اقبال علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اردو میں شائع ہونے والی پہلی کتاب از مولوی احمد دین مرتبہ مشفق خواجہ اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com ISBN 969-416-369-2 طبع اوّل : ۱۹۲۳ء طبع دوم : ۱۹۲۶ء طبع سوم : ۱۹۷۹ء طبع چہارم : ۲۰۰۶ئ(اکادمی ایڈیشن) تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍۴۰۰روپے مطبع : شرکت پرنٹنگ پریس ، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ اقبال دوست اور اقبال شناس ممتاز حسن مرحوم کے نام وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے! فہرست معروضات از رفیع الدین ہاشمی ۹ دیباچہ از مرتب ۱۹ مقدمہ از مرتب ۲۷ متن’’ اقبال ‘‘ طبع دوم ۱۰۹ باب اوّل : کلام اقبال ۱۱۰ باب دوم : مضامین کلام ۲۲۷ باب سوم : طرزِ بیان ۲۸۵ اختلافِ نسخ ، تعلیقات و حواشی ۳۴۳ تصاویر اور عکس ۷، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۰۷ چند توضیحات از رفیع الدین ہاشمی ۵۲۹ بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم معروضات تاریخِ ادب کا یہ بھی ایک انوکھا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے ایک کتاب لکھی، اسے چھاپا اور پھر خودہی ، کتاب کے پورے ذخیرے کو صحن میں رکھ ، جلا کر راکھ کر دیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مولوی احمد دین بی اے (۱۸۶۶ئ۔ ۱۹۲۹ئ)علامہ اقبال کے احباب میں نمایاں مقام رکھتے تھے ۔ اقبال کی طرح احمد دین بھی کشمیری تھے اور ان کا پیشہ بھی وکالت تھا۔ روابط کا آغاز غالباً بازار حکیماں کی ادبی و شعری مجالس میں ہوا، پھر دونوں نے انجمن کشمیری مسلمانان میں اکٹھے کام کیا۔ انجمن حمایتِ اسلام بھی دونوں کی مشترکہ دلچسپی تھی۔ بیس پچیس طویل برسوں کی بے تکلف دوستی کے پس منظر میں، جب مولوی احمد دین کو اقبال کی شاعری پر کچھ لکھنے کا خیال پیدا ہوا تو اس میں اقبال کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف اور ایک عزیز دوست کی قدر افزائی (احمد دین، عمر میں اقبال سے بڑے تھے)کے ساتھ ’ندرتِ خیال‘ کا ایک پہلو بھی تھا، کیوں کہ اقبال کی شخصیت اور شاعری پر اردو میں ابھی تک کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ چنانچہ احمد دین نے خاموشی سے کتاب لکھی اور اُسے اپنے عزیز دوست شیخ محمد اقبال کے علم یا مشورے کے بغیر چھاپ دیا۔ غالباً وہ اقبال کو’خوش گوار حیرت‘ سے دو چار کرنا چاہتے تھے لیکن اس کی اشاعتِ عام سے پہلے ہی، جب انھیں پتا چلا کہ اقبال نے اس بات کو ناپسند کیا ہے، تو ان کا سارا ذوق و شوق بجھ کر رہ گیا۔ انھوں نے بصد رنج و افسوس، کتاب کے تمام نسخے جلا ڈالے۔ یہ ایک مثال تھی دوست داری اور وضع داری کی۔ مولوی احمد دین نے گھر پھونک تماشا دیکھنا گوارا کیا مگر انھیں اپنے عزیز دوست کی خفیف سی ناپسند یدگی بھی منظور نہ تھی۔ ایک بار کوئی کتاب لکھی جائے، اسے چھاپا جائے اور پھر خود ہی اسے جلا دیا جائے تو طبیعت کو دوبارہ اس کی تحریر و طباعت و اشاعت پر آمادہ کرنا آسان نہیں ہوتا مگر ۱۹۲۴ء میں جب اقبال کا اردو مجموعۂ کلام بانگِ درا شائع ہو گیا تو قدرے توقف کے بعد ، مولوی احمد دین نے اپنی کتاب کے اوراقِ لخت لخت پھرجمع کیے ، عبارات و مضامین پر نظر ثانی کی، کلام اقبال کا بہت سا حصہ خارج کیا اور ۴۳۲صفحات کے مقابلے میں اب صرف ۲۸۴ صفحات کی کتاب تیار کر کے چھاپ دی ۔ یہ واقعہ ۱۹۲۶ء کا ہے۔ یوں اقبال پر پہلی اردو کتاب لکھنے کا جو اعزاز انھیں حاصل ہوا تھا، وہ بدستور انھی کے حصے میں رہا اور آج تک ہے۔ اردو کے نام وَرْ محقق ، شاعر اور ادیب مشفق خواجہ نے تاریخی اہمیت کی حامل اس کتاب کو جو عام طور پر دستیاب نہیں تھی، ایک طویل فاضلانہ مقدمے اور نہایت مفید حواشی و تعلیقات کے ساتھ ۱۹۷۹ء میں شائع کیا ۔ اس تیسرے اڈیشن(۱۹۷۹ئ) کی بنیاد دوسری اشاعت (۱۹۲۶ئ) پر ہے، مگر یہ پہلے دونوں اڈیشنوں کے متون کا جامع ہے۔ مشفق خواجہ نے طبعِ دوم کو بنیاد بنا کرحواشی میں ان تمام عبارات کی نشان دہی کی ، جو طبعِ اوّل میں موجود تھیں اور جنھیں طبعِ دوم میں تبدیل یا حذف کر دیا گیا تھا۔ طبعِ دوم کے متن کے بعد، اختلافِ نسخ اور تعلیقات و حواشی کا حصّہ پونے دو سو صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ مرتب کی تحقیقی بصیرت اور عرق ریزی کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ طبعِ اوّل اور طبعِ دوم کی نثری عبارات کا موازنہ، اختلاتِ متن اور عبارات میں ترامیم کی نشان دہی، بجاے خود ایک صبر آزما کام تھا مگر کلامِ اقبال میں ترامیم بعض اشعار کی تقدیم و تاخیر، الفاظ کا ردّ وبدل اور مروج و متروک کلام کے تعین میں مشفق خواجہ نے جس غیر معمولی دِقّت نظری کا ثبوت دیا ہے، اس نے اقبال کے اس اڈیشن کو ایک منفرد حیثیت عطا کی ہے، چنانچہ اس سے: اوّل :اقبال طبع اوّل کا متن سامنے آگیا ہے۔ یہ متن نایاب تھا ،اس لیے اسے مشفق خواجہ کی ’دریافت‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اقبالیات میں اس نایاب متن کی دریافت کو خاص اہمیت حاصل ہوگی۔ دوم : اسی ابتدائی متن کے ذریعے ، اقبال کے متروک کلام کا بڑا حصہ سامنے آیا ہے ۔ باقیاتِ اقبال پر تحقیق کرنے والوں کو سرودِ رفتہ، کلیاتِ اقبال (دکن) نوادرِ اقبال، رختِ سفر ، باقیاتِ اقبال ، روز گارِ فقیر جلد دوم ، تبرکاتِ اقبال اور اصلاحاتِ اقبال کے ساتھ زیرِ نظر کتاب سے بھی استفادہ کرنے کا موقع ملا، چنانچہ پروفیسر صابر کلوروی نے باقیاتِ شعرِ اقبال پر اپنی تحقیق ، نیز باقیاتِ کلام کی جمع و تدوین میں اس کتاب سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اس طرح باقیاتِ شعرِ اقبال کے سلسلے میں مشفق خواجہ کی اس تحقیقی کاوش کو ایک اہم ماخذ کی حیثیت سے حاصل ہو گئی ہے۔ اس کتاب کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ مشفق خواجہ نے اقبالیات کا کوئی مخطوطہ دریافت کیا ہے ۔ اس کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے ایسی توجہ اور دِقّت نظری سے کام لیا ہے ، گویا وہ کسی مخطوطے کو ایڈٹ کر رہے ہوں۔ اغلاطِ کتابت کی درستی کر کے حاشیے میں وضاحت کر دی گئی ہے۔ اگر کسی لفظ کے استعمال میں مصنف سے غلطی ہو گئی ہے تو اس کی تصحیح بھی کر دی ہے۔ اسی طرح انھوں نے مولوی احمد دین کے بعض الفاظ کے املا کو بھی متداول اور نسبتاً صحیح طرزِ املا سے بدل دیا ہے، مثلاً :طبعِ دوم کے غلط املا: مزرعۂ ۔ آئینہ ۔ میری ۔ میرا ۔ آئندہ۔ ڈھونڈہا۔ یوروپ ۔ آئین ۔ تماشہ کن کو علی الترتیب: مزرع (ص ۱۱۷) آئنہ (ص ۱۱۸) مری، مرا (ص۱۲۹) آیندہ (۱۴۳) ڈھونڈا (ص۱۵۲) یورپ(ص۱۵۳) آئیں (۱۵۹)تماشا کن(ص۱۷۴) میں تبدیل کر دیا۔ متن کی تہذیب و تصحیح کے علاوہ خواجہ صاحب نے تقریباً اسی صفحات پر مشتمل ایک طویل تحقیقی و تنقیدی مقدمہ بھی تحریر کیا ، جس میں انھوں نے مولوی احمد دین کے سوانح اور ان کی علمی و ادبی شخصیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ، ان کی بیس تصانیف کی تنقیدی حیثیت متعین کی ہے۔ اس مقدمے میں احمد دین کے بارے میں پہلی بار اس قدر تفصیل مہیا کی گئی ہے۔ مشفق خواجہ نے نہایت جچے تلے اور متوازن انداز میں احمد دین کے متنوع علمی کام کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کا یہ شکوہ بجا ہے کہ ’’اردو تنقید کی تاریخ لکھنے والوں نے احمد دین کو کبھی قابلِ التفات نہیں سمجھا ۔ یہاں تک کہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی نے بھی اپنی کتاب اقبالیات کا تنقیدی جائزہ میں احمد دین کی کتاب کا ذکر نہیں کیا‘‘۔امیدِ واثق ہے کہ اب مشفق خواجہ کی زیرِ نظر کاوش ، احمد دین کی شخصیت کو اُن کے ادبی کارناموں خصوصاً سرگذشتِ الفاظ اور اقبال کے حوالے سے اردو تنقید اور اقبالیات کے پیش منظرمیں لے آئے گی اور آیندہ انھیں نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو گا۔اس کے لیے اردو تنقید اور اقبالیات کی تاریخ ، جنابِ مشفق خواجہ کی ممنون رہے گی ۔ مشفق خواجہ کی مرتبہ اقبال (احمد دین) کی تیسری اشاعت ایک عرصے سے ختم ہو چکی تھی۔ خواجہ صاحب کی خواہش تھی کہ اسے اقبال اکادمی سے دوبارہ شائع کیا جائے۔ اگست ۲۰۰۴ء کو اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے مہمان خانے میں، ملاقات کے موقع پر انھوں نے پھر اس کا ذکر کیا، اس کے بعد ۱۹؍ نومبر۲۰۰۴ء کے خط میں راقم کو لکھا : سہیل عمر صاحب سے بات ہوئی ہے کہ وہ اقبال از احمددین کو اقبال اکیڈمی کی طرف سے شائع کر دیں گے۔ اب اس تجویز کو رو بہ عمل لانا آپ کے ذمے ہے۔آپ اُن سے بات کریں اور جلد طباعت کی صورت نکالیں ۔ میرے مقدمے میں اگر کچھ غلطیاں نظر آئیں تو آپ ’’پس نوشت‘‘ کے عنوان سے ایک نوٹ لکھ دیجیے جو آپ کے نام سے کتاب میں شامل ہو گا۔ پس یہ سطور ، مرحوم کے تعمیلِ ارشاد میں قلم بند کی جا رہی ہیں۔ خواجہ صاحب کے مقدمے کی غلطیاں ، میںنہیںتلاش کر سکا، البتہ مقدمے کے سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ خواجہ صاحب نے اقبال از احمد دین کی اشاعت کے بعد اس پر نظر ثانی کی تھی اور اسے ’’احمد دین‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل تحقیقی و تنقیدی مضمون کے طور پر اپنے مجموعۂ مضامین تحقیق نامہ (مغربی پاکستان اردو کیڈمی، لاہور) میں شامل کر لیا تھا۔ خواجہ صاحب نے نظر ثانی میں متعدد لفظی تبدیلیاں کیں،بعض مقامات پر پورے جملے اور کہیں کسی جملے کا کچھ حصہ حذف کر دیا۔ ضمنی عنوانات میں بھی ترامیم کیں۔ متن کے اندر اور پاورقی حوالے بالکل آخر میں حواشی کے عنوان کے تحت یک جا کر دیے ہیں۔ چونکہ یہ متن خواجہ صاحب کا نظر ثانی کردہ اور آخری متن ہے، اس لیے مقدمے میں اسے ہی اختیار کیا گیا ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ مقدمے کا حاشیہ نمبر ۶۰ شامل نہیں کیا گیا کیونکہ یہ حاشیہ اصل میں زیر نظر کتاب کا دیباچہ ہے اور دیباچہ پہلے ہی اس کتاب میں شامل ہے۔ خواجہ صاحب نے اس مقدمے میں مولوی احمد دین کی بیس تصانیف کا تعارف کرایا ہے اور پانچ سوانح عمریوں کے بارے میں یہ قیاس ظاہر کیا ہے کہ ’’یہ بھی اُنھی کی تصانیف ہوں گی‘‘۔(ص۵۹) انھوں نے مولوی احمد دین کی مزید کتابوں کی دستیابی کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ کہتے ہیں:’’ممکن ہے مزید تحقیق سے ان کی کچھ اور کتابوں کا سراغ مل جائے‘‘۔ (مقدمہ، ص ۵۷) ڈاکٹر معین الدین عقیل کو جامعہ ٹوکیو براے مطالعات خارجی (جاپان) کے مرکزی کتب خانے سے ایک کتاب آئینۂ جاپان دستیاب ہوئی جو عقیل صاحب کے خیال میں مولوی احمد دین کی تصنیف ہے۔مگر ہمارے خیال میں اسے یقینی طور پر مولوی احمد دین سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں مشفق خواجہ صاحب کے مقدمے کے آخر میں راقم نے ’’صراحت‘‘ کے تحت ایک شذرے میں وضاحت کی ہے۔ زیر نظر کتاب کی تیسری اشاعت (۱۹۷۹ئ) کے موقع پر راقم نے ایک تجویز پیش کی تھی کہ طبعِ دوم (۱۹۲۶ئ) کا بیرونی سرورق بھی شائع کیا جائے ، کیوں کہ بیرونی سرورق بہرحال طبعِ دوم کا حصہ ہے، مزید برآں اس کی اپنی اہمیت بھی ہے۔ ایک تو اس پر گرامی کا وہ شعر درج ہے جو بعد میں متعارف ہو کر بہت مقبول ہوا اور طبعِ دوم کی پیشانی پر، اس کی خاص معنویت بنتی ہے: در دیدئہ معنی نگہاںحضرت اقبال پیغمبریِ کرد و پیمبر نتواں گفت دوسرے: اس سرورق پر مصنف کا نام صحیح صورت میں درج ہے۔(احمد دین ، نہ کہ : احمد الدین) چنانچہ زیرِ نظر چوتھی اشاعت (۲۰۰۶ئ) میں ص ۱۰۳ پر مذکورہ بیرونی سرورق کا عکس دیا جا رہا ہے۔ دوسرا اضافہ آخر میں ’’چند توضیحات‘‘ کا ہے۔ اس عنوان کے تحت احمد دین کے بعض بیانات کی تصحیح کی گئی ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے راقم الحروف کو ایک طرف تو یہ احساسِ طمانیت ہے کہ مرحوم دوست کی خواہش کی تکمیل ہو رہی ہے، دوسری طرف، میں ایک تاَسّف اور رنج والم کی اس کیفیت سے دو چار ہوں جو خواجہ صاحب کی رحلت (۲۱ ؍فروری ۲۰۰۵ئ) کے بعد سے مسلسل افسردہ و رنجیدہ رکھتی ہے۔ خوب ہوتا ، اگر یہ کتاب ان کی زندگی ہی میں چھپ جاتی۔ خدا اُن کی مغفرت کرے، اور ان کے درجات کو بلند کرے ، آمین۔ رفیع الدین ہاشمی چند توضیحات ۱۔ احمد دین لکھتے ہیں : ’’اقبال ۱۸۷۵ء میں سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ (ص ۱۱۷ طبع سوم، ۱۹۷۹ئ) اقبال صدی (اوّل، ۱۹۷۳ئ) کے زمانے تک ۱۸۷۳ء یا ۱۸۷۵ء یا ۱۸۷۶ء ہی کو اقبال کا سنہ پیدایش قرار دیا جاتا رہا۔ اب سرکاری سطح پر ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء کو اقبال کا یومِ ولادت مقرر اور تسلیم کیا گیا ہے۔ ۲۔ احمد دین کہتے ہیں: ’’پرندے کی فریاد ‘‘ کسی دوسری زبان سے ماخوذ نہیں ہے۔(ص۱۲۵) یہ بیان درست نہیں ہے کیوں کہ پروفیسر حمید احمد خاں (م:۱۹۷۴ئ)’پرندے کی فریاد‘ کا تذکرہ کر تے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ کوپر کی نظم On a Goldfinch Starved to Death in His Cage کے زیر اثر لکھی گئی ۔ (اقبال : شخصیت اور شاعری، ص ۱۱۵) ۳۔ احمد دین لکھتے ہیں: ’’اب اقبال، پنجاب یونی ورسٹی کا امتحان ایم اے پاس کر چکے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ہی انگریزی اور فلسفہ پڑھانے کی خدمت میں مامور ہو گئے تھے‘‘۔(ص ۱۲۶) اس بیان سے یہ تاثر ہوتا ہے شاید ایم اے پاس کرنے کے معاً بعد اقبال، گورنمنٹ کالج لاہور میں معلم ہو گئے تھے ۔ اصل صورت یہ ہے کہ ایم اے فلسفہ کا نتیجہ آیا تو چند روز بعد ۱۳ مئی ۱۸۹۹ء کو وہ بطور میکلوڈ عریبک ریڈر ، اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد ، اورینٹل کالج سے رخصت لے کر کچھ عرصے کے لیے اسسٹنٹ یا اڈیشنل پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کالج چلے گئے ۔ اس ملازمت میں کئی بار تعطل بھی آیا۔ یہاں انھوں نے فلسفہ بھی پڑھایا ۔ چند ماہ کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں بھی درس دیا۔ ۱۹۰۵ء میں یہیں (گورنمنٹ کالج) سے وہ رخصت لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے۔ ۴۔ مولوی احمد دین نے لکھا ہے: ’’تصویر درد‘ مارچ ۱۹۰۴ء میں انجمن کے جلسے میں پڑھی گئی ہے۔‘‘(ص ۱۳۱) درحقیقت انجمن کا مذکورہ جلسہ ۲؍اپریل ۱۹۰۴ء کو منعقد ہوا تھا اور اس میں خود احمد دین نے بھی ایک لیکچر دیا تھا۔ اقبال اور انجمن حمایت اسلام : محمد حنیف شاہد، (ص۷۹) رفیع الدین ہاشمی دیباچہ یہ کتاب جو اس وقت آپ کے پیش نظر ہے، اقبالیات میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ پہلی بار ۱۹۲۳ء میں طبع ہوئی تھی۔ اس سے قبل اقبال کے بارے میں چند مضامین اور ایک مختصر کتاب A Voice from the East موئفہ نواب ذوالفقار علی خاں شائع ہو چکی تھی، لیکن کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی گئی تھی جس میں اقبال کے ذہنی ارتقا، ان کی اردو شاعری کے فکری پس منظر اور شعری کارناموں پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا گیا ہو۔ اس اعتبار سے یہ اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے، لیکن اس کے ساتھ عجیب حادثہ پیش آیا۔ یہ طبع تو ہوئی مگر اس کی اشاعت عمل میں نہ آ سکی ۔ مصنف نے کتاب کے تمام نسخے نذرِ آتش کر دیے۔ ۱۹۲۳ء تک، جب یہ کتاب طبع ہوئی ، اقبال کے اردو کلام کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا تھا۔ احمد دین نے اپنی کتاب میں اقبال کا وہ تمام کلام شامل کر لیا تھا جو مخزن اور بعض دوسرے رسائل میں، نیز انجمن حمایت اسلام کی رودادوں میں شائع ہوا تھا ۔ یہ وہی زمانہ تھا جب اقبال اپنے اردو کلام کی اشاعت کی طرف متوجہ تھے اور اسی مقصد سے کلام پر نظر ثانی کر رہے تھے ۔ اقبال کو انھوں نے پسند نہ فرمایا۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ یہ کتاب کسی حد تک ایک مجموعۂ کلام کی حیثیت رکھتی تھی، جس میں متعدد طویل نظمیں مکمل طور پر شامل کر لی گئی تھیں، نیز بہت سا کلام بغیر کسی تبصرے کے جمع کر دیا گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس میں بہت سا کلام ایسا بھی شامل تھا جسے اب اقبال اپنے نام سے منسوب کرنا پسند نہیں کرتے تھے یا اس میں وہ ترمیم و اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ ایک ایسی کتاب جس میں کلام کا بڑا حصہ شامل ہو،اُس سے اقبال کے زیر ترتیب مجموعۂ کلام کی اشاعت متاثر ہو سکتی تھی۔احمد دین اقبال کے گہرے دوست تھے، انھیں جب دوست کی ناپسندیدگی کا علم ہوا تو انھوں نے کسی سے مشورہ کیے بغیر چپکے سے اپنی کتاب کے تمام نسخے نذرِ آتش کر دیے۔ اقبال کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو انھوں نے اس پر دلی افسوس کا اظہار کیا۔ بانگ درا کی اشاعت کے بعد ۱۹۲۶ء میں احمد دین نے اقبال کو از سر نو لکھااور شائع کرایا۔ادبی دنیا میں یہ طبع دوم ۱ معروف ہے، لیکن اب اس کا شمار بھی کمیاب کتابوں میں ہوتا ہے ۔ طبع اوّل کے صرف دو نسخوں کی موجودگی کا راقم کو علم ہے اور یہ دونوں نسخے مصنف کے گھرانے میں ہیں۔ بہت دن ہوئے، میں نے احمد دین کی مشہور تصنیف سرگذشتِ الفاظ پڑھی تھی ۔ یہ کتاب مجھے اس قدر پسند آئی کہ میں نے اس مصنف کی دوسری کتابوں کی تلاش شروع کی۔ اس طرح ان کی کئی کتابیں میری نظر سے گزریں ۔ پھر مجھے احمد دین کے حالات سے دلچسپی پیدا ہوئی ۔ تقریباً تین برس کی تلاش و تحقیق کے بعد مَیں نے ان کے حالاتِ زندگی اورعلمی کاموں کے بارے میں ایک مقالہ لکھا جو اقبال اکیڈیمی کے جریدے اقبال ریویو بابت جولائی ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا۔اس مقالے کے لکھے جانے کے وقت تک مجھے کتاب اقبال کی طبع اوّل نہیں مل سکی تھی، اس لیے میں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں لکھا تھا۔ مذکورہ مقالے کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد مجھے اپنے برادر بزرگ خواجہ عبدالقدیر صاحب کی سعی و تلاش سے طبع اوّل کا ایک نہایت بوسیدہ اور آب رسیدہ نسخہ ملا۔ یہ جناب خالد نیاز (مولوی احمد دین کے پوتے) سے مستعار لیا گیا تھا۔ میں نے اس کا عکس حاصل کر لیا ۔ بدقسمتی سے اس نسخے میں متعدد اوراق کم تھے ۔ یہ کمی بعد میں خواجہ اعجاز احمد (مولوی احمد دین کے بیٹے) کے نسخے سے پوری کی گئی۔ طبع اوّل اِس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس میں اقبال کا بہت سا ایسا کلام موجود ہے جسے اقبال نے اپنے کسی مجموعے میں شامل نہیں کیا، نیز بانگ درا میں شامل بعض نظموں کے ابتدائی متون اس میں ملتے ہیں۔ اقبال کے متروک کلام اور اصلاحوں پر جن لوگوں نے کام کیا ہے، ان میں سے کسی کے پیش نظر اقبال طبع اوّل نہ تھی۔ اس کتاب سے متروک کلام اور اصلاحوں کے بارے میں بعض نئے اور مفید پہلو سامنے آتے ہیں۔ طبع اوّل میں بعض تنقیدی مباحث ایسے ہیں جو اس کتاب کی طبع دوم میں شامل نہیں کیے گئے ۔ ان وجوہ کی بنا پر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سلسلۂ اقبالیات کی اس گمشدہ کڑی کو ضرور منظرِ عام آنا چاہیے۔ اب سوال یہ تھا کہ جس کتاب کو مصنف نے از سر نو لکھا ہو، اُس کے ابتدائی متن کو شائع کرنا، اور نظر ثانی شدہ متن کو نظر انداز کرنا کہاں تک درست ہے؟ طبع اوّل اپنی بعض خصوصیات کے اعتبار سے اگر دوبارہ شائع ہونے کی مستحق ہے تو طبع دوم بھی اس لائق ہے کہ اسے منظرِ عام پر لایا جائے ۔ طبع اوّل کا خاصا بڑا حصہ طبع دوم میں شامل ہے، اور طبع دوم میں متعدد نئے مباحث کا اضافہ کیا گیا ہے، اس لیے جب تک دونوں طباعتوں کے متن سامنے نہ آئیں، اُس وقت تک یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ ان میں کیا فرق ہے ۔ لیکن اس مقصد کے لیے دونوں طباعتوں کو شائع کرنا اس وجہ سے مناسب نہیں کہ دونوں میں مشترک مباحث خاصی تعداد میں ہیں ۔ کافی غور و فکر کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کتاب کا ایک ایسا متن تیار کیا جائے جو دونوں طباعتوں کے مباحث پر مشتمل ہو لیکن اس میں مباحث کی تکرار نہ ہو۔ زیرِ نظر طباعت اسی خیال کی عملی تشکیل ہے۔ میں نے طبع دوم کے متن کو اس کی اصلی صورت میں رکھا ہے، اور طبع اوّل کی زائد عبارتوں کو اختلاف نسخ کے تحت اکٹھا کر دیا ہے۔ طبع دوم میں مصنف نے جو تبدیلیاں کی تھیں ، ان کی تفصیل یہ ہے : ۱۔ کتاب کے بنیادی خاکے میں یہ تبدیلی کی کہ طبع اوّل کے دوباب ’’غزلیات‘‘ اور ’’اکبری رنگ‘‘ مکمل طور پر حذف کر دیے ۔ ایک اور باب (مقصد شاعری) بھی حذف کر دیا لیکن اس کے مباحث بقیہ ابواب میں تقسیم کر دیے ۔طبع اوّل چھ ابواب پر مشتمل تھی، طبع دوم میں صرف تین باب رہ گئے ۔ ۲۔ طبع اوّل میں اقبال کا کلام بکثرت درج کیا گیا تھا ۔ کہیں تبصرہ و تجزیہ کرتے ہوئے مثالوں کے طور پر اور کہیں بغیر کسی تبصرے کے۔ اُوپر جن دو ابواب کے مکمل طور پر حذف کیے جانے کا ذکر ہے ، اُن میں صرف کلام ہے ، تعارف یا تبصرے کی ایک آدھ سطر بھی نہیں۔ طبع دوم میں ایسا نہیں کیا گیا ، اقبال کے اشعار کم سے کم درج کیے گئے ہیں، اور وہ بھی صرف ایسے مقامات پر جہاں شعروں کے حوالے کے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ ۳۔ طبع اوّل میں احمد دین نے اقبال کا وہ تمام کلام پیش نظر رکھا تھا جو کتاب لکھتے وقت اُن کی دسترس میں تھا۔ طبع دوم میں سوائے تین نظموں (نالۂ یتیم ، ایک یتیم کا خطاب ہلال عید سے اور ابر گہربار یا فریاد امت) کے، باقی سارا کلام بانگ درا سے لیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر طبع اوّل کا کوئی شعر بانگ درا میں ترمیم شدہ صورت میں ملتا ہے تو بانگ درا ہی کے متن کو ترجیح دی گئی ہے۔ ۴۔ طبع دوم میں بانگ درا کی تاریخی ترتیب کے مطابق کلام اقبال کا تجزیہ کیا گیا ہے جبکہ طبع اوّل میں کلام کی زمانی ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ ۵۔ طبع اوّل کے بعض مباحث طبع دوم سے حذف کر دیے گئے ہیں، اور متعدد نئے مباحث کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ۶۔ مشترک مباحث کی عبارات میں بھی جابجا ترمیم کی گئی ہے۔ ان امور سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں طباعتوں میں خاصا فرق ہے۔ یہ فرق ان کی ضخامت سے بھی واضح ہے۔ طبع اوّل کے ۴۳۲ صفحات ہیں، اور طبع دوم کے ۲۸۴۔ گو طبع اوّل کی کتابت جلی اور طبع دوم کی قدرے خفی ہے، تاہم یہ فرق صرف کتابت کی وجہ سے نہیں، طبع اوّل کے بیشتر اشعار اور بعض مباحث حذف کرنے کی وجہ سے بھی ہے۔ زیر نظر متن کی تیاری میں جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے ، اُس کی تفصیل یہ ہے: ۱۔ اختلاف نسخ کے تحت طبع اوّل کی وہ تمام عبارتیں درج کر دی گئی ہیں جو طبع دوم میں شامل نہیں کی گئیں ۔ یہ صراحت کر دی گئی ہے کہ کون سی عبارت کس مقام سے حذف کی گئی تھی۔ ۲۔ کلام اقبال کا صرف وہی حصہ اختلاف نسخ کے تحت درج کیا گیا ہے جو بانگ درا میں شامل نہیں ، اور اگر شامل ہے تو اس میں اصلاح و ترمیم کی گئی ہے۔ اس قسم کے اشعار کے بارے میں بتادیا گیا ہے کہ اصلاحوں اور ترمیموں کی نوعیت کیا ہے۔ اس طرح جہاں ایک طرف اقبال کے متروک کلام کا بڑا حصہ اختلاف نسخ کے تحت مل جاتا ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں کیا کیا تبدیلیاں کیں۔ اقبال کے کلام کا وہ حصہ جو بانگ درا میں شامل ہے، اگر اُسے بھی اختلاف نسخ کے تحت درج کر دیا جاتا تو اس حصے کی ضخامت بہت بڑھ جاتی ، اور پھر معروف کلام کو درج کرنے کی کوئی افادیت بھی نہیں ہے۔ اختلاف نسخ کے تحت جن مقامات سے بانگ درا میں درج کلام حذف کیا گیا ہے، وہاں یہ بتا دیا گیا ہے کہ کون کون سے بند یا شعر حذف کیے جا رہے ہیں۔ بعض مقامات پر ربطِ کلام کے لیے بانگ درا میں شامل اشعار کا درج کرنا ضروری تھا، ایسے مقامات پر ان اشعار کے ابتدائی الفاظ لکھ دیے گئے ہیں ، تاہم ناگزیر وجوہ کی بنا پر کہیں کہیں مکمل اشعار بھی درج کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی یہ بتا دیا ہے کہ یہ اشعار بانگ درا میں موجود ہیں۔ ۳۔ مصنف نے طبع دوم میں جو عبارتیں اضافہ کی ہیں ، اُن کی نشان دہی بھی کر دی گئی ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کتاب کا دوسرا مسودہ تیار کرتے وقت کیا کیا اضافے کیے گئے ہیں۔ ۴۔ مصنف نے طبع دوم میں خاصی اصلاح و ترمیم کی ہے ۔ کہیں کوئی لفظ بدلا ہے ، کہیں کسی جملے کی ساخت تبدیل کی ہے اور کہیں اپنے مفہوم کو نئے الفاظ میں لکھا ہے۔ اس قسم کی تمام ترمیموں کی نشان دہی بھی کر دی گئی ہے تاکہ مصنف کا ابتدائی متن محفوظ ہو جائے۔ ۵۔ دونوں طباعتوں میں بعض امور وضاحت طلب تھے، نیز بعض اقتباسات کے حوالے نہیں تھے ۔ ایسے مقامات پر الگ حواشی نہیں لکھے گئے بلکہ اختلاف نسخ کے سلسلے ہی میں متعلقہ مقامات پر ضروری وضاحتیں درج کر دی گئی ہیں۔ اسی وجہ سے اختلافِ نسخ سے متعلق حصے کا عنوان ’’اختلاف نسخ، تعلیقات و حواشی ‘‘ رکھا گیا ہے۔ ۶۔ کتاب کی دونوں طباعتوں میں کہیں کہیں کتابت کی اغلاط تھیں، ان کو درست کر دیا گیا ، اور حاشیے میں بتا دیا گیا ہے کہ متن میں کیا غلطی تھی۔ کہیں کہیں کاتب سے کوئی لفظ چھوٹ گیا تھا، ایسے تمام الفاظ قلابین میں درج کر دیے گئے ہیں۔ بعض جگہ مصنف نے مقامی اثرات کے تحت تذکیر و تانیث کے سلسلے میں مروجہ اردو کی پیروی نہیں کی، ایسے تمام مقامات کو اصل کے مطابق رہنے دیا گیا ہے۔ ان امور کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ زیر نظر ایڈیشن میں دونوں طباعتوں کا متن موجود ہے ۔ مقدمے میں مَیں نے احمد دین کے حالات ، اقبال سے اُن کے تعلقات اور اُن کے علمی و ادبی کاموں پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں مَیں نے احمد دین پر جو مقالہ لکھا تھا، وہ اپنے موضوع پر پہلی کوشش تھی۔ اس کتاب کے مقدمے کی بنیاد یہی مقالہ ہے، لیکن اس میں اتنی تبدیلیاں کی گئی ہیں کہ یہ مقدمہ اس مقالے سے بڑی حد تک مختلف صورت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ بارہ برسوں میں احمد دین اور ان کی تصانیف کے بارے میں مجھے مزید معلومات بھی حاصل ہوئی ہیں، یہ سب معلومات مقدمے میں شامل کر دی گئی ہیں۔ اقبال طبع دوم کے مصنف کا خود نوشتہ مسودہ خواجہ اعجاز احمد صاحب کے پاس محفوظ ہے۔ یہ فُل اسکیپ سائز کے ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ راقم الحروف نے اس سے بھی استفادہ کیا ہے ، لیکن اس میں اور مطبوعہ نسخے میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ۔ طبع دوم کی کتابت اسی مسودے سے ہوئی تھی۔ اس مسودے کے پہلے اور آخری صفحات کے عکس زیرِ نظر ایڈیشن میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ ان سے معلوم ہوگا کہ احمد دین نے یہ کتاب بہت کم مدت میں قلم برداشتہ لکھی ہے، کاٹ چھانٹ بہت کم ، بلکہ برائے نام ہے۔ پہلے صفحے پر آغاز تحریر کی تاریخ ۱۰؍اپریل ۱۹۲۶ء اور آخری صفحے پر کام ختم کرنے کی تاریخ ۲۲؍مئی ۱۹۲۶ء درج ہے ۔ صرف تینتالیس دن کی مختصر مدت میں یہ مسودہ مکمل ہوا۔ میں نے یہ کام کئی بزرگوں کی رہنمائی میں انجام دیا ہے جن میں سر فہرست میرے والد محترم خواجہ عبدالوحید صاحب مدّظلہٗ ہیں۔ انھوں نے نہ صرف مقدمے کے ابتدائی مسودے کو ملاحظہ فرما کر بہت سی غلطیوں کی نشان دہی کی ، بلکہ اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر مولوی احمد دین کے بارے میں بہت سی قیمتی معلومات فراہم کیں۔ مولوی احمد دین کے صاحبزادوں خواجہ ریاض احمد اور خواجہ اعجاز احمد کا بھی میں بے حد ممنون ہوں ۔ ان دونوں حضرات نے خط و کتابت اور ملاقاتوں کے ذریعے میری متعدد مشکلات حل کیں، اور مولوی احمد دین کی جو چیزیں اُن کے پاس ہیں، اُن سے استفادے کا موقع دیا۔ خواجہ ریاض احمد صاحب نے میرے ایک طویل سوال نامے کا جواب عنایت فرمایا اور خواجہ اعجاز احمد صاحب نے اپنے والد مرحوم کے بارے میں ایک یاد داشت لکھ کر دی ۔ میں نے ان دونوں تحریروں سے جہاں کہیں استفادہ کیا ہے، ان کا حوالہ دیا ہے ۔ محترم شیخ مبارک علی اور جناب محمد عبداللہ قریشی نے بھی خط و کتابت کے ذریعے میری رہنمائی کی۔ میں ان کا تہِ دل سے شکر گزار ہوں۔ میرے اس کام میں مولانا غلام رسول مہر مرحوم اور حکیم احمد شجاع مرحوم نے بھی بڑی دلچسپی لی تھی ۔میں نے اس سلسلے میں جب بھی کوئی خط لکھا ، ان بزرگوں نے فوراً جواب سے سرفراز فرمایا۔ اب جبکہ یہ کتاب شائع ہو رہی ہے ، مجھے اقبال اکیڈیمی کے بانی اور پہلے نائب صدر ممتاز حسن مرحوم بے اختیار یاد آ رہے ہیں ۔ انھیں جب معلوم ہوا کہ میں اس کتاب کو مرتب کرنے کا خیال رکھتا ہوں تو اُنھوں نے نہ صرف یہ کہ اس تجویز کو پسند کیا بلکہ ہر ممکن طریقے سے میری حوصلہ افزائی بھی فرمائی ۔ میں نے اس سلسلے میں اکثر ان سے مشورہ کیا۔ اُن سے جب بھی ملاقات ہوتی تھی ، وہ کام کی رفتار کے بارے میں ضرور پوچھتے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر وہ اس سے دلچسپی نہ لیتے تو میرے اور بہت سے کاموں کی طرح شاید یہ کام بھی مکمل نہ ہوتا ۔ میں اس کتاب کی زیرِ نظر اشاعت کو انھیں کے نام سے منسوب کر رہا ہوں ، اس لیے کہ وہ اگر زندہ ہوتے تو اس کتاب کی اشاعت کی سب سے زیادہ خوشی اُنھیں کو ہوتی۔ میں جناب اختر حسین ، صدر انجمن ترقی اردو اور جناب جمیل الدین عالی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس کتاب کو انجمن ترقی اردو کی طرف سے شائع کیا۔ میں اپنے محترم دوست جناب محمد عالم مختار حق کا شکر گزار ہوں کہ اُنھوں نے نہایت توجہ سے کتابت شدہ اوراق کا مطالعہ کر کے کاتب کی غلطیوں کے ساتھ میری بھی متعدد غلطیوں کی نشان دہی کی۔ کراچی مشفق خواجہ اپریل ۱۹۷۹ء مقدمہ سرگذشتِ الفاظ کا شمار اردو کی مشہور اور بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ اپنے موضوع پر اردو کی پہلی اور آخری کتاب ہے اور کئی یونی ورسٹیوں میں اردو کی اعلیٰ جماعتوں کے نصاب میں شامل ہے۔ اردو زبان اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کی نظر سے یہ کتاب نہ گزری ہو، لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس قدر یہ کتاب مشہور ہے ، اس کا مصنّف اسی قدر گم نام ہے۔ آج احمد دین کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ ان کے مفصّل حالاتِ زندگی تو کیا، مختصر حالات بھی عام طور پر معلوم نہیں ہیں۔ اردو ادب کی تاریخوں میں کہیں ان کا نام نظر نہیں آتا۔ بعض مضامین اور ایک دو کتابوں میں ان کا ذکر اقبال کے ایک دوست کی حیثیت سے ضرور آیا ہے، لیکن ان تحریروں سے احمد دین کے حالات پر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ محمد الدین فوق نے تاریخ اقوام کشمیرمیں ان کے بارے میں چند سطریں لکھی ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ ایک ادیب تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ ’’کشمیری‘‘ تھے۔ نقوش کے لاہور نمبر میں مولوی محمد اسماعیل پانی پتی نے فوق کے بیان کو دہرا دیا ہے، اپنی طرف سے ایک لفظ کا اضافہ نہیں کیا۔ ایسی صورت میں احمد دین کی داستانِ حیات کو تفصیل سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ بکھرے ہوئے اشارات اور احمد دین کے بعض جاننے والوں کے بیانات کے سہارے ایک سوانحی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ خاکہ بھی بڑی حد تک ادھورا ہے، جسے مکمل کرنے کے لیے مزید تحقیق اور چھان بین کی ضرورت ہے۔ خاندان: احمد دین کشمیری الاصل تھے۔ ان کا تعلق کشمیر کی قوم ’’لون ‘‘سے تھا۔ اس قوم سے متعلق محمد الدین فوق نے تاریخ اقوام کشمیر میں تفصیل سے بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’لون‘‘ ہندوؤں کا ایک قدیم جنگ جو طبقہ ہے جو ملکی نظم و نسق میں ایک طویل عرصے تک دخیل رہاہے۔ اس قوم کے مشرّف بہ اسلام ہونے کے بارے میں فوق لکھتے ہیں: لون طبقہ کس زمانے میں مشرف بہ اسلام ہوا، اس کے متعّلق قیاساً ہی کہا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ حضرت امیر کبیر سیّد علی ہمدانی کے کشمیر آنے سے پیشتر اور بہت زیادہ ان کے قیام کشمیر کے دوران میں دیگر اقوام کے ساتھ مسلمان ہوگئے ہوں۔ ۱؎ اس قوم کے بہت سے خاندان کشمیر سے نقل مکانی کرکے پنجاب کے مختلف حصو ّں میں آباد ہوگئے تھے۔ احمد دین کا خاندان بھی (جو خواجہ کہلاتا تھا) انھی میں سے تھا۔ احمد دین کے دادا جن کا نام عبدالرحمن لون تھا، کشمیر سے پنجاب آئے اور لاہور کو انھوں نے اپنا مسکن بنایا۔ عبدالرحمن لون کے بارے میں کسی قسم کی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔ ان کے پیشے اور لاہورآنے کے زمانے کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ احمد دین کے والد کا نام اِلٰہ دین تھا۔ انھوں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ سرکاری ملازم تھے اور اس سلسلے میں زیادہ تر لاہور اور کچھ عرصے کے لیے گجرانوالہ میں مقیم رہے۔ لاہورمیں وہ جیل میں بطور ڈاکٹر متعین تھے۔ اِلٰہ دین کی دوبیٹیاں تھیں اور دو بیٹے۔ احمد دین بڑے بیٹے تھے اور چھوٹے کا نام خواجہ تاج الدّین تھا۔ تاج الدین خفیہ پولیس میں سنٹرل انٹیلی جنس آفیسر تھے ۔انگریزی حکومت نے انھیں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ان کا انتقال قیام پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد ہوا۔ پیدایش اور تعلیم: احمد دین ۱۸۶۶ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم کا آغاز ایک مسجد کے مکتب سے ہوا۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے گجرانوالہ میں حاصل کی، جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر اِلٰہ دین کا تبادلہ لاہور ہوگیا تو احمد دین کو سنٹرل ماڈل اسکول لاہور میں داخل کرادیا گیا۔ یہاں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔ بی اے تک تعلیم انھوں نے اسی کالج سے حاصل کی ۔ وہ انگریزی میں ایم اے کرنا چاہتے تھے، اور اس غرض سے انھوں نے مذکورہ کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا، لیکن جلد ہی انھوں نے یہ ارادہ ترک کردیا، اور قانون کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوگئے، اور اس کی تکمیل کی ۔ اگر احمد دین نے سولہ برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ہو، بیس برس کی عمر میں بی۔ اے کا، اور پھر دوبرس مزید تعلیم میں صرف کیے ہوں تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ ۱۸۸۸ء میں تعلیم سے فارغ ہوچکے تھے۔ احمد دین ابتدا ہی سے نہایت ذہین تھے۔ بقول سر عبد القادر: ان کا شمار اپنے زمانے کے نامور طلبہ میں ہوتا تھا۔ ۲؎ بی ۔ اے کے امتحان میں انھوں نے درجہ اوّل میں بہت اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی جس کے صلے میں انھیں یونی ورسٹی کی طرف سے طلائی تمغاملا۔ گورنمنٹ کالج میں انھیں اردو کے عظیم انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کی شاگردی کی سعادت حاصل ہوئی۔ آزاد سے احمد دین بے حد متاثر ہوئے اور اسی تعلّق نے ان میں ادب کا صحیح ذوق پیدا کیا۔ آزاد نے اپنے اس شاگرد کی ادبی شخصیت کو بنانے میں جو حصّہ لیا ہے ، اس کا اظہار احمد دین کی تصانیف سے بخوبی ہوتا ہے۔ انھوں نے آزاد کے اسلوب کو اپنانے کی جو کوشش کی ہے، وہ بھی اسی ذاتی تعلّق کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ صحافت، ملازمت اور وکالت: سر عبدالقادر نے لکھا ہے کہ احمد دین تعلیم سے فراغت کے بعد سے ’’لاہور کے نامی وکلا میں سے ہیں‘‘۔۳؎ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وکالت کے سوا کوئی اور کام نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ احمد دین نے پہلے صحافت کا پیشہ اپنایا اور پھر وکالت کو ذریعۂ معاش بنایا۔ سرعبدالقادر کی مذکورہ تحریر ان کے ایک ادارتی نوٹ سے ماخوذ ہے۔ یہ نوٹ مکمل طور پر آیندہ سطور میں کہیں پیش کیا جائے گا۔ اس میں احمد دین کی صحافتی خدمات کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے پیشِ نظریہ کہا جاسکتاہے کہ ۱۹۰۱ء تک (جب مذکورہ نوٹ لکھا گیا تھا) احمد دین صحافت سے تعلّق ختم کر چکے تھے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعدانھوں نے لاہور کے مشہور اخبار پیسہ اخبار میں کام کیا۔ ان کی علمی و ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز اسی اخبار سے تعلق کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ اگرچہ اس اخبار سے تعلق کی تفصیلات معلوم نہیں ہوسکیں، تاہم پھول چند نے پنجاب کی صحافت سے متعلق جو مضمون لکھا ہے، اس سے اس معاملے پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔ مولوی محبوب عالم کا ذکر کرتے ہوئے پھول چند لکھتے ہیں: M. Mahbub Alam has generally been called ایڈیٹر گرایڈیٹر i.e. editor-making editor.This is a happy appellation, since the Paisa Akhbar was a veritable training ground for many of the future editors of the province. The names of Lala Dina Nath later the editor of the Hindustan, Hakim Ghulam Nabi later the editor of the Al-Hukma, Munshi Ahmed Din late, the editor of the Gham Khwar-i-Alarm, Mohammad-ud-Din Fauq later the editor of the Kashmiri, Maulvi Shuja-ud-Dauwla later the editor of the Millat stand out prominent among those who had served their apprenticeship in this training school. (Journal of the Punjab University and Historical Society, Vol. II, Part I, April 1933. p. 38). احمد دین پیسہ اخبارسے کب منسلک ہوئے، اور کب تک انھوں نے اس اخبار میں کام کیا؟ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ گمانِ غالب ہے کہ وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد صحافت کے میدان میں آئے، اور بیسویں صدی کے آغاز سے قبل ہی پیسہ اخبار سے ان کا تعلق ختم ہوگیا۔ ویسے بحیثیت ایک مصنّف کے، اس اخبار کے ادارے سے ان کا تعّلق بعد میں بھی قائم رہا۔ پیسہ اخبار اور اس کے مملوکہ خادم التعلیم اسٹیم پریس لاہور۴؎ کی طرف سے احمد دین کی کتابیں شائع کی جاتی تھیں۔ جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا، ان دونوں اداروں سے ۱۹۱۰ء تک احمد دین کی کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تعلق ملازمت کا نہیں تھا، مصنّف اور ناشر کا تھا۔ پھول چند نے یہ بھی بتایا ہے کہ احمد دین اخبار غم خوارِعالم کے ایڈیٹر تھے۔ احمد دین نے خود بھی اپنی ایک کتاب جلال الدین محمّد اکبر کے دیباچے کے آخر میں اپنے نام کے ساتھ سابق ایڈیٹر اخبار غم خوارِ عالم لکھا ہے۔ مذکورہ کتاب کا سال طباعت معلوم نہیں ہے، لیکن یہ یقینی ہے کہ اس کتاب کے ناشر (منشی رام اگروال) نے احمد دین کی جو کتابیں شائع کی ہیں، وہ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں منظر عام پر آئی ہیں۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ اخبار غم خوارِ عالم انیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں شائع ہوتا رہا ہوگا۔ اس اخبار کا ہماری صحافت کی تاریخوں میں ذکر نہیں ملتا۔ ایک آدھ جگہ ذکرہے جو پھول چند ہی کی صداے بازگشت ہے، اور وہ بھی بلا حوالہ۔ گذشتہ صدی کے آخری دو تین برسوں میں انھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور کچھ عرصے میں ان کا شمار ممتاز اور نامور وکیلوں میں ہونے لگا۔ ۱۹۰۱ء کے بعد احمد دین نے ایک مرتبہ پھر ملازمت کی۔ ان کی دو کتابوں حیاتِ ٹوڈرمل اور جلال الدین محمّد اکبر پر ان کے نام کے ساتھ ’’ملازم دفتر اردو اخبار‘‘ لکھا ہے۔ یہ اخبار کب جاری ہوا اور کب تک جاری رہا؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مولوی محبوب عالم کی مرتّبہ فہرست اخباراتِ ہند (خادم التعلیم اسٹیم پریس لاہور، ۱۹۰۴ئ۔ دیباچے کے آخر میں تاریخ :نومبر ۱۹۰۳ئ) میں اس اخبار کا نام شامل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۴۔۱۹۰۳ء میں یہ اخبار شائع ہو رہا تھا۔ منشی رام اگروال تاجر کتب لاہور جو تعلیمی کتب خانہ پنجاب کے مہتمم تھے، اردو اخبار کے ناشر تھے۔ عبداللہ قریشی صاحب کا بیان ہے کہ منشی محمد الدین فوق اس اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ ۵؎ فوق کی جو آپ بیتی نقوش لاہور کے آپ بیتی نمبر میں شائع ہوئی ہے، اس میں متعدد ایسے اخباروں کا ذکر ہے جن سے فوق کا تعلّق رہا ہے، لیکن ان اخباروں میں اردو اخبار کا نام شامل نہیں ہے۔ حیات ٹوڈرمل کے سرورق کے اندرونی حصّے میں اس اخبار کا مندرجہ ذیل اشتہار شائع ہوا تھا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کا اخبار تھا: اس کتب خانے سے اردو اخبار ہفتہ وار شائع ہوتا ہے جس میں دلچسپ اور مفید مضامین تازہ بتازہ خبروں کے علاوہ شعر و سخن، دل خوش کن لطائف و ظرائف اور عقل کے کرشمے یعنی حل طلب معّمے (بعض انعامی معّمے) بھی درج ہوتے ہیں۔ قیمت سالانہ محصول ڈاک صرف ایک روپیہ آٹھ آنے ہے۔ نقد قیمت ادا کرنے سے ایک روپے کے انعامی ناول اصلی قیمت پر (صرف انعامی ناولوں مندرجہ حاشیۂ اخبار میں سے) مفت ملتے ہیں۔ اخیر سال کو خریداروں میں کئی قسم کے نقدی انعام بھی تقسیم ہوتے ہیں۔ یہ اخبار بعض صورتوں میں مفت بھی مل سکتاہے۔ مفصّل حالات و شرائط کے لیے نمونے کا پرچہ مفت طلب فرما کر ملا حظہ فرمائیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احمد دین نے اردو اخبار کے دفتر میں کب ملازمت کی؟ اس اخبار کے ناشر منشی رام اگروال نے احمد دین کی متعد ّد کتابیں شائع کی ہیں، لیکن کسی پر سالِ طباعت درج نہیں ہے۔ اخبار وطن لاہور کے ۱۹۰۸ء کے متعد ّد شماروں میں مذکورہ ناشر کی شائع کردہ تین سوانح عمریوں (مہاتما بدھ، رنجیت سنگھ، ابوالفضل) کا اشتہار ملتاہے۔ یہ تینوں احمد دین کی تصانیف ہیں۔ اس اشتہار سے یہ واضح ہے کہ یہ تینوں کتابیں ۱۹۰۸ء سے قبل شائع ہوچکی تھیں۔ اس ناشر نے احمد دین کی کئی اور کتابیں بھی شائع کی تھیں، اشتہار میں ان کاذکر نہ ہونے سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ۱۹۰۸ء تک شائع نہیں ہوئی تھیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ احمد دین ۸-۱۹۰۷ء میں یقینی طور پر اردو اخبار سے وابستہ تھے، ممکن ہے کہ یہ تعلّق مذکورہ زمانے سے دو تین سال قبل شروع ہوا ہو اور دوتین سال بعد تک قائم رہا ہو۔ احمد دین کی ملازمت کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ وہ اردو اخبار کے لیے مضامین بھی لکھتے تھے، اور اس ادارے کے لیے کتابیں بھی تحریر کرتے تھے۔ اس زمانے میں احمد دین نے جو کتابیں لکھیں، ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔ اور پھر اس ادارے کی طرف سے شائع ہونے والی بعض کتابوں پر مصنّف کا نام بھی نہیں ہوتا تھا۔ ’’مؤلفہ و مرتبّہ کار پردازانِ اردو اخبار ‘‘ لکھا جاتا تھا۔ اس قسم کی ایک کتاب دوست محمّد خاں کے بارے میں ثبوت ملا ہے (جس کی تفصیل آگے آئے گی) کہ یہ احمد دین کی تصنیف ہے۔ ممکن ہے ایسی اور کتابیں بھی شائع ہوئی ہوں،جن پر احمد دین کا نام بطور مصنّف درج نہ ہو۔ انجمن حمایتِ اسلام: احمد دین۶؎ کی سرگرمیاں صرف اپنے پیشہ ورانہ فرائض تک محدود نہ تھیں، وہ سماجی اور رفاہی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔ اس صدی کے ربع اوّل میں لاہور کی جو شخصیات سماجی و ادبی کاموں میں پیش پیش تھیں، اُن میں احمد دین بھی شامل تھے۔ انجمن حمایتِ اسلام سے ان کا گہرا تعلّق تھا۔ وہ ایک عرصے تک انجمن کی اسکولز سب کمیٹی اور تالیف وطبع کی سب کمیٹی کے سیکرٹری رہے۔ سالہا سال تک اسلامیہ کالج لاہور کے سیکرٹری کی خدمت بھی انھیںکے ذمے رہی۔ احمد دین، انجمن کے ان ممتاز کارکنوں میں سے تھے جن کی کوششوں سے انجمن کو ایک قومی ادارے کی حیثیت حاصل ہوئی۔ احمد دین، انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں بھی نہایت دلچسپی لیتے تھے۔ وہ ان جلسوں میں تقریریں کرتے اور مقالے پڑھتے تھے۔ انجمن کے انیسویں سالانہ اجلاس کی روداد میں، جو ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی تھی، احمد دین کا ایک مضمون بہ عنوان ’’راز ونیاز‘‘ شامل ہے۔ ۷؎ اس مضمون کے شروع میں مرتّب روداد نے یہ تعارفی نوٹ لکھا ہے: دوسرا لیکچر موسوم بہ راز ونیا ز انجمن کے ایک معز ّز کارکن مولوی احمد دین صاحب بی اے پلیڈر کا تھا۔ گو مولوی صاحب کے ساتھ پبلک نے وہ سلوک نہیں کیا جو مولوی الف دین کے ساتھ برتا، تاہم نہایت افسوس ہے کہ ان کا عمدہ اور بے مثال لیکچر بھی ادھورا رہا اور پورا نہ ہونے پایا۔ یہ لیکچر بھی شاملِ روداد ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے معاملات سے احمد دین کو جو گہرا تعلّق تھا، اس کا اندازہ ایک واقعے سے ہوسکتا ہے۔ ۱۹۰۸ء میں انجمن میں اندرونی انتشار پیدا ہوا اور اس کے اراکین دوگروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ ’’طالبِ اصلاح‘‘ تھااور دوسرا ’’مخالفِ اصلاح‘‘۔ آپس کے اختلافات کوختم کرنے کے لیے ۳ مئی ۱۹۰۸ء کو دونوں گروہوں نے ایک ’’مصالحتی اجلاس‘‘ منعقد کیا، جس میں دونوں طرف کے پانچ پانچ وکلا نے شرکت کی۔ ان وکلا میں احمد دین بھی شامل تھے جو ’’طالبِ اصلاح ‘‘ گروہ سے تعلّق رکھتے تھے۔ اخبار وطن لاہور کی ۱۵مئی ۱۹۰۸ء کی اشاعت میں ’’مصالحتی اجلاس‘‘ کی جو رپورٹ شائع ہوئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں گروہوں نے آپس کے اختلافات ختم کر دیے۔ انجمن کے ایک ایسے ہی تنازعے کا ذکر مولانا عبدالمجید سالک نے بھی کیا ہے: ۔۔۔۔ انجمن میں اختلافات و تنازعات بہت بڑھ گئے تھے اور مقد ّمہ بازی تک نوبت پہنچ گئی تھی۔ پیسہ اخبار، ۳۰؍ اپریل ۱۹۱۰ء میں ایک اطلاع درج ہے کہ ۲۲ اپریل کی شام کو نواب فتح علی خاں قزلباش کے دولت کدے پر آنریبل محمد شفیع، ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، مولوی احمد دین، شیخ گلاب دین، مولوی محبوب عالم، میاں فضل حسین، چودھری نبی بخش، مولوی فضل الدین، میاں نظام الدین اور مولوی کریم بخش جمع ہوئے۔۔۔۸؎ انجمن کشمیری مسلمانان: انجمن کشمیری مسلمانان سے بھی احمد دین کا گہرا تعلّق تھا۔ وہ اس انجمن کے بانیوں میں سے تھے۔ یہ انجمن ان کشمیری مسلمانوں نے قائم کی تھی جو کشمیر سے نکل کر پنجاب میں مستقل طور پر آباد ہوگئے تھے، اور اس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ علا ّمہ اقبال بھی اس انجمن کے کاموں میں دلچسپی لیتے رہتے تھے۔ محمد عبد اللہ قریشی نے اقبال اور انجمن کشمیری مسلمانان کے تعلق پر اپنے ایک مقالے ۹؎ میں تفصیل سے لکھا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ جب ڈھاکے کے نواب خواجہ سلیم اللہ امرتسر آئے تو ۲۷ دسمبر ۱۹۰۱ء کو ان سے انجمن کا ایک وفد ملا تھا۔ احمد دین بھی اس وفد میں شامل تھے۔ ۱۰؎ دیگر اداروں سے تعلق: احمد دین، لاہور میونسپل کمیٹی کے مسائل سے بھی دلچسپی لیتے تھے۔ انھیں حکومت نے میونسپل کمشنر نامزد کیا تھا۔ وہ اس ادارے کی مالیاتی کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے۔ وہ پنجاب یونی ورسٹی سنڈیکیٹ کے بھی ایک عرصے تک سرگرم رکن رہے۔ وہ یونی ورسٹی کے ایل ایل بی کے امتحانات کے ممتحن اعلیٰ کا کا م بھی انجام دیتے تھے۔ (قلمی یادداشت از خواجہ اعجاز احمد) لاہور کی ادبی محفلیں: احمد دین کی ادبی سرگرمیوں کا آغاز گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہوچکا تھا، جہاں انھیں مولانا محمد حسین آزاد سے قریب رہنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے حکیم امین الدین کے مکان پر منعقد ہونے والی ادبی محفلوں میں شرکت شروع کی۔ ان محفلوں نے ان کے ادبی ذوق کو مزید جِلا دی۔ ان محفلوں کو گزشتہ صدی کے آخری چند برسوں کے لاہورکی ادبی سرگرمیوں کا مرکز سمجھنا چاہیے۔ ۱۸۹۵ء میں حکیم احمد شجاع کے والد حکیم شجاع الدین نے ایک ماہانہ مشاعرے کا آغاز کیا۔ یہ مشاعرہ حکیم امین الدین کے مکان پر منعقد ہوتا تھا اور اس کی روداد ماہانہ گلدستے شور محشرمیں شائع ہوتی تھی۔ شورِ محشر کے اوّلین شمارے میں جو روداد شائع ہوئی تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا مشاعرہ ۳۰؍نومبر ۱۸۹۵ء کو منعقد ہوا تھا۔۱۱؎ ا س میں لاہور کے بہت سے اہل علم اور شعرانے شرکت کی تھی۔ احمد دین بھی اس میں شریک ہوئے تھے۔ ۱۲؎ مشاعروںاور ادبی محفلوں کا یہ سلسلہ ۱۹۲۲ء تک قائم رہا۔ احمد دین باقاعدگی سے ان محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ خود انھوں نے ایک جگہ ان محفلوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے: انیسویں صدی کا آخری عشرہ نصف سے زیادہ گزر چکا تھا۔ شہر لاہور کے بھاٹی دروازے کے اندر بازارِ حکیماں میں ایک مشاعرے کی طرح ڈالی گئی۔ مجلس مشاعرہ، حکیم امین الدین صاحب بیرسٹر مرحوم کے مکان پر جو اسی خاندان حکیماں کے ایک نامور رکن تھے، جن کے نام پر بازار مشہور ہے، منعقد ہوا کرتی تھی۔ میر مجلس اسی خاندان کے بزرگ حکیم شجاع الدین صاحب مرحوم تھے۔ میرزا ارشد گورگانی دہلوی و میر ناظر حسین ناظم لکھنوی مشاعرے کی روح رواں تھے۔ دونوں حضرات خود بھی شعر کہہ کر لاتے تھے اور ان کے شاگردوں اور ثناخوانوں کی ایک دوسرے کے مقابلے میں طبع آزمائیاں مشاعرے کی رونق کو دوبالا کرتی تھیں۔ دلّی اور لکھنؤ کے اکھاڑے تھے۔ تماشائیوں کا ایک اچھا خاصا جمگھٹا ہوتا تھا۔ کالجوں کے نوجوان طالب علم بھی شعر گوئی اور شعر فہمی کے شوق میں چلے آتے تھے اور سخن دانی کی داد لینے اور دینے میں کسی سے پیچھے نہ رہتے تھے۔ ۱۳؎ اس زمانے کا دوسرا بڑا ادبی مرکز حکیم امین الدین کے چچا زاد بھائی حکیم شاہباز دین کا مکان تھا۔ اس کے بارے میں احمد دین لکھتے ہیں: حکیم شاہباز دین مرحوم… نہایت ہی دبلے پتلے آدمی تھے لیکن اللہ میاں نے اس مختصر سے جسم میں ایک ایسا دل رکھ دیا تھا جو اسلامی اخوّت اور محبت کے جوش سے ہر وقت لبریز رہتا تھا۔ خاطر داری اور مہمان نوازی کا شیوہ اور خدمت اور ہمدردی ان کی جبلّت تھی۔ ان کے فضائلِ حسنہ نے ان کے مکان کو ایک کلب گھر بنا دیا تھا۔ شہر کے بامذاق اصحاب یہاں جمع ہوتے تھے۔ حکیم صاحب کی چاہ اور چائے اور اہل محفل کی نکتہ سنجیاں قومی تحریکوں میں دلچسپی لینے والوں کو اس مکان پرکشاں کشاں لیے آتی تھیں۔۱۴؎ ان محفلوں میں جو لوگ باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے، ان میں مولوی احمد دین، شیخ گلاب دین، مفتی عبداللہ ٹونکی، مولانا محمد حسن جالندھری، مولوی اصغر علی روحی، سیّد محمد شاہ وکیل، سر عبدالقادر، سر شہاب الدین، سر محمد اقبال، خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش، خواجہ امیر بخش، خلیفہ نظام الدین اور ماسٹر مولا بخش کے اسماے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اس محفل احباب میں کبھی کبھی سر محمد شاہ دین، سر محمد شفیع ، فقیر افتخار الدین اور مرزا سلطان احمد بھی آ پہنچتے تھے۔ ۱۵؎ پیسہ اخبار والے منشی محبوب عالم بھی ان محفلوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ انھیں محفلوں میں احمد دین کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی جنھوں نے ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے لیے راستہ ہموار کیا۔ وفات: حکیم احمد شجاع کے بیان کے مطابق، احمد دین زندگی کے آخری چند برسوں میں مسلسل بیمار رہے۔ پاؤں کے چنبل کی وجہ سے وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ احمد دین کے فرزند خواجہ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ ۱۹۲۶ء میں ان کے والد پر فالج کا حملہ ہوا، اور اس وقت تک ان کی چنبل کی شکایت دور ہوچکی تھی۔ انھوں نے فالج کے مرض میں پونے تین سال مبتلا رہ کر ۹؍ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو وفات پائی۔ اُنھیں میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اخبار حمایتِ اسلام لاہور کے ۱۷؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کے شمارے میں احمد دین کی وفات کی خبر ان الفاظ میں شائع ہوئی تھی: دلی رنج و افسوس کے ساتھ یہ خبر حوالۂ قلم کی جاتی ہے کہ انجمن کے مخلص کارکن و حامی و ہمدرد مولوی احمد دین صاحب وکیل نے ایک مدّت کی علالت کے بعد ۱۱؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔۱۶؎ ۱۱؍ اکتوبر کی تاریخ درست نہیں ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو علا ّمہ اقبال کا وہ تعزیتی خط ہے جو آیندہ اوراق میں درج کیا گیا ہے۔ یہ خط ۱۱؍ اکتوبر کامکتوبہ ہے، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات دو روز قبل ہوچکی تھی۔ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ بقول خواجہ اعجاز احمد، قبرستان میانی صاحب کے ریکارڈ میں جو تاریخ وفات درج ہے، وہ ۹؍ اکتوبر ہے۔ احباب: احمد دین کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ سرفہرست علا ّمہ اقبال تھے۔ جن دوسرے لوگوں سے گہرے تعلّقات تھے، ان میں سر فضل حسین، خلیفہ نظام دین، حکیم شاہباز دین، مولوی محبوب عالم ۱۷؎ خواجہ کریم بخش، خواجہ رحیم بخش، حکیم امین الدین، شیخ گلاب دین، سیّد محمد شاہ وکیل، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، رائے بہادر پنڈت درگاداس وکیل، سرعبدالقادر، سر محمد شفیع، چودھری شہاب الدین، رائے بہادر پنڈت جوالا پرشاد وکیل اور سردار ہرنام سنگھ (وکیل) تھے۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، احمد دین کے بچپن کے دوست تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے بھتیجے مرزا مسعود بیگ نے آئینۂ صدق و صفا کے نام سے ڈاکٹر صاحب کی سوانح عمری لکھی ہے۔ اس میں وہ صاحبِ سوانح اوراحمد دین کے تعلقات کے بارے میں لکھتے ہیں: عم ّ مرحوم [ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ] کے بڑے عزیز دوستوں میں سے ایک بزرگ مولوی احمد دین وکیل تھے جو بازار حکیماں اندرون بھاٹی دروازہ میں رہایش رکھتے تھے۔ یہ علا ّمہ اقبال کے بھی ابتدائی دوستوں میں سے تھے۔ اور علا ّمہ کے ابتدائی دور کی ادبی اور شعری مجالس کے پرجوش ممبر تھے۔ اقبال پر سب سے پہلی تصنیف بھی انھی مولوی احمد دین مرحوم کی لکھی ہوئی ہے۔ زندگی کے آخری چند سالوں میں مولوی صاحب مرحوم ایک طویل بیماری میں مبتلا رہے اور عم ّ مرحوم اکثر انھیں دیکھنے جایاکرتے تھے اور ایک دو مرتبہ مجھے بھی ان کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک دن آپ نے مولوی صاحب موصوف سے اپنے پرانے تعلقاتِ مو ّدت اور زمانۂ طالب علمی کی باتیں سنائیں اور احسان شناسی کے رنگ میں بیان فرمایا کہ میں مولوی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری ایک لغو عادت کی اصلاح کی تھی۔ فرمانے لگے کہ زمانۂ طالب علمی میں مجھے ناول پڑھنے کی بہت عادت تھی اور اپنی درسی کتابوں کو چھوڑ کر میں ان بازاری ناولو ںکے مطالعے میں وقت ضائع کیا کرتا تھا۔ مولوی احمد دین صاحب عمر میں چند سال مجھ سے بڑے تھے اور ایک بڑے بھائی کی طرح میری حرکات و سکنات کی نگرانی بھی کیا کرتے تھے۔ ابتدا ان تعلقات کی یوں ہوئی کہ مرزا صاحب مرحوم کے والد صاحب لاہور میں علاقہ میاں میر کی نہر پر ضلع دار تھے اور اندرون شہر لوہاری منڈی میں ان کی سکونت تھی۔ ان کی ہمسایگی میں مولوی احمد دین صاحب کے والد ڈاکٹر اِلٰہ دین کی رہایش تھی جو جیل میں ڈاکٹر تھے۔ ۱۸۹۰ء میں جب مرزا صاحب کے والد صاحب کی تبدیلی ضلع ملتان میں ہوگئی تو وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے لاہور ہی چھوڑ گئے اور ان کے پرانے احباب وقتاً فوقتاً ان کی خبر گیری کرتے رہتے تھے۔ اس تعلّق کی بنا پر مولوی احمد دین صاحب نے ایک مرتبہ عم ّ مرحوم کو ناولوں سے بہت شغف کرتے دیکھا تو اپنے دوست کو یہ عادت ترک کرنے پر مائل کیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی سی بات ہے لیکن مرزا یعقوب بیگ عمر بھر مولوی صاحب کے احسان مند رہے اور ان کی اس نیکی کو یاد کرتے رہے۔ ۱۸؎ فقیر وحید الدین نے بتایا ہے کہ ان کے والد فقیر سیّد نجم الدین اور مولوی احمد دین میں بھی دوستانہ مراسم تھے۔ ۱۹؎ شخصیت : احمد دین کی شخصیت بڑی پر کشش تھی۔ وہ اپنی گوناگوں صفات کی وجہ سے اپنے جاننے والوں کے حلقے میں بہت مقبول تھے۔ ان میں ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، دوسروں کے کام آنے میں وہ اپنے پرائے کی تمیز روا نہ رکھتے تھے۔ ان کی ذات قدیم تہذیب کا بہترین نمونہ تھی،لیکن وہ جدید زمانے کے تقاضوں سے بھی بے خبر نہیں تھے۔ خصوصاً علوم و فنون کے سلسلے میں ان کی رائے یہ تھی کہ ہمیں اہل مغرب سے پوری طرح استفادہ کرنا چاہیے، لیکن محض نقّالی کو وہ ناپسند کرتے تھے۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے احمد دین کو دیکھا تھا اور جن کے ذہن میں ان کی بہت سی یادیں محفوظ ہیں۔ ۲۰؎ حکیم احمد شجاع، راقم الحروف کے نام خط مورخہ ۷ فروری ۱۹۶۶ء میں لکھتے ہیں: مولوی احمد دین، مولوی تاج دین اور میرے عم زاد بھائی حکیم امین الدین نے ایک دایہ کا دودھ پیاتھا، اور اس لیے ان تینوں بزرگوں کی آپس میںبھائیوں بھائیوں کی سی محبت تھی۔۔۔۔۔میں ذاتی طور پر مولوی احمد دین صاحب کی اس محبت اور شفقت کو کبھی بھول نہیں سکتا جو میرے والد مرحوم کی وفات کے بعد میرے ایّام طفولیت سے لے کر اس وقت تک جب تک وہ زندہ رہے، میری زندگی کا بہت بڑا سہارا رہی۔ میری کا میابی پر خواہ وہ کسی امتحان میں ہو یا ملازمت کے سلسلے میں، انھوں نے ہمیشہ ایسی مسر ّت کا اظہار کیا کہ ان کا یہ خلوص میرے لیے باپ کے سایۂ عاطفت کا نعم البدل بن گیا۔ مولانا غلام رسول مہر اپنے مکتوب بنام راقم الحروف مورخہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۶۶ء میں لکھتے ہیں: میں ۱۹۱۱ء میں بسلسلۂ تعلیم لاہور آیا تھا۔ اس زمانے میں مولوی احمد دین مرحوم اقبال کے خاص احباب میں شمار ہوتے تھے۔ ۱۹۲۴ء میں دوبارہ یہاں آیا تو ان کے اور شیخ گلاب دین کے بارے میں سنا جاتا تھا کہ انھیں اقبال سے خصوصی تعلّق ہے۔ مولوی احمد دین سے کبھی بات چیت نہیں ہوئی، البتہ انھیں دورسے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ بالکل کم گو تھے۔ عام روایت یہ تھی کہ سِول مقدمات میں انھیں کمال مہارت حاصل ہے۔ پوشش ہمیشہ سادہ دیکھی۔ پاجامہ لٹّھے کا، چھوٹا کوٹ،سر پر ترکی ٹوپی۔ چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔۔۔۔۔ اقبال کی ٹوپی بھی ترکی ہوتی مگر ہارڈ۔ مولوی احمد دین کی ٹوپی سافٹ اور ذرا سیاہی مائل رنگ کی ہوتی تھی۔ بہرحال مولوی صاحب بڑے متین، سنجیدہ، کم گو بزرگ تھے۔ خواجہ اعجاز احمد نے اپنے والد کی شخصیت کو ان الفاظ میں اجاگر کیا ہے: مولوی احمد دین اوائل عمر سے ہی علم و ادب کاشغف رکھتے تھے اور کتب بینی کا اتنا شوق تھا کہ اردو ادب، انگریزی ادب، فارسی ادب اور عربی کی بے شمار کتب ان کی لائبریری میں موجود تھیں۔۔۔۔مولوی صاحب کے انتقال کے بعد گھریلو نظام کچھ اس قدر درہم برہم ہوا کہ ان میں سے بیشتر کتابیں خواجہ سعید احمد جو مولوی صاحب کے بڑے لڑکے تھے، وہ لے گئے۔۔۔۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان بننے سے چند مہینے پہلے خواجہ سعید صاحب کا اچانک دل کی حرکت بند ہونے سے انتقال ہوگیا۔ وہ ریلوے میں ملازم تھے اور ان دنوں انبالے میں متعّین تھے۔۔۔۔ ان کی بیوی اور بیٹا جب انبالے سے لاہور آئے تو اپنے ساتھ چند ضروری اشیا ہی لاسکے اور اس کے فوراً بعد تقسیم پاک و ہند ہوگئی اور ان کا بیٹا بھی فوت ہوگیا۔ ان وجوہات کی بنا پر مولوی صاحب کی بیش بہا کتابوں کا خزانہ اور دیگر کاغذات تلف ہوگئے۔ مولوی صاحب کا اردو، فارسی اور انگریزی ادب کے علاوہ عربی زبان کا بھی کافی وسیع مطالعہ تھا اور خاص طور پر قرآن شریف کے ترجمے اور تفسیر پر کافی عبور رکھتے تھے۔ اور کئی موقعوں پر ڈاکٹر اقبال بھی مشورہ لیا کرتے تھے۔ مولوی صاحب کم گو، خود دار اور سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ بہت نیک دل اور ہمددر انسان تھے۔ ان کی کنبہ پروری مشہور تھی۔ مولوی صاحب اور ان کی اہلیہ غریب اقربا اور دوسرے ضرورت مند اشخاص کی کئی طریقوں سے حاجت روائی کرتے رہتے تھے۔ ان کے گھر میں تقریبا بیس پچیس افراد کا کھانا روزانہ ضرور تیار ہوتاتھا۔ مولوی صاحب کی زندگی کامعمول کچھ اس طرح سے تھا کہ وہ علی الصبح اٹھتے، صبح کی نماز پڑھتے،تلاوت قرآن کرتے اور پھر منٹو پارک (اقبال پارک) میں سیر کے لیے چلے جاتے۔ وہاں ان کے چند وکیل احباب موجود ہوتے جن سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتے ۔ وہاں سے واپس آکر ناشتہ کرتے جو اکثر لسّی اور پوری حلوہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اپنے آفس میں بیٹھ کر اس دن کے مقدمات کی تیاری کرتے اور تقریباً نو ساڑھے نو بجے وہ کھانا کھا کر اپنے گھر یلو تانگے پر سوار ہو کر ضلع کچہری جاتے۔ وہاں سے چار بجے کے بعد گھر واپس آکر کشمیری چائے کے ساتھ ہلکی پھلکی چیزیں نمک پارے وغیرہ کھاتے۔ اور پھر کچھ دیر آرام کرکے وہ اپنی بیٹھک میں چلے جاتے۔ وہاں شام کے قریب ان کے چند احباب اکثر آتے اور وہ اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ لگایا کرتے۔ ڈاکٹر اقبال اگرچہ اپنے دوستوں کے ہاں کم جایا کرتے تھے لیکن وہ مولوی صاحب کے ہاں تبادلۂ خیالات کے لیے آتے رہتے تھے اور کشمیری چائے بڑے شوق سے پیا کرتے تھے۔ مولوی صاحب علاوہ ان دنوں کے جن میں ادبی مجلسیں ہوا کرتی تھیں، رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ دو تین گھنٹے اپنا ادبی شوق پورا کیا کرتے تھے۔ اور اس کے بعد گیارہ بارہ بجے کے قریب سو جایا کرتے تھے۔ ان کی مصروفیات کچھ اس قسم کی ہوتی تھیں کہ ان کے پاس گھر یلو اور نجی معاملات میں حصّہ لینے کی کوئی فرصت نہ ہوتی تھی جس کی وجہ سے ان کی اہلیہ ہی تمام گھر یلو کام انجام دیتی تھیں۔ (قلمی یادداشت) اولاد: احمد دین نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ دوسری بیوی سے چار لڑکے اور ایک لڑکی۔ ان میں سے تین بیٹے خواجہ ریاض احمد، خواجہ امتیاز احمد اور خواجہ اعجاز احمد اور ایک بیٹی محمود ممتاز موجود ہیں اور باقی سب کا انتقال ہوچکا ہے۔ خواجہ ریاض احمد تقریبا پینتیس برس تک اسلامیہ کالج لاہور سے وابستہ رہے ہیں۔ خواجہ امتیاز احمد پنجاب آڈٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر تھے۔ خواجہ اعجاز احمد محکمۂ امور حیوانات میں سپر نٹنڈنٹ تھے۔ یہ تینوں حضرات ملازمتوں سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔٭ ایک صاحبزادے کا نام بشیر احمد تھا۔ ان کے بارے میں مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ۔۔۔۔مولوی بشیر احمد، شیخ مبارک علی کے پاس برسوں کام کرتے رہے۔ وہ بھی پیکر خلوص تھے، بے مثال لطیفہ باز، کھانا پکانے میں ایسے مشّاق تھے کہ میں نے زندگی میں ویسا کوئی نہ دیکھا۔۔۔۔تقسیم سے کئی برس پیشتر وفات پائی۔ (مکتوب بنام راقم الحروف، مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۶۶ئ) بشیر احمد کے بارے میں خواجہ اعجاز احمد قلمی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ: وہ والد صاحب کے بہت قریب تھے، اور اکثر ڈاکٹر اقبال کے ہاں بھی کئی معاملوں کی گفت و شنید کے لیے جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مولوی صاحب کی کتابوں کی نشرو اشاعت کا کام خواجہ بشیر احمد ہی کے سپرد تھا جسے وہ خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے۔ احمد دین کے ایک اور بیٹے خواجہ نیاز احمد تھے جو پہلے وکالت کرتے تھے اور پھر محکمۂ پولیس میں پراسیکیوٹنگ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ایک صاحب زادے کا نام خواجہ سعید احمد تھا، ان کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ یہ بھی اپنے والد کی طرح علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے۔ لاہور سے عشق: احمد دین کو لاہور سے عشق تھا۔ اگرچہ انھیں لاہور سے باہر جانے کے مواقع ملے، اور ایک بار وہ گجرانوالہ گئے بھی، لیکن لاہور سے باہر مستقل قیام انھیں گوارا نہیں تھا۔ وہ اس شہر کی تہذیبی قدروں کے دلدادہ تھے، اور یہ تعلق کچھ اس حد تک بڑھا کہ وہ خود لاہور کی تہذیبی زندگی کی علامت بن گئے۔ لاہور سے وہ بہت کم باہر نکلتے تھے، البتہ کشمیری الاصل ہونے کی وجہ سے ہر سال ستمبر کے مہینے میں جب عدالتوں کی تعطیلات ہوتی تھیں، وہ کشمیرضرور جاتے تھے۔ لاہور میں پہلے پہل ان کا قیام سوتر منڈی میں تھا۔ پھر لوہاری منڈی میں رہے۔ بعد ازاں بازار حکیماں میں لا ل حویلی کے سامنے کے مکان میں قیام کیا۔ آخر میں اسی بازار کی ایک ملحقہ گلی میں فقیر سیّد نجم الدین کے گھر کے عین سامنے ایک مکان میں منتقل ہوگئے اور اسی مکان میں ان کا انتقال ہوا۔ وکالت کے سلسلے میں انھوں نے اپنا دفتر لوہاری منڈی میں پھولوں والی گلی کے سامنے ایک مکان میں قائم کیا تھا۔ اقبال سے تعلقات: احمد دین اور اقبال کے تعلّقات کی داستان دراصل دو ایسے دوستوں کے ربط باہم کی روداد ہے جو آپس میں محبت بھی کرتے تھے، اور ایک دوسرے کا احترام بھی ملحوظ رکھتے تھے۔ ان کی دوستی ہر اعتبار سے مثالی تھی۔ آغاز تعلّقات سے لے کر احمد دین کی وفات تک، دونوں میں گہرے اور مخلصانہ مراسم رہے، ایک آدھ مرتبہ کچھ کشیدگی بھی پیدا ہوئی، لیکن وہ بھی، جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا ، حد سے بڑھی ہوئی محبت کا نتیجہ تھی۔ اقبال، احمد دین سے چند برس چھوٹے تھے، لیکن دونوں کے مشترک علمی و ادبی مذاق اور مزاج کی ہم آہنگی نے عمر کے اس فرق کو ختم کر دیا تھا۔ ویسے بھی دوستی سن و سال کی نہیں، ہم مذاقی وہم مشربی کی پابند ہوتی ہے۔ ان دونوں کے گہرے تعلّقات کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں، مثلاً دونوں کشمیری الاصل تھے اور اس طرح قدرتی طور پر دونوں میں ایک دوسرے کے لیے کشش تھی۔ اسی بنا پر دونوں نے انجمن کشمیری مسلمانان کے ذریعے اپنی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ دونوں ہم پیشہ تھے اور قانون دان کی حیثیت سے اپنی اپنی جگہ ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اقبال کو اپنے ذاتی معاملات میں احمد دین کی قانونی قابلیت سے فائدہ اٹھانے کی بارہا ضرورت پیش آئی اور اس تعلق نے بھی دوستی کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔ دونوں کا انجمن حمایت اسلام سے بھی گہرا تعلّق تھا اور یہ انجمن بھی ان کے باہمی تعلقات کو خوش گوار بنانے کا ذریعہ بنی۔ اس طرح مختلف عناصر نے مل کر اقبال اور احمد دین کو ایک دوسرے سے قریب کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ قربت خلوت و جلوت کے ہر مرحلے میں بڑھتی چلی گئی۔ اوپر بازار حکیماں کی ادبی محفلوں کا ذکر آچکا ہے۔ اِنھیں محفلوں میں اقبال اور احمد دین ایک دوسرے کے قریب آئے۔ ۲۱؎ اقبال کا یہ طالب علمی کا زمانہ تھا، اور احمد دین تعلیم ختم کرکے عملی زندگی میںنہ صرف داخل ہوچکے تھے، بلکہ علمی و ادبی حلقوں میں خاصی شہرت بھی حاصل کرچکے تھے۔ دونوں کے تعلّقات تقریباً ۳۴، ۳۵ برسوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ادبی سطح پر اقبال کو متعارف کرانے میں ان کے دوستوں کی کوششوں کو بھی خاصا دخل رہا ہے۔ ان دوستوں نے اقبال کو ادبی حلقوں سے متعارف کرایا، ان کے کلام کو عام جلسوں اور رسالوں وغیرہ کے ذریعے عوام تک پہنچایا، ان کی شاعری کے بارے میں تعارفی مضامین اور کتابیں لکھیں۔ احمد دین بھی اقبال کے ایسے دوستوں میں شامل تھے۔ اقبال کی شاعری پر جس شخص نے اردو میں سب سے پہلے قلم اٹھایا اور ایک مفصّل تنقیدی جائزہ پیش کیا، وہ احمد دین ہی تھے۔ علمی و ادبی معاملات سے قطع نظر، دونوں ایک دوسرے کی ذاتی زندگی میں بھی بڑی حد تک دخیل تھے۔ احمد دین، اقبال کی ابتدائی زندگی کے تمام ’’خفی و جلی‘‘ پہلوؤں سے پوری طرح سے واقف تھے۔ اقبال کے ایک قدیم دوست مرزا جلال الدین بیرسٹر نے رقص و سرود کی محفلوں سے متاثر ہوکر اقبال کے شعر کہنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:’’میری ملاقات سے پیشتر مولوی احمد دین صاحب نے کئی ایسے مواقع کا ذکر کیا ہے‘‘۔ ۲۲؎ مرزا جلال الدین رقص و سرود سے اقبال کی دلچسپی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’…میں نے بھی مولوی احمد دین مرحوم سے اُن کی داستان سن رکھی تھی‘‘۔۲۳؎ ان بیانات سے احمد دین اور اقبال کی بے تکلفّی نیز تعلقات کی گہرائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اقبال کی دوسری (والدۂ جاوید اقبال کے ساتھ) اور تیسری شادی میں جن چند قریبی احباب نے شرکت کی، ان میں احمد دین بھی شامل تھے۔ ۲۴؎ علا مہ اقبال، جیسا کہ کہا جاچکا ہے، احمد دین کی قانونی مہارت کے بھی قائل تھے۔ وہ مقدمات کے سلسلے میں احمد دین سے مدد لیتے رہتے تھے۔ اس قسم کے ایک مقد ّمے کا ذکر محمد عبد اللہ قریشی نے کیا ہے۔ جون ۱۹۲۱ء میں ایک معاملے میں منشی سراج الدین نے قانونی مشورے کے لیے علا مہ اقبال کو کشمیر بلایا۔ وہ اپنے ساتھ مولوی احمد دین کو بھی لے گئے اور تقریباً دوہفتے تک سری نگر میں رہے۔ مقدمے کے کام سے فارغ ہوکر اقبال اور احمد دین نے بہت سا وقت سیر و تفریح میں گزارا۔۲۵؎ خواجہ اعجاز احمد نے کشمیر جانے کے واقعے کا سال ۱۹۲۴ء بتایا ہے۔ وہ قلمی یاد داشت میں لکھتے ہیں: ۱۹۲۴ء میں جب ڈاکٹر اقبال کشمیر گئے تو اس دوران میں سری نگر میں ڈاکٹر اقبال اور مولوی صاحب کی علیٰحدہ علیٰحدہ ہاؤس بوٹیں تھیں۔ اکثر ان کے احباب ڈاکٹر اقبال سے ملاقات کے لیے آتے رہتے تھے اور شعر وسخن کی مجلس گرم رہتی تھی۔ انھیں دنوں میں احباب کی فرمایش پر ڈاکٹر اقبال نے ڈل لیک پر فی البدیہہ نظم کہی۔ خواجہ اعجاز احمد اس سلسلے میں مذکورہ یادداشت میں مزید لکھتے ہیں: برادرم خواجہ امتیاز احمد صاحب نے مئی ۱۹۲۴ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا، اور جو ن میں قبلہ والد صاحب کا پروگرام …سری نگر کا بن گیا، اور وہ برادرم امتیاز احمد کو بھی ان کی امتحان میں کامیابی کی خوشی میں اپنے ہمراہ سری نگر لے گئے۔ محمد عبداللہ قریشی کے بیان کی تائید علامہ اقبال کے ایک خط سے بھی ہوتی ہے۔ منشی سراج الدین کے نام مکتوب مورخہ ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ء میں اقبال لکھتے ہیں: آپ سے رخصت ہو کر پانچ بجے شام راولپنڈی پہنچ گئے اور چھ بجے شام کی ٹرین بھی مل گئی۔ رستے میں خدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ آپ کی مستعدی، خدمت گزاری اور مہمان نوازی کی تعریف کرتے کرتے منزل ختم ہوگئی۔۲۶؎ اس صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ خواجہ اعجاز احمد کو اقبال کے سفر کشمیر کا صحیح سنہ یاد نہیں رہا۔ خواجہ اعجاز احمد ہی کا بیان ہے کہ احمد دین ہرسال کشمیر جاتے تھے۔ ۱۹۲۴ء میں بھی وہ ضرور گئے ہوں گے، لیکن اقبال کے ساتھ کشمیر جانے کا واقعہ ۱۹۲۱ء کا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں اقبال کے کشمیر جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بعض لوگ اقبال کا کلام بلااجازت چھاپ لیتے تھے۔ انھوں نے ایسے لوگوں پر مقدمہ چلانے کا کام احمد دین کے سپرد کر رکھا تھا۔ بلا اجازت کلام چھاپنے والوں میں ایک صاحب منشی قمر الدین تھے۔ ان صاحب کے بارے میں اقبال اپنے ایک خط بنام محمد الدین فوق مورخہ ۹ مارچ ۱۹۱۷ء میں لکھتے ہیں: اس سے پیشتر میں اس شخص (منشی قمر الدین) پر مقّدمہ دائر کرنے کو تھا مگر مولوی ظفر علی خاں کے کہنے پر باز رہا۔ اس نے اس سے پیشتر میری نظموں کو میری اجازت کے بغیر شائع کر دیا تھا۔ اب یہ سب معاملہ مولوی احمد دین وکیل کے سپرد کیا ہے کہ اگر کوئی میرا کلام میری اجازت کے بغیر چھاپے تو اس پر دعویٰ کر دیا جائے۔ ۲۷؎ احمد دین زندگی کے آخری چند برسوں میں بیمار رہے، اس وجہ سے وہ کہیں آجا نہیں سکتے تھے۔ اقبال ان کی مزاج پرسی کے لیے اکثر ان کے مکان پر جاتے ر ہتے تھے۔ جب احمد دین کا انتقال ہوا تو اقبال پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔ انھوں نے احمددین کے فرزند خواجہ بشیر احمد کے نام ایک تعزیتی خط لکھا، یہ خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے: ۲۸؎ ۱۱/۱۰/۲۹ء عزیزم بشیر۔ السلام علیکم افسوس ہے کہ میں مولوی صاحب کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ مجھے اس سے دو ایک روز پہلے نقرس ہوگیا جس کی وجہ سے پاؤں میں سخت تکلیف تھی۔ حرکت سے قاصر رہا۔ دوسرے روز دانت کے درد کا پھر اضافہ ہوگیا۔ میں نے خواجہ صاحب ۲۹؎ کے ہمدست آپ کو اپنی معذوری کا پیغام بھی بھیجا تھا۔ بہرحال مجھے یہ افسوس تازیست رہے گا کہ مرحوم کے لیے آخری دعا جو کی گئی، میں اس میں شریک ہونے سے محروم رہا۔خداے تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کرے، اورآپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ کل آپ کے ہاں حاضر ہونے کا قصد تھا، مگر اس سے پہلے انجمن کے جلسے میں دیر ہوگئی۔ ان شاء اللہ اب حاضر ہوں گا۔ امید ہے شام کے قریب آپ سب بھائی گھر پر ہوتے ہوں گے۔ زیادہ کیا عرض کروں سواے دعاے صبر جمیل کے۔ والسّلام محمد اقبال اقبال اور احمد دین کی دوستی کے بارے میں حکیم احمد شجاع لکھتے ہیں: اقبال اور مولوی احمد دین کے تعلّقات بہت قریبی تھے اور مخلصانہ تھے۔ مولوی صاحب اقبال سے دلی محبت رکھتے تھے اور ان کے کلام سے ان کو بڑا لگاؤ تھا۔ اقبال بھی اگرچہ مولوی صاحب سے عمر میں بہت چھوٹے نہ تھے لیکن ان کا احترام ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے اور جو شعر ان کی پسند کی کسوٹی پر پورا نہ اترے، اسے یا تو نظر انداز کر دیتے تھے اور یا اس پر دوبارہ غور کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اقبال ہمیشہ اپنے ذاتی معاملات میںمولوی احمد دین سے مشورہ کرتے تھے اور اکثر انھیں کے مشورے پر عمل کرتے تھے۔ کئی معاملات میں یہ مشورے اقبال کے بڑے کام آئے۔ جب مولوی احمد دین بہت زیادہ علیل ہوگئے اور پاؤں کے چنبل کی وجہ سے چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے تو اقبال بلاناغہ ان کی مزاج پرسی کے لیے میکلوڈ روڈ کی کوٹھی سے بازار حکیماں میں آیا کرتے تھے۔ ۳۰؎ مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ’’۔۔۔۔مولوی احمد دین مرحوم اقبال کے بڑے ہی مخلص دوست تھے، ایسے دوست جیسے آج کل دیکھنے میں نہیں آتے۔‘‘۳۱؎ اس محبت اور خلوص کے باوجود ایک مرتبہ ان دونوں دوستوں میں کچھ کشیدگی بھی پیدا ہوئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۹۲۳ء ۳۲؎ میں اقبال کے نام سے احمد دین نے ایک کتاب لکھی جس میں اقبال کی شاعرانہ حیثیت سے بحث کی گئی تھی۔ عام روایت یہ ہے کہ اقبال کو اس کتاب کی اشاعت پسند نہ آئی کیونکہ اس وقت تک ان کا پہلا اردو مجموعۂ کلام بانگِ درا شائع نہ ہوا تھا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ اس کتاب میں چونکہ بہت سا کلام بھی شامل کر لیا گیا ہے، اس لیے یہ کتاب ان کے زیر ترتیب مجموعۂ کلام کی اشاعت و فروخت پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔احمد دین کو اقبال کے ان خیالات کا جب علم ہوا تو انھوں نے غصّے میں آکر کتاب کے تمام نسخے جلا ڈالے۔ دو نسخے کسی طرح بچ گئے جو احمد دین کے وارثوں کے پاس اب بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب ۱۹۲۶ء میں مصنف نے از سرِ نو لکھی اور اسی سال طبع و شائع ہوئی۔ کتاب کی طبع اوّل کے جلائے جانے کے بارے میں بعض واقفِ حال حضرات کے بیانات کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں: اقبال کے متعلق کتاب مولوی صاحب نے مرتّب فرمائی تھی۔ اس میں ایسی نظمیں بھی شامل تھیں جنھیں اقبال اپنے کلام سے خارج کر چکے تھے۔ ایک کاپی دیکھ کر غالباً اقبال نے اسی خیال سے ہلکے انداز میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا، بلا واسطہ نہیں بالواسطہ۔ مولوی صاحب نہایت مخلص دوست تھے، ان کے خلوص کا تقاضا یہ ہوا کہ سرسری بیان سنتے ہی مزید استفسار یا رو در رو گفتگو کا بھی انتظار نہ کیا اور پوری کتاب جلوادی۔ صرف چندکاپیاں اس وقت تک تقسیم ہوئی تھیں۔ پھر بانگ درا چھپ گئی تو ازسر نو کتاب چھاپی، جس میں سے وہ کلام بیشتر خارج کر دیا تھا جسے اقبال خود خارج کرچکے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ اصل کاپی بھی دیکھی تھی۔ میرا احساس یہی تھا کہ انھوں نے محض جذبۂ خلوص میں یہ قربانی کردی، ورنہ اس میں خارج کردہ کلام کی زیادہ مقدار شامل نہ تھی۔ ۳۳؎ اس سے زیادہ کلام انجمن (حمایت اسلام) کی سالانہ کارروائیوں میں نیز اخباروں اور رسالوں خصوصاً مخزن میں چھپ چکا تھا۔۳۴؎ حکیم احمد شجاع کی رائے میں اصل واقعہ یوں ہے: (مولوی احمد دین) نے سب سے پہلے اقبال کو ان کے اصلی روپ میں دیکھا اور ان کی شاعری کو اصلی رنگ میں سمجھا، اور اقبال کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی۔ اور اس میں اقبال کے وہ تمام اشعار جمع کیے جو بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح ابھی کسی لڑی میں نہ پروے گئے تھے۔ اور پھر ان اشعار کی اس طرز پر تشریح کی جس پر مائنڈ اینڈ آرٹ آف شیکسپیرلکھی گئی تھی۔ یہ کتاب لاہور کے ایک نامور ناشر شیخ مبارک علی نے چھاپی۔ ۳۵؎ لیکن ابھی یہ کتاب شائع نہ ہوئی تھی کہ اقبال کو اپنے کلام کے مجموعے کو شائع کرنے کا خیال پیدا ہوا اور یہی وہ مجموعہ ہے جس نے بعد میں بانگ درا کی شکل اختیار کی۔ مولوی احمد دین نے اس خیال سے کہ ان کی کتاب کی اشاعت سے بانگ درا کی اشاعت کو نقصان پہنچے گا، اپنی کتاب خود ہی تلف کردی، اور اس طرح دنیاے ادب ایک بڑی مفید تحقیقی یادداشت سے محروم ہوگئی۔