس کا وجود معاشرتی گروہوں کے تابع نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کے لئے مفید مطلب ہوتے ہیں۔ 14؎‘‘ نوٹ: اردو میں اصطلاحات کے تراجم میں یکسانی نہیں مثلاً Community کا ترجمہ ارشد رضوی نے اپنی تالیف ’’ تعار ف عمرانیات‘‘ میں طبقہ، پروفیسر ڈاکٹر سی اے قادر نے اپنی تصنیف و معاشریات میں جمعیت اور ڈاکٹر سید عابد حسین نے ’’ مبادی عمرانیات‘‘ میں جماعت کیا ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے اقبال کے خطہ Muslim Community: A Sociological Study کا ترجمہ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کیا ہے۔ معاشرے کی اس بحث میں یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ معاشرے کی مادی اساس افراد کی مجموعی کیفیت سے تعمیر ہوتی ہے۔ مگر اس اجتماعی کیفیت میں افراد کا باہمی اتحاد نفسیاتی اور ذہنی سطح پر عمل میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں معاشرے کی تشکیل میں ایک لازمی عنصر، ایک زمان و مکان کے اندر مجموعہ افراد کا استقرار و استقبال ہے۔ کیونکہ اس لازمی عنصر یعنی استقرار و استقلال سے سماجی اور معاشرتی شعور نشوونما پاتا ہے۔ یہ سماجی یا اجتماعی شعور معاشرے کا لازمہ ہے۔ سماجی شعور یا اجتماعی احساس ایک ایسا عامل ہے جو افراد کے اندر اجتماعی بہبود کے لئے اپنے مفادات کو قربان کرنے کا جذبہ بیدار رکھتا ہے۔ معاشرے کی بحث اس وقت تک نا مکمل اور ابہام کا شکار رہے گی جب تک کہ ہم سماجی گروہ کے علاوہ جماعت (Community) انجمن اور ادارے کے مفاہیم کو واضح نہیں کر لیتے۔ کیونکہ سوسائٹی (معاشرہ) کا لفظ جب اپنی اصطلاحی دلالتوں کے ساتھ استعمال نہیں کیا جاتا تو عام طور پر سماج، جماعت، انجمن اور ادارے وغیرہ کے مترادف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے بعض اوقات کئی عمرانی تصورات کے مباحث میں الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس وقت کے پیش نظر متذکرہ عمرانی اصطلاحات کی اجمالی وضاحت ضروری ہو جاتی ہے۔ جماعت (کمیونٹی) سماجی گروہ کی ایک منضبط، منظم اور محدود شکل ہے۔ ایف، جے، رائٹ (F.J.wright) اور ایف رینڈال (F.Randall) نے اپنی مشترکہ تالیف میں لکھا ہے کہ: ’’ جب ایک عمرانی عالم، جماعت کا ذکر کرتا ہے تو وہ مشترکہ طور پر زندگی گزارنے والے لوگوں کے ایک گروہ کا حوالہ دے رہا ہوتا ہے۔ جن کے رسم و رواج ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان کے عمومی رویے کے ضابطہ کے پس منظر میں ایک مشترکہ روایت ہوتی ہے ایسی جماعت عموماً کسی علاقائی خطہ میں سکونت پذیر ہوتی ہے۔ اس خطے کو وہ اپنا ملک کہتے ہیں۔ اس مرکزی جماعت کے اراکین کسی دوسری جگہ رہتے ہوئے بھی جماعت سے وابستہ رہتے ہیں اور اسی جماعت کے حوالے سے اپنی پہچان کراتے ہیں۔ عموماً کسی بحرانی دور میں جماعت کی عصبیت نمایاں ہو جاتی ہے۔‘‘15؎ اب ہم انجمن Associationکے عمرانی تصور کو لیتے ہیں۔ انجمن سازی ایک معاشرتی عمل ہے۔ جب کسی سماجی گروہ یا جماعت کے ایک حصہ کے افراد خاص مقاصد کے حصول کے لئے منظم ہوتے ہیں تو انجمن وجود میں آتی ہے ایک فرد بیک وقت ایک سے زیادہ انجمنوں کی رکنیت اختیار کر سکتا ہے۔ انجمن طریق کار، قوانین اور ضابطوں کی پابند ہوتی ہے۔ اسی طرح سماجی ادارے (Institutions) عمرانیات کا ایک نہایت اہم موضوع ہیں۔ معاشرے کے اندر ایسے معاشرتی افعال اور سماجی سرگرمیاں جنہیں معاشرتی روایات نے حرمت کا درجہ دے رکھا ہو۔ سماجی ادارے کہلاتے ہیں سماجی اداروں سے انحراف کو معاشرے یا جماعت میں پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ مثلاً شادی کو ایک ادارے (Institution) کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح خاندان بھی ادارے کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ دونوں، ادارے کی انتہائی سہل اور قابل فہم مثالیں ہیں۔ اسی ساری بحث سے یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ عمرانیات میں اول و آخر معاشرے کو اہمیت دی جاتی ہے اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے، اس کے اجتماعی رویوں کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے اور انسان کی انفرادی حیثیت کو عمرانیات میں قابل اعتنا نہیں خیال کیا جاتا۔ ایلن سونج وڈ (Alan Swinge Wood) نے لکھا ہے: Sociology is essentially the scientific objective study of man in society, the study of social institutions and of social precess, it seeks to answer the question of how society is possible, how it work, why it persists. ’’ عمرانیات بنیادی طور پر معاشرے میں انسان کا سائنسی اور معروضی مطالعہ، سماجی اداروں کا مطالعہ اور سماجی طریقوں کا مطالعہ ہے۔ جو ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے کہ معاشرہ کس طرح ممکن ہے، کس طرح یہ کام کرتا ہے اور اس کو استقرار کیوں کر ہے۔‘‘ 16؎ اس مصنف نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی، اقتصادی، سیاسی اور ازدواجی اداروں کی ترکیب سے جو سماجی ڈھانچہ بنتا ہے اگر اس کا وقت نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ایک تصویر ابھرتی ہے اگرچہ ہمیشہ بہت واضح نہیں ہوتی۔ مگر اس میں انسان کو مختلف طریقوں پر معاشرے میں سماجی اور معاشرتی گروہوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سماجی تربیت سے افراد کی معاشرے کے ساتھ وابستگی مستحکم ہوتی ہے۔ جہاں انہیں متعلقہ سماجی مناصب تفویض کئے جاتے ہیں۔ جنہیں وہ قبول کر کے معاشرے کے فعال افراد بنتے ہیں۔17؎ معاشرہ بہرحال اپنے وجود کے لئے فرد کا محتاج ہے۔ فرد معاشرے کی ایک اکائی ہے۔ اس کے مناصب اور افعال و اعمال معاشرے کی مجموعی حالت پر اثر انداز ہوتے ہیں مگر اس کے یہ افعال و اعمال نہ تو وجود میں آ سکتے ہیں او رنہ ہی اس سے معاشرتی اہمیت اور نوعیت کا کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ جب تک فرد کسی دوسرے فرد یا افراد سے مل جل کر کام نہیں کرتا۔ افراد کے باہمی میل جول سے جو کام سر انجام پائیں انہیں علم عمرانیات کی اصطلاح میں معاشرتی عمل (Social action) کہا جاتا ہے۔ جب کسی معاشرے کے دو یا دو سے زیادہ افراد اپنے کسی باہمی عمل سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوں تو عمل کی اس نوعیت کو تفاعل (interaction) کہتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں تفاعل کا آغاز پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ فرد پیدائش کے وقت ہی سے دوسروں کے رویے کو متاثر کرتا ہے اور خود اپنے گرد و پیش کے افراد اور ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ تفاعل کی نوعیت میں مختلف عناصر حصہ لیتے ہیں۔ یوں فرد ایک شخص بنتا ہے اور پھر اس تفاعل کے ذریعہ اس کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔ بہرحال انسان پیدائش سے وفات تک تفاعل کی حالت میں رہتا ہے۔ 18؎ انسان کو اپنی زندگی کے دوران تفاعل کی کئی صورتوں مثلاً معاشرتی تعاون، معاشرتی مسابقت اور مقابلہ اور تصادم سے سابقہ پڑتا ہے۔ ان صورتوں سے معاشرتی ترقی کے اسباب پیدا ہوتے ہیں اور ا سکے بہت سے معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ گویا معاشرتی زندگی میں ساری رونق اور گہما گہمی انسان کی سرگرمیوں کی بدولت ہے۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فرد اور معاشرہ دو جداگانہ چیزیں نہیں ہیں۔ لہٰذا ان دونوں کو الگ الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ فرد اور معاشرہ متوازی طور پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔مگر اس بات سے ایک غلط فہمی کا امکان ہے کہ ہم شاید فرد کو ایک خود مختار شخصیت قرار دے رہے ہیں۔ چونکہ معاشرے کے ارتقاء کے لئے معاشرتی امن و امان اور نظم و ضبط ایک بنیادی تقاضا ہے۔ اس کے لئے افراد میں ہم آہنگی کے علاوہ معاشرتی اقدار کی پاسداری اور معاشرتی قوانین کی اطاعت لازمی ہو جاتی ہے۔ انسانوں کی طبیعت میں اپنی سہولت یا اغراض کی وجہ سے معاشرتی اقدار سے انحراف اور قوانین سے تجاوز کا رحجان موجود ہوتا ہے۔ اس لئے معاشرے کو افراد کے اس رحجان پر قابو پانے کے لئے کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ عمرانی ماہرین اس کارروائی کو معاشرتی انضباط (Social Control) کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جس سے ان کی مراد وہ نظام طریق ہے جس سے معاشرہ افراد کو مسلمہ رویوں سے مطابقت پیدا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 19؎ بلیک مار نے اس مسئلہ پر بڑی متوازی رائے قلمبند کی ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’ دنیا میں فرد جماعت سے الگ ہو کر کچھ نہیں کر سکتا گوہر ذی شعور اپنے اعمال و افعال سے ظاہر یہی کرتا ہے کہ مجھے اپنی زندگی پر پورا اختیار ہے اور اپنی مرضی سے جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ اس کا ہر فعل اس خیال پر مبنی ہوتا ہے کہ میں فاعل مختار ہوں اور دوسروں کے جذبات و خیالات کا لحاظ کئے بغیر اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہوں۔ لیکن سچ پوچھئے تو کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس کے افعال دوسروں کے اثرات سے آزاد ہوں۔ جہاں دیکھئے یہی نظر آتا ہے کہ اجتماعی زندگی انفرادی عمل کی حد بندی کرتی ہے اور اس پر بہت کچھ اثر ڈالتی ہے۔ حکومت ہو یا مذہب یا صنعت و حرفت یا تعلیم، یا تدبیر منزل غرض جدید زندگی کے رہ شعبے میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ وہ مخصوص اغراض کے لئے اتحاد عمل، باہمی شرکت اور تنظیم سے کام لیتے ہیں اور کوئی شخص محض اپنی ذات کے لئے زندگی بسر نہیں کرتا۔ اسی سعی اور عمل کے اتحاد سے معاشرہ بنتا ہے۔‘‘20؎ جیسا کہ معلوم ہوا ۔ عمرانیات معاشرہ اور اس کے اندر انسان کی معاشرتی زندگی کا مطالعہ ہے۔ جس کا آخری مقصود و مطلوب معروضی علم کو ترقی دے کر زندگی کے ساتھ انسان کی مطابقت کو بہتر بنانا ہے 21؎ رائٹ اور رینڈال کے مطابق عمرانیات کو ایسا مطالعہ ہونا چاہئے جس کے نتائج جماعتوں کے لوگوں کو اپنی معرفت اور اپنے معاشرہ کی تفہیم میں مدد دیں۔ 22؎ انسان ازل سے اپنی ذات کی معرفت، ہم جنسوں کو سمجھنے، ماحول کو جاننے اور کائنات کے اسرار و رموز دریافت کرنے کی جستجو کرتا رہا ہے۔ انسان کی ساری تہذیبی اور تمدنی زندگی کا ارتقاء انسان کی اسی تلاش و جستجو کی بدولت ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش انسان کی فطرت کا خاصہ ہونے کے علاوہ سماجی عمل کا تقاضا بھی ہے۔ چونکہ تغیر فطرت کا ایک دائم و قائم اصول ہے اس لئے جو معاشرے اس حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھتے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں وہ جمود اور زوال کا شکار ہو جاتے ہیں علامہ اقبال نے اپنی فکری زندگی کے آغاز میں عمرانیات کی اس بنیادی قدر کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ افکار اقبال کے ایک سرسری مطالعہ سے بھی یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ اقبال نے اپنی فکر کے ہر دور میں اس بنیادی عمرانی قدر کو اپنے پیش نظر رکھا ہے کہ طرز کہن پر ہٹ دھرمی اختیار کرنے کی بجائے آئین نو سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنی چاہئے کیونکہ یہ رویہ فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اسی لئے افراد و اقوام کی حیات تازہ کا ضامن ہے۔ ٭٭٭ حوالے باب نمبر 1 3بلیکمار، فرینک ڈبلیو، مبادی عمرانیات (ترجمہ : ڈاکٹر سید عابد حسین) جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن 1932ء ص374-75 4ایضاً ص376-77 10بلیکمار، محولہ بالا ص10 11بلیکمار، محولہ بالا، ص11-10 20بلیکمار، مبادی عمرانیات، محولہ بالا، ص2-1 Chapter No 1 1. Wilkins, elizabeth j, an Introduction to Sociology Macdonald and Evans, England, Reprint 1979, pp.3-4 2. See (a) Ibid pp.3-20 (b) Johnson, doyle paul, Sociological theory, john wiley & Sons, New york, 1981, pp. 1-5 5. Aron, raymond, main currents in sociological thought 2, penguin books, reprint 1977, pp. 11-12 6. Ali, Dr. M. Basharat, Muslims: the first sociologists. Maktab-i-Milliya, Urdu Bazar, Lahore (n.d) Prefeace Nov. 1961). pp.1-3 7. Koeing, Samuel, Sociology, Barens & Noble, New york, 1961, pp.1-2 8. Ogburn W.F. &. M.F. Nimkoff, A Handbook of sociology, London, 1960, p.13 9. Maciver, R.M. &. C.H. Page, Society, London, 1962, p.v. 12. Wilkins, W.J. op cit. p.38 13. Gisbert. p. op. cit. p.9 14. Fairbanks Arthur, Introduction to sociology, New York, 1905, p.3 15 Wright. F.J. & F. Randall basic Sociology, Macdonald and Evans, London, 1976, p.2 16, Laurenson, Diana and Alan Swingewood, Sociology of Literature, Granada Publishing Ltd. London 1972, pp. 11.12. 17. Laurenson, Diana, op. Cit. P.12 18. Broen, Francis, j, Educational Sociology, Tokyo, 1961, pp. 37-39 19. Koenig, samuel, op. cit. p.64 21. Koenig, op. cit, p.10. 22. Wright, op. cit. p. 48 ٭٭٭ دوسرا باب حیات اقبال کا عمرانی پس منظر تاریخ انسانیت کے صفحات اس عمرانی حقیقت کے شاہد ہیں کہ اکثر اتفاقات نتائج اور اثرات کے اعتبار سے تاریخی اہمیت کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔ خصوصاً تاریخی شخصیات کے ظہور کے حوالے سے اسے علم تاریخ کا ایک کلیہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ کسی ملک یا قوم کی تاریخ کے نازک زمانے اور بحرانی دور میں ایسی شخصیت یا شخصیات پیدا ہوتی ہیں جو اپنے ملک اور قوم کو ادبار اور ابتلا سے نکال کر ترقی اور عروج سے ہمکنار کر دیتی ہیں۔ یا پھر اپنے فکر و عمل سے قومی شعور اور احساس میں ایسا تحرک پیدا کر دیتی ہیں جو مدتوں تک انفعالی کیفیت وارد نہیں ہونے دیتا۔ برصغیر پاک و ہند میں علاقہ اقبال ایک ایسی ہی با سعادت شخصیت تھے۔ برصغیر میں سیاسی انحطاط اور زوال کا جو عمل اٹھارویں صدی کے آغاز میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات (1707ئ) کے ساتھ شروع ہوا۔ اس کے پہلے مرحلہ کا 1857ء میں منطقی انجام ہوا۔ اے ٹی ایمبری (A.T. Embree) کے مطابق: ’’ 1880ء تک پورا برصغیر پاک و ہند یا تو کلکتہ میں واقع مرکزی گورنمنٹ کے بالا واسطہ کنٹرول میں لایا جا چکا تھا یا ہندوستانی ریاستوں کے حکمرانوں کے بالواسطہ کنٹرول میں، جنہوں نے تاج برطانیہ کی فوقیت کو تسلیم کر لیا تھا۔‘‘ 1؎ برصغیر پر مکمل انگریزی اقتدار کے تسلط اور انتظامی ڈھانچہ کی تشکیل کے بعد ہندوستان کی سیاسی، سماجی، اقتصادی، مذہبی اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی حالت کیا تھی۔ اس کا اے ٹی ایمبری (Ainsile T. Embree) نے جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: Such, then, was the rough outline of India in 1880. The process of creating a modern nation-state was begun by the British, who introduced many of the necessary reforms, note-ably a well-organized bureaucracy, educational institutions for the transmission of the ideas and values of modernization, and the infrastructure of modern communications, the next stage, an attempt by indian groups to participae in the direction of the new state, was entered in to hesitantly and without anticipation of many factors involved in the undedtaking. an essentail preliminary for such participation was that the indian groups should be able to state their intersts and their demands in terms significant to both the indian society and the British relurs, the formulation of this state of nationalist aspirations, centering on various political events and drawing vitality from social and religious movements, constituted the seesntial feature of indian history in the last two decades of the nineteenth centuaty. ’’ یہ تو تھا1880ء میں ہندوستان کی حالت کا سرسری خاکہ، برطانوی حکومت کے ہاتھوں ایک جدید قومی ریاست کے قیام کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ حکومت نے بہت سی لازمی اصلاحات کر دی تھیں۔ خاص طور پر انتظامیہ کو انتہائی منظم کر دیا گیا تھا۔ مغربی جدید تصورات اور اقدار کو مقامی لوگوں تک پہنچانے کے لئے تعلیمی ادارے قائم کر دئیے گئے تھے اور جدید مواصلات کی بنیادیں بھی اٹھا دی گئی تھیں۔ اگلے مرحلے میں ہندوستانیوں کو نئی ریاست کی راہنمائی کے سلسلے میں شامل کرنے کا اہتمام ہوا۔ اور یہ اہتمام تذبذب سے کیا گیا اور اس بارے میں پیش آنے والے مسائل کا اندازہ کئے بغیر کیا گیا۔ بہرحال اس سلسلے میں ہندوستانیوں کی شمولیت کا اولین تقاضا یہ تھا کہ ہندوستانی اس قابل ہوں کہ وہ اپنے مفادات اور مطالبات کو اس نقطہ نگاہ سے پیش کریں کہ ان کی اہمیت ہندوستانی معاشرہ اور برطانوی حکمرانوں دونوں کے لئے یکساں ہو۔ ہندوستانیوں کی بہت سی امنگیں تھیں جو بہت سے سیاسی واقعات سے ابھری تھیں انہیں سماجی ا ور مذہبی تحریک سے استحکام ملا تھا اور ان قومی امنگوں کو مرتب کر کے حکومت کے سامنے پیش کرنا دراصل انیسویں صدی کے آخری دو عشروں کی تاریخ کا ایک نمایاں پہلو تھا۔‘‘ 2؎ اقبال نے انیسویں صدی کی انہیں آخری دو دہائیوں میں بلوغت کے مراحل کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کے مدارج طے کئے۔ مگر اقبال کی شخصیت کی تشکیل کے پس منظر سے واقفیت کے لئے یہ تاریخی اشارہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے اقبال کی زندگی کے ماضی قریب میں پنجاب کے سیاسی اور سماجی حالات کا مختصر سا جائزہ ضروری ہے۔ 1849ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ پنجاب کے الحاق کے بعد یہاں انگریزی اقتدار قائم ہوا اور قدرتی طور ر زندگی کے تمام شعبوں میں انگریز کی حکمت عملی پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ انگریزوں نے آہستہ آہستہ اپنی پوزیشن مستحکم کر لی البتہ 1857ء میں انہیں پریشانی اٹھانی پڑی۔ کیونکہ جنگ آزادی کے واقعات نے پنجاب کوبھی متاثر کیا۔ لہٰذا 1857ء میں پنجاب کے مختلف مقامات پر جنگ آزادی کے سلسلے میں چند کوششیں ہوئیں۔ آخر کار 20 جولائی کو سقوط دہلی کی خبریں سلطنت کے اطراف و اکناف میں پھیل گئیں۔ اس طرح پنجاب بھی مکمل طور پر انگریزوں کا مطیع و منقاد بن گیا۔ پنجاب کی آبادی بھی چونکہ مختلف فرقوں اور قوموں پر مشتمل رہی لہٰذا پنجاب میں انگریزوںکی غیر جانبدارانہ پالیسی ان کے حق میں بڑی مفید ثابت ہوئی۔ یوں بھی وہ سکھوں کے عہد کی طوائف الملوکی اور ظلم و استبداد کے پنجے سے نجات دلانے والے خیال کئے جاتے تھے۔ 3؎ بہرحال عام طور پر یہاں امن و امان کی صورت حال رہی مگر جلد ہی مختلف فرقوں میں آویزش کے اسباب پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ پنجاب میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی ابتدا اور آغاز کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے اکرام علی ملک نے مختلف حوالوں کی بنیاد پر لکھا ہے کہ: Official Policy award Punjabi religions and decive actions to quell dicturbances were apparently successful during the first decades of British rule in the Punjab. on rare Occacions when religious zeal threatened public orded, district officers localized the conflict and summarily punisged leaders of offending sects. the goverment particularly felt that the procinces weathering of the 1857 mutiny justified a continuation of neutrality-according to john lawrence and his accociates, punjabis renerally backed the Bitish because of their tolerance and sense of fair play. by the eighteen eighties, however, strengthieining of communal tendencies in the punjab had produced major religious controverdy and intensified hinde-Muslim tension. ’’ پنجاب پر برطانوی حکومت کے پہلے عشرے کے دوران پنجابی مذاہب سے متعلق سرکاری حکمت عملی اور ہنگاموں کے لئے فیصلہ کن اقدامات بظاہر کامیاب تھے۔ خاص مواقع پر جب مذہبی جوش و خروش سے امن کو خطرہ لاحق، ہوا تو ضلعی حکام نے مذہبی تصادم کو مقامی حدود سے بڑھنے نہ دیا اور مذہبی فرقوں کے سرکش لیڈروں کو فوری سزائیں دیں، حکومت نے یہ چیز خاص طور پر محسوس کی کہ صوبہ پنجاب نے 1857ء کے غدر کا جس طرح مقابلہ کیا ہے، وہ غیر جانبداری کی حکمت عملی جاری رہنے کا جوا زمہیا کرتا ہے۔ جان لارنس اور اس کے ساتھیوں کی رائے میں پنجابیوں نے غدر کے دوران انگریزوں کی عموماً مدد، اپنی رواداری اور احساس دیانت کی بنیاد پر کی تھی۔ بہرحال1880ء تک پنجاب میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ رحجانات نے بہت بڑے مذہبی جھگڑے کی شکل اختیار کر لی اور ہندو مسلم کھچاؤ میں شدت پیدا ہو گئی۔‘‘ 4؎ اسی مولف نے پنجاب میں پہلی سیاسی تنظیم کے قیام کی بابت لکھا ہے: The year 1877 may be taken as a convenient starting point for tracing the development of political events in the punjab. Surrendera Nath Banerjee came to the Punjab and founded the Lahore Indian Association, the first Political organisation of importance in the punjab. ’’ پنجاب کے سیاسی واقعات کے تسلسل اور ارتقاء کا پتہ چلانے کے لئے 1877ء کے سال کو نقطہ آغاز تصور کیا جا سکتا ہے۔ 1877 ء در حقیقت پنجاب کی تاریخ میں ایک اہم سال تھا کہ اس سال سریندر ناتھ بینر جی پنجاب آئے اور لاہور انڈین ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جو کہ پنجاب کی پہلی اہم سیاسی تنظیم تھی۔‘‘ 5؎ بینر جی کی قائم کردہ ایسوسی ایشن نے پنجاب کی سیاسی زندگی میں کوئی دور رس اور نمایاں کردار ادا نہیں کیا کیونکہ ایک تو یہ بنیادی طور پر لاہور میں مقیم بنگالی ملازمین کی ایسوسی ایشن تھی۔ دوسرے ایک غیر فعال انجمن تھی۔ پنجاب کے حوالے سے 1877ء کا سال یقینا اہم ہے۔ کیونکہ اس سال لاہو رمیں آریا سماج کی بنیاد رکھی گئی۔ سوامی دیانند سرسوتی نے اپریل 1857ء میں آریا سماج کے نام سے ایک تنظیم بمبئی میں قائم کی تھی مگر ابھی اسے کچھ زیادہ مقبولیت حاصل نہ ہوئی تھی۔ یکم جنوری1877ء کو وائسرائے لارڈ لٹن نے دھلی میں ایک عظیم الشان دربار منعقد کیا۔ جس میں کوئین (Queen) کی ہندوستان کی ملکہ کے طور پر تخت نشینی کا اعلان کیا گیا۔ اس امپیریل دربار میں دیانند بھی مدعو تھے وہاں انہیں لاہور سے کچھ ہندو ملے جنہوں نے دیانند کو پنجاب آنے کی پر اصرار دعوت دی۔ وہ لدھیانہ اور جالندھر سے ہوتے ہوئے (19اپریل) کو لاہور پہنچے جہاں انہیں بہت زیادہ کامابی ہوئی۔ لہٰذا اس شہر میں آریا سماج کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور لاہور بہت جلد اس تحریک کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔ 6؎ اسی زمانے کے ایک مشہور آریا سماجی لالہ ہنس راج نے 1877ء کو پنجاب میں مذہبی انقلاب کا سال قرار دیا۔ ویدوں کی طرف مراجعت اس تنظیم کا نعرہ تھا۔ یہ ایک ایسی تشدد پسند جماعت تھی جو بیسویں صدی میں بھی سرگرم رہی۔ بہرحال نئے تعلیم یافتہ پنجابیوں کی امتیازی خصوصیت، ان کا کسی مذہبی فرقہ کے ساتھ تشخص تھا۔ لہٰذا ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں نے الحاق پنجاب کے بعد فرقہ وارانہ انجمنوں کی تنظیم کی۔ 7؎ ہندوستان اور خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں1877ء ایک یادگار سال ہے۔ اسی سال 8جنوری کو ایک تقریب میں لارڈ لٹن نے علی گڑھ کالج کا سنگ بنیاد رکھا۔ 8؎ سرسید احمد خان کے تعلیمی مقاصد کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتاہے۔ ’’ 1877ء میں پنجاب کے مسلمانوں نے صوبائی حکومت کے سامنے ایک عرضداشت پیش کی کہ انہیں ملک میں سابقہ حیثیت اور مرتبہ کی بنا پر کم از کم پچاس فیصد سرکاری ملازمتیں دی جائیں۔ حکومت نے یہ جواز اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ ملازمتیں صرف اہلیت کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔ سرسید نے حکومت پنجاب کو اس کے فیصلہ پر مبارکباد دی اور کہا ‘‘ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ مسلمان مناسب تعلیم حاصل کر کے آپ کو سرکاری ملازمتوں کے لئے تیار نہیں کرتے۔ مگر پھ ربھی ان کے حصول کے خواہش مند ہیں۔ (ترجمہ ) 9؎ سرسید احمد نے پنجاب کے مسلمانوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ سرسید نے بالترتیب 1888, 1884, 1873ء اور 1894ء میں پنجاب کے چار دورے کئے۔ ان مواقع پر عوام و خواص سے شخصی رابطوں اور استقبالیہ تقریبات میں سرسید کی تقاریر اور بیانات نے پنجاب کے مسلمانوں میں قومی اور ملی شعور کی آبیاری کی۔ یہاں جدید تعلیم کی افادیت کااحساس تو پہلے سے انفرادی سطح پر موجود تھا۔ مگر سرسید کے دوروں نے جدید تعلیم کے حصول کو بڑی حد تک اجتماعی احساس میں بدل دیا۔ خود سرسید کے لئے یہ دورے حوصلہ افزا ثابت ہوئے۔ پروفیسر حمید احمد خان لکھتے ہیںـ: ’’ خود (سرسید کے ) اپنے صوبے کی آبادی کے سواد اعظم نے ان سے جو سلوک روا رکھا تھا، اس کے برعکس اہل پنجاب کی طرف سے پر جوش خیر مقدم نے سرسید کے لئے تقدیر کی بازی کا رخ پلٹ دیا۔ پنجاب کے مسلمانوں نے سرسید کا قومی پیغام اس برجستگی سے کیوں قبول کر لیا؟ اس کی تشریح مولانا حالی نے ’’ حیات جاوید‘‘ میں بہ الفاظ ذیل کی ہے: پنجاب کے مسلمان، جنہوں نے برٹش گورنمنٹ کی بدولت ایک مدت کے بعد نئی زندگی حاصل کی تھی اور اس لئے انگریزی تعلیم اور انگریزی خیالات کو خیر مقدم کہنے کے لئے تیار بیٹھے تھے، سرسید کی منادی پر اس طرح دوڑے جیسے پیاسا پانی پر دوڑتا ہے۔۔۔ سچ یہ ہے کہ سرسید اور ان کے کاموں کی کسی صوبے نے عام طور پر ایسی قدر نہیں کی جیسی پنجاب والوں نے کی۔۔۔ سرسید کی ہر قسم کی اصلاحیں انہوں نے سب سے زیادہ قبول کیں اور قوم کی بھلائی کے کاموں میں سب سے بڑھ کر انہوں نے سرسید کی تقلید اختیار کی۔ یہاں تک کہ ان کو ’’ زندہ دلان پنجاب‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا۔۔۔۔۔۔10؎ سرسید کے پہلے سفر پنجاب سے قبل پنجاب کے بعض سماجی اور مذہبی شعور رکھنے والے درد مند بزرگوں کے دل میں مسلمانوں کی حالت کا احساس پیدا ہو چکا تھا۔ انہوں نے پنجاب کے مسلمانوں کی سماجی، مذہبی اور تعلیمی زندگی کی اصلاح کے لئے انجمنیں قائم کیں۔‘‘ میاں محمد شاہ دین کا مضمون Mohammadan Societies in the punjab دی انڈین میگزین کے شمارہ اپریل 1888ء میں شائع ہوا تھا اس میں انہوں نے گزشتہ بیس سالوں میں پنجاب میں مسلم انجمنوں کی افزونی کا حوالہ متوسط طبقہ کے مسلمانوں کی ذہنی بیداری کے ثبوت کے طور پر دیا ہے ان کے لئے یہ امر امید کی علامت اور اشارہ تھا کہ آخر کار مسلمان اپنی پسماندہ حالت کے بارے میں کچھ کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ 11؎ اس وقت کی نئی صورت حال میں پنجاب کے مسلمانوں کے رویہ اور ان کی تعلیمی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی مساعی کو سمجھنے کے لئے یہاں پنجاب کی صرف دو اسلامی انجمنوں کا ذکر کیا جاتاہے۔ انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور یہ انجمن پنجاب کے مسلمانوں کی سب سے پہلی جماعت ہے جو 1869ء میں مولوی برکت علی خان کی تجویز اور تحریک پر لاہور میں قائم ہوئی۔ انجمن اسلامیہ بنیادی طور پر بادشاہی مسجد کی مرمت اور نگہداشت کے لئے فنڈز کی فراہمی کے سلسلے میں معرض وجود میں آئی تھی۔ ’’ مارچ 1884ء میں حکومت پنجاب نے انجمن کو مسلمانوں کی مقتدر اور نمائندہ جماعت قرار دیتے ہوئے، شاہی قلعہ میں موجود اسلامی تبرکات کو اس کے سپرد کر دیا۔۔۔۔ چنانچہ 21مارچ 1884ء میں ان تبرکات کو انجمن کے زیر اہتمام ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں بادشاہی مسجد لے جایا گیا۔ مسلمانوں نے اس موقعہ پر بے پناہ عقیدت و جوش کا مظاہرہ کیا۔‘‘ 12؎ بانی انجمن مولوی برکت علی کے سرسید احمد سے تعلقات تھے۔ انجمن اسلامیہ سرسید کے قومی نظریات اور ان کی تعلیمی تحریک کے مقاصد کی موئید اور حامی تھی۔ مولوی برکت علی خان نے 1873ء اور 1884ء میں سرسید کو پنجاب کے دورے کی دعوت دی اور اس کی کامیابی کے لئے سخت کوشش کی۔ ’’ یکم فروری (1884ئ) کو انجمن کی طرف سے اسلام پر سرسید کے خصوصی لیکچر کا اہتمام اور 3فروری کو ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا ۔ تقریب کے اختتام پر برکت علی خان نے انجمن اسلامیہ اور احباب لاہور کی طرف سے دو ہزار چوہتر روپے کی ایک تھیلی پیش کی۔‘‘ 13؎بہرحال انجمن اسلامیہ نے پنجاب کے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور مساعی کیں۔ اس انجمن نے صوبے کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے باب میں بھی ہر ممکن کوشش کی۔ میاں محمد شاہ دین نے 30نومبر1907ء کو پنجاب پروانشل مسلم لیگ لاہور کے افتتاحی اجلاس کے خطبہ صدارت میں کہا تھا: ’’ اس شہر (لاہور) میں اس سے پہلے بعض ایسی اسلامی انجمنیں موجود ہیں جو کم و بیش کامیابی کے ساتھ بعض خاص خاص اغراض کی تکمیل کر رہی ہیں اور امدی ہے کرتی رہیں گی۔ ان سب میں ’’ انجمن اسلامیہ‘‘ ایک ایسی انجمن ہے جس نے اپنے وقت میں چند پولیٹکل معاملات کے متعلق، جن کا اثر پنجاب کے مسلمانوں پر پڑتا تھا، خاص معین حدود کے اندر نہایت عمدہ اور قابل تعریف کام کیا ہے۔ مگر جدید ملکی حالات اور ہماری بعض نوزائیدہ پولیٹکل ضروریات کے لحاظ سے انجمن اسلامیہ کا کانسٹی ٹیوشن کافی وسیع نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس کے ممبران کے معزز گروہ میں ایک معقول تعداد عہدیداران سرکاری کی شامل ہے ہم اس کو آل انڈیا لیگ کی شاخ نہیں بنا سکتے۔ نئی ضروریات اور اغراض کی تکمیل نئے ذرائع سے ہونا لازمی ہے۔‘‘ 14؎ 1883ء تک انجمن اسلامیہ کی پنجاب کے مختلف شہروں میں تقریباً بیس شاخیں قائم ہو چکی تھیں۔ 15؎ علامہ اقبال 1909ء سے 1937ء تک مختلف حیثیتوں میں اس انجمن کے ساتھ وابستہ رہے۔ 16؎ انجمن حمایت اسلام لاہور انجمن اسلامیہ کے قیام کے پندرہ سال بعد ستمبر1884ء کو مسجد بکن خان اندرون موچی دروازہ لاہور میں مقامی مسلمانوں کا ایک اجتماع ہوا۔ اس میں حاضرین کی تعداد اڑھائی سو کے قریب تھی جن میں لاہور کے بعض عمائدین بھی شامل تھے۔ اس اجلاس میں ایک انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کا نام انجمن حمایت اسلام رکھا گیا۔ اس کے مندرجہ ذیل مقاصد تجویز ہوئے: 1عیسائیوں کی تبلیغ کا سد باب 2مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ایسے ادارے قائم کرنا جن میں قدیم و جدید دونوں قسم کے علوم کی تعلیم دی جائے۔ 3مسلمانوں کے یتیم و لاوارث بچوں کے لئے ایسے ادارے قائم کرنا جس میں پرورش کے علاوہ ان کی تعلیم و تربیت بھی کی جائے۔ 4اسلامی لٹریچر کی اشاعت۔ 17؎ اگرچہ انجمنکے قیام تحریک، اسلام اور بانی اسلام کے خلاف عیسائی مشنریوں کے جارحانہ اور معاندار الزامات اور زہریلے پروپیگنڈے کا دفاع تھا اور عیسائیوں کی تبلیغ کا انسداد اس کا اولین مقصد قرار دیا گیا تھا۔ مگر اس کی عملی کوششوں کا آغاز1884ء میں لڑکیوں کی تعلیم کے دو پرائمری اسکولوں کے اجرا سے ہوا۔ دو سال بعد ’’ مدرستہ المسلمین‘‘ کے نام سے لڑکوں کے لئے بھی سکول قائم کر دیا گیا جسے 1889ء میں ہائی سکول کا درجے دے دیا گیا۔ 18؎ اس کے بعد کالج کے قیام کے مرحلہ پر انجمن کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں محمد شاہ دین نے 28دسمبر1893ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ علی گڑھ میں ’’ پنجاب کے مسلمانوں میں تعلیم‘‘ کے موضوع پر انگریزی میں ایک مقالہ پڑھا۔ اس میں ایک مقام پر انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور کے قیام کے پس منظر پر بالواسطہ روشنی ڈالی ہے۔ ذیل میں اس بیان کا ایک ملخص پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ 1891ء میں قومی جذبہ رکھنے والے جوڈیشل سروس کے دو حضرات نے صوبہ پنجاب کے ممتاز مسلمانوں کے نام امداد کی اپیل کی تاکہ مرکزی انجمن حمایت اسلام کے زیر اہتمام لاہور میں محمڈن کالج قائم کیا جائے۔ انجمن کو کم از کم زبانی یقین دہانی تو کرائی گئی جس سے مخلص اپیل کنندگان کو انجام کار کامیابی کے بارے میں امید پیدا ہوئی۔ مگر بعض واضح اسباب کی بنا پر یہ اپیل اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی۔ اولاً پنجاب میں محمڈنز اگر بحیثیت قوم کافی امیر بھی ہوتے، یقینا اپنی تعلیم کے بارے میں اتنے زیادہ فیاض اور پرجوش نہیں کہ فوری نوٹس پر ایک تجربے کے لئے فراخدلانہ امدادی چندہ فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہوں۔ ثانیاً کچھ نیک نیت حضرات ایمانداری سے اس تجویز کو میرٹ پرویٹو کرنے پر تیار تھے۔ کیونکہ وہ اسے قبل از وقت اور غیر سوچی ہوئی اسکیم خیال کرتے تھے۔ اگرچہ فوری مقصد تو ناکام ہو گیا مگر پنجاب میں محمڈن ایجوکیشن کے داعیہ کے سلسلہ میں اس اپیل نے بڑا کام کیا۔ اس سے دقیق مسئلہ کے دونوں رخوں پر غور و خوض کا موقع فراہم ہوا۔ ہمارے ہاں کے معزز مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو بلاشبہ جب اسلام کی بناء پر حال ہی میں خالصہ کالج امرتسر اور ڈی اے وی کالج لاہور کے قیام سے تحریک ہوئی۔ وہ ان لوگوں سے خفا ہوئے جو آگے بڑھنے کے لئے حد درجہ احتیاط سے کام لے رہے تھے۔ ان دونوں فریقوں کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوا۔ نتیجتہً لاہور میں مجوزہ محمڈن کالج کے قیام پر بحث پریس کا موضوع بن گئی۔ یہ بحث معقول، متوازن اور جامع نہ تھی کیونکہ اس میں مقامی فریقین کے مفادات بروئے کار آئے۔ لہٰذا ان غیر جذباتی حقائق کو پیش کرنے میں مانع ہوئے جن کو قوم کی موجودہ تعلیمی ضروریات کے لئے بنیاد بنایا جا سکتا۔ اس بحث سے یہ بھی سوچنے کا موقع ملا کہ کیا موجودہ پبلک اسکول اور کالج اور متد اول طریقہ تعلیم پنجاب کے مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات نہیں پوری کرتا۔ اگر ایسا ہے تو تعلیمی بہبود کے لئے کونسے اقدامات کرنے چاہئیں۔ بہرحال انجمن حمایت اسلام کے ممبران نے جلد ہی اپنا لائحہ عمل تیار کیا اور مئی 1892ء میں محمڈن (اسلامیہ) کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔‘‘ 19؎ میاں محمد شاہ دین کا زیر نظر مضمون پینسٹھ 65صفحات پر محیط ہے۔ جس میں انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی قومی ترقی کو تعلیمی ترقی سے مشروط کیا ہے۔ ایک مدت تک مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا سبب ان کی بے اعتنائی قرار دی جاتی تھی۔ میاں صاحب نے سرکاری رپورٹوں کی بنیاد پر کچھ نتائج اخذ کئے ہیں۔ جن میں سے ایک نتیجہ حسب ذیل ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ مذہبی تعصب اور قومی تفاخر نے ماضی میں مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی ترقی میں رکاؤٹ پیدا کی ہو گی، اب یہ احساسات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں مگر ان کے راستے میں بڑی رکاؤٹ افلاس ہے۔۔۔‘‘ 20؎ انجمن حمایت اسلام کے منتظمین کو بھی اس حقیقت کا احساس تھا کہ پنجاب کے مسلمان تعلیمی پسماندگی اور افلاس کا شکار ہیں اسی حالت کی بدولت مسلمانوں کی تعلیمی ترقی گویا انجمن حمایت اسلام کا نصب العین تھا۔ اس لئے لائق اور ہونہار طالب علموں کی سرپرستی انجمن اپنی ذمہ داری خیال کرتی تھی۔ مگر انجمن کے تعلیمی اور فلاحی پروگراموں کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی۔ ’’ انجمن ملی چندہ کے ذریعہ چلتی تھی۔ اس لئے چندہ جمع کرنے کے لئے وسائل کی تلاش رہتی تھی۔ سالانہ اجلاسوں کا اہتمام بھی چندہ کی سرفراہمی کا ایک ذریعہ تھا ان دنوں انجمن کا سالانہ جلسہ پنجاب اور بیرون پنجاب والوں کے لئے ایک طرح کا علمی میلہ بن گیا تھا۔‘‘ 21؎ مولانا غلام رسول مہر نے انجمن کے سالانہ جلسوں کے کردار کے بارے میں لکھا ہے: ’’ اسلامیت کے احیاء میں انجمن کے کارناموں کا۔۔۔ ایک اور پہلو بھی ہے، جس میں انجمن کو یگانہ حیثیت حاصل ہے۔ وہ اس کے سالانہ اجلاس ہیں۔ یہ اجلاس دین حق، اسلامی اقدار، اسلامی علوم اور اسلامی ثقافت کے فروغ اور نشر و اشاعت کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گئے۔ پاک و ہند کے تمام بڑے بڑے عالم، خطیب، شاعر اور محقق ان جلسوں میں شریک ہونے لگے۔ مولانا حالی، مولانا شبلی، مولانا سلیمان پھلواری، مولانا اصغر علی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا ثناء اللہ، مولانا نذیر احمد دھلوی اور سینکڑوں دوسری ممتاز ہستیاں یہاں آتی تھیں اور ہر سال تین دن تک مسلمانوں کا بہت بڑا اجتماع عوام اور خواص میں زندگی کی تازہ روح پھونکنے کا باعث بنا رہتا تھا۔ پھر یہی سالانہ اجلاس ہیں جن میں حضرت علامہ اقبال نے نظمیں پڑھیں اور ان کی ابتدا صدی کے پہلے سال سے ہوئی۔۔۔۔‘‘ 21؎ گزشتہ صفحات میں1877ء کے جتنے تاریخی اور یادگار واقعات بیان ہوئے وہ سب اپنے اثرات کے باوجود کم و بیش ہنگامی نوعیت کے ثابت ہوئے مگر1877ء کا ایک واقعہ (جس کا ابھی ذکر نہیں ہوا) جریدہ عالم پر نقش دوام کی حیثیت رکھتا ہے ہماری مراد علامہ اقبال کی پیدائش سے ہے جو اسی سال کا واقعہ ہے۔ نفسیات، معاشرتی نفسیات اور عمرانیات کے مطابق فرد کی شخصیت کی تشکیل میں دو عناصر یعنی وراثت اور ماحول کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اے جے ولکنز (E.J. Wilkins) نے وراثت اور ماحول کے تقابل کی بحث میں لکھا ہے: ’’ جو بچہ بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ اپنے والدین سے بعض خاص خصوصیات ورثے میں پاتا ہے۔ جو ان تک ان کے آباؤ اجداد سے منتقل ہوئی ہوتی ہیں۔ بچہ اپنے مادی (میٹریل) اور سماجی (سوشل) گرد و پیش میں پلتا بڑھتا ہے اور جیسا شخص وہ بنتا ہے اور جو کچھ وہ کرتا ہے وہ سب وراثت اور ماحول کے پیچیدہ تفاعل سے متعین ہوتا ہے۔ یہ دو عناصر فرد کی شخصیت کی صورت گری کے مکلف ہیں‘‘ 23؎ فلسفہ تعلیم کے مشہور ماہر جان ڈیوی نے تربیت میں سماجی ماحول کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: ’’ سماجی ماحول افراد کو ایسے اعمال میں مشغول رکھ کر جو کہ چند ان ہیجانات کو ابھارتے اور مضبوط کرتے ہیں جو بعض مقاصد کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض نتائج پیدا کرتا ہے۔ ان میں طرز عمل کے چند جذباتی اور ذہنی نہج کی تشکیل کرتا ہے۔۔۔۔ ہر چند، ماحول کا یہ غیر شعوری عمل اتنا دقیق اتنا نفوذ پذیر ہوتا ہے کہ وہ کردار اور دماغ کے ہر ہر ریشہ کو متاثر کر دیتا ہے۔۔۔ یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ ہدایت و نصیحت کے مقابل دوسرے کی مثال زیادہ اثر انداز ہوا کرتی ہے جیسا کہ ہم کہا کرتے ہیں اچھے اطوار اچھی تربیت سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ تربیت کسی قسم کی معلومات مہیا کرنے سے نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ متعاد مہیجات سے پیدا شدہ معتاد عمل سے پیدا ہوتی ہے گو یہ صحیح ہے کہ شعوری اصلاح اور تعلیم برابر اپنا اثر کرتی رہتی ہے مگر نتیجہ میں ارد گرد کی فضا اور مزاج و روح ہی اطوار کی تشکیل میں سب (سے) نمایاں سبب بنتی ہے۔‘‘ 24؎ سماجی ماحول ایک مختلف جہات رکھنے والی اصطلاح ہے۔ لہٰذا پیش نظر مطالعہ کے لئے اس کی حدود کا تعین کرنا ضروری ہے۔ مشہور عمرانی عالم چارلس ہارٹن کو لے نے سماجی ماحول کو جو فرد کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے دو گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ جنہیں اس نے پرائمری گروپ اور ثانوی گروپ کا نام دیا ہے۔ پہلے گروپ میں خاندان اور ہمجولی، دوسرا گروپ جو نسبتاً بڑا گروپ ہے اس کے ساتھ فرد کے تعلقات کم و بیش غیر شخصی ہوتے ہیں۔ کولے کے مطابق پرائمری گروپ (خصوصاً افراد خانہ) کے ساتھ پیوستگی کے ذریعہ فرد کا تصور ذات نشوونما پاتا ہے۔ 25؎ کوئینگ (Koring) نے فرد کی سماجی تربیت (Socialization) کی بحث میں لکھا ہے۔ اگرچہ فرد کی سماجی تربیت میں طبعی ماحول بھی حصہ لیتا ہے لیکن حقیقتاً سماجی ماحول ہی فیصلہ کن عنصر ہے۔ خصوصاً بچے کے ارد گرد افراد میں اس کے سب سے زیادہ قریب اس کی ماں ہوتی ہے۔ فرد کو اپنی ابتدائی زندگی میں جن افراد سے واسطہ پڑتا ہے ان میں وہ اہم ترین فرد ہوتی ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے ماں کے بعد باپ اور دوسرے اہل خانہ کی باری آتی ہے۔ اس تنگ دائرے کے اندر فرد اولین اور مستقل تاثرات قبول کرتا ہے۔ 26؎ اقبال کی زندگی کے ابتدائی مرحلہ پر سماجی تربیت میں ان کے والدین کے سماجی، اخلاقی اور مذہبی رویوں گویا اسلوب زیست کا حصہ بنیادی ہے۔ اقبال کے والدین ان کے لئے مثالی شخصیت اور کرداری نمونہ تھے۔ اقبال جمعہ 3ذیقعد 1294ھ (مطابق 9نومبر1877ئ) کی صبح پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 27؎ اقبال کے والد شیخ نور محمد ایک صوفی منش انسان تھے۔ بقول جاوید اقبال: ’’ ۔۔۔۔ انہوں نے (والد اقبال) نے کسی مکتب میں تعلیم نہ پائی تھی مگر شائد حروف شناس ہونے کے سبب اردو اور فارسی کی چھپی ہوئی کتابیں پڑھ سکتے تھے۔ وہ اصول کے پکے، عالی ظرف، بردبار، مخالفوں یا ناحق ایذا پہنچانے والوں کو معاف کرنے والے، طبیعت کے سادہ، نیک، شفیق، حلیم اور صلح کن تھے۔ فوق کے بیان کے مطابق تجارت پیشہ ہونے کے باوجود صوفیاء یا علماء کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے صوفیاء یا علماء کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے شریعت اور طریقت کے نکات و رموز سے پورے آگاہ تھے۔ شب بیدار رہنے اور نماز تہجد ادا کرنے کے عادی تھے۔ کلام اللہ کی تلاوت اکثر کرتے رہتے اور اسی کو دین و دنیا کی ترقی کا سبب سمجھتے تھے۔ ان کی یہی تاکید اپنی اولاد کو بھی تھی چونکہ وہ فکر کی عادت کے علاوہ تصوف کی پیچیدگیوں سے بھی آشنا تھے۔ اس لئے بعض ہم عصر اکابر انہیں ان پڑھ فلسفی کہتے تھے، بعض لوگ تصوف کے مشکل مطالب کی تشریح کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔‘‘ 28؎ اقبال کے بعض خطوط سے بھی ان کے والد کے متصوفانہ اشغال اور حکیمانہ نکات کے اظہار کی شہادت ملتی ہے۔ علاوہ ازیں اقبال کی فکری، فنی اور تخلیقی زندگی میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔ آئندہ صفحات میں مذکور ہے کہ اسرار خودی کی تصنیف کے محرکات میں اولین محرک ان کے والد کی اقبال سے بو علی قلندرؒ کی طرز پر ایک مثنوی قلمبند کرنے کی فرمائش ہے۔ اقبال کی والدہ بھی اخلاقی اور روحانی خصوصیات سے متصف تھیں۔ وہ ایثار پیشہ اور غمگسار ہونے کے علاوہ نماز روزہ کی پابند تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا بچپن کس قدر مذہبی اور دینی ماحول میں گزرا۔ گویا اقبال کے جذباتی سانچہ کی ساخت، ذہنی نشوونما اور فکر و عمل کی بنیاد استوار کرنے میں متذکرہ ماحول نے قابل قدر اور مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ’’ التجائے مسافر‘‘ کے ایک شعر میں اپنے والدین کے ساتھ سعادت مندی کا جس گرمجوشی اور جذبے کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ اس سے ان کے والدین کے انداز تربیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال کی دعا ملاحظہ کیجئے: پھر آرکھوں قدم مادر و پدر پہ جبیں کیا جنہوں نے محبت کا راز داں مجکو ’’ والدہ مرحومہ کی یا دمیں‘‘ ایک بند ذاتی حوالے سے بیان ہوا ہے۔ جس میں اقبال اپنی والدہ کی تربیت اور پرورش اور اس کے نتائج کا اعتراف کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اشعار میں لکھتے ہیں: تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات بچہ کی عمر میں ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے سماجی ماحول کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے اور اس کی گھر سے باہر سرگرمیوں کا آغاز ہو جاتاہے خصوصاً سکول جانے والے بچوں کے دن کا بڑا حصہ سکول میں گزرنے لگتا ہے۔ اس لئے والدین سے ان کا رابطہ کم ہو جاتا ہے۔ 29؎ اور یوں بچے کی سماجی تربیت میں سکول کے ماحول اور استاد کے رویے کو بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ سکول میں بچے کی کارکردگی صرف اس کی ذہنی استطاعت پر انحصار نہیں رکھتی۔ استاد کی لیاقت اور رویے، گھریلو زندگی، دوست ساتھی اور سکول انتظامیہ سب تعلیمی عمل کے حاصل کو متعین کرنے میں اہم ہوتے ہیں۔ 30؎ ایک لائق استاد کی اپنے ذہین شاگرد پر توجہ، حوصلہ افزائی اور سرپرستی نہ صرف طالب علم کی آموزش کی صلاحیت کو ترقی دیتی ہے بلکہ اس کو اعتماد اور ایقان کی دولت سے بھی مالا مال کرتی ہے۔ اقبال کی زندگی حسن اتفاق او رخوش بختی کی بہترین مثال ہے۔ علامہ کو اپنی تعلیم کے ہر مرحلہ پر اپنے زمانے کے عالم و فاضل، لائق اور نامور اساتذہ سے استفادہ کرنے اور علمی فیضان حاصل کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ برصغیر میں بیسویں صدی کے اوائل تک عام مسلمانوں میں یہ خصوصی دستور رہا ہے کہ والدین تقریباً پانچ سال کی عمر میں اپنے بچے کو درس قرآن اور ابتدائی عربی و فارسی تعلیم کے لئے مکتب یا مسجد میں بٹھا دیا کرتے تھے۔ اقبال کے والد بھی انہیں چار سال چار ماہ کی عمر میں سیالکوٹ کے محلہ شوالہ کی مسجد میں مولانا غلام حسن کے پاس قرآن خوانی سکھانے کے لئے گئے 31؎ ایک دن مولانا سید میر حسن نے اس مکتب میں اقبال کو دیکھا تو انہوں نے شیخ نور محمد کو مشورہ دیا کہ: ’’ اس بچے کو محض دینی تعلیم دلوانا کافی نہیں بلکہ اسے جدید تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ضروری ہے۔۔ شیخ نور محمد نے کچھ دن تو پس و پیش کیا مگر سید میر حسن کے اصرار پر اقبال کو ان کے سپرد کر دیا چنانچہ اقبال نے۔۔۔ سید میر حسن کے ہاں مکتب میں اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کر دیا۔۔۔۔ یہ سلسلہ تقریباً تین سال تک جاری رہا۔ اسی دوران سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ چونکہ وہ مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے زبردست حامی تھے۔ اس لئے انہوں نے شیخ نور محمد کی رضا مندی حاصل کر کے اقبال کو اسکاچ مشن اسکول میں داخل کرا دیا۔۔۔۔‘‘ 1891ء میں اقبال نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور نویں جماعت میں داخل ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر چودہ پندرہ سال تھی۔۔۔ اقبال نے 1893ء میں میٹرک کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن لے کر کامیابی حاصل کی اور تمغہ و وظیفہ بھی پائے۔۔۔ 1895ء میں اسکاچ مشن کالج سے اقبال نے ایف اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔۔۔ ان کے خاندان میں صرف شیخ عطا محمد (بڑے بھائی) ہی کمانے والے تھے۔ شیخ نور محمد اپنا کاروبار قریب قریب ترک کر چکے تھے۔۔۔ مالی اعتبار سے اپنا سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کے لئے اقبال، شیخ عطا محمد کے دست نگر تھے کیونکہ اقبال کو اگر شیخ عطا محمد کی اعانت میسر نہ آتی تو ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا۔۔۔۔ 32؎ اقبال کے خاندان کی متذکرہ مالی حالت کے پیش نظر قیاس یہ ہے کہ اقبال کو مزید تعلیم کے لئے لاہور بھیجنے پر کچھ نہ کچھ ضرور پس و پیش ہوئی ہو گی اور آخری فیصلہ میں میر حسن کی رائے، مشورہ اور تائید بھی موثر رہی ہو گی۔ بہرحال سید میر حسن کی شخصیت کے اقبال کی زندگی پر گہرے علمی اور اخلاقی اثرات مرتب ہوئے۔ اقبال کی نظر میں اپنے شفیق استاد کی تقدیس، تعظیم اور تحریم کا کیا درجہ تھا؟ مولانا مرحوم و مغفور سے متعلق ’’ التجائے مسافر‘‘ کے حسب ذیل اشعار سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔ وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجکو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجکو دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجکو اقبال کی سکول او رکالج میں تعلیمی زندگی بلاشبہ میر حسن کی مرہون منت ہے۔ علاوہ ازیں اقبال کی طبیعت میں علمی رنگ اور شاعرانہ افتاد کو پختہ کرنے میں بھی میر حسن کی شخصیت کو بہت ہی دخل رہا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق اقبال پر تعارفی اور سوانحی نوعیت کا سب سے پہلا مضمون شیخ عبدالقادر نے قلمبند کیا تھا جو رسالہ خدنگ نظر لکھنو کے شمارہ مئی 1902ء میں شائع ہوا تھا۔ جسے عتیق صدیقی نے دریافت کیا ہے۔ اس میں شیخ عبدالقادر نے اقبال پر سید میر حسن کے فیضان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ ۔۔۔۔۔ مولوی صاحب کی یہ عادت ہے کہ اگر کسی شاگرد کو ہونہار دیکھیں تو اسے معمولی درس تعلیم تک محدود نہیں رہنے دیتے بلکہ خارج از وقت مدرسہ اسے بعض دلچسپ اور مفید کتابوں پر عبور کرا دیتے ہیں۔پس جب سید میر حسن جیسے استاد کو اقبال سا شاگرد مل گیا تو انہوں نے کوئی دقیقہ ان جوہروں کو جلا دینے میں جو قدرت نے طبیعت میں امانت رکھے تھے تھا اٹھا نہیں رکھا۔ سید صاحب کا خاصہ تھا کہ باوجود خود ذوق شعر میں سرشار ہونے کے اکثر طلبہ کو شاعری سے روکتے تھے مگر اقبال کی طبیعت کا اندازہ انہوں نے شروع سے ہی کر لیا تھا اور اس کے ذوق شعر کی قدرتی ترقی کو چپکے چپکے دیکھتے گئے اور کبھی اس کو گھٹانے کی کوشش نہیں کی۔ شعر کا شوق تو اقبال نے بچپن سے پایا تھا۔ اس کے والد کی زبانی ایک دوست کو معلوم ہوا ہے کہ بچپن میں جو پیسے جیب خرچ کے لئے گھر سے ملتے تھے ان کے منظوم قصے خرید لاتا تھا اور زبانی یاد کر لیتا تھا مگر سید میر حسن صاحب کے فیضان صحبت کے زمانے میں اس شوق کو بے حد ترقی ہوئی۔ سید صاحب کو بے شمار اچھے اچھے شعر اساتذہ کے زبانی یاد ہیں۔ جو شعر وہ پڑھتے تھے اقبال اسے لکھ لیتا اور یاد کر لیتا۔ دیوان غالب سبقاً ان سے پڑھا اور ’’ ناصر علی سرہندی‘‘ کے دلآویز فارسی شعر بھی اسی زمانے میں نظر سے گزرے۔‘‘ 33؎ اقبال نے کئی مواقع اور بعض خطوں میں میر حسن کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ 34؎ وہ مثنوی رموز بیخودی کی تصنیف کے دوران مولانا موصوف سے بھی مشورہ کرتے رہے تھے۔ 1918ء میں اس مثنوی کی اشاعت اول میں دیباچہ کے آخر میں اقبال مولوی میر حسن اور گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ استاذی حضرت قبلہ مولانا مولوی سید میر حسن صاحب وام فیضہم، پروفیسر مرے کالج سیالکوٹ اور مولانا شیخ غلام قادر صاحب گرامی شاعر خاص حضور نظام دکن خلد اللہ ملکہ وجلالہ میرے شکریہ کے خاص طور پر مستحق ہیں کہ ان دونوں بزرگوں سے بعض اشعار کی زبان اور طرز بیان کے متعلق قابل قدر مشورہ ملا۔‘‘ 35؎ اقبال نے 1895ء میں گورنمنٹ کالج لاہو رمیں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور کالج کے کو آرڈینگل ہوسٹل میں رہائش پذیر ہوئے۔ اقبال کے دوست غلام بھیک نیرنگ نے اپنی بعض یادداشتوں پر مبنی ایک مضمون ’’ اقبال کے بعض حالات‘‘ میں بورڈنگ ہاؤس کی صحبتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ جن سے اقبال کی شعر خوانی اور ادبی دلچسپیوں کا حال معلوم ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں درج ذیل اقتباس سے اس زمانے میں اقبال کے ادبی نصب العین کا پتہ چلتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ ہماری ان سہ سالہ صحبتوں میں اقبال اپنی ایک سکیم بار بار پیش کیا کرتے تھے۔ ملٹن کی مشہور نظم Paradise Regainedاور Paradise Lost کا ذکر کر کے کہا کرتے تھے کہ واقعات کربلا کو ایسے رنگ میں نظم کروں گا کہ ملٹن کی Paradise Lost کا جواب ہو جائے۔ مگر اس تجویز کی تکمیل کبھی نہیں ہو سکی۔ بس اتنا اور کہہ دوں کہ اردو شاعری کی اصلاح و ترقی کا اور اس میں مغربی شاعری کا رنگ پیدا کرنے کا ذکر بار بار آیا کرتا تھا۔‘‘ 36؎ اقبال کی لاہور میں آمد سے پیشتر ہی یہاں بھاٹی دروازے کے اندر انجمن مشاعرہ کے زیر اہتمام مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے۔ نومبر1895ء کی ایک شام اقبال کے چند ہم جماعت انہیں کھینچ کر اس مجلس مشاعرہ میں لے گئے۔ اقبال نے اس مجلس میں پہلی بار پبلک طور پر غزل پڑھی۔ 37؎ جس پر مرزا ارشد گورگانی جیسے استاد شاعر نے بھی خوب داد دی۔ اس سے اقبال لاہور کے ادبی حلقوں میں متعارف ہو گئے اور مجلس مشاعرہ کی آئندہ نشستوں میں باقاعدہ شریک ہونے لگے۔ فروری 1896ء میں انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے پہلے اجلاس میں اقبال نے ایک نظم پڑھی۔ جو 1909ء کے کشمیری میگزین میں ان کی نظر ثانی اور اجازت کے بعد شائع ہوئی۔ 38؎ اور اب باقیات اقبال میں ’’ فلاح قوم‘‘ کے نام سے شامل ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اقبال نے زمانہ طالب علمی ہی میں ثقافتی اور مجلسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور آہستہ آہستہ ان کے شیخ عبدالقادر، میاں محمد شاہ دین، چودھری شہاب الدین، فقیر سید نجام الدین اور مولوی احمد دین وغیرہ سے روابط قائم ہو گئے۔ اقبال نے 1897ء میں بی اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج ہی میں ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا جس کا امتحان1899ء میں پاس کیا۔ 39؎ گیرٹ کے بیان کے مطابق آرنلڈ نے 11فروری1898ء کو گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر فلسفہ کا منصب سنبھالا 40؎ آرنلڈ نے اقبال کے ذوق علم کو بہت متاثر کیا۔ آرنلڈ خود بھی اقبال کی ذہانت سے متاثر ہوئے۔ا قبال کے زمانہ طالب علمی میں آرنلڈ ان کے بارے میں بہت ہی عمدہ رائے رکھتے تھے۔ ’’ آرنلڈ اقبال کے اس قدر مداح بن گئے کہ ان کے متعلق انے احباب سے اکثر کہتے کہ ایسا شاگرد استا دکو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے۔‘‘ 41؎ آرنلڈ کا یہ قول عام طور پر دہرایا جاتا ہے۔ فوق نے کشمیری میگزین اپریل 1909ء میں سوانح اقبال پر ایک مضمون شائع کیا۔ جو بشیر احمد ڈار کے مطابق اس نوعیت کی پہلی کوشش تھی۔ 42؎ یہی مضمون فوق کے دوسرے مضمون ’’ ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال مختصر سوانح حیات‘‘ میں ابتدائی حصہ کے طور پر نیرنگ خیال ستمبر و اکتوبر1932ء کے اقبال نمبر میں شائع ہوا۔ ان دونوں مضمونوں میں آرنلڈ کا یہ قول درج ہے۔ اس کے بعد ذکر اقبال میں مولینا سالک نے یہ قول اگر واوین میں نقل کیا ہے مگر انہوں نے حوالہ نہیں دیا۔43؎ معلوم ہوتا ہے 1902ء میں شیخ عبدالقادر کا سوانح اقبال پر تحریر کردہ مضمون بشیر احمد ڈار مرحوم کے پیش نظر نہ تھا۔ ورنہ وہ فوق کے مضمون کو سوانح اقبال کے سلسلے کی پہلی کوشش قرار نہ دیتے۔ بہرحال خدنگ نظر لکھنو شمارہ مئی 1902ء میں شائع ہونے والا شیخ عبدالقادر کا مضمون فوق کا ماخذ ہے۔ شیخ صاحب نے لکھا تھا: ’’ ۔۔۔۔۔۔ ایم اے میں بھی فلسفہ پڑھنے کا شوق ہوا۔ اور اس شوق کا زیادہ تر باعث یہ تھا کہ اس زمانے میں مسٹر ٹی ڈبلیو، آرنلڈ صاحب جو علی گڑھ کالج کے مشہور پروفیسر تھے گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ فلسفہ دانی میں ان کی شہرت عالمگیر ہے محتاج بیان نہیں اور اس شہرت نے اقبال کو بے اختیار اپنی طرف کھینچا۔ مگر قابل ذکر یہ امر ہے کہ شاگرد کی طبیعت یہاں بھی مشفق استاد کے لئے اچھا خاصہ مقناطیس ثابت ہوئی۔ جادو عجب نگاہ خریدار دل میں تھا بکتا ہے ساتھ بیچنے والا بھی مال کے خود آرنلڈ صاحب بھی اقبال کی تیز فہمی اور اس کے فلسفیانہ دماغ کے معترف ہو گئے انہوں نے اسے شاگردی کے مرتبت سے رفتہ رفتہ دوستی کے اعزاز تک پہنچا دیا ہے اور اقبال کے بہترین دوستوں اور عنایت فرماؤں میں ہیں۔ وہ ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کا محقق بنا دیتا ہے اور محقق کو محقق تر۔ کئی مسئلے دوران تعلیم میں ایسے آئے جن کی تحقیقات مزید کی غرض سے آرنلڈ صاحب بہادر کو یورپ کے نامور فلسفہ دانوں سے خط و کتاب کرنی پڑی اور یہ خط و کتابت استاد و شاگرد دونوں کے لئے مفی ثابت ہوئی۔۔۔۔۔‘‘ 44؎ فوق کا بیان ملاحظہ کیجئے: ’’ ۔۔۔۔ انہیں دنوں مسٹر ڈبلیو آرنلڈ صاحب علی گڑھ کالج سے گورنمنٹ کالج میں چلے آئے۔ فلسفہ دانی میں آرنلڈ صاحب کی شہرت عالمگیر ہے، محتاج بیان نہیں۔ اس شہرت نے اقبال کو بے اختیار اپنی طرف کھینچا۔ آرنلڈ صاحب بھی اس ہونہار طالب علم کی تیز فہمی اور اس کے فلسفیانہ دماغ کے معترف ہو گئے اور اقبال کی تحقیقات علمی اور اس کی فلسفیانہ طبیعت کے متعلق ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کو محقق بنا دیتا ہے اور محقق کو محقق تر۔۔۔۔‘‘ 45؎ نیرنگ خیال اقبال نمبر میں مندرجہ بالا اقتباس ایک دو معمولی لفظی تبدیلیوں اور ایک آدھ جگہ فقروں کی ترتیب میں فرق کے ساتھ درج کر دیا گیا ہے۔ 46؎ آرنلڈ کے ساتھ اقبال کے تعلق خاطر کا اندازہ ان کی نظم ’’ نالہ فراق‘‘ سے بخوبی ہو جات اہے جو اس وقت کہی گئی جب آرنلڈ ہندوستان میں اپنی ملازمت کا سلسلہ منقطع کر کے اوائل 1904ء میں انگلستان چلے گئے۔ یورپ میں اقبال کی تعلیمی زندگی میں بھی آرنلڈ رہبر و راہنما رہے۔ 1908ء میں لندن سے علامہ اقبال کا تحقیقی مقالہ کتابی شکل میں The Development of Metaphysics in Persia کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا آرنلڈ کے نام انتساب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: My Dear Mr. Arnold, This little book is the first-fruit of that literary and philosophical training which I have been reveiving frost you for the last ten years, and as an expression of gutitiude I bed to dedicate it to your name. you have always judged me liberally i hope you will judge these pages in the same spirit Your affectionate pupil Iqbal 47؎ ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اقبال نے باقاعدہ عملی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ ’’ 13مئی 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے۔‘‘ 48؎اور اس حیثیت میں وہ تقریباً چار سال یعنی مئی 1903ء تک اورینٹل کالج میں کام کرتے رہے۔ اسی دوران اقبال نے چھ ماہ کے لئے رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں عارضی آسامی پر اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی خدمات انجام دیں۔اقبال نے کچھ عرصہ اسلامیہ کالج میں بھی شیخ عبدالقادر کی جگہ انگریزی پڑھائی۔ اورینٹل کالج سے انقطاع ملازمت کے بعد بطور اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی گورنمنٹ کالج میں دوبارہ تعیناتی ہوئی۔ جس کا انہوں نے 3جون 1903ء کو چارج لیا۔ بعد ازاں ان کی مدت ملزمت میں توسیع ہوتی رہی۔ اس عرصہ میں فلسفہ کی تدریس بھی ان کے سپرد ہوئی۔ آپ اسی منصب پر فائز تھے جب یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے انہوں نے یکم اکتوبر1905ء سے تین سال کی بلا تنخواہ رخصت لی 49؎ مگر محمد حنیف شاہد کے مطابق: ’’ ستمبر1905ء میں اقبال نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور سے تین سال کی ’’ رخصت خاص‘‘ حاصل کی۔‘‘ 50؎ ’’ وہ یکم ستمبر1905ء کو لاہور سے (براستہ دہلی، بمبئی) انگلستان روانہ ہوتے ہیں ‘‘ 51؎ خود اقبال مورخہ 12ستمبر1905ء کو ایڈیٹر وطن کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں: ’’ 3ستمبر کی صبح کو میرنیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہو کر بمبئی کو روانہ ہوا۔‘‘ 52؎ اقبال کی زندگی میں1900ء سے 1905ء تک کا زمانہ تعلیم و تدریس کے علاوہ تخلیق، تصنیف و تحقیق کے اعتبار سے بڑا اہم ہے۔ 1900ء میں انجمن حمایت اسلام سے اقبال کی وابستگی کا آغاز ہوا۔ اقبال نے پہلی بار24فروری 1900ء کو انجمن کے سالانہ اجلاس میں، مولانا ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی زیر صدارت اپنی نظم نالہ یتیم پڑھی۔ جس نے سامعین کو رلا دیا۔ اس کے بعد انگلستان روانہ ہونے تک ہر سال انجمن کے سالانہ جلسوں میں اقبال کی نظم خوانی ایک دستور بن گئی تھی۔ یہاں ان نظموں کے سن وار نام درج کئے جاتے ہیں: 24فروری 1901ء (ایک یتیم کا خطاب ہلال عید سے) 22فروری 1902ء (خیر مقدم و دین و دنیا) 23فروری 1902ء (اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے) 27فروری تا یکم مارچ1903ء کے اجلاس میں (فریاد امت) 2اپریل 1904ء (تصویر درد) 1905ء کے اجلاس میں اقبال نے کوئی نظم نہ پڑھی 53؎ غالباً انگلستان روانہ ہونے کی تیاری میں وہ نظم نہ لکھ سکے۔ اقبال کی نظم ہمالہ رسالہ مخزن لاہور کے پہلے شمارہ بابت اپریل 1901ء میں شائع ہوئی۔ بقول شیخ عبدالقادر: ’’ یہاں سے گویا اقبال کی اردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز ہوا‘‘ 54؎ اس کے بعد مخزن میں متواتر ان کی منظومات مندرجہ ذیل حساب سے شائع ہوتی رہیں: 1901ء (5نظمیں) 1902ء (8نظمیں) 1903ء (7نظمیں) 1904ء (10نظمیں) 1905ء (8نظمیں) ان کے علاوہ 14غزلیں اور قطعات بھی شائع ہوئے 55؎ تفصیل کے لئے دیکھئے مفکر پاکستان مولفہ محمد حنیف شاہد، قیام انگلستان کے دوران انہوں نے جو نظمیں تخلیق کیں وہ تعداد میں زیادہ نہیں۔ تقریباً یہ تمام نظمیں بھی مخزن میں شائع ہوئی تھیں۔ بانگ درا حصہ دوم کم و بیش انہیں نظموں پر مشتمل ہے۔ اسی زمانے میں اقبال نے انگریزی اور اردو نثر کو بھی اپنے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ رسالہ انڈین اینٹی کیوری بمبئی کے شمارہ ستمبر1900ء میں ان کا ایک نہایت بلند پایہ انگریزی مضمون ’’ عبدالکریم جیلی کا نظریہ توحید مطلق‘‘ شائع ہوا 56؎ مخزن میں مندرجہ ذیل مضامین شائع ہوئے: بچوں کی تعلیم و تربیت (جنوری 1902ئ) زبان اردو (ستمبر1902ئ) اردو زبان پنجاب میں (اکتوبر1903ئ) قومی زندگی (مخزن اکتوبر1904ء و مارچ1905ئ) علاوہ ازیں معاشیات کے موضوع پر ایک باقاعدہ تصنیف 1904ء میں علم الاقتصاد کے نام سے شائع ہوئی۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اگرچہ 1857ء کے بعد سے ہی سیاسی فضا ناسازگار چلی آ رہی تھی۔ مگر1900ء سے 1905ء کے دوران بعض ایسے سیاسی واقعات پیش آئے۔ جو ہندی مسلمانوں کے لئے ہر لحاظ سے ناگوار تھے۔ سرسید کے انتقال سے تھوڑے ہی دن پہلے 1867ء کے بعد دوسری بار شمال مغربی اور اودھ کے صوبوں کے سر بر آوردہ ہندوؤں نے کوشش کی کہ سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں اردو کی جگہ ہندی دیو ناگری رسم الخط رائج ہو جائے۔ آخر ان کی کوششیں بار آور ہوئیں اور یو پی کے لیفٹیننٹ گورنر میکڈانل نے 19اپریل 1900ء کو ایک حکم کے ذریعے دیو ناگری رسم الخط میں ہندی کے استعمال کی اجازت دے دی۔ 57؎ نواب محسن الملک نے علی گڑھ اور دوسرے اضلاع کے مسلمانوں کو بلا کر 13مئی 1900ء کو ایک جلسہ کیا۔ اس میں متفقہ طور پر ایک انجمن، اردو ڈیفنس سوسائٹی قائم کی گئی۔ 58؎ اردو ہندی تنازعہ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ 59؎ ہندوؤں نے مختلف شہروں میں ہندی کی ترقی اور ترویج کے لئے سبھائیں قائم کیں۔ بقول عزیز احمد: ’’ ہندوؤں کی ان انجمنوں کے رد عمل کے طور پر 1903ء میں انجمن ترقی اردو کا قیام مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی پیداوار ہے۔ مولانا شبلی اس انجمن کے پہلے سیکرٹری ہوئے۔ لیکن اس وقت تک ہندو اور مسلم علیحدگی پسندی کی جدوجہد لسانی تنازع سے گزر کر باقاعدہ سیاسی مسئلہ بن گئی تھی۔‘‘ 60؎ برصغیر کے مسلمان کانگرس سے بہت مایوس تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک سیاسی جماعت کی تشکیل پر غور و خوض کے لئے 21 اور 22اکتوبر 1901ء کو لکھنو میں سرکردہ مسلمانوں کا اجلاس بلایا۔ اس میں پولیٹکل ایسوسی ایشن کے قیام کی تجویز متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ چونکہ ابھی اس نوع کی پولیٹکل ایسوسی ایشن کے لئے فضا سازگار نہ تھی۔ اس لئے مسلمانوں کو اپنی سیاسی تنظیم کا کچھ سال انتظار کرنا پڑا۔ 61؎ جن دنوں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان روانہ ہوئے۔ چند دنوں کی کمی بیشتی سے ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے سیاسی اثرات کے لحاظ سے بہت ہی دور رس کہا جاتا ہے۔ لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے انتظامی نقطہ نظر سے صوبہ بنگال کو تقسیم کرنے کی ایک تجویز منظوری کے لئے لندن ارسال کی ۔ انڈیا کے سٹیٹ سیکرٹری نے جون 1905ء میں اس کی منظوری دے دی۔ لہٰذا ستمبر میں نئے صوبے کی تشکیل کا اعلان کر دیا گیا۔ مشرقی بنگال اور آسام کا صوبہ 16اکتوبر 1905ء کو باقاعدہ وجود میں آ گیا۔ 62؎ اسے ہندوؤں نے انگریزوں کی طرف سے مسلمانوں کی سرپرستی سے تعبیر کیا۔ بنگال کی تقسیم کے خلاف ہندوؤں نے فوراً ایجی ٹیشن کا آغاز کر دیا۔ 63؎ بنگالیوں نے اس ایجی ٹیشن کو ایک پر تشدد تحریک بنا دیا اور جلد ہی یہ تحریک ہندو مسلم فسادات کی شکل اختیار کر گئی 64؎ اس صورت حال کی تفصیلات برطانوی پریس میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ اقبال نے جو1905ء تک متحدہ ہندی قومیت کے قائل ایک وطن پرست شاعر تھے، ہندوستان کے ان سیاسی حالات سے متاثر ہوئے اور جیسے جیسے ہندوستان کے سیاسی حالات نیا رخ اختیار کرتے گئے۔ ان کے مطابق اقبال بھی اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے پر مجبور ہوتے چلے گئے۔ اقبال 29ستمبر1905ء کو لندن پہنچے۔ اپنے 25نومبر1905ء کو محررہ خط میں لکھتے ہیں: ’’ مکان پر پہنچ کر رات بھر آرام کیا۔ دوسری صبح سے ’’ کام‘‘ شروع ہوا، یعنی ان تمام فرائض کا مجموعہ جن کی انجام دہی نے مجھے وطن سے جدا کیا تھا اور میری نگاہ میں ایسا ہی مقدس ہے جیسے عبادت‘‘ 65؎ اقبال نے یورپ کے قیام میں جیسی بھرپور زندگی گزاری، وہ فرض شناسی کے نہایت عمدہ مثال ہے۔ اقبال کا کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینٹی کالج میں داخلہ ہو چکا تھا۔ کیمبرج یونیورسٹی کا تعلیمی سال ’’یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے‘‘ 66؎ اقبال اسی حساب سے لندن پہنچے تھے۔ لہٰذا انہوں نے بر وقت اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ ان کے تعلیمی انہماک، لگن اور محنت کا یہ ثبوت ہے کہ انہوں نے تین سال کے مختصر عرصہ میں تین ڈگریاں حاصل کیں۔ عبدالسلام خورشید کے مطابق: ’’ اقبال نے 1906ء میں بی اے کینٹب کیا۔ 1908ء میں مڈل ٹمپل سے بیرسٹری کی سند حاصل کی اور درمیانی وقفے میں میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ اس کے لئے انہوں نے ایران میں ما بعد الطبیعیات کے نشوونما ارتقا پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔‘‘ 67؎ سوانح اقبال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے تعلیم کے علاوہ مجلسی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ اس زمانے کے مشہور علماء خصوصاً نکلسن اور براؤں جیسے بلند پایہ مستشرقین سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ اقبال کے استاد مشہور فلسفی میک ٹیگرٹ اقبال کی ذہانت اور صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے اور دونوں کے درمیان قریبی تعلق پیدا ہوا۔ اس کا اظہار ’’ میک ٹیگرٹ کے فلسفہ‘‘ پر اقبال کے انگریزی مضمون مطبوعہ 1932ء سے ہوتا ہے۔ جس میں ایک مقام پر اقبال نے بتایا ہے کہ ان کی میک ٹیگرٹ کے ساتھ قریب قریب روزانہ ٹرینٹی میں ان کے کمرے میں ملاقات ہوتی تھی اور اکثر ہماری گفتگو خدا کے موضوع کی طرف آ جاتی 68؎ اسی طرح اقبال کا ہائیڈل برگ (جرمنی) کا قیام دوسری باتوں کے علاوہ گوئٹے کے مطالعہ کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔ اقبال نے مس ویگیناسٹ کے نام خطوںمیں اس کا ذکر کیا ہے۔ 69؎ اقبال کی ہندوستان سے غیر حاضری کے زمانہ میں یوں تو بہت سے سیاسی واقعات پیش آئے مگر 30دسمبر1906ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ایک یادگار اور عہد ساز واقعہ ہے 70؎ مسلمانوں کی اس سیاسی جماعت کی تاسیس کے موقع پر تجویز ہوا تھا کہ دوسرے صوبوں میں بھی اس کی شاخیں قائم کی جائیں۔ چنانچہ میاں محمد شفیع بار ایٹ لاء کی سعی و کوشش سے ’’ 30 نومبر 1907ء کو پنجاب پراونشل مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا‘‘ 71؎ اس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت میاں محمد شاہ دین بار ایٹ لاء نے کی۔ انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا: ’’ مغربی تعلیم کے متعلق، جو جدید تہذیب کے حصول کے لئے ایک لازمی ذریعہ قرار دی جا چکی ہے، ہم مسلمان کچھ کر چکے ہیں اور کچھ کر رہے ہیں مگر موجودہ طرز حکومت کے نتائج سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے نہایت ضرور ہے کہ ہم محض تعلیمی ترقی پر اپنی قومی فلاح کا مدار نہ رکھیں بلکہ ضروریات زمانہ کے مطابق اپنے پولیٹیکل حقوق کا احساس حاصل کر کے ان کی کافی نگہداشت کریں۔۔۔۔ اور یہ امر بدیہی ہے کہ گزشتہ ملکی حالات اور چند قومی اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے، جو ہر حصہ دنیا میں کم و بیش پائے جاتے ہیں، ملک ہندوستان میں ہم مسلمانوں کے بعض قومی اغراض ان اغراض سے متحد نہیں ہیں جو دیگر اقوام ہند کے پیش نظر ہیں اور اس لئے ان اغراض کی تکمیل کے لئے ہمارا طریق عمل کسی حد تک بہت عرصہ کے لئے جداگانہ رہے گا۔۔۔۔ پس یہ امر لازمی ہے کہ ہم مسلمان اپنی خاص قومی ضروریات کا احساس کسی حد تک ایک علیحدہ بنیاد پر اور ایک مخصوص پیمانے پر کریں اور ان کے پورا کرنے کے وسیلے ایسے اختیار کریں جو ان وسیلوں سے نسبتاً علیحدہ ہوں جو دوسری ہمسایہ قوموں نے اپنے حالات اور خیالات کے مطابق اختیار کر رکھے ہیں۔۔۔۔‘‘ 72؎ اس اقتباس سے ظاہر ہوتاہے کہ 1907ء میں مسلمانان پنجاب ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے مسلمانوں سے مختلف اندا زمیں نہیں سوچ رہے تھے۔ بہرحال اقبال کو پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے قیام کی کسی نہ کسی ذریعہ سے خبر ملنے کا غالب امکان ہے۔ مثلاً اس خبر کا ایک ذریعہ شیخ عبدالقادر ہو سکتے ہیں جو اس اجلاس کے شرکاء میں ایک نہایت اہم شخصیت تھے۔ انہوں نے اجلاس ہذا میں پہلا ریزولیشن پیش کیا تھا۔ 73؎ آل انڈیا مسلم لیگ اپنے طور پر سرگرم عمل رہی۔ دسمبر1907ء میں اس کا پہلا سالانہ اجلاس کراچی میں پیر بھائی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ 74؎ ادھر انگلستان میں سید امیر علی کی زیر صدارت لندن میں مقیم مسلمانوں کا مئی 1908ء میں جلسہ ہوا جس میں آل ’’ آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ سید امیر علی کو اس کمیٹی کا صدر چنا گیا اور اقبال کمیٹی ہذا کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے۔ 75؎ انہوں نے انگلستان میں ہندوستان کے مسلم طلباء کی انجمنوں میں بھی حصہ لیا۔ جب وہ جولائی 1908ء میں انگلستان سے واپس ہندوستان روانہ ہوئے تو ان کے خیالات میں تبدیلی واقع ہو چکی تھی اب وہ ہندو مسلم اتحاد اور مشترک قومیت کے تصور کو ناقابل عمل سمجھنے لگے تھے۔ اقبال 27جولائی 1908ء کو دوپہر کی گاڑی سے لاہور پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ آپ اپنے احباب کے علاوہ عام لوگوں میں کس قدر مقبول تھے۔ اس کا اظہار ان کے پر جوش خیر مقدم سے ہوتا ہے جس کی تفصیلات ان کے سوانح حیات کے سلسلے میں مختلف کتابوں میں بیان ہوئی ہیں۔ خود اقبال نے مس ایما و یگیناسٹ کے نام 11جنوری 1909ء کے خط میں لکھا ہے: ’’ جب میں ہندوستان پہنچا تو میرے ہم وطنوں نے مجھے بہت بڑا اعزاز بخشا۔ میرے لئے اس کا لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔۔۔۔ جب میں لاہور پہنچا تو لوگوں نے مجھے سونے کا ہار پہنایا۔ بمبئی سے لے کر لاہور اور سیالکوٹ تک ہر اسٹیشن پر ہزار ہا لوگ جمع تھے جہاں میں نے دیکھا کہ بہت سے نوجوان اور بزرگ راستے کے اسٹیشنوں پر میری نظمیں گا رہے تھے‘‘ 76؎ انگلستان سے واپسی کے بعد ان کے سامنے سب سے اہم مسئلہ معاش اورروزگار کا مسئلہ تھا۔ کیونکہ وہ گونرمنٹ کالج لاہور کی ملازمت سے استعفاء دے چکے تھے۔ شاطر مدراسی کے نام 29 اگست 1908ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ میں ایک دو ماہ کے لئے سیالکوٹ میں مقیم رہوں گا۔ اس کے بعد لاہور میں بیرسٹری کا کام شروع کروں گا ملازمت کا سلسلہ ترک کر دیا ہے۔‘‘ 77؎ سیالکوٹ سے 3 ستمبر1908ء کو ویگنیاسٹ کے نام خط میں تحریر کرتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔۔ میں نے لاہور میں اپنے پیشے کے آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ ایک وکیل کے لئے اچھی جگہ ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ 78؎ اقبال نے چیف کورٹ میں وکالت کے لئے اجازت کی درخواست دی جو 22اکتوبر 1908ء کو منظور ہوئی۔ 30 اکتوبر1908ء کو نوٹیفکیشن کے مطابق ان کا وکلاء کے رجسٹر میں باقاعدہ اندراج ہو گیا۔ 79؎ دو ایک ماہ بعد 80؎ انہیں ایم اے او کالج علی گڑھ سے پروفیسر فلسفہ کے عہدہ کی پیشکش ہوئی۔ جو انہوں نے قبول نہ کی۔ اسی طرح اپریل 1909ء میں اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ 81؎ گورنمنٹ کالج کے پروفیسر فلسفہ کے انتقال پر حکومت پنجاب نے پرنسپل کی درخواست پر اقبال سے استدعا کی کہ وہ عارضی طور پر یہ عہدہ قبول کر لیں۔ حکومت پنجاب اور پنجاب چیف کورٹ کی افہام و تفہیم سے اقبال کو تدریسی اوقات کے اختتام پر اپنے مقدمات کی پیروی کی خصوصی اجازت مل گئی۔ چنانچہ اقبال نے 10مئی 1909ء سے 82؎ گورنمنٹ کالج میں بحیثیت پروفیسر فلسفہ کام شروع کر دیا۔ آخر اپنے حالات کے پیش نظر استعفا دے دیا اور 31دسمبر1910ء کو محکمہ تعلیم کی اس ملازمت سے فارغ ہو گئے۔ 83؎ اس تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی علمی شہرت کا برصغیر کے دور بڑے تعلیمی اداروں نے بھی علمی اعتراف کیا۔ علامہ انگلستان روانہ ہونے تک انجمن حمایت اسلام کے ایک سرگرم اور فعال رکن تھے۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام‘‘ کے مولف محمد حنیف شاہد لکھتے ہیں: ’’ علامہ انجمن حمایت اسلام کے رکن کب بنے؟ اس کی صحیح تاریخ تلاش بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہو سکی۔ البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ پچھلی صدی کے آخری عشرے میں وہ انجمن کے باقاعدہ رکن بن چکے تھے اور یہ رکنیت محض انجمن کے اغراض و مقاصد سے زبانی ہمدردی تک محدود نہ تھی۔ چنانچہ جنرل کمیٹی کی روداد سے معلوم ہوتا ہے کہ 12 نومبر 1899 ء کو انہیں مجلس منتظمہ کا رکن منتخب کر لیا گیا تھا۔۔۔ 1908ء میں (یورپ سے) واپس تشریف لائے تو ایک بار پھر انجمن کے امور میں دلچسپی لینے لگے۔۔۔۔ 24جنوری 1909ء کو مجلس انتظامیہ کے ارکان کا سہ سالہ انتخاب عمل میں آیا۔ علامہ اقبال س کے رکن منتخب ہوئے۔‘‘ 84؎ علامہ انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور کے بھی 26مارچ 1909ء کو رکن منتخب ہوئے وہ انجمن اسلامیہ کے 31دسمبر1910ء تک عمومی رکن رہنے کے بعد28جنوری 1911ء کو تین سال کے لئے مجلس عاملہ کے ممبر چنے گئے۔ پیسہ اخبار کی اشاعت 25اکتوبر 1909ء سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال وطن واپس آ کر پنجاب پراونشل لیگ کی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ جنرل سیکرٹری پنجاب پراونشل لیگ کی رپورٹ میں دوسرے مسائل کے علاوہ یہ مذکور ہے کہ: ’’ اردو اور پنجابی کا جو نامناسب جھگڑا بعض اشخاص نے ہمارے صوبہ میں شروع کر دیا ہے۔ا س کے متعلق آپ کی (لیگ کی) مجلس منتظمہ نے لاہور میں اور باہر کے اضلاع میں جو کارروائی کی وہ حاضرین جلسہ کو بخوبی معلوم ہے۔ اگرچہ کسی حد تک چونکہ اردو نہ صرف سارے ملک کی زبان ہے بلکہ مسلمانوں کی قومی زندگی کا قدر بہت حد تک اس کے قیام اور ترقی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لئے امید کی جاتی ہے کہ بہی خواہان قوم اس بارے میں اپنی کوششوں کو برابر قائم رکھیں گے۔ لیگ کی طرف سے اردو کی حفاظت کے لئے ایک مستقبل سب کمیٹی قائم ہے جس کے سیکرٹری ہمارے لائق دوست شیخ محمد اقبال ایم اے بیرسٹر ایٹ لاء ہیں۔۔۔۔‘‘ 85؎ انجمنیں اور ادارے عمرانیات کا ایک اہم موضوع ہے P.Gisbert نے انجمن کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: An association is a group of people united for a specific purpose or a limited number of purpose. ’’ ایسوسی ایشن لوگوں کا ایک گروپ ہے جو ایک خاص مقصد یا بعض محدود مقاصد کے لئے متحد ہوتا ہے ‘‘ 86؎ بعض خاص اور عمومی مقاصد کے حصول کی غرض سے پنجاب کے مسلم عمائد اور فعال مسلمانوں نے نہ صرف انجمن سازی میں بلکہ ان انجمنوں کو زندہ اور متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اقبال نے بھی پنجاب کے مسلمانوں کی مختلف انجمنوں میں ایک فعال اور سرگرم رکن کی حیثیت سے حصہ لیا۔ ان انجمنوں کے اغراض و مقاصد کی نوعیت سراسر عمرانی ہے۔ جن کا جائزہ ہمارے دائرہ کار سے خارج ہے۔ البتہ اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ اقبال ان انجمنوں کے اغراض و مقاصد کے مطابق اجتماعی بہبود اور سربلندی کی کوششوں میں شریک تھے۔ا گر ان انجمنوں کے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، تعلیمی اور مذہبی مقاصد کے حصول کی مساعی کا اقبال کے عمرانی نقطہ نظر کی تشکیل میں حصہ ہے تو اقبال کے فکر و نظر سے مذکورہ انجمنوں نے بھی بڑا فیض پایا۔ حیات اقبال کے ڈیڑھ دو سال یعنی (وسط1908ء سے دسمبر1910ء تک ) مختلف وجوہ کی بنا پر بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف انہیں اطمینان بخش مالی حالات کا خیال دامنگیر ہے اور ساتھ ہی نہایت پیچیدہ خانگی اور ازدواجی الجھنوں سے معاملہ ہے۔ دوسری طرف ملک کے سیاسی حالات کی بگڑتی ہوئی صورت ہے۔ خصوصاً مسلمانوں میں گروہ بندی اور باہمی نفاق سے وہ بہت آزردہ خاطر تھے۔ حد یہ ہے کہ حمایت اسلام جیسی انجمن بھی اختلافات کے باعث بحران میں مبتلا تھی۔ دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ اقبال بھی اس ناگوار صورت حال سے بہت آزردہ خاطر ہوئے۔ ’’ اقبال کارکنان انجمن کے رویہ سے بہت مایوس تھے۔۔۔۔۔1910ء کے سال میں انہوں نے انجمن کے سالانہ اجلاس میں کسی بھی قسم کی شرکت سے گریز کیا۔۔۔‘‘ 86؎ اقبال کی بدمزگی کا یہ عالم ہے۔ ان کے خطبہ علی گڑھ میں جو نہایت تحمل اور تامل کے ساتھ تحریر کیا ہوا ہے، اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ انگریزی زبان میں اس خطبہ کے آخری صفحات میں ملت بیضا کی اصلاح پر اظہار خیال کے سیاق و سباق میں لکھتے ہیں: Have we ever realised that the duty of our anjumans and leagues is work for the elevation of the masses and not to push up the individuls. ’’ کیا ہم نے کبھی یہ احساس کیا ہے کہ ہماری انجمنوں اور لیگوں اک فرض عوام کی ترقی کے لئے کام کرنا ہے اور ان کا کام افراد کو بڑھاوا دینا نہیں ہے۔‘‘ 87؎ اقبال کی بے پناہ مصروفیت، ہنگاموں، پریشانیوں اور الجھنوں کے باوجود ڈیڑھ دو سال کا یہ عرصہ ان کے فکر کے لحاظ سے بڑا اہم ہے۔ لندن میں6نومبر1931ء کی شام اقبال لٹریری ایسوسی ایشن نے علامہ کے اعزاز میں ایک عظیم الشان عصرانہ دیا تھا۔ اس میں تقریر کرتے ہوئے اقبال نے فرمایا: ’’ 1905ء میں میں جب انگلستان آیا تھا تو میں محسوس کر چکا تھا کہ مشرقی ادبیات اپنی ظاہری دلفریبیوں اور دلکشیوں کے باوجود اس روح سے خالی ہیں جو انسانوں کے لئے امید، ہمت اور جرات عمل کا پیغام ہوتی ہے او رجسے زندگی کے جوش او رولولے سے تعبیر کرنا چاہیے۔ یہاں پہنچ کر یورپی ادبیات پر نظر ڈالی تو وہ اگرچہ ہمت افروز نظر آئیں لیکن ان کے مقابلے میں سائنس کھڑی تھی جو ان کو افسردہ بنا رہی تھی اور 1908ء میں انگلستان سے واپس گیا تو میرے نزدیک یورپی ادبیات کی حیثیت بھی تقریباً وہی تھی جو مشرقی ادبیات کی تھی۔ ان حالات سے میرے دل میں کشمکش شروع ہوئی کہ ان ادبیات کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنی چاہیے اور ان میں روح پیدا کرنے کے لئے کوئی نیا سرمایہ حیات فراہم کرنا چاہیے۔ میں اپنے وطن گیا تو یہ کشمکش میرے دل میں جاری تھی اور میں اس میں اس درجہ منہمک تھا کہ دو تین سال تک میرے عزیز دوستوں کو بھی علم نہ تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ 1910ء میں میری اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے خیالات ظاہر کر دینے چاہئیں۔ لیکن اندیشہ تھا کہ ان سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی بہرحال میں نے 1910ء میں اپنے خیالات کو مدنظر رکھ کر اپنی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ لکھنی شروع کی‘‘ 88؎ اقبال کی اس قلبی کشمکش کی کچھ جھلکیاں ان کے اس زمانے کے خطوط میں نظر آتی ہیں اور ان کے انہماک اور غور و فکر کا ثبوت بیاض اقبال کی وہ یادداشتیں ہیں جو وہ ایک ڈائری (بیاض) میں قلمبند کیا کرتے تھے۔ جنہیں جاوید اقبال نے 1961ء میں خود علامہ کے مجوزہ نام (Stray Reflections) سے شائع کیا۔ علامہ نے بیاض اقبال کے بیشتر شذارت کی بنیاد پر ایک فکر انگیز مربوط خطبہ تحریر کیا جو دسمبر1911ء کو علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں (The Muslim Community A Sociological Study)کے عنوان سے ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کے دقیق و عمیق مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ خطبہ فکر اقبال کا وہ ابتدائی خاکہ ہے۔ جس میں علامہ اپنی آئندہ تصانیف سے رنگ بھرتے رہے اور ان کی عملی سیاسی زندگی بھی دراصل اسی خطبہ کے مقصود و منشا کو ٹھوس شکل دینے کی ایک سرگرم کوشش تھی۔ ان کی انتہا تمنا یہ تھی کہ ملت بیضا کی عمرانی زندگی میں انقلابی روح بیدار ہو۔ برصغیر میں سیاسی حالات میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ اقبال ایک مدت تک عملی سیاست سے الگ تھلگ رہے۔ آخر 1926ء میں انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ پنجاب کونسل (صوبائی مجلس قانون ساز) کے لئے حلقہ شہر لاہور سے بطور امیدوار کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کونسل کی امیدواری کے لئے اعلان کرتے ہوئے کہا: ’’ مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا۔ محض اس لئے کہ دوسرے لوگ یہ کام انجام دے رہے تھے اور میں نے اپنے لئے دوسرا دائرہ کار منتخب کر لیا تھا لیکن اب قوم کی مصیبتیں مجبور کر رہی ہیں کہ میں اپنا حلقہ عمل قدرے وسیع کروں شائد میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملت کے لئے زیادہ مفید ہو سکے جس کی خدمت میں میری زندگی کے تمام لیل و نہار گزرے ہیں۔۔۔‘‘ 89؎ 23نومبر1926ء علامہ اقبال کے انتخاب کے پولنگ کا دن تھا۔ جس میں وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے 10دسمبر1926ء کو سرکاری طور پر انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔ اس کے مطابق3جنوری 1927ء کو دوسرے ممبران کے ساتھ علامہ نے بھی حلف اٹھایا۔ 90؎ انہوں نے پنجاب کونسل کی ممبری کے زمانے میں نہ صرف اپنے حلقہ کی نیابت کا حق ادا کر دیا بلکہ پنجاب کے عوام کی بھرپور ترجمانی کی۔ اقبال کی عملی سیاسی زندگی کی روداد ایک باقاعدہ تصنیف کا موضوع ہے۔ 91؎ یہاں سوانح کے ضمن میں اقبال کی سیاسی زندگی کا یہ عملی پہلو بیان ہو رہا ہے۔ چونکہ علامہ کی زندگی کے حالات اور واقعات میں ان کا ذکر ناگزیر بھی ہے۔ اس لئے محض چند ارشادات میں ان کا احاطہ کیا جاتاہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے 20مارچ1927ء کو دہلی میں مسلمان راہنماؤں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں دوسری تجاویز کے ساتھ یہ تجویز بھی منظور کی گئی کہ مسلمان مشروط طور پر مخلوط انتخاب قبول کرنے کو تیار ہیں۔ مسلمانوں کا ایک بڑا حلقہ جداگانہ طریق انتخاب کا حامی تھا۔ سر محمد شفیع اس نقطہ نظر کے حامل گروہ کی قیادت کر رہے تھے۔ اقبال بھی ان کے ہم خیال تھے۔ تجاویز دہلی پر اظہار خیا کے لئے پنجاب پراونشل لیگ کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں علامہ اقبال نے ایک قرار داد پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا: ’’ مجھے یہ کہنے اک حق پہنچتا ہے کہ میں سب سے پہلا ہندوستانی ہوں جس نے ہندو مسلم اتحا دکی اہمیت و ضرورت کا احساس کیا او رمیری ہمیشہ سے آرزو ہے کہ اتحاد مستقل حیثیت اختیار کر لے لیکن حالات حلقہ ہائے انتخاب کے اشتراک کے لئے موزوں نہیں ہیں اور ہمارے صدر (میاں محمد شفیع) نے ہندو رہنماؤں کی تقریروں کے جو اقتباسات اپنے خطبہ صدارت میں دئیے ہیں ان سے ہندوؤں کی افسوسناک ذہنیت آشکارا ہوتی ہے۔ اس ذہنیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تو حلقہ ہائے انتخاب کا اشتراک کسی حالت میں بھی گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ میں حیران ہوں کہ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کی ذہنیت اختیار کرنے کی ہندوؤں کو کیوں ضرورت پڑی۔ مسلمان تعداد میں کم ہیں، اقتصادی حیثیت سے پیچھے ہیں، تعلیم میں پسماندہ ہیں۔ ویسے بڑے بھولے بھالے ہیں۔ حکومت انہیں آسانی سے چکنی چپڑی باتیں کر کے پھسلا لیتی ہے، ہندو انہیں پھسلا لیتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ہندوؤں نے یہ ذہنیت کیوں اختیار کی اور یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں کی ذہنیت ہے اور اگر کوئی وجہ نہ ہوتی تو میں کہتا کہ تنہا اسی وجہ سے حلقہ ہائے انتخاب الگ رکھے جائیں۔ آخر میں، مسلمانوں سے ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں ایک طرف ہندوؤں کی کوششیں ان کے خلاف ہو رہی ہیں، دوسری طرف حکومت کے موجودہ نظام کی سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف جاری ہیں۔ ان مصیبتوں میں بچاؤ کی صورت محض یہ ہے کہ مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور مردانہ وار ہر مصیبت کا مقابلہ کریں۔‘‘ 92؎ برصغیر کی آئینی دستوری تاریخ میں1928ء کے آخری مہینوں میں سائمن کمیشن کی آمد ایک اہم واقعہ ہے۔ 8نومبر1927ء کو برطانوی حکومت نے ہندوستان میں دستوری اصلاحات کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے سائمن کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا۔ کانگریس، مسلم لیگ اور دوسری سیاسی جماعتوں نے سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا مگر پنجاب پراونشل مسلم لیگ نے سر محمد شفیع کی سرکردگی میں اس کا خیر مقدم کیا۔ علامہ اقبال بھی سائمن کمیشن کے ساتھ تعاون کے موئید تھے۔ چنانچہ 5نومبر1928ء کو پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے وفد (جس میں اقبال بھی شامل تھے) نے سر محمد شفیع کی زیر قیادت سائمن کمیشن کے سامنے مسلمانوں کی معروضات رکھتے ہوئے چند تجاویز پیش کیں۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ’’ میں مسلمانوں کے تمام مطالبات کو (جو سوائے مخلوط کے انتخاب کے سب وہی تھے جن کی تفصیلی تجاویز دہلی میں بیان کی گئی تھی) یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔‘‘93؎ نہرو رپورٹ کے بارے میں مسلم قائدین میں اختلاف تھا۔ وہ تین گروپوں میں بٹے ہوئے تھے۔ پہلے گروپ کی قیادت مولانا آزاد اور ڈاکٹر انصاری کر رہے تھے۔ وہ نہرو رپورٹ کو بجنسہ قبول کرنے کی وکالت کر رہے تھے۔ دوسرے گروپ کے سربراہ قائداعظم محمد علی جناح اور راجہ محمود آباد تھے۔ وہ اسے مشروط طور پر تسلیم کرنا چاہتے تھے۔ تیسرا گروپ سر محمد شفیع کے حامیوں کا تھا جو نہرو رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے حق میں تھے۔ علامہ اقبال تیسرے گروپ کے ساتھ تھے۔ اس اختلاف کی بناء پر تیسرا گروپ آل انڈیا مسلم لیگ سے الگ ہو گیا۔ جس نے سر محمد شفیع کی زیر قیادت متوازی شفیع لیگ قائم کر لی۔ اقبال اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 94؎ دسمبر1928ء میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں ڈاکٹر انصاری کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اس میں کانگرس کے طرز عمل اور ہندوؤں کے رویے سے مسٹر جناح بہت بد دل ہوئے۔ کیونکہ ان کی طرف سے تین ترامیم کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اس کانفرنس نے نہرو رپورٹ منظور کر لی۔ ان حالات و واقعات نے مسلمان راہنماؤں کو بہت متاثر کیا۔ چنانچہ مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کے مطابق: ’’ فضل حسین کی در پردہ اور سر محمد شفیع کی ظاہراً کوشش سے ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا خاکہ تیار کیا گیا جس کی ہیئت ترکیبی یہ تھی کہ مسلمانان ہند کی مختلف قومی جماعتوں میں سے کم از کم چھ سو نمائندے مدعو کئے جائیں۔‘‘ 95؎ پروگرام کے مطابق مسلم کانفرنس کا اجلاس سر آغا خاں کی صدارت میں29دسمبر1928ء سے یکم جنوری 1929ء تک دہلی میں منعقد ہوا۔ سر محمد شفیع نے اس جلسہ میں مسلم مطالبات پر مبنی ایک قرار داد پیش کی۔ جس کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے اقبال نے فرمایا: ’’ گزشتہ تین چار سال سے ہم کو جو مشاہدات و تجربات حاصل ہو رہے ہیں وہ نہایت مفید اور نتیجہ خیز ہیں ہم کو جو باتیں اپنے برادران وطن کے متعلق قیاسی طور پر معلوم ہیں اب وہ یقینی طور پر ہمارے علم میں آ گئیں۔ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ آج سے نصف صدی قبل سرسید احمد خاں مرحوم نے مسلمانوں کے لئے جو راہ عمل قائم کی تھی، وہ صحیح تھی اور تلخ تجربہ کے بعد ہمیں اس راہ عمل کی اہمیت محسوس ہو رہی ہے۔ آج میں نہایت صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں بحیثیت مسلمان ہونے کے زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لئے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور جلد از جلد ایک علیحدہ پولیٹکل پروگرام بنانا چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بعض حصے ایسے ہیں، جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بعض حصے ایسے ہیں، جن میں وہ قلیل تعداد میں ہیں۔ ان حالات میں ہم کو علیحدہ طور پر ایک پولیٹکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ آج ہر قوم اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے سعی و کوشش کر رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے سعی و کوشش نہ کریں۔ آج اس کانفرنس میں متفقہ طور پر جو ریزولیشن پیش ہوا ہے، وہ نہایت صحیح ہے اور اس کی صحت کے لئے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے اور وہ یہ کہ ہمارے آقائے نامدار حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کا اجتماع کبھی گمراہی پر نہ ہو گا۔‘‘ 96؎ اقبال کی زندگی کا آخری دس گیارہ سالہ دو رانتہائی علمی مصروفیت اور سماجی و سیاسی گہما گہمی کا زمانہ ہے۔ مسلم ایسوسی ایشن مدراس کی دعوت پر سید سلیمان ندوی نے سیرت نبویؐ کے مختلف پہلوؤں پر اکتوبر اور نومبر1925ء میں خطبات ارشاد فرمائے تھے۔ 97؎ کم و بیش اسی زمانے سے علامہ اقبال سے بھی ایسوسی ایشن کا فلسفہ اسلام پر خطبات کا تقاضا تھا۔ اقبال نے عدیم الفرصتی کی بنا پر وعدہ نہ کیا آخر وسط 1926ء میں آمادگی کا اظہار کیا۔ بہرحال وہ 1928ء کے آخر تک تین خطبات مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آپ جنوری 1929ء کے شروع میں مدراس گئے اور 5تا 8جنوری وہاں تین خطبات دئیے۔ مداس کی کئی انجمنوں نے آپ کے اعزاز میں استقبالیے ترتیب دئیے۔ علامہ نے واپسی پر چھ سات ماہ کے دوران تین اور لیکچر قلمبند کئے جو نومبر1929ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں سنائے گئے 98؎ ان خطبات کا مجموعہ 1930ء سے بار بار شائع ہو رہا ہے۔ ان کا سید نذیر نیازی نے 1958ء میں انگریزی سے اردو میں ترجمہ شائع کرایا۔ علامہ اقبال کی دعوت پر 23نومبر1930ء کو لاہور کے مسلم زعما کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے مسلمانوں کے حقوق کے لئے دسمبر میں ایک کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ ہوا۔ جس کا نام اپر انڈیا مسلم کانفرنس رکھا گیا۔ علامہ اقبال اس کے صدر منتخب ہوئے۔ دریں اثناء آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لئے اقبال س درخواست کی گئی۔ یہ اجلاس دسمبر1930ء میں الہ آباد میں منعقد ہوا۔ اس میں ’’ اقبال نے اپنا تاریخ ساز خطبہ پڑھا تھا‘‘ 99؎ جمیل الدین نے اس خطبے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ یہ عام نوعیت کے خطبات سے مختلف تھا جو ایسے مواقع پر صادر کئے جاتے ہیں کیونکہ آپ نے مسائل کا تجزیاتی اور سائنسی مطالعہ، فلسفیانہ انداز میں کیا اور آپ نے اپنا حل پیش کیا جس نے انجام کار مسلمانوں کی سیاسی سوچ اور عمل کو راستہ دکھایا‘‘ It was different from the usual type of addresses delivered on such occasionas. for he made an analytical and scientific study of the problems in a philosophical style and prepounded his own soloution which was ultimately to guide the political thinking and activity of the Muslims.100 یہ خطبہ عمرانی فکر کے لحاظ سے بھی قابل توجہ ہے۔ اس میں اقبال نے فرد، قوم، تمدن، سیاست، مذہب، ثقافت اور وطنیت وغیرہ کے عمرانی اور تاریخی تصورات پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ اسی خطبہ کے درج ذیل الفاظ کے پیش نظر علامہ کو تصور پاکستان کا خالق یا مفکر پاکستان قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ ہندوستان میں ایک متوازی اور ہم آہنگ قوم کے نشوونما کی طرح مختلف ملتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو، وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہو او راس کی زبان بھی ایک ہو۔ ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جس کی نسل، زبان، مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان کے اعمال و افعال میں وہ احساس پیدا ہی نہیں ہو سکتا جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں موجود ہوتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیار حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالاخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔۔۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقہ میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے۔۔۔ میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبو دکے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔‘‘ 101؎ علامہ اقبال کو مسلم مندوب کی حیثیت میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ وہ 8ستمبر1931ء کو لاہور سے روانہ ہو کر 27ستمبر کو لندن پہنچے۔ انہوں نے گول میز کانفرنس کی کارروائیوں کے علاوہ مختلف انجمنوں کے استقبالیہ جلسوں میں شرکت کی۔ انگلستان سے ہندوستان واپس آتے ہوئے روم اور مصر کی سیاحت کی۔ موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لئے 6دسمبر کو فلسطین پہنچے۔ اس کارروائی سے فارغ ہو کر 15دسمبر کو بیت المقدس سے روانہ ہو کر 30دسمبر کو لاہور واپس پہنچ گئے۔ اقبال کی ز یر صدارت مسلم کانفرنس کا سالانہ اجلاس 21مارچ1932ء کو لاہور میں انعقاد پذیر ہوا۔ اس موقع پر علامہ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ بھی مختلف سیاسی، سماجی اور تہذیبی دلالتوں کی بناء پر توجہ طلب ہے۔ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے علامہ 17اکتوبر1932ء کو لاہور سے روانہ ہوئے اور 30دسمبر تک لندن میں رہے۔ انگلستان سے پیرس آئے جہاں وہ برگساں سے ملنے گئے۔ وہاں سے ہسپانیہ تشریف لے گئے۔ جہاں کے اسلامی آثار دیکھنے کی انہیں مدت سے خواہش تھی۔ سفر ہسپانیہ کا ایک حاصل مسجد قرطبہ جیسی اردو کی عظیم ترین نظم ہے۔ علامہ 25فروری 1933ء کو لاہور واپس پہنچ گئے۔ اکتوبر1933ء کے آخر میں افغانستان کے بادشاہ محمد نادر شاہ کی دعوت پر سید سلیمان ندوی اور راس مسعود کی معیت میں کابل پہنچے۔ انہیں وہاں تعلیمی معاملات میں مشورے کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ اقبال زیارت کے لئے سنائی کے مزار پر حاضر ہوئے۔ اس سفر کے تاثرات کا ’’ مثنوی مسافر‘‘ میں اظہار ہوا ہے۔ اقبال اپنی زندگی کے آخری پانچ سالوں میں بھی طویل علالت اور مالی پریشانیوں کے باوجود تخلیقی کام میں گہری دلچسپی لیتے رہے۔ انہوں نے اسی زمانے میں دو علمی معرکوں میں بھی حصہ لیا۔ علامہ کی علالت کا آغاز عید الفطر کے دن 10جنوری 1934ء سے ہوا۔ یکم جولائی 1934ء کو آپ انجمن حمایت اسلام کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی صحت علاج کے باوجود بہتر نہیں ہو رہی تھی بلکہ گرتی جا رہی تھی۔ 29جنوری 1935ء کو بھوپال میں برقی علاج کے لئے گئے۔ اقبال بھوپال ہی میں تھے کہ لاہو رمیں مسجد شہید گنج کا واقعہ رونما ہوا۔ حالات و واقعات سے ظاہر ہے کہ اقبال 1938ء تک مسجد شہید گنج کے مقدمات اور معاملات میں سرگرم حصہ لیتے رہے۔ 23مئی 1935ء کو والدہ جاوید اقبال کا انتقال ہوا۔ وسط 1935ء میں والئی بھوپال نے علامہ اقبال کے لئے پانچ سو روپے تا حیات ماہوار وظیفہ مقرر کیا۔ اقبال نے اسی زمانے میں (Qadianism and Orthodox Muslims) کے عنوان سے مضمون لکھا۔ جواہر لعل نہرو نے احمدیوں کی حمایت میں ایک مضمون قسط وار ’’ ماڈر ریویو‘‘ میں شائع کرایا۔ علامہ نے بیماری کے باوجود جنوری 1936ء میں نہرو کے جواب میں ایک مفصل مضمون لکھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح 29اپریل1936ء کو مسلم لیگ کی تنظیم نو کے سلسلے میں لاہور بھی تشریف لائے۔ ’’ سب سے پہلے آپ نے سر فضل حسین سے تعاون کی استدعا کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد آپ نے علامہ اقبال سے درخواست کی۔ انہوں نے بیماری کے باوجود امداد و اعانت کا وعدہ کیا اور پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا آغاز کیا۔ 12مئی 1936ء کو لاہور کے مسلم رہنماؤں کا ایک اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں ہوا۔ جس میں پنجاب مسلم لیگ کی از سر نو تنظیم کا فیصلہ کیا گیا‘‘ 102؎ اس جلسہ میں ’’ علامہ اقبال کو پنجاب پروانشل مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا‘‘ 103؎ اس سلسلے میں اقبال اور قائداعظم کے درمیان خط و کتابت کم و بیش1937ء کے آخر تک جاری رہی۔ اقبال کے یہ خطوط ان کے بعض فکری زاویوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ علامہ 18 اپریل 1937ء کو انجمن حمایت اسلام کے صدر منتخب ہوئے انہوں نے بوجہ علالت یکم جولائی کو صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ 1938ء کے اوائل میں مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے درمیان نظریہ وطنیت پر اخباری بیانات کے ذریعہ بحث کا آغاز ہوا۔ آخر مولانا مدنی کی وضاحت کے بعد علامہ اقبال نے 28 مارچ1938ء کے اخبار میں اعلان شائع کروایا۔ جس میں انہوں نے لکھا: ’’ میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔۔۔۔‘‘ 104؎ علامہ اقبال کی طویل علالت نے انہیں بہت کمزور کر دیا تھا۔ ہر ممکن علاج اور عزیزوں اور نیازمندوں کی تیمارداری کے باوجود ان کی صحت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ افاقہ کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی تھی۔ آخر 21اپریل 1938ء کو صبح پانچ بجے کے قریب اقبال انتقال فرما گئے۔ ٭٭٭ حوالے باب نمبر2 10 علی مولوی سید اقبال ’’ سید احمد خاں کا سفر نامہ پنجاب‘‘ مجلس ترقی ادب لاہور، 1973ء تعارف: ص، ک، ل، م 12 ملک، پروفیسر اکرام علی۔ ’’ انجمن اسلامیہ لاہور (1902-1869ئ)‘‘ ماہنامہ المعارف، لاہور، جولائی 1983ء ص21 13 ایضاً ص22-23 14 چودھری محمد انور امین ’’ تاریخ مسلم لیگ کے دو ورق‘‘ ماہنامہ نصرت لاہور، جنوری فروری 1968ء ص85 16 شاہد، محمد حنیف، مفکر پاکستان، سنگ میل، پبلی کیشنز لاہور 1982ء ص158-161 17شاہد، محمد حنیف، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، کتب خانہ انجمن حمایت اسلام لاہور 1976ء ص25 18شاہد، محمد حنیف، ایضاً ص27 21جاوید اقبال، زندہ رود، حیات اقبال کا تشکیلی دور، لاہور 1979ئ، ص98 22شاہد، محمد حنیف، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص30 24ڈیوی، جان، جمہوریت اور تعلیم، جلد اول مترجمہ سید محمد تقی، اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ کراچی، بار اول ص74-78 27جاوید اقبال، زندہ رود، حیات اقبال کا تشکیلی دور، لاہور1979ء ص50 28جاوید اقبال، ایضاً ص18 31جاوید اقبال محولہ بالا ص50 32جاوید اقبال محولہ بالا، ص73-72, 69-68, 51-50 33عتیق صدیقی، اقبال جادوگر ہندی نژاد، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی، اگست1980ء ص 139-40 34دیکھئے ’’ علامہ اقبال کے استاد، شمس العلماء مولوی سید میر حسن (حیات و افکار) مولفہ ڈاکٹر سید سلطان محمد حسین، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، 1981ئ، ص138-139‘‘ 35مقالات اقبال مرتبہ سید عبالواحد معینی، ناشر شیخ محمد اشرف لاہور، 1963ء ص192 36مطالعہ اقبال، مرتبہ گوہر نوشاہی، بزم اقبال لاہور، جون1971ء ص24 37جاوید اقبال، محولہ بالا، ص78 38شاہد، محمد حنیف’’ مفکر پاکستان‘‘ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور 1982ء ص67 39ایضاً ص75-74 40بحوالہ جاوید اقبال، محولہ بالا ص76 41بحوالہ جاوید اقبال، محولہ بالا، ص76 42بشیر احمد ڈار مرتب، انوار اقبال، اقبال اکادمی پاکستان کراچی، 1967ء ص78 43سالک، عبدالمجید۔ ذکر اقبال، بزم اقبال لاہور، ص17 44عتیق صدیقی، اقبال جادوگر ہندی نژاد۔ مکتبہ جامعہ نئی دہلی۔ اگست1980ء ص141-42 45حالات اقبال از فوق، کشمیری میگزین (اپریل 1909ء بحوالہ انوار اقبال، ص80) 46نیرنگ خیال لاہور، اقبال نمبر، شمارہ ستمبر و اکتوبر1932ء ص26 48ڈاکٹر ذوالفقار، غلام حسین، اقبال اورینٹل کالج میں، مضموم مشمولہ، مطالعہ اقبال، ص49 49جاوید اقبال، محولہ بالا، ص90 50شاہد، محمد حنیف، محولہ بالا، ص114 51ڈاکٹر ذوالفقار، غلام حسین، اقبال کا ذہنی ارتقائ، مکتبہ خیابان ادب لاہور، جنوری 1978ء ص18 52مطالعہ اقبال، محولہ بالا، ص474نیز دیکھئے جاوید اقبال، محولہ بالا، ص106 53شاہد، محمد حنیف، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، لاہور، جولائی 1976ء ص69-81 اور مفکر پاکستان محولہ بالا، ص92-94 54شاہد، محمد حنیف، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، محولہ بالا ص68-81اور مفکر پاکستان محولہ بالا، ص92-94 55تفصیل کے لئے دیکھئے مفکر پاکستان مولفہ محمد حنیف شاہد 59تفصیلات کے لئے دیکھئے ہندی اردو تنازع مولفہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، کراچی 1977ء 60اس کتاب کا ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’ برصغیر میں اسلامی کلچر‘‘ کے نام سے کر دیا ہے جسے 1990ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے شائع کیا۔ اس حوالہ کے لئے دیکھئے متذکرہ کتاب ص395 65مطالعہ اقبال، محولہ بالا ص488 66جاوید اقبال، محولہ بالا، ص112 67خورشید، عبدالسلام، سرگذشت اقبال، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1977ء ص59 69دیکھئے ماہنامہ افکار کراچی شمارہ مئی 1983ء اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط مس ویگیناسٹ کے نام مرتبہ و مترجمہ ڈاکٹر سعید اختر درانی نیز دیکھئے درانی کی کتاب ’’ اقبال یورپ میں‘‘ اقبال اکادمی لاہور۔ 71چودھری، محمد انور امین ’’ تاریخ مسلم لیگ کے دو اہم ورق‘‘ ماہنامہ نصرت لاہور، جنوری فروری 1968ء ص80 72چودھری، محولہ بالاص84 75سالک، محولہ بالا، ص57 76ماہنامہ افکار، کراچی، محولہ بالا، ص28دیکھئے اقبال یورپ میں از ڈاکٹر سعید اختر درانی 77اقبالنامہ حصہ دوم، ص305 78افکار کراچی، محولہ بالا، ص27نیز دیکھئے ڈاکٹر سعید اختر درانی کی تصنیف ’’ اقبال یورپ میں‘‘ 80جاوید اقبال، زندہ رود (حیات اقبال کا وسطی دور)1981ء ص140 81عطیہ بیگم، اقبال، مترجمہ ضیاء الدین احمد، اقبال اکیڈمی، کراچی، 1956ء ص36 82جاوید اقبال، محولہ بالا، ص141 83ایضاً ص147 84شاہد، محمد حنیف، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، لاہور ص، 49-50 86جاوید اقبال، محولہ بالا، ص146 87مجلہ تحقیق لاہور، جلد3شمارہ 1،ص30 88افضل، محمد رفیق مرتب گفتار اقبال، ادارہ، تحقیقات پاکستان، دانش گاہ پنجاب لاہور، جنوری 1969ئ، ص249-250 89افضل، محولہ بالا، ص15 90مفکر پاکستان، محولہ بالا ص256-258 91نوٹ اس موضوع پر ’’ اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ از محمد احمد خان’’ اقبال بحیثیت مفکر پاکستان‘‘ از ڈاکٹر عبدالحمید’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ از عاشق حسین بٹالوی اور ڈاکٹر پروین شوکت کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ 92افضل، محولہ بالا، ص27-28 93عبدالحمید، ڈاکٹر، اقبال بحیثیت مفکر پاکستان، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، 1977ء ص122 95بٹالوی، ڈاکٹر عاشق حسین، اقبال کے آخری دو سال، اقبال اکادمی پاکستان کراچی 1961ء ص220 96افضل، محولہ بالا، ص72-73 97ندوی، سید سلیمان، خطبات مدراس، یونیورسل بکس لاہور، دیباچہ ص1 98استفادہ از ذوالفقار و شاہد، محولہ بالا بالترتیب، ص679-680, 138-141 99عبدالحمید، ڈاکٹر، محولہ بالا ص129 101بانو، رضیہ فرحت، مرتبہ خطبات اقبال، اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1960ء ص37-40 102عالم، محمد جہانگیر (مترجمہ) اقبال کے خطوط قائداعظم کے نام، محبوب بک ڈپو، لائل پور (فیصل آباد) مقدمہ ص14-15( اس کتاب کے نظر ثانی کے بعد دو ایڈیشن یونیورسل بکس لاہور نے شائع کئے ہیں)1995ء میں دائرہ معارف اقبال فیصل آباد نے بھی ایک ایڈیشن شائع کیا ہے۔ 103مفکر پاکستان محولہ بالا ص330 104سالک، محولہ بالا، ص217 ٭٭٭ Chapter No.2 1. Embree, Ainslie t. india,s serach for national Identity, aflfred A. Knopf new york (c. 1972), p.8 2. Embree, op.cit, pp.19-20 3. Malik, Ikram Ali, a book of readings on the history of the punjab, Lahore 1970, p.223 (see also artical punjab and the great revolt of 1857 by V.S. Suri in the punjab past and present, Octobed 1975. 4. Malik Ikram, op.cit, p.246 5. Ibid. p.232 6. Fraquhar, J.N. Modern Religious Movements in India, The Macmilian Company, New York 1918, p.246 8. Bhatnagar S.K. History of the M.A.O. College Aligarh, Book Traders Lahore. p. 10 9. Ibid . p.17 11 Churchill, Edward D. Jr. Muslim Societies of the Punjab, 1860-1890. The Punjab past and present, (april 1974). Punjabi university, Patiala, p.69 15. Churchill op.cit, pp. 87-88 19. Ahmad, Bashir, Justice Shah din (His Life and writings) Lahore, 1962, pp. 198-200 20. Ibid, p.239 23. Wilkins, Elizabeth J, An introduction to Sociology, Macdonald and Evens, Ltd. London, Reprint 1979, p.91 25. Koeing, Samuel, Sociology, Barnes & Nobel, Inc. New York, 1961, pp. 53-54 26. Ibid. P.53 29. Hunt, Sonja & Jennifer Hilton, Individual Development and Social Experience, George Allen & Unein Ltd. London 1975, p. 135 30. Ibid. p. 136 47. The Development of Metaphysics in Persia. London Luzac, Co. 46, Great Russel Street, W.C. 1908. 56. Sherwani, Latif Ahmed, Ed. Speeches, Writings & Statements of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore 1977. p.69 57. Ahmad, Jamil-ud-din, Early Phase of Muslim Political Movement, Publishers United Lahore, p.66 58. Ibid. p.67 60. Ahmad, Aziz, Studies in Islamic Culture in the indian Environment, Oxford Universty Press, Reprinted in Pakistan 1970, p.261 61. Ahmad, Jamil-ud-din, op. cit, pp. 69-70 62. Aziz k,k, Britan and Muslim India, Heinemann, London, p. 37 63. Ibid, p.38 64. Ibid, p.42 68. Sherwani, op. cit. pp. 143-151 70. Hamid, Abdul, Muslim Separatism in India, Oxford University Press, 1967. p.78 73. Malik Ikram Ali, A Hand book of readings on the History of the punjab, research Society of Pakistan, Lahore 1970, P. 270 74. Aziz, K.K. op. Cit. 63 79. Dar, B.A. ed. Letters and writings of Iqbal, Iqbal Academy Karachi 1967, pp. 42-43 85. Malik, op.cit. p.282 86. Gisbert p. Fundamentals of Sociology, Orient Longmans Ltd. Calcutta, reprint, 1962, p.30. 94. Hassan, Parveen Feroze, (Dr. Parveen Shaukat) The Political Philosophy of Iqbal, Lahore. pp. 319-320 100. Ahmad Jamil-ud-din, Middle Phase of Muslim Political movement, Lahore. 1969, p.123 ٭٭٭ تیسرا باب ادبی عمرانیات اور اقبال کے شعری و ادبی نظریات عمرانیات نے بطور ایک معاشرتی علم بیسویں صدی میں بہت اہمیت اختیار کر لی ہے۔ معاشرتی زندگی کے کم و بیش ہر ادارے کا عمرانی زاویے سے مطالعہ نتیجہ خیز خیال کیا جاتا ہے۔ ان عمرانی مطالعات نے ثابت کر دیا ہے کہ معاشرتی ادارے صرف اپنے عمرانی سیاق و سباق میں ہی سمجھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ علم عمرانیات انسانی زندگی سے متعلق بنیادی نوعیت کے سوالات سے بحث کرتا ہے او رانسان کے معاشرتی رویوں کو سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے اس لئے زندگی کے ہر شعبہ کے عالم اور محقق اپنے دائرہ کار میں پیدا ہونے والے مسائل کو معاشرتی حوالے سے دیکھتے ہیں اور ان کی تفہیم کے لئے عمرانی منہاج سے کام لیتے ہیں۔ مگر جلد ہی اس شعبہ حیات کا معاشرتی جائزہ ایک الگ عمرانی نظام مطالعہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور عمرانیات کا ایک ذیلی اور ضمنی موضوع قرار پا لیتا ہے۔ اس سلسلے میں عمرانیات کے چند فروعی (مگر اپنی جگہ مستقل بالذات) موضوعات کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً Historical Sociology, Rural and Urban Sociology. Sociology of Religion, Educational Sociology, Political Sociology, Sociology of Law, Cultural Sociology, Folk Sociology. Sociology of Art. Industrial Sociology. Sociology of Science. اس طرح ادب کی عمرانیات (Sociology of Literature) بھی یورپ اور امریکہ میں نہ صر ف ایک تنقیدی دبستان بن چکا ہے 1؎ بلکہ اس کے بھی ذیلی مطالعاتی سلسلے شروع ہو چکے ہیں۔ بہرحال ادب کے عمرانی مطالعہ میں نقاد، عمرانی منہاج اور عمرانی تصورات کو کام میں لاتا ہے اور اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ادب اور معاشرے میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ ادب اپنے عہد کے طرز احساس، انداز فکر اور معاشرتی عقائد اور رسم و رواج کا اظہار ہے۔ اس لئے ادب اپنے عہد کی معاشرتی زندگی کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ بقول میلکلم براڈبری (Malcolm Bradbury) ’’ ادب معاشرے کا ایک پہلو ہے۔ یہ اس کے بہت سے گہرے معانی کو منضبط اور روشن کرتا ہے۔ یہ ایک خاص مفہوم میں معاشرے کا ایک ادارہ ہے۔ فنکارانہ روایات اور اقدار کا ورثہ، رسمی تفاعل (Interaction) کا ایک نقطہ جہاں مصنفین اور سامعین متحد ہوتے ہیں۔ یہ معاشرتی ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے گویا ادب ہمارے تجسس اور تخیل کا واضح اظہار ہے۔‘‘ 2؎ ادب کی معاشرتی اہمیت اور اس کے سماجی مقاصد کا مسئلہ ادبی عمرانیات کا بنیادی مسئلہ ہے۔ رینے ویلک (Rane Wellek) نے کہا ہے کہ: ’’ ادبی مطالعے کے اٹھائے ہوئے بہت سے سوال انجام کار یا مرادی معنوں میں معاشرتی سوالات ہیں۔‘‘ 3؎ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمرانی تنقید میں معاشرے اور ادب کو لازم و ملزوم خیال کیا جاتا ہے۔ کسی ادب پارے میں ہیئت اور اسلوب جیسے فنی اور تکنیکی عناصر قاری کے جمالیاتی تجربے کی تسکین کرتے ہیں اور مواد اور موضوع وہ معنوی عناصر ہیں جو قاری کے سماجی اور معاشرتی تجربے کو مستحکم کرتے ہیں۔ کیونکہ ادیب اپنا مواد معاشرے ہی سے اخذ کرتاہے۔ فرق یہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں قاری کا احساس ابتدائی سطح پر رہتا ہے مگر ادیب کا احساس اعلیٰ سطح پر پہنچ کر اس کا تخلیقی تجربہ بن جاتا ہے۔ دراصل ادب کو بہت سے معاشرتی مقاصد کے لئے کام میں لایا جاتا ہے۔ براڈ بری (Bradbury) نے اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’ مختلف النوع طریقوں سے معاشرے میں ادب سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ مسلک انسانیت کے طور پر (Humanistically) اختیار کئے جاتے ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی مقاصد کے لئے اور کچھ شخصی تصور بہبود کے طور پر، کچھ خواب و خیال اور فرار کے لئے اور کچھ ماحول کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں یا اس لئے کہ ادب ہماری پسندیدہ اور عزیز اقدار کو معنویت بخشتا ہے۔ ہم اسے صرف انفرادی طور پر بہت سی مختلف چیزوں کے لئے استعمال نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے وظائف ہر عہد اور معاشرے کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ ادب تما م ادوار اور معاشرتی نظاموں میں ایک ہی چیز نہیں رہتا او راختلافی درجات ایسے ہوتے ہیں جو تشکیلی عوامل میں ناگزیر دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔‘‘ 4؎ نئے معاشرتی حالات کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ نئی معاشرتی، جمالیاتی اور اخلاقی اقدار جنم لیتی ہیں۔ جن کی وجہ سے ادبی روایات متاثر ہوتی ہیں۔ موضوعات تو برہ حال اپنے معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی تقاضوں کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔ کم و بیش تمام اصناف ادب کا وجود بھی مختلف زمانوں کے معاشرتی حالات ہی کا مرہون منت ہے۔ مثلاً قصیدہ کی صنف اور پھر اس کے بطن سے صنف غزل کی پیدائش یا داستان کی کوکھ سے ناول کا جنم یا انیسویں صدی میں موضوعاتی نظم کا آغاز سامنے کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح مختلف ادبی تحریکوں کو اپنے عہد کے عمرانی پس منظر کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیونکہ بقول رڈنک (Hans H. Rudnick): ’’ فنی تخلیق بے شمار تجربوں اوربصیرتوں کی جامع اور مظہر ہوتی ہے۔ جو دوسرے ماخذوں سمیت، سماجی اقتصادی منابع سے ظہور میں آتی ہے۔‘‘ 5؎ چونکہ ادیب اپنے عہد، معاشرے اور قوم کا حساس اور بیدار مغز انسان ہوتا ہے اس لئے وہ زندگی کے حقائق اور معاشرتی تصورات کا معاشرے کے دوسرے افراد کے مقابلے میں زیادہ قوی شعور رکھتا ہے اور یہ شعور ایک تخلیقی تجربہ بن کر شعر و ادب کی کوئی ایک صورت اختیار کرتا ہے۔ ان معاشرتی تصورات اور تجربات کے اظہار میں فکر و احساس کے عصری رحجانات کے علاوہ ادبی روایات خصوصا ً لسانی اسالیب اور علائم و رموز کے سلسلوں اور اظہار کے سانچوں یعنی اصناف کے تاریخی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اظہار کے فنی وسائل میں تلمیحات، تشبیہات و استعارات اور علائم و رموز وغیرہ کا لسانی نظام اور اصناف کی تشکیل کا سلسلہ کسی معاشرے کی جمالیاتی تاریخ میں صدیوں کے عمرانی تجربات کا حاصل ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں معاشرتی تاریخی عمل کے دوران ’’ قانون ارتقا ‘‘ اور’’ قانون بقائے اصلح‘‘ کے مطابق زندگی کے دوسرے شعبوں کے علاوہ، ادب کے شعبہ میں بھی تغیر و تبدل واقع ہوتا رہتا ہے۔ ایک قوم کے ادب کے مختلف زمانوں میں لسانی پیرائے مختلف تبدیلیوں سے آشنا ہوتے ہیں۔ تمدنی ترقی اور نئے تہذیبی اثرات کے تحت لغت میں نئے الفاظ داخل ہوتے رہتے ہیں اور پرانے الفاظ کے نئے معانی قائم ہوتے ہیں۔ اسی طرح نئے زمانوں میں بعض پرانی اصناف اپنی تخلیقی قدر کھو دیتی ہیں اور ان میں نئے عہد اور نئی نسل کے خیالات اور تصورات سے مطابقت اور ہم آہنگی ممکن نہیں رہتی اس لئے وہ نئے ادبی منظر سے غائب ہو جاتی ہیں اور اگر بعض قدیم اصناف کئی زمانوں تک مستعمل رہتی ہیں تو ان میں داخلی اور خارجی طور پر ایسی تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں کہ بسا اوقات پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ فارسی اور اردو ادب میں غزل اس سلسلے کی بہترین مثال ہے۔ پروفیسر حمید احمد خان مجملاً غزل کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ غزل کے موضوعات میں ارتقائے معاشرت کے ساتھ تغیر اور اضافہ ہوا۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ غزل مقتضیات عصر کو خاطر میں لاتی اور ان سے متاثر ہوتی ہے اگر یوں نہ ہوتا تو رود کی اور رومی، غالب اور اقبال کی غزل میں وہ اختلاف موضوع نظر نہ آتا۔ جو فی الواقع موجود ہے۔ غزل تمام دیگر اصناف ادب کی طرح زمانے کے رحجانات کے متوازی چلتی ہے مگر اس کی ترغیبات وقتی نہیں، عصری ہوتی ہیں۔۔۔۔ نویں صدی عیسوی میں غزل کا موضوع صرف عشق تھا۔ بعد میں جو اضافے ہوئے ان کی رفتار یہ تھی۔ بارہویں صدی میں تصوف، سولہویں میں فلسفہ و نفسیات، بیسویں میں سیاسی و عمرانی تصورات‘‘ 6؎ ظاہر ہے کہ ادب میں مواد اور موضوع کے مقابلے میں معاشرتی لحاظ سے فنی وسائل اور اصناف وغیرہ کی حیثیت ثانوی ہے۔ کیونکہ ادیب یا شاعر کو جو معاشرتی تجربات پیش آتے ہیں۔ وہ تخلیقی تجربہ بن کر جب اظہار و بیان کے مرحلہ سے گزرتے ہیں تو اصل کے اعتبار سے ان کی نوعیت شخصی اور انفرادی ہوتی ہے۔ مگر جب فن کار اپنے تخلیقی تجربہ کی ترسیل اور تبلیغ کے لئے کوئی وسیلہ اختیار کرتا ہے تو اس کی نوعیت اجتماعی تجربہ کا مقام حاصل کر لیتی ہے چونکہ ادیب یا شاعر معاشرتی تجربات کو اپنے اظہار کی بدولت اجتماعی شعور کا حصہ بناتا ہے اس لئے بیرٹ وینڈل (Barrat Wandell) کا بیان کہ: ’’ ادب قومی مزاج کا اظہار ہے‘‘ ادب کی عمرانی بنیاد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر یوسف حسین کے مندرجہ ذیل اقتباس سے بھی ادب کی عمرانی بنیاد پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ اپنے مضمون ’’ شعر اور زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ جس طرح سیاست و معیشت میں بنیادی سوال یہ ہے کہ فرد کا سوسائٹی سے کیا تعلق ہے اس طرح آرٹ کا بھی یہی بنیادی مسئلہ ہے۔۔۔ ادب کی طرح اجتماعی علوم میں طبعی علوم کی طرح بے جان اور بے حس اور بے ارادہ مادے سے بحث نہیں ہوتی بلکہ انسان سے بحث ہوتی ہے جو شعور اور ارادہ اور خواہش رکھتا ہے اور جس کو اپنے احوال میں ایک حد تک تصرف کرنے کی قدرت حاصل ہے وہ مجبور محض نہیں ہے اور یہی عقیدہ اس کی اخلاقی بصیرت کا ضامن ہے۔ اسی لئے زندگی کے تمام مظاہر کی تحقیق علمی بھی ہے اور فنی بھی۔ بعض اوقات زندگی کو سمجھنے کے لئے ان غیر عقلی اور جبلی رحجانوں کا کھوج لگانا ضروری ہوتا ہے جو کسی خاص زمانے میں اجتماعی یا انفرادی زندگی میں محرک ہوتے ہیں۔‘‘ 8؎ اس اقتباس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرتی علوم اور فنون میں وظائف اور مقاصد کے لحاظ سے فاصلہ نہیں ہے۔ عمرانیات ایک منظم معاشرتی علم ہے اور شعر و ادب ایک گراں قدر فن۔ ان دونوں کا سروکار انفرادی اور اجتماعی زندگی سے ہے۔ عمرانیات اور ادب افراد کی سماجی تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لئے ان دونوں میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ بعض پہلوؤں سے عمرانیات اور ادب ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایلن سونج وڈ (Alan Swingewood) نے لکھا ہے کہ: ’’ عمرانیات کی طرح ادب بھی بدرجہ اعلیٰ انسان کی معاشرتی دنیا اور اس کے ساتھ اس کی مطابقت اور اسے تبدیل کرنے کی خواہش سے متعلق ہے۔‘‘ 9؎ ’’ چونکہ ادب انسان کی پریشانیوں، امیدوں اور آرزوؤں کو بیان کرتا ہے اس لئے شاید یہ سماجی قوتوں کی انسانی استجابت کے نہایت موثر عمرانیاتی بیرو میٹروں میں سے ایک ہے۔‘‘ Literature, because it delineates mans, anxieties, hopes and aspirations, is perhaps one of the most effective sociological barometers of the human response to socisl forces. 10 اس بحث سے یہ معلوم ہوا کہ ادب اور عمرانیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ فرد اور معاشرہ ان دونوں ہی کا موضوع ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ عمرانیات ایک سائنسی طریق کار ہے مگر ادب ایک فنی نظام ہے۔ جو فرد کے نفسی مطالعہ، معاشرت کے مشاہدہ، زبان کے جمالیاتی اظہار، تخیل کی رنگ آمیزی اور استعاراتی اسلوب سے مرتب ہوتا ہے۔ عمرانیات کا مطالعہ انسان کی معاشرتی بصیرت میں اضافہ کرتا ہے اور ادب اس بصیرت کے علاوہ جمالیاتی ذوق کی تسکین کرتے ہوئے، مسرت اور روحانی طمانیت بھی عطا کرتاہے۔ ادبی عمرانیات (Literary Sociology) یا ادب کی عمرانیات (Sociology of Literature) ان معنوں میں عمرانیات کا ایک ذیلی اور ضمنی شعبہ ہے کہ اس میں ادبی مطالعہ کے لئے علم عمرانیات کے نظری اصولوں اور تصورات کو رہنما بنایا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ادبی عمرانیات، ادبی تنقید کا ایک طریق اور اسلوب ہے جسے انیسویں صدی کے آخر میں ادب کے معاشرتی مقاصد کے مطالعہ اور اس کے وظائف کی تفہیم کے سلسلے میں اختیار کیا گیا۔ ادبی تنقید کے اس طریق کار کی افادیت معلوم ہونے پر اس کو مقبولیت حاصل ہوئی اور اب اسے ایک جدید تنقیدی دبستان کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ گزشتہ دو تین رہائیوں سے امریکہ اور یورپ میں ادب کے عمرانی مطالعہ میں خصوصی دلچسپی لی جا رہی ہے اور اس موضوع پر آئے دن نئی تصانیف منظر عام پر آ رہی ہیں۔ مگر اس کے باوجود ابھی اس ادبی تخلیق و تنقید کے مقاصد، منہاج اور شرائط کا واضح تعین نہیں ہوا۔ ڈبلیو ایچ بروفورڈ (Walter.H.Breford) نے اپنے مضمون ادبی تنقید اور عمرانیات (Literary Critism and Sociology) کا آغاز ان الفاظ میں کیا ہے: Various type of Inquiry, most of them fairly revent and not yet clearly defined in their aims and methods, have been called Sociology of Literature. 11 اسی مضمون میں بروفورڈ نے ادبی عمرانیات کے آغاز11؎ کے بارے میں لکھا ہے: ’’ غیر ملکی ادبیات کو سمجھنے کے لئے ان کے معاشرتی اور ثقافتی پس منظر کے بارے میں معلومات (اگر لازمی نہیں تو) ایک طویل عرصہ سے مددگار خیال کی جاتی رہی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح ادب کی عمرانیات کا مادام اسٹیل سے آغاز ہوا۔‘‘ For the understanding of foreign Literatures, information about their social and cultural background had long been considers most helpful, if not essential. sociology of literature may be said to have begun in this way with mme. de stael. 12 ایلن سونج وڈ (Allan Swingewood) کا بھی خیال ہے کہ ’’ ادب کی عمرانیات‘‘ کی تاریخ غیر یقینی ہے۔ 13؎ اس کے مطابق (Tain) 1828-93ء پہلا شخص ہے جس نے ادب اور معاشرے کے درمیان تعلق کا منظم اور باقاعدہ مطالعہ کیا۔ یقینا اسے تخیلی فنون کے معاشرتی متضمن معانی (Social implications) سمجھنے میں اولیت کا مقام حاصل ہے۔ 14؎ اگرچہ بہت پہلے افلاطون اور ارسطو نے ادب کو معاشرتی حوالے سے دیکھا ہے۔ 15؎ بہرحال ایلن سونج وڈ کے مطابق ٹین کو ہی عام طور پر ’’ ادب کی عمرانیات‘‘ کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔ 16؎ اس نے کامٹ (Comte) کی طرح ادب اور فن کے لئے ایک مکمل سائنسی نقطہ نظر تشکیل دینے کی کوشش کی تاکہ ادب اور فن کو انہی تحقیقی منہاجات کے تحت لایا جائے۔ جو مادی اور طبعی علوم میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس نے اپنے نظریہ کی نسل، زمانہ (عہد) اور ماحول کے تین تصورات پر بنیاد قائم کی۔ ٹین کی طرح ہرڈر (Herder) 1744-1803ء اور مادام اسٹیل (Mmede Stael)1766-1817ء نے بھی ادب کو معاشرے کی مادی بنیادوں سے مشروط کیا ہے۔ ہرڈر کا استدلال یہ تھا کہ ہر ادبی کارنامے کی جڑیں ایک خاص معاشرتی اور جغرافیائی ماحول میں جمی ہوتی ہیں۔ اس نے اس سلسلے میں ایک اور اہم سوال اٹھایا ہے کہ خاص ادبیات مخصوص علاقوں میں کیوں برگ و بار لاتی ہیں اور بعض اوقات کسی دوسری جگہ بالکل نہیں پنپتیں 17؎ اس کے علاوہ بقول ریاض الحن: ’’ اس (ہرڈر) کے خیال میں شاعری کا مقصد محض تفریح طبع نہیں ہے بلکہ اس کا کام قوموں کو ابھارنا اور ان کو ایک بلند اخلاقی اور عملی سطح پر لانا ہے۔‘‘ 18؎ ہرڈر کی طرح مادام اسٹیل بھی ادب کو موسم، جغرافیہ اور سماجی اداروں سے متعلق کرتی ہے۔ 19؎ انیسویں صدی میں مارکس اور اینگلز کے تصورات نے فلسفہ، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ، عمرانیات اور ادب کو بہت متاثر کیا۔ ان کے فلسفہ کو جدلیاتی مادیت پسندی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان کا ایک بنیادی تصور یہ بھی ہے کہ انسان کی سماجی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ 20؎ مارکس اور اینگلز نے ادب کی حقیقت پر بھی غور کیا ہے۔ ادب سے متعلق ان کے نتائج فکر کو مارکسی نظریہ ادب کہا جاتا ہے۔ ادبی عمرانیات کے فروغ میں مارکسی نظریہ ادب کا بڑا حصہ ہے۔ مارکسی ادب کو عمروضی حالات کی تخلیق خیال کرتے ہیں۔ بقول علی عباس جلالپوری: ’’ جہاں تک آرٹ اور ادبیات کا تعلق ہے۔ مارکسیوں کے خیال میں پیداوار کے علائق سیاسی، عمرانی اور عقلیانی اعمال کی طرح جمالیاتی فعلیت کو بھی معین کرتے ہیں اور صداقت اور خیر کی طرح جمال کی قدر کو بھی اضافی مانتے ہیں۔ ان کا ادعا ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ آرٹ زندگی کے لئے ہے تو اس کا مطلب جیسا کہ ان کے معترضین کہتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ آرٹ مقصدی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آرٹ زندگی کے معروضی حالات کی پیداوار ہے۔ معروضی زندگی آرٹ کو جنم دیتی ہے۔‘‘ 21؎ مارکسی نظریہ ادب میں روسی نقاد جارج پلیخانوف (George Plekhanoe) 1857-1918ء اور ہنگری کے جارج لیوکاس (George Lukacs) نے اپنے نظریی مباحث سے بڑی وسعت پیدا کی۔ ان کے دلائل کا بھی مرکزی نقطہ یہی ہے کہ ادب اپنے عہد کے معروضی حالات اور مادی تقاضوں کی پیداوار ہوتا ہے۔ لیوکاس کی تصانیف ادبی عمرانیات میں بہت وقیع خیال کی جاتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہوئی۔ جو بہت جلد ایک ادبی تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نقادوں نے اردو تنقید میں مارکسی نظریہ ادب کی روشنی میں نظری اور عملی تنقید کے کامیاب نمونے پیش کئے اور ادب کو زندگی کے معروضی حالات کے حوالے سے دیکھنے کا نقطہ نظر عام کیا۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک سے پہلے شاید ادب اور معاشرے کے تعلق کو کسی نے درخوراعتنا خیال نہ کیا تھا۔ مگر حقیقت ہے کہ سرسید اور ان کے رفقا ادب کے معاشرتی منصب کا واضح تصور رکھتے تھے یہاں سرسید ان کے رفقاء محمد حسین آزاد کے ایسے خیالات کا سراغ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے جنہیں ادبی عمرانیات کے تصورات کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کی تمام ادبیات کی طرح اردو ادب بھی تاریخی ادوار میں ملکی رسوم و رواج، قومی نظریات، مذہبی معتقدات، تہذیبی تصورات، سیاسی واقعات، ثقافتی روایات اور اخلاقی اقدار کا آئینہ دار رہا ہے۔ قدیم اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی مطالعہ اس امر کا وافر ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ کسی بھی دور میں شاعر اپنے معاشرتی ماحول سے بے نیاز نہیں رہا۔22؎ اسی طرح داستانوں کے مطالعہ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ داستان نگاروں نے اپنے اپنے عہد کی تہذیب و معاشرت کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ 23؎ مگر اس کے باوجود ان زمانوں کے ادباء اور شعراء کو جدید اصطلاح کے مطابق عمرانی طرز فکر کا حامل اور معاشرتی حالات کا ترجمان نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں نئے سیاسی خیالات کے زیر اثر جو اجتماعی شعور پیدا ہوا وہ اس سے پہلے تاریخی لحاظ سے بھی ممکن نہ تھا۔ اردو ادب میں سب سے پہلے سرسید اور ان کے رفقا تحریک نے سائنسی اور معاشرتی علوم کے ساتھ ادب کا رشتہ جوڑا۔ اردو میں عمرانیات اور ادب کے حوالے سے اگر کوئی مطالعہ کیا جائے گا تو سرسید تحریک کو اس کا نقطہ آغاز قرار دیا جائے گا۔ سرسید ایک مخلص اور قومی درد رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے جن حوصلہ شکن حالات میں مسلمانوں کی قومی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے کوشش کی وہ ایک روح پرور داستان ہے۔ چونکہ انہیں اپنے مقاصد سے قوم کو متفق بنانے کے لئے تحریر و تقریر سے خود بھی کام لینا پڑتا تھا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ اجتماعی شعور کی تربیت کے لئے ادب ایک موثر وسیلہ ہے اس لئے انہوں نے اردو زبان و ادب کو اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ادبی اسالیب اور موضوعات میں انقلابی تبدیلیاں لانے پر اصرار کیا۔ سرسید نے تہذیب الاخلاق کا پہلا پرچہ شائع کرتے ہوئے جو مضمون لکھا اس سے ان کے ادبی نظریہ پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ اس پرچے کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی سویلزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے۔۔۔۔ سویلزیشن سے مراد انسنا کے تمام افعال ارادی اور اخلاق اور معاملات اور معاشرت تمدن اور طریقہ تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصلی خوشی اور جسمانی خوبی ہوتی ہے اور تمکن اور وقار اور قدر و منزلت حاصل کی جاتی ہے اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے۔‘‘ 24؎ سرسید کے رفقاء میں شاعری اور معاشرے کے تعلق کو حالی نے سب سے زیادہ سمجھا ہے۔ حالی کا مقدمہ سب سے پہلے دیوان حالی کے ساتھ 1893ء میں شائع ہوا۔ خاص طور پر حالی کے مقدمہ کے ذیلی عنوان ’’ شاعری سوسائٹی کی تابع ہے‘‘ کے تحت بحث ادبی عمرانیات کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ مگر باوجود ان تمام باتوں کے جو کہ شعر کی تائید میں کہی گئی ہیں، ممکن ہے کہ سوسائٹی کے دباؤ یا زمانہ کے اقتضا سے شعر پر ایسی حالت طاری ہو جائے کہ وہ بجائے اس کے کہ قومی اخلاق کی اصلاح کرے اس کے بگاڑنے اور برباد کرنے کا ایک زبردست آلہ بن جائے۔ قاعدہ ہے کہ جس قدر سوسائٹی کے خیالات، اس کی رائیں، اس کی عادتیں، اس کی رغبتیں، اس کا میلان اور مذاق بدلتا ہے اسی قدر شعر کی حالت بدلتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی بالکل بے معلوم ہوتی ہے کیونکہ سوسائٹی کی حالت کو دیکھ کر شاعر قصداً اپنا رنگ نہیں بدلتا بلکہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بدلتا چلا جاتاہے۔‘‘ 25؎ مقدمہ کی ایک دوسری بحث’’ بری شاعری سے سوسائٹی کو کیا کیا نقصان پہنچتے ہیں‘‘ بھی ادبی عمرانیات کے سلسلے کی ایک اہم بحث ہے۔ حالی نے لکھا ہے: ’’ اگرچہ شاعری کو ابتداً سوسائٹی کا مذاق فاسد بگاڑتا ہے مگر شاعری جب بگڑ جاتی ہے تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نہایت نقصان پہنچاتی ہے۔ جب جھوٹی شاعری کا رواج تمام قوم میں ہو جاتا ہے تو جھوٹ اور مبالغہ سے سب کے کان مانوس ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ جھوٹے قصے اور افسانے حقائق واقعہ سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتے ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس سے طبیعتیں بیگانہ ہو جاتی ہیں اور چپکے ہی چپکے مگر نہایت استحکام کے ساتھ اخلاق ذمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑ جاتے ہیں اور جب جھوٹ کے ساتھ ہزل و نحریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے تو قومی اخلاق کو بالکل گھن لگ جاتا ہے۔‘‘ 26؎ مندرجہ بالا اقتباس سے شاعری کے حوالے سے حالی کی عمرانی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آرٹ کے ایک ہنگری نژاد سوشیالوجسٹ اور مورخ آرنلڈ ہاسر Arnold Hauser(وفات 1977ئ) نے بھی آرٹ اور معاشرے کے باہمی رد عمل اور اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: This is Inspite of the fact that art both influwnces by social changes. that it inititates social changes while itself changing with them the Influence that starts in society and is directed toward art determine the nature of the relationship more than the reverse where a form of art already chracterized by interpersonal relationship reacts upon society so that we always have to talk of a contemporaneity and a mutality of social arteistic effects. 27 چونکہ حالی قومی ترقی کی ایک پرجوش تحریک سے وابستہ تھے لہٰذا وہ نئے معروضی حالات میں زمانے کے تقاضوں کے مطابق نئی شاعری کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ وہ شاعری کی اصلاح کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’ نئی شاعری کی بنیاد ڈالنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کے عمدہ نمونے پبلک میں شائع کئے جائیں۔‘‘ 28؎ شبلی نعمانی اس عہد کے نامور ادیب، مورخ، سوانح نگار، شاعر اور نقاد تھے۔ ان کے ادبی معتقدات اور نظریات مختلف دیباچوں اور مضمونوں وغیرہ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جن کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ادب کو قومی شعور اجالنے اور زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے والا ایک عامل خیال کرتے تھے۔ اگر ادبی عمرانیات کے حوالے سے ان کی بعض تصانیف کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ شاعری اور ادب کو ایک خاص زمانے کے معروضی حالات کی پیداوار سمجھتے تھے۔ یہاں شعر العجم سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔ ملک کے جغرافیائی حالات اور موسموں کا خیالات انشا پردازی اور شاعری پر کیا اثر ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے شبلی نے لکھا ہے: ’’ یہ بدیہی بات ہے کہ ملک کی آب و ہوا، سرسبزی اور شادابی کا اثر، خیالات پر پڑتا ہے اور اس ذریعہ سے انشا پردازی اور شاعری تک پہنچتا ہے۔ عرب جاہلیت کا کلام دیکھو تو پہاڑ، صحرا، جنگل، بیابان، دشوار گزار راستے، مٹے ہوئے کھنڈر، ببولوں کے جھنڈ، پہاڑیاں، جھاڑیاں، یہ چیزیں ان کی شاعری کا سرمایہ ہیں لیکن یہی عرب جب بغداد میں پہنچے تو ان کا کلام چمنستان اور ستبلستان بن گیا، ایران ایک قدرتی چمن زار ہے، ملک پھولوں سے بھرا ہے قدم قدم پر آب رواں، سبزہ زار، آبشاریں ہیں، بہار آئی اور تمام سر زمیں تختہ زمردیں بن گئی، باد سحر کے جھونکے، خوشبوؤں کی لپٹ، سبزہ کی لہک، بلبلوں کی چہک، طاؤس کی جھنکار، آبشاروں کا شور، وہ سماں ہے ایران کے سوا اور کہیں نظر نہیں آ سکتا۔ اس حالت کا یہ اثر ہوا کہ ایران کی تمام انشاء پردازی پر رنگینی چھا گئی، کسی چیز کی خوبی یا کمال کو بیان کرنا چاہیں تو رنگ و بو کے ذریعہ سے کام لیں گے۔۔۔۔۔‘‘ 29؎ ہم یہاں عمرانی اہمیت کے کئی دوسرے مقامات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک اور اقتباس پیش کریں گے جس سے معلوم ہو گا کہ شبلی کو ادبی عمرانیات کی اس حقیقت اور نظری اصول سے واقفیت ہے کہ کسی ملک کے خاص عہد کی شاعری یا ادب اور افکار پر سیاسی حالات بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ وہ صوفیانہ شاعری کی ذیل میں لکھتے ہیں: ’’ خواجہ صاحب کے بعد صوفیانہ شاعری کی ترقی کے بہت سے اسباب پیدا ہو گئے، تاتاریوں کے ہنگامہ نے جو اسی زمانہ میں شروع ہوا تمام اسلامی دنیا کو زیر و زبر کر دیا، اینٹ سے اینٹ بج گئی، مشرق سے مغرب تک سناٹا چھا گیا، تصوف کی بنیاد دنیا و مافیہا کی بے قدری اور بے حقیقی ہے یہ سب کو آنکھوں سے نظر آ گئی، اس حالت میں جو دل متاثر اور قابل تھے۔ ان کو خدا سے زیدہ لو لگی۔ انابت، خضوع ، تضرع، رضا بالقضائ، توکل جو تصوف کے خاص مقامات ہیں خود بخود دل پر طاری ہوئے، اسی کا نتیجہ ہے کہ جس کثرت سے صوفی شعرا اس زمانہ میں پیدا ہوئے کسی زمانہ میں نہیں پیدا ہوئے۔ مولانا روم، سعدی، اوحدی، عراقی سب انہی اسباب کے نتائج ہیں۔‘‘ 30؎ حالی اور شبلی کے نامور معاصرین میں محمد حسین آزاد بھی ایک بالغ عمرانی شعور کے مالک انشا پرداز اور محقق و مورخ تھے۔ ان کے لسانیات کے مباحث سے ان کے گہرے عمرانی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ اس طرح آب حیات میں ہر عہد کے شعراء کو ان کے اپنے تمدنی اور معاشرتی پس منظر میں متعارف کرایا گیا ہے۔ خاص طور پر سخندان فارس کا ساتواں لیکچر بعنوان ’’ ہر ایک سر زمین اور اس کے موسموں کی بہار انشا پردازی پر کیا اثر کرتی ہے؟‘‘ ادبی عمرانیات کے نقطہ نظر سے نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے اس لیکچر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ یہ موضوع ادب اور زندگی کے ربط باہم کا ایک تعارف ہے۔ ادب کسی طرح بھی مقامی اثرات سے دامن نہیں بچا سکتا۔ جو ادب اپنے ماحول کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ وہ مصنوعی اور غیر فطری ہو جاتا ہے۔‘‘ 31؎ آزاد نے اس لیکچر میں ایک جگہ لکھا ہے: ’’ کسی ملک کا انشا پرداز جب کوئی مطلب بیان کرنے لگتا ہے تو وہاں کے اشیاء اجناس وغیرہ جو آس پاس ادھر ادھر سامنے ہیں وہ ہجوم کر کے اس کے دل و زبان پر امنڈ آتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں کہ جو کہنا ہے ہمارے استعاروں اور ہماری تشبیہوں میں ادا کرو چنانچہ اسے مجال نہیں ہوتی بجز اس کے کہ انہیں کو اپنے ادائے مطلب کا سامان بنائے جب بیان میں صفائی کے ساتھ لطف آئے۔‘‘ 32؎ آزاد ادب اور زمانے کے کس قدر رمز شناس تھے۔ اس کا اندازہ انجمن پنجاب کے جلسوں میں آزاد کی تقریروں سے ہوتا ہے۔ خصوصاً ’’ مضمون لیکچر‘‘ میں انہوں نے نئے عہد کے جدید تقاضوں کے پیش نظر انگریزی علم و ادب کو معیار قرار دے کر اردو نظم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ اس لیکچر میں کہتے ہیں: ’’ میرے اہل وطن! آؤ آؤ۔ برائے خدا اپنے ملک کی زبان پر رحم کرو۔ اٹھو اٹھو۔ وطن اور اہل وطن کی قدیمی ناموری کو بربادی سے بچاؤ۔ تمہاری شاعری جو چند محدود احاطوں میں بلکہ چند زنجیروں میں مقید ہو رہی ہے۔ اس کے آزاد کرنے میں کوشش کرو نہیں تو ایک زمانہ تمہاری اولاد ایسا پائے گی کہ ان کی زبان شاعری کے نام سے بے نشان ہو گی اور اس فخر آبائی اور بزرگوں کی کمائی سے محروم ہونا بڑے افسوس کا مقام ہے۔‘‘ 33؎ اردو ادب میں ادبی عمرانیات کے حوالے سے ڈپٹی نذیر احمد کو نمائندہ ادیب کہا جا سکتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو میں سب سے پہلے ناول کی صنف کو تہذیبی، معاشرتی اور عمرانی مسائل کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ناول میں جس طرح جیتی جاگتی زندگی کو پیش کیا جا سکتا ہے وہ کسی دوسری صنف میں ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ادبی عمرانیات کے شعبہ میں عام طور پر ناول کو ہی موضوع بنایا جاتا ہے۔ 34؎ بہرحال ڈپٹی نذیر احمد بھی اس دور کے ایک مقصدی ادیب ہیں۔ وہ اکثر مقصدیت پر فن کو قربان کر دیتے ہیں۔ کیونکہ اصلاح معاشرت اور قومی ترقی ان کا منتہا و مقصود ہے۔ مگر انہوں نے ادبی عمرانیات کے حوالے سے اردو ادب کو جو سمت عطا کی وہ ایسا گراں قدر کام ہے کہ اس کے لئے نذیر احمد نے فن کی جو جزوی قربانی دی وہ اپنی جگہ جائز اور قابل قبول بن جاتی ہے۔ نذیراحمد کی عام تصانیف (بشمول خطبات و مکاتیب) سے ان کے گہرے عمرانی شعور کا اندازہ ہوتا ہے خاص طور پر ان کے ناول اپنے عہد کے سماجی و معاشرتی مسائل اور سیاسی معاملات پر قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں ان کے ناولوں کے موضوع برصغیر میں انیسویں صدی کے نصف آخر کے مسلمانوں کی سماجی اور معاشرتی زندگی سے متعلق ہیں جن کے کرداروں کی شخصیت کا عمرانی سیاق و سباق میں نفسیاتی مطالعہ حقیقت پسندانہ واقعہ نگاری اور فطری مکالمہ نویسی کا انداز ایسا موثر ہے کہ ایک طرف تو قاری کے ذہن پر بیشتر کرداروں کی تصویریں نقش ہو جاتی ہیں، دوسرے قاری کے فکر و خیال میں تحرک اور تموج کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مولانا صلاح الدین احمد نے نذیر احمد کے ناولوں کو عمرانی مقالے کہہ کر ان ناولوں کی فکری معنویت میں ارتکاز پیدا کر دیا ہے۔ اگرچہ نذیر احمد ادبی نقاد یا مورخ نہ تھے مگر ان کی تصانیف کے بعض مقامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک عمرانی نقاد کا انتہائی پختہ شعور موجود تھا۔ مثلاً اپنے ناول ابن الوقت (اشاعت 1888ء ) کے ابتدائی صفحات میں ابن الوقت کے کردار اور شخصیت کا تعارف پیش کرتے ہوئے زمانہ طالب علمی میں اس کے انداز مطالعہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’ جب کوئی نئی کتاب جماعت میں شروع ہوتی اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ اس کا مصنف کون تھا، کہاں کا رہنے والا تھا، کس زمانے میں تھا، کس سے اس نے پڑھا، اس کے معاصر کون تھے، اس کے وقائع عمری میں کون کون سی بات قابل یادگار ہے۔‘‘ 35؎ متذکرہ اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ نذیر احمد کے ان چند فقروں میں بالواسطہ ہی سہی عمرانی تنقید کے وہ بنیادی خطوط نمایاں ہو گئے ہیں جو عمرانی دلبستان تنقید میں اس کے دستور اور منشور گویا اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آخر میں اکبر الہ آبادی کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات ان کے دور کے معاشرتی، سیاسی، تہذیبی اور تمدنی مسائل پر مبنی ہیں۔ انہوں نے اپنی شعری لغت کے استعمال میں بڑے اجتہاد سے کام لیا ہے۔ وہ اکثر اپنے گرد و پیش کی اشیاء اور ان کے اسما کو تشبیہہ اور استعارے کے طور پر کام میں لاتے ہیں۔ جدید اردو ادب کی تاریخ میں اکبر الہ آبادی عمرانی حوالے سے اس دور کی اہم ترین شخصیت ہیں ان کی شاعری کا بیشتر مواد عمرانی مسائل پر مشتمل ہے کسی شاعر یا ادیب کی لفظیات میں جدت طرازی (گویا روایتی استعمال سے گریز اور انحراف) کا مطالعہ ادبی عمرانیات کا ایک اہم پہلو ہے نئے الفاظ اور لفظوں کے نئے استعمال کے لحاظ سے بھی اردو میں اکبر الہ آبادی ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ اس بحث کا خلاصہ یہ رہے گا کہ اقبال سے پہلی نسل بھی شعر و ادب کو زندگی سے پیوستہ خیال کرتی تھی۔ اور وہ ادب کے معاشرتی منصب کی قائل تھی۔ اقبال کے ہاں عمرانی نظریہ ادب کا ظہور سب سے پہلے بانگ درا کی نظم ’’ سید کی لوح تربت‘‘ میں نظر آتا ہے۔ ’’ یہ نظم جنوری 1903ء کے ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اصل نظم کے تیس شعر تھے۔ نظر ثانی میں صرف چودہ باقی رکھے گئے‘‘ 36؎ اس نظم میں اقبال تخئیلی سطح پر سرسید کی زبانی پیغام سنتے ہیں۔ نظم کے آخری بند میں سرسید نے شاعر کو جو پیغام دیا ہے وہ اقبال کے اپنے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک شاعر کا عمرانی نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ وہ سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے بانگ درا کی نظم ’’ شاعر‘‘ جو دسمبر1903ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ 37؎ اقبال کے عمرانی زاویہ فکر کی ترجمان ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال کے نزدیک معاشرہ اور قومی زندگی میں شاعر کا معاشرتی مرتبہ اور عمرانی منصب کیا ہے؟ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نظم کی تخلیقی تحریک میں افلاطون، رسول اکرمؐ کی ایک حدیث، ہربرٹ اسپنسر اور خصوصاً شیخ سعدی کے مندرجہ ذیل اشعار کا بڑا حصہ ہے۔ ؎ بنی آدم اعضائے یک دیگر اند کہ در آفرینش ز یک جواہر اند چو عضوے بدرد آورد روزگار دگر عضو ہا را نماند قرار *اس نظم پر راقم الحروف کے تنقیدی مقالہ کے لئے دیکھئے ماہنامہ ماہ نو لاہور بابت اپریل 1991ء مگر اقبال نے اپنی نظم میں افراد اور اقوام کے باہمی تعلق نیز قومی زندگی کے مختلف شعبوں کے کردار کا جس طرح تعین کیا ہے وہ نہ صرف اقبال کی علم عمرانیات سے واقفیت کا ثبوت ہے بلکہ شاعر کے سیاسی و سماجی وظیفہ حیات اور عمرانی طرز احساس کی بھی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں سعدی کے ان اشعار کی معنوی عمومیت اور اقبال کی اس نظم میں موضوعاتی تخصیص سے شاعری کی عمرانیاتی بنیادوں کے متعلق اقبال کے تصور کا اظہار ہوتا ہے۔ اقبال کی نظم مندرجہ ذیل تین اشعار پر مشتمل ہے۔ قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم محفل نظم حکومت، چہرہ زیبائے قوم شاعر رنگین نوا ہے دیدہ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ بانگ درا کے حصہ اول میں ’’ تصویر درد‘‘ فن اور موضوع کے کئی پہلوؤں سے ایک اہم نظم ہے۔ اس کے اسلوب و معانی کے مطالعہ میں صیغہ واحد متکلم کے استعمال اور اس کی اہمیت پر توجہ نہیں کی گئی اس نظم میں کئی جگہ اقبال نے اپنی شاعرانہ حیثیت کا بھی ذکر کیا ہے۔ جس سے شاعر کے فرض منصبی کے بارے میں اقبال کے نقطہ نظر کی وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً درج ذیل شعر میں وہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شاعر کی کائنات اور زندگی کے حقائق پر نظر ہوتی ہے اور شاعر ان حقائق کا صحیح اور سچا اظہار کرتا ہے وہ کہتے ہیں۔ نہ صہبا ہوں، نہ ساقی ہوں، نہ مستی ہوں، نہ پیمانہ میں اس میخانہ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے جب کسی ملک اور دیس کی حالت زوال اور انحطاط کے عبرت خیز مقام پر پہنچ جاتی ہے تو اس کے قومی شاعر عشق و محبت کے گیت نہیں چھیڑتے کیونکہ نوحہ خوانی ان کا مقسوم ہوتی ہے۔ اقبال 1904ء میں ہندوستان کی سیاسی صورت حال خصوصاً ہندوستانی اقوام کے باہمی نفاق اور فساد سے بہت آزردہ خاطر ہوئے۔ جس کا اظہار ان اشعار میں ہو اہے۔ رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا لکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا اقبال کے ان اشعار سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ سماجی اور سیاسی شعور سے بہرہ ور ایک شاعر اپنے ذاتی جذبات اور انفرادی احساسات کو اجتماعی تجربہ بنانے کی خواہش سے مغلوب ہو جاتا ہے کیونکہ یہ فن کار کے سماجی فریضہ اور شاعرانہ تجربے کے اظہار و ابلاغ کا فطری اور نفسیاتی تقاضا ہے۔ اقبال اسی تقاضے کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہتے ہیں۔ ہوایدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا لہو رو رو کے محفل کو گلستان کر کے چھوڑوں گا جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا دکھا دوں گا جہاں کو جو مری آنکھوں نے دیکھا ہے تجھے بھی صورت آئینہ حیران کر کے چھوڑوں گا اقبال کے عمرانی تصور ادب میں ان کے قیام یورپ کا وہ واقعہ بہت معنی خیز ہے جو اقبالیات میں کم و پیش تلمیح کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ہماری مراد اقبال کے ترک شاعری کے ارادے سے ہے جس کو انہوں نے شیخ عبدالقادر اور سر ٹامس آرنلڈ کی اس یقین دہانی پر عملی جامہ نہ پہنچایا کہ ان کی شاعری میں وہ تاثیر ہے جس سے ان کی ’’ درماندہ قوم اور بدنصیب ملک کے امراض کا علاج ہو‘‘ سکتا ہے۔38؎ یوں تو اقبال کا مطالعہ ادب اور فلسفہ وغیرہ یورپ روانہ ہونے سے پہلے ہی قابل رشک تھا مگر انہیں اپنے تحقیقی مقالہ کے سلسلہ میں تاریخ، ادب، مذاہب، فلسفہ اور تصوف کا وقت نظر کے ساتھ مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ ان کے اس مقالہ The Development of Metaphysics In Persia. سے ان کے وسعت مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے زیر نظر مطالعہ کے حوالے سے اقبال کا یہ تحقیقی مقالہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ متصوفانہ ادب اور افکار کے لئے تاریخی اور عمرانی سیاق و سباق سے آگاہی ضروری خیال کرتے تھے۔ نمونہ از خروارے کے طور پر یہاں اقبال کے مقالہ کے باب نمبر5کے مندرجہ ذیل ٹکڑے پیش کئے جا سکتے ہیں: ..... The full significance of a people, can only be comprehended in the light of those pre-existing intellectual political, and social conditions which alone make its existence inevitable 39 It would be an historical error to say that the dissolution of roman empire was due to the barbarian invasions. the statement completely ingneres other forces of a different chracter that tended to aplit up the political unity of the Empire. to describe the advent of barbarian invasions as the cause of the dissolution of the Roman Empire. which could have assimilated, as it actually did to a certain extent, the so called cause, is a procedure that no logic would justigy. let us, therefore, in the light of a truer theory of causation, enumerate the principal political, social and intellectual conditions of islamic life about the end of the 8th and the first half of the century. when, properly speaking. the sufi ideal of life came in to existence, to be soon followed by philosophical jistification of that ideal. 40 اقبال کے ادبی نصب العین کے استقلال میں گوئٹے اور اس کے معاصرین کی المانوی تحریک ادب کا بڑا ہاتھ ہے۔ مرزا غالب پر اقبال کی نظم میں گوئٹے کے حوالے سے ظاہر ہے کہ اقبال 1902ء سے پہلے گوئٹے کو پڑھنے کے بعد اس کی عظمت کے قائل ہو چکے تھے۔ اس نظم کے حوالے سے این میری شمل لکھتی ہیں۔ For political reasons the indian Muslims remained mainly congined to the English tradition in Literature. Iqbal is an exception. Although he praised wordsworth and translated short poems of some English and Amercian writers in to Urdu in his rarly years, his love for geothe in visible from the very begnning of his carees. it is ecident from his beautiful poem in honour of Ghalib....41 حال ہی میں ویگیناسٹ کے نام اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط اردو ترجمہ کی صورت میںشائع ہوئے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے اپنے قیام جرمنی کے دوران گوئٹے کا دوبارہ خصوصی مطالعہ غالباً اصل زبان یعنی جرمن میں کیا تھا۔ وہ لاہور سے 30جولائی 1913ء کے خط میں ویگیناسٹ کو لکھتے ہیں: ’’ مجھے وہ وقت بخوبی یاد ہے۔ جب میں نے گوئٹے کی شاعری آپ کے ساتھ پڑھی۔۔۔۔۔‘‘ 42؎ 7جون1914ء کے خط میں لکھا ہے: ’’ ۔۔ اگلے روز میں ہائنے کا مطالعہ کر رہا تھا اور مجھے وہ پر مسرت دن یاد آ گئے جب ہائیڈل برگ میں محترمہ پروفیسر صاحبہ کے یہاں ہم دونوں اس کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔۔۔۔ ہو سکتا ہے میں اگلے سال یورپ آؤں۔۔۔۔ اگر میں واقعی یورپ آیا تو۔۔۔ آپ سے دوبارہ ہائیڈل برگ یا ہائل برون میں ملاقات کو آؤں گا۔ جہاں سے ہم دونوں ایک ساتھ عظیم دانشور گوئٹے کے مزار مقدس کی زیارت کو جائیں گے۔‘‘ 42؎ 20اکتوبر1931ء کو لندن سے اقبال اپنے خط میں لکھتے ہیں: ’’ میں ہائیڈل برگ کے وہ ایام کبھی فراموش نہ کر سکوں گا جب آپ نے مجھے گوئٹے کا فاؤسٹ پڑھایا۔۔۔‘‘ 44؎ اقبال جولائی 1908ء میں انگلستان سے وطن واپس لوٹے۔ وہ ایک ڈیڑھ سال زندگی کے معمولات کو بحال کرنے میں بے حد مصروف رہے۔ ان کا یورپ سے واپسی کے بعد کا زمانہ ان کے انتہائی روحانی کرب اور ذہنی کشمکش کا زمانہ ہے۔ بقول اقبال: ’’ 1910ء میں (میری) اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا۔۔۔۔ 1910ء میں اپنی مثنوی اسرار خودی لکھنی شروع کی۔‘‘ 45؎ بہرحال 1910ء اقبال کی تخلیقی زندگی میں نہایت زرخیز سال ہے۔ مثنوی کے ساتھ ساتھ اقبال اس سال انگریزی میں ایک لیکچر Muslim Community: A Sociological Study (جس کا ظفر علی خاں نے ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر کے عنوان سے ترجمہ) کیا بھی تیار کر رہے تھے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لیکچر اور مثنوی کے لئے 1910ء کے درمیانی مہینوں میں شذرے لکھتے رہے مگر یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ ان شذرات کی مجموعی تعداد125بنتی ہے۔ 46؎ ان شذرات میں اقبال شناسوں کو بعض نکات کی تفہیم میں بڑی مدد ملی ہے۔ کیونکہ ان شذرات میں کئی جگہ اقبال نے مشرق و مغرب کے مختلف اکابر شعرا اور فلاسفہ کی چند جملوں میں تحسین کی ہے یا ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ گویا ان شذرات سے اس امر کا یقینی تعین ہو جاتا ہے کہ اقبال اپنے فکر و فن کے تشکیلی دور میں فلسفہ و ادب کی کن عظیم عالمی شخصیات سے متاثر ہوئے۔ ان اکابرین میں گوئٹے کا ذکر نو شذرات میں بڑی تفصیل اور تعظیم سے ہوا ہے۔ 47؎ جبکہ رومی کا ضمن طور پر ایک شذرے میں ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح حافظ، بیدل، ہائنے، ورڈزورتھ، ملٹن کا بھی ایک ایک اور شیکسپیئر، ہیگل، غالب، نطشے اور کانٹ کا دو دو شذروں میں ذکر ہوا ہے۔ گویا 1907ء میں قیام جرمنی کے بعد1910ء میں بھی اقبال گوئٹے کی فکری و فنی شخصیت سے اثرات قبول کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسرار خودی میں گوئٹے کا فکری فیضان کس قدر ہے؟ ایک اہم سوال ہے جس پر ابھی تک غور نہیں کیا گیا۔ سر دست ہمارے دائرہ کار سے بھی خارج ہے۔ البتہ گوئٹے سے یہ گہرا تعلق اقبال کے ادبی نصب العین کو واضح کرنے میں نمایاں ہوا۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت پیام مشرق کی تخلیق ہے۔ علامہ اس کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں: ’’ پیام مشرق کے متعلق جو ’’ مغربی دیوان‘‘ سے سو سال بعد لکھا گیا ہے مجھے کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ ناظرین خود اندازہ کر لیں گے کہ اس کا مدعا زیادہ تر ان اخلاقی، مذہبی اور ملی حقائق کو پیش نظر لانا ہے جن اک تعلق افراد و اقوام کی باطنی تربیت سے ہے‘‘ 48؎ اقبال کے عمرانی تصور ادب کا ایک اور جگہ اظہار ہوا ہے۔ بیاض اقبال میں میتھیو آرنلڈ کی مشہور تنقیدی رائے ایک شذرہ میں درج کرتے ہوئے اقبال نے اس میں ایک زاویے کا اضافہ کیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ آرنلڈ نے شعر کو تنقید حیات قرار دیا ہے لیکن یہ با ت بھی یکساں طور پر درست ہے کہ خود حیات تنقید شعر ہے۔‘‘ 49؎ علاوہ ازیں اقبال کے ادبی اور شعری مسلک کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت شذرات قابل توجہ ہیں: 1شعرا اور سیاست دان 2فلسفہ اور شاعری 3ماہر نفسیات اور شاعری 4فلسفہ اور شاعری کے اثرات 5پیغمبر کے زیر عنوان شذرہ درج ذیل ایک جملہ پر مشتمل ہے: ’’پیغمبر ایک باعمل شاعر ہوتا ہے‘‘ اقبال کی کئی منظومات میں شاعر ایک اہم کردار ا موضوع کی حیثیت سے آتا ہے۔ اس سلسلے میں بانگ درا کی نظم شاعر (حصہ اول) شاعر اور رات، شمع و شاعر، شاعر (حصہ سوم) پیام مشرق میں حور و شاعر کے عنوان سے نظموں کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں مشرق و مغرب کے کئی عظیم شعراء کو علامہ نے اپنی اردو اور فارسی نظموں میں منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان دونوں قسم کی منظومات سے اقبال کے ادبی نقطہ نظر پر روشنی پڑتی ہے۔ لیکن علامہ کا نظریہ ادب زیادہ وضاحت اور صراحت سے اس وقت سامنے آیا جب اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں خواجہ حافظ کے متعلق ان کے اشعار پر صوفیانہ حلقوں کی طرف سے احتجاج ہوا۔ اقبال اسلم جیراج پوری کے نام 17مئی 1919ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا مگر عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے او رنتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن، حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں، خواہ مضر تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں۔ بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دئیے ہیں اور ان کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔‘‘ 50؎ اسرار خودی کے خلاف رد عمل میں تصوف سے عام دلچسپی کے علاوہ اس حقیقت کو بھی نظر اندا زنہ کرنا چاہیے کہ ابھی اردو میں ادب کے افادی اور مقصدی تصورات کے لئے غیر مشروط قبولیت کی فضا پیدا نہیں ہوئی تھی یہ تاریخی حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ اردو کے شعرا و ادب میں سرسید کی زبردست ادبی تحریک کے باوجود ادبیت اور شعریت کے مقابلے میں مقصدیت کو ادب میں ابھی خاطر خواہ اعتبار حاصل نہ ہوا تھا۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہندوستان میں اقبال کے فارسی کلام کے بیشتر قارئین بھی وہی تھے جو اردو اور فارسی کلاسیکی شاعری کے مضامین و تصورات اور فنی محاسن کے دلدادہ اور رمز شناس تھے۔ اس لئے اقبال نے مختلف حضرات کے نام خطوط میں اپنے ادبی نصب العین کی وضاحت پیش کی۔ شبلی کے جانشین سید سلیمان ندوی جیسے فاضل کو مثنوی کے بعض قوانی کے استعمال پر اعتراض ہوا۔ ان کے خط کے جواب میں مورخہ اکتوبر 1918ء کو اقبال لکھتے ہیں: ’’ قوانی کے متعلق جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا بالکل بجا ہے مگر چونکہ شاعری اس مثنوی سے مقصود نہ تھی اس واسطے میں نے بعض باتوں میں تساہل برتا۔۔۔‘‘ 51؎ سید سلیمان ندوی ہی کے نام 10اکتوبر1919ء کے خط میں اقبال اپنا فنی مقصود بیان کرتے ہیں: ’’ شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمع نظر نہیں رہا۔۔۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں۔ ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں۔۔۔‘‘ 52؎ سوال پیدا ہوتا ہے اس مقصد یعنی قوم کے خیالات میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے اقبال نے شاعری کو ذریعہ اظہار کیوں بنایا۔ سلیمان ندوی ہی کے نام 20اگست1935ء کے خط میں انہوں نے اس کا یوں جواز پیش کیا ہے: ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔۔۔ فن شاعری سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی، ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لئے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے، ورنہـ نہ بینی خیر ازاں مرد فرد دست کہ بر من تہمت شعر و سخن بست‘‘ 53؎ اس سلسلے دوسرے حوالوں اور اقتباسات سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم عمرانی نوعیت کے ایک اور اہم سوال کی طرف آتے ہیں کہ شاعری اور ادب میں اقبال کے نزدیک مفید خیالات اور مضر تصورات کا کیا معیار ہے؟ اقبال نے اس سوال کا نہایت مدلل جواب اپنے مضمون ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:ـ ’’ فردی اور ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔۔۔‘‘ 54؎ متذکرہ صدر مضمون مرتب ’’ مقالات اقبال‘‘ کے مطابق15جنوری 1916ء کو اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر میں شائع ہوا تھا۔ 55؎ اس مضمون کے محولہ بالا اقتباس کے خیال کو اقبال نے ایک اور مضمون میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔ ان کا یہ مختصر سا مضمون نیو ایرا لکھنو بابت28جولائی 1917ء میں Our Prophet,s Criticism of Contemporary Arabian Poetry کے عنوان سے شائع ہوا56؎ جس کا اردو ترجمہ ’’ ستارۂ صبح‘‘ (لاہور) کے سب سے پہلے شمارے 8 اگست1917ء میں شائع ہوا تھا۔ 57؎ اور اب ’’ مقالات اقبال‘‘ میں شامل ہے مگر ترجمہ کے لحاظ سے بعض جگہ توجہ طلب ہے۔ اس مضمون میں اقبال کہتے ہیں کہ تاریخ میں رسول اکرمؐ کی معاصر عربی شاعری پر بعض تنقیدیں محفوظ ہیں۔ ان میں دو تنقیدیں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مفید ہیں۔ جن کا لٹریچر زمانہ انحطاط کی پیداوار ہے اور جو اب ایک نئے ادبی نصب العین کی تلاش میں ہیں۔ ان میں سے ایک تنقید ہمیں بتاتی ہے کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے؟ اور دوسری تنقید اس امر کی غماز ہے کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے۔ ایک روایت کے مطابق رسول اکرم صلعم نے امراء القیس کو اشعر الشعراء و قائدھم الی النار قرار دیا تھا۔ اقبال امراء القیس کی شاعری کی مجموعی کیفیت اور تاثر کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امراء القیس عزم و ارادہ کی بہ نسبت تخیل کو زیادہ اپیل کرتا ہے اور مجموعی اعتبار سے پڑھنے والے کے دماغ پر مسکر کا سا عمل کرتا ہے 58؎ رسول اکرم ؐ کی تنقید اس نہایت اہم فنی اصول کو منکشف کرتی ہے کہ فن میں جو خوب ہے وہ لازماً زندگی میں خوب کے مماثل نہیں۔ ممکن ہے ایک شاعر عمدہ شاعری بھی کرے اور پھر بھی اپنے معاشرے کو جہنم کی طرف لے جائے۔ اقبال نے دوسرا تنقیدی اصول رسول اکرم صلعم کی زندگی کے اس واقعہ سے اخذ کیا ہے کہ ایک دفعہ آپ بنو عیس کے مشہور شاعر عنترہ کا شعر 59؎ سن کر بہت محظوظ ہوئے اور اپنے صحابہ کے سامنے عنترہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اقبال کہتے ہیں رسول کریم ؐ کی اس شعر کی تحسین ایک دوسری اعلیٰ فنی قدر کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے اس قدر کے مطابق فن زندگی کے تابع ہے۔ اس سے افضل و برتر نہیں ہے۔ اعلیٰ ترین فن وہ ہے جو ہماری خوابیدہ قوت ارادی کو بیدار کرتا ہے اور زندگی کی آزمائشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت عطا کرتاہے۔ وہ سب جو غنودگی کا باعث ہوتا ہے اور گرد و پیش کی حقیقت سے آنکھیں بند کرنے کا سبب بنتا ہے۔ وہ زوال اور موت کا پیغام ہے۔ فن میں افیون نوشی قطعاً نہیں ہونی چاہے۔ 60؎ فن برائے فن کا فرسودہ عقیدہ (Dogma) ہمیں دھوکا دے کر زندگی اور قوت سے محروم کرنے کی عیارانہ اختراع ہے۔ 61؎ اقبال فن برائے فن کے نظریہ کے سلبی پہلو کے پیش نظر، اس کے زبردست مخالف تھے۔ عزیز احمد اپنے مضمون ’’ اقبال کا نظریہ فن‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ فن برائے فن کے ان دونوں شیشوں کے گھروں پر جنہیں پٹیر اور کروچے نے الگ الگ تعمیر کیا ہے۔ ہندوستان میں سب سے پہلے اقبالؒ نے پتھر برسائے۔ کروچے کی طرح وہ بھی وجدان کو تمام فنون کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں لیکن جب فن وجود میں آتا ہے تو وہ اس کی افادیت کے لئے ایک طرح کا تفعل لازمی قرار دیتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ ان کے نزدیک فن کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی کی نشوونما میں مدد دے۔‘‘ 62؎ اقبال زندگی کے ارتقا پر یقین رکھتے تھے۔ لہٰذا وہ ان تمام افعال، اعمال اور افکار کو مضر خیال کرتے تھے۔ جو زندگی کے فطری ارتقا میں رکاوٹ بنتے تھے یا معاشرہ کے جمود کا باعث ہو سکتے تھے۔ اس ضمن میں وہ شعر و ادب کی اثر پذیری کے سخت قائل تھے۔ ان کے نزدیک خصوصاً زوال پسند ادب انفرادی اور اجتماعی زندگی سے قوت حیات چھین کر انہیں لذت ایجاد سے محروم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ گویا وہ ادب میں مقصدیت اور افادیت کو فن کی اعلیٰ ترین قدر تسلیم کرتے ہیں۔ اس باب میں مندرج اقتباسات کے علاوہ ابھی ان کی تقریر اور اشعار میں ان کے تصور فن کا اظہار ہوا ہے۔ مثلاً انجمن ادبی کابل میں علامہ کی تقریر ان کے ادبی عقیدہ کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ان میں سے ہرایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے۔ اسی بنا پر میں آرٹ کو ایجاد و اختراع سمجھتا ہوں نہ کہ محض آلہ تفریح، شاعر، قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔۔۔۔ جو چیز حقیقتاً قوم کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ ’’ تخیل‘‘ ہے جس کو شاعر قوم کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ بلند نظریات ہیں جن کو وہ اپنی قوم میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ قومیں شعرا کی دستگیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہل سیاست کی پامردی سے نشوونما پا کر مر جاتی ہیں۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعرا اور انشا پرداز اپنے ہمعصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔۔۔۔ اس انجمن کا کام یہ ہے کہ نوجوانوں کے افکار کو ادبیات کے ذریعہ متشکل کرے۔‘‘ 63؎ اقبال کا عمرانی تصور ادب کیا تھا اور ان کے نزدیک شاعر و ادیب کے عمرانی منصب میں فنی ریاضت اور جگر کاوی کی کیا ضرورت اور اہمیت ہے اس کمی علامہ نے شعری اسلوب میں جو وضاحت کی ہے اس کے لئے بانگ درا حصہ سوم کی دو بندوں پر مشتمل نظم ’’ شاعر‘‘ کا دوسرا بند پیش کیا جاتا ہے۔ علامہ پہلے بند میں جوئے سرور آفریں کاوادیوں اور کھیتوں پر فیضان بیان کرتے ہوئے، قومی زندگی میں شاعر کے کردار کو اس کے مماثل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں: شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آذری اہل زمین کو نسخہ زندگی دوام ہے خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری گلشن دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو علامہ اقبال کے عمرانی تصور ادب کی وضاحت کے باب میں ان کی نظم و نثر سے مزید مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر ان سے تکرار کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ بہرحال متذکرہ گفتگو سے ہرگز یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ اقبال محض ادبی عمرانیات کے دبستان سے وابستہ ایک عمرانی تھے۔ تاہم عمرانی حوالے سے اقبال کی عظمت یہ ہے کہ ایک تو انہوں نے برصغیر میں عمرانی تصور ادب کی بنیادیں مستحکم کیں اور دوسرے اپنے افکار سے اپنے قارئین و سامعین کے دل و دماغ کو عمرانی شعور اور عمرانی طرز احساس بخشا بہرحال اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال سے پہلی نسل بھی شعر و ادب کو زندگی سے پیوستہ خیال کرتی تھی اور وہ ادب کے معاشرتی اور سماجی منصب کی قائل تھی البتہ اقبال کے ہاں ادب کے سماجی اور انقلابی منصب کا تصور اس حد تک واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کے نظریہ ادب کو پورے وثوق کے ساتھ عمرانی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔ اقبال کے نظریہ ادب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم اس کو ان کے عمرانی فکر سے پوری طرح ہم آہنگ پاتے ہیں۔ ٭٭٭ حوالے باب نمبر 3 6بحوالہ اصول انتقاد ادبیات مولفہ سید عابد علی عابد، مجلس ترقی ادب لاہور، 1960ء ص357 8 ڈاکٹر یوسف حسین ’’ شعر اور زندگی‘‘ رسالہ نقوش لاہور، شمارہ 27, 28 نومبر دسمبر1952ئ، ص21 18گوئٹے، نوجوان ورتھر کی داستان غم، ترجمہ ریاض الحسن، کراچی 1967ء ص6 21علی عباس جلالپوری، روایات فلسفہ، المثال لاہور، دسمبر1969ء ، ص153 22دیکھئے (1) اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، (ب) غزل اور مطالعہ غزل از ڈاکٹر عبادت بریلوی، (ج) دلی میں اردو شاعری کا تہذیبی و فکری پس منظر از ڈاکٹر محمد حسن (د) حالی کا سیاسی شعور از معین احسن جدبی، (د) مذہب اور شاعری از ڈاکٹر اعجاز حسین 23(ا) ہماری داستانیں، سید وقار عظیم (ب) اردو کی نثری داستانیں از ڈاکٹر گیان چند، (ج) رجب علی بیگ سرور از ڈاکٹر نیر مسعود 24بحوالہ علی گڑھ تحریک مرتبہ نسیم قریشی، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 1960ء ص57 25 حالی، الطاف حسین، مقدمہ شعر و شاعری، مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی، مکتبہ جدید لاہور، ص112 26حالی، الطاف حسین، محولہ بالا، ص122-121 28حالی، محولہ بالا ص125 29شبلی نعمانی، شعر العجم، جلد چہارم، اعظم گڑھ 1951ء ص177 30شبلی نعمانی، شعر العجم، حصہ پنجم اعظم گڑھ 1957ء ص119-118 31اسلم فرخی، محمد حسین آزاد، جلد دوم، انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، 1965ء ص424 32بحوالہ، اسلم فرخی، محمد حسین آزاد، جلد دوم، انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 1965ء ص424 33آزاد، محمد حسین، نظم آزاد، مکتبہ عالیہ لاہور، 1978ئ، ص49 35ڈپٹی نذیر احمد، ابن الوقت، مجلس ترقی ادب لاہور 36مہر، غلام رسول۔ مطالب بانگ درا، کتاب منزل لاہور، ص43 37ایضاً ص54 38بانگ درا، طبع بست و دوم، ستمبر1963ء ص، ل 42ڈاکٹر سعید اختر درانی ’’ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط: مس ویگناسٹ کے نام ماہنامہ افکار کراچی، شمارہ مئی 1983ء ص31‘‘ 43ایضاً ص32-31 44ڈاکٹر سعید اختر درانی، محولہ بالا، ص33 45گفتار اقبال، ص250 46شذرات فکر اقبال مترجمہ افتخار صدیقی، مجلس ترقی ادب لاہور، دسمبر1973ء 47گوئٹے سے متعلق شذرات کے نمبر یہاں درج کئے جاتے ہیں۔ 2, 36, 44, 48, 86, 97, 108, 112, 118 48کلیات اقبال (فارسی) لاہور، فروری 1973ء ص181 49شذرات فکر اقبال، ص90 50اقبالنامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اول ص52 51شیخ عطاء اللہ، محولہ بالا، ص86-85 52ایضاً، ص101 53شیخ عطا اللہ، محولہ بالا، ص195 54مقالات اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی، ناشر شیخ محمد اشرف لاہور1963ء ص166 55مقالات اقبال، محولہ بالا، ص170 57(فٹ نوٹ) ہاشمی، ڈاکٹر رفیع الدین، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور 1982ء ص336، اس حوالے کی صحت کی ذمہ داری مصنف پر عائد ہوتی ہے کیونکہ موصوف اسی صفحہ پر یہی تاریخ8اگست1911ء بتاتے ہیں۔ 58محولہ مضمون بعنوان ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں اقبال نے حافظ کی شاعری سے پیدا ہونے کی کیفیت سکر پر کافی گفتگو کی ہے مثلاً یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ ’’ بحیثیت مجموعی خواجہ حافظ کا اخلاقی نصب العین حالت سکر ہے۔ نہ حالت صحو اور کسی شاعر کی تنقید کے لئے اس کے عام نصب العین ہی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔‘‘ مقالات اقبال 1963ء ص168 59’’ ولقد ابیت علی الطوی واظنہ انال بہ کریم الماکل‘‘ 60اقبال، اکبر الہ آبادی کے نام 20جولائی 1918ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ میں اس خودی کا حامی ہوں جو سچی بیخودی سے پیدا ہوتی ہے یعنی جو نتیجہ ہے ہجرت الی الحق کرنے کا۔۔۔ مگر ایک اور بے خودی ہے جس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو Lyrics Poetry کے پڑھنے سے پیدا ہوتی ہے یہ اس قسم سے ہے جو افیون و شراب کا نتیجہ ہے‘‘ اقبال نامہ حصہ دوم، ص60-59 61یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے پیش نظر مضمون کا انگریزی متن ہے دیکھئے شیروانی ص125-124 62عزیز احمد، اقبال نئی تشکیل، گلوب پبلشرز لاہور، ص491-490 63مقالات اقبال، ص219-218 ٭٭٭ Chapter No. 3 1. Scott. Wilbur S. Five Approaches of Literary Criticism, New York, 1974, p. 123. 2. Bradbury, Malcolm, The Social Context of Modern English Literature, Basil Blackwell, Oxford 1972, p. xiii 3. Wellek, Rene & Austin Warren, Theory of Literature, New York, p.94 4. Bradbury, op. cit. p. xxi 5. Rudnick. H.H. Recent British and Americal Studies Concerning Theories of Sociology of Literature Literary Criticism and Sociology, ed. Joseph. p. Strelka, The Pennsylvania State University Press, 1973, p. 271 7. Runnick, Op. cit. p. 271 9. Laurenson, Diana and Alan Swingewood, Sociology of Literature, London, 1972, p.12. 10. Laurenson, op. cit. p. 17 11. Brumford, Walter. H, Literary Critism and Sociology Literary Criticism and Sociology, ed. Joseph p. Strelks, The Pennsylvania State University Press, 1973, p.3 12. Brumford, op. cit. p. 3 13. Laurenson , op. cit. p. 23 14. Ibid. 15. Sammons, Jeffery l. Literary Sociology and Practical Criticism, Indiana University Press, 1977, p.4 17. Laurenson, op. cit. p. 26. 19. Laurenson, op. cit. p. 26. 20. Ibid. p. 40 27. Hauser, Arnold. The Sociology of Art. Kegan Paul. London. 1982. p 89 34. Ward. J.P. Poetry and the Sociology Idea, New Jersey. U.S.A. 1981, p.3 39. Iqbal, Muhammad, The Development of Metaphysics in Persia, Lahore, 1964, p. 76 40. Iqbal, Muhammad. op. cit. p. 77 41. Annemarie Schimmel, Iqbal and Goethe Iqbal Essay And Studies ed. Asloob ahmad ansari Ghalib Academy New Delhi, 1978, p.275. 56. Sherwani, Latif Ahmed, Speeches, Writings and Statements of Iqbal, Iqbal Academy, Lahore, 1977. p.124. ٭٭٭ چوتھا باب اقبال کے عمرانی تصورات: ابتدائی نقوش (مثنوی اسرار خودی سے پہلے کی نظموں میں) فکر اقبال کے عمرانی مطالعہ کے ضمن میں یہ وضاحت غیر ضروری نہ ہو گی کہ اقبال اصطلاحی معنوں میں ماہر عمرانیات نہیں ہیں کیونکہ نہ تو انہوں نے فلسفہ عمرانیات کا کوئی تذکرہ مرتب کیا ہے اور نہ ماہرین عمرانیات کے افکار کی تاریخ تصنیف کی ہے اور نہ ہی انہوں نے عمرانیات کے اصول، مبادیات یا قوانین پر مشتمل کوئی کتاب تالیف کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے عمرانیات کے مضمون میں بھی کوئی نیا نظری اصول یعنی کوئی نظریہ تخلیق نہیں کیا۔ البتہ ان کی نظم و نثر کے بعض حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے علم عمرانیات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور وہ زندگی کے مختلف شعبوں کے عمرانی مطالعہ کی افادیت کے قائل تھے لیکن ان سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کا انداز فکر اور طرز احساس عمرانی ہے اور ان کے افکار، نوعیت، کیفیت اور مطلوب و مقصود کے اعتبار سے عمرانی تصورات ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے زیر نظر باب میں اسرار خودی سے پہلے کی نظموں میں اقبال کے عمرانی فکر کے ابتدائی نقوش کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اقبال کا عمرانی تصور کم و بیش ان کے 20 سالہ گہرے مطالعہ، ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات کے مشاہدے اور قومی مسائل پر غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف اقبال کا مطالعہ فلسفہ، ادب، تاریخ، معاشیات، اخلاقیات، سیاسیات، دینیات اور تاریخ مذاہب وغیرہ پر محیط تھا تو دوسری طرف اپنے وطن کی سیاسی صورت حال، انگریزوں کی غلامی اور استبداد مسلمانان ہند کی درماندگی و بیچارگی اور ملت اسلامیہ کی زبوں حالی ان کے حواس اور اعصاب کو کس قدر متاثر کر رہی تھی اس کا اندازہ ان کی 1915ء تک کی شعری اور نثری کاوشوں سے ہو سکتا ہے۔ ان کے مضامین اور مقالات ان کے غور و فکر اور تجزیاتی مطالعے اور جائزے کے مظہر ہیں۔ ان کی نظمیں ان کے قومی درد، شاعرانہ جذبہ و احساس اور تخلیقی کرب کا ثبوت ہیں۔ بہرحال اقبال کی ابتدائی (1910-1900ئ) نثری تحریروں میں اقبال کے عمرانی نقطہ نظر کے علاوہ مثنوی اسرار خودی سے ماقبل کی نظموں میں بھی عمرانی تصورات کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ یہاں ان کا ایک اجمالی جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس سیاق و سباق کے بغیر اقبال کے خودی و بیخودی کے تصورات اور ان کی حقیقت و ماہیت واضح نہ ہو سکے گی۔ نوجوانی ہی میں بعض انجمنوں کے ساتھ وابستگی سے اقبال کی عمرانی اور سماجی دلچسپیوں، اصلاحی مقاصد سے ہمدردی اور فلاحی سرگرمیوں کا حال معلوم ہوتا ہے۔ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور فروری 1896ء میں قائم ہوئی۔ جس کی ’’ پہلی مجلس میں اقبال نے ایک نظم پڑھی جو ان کے ولایت سے واپس آنے کے بعد مارچ 1909ء کے کشمیری میگزین میں ان کی نظر ثانی اور اجازت کے بعد شائع ہوئی ‘‘ 1؎ اگرچہ یہ نظم ایک نسلی گروہ کی تنظیم کے مقاصد کی آئینہ دار ہے مگر اس سے اقبال کے ذہنی رویے کا پتہ چلتا ہے۔ نیز اس سے ان کے قومی احساسات، جذبات اور خواہشات کا اندازہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس نظم میں ان خیالات کی بھی ہلکی سی جھلک پائی جاتی ہے جو آئندہ ان کے فلسفہ کا مرکزی تصور قرار پائے۔ مثلاً 1 مندرجہ ذیل شعر سے کشمیری قوم کی بدحالی پر شدید درد و غم کا احساس نمایاں ہے: جو سامنے تھی مرے قوم کی بری حالت امڈ گیا میری آنکھوں سے خون کا سیحوں 2قومی زندگی میں فرد کی حیثیت اور اس کا کردار:ـ اسی سے ساری امیدیں بندھی ہیں اپنی کہ ہے وجود اس کا پئے قصر قوم مثل ستوں دعا یہ تجھ سے ہے یا رب کہ تا قیامت ہو ہماری قوم کا ہر فرد قوم پر مفتوں 3۔ یہ شعر قومی فلاح اور ترقی کی خواہش کا مظہر ہے: کچھ ان میں شوق ترقی کا حد سے بڑھ جائے ہماری قوم پہ یا رب وہ پھونک دے افسوں 4۔ اس شعر کو تصور خودی کی اولین نمود کہا جا سکتا ہے: مزا تو جب ہے کہ ہم خود دکھائیں کچھ کر کے جو مرد ہے نہیں ہوتا ہے غیر کا ممنوں 5۔ اس زمانے میں بھی اقبال کو قوم کی ترقی کے لئے حرکت و عمل کی اہمیت اور ضرورت کا احساس تھا: بڑھے یہ بزم ترقی کی دوڑ میں یا رب کبھی نہ ہو قدم تیز آشنائے سکوں یہاں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ 1896ء میں جب یہ نظم ہوئی اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب علم تھے۔ دوسرے اقبال نے اس نظم میں قوم کا لفظ ذات اور برادری کے لئے استعمال کیا ہے اور عوام میں ان دنوں بھی یہ لفظ انہی معنوں میں مستعمل اور مروج ہے۔ اقبال کا حساس دل و دماغ جو کشمیری برادری کی حالت زار پر افسردہ اور مبتلائے رنج و محن ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ اپنے عہد کے مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی، سیاسی اور مذہبی زبوں حالی اور پسماندگی سے کیوں کر متاثر نہ ہوتا۔ چنانچہ وہ اپنی تعلیمی زندگی سے فارغ ہونے کے بعد’’ انجمن حمایت اسلام‘‘ کے قومی مقاصد کی ترویج اور ان کے حصول کے لئے سر گرم عمل ہوئے اور انہوں نے اپنے شعر کے اعجاز سے مسلمانوں کے عمرانی شعور کو بیدار کرنے میں گراں قدر حصہ لیا۔ اقبال 1895ء سے بسلسلہ تعلیم لاہور میں تھے۔ وہ ’’ انجمن حمایت اسلام‘‘ کے سالانہ جلسوں میں یقینا شرکت کرتے رہے ہوں گے مگر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی بار انجمن کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1900ء میں انہوں نے عملی حصہ لیا اور نالہ یتیم کے نام سے ایک درد انگیز اور دلخراش نظم پڑھ کر سنائی۔ جس نے حاضرین پر رقت کی کیفیت طاری کر دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اقبال کے یہاں یتیم، ملت اسلامیہ کے لئے استعارہ ہے اور شافع محشر اور شاہ اولاک کے حضور یتیم کی بے بسی، درماندگی، بیچارگی اور بے سامانی کی فریاد پیش کی گئی ہے۔ اس میں تخیلی طور پر سید لولاک کو مخاطب دکھایا گیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ نامیدی نے کئے ہیں تجھ پہ کچھ ایسے ستم چیرتا ہے دل کو تیرا نالہ درد و الم کانپتا ہے آسماں تیرے دل ناشاد سے ہل گیا عرش معظم بھی تیری فریاد سے اس نظم کا تفصیلی اور تجزیاتی مطالعہ ہمارا موضوع نہیں۔ تاہم مندرجہ ذیل بند ہمارے موضوع کے حوالہ سے توجہ طلب ہے۔ دیکھئے اقبال نے کس پیرائے میں افتادہ اور درماندہ مسلمانوں کے مصائب و آلام اور آزمائش کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا ہے۔ رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں۔ جس طرح مجھ سے نبوت میں کوئی بڑھ کر نہیں میری امت سے حمیت میں کوئی بڑھ کر نہیں امتحان صدق و ہمت میں کوئی بڑھ کر نہیں ان مسلمانوں سے غیرت میں کوئی بڑھ کر نہیں یہ دل و جان سے خدا کے نام پر قربان ہیں ہوں فرشتے بھی فدا جن پر یہ وہ انسان ہیں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1901ء میں اقبال نے ’’ یتیم کا خطاب ہلال عید سے‘‘ کے عنوان سے نظم پڑھی 2؎ اس کا آخری شعر ہے۔ دردمندوں کی درد خواہ ہے قوم بے کسوں کی امید گاہ ہے قوم اس شعر میں اقبال نے اس معاشرتی مسئلہ کو بیان کیا ہے کہ کسی قوم کے محتاج، بے کس اور ضرورت مند افراد اس قوم کی ذمہ داری (Libality) ہوتے ہیں اور ایسے افراد کو سماجی اور معاشرتی تحفظ بہم پہنچانا قوم کا فرض ہے۔ بہرحال اس شعر سے بھی اقبال کے عمرانی طرز احساس کا اظہار ہوتا ہے۔ فروری 1902ء میں انجمن حمایت اسلام کا سترھواں 17سالانہ اجلاس ہوا۔ اقبال نے اس بار تین مختلف نشستوں میں تین مختلف نظمیں پڑھیں۔ پہلی نظم ’’ خیر مقدم‘‘ رسمی نوعیت کی استقبالیہ نظم ہے۔ دوسری نظم ’’ دین و دنیا‘‘ ایک بیانیہ اور واقعاتی نظم ہے۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے مطابق یہ نظم مولوی نذیر احمد کے لیکچر ’’ دین و دنیا‘‘ سے متاثر ہے جو انہوں نے انجمن کے سولہویں اجلاس منعقدہ 24فروری 1901ء کو دیا تھا۔ 1857ء کے بعد سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی تمدنی، معاشرتی، سماجی اور تعلیمی زندگی میں جدید تعلیم ایک گھمبیر مسئلہ رہا ہے۔ خصوصاً انیسویں صدی کا ںصف آخر اس مسئلہ پر بحث و تکرار کی نذر ہو گیا مگر یہ مسئلہ لاینحل رہا اور مسلمان بحیثیت قوم کوئی متفقہ طرز عمل اختیار کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔ او ریہ صورت حال بیسویں صدی میں بھی جاری رہتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت اقبال کی زیر نظر نظم ہے اس نظم میں اقبال نے انگریزی تعلیم کے بارے میں پیشہ ور مولویوں کے رویے کو موضوع بنایا ہے۔ دراصل انگریزوں کے تسلط کی ابتداء کے ساتھ انگریزی تعلیم کو رواج دینے کے لئے سرکاری انتظام اور سرسید کی وکالت کے نتیجہ میں مسلمانان ہند میں دو مکاتب فکر پیدا ہو گئے تھے ۔ ایک مکتب فکر سرسید کی تعلیمی تحریک کے زیر اثر انگریزی خواں، جدت پسند طبقہ اور دوسرا مکتب، مذہبی طبقہ اور قدیم طرز فکر کا نمائندہ کہلایا۔ جو جدید تعلیم کا نہ صرف مخالف تھا بلکہ اس کے حصول کو کفر کے مترادف خیال کرتاتھا۔ اس نظم ’’ دین و دنیا‘‘ میں اقبال نے ایک ’’ خضر صورت مولوی صاحب‘‘ کو دکھایا ہے جو وعظ کہتے تھے ’’کوئی مسلم نہ انگریزی پڑھے کفر ہے آغاز اس بولی کا کفر انجام ہے‘‘ میں نے یہ سن کر کیا ان کو مخاطب اس طرح آپ کا ہونا بھی اپنی گردش ایام ہے کیوں مسلمانوں کی کشتی کو الٹ دیتے نہیں آپ کے دل میں جو اتنی کاوش انجام ہے 4؎ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس نظم میں اقبال سرسید کی تعلیمی تحریک کے ہمدرد اور اس کے مقاصد سے متفق نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں اقبال کو انجمن حمایت اسلام کے مقاصد سے کامل اتفاق تھا اور انجمن حمایت اسلام کے بنیادی مقاصد میں درج ذیل ایک اہم ترین مقصد تھا۔ ’’مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ایسے ادارے قائم کرنا جن میںقدیم و جدید دونوں قسم کے علوم کی تعلیم دی جائے۔‘‘ 5؎ اقبال کے نزدیک دین اور مذہب کے حوالے سے انگریزی تعلیم کے حصول کے بارے میں دوسرے یعنی قدیم مکتب فکر کا نقطہ نظر حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔ اقبال کا خیال تھا کہ عصری تقاضوں اور دنیاوی ضرورتوں کو نظر انداز کرنا قومی تباہی کا موجب ہوتا ہے کہ اقبال دین و دنیا میں دوئی کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کا استدلال یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین و دنیا کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس خیال کی توضیح کے سلسلے میں ان کا یہ متروک شعر ملاحظہ کیجئے۔ الغرض دین ہو تو اس کے ساتھ کچھ دنیا بھی ہو ورنہ روز روشن اسلام کی پھر شام ہے دین، دنیا کا محافظ ہے اگر سمجھے کوئی جیسے بچے کے گلے میں ناخن ضرغام ہے اقبال نے اپنی تیسری نظم ’’ اسلامیہ کالج کا خطاب، پنجاب کے مسلمانوں سے‘‘ 23 فروری 1902ء کو اتوار کے دوسرے اجلاس میں پڑھ کر سنائی 6؎ اس نظم کے ذریعے پنجاب کے مسلمانوں پر تعلیم کی تمدنی ضرورت اور عمرانی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ اسلامیہ کالج پنجاب کے مسلمانوں کی قومی زندگی کی تعمیر اور احیاء میں جو کردار ادا کر سکتا تھا۔ اقبال نے نظم کے چوتھے بند کے درج ذیل اشعار میں اس کا اظہار کیا ہے: مجھ میں وہ جادو ہے روتوں کو ہنسا سکتا ہوں میں قوم کے بگڑے ہوؤں کو پھر بنا سکتا ہوں میں طوسی و رازی و سینا و غزالی و ظہیر آہ وہ دلکش مرقعے پھر دکھا سکتا ہوں میں کارواں سمجھے اگر خضر رہ ہمت مجھے منزل مقصود کا رستہ دکھا سکتا ہوں میں7؎ اس نظم میں دین و دنیا کی وحدت، ربط اور ہم آہنگی کا مضمون پھر دہرایا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس بار دشمن سے ہوشیار رہنے کی تنبیہہ کی گئی ہے اور دشمن کو شناخت کرنے کا کام قوم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ مبینہ دشمن کے خدو خال مندرجہ ذیل اشعار میں ایمائی انداز میں واضح کر دئیے ہیں۔ فکر دین کے ساتھ رکھنا فکر دنیا بھی ضرور ہیں بہت دشمن کہیں دھوکہ نہ دے جائے کوئی خویش را مسلم ہمی گویند و با ماکار نیست رشتہ تسبیح شاں جز رشتہ زنار نیست8؎ اس سلسلے کی آخری نظم ’’ فریاد امت‘‘ ہے جو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس منعقدہ یکم مارچ 1903ء میں (تخیلاً بآستانہ سرور کائنات ؐ خلاصہ موجودات) عاشقانہ فریاد کے رنگ میں (ابر گہربار کے عنوان سے) پڑھی تھی 9؎ اس نظم کے پہلے دو شعر یہ ہیں۔ دل میں جو کچھ ہے لب پر اسے لاؤں کیونکر ہو چھپانے کی نہ جو بات چھپاؤں کیونکر شوق نظارا یہ کہتا ہے قیامت آئے پھر میں نالوں سے قیامت نہ اٹھاؤں کیونکر ان اشعار سے شاعر کے باطنی کرب، روحانی کشمکش اور جذباتی پیچ و تاب کی عکاسی ہوتی ہے۔ خاص طور پر دوسرے شعر میں شوق نظارا کے تقاضے نے جو معنویت پیدا کی ہے اور اس میں مسلمانوں کی سیاسی، عمرانی اور تمدنی صورتحال کی جانب جو کنایہ ہے اس نے اقبال کی فکر کو جس نہج پر ڈالا اس کا کسی قدر تصور کیا جا سکتا ہے۔ بعد کے شعروں میں اپنی حالت کا بیان رسول اکرم ؐ کی مدحت اور ان سے شفاعت کی درخواست کرتے کرتے شاعر ان اشعار پر پہنچتا ہے۔ اپنا مطلب مجھے کہنا ہے مگر تیرے حضور چھوڑ جائے نہ کہیں تاب تکلم مجھ کو ہے ابھی امت مرحوم کا رونا باقی دیکھ اے بے خودی شوق نہ کر گم مجھ کو ہمہ حسرت ہوں سراپا غم بربادی ہوں ستم دہر کا مارا ہوا فریادی ہوں اگلے بند کا آخری شعر ملاحظہ ہو۔ کیا کہوں امت مرحوم کی حالت کیا ہے جس سے برباد ہوئے ہم وہ مصیبت کیا ہے اس کے بعد کے تین بندوں کے اشعار میں عمرانی، مذہبی اور معاشرتی نوعیت کی ایسی بنیادی باتیں ہیں جنہیں اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی امراض کہا گیا ہے۔ قوموں کے زوال کے اسباب و علل پر غور و فکر کرنے والے اصحاب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر کسی قوم کے سیاسی راہنما، واعظ، دانشور اور دولتمند، جو قوم کے حساس اور ذمہ دار طبقے ہوتے ہیں اپنے منصب اور فرائض سے غفلت اور کوتاہی برتنے لگیں تو قوم میں کمزوری او رضعف کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں۔ خصوصاً جب واعظین اور صلحا ذاتی اغراض، نفس پرستی اور ہوس زر میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تعصب، نفرت اور بغض و عداوت کو قدری حیثیت دینے لگتے ہیں۔ اس سے قومی یکجہتی کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور قومی زندگی فرقوں میں بٹ جاتی ہے اور یوں قومی زوال کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق وقت کے ساتھ ساتھ قومی زوال تیز تر ہوتا جاتا ہے۔ اسی طرح تاریخ شاہد ہے کہ جب کسی قوم کا متمول طبقہ قومی زندگی کے مسائل کے بارے میں بے حس ہو جاتا ہے اور معاشرے کے نادار اور محتاج افراد کے مصائب کے ازالے کے لئے اپنے اخلاقی فرائض سے پہلو تہی کرتا ہے تو ان کے ایثار اورقربانی کی بدولت قائم ہونے والے رفاہی اور فلاحی ادارے وجود میں نہیں آتے اور پرانے ادارے سسک سسک کر معدوم ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا فطری طور پر معاشرہ میں استحکام پیدا ہونے کی بجائے ضعف اور انتشار پیدا ہو جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اہل ثروت کی عیش پرستی اپنے اثرات کی بنا پر سلبی معاشرتی اقدار اور منفی اخلاقی رحجانات کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا یہ اقدار اور رحجانات قومی زوال کے دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر قومی احیاء کی خواہش کو دبا دیتے ہیں۔ انہیں احساسات کے ساتھ اقبال رسول اکرم ؐ کے حضور یوں عرض گزار ہوتے ہیں: امراء جو ہیں وہ سنتے نہیں اپنا کہنا سامنے تیرے پڑا ہے مجھے کیا کیا کہنا10؎ قوم کو قوم بنا سکتے ہیں دولت والے یہ اگر راہ پہ آ جائیں تو پھر کیا کہنا بادہ عیش میں سر مست رہا کرتے ہیں یاد فرمان نہ تیرا نہ خدا کا کہنا ہم نے سو بار کہا ’’قوم کی حالت ہے بری‘‘ پر سمجھتے نہیں یہ لوگ ہمارا کہنا دیکھتے ہیں یہ غریبوں کو تو برہم ہو کر فقر تھا فخر ترا شاہ دو عالم ہو کر جب کوئی قوم مصیبت، ادبار اور حوادث کے گرداب میں گرفتار ہو تو مایوسی طاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ مگر امت مسلمہ کے لئے نکبت اور ادبار میں سرکار دو عالم کی ذات بابرکات لطف و کرم کی امید، ہمت اور حوصلہ کا سرچشمہ رہی ہے۔ شاعر رسول اکرم ؐ سے استمداد کا طلبگار ہے۔ اس موقع پر شاعر کی فریاد میں کیسی رقت اور سوز پیدا ہو گیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔ اس مصیبت میں ہے اک تو ہی سہارا اپنا تنگ آ کر لب فریاد ہوا وا اپنا ایسی حالت میں بھی امید نہ ٹوٹی اپنی نام لیوا ہیں تیرے تجھ پہ ہے دعوی اپنا دیکھ اے نوح کی کشتی کے بچانے والے آیا گرداب حوادث میں سفینہ اپنا یاں برس ابر کرم دیر نہیں ہے اچھی کہ نہ ہونے کے برابر ہوا ہونا اپنا لطف یہ ہے کہ پھلے قوم کی کھیتی اس سے ورنہ ہونے کو تو آنسو بھی ہے دریا اپنا ایک یہ بزم ہے لے دے کے ہماری باقی ہے انہی لوگوں کی ہمت پہ بھروسا اپنا مطالعہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف تہذیبوں اور قوموں کی زندگی میں ادبار اور زوال کا ایک وہ مرحلہ آتا ہے جب ایک قوم کا وجود اور عدم وجود برابر نظر آتا ہے۔ قومی زندگی میں یہ ایسا مخدوش وقت ہوتا ہے کہ جسے ہم قومی نزع کا عالم کہہ سکتے ہیں۔ اس نازک لمحہ میں اگر قومی زندگی کی بقاء کا شعور رکھنے والے چند مخلص، سرگرم اور حساس افراد پیدا ہو جائیں تو ان کی سعی و عمل سے مائل بہ مرگ قوم بچے کھچے شکستہ دل افراد کے عزم و ہمت پر بھروسہ کر کے حیات تازہ کے لئے انگڑائی لیتی ہے۔ اقبال کو قوم کے افراد کی ہمت پر اعتماد تو ہے مگر اس ہمت کو مجتمع کر کے اسے بروئے کار کیسے لایا جائے؟ اس کا طریق کار کیا ہو گا؟ احیائے ملت اسلامیہ کی جدوجہد کے لئے کسی لائحہ عمل کا خاکہ واضح طور پر شاعر کے سامنے نہیں آتا۔ اس سلسلہ میں بھی شاعر شافع محشر رسول اکرم ؐ سے راہنمائی کا طلبگار ہے اور کہتا ہے۔ قوم کو جس سے شفا ہو وہ دوا کون سی ہے یہ چمن جس سے ہرا ہو وہ صبا کون سی ہے جس کی تاثیر سے ہو عزت دین و دنیا ہائے اے شافع محشرؐ وہ دعا کون سی ہے جس کی تاثیر سے یکجان ہو امت ساری ہاں بتا دے ہمیں وہ طرز وفا کون سی ہے جس کے ہر قطرے میں تاثیر ہو یک رنگی کی ہاں بتا دے وہ مئے ہوش ربا کونسی ہے قافلہ جس سے رواں ہو سوئے منزل اپنا ناقہ وہ کیا ہی وہ آواز درا کون سی ہے اپنی فریاد میں تاثیر نہیں ہے باقی جس سے دل قوم کا پگھلے وہ صدا کونسی ہے چونکہ اقبال نے بوجوہ یہ نظم بانگ درا میں شامل نہیں کی، اس لئے اقبال کے فکر و فن کا مطالعہ کرنے والے بھی ا س سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ فریاد امت کے مطالعہ کے بغیر اقبال کی ذہنی اور نفسیاتی ساخت کی ماہیت اور حقیقت تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کا ملی شعور کس قدر توانا اور بیدار ہے۔ اقبال کو اپنے زمانے میں امت مرحوم کی بدحالی کا شدید احساس تھا اور ان کی اپنے عہد کے معاشرتی اور سماجی مسائل پہ ایسی گہری نظر تھی جو عمرانی بصیرت کا حاصل کہی جا سکتی ہے۔ یہ نظم رسول اکرم ؐ سے بے پناہ شیفتگی اور والہانہ محبت کی بھی آئینہ دار ہے۔ علاوہ ازیں اقبال اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار اور پیغام کے ابلاغ کے لئے زبان و بیان کے موثر پیرائے اور اسلوب کی تلاش میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ اس نظم کی اہمیت یہ ہے کہ یہاں اقبال کے ذہنی، فکری اور لسانی افق وسعت پذیر دکھائی دیتے ہیں۔ اب اضطراری اور جذباتی انداز کی جگہ ان کے ہاں عمرانی مسائل پر غور و فکر کا آغاز ہوتا ہے اور یہ مسائل اقبال کے تخلیقی تجربہ میں تو ضرور ڈھلنے لگتے ہیں مگر ابھی کسی ٹھوس اور واضح نظریہ کی شکل نہیں ابھرتی۔ اب تک جن نظموں کا مطالعہ ہوا ان میں ایک معنوی ربط پایا جاتا ہے مگر بانگ درا حصہ اول کی نظموں میں مضمون اور موضوع کی وحدت مفقود ہے۔ عام طور پر ناقدروں نے حصہ اول سے 1905ء کے کلام کے پیش نظر اسے وطن پرستی، فطرت پرستی اور فلسفیانہ جستجو کا دور قرار دیا ہے۔ وطن پرستی (نیشنلزم) تو بہرحال جدید سیاسیات اور عمرانیات کا ایک بنیادی مسئلہ ہے 11؎ ہمارے نقطہ نظر سے اس کے علاوہ کئی نظموں میں عمرانی فکر کے بعض دوسرے پہلو نمایاں ہوئے ہیں مثلاً سید کی لوح تربت میں پھر وہی مضمون نئے انداز کے ساتھ دہرایا ہے کہ قوم کے لئے ترک دنیا کا سبق زہر ناک ہے۔ شاعر سید کی لوح تربت کی تحریر کا چشم باطن سے مطالعہ کرتا ہے تو اسے اس تحریر میں یہ اولین مضمون رقم ملتا ہے۔ مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں اس کے بعد بعض دوسرے مطالب بیان کرتے ہوئے آخری شعر میں لوح کی تحریر شاعر کو ایک قومی منصب عطا کرتے ہوئے یہ پیغام دیتی ہے۔ سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے یہاں گویا اقبال نے بحیثیت شاعر اپنے رتبے اور منصب کا نہ صرف تعین کر لیا بلکہ اپنے مطمع نظر (مینی فیسٹو) کا واضح طور پر اعلان بھی کر دیا۔ ظاہر ہے اقبال جیسا شاعر جس کے پیش نظر ابتداء ہی سے قومی مقاصد ہوں وہ ادب برائے ادب ایسے ادبی تصورات کا قائل نہ ہو سکتا تھا۔ اگر بہ نظر تعمق مطالعہ کیا جائے تو اقبال کی فکری اور شاعرانہ عظمت کے لئے بانگ درا حصہ اول کی منظومات ہی وافر ثبوت فراہم کر دیتی ہیں۔ ان نظموں میں متنوع مضامین اور خیالات کی فراوانی ہے۔ ہم یہاں صرف ان نظموں کے حوالے پیش کرتے ہیں جن میں مندرجہ ذیل پانچ موضوعات کے ابتدائی آثار ملتے ہیں: 1وہ نظمیں جن میں اقبال کے تصور خودی اور ذوق خود آگہی کے ابتدائی آثار نظر آتے ہیں۔ مثلاً نظم بعنوان ’’ انسان اور بزم قدرت‘‘ میں مناظر قدرت اور مظاہر فطرت کے جمالیاتی پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے انسان استفسار کرتا ہے۔ میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟ نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں کیوں سیہ روز، سیہ بخت، سیہ کار ہوں میں؟ اس کے جواب میں کائنات کے کسی گوشے سے ایک صدا آتی ہے جو کائنات کی تزئین اور تعمیر میں انسانی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہے۔ آہ! اے راز عیاں کے نہ سمجھنے والے! حلقہ دام تمنا میں الجھنے والے ہائے غفلت! کہ تری آنکھ ہے پابند مجاز ناز زیبا تھا تجھے تو ہے مگر گرم نیاز تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے نظم بعنوان ’’ چاند‘‘ میں انسان کی ہستی کا کائنات کے ایک مظہر کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے انسان کی فوقیت ثابت کی گئی ہے۔ انسان نے چاند سے خطاب کرتے ہوئے اپنی برتری کی جو دلیل پیش کی ہے وہ قابل توجہ ہے۔ گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں سراپا نور تو سینکڑوں منزل ہے ذوق آگہی سے دور تو جو مری ہستی کا مقصد ہے مجھے معلوم ہے یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تری محروم ہے ’’ ایک پرندہ اور جگنو‘‘ میں اقبال نے خودی کی یہ بنیادی قدر دریافت کر لی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر شے کو مخصوص داخلی اور باطنی قوی، اوصاف اور صلاحیتیں بخشی ہیں جن کے باعث اس شے کی انفرادیت قائم ہوتی ہے اور اسے ایک شخصیت عطا ہوتی ہے مگر ابھی خودی کا تخلیقی جوہر دریافت نہیں ہوا۔ اس نظم کے انجام سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال زندگی میں مفاہمت و مصالحت کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ناتوان اور طاقتور باہمی افہام و تفہیم سے خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ اقبال کا یہ خیال ان کے تصور وطنیت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال ابھی اقبال کے خیالات کی ٹھوس فکری بنیادیں فراہم نہیں ہوئی ہیں بلکہ اس دور میں ان کے خیالات پر جذبات کا غلبہ ہے۔ وقت اور زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ اقبال سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تمدنی حالات کا مشاہدہ وقت نظر اور توجہ سے کرتے رہے۔ ان کے فلسفہ، ادب، تاریخ اور دوسرے علوم کے مطالعہ میں گہرائی اور وسعت پیدا ہوتی چلی گئی تو ان کے غور و فکر میں بھی توانائی اور وسعت پیدا ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں ان کا عمرانی شعور تکمیلی مرحلہ میںداخل ہوا اور بعد ازاں اسرار خودی کی تخلیق کا باعث بنا۔ 2ایسی نظمیں جن میں فنا و بقاء کے تصورات بیان کرتے ہوئے بقاء کے تصور کو نمایاں کیا گیا ہے۔ موت کا سوال ازل سے انسان کے دل و دماغ کو پریشان کرتا رہا ہے۔ اقبال نے بھی موت کی حقیقت اور ماہیت پر غور کیا ہے۔ وہ موت کو برحق تسلیم کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کا داغ کے مرثیہ میں اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ایک ہی قانون عالمگیر کے ہیں سب اثر بوئے گل کا باغ سے، گلچیں کا دنیا سے سفر اس دور میں حیات بعد الممات کا لاینحل مسئلہ بھی زیر غور ہے جس کا اظہار نظم ’’ خفتگان خاک سے استفسار‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اقبال نے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے کہ کیا موت اور فنا کی حقیقت ایک ہے؟ نظم ’’ کنار راوی‘‘ میں آدمی کے لئے کشتی کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے اس سوال کا نفی میں یوں جواب دیا ہے: رواں ہے سینہ دریا پہ اک سفینہ تیز ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستیز سبک روی میں مثل نگاہ یہ کشتی نکل کے حلقہ حد نظر سے دور گئی جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہیں ابد کے بحر میں پیدا یونہیں نہاں ہے یونہیں شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا یہ مان بھی لیا جائے کہ انسان فنا کا شکار نہیں ہوتا پھر بھی اجل کی حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود اقبال کے نزدیک: زندگی وہ ہے جو ہو نہ شناسائے اجل لیکن اس کا کوئی مداوا نہیں کہ اجل بہر طور زندگی کا انجام ہے مگر انسانی زندگی میں ابدیت پانے کے امکانات بھی ہیں۔ اقبال نے نظم ’’ صبح کا ستارہ‘‘ میں بہ طرز تمثیل یہ امر واضح کیا ہے کہ آدمی بلند ترین انسانی مقاصد کے لئے اپنی زندگی وقت کر کے ان امکانات کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کے مطابق اجل اور قضا بھی شکست نصیب اور فنا پذیر ہو جاتی ہے۔ ٹینی سن سے ماخوذ نظم ’’ عشق اور موت‘‘ میں شاعرانہ استدلال سے کام لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ عشق کی تاثیر سے قضا کو فنا نصیب ہو جاتی ہے۔ کیونکہ عشق خود اپنی ذات میں بقاء ہے۔ یعنی عشق اپنے اندر ابدی جوہر رکھتا ہے۔ اقبال کی فکری تکمیل میں اس تصور کا بڑا حصہ ہے۔ بہرحال اقبال کے نظام فلسفہ میں عشق ایک معیار اور قدر کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا تہذیبوں کے عروج و زوال اور قوموں کی موت و حیات میں عشق ایک تخلیقی قدر ہے جس تہذیب یا قوم میں عشق کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں وہ معدوم و مفقود ہو جاتی ہے۔ گویا عشق ایک قوت ہے جو عمرانی زندگی میں بقاء کی ضامن ہے۔ اس تصور سے مماثل عمرانیات میں ایک نظریہ ہے جسے بقائے اصلح کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق کائنات کی ہر وہ شے جو اپنے اندر بقا کا جوہر رکھتی ہے زندہ رہتی ہے۔ جیسے ہی یہ جوہر زائل ہونے لگتا ہے اس شے میں زوال اور فنا کے آثار پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بتدریج وہ شے یا ہستی نقطہ موہوم بن جاتی ہے۔ 3۔ بانگ درا حصہ اول میں ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں فرد اور قوم کا باہمی تعلق اور ہر دو کی جداگانہ حیثیت پر اظہار کیا گیا ہے۔ اس تصور کی عمدہ ترجمانی حصہ اول میں ایک نظم بعنوان ’’ شاعر‘‘ میں ہوتی ہے جس کا درج ذیل پہلا شعر خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم اس نظم میں عمرانیات کے نامیاتی نظریہ سے مطابقت موجود ہے۔ یہ خیال بعد کی نظموں میں تواتر کے ساتھ مختلف لفظوں میں دہرایا گیا ہے۔ 4؎ وہ نظم جس میں اقبال تاریخ اور عمرانیات کے مشہور نظریہ یعنی تاریخی ارتقاء سے متفق ہیں بانگ درا حصہ اول میں ’’ سرگزشت آدم‘‘ کے نام سے شامل ہے۔ اس دور کی ان نظموں کو اقبال کے تخلیقی فکر کے ارتقاء کے حوالے سے نہیں دیکھا گیا جن میں بعض مثالی افراد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اقبال کو ہمیشہ عظیم اور مثالی شخصیات کا مثبت اور ایجابی کردار متاثر کرتا رہا ہے اور خصوصاً ایسی ہستیاں جن سے اقبال نے روحانی وابستگی محسوس کی خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ اقبال ان ہستیوں سے بہت مسحور ہوئے ہیں جن سے انہیں روحانی وابستگی کا احساس اور تجربہ ہوا اور ان کی سیرت و کردار کے ایجابی پہلوؤں مثلاً عشق کی قدر سے متاثر ہوئے۔ پہلے دور میں حضرت بلال اور حضرت نظام الدین اولیاء اس کی مثال ہیں۔ تصور خودی کے علاوہ مرد کامل کے تصور کی تشکیل میں اقبال کے پیش نظر مثالی انسانوں کے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیضان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب 1905ء میں اقبال انگلستان کے لئے روانہ ہوئے تو ان کی جو قلبی اور جذباتی حالت تھی اس کی ترجمانی ان کی نظم ’’ التجائے مسافر‘‘ سے ہوتی ہے اور ان کے دل و دماغ کی کیفیت کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے عدن سے 12ستمبر1905ء کو مولوی انشاء اللہ خان ایڈیٹر اخبار وطن لاہور کے نام لکھا۔ جس کے شروع میں بتایا ہے کہ سارا دن حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر حاضری دی اور شام کو احباب کے ساتھ غالب کے مزار پر گئے۔ بقول اقبال: ’’ حسن اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام کا تھا۔‘‘ اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر: دل سے تیری نگاہ جگر تک اتر گئی کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی جس سے سب کی طبیعتیں متاثر ہو گئیں۔ بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا: وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھئے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی تو مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ آنکھیں پرنم ہو گئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدہ سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل تڑپا جاتا ہے۔ 12؎ پھر آپ انگلستان جانے کے لئے جہاز پر روانہ ہونے سے پہلے تین چار دن بمبئی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ اس ہوٹل میں ایک یونانی بھی آ کر مقیم ہوا۔۔۔۔ میں نے ایک روز اس سے پوچھا ’’ تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ وہ بولا’’ چین سے آیا ہوں اب ٹرانسوال جاؤں گا‘‘ میں نے پوچھا’’ چین میں تم کیا کام کرتے تھے؟‘‘ کہنے لگا’’ سوداگری کا کام کرتا تھا مگر چین کے لوگ ہماری چیزیں نہیں خریدتے‘‘ میں نے سن کر دل میں کہا’’ ہم ہندیوں سے تو یہ افیمی ہی عقلمند نکلے کہ اپنے ملک کی صنعت کا خیال رکھتے ہیں۔۔۔ شاباش افیمیو شاباش! نیند سے بیدار ہو جاؤ۔ ابھی تم آنکھیں ہی مل رہے ہو کہ اس سے دیگر قوموں کو اپنی اپنی فکر پڑ گئی ہے۔ ہاں ہم ہندوستانیوں سے یہ توقع نہ رکھو کہ ایشیا کی تجارتی عظمت کو از سر نو قائم کرنے میں تمہاری مدد کر سکیں گے۔ ہم متفق ہو کر کام کرنا نہیں جانتے۔ ہمارے ملک میں محبت اور مروت کی بو باقی نہیں رہی۔ ہم اس کو پکا مسلمان سمجھتے ہیں جو ہندوؤں کے خون کا پیاسا ہو اور اس کو پکا ہندو خیال کرتے ہیں جو مسلمان کی جان کا دشمن ہو۔ ہم کتاب کے کیڑے ہیں اور مغربی دماغوں کے خیالات ہماری خوراک ہیں۔ کاش خلیج بنگال کی موجیں ہمیں غرق کر ڈالیں! مولوی صاحب میں بے اختیار ہوں، لکھنے تھے سفر کے حالات اور بیٹھ گیا ہوں وعظ کرنے۔ کیا کروں اس سوال کے متعلق خیالات کا ہجوم مرے دل میں اس قدر ہے کہ بسا اوقات مجھے مجنوں سا کر دیتا ہے اور کر رہا ہے۔‘‘ 13؎ اس خط سے بھی اقبال کا عشق رسولؐ کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔ محض ساحل عرب کے تصور سے وہ جس جذب و مستی کی کیفیات اور واردات سے گزرتے ہیں، اس کے اظہار کا اسلوب والہانہ اور عاشقانہ ہے۔‘‘ وہ لکھتے ہیں: ’’ اب ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے، اس کی داستان کیا عرض کروں بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں۔ اللہ رے خاک پاک مدینہ خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا اے عرب کی سر زمین!۔۔۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو! کاش میں تیرے صحراؤں میں لٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پرواہ نہ کرتا ہوا اس پاک سر زمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں اذان بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔‘‘ 14؎ اقبال کی شاعری کے ادوار کے جائزہ نگار عام طور پر قیام یورپ کے دوران نظموں کی نسبتاً کم تعداد کی بڑی معقول وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اقبال اپنی علمی اور تحقیقی مصروفیات کی بناء پر شاعری کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ اقبال اپنے بنیادی کام کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اس کی شہادت ان کا مدیر اخبار وطن لاہور کے نام کیمبرج سے 25نومبر1905ء کا لکھا ہوا وہ مکتوب ہے جو ان سطور پر ختم ہوتا ہے۔ (لندن میں) ’’ مکان پر پہنچ کر رات بھر آرام کیا دوسری صبح سے ’’کام ‘‘ شروع ہوا یعنی ان تمام فرائض کا مجموعہ جن کی انجام دہی نے مجھے وطن سے جدا کیا تھا اور میری نگاہ میں ایسا ہی مقدس ہے جیسے عبادت‘‘ 15؎ ان اقتباسات سے اقبال کے ملی احساس، قومی بیداری میں افراد کا کردار اور حضور رسول اکرم ؐ سے اقبال کی شدید محبت اور شیفتگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس ذہنی اور جذباتی پس منظر کے ساتھ کوئی بھی ہوتا تو انگلستان یا یورپ میں بیٹھ کر اپنے ہاں کے قومی مسائل کو فراموش نہ کر پاتا مگر قومی اور ملی مسائل پر درد مندی کے ساتھ غور و فکر کرنا تو اقبال کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ دوسرے دور کی نظم ’’پیام‘‘ سے ظاہر ہے کہ مغرب کے عیش و نشاط سے معمور ماحول کے باوجود اقبال کا دل و دماغ اپنے ملک اور قوم کے مسائل میں اٹکا ہوا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اہل وطن تاریخی، سیاسی اور سماجی تغیر سے پیدا ہونے والے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔ اس لئے وہ دانشوروں اور راہنماؤں کا فرض سمجھتے ہیں کہ نئے حالات کے مطابق قوم کو نئے حقائق سے آگاہ کریں۔ ان امور کو ’’ پیام‘‘ کے آخری دو شعروں میں یوں بیان کیا ہے: پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے تجھ کو خبر نہیں ہے کیا؟ بزم کہن بدل گئی اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے اقبال نے قوموں اور تہذیبوں کی تاریخ کے گہرے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم کی تھی کہ قوموں کی زندگی حرکت و عمل سے عبارت ہے جبکہ بے عملی اور جمود یقینا زوال و انحطاط بلکہ تباہی کا موجب بنتا ہے۔ قیام یورپ کے دوران یورپی اقوام کو ہمہ تن مصروف عمل دیکھ کر انہیں نہ صرف ان کی ترقی کی اصلیت معلوم ہوئی بلکہ وہ حرکت و عمل کی برکات کے قائل ہوئے۔ نظم ’’ چاند اور تارے‘‘ میں تاروں کی سفر مسلسل سے اکتاہٹ اور بیزاری دیکھ کر چاند کہتا ہے: جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی ہے دوڑتا اشہب زمانہ کھا کھا کے طلب کا تازیانہ اس راہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں انجام ہے اس خرام کا حسن آغاز ہے عشق، انتہا حسن ’’ کوشش ناتمام‘‘ میں اقبال نے فلسفہ ارتقاء کا ایک بنیادی پہلو بیان کیا ہے چونکہ نئے سے نئے معروضی حالات اور واقعات کی تخلیق قانون فطرت ہے اس لئے ان نئے معروضی حالات کے پیش نظر انسانی جدوجہد اور کوشش کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوتا۔ گویا کسی انجام سے بے نیاز مسلسل جدوجہد زندگی کا ثبوت بھی ہے اور خود آپ اپنا انعام بھی ہے۔ بقول اقبال راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے اقبال کے عمرانی تصور کے حوالے سے نظم’’ پیام عشق‘‘ بہت اہم ہے۔ اس میں فرد اور ملت کے بارے میں جن خیالات کا اظہار ہوا ہے وہ اسرار خودی اور رموز بیخودی کے مرکزی خیال کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تین اشعار میں خودی کا مضمون نظم ہوا ہے۔ نہیں ہے وابستہ زیر گرداں کمال شان سکندری سے تمام ساماں ہے تیرے سینے میں تو بھی آئینہ ساز ہو جا غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرض قدیم ہے تو، ادا مثال نماز ہو جا نہ ہو قناعت شعار گلچین اسی سے قائم ہے شان تیری وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا ان تینوں شعروں کا خلاصہ یہ ہے کہا گر انسان معرفت نفس اور شعور ذات کی خصوصیت سے بہرہ ور ہو جائے اور اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو بروئے کار لائے تو وہ ایک کامیاب بلند مرتبہ شخصیت بن سکتا ہے۔ چونکہ زندگی کی ترقی اور کمال انسانی جدوجہد، کشمکش اور کوشش کا مرہون منت ہے اس لئے پیکار حیات کو ایک مقدس فرض سمجھ کر قبول کرنا چاہیے کیونکہ فطرت اور کائنات کی اشیاء پر زیادہ سے زیادہ تصرف حاصل کرنے کی کوشش سے ہی انسانی وقار قائم ہو جاتا ہے۔ اقبال اگلے شعروں میں کہتے ہیں کہ اب زمانے کے تقاضے بدل گئے ہیں۔ یہ زمانہ انفرادیت اور انفرادی امتیازات کا زمانہ نہیں گویا انسانی تاریخ کا یہ دور فردیت (Individualism) کا نہیں بلکہ اجتماعیت (Collectivism) کا عہد ہے۔ قوم کے مقابلے میں فرد کی ذاتی اہمیت کوئی نہیں ہے۔ فرد محض قومی ترقی یا اجتماعی مفادات کے حصول کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ چونکہ قوم کی زندگی حقیقی ہے۔ اس کے مقابلے میں افراد کا وجود غیر حقیقی ہے لہٰذا انہیں اپنے وجود کو قوم پر قربان کر دینے میں کوئی دریغ نہ ہونا چاہیے۔ ان باتوں کے لئے اقبال کا شاعرانہ اسلوب ملاحظہ کیجئے۔ گئے وہ ایام، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا وجود افراد کا مجازی ہے ہستی قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ، یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا اس نظم کے آخری شعر میں ہندوستان کی مکین ملت اسلامیہ کی نا اتفاقی اور باہمی نفاق و افتراق کی نشاندہی کرتے ہوئے ملت کی وحدت میں گم ہو جانے کی تلقین کی ہے۔ یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا اقبال کی 1907ء تک کی نظم و نظر کے اس مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب وہ قوم کے مصائب و آلام اور سماجی، سیاسی، معاشرتی اور معاشری مسائل پر دلگیر اور غمگین ہوتے تو انہیں شدید تاثرات، نظم و نثر میں اظہار پر مجبور کر دیتے تھے تاہم ان کا پیغام ابھی کسی واضح فلسفے کی شکل اختیار نہیں کر پایا تھا۔ مختلف نظموں یا نثری تحریروں میں بعض مقامات کو بہ نظر واپسیں retrospectively دیکھیں تو اس دور میں اقبال کے ترقی یافتہ فکر کے بعض اجزاء کی موہوم سی جھلک نظر آ جاتی ہے۔ نظم ’’ پیام عشق‘‘ کے زیر نظر اشعار کو پیش نظر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں اقبال اپنے فکر کے نتیجہ خیز موڑ پر آ نکلے ہیں۔ بالفاظ دیگر متذکرہ اشعار میں فلسفہ اقبال کے موضوعاتی خطوط کا تعین ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ان خطوط کو استوار اور مربوط کر کے آخری شکل دینے میں اقبال کے مزید کم و بیش آٹھ سال صرف ہوئے۔ اسی دوران فروری 1911ء میں علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں اقبال نے The Muslim Community: A Sociological study کے عنوان سے جو خطبہ دیا تھا16؎ وہ ’’ پیام عشق‘‘ کے خطوط ہی کا تفصیلی بیان اور جزئیاتی مطالعہ ہے نیز یہاں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا غالباً بے محل نہ ہو گا کہ پیام عشق میں ملت کا لفظ جس سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے اس سے مراد ملت اسلامیہ ہے۔ اقبال کے کلام میں لفظ ملت کا استعمال ان معنوں میں پہلی بار اس نظم میں دکھائی دیتا ہے۔ ’’ پیام عشق‘‘ سے پہلے بانگ درا کی تین نظموں ’’ خفتگان خاک سے استفسار، آفتاب صبح اور تصویر درد‘‘ میں بالترتیب اس لفظ کا استعمال دیکھئے: واں بھی انسان اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟ امتیاز ملت و آئیں کے دیوانے ہیں کیا؟ آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو اجاڑا ہے تمیز ملت و آئین نے قوموں کو مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے درماندہ اور پسماندہ اقوام عالم کی فکری اور عملی جدوجہد کی تاریخ سے یہ شہادت بہم پہنچتی ہے کہ جب کوئی ایسی قوم مایوسی اور نا امیدی میں گھر جاتی ہے تو فطری تقاضے کے تحت اس قوم میں کوئی ایسا درد مند اور غمخوار پیدا ہو جاتا ہے جو قوم کی بدحالی اور تاریکی کو خوشحالی اور روشن مستقبل میں بدلنے کے لئے اعلان جنگ کرتا ہے اور اپنے دوستوں اور ہم وطنوں کو اس جدوجہد اور جنگ میں شرکت کی دعوت دیتا ہے۔ اقبال کی نظم ’’ عبدالقادر کے نام‘‘ ایک ایسا ہی دعوت نامہ ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نظم کے تمہیدی نوٹ میں لکھتے ہیں: ’’ اس نظم میں خطاب شیخ عبدالقادر مرحوم مدیر مخزن سے ہے۔ یہ دسمبر 1908ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ جب اقبال کو ولایت سے واپس آئے ہوئے کم و بیش چار مہینے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں یہ نظم یہاں پہنچ کر لکھی یا ولایت ہی میں لکھ چکے تھے۔ بہرحال قوم کی عملی خدمت کے لئے کمربستہ ہونے کا یہ پہلا اعلان ہے۔ پھر اقبال کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس خدمت کے لئے وقت ہو گیا۔ اگرچہ وہ معاش کے لئے کچھ کچھ اپنے کام بھی کرتے رہے لیکن ان کا دل برابر خدمت ہی میں لگا رہا۔‘‘ 17؎ اس نظم کے ایک شعر سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ نظم ہندوستان واپس آ کر لکھی گئی۔ اس شعر میں واقعاتی اور حقیقی عنصر صاف نظر آتا ہے۔ یورپ میں قومی احساس انہیں کس قدر مصروف فکر رکھتا تھا اور انہوں نے قومی خدمت کے جو منصوبے باندھے تھے ان پر عملدرآمد کے لئے قوم کو اپنے احساس اور فکر سے واقف بنانے کو ضروری خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں یوں تو اس نظم کے سارے اشعار کو اقبال کے پیش نظر عمرانی انقلاب کے مقاصد کی قرار داد کہا جا سکتا ہے مگر خاص طور پر یہ دو شعر کہ: جلوہ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں اس چمن کو سبق آئین نمو کا دیکر قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں عبدالقادر کے نام مندرجہ بالا اشعار اقبال کے عمرانی فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تاریخ، روایات اور شاندار ماضی کا قومی تعمیر نو میں ایک محرک جذبہ کے طور پر جو کردار ہوتا ہے وہ متذکرہ پہلے شعر کا موضوع ہے۔ دوسرے شعر میں اس حیات افروز اور صحت بخش پیغام کی ضرورت اور اہمیت واضح کی گئی ہے۔ جس کی تعلیم اور تاثیر سے ایک لرزان اور ترسان اور حقیر فرد قوت، وسعت اور استقلال سے ہمکنار ہوتا ہے۔ دوسرے دور کی آخری نظم صقلیہ ’’ اگست1908ء کے مخزن میں چھپی تھی۔‘‘ 18؎ اسلامی تہذیب کی اس یادگار اور اس کے آثار کو دیکھ کر اقبال پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ اس نظم کا آخری شعر خصوی توجہ کا محتاج ہے کیونکہ یہ شعر اقبال کے عمرانی مزاج اور طرز احساس کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے وہ اپنے اس انفرادی تجربہ میں بھی جہاں کسی طرح کے قومی تعلق یا پہلو کا قرینہ موجود ہوتا ہے اس میں اپنی قوم کو بھی شریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا وہ قومی نوعیت کے انفرادی تجربے کو اجتماعی تجربے اور شعور کا حصہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ متذکرہ شعر ملاحظہ فرمائیے: میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤنگا خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤں گا ’’ صقلیہ‘‘ کے بعد اپریل 1909ء کے مخزن میں’’ بلاد اسلامیہ‘‘ شائع ہوئی۔ 1908ء کا سال کلام اقبال کی ترتیب میں حد فاضل تو ضرور ہے مگر ’’ صقلیہ‘‘ کے بعد’’ بلاد اسلامیہ‘‘ جو اپریل 1909ء کے مخزن میں شائع ہوئی 19؎ اس کا ’’ صقلیہ‘‘ کے ساتھ معنوی ربط اور باطنی تسلسل قائم ہے۔ ملت بیضا کی شاندار سلطنتیں زمانے کی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکیں مگر ان کا جاہ و جلال اور شوکت و سطوت ابھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ ملت اسلامیہ کے تمدنی مراکز خصوصاً قرطبہ سے یورپ نے جو فیضان حاصل کیا تھا ابھی تک یورپ میں اس کا سلسلہ جاری ہے۔ مدینہ کو خوابگاہ مصطفیؐ ہونے کی بنا پر عظمت حاصل ہے۔ مدینہ کی اہمیت اقبال نے ایک اور زاویے سے بھی بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جدید قومیت کے لئے جغرافیائی حدود کی شرط لازمی ہے۔ مگر اسلامی قومیت معروف مقامی حد بندیوں سے آزاد ہے۔ انہوں نے مندرجہ ذیل اشعار میں کہا ہے کہ: ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام ہند ہی بنیاد ہے اس کی نہ فارس ہے نہ شام آہ! یثرب! دیس ہے مسلم کا تو، مادے ہے تو نقطہ جاذب تاثر کی شاعوں کا ہے تو ’’ گورستان شاہی‘‘ میں موت اور ہلاکت کے حوالے سے بتایا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تہذیبیں، قومیں اور ان کی سلطنتیں مثلاً مصر و بابل، یونان و روما اور ایران تک وقت نے ملیامیٹ کر دیں اسی طرح مسلمان بھی عروج کا زمانہ گزار کر زوال کا شکار ہوئے لیکن ذوق جدت قانون قدرت ہے۔ اس کے مطابق نئی اقوام پیدا ہوتی ہیں اور عروج و زوال کی مقررہ گردش پوری کرتی ہیں لیکن اس قانون فطرت کے شعور کے باوجود شاعر کو ملت اسلامیہ کی حیات نو کے امکانات نظر آتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے۔ موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے زوال اور انحطاط کی اس حالت میں بھی اسے احساس ہے کہ اس کی قوم نشاۃ ثانیہ کے امکانات کی حامل ہے۔ دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں اشکباری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در گریہ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہ گریاں کے ہم آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم ہیں ابھی صدھا گہر اس ابر کی آغوش میں برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں وادی گل خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ خواب سے امید دہقان کو جگا سکتا ہے یہ اقبال ان اشعار میں ملت اسلامیہ کے احیاء کے بارے میں بڑے پر امید نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ابھی اس برگشتہ قسمت قوم میں ایسے صاحب کمال لوگ باقی ہیں جو اپنی صلاحیتوں سے ملت اسلامیہ کو ایک بار پھر تعمیر و ترقی کی کوششوں کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں۔ مغلوب قوموں کی زندگی کے خاص ادوار میں جب قومی جدوجہد اور کشمکش ایک خاص مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو قومی جنگ میں تدبیروں کے ساتھ جوش اور ولولہ کی نمود ہوتی ہے۔ جیسے جیسے جوش اور جذبہ کی لے تیز ہوتی جاتی ہے تو قومی رجز خوان کے ہاں ولولہ انگیز آہنگ ترانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اگر اقبال کے ’’ ترانہ ملی‘‘ کا جائزہ ترانے کی تخلیق کے نفسیاتی عوامل اور عمرانی پس منظر میں کیا جائے تو اقبال کا انقلابی جذبہ ہم پر آشکار ہوتا ہے۔ اقبال دنیا کے ان عدیم النظیر شاعروں میں سے ہیں جو بیک وقت اپنے نغموں سے جذبوں کو بیدار کرتے ہیں اور اپنے فکر و تدبر سے دماغوں کو متاثر کرتے ہیں مثلاً ’’ وطنیت‘‘ اس زمانے کا مقبول سیاسی نظریہ تھا۔ اقبال پہلے دور میں وطن پرستی کے تصور سے مسحور تو یقینا ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے سیاسی اور عمرانی ماحول کی روشنی میں اس نظریہ کی حقیقت پر غور کیا تو انہیں اس کی تباہ کاری اور اسلام سے تضاد و تخائف کا علم ہوا جس کے بعد نظم ’’ وطنیت‘‘ میں اقبال نے اس تصور کے رد میں بہت سی باتیں کہی ہیں۔ اس نظم کے آخری شعر کے مطابق وطنیت کا تصور انہیں اس لئے بھی قبول نہیں کہ۔ اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے بانگ درا حصہ سوم کی طویل نظموں میں سے ’’ شکوہ‘‘ کو اس کے موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے بہت سراہا گیا ہے۔ یہ نظم انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے منعقدہ اپریل 1911ء میں پڑھی گئی۔ 20؎ ملت اسلامیہ کے شاندار ماضی اور زمانہ حال کی نکبت و ناداری کا تقابلی مطالعہ اس نظم کا تخلیقی محرک ہوا ہے۔ یہ نظم فکر اقبال کے عمرانی مطالعہ کے سلسلے میں بڑی کار آمد ہے۔ اس نظم کا محور اور نقطہ ارتکاز بند نمبر چودہ اور اٹھارہ کے درج ذیل اشعار سے وجود میں آتا ہے۔ امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں عجز والے بھی ہیں مست مئے پندار بھی ہیں ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں سینکڑوں ہیں کہ تیرے نام سے بیزار بھی ہیں رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں یہ شکایت نہیں ہیں ان کے خزانے معمور نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب تو جو چاہے تو اٹھے سینہ صحرا سے حباب رہرو دشت ہو سیلی زدہ موج سراب طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے مولانا غلام رسول مہر نے شکوہ کے مطالب اور معانی قلمبند کرنے سے قبل تمہیدی نوٹ میں لکھا ہے: ’’ یہ اگرچہ شکوہ ہے اور شکوہ ہمیشہ ناخوشگوار حالات کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن نظم پڑھنے کے دوران میں ہرگز احساس نہیں ہوتا کہ مسلمان ناخوشگوار حالات سے دو چار ہیں۔ عظیم الشان کارنامے اس حسن ترتیب سے جمع کر دئیے گئے ہیں کہ موجودہ پست حالی کے بجائے صرف عظمت و برتری ہی سامنے رہتی ہے گویا یہ شکوہ بھی ہے اور ساتھ ہی بہترین دعوت عمل بھی۔‘‘ 21؎ مندرجہ بالا اشعار کی روشنی میں مولانا مہر کی متذکرہ رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ہماری رائے میں مسلمانوں کی معاشی بدحالی بیان کرنے پر شاعر کا سارا زور صرف ہوا ہے۔ ہمارے اس خیال کی تائید اقبال کی اس رائے سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے خطبہ علی گڑھ میں ایک جگہ ان الفاظ میں قلمبند کی ہے: The General health of a Community depends Largely on its economic independence. اس نظم کے بند نمبر27میں اقبال کے عمرانی تصور کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے حضور شاعر کی یہ دعا بڑی معنی خیز ہے: مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے جوئے خون می چکد از حسرت دیرینہ ما می تپد نالہ بہ نشتر کدہ سینہ ما دعا کے باطن میں جو فکر کا عنصر ہوتا ہے اقبال نے اسے بروئے کار لاتے ہوئے امت مرحوم کی مشکلات آسان اور سہل بنانے کے لئے اسرار خودی میں مرد کامل اور رموز بیخودی میں عدل و مساوات پر مبنی معاشرہ کا تصور پیش کیا۔ شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ شکوہ کے بعد سال سوا سال کے اندر مثنوی اسرار خودی کی تصنیف کا آغاز ہو گیا تھا۔ اقبال 7جولائی 1911ء کو عطیہ فیضی کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’ والد نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ میں بو علی قلندر کی مثنوی کے نمونہ پر فارسی میں کوئی مثنوی لکھوں اور اس اہم کام کی مشکلات کے باوجود میں نے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا ہے۔ ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں: نالہ را انداز نو ایجاد کن بزم را از ہا و ہو آباد کن آتش استی بزم عالم برفروز دیگراں را ہم ازیں آتش بسوز سینہ را سر منزل صد نالہ ساز اشک خونیں را جگر پر کالہ ساز پشت پا بر شورش دنیا بزن موجہ بیرون ایں دریا بزن‘‘ 23؎ ان اشعار میں پہلا اسی صورت میں اور دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں تصرف کیا گیا ہے۔ تیسرے شعر کے پہلے مصرعہ میں تبدیلی کی گئی ہے۔ ہماری اس وضاحت کے مطابق متذکرہ اشعار اسرار خودی میں تمہید کے زیر عنوان موجود ہیں۔ 24؎ بہرحال اس سے اتنا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اسرار خودی کا آغاز1911ء میں ہو گیا مگر اس کی تکمیل 1915ء میں ہوئی۔ آغاز سے تکمیل تک چار سالوں کے دوران تخلیق ہونے والی اردو نظموں میں عمرانی معنویت اور اہمیت کے حامل مضامین بار بار آتے ہیں۔ مثلاً ’’ بزم انجم‘‘ میں قوموں کے زوال اور جمود کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ اقبال کے مطابق آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا قومیں کچل گئی ہیں جس کی روا روی میں اسی طرح نظم بعنوان ’’ انسان‘‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو اس نظم میں انسانی خودی کا مکمل ادراک ہو گیا تھا۔ انسان کو دوسری مخلوقات پر جس چیز سے فوقیت اور برتری حاصل ہوتی ہے اور جس خصوصیت کی بنا پر وہ اشرف المخلوقات کے بلند مرتبہ پر فائز ہوتا ہے وہ اس کی قوت عمل ہے اور یہی قوت اس کو مسخر کائنات بناتی ہے۔ اس بات کو دیکھئے۔ اقبال نے کس قدر ایجاز اور اختصار کے ساتھ دو شعروں میں بیان کر دیا ہے: تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے اس ذرہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم یہ ذرہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے اور آخری شعر میں انسان کے اندر قوت کے لا محدود امکانات (Potentials) کے بارے میں جیسا یقین نظر آتا ہے اس کے پیش نظر یہ باور کرنا محض قیاس نہ ہو گا کہ اس نظم میں خودی کی حقیقت اور ماہیت پوری جامعیت کے ساتھ اقبال پر روشن ہو گئی تھی۔ انسان کی ہستی کا اتنی وضاحت اور صراحت کے ساتھ ایسا اثبات شاید کسی دوسرے مقام پر دکھائی نہیں دیتا۔ اقبال کے نزدیک کائنات کی ہیئت کو تبدیل کرنا انسان کی منشا پر منحصر ہے کیونکہ وہ جن اوصاف کا مالک ہے صرف وہی انسانی اوصاف تسخیر کائنات کے لئے درکار ہیں۔ اقبال کے الفاظ ملاحظہ کیجئے: چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی یہ ہستی دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے! ’’ خطاب بہ جوانان اسلام‘‘ میں قومی روایات کی تقدیس اور احترام کے ساتھ حفظ وراثت کی تلقین کا مضمون ہے۔’’ غرہ شوال‘‘ یا ’’ ہلال عید‘‘ مولانا غلام رسول مہر کے مطابق روزنامہ زمیندار کے ایک عید نمبر میں شائع ہوئی تھی۔ 25؎ لیکن مولانا مرحوم نے اخبار کے شمارہ کی تاریخ درج نہیں کی ’’ باقیات اقبال‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم مکرن اکتوبر1911ء میں بھی شائع ہوئی تھی 26؎ اس نظم میں مسلمانوں کی فتوحات کی تاریخ کا ایمائی بیان ہے۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ اقوام کے جوش و عمل اور پسماندہ و شکست خوردہ اقوام کے منفی رویے کا مقابلہ کیا گیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کے زوال کے بعض اسباب کی نشاندہی کی ہے اور آخر میں اس زمانے کے ایران اور ترکی کے سیاسی حالات کی ابتری پر ماتم کیا ہے۔ اس نظم میں بھی شاعر کے اپنے زمانے کے مسلمانوں کی معاشی بدحالی، ناداری اور افلاس کا ذکر ہے جبکہ عہد رفتہ میں یہی مسلمان فراواں دولت اور ثروت کے مالک تھے اور بے دریغ بخشش کرنے کے عادی تھے۔ اقبال ہلال عید سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ رہرو درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ بانگ درا کی ایک طویل نظم ’’ شمع و شاعر‘‘ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس منعقدہ1912ء میں پڑھی گئی۔ 27؎ یہ نظم فکر اقبال میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے اقبال کے ذہنی اضطراب اور بے چینی پر روشنی پڑتی ہے۔ قومی بیداری کی جدوجہد میں مصروف عمل قائدین خصوصاً مفکرین کی زندگی میں ایسے کربناک اور تکلیف دہ لمحات بھی آتے ہیں جب انہیں اپنی کوششیں بے ثمر نظر آتی ہیں اور جماعت مسلسل جمود اور بے حسی کے باعث عفو معطل رہنے پر مصر دکھائی دیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اہل فکر و نظر پر مایوسی کا دباؤ بڑھنے لگتا ہے اور انہیں اپنی تمام کوشش اور جدوجہد رائیگاں محسوس ہوتی ہے۔ زیر نظر نظم میں اس صورتحال کو شمع کے حوالے سے بڑے موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ شمع شاعر کو باور کراتی ہے۔ قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا زیر نظر نظم کا فکری جائزہ اور تفصیلی مطالعہ ہمارا موضوع نہیں۔ تاہم اس نظم میں شمع کے مکالمات پر مشتمل بندوں میں سے بند نمبر ایک، دو اور تین کے آخری شعر جو بڑی حد تک شاعر یعنی اقبال کے عالم مایوسی کی ترجمانی کرتے ہیں یہاں بالترتیب درج کئے جاتے ہیں۔ اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا بے محل تیرا ترنم، نغمہ بے موسم ترا پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو کارواں نے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا لیکن مایوسی کے اس اندھیرے میں درد مند شاعر کو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ یہ کرن دراصل قومی بیداری کی تحریکوں کی تاریخ کا ایک سنہری اصول ہے کہ قومی بیداری کی تحریک کے بانیوں کو کبھی مایوس اور دل برداشتہ ہو کر جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے جس طرح انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات، قومی شعور اور انسانی نفسیات میں امید و رجا ایک قدر آفریں پہلو ہے اسی طرح عمرانی نقطہ نظر سے بھی امید اور رجائیت ایک مثبت طرز عمل کی دلیل ہے۔ جے کیو ڈیلے (J.Q.Daeley) نے لکھا ہے: A Couageous optimism is one of the most essential qualifications for sociological usefulness pessimism characterizes those who understand conditions only, but do not know remedies in place of despair and apathy sociology urges hopefulness and energy because the farward movement of civilization is working toward inprovement and human happiness. 28 ’’ جرأت مندانہ رجائیت عمرانیاتی افادیت کے لئے سب سے ضروری اوصاف میں سے ایک ہے۔۔۔۔ نا امیدی انہیں متصف و مشتخص کرتی ہے جو صرف احوال و شرائط کو سمجھتے ہیں لیکن ان کے مداوا کا علم نہیں رکھتے۔۔۔ مایوسی اور بے حسی کی جگہ عمرانیات امید و رجا اور توانائی کو ابھارتی ہے کیونکہ تہذیب کی پیش رفت بہتری، فلاح اور انسانی مسرت کی جانب بر سر عمل ہے۔‘‘ اقبال کے افکار و خیالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حوصلہ شکن اور مایوس کن حالات میں رجائی نقطہ نظر کی عمرانیاتی افادیت کے رمز سے واقف ہے۔ چنانچہ زیر نظر نظم میں شمع کا شاعر کو مشورہ ہے۔ نغمہ پیرا ہو، کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز گفتمت روشن حدیثے، گر توانی دار گوش کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری ہان سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش آنکھ کو بیدار کر دے وعدہ دیدار سے زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے چنانچہ نظم کے باقی چار بندوں میں فرد کو حرکت و عمل اپنانے، فرد اور ملت کے درمیان ربط باہمی پیدا کرنے اور خودی کو بروئے کار لانے کا سبق دیا گیا ہے اور آخری بند میں انقلاب کی نوید سنائی گئی ہے۔ کیونکہ شاعر کو یقین ہے: شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی شاعر کی اس شبنم افشانی کا اثر اور عمل اسرار خودی کی تمہید کے ان اشعار میں ملاحظہ کیجئے۔ راہ شب چوں مہر عالمتاب زد گریہ من بر رخ گل آب زد اشک من از چشم نرگس خواب شست سبزہ از ہنگامہ ام بیدار رست ’’ شمع و شاعر کے بعد ’’ مسلم‘‘ سے لے کر’’ تہذیب حاضر‘‘ تک چھوٹی بڑی تقریباً بیس نظمیں بنتی ہیں۔ ہر نظم میں ملت کے حوالے سے زندگی کے کسی نہ کسی مسئلہ مثلاً تعلیمی، تہذیبی، معاشرتی یا سیاسی پہلو پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ان نظموں میں’’ جواب شکوہ‘‘ تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ نظم 1913ء کے ایک جلسہ عام میں پڑھی گئی تھی جو موچی دروازے کے باہر بعد نماز مغرب منعقد ہوا تھا۔ 29؎ چھتیس بندوں کی اس طویل نظم میں مسلمانوں کے معاشی ادبار، تہذیبی و سیاسی زوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ خصوصاً مسلمانوں کے عظیم المرتبت اسلاف کے کردار و عمل اور جوش ایمانی کا موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی بے عملی، دون ہمتی، ملی روایات سے بے اعتنائی اور ایمان کی دولت سے محرومی کے ساتھ مقابلہ و موازنہ کیا گیا ہے۔‘‘ ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے تم مسلمان ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی ہے تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر یہ نظم مسلمانوں کے لئے محاکمہ باطنی (Heart Searching) اور خود احتسابی (Self Realization) کی دعوت ہے اور عمرانی کوتاہیوں کا احساس و شعور پیدا کرنے کا نفسیاتی حربہ بھی۔۔۔۔ اس نوع کا حربہ قومی تعمیر نو کے کام میں موثر اور مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ اقبال نے اس نفسیاتی حربے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے ملی شعور اور ان کی عصبیت کو ابھارنے میں یہ نظم بھی ایک عامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس جائزے سے یہ امر طے ہو جاتا ہے کہ اقبال کا طرز احساس، فنی رویہ، فکری مقصد اور تخلیقی عمل عمرانی محرکات کی پیداوار ہے بالفاظ دیگر اقبال کے خیالات کی اساس عمرانی ہے جس پر انہوں نے آئندہ اپنے عمرانی فکر کو ایک دستوری صورت میں منضبط کیا یہاں اقبال کے بنیادی عمرانی فکر کی نوعیت پر توجہ مبذول کرنا ضروری ہے تاکہ تخلیق فن کے عمرانی تقاضوں کا کسی حد تک اندازہ ہو سکے۔ تخلیقی عمل کے اسرار و رموز اور دقیق نکات کی روشنی میں، دنیا کے تمام عظیم ادباء اور شعرا کے مطالعہ فکر و فن سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی شعری و ادبی زندگی کے کم و بیش ابتدائی دس پندرہ سال مشق سخن سے کہیں زیادہ اپنے فکری مرکز و محور کی تلاش میں گزر جاتے ہیں یہاں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ متذکرہ تلاش اور دریافت اکثر صورتوں میں شعوری گویا میکانکی نہیں ہوتی۔ تخلیقی عمل غیر شعوری طور پر یا یوں کہیے کہ کسی پر اسرار طریقے سے جاری رہتا ہے تا آنکہ ایک بڑا موضوع شاعر یا ادیب کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور یہ اس کی خلقی، وہبی، اکتسابی، جذباتی، عقلی و فکری، معاشرتی، سماجی اور عمرانی رویوں اور جذبوں کا نقطہ ارتکاز ہوتا ہے جب ان مختلف تخلیقی رویوں اور عمرانی محرکات کی ترکیب و امتزاج (Synthesis) کے نتیجہ میں ایک ایسا بڑا کارنامہ تخلیق ہوتا ہے جس کی حیثیت بنیادی ہوتی ہے۔ پھر اس تخلیقی جڑ سے فکر و خیال کے سلسلے شاخ در شاخ پھوٹتے ہیں یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ وفور نمو مشروط ہے۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ اگر فن کار یا شاعر کا فنی یا شاعرانہ تجربہ اس کے سماجی و عمرانی مشاہدے اور متعلقہ علوم و فنون کے مطالعہ سے تقویت پاتا رہے گا تو اس کی نئی اور تازہ تخلیقات وجود میں آتی رہیں گی جو اس کی جدت فکر و خیال کا بھی مظہر ہوں گی۔ اقبال نے 1913ء تک کی محولہ بالا نظموں میں ملک و ملت کے حوالے سے جن عمرانی کوتاہیوں کو محسوس کیا انہیں اپنے نثری مضامین اور منظومات کے ذریعہ قارئین کے خوابگیں شعور کو بیدار کرنے اور ساکن جذبے کو متحرک کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس بیدار شعور اور متحرک جذبے کو روبہ عمل لانے کے لئے ایک دستور العمل یا فکر اساس وضع کی جس نے تصور خودی کا نام پایا اور شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اپنی اصل کے اعتبار سے عمرانی فکر کا ہر پہلو عملی اور تجربی ہوتا ہے۔ فکر اقبال کے بنیادی عمرانی تصور یعنی خودی کا جائزہ لینے سے پہلے اسرار خودی کی تشکیل کے زمانہ کے گرد و پیش تک اقبال کی نثری تحریروں کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ ان کے حوالے سے فکر اقبال کے عمرانی محرکات سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ٭٭٭ حوالے باب نمبر4 1 قریشی، محمد عبداللہ، حیات اقبال کی گمشدہ کڑیاں، بزم اقبال کلب روڈ لاہور، مئی 1982ء ص163-135 2باقیات اقبال، بارسوم 1978ء ص56 3صدیقی، ڈاکٹر افتخار احمد، مقالہ ’’ اقبال اور نذیر احمد کے فکری روابط، مشمولہ فکر اقبال کے منور گوشے، مرتبہ سلیم اختر، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، اگست1977ئ، ص193‘‘ 4باقیات اقبال، آئینہ ادب لاہور، بار سوم 1978ء ص103 5شاہد، محمد حنیف، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، لاہور1976ئ، ص25 6باقیات اقبال، ص98 7 باقیات اقبال، ص120-119 8باقیات اقبال، ص127-126 9باقیات اقبال، بار سوم 1978ء ص139 10باقیات اقبال، بار سوم 1978ء ص157 12مطالعہ اقبال مرتبہ، گوہر نوشاہی، بزم اقبال لاہور جون 1971ء ص474 13مطالعہ اقبال، محولہ بالا، ص176-175 14مطالعہ اقبال، محولہ بالا، ص483-482 15مطالعہ اقبال، ص488 16اصغر عباس، سرسید اقبال اور علی گڑھ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ 1987ء ص14 17غلام رسول مہر، مطالب بانگ درا، کتاب منزل لاہور، اشاعت اول، ص143 18مہر، محولہ بالا، ص145 19ایضاً ص163 20سالک، عبدالمجید، ذکر اقبال، بزم اقبال لاہور، ص80 21مہر، غلام رسول، محولہ بالا، ص189-188 22مجلہ تحقیق لاہور جلد3شمارہ نمبر1ص31 23عطیہ بیگم، اقبال، مترجم ضیاء الدین برنی، اقبال اکیڈمی کراچی، 1956ء ص60-59 24دیکھئے: کلیات اقبال فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، فروری 1973ء ص10 25مہر، غلام رسول، محولہ بالا، ص209 26باقیات اقبال، آئینہ ادب لاہور، بار سوم 1978ء ص363 27مہر، محولہ بالا، ص212 28 Dealey, James Quayle, Sociology: Its Development and Applications, D. Appleton and Company, New York. 1920, pp. 381-82 29مہر، محولہ بالا، ص228 ٭٭٭ Chapter No. 4 11. Gisbert. P. Fundamentals of Sociology, Orient Longmans, Calvutta, 1965, 119. (also see Ogburn, W. F.r M.F. Nimkoff, A Hand book of Sociology, London, 1960. p. 438 28. Dealey, James Quayle, Sociology: Its Development and Applications, D. Appleton and Company, New York 1920, pp. 381-82 ٭٭٭ پانچواں باب اقبال کے عمرانی تصورات کا مطالعہ گزشتہ صفحات میں اسرار خودی سے پہلے کی اردو منظومات کی روشنی میں اقبال کے عمرانی تصورات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مطالعہ سے اسرار خودی اور رموز بیخودی کا وہ فکر پس منظر نمایاں ہوتا ہے، جسے ہم نے فکر اقبال کا عمرانی زاویہ قرار دیا ہے۔ انگریزی میں اقبال کے اولین مقالہ ’’ عبدالکریم الجیلی کا نظریہ توحید مطلق‘‘ کو جو1900ء کی تصنیف ہے۔ زیر نظر باب کا نقطہ آغاز بنایا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے 1900ء میں عبدالکریم جیلی پر اپنے انگریزی مضمون میں الجیلی کے تعارف میں لکھا ہے: he Combined in himself poetic imagination and Philosophical genius, but his poetry is no more than a vehicle for his mystical and metaphysical doctrines. Among other works, he wrote a commentary on Shaikh Muhy-ud-din ibn Arabis Futuh al-Makkiyah a Commentary on Bismilah and Al-Insan-ul-Kamal. 1 اقبال کی یہ رائے خود اقبال کے باب میں بھی آخری الفاظ میں تغیر کے ساتھ اتنی ہی موزوں اور درست ہے، جتنی جیلی کے شاعرانہ تصور اور فلسفیانہ فطانت کے بیان میں صداقت کی حامل ہے۔ اقبال کی شخصیت میں شاعرانہ تخیل اور فلسفیانہ ذہانت کا امتزاج بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ اور ان کی شاعری فلسفیانہ اور عمرانی تصورات کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے انیسویں صدی کے آخری تین چار سالوں میں نظم کے پیرائے میں عمرانی خیالات کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ اور بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں نثر میں بھی فلسفہ، تصوف، اقتصادیات اور عمرانیات کے موضوع پر قلم اٹھایا۔ اقبال جیسے مفکر شعرا و ادبا کے فکری محور گویا ان کے بنیادی فلسفہ یا تصور حیات کی بابت عام خیال یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اس فلسفہ و فکر کا طلوع و ظہور کسی ایک مخصوص وقت پر ہوا جیسا کہ اقبال کے تصور خودی کے بارے میں یہ بات عین الیقین کے درجہ پر پہنچ چکی ہے کہ ان کا فلسفہ خودی پہلے پہل 1915ء میں ان کی مثنوی اسرار خودی میں پیش ہوا درانحالیکہ کوئی فلسفیانہ نظام میکانکی انداز میں اور تدریجی و تشکیلی عمل Process of Development کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ اس سے قبل اقبال کے ذہنی ارتقا کے مطالعہ میں یوں تشکیل خودی کے مراحل کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ کے گزشتہ باب میں اقبال کی پہلی نظم سے لے کر 1914ء تک کی اردو منظومات میں اقبال کے تصور خودی کی نمود کے مختلف پہلو نمایاں کئے گئے ہیں۔ زیر نظر باب میں علامہ کی ایک نصابی اور درسی تصنیف ’’ علم الاقتصادی‘‘ اور ان کے 1914ء تک کے اردو اور انگریزی مقالات کا تشکیل خودی اور عمرانی زاویے سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ اقبال کا پہلا علمی مقالہ ’’ عبدالکریم الجیلی کا نظریہ توحید مطلق‘‘ انگریزی میں رسالہ ’’ انڈین اینٹی کیوری‘‘ بمبئی کے شمارہ ستمبر1900ء میں شائع ہوا تھا۔ 2؎ اس مقالے میں اقبال نے اسلامی مابعد الطبیعاتی کے مسائل کا عبدالکریم الجیلی کی تصنیف ’’ انسان کامل‘‘ کی روشنی میں مطالعہ کیا ہے۔ 3؎ اقبال اس کتاب کے مختلف ابواب کا جائزہ لیتے ہوئے ان مراحل کا ذکر کرتے ہیں جن میں سے گزر کر ایک انسان ذات مطلق میں مدغم ہو جاتا ہے اور اس ادغام کے باعث انسان کامل کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ بقول الجیلی: He Becomes the paragon of perfection, the object of worship, the preserver of the universe he is the point where عبودیت(Man-ness) and الوہیت (God-ness) become one, and result in the birth of the god-man. 4 اقبال نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ مصنف انسان کامل نے یہ نہیں بتایا کہ انسان کامل روحانی ترقی کی اس رفعت کو کیسے چھوتا ہے۔ لیکن وہ بتاتا ہے کہ انسان کامل کو روحانی سفر کے ہر مرحلہ میں ایک مخصوص روحانی تجربہ ہوتا ہے۔ وہ قلب کو اس تجربے کا آلہ قرار دیتا ہے۔ وہ سبھی کچھ جسے قلب یا ویدانت کے مطابق علم ارفع کا منبع منکشف کرتا ہے، اسے فرد اپنی ذات سے علیحدہ کوئی چیز یا اپنی ذات سے متغائیر (Heterogenous) نہیں پاتا۔ وہ اس کے ذریعے سے جو کچھ مشاہدہ کرتا ہے وہ اس کی اپنی حقیقت، اس کا اپنا گہرا باطن ہوتا ہے۔ 5؎ علامہ اقبال کے زیر نظر مقالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے الجیلی کی تصنیف کا اتنی محنت اور دقت نظر سے مطالعہ کیا تھا کہ شیخ الجیلی کی اس کتاب کے مطالب و معانی اقبال کے ذہن پر نقش ہو گئے، یوں اقبال کی فکری تشکیل میں الجیلی کے خیالات بڑے موثر ثابت ہوئے۔ مثلاً اقبال کے تصور خودی کی تخلیق میں شیخ کے متذکرہ عرفان ذات کے تصور کی جھلک موجود ہے۔ مگر اس فرق کے ساتھ کہ اقبال نے اس کے مابعد الطبیعیاتی پہلو کی جگہ عمرانی زاویہ قائم کیا ہے۔ اقبال نے اسرار خودی کی اشاعت کے موقع پر حافظ اور عجمی تصوف کی تنقید اس بنیاد پر کی تھی کہ ان کے نزدیک شعر حافظ کے تاثرات کا حاصل اور عجمی تصوف کے نظریات کا منشاء و مقصود وہ کیفیت ہے ’’ جس کو تصوف کی اصطلاح میں سکر کہتے ہیں۔‘‘ 6؎ اقبال اس حالت یا کیفیت کو معاشرہ کے حق میں چندان صحت بخش خیال نہیں کرتے۔ اقبال کے اس خیال کی بنیاد میں ان کے اپنے غور و فکر کے علاوہ شیخ الجیلی کا فیضان بھی شامل ہے۔ شیخ الجیلی کے انسان کامل کے روحانی تجربہ کی ذیل میں اقبال نے لکھا ہے: but the Spiritual Experience, as the sufis of this school hold, is not permanrnt, moments of spiritual vision, says mathew arnold, cannot be at our command. the god-man is he who has known the mystry of his own being, who has realized him-self as god-man but when that particular spiritual realization is over man is man and God is God. Had the experience been permanent, a great moral force would have been lost and overturned. 7 اس اقتباس کی روشنی میں اقبال کے خودی، مرد مومن اور اس کے معاشرتی منصب کے تصورات کا ایک ماخذ ہمارے سامنے آتا ہے۔ جیلی کی تصنیف اور خصوصاً مندرجہ بالا الفاظ کی بازگشت نہ صرف اسرار خودی بلکہ خطبات میں بھی صاف سنائی دیتی ہے۔ خصوصاً پانچویں خطبہ ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ کا تمہیدی پیراگراف ایک اعتبار سے متذکرہ سطور کی باز آفرینی ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ محمد ؐ عربی برفلک الافلاک رفت و باز آمد۔ واللہ اگر من رفتمے ہرگز باز نیامدمے ’’ یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالقدس گنگوہی کے الفظ ہیں جن کی نظیر تصوف کے سارے ذخیرہ ادب میں مشکل ہی سے ملے گی۔ شیخ موصوف کے اس جملے سے ہم اس فرق کا ادراک نہایت خوبی سے کر لیتے ہیں جو شعور ولایت اور شعور نبوت میں پایا جاتا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا واردات اتحاد (Unitary Experience) میں اسے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے اسے چھوڑ کر (زمان و مکان کی اس دنیا میں ۔ مترجم) واپس آئے۔ لیکن اگر آئے بھی، جیسا کہ اس کا آنا ضروری ہے تو اس سے نوع انسانی کے لئے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ برعکس اس کے، نبی کی باز آمد تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ ان واردات سے (جن میں اس کا اتصال ایک حقیقت سرمدی سے ہوتا ہے۔ مترجم) واپس آتا ہے تو اس لئے کہ زمانے کی رو میں داخل ہو جائے (یعنی سیاسی و اجتماعی احوال و ظروف یا حوادث و واقعات کی دنیا میں جو یکے بعد دیگرے رونما ہوتے ہیں اور عبارت میں تاریخ علیٰ ہذا زندگی کے ان ٹھوس حقائق سے جو فرد اور جماعت کے صورت گر ہیں۔ مترجم) اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے جو عالم تاریخ کی صورت گر ہیں مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔‘‘8؎ تسلسل حیات، عمرانیات کا اہم موضوع ہے اقبال کے افکار میں بھی اس موضوع پر کئی جگہ اظہار خیال ہوا ہے۔ اس سلسلے میں اسرار خودی میں تمہید کے بعد پہلے باب کا عنوان ’’ دربیان اینکہ اصل نظام عالما ز خودی است و تسلسل حیات تعینات وجود بر استحکام خودی انحصار دارد‘‘ توجہ طلب ہے۔ عبدالکریم الجیلی کا انسان کامل (اگر اقبال کی اصطلاح میں گفتگو کی جائے) خودی کے استحکام کے باعث تکمیل کے مراحل عبور کرنے کے بعد محافظ کائنات اور فطرت کے تسلسل کا سبب بنتا ہے۔ اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں: The author (Al-Jili) holds that the perfect man is the preserver of the Universe, hence in his view the appearance of the perfect man is a necessary condition for the continuation of nature. 9 آخر میں ایک اور اہم بات کی طرف اشارہ ضروری ہو گا کہ اقبال نے اس مقالے میں مختلف مقامات پر ہیگل اور ہیگلی فلسفہ سے شیخ الجیلی کے افکار کی فلسفیانہ تائید و تصدیق کا کام لیا ہے۔ ہیگل کے افکار نے انیسویں اور بیسویں صدی کے علوم کے کئی شعبوں مثلاً فلسفہ، تاریخ، تصوف اور عمرانیات کو بہت متاثر کیا۔ Ronald Fletcher عمرانیات کے باب میں ہیگل کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: There is no doubt that the most impressive statement of a systematic philosophy of history, and that brings the subjedt most clearly to the brink of modern sociology, is that of hegal.. 2. it seems to me that his is a philosophy of history which rests most clearly upon what we would now call sociological assumptions, and also, an understanding of his system of thought is essential for any subsequent understandin of the sociological theory of marx, Hobhouse and others. 11 اقبال نے 1910ء کی نوٹ بک شذرات فکر اقبال میں گوئٹے، ورڈز ورتھ، عبدالقادر بیدل، مرزا غالب کے ساتھ ہیگل سے استفادہ کا بڑے کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔ 12؎ ہیگل کے اس تذکرہ سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ہیگل کے خیالات کا بھی اقبال کے عمرانی نقطہ نظر کی تشکیل میں حصہ ہے۔ انیسویںصدی کے نصف آخر میں ہندوستان کی نئی سیاسی صورت حال کی وجہ سے تعلیم کا مسئلہ یہاں کے باشندوں کی عمرانی زندگی میں زبردست اہمیت اختیار کر گیا۔ ہندوستان کی اقوام میں جدید تعلیم کا حصول مسابقت کا باعث بھی ہوا۔ ہندوستانی زعماء کی تحریر و تقریر میں انگریزی علوم کو بھی قومی زندگی کی بقاء اور ترقی کا ضامن گردانا گیا۔ مسلمانوں کو خصوصاً اپنی تعلیمی پسماندگی کا شدید احساس تھا۔ اس کے زیر اثر جدید تعلیم کے حصول کو ایک قومی نصب العین کا مقام دینے میں سرسید کی پرجوش تعلیمی تحریک کا بڑا ہاتھ ہے۔ اقبال بچپن ہی سے تعلیم کی برکات کا غلغہ سنتے آ رہے تھے۔ وہ خود امتیاز کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1899ء میں ایم اے فلسفہ کرنے کے بعد13مئی 1899ء کو تعلیم و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوئے 13؎ اور 1905ء میں انگلستان روانہ ہونے تک بحیثیت استاد یونیورسٹی اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں کام کرتے رہے۔ اس دوران تصنیف و تالیف اور تحقیق کے میدان میں بھی سرگرم رہے۔ تاہم اس عرصہ کے پہلے دو اڑھائی سالوں میں بحیثیت معلم، مصنف اور مولف انہیں تدریس کے عملی تجربہ، طریق تعلیم کے مشاہدہ و مطالعہ اور مقاصد تعلیم پر فکر و تامل کا موقع ملا۔ اس کے نتائج کا سب سے پہلا قلمی ا ظہار ان کے مضمون ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ مطبوعہ جنوری 1902ء میں ہوا ہے۔ یہ مضمون نہ صرف اقبال کے ابتدائی تعلیمی تصورات پر بڑی عمدہ روشنی ڈالتا ہے بلکہ اس سے اقبال کے عمرانی خدوخال ابھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس مضمون میں اقبال بچوں کی تعلیم کو تمام قومی عروج کی جڑ خیال کرتے ہیں۔ مگر انہیں مروجہ طریقہ تعلیم علمی اصولوں پر مبنی نظر نہیں آتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پرانا (مضمون کی تحریر کے زمانے میں متد اول) طریقہ تعلیم بچوں کی شخصیت میں وہ اوصاف پیدا کرنے سے قاصر ہے جو ایک کامیاب اور عملی زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ لہٰذا طریق تعلیم کے اس نقص کے باعث ’’ سوسائٹی کے لئے ان (بچوں) کا وجود معطل ہو جاتا ہے۔‘‘ 14؎ اقبال نے اس مضمون میں ایک جگہ تعلیم کی اہمیت اور مقاصد واضح کرنے کے لئے انسان کا مثالی تصور پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ انسان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ دنیا کے لئے اس کا وجود زینت کا باعث ہو اور جیسا کہ ایک یونانی شاعر کہتا ہے کہ اس کے ہر فعل میں ایک قسم کی روشنی ہو جس کی کرنیں اوروں پر پڑ کے ان کو دیانت داری اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سبق دیں، اس کی ہمدردی کا دائرہ دن بدن وسیع ہونا چاہیے۔۔۔۔ صدہا انسان ایسے ہیں جو دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں مگر اپنے اخلاقی تعلقات سے محض جاہل ہوتے ہیں۔ وہ اس مبارک تعلق سے غافل ہوتے ہیں جو بحیثیت انسان ہونے کے ان کو باقی افراد بنی نوع سے ہے۔‘‘ 15؎ اس اقتباس سے اقبال کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا طریقہ تعلیم جو ’’ بچوں کے قوائے عقلیہ و واہمہ کے مدارج کو ملحوظ‘‘ 16؎ رکھتا ہے وہ مثبت اور صحت مند طریقہ تعلیم ہے اس لئے وہ لازماً انسان کے اندر اپنے فرائض کا شعور بیدار کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا باشعور انسان کا فرض ہے کہ وہ ایک ذمہ دار فرد کے طور پر معاشی زندگی بسر کرے۔ مندرجہ بالا اقتباس میں علامہ نے معاشرہ میں فرد کے رویے اور کردار کا تعین کیا ہے اور یہ خیال اپنی اصل کے اعتبار سے ایک عمرانی تخیل ہے۔ ان منقول سطور سے متصل آٹھ دس فقرے بڑی ہی معنویت کے حامل ہیں۔ اگر ذرا بہ نظر تعمق دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان سے اقبال کے عمرانی افکار کا خمیر اٹھاہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ حقیقی انسانیت یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض سے پوری پوری آگاہی ہو اور وہ اپنے آپ کو اس عظیم الشان درخت کی شاخ محسوس کرے جس کی جڑ تو زمین میں ہے مگر اس کی شاخیں آسمان کے دامن کو چھوتی ہیں۔ اس قسم کا کامل انسان بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر انسانی بچے کی تربیت میں یہ غرض ملحوظ رکھی جاوے کیونکہ یہ کمال اخلاقی تعلیم و تربیت ہی کی وساطت سے حاصل ہو سکتا ہے جو لوگ بچوں کی تعلیم و تربیت کے صحیح اور علمی ا صول کو مد نظر نہیں رکھتے وہ اپنی نادانی سے سوسائٹی کے حقوق پر ایک ظالمانہ دست درازی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ تمام افراد سوسائٹی کے لئے انتہا درجے کا مضر ہوتا ہے۔‘‘ 17؎ اگر مندرجہ بالا عبارات کے خط کشیدہ فقرات پر غور کیا جائے تو علی الترتیب اقبال کے مندرجہ ذیل تصورات کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے: 1خودی 2فرد اور ملت کا ربط باہمی 3انسان کامل 4نژاد نو کی اخلاقی تعلیم و تربیت مندرجہ بالا اقتباس میں فکر اقبال کے ان پہلوؤں کی جھلک سے کہیں زیادہ ہمارے موضوع کے لحاظ سے اہم بات یہ ہے کہ اقبال عمرانیات کے ایک دبستان سے متاثر نظر آتے ہیں جو ارتقائی عمرانیات کے نام سے معروف ہے۔ 18؎ اسپنسر کے عمرانی نظریہ ارتقاء میں اس کی عضویاتی مشابہت (Organic analogy) کے تصور کو بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اس کے مطابق حیاتیاتی عضویہ (Biological Organism) اور انسانی معاشرہ میں بڑی قریبی متجانست پائی جاتی ہے۔ جس طرح عضویہ، اجزاء اور کل کے باہمی رشتہ میں منسلک ہوتا ہے اسی طرح معاشرہ کے افراد اور جماعت میں ربط باہمی پایا جاتا ہے۔ اپنسر کا استدلال یہ تھا کہ عضویہ اور معاشرہ دونوں کی تاریخ ایک ارتقائی سلسلہ(Process) ہے۔ 19؎ اقبال کی منقولہ بالا عبارت میں فرد کی ’’ ایک شاخ‘‘ اورمعاشرہ کی’’ ایک درخت‘‘ سے مشابہت قابل توجہ ہے۔ اس عضویاتی مشابہت کو اقبال نے کئی نظموں میں بھی تخلیقی سطح پر استعمال کیا ہے۔ ایسی چند ںظموں کی نشاندہی گزشتہ باب کے حصہ اول میں کی گئی ہے۔ اس زمانے میں اسپنسر کے علاوہ حیاتیات میں ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے بھی سماجی فکر پر گہرا اثر کیا۔ 20؎ اقبال ڈارون کے نظریہ ارتقا سے متاثر ہوئے تھے۔ اس کا ذکر آئندہ صفحات میں آ رہا ہے۔ زیر تبصرہ مضمون کے آخر میں اقبال نے استاد کا عمرانی منصب اور سماجی کردار متعین کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ ۔۔۔ معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کی قدرت میں ہے۔۔۔۔ پس تعلیم پیشہ اصحاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشہ کے تقدس اور بزرگی کے لحاظ سے اپنے طریق تعلیم کو اعلیٰ درجے کے علمی اصولوں پر قائم کریں۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے دم قدم کی بدولت علم کا ایک سچا عشق پیدا ہو جائے گا۔ جس کی گرمی میں وہ تمدنی اور سیاسی سرسبزی مخفی ہے جس سے قومیں معراج کمال تک پہنچ سکتی ہیں۔‘‘ 21؎ اقبال کو اپنے مثالی استاد میر حسن کے فیضان نظر کا خود تجربہ تھا۔ علاوہ ازیں تاریخ ایسے فیض رساں اساتذہ کے تذکرے سے اٹی پڑی ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اقبال کی ایک محبوب شخصیت اورنگ زیب عالمگیر کی تعلیم میں اس کے استاد ملا موہن کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ کون کہہ سکتا ہے عالمگیری عہد میں اسلام نے جو سنبھالا اس ملک میں لیا اس میں ملا مومن کی تعلیم کو دخل نہ تھا۔‘‘ 22؎ اقبال کی تصنیفی زندگی کے اس ابتدائی مضمون سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں تعلیم کے اثر و نفوذ پر گہرا یقین تھا۔ وہ تعلیم کو معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کے استحکام اور قومی ترقی کا نہایت موثر ذریعہ خیال کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی پہلی باقاعدہ تصنیف ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے 1904ء میں شائع ہوئی۔ 23؎ اقبال کے تصنیفی اور علمی ارتقاء کے جائزہ میں اس کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ معاشیات کے موضوع پر یہ ایک تدریسی نوعیت کی کتاب ہے مگر یہاں اس کا علم معاشیات کے حوالے سے تنقیدی مطالعہ مقصود نہیں۔ تاہم اقبال کے عمرانی افکار کے ابتدائی آثار کا سراغ لگانے میں اس کتاب کا مطالعہ بار آور ہو گا۔ اس کتاب کے دیباچہ اور پہلے باب میں دوسرے علوم کے ساتھ علم الاقتصاد کے تعلق کی اقبال نے جو بحث کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال علم معاشیات کو عمرانیات کی ایک شاخ خیال کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ (علم الاقتصاد) اس وسیع علم کی ایک شاخ ہے جس کا موضوع خود انسان ہے۔‘‘ 24؎ اقبال اس وسیع علم کو علم تمدن کہتے ہیں جسے آجکل عمرانیات کہا جاتا ہے۔ اقبال نے انسانی زندگی میں معاشی مسئلہ کو بنیادی قرار دیتے ہوئے غریبی کے انسان کی شخصیت پر مضر اثرات کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’ اس میں شک نہیں کہ تاریخ انسانی کے سیل رواں میں اصول مذہب بھی بے انتہا موثر ثابت ہوئے ہیں مگر یہ بات بھی روز مرہ کے مشاہدے سے ثابت ہوتی ہے کہ روزی کمانے کا دھندا ہر وقت انسان کے ساتھ ساتھ ہے اور چپکے چپکے اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ کو اپنے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ ذرا خیال کرو غریبی یا یوں کہو کہ ضروریات زندگی کے کامل طور پر پورا نہ ہونے سے انسانی طرز عمل کہاں تک متاثر ہوتا ہے۔ غریبی قویٰ انسانی پر بہت اثر ڈالتی ہے بلکہ بسا اوقات انسانی روح کے مجلا آئینہ کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم برابر ہو جاتا ہے۔‘‘ 25؎ علامہ اقبال علم الاقتصاد کا مطالعہ نہ صرف قومی فلاح و بہبود بلکہ قومی وجود اور نظام و قیام تمدن کے لئے ضروری خیال کرتے ہیں ان کے مطابق: ’’ انسان کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں ان کا حشر کیا ہوا ہے۔۔۔ پس اگر اہل ہندوستان دفتر اقوام میں اپنا نام قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس اہم علم کے اصولوں سے آگاہی حاصل کر کے معلوم کریں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو ملکی عروج کے مانع ہو رہے ہیں۔‘‘ 26؎ علامہ اقبال نے علم تمدن کی فوقیت اور برتری بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:۔۔۔۔۔تمام علوم کا موضوع ذات انسان ہے جو خصوصیت کے ساتھ علم تمدن کا موضوع ہے۔۔۔ چونکہ علم تمدن کا منشاء ہمارے اعلیٰ ترین مقصد کی حقیقت معلوم کرنا ہے اور ہماری روز مرہ کی چیزوں کی حقیقی قدر اس علم کے لحاظ سے فیصلہ پاتی ہے اس واسطے علم الاقتصاد اور دیگر انسانی علوم، علم تمدن سے نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔27؎ معاشیات اور عمرانیات کے اس گہرے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے ایک عمرانی عالم نے لکھا ہے: ’’ جیسے جیسے اقتصادی عمل معاشرے میں ترقی پاتا ہے، یہ انسان کی سماجی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس سے اثر قبول کرتا ہے ان دونوں علوم کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے۔ مزید برآں کیونکہ اقتصادی نظام سماجی ڈھانچے سے اس کے جزو کے طور پر پیوستہ ہوتا ہے اول الذکر کا مطالعہ صرف موخر الذکر کے وظیفے کے طور پر عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ اسی لئے ایک معروف ماہر اقتصادیات نے کہا ہے کہ معاشیات، عمرانیات کی باندی ہوتی ہے۔‘‘ 28؎ اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علم الاقتصاد بنیادی طور پر ایک عمرانی شعبہ ہے اور اقبال کی زیر نظر تصنیف ان کے عمرانی فکر و نظر کا ایک ثبوت ہے۔ اب اہم یہاں علم الاقتصاد کی نثری بحثوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک تو اس کتاب کے ان خیالات کی نشاندہی کریں گے توجہ دلائیں گے جو اپنی اصل کے اعتبار سے عمرانی مسائل ہیں دوسرے ان خیالات کی نشاندہی کریں گے جو پختہ ہو کر فکر اقبال میں ڈھلے اور فلسفہ اقبال کے مہتم بالشان موضوع قرار پائے۔ علم الاقتصاد کے پہلے باب میں مصنف نے ایک طویل حاشیہ قلم بند کیا ہے۔ جس میں مذکور تصریحات سے اقبال کے عمرانی نقطہ نظر پر بڑی اچھی روشنی پڑتی ہے علامہ کے مطابق: ’’ فلسفہ تمدن کا فرض منصبی یہ ہے کہ انسانی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد معلوم کرے۔‘‘ 29؎ یہ مقصد کیا ہے؟ اقبال نے اس کی وضاحت نہیں کی مگر سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے انسانی تمدن کی ترقی کے لئے جدوجہد مراد ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ذرائع اور وسائل بروئے کار لانا علم الاقتصاد، فن تعلیم اور علم تدبیر مملکت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے پھر وہ ’’تحقیقات تمدنی‘‘ کی رو سے مطلوبہ ترقی کے لئے مندرجہ ذیل ’’ تین ضروری شرائط‘‘ بیان کرتے ہیں: 1’’ نظام قدرت کے قویٰ مخفیہ کو معلوم کرنا اور ان سے مستفید ہونا مثلاً زمانہ حال میں برقی قوت سے جو نظام قدرت کے قویٰ میں سے ہے انسان نے بے انتہا فائدہ اٹھایا ہے‘‘ 30؎ اس مثال سے اقبال کا منشاء ایجادات اور معدنیات کی دریافت معلوم ہوتا ہے بالفاظ دیگر اقبال اور اقبالیات کی اصطلاح میں تسخیر کائنات انسانی تمدن کا منتہا و مقصود ہے۔ 2’’ تمدنی تعلقات کی تکمیل‘‘ ۔۔ کیونکہ ’’ انسانی تمدن کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تمام تمدنی تعلقات کے صحیح مفہوم معلوم کر کے ان کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔‘‘ 31؎ گویا افراد معاشرہ کے سماجی اور معاشرتی تعلقات میں استواری پیدا کرنا بھی فلسفہ تمدن کا فرض منصبی ہے۔ اس موضوع کو عمرانیات میںInteractionکے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ عمرانیات میں فرد اور دوسرے افراد کے باہمی تفاعل گویا فرد اور معاشرے کے باہمی ربط و تعلق کی بحث کا بڑا حصہ اسی موضوع کی ذیل میں آتا ہے۔ 3’’ افراد کے ذاتی قویٰ کی ترقی مثلاً تعلیم و تربیت۔۔۔ (اس کی) تحقیقات فن تعلیم کے متعلق ہے‘‘ 32؎ اسے عمرانیات میںSocialisation کے ذیل میں لایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مسئلہ تعلیمی عمرانیات کا بھی خاص موضوع ہے۔ اس کتاب میں اقبال نے معاشیات کے مختلف مباحث کے دوران بعض عمرانی مسائل اور موضوعات پر بھی ضمنی طور پر اظہار خیال کیا ہے اس سے جہاں عمرانیات سے ان کی دلچسپی اور واقفیت کا پتہ چلتا ہے وہیں ان کے ذہنی و فکری تناظر کی گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے مثلاً’’ معاشرہ کا آغاز و ارتقا‘‘ عمرانیات کا ایک بنیادی موضوع ہے۔ اقبال نے محنت کے باب میں معاشرہ کا تدریجی ارتقا نہایت اجمال اور اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ انسانی تمدن کے ابتدائی مرحلہ میں انسان پھلوں اور شکار پر گزارہ کرتا ہے۔ 2؎ کیونکہ ابھی انسان معاشرتی تنظیم کے قابل نہیں جب انسان اس وحشیانہ حالت سے ترقی کر کے حالت شبانی تک پہنچتا ہے 24؎ تو اسے منظم معاشرتی زندگی کا شعور ہو جاتا ہے اور ’’ آخر کار یہ مرحلہ بھی طے ہو جاتا ہے اور انسان ترقی کر کے اس حالت تک پہنچتا ہے جس کو حالت زراعتی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔‘‘ 35؎ اجرت کے موضوع پر مشتمل باب میں دستکاروں اور کارخانہ داروں کے مسائل کی بحث میں معاشرے کے ارتقا کی داستان صنعتی دور تک آ پہنچتی ہے۔ قوموں کا عروج و زوال اور اسباب کے باب کی تحقیق علم تاریخ اور عمرانیات کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ تاریخ میں عروج و زوال کے محرکات واقعات کے حوالے سے بیان ہوتے ہیں جبکہ عمرانیات میں معاشرتی اور سماجی عوامل کے ذریعے ان اسباب کا تعین کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ بعض حکماء یہ سمجھتے ہیں کہ صرف دولت کی بحث مضامین اقتصاد میں داخل نہیں ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ مورخین کے لئے اس علم کا مطالعہ صرف اسی لحاظ سے مفید ہو سکتا ہے کہ اس کے اصول اور مسائل ان اسباب پر روشنی ڈالیں جن کے عمل سے مختلف اقوام عالم کا عروج و زوال ظہور میں آتا ہے اور جزر و مد کے بواعث معلوم نہیں ہو سکتے جب تک کہ اقوام عالم کی دولت اور اس کے صرف کرنے میں مروج طریق نہ معلوم کئے جائیں۔۔‘‘ 36؎ اس کتاب میں ایک جگہ اقبال نے لکھا ہے کہ ’’ بخیل اور عشرت پسندوں کی وجہ سے دولت کا ضیاع ہوتا ہے کیونکہ عشرت پسند غیر پیداواری اشیاء پر دولت صرف کرتے ہیں اور بخیل دولت کو جامد کر دیتا‘‘ 37؎ ایک دوسرے مقام پر بڑی دقیقہ رسی کا ثبوت دیتے ہوئے نئی تہذیب کی متوقع تباہی کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔ بعض پرانی مہذب قوموں کی بربادی عارضی لذات کی جستجو اور ان اشیا سے بے پرواہ رہنے کی وجہ سے ہوئی جن سے انسانی زندگی کو حقیقی مسرت اور جلا حاصل ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی تہذیب اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ لذیذ اور مفید میں امتیاز کیاجائے۔‘‘ 38؎ یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ابن خلدون نے بھی آرام طلبی، عیش پسندی اور عیش پرستی،ا سراف بے جا اور فضول خرچی کو قوموں کے زوال کا ایک بڑا سبب قرار دیا ہے۔ 39؎ اقبال نے مختلف مباحث کے دوران ہندوستانی کی ترقی میں مانع اسباب کا بھی جائزہ لیا ہے جن کو مندرجہ ذیل چار شقوں میں ترتیب دیا جا سکتا ہے: 1اقبال کے نزدیک ہندوستان کی تمدنی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ غریبی اور افلاس40؎ کے علاوہ تعلیمی پسماندگی ہے 41؎ علاوہ ازیں ان کے خیال میں صنعت کی طرف سے بے توجہی 42؎ اور تجارت پر مغربی سوداگروں کا قبضہ اور ہندوستانیوں کی بے رغبتی بھی تمدنی ترقی میں مانع ہیں۔ بقول اقبال: ’’ دنیا میں بہت سے ملک ہیں جن کو قدرت نے صنعت و حرفت اور دستکاری کے دیگر اقسام کے لئے نہایت موزوں پیدا کیا ہے لیکن سرمائے کی کمی یا عدم موجودگی کے باعث ان کی تجارت چمک نہیں سکتی ہمارے ہندوستان کو بھی اس مصیبت کا سامنا ہے یہاں کی تجارت بیشتر مغربی سوداگروں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے سرمایہ کو ہندوستانی تجار ت کی مختلف شاخوں میں لگا کر نفع عظیم حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔‘‘ 43؎ علم الاقتصاد کا آخری باب جس کا موضوع اور عنوان آبادی ہے، عمرانی مطالعہ کے نقطہ سے اہم ترین ہے۔ اقبال نے اس باب میں قوموں کے زوال میں آبادی میں اضافے کے رحجان کو ایک عامل قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں: ’’ آبادی کا مناسب حدود سے باہر نکل جانا افلاس اور دیگر بد نتائج کا سرچشمہ ہے۔۔۔‘‘ 44؎ مسئلہ آبادی کی کوئی مالتھیئس کے اصول ہندسیہ (Progression geometric) کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ اقبال مالھیس کے اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔۔۔ نوع انسانی کی آبادی بشرطیکہ کوئی اختیاری یا غیر اختیاری اسباب مانع نہ ہوں سلسلہ ہندسیہ کے مطابق بڑھے گی مگر پیداوار زمین یعنی خوراک انسانی۔۔۔۔ کی مقدار روز بروز کم ہونے میلان رکھتی ہے ۔ لہٰذا اس واقعہ سے حکیم موصوف یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ نوع انسانی کی آبادی اس قدر بڑھ جانے کا میلان رکھتی ہے کہ قیام زندگی کے قدرتی و سائل اس کے لئے کفایت نہیں کر سکتے (اس لئے) قدرت عظیم الشان جنگوں، وباؤں اور قطحوں کی وساطت سے خود بخود آبادی انسان و حیوان کو کم کرتی ہے۔‘‘ 45؎ مالتھیئس کے رسالہ آبادی کے اس بیان کی طرف معلوم نہیں اقبال کا خیال کیوں منعطف نہ ہوا جس میں مالتھیئس کی اس رائے کا اظہار ہوا ہے کہ اگر آبادی میں اضافہ اسی شرح سے غیر معینہ طور پر جاری رہے تو نتیجتہً خوراک کے لئے تنازع اس قدر خوفناک ہو جائے گا کہ نسبتاً کمزور افراد معاشرہ کی ہلاکت ناگزیر ہو گی اور مقابلتہً قوی افراد زندہ بچ سکیں گے۔ 46؎ یہاں شائد یہ بات دلچسپی کا باعث ہو کہ ڈارون نے اپنی حیاتیاتی تحقیقات کے بعد تنازع اللبقا کا نظریہ وضع کیا۔ مگر اس میں مالتھیئس کے نظریہ، خوراک کے لئے تنازع کا فیضان بھی شامل ہے اور ڈارون نے اس سے استفادہ کا اعتراف بھی کیا ہے۔ 47؎ اقبال نے مالتھیئس کے اس نظریہ کا جیسا کہ اوپر اشارہ ہو چکا ہے، ذکر نہیں کیا، البتہ وہ ڈارون کے نظریہ تنازع اللبقا اور بقائے اصلح سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اقبال نے ایک ماہر اقتصادیات محقق اور وا کر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ وبا اور قحط وغیرہ کو آبادی میں اضافہ کا مستقل اور مکمل مانع تصور نہیں کرتا۔ اس ے نزدیک: ’’ زندگی کا قیام ایک کلیہ قانون کی (کے) تابع ہے جس کو فلسفی ’’قانون بقائے افراد قویہ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔‘‘ 48؎ اگرچہ متذکرہ قانون کے ضمن میں اقبال نے ڈارون کا نام نہیں لیا (اس کتاب میں اقبال کا غالب رحجان یہی ہے کہ دو چار ماہرین اقتصادیات جن کا نام لینا انہوں نے ناگزیر سمجھا اور کسی مصنف یا فلسفی کا نام نہیں لیا) مگر ڈارون کا نظریہ اتنا معروف ہے کہ اس کی شناخت میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اس نظریہ نے کم و بیش ایک سو برس تک 49؎ دنیا بھر کے سائنسدانوں، سیاستدانوں، فلسفیوں اور سماجی علوم خصوصاً عمرانیات کے ماہرین کو متاثر کیا۔ اقبال کو قانون بقائے افراد قویہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ غالباً تمام حکمائے حال اس امر پر متفق ہیں کہ نظام کا عالم ہر حصہ اس قانون کے عمل سے متاثر ہوتا ہے کیا نباتات کیا حیوانات اور کیا انسان سب کی فنا و بقا کا اصل راز اسی قانون کا عمل ہے۔ تم جانتے ہو قیام حیات کے وسائل اور اسباب ہمیشہ متغیر ہوتے رہتے ہیں۔ پس جب یہ اسباب و سائل دفعتاً متغیر ہو جائیں اور جانداروں کے کسی خاص طبقے میں وسائل بقا کے تغیر کے ساتھ ہی ان کے مطابق تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو صاف ظاہر ہے کہ وہ طبقہ فنا ہو جائے گا اور وہی حیوان محفوظ رہیں گے جو ان وسائل متغیر شدہ میں قائم رہنے کی قابلیت رکھتے ہوں گے۔۔۔۔ غرض کہ نظام عالم کے ہر حصے میں جانداروں کے درمیان ایک قسم کی مصاف ہستی شروع ہے جس میں قوی افراد فتح پاتے ہیں اور ضعیف و ناتواں افراد صفحہ عالم سے معدوم ہو جاتے ہیں۔‘‘ 50؎ ڈارون کا متذکرہ صدر تصور اقبال کے فکر پر بہت اثر انداز ہوا۔ اقبال کے بعض مضامین اور کئی نظموں میں یہ خیال بار بار آیا ہے کہ صفحہ ہستی سے جو قومیں اور تہذیبیں مٹ گئی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں احساس تحفظ ذات زائل ہو گیا تھا اور ان کی قوت مدافعت کمزور پڑ گئی تھی۔ علامہ نے لکھا ہے: ’’ جس طرح اس قانون (مصاف ہستی) کے اثر سے حیوانوں کی بعض قدیم قسمیں صفحہ ہستی سے معدوم ہو گئی ہیں اسی طرح اس قانون کے عمل سے انسانوں کی قدیم قومیں بھی حرف غلط کی طرح کتاب ہستی سے مٹ گئی ہیں۔‘‘ 51؎ اس اقتباس کی آئندہ سطور میں اس قانون کا خیالات اور مذاہب پر اطلاق کرتے ہوئے اقبال نے ایک دور رس عمرانی نتیجہ اخذ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ صرف حیوانوں کی انواع اور انسانوں کی قدیم اقوام ہی عدم آشنا نہیں ہوتیں۔ ’’ بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غیر مادی اشیاء مثلاً خیالات و مذاہب کا قیام بھی اسی قانون کے تابع ہے جو خیال یا مذہب انسان کے تمدنی حالات اور اس کی عقلی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی نہ کر سکے گا ضرور ہے کہ وہ انسان کی جدید روحانی ضروریات کو پورا نہ کر سکنے کے باعث معدوم ہو جائے۔‘‘ 52؎ اس رائے سے متبادر ہوتا ہے کہ اقبال کو اس زمانے میں اجتہاد کی ضرورت کا احساس ہو گیا تھا۔ اور وہ تمام زندگی اسلامی فقہ کی تدوین نو کے لئے اصرار کرتے رہے اور یہ کام ان کے اپنے مجوزہ پروگرام میں شامل تھا۔ مگر زندگی کے آخری سالوں میں صحت کی خرابی نے انہیں اس کی مہلت نہ دی۔ بہرحال علم الاقتصاد میں اقبال نے بعض فقہی مسائل مثلاً تعداد ازدواج، ضبط تولید، ملکیت زمین، شخصی جائیداد کی موقوفی اور قومی ملکیت کے مسائل کو چھیڑا ہے۔ چونکہ ان موضوعات پر بحث ان کی زیر نظر تصنیف کے دائرہ کار سے باہر تھی اس لئے انہوں نے کوئی مفصل تبصرہ نہیں کیا ۔ گزشتہ صفحات میں بھی ذکر آ چکا ہے کہ فرد اور جماعت یا فرد اور معاشرہ کا باہمی تعلق عمرانیات کا اہم موضوع ہے۔ اقبال کی اس تصنیف اور زیر تبصرہ ابتدائی مقالات میں اگرچہ یہ موضوع بالکل ضمنی اور ثانوی طور پر آتا ہے مگر جس انداز میں آتا ہے اس سے ذہن عمرانیات کے عضویاتی نظریہ (Organic Theory) کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جیسا کہ قبل ازیں کہا جا چکا ہے کہ یہ نظریہ ہربرٹ اسپنسر کی علمی مساعی کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے اسپنسر کی طرح عضویاتی مشابہت (Organic Analogy) کو کام میں لاتے ہوئے لکھا ہے: ’’ بنی نوع انسان ایک بڑے جسم کی طرح ہیں کہ مختلف ممالک یا اقوام اس کے اعضا ہیں جو اپنے اپنے مقررہ فرائض کی انجام دہی سے ’’ بنی آدم اعضائے یک دیگراند‘‘ کا پورا مفہوم ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح جسم کی پرورش اور تربیت (ترتیب) کرتے ہیں‘‘ 53؎ عضویاتی مشابہت کا یہ تصور سعدی کے درج ذیل شعروں میں نظر آتا ہے جس کا پہلا مصرعہ اقبال نے مندرجہ بالا اقتباس کے علاوہ پیام مشرق میں بھی استعمال کای ہے۔ سعدی کہتے ہیں: سہ بنی آدم اعضائے یک دیگراند کہ در آفرینش زیک جوہر اند چو عضوے بدرد آورد روزگار دگر عضو را را نماند قرار معاشرے کے عضویاتی نظریہ کی جھلک ڈارون اور اسپنسر سے بہت پہلے یونانی فلاسفہ کے افکار میں بھی موجود تھی۔ ڈیلے (Dealey) نے لکھا ہے: The Older organic theory of society, which had vogue for thousands of years down to the time of daceinism, assumed that society might well be compared to human body. in gerak teaching both pythagoras and plato used this analogy, comparing, for example, the head to the noblest part of mankind, the upper trunk to the less noble, and the lower trunk to the plobeian element. the analogy was common among. the romans also as when, for exampls, the secession of the plebs from the patricians was compared to the revolt of the stomach against the head. 54 اقبال کی اس کتاب میں بعض موضوع یوں بار بار آتے ہیں کہ کئی دفعہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ (اقبال) معاشیات کی مبادیات پر جو کچھ لکھ رہے ہیں ان سے ان کا دل و دماغ مطمئن نہیں۔ اس کی طبیعت کچھ اور کہنے کے لئے امنگ کرتی ہے گویا ان کا ذہن اقتصادیات کے اصول و مبادی کے علاوہ قومی اہمیت کی بعض ضروری باتیں کہنے کے لئے بے چین ہے۔ لہٰذا وہ کسی نہ کسی طرح اس تصنیف میں عمرانی مسائل کے لئے گنجائش پیدا کر لیتے ہیں۔ چونکہ قوم کے ساتھ افراد کی وابستگی، اقبال کے زمانے کی ایک اہم سیاسی ضرورت تھی اس لئے یہ خیال عام طور پر تقریر و تحریر کا موضوع بن چکا تھا۔ اس مسئلہ پر علم الاقتصاد میں کئی موقعوں پر اظہار خیال ملتا ہے۔ مثلاً اجرت کے باب میں اقبال ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ’’ دستکاروں کی حالت سنوارنے کا سب سے احسن طریق یہ ہے کہ دستکاروں اور کارخانہ داروں کے درمیان ہمدردی پیدا کی جائے اور یہ بات ان کے ذہن نشین کی جائے کہ قوم کی بہبودی تمام افراد کی بہبودی سے وابستہ ہے اور ایک رشتے کے ضعیف اور کمزور ہو جانے سے تمام قوم کا شیرازہ بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔‘‘ 55؎ افلاس اور غریبی معاشیات اور عمرانیات کا ایک خاص موضوع ہے۔ عمرانیات میں افلاس کو معاشرتی مسائل کے ذیل میں سماجی اختلال کا باعث خیال کیا جاتا ہے۔ 56؎ کوئن اگ (Koenig) نے عصر حاضر کے چند بڑے معاشرتی مسائل کے باب میں غریبی پر بحث کرے ہوئے گلن (Gillin) کے حوالے سے لکھا ہے: ’’ جان ایل گلن نے ’’ سوشل پتھیالوجی‘‘ میں موقف اختیار کیا ہے کہ افلاس کو ایک ایسی حالت خیال کیا جا سکتا ہے جس میں ایک شخص خود کو اپنے گروہ کے معیار زندگی کے مطابق برقرار نہیں رکھ سکتا لہٰذا وہ اس دماغی اور جسمانی قابلیت کے حصول کے نا قابل ہوتا ہے جو اس گروہ میں مفید اور موثر کار گزاری کا لازمہ ہے۔۔۔ عوام افلاس کی شدت اس وقت تک محسوس نہیں کرتے جب تک ان کی حالت انتہائی محرومی کی نہ ہو یہ محرومی اسی قدر ان کی جسمانی تکالیف کے نتائج کی بنا پر ہوتی ہے جس قدر ان کی اپنی قسمت پر کبیدگی اور آزردگی سے جو وہ دوسروں سے اپنا تقابل کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔‘‘ 1؎ اقبال نے اپنی نثری تحریروں کے پہلے دور (1900ء تا 1910ئ) میں ہندوستان کے باشندوں کی غریبی اور مفلوک الحالی کا ذکر بڑے درد کے ساتھ کیا ہے۔ وہ ہر جگہ اس فکر میں دکھائی دیتے ہیں کہ افلاس اور غریبی کا عذاب کیوں کر ٹلے؟ علم الاقتصاد کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ’’ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائیں اور ایک درد مندوں کو ہلا دینے والے افلاس کا درد ناک نظارہ ہمیشہ کے لئے صفحہ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے۔‘‘ 58؎ علم الاقتصاد کے بعض دوسرے ابواب مثلاً’’ محنتی کا حصہ یا اجرت‘‘ اور’’ آبادی‘‘ میں بھی مصنف نے غریبی کے اثرات پر تبصرہ کیا ہے اور اس کے خاتمہ کی خواہش ظاہر کی ہے۔ افزائش آبادی کے قدرتی موانع کے باوجود اقبال لکھتے ہیں: ’’ کثیر التعداد بنی آدم غریبی کے روز افزوں دکھ میں مبتلا ہیں جس کی شدت سے مجبور ہو کر ان کو ایسے ایسے جرائم کا مرتکب ہونا پڑتا ہے جو انسان کے لئے ذلت و شرم کا باعث ہیں۔۔۔ تم جانتے ہو مفلسی تمام جرائم کا منبع ہے۔ اگر ایسی بلائے بے درماں کا قلع قمع ہو جائے تو دنیا جنت کا نمونہ نظر آئے گی اور چوری، قتل، قمار بازی اور دیگر جرائم جو اس دہشت ناک آزار سے پیدا ہوتے ہیں، یک قلم معدوم ہو جائیں گے مگر موجودہ حالات کی رو سے اس کالی بلا کے پنجے سے رہائی پانے کی یہی صورت ہے کہ نوع انسان کی آبادی کم ہو تاکہ موجودہ سامان معیشت کفایت کر سکے۔‘‘ 59؎ اقبال نے اس تصنیف کی تیاری میں مالتھیئس اور واکر کے علاوہ جن علمائے معاشیات کے خیالات سے استفادہ کیا ہے ان میں مارکس بھی شامل ہے ۔ کارل مارکس (1818-83) اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ کے علاوہ علم عمرانیات کی تاریخ کے عظیم عمرانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسے عمرانیات کے ایک دبستان، سیاسی عمرانیات (Polititcal Sociology) سے متعلق خیال کیا جاتا ہے۔ 60؎ ان دنوں یورپ اور امریکہ میں سماجی علوم اور ادب و فن کے حوالے سے شائع ہونے والا تقریباً ہر مطالعہ مارکس کے خیالات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر نظر آتا ہے یا اس کے بعض تصورات کے خصوصی پہلوؤں کے مطالعہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی تعلیمی، علمی، صیفی اور سیاسی شعبوں میں مارکس کا حوالہ آتا ہے۔ مطالعہ اقبال کے حوالے سے بھی ہمارے ہاںمارکس کے افکار اور اس پر اقبال کی تنقید کا تذکرہ رہتا ہے۔ مگر اب تک تعلیمی انداز میں مارکس اور اقبال کے ابتدائی ذہنی روابط کا سنجیدہ علمی مطالعہ شاید نہیں ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق اقبال 1902ء کے لگ بھگ مارکس اور اس کے فلسفیانہ افکار سے متعارف ہو چکے تھے۔ اس کا ثبوت علم الاقتصا دکے ایک مقام سے فراہم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے مارکس اور اس کی کسی کتاب کا نام نہیں لیا کیونکہ بقول مشفق خواجہ: ’’ اقبال نے۔۔۔۔۔ اپنی کتاب میں کہیں بھی کسی دوسرے مصنف کی کتاب کا حوالہ نہیں دیا بلکہ ’’ ایک محقق لکھتا ہے۔۔۔۔ بعض حکما کی یہ رائے ہے۔۔۔ جیسے الفاظ لکھ کر دوسروں کی آراء بیان کر دی ہیں البتہ دو چار جگہ کچھ ماہرین معاشیات مثلاً مالتھیئس کا ذکر پانچ چھ بار آیا۔۔۔۔‘‘61؎ بہرحال علم الاقتصاد میں لگان پر باب کے مندرجہ ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارکس کا اشتمالی ریاست (Classless Society) کا تصور اقبال کے پیش نظر رہا ہو گا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ تمدن انسانی کی ابتدائی صورتوں میں حق ملکیت یا جائیداد شخصی کا وجود مطلق نہ تھا۔۔۔۔ نہ کہیں افلاس کی شکایت تھی نہ چوری کا کھٹکا تھا۔ قبائل انسانی مل کر گزران کرتے تھے اور امن و صلح کاری کے ساتھ اپنے دن کاٹتے تھے۔۔۔۔ زمانہ حال کے بعض فلسفی اس بات پر مصر ہیں کہ تمدن کی یہی صورت سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ نظام قدرت میں نوع انسانی کے تمام افرادی مساوی حقوق رکھتے ہیں کوئی کسی کا دبیل نہیں ہے اور تمام تمدنی امتیازات مثلاً سرمایہ دار اور محنتی، آقا و ملازم وغیرہ بالکل بے معنی ہیں۔ جائیداد شخصی برائیوں کا سرچشمہ ہے لہٰذا اقوام دنیا کی بہبودی اسی میں ہے کہ ان بے جا امتیازات کو یک قلم موقوف کر کے قدیمی اور قدرتی اصول مشارکت فی الاشیاء کو مروج کیا جائے اور کچھ نہیں تو کم از کم ملکیت زمین کی صورت میں ہی اس اصول پر عمل درآمد کیا جائے۔ کیونکہ یہ شے کسی خاص فرد یا قوم کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قدرت کا ایک مشترکہ عطیہ ہے جس پر قوم کے ہر فرد کو مساوی ملکیت حاصل ہے۔ حال کی علمی بحثوں میں یہ بحث بڑی دلچسپ اور نتیجہ خیز ہے لیکن ہم اس کا مفصل ذکر اس ابتدائی کتاب میں نہیں کرنا چاہتے یہاں صرف اس قدر یاد رکھنا چاہیے کہ نظام تمدن کی موجودہ صورت میں جائیداد شخصی ایک ضروری جزو ہے اور پیداوار محنت یعنی دولت کی تقسیم اس کی رو سے ہوتی ہے۔‘‘ 62؎ چونکہ اس جگہ مارکس اور اقبال کا تقابلی مطالعہ ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتا اس لئے مشابہتوں اور مماثلوں کی بحث سے گریز کرنا ہو گا البتہ علم عمرانیات کے دو مصنفوں کے اقتباس یہاں دئیے جاتے ہیں۔ Bryantمارکس کے تصورات پر ایک بحث کا خلاصہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ کہ نجی جائیداد کا خاتمہ آدمی کو اپنی انسانیت کو بروئے کار لانے کا اہل بنائے گا اور بلاشبہ مارکس اس کا اعلان کرتا ہے۔‘‘ 63؎ اسی طرح R. Fletcherمارکس کے غیر طبقاتی معاشرہ کے تصور کا اجمال پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ مارکس کے قول کے مطابق جوں ہی ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور ان ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت قائم ہو جائے گی تو انسان کا ذرائع پیداوار سے اور دوسرے انسانوں سے ایک جیسا تعلق استوار ہو جائے گا اور یوں طبقاتی تقسیم اور طبقاتی استحصال کی بنیادیں موجود نہ رہیں گی۔ نئے طور پر منظم ہونے والی پیداواری قوتوں کی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہو گا حتیٰ کہ انسانوں کو بتدریج اپنی ضرورتوں کے مطابق نہ کہ معاشرے میں ان کی غیر مساوی حیثیت کی بنا پر پیداوار کا ثمر فراہم کیا جا سکے گا۔‘‘ 64؎ عام طور پر اقبال کی زیر نظر کتاب علم الاقتصاد کا تذکرہ اقبال کے سوانحی باب میں کیا جاتا ہے اور اس کو اقبال کی تصنیف و تحقیق سے ابتدائی دلچسپی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ پہلو یقینا اپنی جگہ قابل قدر ہے۔ مگر اس تصنیف سے علامہ کے عمرانی تصورات کے معانی مضمن (Implications) پر ایسی روشنی پڑتی ہے کہ اقبال کے فکر و نظر کی عمرانی اساس کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہ جاتا۔ گزشتہ صفحات میں اقبال کے مقالات’’ عبدالکریم الجیلی کا نظریہ توحید مطلق‘‘ اور’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ اور ان کی تصنیف’’ علم الاقتصاد‘‘ کا عمرانی نقطہ نظر سے الگ الگ مطالعہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ 1914ء تک اقبال کے قابل ذکر مقالات کی ترتیب اور تاریخ اشاعت حسب ذیل ہے: 1قومی زندگی (مخزن اکتوبر1904ء و مارچ1905ئ) 2دو خط بنام ایڈیٹر وطن، 1905ء 3 The Development of Metaphysics in Persia, 1908 4خلافت اسلامیہ، 1908ء 5 Islam as a Moreal and Political Idea, 1909 6 (Muslim Community: Sociology Study, 1911) اب متذکرہ مقالات کے انفرادی جائزہ کے بجائے ان کا مجموعی مطالعہ کی اجائے گا۔ طول کلام کے علاوہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ’’ قومی زندگی‘‘ میں ما سبق کے مقالے (بچوں کی تعلیم و تربیت) اور علم الاقتصاد میں اقبال کے جو عمرانی خیالات بالواسطہ اور ضمنی طور پر بیان ہوئے ہیں۔ وہ ’’ قومی زندگی‘‘ میں باقاعدہ موضوع بحث کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مقالات میں بھی کم و بیش یہی عمرانی مسائل زیر بحث آتے ہیں۔ ہندوستان میں انیسویں صدی کے نصب آخر میں قومی ترقی کا مسئلہ اہل فکر و نظر کی تمام توجہ کا مرکز تھا اور عموماً ترقی کو معاشرتی اصلاح سے وابستہ خیال کیا جاتا تھا۔ البتہ نسبتاً وسیع النظر اور سرگرم مصلحین کی کوششیں سماجی، معاشرتی اور تعلیمی و تجارتی اصلاحات کا بھی احاطہ کرتی تھیں۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کا نیا تعلیم یافتہ طبقہ جدید تعلیم اور جدید ذرائع رسل و رسائل کے اثرات کی وجہ سے مغربی اقوام کی تیز رفتار علمی اور تمدنی ترقیوں کو بچشم حیرت دیکھ رہا تھا۔ ان میں سے چند باشعور اور اہل بصیرت درد مند افراد نے جب مغرب کی ان علمی اور تمدنی ترقیوں کے نتائج و عواقب کا تاریخی شعور کی روشنی میں دقت نظر سے جائزہ لیا تو انہیں اپنی قومی زندگی کا وجود خطرے میں نظر آیا اور قوم کی بقا مخدوش اور تشویشناک دکھائی دی۔ اس صورت حال کے پیش نظر قومی تحفظ کے لئے مختلف لوگوں نے مختلف تدابیر اور تجاویز پیش کیں۔ جن میں عام طور پر اصلاح معاشرت کی تحریک حصول تعلیم کے لئے اداروں کا قیام اور سیاسی حقوق میں مراعات کے لئے سیاسی و نیم سیاسی جماعتوں کی تنظیم کو انقلابی قدم سمجھا گیا۔ مگر اقبال نے اپنی علمی بصیرت اور تاریخی شعور کی بدولت قدرت کے نظام اور اس کے اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اقبال فلسفہ، تاریخ، ادب، مذہب اور اس حوالہ سے سماجیات اور عمرانیات کے زیرک طالب علم تھے۔ انہوں نے تہذیبوں اور قوموں کے عروج و زوال کے تاریخی مطالعہ سے ان اسباب کا سراغ لگانے کی کوشش کی جو قدیم قوموں اور تہذیبوں کی ہلاکت کا باعث ہوئے تھے۔ اس تلاش میں اقبال کی نظر ڈارون کے نظریہ تنازع اللبقا پر آ کر ٹھہرتی ہے۔ اقبال نے اس نظریہ کے علمی صداقت اور عالمگیریت کو ذہنی اور عقلی سطح پر قبول کر لیا تھا۔ جب بھی ضرورت ہوتی ہے وہ اسی نظریہ کہ حوالہ سے افراد، قوموں اور تہذیبوں کی بقا و فنا کا جائزہ لیتے ہیں۔ انہوں نے علم الاقتصاد میں انسانی ارتقاء کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی اس نظریہ کو حوالہ بنایا تھا۔ اقبال ’’ قومی زندگی‘‘ میں تنازع اللبقا کے اصول کو قوموں پر منطبق کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ واقعات عالم کے مشاہدہ سے حکماء اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زندگی کی مختلف صورتوں یعنی انسانوں، حیوانوں، پودوں وغیرہ میں ایک قسم کی جنگ جاری رہتی ہے۔۔ اس کشمکش حیات میں کامیاب ہونے کے لئے ہر طبقہ زندگی مصروف رہتا ہے لیکن فتح صرف اسی طبقے کو حاصل ہوتی ہے جس میں رہنے کی قابلیت ہو یعنی جس نے زندگی کے متغیر حالات سے موافقت پیدا کر لی ہو۔۔۔۔ صدہا قومیں پیدا ہوئیں، پھلیں پھولیں اور آخر کار اس اٹل قانون کے عمل سے متاثر ہو کر خاک میں مل گئیں۔‘‘ 65؎ اس قانون سے اقبال نے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ کائنات میں مسلسل ارتقا کا عمل جاری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب زمانہ ایک بڑے انقلاب سے گزر چکا ہے۔ اب مصاف ہستی میں اقوام کی فتح و کامیابی کا انحصار تلوار اور افرادی طاقت پر نہیں رہا۔ اس کی جگہ علوم اور ایجادات کی روز افزوں ترقیوں نے لے لی ہے۔ اب وہی اقوام غلبہ و تسلط حاصل کریں گی گویا زندہ بچیں گی جو کشمکش حیات میں نئے وسائل پر دسترس رکھتی ہوں گی۔ اس قانون کے مطابق اقوام و ملک کی طرح دوسرے تہذیبی مظاہر اور عناصر بھی معدوم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کئی زبانوں کی ’’ قوت کا راز اس قانون کا عمل ہے 66؎ حتیٰ کہ ’’ سینکڑوں مذاہب دنیا میں پیدا ہوئے، بڑھے، پھولے پھلے اور آخر کار مٹ گئے، کیوں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان کے عقلی ارتقا کے ساتھ ساتھ جدید ضروریات پیدا ہوتی گئیں۔۔۔۔ جن کو ان مذاہب کے اصول پورا نہ کر سکے، یہی سبب ہے کہ اہل مذہب کو وقتاً فوقتاً نئے نئے علم کلام ایجاد کرنے کی ضرورت پیش آتی رہی، جن کے اصول کی رو سے انہوں نے اپنے اپنے مذہب کو پرکھا اور ان کی تعلیم کو ایسی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی جو عملی اور روحانی زندگی میں انسان کی راہنما ہو سکے۔‘‘ 67؎ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ علامہ اقبال کا ایک مشہور خطبہ ہے جو دسمبر1910ء 68؎ کو انہوں نے سٹریچی ہال علی گڑھ میں دیا تھا۔ 69؎ یہ خطبہ اقبال نے بڑے خطیبانہ انداز میں آغاز کیا ہے وہ یہاں بھی ڈارون کے اصول ارتقا سے متاثر ہیں وہ کہتے ہیں کہ تاریخ شاہد ہے کہ انسانی ارتقا کے دوران قومیں، سلطنتیں اور تہذیبیں نیست و نابود ہو گئیں۔ کیونکہ: ’’ قدرت کی قوتوں کی نظروں میں نہ افراد کی وقعت ہے نہ اقوام کی منزلت، اس کے اٹل قوانین برابر اپنا عمل کئے جا رہے ہیں۔۔۔‘‘ 710؎ مگر یہ انسان کی عظمت ہے کہ وہ ایک کمزور مخلوق ہوتے ہوئے بھی فطرت کے روح فرسا مظاہر اور حوصلہ شکن حالات کے مقابل انسانی ارتقاء کے لئے کوشاں رہا۔