اقبال فکر وفن کے آئینے میں احمد ہمدانی اقبال اکادمی پاکستان کچھ اپنی باتیں علامہ اقبال اردو زبان کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے مشرق و مغرب کے فلسفے کی دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کر کے اپنے تخلیقی سفر کے لئے ایک ایسی راہ تلاش کی جو بالکل اچھوتی ہوتے ہوئے بھی اجنبی اور نامانوس معلوم نہ ہو۔ ہمارے ہاں شاعری میں تصوف کی چاشنی شامل کرنے کا رواج بہت عام رہا ہے۔ یوں بھی تصوف میں رمزیت کا عنصر شاعری کے حق میں اس قدر مفید ہے کہ اس کی تمام دوسری جہتوں سے صرف نظر کر کے یہ کہا جانے لگا کہ تصوف برائے شعر گفن خوب است۔ چنانچہ شاعری میں تصوف کی چاشنی شامل کرنا ہمارے ہاں ایک معمول بن کر رہ گیا ہے۔ تصوف اور کچھ مسلمہ اخلاقی مضامین کے علاوہ گنتی کے چند اشعار کو چھوڑ کر ہماری شاعری میں واقعی فلسفیانہ موضوعات کا فقدان ہے۔ علامہ اقبال نے ہماری شاعری کی اس کمی کو بدرجہ احسن پورا کیا۔ انہوں نے جدید سائنسی انکشافات پر استوار فلسفیانہ نظریات کو جس طرح شاعری میں ڈھال کر پیش کیا اس کی مثالیں کسی بھی زبان کی شاعری کے لئے باعث افتخار ہو سکتی ہیں۔ علامہ کی اس نمایاں اور منفردخوبی کے پیش نظر زمانہ طالب علمی سے میری یہ خواہش رہی ہے کہ میں ان پر کچھ لکھوں لیکن اپنی کم علمی اور بے ہنری کو دیکھ کر رک جاتا تھا۔ پچھلے دنوں جب برادرم مشقق خواجہ نے اپنا اشاعتی ادارہ قائم کیا اور میری کتاب ’’ سلسلہ سوالوں کا‘‘ شائع کی تو میری توجہ اس طرف دلائی کہ میں علامہ اقبال پر کچھ لکھوں۔ ان کے ہمت دلانے سے میں نے علامہ اقبال پر کچھ لکھنا شروع کیا لیکن یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ مشفق خواجہ صاحب نے اپنا اشاعتی ادارہ بند کر دیا لہٰذا میں بھی کچھ سست پڑ گیا۔ا سی دوران میں محترم ڈاکٹر وحید قریشی صاحب سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے اقبال پر میری کتاب شائع کرنے کی پیش کش کی جو میرے لئے نہایت حوصلہ افزا ثابت ہوئی۔ میں برادرم مشفق خواجہ صاحب اور محترم ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ ان کی وجہ سے علامہ اقبال کے فن اور فلسفے سے متعلق اپنے خیالات کو ضبط تحریر میں لانے کی میری دیرینہ خواہش پوری وہئی۔ اپنی بیٹیوں نور افشاں، راحت افشاں، در افشاں، گوہر افشاں اور اپنے بیٹوں احسن جمیل و محسن جمیل کے لئے بھی میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ انہوں نے مطلوبہ کتابیں تلاش کر کے مجھے دیں اور مسودات کو صاف کرنے میں مدد کی اللہ ان سب کو جزائے خیر دے۔ احمد ہمدانی ٭٭٭ تصور خودی علامہ اقبال ایک ایسے روشن چراغ ہیں جسے ہم برصغیر میں دانشوری کی نئی روایت کا نقطہ عروج کہہ سکتے ہیں۔ دانشوری کی اس نئی روایت کا آغاز مسلمانوں میں سرسید تحریک سے ہوتا ہے۔ سرسید سے پہلے ہماری نظر منقولات پر جمی ہوئی تھی۔ ہمارا فکری رویہ تقلید کا پابند اور تجرید کا دلدادہ تھا۔ ہم اپنے تصور روایت میں لکیر کے فقیر تھے۔ اطراف میں چلنے والی ہواؤں سے خوفزدہ، آفتاب تازہ کی کرنوں سے آنکھیں چرائے، ماضی کے اندھیروں میں بے عملی کی چادریں اوڑھے گہری نیند سونا ہمارا شعار ہو کر رہ گیا تھا۔ سرسید نے ہمیں اس خواب سے جگانے کی کوشش کی تو ہم نے آنکھیں مل کر اسے دیکھا لیکن خواب کی لذت ہمیں اس قدر عزیز تھی کہ ہم سوچنے لگے کہ کسی کے کہنے میں آ کر ہم خواب کی مسرتوں کے عوض بیداری کی مصیبت کیوں مول لیں۔ لیکن بیداری کا یہ نقیب بھی اپنی دھن کا پکا اور کام کا سچا تھا۔ ہر طرف خراٹوں کی آواز سنتا رہا اور چیخ چیخ کر لوگوں کو جگاتا رہا۔ اس چیخ و پکار سے لوگوں کی نیند اچٹی تو ضرور لیکن وہ پوری طرح بیدار نہ ہو سکے۔ آخر یہ نیند بھی تو کوئی ایسی ویسی نیند نہیں تھی۔برسوں کی لوریوں کے بعد یہ نیند آئی تھی۔ چنانچہ اس سے بیدار ہونے کے لیے بھی ایک مدت درکار تھی۔ یہ مدت علامہ اقبال کی آمد تک جا کر پوری ہوتی محسوس ہوئی۔ علامہ اقبال ذہن رسا اور دل پر گداز لے کر پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کی بدحالی کو دیکھا اور اس کے اسباب دریافت کرنے میں پورے انہماک سے کام لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ قوم منقولات پر اس طرح دل و جان سے لہلوٹ ہے کہ اسے سرسید کی بتائی ہوئی عقلیت بالکل روکھی پھیکی نظر آتی ہے۔ علامہ نے منقولات و معقولات دونوں کی طرف پوری توجہ مبذول کی اور علم کے ان دونوں دبستانوں کا طویل سفر طے کیا۔ا س طویل سفر میں انہوں نے مشرقی و مغربی افکار سے پوری آگاہی حاصل کرنے کے بعد ایک ایسے فلسفے کی بنیاد ڈالی جو منقولات کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود معقولات کا دامن پوری طرح تھامے رکھے۔ انہوں نے کائنات کے بارے میں غور کرنے اور اشیاء و مناظر کی حقیقت کو سمجھنے پر زور دیا جو عقلیت کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور معقولات کے دروازے کھولے رکھنے کے مترادف ہے۔ ہم اسے سائنسی یا تجزیاتی رویہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ قدیم یونانی تجریدی انداز اور استخراجی منطق اس کی ضد ہیں۔ علامہ نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی سوچ کا انداز اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر یونانی انداز کے قریب آ گیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے افراد ملت کو اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ کیا لیکن یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایک غلط فہمی دور کرتا چلوں اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے آشنا کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ علامہ کو غیر مسلموں سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ اسلامی تعلیمات تو خود پوری نوع انسانی کے لئے ہیں۔ چنانچہ علامہ نے جس نظریہ علم کی ترویج کی وہ ہمہ گیر اور عالمگیر اہمیت کا حامل نظریہ ہے۔ البتہ انہوں نے اس نظریے کو مسلمانوں کے حوالے اور ان کی وساطت سے عام کرنے کی کوشش کی۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم اپنے اصل موضوع یعنی علامہ کے تصور خودی کی طرف آتے ہیں۔ علامہ کہتے ہیں۔ ایں گنبد مینائی ایں پستی و بالائی در شد بہ دل عاشق با ایں ہمہ پہنائی اسرار ازل جوئی برخود نظرے واکن یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی تصور خودی علامہ کے فلسفہ کی بنیاد ہے۔ حرکت و تغیر، سعی و عمل، زمان و مکان، عقل و شعور ار حسن و عشق۔۔۔۔ غرضیکہ ان کے تمام تصورات تصور خودی ہی سے پھوٹتے ہیں اور اس سے تقویت حاصل کرنے کے ساتھ اسے استحکام بھی فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ فلسفہ اقبال کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ خودی سے علامہ کی مراد کیا ہے؟ وہ بتاتے ہیں کہ خودی تجربے کا مرکز اور اس دنیا کی بنیادی حقیقت ہے اور یہ بنیادی حقیقت ہیگل کے خیال مطلق اور بریڈلے کے حسی شعور کے برخلاف، جذبے کی شدت کے ساتھ پوری شخصیت کا حوالہ اور پوری کائنات کی حقیقت اصلی ہے۔ پیرک ہستی ز آثار خودیست ہرچہ می بینی ز اسرار خودیست بالفاظ دیگر، انسان کی شخصیت یا اس کی فردیت ہی کا نام خودی ہے، جو نہ صرف ماضی کے مرتب کردہ تاثرات کے ساتھ، خیال کی زندگی میں خارجہ محرکات پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتی ہے، بلکہ اس کا یہ رد عمل ماضی کے اثرات میں ایک اضافہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جذبے کی شدت کے ساتھ تازہ محرکات سے ہمکنار ہوتی اور تعبیر نو سے کام لیتی ہے تاکہ اپنے طور پر مناسب عمل اختیار کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ تقلید محض کی ضد ہے۔ علامہ کے نزدیک خودی انسان میں ودیعت ہے اور اس کا اثبات ہی زندگی کا صحیح معنی میں محرک ہے۔ زندگی یکسر حرکت کا نام ہے جو تسلسل و تواتر کے ساتھ نت نئے مقاصد تخلیق کرتی رہتی ہے جو اسے عمل پیہم، سعی و جستجو اور مسلسل کشمکس سے دو چار رکھتے ہیں اور اس طرح اسے لازوال بناتے ہیں۔ علامہ کے نزدیک ’’ فلسفہ تمدن کا سنگ بنیاد خودی کی توسیع اور اس کی بقاء ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زندگی کی تمام قدروں کی تخلیق نفس انسانی کے توسط سے عمل میں آتی ہے۔ چنانچہ جس نظام تمدن میں انفرادی قوت ایجاد کمزور پڑ جائے تو اس نظام تمدن کے اندر ہی سے اس کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ انسان زندگی کی قدروں کا معیار ایک طرف معرفت ذلت (خودی) اور دوسری طرف غیر خود یعنی فطرت اور معاشرے سے تعلق میں پوشیدہ ہوتا ہے۔‘‘ الغرض خودی کا استحکام ہی زندگی کا استحکام ہے۔ قطرہ چوں حرف خودی از بر کند ہسی بے مایہ را گوہر کند سبزہ چوں تاب دمید از خویش یافت ہمت او سیہ گلشن شگافت چوں خودی آرد بہم نیروے زیست می کشاید قلزمے از جوے زیست خودی کیا ہے راز درون حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات ازل اس کے پیچھے ابد خسامنے نہ حد اس کی پیچھے نہ حد سامنے زمانے کے دھارے پہ بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں خودی کی اس تعریف سے کئی باتیں ذہن میں ابھرتی ہیں ۔ اول یہ کہ انسان اپنے کیال اور عمل میں آزاد ہے اور دوم یہ کہ وہ اپنے تجربے، مشاہدہ اور تعبیر نو کے ذریعہ شعور انسانی میں مسلسل اضافہ کرتا رہتا ہے۔ گویا خودی عمل ارتقاء سے مسلسل گزرتی رہتی ہے۔ وہ کسی نقطے پر ٹھہر کر نہیں رہ جاتی۔ اس کے ارتقاء کا کوئی انت نہیں۔ اس کی مثال ندی کی سی ہے جو راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹاتی ہوئی مسلسل رواں رہتی ہے۔ وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اچکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوی رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام خیال و عمل کی آزادی کے سلسلے میں کچھ لوگ یہ اعتراض کریں گے کہ ایسی دنیا میں جو اسباب و علل کے بندھنوں میں بندھی ہوئی ہے، وہاں خودی کے لئے اس طرح کی آزاد کس طرح ممکن ہے۔ اس ضمن میں کانٹ کا یہ خیال ہے کہ جب ہم خالص احساس فرض کے تحت کوئی اعلیٰ اخلاقی کام انجام دیتے ہیں تو ہم ظاہری دنیا سے الگ ہو کر حقیقی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کانٹ کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ ہمارے اخلاقی کاموں کی صلاحیت کو ارتقاء پذیر خودی کی تہذیب کے ہاتھوں سنورنا بھی ضروری ہے۔ گویا خالص احساس فرض کے تحت اور ارتقاء پذیر خودی کی تہذیب کے ساتھ انجام پانے والے اعلیٰ اخلاقی کاموں کی صلاحیت انسان کو دنیائے اسباب و علل سے بلند کر دیتی ہے اور اس کا رشتہ اشیاء و مناظر کی بجائے حقیقت اشیاء و مناظر سے جوڑ دیتی ہے۔ ہم اسے بصیرت کا عمل بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ایک نوعیت تو اس کا ہونا یا اس کی واقعیت ہے، لیکن دوسری نوعیت اس واقعیت کے پس پردہ کار فرما حقیقت ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں تشدد کا بڑھتا ہوا رحجان ایک واقعیت ہے، لیکن اس واقعیت کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ لوگ بے رحم اور سفاک ہو گئے ہیں اور قتل و غارت گری ان کی فطرت کا تقاضا بن گئی ہے۔ نہیں، بلکہ اس تشدد اور قتل و غارت گری کے پس پردہ جاگیر دارانہ نظام اور مراعات یافتہ طبقے کے اپنے مفادات ہیں جن کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ طبقہ ایسے حالات پیدا کرتا رہتا ہے جن کا لازمی نتیجہ تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے نجات پانے کے لئے ضروری ہے کہ مراعات یافتہ طبقے سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ سیدھے سادے الفاظ میں خودی کا وظیفہ، واقعیت کے پس پردہ حقیقت کو دیکھنا اور مناسب راہ عمل اختیار کرنا ہے۔ اس طرح خودی اسباب و علل کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے ماوراء عمل ارتقاء میں مصروف رہتی ہے اور اپنے طور پر خیال و عمل کی آزادی سے بہرہ ور ہوتی ہے۔ خودی ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے لیکن اس سے آگاہی مفت میں حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لئے اسے محنت، کوشش اور عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر چند انسان کی خودی اس کی حقیقت اصلی ہے لیکن جب وہ دنیا میں اس طرح ملوث ہو جائے کہ اس کی جسمانی خواہشات اس کے جوہر اصلی پر غالب آ جائیں تو وہ اپنے جوہر اصلی سے دور ہو جاتا ہے۔ وہ خود کو کھو کر غیر خود پر نظریں جمائے رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ شرف انسانیت کے اعلیٰ و ارفع مرتبے سے گر کر حیوانی سطح پر آ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنے جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ اپنے جوہر اصلی کا دامن بھی تھامے رکھے تو وہ عزت نفس، خود اعتمادی اور تحفظ ذات کے ادراک سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ یہ ادراک اس کے عرفان خودی کا ثمر ہے۔ اس سلسلے میں علامہ ارشاد باری تعالیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کائنات انسان کے لئے تخلیق کی گئی ہے جسے زمین پر اللہ کا خلیفہ بنا کر بھیجاگیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے مقابلے میں کائنات کی حیثیت ثانوی ہے، کیونکہ کائنات کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے، انسان کو کائنات کے لئے نہیں بنایا گیا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے جس کا یہ مطلب ہوا کہ انسان کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ کائنات کو مسخر کرے اور اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے۔ کائنات کی تسخیر کے لئے ضروری ہے کہ انسان قوانین فطرت کی آگہی حاصل کرے اور پھر اس آگہی کے بل بوتے پر فطرت کو، خود قوانین فطرت ہی کے اتباع میں، اپنا محکوم بنا کر اس پر حکمرانی کرے۔ جدید سائنس کے کارنامے انسان کی اسی صلاحیت سے کام لینے کے ثمرات ہیں، البتہ جدید سائنس کے حوالے سے ہم یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ سائنسی معلومات حقیقت کے نصف وقوف تک محدود ہیں۔ کیونکہ جدید سائنس میں انسان اپنے امکانات کو کائنات کے رشتے سے تو بروئے کار لاتا ہے لیکن انہیں خود اپنے حوالے سے دیکھنے پر توجہ نہیں دیتا، جس کی وجہ سے کبھی کبھی سائنس کی برکتیں فساد کے دروازے بھی کھول دیتی ہیں اور انسان کو ناگا ساکی اور ہیروشیما کی ہولناک بربادیوں سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں جب وہ اپنی روز مرہ زندگی میں ان مشینوں کی بالا دستی دیکھتا ہے جو خود اس کی اپنی ایجاد ہیں تو دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ ان مشینوں کی موجودگی میں خود اس کی اپنی حیثیت بھی مشین کے ایک پرزے کی ہو کر رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ سخت ٹوٹ پھوٹ سے گزر کر اجنبیت اور تنہائی کے اندھیرے اور مہیب غاروں میں اتر جاتا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل مشینوں کی ایجاد کے سبب نہیں ہے بلکہ خودی سے محرومی اور حقیقت کے جزوی وقوف کا نتیجہ ہے۔ علامہ کے نزدیک خودی کی اصل معرفت اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے اختیارات کے ساتھ ان ذمہ داریوں کا بھی خیال رکھے جو اسے سونپی گئی ہیں۔مغرب میں سائنسی ترقی لائق تحسین کارنامہ ہے۔ لیکن یہ کارنامہ انسان کی اصل عظمت کے عرفان سے عاری ہے۔ بقول علامہ ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات گویا دل کے لئے موت مشین نہیں، بلکہ مشینوں کی حکومت ہے۔ علامہ نے تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت دریافت کی ہے کہ جدید سائنس کی بنیادیں عربوں نے استوار کی تھیں اور اس کائنات میں سائنسی ا ور تجزیاتی رویے سے کام لینا اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شعر و فلسفہ میں سائنسی رحجانات کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے پر زور دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کائنات کے تمام ا شیاء و مناظر کی حقیقت دریافت کرنے کی پوری پوری کوشش کی جائے کیونکہ یہ سب کچھ انسان ہی کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور زمین پر خدا کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ کائنات میں موجود اشیاء و مناظر کی حقیقت دریافت کر کے ان پر غلبہ حاصل کرے۔ کائنات پر اس کی برتری ایک عطیہ خداوندی ہے جس کا شکر ادا کرنے کی یہی صورت ہے کہ وہ عملی طور پر اپنی بڑائی کا اظہار کرے۔ انسان کی برتری اور اس کی اعلیٰ حیثیت کے بارے میں خداوند تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے انسان کو اپنی مثال پر تخلیق کیا ہے اور اس کے بدن میں اپنی روح پھونکی ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ خداوند تعالیٰ نے یہ کائنات انسان کے لئے پیدا کی ہے چنانچہ اس کائنات میں جو کچھ ہے اس سے متمع ہونے کا انسان کو حق ہے لیکن اپنا یہ حق حاصل کرنے کے لئے انسان کو سعی و عمل اور جدوجہد سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم معاشروں میں ایک رحجان ترک عمل اور ترک دنیا کا رائج ہو گیا ہے۔ اس رحجان کی جڑیں غیر مسلم معاشروں میں پھیلی ہوئی تھیں جو رفتہ رفتہ مسلم معاشروں تک پہنچ گئی ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ خداوند تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ یہ پوری کائنات انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے اور انسان یہ کہے کہ میرے لئے یہ دنیا اور اس کی نعمتیں بے معنی ہیں۔ میرے لئے تو ایک گوشے میں بیٹھ کر ذکر و فکر کی لذت کافی ہے۔ا گر غور کیا جائے تو دنیا کی نعمتوں سے اس طرح کی بیزاری فرمان الٰہی کی نافرمانی کے مترادف ہے۔ البتہ دنیا کی نعمتوں سے متمتع ہونے کی خاطر انسان کو اخلاقی پابندیوں سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ اس کائنات سے متمتع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اس میں موجود اشیاء کی ماہیت دریافت کرے۔ انسان کا یہ عمل سائنسی علوم کو فروغ دینے کا سبب ہو گا۔ کائنات میں موجود اشیاء کی مسابقت دریافت کرنے کے بعد ان سے متمتع ہونے کا تو انسان کو حق ہے لیکن بلا ضرورت ان اشیاء کو برباد کرنا ظلم کہلائے گا جس سے بچنا چاہئے۔ سائنسی علوم کے فروغ کے نتیجے میں طرح طرح کے مہلک ہتھیار ایجاد کر کے پوری انسانیت کو خطرے میں ڈالنا دراصل اس استعداد کا غلط استعمال ہے جو انسان کو ودیعت کی گئی ہے۔ ایسا انسان جسے اپنی خودی کا عرفان حاصل ہے وہ اس طرح کی افراط و تفریط سے ہمشیہ اپنا دامن بچائے رہتا ہے۔ خودی کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار امکانات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ان امکانات کی حامل خودی ہے اور ان امکانات ہی میں اس کی تقدیر پوشیدہ ہے۔وہ ان امکانات کو بروئے کار لا کر اپنی تقدیر آپ بناتا ہے۔ علامہ کا یہ نظریہ افلاطون کے فلسفہ اعیان کی بالکل ضد ہے کیونکہ فلسفہ اعیان کے تحت انسان کی تقدیر پہلے سے طے ہے۔ اس فلسفے کے تحت انسان کسی ایک مخصوص عین کا عکس ہوتا ہے اور وہ اسی کے مطابق زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اس تصور کو مان لیں تو انسان کا فعال کردار ختم ہو جاتا ہے اور وہ یکسر جبریت کا شکار نظر آتا ہے۔ افلاطون کا یہ نظریہ مسلمانوں کے تصوف پر بھی اثر انداز ہوا جس سے مسلمانوں میں بے عملی اور تقدیر پرستی کے رحجانات پیدا ہوئے۔ علامہ جبریت اور تقدیر پرستی کے ان رحجانات کو غیر اسلامی بتاتے ہیں۔ ان رحجانات کے برعکس وہ جگہ جگہ انسان کے فعال ہونے کو اجاگر کرتے ہیں۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے انسان کا اپنے امکانات سے آگاہ ہونا ہی عرفان خودی ہے۔ زمن گو صوفیان با صفا را خدا جویان معنی آشنا را غلام ہمت آں خود پرستم کہ با نور خودی بیند خدا را کرا جوئی چرا در پیچ و تابی؟ کہ او پیداست تو زیر نقابی تلاش اوکنی جز خود نہ بینی تلاش خود کنی جز او نیابی خودی کی معرفت کے ساتھ ساتھ علامہ خودی کے استحکام اور اس کے مسلسل ارتقاء پر حد درجہ زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یقین، عمل اور محبت، تعمیر خودی کے لازمی اجزاء ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ان لازمی اجزاء کے امتزاج سے ایک انفرادیت وجود میں آتی ہے جو تلاش و جستجو اور تسخیر فطرت کے عمل میں ہر دم تازہ رہتی ہے۔ مستحکم خودی کی حامل یہ انفرادیت اپنی مساعی میں پوری انسانیت سے اپنا رشتہ استوار رکھتی ہے اور کسی لمحہ بھی نیابت الٰہی کے فریضے سے غافل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ ذاتی خواہشات، شخصی مفادات، رنگ، نسل، قومیت، غرضیکہ تمام حدود و امتیازات سے ماوراء خیر کل کا مظہر بن جاتی ہے۔ خیر کل کا اس طرح مظہر بن جانا دراصل نیابت الٰہی کے فرائض کی انجام دہی کی ایک صورت ہے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں یہ انفرادیت انسانیت کے امکانات کے نقطہ عروج کو چھو لیتی ہے۔ علامہ نے انسان کے اس نقطہ عروج کی تصویر کشی کچھ اس طرح کی ہے۔ خودی را پیکر خاکی حجاب است طلوع او مثال آفتاب است شکسن ایں طلسم بحردبر را زا نگشے شگافیدن قمر را یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے راز درون حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند اندھیرے اجالے میں ہے تابناک من و تو میں پیدا من و تو سے پاک خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے یا پھر ان کا یہ قطعہ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی عرفان خودی کی یہ منزل انسان کو جبریت کی زنجیروں سے آزاد کرتی ہے جس کے بعد وہ سراپا عمل بن کر اپنی تقدیر آپ بناتا ہے۔ قدیم یونانی فکر کے مطابق اصول اول سکون ہے لیکن علامہ نے عمل و حرکت کو زندگی کا اصول اول قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا دار العمل ہے جس میں حرکت و تغیر کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ خارجی دنیا کے تغیرات باطنی عالم میں بھی تبدیلیوں کے متقاضی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کے طرز احساس میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ خارجی تغیرات اور طرز احساس کی تبدیلیاں مروجہ فکری نظام اور تصورات کی نئی تعبیرو تشریح کی طالب ہوتی ہیں۔ اسلام نے اس حقیقت کے پیش نظر اجتہاد کو اپنے نظام فکر کی بنیاد ٹھہرایا ہے لیکن دنیائے اسلام میں جب سے عمل کا دور دورہ شروع ہوا تو اجتہاد کے دروازے بند کر دئیے گئے اور اس کی جگہ تقلید کی رسم ایجاد کی گئی۔ علامہ اس رسم کو تعلیمات اسلامی کے منافی قرار دیتے ہیں اور امت مسلمہ کی وساطت سے پوری انسانیت کو تغیرات جہاں پر غور و فکر کے ساتھ عمل پیہم کا پیغام دیتے ہیں۔ علامہ کے نزدیک قرآن پاک نے ہدایت کے ایسے اصول فراہم کر دئیے ہیں جو تغیرات کے ہر نئے موڑ پر انسان کو اپنے عمل کے راستے متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔عہد حاضر میں ہونے والی لمحہ بہ لمحہ تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہنے کے لئے ہمیں اصول اجتہاد کو برتنے کی ضرورت ہے۔ یہ کائنات اپنی اصل میں ترکی ہے اور اجتہاد کا اصول اس کے حرکی ہونے کی نوعیت سے ہم آہنگ ہے۔ علامہ عہد حاضر کی خصوصیات کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ یہ ہے وہ حیرت انگیز تغیر جو زمانہ حال کو زمانہ ماضی سے ممیز کرتا ہے اور جس کی حقیقت اس امر کی متقاضی ہے کہ تمام قومیں جدید روحانی اور جسمانی ضروریات پیدا ہو جانے کی وجہ سے اپنی زندگی کے لئے نئے سامان بہم پہنائیں۔‘‘ علامہ نئے سامان بہم پہنچانے کے سلسلے کو عام رسم و رواج کے بندھنوں سے لے کر علم و شعور کی اعلیٰ ترین سطحوں تک پھیلا دیتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی کہنہ و فرسودہ رسومات سے نجات حاصل کر کے زندگی سے ہم آہنگ تازہ تر اسلوب حیات کی بنیاد ڈالنی چاہئے۔ اس اسلوب حیات میں تعلیم کا فروغ، حقیقت کی جستجو، اور ماضی کا بامعنی ادراک شامل ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ خودی اس کائنات کی بنیادی حقیقت ہے جس کو ہم ذہن و شعور سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں ذہن یا شعور موجود ہوتا ہے وہاں وہاں زندگی موجود ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ نے خودی کے لئے حیات یا زندگی کا لفظ بھی استعمال کیا ہے البتہ اس سلسلے میں وہ فرق ضرور ذہن نشین رہنا چاہئے جو انسانوں اور حیوانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ کچھ جاننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت انسانوں اور حیوانوں میں مشترک ہوتی ہے لیکن حیوان یہ نہیں جانتے کہ وہ کچھ جانتے ہیں جبکہ انسان کو اپنے شعور اور اپنے احساس کا علم بھی ہوتا ہے، یعنی وہ خود آگاہ بھی ہوتا ہے جبکہ حیوان خود آگاہی سے محروم ہوتے ہیں۔ اقبال نے اسی خود آگہی کی خصوصیت کو خودی سے تعبیر کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ انسان جو خود آگہی سے محروم ہیں، علامہ کے نزدیک درجہ انسانیت سے گر کر حیوانوں کی صف کے قریب ہو جاتے ہیں۔ علامہ نے ایک طرف خودی کے عرفان کی تعلیم دی ہے تو دوسری طرف اجتہاد سے کام لیتے ہوئے عمل پیہم کی تلقین کی ہے جو ارتقاء و استحکام خودی کی لازمی شرط ہے۔ ان کے تصور خودی سے بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسان خود کو کائنات پر مقدم سمجھے اور اس پر حکمرانی کو اپنا جائز حق جانے۔ یہ شعور کی وہ سطح ہے جہاں کائنات کی تمام اشیاء انسان کی خودی کے آگے ہیچ ہیں، لیکن جب انسان اپنی حقیقت خودی کو فراموش کر دیتا ہے تو کائنات کی اشیاء اس کی حاکم بن جاتی ہیں اور وہ ان کے حصول میں خود کو گنوانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کوئی دولت کے پیچھے بھاگتا ہے اور کوئی اقتدار کی چمک کا دیوانہ بن جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی خودی کی عظمتوں کی پرچھائیوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ تاہم خودی کی عظمتوں کی یہ پرچھائیاں افلاطون کے تصور حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں کیونکہ افلاطون کے تصور کے مطابق یہ کائنات کوئی حقیقت نہیں رکھتی بلکہ حقیقت کی پرچھائیں ہے، جبکہ علامہ اس کائنات کو قائم بالحق مانتے ہیں لیکن اسے خودی پر غالب کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ بقول ان کے کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق غرضیکہ وہ عظمت انسان اور انسانی امکانات کی آگہی کے حصول کے بعد عمل پیہم کو تمام حدود و امتیازات سے ماوراء اور خودی کی رفعتوں سے ہمکنار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ خودی سے ہمکنار عمل پیہم زمان و مکان کی حدود سے آزاد ابدی سرشاری اور لامتناہی ارتقاء کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ علامہ کا تصور خودی اسی ابدی سرشاری اور لامتناہی ارتقاء کی نوید جانفزا ہے۔ ٭٭٭ تصور حرکت و تغیر یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں کائنات اپنی نوعیت میں کوئی ایسی مکمل شے نہیں ہے جس میں کسی قسم کے تغیر کی کوئی گنجائش ہو۔ا گر ہم غور کریں تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہم اس کائنات کو اس کے تغیرات ہی میں دیکھتے ہیں۔ یعنی یہ کائنات اپنے ہونے کا اظہار مسلسل تبدیلیوں کی صورت میں کرتی ہے۔ یہاں کسی شے، کسی منظر، کسی احساس، کسی قوم اور کسی بھی معاشرتی صورت حال کو قرار نہیں ہے۔ وہ ’’مرغ و ماہی ‘‘ ہوں یا ’’ ماہ و انجم‘‘ یہاں کی ہر شے’’ راہی‘‘ اور ہر چیز’’ مسافر‘‘ ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے حرکت خود مادے کے وجود کی ایک صورت ہے اور ظاہر ہے کہ ہر تغیر کی بنیادی شرط حرکت ہوتی ہے لہٰذا اس مادی کائنات میں حرکت ہر لمحہ نت نئے تغیرات کو جنم دے رہی ہے۔ حرکت کے بغیر مادے کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں ہے۔ حرکت اپنی نوعیت میں حقیقی اور سکون اپنی اصلیت میں اضافی ہے۔ مثال کے طور پر آپ اپنے گھر کو دیکھیں جو زمین کی سطح کے تناظر میں ساکن یا غیر متحرک محسوس ہوتا ہے لیکن در حقیقت یہ زمین کے محور کے ساتھ گھومتا بھی ہے اور زمین کے ساتھ سورج کے گرد چکر بھی لگاتا ہے ۔ گھر کی اس مثال سے قطع نظر جس قدر بھی اجرام یا مادی وجود ہمیں بظاہر ساکن نظر آتے ہیں، ان میں ہر لمحہ طبعی، کیمیائی، حیاتیاتی اور دوسرے عمل برابر جاری رہتے ہیں جو مختلف تغیرات پر منتج ہوتے ہیں۔ جہاں تک مسلسل حرکت کا تعلق ہے تو یہ کوئی نیا تصور نہیں ہے، البتہ مسلسل حرکت کو تغیر سے رابطہ دینا نسبتاً نیا تصور ہے اور علامہ اسی کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک حرکت صرف میکانکی عمل نہیں ہے بلکہ وہ اسے تغیرات اور اشیاء و مناظر کے ارتقاء سے ربط دے کر دیکھتے ہیں۔ یعنی کچھ اشیاء و مناظر کا معدوم ہونا او ران کی جگہ نئی اشیاء اور مناظر کا وجود میں آنا، دراصل مسلسل حرکت کا نتیجہ ہے جو اپنی نوعیت میں ارتقاء پذیر ہے۔ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں تمام اجرام فلکی و ارضی کا ہر لمحہ حرکت میں رہنا بتاتا ہے کہ مادہ اور حرکت لازم و ملزوم ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں مادے کی کوئی بھی صورت ہو گی، وہاں حرکت کا ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح جہاں حرکت ہو گی، وہاں مادے کا ہونا لازمی ہے۔ ہمارے اس دعوے پر کچھ لوگ جدید سائنس کا سہارا لے کر کہیں گے کہ توانائی (Energy) کے جدید ترین تصور کے مطابق مادے کو توانائی میں تبدیل کیاجا سکتا ہے، جہاں توانائی یعنی حرکت کرنے کی استعداد مادہ سے الگ باقی رہتی ہے۔ لیکن توانائی کے جدید ترین تصور کی یہ تعبیر درست نہیں معلوم ہوتی۔ جدید سائنسی دریافتوں کے مطابق کسی بھی مادی شے کے بنیادی عناصر الیکٹرون اور پوزیٹرون کو فوٹون یعنی روشنی (Light) میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اس حقیقت کی غلط تعبیر کرتے ہوئے کچھ لوگ ’’ روشنی‘‘ خالص توانائی یا (Light) کو مادے سے خارج یا بغیر مادے کے موجود ہونے پر منتج کرتے ہیں، جو سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ الیکٹرون اور پوزیٹرون کو فوٹون یعنی روشنی میں تبدیل کرنے کے اصول کی وضاحت کرتے ہوئے آئین اسٹائین بتاتا ہے کہ مادے کی جسامت ہمیشہ اپنی متوازی توانائی میں شامل رہتی ہے لیکن اس کی موجودگی کو نسبتاً کم رفتار حرکت کی صورت میں ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی مادی وجود روشنی کی رفتار سے متحرک ہو تو پھر مادی وجود کی جسامت میں اضافہ ہو گا اور اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیادی عناصر میں اس رفتار سے حرکت اس وقت رونما ہوتی ہے جب وہ نیوکلیئر تبدیلیوں کے عمل میں ہوتے ہیں۔ یہ بات سائنسی تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مادی وجود کی جسامت رفتار میں اضافے کے ساتھ بڑھتی ہے۔ جسامت دراصل مادے کی پیمائش ہے جبکہ توانائی حرکت کی پیمائش ہے۔ تبدیلی کا مذکورہ سائنسی اصول مادے اور حرکت کی یکجائی کو ثابت کرتا ہے نہ کہ مادہ اور حرکت کو الگ کرتا ہے۔ علامہ اقبال کے فلسفے اور شاعری کا بیشتر حصہ حرکت و تغیر کی اصلیت کو واضح کرتا ہے۔ وہ کائنات کے اصول یعنی حرکت و تغیر کو زندگی کے حق میں ہمیشہ ایک نیک شگون قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک حرکت زندگی کی پہچان اور سکون یا جمود موت کی شناخت ہے۔ شاید اسی لئے ہمارے روائتی انداز فکر میں بھی حرکت کو برکت کہا جاتا تھا لیکن ہمارے کچھ دانشور یونانی مفکرین کے نظریات سے متاثر ہو کر کائنات کا اصول اول حرکت کی جگہ سکون کو قرار دینے لگے ہیں اور حرکت کی ہر صورت کے پیچھے ایک غیر متحرک کی غلط تعبیر کرتے ہیں۔ یہ غلط تعبیر دراصل یونانی مفکرین کے تصور’’ Changeless behind all Cahnges‘‘ سے ماخوذ ہے اور یونانی مفکرین کا یہ تصور قطعی غیر سائنسی ہے۔ کیونکہ غیر متغیر یعنی Changelessسے ان کی مراد خیال مطلق ہے جبکہ سائنسی نقطہ نظر سے قوانین فطرت وہ ناقابل تبدل حقیقت ہیں جو ہر طرح کی حرکت اور تغیر کو ممکن بناتے ہیں۔ مثلاً سورج، چاند، زمین اور دوسرے سیارے ایک خاص رفتار سے گردش میں ہیں۔ اس خاص رفتار میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے، اسی طرح کیمیائی اور حیاتیاتی اصول ہیں جن میں تبدیلی ممکن نہیں ہے لیکن ان کیمیائی اور حیاتیاتی اصولوں کی وجہ سے طرح طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ سائنسی نقطہ نظر سے تبدیل ہونے والی حقیقت قوانین فطرت ہیں نہ کہ خیال مطلق۔ سائنسی نقطہ نظر کے علاوہ یونانی تصور خود اسلامی فکر کے بھی منافی ہے۔ اسلامی فکر کے اعتبار سے عالم بالا کی ہر حقیقت عالم امکاں میں مقلب ہو جاتی ہے۔ مثلاً عالم بالا کا اصول بقا ہے جبکہ عالم امکاں کا اصول فنا ہے۔ ’’ قدم‘‘ عالم بالا کی حقیقت ہے جبکہ عالم امکاں کی اصلیت ’’خدوث‘‘ ہے۔ اب اگر عالم بالا کا اصول سکون ہے تو عالم امکاں کا اصول حرکت کیوں نہیں؟ ہمارے دانشوروں میں یہ غلط فہمی دراصل اس لئے پیدا ہوئی کہ انہوں نے یونانی نظریات سے متاثر ہو کر عالم امکاں کے تمام مناظر و اشیا کو عالم بالا میں موجود اشیاء و مناظر کا سایہ تصور کر لیا اور ان کے قائم بالحق ہونے کے اسلامی تصور کو فراموش کر دیا۔ آپ غور کریں کہ اگر عالم امکاں صرف سایہ یا پرچھائیں کی حیثیت رکھتا ہے تو پھر یہاں کے اعمال ک جوابدہی کا جواز ہے۔ جب یہاں جو کچھ بھی ہوتا یا نظر آتا ہے اس کی پرچھائیں سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں ہے تو پھر یہ عالم دار العمل کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں سکون کا یہ نظریہ غیر اسلامی ماخذ سے آیا ہے جن میں یونانی، ہندی اور بہت سے دوسرے ہیبت پرست مفکرین کے تصورات شامل ہیں۔ افلاطون عالم امکاں کے موجودات کو پرچھائیں قرار دیتا ہے تو ویدانت کے مطابق یہ مایا یا دھوکا ہیں، جبکہ بہت سے دوسرے عییت پرست مفکرین انہیں التباس (Illusion) کہتے ہیں۔ علامہ اقبال حرکت و تغیر کے اس بنیادی اصول کو انسانی معاشرے پر بھی منطبق کرتے ہیں اور اس کی مسلسل تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ ان تبدیلیوں کے اسباب معاشرتی حالات او ران کے تقاضوں میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ نا قابل تبدل اور بے لچک اصولوں کے مجموعہ کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ تخلیقی اور ارتقاء پذیر عمل پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی معاشرہ ایک جگہ ٹھہرا ہوا نہیں ہوتا بلکہ وہ مسلسل حرکت میں رہتا اور آگے بڑھتا ہے۔ معاشرہ جب آگے کی طرف بڑھتا ہے تو اس کی پیش رفت اطراف کے حالات کی مطابقت میں ہوتی ہے۔ معاشرے میں تبدیلیاں اور اس کی مجموعی پیش رفت افراد یا اقوام کی خواہشوں کا نتیجہ کبھی نہیں ہوتی، اس کے برعکس جب حالات کی اچھائیوں اور برائیوں کا افراد اور اقوام کو صحیح شعور ہو جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنی خواہش یا اپنے خیال سے معاشرے میں تبدیلیاں نہیں لاتا ہے بلکہ اس کا خیال خود خارجی حالات کے زیر اثر تشکیل پاتا ہے۔ علامہ نے اس نکتے کی وضاحت بڑے موثر اور بھر پور انداز سے کی ہے۔ مثلاً وہ خضر کی زبانی بندہ مزدور کو یہ پیغام دلواتے ہیں۔ اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک نغمہ بیداری جمہور ہے سامان عیش قصہ خواب آور اسکندر و جم کب تلک آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک کرمک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو ان اشعار میں علامہ بزم جہاں کے نئے انداز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ نیا انداز وہ معاشرتی، سیاسی اور معاشی حالات ہیں جو ہمارے اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ علامہ ہمیں ان حالات کا صحیح شعور اوروقوف پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ماضی کی خواب آور فضا میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ماضی کے فاتحوں اور ان کے کارناموں کو تاریخ کے ایک حصے کے طور ہی پر رکھنا چاہئے لیکن ان فاتحین کے دور کو واپس لانے کی کوشش قطعی بے کار ہے، کیونکہ جہاں کے نئے انداز یا عہد حاضر کے حالات کا تقاضا عہد گزشتہ کے بادشاہوں کے راگ الاپنا نہیں، بلکہ جمہوریت کے فروغ کے لئے کوشاں رہنا ہے۔ تقریباً ایسی ہی نصیحت غالب نے سرسید کو آئین اکبری لکھنے پر کی تھی اور بتایا تھا کہ بادشاہوں کا زمانہ گزر چکا ہے۔ غالب سے پہلے شاہ ولی اللہؒ دنیا کی نئے انداز کی وضاحت کرتے ہوئے بتا چکے تھے کہ اب بادشاہوں اور جاگیرداروں کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ مستقبل میں تاجر اور ہنر مند لوگ اہمیت حاصل کریں گے۔ الغرض حالات کی تبدیلیوں کی مطابقت ہی میں معاشرتی تبدیلیاں آتی ہیں اور علامہ اس نکتے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ یوں بھی اگر ہم غور کریں تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس کائنات کا وجود انسان کے وجود سے لاکھوں کروڑوں سال پہلے سے تھا۔ انسان کا وجود کائنات کے طویل ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ مختلف سائنسی نظریوں کے مطابق انسانی ذہن، مادے کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے، یہ مادے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ شعور یا وقوف ذہن انسانی کے سوچنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ شعور یا وقوف کا ذہن انسانی سے الگ وجود ممکن نہیں۔ ذہن انسانی کی فعلیت کے لئے ذہن س باہر اشیاء و مناظر اور حالات و واقعات کا موجود ہونا ضروری ہے۔ ورنہ وہ کس چیز کے بارے میں سوچے گا اور کس خبر کا تجزیہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچے گا۔ تماما شیاء کی طرح ذہن انسانی میں بھی مسلسل حرکت و تغیر کا عمل جاری رہتا ہے جو مجموعی شعور انسانی کے مسلسل ارتقاء پر منتج ہوتا ہے۔ علامہ کے مذکورہ تصور حرکت و تغیر کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے تصور زمان و مکان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ نئی سائنسی دریافتوں نے زمان و مکان کو الگ الگ دیکھنے کی بجائے زمان و مکان کی یکجائی و وحدت کو ثابت کیا ہے جس کا کچھ مختصر جائزہ ہم نے پچھلی سطور میں پیش بھی کیا ہے۔ بہرحال یہاں ہم زمان و مکان کے سائنسی تصور کی جگہ فلسفیانہ تصورات ہی سے بحث کریں گے۔ فلسفیانہ نقطہ نظر سے مکان اس گنجائش کا نام ہے جس میں کائنات کے تمام مادی اجسام پھیلے ہوئے ہیں۔کائنات کا ہر مادی وجود ایک مخصوص جگہ گھیرے ہوتا ہے اور دنیا کے تمام امدی اجسام کے تناظر میں اس کا مخصوص محل وقوع ہوتا ہے بلکہ یہ مادی اجسام یا معروضی اشیاء و مناظر یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ وجود میں آتے اور معدوم ہوتے ہیں۔ بعض معروضی اشیاء کی جگہ دوسری معروضی اشیاء لے لیتی ہیں اور پھر ان نئی اشیاء کی جگہ بھی کچھ اور اشیاء لے لیتی ہیں اور یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے اشیاء میں سے ہر شے کے قیام کی ایک مدت یا وقفہ ہوتا ہے۔ سلسلہ وار زمان کا تصور اس مادی عمل کو ظاہر کرتا ہے جو ایک شے کے وجود میں آنے اور اس کے معدوم ہونے کے درمیان جاری رہتا ہے اور اشیاء کے یکے بعد دیگرے وجود میں آنے کو قابل فہم اندازمیں واضح کرتا ہے۔ اور کسی شے کے موجود رہنے کی مدت یا وقفے کے تعین کو ممکن بناتا ہے۔ اس طرح زمان و مکان مادے کے وجود ہی کی صورتیں ہیں۔ اس کائنات میں مادہ مسلسل حرکت میں ہے اور مادے کی حرکت صرف زمان و مکان ہی میں ممکن ہے جو مادے کی حرکت و وسعت کی صورت میں ذہن انسانی سے باہر اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یہاں اس فرق کو ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ جب ہم اپنے یا اشیاء و مناظر کے حوالے سے زمان کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارا مطلب سلسلہ وار زمان ہوتا ہے نہ کہ زمان مطلق یا خالص دوران (Pure Duration) زمان مطلق دراصل ایک نا آغاز و نا انجام حرکت ہے۔ اس جاری و ساری حرکت میں تمام زمانے یعنی تمام سلسلہ وار زمان موجود ہوتے ہیں اور اس کی کوئی صبح یا شام نہیں ہوتی۔ وہ زمانہ ہم جس کی تمیز صبح شام سے کرتے ہیں وہ سلسلہ وار زمان ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ہم مکان کو اشیاء و مناظر کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو وہ مکان کی مخصوص و متعین صورت ہوتی ہے ورنہ آئین اسٹائین کے خیال کے مطابق مکان، متناہی نہ ہونے کے باوجود بے کراں ہے۔ بے کراں اس معنی میں کہ اشیاء و مناظر کے تناظر میں دیکھیں تو اس کی صورتیں مسلسل تغیر میں رہتی ہیں اور اس کا کوئی تغیر آخری تغیر نہیں ہے۔ اس میں پھیلنے یا وسعت پذیری کا عمل برابر جاری ہے اس لئے اس کو لامتناہی نہیں کہا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ اگر کائنات لامتناہی ہوتی تو اس میں پھیلنے یا وسعت پذیری کا عمل کس طرح ممکن ہوتا؟ علامہ نے اسی نکتہ کو ’’ دما دم صدائے کن فیکوں‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں ایک عام غلط فہمی کو دور کرنا بہت ضروری ہے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ حرکت اور ارتقاء کا تصور علامہ نے برگساں سے لیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ غلط فہمی علامہ کے تصورات کی سرسری تفہیم کا نتیجہ ہے۔ برگساں کا جوش نمووقوت یعنی ’’ Eian Vital‘‘ علامہ کے تصور ارتقاء سے خاصا مختلف ہے مگر دونوں کے تصورات کا نتیجہ ترقی یا پیش رفت ہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اس لئے کچھ افراد کو یہ شبہ ہو گیا ہے کہ علامہ کا تصور ارتقاء شاید برگساں سے ماخوذ ہے، برگساں کے نزدیک زندگی ایک خود مختار اور خود مکتفی عمل (Autonomous Function) کی حیثیت رکھتی ہے جس کے خود اپنے قوانین ہیں اور یہ عمل علم طبیعیات (Physics) یا علم کیمیا (Chemistry) سے مختلف ہے جس کی وجہ علم طبیعیات یا علم کیمیا کبھی بھی زندگی کی مکمل تعبیر و تفسیر نہیں کر سکتے۔ برگساں کا جوش نمو وقوت کا یہ نظریہ بہت سے فلسفیانہ نظریات کی ضد ہے۔ برگساں زندگی کو غیر مادی تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عقل و استدلال سے زندگی کی تعبیر کبھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ عقلی استدلال کا عمل علم طبیعیات و علم کیمیا کے اصولوں پر قائم توجیہات سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جبکہ زندگی ان علوم کے دائروں تک محدود نہیں ہے۔ اس کے نزدیک حقیقت ایک مستقل دوران کا نام ہے جو ہر لمحہ تغیر کی حالت میں رہتی ہے اور اس مطلق دوران ہی کو زندگی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس کا پورا فلسفہ عارضی زندگی تک محدود ہے اور کسی صورت میں بھی مادی کائنات سے اوپر نہیں اٹھتا۔ جبکہ علامہ زندگی کو کل حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ستاروں سے آگے اور بھی جہاں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں وہ برگساں کی طرح زندگی کو خود مختار یا خود مکسفی عمل (Autonomous Function) بھی نہیں مانتے۔ اس کے بر خلاف وہ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے فرد کے اپنے عمل یا خودی میں مضمر امکانات کو بروئے کار لانے پر زیادہ زور دیتے ہیں جو برگساں کے نظریے کے بالکل منافی ہے۔ علامہ نے زندگی کی حقیقت کچھ اس طرح واضح کی ہے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی قلزم ہستی سے ابھرا ہے تو مانند حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا ایک انبار تو پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے ان اشعار میں ’’ آپ اپنی دنیا پیدا کرنا‘‘ زندگی کو جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں’’ کہنا‘‘ اس زیاں خانے میں زندگی کو انسان کا امتحان ٹھہرانا، پیکر خاکی سے جہاں پیدا کرنا اور ’’ زندگی کی قوت پنہاں کو آشکار‘‘ کرنا ایسے اشارے ہیں جن سے زندگی پر خودی یا انسانی امکانات کی فعال حیثیت کا پتہ چلتا ہے اور مجموعی طور پر انسان کی فعالیت اور اس کے عمل کی فضلیت کھل کر سامنے آتی ہے جو برگساں کے اس تصور کی عین ضد ہے جس کے مطابق زندگی خود مکفی عمل ہے۔ علامہ کے نزدیک انسان، فطرت یا قوانین فطرت کے ہاتھ میں کوئی کھلونا یا کوئی وجود مجہول نہیں ہے بلکہ وہ قوانین فطرت کو دریافت کر کے فطرت کو مسخر بھی کرتا ہے اور حالات میں تبدیلیاں بھی لاتا ہے۔ علامہ کے خیال کے مطابق زندگی کی قوت پنہاں کو آشکار ہونے کے لئے انسان کے عمل اور اس کی خودی کی تلوار درکار ہے۔ وہ برگساں کی طرح زندگی کی خود مکفی عمل (Function Autunomous) نہیں سمجھتے بلکہ وہ زندگی اور اس کی قوت Elan Vital کو انسانی عمل کے تابع ٹھہراتے ہیں جو برگساں کے نظریے کے برعکس ہے۔ علامہ کے تصور حرکت و تغیر پر غور کرنے سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق ہماری روائتی فکر سے ہے جو یونانی فلسفے کے زیر اثر حقیقت سے بہت دور ہو گئی ہے، یعنی ہم نے اس کائنات کا اصول حرکت کی جگہ سکون سمجھ لیا ہے اور اس طرح بے عملی اور تقدیر پرستی کے دروازے کھول دئیے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کی سوچ نے ہمیں اجتماعی طور پر ذلت و حقارت اور تباہی و بربادی سے ہمکنار کر رکھا ہے۔ علامہ نے اس منفی انداز فکر پر ساری عمر بھرپور تنقید کی۔ اس منفی سوچ کے علاوہ بہت سے دوسرے فلسفیانہ تصورات بالخصوص برگساں کا تصور ارتقاء بھی انسانی شعور اور اس کے فعال کردار کو مضمحل کرتا ہے۔ علامہ نے اس طرح کے تصورات کی کمزوریوں کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور انسان کے فعال کردار کو بحال کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان حقائق کے پیش نظر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ علامہ نے صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی خدمت کی ہے جسے تاریخ انسانی ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ محفوظ رکھے گی۔ ٭٭٭ جدید کلچر آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک علامہ اقبال کے نزدیک جدید کلچر اپنی نوعیت میں تخلیق ساماں ہے۔ اندھی تقلید سے بیزاری اس کی سرشت اور عقل استدلالی کا استعمال اس کی پہچان ہے۔ علامہ اقبال نے اس تخلیق ساماں جدید کلچر کے ڈانڈے ظہور اسلام سے ملائے ہیں اور بتایا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ تاریخ انسانی کے اس موڑ پر کھڑے نظر آتے ہیں جو نئے اور پرانے زمانوں کو واضح طور پر الگ الگ کرتا ہے۔ ہر چند پیغمبر اسلام ؐ کا سرچشمہ علم وحی ہے جو ان کو قدیم سے ملاتا ہے لیکن بذریعہ وحی ان پر جو علم منکشف ہوا ہے وہ ان کو عہد جدید کا نقیب اور رہنما بناتا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے عقل استدلالی کو منضبط طریقے سے استعمال کرنے کی روش کا آغاز کیا۔ عقل استدلالی کے استعمال کا منضبط طریقہ عقل انسانی سے ماوراء دنیا کا کسی طرح بھی منکر نہیں ہے، لیکن یہ طریقہ اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ اب ذہن انسانی بلوغت کی اس منزل تک آ گیا ہے جہاں باطنی واردات و مکاشفات اور خارجی تجربات کا تجزیہ ممکن ہو گیا ہے۔ ذہن انسانی کی یہی بلوغت عہد جدید کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اب انسان ہر طرح کے مسائل پر اپنی عقل کی روشنی میں غور کر سکتا ہے اور اس طرح اپنی ذات پر بھروسہ کر سکتا ہے قرآن پاک جگہ جگہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ انسان تدبیر کرے اور انفس و آفاق سے رہنمائی حاصل کرے جس کے یہ معنی ہوئے کہ اب نوع انسانی کے لئے عقل و دانش کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔ اب نوع انسانی کو اپنی ہدایت کے لئے ملائیت اور اپنی حفاظت کے لئے بادشاہت کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ اسلام سے پہلے نظری و قیاسی فلسفے کا رواج بہت عام تھا اور جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس طرز فکر میں ٹھوس اور محسوس و مانوس پر کم سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ اطراف میں بکھری ہوئی اشیاء وہ حالات جن کا ہم کو سامنا ہے، وہ واقعاتی صداقتیں جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ زندگی جسے ہم بسر کرتے ہیں۔۔۔۔۔ سب ہی کو تجریدی انداز سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بلا شبہ قانون فطرت، تاریخ کے اسرار، ذات کے رموز اور ذہنی و نفسیاتی کیفیات کی تفہیم میں زبردست رکاوٹ ہے تاہم قبل اسلام کے فلسفے کو نظری و قیاسی کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس زمانے کے فلسفے میں تجریدی طریقہ کار بالکل مفقود تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عہد قدیم میں بھی تھیلز (Thales) انیکسی مینڈر (Anaximander) انیکسی مینس (Anaximenes) اور ہر کلیٹس (Heraclitus) جیسے مفکرین نے کائنات کی مادیت اور کائنات میں مسلسل رونما ہونے والی تبدیلیوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ یہ مفکرین بنیادی طور پر مادی مفکرین تھے اور ان کے طریقہ کار کو تجربی طریقہ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن ان مفکرین کا اپنے عہد پر کوئی خاص اثر نہیں تھا جبکہ افلاطون و ارسطو کے قیاسی انداز فکر کو وسیع پیمانہ پر مقبولیت حاصل ہوئی جس کی بنا پر ہم قیاسی و نظری انداز فکر کو اس عہد کی نمایاں خصوصیت کہہ سکتے ہیں۔ اس غالب رحجان ہی کی وجہ سے ہم نے روائتی فلسفے کو مجموعی طور پر قیاسی و نظری کہا ہے۔ روایتی فلسفے کے برعکس اسلام خارجی تجربات و مشاہدات اور باطنی واردات دونوں ہی پر مساوی توجہ کا مطالبہ کرتا ہے، یعنی اسلام کے نزدیک احساس و استدلال دونوں ہی کی اہمیت یکساں ہے۔ قرآن پاک میں ان دونوں جہتوں کو انفس و آفاق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انفس کی اصطلاح ذات کے رموز اور انسان کی پوری حسی زندگی کو محیط ہے جبکہ آفاق سے مراد انسان کے خارج میں موجود پوری کائنات ہے۔۔۔ لیکن انفس و آفاق دو الگ الگ حقیقتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو رخ یا وجود کے مختلف درجات ہیں۔ اس طرح اسلام وجود کی وحدت پر زور دیتا ہے اور اس کے تصور حقیقت میں سویت یا دوئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ باطنی واردات اور خارجی تجربات کے درمیان ہم آہنگی کا نظریہ فکر انسانی میں اسلام کا خصوصی اور قابل قدر اضافہ ہے۔ اسلام سے پہلے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں قیاسی و نظری مفکرین باطنی واردات ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے جبکہ مادی مفکرین کے لئے انسان کے خارج میں موجود کائنات ہی پوری توجہ کا مرکز تھی، چنانچہ ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس زمانے میں مذکورہ بالا دونوں طرح کے مفکرین مکمل صداقت سے بہت دور تھے۔ اسلام نے انفس و آفاق اور باطن و خارج دونوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے سائنسی رویے کی تشکیل و تعمیر کے لئے دروازے کھولے اور سائنسی دریافتوں کو ممکن بنایا۔ علامہ اقبال کا خیال ہے کہ تاریخ انسانی کے طویل سفر میں اسلام کا ظہور اس وقت ہوا جب نظری و قیاسی فلسفہ ایک خاص منزل تک پہنچنے کے بعد استقرائی منطق اور تجربی صداقتوں پر استوار تصورات کے لئے جگہ خالی کر رہا تھا۔ اسلام میں بلاشبہ علم کی بنیاد وحی ہے لیکن یہاں وحی فکر انسانی کو نئی جہتوں سے روشناس کراتی ہے۔ قرآن پاک کے مطابق یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ جگہ جگہ فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات پر غور کیا جائے تاکہ اس حقیقت اصلی کا عرفان و وقوف میسر آ سکے جو اس کے پیچھے کار فرما ہے۔ یونانی فلسفے کے مطابق حقیقت مکمل اور غیر متغیر ہے لیکن قرآن پاک جگہ جگہ انسانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ زندگی کی مسلسل حرکت اور تبدیلیوں پر نظریں جمائے رکھیں۔ اول مسلمان مفکرین یونانی فلسفیوں سے متاثر تھے اور انہوں نے قرآنی تعلیمات کی تعبیر بھی یونانی فلسفے اور ارسطو کی منطق کو سامنے رکھ کر کی۔ لیکن آخر انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ یونانی فلسفہ اور ارسطو کی منطق حقیقت کی دریافت کے لئے ناقص اور قرآنی تعلیمات کی روح کے منافی ہے۔ چنانچہ ہر شعبہ زندگی میں یونانی فلسفہ کے خلاف بغاوت کے رحجانات واضح طور پر سامنے آنے لگے۔ اس ضمن میں اشاعرہ کا رویہ ارسطو کی منطق پر تنقید کی اہم مثال ہے۔ علامہ کے نزدیک اشاعرہ کا رویہ بالکل فطری تھا کیونکہ خالص نظری و قیاسی طرز فکر سے تلاش حقیقت کے سفر میں عدم اطمینان اور نا آسودگی کی تاریک راہوں میں ٹامک ٹوئیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ مسلمان مفکرین نے زیادہ بہتر اور زیادہ یقینی طریقہ کار کی طرف توجہ دینی شروع کی۔ نظام وہ پہلا مفکر ہے جس نے حصول علم کے آغاز کے لئے شک کا اصول وضع کیا۔ بعد ازاں ابن تیمیہ وغیرہ نے یونانی منطق کو منضبط طریقے سے رد کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ یونانی فلسفے سے نا آسودگی اور علم کے نئے سرچشموں کی تلاش، مسلمانوں کے حق میں نیک شگون ثابت ہوئی اور انہوں نے صحیح معنی میں جدید کلچر کی بنیادیں ڈالیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زوال اندلس کے بعد جب مسلمان بے عملی اور تن آسانی کا شکار ہوئے تو مغرب نے مسلمانوں کی فراہم کردہ جدید کلچر کی بنیادوں پر نئی ثقافت کی تعمیر کے کام کو آگے بڑھایا اور اس کو اپنا تخلیقی کارنامہ ٹھہرایا جو کسی طرح بھی درست نہیں۔ اسلام اس امر کی مسلسل تلقین کرتا ہے کہ انسان اپنی ذات اور اطراف میں پھیلی ہوئی فطرت کے ساتھ تاریخ انسانی پر بھی برابر غور کرے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اب روحانی مکاشفات کا سرچشمہ بالکل خشک ہو گیا ہے۔ا س کے برعکس اس تلقین کا مقصد دنیاوی مسائل کے حل کے سلسلے میں عقلی استدلال کے استعمال کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔ عقل استدلالی کا استعمال روحانی تجربے کی ضد نہیں ہے بلکہ اس تجربے کی بہتر تفہیم میں معاون ثابت ہوتا ہے۔عقل استدلالی کا استعمال دراصل روحانی تجربہ کے آزادانہ تنقیدی رویے کو جنم دیتا ہے اور پیغمبر اسلام ؐ کے بعد ہر طرح کے شخصی استناد کے انکار پر منتج ہوتا ہے۔ اس کا مقصد انسان کے باطنی تجربات کی دنیا میں معقولیت کے لئے راہ ہموار کرنا اور علم کے لئے دروازے کھولنا ہے۔ قدیم کلچر فطرت کی قوتوں کو ماورائی خصوصیات سے متصف کرتے تھے جبکہ اسلام خارجی دنیا کے تجربات و مشاہدات کے سلسلے میں تنقیدی و تجزیاتی روح بیدار کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خارجی تجربات و مشاہدات کی طرح باطنی و اردات بھی اپنی نوعیت میں بالکل فطری عمل ہے اور آزادانہ تنقید و تجزیہ سے ماوراء نہیں ہے۔ اس طرح اسلام تمام انسانی علوم کے لئے عقلی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ باطنی واردات و مکاشفات کے سلسلے میں کچھ مسلمان مفکرین التباس کا شکار ہیں لیکن علامہ اقبال نے ابن حیاء کی نفسیاتی کیفیات کے سلسلہ میں خود پیغمبر اسلام ؐ کے رویے کے پیش نظر باطنی واردات و مکاشفات کے لئے عقلی و تجزیاتی رویے کو تسلیم کیا ہے۔ مسلمانوں کے عظیم مورخ و مفکر ابن خلدون نے بھی اقبال ہی کی طرح کا موقف اختیار کیا ہے اور باطنی واردات کو پرکھنے کے لئے سائنسی انداز کو ضروری ٹھہرایا ہے۔ علامہ بتاتے ہیں کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق باطنی واردات و مکاشفات کے علاوہ فطرت اور تاریخ انسانی بھی علم کے ناقابل فراموش سرچشمے ہیں، چنانچہ اسلام کی روح اور جدید کلچر کے جوہر کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ علم کے ان تینوں سرچشموں پر مکمل توجہ دیتے ہوئے ہر طرح کے انسانی تجربات و مشاہدات کے سلسلے میں تنقیدی و تجزیاتی رویہ پیدا کیا جائے۔ علامہ اقبال کا خیال ہے کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے ہمیں حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کے لئے ا سکی نشانیوں پر غور کرنا چاہیے۔ اس کی ان نشانیوں میں سورج، چاند، بڑھتی پرچھائیاں، رات کا دن میں اور دن کا رات میں بدلنا انسانوں کے متنوع رنگ، مختلف زبانیں اور لوگوں کے کامیابیوں کے دنوں کا ناکامیوں کے دنوں میں اور ناکامیوں کے دنوں کا کامیابیوں کے دنوںمیں بدلنا شامل ہے۔ یہ پوری کائنات جس طرح انسان پر روشن ہوتی ہے اس پر پوری طرح توجہ دینی چاہئ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس جہانس ے اندھے بہروں کی طرح نہیں گزرنا چاہیے۔ میر تقی میر نے بھی اسی بات کو اپنے ایک شعر میں بڑے دلنشیں انداز میں کہا ہے۔ سرسری تم جہان سے گزرے ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا علامہ اقبال زندگی اور کائنات کا اصل اصول حرکت و تغیر کو ٹھہراتے ہیں جبکہ یونانی مفکرین کے نزدیک اصل اصول سکون ہے۔ اگر مسلمان مفکرین یونانیوں کے دام تفکر سے آزاد نہ ہو جاتے تو ان کے لئے سائنسی علوم کو فروغ دینا کسی طرح بھی ممکن نہ ہوتا اور نصیحتاً وہ فلاح انسانی کے سلسلے میں عظیم کارنامے انجام دینے کی فضیلت سے محروم رہ جاتے۔ مسلمان یہ کارنامے صرف اسی لئے انجام دے سکے کہ ان کی نظریں انسان کے باطنی مکاشفات اور خارجی حالات کی تبدیلیوں پر مسلسل جمی رہیں اور یہی وہ رویہ ہے جسے ہم جدید سائنسی عہد کی اصل اساس اور جدید کلچر کی نمایاں خصوصیت کہہ سکتے ہیں۔ علامہ نے حرکت و تغیر کے اس نقطہ نظر کو اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں جگہ جگہ بڑے موثر انداز سے پیش کیا ہے۔ مسلمان دانشوروں نے یونانی تصورات سے الگ ہو کر ریاضی، فلکیات اور طب پر مکمل توجہ دی اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ تاریخ ان کے کارناموںکی ہمیشہ گواہ رہے گی۔ سائنسی رحجانات کو فروغ دینے کے سلسلے میں یورپ نے ایک طویل مدت تک مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اہل یورپ رفتہ رفتہ ا س حقیقت کے قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ سائنسی رویہ ابھارنے میں مسلمان پیش پیش ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ نے بریفالٹ کی تصنیف’’ تشکیل انسانیت‘‘ سے ایک اقتباس پیش کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یورپ میں سائنسی رویے کی ترویج کا سہرا نہ آکسفورڈ اسکول کے روجر بیکن کے سر ہے اور نہ اس کے بعد آنے والا اس کا ہم نام اس کا مستحق ہے، کیونکہ روجر بیکن نے خود بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ عربی زبان کا علم اور عربوں کے سائنسی علوم ہی اس کے ہمعصروں کے لئے حقیقی علم کے حصول کا راستہ کھولتے ہیں۔ تجربی طریقہ کار کے بانیوں سے متعلق اکثر مباحث یورپی تہذیب کو خطرناک حد تک غلط پیش کرنے کی مہم کا ایک حصہ ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بیکن کے زمانے میں عربوں کا تجربی طریقہ کار پورے یورپ میں پھیل چکا تھا، جسے بیکن اور اس کے بعد آنے والوں نے نہایت توجہ سے نکھارا اور سنوارا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مسلمان جدید سائنس کے بانی ہیں البتہ زوال اندلس کے بعد وہ منظر سے ہٹ گئے جس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کے حرکی اصولوں کو فراموش کر دیا تھا اور اپنی تمام تر ذہنی توانائیاں قرآن و سنت کی ادعائی اور غیر استدلالی تعبیر پر صرف کرنا اپنا شعار بنا لیا تھا۔ بلاشبہ اس رویے نے ان کی پیش رفت کو روک دیا۔ اسی زمانے میں یورپ سامنے آیا اور جدید سائنسی عہد کا میر کارواں بن گیا۔ باطنی واردات و مکاشفات اور خارجی تجربات کے آزادانہ تجزیے کے سائنسی رویے کی ترویج کے علاوہ مسلمانوں نے انسانی رشتوں اور اخلاقی قدروں کے حقیقت پسندانہ جائزے کی روش سے بھی دنیا کو روشناس کرایا ہے جو یقینا جدید کلچر کا نہایت اہم جزو ہے۔ علامہ کے نزدیک اسلام میں مجرد اخلاقی اقدار کے تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چوری ہی کو لے لیجئے جو مسلمہ طور پر ایک جرم ہے لیکن جب کوئی شخص اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود رزق حاصل کرنے میں ناکام رہے اور بھوک کی شدت سے اس کی جان پر بن جائے تو ایسی صورت میں وہ اپنی جان بچانے کے لئے چوری کرے تو وہ جرم نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے بھوک سے تنگ آ کر بیت المال سے ایک بوری جو چرا لئے اور پکڑا گیا۔ قاضی نے اس کے ہاتھ کاٹ دینے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ لیکن جب حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو وہ قاضی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس شخص کی بجائے میرے ہاتھ کاٹو کیونکہ اس شخص نے بیت المال سے صرف جو کی بوری چرائی ہے جبکہ وہاں اور بھی قیمتی اشیاء موجود تھیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے چوری کا ارتکاب بھوک سے تنگ آ کر کیا تھا اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فرض ہے کہ میں لوگوں کے رزق کی فراہمی کا انتظام کروں۔ اس استدلال پر قاضی نے چور کر چھوڑ دیا۔ اس واقعے سے ثابت ہوا کہ چوری کرنا ہر حالت میں جرم نہیں ہے۔ دوسری بات جو واقعے سے ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کا انتظام کرنا حکومت کا فرض ہے۔ اگر وہ لوگوں کو رزق فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو پھر بھوک سے تنگ آ کر چوری کرنے والے کو سزا بھی نہیں دے سکتی۔ کیا آج بھی مغرب کو کوئی فلاحی حکومت انسان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری اس حد تک لے سکتی ہے؟ا سی طرح کی او ربہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اخلاقی اقدار کا حالات سے گہرا تعلق ہے، چنانچہ تمام اخلاقی اقدار کا حالات کے تناظر میں جائزہ لینے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہئے۔ یہ بھی سراسر سائنسی رویہ ہے۔ علامہ اقبال ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ایک عظیم فنکار، وقیع مفکر اور قابل قدر مذہبی و سیاسی رہنما ہیں۔ چنانچہ ان کے مباحث میں سیاسی، تہذیبی، اقتصادی اور تاریخی نکات کے ساتھ مذہبی حوالے بھی اکثر نظر آتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کے معاملات سے شغف رکھتے تھے اور نوع انسانی سے مجموعی طور پر ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس طرح کی سوچ علامہ اقبال کے ساتھ سرا سر نا انصافی بلکہ ظالمانہ حد تک زیادتی کے مترادف ہے۔ اگر ہم کسی نکتے کی وضاحت کے لئے مذہبی حوالوں سے کام لیں تو اس کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا نہیں ہوتا۔ آخر ہم دوسرے علوم کی مدد سے بھی تو اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں تو پھر مذہبی حوالوں پر اعتراض کس لئے؟ علامہ اقبال نے بھی عام انسانی مسائل کی وضاحت کے لئے مذہبی حوالوں سے کام لیا ہے لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں ان کے حوالوں کے پس پشت کوئی فرقہ وارانہ ذہنیت نہیں بلکہ آفاقی فکر کار فرما نظر آتی ہے۔ جدید کلچر کے سلسلے میں بھی انہوں نے جو باتیں بتائی ہیں ان کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ وہ پورے سائنسی عہد پر صادق آتی ہیں۔ ہر زمانے کی تہذیب یا کلچر کا تعلق اس زمانے کے مقبول عام تصور حقیقت اور مروجہ فلسفہ حیات و کائنات سے ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں قیاسی و نظری فلسفہ قدیم تہذیب کی بنیاد تھا جس کی نمایاں خصوصیت تجرید و معلقیت تھی، جبکہ عہد جدید میں کلچر کی اساس تجربی صداقتوں پر استوار تصورات ہیں جن کی امتیازی خوبی اضافیت ہے۔ جدید کلچر میں مجرد خیال کی بجائے ٹھوس اور مانوس اشیاء و مناظر اور محسوس و موجود حالات و واقعات پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدیم طرز فکر میں خیال مطلق سے نیچے کی طرف سفر کر کے ٹھوس اور مانوس یا محسوس و موجود کی تشریح کی جاتی تھی، جبکہ جدید کلچرمیں ٹھوس اور مانوس یا محسوس و موجود سے اوپر کی طرف سفر کر کے کسی خیال یا قدر کی تشکیل کی جاتی ہے۔۔۔۔ اور یہ خیال یا قدر بجائے مطلق ہونے کے اضافی ہوتی ہے جو حالات کی تبدیلی کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اس انداز نظر کا آغاز ظہور اسلام کے زمانے سے ہوا اور اس کی ترویج میں مسلمان مفکرین نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اسلام میں اجتہاد پر جو زور دیا گیا ہے وہ بھی اس انداز نظر کا ایک بین ثبوت ہے۔ چنانچہ علامہ نے بھی جدید کلچر کے خد و خال اجاگر کرتے ہوئے مسلمان مفکرین کی خدمات کو واضح کیا ہے، جس کا سبب کوئی فرقہ واریت نہیں بلکہ تاریخی صداقت کا اعتراف ہے۔ اس تاریخی حقیقت کا اعتراف اور اس کی وضاحت اس لئے بھی ضروری تھی کہ ہمارے ہاں آج تک ایسے ادیب موجود ہیں جو سائنسی رویے اور سائنسی انکشافات کو اپنی اصل روایت سے الگ کوئی چیز سمجھتے اور سائنسی علوم و ایجادات میں خرابیاں نکالنا اپنا دینی و تہذیبی فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ حضرات دراصل بیمار جدیدیت میں مبتلا ہیں اور روح عصر سے یاد اللہ کے بھی روادار نہیں۔ جدیدیت سے قطع نظر ان کا تصور مذہب و روایت بھی غیر صحت مند نظر آتا ہے۔ کاش وہ یہ سمجھ سکتے کہ سائنسی رویے اور تجربی صداقتوں پر استوار تصورات ہی کا نام روح عصر ہے اور یہ روح عصر ہماری دینی روایات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے، کیونکہ ہماری دینی روایت کی بنیاد بھی تقلید نہیں اجتہاد ہے۔ آج کے تیز رفتار دور میں انسانیت خالص، نظری و قیاسی فلسفے کی خواب آور گھاٹیوں میں اصل زندگی سے دور اور ٹھوس حقائق سے بیگانہ رہنے کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی۔ علامہ اقبال نے نوع انسانی کو ان خواب آور گھاٹیوں سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ اس کائنات میں تمام مخلوقات فطرت کے اصولوں اور جبلت کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہیں، لیکن انسان وہ واحد مخلوق ہے جو فطرت کے قوانین کا علم حاصل کر کے اس پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور بدلتے ہوئے حالات کی مطابقت میں اپنے جبلی تقاضوں کی تراش خراش کر کے ان میں زیادہ سے زیادہ تہذیب و شائستگی پیدا کر سکتا ہے۔ انسان فطرت کے قوانین سے واقف ہو کر ان قوانین کی متابعت ہی میں فطرت کی تسخیر کرتا ہے اور خود قوانین فطرت کے اتباع میں وہ فطرت کا حاکم بن جاتا ہے۔ قرآن پاک میں یہ بات بلا سبب نہیں کہی گئی ہے کہ فطرت کو انسان کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔ قرآن پاک کا یہ ارشاد دراصل عقل انسانی کے دائرہ کار کی نشاندہی کرتا ہے۔ آج کل بیمار جدیدیت میں مبتلا کچھ لوگ بے عقلی اور لا شعور کے دائروں کو عقل و شعور کے دائروں سے وسیع تر ٹھہرا کر عقل استدلالی کو مسترد کرتے ہیں، اس طرح وہ انسان کی منفرد اور امتیازی خصوصیت سے انکار کر کے انسان کو جمادات، نباتات اور حیوانات کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ وہ انسان سے اس کی پہچان چھین کر اسے بے چہرگی کے اندھیرے غاروں میں دھکیل دیتے ہیں بے چہر گی کے ان اندھیرے غاروں میں انسان خود کو کھو دینے کے عذاب سہتا ہے اور اسے کہیں کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔ اس کے اس دکھ کا سبب یہ ہے کہ وہ جدیدیت کے نام پر جدید کلچر کی روح یعنی عقلی استدلالی اور تجربی طریقہ تحقیق سے بدگمان ہے۔ علامہ کے نزدیک یہ بدگمانی بے عملی اور نا آسودگی کے سوا کسی نتیجے پر نہیں پہنچا سکتی۔ ٭٭٭ علامہ اقبال اور نظریہ وحدت الوجود یا تصوف علامہ اقبال فلسفہ ارتقاء کے نہ صرف قائل تھے بلکہ انہوں نے فکری ارتقاء کی مختلف منازل طے کر کے عملاً یہ ثابت بھی کیا ہے کہ عمل ارتقاء جس طرح پوری کائنات میں جاری ہے اسی طرح انسان کی فکر میں بھی جاری رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ میری زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے جو اوروں کے لئے سبق آموز ہو۔ ہاں خیالات کا تدریجی ارتقاء البتہ سبق آموز ہو سکتا ہے۔‘‘ یوں تو علامہ کی پوری زندگی تدریجی ارتقاء کی بہترین مثال ہے۔ وہ ان کی شاعری ہو یا علمی و فکری موضوعات پر ان کی دوسری تحریریں، ہم ہر جگہ ان کے حیات آثار و حیات انگیز رویے سے پوری طرح متاثر ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ زندگی کی تبدیلیوں کی طرح خیالات کی تبدیلیوں کو بھی کھلے دل سے قبول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر’’ ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘‘ سے لے کر’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ تک کے ذہنی سفر پر انہوں نے کبھی بھی معذرت پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انہوں نے جو کہا اور جس وقت کہا اس کے اسباب اطراف کے حالات میں موجود تھے۔ جب اطراف کے حالات بدلے تو انہوں نے اپنے خیالات بدل لینے میں کبھی جھجک سے کام لیا اور نہ کبھی کوئی عار محسوس کی۔ ان کا یہ رویہ اپنی نوعیت میں خرد اساس اور حیات افروز رویہ تھا۔ ان کے اس رویے کو سمجھنے کے لئے دوسرے موضوعات کے علاوہ تصوف بھی نہایت مناسب موضوع ہے جسے انہوں نے ابتداء بوجوہ مسترد کر دیا تھا لیکن رفتہ رفتہ مسلسل غور و فکر اور متواتر مطالعے کے بعد انہوں نے اسے نہ صرف قبول کر لیا بلکہ اسلامی تصوف کی نہایت بصیرت افروز تشریحات بھی پیش کی ہیں۔ اگر ہم نظریہ وحدت الوجود یا تصوف کے سلسلے میں علامہ اقبال کے خیالات پر ایک نظر ڈالیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان کے اعتراضات تصوف کی اس غلط تعبیر پر تھے جسے ہمارے بہت سے شعراء اور خواجہ حسن نظامی جیسے حقیقت نا آشنا حضرات نے بغیر سوچے سمجھے اپنا لیا تھا۔ یہ وہی غلط تعبیر ہے جس کے پیش نظر نو فلاطونیت اور شری شنکر اچاریہ کے خیالات کو اسلامی تصوف کے خانے میں رکھ دیا گیا تھا۔ تصوف کیونکہ ایک ایسا انداز فکر ہے جس کی مثالیں دنیا کی مختلف اقوام نے اپنے اپنے طور پر پیش کی ہیں لہٰذا اس کی کوئی ایک تعبیر پیش کرنا مشکل ہے۔ تصوف کی ان مختلف صورتوں میں نمایاں مثالیں مغرب میں ’’ پلاٹی نس‘‘ اور ’’ اسپنوزا‘‘ کے نظریات ہیں، جبکہ مشرق میں اسلام کے علاوہ اس کی مثالیں ویدانت اور شری شنکر اچاریہ کے تصورات میں بہ آسانی تلاش کی جا سکتی ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نظریہ وحدت الوجود پر علامہ کی تنقید کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے ہم تصوف یا نظریہ وحدت الوجود کی مختلف تعبیروں پر ایک نظر ڈال لیں۔ تصوف کی وضاحت کے سلسلے میں ہمارے لئے یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم علم تصوف سے کماحقہ واقف نہیں ہیں اور خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتے کہ اس موضوع پر گفتگو کریں۔ چنانچہ اکثر اوقات ہم نے تصوف کے نہایت معتبر عالم میکش اکبر آبادی کو اپنا رہنما بنایا ہے اور ان کی پیش کردہ تشریحات کی روشنی میں تصوف کے مختلف نظریات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئیے تو پہلے مغربی تصوف کی طرف توجہ کریں۔ مغربی تصوف کی دو جہتیں یں۔ ایک کی بنیاد خیال مطلق ہے جبکہ دوسری جہت خالص مادی ہے۔ پہلی جہت کا بانی پلاٹی نس کو سمجھا جاتا ہے جو سلاً یونانی تھا لیکن اسکندریہ میں پیدا ہوا اور روم میں زندگی بسر کی۔ اس کی فکر کا سرچشمہ کیونکہ افلاطون کے نظریات تھے اس لئے ہم اس کو یونانی فکر کے خانے میں رکھنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ شاید افلاطون سے اس کی نظریاتی وابستگی کے پیش نظر ہی اس کے فلسفے کو نو فلاطونیت کہا جاتا ہے۔ 1نوفلاطونیت نو فلاطونیت سے مراد وہ نظام فکر ہے جو وجود حقیقی کی وحدت کے سلسلے میں پاٹی نس نے مرتب کیا ہے۔ اس نظام فکر کی بنیاد تو افلاطون کا نظریہ اعیان ہے، لیکن اپنی فروعات میں پلاٹی نس خاصی بڑی حد تک افلاطون سے مختلف نظر آتا ہے۔ اس کے اختلاف کا واضح پہلو اس کا تصور’’ تنزلات‘‘ ہے۔ اس کا خیال ہے کہ عمل تخلیق دراصل کامل سے ناقص کی طرف تنزل کا نام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وجود مطلق اپنے مراتب میں جس قدر بھی تنزل کرتا ہے اتنا ہی کثرت، تغیر، نقص اور شر میں ملوث ہوتا جاتا ہے۔ وجود مطلق اور اس کے منزلات کی تشریح کرتے ہوئے پلاٹی نس بتاتا ہے۔ تنزلات کے مراتب میں پہلا مرتبہ خیال مجرد کا ہے۔ اس مرتبے میں وجود مطلق یا خدا کائنات کا تصور کرتا ہے، لیکن اس کا تصور اپنی نوعیت میں خالصتاً خیالی ہوتا ہے۔ یعنی اس مرتبہ وجود میں خیال اور متعلقات خیال یا فاعل اور منفعل سب ایک ہوتے ہیں وجود مطلق کے ذہن میں سوچنے والا اور جس کے بارے میں سوچا جائے یا جو کچھ سوچا جائے وہ الگ الگ نہیں ہوتے۔ یہاں کسی طرح کی تفریق و تمیز ممکن ہی نہیں ہے۔ وجود مطلق کے تصورات اپنی ذات ہی سے تشکیل پاتے ہیں۔ وہ نہ کسی دوسرے خیال سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ کسی منطق استدلال سے برآمد ہوتے ہیں۔ ہم کائنات میں جتنی چیزیں دیکھتے ہیں وہ سب وجود مطلق کے ذہن میں ہمیشہ سے ہیں اور وجود مطلق کے تصورات کہلاتی ہیں۔ دنیا میں موجود کوئی بھی شے وجود مطلق سے باہر اپنے طور پر اپنا وجود نہیں رکھتی۔ کائنات اور اس میں موجود تمام ا شیاء کا وجود مطلق کے ذہن میں ہمیشہ سے بطور تصورات وجود ہونا ہی دراصل ان کے ہونے کی علت اولیٰ ہے۔ مرتبہ دوم یعنی عالم ارواح خیال مجرد سے نیچے دوسرا مرتبہ وجود عالم ارواح کا ہے اس مرتبہ وجود میں روح خیال مطلق و مجرد کی نقل ہے اور اصل کے مقابلہ میں ناقص ہے۔ خیال مجرد و مطلق کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن روح کے مرتبہ میں وجود کا ادراک ممکن ہے۔ خیال مجرد ادراک و استدلال سے نہیں بلکہ عرفان و وجدان سے وابستہ ہے۔ وہ مکمل طور پر حالت سکون میں ہے اور اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور اپنی نوعیت میں کامل و اکمل ہے۔ مرتبہ روح میں وجود قابل ادراک اور حالت حرکت میں تو ہے لیکن وہ احساس اور حافظے سے عاری ہے۔ وجود کے اس مرتبے میں روح کے دو رخ ہیں۔ ایک خیال مجرد کی طرف اور ایک عالم احساسات کی طرف۔ روح کی وہ جہت جو خیال مجرد کی طرف ہے اسے عالم ارواح کہتے ہیں۔ مرتبہ سوم یعنی مادہ روح کا دوسرا رخ عالم احساسات کی طرف ہے پلاٹی نس روح کی اس جہت کو کائنات یا فطرت سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ روح اپنی دوسری حیثیت میں اشیائے کائنات میں جان ڈالنے کی خواہش کرتی ہے تو اسے اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کسی ایسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے جس پر وہ عمل کر سکے، یعنی اس کے فعل کر کوئی مفعول درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ مادے کی تخلیق کرتی ہے۔ مادہ اپنے اس ابتدائی مرحلے میں کوئی شکل و صورت نہیں رکھتا۔ اسے شر یعنی خدا سے انتہائی دوری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ خالص تاریکی ہے۔ مرتبہ چہارم وجود یعنی کائنات وہ روح جو عالم ارواح میں ہوتی ہے مادے پر عمل کرتی ہے اور اس کو مختلف شکلوں میں ڈھالتی ہے۔ ان شکلوں کا ادراک ممکن ہوتا ے تاہم یہ شکلیں علم خداوندی میں ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ اس کائنات کا سارا نظام کائناتی روح کی بدولت ہے۔ پلاٹی نس کے نزدیک خیال مجرد کے بعد تینوں مراتب یعنی روح مادے کی تخلیق اور مادے کی مختلف شکلوں کی تشکیل ایک ابدی اور نا قابل تقسیم فعل ہے۔ ارسطو کی طرح پلاٹی نس بھی کائنات کو ابدی مانتا ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ مادہ اشکال کو یکے بعد دیگرے ہی قبول کر سکتا ہے جس کے لئے زمانے کی تخلیق ضروری ہے۔ چنانچہ کائناتی روح زبان کی تخلیق کرتی ہے۔ پلاٹی نس کا خیال ہے کہ انسانی روح دراصل کائناتی روح کا ایک حصہ ہے۔ جب تک یہ روح انسانی جسم سے متعلق نہیں ہوتی اس کی توجہ خدا کی طرف رہتی ہے لیکن جونہی اس کا تنزل مادے کی طرف ہوتا ہے تو اس کی آزادی ختم ہو جاتی ہے اور وہ احساسات و خواہشات کے چکر میں پڑ جاتی ہے۔ کیونکہ اس کی آزادی احساسات سے بلند ہونے پر منحصر ہے لہٰذا وہ اپنی فطرت کی بلندی کے تحت اعلیٰ کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور مادی خواہشات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جب تک وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتی، خدا سے انتہائی دوری کے عالم میں رہتی ہے اور ایک جسم سے دوسرے جسم میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ گویا تناسخ کے عذاب میں مبتلا رہتی ہے، لیکن جونہی وہ خود کو مادی خواہشات سے بلند کر لیتی ہے اسے نجات حاصل ہو جاتی ہے اور وہ وجود حقیقی میں جذب ہو جاتی ہے۔ اس تعبیر و تشریح میں سب سے پہلے ارتقاء و تنزل کا تضاد ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے پلاٹی نس نے کائنات میں جاری عمل کو وجود مطلق کے رخ سے دیکھا ہے جبکہ ضرور ت اس امر کی ہے کہ اس کائنات میں جاری عمل کو اسی کائنات کے رخ سے دیکھا جائے۔ کیونکہ اس کائنات کی ہر حقیقت اپنی نوعیت میں عالم بالا کی مسقلب صورت ہے لہٰذا یہاں ہمارے عمل کی صورت بھی مختلف ہو گی مثلاً عالم بالا کی حقیقت بقا ہے تو اس کائنات کی حقیقت فنا ہے۔ عالم بالا کی حقیقت سکون ہے جبکہ اس کائنات کی حقیقت حرکت و تغیر ہے۔ اسلام کے نزدیک یہ کائنات اپنی مسقلب صورت میں بھی قائم بالحق ہے اور اگر اسے ایک طرف انسان کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے تو دوسری طرف انسان پر اس کے کچھ حقوق بھی عائد کئے گئے ہیں جن کو پورا کرنے کا اسے پابند کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کائنات کے حقوق کو کائنات میں جاری عمل کی مطابقت ہی میں زندہ رہ کر ادا کر سکتا ہے۔ کائنات کو وہم، سایہ، یا غیر حقیقی سمجھ کر نہ کائنات سے متمتع ہونا ممکن ہے اور نہ اس کا حق ادا کرنے کا کوئی امکان باقی رہ سکتا ہے۔ گویا کائنات کو غیر حقیقی سمجھنے کی صورت میں تعلیمات اسلام پر عمل پیرا ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ذرا غور فرمائیے کہ جب عالم بالا کی حقیقت کامل و اکمل ہونا ہے تو اس کائنات کی حقیقت اس کے برعکس ناقص و نا مکمل ہونا ہو گی۔ اگر عالم بالا کی کاملیت بے حرکتی و سکون کی متقاضی ہے تو اس کائنات کی عدم کاملیت حرکت و تغیر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مکمل ہونے کی طرف مائل ہو گی۔ نامکمل سے مکمل کی طرف سفر ہی کو ہم ارتقاء کہتے ہیں اور یہ عمل ارتقاء تعلیمات اسلامی کے عین مطابق ہے۔ ارتقاء کا یہ عمل ہمیں خوب سے خوب تر کی تلاش کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں کائنات کے حقوق پر نظریں جمائے رکھنا اور انہیں پوری طرح ادا کرنا، پل صراط پر چلنے سے کم مشکل مرحلہ نہیں ہے۔ اسلام اس دنیا کو دار العمل کہتا ہے اور عمل کی اس صورت کو سراہتا ہے جو ناقص و نا مکمل ہونے کی حقیقت کو تکمیل کی طرف لے جانے کے ارتقائی مراحل طے کرے۔ تنزل اس دنیا کی حقیقت ہر گز نہیں ہے، لہٰذا ہمیں اپنا رویہ فلسفہ تنزل کی روشنی میں نہیں بلکہ نظریہ ارتقاء کی مطابقت میں ڈھالنا چاہیے۔ اگر ہم فلسفہ تنزل پر نظریں جمائے رکھیں گے تو یہ کائنات قائم بالحق نہیں بلکہ غیر حقیقی یا حقیقت کا سایہ ٹھہرے گی اور ہمیں اس مادی کائنات سے بے تعلق رہنے پر مائل کرے گی۔ اس صورت میں ہمیں نجات کا ایک ہی راستہ نظر آئے گا اور وہ یہ ہو گا کہ ہم اپنی خواہشات اور کائنات سے بالکل منہ پھیر لیں جس کا لازمی نتیجہ بے عملی ہو گا کائنات سے منہ پھیرنے کے پیچھے افلاطون کا نظریہ پوری طرح کار فرما نظر آتا ہے کہ یہ کائنات حقیقی نہیں بلکہ حقیقت کا سایہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز حقیقی نہ ہو اس سے تعلق پیدا کرنا کوئی مفید اور کار آمد بات نہیں ہو سکتی، چنانچہ رہبانیت اور ترک دنیا ہی کا وہ واحد راستہ رہ جاتا ہے جس پر چل کر انسان دکھوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ بلا شبہ یہ راستہ اسلامی راستہ نہیں ہے۔ مغربی فلسفے میں ایک طرف افلاطون کے اعیان کے بعد پلاٹی نس کے نظریہ تنزلات کے مطابق یہ دنیا غیر حقیقی ٹھہرتی ہے تو دوسری طرف اپسنوزا کے نزدیک خدا دنیا سے الگ نہیں بلکہ دنیا ہی میں ہے۔ یعنی خدا دنیا میں ہے اور دنیا خدا میں ہے یہ فلسفہ پینتھی ازم (Pantheism) کہلاتا ہے اور اپنی نوعیت میں پوری طرح مادی ہے اپسنوزا کا خیال ہے کہ فطرت کا وجود ہی حقیقی وجود ہے۔ وہ خود مکتفی ہے اور اپنے وجود کا جوہر وہ خود ہے ۔ اپنے ہونے کے لئے وہ کسی دوسرے وجود کی محتاج نہیں ہے۔ اس کے ان خالصتاً مادی خیالات کی وجہ سے اسے یہودی برادری سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اس کے ان تصورات کے پیش نظر فطرت ہی خدا ٹھہرتی ہے لہٰذا اس کے ماننے والے نیچری یا فطرت پرست کہلائیں گے۔ ہر چند اپسنوزا نے وجود حقیقی کو واحد کہا ہے لیکن یہ وجود حقیقی خالص مادی ہے۔ یہ فلسفہ اپنی نوعیت میں اسلامی عقائد کی بالکل ضد ہے۔ مغرب میں تھیلز اور ہرکلیٹس وغیرہ سے کارل مارکس تک فلسفیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو مادے کی وحدت کو تسلیم کرتے ہیں اور مادے سے اوپر کسی حقیقت کے قائل نظر نہیں آتی۔ لہٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ مغرب میں وحدت الوجود کا تصور یا تو مادیت پر استوار ہے یا ناقص ماورائیت اس کی بنیاد ہے جو کسی صورت میں اسلامی عقائد کے مطابق نہیں ہے۔ مغربی نظریات کی تشریح کے بعد ہم وحدت الوجود کے مشرقی نظریات کی طرف آتے ہیں۔ سب سے پہلے دیدانت یعنی مختلف’’ اپنشدوں‘‘ میں ویدوں کی تعلیمات کی تعبیر و تفسیر کو دیکھئے جو تصوف کی نہایت نمایاں مثال ہے۔ ویدوں میں سب سے اہم رگ وید ہے کیونکہ باقی تینوں ویدوں کا بھی بیشتر حصہ رگ وید ہی سے ماخوذ ہے۔ رگ وید کے مطابق اصل راستہ فرائض کا ہے جسے ’’ کرم مارگ‘‘ یا عمل کا راستہ کہتے ہیں ۔ لیکن’’ اپنشدوں‘‘ میں ویدوں کی تعبیر و تشریح جس انداز سے کی گئی ہے اس کے مطابق اصل راستہ کرم مرگ نہیں بلکہ گیان مارگ ٹھہرتا ہے ویدوں کی اس تعبیر کے اسباب تاریخ میں آسانی سے تلاش کئے جا سکتے ہیں ویدوں کا فلسفہ دراصل برہمنوں کا فلسفہ تھا جبکہ اپنشدوں کا فلسفہ کھشتریوں کا فلسفہ ہے جو ویدوں یعنی برہمنوں کے فلسفے سے بالکل مختلف ہے۔ کھشتری کیونکہ حکمران طبقے سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا وہ ایسا فلسفہ اور طریقہ کار رائج کرنا چاہتے تھے جس سے ان کا راج پاٹ محفوظ رہے اور عوام کو ان کے بارے میں سوچنے، غور کرنے یا ان کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو ظاہر ہے کہ جو ترک عمل کا قائل ہو گا وہ ہر وقت گیان دھیان میں منہمک رہے گا۔ اسے دنیا کے جھنجھٹوں سے کیا دلچسپی رہ جائے گی۔ گویا حکمران گیان دھیان کی افیون کھلا کر عوام کو گہری نیند سلائے رکھنا چاہتے تھے جبکہ خود فوجی قوت بن کر حصول اقتدار اور استحکام اقتدار کے لئے ہر عمل کو اپنے واسطے روا سمجھتے تھے۔ ویدانت کے پیش کردہ تصور ترک عمل کی نہایت دقیع و موثر تعبیر کرتے ہوئے سری کرشن نے بتایا تھا کہ ترک عمل سے مراد عمل کو ترک کرنا نہیں ہے، بلکہ عمل کے نتیجے سے بے تعلق ہونا ہے۔ سری کرشن کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ترک عمل سے یہ مراد لیتے تھے کہ انسان اپنے عمل ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لے، بلکہ عمل کے نتیجے کو قدرت پر چھوڑ دے اور قدرت کے فیصلے کو بخوشی قبول کرے۔ یہ بات نہایت معقول ہے اور عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ اہمیت بخشتی ہے لیکن افسوس کہ بعد میں شنکر اچاریہ نے جو تفسریں پیش کی ہیں وہ سب ترک عمل، رہبانیت، اور بے عملی پر منتج ہوتی ہیں۔ شنکر اچاریہ نے ’’ اپنشدوں‘‘ کا سہارا لیتے ہوئے اشیاء پر دو طرح سے غور کیا ہے۔ ایک انداز کو معنی اور دوسرے کو صورت سے تعبیر کیا ہے انہوں نے اشیاء کی اصل حقیقت کو معنی اور اس کی صورت کو مایا بتایا ہے۔ اپنشدوں میں اشیاء کو ان کی صورت کے اعتبار سے ناپاک ٹھہرایا گیا تھا اور انہیں پاک برہمہ یعنی حقیقت اصلی سے بالکل الگ کر دیا گیا تھا، لیکن شنکر اچاریہ نے صورت و معنی کا تعلق دریافت کر کے اشیاء کو حقیقت اصلی یعنی پاک برہمہ سے مربوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ برہمہ کسی دوسرے شعور کا معروض نہیں ہو سکتا، وہ اپنی ہی ذات سے روشن ہے۔ اشیاء اس کے ذہن میں بطور تصور موجود ہیں اور اس سے الگ اپنی اپنی صورتوں میں معروضی طور پر ان کا وجود دھوکا یا مایا ہے۔ وہ اس مایا کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ صورت عالم، مایا یعنی دھوکا ہے اس کو نہ ہست کہا جا سکتا ہے اور نہ نیست۔ تاہم صورت عالم اس لئے ہست ہے کہ جب تک ہم میں جہالت ہے یہ اس وقت تک ہم کو نظر آتی ہے لیکن یہ اس لئے نیست ہے کہ جونہی ہمیں برہمہ کا عرفان ہوتا ہے یہ معدوم ہو جاتی ہے۔ صورت عالم میں جو حرکت و تغیر نظر آتا ہے، وہ بھی باطل ہے، حقیقت اصلی صرف برہمہ ہے اور اشیاء کی صورتیں جہالت یا ادویا سے بنی ہیں اور جہالت کے مٹتے ہی یہ سب مٹ جاتی ہیں۔ گویا اشیاء کی صورتوں کا وجود صرف دھوکا ہے۔ اس دھوکے سے چھٹکارا حاصل کر کے ہی انسان دکھوں سے نجات پا سکتا ہے۔ اشیاء کی صورتوں کے ساتھ انسانی انا بھی ایک فریب ہے جسے گلے سے اتار پھینک دینے کا نام ہی نجات ہے۔ یہ پورا فلسفہ بلا شبہ غیر اسلامی ہے اور اس فلسفے پر علامہ کے اعتراضات بالکل درست ہیں، لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ یہ فلسفہ حضرت ابن عربیؓ کے نظریہ وحدت الوجود کے عین مطابق ہے یا اس سے مختلف ہے۔ جب ہم حضرت ابن عربیؓ کے نظریات کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نظریات متذکرہ بالا تمام نظریات سے بالکل مختلف ہیں، لیکن اردو فارسی کے کچھ شعراء اور بعض نام نہاد اور پیشہ ور صحافیوں نے اپنے غیر محتاط رویے کی وجہ سے کچھ ایسے اشعار اور ایسی تعبیریں پیش کی ہیں جن کی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ حضرت ابن عربی کا نظریہ نو فلاطونیت اور شنکر اچاریہ کے تصورات کے مماثل ہے۔ اس غلط فہمی ہی کی وجہ سے علامہ نے حضرت ابن عربیؓ پر اعتراض کئے ہیں مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ جز تو کسی نیست در سرائے موجود نظر ایں است پیش اہل نظر (عراقی) اس شعر سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ سرائے وجود‘‘ میں خدا کے سوا کوئی نہیں ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے وہ فریب نظر ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ نظر آتا ہے وہ قائم بالحق ہے اور نظر آنے والی ہر شے حق کی مظہر ہے۔ عراقی کا مقصد بھی یہی بتانا تھا لیکن اسلوب بیان کچھ ایسا ہے جس سے غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسلامی تصوف کے مطابق اشیاء کا وجود دھوکا نہیں ہے بلکہ ان کو حق سے الگ سمجھنا یا حق کا غیر سمجھنا وہم یا فریب ہے۔ تصوف میں وہم کی اصطلاح انہیں معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے شعراء جب اس اصطلاح کو بے احتیاطی سے برتتے ہیں تو مفہوم نو فلاطونیت اور شنکر اچاریہ کے تصورات کے قریب ہو جاتا ہے۔ مثلاً جب میر تقی میر کہتے ہیں کہ یہ توہم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا تو وہ شنکر اچاریہ جیسے مفکرین کے ہم خیال نظر آنے لگتے ہیں۔ اس شعر میں ’’ توہم‘‘ کی اصطلاح کو بے احتیاطی سے برتا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کا مفہوم بالکل بدل گیا ہے۔ اسلام میں کائنات توہم کی پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ حق کی قائم کردہ ہے۔ اسی طرح حضرت جامی کا یہ شعر حدیث مشکل و سرے ست مغلق کہ در کون و مکاں کس نسیت جز حق اس شعر کو پڑھ کر ہمارا خیال اپسنوزا کے اس نظریے کی طرف جاتا ہے کہ خدا دنیا میں ہے، دنیا سے الگ نہیں ہے۔ یہ سرا سر الحاد ہے اور ہمیں یقین ہے کہ حضرت جامی کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے، لیکن شعر کی ساخت سے دھوکا ہوتا ہے اور وہ کون و مکاں میں خدا کے علاوہ کسی کو نہیں مانتے۔ گویا کون و مکاں میں نظر آنے والی تمام اشیاء خدا ہیں (نعوذ باللہ) حالانکہ ان کا مقصد اشیائے کون و مکان کو مظاہر حق کہنا تھا لیکن شاعرانہ سرشاری میں صرف حق کہنا ہی کافی سمجھا یا پھر یہ شعر مرتد بود آں غافل کہ در دو جہان یکدم جز تو دگرے بیند جز تو دگرے داند غیر رو ہرچہ در جہاں بینی ایست آں گرچہ می نمائد ہست یہ اشعار بھی شاعرانہ بیان اور اپنی ساخت کی وجہ سے اسلامی تصوف کے برخلاف نو فلاطونیت اور شنکر اچاریہ کے فلسفے یا اپسنوزا کے خیالات سے قریب نظر آتے ہیں۔ فارسی کے علاوہ اردو کے چند اشعار بھی ملاحظہ ہوں۔ ہاں کھائیوں مت فریب ہستی ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے (غالب) ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد عالم تمام حلقہ دام اقبال ہے (غالب) مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمائیاں ہم آئینے کے سامنے جب آ کے ہو کریں (خواجہ میر درد) یہ اور ایسے بہت سے اشعار کی ساخت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے بہت سے شعراء متصوفانہ خیالات کے پیش نظر اس دنیا کو وہم فریب اور التباس سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی وجود خدا کا ہے باقی جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب توہم کا کارخانہ ہے اور جب عرفان خدا حاصل ہوتا ہے تو اس توہم کے کارخانے کی کثرت نمائیاں معدوم ہو جاتی ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ اس طرح کے اشعار سے مترشح ہونے والا مفہوم شنکر اچاریہ کے اس خیال سے کس طرح مختلف ہے کہ جونہی جہالت یا ’’ اودیا‘‘ ختم ہوتی ہے صورت عالم معدوم ہو جاتی ہے اور صرف برہمہ کا وجود باقی رہ جاتا ہے کیونکہ ان اشعار کو حضرت ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کے اشاریوں کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے تو علامہ ابن عربی پر معترض ہونا بعید از قیاس نہیں تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے بہت سے شعراء اور صوفیاء نے وحدت الوجود کے نظریے پر روشنی ڈالتے ہوئے توحید و وحدت اور وجود واجب و وجود ممکن کے مابین فرق کو ملحوظ نہیں رکھا ہے۔ اسلام توحید کی تعلیم دیتا ہے جو کثرت کی ضد نہیں ہے۔ عقیدہ توحید کے مطابق اشیائے عالم قائم بالحق ہونے کی حیثیت سے اپنا اپنا انفرادی وجود رکھتی ہیں لیکن ان کی یہ انفرادیتیں ذات باری یا وجود مطلق کی وحدت کو ختم نہیں کرتیں، کیونکہ اشیائے عالم کے وجود کی نوعیت وجود ممکن کی ہے جب کہ باری تعالیٰ کے وجود کی نوعیت وجود واجب کی ہے۔ وجود واجب قدیم اور خود مکتفی ہوتا ہے اور اپنے ہونے کے لئے کسی کا محتاج نہیں ہوتا جبکہ وجود ممکن حادث اور مکتفی ہوتا ہے اور اپنے ہونے کے لئے وجود واجب کے ارادے کا محتاج ہوتا ہے۔ وجود واجب یا وجود مطلق واحد ہے جبکہ وجود ممکن کی صورتیں کثیر ہیں۔ یہ سب صورتیں وجود واجب کی مظہر ہیں۔ مظہر ان معنی میں کہ یہ وجود واجب کے علم میں اس کے معلومات کے طور پر ہمیشہ سے موجود ہیں لیکن جب وجود واجب کے یہ معلومات ظہور کرتے ہیں تو اشیائے عالم وجود میں آتی ہیں۔ گویا وجود مطلق کی علمی صورتوں کا ظہور اور اشیائے عالم کا وجود ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کا نور اسی معنی میں کہا گیا ہے۔ خود علامہ اقبال نے بھی ’’ نور‘‘ کے استعارے کی تشریح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نور سے یہ مرد ہرگز نہیں ہے کہ ذات باری ہر چیز میں جاری و ساری ہے، بلکہ مقصد اس کی مطلقیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہاں ہر شے میں اس کا نفوذ نہیں ہے بلکہ یہاں کی ہر چیز اس کی مظہر ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز وجود مطلق کی مظہر ہے وہ صرف دھوکا نہیں ہو سکتی۔ اشیائے عالم اور ان کی صورتیں ذات باری کی مظہر ہونے کے ساتھ اپنی اپنی انفرادیتوں کی بھی مالک ہیں۔ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے کہ اشیائے عالم خدا نہیں ہیں لیکن ان کی کثرت خدا کی وحدت کو ختم بھی نہیں کرتی۔ بات دراصل یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کے مفکرین نے حقیقت کو بطور کل تسلیم کیا تھا لہٰذا وہ کلیت میں دیکھتے تھے اور عالم کا انکار کرتے تھے یا عالم کی وحدت کو کلیت میں دیکھتے تھے اور خدا کا انکار کرتے تھے اس طرح جن کے نزدیک وجود مطلق کی وحدت ایک کلیت تھی ان کے خیال میں اشیائے عالم کی انفرادیتوں یا خود انسانی انا کی انفرادیت کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی اور علامہ اقبال خدا کی انفرادیت کے بھی قائل تھے اور انسانی انا کی انفرادیت کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ علامہ اقبال کا یہ رویہ وحدت الوجود کی فلسفیانہ موشگافیوں سے الگ عقیدہ توحید کا ثمر تھا۔ وحدت کے مختلف فلسفیانہ تصورات میں کثرت کی کوئی جگہ نہیں ہے، جبکہ عقیدہ توحید میں وجود مطلق کی وحدت کے باوجود عالم کی کثرت نمائیاں برقرار رہتی ہیں۔ حضرت ابن عربیؒ نے اس مشکل کو تنزلات کے نظریے سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ان کا نظریہ تنزلات نو فلاطونیت یا شنکر اچاریہ سے بالکل مختلف ہے۔ وہ مراتب وجود کے تنزلات کو شر تاریکی اور خدا سے انتہائی دوری تصور نہیں کرتے اور تنزلات کے نتیجے میں ظہور کرنے والی زندگی اور کائنات کو شر سمجھ کر اس سے منہ پھیر لینے پر زور نہیں دیتے بلکہ اسے عطیہ خداوندی سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی اور اپنے اطراف میں پھیلی ہوئی کائنات کو تاریکی اور اللہ سے دوری نہیں کہتے بلکہ یہاں کے ہر منظر ہر شے کو باری تعالیٰ کا مظہر تصور کرتے ہیں اور باری تعالیٰ کو اپنی رگ جاں سے بھی قریب تر پاتے ہیں۔ حضرت ابن عربی نے نہ اس دنیا کو کبھی دھوکا بتایا اور نہ اس دنیا سے منہ پھیر لینے کو راہ نجات ٹھہرایا ان کے نظریے کے مطابق باری تعالیٰ تمام صفات سے منزہ ہے۔ اس کی ذات اور اس کی صفات ایک دوسرے کی عین ہیں۔ وہ لا شریک بے ہمتا اور بے مثال ہے یہ درجہ خالص تنزیہہ کا ہے لیکن اس کائنات میں باری تعالیٰ کے مظاہر ہر طرف پھیلے پڑے ہیں جن میں باہمی مناجتیں اور مماثلتیں پائی جاتی ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے لہٰذا ہم اس درجے کو تنبیہہ کا درجہ قرار دے سکتے ہیں۔ عقیدہ توحید ان دونوں درجوں کو ایک کر کے تنزیہہ و تشبیہہ کو یکجا کر دیتا ہے۔ تنزیہہ و تشبیہہ کی یہ یکجائی وحدت کو کلیت میں دیکھنے کی دشواریوں کو ختم کر دیتی ہے اور اس صورت میں نہ اشیائے عالم کے انکار کی ضرورت رہتی ہے اور نہ ذات باری سے منکر ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ تنزیہہ و تشبیہہ کی یکجائی کی صورت میں اشیائے کائنات کی انفرادیتوں کے ساتھ انسانی انا کی انفرادیت بھی برقرار رہتی ہے اور انفرادیتوں کی یہ کثرت ذات باری کی وحدت میں کسی طرح کا فرق آنے کا سبب بھی نہیں بنتی۔ یہ سب کچھ اسلامی عقیدہ توحید کی صحیح اور مکمل تفہیم کا نتیجہ ہے۔ علامہ اقبال نے جب حضرت ابن عربیؓ کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمارے بہت سے شعراء اور ایسے صوفیا نے جو رسمی تعلیم سے محروم تھے، حضرت ابن عربیؓ کے نظریات کی غلط تعبیریں پیش کر کے غلط فہمیوں کے دروازے کھول دئیے ہیں اور اسلامی تصوف کو غیر اسلامی نظریات سے خلط ملط کر کے پیش کیا ہے اور اسے حضرت ابن عربیؒ سے منسوب کر دیا ہے۔ علامہ کی تمام تر تنقید کا رخ اس غلط تعبیر ہی کی طرف ہے ورنہ جہاں تک اصل اسلامی تصوف کا تعلق ہے وہ نہ صرف اس کے قائل تھے بلکہ سلسلہ قادریہ میں بیعت بھی تھے۔ خواجہ حسن نظامی کی ان سے خط و کتابت کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب نے ان پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کا سبب خواجہ صاحب کی کم علمی اور باریک و پیچیدہ مسائل سے نا واقفیت کے ساتھ ان کا فارسی زبان سے نا آشنا ہونا بھی تھا۔ انہوں نے اکثر و بیشتر فارسی اشعار کے جو مطالب بیان کئے ہیں انہیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے اور ’’ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ والی ضرب المثل یاد آ جاتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی ہی نہیں اور بھی کئی لوگ حضرت ابن عربیؒ کے نظریات کو شنکر اچاریہ سے خلط ملط کر کے پیش کرتے ہیں جو بلاشبہ نا درست ہے۔ سطور بالا کے مطالعے سے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ پلاٹی نس یا شنکر اچاریہ ا ور حضرت ابن عربیؓ کو واحد تسلیم کرنے میں تو متفق ہیں لیکن وجود عالم اور انسانی خودی کے بارے میں ان کے خیالات میں بڑا فرق ہے۔ شنکر اچاریہ وغیرہ عالم اور انسانی خودی کو مایا، التباس اور شر کہتے ہیں اور انہیں دکھوں کا سبب سمجھتے ہیں، جبکہ حضرت ابن عربیؒ اور ان کے ہم خیال، عالم اور انسانی خودی کو مظاہر حق سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عربیؒ کے نزدیک ترک عمل ذریعہ نجات نہیں ہے جبکہ شنکر اچاریہ وغیرہ کے ہاں ترک عمل کے علاوہ نجات کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ ٭٭٭ تصور فن شاعری علامہ اقبال کا شغل نہیں شناخت ہے۔ وہ ایک سوچتے ہوئے ذہن اور احساس سے بھرپور دل کے حامل فطری شاعر تھے۔ ان کا شمار ان سچے فنکاروں میں ہوتا ہے جن کے لئے فن اب کی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ شاعری کو صرف تفریح اور نشاط انگیزی کا وسیلہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ شاعری کے ذریعہ زندگی کو نکھارنے، سنوارنے اور آگے بڑھانے کے قائل تھے۔ ہر سچے فنکار کی طرح ان کا فن بھی اپنے تصور حقیقت کے عین مطابق تھا اور اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ وہ حقیقت حیات کو ارتقاء پذیر سمجھتے تھے لہٰذا کوشش کرتے تھے کہ وہ بھی اپنے فن کے ذریعہ زندگی کے ارتقائی عمل میں ممد و معاون ہوں۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ شعر و ادب کی ہیئت و موضوع میں آنے والی ہر بڑی تبدیلی کے پیچھے سماجی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی کار فرما ہوتی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہمارے معاشرے میں ایک جمود کی کیفیت طاری تھی جس کی وجہ سے سماجی زندگی میں بھی کوئی تبدیلی آتی محسوس نہیں ہو رہی تھی، لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد ہمارے معاشرے میں تبدیلیوں کا عمل نمایاں طور پر شروع ہو گیا۔ علامہ نے سماج میں آنے والی تبدیلیوں کی مطابقت میں اپنی شاعری میں ہیئت اور موضوع، ہر اعتبار سے نمایاں تبدیلیوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ برصغیر کے حالات سے قطع نظر وہ اس حقیقت پر بھی نظریں جمائے ہوئے تھے کہ بیسویں صدی کا تاریخی ارتقاء اس امر کا متقاضی ہے کہ شعر و ادب میں حقیقت کو بطور خاص اجاگر کیا جائے اور ایسے انداز دریافت کرنے کی کوشش کی جائے جن کو اپنا کر مختلف حالات و واقعات کو ربط دیا جا سکے، جس کی بدولت اطراف کی زندگی کی تصویر کشی اور مجموعی طور پر عصریت کی صورت گری ممکن ہو سکے۔ مزید برآں یہ کہ تیزی سے بدلتی ہوئی تاریخ میں انسان کا مقام اور موجودہ معاشرے میں اس کی منزل مقصود دریافت کی جائے۔ اپنے عہد کی اس خصوصیت کے تحت علامہ نے بھی اپنے اطراف کی زندگی کی تصویر کشی اور اپنے عہد کی صورت گری کے ساتھ معاشرہ میں انسان کے مقام کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ ان کا فلسفہ خودی انسان کے مقام اور اس کے اندر موجود امکانات کے گہرے جائزے پر مشتمل ہے۔ علامہ اقبال کے نظریہ فن کی دوسری نمایاں خصوصیات میں انسان و کائنات کی اکائی کے تصور کو ابھارنا ہے۔ ان کا یہ تصور بھی ان کے اپنے عہد سے پوری طرح ہم آہنگ ہے، کیونکہ چند بالکل ہی مریضانہ سوچ کے حامل افراد کے علاوہ بیشتر مکاتب فکر کے دانشوروں نے اپنے اختلافات کے باوجود حیات و کائنات کی اکائی دریافت کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے، اور حیات و کائنات کے مختلف النوع حقائق کا تجزیہ کر کے کوئی ایک مشترکہ خصوصیت دریافت کی ہے جسے انہوں نے زندگی میں رونما ہونے والی ہر صورت حال کی اساس ٹھہرایا ہے۔ مثلاً فرائڈ اور اس کے ہم خیال دانشور کہتے ہیںکہ تمام دنیا کی ثقافت مجموعی طور پر جنسی خواہشات کا کھیل ہے۔ لیکن برطانیہ اور امریکہ کے جدید حقیقت پسند بالخصوص وہائٹ ہیڈ جیسے مفکر زندگی اور اس میں موجود ہر چیز کو ایک مسلسل عمل (Process) سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہائٹ ہیڈ کا خیال ہے کہ جب تک پرانے معاشرے کو نئے اور تازہ خیال سے بہرہ ور نہ کیا جائے۔ اور یہ نئے خیالات پرانے معاشرے میں مناسب تبدیلیوں کے لئے راہ ہموار نہ کریں اس وقت تک معاشرتی تبدیلیاں رونما نہیں ہو سکتیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگوں کے جذبات، ان کی خواہشات اور ان کے احساسات لاوا بن کر پھٹ پڑیں گے۔ اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کے شدید ترین جذبات و احساسات اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان خیالات کے علاوہ ایک نظریہ اشتراکیت کا ہے جس کے مطابق ذرائع پیداوار بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور ذرائع پیداوار کی تبدیلی سماجی ساخت اور انسانی رشتوں میں تبدیلی کی متقاضی ہوتی ہے۔ ازمنہ وسطیٰ میں پیداوار کا ذریعہ زمین تھی لیکن عہد حاضر میں پیداواری عمل مشین کے ذریعہ انجام پاتا ہے جس کا مطلب ہوا کہ عہد حاضر میں معاشرے کی ساخت اور انسانی رشتوں کی تشکیل ازمنہ وسطیٰ سے مختلف ہونی چاہیے۔ غرضیکہ وہ جنسی خواہشات ہوں، مسلسل عمل (Process) ہو یا ذرائع پیداوار ہوں، ہر صورت میں کوئی ایک ایسی خصوصیت نظروں کے سامنے آتی ہے جو معاشرتی اکائی کی اساس کہی جانے کی مستحق ہو۔ کلیت و سالمیت کے ان خیالات نے شعر و ادب پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ علامہ کی شاعری کلیت و سالمیت اور حیات و کائنات کی اکائی کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں منفرد مثال کی حیثیت رکھتی ہے جس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ علامہ کے تصور فن میں حیات و کائنات کی اکائی کو ابھانے کا عمل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے حیات و کائنات کی اکائی کے سلسلہ میں مذکورہ بالا تمام مکاتب فکر سے الگ ایک اپنا نظریہ تشکیل دیا ہے۔ ان کے نزدیک زندگی کی اکائی کو اس کی گردش او رحرکت میں دریافت کیا جا سکتا ہے مثلاً ان کے یہ اشعار پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی تو اس پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جادواں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی تڑپ صحن چمن میں، آشیاں میں، شاخساروں میں جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی حرکت و گردش کے علاوہ اشیائے کائنات کے درمیان وہ ربط و تعلق جس سے کائنات کی کلیت اور اکائی ابھرتی ہے، علامہ کی شاعری کا نہایت اہم موضوع ہے۔ مثلاً حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرہ کا دل چیریں یہ ہندی وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا غرضیکہ علامہ کے تصور فن کے مطابق فنکار کا اپنے عہد کے تقاضوں پر نظریں جمائے رکھنا اور ان تقاضوں کی مطابقت میں فن کی ہیئت اور اس کے موضوع میں تبدیلیاں لانا، سچے عمل تخلیق کی لازمی شرط ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے علامہ اقبال کے تصور فن کی وضاحت کرتے ہوئے ’’مرقع چغتائی‘‘ کے دیباچے کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے علامہ کے انگریزی میں تحریر کردہ اس دیباچہ سے ایک اقتباس اردو میں ترجمہ کر کے پیش کیا ہے۔ اقتباس یہ ہے’’ کسی قوم کی روحانی صحت کا دار و مدار اس کے شعراء اور آرٹسٹ کی الہامی صلاحیت پر ہوتا ہے لیکن یہ ایسی چیز نہیں ہے جس پر کسی کو قابو حاصل ہو۔ یہ ایک عطیہ ہے جس کی خاصیت اور تاثیر کے متعلق اس کا پانے والا اس وقت تک تنقیدی نظر نہیں ڈال سکتا جب تک کہ وہ اسے حاصل نہ کر چکا ہو۔ اس لئے عطیہ سے فیضیاب ہونے والی شخصیت اور خود عطیے کی حیات بخش تاثیر دونوں انسانیت کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی زوال پذیر آرٹسٹ کی تخلیقی تحریک، اگر اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے نغمے یا تصویر سے لوگوں کے دل لبھا سکے، قوم کے لئے بہ نسبت اٹیلا یا چنگیز خاں کے لشکروں کے زیادہ تباہ کن ہو سکتی ہے۔‘‘ اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ فن کو قوم کی روحانی یا ذہنی صحت کو فروغ دینے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں کسی فرد کی فنکارانہ صلاحیتیں خالص عطیہ خداوندی ہوتی ہیں جنہیں زور بازو سے حاصل نہیں کیا جا سکتا اور جیسا کہ ہم نے بالکل شروع میں کہا تھا کہ یہ عطیہ انہیں قدرت نے نہایت بہتات سے ارزانی فرمایا تھا۔ علامہ کے نزدیک تقلید اپنی نوعیت میں تخلیق کی ضد ہے۔ ان کے اس خیال کی تائید میں ان کا پورا کلام پیش کیا جا سکتا ہے جو ہماری شاعری میں تازگی و ندرت کا نہایت ہی دلنشین و دلکش نمونہ ہے۔ انہوں نے اپنے تخلیقی عمل سے ہماری شعری روایت میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں میں انسان، زندگی اور معاشرہ سے متعلق جن حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے اور جن پیچیدگیوں کو شاعری کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری میرے لئے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی اب کیا جو فغاں میری پہونچی ہے ستاروں تک تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی، نہ صفا ہاں، نہ سمر قند پرسوز و نظر بار و نکوبین و کم آزار آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خور سند سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں ان اشعار کی خوبصورت تراکیب، خیال انگیز و خیال آفریں کنائے، پرانے استعاروں کو نئے مفاہیم اور نئی معنویت سے آراستہ کرنے کا عمل، زبان و بیان پر مکمل گرفت اور طرز اظہار کی ندرت، علامہ کی تخلیقی استعداد اور نئی چابکدستی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ مثلاً’’ زمانے کا سمندر‘‘ گوہر فردا ’’خیال و نظر کی مجذوبی‘‘ مہر و ماہ و مشتری کا ہم عناں تہی کیسہ و خور سند جیسی تراکیب تازگی و تابندگی اور ان کی خیال انگیزی و خیال افروزی ہماری شاعری میں اضافہ نہیں تو کیا ہے۔ اپنی نظم ’’ انسان اور بزم قدرت‘‘ میں علامہ نے کائنات کی ہر شے پر انسان کی فوقیت و فضیلت واضح کی ہے اور بتایا ہے کہ بزم قدرت تو سورج کی روشنی سے منور ہوتی ہے لیکن انسان اپنی ہی ذات کے نور سے روشن ہے۔ صبح خورشید درخشاں کو جو دیکھا میں نے بزم معمورۂ ہستی سے یہ پوچھا میں نے پرتو مہر کے دم سے اجالا تیرا سیم سیال ہے پانی ترے دریاؤں کا مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے تری محفل کو اسی شمع نے چمکایا ہے سرخ پوشاک ہے پھولوں کی درختوں کی ہری تری محفل میں کوئی سبز کوئی لال پری رتبہ تیرا ہے بڑا شان بڑی ہے تیری پردۂ نور میں مستور ہے ہر شے تیری میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیوں کر نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں کیوں سیہ روز، سیہ بخت، سیہ کار ہوں میں میں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی بام گردوں سے یا وہ صحن زمیں سے آئی ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود باغباں ہے تری ہستی پئے گلزار وجود نور خورشید کی محتاج ہے ہستی میری اور بے منت خورشید چمک ہے تیری آہ اے راز عیاں کے نہ سمجھنے والے حلقہ دام تمنا میں الجھنے والے ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابند مجاز ناز زیبا تھا تجھے تو ہے مگر گرم نیاز تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے اس نظم میں علامہ نے اپنی بات جس ڈرامائی انداز سے کہی ہے وہ بلا شبہ شاعری کی جان ہے اگر وہ یہ بات براہ راست کہہ دیتے تو اس کے اثر و تاثیر میں زبردست کمی آ جاتی لہٰذا انہوں نے یہ صورت اختیار کی کہ بزم ہستی کی ہر چیز کو پر بہار اور انسان کو ظلمت رسیدہ دکھایا ہے، جس پر انسان شکایت کرتا ہے تو غیب سے آواز آتی ہے جو بتاتی ہے کہ بزم ہستی کی ہر شے انسان کے بغیر بے معنی ہے۔ انسان ہی گلزار ہستی کا باغبان ہے لیکن افسوس کہ وہ اپنی حقیقت سے آشنا نہیں ہے یعنی اسے اپنی خودی کی معرفت حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ سیہ بختی کا شکار ہے۔ حقیقت کا بیان ندائے غیب کے ذریعے کرنے کے عمل نے شاعر کو ناصح بننے سے بچا لیا ہے۔ لطیف منظر کشی اور ڈرامائی انداز کے علاوہ نظم کی ساخت بھی قابل توجہ ہے۔ نظم کے بالکل شروع میں ’’ پر تو مہر کے دم سے ہے اجالا تیرا‘‘ انسان کے مقابلے میں بزم ہستی کی تمام دوسری اشیاء کی بے اہمیتی کا اشارہ ہے اور آخر میں یہ انکشاف کہ انسان کے لئے کسی سورج کی ضرورت نہیں، وہ خود اپنی ذات سے روشن ہے اور حقائق کو اپنے احساس، وجدان اور ادراک کے ذریعے دریافت کر کے خود کو روشن سے روشن تر کرتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور انہیں صحیح سمت میں بروئے کار لائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے جب بھی اپنی صلاحیتوں کو مثبت اور تعمیری انداز سے استعمال کیا ہے تو اس نے جریدۂ عالم پر اپنے دوام کی مہر ثبت کر دی ہے۔ علامہ کے تصور فن میں خود رحمی، رقت، مجبوری، بے بسی اور رونے دھونے کے جذبات کے اظہار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ زندگی کی قوت و دانائی کے قائل تھے اور فن کو قوت و توانائی کے اظہار کا موثر ذریعہ اور نوع انسانی پر قوت و توانائی کی اہمیت واضح کرنے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ وہ طاقت کو ایک اعلیٰ قدر اور اس کے حصول کو نوع انسانی کے لئے لازمی سمجھتے تھے، نیلن ان کے ہاں طاقت کا تصور چنگیز خاں کی بربریت یا مغرب کے سامراجی اور استحصالی نظام کی انسانیت سوز طاقت سے بالکل مختلف تھا۔ وہ جرمنی کے نطشے کی طرح اس بات کے قائل نہیں تھے کہ دنیا میں صرف طاقتور کو جینے کا حق ہے اور طاقتور کمزوروں کو بجا طور پر موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ اس کے برعکس وہ طاقت کو کمزوروں کی مدد کے لئے ضروری سمجھتے تھے ان کے خیال میں انصاف کی حکمرانی کے لئے طاقت ایک لازمی عنصر ہے۔ مغرب کے سامراجیوں کی طرح وہ طاقت کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ان کے تصور طاقت میں فولاد کی سختی اور ریشم کی نرمی دونوں کی اہمیت مساوی تھی۔ اگر حق و صداقت کے لئے تلوار اٹھانا ضروری ہو تو مرد حق فولاد کی سی سختی کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن عام حالات میں وہ بریشم کی طرح نرم ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انسانیت کے دشمنوں کو طاقت کے بغیر ظلم سے باز نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ انسانیت کے دشمنوں کے لئے فولاد کی طرح سخت اور انسان دوستوں کے ساتھ بریشم کی طرح نرم رویہ اختیار کرنے کے قائل تھے۔ کچھ لوگ علامہ کے طاقت کے تصور پر سخت تنقید کرتے ہیں تو ان کے سامنے مغرب کے سامراجیوں کا استبداد ہوتا ہے۔ بلاشبہ مغرب کے سامراجیوں کا تصور طاقت انسانیت کے لئے باعث ہلاکت ہے لیکن علامہ کا اس انسانیت سوز تصور طاقت سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا اندازہ مغربی تہذیب و تمدن پر علامہ کی تنقید سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ ان کا تصور طاقت ان کے فن کی اور ان کا فن ان کے تصور طاقت کی تکمیل کرتا ہے۔ دلبری بے قاہری جادوگریست دلبری با قاہری پیغمبریست طاقت و توانائی کے علاوہ ایک گونہ سرشاری ان کے فن کا بنیادی عنصر ہے۔ ان کی یہ سرشاری ان کی شان قلندری سے ظاہر ہوتی ہے لیکن ان کی شان قلندری انہیں زندگی سے دور کر کے رہبانیت کا جواز پیدا نہیں کرتی۔ اس کے برعکس وہ جدوجہد زندگی سے سرشار قلندری کے قائل تھے اور ایسی سرشاری کا اظہار ان کی شاعری میں ہوا ہے۔ ان کا تصور فن حیات افروز سرشاری و مستی کی اساس پر قائم ہے۔ وہ اس سرشاری اور سوز و مستی کو عالم کا صورت گر بناتے ہیں۔ سوز و مستی نقش بند عالمے است شاعری بے سوز و مستی ماتمے است علامہ اقبال کے تصور فن میں احساس و جذبہ کی صداقت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے نزدیک تمام فنون لطیفہ احساس و جذبہ کی صداقت ہی کا کرشمہ ہیں۔ رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود ان کے ہاں خون جگر جذبہ و احساس کی صداقت کے ساتھ خیالات و تصورات کی پختگی کی بھی ایک علامت ہے۔ دراصل خیالات و تصورات میں پختگی اسی وقت آتی ہے جب ان میں جذبہ و احساس کی حرارت و صداقت بھی شامل ہو۔ عہد جدید کے طرز احساس اور روایتی طرز احساس کے درمیان فرق بھی دراصل تجربہ و تسلیم کا فرق ہے۔ روایتی معاشرے میں طرز احساس کی تشکیل اجتماعی طور پر تسلیم شدہ ا قدار کی بنیادوں پر کی جاتی تھی جبکہ عہد جدید میں یہ اہمیت ذاتی تجربے کو دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تسلیم شدہ اقدار کی بنیادوں پر تشکیل پائی ہوئی حسیت میں جذبہ و احساس کی وہ حرارت و صداقت ممکن نہیں ہے جو تجربے کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے طرز احساس میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ جذبات و احساس کی صداقت روایتی تصور فن میں بڑی اہمیت رکھتی تھی لیکن اس صداقت میں ایک آنچ کی کمی رہ جاتی تھی جو علامہ کے ہاں ان کے ذاتی تجربہ و مشاہدہ کا نتیجہ تھی اور جسے وہ اپنے خون جگر سے تعبیر کرتے تھے۔ علامہ کے نزدیک شاعری تمثالوں کی زبان میں گفتگو کا نام ہے لیکن علامہ زندگی سے کٹی ہوئی تمثالوں کے قائل نہیں تھے۔ ان کی تمثالیں ایک طرف زندگی سے ماخوذ ہوتی تھیں تو دوسری طرف زندگی کی حقیقت کو روشن کرتی تھیں۔ وہ ایسی تمثالوں کے بالکل قائل نہیں تھے جو زندگی سے کٹی ہوئی بھی ہوں اور جن کا سمجھنا بھی ممکن نہ ہو۔ شاعری ان کے نزدیک ایک لطیف فن تھا نہ کہ فعلیت کی دیواروں سے سر ٹکرانے کا عمل۔ تمثالوں اور استعاروں کے علاوہ وہ عام لفظوں کو بھی اس سلیقے سے استعمال کرتے تھے کہ ان کے لغوی معنی برقرار رہتے ہوئے بھی معنویت کے کچھ نئے گوشے روشن ہو سکیں۔ علامہ الفاظ کو نئے انداز سے اس لئے نہیں برتتے کہ انہیں جدت طرازی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے بلکہ ان کے ہاں یہ نیا انداز ان کے موضوع کا تقاضا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مفہوم کو زیادہ سے زیادہ روشن اور واضح کرنے کے لئے لفظوں کے معنوی امکانات کا جائزہ لے کر ان کی پرتیں کھولتے ہیں، جبکہ آج کل کے کچھ لوگ اپنے بیان کو زیادہ سے زیادہ گنجلک بلکہ مہمل بنانے کے لئے لفظوں کی معنویت کو مسخ کرتے ہیں جو فنکارانہ تخلیقی عمل نہیں ہے بلکہ خودنمائی کے مترادف ہے۔ علامہ کے فن میں قاری کو اپنی شخصیت سے مرعوب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگوں کی آرزوؤں اور ان کے دکھوں کی صورت گری کر کے قربتوں کی ایک ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جہاں لوگ ان کو اپنی ذات میں اور خود کو ان کی ذات میں شامل سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی فنی چابکدستی کے اظہار کے لئے غیر ضروری طور پر نہ تو صنائع بدایع استعمال کرتے ہیں اور نہ دوراز کار تمثالوں، استعاروں، اور تراکیب کا کرتب دکھانے کے قائل ہیں۔ ان کے ہاں رمزیت و ایمائیت ضرور ملتی ہے لیکن یہ رمزیت و ایمائیت اس قدر ہوتی ہے جس قدر شاعرانہ لطف پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ مختصراً یہ کہ علامہ فن کو حقیقت نگاری کے ساتھ کیف سامانی کا ایک وسلہ سمجھتے تھے اور کیف سامانی کے پہلو بہ پہلو زندگی کے رموز کھولنے، اسے آگے بڑھانے اور اطراف میں پھیلے ہوئے حالات کو بدلنے کا جذبہ بیدار کرنے کو شاعری کا مقصد جانتے تھے اور اسی بنیاد پر اسے پیغمبری کا جزو کہتے تھے۔ ٭٭٭ شمع و شاع علامہ اقبال مثبت سوچ اور تعمیری فکر کے نمائندہ شاعر ہیں۔وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انسان کی دانشورانہ سرگرمیوں میں شعر و ادب اور دوسرے فنون لطیفہ سے متعلق اس کے تخلیقی عمل کو اس کی نہایت اہم اور اعلیٰ و ارفع کاوش تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے اس تخلیقی عمل میں اپنی فکر کو قوت متخیلہ کی مدد سے تمثالوں میں پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی پوری شاعری فکر انگیز تمثالوں سے آراستہ نظر آتی ہے۔ تمثالوں کے بارے میں ان کا ذہن بالکل صاف ہے۔ وہ اسے خارجی دنیا سے بالکل الگ صرف ذہن انسانی کی پیداوار بھی نہیں سمجھتے اور تمثالوں سے ان کی مراد فطرت یا خارجی دنیا کی ہو بہو تصویر کشی بھی نہیں ہوتی بلکہ ان کی تمثالیں خارجی دنیا میں جنم لینے والے حقائق کی بنیادوں پر ان کے اپنے ذہن میں تشکیل پاتی ہیں۔ اس طرح وہ خارجی دنیا سے مختلف نظر آنے کے باوجود خارجی دنیا ہی سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ آج کل کچھ لوگ جدید کہلانے کے شوق میں مثبت سوچ اور انسانی فکر کی کلیت سے خود کو کاٹ کر فردیت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی تخلیق یا ایجاد عام طور پر نظر آنے والی حقیقت کے دائرے سے بالکل باہر اور اس سے بالکل ہی الگ چیز ہے۔ یہ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ ان کی تخلیقات کو صرف اور صرف ان کے ذہن کی ایجاد سمجھا جائے لیکن جب ہم ان کی اس خالص ذہنی ایجاد کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ یا تو شعوری طور پر اہمال کا ہوا دکھا کر قارئین کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اگر غلطی سے ان کے ہاں کسی طرح کی معنویت آ جاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح خارجی دنیا ہی سے ماخوذ ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری جدت و ندرت کی نہایت عمدہ مثال ہے لیکن ان کی تمام تر جدت کی بنیاد خارجی دنیا میں موجود حقائق ہوتے ہیں جن کا انہیں نہ صرف اعتراف ہے بلکہ وہ جگہ جگہ خارجی دنیا سے ماخوذ اپنے استعاروں اور تمثالوں کو اپنی فکر کا ترجمان بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مثلاً ان کی نظم ’’ شمع و شاعر‘‘ میں شاعر وہ خود ہیں اور شمع ان کی فکر کا استعارہ ہے۔ یعنی وہ اپنی فکر کو شمع کی زبانی بیان کرتے ہیں اور شمع خارجی دنیا میں موجود ایک حقیقت ہے۔ لیکن یہاں بھی وہ اپنی ذات کو معاشرے کا استعارہ یا علامت بنا دیتے ہیں اور انسانی معاشرے کی تمام تر ریاکاریوں اور خرابیوں کو اپنے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ اپنے معاشرے کی برائیوں کو اپنی ذاتی برائیاں بنا کر پیش کرنے سے اول تو ان کی مثبت فکر کا اندازہ ہوتا ہے جو فرد اور ملت کے درمیان ربط کے احساس سے پیدا ہوئی ہے، اور دوسرے یہ کہ معاشرے کے بجائے خود کو مورد الزام ٹھہرا کر وہ اپنے کلام کی تاثیر میں بلا کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ وہ دوسروں کو نصیحت کرنے کے بجائے خود کو شمع کی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اس طرح پند و غط کیا شتعال انگیزیوں سے اپنا دامن صاف بچا لیتے ہیں۔ وہ اپنے اس انداز سے اپنی فکر اور خارجی دنیا کے درمیان ربط کو بھی اجاگر کرتے ہیں اور انسان کے احساسات و خیالات اور اطراف میں موجود حالات و مناظر کی کلیت اور اکائی کو بھی ابھارتے ہیں۔ علامہ نے اپنی نظم ’’ شمع و شاعر‘‘ میں اپنا موازنہ شمع سے کیا ہے او را س سے پوچھا ہے کہ اس کا کیا سبب ہے کہ تیرے گرد تو پروانے طواف کرتے اور اپنی جان تجھ پر وار دیتے ہیں لیکن میرے تمام تر سوز دروں کے باوجود مجھے کوئی ایسا چاہنے والا آج تک نصیب نہیں ہوا۔ آخر تو نے یہ عالم افروز آگ کہاں سے جمع کی ہے جس نے ایک حقیر سے کیڑے کو سوز کلیم کے اسرار سکھا دئیے ہیں۔ شمع نے اقبال کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ تیری کم نصیبی کا سبب دراصل یہ ہے کہ تو اپنی ملت کے اصل نظام سے ہٹ گیا ہے جس کی وجہ سے تو اور تیری ملت دونوں رسوا ہیں ’’ زشت روئی سے تیری آئینہ ہے رسوا تیرا‘‘ علامہ نے اس حقیقت کو جس فن کارانہ انداز سے بیان کیا ہے اس کی مثالیں ہماری شاعری میں کم ملتی ہیں۔ چند اشعار سنئے۔ اور ہے تیرا شعار آئین ملت اور ہے زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا اے در تابندہ اے پروردۂ آغوش موج لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا پہلا شعر لفظ’’ اور‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور اس کے تمام حروف کی آوازوں کو بھرپور انداز سے نظم کیا گیا ہے۔ یعنی مصرعے میں’’ اور‘‘ کو پوری طرح کھینچ کر پڑھا جائے گا جس سے اس زبردست اختلا ف کا اندازہ ہوتا ہے جو ملت مسلمہ کے طور طریق اور اس کے اصل نظام کے درمیان موجود ہے۔ پھر مصرعے کے دوسرے حصے میں ’’ آئین ملت اور ہے‘‘ میں جو حیرت و استعجاب کی کیفیت سمو دی گئی ہے وہ بھی اصل آئین اور موجودہ طور طریق کے فرق کو نہایت موثر انداز سے واضح کرتی ہے اور لطف یہ ہے کہ یہاں بھی علامہ نے یہ کیفیت لہجے اور آہنگ کے جادو ہی سے جگائی ہے۔ اس شعر کے خلاقانہ حسن سے لطف اندوز ہونے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم غیروں کے تصورات کو اسلامی فکر بنا کر پیش کرنے پر علامہ کی تنقید کو ذہن میں رکھیں۔ علامہ کا خیال تھا کہ بہت سے مسلمان مفکرین نے افلاطون کے سکونی نظریہ کو اسلامی بنا کر پیش کیا ہے جس کی وجہ سے مسلمان حرکت کی جگہ سکون کو زندگی کا اصلی اصول سمجھنے لگے اور اس طرح ان کی قوت عمل کمزور پڑ گئی ہے۔ وہ عمل کی جگہ بے عملی اور سعی و کوشش کی جگہ تقدیر پر قانع ہو کر رہ گئے۔ مسلمانوں کا یہ رویہ ان کے زوال کا سبب ہے اور ظلم یہ ہے کہ اسے ملت اسلامیہ کے آئین کا جزو سمجھ لیا گیا ہے۔ علامہ تمام عمر اس کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں لہٰذا ان کا یہ احتجاج اورمسلمان مفکرین کے انفعال رویے پر ان کی تنقید آپکی فکر میں پوری طرح رچ بس گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنے کے لئے اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ’’ شعار‘‘ پر غور کیجئے جو ان کے خیال کی ترجمانی بڑے بھرپور انداز سے کر رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ علامہ نے اس لفظ کو جان بوجھ کر اپنی فکر کا پرتو نہیں بنایا ہے بلکہ ان کی فکر نے ان کے تخلیقی عمل میں غیر ارادی طور پر اس لفظ کے ذریعہ نہایت خیال انگیز نکتے کی نشاندہی کی ہے۔ آئیے اب اس شعر پر ایک نظر ڈالیں۔ یہاں لفظ شعار کو اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی ’’ ر‘‘ زائد ہے لیکن شعار سے بالکل ملے ہوئے لفظ’’آئین ‘‘ کے الف نے الف وصلی کی حیثیت سے اس حرف زائد کو وزن میں شامل رکھا ہے۔ عروض کے اصولوں کے لحاظ سے یہ بالکل درست ہے لیکن علامہ کے خیالات کے پیش نظر یہاں ’’ر‘‘ کا حرف زائد کے طور پر استعمال غیر ارادی طور پر فکر زائد کی نشاندہی کر رہا ہے جو ملت اسلامیہ نے غیروں سے حاصل کر کے نہ صرف اپنا لی ہے بلکہ اسے ملت اسلامیہ کے آئین کا جزو بنا لیا ہے اور اس طرح اسلام کے عادلانہ نظام میں غیر عادلانہ نظام کا پیوند لگا لیا ہے۔ اس سلسلے میں شاید یہ وضاحت نا مناسب نہ ہو کہ جب ملت اسلامیہ اپنے عروج پر تھی تو وہ عمل اور جدوجہد کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھی اور سمجھتی تھی کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، لیکن بعد میں یونانیوں اور ہندوؤں کے زیر اثر مسلمانوں نے عمل کی اہمیت کو ختم کر کے تقدیر پرستی کا شیوہ اپنا لیا۔ انہوں نے زندگی کے اصل اصول، حرکت و تغیر کی جگہ سکون کو ٹھہرانا شروع کر دیا اور ہر لمحہ نظر آنے والی حرکت و تغیر کو فریب نظر کہہ کر مسترد کر دیا۔ امت مسلمہ جو یہ سمجھتی تھی کہ ’’ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی‘‘ عمل سے بے زار ہو کر کاہلی اور قناعت کا سبق پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ اسی طرح دوسرے شعر میں ’’ کعبہ پہلو میں ہے‘‘ کا جو ٹکڑا استعمال کیا گیا ہے اس میں ’’ و‘‘ نون غنہ’’ اور‘‘ ’’ ے‘‘ کی آوازوں کا دھیما پن قابل غور ہے۔ پہلو میں کعبے کی موجودگی ایک نہایت اہمیت و فضیلت کی بات ہے لیکن اس کو جس دھیمے پن کے ساتھ مدھم سروں میں پیش کیا گیا ہے اس سے ملت مسلمہ کے اس برائے نام رشتے کا احساس اجاگر ہوتا ہے جو آج کل کے مسلمانوں کو کعبہ سے ہے۔ آہنگ سے اس طرح کے تاثرات پیدا کرنا علامہ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے جس کا اظہار ان کی اکثر نظموں اور غزلوں میں ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ کو عروض پر زبردست قدرت حاصل تھی بلکہ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ خیال و آہنگ کے درمیان ربط سے بھی کماحقہ آگاہ تھے۔ مندرجہ بالا اشعار میں سے تیسرا شعر علامہ کے فلسفے کا بھی مظہر ہے اور ملت اسلامیہ کی تاریخ کا خلاصہ بھی۔ اس شعر میں ملت اسلامیہ کے فرد کو’’ در تابندہ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور ’’ در تابندہ‘‘ ہونے کی حیثیت سے اسے ’’ پروردۂ آغوش موج‘‘ بتایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ موتی کو موتی بننے کے لئے موجوں کے زبردست تھپیڑے کھانا اور طوفانوں کا مسلسل مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ امت مسلمہ کے افراد نے بھی زمانے کے طوفانوں کا مسلسل مقابلہ کیا تھا تب کہیں جا کر وہ انسانیت کے تابندہ گوہر بنے تھے ملت اسلامیہ کے فرد کو در تابندہ کہہ کر علامہ نے مسلمانوں کی جدوجہد اور ان کی سعی و عمل کا پوری طرح احاطہ کر لیا ہے۔ اس طرح یہ مصرع گویا امت مسلمہ کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ شعر کے دوسرے مصرعے میں پھر آہنگ سے کام لیا گیا ہے اور مسلمانوں کی موجودہ حالت پر جس جرات کا اظہا رکیا گیا ہے اسے الفاظ سے نہیں بلکہ لہجے، تیور اور الفاظ کے زیرو بم یعنی آہنگ سے واضح کیا گیا ہے۔ ’’ لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا‘‘ الفاظ کے لحاظ سے یہ مصرع بیان واقعہ ہے۔ لیکن جب اس مصرع کو خاص تیور اور لہجے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پڑھا جائے گا تو ملت مسلمہ کے دریا کا لذت طوفاں سے نا آشنا ہونا حد درجہ حیرت و تعجب کی بات معلوم ہو گی۔ اس مصرع کے تیور متقاضی ہیں کہ ’’ لذت طوفاں‘‘ کو کھینچ کر’’ سے ہے‘‘ کو دھیمے انداز سے اور ’’ نا آشنا دریا ترا‘‘ سوالہ انداز سے پڑھا جائے تو استعجاب کی کیفیت ابھرتی ہے۔ اس شعر میں علامہ کا فلسفہ بھی پوری طرح ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ان کا فلسفہ حیات بھی آئین ملت کے عین مطابق عمل و جستجو کا فلسفہ ہے۔ وہ زندگی کو حرکت و تغیر کے آئینے میں دیکھتے ہیں ان کے نزدیک زندگی حرکت و عمل کا دوسرا نام ہے۔ زندگی میں حرکت و تغیر کا تجربہ ہر لمحہ ہوتا رہتا ہے جبکہ موت یکسر بے حرکتی اور سکون کی علامت ہے۔ علامہ نے اپنی تمام عمر عمل و جستجو کی اہمیت کو واضح کرنے اور اسلام کے اصول اجتہاد کو روشن کرنے میں صرف کی ہے۔ اجتہاد دراصل تغیر و تبدیلی کی ضرورت کو واضح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ حالات کی تبدیلی کے ساتھ معاشرے میں تبدیلیاں آنا بھی ضروری ہیں۔ لیکن ان تبدیلیوں کے کچھ اصول ہوتے ہیں اجتہاد کے سلسلے میں ان اصولوں کی اضاحت کر دی گئی ہے۔ ہم عرض کر رہے تھے کہ علامہ اقبال اپنے فن یا اپنے تخلیقی عمل میں فطرت، مناظر فطرت، یا خارجہ حقائق سے استفادہ ضرور کرتے ہیں لیکن وہ خارجی حقیقت اور فنی تخلیق کے درمیان فرق سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ فطرت بطور فطرت عمل پیرا ہوتی ہے جبکہ فنکار بحیثیت انسان کام کرتا ہے، یعنی فطرت اپنے اٹل قوانین کی مطابقت میں کام کرتی ہے جبکہ فنکار ایک انسان کی حیثیت سے حقائق فطرت میں اپنے جذبات و احساسات اور اپنے خیالات و تصورات شامل کرتا ہے۔ اس طرح وہ حقائق فطرت میں اپنے طور پر اضافہ کرتا ہے۔ یہ اضافہ یا تبدیلی ہی اس کا تخلیقی عمل کہلاتا ہے۔ گویا اس کا تخلیقی عمل فطرت سے ماخوذ بھی ہوتا ہے اور فطرت سے مختلف بھی۔ گوئٹے نے اس مسئلے کی وضاحت نہایت عمدگی سے کی ہے۔ گوئٹے کا خیال ہے کہ فن فطرت کی تمام تر گہرائیوں اور گیرائیوں کا احاطہ نہیں کرتا البتہ خود کو عناصر فطرت کی سطح پر برقرار ضرور رکھتا ہے۔ عناصر فطرت کی سطح پر برقرار رہنے کے باوجود فن کی اپنی توانائیاں اور اپنی گہرائیاں ہوتی ہیں۔ یہ فطرت کے تمام عناصر کے اعلیٰ ترین پہلوؤں کو گرفت میں لا کر ان میں مستقل طور پر موجود رہنے والی قدروں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم ان قدروں کو تناسب و توازن کی معقول تکمیل، حسن کا اصل معیار، معنی کی فضیلت، اور اعلیٰ جذبات سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں اس نے فنکار اور فطرت کے مابین جدلیاتی رشتے کی مزید وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ فطرت جو کچھ پیش کرتی ہے، ہم اس میں سے صرف اسی قدر اپنی زندگیوں میں شامل کرتے ہیں جس کی ہمیں خواہش ہوتی ہے یا جو ہمارے لئے باعث مسرت ہوتا ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ فنکار جو کچھ پیش کرے وہ سب کا سب ہماری دسترس میں ہو اور ہمارے لئے باعث مسرت بھی ہو۔ فنکار کی تخلیقات ہماری روح کی غذا ہوتی ہیں اور ہمیں اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتی ہیں۔ فنکار اس معنی میں تو فطرت کا شکر گزار ہوتا ہے کہ وہ فطرت کا پیدا کردہ ہے لیکن بعد ازاں وہ فطرت کو ایک دوسری فطرت عطا کرتا ہے جو اس کے اپنے جذبات و تصورات کی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ جذبات و احساسات کی پیدا کردہ اس فطرت کی تکمیل خود انسان کرتا ہے۔ بہرحال فنکار اور فطرت کے اس باہمی رشتے کے پیش نظر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے اور نابغہ روزگار فنکار کو بھی اپنے تخلیقی عمل میں فطرت کے اصولوں اور اس کے قوانین کو مدنظر رکھنا چاہئے، اور اپنی تخلیقی سرگرمیوں کو ان قوانین کی مطابقت ہی میں انجام دینا چاہئے، کیونکہ وہ ان قوانین ہی کی مدد سے اپنی استعداد کو چمکانے اور فطرت کے خزانوں کو اپنے کام میں لانے کا طریقہ سیکھ سکتا ہے۔ علامہ اقبال فطرت اور انسانی تخلیق کے مابین اس رشتے کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں نہایت نامانوس منظر نامے بھی مانوس سانچوں میں ڈھل کر ہماری نظروں کے سامنے آتے ہیں۔ علامہ کا پورا کلام نامانوس کو مانوس میں ڈھالنے کا عمل ہے۔ مثال کے طور پر اس نظم کا وہ حصہ دیکھئے جہاں شمع علامہ کے سوالات کا جواب دینا شروع کرتی ہے اور کہتی ہے کہ جو موج نفس تجھے نوا پیرا رکھتی ہے وہی موج نفس مجھے موت کا پیغام سناتی ہے۔ شمع ایک بے جان چیز ہے جس کے ساتھ موج نفس کا استعمال بعید از قیاس بات ہے لیکن علامہ نے یہاں شمع کو ایک جاندار پیکر کی صورت میں ڈھال کر پیش کیا ہے اور جاندار پیکر کے تمام لوازمات کو اس سے وابستہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے شمع کے ساتھ موج نفس کا ربط بعید از قیاس نہیں معلوم ہوتا۔ اس طرح علامہ نے شمع کے مکالمے کے آغاز ہی میں نامانوسیت کے تمام تر آثار کو مانوسیت کی فضا میں تبدیل کر دیا ہے جس کی وجہ سے نہ ان کے استعارے میں کوئی الجھن باقی رہی ہے اور نہ استعارہ کی مدد سے بیان کردہ مفہوم میں کوئی پیچیدگی پیدا ہوئی ہے اور لطف یہ ہے کہ اس تمام تر سادگی و وضاحت کے باوجود شعریت کے سحرمیں کسی طرح کی بھی کمی نہیں آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شمع کا استعارہ یہاں خالص ذاتی استعارہ ہے جو علامہ کی فکر کی آئینہ داری کر رہا ہے، لیکن علامہ نے اس ذاتی استعارے کو وسعت دے کر پوری انسانی فکر پر پھیلا دیا ہے جس سے اس استعارے میں کسی طرح کی گنجلک پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ استعاروں میں اس طرح کی وسعت پیدا کرنے یا تخصیص کو تعمیم میں ڈھالنے کے لئے ضروری ہے کہ فنکار اپنی ذات اور فطرت کے باہمی رشتے سے پوری طرح باخبر ہو اور خود کو فطرت سے کاٹ کر فردیت کی اندھی گلی میں بند کرنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ فردیت کی اندھی گلی میں بند ہو کر اور وقوف و شعور کی روشنی کو خود پر حرام کر کے انسان اپنے احساس کے الاؤ میں جل کر راکھ ہو جانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا او ریہ راکھ بھی ایک ایسی اندھی گلی کی خاک بنتی ہے جہاں ہوا کا گزر بالکل نہیں ہے۔ لہٰذا اس طرح احساس کے الاؤ میں جلنے والے کو کسی کو خبر ہوتی ہے اور نہ اس کی راکھ کسی تک پہونچتی ہے۔ خود اذیتی کا یہ پورا عمل رائیگاں ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسان کا ہر سانس اسے موت کا پیغام دیتا رہتا ہے لیکن انسان اپنی تمناؤں کے میلے میں گم اس پیغام کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ ’’ شمع‘‘ انسان کے اس رویہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جو ’’ موج نفس‘‘ میرے لئے ’’ پیغام اجل‘‘ ہے اسی ’’ موج نفس‘‘ سے تو ’’ نوا پیرا‘‘ رہتا ہے۔ جہاں ’’ نوا‘‘ کی وضاحت نہ کر کے علامہ نے مصرعہ میں بلا کی وسعت پیدا کر دی ہے۔ انسان کے اس رویے کی مزید وضاحت دوسرے شعر میں کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ شمع کا سوز اس کی فطرت میں شامل ہے اور وہ اسی سوز کے ہاتھوں جلتی ہے، لیکن انسان کے ہاں جلنے اور روشنی کرنے کا یہ فطری اور بے لوث عمل موجود نہیں ہے۔ وہ اپنے اس عمل سے اپنے چاہنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ گویا اس کا عمل خود غرضی اور خود نمائی کا عمل ہے جس کا بے اثر یا کم اثر ہونا ایک فطری بات ہے۔ اگلے شعر میں ’’ شمع‘‘ اپنے اور شاعر کے درمیان فریق کو’’ گریہ ساماں‘‘ اور’’ شبنم افشاں تو‘‘ کی تراکیب سے واضح کرتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ ’’ گریہ ساماں میں‘‘ اس لئے ہوں کہ میرے دل میں’’ طوفان اشک‘‘ موجزن ہے لیکن ’’ شبنم افشاں تو‘‘ اس لئے ہے کہ بزم گل میں تیری شہرت ہو۔ یہاں ’’ گریہ ساماں میں‘‘ اشک کی ترکیب میں قدرے بوجھل پن کا سا احساس شمع کے دل میں موجزن طوفان کا غماز ہے۔ جبکہ ’’ شبنم افشاں تو‘‘ کی چمک شاعر کے دل میں آرزوئے شہرت و ناموری کی ترجمان ہے۔ تراکیب کا یہ خلاقانہ استعمال دراصل فکر و احساس کی صداقت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کی موثر و موزوں تراکیب کسی ہنر مندی سے وجود میں نہیں آتی ہیں بلکہ ان تراکیب کی ایجاد کے سلسلے میں شاعر کے وجود میں رچی ہوئی فکر اور اس کے احساس کی صداقت اپنے طور پر کام کرتی ہے جس کی وجہ سے اس طرح کی تراکیب غیر ارادی طور پر وضع ہو جاتی ہیں۔ان کے غیر ارادی طور پر وضع ہونے کے پیش نظر ہم انہیں ’’ نوائے سروش‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن نوائے سروش کے لئے بھی احساس و خیال کی صداقت شرط اول ہے۔ علامہ نے شمع کی زبانی ملت مسلمہ کے افراد کی ناگفتہ بہ حالت کی وضاحت کرانے کے بعد ماضی پر ایک ہلکی سی نظر ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ دراصل وہ افراد ملت جنہیں جینے کا سلیقہ آتا تھا اور جو ذوق تماشا سے صحیح معنی میں آراستہ تھے، اب رخصت ہو چکے ہیں۔ اب اگر کوئی ’’ دیدار عام‘‘ کا پیغام لائے تو اس سے کیا فائدہ۔۔۔۔ اس بند کے ایک مصرع میں جو تمثال ابھاری گئی ہے وہ تاثیر و معنویت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ ملت مسلمہ کے روبہ زوال ہونے پر پرستاران حق کی جو حالت تھی اس کی تصویر ابھارنے کے لئے مذکورہ مصرع معجز بیانی کا ایک نادر نمونہ ہے۔ جب یہ پرستاران حق نہ رہے تو ملت اسلامیہ میں بے حس بھیڑ کے سوا باقی کیا رہ گیا ہے۔ اس بھیڑ کو حق کا پیغام سنانا یا نہ سنانا برابر ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب پیغام حق سننے والے موجود تھے۔ اس وقت کوئی مرد حق ایسا نہ اٹھا جو ملت کو گمراہی کے غار میں گرنے اور بے حسی کی اجل آثار فضا میں گم ہونے سے بچا سکتا۔ اب تو بے حسی کا یہ عالم ہے کہ افراد ملت کو اپنے نقصان اور خسارے کا احساس تک باقی نہیں۔ اس بند کا یہ شعر دیکھئے: شوق بے پروا گیا، فکر فلک پیما گیا تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے یہ شعر ’’ انفس و آفاق‘‘ کے درمیان اس توازن کی نشاندہی کر رہا ہے جو اسلام کے آئین کی نمایاں خصوصیت بنے۔ اسلام نے معرفت نفس اور تسخیر کائنات، دونوں پر زور دیا ہے اور نفس و کائنات دونوں کو ذات مطلق کی نشانیاں بتایا ہے۔ معرفت نفس کے لئے جذب و جنوں اور عشق درکار ہوتا ہے لیکن تسخیر کائنات کے لئے عقل و خرد، غور و فکر اور مختلف عناصر کے تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا ملت اسلامیہ نے اپنے دور عروج میں اس توازن کو برقرار رکھتے ہوئے ایک طرف عشق و جنوں میں کمال حاصل کیا اور سوز عشق کی بدولت حاصل کردہ معرفت نفس کی مدد سے اعلیٰ اخلاق کی بالادستی قائم کی تو دوسری طرف عقل و خرد کو بروئے کار لا کر مختلف سائنسی علوم میں ترقی کے مراحل طے کئے۔ ہمارے عہد میں سائنسی ترقی کا عمل لائق تحسین ہے لیکن یہ ترقی یک رخی ہونے کی وجہ سے انسانیت کو اپنی برکتوں سے پوری طرح مستفیض نہیں کر پا رہی ہے، اور نہ صرف مستفیض نہیں کر پا رہی ہے بلکہ بعض صورتوں میں انسانیت کے لئے تشویش و پریشانی کا سبب بھی بنی ہوئی ہے۔ دراصل ہمارے عہد میں تسخیر کائنات پر تو پوری توجہ دی گئی ہے جس کی وجہ سے سائنسی علوم میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے لیکن تسخیر کائنات کے عمل کے دوران میں تسخیر ذات یا تسخیر نفس سے مکمل اعراض برتا گیا ہے جس کی وجہ سے ہوا و ہوس کا غلبہ ہو گیا اور ترقی یافتہ اقوام نے غیر ترقی یافتہ اقوام کا استحصال شروع کر دیا، اور اس ضمن میں اپنی سائنسی ترقی کو مہلک ہتھیاروں کی ایجاد کا وسیلہ بنایا جس کا انتہائی تکلیف دہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم کی تباہ کاریوں کی صورت میں دیکھا گیا۔ مہلک ہتھیاروں کی ایجاد اور ان کی سفاکانہ استعمال سائنسی ترقی کا قصور نہیں ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے عہد میں تزکیہ نفس کی طرف بالکل توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے مہلک ہتھیاروں کے بل پر غریب اقوام کا استحصال برابر جاری ہے۔ اگر ہم تسخیر فطرت کے ساتھ تسخیر نفس کی طرف بھی توجہ دیں تو سائنسی ترقی انسانی فلاح و بہبود کا سبب بن سکتی ہے۔ اسلام نے اپنے دور عروج میں یہی کیا تھا، مسلمانوں نے ایک طرف تزکیہ نفس پر توجہ دی تھی تو دوسری طرف تسخیر کائنات کے عمل کو جاری رکھا تھا۔ اس طرح معاشرے کو ایک ایسے توازن سے روشناس کرا دیا تھا جو انسانی فلاح و بہبود کی ضمانت فراہم کر سکتا تھا۔ آج بھی اگر ہم اس توازن کو حاصل کرنے کی کوشش کریں تو سائنسی ترقی سے پوری طرح فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ مضمون سے قطع نظر اس شعر میں دو پرانے استعارے ’’ دیوانے‘‘ اور’’ فرزانے‘‘ بالکل ہی نئے معنی میں استعمال کئے گئے ہیں۔ یہاں ’’ دیوانے‘‘ سے وہ مصلحین معاشرہ مراد ہیں جو افراد ملت کو تزکیہ نفس اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتے تھے اور ’’ فرزانے‘‘ ان مقلاء حکما اور سائنس کے ماہرین کے لئے استعمال ہوا ہے جو دنیاوی علوم، بالخصوص سائنسی علوم کو ترقی دے رہے تھے۔ پرانی علامتوں کو نئے مفاہیم دینا بلا شبہ ایک تخلیقی عمل ہے اور یہ تخلیقی عمل اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب فنکار روایت اور جدت کے صحت مند تعلق سے واقف ہو اور روایت سے اپنا رشتہ برقرار رکھتے ہوئے اپنا تخلیقی عمل جاری رکھے۔ علامہ کی تمام تر جدت، روایت کے چشمے سے پھوٹتی اور تازگی و بندگی کی فضا میں پھیلتی نظر آتی ہے۔ ان کی جدت کسی منفی سوچ یا روایت دشمنی کے احساس سے پیدا ہونے والی جدیدیت سے بالکل ہی مختلف چیز ہے۔ اس نظم میں ملت مسلمہ کی خستہ حالی کی وضاحت کے سلسلے میں چند نہایت ہی موثر تمثالیں پیش کی گئی ہیں، مثلاً ’’آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ‘‘ ’’شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں‘‘ ’’موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں‘‘ ’’اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں‘‘ یہ تمام تمثالیں آنکھوں کے سامنے کچھ اس طرح کی تصویریں ابھارتی ہیں جو دعوت فکر دیتی ہیں اور افراد ملت پر ان کی خستہ حالی کی حقیقت کھلنے لگتی ہے۔ اس سلسلے میں ذرا اس سفر کو دیکھئے۔ وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہو گئیں وسعت گردوںمیں بجلی کی تڑپ سے جو تصویر آنکھوں کے سامنے آتی ہے اس سے قطع نظر یہ شعر صرف ملت اسلامیہ ہی کی نہیں بلکہ عہد حاضر کی تمام اقوام کی مادیت پرستانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔ ’’بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہو گئیں‘‘ ’’دامان خرمن‘‘ مادی حاصلات کا اشارہ ہے یعنی وہ بجلیاں جو وسعت گردوں میں نظارہ سوز تڑپ سے سرشار تھیں، فصلوں کے ڈھیر میں آرام سے سو رہی ہیں۔ یعنی وہ اقوام جو تلاش و جستجو اور خوب سے خوب تر کی لگن کی انتھک مسافر تھیں، اب مادی سہولتوں اور مادی منفعتوں کو اپنا مقصد بنائے ہوئے تلاش و جستجو کے اس سفر کو خیر باد کہہ چکی ہیں جو مادی فوائد اور ہوا و ہوس کے تقاضوں سے ماورا صرف تلاش حقیقت کے سچے جذبے کا نتیجہ تھا۔ نظم کی ابتداء میں بھی تقریباً اسی طرح کی ذہنیت کی طرف اشارہ کر کے شمع نے شاعر کی خود غرضی و خود نمائی کی خو کو اس کے کلام کی بے اثری کا سبب بتایا تھا۔ اب تک کے تمام بند ملت مسلمہ کی زبوں حالی کی منہ بولتی تصویریں ہیں، لیکن علامہ کوئی یاسیت پرست شاعر نہیں تھے۔ لہٰذا نہایت خوبصورتی سے گریز کی صورت پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ شاعر غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی ظلمت شب میں امید کی کرن وہ احساس ہے جو ملت مسلمہ کے دل میں پیدا ہو رہا ہے اور جس احساس کے تحت غیروں کی فکر سے چھٹکارا حاصل کر کے امت پھر اپنے اصل آئین کی طرف رخ کر رہی ہے اور اتحاد و اتفاق کی جو دولت اس نے کھو دی تھی اسے از سر نو حاصل کرنے کی طرف مائل ہے۔ یہ نہایت ہی نیک شگون ہے۔ احساس کی یہ تبدیلی دیکھ کر علامہ شمع کی زبان سے کہلواتے ہیں کہ اے ملت مسلمہ کے فرد اگر تجھے اب یہ احساس ہو ہی گیا ہے کہ تیری بربادی کا سبب اغیار تصورات تھے تو اب تو اپنی اہلیت سے بھی بخوبی واقف ہو جا اور سمجھ لے کہ تجھ میں امکانات کا ایک بے کراں سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تو اپنی ملت سے ربط پیدا کر کے ان امکانات کو بروئے کار لانے کی طرف متوجہ ہو جائے۔ ان امکانات کی وضاحت کرتے ہوئے شمع کہتی ہے۔ آشنا اپنی حقیقت سے ہو، اے دہقاں ذرا دانہ تو کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو رہرو بھی تو، رہبر بھی تو منزل بھی تو کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو بے خبر! تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے ان اشعار میں شاعر یا فرد ملت کو مخاطب نہیں کیا گیا ہے بلکہ دہقان سے مخاطب کرتے ہوئے انسان کی فضیلت اور اس کے اندر موجود امکانات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسے کسی طرح کے خوف اور تشویش کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی اس کی دسترس سے باہر نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں کل کائنات یعنی عالم اصفر ہے۔ ان اشعار میں جس شاعرانہ حسن کے ساتھ انسان کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ علامہ کی قدرت کلام کی ناقابل تردید شہادت مہیا کرتا ہے۔ بند کے آخری شعر میں اپنے مخاطب کو خدا کا آخری پیغام بتا کر نہایت خاموشی سے امت مسلمہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے اور اسی رشتے کے پیش نظر شاید یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ’’ خاشاک غیر اللہ‘‘ کو شعلہ بن کر پھونک دے۔ یہاں خاشاک غیر اللہ سے مراد غیروں کی وہ فکر اور تصورات ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کو گمراہی کے غار میں دھکیلا ہوا ہے۔ خاشاک غیر اللہ کو پھونک ڈالنے کے بعد کا نقشہ ملاحظہ ہو۔ آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار نکت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن میں ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی علامہ کو یقین ہے کہ انسان ایک دن اپنے امکانات سے اور افراد ملت اپنے آئین کی اصل روح سے آشنا ہو کر رہیں گے اور وہ دن نور و نکہت سے مزین انسانیت کی عظمتوں اور برکتوں کو اپنے جلو میں لے کر طلوع ہو گا۔ ان اشعار میں علامہ کی رجائیت ان کے یقین کامل سے پھوٹی ہوئی ایک حقیقت ہے جس کی وجہ سے ان اشعار سے جو فضا پیدا ہوتی ہے وہ یکسر نغمگی اور بہار آفریں کیف سامانی پر مشتمل نظر آتی ہے۔ علامہ کی دوسری نظموں کی طرح اس نظم میں بھی غیروں کی فکر سے چھٹکارہ حاصل کرنے اور سعی و عمل کو شعار بنانے کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ سعی و عمل کے ذریعے دکھوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس پوری دعوت میں پند و نصیحت کا انداز بالکل پیدا نہیں ہونے دیا ہے۔ نصیحت سے ایک طرح کی ضد پیدا ہوتی ہے لیکن علامہ کے کلام میں کہیں بھی ایسی صورت پیدا نہیں ہوتی کہ قارئین یہ سمجھیں کہ انہیں نصیحت کی جا رہی ہے۔ علامہ تو شاعری اور صرف شاعری کے قالب میں ڈھال کر اپنا پیغام خود اپنے آپ تک پہنچاتے ہیں یعنی وہ خود ہی خطاب کرتے ہیں اور خود ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ ان کا یہ انداز بلاشبہ بڑا موثر ثابت ہوتا ہے ان کی نظم ’’ شمع و شاعر‘‘ بھی اس اثر و تاثیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ ٭٭٭ مسجد قرطبہ ابن خلدون کا خیال ہے کہ کلام خواہ وہ نظم ہو یا نثر دراصل الفاظ کا فن ہے جہاں تک خیالات کا تعلق ہے وہ انسانوں کی مشترکہ دولت ہیں اور انہیں ہر شخص استعمال کر سکتا ہے۔ البتہ نظم کے الفاظ نثر کے الفاظ سے اس لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں کہ نظم کے الفاظ میں ان کی موسیقیت کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ملارمے نے بھی ابن خلدون کے خیالات سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا تھا کہ سانیٹ الفاظ سے بنتی ہے نہ کہ خیالات سے۔ اردو شاعری میں الفاظ کی صوتیات پر علامہ اقبال نے جس قدر توجہ دی ہے اور صوتیات سے جس قدر فائدہ اٹھایا ہے اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ان کی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ میں لفظوں کے صوتی زیرو بم اور ان کو ایک خاص ترتیب سے یکجا کر کے جو موسیقیت ابھاری گئی ہے وہ موضوع کو واضح اور اثر انگیز بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاعری دراصل جادو کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ جس طرح جادو میں منتروں کی آواز سے لوگوں کے جذبات و احساسات کو اسیر کیا جاتا تھا اسی طرح شاعری میں بھی لفظوں کے صوتی اثرات سے کام لیا جاتا ہے۔ جادو کے منتر بے معنی ہوتے تھے اور صرف آواز کے اتار چڑھاؤ سے دلوں کے تاروں کو چھیڑتے تھے لہٰذا کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاعری میں بھی جادو کی طرح صرف صوتی تاثرات سے کام لینا چاہئے اور لفظوں کے معنی کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن شاعری میں الفاظ کے معنی ہوتے ہیں جنہیں صوتی زیر و بم سے زیادہ واضح کیا جاتا ہے۔ الفاظ کی اصوات اور ان کے معنی میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق کے باوجود الفاظ کی اصوات میںمروجہ معنی کے علاوہ ثانوی معنی بھی مضمر ہوتے ہیں، لیکن مروجہ معنی سے قطع نظر کر کے صرف ثانوی معنی ہی کو سب کچھ سمجھ لینے کا نتیجہ اکثر ابہام بلکہ مہملیت کی صورت میں نکلتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ شعر میں ایسے قرائن رکھے جائیں کہ الفاظ کے مروجہ معنی کے ساتھ ساتھ اس کے ثانوی معنی بھی اجاگر ہو سکیں۔ ثانوی معنی کی وضاحت کرتے ہوئے ٹی ایس ایلیٹ نے بڑے پتے کی بات بتائی ہے وہ کہتا ہے کہ شاعر یا ادیب ایک عام انسان کے مقابلے میں زیادہ اوائلی انسان ہوتاہے، یعنی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اس کے اندر قبل از تاریخ کا آدمی زیادہ فعال ہوتا ہے۔ تاہم شاعر یا ادیب اپنے قبل از تاریخ کے وجود سے زیادہ قریب ہونے کے باوصف عام لوگوں سے زیادہ مہذب بھی ہوتا ہے۔ قبل از تاریخ کے انسان کی طرح اس کے افعال، حرکات و سکنات اور خیالات پر الفاظ کے صوتی زیر و بم نمایاں اثر مرتب کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان صوتی کیفیات کی سرشاری میں اس قابل ہو جاتا ہے کہ فطرت کی گہرائیوں میں جو غیر متشکل خیالات پوشیدہ ہیں ان کو معرض بیان میں لائے۔ ایلیٹ کی طرح پال ویلری کا بھی یہی خیال ہے کہ ہر حقیقی شاعر کے اندر ایک قدیم انسان چھپا بیٹھا ہوتا ہے جو اس ترقی یافتہ زمانے میں بھی زبان کے اصلی سرچشمے سے اپنی پیاس بجھاتا ہے (اس کے نزدیک زبان کا اصل چشمہ اصوات کا زیر و بم ہے) جس طرح ابتدائی دور کے طباع انسان صوتی کیفیات کی سرشاری میں الفاظ ایجاد کرتے تھے، اس طرح آج کے دور کا شاعر شعر ایجاد کرتا ہے لیکن وہ اپنے عمل شعر گوئی میں الفاظ کے مروجہ معنی سے بالکل بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ علامہ اقبال کی شعر گوئی یا تخلیقی عمل کا محرک تو اصوات نظر نہیں آتیں لیکن وہ اپنے اشعار کی ساخت یا تخلیقی عمل کی تشکیل و تعمیر میں اصوات کی افسوں گری سے پورا پورا کام لیتے ہیں۔ ان کے اکثر مصرعے لفظوں کی عام معنویت کو برقرار رکھتے ہوئے صوتیاتی زیر و بم سے ان لفظوں کے ثانوی معنی کو بھی اجاگر کر دیتے ہیں اور بعض اوقات وہ صوتی زیر و بم کو ا س معجزانہ سلیقے سے برتتے ہیں کہ لفظوں کے معنی پر توجہ دئیے بغیر صرف مصرعوں کے آہنگ سے مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ بطور خاص پیش کی جا سکتی ہے جس میں الفاظ کے صوتی زیر و بم اور ان کی مخصوص ترتیب سے پیدا ہونے والی موسیقیقت کے ساتھ ایسی بحر کا انتخاب عمل میں آیا ہے جو یکسر متحرک اور تیز رفتار ہے اس بحر کا انتخاب بغیر کسی سبب کے عمل میں نہیں آیا ہے۔ دراصل علامہ اس نظم میں زمانے کے گزراں ہونے کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے غیر ارادی طور پر ایسی بحر کا انتخاب کیا ہے جس میں حرکت و روانی کی کیفیت نمایاں طور پر پائی جاتی ہے۔ اس بحر کے ارکان اور اس میں شامل ا سباب و اوتار پر نظر ڈالیں تو آپ کو بحر کے متحرک ہونے کا اندازہ بہ آسانی ہو سکتا ہے۔ بحر کے ارکان میں ’’ مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن‘‘ اس کے رکن ’’ مفتعلن‘‘ میں پہلے سبب پھر وتد اور پھر سبب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بحر فکر و احساس کے ٹھہراؤ کے ساتھ پرواز خیال کی تیز رفتاری کو اجاگر کرنے کے لئے نہایت مناسب ہے۔ بحر کے دوسرے رکن ’’ فاعلن‘‘ کی بھی کچھ ایسی ہی صورت ہے۔ بحر کے اس فنکارانہ استعمال سے علامہ کے ذوق سلیم کی داخلی شہادت ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ علامہ نے بحر کے ارکان یا اس کے اسباب و اوتار کو دیکھ کر اس کا انتخاب نہیں کیا ہے بلکہ یہ انتخاب ان کے ذوق سلیم کا کارنامہ ہے۔ نظم کا موضوع مسجد قرطبہ ہے جسے دیکھ کر علامہ کی قوت متخیلہ انہیں ماضی کی دور تک سیر کراتی ہے اور اسپین میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا پورا نقشہ ان کی آنکھوں کے سامنے کر دیتی ہے۔ اس نقشے کو دیکھ کر ان کے دل و دماغ میں جو احساسات و خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ سب اس نظم میں سمو دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ نظم سچے احساس و خیال کے اظہار کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جو اثر و تاثیر کو لازمی بنا دیتی ہے۔علامہ کیونکہ فکری مزاج کے شاعر ہیں لہٰذا ان کے احساسات و خیالات کا گہرا ہونا بھی فطری بات ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نظم میں سموئے ہوئے احساسات و خیالات اپنی گہرائی اور گمبھیرتا کی وجہ سے نظم کو غیر معمولی وقعت و ترفع سے ہمکنار کر رہے ہیں۔ نظم کے پس منظر میں علامہ کا تصور ’’ دہر‘‘ کار فرما نظر آتا ہے جو ایک حدیث قدسی سے ماخوذ ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ ’’ دہر یعنی زمانے کو برا نہ کہو میں زمانہ ہوں‘‘ اس حدیث قدسی کے پیش نظر علامہ سمجھتے ہیں کہ اس کائنات میں جو کچھ رونما ہوتا ہے اس کا نقش گر زمانہ ہے۔ سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات سلسلہ روز و شب سے مراد مسلسل زمانے یعنی ’’ Serial Time‘‘ ہے جسے علامہ نے نقش گر حادثات کہا ہے۔ حادثہ کے ایک معنی تو ایسے نئے واقعہ کے رونما ہونے کے ہیں جو پہلے سے موجود نہ ہو لیکن دوسرے معنی مصیبت کے بھی ہیں۔ اس نظم میں علامہ کو زوال اندلس کی مصیبت پر روشنی ڈالتا تھی لہٰذا نقش گر حادثات کہہ کر اس مصیبت کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ ورنہ نئے واقعے کے اعتبار سے ’’ نقش گر واقعات‘‘ بھی کہا جا سکتا تھا لیکن وہ آئندہ بیان ہونے والی مصیبت سے کوئی خصوصی ربط نہ رکھتا۔ الفاظ و تراکیب کا یہ خیال انگیز و خیال افروز استعمال علامہ کی ایک نہایت ہی نمایاں خوبی ہے۔ا س شعر بلکہ اس بند کے کئی اشعار کی ساخت اس طرح رکھی گئی ہے کہ ہر مصرعہ دو برابر حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصہ کا لہجہ سوالیہ ہے یعنی سلسلہ روز و شب کہہ کر لہجے سے ظاہر کیا گیا ہے کہ سلسلہ روز و شب کیا ہے؟ پھر دوسرے مصرعہ میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ مثلاً سلسلہ روز و شب؟ نقش گر حادثات یعنی پہلا حصہ سوال اور دوسرا جواب ہے۔ اگر لہجے سے قطع نظر کر کے شعر کو دیکھیں تو یہ ایک بیان واقعہ ہے جسے شاعری نہیںکہا جا سکتا۔ یہاں شاعری صرف لہجے سے پیدا کی گئی ہے۔ سلسلہ روز و شب کو ’’ نقش گر حادثات‘‘ یا اصل حیات و ممات کہنے پر کچھ روایتی فکر کے لوگ اعتراض کرتے ہے کہ یہ کام زمانے کا نہیں بلکہ خدا کا ہے۔ اول تو یہ حضرات اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ علامہ کا یہ تصور خود حدیث قدسی سے ماخوذ ہے۔ دوسری بات ہے کہ انسان کا خالق تو بلا شبہ خدواند تعالیٰ ہے لیکن یہاں انسان کے وجود کا نہیں بلکہ اس کی زندگی و موت کے درمیانی وقفہ میں اس کی صفات کے ظہور اور اس کے افعال کا ذکر ہے جو اس کی شناخت ہیں اور جو زمانے کے حدود ہی میں ممکن ہیں۔ دوسرے شعر میں علامہ نے اپنے خیال کی مزید وضاحت کر دی ہے جس کے بعد کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ دوسرا شعر ہے۔ سلسلہ روز و شب تار حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات یہاں بہت وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ ذات یعنی ا صل وجود روز و شب کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ سلسلہ روز و شب تو وہ ریشمی کپڑا ہے جس سے ذات اپنی صفات کی قبا تیار کرتی ہے۔ سلسلہ روز و شب میں ظہور کرنے سے پہلے صفات ذات پردۂ فضا میں رہتی ہیں جن کی پہچان ممکن نہیں، لیکن سلسلہ روز و شب میں ذات کا ظہور اس کی پہچان کو ممکن بناتا ہے اور یہ پہچان زندگی و موت کے درمیانی وقفے میںلوگوں کی نظروں کے سامنے رہتی ہے ، لہٰذا ہم زندگی و موت کے درمیانی وقفے کو اس پہچان کا نقش گر کہہ سکتے ہیں۔ تیسرے شعر میں پھر ایک ایسی بات کہہ دی گئی ہے جس کی تفہیم کچھ روایتی ذہنوں کے لئے مشکل ہو جاتی ہے، یعنی ’’ سلسلہ روز و شب ساز ازل کی فغاں‘‘ پر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ علامہ نے زمانے کو ساز ازل کی فغاںکہہ کر اس کے قدیم ہونے کا تاثر دیا ہے جبکہ زمانہ حادث یا مخلوق ہے۔ اعتراض کرنے والے اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ یہاں زمانے کو ساز ازل کی فغاں ا س معنی میں کہا گیا ہے کہ ذات اس کے ذریعے ممکنات کے بلند و پست کا مشاہدہ کراتی ہے یہاں لفظ ممکنات استعمال ہوا ہے جو واجب یعنی قدیم کی ضد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ’’ ذات‘‘ قدیم ہے جو سلسلہ روز و شب میں اشیاء کو وجود میں لانے اور پھر انہیں معدوم کرنے کا تماشا دکھاتی رہتی ہے۔ یہاں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ’’ ممکن‘‘ اور’’ واجب‘‘ کی اصطلاحوں کی مزید وضاحت کر دیں۔ممکن ایسے وجود کو کہتے ہیں جس کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ممکن ہوں اور جو خود مکتفی نہ ہو بلکہ اپنے ہونے کے لئے کسی کا محتاج ہو، جبکہ واجب اس وجود کو کہتے ہیں جو خود مکتفی ہو اور جس کا معدوم ہونا ممکن نہ ہو۔ ممکن کی ماصیت اس کا حادث ہونا اور واجب کی حقیقت اس کا قدیم ہونا ہے۔ اس نظم میں علامہ نے اپنے تصور زمان کو بڑے موثر انداز سے پیش کیا ہے، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کے تصور زمان کی مختصراً وضاحت کر دی جائے۔ علامہ کہتے ہیں کہ اسلام کے مطابق زندگی کی اصل روحانی بنیاد ابدی ہے جو خود کو متنوع اور تغیر میں ظاہر کرتی ہے اور ایسا معاشرہ جس کا تصور حقیقت اس طرح کا ہو، اس کے لئے لازمی ہو جاتاہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات و تغیر کے تمام درجات سے ہم آہنگی پیدا کرے۔ ایسے معاشرے میں کچھ مستقل اصول ہوتے ہیں جن کا اطلاق اجتماعی نظم و ضبط کو برقرار رکھتا ہے۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مستقل اور ناقابل تغیر اصول ہی ایسی دہلیز فراہم کرتے ہیں جس سے گزر کر ہم ہر لمحہ بدلنے والی دنیا میں داخل ہوتے ہیں، لیکن جب ناقابل تغیر اصولوں سے یہ مطلب لیا جائے کہ تغیر و تبدل کے تمام امکانات ختم ہو گئے ہیں تو نتیجتاً وہ سب کچھ جو اپنی فطرت میں متحرک ہے، جمود و بے حرکتی کی صورت اختیار کرے گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تغیر و تبدل کے امکانات کو اپنی عظیم نشانیاں بتایا ہے۔ اسلام میں اجتہاد کا تصور بھی دراصل تغیر و تبدل کے امکانات کی تصدیق و توثیق کرتا ہے اور تغیر و تبدل کا سرچشمہ زمانہ ہے۔ علامہ نے زمانے کی حقیقت پر روشنی ڈالنے سے پہلے آئنا سٹائن کے تصور اضافیت کے بارے میں برٹر نڈرسل کے خیالات کا حوالہ دیا ہے۔ رسل کہتا ہے ’’ نظریہ اضافیت نے زمانے کو زمان/مکان میں مدغم کر کے مادے کے روائتی تصور کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ جو بات فلسفیوں کے استدلال سے ممکن نہ ہو سکی وہ اس نظریے نے ثابت کر کے دکھا دی ہے۔ مادے کے بارے میں عام خیال تھا کہ وہ زمان میں موجود ہوتا ہے اور مکان میں حرکت کرتا ہے، لیکن جدید علم طبیعیات نے اس خیال کو غلط قرار دیا ہے۔ جدید طبیعیات کے انکشافات کے مطابق مادہ کسی صورت میں بھی اپنی مختلف کیفیات کے ساتھ کوئی قائم و برقرارچیز نہیں ہے، بلکہ یہ باہم مربوط وقوعوںکا نظام ہے۔ مادے کے ٹھوس ہونے کے پرانے تصورات اب ختم ہو گئے ہیں اور ان تصورات کے ختم ہونے کے ساتھ مادہ کی وہ خصوصیات بھی باقی نہیں رہی ہیں جن کے مطابق مادئین، مادے کو خیالات گزراں سے الگ اپنے طور پر موجود حقیقت تصور کرتے تھے۔ جدید طبیعیات کے ان انکشافات کے پیش نظر پروفیسر وہائٹ ہیڈ کا خیال ہے کہ فطرت کوئی ایسی حقیقت نہیں ہے جو کسی متحرک خلا میں اپنا غیر متحرک وجود رکھتی ہے، بلکہ یہ وقوعوں کا ایک نظام ہے جو مسلسل تخلیقی رو سے آراستہ ہے۔ البتہ ان وقوعوں کو خیال الگ الگ کر کے غیر متحرک شناختیں بنا دیتا ہے۔ ان شناختوں ہی کے باہمی رشتوں سے زمان اور مکان کے تصورات پیدا ہوئے ہیں۔ جدید سائنسی انکشافات نے نیوٹن کے اس تصور کی نفی کر دی ہے جس کے تحت اشیاء ایک مطلق خلا میں موجود ہیں۔ روایتی تصورات کے مطابق مکان، لامتناہی نقاط اور زمان، لامتناہی آنات پر مشتمل ہے لیکن جدید سائنس کے مسلسل وقوعوں کے تصور نے زمان و مکان کی الگ الگ تقسیم کو ختم کر کے بس ایک مسلسل حرکت کو حقیقت ٹھہرایا ہے۔‘‘ علامہ اقبال بھی حقیقت زمان اور حقیقت حیات دونوں کو ایک مسلسل حرکت سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انسان کا مقدر یا انسانی تاریخ کا موڈ پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ زندگی کسی مقصد کی طرف آگے بڑھنے کے عمل کو زمانے کی تخلیقی رو میں ظاہر کرتی ہے۔ گویا زمانے کی تخلیقی رو ایک ایسی فعلیت ہے جو زندگی کی مجرد قدروں کو عملی دنیا میں بروئے کار لاتی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ زمانہ وقوعوں کے مسلسل ظہور میں آنے کا نام ہے لیکن بعض مفکرین کا خیال ہے کہ زمانے کے تغیرات دراصل طبیعیات کے ناقابل تغیر قوانین ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں، لیکن علامہ کے نزدیک زمانے کا تجربہ انسان کی باطنی زندگی میں ہوتا ہے، لہٰذا زمانے میں رونما ہونے والے تغیرات کا پیمانہ انسان ہی کی خودی ہوتی ہے۔ تغیرات کو طبیعیات کی عینک سے دیکھنے والوں کو جہاں تکرار کا عمل نظر آتا ہے وہاں وجدان سے کام لینے والے عمل ارتقاء کو سر گرم عمل دیکھتے ہیں۔ علامہ کہتے ہیں کہ انسانی مقدر کی تکمیل زمانے میں ہوتی ہے اور زمانے کی خصوصیت تغیر ہے لیکن یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو گا کہ تغیر کی اصلیت زمانہ ہے۔ غرضیکہ زمانہ ، علامہ کے نزدیک ایک مسلسل حرکت کا نام ہے جس میں نہ کوئی صبح ہے اورنہ شام۔ اسے دوران محض (Duration Pure) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، البتہ اس کے نتیجے میں جو مسلسل حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ اپنی ترتیب اور محل وقوع کے اعتبار سے ایک شناخت رکھتے ہیں۔ ان وقوعوں کا تعلق سلسلہ دار وقت (Serial Time)سے ہوتا ہے۔ علامہ نے اپنی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ میں زمانے کے دونوں درجات، یعنی دوران محض اور سلسلہ دار وقت کی اپنے طور پر بڑے موثر انداز سے تشریح کی ہے۔ علامہ نے زمانے کی ایک خوبی کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے ’’ صیرفی کائنات‘‘ یعنی کائنات کا صرف یا جوہری بتایا ہے جو لوگوں کو حالات کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھتا ہے۔ جس طرح جوہری سونے کو کسوٹی پر گھس کر بتانا ہے کہ سونا اصلی ہے یا نقلی اسی طرح زمانہ لوگوں کو حالات کی کسوٹی پر کس کر بتاتا ہے کہ ان کی کیا قدر و قیمت ہے۔ اس لحاظ سے زمانہ کائنات کا جوہری ہے جو اگر لوگوں کو کم عیار پاتا ہے تو ان کا حصہ موت کو قرار دیتا ہے لیکن جو حالات کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوتے ہیں، انہیں زندگی جاوداں کا حقدار ٹھہراتا ہے۔ سلسلہ روز و شب ہر لمحہ ایک نیا منظر دکھاتا ہے اور پرانے منظر کو آنکھوں سے اوجھل کر دیتا ہے۔ ایک منظر کے بعد دوسرے منظر کے ابھرنے کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ یہاں کسی بھی منظر کو مستقل قیام نہیں ہے البتہ وہ مردان خدا جو ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں جن کے نقش لازوال ہوتے ہیں وہ بود و نبود کے اس کھیل سے خود کو بلند کر لیتے ہیں اور بظاہر منظر سے ہٹنے کے باوجود ہر منظر میںباقی رہتے ہیں۔ علامہ کہتے ہیں۔ مرد خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام علامہ کے نزدیک عمل کی محرک عقل بھی ہو سکتی ہے اور عشق بھی لیکن وہ عمل جو عقل کے تقاضوں کی مطابقت میں انجام دیا جائے وہ اس عمل سے مختلف ہوتا ہے جس کا محرک عشق اور اس فرق کا اندازہ اس مقصد سے کیا جاتا ہے جس کے لئے عمل انجام دیا گیا ہو۔ عقل کے پیش نظر ذاتی اور فوری فائدہ ہوتا ہے۔ عقل ایسے گھاٹے کے سودا کا مشورہ نہیں دے سکتی جس سے صاحب عمل کے اپنے ذاتی مفادات کو دھچکا لگے۔ مثلاً اگر کسی اعلیٰ مقصد کے لئے جان کا نذرانہ لازمی ہو جائے تو عقل کا مشورہ ہو گا کہ انسان بجائے جان دینے کے آنکھیں چرا کر نکل جائے اور اپنی جان بچا لے، لیکن عشق کا مشورہ ذاتی مفادات سے ماوراء ہوتا ہے۔ عشق کی میزان میں نفع نقصان کے پیمانے سود و زیاں کے عام تصورات نہیں ہوتے، بلکہ اقدار ہوتی ہیں۔ عشق کا تقاضا ہوتا ہے کہ شر کے مقابلے میں حق و صداقت کی پیکار میں حق کا ساتھ دیا جائے، خواہ اس میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ علامہ عقل کے مقابلے میں ہمیشہ عشق کو فوقیت دیتے ہیں لیکن عہد حاضر کے بہت سے دانشوروں کی طرح وہ بے عقلی (Irrationality) کو عقل پر ترجیح دینے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ عقل کی ضرورت و اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ہر معاملے میں اس کی رہنمائی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ مثلاً ان کا ایک شعر ہے۔ اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے عام حالات میں عقل کا استعمال ضروری ہے لیکن بعض اوقات ایسی صورت حال بھی رونما ہو سکتی ہے جب عقل کا دخل ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں جذبہ عشق بروئے کار آ کر معجزوں کو ظہور میں لاتا ہے۔ محولہ بالا شعر میںعلامہ نے عقل پر عشق کو ترجیح ضرور دی ہے لیکن عقل کو پاسبان بھی کہا ہے جس سے عقل کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ عہد حاضر کے جدیدیت پرست جب عقل کو مسترد کرتے ہیں تو ان کا مقصد نا معقول کو معقول پر ترجیح دینا ہوتا ہے اور یہ رویہ بلا شبہ فساد کے دروازے کھول کر ہر طرف انتشار اور افراتفری کی فضا پیدا کر دیتا ہے۔ عقل جو انسان کی پہچان ہے اسے مسترد کرنا خود انسان کو مسترد کر کے انسانیت سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ علامہ عقل کو اس طرح مسترد کرنے کے ہولناک نتائج سے پوری طرح واقف تھے لہٰذا انہوں نے عقل کواس کی حد میں رکھ کر سراہا بھی ہے اور بعض حالات میں اس کی نارسی کا اعتراف کرتے ہوئے عشق کو اس پر ترجیح دی ہے۔ یہ ایک نہایت صحت مند اور متوازن رویہ ہے جو جدیدیت پرستوں کے مریضانہ اور غیر متوازن رویے سے بالکل مختلف ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہماری روایتی فکر کے کچھ نمائندے عشق کو عقل پر فوقیت تو دیتے ہیں لیکن وہ اپنے اس رویے میں عشق کو سرشاری اور استغراق کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتے، جبکہ علامہ عشق کو سیل کہہ کر اسے یکسر متحرک اور فعال جذبہ بتاتے ہیں۔ علامہ کی یہ تعبیر تاریخ سے پوری طرح ثابت ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ مقاصد کے لئے بہت سے صاحبان دل نے زمانے کا رخ موڑ کر رکھ دیا جس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ صاحبان دل اپنے طور پر نہایت فعال ہوتے ہیں۔ علامہ کے نزدیک جذبہ عشق استغراق و سرشاری کے نشے میں دنیا جہان سے بے خبر، عمل سے دور ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جذبہ عشق سے سرشار صاحب دل یکسر صاحب عمل ہوتا ہے۔ اس کا جذبہ عشق اس کے عمل کو جلا بخشتا اور اسے ایسی بصیرت سے آشنا کرتاہے جو آگ میں کودنے، تخت و تاج چھوڑ کر انسان کے دکھوں کا علاج تلاش کرنے اور زہر کا پیالہ پینے کو ممکن بنا دے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے محیر العقول کارنامے انجام دینے والے حیات جاوداں کے حقدار بن جاتے ہیں۔ موت ان پر حرام ہو جاتی ہے۔ علامہ نے جب مسجد قرطبہ کا نظارہ کیا تو ان کی نظروں میں ایسے صاحبان عشق کے عزم کی تصویریں گھومنے لگیں جن کی سرشاری کشتیوں کو آگ لگا کر پختہ یقین کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود اس شعر میں مسجد کی اینٹوں اور پتھروں کو خطاب نہیںکیا گیا، بلکہ اس جذبہ عشق کو آواز دی گئی ہے جو اس مسجد کی تعمیر میں بروئے کار آنے والے فن کی اساس ہے۔ علامہ کے نزدیک فنون لطیفہ کی تخلیق جذبہ عشق کے بغیر ممکن نہیں ہے ہر فن پارے میں فنکار کا خون جگر بولتا ہے۔ ہم کسی فن پارے کو دیکھ کر نہ صرف فنکار کے جذبات و احساسات اور خیالات و تصورات کا اندازہ آسانی سے کر لیتے ہیں بلکہ احساسات و خیالات کے تانے بانے سے بنی ہوئی اس شخصیت تک بھی پہنچ جاتے ہیں جو کسی خاص وقت اور خاص مقام پر یکساں اجتماعی فکر کے بہت سے لوگوں کے درمیان ضروری ہم آہنگی کے باوجود مخصوص انفرادیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ مخصوص انفرادیت ہی فنکار کی پہچان ہے لیکن افسوس کہ بہت سے روایتی انداز کے شعرا لکیر کے فقیر بنے اسلاف کی تقلید کو فن سمجھ بیٹھے ہیں۔ آئیے الفاظ، تراکیب اور بحر یا آہنگ کے فنکارانہ استعمال کے چند نمونے دیکھیں۔ تیری فضا دل فروز مری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کی کشود عرش معلی سے کم سینہ آدم نہیں گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا اس کو میسر نہیں سوز و گداز سجود کافر ہندی ہوں میں، دیکھ مرا ذوق و شوق دن میں صلوۃ درود، لب پہ صلوۃ و درود پہلے شعر میں مسجد کی فضا کی دل افروزی، اور شاعر کی آواز کی دلسوزی کی بہتات کو ظاہر کرنے کے ساتھ یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ مسجد کی فضا دل کو حضوری اور شاعر کو نوا دلوں کو کشادگی بھی فراوانی سے بہم پہنچاتی ہے۔ اب اگر الفاظ سے قطع نظر ہم آہنگ پر توجہ دیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس شعر میں ہر جگہ ’’ فاعلن‘‘ کی جگہ ’’ فاعلان‘‘ کا وزن رکھا گیا ہے۔ لیکن ’’ فاعلن‘‘ کی جگہ ’’ فاعلان‘‘ کا وزن صرف اس لئے نہیں رکھا گیا ہے کہ یہ عروض کے لحاظ سے درست ہے، بلکہ اس کا سبب فضا کی دل افروزی، نوا کی سینہ سوزی، دلوں کی حضوری اور دلوں کی کشادگی کو فراوانی سے ظاہر کرنا مقصود تھا جسے ایک حرف کے اضافے سے واضح کیا گیا ہے۔ یہ زائد حرف’’ دل فروز‘‘ میں’’ ز‘‘ سینہ سوز میں’’ ز‘‘ حضور میں’’ ر‘‘ اور کشود میں’’ د‘‘ ہے جس سے فضا کی دل افروزی، نوا کی سینہ سوزی، مسجد میں حاصل ہونے والی حضوری اور شاعر کے کلام سے ملنے والی دلوں کی کشادگی، فراوانی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ اور پھر ان زائد حروف کو اس ہنر مندی سے استعمال کیا گیا ہے کہ شعر کی روانی اور موسیقیقت دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے شعر میں صرف آخری رکن ’’ فاعلن‘‘ کو’’ فاعلان‘‘ کے وزن پر باندھا ہے، باقی تین جگہ ’’ فاعلن‘‘ کو فاعلن ہی کے وزن پر رکھا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شعر میں صرف سپہر کبود کی وسعت کو ابھارنا مقصود تھا۔ غرضیکہ علامہ جب بھی آہنگ کا کوئی تجربہ کرتے ہیں تو اس کا شعر کے مفہوم سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس بند میں علامہ نے اپنے تصور فن کی بڑی خرابی سے وضاحت کی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی پوری شاعری ان کے تصور فن سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ علامہ کے خیال سے مطابق جلال و جمال کی آمیزش سے شاعری پیغمبر ی کا جزو بنتی ہے، ایسی شاعری جو ان دونوں جہتوں میں سے کسی ایک سے بھی عاری ہو وہ صحیح معنوں میں شاعری کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر میں جس فن کا اظہار ہوا ہے وہ اس زمانے کے مسلمانوں کے فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ اور جلال و جمال کی آمیزش کی نہایت نادر مثال ہے۔ یہ شعر دیکھئے: تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل اس شعر میں مسجد کی مضبوط و پائیدار تعمیر کے حوالے سے اس عزم کو اجاگر کیا گیا ہے جو مسجد تعمیر کرنے والوں کے دلوں میں موجزن تھا جس کے پس پشت ایمان ویقین کے جو حوصلہ افزا سائے پھیلے ہوئے تھے ان میں رمزیت و ایمائیت کی کیفیت بھی بدرجہ اتم موجود تھی، چنانچہ شعر کا دوسرا مصرع’’ شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل‘‘ صرف منظر کشی ہی کا نمونہ نہیں ہے بلکہ اس مصرع میں منظر کشی کے ساتھ ایک پر اسرار فضا بھی ابھرتی ہے جس کا اندازہ وہ حضرات بخوبی کر سکتے ہیں جنہوں نے صحرا میں کھجور کے پیڑوں کی قطار کو دیکھا ہے۔ اس مصرع میں موجود پر اسراریت کی فضا، اندلس کے ان صاحبان عشق کی ایمائیت و رمزیت کو نمایاں کرتی ہے جنہوں نے ساحل پر کشتیاں جلا کر اپنی پیش رفت جاری رکھی تھی۔ مصرعوں کے آہنگ اور ان سے ابھرنے والی فضا سے اس طرح کا کام لینے کو معجزہ فن کہتے ہیں، اور علامہ فن کے یہ معجزے ساری عمر دکھاتے رہے۔ علامہ کے نزدیک صاحبان عشق اپنی تمام تر سرشاری و استغراق کے باوجود ’’ کار آفریں‘‘ کار کشا اور کار ساز ہوتے ہیں البتہ ان کی یہ کار آفرینی صرف ذاتی منفعت کے لئے نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ اپنی زندگیاں’’ مقاصد جلیل‘‘ کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے لئے نہایت ’’ جلیل امیدیں‘‘ رکھنے کے باوجود اپنے عمل میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دیتے، جس کا سبب یہ ہے کہ اعلیٰ مقاصد انکی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتے۔ ان کے عمل کی محرک ان کی خودی ہوتی ہے۔ جبکہ وہ لوگ جن کی سرشاری ترک عمل پر منتج ہوتی ہے دراصل اپنی ذات کی معرفت سے محروم ہوتے ہیں۔ جذبہ عشق سے سرشاری عمل اور ترک عمل کے ان دونوں رویوں سے الگ عمل کا ایک ایسا رویہ بھی ہے جس میں جذبہ عشق کی کوئی کار فرمائی ہوتی ہی نہیں ہے۔ جذبہ عشق سے محروم عمل کے مظاہرے بھی بہت عام ہیں لیکن اس طرح کے عمل کی محرک خودی نہیں بلکہ خود پسندی، خود نمائی اور خود غرضی ہوتی ہے۔ عمل کی یہ صورت اپنے آخری مرحلہ میں شر اور فساد پر منتج ہوتی ہے۔ علامہ ترک عمل کے رویے کو مسترد کرنے کے ساتھ خود پسندی کے ہاتھوں انجام پانے والے عمل کو بھی مسترد کرتے ہیں وہ تو صرف اس صاحب عمل کو تسلیم کرتے ہیں جو عقل کی منزلا ور عشق کا حاصل ہو اور جس کی وجہ سے پوری دنیا میں زندگی کی لہر دوڑتی نظر آئے۔ عرب سے اندلس کی سر زمین میں آنے والے کچھ عشاق نے خود کو جس طرح عقل کی منزل اور عشق کا حاصل ثابت کیا تھا اسی انداز کے حاملان عقل اور صاحبان عشق کو علامہ کی نظریں تلاش کرتی رہتی ہیں۔ مسجد قرطبہ میں انہوں نے اپنی اس تلاش و جستجو کو شاعری میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ علامہ کے مسلک میں مایوسی حرام ہے۔ وہ خراب سے خراب حالات میں بھی بہتری کی صورت تلاش کر لیتے ہیں۔ رجائیت ان کے لہو میں دوڑتی ہوئی ایک حقیقت ہے۔ مسجد قرطبہ کا نظارہ کرتے ہوئے ان کی قوت متخیلہ نے انہیں صرف ماضی کی سیر نہیں کرائی ہے بلکہ مستقبل کی جھلکیاں بھی دکھائی ہیں۔ مستقبل کی یہ جھلکیاں ایک طرح سے خدائی راز ہیں جنہیں کھل کر بیان کرنا مشکل ہے، البتہ یورپ میں اصلاح دین (Reformation) کے نتائج اور انقلاب فرانس کا انجام دیکھا جا چکا ہے اور اب شاید وہاں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی مذہبی اور سیاسی ترقی کی مساعی میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔لہٰذا اصل ترقی کے لئے جن صاحبان عشق کی ضرورت ہے وہ یورپ میں نہیں ہیں، لیکن علامہ کی چشم بصیرت عرب سے اندلس آنے والے صاحبان عشق کی طرح کے لوگوں کو از سر نو پیدا ہوتے دیکھ رہی ہے۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ صاحبان عشق کیا کارنامہ انجام دیتے ہیں تاہم اس کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ علامہ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے کارنامے کے انتظار میں ہیں۔ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا جو حادثات و واقعات پردۂ غیب میں چھپے ہوئے ہیں لیکن ظہور میں آنے کے لئے بیتاب ہیں انہیں یہ کہنا کہ ’’ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا‘‘ نہایت بلیغ پیرایہ اظہار ہے ’’ اچھلتا ہے کیا‘‘ کی حرکی کیفیت علامہ کے فلسفہ حرکت اور نظم میں بیان کردہ حقیقت عمل سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ دوسری مصرع میں ’’ گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا‘‘ میں فلسفہ حرکت کے ساتھ تصور تغیر کی بزبان تمثال تشریح ہے۔ آئیے نظم کے اس آخری بند کے آخری پانچ اشعار پر ایک نظر ڈالیں۔ عالم تو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھ ادوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش انقلاب صورت شمشیر ہے دست قضا میں قوم کرتی ہے جو ہر زماں، اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر ان آخری اشعار میں علامہ نے اپنے پیغام، اپنے فلسفے اور اپنے تصور فن کا خلاصہ پیش کر دیا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ مستقبل کی نوید کو سعی و عمل سے اس طرح مربوط کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اسے تعلیم عمل دی جا رہی ہے۔ آخری شعر میں تصور فن کی وضاحت کی گئی ہے اور اسے خون جگر کے بغیر سودائے خام کہا گیا ہے۔ ان کا یہ تصور فن بھی ان کے پیغام عمل اور عمل کی نوعیت سے مربوط نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے علامہ نے پوری نظم میں صاحبان عشق کے عمل ہی کو سراہا ہے۔ جس طرح صاحبان عمل کے کارنامے جذبہ عشق کے بغیر قابل اعتنا نہیں ہوتے، اس طرح فنی تخلیقات بھی فنکار کے جذبہ عشق کے بغیر قابل قبو ل نہیں ہو سکتیں۔ یہاں سچے فن اور اعلیٰ و ارفع عمل کی مماثلت دکھا کر علامہ نے اس ایک ’’ کل‘‘ یا اکائی کو ابھارا ہے جو فرد اور معاشرے، دونوں کے استحکام اور سالمیت کا اشاریہ ہے۔ یہ مماثلتیں نظم کی اکائی اور اس کے پوری طرح سے مربوط ہونے کی داخلی شہادت بھی فراہم کرتی ہیں غرضیکہ علامہ کی یہ نظم ماضی، حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی اور انسان کی فعالیت کو نہایت موثر انداز سے اجاگر کرتی ہے۔ ٭٭٭ علامہ اقبال کی غزلیہ شاعری غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف تصور کی جاتی ہے۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ مولانا حالی اور ان کے بعد متعدد ادبی شخصیات نے غزل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے طرح طرح اپنی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اس کی مقبولیت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ وہ برابر ارتقائی مراحل طے کرتی رہی اور طرز احساس کی ہر تبدیلی کا ساتھ دیتے ہوئے اس صنف نے عصری تقاضوں کو بدرجہ احسن پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس سلسلہ میں علامہ اقبال کی غزلیں نہ صرف اپنے عہد سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں بلکہ ان کی غزلوں نے اردو شاعری کو ایک بالکل ہی نئے ذائقے سے آشنا کیا ہے۔ یوں تو غزل کے لئے خصوصی مضامین کا تصور کبھی بھی نہیں رہا اور غزل کو اصل زندگی سے کاٹ کر صرف تصوراتی اور خیالی دنیا کی چیز کبھی نہیں سمجھا گیا لیکن ہمارے روایتی معاشرے کی علمی تہذیبی اور اخلاقی اقدار کے پیش نظر چند مخصوص مضامین پر نسبتاً زیادہ توجہ دی جاتی رہی ہے۔ ان خصوصی مضامین میں تصوف کے مسائل، زندگی کی بے ثباتی، اور مہر و وفا وغیرہ سے متعلق موضوعات شامل ہیں۔ لیکن برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد یہاں ریلوں کا جال بچھنے سے جو تبدیلیاں آئیں اور ان تبدیلیوں کے دوش بدوش مغربی علوم نے ہمارے احساس و فکر پر جو اثرات مرتب کئے، ان سب نے مل کر ہمارے معاشرے کی ساخت اور اس کی مسلمہ اقدار میں اتھل پتھل کا عمل شروع کر دیا اور ہم زرعی ماحول سے منسلک رہنے کے باوجود صنعتی ترقی کی پیدا کردہ نئی فضا کوبھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔ یہ ایسی صورت حال تھی جس میں روایتی مضامین سے ہٹ کر نئے معاشرتی مسائل پر توجہ درکار تھی، لیکن ہماری شاعری میں ایسی کوئی مثال نہیں تھی جس میں معاشرتی مسائل کو پوری طرح شعری قالب میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہو۔ اس سلسلے میںکچھ لوگ مولانا حالی کے مسدس کا حوالہ دیں گے، لیکن یہ مسدس اپنی تمام تر اہمیت و فضیلت کے باوجود معاشرتی مسائل کی بجائے مجموعی طور پر مسلم معاشرے کے عروج و زوال کی اثر انگیز تصویر ہے۔ علامہ اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے بظاہر شاعرانہ معاشرتی موضوعات اور جدید ترین سائنسی و فلسفیانہ مسائل کو غزل میں برت کر غزل کے لئے ایک نہایت کشادہ اور تازہ و تابندہ فضا تخلیق کی۔ ان کی غزلوں میں موجود جدت و ندرت اور اثر و تاثیر کے پیش نظر ہم انہیں اپنے انداز کا پہلا ہی نہیں بلکہ آخری شاعر بھی کہہ سکتے ہیں۔ آخری شاعر اس اعتبار سے کہ انہوں نے اس نئے اسلوب کو جس درجہ کمال تک پہنچا دیا تھا، اس کے بعد اس کو آگے بڑھانے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا لہٰذا بعد میں جس شاعر نے بھی ان کے ا سلوب کو اپنانے کی کوشش کی اسے بجز ناکامی کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ علامہ نے برصغیر کے مسلم معاشرے کی تصویر کشی جس خلاقانہ انداز سے کی ہے، اس کے لئے ہمہ جہتی آگہی کے ساتھ رموز شعر سے بطور خاص واقف ہونا شرط اول ہے۔ مشرق و مغرب کے فلسفے پر علامہ کی گہری نظر تھی اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ شاعری اور نثر میں جو فرق ہے، اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ شاعری میں لفظوں کو خاص انداز سے برتا جاتا ہے اور اس میں استعاروں اور تمثالوں سے کام لیا جاتا ہے، کیونکہ نثر میں بھی لفظوں کو خاص انداز سے برتا اور استعاروں سے کام لیا جا سکتا ہے۔ دراصل شاعری اور نثر کا فرق بنیادی طور پر شاعر اور نثر نگار کے طرز ادراک کا فرق ہے۔ بقول سارتر شاعر کا طرز ادراک الفاظ کو ایک نئی صورت عطا کرتا ہے۔ اس نئی صورت میں الفاظ اشیا کے نشان نہیں بلکہ خود اشیا بن جاتے ہیں اور عالم اشیا میں اضافہ کرتے ہیں۔ لفظوں کے اشیا بن جانے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ شاعر کی توجہ شے پر نہیں بلکہ شیئت (Thingness) پر ہوتی ہے۔ نثر نگار شے کو اجاگر کرتا ہے جبکہ شاعر کا طرز ادراک شیئت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی اس کوشش میں وہ شے کے نشان یعنی لفظ کو خود ایک شے بنا دیتا ہے جو نظر آنے والی شے سے مختلف ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ مختلف شے عالم اشیاء میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ کی پوری شاعری عالم اشیاء میں اضافے کی نہایت اعلیٰ مثال ہے۔ ان کے ہاں جگنو، چاند، پہاڑ، گلہڑی اور شمع جیسے الفاظ اشیا کے نشان نہیں بلکہ اپنے طور پر اشیا بن کر عالم اشیا میں اضافہ کرتے ہیں گویا الفاظ ان کے ادراک کی گرفت میں آ کر بالکل ہی نئی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور شاید الفاظ کی اس قلب ماہیت ہی کو شاعری کہتے ہیں۔ عہد حاضر کی پریشاں خاطری کا ایک بڑا سبب غلط قسم کا تصور انسان ہے۔ اس تصور کی بنیاد روسو کا پیش کردہ آزادی کا تصور ہے۔ روسو کہتا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور زنجیروں سے اس کی مراد تہذیب و ثقافت اور سماج کی عائد کردہ پابندیاں ہیں۔ لہٰذا اس نے تہذیب و تمدن اور سماجی بندھنوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا سبق پڑھایا جبکہ مغرب کے کچھ دوسرے مفکرین نے انسان کو بالکل واضح طور پر اس کی فردیت تک محدود کر کے اسے اس کی تاریخ، اس کی تہذیب حتیٰ کہ اس کے معاشرے تک سے کاٹ کر رکھ دیا اور اسے سمجھایا کہ انسان صرف فرد ہے، نہ فرد سے زیادہ کچھ ہے اور نہ فرد سے کم کچھ ہے۔ فردیت کے اس تصور نے انسان کو ا سکی کلیت سے محروم کر کے کسریٰ انسان میں تبدیل کر دیا۔ علامہ نے اس نازک صورت حال کا تجزیہ بڑی دلسوزی سے کیا ہے اور انسان پر از سر نو پورے انسان کے امکانات کو روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری شاعری اور بالخصوص ہماری غزلیہ شاعری کے لئے فکر کی یہ جہت بالکل ہی نئی جہت تھی۔ اس نئی فکری جہت کو شعری پیکر عطا کرنا جوئے شیر نکالنے سے کم مشکل کام نہیں تھا لیکن علامہ نے اس مشکل کو جس ہنرمندی اور خوبصورتی سے حل کیا ہے اسے دیکھ کر یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ شاعر کو یہ طرز ایجاد کرنے یا یہ اسلوب وضع کرنے میں کس قدر مشکلات سے گزرنا پڑا ہو گا۔ علامہ کی غزلوں کے اس نئے اسلوب کا سب سے بڑا کرشمہ یہ ہے کہ ان غزلوں میں بیان کردہ قطعی اجنبی فکر کو بالکل مانوس بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ کرشمہ دکھانے کے لئے علامہ نے اپنے پیرایہ اظہار میں پرانے استعاروں کو نئے مفاہیم عطا کر کے نیز زبان و بیان پر اپنی کامل گرفت سے کام لے کر مصرعوں میں ایسی روانی اور موسیقیقت پیدا کر دی ہے کہ اجنبیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر چشم مہرومہ و انجم کو تماشائی کر تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر پہلے مصرع کے پہلے حصے میں’’ پردہ چہرے سے اٹھانے‘‘ کی جو بات کی گئی ہے وہ کسی طرح کی تلقین پابند و نصیحت کی صورت میں نہیں ہے بلکہ عہد حاضر کے انسان کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اس نے ناقص تصورات کے پردوں میں اپنی حقیقت کو چھپا رکھا ہے اور وہ اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر پورے انسان کے اعلیٰ و ارفع مقام سے محروم ہو گیا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے ہم جنسوں اور اپنے اطراف کے حالات و واقعات اور اشیا و مناظر سے از سر نو صحت مند رشتہ قائم کرے۔ اس رشتے کے قیام کے لئے ناقص تصورات سے چھٹکارا پانا پہلی شرط ہے۔ ’’پردہ چہرے سے اٹھا‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ پوری دنیا سے کاٹ کر رکھ دینے والی فردیت پرستی کے تصورات سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ مصرع کے پہلے حصے میں’’ پردہ چہرے سے اٹھا‘‘ ایک تمثیلی بیان ہے جس میں پردے سے مراد ناقص تصورات ہیں اور چہرے سے مراد انسان کی اصلی حقیقت ہے۔ یہاں علامہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ عہد حاضر کے ناقص تصورات انسان کی اصل حقیقت کو چھپا لیتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا تو کیا وہ خود سے بھی بچھڑ کر مکمل تنہائی کا عذاب سہتا ہے۔ مصرع کے دوسرے حصے میں’’ انجمن آرائی کر‘‘ کے تمثیلی بیان سے عقدہ کشائی کا عجب کام لیا گیا ہے۔ انجمن اور تنہائی ایک دوسرے کی ضد ہیں لہٰذا تنہائی سے چھٹکا را اسے انجمن آرائی کی نشاط انگیزی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ دوسرے مصرع میں انجمن آرائی کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ نہایت دلکش و دلنشین ہے۔ اس تصویر میں انسان کی ذات مہر و مہ و انجم کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ زمین سے آسمان تک سجی ہوئی یہ انجمن وہ منظر ابھارتی ہے جس میں انسان اپنی حقیقت کی آگہی سے سرشار ہو کر دیکھتا ہے کہ پوری کائنات اس سے اور وہ پوری کائنات سے ایک اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوا ہے، لیکن جب کوئی اپنے ناقص تصورات سے اس بندھن کو توڑ دیتا ہے تو انسان تنہائی کے مہیب اندھیروں کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ جدید عہد کی تنہائی اور اجنبیت کے گہرے سایوں کی پوری کیفیت اور اس سے چھٹکارے کے طریقہ کار کو علامہ نے دو مصرعوں میں جس طرح واضح کر دیا ہے وہ یقینا بلاغت اور معجز بیانی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ اب دوسرا شعر دیکھئے جس میں بجلی اور چشمک جیسے جلی او رخفی اشاروں کو یکجا کر کے صورت حال کو روشن کیا گیا ہے۔ بجلی کی چمک بالکل ظاہر ہوتی ہے جبکہ چشمک چھپ کر آنکھوں سے اشارہ کرنے کو کہتے ہیں۔ علامہ بتاتے ہیں کہ انسان کی حقیقت بجلی کی طرح تابناک ہے لیکن یہ حقیقت انسان پر واضح طور پر روشن ہونے کے بجائے چھپ کر آنکھوں سے اشارے کر رہی ہے یہاں بھی جدید عہد کے ناقص تصورات کی نشاندہی کی گئی ہے جس نے بجلی کی تابناکی یعنی حقیقت انسان کو انسان سے چھپا رکھا ہے، لیکن یہ حقیقت ظاہر ہونے کے لئے بے تاب ہے اور اشارات خفی کے ذریعہ خود کو آشکار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ علامہ انسان کی حقیقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اشارات خفی کے بجائے وہ بے حجابانہ طور پر انسان سے شناسائی پیدا کرے یعنی انسان ناقص تصورات سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنی حقیقت کی آگہی حاصل کرے۔ تیسرا شعر علامہ کی فنی چابکدستی کی عجیب و غریب مثال ہے۔ اس شعر میں انتہائی گھسے پٹے مضمون کو حد درجہ تازہ کاری کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا سرچشمہ حضرت علیؓ کا یہ قول ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ اردو اور فارسی شاعری میں اسے طرح طرح سے ادا کیا گیا ہے۔ جلوہ حق کے طور پر دیکھنے کے بجائے جلوہ حق کو اپنی ذات سے عیاں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ مضمون آفرینی اور جدت طرازی کی ایک نادر مثال ہے۔ انسان کی عظمت سے متعلق چند اشعار اور ملاحظہ ہوں۔ کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں ترے مقام کو انجم شناس کیا سمجھے کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں یہ اور ایسے بہت سے دوسرے اشعار انسان کی حقیقت کو نہایت بلیغ انداز سے واضح کر رہے ہیں اور اس وضاحت میںکہیں بھی مسئلے کا براہ راست ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ مسئلے کا براہ راست بیان تغزل سے ہاتھ دھو لینے کے مترادف ہے۔ غزل میں تو مشاہدہ حق کی گفتگو کے لئے بھی بادہ و ساغر کی بات کرنی پڑتی ہے ۔ علامہ غزل میں استعاروں اور کنایوں کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے لہٰذا انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری کے لئے ایسے استعاروں اور کنایوں کا انتخاب کیا ہے جو ان کے تصورات اور ان کی فکری گہرائی سے معنوی مناسبت رکھتے ہوں۔ مثال کے طور پر مذکورہ بالا اشعار میں ’’ کارواں‘‘ عشق کی اک جست’’ بحر‘‘ آبجو وغیرہ وغیرہ آئیے پہلے شعر پر ایک نظر ڈالیں۔ علامہ کہتے ہیں کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں علامہ انسانیت کی معراج رسول اکرمؐ کو سمجھتے ہیں لہٰذا جب بھی وہ انسانیت کی عظمت یا بڑائی کا ذکر کرتے ہیں تو کہیں خفی اور کہیں جلی طور پر سول اکرم ؐ کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ ان کے خفی طور پر اشاروں کو کنائے اور جلی طور اشاروں کو استعارے کہا جا سکتا ہے۔ مذکورہ شعر میں پہلا مصرع پورے کا پورا ایک کنایہ ہے جو رسول اکرمؐ کے واقعہ معراج کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی رسول اکرمؐ جب معراج پر گئے تو انہوں نے پلک جھپکنے کے وقفہ میں پوری کائنات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دراصل انسان کی عظمت اور اس کے اندر موجود امکانات کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ یوں تو انسان خود کو اس کائنات کا ایک حصہ سمجھتا ہے اور کائنات کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے وہ کائنات کی جملہ اشیاء کے ساتھ سرگرم سفر ہے۔ اس کے سفر میں دوسری اشیاء کے علاوہ مہر و ماہ و مشتری بھی اس کی ہم عناں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اشیا ایک حد تک ہی اس کا ساتھ دے سکتی ہیں کیونکہ ان کی پہنچ اس کائنات کی فضاؤں سے آگے بالکل نہیں ہے۔ جبکہ انسان کی پرواز ستاروں سے آگے کے جہانوں تک کا احاطہ کرتی ہے۔ دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ یعنی ’’ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام‘‘ بھی کنایہ ہے اور یہ کنایہ بھی رسول اکرمؐ کی معراج کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جو بات پہلے شعر میں کہی گئی ہے وہی اس شعر میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس طرح علامہ نے ایک مضمون کو ’’ سو ڈھنگ‘‘ سے باندھنے کے فن پر اپنی قدرت اور گرفت کا اظہار کیا ہے۔ تیسرا شعر تلمیح اور استعارے کی ملی جلی مثال ہے جس میں ’’ معراج مصطفیٰؐ ‘‘ تلمیح اور عالم بشریت استعارہ ہے جو رسول اکرم ؐ کی ذات کو کمال انسانیت کے طور پر اجاگر کر رہا ہے۔ یہ تینوں اشعار کنایہ تلمیح اور استعارے کے فنکارانہ استعمال کے نہایت اعلیٰ اور بھرپور نمونے ہیں۔ آخری دو اشعار کی تکنیک قدرے مختلف ہے۔ ان میں اس عطیہ خداوندی کا ذکر ہے جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ عطیہ خداوندی انسان کی خودی ہے جو دراصل انسان کے اندر موجود امکانات کا ایک اشاریہ ہے اوران امکانات کو سمجھنے کے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اور یہ پوری کائنات اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں اپنی روح پھونکی ہے۔ اب وہ مخلوق جس میں خالق نے اپنی روح پھونکی ہو، اپنی اصلیت میں امکانات کا بحر بیکراں نہیں تو کیا ہو گا لیکن انسان جب اپنی حقیقت کی آگہی سے محروم ہو کر خود اپنی ذات سے بچھڑ جاتا ہے تو وہ خود کو ایک آبجو تصور کرنے لگتا ہے۔ یہ دراصل فہم کا قصور ہے۔ فہم کے اس قصور کی ایک مثال عہد حاضر کی فردیت پرستی ہے جس کی وجہ سے انسان خود کو بالکل تنہا سمجھنے لگتا ہے۔ تنہائی کے اس عالم میں اسے خوف و دہشت کے گہرے سائے گھیر لیتے ہیں اور وہ ریزہ ریزہ ہو کر رہ جاتا ہے آخری شعر میں انسان کی فعالیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان نجومیوں سے اپنی تقدیر کا حال پوچھتا ہے حالانکہ وہ اپنی تقدیر خود بناتا ہے ستاروں کے تابع ہونا اس کو کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا ہے۔ غور کیجئے کہ ستارے جس کے لئے مسخر کر دئیے گئے ہوں وہ بھلا اس کی قسمت کس طرح بنا سکتے ہیں۔ اس شعر کی خوبی بھی یہی ہے کہ اصل مفہوم یعنی انسان کی فعالیت کو بین السطو رہی میں بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی تقدیر آپ بناتا ہے۔ اب تک ہماری غزل میں راز و نیاز کی باتیں محب اور محبوب کے درمیان ہوتی رہی ہیں۔ علامہ نے راز و نیاز کے مکالموں کا رخ محب اور محبوب سے موڑ کر خالق اور مخلوق کی طرف کر دیا ہے۔ ہماری روایتی شاعری میں اگر راز و نیاز کا مکالمہ خدا اور بندے کے درمیان ہوتا بھی تھا تو اس کی نوعیت بھی عاشق و معشوق کے درمیان مکالمہ کی ہوتی تھی۔ علامہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عشق و محبت کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے خالق و مخلوق کی نوعیتوں کو ابھارا ہے۔ بال جبریل کی ابتدائی آٹھ غزلیں خالق و مخلوق کے درمیان نہایت فکر انگیز مکالموں پر مشتمل ہیں۔ ان مکالموں میں شکوے بھی ہیں اور التجائیں بھی اور لطف یہ ہے کہ وہ شکوہ ہو یا التجا، ہر صورت میں خالق کی کبریائی اور انسان کی آرزو مندی و جستجو کی نوعیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ میری نوائے شوق سے شور حریم ذاق میں غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوال آدم خاکی زباں تیرا ہے یا میرا اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب لامکاں تیرا ہے یا میرا عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آبجو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو میں ہوں خذف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر یہ مشت خاک، یہ مرمر، یہ وسعت افلاک کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا پھر ذوق و شوق دیکھ دل بیقرار کر حرم کے دل میں سوز آرزو پیدا نہیں ہوتا کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ تیرے پیمانے میں ہیماہ تمام اے ساقی تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی ان اشعار میں ’’ نوائے شوق‘‘ مجھے فکر جہاں کیوں ہو، زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا تو ہے محیط بیکراں، باغ بہشت سے مجھے اذن سفر دیا تھا کیوں ’’ قصور وار غریب الدیار‘‘ جیسے الفاظ و تراکیب بطور خاص غور طلب ہیں۔’’ نوائے شوق‘‘ انسان کی آرزو مندی اور اس کے جذبہ جستجو کا اشاریہ ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آرزو مندی اور جستجو دو ایسی خصوصیات ہیں جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممیز کرتی ہیں۔’’ مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا‘‘ کہہ کر علامہ نے نہایت بلیغ انداز سے اپنے فکر کا آغا کیا ہے۔ بظاہر تو وہ فکر جہاں سے انکار کرتے اور اس کو خدا کا مسئلہ بتاتے ہیں لیکن لہجے کے تیور بتا رہے ہیں کہ دنیامیں جو خرابیاں نظر آتی ہیں انہیں دور کرنا خدا کا کام ہے لیکن اس کی شان بے نیازی اس طرف توجہ نہیں دے رہی جبکہ شاعر کو اس کی خرابیاں دور کرنے کی فکر نے بے چین کر رکھا ہے۔ بات کو اس بلیغ انداز سے کہنے کے لئے زبان پر قدرت اور لفظوں کے مزاج سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ داغ کے ہاں مضمون کی ایسی گہرائی تو نہیں ہے لیکن زبان پر قدرت رکھنے کی وجہ سے بلاغت کے اس انداز کا مظاہرہ بڑی خوبی سے ہوا ہے۔ مثلاً آپ سے ملنے کے ہوں گے جسے ارماں ہوں گے آپ کے سر کی قسم داغ کو پروا بھی نہیں ’’ زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا‘‘ میں بھی بلاغت کے اسی انداز کامظاہرہ کیا گیا ہے اس تغزل آمیز ایمائیت و بلاغت کے سلسلے میں یہ شعر دیکھئے: قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد اس شعر میں ’’ قصور‘‘ کا لفظ ’’ گناہ آدم‘‘ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ’’ غریب الدیا‘‘ سے مطلب یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں پردیسی ہے کیونکہ اس کا اصل وطن جنت ہے۔ قصور وار، غریب الدیار کا مطلب یہ ہوا کہ انسان گناہ آدم کی پاداش میں اپنے اصلی وطن سے دور زندگی گزار رہا ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا کو آباد کرنا فرشتوں کے لئے ممکن نہیں تھا کیونکہ ا س دنیا میں آرزو اور جستجو جیسی خصوصیات کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور فرشتے ان خصوصیات سے محروم ہیں۔ انسان کے اندر آرزو اور جستجو کی خصوصیات کی طرف اشارہ کر کے علامہ نے نہایت فنی چابکدستی کے ساتھ گناہ آدم کا جواز بھی پیش کر دیا ہے۔ غرضیکہ یہ ایک نہایت بلیغ اور جامع انداز بیان ہے۔ ’’ احساس بیگانگی‘‘ عہد حاضر کا نہایت اہم موضوع ہے۔ علامہ نے خود کو دنیا میں غریب الدیار کہہ کر احساس بیگانگی کی ما بعد الطبعی سطح کو بھی ابھار دیا ہے اورانہوں نے اپنے انداز کے تحت احساس بیگانگی کا کہیں نام تک نہیں لیا۔ صرف غریب الدیار کہہ کر وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو احساس بیگانگی کی ما بعد الطبیعی حقیقت سے آگہی کے بعد کہا جا سکتا تھا۔ میر تقی میر نے بھی بیگانگی کی اسی سطح کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: وجہ بیگانگی نہیں معلوم تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں ما بعد الطبعی اس حقیقت بیگانگی سے قطع نظر جدید حسیت کے علمبردار ادیب حضرات احساس بیگانگی کے اسباب فرد و معاشرہ یا فرد اور فرد کے درمیان غیریت میں تلاش کرتے ہیں جس سے ایک نہایت ہی مجہوں قسم کا تصور انسان برآمد ہوتا ہے جو پوری کائنات سے کٹا ہوا تنہا زندگی گزار رہا ہے، البتہ بیگانگی کا ایک سائنسی تصور یہ بھی ہے کہ صنعتی معاشرے میں انسان اپنی محنت سے بچھڑ جاتا ہے اور وہ بڑے بڑے کارخانوں کے پیداواری عمل میں نہایت محنت سے حصہ لیتا ہے لیکن اس عمل کے نتیجے میں جو کچھ پیدا ہوتا ہے وہ اسے خالص اپنا پیدا کردہ نہیں کہہ سکتا، جبکہ ہمارے روائتی معاشروں میں اہل حرفہ اپنی مصنوعات کو اپنا کہہ کر فخر محسوس کرتے تھے۔ صنعتی دور میں فرد اس فخر سے محروم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے وہ بیگانگی کے عذاب سہہ رہا ہے۔ اس نظریے میں منطق نظر آتی ہے لیکن یہ منطق ما بعدالطبعی رمزیت و کیفیت سے خالی ہے۔ علامہ کے نزدیک یہ مادی فکر کی پیدا کردہ بیگانگی بھی شاید بہت زیادہ لائق توجہ بات نہیں تھی اور اپنے ما بعد الطبیعی تصور کی موجودگی میں انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ انسان کی عظمت اور ا سکی ذلت میں موجود آرزو مندی و جستجو کے جذبات کو پوری طرح ابھارنے اور ان خصوصیات کو انسان کی اصل پہچان بتانے کے بعد علامہ نے عہد حاضر کے انسان اور بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کو ان خصوصیات سے محروم پا کر اپنے دکھ اور اپنی تشویش کا طرح طرح سے اظہار کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک جس کی آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی احکام ترے حق ہیں، مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پاژند نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسریٰ یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے کلیم بوذرؓ و دلق اویسؓ و چادر زہراؓ لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی خون دل شیراں ہو جس فقر کی دستاویز اے حلقہ درویشاں وہ مرد خدا کیسا ہو جس کے گریباں میں ہنگامہ رستا خیز جو ذکر کی گرمی سے شعلہ کی طرح روشن جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار طائرک بلند بال، دانہ و دام سے گزر کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے فقیہہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی نگاہ کرم کہ شیروں کے جس سے ہوش اڑ جائیں نہ آہ سرد کہ ہے گو سفندی و میشی طبیب عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا ترا مرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دار او جم دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے یہ شعر دیکھئے حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں علامہ زندگی کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے خیال و نظر کی سرشاری پر محمول کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جب انسان طرح طرح کے اندیشوں میں گھر کر زندگی گزارتا ہے تو وہ دراصل اپنے اندر موجود امکانات کو ختم کر دیتا ہے۔ یہاں علامہ نے مغرب کی جدید فکر پر تنقید کی ہے جس کے تحت انسان خوف اور دہشت کے گہرے سایوں کے درمیان زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ علامہ کے نزدیک یہ نہایت مریضانہ تصور ہے جو انسان کے لامتناہی امکانات کو منہدم کر کے اسے بے یقینی و بے زاری کے اندھیروںمیں دھکیل دیتا ہے۔ اس کے برعکس جب انسان کو اپنی خودی کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ اپنے اندر موجود امکانات پر نظر رکھتا ہے اور اس طرح زندگی بسر کرتا ہے کہ کوئی خوف یا دہشت اسے حیات افروز عمل سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اپنی خودی سے آگاہ انسان کی تصویر ملاحظہ فرمائیں۔ نگاہ گرم کہ شیروں کے جس سے ہوش اڑ جائیں نہ آہ سرد کہ ہے گو سفندی و میشی پہلے مصرع کی بلندی آہنگی جس میں حرف ’’ گ‘‘ کی تکرار سے گہرائی اور استحکام کا احساس پیدا ہوتا ہے، دراصل مرد خود آگاہ کا تصور ابھارتی ہے۔ جبکہ مصرع کے دوسرے حصے ’’ شیروں کے جس سے ہوش اڑ جائیں‘‘ کا صوتی تاثر اس احساس کا غماز ہے جو زبردست حریفوں پر غلبہ حاصل کر کے ہوتا ہے۔ شعر کے دوسرے مصرع کا دھیما لہجہ اور ’’ گو سفندی و میشی‘‘ کا آہنگ مجہولیت و انفعالیت کی کیفیت کو اجاگر کرتا ہے۔ پھر گو سفندی و میشی کی طرف اشارہ کر کے افلاطون کے نظریے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور واضح کیا ہے کہ مرد خود آگاہ مجہولیت سے آزاد، پوری طرح فعال اور سعی و عمل کا پیکر ہوتا ہے۔ علامہ نے اس شعر میں براہ راست کچھ بھی نہ کہہ کر صرف اشاروں اشاروں میں افلاطون سے لے کر آج تک کی مجہول فکر کو مسترد کر کے انسان کی فعالیت اور اس کے اندر موجود امکانات کی آگہی حاصل کرنے پر بڑی خوبصورتی اور اثر انگیزی کے ساتھ زور دیا ہے۔ علامہ اقبال کی غزلیں دراصل غزل کی تمام تر نزاکتوں اور لطافتوں کو برقرار رکھتی اور تغزل کے تقاضوں کو بدرجہ احسن پوری کرتی ہیں۔ وہ زندگی اور حالات زندگی کی مثبت تعبیروں کو اپنی غزل کا موضوع بناتے ہیں، لیکن اس تعبیر و تفسیر کو کہیں بھی براہ راست بیان نہیں کرتے بلکہ استعاروں اور کنایوں کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ ان کی بات دل میں اتر جاتی ہے اور جو مضمون و مفہوم وہ بیان کرنا چاہتے ہیں وہ پوری طرح روشن ہو کر ذہنوں کے دریچوں کو کھولتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے بلاشبہ غزل کو ایک نئی سمت اور ہماری شاعری کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا ہے۔ ٭٭٭ خضر راہ تلاش و جستجو اور سعی و عمل کے تانے بانے سے بنے ہوئے وجود کا نام اقبال ہے۔ وہی اقبال جنہیں ہم شاعر مشرق کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی تھی اس پر اندھی تقلید اور بے روح منقولات کی دھند چھائی ہوئی تھی۔ روز مرہ مسائل کے بارے میں ذاتی غور و فکر کے تمام دروازے بند کر دئیے گئے تھے۔ یہ تقلید و روایت پرستی کی ایسی فضا تھی جس میں علامہ اقبال جسے تخلیقی ذہن رکھنے والے انسان کا جینا دو بھر تھا۔ انہوں نے اندھی تقلید کے اس مہیب اور تاریک جنگل میں تخلیقی فکر کی کرنیں بکھیرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اپنی اس کوشش میں انہیں طرح طرح کی رکاوٹوں اور نت نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی بے چین روح نے مشکلات کے بڑے سے بڑے پہاڑ کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے روشنیاں پھیلانے کا عمل جاری رکھا۔ انہوں نے روایت سے بالکل انکار کبھی نہیں کیا لیکن روایت ہی کو کلی حقیقت سمجھ لینے سے وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہے۔ حرکت و تغیر کو زندگی کی اصل بتانے کے ساتھ انہوں نے حقیقت ثبات کو بھی کبھی مسترد نہیں کیا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کائنات میں حرکت و تغیر کا عمل ہر لمحہ جاری رہتا ہے لیکن اس حرکت و تغیر میں ایک صورت ثبات بھی موجود ہوتی ہے۔ مثلاً کرۂ ارض سورج کے گرد مسلسل گردش کرتا رہتا ہے لیکن اس کی گردش کی رفتار ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے اس طرح مسلسل گردش مسلسل حرکت اور گردش کی رفتار کی مستقل یکسانیت، ثبات کا عمل ہے۔ علامہ کے نزدیک بھی حرکت و تغیر اور ثبات و قرار کی یکجائی کے بغیر کارخانہ قدرت کا وجود محال ہے۔ وہ اس تصور کو اسلام کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ The Ultimatw Spritual basis of all life as conceived by islam eternal and reveals itself in variety and change. it must passess eternal principles to regulate its collective life for the eternal gives us the foothold in the world of perpetual chinge. گویا تعلیمات اسلامی کے مطابق بنیادی عقائد اور حرام و حلال کے بارے میں کسی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان عقائد کے ثبات و قرار کے باوجود خود ان عقائد ہی کی مطابقت میں معاشرتی طور طریق میں تبدیلی کا عمل برابر جاری رہتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے قوانین فطرت اپنی جگہ اٹل اور نا قابل تبدل ہیں لیکن ان قوانین ہی کے بطن سے حرکت و تبدیلی کا عمل مسلسل رونما ہوتا رہتا ہے۔ علامہ کی نظم ’’ خضر راہ‘‘ میں زندگی کی حقیقت اور معیشی و معاشرتی کوائف کے حوالے سے کچھ بنیادی سوال اٹھائے گئے ہیں جن کے جواب حضرت خضر کی زبانی ہم تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوالات کی سنجیدگی اور اہمیت کے پیش نظر ایسی فضا تخلیق کی گئی ہے جس میں گہری فکر کا عمل ممکن ہو سکے۔ یہ فضا اطراف کے شور و غل سے الگ، مکمل خاموشی کی فضا ہے لیکن علامہ کے تخلیقی ذہن نے خاموشی کی یہ فضا ابھارتے وقت اس امر کا خاص طور سے خیال رکھا ہے کہ ان کی ابھاری ہوئی خاموشی کی فضا موت کے سناٹے اور بے عملی کے مردہ سکوت سے مختلف ہو۔ چنانچہ ان کی تخلیق کردہ خاموشی کی فضا زندگی کی حرکت اور احساس و خیال کے خوابیدہ طوفانوں کی آئینہ دار بن کر غور و فکر کے دروازے کھولتی نظر آتی ہے۔ وہ نظم کا آغاز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب شب سکوت افزا، ہوا آسودہ دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب رات کیا فسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب ان اشعار میں سکوت و خاموشی وک ابھارنے کے لئے دریائے نرم سیر، آسودہ ہوا گہوارے میں طفل شیر خوار، گہرائیوں میں موج مضطر، آشیانوں میں اسیر طائر، انجم کم ضو، طلسم ماہتاب کی مثالی تصویریں ابھار کر شور و خموشی اور حرکت و سکون کے جادو اثر امتزاج سے فکر انگیز سکوت کی فضا ہر طرف پھیلا دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ دریا، ہوا، طفل شیر خوار، طائر، انجم، ماہتاب، دریا کی گہرائیوں میں موج مضطر، سب ہی چیزیں حرکت اور شور کی مظہر ہیں لیکن یہ سب چیزیں حرکت و شور کا مظہر ہونے کے باوجود یہاں مکمل سکوت کی فضا پیش کر رہی ہیں۔ یہ سکوت دراصل ایسا سکوت ہے جس کے سینے میں ہزار ہا طوفان سوئے ہوئے ہیں اور علامہ جس سکوت کے متلاشی تھے وہ بھی احساس و خیال کے ہزار ہا طوفان اپنے اندر سلائے ہوئے تھا۔ یہ تلاش و جستجو کی راہوں میں حیرت و استعجاب سے پیدا ہونے والا سکوت تھا۔ علامہ کے تخیل نے سکوت کی یہ فضا نہایت چابکدستی سے ابھاری ہے۔ اس فضا کے ابھارنے میں صرف متحرک استعاروں کی سکونی حالت ہی سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ مصرعوں کی ساخت میں ٹھہراؤ اور نرم گفتاری کے ساتھ جو روانی پیدا کی گئی ہے وہ بھی زندہ سکوت کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔ نیز مصرعوں کے آہنگ سے استعجاب و رمزیت کی ملی جلی کیفیت بھی ابرتی محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً یہ مصرع دیکھئے ’’ شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر‘‘ یہاں لہجے کے ٹھہراؤ اور نرم گفتاری کی نہایت اعلیٰ مثال پیش کی گئی ہے جبکہ اس شعر کا دوسرا مصرع’’ تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب‘‘ روانی کا بہترین نمونہ ہے پھر ان دونوں مصرعوں کا آہنگ، رمزیت و استعجابیت کی کیفیت بھی پیدا کرتا نظر آتا ہے۔ نظم میں حضرت خضر کی آمد سے پہلے کا منظر پیش کرنے کے لئے تمام اشعار اسی تکنیک میں لکھے گئے ہیں۔ یہ تمام اشعار بلا شبہ حیات افروز سکوت کے مظہر ہیں۔ زندگی اور زندگی کے اطراف پھیلے ہوئے حالات سے متعلق سوال اور ان کے جواب علامہ کے ذہن میں موجود ہیں۔ وہ ان سوالوں کے جواب عام لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن ان سوالوں کا جواب تمام لوگوں تک پہنچانے کے لئے انہوں نے حضرت خضر کا سہارا لیا ہے۔ یہ خضر دراصل وہ بزرگ نہیں ہیں جو نہ جانے کب سے بھولے بھٹکے مسافروں کو راستہ دکھا رہے ہیں بلکہ یہ خود علامہ کے شعور کی ایک کیفیت ہے۔ انہوں نے اپنے شعور کی اس کیفیت کو حیات جاوداں کی ایک مقدس علامت ’’ خضر‘‘ سے منسوب کر کے ایک طرف تو اسے زندگی، حرکت اور عمل سے پوری طرح وابستہ کر دیا ہے تو دوسری طرف یہ فائدہ بھی اٹھایا ہے کہ ان کے خیالات پند و نصائح کے زمرے سے نکل کر تعلیم و علم کے دائرے میں آ گئے ہیں، یعنی بجائے اس کے کہ وہ زندگی اور حالات زندگی سے متعلق سوالات کے جواب براہ راست لوگوں تک پہنچا کر خود کو لوگوں سے برتر ثابت کرتے، انہوں نے خود کو صرف جویائے علم ظاہر کرنا مناسب سمجھا اور اپنے سوال خضر کے سامنے رکھ کر ان کے جوابات سے خود کو مستفیض ہوتے دکھایا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے شعور کی کرنوں سے لوگوں میں روشنیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال جن اہم سوالات پر گہرے غور و فکر کے بعد وہ کسی نتیجے پر پہنچے تھے اسے حضرت خضر سے وابستہ کر کے بتاتے ہیں کہ جب ایک رات ہر طرف سکوت چھایا ہوا تھا تو انہیں حضرت خضر نظر آئے جن سے انہوں نے خود حضرت خضر کی صحرا نوردی کی ماہیت، سلطنت و حکومت کے رموز، سرمایہ و محنت کی کشمکش اور دنیائے اسلام کی زبوں حالی کے بارے میں سوالات کئے جن کے جواب حضرت خضر نے بڑی جامعیت سے دئیے۔ علامہ نے حضرت خضر سے جو سوال کئے ہیں وہ ہمارے پورے عہد کو محیط ہیں۔ اس طرح علامہ نے اس نظم میں عصری آگہی یا روح عصر کو بڑے بھرپور انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے یہ نظم علامہ کے خیالات و تصورات کی ترجمان ہونے کے ساتھ ہمارے اپنے مسائل کی بھی بڑی موثر تفسیر ہے۔ سب سے پہلے حضرت خضر کی صحرا نوردی جو مسلسل حرکت کا استعارہ ہے اس حقیقت کو روشن کرتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون محال ہے۔ یہاں ہر لمحہ حرکت و تغیر کا تماشا جاری رہتا ہے۔ اس تماشے کے کسی منظر کو قیام نہیں ہے۔ ایک منظر کے بعد دوسرے منظر کا آنا ہی زندگی ہے۔ خضر نے اپنی صحرا نوردی یعنی مسلسل حرکت و عمل کو اصل زندگی بتاتے ہوئے جو تصویر ابھاری ہے وہ اردو شاعری میں منظر نگاری کی منفرد مثال ہے۔ علامہ اقبال حضرت خضر سے دریافت کرتے ہیں کہ آخر آپ آبادیاں چھوڑ کر صحرا میں کیوں گھومتے رہتے ہیں۔ اس سوال کا مکمل جواب ایک مصرعہ میں دے دیا گیا ہے۔’’ یہ تگاپوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل‘‘ لیکن اس جواب کے بعد جو مزید تفصیلات فراہم کی گئی ہیں اور جس موثر اور خوبصورت انداز سے فراہم کی گئی ہیں، وہ کسی بھی زبان کی شاعری کے لئے باعث افتخار ہو سکتی ہیں۔ مثلاً یہ تصویریں دیکھئے ’’ فضائے دشت میں بانگ رحیل کی گونج‘‘ ریت کے ٹیلے پہ آہو کا بے پروا خرام ہنگام صبح سیماب پاستاروں کی نمود اور سکوت شام میں غروب آفتاب کا منظر یہ سب مناظر زندگی کے حسن اور اس کی گہرائی و گیرائی کو پیش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی نہایت دھیمے اور اور موثر انداز میں سعی و عمل کا درس بھی دیتے ہیں۔ ان اشعار میں علامہ نے صرف الفاظ تراکیب اور استعاروں ہی کے ذریعے سے اپنا مفہوم واضح نہیں کیا ہے بلکہ مصرعوں کا آہنگ بھی زندگی کی پر اسراریت میں سعی و عمل کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مثلاً ’’ فضائے دشت‘‘ لامتناہی پر اسراریت و رمزیت کا احساس پیدا کرتی ہے جبکہ اس میں ’’ بانگ رحیل‘‘ کی گونج پر اسراریت کے ساتھ سعی و عمل کے حیات آثار مناظر آنکھوں کے سامنے کر دیتی ہے۔ اس طرح علامہ نے انسان کی فطرت میں جستجو کے جذبے کا سرچشمہ کائنات میں پھیلے ہوئے اسرار کو بتایا ہے اور ان اسرار کو ممکنہ حد تک کھولنا انسان کی زندگی کا اعلیٰ مقصد ٹھہرایا ہے لیکن شاعری میں کوئی مضمون بھی یک رخا اور اکہرا نہیں ہوتا ہے، اس لئے ہم کائنات کے اسرار کو بجا طور پر قوانین فطرت اور ان قوانین کی حقیقت و ماہیت دریافت کرنے کے عمل کو انکشاف اسرار سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اس طرح اس پورے عمل کو اپنی نوعیت میں سائنسی علوم کے حصول اور پھر سائنسی علوم سے حاصل شدہ آگہی کو روز مرہ زندگی میں منطبق کرنے کا اشاریہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس اشاریے کی تصدیق علامہ کے خطبات اور دوسری ایسی تحریروں سے بھی ہوتی ہے جن میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ سائنسی علوم حاصل کرنے پر مسلمانوں نے زبردست توجہ دی تھی اور مغرب میں سائنسی علوم کے فروغ کی بنیاد بھی مسلمانوں ہی کے ہاتھوں پڑی تھی۔ علامہ نے سائنسی علوم پر توجہ کو قرآنی تعلیم کا حصہ بتایا ہے اور کہا ہے کہ خدائے پاک نے جگہ جگہ جو کائنات پر تدبر یعنی غور کرنے کا حکم دیا ہے تو یہ دراصل سائنسی علوم حاصل کرنے کی تاکید ہے۔ خضر اپنی صحرا نوردی کی نوعیت واضح کرنے کے بعد زندگی کی ماہیت پر روشنی ڈالتے اور بتاتے ہیں کہ زندگی یکسر عمل اور جدوجہد کا نام ہے۔ جدوجہد کے اس میدان میں وقتی مادی مفاد کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ وقتی اور مادی مفاد کی نفی میں انہوں نے فرد کی زندگی کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی ہے اور بتایا ہے کہ اگر کسی بڑے مقصد کے لئے جان دینا ضروری ہو جائے تو جان کو قربان کر دینا ہی زندگی ہے جیسا کہ حضرت امام حسینؓ نے میدان کربلا میں کر کے دکھایا۔ لیکن اگر عظیم تر مقصد کے لئے جان بچانا ضروری ہو تو جان بچانا ہی زندگی ہے جیسا کہ نبی کریمؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے اپنی جان بچائی تھی۔ ان دونوں مثالوں سے یہ ثابت ہوا کہ فرد کی زندگی یا اس کی جان دراصل عظیم تر مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کا مقصد مجموعی طور پر کاروان حیات کو مسلسل آگے بڑھانا ہے۔ زندگی کی ماہیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پہلے ہی شعر میں مکمل و موثر وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ زندگی وقتی نفع نقصان سے بالاتر ہے۔ اس کی غایت اعلیٰ مقاصد کا حصول ہے۔ شعر میں ’’ کبھی جاں‘‘ اورکبھی ’’ تسلیم جاں‘‘ کے کنائے، ہجرت اور واقعہ کربلا سے متعلق معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ہجرت میں جان بچا کر اور کربلا میں جان قربان کر کے حیات جاوداں حاصل کی گئی تھی اس طرح علامہ نے اپنے خیال کو تاریخ سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم یہ تاریخی شہادت انہوں نے منطقی انداز میں پیش نہیں کی ہے بلکہ شاعرانہ رمزیت و ایمائیت کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوئے نہایت لطیف انداز میں کنائے سے کام لیا ہے۔ اشاروں اور کنایوں میں بات کرنا شاعری میں لطف و تاثیر کا سبب ہوتا ہے۔ علامہ کے کلام کا اکثر و بیشتر حصہ اس لطف و تاثیر کا بہترین نمونہ ہے ہم عرض کر رہے تھے کہ زندگی سے متعلق پہلے ہی شعر میں زندگی کی غایت پوری طرح بیان کر دی گئی ہے لیکن اس مکمل وضاحت کے بعد جو مزید شاعرانہ تفصیلات دی گئی ہیں وہ علامہ کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کی غماز ہیں۔ علامہ سے کم درجہ کے شاعر کے لئے ممکن نہیں تھا کہ سوال کی مکمل اور بھر پور وضاحت کے بعد ذیلی و ضمنی تفصیلات کو اس قدر خوبصورت انداز میںپیش کر سکے کہ وہ اصل وضاحت کا لازمی حصہ بن جائیں۔ بلا شبہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن علامہ کو ایسے مشکل کام کو آسان بنانے کا گر بدرجہ کمال آتا ہے یہ الگ بات ہے کہ پروفیسر کلیم الدین جیسے نقاد روح مشرق سے نا آشنا اور اردو کے مزاج سے نا واقف ہونے کے سبب ان تفصیلات کے شاعرانہ حسن کو دریافت نہ کر سکیں اور انہیں غیر ضروری تکرار قرار دے کر نظم گوئی کے فنی تقاضوں کے خلاف ٹھہرا دیں۔ ہمیں تعجب ہے کہ انگریزی کی بہت سی نظموں میں انہیں وہ تکرار کیوں نظر نہیں آتی جو واقعی غیر شاعرانہ ہے۔ خیر چھوڑئیے، یہاں اس بحث کا موقع نہیں ہے۔ ہم زندگی کی مکمل وضاحت کے بعد ذیلی و ضمنی تفصیلات کے شاعرانہ حسن کی بات کر رہے تھے جس کا اندازہ ان تراکیب سے بخوبی ہو سکتا ہے ’’ پیمانہ امروز و فردا‘‘ سر آدم، ضمیر کن فکاں، نالہ شبگیر کا سفیر یہ تمام تراکیب اردو شاعری میں قابل قدر اضافہ ہونے کے ساتھ گہری معنویت کی بھی حامل ہیں اور زندگی کی ماہیت کے بارے میںجو پہلے شعر میں وضاحت کی گئی تھی اس سے پو ری طرح جڑی ہوئی ہیں اور نہ صرف جڑی ہوئی ہیں بلکہ اسے روشن سے روشن تر کرتی نظر آ رہی ہیں۔ مثلاً ’’ کبھی جاں‘‘ اور’’ کبھی تسلیم جاں‘‘ کے نکتے کو پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپنے کی بات کس قدر روشن کر رہی ہے۔ اسی طرح ’’ سر آدم‘‘ ضمیر کن فکاں اور نالہ شبگیر کا سفیر جیسی تراکیب کی گہری معنویت زندگی میں سعی و عمل کی اہمیت کے ساتھ نصرت ایزدی کی بشارت بھی دیتی نظر آتی ہیں۔ یہ بشارت سوئے گردوں نالہ شبگیر کا بھیجے سفیر تک آتے آتے بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ نالہ شبگیر کی ترکیب میں ش کی آواز اور گیر کی ی کھینچ کر پڑھنے سے جو رمزیت اور بے کرانی کا احساس ابھرتا ہے وہ اثر و تاثیر کا پیکر ہے، پھر اس اثر و تاثیر میں سفیر کی ی مزید اضافہ کر رہی ہے۔’’ شبگیر‘‘ اور’’سفیر‘‘ دونوں لفظوں کے آخر میں’’ ر‘‘ کی آواز ’’ چونکانے‘‘ جاگ اٹھنے اور عمل پر کمر باندھنے کا پیغام دیتی نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال، عمل پر حد سے زیادہ زور دیتے ہیں لیکن ان کا عمل پر زور دینا کسی نفسیاتی کمزوری کا نتیجہ نہیں ہے، یعنی ایس انہیں ہے کہ وہ کوئی بے عملی کا تدارک عمل کے ترانے گا کر کر رہے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ زندگی میں حرکت کو اصول اول تسلیم کرتے تھے اور کیونکہ حرکت و عمل لازم و ملزوم ہیں لہٰذا وہ عمل پر زور دیتے تھے۔ ویسے ان کے نظریہ عمل کی بنیاد قرآن پاک میں بھی موجود ہے جہاں کہا گیا ہے ’’ لیس الانسان الا ما سعی‘‘ یعنی انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ایسی صورت میں جو لوگ تحلیل نفسی کا سہارا لے کر علامہ کے پیغام عمل کی غلط تعبیر و توجیہہ کرتے ہیں انہیں ایک نظر قرآن پاک کی مذکورہ آیت پر بھی ڈال لینی چاہیے اور علامہ کے پیغام عمل کا تجزیہ نفسیات کی بجائے قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں بھی کرنا چاہیے۔ نظم کے اگلے بندمیں رموز سلطنت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ’’ سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری‘‘ یعنی سلطنت طاقتور قوموں کی جادوگری کا نام ہے۔ سلطنت و حکومت کو طاقت کی جادوگری کہنا ایک نہایت بلیغ بات ہے۔ جادوگری کا لفظ طاقتور حکمران کی ننگی طاقت کو بھی محیط ہے اور مدبرانہ مصلحتوں اور رعایا پروری کے ظاہری سلوک کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ایاز کی گردن میں ساز دلبری اپنے آخری تجزیہ میں سلطان محمود غزنوی کی قوت سلطانی کے جادو کا اثر ہی ثابت ہو گا کیونکہ محمود کی ایاز سے محبت کا واحد سبب یہ ہے کہ ایاز سلطان کے چشم و ابرو کے شاروں پر عمل کرتا تھا اور اپنے اس عمل میں اپنی پوری ذہانت کو بروئے کار لاتا تھا۔ ان اشعار میں علامہ نے بادشاہت اور مطلق العنان حکومتوں میں کار فرما طاقت پر بھرپور تنقید کی ہے بلکہ طاقت کی اساس پر قائم ہر نظام پر ضرب کاری لگائی ہے۔ بڑی تعجب کی بات ہے کہ علامہ کے اس طرح کے اشعار کی موجودگی کے باوصف کچھ لوگ انہیں نطشے کے فلسفہ طاقت کا پرچارک کہتے ہیں۔ لوگوں کے اس رویے کو مغرب سے مرعوبیت اور احساس کمتری ہی کہا جا سکتا ہے۔ علامہ کے نزدیک بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کو زیب دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس بادشاہت کا اظہار تاریخ میں اکثر ہوا ہے مثلاً جب قوم اسرائیل پر فرعون کے مظالم حد سے زیادہ بڑھ گئے اور فرعون کی ننگی طاقت نے اسرائیلیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو ان میں موسیٰ پیدا ہوئے جنہوں نے تائید غیبی سے فرعون کی طاقت کے جادو کو خاک میں ملا دیا۔ یہاں موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کا نشان ہیں، خود بادشاہ نہیں کیونکہ بادشاہت کا سرچشمہ طاقت ہے اور بقول علامہ اقبال طاقت و حکمرانی صرف اللہ تعالیٰ کو زیب دیتی ہے۔ مطلق العنان بادشاہت کے علاوہ موجودہ جمہوری نظام بھی حقیقت میں طاقت ہی کا کھیل ہے۔ اس نظام میں باتیں تو آزادی کی ہوتی ہیں لیکن کام سب طاقت کے بل پر انجام دئیے جاتے ہیں۔ مثلاً مغرب کی جمہوریت کے بطن سے پیدا ہونے والا نو آبادیات کا نظام کیا تھا؟ آج بھی یہ نظام اپنی اصل ہیئت میں نہ سہی لیکن ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ملکوں کے معیشی استحصال کی نت نئی گھاتوں کی صورت میں موجود ہے۔ علامہ اسے آزادی و جمہوریت کی خوبصورت چادروں میں لپٹا ہوا ’’ دیو استبداد‘‘ یا طاقت کا کھیل کہہ کر مسترد کرتے ہیں۔ طاقت کے خلاف علامہ کے بھرپور احتجاج کے باوجود اگر کوئی انہیں طاقت کا پرچارک ہی کہنے پر مصر ہو تو اسے سراسر زیادتی اور نا انصافی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال اپنے اشعار میں جس طاقت کا بار بار ذکر کرتے ہیں وہ بازوے حیدر ؑ کی طاقت ہے، یعنی وہ طاقت جو یقین محکم سے حاصل ہو اور جو نفس کے تقاضوں سے بالاتر ہو۔ یہ طاقت کمزوروں کے استحصال کا ذریعہ نہیں بلکہ انہیں زندہ رہنے کا حق دلانے کا وسیلہ ہے اقبال جنگل کے قانون ’’ بقائے السب‘‘ کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی اصول ’’ بقائے باہمی‘‘ کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ کمزوروں کو ان کا حق دلانے کے لئے طاقت حاصل کی جائے۔ ایسی طاقت نطشے کا مدعا نہیں تھی۔ وہ تو کہتا تھا کہ کمزور کو جینے کا حق ہی نہیں ہے۔ فکر کے اس واضح تضاد کی موجودگی میں اقبال کو نطشے کا پیرو سمجھنا ناقابل فہم ہے۔ رموز سلطنت بیان کرتے ہوئے بھی وہی تکنیک برتی گئی ہے جو زندگی کی ماہیت واضح کرنے کے سلسلے میں برتی گئی تھی۔ رموز سلطنت کو بالکل شروع ہی میں یہ کہہ کر پوری طرح واضح کر دیا گیا ہے کہ ’’ سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری‘‘ اس بھرپور مصرع کے بعد کسی مزید وضاحت کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن علامہ کی غیر معمولی قوت متخیلہ اس بھرپور مصرع میں کچھ تفصیلات کا اضافہ اس انداز سے کرتی ہے کہ وہ مصرع کا لازمی حصہ بن جاتی ہے۔ مثلاً جب کسی جابر حکمران کی ننگی طاقت سے تنگ آ کر رعایا بغاوت پر آمادہ ہو جاتی ہے تو حکمران یا تو تدبر سے کام لے کر رعایا کو کسی اور دام میں گرفتار کر لیتا ہے یا پھر ننگی طاقت ہی سے کام لے کر بغاوت کو کچل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ بغاوت کو کچلنے میں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ رعایا تائید غیبی سے حکمران کی طاقت کو ختم کر کے رکھ دے جیسا کہ قوم اسرائیل اور فرعون کے سلسلے میں پیش آیا تھا اور جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اصل طاقت خدا ہی کے پاس ہے۔ ننگی طاقت کے برخلاف ایاز کے حلقہ گردن میں ساز دلبری، حکمران کے تدبر یا مصلحت آمیز رویے کی مثال ہے، لیکن اس مصلحت کو بھی کبھی نہ کبھی بے اثر ہونا ہوتا ہے۔ انسان کے لئے طاقت برائے اقتدار کا مظاہرہ اقبال کی نظر میں نہایت قبیح فعل ہے۔ بادشاہت سے متعلق اس بند میں بھی تراکیب کا خلاقانہ استعمال اور مصرعوں کا آہنگ موضوع کو بدرجہ اتم روشن کرتا نظر آتا ہے۔ ’’ حلقہ گردن میں ساز دلبری‘‘ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب ’’ آزادی کی نیل پری‘‘ جیسی تراکیب اور بندشوں کے علاوہ مصرعوں کا آہنگ بھی قابل توجہ ہے۔’’ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے‘‘ میں ’’ ز‘‘ اور’’ ذ‘‘ کی یکساں آواز کی تکرار اور مصرع میں لفظ’’ کو‘‘ کے سوا تمام لفظوں کی پوری طرح ادائیگی نے جو آہنگ پیدا کیا ہے وہ ذات بے ہمتا کی سروری کا احساس بطرز احسن ابھارتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت دوسرے تمام مصرعوں کی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک دوسری نظم ’’ طلوع اسلام‘‘ میں بھی مغربی جمہوریت پر سخت تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ انسان پر انسان کی حکمرانی درست نہیں ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی یہ ضاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے ان اشعار میں مغربی جمہوری نظام حکومت کی فریب کاریوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ابھی تک آدمی، آدمی کا شکاری ہے جو بڑے ظلم کی بات ہے۔ علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ مغرب کے اہل دانش خواہ کتنے ہی بڑے بڑے دعوے کیوں نہ کریں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ طاقت ہی کا ناروا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر علامہ نے جنگ عظیم اول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔ وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے غرضیکہ علامہ نے کوشش کی ہے کہ وہ بادشاہت، آمریت، مغربی جمہوریت، سرمایہ داری یعنی طاقت کے بل پر قائم جس قدر بھی نظام ہیں سب کو مسترد کر کے نظام عدل قائم کرنے کی دعوت دیں۔ ایسا نظام عدل جس میں کمزوروں کو جینے کا پورا حق حاصل ہو لیکن اقبال کے کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ وہ مسولینی کے مداح تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آمریت اور ننگی طاقت کے قائل تھے۔ ان ناقدین نے شاید ضرب کلیم میں شامل علامہ کی نظم مسولینی کا عنوان ہی دیکھا ہے پوری نظم غور سے نہیں پڑھی ہے۔ اس نظم میں بظاہر مسولینی کی حمایت کے انداز میں مغرب کے پورے نظام پر ضرب کاری لگائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسولینی بھی مغرب کے دوسرے صاحبان اقتدا رکی طرح غارت گری اور آدم کشی کو روا سمجھتا تھا۔ نظم میں مسولینی کی زبان سے کہلایا گیا ہے۔ میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار تو چھلنی میں چھاج میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں راجدھانی ہے مگر باقی نہ راجہ ہے نہ راج تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشت دہقاں تم نے لوٹے تخت و تاج پردہ تہذیب میں غارت گری آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہو آج کیا ان اشعار کو پڑھ کر کوئی شخص علامہ اقبال کو آمریت کا قائل، مسولینی کا واقعی طرفدار اور نطشے کا حامی کہہ سکتا ہے۔ ہمارا عہد صنعتی ترقی کا عہد ہے اور صنعتی معاشروں میں مزدور و سرمایہ دار کے درمیان رشتہ کی تشکیل سب سے اہم مسئلہ ہے۔ علامہ اقبال کے خیال میں دولت کی پیداوار دراصل مزدور کی محنت کا نتیجہ ہے اور وہی اس کا اصل حقدار ہے لیکن صنعتی معاشرے میں مزدور کو اس کی محنت کا صلہ دینے کے بجائے سرمایہ دار کچھ تھوڑی بہت رقم اسے خیرات کی طرح دے دیتا ہے جو سراسر ظلم ہے۔ اگر ہم پیداواری عمل کا پوری طرح جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ خام مال کو مطلوبہ مصنوعات میں تبدیل کرنے سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے یعنی اگر100روپے کے دھاگے کو محنت کر کے کپڑے میں تبدیل کیا جائے اور اس کپڑے کی قیمت 200روپیہ ہو جائے تو100روپیہ کی اضافہ شدہ رقم دراصل مزدور کی محنت کا نتیجہ ہو گی۔ اگر مزدور اپنی کھڈی پر کام کرنے کے بجائے کسی کارخانے میں مشینوں پر کام کرے تو مشینوں کے گھسنے کے بقدر سرمایہ دار کا حق ہو گا۔ فرض کیجئے کہ مذکورہ پیداواری عمل کے دوران میں سرمایہ دار کی مشین دس روپیہ کے بقدر گھسی ہو اور 5روپیہ کے بقدر خرابی اس کے کارخانے کی عمارت میں آئی ہو تو 15روپیہ سرمایہ دار کا حق ہو گا اور باقی 85 روپیہ مزدور کا حق ہو گا اور اگر اس پیداواری عمل میں سرمایہ دار جسمانی یا ذہنی محنت بھی کرتا ہے تو اس کی محنت کے بقدر معاوضہ اس کا حق ہو گا جیسا کہ آج کل سرمایہ دار مینجنگ ڈائریکٹر وغیرہ کی حیثیت سے کام کر کے پیداواری عمل میں شریک رہتے ہیں لیکن بغیر محنت کے صرف سرمایہ پر نفع لینا دراصل نفع نہیں بلکہ سود ہے جو جائز نہیں ہے۔ پیداواری عمل کی اصل صورت کے پیش نظر علامہ اقبال نے مزدور کے ہاتھ کو دست دولت آفریں کہا ہے یعنی دولت یا قدر زائد پیدا کرنے والا ہاتھ۔ علامہ نے جس دست دولت آفریں کی بات کی ہے اس کے ڈانڈے حضرت ابو حنیفہ کے ایک فتویٰ سے جا ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت امام ابو حنفیہ کے زمانے میں کچھ لوگوں نے جوتے بنانے کے لئے کچھ ہنر مند افراد کو روزانہ اجرت پر ملازم رکھا تاکہ وہ جوتے بنائیں۔ اس عمل کو دیکھ کر کچھ حضرات نے امام ابو حنیفہ سے دریافت کیا کہ کیا وہ رقم جائز ہے جو ہنرمندوں کی طے شدہ رقم ادا کرنے کے بعد بچتی ہے اور جسے لوگ اپنا نفع سمجھ کر اپنے پاس رکھتے ہیں۔ حضرت ابو حنیفہ نے فرمایا کہ وہ جائز نہیں ہے کیونکہ پیداواری عمل میں جو رقم محنت کر کے قدر زائد کے طور پر حاصل کی جاتی ہے وہ صرف ہنرمندوں کی محنت کا نتیجہ ہے اور وہ پوری کی پوری رقم انہیں کو ملنی چاہیے۔ حضرت ابو حنیفہ کے زمانے میں جو عمل نہایت محدود پیمانہ پر کیا گیا تھا وہی عمل بڑے پیمانہ پر صنعتی معاشروں میں ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں بھی وہی فتویٰ منطبق ہونا چاہیے۔ سرمایہ و محنت کے اس اصول کو علامہ نے صرف خضر کی زبانی بیان کر دینے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ یہ تاکید بھی کی ہے کہ اس اصول کی ماہیت سے مزدور کو آگاہ کیا جائے اور اسے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے عملی جدوجہد پر اکسایا جائے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے خضر مزدور کو پیغام دیتے ہیں کہ اسے ’’ سرمایہ دار حیلہ گر‘‘ نے برباد کیا ہے وہ اسے طویل عرصہ سے دھوکا دے رہا ہے اور اس کے جائز حصے کو جھوٹے وعدوں پر ٹال رہا ہے۔ یہاں علامہ نے ’’سرمایہ دار حیلہ گر‘‘ کی رعایت سے جھوٹے وعدے کے لئے فارسی کا محاورہ ’’ شاخ آہو‘‘ استعمال کیا ہے جو رعایت لفظی کی نہایت خوبصورت مثال ہے۔ ’’ شاخ آہو‘‘ کا یہ فارسی محاورہ معنی سے قطع نظر صورت کے اعتبار سے بھی بات پر قائم نہ رہنے کا تاثر ابھارتا ہے۔ یہ بلا شبہ علامہ اقبال کی تخلیقی استعداد کی قابل قدر کار فرمائی ہے جس کی بدولت انہیں اپنے مافی الضمیر کو پوری طرح ادا کرنے کے لئے ’’ شاخ آہو‘‘ جیسا فارسی محاورہ سوجھا بھی اور انہوں نے اسے نہایت مہارت سے استعمال بھی کیا۔ تہذیب مغرب کی ’’ خواجگی‘‘ یا ’’ استعماریت‘‘ نے عوام کے استحصال کے لء یکچھ ایسے تصورات ایجاد کئے ہیں جو اپنی نوعیت میں مسکرات کی طرح ہیں۔ مغرب کے صاحبان اقتدار عوام کو ان میں الجھا کر ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیتے ہیں اور اس طرح سادہ لوح عوام کی ’’ حالت سکر‘‘ سے فائدہ اٹھا کر ان کا خون پیتے ہیں۔ یہ تصورات نسل پرستی، قومیت پرستی، مذہب، سلطنت، تہذیب و ثقافت اور با اعتبار رنگ، لوگوں میں تمیز کر کے آپس میں نفرت پھیلانے کا وسیلہ بنتے ہیں۔ خضر، بندہ مزدور کو آگاہ کرتے ہیں کہ وہ صاحبان اقتدار کے ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہے اور ان کے ہاتھوں برباد نہ ہو اور نہ صرف یہ کہ ان کے ہتھکنڈوں سے باخبر رہے بلکہ اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرے۔ خضر کہتے ہیں کہ اب دنیا کے انداز بدل گئے ہیں۔ بادشاہت کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ اب جمہور یعنی عوام کے بیدار ہونے کا دور ہے کیونکہ جمہور کی بیداری ہی کامرانیوں کا اصل سبب ہو گی۔ اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے برعکس وقت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام فرسودہ روایات اور مردہ رسوم کی زنجیریں توڑ کر اپنا راستہ خود اپنی فطرت سے پھوٹنے والی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ بندہ مزدور کو آمادۂ عمل کرنے اور اسے فرسوہ روایات سے آزادی حاصل کرنے کے لئے اس لئے کہا گیا ہے کہ آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک ’’ بطن گیتی‘‘ سے ’’ آفتاب تازہ‘‘ پیدا ہونے کا احساس نہ صرف ندرت و تازگی کی نہایت دلاویز مثال ہے بلکہ اپنی جگہ گہری معنویت کی بھی حامل ہے۔ ’’ آفتاب تازہ‘‘ سے مراد عصری آگہی یا تازہ تر اجتماعی شعور ہے۔’’ بطن گیتی‘‘ کی ترکیب حالات زمانہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے یعنی دنیا کے حالات نے لوگوں کو ایک نیا شعور عطا کیا ہے۔ دوسرے مصرع میں ’’ آسماں‘‘ بلندی و رفعت کا نشان ہے، ڈوبے ہوئے تارے، ماضی کے عظیم لوگ اور ان کے کارنامے ہیں۔ ان تازہ تراکیب اور استعاروں کی مدد سے عوام کو بتایا گیا ہے کہ حالات زمانہ نے جو عصری آگہی بخشی ہے اب اس آگہی سے کام لینے کی ضرورت ہے نہ کہ ماضی میں حاصل کی ہوئی رفعت و بلندی کے خیال میں محو اپنے اسلاف اور ان کی شان و شوکت کے ختم ہو جانے پر ماتم کیا جائے۔ پہلے مصرع کی روانی اور بلند آہنگی مردہ دلوں کو زندہ کرتی محسوس ہوتی ہے جبکہ دوسرے مصرع میں لہجے کا اضمحلال اور ٹھہراؤ ماضی کی شان و شوکت کے ختم ہو جانے کے دکھ کو مسلط کر لینے کے عمل کو عبث اور بے نتیجہ ٹھہراتا نظر آتا ہے۔ زندگی کی حقیقت اور اس کے معیشی و سیاسی حالات پر روشنی ڈالنے کے بعد خضر دنیائے اسلام کی زبوں حالی کی تصویر کھینچتے ہیں اور نہایت درد مندی و دلسوزی سے کہتے ہیں۔ لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبور نیاز حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو مضطرب تو ہے کہ تیرا دل نہیں دانائے راز ان اشعار میں خضر نے یہ بتایا ہے کہ مسلمانوں کی بربادی کا سبب یہ ہے کہ ان کے شعائر عیسائیوں نے اختیار کر لئے ہیں۔ لہٰذا وہ سرا فراز ہیں جبکہ مسلمان اپنے شعائر کو ترک کر کے آج ذلیل و رسوا ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اقوام اپنے عمل سے سربلند و سر افراز ہوتی ہیں۔ مسلمان اپنے عروج کے زمانے میں اس لئے سر افراز نہیں تھے کہ وہ خود کو مسلمان کہتے تھے بلکہ ان کی سر افرازی کی وجہ ان کا عمل تھا۔ ان کا یہ عمل ان کو حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ سے ورثے میں ملا تھا۔ انہوں نے اس ورثے کی صحیح طور پر قدر نہیں کی جبکہ اہل تثلیث نے مسلمانوں کے عروج کے اسباب کا تجزیہ کر کے وہ شعائر اپنا لئے جو مسلمانوں کی شناخت تھے۔ مثلاً وہ روایت پرستی کی جگہ تخلیقی انداز فکر کو اپناتے اور اندھی تقلید کی جگہ اجتہاد سے کام لیتے تھے۔ عمل اور مسلسل عمل ان کا شیوہ تھا، ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جانا اور سب کچھ تقدیر پر چھوڑ دینا، ان کے لئے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں تھا۔ سائنسیا ور سماجی علوم کا حصول ان کی قومی پہچان تھی۔ خود مغرب میں بھی سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت اور سائنسی رویے کی تشکیل و تعمیر مسلمانوں کی مرہون منت تھی لیکن وہ رفتہ رفتہ ان خصوصیات سے کنارہ کش ہوتے گئے اور اہل تثلیث ان کی انہیں خصوصیات کو اپناتے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سربلند و سر افراز ہیں اور مسلمان پستی و زبوں حالی کا شکار۔ اس زبوں حالی سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مسلمان از سر نو اپنی اجتماعی شناخت کو ابھاریں، تقلید کے بجائے تخلیق کو اپنائیں، حصول علم بالخصوص سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میںکمال حاصل کریں۔ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ خرد افروزی کے رویہ اور عالمی سطح پر اتحاد و اتفاق کی صورت پیدا کریں۔ نسل، قوم اور فرقوں میں بٹنے کی وجہ سے وہ اپنی اصل طاقت سے محروم ہو گئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اب عقل و ہوش سے کام لیتے ہوئے تقسیم در تقسیم ہونے کے مہیب عمل سے اپنا دامن بچائیں اور غور کریں کہ وہ کون کون سے عناصر ہیں جو انہیں رنگ و نسل، فرقوں اور قوموں میں بانٹنے کی سازش کر رہے ہیں۔ رنگ و نسل، قوموں اور فرقوں کے درمیان امتیاز قائم کرنے والے تصورات اپنی جگہ ایسے نشہ آور ہوتے ہیں کہ لوگوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کی آر میں سازشی پنجوں کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہو کر لوگوں کے خون پینے کا سامان بہم پہنچا رہی ہے۔ علامہ خضر کی زبانی کہلواتے ہیں۔ ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے ابتک بے خبر پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو ملک و ملت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگذر ان اشعار میں ملت اسلامیہ کی وحدت اور مروجہ تصورات و نظریات کی جگہ مذہبی انداز نظر کو اپنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ’’ پھر سیاست چھوڑ کر‘‘ حصار دین میں داخل ہونے کی دعوت اپنی نوعیت میں انقلابی عمل کی متقاضی ہے۔ آج کل کچھ لوگ ملک و دولت اور حکومت و اقتدار کو مقصد اور اسلام کو ذریعے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا یہ رویہ دراصل سر کے بل کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا مقصد صرف اور صرف حفظ حرم ہونا چاہیے۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ ملک و دولت اور حکومت و اقتدار بھی عنایت کر دے تو یہ اس کا کرم ہے۔ حضور نبی کریم ؐ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں جس قدر بھی غزوات اور جنگیں ہوئیں ان میں سے کسی ایک کا مقصد بھی ملک گیری نہیں تھا۔ ملک گیری کا الزام مسلمانوں پر بالعموم غیر مسلم مورخین نے لگایا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر مسلموں کے اس نازیبا پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر کچھ مسلمانوں نے بھی حکومت و اقتدار کو اپنا مقصد بنا لیا ہے اور حکومت و اقتدار حاصل کرنے کے خالص مادی عزائم کو نفاذ شریعت کے لئے ضروری قرار دے کر ہر جائز اور ناجائز اقدام کو درست ٹھہرانا شروع کر دیا ہے، جبکہ مسلمانوں کے مستند و معتبر علماء ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ مسلمانوں کا جہاد کبھی بھی ملک گیری کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد ’’ حفظ حرم‘‘ تھا۔ علامہ سلیمان ندوی نے حقیقت جہاد کی یہی تشریح کی ہے اور علامہ اقبال کا بھی یہی خیال ہے۔ پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر یعنی ملک و دولت مقصد ہرگز نہیں ہیں البتہ حصار دیں میں داخل ہونے والوں اور حفظ حرم کو مقصد بنانے والوں کے لئے یہ ایک ا نعام ضرور ہو سکتا ہے۔ حفظ حرم کے لئے سب سے اہم اور ضروری چیز اتحاد ہے جبکہ مذہب کے نام پر اپنے مادی عزائم حاصل کرنے والے لوگ اپنے علاوہ ہر ایک کو کافر قرار دے کر انہیں ملت اسلامیہ سے خارج کرنے پر تلے بیٹحے رہتے ہیں۔ علامہ نے اس رویے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ملت اسلامیہ کو تقسیم کرنے اور فرقوں میں بانٹنے کا عمل قرار دیا ہے۔ جو ملت اسلامیہ کے حق میں نہایت مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ علامہ ملت کو فرقوں میں بانٹنے والوں کے برعکس یہ پیغام دیتے ہے۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر یہ شعر الفاظ اور معنی ہی کے اعتبار سے دریائے نیل سے لے خاک کاشغر تک کے وسیع خطہ کو محیط نہیں ہے بلکہ مصرع کا آہنگ بھی زمین کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ مفہوم و آہنگ میں مطابقت پیدا کرنا علامہ کی نہایت نمایاں اور منفرد خوبی ہے۔ ان کی نظم ’’ خضر راہ‘‘ ان کی اس نمایاں اور منفرد خوبی کی پوری طرح آئینہ دار ہے۔ ٭٭٭ اجمالی جائزہ ہمارے روایتی شعرا اپنے کلام میں عشق مجازی و عشق حقیقی کو ایک بنا کر پیش کرتے تھے، یعنی جب وہ ایسے جذبات کا بھی اظہار کرتے تھے جن میں عشق مجازی کی واردات و کیفیات کو اجاگر کیا جاتا تھا تو ان میں بھی ایک سطح ایسی رکھتے تھے جو عشق حقیقی کی سرحدوں سے جا ملتی تھی۔ ہماری شاعری میں رمزیت و ایمائیت کی کیف سامانی کے باافراط ہونے کا سبب بھی شاید یہی ہے کہ ہماری شاعری میں یک رخے کلام اور براہ راست بیان کو کبھی وقعت نہیں دی گئی۔ ظاہر ہے کہ جس کلام میں ایک سے زیادہ سطحیں ہوں گی تو اس میں رمزیت و ایمائیت کا حسن ضرور پیدا ہو جائے گا۔ ہمارے روایتی معاشرے میں تصوف یا عرفان حقیقت جیسے موضوعات پر غور و فکر بہت عام تھا، لہٰذا ہماری شاعری میں بھی بیشتر اچھے شعرا کے کلام میں عشق مجازی کی واردات کے ڈانڈے عرفان حقیقت سے اس طرح جا ملتے ہیں کہ یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ شاعر کا اصل موضوع مجازی واردات ہیں یا عرفان حقیقت کی سرشاری۔ مثلاً مجسل میں رات ایک تیرے پر توے بغیر کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا (میر تقی میر) پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک جب وہ جمال دلفروز، صورت مہرنیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں (غالب) یہ اور ایسے بہت سے اشعار ہیں جن میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں کے پہلو نکلتے ہیں۔ یہ معنویت صرف محبوب کو اس کا نام نہ لے کر مخاطب کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں محبوب کو’’ وہ‘‘ آپ ،تم، وغیرہ ضمائر سے بلا سبب یاد نہیں کیا جاتا ہے۔ محولہ بالا اشعار میں بھی ’’تیرے پرتو ے بغیر‘‘ میں ’’ تیرے‘‘ حیرتی سے آئینہ کس کا میں’’ کس کا‘‘ جب وہ جمال دلفروز میں’’ وہ جمال دلفروز‘‘ آپ ہی ہو نظارہ سوز ’’ میں‘‘ آپ یا میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک ’’ میں‘‘ ایک عنایت کی نظر ایسے اشارے یا ضمائر ہیں جن میں محبوب کی ہستی تخصیص کے دائرے سے باہر نکل کر پوری زندگی میں پھیل جاتی ہے اور خیال کے مختلف گوشوں کو خود میں سمو لیتی ہے۔ البتہ لفظوں کے تلازمات اور اجتماعی سوچ کے تناظر میں یہ تکنیک عشق مجازی و عشق حقیقی ہی تک محدود رہتی ہے۔ علامہ اقبال کے ہاں روایتی انداز عشق سے ہٹ کر ایک بالک ہی نئے قسم کے عشق سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہ عشق فرد اور جماعت کے درمیان رشتوں کی نوعیت کے احساس کے ساتھ مجموعی طور پر معاشرے کی اصلاح کی لگن سے پیدا ہوتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کی لگن علامہ کے عشق کی بنیاد ہے اور یہی عشق ان کی شاعری کا محرک بھی ہے۔ لیکن ان کا اسلوب شاعری بھی یک رخا بالکل نہیں ہے۔ وہ اپنے موضوع کو براہ راست بیان کرنے کے بجائے ایسی تشبیہوں، تمثالوں، استعاروں اور کنایوں میں واضح کرتے ہیں جن سے ان کے کلام کی چھوٹ مختلف جہات میں پڑتی اور زندگی ومعاشرہ کے مختلف گوشوں کو روشن کرتی نظر آتی ہے۔علامہ کی تشبیہیں، تمثالیں اور استعارے روز مرہ زندگی سے حاصل کردہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تفہیم میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ آسانی سے سمجھ میں آنے کے علاوہ ان میں تاثیر بھی غضب کی ہوتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کی چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو سرخی لئے سنہری ہر پھول کی قبا ہو راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو (ایک آرزو) جب انسان زندگی کے ہنگاموں اور دنیا کی محفلوں کے شور سے اکتا کر پر سکون فضا کی تلاش میں بستیوں سے دور کسی پہاڑ کے دامن میں پناہ لیتا ہے تو اسے فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے اور اس سے کلام کرنے کے مواقع بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔ علامہ نے دامن کوہ کی جس خوبصورتی سے منظر کشی کی ہے وہ ان کی قوت متخیلہ کی رفعتوں اور ان کے مشاہدے کی گہرائیوں کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اس منظر کشی میں انہوں نے جو جو تشبیہیں یا استعارے استعمال کئے ہیں وہ اچھوتے ہی نہیں بلکہ نہایت پر اثر بھی ہیں۔ مثلاً پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو پانی کو آئینہ سے تشبیہہ دینا تو کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن گل کی ٹہنی کو کسی حسین سے تشبیہہ دینا، اور جب وہ ٹہنی پانی کو چھوئے تو یہ کہنا کہ کوئی حسین آئینہ دیکھ رہا ہے، دراصل اچھوتی تشبیہوں کا امتزاج ہے جس کی وجہ سے منظر بھی ابھر کر سامنے آتا ہے اور اس منظر کا حسن دلوں پر بھرپور اثر بھی کرتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صور ت ان کی دوسری تشبیہوں کی ہے۔ شفق کو یہ کہنا کہ سورج شام کی دلہن کے مہندی لگاتا ہے یا یہ کہنا کہ پھولوں کیقبا شام کی دلہن کے لئے سرخی لئے کھڑی ہے، بالکل ہی اچھوتی اور حد درجہ اثر انگیز تشبیہات ہیں۔ تشبیہات کے علاوہ اطراف کی فضا کو پر کیف انداز سے ابھار کر منظر کو روشن کرنا بھی علامہ کی ایک نمایاں خوبی ہے۔ زیر نظر نظم میں شعر دیکھئے۔ ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو سرخی لئے سنہری ہر پھول کی قبا ہو راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو ان اشعار میں تشبیہات استعمال نہیں کی گئی ہیں لیکن پوری فضا میں سے ایسے نظاروں کو منتخب کیا گیا ہے جو اطراف کے پورے منظر کو اس کی تمام تر پر اسراریت کے ساتھ ابھار دیں۔ یہ کام بغیر اعلیٰ درجے کی قوت متخیلہ کے ممکن نہیں ہے۔ ان کی دوسری نظموں میں سے بھی چند مثالیں ملاحظہ ہوں جن میں انہوں نے کہیں تشبیہات کی مدد سے اور کہیں صرف آہنگ کی منظر کشی کے کرشمے دکھائے ہیں۔ سرخ پوشاک ہے پھولوں کی درختوں کی ہری تیری محفل میں کوئی سبز کوئی لال پری ہے ترے خیمہ گردوں کا طلائی جھالر بدلیاں لال سی آتی ہیں افق پر جو نظر کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی مئے گلرنگ خم شام میں تو نے ڈالی جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں یا ان کی معرکہ آراء نظم ’’ خضر راہ‘‘ کا یہ ابتدائی حصہ ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب شب سکوت افزا ہوا آسودہ، دریا نرم سیر انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں گونجتی ہے جب فضا کے دشت میں بانگ رحیل ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ خضر بے برگ و ساماں وہ سفر بے سنگ و میل وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل اور وہ پانی کے چشمے بر مقام کارواں اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل بلاشبہ یہ منظر کشی نہیں بلکہ اعجاز نمائی ہے۔ تشبیہات کے علاوہ یہاں صرف آہنگ سے جو منظر ابھارے گئے ہیں اور ان مناظر میں جس طرح ان موضوعات و مضامین کو سمویا گیا ہے جن کا بیان مقصود ہے، وہ علامہ کے کمال فن کی دلیل ہے۔ ان اشعار میں جو تشبیہات و استعارات استعمال کئے گئے ہیں وہ روز مرہ زندگی سے ماخوذ ہیں جس کی وجہ سے ان میں کوئی اجنبیت نظرنہیں آئی لیکن علامہ نے ان تشبیہات کو جس طرح استعمال کیا ہے اس میں ندرت و جدت اور خیال کی بلند پروازی نے منفرد تازگی پیدا کر دی ہے۔ خوشنما، تازہ و تابندہ اور اثر انگیز تشبیہات کی مدد سے منظر کشی کے علاوہ ان کی دوسری نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کا کام یک رخا کبھی نہیں ہوتا۔ تہہ داری و ہمہ جہتی سے ان کے کلام میں جو رمزیت و ایما پیدا ہوتی ہے وہ ہماری شعری روایت کا فیض بھی ہے اور خود شعری روایت کی توسیع بھی۔ اور شاید روایت کے تسلسل ہی میں آگے بڑھنے کا نام تخلیق ہے جسے علامہ کے حسن تخیل نے بڑے سلیقے سے انجام دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہگذر میں نقش کف پائے یار دیکھ جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لئے جرس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے، میری ہر رگ و پے میں یہ خاموشی مری وقت رحیل کارواں تک ہے کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے تجھ کو خبر نہیں ہے کیا، بزم کہن بدل گئی اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد وہی دیرینہ بیماری، وہی نا محکمی دل کی علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی نگاہ گرم کہ شیروں کے جس سے ہوش اڑ جائیں نہ آۃ سرد کہ ہے گو سفندی و میشی طبیب عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا ترا مرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی علامہ اقبال کے کلام میں ہوشیاری و سرشاری گلے ملتے نظر آتی ہیں۔ وہ عشق اور عقل دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں گہرائی، گیرائی وقعت و رفعت کے ساتھ کیف و سرود اور لطف و ا نبساط کی بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ گہرائی، گیرائی اور فکر انگیز وقعت و رفعت ان کی عقل اور کیف و سرور ان کے عشق کی کرشمہ سازیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہم ان کی ان کرشمہ سازیوں کو ان کی تشکیل کردہ تراکیب میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ چند تراکب دیکھئے، نالہ شبگیر کا سفیر، گرفتار طلسم ماہتاب، پیک جہاں پیما، لذت گیر وجود ، غم کدہ نمود، حدیث ماتم دلبری، قامت خرد، عفت فکر، تب و تاب جاودانہ، طائر لا ہوتی، نشاط رحیل، آئینہ اندیشہ وغیرہ۔ یہ تراکیب اپنی معنویت کے ساتھ تازگی و تابندگی کی نہایت اعلیٰ مثالیں ہیں۔ یہ تراکیب نہ صرف اردو ادب میں ایک اضافہ ہیں بلکہ انہیں جہاں او رجس موقع پر استعمال کیا گیا ہے وہاں یہ مفہوم کو روشن کرنے کے ساتھ کیف آور فضا بھی ابھارتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تراکیب صرف تراکیب کی خاطر وضع نہیں کی گئیں بلکہ موضوع کو خلاقانہ انداز سے پیش کرنے کے لئے ضروری بھی تھیں۔ تراکیب کے علاوہ علامہ کی شاعری میں استعمال ہونے والی علامات اور استعارے، تشبیہات اور کنائے بھی علامہ کی فکر سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ علامہ کی فکر کا مرکزی نقطہ حرکت و تغیر ہے۔ وہ پوری زندگی کو حرکت کے عمل میں دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کائنات میں حرکت حقیقی اور سکون کی حیثیت اضافی ہے۔ علامہ کا یہ نقطہ نظر ہمارے معاشرے میں انقلابی اہمیت کا حامل تھا۔ علامہ سے پہلے ہماری شاعری میں سکونی تصورات کو بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل تھی۔ لہٰذا ہماری شاعری میں علامات و استعارات اپنی نوعیت میں سکونی تصورات سے ہم آہنگ نظر آتے تھے۔ لیکن علامہ نے نہ صرف علامات و استعارات کو متحرک صورت دی ہے بلکہ اپنے استعاروں کے آہنگ سے بھی حرکت و تغیر کا احساس ابھارا ہے۔ مثلاً موج ہوا، آواز درا، پیکار عناصر، آسماں گیر، فکر فلک پیما، تعمیر سحر، شوکت طوفاں، گرمی نوا، نالہ شبگیر، پیمانہ امروز و فردا، تگا پوئے دمادم، بانگ رحیل، پیک جہاں پیما، آفتاب تازہ، سطوت رفتار دریا، آئینہ گفتار، شہید جستجو، نوریان آسماں پرواز وغیرہ ایسی تراکیب میں جو اپنے معنی اور اپنی ساخت کے علاوہ اپنے آہنگ سے بھی مفہوم کو روشن اور فضا کو کیف آور بناتی ہیں۔ تراکیب سے قطع نظر علامہ کی شاعری میں مثالی کردار ملتے ہیں۔ وہ بھی یکسر حرکت و عمل کے مظہر ہیں۔ مثلاً خضر، ابراہیم، کلیم، مرد مومن کے علاوہ ان کا زندہ ا ور متحرک استعارہ شاہین ہے جو یکسر عمل بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ علامہ نے یہ استعارہ نطشے سے مستعار لیا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ نطشے کے ہاں بھی شاہین کا تصور موجود ہے لیکن نطشے کا شاہین اس کے تصور طاقت کا مظہر ہے۔ اس کا شاہین طاقت کے بل پر جیتا او رکمزوروں کو زندگی کے حق سے محروم کرتا ہے جبکہ علامہ کے تصور طاقت کے مطابق طاقت کا استعمال کمزوروں کو زندہ رہنے کا حق دلانے کے لئے ضروری ہے۔ وہ قوت چنگیز کے نہیں بلکہ بازوئے حیدرؓ کے قائل ہیں۔ ان کا شاہین بھی قصر سلطانی کے گنبد سے بہت دور پہاڑوں کی چٹانوں پر گزر اوقات کرتا ہے۔ اس کا یہ عمل تن آسانی کا نہیں بلکہ قلندرانہ شان بے نیازی کے ساتھ سعی و عمل کا مظہر ہے۔ غرضیکہ علامہ کے فن اور فکر میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ انہوں نے اپنے فکر کو اپنے لہو میں رچا کر احساس کا جزو لاینفک بنا لیا ہے، یعنی ان کا احساس ان کی فکر کے بغیر اور ان کی فکر ان کے احساس کے بغیر نا مکمل رہتے ہیں۔ان کے فکر و احساس کی یہ وحدت ان کی شاعری کا جوہر ہے اور شاید اسی لئے ان کی شاعری اثر و تاثیر کے ایسے پیکر میں ڈھل گئی ہے جس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End