۳۶؎ شیخ مبارک علی صاحب لاہور کی گزشتہ پون صدی کی علمی و تہذیبی زندگی کے ایک ایک پہلو سے پوری طرح واقف ہیں۔ کتابوں کی طباعت و اشاعت ان کے لیے تجارت سے زیادہ ادبی و علمی ذوق کی تسکین کا ذریعہ تھی۔ ان کی دکان ایک بہت بڑا علمی و ادبی مرکز تھی جہاں شہر کے تمام اہل علم باقاعدگی سے جمع ہوتے تھے۔ شیخ صاحب کے علا ّمہ اقبال اور دیگر اکابر سے بہت گہرے مراسم تھے۔ مولوی احمد دین سے بھی ان کے مخلصانہ تعلّقات تھے۔ اقبال کی طباعت اوّل کے بارے میں راقم الحروف کے ایک استفسار کے جواب میں انھوں نے فرمایا: مولوی احمد دین اور ڈاکٹر اقبال کے تعلقات ہمیشہ برادرانہ رہے۔ شیخ صاحب [اقبال] کسی اور دوست کے گھر کبھی نہ گئے۔ صرف مولوی احمد دین کی شخصیّت ایسی تھی جہاں ڈاکٹر صاحب کی کسی قدر بے تکلفی تھی ، وہ ان کے ہاں وقتاً فوقتاً جایا کرتے تھے۔ چنانچہ اِنھیں تعلقات کی بنا پر اور کچھ عقیدت کے تحت مولوی صاحب مرحوم نے اقبال لکھی۔ جس میں ڈاکٹر صاحب کے حالات زندگی کے علاوہ ڈاکٹر مرحوم کی طویل نظمیں مثلاً شکوہ، جواب شکوہ، فریاد امّت، طلوع اسلام وغیرہ بھی آگئی تھیں۔ جب یہ کتاب ڈاکٹر صاحب قبلہ کے سامنے پیش کی گئی تو انھوں نے دیکھ کریہ کہا کہ اس کتاب کے ہوتے ہوئے میرے دوسرے کلام کے مجموعے کی کیا ضرورت ہے؟ بظاہر وہ ناراض نہ تھے۔ اس پر مولوی صاحب مرحوم نے اس کتاب کی کل کاپیاں نذر آتش کردیں کیونکہ ان کو ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں کافی دخل تھا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ اقبال صاحب کا دل کسی طرح بھی میلا ہو۔ جب ڈاکٹر صاحب کو اس واقعے کا علم ہوا تو ان کو اس کا کافی صدمہ ہوا۔ اس کے کچھ عرصے بعد مولوی احمد دین نے اپنی کتاب سرگذشتِ الفاظ لکھی جس پر ڈاکٹر اقبال نے سفارش کرکے مبلغ پانچ صد روپے انعام دلوایا… یہ کتاب [اقبال] مولوی صاحب نے ہی …چھپوائی …اس کی طباعت وغیرہ کسی چیز میں ہمارے ادارے کا کوئی دخل نہ تھا۔ صرف ہمارے پاس اس کا کچھ وقت کے لیے اسٹاک رہا۔ اس لیے …[بطور تقسیم کنندہ] ہمارا نام اس کتاب پر تھا۔۳۷؎ محمد عبداللہ قریشی نے بھی اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: کہتے ہیں کہ اس کتاب میں مولوی صاحب نے اقبال کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے، ان کی تمام ابتدائی نظمیں اور غزلیں جو انھوں نے از راہ خلوص و محبت جمع کررکھی تھیں، شائع کر دی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ منتشر کلام جمع ہو کر دستبردِحوادث سے محفوظ ہوجائے گا اور اقبال خوش ہوں گے، کیونکہ اس وقت تک ان کے کلام کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا تھا۔ اور ان کی شاعری پر بھی کوئی مستند کتاب اردو زبان میں نہیں لکھی گئی تھی۔ مگر مولوی صاحب کا خیال غلط نکلا۔ انھیں مایوسی ہوئی۔ کیونکہ جب یہ کتاب چھپ کر اقبال کے پاس پہنچی اور شیخ گلاب دین نے اس کے متعلق اقبال کی رائے دریافت کی تو اقبال نے مذاق ہی مذاق میں کہہ دیا کہ میں تو نظر ثانی کے بعد اپنے کلام کا مجموعہ ابھی مرتّب ہی کر رہا تھاکہ مولوی صاحب نے اقبال کو بیچنا بھی شروع کر دیا۔ کم از کم وہ میری کتاب کا انتظار کر لیتے۔مولوی صاحب نے جب یہ بات سنی تو اس کا کچھ اور ہی مطلب لیا۔ اقبال کا کلام چھاپ کر اقبال کو نقصان پہنچانا اور جو اشعار اس کے معیارسے گر چکے تھے انھیں محفوظ کرکے اقبال کی شہرت کو بٹّالگانا، مولوی صاحب کا مقصد نہ تھا۔ انھوں نے کتاب کی تمام جلدیں اپنے مکان کے صحن میں ڈھیر کرکے ان کو آگ لگا دی۔ خود کرسی بچھا کر ایک طرف بیٹھ گئے ، اورجب کتاب کا ایک ایک ورق جل کر راکھ نہ ہوگیا، وہاں سے نہ ہلے اور گھر پھونک تماشا دیکھتے رہے۔ اقبال کو اس واقعے کا علم ہوا تو انھوں نے بڑا افسوس ظاہر کیا۔ چنانچہ بانگ درا کی اشاعت کے دوسال بعد، ۱۹۲۶ء میں یہ کتاب از سر نو لکھ کر دوبارہ شائع کی گئی اور اس دفعہ کلام کا بہت سا حصّہ حذف کر دیا گیا۔ صرف منتخب اشعار پر اکتفا کیاگیا۔۳۸؎ مذکورہ بالا بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے احمد دین کی کتاب کی طباعت کو اس وجہ سے ناپسند کیا تھا کہ اس زمانے میں بانگِ درا کی طباعت کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ اقبال میں اقبال کے کلام کا خاصا بڑا حصّہ شامل کر لیاگیاتھا۔ اس وجہ سے اس کتاب کی حیثیت بھی ایک مجموعۂ کلام کی سی تھی۔ اقبال کی شکایت بے جا نہ تھی۔ احمد دین کی کتاب کی اشاعت سے بانگِ درا کی اشاعت متاثر ہوسکتی تھی۔ دوسری طرف احمد دین کا اپنی کتاب کو جلا دینا ایک اضطراری فعل ضرور تھا، لیکن کوئی غلط اقدام نہ تھا۔ اقبال اپنے کلام کی اشاعت کے سلسلے میں بڑے حسّاس تھے، اپنے زیر ترتیب مجموعۂ کلام کے حوالے سے اس کتاب کو ناپسند کرنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ احمددین اس کتاب سے مالی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یقینا اسی خیال کے پیش نظر احمد دین نے اپنی کتاب جلائی ہوگی تاکہ اقبال پر یہ واضح ہوسکے کہ اس قسم کا کوئی مقصد ان کے سامنے نہ تھا۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ اقبال اور احمد دین کے بے انتہا گہرے تعلّقات کے پیش نظر یہ ممکن نہیں کہ اقبال کو احمد دین کی کتاب کی طباعت کا پہلے سے علم نہ ہو۔ کوئی تعجب نہیں کہ انھوں نے اس سلسلے میں اقبال سے مشورہ بھی کیا ہو۔ دوسری طرف یہ بھی ممکن نہیں کہ احمد دین کو یہ علم نہ ہو کہ جلد ہی اقبال کے اردو کلام کا مجموعۂ شائع ہونے والا ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اقبال طبع اوّل میں اقبال کا خاصا کلام تبصرہ و تنقید کے تحت مثالوں کی صورت میں درج کیا گیا ہے نیز چند غزلیں اور مزاحیہ نظمیں بغیر کسی تمہید کے دو مختلف ابواب کی صورت میں کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ تاہم احمد دین کا مقصد اقبال کا مجموعۂ کلام مرتب کرنا نہیں تھا، بلکہ اقبال کے فکر و فن پر لکھتے ہوئے اس کی شاعری کے بہترین نمونے پیش کرنا تھا۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ احمد دین کو تو اقبال نے ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے مامور کر رکھا تھا جو بلا اجازت اقبال کا کلام شائع کرتے تھے، ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ احمد دین خود اس جرم کا ارتکاب کرتے جس کے سدِّباب کے لیے انھیں مامور کیاگیاتھا۔ ان امور پر غور کرنے سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ اقبال کو یہ اندازہ نہ تھا کہ احمد دین اپنی کتاب میں اس کثرت سے ان کلام درج کریں گے، اور احمد دین کو یہ خیال نہ تھا کہ اقبال ان کے تنقیدی طریق کار کو ناپسند کریں گے۔ احمددین کے فرزند خواجہ ریاض احمد نے اس سلسلے میں قدرے مختلف واقعہ بیان کیاہے۔ وہ راقم الحروف کے نام اپنے خط مورخہ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۶۶ء میں لکھتے ہیں: شیخ گلاب دین مرحوم جو والد صاحب کے دوست بھی تھے اور علا ّمہ اقبال کے بھی، انھوں نے والد صاحب کو بتایا کہ یہ کتاب اقبال کہیں بانگِ درا پر (جوشائع ہونے والی تھی) اثر انداز نہ ہو۔ والد صاحب نے یہ سنا تو انھوں نے شیخ گلاب دین صاحب سے کہا کہ ان کا مقصد… کتاب لکھنے کا یہ ہر گز نہیں کہ اقبال کو کسی قسم کا نقصان ہو۔ اس لیے انھوں نے اس کتاب کو صحن میں رکھ کر بالکل جلا دیا۔ اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے کتاب پر اعتراض نہیں کیا تھا، بلکہ شیخ گلاب دین کے سمجھانے پر کتاب نذرِ آتش کی گئی تھی۔ یہ بیان چونکہ احمد دین کو بے حد قریب سے جاننے والے شخص کا ہے، اس لیے اسے کلّی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم شیخ مبارک علی کے مذکورہ بالا بیان پر کسی اور کے بیان کو ترجیح نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ اقبال اور احمد دین دونوں کے بہت قریب سے جانتے تھے۔ علمی و ادبی خدمات: احمد دین کی پوری زندگی علم و ادب کی خدمت میں گزری۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر اپنی متعدد کتابوں کی صورت میں اردو زبان کو بہت کچھ دیا ہے۔ محمد حسین آزاد کے بعد جس صاحبِ علم نے تحقیقِ الفاظ پر مفصّل بحث کی، وہ احمد دین ہی تھے۔ ان کی کتاب سرگذشتِ الفاظ اس موضوع پر پہلی کامیاب کوشش ہے۔ اپنے موضوع پر یہ اب تک واحد کتاب بھی ہے۔ اردو تنقید میں سائنٹفک انداز سب سے پہلے انھوں نے اختیار کیا۔ کسی فن پارے کی قدر و قیمت متعین کرنے کے لیے مصنّف کے حالات زندگی، اس کی ذہنی کیفیات اور اس کے ماحول کے اثرات کا جائزہ لینے کی راہ انھوں نے دکھائی۔ ان کی کتاب اقبال جہاں ایک طرف اقبال کے فن کا پہلا کامیاب تجزیہ ہے، وہیں دوسری طرف اردو میں عملی تنقید کا پہلا نمونہ بھی ہے۔ سیرت و سوانح میں بھی انھوں نے قابل قدر کارنامے چھوڑے ہیں۔ خصوصاً اورنگ زیب پر ان کی کتاب اس اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ ان اعتراضوں کے مدلل جواب دیے گئے ہیں جو بعض غیر مسلم مورّخوں نے اورنگ زیب پر لگائے ہیں۔ اسی موضوع پر مولانا شبلی نعمانی کی کتاب احمد دین کتاب کے بعد لکھی گئی تھی ۔ احمد دین ایک کامیاب مترجم تھے، انھوں نے کئی اہم کتابوں کو اردو میں منتقل کیا۔ انھوں نے چند ناولوں کو بھی دلکش اسلوب میں اردو کا لباس پہنایا۔ آیندہ سطور میں احمد دین کی تصانیف کا فرداً فرداً تعارف پیش کیا جارہا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ماہر لسانیات، نقاد، سوانح نگار اور مترجم کی حیثیت سے ان کا کیا درجہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ جائزہ احمد دین کی تمام تصانیف پر محیط نہیں ہے، صرف انھیں کتابو ںکا ذکر کیا گیا ہے جو راقم الحروف کی نظر سے گزریں، یا جن کے بارے میں دوسرے ذرائع سے معلومات حاصل ہوئیں۔ تصانیف کے ذکر سے پہلے کچھ باتیں ان کی مضمون نگاری کے سلسلے میں عرض کی جاتی ہیں۔ مضمون نگاری: احمد دین پیسہ اخبار، غم خوارِ عالم اور اردو اخبار سے وابستہ رہے ہیں۔ ظاہر ہے انھوں نے ان اخباروں میں بہت کچھ لکھا ہوگا۔ ممکن ہے اس زمانے کے دیگر اخبارات و رسائل میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے ہوں، لیکن اب یہ تمام ادبی سرمایہ ہماری دسترس میں نہیں ہے۔ غم خوارِ عالم اور اردو اخبار کے شمارے تو شاید ہی کہیں محفوظ ہوں۔ پیسہ اخبار نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ اس کے پرانے شماروں کی ورق گردانی سے احمد دین کے مضامین کا سراغ مل سکتا ہے۔ احمد دین کے چار مضمون راقم الحروف کی نظر سے گزرے ہیں۔ اپریل ۱۹۰۱ء میں جب شیخ عبد القادر نے مخزن جاری کیا تو اس کے پہلے ہی شمارے میں احمد دین کا ایک مضمون ’’مطالعۂ الفاظ‘‘ شامل تھا۔ مضمون کے شروع میں شیخ عبدالقادر نے یہ نوٹ لکھا تھا: ذیل میں ہم ایک تمہیدی مضمون ’مطالعۂ الفاظ ‘ پر درج کرتے ہیں۔ اس کے لکھنے والے ہمارے مکر م دوست مولوی احمد دین صاحب بی اے وکیل، مصنف ’اور نگ زیب‘ ہیں۔ مولوی احمد دین اپنے زمانۂ تعلیم میں نامور طلبہ میں رہے ہیں اور فراغتِ تحصیل کے بعد لاہور کے نامی وکلا میں ہیں۔ اس سلسلۂ مضامین کی تکمیل پر یقینا سب ناظرین کی رائے ہوگی کہ یہ اردو میں ایک مفید اور نئی چیز ہے۔۳۹؎ اس تحریر سے واضح ہے کہ ۱۹۰۱ء تک احمد دین کو مصنّف کی حیثیت سے اچھی خاصی شہرت حاصل ہوچکی تھی۔ اس مضمون کی دوسری قسط ستمبر ۱۹۰۱ء کے مخزن میں شا ئع ہوئی تھی۔ یہ مضمون دراصل احمد دین کی تصنیف سرگذشتِ الفاظ کا ابتدائی نقش ہے۔ مخزن میں احمد دین کے دو اور مضامین بھی شائع ہوئے تھے جو یہ ہیں: ۱۔ لاہور کا محرّم۔ شمارہ بابت اگست ۱۹۰۱ء ۴۰؎ ۲۔ مجازو حقیقت ۔ شمارہ بابت اپریل ۱۹۰۲ئ۴۱؎ اوّل الذکر مضمون میں لاہور کے محر ّم کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ دوسرا مضمون دراصل ایک انشائیہ ہے جس میں نہایت شاعرانہ انداز میں مجاز و حقیقت کے مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: حسنِ بتاں موسیقی کے دلکش نغموں کی طرح ظاہر کے تاروں سے باطن کے پردے ہلاتا ہے۔ اس کی اداؤں میں وہی جادو کے انداز ہیں۔ اگر کوئی گا رہا ہو تو کان لگاؤ۔ دیکھو تو کس جادو کے انداز سے مست ترانوں کی ہوش ربا سریلی آواز ہمارے دل کی ناسپردہ پیچ در پیچ راہوں میں سے ہوتی ہوئی اپنی اٹکھیلیوں سے اس کے نازک سے نازک پردوں کو چھیڑتی جاتی ہے۔ اور اپنی اس سحر اثر چال سے ہماری موجودہ اور گزشتہ زندگی کے تاروں میں ایک خاموش حرکتِ یگانگت پیدا کر رہی ہے۔ اس کے تھوڑے سے چھیڑنے میں آن کی آن میں ہماری عمر بھر کی سوزو الفت کی چنگاریاں جو محنت و کلفت کے سالوں میں بکھری پڑی تھیں، ہمارا دل گداز کیے دیتی تھیں۔ احمد دین کے دستیاب شدہ مضامین میں چوتھا مضمون جس کا عنوان ’’راز و نیاز‘‘ ہے، ایک خوبصورت ادبی تخلیق ہے۔ اسے اردو کے اچھے تمثیلی انشائیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہ مضمون جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے، انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھنے کے لیے لکھا تھا، لیکن بوجوہ اسے مکمل طور پر اجلاس میں پڑھا نہ جاسکا۔ بعد میں یہ انجمنِ مذکور کی ۱۹۰۴ء کی سالانہ روداد میں شامل ہوا۔ ۴۲؎ اس مضمون میں احمد دین نے ایک اہم قومی مسئلے کو تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ مسلمان جب تک ایسے لوگوں کے اثر سے آزاد نہ ہوں گے جو مذہب کی آڑ میں ذاتی فوائد حاصل کرتے ہیں، اس وقت تک قومی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انجمن حمایت اسلام کو عاشق قرار دیا ہے اور قوم کو معشوق۔ خود غرض مذہب فروشوں کو رقیب بنا کر پیش کیاہے۔ عاشق، معشوق سے گلے شکوے کرتا ہے۔ اور رقیب کی بداعمالیوں کی داستان بیان کرتا ہے۔ تمثیلی پیرایۂ بیان قاری کو اصل معاملے کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتا ہے۔ یہ فن احمد دین نے اپنے استاد محمد حسین آزاد سے سیکھا ہے ، اور یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ شاگرد نے استاد کی پیروی کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس مضمون میں اس زمانے کے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کی کامیاب عکاّسی کی گئی ہے۔ سرسید، ان کی تحریک اور ان کے مخالفوں کی سرگرمیوں کو چند سطروں میں اس طرح بیان کیا ہے کہ تمام حالات قاری کی نظروں کے سامنے آجاتے ہیں: آپ کی ان رسوائیوں اور ذلتوں کے درمیان آپ کے باغ کے مالی کی، وہی مالی جس نے تیرہ سال ہوئے کہ قسم قسم کے پھل بوٹے، دور دور سے اکٹھّے کرکے خوبصورت چمنوں میں سجا دیے تھے، یاد گار ایک بڈّھے جو ان مرد نے آپ کی اس حالت کو دیکھا۔ اپنے نانا کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودوں کو سوکھ کر کانٹا ہوتے دیکھ کر ایک آگ سی اس کے دل میں لگ گئی۔ اور اس نے کوشش کی کہ وہی آگ کچھ اور دلوں میں بھی، جہاں کہیں ہوں، لگا کر ایک تماشا دیکھے اور دکھائے کہ آگ سے گلزار کیسے کھلتا ہے: جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موج نفس ان کی الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں بڈّھے کی اس آگ سے اک بھبھوکا اٹھا، اور اٹھتے ہی چاروں طرف سے اس پر پانی ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن ان دنوں میں ہوا بھی کچھ ایسی چل رہی تھی کہ اس آگ کی چنگاریاں ادھر ادھر پھیل گئیں۔ اور اس باغ میں عجب ہل چل سی مچ گئی۔ ایک طرف تو وہ چنگاریاں ایسی خشک ٹہنیوں اور پتّوں میں جا پڑیں کہ یک لخت آگ بھڑک اٹھی، اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جو کچھ سامنے آیا، بڈّھے کی خواہشوں کے برخلاف جلا کر راکھ کر ڈالا۔ دوسری طرف آگ بجھانے والوں نے بے سوچے سمجھے اس قدر پانی ڈالا کہ آگ تو بجھ گئی مگر پانی پودوں اور بڑے بڑے درختوں کو بھی بہا کر لے گیا۔ درخت اگرچہ باغ کی چاردیواری کے اندر ہی رہے مگر دیکھا تو بے سروسامانی کی حالت میں پڑے ہاتھ پاؤں پھیلائے ہوئے چھوٹے پودوں اور گھاس کو پھولنے اور پھلنے اور سر اٹھانے سے روک رہے ہیں اور باغ کی پرورش کرنے والے سبیلوں کے سدّراہ بنے بیٹھے ہیں۔ باغ کی دیوار پر ایک بلبل جو اسی باغ کی ہوا خواہ تھی اور یہیں کی تربیت یافتہ، باغ کے اس ویرانے پر آنسو بہا رہی تھی اور ا پنے نالوں سے دلوں کو ہلا رہی تھی، زار زار روتی تھی اور کہتی تھی: قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبرؔ تو صاف کہتے ہیں سیّد یہ رنگ ہے میلا جدید طرز اگر اختیار کرتا ہوں خود اپنی قوم مچاتی ہے شور واویلا احمد دین کے صرف اسی ایک مضمون کی بنا پر ان کا نام اردو کے اہم انشا پردازوں کے ناموں کے ساتھ لیا جاسکتاہے۔ تصانیف: محمد الدین فوق نے احمد دین کی تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے صرف تین کتابوں (اورنگ زیب ، اقبال اور سرگذشتِ الفاظ) کے نام لکھے ہیں۔ ۴۳؎ مولوی محمد اسمٰعیل پانی پتی نے بھی اسی بیان کو دہرا دیا ہے۴۴؎ ان دونوں کے سوا کسی نے احمددین کی تصانیف کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ احمد دین کی تصانیف کی صحیح تعداد دبتانا ممکن نہیں۔ مختلف کتب خانوں اور فہرستوں کی چھان بین کے بعد ان کی بیس کتابوں کا سراغ ملا ہے۔ قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی تصانیف اور تراجم کی تعداد اسی قدر ہے۔ ممکن ہے مزید تحقیق سے ان کی کچھ اور کتابوں کا سراغ مل جائے۔ احمد دین نے ایک ایسے اشاعتی ادارے کے لیے بھی کتابیں لکھی ہیں جو اپنی بعض مطبوعات پر مصنفیّن کے نام شائع نہیں کرتا تھا۔ (اس کا ذکر آگے آئے گا) اس قسم کی کم از کم ایک کتاب (دوست محمد خاں) کے بارے میں قطعی شہادت مل گئی ہے کہ یہ احمد دین کی تصنیف ہے۔ ممکن ہے ایسی اور کتابیں بھی ہوں۔ اورنگ زیب سے متعلّق احمد دین کی کتاب کا پہلا ایڈیشن راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزرا، تاہم یہ یقینی ہے کہ یہ ایڈیشن ۱۹۰۱ء سے پہلے شائع ہوچکا تھا۔ اس کا ذکر رسالہ مخزن بابت اپریل ۱۹۰۱ء میں ملتا ہے۔ (متعلقہ اقتباس اوپر درج کیا جاچکا ہے) اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ احمد دین گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں تصنیف و تالیف کی طرف متوجہّ ہوئے۔ احمد دین کی جن بیس کتابوں کا سراغ ملا ہے، ان میں دس سوانح عمریاں ہیں، چار مختلف تاریخی موضوعات پر ہیں، دوناولوں کے تراجم ہیں اور چار کتابیں ادبی تنقید، لسانیات، اسلامیات اور فلکیات سے متعلق ہیں۔ ان کتابوں کے نام یہ ہیں: ۱۔ ابوالمظفّر محی الدین اورنگ زیب ۲۔ افواج دنیا ۱۹۰۱ء ۳۔ اسرار حرم ۱۹۰۳ء ۴۔ اقوام ترکی ۱۹۰۴ء ۵۔ عبدالقادر جیلانی ۱۹۰۶ء ۶۔ عربستان اور اہل عرب ۱۹۰۹ء ۷۔ مہد الاسلام ۱۹۱۰ء ۸۔ابوالفضل کے سوانح عمری ۹۔ سوانح عمری حاتم طائی ۱۰۔ آسمان کی سیر ۱۱۔ حیات ٹو ڈرمل ۱۲۔ جلال الدین اکبر ۱۳۔ لیلیٰ یا محاصرۂ غرناطہ ۱۴۔ دُرِّ مکتوم یعنی حیاتِ زیب النساء ۱۵۔ مہاتما بدھ ۱۶۔ شیرِ پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ ۱۷۔ دوست محمد خاں ۱۸۔ اسلامیات پر ایک کتاب ۱۹۔ سرگذشتِ الفاظ ۱۹۲۳ء ۲۰۔ اقبال ۱۹۲۳ئ/۱۹۲۶ء پانچ کتابیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ احمد دین کی تصنیف ہیں۔ احمد دین کی کتاب اسرارِ حرم کے سرورق ۲ و ۳ پر تیرہ کتابوں کا اشتہار ہے۔ اشتہار میں کسی کتاب کے ساتھ مصنّف کا نام درج نہیں ہے۔ ان میں سے آٹھ احمد دین کی تصانیف ہیں جو راقم الحروف کی نظر سے گزر چکی ہیں یا دوسرے ذرائع سے ان کا احمددین کی تصنیف ہونا ثابت ہے۔ باقی پانچ کتابیں یہ ہیں: ۱۔ ملّا دو پیازہ ۲۔ راجہ بیربر ۳۔ حیات نور جہان و جہانگیر ۴۔ سوانح حضرت علی ۵۔ مہا راجہ سیواجی مرہٹہ یہ پانچوں سوانح عمریاں ہیں۔ احمد دین کی متعدّد تصانیف اسی نوعیت کی ہیں، اس لیے قیاس ہے کہ یہ بھی انھیں کی تصانیف ہوں گی۔ ان کتابوں میں سے ایک سوانح عمری حضرت علی راقم کی نظر سے گزری ہے۔ اس پر بطور مصنّف احمد دین کا نام درج نہیں ہے بلکہ ’’مرتبّہ و مؤلفّہ کار پردا زانِ دفتر اردو اخبار ‘‘ لاہور لکھا ہے۔یہی الفاظ کتاب دوست محمّد خان پر بھی لکھے ہیں، اور جیسا کہ آیندہ سطور سے معلوم ہوگا، ایک دوسرے ذریعے سے اس کا احمد دین کی تصنیف ہونا ثابت ہے۔ اسی طرح سوانح عمری حضرت علی بھی اگر احمد دین کی تصنیف ہو تو کوئی تعجبّ نہیں۔ ۷۲ صفحات کی اس کتاب کا ناشر منشی رام اگر وال مالک اردو اخبار لاہور ہے۔ سرورق پر کتاب کے بارے میں یہ تعارفی عبارت لکھی ہے: سوانح عمری حضرت علی یعنی اس اسلامی ہیرو حضرت امیر علیہ السّلام کے حالات زندگی جو دنیا کے تاریخی آسمان کے آفتاب، مجمع سلاطین میں عظیم الشان سلطان ، معرکۂ کار زار میں یکہّ تازشہسوار، منبر پر ایک شیوہ بیان اسپیکر، علم و فضل کے [کذا] درس گاہ میں ایک طلیق اللسان پروفیسر، مسند فقر پر ایک منکسر المزاج فقیر ہیں۔ باقی چار کتابیں راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزریں۔ کتاب اسرارِ حرم کے محولہ بالا اشتہار میں ان کتابوں کے تعلّق سے جو کچھ لکھا گیا ہے، اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے: ملا ّ دو پیازہ: ابوالظرفا دوپیازہ کے حالات زندگی ایسے مذاق آمیز پیرائے میں مندرج ہیں کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑ جائیں، اور ہاں، حالات بھی تو اس شخص کے ہیں جو مذاقِ مجسّم تھا۔ راجہ بیربر: اکبر کے دربار میں ابوالظرافت بیربر کی جو عزّت ہوتی تھی، اس کا شہرہ ہر ایک نے سنا ہوگا۔ اگر صحیح صحیح حالات معلوم کرنے ہوں تو راجہ بیربر کا مطالعہ فرمائیں۔ حیات نور جہان و جہانگیر: ہندوستان کی حسین ملکہ نور جہاں بیگم اور مشہور حسن پرست بادشاہ شہنشاہ جہانگیر کے مکمل اور صحیح حالات نہایت ہی معتبر اور چیدہ مورّخوں کے اقوال۔ غلط بیانی کی تردید۔ مہاراجہ سیواجی مرہٹہ: ملک مہاراشٹر (دکن) کے مشہور بہادراور اولو العزم جانباز، اپنے وقت کے بے نظیر ہندو شجاع کی پیدایش،و طن ، پرورش و تربیت اور فتوحات و ملک گیری اور شہنشاہ اورنگ زیب کے مقابلے میں چالبازیوں اور اس کے سپہ سالاروں کے ساتھ جنگ وجدل اور روساے دکن کو تسخیر کرنے اور ان سے خراج وصول کرنے کے کوائف کچھ ایسے دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے ہیں کہ مطالعے سے طبیعت کو عجیب لطف حاصل ہوتا ہے۔ احمد دین کی کتابوں کی جو فہرست اوپر درج کی گئی ہے، اس کے مطابق ان کتابوں کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔ ۱۔ ابو المظّفر محی الدّین اورنگ زیب جیسا کہ اوپر کی سطور میں لکھا جا چکا ہے، اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۰۱ء سے پہلے شائع ہوچکا تھا۔ دوسرا ایڈیشن کار خانۂ پیسہ اخبار کی طرف سے ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا، اور یہی راقم الحروف کے پیش نظر ہے۔ یہ ۱۳۶ صفحات کی کتاب ہے جس میں اورنگ زیب کے حالات اور اس کے عہد کے معاشرتی و سیاسی واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ احمد دین نے اس کے دیباچے میں کتاب کی وجہِ تصنیف بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اورنگ زیب پر جو مختلف نوعیّت کے الزامات لگائے جاتے ہیں، وہ ان مغربی سیّاحوں کے بیانات سے ماخوذ ہیں جنھوں نے کچھ عرصے ہندوستان میں قیام کرنے کے بعد، بلاتحقیق اپنے خیالات کو تاریخی صداقت بنا کر پیش کیا۔ احمد دین نے ایسے سیّاحوں خصوصاً برنیرٔ کے بعض بیانات کی مثال دے کر بتایا ہے کہ یہ سیاح ہندوستان اور یہاں کے باشندوں سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ ان سیاحوں کے بیانات کو مغربی مصنّفوں نے بلا چون و چرا تسلیم کرلیا اور اس طرح اورنگ زیب کی ایک ایسی تصویر پیش کی گئی جو اصل سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ احمد دین کے نزدیک اس صورتِ حال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مغربی مو ّرخین فارسی زبان سے نابلد تھے، لہٰذا وہ اصل مآخذ کو پڑھنے اور سمجھنے کی زحمت گوارانہ کرسکے۔ یہ دیباچہ احمد دین کے اندازِ تحقیق اور ابتدائی اسلوب تحریر کا نمونہ ہے، اس لیے اسے یہاں درج کیا جاتا ہے: موجودہ نسلوں نے ہندکے فرماں روایانِ اسلام کی تاریخ عموماً انگریزی لباس میں دیکھی ہے لیکن چونکہ یہ لباس پہنا نے والے اسلامی تاریخ سے پوری طرح واقفیت اور ہمدردی نہ رکھتے تھے، انھوں نے بے سوچے سمجھے اپنی قطع وضع کا لباس کاٹ کر اس پر مڑھ تو دیا مگر بجاے اس کے کہ وہ اس لباس میں اپنے اصلی دلکش روپ میں نظر آوے، ان نئے فیشن [کے] دیسیوں کی طرح جن کے بدن پر انگریزی لباس موزوں نہیں ہوتا، ایسی بھونڈی اور کریہہ المنظر ہوگئی ہے کہ اس کے مشتاق جنھوں نے اسے اسی شکل میں دیکھا ہے، اس سے سخت بیزار ہیں۔ مسلمان فرماں روایانِ ہند میں خصوصاًابوالمظفّر محی الدین اورنگ زیب بہادر عالمگیر بادشاہ غازی کے حالات اور اس کے زمانے کے واقعات کے لباس نے کم مایہ اور متعصب شخصوں کے ہاتھوں قطع و برید کے ایسے صدمات اٹھائے ہیں کہ باوجود یکہ اس نیک نہاد بادشاہ کی انصاف پسندی، رعایاپروری، نیکو کاری اور پارسائی کے کل مو ّرخینِ ایشیا از بس مدّاح اور وصّاف ہیں ، آج کل وہی سب سے زیادہ انگشت نما ہورہا ہے۔ جن لوگوں نے اس بادشاہ کے واقعات کو اصل لباس فارسی میں دیکھا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس زمانے میں جو تاریخیں انگریزی اور اردو میں رائج ہیں، ان میں صورتِ واقعات من گڑھت رنگ آمیزیوں سے کس قدر مسخ کر دی گئی ہے۔ اس کار پردازی کے بانی مبانی خصوصاً سیّاحانِ یورپ ہیں جو وقتاًفوقتاً چند روز کے لیے سیر کے طور پر اس ملک میں آئے اور جنھوں نے ادھر ادھر کی سنی سنائی گپّوں کو جمع کر کے اپنی شہرت اور لوگو ںکی دل لگی کے لیے سفر ناموں ، خطوں اور رسالوں کی صورت میں دور و نزدیک مشہور کر دیا۔ ان لوگوں کو ملک اور سلطنت کے اصلی حالات دریافت کرنے میں بباعثِ ناواقفیتِ زبان، اجنبیتِ شخصی اور عدم وسائل جو ناکامیابیاں ہونی چاہیے تھیں اور ہوئیں، وہ محتاج بیان نہیں۔ اب تو خود اہلِ یورپ ہی ان سیاحوں کی تحریرات کوگپ بازی سمجھنے لگ پڑے ہیں، جیسا کہ برنیر کی کتاب کے دیباچے میں اس کے ایڈیٹر نے لکھا ہے: یورپین صاحبان کوواقعاتِ ہند معلوم کرنے میں جو دقتیّں پیش آتی ہیں اور ان کے سبب جو غلطیاں ان سے ہوتی ہیں، بعض اوقات ہنسی دلانے والی ہوتی ہیں۔ ایک انگریزی کتاب میں جو ۱۸۱۴ء کے قریب لکھی ہوئی ہے اور جس کی بڑی خوبی اس کے مصنّف کی رائے میں اس کا معتبر ہونا ہی ہے، ہمایوں بادشاہ کی نسبت درج ہے: ’’چونکہ ہمایوں، تیمور شاہ (گورنر قندھار) کے بیٹوں میں سب سے بڑا تھا، انگریزی خیالات کے مطابق اسے تخت نشین ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس زمانے میں ہندوستان کے ملک میں بڑے بیٹے کے حقوق امورِ وراثت میں مرجّح نہ تھے، بلکہ عمومًا شاہِ حکمران اپنا جانشین مقر ّر کرتا تھا، تیمور شاہ کے سارے بیٹے ایک ہی زوجہ سے نہ تھے، اس کی چاہتی [چہیتی؟] بیوی نے جو بڑی چالاک عورت تھی، اپنے بیٹے شاہ زمان کو تخت پر بٹھا دیا اور اس نے ٹیپو سلطان سے سازش کرکے ہند کے مقبوضاتِ انگریزی پر حملہ کیا۔ ہمایوں نے بھائی کے برخلاف بغاوت کی۔ ہمایوں گرفتار ہوا اور اس کی آنکھیں نکلوا دی گئیں۔ باقی عمر ہمایوں نے قید میں گزاری اور جب مرگیا تو یہاں (دہلی میں مقبرہ ہمایوں کے اندر) اس کے بیٹے اکبر نے اسے دفن کیا اور یہ مقبرہ اپنے خرچ سے بنا دیا‘‘۔ اسی کتاب میں روضۂ تاج محل کی تعمیرکا سال ۱۷۱۹ء دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اسی سال میں شاہجہان تخت نشین ہوا۔ شاہجہان نے ۱۶۶۲ء میں وفات پائی۔ ان سیّاحوں میں سے برنئیر بلاشبہہ سب سے زیادہ اعتبار کے لائق ہے مگر اس نے بھی اور تو اور تاریخی واقعات ہی کے بیان کرنے میں بہت صریح غلطیاں کی ہیں جن کی کچھ کیفیّت خلیفہ سیّد محمد حسین صاحب میر منشی ریاست پٹیالہ کے حاشیو ںسے جو انھوں نے برنیئر کی کتاب کے ترجمے پر جابجا چڑھائے ہیں، کھلتی ہے۔ جو لوگ تاریخ سے کچھ بھی واقفیت رکھتے ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ ترکانِ روم کو عثمان بو یا عثمان بے صرف اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس سلطنت کا فرماں روا خاندان سلطان عثمان خان کی اولاد سے ہے جو۶۹۹ھ میں تخت نشین ہوا تھا، لیکن ہمارے برنیئر صاحب فرماتے ہیں کہ: ’چونکہ یہ لوگ پیروانِ عثمانؓ ہیں اور عثمان کو سچا اور اصلی قائم مقام اور خلیفہ اپنے پیغمبر کا سمجھتے ہیں، اس واسطے ان کا نام عثمان پڑ گیا ہے‘۔ ایک اور جگہ برنیرٔ لکھتا ہے کہ: ’دارا کی بیگم نے پہلے ہی یہ سوچ کر کہ ہم پر کیسی آفتیں پڑنے والی ہیں، راستے ہی میں بمقام لاہور اپنی زندگی کا خاتمہ زہر سے کر دیا تھا۔ حالانکہ دارا کی بیگم مقام دادو کے قریب (جو جیکب آباد سندھ کی چھاؤنی سے پرے مقام سیبی کے نزدیک درّۂ بولان کے راستے پر واقع ہے) سِل کی بیماری سے مری تھی اور اس کی نعش وہاں سے دارا نے لاہور میں تدفین کے لیے بھیجی تھی‘۔ اس میں کلام نہیں ہوسکتا کہ مغلوں کے عہد میں جو سیّاح غیر ممالک سے یہاں آئے تھے اور جنھوں نے ان کے کچھ حالات قلم بند کیے ہیں، یہاں کے لوگوں میں ایسے ملے جلے نہ تھے کہ معتبر خبریں انھیں بآسانی مل سکتیں۔ ان کی کتابوں میں جو بازاری گپیں ۔۔۔۔۔[ایک لفظ جو واضح نہیں ] ہیں، اور اس لیے ان کی تصنیفات اس پائے اور اس اعتبار کی نہیں جو آج کل کے یورپین مورّخوں نے انھیں دیا ہے۔ اور اس زمانے کی تاریخ لکھنے میں انحصار کرنا تو محض غلطی ہے۔ لیکن جن لوگوں نے ان دنوں میں عالم گیر کی تاریخ لکھی ہے، ان کا غالب منبعِ اقتباس انھی سیّاحوں کی تحریریں ہیں اور ان پر انھو ںنے بہت انحصار کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان تاریخ لکھنے والوں میں سے ایک کو بھی، ہمارا خیال ہے زبانِ فارسی سے پوری واقفیّت رکھنے اور عالم گیر کے زمانے کی کتب تاریخ بغور پڑھنے کا دعویٰ نہیں اور عالم گیر کی تاریخ لکھنے کے لیے زبانِ مذکور کا جاننا اور ان کتابوں کا پڑھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی زبان اور انھی کتابوں میں مفصّل حالات اس زمانے کے مندرج ہیں۔ اگر ان مورّخوں میں سے کسی کو ایسا دعویٰ ہو بھی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِن کا دعویٰ بے جا اور غلط ہے۔ ان کی تصنیفات اس امر کی خود شاہد ہیں۔ نمونے کے طور پر اس جگہ اتنا بیان کر دینا کافی ہوگا کہ ایک صاحب امیر خسرو کے ساتھ فردوسی اور عنصری کو ہند کے فارسی شاعروں میں سے سمجھتے ہیں اور دوسرے معمولی الفاظ و فقراتِ فارسی کا ترجمہ کرتے وقت وہ غلطیاں کرتے ہیں کہ مطلبِ مصنّف تو خبط، اور ایک نیا شگوفہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کسی شہنشاہِ ہند کی تاریخ لکھنے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ اس کا مورّخ ہند کے قومی و ملکی حالات سے بخوبی ماہر ہو اور جب تک ان حالات سے کسی شخص کو پوری واقفیت حاصل نہ ہو اس کی کتاب اپنے ہیرو کے کریکٹر کا پورا آئینہ نہیں ہوسکتی۔ اورنگ زیب کے یورپین مورّخین اس امر میں بھی قاصر تھے۔ انھوں نے اورنگ زیب کاکریکٹر لکھنے کے وقت اپنی قوم و ملّت کے عادات و خیالات کو، جو ان کے لیے طبعی ہیں ، مقیاس ٹھہرایا ہے۔ اور اس مقیاس سے اس کا اندازہ کرنے میں وہ سیدھی راہ سے کہیں دور جاپڑتے ہیں۔ یورپین صاحبان کی عام علمی لیاقت میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا، لیکن ہند کی تاریخ لکھنے میں ان رکاوٹوں کی وجہ سے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں، ان سے سخت غلطیاں ہوئی ہیں۔ اگر ان غلطیوں کے نتیجے دور تک نہ پہنچتے تو اس قدر قابل توجہ نہ تھیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسکولو ں اور کالجوں کے تاریخی نقوش دلوں پر تازیست قائم رہتے ہیں اور ان سے غلط فہمیاں جو سوسائٹی کے لیے نہایت مضر ہیں ، پیدا ہوجاتی ہیں۔ ان وجوہات سے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ تاریخ میں غلط فہمیاں اگر کوئی ہوں او راورنگ زیب کی نسبت ہمیں یقین ہے کہ ہیں، دورکی جائیں۔ اور کل واقعات جو اورنگ زیب کے کریکٹر کے ظاہر کرنے اور اچھی طرح سمجھنے کے لیے از بس ضروری ہیں، ایک جگہ جمع کر دیے جائیں۔ راجپوت، مرہٹے اور دکنی، عالم گیر کے خیالی ستم رسیدوں کی فہرست میں پہلے نمبروں پر ہیں، اور اصل فہرست اِنھی پر ختم ہوجاتی ہے۔ بڑے تاریخی الزامات عالم گیر کے باپ اور بھائیوں سے برتاؤ کے علاوہ اس کے کریکٹر پر انھی تینوں قوموں سے فرضی بدسلوکیاں ہیں اور ان سب کی بنیاد تعصّب مذہبی بیان کی جاتی ہے۔ ان کے متعلق ہم نے سلسلۂ واقعات تحریر کر دیے ہیں جن سے انصاف پسند طبیعتیں خود نتیجے نکال لیں گی اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ مذہب کو ان معاملات میں کہاں تک دخل تھا۔ ایسی باتیں جو کسی تاریخ میں نہیں پائی جاتی تھیں ہم نے نظر انداز کر دی ہیں اور اورنگ زیب کے کریکٹر پر جو تاریخی دھبّے بیان کیے جاتے ہیں، صرف ان کی نسبت ہم نے اس کی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ (ص ۱۔۴) احمد دین نے مغربی مورّخین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے خیال سے یہ سوانح عمری لکھی ہے۔ انھوں نے الزامات کی تردید ہی کو موضوع نہیں بنایا بلکہ اورنگ زیب کی داستانِ حیات اس انداز سے لکھی ہے کہ خود بخود ہر الزام کی تردید ہوتی جاتی ہے۔ اس سوانح عمری کا وہ حصّہ خاص طور پر بہت اہم ہے جس میں راجپوتوں ، مرہٹوں اور دکنیوں کو ’’نشانۂ ستم‘‘ بنانے کی تردید کی گئی ہے۔ احمد دین نے ان تمام حالات و واقعات کا مورّخانہ بصیرت کے ساتھ تجزیہ کیا ہے جن کی وجہ سے اورنگ زیب مرہٹوں وغیرہ کے خلاف نبرد آزما ہوا۔ اس کتاب میں اور نگ زیب کی شخصیّت و کردار کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنّف کو اورنگ زیب سے بے حد عقیدت ہے، لیکن یہ عقیدت اظہارِ حقیقت میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی۔ اسی موضوع پر علا ّمہ شبلی نعمانی کی کتاب اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر احمددین کی کتاب کے کئی سال بعد ۱۹۰۸ء میںمنظر عام پر آئی تھی۔ شبلی نے صرف اورنگ زیب پر الزامات کی تردید کی ہے، مکمّل سوانح عمری نہیں لکھی۔ دونوں کتابوں کا موضوع بڑی حد تک ایک ہی ہے، اور ان میں خاصی مماثلث پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ بعض الزامات کی تردید میں دونوں نے یکساں انداز اختیار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحقیقی اعتبار سے شبلی کا پلّہ بھاری ہے، لیکن یہ خیال کرنا بے جا نہ ہوگا کہ شبلی نے جب اپنی کتاب لکھی ہوگی تو احمددین کی تصنیف ضرور ان کے پیش نظر رہی ہوگی ۔ احمد دین کی کتاب اردو میں اورنگ زیب کی پہلی سوانح عمری ہے،اس لیے شبلی کا اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی جن دنوں احمد دین کی کتاب شائع ہوئی تھی، علا ّمہ شبلی لاہور ہی میں مقیم تھے۔ وہ اس کتاب کی اشاعت سے لاعلم نہیں ہوسکتے ۔ احمددین کی کتاب کو اپنے زمانے میں خاصی شہرت ملی مگر شبلی کی کتاب کی اشاعت کے بعد اس کی اہمیت کم ہوگئی اور رفتہ رفتہ یہ نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہوگئی۔ اب یہ کتاب نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔ آج بھی احمد دین کی کتاب کا مطالعہ فائدے سے خالی نہیں۔ احمد دین نے اورنگ زیب کی شخصیّت کو جس طرح سمجھا اور اس پر عائد شدہ الزامات کو جس انداز سے رَد کیا ہے، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ۲۔ افواجِ دنیا یہ ۲۹۶ صفحات کی کتاب ہے جو کسی انگریزی تصنیف کا ترجمہ ہے۔ یہ ۱۹۰۱ء میں مطبع خادم التعلیم پنجاب لاہور کی طرف سے شائع ہوئی تھی۔ اس کا موضوع دنیا کے مختلف ممالک (مثلاً آسٹریا، بلجیم، برازیل، چلّی، چین، ڈنمارک، مصر اور انگلستان وغیرہ) کی افواج کا تعارف ہے۔ ہر ملک کی فوج کی تشکیل و تنظیم کے بارے میں تمام ضروری امور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ابتدا میں ایک فرہنگ ہے جس میں تقریباً چالیس فوجی اصطلاحات کی تشریح کی گئی ہے۔ ۳۔ اسرارِحرم یہ رینالڈس کے ناول دی لوز آف دی حرم کا اردو ترجمہ ہے جسے حکیم رام کشن جنرل مرچنٹ، کٹرہ تارکشاں، لوہاری گیٹ لاہورنے شائع کیا تھا۔ یہ ترجمہ ۲۱۱صفحات پر مشتمل ہے۔ احمد دین نے لفظی ترجمہ نہیں کیا بلکہ اصل کے مطالب کو اختصار کے ساتھ اور تخلیقی انداز سے پیش کیا ہے۔ ابتدا میں احمد دین کی ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء کی لکھی ہوئی مندرجہ ذیل مختصر سی تمہید بھی ہے: ناظرین! آپ کی تفریح طبع کے لیے انگلستان کے جادو نگار ناولسٹ رینالڈس کے ایک نہایت عمدہ ناول دی لوز آف دی حرم کو اردو قالب میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس خیال سے کہ آپ کی طبیعت پر اس کامطالعہ شاق نہ گزرے، ہم نے اختصار اور دل چسپی کو مد نظر رکھا ہے، اور آپ کو روزمر ّہ کی دلکش اردو زبان میں اس کا ویسا ہی مزہ آئے گا، جیسا کہ رینالڈس کی اصلی زبان پڑھنے سے ہوتا ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد آپ بخوشی اسرار حرم کے مطالعے میں مشغول ہوں۔ اس کتاب کا ایک ایسا نسخہ بھی میری نظر سے گزرا ہے جو صرف سرورق کی حد تک مذکورہ بالا نسخے سے مختلف ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو مختلف کتب فروشوں نے ایک ہی ایڈیشن پر الگ الگ سرورق لگا کر اس کتاب کو فروخت کیا۔ زیر تذکرہ نسخے کے سرورق پر احمد دین کے بارے میں اہم معلومات ملتی ہیں، اس لیے سرورق کی عبارت یہاں درج کی جاتی ہے: اسرار حرم قسطنطنیہ کے خوفناک خون، راز و نیاز، عورت کی مکّاری اور عیّاشی، ترکی تاریخ کے حیرت انگیز واقعات، ترکی فتوحات کے کارنامے، خوفناک خونوں کی سراغ رسانی، عیّاش و مکّار عورت اور اس کے معاونین کی سزایابی کا عبرت ناک ، دلکش اور دلچسپ مرقع جس کو رینالڈس کے مشہور ایک انگریزی ناول دی لوز آف دی حرم سے منشی احمد الدین صاحب بی اے ملازم دفتر اردو اخبار لاہور مصنّف ومترجم حیات راجہ ٹوڈڑمل، شیخ ابو الفضل، شہنشاہ محمد اکبر، زیب النسائ، مہاتما بدھ، دوست محمد خان ناول لیلیٰ یا محاصرۂ غرناطہ وغیرہ وغیرہ نے بفرمایش پروپرائٹر صاحب اردو اخبار لاہور شستہ و روز مّرہ کی اردو زبان میں ڈھا لا اور منشی رام اگر وال تاجر کتب ، مہتمم تعلیمی کتب خانہ پنجاب و پروپرائٹر اردو اخبار انار کلی ، لاہور نے صدر الہند پریس لاہور میں چھپوایا۔ اسی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوست محمد خان احمد دین کی تصنیف ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس عبارت میں مصنّف کا نام ’’احمد الدین‘‘ لکھا ہے، نام کی یہی صورت کتاب ابوالفضل کے سوانح عمری میں بھی ملتی ہے۔ اقبال طبع دوم کے سرور ق پر احمد دین اور اندرونی سرورق احمد الدین لکھا ہے۔ لیکن دوسری تمام تصانیف پر ’’احمد دین‘‘ ہے، اور یہی درست ہے۔ ۴۔ اقوامِ ترکی قاموس الکتب جلد دوم (انجمن ترقی ّ اردو کراچی ۷۵۔۱۹۷۴ئ، ص ۳۶۷) میں اس کتاب کو احمد دین کی تصنیف بتایا گیا ہے، اور ناشر کا نام پیسہ اخبار لکھا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کا ایک نسخہ انجمنِ مذکور کے کتب خانۂ عام میں ہے۔ لیکن تلاش کے باوجود یہ نسخہ اس کتب خانے میں نہیں ملا۔ کتب خانے کی کتابوں کی فہرست میں بھی اس کتاب کا اندراج نہیں ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قاموس الکتب کے مرتبیّن نے کسی اور کتب خانے میں یہ کتاب دیکھی ہوگی، اور سہواً کتب خانۂ عام کا حوالہ دے دیا ۔ انجمن ترقی ّ اردو کراچی کے کتب خانۂ خاص میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے لیکن اس پر سرورق نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اس کتب خانے کی قلمی فہرست میں مصنّف اور ناشر کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ یہ کتاب ۴۰۴صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ترک نسل کے مختلف قبیلوں کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ یہ بھی افواج دنیا کی طرح کسی انگریزی کتاب کا ترجمہ معلوم ہوتی ہے۔ آخری صفحے پر کاتب کا نام ’’عبداللہ‘‘ اور تاریخ اختتام کتابت ۳شعبان ۱۳۲۲ھ [م: ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۴ئ] درج ہے۔ ۵۔ عبدالقادر جیلانی یہ کتاب راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزری۔ قاموس الکتب (محولہ بالا) میں ذیل کا اندراج ملتا ہے۔ ’’سالِ اشاعت: ۱۹۰۶ئ۔ مطبع: خادم التعلیم اسٹیم پریس لاہور۔ حوالہ: ذخیرۂ محبوب عالم پنجاب یونی ورسٹی، لاہور۔ سوانح و سیرت حضرت شاہ عبدالقادر جیلانیؒ۔ (ص ۲۱۸) ۶۔ عربستان اور اہل عرب ادارۂ ادبیات اردو حیدرآباد دکن کی فہرست مطبوعات کتب خانہ جلد اوّل (مرتبہ: مولوی غلام رسول و محمد اکبر الدین صدیقی، حیدر آباد دکن، ۱۹۵۶ئ) سے معلوم ہتا ہے کہ احمد دین نے پادری ایس ایم زویمر کی کتاب کا ترجمہ عربستان اور اہل عرب کے نام سے کیا تھا جو ۲۱۸صفحات پر مشتمل ہے (ص ۱۹۱) اس کتب کا ایک نسخہ کتب خانۂ خاص انجمن ترقی اردو کراچی میں ہے۔ اس نسخے کے ابتدائی صفحات ضائع ہوچکے ہیں اور یہ دوسرے باب سے شروع ہوتا ہے، اس لیے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کتاب کا ناشر کون تھا۔ آخری صفحے پر ہجری اور عیسوی تاریخیں ۳؍ رجب ۱۳۲۷ھ؍۱۷؍اگست ۱۹۰۹ء درج ہیں۔ یہ اختتامِ کتابت کی تاریخیںہیں۔ گمان غالب ہے کہ یہ کتاب اسی سال شائع ہوگئی ہوگی۔ اس میں مختلف عرب ممالک کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت سے بحث کی گئی ہے۔ آغاز و اشاعتِ اسلام کا مفصّل ذکر ہے، نیز تحریرِ کتاب کے وقت عرب ممالک کی جو سیاسی حالت تھی، اس کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ ۷۔ مہد الاسلام ادارۂ ادبیات اردو حیدرآباد دکن کی محو ّلہ بالا فہرستِ مطبوعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی احمد دین نے مہد الاسلام کے نام سے کسی کتاب کا ترجمہ کیا تھا جو خادم التعلیم اسٹیم پریس لاہور سے طبع ہوا تھا۔ اس کے صفحات ۲۱۸تھے۔ ۸۔ ابوالفضل کے سوانح عمری یہ ۳۲صفحات کی مختصر سی کتاب ہے جس میں ابو الفضل کے حالات زندگی لکھے گئے ہیں۔ اسے پندرہ ذیلی عنوانات کے تحت تقسیم کیاگیا ہے جن میں ابوالفضل کی پیدایش سے وفات تک کے تمام اہم واقعات اجمالاً بیان کیے گئے ہیں۔ مصنّف نے تمام ضروری معلومات اس انداز سے جمع کی ہیں کہ ابوالفضل کی زندگی کا کوئی پہلو نظر انداز نہیں ہوا۔ ابوالفضل کی خوبیوں کے ساتھ ، اس کی خامیوں پر بھی نظر ڈالی ہے، اور جہاں ایک طرف اس الزام کی تردید کی ہے کہ وہ محض اکبر کا خوشامدی تھا، وہیں دوسری طرف یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس نے علما کی مخالفت کر کے نامعقول روش اختیار کی۔ میرے پیش نظر اس کتاب کا جو نسخہ ہے، اس کا سرورق ضائع ہوچکا ہے۔ آخری صفحے پر چند کتابوں کا اشتہار ہے جس کے نیچے ’’فضل الدین تاجر کتب قومی و مہتمم اخبار اشاعت، کشمیری بازار لاہور‘‘ درج ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کتاب اسی ناشر نے شائع کی ہوگی۔ کتاب کے آخر میں مصنّف کانام ’’احمد دین لاہوریہ ‘‘ لکھا ہے۔ ۹۔ سوانح عمری حاتم طائی یہ انیس۱۹ صفحات کا رسالہ ہے جس میں حاتم طائی کے مختصر حالات اور چند حکایتیں درج ہیں۔ ناشر اور سال طباعت کی صراحت سرورق پر ان الفاظ میں کی گئی ہے: حکیم رام کشن مالک تجارتی کتب خانہ و کارخانہ جڑی بوٹی (پنجاب) نے ۱۹۱۶ء میں ہندوستان اسٹیم پریس لاہور میں بہ اہتمام گوراند تامل بھار دواجیہ پرنٹر و پبلشر کے چھپی۔ ۱۰۔ آسمان کی سیر کتاب لیلیٰ یا محاصرۂ غرناطہ کے سرورق پر اس کتاب کا نام بھی احمد دین کی تصانیف میں شامل ۔ اس کی تفصیلات نہیں مل سکیں۔ اسے بھی منشی رام اگروال تاجر کتب نے لاہور سے شائع کیا تھا۔ ۱۱۔ حیات ٹوڈرمل اس کتاب میں اکبر کے وزیر راجہ ٹوڈرمل کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں۔ ۲۵ صفحات کی اس مختصر سی کتاب میں ٹوڈرمل کی زندگی کے تمام قابل ذکر پہلوؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کی فوجی اور انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اس کی ذہانت اور علمی دل چسپیوں کی روداد بھی پیش کی گئی ہے۔ اس سوانح عمری میں احمد دین نے اپنے استاد محمد حسین آزاد کی تصنیف دربار اکبری سے خاصا استفادہ کیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب درحقیقت دربار اکبری ہی کا فیضان ہے۔ اسے ’’منشی رام اگروال تاجر کتب‘ مہتمم کتب خانۂ تعلیم پنجاب و پروپرائٹر اردو اخبار انار کلی لاہور نے فیض عام پریس لاہور سے طبع‘‘کراکے شائع کیا تھا۔ ۱۲۔ جلال الدّین اکبر راقم الحروف کے پیش نظر اس کتاب کے دو ایڈیشن ہیں، اور دونوں پر سالِ طباعت درج نہیں ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ دونوں نسخوں میں سے کون سا پہلا ایڈیشن ہے اور کون سا دوسرا۔ دونوں مرتبہ یہ کتاب منشی رام اگر وال تاجر کتب لاہور نے شائع کی تھی۔ ایک ایڈیشن فیض عام پریس لاہور کا، اور دوسرا مطبع اردو اخبار لاہور کا طبع کردہ ہے ۔ دونوں ایڈیشنوں میں کوئی فرق نہیں، سوائے اس کے کہ ایک ایڈیشن کے صفحات ۱۳۵ ہیں اور دوسرے کے ۱۳۶۔ اس کتاب کے مختصر سے دیباچے میں موضوع اور مآخذ پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے: موجودہ سوانح عمری میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس مشہور و معروف بادشاہ کے کارناموں، ایجادوں، انتظام، فتوحات وغیرہ کو اختصار سے قلمبند کیا جائے۔ اس مختصر سی لائف کے مطالعے سے ناظرین پر خود واضح ہوجائے گا کہ خاکسار مؤلّف کو اس کوشش میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے۔ وہ اس کی مدح سرائی میں ایک لفظ بھی لکھنا نہیں چاہتا اور مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید کے مقولے پر عمل کرکے ہمایوں کے سعادت مند بیٹے اور بابر کے نامور پوتے کے حالات پبلک کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اصحابِ بینش اور اہلِ دانش سے قدر دانی کی امید ہے۔ اس لائف میں مندرجہ ذیل تاریخوں سے مدد لی گئی ہے۔ مؤلّف نے اپنی طرف سے کوئی خیالی یابے سروپا امر ایزاد نہیں کیا۔ جوکچھ لکھا ہے، محولہ تاریخوں کی سند پر لکھا ہے خواہ ان تاریخوں کا نام ہر ایک مقام پر نہ بھی دیا گیا ہو۔ دربار اکبری مؤلفّہ مولوی محمد حسین آزاد،سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور۔ جے ٹالبائے وہیلر کی تاریخ ہند۔ تاریخ ہند مؤلفّہ لیتھبرج (اردو) سر ایڈورڈسلیوان بارٹ کی تاریخ موسومہ ہندوستان کے فاتح، جنگجو اور مدبّر۔ فریڈرک آگسٹس لونٹ زوٹر کی تاریخ انگریزی شہنشاہ اکبر۔ مؤلّف کو اس بات کا افسوس ہے کہ بعض دلچسپ باتیں جو طویل تاریخوں میں دی گئی ہیں، اس سوانح عمری میں اختصار کو مدّ نظر رکھ کر قلم انداز کرنی پڑی ہیں۔ اس دیباچے کے آخر میں احمد دین نے اپنے نام کے ساتھ ’’سابق ایڈیٹر اخبار غم خوارِعالم‘‘لکھا ہے۔ احمد دین کی یہ کتاب بھی، ان کی دوسری سوانح عمریوں کی طرح، کوئی اعلیٰ درجے کا تحقیقی و علمی کام نہیں ہے۔ یہ تاریخ و سوانح سے دلچسپی رکھنے والے عام لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ اس قسم کی کتابیں لکھنے سے احمد دین کا مقصد عام لوگوں میں تاریخ سے دلچسپی پیداکرنا تھا۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ ۱۳۔ لیلیٰ یا محاصرۂ غرناطہ ۱۴۶ صفحات پر مشتمل ، دوکالمی لکھی ہوئی یہ کتب، ایڈورڈبل ورلٹن کے ایک تاریخی ناول کا ترجمہ ہے۔ ناول کے مطالب کا خلاصہ سرورق پر ان الفاظ میں لکھا ہے: شاہ و ملکہ سپین کے دربار کی شان و شکوہ۔ یہودی کے قومی انتقام کی تدابیر۔ پری جمال یہودن اور سپین کے اسلامی ہیرو موسیٰ کا عشق۔ یہودن کا شاہ سپین کے دربار میں بطور یرغمال رہنا۔ شہزادہ سپین کا اس پر عاشق ہونا۔ یہودن کا اس سے نفرت کرنا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی جاں کاہ لڑائیاں۔ بوعبد اللہ شاہِ سپین کی آخری شجاعت۔ یہودن کا حسرت ناک انجام وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب کو بھی منشی رام اگروال تاجر کتب نے شائع کیا تھا۔ ۱۴۔ دُرِمکتوم یعنی حیات زیب النساء اس کتاب کا اشتہار حیاتِ ٹوڈرمل کے اندرونی سرورق پر ملتا ہے جس کی عبارت یہ ہے: شاہنشاہ عالمگیر کی پیاری بیٹی زیب النساء کی ابتدائی زندگی، ذہانت و جودت، تحصیل علم، شاعرانہ مذاق مشاعروں کی کیفیت ، عشق و محبت کے چرچے، شادی کی تجویزیں، بیگم کا شادی سے انکار، اس کی حاضر جوابیاں، عاقل خان صوبہ دار لاہور سے پاک محبت اور اس کا مہلک نتیجہ ، بیگم کی قید، شاعری اور وفات، نہایت ولولہ انگیز بیان میں تحریر کی گئی ہے۔ ۱۵۔مہاتما بدھ یہ کتاب بھی راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزری۔ اس کا علم بھی ذیل کے اشتہار سے ہوتا ہے، جو حیاتِ ٹوڈرمل کے اندرونی سرورق پر چھپا ہے: ساکی منی یا گوتم کی سوانح عمری جس میں کپل وستو کے شہزادے کی ابتدائی تعلیم، دنیا سے نفرت ، غور و فکر والدین کے مشورے سے شادی کرنے، اس کی بیوی کی عفّت و عصمت اور اطاعت ، اس کے چار عبرت بخش نظارے دیکھ کر دنیا سے قطع تعلق کرنے، فقیرانہ ریاضت، تلاش حق، معرفت، جدید مذہب کی تلقین، ہزار ہا باشندوں کے پیرو ہونے کے حالات، اس عمدگی سے حوالۂ قلم کیے گئے ہیں کہ ناظرین بے ساختہ تعریف کریں۔ ۱۶۔ شیر پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ اس کتاب کا اشتہار بھی حیات ٹوڈرمل کے اندرونی سرورق پر ملتا ہے، جو یہ ہے: سکھّوں کے مذہب کا آغاز، اس کے بانی گرونانک صاحب اور دیگر گروؤں کے مختصر حالات، سکّھوں کی لوٹ مار، اس مذہب کا نشوونما اور سکھوں کی قوم کا رفتہ رفتہ ترقی ّ کرنا، سکھ سرداروں کا پنجاب و ہندوستان کے اکثر علاقوں پر قابض ہونا، رنجیت سنگھ کے آباو اجداد اور خود اس کا ان سرداروں کو مطیع کرنا، اس کی شجاعت و لیاقت، مہمّات ، انتظام فوج و سلطنت کی صحیح صحیح کیفیت۔ ۱۷۔ دوست محمد خاں اس کتاب کے سرورق پر مصنّف کے نام کی جگہ ’’مؤلفّہ کار پرداز انِ دفتر اردو اخبار‘‘ لکھا ہے۔ کتابلیلیٰ یا محاصرۂ غرناطہ کے سرورق پر احمد دین کی بعض کتابوں کے نام درج ہیں، ان میں دوست محمد خاں کا نام بھی شامل ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب بھی احمد دین کی تصنیف ہے۔ اسلوبِ تحریر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اسے احمد دین نے لکھا ہے۔ ناشر نے کسی مصلحت کی بنا پر اسے مصنف کے نام کے بغیر شائع کیا ہے۔ یہ ۵۶ صفحات کی مختصر کتاب ہے ، اور یہ بھی منشی رام اگر وال کے مطبع اردو اخبار لاہور سے طبع ہوئی تھی۔ کتاب کے سرورق پر خود مصنف نے مطالب کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے: سلطنت افغانستان کے مختصر حالات، ابدالی خاندان کے کمزور بادشاہوں کے عہد سلطنت میں اس کی تباہی، فتح خان کی ہمت، کوشش اور افغانستان کی اصلاح ، اس کا درد ناک انجام، دوست محمد خان اور اس کے بھائیوں کی خانہ جنگیاں، دوست محمد خان کا اسیر کابل ہونا، انگریزوں کا شاہ شجاع کو تخت نشیں کرنا، دوست محمد خاں کا اپنے آپ کو انگریزوں کے حوالے کرنا ، اکبرخاں اس کے بیٹے کا انگریزی سپاہ کا صفایا کرنا، دوست محمد خان کی واپسی وغیرہ کے دلچسپ اور تاریخی حالات۔ ۱۸۔اسلامیات پر ایک کتاب احمد دین اپنے آخری ایّام میں اسلامیات پر ایک کتاب لکھ رہے تھے جو ان کی وفات کی وجہ سے نامکمّل رہ گئی۔ یہ نامکمّل مسوّدہ احمد دین کے فرزند خواجہ سعید احمد کے پاس تھا اور اسے وہ مکمّل کرنا چاہتے تھے۔ خواجہ سعید احمد کی وفات کے بعد یہ مسوّدہ ان کی دوسری کتابوں کے ساتھ ضائع ہوگیا۔ (قلمی یادداشت خواجہ اعجاز احمد) ۱۹۔ سرگذشتِ الفاظ یہ کتاب احمد دین کی تصانیف ہی میں نہیں، اردو ادب میں بھی ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اپنے موضوع پر پہلی ہی نہیں، اب تک آخری مستقل تصنیف بھی ہے۔ بعض اردو الفاظ کی اصل کے بارے میں سب سے پہلے محمد حسین آزاد نے تحقیق کی تھی، اسی کو دیکھ کر احمد دین کو بھی اس موضوع پر کام کرنے کا خیال آیا۔ احمد دین نے سرگذشتِ الفاظ کا انتساب مولانا آزاد کے نام کیا ہے۔ اس انتساب کے سلسلے میں وہ دیباچے میں لکھتے ہیں: مولانا مولوی محمد حسین آزاد کا نام نامی زیب عنوان کیا ہے، اس لیے کہ مولانا ادبیات اردو میں سلاستِ زبان، لطافت بیان اور لفظوں میں جان ڈال کر جیتی جاگتی تصویریں نظروں کے سامنے کھڑی کر دینے میں تاحال بے مثال ہیں۔ زبانِ اردو میں مولانا علم اللسان اور تحقیقاتِ لفظی میں پیش رو ہیں۔ مؤلّف کو مولانا کی شاگردی کا فخر حاصل ہے اور مولانا کی تصانیف سے کہیں کہیں اقتباسات بھی دیے گئے ہیں۔۴۵؎ یہ کتاب ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی تھی۔ حکومت پنجاب کے محکمۂ تعلیم نے اسے صوبے کی اس سال کی بہترین تصنیف قرار دے کر مصنّف کو ساڑھے سات سو روپے کا انعام دیا تھا اور ٹیکسٹ بک کمیٹی پنجاب نے صوبے کے مدارس کے کتب خانوں کے لیے اس کے سوا تین سو نسخے خریدے تھے۔۴۶؎ احمد دین کو تحقیقاتِ لفظی سے خاص دلچسپی تھی۔ انھوں نے اس کتاب کی داغ بیل ۱۹۰۱ء میں ڈالی تھی جب کہ’’ مطالعۂ الفاظ‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک مقالہ دو قسطوں میں مخزن میں شائع ہوا تھا، اور جس کا حوالہ اوپر کہیں دیا جا چکا ہے۔ یہ مقالہ بعد میں قدرے ترمیم کے ساتھ سرگذشتِ الفاظ میں شامل کیا گیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں جو کا م انھو ں نے شروع کیا تھا، وہ بائیس برس کے بعد سر گذشتِ الفاظ کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ احمد دین نے دیباچے میں بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب میں پادری ٹرنچ کی کتاب مطالعۂ الفاظ سے استفادہ کیا ہے: اس پیش کش میں مطالعۂ الفاظ، کا طرز بیان ہی قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اور جہاں تک ممکن تھا، پادری صاحب موصوف کے سلسلۂ تحریر کو ہاتھ سے نہیں دیا۔ البتہ انگریزی ، فرانسیسی، لاطینی الفاظ کی بجائے اردو، ہندی، فارسی اور عربی کے الفاظ منتخب کیے گئے ہیں۔ ۴۷؎ Richard Chenevix Trench کی کتاب On the Study of Words انگریزی کی مقبول عام کتابو ں میں سے ہے۔ یہ ۱۸۵۱ء میں لکھی گئی تھی۔ پہلا ایڈیشن اسی سال شائع ہوا۔ ۱۸۸۸ء تک اس کے بیس اور ۱۹۱۰ء تک انتیس ۲۹ ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔ احمد دین نے اسی کتاب کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب لکھی ہے۔ اگرچہ ٹرنچ کے طرز بیان کو قائم رکھنے ’’اور سلسلۂ تحریر کو‘‘ہاتھ سے نہ دینے کا اعتراف کیا گیا ہے، لیکن یہ اعتراف بڑی حد تک ناکافی ہے۔ دراصل احمد دین کی کتاب کا پورا ڈھانچا وہی ہے جو ٹرنچ کی کتاب کا ہے۔ سرگذشتِ الفاظ کے تمام مطالب، ٹرنچ ہی کی صدائے بازگشت ہیں۔مطالعۂ الفاظ سے استفادہ کہیں لفظی ترجمے کی صورت میں کیا گیا ہے، اور کہیں ٹرنچ کے خیالات کو قدرے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ دونو ںکتابوں کے ابواب کی تقسیم اور مطالب کی ترتیب یکساں ہے۔ یہاں تک کہ ابواب کے عنوانات بھی یکساں ہیں۔ ذیل میں دونوں کتابو ںکے ابواب کے عنوانات آمنے سامنے لکھے جاتے ہیں، اس سے اندازہ ہوگا کہ دونوں کتابوں میں کس حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ فصل اوّل : افتتاحیہ INTRODUCTORY LECTURE فصل دوم : الفاظ میں نازک خیالی ON THE PORTRY IN WORDS فصل سوم : الفاظ میں اخلاق ON THE MORALITY IN WORDS فصل چہارم : الفاظ میں تواریخ ON THE HISTORY IN WORDS فصل پنجم : نئے الفاظ ON THE RISE OF NEW WORDS فصل ششم : مترادف الفاظ ON THE DISTINCTION OF WORDS فصل ہفتم : مدرّس اور الفاظ The SCHOOLMASTER'S USE OF WORDS سرگذشت الفاظ میں مطالعۂ الفاظ سے جو استفادہ کیا گیا ہے، اس کی نوعیت دو ایک مثالوں سے واضح ہوگی۔ دونوں کتابو ںکے اوّلیں ابواب کے اوّلیں پیراگراف یہ ہیں: There are few who would nto readily acknowledge that mainly in worthy books are preserved and hoarded the treasures of wisdom and knowledge which the world has accumulated; and that chiefly by aid of books they are handed down from one generation to another. I shall urge on you in these lectures something different from this; namely, that not in books only, which all acknowledge, not yet in connected oral discourse, but often also in words contemplated singly, there are boundless stores of moral and historic truth, and no less of passion and imagination, laid up-that from these, lessons of infinite worth may be derived if only our attention is roused to their existence. I shall urge on you how well it will repay you to study the words which you are in the habit of using or of meeting, be they such as relate to highest spiritual things, or our common words of the shop and the market, and of all the familiar intercourse of daily life. It will indeed repay you far better than you can easily believe. I am sure, at least, that for many a young man his first discovery of the fact that words are living powers, are the vesture, yea, even the body, which thoughts weave for themselves, has been like the dropping of scales from his eyes, like the acquiring of another sense, or the introdcution into a new world; he is never able to cease wondering at the moral marvels that surround him on every side, and ever reveal themselves more and more to his gaze.۴۸؎ اس میں کلام نہیں کہ علم و دانش کے بے بہا خزانے جو انسان کے دل و دما غ نے بہم پہنچائے ہیں، اچھی اچھی کتابوں میں محفوظ اور کثرت سے ملیں گے۔ علم کی دولت بالعموم اسی سبیل سے بنی آدم میں نسلاً بعد نسل متداول ہوتی رہی ہے، اور ہوتی رہے گی۔ لیکن اس وقت کتابوں یا مسلسل تقریروں سے بحث کرنا ہمیں مقصود نہیں۔ بلکہ ہمیں یہ بتانا ہے کہ صرف الفاظ میں بلالحاظ کسی فقرہ بندی یا عبارت کے اخلاقی اور تاریخی حقائق، انسانی جذبات اور ولولوں کے بے شمار گنجینے بھرے پڑے ہیں اور ان سے بیش قیمت نصیحتیں حاصل ہوسکتی ہیں، بشرطیکہ ہم ان کی طرف تھوڑی سی توجہّ کریں۔ اس مضمون میں ہم اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ الفاظ جو ہم دن رات استعمال کرتے ، پڑھتے یا سنتے ہیں ، خواہ وہ عالم روحانی کے متعلّق ہوں ، خواہ عالم جسمانی کے ، بلکہ معمولی الفاظ بھی جو کوچہ و برزن میں رائج ہیں، اور روزمر ّہ کی بول چال، شب و روز کے معاملات میں ہمارے سامنے آتے ہیں ، ایسے ایسے قیمتی ہیروں کی کان ہیں جو دم بھر کے تجسّس اور کاوش سے ہمیں مالا مال کردیں گی۔ الفاظ پر غور کرنا، یایوں کہو کہ مطالعۂ الفاظ (کیونکہ اکثر اوقات الفاظ بجائے خود ایک کتاب کا مضمون لیے ہوتے ہیں) فی الحقیقت ہمیں بدرجۂ اتم فائدہ پہنچائے گا۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اس راز کے انکشاف پر کہ الفاظ جاندار قو ّتیں ہیں، خیالات کا اپنا بنایا ہوا لباس بلکہ جسم ہیں، اکثر نوجوان محسوس کرنے لگیں گے ان کی آنکھوں پر سے ایک قسم کی پٹی جو پہلے بندھی ہوئی تھی اتار دی گئی ہے اور اب ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ یہ نئی قو ّتِ بینائی یا یوں کہو کہ ایک نئی دنیا کا تعارف ان کی طبیعت کو باغ باغ کردے گا۔ اور اخلاقی عجوبے اپنے چاروں طرف دیکھیں گے۔ دن رات، صبح و شام ، لحظہ بہ لحظہ ان کی نگاہیں ان پر پڑیں گی اور وہ حیران ہوں گے۔۴۹؎ احمد دین نے ٹرنچ کے مطالب کو اپنے خاص انداز سے بیان کیا ہے، اور انگریزی کے ایک پیراگراف کو اردو عبارت کے مزاج کے مطابق تین پیراگرافوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اب ایک اور مثال پیش کی جاتی ہے: In other ways also the names of places will oftentimes embody some poetical aspect under which now or at some former period men learned to regard them. Oftentimes when discoverers come upon a new land they will seize with a firm grasp of the imagination the most striking feature which it presents to their eyes, and permanently embody this in a word. Thus the island of Madeira in now, I believe, nearly bare of wood; but its sides were covered with forests at the time when it was first discovered, and hence the name, 'madeira' in Portuguese having this meaning of wood. Some have said that the first Spanish discoverers of Florida gave it this name from the rich carpeting of flowers which, at the time when first their eyes beheld it, everywhere covered the soil. Surely Florida, as the name passes under our eye, or from our lips, is something more than it was before, when we may thus think of it as the land of flowers. The name of Port Natal also embodies a fact which must be of interest to its inhabitants, namely, that this port was discovered on Christmas Day, the dies natalis of our Lord. ۵۰؎ اس عبارت کے مطالب کو سرگذشتِ الفاظ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: کسی مقام کا خاص نام پڑجانے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ کئی دفعہ یہ بھی اتفاق ہوتا ہے کہ زمانۂ موجودہ یا گزشتہ میں لوگ اس مقام کو کسی شاعرانہ مذاق سے جو دیکھنے لگتے ہیں ، اسی مذاق کے مناسب اس کو نامزد کر دیتے ہیں۔ بسا اوقات کسی ملک کے اوّل ہی اوّل دریافت ہونے پر اس کے دریافت کرنے والوں کے دل پر اس کی کوئی خوبی جو اس موقع پر ان کی آنکھوں میں سما جا ئے، قابو پالیتی ہے، اور نام کے لباس میں لوگوں کے ذہن میں حیات ابدی حاصل کر لیتی ہے۔ الخضرا کی سر سبزی کا نقش اوّلین، اب چاہے اس کی زراعت اور خود روبوٹیاں ویسی نہ لہراتی ہوں جیسے عربو ں نے اوّل ہی اوّل انھیں دیکھا، اس نام میں ہمیشہ کے لیے قائم ہوگیا ہے۔۵۱؎ ان اقتباسات میں مفہوم مشترک ہے، لیکن انگریزی کے دوسرے اقتباس میں بعد میں جو مثالیں دی گئی ہیں ، انھیں اردو کے اقتباس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس قسم کے اختلافات پر گفتگو آیندہ سطور میں ہوگی، یہاں دونوں کتابوں کے مذکورہ اقتباسات کے پیش نظریہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ احمد دین نے صرف یہی نہیں کیا کہ ٹرنچ کے ’’طرز بیان کو قائم ‘‘ رکھا اور اس کے’’ سلسلۂ تحریر کو ہاتھ سے نہیں دیا‘‘ بلکہ ٹرنچ کے خیالات کو اس طرح اردو میں منتقل کیا ہے کہ ترجمے کی اجنبیت کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر احمددین محض لفظی ترجمہ کر دیتے تو نثر میں یہ تخلیقی انداز پیدانہ ہوتا۔ ٹرنچ کی کتاب کے تمام نظریاتی مباحث سرگذشتِ الفاظ میں موجودہیں۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ موخر الذکر کوئی طبع زاد کوشش نہیں ہے ۔ لیکن یہ کہہ کر ہم احمد دین کے کام کی اہمیّت کو کم کر دیں گے۔ احمد دین کا اصل کام بلکہ کارنامہ یہ ہے کہ ٹرنچ نے جہاں جہاں انگریزی الفاظ کی مثالیں دی ہیں، وہاں انھوں نے اردو، فارسی ، عربی اور ہندی زبانوں سے مواد حاصل کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ٹرنچ نے جہاں کہیں عیسائیت یا مغربی زبانوں کے حوالے سے کوئی بات کہی ہے، وہاںاحمد دین نے اسلام اور مشرقی زبانوں کے حوالے دیے ہیں۔ اس طرح کتاب کا تین چوتھائی حصّہ ایسا ہے جس کاٹرنچ کی کتاب کے مطالب سے کوئی تعلّق نہیں۔ اس سلسلے میں مَیں ایک مثال دے کر اپنی بات واضح کرنا چاہوں گا۔ اوپر ٹرنچ کی کتاب سے جو دوسرا اقتباس درج کیا گیا ہے، اس میں ٹرنچ نے تین مقامات کے ناموں کی مثالیں دی ہیں، احمد دین نے صرف ایک مثال دی ہے۔ اور وہ ’’الخضرا‘‘ کی ہے۔ یہ مثال ٹرنچ کی جزیرہ میڈیرا (Madeira) کی مثال کے مماثل ہے۔ احمد دین چاہتے تو وہ ٹرنچ کی تینوں مثالیں اردو میں بیان کرسکتے تھے، لیکن اپنی کتاب کی مشرقی فضا کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ احمد دین نے اپنی کتاب کی ’’مشرقیت ‘‘ کو برقرار رکھنے کے لیے یہ بھی کیا ہے کہ ٹرنچ نے جہاں کہیں مغربی مصنفّوں یا ان کی کتابوں کے حوالے دیے ہیں، انھیں حذف کر دیا ہے۔ ٹرنچ نے اگر کالرج یا ایمرسن کا نام لیا ہے تو احمد دین نے ’’بقول شخصے‘‘، ’’ایک مشہور مصنّف کا بیان ہے‘‘، ’’ایک پادری صاحب اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں‘‘، جیسے الفاظ لکھ کر سلسلۂ تحریر قائم رکھا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ علمی نقطۂ نظر سے یہ روش نا مناسب ہے۔ یہ کتاب، جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے، سات فصلوں پر مشتمل ہے جن میں ایک ہزار سے زائد الفاظ کی اصل سے بحث کی گئی ہے ۔ ان میں سے بیشتر الفاظ فارسی الاصل ہیں۔ ابتدا میں مؤلّف نے یہ بتایا ہے کہ الفاظ کس طرح مختلف اوقات میں اپنے معانی بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی وہ عروج سے زوال کی طرف آتے ہیں اور کبھی زوال سے عروج کی طرف۔ پہلی دو فصلوں میں زبان اور الفاظ کی حقیقت کے بارے میں تمہیدی باتیں لکھی ہیں اور اس ضمن میں بعض الفاظ کی اصل پر بحث، بطور مثال کی ہے۔ زبان کو متحجر نازک خیالی سے تشبیہ دے کر لکھا ہے کہ اس کے دامن میں بہت سے تاریخی اور اخلاقی حقائق ملتے ہیں جن سے واقف ہونے کے لیے مطالعۂ الفاظ بہت ضروری ہے۔ زبان کے آغاز اور ارتقا پر بھی روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا ہے کہ زبان قومی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی ہے۔ الفاظ کو مصنف نے ایسے استعاروں سے تعبیر کیا ہے جو کثرت استعمال کی وجہ سے بادی النظر میں اس حسن کے حامل نظر نہیں آتے جو اُن میں کار فرما ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انھو ںنے ’’کہکشاں‘‘ ،’’تہذیب ‘‘اور ’’قوس قزح‘‘وغیرہ کی مثالیں دی ہیں۔ تیسری فصل میں الفاظ کی اخلاقی حیثیت پر بحث کی گئی ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ الفاظ اخلاقی اسباق کا خزانہ ہیں۔ یہ انسان کے اخلاقی انحطاط اور عروج کی داستان سناتے ہیں ، اور جس طرح انسان عروج و زوال کی منزلیں طے کرتا ہے، اسی طرح الفاظ بھی سرگرم سفر رہتے ہیں۔ چوتھی فصل میں الفاظ اور تاریخ کے تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح لفظی تحقیق، تاریخی حقائق کو بے نقاب کرسکتی ہے۔ پانچویں فصل میں ’’نئے الفاظ ‘‘پر بحث کی گئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اشیا یا شہروں کے نام پہلی بار کس طرح رکھے گئے، اور پہلے پہل ان ناموں کا استعمال کن وجوہ کی بنا پر ہوا۔ نئے الفاظ کے وجود میں آنے کے سلسلے میں مولف نے بتایا ہے کہ مقبول عام تحریکیں نئے الفاظ وجود میں لاتی ہیں اور پھر مولانا محمد حسین آزاد کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے (ص ۱۸۷) کہ بعض دفعہ ممتاز افراد بھی کسی خاص مفہوم کو ادا کرنے کے لیے الفاظ وضع کرلیتے ہیں۔ نیز زمانے کی نئی ضرورتیں بھی الفاظ وضع کرنے میں حصّہ لیتی ہیں۔ اس سلسلے میں احمد دین لکھتے ہیں: زمانۂ حال کی نئی ضرورتوں نے پچھلے چند سالوں میں ہی زبان میں کئی ایک نئے الفاظ پیدا کر دیے ہیں۔ سیاسی تحریک کی رو نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایشیائی ممالک کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ اور اہم تغیرّات سیاسی اور نظامی جو وقوع میں آئے ہیں، انھوں نے نئے الفاظ ہر ایک ایسی مملکت کی زبان کو دیے ہیں اور چونکہ ہندوستان کی زبان ان ممالک کی زبانو ںسے ایک واسطہ رکھتی ہے، یہاں بھی اس تحریک کی… کمزور لہروں نے ان نئے الفاظ میں سے چند ایک ادھر بھی پھینک دیے ہیں جو بخوشی چن لیے گئے ہیں۔۵۲؎ احمد دین زبان کو بھی انسانوں کی طرح موت اور زندگی کا پابند بتاتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ایسے لوگ بھی گزر ے ہیں جو زبان کی حقیقت اور اس کے اصولو ںسے محض نابلد ہونے کی وجہ سے جبراً اس کی ترقی کے مانع ہونے کے در پے ہوئے اور ہوجاتے ہیں۔ انھیں خیال ہوتا ہے کہ اس کی نشوونما کافی ہوگئی ہے یا ضروری نہیں اور اب زیادہ ترقی نہ تو درکار ہے اور نہ ہونی چاہیے، لیکن انھیں معلوم نہیں کہ زبان میں بھی زندگی کے ویسے ہی اجزا ہیں جیسے کہ انسان میں یا درخت میں۔ انسان کی طرح اس کا نشوونما مکمّل ہوگا۔ ہاں اگر کوئی بیرونی اسباب زبردستی سے اس کی زندگی کا پیش از وقت خاتمہ کر دیں تو اور بات ہے، اور انسان کی طرح ہی اس کی زندگی اصول زوال کے تحت میں بھی ہے۔ جنگل کے درخت کی طرح جب تک اس میں نشوونما کی طاقت ہے، یہ ہر ایک کمزور رکاوٹ کو جو اس کے پھیلاؤ میں حارج ہوگی، بے اعتنائی کی نظر سے دیکھے گی۔ اور درخت کی طرح ہی پرانے پتّے جھاڑے گی اور نئے نئے پتّے نکالتی رہے گی۔ اس طرح کی سب کوششیں، زبان کو ایک حد پر محدود کر دینے کی، ناکامیاب رہی ہیں۔ ایسے حالات میں بھی جو کامیابی کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ہوسکتے تھے، زبان کے نشوونما کی آبیاری عوام کے منھ میں ہے۔ فیشن کا خاص لوگوں سے عوام میں آنا تو درست ، لیکن الفاظ، وہ الفاظ جو زبان کے خزانے میں حقیقی ایزادی دولت کا باعث ہیں، عوام سے خواص میں جاتے اور پھیلتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر کوئی کو تاہ اندیش ادیب ان کی خواہ کتنی ہی مخالفت کرے یا انھیں جب تک چاہے نظر انداز کرے، زبان میں اپنی جگہ باصرار لیں گے اور اس پر قائم رہیں گے اور وہاں سے انھیں نکالنا یا ہٹانا ناممکن ہے۔ دنیا کے ادیب، علما و فضلا بے شک اپنا زور لگا کر دیکھ لیں، دنیا برابر آگے کو جار ہی ہے اور زبان کو بھی اس کے ساتھ ساتھ جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ ۵۳؎ چھٹی فصل میں مترادف الفاظ سے بحث کی گئی ہے ۔ احمد دین نے تفصیل سے ان امور کی نشان دہی کی ہے جو مترادف الفاظ کو وجود میں لانے کا سبب ہیں۔ مترداف الفاظ میں معانی کا جو نازک فرق ہوتا ہے، اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ نیز ان الفاظ سے حاصل ہونے والے اخلاقی فائدے بھی گنوائے ہیں۔اس بحث میں بہت دلچسپ پیرایۂ بیان ملتا ہے۔ احمد دین لکھتے ہیں: بعض اوقات مترادف الفاظ کا استعمال اخلاقی فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہمارے دل میں ہوتا ہے، وہی ہم زبان سے نکالتے ہیں اور اس طرح ان مترادف الفاظ کی مدد سے ہم اپنے اظہار خیالات میں منافقت کے گنا ہ سے بچ جاتے ہیں۔ کسی امر کی تائید کرتے ہوئے ضروری نہیں کہ ہم دل سے اس کی راستی کے قائل ہوں، نہ ہی ہم تائید میں کوئی ایسا خیال ظاہر کرتے ہیں لیکن اگر ہم کسی امر کی تصدیق کررہے ہوں گے تو صاف صاف بتار ہے ہوں گے کہ ہم خود دل سے اس کے قائل ہیں اور دل سے موید۔ ۵۴؎ آخری فصل میں ’’مدرّس اور الفاظ‘‘ کے عنوان کے تحت بتایا گیا ہے کہ تعلیمی ترقی ّ کے لیے زبان کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے ۔ الفاظ کے ذریعے طالب علم بہت کچھ سیکھ سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں بے احتیاطی مضر ثابت ہوسکتی ہے۔ احمد دین ’’بے تکی تحقیقات‘‘ سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہوئے الفاظ سے ’’غفلت شعاری‘‘ کو ’’ناقابلِ درگزر گناہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ الفاظ کی ظاہری صورت بھی بعض اوقات دھوکا دیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: تحقیقات کی کا میابی کے لیے ظاہریت اور دھوکا دینے والی شکل و صورت سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔ ظاہری صورت کو بالائے طاق رکھ کر اصل چیز تک پہنچنا اور اسے قابو میں لانا ضروری ہے۔ الفاظ کا بہروپ رنگ کا ہے اور اس کی ماہیت معلوم کرنے کے لیے مستحکم ارادہ اور استقلالِ طبیعت درکا رہے۔ محنت اور تکلیف سے ہی الفاظ سے حسب منشا اور سچا جواب مل سکتا ہے، ورنہ نہیں۔ پوچھنے والا ادھر ادھر کے جوابات سے نہیں ٹلے گا۔ انھیں چھوڑے گا نہیں۔ مضبوط ہاتھ سے پکڑے رکھنے پر مصر ہوگا، تاوقتیکہ اصل روپ میں نمودار نہ ہوں اور سوالات کا سیدھا جواب نہ دیں۔ ۵۵؎ اس ضمن میں احمد دین نے الفاظ کو ان کی اصوات کے مطابق لکھنے کے لیے ہجو ّں کی تبدیلی کی مخالفت کی ہے، اور اس کے نقصانات گنوائے ہیں۔ مختلف الفاظ کے باہمی تعلّق اور ایک ہی لفظ کے مختلف معانی میں رابطے کی بحثیں بھی اسی فصل میں آگئی ہیں۔ مطالعۂ الفاظ میں وطن پرستی اور قوم پرستی کے پہلو بھی تلاش کیے گئے ہیں، اور آخر میں ’’الفاظ اور مذہبی تعلیم‘‘ پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ مذکورہ سطور میں سرگذشتِ الفاظ کا ایک دھندلا سا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک ناول کی طرح دلچسپ ہے اور یہ دلچسپی خالص علمی و فنیّ نکات پر بحث کرتے ہوئے بھی برقرار رہتی ہے۔ احمد دین کا انداز تحریر شگفتہ ہے، کتاب میں بے تکلّفی کی ایسی فضا پائی جاتی ہے کہ یہ محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی خوش گفتار باتیں کر رہا ہو۔ اس کی ایک مثال یہ ہے: پچھلی فصل میں ہم نے بیان کیا تھا…نہیں نہیں ، ہم ایک ایسی عمدہ بات کے موجد ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے ۔ہم نے ایک بزرگ کا مقولہ نقل کیا تھا کہ زبان نازک خیالیِ متحجّر ہے۔ یہ سچ ہے کہ ناز ک خیالی کا جادہ جو الفاظ میں بھرا پڑا ہے، ہم پر کچھ اثر نہیں کرتا۔ اور اگر کبھی کوئی اثر ہوتا بھی ہے تو بہت کم۔ مدّت کی واقفیت اور قدرے کم توجّہی نے ہمیں الفاظ کی خوبیاں محسوس کرانے اور ان سے لطف اٹھانے سے محروم کر دیا ہے۔ کبھی کسی نے یہ خوبیاں ہمیں جتلانے کی پروا نہیں کی، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ، اور اس کے سوا اور ہونا بھی کیا تھاکہ قابل قدر اور بیش بہا جواہر ہماری کم التفاتی اور بے رخی کے پاؤں میں مدتوں سے روندے جا رہے ہیں ، اور ہمیں خبر تک نہیں۔ ۵۶؎ اس کتاب میں بعض لفظوں کی تحقیق کے سلسلے میں موٰلفّ سے کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہیں ۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے، ایسی بعض غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: یہ موضوع بہت دلچسپ مگر ساتھ ہی بہت مشکل اور محنت طلب ہے۔ اور اسی لیے اس میں کہیں کہیں لغزش یا کوتاہی کا ہوجانا لازم ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’میز کی اصلیّت کا پتا لگانا سہل نہیں۔‘‘ تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ پرتگالی ہے۔ پرتگالی زبان میں اسے اس طرح لکھتے ہیں: MESA ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ’’اسلامی دنیا میں صلوٰۃ کا تقّدس اور احترام مسلّمہ ہے اور ایک مسلمان کی زبان پر اس کی عظمت و شان، روزِ روشن کی طرح عیاں ہے لیکن قوم کی سبک سری، خفّتِ عقل اور ضعفِ ایمان کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ اس قابلِ تحریم و مقدّس لفظ کو جمع کی صورت میں ایک ذلیل حرکتِ انسانی کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے، کہاں صلوٰۃ اور کہاں صلوٰتیں‘‘۔ یہ صحیح ہے لیکن اگر وہ صلوٰۃ کے لغوی معنوں کی تحقیق کرتے تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ یہ لفظ کس طرح ادنیٰ سے اعلیٰ ہوگیا اور پھر اردو میں جمع کی صورت میں کن ذلیل معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ یہی تو زمانے کے اتار چڑھاؤ ہیں۔ ایک جگہ ’’چھوئی موئی‘‘ کے متعلّق لکھا ہے کہ ’’چھوا تو موئی، بدن خشک، پژمردگی طاری اوربس‘‘۔ بدن خشک کبھی نہیں ہوتا بلکہ چھونے سے بدن سکیڑ لیتی ہے۔’مشعلچی‘ کو لکھتے ہیں کہ اردو میں آکر باورچی خانے میں برتن صاف کرنے کی صفت کے لیے مخصوص ہوگیا، ابھی تک تو یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا ، ممکن ہے آیندہ یہی ہوجائے۔ ’اٹکل ‘ کے متعلق لکھا ہے کہ ’اگرچہ ابتدا میں قیاس اور رائے قائم کرنا ہی تھا لیکن اب قیاس اور رائے کی دقعت ’اٹکل پچو ‘ کی ترکیب میں ظاہر ہوتی معلوم ہوتی ہے‘۔ ’اٹکل‘ اب بھی قیاس اور اندازے ہی کے معنوں میں مستعمل ہے۔ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ ’مدرسہ ‘تعلیم گاہ اور مکتب سے یقینا اعلیٰ رتبے کی چیز ہے۔ ہمارے خیال میں یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ مدرسہ، تعلیم گاہ سے ہر حالت میں اعلیٰ درجے کی چیز ہے۔ ’جلاب ‘ انگریزی میں جیلب، میکسیکو کے ایک شہر جلاپا کے نام سے ہے۔ قابل مؤلفّ نے یہ نئی بات لکھی ہے جو درست معلوم نہیں ہوتی۔ ہماری تحقیق میں یہ لفظ گلاب معر ّب ہے۔ کراہت سے بچنے کے لیے مسہل کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔ ’رضائی محمد رضا موجد کے نام پر ہے‘۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے یہ لفظ دراصل ’رزائی ‘ ہے۔ چونکہ یہ عموماً رنگے ہوئے کپڑے کی بنائی جاتی ہے اس لیے یہ نام پڑ گیا۔ ’پاکھنڈ‘ کے لغوی معنی مؤلفّ نے ’وید‘ کے برخلاف ’بدعت‘ بیان کیے ہیں۔ اور اصطلاحی معنی: ’وہ عبارت جو دکھاوے کی ہو، حرا مزدگی، بدذاتی، شرارت۔‘ لیکن لفظ کی تحقیق سے گریز کیا ہے۔ ’پاکھنڈ‘ مرکّب ہے ’پا‘ اور ’کھنڈ‘ سے۔ ’پا‘ کے معنی پالنے والے یا حفاظت کرنے والے کے ہیں جس سے مراد ’دھرم‘ لی جاتی ہے۔ ’کھنڈ‘ کے معنی ’منتشر‘ کرنے اور توڑنے کے ہیں۔ بعض الفاظ پردہ پوش ہوتے ہیں، یعنی کسی مکروہ یا ناگوار شے یا خیال کو اچھے اور خوشنما الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔ مؤلف نے ’متوالا‘ کے لفظ کو بھی اِنھیں میں شمار کیا ہے۔ وہ اسے ’مت‘ (سمجھ ، عقل) اور ’والا‘ سے مرکّب سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ لفظ’مد‘ اور ’والا‘ سے مرکّب ہے۔ ’مد‘ کے معنی ہندی اور سنسکرت میں عرق، شراب اور مستی کے ہیں۔ کثرتِ استعمال سے ’و‘ ’ت‘ سے بدل گئی ہے۔ ان دوحرفوں کا بدل باہم ہوتا ہے۔ ’اسامی‘ کے ایک معنی ’امیر‘ کے بھی لکھے گئے ہیں۔ درحقیقت یہ ’امیر‘ کے معنوں میں نہیں آتا، بلکہ بعض اوقات ’مال دار‘ سے مراد ہوتی ہے۔ مگر اس میں ہمیشہ ذم کا پہلو ہوتا ہے۔ مؤلف نے منجملہ اور بحثوں کے، غیر مستقل الفاظ کی طرف بھی توجہ فرمائی ہے جو کتابی خزانوں میں بند اور بے کار پڑے ہیں اور جن سے ہم ناواقفیت یا کم فہمی کی وجہ سے کام نہیں لیتے ہیں۔ ہمیں اس خیال سے بالکل اتفاق ہے۔ درحقیقت ایسے الفاظ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جن کا استعمال اب نہیں رہا یا جو ٹکسالی نہیں سمجھے جاتے ، حالانکہ وہ بعض خیالات کے ادا کرنے میں بہت کام آسکتے ہیں۔ افسوس کہ قابل مؤلّف نے اس بحث کو مختصر طور پر چند سطروں میں بیان کر دیا ہے۔ یہ چنداں قابل شکایت نہیں کیونکہ اس مختصر کتاب میں ہر بحث تفصیل سے بیان نہیں ہوسکتی تھی لیکن شکایت اس کی ہے کہ انھوں نے مثال کے طور پر ایک لفظ بھی تو ایسا نہیں لکھا کہ ان کی رائے میں رواج دینے کے قابل ہے۔ اگر وہ چند مثالیں بھی لکھ دیتے تو ناظرین کو مؤلّف کے مطلب کے سمجھنے میں بہت آسانی ہوتی۔۵۷؎ اس جائزے کے بعد مولوی عبدالحق نے تسلیم کیا ہے کہ : الفاظ کی تحقیق میں اکثر غلطی ہوجاتی ہے، اور اس سے کتاب کی قدرو قیمت کم نہیں ہوسکتی…لائق مؤلّف کی محنت قابل داد ہے۔ یہ کتاب طلبہ اور عام شائقین کے لیے بہت کارآمد ہے۔ اس سے ان کے دلوں میں الفاظ کی تحقیق ، لغوی، معروف اور اصطلاحی معنوں کے فرق، حالات زمانہ کے اثر سے معنوں میں تغیّر و تبدّل اور لفظوں کی اصل دریافت کرنے کا شوق پیدا ہوگا، اور یہ ادب کی تحصیل میں بہت کچھ مدد دیتا ہے۔ ۵۸؎ ۲۰۔ اقبال اس کتاب کے پہلے ایڈیشن (مطبوعہ ۱۹۲۳ئ) کے طبع اور ضائع ہونے کی تفصیل اوپر کہیں پیش کی جاچکی ہے۔ پہلے ایڈیشن کی خصوصیات کا اندازہ ان ’’تعلیقات و حواشی‘‘ سے کیا جاسکتا ہے جو راقم الحروف کے مرتبہ (زیر نظر) ایڈیشن کے آخر میں شامل ہیں، نیز اس ایڈیشن کے دیباچے میں بھی بعض ضروری باتیں لکھی گئی ہیں۔اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۲۶ء میں شائع ہوا تھا، یہاں اسی کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ اس کتاب کا پورا نام یوں ہے: ’’اقبال - علامہ سر محمد اقبال کی اردو منظومات، ان کے مقصد شاعری اور خیالات کے نشوونما، مضامین کلام اور طرز بیان پر ایک نظر‘‘۔ یہ کتاب تین حصّوں پر مشتمل ہے جو بالترتیب ’’کلامِ اقبال‘‘،’’مضامینِ کلام ‘‘ اور ’’طرزِ بیان‘‘کے عنوانات کے تحت ہیں۔ پہلے حصّے میں بتایا گیا ہے کہ اقبال کی ذہنی نشوونما کن حالات میں ہوئی اور ان کی شاعری ان حالات کی آئینہ دار کس طرح ہے اور کیوں ہے۔ اقبال کی شاعری کو اُنھیں تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے جو بانگِ درا میں ملتے ہیں اور پھر ہر دور کی خاص خاص نظموں پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا آغاز ڈرامائی انداز سے ہوتا ہے۔ بازارِ حکیماں لاہور کی ادبی محفلوں کی منظر کشی کرتے ہوئے اقبال کا تعارف کرایا گیا ہے۔ پھر اقبال کی شاعری کے دور اوّل کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال کی تین نظموں ’’نالۂ یتیم‘‘،’’ ایک یتیم کا خطاب ہلال عیدکو‘‘ اور ’’ابر گہربار یا فریادامّت‘‘ پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان نظموں کے بارے میں احمد دین لکھتے ہیں: یہ تینوں نظمیں بانگِ درا میں جو علا ّمہ اقبال نے شائع کی ہے، موجود نہیں۔ غالباً بعض اصلاحی وجوہاتِ شاعری اور نظرثانی کے لیے کم فرصتی کی بنا پر مجموعے میں انھیں درج نہیں کیا گیا۔ ان میں خیال کی وہ بلندی اور بندشوں کی وہ مسلسل لطافت اور چستی بھی نہیں جو بعد کی نظموں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اس میں کلام نہیں کہ تاریخی اعتبار سے مجموعۂ کلام اقبال میں یہ نظمیں ایک خاص اہمیت رکھتی ہیں جو نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ اقبال کے اس سلسلہ منظومات میں جو اقبال کی شہرت کا باعث ہو ئیں، منظومات جو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاسوں کے لیے لکھی گئیں اور پڑھی گئیں، یہ تینوں نظمیں ایسی کڑیاں ہیں جو چھوڑی نہیں جاسکتیں۔ علاوہ ازیں ان نظموں میں شاعر کا میلانِ طبیعت بھی، اگرچہ سید ھے سادے الفاظ اور بندشیں ہیں، نمایاں ہے۔ رسولِؐ عربی کا عشق اور قومی درد ایک ایک شعر میں ساری ہے۔۵۹؎ اس کے بعد اقبال کے مختصر حالات زندگی دیے گئے ہیں۔ اقبال کی ابتدائی تعلیم و تربیت، اعلیٰ تعلیم اور پروفیسر آرنلڈ سے ملاقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں احمد دین لکھتے ہیں: خاندان، مدرسہ اور کالج کی تعلیم و تربیت کا اثر جیسا کہ واقعاتِ مابعد نے ظاہر کیا، اقبال کے دل میں مذہبی جذبات کا پیدا کرنا اور ابھارنا تھا۔ جذبات جو اس کے کلام میں مختلف صورتوں میں جلوہ آرا ہوتے رہے۔ حسن و عشق تصوف کے اصل اصول ہیں۔ صوفیانہ مذاق کی آبیاری نے حسن و عشق کی کشت زار میں خوب گل کھلائے اور فلسفہ جو اقبال نے لاہور گورنمنٹ کالج کی عالی شان درس گاہ میں پڑھا تھا،مذہب کے سائے میں گوناگوں رنگ لایا۔۶۰؎ شیخ عبدالقادر اور ان کے رسالے مخزن کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کی ان نظموں کا جائزہ لیا گیا ہے جو اس رسالے میں شائع ہوئیں۔ اس ضمن میں تیرہ نظموں (ہمالہ، خفتگانِ خاک سے استفسار ، پروانہ اور بچہّ وغیرہ) پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ ہر نظم کے مختصر تعارف کے بعد وہ اشعار درج کیے ہیںجو ان نظموں کے مرکزی خیالات کے حامل ہیں۔ ان نظموں کے متعلّق احمد دین کا مجموعی تاثر یہ ہے: اس گلشن ہستی کے نظارے شاعر کی چشم بینا کے لیے حقائق کا ایک دبستان کھولے ہوئے ہیں ، اور ان نظر فریب نظاروں میں فلسفی تجسّس کی نگاہ، حقیقت کے راز اور تصوّف کے اسرار دیکھتی ہے اور جادو کی زبان سے بیان کرتی ہے۔۶۱؎ اس کے بعد اقبال کی ان پانچ نظموں (پہاڑ اور گلہری وغیرہ ) کا جائزہ لیا گیا جو بچوّں کے لیے لکھی گئی تھیں۔ ’’پرندے کی فریاد‘‘ کے بارے میں احمد دین کی رائے ہے کہ: اس کی خوبی اور لطافت بیان نہیں ہوسکتی ۔ اس میں سوز و گداز دل ہلا دینے والا ہے۔ اور اس کی میٹھی میٹھی درد ناک اور درد انگیز سریں بے تاب کیے دیتی ہیں۔ یہ نظم کیا بلحاظ سلاستِ زبان اور کیا بلحاظ سوزِ بیان،اقبال کی بہترین منظومات میں سے ہے۔ اس میں ایک خاص اہمیت بھی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس میں کچھ سیاسیات کی جھلک سی ہے۔ جھلک، جو اب سیاسیات کی طرف اقبال کے رحجانِ خیالات کا پیش خیمہ ہے۔۶۲؎ یہاں تک اقبال کے جس کلام کا تذکرہ ہوا ہے، وہ ان کے گورنمنٹ کالج کے پروفیسر ہونے سے پہلے کی تخلیق ہے۔ جب اقبال زندگی کے نئے دور میں داخل ہوئے تو اس کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا۔ طالب علمی کے ماحول سے نکل کر انھیں نئے مشاہدات اور تجربات سے دوچار ہونا پڑا اور اس وجہ سے بقول احمد دین ان کے دل میں عشق رسولؐ پہلے سے بھی زیادہ ہوگیا۔ نیز انھیں: حالات حاضرہ کی روشنی میں ملک و ملت کی سیاسی پستی کے ڈراؤنے گڑھے دل ہلا دینے والے نظر آئے۔ ان حالات میں اقبال محبت بھرا دل رکھتے ہوئے سیاسیات سے دیر تک الگ نہیں رہ سکتے تھے۔۶۳؎ اس کے بعد ان نظموں کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں سیا سی اشارے ملتے ہیں ۔ اس ضمن میں اقبال کے دور اوّل کی وہ نظمیں زیر بحث آئی ہیں جن میں قومی و ملّی جذبات کار فرما ہیں اور ہندوستانیوں کے باہمی اتّحاد کا خواب دیکھا گیا ہے۔ احمد دین نے ان نظموں پر بحث کرتے ہوئے تشریح و تفسیر کا انداز اختیار کیا ہے۔ ’’تصویر درد‘‘ ان کی پسندیدہ نظم ہے، اور اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: یہ نظم محض ملکی نقطۂ نگاہ سے لکھی گئی تھی۔ اس میں امتیازِ ملّت و آئین کو معیوب و مطعون ٹھہرایا ہے۔ وطن اور وطن پرستی اس کے موضوع اور فرقہ آرائی کو اس میں مذموم قرار دیا گیا ہے۔ خیالات کی بلند پر وازی اور کلام کی فسوں کاری کے لحاظ سے یہ نظم وطن پرست ادبیاتِ ہند میں لاجواب ہے۔ ۶۴؎ اقبال کے دورِ اوّل کی شاعری میں فاضل نقاّد کو عشق و عاشقی کے ساتھ ساتھ تصو ّف و حکمت کے عناصر بھی نظر آتے ہیں: …لیکن شاعر کے اپنے جذبات میں بھی وہ کشش نہیں، اس کے اپنے دل میں ابھی وہ کیفیتِ وجدان نہیں جو اسے بزم قدرت کا راز دار کر دے، جو اسے اسرارِ ہستی کا محرم بنالے، اس کی آنکھ ابھی پابندِ مجاز ہے، اس کا دل ابھی گرمِ نیاز۔ ۶۵؎ اقبال کی اس دور کی شاعری میں احمد دین کو خیالات کی بلند پروازی اور نزاکتِ بیان کی ’’دلربائی‘‘بھی نظر نہیں آتی ۔ نیز وہ لطافت اور شوکت بھی محسوس نہیں ہوتی:…’’جو ولایت سے واپسی کے بعد اقبال کی شیوا بیا نیاں، گوناگوں ترکیبوں میں دکھارہی ہیں‘‘۔۶۶؎ اس دور کی شاعری میں احمد دین کو دوباتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ ایک تو ’’وطن کی بت کی پوجا کا پرچار‘‘ اور دوسری ’’نظموں میں کسی خاص تعلیم، خاص تلقین کی عدم موجودگی‘‘ ہے۔ اس خیال کی توضیح وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: اس میں کلام نہیں کہ اس دور میں بھی مسلمانوں کے عادات و اخلاق اہل ہند کے مختلف مذاہب کی باہمی ناروا داری پر مواعظ ہیں جو سونے کے حرفوں میں لکھنے کے قابل ہیں لیکن شاعر کے دل میں ابھی تک وہ جذبہ پیدا نہیں ہوا اور وہ کیفیت طاری نہیں ہوئی تھی جو بعد میں اسے عجمیت سے متنفّر اور حجازیت کا والہ و شیدائی بنائے ہوئے ہے۔ ابھی تک اس کے سامنے کوئی خاص منتہائے مقصد نہیں۔ اسے کسی خاص امر سے شغف نہیں۔ ابھی تک اس کا دل ان تاثرات سے خالی ہے جو چند سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر آپ اپنا جہان پیدا کر لیتے ہیں۔ ۶۷؎ ستمبر ۱۹۰۵ء میں اقبال یورپ کے سفر کا عزم کرتے ہیں۔ یہیں سے ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ وطن پرستی، ملّت پرستی میں بدل جاتی ہے اور یہی کیفیت اقبال کی شاعری کے دوسرے دور کا عنوان ہے۔ دوسرے دور کا نظموں کا جائزہ لینے کے بعد احمددین اس نتیجے پر پہنچتے ہیں: دوسرے دور کی نظمیں فرنگستان کی آب و ہوا کی زائیدہ اور پروردہ ہیں۔ ان میں لطافت اور نزاکت، دل فریبی کے انداز میں جلوہ گر ہے ۔ خیالات کی پراوز عرش تک کی خبریں لارہی ہے۔ اور تخیّل کی سبک سیری ابتداے آفرینش کی باتیں بتا رہی ہے۔ شاعر اب بزم قدرت کا راز دار ہوچلا ہے۔ اب اسے عالم بالا کے کیمیا گر کی حرکات و سکنات سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع مل گیا ہے ، اور محبت کانسخہ اور اس کی تاثیر اس سے مخفی نہیں رہی۔ اب اسے حسن اور خدائے لم یزل کی گفتگو سننے کا فخر حاصل ہے۔ صرف یہی نہیں، اس گفتگو کے چرچے بھی محفل قدرت میں اس نے دیکھے اور سنے ہیں۔ مظاہر قدرت جو پہلے ہمارے فلسفی شاعر کے استفسارات پر کم توجہ کرتے تھے، اب خود اسے حال دل سناتے ہیں اور اس کی ہمددری کے متمنّی نظر آتے ہیں۔ ۶۸؎ تیسرے دور میں اقبال کی شاعری فکر و نظر کی مزید منزلیں طے کرتی ہے اور اس میں کچھ اور وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اس دور کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے احمد دین لکھتے ہیں: ان نظمو ں میں بتایا گیا ہے کہ مادّہ پرستی سے سچّی خوشی اور نسلِ انسان کی حقیقی ترقّی ممکن نہیں۔ اور تجربے سے یہ امر پایۂ ثبوت کو بھی پہنچ چکا ہے کہ بنی آدم کی مسّرت اور اس کے ارتقا کا راز روحانی زندگی میں مضمر ہے۔ دنیا کو ظلمت اور تباہی سے بچانے کے لیے نورِ توحید سے اقصاے عالم کو منّور کرنا ضروری ہے، اور اس لیے اسلامیوں کو جو امانتِ توحید کے حامل ہیں، لازم ہے کہ اپنے فراض کی ادایگی میں نور توحید پھیلانے کے لیے کمربستہ ہوجائیںاور مساوات و اخو ّت کا سبق جو ان کے پیارے نبیؐ نے انھیں دیا تھا، اس پر عمل پیرا ہوں اور قول سے، فعل سے اس سبق کی تعلیم عام کر دیں۔۶۹؎ اس سلسلے میں ’ترانۂ ملّی ‘ ’شکوہ‘، ’شمع و شاعر‘، ’جواب شکوہ‘، ’خضرراہ‘، اور ’طلوع اسلام‘ پر طویل تبصرے ملتے ہیں۔ ان چھے نظموں پرتبصرہ تقریباً چوالیس صفحات پر پھیلا ہواہے۔ احمد دین نے بڑی گہری نظر سے ان نظموں کو پرکھا ہے، اور ان خصوصیات کو اجاگر کیا ہے جن کی بنا پر یہ نظمیں کلا م اقبال ہی میں نہیں، اردو شاعری میں بھی امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس دور کی شاعری کے بارے میں احمد دین کی رائے یہ ہے: اقبال کے اردو کلام کا بہترین حصہ اسی دور کا لکھا ہوا ہے۔ اس دور میں شاعر حقیقت کا ترجما ن ہے اور قدرت کا راز دار۔ مظاہر قدرت اس کے ساتھ باتیں کرتے ہیں، وہ ان سے اسرار زندگی سیکھتا ہے اور بسا اوقات انھیں اصولِ حیات کی تعلیم بھی دیتا ہے، اور کمالِ زندگی حاصل کرنے کے گُر بھی بتاتا ہے۔۷۰؎ تینوں ادوار کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے احمد دین نے بڑی پتے کی بات کہی ہے: یہ دور[تیسرا] شروع سے آخر تک تعمیری کا م میں منہمک ہے۔ شاعر نے دوراوّل میں ذوقِ استفہام کی بدولت قدرت سے اصولِ زندگی اخذ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے باربار کے تقاضوں پر دورِ دوم میں قدرت نے اپنے اسرار، زندگی کے راز اسے بتائے ہیں۔ اور اب قدرت کے اسرار، اس کے راز، اس کے آئین سے واقف ہوکر شاعر نے قوم کے لیے ملّت کے قیام و دوام کی غرض سے لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۷۱؎ اس کتاب کا دوسرا باب ’’مضامینِ کلام‘‘ ہے۔ اس میں اقبال کے موضوعاتِ شاعری پر بحث کی گئی ہے ، اوریہ بتایا گیا ہے کہ اقبال نے کن کن مسائل پر غور و فکر کیا اور انھیں اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ یہ بات چودہ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے۔ آغاز میں مصنّف نے محمد حسین آزاد کا ایک اقتباس (از آب حیات) درج کیا ہے جس میں توقع کی گئی ہے کہ اردو نظم پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عاشقانہ مضامین کے سوا کسی اور مضمون کے ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، اس کو ہمارے نوجوان دور کریں۔ ایسے نوجوان جو مشرقی و مغربی علوم پر قابض ہوں۔ احمد دین کو آزاد کے اس خواب کی تعبیر اقبال میں نظر آتی ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں حالی، اکبر اور اقبال کے نظریات پر گفتگو کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ حالی اور اکبر میں مشرق و مغرب کا ملاپ نظر نہیں آتا۔ اقبال، آزاد کے معیار پر پورا اترتے ہیں کیونکہ انھوں نے: علوم مشرقی و مغربی میں دسترس پیدا کی…زمینِ شعر میں مشرق و مغرب کے سنگم سے وہ آبیاریاں کیں کہ چپے چپے پر گل و گلزار کے تختے نظر آنے لگے…اقبال نے ہوس پرستی کی مضمون بندیوں سے آز اد ہو کر رفعتِ مقاصد اور عالی ہمتّی کی فضاؤں میں بلند پروازیاں کیں اور قومی و مذہبی، اخلاقی، فلسفی، صوفیانہ اور سیاسی مضامین پر اپنی سحر طرازیوں سے بے بہا موتی پروکر اردو کے خزانے بھر دیے۔۷۲؎ اقبال کے موضوعاتِ سخن کے حوالے سے احمد دین نے سب سے پہلے یہ بتایا ہے کہ کلام اقبال میں جس امر کی طرف سب سے زیادہ اشارے ملتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ساری دنیا ’’نورِ توحید‘‘ کی والہ و شیدا ہوجائے: اقبال پہنائے عالم میں توحید کے نعرے سننا چاہتا ہے اور ساری خدائی کو خداے واحد کا پرستار دیکھنے کا خواہاں ہے۔ وہ مذہب کی پاکیزگی میں، اور اس کے نزدیک مذہب میں وحدانیت کے بغیر پاکیزگی ممکن نہیں، انسان کی زندگی کے مدارجِ اعلیٰ پاتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ انسانی ترقی اس کی حقیقی ترقی کا معراج یہی ہے، یہی پاکیزگی ہے۔ مادّی سازو سامان چاہے کتنی ہی حیرت اور استعجاب کی نمایشیں کرے، سطوت وشوکت کے مظاہرے دکھائے، اس سے حقیقی ترقی میسر نہیں، بلکہ اس میں نسلِ انسان کی تباہی اور ویرانی مضمر ہے۔ انسان زمین پر اللہ کے نائب کی حیثیت میں ہے ، اور اس کے فرض منصبی کی ادایگی میں مادّیت کی جھنکار، گرج اور گونج کا کوئی حصّہ نہیں، کچھ واسطہ نہیں، یہاں دل کی تطہیر اور روح کی پاکیزگی درکار ہے۔۷۳؎ دوسری اہم بات جو اقبال میں احمد دین کو نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اقبال مستقبل کا شاعر ہے۔ وہ حالی کی طرح ماضی کی داستان سناکر رلاتا نہیں ، اور نہ اکبر کی طرح تہذیبِ حاضر کا مذاق اڑانے پر اکتفا کرتا ہے بلکہ: وہ مستقبل او رایک شاندار مستقبل، عقیدت کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اپنے مدہوش اور گم کردہ راہ بھائیوں کو اس مستقبل کے جلوے دکھا کر اور تہذیبِ نو کی نظر فریبیوں سے ہٹا کر اسلام کی شاہراہ پر لے چلنے پر مصر ہے۔ ۷۴؎ حالی، اکبر اور اقبال نے ہماری قومی زندگی میں جو کردار ادا کیا ہے، اسے احمد دین نے نہایت خوبصورت پیرائے میں واضح کیا ہے۔ یعنی یہ تینو ںشاعر بالترتیب ماضی، حال اور مستقبل کے شاعر ہیں۔ احمد دین کو اقبال میں ایک خصوصیت یہ بھی نظر آتی ہے کہ: اس کی حاسّۂ باطنی حالات اور واقعاتِ ظاہری کو دل کی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ اس کا مشاہدہ حقیقت کو بے نقاب پاتا ہے اور اس کا کلام رازِ حقیقت کے انکشافات سے لبریز ہے۔ ۷۵؎ اور اس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال صحیح معنوں میں تلمیذ الرحمن ہے، کیونکہ اس کی بہت سی باتو ںکوجو آیند ہ زمانے سے متعلّق تھیں، وقت نے صحیح ثابت کر دکھایا اور اس طرح اقبال آنے والے دور کا شاعر ہے، اس کی آنکھوں پر اسرارِ حیات آشکار ہیں اور رازِ حقیقت عیاں۔۷۶؎ احمد دین نے اقبال کے فلسفۂ خودی پر بھی بحث کی ہے اور ’’خودی، خودداری اور خود افزائی‘‘کا عنوان قائم کرکے کسی حد تک فلسفۂ خودی کی اِفہام و تفہیم کی کوشش کی ہے۔ اگر چہ اقبال کے فارسی کلام کو نظر انداز کر کے اقبال کے نظریۂ خودی پر جامع بحث نہیں کی جاسکتی، تاہم احمد دین نے صرف اردو نظموں کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، وہ کسی حد تک اقبال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ اقبال کے کلام کی سب سے اہم خصوصیت پیغامِ عمل ہے۔ احمد دین نے بتایا ہے کہ یہی پیغام کلامِ اقبال کی اصل روح ہے اور اسی کی گونج شروع سے آخر تک سنائی دیتی ہے: اقبال کے مذہب میں عمل زندگی کا اصلِ اصول ہے اور اس کے نزدیک ہماری روحانی ترقّی اور تنزل بھی عمل سے وابستہ ہے۔ بہشت کی نعمتیں، دوزخ کاعذاب اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ ۷۷؎ اقبال نے اپنے ہم مذہبوں کی زبوں حالی پر جتنے آنسو بہائے ہیں، اور ان کے خوش گوار مستقبل کے جس قدر خواب دیکھے ہیں، وہ فکر اقبال کی ابتدا بھی ہیں اور انتہا بھی۔ احمد دین نے ’’مذہب‘‘ کا عنوان قائم کرکے ان آنسوؤں اور خوابوں کی دلکش تصویر پیش کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اقبال جب اپنے مذہب کی سربلندی اور اپنے ہم مذہبوں کی سرفرازی کی تمنّا کرتے ہیں تو اس میں دوسرے مذہبوں کے ماننے والوں کی دل آزاری کا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔ اس کتاب میں اقبال کے نظامِ اخلاق پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور ان کے سیاسی نظریات کو بھی تفصیل سے پیش کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اقبال کے نزدیک مغرب کا جمہوری نظام قیصریت ہی کا دوسرا روپ ہے، اور : اقبال آزادی، انفرادی اور قومی کا حامی ہے لیکن…وہ آزادی کے لیے آئین کی پابندی لازمی سمجھتا ہے۔ اس کے ذہن میں حر ّیت کی بنیاد اطاعت پر ہے۔ اور جو آزادی ربط و ضبط سے نفور ہے، آزادی نہیں ، طغیان ہے اور اس کا انجام معلوم۔۷۸؎ تہذیبِ نو کی خامیوں کی طرف اقبال نے جو اشارات کیے ہیں، انھیں بھی احمد دین نے پوری طرح واضح کیا ہے، اور بتایا ہے کہ اقبال تہذیب نو کی کم عیاری سے بخوبی واقف تھے اور اپنے ہم مشربوں کو وہ اس تہذیب کے زہر سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ اقبال کے متصوفانہ خیالات کا جائزہ لیتے ہوئے احمد دین نے بتایا ہے کہ اقبال نے تصوّف کی گود میں پرورش پائی تھی، اس لیے انھیں فطری طور پر تصو ّف سے دل چسپی تھی، لیکن اقبال اس تصوّف کے قائل نہیںجو انسان کو خود فراموش بنا دے۔ وہ اس تصوّف کے حامی ہیں جو عینِ خودی ہے۔ تصوّف اور فلسفہ و حکمت کا جو گہرا تعلق ہے، اس کی بنا پر احمد دین نے اقبال کے ان فلسفیانہ خیالات کا جائزہ بھی لیا ہے جو حیات و کائنات کے گوناگوں مسائل سے متعلق ہیں ۔ زندگی اور موت کے مسئلے پر بھی اقبال کے خیالات کی وضاحت کی ہے۔ یہ ساری بحث تقریباً بائیس تیئیس صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور آج بھی فکر اقبال کو سمجھنے میں بڑی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ آخر میں وطنیت، عجمیت اور پان اسلام ازم کے بارے میں اقبال کے نظریات کی تشریح علیٰحدہ علیٰحدہ عنوانات کے تحت کی گئی ہے۔ ان مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال ’وطن ‘ کے بت کو ملّی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکا وٹ سمجھتے ہیں۔ وہ ’’عجمیت‘‘سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتے ہیں اور ’’حجازی تہذیب ‘‘ کی پرانی شراب کے پیاسے نظر آتے ہیں۔ اقبال کے پین اسلام ازم کے نظریے کے بارے میں احمد دین لکھتے ہیں: کہا گیا ہے کہ اقبال اتّحادِ سیا سیۂ ملّیہ کا علم بردار ہے۔ وہ مسلمانانِ عالم کی تنظیم سے ان کا سیاسی اقتدار تختۂ دنیا پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ اقبال کا کلام اگر بغور پڑھا جائے، ہمیں بتا دے گا کہ اسلامیوں کا سیاسی تسلّط اس کی شاعری کا مقصد ہرگز نہیں۔ اس کا مدّعا، اس کی نغمہ سرائیوں کا موضوع سیاسیات کی چالبازیوں سے کہیں ارفع و اعلیٰ ہے۔ وہ سیاسیات میں، اقتصادیات میں، دنیا کی مادّی ترقّی میں، نئی تہذیب کے آرام و آسایش میں، اس کی شوکت و سطوت میں، اس کے تجمّل و شان میں اِرتقاے انسانی نہیں دیکھتا، وہ تو عالم موجودات میں حضرتِ انسان کی عظمت و وقار کے جلوے، عظمت و وقار جو خلافتِ الٰہی کے شایان شان ہے، دیکھنے کا خواہاں اور متمنّی ہے۔۷۹؎ کتاب کا تیسرا اور آخری حصّہ طرز بیان ہے جو انیس ذیلی عنوانات میں تقسیم ہے۔ سب سے پہلے احمد دین نے یہ بتایا ہے کہ اقبال اگرچہ روایتی عشق و محبت اور بو الہوسی سے اپنے پیشرووں، حالی اور اکبر کی طرح سخت متنفّر ہیں لیکن انھوں نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے عشق و محبت کی قدیم اصطلاحات اور رموزو علامات سے پورا پورا استفادہ کیاہے۔ قدیم شاعروں کی طرح ان کے ہاں بھی گل و گلزار، رنگ وبو، ساقی و مینا اور رقص و سرود کی علامتیں موجود ہیں لیکن اقبال نے ان علامتوں کو ایک نئی معنویت دی ہے۔ اقبال قدیم شاعروں کی رنگین بیانی کے شیدائی ہیں، اور اس رنگین بیانی کے ذریعے وہ ان خیالات کو پیش کرتے ہیں جن کا قدیم شاعروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سارے معاملے کی وضاحت یوں کی گئی ہے: بو الہوس قوم سو سال سے ہوس بازی میں مشغول اور کئی سوسال سے عیش پرستی اور غفلت و سکوں کی زندگی کی مفتون ہورہی تھی۔ مذاق بگڑے ہوئے تھے۔ قوم کے مایۂ ناز، چشم فتّاں کے مجروح، خم ابرو کے شہید، بیکار ، نادار، مے پندار سے سرشار، غفلت کی شراب سے مخمور،دنیا و مافیہا سے بے خبر اور زمانے کی چال سے ناآشنا ، بے اعتنائی کے سرور میں پڑے تھے۔ اور ان حالات میں شنوائی اور کام کی بات کی شنوائی مشکل نظر آتی تھی۔ فلسفی دماغ نے سامعین کے مذاق کو ملحوظ رکھنے میں حکم تاثیر دیکھا۔ قوم کو اس خوابِ غفلت سے جگانا ضروری تھا۔ ان کی ان سرمستیوں سے انھیں ہوش میں لانا لازمی تھا۔ تقاضاے وقت سے وہی پرانی مجلسیں گرمادیں۔ وہی راگ ، وہی رنگ، وہی ساقی ، وہی مینا، وہی شکوے اور وہی شکایتیں ہونے لگیں۔ سونے والے جو پہلے ہی سے حالی کے نالوں اور اکبر کی چٹکیوںسے کچھ کچھ جاگ رہے تھے، اپنے پرانے مذاق کے موافق حسن و عشق کی سُریں سن کر اٹھ بیٹھے ہیں۔ اور شاعر یقین کرتا ہے کہ یہ لوگ زبان کی چاشنی سے لذّت پاکر نئے مذاق کی حقیقت سے آپ ہی آشنا ہوجائیں گے۔ میدانِ سعی میں نکل آئیں گے اسلام کی روایات کو سامنے رکھ کر خلوص کے راستے پر قدم بڑھائیں گے، نورِ توحید جہان میں پھیلا کر کفر واستبداد کی ظلمت کا پردہ اٹھادیں گے، اور محبت و اخو ّت کے نقش پہناے عالم میں جما دیں گے۔ اقبال اعلیٰ قومی جذبات بیان کر رہا ہوتا ہے اور وہی ہوس بازی کی اصطلاحیں، وہی حسن و عشق کی زبان، وہی استعارے ،وہی تشبیہیں، وہی رنگ ، وہی راگ ، وہی سُریں[کذا] استعمال کرتا ہے۔۸۰؎ اقبال کی خیال بندی کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی نظموں،’ نیا شوالۂ‘ ’ شمع و شاعر‘ ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ دو مختصر نظمیں’ایک پرندہ اور جگنو‘ اور ’حقیقتِ حسن‘ درج کرکے اقبال کی بلند خیالی کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں احمد دین کا اندازِ تنقید سراسر تاثراتی ہے۔ انھوں نے ’بلند خیالی‘ کا تجزیہ کچھ زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں کیا۔ اقبال کی مشکل پسندی کو انھوں نے غالب کا اثر بتایا ہے۔ اس موضوع پر انھوں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ اقبال کے اسلوب بیان کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتا ہے: اہلِ بینش بخوبی سمجھتے ہیں کہ اقبال کا خطاب عوام کو نہیں، وہ صرف انھی لوگوں کو مخاطب کر رہا ہے جو اہم امو رِ ملّیہ کے سمجھنے کی اہلیّت رکھتے ہیں۔ وہ جذباتِ عامّہ کو نہیں بھڑکاتا۔ شورش اس کا مقصد نہیں۔ فوری انقلابات میں وہ فلاح قومی نہیں دیکھتا۔ وہ نمو کا قائل ہے۔ وہ دماغ کی اعلیٰ ترین تحریکوں سے دل کے افضل ترین ولولے ابھارتا ہے۔ دل اور دماغ کی اشتراکی قو ّتِ عمل سے کمال انسانیت کے جلوے دکھانا چاہتاہے۔ اس کے خیالات عالم روحانیات کے پر تو ہیں، اور عوام ان کے فہم و ادراک سے قاصر ہیں، اور اس کی زبان بھی خیالات کے مطابق دقیق ہوتی ہے اور ہر ایک آدمی کو اس سے حظ اٹھانا میسر نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اقبال کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اسلوب بیان کے لیے موقع اور محل ملحوظ رکھتا ہے۔ اگر مضمون دِقّت طلب اہم ہے اور رہنمایان قوم ہی مخاطب ہیں تو اس کی زبان مشکل اور دقیق نظر آئے گی۔ اگر وہ عوام کو کوئی بات سمجھانا چاہتا ہے تو اس وقت اس کا کلام عام فہم ہوتا ہے۔ ۸۱؎ احمد دین نے اقبال کی مشکل گوئی اور سادہ بیانی پر بحث کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ ، اس لیے آسان زبان میں ہیں کہ ان کا تعلّق عام مسلمانوں سے نہیں، ان مسلمانوں سے ہے جو قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، اس لیے ان نظموں کا اسلوب اوّل الذکر نظموں کے مقابلے پر عام فہم نہیں ہے۔ اس کے بعد احمد دین نے کلام اقبال میں شوکتِ بیان، سوز وگداز، تشبیہات و استعارات، جوش، طرفگیِ بیان اور موسیقیت کے عناصر کی نشان دہی کی ہے۔’اُمید‘ کا عنوان قائم کرکے یہ بتایا ہے کہ اقبال کسی عالم میں مایوس نہیں ہوتے۔ ا ن کے کلام میں ’’ناامیدی کی سُریں[کذا] اور آہ و بکا کم یاب ہے، اس کے نالے بھی نئے انداز کے ہوتے ہیں۔ اسے شامِ غم بھی صبحِ امید کی خبر دیتی ہے اور ظلمتِ شب میں اسے امید کی کرن نظر آتی ہے۔۸۲؎ طرزِ بیان کے سلسلے میں احمد دین نے سب سے اہم بحث اس موضوع پر کی ہے کہ اقبال مناظر قدرت اور مادّی دنیا سے اخلاقیات، معاشرت اور سیاسیات کے زرّیں اصول اخذ کرتا ہے اور مسائلِ فلسفہ کے ایسے نکات کا استدلال کرتا ہے جن سے عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مضمون آفرینیاں دلفریب اور حیرت انگیز ہیں۔۸۳؎ اس موضوع پر احمد دین نے جو کچھ اور جس انداز سے لکھا ہے، وہ ان کی نقّاد انہ بصیرت کی عمدہ مثال ہے۔ کلام اقبال کے اس پہلو پر کسی دوسرے نقّاد نے اس انداز سے روشنی نہیں ڈالی۔ احمد دین نے تفصیل سے بتایا ہے کہ اقبال جب بھی کسی قومی و ملکی مسئلے پر یا انسانی زندگی کے کسی پہلو پر اظہار رائے کرتے ہیں اور انسانی فطرت کی پیچ درپیچ گتّھیوں کو سلجھاتے ہیں تو خود فطرت ہی ان کے لیے ایسی مثالیں مہیّا کر دیتی ہے جن سے ان کے شاعرانہ مطالب کو سمجھنے میں بڑی آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ دریا، قطرہ ، درخت کی سوکھی ٹہنی، شبنم، گوہر وغیرہ کے استعارے قومی اتحاد اور انسانی نفسیات کے بیان میں بڑی وسعت پیدا کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ’’پھول‘‘ کا استعارہ بھی ’’چشم بینا اور گوش شنوا کے لیے اسباق کا ایک دفتر کھولے ہوئے ہے۔ ‘‘ اقبال کو حیاتِ انسانی کے مختلف مراحل میں جو کیفیات نظر آتی ہیں ان کے اظہار کے لیے بھی خصوصیاتِ گل یعنی خود فروشی، خود نمائی اور خود فراموشی وغیرہ کا سہارا لیا ہے۔ اسی طرح گل و گلزار کے تمام متعلقات شعر اقبال میں بہاراں کا سماں پیدا کر دیتے ہیں۔ علوِ ہمتّی کے بیان کے لیے اقبا ل نے جو مثالیں (دانہ، خاک، روئیدگی، بالیدگی) پیش کی ہیں، وہ بھی آغوش فطرت ہی سے مستعارلی ہیں ۔ خودداری کے لیے اقبال حباب کی مثال پیش کرتے ہیں جو دریا میں بھی اپنا پیمانہ نگوں رکھتا ہے۔ وہ موج اور دریا کی علامتوں سے قومی اتّحاد کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ سادہ زندگی بسر کرنے اور ذوقِ عمل پیدا کرنے کے لیے بھی اقبال نے بحر و بیاباں کی وسعتوں سے استفادہ کیا ہے۔ مختصر یہ کہ اقبال نے اپنا سارا فلسفہ فطرت کے مظاہر کے ذریعے پیش کیا ہے۔ صبح و شام، دوپہر ، رات، سورج ، چاند، ستارے، آسمان یہ سب اقبال کے محبوب استعارے ہیں۔ اور ان مظاہر میں اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں مماثلت و مطابقت کی نشان دہی کرکے اقبال نے اپنے سلسلۂ سخن کو مؤثر و دل نشیں بنایاہے۔ احمد دین نے یہ بھی بتایا ہے کہ اقبال نے مظاہر فطرت کو محض ایک وسیلے کے طور پر استعمال نہیں کیا، بلکہ ایک بلند پایہ مصّور کی طرح ان کی تصویر کشی بھی کی ہے جس سے حسنِ فطرت کچھ اور بھی نکھر جاتا ہے۔ اقبال کی واقعات نگاری اور جذبات نگاری پر بھی احمد دین نے اظہار خیال کیا ہے اور اس سلسلے میں ’غلام قادر روہیلہ ‘’آفرینشِ محبت‘ اور ’عشق او رموت ‘ کا تجزیہ کرکے یہ واضح کیا ہے کہ اقبال کو جذبات نگاری میں زبردست کمال حاصل تھا۔ کتاب کے آخر میں ’’اردو اور اہل پنجاب ‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے اور خود اقبال اور مولانا اسلم جیراج پوری کے مضامین سے اقتباسات پیش کرکے ، ان اعتراضات کے جواب میں جو اقبال کی زبان پر کیے گئے تھے، اقبال کی زبان دانی اور پختگی بیا ن کو واضح کیا ہے۔ اور پھر ’’اقبال اور ابناے وطن ‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کی اس شکایت کو پیش کیا ہے کہ ان کے مضامینِ کلام سے ابناے وطن بے التفاتی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پیام مشرق سے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن میں یہی شکوہ اقبال نے اپنی زبان سے کیا ہے۔ اس طرح اقبال کے اردو کلام کے بارے میں یہ کتاب اقبال کے چند فارسی اشعار پر ختم ہوجاتی ہے۔ احمد دین کی یہ کتاب ایک اہم تنقیدی کارنامہ ہے۔ اردو میں یہ عملی تنقید کی پہلی مستقل تصنیف ہے۔ اس کے حوالے سے احمد دین کا شمار اردو کے ممتاز نقّادوں میں ہونا چاہیے لیکن اردو تنقید کی تاریخ لکھنے والو ںنے احمد دین کو کبھی قابلِ التفات نہیں سمجھا۔ یہاں تک کہ قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی نے بھی اپنی کتاب اقبالیات کا تنقید ی جائزہ۸۴؎ میں احمد دین کی کتاب کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمد دین تنقید میں تشریحی و تاثراتی انداز اختیار کرتے ہیں، لیکن وہ اقبال کو اس کے عہد اور ماحول سے الگ کرکے نہیں دیکھتے۔ انھوں نے اقبال کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے ان معاشرتی و سیاسی حالات کو بھی پیش نظر رکھا ہے جن میں اقبال کی ذہنی نشوونما ہوئی۔ احمد دین نے یہ کتاب ایسے زمانے میں لکھی جب اردو میں تنقید زبان و بیا ن کی خوبیاں اور خامیاں دکھانے تک محدود تھیں۔ احمد دین نے تنقید کے اصل منصب کو پہچانا اور فن کار کو اس کی ذات اور عہد کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ احمد دین نے اردو تنقید کو فن کی پرکھ کے نئے معیار اور نئی قدروں سے روشناس کرایا۔ یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے جو ہمیشہ اردو ادب میںیاد رہے گا۔ یہ کتاب اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اردو میں یہ پہلی تنقیدی کتاب ہے جس میں کسی شاعر کے فکر و فن پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس سے پہلے شعرا کے بارے میں مختلف مضامین تو مل جاتے ہیں لیکن کوئی مستقل کتاب نہیں ملتی۔ آگے چل کر اقبال پر کام کرنے والوں نے کسی نہ کسی صورت میں اس کتاب سے استفادہ ضرور کیا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ حوالہ کسی نے نہیں دیا۔ اقبالیات کے ذخیرے میں یہ کتاب آج بھی منفرد حیثیت رکھتی ہے اور اقبال کا مطالعہ کرنے والے اسے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ حیاتِ اقبال گو اس کتاب کا موضوع نہیں ہے، تاہم اس سے اقبال کی زندگی کے بعض اہم پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ خصوصاً اقبال کی ابتدائی ادبی زندگی کے بارے میں اس میں بڑی قیمتی معلومات ملتی ہیں۔ لاہور کی ادبی محفلوں اور انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں اقبال کی شرکت کے بارے میں احمد دین کے بیانات اقبال کے سوانح نگار کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ احمد دین نے اس جہت میں جو کچھ لکھا ہے ، عینی شاہد کی حیثیت سے لکھا ہے۔ یہ کتاب جب شائع ہوئی تھی تو برصغیر پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں میں اس کا خاصا چرچا ہوا تھا۔ اردو کے کئی ممتاز ادیبوں نے اس پر تبصرے کیے تھے۔ ڈاکٹر مولوی عبد الحق نے بھی اس پر ایک مفّصل تبصرہ سہ ماہی اردو بابت اکتوبر ۱۹۲۶ٔ میں لکھا تھا۔ انہوں نے دبے لفظوں میں اس کتاب پر یہ اعتراض کیا تھا کہ ’’یہ تنقید نہیں بلکہ اقبال کی شاعری کے محاسن ہیں۔ ‘‘ یہ صحیح ہے کہ احمد دین نے کلام اقبال کی ’’خامیوں ‘‘ سے بحث نہیں کی ، لیکن اس کتاب کو دائرہ تنقید سے خارج کرنا اور اسے محض ’’محاسن شماری‘‘ سمجھنا درست نہیں۔ مولوی عبدالحق نے شاید تنقید اور نکتہ چینی کو مترادف سمجھتے ہوئے یہ اعتراض کیا ہے۔ اس زمانے میں کچھ لوگ تنقید کو نکتہ چینی ہی سمجھتے تھے۔ اسلوب: احمد دین نے سوانح ، تنقید، تاریخ، انشائیہ، ناول اور لسانیات جیسے مختلف علمی و ادبی شعبوں میں اپنے فکر و فن کے نقوش چھوڑے ہیں۔ موضوعات کا یہ تنو ّع ان کے اسلوب میں ناہمواری پیدا نہیں کرتا۔ یہ صحیح ہے کہ ہر صنف ادب میں یکساں اسلوب اسی وقت کا میاب ہوسکتا ہے جب لکھنے والا موضوع سے انصاف کرنے کی بجائے اسلوب پرستی کو اپنا مقصد سمجھتا ہو۔ احمد دین اپنے استاد محمد حسین آزاد کی روش پر چلتے ہیں ۔وہ ہر جگہ آزاد جیسی مرصّع عبارت تو نہیں لکھتے لیکن قاری کو اپنے ساتھ بہالے جانے کا فن انھیں بھی آتا ہے۔ انھیں قدم قدم پر قاری کی موجودگی کا احساس رہتا ہے، اور اسی لیے وہ قاری کو براہ راست مخاطب کرکے اپنی تحریروں میں ایک بے تکلفّانہ فضا پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ پُر شکوہ الفاظ کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں لیکن اپنی بات کو مؤثرّ بنانے کے لیے مترادفات کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔جملہ ہاے معترضہ سے بھی وہ گفتگو کا سا انداز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں انھیں کوئی اخلاقی یا قومی مسئلہ پیش کرنا ہوتا ہے، وہاں ان کی تحریروں میں کسی قدر خطیبانہ انداز جھلکنے لگتا ہے۔ بعض جگہ انھوں نے محمد حسین آزاد کے اسلوب کی کامیاب پیروی اس طرح کی ہے کہ نقل پر اصل کا گمان گزرتا ہے، مثلاً :بازار حکیماں کی ادبی محفلوں سے متعلّق جو اقتباس اوپر کہیں درج کیا گیا ہے وہ آب حیاتکے اسلوب کی یاد دلاتا ہے۔ راز و نیاز کا جو اقتباس اوپر کی سطروں میں درج ہے، وہ نیرنگِ خیال کے پیرایۂ بیان سے مماثلت رکھتا ہے۔ احمد دین نے عام طور پر سادگی کو اپنا شعار بنایا ہے۔ خصوصاً تاریخی کتابوں میں وہ سادہ بیانی پر اکتفا کرتے ہیں، واقعات و حقائق کو سیدھی سادی زبان میں بیان کردیتے ہیں۔ ان کے اسلوب کی نمایندہ تصانیف اقبال اور سرگذشتِ الفاظ ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں ایسا اسلوب ملتا ہے جسے سادگی اور رنگین بیانی کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ سادگی ایسی جو موضوع کے کسی پہلو کو مبہم نہیں رہنے دیتی ، رنگینی ایسی جو نثر کے فطری بہاؤ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی۔ ٭٭٭ حوالے اور حواشی ۱۔ تاریخ اقوام کشمیر، جلد دوم، لاہور ۱۹۳۴ئ، ص ۲۸۴ ۲ ۔ ۳۔ ماہنامہ مخزن لاہور، جلد ۱، شمارہ ۱: اپریل ۱۹۰۱ئ، ص ۸ ۴۔ اس پریس کا نام کہیں تو یہی لکھا ہے اور کہیں’’مطبع خادم التعلیم‘‘۔ زیر نظر مقالے میں یہ نام دونوں طرح لکھا گیا ہے۔ احمد دین کی جو کتابیں اس پریس میں چھپی ہیں، ان پر یہ نام دونوں طرح ملتا ہے، جس کتاب پر نام کی جو صورت ملتی ہے، اس کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے وہی درج کی گئی ہے۔ ۵۔ مکتوب بنام راقم الحروف، مورخہ ۷فروری ۱۹۶۶ء ۶۔ یہ مقالہ لکھا جاچکا تھا کہ محمد حنیف شاہد کی کتاب اقبال اور انجمن حمایتِ اسلام نظر سے گزری۔ (اس پر تاریخ طباعت جولائی ۱۹۷۶ء درج ہے، لیکن یہ اس کے کوئی سال بھر بعد منظر عام پر آئی) احمد دین اور انجمن حمایت اسلام کے تعلّق سے اس کتاب میں مندرجہ ذیل اہم معلومات ملتی ہیں: الف۔ ۲۴ ستمبر ۱۸۸۴ء کو انجمن حمایت اسلام کے قیام کے لیے مسجد بکن خان (اندرون موچی دروازہ) لاہور میں ہم خیال مسلمانوں کا جو جلسہ منعقد ہوا تھا، اس میں احمد دین نے بھی شرکت کی تھی (ص ۲۵) وہ انجمن کے بانیوں میں سے تھے۔ ب۔ ۲۲ مارچ ۱۹۱۳ء کو انجمن کے اٹھائیسویں سالانہ اجلاس میں علا ّمہ اقبال نے اپنا کلام سنانے سے پہلے فرمایا:’’میں اس سال علالتِ طبع کی وجہ سے کوئی نظم نہیں لکھ سکا۔ مولوی احمد دین صاحب بی اے، جو میرے دوست ہیں، مجھے اس وقت گھر سے اٹھالائے ہیں۔۔۔۔۔‘‘(ص ۸۵) ج۔ ۸جولائی ۱۹۲۳ء کو انجمن کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں علا ّمہ اقبال نے شرکت کی۔ احمد دین کی تجویز پر علا ّمہ اقبال کو بالا تفّاق انجمن کا آنریری جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ (ص۸۔ ۱۰۷) د۔ ۲۲ اپریل ۱۹۰۰ء کو علا ّمہ اقبال کے ساتھ احمد دین بھی انجمن کی میموریل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ (ص ۱۷۴) ہ۔ ۳۰جنوری ۱۹۱۶ء کو علا ّمہ اقبال کے ساتھ احمد دین بھی ’’سب کمیٹی سالانہ اجلاس ‘‘ کے رکن منتخب ہوئے۔ (ص ۱۷۶) و۔ انجمن نے ۱۱ نومبر ۱۹۱۷ء کو ایک دینی مدرسہ قائم کرنے کے لیے ایک ہشت رکنی سب کمیٹی مقرر کی۔ علا ّمہ اقبال اور احمد دین اس کے رکن تھے۔ (ص ۱۷۶) ز۔ انجمن نے اپنے مدارس کے انتظامات کے لیے ایک ہفت رکنی سب کمیٹی ۱۹ فروری ۱۹۲۲ء کو مقر ّر کی۔ علا ّمہ اقبال اور احمد دین اس کے رکن تھے۔ (ص ۱۷۷) ح۔ جولائی ۱۹۲۲ء میں علا ّمہ اقبال نے علالت کی وجہ سے انجمن کی معتمدی سے استعفا دیا تو احمد دین بعض دوسرے ارکان کے ساتھ علا ّمہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے استعفا واپس لینے کی درخواست کی۔ (ص ۱۷۸) ط۔ ۲۳ جولائی ۱۹۲۳ء کو انجمن نے کالج کمیٹی اور جلسہ کمیٹی کے نام سے دو سب کمیٹیاں مقر ّر کیں۔ علا ّمہ اقبال اور احمد دین ان دونوں کے رکن تھے۔ (ص ۱۷۸) ی۔ یکم دسمبر ۱۹۰۱ء کو انجمن کی جنرل کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میںرائے شماری کے ذریعے مختلف عہد یداروں کا انتخاب عمل میں آیا۔ انسپکٹر اسلامیہ کالج کے عہدے کے دو امید وار تھے: علا ّمہ اقبال اور احمد دین۔ دونوں کو بالترتیب تیس اور ایک سوگیارہ ووٹ ملے۔ احمد دین نے اس عہدے پر منتخب ہوگے۔ (ص ۱۸۳-۱۸۲) ک۔ احمد دین نے انجمن کی جنرل کونسل کے اجلاس منعقدہ ۱۵فروری ۱۹۰۲ء و ۲ مارچ ۱۹۱۳ء کی صدارت کی۔ علا ّمہ اقبال نے ان دونوں اجلاسوں میں شرکت کی تھی۔ (ص ۱۸۵-۱۸۴) ۷۔ راقم الحروف نے اس مضمون کو انجمن ترقیِ اردو پاکستان، کراچی کے جریدے ماہنامہ قومی زبان بابت ستمبر ۱۹۶۶ء میں دوبارہ شائع کرا دیا تھا۔ ۸۔ ذکر اقبال: بزم اقبال لاہور، ۱۹۵۵ئ، ص ۸۰-۷۹ ۹۔ حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں :سہ ماہی اقبال لاہور، اپریل ۱۹۵۶ء ۱۰۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنے ایک مکتوب (مورخہ ۱۶ رمضان ۱۴۰۳ھ بنام راقم الحروف ) میں لکھتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔افضل حق قرشی نے رسالہ مجلس کشمیری مسلمانان لاہور (جلدا، شمارہ ۱)کے حوالے سے مولوی احمد دین مرحوم کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ مجلس کے جائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ نیز رسالے کی نگرانی کے لیے مقر ّرہ سب کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ (اقبال ریویو، جنوری ۱۹۸۳ئ) انھی دنوں مجھے قرشی صاحب کے ہاں مذکورہ رسالہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے اس خیال سے رسالے پر نظر دوڑائی کہ ممکن ہے مولوی صاحب مرحوم کے بارے میں مزید کوئی بات مل جائے، چنانچہ ایک بات معلوم ہوئی۔ رسالے کے آخر میں ضمیمہ: ۶ میں مجلس قواعد (اغراض و مقاصد، قواعد، عہدہ داران مجلس، فرائض عہدہ داران، مجلس عام، اختیارات مجلس عام، قواعد کمیٹی منتظم) میں ’’عہدہ دارانِ مجلس‘‘ کے تحت درج ہے کہ عہدہ داران ہر تیسرے سال ممبرانِ مجلس میں سے جلسۂ عام کے ذریعے منتخب کیے جائیں گے اور یہ عہدے سب آنریری ہو ںگے۔ عہدہ داروں کی تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ ’’جائنٹ سیکرٹری ایک مقامی۔۔۔۔۔ آگے چل کر ‘فرائضِ عہدہ داران، کے تحت قواعد کی شق ۹ میں یہ درج ہے: ’جائنٹ سیکرٹری باہر سے آئے ہوئے خطوط کا جواب دے گااور حسبِ قراردادِ مجلس اصحاب بیرون جات سے خط و کتابت اپنے دستخط سے کرے گا‘۔ (ص ۲۱) رپورٹ کے آخر میں ۲۰؍جون ۱۸۹۶ء کی تاریخ درج ہے۔‘‘ ۱۱۔ ’’لاہورکاچیلسی ‘‘ مقالہ از حکیم احمد شجاع: رسالہ نقوش لاہور، جنوری ۱۹۶۶ء ص ۳۱ ۱۲۔ ’’لاہور کا چیلسی‘‘ مقالہ محوّلہ بالا، ص ۱۶ ۱۳۔ اقبال از احمد دین: لاہور، ۱۹۲۶ئ، ص ۱ ۱۴۔ اقبال از احمد دین: محولہ بالا، ص۲ ۱۵۔ ’’لاہور کا چیلسی‘‘ مقالہ محوّلہ بالا، ص ۳۱ ۱۶۔ بحوالہ مکتوب محمد عبد اللہ قریشی، مورخہ ۱۴ نومبر ۱۹۶۶ء بنام راقم الحروف ۱۷۔ مولوی محبوب عالم جب یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے تھے تو ان کے احباب نے ۲۵ مئی ۱۹۰۰ء کو ایک الواداعی جلسہ منعقد کیا تھا۔ اس جلسے کی رو داد نوشتہ سر شیخ عبدالقادر پیسہ اخبار لاہور کے ۲؍ جون ۱۹۰۰ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی جسے بعد میں مولوی محبوب عالم نے اپنے سفر نامۂ یورپ میں شامل کیا تھا۔ (طبع دوم، لاہور ۱۹۳۳ء ، ص ۱۷-۸) اس روداد سے معلوم ہوتا ہے کہ جن احباب نے یہ جلسہ منعقد کیا تھا، ان میں احمد دین بھی شامل تھے۔ ۱۸۔ آئینۂ صدق و صفا از مرزا مسعود بیگ: لاہور، ۱۹۶۴ئ، ص ۱۶-۱۵ ۱۹۔ روزگار فقیر از فقیر وحید الدین، جلد اوّل : کراچی، ۱۹۶۶ئ، ص ۲۷ ۲۰۔ یہ سطور جب لکھی گئی تھیں تو مولانا غلام رسول مہر اور حکیم احمد شجاع بقیدٔحیات تھے۔ ۲۱۔ مولانا عبدالمجید سالک لکھتے ہیں کہ ان محفلوں میں :’’مولوی احمد دین۔۔۔۔۔سے [اقبال کے] روابط روز افزوں ہوئے۔۔۔۔راقم الحروف نے بھی متعدّد بار علا ّمہ اور مولوی احمد دین سے اس چبوترے [حکیم امین الدین کے مکان کے سامنے کا چبوترہ] پر ملاقات کی‘‘۔ (ذکر اقبال: لاہور ۱۹۵۵ئ، ص ۲۶) ۲۲۔ ملفوظات اقبال، مرتبہ محمود نظامی: دوسرا ایڈیشن، لاہور ۱۹۴۹ء ، ص ۱۰۸ ۲۳۔ ایضاًص، ۱۳۳ ۲۴۔ ذکر اقبال، محولہ بالا، ص ۶۹۔۶۸ ۲۵۔ اقبال اور کشمیر، مقالہ از محمد عبد اللہ قریشی، سہ ماہی اقبال لاہور، شمارہ اکتوبر ۱۹۵۶ئ،ص ۲۹ ۲۶۔ انواراقبال، مرتبہ بشیر احمدڈار: کراچی، ۱۹۶۷، ص ۱۶۰ ۲۷۔ رسالہ نقوش لاہور، مکاتیب نمبر، جلد اوّل: ۱۹۵۷ئ، ص ۲۹۶ ۲۸۔ یہ خط ہفتہ وار ہماری زبان علی گڑھ کے ۸مئی ۱۹۶۳ء کے شمارے میں شائع ہوچکا ہے۔ اصل خط محمد عبداللہ قریشی صاحب کی نظر سے گزرا ہے، انھوں نے اس کی ایک نقل راقم الحروف کو بھیجی تھی۔ ہماری زبان کے مطبوعہ متن میں بعض الفاظ غلط درج ہوئے ہیں، اس لیے یہاں محمد عبد اللہ قریشی کا ارسال کردہ متن درج کیا گیا ہے۔ ۲۹۔ خواجہ فیروز الدین لاہور کے مشہور بیرسٹر اور اقبال کے گہرے دوست تھے۔ وہ اقبال کے ہم زلف (والدۂ آفتاب اقبال کے تعلّق سے) بھی تھے۔ برصغیر پاک و ہند کے ممتاز موسیقار خورشید انور اِنھی کے صاحبزادے ہیں۔ ۳۰۔ مکتوب بنام راقم الحروف مورخہ ۷ فروری ۱۹۶۶ء ۳۱۔ مکتوب بنام راقم الحروف مورخہ ۱۳مارچ ۱۹۶۶ء ۳۲۔ طبع اوّل کے دو نسخے جو آتش زدگی سے بچ گئے، راقم الحروف کی نظر سے گزرے ہیں۔ ان دونوں پر سالِ طباعت درج نہیں ہے۔ ان دونوں نسخوں پر اندرونی سرورق بھی نہیں ہیں جن پر مصنف اور کتاب کا نام ہوتا ہے۔ کوئی دیباچہ بھی نہیں۔ سالِ تصنیف کے تعیّن کے سلسلے میں کتاب کے متن میں ایک اشارہ ملتا ہے۔ ص ۳۲۵ پر ’’پیام اقبال طلبۂ علی گڑھ کے نام‘‘ کا سالِ تصنیف ۱۹۰۷ء درج کرکے اگلے صفحے پر لکھا ہے:’’مشورہ اب سولہ سال بعد بھی مسلمانان ہند کے لیے قابل غور ہے‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتاب ۱۹۲۳ء میں لکھی گئی تھی۔ گمانِ غالب ہے کہ یہی سالِ طباعت بھی ہے۔ اگر کتاب ۱۹۲۳ء کے بعد طبع ہوئی ہوتی تو مصنّف مذکورہ جملے میں مناسب تبدیلی ضرور کر دیتے۔ یہ کتاب انھوں نے خود طبع کرائی تھی، کسی ناشر کو نہیں دی تھی، اس لیے وہ اس کے متن میں بآسانی تبدیلی کر سکتے تھے۔ ۳۳۔ مولانا مہر کا یہ تاثر کسی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ ممکن ہے انھوں نے کتاب کی طبع دوم ہی کو ’’اصل کاپی ‘‘ سمجھا ہو، ورنہ طبع اوّل میں خارج شدہ کلام کا خاصا بڑا حصّہ شامل ہے۔ ۳۴۔ مکتوب بنام راقم الحروف مورخہ ۱۳مارچ ۱۹۶۶ء ۳۵۔ یہ درست نہیں۔ اس معاملے میں شیخ مبارک علی کا بیان اسی مقالے میں موجود ہے۔ ۳۶۔ ’’لاہور کا چیلسی‘‘، محولہ بالا، ص ۲۸ ۳۷۔ مکتوب احمد علی شیخ منجانب شیخ مبارک علی بنام راقم الحروف مورخہ ۲۸ فروری ۱۹۶۶ء ۳۸۔ حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں مقالہ محولہ بالا، ص ۴۶-۴۴ ۳۹۔ ماہنامہ مخزن لاہور، جلد ۱، شمارہ ۱: اپریل ۱۹۰۱ئ، ص ۸ ۴۰۔ یہ مضمون راقم الحروف نے روزنامہ جنگ کراچی کے محرم نمبر بابت ۳ مئی ۱۹۶۶ء میں شائع کرا دیا تھا۔ ۴۱۔ دوسری باریہ مضمون ماہنامہ قومی زبان کراچی بابت ستمبر ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔ ۴۲۔ دوسری بار یہ مضمون ماہ نو قومی زبان کراچی ، بابت اپریل ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔ ۴۳۔ تاریخ اقوام کشمیر، جلد دوم: لاہور ۱۹۳۴ء ، ص ۴۳-۵۴۲ ۴۴۔ رسالہ نقوش لاہور، لاہور نمبر، ۱۹۶۲ء ،ص ۹۱۵ ۴۵۔ سرگذشت الفاظ:مطبع کریمی لاہور، طبع اوّل، ۱۹۲۳ئ، ص ۴ ۴۶۔ کتاب اقبال طبع دوم ۱۹۲۶ء کے آخری سرورق پر سرگذشت الفاظ کا اشتہار ہے۔ یہ تمام تفصیلات اسی سے ماخوذ ہیں۔ ۴۷۔ سرگذشت الفاظ، محولہ بالا، ص ۵ ۴۸۔ ٹرنچ کی محولہ بالاکتاب:لندن ۱۹۱۴ئ، ص ۲-۱ ۴۹۔ سرگذشت الفاظ: محولہ بالا، ص۲-۱ ۵۰۔ ٹرنچ کی محولہ بالا کتاب: ص ۵۸-۵۶ ۵۱۔ سرگذشت الفاظ: محولہ بالا، ص ۵۸ ۵۲۔ ایضاً ص :۹۲-۱۹۱ ۵۳۔ ایضاً ص :۷-۲۰۶ ۵۴۔ ایضاً :ص ۲۴۸ ۵۵۔ ایضاً :ص ۷۵-۲۷۴ ۵۶۔ ایضاً: ص ۴۹ ۵۷۔ تنقیدات عبدالحق، مرتبہ محمد تراب علی خاں باز: طبع اوّل، حیدر آباد دکن، ۱۹۳۴ئ، ص ۱۵-۱۱ ۵۸۔ ایضاً: ص ۱۵ ۵۹۔ اقبال، طبع دوم ، ص ۸ ۶۰۔ ایضاً، ص ۱۱ ۶۱۔ ایضاً، ص ۱۲ ۶۲۔ ایضاً ، ص ۱۹ ۶۳۔ ایضاً، ص۲۱ ۶۴۔ ایضاً، ص ۳۰ ۶۵۔ ایضاً، ص ۳۵ ۶۶۔ ایضاً، ص ۳۷ ۶۷۔ ایضاً، ص ۳۸ ۶۸۔ ایضاً، ص ۶۱ ۶۹۔ ایضاً، ص ۷۸ ۷۰۔ ایضاً، ص ۱۳۳ ۷۱۔ ایضاً، ص ۱۳۰ ۷۲۔ ایضاً، ص ۱۴۶ ۷۳۔ ایضاً، ص ۱۴۸ ۷۴۔ ایضاً، ص ۱۵۴ ۷۵۔ ایضاً، ص ۱۵۷ ۷۶۔ ایضاً، ص ۱۶۰ ۷۷۔ ایضاً، ص ۱۷۰ ۷۸۔ ایضاً، ص ۱۷۹-۱۷۸ ۷۹۔ ایضاً، ص ۲۱۱ ۸۰۔ ایضاً، ص ۲۱۷ ۸۱۔ ایضاً، ص ۲۷-۲۲۶ ۸۲۔ ایضاً، ص ۲۴۲ ۸۳۔ ایضاً ص ۲۴۴ ۸۴۔ شائع کردہ اقبال اکیڈیمی کراچی، ۱۹۵۵ء ٭٭٭ ایک صراحت : جیسا کہ راقم نے ابتدائیے ’’معروضاحت‘‘ میں ذکر کیا ہے، پروفیسر معین الدین عقیل صاحب کو ٹوکیو سے مسٹر ایک کتاب آئینہ جاپان کا سراغ ملا، اس کا تعارف انھوں نے قومی زبان کراچی (مارچ ۱۹۹۴ئ) میں کرایا، یہی مضمون ’’احمد دین کی ایک نادر کتاب‘‘ کے عنوان سے عقیل صاحب کی کتاب نوادرات ادب (الوقار پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۹۷ئ) میں بھی شامل ہے۔ عقیل صاحب کے الفاظ میں، احمد دین کی مذکورہ کتاب کا تعارف اس طرح ہے: یہ کتاب کارخانہ پیسہ اخبارلاہور سے ۱۹۰۱ء میں ۲۲×۱۳ س م سائز پر شائع ہوئی تھی۔ یہ جاپان کے بارے میں ایک انگریزی کتاب کا ان کا کیا ہوا ترجمہ ہے۔ ایک منقش حاشیے میں سرورق کی ترتیب یہ ہے: حرکت میں برکت ہے آئینہ جاپان یعنی ملک جاپان کے ہر قسم کے تعلیمی، معاشرتی، ادبی ، حرفتی، اخباری، جنگی وغیرہ ترقی کے حالات مسٹر احمد دین صاحب بی اے ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ، کارخانہ پیسہ اخبار لاہور کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیے۔ پہلی مرتبہ ۱۹۰۱ء میں مطبع خادم التعلیم پنجاب لاہور باہتمام کار پردازان طبع ہوا، قیمت فی جلد ایک روپیہ۔ مصنف کے نام کے ساتھ ان کا ہیڈماسٹر اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ لکھا ہو نا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ وہ ۱۹۰۱ء کے آس پاس گوجرانوالہ میں پیشہ تدریس سے منسلک تھے۔ [اس] کتاب میں کوئی اندرونی سرورق، پیش لفظ اور فہرست عنوانات وغیرہ موجود نہیں۔ اس کے بعد پروفیسر عقیل صاحب نے آئینۂ جاپان کے مشمولات و محتویات کی تفصیل پیش کی ہے ۔لیکن کیا اس کتاب کو مولوی احمد دین کی تصانیف میں شمار کیا جا سکتا ہے؟ قیاس ہے کہ نہیں۔ آئینۂ جاپان پر ’’مسٹر احمد دین‘‘ کے الفاظ سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے۔ ان کی کتابوں پر بطور مصنف ان کا نام ’’مولوی احمد دین‘‘ ملتا ہے۔ پھر ان کے حالات میں گجرانوالے میں قیام اور اسلامیہ ہائی سکول کی مدرسی یا صدر مدرسی کا ذکر بھی نہیں ملتا۔ ایک دو اصحاب نے بتایا کہ ۱۹۹۴ء میں ، پروفیسر عقیل صاحب کا مضمون شائع ہوا تو مشفق خواجہ صاحب نے بھی شبہہ ظاہر کیا کہ آئینۂ جاپان کسی اور احمد دین کی ہوگی ۔ بہرحال جب تک ثابت اور متحقق نہ ہو جائے آئینۂ جاپان کو مولوی احمد دین کی تصانیف میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ رفیع الدین ہاشمی