ا س سے اقبال کی آزادانہ فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈارون کے نظریہ ارتقا سے بے حد متاثر ہونے کے باوجود اس کے نظریہ کے میکانکی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔’’ قومی زندگی‘‘ میں اقبال نے سوال اٹھایا تھا: ’’ کہ کیا قوم کی زندگی قوم کے اختیار میں ہے یا پودوں اور حیوانوں کی طرح افراد انسانی کی زندگی بھی قوائے فطرت کے غیر اختیاری عمل پر منحصر ہے؟ اگرچہ زندگی کی اصلیت مخلوقات کی صورت میں وہی ہے تاہم انسان اپنی عقل خدا داد کی وجہ سے۔۔۔ قدرت کے قوانین کو معلوم کر کے ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اپنی ارتقا کے رخ کو متعین کر سکتا ہے۔‘‘ 71؎ بہرحال اقبال کے نزدیک ڈارون کے قانون انتخاب فطری نے انسان کو تاریخی شعور بخشا ہے۔ اس قانون کی معنویت پر گہری نظر اور ڈارون کے دبستاں کے فلسفیوں کے حیات اجتماعی کے ایسے ہی اہم واقعات کی دریافت سے ’’ مدنی زندگی کے عمرانی، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی پہلوؤں کے متعلق انسان کے تصورات میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہونے کی صورت نکل آئی۔‘‘ 72؎ لہٰذا ان تصورات کو راہ نما بنا کر انسان نے تمدنی ارتقا کی منازل طے کیں۔ اس تمدنی جہد اللبقا میں دوسری اقوام کے مقابل مسلمان خاطر خواہ طاقت اور صلاحیت کے مالک ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اس سوال کے جواب سے ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی ہستی کے استحکام کا تصور قائم ہو گا۔ اقبال ’’ قومی زندگی‘‘ میں جاپان کے صنعتی انقلاب اور تمدنی ترقی کو اقوام ہند کے لئے نمونہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اقوام ہند میں سے ہمارے بھائیوں نے اس راز کو کسی قدر سمجھا ہے۔۔ اس واسطے تقریباً ان کے سامنے ترقی کا وسیع میدان ہے لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر اس اعتبار سے مسلمانوں کو دیکھا جائے تو ان کی حالت نہایت مخدوش نظر آتی ہے۔ یہ بدقسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے، صنعت کھو بیٹھی ہے، تجارت کھو بیٹھی ہے۔ اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے اور باتیں تو خیر، ابھی تک ان کے مذہبی نزاعوں کا ہی فیصلہ نہیں ہوا۔‘‘ 73؎ کسی قوم کی معاشی خوشحالی اور اقتصادی ترقی محض ایک مادی مسئلہ نہیں ہے اور نہ صرف قومی عزو و قار کا مسئلہ ہے بلکہ قومی بقا کا مسئلہ ہے لہٰذا معاشی بدحالی اور افلاس جس طرح ایک فرد کے اعصاب کو مضمحل کرتا ہے اسی طرح عمرانی نظام کو درہم برہم کر کے جرائم کا جواز فراہم کرتا ہے اور اس سے جو معاشرتی امراض جنم لیتے ہیں۔ وہ الگ عمرانی مسائل ہیں۔ مگر یہ قائم بالذات حقیقت ہے کہ تمدنی تقاضوں سے تغافل برتنے کا مطلب قوم کے مستقبل کو تاریک بنانا ہے۔ لہٰذا نئی نسل کی تولید، اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کا مطلب ہے کہ تمدنی تقاضوں سے باخبر قوم ’’ قانون بقائے افراد قویہ‘‘ کا احترام کرتی ہے۔ اس لئے ایسی قوم کا تسلسل حیات برقرار رہتا ہے۔ گویا عمرانی اقدار اور تقاضوں کے مطابق پرورش پانے والی اقوام کی نئی نسلوں پر ان کی قومی بقا کا انحصار ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے مختلف علوم نے ثابت کیا ہے مثلاً علم الاقتصاد میں ایک جگہ اقبال نے لکھا ہے: ’’ انسان کی آبادی دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ اس کی ضروریات بھی بڑھتی جاتی ہیں لہٰذا اگر وہ صرف قدرتی اسباب کی پیدائش کے بھروسہ پر رہتا اور اپنی روز افزوں ضروریات کے پورا کرنے کی نئی نئی راہیں نہ نکالتا یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ اپنی عقل کے زور سے قانون تقلیل حاصل کے اثر کا مقابلہ نہ کرتا تو اس امن و آسائش میں انتہا درجہ کا خلل پیدا ہوتا ہے بلکہ اس کی نسل کا بقا ہی محال ہو جاتا ہے۔‘‘ 74؎ اقبال نے قومی ہستی کے تسلسل کے لئے نئی نسلوں کی بہبودی کو ایک تاریخی تقاضا قرار دیا ہے اقبال اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ کے آغاز میں لکھتے ہیں: ’’ قوموں کی تاریخ میں یہ ایک بڑا نازک وقت ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر قوم نہ صرف اپنی موجودہ حالت پر غور کرے بلکہ اگر اسے اقوام عالم کے دفتر میں اپنا نام قائم رکھنا منظور ہے تو اپنی آئندہ نسلوں کی بہبودی کو بھی ایک موجودہ واقعہ تصور کرے اور ایسا طریق عمل اختیار کرے جس کے احاطہ اثر میں اس کے خلاف تمدن بھی شامل ہو۔‘‘ 75؎ اقبال اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اب معروضی حالات بدل گئے ہیں۔ نئے تمدنی تقاضے اور ضروریات میں تغیر آ گیا ہے۔ لہٰذا جدید علوم و فنون کے اکسباب کے بغیر کوئی قوم نہ خود ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کر سکتی ہے اور نہ اس کی آئندہ نسلیں زندگی کی کشمکش میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ بریفالٹ نے ’’ تشکیل انسانیت‘‘ میں لکھا ہے: ’’ جس طرح ہم گزشتہ نسلوں کی پیداوار ہیں اسی طرح ہم نسل انسانی کے آئندہ ارتقاء کے معمار بھی ہیں جس طرح ماضی کا یہ وظیفہ تھا کہ ہمیں وہ کچھ بنا دے جو ہم ہیں اسی طرح مستقبل بھی ہمارے وجود اور عمل پر منحصر ہے۔‘‘ 76؎ اقبال نے ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں زیر نظر مسئلہ کا بڑی دقت نظر سے جائزہ لیا ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک اس مسئلہ کو نظر انداز کر کے تمدنی، اخلاقی و سیاسی اصلاح کی کوئی کوشش بار آور نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہنگامی اغراض کے پیش نظر جو لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے وہ دور رس اثرات کا حامل نہیں ہوتا اور بسا اوقات روبہ عمل آنے سے پیشتر ہی منتشر ہو جاتا ہے۔ اقبال نے اس خطبہ میں ایک ایسی خیال انگیز بات پیش کی ہے جس کو عمرانی فکر و عمل کا محور قرار دینا چاہیے۔ اقبال کے مطابق: ’’ یہ خیال کہ۔۔۔۔۔۔ (قوم) اپنے افراد کا محض ایک مجموعہ ہے اصولاً غلط ہے۔۔۔ اس کی ماہیت پر اگر نظر غائر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا یہ غیر محدود اور لامتناہی ہے، اس لئے کہ اس کے اجزائے ترکیبی میں وہ کثیر التعداد آنے والی نسلیں بھی شامل ہیں جو اگرچہ عمرانی حد نظر کے فوری فتہا کے پرلی طرف واقع ہیں۔ لیکن ایک زندہ جماعت کا سب سے زیادہ اہم جزو متصور ہونے کے قابل ہیں۔ علم الحیات کے اکتشافات جدیدہ نے اس حقیقت کے چہرہ پر سے پردہ اٹھایا ہے کہ کامیاب حیوانی جماعتوں کا حال ہمیشہ استقبال کے تابع ہوتا ہے۔۔۔۔۔ موجودہ افراد کی فوری اغراض ان غیر محدود و نا مشہور افراد کی اغراض کے تابع بلکہ ان پر نثار کر دی جاتی ہیں جو نسلاً بعد نسل بتدریج ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔‘‘ 77؎ یہ اقتباس بہت گہری عمرانی معنویت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قوموں کے سماجی، تمدنی اور تہذیبی مقاصد بالفاظ دیگر عمرانی نصب العین ان کے رویے اور طرز عمل یا اسلوب زیست کا تعین کرتا ہے۔ کیونکہ اس عمرانی نصب العین پر کسی قوم کے تسلسل حیات کا دار و مدار ہوتا ہے۔ اقبال نے اس رمز کو بڑے عمدہ الفاظ میں ادا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ اگر غور سے دیکھا جائے تو اقوام کے لئے سب سے زیادہ مہتمم بالشان عقدہ فقط یہ عقدہ ہے (خواہ اس کی نوعیت تمدنی قرار دی جائے خواہ اقتصادی، خواہ سیاسی) کہ قومی ہستی کا سلسلہ بالا انقطاع کس طرح قائم رکھا جائے، مٹنے یا معدوم ہونے کے خیال سے قومیں بھی ویسی ہی خائف ہیں جیسے افراد۔۔۔۔۔‘‘ 78؎ مصاف ہستی ایک عالمگیر اور اٹل قانون ہے۔ اسے افراد یا اقوام کی خواہشات سے سروکار نہیں ہوتا۔ اقبال نے قومی ’’ قومی زندگی‘‘ میں بڑا معنی خیز سوال اٹھایا ہے۔ ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ کسی قوم کے افراد کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ وہ قوم کی آئندہ بہبودی یا بقا کے لئے اپنا آرام و سکون یا زندگی کیوں قربان کریں؟ اقبال لکھتے ہیں کہ: ’’ ۔۔۔۔ (اس) کا کوئی عقلی جواب ہمارے پاس نہیں ہے لیکن اس خطرناک شبہ کے وقت مذہب اپنی دستگیری کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ایثار بمعنی اوروں کے نفع کو اپنے ذاتی نفع پر مقدم رکھنے کی بنا عقل نہیں ہے بلکہ یہ نیکی جو ارتقاء نوع انسانی اور قوم کے لئے سخت ضروری ہے، ایک فوق العادت اصول پر مبنی ہے۔۔۔۔ آواز نبوت کا اصلی زور اور اس کی حقیقی وقعت عقلی دلائل اور براہین پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا دار و مدار اس روحانی مشاہدے پر ہے جو نبی کے غیر معمولی قواء کو حاصل ہوتا ہے، اور جس کی بنا پر اس کی آواز میں وہ ربانی سطوت و جبروت پیدا ہو جاتا ہے جس کے سامنے انسانی شوکت ہیچ محض ہے، یہ ہے نمود مذہب کا اصلی راز۔۔۔۔ باریک بین لوگ جانتے ہیں کہ ا گر قبائل انسانی کا ایثار کی تعلیم نہ دی جاتی تو یقینا ارتقائے انسانی کے سلسلہ ٹوٹ جاتا اور موجودہ تہذیب و تمدن کی وہ صورت مطلق نہ ہوتی جو آج ہے۔۔۔۔۔‘‘ 19؎ ارتقائے انسانی میں مذہب کا صرف اس قدر ہی کردار نہیں ہے کہ اس نے انسانی تمدن کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں مدد کی۔ بقول اقبال: ’’ بلکہ اس کی اصلی غایت یہ ہے کہ زندگی کی سطح کو بتدریج بلند کرنے کے لئے ایک مربوط اور متناسب عمرانی نظام قائم کیا جائے، مذہب سیرت انسانی کا ایک نیا اسلوب یا نمونہ پیدا کر کے اس شخص کے اثر کے لحاظ سے جو اس سیرت کا مظہر ہے، اس نمونے کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے۔‘‘ 80؎ اس سیرت کا اکمل نمونہ تو نبی کی ذات ہوتی ہے۔ اقبال نے اپنے مقالہ Islam as a Moral and Political Ideal میں ایک جگہ لکھا ہے: When I say that the religion of a people is the sum total of their life experience finding a definite expression through the medium of a great personality i am only translating the fact of revealation in to the language of science. 81 یہاں اقبال نے مذہب کے قیام اور اس کی تبلیغ کی ذمہ دار شخصیت کا، عمومی اصول مذہب کی رو سے علمی زبان میں بیان کیاہے۔ آئندہ سطور میں اسلام اور بانی اسلامؐ کا ذکر مبارک جس پیرائے میں کیا ہے، اس سے اسلام کی حقانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیںـ: Islam is moreover the youngest of all religions, the last creation of humanity. its founder stands out clear before us, he is truly a personage of history and lends himself freely even to the most searching criticism. ingenious legend has weaved no screens round his figure. he is born in the broad daylight of history we can throughly understand the inner spring of his actions we can subject his mind of his actions we can subject his mind to a keen psychological analysis...82 اقبال نے ’’ قومی زندگی‘‘ اور’’ اسلام بطور ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین‘‘ میں اسلامی مساوات کی عمرانی، سیاسی اور اخلاقی قدر کو واضح کیا ہے۔ غلامی کے ادارے کو جو صدیوں تک انسانی تمدن کا ایک لازمی حصہ خیال کیا جاتا تھا رسول اکرم ؐ نے منسوخ فرما دیا اور بقول اقبال: ’’ ۔۔۔ غلاموں اور آقاؤں کے حقوق کو مساوی قرار دے کر اس تمدنی انقلاب کی بنیاد رکھی جس کے نتائج کو اس وقت تمام دنیا محسوس کر رہی ہے۔۔۔‘‘ 83؎ تمدن انسانی کی تاریخ میں سیاسی، عمرانی اور اخلاقی حوالے سے اسلام جو سب سے بڑا انقلاب لایا۔ اس کا ایک پہلو تو انسانی ضمیر کی آزادی ہے اور دوسرے اسلام نے انسان کو قید مقامی یعنی تصور وطن سے نجات دلائی، اسلام میں قومیت کا تصور بھی محدود نہیں بلکہ دوسری اقوام سے بنیادی طور پر مختلف ہے جیسا کہ اقبال لکھتے ہیں: Nationality with us is a pure idea it has no geographical basis. But Inasmuch as the average man demands a material center of nationality, the Muslim looks for it in the town of Mecca, so that the basis of Muslim nationality combines the real and the ideal. the concrete and the abstract. 84 چونکہ اسلام ایک ملت واحدہ ہے اس لئے اسلامی قومیت کی بنیاد رنگ، خون، نسل یا وطن نہیں ہے۔ اقبال نے اس کا اظہار بار بار اپنی نظموں میں بھی کیا ہے اور ’’ ملت بیضا پر عمرانی نظر‘‘ اور’’ اسلام کا اخلاقی و سیاسی نصب العین‘‘ میں اسلامی قومیت کے تصور اور اس کی شرائط پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ اسلام محض مذہب یا عقیدہ کا نام نہیں ہے۔ اسلام ایک معاشرہ اور قوم بھی ہے 1؎ غرض مذہبی خیال بلا اسی دینی اکتناز (Theological Centralisation) کے جو افراد کی آزادی میں غیر ضروری طور پر خلل انداز ہو، اسلامی جماعت کی ہیئت ترکیبی کا مدار علیہ ہے۔ 2؎ خطبہ علی گڑھ میں اقبال نے ایک اور اہم عمرانی پہلو پر اظہار خیال کیا ہے۔ جسے عمرانیات میں ثقافت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ثقافت کو اقوام کی شناخت کا ایک وسیلہ اور تشخص کا ایک ذریعہ خیال کیا گیا ہے۔ کسی قوم کی تمدنی و تہذیبی روایات اور رسوم و رواج گویا معتقدات و توہمات افراد پر جس طرح موثر ہوتے ہیں اور جس طرح معاشرہ میں ان کا اظہار ہوتا ہے انہیں قومی ثقافت کہا جاتا ہے۔ جغرافیائی تصور وطن کی طرح علیحدہ قومی ثقافتیں بھی اسلام کے الٰہیاتی اصول وحدت سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اقبال نے ثقافت کی بحث میں لکھا ہے: ’’ معتقدات مذہبی کی وحدت جس پر ہماری قومی زندگی کا دار و مدار ہے، اگر مضاف سے تعبیر کی جائے تو اسلامی تہذیب کی یک رنگی بمترلہ اس کے مضاف الیہ کے ہے۔ محض اسلام پر ایمان لے آنا اگرچہ وہ نہایت ہی ضروری ہے۔ لیکن کافی و مکتفی نہیں ہے، قوی ہستی میں شریک ہونے کی غرض سے ہر فرد کے لئے قلب ماہیت لازمی ہے اور اس قلب ماہیت کے لئے خارجی طور پر تو ارکان و قوانین اسلام کی پابندی کرنی چاہیے اور اندرونی طور پر اس یک رنگ تہذیب و شائستگی (Uniform Culture) سے استفادہ کرنا چاہیے جو ہمارے آبادؤ اجداد کی متفتہ عقلی تحریک کا ماحصل ہے۔‘‘ 87؎ اسلام کی ثقافتی تاریخ میں اور علم و حکمت کے میدان میں مسلمانوں کے دوسرے کارناموں کے علاوہ نظام فقہ کی تدوین کو اقبال ’’ اسلامی تمدن کا۔۔۔۔ سب سے گراں مایہ ترکہ‘‘ 88؎خیال کرتے ہیں۔ اقبال نے قومی بقا و فنا کے اسباب پر سب سے زیادہ غور کیا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے فکر و نظر کا یہی مسئلہ محرک ہے۔ انہیں ڈارون کے نظریہ تنازع اللبقا (مصاف ہستی) اور بقائے اصلح (بقائے افراد قویہ) کی صداقت کا علمی و عقلی سطح اور تاریخی شواہد کی بنا پر یقین ہے۔ انہوں نے قدیم اقوام میں سے مصری، یونانی اور افریقہ کی بر بر قوموں کی نیستی کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے دراصل ڈارون کے نظریہ کو ایک اٹل قانون بتاتا ہے۔ 89؎ اس سے اقبال نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جن اقوام اور مذہب نے زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے کے اصول وضع نہیں کئے، وہ اقوام اور مذاہب جمود کا شکار ہو کر زندگی کے میدان سے خارج ہو گئے۔ اسلام میں ہر دور کے عمرانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے فقہہ کے اصول اور قوانین موجود ہیں مگر ان اصولوں کو وقت کی ’’ جدید روحانی اور جسمانی ضروریات‘‘ 90؎ سے مطابقت دے کر انہیں روبہ عمل لانے کی قوت و صلاحیت سے محرومی نے زوال اور انحطاط مسلمانوں کا مقدر بنا دیا ہے۔ اس لئے وہ موجودہ حالات میں سمجھتے ہیں کہ جدید تمدنی تقاضوں کی تفسیر و تعبیر کے لئے ایک زبردست فقیہہ کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں اقبال عظیم شخصیات کو بھی تاریخ کا ایک فطری تقاضا خیال کرتے ہیں اور یہ خیال زیر نظر مضامین میں مختلف تناظر میں کئی بار آیا ہے مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں: The ethical training of humanity is really the work of great personalities, who appear time to time during the course of human history. 91 بہرحال اقبال نے اپنے مضمون میں اسلام کے اخلاقی نصب العین پر خاصی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بنیادی قضایا (Propositions) دو ہیں ایک خدا کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے۔ دوسرے انسان اس کا خلیفہ ہے۔ اسی طرح اقبال نے مسلم معاشرہ کے سیاسی دستور کے دو بنیادی قضا یا قرار دئیے ہیں یعنی قانون الٰہی مطلقاً اعلیٰ ہے اور اسلام میں جماعت کے تمام افراد مطلق مساوات رکھتے ہیں۔ 92؎ اسلام کے سیاسی تصورات ہی کے ضمن میں اقبال نے 1908ء میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون کے بارے میں اقبال کی نثر کے مرتبین اور بعض محققین واضح نہیں ہیں۔ وہ عام طور پر مبہم پیرایہ اختیار کرتے ہیں۔ اتفاق سے اس سلسلے کی ساری تفصیل فوق کے نام اقبال کے ایک خط میں موجود ہے وہ 19دسمبر22ء کو لکھتے ہیں: ’’ اسلام میں سیاست‘‘ 14سال ہوئے انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا یعنی 1908ء میں جب ترکی میں انقلاب ہو رہا تھا۔۔۔ یہ مضمون لندن کے سوشیلاجیکل ریویو میں شائع ہوا تھا۔ پیسہ اخبار نے اس کا ترجمہ بہت غلط شائع کیا ہے۔ صحیح ترجمہ زمیندار میں شائع ہوا تھا۔ یہ ترجمہ چودھری محمد حسین صاحب نے کیا تھا۔ معتبر ہے۔۔۔۔ انگریزی اصل چند روز ہوئے مسلم آؤٹ لک میں چھپا تھا۔۔۔ انوار اقبال کے وضاحتی فٹ نوٹ کے مطابق: ’’ یہ مضمون خلافت اسلامیہ کے نام سے محمد دین فوق نے۔ ۔۔ 192ء میں شائع کر دیا تھا۔‘‘ اس نوٹ میں سال کے نمبر میں اکائی کا ہندسہ روشن نہیں۔ 93؎ کتابچہ ’’ خلافت اسلامیہ‘‘ شائع کردہ ظفر برادرس لاہور94؎ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتابچہ 1923ء میں شائع ہوا تھا چونکہ اس مضمون کے نکات بیان کرنے کے لئے اجمال و اختصار کے باوجود طوالت آ جائے گی۔ لہٰذا یہاں اس مضمون کا بنیادی خیال درج کیا جاتا ہے۔ اقبال زیر نظر مضمون کے ذیلی عنوان ’’ اسلام و دستور انتخاب خلیفہ‘‘ میں ایک بحث کے بعد لکھتے ہیں: ’’ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اسلام میں مسئلہ ’’ قانون سازی‘‘ کی بنیاد شریعت کے تصریحی احکام کے بعد تمام تر اتحاد و اتفاق و آرائے جمہور ملت کے بنیادی اصول پر قائم ہے۔‘‘ 95؎ آخر میں زیر مطالعہ مضامین کی اس خصوصیات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ متذکرہ مضامین کے مختلف صفحات پر فرد اور جماعت کے بارے میں اقبال کے ایسے خیالات ملتے ہیں جو بعد میں اقبال کے ہاں ایک باقاعدہ نظریہ کی شکل میں منظم و منضبط ہوئے اور اسرار خودی اور رموز بیخودی کی شکل میں منصہ شہور پر آئے۔ متذکرہ مضامین کے کئی صفحات پر جگہ جگہ ایسے پیراگراف یا جملے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں ماہرین اقبال یا شارحین اقبال کے مقالات اور تصانیف میں خودی کی وضاحت یا توجیہ و تعبیر کی حامل عبارت ماند پڑ جاتی ہے۔ یاد رہے اقبال کے ان مقالات کی اشاعت کے بعد بعض صورتوں میں دس سال بعض میں چار سال بعد اسرار خودی شائع ہوئی تھی۔ چونکہ خودی، اور فرد اور معاشرہ اس مقالے کے باقاعدہ اور مستقل مباحث ہیں اس لئے اس مقام پر ان مباحث کو ملتوی رکھا جا رہا ہے۔ زیر نظر مضامین میں اقبال کا طریق کار یہ ہے کہ پہلے وہ عمرانی اہمیت کے مسائل پر نظری بحث کرتے ہیں۔ بعد میں عموماً ہندوستان کے مسلمانوں کے تمدنی حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہاں آغاز ہی میں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اقبال کو ہندوستان کے مسلمانوں کا شاعر یا مفکر کہنے کے لئے معذرت خواہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس سے اقبال کی فکر قطعاً محدود نہیں ہوتی۔ اقبال کے ما بعد الطبیعیاتی افکار تو بہرحال موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے عالمگیر ہیں۔ مگر ہندوستان کے مسلمانوں کے عمرانی مسائل پر جو ان کے ہاں اظہار خیال پایا جاتا ہے ان کی نوعیت بھی اصل کے اعتبار سے عالمگیر ہے۔ کیونکہ دنیا کی ہر قوم کو ہمیشہ ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا دنیا کا ہر مصلح، انقلابی قائد، سیاسی اور عمرانی مفکر اپنے زمانے کے معروضی حالات کی پیداوار ہوتا ہے۔ خود علامہ اقبال کے افکار اس دعویٰ کا بین ثبوت ہیں۔کیا اقبال مختلف معروضی حالات میں انہیں تمدنی امور کو اسی کیف و کم کے ساتھ اپنا موضوع بتاتے؟ اقبال’’ قومی زندگی‘‘ میں جو 1904ء کی تصنیف ہے، ایک جگہ جدید زمانے کے انسان کی علمی فتوحات اور ایجادات کے حوالے سے رقمطراز ہیں: ’’ ۔۔۔۔ یہ ہے وہ حیرت انگیز تغیر جو زمانہ حال کو زمانہ ماضی سے ممیز کرتا ہے، اور جس کی حقیقت اس امر کی متقاضی ہے کہ تمام قومیں جدید روحانی اور جسمانی ضروریات کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے اپنی زندگی کے لئے نئے سامان بہم پہنچائیں، میرا منشا یہ ہے کہ اس تغیر کے لحاظ سے اقوام ہندوستان اور خصوصاً مسلمانوں کی موجودہ حالت پر ایک نظر دوڑاؤں اور اس امر کو واضح کروں کہ زندگی کی کٹھن راہ میں ہمیں کون کونسی مشکلات در پیش ہیں اور ہمیں اس کے ازالہ کے لئے کیا کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔‘‘ 96؎ اسی طرح ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں نظری مباحث کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ عالم اسلام میں جو واقعات اس وقت پیش آ رہے ہیں وہ نہایت ہی معنی خیز ہیں اور ان پر شخص کی نگاہ ڈالنا بہت کچھ سبق آموز ہو سکتا ہے لیکن یہ کام بے حد محنت طلب ہے اور میں اس کی انجام دہی سے قاصر ہوں، اس لئے میرا تبصرہ فقط مسلمانان ہند کے کارناموں سے متعلق ہو گا، اگرچہ اس موضوع پر بھی ان مختلف مسائل کی نسبت جو ہمیں درپیش ہیں، میں شرح و بسط کے ساتھ رائے زنی نہ کر سکوں گا میں صرف دو امور سے بحث کروں گا۔ 1تعلیم۔ اور 2عامہ خلائق کی عام اصطلاح‘‘ 97؎ متذکرہ دو امور سے بحث تقریباً بارہ صفحات پر محیط ہے۔ لیکن ان دو شقوں کے تحت اقبال نے جہاں معنی سمو دیا ہے۔ شاید ہی عمرانی نوعیت اور اہمیت کا کوئی مسئلہ ہو جو زیر بحث نہ آتا ہو۔ اگر کوئی ان مسائل کی صرف نشاندہی کر دیتا تو وہی بڑا کارنامہ ہوتا ۔ مگر اقبال نے ان مسائل کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ترمیم و اصلاح کی تجاویز بھی پیش کی ہیں یہاں ان میں سے چند مسائل پر مشتمل ایک فہرست مرتب کی جاتی ہے۔ تعلیم کی ضرورت، مسلم نوجوان کی نئی نسل کا اسلوب زیست، مغربی تعلیم کے اثرات، اسلامی یونیورسٹی کا قیاما ور اس کی نوعیت، تفرقہ آرائی، علما اور واعظ کا علمی معیار، عورتوں کی تعلیم، افلاس اور غریبوں کی ناگفتہ بہ حالت، اقتصادی آزادی کے لئے تجارت اور صنعت و حرفت کی ضرورت، علوم جدیدہ کا حصول اور خصوصاً قدیم و جدید کی آمیزش، اس ضمن میں درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے۔ اقبال نے لکھا ہے کہ ’’ میں اس حقیقت کے اعتراف کے لئے آمادہ ہوں کہ زمانہ حال میں کسی جماعت کا محض مقامی قوتوں کے ذریعہ سے نشوونما پانا محال ہے، ریل اور تار نے زمان و مکان کے پردہ کو درمیان سے اٹھا سا دیا ہے، اور دنیا کی مختلف قومیں جن میں پہلے بعد المشرقین حائل تھا۔ اب پہلو بہ پہلو بیٹھی نظر آتی ہیں اور اس ہم نشینی کا نتیجہ یہ ہونے والا ہے کہ بعض قوموں کی حالت بدل کر رہ جائے گی اور بعض قومیں ملیا میٹ ہو جائیں گی، جو عظیم الشان اقتصادی عمرانی اور سیاسی قوتیں اس وقت دنیا میں اپنا عمل کر رہی ہیں ان کے نتائج کے بارے میں کوئی شخص پیش بندی کی راہ سے رائے زنی نہیں کر سکتا، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ گو کسی قوم کے لئے بغرض تکمیل صحت اپنی تمدنی آب و ہوا کی تبدیلی کے طور پر کسی غیر قوم کے تمدن کے عناصر کا اخذ و جذب کرنا قرین مصلحت بلکہ لازمی ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر اغیار کی تقلید میں شتاب زندگی اور بے سلیقگی سے کام لیا گیا تو نظام قومی کے اعضاء میں اختلال عظیم کے پیدا ہونے کا خطرہ ہو گا۔‘‘ 98؎ اس رائے سے اقبال کی صحت فکر، علمی دیانت اور عمرانی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عمرانیات میں اقوام کے باہمی تعامل کے لئے اقبال نے ایسا معیار پیش کیا ہے جسے اگر پیش نظر رکھا جائے تو وہ اس ذہنی عذاب سے محفوظ ہو سکتی ہیں۔ جس سے ترقی یافتہ غیر اقوام کی غیر متوازن تقلید کی بناء پر ترقی پذیر قوموں کو بطور خاص گزرنا پڑتا ہے۔ یہ رائے اقبال کے فکر کی تفہیم کے لئے یوں بھی ضروری ہے کہ اقبال کے فکر و شعر کی قوت محرکہ قومی بقا اور قومی ہستی کے بلا انقطاع تسلسل کا خیال ہے یہ تصور متذکرہ بیان سے بطور خاص نمایاں ہے۔ اقبال کی ابتدائی تحریروں میں جن خیالات کا اظہار ہوا ہے ان کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال رقمطراز ہیں: ’’ اقبال کی تحریروں کے مطالعہ سے عیاں ہے کہ وہ ابتدا ہی سے مسلم فرد اور معاشرہ کی تعمیر نو کے سلسلہ میں بعض مخصوص خیالات رکھتے تھے۔ اس طرح شاعری کے مقصد کے بارے میں بھی ان کے انداز فکر میں کوئی الجھاؤ نہ تھا۔ اپنی حیات کے وسطی اور اختتامی ادوار میں اقبال انہیں افکار کو زیادہ تفصیل کے ساتھ شعر اور نثر اور تحریر و تقریر میں پیش کرتے رہے۔۔۔۔ ‘‘ 99؎ گذشتہ ابواب میں فکر اقبال کا جو عمرانی تناظر، علامہ کے فکر و نظر کا پس منظر اور ان کے عمرانی تصور کی اساس ہمارے سامنے آئی ہے، ہم اس کے حوالے سے آئندہ صفحات میں فکر اقبال کی عمرانی تشکیل گویا اقبال کے مربوط عمرانی نظام فکر کا مطالعہ کریں گے۔ ٭٭٭ حوالے نمبر5 2شیروانی محولہ بالا ص69 3ایضاً، ص70 4شیروانی، محولہ بالا، ص80 5ایضاً، ص81 6مقالات اقبال، بار اول 1963ء ص165 7شیروانی، محولہ بالا، ص83-81 8اقبال، محمد تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، مترجم سید نذیر نیازی، بزم اقبال لاہور، طبع دوم مئی 1983ء ص188 9شیروانی محولہ بالا، ص82 12شذرات فکر اقبال، مجلس ترقی ادب لاہور 13ذوالفقار، ڈاکٹر غلام حسین، اقبال کا ذہنی ارتقاء جنوری 1978ء لاہور ص13 14(مقالات اقبال 1963ء ص1) یہاں سرسید کے لیکچر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے ’’افسوس یہ ہے کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس زمانے میں علم کیا چیز ہے، جس سے قومی ترقی ہوتی ہے آج تک جو ہم نے جانا اور ہمارے بزرگوں نے جانا، علم کی حقیقت کو اسی قدر جانا کہ عقلی شے ہے جو خیال میں اور حافظہ میں رہتی ہے اور نفس کو اسے سے بہت مزا اور روح کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مگر اس زمانہ میں اسی علم کو کہتے ہیں جو دیکھنے میں برتنے اور تجربہ میں آوے اور انسان کے لئے اس کے تمام کاموں میں مفید ہو۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے اگلے زمانہ کے عالم فاقے مرتے تھے اور خیرات کے ٹکڑوں پر اوقات بسر کرتے تھے۔ اور اس زمانہ میں تربیت یافتہ ملکوں کے جو عالم ہیں وہ دولت و حشمت سے مالا مال ہیں اور ان سے اپنی قوم کی بھلائی اور ترقی ہر دم ہوتی ہے۔‘‘ لیکچرز بحوالہ سرسید اور علی گڑھ تحریک مولف پروفیسر خلیق احمد نظامی ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ 1982ء ص 15مقالات اقبال 1963ء ص2 16ایضاً ص1 17مقالات اقبال 1963ء ص2 21مقالات اقبال 1963ء ص9 22گیلانی، سید مناظر احسن، ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت، جلد اول دہلی جنوری 1966ء ص30 23اقبال کا پہلا علمی کارنامہ ’’ علم الاقتصاد مقالہ از مشفق خواجہ مشمولہ دانائے راز اقبال، انجمن ترقی اردو کراچی 1977ء ص380‘‘ 24اقبال، علم الاقتصاد، اقبال اکادمی پاکستان لاہور،ص30 25اقبال، محولہ بالا،ص31-30 26اقبال، محولہ بالا، ص32 27ایضاً ص59 29اقبال، محولہ بالا ص43 30اقبال، محولہ بالا ص43 31ایضاً ص44-43 32اقبال، محولہ بالا، ص44 33ایضاً، ص72 34ایضاً، ص72 35ایضاً ص73 36اقبال، محولہ بالا، ص247 37ایضاً ص75 38اقبال، محولہ بالا ص49 39نادم سیتاپوری، خلاصہ مقدمہ ابن خلدون، فیروز سنز لاہور، 1971ء ص142-128 40ایضاً ص91, 81, 31 41اقبال، محولہ بالا، ص261, 69, 32 42ایضاً ص69 43اقبال، محولہ بالا، ص90 44ایضاً ص253 45اقبال، محولہ بالا، ص255 48اقبال، محولہ بالا،250 50اقبال،محولہ بالا ص251-250 51اقبال، محولہ بالا ص251-250 52ایضاً، ص253 53اقبال، محولہ بالا، ص83 55اقبال، محولہ بالا، ص238 58اقبال، محولہ بالا، ص31 59اقبال محولہ بالا ص258 61مشفق خواجہ، محولہ بالا، ص366 62اقبال محولہ بالا، ص195-96 65مقالات اقبال، 1963ء ص42-41 66ایضاً، ص43 67ایضاً ص43 68ذوالفقار، ڈاکٹر غلام حسین، اقبال کا ذہنی ارتقا، مکتبہ خیابان ادب لاہور،جنوری 1978ء ص49 خطبہ صادر کرنے کی تاریخ دسمبر1910ء کی بجائے 9فروری 1911ء ہے، دیکھئے۔ سرسید اقبال اور علی گڑھ از اصغر عباس ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ 1987ء ص14 69اصل خطبہ انگریزی میں تھا اور اس کا اصل متن 1980ء تک نایاب رہا۔ (ڈاکٹر) رفیع الدین ہاشمی کو انگریزی متن دستیاب ہوا تو انہوں نے مجلہ تحقیق لاہور جلد3شمارہ 1میں شائع کروایا۔ خطبہ کا اصل عنوان The Muslim Community a Sociological Study ہے۔ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ خطبہ کے ترجمہ کا عنوان ہے ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا۔ 70مقالات اقبال 1963ء ص115 71مقالات اقبال، 1963ء ص46 72ایضاً ص116 73مقالات اقبال، 1963ء ص51 74علم الاقتصاد، محولہ بالا، ص85 75مقالات اقبال 1963ء ص39 76بریفالٹ، رابرٹ تشکیل انسانیت، ترجمہ عبدالمجید سالک، مجلس ترقی ادب لاہور طبع دوم 1966ء ص549 77مقالات اقبال 1963ء ص119-118 78مقالات اقبال، 1963ء ص119 79مقالات اقبال 1963ء ص45-44 80مقالات اقبال، 1963ء ص124 83مقالات اقبال 1963ء ص45 86مقالات اقبال 1963ء ص123 87ایضاً ص125-124 88ایضاً ص42 89ایضاً، ص42 90مقالات اقبال 1963ء ص41 93بشیر احمد ڈار (مرتب) انوار اقبال، اقبال اکادمی پاکستان کراچی، طبع اول مارچ 1976ء ص73 94خلافت اسلامیہ، ظفر برادرس لاہور، 1923ء بحوالہ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور 1982ء 341 95مقالات اقبال 1963ء ص89 96مقالات اقبال 1963ء ص41 97مقالات اقبال 1963ء ص130 98مقالات اقبال 1963ء ص137 61زندہ رود (حیات اقبال کا وسطی دور) جاوید اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، اشاعت اول 1981ء ص198 ٭٭٭ Chapter No 5 1. Sherwani Latif Ahmad Speeches, Statements and Writings of Iqbal Academy Pakistan Lahore, 1977. p.70 10. Fletcher Ronald, The Making of Sociology, Thomas Nelson and sons Ltd. (Nelrons University. Paper Backs 1972) p. 128 11. Fletcher. op. cit. p. 18. Mitchell, G. Duncan, A Hundred Years of Sociology, London, 1968, p. 22 19. Mitchell, G. Duncan, op. cit. p.24 20. Ibid. p. 22 28. Gisbert, P. Fundamentals of Sociology, Orient Longman, Calcutta 1962, p.16 46. Walkier, Kenneth, Meaning and Purpose, Jonath Cape, London (Second Impression) 1945, p. 36 47. Walker, Kenneth, op. cit. p. 36 49. Walker, Kenneth, op. cit. p. 35 54. Dealey, J.Q. Sociology Its Development and Applications, New York, 1920, p. 72 56. Ogburn, W. F. & Meyer, A Hand Book of Sociology, Routledge & Kegan Paul Ltd. London, 1960, p. 545 57. Koening samuel, Sociology, Barnes & Nobel, New York, 1961, pp. 314-15 60. Wright. F.j and Randall, Basic Sociology, Macdonald and Evens, London, Reprint, 1970, 1970, p. 14-15 63. Bryant, Christopher, G.A. Sociology in Action, George allen & Unwin Ltd. London 1976, p. 167 64. Fletcher Ronald, The Making of Sociology, Thomas Nelson and sons Ltd. London (Nelsons University paper backs) 1972, p.432 81. Sherwani, Latif Ahmed Speeches, Writings and Statements of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1977, p. 87. 82. Sherwani, op. cit. p. 87 84. Sherwani, opt. cit. p. 100 85. Sherwani, opt. cit. p. 100 91. Sherwani, opt. cit. p. 95 92. Sherwani opt. cot. pp. 101-2 ٭٭٭ چھٹا باب خودی فکر اقبال کا ایک بنیادی عمرانی تصور تشکیل خودی کے عمرانی مقدمات: جب بیسویں صدی کے آغاز میں اقبال کی فکری زندگی کا آغاز ہوا تو برصغیر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں انیسویں صدی کے نصف آخر کی اصلاحی اور عملی کوششوں کے باوجود قوم کے طرز عمل میں خاطر خواہ تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی۔ اقبال کو بھی دوسرے درد مندان قوم کی طرح پہلے پہل قومی فلاح کا راز تعلیم کے حصول ہی میں نظر آیا۔ انوہں نے 1902ء میں ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا اس کے بعد1904ء میں ان کی تصنیف علم الاقتصاد شائع ہوئی جو اپنی اصل کے اعتبار سے ایک درسی کتاب ہے اور شاید اسی لئے اقبال کے فکری ارتقا کے رسمی جائزہ میں اس کو زیادہ قابل توجہ خیال نہیں کیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کے دوران اقبال کو عمرانی مسائل پر غور کرنے کا موقع ملا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ زیر نظر کتاب میں اقتصادی مسائل کی وضاحت کے سلسلے میں بعض ثانوی مباحث آتے ہیں مگر اقبال کے دل و دماغ پر ان کا ایسا تسلط قائم ہو جاتا ہے کہ اقبال کی فکری بنیادیں انہی مباحث پر استوار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اقبال کے فکری محور۔۔۔۔ خودی کو سرچشمہ بھی انہی سے پھوٹتا ہے۔ ان مباحث کی عمرانی معنویت اور اہمیت کے علاوہ علامہ اقبال کے تصور خودی کی تشکیل میں ان کے بنیادی کردار کے پیش نظر انہیں عمرانی مقدمات قرار دیا گیا ہے۔ یہاں وہ ضمنی مباحث پیش کئے جاتے ہیں۔ 1قدیم مہذب قوموں کی تباہی کے اسباب 1؎ 2نظریہ مصاف ہستی اور ’’ قانون بقائے افراد قویہ‘‘ 2؎ 3خیالات یا مذاہب کے اصولوں اور تمدنی حالات و عقلی ترقی میں مطابقت کی ضرورت 3؎ 4تعلیم اور قومی فلاح و بہبود4؎ 5قومی ترقی میں اقتصاد و معاش کی اہمیت خصوصاً صنعت اور تجارت کا حصہ 6معاشرتی مسائل مثلاً تعداد ازدواج وغیرہ 7فرد اور جماعت کا باہمی تعلق5؎ 8غلامی پر اظہار خیال 6؎ 9شخصیت پر افلاس کے منفی اثرات7؎ 10 انسانی تمدن کی ترقی کے لئے ایک ضروری شرط۔۔۔۔۔ تسخیر فطرت 8؎ متذکرہ نکات کے تناظر میں اقبال کے افکار کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عمرانی اہمیت کے یہ نکات ہمیشہ اقبال کے فکر و نظر کا محور رہے اور کبھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوئے۔ لہٰذا ان پر مسلسل غور و فکر کے نتیجہ میں ان کے فکری رویے متعین ہوتے چلے گئے اور مناسب وقت پر تخلیقی عمل کے ارتقائی مدارج (Development) کے مطابق قائم بالذات موضوع بن کر سامنے آئے۔ تصور خودی کی تشکیل تک یہ نکات اقبال کے دل و دماغ میں کس طرح متحرک رہے ہیں۔ اس کا ایک اجمالی تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ علم الاقتصاد کے بعد اقبال کا ایک مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ گویا ان کے فکر و خیال کی اگلی منزل ہے۔ اس مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ اقبال ’’ اگست1904ء میں کچھ مدت کے لئے شیخ عطا محمد کے پاس ایبٹ آباد گئے۔ وہاں احباب کے اصرار پر ایک لیکچر قومی زندگی پر دیا۔‘‘ 9؎ جو بعد میں بطور مضمون مخزن کے دو شماروں بمطابق اکتوبر1904ء و مارچ1905ء میں شائع ہوا۔ اس مضمون کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ علم الاقتصاد میں جو مباحث ثانوی حیثیت رکھتے تھے اور مختلف ابواب میں بکھرے ہوئے تھے۔ جن کی سطور بالا میں نشاندہی کی گئی ہے۔ اب منضبط ہو کر باقاعدہ موضوع بحث بن گئے ہیں۔ چنانچہ انہیںوضاحت کے ساتھ اور مربوط انداز میں ایک مضمون (قومی زندگی) کی شکل میں قلمبند کی اگیا ہے۔ اس مضمون میں بھی مصاف ہستی میں ’’ بقائے افراد قویہ‘‘ کے قانون کا تفصیلی ذکر ہوا ہے۔ ان قدیم قوموں، تہذیبوں اور تمدنوں کا تذکرہ بھی ہے جو ’’ ارتقاء نوع انسانی‘‘ 10؎ کے قانون کی زد میں آ کر فنا ہو گئیں۔ ان اقوام کا بھی ذکر ہے جنہوں نے بقا کے عمرانی اصول اور رمز کو سمجھا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ اگر ہم متمدن دنیا کی گزشتہ اور موجودہ تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقوام قدیمہ میں سے صرف چار قومیں ایسی ہیں جو قوانین زندگی کی تیز تلوار سے بچ کر بری بھلی حالت میں اب تک صفحہ ہستی پر قائم ہیں، یعنی چینی، ہندو، بنی اسرائیل اور پارسی، حال کی قوموں میں دیگر مغربی اقوام کے علاوہ ایشیا میں جاپان اور فرنگستان میں اہل اطالیہ، دو قومیں ایسی ہیں جنہوں نے موجودہ تغیر کے مفہوم کو سمجھ کر اپنے تمدنی، اخلاقی اور سیاسی حالات کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔‘‘ 11؎ اقبال یہودیوں اور پارسیوں کی تاریخ پر اجمالی نگاہ ڈالنے کے بعد جاپان کی ترقی کا ذکر یوں کرتے ہیں: ’’ ابھی تیس چالیس سال کی بات ہے کہ یہ قوم قریباً مردہ تھی۔۔۔۔ 1872ء میں جاپان کا پہلا تعلیمی قانون شائع کیا گیا اور شہنشاہ جاپان نے اس کی اشاعت کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کہے: ’’ ہمارا مدعا یہ ہے کہ اب سے ملک جاپان میں تعلیم اس قدر عام ہو کہ ہمارے جزیرے کے کسی گاؤں میں کوئی خاندان جاہل نہ رہے‘‘ غرضیکہ 36سال کے قلیل عرصے میں مشرق اقصیٰ کی اس مستعد قوم نے جو مذہبی لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی، دنیوی اعتبار سے ممالک مغرب کی تقلید کر کے ترقی کے وہ جوہر دکھائے کہ آج دنیا کی سب سے زیادہ مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے۔۔۔۔۔ جاپانیوں کی باریک بین نظر نے اس عظیم الشان انقلاب کی حقیقت کو دیکھ لیا اور وہ راہ اختیار کی جو ان کی قومی بقاء کے لئے ضروری تھی، افراد کے دل و دماغ دفعتاً بدل گئے اور تعلیم و اصلاح تمدن نے قوم کی قوم کو اور سے کچھ اور بنا دیا، اور چونکہ ایشیا کی قوموں میں سے جاپان نے رموز حیات کو سب سے زیادہ سمجھا ہے، اس واسطے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لئے سب سے اچھا نمونہ ہے، ہمیں لازم ہے کہ اس قوم نے کے فوری تغیر کے اسباب پر غور کریں اور جہاں تک ہمارے ملکی حالات کی رو سے ممکن و مناسب ہو اس جزیرے کی تقلید سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘ 12؎ اس کے بعد ہندوستان کی تمدنی اور اقتصادی صورت حال کے جائزہ کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے: ’’ ان واقعات کی روشنی میں اگر ہندوستان کی حالت کو دیکھا جائے تو ایک مایوس کر دینے والا نظارہ سامنے آتا ہے۔۔۔ ایسے حالات میں جب مصنوعات اور تجارت کی طرف سے ہمارا ملک بالکل غافل ہو یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ مصاف زندگی میں جس کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جاتا ہے کامیاب ہوں گے۔۔۔۔۔‘‘ 13؎ 13مقالات اقبال، ص51-50نوٹ: اقبال نے اپنی مشہور نظم تصویر درد، انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی اور مخزن مارچ1904ء میں بطور ضمیمہ شائع ہوئی تھی۔ اس کے اشعار سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ’’ قومی زندگی‘‘ کے مطالب اور دلائل بھی اسی زمانے سے اقبال کے دماغ میں آ رہے ہوں گے۔ عین ممکن ہے ایبٹ آباد میں اقبال نے لیکچر کے لئے نوٹ تیار کئے ہوں گے۔ جن کی مدد سے بعد میں مضمون تیار کیا گیا۔ خصوصاً مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے: رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے جو ہے راہ عمل میں گامزن، محبوب فطرت ہے پھر یہ بتاتے ہوئے کہ ’’ اقوام ہند میں سے ہمارے بھائیوں نے اس راز کو کسی قدر سمجھا ہے‘‘ مسلمانوں کی مخدوش حالت، ان کے مذہبی تنازعات امرا کی عشرت پسندی، عوام کی تمدنی زبوں حالی اور افلاس پر تبصرہ کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’ یہ بڑا نازک وقت ہے، اور سوائے اس کے کہ تمام قوم متفقہ طور پر اپنے دل و دماغ کو اصلاح کی طرف متوجہ نہ کرے کوئی صورت نظر نہیں آتی، دنیا میں کوئی بڑا کام سعی بلیغ کے بغیر نہیں ہوا، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت خود نہ بدلے۔‘‘ 14؎ قوم کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے؟ اس ضمن میں فرد اور قوم کو لازم و ملزوم ٹھہراتے ہوئے لکھا ہے: ’’ دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں۔‘‘ 15؎ آخر میں قومی اور انفرادی اصلاح اور بہبود کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’ اگر ہم جاپان کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیں اور موجودہ وقت میں یہی ملک ہمارے واسطے بہترین نمونہ ہے، تو اس وقت ہمیں دو چیزوں کی سخت ضرورت ہے، یعنی اصلاح تمدن اور تعلیم عام، مسلمانوںمیں اصلاح تمدن کا سوال در حقیقت ایک مذہبی سوال ہے، کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہب اسلام کی عملی صورت کا نام ہے ، اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے۔ جو اصول مذہب سے جدا ہو سکتا ہو۔‘‘ 16؎ اصلاح تمدن کے باب میں حقوق نسواں، تعداد ازدواج، پردہ، تعلیم اور شادی کے قبیح رسوم کی اصلاحات پر غور کیاہے۔ اصلاح تمدن کے لئے دوسری ضرورت عام تعلیم کی بحث میں یہ سطور قابل توجہ ہیں: ’’ ان حالات کو مدنظر رکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوں سے زیادہ صنعت کی تعلیم پر زور دینا چاہیے، واقعات کی رو سے یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو قوم تعلیم کی اس نہایت ضروری شاخ کی طرف توجہ نہ کرے گی وہ یقینا ذلیل و خوار ہوتی جائے گی، یہاں تک کہ صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا، لیکن افسوس کہ مسلمان بالخصوص اس سے غافل ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنی غفلت کا خمیازہ نہ اٹھائیں۔‘‘ 17؎ قومی مسائل اور قوم کے افراد میں تجاہل، تغافل، تساہل اور توکل کے رویے نے اقبال کو بیکل اور بے چین کر دیا تھا۔ زیر نظر مضمون میں اقبال کے خاتمہ کلام کے تین چار جملوں کو سرسری نہ لینا چاہیے وہ لکھتے ہیں: ’’ اس مضمون کے متعلق تاثرات کا جو ہجوم میرے دل میں ہے۔ اسے الفاظ میں ظاہر نہیں کر سکتا اور یقینا ٹوٹی پھوٹی سطور سے میرے مافی الضمیر کا پورا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا: از اشک مپرسید کہ در دل خروش است ایں قطرہ ز دریا چہ خبر داشتہ باشد‘‘ 18؎ علامہ کے دل و دماغ میں جذبات اور خیالات کی یہ کیفیت تھی جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے عازم انگلستان ہوئے دوران سفر عدن سے ایک خط میں دس بارہ دن کی روداد لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ایک دن کے لئے دہلی میں رکے اور احباب کے ساتھ حضرت نظام الدین اولیا اور مرزا غالب کے مزاروں پر حاضری دی۔ مرزا غالب پر ولایت نامی خوش آواز لڑکے نے خوش الحانی سے غزل گائی۔ بقول اقبال اس نے جب یہ شعر پڑھا وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھئے بس اب کہ لذب خواب سحر گئی تو مجھ سے ضبط نہ ہو سکا، آنکھیں پرنم ہو گئیں19؎ اس رد عمل اور تاثر کے پس منظر میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا جو استعارہ ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ البتہ اس سے اقبال کے شدید احساس کی غمازی ہوتی ہے۔ اسی خط کے ایک حصہ سے علامہ کے قومی احساس کا اندازہ ہوتا ہے وہ بمبئی کے ہوٹل کے دوران قیام ایک یونانی سوداگر سے چینیوں کی قوم پرستی کا حال سنتے ہیں تو انہیں ہندوستانیوں کے طرز عمل خصوصاً ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی نفاق کے تصور سے سخت رنج ہوتا ہے وہ اپنے مکتوب الیہ مولوی انشاء اللہ ایڈیٹر اخبار وطن لاہور کو لکھتے ہیںـ: ’’ مولوی صاحب، میں بے اختیار ہوں، لکھنے تھے سفر کے حالات اور بیٹھ گیا ہوں وعظ کرنے، کیا کروں؟ اس سوال کے متعلق تاثرات کا ہجوم میرے دل میں اس قدر ہے کہ بسا اوقات مجھے مجنوں سا کر دیا اور کر رہا ہے۔‘‘ 20؎ اس خط میں ایک جگہ بمبئی کے پارسیوں کا ذکر ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے غور و فکر میں قوموں کے مستقبل کا سوال نقطہ جاذب رہا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقتصادیات کو، قومی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت دینے کے باوجود قومی زندگی کی تکمیل کے لئے اس کے علاوہ دوسرے پہلوؤں اور تہذیبی عناصر کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، ان کے مطابق: ’’ یہاں پارسیوں کی آبادی نوے ہزار کے قریب ہے۔۔۔۔ اس قوم کی صلاحیت نہایت قابل تعریف ہے اور ان کی دولت و عظمت بے اندازہ، مگر اس قوم کے لئے کسی اچھی فیوچر (Future) کی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ عام طور پر سب کے سب دولت کمانے کی فکر میں ہیں اور کسی چیز پر اقتصادی پہلو کے سوا کسی اور پہلو سے نگاہ بھی نہیں ڈال سکتے۔‘‘ 21؎ اس خط کا آخری پیرا اقبال کی روحانی واردات اور عشق رسول ؐ کے جذبے کی موثر ترجمانی کرتا ہے۔ عرب کا ساحل نزدیک آ رہا ہے۔ اس خیال سے اقبال پر شیفتگی اور والہانہ پن کی کیفیت چھا جاتی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے۔ اس کی داستان کیا عرض کروں۔ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں۔۔۔۔ اے عرب کی مقدس سر زمین۔۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو، کاش میں تیرے صحراؤں میں لٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اس پاک سر زمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں بلالؓ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی ‘‘ 22؎ اس ساری تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال جب انگلستان پہنچے۔ ان کی ذہنی اور دماغی حالت نہایت پختہ ہو چکی تھی۔ وہ وسیع المشرب اور وسیع الظرف تو ضرور تھے مگر ان کی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت میں نور تھا۔ ان کا باطن پاک اور ضمیر زندہ تھا۔ ان کا قومی احساس توانا اور مذہبی شعور مضبوط و محکم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب کی متضاد معاشرت اور مخالف تہذیب سے منفی انداز میں متاثر نہیں ہوئے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے مغربی اقوام کی تہذیبی ترقی اور تمدنی عروج کی داستان ان کے لئے خبر سے زیادہ نہ تھی مگر یورپ آ کر جب بچشم خود ہو شربا سائنسی ترقیاں اور حیران کن سائنسی ایجادات کی ولولہ انگیز کارفرمائیاں دیکھیں تو وہ ان سے مرعوب و مغلوب نہ ہوئے بلکہ نہایت صحت مندانہ انداز میں قائل ہوئے۔ اور یہ تاثر تا دیر قائم رہا اسرار خودی کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ’’ مغربی اقوام اپنی قوت عمل کی وجہ سے تمام اقوام عالم میں ممتاز ہیں اور اسی وجہ سے اسرار زندگی کو سمجھنے کے لئے ان کے ادبیات و تخیلات اہل مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں۔‘‘ 23؎ جب اقبال نے یورپ کی تمدنی ترقیاں، علمی فتوحات، سیاسی حالات، غالب اقوام کی باہمی آویزش اور مغربی اقوام کے فعال افراد کا رخ کردار مشاہدہ کیا تو ان کی نگاہ ایشیا اور افریقہ کی پسماندہ اقوام کی پژمردگی، مجہولیت اور انفعالیت کی طرف منعطف ہوئی۔ وہ اس تقابل اور تفاوت سے کافی بد دل ہوئے۔ اس کی ایک جھلک شیخ عبدالقادر کے دیباچہ بانگ درا میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں اقبال نے ایک دن ترک شعر گوئی کا ارادہ ظاہر کیا تاکہ وہ یہی وقت کسی مفید کام میں کر سکیں۔ شیخ عبدالقادر اور آرنلڈ نے ان کی شاعری کی تاثیر کے پیش نظر ان کی درماندہ قوم کے لئے اس کی ضرورت کا احساس جتا کر’’ ارادہ ترک شعر‘‘ سے باز رکھا 24؎ معلوم ہوتا ہے اقبال نے مغربی اقوام اور مشرقی اقوام خصوصاً مسلم اقوام کا قانون ’’ مصاف ہستی‘‘ اور’’ قانون بقائے افراد قویہ‘‘ کے حوالے سے جائزہ لیا تو انہیں مشرق کی حالت مخدوش نظر آئی۔ انہوں نے اس کی بقا کے لئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی ایک نظم ’’ عبدالقادر کے نام‘‘ مطبوعہ 25؎ مخزن دسمبر1908ء میں اپنے ہمدم و دمساز کو اس جدوجہد میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں اس نظم کی حیثیت اقبال کی آپ بیتی کے ایک باب کی سی ہے۔ اس نظم کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جولائی 1908ء میں26؎ انگلستان سے واپس ہندوستان پہنچنے کے ساتھ ساتھ اقبال کے قومی مقصد کا تعین ہو گیا۔ یہ مقصد تھا، مشرق کی حالت بدلنے کا، مشرقیوں کی زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب لانے کا، درماندہ قوم کی راہبری کے لئے شاعری کو ذریعہ بنانے کا جو فیصلہ یورپ میں ہوا تھا۔ اب اسے بروئے کار لانے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اگرچہ 1904ء میں اقبال اس رمز سے شعوری سطح پر آگاہ ہو چکے تھے کہ: ’’ دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں‘‘ 27؎ لیکن انسانیت کی تاریخ گواہ ہے کہ زوال اور انحطاط کی شکار اقوام کے منفعل افراد کو ایسی اظہر من الشمس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا مشکل ترین کام رہا ہے۔ اقبال نے محولہ بالا دوسرے شعر میں اسی حقیقت کا ادراک کیا کہ جب تک قطرہ کی طرح حقیر، کمزور اور ناتواں فرد کی قلب ماہیت نہیں ہوتی اس کے اندر دریا کی تیزی و تندی، بہاؤ اور روانی، زور، قوت اور وسعت پیدا نہیں ہو گی گویا جس وقت تک قطرہ جزو دریا نہیں بنتا۔۔۔۔۔۔ اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ قطرہ کو اس ضرورت کا احساس ہو۔۔۔۔ وہ حقیر اور بے مایہ رہے گا۔ بالفاظ دیگر جب تک افراد کے اندر احساس ذات بیدار نہیں ہوتا او ران کے اغراض و مقاصد قومی اغراض و مقاصد میں نہیں ڈھلتے، قومی زندگی مں کوئی انقلاب رونما نہیں ہو سکتا۔ اقبال جیسی شخصیت کا خلاق ذہن اس ایک نکتہ کو عمرانی نظام فکر کی صورت مرتب کرنے میں بطور خاص تقریباً تین چار سال مصروف رہا۔ اقبال کی تخلیقی اور فکری زندگی میں انگلستان سے واپسی کے بعد دو سال نہایت اہم ہیں۔ ان دو سالوں میں جو تحریریں ضبط تحریر میں آئیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ نے یہ دو سال بڑے کرب اور پیچ و تاب کی حالت میں گزارے۔ ہندی مسلمانوں کے تمدنی اور عمرانی مسائل لگاتار ان کے پیش نظر رہے۔ ہندوستان ریویو الہ آباد کے دو شماروں، بمطابق جولائی و اگست1909ء میں ان کا انگریزی مضمونIslam as a Moral and political ideal شائع ہوا۔ اس مضمون کے کئی مقامات سے التباس ہوتا ہے کہ شائد اسرار خودی کے مطالب بیان کر رہے ہیں۔ یہاں اسلام کے اخلاقی نظام کے ضمن میں بعض ایسے امور زیر بحث آئے ہیں۔ جنہیں اسرار خودی کے عناصر ترکیبی کہا جا سکتا ہے یہاں زیر نظر مضمون کے بعض پہلوؤں کا اجمالی جائزہ لیا جاتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ 1909ء میں ہی اسرار خودی کے مضامین اقبال کے دماغ میں گھوم رہے تھے۔ مضمون کے پہلے حصے میں تین عالمی مذاہب بدھ مت، عیسائیت اور زرتشتیت کے بنیادی اخلاقی اصول بیان کرنے کے بعد28؎ اسلام میں انسان اور کائنات کے تصور کا جائزہ لیا ہے اور اسلام کے اخلاقی اصول واضح کئے ہیں۔سر دست ہمارے نقطہ نظر سے اس مضمون کے کئی مقامات محتاج توجہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مضمون میں اقبال نے وہ عمرانی قدر دریافت کر لی تھی جسے ابھی اقبال شخصیت کہتے ہیں۔ مگر بعد ازاں اسے خودی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ایک مغربی مصنف لکھتا ہے: ’’ کسی جماعت کی اخلاقی سطح کی نمایاں ترین علامت اس اہمیت سے متعین ہوتی ہے جو وہ جماعت انسانی شخصیت کو دیتی ہے‘‘ 29؎ اس مضمون میں بدھ مت، عیسائیت اور زرتشتیت کے بعض تصورات مثلاً دکھ، گناہ اور کشمکش کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان مذاہب کے تصورات کے مطابق انسان بے بس اور مجبور ہے اور شر کائنات کا لازمہ ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کائنات اور موجودات کو ایک حقیقت خیال کرتا ہے۔ اس لئے گناہ، دکھ، غم اور کشمکش کی حقیقت کو بھی تسلیم کرتا ہے مگر اسلام شر کو کائنات کا لازمہ نہیں سمجھتا۔ گناہ اور شعر کے عناصر کا بتدریج خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کی اخلاقی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ خوف ہے۔ اقبال ایک مدلل بحث کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں چونکہ انسان کی آزاد شخصیت اور انفرادیت کا احساس اسلامی اخلاقیات کا مقصود ہے۔ اس لئے بقول اقبال: ’’ اسلام کا اخلاقی مطمع نظر انسان کو خوف سے نجات دلانا ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کا احساس کر سکے اور اپنے متعلق اس حقیقت کا ادراک کر سکے کہ وہ طاقت کا ایک سرچشمہ ہے انسان کے بارے میں یہ عقیدہ کہ وہ اپنی انفرادیت کے لحاظ سے لامتناہی طاقت کا حامل ہے اسلام کی تعلیمات کے مطابق تمام انسانی عملیات کی قدر و قیمت کو معین کرتا ہے جو چیز انسان کے اندر انفرادیت کے احساس کو شدید سے شدید تر بناتی ہے۔ وہ نیکی یا خیر ہے اور جو چیز اس احساس کو کمزور یا ضعیف کرتی ہے وہ بدی یا شر ہے۔‘‘ 30؎ اس سلسلہ کلام میں علامہ نے عمرانی پہلو نظر انداز نہیں کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ کہ انسانی افعال کی بعض خاص صورتیں مثلاً نفس کشی، مفلسی، غلامانہ اطاعت بعض اوقات اپنے آپ کو انکسار، بے نیازی اور دنیا فراموشی کے خوبصورت نام میں چھپاتی ہیں حالانکہ ان سے انسانی شخصیت کی قوت میں ضعف واقع ہوتا ہے۔ انہیں بدھ مت اور عیسائیت میں نیکیاں خیال کیا جاتا ہے اور اسلام نے انہیں قطعی طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔‘‘ 31؎ اس مضمون کی مندرجہ ذیل سطور سے خودی اور مرد کامل کے تصورات پر کتنی اچھی روشنی پڑتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ اسلام قدیم دنیا کی اخلاقی اقدار کی قلب ماہیت کرتا ہے اور انسانی شخصیت کے احساس کی شدت اور حفاظت کو تمام اخلاقی عملیات کی قطعی بنیاد قرار دیتا ہے انسان ایک ذمے دار ہستی ہے، وہ اپنی شخصیت کو خود بناتا ہے۔ اپنی نجات کے لئے کوشش کرنا اس کا اپنا معاملہ ہے۔‘‘ 32؎ اس طویل بحث کو اقبال یوں مجملاً بیان کرتے ہیں: ’’ ایک قوی جسم میں ایک مضبوط ارادہ اسلام کا اخلاقی نصب العین ہے‘‘ 33؎ علامہ اس اخلاقی اصول کے حوالے سے پوچھتے ہیں: ’’ کیا ہندوستان کے مسلمان اس معیار پر پورے اترتے ہیں؟ کیا ہندوستانی مسلمان کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک توانا جسم میں مضبوط قوت ارادی رکھتا ہے؟ کیا اس میں زندہ رہنے کا عزم موجود ہے؟ کیا وہ اپنے اندر اتنی قوت کردار رکھتا ہے کہ ان تمام طاقتوں کا مقابلہ کر سکے جو اس کے معاشرتی نظام کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں؟ افسوس ہے کہ مجھے اپنے سوالات کا جواب نفی میں دینا پڑ رہا ہے قارئین جانتے ہیں کہ حیات کی تگ و دو (Great Struggle for existence) میں افراد کی کثرت تعداد ہی وہ عنصر نہیں جو کسی معاشرتی نظام کی بقا کا ضامن ہے بلکہ اجتماعی قوت کردار اس کی بقا کے لئے ایک قطعی لازمہ ہے۔‘‘ 34؎ کردار کی اہمیت کے پیش نظر ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ کردار انسان کا بنیادی ہتھیار (قطعی لازمہ) ہے۔ یہ ہتھیار نہ صرف ان کوششوں میں اس کا ساتھ دیتا ہے جو وہ معاندانہ فطری ماحول کے خلاف کرتا ہے بلکہ اس مقابلے میں بھی اس کی مدد کرتا ہے جو اس کے عزیز مریضوں (Kindred Competitors) کے ساتھ صورت پذیر ہوتا ہے تاکہ وہ بھرپور، اچھی اور بہتر زندگی حاصل کر سکے (الف ہندوستانی مسلمانوں کی قوت زندگی درد انگیز طور پر کمزور ہو گئی ہے۔ مذہبی روح کے زوال نے جس میں سیاسی قسم کے اور عوامل بھی شامل ہیں جن پر اس کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس کے اندر خود کو چھوٹا محسوس کرنے کی عادت اور دوسروں پر انحصار کرنے کا شعور (احساس، چلن) پیدا کر دیا ہے علاوہ ازیں اس میں روح کی سستی پیدا ہو گئی ہے جسے کمزور لوگ’’ قناعت‘‘ کے مقتدر اور معزز نام سے پکارتے ہیں اور جس کے پردے میں اپنی کمزوری کو چھپاتے ہیں۔‘‘ 35؎ (ترجمہ) اس اقتباس میں اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کی کمزور سیرت اور کردار کے اسباب و علل پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے اس احساس کے نتیجہ میں، خودی کے حوالے سے فعال شخصیت کے تصور میں صلابت اور اصابت کی ضرورت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے گویا ایک قوی سیرت اور آزاد شخصیت کی تربیت اقبال کا مطمع نظر ہے۔ کردار کی بحث کے تسلسل میں اقبال نے عزت نفس کو ایک اہم کردار کی خصوصیت قرار دیتے ہوئے، شیطان کی تعریف کی ہے۔ اقبال شناسوں کے ہاں’’ اقبال کا تصور ابلیس‘‘ ایک نہایت اہم موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر انہوں نے عام طور پر زیر نظر مضمون میں ابلیس کے حوالہ سے اعتنا نہیں کیا۔ حالانکہ زیر بحث مضمون میں پہلی بار ان کے ہاں ابلیس کی آزاد شخصیت کا تصور ابھرا ہے یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ ابلیس کے اس تصور کا پس منظر بھی سرا سر عمرانی محرکات کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے قومی اہمیت کے مقاصد کو مسلمانوں کے مفادات اور مصلحتوں کی بھینٹ چڑھتے دیکھا تو انہیں حمیت اور عزت نفس سے محروم ایسے انسانوں کے مقابلے میں شیطان کا کردار زیادہ روشن نظر آیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ میرے دل میں شیطان کے لئے ایک خاص حد تک قدر و منزلت ہے۔ آدم کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے، جس کو وہ اپنے سے چھوٹا سمجھتا تھا، اس نے اپنی عزت آپ کرنے اور کردار کی عظمت کا ایک بلند احساس یا شعور ظاہر کیا جو میری رائے میں اس کو روحانی عیب سے مبرا کر سکتا ہے۔‘‘36؎ زیر بحث مضمون کی آئندہ سطور میں اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کی تمدنی حالت خصوصاً ان کی معاشی بدحالی کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا خیال ہے: ’’ تمام مختلف النوع برائیاں ‘‘ معاشی محتاجی 37؎ کی پیداوار ہیں حتیٰ کہ ہندوستانی مسلمان کی برائیاں اس میں قوت حیات کی ضعف کی دلیل ہیں جسمانی طور پر بھی اس کا خوفناک انحطاط ہوا ہے۔ 38؎ اقبال کے نزدیک قانون حیات کیا ہے، سنئے: ’’ طاقت، قدرت، توانائی، قوت۔۔۔۔ ہاں قوت جسمانی۔۔۔ زندگی کا قانون، ایک طاقت ور انسان کی جب جیب خالی ہوتی ہے تو وہ دوسروں کو لوٹ لیتا ہے اس کے برعکس ایک کمزور انسان کسمپرسی کی موت مر جاتا ہے۔ یہ موت دنیا کے مسلسل، رواں دواں، جنگ و جدل کے دہشت ناک منظر میں واقع ہوتی ہے۔‘‘ 39؎ اسی مضمون کے آئندہ صفحات میں مسلمانوں کے لئے تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے آخر میں اقبال یوں انتباہ کرتے ہیں: ’’ مجھے ان مشکلات کا بخوبی احساس ہے جو ہمارے راستے میں موجود ہیں جو کچھ میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنی مشکلات پر قابو نہیں پا سکتے تو وہ دن دور نہیں جب دنیا ہمارے وجود سے چھٹکارا حاصل کر لے گی۔‘‘ 40؎ اس مضمون میں ایک جگہ اقبال نے لکھا ہے کہ: ’’ انسانیت کی اخلاقی تربیت حقیقتاً عظیم شخصیات کا کام ہے جو مختلف تاریخی زمانوں میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کا معاشرتی ماحول ایسی اخلاقی طور پر مقناطیسی شخصیات کی نشوونما کے لئے سازگار نہیں۔ ایسی شخصیات کی کمیابی کے اسباب معلوم کرنے کے لئے ان مرئی اور غیر مرئی قوتوں کا محتاط تجزیہ درکار ہے جنہوں نے ہمارے معاشرتی ارتقاء کی روش متعین کی ہے۔ لیکن میں اس مضمون میں یہ تحقیقی مطالعہ اپنے ذمہ نہیں لے سکتا۔‘‘ 41؎ ’’ بیاض اقبال‘‘ اور’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1909ء کے متذکرہ انگریزی مضمون کے بعد سال سوا سال اقبال نے ایسی موزوں اور مناسب شخصیت کے اوصاف پر غور و فکر کیا جو مسلمانوں کے دلوں کو تمنا سے زندہ کرے اور ان کے قلوب کو گرمائے۔ اگرچہ تصانیف اقبال کے متن کا تقابلی مطالعہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ تاہم بیاض اقبال کے بعض شذرات جس طرح ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں کھپائے گئے ہیں۔ اس سے کسی موضوع پر اقبال کے غور و فکر اور اس کے نتائج کو مربوط انداز میں پیش کرنے کا طریق کار پتہ چلتا ہے۔ بہرحال 1909ء کے مضمون ’’ اسلام بحیثیت اخلاقی اور سیاسی نصب العین‘‘ 1910ء کی بیاض (Stray Reflection) اور1911ء کے خطبہ علی گڑھ (ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر) سے یہ ثبوت بہم پہنچتا ہے کہ اقبال نے انگلستان سے واپسی کے بعد خاص طور پر مسلمانوں کے تمدنی اور عمرانی مسائل اور عمرانی انقلاب میں عظیم اور قومی شخصیات کے کردار پر بڑی محنت سے غور و فکر کیا تھا۔ اقبال کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ ملت اسلامیہ زوال و انحطاط کے گرداب سے کیسے نکلے؟ اور خصوصاً یہ کہ ہندی مسلمانوں کا عمرانی اختلال اور انتشار کیسے دور ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کی تمدنی ابتری اور سیاسی اور اقتصادی بدحالی کے اسباب کا تجزیہ کیا تو انہیں کسی مرد راہ داں کی ضرورت کا احساس ہوا اس موقع پر علم الحیات کا ایک اصول ان کے سامنے آتا ہے۔ انہوں نے بیاض اقبال کے ایک شذرے میں عظیم شخصیت کی مسیحائی کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ ایک علیل معاشرتی عضویہ اپنے اندر ایسی قوتوں کو مجتمع کر لیتا ہے جو اس کی صحت کی حفاظت کا رحجان رکھتی ہیں مثلاً ایک عظیم شخصیت پیدا ہوتی ہے جو ایک نصب العین کے انکشاف سے قریب المرگ عضویے کو نئی توانائی بخشتی ہے۔‘‘ 43؎ اس شذرے کے خیال کو ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں علم الحیات کے ایک اصول کی روشنی میں فرد اور جماعت کے عمرانی مقاصد کے حوالے سے مدلل تحریر کیا ہے: ’’ جس طرح ایک جسم ذوی اعضاء مریض ہونے کی حالت میں بعض دفعہ خود بخود بلا علم و ارادہ اپنے اندر ایسی قوتوں کو برانگیختہ کر دیتا ہے جو اس کی تندرستی کا موجب بن جاتی ہیں، اسی طرح ایک قوم جو مخالف قوتوں کے اثرات سے سقیم الحال ہو گئی ہو بعض دفعہ خود بخود رد عمل کرنے والی قوتوں کو پیدا کر لیا کرتی ہے مثلاً قوم میں کوئی زبردست دل و دماغ کا انسان پیدا ہو جاتا ہے یا کوئی نئی تخیل نمودار ہوتی ہے یا کوئی ہمہ گیر مذہبی اصلاح کی تحریک بروئے کار آتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قوم کے قوائے ذہنی و روحانی تمام باغی اور سرکش قوتوں کو اپنا مطیع و منقاد بنانے اور اس مواد فاسد کو خارج کر دینے سے جو قوم کے نظام جسمانی کی صحت کے لئے مضر تھا۔ قوم کو نئے سرے سے زندہ کر دیتے ہیں اور اس کی اصلی توانائی اس کے اعضا میں عود کر آتی ہے۔‘‘ 44؎ سقیم الحال قوموں کا دوبارہ طاقت اور قوت حاصل کر لینا ہی کافی نہیں۔ وہ اپنے تسلسل حیات کے لئے کیا طریق عمل اختیار کرتی ہیں۔ یہ ایک بنیادی عمرانی مسئلہ ہے اقبال اپنے خطبہ ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ اگر غور سے دیکھا جائے تو اقوام کے لئے سب سے زیادہ مہتم بالشاں عقدہ فقط یہ عقدہ ہے (خواہ اس کی نوعیت تمدنی قرار دی جائے خواہ اقتصادی، خواہ سیاسی) کہ قومی ہستی کا سلسلہ بلا انقطاع کس طرح قائم رکھا جائے، مٹنے یا معدوم ہو جانے کے خیال سے قومیں بھی ویسی ہی خائف ہیں جیسے افراد، کسی قوم کی مختلف عقلی یا غیر عقلی قابلیتوں اور استعدادوں کے محاسن کا اندازہ ہمیشہ اسی غایت الغایات سے کرنا چاہیے۔ ہم کو لازم ہے کہ اپنے محاسن کو جانچیں اور پرکھیں اور اگر ضرورت آ پڑے تو نئے محاسن پیدا کریں، اس لئے کہ بقول نیٹشا کے کسی قوم کی بقا کا دار و مدار محاسن کی مسلسل اور غیر مختتم تولید پر ہوتا ہے۔ کائنات یقینا جناب باری کی حکمت نابغہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر اس کا مفہوم سرتا سر انسانی ہے۔‘‘ 45؎ اس کے بعد اقبال نے ملت اسلامیہ کے حوالے سے چند ضروری امور پر بحث کے لئے مندرجہ ذیل تین شقیں مرتب کی ہیں۔ 1جماعت المسلمین کی ہیئت ترکیبی 2اسلامی تمدن کی یک رنگی 3اس سیرت کا نمونہ جو مسلمانوں کی قومی ہستی کے تسلسل کے لئے لازمی ہے۔ دوسری شق کے تحت اسلامی سیرت کے نمونہ کی خصوصیات کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ۔ ’’ قومی ہستی میں شریک ہونے کی غرض سے ہر فرد کے لئے قلب ماہیت لازمی ہے اور اس قلب ماہیت کے لئے خارجی طور پر ارکان و قوانین اسلام کی پابندی کرنی چاہیے اور اندرونی طور پر اس یک رنگ تہذیب و شائستگی سے استفادہ کرنا چاہیے جو ہمارے آباؤ اجداد کی متفقہ عقلی تحریک کا ماحصل ہے۔‘‘ 46؎ تیسری شق کے تحت بتایا ہے کہ کسی قوم میں سیرت کے مقبول نمونے محض اتفاق کی پیداوار نہیں 47؎ بلکہ ان کے بقول زمانہ حال کا علم عمرانیات ہمیں یہ نکتہ سکھاتا ہے کہ قوموں کا اخلاقی تجربہ خاص قوانین معینہ کا تابع ہوا کرتا ہے 48؎ اس مضمون کا وہ حصہ عمرانی اعتبار سے بہت اہم ہے جہاں وہ بتاتے ہیں کہ قدیم معاشروں میں جہاں مصاف ہستی کی صورت شدید تھی ایک شجاع آدمی محبوب سیرت کا نمونہ ہوتا تھا۔ پھر باصطلاح گڈ نگز (Giddings) زندہ دلی اور مجلسی سیرت کا نمونہ مقبول اور پسندیدہ ٹھہرا جو لذائذ حیات سے لطف اندوز ہوا۔ اس نے شجاعت اور بہادری کو نظر انداز نہ کیا مگر وسیع المشربی، فیاضی اور دوستداری کی خصوصیات اپنائیں۔ چونکہ سیرت کے یہ دونوں نمونے نا عاقبت اندیشی اور بے اعتدالی کا رحجان رکھتے ہیں۔ ان کے خلاف رد عمل کے طور پر سیرت کا تیسرا عظیم نمونہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ 49؎ جس کی غایت الغایت ضبط نفس ہے اور جو زندگی پر زیادہ متانت وہ تقشف کے ساتھ نظر ڈالتا ہے 50؎ اس بحث کے آخر میں لکھتے ہیںـ: ’’ میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس نمونے کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اسے پیش نظر رکھیں ْ‘‘ 51؎ اقبال ایک حقیقت شناس مفکر تھے۔ چونکہ وہ جدید ہندوستان کے مسلمانوں کے جدید عمرانی تقاضوں سے باخبر تھے۔ اس لئے ان کے پیش نظر ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی بقا کا مسئلہ تھا۔ انہیں احساس تھا کہ نئے زمانے اور نئے ماحول میں سیرت کے نئے نمونے کی ضرورت ہے۔ اس نمونے کا تصور چند شرطوں کے ساتھ ملتزم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اگر قومی تسلسل حیات ہمارا مقصود ہے تو ہمیں سیرت کا ایسا نمونہ تیار کرنا چاہیے۔ جو بہر قیمت اپنی سیرت میں استقلال رکھتا ہے اور جبکہ دوسرے نمونوں کے محاسن کو بلا تامل اختیار (جذب و قبول) کرتے ہوئے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی زندگی سے وہ تمام (عناصر) خارج کر دیتا ہے جو اس کی عزیز روایات اور اداروں سے مخاصمت رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلم قوم کے گہرے مشاہدے سے اس محور و مرکز کا انکشاف ہوتا ہے جس پر قوم کے اخلاقی تجربے کے مختلف خطوط اتصال آمادہ ہیں۔‘‘ 52؎ مندرجہ بالا بحث اور خصوصاً اقبال کے محولہ بالا اقتباسات سے اسرار خودی کا تناظر روشن ہوتا ہے گویا اسرار خودی کا محرک تخلیق، سیرت کے نمونے کا وہ تصور ہے جو مختلف صالح عمرانی اقدار کے امتزاج سے متشکل ہوتا ہے اور ندگی کے نئے عمرانی محاسن کا شعور پیدا کرتا ہے جس کی بدولت اجتماعی کردار میں استواری پیدا ہوتی ہے۔ بقول اقبال: ’’ کردار ہی وہ غیر مرئی قوت ہے۔ جس سے قوموں کے مقدر متعین ہوتے ہیں۔‘‘ 53؎ اقبال اپنی قوم کے اخلاقی اضمحلال، اقتصادی بدحالی اور سیاسی زوال کا مطالعہ و تجزیہ بڑی درد مندی سے کرتے رہے۔ بیاض اقبال میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ مسلمانان ہند اپنے سیاسی زوال کے ساتھ ہی بڑی تیزی سے اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہو گئے۔ دنیا کی تمام مسلم قوموں میں کردار کے لحاظ سے شاید ان کا مقام سب سے پست ہے۔ اس ملک میں اپنی عظمت رفتہ کی تحقیر میرا مقصد نہیں، کیونکہ ان عوامل کے بارے میں جو بالآخر قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں اپنے تقدیر پرست ہونے کا اعتراف کرتا ہوں۔ سیاسی قوت کی حیثیت سے شائد اب ہماری ضرورت باقی نہیں، لیکن میرا ایمان ہے کہ خدا کی وحدت مطلق کے شاہد واحد کی حیثیت سے ہمارا وجود اب بھی دنیا کے لئے ناگزیر ہے۔ اقوام عالم میں ہماری اہمیت خالص شواہدتی ہے۔‘‘ 54؎ سیاسی تقدیر پرستی کے باوجود ان کے شعور و تحت الشعور میں ’’ قانون بقائے افراد قویہ‘‘ اور ان قوموں کی مثالیں تھیں جنہوں نے زمانے کی حقیقت کو سمجھا اور ملکی، قومی و تمدنی انقلاب سے بہرور ہوئیں اور انہیں مہذب اقوام میں سرفرازی نصیب ہوئی۔ اقبال کے پیش نظر بھی ملکی بالخصوص قومی انقلاب تھا۔ اور ساتھ ہی انہیں یہ احساس بھی تھا کہ: ’’ قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے۔ کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔‘‘ 55؎ مگر اقبال کو اپنی قوم میں کوئی ایسی توانا شخصیت نظر نہ آ رہی تھی جسے مطلوبہ سیرت کا نمونہ کہا جا سکتا۔ اس مایوسی کے عالم میں ان کا مسلسل غور و فکر ایک نقطہ ارتکار میں سمٹ آیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تخلیقی وجدان سے ندا آئی: ’’ پیکر قوت مہدی کا انتظار چھوڑ دو اور مہدی کی تخلیق کرو‘‘ 56؎ اس ذہنی، فکری اور روحانی پس منظر میں اقبال نے اپنے تخلیقی وجدان کی زیر ہدایت مثنوی اسرار خودی کا ڈول ڈالا۔ کتاب کا آغاز مثنوی مولانا رومی کے ان اشعار سے ہوتا ہے۔ دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کز دام و دو مولم و انسانم آرزوست زیں ہمرہان ست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستنانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست 18اگست1917ء کے دی نیو ایر لکھنو میں علامہ اقبال کا ایک مختصر سا انگریزی تبصرہ نٹشے اور جلال الدین رومی کے عنوان سے شائع ہوا۔ وہ علامہ کی مثنوی کے تخلیقی محرک اور اس کے پس منظر کو سمجھنے میں انتہائی کار آمد ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس انگریزی تحریر کا یہاں ترجمہ پیش کیا جاتا ہے: ’’ کہا جاتاہے کہ باہمی تقابلات اتنے پسندیدہ (مستحسن) نہیں ہوتے۔ تاہم میں آپ کی توجہ ایک ادبی تقابل کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو انتہائی مفید اور سبق آموز ہے۔ جسے غیر مستحسن خیال نہیں کیا جا سکتا۔ نٹشے اور جلال الدین رومی فکر کی دو مخالف سمتوں (سرحدوں) پر نظر آتے ہیں مگر فکری تاریخ میں یہ نقطہ ہائے اتصال اور افتراق ہیں جو خصوصی دلچسپی کا مرکز قرار پاتے ہیں۔ اس عظیم ذہنی و فکری بعد کے باوجود جو ان دو عظیم شاعر فلاسفروں کے درمیان واقع ہے۔ وہ زندگی پر اپنے فکر کے عملی اثرات کے لحاظ سے ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں۔ نٹشے نے اپنے گرد و پیش میں انسانی انحطاط کا مطالعہ کیا اور اس نے ان باریک اور دقیق قوتوں کا انکشاف کیا جو اس انحطاط میں کار فرما رہیں۔ آخر کار اس نے ایسے اسلوب زیست کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جو ہماری دنیا (ہمارے کرہ ارض) کے لئے موزوں اور مناسب تھا۔ یہ نہیں کہ انسان کا تحفظ کیسے ہو سکتا بلکہ یہ کہ وہ خوب سے خوب تر کیسے بنتا ہے۔ یہ نٹشے کے فکر کی کلید تھی۔ باکمال رومی دنیائے اسلام میں ایسے وقت میں پیدا ہوا جب زندگی اور فکر کے ضعف کا باعث ہونے والے طریقوں (رویوں) اور ایک خارجی طور پر حسین لیکن داخلی طور پر مسموم ادب نے تقریباً مکمل طور پر مسلم ایشیا کا خون چوس لیا تھا اور آسان تاتاری فتح کے لئے راستہ ہموار کر دیا تھا۔ وہ زندگی کے افلاس، بے مقدوری، کوتاہی اور معاشری ڈھانچے کے انحطاط کا نٹشے سے کم احساس نہ رکھتا تھا۔ جس کو وہ اپنے معاشرے کو گھلا دینے والی بیماری کہتا ہے۔ وہ اسلامی شخصیت کے مثالی نمونہ کو ان اشعار میں پیش کرتا ہے۔‘‘ 57؎ یہ وہی اشعار ہیں جو اقبال نے اسرار خودی کے آغاز میں درج کئے ہیں۔ رومی کو اقبال نے اپنا مرشد تسلیم کیا۔ا لبتہ نٹشے اور اقبال میں زمانی اور ذہنی فاصلے تھے مگر تینوں کو قدرت نے ایک ہی منصب سونپا۔ اقبال کو اپنے دونوں پیش رووں کی طرح ناسازگار زمانہ نصیب ہوا۔ اقبال کے زمانہ میں ملکی حالات ابتر تھے۔ ملک نہ صرف سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا بلکہ ان کے ہم وطنوں پر ذہنی غلامی کی گرفت مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی۔ علاوہ ازیں یورپ کی تمدنی ترقی برصغیر میں کمتری کے احساس کو گہرا کر رہی تھی لہٰذا فرد اور قوم کے اعصاب میں خلل واقع ہو گیا تھا۔ ان کے جسم و جان میں زندگی کی توانائی باقی نہ رہی تھی اسی طرح معتقدات بھی اپنے مرکز ثقل سے ہٹ گئے تھے۔ اگر فرقہ واریت قوا کو مضمحل کر رہی تھی۔ تو شاعری اور ادب انفعال کا باعث تھا۔ مگر اس کا عرق انفعال میں بدلنے سے قاصر تھا۔ بیمار نفس قوم تمدنی اور عمرانی عوارض میں مبتلا تھی۔ گویا اجتماعی ضمیر کی موت و حیات میں کشمکش کا منظر درپیش تھا۔ اقبال نے رومی اور نٹشے کی نظیر کو راہ نما بنایا اور اس طرح قوم کے سامنے ایک مسیحا نفس شخصیت کا نمونہ ہی پیش نہ کیا بلکہ دم عیسیٰ کے اسرار سے آگاہ کیا اور اس آگاہی کو خودی کے نام سے متعارف کرایا۔ (ب) نظریہ خودی کے تخلیقی محرکات اقبال کا نظریہ خودی اگرچہ 1915ء میں اسرار خودی کی اشاعت کے ساتھ منصہ شہود پر آیا۔ مگر اس کے اولین آثار 1897ء سے لے کر 1915ء تک کی تصانیف، مقالات اور منظومات میں یہاں وہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان تحریروں کے اندر خیالات کے بتدریج ارتقا کا جائزہ بنیادی طور پر اقبال کے ذہنی اور فکری ارتقا کا جائزہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی شاعر یا فلسفی کے خیالات محض اس کی نفسی کیفیات کا شخصی اظہار ہوتے ہیں؟ اس قضیہ کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ مصنف اپنے سیاسی اور سماجی ماحول سے الگ تھلگ ایک ماورائی شخصیت ہے اور اسے اپنے زمان و مکان کے موثرات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ مگر فلسفہ و ادب اور علوم و فنون کی سماجی تاریخ سے اس خیال کی تائید نہیں ہوتی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کہ خواجہ حافظ کا موضوع سخن تصوف ہے اور وہ متصوفانہ مسائل کو ایک فکری، اخلاقی، تہذیبی اور ما بعد الطبیعیاتی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اقبال نے تصوف کی طرف اپنے طبعی میلان کے باوجود، عجمی تصوف کے اثرات کو سلبی گردانا اور اس کے خلاف جہاد کیا۔ اس فرق کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ زمانی انقلاب کے ساتھ تمدنی تقاضے بدل جاتے ہیں اور معروضی حالات کے مطابق انداز نظر اور فکری زاویے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اقبال نے ایک جگہ فکری اور عمرانی تعامل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: ’’ فکری ارتقا کو انسانی فعلیت (Acitivity) کے دیگر پہلوؤں (Phases) سے منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ فلسفہ کی کتابیں ہمیں یہ تو بتاتی ہیں کہ مختلف قوموں نے کیا سوچا ہے لیکن ان مختلف معاشرتی اور سیاسی اسباب و عوامل کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتیں، جن سے فکر انسانی کا کردار متعین ہوا ہے۔۔۔ ہمارا رویہ یہ رہا ہے کہ عظیم تصورات کو انسان کی ذہنی فعلیت (Intellectual activity) کے عمومی دھارے سے علیحدہ کر دیتے ہیں۔‘‘ 58؎ اقبال کے اس شذرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فکر کی تفہیم کے لئے تاریخی سیاق و سباق کو بہت اہم خیال کرتے تھے۔ بہرحال فکر اقبال کے سیاسی و معاشرتی تناظر اور عمرانی محرکات کے جائزہ کے بغیر یہ تاثر باقی رہے گا کہ اقبال نے خودی کا نظریہ محض وجدانی طور پر پیش کیا تھا۔ آج تک کوئی بڑے سے بڑا مفکر، مصلح یا ادیب اپنا نظریہ حیات میکانکی انداز میں یعنی گہرے اور مسلسل غور و فکر کے بغیر پیش نہیں کر پایا کیونکہ کسی مفکر یا ادیب کے فلسفہ حیات کی تشکیل میں اس خلقی اور اکتسابی استعداد کے علاوہ کئی دوسرے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ خصوصاً اس کی نفسیاتی اور ذہنی شخصیت کی ساخت، اس کی جذباتی اور روحانی واردات، جس طرح اس کے فکری اسلوب اور طرز احساس کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کی نسلی، قومی اور مذہبی گویا تاریخی روایات اور اس کے اپنے عہد کے تہذیبی و تمدنی تقاضے اور سیاسی حالات بھی تخلیقی اور فکری شخصیت کی تعمیر میں موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر یہ سارے عوامل، اسباب اور محرکات مجتمع ہو کر مفکر یا ادیب کو سالہا سال مزید مطالعے، مشاہدے، تجربے اور غور و فکر کی راہوں پر سرگرداں رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس کا دل و دماغ جذباتی کشمکش اور ذہنی تذبذب میں ڈوب جاتا ہے اس کی حیات مستعار کے بے شمار دن پیچ و تاب اور ان گنت راتیں سوز و ساز میں گزرتی ہیں۔ تب کہیں جا کر کسی انجانے لمحے میں اس کے فلسفہ یا نظریہ کا ایک دہندلا سا خیال یا تصور طلوع ہوتا ہے پھر اس کو نصف النہار پر پہنچنے کے لئے ایک عرصہ سرگرم سفر رہنا پڑتا ہے۔ اقبال کو اپنے خیالات ایک فکری نظام اور نظری وحدت کے تحت لانے میں کم و بیش بیس سال، ذہنی کشمکش، جذباتی تڑپ اور فکری اور فنی ریاضت میں گزارنے پڑے۔ اس کے نتیجہ میں اقبال کا تصور خودی، منظم و منضبط شکل اختیار کر سکا۔ اقبال نے انیسویں صدی کے ربع آخر میں پیدائش سے لے کر بلوغت کی منازل طے کیں اور مکتب و مدرسہ سے لے کر ایم اے کے اعلیٰ ترین درجہ تک تعلیم حاصل کی۔ اقبال کی تعلیم و تربیت پر محیط بائیس سال ہندوستان کی سیاسی، تمدنی، اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی زندگی میں اہمیت کے لحاظ سے بہت گھمبیر تھے۔ یہاں نو آبادتی نظام ہر زاویے سے مستحکم ہو چکا تھا۔ بدیشی حکمران ہندوستان کے سیاسی اور معاشی استحصال کے لئے نت نئے حربے استعمال کر رہے تھے۔ ہندوستانیوں کی معاشی ابتری اور بدحالی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی ان کا اگر ایک انتظامی حربہ تھا تو اقوام ہندوستان کے لئے نئی تعلیم کا حصول زندگی کی ایک ضرورت اور ترقی کی ایک علامت بن کر نمودار ہوا۔ ہندوستان ی قوموں میں تعلیمی تحریکوں کے بارے میں جوش اور ولولہ، قومی ترقی کی ضرورت کے احساس کا مرہون منت تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں میں ہندوؤں کے مقابلے میں تعلیمی احساس نسبتاً تاخیر سے پیدا ہوا۔ چونکہ یہ نئی تعلیم سے محرومی کا احساس تھا اس لئے بہت شدید تھا۔ مسلمانوں کی تعلیمی تحریک کے بانی سرسید احمد خان کی ان تھک مساعی کی بدولت مسلمانوں میں ایسا جوش اور امنگ پیدا ہوئی کہ ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں کے مسلمانوں نے تعلیمی انجمنیں قائم کیں۔ ان تعلیمی تحریکوں کے پہلو سے اصلاحی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ سماجی اور معاشرتی اصلاح کا خیال اس حد تک ذہنوں پر چھا گیا کہ مختلف قوموں اور فرقوں حتیٰ کہ بعض ذاتوں نے معاشرت اور رسوم و رواج کی اصلاح کے لئے انجمنیں قائم کر لی تھیں۔ گویا اس عہد میں یہ شعور حساس اور تعلیم یافتہ افراد میں عام ہو رہا تھا کہ زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے اور معاشرہ میں بڑی دور رس تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ اگرچہ سرسید نے قوم کو بہت جھنجھوڑا مگر وہ قومیں جن کے اعصاب شل ہو جاتے ہیں وہ ہلانے اور جھنجھوڑنے سے ہوش میں نہیں آتیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سرسید کو اپنی قوم کی انگڑائی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ 1898ء میں ہندوستان کے مسلمانوں کی بدنصیبی کا سال ہے کہ اس سال سرسید مسلمانوں کی اصلاحی تحریک کا ستارۂ صبح غروب ہوا۔ 1900ء مسلمانوں کی خوش نصیبی کا سال ہے کہ اس سال ان کا قومی شاعر، اقبال۔۔۔۔ ملت اسلامیہ کی تحریک احیا کا آفتاب تازہ طلوع ہونا شروع ہوا۔ 24فروری 1900ء کو اقبال نے قومی اہمیت کی پہلی نظم ’’ نالہ یتیم‘‘ کے عنوان سے انجمن حمایت اسلام لاہور کے پندرھویں سالانہ اجلاس میں پڑھی۔ اقبال کی اس پہلی قومی نظم کو ان کے طرز احساس کی نمائندہ اور ان کے فکری مقصد کا دیباچہ کہا جا سکتا ہے۔ اقبال کے وہ خیالات جو ان کے تصور خودی کی بنیاد بنے، محض ہندوستان کی سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی زبوں حالی کی پیداوار نہیں ہیں۔ اسی طرح محض مسلمانوں کے سیاسی اور اخلاقی زوال کا احساس اس کا واحد سبب نہیں ہے۔ البتہ ذہنی اور جذباتی محرک ضرور ہے۔ دراصل ان خیالات کی تشکیل میں اقبال کی Intellectual orientations کا بھی کافی حصہ ہے۔ اقبال نے فلسفہ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی اور وہ مشرق و مغرب کے قدیم و جدید فلسفہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے مشرق و مغرب کے ادب کا مطالعہ بڑی دقت نظر سے کیا تھا۔ پولیٹیکل اکانومی کے مضمون پر بھی دسترس رکھے تھے۔ عالمی تاریخ سے انہیں واقفیت تھی۔ اسلامی تاریخ پر انہیں عبور تھا۔ قرآن و حدیث کے مسائل بھی ان پر روشن تھے۔ قانون میں مہارت تامہ بہم پہنچائی تھی۔ سرسید کے مقاصد اور اکبر کے نتائج فکر سے وہ متفق تھے۔ مذہب سے وابستگی اور تصوف سے رغبت ان کا ورثہ تھا۔ اقبال کی فکری، فنی اور علمی شخصیت کی نشوونما میں اس خصوصیت کا بڑا حصہ ہے کہ وہ اپنے روحانی معتقدات، مذہبی روایات اور عمرانی اخلاقیات کے ساتھ جدید علمی تصورات اور نئے سماجی، سیاسی اور عمرانی نظریات قبول کرنے کو ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ بشرطیکہ ان کا عقلی جواز ہو اور وہ ان کے اپنے عقائد کے نقیض نہ ہوں۔ بہرحال ان متصادم اور متحادب عناصر کی تکوین اور ترکیب کر لینا کوئی آسان بات نہیں۔ پھر ان عناصر ترکیبی کو متحد کر کے اپنے مقاصد سے ہم آہنگ کرنا اور خصوصاً اپنے نظام فکر میں سمونا ایک مشکل ترین مرحلہ ہے جس کو کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل شخصیت ہی عبور کر سکتی ہے۔ اقبال ایک ایسی ہی باکمال شخصیت تھے۔ اقبال کو ہندی مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کے لئے کوششوں کی جو روایت ورثہ میں ملی۔ وہ بہ استثنا چند تعلیمی اداروں اور انجمنوں کے قیام کے بیشتر تعلیمی، سیاسی، تمدنی اور اقتصادی مسائل پر چند مجرد اور منتشر خیالات تک محدود تھی۔ مگر اقبال مسلسل غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک مسلمان عمرانی انقلاب کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ مسلمانوں کی ترقی و بہبود کی کوئی کوشش بار آور نہیں ہو سکتی۔ عمرانی اور تمدنی انقلابات کی تاریخ شاہد ہے کہ محض مجرد اور منتشر خیالات انقلاب بپا کرنے کی قوت سے محروم ہوتے ہیں گویا کسی حرکی نظریہ کے بغیر سیاسی، سماجی اور عمرانی جمود و تعطل کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ اقبال نے عمرانی انقلاب کی ضرورت کے پیش نظر خودی کا نظریہ پیش کیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی نظریہ اضطراری فکر کا نتیجہ ہوتا ہے؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کا نظریہ خودی بھی ایک اضطراری کیفیت کا نتیجہ ہے۔ بعض ماہرین اقبال، نظریہ خودی کے باب میں اسی خیال کے موئید نظر آتے ہیں مثلاً مولانا عبدالمجید سالک، عطیہ بیگم کے نام اقبال کے مندرجہ ذیل خط سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسرار خودی کی اسی زمانے (یعنی وسط 1911ء ) میں داغ بیل رکھی گئی۔ اقبال7جولائی 1911ء کو عطیہ بیگم کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ والد نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ میں بو علی قلندر کی مثنوی کے نمونہ پر فارسی میں کوئی نظم (مثنوی) لکھوں اور اس اہم کام کی مشکلات کے باوجود میں نے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا ہے۔ ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں۔‘‘ 59؎ تخلیقی عمل ایک پر اسرار اور پیچیدہ عمل ہے۔ ان کے والد گرامی کی فرمائش اسرار خودی کی تخلیق کا فوری محرک تو ہو سکتی ہے۔ مگر اسرار خودی ایسی مثنوی جو اقبال کے نظام فکر کی اساس ہے کسی فرمائش پر وجود میں نہیں آ سکتی۔ اس پہلو پر ماہرین اقبالیات نے توقف اور تامل ضرور کیا ہے لیکن زیادہ تحقیق اور تدقیق نہیں کی گئی کہ علامہ کے والد محترم کی فرمائش پر حضرت بو علی قلندر کی مثنوی کی تقلید میں اسی رنگ اور انداز کی رسمی مثنوی معرض تحریر میں آنی چاہیے تھی۔ مگر اسرار خودی موضوع اور مطالب کے لحاظ سے اس قدر مختلف کیوں ہے؟ تاہم یہ بات توجہ طلب ہے کہ اقبال کے والد کی فرمائش میں صنف مثنوی کی تجویز نے اقبال کے لئے تخلیق کا ایک مرحلہ آسان بنا دیا۔ ورنہ ممکن ہے اقبال اپنے ان افکار کے لئے مثنوی کی ہیئت کی بجائے اپنی پسندیدہ ہیئت ترکیب بند استعمال کرتے یا یہ مضمون کچھ عرصہ مزید معرض التوا میں رہتا کیونکہ اس سے قبل انہوں نے یہ مضمون اردو اشعار میں قلمبند کرنا شروع کیا تھا۔ مگر تخلیقی اطمینان نہ ہونے کی بنا پر سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ اقبال نے تمکین کاظمی کے نام 16اگست 1928ء کے خط میں لکھا ہے: ’’ میں نے خود’’ اسرار خودی‘‘ پہلے اردو میں لکھنی شروع کی تھی۔ مگر مطالب ادا کرنے سے قاصر رہا جو حصہ لکھا گیا تھا اس کو تلف کر دیا گیا۔ کئی سال بعد پھر یہی کوشش میں نے کی۔ قریباً ڈیڑھ سو اشعار لکھے مگر میں ان سے مطمئن نہیں ہوں۔‘‘ 60؎ اس خط سے یہ قیاس کرنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال نے ان دنوں کسی موقع پر اپنی اس تخلیقی صورت حال کر تذکرہ اپنے والد گرامی سے کیا ہو گا۔ جس کے جواب میں غالباً انہوں نے مثنوی بو علی قلندر کی پیروی کا مشورہ دیا۔ اس مشورہ میں صنف کے علاوہ فارسی زبان اختیار کرنے کی تجویز قابل توجہ ہے۔ ذکر اقبال کے بعد دوسرے فاضل اقبال شناسوں نے اسرار خودی کے محرکات کا سراغ لگانے کے لئے زیادہ تحقیق اور جستجو سے کام لیا تو وہ اس درست اور صائب نتیجہ پر پہنچے کہ ایک تو برصغیر کے مسلمانوں اور خصوصاً عالم اسلام کے سیاسی زوال اور انحطاط کا احساس اقبال کے نظریہ خودی کا باعث ہوا۔ دوسرے بعض اقبال شناس بیاض اقبال کے چند شذرات میں اقبال کے تصور خودی کے ابتدائی خدو خال ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تیسرے اقبال کے دو تین خطوط کے حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ خودی کا تصور اقبال کے ذہن میں انگلستان کے زمانہ قیام (1905ء تا1908ئ) میں پیدا ہوا۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل خطوں کا حوالہ دیا جاتا ہے: اقبال18اکتوبر1915ء کو اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ مذہب بغیر قوت کے محض ایک فلسفہ ہے‘‘ یہ نہایت صحیح مسئلہ ہے اور حقیقت میں مثنوی لکھنے کے لئے یہی خیال محرک ہوا۔ میں گذشتہ دس سال سے اسی پیچ و تاب میں ہوں۔ 61؎ سید سلیمان ندوی کو 10نومبر1919ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ مولوی فضل الدین احمد لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال کی آواز بازگشت ہیں‘‘ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کئے ہیں۔ ان کو برابر1907ء سے ظاہر کر رہا ہوں۔ اس کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں نظم و نثر و انگریزی و اردو موجود ہیں جو غالباً مولوی صاحب کے پیش نظر نہ تھیں۔‘‘ 62؎ اقبال کے ان خطوط کی شہادت کے بعد مزید تلاش و جستجو کی گنجائش نہیں رہتی اور یہ تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے کہ قیام یورپ کے زمانے ہی سے تصور خودی کا پس منظر تیار ہو رہا تھا۔ مگر کسی مفکر یا شاعر کے افکار و خیالات پر تحقیقی کام کرنے والا طالب علم کئی موقعوں پر ایسے ظاہر اور واضح شواہد سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اسے اپنے موضوع مفکر یا فن کار کی شخصیت کی باطنی گہرائی میں اترنے کے لئے نفسیاتی یا تاریکی عوامل کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہم ان خطوط سے ماقبل کے محرکات کو پیش نظر رکھنے پر مجبور ہیں۔ علاوہ ازیں حقیقت یہ ہے کہ مکتوب نگار خواہ اپنی ذات کے بارے میں ہی معلومات کیوں نہ فراہم کر رہا ہو۔ وہ خط کی تحریر کے وقت یاد داشت سے اور بیشتر کسی تحریری حوالے کے بغیر لکھتا ہے۔ اس لئے بعض امور کے حتمی تعین میں کسی حد تک کمی بیشی کا امکان رہ جاتا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ تخمینہ کسی صورت میں بھی قطعیت کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں اقبال کا ایک خط مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے وہ وحید احمد مدیر’’ نقیب‘‘ (بدایوں) کے نام 7ستمبر1921ء کو لکھتے ہیں: ’’ اس زمانے میں سب سے زیادہ بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و ملکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ (تیرہ کاٹ دیا اور اسے پندرہ بنایا) برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا۔ اس وقت میں یورپ میں تھا اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا‘‘ 63؎ یہاں اقبال نے انقلاب کا لفظ لفظی زور اور شدت اظہار کے تحت لکھا ہے۔ خط کی تحریر میں جو روا روی اور سر سری انداز ہوتا ہے ’’ انقلاب عظیم‘‘ کا جزو جملہ (Phrase) اس کا مظہر ہے۔ ورنہ اقبال جیسا عالی دماغ، فاضل اور عالم آدبی اس بدیہی حقیقت سے کیسے صرف نظر کر سکتا تھا کہ کوئی بھی انقلاب (اس کی نوعیت انفرادی یا اجتماعی خیالات اور یا سیاسی ہی ہو) یکایک اور اچانک ظہور میں نہیں آتا۔ اس کے لئے پہلے سے ایسا مواد موجود ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ پکتا رہتا ہے اور کسی فوری محرک کے باعث رونما ہو جاتا ہے۔ یورپ کی آب و ہوا کے اقبال پر مثبت اثرات ان کی پختہ عمری، سلامتی طبع، محکم عقائد، ملی ہمدردی اور قومی عصبیت وغیرہ کا حاصل ہیں۔ مشرقی ممالک اور خصوصاً برصغیر سے جانے والے بے شمار لوگوں کو عین اسی زمانے میں یورپ کی آب و ہوا نے دینی حمیت اور قومی غیرت سے محروم کر دیا تھا۔ افسوس کہ اقبال کے سوانح میں ان کے بچپن اور لڑکپن کی کوئی ایسی واقعاتی شہادت موجود نہیں جسے ان کی آئندہ زندگی کا سمت نما اور قومی مقاصد کا آئینہ کہا جا سکے۔ البتہ بی اے کے زمانہ طالب علمی کی ایک نظم ’’ فلاح قوم‘‘ (1896ئ) ان کے درد مندانہ انداز طبیعت اور قومی احساس کا پتہ دیتی ہے اور الجیلی کے نظریہ توحید مطلق پر ان کا مضمون ایم اے (1899ئ) کے تقریباً ایک سال بعد1900ء کی تحریر ہے۔ اقبال کی اس ابتدائی علمی تحریر سے ان کے عالمانہ وقار، طرز استدلال، وسعت معلومات کے علاوہ فلسفہ اسلام سے رغبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس مقالے کا آغاز ہی اقبال نے یورپی علماء کے فلسفہ اسلام کے بارے میں غیر منصفانہ رویے کی نشاندہی سے کیا ہے۔ انگلستان میں اسرار خودی کے ترجمہ پر ڈگسن وغیرہ نے تبصروں میں مرد کامل کے تصور کو نٹشے کے فوق البشر کا چربہ قرار دیا تو اقبال نے اس کی تردید کرتے ہوئے زیر نظر مقالہ کے حوالے سے نکلسن کو خط میں لکھا: ’’ بعض انگریز تنقید نگاروں نے اس سطحی تشابہ اور تماثل سے جو میرے اور نٹشے کے خیالات میں پایا جاتا ہے دھوکا کھایا ہے۔‘‘ ’’ دی اینتھم‘‘ والے مضمون میں جو خیالات ظاہر کئے گئے ہیں وہ بہت حد تک حقائق کی غلط فہمی پر مبنی ہیں لیکن اس غلطی کی ذمہ داری صاحب مضمون پر عائد نہیں ہوتی وہ انسان کامل کے متعلق میرے تخیل کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکا یہی وجہ ہے کہ اس نے خلط مبحث کر کے میرے انسان کامل اور جرمن مفکر کے فوق الانسان کو ایک ہی چیز فرض کر لیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل انسان کامل کے متصوفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے کہ جب نہ تو نٹشے کے عقائد کا غلغہ میرے کانوں تک پہنچا تھا۔ نہ اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ یہ مضمون ’’ انڈین انٹی کیوری‘‘ میں شائع ہوا۔64؎ علاوہ ازیں اس ابتدائی مقالے میں مباحث کے تجزیہ و تحلیل، استدراک و استدلال کے انداز، موضوع کی پیشکش اور اسلوب سے خطبات تشکیل جدید کا رنگ جھلکتا ہے۔ بہرحال جس طرح اس مقالے کے بعد انسان کامل کا موضوع تواتر کے ساتھ اقبال کی دوسری تحریروں میں بیان ہوتا رہا اسی طرح دوسری تحریروں میں بھی چند دوسرے خیالات بار بار زیر بحث آتے ہیں۔ ان تحریروں میں گہرا معنوی اور باطنی ربط ہے۔ گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک مضمون کے بطن سے دوسرا مضمون پیدا ہو رہا ہے۔ گذشتہ باب میں اقبال کی 1896ء سے لے کر 1914ء کے دوران منظوم تخلیقات، ایک درسی کتاب (علم الاقتصاد) اور مقالات کا عمرانی خیالات کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جا چکا ہے۔ زیر نظر باب کے حصہ الف میں ان مقالات بہ استثنا الجیلی کا نظریہ توحید مطلق کے حوالے سے اقبال کے تصور خودی کی تشکیل کے عمرانی مقدمات کا پس منظر پیش کیا گیا ہے کیونکہ نثر میں جو وضاحت اور قطعیت ہوتی ہے اس میں تعبیر و توجیہہ کی زیادہ گنجائش نہیں نکلتی اور وہ مصنف کے موقف کی زیادہ سے زیادہ راست ترجمانی کرتی ہے۔ امید ہے کہ زیر نظر باب کے پہلے دو اجزاء یعنی حصہ الف اور ب کا مطالعہ اقبال کے تصور خودی کے عمرانی پہلو کی تفہیم میں معاون اور مددگار ہوں گے۔ (ج) خودی کی حقیقت و ماہیت خودی کی حقیقت و ماہیت کیا ہے اس سوال پر فلسفیانہ نقطہ نظر سے کافی غور و خوض کیا گیا ہے۔ خود اقبال نے اسرار خودی اشاعت اول کے دیباچہ میں اسے ’’ دقیق مسئلہ‘‘ 65؎ قرار دیا ہے۔ یوں تو اقبال کے ابتدائی مضامین اور بعض اشعار میں خودی کا مضمون بالواسطہ نمودار ہوتا رہا۔ مگر یہ مضمون پہلی بار اقبال کی مثنوی اسرار خودی میں ایک مکمل فکری نظام میں ڈھل کر سامنے آیا۔ اور اس کے دیباچہ میں مختلف اقوام عالم کے طرز عمل، انداز فکر اور افتاد طبیعت کے حوالے سے خودی کا مفہوم واضح کیا گیا ہے اس کے بعد اقبال نے نکلسن کے نام 66؎ خط میں فلسفیانہ بنیادوں پر خودی کا تصور صراحت کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔ پھر خطبہ چہارم میں خودی کی ما بعد الطبیعیاتی حقیقت پر بحث کی ہے۔ بہرحال اقبال نے پہلے پہل 1909ء میں ’’ اسلام بطور ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین‘‘ میں انسان کی شخصیت اور اس میں پوشیدہ تسخیر کائنات کی قوت کا جائزہ لیا ہے۔ مثلاً اسی مضمون میں اسلام میں انسان اور کائنات کے تصور کی ضمنی بحث میں لکھا ہے کہ: ’’ کائنات میں جو کچھ ہے وہ خدا کا ہے اور فطرت کی بظاہر تباہ کن طاقتیں، زندگی کا ماخذ بن جاتی ہیں اگر مناسب طور پر انسان ان پر قابو پائے، جسے (انسان کو) ان طاقتوں کے ادراک اور ان پر غلبہ پانے کی قوت ودیعت کی گئی ہے۔‘‘ 67؎ انسانی ارتقاء کی ساری تاریخ انسان کی ان دو قوتوں کی مرہون منت ہے۔ لیکن انسانیت کی تاریخ کے بعض ادوار عمرانی انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن میں اخلاقیات کے نام پر ایسے تصورات پیدا ہو جاتے ہیں جو انسان کی شخصیت کو ادراک کائنات اور تسخیر کائنات کی قوت سے محروم کر دیتے ہیں۔ مثلاً نفی ذات، افلاس اور غلامانہ اطاعت وغیرہ انسانی فعلیت کی ایسی صورتیں ہیں جو بعض اوقات اپنے آپ کو عجز و انکسار اور ترک دنیا (Unworldliness)کے حسین نام میں چھپا لیتی ہیں اور انسانی انفرادیت کو ناتواں اور ضعیف بنانے کا رحجان رکھتی ہیں، اور انہیں بدھ مت اور عیسائیت میں (Virtues) نیکیاں خیال کیا جاتا ہے لیکن اسلام انہیں یکسر نظر انداز کرتا ہے۔ 68؎ بیاض اقبال میں ’’ شخصیت کی بقا‘‘ کے زیر عنوان طویل شذرہ میں علامہ نے شخصیت کو قوتوں کی ایک مخصوص ترتیب کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ اس ترتیب میں خلل واقع نہ ہونا چاہئے۔ ’’ بظاہر اس کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو کچھ اس طرح تقویت پہنچائیں کہ اس کے قوائے ترکیبی کو اپنے مقررہ معمول کے مطابق عمل کرنے میں مدد ملے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ فعلیت کی ان تمام صورتوں سے دست بردار ہو جائیں جو شخصیت کو تحلیل کرنے پر مائل ہوں مثلاً عجز و انکسار، قناعت، غلامانہ اطاعت وغیرہ ان کی برخلاف بلند حوصلگی، عالی ظرفی، سخاوت، اور اپنی روایات و قوت پر جائز فخر ایسی چیزیں ہیں جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں۔‘‘ شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے، لہٰذا اسی کو خیر مطلق قرار دینا چاہئے اور اپنے تمام اعمال کی قدر و قیمت کو اسی معیار پر پرکھنا چاہئے خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار رکھے اور ناخوب وہ ہے جو شخصیت کو دبانے اور بالاخر اسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو اگر ہم وہ طرز زندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے، تو دراصل ہم موت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ موت جس کی ضرب سے ہماری شخصیت کی اندرونی قوتوں کی ترتیب گڑ بڑ ہو جاتی ہے پس شخصیت کی بقا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے حصول کے لئے جدوجہد ضروری ہے۔ 69؎ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں بھی ایک ضمنی بحث کے سلسلے میں فرد کی قوت حیات کی تحلیل کو نفسیاتی سبب کا نتیجہ بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ انفرادی ضمیر (Individual mind) کی شخصی شناخت ذہنی حالتوں کے باقاعدہ تواتر پر منحصر ہوتی ہے۔ جب انفرادی حالت شعور کی رو کے تسلسل میں خلل واقع ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ جسمانی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے جو کچھ عرصے میں قوائے حیات کی آخری تحلیل کا باعث ہو سکتی ہے۔‘‘ 70؎ جن ایام میں اقبال نے متذکرہ خطبہ تیار کرنے کے بعد پیش کیا کم و بیش یہی وہ زمانہ ہے جب بو علی قلندر کی پیروی میں والد کی فرمائش پر اقبال کے سامنے مثنوی لکھنے کا مرحلہ در پیش تھا۔ لہٰذ ا اسی زمانے میں یقینا اقبال نے مثنوی بو علی کا مکرر مطالعہ کیا ہو گا۔ یہ مثنوی ’’ شاہ بو علی قلندر کے نام سے (1891ء 1309/ھ) میں مطبع نامی لکھنو سے شائع ہوئی تھی۔ اسے ’’ رسالہ عشقیہ‘‘ کہنا اس لئے موزوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بہت سے اشعار عشق پر لکھے گئے ہیں۔ عرفان، چشم بینا، دل مصفا، نفس کشی، توحید و معرفت اس کے مختلف موضوعات ہیں۔۔۔ ساری مثنوی از اول تا آخر وحدۃ الوجود کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔‘‘ 71؎ اقبال جواب علم الحیات اور عمرانیات کے نقطہ نظر سے ملت اسلامیہ کے معاشرتی مسائل، تصورات، ادبیات وغیرہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ فلسفہ وحدت الوجود کے عمرانی مطالعہ کے نتیجہ میں اس تصور کے اثرات اور نتائج کو کیسے نظر انداز کر سکتے تھے۔ چنانچہ انہیں تصوف کے زیر نظر مسئلہ پر غور و فکر کرتے ہوئے ہندوؤں کے ترک عمل اور متصوفین کے وحدت الوجود کے منتہائے نظر میں مماثلت نظر آئی۔ وحدت الوجود میں ترک دنیا، توکل، سکرومستی، بے ثباتی، نفس کشی اور فنا کے تصورات کا مقابلہ جب اقبال نے مصاف ہستی میں انتخاب فطری اور ’’ بقائے افراد قویہ‘‘ کے نظریات سے کیا تو انہیں اول الذکر تصورات کی زہر ناکی کے بارے میں کوئی شک باقی نہ رہا لہٰذا انہوں نے انفرادی ’’ انا‘‘ کو مٹانے کے بجائے اس کے ’’ اثبات، استحکام اور توسیع‘‘ کو مقصد حیات قرار دیا۔ خودی کی حقیقت و ماہیت کی تفہیم کے سلسلے میں اسرار خودی کا دیباچہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے اس لئے ہمارے خصوصی مطالعہ کا متقاضی ہے۔ یہاں فٹ نوٹ میں یہ دیباچہ اختصار کے ساتھ نقل کیا جا رہا ہے۔ بغرض اختصار دیباچہ کی عبارت کے بعض ٹکڑے یا جملے حذف کرتے ہوئے کوشش کی گئی ہے بے ربطی کا احساس نہ ہو اور تمام نکات بھی پیش نظر رہیں۔ 72؎ پروفیسر محمد عثمان کے مطابق: ’’ یہ (اسرار خودی کا) دیباچہ اگرچہ بڑی قدر و قیمت کا حامل ہے لیکن کچھ اپنے اختصار کی وجہ سے اور کچھ انداز بیان کے باعث یہ بھی اپنا مقصد پورا نہ کر سکا اور نظریہ خودی کی کوئی عام فہم تعبیر معرض اظہار میں نہ آئی اسے محض حسن اتفاق سمجھنا چاہئے کہ جب پروفیسر نکلسن نے ’’ اسرار‘‘ کا انگریزی ترجمہ تیار کرنے کی خواہش ظاہر کی اور اس کے بعض موضوعات کی و ضاحت چاہی تو اقبال کے قلم سے بزبان انگریزی فلسفہ خودی کی ایک ایسی مربوط اور شگفتہ صراحت ضبط تحریر میں آئی جو اردو یا فارسی کے کلام نظم و نثر میں کہیں نظر نہیں آتی۔‘‘ 73؎ جب پروفیسر نکلسن کی درخواست پر اقبال نے چند بنیادی نکات کی توضیح و تشریح کی تو اقبال نے اپنے وضاحتی بیان کو درج ذیل تین شقوں میں تقسیم کیا: 1اسرار خودی کی فلسفیانہ بنیادیں 2خودی (ایغو) اور شخصیت کا تسلسل 3خودی کی تعلیم (تربیت) شق اول پر بحث کے دوران اقبال لکھتے ہیں: ’’ انسان کا اخلاقی اور مذہبی نصب العین نفئی ذات نہیں بلکہ اثبات ذات ہے اور وہ یہ نصب العین زیادہ سے زیادہ منفرد اور زیادہ سے زیادہ یکتا (Unique) بن کر حاصل کر سکتا ہے۔ انسان اپنے اندر خدائی صفات پیدا کر کے بے مثل ذات کے قریب ہو سکتا ہے۔ یہ قرب اسے مکمل ترین انسان بنا دیتا ہے۔ مگر وہ خدا کی ذات میں جذب نہیں ہو جاتا۔ بلکہ وہ خدا کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ حقیقی انسان نہ صرف مادہ کی دنیا کو جذب کرتا ہے بلکہ وہ اس کو مسخر کرتے ہوئے خدا کو بھی اپنی خودی میں جذب کر لیتا ہے۔ زندگی ایک مستعد، جذب کرنے والی حرکت ہے۔ یہ اپنی پیش قدمی میں تمام رکاوٹوں کو جذب کرتے ہوئے ہٹا دیتی ہے۔ تعنیات اور آورشوں کی مسلسل تخلیق اس کا جوہر ہے زندگی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مادہ یعنی فطرت ہے۔تاہم فطرت شر نہیں کیونکہ یہ زندگی کی اندرونی قوتوں کو منکشف کرنے کے قابل بناتی ہے۔ خودی اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹا کر آزادی حاصل کرتی ہے۔ یہ کسی قدر آزاد اور کسی قدر پاگل ہے۔ یہ اس ذات یعنی خدا تک پہنچ کر مکمل آزادی حاصل کرتی ہے جو بہر طور سب سے زیادہ آزاد ہے۔ ایک لفظ میں، زندگی ایک سعی اور کوشش ہے۔‘‘ 74؎ شق دوم کی بحث کے مرکزی نقطہ پر مبنی اقبال کی تحریر کو پروفیسر محمد عثمان نے یوں منتقل کیا ہے: ’’ شخصیت انسان کی ’’ عزیز ترین متاع‘‘ ہے۔ جو زندگی کے قوی اور شدید احساس (جسے وہ تناؤ کی حالت کہتے ہیں) کی بدولت ہاتھ آتی ہے۔ لہٰذا ہمارا سب سے مقدم فرض اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ’’ تناؤ‘‘ کی اس حالت کو ضعف نہ پہنچے اور زندگی کے احساس کی شدت کم نہ ہونے پائے۔ کیونکہ شخصیت کے قرار و دوام کا انحصار اسی شدت احساس اور تناؤ کی حالت پر ہے۔ جو چیز اس تناؤ کی حالت کو قائم رکھنے کے لئے ممد و معاون ہوتی ہے، وہ ہمیں ابدی اور غیر فانی بننے میں مد ددیتی ہے۔ پس شخصیت (Personality) کا اصول ہمارے لئے قدر کا معیار مہیا کرتا ہے اس سے خیر و شر کا مسئلہ طے پا جاتا ہے جو چیز شخصیت کی حفاظت کرتی ہے۔ خیز ہے، جو اس کو ضعف پہنچاتی ہے شر ہے، فن، مذہب اور اخلاق سب کو شخصیت ہی کے نقطہ نظر سے جانچنا پرکھنا چاہئے۔‘‘ 75؎ شق سوم کے تحت عشق کو خودی کے استحکام کا باعث قرار دیتے ہوئے اس کی تخلیقی قدر کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس بحث کا اہم ترین حصہ وہ ہے جہاں اقبال نے اسلامی اخلاقیات کے حوالے سے تکمیل خودی کے تین مراحل بیان کئے ہیں اور نائب حق کو خودی کا منتہا و مقصود بتایا ہے۔ جو اس وقت تو محض ایک نصب العین ہے لیکن انسانیت کا ارتقا کم و بیش منفرد اور بے مثال افراد کی ایک نصب العینی نسل کی پیدائش کی طرف مائل ہے۔ جو اس نائب حق کے موزوں اجداد یا اسلاف ہوں گے۔ 76؎ (د) اسرار خودی کے عمرانی زاویے اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن میں مقیم تھے۔ 6نومبر 1931ء کی شام اقبال لٹریری ایسوسی ایشن نے علامہ اقبال کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے تقریر کے دوران اسرار خودی کی تخلیق پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’ 1905ء میں میں جب انگلستان آیا تھا۔ تو میں محسوس کر چکا تھا کہ مشرقی ادبیات اپنی ظاہری دلفریبیوں اور دلکشیوں کے باوجود اس روح سے خالی ہیں جو انسانوں کے لئے امید، ہمت اور جرات عمل کا پیغام ہوتی ہے اور جسے زندگی کے جوش اور ولولے سے تعبیر کرنا چاہئے۔ یہاں پہنچ کر یورپی ادبیات پر نظر ڈالی تو وہ اگرچہ ہمت افروز نظر آئیں لیکن ان کے مقابلے کے لئے سائنس کھڑی تھی جو ان کو افسردہ بنا رہی تھی اور 1908ء میں انگلستان سے واپس گیا تو میرے نزدیک یورپی ادبیات کی حیثیت بھی تقریباً وہی تھی جو مشرقی ادبیات کی تھی۔ ان حالات سے میرے دل میں کشمکش شروع ہوئی کہ ان ادبیات کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنی چاہئے اور ان میں روح پیدا کرنے کے لئے کوئی نیا سرمایہ حیات فراہم کرنا چاہیے۔ میں اپنے وطن گیا تو یہ کشمکش میرے دل میں جاری تھی اور میں اس میں اس درجہ منہمک تھا کہ دو تین سال تک میرے عزیز دوستوں کو بھی علم نہ تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ 1910ء میں میری اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے خیالات ظاہر کر دینے چاہئیں لیکن اندیشہ تھا کہ ان سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔ بہرحال میں نے 1910ء میں اپنے خیالات کو مدنظر رکھ کر اپنی مثنوی اسرار خودی لکھنی شروع کی۔‘‘ 77؎ اقبالیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ علامہ کی یہ مثنوی 1915ء میں کتابی صورت میں پہلی بار شائع ہوئی۔ کتاب کی تمہید اقبال کے اخلاقی مقاصد اور عمرانی نصب العین کی مظہر ہے۔ ان تمہیدی اشعار سے بھی اقبال کے جذباتی ہیجان اور باطنی کشمکش کا پتہ چلتا ہے۔ اس ضمن میں گذشتہ صفحات میں کئی حوالے آ چکے ہیں۔ ان سے قومی درماندگی، زبوں حالی اور اس کے گوناگوں مسائل میں اقبال کی Involvement کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ اقوام عالم کے عمرانی اور سیاسی انقلابات کی تاریخ سے یہ شہادت ملتی ہے کہ کسی بھی قوم کا کوئی بہی خواہ اور ہمدرد صدق دلی، سچے جذبے اور Commitment کے بغیر اپنے قومی مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اقبال کے ہاں بھی قومی درد ان کی فطرت اور طبیعت کا ایک تقاضا بن گیا تھا۔ اسرار خودی کی تمہید کے اشعار سے ظاہر ہے کہ انہیں بڑی شدت سے یہ احساس ہے کہ ان کی قوم زندگی کے جوش اور ولولہ سے محرومی کی بناء پر افسردگی اور بے عملی کا شکار ہے۔ اس حالت پر وہ جس روحانی کیفیت سے دوچار ہوئے اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات سے بے نیاز اور لا پرواہ ہو کر قوم کو بیداری کی دعوت دیں۔ ان احساسات اور خیالات پر مبنی مضمون کو تمہید کے پہلے چھتیس اشعار میں مختلف شبیہوں اور استعاروں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ ان اشعار میں اقبال نے اپنے پیغام کی ضرورت اور اہمیت واضح کی ہے۔ مندرجہ ذیل چند اشعار سے اقبال کے طرز احساس اور انداز نظر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ نا مید استم زیاران قدیم طور من سوز و کہ مے آید کلیم قلزم یاراں چو شبنم بے خروش شبنم من مثل یم طوفاں بدوش عاشقم فریاد ایمان من است شور حشر از پیش خیزان من است نغمہ ام زاندازہ تار است بیش من نترسم از شکست عود خویش ہیچ کس رازے کہ من گویم، نہ گفت ہمچو فکر من در معنی نہ سفت تمہید کے دوسرے حصے میں اسرار خودی کی تصنیف کا شاعرانہ جواش پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رات میرا دل غم دوران کے آشوب اور اپنی محرومی پر آہ و فغاں کر رہا تھا۔ اس احساس نے بے دم کر دیا اور میں سو گیا۔ عالم خواب میں پیر رومی نے مجھے اپنا جذب دروں کام میں لانے اور اسرار حیات فاش کرنے کے لئے کہا: آتش استی بزم عالم برفروز دیگران را ہم ز سوز خود بسوز نالہ را انداز نو ایجاد کن بزم را از ہائے و ہو آباد کن خیز و جان نو بدہ ہر زندہ را از قم خود زندہ تر کن زندہ را آشنائے لذت گفتار شو اے درائے کارواں بیدار شو برگرفتم پردہ از راز خودی وانمودم سر اعجاز خودی اس باب میں گذشتہ صفحات کی روشنی میں پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کی زندگی کا ایک بڑا حصہ غور و فکر اور سوز و گداز میں گزرا تب تصور خودی کی تخلیق کا مرحلہ آیا۔ بقول اقبال: نہر انسان چشم من شب ہا گریست تا دریدم پردۂ اسرار زیست از درون اکر گاہ ممکنات برکشیدم سر تقویم حیات خامہ ام از ہمت فکر بلند راز ایں نہ پردہ در صحرا فگند خودی کو کائنات کا راز بتانے کے بعد، اس کے انکشاف میں اقبال اپنے فکر بلند کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہیں۔ اقبال نے کائنات کا یہ راز اسرار خودی میں وضاحت اور صراحت سے بیان کیا ہے۔ اس کا مقصود و مطلوب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: قطرہ تا ہم پایہ دریا شود ذرہ از بالیدگی صحرا شود قطرہ اور دریا کے استعاروں کی وضاحت کی ضرورت نہیں تاہم اس بات کا اعادہ غیر ضروری نہ ہو گا کہ قطرہ کو دریا کرنے کی خواہش کا اظہار، اقبال نے 1908ء میں اپنی نظم’’ عبدالقادر کے نام‘‘ میں بھی کیا تھا۔ 78؎ (الف) مگر اب انہوں نے اس خواہش کو حقیقت میں بدلنے کا راز دریافت کر لیا اور یہ راز ان کی مثنوی اسرار خودی کا موضوع ہے۔ یہ موضوع اپنے تخلیقی مقصد اور نتائج کے اعتبار سے سرا سر عمرانی موضوع ہے۔ آر فلچر (R. Fletcher) ایک جگہ عمرانیات کے بارے میں لکھتا ہے: Sociology is the subject peculiar to the characteristics of the modern human situation, the modern predicament of man. And we feel, in terms of our common sense convictions, that it is essentially a humanistic subject not only in that it is of broad human concern and interest, but more fundamentally. because it is the subject neccessarily with our growing awareness that in this new situation we ourselves are responsible for the making of our own destiny. 78 اس اقتباس اور خصوصاً اس اقتباس کی آخری دو سطور کی روشنی میں اسرار خودی کا موضوع واضح انداز میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے ہم آئندہ سطور میں دیکھیں گے کہ اقبال نے انفرادی شعور و معرفت اور انسان کی تقدیر سازی میں اس کے احساس ذمہ داری کو کس دلپذیر اور اخلاقی پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اسرار کا پہلا باب اس بیان پر مشتمل ہے کہ نظام عالم کی اصل خودی سے ہے اور تعینات وجود کا تسلسل حیات، خودی کے استحکام پر انحصار رکھتا ہے اس میں اقبال نے زندگی اور کائنات کے آثار کو خودی مطلق کی تخلیق قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں: پیکر ہستی ز آثار خودی است ہرچہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد درجہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پنداشت است سازد از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را میکشد از قوت بازوئے خویش تا شود آگاہ از نیروئے خویش دراصل اقبال نے کائنات اور فطرت کے قانون ارتقا کو ان اشعار کا موضوع بنایا ہے۔ ان اشعار کا یہ مفہوم دکھائی دیتا ہے کہ فطرت اور زندگی کے جتنے مشاہدات ہمارے تجربے میں آتے ہیں۔ وہ اصلاً سب خودی کے بھید ہیں۔ خودی نے اپنے آپ کو بیدار کر کے ایک دنیا کو جو محض ایک تصور یا خیال تھی ایک حقیقت کی طرح روشن کر دیا۔ خودی ایک بے پایاں اور لامتناہی ذات ہے جس کے اندر سینکڑوں دنیائیں ابھی نمود اور ظہور کی منتظر ہیں۔ بہرحال خودی کی تکوین ملزوم ہے غیر خود کی تولید سے، بالفاظ دیگر خودی کے اندر تخلیقی قدر موجود ہے۔ اس لئے خودی نے جہاں میں اپنے آپ کو اپنا غیر سمجھ کر جدلیات کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ از خود غیروں کا وجود بناتی ہے۔ تاکہ پیکار کی لذت میں اضافہ ہو گویا تصادم اور پیکار خودی کی فطرت میں شامل ہے۔ بقول ہیگل: ’’ تضاد اور حرکت زندگی کی بنیاد ہے۔ اشیاء اس لئے تغیر پذیر ہوتی ہیں اور حرکت کرتی ہیں کہ خود ان کے بطون میں تضاد کا عنصر موجود ہے۔۔ ہیگل کہتا ہے کہ تبدیلی متضاد قوتوں کی کشمکش کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘‘79؎ یہ تبدیلی ارتقا کی ایک لازمی شرط ہے کیونکہ قدیم کی تخریب پر ہی جدید کی تعمیر ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا اشعار سے متصل آئندہ چار شعروں میں اقبال نے قوموں اور تہذیبوں کی تاریخ فنا قلمبند کر دی ہے۔ قانون ارتقا انیسویں صدی کا مقبول ترین نظریہ اور اصول ہے۔ اس کا مختلف حوالوں سے گزشتہ صفحات میں ذکر ہو چکا ہے۔ اقبال نے 1904ء کے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں مصاف ہستی کو ایک ’’ اٹل قانون‘‘ 80؎ قرار دیا ہے۔ا س بحث کے سلسلے میں مختلف واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’ ان واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مصاف ہستی انسان کی ترقی کے لئے ضروری ہے، اور یہ نہال صرف اس صورت میں بار آور ہو سکتا ہے کہ ہزاروں چھوٹے چھوٹے پودے اس کے نمو کی خاطر باد سموم کی نذر ہو جائیں، جس طرح نوع انسان کی مجموعی ترقی کے لئے اقوام کا نیست ہونا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ کسی قوم کے ارتقا کے لئے کئی افراد نذر اجل ہو جائیں یا قوم کے نشوونما کی خاطر ان کے ذاتی حقوق کی کوئی پرواہ نہ کی جائے۔ ‘‘ 81؎ اس اقتباس کے حوالے سے مندرجہ یل اشعار(جن کی طرف متذکرہ پیراگراف کے شروع میں اشارہ کیا گیا ہے) کی معنویت زیادہ واضح ہو جاتی ہے: خود فریبی ہائے او عین حیات ہمچو گل از خوں وضو عین حیات بہریک گل، خون صد گلشن کند از پئے یک نغمہ صد شیون کند یک فلک را صد ہلال آوردہ است بہر حرفے، صد مقال آوردہ است عذر این اسراف و این سنگیں دلی خلق و تکمیل جمال معنوی بظاہر فطرت کا عمل فنا، قساوت اور بیدردی نظر آتا ہے۔ مگر’’ انتخاب فطری‘‘ کا اصول اس کا سب سے بڑا جواز ہے۔ بقول محمد عثمان : ’’ تخریب و تاراج کا جو عنصر ہمیں فطرت میں ہر جگہ نظر آتا ہے وہ بظاہر سنگدلی اور اسراف معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ ’’ جمال معنوی‘‘ کی تخیل کے لئے ایک حکیمانہ تدبیر ہے۔‘‘ 82؎ اس تدبیر کو ڈارون کی اصطلاح میں اقبال نے ’’ بقائے افراد قویہ‘‘ کہا ہے۔ افراد میں وہ قوت کہاں سے آتی ہے جو بقا کی ضامن بنتی ہے۔ اقبال نے اسے ’’ زور خودی‘‘ کا نام دیا ہے۔ چون حیات عالم از زور خودی است پس بقدر استواری زندگی است اقبال کا خودی کا تصور ڈارون کے بقائے اصلح کے تصور سے کئی سطحوں پر اعلیٰ اور برتر ہے۔ بقا، نظریہ خودی کے عامل کے مقدر کی پہلی شرط ہے مگر بقا کے علاوہ اسے جو مرتبہ اور منصب، عز و وقار، عظمت اور سربلندی، وسعت اور قدرت وغیرہ جیسی صفات حاصل ہوتی ہیں۔ اس کی جھلک مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھئے البتہ سائنسی صداقت اور شعری صداقت میں تاثر کے اعتبار سے جو فرق ہوتا ہے اسے ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے ان اشعار میں سائنسی صداقت اور شعری صداقت کے امتزاج سے جو لطف پیدا ہوا ہے، ملاحظہ کیجئے: قطرہ چوں حرف خودی ازبر کند ہستی بے مایہ را گوہر کند سبزہ چوں تاب دمید از خویش یافت ہمت او سینہ گلشن شگافت چوں زمین برہستی خود محکم است ماہ پابند طواف پیہم است ہستی مہر از زمین محکم تر است پس زمین مسحور چشم خاور است چون خودی آرد بہم نیروئے زیست می کشاید قلزمے از جوئے زیست اقبال نے خودی کے محض تصور پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ خودی کو ایک دستور کی طرح مکمل کیا اور اس کے تمام ضروری نکات اور پہلو وضاحت سے بیان کئے ہیں مثلاً دوسرے باب کا عنوان ہے ’’ دربیان اینکہ حیات خودی از تخلیق و تولید مقاصد ست‘‘ گویا اگر خودی مقاصد کی تخلیق و تولید سے بے نیاز رہتی ہے تو اس کی اپنی ہستی برقرار نہیں رہ سکتی۔ اقبال نے مقاصد کو قومی تسلسل کے نصب العین میں بنیادی اہمیت دی ہے۔ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ اگر غور سے دیکھا جائے تو اقوام کے لئے سب سے زیادہ مہتمم بالشان عقدہ فقط یہ عقدہ ہے (خواہ اس کی نوعیت تمدنی قرار دی جائے خواہ اقتصادی، خواہ سیاسی) کہ قومی ہستی کا سلسلہ بلا انقطاع کس طرح قائم رکھا جائے یا مٹنے یا معدوم ہو جانے کے خیال سے قومیں بھی ویسی ہی خائف ہیں جیسے افراد۔ کسی قوم کی مختلف عقلی یا غیر عقلی قابلیتوں اور استعدادوں کے محاسن کا اندازہ ہمیشہ اسی غایت الغایات سے کرنا چاہئے ہم کو لازم ہے کہ اپنے محاسن کو جانچیں اور اگر ضرورت آ پڑے تو نئے محاسن پیدا کریں، اس لئے کہ بقول نیٹشا کے کسی قوم کی بقا کا دار و مدار محاسن کی مسلسل اور غیر مختتم تولید پر ہوتا ہے۔ کائنات یقینا جناب باری کی حکمت بالغہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر اس کا مفہوم سرتا سر انسانی ہے ۔‘‘ 83؎ اقبال نے نکلسن کے نام اپنے خط میں بھی اس بحث کا ایک پہلو بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ زندگی جذب و تسخیر کی بڑھتی ہوئی رو ہے یہ اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں کو جذب و تسخیر سے دور کر دیتی ہے۔ اس کی حقیقت کا راز اس میں ہے کہ یہ آرزوؤں اور نصب العینوں کی مسلسل تخلیق کرتی رہتی ہے اور اپنی بقا اور توسیع کے لئے اس نے بعض آلات مثلاً حواس اور دماغ وغیرہ ایجاد کئے یا یوں کہئے کہ اپنے اندر سے ابھارے ہیں۔ یہ آلات و وسائل اس کو رکاوٹوں پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔‘‘ 84؎ بہرحال زندگی کا ارتقا مقاصد کا مرہون منت ہے۔ زندگی کی اصل بھی آرزو سے متعین ہوتی ہے فطرت کی ہر شے آرزو کی امانت دار ہے۔ آرزو ہی اس جہاں کی زینت، زیبائش اور حسن و رنگینی کا باعث ہے۔ دلوں میں آرزو کی بدولت ہی جذبہ و احساس اور زندگی کی تڑپ اور ولولہ پایا جاتا ہے۔ اقبال کے اپنے الفاظ میں: زندگانی را بقا از مدعا ست کاروانش را درا از مدعا ست زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است آرزو جان جہان رنگ و بوست فطرت ہر شے امین آرزوست از تمنا رقص دل درسینہ ہا سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا ان اشعار سے متصل اشعار میں بھی زندگی میں تمنا اور آرزو کی روح پرور کیفیت بیان کرتے ہوئے درج ذیل شعر میں کہا ہے: زندہ را نفی تمنا مردہ کرد شعلہ را نقصان سوز، افسردہ کرد اس کے بعد بعض اشعار میں حقیقت افروز مثالیں پیش کرتے ہوئے اقوام کے آئین و رسوم، نئے علوم و فنون وغیرہ کو آرزو کی تخلیق قرار دیا ہے۔ آخر میں خطاب ملاحظہ کیجئے: اے ز راز زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز مقصدے مثل سحر تابندہ ماسویٰ را آتش سوزندۂ مقصدے از آسماں بالا ترے دلربائے دلستانے دلبرے ماز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم اگر خودی کی حیات تخلیق مقاصد سے وابستہ ہے تو خودی کا استحکام اور استواری ضروری ہے تاکہ مقاصد کی تولید جاری رہے اور زندگی کے ارتقا کا تسلسل منقطع نہ ہونے پائے۔ اس منطقی ضرورت کے پیش نظر اقبال نے اگلا موضوع’’ دربیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد‘‘ قائم کیا ہے۔ عشق اقبال کے تصور خودی کا لاینفک پہلو ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں: نقطہ نورے کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر فطرت او آتش اندوزد ز عشق عالم افروزی بیاموزد ز عشق در جہاں ہم صلح و ہم پیکار عشق آب حیواں تیغ جوہر دار عشق اقبال خودی کے باب میں عشق و محبت کو خودی کے استحکام کا ذریعہ بتانے کے بعد کہتے ہیں کہ اس کی تکمیل کسی انسان کامل سے تعلق کی بنا پر ہوتی ہے اس لئے مشورہ دیتے ہیں۔ کیمیا پیدا کن از مشت گلے بوسہ زن بر آستان کاملے اس کی مثال مولانا روم کی ہے جن کی شمس تبریز کی محبت نے ہیت بدل ڈالی۔ اس کے ساتھ ہی رسول اکرمؐ کی ذات کی طرف متوجہ ہوئے کہتے ہیں: دل ز عشق او توانا می شود خاک ہمدوش ثریا می شود در دل مسلم مقام مصطفی است آبروئے ما زنام مصطفی است اس کے بعد تقریباً چالیس اشعار میں سیرت رسول اکرمؐ کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی: ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدس مکمل طور پر ہمارے سامنے موجود و محفوظ ہے اور آپ کے کردار و گفتار، افعال و اطوار تمام و کمال ساری دنیا کے لئے آئینہ ہیں۔ اسی لئے فرمان الٰہی کے مطابق سیرت مقدسہ اور اسوہ حسنہ واحد مثالی نمونہ ہے۔ جسے پیش نظر رکھ کر اور جس کی تقلید و اتباع کر کے دنیا فلاح و نجات حاصل کر سکتی ہے۔‘‘ 85؎ اس لئے رسول پاک ؐ کا اسوہ حسنہ مسلمانوں کے لئے ایک بہترین عمرانی اور معاشرتی دستور ہے۔ اقبال نے ’’ اسلام کے اخلاقی اور سماجی نصب العین‘‘ میں ان امور کا جائزہ لیا تھا جو شخصیت کو کمزور و ناتواں کرتے ہیں۔ اسرار خودی میں خودی کے استحکام و ثبات کے ایجابی پہلو کے ساتھ سلبی پہلو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ناداری اور احتیاج کے باوجود خودی کو سربلند رکھنا آسان کام نہیں یہ شیوہ مردانگی خودی کی تربیت کا نتیجہ ہے اور اس کی حفاظت اعلیٰ قدر ہے۔ چونکہ سوال سے خودی ضعیف ہو جاتی ہے اس لئے ہر حال میں سوال سے احتراز واجب ہے۔ افلاس کی حالت میں گدائی ہی سوال کے ذیل میں نہیں آتی بلکہ اقبال نکلسن کو لکھتے ہیں: ’’ ذاتی محنت کے بغیر جو کچھ حاصل ہو وہ سوال کی ذیل میں آتا ہے ایک امیر آدمی کا بیٹا جو باپ کی کمائی ہوئی دولت کو ورثہ میں پاتا ہے۔ ایک سوالی (مانگنے والا) ہے۔ یہی حیثیت ہر اس شخص کی ہے جو دوسرے کے خیالات سوچتا (اپناتا) ہے پس خودی کے استحکام کے لئے ہمیں جذبہ محبت۔۔ جذبہ و عمل کی قوت۔۔ پیدا کرنا چاہئے اور سوال یعنی بے عملی کی ہر نوع سے بچنا چاہئے۔‘‘ 86؎ چھٹے باب میں بیان کیا گیا ہے کہ جب خودی عشق و محبت سے محکم ہو جاتی ہے تو وہ نظام عالم کی ظاہرہ اور مخفیہ قوتوں کی تسخیر کر لیتی ہے۔ اگلے باب میں ایک حکایت کی صورت یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ نفی خودی کا فلسفہ مغلوب قوموں کی اختراع ہے اور وہ اس پوشیدہ طریقے سے غالب قوموں کے اخلاق کو کمزور بناتی ہیں۔ آئندہ باب میں اس امر کا جائزہ ہے کہ تصوف اور اقوام اسلامیہ کے ادبیات پر افلاطون کے افکار کا گہرا اثر ہوا۔ ان سے مسلک گوسفندی کی ترویج ہوئی۔ لہٰذا اس کے تخیلات اور افکار سے احتراز واجب ہے۔ ’’ در حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ‘‘ کا جائزہ زیر نظر مقالہ کے باب بعنوان ’’ اقبال اور ادب کی عمرانیات‘‘ کے ذیل میں لیا گیا ہے۔ خودی کی حقیقت، نظام عالم میں خودی کی حیثیت، خودی کی استواری میں تخلیق مقاصد کا حصہ، خودی کے استحکام میں عشق و محبت کا کردار، خودی کے ضعف کا ایک بڑا سبب سوال، محکم خودی مسخر کائنات کی حیثیت میں، تصوف اور ادبیات اسلامیہ کے منفی رحجانات پر مختلف ابواب میں وضاحت سے مسائل قلم بند کرنے کے بعد اقبال نے خودی کی تربیت کا دستور مرتب کیاہے۔ ظاہر ہے کہ دستور کسی مقصد یا مقاصد کو مطمع نظر بنا کر ترتیب دیا جاتا ہے۔ اقبال کے دستور کا منتہا و مقصود کیا ہے؟ اس کا جواب اقبال کے مرتبہ تربیت خودی کے تین مراحل کے مطالعہ کے بعد ہی دیا جا سکتا ہے۔ ان میں پہلا اطاعت، دوسرا ضبط نفس، تیسرا نیابت الٰہی پر مشتمل ہے۔ خودی کی تربیت کا مرحلہ اول، اقبال کے عمرانی شعور کا آئینہ دار ہے۔ آئین کی پابندی فطرت کا ازلی و ابدی اصول ہے۔ اس لئے افراد و اقوام بھی آئین کی پابندی کی بدولت کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ اقبال نے فرائض کی بجا آوری کو اطاعت کہا ہے فلسفہ اور عمرانیات کے مشہور مصنف میکنزی (Makenzie) نے جن کی کتب کا اقبال کے ہاں حوالہ ملتا ہے ایک جگہ لکھا ہے: ’’ کسی قوم کی حتمی عظمت کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہوتا ہے کہ اس قوم کا فرض کے بارے میں کیا طرز احساس ہے۔‘‘ 87 اقبال نے بھی تربیت خودی کے مرحلہ اول میں فرض کی انجام دہی کو بہت اہمیت دی ہے اور اس کو محسوس بنانے کے لئے ایک مثال دی ہے۔ اقبال نے اونٹ کی مثال سے خدمت، محنت، صبر و استقلال کو فرض کی انجام دہی میں قابل تقلید خصوصیات قرار دیا ہے۔ اس لئے اقبال انسان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: تو ہم از بار فرائض سرمتاب بر خوری از عندہ، حسن الماب در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار اس کے بعد مظاہر فطرت میں پابندی آئین کی کارفرمائی سے دعوے کا ثبوت مہیا کیا ہے۔ کہتے ہیں: باد را زندان گل خوشبو کند قید بو را نافہ آہو کند می زند، اختر سوئے منزل قدم پیش آئینے سر تسلیم خم لالہ پیہم سوختن قانون او بر جہد اندر رگ او خون او قطرہ ہا دریاست از آئین وصل ذرہ ہا صحراست از آئین وصل آخر میں مسلمانوں کو اپنی خودی کی تربیت کا راز بتاتے ہوئے کہتے ہیں: باطن ہر شے ز آئینے قوی تو چرا غافل ز ایں سامان روی باز اے آزاد دستور قدیم زینت پاکن ہماں زنجیر سیم شکوہ سنج سختی آئیں مشو از حدود مصطفیٰؐ بیروں مرو قرآن اور سنت کی اطاعت کے ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’ رسولؐ کی اطاعت کے مطالبہ کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی اطاعت جو اصل مقصود ہے اس کا راستہ ہی یہ ہے کہ اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ براہ راست معاملہ نہیں کرتا بلکہ اپنے رسول کے واسطہ سے کرتا ہے۔ رسول ہی لوگوں کو اس کی ہدایات اور اس کے احکام سے آگاہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے جو اللہ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رسول کی اطاعت کرے۔ رسول کی یہ اطاعت ہی در حقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔۔ ۔۔ قرآن مجید میں یہ حقیقت بھی واضح کر دی گئی ہے کہ یہ اطاعت محض ظاہری اور رسمی قسم کی مطلوب نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ آدمی پورے طور پر اپنے آپ کو خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سنت کے تابع کر دے، آپس میں جتنے قضیے اور مسئلے بھی پیدا ہوں، ان سب کے طے کرنے کے لئے کتاب و سنت ہی کی طرف رجوع کیا جائے۔ ‘‘ 88؎ تربیت خودی کا دوسرا مرحلہ ضبط نفس ہے۔ ضبط نفس اصل کے اعتبار سے ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ راہبوں، صوفیوں اور یوگیوں نے نفس کو دبانے اور مارنے کو متصوفانہ اور راہبانہ اخلاق میں ہمیشہ بڑی کامیابی خیال کیا ہے۔ مگر اسلام میں جبلتوں اور جذبوں پر غیر فطری قدغن لگانے کی بجائے ان کے ترفع کا اہتمام کیا گیا ہے۔ عبادات انسان کے اندر سرکش حیوانی قوتوں کو مطیع کرنے کا ایک نظام ہے۔ نفسانی خواہشات پر قابو پا لینے کا مطلب ہے کہ انسان کو تسخیر کی کلید دستیاب ہو گئی۔ اقبال نے ضبط نفس کے مسئلہ پر غور کرتے ہوئے نفسانی خواہشات کے دو سرچشموں کا سراغ لگایا ہے جس سے تمام عمرانی اور معاشرتی اعمال، جذبات اور احتیاجات وغیرہ شاخ در شاخ پھوٹتی ہیں ان دو سرچشموں کو اقبال نے محبت اور خوف کا نام دیا ہے۔ ان کے مطابق انہی دو عناصر سے انسان کی فطرت کی بنیاد اٹھی ہے۔ وہ کہتے ہیں: طرح تعمیر تو، از گل ریختند با محبت خوف را آمیختند اس خوف اور محبت کے متعلقات کو نہایت اجمال کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: خوف دنیا خوف عقبیٰ خوف جاں خوف آلام زمین و آسماں حب مال و دولت و حب وطن حب خویش و اقربا و حب زن اقبال نے 1909ء کے مضمون ’’ اسلام بطور ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین، میں اس کے نظام اخلاق میں خوف کی حقیقت دریافت کر لی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:‘‘ according to islam it is fear to which man is a victim owing to his ignorance of the nature of his environment and want of absolute faith in God. The highest stage of mans ethical progress is reached when he becomes absolutely free from fear and grief. 89 چنانچہ خودی کے تربیتی نظام میں نہ صرف خوف کے خطرات کا احساس دلانا بلکہ مختلف قسم کے نفسیاتی خوف سے نجات کا اسم اعظم بتانا ضروری تھا۔ اقبال کے نزدیک توحیدایک ایسی ایمانی قوت ہے جس کے مقابل وسوسہ، خوف اور ہراس کی ہر صورت باطل ہو جاتی ہے۔ تا عصائے لا الہ داری بدست ہر طلسم خوف را خواہی شکست ہر کہ حق باشد چو جاں اندر تنش خم نگردد پیش باطل گردنش خوف را در سینہ او راہ نیست خاطرش مرعوب غیر اللہ نیست خوف شخصیت میں انفعالیت اور محجوبیت کا باعث بنتا ہے۔ اسی سے خودی ضعیف ہوتی ہے۔ اقبال کے کلام میں خوف و خطر سے بے پروائی، بیباکی اور جرات کی تحسین بڑے پر جوش انداز میں پائی جاتی ہے۔ پر خطر زندگی، آزمائش کے مواقع اور امتحان کے مختلف مراحل میں وہی انسان مردانہ وار اور بیباکانہ پیش قدمی کر سکتا ہے۔ جس نے خوف پر غلبہ اور تسلط حاصل کر لیا ہو۔ گویا جس کی خودی نے تربیت کا ’’ مرحلہ دوم‘‘ کامیابی سے طے کر لیا ہو۔ نفس حیوانی یا نفس امارہ ناقابل مزاحمت ہوتا ہے۔ اس کو ضبط کے تحت لانا اور اس پر قابو پانا انتہائی مشکل اور دشوار کام ہے۔ اس نفس کی تقویت اور تحریک محبت سے ہوتی ہے نفس کی یہ کیفیت پھیلاؤ کا رحجان رکھتی ہے خصوصاً اقبال نے حیوانی نفس کی جن صورتوں کی درج ذیل اشعار میں نشاندہی کی ہے اس کے نتائج اور اثرات ان عمرانی خرابیوں اور برائیوں کا سبب بنتے ہیں۔ جن سے شخصی انتشار پیدا ہوتا ہے اور سماجی توازن بگڑتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں: حب مال و دولت و حب وطن حب خویش و اقربا و حب زن امتزاج ما و طین تن پرور است کشتہ فحشا ہلاک منکر است ان اقسام حب سے معاشرہ میں خود غرضی، ہوس، لالچ، طمع، بدعنوانی، چور بازاری، نا انصافی، کمزوروں اور ناداروں کے حقوق غصب کرنا، جیسی سلبی قدریں اور منفی رحجانات فروغ پاتے ہیں۔ توحید پرستی اور ارکان اسلام پر عمل کرنے سے صرف معاشرتی برائیوں کا سدباب ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ ایثار، قربانی، انصاف پروری، حقوق کی پاسداری، غریب پروری، مساوات جیسی ایجادبی قدریں معاشرتی فلاح و تمدنی بہبود میں نمایاں حصہ لیتی ہیں۔ گویا ایک صحت مند معاشرہ تربیت یافتہ خودی کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے۔ انسان کو بیوی بچوں کی محبت عام طور پر خود غرض اور ہوش پرست بنا دیتی ہے۔ گویا یہ وہ محبت ہے جو انسان کو عموماً ایثار اور قربانی کے جذبے سے محروم کر دیتی ہے۔ یہ توحید پر ایمان لانے کا اعجاز ہے کہ: ہر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد می کند از ماسوے قطع نظر می نہند ساطور بر حلق پسر آخری مصرع میں اقبال نے حضرت ابراہیم کی قربانی کے تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور خودی کی تربیت میں قربانی کا کردار متعین کیا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعی اپنی کتاب حج کے ’’ باب قربانی‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ (حضرت) اسماعیل ؑ اپنے باپ ؑ کے لئے صرف ایک فرزند ہی نہ تھے۔ وہ ایک ساری عمر کا ثمر اور جدوجہد سے بھرپور زندگی کا انعام تھے وہ ایک بوڑھے باپ کے اکلوتے فرزند تھے جو ان تمام مصائب سے بھرپور برسوں کے بعد ان کو (ہر چیز سے) عزیز ترین تھے۔ (حضرت) ابراہیم ؑ کے لئے اسماعیل ؑ ان کے فرزند تھے۔ لیکن تمہارا اسماعیل تم خود ہو سکتے ہو، تمہارا خانوادہ، تمہاری ملازمت، تمہاری دولت، تمہاری شہرت کچھ بھی ہو سکتا ہے میں اس بارے میں کیا جانوں؟ حضرت ابراہیم کے لئے وہ فرزند تھے ایک عظیم باپ کے عظیم فرزند! ‘‘ (ترجمہ) 90؎ مسلمان کے لئے جو ارکان فرض کئے گئے ہیں وہ سب عمرانی حکمت سے مالا مال ہیں اور انسانی سیرت کو پختگی اور استحکام بخشتے ہیں۔ اقبال نے خودی کے نظام حیات کی ترتیب و تشکیل میں اسلامی تصورات کو راہ نما بنایا۔ وہ تاریخ فلسفہ اور مذاہب عالم کے مطالعہ کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس لئے اس کے اصول، ارکان، عبادات اور تصورات بھی عین فطری ہیں۔ مثلاً نماز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے: لا الہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشا وبغی و منکر است نماز کے باب میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’ نماز کے شرائط، نماز کے اوقات، نماز کی صورت و ہیئت، نماز کی دعائیں غرض اس کی ایک ایک چیز انسان کو بیدار کرنے والی اور جھنجھوڑنے والی ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز کا اس کے تمام شرائط و آداب کے ساتھ اہتمام کرے اور اس کے دل پر غفلت کا میل کچیل باقی رہ سکے۔‘‘91؎ اقبال نے خطبات میں نماز کی قدر و قیمت کو نہایت اجمال کے ساتھ یوں بیان کیا ہے: ’’ اسلام میں صلوۃ با جماعت حصول معرفت ہی کا سرچشمہ نہیں، اس کی قدر و قیمت کچھ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر ہے۔ صلوٰۃ باجماعت سے اس تمنا کا اظہار مقصود ہے کہ ہم ان سب امتیازات کو مٹاتے ہوئے جو انسان اور انسان کے درمیان قائم ہیں۔ اپنی اس وحدت کی ترجمانی جو گویا ہماری خلقت میں داخل ہے، اس طرح کریں کہ ہماری عملی زندگی میں اس کا اظہار سچ مچ ایک حقیقت کے طور پر ہونے لگے۔‘‘ 92؎ تسخیر ذات، خودی کا ایک بنیادی مقصد ہے اس کی بدولت انسان کے اندر وہ قوت پیدا ہوتی ہے جو اسے تسخیر کائنات کا اہل بناتی ہے۔ اس عمل میں روزہ سب سے اہم معاون عنصر ہے۔ کیونکہ تسخیر کے عمل میں جس صبر و تحمل اور ضبط و حوصلہ کی ضرورت ہے روزہ ان کی تربیت کرتا ہے۔ انسان کے اندر بھوک اور پیاس کی برداشت کا مادہ پیدا کرنا اخلاقی تربیت کے ضابطے کا بنیادی تقاضا ہے۔ بقول اقبال: روزہ بر جوع و عطش شبخون زند خیبر تن پروری را بشکند اسرار خودی میں اقبال نے روزہ کو انفرادی نظام تربیت کے پہلو سے دیکھا ہے کیوں کہ اس مثنوی میں فرد موضوع ہے اور اس کی شخصیت کے استحکام کے لئے ایک دستور فراہم کرنا مقصود تھا۔ اپنے ایک مضمون میں اقبال نے بڑی وضاحت کے ساتھ روزے کی بابت اظہار خیال کیا ہے: انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور نے 1932ء میں اقبال کا یہ مضمون بعنوان ’’ خطبہ عید الفطر ‘‘ پمفلٹ کی صورت میں چھپوا کر مفت تقسیم کی اتھا اس خطبہ میں علامہ نے انفرادی اور اجتماعی حیات کے حوالے سے روزہ کی اہمیت کا جائزہ لیا ہے۔ وہ ارکان اسلام میں روزہ کی عمرانی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اسلام کا ہر رکن انسانی زندگی کے صحیح نشوونما کے لئے اپنے اندر ہزار ہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے مجھے اس وقت صرف اسی ایک رکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنا ہے، جسے صوم کہتے ہیں۔ روزے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے گو ان کی تعداد وہ نہ ہو جو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لئے قرار دئیے گئے کہ انسان پرہیز گاری کی راہ اختیار کرے۔ خدا نے فرمایا:ـ گویا روزہ انسان کو پرہیز گاری کی راہ پر چلاتا ہے اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں یہ خیال کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی صفائی کا یہ طریق، یہ ضبط نفس یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔‘‘ 93؎ حج دین اسلام کا ایک اور اہم رکن ہے اور ہر مسلمان کے لئے عبادت کا ایک فریضہ ہے۔ اجتماعی نقطہ نظر سے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس سے امت مسلمہ کی وحدت اور خصوصاً کعبہ یعنی ملی مرکز محسوس کے گرد اجتماع کا شاندار مظاہرہ ہوتا ہے لیکن اقبال نے حج کی جو معنویت اور رمزیت دریافت کی ہے وہ بیسویں صدی کے وطن پرستی کے نظریے اور عصر جدید کے مغائرت (Alienation) اور جلا وطنی کے وجودی فلسفوں کی پیدا کردہ کربناک حالت میں روحانی سہارا بن سکتی ہے۔ا قبال کہتے ہیں۔ مومناں را فطرت افروز، است حج ہجرت آموز وطن سوز است حج طاعتے سرمایہ جمیسے ربط اوراق کتاب ملتے حب دولت میں جیسا بگاڑ اور فساد کا عنصر ہے اور اس سے خرابیوں کی جو نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں اس سے جس طرح روحانی، اخلاقی اور عمرانی توازن بگڑتا ہے۔ اس کی مثالیں اور داستانیں صدیوں سے دہرائی جا رہی ہیں۔ حب دولت کی پیدا کردہ بے عتدالی کا سد باب کرنے کے لئے مختلف سیاسی اور معاشی نظریے پیش کئے جاتے ہیں۔ مگر دولت کی حیلہ گری اور مکر کے آگے کوئی بس نہیں چلتا۔ اقبال نے حب دولت کے لئے زکوٰۃ میں جوفنا کی قوت ہے۔ اسے بیان کیاہے: حب دولت را فنا سازد زکوٰۃ ہم مساوات آشنا سازد زکوٰۃ دل زحتی تنفقوا محکم کند زر فزاید، الفت زر کم کند ایم اے حنیفی نے زکوٰۃ کے رکن کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ اسلام میں زکوٰۃ کے ادارے نے نہ صرف دولت کے مسائل کا حل فراہم کیا ہے، بلکہ ارفع جذبات اور تعمیر کردار کی جانب رہنمائی کی ہے۔ اور فقط تعمیر کردار پر ہی بنی نوع انسان کی پائیدار تہذیب کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا زکوٰۃ نہ صرف مساوات پیدا کرنے والا عامل ہے۔ بلکہ انسان کے اعلیٰ جذبات یعنی انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی تعمیر کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسانی رگوں میں خون کی گردش کی طرح زکوٰۃ، انسانی معاشرے میں دولت کی گردش کا سبب بنتی ہے۔‘‘ 94؎ ضبط نفس کی یہ شرائط یعنی توحید، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جن کی اقبال نے کردار اور سیرت کی تعمیر کے سلسلے میں خصوصیات بیان کی ہیں۔ وہ خودی کی تربیت ایسی پختہ اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرتی ہیں کہ ان خطوط پر تربیت یافتہ خودی تمام نفسانی اور حیوانی خواہشات پر غالب آ جاتی ہے اور نیابت الٰہی کے منصب کی اہل قرار پاتی ہے۔ تربیت خودی کے پہلے دو مراحل کو اپنا وظیفہ حیات بنانے کے بعد انسان نائب حق بن جاتا ہے۔ اقبال نے نکلسن کے نام اپنے وضاحتی بیان میں لکھا ہے: ’’ نیابت الٰہی زمین پر انسانی تکمیل کا آخری مرحلہ ہے‘‘ 95؎ نائب حق کی ہستی،ا س کا علم و آگاہی اور عناصر پر تصرف اس کے قائم بامر اللہ ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ انقلاب قوت اور تخلیقی جوش سے معمور شخصیت ہے وہ مسیحائی کی صفات سے متصف اور لذت تجدید سے آشنا ایسی انقلاب پرور شخصیت ہے جو زندگی کی نئی تفسیر کرتی ہے مگر اقبال کہتے ہیں: For the present he is a mere ideal but the evolution of humanity is tending towards the production of an ideal race or more or less unique individuals who will become his fitting parents. 96 اس وقت تمام دنیا میں نوع انسان جس ابتلا اور مصیبت میں گرفتار ہے اس کے لئے اسے ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔ اقبال کے نزدیک نائب حق ہی وہ ذات ہے مگر ابھی پردہ راز میں ہے: ذات او توجیہہ ذات عالم است از جلال او نجات عالم است ہستی مکنون او راز حیات نغمہ شنیدہ ساز حیات انسانیت کو مستقبل کے اس انسان کامل کا بے چینی سے انتظار ہے جو جنگ و جدل میں مصروف اقوام کو اخوت اور محبت کے پیغام کی بشارت دے۔ اس خلیفہ ارض کے انتظار کی کیفیت اقبال کے شعروں میں انسانیت کا نغمہ بن کر یوں ابھرتی ہے: اے سوار اشھب دوراں بیا اے فروغ دیدۂ امکاں بیا رونق ہنگامہ ایجاد شو در سواد دیدہ ہا آباد شو شورش اقوام را خاموش کن نغمہ خود را بہشت گوش کن خیز و قانون اخوت ساز دہ جام صہبائے محبت باز دہ باز در عالم بیار ایام صلح جنگجویاں را بدہ پیغام صلح ریخت از جور خزاں برگ شجر چوں بہاراں بر ریاض ماگذر از وجود تو سر افرازیم ما پس بہ سوز ایں، جہاں سوزیم ما اتفاق سے اقبال نے مرد کامل کے تصور کی ایک موقع پر صراحت کی ہے۔ اگر اقبال کے اس تصور میں کسی قدر ابہام یا اشکال باقی رہ گیا تھا تو اس وضاحت سے دور ہو جاتا ہے۔ جب نکلسن نے 1920ء میں اسرار خودی کا انگلستان میں انگریزی ترجمہ شائع کیا تو اس پر کئی مستشرقین کے تبصرے بھی نکلے۔ ڈکسن نے رسالہ ’’ دی اینتھم‘‘ میں اسرار خودی مترجمہ نکلسن پر تنقید کرتے ہوئے نٹشے اور اقبال کے تصور مرد مرد کامل میں مشابہت کا تذکرہ کیا۔ اقبال نکلسن کے نام ایک خط میں ڈکسن کے بعض تنقیدی مباحث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ مسٹر ڈکنسن کے نزدیک میں نے اپنی نظموں میں‘‘ 97؎ جسمانی قوت کو منتہائے مال قرار دیا ہے (انہوں نے مجھے ایک مکتوب لکھا ہے۔ جس میں یہی خیال ظاہر کیا ہے) انہیں اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں روحانی قوت کا قائل ہوں لیکن جسمانی قوت پر یقین نہیں رکھتا۔ جب ایک قوم کو حق و صداقت کی حمایت میں دعوت پیکار دی جائے تو میرے عقیدے کے (کی) رو سے اس دعوت پر لبیک کہنا اس کا فرض ہے لیکن میں ان تمام جنگوں کو مردود سمجھتا ہوں۔ جن کا مقصد محض کشور کشائی اور ملک گیری ہو۔ مسٹر ڈکنسن نے صحیح فرمایا ہے کہ جنگ خواہ حق و صداقت کی حمایت میں ہو۔ خواہ ملک گیری اور فتح مندی کی خاطر، تباہی اور بربادی اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس لئے اس کے استیصال کی سعی کرنا چاہئے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ معاہدے، لیگیں، پنچائتیں اور کانفرنسیں استیصال حرب نہیں کر سکتیں۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرتی مسائل کی پیچیدگیاں سلجھائے اور بین الملی اخلاق کی بنیاد مستحکم و استوار کر دے۔ پروفیسر میکنزی کی کتاب ’’ انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی‘‘ کے یہ دو آخری پیراگراف کس قدر صحیح ہیں۔ ’’ کامل انسانوں کے بغیر سوسائٹی معراج کامل پر نہیں پہنچ سکتی اور اس غرض کے لئے محض عرفان او رحقیقت آگاہی کافی نہیں۔ بلکہ ہیجان اور تحریک کی قوت بھی ضروری ہے۔ جسے یوں کہنا چاہئے کہ یہ معما حل کرنے کے لئے نور و حرارت دونوں کے محتاج ہیں۔ غالباً عہدہ حاضرہ کے معاشرتی مسائل کا فلسفیانہ فہم و ادراک بھی وقت کی اہم ترین ضرورت نہیں۔ ہمیں معلم بھی چاہئے اور پیغمبر بھی۔ ہمیں آج رسکن یا کار لائل یا ٹالسٹائی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ضمیر کو زیادہ متشدد اور سخت گیر بنانے اور فرائض کے دائرے کو زیادہ وسیع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ غالباً ہمیں ایک مسیح کی ضرورت ہے۔۔۔ یہ قول صحیح ہے کہ عہد حاضرہ کے پیغمبر کو محض ’’ بیابان کی صدا‘‘ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ عہد حاضرہ کے ’’ بیاباں‘‘ آباد شہروں کے گلی کوچے ہیں۔ جہاں ترقی کی مسلسل و پیہم جدوجہد کا بازار گرم ہے۔ اس عہد کے پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی ہنگامہ زار میں وعظ و تبلیغ کرے۔ غالباً ہمیں پیغمبر سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعری کی ضرورت ہے یا ایک ایسے شخص کا وجود ہمارے لئے مفید ثابت ہو گا جو شاعری اور پیغمبر کی دو گونہ صفات سے متصف ہو۔۔۔‘‘ 99؎ ٭٭٭ حوالے باب نمبر6 1اقبال، علم الاقتصاد، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1977ء ص248, 248, 49 2علم الاقتصاد ص251-250 3ایضاً، ص253 4ایضاً ، ص32-31 5ایضاً، ص101، ص238 6ایضاً ص31 7ایضاً، ص258, 235, 31 8ایضاً، ص43 9جاوید اقبال، زندہ رود، حیات اقبال کا تشکیلی دور، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور 1979ء ص93 10سید عبدالواحد معینی (مرتب) مقالات اقبال، شیخ محمد اشرف لاہور، 1963ء ص42 11 مقالات اقبال، محولہ بالا، ص47 12مقالات اقبال، ص50, 49 13مقالات اقبال، ص51-50نوٹ: اقبال نے اپنی مشہور نظم تصویر درد، انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی اور مخزن مارچ 1904ء میں بطور ضمیمہ شائع ہوئی تھی اس کے اشعار سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ’’ قومی زندگی‘‘ کے مطالب اور دلائل بھی اسی زمانے سے اقبال کے دماغ میں آ رہے ہوں گے۔ جن کی مدد سے بعد میں مضمون تیار کیا گیا۔ خصوصاً مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو! تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے جو ہے راہ عمل میں گامزن، محبوب فطرت ہے 14مقالات اقبال، ص53 15ایضاً ص53 16ایضاً ص54 17ایضاً، ص61 18ایضاً، ص62-61 19ایضاً، ص64 20ایضاً، ص66 21 ایضاً، ص68 22ایضاً ص75-74 23ایضاً، ص157 24دیباچہ بانگ درا، ص: ل، م 25’’ یہ (نظم) دسمبر1908ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ جب اقبال کو ولایت سے واپس آئے ہوئے کم و بیش چار مہینے ہو چکے تھے‘‘ مطالب بانگ درا از مولانا مہر ص143ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، مخزن میں اس نظم کی تاریخ اشاعت نومبر1908ء بتاتے ہیں۔ اقبال کا ذہنی ارتقا، ص33 26جاوید اقبال، زندہ رود، حیات اقبال کا تشکیلی دور، اشاعت اول 1979ء صفحہ137 27مقالات اقبال، ص53 58اگرچہ اقبال کی تصانیف کا تحقیقی مطالعہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ تاہم یہاں زیر تبصرہ مضمون کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ بیاض اقبال کے شذرات کا سلسلہ 1910ء کی بجائے وسط1909ء کے قریب شروع ہو چکا ہو گا۔ بیاض اقبال کا شذرہ نمبر15بعنوان ’’شخصیت کی بقا‘‘ بعض جزئیات کے لحاظ سے زیر تبصرہ مضمون کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً شذرے کی مندرجہ ذیل آخری سطور داخلی شہادت کی بہترین مثال ہیں۔ ملاحظہ کیجئے: ’’ پس شخصیت کی بقا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے حصول کے لئے جدوجہد ضروری ہے۔۔ کاش اس نقطہ نظر سے اسلام، بدھ مت اور عیسائیت کی تقابلی حیثیت پر بحث کرنے کا مجھے موقع میسر آتا، لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کی تفصیلات کا جائزہ لینے کی مجھے فرصت نہیں۔‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص78-77) مترجم ڈاکٹر حامد حسن حامد رسالہ المعارف لاہور بابت اپریل 1982ء ص31 مترجمہ ڈاکٹر حامد حسن حامد محولہ بالا ص32 34ترجمہ زندہ رود (حیات اقبال کا وسطی دور) از جاوید اقبال، ص186 مترجم: ڈاکٹر حامد حسن حامد محولا بالا ص34 (الف) راقم کو اس ترجمہ سے اتفاق نہیں کیونکہ Competitors کا مطلب مریض نہیں بلکہ مسابقت کرنے والے ہوتا ہے۔ ترجمہ : ڈاکٹر حامد حسن محولہ بالا، ص35 37زندہ رود، حصہ دوم، ص187 مترجم: ڈاکٹر حامد محولہ بالا ص36 مترجم: ڈاکٹر حامد محولہ بالا ص48 42مثال کے طور پر شذرات نمبر (61, 24, 19, 32, 21) اقبال کے خطبہ علی گڑھ The Muslim Community.. a Sociological Study. مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مطبوعہ تحقیق لاہور جلد3، شمارہ 1کے صفحات بالترتیب 22, 19, 17اور29پر ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال کا یہ انگریزی خطبہ مع مولانا ظفر علی خاں کے اردو ترجمہ بعنوان ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ ڈاکٹر مظفر عباس نے کتابی صورت میں مرتب کر دیا ہے جسے مکتبہ عالیہ لاہور نے 1987ء میں شائع کیا۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے بھی اس خطبہ کا انگریزی متن اور اردو ترجمہ (ظفر علی خاں) ایک ساتھ بزم اقبال لاہور سے شائع کیا ہے۔ 43ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی (مترجم) شذرات فکر اقبال، مجلس ترقی ادب لاہور، ص135 44مقالات اقبال، ص117 45ایضاً، ص119 46ایضاً، ص125 47 The Muslim Community: A Sociological Studyمشمولہ مجلہ تحقیق لاہور، جلد3شمارہ 1، ص22 48مقالات اقبال، ص127 49 The Muslim Community: A Sociological Studyمجلہ تحقیق لاہور جلد3شمارہ 1ص23-22 50ملت بیضا (مقالات اقبال، ص127) 51ایضاً، ص128 52 The Muslim Community: A Sociological Studyمجلہ تحقیق لاہور، جلد3شمارہ نمبر1ص23 53 شذرات فکر اقبال، ص124 54ایضاً، ص74, 73 55ایضاً ص132 56ایضاً، ص134 58شذرات فکر اقبال، ص111 *نوٹ: جاوید اقبال نے بیاض اقبال کے تعارف میں لکھا ہے۔’’ یہ ان متفرق تحریروں پر مشتمل ہے۔ جو اس زمانے میں زیر مطالعہ کتب کے تاثرات، یا اپنے ماحول کے بارے میں ان کے خیالات و احساسات اور ایام طالب علمی کی یادوں پر مبنی ہیں‘‘ (شذرات فکر اقبال ص37) بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عمرانیات پر کتابیں اقبال کے زیر مطالعہ تھیں۔ مثلاً ’’ ملت بیضا پر عمرانی نظر‘‘ میں عمرانیات کے امریکی عالم (Giddings) اور Comteکا حوالہ آتا ہے۔ (مقالات اقبال، ص127) بہرحال اقبال کے متذکرہ شذرہ سے گمان ہوتا ہے کہ یہ عمرانی نظریہ کی تاریخی بنیادوں میں سے ایک بنیاد موسوم بہ (German Historicism) کے مطالعہ کا تاثر ہے۔ D.P. Johnsonلکھتا ہے۔ The Gercan historicist tradition advocated understanding a society, particular spirit by a through study of its particulr culture and the various historical stages through which had passed. ترجمہ: (جرمن تاریخی استناد کی روایت یہ وکالت کرتی ہے کہ کسی معاشرے کی خصوصی ’’روح‘‘ کی تفہیم اس کے مخصوص کلچر کے بھرپور مطالعے اور مختلف تاریخی ادوار سے کی جانی چاہیے۔ جن سے یہ معاشرہ گزرا تھا۔ Johnson, D.P. Sociological theory, john wiley sons, New York, 1981, p. 24 59عطیہ بیگم، اقبال ، شائع کردہ اقبال اکیڈمی کراچی، 1956ء ص60-59 60انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار اقبال اکادمی پاکستان کراچی، مارچ1967ء ص156 61اقبال نامہ حصہ دوم مرتبہ شیخ عطا اللہ، ص45 62ایضاً، ص110 63انوار اقبال، محولہ بالا، ص167 64رسالہ نیرنگ خیال لاہور (اقبال نمبر) بابت ستمبر، اکتوبر1932ء ص54-53 65مقالات اقبال، ص158 66 دیکھئے Nichloson the secrets of the self p. xvi-xxix 67 Sherwani, Speeches p. 89 All that is in the universe is God snad the seemingly destructive forces of nature become sourcess of life if properly controlled by man, who is endowed with the power to understand and to control them. 68 Ibid, p. 91 69شذرات فکر اقبال، ص78-76 70مقالات اقبال ص131 71تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند تیسری جلد، فارسی ادب (اول) شائع کردہ پنجاب یونیورسٹی لاہور، ص110 72اقبال نے اسرار خودی کے دیباچے میں ایک سوال اٹھایا ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے عمرانی فلسفہ کا سوال ہے۔ ان کا سوال یہ ہے کہ کیا ’’ خودی‘‘ یا’’ انا‘‘ یا’’ میں‘‘ ایک لازوال حقیقت ہے یا زندگی نے محض عارضی طور پر اپنی فوری عملی اغراض کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو اس فریب تخیل یا دروغ مصلحت آمیز کی صورت میں نمایاں کیا ہے؟ اخلاقی اعتبار سے افراد و اقوام کا طرز عمل اس نہایت ضروری سوال کے جواب پر منحصر ہے۔۔ افتاد طبیعت (کی بنا) پر مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اسی نتیجے کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی انا محض ایک فریب تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اتار دینے کا نام نجات ہے۔۔۔ ہندو قوم کے موشگاف حکمائ۔۔۔ دقیق بحث (کے بعد)۔۔۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ جب انا کی تعین عمل سے ہے تو ’’ انا‘‘ کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ ترک عمل ہے۔ یہ نتیجہ انفرادی اور ملی پہلو سے نہایت خطرناک تھا اور اس بات کا مقتضی تھا کہ کوئی مجدد پیدا ہو جو ترک عمل کے اصلی مفہوم کو واضح کرے۔ بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن۔۔۔ نے۔۔۔۔ اس حقیقت کو آشکار کیا۔۔۔ کہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے مگر۔۔۔ سری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے (حقیقت عمل) پھر محجوب کر دیا۔۔۔ مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک بھی ایک نہایت زبردست پیغام عمل تھی۔۔۔ مگر شیخ اکبر کے علم و فضل اور ان کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کو جس کے وہ انتھک مفسر تھے اسلامی تخیل کا ایک لاینفک عنصر بنا دیا اور رفتہ رفتہ چودھویں صدی کے تمام عجمی شعرا اس رنگ میں رنگین ہو گئے۔۔۔ مختصر یہ کہ ہندو حکماء نے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعرا نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنی آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کر دیا۔۔۔۔ ان حالات میں یہ کیونکر ممکن تھا کہ ہندوستان میں اسلامی تخیل اپنے عمل سے محروم کر دیا۔۔۔۔ ان حالات میں یہ کیونکہ ممکن تھا کہ ہندوستان میں اسلامی تخیل اپنے عملی ذوق کو محفوظ رکھ سکتا۔۔۔۔ مغربی اقوام اپنی قوت عمل کی وجہ سے تمام اقوام عالم میں ممتاز ہے۔۔۔۔ اگرچہ مغرب کے فلسفہ جدید کی ابتداء ہالینڈ کے اسرائیلی فلسفی کے نظام وحدت الوجود سے ہوتی ہے لیکن مغرب کی طبائع پر رنگ عمل غالب تھا۔ مسئلہ وحدت الوجود کا یہ طلسم۔۔۔ دیر تک قائم نہ رہ سکتا تھا۔ سب سے پہلے جرمنی میں انسانی انا کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا اور رفتہ رفتہ فلاسفہ مغرب بالخصوص حکمائے انگلستان کے عملی ذوق کی بدولت اس خیالی طلسم کے اثر سے آزاد ہو گئے جس طرح رنگ و بو وغیرہ کے لئے مختص حواس ہیں اس طرح انسانوں میں ایک اور حاسہ بھی ہے جس کو ’’ حس واقعات‘‘ کہنا چاہیے۔ ہماری زندگی واقعات گرد و پیش کے مشاہدہ کرنے اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر عمل پیرا ہونے پر منحصر ہے۔۔۔ حق یہ ہے کہ انگریزی قوم میں ’’ حس واقعات‘‘ اور اقوام عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی دماغ یافتہ فلسفیانہ نظام جو واقعات متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو۔ انگلستان کی سر زمین میں آج تک مقبول نہیں ہوا۔ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیات عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظر ثانی کریں۔ یہ ہے ایک مختصر خاکہ اس مسئلہ کی تاریخ کا جو اس نظم کا موضوع ہے میں نے اس دقیق مسئلے کو فلسفیانہ استدلال کی پیچیدگیوں سے آزاد کر کے تخیل کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کی ہے۔۔ شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذت حیات انا کی انفرادی حیثیت، اس کے اثبات، استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے۔۔۔ خودی (کا لفظ) اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا۔۔۔ اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔۔۔ (مقالات اقبال ، ص159-153) 73محمد عثمان، اسرار و رموز پر ایک نظر، اقبال اکادمی کراچی، ص8-7 75محمد عثمان، اسرار و رموز پر ایک نظر، اقبال اکادمی، کراچی، ص9-8 نیز دیکھئے نکلسن کے دیباچہ کا ترجمہ از رئیس زیدی، مشمولہ ممدوح عالم مرتبہ ڈاکٹر سلیم اختر بزم اقبال لاہور، نومبر1978ء ص87 77گفتار اقبال مرتبہ محمد رفیق افضل، ص250-249 78(الف) اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں 79علی عباس جلالپوری، روایات فلسفہ، المثال لاہور، دسمبر1969ء ص135 80مقالات اقبال، ص42 81مقالات اقبال، ص44-43 82محمد عثمان، اسرار و رموز پر ایک نظر، اقبال اکادمی کراچی، ص12 83مقالات اقبال، ص119ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر سے پہلے اقبال نے بیاض اقبال کے شذرہ نمبر61میں ’’ اقدار اشیا‘‘ کے زیر عنوان لکھا ہے۔ خدا نے اشیا تخلیق کیں اور انسان نے اشیا کی اقدار۔ نطشے کہتا ہے کہ کسی قوم کی بقا کا انحصار مسلسل تخلیق اقدار پر ہے۔ اشیاء پر صفت ایزدی کی مہر مثبت ہے۔ لیکن اشیاء کی معنویت کلیتہً انسانی ہے ’’ شذرات فکر اقبال، ص131‘‘ نوٹ: (مترجم مسلم کمیونٹی نے Worthکا ترجمہ محاسن اور مترجم Stray reflection نے ’’ اقدار‘‘ کیا ہے) 84بحوالہ اسرار و رموز پر ایک نظر، ص20-19 85محمد طاہر فاروقی، اقبال اور محبت رسولؐ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، نومبر1977ء ص62 86بحوالہ اسرار و رموز پر ایک نظر، اقبال اکادمی کراچی، ص27 88امین احسن اصلاحی، تزکیہ نفس (مکمل دونوں حصے) ملک سنز فیصل آباد، ص104-103 91امین احسن اصلاحی تزکیہ نفس (مکمل دونوں حصے) ملک سنز فیصل آباد، ص231 92تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزم اقبال لاہور، مئی 1983ء ص141 93مقالات اقبال ص242 97اقبال نے لفظPoemاستعمال کیا ہے۔ دیکھئے رفعت حسن کی مرتبہ کتاب The Swork and the Secprtel ص362 *ترجمہ نگار نے کتاب کا نام صحیح نہیں لکھا۔ کتاب کے کوائف درج ذیل ہیں۔ Mackenzie, john s, An introduction to Social Philosophy, Glasgow james Maclehose and sons, 1890, p.376-378 یاد رہے اقبال نے کتاب کا نام انٹروکشن ٹو سوشل فلاسفی ہی لکھا ہے۔ *اس محل پر پروفیسر میکنزی کا فٹ نوٹ موضوع کی مناسبت سے دلچسپ اور توجہ طلب ہے۔ چونکہ یہ کتاب نایاب ہے۔ لہٰذا اسے یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ Talleyr ands advice to one about to start a new religion, that he should first get himself crucified and rise the third day, has some point. we may say at any rate, that the inspiration required for the spread of the social religion of the spread of the social religion of the future (with out which it seems clear that there can be nature regeneration of society) must be expected to come, not from any mere philosophical theory. but from a living persinality. such personalities have not been entrely wanting in recent times. we have had, for instance, the late T.H Green, Arnold Toynbee, and several others, and the influence which such men have exerted has been a quite incalvulable force. in comparison with such powers ad these any theory, however exvellent, in only the finete beside the infinite. at the bisis of such personalities, how-ever, there is nearly always, if not a philocophic theory. at least a philosophical faith. their lives, indeed, might almost be said to be philosophy in the concrete they embody the ideals which philosophic theory seeks to analyse. p. 377. نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس میں مذکورہ آرنلڈ ٹائن بی کے نام سے مغالطہ نہیں ہونا چاہیے ہمارے زمانے کے فلسفہ تاریخ کے مشہور و معروف عالم آرنلڈ جوزف ٹائن بی (پ 1889ئ) مقدم الذکر کے بھتیجا تھے۔ آرنلڈ ٹائن بی (1852-53) برطانیہ کے معاشیات دان اور سوشل ریفارمر تھے۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: Laogmans English Larousae, London, 1968, p. 1221. 98رسالہ نیرنگ خیال اقبال، نمبر، ستمبر و اکتوبر1932ء ص56-55 نوٹ: یہ خط نامور ادیب اور صحافی چراغ حسن حسرت نے ترجمہ کیا تھا یہی متن اقبالنامہ حصہ اول (مرتبہ شیخ عطاء اللہ) صفحہ463-460میں نقل کیا گیا۔ اصل متن (انگریزی) کے لئے دیکھئے: The sword and the sceptre collected and edited by riffat hasson. iqbal academy pakistan, lahore 1977 p. 362 ٭٭٭ Chapter No. 6 29. Steeter, B. Reality, Macmillan, 1935, opp. 313.14 30. Sherwani, Latif Ahmed, ed: Speeches, Writings & Statements of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore. 1977, p. 91 31. Ibid p. 91 32. Ibid, p. 91-92 33. Sherwani, op.cit. p. 93 35. Sherwani, Speeches, Statements and writings of Iqbal, Iqbal Academy Lahore, 1977. 36. Sherwani, op.cit. p.94 38. Sherwani, op. cit. p.95 39. Ibid. p.95 40. Ibid. p.97 41. Sherwani, op. cit. p.95 42. The Muslim Community...... a Sociological Study. 57. Sherwani, op.cit, pp. 127-28 66. Nichloson: The secrets of the self, p. xvi-xxix 74. Nicholoson, R.A. The Screts of the Self, Farhan Publishers, Lahore, 1977, p.xviii-xxi 76. Nicholson, Screts p. xxviii 78. R. Fletcher: The Making of Sociology, London 1971. p.39. 87. Mackenzie, John S. An introduction to Social Philisophy, Glasgow, 1890. p.326. 89. Sherwani, op.cit. p.89-90 90. Shariati, Dr. Ali, Hajj, U.S.A 1977, p.85 94. Hanifi, M.A. A Survey of Muslim Institutions and Culture, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore 1969. p.101 95. Nicholoson. R.A The Secrets of the Self, Farhan Publishers, Lahore. 1977, p.xxvii. 96. Ibid. p. xxviii 98. Mackenzie John S. An Introduction to Social Philosophy, Glasgow James Maclehose & Sons, 1890 pp. 376-378 Lectures on the Industrial Revolution of the 18th Century in England, (1884) Longmans English Larousse, London, 1968, p. 1221 ٭٭٭ ساتواں باب (الف) رموز بیخودی کا تخلیقی محرک۔۔۔ ایک تحقیقی مطالعہ: اقبال نے 1899ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں اپنی نظم نالہ یتیم سنائی۔ اگر دوسرے شواہد سے صرف نظر بھی کر لیا جائے تو یہی نظم ایک طرف تو اس زمانے کے مسلمانوںکی سیاسی حالت، نکبت و ادبار اور بے بسی کا ایک موثر اظہار ہے اور دوسری طرف اقبال کے عمرانی انقلاب کے احساس اور جذبے کی ترجمان ہے۔ گویا ملت اسلامیہ اور اس کی اجتماعی حالت کو بدلنے کی خواہش اور اس کی ترقی و بہبود کا خیال فکر اقبال کی خشت اول ہے۔ اس کے بعد تو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اقبال کے فکر و نظر کا محور بن گئی۔ علامہ نے ادب، مذہب، فلسفہ، تاریخ اور عمرانیات کے مطالعہ کی روشنی میں اپنے عہد کے عمرانی مسائل کا نہایت دقت نظر سے جائزہ لیا تو انہیں اپنی جماعت کے افرادبے یقینی، بے سمتی، بے ہمتی، بے اتفاقی اور بد اعتمادی کا شکار نظر آئے۔ اقبال نے اپنی قوم کے افراد میں مختلف منظومات اور مقالات کے ذریعہ اتحاد، اتفاق، ایمان اور ایقان کی دولت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان منتشر افکار کو ایک باقاعدہ فلسفیانہ نظام کے تحت لانے کے لئے اقبال کو کم و بیش اٹھارہ بیس سال صرف کرنے پڑے تب 1915ء میں اقبال کے فکر کا پہلا حصہ اسرار خودی کے نام سے منصہ شہود پر آیا۔ جس کا مفصل ذکر گذشتہ باب میں ہو چکا ہے۔ اقبال نے اسرار میں خودی کو ایک عمرانی اور اخلاقی قدر کے طور پر پیش کیا ہے۔ خودی اقبال کے عمرانی نظام فکر میں وہ قدر ہے جو شخصیت کو توانا اور قوی کرتی ہے۔ ان کے نزدیک مخالف قوتیں عارف خودی کے حوصلوں کو پست اور مضمحل کرنے کی بجائے ان کی انگیخت کا باعث ہوتی ہیں اور اس کی ترقی و سر بلندی کا سبب بنتی ہیں اس لئے وہ پر خطر اور مخالف قوتوں کو فضل حق خیال کرتا ہے۔ اقبال نے اسرار کے باب’’ شیخ ہجویر اور نوجوان مرو‘‘ کے باب میں لکھا ہے۔ ہرکہ دانائے مقامات خودی است فضل حق داند اگر دشمن قوی است اقبال اس عمرانی حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے کہ قومی زندگی میں قومی ہیرو اور اعلیٰ شخصیات عظیم تہذیبی، تمدنی اور اخلاقی کارناموں کے عملی نمونہ کی حیثیت میں ایک مثبت عمرانی قدر کے مالک اور قوم کے دوسرے افراد کے لئے تحریک اور تقلید کا معیار ہوتے ہیں۔ چونکہ اقبال ملت اسلامیہ اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی زندگی میں تجدید اور تعمیر کے متمنی تھے۔ اس لئے انہوں نے قومی زندگی میں انقلاب کے لئے ایک اعلیٰ اخلاقی قدر کے مالک قائد کی ضرورت کو بنیادی خیال کرتے ہوئے اسرار خودی میں مرد کامل کا تصور پیش کیا۔ انحطاط پذیر، شکستہ دل، ناتواں، بلکہ مردہ قوموں کے احیاء میں مردان کامل کی مسیحائی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ بقول اقبال: از قم او خیزد اندر گور تن مردہ جانہا چوں صنوبر در چمن مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسرار خودی میں عام فرد کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ مرد کامل وہ نمونہ ہے جس کی خصوصیات کو اقبال ہر فرد کی شخصیت میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اقبال سمجھتے تھے کہ جو جماعت یا معاشرہ عارفان خودی پر مشتمل ہو گا وہ ایک مثالی معاشرہ ہو گا اقبال نے اس جماعت یا معاشرے کا تصور اپنی دوسری شعری تصنیف میں پیش کیا۔ 1918ء میں اقبال کی دوسری مثنوی رموز بیخودی کے نام سے شائع ہوئی۔ اس مثنوی کے خدو خال اقبال کے بعض ابتدائی مقالات اور منظومات میں غیر مربوط شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں زیر نظر مقالہ کا چوتھا اور پانچواں باب حوالے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بہرحال اقبال کے ایک خط سے عیاں ہے کہ مثنوی اسرار خودی کی اشاعت کے زمانے میں دوسری مثنوی (رموز بیخودی) کا خاکہ اور اس کے مضامین اقبال کے دماغ میں مستخصر تھے۔ وہ اپنے دوست منشی سراج الدین کے نام 4اکتوبر1915ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ الحمد للہ کہ آپ کو مثنوی (اسرار) پسند ہوئی۔ یہ مثنوی گذشتہ دو سال کے عرصے میں لکھی گئی مگر اس طرح کہ کئی کئی ماہ کے وقفوں کے بعد طبیعت مائل ہوتی رہی۔ موجودہ مشاغل وقت نہیں چھوڑتے اور جوں جوں اس پروفیشن میں زمانہ زیادہ ہوتا جاتا ہے کام بڑھ ہی جاتا ہے۔ لٹریری مشاغل کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اگر مجھے پوری فرصت ہوتی تو غالباً اس موجودہ صورت سے یہ مثنوی بہتر ہوتی۔ اس کا دوسرا حصہ بھی ہوتا جس کے مضامین میرے ذہن میں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حصہ اس حصہ سے زیادہ لطیف ہو گا۔ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین اور غرض و غایت سے آشنائی نہیں۔ ان کے لٹریری آئیڈیل بھی ایرانی ہیں اور سوشل نصب العین بھی ایرانی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں جس کی اشاعت رسول اللہ صلعم کے منہ سے ہوئی۔‘‘ 1؎ رموز بیخودی کے حوالے سے اقبالیات میں اقبال سے منسوب ایک ایسی روایت کو بلا کم و کاست تسلیم کیا گیا ہے۔ جو ہمارے نزدیک کسی طرح بھی قرین قیاس نہیں مگر جس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رموز بیخودی کی تصنیف اقبال کے اپنے فکر اور تخلیقی تحریک کا نتیجہ نہیں۔ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی رموز بیخودی کے تخلیقی محرک کے سلسلے میں مندرجہ ذیل روایت بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق: ’’ جب بانگ درا مرتب ہوئی تو سوال پیدا ہوا کہ اسکا دیباچہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے۔ بعض لوگ دیباچے کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ کلام اقبال اب کسی تمہید و تعارف کا محتاج نہیں لیکن آخر فیصلہ دیباچے کے حق میں ہوا تو دوسرا سوال یہ اٹھا کہ دیباچہ کون لکھے؟ مختلف نام سامنے آتے رہے۔ ایک صاحب جو حضرت علامہ کے ہاں اکثر حاضر ہوا کرتے تھے ایک روز کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب جو شخص بانگ درا پر دیباچہ لکھنے کا مستحق تھا وہ مدت ہوئی مر گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تعجب سے پوچھا؟‘‘ ’’ کون‘‘ تو انہوں نے جواب دیا: ’’ عبدالرحمن بجنوری‘‘ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے: میں عبدالرحمن بجنوری کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا بڑا معترف ہوں بلکہ ایک اعتبار سے ممنون بھی ہوں۔ وہ یوں کہ جب ’’ اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی تو بجنوری نے ایک تنقیدی مضمون لکھا جس میں خودی کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے کے بعد یہ کہا کہ اقبال فرد کی خودی پر اتنا زور دے رہا ہے کہ اس سے یہ خوف پیدا ہو چلا ہے کہ شاید اس کے پیش نظر ملت کا وجود نہیں، حالانکہ انفرادی خودی کی تکمیل بھی ملت ہی میں گم ہو کر ہوتی ہے۔ بجنوری کے اس مضمون کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ ’’ رموز بیخودی‘‘ لکھ کر اس قسم کے اندیشوں کا ازالہ کر دوں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اگر بجنوری کا مضمون نہ چھپتا تو رموز بیخودی لکھی جاتی یا نہ لکھی جاتی لیکن یہ واقعہ ہے کہ بجنوری کا مضمون پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ رموز بیخودی کا لکھا جانا بے حد ضروری ہے۔ 2؎ متذکرہ روایت غالباً سب سے پہلے محمد حنیف شاہد نے اپنی تالیف’’ نذر اقبال‘‘ میں نقل کی۔3؎چونکہ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی جیسی ثقہ شخصیت اس بیان کی راوی ہے۔ شاید اس لئے حنیف شاہد کو اس روایت میں کسی کمی بیشی کا گمان نہیں گزرا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال4؎ اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری 5؎ نے بھی اس روایت کو قبول کیا ہے اور اس کا اپنی کتابوں میں حوالہ دیا ہے۔ اسی طرح محمد حنیف شاہد نے اپنی ایک بعد کی کتاب ’’ مفکر پاکستان‘‘ میں بھی عبدالرحمن بجنوری کی تجویز کو رموز بیخودی کی وجہ تصنیف قرار دیا ہے۔ 6؎ ڈاکٹر جاوید اور حنیف شاہد نے زیر نظر روایت نقل کرنے سے قبل بالترتیب مندرجہ ذیل جملے لکھے ہیں: (الف) ’’ سر عبدالقادر مثنوی کے اس حصہ کی وجہ ’’ تصنیف اقبال ہی کی زبانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‘‘ 7؎ (ب) ’’ شیخ عبدالقادر مثنوی ’’ رموز بے خودی‘‘ کی وجہ تصنیف علامہ اقبال کی زبانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‘‘ 8؎ مندرجہ بالا دونوں جملوں سے یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ شاید متذکرہ روایت سر عبدالقادر نے اپنے قلم سے تحریر کی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیر بحث روایت ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کے قلم کا نتیجہ ہے۔ خیر یہ تو ایک فروعی بات تھی مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر بٹالوی کی روایت کے مطابق اقبال کا یہ کہنا کہ ’’ اگر بجنوری کا مضمون نہ چھپتا تو رموز بے خودی لکھی جاتی یہ نہ لکھی جاتی لیکن یہ واقعہ ہے کہ بجنوری کا مضمون پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ رموز بے خودی کا لکھا جانا بے حد ضروری ہے۔‘‘ حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں؟ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے۔ جہاں تک داخلی اور خارجی شواہد کا تعلق ہے۔ یہ روایت سرا سر بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے۔ 9؎ ہم نے حتی المقدور اسرار خودی پر ڈاکٹر بجنوری کے مضمون کی جستجو کی ہے۔ مگر ہمیں ان کا اسرار خودی پر کوئی تبصرہ دستیاب نہیں ہو سکا۔ اس لئے غالب امکان یہی ہے کہ ایسا کوئی مضمون بجنوری کے قلم سے نہیں نکلا۔ لہٰذا اس کی دستیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر بجنوری نے رموز بیخودی کی اشاعت کے بعد ایک مضمون Iqbal: his Persian Masnawis کے عنوان سے رسالہ ایسٹ اینڈ ویسٹ (East and West) میں لکھا۔ جس میں اسرار و رموز کو مجموعی طور پر موضوع بنایا گیا تھا۔ اسی مضمون کا مالک رام نے ترجمہ مع حواشی رسالہ نیرنگ خیال اقبال نمبر، ستمبر اکتوبر1932ء میں مثنویات اقبال (اسرار و رموز) کے عنوان سے شائع کرایا۔ 10؎ علامہ اقبال 14ستمبر1918ء کو اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ رسالہ ایسٹ اینڈ ویسٹ (انگریزی) کے اگست کے نمبر میں ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب نے ایک ریویو دونوں مثنویوں پر لکھا ہے۔۔۔ نہایت قابلیت سے لکھا ہے اگر اس ریویو کی کوئی کاپی مل گئی تو ارسال خدمت کروں گا۔۔۔۔۔‘‘ 11؎ علاوہ ازیں ڈاکٹر بجنوری کے اس مضمون کی اشاعت سے اپنے دوست محمد نیاز الدین خان کو مطلع کرتے ہوئے 12اکتوبر1918ء کے خط میں اقبال لکھتے ہیں: ’’ ڈاکٹر عبدالرحمن بھوپالی نے ایک مضمون مثنویوں پر انگریزی میں لکھا ہے جو رسالہ ایسٹ اینڈ ویسٹ میں شائع ہوا ہے اگر آپ کی نظر سے نہ گزرا ہو تو لکھئے کہ اس کی ایک کاپی بھیج دوں اس کی کاپیاں ایسٹ اینڈ ویسٹ والوں نے علیحدہ بھی شائع کی ہیں اور صاحب مضمون نے چند کاپیاں مجھے بھیج دی تھیں۔‘‘ 12؎ بہرحال اس بحث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ رموز بیخودی کے تخلیقی محرک سے ڈاکٹر بجنوری کے مشورہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ رموز بیخودی کے مضامین اقبال کے عمرانی فلسفہ و فکر کے وہ بنیادی تصورات ہیں جو اقبال کے ہاں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع کے معاشرتی، عمرانی اور سیاسی حالات سے پیدا ہونے والے اجتماعی شعور کا نتیجہ ہیں۔ جن کا اظہار اسرار خودی سے پہلے اقبال کی نظموں کے علاوہ ان کے مقالات خصوصاً ’’ قومی زندگی‘‘ اور خطبہ علی گڑھ میں واضح طور پر ہوتا رہا ہے۔ اقبال کے کئی خطوط جو کم و بیش رموز بیخودی کی تخلیق اور تصنیف کے زمانے میں لکھے گئے، قابل توجہ ہیں۔ ان میں علامہ نے اس مثنوی کے موضوع اورمقاصد کی وضاحت کی ہے۔ 27 جون 1917ء کو نیاز الدین خان کے نام خط میں رقم طراز ہیں: ’’ رموز بیخودی کو میں اپنے خیال میں ختم کر چکا تھا مگر پرسوں معلوم ہوا کہ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ترتیب مضامین کرتے وقت یہ بات ذہن میں آئی کہ ابھی دو تین ضروری مضامین باقی ہیں یعنی قرآن اور بیت الحرام کا مفہوم و مقصود حیات ملت اسلامیہ میں کیا ہے۔ ان مضامین کے لکھ چکنے کے بعد اس حصہ مثنوی کو ختم سمجھنا چاہئے۔ مگر ایسے ایسے مطالب ذہن میں آئے ہیں کہ خود مسلمانوں کے لئے موجب حیرت و مسرت ہوں گے۔ کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ملت اسلامیہ کا فلسفہ اس صورت میں اس سے پہلے کبھی اسلامی جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ نئے سکول کے مسلمانوں کو معلوم ہو گا کہ یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے وہ محض بودے اور سست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے۔ قومیت کے اصول حقہ صرف اسلام نے ہی بتائے ہیں جن کی پختگی اور پائیداری مرور ایام و اعصار سے متاثر نہیں ہو سکتی۔‘‘ 13؎ اقبال نے 3ستمبر1917ء کو گرامی کے نام جو خط لکھا ہے، وہ رموز بیخودی کے موضوع اور اقبال کے مقاصد کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ اقبال گرامی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ تقریظ کے اشعار آپ نے خوب لکھے۔ مگر یہ اشعار تو پہلے حصہ (اسرار) کی تقریظ کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ دوسرے حصہ میں جو اب شائع ہو گا حیات ملی یعنی اجتماعی زندگی کے اصول پر بحث ہے اور خالص اسلامی نکتہ (نقطہ) خیال سے۔ اس کے علاوہ یہ اشعار بہت تھوڑے ہیں۔ میرا مقصد کچھ شاعری نہیں بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں میں وہ احساس ملیہ پیدا ہو، جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ا س قسم کے اشعار لکھنے سے غرض عبادت ہے، نہ شہرت۔ کیا عجب کہ نبی کریم ؐ کو میری یہ کوشش پسند آ جائے اور ان کا استحسان میرے لئے ذریعہ نجات ہو جائے۔ ‘‘ 14؎ اقبال قومی زندگی میں فرد کی اہمیت سے پوری طرح باخبر تھے۔ اسی طرح عمرانی مطالعہ نے انہیں اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ جب تک افراد میں قومی تشخص اور ملی شعو رپیدا نہیں کیا جاتا قومی زندگی نہ تنزل و ادبار سے نکل سکتی ہے اور نہ اجتماعی زندگی میں وہ حرکت عمل اور قوت حیات، پیدا ہو سکتی ہے۔ جسے انقلاب ضمیر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی، عمرانی اور قرآنی مطالعہ کے نتیجہ میں اقبال کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ: ’’ خدا تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت خود نہ بدلے۔‘‘ 15؎ چنانچہ اقبال کا خیال تھا کہ قوم کے سامنے ایک صحت مند معاشرے کو بطور نصب العین پیش کیا جائے تاکہ خودی کی تربیت سے تکمیل ذات کرنے والے افراد اپنی روحانی اور وجدانی قوتوں کو تعمیر ملت کے لئے بروئے کار لائیں۔ اقبال کے اس خیال کو ایرک فرام (Erich Fromm) کے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ: ’’ ہر معاشرے میں عمومی انسانی قوت خصوصی قوت میں تبدیل کی جاتی ہے جسے وہ معاشرہ اپنی بہتر کارکردگی کے لئے استعمال میں لاتا ہے۔‘‘ 16؎ (ب) فرد اور ملت کا باہمی ربط۔۔۔۔ ایک عمرانی مسئلہ: اقبال نے رموز بیخودی میں سوسائٹی یا معاشرہ کا ایک مربوط عمرانی تصور پیش کیا ہے۔ ان کے اس عمرانی تصور کے حدود مثنوی کی اشاعت اول 1918ء کے دیباچہ میں بیان ہوئے ہیں۔ اقبال نے لکھا ہے کہ: ’’ یہ مثنوی کسی طویل الذیل دیباچہ کی محتاج نہیں۔ تاہم اس کے مقاصد کی ایک مختصر تشریح ضروری ہے۔ جس طرح حیات افراد میں جلب منفعت، دفع مضرت، تعین عمل و ذوق حقائق عالیہ احساس نفس کے تدریجی نشوونما اس کے تسلسل، توسیع اور استحکام سے وابستہ ہے اسی طرح ملل و اقوام کی حیات کا راز بھی اسی احساس یا بالفاظ دیگر قومی انا کی حفاظت، تربیت اور استحکام میں مضمر ہے اور حیات ملیہ کا انتہائی کمال یہ ہے کہ افراد قوم کسی آئین مسلم کی پابندی سے اپنے ذاتی جذبات کے حدود مقرر کریں تاکہ انفرادی اعمال کا تبائن و تناقص مٹ کر تمام قوم کے لئے ایک قلب مشترک پیدا ہو جائے۔ افراد کی صورت میں اس کا تسلسل و استحکام قومی تاریخ کی حفاظت سے ہے۔ گویا قومی تاریخ حیات ملیہ کے لئے بمنزلہ قوت حافظ کے ہے جو اس کے مختلف مراحل کے حسیات و اعمال کو مربوط کر کے ’’ قومی انا‘‘ کا زمانی تسلسل محفوظ و قائم رکھتی ہے۔ علم الحیات و عمرانیات کے اسی نکتے کو مد نظر رکھ کر میں نے ملت اسلامیہ کی ہیئت ترکیبی اور اس کے مختلف اجزاء و عناصر پر نظر ڈالی ہے اور مجھے یقین ہے کہ امت مسلمہ کی حیات کا صحیح ادراک اسی نقطہ نگاہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔ البتہ اس ضمن میں ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی مختص الہیت جماعت کا انحطاط زائل کرنے اور اس کی زندگی مضبوط و محکم کرنے کے عملی اصول کیا ہیں اس سوال کا مجمل جواب مثنوی کے دونوں حصوں میں آ چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اقبال نے بھی عمرانیات کے بانی کامٹ کی طرح معاشرہ کے استحکام کے اسباب و علل معلوم کر کے ایک نظام مرتب کیا۔ ماہرین عمرانیات (Sociologists) میں سے اقبال کے ہاں سب سے زیادہ حوالہ کامٹ کا آتا ہے۔ 18؎ جو اس امر کا اشاریہ ہے کہ اقبال نے سب سے زیادہ کامٹ کے عمرانی افکار سے استفادہ کیا۔ ڈی پی جانسن (Doyle Paul Johnson) کامٹ کے تذکرہ میں لکھتا ہے: ’’ کامٹ اپنے نظریہ نامیاتی تناظر کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہوئے، معاشرہ کے مختلف ہم آہنگ اور باہم دیگر منحصر اجزاء کا اور یہ بھی کہ ان عناصر کا سماجی استحکام قائم رکھنے میں کیا حصہ ہے، گہرا احساس رکھتا ہے۔ اگرچہ سماجی نظام کو سماجی، اخلاقی اور فکری طوائف الملوکی سے خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہو سکتا ہے جو کہ آخر کار ہمیشہ دوبارہ قائم اور بحال بھی ہو جاتا ہے بلاشبہ تاریخ کے (بعض) طویل ادوار یادگار استحکام سے مخصوص رہے ہیں اور کام کا جو حصہ کامٹ نے اپنے لئے متعین کیاتھا وہ اس استحکام کے منابع کی دریافت کرنا تھا۔‘‘ 19؎ اقبال نے اپنے خطبہ ’’ خودی، جبر و قدر، حیات بعد الموت‘‘ میں ایک جگہ کامٹ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’ معاشرہ ایک جسم نامی ہے جس میں ہر عضو کے الگ الگ وظائف ہیں۔‘‘ 19-A؎ اقبال نے جیسا کہ بار بار کہا گیا ہے دور اول کی نظموں اور مضمونوں میں فرد اور جماعت کے باہمی تعلق کو شاخ اور شجر، موج اور دریا، قطرہ اور دریا وغیرہ کی تمثیلوں سے بیان کیا ہے۔ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں بھی اقبال نے اجتماعی زندگی میں فرد کی حیثیت پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ وہ ایک مقام پر کہتے ہیں: ’’ علم الحیات کے اصولوں نے حال ہی میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ فرد فی نفہہ ایک ہستی اعتباری ہے۔۔۔۔ بالفاظ دیگر فرد اس جماعت کی زندگی میں جس کے ساتھ اس کا تعلق بمنزلہ ایک عارضی اور آنی لمحہ کے ہے اس کے خیالات، اس کی تمنائیں، اس کا طرز ماند و بود اس کے جملہ قوائے دماغی و جسمانی بلکہ اس کے ایام زندگانی کی تعداد تک اس جماعت کی ضروریات و حوائج کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے، جس کی حیات اجتماعی کا وہ محض ایک جزوی مظہر ہے، فرد کے افعال کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ برسبیل اضطرار و بلا ارادہ کسی ایک خاص کام کو جو جماعت کے نظام نے اس کے سپرد کیا ہے، انجام دیتا ہے۔‘‘ 20؎ علم عمرانیات میں فرد اور معاشرہ کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ عام زندگی میں فرد اور جماعت باہمی طور پر اتنے پیوستہ اور وابستہ ہوتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ تصور کرنا مشکل کام ہے۔ انسان مہد سے لحد تک اپنی زندگی ایک معاشرہ میں رہتے ہوئے گزارتا ہے۔ رافیل ڈیمس (Raphael Demos) نے لکھا ہے: ’’ معاشرہ سے تعلق رکھنا یقینا انسان کا جوہر ہے۔ جسے نہ تو وہ اختیار کر سکتا ہے اور نہ ہی ترک۔ ہمارے سامنے ارسطو کابیان ہے کہ انسان فطرتاً ایک سماجی جانور ہے۔ سقراط کی کرائٹو کے ساتھ گفتگو میں اس کا بیان ہماری نظر میں ہے کہ شہر (ریاست/معاشرہ) وہ مورث ہے جس نے فرد کو ہر شے عط اکی ہے۔ اس کی مادی اور اس کی روحانی پیدائش اور پرورش دونوں ہی معاشرے کی عطا ہیں۔ یہ امر واضح طور پر سچ سے بعید ہے کہ معاشرہ افراد کی مخلوق ہوتا ہے بلکہ یہ افراد ہیں جو معاشرہ کی مخلوق ہوتے ہیں۔‘‘ 21؎ اقبال نے بھی فرد اور جماعت کے باہمی ربط و ضبط کی عمرانی اہمیت کو بہ نظر عمیق دیکھا ہے۔ انہوں نے رموز بیخودی کے تمہیدی عنوان ’’ در معنی ربط فرد و ملت‘‘ کے تحت جو اشعار قلمبند کئے ہیں۔ ان سے اقبال کے متوازن عمرانی فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کائنات میں ساری رنگا رنگی اور بو قلمونی انسان کی بدولت ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ محض ایک معاشرتی اکائی ہے۔ لیکن وہ اپنے معاشرتی عمل اور تفاعل (Interaction) سے جماعت کا رکن بن کر اجتماعی زندگی میں شریک ہو جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر یوسف حسین: ’’ انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ رہ کر اپنی شخصیت کو مکمل کرتا ہے۔ بغیر عمرانی ماحول کے انسان کی زندگی کی تکمیل اور اس کے اصلی جوہر کا ظہور نہیں ہو سکتا۔‘‘ 22؎ اقبال نے اس عمرانی حقیقت کو سائنسی زبان کی بجائے شعر کے پیرائے میں نہایت موثر انداز میں یوں بیان کیا ہے: فرد را ربط جماعت رحمت است جوہر او را کمال از ملت است تا توانی با جماعت یار باش رونق ہنگامہ احرار باش حرز جان کن گفنہ خیر البشرؐ ہست شیطان از جماعت دور تر فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق کو عمرانیوں نے مختلف زاویوں سے بیان کیا ہے۔ اس تعلق کے سلسلے میں اقبال نے اس حقیقت کو بھی بیان کیا ہے۔ کہ جس طرح کی شخصیت اور کردار کے حامل افراد ہوں گے، ان پر مشتمل معاشرہ بھی ان افراد کے رحجانات اور میلانات کا آئینہ دار ہو گا۔ کیونکہ فرد اور قوم لازم و ملزوم ہیں: فرد و قوم آئینہ یک دیگر اند سلک و گوہر کہکشاں و اختر اند مندرجہ بالا شعر میں اقبال نے فرد اور جماعت کے تعلق کا جو تصور پیش کیا ہے وہ محض شاعرانہ اظہار اور صنعت تشبیہہ کا استعمال نہیں ہے۔ اقبال کا یہ تصور عمرانی بنیادوں پر استوار ہے۔ افراد معاشرے کے مقاصد کو فروغ دینے کی کوشش کو اپنا معاشرتی فرض خیال کرتے ہیں۔ اور معاشرہ افراد کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی عز و وقار ایک دوسرے کے مرہون منت ہیں۔ خصوصاً فرد کو اجتماع کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو کر ہی وسعت، قوت اور توانائی حاصل ہوتی ہے۔ بقول اقبال: فرد می گیرد ز ملت احترام ملت از افراد می یابد نظام فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب قلزم شود فرد تنہا از مقاصد غافل است قوتش آشفتگی را مائل است چونکہ گروہ یا جماعت کی ہر نوع افراد کے ایسے مجموعہ سے وجود میں آتی ہے۔ جن کے پیش نظر کوئی اجتماعی مقصد ہوتا ہے۔ اس لئے حصول مقصد کے لئے اسے کسی آئین یا دستور کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اقبال نے عمرانیات کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔ معاشرتی کنٹرول عمرانیات کا اہم موضوع ہے۔ سیموئیل کوئنگ (Samuel Koeing) نے لکھا ہے: ’’ ای اے راس پہلا امریکن ماہر عمرانیات تھا جس نے 1901ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’ سوشل کنٹرول‘‘ میں تفصیل سے اس سماجی مظہر پر کام کیا۔ اس وقت سے یہ (عمرانی) تحقیق کا ایک اہم موضوع قرار پا گیا ہے۔ راس کے مطابق فرد گہرے جذبات رکھتا ہے جو اسے اپنے ساتھیوں کے احساس تعاون کی طرف مائل کرتے ہیں اور ان کی بہبود کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ یہ جذبات ہمدردی، سماج پسندی اور احساس عدل ہیں تاہم یہ اس کے توسیع ذات کے جذبے کے انسداد کے لئے کافی نہیں ہیں۔ معاشرہ کو اس کام (انسداد) کی تکمیل کے لئے اور ضروری نظم و ضبط حاصل کرنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرنا ہوتے ہیں۔‘‘ 23؎ گویا فرد کے لئے جماعت کی پابندیوں سے گریز اور فرار ممکن ہی نہیں۔ ایک جماعت کے اصول و ضوابط کو تسلیم کرنے کے بعد ہی کوئی فرد اس کا رکن قرار پانے کا اہل ہوتا ہے۔ اقبال نے اس عمرانی حقیقت کو شاعرانہ زبان میں یوں ادا کیا ہے: جبر قطع اختیارش می کند از محبت مایہ دارش می کند ناز تا ناز است کم خیزد نیاز نازہا سازد بہم خیزد نیاز در جماعت خود شکن گردد خودی تاز گلبرگے، چمن گردد، خودی سیاسیات اور عمرانیات میں فرد اور جماعت کے باہمی رشتہ کے سلسلہ میں بہت کچھ موشگافیاں کرنے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ قوم افراد کے مجموعے سے تشکیل پاتی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کسی سطح پر جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اگرچہ قوم کے حوالے سے قومیت اور وطن پرستی جیسے کئی نظریات نے جنم لیا۔ مگر اس حقیقت پر غور نہیں کیا گیا کہ اقوام کی تربیت کون کرتا ہے اور اس کے اصول کیا ہیں؟ اقبال نے رموز بیخودی کے باب ’’ در معنی این کہ ملت از اختلاط افراد پیدا می شود و تکمیل تربیت او از نبوت است‘‘ میں اس پر اظہار خیال کیا ہے۔ اقبال کے اس باب کے مطالب و معانی کی ایک جھلک ان کے ایک ابتدائی مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں بھی موجود ہے۔ اس میں انسانی زندگی میں نبوت کی ضرورت اور انسانوں کی تعلیم و تہذیب کے باب میں نبوت کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت علامہ نے لکھا تھا: ’’ آواز نبوت کا اصلی زور اور اس کی حقیقی وقعت عقلی دلائل اور براہین پر مبنی نہیں ہے۔ بلہ اس کا دار و مدار اس روحانی مشاہدے پر ہے جو نبی کی غیر معمولی قواء کو حاصل ہوتا ہے اور جس کی بنا پر اس کی آواز میں وہ ربانی سطوت و جبروت پیدا ہو جاتا ہے جس کے سامنے انسانی شوکت ہیچ محض ہے، یہ ہے نمود مذہب کا اصلی راز جس کو سطحی خیال کے لوگوں نے نہیں سمجھا اور اسے غلطی سے انہوں نے اصول مذہب کی خونریزیوں اور عالمگیر جنگوں کا محرک تصور کیا ہے، یہی حقیقت ہے قربانی کی جس کو تمام دنیا کی قوموں نے وقتاً فوقتاً مختلف صورتوں میں اختیار کیا ہے، باریک بین لوگ جانتے ہیں کہ اگر قبائل انسانی کو ایثار کی تعلیم نہ دی جاتی تو یقینا ارتقائے انسانی کا سلسلہ ٹوٹ جاتا اور موجودہ تہذیب و تمدن کی وہ صورت مطلق نہ ہوتی جو آج ہے۔۔۔۔‘‘ 24؎ رموز بیخودی میں ملت کی تربیت کے لئے نبی کی ضرورت پر مبنی اقبال کے اشعار کا خلاصہ ڈاکٹر عبدالشکور احسن نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’ ملت کے فکر و عمل میں پختگی و ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے خدا اس میں کوئی صاحب دل پیدا کرتا ہے۔ جس کی بات کے ہر حرف میں جہاں معنی آباد ہوتا ہے۔ جس کے نغمے خاک راہ کو نئی زندگی بخشتے ہیں اور جس کی ذات سے ذرۂ بے مایہ میں تابندگی پیدا ہوتی ہے۔ وہ فرد کو خداند ان باطل کی غلامی سے آزادی بخشتا ہے اور ایک مقصد کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اسے نکتہ توحید کی اہمیت سے آگاہ کرتا ہے اور اس کے اندر نیاز مندی کی راہ و رسم کی طرح ڈالتا ہے۔‘‘ 25 ڈاکٹر علی شریعتی نے پیغمبری کی حقیقت اور معاشرتی ضرورت کا عمرانی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے او ربتایا ہے کہ پیغمبر، منصب نبوت سے قطع نظر، مصلحین پر اس قدر فوقیت رکھتے ہیں کہ انہوں نے تاریخ میں ہمیشہ عمرانی انقلابات کی بنیاد ڈالی ہے۔ ڈاکٹر شریعتی رقم طراز ہیں: ’’ عمرانیات کے نقطہ نظر سے پیغمبروں کی دوسرے مبلغین پر برتری۔۔۔ خودی پیغمبری کے منصب و مقام سے الگ۔۔۔۔ یہ ہے کہ انہوں نے فطرت اور دنیا میں موجود خدائی قوانین کو، محض مصلحین سے بہتر طور پر سمجھ لیا ہے اور ا س بنیاد پر وہ اپنی آزادی کو ایسے انسانوں کے طور پر زیادہ بہتر انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ جو معاشرہ میں اپنے مقاصد کی ترویج و ترقی کرتے ہیں یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کی تاریخ نے بھرپور تصدیق کی ہے کہ پیغمبر ہمیشہ ان مصلحین کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب رہے ہیں جو پیغمبر نہ تھے۔‘‘ 26؎ مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں تاریخی اور عمرانی حقیقت کے طور پر اقبال کا یہ خیال سامنے آتا ہے کہ ملت کی ہمہ جہت تربیت کی تکمیل نبوت کی مرہون منت رہی ہے۔ (ج) ملت اسلامیہ کی عمرانی اور روحانی اساس: علامہ اقبال نے رموز بیخودی میں ایک مربوط اور منظم عمرانی نظام پیش کیا ہے۔ اس مثنوی کے مختلف ابواب عمرانی فکر کے تحت یوں مرتب ہوئے ہیں کہ ہر باب پہلے باب کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ فرد او رملت کے ربط باہمی کے ایک ملت کی تشکیل اور نبوت کے ذریعے اس کی تکمیل کا بیان کرنے کے بعد اگلے باب میں اقبال نے ایک نہایت اہم عمرانی مسئلہ کو موضوع بنایا ہے۔ اس باب کا عنوان ’’ ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ‘‘ ہے۔ عام طور پروطن یا نسل پر کسی قومیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اقبال بھی کم و بیش 1907ء تک قومیت یا وطنیت کا مغربی تصور رکھتے تھے۔ مگر قیام یورپ (1905-08ئ) کے زمانے میں ان کے ذہن میں ایک زبردست تبدیلی واقع ہوئی۔ عزیز احمد نے اپنی کتاب، اقبال نئی تشکیل، کے باب ’’ اسلامی شاعری کا دور‘‘ میں لکھا ہے: ’’ جس طرح اقبال کی ملی اور انقلابی شاعری کے دور میں وطن سے محبت کا جذبہ ہمیشہ باقی رہا۔ اسی طرح ان کی ابتدائی وطنی شاعری کے دور میں مذہبی عقیدت کے آثار جا بجا ملتے ہیں۔ وطنی دور کی شاعری میں مذہب کا تعلق سیاسیات سے بالکل نہ تھا، وہ ایک ذاتی وجدان، ذاتی اعتقاد تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وجدان، یہ اعتقاد شروع ہی سے بہت گہرا تھا۔۔۔۔ اس لئے جو تبدیلی ہوئی وہ یہ نہیں تھی کہ اقبال نے قومی شاعری کی جگہ اسلام کی شاعری کو اپنا خاص موضوع بنایا۔ اسلام کی شاعری تو ان کے کلام میں پہلے بھی شامل تھی اصل تبدیلی یہ ہے کہ انہوں نے سیاسیات کو وطن سے علیحدہ کر کے مذہبی تمدن سے منسلک کر دیا۔‘‘ 27؎ اس پہلو سے فکر اقبال کا مطالعہ کرنے کے لئے بانگ درا حصہ سوم کی پہلی دس نظموں میں بلاد اسلامیہ 28؎ گورستان شاہی، ترانہ ملی اور وطنیت (یعنی بحیثیت ایک سیاسی تصور) نہایت اہم ہیں۔ مگر آخری دو نظموں کی تاریخ اشاعت معلوم نہیں ہو سکی۔ البتہ ان کے بعد مختلف حوالوں کی بنا پر اہمیت کی حامل نظم ’’ شکوہ‘‘ ہے جو اپریل 1911ء کے جلسہ انجمن حمایت اسلام میں پڑھی گئی۔ 29؎ بہرحال بانگ درا کے عمومی طریق ترتیب سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دونوں نظمیں یعنی ترانہ ملی اور وطنیت 1910ء کی نظمیں ہوں گی۔ یہ دونوں نظمیں مفصل مطالعے کی متقاضی ہیں۔ مگر سر دست ہمارے موضوع کے اعتبار سے مندرجہ ذیل شعر توجہ طلب ہیں: نظم’’ ترانہ ملی‘‘ کے پہلے دو شعر ملاحظہ کیجئے: چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا وطنیت اور قومیت کے جدید تصورات اقبال کو اسلام کی اجتماعی زندگی، روحانی اقدار اور اخلاقی روح کے منافی نظر آتے ہیں۔ اور وہ اقوام عالم کی وطن پرستی کو دیکھتے ہوئے وطن کو نئے تہذیبی، تمدنی اور سیاسی بتوں میں سب سے بڑا بت خیال کرتے ہیں۔ 30؎ چنانچہ اپنی نظم ’’وطنیت‘‘ میں کہتے ہیں۔ اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب ونی ہے غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفویٰ خاک میں اس بت کو ملا دے ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے ٭٭٭ اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے اقبال کی مذکورہ بالا نظموں کے سیاق و سباق اور گہرے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے یہ نظمیں ان کے کسی جذباتی رد عمل یا کسی فوری محرک کا نتیجہ نہیں۔ اس زمانے کی ان کی بعض نثری تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال کی وطنیت اور قومیت سے منافرت محض مغربی استعمار سے مخاصمت اور مخالفت کی پیداوار نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی معاشرہ کے عمرانی اور تمدنی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسلام ایک ایسی ملت ہے جو جغرافیائی حدود اور رنگ و نسل کے امتیازات سے ماورا ہے۔ اقبال نے 1909ء کے اپنے ایک انگریزی مضمون (Islam as a Moral and Political Ideal) میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس مضمون کا ملخص پیش کیا ہے۔ وہ ایک جگہ اقبال کی انگریزی عبارت کے مفہوم کو اردو میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اسلام بحیثیت سیاسی نصب العین کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے اسلام کے تصور ملی کی (اقبال) وضاحت کرتے ہیں کہ اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ملت یا قوم بھی ہے۔ اسلام میں مذہب اور ملت ایک دوسرے سے الگ نہیں کئے جا سکتے۔ اس اعتبار سے آپ (اقبال) کے نزدیک اصطلاح’’ ہندی مسلمان‘‘ میں تناقص ہے کیونکہ اسلام میں قومیت ایک نظریہ ہے جس کی بنیاد علاقائی یا جغرافیائی اصول پر استوار نہیں کی گئی۔ فرد کے مفاد پر ملت کے مفاد کو اس لئے فوقیت حاصل ہے کہ ملت اسلام کی خارجی شکل ہے۔ اسلامی دستور کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں کہ اس کے دو بنیادی اصول ہیں۔ اول قانون الٰہی کی حاکمیت اور دوم ملت کے تمام افراد میں مساوات، اسلام کا سیاسی نصب العین ملت اسلامیہ کے اتحاد کے ذریعہ صحیح معنوں میں جمہوریت کا قیام ہے۔۔۔۔‘‘ 31؎ زیر نظر بحث کے ضمن میں’’ بیاض اقبال‘‘ میں ایک نسبتاً طویل شذرہ بہت اہم ہے۔ اس میں انہوں نے قومیت کی جغرافیائی اور مذہبی بنیادوں کا فرق ظاہر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اسلامی قومیت کا مادی کی بجائے روحانی اور مذہبی بنیادوں پر انحصار ہے۔ 32؎ علاوہ ازیں اقبال نے انگریزی زبان میں1911ء میں علی گڑھ میں اپنے خطبہ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں ’’جماعت المسلمین کی ہیئت ترکیبی‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: ’’ اولاً مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے، ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے نہ اشتراک وطن، نہ اشتراک اغراض اقتصادی، بلکہ ہم لوگ اس برادری میں ہیں جو جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی۔ اس لئے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے اور جو تاریخی روایات ہم سب کو ترکہ میں پہنچی ہیں وہ بھی ہم سب کے لئے یکساں ہیں، اسلام مادی قیود سے بیزاری ظاہر کرتا ہے اور اس کی قومیت کا دار و مدار ایک خاص تہذیبی تصور پر ہے۔ جس کی تحمیمی شکل وہ جماعت اشخاص ہے جس میں بڑھتے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت طبعاً موجود ہے، اسلام کی زندگی کا انحصار کسی خاص قوم کے خصائل مخصوصہ و شمائل مختصہ پر نہیں ہے، غرض اسلام زمان و مکان کی قیود سے مبرا ہے۔۔۔۔۔‘‘ 33؎ اس بحث کے دوران اقبال نے وطن پر مبنی قومیت سے پیدا ہونے والی ایک امکانی غلط فہمی کی بھی وضاحت کر دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ اس سے یہ گمان نہ کیا جائے کہ میں جذبہ حب وطن کا سرے سے مخالف ہوں، ان قوموں کے لئے جن کا اتحاد حدود ارضی پر مبنی ہو اس جذبہ سے متاثر ہونا ہر طرح سے حق بجانب ہے، لیکن میں ان لوگوں کے طرز عمل کا یقینا مخالف ہوں جو اس امر کے معترف ہونے کے باوجود کہ جذبہ حب وطن قومی سیرت کا ایک قیمتی عنصر ہے، ہم مسلمانوں کی عصبیت کو نام دھرتے ہیں اور اسے وحشیانہ تعصب کہہ کر پکارتے ہیں۔ حالانکہ ہماری عصبیت ایسی ہی حق بجانب ہے جیسی ان کی وطن پرستی، عصبیت سے بجز اس کے اور کچھ مراد نہیں کہ اصول حب نفس بجائے اس کے کہ ایک فرد واحد میں ساری، و دائر ہو ایک جماعت پر اپنا عمل کرتا ہے حیوانات کی تمام نوعیں کم و بیش ضرور ہوتی ہیں اور اگر انہیں اپنی انفرادی یا اجتماعی ہستی برقرار رکھنی ہو تو ضرور ہے کہ ان میں عصبیت موجود ہو، اقوام عالم پر نظر ڈالئے ایک قوم بھی ایسی نہ ہو گی جو پیرایہ عصبیت سے عاری ہو۔۔۔۔‘‘ 34؎ اس کے بعد کی سطور میں کم و بیش انہی الفاظ میں وہ ساری بحث درج ہے۔ جو ہم گذشتہ صفحات میں شذرات فکر اقبال سے نقل کر چکے ہیں۔ اقبال نے اپنے خطبہ میں اس بحث کے آخر میں عصبیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ عصبیت سے صرف قومی پاسداری مراد ہے، دوسری اقوام کو بہ نگاہ تنفر دیکھنا اس کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔۔‘‘ 35؎ یہاں اس پہلو کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے Reflections Stray میں Fanaticism کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا شذرات فکر اقبال میں مترجم نے عصبیت ترجمہ کیا ہے۔ مگر اقبال نے اسٹریچی ہال علی گڑھ والے خطبہ The Muslim Community: A Sociological Study میںA Sabiyyat کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لہٰذا اسی کے مطابق مولانا ظفر علی خان نے اقبال کے اس خطبے کا ترجمہ کرتے ہوئے اس لفظ کو اختیار کر لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیر نظر خطبہ تحریر کرتے وقت اقبال کے سامنے ابن خلدون کا مقدمہ رہا ہو گا۔ بہرحال انگریزی میں خطبہ قلمبند کرتے ہوئے عصبیت کی اصطلاح استعمال کرنے سے متبادر ہوتا ہے کہ اقبال نے یہ اصطلاح پوری دلالتوں کے ساتھ ابن خلدون سے لی ہے۔ مقدمہ ابن خلدون میں عصبیت پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ 36؎ ڈاکٹر بشارت علی کے مطابق عصبیت کا تصور ابن خلدون کا عظیم نظریہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: Ibn Khaldun,s greatest contribution in theory is to be seen in his concept of Asabiya. As an Integral part of his major theorization on Asabiya he has given thoughful consideration to control pressure and reference groups. مشہور مستشرق فرانز روزن تھال (Franz Rosenthal) نے مقدمہ ابن خلدون کے انگریزی ترجمہ کے تعارف میں عصبیت کی بڑی جامع وضاحت کی ہے۔ اس کے مطابق To the question what, then, Causes diffrences in the size quality, and influence of different human social organizations? ibn khaldun replis that there must be some factor, some incitement, for the desire for co-operation to exist on a larger scale among some human beings than among others. only thus can large and powerful states have originated. this factor he calls عصبیت (asabiyah) Solidarity. Group feeling group sonsciousness a word which he borrowed from classical usage and to which he gave a new, positive meaning. the group to which an individual feels most closely attached is his clan or tribe, the people with whom he shares a common descent but, politically, the asabiyah con also be shared by people not related to each other by bolld ties but by long and close contract as members of a group 38 ایک اور مستشرق ہنرخ سائمن نے ابن خلدون پر اپنی کتاب Ibn Khalduns Science of Human Culture میں ابن خلدون کے ہاں مذہب اور عصبیت کے تعلق کی وضاحت کی ہے اور معاشرہ کے استحکام میں مذہب کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: When ibn Khaldun talks about religion, religion and asabiyah are either linked togather or the institutional character of religion in urbal society in emphasised. as far as religious faith as element, as institutions of the urbal way of life, in concerned, ibn Khaldun discessed it only as a body of laws, without treating its emotional aspect. ibn khaldun,s conception of the role of religion as a factor that preserved society. as law, is not too diffrent from the corresponding views of averroes, 39 اقبال نے بھی عصبیت کی عمرانی قدر متعین کرتے ہوئے اسے مذہب سے مربوط کیا ہے۔ انہوں نے مذہب پر تنقید سے مسلمانوں کے برانگیختہ ہونے کو ’’ شذرات فکر اقبال ‘‘ کے شذرہ نمبر18 کے علاوہ خطبہ علی گڑھ1911ء میں بھی دہرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ ہماری قومیت ایک شے موجود فی الذہن ہے موجود فی الخارج نہیں ہے، بلحاظ ایک قوم ہونے کے ہم جس مرکز پر آ کر جمع ہو سکتے ہیں وہ مظاہر آفرینش کے متعلق ایک خاص قسم کا اشراقی سمجھوتہ ہے جو ہم نے آپس میں کر رکھا ہے، پس اگر کسی کا ہمارے مذہب کو برا کہنا ہماری آتش عصبیت کو برافروختہ کرنا ہے، میری دانست میں یہ برافروختگی اس فرانسیسی کے غصہ سے کچھ کم واجبی نہیں ہے جو اپنے وطن کی برائیاں سن کر بھڑک اٹھتا ہے۔‘‘ 40؎ اقبال نے وطنی عصبیت اور مذہبی عصبیت کا فرق ایک فقرہ میں ہی واضح کر دیا ہے۔ یہ فقرہ شذرہ نمبر18میں بھی ہے۔ اس میں اقبال نے Fantacism کا لفظ اور اس کی جگہ خطبہ 1911ء میں Asabiyyat کا لفظ استعمال کیا ہے۔ معلوم نہیں مولانا ظفر علی خاں نے ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں اقبال کے درج ذیل فقرہ کا ترجمہ کیوں شامل نہیں کیا۔ Asabiyyat is patriotism for religion patriotism asabiyyat for country. 41 مندرجہ بالا بحث کو سمیٹ کر ایک نئے پہلو کی طرف لاتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: ’’ غرض مذہبی خیال بلا اس دینی اکتناز کے جو افراد کی آزادی میں غیر ضروری طور پر خلل انداز ہو اسلامی جماعت کی ہیئت ترکیبی کا مدار علیہ ہے۔ اگسٹس کامٹ (August Comte) کا قول ہے کہ ’’ چونکہ مذہب ہماری کل ہستی پر حاوی ہے لہٰذا اس کی تاریخ ہماری نشوونما کی پوری تاریخ کا خلاصہ ہونا چاہئے۔‘‘ یہ قول جیسا ہماری قوم پر صادق آتا ہے ویسا کسی اور قوم پر نہیں۔‘‘ 42؎ اقبال نے جماعت المسلمین کی ہیئت ترکیبی میں دوسرا اہم عنصر مذہبی معتقدات کی وحدت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر قومی زندگی کا دار و مدار ہے۔ 43؎ کیونکہ اسلام میں رنگ، نسل، خون اور جغرافیائی حوالے سے قوم و ملک کے امتیازات اور اختلافات کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے۔ چنانچہ رموز بیخودی میں اقبال نے توحید اور رسالت کو ملیہ اسلامیہ کے ارکان اساسی قرار دیا ہے۔ بہرحال اس طویل پس منظر کے بعد رموز بیخودی کے باب ’’ ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ‘‘ کا مطالعہ اقبال کے عمرانی اور معاشرتی تصور کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہو گا۔ امت مسلمہ کے اعتقادی نظام میں خدا کے واحد اور اس کے لاشریک ہونے پر ایمان پہلی بنیادی شرط ہے۔ گویا توحید کے عقیدہ کو تسلیم کئے بغیر کوئی فرد ملت اسلامیہ کا رکن نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اقبال نے اسلامی قومیت کے ارکان اساسی میں توحید کو رکن اول قرار دیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے چھٹے خطبہ ’’ الاجہتاد فی الاسلام‘‘ میں بھی توحید کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اس تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ظہور اسلام کے وقت تہذیب و تمدن کے تمام نظام بگڑ چکے تھے، بتایا ہے: ’’ یہ بھی ایک طبعی امر تھا کہ اسلام کا ظہور ایک ایسی سادہ مزاج قوم میں ہوتا جو قدیم تہذیبوں کے اثرات سے یکسر پاک اور ایک ایسی سر زمین میں آباد تھی جہاں تین براعظم آپس میں مل جاتے ہیں۔ اس نئی تہذیب نے اتحاد عالم کی بنا اصول توحید پر رکھی۔ لہٰذا بطور اساس ریاست اسلام ہی وہ عملی ذریعہ ہے جس سے ہم اس مقصد میں کہ توحید کا یہ اصول ہماری حیات عقلی اور جذباتی میں ایک زندہ عنصر کی حیثیت اختیار کر لے، کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس اصول کا تقاضا ہے کہ ہم صرف اللہ کی اطاعت کریں، نہ کہ ملوک و سلاطین کی۔ پھر چونکہ ذات الٰہیہ ہی فی الحقیقت روحانی اساس ہے زندگی کی، لہٰذا اللہ کی اطاعت فطرت صحیحہ کی اطاعت ہے۔ اسلام کے نزدیک حیات کی یہ روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے۔ ‘‘ 44؎ علامہ اقبال 1918ء میں رموز بیخودی میں ’’ توحید‘‘ کے عنوان کے تحت تقریباً یہی مضمون شعروں میں بیان کر چکے تھے۔ وہ توحید کی برکات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ در جہاں کیف و کم گردید عقل پے بہ منزل برد از توحید عقل دین ازو حکمت ازو آئین ازو زور از قوت ازو تمکین ازو علامہ نے زندگی میں یقین محکم کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر اپنے کلام میں جگہ جگہ پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے نزدیک یقین محکم ایک عمرانی وجدان اور کائناتی بصیرت بھی ہے۔ کیونکہ ایمان و یقین کی اس قوت کا سرچشمہ توحید ہے۔ بقول اقبال: بیم و شک میرد عمل گیرد حیات چشم می بیند ضمیر کائنات انسان کے اندر اپنی عبدیت کا احساس بلکہ ایمان پیدا ہی توحید کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ جب انسان کے دل و دماغ میں خدا کے آقا و مالک ہونے کا اعتقاد اور اپنی بندگی کا یقین پختہ ہو جاتا ہے تو اس کی شخصیت میں ایسی صفات پیدا ہوتی ہیں کہ فقیری اور شاہی میں فرق نہیں رہتا۔ چون مقام عبدہ، محکم شود کاسہ در یوزہ جام جسم شود ’’ جاوید نامہ ‘‘ میں بھی ایک جگہ توحید پر ایمان کی بدولت تاریخ میں ابھرنے والی چند شخصیات کا ذکر کیا ہے: بایزید و شبلی و بوذر ازوست امتاں را طغرل و سنجر ازوست توحید کی عمرانی اہمیت، کلام اقبال میں ان مقامات پر نمایاں ہوتی ہیں۔ جہاں انہوں نے توحید کے تہذیب و معاشرت پر حیات پرور اثرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً ملیہ اسلامیہ کے اساسی رکن اول ہی کی ذیل میں لکھا ہے: ملت بیضا تن، و جان لا الہ ساز ما را پردہ گردان لا الہ لا الہ سرمایہ اسرار ما رشتہ اش شیرازۂ افکار ما حرفش از لب چون بدل آید ہمے زندگی را قوت افزاید ہمے اسلامی عمرانیات کے مشہور عالم ڈاکٹر بشارت علی نے ملت اور امت کی قرآنی اصطلاحوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ قرآن شریف کی اصطلاحیں ملت اور امت پر جو ہمارے حالیہ سیاسی تصورات کی جان ہیں۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جوں جوں افراد کے جذبات، احساسات، خیالات اور اعمال میں اتحاد پیدا ہوتا جاتا ہے۔ ان میں شعور اجتماعی پیدا ہوتا جاتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جس سے معاشرے کو اپنی مجموعی قوت کا احساس ہوتا ہے۔ منجملہ اور سورتوں کے میں آپ کی توجہ سورہ کریمہ احزاب کی طرف مبذول کراتا ہوں۔ اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ شعور اجتماعی ہی سے اجتماعی نصب العین، اجتماعی مقاصد اور اجتماعی نقائص کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ 45؎ علامہ اقبال نے ملت کے شعور اجتماعی اور اس کے جذبہ و احساس کی ہم آہنگی و یک رنگی کو توحید کی برکات قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: اسود از توحید احمر می شود خویش فاروقؓ و ابو ذر می شود ملت از یک رنگی دلہا ستے روشن از یک جلوہ ایں سیناستے قوم را اندیشہ ہا باید یکے در ضمیرش مدعا باید یکے علامہ اقبال پر یہ حقیقت، جیسا کہ اس سے پہلے بھی بیان ہوا، قیام یورپ (1908-08ئ) میں ہی واضح ہو گئی تھی کہ جغرافیائی خطوں یا رنگ و نسل کو قومیت کی بنیاد بنانا بنی نوع انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مترادف ہے اور اس تقسیم سے جو منفی تعصبات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ نسل انسانی اور امن عالم کے لئے ایک مستقل خطرہ ہیں۔ اس لئے وہ ان وطنی اور نسلی امتیازات کو غیر فطری خیال کرتے تھے۔ اور اس کے مقابلے میں اسلام کی عالمگیر ملی اساس کو انسانیت کے لئے باعث رحمت گردانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے (خاص طور پر 1908ء کے بعد آخری وقت تک) کبھی وطن، رنگ و نسل اور زبان وغیرہ کے اشتراک کو وحدت انسانی کی بنیاد تصور نہیں کیا۔ علامہ اقبال اپنے پانچویں خطبہ ’’ اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں ایک جگہ وحدت انسانی کے تصور کے تاریخی پس منظر میں مسیحی روما کے مجرد تصور پر اسلام کے محسوس تصور کی فوقیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ لیکن اس سے کس قدر مختلف ہے عالم اسلام کی تاریخ یہاں وحدت انسانی کا خیال نہ تو محض کوئی فلسفیانہ تصور تھا، نہ شاعرانہ خواب بلکہ روز مرہ زندگی کا ایک زندہ اور قائم عنصر جو چپکے چپکے اور غیر محسوس طریق پر اپنا کام کرتا رہا۔ ‘‘ 46؎ رموز بیخودی میں توحید کے بیان ہی میں علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کو توحید پرست ہونے کی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے۔ ما مسلمانیم و اولاد خلیل از ابیکم گیر اگر خواہی دلیل اس کے بعد وطن پرستی اور نسب پرستی کو قومیت کی بنیاد قرار دینے والی اقوام کی مذمت کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کی روحانی اساس کا یوں ذکر کیا ہے۔ ملت ما را اساس دیگر است این اساس اندر دل ما مضمر است حاضریم و دل بغائب بستہ ایم پس ز بند این و آں وارستہ ایم چونکہ ملت اسلامیہ کی اساس عقیدہ توحید ہے۔ لہٰذا اس کی بدولت ملت اسلامیہ مثل انجم جذب باہمی رکھتی ہے۔ اس فطری تعلق نے ملت اسلامیہ میں ایسی وحدت پیدا کر دی ہے کہ اس کے مدعا و مقصد اور ’’ طرز و انداز خیال‘‘ ایک ہو گئے ہیں۔ توحید کی برکات سے ایسی اخوت وجود میں آئی ہے جس نے پوری ملت کو یک زبان، یک دل اور یک جان کر دیا ہیـ: مدعاے ما مال ما یکیست طرز و انداز خیال ما یکیست ماز نعمت ہائے او، اخواں شدیم یک زبان و یک دل و یک جاں شدیم علامہ نے جاوید نامہ میں بھی توحید کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے افراد میں لاہوتی صفات پیدا ہوتی ہیں اور وہ ان میں روحانی وحدت کا باعث ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ملت میں قوت و جبروت بھی توحید ہی سے آتی ہے: فرد از توحید لاہوتی شود ملت از توحید جبروتی شود ٭٭٭ چیست ملت اے کہ گوئی لا الہ؟ با ہزاران چشم بودن یک نگہ! اہل حق را حجت و دعویٰ یکے است خیمہ ہائے ما جدا دلہا یکے است ملتے چوں می شود توحید مست قوت و جبروت می آید بدست! توحید کے بیان میں آخری باب کا عنوان’’ در معنی این کہ یاس و حزن و خوف ام الخبائث است و قاطع حیات و توحید ازالہ این امراض خبیثہ می کند‘‘ ہے۔ زیر نظر مقالے کے پچھلے باب میں اقبال کے 1909ء کے انگریزی مضمون ’’ اسلام بطور ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین‘‘ کا ایک اقتباس درج کیا گیا ہے۔ جس میں اقبال نے کہا ہے کہ انسان اخلاقی ترقی کے بلند ترین مقام پر اس وقت پہنچتا ہے جب وہ مکمل طور پر غم اور خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔ 47؎ اسی طرح اسرار خودی کے مرحلہ دوم: ضبط نفس کے بیان میں توحید کو خوف کا مداوا قرار دیا ہے۔ رموز بیخودی کے زیر بحث باب میں عقیدہ توحید کے ضمن میں ’’ لاتقنطو‘‘ اور’’لاتحزن‘‘ اور’’ لاتخف‘‘ کا سبق دیا گیا ہے۔ اقبال نے اس عمرانی حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ ہر معاشرتی اور اخلاقی برائی کی پرورش میں ڈر، خوف اور نا امیدی کا بڑا حصہ ہے۔ علامہ نے شرک کو بھی خوف ہی کی پیداوار کہا ہے۔ آخر میں بتایا ہے کہ ان سب برائیوں کا علاج عقیدہ توحید میں مضمر ہے۔ ہر شر پنہاں کہ اندر قلب نست اصل او بیم است اگر بینی درست لابہ و مکاری و کین و دروغ این ہمہ از خوف می گیرد فروغ ہر کہ رمز مصطفیٰ فہمیدہ است شرک را در خوف مضمر دیدہ است توحید کے بعد علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کا دوسرا اساسی رکن رسالت کو قرار دیا ہے۔ کیونکہ اسلام کے بنیادی عقائد میں دوسرا عقیدہ رسالت پر ایمان ہے۔ تاریخ انسانی کا مطالعہ اس حقیقت کو منکشف کرتا ہے کہ مختلف زمانوں میں انسان کو گمراہی سے نکالنے کے لئے خدا کے پیغمبر مبعوث ہوتے رہے۔ کیونکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں تہذیبی، تمدنی اور عمرانی ترقی کے باوجود انسان کائنات کی حقیقت کے کلی ادراک میں ناکام رہا تو اسے فوق البشر رہبری اور راہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس عجز کے موقع پر بقول مولانا ابو الحسن علی ندوی: ’’ ہمارے سامنے ایسے انسان آتے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ان مسائل میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس حکیم کائنات نے اس عالم کے بہت سے اسرار ہم پر فاش کئے ہیں اور ایک نیا عالم (عالم غیب) ہم پر منکشف کیا، جس کو جب وہ ہمیں دکھاتا ہے، اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح تم اس عالم (عالم شہود) کو دیکھتے ہو، اس نے ہم کو اپنے دلی منشا، پسندیدگی اور نا پسندیدگی اور احکام کا براہ راست علم بخشا۔ اپنے اور تمہارے درمیان ہمیں واسطہ بنایا اور ہم پر اپنا کلام نازل کیا، یہ انبیاء کا گروہ ہے۔‘‘ 48؎ مولانا ندوی انبیاء کے دعوے کی بارہ شقوں کے تحت شہادتیں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’ اس کی سب سے بڑی شہادت خود ان (انبیاء کرام) کی ذات اور سیرت ہوتی ہے، جو ایک طویل، مسلسل اور معتد معجزہ بلکہ صدہا معجزات کا مجموعہ ہوتی ہے اور اسی معجزہ پر انسانوں کی سب سے بڑی جماعت ایمان لاتی ہے۔‘‘ 49؎ علامہ اقبال نے اپنے 1909ء کے محولہ بالا انگریزی مضمون میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات پر تاریخ کی شہادت مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی ہے: ’’ اسلام تمام مذاہب سے زیادہ کم سن یا نوخیز مذہب ہے اور انسانیت کی آخری تخلیق ہے۔ اس مذہب کے بانی ہمارے سامنے اظہر من الشمس ہیں وہ ایک تاریخی شخصیت ہیں اور ہمہ گیر انتقاد کے لئے آمادہ آتے ہیں ان کی صورت کے گردا گرد مبہم افسانوں نے پردے نہیں بنے ہیں۔ ان کا تولد تاریخ کی روشنی میں ہوا ہے ہم ان کے اعمال کے باطنی سرچشمے کا بخوبی ادراک کر سکتے ہیں۔ ہم ان کے ذہن کو عمیق نفسیاتی تجزیے کا موضوع بنا سکتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘ 50/51؎ سید سلیمان ندوی نے سیرت کے اس پہلو پر ایک نہایت جامع خطبہ قلم بندکیا ہے انہوں نے اکتوبر اور نومبر1925ء میں ’’ سیرت نبوی کے مختلف پہلوؤں پر آٹھ خطبے‘‘ مدراس میں دیے تھے۔ دوسرے خطبہ بعنوان ’’ عالمگیر اور دائمی نمونہ عمل صرف محمد رسول اللہ صلعم کی سیرت ہے‘‘ کے اختتامی پیراگراف کی ابتدائی سطور میں لکھتے ہیں: ’’ میں نے آج جو کچھ کہا ہے، اس کو اچھی طرح سمجھ لیجئے، میں یہ کہنا اور دکھانا چاہتا ہوں کہ آئیڈیل لائف اور نمونہ تقلید بننے کے لئے جو حیات انسانی منتخب کی جائے ضرور ہے کہ اس کی سیرت کے موجودہ نقشہ میں یہ چار باتیں پائی جائیں، یعنی تاریخیت، جامعیت، کاملیت اور عملیت۔‘‘ 52؎ اس سلسلے کے تیسرے خطبے کے آغاز کی پانچ سطریں گویا اس خطبہ کا خلاصہ ہیں وہ لکھتے ہیں۔ ’’ آئیے اب ان چاروں معیاروں کے مطابق پیغمبر اسلام علیہ السلام کی سیرۃ مبارکہ پر نظر ڈالیں، سب سے پہلی چیز تاریخیت ہے، اس باب میں تمام دنیا متفق ہے، کہ اس حیثیت سے اسلام نے اپنے پیغمبر کی اور نہ صرف اپنے پیغمبر کی بلکہ ہر اس چیز کی اور اس شخص کی جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی حضرت ؐ کی ذات مبارک سے تھا، جس طرح حفاظت کی ہے، وہ عالم کے لئے مایہ حیرت ہے۔‘‘ 53؎ اس عمرانی اور تاریخی پس منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ امت مسلمہ کی تشکیل اور تاسیس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرہون منت ہے۔ مندرجہ ذیل شعر میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ملت کی زندگی رسالت سے وابستہ ہے: فرد از حق، ملت از وے زندہ است از شعاع مہر او تابندہ است مولانا غلام رسول مہر اس شعر کا مطلب بیان کرنے کے بعد وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ مطلب خدانخواستہ یہ نہیں کہ قوم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دائرے سے نکل کر رسالت کے دائرے میں چلی جاتی ہے، معاذ اللہ۔ مراد صرف یہ ہے کہ افراد کو قوم کی شکل میں منظم کرنے کا وسیلہ اللہ تعالیٰ نے رسول کو قرار دیا ہے۔ افراد بدستور اللہ کے حکم سے مرتے اور جیتے ہیں لیکن انہیں بنانے اور قائم رکھنے کا وسیلہ رسول اور اس کی تعلیم کے اتباع کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ 54؎ رسول اکرم صلعم کے اتباع کی بدولت امت محمدیہ میں وحدت اوراتحاد ہے۔ یگانگت کے بغیر ملت کوئی معنی اور مفہوم نہیں رکھتی۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ رسالت کی بدولت ملت اسلامیہ ہم نفس او رہم نوا بنتی ہے۔ از رسالت ہم نوا گشتیم ما ہم نفس ہم مدعا گشتیم ما کثرت ہم مدعا وحدت شود پختہ چوں وحدت شود ملت شود زندہ ہر کثرت ز بند وحدت است وحدت مسلم ز دین فطرت است دین فطرت از نبی آموختیم در رہ حق مشعلے افروختیم اقبال نے رسالت کے باب کے آخری اشعار میں بیان کیا ہے کہ جس طرح حضرت محمد رسول اللہ ؐ پر رسالت کے سلسلے کی تکمیل ہو گئی۔ اسی طرح امت مسلمہ پر اقوام کا خاتمہ ہو گیا۔ پس خدا برما شریعت ختم کرو بر رسولؐ ما رسالت ختم کرو رونق از ما محفل ایام را او رسل را ختم و ما اقوام را لا نبی بعدی ز احسان خداست پردۂ ناموس دین مصطفیٰ است دل ز غیر اللہ مسلماں بر کند نعرہ لا قوم بعدی می زند بشیر احمد ڈار نے ملت اسلامیہ کے اساسی ارکان کے ذیل میں ختم نبوت کے مسئلہ پر بھی بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ اقبال نے اس مسئلہ پر رموزبے خودی اور اپنے خطبات میں مختلف نقطہ ہائے نظر سے بحث کی ہے۔ اول الذکر میں وہ ختم نبوت کو اسلامی معاشرے کی بدنظمی کا مداوا خیال کرتا ہے یہ تصور کہ کوئی معاشرہ کسی اعتبار سے بھی اسلامی معاشرہ سے بہتر نہیں ہو گا، اسے مضبوط و مستحکم بنانے میں بڑے نفسیاتی اثر کا حامل ہے۔‘‘ 55؎ اقبال نے اپنے پانچویں خطبہ ’’ اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں عقیدہ ختم نبوت پر فلسفیانہ انداز سے بحث کی ہے۔ اس بحث کا مندرجہ ذیل اقتباس بڑی عمرانی معنویت رکھتا ہے۔ علامہ لکھتے ہیں: ’’ پیغمبر اسلام صلعم کی ذات گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سرچشمہ وحی کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے، لیکن بہ اعتبار اس کی روح کے دنیائے جدید سے۔ یہ آپ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ سرچشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رخ کے عین مطابق تھے۔ لہٰذا اسلام کا ظہور۔۔۔۔۔۔ استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی، لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا ۔ اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعور ذات کی تکمیل ہو گی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگر دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا، یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا، یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا، یا عالم فطرت اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا تو اس لئے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ مضمر ہے، کیونکہ یہ سب تصور خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔‘‘ 56؎ توحید اور رسالت کا یہ وظیفہ کہ دونوں عقیدے وحدت آفرین ہیں، بیان کرنے کے بعد علامہ نے رسالت محمد یہ کا مقصود حریت، مساوات اور اخوت کا قیام ہے، رموز بیخودی کے اگلے باب کا موضوع ٹھہرایا ہے۔ اس باب کے تمہیدی اشعار میں ظہور اسلام سے پہلے انسانیت کی زبوں حالی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے بعد نبی اکرم ؐ کی بدولت بپا ہونے والے تمانی اور عمرانی انقلاب کا ذکر ہے۔ جس نے ہر نوع کے ظلم و تعدی، جبر و استبداد اور استحصال کا خاتمہ کر دیا۔ تا امینے حق بحقداران سپرد بندگاں را مسند خاقاں سپرد شعلہ ہا از مردہ خاکستر کشاد کوہکن را پایہ پرویز داد قوت او ہر کہن پیکر شکست نوع انساں را حصار تازہ بست تازہ جاں اندر تن آدم زمید بندہ را باز از خدا دنداں خرید زادن او مرگ دنیائے کہن مرگ آتش خانہ و دیر دشمن تاریخ میں غلامی کے خاتمہ میں اسلام کے کردار کو علامہ اقبال نے ہمیشہ عمرانی اور تہذیبی پس منظر میں دیکھا ہے۔ رموز بیخودی کے مندرجہ بالا اشعار پر مبنی خیال پہلے پہل ان کے 1904ء کے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ سب سے پہلے نبی عرب ؐ نے انسان کو فطری آزادی کی تعلیم دی اور غلاموں اور آقاؤں کے حقوق کو مساوی قرار دے کر اس تمدنی انقلاب کی بنیاد رکھی جس کے نتائج کو اس وقت تمام دنیا محسوس کر رہی ہے۔ ایسا کرنا گویا نوع انسان کے ایک کثیر حصے کو اس آزاد مقابلے کے میدان میں واپس لے آنا تھا جس کے اثر سے تمدن و تہذیب کی اعلیٰ صورتیں پیدا ہوتی ہیں اور جو دنیا کی تمام تہذیب و شائستگی کی بیخ و بنیاد ہے۔ حکیم عرب کی اس مبارک تعلیم یا نتیجہ کیا ہوا؟ مسلمانوں میں غلام بادشاہ ہوئے، غلام وزیر ہوئے، غلاموں کو اعلیٰ تعلیم دی گئی، غلاموں میں فلسفی اور ادیب پیدا ہوئے۔ غرضیکہ اس قبیح امتیاز کے مٹ جانے سے ہر غلام ایک اعلیٰ خاندان کے آدمی کے ساتھ عقلی مقابلہ کر سکتا تھا اور اس مقابلے میں کامیاب ہو کر سلطنت کے اعلیٰ ترین مناصب پر پہنچ سکتا تھا۔ اس تعلیم کا سب سے اعلیٰ نمونہ جناب فاروق نے پیش کیا، جب کہ وہ بیت المقدس کی فتح کے لئے جا رہے تھے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، دنیا کی کسی قوم کی تاریخ ایسی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ اور مسلمان اس تعلیم پر جس قدر ناز کریں بجا ہے۔‘‘ 57؎ پھر علامہ نے 1909ء کے انگریزی مضمون’’ اسلام بطور ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین‘‘ میں غلامی کے ادارے کا جائزہ لیتے ہوئے مندرجہ بالا باتیں بھی دہرائی ہیں۔ 58؎ انسانی آزادی کی طرح اخوت بھی مقصود رسالت ہے۔ ملت اسلامیہ میں اخوت کی اخلاقی قدر نمایاں کرنے کے لئے علامہ اقبال نے بو عبیدہ اور جابان کے تاریخی واقعہ کو بطور حکایت بیان کیا ہے۔ اسی طرح اسلام میں مساوات کی عمرانی قدر ثابت کرنے کے لئے بھی حکایت کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔ جو سلطان مراد اور معمار کے واقعہ پر مبنی ہے۔ 59؎ توحید اور رسالت پر ایمان کا منطقی نتیجہ حریت پسندی ہے اور حق کی خاطر جان کو بے دریغ قربان کر دینا حریت کی اولین شرط ہے۔ رسالت کے اس منشا و مقصود کو بھی علامہ نے حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے واقعہ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ کربلا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ کی جانبازی کو خراج پیش کرتے ہوئے جو اشعار نظم کئے ہیں ان میں سے چند شعر یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ خاست آن سر جلوہ خیر الاممؓ چوں سحاب قبلہ باراں ور قدم بر زمین کربلا بارید و رفت لالہ ور ویرانہ ہا کارید و رفت تا قیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است پس بنائے لا الہ گردیدہ است ملت کی اساس کے اس تفصیلی مطالعے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مجملاً ان شرائط اور حقائق کا بھی ذکر کیا جائے جو علامہ اقبال کے نزدیک ملت کے استحکام اور استقلال کا باعث ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے بڑی حقیقت پسندانہ رمز کو واضح کیاہے کہ نصب العین اور مقاصد کا تعین حیات افروزی میں ایک فعال عنصر ہے۔ فرد کی زندگی کی طرح ملت کی زندگی کے لئے بھی نصب العین بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ قومی نصب العین کی بدولت ملت کے افراد میں حقیقی جمعیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کے نصب العین کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ توحید کا تحفظ اور اس کی اشاعت امت محمدیہ کا نصب العین ہے۔ ملت کے قیام اور استقرار کی دوسری شرط آئین اور دستور ہے۔ رموز کا یہ باب کہ ’’ قوم کا نظام بغیر آئین کے قائم نہیں ہوتا اور قرآن، ملت محمدیہ کا آئین ہے‘‘ بڑی عمرانی اہمیت کا حامل ہے۔ ابتدا میں شاعرانہ استدلال کے ساتھ آئین کی اہمیت اور ضرورت واضح کی ہے۔ اس کے بعد علامہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: تو ہمی دانی کہ آئین تو چیست؟ زیر گردوں سر تمکین تو چیست؟ آن کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لایزال است و قدیم نسخہ اسرار تکوین حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات پھر چند اشعار میں قرآن کی تعلیمات کے انقلابی اثرات کی طرف اشارہ ہے کہ اس سے غلام آقا بن گئے۔ مگر اب قوم قرآن سے تغافل کے باعث سکر و مستی اور اضمحلال کا شکار ہو گئی ہے۔ علامہ اس سلسلے میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے گرفتار رسوم ایمان تو شیوہ ہائے کافری زندان تو گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن از تلاوت بر تو حق وارد کتاب تو ازو کامے کہ می خواہی بیاب اقبال نے تصور ملت میں مرکز محسوس کی ضرورت کو ایک عمرانی قدر کے طور پر نمایاں کیا ہے۔ رموز بیخودی میں ایک باب بعنوان ’’ در معنی ایں کہ حیات طیبہ مرکز محسوس میخواہد و مرکز ملت سلامیہ بیت الحرام است‘‘ میں اجتماعی وحدت اور قومی تشخص کے لئے مرکز محسوس کی حقیقت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر قوم کے استحکام کے لئے کوئی ایک مرکز ایسا ہونا چاہئے جہاں عزیز احمد کے الفاظ میں ’’ اجتماعی وحدت کے تمام عناصر باہم ایک دوسرے سے ربط اور تعلق قائم کر سکیں۔‘‘ 60؎ حضرت علامہ نے ملت اسلامیہ کے لئے ایک مرکز محسوس کی ضرورت کو 1909ء میں ہی سمجھ لیا تھا۔ وہ ’’ اسلام بطور ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین‘‘ میں لکھتے ہیں: Nationality with us is a pure idea it has no gergaphical basis. But Inasmuch as the average man demands a material centre of nationality, the Muslim looks for it in holy town of Mecca, so that the basis of Muslim Nationality Combines the real and the Ideal, the concrete and the abstract. when, therefore, it is said that the interests of Islam are superior to those of the Muslim, it is meant that the interests of individual as a unit are ubordinate to the untersets of community as an external symbol of the Islamic Principle. 6 ’’ ہماری قومیت صرف ایک عقیدہ ہے یہ جغرافیائی بنیادوں پر استوار نہیں لیکن چونکہ ایک اوسط درجے کا آدمی قومیت کے مادی مرکز کا مطالعہ کرتا ہے اس لئے مسلمان مکے کے مقدس شہر میں اس کی جستجو کرتا ہے تاکہ مسلم قومیت حقیقی اور تصوری یا ٹھوس اور تجریدی پہلوؤں کا امتزاج بن جائے۔ چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کے مفادات مسلمانوں کے مفادات سے افضل اور اعلیٰ ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ انفرادی مفادات قومی مفادات کے تابع ہیں۔ قومیت ہی اسلامی اصول کی خارجی علامت ہے ‘‘ 62؎ محولہ بالا اقتباس میں جو نکتہ بیان ہوا ہے وہ مسلم قومیت کی عمرانی زندگی کا ایک اہم ستون ہے اس خیال کی عمرانی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ تقریباً نو سال بعد یہی مضمون رموز بیخودی کے درج ذیل اشعار میں بیان ہوا ہے: ہمچناں آئین میلاد امم زندگی بر مرکزے آید بہم حلقہ را مرکز چو جان در پیکر است خط او در نقطہ او مضمر است قوم را ربط و نظام از مرکزے روزگارش را دوام از مرکزے راز دار و راز ما بیت الحرم سوز ما ہم ساز ما بیت الحرم ملت بیضا ز طوفش ہم نفس ہمچو صبح آفتاب اندر قفس تو ز پیوند حریمے زندہ تا طواف او کنی پائندہ ان اشعار کے سلسلے میں عزیز احمد نے ایک نہایت ضروری وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ بحیثیت ‘‘ مرکز محسوس اقبال کے نزدیک خانہ کعبہ کی اساس جتنی مذہبی ہے اتنی ہی بین الاقوامی۔ یہ امر کہ ’’ خانہ کعبہ‘‘ ایک جغرافیائی مقام ہے، اقبال کے اصلی نقطہ نظر سے متصادم نہیں ہوتا کیونکہ اس کی حیثیت محض توحید کے مرکز کی ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں کے ایک بہت بڑے حصے کو اپنی طرف بلا کے یہ در حقیقت دنیا کے بہت سے ملکوں میں وطن کی سیاسی مرکزیت کے تخیل کی تنقیض کرتا ہے۔ 63؎ مرکز سے وابستگی پر اجتماعی وحدت کا کس قدر انحصار ہے؟ اس نکتہ کو علامہ نے قوم موسیٰ کی مثال سے واضح کیا ہے: در جہاں جان امم جمعیت است در نگر سر حرم جمعیت است عبرتے اے مسلم روشن ضمیر از امت موسیٰ بگیر داد چوں آں قوم مرکز را ز دست رشتہ جمعیت ملت شکست علامہ اقبال کے تصور ملت میں ان کا نظریہ خودی، اجتماعی خودی کے تصور پر منتج ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک فرد کی طرح ملت بھی احساس خودی کے باعث کمال پر پہنچتی ہے۔ بقول (ڈاکٹر) جمیل جالبی: ’’ اقبال کے نزدیک اسلام کی روح ’’ خودی‘‘ ہے۔۔۔۔۔ انفرادی خودی اور اجتماعی خودی۔۔۔۔۔ جس فرد کی خودی جتنی مستحکم ہو گی اسی قدر وہ دوسرے افراد سے ممتاز ہو گا۔ اسی طرح جس قوم کی خودی سب سے بلند ہو گی وہ سب پر غالب رہے گی۔‘‘ 64؎ اجتماعی خودی کی پیدائش اور تکمیل کیسے ہوتی ہے؟ اس مسئلے کا اقبال نے خصوصی جائزہ لیا ہے۔ جس سے ان کا عمرانی نقطہ نظر واضح ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اجتماعی خودی کا احساس ملی روایات کے تحفظ سے تکمیل کے مرحلہ پر پہنچتا ہے۔ دراصل اجتماعی خودی کا تصور عمرانی پہلو رکھتا ہے۔ کیونکہ اجتماعی خودی ثقافت اور قومی تاریخ کے مترادف ہے۔ قومی ثقافت کی شناخت’’ آگاہی اور اس سے وابستگی قومی زندگی کی توسیع کا باعث ہے۔‘‘ الیکس انکلس (Alex INkeles) نے اپنی کتاب ’’ عمرانیات کیا ہے؟‘‘ میں ثقافتی ورثہ کے حوالہ سے لکھا ہے: ’’ چونکہ ہر نسل سابقہ نسل سے کم یا زائد تقریباً یکساں ثقافتی ورثہ حاصل کرتی ہے اس لئے ایک نسل کے لوگ دوسری نسل کے لوگوں سے متعلقہ رہتے ہیں اور اپنے افعال میں یک جہتی لے آتے ہیں۔‘‘ 65؎ علامہ اقبال کے نزدیک کسی قوم کی گذشتہ، آئندہ اور حال کی نسلوں میں ربط اور تعلق برقرار رکھنے میں قومی تاریخ سے آگاہی کا کردار بنیادی ہے۔ اس لئے کہ تاریخ فرد اور قوم کے رشتہ کو مستحکم کرتی ہے۔ علامہ مسلمان سے خطاب کرتے ہیں: ضبط کن تاریخ را پائندہ شو از نفس ہائے رمیدہ زندہ شو دوش را پیوند با امروز کن زندگی را مرغ دست آموز کن سرزند از ماضی تو حال تو خیزد از حال تو استقبال تو مشکن از خواہی حیات لازوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال اقبال کے تصور ملت گویا حیات اجتماعی کی تشکیل کے تدریجی مراحل کو پیش نظر رکھتے ہوئے، زیر نظر باب میں علامہ کے ملت اسلامیہ کے تصور کے عمرانی زاویے واضح کئے گئے ہیں۔ آئندہ صفحات بھی زیر نظر باب ہی سے منسلک ہیں لیکن انہیں جدا باب قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال پیش آمدہ صفحات میں رموز بیخودی میں حیات اجتماعی سے متعلق ان پہلوؤں پر مبنی مباحث کا جائزہ لیا گیا ہے جو اقبال کے عمرانی فکر کے مطابق ملت کی بقا اور استحکام کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ٭٭٭ حوالے نمبر 7 1عطا اللہ شیخ، مکاتیب اقبال (مرتبہ) حصہ اول، لاہور، ص24-23 2بٹالوی، عاشق حسین، چند یادیں چند تاثرات، آئینہ ادب لاہور، 1969ء ص47 3شاہد، محمد حنیف، نذر اقبال، بزم اقبال لاہور، اگست1972ء ص18 4جاوید اقبال، زندہ رود، حیات اقبال کا وسطی دور، لاہور1981ء ص211 5فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اقبال سب کے لئے ، کراچی 1978ء ص80 6شاہد، محمد حنیف، مفکر پاکستان، لاہور1982ء ص662 7جاوید اقبال محولہ بالا 8مفکر پاکستان، محولہ بالا 9دیکھئے تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ص96 10مالک رام نے مضمون کے آغاز میں ایک طویل نوٹ لکھا ہے۔ اس میں زیر بحث مضمون کے بارے میں لکھتے ہیں: (1) ’’ مندرجہ ذیل مضمون بھی ڈاکٹر بجنوری مرحوم کے ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے۔ اسرار خودی اول بار 1916ء میں اور رموز بیخودی 1918ء میں شائع ہوئیں۔ مرحوم نے جب ہی یہ مضمون انگریزی رسالہ ایسٹ اینڈ ویسٹ میں لکھا تھا‘‘ (نیرنگ خیال اقبال نمبر، ص122) (ب) محمد حنیف شاہد نے اقبال پر کمیاب انگریزی مضامین کا ایک مجموعہ شائع کیا ہے۔ جس میں ڈاکٹر بجنوری کا زیر نظر مضمون بھی شامل ہے۔ مولف نے ہر مضمون کے شروع میں مضمون کے مصنفین کا چند سطری تعارف لکھا ہے۔ ڈاکٹر بجنوری کے بارے میں لکھتے ہیں: This the first critical written by Dr. Abdur Rehman Seohari (Knoen as Bijnauri) of Bhopal in the Asrar-i-Khudi (1916) and remmzi Behnudi (1918) after their Publication. Dr. Abdur Rehman, a well Known write and Critre, had close Contacr with Allama Iqbal and was greatly admired by the later. this Critical survey was published in the East and West (simla), vol. 7, No. 201 July 1918, pp. 817-27(Tribute to Iqbal, Lahore. 1977. p.145) یاد رہے کہ اس فٹ نوٹ کی شق (ا) اور (ب) میں اسرار خودی کی تاریخ اشاعت1915ء کی بجائے 1916ء بتائی گئی ہے۔ جو درست نہیں۔ اسی طرح شق (ب) کے مطابق رسالہ اینڈ ویسٹ کی متعلقہ اشاعت جولائی 1918ء بتائی گئی ہے۔ اقبال اپنے خط میں جولائی کی بجائے اگست تحریر کرتے ہیں۔ دیکھئے متن میں اقبال کے خط کا اقتباس 11عطاء اللہ، اقبال نامہ (حصہ دوم) لاہور1951ء ص69 12خان، محمد نیاز الدین، مکاتیب اقبال، بزم اقبال لاہور1954ء ص13 13خان، محمد نیاز الدین، محولہ بالا، ص9 14قریشی، محمد عبداللہ، مکاتیب اقبال بنام گرامی، اقبال اکادمی پاکستان، کراچی 1969ء ص136 15’’ قومی زندگی‘‘ مشمولہ مقالات اقبال لاہور1963ء ص53نیز دیکھئے: تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، لاہور1983ء ص18 17بحوالہ مقالات اقبال، لاہور1963ء ص191-192 18اقبال کے ہاں کامٹ کے متعلق حوالوںکے لئے دیکھئے۔ (a) The Development of Metaphysics in Persia, Lahore p. 47. (c) The Muslim Community a Sociological Study Mujalla Tahqiq Lahore, vol 3, No1.p20 (c) The Reconstruction of Religion Thought in Islam, Lahore. April 1968. pp111, 159-160 (d) پیام مشرق، محاورہ مابین حکیم فرنسوی اگسٹس کومٹ و مرد مزدور ’’ کلیات اقبال فارسی، لاہور‘‘ 1973ء ص275-274 19-A اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، مترجمہ سید نذیر نیازی، بزم اقبال لاہور، مئی 1983ء ص168 20مقالات اقبال 1963ء ص117-116 22خان، ڈاکٹر یوسف حسین، روح اقبال، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی، 1957ء ص197 24مقالات اقبال 1963ء ص45-44 25احسن، عبدالشکور (ڈاکٹر) اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، 1977ئ، ص55-54 27عزیز احمد، اقبال نئی تشکیل، گلوب پبلشرز لاہور ص43 28نوٹ: بلاد اسلامیہ اور گورستان شاہی بالترتیب مخزن اپریل 1909ء اور مخزن جون 1910ء میں شائع ہوئی تھیں۔ دیکھئے مطالب بانگ درا صفحات168, 163 29مطالب بانگ درا، ص188 30بیاض اقبال، 1910ء کے چند مہینوں کے نوٹس پر مبنی ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل شذرہ سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کی مذکورہ نظم ’’ وطنیت‘‘ (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے) اسی شذرہ کی بازگشت ہے۔ تقابل کے لئے مکمل شذرہ درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے۔ وطن پرستی بھی بت پرستی کی ایک نازک صورت ہے۔ مختلف قوموں کے وطنی ترانے میرے اس دعوے کا ثبوت ہیں کہ وطن پرستی ایک مادی شے کی پرستش سے عبارت ہے۔ اسلام کسی صورت میں بت پرستی کو گوارا نہیں کر سکتا۔ بت پرستی کی تمام اقسام کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا ابدی نصب العین ہے۔ اسلام جس چیز کے مٹانے کے لئے آیا تھا، اسے مسلمانوں کی سیاسی تنظیم کا بنیادی اصول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پیغمبر اسلام کا اپنی جائے پیدائش مکہ سے ہجرت فرما کر مدینے میں قیام اور وصال غالباً اسی حقیقت کی طرف ایک مخفی اشارہ ہے۔‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص83 اصل انگریزی متن کے لئے دیکھئے Stray Reflections ص26 31 جاوید اقبال، زندہ رود، حیات اقبال کا وسطی دور، لاہور1981ء ص187نوٹ: علامہ اقبال کے اپنے الفاظ یہ ہیں: 32 زیر بحث شذرہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔ جو شذرات فکر اقبال میں ’’ عصبیت‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا ہے۔ ’’ تمام قومیں ہم پر عصبیت (اقبال نے Fanaticism کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دیکھئے (Stray Reflections, p.23) کا الزام لگاتی ہے۔ مجھے یہ الزام قبول ہے بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہم اپنی عصبیت میں حق بجانب ہیں۔ حیاتیات کی زبان میں، عصبیت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اصول فردیت بجائے فرد واحد کے ایک جماعت پر عمل کرتا ہے۔ اس مفہوم میں حیات کی تمام صورتیں کم و بیش متعصبانہ ہوتی ہیں، اور اگر انہیں اپنے اجتماعی وجود کی کچھ پروا ہے تو انہیں ایسا ہی ہونا چاہئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ساری قومیں متعصب ہیں کسی انگریز کے مذہب پر تنقید کیجئے تو اس پر کوئی اثر نہ ہو گا، لیکن ذرا اس کی تہذیب، اس کے ملک یا عملی سرگرمیوں کے کسی دائرے میں اس کے قومی شعار پر نکتہ چینی کیجئے تو اس کا اندرونی تعصب ظاہر ہو جائے گا۔ بات یہ ہے کہ اس کی قومیت کا انحصار مذہب پر نہیں۔ بلکہ ایک جغرافیائی بنیاد یعنی اس کے ملک پر ہے۔ لہٰذا جب آپ اس کے ملک پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو بجا طور پر اس کا جذبہ عصبیت برانگیختہ ہو جاتا ہے۔ ہماری حیثیت اصلاً اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت محض ایک تصور ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ حیات و کائنات کے ایک خاص نظریے کے بارے میں ایک طرح کا ذہنی سمجھوتا ہی ہمارا واحد نقطہ اجتماع ہے۔ اب اگر مذہب پر تنقید ہماری عصبیت کو برانگیختہ کر دیتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں ہم اسی طرح حق بجانب ہیں جیسے وہ انگریز جس کی تہذیب کو مطعون کیا جائے۔ احساس کی نوعیت دونوں حالتوں میں یکساں ہے۔ اگرچہ اس کا تعلق مختلف چیزوں سے ہے عصبیت، دینی وطن پرستی ہے اور وطن پرستی ملکی عصبیت‘‘ (منقول از شذرات فکر اقبال، ص82-81) 33مقالات اقبال 1963ء ص119-20 34ایضاً، ص121 35 ایضاً ص122 36دیکھئے مقدمہ ابن خلدون مترجمہ مولانا سعد حسن خاں یوسفی، ناشر نور محمد، کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی، باب دوم و باب سوم 40مقالات اقبال 1963ء ص122 41مجلہ تحقیق لاہور، جلد3شمارہ 1 42مقالات اقبال 1963ء ص123 نوٹ: اقبال کے ہاں کامٹ کے تذکرہ کے سلسلہ میں ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ ص 245اور247بھی دیکھئے۔ 43مقالات اقبال ص123 44تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، مطبع دوم 1983ء ص227-226 45(عمرانی، معاشرتی اور اجتماعی مسائل) چند خطبات، شائع کردہ اکادمی علوم اسلامیہ، کوئٹہ، نومبر1962ء ص62-61 46تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، مطبع دوم مئی 1983ء ص245 48 علی ندوی، ابو الحسن، مذہب و تمدن، شائع کردہ ادارہ نشریات اسلام، رحیم یار خان، پاکستان، ص78-77 49علی ندوی، ابو الحسن، مذہب و تمدن، محولہ بالا ص85 50اقبال، مترجم ڈاکٹر حامد خاں حامد، اسلام کا اخلاقی اور سیاسی مطمع نظر، قسط اول مطبوعہ ماہنامہ المعارف لاہور شمارہ اپریل 1982ء قسط دوم شمارہ مئی 1982ء 52سید سلیمان ندوی خطبات مدراس، یونیورسل بکس اردو بازار لاہور، س۔ ن۔ ص41 53ایضاً ص42 54مہرغلام رسول، مطالب اسرار و رموز، طبع اول، ص190 56تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، طبع دوم 1983ء ص194-193 57 مقالات اقبال 1963ء ص46-45 58 Sherwani, op.cit. pp. 92-93 59نوٹ: رموز بیخودی میں یہ واقعہ بطور حکایت بیان کرنے سے قبل 1909ء کے محولہ بالا مضمون میں مجملاً اس واقعہ کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ دیکھئے شیروانی، محولہ بالا، ص101 60عزیز احمد، اقبال نئی تشکیل لاہور، ص94 61 Sherwani, op.cit. p. 100 62ڈاکٹر حامد خاں حامد (ترجمہ) ماہنامہ المعارف لاہور شمارہ مئی 1982ء ص52 63عزیز احمد، محولہ بالا، ص95 64جالبی، جمیل، پاکستانی کلچر، مشتاق بک ڈیو کراچی باول اول 1964ء ص176 65انکلس الیکس عمرانیات کیا ہے؟ (مترجم ڈاکٹر صبیح الدین بقائی) اردو اکیڈمی سندھ کراچی، اردو ایڈیشن 1968ء ص154 ٭٭٭ Chapter No. 7 16. Formm Erich the crisis of psychoanalysis fawcett publication, Inc, U.S.A 1970 p. 27 19. D.P. Johnson, Sociological Theory (New York: 1981) pp. 84-85 21. Demos, Rapheal, Society and the Ethics of Individualism The Philocophical Review March 1945, p.112 23. Koening, Samuel, Sociology, new York, 1957, p.64. 26. Shariati, Ali On the Sociology of Islam (Translated from Persian by Hamid Algar) Mizan Press, Berkeley, 1979, p. 53 31. .......We Know that Islam is something more than a creed it is also a Community, a nation the membership of Islam as a Community is not determined by birth, locality or naturalisation it sonsists in the identity of belief the expression indian Muhammadan, However Convenint it may be is a Conteadication in terms since Islam in its essence is above all conditions of tims and space. Nationality with us is a pure idea. it has no geopraphical basis (Sherwani, op. c.i.t p. 100) 37. Ali, Basharat Dr. Muslim Social Philosophy, The Jamiyat ul falah publications, karachi, second Edition 1971, p. 48 38. Ibn Khaldun, The Muqddimah tr. Franz Rosenthal, London 1967, p. xi 39. Simon Heinrich Ibn Khaldun,s Science of Human Culture, Translated by Fuad Baali Sh. Muhammad Ashraf lahore, 1978, p. 161 47. Sherwani, op. cit. pp. 89-90 51. Sherwani, op. cit.p.87 55. Dar, Bashir Ahmad Iqbals Philosophy of Society, Published by the Literary and Philosophical Society, Lahore. c.d. p .66 58. See. Sherwani, op. cit. pp. 92-93 61. Sherwani, op. cit. p. 100 ٭٭٭ آٹھواں باب فکر اقبال کے تین متفرق عمرانی پہلو (الف) اقبال کے معاشی تصور کا عمرانی پہلو: انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہندوستان کی مختلف اقوام جدید تعلیم کے لئے کوشاں نظر آتی ہیں۔ برصغیر میں جدید تعلیم کی عام مقبولیت اور چرچے کا ایک سبب یہ تھا کہ تعلیم کو ایک اقتصادی اور معاشی وسیلہ خیال کیا جاتا تھا۔ ہندوستان کے عام افلاس کے پیش نظر اقتصادی مسئلہ در حقیقت ایک اجتماعی مسئلہ تھا۔ علامہ اقبال نے علم الاقتصاد کے دیباچہ میں لکھا ہے: ’’ اہل ہندوستان کے لئے تو اس علم (اقتصاد) کا پڑھنا اور اس کے نتائج پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں مفلسی کی عام شکایت ہو رہی ہے۔ ہمارا ملک کامل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوریوں اور نیز ان تمدنی اسباب سے بالکل نا واقف ہے جن کا جاننا قومی فلاح اور بہبودی کے لئے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ انسان کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں ان کا حشر کیا ہوا ہے۔‘‘ 1؎ گذشتہ صفحات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ علامہ اقبال کی تصنیف علم الاقتصاد کو محض ایک درسی کتاب خیال کیا جاتا ہے۔ اسے اقبال کے فلسفہ اور خصوصاً عمرانی فکر کے مطالعاتی منابع کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی عمرانی نظر کے آغاز سے لے کر آخر تک معاش اور اقتصاد کا معاملہ ایک عمرانی اور اجتماعی مسئلہ کی حیثیت سے کبھی اوجھل نہیں ہوا۔ اقبال نے اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں کئی دوسرے عمرانی مسائل کے علاوہ اقتصادی پہلو پر بھی تفصیل سے بحث کی ہے۔ ایک جگہ جاپان کی صنعتی اور تجارتی ترقی کو ہندوستان کے لئے قابل تقلید قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اقوام ہند میں سے ہمارے بھائیوں نے اس راز کو کسی قدر سمجھا ہے اور چونکہ یہ لوگ بالطبع اس کام کے لئے موزوں بھی ہیں۔ اس واسطے یقینا ان کے سامنے ترقی کا ایک وسیع میدان ہے، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر اس اعتبار سے مسلمانوں کو دیکھا جائے تو ان کی حالت نہایت مخدوش نظر آتی ہے، یہ بد قسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے۔ صنعت کھو بیٹھی ہے، تجارت کھو بیٹھی ہے، اب وقت کے تقاضوں کے (سے) غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصاء ٹیکے کھڑی ہے۔‘‘ 2؎ اسی طرح اقبال نے 1911ء میں جو مشہور خطبہ بعنوان Muslim Community: A Sociological Study (مترجمہ ظفر علی خان، بعنوان ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر) اسٹریچی ہال علی گڑھ میں ارشاد فرمایا تھا۔ معلوم نہیں اقبال کے معاشی تصورات پر مباحث کے سلسلے میں اسے کیوں نظر انداز کیا گیا ہے، ہندوستان کے مسلمانوںکے معاشرتی، عمرانی اور تعلیمی مسائل اور معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے علامہ نے تقریباً خطبہ کے آخر میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو موضوع بحث بناتے ہوئے لکھا ہے: ’’ اب میں چند خیالات اپنی قوم کے غربا کی عام حالت کی اصلاح کے متعلق ظاہر کرتا ہوں، اس ضمن میں عام طبقہ کے مسلمانوں کی اقتصادی حالت سب سے پہلے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، یقینا کسی کو اس بات سے انکار نہ ہو گا کہ غریب مسلمان کی اقتصادی حالت نہایت ہی افسوسناک اور قابل رحم ہے، شہروں میں جہاں کی آبادی کا جزو غالب مسلمان ہیں معمولی درجہ کے مسلمانوں کی قلیل اجرت، غلیظ مکان اور ان کے پیٹ بھر روٹی کو ترستے ہوئے بچوں کا حسرت ناک نظارہ کس نے نہیں دیکھا، لاہور کے کسی اسلامی محلہ میں جا نکلو ایک تنگ و تاریک کوچہ پر تمہاری نظر پڑے گی جس کے وحشت زا سکوت کے طلسم کو رہ رہ کر یا تو لاغر و نیم برہنہ بچوں کی چیخ و پکار یا کسی پردہ نشین بڑھیا کی لجاجت آمیز صدا توڑتی ہو گی۔ جس کی سوکھی اور مرجھائی ہوئی انگلیاں برقع میں سے نکل کر خیرات کے لئے پھیلی ہوئی ہوں گی۔۔۔۔ سب سے زیادہ اہم عقدہ اس مسلمان کے سامنے جو قومی کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے۔ یہ ہے کہ کیونکر اپنی قوم کی اقتصادی حالت کو سدھارے‘‘ 3؎ بیسویں صدی کے پہلے عشرہ میں بھی اقبال نے اپنی نظم و نثر میں اقتصاد و معاش کے مسائل پر خاص توجہ دی ہے۔ اس زمانے میں اقبال مسلمانوں کی غربت، عسرت اور افلاس کی درد ناک حالت سے شدید طور پر متاثر تھے۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس منعقدہ اپریل 1911ء 4؎ میں انہوں نے اپنی مشہور نظم شکوہ پیش کی۔ دوسری اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کی دولت دنیا سے محرومی کا احساس اس نظم کے مندرجہ ذیل بندوں میں نظر آتا ہے: امتیں اور بھی ہیں، ان میں گنہگار بھی ہیں عجز والے بھی ہیں، مست مئے پندار بھی ہیں ان میں کابل بھی ہیں، غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر یہ شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور! اب وہ الطاف نہیں، ہم پہ عنایات نہیں بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب؟ تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب تو جو چاہے تو اٹھے سینہ صحرا سے حباب رہرو دشت ہو سیلی زدہ موج سراب طعن اغیار ہے، رسوائی ہے، ناداری ہے کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟ خضر راہ کی وہ پہلی نظم ہے جس میں صرف معاشی مسائل ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ سرمایہ و محنت کی آویزش کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد پیام مشرق، جاوید نامہ، زبور عجم، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز میں بہت سی ایسی نظمیں شامل ہیں جن کی بنیاد پر اقبال اور سوشلزم کے موضوع پر ایک عرصہ تک مناظرہ کی سی کیفیت رہی۔ اس کے نتیجہ میں اقبالیات میں اس موضوع پر اتنا مواد موجود ہے کہ اس کو دہرانا محض تکرار ہو گا۔ تاہم اس قدر کہنا ضروری ہے کہ اقبال سرمایہ داری اور اشتراکیت کے ان عناصر کی پر زور تنقید کرتے ہیں جو اسلامی نظام معیشت سے متصادم ہیں۔ دنیا کے مختلف معاشی نظاموں میں ملکیت اراضی ایک متنازع مسئلہ ہے اقبال کے کئی معاشی تصورات اور سیاسی نظریات میں مختلف عمرانی عوامل کے زیر اثر تبدیلی واقع ہوئی ہے اور ان میں سے بعض افکار ارتقائی مراحل سے بھی گزرے ہیں مگر ملکی اراضی کے مسئلہ پر اقبال کی رائے میں استقلال نظر آتا ہے۔ علم الاقتصاد میں ایک جگہ زمین کو قدرت کا مشترکہ عطیہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ تمدن انسانی کی ابتدائی صورتوں میں حق ملکیت یا جائیداد شخصی کا وجود مطلق نہ تھا۔ ۔۔۔۔ زمانہ حال کے بعض فلسفی اس بات پر مصر ہیں کہ تمدن کی یہی صورت سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ لہٰذا اقوام دنیا کی بہبودی اسی میں ہے کہ ان بے جا امتیازات کو یک قلم موقوف کر کے قدیمی اور قدرتی اصول مشارکت فی الاشیاء کو مروج کیا جائے کیونکہ یہ شے کسی خاص فرد یا قوم کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قدرت کا ایک مشترکہ عطیہ ہے جس پر قوم کے ہر فرد کو مساوی حق ملکیت حاصل ہے۔ حال کی علمی بحثوں میں یہ بحث بڑی دلچسپ ہے اور نتیجہ خیز ہے لیکن ہم اس کا مفصل ذکر اس ابتدائی کتاب میں نہیں کرنا چاہتے ۔۔۔۔‘‘ 5؎ زمین کی حقیقی ملکیت کے بارے میں اقبال کا یہی خیال ان کے انتہائی پختہ فکری زمانے میں بھی برقرار ہے۔ جاوید نامہ میں ملک عطارد کے باب ’’ محکمات عالم قرآنی‘‘ کی تیسری ذیلی سرخی ’’ارض ملک خداست‘‘ کے تحت بھی اقبال نے زمین کو خدا کی ملکیت قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: حق زمیں را جز متاع ما نگفت ایں متاع بے بہا مفت است مفت وہ خدایا! نکتہ از من پذیر رزق و گور از وے بگیر او رامگیر باطن الارض للہ ظاہر است ہر کہ ایں ظاہر نہ بیند کافر است علم الاقتصاد میں اقبال نے زمین پر ہر فرد کا مساوی حق بتاتے ہوئے اسے ایک دلچسپ اور نتیجہ خیز بحث قرار دیا تھا۔ اقبال کو اس موضوع سے کتنی گہری دلچسپی ہے اس کا اندازہ بال جبریل کی نظم ’’ الارض للہ‘‘ سے ہوتا ہے۔ یہ نظم صرف پانچ شعروں پر مشتمل ہے لیکن ان اشعار کی اجتہادی معنویت قابل غور ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟ کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟ کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار؟ خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟ کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب؟ موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟ وہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں! تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں! ڈاکٹر یوسف خان نے متذکرہ نظم پر اپنے تبصرہ کی تمہید میں بڑی موثر اور حقیقت پسندانہ گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ اسلام میں سرمایہ اور ملکیت خدا کی امانت ہے۔ وسائل دولت آفرینی پر نہ فرد کو تصرف کا حق حاصل ہے اور نہ جماعت کو بلکہ خدا کو۔ انسان جوں جوں ترقی کرتا جائے گا ذات واجب تعالیٰ کو اپنا مقصود منتہا بنا کر اپنے معاشی اداروں میں بھی تبدیلی کرتا رہے گا۔ ہر زمانے میں انسانی صفات عالیہ اس کا تعین کریں گی کہ کون سا طریق کار تمدنی ضروریات کے لئے مناسب ہے۔ چنانچہ اسلام میں سیاست و معیشت کے باب میں کوئی قطعیت نہیں۔ بنیادی اصول کو حتمی طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ اداروں کی شکلیں بدلتی رہیں گی اور ان میں احوال سے مطابقت ہوتی رہے گی۔ جس طرح سیاست میں حقیقی حاکمیت ذات واجب کی ہے اسی طرح وسائل معیشت خدا کے ہیں جن سے انسان استفادہ کر سکتا ہے 6؎ (بہرحال) اقبال کے نزدیک معیشت کا معیار و مقصود یہ ہونا چاہئے کہ کوئی کسی کا محتاج نہ رہے۔‘‘ 7؎ علامہ اقبال اپنی زندگی کے آخری سالوں تک لوگوں کے معاشی حقوق کے تحفظ کے مسئلہ پر غور و فکر کرتے رہے۔ وہ 28مئی 1937ء کو قائداعظم محمد علی جناح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے۔ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن (اس ضمن میں) کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس کا حل موجود ہے اور موجودہ نظریات کی روشنی میں (اس میں) مزید ترقی کا امکان ہے۔ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لئے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جاتا ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں نا ممکن ہے۔ ‘‘ 8؎ اس اجمالی بحث سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ علامہ اقبال کو ہمیشہ معاشی مسئلہ کی عمرانی اہمیت کا احساس رہا اور ان کی یہ دلی آرزو تھی کہ دنیا میں منصفانہ نظام معیشت قائم ہو۔ (ب) اقبال کے عمرانی فکر میں عورت کا مقام: عمرانی زندگی میں عورت کی اہمیت کے حوالے سے اقبال نے ہمیشہ ہی سے ایک صحیح فکر انسان کی طرح عمرانی نظام زندگی میں دعوت کو ایک اہم رکن خیال کیا ہے۔ علامہ کی پہلی تصنیف علم الاقتصاد اگرچہ ایک مخصوص موضوع سے بحث کرتی ہے مگر اس میں بعض جگہ ضمناً عورت کا ذکر آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے تمدنی تاریخ کے ارتقا میں عورت کے کردار کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ مثلاً وہ اس کتاب کے دوسرے باب ’’ محنت‘‘ کے ذیلی عنوان ’’ انقسام محنت‘‘ کے تحت لکھتے ہیں: ’’ تہذیب و تمدن کے ابتدائی مراحل میں ہر انسان اپنی ذاتی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے سارا کام خود کرتا ہے اپنی جھونپڑی کا معمار بھی آپ ہی ہوتا ہے اور اپنے شکار کے لئے تیر و کمان اور دیگر اوزار بھی آپ ہی تیار کر لیتا ہے مگر اس حالت میں بھی کسی نہ کسی حد تک انقسام محنت کا اصول عمل میں ضرور آتا ہے۔ عورت سوت کاتتی ہے پہننے کے لئے کپڑے تیار کرتی ہے کھانا پکاتی ہے لیکن مرد اور کام کرتا ہے جن میں قوت اور چستی کی زیادہ ضرورت ہے۔۔۔۔‘‘ 9؎ علم الاقتصاد کے حصہ پنجم کا باب اول بعنوان ’’ آبادی‘‘ اقبال کی معروف تحریر ہے۔ اس میں بھی ایک جگہ ایک ضمنی بحث میں عورت کا ذکر آیا ہے مگر اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ انسان کی تمدنی تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی عمرانی حیثیت سے اقبال کس قدر آگاہ تھے۔ وہ ’’ صرف دولت‘‘ کی بحث میں لکھتے ہیں: ’’ دولت کا دوسرا استعمال یہ ہے کہ اس کی وساطت سے دستکار رشتہ ازدواج استوار کرتا ہے۔ بی بی کی خواہش ایک فطری خواہش ہے اور یہ بالعموم ان خواہشوں کے پورا ہو چکنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ جن کا پورا ہونا انسان کے جسمانی بقا کے واسطے انتہا درجے کا ضروری ہے مگر بی بی انسان کے بعض قدرتی تقاضوں کو ہی پورا نہیں کرتی بلکہ ابتدائے تمدن میں خاوند کو اپنے کاروبار میں مدد دیتی ہے اور اس طرح اس کی پیداوار محنت پر بڑا اثر کرتی ہے۔ اگر قدیم قومیں ایک سے زیادہ بیبیاں کرنا مستحسن تصور کرتی تھیں۔ اس کی وجہ کچھ تو یہ ہے جو اوپر مذکور ہوئی اور کچھ یہ کہ ہر قبیلہ اپنے افراد کی تعداد کو زیادہ کرنا چاہتا تھا تاکہ اسے جنگ و جدل میں جو تمدن کے ابتدائی مراحل کا خاصہ ہوتا ہے، دیگر قبائل پر غلبہ رہے۔ تاہم یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ اقتصادی لحاظ سے تعدد ازدواج تمدن کی ہر صورت میں مستحسن ہے کیونکہ اس سے آبادی بہت بڑھتی ہے جو بسا اوقات قوموں کے افلاس کا باعث ہوتی ہے۔‘‘ 10؎ اس مقالے میں مختلف مقامات پر اس امر کی طرف توجہ دلائی جا چکی ہے کہ اقبال کے ابتدائی مقالات میں قومی زندگی (1904ئ) ان کے عمرانی فکر کے حوالے سے نہایت گراں قدر مضمون ہے۔ اس میں ایک مقام پر مسلمانوں کی اصلاح تمدن کی ضرورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اصلاح تمدن کے ضمن میں سب سے زیادہ نازک مسئلہ حقوق نسواں کا ہے جس کے ساتھ چند اور ضروری مسائل مثلاً تعداد ازدواج، پردہ، تعلیم وغیرہ وابستہ ہیں۔۔۔ عورت حقیقت میں تمام تمدن کی جڑ ہے۔ ’’ ماں‘‘ اور ’’ بیوی‘‘ دو ایسے پیارے لفظ ہے کہ تمام مذہبی اور تمدنی نیکیاں ان میں مستتر ہیں۔ اگر ماں کی محبت میں حب وطن اور حب قوم پوشیدہ ہے، جس سے تمام تمدنی نیکیاں بطور نتیجے کے پیدا ہوتی ہیں تو بیوی کی محبت اس سوز کا آغاز ہے۔ جس کو عشق الٰہی کہتے ہیں۔ پس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ تمدن کی جڑ کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں، اور اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ مرد کی تعلیم صرف ایک فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔‘‘ 11؎ اسی طرح 1911ء میں علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں اقبال کے خطبہ (The Muslim Community: A Sociological Study) ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر کی عمرانی قدر و قیمت کا بار بار ذکر کیا جا چکا ہے۔ اس میں اسلامی یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت پر اظہار خیال کرنے کے بعد علامہ اقبال نے مسلمان عورتوں کی تعلیم کو موضوع بنایا ہے اور کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ یہاں اس بیان سے بعض ضروری اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں۔ اقبال مرد اور عورت کی مساوات کے موئید نہیں، وہ لکھتے ہیں: ’’ بفحوائے آیہ کریمہ الرجال قواموں علی النساء میں مرد اور عورت کی مساوات مطلق کا حامی نہیں ہو سکتا یہ ظاہر ہے کہ قدرت نے ان دونوں کے تفویض جدا جدا خدمتیں کی ہیں اور ان فرائض جداگانہ کی صحیح اور باقاعدہ انجام دہی خانوادہ انسانی کی صحت اور فلاح کے لئے لازمی ہے۔۔۔۔ مغربی دنیا میں جب عورتوں نے گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر کسب معاش کی جدوجہد میں مرد کا ساتھ دینا شروع کیا تو خیال کیا جاتا تھا کہ ان کی یہ اقتصادی حریت دولت کی پیداوار میں معتدبہ اضافہ کرے گی، لیکن تجربہ نے اس خیال کی نفی کر دی اور ثابت کر دیا کہ اس خاندانی وحدت کے رشتہ کو جو بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جزو اعظم ہے، یہ حریت توڑ دیتی ہے۔‘‘ 13؎ اس کے بعد جدید زمانے کے ذرائع رسل و رسائل کے عالمی تمدن پر اثرات کی بناء پر معاشرتی خدشات کے پیش نظر کہتے ہیں: ’’ پس اپنی قوم کی خاص نوعیت اسلام کی تعلیم اور عالم نسواں کے متعلق علم الاعضاء اور علم الحیات کے اکتشافات کو مد نظر رکھنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مسلمان عورت کو جماعت اسلامی میں بدستور اسی حد کے اندر رہنا چاہئے جو اسلام نے ان کے لئے مقرر کر دی ہے اور جو حد کہ اس کے لئے مقرر کی گئی ہے اسی کے لحاظ سے اس کی تعلیم ہونی چاہیے۔‘‘ 13؎ اس بحث کے آخر میں اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہیں رموز بیخودی میںعورت سے متعلق باب کا پیش لفظ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے: ’’ ہماری جماعت کا شیرازہ اس وقت تک بندھا رہ سکتا ہے جب تک کہ مذہب اسلام اور تہذیب اسلام کو ہم پر قابو ہے چونکہ عورت کے دل و دماغ کو مذہبی تخیل کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہے لہٰذا قومی ہستی کی مسلسل بقا کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو ابتدا میں ٹھیٹھ مذہبی تعلیم دیں، جب وہ مذہبی تعلیم سے فارغ ہو چکیں تو ان کو اسلامی تاریخ، علم تدبیر، خانہ داری اور علم اصول حفظ صحت پڑھایا جائے، اس سے ان کی دماغی قابلیتیں اس حد تک نشوونما پا جائیں گی کہ وہ اپنے شوہروں سے تبادلہ خیالات کر سکیں گی اور امومت کے وہ فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں گی جو میری رائے میں عورت کے فرائض اولین ہیں۔ ‘‘ 14؎ اقبال نے رموز بیخودی میں عمرانی نظام کے خط و خال پیش کرتے وقت عورت کی حیثیت کا بھی تعین کیا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا انحصار نئی نسل کی جسمانی صحت کے علاوہ ان کے اخلاق و کردار کی اعلیٰ قدروں پر ہوتا ہے۔ درس و تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے۔ لیکن سیرت کی تعمیر والدین کی ذمہ داری ہے۔ خصوصاً بچے کی تربیت ماں کا فطری اور قدرتی وظیفہ ہے۔ اقبال کے ہاں شروع ہی سے عورت کا تذکرہ معاشرتی حوالے سے ملتا ہے۔ بقول عزیز احمد: ’’ عورت کو انہوں (اقبال) نے انفرادی نقطہ نظر سے بہت کم دیکھا ہے اصل میں جنسی مسائل میں ان کا نقطہ نظر حیاتی ہے۔ ان کے (کی) رائے میں جاندار سلسلوں میں حیات نے نر اور مادہ کی تخلیق محض اس لئے کی ہے کہ افزائش نسل اور نوع کی ارتقاء اور حفاظت میں سہولت رہے۔‘‘15؎ اقبال عورت کو کبھی امومت کے تصور سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھتے۔ رموز بیخودی کا باب ’’ در معنی این کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است‘‘ اقبال کے عمرانی فکر کا لازوال شاہکار ہے۔ اس باب کا پہلا شعر اس حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے کہ معاشرتی زندگی مرد اور عورت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ نظام حیات کے لئے مرد اور عورت لازم و ملزوم ہیں: نغمہ خیز از زخمہ زن ساز مرد از نیاز او دوبالا ناز مرد پوشش عریانی مرداں زن است حسن دلجو عشق را پیراہن است حق کا عشق ماں کی گود میں پروان چڑھتا ہے: عشق حق پروردۂ آغوش او ایں نوا از زخمہ خاموش او اس سے اگلا شعر بھی معنوی اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں ایک مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ اس حدیث کو زیر نظر شعر میں استعمال کرنے سے پہلے مہاراجہ کشن پرشاد کے نام 30دسمبر1915ء کے ایک خط میں نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں، مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند ہیں نماز، خوشبو اور عورت۔۔۔۔ اس تخیل کی داد دینی چاہئے کہ نبی کریم ؐ نے عورت کا ذکر دو لطیف چیزوں کے ساتھ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت نظام عالم کی خوشبو اور قلب کی نماز ہے۔‘‘ 16 اس مضمون کو مثنوی رموز بیخودی کے زیر نظر باب میں یوں ادا کیا ہے: آنکہ نازو بر وجودش کائنات ذکر او فرمود باطیب و صلوٰۃ اقبال کے نزدیک عمرانی نقطہ نگاہ سے عورت کا سب سے بڑا مرتبہ یہ ہے کہ وہ ماں ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: ’’ اسلام نے جنت کا مقام ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیا۔ امت اور امومت میں گہرا معنوی ربط ہے۔ نبی کی شفقت اپنی امت پر بھی مادرانہ شفقت ہوتی ہے۔ سیرت اقوام، انبیاء کی تعلیم اور مثال سے بنی ہے یا اچھی ماؤں کی شفقت اور تربیت ہے: شفقت او شفقت پیغمبرؐ است سیرت اقوام را صورتگراست از امومت پختہ تر تعمیر ما درخط سیمائے او تقدیر ما ہست اگر فرہنگ تو معنی رسے حرف امت نکتہ ہا دارو بسے‘‘ 17؎ اقبال قومی تسلسل حیات اور ارتقائے حیات کے بڑے قائل ہیں۔ ان دونوں امور پر اقبال نے بہت غور و فکر سے کام لیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے مختلف مقامات پر اظہار خیال کیا ہے۔ لیکن ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں ان کا درج ذیل بیان ان کے نظریہ امومت سے مربوط کر کے نہیں دیکھا گیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ قوم ایک جداگانہ زندگی رکھتی ہے۔ یہ خیال کہ اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ یہ اپنے موجودہ افراد کا محض ایک مجموعہ ہے، اصولاً غلط ہے اور اسی لئے تمدنی و سیاسی اصلاح کی تمام وہ تجاویز جو اس مفروضہ پر مبنی ہوں بہت احتیاط کے ساتھ نظر ثانی کی محتاج ہیں۔ قوم اپنے موجودہ افراد کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بہت کچھ بڑھ کر ہے۔ اس کی ماہیت پر اگر نظر غائر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ غیر محدود اور لا متناہی ہے، اس لئے کہ اس کے اجزائے ترکیبی میں وہ کثیر التعداد آنے والی نسلیں بھی شامل ہیں جو اگرچہ عمرانی حد نظر کے فوری منتہا کے پرلی طرف واقع ہیں لیکن ایک زندہ جماعت کا سب سے زیادہ اہم جزو متصور ہونے کے قابل ہیں، علم الحیات کے اکتشافات جدیدہ نے اس حقیقت کے چہرہ پر سے پردہ اٹھایا ہے کہ کامیاب حیوانی جماعتوں کا حال ہمیشہ استقبال کے تابع ہوتا ہے، مجموعی حیثیت سے اگر نوع پر نظر ڈالی جائے تو اس کے وہ افراد جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اس کے موجودہ افراد کے مقابلے میں شاید زیادہ بدیہی الوجود ہیں، موجودہ افراد کی فوری اغراض ان غیر محدود نا مشہود افراد کی اغراض کے تابع بلکہ ان پر نثار کر دی جاتی ہے جو نسلاً بعد نسل بتدریج ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔۔‘‘ 18؎ اقبال کے عمرانی فکر میں نژاد نو کی تعلیم و تربیت ایک بڑا اہم مضمون ہے۔ ظاہر ہے نئی نسل کی معاشرتی ترتیب اور اس کی اخلاقی تعلیم کا اہتمام کرنے کے علاوہ عمرانی تقاضوں کے مطابق عقیدہ، ایمان اور یقین کو بچوں کے دل و دماغ میں بٹھانے کا فریضہ ماں سر انجام دیتی ہے۔ اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژاد نو) کے عنوان کے تحت لکھا ہے: ماورت درس نخستیں با تو داد غنچہ تو از نسیم او کشاد! از نسیم او ترا ایں رنگ و بوست اے متاع ما بہائے تو ازدست دولت جاوید ازو اندوختی از لب او لا الہ آموختی اقبال نے رموز بیخودی کے زیر نظر باب میں بتایا ہے کہ اقوام کا اصل سرمایہ اس کے نوجوان ہیں جو مثالی ماؤں کے پروردہ ہیں: بردمد ایں لالہ زار ممکنات از خیاباں ریاض امہات قوم را سرمایہ اے صاحب نظر نیست از نقد و قماش و سیم و زر مال او فرزند ہائے تندرست تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست حافظ رمز اخوت مادراں قوت قرآن و ملت ماوراں اقبال کے نزدیک زندگی کی ساری رونق، ہمہ ہمی، ترقی، جوش اور جذبہ امومت کا مرہون منت ہے۔ رموز بیخودی کے زیر نظر باب میں حیاتیات اور عمرانیات میں امومت کے مسئلہ کی اہمیت کو درج ذیل تین شعروں میں بیان کر دیا ہے: ملت از تکریم ارحام است و بس ورنہ کار زندگی خام است و بس از امومت گرم رفتار حیات از امومت کشف اسرار حیات از امومت پیچ و تاب جوئے ما موج و گرداب و حباب جوئے ما یورپ میں تعلیم نسواں کے بعد آزادی نسواں اور مساوات مرد و زن کا بہت چرچا ہوا۔ آزادی نسواں گویا ایک عالمی تحریک بن گئی۔ برصغیر میں بھی نسوانی آزادی اور مساوات کے مسائل اور مباحث پر تائیدی اور مخالفانہ آراء کا اظہار ہوا۔ اقبال نے مسئلہ نسواں پر 1910ء میں بھی غور و فکر کیا تھا۔ ’’ شذرات فکر اقبال‘‘ میں بھی ان کا ایک نسبتاً طویل شذرہ تعداد ازدواج کے عنوان کے تحت ملتا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’ یک زوجگی کا قبیح ترین پہلو بیشتر مغربی ممالک میں ان ’’ فاضل‘‘ عورتوں کی کثرت ہے، جنہیں شوہر میسر نہیں آتے اور وہاں مختلف معاشرتی و سیاسی عوامل، ایسی عورتوں کی تعداد میں اضافے کا باعث ہیں۔ وہ مائیں نہیں بن سکتیں اور نتیجتہً پرورش اطفال کے بجائے انہیں دیگر مشاغل تلاش کرنے پڑتے ہیں وہ مجبور ہیں کہ اولاد کے عوض تصورات کو جنم دیں۔ حال ہی میں انہوں نے ’’ ووٹ برائے خواتین‘‘ کے ولولہ انگیز تصور کو جنم دیا ہے۔۔۔۔ اگر کوئی معاشرہ اپنی عورتوں کی پیدائش و پرورش اولاد کا موقع نہیں دیتا تو ان کی مصروفیت کے لئے کچھ اور سامان مہیا ہونا چاہیے۔۔۔۔‘‘ 19؎ اقبال نے جاوید نامہ میں تجدد پسند عورت کا تصور پیش کرنے کے علاوہ ضرب کلیم میں عورت کے باب میں نو نظمیں لکھی ہیں۔ ڈاکٹریوسف حسین نے اقبال کی عورتوں کے بارے میں نظموں کا مجموعی تاثر پیش کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ مسئلہ نسواں کے متعلق اقبال کی قطعی طور پر یہ رائے ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کی کمی پورا کرتے ہیں اور اس طرح تعمیر تمدن کے فرائض کی انجام دہی کرتے ہیں۔ان دونوں کے قویٰ میں فطرت نے جو فرق رکھا ہے۔ اس کا مقصد اسرار حیات کو کائنات میں محفوظ رکھنا ہے۔ نسوانی جوہر خاک کو آدم بناتا اور اپنے سوز دروں سے ثبات زندگی کا سامان بہم پہنچاتا ہے: مرد و زن وابستہ یک دیگراند کائنات شوق را صورت گراند زن نگہ دارندہ نار حیات فطرت او لوح اسرار حیات آتش ما را بجان خود زند جوہر او خاک را آدم کند در ضمیرش ممکنات زندگی از تب و تابش ثبات زندگی ار ما از ارجمند یہائے او ماہمہ از نقشبند یہائے او‘‘ 20؎ ’’ اقبال نے ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں ایک جگہ بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ ’’ اسلامی سیرت کے نمونے کی نمایاں خصوصیات کیا کیا ہونی چاہئیں۔‘‘ 21؎ اس کے بعد مشہور امریکن عالم عمرانیات گڈ نگش (Franklin H. Giddings) کے بیان کردہ سیرت کے چار نمونوں 22؎ کی خصوصیات کو ہندوستان کی اسلامی تاریخ پر منطبق کیا ہے۔ آخر میں عالمگیر کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس نمونے کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اسے پیش نظر رکھیں۔‘‘ 23؎ اسی طرح رموز بیخودی میں ملت اسلامیہ کی عورتوں کے سامنے حضرت فاطمتہ الزہراؓ کی سیرت کو ایک کامل نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل عنوان کے تحت پیش کیا ہے ’’ در معنی ایں کہ سیدۃ النساء فاطمتہ الزہراؓ اسوہ کاملہ ایست برائے نساء اسلام‘‘ اور اس سے اگلے باب ’’ خطاب بہ مخدرات اسلام‘‘ میں خواتین اسلام کو نئی تہذیب کے مسموم اثرات سے محفوظ رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور انہیں حضرت فاطمہ الزہراؓ کے نقش قدم پر چلنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: آب بند نخل جمعیت توئی حافظ سرمایہ ملت توئی از سر سود و زیاں سودا مزن گام جز بر جادہ آبا مزن ہوشیار از دستبرد روزگار گیر فرزندان خود را در کنار ایں چمن زاداں کہ پرنکشادہ اند ز آشیان خویش دور افتادہ اند فطرت تو جذبہ ہا دارو بلند چشم ہوش از اسوہ زہراؓ مبند تاحسینےؓ شاخ تو بار آورد موسم پیشیں بہ گلزاد آورد (ج) تقلید اور اجتہاد کی عمرانی اہمیت اقبال نے اپنی تصنیفی زندگی کے آغاز ہی سے قوموں کے عروج و زوال کی حقیقت پر غور و فکر کیا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے افراد اور اقوام کی فنا اور بقا کا جو اصول اقبال کو حقیقت پسندانہ نظر آیا وہ اسے ’’ قانون بقائے افراد قویہ‘‘ کہتے ہیں۔ جو اصل کے اعتبار سے ڈارون کے نظریہ (Survival of the fittest) کا ترجمہ ہے۔ جیسا کہ گزشتہ ابواب میں تذکرہ ہو چکا ہے۔ علامہ اقبال نے علم الاقتصاد میں ڈارون کے اس نظریہ کو بعض معاشی مسائل کے ضمن میں بیان کرنے کے بعد اسے قومی زندگی (1904ئ) میں تہذیبوں اور قوموں کی موت و حیات کے اسباب و علل دریافت کرنے کے بعد استعمال کیا ہے اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ انقلاب زمانہ کی دستبرد سے صرف وہی قومیں محفوظ و مامون رہ سکتی ہیں جو ہر زمانے کے متغیر حالات میں اپنے اندر مطابقت کا جوہر پیدا کر لیتی ہیں۔ چونکہ اقبال مسلمانوں کے زوال اور انحطاط سے سخت آزردہ خاطر تھے اور ان کی انتہائی آرزو تھی کہ مسلمانوں کو اقوام عالم میں دوبارہ وقار حاصل ہو۔ چنانچہ اقبال نے 1904ء میں اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں مسلمانوں کے اصلاح تمدن کے سوال پر غور کرتے ہوئے لکھا: ’’ مسلمانوں میں اصلاح تمدن کا سوال در حقیقت ایک مذہبی سوال ہے کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہب اسلام کی عملی صورت کا نام ہے، اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اصول مذہب سے جدا ہو سکتا ہو، میرا یہ منصب نہیں کہ میں اس اہم مسئلہ پر مذہبی اعتبار سے گفتگو کروں، تاہم میں اس قدر کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ حالات زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب آ جانے کی وجہ سے بعض ایسی تمدنی ضروریات پیدا ہو گئی ہیں کہ فقہا کے استدلالات جن کے مجموعے کو عام طور پر شریعت اسلامی کہا جاتا ہے۔ ایک نظر ثانی کی محتاج ہیں۔‘‘ 24؎ اس کے بعد چند سطور آگے جا کر اقبال نے زیادہ واضح اور صاف لفظوں میں لکھا ہے۔ ’’ اگر موجودہ حالات زندگی پر غور و فکر کیا جائے تو جس طرح اس وقت ہمیں تائید اصول مذہب کے لئے ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے اسی طرح قانون اسلامی کی جدید تفسیر کے لئے ایک بہت بڑے فقیہہ کی ضرورت ہے۔ جس کے قوائے عقلیہ و متخیلہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ وہ مسلمات کی بنا پر قانون اسلامی کو نہ صرف ایک جدید پیرائے میں مرتب و منظم کر سکے، بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکن صورتوں پر حاوی ہو جہاں تک مجھے معلوم ہے اسلامی دنیا میں اب تک کوئی ایسا عالمی دماغ مقنن پیدا نہیں ہوا،اور اگر اس کام کی اہمیت کو دیکھاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام شاید ایک سے زیادہ دماغوں کا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے کم از کم ایک صدی کی ضرورت ہے، یہ بحث بڑی دلچسپ ہے مگر چونکہ قوم ابھی ٹھنڈے دل سے اس قسم کی باتیں سننے کی عادی نہیں اس واسطے میں اسے مجبوراً نظر انداز کرتا ہوں۔‘‘ 25؎ ان اقتباسات کے پس منظر میں اقبال کے بعد کے افکار کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کا مسئلہ اقبال کے دل و دماغ سے کبھی محو نہیں ہوا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال علامہ کے ایک مضمون ’’ اسلام میں سیاسی فکر‘‘ کے نکات اور مباحث کا ملخص بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’ بہرحال اپنے ذہنی ارتقا کے اس مرحلہ پر اقبال کا زیادہ زور ملت یا قومیت اسلام کے تصور کی پیش رفت تھا۔ اسی سبب وہ اسلامی قانون کی از سر نو تشریح کے لئے اجتہاد کی ضرورت پر بار بار اصرار کرتے تھے۔ اجتہاد کے مسئلہ میں ان کی دلچسپی 1904ء سے ثابت ہے کیونکہ ان کے نزدیک ملت اسلام کی تعمیر اسلامی قانون کی تفسیر نو کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اقبال کے عقیدے کے مطابق اسلام کا تصور حیات متحرک تھا۔ ان کی نگاہ میں ایسے قدامت پسند علماء کی کوئی وقعت نہ تھی جن کا تصور حیات اسلامی جامد تھا۔ غالباً اسی بنا پر انہوں نے اجتہاد کی روایتی تعریف کو کلی طور پر تسلیم نہ کیا اور اس کی تعریف اسلامی معاشرہ میں حرکت کے اصول پر کی۔ اجتہاد کے موضوع پر وہ اکثر اپنے جاننے والے علما سے خط و کتابت یا بحث مباحثے کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلہ میں جنوبی ہند میں اپنے لیکچر سے پیشتر ایک انگریزی مقالہ بعنوان ’’ اسلام میں اجتہاد‘‘ سر عبدالقادر کی زیر صدارت 13دسمبر1924ء کو حبیبیہ ہال اسلامیہ کالج لاہور میں بھی پڑھا تھا۔ لیکن اس کی تفصیل محفوظ نہ رکھی گئی۔ عین ممکن ہے کہ یہی مقالہ اضافے کے ساتھ غالباً1930ء میں جنوبی ہند کے دورہ کے دوران حیدر آباد (دکن) میں پڑھا گیا۔‘‘ 26؎ قوموں کے زوال اور ملکوں کی پسماندگی کا واحد علاج جو تاریخ انسانی سے ثابت ہے یہ ہے کہ وقت کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ جو قومیں آئین نو کو اپنا شعار بناتی ہیں اور طرز کہن کو ترک کرتی ہیں وہی تمدنی اور تہذیبی ترقی اور عروج سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ اقبال بھی قوموں کی تاریخ کے اس گہرے رمز سے واقف تھے۔ مگر وہ خیالات اور نظریات کو آنکھیں بند کر کے قبول نہ کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں خداوند تعالیٰ نے اعلیٰ وجدان اور نور بصیرت سے نوازا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اقبال نے رموز بیخودی میں اسلامی معاشرہ کا تصور پیش کرتے ہوئے اصلاح احوال پر تفکر کیا تو ان کی نظر ایک ایسے عمرانی پہلو پر ٹھہری ہے جو بظاہر ترقی اور تبدیلی میں مددگار اور معاون نہیں ہو سکتا۔ بقول پروفیسر محمد عثمان: ’’ اقبال اعتدال اور توازن کے حامی تھے۔ وہ نہ جدید نظریات کے تمام تر مخالف تھے اور نہ قدیم کے سر بسر حامی و پرستار۔ ان کی نظر ہمیشہ قوم کی اخلاقی اور نفسیاتی ضرورتوں پر رہی ہے۔۔۔۔ جس سیاسی صورت حال سے برعظیم کے مسلمان دوچار تھے۔ وہ غالباً دنیا بھر کی قوموں میں انوکھی تھی اس صورت حالات کا جیسا کچھ احساس اقبال کو تھا سرسید کے بعد شاید ہی کسی اور مسلمان کو ہوا ہو گا۔ اس احساس اور ضرورت نے ان کو مسلمانوں کے باہمی اتحاد کا بہت بڑا مبلغ اور علمبردار بنا دیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد و تصورات میں کوئی ایسی تبدیلی جو اس مرحلے پر ان کو انقلابی اور غیر انقلابی گروہوں میں بانٹ دے اور ان کی توجہ ملکی سیاست کے ٹھوس حقائق سے ہٹا کر فقہی تنازعوں میں الجھا دے نہایت خطرناک ثابت ہو گی۔ لہٰذا انہوں نے وہ اصول پیش کیا جو بغداد کی تباہی اور زوال امت کے بعد بعض دور اندیش علما نے قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔ یعنی زمانہ انحطاط میں اجتہاد کے مقابلہ میں تقلید بہتر ہے۔‘‘27؎ علامہ اقبال نے رموز بے خودی کے باب ’’ در معنی ایں کہ در زمانہ انحطاط تقلید از اجتہاد و لیتر است‘‘ کے ابتدائی اشعار میں کہا ہے کہ عہد حاضر کے فتنے قومی زندگی کے لئے مسموم اثر رکھتے ہیں: عہد حاضر فتنہ ہا زیر سراست طبع نا پروائے او آفت گر است بزم اقوام کہن برہم ازو شاخسار زندگی بے نم ازو جلوہ اش ما را ز ما بیگانہ کرد ساز مارا از نوا بیگانہ کرد از دل ما آتش دیرینہ برو نور و نار لالہ از سینہ برو اقبال کے نزدیک ایسے ناسازگار حالات میں ملی بقا کا تقاضا ہے کہ تقلید کو ملت کے اتحاد اور استحکام کا ذریعہ بنایا جائے۔ زمانہ انحطاط میں اضمحلال کو استحکام میں بدلنے کی توفیق صرف تقلید کو حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ علامہ فرماتے ہیں: مضمحل گرود چو تقویم حیات ملت از تقلید می گیرد ثبات راہ آبا روکہ این جمعیت است معنی تقلید ضبط ملت است درخزاں اے بے نصیب از برگ و بار از شجر مگسل بامید بہار یہاں اقبال نے قوم اسرائیل کے احوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر تم میں بصیرت ہے تو اسرائیل کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرو: پیکرت وارد اگر جان بصیر عبرت از احوال اسرائیل گیر 28؎ گرم و سرد روزگار او نگر سختی جان نزار او نگر خون گراں سیر است ور رہگائے او سنگ صد دہلیز و یک سیمائے او پنجہ گردوں چو انگورش فشرو یادگار موسیٰ و ہاروں نمرو از نوائے آتشینش رفت سوز لیکن اندر سینہ دم دارو ہنوز زانکہ چوں جمینش از ہم شکست جز براہ رفتگاں محمل نہ بست بنی اسرائیل کی مثال پیش کرنے کے بعد اقبال مسلمانوں میں زندگی کی حرارت مفقود پاتے ہیں تو انہیں راز حیات سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے پریشاں محفل دیرینہ ات مرد شمع زندگی در سینہ ات نقش بر دل معنی توحید کن چارۂ کار خود از تقلید کن اجتہاد اندر زمان انحطاط قوم را برہم ہمی پیچد بساط ز اجتہاد عالمان کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر اے کہ از اسرار دیں بیگانہ بایک آئیں ساز اگر فرزانہ از یک آئینی مسلماں زندہ است پیکر ملت ز قرآن زندہ است ماہمہ خاک و دل آگاہ اوست اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست چون گہر در رشتہ اوسفتہ شو ورنہ مانند غبار آشفتہ شو اس گفتگو سے ایک بڑے مغالطہ کا امکان ہے کہ شاید اقبال تقلید کو ہر زمانے کے لئے معیار ٹھہراتے تھے۔ اقبال نے نہ صرف ایک جدید مسلمان مفکر کی حیثیت سے بلکہ ایک عمرانی کی حیثیت سے بھی زندگی کے تسلسل اور اس کی ضرورتوں اور تقاضوں پر غور کیا ہے۔ ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے دیباچہ کے آخر میں علامہ نے لکھا ہے: ’’ فلسفیانہ غور و تفکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں۔ جیسے جیسے جہان علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے لئے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیں کتنے ہی اور، شاید ان نظریوں سے جو ان خطبات میں پیش کئے گئے ہیں زیادہ بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیں گے۔ ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکر انسانی کے نشوونما پر با احتیاط نظر رکھیں اور اس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں۔‘‘ 29؎ اس اقتباس سے اقبال کے علمی رویہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ متذکرہ بحث کے دوران یہ حقیقت منکشف ہو چکی ہے کہ اقبال اپنے کسی فکر یا خیال کو وضع کرنے کے بعد اسے قانون یا اصول کے طور پر زندگی کے کسی پہلو پر منطبق نہیں کرتے۔ بلکہ موقع و محل کی مناسبت سے جو کلیہ، اصول یا قانون انہیں قریں صداقت معلوم ہوتا ہے۔ اس کی روشنی میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ زندگی کے بدلتے ہوئے تاریخی تقاضوں کو ذہن نشین کرانے کے لئے اپنا چھٹا خطبہ ’’ الاجتہاد فی الاسلام‘‘ مدلل اور مفصل طور پر قلمبند کیا ہے۔ اس طویل خطبے میں مندرجہ ذیل سطور اقبال کے عمرانی فکر کی بہت عمدہ ترجمانی کرتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ چونکہ ذات الٰہیہ ہی فی الحقیقت روحانی اساس ہے زندگی کی، لہٰذا اللہ کی اطاعت فطرت صحیحہ کی اطاعت ہے۔ اسلام کے نزدیک حیات کی یہ روحانی اساس ایک قائم و دائما صول وجود ہے۔ جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ اب اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونا چاہئیں جو حیات اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں، کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی ہی کی بدولت۔ لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے، اس لئے کہ تغیر وہ حقیقت ہے کہ جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے۔۔۔۔۔‘‘ 30؎ معاشرتی، تمدنی اور تہذیبی تغیر عمرانیات کا ایک اہم موضوع ہے۔ 31؎ اس کے تحت زمانے کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت اور عدم مطابقت سے پیدا ہونے والے مسائل کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اقبال نظام فطرت اور معاشرت میں قانون ارتقا کے ابتدا ہی سے رمز شناس تھے۔ انہوں نے متذکرہ خطبہ میں بھی ملت اسلامیہ پر اجتہاد کی اہمیت واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اسلام ایک حرکی قوت ہے جسے اجتہاد کے اصولوں کی روشنی میں برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اختتامیہ علامہ اقبال نے 1900ء میں اپنے انگریزی مضمون ’’ الجیلی کا نظریہ توحید مطلق‘‘ میں الجیلی کے بارے میں لکھا ہے کہ: ’’ ان کے ذہن میں شاعرانہ تخیل اور فلسفیانہ نابغہ کی آمیزش پائی جاتی ہے لیکن ان کی شاعری ان کے متصوفانہ اور ما بعد الطبیعیاتی نظریات کی ترجمانی کا محض ایک وسیلہ ہے۔‘‘ 32؎ زیر نظر تحقیقی مقالہ کے پانچویں باب کے آغاز میں علامہ کی متذکرہ رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسی کی بات خود علامہ اقبال کے بارے میں کہی جا سکتی ہے ان کی شاعری، فلسفیانہ اور عمرانی تصورات کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ 33؎ حضرت علامہ اقبال نے بیاض اقبال (شذرات فکر اقبال) کے شذرہ نمبر97میں لکھا ہے: ’’ فطرت قطعی فیصلہ نہیں کر سکی کہ افلاطون کو شاعر بنائے یا فلسفی۔ معلوم ہوتا ہے کہ گوئٹے کے بارے میں بھی وہ اسی قسم کے تذبذب میں مبتلا رہی ہو گی۔‘‘ 34؎ اس شذرہ پر ڈاکٹر این میری شمل نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: Was he (iqbal) himself not also caught in the same dilemma, actiong both as poet and philosopher although in both cases with a Strong under current of Prophetic inspiration and activity? 35 شذرات کے مترجم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی اس شذرہ کے فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں: ’’ یہی بات خود اقبال کے بارے میں کہی جا سکتی ہے لیکن ان تینوں شخصیتوں کی فطرت میں شاعرانہ اور فلسفیانہ عناصر کا تناسب یکساں نہیں تھا۔ افلاطون شاعر فلسفی تھا تو گوئٹے اور اقبال فلسفی شاعر‘‘ 36؎ اقبال فلسفی شاعر یا شاعر فلسفی، اقبالیات میں ایک معروف موضوع ہے۔ عام طور پر اقبال کے فلسفیانہ افکار پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک بات توجہ طلب ہے کہ اقبال کے فلسفہ کو کسی معروف نظام فلسفہ یا دبستان سے مربوط کر کے نہیں دیکھا گیا۔ شاید اقبال جیسے مفکرین کو کسی ایک دبستان تک محدود کرنا نہ صرف یہ کہ دوست بلکہ دشوار ہے۔ علامہ اقبال نے 4نومبر 1931ء کو انگلستان میں انڈیا سوسائٹی کی دعوت پر سر فرانسس ینگ ہسبنڈ کی زیر صدارت جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’ بے شک میرے اشعار میں مختلف مسائل کے متعلق فلسفیانہ خیالات موجود ہیں لیکن میرا کوئی منظم و مرتب فلسفہ نہیں ہے۔ البتہ فلسفے کے ایک مسئلے یعنی حیات بعد الممات کے ساتھ مجھے خاص دلچسپی رہی ہے۔ میں ایک انسان کے شاندار اور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ عقیدہ میرے خیالات و افکار میں آپ کو جاری و ساری نظر آئے گا۔‘‘ 37؎ علامہ اقبال کے اس ارشاد کے باوجود ہم زیر نظر تحقیقی مطالعے میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اقبال کے افکار میں تنوع کے باوصف یک نظری موجود ہے۔ اور ان کا فکری محور سراسر عمرانی ہے۔ ان کے متذکرہ بالا ارشاد گرامی کی آخری سطور کا اگر وقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو ہمارے خیال کی تائید ہو گی۔ علامہ اقبال کے نزدیک نظام کائنات میں انسان ایک مستقل عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کو یہ استقلال کیوں میسر آتا ہے؟ اس سوال پر علامہ اقبال نے مختلف زاویوں سے 1915ء تک اپنے مقالات اور منظومات میں غور و فکر کیا، بعد میں انہی افکار اور خیالات کو حضرت علامہ نے ’’ اسرار خودی‘‘ اور’’ رموز بیخودی‘‘ میں مرتب انداز میں پیش کیا ہے۔ متذکرہ صدر تقریر کے دوران اپنی تصانیف کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ان دونوں مثنویوں کے بارے میں کہتے ہیں؛ ’’ اسرار خودی فرد کی زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ ’’ رموز بیخودی ‘‘ میں قوموں اور جماعتوں کی زندگی کے اسرار و معارف بیان کئے گئے ہیں۔۔۔۔۔‘‘ 38؎ فرد اور جماعت کا باہمی تعلق عمرانیات کا بنیادی موضوع ہے۔ زیر نظر تحقیقی مطالعے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ علامہ اقبال کے افکار نہ صرف عمرانی محرکات کی پیداوار ہیں۔ ٭٭٭ حوالے آٹھواں باب 1اقبال، محمد، علم الاقتصاد، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور1977ء ص32 2مقالات اقبال، 1963ء ص51 3مقالات اقبال، 1963ء ص139-138 4مہر، غلام رسول، مطالب بانگ درا، لاہور، ص188 5اقبال، محمد۔ علم الاقتصاد، ص196-195 6خان، ڈاکٹر یوسف حسین، روح اقبال، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی، طبع چہارم 1957ء ص302 7 ایضاً ص304 8عالم، محمد جہانگیر (مرتب و مترجم) اقبال کے خطوط قائداعظم کے نام، محبوب بک ڈپو لائل پور (فیصل آباد) اپریل 1977ء ص62، اس کتاب کے بعد ازاں دو ایڈیشن لاہور سے بھی شائع ہوئے ہیں۔ 9اقبال، علم الاقتصاد، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1977ء ص80 10اقبال، محولہ بالا، ص249-48 11مقالات اقبال 1963ء ص57-56 12مقالات اقبال، 1963ء ص136 13ایضاً، ص137 14ایضاً ص137-138 15عزیز احمد، اقبال نئی تشکیل، گلوب پبلشرز لاہور، ص350 16صحفیہ لاہور، اقبال نمبر، حصہ اول اکتوبر1973ء ص159 17خلیفہ عبدالحکیم (ڈاکٹر) فکر اقبال، بزم اقبال لاہور، طبع اول ص690 18مقالات اقبال، 1963ء ص119-118 19شذرات فکر اقبال مرتبہ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال مترجمہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، مجلس ترقی ادب لاہور 1973ء ص113 20خان، ڈاکٹر یوسف حسین، روح اقبال، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی، طبع چہارم 1957ء ص312-311 21 مقالات اقبال1963ء ص127 23دیکھئے Giddings, Faraklin H.ed. Readings in Descriptice and Historical Sociology, The Mascmilan Company, New York, Reprint 1918. p. 214 23مقالات اقبال ص128 24ایضاً ص54 25ایضاً 1963ء ص55 26جاوید اقبال، زندہ رود (حیات اقبال کا وسطی دور) لاہور1981ء ص194 27پروفیسر محمد عثمان ’’ اسرار و رموز پر ایک نظر‘‘ اقبال اکیڈمی کراچی، ص153-152 28بنی اسرائیل کی تاریخ پر اقبال نے اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں بھی مجملاً تبصرہ کیا ہے۔ دیکھئے مقالات اقبال 1963ء ص49-48 29اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، مترجمہ سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، مئی 1983ء ص40 30اقبال، محولہ بالاص227 31 See, Koenig, op. cit. ch. 18, and ogburn op. cit. ch 32نقد و نظر، علی گڑھ، جلد5شمارہ 1مرتب اسلوب احمد انصاری، ص11 33زیر نظر تحقیقی مقالہ، باب پنجم 34شذرات فکر اقبال، ص150 35. Schimel Anemarie Iqbal essays and Studies, ed. Aslood Ahmad Ansari, New Delhi, 1978. p. 276 36شذرات فکر اقبال، ص150 37گفتار اقبال، ص239 38ایضاً ص242 ٭٭٭ Chapter No. 8 22. Giddings, Farnklin H. ed. Readings in Descriptive and Historical Sociology, The Macmillian Company, New York, Reprint 1918, p. 214. 31. See, Koeing op. cit. ch. 18, Oqburn op. cit. 35. Schimmel, Anemarie. Iqbal Essays and studies, ed. Aslood Ahmad Ansari, New Delhi. 1978. p. 276 ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End