زندگی آمیز اور زندگی آموزادب کا نمائندہ نقوش اقبال نمبر2 شمارہ نمبر 123۔۔۔۔دسمبر 1977 مدیر محمد طفیل ترتیب طلوع محمد طفیل اس شمارے میں خطوط ۱ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط عطیہ صلاح الدین محمود تاریخ ولادت ۲ علامہ اقبال کی تاریخ ولادت ڈاکٹر وحید قریشی ۳ علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش ڈاکٹر اکبر حیدری فکر و فن ۴ اقبال اور آرزائے نایافت مولانا امتیاز علی عرشی ۵ اقبال کے بارے میں (غیر مطبوعہ) پروفیسر رشید احمد صدیقی ۶ اقبال اور شاعری محمد ہادی حسین ۷ اقبال اور میراث اسلام ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ۸ اقبال‘ سوشلزم اور اسلام پروفیسر کرار حسین ۹ اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح سید نذیر نیازی ۱۰ اقبال فیض احمد فیض ۱۱ اقبال اور زماں ڈاکٹر عالم خوند میری ۱۲ اقبال کامطالعہ ڈاکٹر محمد اجمل ۱۳ اقبال کی موعودہ تصانیف رفیع الدین ہاشمی ۱۴ اقبال کا تفکر محمد طاہر فاروقی ۱۵ اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام پروفیسر گوپی چند نارنگ ۱۶ اقبا ل ‘ مذہب اور سائنس ڈاکٹر محمد حسن ۱۷ اقبال کی شاعری میںتمثال کا حصہ ڈاکٹر سید محمد عقیل ۱۸ اقبال مغربی خاور شناسوں کی نظر میں جگن ناتھ آزاد ۱۹ اقبال کا تصور قرآنی پروفیسر محمد منور ۲۰ اقبال کی نظر میں علوم جدیدہ محمد احمد خان ۲۱ اقبال‘ شاعر مشرق سید الطاف علی بریلوی ۲۲ اقبال‘ مخزن اور رومانیت انور سدید ۲۳ اقبال اور رسالہ معارف ڈاکٹر نجم الاسلام ۲۴ بچوں کا اقبال پروفیسر عبدالقوی دسنوی ۲۵ اقبال اور کشور پنجاب ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ۲۶ اقبال شناسی ڈاکٹر ظ انصاری ۲۷ اقبال اور ملت اسلامیہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۲۸ اقبال‘ ممدوح عالم پروفیسر سلیم اختر اقبال کے حضور ۲۹ اقبال کے حضور خواجہ عبدالوحید ۳۰ اقبال اور حفیظ ابوالاثر حفیظ جالندھری ۳۱ اقبال اورجاوید منزل میاں محمد شفیع (م۔ش) ۳۲ اقبال اور انتخاب کونسل ڈاکٹر سید عبداللہ چغتائی ۳۳ بہ سلسلہ اقبال ایک انٹرویو میاں عبدالعزیز مالواڈہ ۳۴ اقبال میاں عطاء الرحمن ۳۵ اقبال کی شخصیت حکیم یوسف حسن ۳۶ اقبال کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ابو الخیر کشفی مداح و ممدوح ۳۷ نیطشے‘ رومی اور اقبال مولانا عبدالماجد دریابادی ۳۸ اقبال اور گرامی محمد عبداللہ قریشی ۳۹ اقبال اور اکبر الہ آبادی قاضی افضل حق قرشی ۴۰ اقبال اور سید سلیمان ندوی پروفیسر طاہر تونسوی ۴۱ اقبال اور ابوالکلام آزاد قاضی افضل حق قریشی ۴۲ اقبال اور خلیفہ عبدالحکیم پروفیسر محمد عثمان ۴۳ اقبال اور مہر و سالک ڈاکٹر عبدالسلام خورشید قیام و تعلق ۴۴ اقبال کا لاہور حکیم احمد شجاع ۴۵ اقبال اور قیام یورپ کسریٰ منہاس ۴۶ اقبال اور حیدر آباد دکن میر محمود حسین ۴۷ اقبال اور بھوپال سے تعلق پروفیسر عبدالقوی دسنوی ۴۸ اقبال اوربہاول پور بریگیڈیر نذیر علی رحلت (گمشدہ اوراق) ۴۹ اقبال کے استاد میر حسن کا انتقال مولانا غلام رسول مہر ۵۰ اقبال کے استاد آرنلڈ کاانتقال مولانا غلام رسول مہر ۵۱ حضرت اقبا ل رحمتہ اللہ علیہ مولانا غلام رسول مہر محمد طفیل پرنٹر ‘ پبلشر و ایڈیٹر نے نقوش پریس لاہور سے چھپواکر ادارہ فروغ اردو لاہور سے شائع کیا۔ طلوع آپ سو رہے ہیں میں جاگ رہا ہوں ۔ میں کیوں جاگ رہا ہوں؟ کیا اقبال سونے نہیں دیتے؟ کیاشرف النساء سونے نہیں دیتیں؟ یہ سوال ہیں ۔ میں جواب ڈھونڈ رہا ہوں۔ شرف النسا کا قصہ یہ ہے کہ وہ پنجاب کے گورنر کی بیٹی تھیں (بہ عہد شاہ عالم) قرآن اور تلوار ان کا ماٹو تھا وہ سمجھتی تھیں کہ قرآن ہمارا قانون ہے اور تلوار طاقت کی علامت! مرتبہ ملاحظہ ہو! جب تصور کی دنیا میں علامہ اقبال جنت کی طرف نکل گئے تو انہیں سب سے پہلے جو قصر نظر آیا۔ وہ شرف النساء کا محل تھا۔ جو لعل ناب سے بنا ہوا تھا۔ جس کے سامنے آفتاب کی ضو افشانیاں بھی ہیچ تھیں۔ شرف النساء تاریخ کے صفحات میں گم ہو رہی تھیں۔ لیکن اقبال نے اسے دوبارہ زندگی دے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم بھٹک رہے تھے۔ جی ہا رہے تھے ہمیںراستہ دکھلا دیا۔ منزل مراد تک پہنچا دیا۔ قصہ مختصر ! اقبال جتنے دن بھی جئے۔ دوسروں کے لیے جیے ۔ خدا کی ثنا کے لیے جئے۔ رسولؐ کی مدحت کے لیے جئے! خد ا سے شکوہ بھی کیا تو قوم کے لیے۔ روتے بھی رہے تو قوم کے لیے! ان کے لیے شعر گوئی تو ایک بہانہ تھی ورنہ معاملہ دور تک تھا: در دیدہ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیغمبر نتواں گفت محمد طفیل ٭٭٭ اس شمارے میں بہت چکی پیسی دن رات کام کیا۔ آپ کا دن رات چوبیس گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ میرا دن رات سات سو بیس منٹوں کا چوبیس گھنٹوں اور سات سو بیس منٹوں میں بڑا فرق ہے۔ یاروںنے سوچ لیا ہو گا کہ خاکسار کی امنگیں ماند پڑ گئیں۔ بادی النظر میں یہ ہے بھی صحیح‘ جب تک کوئی کام سامنے نہ آئے اس وقت تک یقین بھی کیونکر آئے! آپ کو کسی بھی قسم کا یقین دلانا میری افتاد طبع کے خلاف ہے۔ اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ کام کی رفتار میں لڑکھڑاہٹ نہیں آئی۔ صرف کام کے سمندر کا پھیلائو زیادہ ہو گیا ہے۔ اقبال کے سلسلے میں شور زیادہ ہے۔ کام کم ہوا چونکہ آج کل کام کرنے کا یہی انداز ہے۔ اس لیے سوچنا ہو گا کہ کام زیادہ ہو رہا ہے بہرحال اس شور میں میرے بھی دو چار کام سامنے آ رہے ہیں! ایک نمبر ستمبر میں پیش کیا تھا۔ دوسرا نمبر دسمبر میںپیش کر رہا ہوں۔ بیچ میں ایک اور نمبر پیش کیا تھا۔ مگر اس کا ذکر نہ کروں گا۔ دوستی پر حرف آئے گا۔ بہرحال اقبال پر ان دو تین مہینوں میں نقوش نے بھی اٹھارہ سو سے زائد صفحات پیش کر دیے۔ بلاشبہ اتنا کام کسی بھی غیر سرکاری ادارے نے نہیں کیا۔ یعنی اپنا پیٹ کاٹ کر کسی نے نہیں کیا۔ ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی ایک جلد اور پیش کریں گے۔ وہ جلد علامہ اقبال کی دستاویزات اور ان کے نوادرات سے متعلق ہو گی۔ انشاء اللہ وہ جلد بھی جلد ہی پیش کر دی جائے گی۔ اطمینان بھی جبھی ہو گا ابھی تو منزل کے قریب پہنچ رہے ہیں ۔ منزل پر پہنچے نہیں! بے شک اتنا کچھ کرنے پر بھی کئی ایک عنوانات کے تحت مزید کام کرنا ہو گا۔ اگر میں وہ سب کچھ چھاپ سکتاجو میری گرہ میں تھا تو بھی بہت کچھ سامنے آ سکتا تھا۔ مگر میں کیا کروں خدائی طاقت میرے پاس نہیں ہے۔ ایک جان کو ہلکان کر سکتاہوں۔ سو اس سے دریغ نہیں کر رہا۔ میں اس شمارے کے مندرجات کے بارے میں زیادہ نہ کہوں گا۔ سوائے ان خطوط کے کہ جو ہم ابتدا میں چھا پ رہے ہیں ان میں پانچ خطوط تو غیر مطبوعہ ہیں ۔ دو خطوط جو مطبوعہ ہیں۔ وہ بھی اپنے اصلی روپ میں پہلی بار سامنے آ رہے ہیں۔ یا پھر دو تین مضمون ایسے ہیں کہ جنہیںنقوش ہی کی فائلوں سے اٹھا کر دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنے قبیلے سے بچھڑے ہوئے تھے۔ نقوش کے صفحات میں ہم نے عبدالرحمن چغتائی کی تصویریں بھی چھاپیں۔ صادقین اور اسلم کمال کی بھی چغتائی کی تصویروں میںاگرجمال ہے تو صادقین کی تصویروں میں جلال ۔ اسلم کمال کی تصویروںمیں ایک اعتدال ! فن تینوں ہی کا اوج کمال پر… ہم اس شمارے میں بھی اسلم کمال کی تصویریں پیش کر رہے ہیں۔ اقبال خرد کی گتھیاں سلجھا چکے تھے۔ انہوںنے اپنے لیے صاحب جنوں ہونے کی دعا مانگی تھی۔ خرد کی گتھیاں تو مجھ سے سلجھ نہ سکیں گی۔ البتہ میرے مولا نے مجھے جنوں کی رفق تو دے ہی ڈالی۔ محمد نقوش ٭٭٭ (۱) تاریخ ولادت ٭٭٭ رسولؐ نمبر تین جلدیں ترتیب پا چکی ہیں۔ یہ نمبر چار جلدوں میں مکمل ہو گا۔ انشاء اللہ یہ نمبر بھی جلد ہی پیش کر دیا جائے گا۔ …اور اس موضوع پر یہ ایک اہم دستاویز ہو گی! ادارہ نقوش لاہور۔ ٭٭٭ ۷۔ مکتوبات علامہ محمد اقبال علامہ اقبال کے یہ ۷ عدد مکتوبات جناب پروفیسر محمد عمر الدین مرحوم کے جمع کردہ ذخیرہ خطوط کا ایک حصہ ہیں۔ ان سات مکتوبات میں سے تین خط تعارفی ہیں کہ جو ڈاکٹر سید ظفر الحسن مرحوم کے واسطے لکھے گئے ۔ باقی چار خطوط میں سے دو پروفیسر محمد عمر الدین کے نام اور دو ڈاکٹر سید ظفر الحسن کے نام ہیں۔ پروفیسر محمد عمر الدین ۱۹۰۲ء میں پیدا ہوئے اورانہوںنے ۱۹۶۴ء میں علی گڑھ ہی میں وفات پائی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فلسفہ نفسیات عربی اور فارسی کی اعلیٰ اسناد حاصل کر کے یہ ۱۹۲۸ء میں دہلی کالج دہلی میں نائب پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ دو برس بعد وہ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ اور نفسیات کے فیلو منتخب ہوکر علی گڑھ واپس آئے اور پھر ۱۹۴۸ء کے اوائل میں پروفیسر اور صدر شعبہ فلسفہ و نفسیات مقرر ہو کر تاحیات اسی عہدے پر فائز رہے۔ پروفیسر محمد عمر الدین ایک انوکھے اور عظیم استاد اور انسان تھے۔ اسلامی فلسفے کی تدریس اور مسلم یونی ورسٹی کی سنوار‘ خدمت اور تنظیم ان کی زندگی کے مقاصد تھے۔ امام ابو حامد محمد الغزالی کے فلسفہ اخلاقیات اور مابعد الطبیعیات اور سید احمد خان کے نئے مذہبی طرز فکر پر ان کا کلام بین الاقوامی اور دیرپا شہرت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن ہمارے برصغیر کے نامور استاد اور فلسفی تھے۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انہوںنے مسلم یونیورسٹی کی اعلیٰ خدمت اور شعبہ فلسفہ و نفسیات کی تشکیل میں صرف کیا۔ Realismپر ان کی کتاب آج تک ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ پروفیسر عمر الدین پہلے پہل ان کے شاگرد ہوئے ۔ پھر ساتھی اور بعد میں نہایت گہرے اور مخلص دوست… ـ''M. Umaruddin Collection'' 1 Mr. Sd. Zafar ul Hasan M.A. has asked me to state my impression of his Dissertation on Spinoza. I have read this critical exposition of the great monist with the greatest interest, and am glad to be able to state that the author has indeed done justice to his subject. Mr. Zafarul Hasan's style is clear and licid and he possesses a firm grasp of philosophical reasoning. To write on Spinoza with a view to bring out the fundamental ideas and tendencies of his thought is not an easy task, but it seems that Mr. Zafar ul Hasan has assimilated all the best writers on Spinoza, and has succeeded in putting the results of his research in a very interesting and scholarly manner. I have no hesitation in saying that Mr. Zafar ul Hasan deserves every encouragement in connection with his study of philosophy. I would strongly recommend that the Aligarh outhorities might send him to Europe for the study of philosophy under the professors of Oxford or Cambridge. Muhammad Iqbal M.A Ph.D Barrister at Law Lahore. 10 May 1915 ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 2 Lahore 18th June 1917 I have no hesitation in recommending the application of Sd. Zafar ul Hasan. In my opinion he is a fit person for the study of Phil. in Europe. I have already expressed my opinion on his Dissertation which gives unmistakable evidence of his capacity for research and his scholorly attainments in mental science. I am sure he will do justice to his selection. I would suggest however that in case it is decided to send him to Europe he should be advised or rather required to make a specia study of Experimental Psychology. As far as I know no Professor of Philosophy in India has yet taken up this branch of Phil, and the time is not far off when we shall have psychological laboratories attached to our colleges. Muhammad Iqbal M.A Ph.D Barrister at Law Lahore. ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 3 Lahore 31th July 1918 Sd. Zafar ul Hasan M.A is a keen ovserver of Indian life and habits of thought. I am quite familiar with his researches in Philosophy and Oriental lit. I have read some of his unpublished lyrical poems in Hindustani which are quite good. He will make a thoroughly competent lecturer in Hindustani and I have no hesitation in recommending him to the notice of the Oxford Universty authorities. Muhammad Iqbal B.A (Contab) M.A Ph.D Barrister at Law (Fellow Pb. University and Member of the Punjab T.B. Committee) ٭٭٭ محمد عمر الدی ذخیرہ خطوط : ۴ ۱۰ ستمبر ۱۹۳۵ء ڈیر ڈاکٹر ظفر الحسن السلام علیکم! آپ کا خط مل گیا ہے۔ میں اپنے علاج کا دوسرا کور س ختم کر کے چند روز ہوئے بھوپال سے لاہور واپس آیا۔ افسوس کہ علالت کے بعد سے لکھنے پڑھنے (کا) کام ایک مدت سے بند ہے۔ میں نے آپ کے خط کا جواب (اپنے) ہادی حسن صاحب کے خط میں دے دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے وہ خط آ پ کو نہیں دکھایا حالانکہ میں نے ان سے ایسا کرنے کی درخواست کی تھی۔ بہرحال اب پھر عرض ہے کہ فی الحال اس مضمون کامطالعہ کرنے سے قاصر ہوں۔ امید نہیں کہ حافظ جماعت علی سول نافرمانی کا اعلان کریں لیکن ہمیں معلوم نہیں ان کے ذہن میں کیا ہے۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ بچوں کو دعا محمد اقبال ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 5 22nd Nov 1935 Dear Mr. Umaruddin, Thank you so much for the booklet you have sent me. It is a very interesting account of Ghazalli's Ethical teaching. It is true that the thinker needs a coherent universe of though and is therefore driven to build systems of Ethics and of Metaphysics. Experience, however, shows that the average man needs a discipline-individually as well as collectively. In his own interest as well as in the interests of the group to which he belongs he should not question the authority of this discipline. This I think is the secret of Islam as a people building force. Your thesis is inspiring. I do hope you will do further research work in the same field. Yours Sincerely Muhammad Iqbal ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 6 13th Dec 1935 My dear Dr. Zafar ul Hasan Your disciple, M. Umaruddin M.A, I suppose, sent me, sometime ago, his booklet on Ghazalli. Please tell him to read a book. An early Mystic of Baghdad by Margret Smith Published a few months ago. He must read every word of this book. It will give him a much better understanding of Ghazalli's teaching and of Muhassibi's influence, through Ghazalli, on the jewish & Christian Mysticism of both East and West. Hoping you are well. Yours Sincerely Muhammad Iqbal ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 7 Lahore 8th May 1936 Dear Mr. Umaruddin, Thanks for your papers on Ghazali and Shahabuddin Maqtul. Both are interesting as chapters in the history of Muslim thoughts. I have however, last much of my interest in Muslim Philosophy and Mysticism. To my mind the Fiqb of Islam i.e. the law relating to what is called Muamilat is far more important in the Economic and Cultural history of the world than mere speculation which has been the unconscious cause of splits in Islam. Yours Sincerely Muhammad Iqbal ٭٭٭ کیا آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں؟ ادارہ نقوش علامہ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط نوادرات اور دستاویزات پر مشتمل ایک اورجلد (تیسری جلد) بھی پیش کر رہا ہے۔ علامہ کی تاریخ ولادت ڈاکٹر وحید قریشی علامہ اقبال کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں کئی سنہ بیان کیے جاتے ہیں جن کادامن ۱۸۷۳ء سے ۱۸۷۸ء تک پھیلا ہوا ہے۔ معاصرین اور حلقہ احباب کے بیانات کے بعد عام طور پر مصنف کے بیان یہ کو وقیع سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اقبالیات میں یہ دونوں پہلو متنازعہ فیہ ہیں اور ہمیں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے درایت کے کئی سلسلوں سے ہو کر گزرنا پڑتاہے۔ سب سے پہلے اقبال کے حلقہ احباب اور معاصرین کے بیانات کو لیا جاتا ہے۔ حیات اقبال پر سب سے پہلا مقالہ منشی محمد دین فوق نے لکھا جو حالات اقبال کے نام سے کشمیری میگزین لاہور میں ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا۔ میگزین کے حوالے سے اسے نوادر اقبال میں عبدالغفار شکیل نے غیر مدون کلام کے دیباچے کے طور پر شائع کیا۔ شکیل کا یہ مجموعہ ۱۳۷۷(مطابق ۱۹۴۲ئ) سرسید بک ڈپو علی گڑھ سے شائع ہواتھا۔ اس کے بعد انوار اقبال میں بشیر احمد ڈار نے اسے دوبارہ شائع کیا۔ انوار اقبال اقبال اکیڈمی کراچی کی طرف سے مارچ ۱۹۶۷ء مٰں شائع ہوئی۔ اس میں علامہ اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۵ء ۱؎ دیا گیاہے۔ ۱۹۲۲ء میں نواب ذوالفقار علی خا ں نے A Voice From The East شائع کی جس میں ان کا سال ولادت ۱۸۷۶ء ۲؎ کے گردوپیش دیا گیا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ منشی دین محمد فوق نے ۱۹۰۹ء میں جو سال پیدائش قرار دیا تھا۔ اس میں انہوںنے ۱۹۳۰ء تک ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ چنانچہ جولائی ۱۹۳۰ء میں مشاہیر کشمیر کی طبع ثانی میں بھی ۱۸۷۵ء ہی کو سال پیدائش قرار دیا ہے ۴؎۔ کشمیری میگزین اور مشاہیر کشمیر میں سال ولادت کے بعد عمر کا تخمینہ بھی دیا گیا ہے ۔ چنانچہ اپریل ۱۹۰۹ء میں انہیں پورے چونتیس (۳۴) برس کا اور ۱۹۲۰ء میں پورے چھپن (۵۶) برس کا قرار دیا ہے۔ چنانچہ اپریل اور جولائی کا فرق منشی صاحب کے لیے کسی شمارمیں نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حیات اقبال پر لکھنے والے تینوں بزرگوں کے تعلقات علامہ اقبال کے نہایت قریبی تھے ان میں منشی محمد دین فوق کے روابط دوسروں کی نسبت زیادہ گہرے تھے۔ بعد کی زندگی میں البتہ منشی احمد دین اور نواب ذوالفقار علی کے ساتھ نشست زیادہ رہی۔ بہرحال تینوں کے ذرائع معلومات قریبی شمار ہوں گے۔ ۱۹۳۲ء میں نیرنگ خیال کا اقبال نمبر شائع ہوا اس میں بھی منشی صاحب کا مذکورہ بالا مضمون مختصر سوانح حیات کے نام سے کسی قدر ترمیم کے ساتھ شائع ہوا۔ ۱؎ نوادر اقبال ص ۱۷ انوار اقبال ص ۷۹ ۲؎ مذکورہ بالا کتاب طبع ثانی کراچی ۱۹۶۶ء ص ۸ ۳؎ ’’اقبال‘‘ منشی احمد دین ص ۹ ۴؎ مشاہیر کشمیر اس میں پہلی بار منشی صاحب نے علامہ کا سال پیدائش ۱۸۷۶ء قرار دیا ہے ۱؎۔ نیز تاریخ اقوام کشمیر کی جلد دوم میں بھی پچھتر (۷۵) کی بجائے چھہتر (۷۶) کو سال پیدائش ۲؎ شمار کیا گیا ہے۔ یہ قیاس بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ یہ تصحیح علامہ کے ایما سے ہوئی ہے ۳؎۔ مشاہیر کشمیر پہلی بار ۱۹۱۶ء میں شائع ہوئی ۔ اس کا ایک نسخہ علامہ کو بھیجا گیا جس کی رسید انہوںنے ۲۶ جولائی ۱۹۱۶ء کو دی ۴ ؎۔ اس کے علاوہ فوق نے اقبال سے ان کے حالات ایک مرحلے پر طلب کیے تھے۔ جس میں علامہ نے ان سے تعاون نہیں کیا۔ چنانچہ ۱۹ دسمبر ۱۹۲۲ء کے خط میں علامہ نے لکھا: باقی رہے میرے حالات سو ان میں کیا رکھاہے ۵؎۔ جس کا بدیہی مطلب یہ ہے کہ علامہ نے ۱۹۲۲ء تک حالات کے سلسلے میں فوق کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ ۱۹۳۲ء میں نیرنگ خیال میں نیز تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم میں جو تصحیح کی گئی اس کا حال بھی نہیں کھلتا۔ بظاہر یا تو نواب ذوالفقار علی خاں کی تحریر پر بھروسہ کیا گیا ہے یا ملک راج آنند کے اس مقالے سے ماخوذ ہے جو اس نے رائل اکیڈمی کے جنرل میں شائع کیا۔ اور جس کا اردو ترجمہ نیرنگ خیال ہی کے اقبال نمبر میں چھپا تھا۔ ملک راج آنند کا ماخذ نواب ذوالفقار علی خاں ہی کی کتاب ہے فرق صرف یہ ہے کہ ذوالفقار علی خاں نے جس سنہ کو لگ بھگ کے لفظ سے ظاہر کیاتھا اسے حتمی بنا دیا گیا ہے۔ یہ بخوبی ممکن ہے کہ ذوالفقار علی خاں اور منشی احمد دین کے بیانات ہی علامہ اقبال کی مد میںمعتبر شمار ہوئے ہوں۔ اقبال کی زندگی میں جو (Who's Who)شائع ہوئے۔ ان میں بھی سال پیدائش کا مسئلہ طے شدہ نظرنہیںآتا۔ مرتبین چونکہ قریبی ذرائع سے تعلق نہیں رکھتے اس لیے ان کے ذرائع معلومات کی صحت پر شک کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۲۸ء میں انڈین انسائیکلو پیڈیا کے مرتب پی ڈی چندرا نے ۱۸۷۷ء کو سال پیدائش شمار کیا ہے ۶؎ اس طرح تھامس پیٹر (Thomas Peter)نے ۱۹۳۶ء میں Who's Who in Indiaمیں سال پیدائش ۱۸۷۷ء قرار دیا ہے۷؎۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ علامہ کی زندگی میں جو سنین عیسوی دیے گئے ان میں (۷۶) اور (۷۷) کا فرق پایا جاتا ہے ۔ ۱۹۳۷ء میں غالباً انہیں حوالوں پر Gott Field Simon نے بھی ۱۸۷۷ء سال پیدائش قرار دیا ہے ۸؎۔ علامہ کی حین حیات میں حلقہ احباب سے باہر جو حالات شائع ہوئے ان میں اختلاف رہا ہے ۔ خم خانہ جاوید از لالہ سری رام طبع ۱۹۰۸ء جلد اول میںولادت اقبال ۱۸۷۰ ء ۹؎ اورقنداردو مرتبہ جلال الدین احمد جعفری زینبی میں جو میٹریکولیشن برائے الہ آباد اور پنجاب کا نصاب تھا اور ۲۴۔۱۹۲۳ء کے لگ بھگ شائع ہوا۔ سال پیدائش ۱۸۷۰ء دیا گیا ہے ۱۰؎۔ ۱؎ نیرنگ خیال اقبال نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۳۲ء ص ۲۵ ۲؎ تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم ص ۳۲۵ ۳؎ روزگار فقیر ۴؎ انوار اقبال مرتبہ بی اے ڈار صفحہ ۶۲ مکتوب بنام فوق و ایضاً ص ۷۳ ۵ ؎ کتاب مذکور ص ۳۵۹ ۶؎ ایضاً ص ۳۵۹ ۷؎ ایضاً ص ۱۷۳ ۸؎ Date of Birth of Iqbal ص ۵ ۹؎ کتاب مذکور ص ۳۶۹ ۱۰؎ کتاب مذکور ص ۳۳۹ عبارتوں کی مماثلت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جعفری نے حالات زندگی خم خانہ جاوید سے اخذ کیے ہوں۔ خم خانہ جاوید کے مصنف نے معاصرین کے حالات جمع کرنے کے لیے خود شعراء اور ان کے قریبی احباب سے خط و کتابت بھی کی تھی۔ علامہ اقبال کے حلقہ احباب میں سے انہوںنے مقدمہ کتاب میں شیخ عبدالقادر پنڈت کیفی اور نواب ذوالفقار علی خاں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ علامہ کے حالات انہیں ذرائع سے حاصل کیے ہوں تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ۱۸۷۷ء کے بارے میں ذریعہ معلومات کیا ہے۔ اسی طرح محافظ محمود شیرانی نے جو علامہ کے قریبی نیاز مندوں میں سے تھے اور محتاط محقق کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں سرمایہ اردو کے نام سے پنجاب یونیورسٹی کے لیے میٹرک کا نصاب ترتیب دیا انہوںنے علامہ کا سن پیدائش ۱۸۷۵ء ۱؎ بیان کیا ہے عین ممکن ہے کہ ان کے مآخذ کشمیری میگزین اور مشاہیر کشمیر ہوں تاہم یہ عجیب بات ہے کہ حافظ صاحب نے نیرنگ خیال میںدرج ترمیمی بیان کو قابل اعتماد نہیںسمجھا او ر اسے اقدام ماخذ کے طور پر ترجیح دی ہے حالانکہ ترمیم شدہ بیان کو مرجع شمار کرنا چاہیے تھا۔ ان معاصر شہادتوں سے قطع نظر اقبال کے اپنے بیانات اور تعلیمی ریکارڈ کودیکھا جائے تو وہاں بھی بہت کچھ تفاوت نظر آتا ہے۔ اقبال ان پکچرز میں علامہ کا مڈل کا سرٹیفکیٹ شائع ہوا ہے مڈل کا امتحان انہوںنے ۱۸۹۱ء میں پاس کیا۔ اس سرٹیفکیٹ کے پشت کی عبارت شائع نہیں ہوئی۔ لیکن اس کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کے پاس اصل سرٹیفکیٹ موجود ہے اور انہوںنے اس کا عکس بھی چھاپ دیا ہے ۲؎۔ اس سے رجوع کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ طالب علم (یعنی علامہ اقبال) کے فارم داخلہ کے مطابق ۱۸۹۱ء میں ان کی عمر ۱۵ برس تھی اس لحاظ سے سال پیدائش ۱۸۷۶ ء ہوا۔ ۱۸۹۳ء میں علامہ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اور سکاچ مشن کالج میں سیالکوٹ میں ایف اے کے پہلے سال میں داخل ہوئے روزگار فقیر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا داخلہ مئی ۱۸۹۳ء میںہوا ۔ کالج کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت علامہ کی عمر اٹھارہ برس کی تھی ۳؎۔ اس لحاظ سے سال پیدائش ۱۸۷۵ء ہونا چاہیے۔ علامہ نے بی اے کا امتحان ۱۸۹۷ء میں پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر میں اس کا اندراج موجود ہے جہاں علامہ کی اپنی بیان کردہ اطلاع کے مطابق ان کی عمر انیس برس درج ہوئی ہے ۴؎۔ اس اعتبار سے سال پیدائش ۱۸۷۸ء ہونا چاہیے۔ ۱؎ سرمایہ اردو ص ۳۳۷ ۲؎ Allama Iqbal's Date of Birthاعجا زاحمد ص ۲۴ عکس سرٹیفکیٹ ۳؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۳ ۴؎ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ ص ۳۰۷ علامہ اقبال نے ۱۹۰۷ء میں میونخ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ پیش کیا تو شروع میں اپنے حالات زندگی پر ایک نوٹ بھی لکھا۔ اس کا عکس بھی اقبال ان پکچرز میں شامل ہے۔ عکس میں پیدائش کی تاریخ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مرقوم ہے اور قوسین میں ۱۸۷۶ ء کا سن درج ہے ۔ ۱؎ ۔ تقویم کی رو سے ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کے مطابق ہے۔ چنانچہ گرین وائل (Grenvialle)کی شائع کردہ تقویم Muslim and Christian Calandersکی رو سے ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو جمعرات کا دن شمار ہونا چاہیے۔ Wuder Fieldکی تقویم کے مطابق بھی یہ جمعرات کا دن تھا ۔ لیکن خالد ی کی تقویم ہجری و عیسوی کی رو سے ۹ نومبر کو جمعے کا دن پڑتا ہے۔ شیخ اعجاز احمد کے بیان کے مطابق جو روزگار فقیر کی جلد اول میں شامل ہے اور خاندانی روایت پر مبنی ہے علامہ کی تاریخ ولادت جمعے کے روز چار بجے صبح کے قریب ہوئی تھی۔ یہ معمولی فرق اس لیے بھی قابل لحاظ ہے کہ جنتریوں کے حساب اور چاند کے طلوع کے سلسلے میں ایک آدھ دن کا فرق بعید از امکان نہیں۔ دوسرے جمعہ شمار کرنے میں اس لیے بھی قباحت نہیں تھی کہ جمعے کے دن صبح چار بجے ان کی پیدائش بتائی جاتی ہے اور اس طرح بارہ بجے شب کے بعد ان کا شمار اگلے دن ہی میں ہو گا۔ سب سے زیادہ مستند اندراج میونسپل کمیٹی کا ریکارڈ ہو سکتا تھا لیکن محققین میں یہاں بھی اختلاف رہا ہے۔ ریکارڈ میں ۱۸۷۳ء کے تحت نتھو (نور محمد) کے ہاں ایک لڑکے کی پیدائش کا اندراج موجود ہے۔ اسی بنا پر سیرت اقبال از محمد طاہر فاروقی میں علامہ کا سال پیدائش ۲۴ ذی الحج ۱۲۸۹ء مطابق ۱۲ فروری ۱۸۷۳ درج ہوا ہے اور حاشیے میں یہ نوٹ ہے: ’’پیدائش کی یہ تاریخ سیالکوٹ کے رجسٹر پیدائش سے تصدیق شدہ ہے اس کے مقابلے میں ۱۸۷۶ء والی روایت ضعیف نظر آتی ہے‘‘ ۲؎ ذکر اقبال مرتبہ عبدالمجید سالک میں یہی نوٹ درج ہے اور علامہ کی ولادت ۲۶ ذی الحج ۱۲۸۹ء مطابق ۲۲فروری ۱۸۷۳ء شمار ہوئی ہے ۳؎۔ دواور بیان قابل غور ہیں روز گار فقیر کے مصنف نے سال پیدائش پر مفصل بحث کی ہے۔ چنانچہ روزگار فقری جلد اول میں سال پیدائش پر مفصل بحث کر کے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ۲۲فروری ۱۸۷۳ء سال پیدائش درست نہیں بلکہ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ درست تاریخ ہے جو ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پڑتی ہے: ’’میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے رجسٹر پیدائش کا جائزہ لینے پر پایا گیا کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کے اندراج کیبعد ۱۸۷۷ء تک علامہ کے والد صاحب کے ہاں کسی اور لڑکے کی پیدائش کا اندراج نہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ جب رجسٹر پیدائش میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کا اندراج نہیں تو یہ تاریخ پیدائش کیسے درست ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ رجسٹر پیدائش میں عدم اندارج عدم پیدائش کا ثبوت قرار نہیں دیا جاسکتا اس زمانے میں رجسٹر پیدائش میں ہر ایک پیدائش درج کیے جانے کا اتنا اہتمام نہ تھا جو ان دنوں میں ہے۔ ۱؎ اقبال ان پکچرز ۲؎ سیرت اقبال صفحہ ۲۶ طبع ثالث ستمبر ۱۹۴۹ء ۳؎ ذکر اقبال ص ۱۰ لہذا امکان ہے کہ علامہ کی پیدائش درج نہ کرائی گئی ہو‘‘ ۱؎۔ یہ دلیل کہ عام اندراج عدم پیدائش کا ثبوت نہیں اپنی جگہ درست ہے ۔ لیکن یہ بات بھی عجیب ہے کہ علامہ کے والد میونسپل کمیٹی میں ملازم رہے پہلے بچے کا اندراج انہوںنے کرایا اور اندراج کی قانونی حیثیت سے واقف ہونے کے باوجود ۱۸۷۷ء میں پیدائش کا اندراج کرانا ضروری نہیں سمجھا اس موضوع پر سب سے مفصل بحث اقبال درون خانہ کے مصنف خالد نظیر صوفی نے کی ہے اور میونسپل کمیٹی کے ریکارڈ کی دوبارہ چھان بین کر کے بحث کو ایک نئی شکل دی ہے انہوںنے ۱۸۷۰ء سے ۱۸۷۷ء تک کے اندراجات کی باقاعدہ چھان بین کی اور شیخ نور محمد عرف نتھو کے چار بچوں کے اندراج کو ڈھونڈ نکالے ان کی رائے کے مطابق علامہ اقبال نہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے نہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو بلکہ ان کی صحیح تاریخ پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے۔ روزگار فقیر کے بیان پر بحث کرتے ہوئے اور میونسپل کمیٹی کے مختلف اندراج کی روشنی میں انہوںنے جو چارٹ دیا ہے اس کے مطابق نمبر شمار ۴۳۳ پر نتھو کی ایک لڑکی کی تاریخ پیدائش ۶ ستمبر ۱۸۷۰ء شمار ۱۴۰ پر ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو ایک لڑکے کی پیدائش اورنمبر شمار ۱۴۰۸ پر ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ کو دوسرے لڑکے کی پیدائش اور نمبر شمار ۹۶۲ پر ۱۴ نومبر ۱۸۷۶ ء کو ایک لڑکی کی پیدائش بیان کی ہے ۲؎۔ ان سلسلہ انداجات کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ ۱۸۷۰ء میں پیدا ہونے والی لڑکی علامہ کی بڑی ہمشیرہ طالع بی بی زوجہ غلام محمد تھی۔ دوسرا اندراج یعنی ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کا اصل ان کے ایک بھائی کے بارے میں ہے جو شیر خواری کی عمر میں فوت ہوا اور جسے ان کی دیورانی نے گود لیا تھا۔ سوا دس ماہ بعد ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو جو بچہ پیدا ہوا وہ علامہ اقبال ۳؎ تھے ؤچوتھا اندراج علامہ کی بہن کریم بی بی زوجہ احمد الدین کے بارے میںہے۔ ۴؎۔ اس وقت تک اقبال درون خانہ کے اندراج کے بارے میں شیخ اعجاز احمد کا ایک نوٹ سامنے آ چکا ہے ۵؎۔ جس میں انہوںنے بعض قرائن سے خالد نظیر صوفی کے تعین سال کو رد کیا ہے اس طرح سید عبدالواحد اور بعض دوسرے محققین نے علامہ کی اپنی بیان کردہ تاریخ کو جو انہوںنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں دی ہے یعنی ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مطابق ۹ نومبر ۱۸۷۶ء صحیح قرار دیا ہے۔ اقبال کے سال ولادت کی بحث سمٹ سمٹا کر تین نکات پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ (الف) اقبال کا سنہ پیدائش ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ہے۔ (ب) اقبال کا سنہ پیدائش ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء ہے ۔ (ج) اقبال کا سال پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے۔ ۱؎ روزگار فقیر طبع چہارم مئی ۱۹۶۴ء ص ۲۳۵ ۲؎ اقبال درون خانہ اپریل ۱۹۷۱ء ص ۱۵۵ ۳؎ ایضاً ص ۱۵۶‘۱۵۷ ۴؎ ایضاً ص ۱۵۹ ۵؎ سہ ماہی اقبال جنوری ۱۹۷۳ء ان تینوں اطلاعات پر فرداًفرداً بحث کی جاتی ہے۔ جمعہ ۱۲۹۴ھ؍۱۸۷۷ء کی روایت علامہ نے پی ایچ ڈی کے مقالے کے شرور میں حسب ضابطہ دانشگاہ اپنے مختصر حالات بقید سال پیدائش دیے ہیں اور جس میں دو باتیں قابل غور ہیں: ۱۔ سنہ پیدائش ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ (مطابق ۱۸۷۶ئ) ۲۔ سکول میں داخلے سے قبل علامہ نے چند برس مکتب میں تعلیم پائی۔ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ کو علامہ نے قوسین میں ۱۸۷۶ء لکھا ہے جو دراصل ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہونا چاہیے تھا۔ بظاہر علامہ اقبال نے سنہ ہجری کو سنہ عیسوی میںبدلنے کے لیی کسی تقویم سے رجوع نہیں کیا تاہم سید عبدالواحد کی یہ دلیل قابل قبول نہیں کہ اس زمانے میں کوئی جنتری موجود نہیں تھی ۱؎۔ حالانکہ خود جرمن زبان میں ایسی جنتریاں شائع ہو چکی تھیں اور علامہ نے اپنے مقالے کے متن میں ہجری سنین کو عیسوی میں بدلنے کے لیے ان سے استفادہ بھی کیا تھا تاہم ظاہر ہے کہ اپنے حالات کے ضمن میں تقویم استعمال کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور تخمینے ہی سے صرف سال پیدائش کو منتقل کیا اور دن اور مہینے کو چھوڑ دیا۔ علامہ نے ہجری سنہ کو جس طرح عیسوی میںبدلا ہے اس کے بارے میں دو قیاس ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس مقصد کے لیے انہوںنے تقویم کی بجائے زبانی حساب کو ترجیح دی ہو جس میں ایک سال کا فرق بخوبی ممکن ہے مثلاً ہجری ۱۲۹۴ھ میں ہر صدی کے تین تین عدد شمار کر کے برہ صدیوں کے چھتیس ۳۶ اور چورانوے ۹۴ کو دو تہائی کے برابر شمار کرتے ہوئے اس کی میزان اڑتیس ۳۸ کی گئی ہو۔ اس طرح ۱۲۹۴ھ میں سے اڑتیس منہا کیے تو یہ ۱۲۵۶ برآمد ہوئے۔ اس عدد میں ۶۲۲ جمع کیے تو سنہ ۱۸۷۶ء برآمد ہوا یا پھر دوسرا قیاس یہ ہے کہ انہوںنے مطبع آفتاب پنجاب لاہور کی ۱۸۷۶ کی جنتری استعمال کی ہو جسے دیوان بوٹا سنگھ نے شائع کیا تھا۔ جنتری کے صفحہ ۲۲ پر ۱۲۹۳ ھ کچھ اس طرح مرقوم ہے کہ اسے بآسانی ۱۲۹۴ھ پڑھا جا سکتا ہے۔ پی ایچ ڈی کے مقالہ کے علاوہ ۱۹۳۱ء میں پاسپورٹ میں بھی ۱۸۷۶ء کا اندراج ہے۔ ۱۹۰۵ء کا پاسپورٹ دستیا ب نہیں لیکن گمان غالب یہی ہے کہ اس میں بھی ۱۸۷۶ء ہی ہو گا۔ دوسری اطلاع قابل غور ہے کہ جس کے مطابق علامہ اقبال نے خود اقرار کیا ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی۔ علامہ کے اصل جملے یہ ہیں: ۱؎ Date of Iqbal's Birthص ۶ My education began with the study of Arabic and Persian. A few years after I joinded one of the local schools۱؎۔ محمد دین فوق نے ۱۹۰۹ء ‘ ۱۹۳۰ئ‘ اور پھر ۱۹۳۲ء میں فرمایا: ’’ابتدا میں اکثر مسلمان بچوں کی طرح انہوںنے بھی کچھ دنوں مکتب کی ہوا کھائی پھر مدرسہ میں داخل ہوئے اور پانچویں کا امتحان وظیفہ لے کر پاس کیا ۲؎‘‘۔ اس اقتباس میں کچھ دن کا لفظ غیر محتاط طریق بیان ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جو علاہ نے خود بیان کی کہ سکول کے داخلے سے قبل چند برس انہوں نے مکتب میں بسر کیے۔ اس کی مدت ایک دو برس تھی یا زیادہ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ مولانا غلام رسول مہر کو ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور سید نذیر نیازی کی موجودگی میں علامہ کے استاد زادے اور ہم عمر سید تقی شاہ نے بتایا کہ ابتدا میں علامہ کو دینی تعلیم کے لیے ایک مکتب میں بٹھا دیا گیا تھا ۳؎۔ ذکر اقبال میں بھی مکتب نشینی کا حوالہ آیا ہے۔ لیکن مدت مکتب نشینی نہیں بتائی گئی ۲ ؎ ۔ اقبال اور درون خانہ میں خالدنظیر صوفی نے لکھا ہے کہ علامہ مسجد شوالہ والی میں مکتب مولوی غلام حسن میں تعلیم پاتے رہے مدت مکتب نشینی ایک دو برس قرار دی گئی ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ اسی لیے علامہ سکول میں دیر سے داخل ہوئے۵؎۔ کرم بی بی کے بیان کے مطابق تو علامہ کی ابتدائی مکتبی تعلیم مسجد میں ہوئی تھی ان کا مفصل بیان یہ ہے : ’’اقبال مکتب میں زیر تعلیم رہے یہاں عمر شاہ کے مکتب میں پانچ جماعتیں پڑھیں میں (کرم بی بی) بھی اسی مکتب میں پڑھتی رہی۔ مکتب میں حکیم حسام الدین کی بہو رقیہ کے علاوہ احمداں عمر شاہ اور ان کی بیٹی پڑھا کرتے تھے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درون خانہ کے مصنف کو مسجد کے سلسلے میں مغالطہ ہوا ہے نیز یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ علامہ کی مکتبی تعیلم پانچ جماعتوں تک تھی اقبال کا اپنا بیان واضح ہے۔ ''A few years''سے مراد کئی برس ہے۔ اگر مکتبی تعلیم کے بعد علامہ نے پہلی جماعت ہی میں داخلہ لیا ہو تو ان کا اور ان کے ہم جماعتوں کی عمرکا فرق ضرور رہے گا۔ اور اگر چند جماعتیں چھوڑ کر براہ راست اوپر کی کلاس میں داخلہ لیا ہو تو پھر عمر کے فرق کا امکان باقی نہیںرہتا۔ دوسرے قرینے کے لیے کوئی معاصر یا متاخر تائیدی شہادت نہیں ۔ البتہ فوق نے جس انداز میں تذکرہ کیا ہے اس سے جملوں کی دروبست میں اس کا امکان ہو سکتا ہے کہ شاید سیدھے پانچویں جماتعت مینداخل ہوئے ہوں لیکن فوق کا اندازہ تحریر محتاط نہیںہے ورنہ چند برس کو ہو کچھ دن نہ کہتے۔ علامہ کے چوتھی جماعت میں پڑھنے کا ثبوت شیخ آفتاب احمد کے مقابلے میں پایا ۶؎ جاتا ہے۔ بالائی جماعتوں میںداخلہ لینا اور الوقوع ہوتا ہے ۔ اگر علامہ نے براہ راست کسی بالائی جماعت میں داخلہ لیا ہوتا تو وہ اعزہ و احباب اس کا ذکر ضرور کرتے۔ ۱؎ اقبال ان پکچرز ۲؎ نیرنگ خیال اقبال نمبر صفحہ ۲۵ ۳؎ دیباچہ اقبال درون خانہ از مہر ص ۱۸‘۱۹ ۴؎ ذکر اقبال ص ۱۱‘۲۷۳ ۵؎ اقبال درون خانہ ص ۱۶۲۔۱۶۳ ۶؎ نیرنگ خیال اقبا ل نمبر ص ۷۴ مقالہ بعنوان علامہ سر اقبال کے استاد حیات اقبال مطبوعہ تاج کمپنی ص ۱۲‘۱۳ معاصرین و متاخرین کی خاموشیسے شاید یہ نتیجہ نکالنا خلاف واقعہ نہ ہو کہ پانچ برس کی مکتب نشینی کے بعد علامہ نے براہ راست پہلی جماعت میں داخلہ لیا۔ A few yearsکی ترکیب ظاہر کرتی ہے کہ اس کی حدود بخوبی تین برس سے نو برس کے زمانے تک حاوی ہیں۔ اگر محتاط اندازہ بیان اختیار کیا جائے تو ایک یا دو برس یا تین برس کے لیے بھی گنجائش موجود ہے۔ علامہ کے زمانے میں عموماً پانچ برس کی عمر کے طالب علم سکول میں داخلہ لیتے تھے اور مڈل پاس کرتے وقت عام طور پر طالب علم کی عمر تیرہ برس کے قریب ہو جاتی تھی۔ علامہ کے مڈل کے سرٹیفکیٹ میں پندرہ برس درج ہے اگر پہلی جماعت ہی سے داخلہ لیا ہوتاتو سکول میں داخل ہونے کی عمر سات برس کے لگ بھگ ہو گی۔ اس لحاظ سے مکتب نشینی ایک سال ہو گی۔ اور ۱۸۷۳ء کی صورت میں پانچ سال ہو گی۔ اگر مکتب نشینی کی مت دو تین برس سے زیادہ ہوت و اس کے آس پاس چلا جائے گا اور مڈل کے سرٹیفکیٹ کا اندراج غلط ٹھہرے گا۔ اس استدلال کی بنا پر ہم اگر معلوم سے نامعلوم کی طرف سفر کرنا چاہیں اور مڈل کے سرٹیفکیٹ کے اندراج کو قطعی مان لیں تو پھر مکتب نشینی دو تین سال اور پانچ سال تک جاتی ہے۔ اور معاصر بیان کی صورت میں پانچ برس۔ لیکن اگر منطق کا رخ برعکس ہو تو سنین کا دائرہ وسیع ہو جائے گا اور مڈل کی بیان کردہ عمر کا تخمینہ مشکوک ٹھہرے گا۔ ۱۲فروری ۱۸۷۳ء اس سنہ کا ذکر پہلی بار علامہ کی وفات (۲۱ اپریل ۱۹۳۸ئ) کے بعد اخبار انقلاب کے اعلان سے ہوتاہے جو سنہ ان کی زندگی میں بیان ہوئے وہ ۱۸۷۰ئ‘ ۱۸۷۵ء ‘ ۱۸۷۶‘ اور ۱۸۷۷ء ہیں۔ ۷ مئی ۱۹۳۸ء کے اخبار انقلاب میںیہ اطلاع دی گئی ہے کہ علامہ کے برادر بزرگوار کی بیان کردہ تاریخ ولادت اقبال دسمبر ۱۸۷۶ ء درست ہنیں ہے بلکہ وہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ بمطابق ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ کو پیدا ہوئے ۱؎۔ اخبار کا ااصل اقتباس جو روزگار فقیر میں درج ہے ذیل میںدیا جاتا ہے: ’’حضرت علامہ اقبال کی مختصر سوانح حیات کی گزشتہ اشاعت میںچھپے تھے ان میں شیخ رعطا محمد صاحب برادر کلان حضرت علامہ مرحوم کے تخمینی بیان کے مطابق مرحوم کی تاریخ پیدائش دسمبر ۱۸۷۶ء بتائی گئی تھی لیکن تحقیقی طور پر یہ معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت علامہ مرحوم ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے۔ اسلامی تاریخ ۲۳ و ۲۴ ذی الحج ۱۲۸۹ھ تھی۔ ان تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ مرحوم کی عمر بحساب سنین شمسی ۶۵ برس دو ماہ اور بحساب قمری ۶۷ برس دو ماہ ہوئی ۲؎۔ اخبار انقلاب کی مذکورہ بالا اشاعت کے بعد تاج کمپنی نے حیات اقبال شائع کی جس میں سال پیدائش ۱۸۷۳ء درج ہوا ۳؎ اسی زمانے میں محمد حسین خاں نے کتاب بعنوان اقبال لکھی (اپریل ۱۹۳۹ئ) اس میں بھی تاریخ ولادت ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء درج ہے ۴؎۔ ۱؎ Date of Iqbal's birth از سید عبدالواحد ص ۱ ۲؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۰ (بحوالہ انقلاب) ۳؎ حیات اقبال ص ۱۰ ۴؎ اقبال ص ۹ طاہر فاروقی نے جنوری ۱۹۳۹ء میں سیرت اقبال شائع کی اس کا تیسرا ایڈیشن جو ستمبر ۱۹۴۹ میں شائع ہوا میرے پیش نظر ہے اس میں ذیل کا نوٹ ملتا ہے: ’’الغرض ایسے مردان خدا کے آغوش میں اقبال ۲۴ ذی الحہ ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کتم عدم سے عالم وجود میں آئے ۱؎‘‘۔ کتاب کے حاشیے میں مندرجہ ذیل نوٹ ملتا ہے: ’’پیدائش کی یہ تاریخ سیالکوٹ کے رجسٹر فوقی و پیدائش سے تصدیق شدہ ہے اس کے مقابلے میں ۱۸۷۶ء والی روایت ضعیف نظر آتی ہے‘‘۔۲؎ ذکر اقبال جون ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی جس میں سالک مرحوم لکھتے ہیں: ’’علامہ کی ولادت ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو ہوئی ۳؎‘‘۔ فت نوٹ کی عبارت یہ ہے: ’’تصدیق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ بحوالہ رجسٹر پیدائش و اموات‘‘۔ یہاں یہ بات زیر بحث نہیں کہ سالک مرحوم نے یا بزم اقبال نے ریکارڈ سے خود تصدیق کرائی تھی یا نہیں۔ صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہو گا کہ سیرت اقبال کی عبارت اور فٹ نوٹ اور سالک مرحوم کی عبارت اور فٹ نوٹ میں نسبت قریبہ پائی جاتی ہے۔ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ بزم نے خود رجسٹر کی مصدقہ نقل حاصل کی تھی جو سالک صاحب کے پیش نظر تھی۔ اگریہ اطلاع صحیح ہے تو مرحوم نے اخذ مطالب میں کس قدر بے احتیاطی سے کام لیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے پیدائش و اموات کے رجسٹر کے اندارج کے مطابق نقل تصدیق کر کے بھیجی ہو گی۔ لیکن (جیسے کہ شیخ اعجا ز احمد صاحب نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے ) جملے کا مفہوم یہ ہو گیا کہ ڈپٹی کمشنر نے نقل کی نہیں تاریخ پیدائش کی تصدیق و توثیق کی ہے ۴؎۔ ۱۸۷۳ء کی تائید میں دو دلیلیں دی جا سکتی ہیں۔ ۱۔ میونسپل کمیٹی کا ریکارڈ مستند معاصر و شہادت ہے اس کے مقابلے میں کوئی دوسری تحری قابل قبول نہیں ۔ ۲۔ ۱۸۷۶ ء اور ۱۸۷۷ء کے سلسلے میں میونسپل کمیٹی کے ریکارڈ میں نور محمد عرف نتھو کی کسی اولاد کی پیدائش کا ذکر نہیں۔ کسی اور بچے کا ہو نیز آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جن کی تاریخ پیدائش کا اندراج میونسپل کمیٹی میں نہیںکرایا گیا۔ تردید میں جو دلائل سامنے آئے ہیں ان کا ذکر کسی قدر تفصیل سے کیا جاتا ہے: ۱؎ سیرت اقبال ص ۲۶‘۲۵ ۲؎ ایضاً ص ۲۶ ۳؎ ذکر اقبال ص ۱۰ ۴؎ Allama Iqbal's Date of Birthشیخ اعجاز احمد ص ۵ ۱۔ سید عبدالواحد کا اعتراض یہ ہے کہ برصغری میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے طالب علم کی عمر عموماً سولہ برس ہوتی ہے اور زیادہ ذہین طلبہ اس سے کم عمر میں امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ اقبا ل کے میٹرک کے امتحان کا سنہ معلوم ہے۔ ۱۸۷۳ء سال پیدائش شما رہو تو اس وقت علامہ کی عمر اکیس ۲۱ برس ہو گی۔ سید عبدالواحد کا خیال یہ ہے کہ ان ایسے ہونہار طالب علم سے یہ بت بعید ہے ۱؎۔ سید عبدالواحد فراموش کر جاتے ہیں کہ اقبال نے سکول کی تعلیم سے چند برس قبل مکتب میں تعلیم پائی تھی۔ ۱۸۹۱ء میں مڈل پاس کرتے وقت اقبال کی عمر پندرہ برس تھی۔ حالانکہ ان کے استدلال کے مطابق علامہ کی عمر اس وقت ۳ ۱ برس اور زیادہ ہونہار کی صورت میں اور بھی کم ہونی چاہیے۔ ۲۔ سید عبدالواحد چوہدری محمد حسین کے حوالے سے لکھتے ہیں: It must be put on record that whenever the question of Iqbal's birth arose his great friend, Chaudhry Muhammad Hussain used to say that it was impossible for him not to believe any information supplied by Iqbal himself. And one would be quite safe in following Chaudhry Muhammad Hussain in this matter. ۲؎ اس استدلال میں منطقی مغالطہ ظاہر ہے۔ ایک ستم ظریف تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اقبال جھوٹ نہیں بول سکتے۔ ان کے بیان کردہ سنہ پیدائش سے اختلا ف اقبال کی توہین ہے۔ اس منطق کو کسی قدر آگے لے جائیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کی بیان کردہ تاریخ پیدائش کو غلط کہنے سے ان کا سارافلسفہ او ر عقائد و خیالات باطل ٹھہرتے ہیں ظاہر ہے یہ جذباتی رویہ ہے جس میں منطق کو مضحکہ خیز حدود تک لیجایا گیاہے۔ اقبال کے پاس اپنے سنہ پیدائش کے بارے میں معلومات ناکافی بھی ہو سکتی ہیں۔ اور ان کے ذرائع معلومات ناقص بھی ہو سکتے ہیں اور اس بنا پر معلومات غلط ثابت ہونے پر یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کا فلسفہ صحیح نہیں حقیقت یہ ہے کہ کسی فرد کے وہ بیانات جو چشم دید حقائق کے بارے میں ہوں مستند ہوں گے۔ پیدائش کے وقت نہ شعور بیدار ہوتا ہے نہ کوئی شخص معروضی طور پر اپنی پیدائش کے عمل کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ اطلاعات تو ہمیشہ دوسروں سے حاصل ہوتی ہیں اس لیے اقبال کی پیدائش کے بارے میں اس کی اپنی اطلاعات بھی دوسرووں کے بیانات پر مبنی ہوتی ہیں اور ان کے غلط ہونے کا امکان بھی ہے شک و شبہے کا پہلو اس لیے بھی نکلتا ہے کہ علامہ کے مدل کے امتحان دینے کے تخمینے مرے کالج سیالکوٹ میں داخلے کے وقت ان کی عمر بی اے کے امتحان کے وقت فارم داخلے میں اندراج تینوںمیںفرق پایا جاتا ہے۔ اور یہی ان کی اپنی معلومات کے غیر معتبر ہونے کا ایک سبب ہے ۔ ۱؎ Date of birth of Iqbalص۱ ۲؎ Date of Iqbal's birthص۷ ۳۔ اقبال درون خانہ کے مولف نے اپنی تحریر میں فیملی ریکار ڈ کا حوالہ بھی دیا تھا جس کے مطابق انہوںنے علامہ کے دوسرے بہن بھائیوں کی پیدائش اور وفات کے سلسلے میں گھریلو یادداشت کا ذکر کیا تھا(دیکھیے صفحۃ ۱۵۶‘۱۵۷) روزگار فقیر کے مولف اس کی تردید میںلکھتے ہیں: ’’راقم الحروف نے حضرت کے برادر زادہ شیخ اعجاز احمد سے تصدیق کرا لی ہے کہ ان کے ہاں کوئی ایسا فیملی ریکارڈ نہ اب ہے نہ پہلے تھا جس میں حضرت علامہ کی تاریخ پیدائش ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء درج ہو۱؎‘‘۔ یا د رہے کہ یہ استدلال جو ۱۸۷۳ ء کے خلاف دیا گیا ہے باآسانی ۱۸۷۶ء اور ۱۸۷۷ء کے بارے میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان سنین کے بارے میں بھی کوئی مستند اور یقینی معاصر شاہدت نہیںہے ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ والا بیان جو علامہ اقبال نے پی ایچ ڈی کے مقالے کے شروع میں دیا ہے غالباً زبانی روایات پر مبنی تھا۔ چاہے یہ معلومات ان کے والد نے مہیا کی ہوں یا کسی اور بزرگ نے ۔ اس کے مقابلے میں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کا میونسپل ریکارڈ تحریری صورت میںہے اوراس کی تردید میں یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ یہ اندراج علامہ کے بارے میں نہیں ہے۔ میونسپل ریکارڈ تحریر ی صورت میں ہے اور اس کی تردید میں یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ یہ اندراج علامہ کے بارے میں نہیں ہے ۔ میونسپل ریکارڈ میں بچے کا نام درج نہیں فقط نتھو کے ہاتھ ایک لڑکے کی پیدائش کا ذکرہے۔ اس لیے قطعیت سے اسے اقبال کے ساتھ منسوب کرنا شبہے سے خالی نہیں یہ بات بھی غیر متعلق ہے کہ گھریلو یادداشت سے مراد ضروری نہیں کہ تحریری شہادت ہو یہ یادداشت زبانی روایت کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ ۴۔ اس حوالے میں جس کا ابھی ذکر کیا یگا ہے اطلاع دہندہ کا نا م نتھو درج ہے جس کا محلہ کشمیریاں قوم والد و والدہ کشمیری بیان ہوئی ہے۔ (عکس کے لیے دیکھیے اقبال درون خانہ مقابل صفحۃ ۱۵۵ و روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۳) روزگار فقیر اور اقبا ل درون خانہ کے بیانات یہ ہیں: ’’اس اندراج سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو علامہ کے والد بزرگوار شیخ نور محمد صاحب (جن کا عرف نتوتھا) کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوالیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ لڑکا علامہ اقبال کے علاوہ اور کوئی نہیں یا یہ کہ اندراج علامہ ہی کی پیدائش کے متعلق ہے۔ اس کے برعکس راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق یہ اندراج شیخ نور محمد صاحب کے ہاں ایک اور لڑکے کی پیدائش کے متعلق ہے جو علامہ سے تین چار سال پہلے پیدا ہو کر شیر خواری کی عمر میں فوت ہو گیا۔ میری درخواست پر علامہ کے برادر زادہ شیخ اعجاز احمد نے اپنی ایک پھوپھی صاحبہ سے جو ابھی بفضل تعالیٰ حیات ہیں تصدیق کرائی کی علامہ کی پیدائش سے تین چار سال قبل ان کے والد کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جو شیر خواری کی عمر میں ہی فوت ہو گیاتھا۔ وہ فرماتی ہیں کہ انہوںنے اپنی والدہ صاحبہ سے ایک بار نہیں متعدد بار سنی ۲؎۔ ‘‘ ۱؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۶‘۲۳۷ ۲؎ ایضاً ص ۲۳۱ ’’اعجاز احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان (بے جی والدہ اقبال) کے جذبہ ایثار کا ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں میاں جی (والدا قبال) کے چھوٹے بھائی غلام محمد کے ہاں لڑکیاں ہی ہوتی تھیں۔ ان کی اہلیہ کو لڑکے کی خواہش تھی۔ اس لیے بہت دلگیر رہتی تھیں۔ دونوں بھائی آپس میں اکٹھے رہتے تھے۔ ایک دفعہ دونوں بھائیوں کی بیویاں امید سے ہوئیں اس مرتبہ بھی بے جی کو اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا کیر اور دیور کی بیوی کے پھر لڑکی پیدا ہوئی۔ ان کے غم و اندوہ کو دیکھتے ہوئے بے جی نے ان سے کہا کہ تم لڑکا لے لو اورلڑکی مجھے دے دو۔ چنانچہ بچوں کا تبادلہ ہو گیا۔ اور بے جی نے لڑکی کو پالنا شروع کر دیا اوران کی دیوروانی ے لڑکے کو کچھ مہینوں کیبعد ایک دن صبح کے وقت دونوں بیدار ہو کر گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئیں بے جی نے لڑکے کے متعلق دریافت کیا تو ان کی دیورانی نے کہا کہ دودھ پی کر سو گیا ہے ۔ جب کافی دیر ہو گئی اور لڑکا بیدار نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ فوت ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہونٹوں پر دودھ لگا ہوا تھا بے جی نے پھر وہ لڑکی اپنی دیورانی کو دے دی۔ یہ فوت ہونے والا لڑکا وہی تھا جس کی پیدائش کے اندراج رجسٹر میونسپل کمیٹی کو غلطی سے چچا جان کی پیدائش کا اندراج سمجھ لیا گیا۔ چچا جان کی پیدائش اس لڑکے کی پیدائش سے تقریباً پانچ سال بعد ہوئی تھی ۔ ۱؎‘‘ اقبال درون خانہ کے مصنف کو بھی ۲۲ فروری والے اندراج پر اصرار نہیں کہ وہ بھی اسے دوسرے بچے ہی سے متعلق قرار دیتا ہے۔ لیکن تقریباً پانچ سال والے بیان سے اختلاف کرتے ہوئے علامہ کی پیدائش اسی سال کے آخر میں بیان کرتے ہیں۔اقتباس یہ ہے کہ: ’’ یہی وہ تاریخ ہے جو اب تک حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی پیدائش کے طور پر مشہور رہی ہے۔ روزگار فقیر کے مصنف نے اس تاریخ کو غلط قرار دیا کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والا بچہ فو ت ہو گیا تھا۔ یہ واقعی درست ہے۔ دراصل یہ وہ بچہ تھا جسے پیدائش کے فوراً بعد والدہ ماجدہ اقبال نے میان جی کے ایماء پر اپنی دیورانی کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ کیونہ انکے ہان کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ مشیت ایزدی سے وہ بچہ شیر خواری کی عمر میں ہی انتقال کر گیا۔ اللہ تعالیٰ کو شاعر مشرق کے والدین کا یہ بے لوٹ ایثار بہت پسند آیا اور اسی سال پورے سوا دس ماہ بعد ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو ایک بااقبال فرزند عطا کر کے دلجوئی فرمائی‘‘ ۲؎ خاندان کے افراد کے بیان کے مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیداہونے والا بچہ شیر خواری کی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ لیکن علامہ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں خاندان کے دونوں افراد میں اکتلاف ہے۔ ایک کے مطابق اقبال اس لڑے کی پیدائش سے تقریباً پانچ سال بعد پید ا ہوئے۔ دوسرے کے مطابق اسی سال سوا دس ماہ بعد علامہ کی پیدائش ہوئی۔ ان اقتباسات پر کچھ غور طلب سوالات پیداہوتے ہیں: ۱؎ روزگار فقیر جلد دوم ص ۱۳۳‘۱۳۴ اقبال درون خانہ ص ۱۵۷ ۱؎ دونوں بھائی نور محمد اور غلام محمد ایک مکان میں رہے ہیںَ دونوں کے ہا ں اولاد ایک ہی زمانے میں ہوتی تھی۔ ایک کے بچے کا اندراج میونسپل کے ریکارڈ میں ۃے۔ کیا غلام محمد کی صاحبزادی کا اندراج نہیںہوا (اس کی جستجو بھی ضروری ہے) ۔ ۲۔ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والے لڑکے کی پیدائش کا اندراج تو ہوا وفات کا اندراج بھی ہونا چاہیے تھا (ا س ریکارڈ کی تلاش ضروری ہے)۔ ۳۔ تین سال قبال ور پانچ سال قبل کے بیانات کا ذریعہ اقبال کی ایک بہن بیان کی جاتی ہے۔ یہ بیان پچا س برس عد یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد حافظے کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ اور اتنی مدت کے بعد یادداشت میں تسامح ممکن ہے۔ اسی طرح سوا دس ماہ کے تعین کا ذریعہ بھی معلوم نہیںغالباً میونسپل ریکارڈ کو سامنے رکھ کر مدت کا تعین خود کیا ہے۔ ۴۔ ۲۲ فروری کو جو لڑکا پیدا ہوا تھا اس کا محلہ کشمیریاں ہے۔ اقبال کا آبائی محلہ چوڑی گراں ہے۔ دونوں محلے آس پاس ہیں چنانچہ یہ التباس فقیر وحید الدینکو بھی ہوا ہے حالانکہ انہیںشیخ اعجا ز احمد کا تعاون حاصل تھا(روزگار فقیر جلد اول نمبر ۲۶) اقبال منزل کو چوڑی گراں کی بجائے محلہ کشمیریاں میں ظاہر کیا یگا ہے لیکن کیا محلہ کشمیریاں اور محلہ چوڑی گراں میں ایک ہی زمانے میں ایک سے زائد نتھو موجود تھے یا دونوں محلوں کے قریب قریب ہونے کی وجہ سے محلہ کشمیریاں کا اندراج ہو گیا ہے۔ اعجاز احمد نتھو نام کے دو افراد کا ذکر کرتے ہیں ۱؎۔ ان سوالات کے جواب کے بغیر ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء اور ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کے اندراجات کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ایک ہی خاندان یا ایک ہی محلے سے متعلق ہیں۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء اس سنہ پیدائش کے موید خالد نظیر صوفی ہیں جنہوںنیاقبال درون خانہ اپریل ۱۹۷۱ء میں شائع کی۔ سال پیدائش کا مستقل باب قائم کر کے میونسپل ریکارڈ سے بحث کی ہے اور ۱۸۷۰ء سے لے کر ۱۸۷۷ء کے اندراج کو غور سے دیکھ کر شیخ نور محمد (عرف نتھو) کے چار بچوں کے اندراج ڈھونڈ نکالے ہیں۔ ۱۔ ۶ ستمبر ۱۸۷۰ء ایک لڑکی دختر نتھو محلہ چوڑی گراں قوم کشمیری اطلاع دہندہ رفیق۔ ۲۔ ۲۲فروری ۱۸۷۳ئ ایک لڑکا پسر نتھو محلہ کشمیریاں قوم کشمیری۔ اطلاع کنندہ نتھو۔ ۳۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ایک لڑکا پسرنتھو چوڑی گراں قوم مسلمان خیاط۔ اطلاع کنندہ علی محمد ولد غلام محی الدین۔ ۴۔ ۱۴نومبر ۱۸۷۶ء ایک لڑکی دختر نتھو ولد محمد رفیع (محمد رفیق) محلہ کشمیریاں قوم مسلمان کشمیری اطلاع کنندہ نتھو۔ ان چاروں اندراجات میں سے پہلا محترمہ طالع بی بی کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔ طالع بی بی زوجہ غلام محمد ہمشیرہ اقبال وفات ۱۳ جولائی ۱۹۰۲ء بہ عمر بتیس برس۔ وفات کا اندراج رجسٹریشن میں موجود ہے۔ اور ریکارڈ میں عمر بتیس برس بیان ہوئی ہے۔ دوسرا اندراج اس لڑکے کے بارے میں ہے جو شیر خواری میں فوت ہوا تھا۔ ۱؎ Allama Iqbal's Date of Birth ص ۱۴ تیسرا علامہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے ریکارڈ میں والد نتھو اور پیشہ خیاط بیان ہواہے۔ چوتھا اندراج کریم بی بی زوجہ احمد الدین کے بارے میں ہے جن کا انتقال یکم جولائی ۱۹۵۸ء ۸۱ یا ۸۲برس کی عمر میں ہوا۔ وفات کے ذیل میں میونسپل ریکارڈ میں عمر ۸۶ برس درج ہے۔ ان اندراجات کے بارے میں کچھ بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں: ۱۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والے لڑکے کی اطلاع علی محمد ولد غلام محی الدین نے دی۔ خالدنظیر صوفی لکھتے ہیں کہ اطلاع کنندہ رشتے میں نور محمد کا پھوپھی زاد بھائی تھا ۱؎۔ شیخ اعجازاحمد کا بیان ہے کہ ان کا اس نام کا کوئی رشتہدار نہیںتھا۔ اصل الفاظ یہ ہیں: The auther states that Ali Muhammad was the son of Sheikh Muhammad's paternal aunt. This is the first time I have heard that my grandfather had a cousin of this name. No person of this name ever visited our house on occasions of marriages and deaths in the family or otherwise. In fact Sheikh Noor Muhammad's father Sheikh Muhammad Rafiq had no sister and no Ali Muhammad is shown in the of this family which I had prepared many years back after making inquiries from my mother and parental aunts۲؎۔ اس بیان سے ظاہرہے کہ علی محمد کی رشتہ داری مشکوک ہے۔ تاہم کئی دوسری باتیں قابل توجہ ہیں: (الف) کیا ضروری ہے کہ اطلاع کنندہ رشتہ دار بھی ہو۔ عام دستو ر کے مطابق بعض اوقات محلے کا چوکیدار یا خاکروب بھی اطلاع کر دیتا ہے یا کبھی کوئی محلے دار بھی اندراج کرا دیتا ہے۔ (ب) شیخ اعجاز احمد کی اپنی تاریخ پیدائش ۱۲ فروری ۱۸۸۹ ء ۳؎ ہے۔ یہ قابل غور ہے کہ جو شخص ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ ء کو نتھو کے فرزند تولد کی اطلاع دیتا ہے اس مرحلے پر اتنی عمر کا ہونا چاہیے کہ اس کی دی ہوئی اطلاع میونسپل کمیٹی کے لیے قابل اعتماد ہو نیز ایسے شخص کی سرکاری یا سماجی حیثیت بھی متعین ہو۔ ۱؎ اقبال درون خانہ ص ۱۵۷ ۲؎ شیخ اعجاز احمد کا نوٹ ص ۸ ۳؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۰۰ شیخ اعجاز احمد کے لیے بھی عمر کی اس منزل پر ہونا چاہیے جب سن تمیز کو پہنچ کر وہ شادی و غمی کے مجمعوں میں افراد کو فردا ً فردا ً پہچان سکیں۔ یہ جبھی ممکن ہے کہ ان کی عمر اور اطلاع کنندہ کی عمر میں خاصہ فرق ہو۔ قیاساً اطلاع کنندہ کو عمر میں شیخ صاحب کے والد مرحوم سے بڑا ہونا چاہیے تھا۔ اور شیخ اعجاز احمد کے سن تمیز کو پہنچنے تک خاصہ عمر رسیدہ ہونا چاہیے تھا۔ شیخ اعجاز احمد کے والد کا سال پیدائش ۱۸۵۹ء ہے اس اعتبار سے اطلاع کنند کو اس منز تک جب شیخ اعجاز احمد کا شعور بیدار ہو کم از کم ۰ ۷ برس کا ہونا چاہیے۔ جبھی یہ ممکن ہو گا کہ وہ ۱۸۷۳ء میں میونسپل کمیٹی کو اطلاع دینے کے قابل بھی ہو۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اطلاع کنندہ علامہ کے ننھیال کا کوئی فرد ہو۔ علامہ کا ننھیال سمبڑیال میں تھا۔ اس اطلاع کنندہ کے علاوہ باقی اطلاع کنندگان کی چھان بین ضرو ر ی ہے۔ میونسپل ریکارڈمیں طالع بی بی زوجہ غلام محمد کی وفات کا اطلاع کنندہ تاج الدین ۱؎ ہے۔ کریم بی بی زوجہ احمد الدین کی وفات کا اطلاع کنندہ افتخار احمد ہے ۲؎۔ ان کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ اطلاع دینے والے کون تھے اور کس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ خصوصاً علی محمد ولد غلام محی الدین کے بارے میں معلومات اہم ہو سکتی ہیں۔ (ج) اندراج میں نتھو کا پیشہ خیا ط اور باقی اندراجات میں قومیت کشمیری درج ہے۔ وہ نتھو ٹوپیاں والا کہلاتے تھے۔ اس لیے جس اندراج میں انہیں خیاط کہا گیا ہے وہ ان کے اور ان کے بیٹے کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ شیخ اعجاز احمد فرماتے ہیں: I recall on e Nathu close to our house who was a gold smith and was known as Nathu Zargar. In Sialkot there was a large disticnt community known as Khayyat Bradry. Some of these were residing in muhallah Churigaran. The entry in the register of birth to be that of the Allama evedently recorded the birth or a son to some Nathu of this bradry. Sheikh Noor Muhammad was not known as Nathu Khayyat. He used to make caps. and Kullahs and was known as Nathu Topianwala. In the Register of birth although there is a column of pesha. qaum and mazhab (profession, community, and religion) but in the other five enteries the entry in the column is either the community or community and religion of the person concerned. ۱؎ اقبال درون خانہ ص ۱۵۶ ۲؎ ایضاً ص ۱۵۹ The word Khayyat in the entry in question also evidently refers to the community of this Nathu ۱؎۔ استدلال کی یہ عمارت قائم نہیں رہتی اس کی اساس اس مفروضے پر ہے کہ علامہ کے والد خیاط نہیں کہلاتے تھے۔ سکاچ مشن کالج کے ریکارڈ میںعلامہ کے داخلے کے اندراج میں نور محمد کو ٹیلر کہا گیا ہے۔ بیان کا یہ حصہ البتہ غور طلب ہے کہ کشمیری محلے میں اورعلامہ کے قریب نتھو زرگر بھی رہتا تھا۔ اور محلہ چوڑی گراں میں ایک خیاط برادری بھی تھی جن کا علاہ کے خاندان سے کوئی تعلق نہ تھا نتھو ایک ایسا عرفی نام ہے جو نتھ کی نسبت سے عموماً حیثیت رکھتا ہے اور ایک سے زیادہ نتھو ایک ہی شہر میں اور ایک ہی محلے میں ممکن ہیں۔ چنانچہ شیخ اعجاز احمد نے اپنے بھائی مختار احمد کے حوالے سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ محلہ چوڑی گراں اور محلہ کشمیریاں ساتھ ساتھ واقع ہیں اور ان میں جغرافیائی حد بندی ممکن نہیںخصوصاً جب کہ علامہ کا خاندانی مکان محلہ کشمیریاں کے سرے پر واقع ہے۔ علامہ کے داخلے کے اندراج میں خیاط کی موجودگی اس استدلال کے بنیادی نکتے کی تردید کرتی ہے اور میونسپل اندراج کو غیر متعلق قرار دینے سے حارج ہے ۔ (د) خاندانی روایات کے مطابق علامہ کی پیدائش جمعے کے روز ہوئی۔ لیکن ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو جمعہ نہیںبلکہ پیر تھا۔ اسکے علاوہ علامہ کے برادر بزرگ شیخ عطا محمد کا تخمینی بیان جو اخبار انقلاب کے شمارہ ۷ مئی ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ اس میں علامہ کی پیدائش کا مہینہ دسمبر بیان ہوا ہے۔ اگر ۳ ذیقہدہ ۱۲۹۴ کو صحیح تسلیمم کر لیا جائے تو پھر ان کی تاریخ پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ء میں پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے دسمبر کی روایت اور جمعے کا دن دونوں کے یکجا ہونے کا امکان نہ ۲۲فروری ۱۸۷۳ء کو ہوتا ہے اور نہ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو او رنہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ کو گویا دسمبر اور جمعے کی دونوں خاندانی روایتوں میں سے کوئی بھی ٹھیک ہو سکتی ہے۔ یا پھر علامہ کی تاریخ پیدائش کا کوئی سن ان سنین کے علاوہ قیاس کرنا پڑے گا جس میں دسمبر اور جمعہ یک جا ہو تے ہوں۔ علامہ کے سال پیدائش کے سلسلے میں جن تحڑیری شہادتوںکا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں خود علامہ کے بیان کردہ تخمینہ ہائے عمر میں خاصہ فرق ہے۔ میونسپل کمیٹی کا ریکارڈ بھی کسی آخری نتیجے میں پہنچنے میں معاون نہیں۔ تلا ش و جستجو کا تیسرا وسیلہ ان کے حلقہ احباب کے بیان ہو سکتے ہیں۔ علامہ اقبال کی تقریباً ہم عمر کرم بی بی والدہ محبوب احمد کوچ حکیم حسام الدین مکان نمبر ۳۳۹؍۲۴ کا جو بیان راقم الحروف پروفیسر محمد عثمان اور سید نیازی نے ۲۶ جنوری ۱۹۷۴ء کو لیا تھا ا س کے مطابق علامہ کی پیدائش ۱۸۷۳ء میں بنتی ہے۔ کرم بی بی کے بیان کے ضروری حصے ذیل میںپیش کیے جاتے ہیں: ۱؎ نوٹ اعجاز احمد ۱۔ میں اقبال کی بہن کریم بی بی سے کوئی تین چار ماہ بڑی تھی۔ کریم بی بی کی شادی میری شادی سے دو سال پہلے ہوئی تھی۔ اقبال کی شادی کے وقت میری عمر سترہ برس تھی اور اقبال کی عمر انیس برس تھی۔ ۲۔ ایک دفعہ بہت ہیضہ انفلوئنزا پھیلاتھا۔ میرا سوتیلا بیٹا فیض اس ہیضے کی وبا میں مرا تھا اس کی عمر بائیس بر س کی تھی۔ یہ میری شادی کے دو ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔ شادی کے وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ ۳۔ اقبال کی چاربہنیں تھیں بڑی بہن جیونی یہ فضل حق سینڈو کی والدہ تھیں۔ ان کے تعلقات خاوند سے اچھے نہیں تھے۔ یہ میری بڑی بہن بھاگن کی ہم عمر تھی۔ دوسری بہن طالع بی بی تھی تیسری کریم بی بی اور چوتھی زینب۔ زینب کی اپنے خاوند سے ان بن ہو گئی تھی۔ اور خاوند نے دوسری شادی کر لی تھی‘‘۔ اس انٹرویو میں بنیادی واقعہ ہیضہ (انفلوئنزا) کی وبا کا ذکر ہے۔ جو ۱۹۱۸ء کا واقعہ ہے۔ اس میں کرم بی بی کا سوتیلا بیٹا فیض فوت ہوا۔ فیض اس حساب سے ۱۸۹۶ء میں پیدا ہوا تھا۔ کرم بی بی کی شادی کے وقت دو ماہ کا تھا۔ ان کی شادی اندازً ۱۸۹۶ء میں ہوئی ہو گی۔ کرم بی بی سے علاہ کی بہن کریم بی بی چارماہ بڑی تھی۔ کریم بی بی ہمشیرہ اقبال کی شادی سے دو سال یعنی ۱۸۹۴ء کے لگ بھگ ہوئی ہو گی۔ علامہ کی بہنوں کو سلسلہ وار لیا جائے تو بڑ ی بہن جیونی کے بعد طالع بی بی اور طالع بی بی کے بعد کریم بی بی کا نمبر آتا ہے… شادی کے وقت کرم بی بی کی عمر سترہ برس اور اقبال کی انیس گوی اس حساب سے اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۳ء ہوا۔ اور ۱۸۷۴ء اس لیے شمار نہیںکیا گیا کہ کرم بی بی سے اقبال کی بہن کریم بی بی دو چار ماہ بڑی تھی۔ کرم بی بی کا یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ان کی عمر اپنی شادی کے وقت اٹھارہ برس تھی کرم بی بی کی شادی ۱۸۹۶ء کے لگ بھگ ہوئی۔ اس لحاظ سے کرم بی بی کی شادی دو سال پہلے یعنی ۱۸۹۴ء میں ہوئی۔ کرم بی بی اپنی شادی کے وقت اٹحارہ برس کی عمر بیان کرتی ہیں۔ اس حساب سے تو ان کی پیدائش ۱۸۷۷ ء کے قریب ہو گی اوراستدال کی ساری کڑیاں گڑبڑ ہو جائیں گی۔ اقبال سے دو برس چھوٹی ہونے کی صورت میں انہیں ۱۸۷۵ء میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ اس اعتبار سے ۱۸۹۶ء میںیعنی اپنی شادی کے وقت وہ اکیس برس کے لگ بھگ ٹھہرتی ہیں۔ اقبال درون خانہ کے مولف کے مطابق ان کی پہلی شادی کے وقت بیگم کے بیان کے مطابق علامہ بیس برس سے کچھ کم تھے ۱؎۔ ان کی شادی ۱۸۹۳ء میں ہوئی ا س کے مطابق اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۳ ء کے آخر میں ہو گا۔ مولانا سید حامد جلالی نے علامہ اقبال اوران کی پہلی بیوی میں اقبال کے والد کا سال پیدائش ۱۸۳۷ء اور پیدائش اقبال کے وقت عمر اکتالیس سال قرار دی ہے۔ اس اعتبار سے اقبا ل کا سال پیدائش ۱۸۷۸ ہونا چاہیے ۲؎۔ علامہ کی پہلی بیوی کے حوالے سے کرنل خواجہ عبدالرشید صاحب نے بیان کیا ہے کہ شادی کے وقت بیگم پندرہ برس کی تھیں اقبال ان سے پانچ برس بڑے تھے اس تخمینے کے مطابق اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۳ء ہوا۔ ۳؎ ۱؎ اقبال درون خانہ ص ۱۶۱ نیز اعجاز احمد ص ۱۱ ۲؎ علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی ص ۱۴‘۱۷‘۱۹ نیز اعجاز احمد ص ۱۱ ۳؎ کرنل عبدالرشید بحوالہ اعجاز احمد ص ۱۵ شیخ اعجا زاحمد کی والدہ بیان کرتی تھیںکہ ان کی شادی کے وقت اقبال پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر دس بارہ برس کی تھی ۱؎ اقبال نے مڈل کا امتحان ۱۸۹۱ء میں پاس کیا تھا۔ اس حساب سے بھائی کی شادی ۱۸۸۸ میں ہونی چاہیے کہ پیدائش کے لحاظ سے ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۸ء شمار ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ علامہ کے بھائی عطا محمد ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اس اعتبار سے انتیس برس کی عمر میں ان کی شادی ہوئی ہو گی۔ جو ا س زمانے میں عام رواجکے مطابق دیر کی شادی قرار پائے گی۔ لیکن یہ شادی ان کی پہلی شادی نہیںتھی دوسری شادی تھی۔ پہلی بیوی سے ان کی بیٹی برکت بی بی ایک مدت تک مفلوک الحال کی زندگی بسر کرتی رہی اور باپ کی شفقت اور محبت سے محروم رہی ۲؎۔ جلالی کے بیان میں علامہ کی عمر کا تخمینہ بظاہر صحیح نہیںہوتا۔ کیونکہ اگر علامہ کی پیدائش کے وقد والد کی عمر اکتالیس برس ہے تو والدہ بیالیس برس کے پیٹے تھیں ۔ ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کی دو بہنیں ان سے چھوٹی تھیں۔ سب سے چھوٹی بہن کی پیدائش کے وقت والدہ کی عمر طبعی لحاظ سے اتنی ہونی چاہیے کہ بیٹی کی پیدائش کا امکان رہے۔ معاصرین کے یہ بیانات ہمیں کسی واضح نتیجے تک نہیںلے جاتے۔ ان سے ۱۸۷۳ء ‘ ۱۸۷۷‘ ۱۸۷۸ء کے سین کا اندازہ ہوتاہے۔ اب تک سال پیدائش کے سلسلے میں دلائل کے جو ؤسلسلے قائم کیے گئے ہیں ان میں قطعی بات یہی نظر آتی ہے کہ اقبال نے پانچ برس مکتب میں بسر کیے ۱۸۷۶ ء اور ۱۸۷۷ کے سنین باطل ٹھہرتے ہٰں اور مڈل کے امتحان کے وقت یعنی ۱۸۹۱ء میں انہیں اپنے ہم جماعتوں سے بڑا ہونا چاہیے تھا اس استدلال کی یہ رو ہمیں ۱۸۷۳ء والی تاریخ کے پاس لے جاتی ہے۔ یوں بھی عمروں کے تخمینے محض اندازے سے ہوتے ہیں۔ اور اس کا بہت کچھ انحصار نصف صدی بعد واقعات بیان کرنے والے معاصر شخص کے حافظے پر ہے ورنہ اقبال کی پہلی بیوی اور شیخ اعجاز احمد کی والدہ کے تخمینے میں اتنا فرق نہ ہوتا۔ اس حیاتیاتی عنصر کی بنا پر شیخ اعجاز احمد کی والدہسے اقبال کی پہلی بیوی کی عمر میں بہت چھوٹی تھیں ہم علامہ کی پہلی بیوی کے بیان کو ترجیح دیں گے کہ اس میں حافظے کے قوی ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ تاوقتیکہ یہ ثابت ہو جائے کہ اقبال کی پہلی بیوی کو نسیان کا عارضہ یا کوئی اور مرض تھا جو یادداشت پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ بیانات کے وہ سلسلے جو ۱۸۷۳ء کی طرف جاتے ہیں اس اطلاع کی تائید میں ہیں کہ علامہ اقبال نے مکتبی تعلیم پانچ برس تک حاصل کی اوراسی نسبت سے انہیں اپنے سکول کے ہم جماعتوں میں پانچ برس بڑاہونا چاہیے۔ اگر یہ استدلال صحیح ہے تو ۱۸۹۱ء میں قریباً اقبال سترہ اور اٹھارہ برس کے درمیان ہوں گے۔ ۱۸۹۳ء میں بیس اکیس برس کے اور بی اے میں داخلے کے وقت یعنی ۱۸۹۵ء میں ۲۲ برس کے لگ بھگ ہونا چاہیے۔ ۱۸۹۷ء میں ان کی عمر ۲۵ برس کے قیرب اور ۱۸۹۹ میں ایم اے کرنے پر ستائیس برس کے لگ بھگ شمار ہو گی۔ سرکار ی ملازمت کے لیے حد عمر اور ایم اے کے موقع پر علامہ کی عمر میں فرق اتنا ہے کہ اگر اس تاریخ کا اندراج ان سرٹیفکیٹوں پر ہوتا تو وہ سرکاری ملازمت اور پی سی ایس کے امتحان کے اہل قرار نہیں پا سکتے تھے۔ ۱؎ اعجاز احمد ص ۳‘ سید عبدالواحد ص ۶ ۲؎ علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی ص ۳۲ آج بھی عمر کے سلسلے میں تعلیمی ریکارڈ میں کم عمر لکھانے کا رواج عام ہے۔ لیکن بہرحال سوچ کی ایک رو ہے جس کے راستے میں کئی رکاوٹیں موجود ہیںَ اس لیے ا س قیاس کو ہم یہیں چھوڑتے ہوئے استدلال ایک اور سلسلے کو لیتے ہیں۔ تاریخ پیدائش کی جستجو کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ علامہ کے وال د اور والدہ بہنوں اور بھائیوں کی عمر کا اندازہ کیا جائے۔ اقبال کی والدہ امام بی بی ۹ نومبر ۱۹۱۴ کو فوت ہوئیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر اٹھتر ۸ ۷ برس بیان کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کاسال پیدائش ۱۸۳۶ء قیاس کرنا چاہیے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد کا انتقال ۱۷ اگست ۱۹۳۰ ء کو ہوا ۔ فقیر کے بیان کے مطابق شیخ نور محمد کی عمر اس وقت ۹۳ برس کی تھی ۱؎۔ شیخ نور محمد کا سال پیدائش ۱۸۳۷ء ہوا۔ گویا بیوی عمعر کے لحاظ سے میاںسے ایک برس بڑی تھیں۔ علامہ کے سب سے بڑے بھائی شیخ عطامحمد کی پیدائش ۱۸۵۹ء میںہوئی۔ پہلے بیٹے کی پیدائش کے وقت علامہ کی والدہ کی عمر ۲۳ برس کے لگ بھگ شمار ہو گی۔ اقبال اگر ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوء تواس حساب سے ان کی والدہ کی عمر ۴۱ برس کی ہونی چاہیے۔ دوسری بہن کریم بی بی کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ اندازاً ۴۴ برس کی تھیں سب سے چھوٹی بہن زینب کی پیدائش کے خاندانکے تین برس والے فارمولے کے مطابق قیاس کی جائے تو اس وقت والدہ ۴۷ برس کی قرار دی جا سکتی ہیں۔ اگر تین برس کے فاصل کو اصول تسلیم نہ بھی کیا جائے تو جب بھی ۴۶ برس کی عمر میںبیٹی کی پیدائش نادر الوقوع بات ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خاندان کے لوگ اس کا کہیں نہ کہیں ذکر ضرور کرتے۔ اس لیے آخری بیٹی کے اس سے بہت پہلے پیدا ہونے کا امکان زیادہ قوی ہے۔ اور اسی نسبت سے علامہ کی پیدائش کا سال بھی پیچھے چلا جائے گا۔ اوریہ ۱۸۷۶ء نہیں بلکہ ۱۸۷۳ء یا اس کے بعد پڑے گا۔ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء اگر اقبال کا سال پیدائش تھا تو یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ان کی والد ہ کا انتقال ۹ نومبر ۱۹۱۴ ء کو ہوا۔ اس اتفاق یا حادثے کی طرف اقبال نے کہیں اشارہ نہیںکیا۔ کہ ۹ نومبر ان کی پیدائش اور ۹ نومبر ان کی والدہ کی وفات کا دن ہے۔ تاہم یہ کہا جا سکتاہے کہ ان کے ذہن میں ہجری سنین تھے۔ اس لیے ۹ نومبر کی طرف ان کا ذہن ہی نہیں گیا۔ روزگار فقیر میں اقبال کی پہلی بیگم کو علامہ ۳؎ سے تین برس بڑی بتایا گیا ہے ۴؎۔ اقبال کے خسر عطا محمد ۱۸۵۹ء ۵؎ میں پیدا ہوئے تھے۔ اکاون برس کی عمر میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لی تھی اور ۱۹۲۳ء میں انتقال ہوا۔ اقبا ل کے خسر اور ان کے بڑے بھائی دونوں ہم عمر تھے۔ اقبال کی پہلی بیگم ۱۹۴۶ ء ۶؎ میں بہ عمر ستر برس فوت ہوئیں اوراگر شیخ عطامحمد کے خط پر بھروسہ کیا جائے روزگار فقیر جلد اول ۳۲۳ تو اس حساب سے پہلی بیگم کا سال پیدائش یا تو ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۳ء ہو گا۔ اقبال سے تین برس بڑی ہونے کی صورت میں ۱۸۷۳ء کے حساب سے اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۶ ء ہو گا اور دوسرے اندازے کے مطابق ۱۸۷۹ء یا ۱۸۸۷ء تسلیم کرنا پڑے گا۔ ۱؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۹ ۲؎ اقبال درون خانہ ص ۱۵۴ بحوالہ مہتاب بی بی (بیگم عطا محمد) کریم بی بی ‘ زینب بی بی ‘ (ہمشیرگان اقبال) کہ اقبال طالع بی بی سے تین سال چھوٹے تھے۔ کریم بی بی سے تین سال بڑے اور کریم بی بی سے تین سال بڑی تھیںَ لیکن اعجاز احمد اس تین تین سال کے فصل والے فارمولے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ۳؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۳ ۴؎ اقبال کی پہلی بیوی ص ۲۳ ۵؎ ایضاً ص ۲۳ ۶؎ اقبال پہلی بیوی ص ۲۶ علامہ اقبال کی پہلی بیگم کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ بقول جلالی عرب میں پیدا ہوئی تھیں۔ جہاں ان کے والد بزرگوار عطا محمد بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ ظاہر ہے کہ جلالی کا بیان آفتاب اقبال کی اطلاع کے مطابق ہے جو انہیں اپنی والدہ یا نانا سے ملی ہو گی علامہ کے خسر عطا محمد جدہ میں وائس کونسل رہے تھے۔ گویا اقبال کی پہلی بیگم جدے میں پیدا ہوئیں بقول جلالی یہ دس برس عرب میںرہیں اور عربی بے تکان بولتیتھیں علامہ اقبال کی پہلی بیوی ص ۲۲۔ گجرات کے میونسپل ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ عطا محمد کے ہاں ایک لڑکی کٹرہ شال بافاں میں ۲۲ مارچ ۱۸۷۴ء کو پیدا ہوئی اور دوسری ۰ ۲ اپریل ۱۸۷۷ ء کو۔ افراد خاندان سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عطامحمد کی پانچ لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا۔ سب سے بڑی علامہ اقبال کی بیگم کریم بی بی تھیں ان سے چھوٹی بیگم جو فوت ہو چکی ہیں ان کی لڑکی عصمت زندہ ہیں۔ ان سے چھوٹی فاطمہ بیگم (جو زندہ ہیں) تیسری بیٹی بیگم عظمت شاہ ریٹائرڈ ایس پی جو فوت ہو چکی ہیں۔ شہزادہ بیگم جو سجاد حیدر مرحوم کی بیگم تھیں حیات ہیں۔ لڑکا اپنے والدین کی زندگی ہی میں فوت ہو گیا تھا۔ میری والدہ(والدہ وحید قریشی) جو میانوالی میں تعلیم پاتی رہیں شہزادہ بیگم کی تقریباً ہم عمر تھیں۔ والدہ کے بیان کے مطابق ان سے شاید ایک سال بڑی بھی ہوں میری والدہ کی پیدائش ۱۹۰۱ء کے لگ بھگ ہے۔ اسی لحاظ سے شہزادہ بیگم ۱۹۰۰ ء کے لگ بھگ پیدا ہوئی ہوں گی۔ اس ترتیب کے مطابق شہزادہ بیگم سے بیگم شاہ بڑی تھیں ۔ان سے بڑی فاطمہ بیگم فاطمہ گیبم سے بڑی والدہ عصمت اور سب سے بڑی کریم بی بی زوجہ علامہ اقبال اس حساب سے مذکورہ بالا میونسپل اندراج میں ۲۲ مارچ ۱۸۷۴ء والدہ عصمت کا سنہ پیدائش اور ۱۸۷۷ء بیگم خواجہ فیروز الدین کا سال ولادت ٹھہرتا ہے۔ علامہ اقبال کی بیگم کو بہرحال جدے میں ۱۸۷۴ء سے پہلے پیداہونا چاہیے تھا۔ یاد رہے کہ والدہ عصمت کی پیدائش کے وقت اور ملازمتی اندراج کے مطابق عطا محمد کی عمر پندرہ برسکے قریب ہو گی۔ اس لحاظ سے پہل بیٹی کی پیدائش ۱۸۷۴ء سے زیادہ سے زیادہ دو تین سال پیچھے جا سکتی ہے تین برس پہلے پیدا ہونے کی صورت میں ان کا سال پیدائش ۱۸۷۱ء ہو گا اورعلامہ اقبال سے دو برس بڑی ہونے کی صورت میں علامہ کی پیدائش ۱۸۷۳ء شمار ہو گی۔ دلائل کے تین سلسلے جن بنیادی نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان میں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء ا س لحاظ سے خارج از بحث ٹھہرتی ہے کہ خاندان کے افراد کا اس پر کلی اتفاق ہے کہ یہ تاریخ پیدائش اس بچے کی ہے جو اقبال سے پہلے پید ا ہوا اور شیر خواری ہی میں فوت ہو گیا۔ اس سے ہمیں ایک حد ضرور ملتی ہے کہ ہم اپنے قیاسات کو بائیس فروری ۱۸۷۳ء کے بعد کم از کم نو دس مہینے سے شروع کر دیں۔ ۱۸۷۶ ء اور ۱۸۷۷ء کے حق میں اور خلا ف جو قیاس ہو سکتے ہیں میں ان سے مفصل بحث کی جا چکی ہے۔ اورمیونسپل کمیٹی کے ریکارڈ کے اندراجات کی ناقص صورت اور بعض اندراجات کی عدم موجودگی کے امکانات پر بھی بحث کی جا چکی ہے اس کے علاوہ معاصرین کے بیانات میں جو عدم مطابقت ہے اس کا بھی جائزہ لیا گیاہے معاصر بیانات میں سے بعض ۱۸۷۳ء کے آس پاس لے جاتے ہیں۔ خود علامہ کے بیانات بسلسلہ پیدائش کسی قدر متفاوت ہیں چنانچہ یونیورسٹی کے ریکارڈ سے یہ صورت حال ظاہر ہے کہ اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ اقبال ۱۸۷۶ء کو اپنا سال پیدائش تسلیم کرنے لگے تھے۔ اور پی ایچ ڈی کے موقع پر حتمی طور پر ہجری تاریخ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ دی ہجدری کو عیسوی میں منتقل کرے میں بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ انہوںنے جو منظوم تاریخیںکہی ہیں آٓٹھ تاریخوں کے سوا باقی تمام کی تما م ہجری سین میں ہیں۔ اس لیے ان کی بیان کردہ حتمی تاریخ ہی ان کی نظرمیں معتبر تھی جو ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن جسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے خو د اس حتمی تاریخ اور علامہ کے اپنے بیان میںکہ انہوںنے کئی برس اول مکتبی تعلیم حاصل کی پھر سکول میں داخل ہوئے۔ ہمیں دوبارہ غور پر مجبور کرتی ہے ۔ علامہ کی تقریباً ہم عمر بی بی کرم کے بیان کو میں وقیع جانتا ہوں۔ میاںعمر شاہ کے مکتب میں پانچ جماعتیں پڑھنے کی جو تفصیلات انہوںنے دی ہیں ان کی بنا ؤپر اقبال کے سال پیدائش کو سکول میںان کے ہم جماعتوں سے پانچ سال پیچھے لے جانا پڑے گا۔ تو پھر پیدائش کا سال ۱۸۷۳ء یا اس کے قریب تر چلا جائے گا۔ اس کا قومی امکان ہے کہ اقبال درون خانہ کے مولف کی وہ تاریخ جوانہوںنے میونسپل ریکارڈ میںتلاش کی ہے وہ اقبال کے بارے میںشمار ہو۔ یعنی ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ‘ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء تقویم کے مطابق ۸ ذیقعدہ ۱۲۹۰ھ بروز یک شنبہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی پیدائش کا دن جمعہ نہیں پیر ہوا۔ اس طرح ایک خاندانی روایت غیر صحیح لیکن دوسری درست بیٹھتی ہے۔ دوسری روایت علامہ کے بڑے بھائی کی ہے کہ اقبال دسمبر کے مہینے میں پیداہوئے تھے۔ بھائی کا بیان اس لحاظ سے اہم ہے کہ علامہ کی ولادت کے وقت عطا محمد کی عمر کے لحاظ سے اتنے بڑے تھے کہ چھوٹے بھائی کی ولادت کے دن کو بخوبی یاد رکھ سکیں۔ ہمارے خیال میں علامہ کی پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء قرار دینے کے قرائن زیادہ وقیع ہیں۔ علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش …۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ڈاکٹر اکبر حیدر ی کشمیری جنوری ۱۹۷۳ء کا زمانہ تھا جب کہ کمال احمد صدیقی ڈپٹی چیف پروڈیوسر اردو نے دلی سے راقم الحروف کولکھنو کے پتہ پر ایک خط ارسا کیا تھا جس میں موصوف نے علامہ اقبا ل کے سنہ ولادت کے بارے میں دریافت کرنا چاہا تھا۔ راقم نے کمال صاحب کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ اقبال کے سال پیدائش میں شدید اختلاف ہے اور یہ مسئلہ ہنوز تحقیقی طلب ہے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جو جتنی عظیم شخصیت ہوتی ہے اس کی تاریخ یا سن وفات میں اسی قدر اختلاف ہوتا ہے۔ اقبال بھی اپنے زمانے میں ایک الوالعزم شاعر اور عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی وفات کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ اب بھی کچھ لوگ زندہ ہیں جنہوںنے انہیںنہ صرف قریب سے دیکھا تھا۔ بلکہ ان کے ہم جماعتی بھی ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ان کی راہ و رسم اور گھریلو معاملات بھی بڑے استوار تھے ۔ مقام حیرت ہے کہ جس قدر ان کے تاریخ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے شاید ہی کوئی دوسرا شخص اس قسم کے اختلافات کا شکار ہوا ہو۔ لوگوں نے انکی تاریخ پیدائش ۱۸۷۰ء سے ۱۸۸۰ء تک تعین کی ہے۔ ذیل میں چند ایسے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں جن میںاختلاف پایا جاتا ہے۔ ۱۸۷۰ء ۱۔ خمخانہ جاوید اقبال ص ۳۶۹ مطبوعہ نو لکشور ۱۹۰۸ء مصنفہ سر رام ’’اقبال کی ولادت ۱۸۷۰ء میں ہوئی‘‘۔ ۲۔ انتخاب زریں ص ۲۴۵ مطبوعہ ۱۹۲۱ء سر سید راس مسعود ’’اقبال ۱۸۷۰ء اگست مطابق ۱۲۸۷ھ میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۳۔ قامو س المشاہیر جلد اول مطبوعہ ۱۹۲۴ء نظامی بدایونی ’’اقبال ۱۸۷۰ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۱۸۷۲ء ۴۔ آثا ر اقبال ص ۱۷ ادارہ اشاعت اردو حیدر آباد عنوان اقبال کی زندگی مصنفہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرتبہ غلام دستگیر رشید: علامہ سر محمد اقبال ۱۸۷۲ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے۔ ۱۸۷۳ء ۵۔ روزنامہ انقلاب لاہور مورخہ مئی ۱۹۳۸ء ’’اقبال کی ولادت ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء مطابق ۲۴؍۲۳ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ کو ہوئی۔ ۶۔ تذکرہ شعرائے متغزلیں مطبوعہ نقوش لاہور صفحہ ۵۸۰ ادارہ فروغ اردو لاہور مرتبہ شیخ محمد اسماعی پانی پتی ۱۹۵۶ء ۔ ’’ڈاکٹر اقبال ۲۲فروری ۱۸۷۳ء کو سیالکوٹ میںپیدا ہوئے‘‘۔ ۷۔ کلیات اقبال ص ۳ مطبوعہ نظامی پریس بدایوں ’’اقبال ۱۸۷۳ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۸۔ کلیات اقبال ص ۳ مطبوعہ نسیم بکڈپو لکھنو ’’اقبال ۱۸۷۳ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۹۔ سیرت اقبال ص ۲۵ محمد طاہر فاروقی طبع سوم ۱۹۴۹ء اقبال ۴ ۲ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ ء کو کتم عدم سے عالم وجود میں آئے۔ پیدائش کی یہ تاریخ سیالکوٹ کے رجسٹر فوقی و پیدائش سے تصدیق شدہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ۱۸۷۶ء والی روایت ضعیف نظر آتی ہے‘‘۔ ۱۰۔ ذکر اقبال ص ۱۰ عبدالمجید سالک مطبوعہ بزم اقبال لاہور جون ۱۹۵۵ء ’’علامہ کی ولادت ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ء مطابق ۲۲فروری ۱۸۷۳ء کو ہوئی تصدیق شدہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ بحوالہ رجسٹر پیدائش و موات۔ ۱۱۔ اردو انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۳۹ فیروز سنز لمیٹڈ پاکستان ’’علامہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۱۲۔ A history of urdu literature p.357 by Mohd Sidique . ''Borm in Sialkot on 22nd Feb 1873''. ۱۳۔ یادگار اقبال ص ۱۸ مرتبہ سید محمد طفیل بدر امروہوی علم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ ۱۸۷۳ء میں سیالکوٹ میں جلوہ گر ہوا۔ ۱۴۔ Iqbal his art and thought P.3 by S. Abdul Vahid ''Iqbal was born at Sialkot in the Punjab on Feb 22 1873''. ۱۵۔ روزنامہ انقلاب نے علامہ اقبال کی جو تاریخ پیدائش ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء تحریر کی تھی اس کی تائید کالج کے پرنسپل اور وائس پرنسپل نے بھی کی تھی۔ روزگار فقیر کے مصنف نے اسے اپنی کتاب میں صفحہ ۲۳۶ میں ذیل کے الفاظ میں درج کیا ہے: He (Dr. Muhammad Iqbal) was born on 22nd February 1873 at Sialkot, a well known town on the border of the Punjab which adouius Jammun. This is the corret date as announced in the Daily Inqilab Lahore. 7th May 1938 on the authority of the borthers of the deceased. In some other paper 1876 had been given as the year of his birth but the Inqilab was asked to publish in dates found in the records of the family. ۱۸۷۵ء ۱۶۔ اقبال اور ان کا نام اور کام…یاد اقبال مرتبہ چوہدری غلام سرور نگار اللہ نے… اقبال کو ہندوستان میں ۱۸۷۵ء میں پیدا کیا‘‘۔ ۱۷۔ کلیات اقبال (دیباچہ) محمد الرزاق علیگ مطبوعہ ۱۳۴۳ھ؍ ۱۹۲۲ء ’’تقسیم عیسعی کا ایک ہزار آٹھ سو پچھترواں سال تھا کہ مردم خیز خطہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں اقبال کی ولادت ہوئی۔ ۱۸۔ تاریخ ادب اردو صفحہ ۱۸۶ رام بابو سکسینہ مترجم مرزا محمد عسکری ’’سال ولادت ۱۸۷۵ء اور مقام ولادت سیالکوت ملک پنجاب ہے‘‘۔ ۱۸۷۶ء ۱۹۔ اقبال کامل ص ۲ مولوی عبدالسلام ندوی ’’ڈاکٹر صاحب اسی سیالکوٹ میں ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۲۰۔ گلستان ہزار رنگ ص ۵۱۶ سید بہاء الدین احمد ’’سر شیخ محمد اقبال ۱۸۷۶ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۲۱۔ مراۃ الشعراء جلد دوم ص ۱۷۲ مولوی محمد یحییٰ تنہا ’’اتفاق سے ایک رسالہ میں تاریخ پیدائش ۱۸۷۶ء نظر سے گزری ارو یہ ناقابل معافی کمی پوری ہو گئی۔ اسی طرح ان کے والدکا نام نور محمد معلوم ہو گیا ‘‘۔ ۲۲۔ Iqbal his poetry and messagr P.1. by Sheikh Akhtar Ali 1932 ed. Iqbal was born at sialkot in the year 1876 ۲۳۔ تذکرہ شعرائے پنجاب ص ۵۲ مرتبہ ملک محمد نسیم رضوانی ۱۹۳۷ء ’’اقبال کی ولادت ۱۸۷۶ء میں بمقام سیالکوٹ ہوئی۔ ۲۴۔ پیام اقبال ص ۲۸ عبدالرحمن طارق اقبال اکادمی لاہور ’’اقبال ۱۸۷۶ء میں بمقام سیالکوٹ میں پیدا ہوئے آپ کی عمر بوقت وفات ۶۲ سال کی تھی۔ ۲۵۔ اقبال نمبر ص ۱۴ مطبوعہ انجمن ترقی اردو اکتوبر ۱۹۳۸ء The death of sir Muhammad Iqbal at the age of sixty two means a very serious loss not only to the muslims of India but also to all who are interested in modern progress of Islam Sir E Denism Ross. اس حساب سے بھی اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۶ء ہوتا ہے۔ ۱۸۷۷ء ۲۶۔ نقوش اقبا ل ص ۱۸ سید ابوالحسن ندوی ’’اقبال پنجاب کے شہر سیال کوٹ میں ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ علامہ کے سن ولادت کے اختلاف کے بنا پر فقیر سید وحید الدین نے اپنی معرکہ الآرا تصنیف روزگار فقیر میں تاریخ پیدائش ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ کے عنوان سے اقبال کے سال پیدائش پر مفصل بحث کی ہے اور ان کی تحقیق کے مطالبہ روز جمعہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’’حضرت علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش عام طور پر ۲۳ فروری ۱۸۷۳ء بیان کی جا رہی ہے۔ چنانچہ محکمہ آثار قدیمہ نے ان کی لاہور اور سیالکوٹ کی رہائش گاہوں پر جو کتبے نصب کیے ہیں ان میں سنہ پیدائش ۱۸۷۳ء ہی لکھا ہوا ہے اسی طرح بزم اقبال لاہور نے جو کتاب ذکر اقبال کے نام سے شائع کی ہے اس میں بھی تاریخ پیدائش ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء بیان کی گئی ہے یہ تاریخ پیدائش درست نہیں ایک اور غلط فہمی کی بنا پر مشہور ہو گئی ہے۔ علامہ کی اصل تاریخ پیدائش ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ہے ‘‘ ۱؎ ۱؎ روزگار فقیر ص ۲۲۹ طبع چہارم ۱۹۶۵ء مصنف روزگار فقیر نے ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ کو اس لیے اقبال کا یوم ولادت قرار دیا ہے کہ اسے خود اقبال نے ۱۹۰۸ء میں اپنے ڈاکٹریٹ تھیسس ایران میں مابعدالطبیعیات کا ارتقاء میں درج کیا تھا چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’میں ۲ زی قعدہ ۱۲۹۴ھ (۱۸۷۶ئ) کو پیدا ہوا ۱؎۔ یہاں قوسین میں سنہ عیسوی ۱۸۷۶ء فقیر وحید الدین نے اپنی طرف سے درج کیا ہے۔ تقویم کے حساب سے ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ۰ دسمبر ۱۸۷۷ء شمسی سال کے مطابق ہوتا ہے۔ نہ کہ ۱۸۷۶ء فقیر صاحب ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ کے مزید ثبوت کی تائید میں فرماتے ہیں: ’’پھر ۲۳ سال کے بعد ۱۹۳۱ء میں جب انہوں (اقبال) نے انٹرنیشنل پاسپورٹ کے لیے درخواست دی تو اس میں اپنا سنہ پیدائش ۱۸۷۶ء ہی درج کیا ہے‘‘۔ اس کے بعد آگے چل کر فرماتے ہیں: ’’اگست ۱۹۳۰ء میں منشی محمد دین فوق نے ایک کتاب مشاہیر کشمیر شائع کی تھی جس میں علامہ کا سنہ پیدائش ۱۸۷۵ء درج کیا تھا۔ دو سال بعد ۱۹۳۲ء کے آخر رسالہ نیرنگ خیال لاہور نے ایک خصوصی شمارہ اقبال نمبر شائع کیا جس میں منشی محمد دین فوق نے ایک مضمون اقبال کے مختصر سوانح حیات کے عنوان سے لکھااور مشاہیر کشمیر میں بیان کردہ سن پیدائش کی تصحیح کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا سن پیدائش وہی بیان کیا جو خو د انہوںنے ۱۹۰۸ء اور ۱۹۳۱ء میں بیان کیا یعنی ۱۸۷۶ء فوق صاحب کے حضرت علامہ کے ساتھ گہرے تعلقات تھے ۔ یہ امر قرین قیاس ہے کہ سنہ پیدائش کی تصحیح فوق صاحب نے خود علامہ کی ہدایت اور ایما پر کی ہو ۔ ۲؎ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مطابق ۱۸۷۶ء نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو خود علامہ نے فوق صاحب کو اپنا سال پیدائش ۱۸۷۶ء بیان کیا پھر بھی غلط ہے ۔ اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ علامہ نے فوق صاحب یاد یگر حضرات کی تحریر کردہ سن پیدائش کی تردید یا تائید کیوں نہیں فرمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سن پیدائش کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے ہک علامہ کے تعلقات سر سید راس مسعود سے جس قدر گہرے اور استوار تھے اتنے شاید ہی کسی کے آخر تک عمر تک رہے ہوں۔ اقبال نے ان کا نام جاوید اور منیرہ کی گارڈین شپ کے لیے بھی تجویز کیا ھتا جب کبھی وہ بھوپال جایا کرتے تھے انہی کی قیام گاہ پر ہی ٹھہرتے تھے انہی کے حسن توجہ سے اقبال کو نواب صاحب بھوپال اور ہز ہائی نس آغا خان سے وظیفہ بھی ملتا تھا۔ جو رباعی اپنے لوح مزار کے لیے مخصوص کی تھی وہ بھی انہوںنے راس مسعود کی نذر کی تھی۔ جب موصوف نے ۱۹۲۱ء میں انتخاب زریں میںاقبال کا سن پیدائش اگست ۱۸۷۰ء مطابق ۱۲۸۷ھ قرار دیا تو انہوںنے اس کی تردید یا تائید میں ایک لفظ بھی نہیں کہا خاموش رہے۔ اگر نفی یا اثبات میں کچھ کہا ہوتا تو پھر کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اس کا ذکر ضرور ہوتا۔ اقبال کی زندگی میں جو کتابیں اور مضامین شائع ہوئے اور ان کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان میں اقبال کا سال ولادت مختلف انداز میں درج ہے۔ ۱؎ روزگار فقیر ص ۲۲۹ ۲؎ ایضاً ص ۲۳۱ یہ سب کتابیں ان کی نظر سے گزری ہوں گی لیکن سن ولادت کے بارے میں وہ ہمیشہ چپ سادھ رہے۔ سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹر پیدائش میں مورخہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کا جو اندراج ہے فقیر صاحب اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اس اندراج سے تو یہ ثابت ہوت اہے کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو علامہ کے والد بزرگوار شیخ نور محمد ۱؎ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ لڑکا علامہ کے علاوہ اور کوئی نہیں یا یہ کہ اندراج علامہ ہی کی پیدائش کے متعلق ہے۔ اس کے برعکس راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق یہ اندراج شیخ نور محمد کے ہاں ایک اور لڑکے کی پیدائش کے متعلق ہے جو علامہ سے تین چار سال پہلے پیداہوکر شیر خواری کی عمر میں وفات پا گیا ۲؎‘‘۔ ڈاکٹر وحید قریشی بھی فقیر صاحب کے تتبع میں علامہ کی تاریخ پیدائش ۲ ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ بروز جمعہ مطابق ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ مزید انہوںنے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ: ’’پنجاب یونیورسٹی کے بی ۔ اے کے امتحان کے فارم پر ہر طالب علم کو اپنی عمر کا اندراج کرنا ہوتا تھا۔ علامہ اقبال کا بی اے کا نتیجہ پنجاب یونیورسٹی کلینڈر میں درج ہے۔ علامہ کی عمر بمطابق فار م داخہ ۱۹ برس مرقوم ہے۔ علامہ نے یہ امتحان ۱۸۹۷ء میں پاس کیا۔ ا س حساب سے بھی ان کی پیدائش کا مذکورہ بالا تخمینہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۳؎‘‘۔ ہمارے محترم دوست جناب جگن ناتھ آزاد بھی علامہ کی مفروضہ تاریخ پیدائش روز جمعہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو تسلیم کرتے ہیں حالانکہ خود اقبال نے بھی یہ سن ولادت کہیں درج نہیں کیا ہے۔ خدا جانے اس تاریخ کا شان نزول کیسے اور کیونکرہوا۔ مولانا عبدالقوی صاحب دسنوی نے بھی اقبال کی تاریخ ولادت پر اپنا زور قلم صرف کیا اور کسی ٹھوس نتیجہ پر نہیں فرماتے ہیں کہ: ’’میں یہ نہیںکہتاکہ علامہ کی پیدائش کی تاریخ ۳ ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ صحیح نہیں۔ میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اقبال کی تاریخ کے سلسلے میں جو ثبوت فقیر سید وحید الدین صاحب نے اپنی کتاب روزگار فقیر میں فراہم کے ہیں وہ اطمینان بخش نہیں۔ اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس سلسلے میں کوئی فیصلہ دینے سے پہلے کافی غور و خوص کر لینا چاہیے ۴؎‘‘۔ دراصل تعلیمی ریکارڈ کے مطابق علامہ کا سال ولادت ۱۸۷۶ء ہے ۔ یہ تاریخ سرکاری ملازمت کے پیش نظر لکھوائی گئی تھی۔ اس میں اقبال کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ علامہ روز جمعہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے تھے اس لیے کوئی ٹھوس شہادت فراہم نہیںہوتی ہے۔ ۱؎ المعروف بہ نتھو بڑے مفلس اور لاچار تھے پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ برقعوں کی ٹوپیاں سینے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اسی لیے نتھو ٹوپیاں والے کے نام سے مشہو ر تھے۔ ۲؎ روزگار فقیر ص ۲۳۱ ۳؎ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ ص ۳۰۷۔۳۰۶ مکتبہ ادب جدید مطبوعہ لاہور ۱۹۶۵ء ۴؎ سات تحریریں ص ۴۲ مطبوعہ ۱۹۷۵ء اردو پبلشرز لکھنو نہ معلوم پاکستان کے ماہرین اقبالیات کمپنی کو کیا سوجھی کہ انہوںنے حکومت پاکستان سے اقبال کا یہ مفروضہ ولادت تسلیم کرایا ۱؎۔ حقیقت یہ ہے کہ کہ اقبال ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو سیالکوٹ کے محلہ کشمیریاں کی گلی چوڑیگراں میں پیدا ہوئے۔ اس کا حیرت انگیز انکشاف خود اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے داماد ڈاکٹر نظیر صوفی نے حال ہی میں اخبار جہاں کراچی میں کیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق اقبال کی ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کی ولادت کی رپورٹ لکھوانے والے اقبال کے والد شیخ نور محمد کے چچا زاد بھائی علی محمد تھے۔ ڈاکٹر نظیر صوفی اقبال کی مفروضہ تاریخ ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کی تردید پرزور الفاظ میں یوں کرتے ہیں: ’’یہ حقیقت ہے کہ محلہ کاشمیریاں میں علامہ کے والد گرامی کے علاوہ نتھو نامی کوئی اور شخص کسی وقت بھی موجود نہ تھا۔ اس لیے محلہ کشمیریاں اور اس کی ملحقہ گلیوں می مسمی نتھو نامی بزرگ کے بچوں کی پیدائش کی رپورٹین فی الواقع علامہ کے والد شیخ نور محمد مرحوم کے بچوں ہی کی ہیں۔ خاندانی شجرہ اور میونسپل ریکارڈ کی رو سے ۱۸۷۰ء سے ۱۸۷۶ء تک میاں جی نتھو کے ہاں چار بچے بہ ترتیب ذیل پیدا ہوئے: میونسپل رجسٹر نمبر تاریخ محلہ یا گلی کوائف باپ کا نام ۴۳۳ ۶ ستمبر ۱۸۷۰ء چوڑیگراں لڑکی نتھو ۱۴۰ ۲۲فروری ۱۸۷۳ء کشمیریاں لڑکا نتھو ۱۰۴۸ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء چوڑیگراں لڑکا نتھو ۶۹۲ ۱۶ نومبر ۱۸۷۶ء کشمیریاں لڑکی نتھو ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والے لڑکے کے بعد میاں جی نتھو کے ہا ں جب کوئی نرینہ اولاد ہی نہیں ہوئی تو پھر علامہ کی ولادت ۱۸۷۷ء میں مقرر کرنا چہ معنی ؟۲؎ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیخ نتھو کے یہاں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو جو بچہ پیدا ہوا تھا اور جس کی پیدائش کا اندراج میونسپل ریکارڈ میں ہے وہ شیر خواری کی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اس بات کو سید وحید الدین نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’میر ی درخواست پر علامہ کے برادر زادہ شیخ اعجاز احمد نے اپنی پھوپھی صاحبہ سے جو ابھی بفضل الٰہی حیات ہیں تصدیق کرائی ہے کہ علامہ کی پیدائش سے تین چار سال قبل ان کے والد کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہواتھا جو شیر خواری کی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ وہ فرماتی ہیںکہ یہ بات انہوںنے اپنی والدہ صاحبہ سے ایک بار نہیں متعدد بار سنی ہے یہ امر قابل افسوسہے کہ رجسٹر پیدائش کے اندراج کو (جو علامہ کی پیدائش کے متعلق نہیں) بغیر کافی تحقیق کے ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کر لیا گیا ۳؎۔ ۱؎ حکومت پاکستان نے مورخۃ ۹ فروری ۱۹۷۴ء کو یہ اعلان کیا کہ علامہ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مطابق ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ۲؎ بحوالہ تحریر شمارہ ۳۳ ۳؎ روزگار فقیر ص ۲۳۱ ڈاکٹر نذیر صوفی فقیر صاحب کی تائید میں مزید یہ اضافہ بھی فرماتے ہیں کہ: ’’۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والا لڑکا میاں جی نتھو نے پیدا ہوتے ہی اپنی چھوٹی بھاوج زوجہ شیخ غلا م محمد کو جس کی نرینہ اولاد نہ بچتی تھی دے دیا تھا۔ اور وہ لڑکا شیخ غلام محمد کے بچے کی حیثیت سے کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو علامہ کے والدین کی یہ فراخدلی اتنی پسند آئی کہ نعم البدل کے طور پر ۱۰ ماہ کے بعد اسی سال علامہ جیسا اقبال بیٹا عنایت کیا‘‘۔ پاکستان بھی علامہ کی صحیح تاریخ پیدائش سے بخوبی واقف تھا لیکن اس نے سیاسی مصلحت کی بنا پر اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ اس زمانے میں ساسی بحران سے دو چار تھا۔ اس لیے جشن ص سالہ اقبال وسیع پیمانے پر نہیںمنا سکا۔ مجلس ترقی ادب کے اہتمام سے ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کی بنیاد پر جشن صد سالہ کی تقریب وزیر تعلیم جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کی صدارت میں ۱۳ فروری ۱۹۷۴ء کو منائی گئی۔ سال ۱۸۷۷ء میں اقبال کی ولادت قرار نہ دینا نہ صرف غلط ہے بلکہ حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے۔ صحیح تاریخ ولادت ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہی ہے۔ اس کے بعد بقول ڈاکٹر نظیر صوفی بے وقت کی راگنی ہے۔ ٭٭٭ (۲) فکر و فن ٭٭٭ اقبال اور آرزوئے نایافت مولانا امتیاز علی خاں عرشی مولانا جلال الدین رومی کا ایک قطعہ ہے: دی شیخ باچرغ ہمی گشت گرد شہر کز دام ودد ملولم و انسانم آرزو ست زیں ہمر ہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزو ست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آں کہ یافت می نشود آنم آرزو ست علامہ اقبال بھی رومی کے اس نایاب انسان کے آرزو مند ہیں لیکن کوشش و جستجو کے باوجود ان دونوں بزرگوں کو یا کم از کم اقبال کو اپنی آرزو کی تکمیل کو کا موقع نہ ملا اس ناکامی کے اسباب وہ وجوہ کیا تھے؟ اس امر کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ان خصوصیتوں اور صنعتوں پر نظر کرنا چاہیے جو اقبال کے خیال میں اس یافت می نشود میں پائی جاتی ہے۔ ورنہ اس عالم آب و گل میں انسانوں کا قحط نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ اقبال کا انسان حسن و قبیح اشیاء میں عقل و خرد سے کام لینے پر آمادہ ہو گیا تو فطرت الٰہی نے اسے کائنات کی خلافت سپرد کر کے جنت کے میخانہ بے خروش سے دنیا کے گہوارہ جذب و مستی میں حاکمانہ داخلے کی اجازت عطا فرمائی۔ فرشتوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ خدا حافظ کہا: عطا ہوئی ہے روز شب کی بیتابی خبرنہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی گراں بہا ہے ترا گریہ سحر کاری اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی انسان نے اس زمین کدوکاوش پر قدم رکھا تو روح ارضی نے استقبال کرتے ہوئے عرض کیا: کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ اس جلوہ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ ہیںتیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبد افلاک ‘ یہ خاموش فضائیں یہ کوہ یہ صحرا‘ یہ سمندر ‘ یہ ہوائیں تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئنہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے تو جنس محبت کا خریدار ازل سے تو پیر صنم خانہ اسرار ازل سے محنت کش و خوں ریز و کم آزر ازل سے ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ روح ارضی نے اپنے استقبالیے میں انسان کی ان امتیازی صفات کا تذکرہ کیا ہے۔ کہ وہ اسرار کائنات کاکھوج نکالنے میں بیم و رجا کا معرکہ سر کر لے ۔ آئینہ ایام میں اپنی ادائیں دیکھ کر خودی کی تعمیر کرے گا۔ اپنے خون جگر سے نئی دنیا اورانوکھی جنت بسائے گا۔ اور تقدیر جہاں کو اپنے قبضے میں رکھے گا۔ بالفاظ دیگر جس انسان کی اقبال کو تلاش ہے اس میں حقائق کی تلاش کا جذبہ ہونا چاہیے تھا۔ ایسا شدید جذبہ کہ کوئی خوب اور کسی طرح کا لالچ اس کا راستہ روک کر کھڑا نہ ہو سکے۔ اس دنیا میں اپنا حقیقی مقام اور واقعی منصب متعین کرکے اس منصب اور فریضے کی تکمیل میںۃر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے وہ بیتاب و مضطرب رہے۔ ایسا مضطرب کہ اس اضطراب کے فعلیت میں تبدیل ہو جانے پر خالق و مخلوق کی تقدیر و رضا ایک ہو جائے۔ یا کم از کم ان کو دو کہنا ناممکن نظر آنے لگے۔ اس سے بھی زیادہ مختصر لفظوں میں مطلب ادا کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اقبا ل کے انسان میں مجنونانہ جرات و ہمت اور عاشقانہ شیفتگی کے ساتھ اپنا اوراپنے فرض منصبی کا سچا علم اور اس علم پر قرار واقعی عمل ہونا لازمی ہے۔ انسان کی اس خصوصیت کو اقبال نے کبھی عچق جنون اور قلندریت سے اور کبھی خودی یا ایمان سے تعبیر کیا ہے اور اس صفت کے حامل کو ہمیشہ قلندر فقیر یا مومن کہہ کر پکارا ہے۔ ان کے مومن عاشق فقیر اورقلندر کی صفات مشترکہ اتنے زیادہ اور ممیزہ اتنے کم ہیں کہ انہیں ایک نہ ما ننا ایک طرح کی ناانصافی کے مترادف ہے میں یہاں فرداً فرداً ہر ایک کی صفات پیش کرتا ہوں۔ عشق پہلے عشق و عاشقی کے متعلق اقبال کے ارشادات سنیے: بیا اے عشق اے رمز دل ما بیا اے کشت ما اے حاصل ما کہن گشتند ایں خاکی نہاداں دگر آدم بنا کن از گل ما اس مقدس اور پاک جذبہ کونہ ہر شخص جانتا ہے اور نہ ہر مستی اس کے لائق ہے: ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست ہر کسے شان ایں درگار نیست داند آں کو نیک بخت و محرم است زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است یہی وجہ ہے کہ پست ہمت کمینہ طبیعت اور بد باطن کو یہ نعمت عطا نہیں ہوتی: ندارد کار بادوں ہمتاں عشق تدر و مردہ راشاہیں نگیرد نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے شکار مردہ سزا وار شاہ باز نہیں انسان کی کامیابی کامرانی سر بلندی اوراس کے تمام اعمال کی قوت محرکہ عشق ہے۔ عقل و خرد اور علم و حکمت کے بغیر مردہ زہر ہلاہل اور سراسر گمرہی ہیں: عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدہ تصورات صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب ی جوہر اگر کارفرما نہیں ہے تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی عشق اس ناپید ا کنار کائنات پر محیط اوراس کے قدر زمانی و مکانی کا حاکم ہے۔ اس کی گرفت ورسائی سے دنیا کا کوئی گوشہ باہرنہیں: مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خوراک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین وآسمان کو بیکراں سمجھا تھا میں یہی نہیں عشق و جنوں یزداں شکار بھی ہیں: در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ! حکمت و فلسفہ بحث و نظر کے ہزاروں دروازوں س کھول سکتے ہیں مگر عمل کا ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ یہ عشق ہی ہے جو جرات و ہمت کے معجزانہ کام انجام دے سکتاہے: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف ایمان و یقین عشق کی اس ثناو صفت کے بعد جو اقبال کے کلام کے چند بکھرے ہوئے کہے جا سکتے ہیں۔ ایمان و یقین کی تعریف ملاحظہ کیجیے: یقین مثل خلیل آتش نشینی یقین اللہ مستی خود گزینی سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے ہے بدتر بے یقینی ایمان و یقین تقدیر عالم کو بدل سکتے ہیں: کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں یقین و ایمان سے جو بلند ہمت اور بے پناہ قوت پید اہوتی ہے اس کی اثر آفرینی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے : ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز نقطہ پر کار حق مرد خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز فقر فقر کی توصیف اقبال نے ان الفاظ میںکی ہے: فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و کلاہ فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ علم کا مقصود ہے پاکی علم و خرد فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ علم فقیہ و حکیم فقر مسیح و کلیم علم ہے جویاے راہ فقر ہے داناے راہ فقر مقام نظر علم مقام خبر فقر میں مستی ثواب علم میںمستی گناہ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی ایک سپاہ کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ فقر انسانیت کا معمار ہے قلب ماہیت کرنا اور اس کا کام ہے سطح چمکا دینا نہیں یہ دولت و حکومت کی کارستانیاں ہیں: مرا فقر بہتر ہے سکندری سے یہ آدم گری ہے وہ آئینہ سازی قلندر اقبال نے قلندر کی پہچان بھی بتائی ہے فرماتے ہیں: کہتاہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد جاتا ہے جدھر بندہ حق تو بھی ادھر جا ہنگامے ہیں میرے تیری طاقت سے زیادہ بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزرجا میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوںگا چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو تو اترجا توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا؟ ہے تجھ میں مکر جانے کی جرات تومکر جا مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر قلندر کی بارگاہ کاشان وشکوہ کا شاہوں سے بالاتر ہے: نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات قلندر کی بارگاہ میں ہے صفات مومن اقبال اس پاکبا ز بندے کی اخلاقی کیفیات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں: جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن ٭٭٭ پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری ٭٭٭ خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا صفات جس شخص کے اندر جمع ہوں گے وہ زمین کا وارث برحق تسلیم ہو کر رہے گا۔ اقبال نے اس کی وراثت پر استدلال بھی قائم کیا ہے: جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک مگرمیرے خیال میںحجت و دلیل سے یہ مسئلہ بلندہے کائنات خود اس کی خودی کو دعوت دے گی کہ: چو موج مست خودی باش و سر طوفاں کش ترا کہ گفت بنشیں و پا بداماں کش؟ بہ قصد صید پلنگ از چمن سرا بر خیز بہ کوہ رخت کشا‘ خیمہ در بیاباں کش بہ مہر و ماہ کمند گلو نشار انداز ستارہ راز فلک گیر و گریباں کش بہرحال مجھے یہاں کہنا یہ ہے کہ اقبال اور رومی نے ان صفات کے انسان کی آرزو کر کے خاکدان بے کیف میں اس کا سراغ نہ پایا تو یہ انسان پستی سے زیادہ ان کے مطمح نظر کی بلندی کانتیجہ تھا۔ کیا ہر انسان یہ کہہ سکتاہے؟ متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی اس کے لیے وقت درکار ہے اتنا طویل کہ جس کی تجدید خود اس عالم نو کے پہلے مرد مومن نے ھبی مناسب نہ جانی بہرحال نا امیدی مومن کی شان سے بعید ہے ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکروں کارواں اوربھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں اگر ہم نے کوشش کر کے اقبال کے نصب العین کی کسی حد تک پیروی کر لی تو اس دنیا میں اپنی اپنے ملک کی اور اپنے ہمسایوں کی دوبارہ سربلندی حاصل کر لینے میں شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ ٭٭٭ کچھ اقبال کے بارے میں تحریر: پروفیسر رشید احمد صدیقی متعارفہ : ڈاکٹر سید معین الرحمن ’’سال اقبال ‘‘ (۱۹۷۷) نے سب سے پہلا اور دل خرا ش ‘ اندوہناک اور سنگین خراج ہم سے رشید احمد صدیقی کی صورت میں لیا۔ اس سال جنوری کے وسط میں رشید احمد صاحب واصل بحق ہوئے۔وہ عمر میں اقبا سے پندرہ برس چھوٹے تھے۔ اقبال تیس برس کے نوجوا ن تھے جب پہلی بار رشید احمد صدیقی صاحب ان کے نا م سے آشنا ہوئے اور پھر اقبال کے جیتے جی اور مابعد تاآخر وہ اقبال کے برابر معترف مداح مبصر و مفسر اور معتقد و مبلغ رہے… اس طرح کوئی ستر برس تک اقبال کی شخصیت تعلیمات اور ان کے فکر و فن کی عظمت کا تذکرہ ان کے ورد زبان رہا۔ اب جس کے خوشگوار اثڑات و احسانات کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں … حقیقت یہ ہے کہ ان ستر برسوں میں علی گڑھ سے ابھرنے والا شعر و ادب کا کوئی آفتاب و ماہتاب ایسا نہیں ہو گا‘ اقبال کو جس کی متاع بنانے میں رشید صاحب کافیض اورتصرف کسی نہ کسی درجے میں شامل نہ رہا ہو! رشید احمد صدیقی نے اقبال پر بہت کچھ کہا اور لکھا۔ اقبال سے متعلق ان کی تحریروں کا مجموعہ ’’اقبال…شخصیت اور شاعری‘‘ کے نام سے بھی چھپ چکا ہے (اقبال اکادمی پاکستان صفحات ۱۴۳ ‘ بمناسبت جشن صد سالہ نمبر ۱۹۷۷) لیکن اقبال پر یہ رشید صاحب کی جمعی اور جملہ تحریروں پر حاوی نہیں ۔ اقبال پر رشید صاحب کی ایسی بہت سی قیمتی تحریریں میرے پاس محفوظ ہیں جو رشید صاحب کے متذکرہ مجموعہ مضامین میں شامل نہیںہیں۔ اقبال پر رشید صاحب کی نگارشات کے ایک جامع مجموعے کی ترتیب و اشاعت میرے پیش نظر ہے جو جلد اقبال دوستوں اور رشید صاحب کے پرستاروں کی نذر ہو گا۔ ’’عزیزا ن علی گڑھ کے نام‘‘ رشید صاحب کا ایک خطبہ ۱۹۷۰ء میں لکھا جانا شروع ہوا۔ ۱۹۷۶ء تک یہ قسط وار ہندوستان کے مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوتا رہا۔ یہ خطبہ کئی سو صفحات پر مشتمل ہے اور رشید صاحب کے آخری بڑے فکری کارنامے اور یادگار حیثیت سے یہ ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔ اس خطبے کے مطبوعہ اجزا میں رشید صاحب نے جہاں تہاں اضافے اور تبدیلیاں بھی کیں اگلے صفحات میں رشید صاحب کی جو نادر تحریر نقوش کے قارئین کی نذر کی جا رہی ہے اسے رشید صاحب نے جنوری ۱۹۷۶ء میں اپنے خطبے کی ایک قسط میں اضافے کے طور پر قلم بند کیا۔ رشید احمد صدیقی کی یہ قلمی تحریر راقم الحروف کے ذاتی ذخیرہ نوادر کی زینت ہے اور پہلی بار سامنے آ رہی ہے۔ (سید معین الرحمن) ٭٭٭ اقبال کے اشعار میں جتنے ’’تازہ بہ تازہ نو بہ نو‘‘ موسیقی کے نمونے ملتے ہیں وہ اردو کے دوسرے شعراء کے کلام میں شاید نہ ملیں اقبال غالباً اس کا التزام بھی رکھتے تھے کہ الفاظ اور فقروں کے انتخاب ان کی ترکیب و ترنم موقع و محل‘ معنی و مفہوم میں اس کے شواہد ملتے ہیں۔ لیکن اس التزام میں آورد کا شائبہ نہ ملے گا۔ آورد آمد معلوم ہو گی جو انشاء پردازی کا کمال سمجھا جاتا ہے ایسا بھی محسوس ہوا ہے جیسے شاعر نہیں خود شعر اس اہتمام کا متقاضی تھا یہ معمولی درجے کے شاعر کے بس کی بات نہیں۔ اس صدی کے شروع میں جب ہمارے بیشتر شعراء شاعری میں تکلفات بے جا کو اتنا شاعری کا نہیں جتنا اپنا کارنامہ سمجھتے تھے اور اسی طرح کے بندھے ٹکے سامعین سے داد حاصل کرتے تھے اقبال کی یہ آواز اور انداز بہت مفید ثابت ہوا۔ موسیقی آواز کی تنظیم ہے۔ اشعارکے دروبست(اوزان) موسیقی کی دین ہے۔ شاعر کے لیے شاعری کے لیے موزوں فریم موسیقی ہی فراہم کرتی ہے۔ موسیقی کو جو تب و تاب اورتاثیر آلات موسیقی سے ملتی ہے اس سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں شاعری سے ملتی ہے۔ موسیقی موزوں اور مقررہ آداز ہے۔ اور آواز کی زبان شاعری۔ موسیقی اور شاعری کا قران اسعدین اور دونوں علیحدہ علیحدہ بھی انسان کے بخشے ہوئے وہ کارنامے ہیں جن کی صرف اقبال نے اپنی مشہور اور مایہ ناز نظم محاورہ مابین خدا اور انسان میں اشارہ کیا ہے۔ طوالت کا مطلق خیال نہ کرتے ہوئے آپ کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لیے وہ مختصر نظم پیش کروں گا: تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیاباں و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نو شینہ سازم! اس نظم میں اقبال نے جو باتیں جس طرح سطح سے جن مراتب اور مواقف کو ملحو ظ رکھ کر کہی ہیں وہ انسان اور شاعر دونوں کیشرف و سعادت کے شایان شان ہیں۔ اس موقع و موضوع پر اگر جدید مکتب فکر اور مسلک شاعری کے کسی شاعر کو کچھ کہنا پڑتا تووہ کس طرح کہتے اور کیا کہتے ظاہرہے کیا کہتے۔ اس سے معلوم ہو گا کہ اعلیٰ شاعری کے لیے کون سی صلاحیتیں مفید اور مبارک ہوتی ہیں۔ ربط و تسلسل کے اعتبار سے اقبال نے یہ غزل کو نظم سے اورنظم کو غزل سے قریب تر کر دیا ہے اس طرح غزل کے خلاف ایک بڑے الزام کو دور کر دیا ہے کہ اس میں خیالات و جذبات کا انتشار ملتا ہے جو میرے نزدیک اتنا الزام نہیںتھا کہ جتنا غلط فہمی۔ اس سے بھی انکار نہیںکیا جا سکتا کہ غلط فہمیاں الزام سے زیادہ سخت جان اور صبر آزما ہوتی ہیں۔ ااس لیے اس منزل سے آسان گزرنا معمولی درجے کے شاعر کی طاقت و توفیق سے باہر ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یا محسو س کرے کہ موسیقی کو اردو شاعری سے اور اردو شاعری کو موسیقی سے ہمکنار کر نے اور دونوں کو ہم ردیف بنانے میں اقبال کا بڑا قیمتی حصہ ہے تو اس سے جھگڑنا نہیںچاہیے۔ اس لیے کہ ہمارے بیشتر اردو شعرا نے بالعموم خانقاہوں ‘ مشاعروں اور نشید و نشاط کی محفلوں کے لیے غزل کا انتخاب کیا جو نسبتاً آسان ہوتا ہے اور جلد مقبول عام ہو جاتاہے۔ اقبال نے زندگی کے سنگین اور صبر آزما حقائق و حوادث کے چیلنج کو قبول کرنے کی دعوت دی اور حوصلہ بخشا۔ اس لیے کہ اقبال نے براہ راست نظم اور غزل دونوں سے اس فنکارانہ مہارت شاعرانہ لمس و لطافت اور عارفانہ بصیرت سے کام لیا جو ان کے وسیع اور بے لاگ مطالعے اور غور وفکر کے علاوہ دوسری گونا گوں خداداد صلاحیتوں کا نتیجہ تھیں۔ اس سے اردو شاعری کے وزن و وقعت میں بڑا مفید مبارک اور مقبول عام اضافہ ہوا۔ غالب نے اردو کو فارسی سے ترکیب دے کر اردوکے حسب و نسب کو بہت اونچا کر دیا لیکن فارسی کو اردو سے اس طرح ممزوج اورہم آہنگ نہ کر سکے کہ جس طرح مفہوم و معنی اور صوت و فضا کے اعتبار سے اقبال نے اپنی فارسی شاعری سے کیا۔ اقبال کی فارسی ایران یا غالب کی فارسی کے مقابلے میں کیسی ہی رہی ہو اقبال کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے اپنی فارسی رنگ و آہنگ کلام سیفارسی کو ہندوستان میں زیادہ استقلال اور قبول عام بخشا۔ کبھی کبھی ایک آوارہ پرند کی مانند یہ خیال بھی آیا ہے کہ علی گڑھ اور اقبا ل کو ہم اپنی علمی و تہذیبی زندگی سے حذف کر کے دیکھیں تو ہماری آپ کی شبیہہ کیا اور کیسی ہو گی۔ شبیہ چاہے جیسی بھی ہو نفس مضمون سے میرے بہک جانے کی مثالوںمیںسے ایک بھی یہ ہے جسے حسب معمول آپ کو متعارف کرنا ہے انیس کی مانند اردو کے پلے کو گراں اور زمین سخت کو آسمان کر دینے میں ہماری نظر بے اختیار اقبال پر بھی پڑتی ہے اور کس اعتماد وافتخار سے پڑتی ہے! میںموسیقی کی میزان و مقام سے واقف نہیں ہوں۔ اگر پہلے سے سن نہ چکا ہوتا کہ موسیقیسیجانور تک متاثر ہوتے ہیں تو شاید اس کا اقرار کر لیتا کہ موسیقی سے کچھزیادہ متاثر نہیں ہوتا۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اکثر اچھے اشعار سن کر ذہن موسیقی کی طرف مائل ہوتا ہے اور اچھی موسیقی سن کر اقبال کے اشعار یاد آنے لگتے ہیں۔ شاعری اور موسیقی کے امتزاج حافظ کے ہاں بھی ملتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ حافظ تمام تر غزل کے شاعر ہیں جس میں موسیقی کادخل آسانی سے ہو جاتا ہے۔ موسیقی کی جوہم دمی غزل کو حاصل ہے شاید کسی اور صنف سخن کو نہیں۔ حافظ اپنے بیان کے مطابق شکایت مہر و وفا کے شاعر ہیں۔ حافظ اور اقبال نے موسیقی اور شاعری کو باہم دگر کرنے اوررکھنے کے جیسے نغزد نادر نمونے پیش کیے ہیں وہ فارسی اور اردو کے دوسرے شعراء کے یہاں شاید دستیاب نہ ہوں تصوف کے تصرف نے حافظ کو سازے قریب اور ستیز سے دور رکھا ہے۔ کہیں کہیں زمانے اور زندگی سے پنجہ آزمائی کی بھی آواز سنائی دے جاتی ہے لیکن یہ آواز رسمی یا روایتی ہے۔ اتنی اقبال کی مانند من و گرز و میداں و افراسیاب کی نہیں ہے۔ اقبال اور حافظ دونں نے قلندری کو اپنایا ہے لیکن اقبال کا قلندر جنگ و جہد کا ہے حافظ کا خانقاہ کا… اقبا ل کاحرکی ہے حافظ کا سکونی حافظ کے یہاں ناساز گار حالات کے خلاف برہمی یا بغاوت نہ ملے گی۔ چناں نماند چنین ہم خواہد ماند کا مقام ملے گا۔ اقبال کے یہاں برہم زن کی دعوت ہے۔ حافظ کا دور سیاسی شکست و ریخت سماجی ابتری اور عام درماندگی کا تھا۔ بایں ہمہ ان کی شاعری میں زیریں لہر اتنی دل گرفتگی کی نہیں ہے جتنی دل آسائی و دل افروزی کی۔ اقبال کا یہ نعرہ یہ گھڑی محشر کی تو عرصہ محشر میں ہے تھا۔ قوم اور ملک کو طرح طرح کے آلام و مسائل کا سامن اتھا۔۔ اس لیے اقبال ک شاعری مجبوری و مایوسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔ بڑے اور عالمی شاعری کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ کسی حال میں نہ خود مایوس و ملول ہو گا۔ نہ اپنے سامعین کو ہونے دے گا۔ بڑا شاعر باغی بھی نہیں ہوتا۔ مجاہد ہوتا ہے۔ حافظ اپنے کردار ور شاعری دونوں کے اعتبار سے صوفی تھے۔ اقبال اور غالب کے کلام میں جہاں تہاں تصوف کی آواز سنائی دے جاتی ہے۔ لیکن کردار کے اعتبار سے ان میں کوئی بھی صوفی ہ تھا اس یلے ان کا بیشتر کلام تصوف کے رنگ وآہنگ سے خالی ہے۔ التہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اقبال کے ہاں تصوف کا روپ اور رنگ ہمیں ملتا ہے۔ جہاں اس کے بغیر راستہ اور رہبری نہیں مل سکتی۔ دانائے راز ہونے کے لیے آشنائے تصوف ہونا ضروری ہے۔ خیال ہے کہ جب تک کوئی شاعر اقبال اور رومی کے پایے کا نہ ہو اسکو تصوف کی وادی میں قدم نہیں رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ماورائیت کے منازل و مراحل تصوف کے سہارے کے بغیر طے کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ماورائیت کا لحاظ و احترام ہر بڑی شاری مذہب و اخلاق میںکیا گیا ہے۔ خواہ وہ شاعری! یا مذہب و اخلاق کسی عہد قوم اور ملک کا ہو۔ اردو شاعری میںشعرا کی جیسی کثرت ہے اس کے حسب سے صوفی شعرا کی تعداد بہت کم ہے۔ یسا تو نہیں ہے کہ تصوف شاید اسلام کی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے شعراء اس کی طرف کم مائل ہوئے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تصوف کے تقاضوں کو ہمارے بیشتر شعرا پورا کرنے کا حوصلہ نہ کر سکتے ہوں۔ اقبال اور حافظ دونوں کے کلام میں خدا اور عورت کے بارے میں کوئی نا سز کلمہ یا اشارہ کنایہ نہ ملے گا۔ بڑے شعر و ادب میں خدا او رعوت کا احترام خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جیسے ان کے ساتھ بیباک ہونا متفقہ طور پر ممنوعات میں قرار دیا گیا ہو۔ اس سے کبھی کبھی اس طرف بھی خیال جاتا ہے کہ کس درجہ کم سواد اور معاشرے کیلیے زہر ناک سا شاعر اور فن کار ہوتا ہے جو خدا اور عورت کو اپنے ہفوات کا ہدف بنائے بغیر نہ اپنی شاعری کو شہرت دے سکتا ہے۔ نہ اپنے ساتھیوں سے داد پا سکتا ہے۔ ایسے شاعر ارو سامعین بھی کیا کریں جو حفظ مراتب ملحوظ رکھنے کی بڑائی کے احساس سے محروم ہوں۔ جہاں اعلیٰ اورعظیم کا تصور ہی مختلف یا معدوم ہو وہاں کون کس سے کیا کہے! اردو شاعری کو ہندوستان ہی نہیں دوسرے بالخصوص مسلم ممالک کے شعر و ادب کی صف اول میں لا کھڑا کرنا اقبال کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ میرے ذاتی تاثرات تو یہاں تک ہیں کہ اقببال کا ہرکلام غیر معمولی کلام ہوتاہے۔ اقبال سے پہلے بنگالی کو مہارشی ٹیگور نے یہ منزلت بخشی لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ٹیگور کی شاعری زیادہ تر عبادت منقبت اور معرفت کی شاعری سے ہے جس میں ماورائیت نہیںملتی۔ یہ ذکر مسلک روایات اور جنیسس سے متلعق ہے جس نے ٹیگور مستفید اورتمام عمر نغمہ سرا رہے۔ دراصل یہ کہنے یہ جا رہاتھا کہ اقبال نے نعت گوئی کو میلاد ناموںاورمیلاد خوانوں کی گرفت سے نکال کر کلاسیکی دے دینا معمولی بات نہیں ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ یہ اسلامی ممالک کے شعرا نے س صنف کو یوں نظر انداز کر دیا ۔ ایران اور عرب نے قطع نظر غالباً دوسرے ممالک میں شعر و ادب سے بے گانگی کا نتیجہ یہ ہے۔ کیسے کہاجائے کہ بیشتر مسلم ممالک اقبال کے اس قول سے کہ گر مصطفیٰ نہ رسی تمام بولہبی است سے ناواقف تھے! عشق رسولؐ اقبال کے کلام و پیام اور خود ان کے شعر وجود کی روح ہے۔ عربی فاررسی اور اردو شاعری میں جتنے قابل لحاظ شعرا گزرے ہیں کم و بیش سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق باراہ رسالت میں عقیدت و ارادت کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ نعت ہمارے شعر و ادب کی قابل قدر روایت بن گئی ہے۔ ایسی روایت جو شاعری میں عبارت کے عناصر و عوامل کے ساز و برگ کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ نعمت کو شاید کسی اور مذہب و ملت میں وہ اہمیت حاصل نہ ہو جو ہمارے شعر و ادب میں ہے۔ نعت کے قدیم کو نعت کے جدید سے قریب لانے اس کو مقصد دینے‘ متحرک کرنے ‘ اور رکھنے کی ابتدا حالی نے کی جسے اقبال نے اس درجے تک پہنچادیا جس سے آگے پہنچانا اب کسی دوسرے ہی اقبال کا کارنامہ ہو گا۔ اور مستقبل بعید تک کسی دوسرے اقبال کا ظہور پانا آسان نہیں معلوم ہوتا۔ اس صدی میں اب تک ہم جن آزمائشوں سے گزرے ہیں اور شاید گزرتے رہںٰ ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے اقبال کے کلام سے جو تقویت اور تسکین ملتی رہتی ہے۔ وہ اس صدی کے کسی اور شاعر اور اس کی شاعری میں نہیںملتی یہ کیوں اور کیوں کر؟ اس کا نہایت مختصر لیکن کعبہ آثار اور عرفات اساس جواب عشق رسولؐ ہے جس سے ہمار ی روح روشن اور حوصلے زیاد رہتے ہیں۔ خواہ ہم کہیں اور کسی حال میںہوں۔ اقبا ل نے ہمارے لیے سرور دو عالمؐ کی عظیم جلل اور رحمت عالم ہونے کی بازیافت کی ہے ۔ جو شاعر اس کی شاعری اورہمارے شعائر کو ہمیشہ انفرادی اجتماعی اور سماجی امتیاز سے برگزیدہ بلند ومتفخر رکھے گی۔ ایسی بروقت بازیافت ہماری تاریخ میں مجھے تو اب تک نظر نہ آئی۔ عزیزو! آپ نوجوانوں کی رفعت و رفاہ کے لیے اقبال کے کرب اور کراہ کی آواز جا بجا ان کے کلام میں سنائی دے جاتی ہے۔ مثلاً جہاں انہوں نے ہم کو آپ ک کو سید پاک کی اولاد کہہ کر پکارا ہے اوراپنی نشاندہی آبا مرے لاتی و مناتی سے کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جییس اپنی روح کی گہرائیوں سے ہم کو آپ کو یاد دلا رہے ہوں یا واسطہ دلا رہے ہوں کہ مجھے دیکھو کہ لاتی و مناتی ہونے کے باوجاد آپ کو سید اپک ہونے کی ذمہ داری اور شرف کی یاد دلاتا ہوں اور گڑگڑاتا ہوں کہ آپ نے توجہ نہ کی تو آپ تمام دنیا کے لاتیوں اور مناتیوں کو کس طرح منہ دکھائیں گے۔ سید پاک کی اولاد کو اپنی لاتی و مناتی ہونے کے تصور دکھا کر اقبال ن ییہاں تاثیر کا جو اعجاز دکھایاہے اس کی مثال کہیں کم ملے گی۔ نشیب کی بلندی آبا میرے لاتی ومناتی اور فراز کی پستی تو سید پاک کی ہے اولاد کو اقبا ل نے جس عقیدت اور بلاغت سے واضح کیا ہے وہ انہی کے بس کی بات تھی۔ ٭٭٭ اقبال اور شاعری محمد ہادی حسین عالمی ادب کی تاریخ میں بہت کم بڑے شعرا ایسے ہوئے ہیں جو شاعری کی قدر و قیمت کے بارے میں متضاد جذبات رکھتے تھے۔ اقبال کا شمار ان غیر معمولی شعرا میں ہوتا ہے۔ اسے شاعر ی کا ملکہ اور شاعری کا عشق دونوں بدرجہ اتم فطرت کی طرف سے عطا ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس نے پوری لگن کے ساتھ عنفوان شباب سے لے کر زندگی کے آخری دنوں تک شاعری کی۔ اس کے باوجود اس نے کبھی ذہنی طورپر بخوشی یہ قبو ل نہ کیا کہ وہ صرف شاعری کرنے کے لیے دنیا میں آیا تھا۔ شاعری کا جواز اس کے نزدیک یہ تھا کہ وہ اپنے آپ سے ماورا کسی بڑے مقصد کا وسیلہ ہو۔ اس بڑے مقصد کی پردہ کشائی اقبال کی شاعری کی ایک بنیادی کوشش تھی۔ اور رفتہ رفتہ اس کی شعر گروئی کا واحد مقصد بن کر بجائے خود اس کا جوا ز بن گئی۔ اس طرح وسیلہ اورمقصد دونوں مل کر ایک ہو گئے یعنی شاعری نے اقبال کے لیے ایک مقصود بالذات سرگرمی کی حیثیت حاصل کر لی۔ شاعری برائے شاعری اورشعری برائے زندگی کی باہمی مخالفت اقبا ل کے یہاں نہ نظری اعتبار سے اور نہ عملی اعتبا ر سے پائی جاتی ہے۔ نظری اعتبار سے شاعری اقبا ل کے نزدیک زندگی کی تخلیقی اور ارتقائی قوتوں کا ایک وجدانی اطہار ہے۔ بلکہ ان قوتوں میں سے خود ایک قوت ہے۔ عملی طور پر شاعری اقبال کے لیے زندگی کی شریک کار ہے۔ کیونکہ جس طرح زندگی خودی کے اثبات اور اس کی کارفرمائی کا نام ہے۔ اسی طرح شاعری نہ صرف خودی ککے اظہار کا ایک وسیلہ ہے بلکہ اس کی تشکیل کا ایک واحدذریعہ ہے۔ شاعر جس کی ہستی ہمہ تن سوز و ساز اور تب و تاب ہوتی ہے اپنی خودی کی روح ملت کے جسم میں پھونک کر اسے نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ یہ عظیم کارناممہ انجام دینے کی بدولت شاعرایک دانائے راز ایک حکیم نکتہ داں ایک مصلحقوم ایک معلم اخلاق ایک مجدد عصر اور ایک مرد مجاہد‘ ایک سیاسی رہنما غرج ایک جامع کمالات شخص ہوتا ہے۔ اقبال نے کبھی فکری طور پر بھی عملی طور ر ان تمام کرداروں کار وپ دھارا ہے۔ ان مختلف و متنوع اور دوسری سے دور افتادہ اقلیموں کی سیاسی اقبال کی ہمہ گیر شخصیت اور ہمہ کوش ہت کا ایک فطری تقاضا تھی۔ لیکن وہ ان میں سے جس اقلیم میں بھی گیا چاہے فکری طور پر اورچاہے عملی طور پر وہاں سے وہ بنیادی طور پر شاعر ہی رہا۔ چنانچہ اس کی مہم جوئیاں اور کارگزاریاں اس کی کامیابیاں اور ناکامیاں سب کی سب وہی تھیں۔ جن کی ایک شاعر سے توقع کی جا سکتی تھی کہ جہاں تک اس کی شاعری کا تعلق تھا وہ ہر اقلیم سے تجربات و افکار کے پیش نظر بیش بہا نوادر لا کر اس کے گنجینے کو مالا مال کرتا رہاجیسے جیسے وہ یہ عمل انجام دیتا رہا ویسے ویسے اس کی شاعری میںگہرائی اور بلندی اور گہرائی پیدا ہوتی گئی ارو شاعری کی رفعت سے بھی اس کی نگاہ میں بڑھتی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ شاعر کا منصب اس کی نگاہ میںبلند تر ہوتا چلا گیا۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اقبال کی چشم تصور ان تمام کرداروں کے لباس میں خود ا س کو جلوہ گر دیکھتی تھی۔ اس کی ممدوحہ شخصیتیں چاہے وہ تاریخی تھیں اور چاہے فرضی اوصاف کے مجسم نمونے تھیں جنہیں وہ اپنے آپ میں موجود سمجھتا تھا یا پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اور ان کے کارنامے وہ کارنامے تھے جن کے انجام دینے کا وہ خود آرزو مند تھا خواہ شعوری طورپر خواہ غیر شعوری طور پر۔ چونکہ وہ زندگی کے مختلف فکری و عملی شعبوں میں جو کچھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ سب کچھ نہ کر سکا۔ اورچونکہ اس کے تجربوں نے اس پر یہ واضح کر دیا کہ ہر شعبے میں اس کے کمالات او رنقائص اس کی کامیابیا اور ناکامیاں بنیادی طور پر اس کے شاعر ہونے کا نتیجہ تھیں۔ اس لیے اس کی ممدوحہ ہستیوں کے تمام اوصاف کے لیے شاعر کی شخصیت میں مجتمع ہو گئے۔ ایک مثالی شاعر کا جو تصور اس نے اپنے ذہن میںقائم کیا اس کی کسوٹی پر پورا اترنا نہ صرف اس کی شاعری بلکہ اس کی زندگی کا سب سے بڑ ا نصب العین ہو گیا۔ ا س طرح اقبال کی طبیعت میں جو بلند مقصدیت پیدا ہوئی وہ اس کی شاعری کی عظمت کا ایک خاص راز ہے۔ میں نے اوپر جو دعوے کیے ہیں ان سے سیر حاصل بحث اس مختصر سے خاکے میں ممکن نہیں۔ اس لیے میں اسی پراکتفا کروں گاکہ ان دعووں کی تھوڑی سی توضیح اور ان کے ثبوت میں اقبال کے کلام سے چند اسناد پیش کردو ں۔ قیاس چاہتا ہے کہ اقبال نے اپنی اعری کا آغاز اسی طرح کیا ہو گا جس طرح عام شاعر کیا کرتے ہیں یعنی بے مقصد طبع آزمائی سے چونکہ وہ جلتہً شاعر تھا اس لیے شعر گوئی اس کے لیے ایک ایسے حیاتیاتی تقاضے کی تکمیل تھی جو کسی شعوری مقصد کا محتاج نہ تھا۔ داغ کے ماجرانارانہ انداز میں غزل گوئی اسی امر کی غماز ہے اوائل شباب سے لے کر ۱۹۰۵ء تک کی جونظمیںبانگ درا میں شامل ہیں وہ یوںتو اپنی موضوعی ہئیتی اور لفظی جدت طرازیوں کی بناپر اردو شاعری کی فرسودہ روایات کے طلسمی حصار سے باہر نکنے کی کامیاب کوشش کرتی ہیں۔ لیکن ان میں بھی شاعرانہ ابداع و اختراع اور ایک ادائے خاص سے نغمہ سرا ہونے سے ماورا کوئی واضح مقصد کارفرما دکھائی نہیںدیتا۔ چونکہ ان نظموں کے موضوع ایسے اشخاص اشیاء ‘ مظاہر‘ مناظر‘ حالات ‘ واقعات ‘ افکار ‘ جذبات‘ وغیرہ ہیں جو شاعری کی اقلیم کے باہر شاعر کے لیے عملی دلچسپی کے حامل ہیں۔ اس لیے ان نظموں کو ان معنوں میں تو خاص نہیں کہا جا سکتا جن معنوں میں اقبال کی ابتدائی غزلوں کو کہا جا سکتا ہے پھر بھی وہ ان معنوںمیں خالص شاعری ہیں کہ وہ بدیہی طور پر محض شعر گوئی کی خاطر کہی گئی تھیں۔ اگر کوئی خارجی مقصد اقبال کے پیش نظر تھا تو نہ تو اقبال نے اس کا اعلان کیا ہے نہ وہ کسی نظم کے بحیثیت نظم مطالعے سے مترشح ہوتا ہے۔ ان نظموں کے پس پشت جو شاعر ہے وہ ایک حساس رقیق القلب نکتہ رس اور صاحب ذوق بخش ہے جو اپنے اردگرد کی چیزوں سے غیر معمولی طور پر اثر پذیر ہوتا ہے۔ اور جو اپنے تاثرات کو بیان کرنے کی غیر معمولی خواہش اور صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن ان تاثرات کا بیان کرنا بجائے خود اس کا مقصود ہے ان کے بیان سے جو عملی نتائج رونما ہو ں گے ان سے اس کا شعوری یا ارادی طورپر کوئی سروکار نہیں۔ ان ابتدائی نظموں میں سے پانچ (یعنی ہمالہ‘ تصویر درد‘ ترانہ ہندی‘ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘ اورنیا شوالہ) علی الاعلان وطن اور قوم سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمالہ کوہ ہمالہ کی عظمت و قدامت کی شان میں ایک قصیدہ ہے۔ تصویر درد ہندوستانیوں اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی فکری و عملی پس ماندگی کا نوحہ ہے ترانہ ہندی اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ہندوستان کی تاریخی عظمت کے حضور عقیدت کے نذرانے ہیں۔ لیکن ان سب نظموں میں شاعر کی حیثیت صرف وہی ہے جو اقبال کی اسی دور کی ایک نظم میںجس کا عنوان ’’شاعر‘‘ ہے بیان کی ہے یعنی: شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ (بانگ درا صفحہ ۵۳) ’’تصویر درد ‘‘ میں کچھ اشارات ایسے ملتے ہیں کہ جن سے پتا چلتا ہے کہ اقبال شاعر کو صرف قوم کی آنکھ ہی نہیں سمجھتا بلکہ اس کی زبان اور اس کا دل بھی سمجھتا ہے۔ لیکن ان تینوں حیثیتوں میں شاعر کا کردار صرف انفعالی ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ جو کچھ دیکھے اسے اور اس سے جو خیالات و جذبات اس کے دل میںپیداہوں انہیں بیان کر دے۔ البتہ یہ بجا ہے کہ شاعر کی آنکھ دوسروں کی آنکھوں سے زیادہ بینا اس کا دل دوسروں کے دلوں سے زیادہ حساس اور اس کی زبان دوسروں کی زبانوں سے زیادہ گویا ہے چنانچہ اقبال یہ دعوے کرتاہے: مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتاہے عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیںبیانوںمیں کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے میزبانوں میں اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا مرا آئینہ دل ہے قضا کے راز دانوں میں (بانگ درا صفحہ ۶۴) لیکن بدیہی طور پر یہ دعوعے اقبال نے صرف اس یے کیا ہے کہ اسے ایک شاعر کی حیثیت سے اپنے جذباتی تاثرات بیان کرنے کا جو حق پہنچتا ہے اسے ثابت کرے۔ اس حق سے ماوراء وہ کسی چیز کا مدعی نہیںہے۔ مثلاً وہ یہ نہیں کہتا کہ جن حالات نیاس کے دل میں یہ امید رہی ہو لیکن وہ اس امید کا صریح طور پر اظہار نہیںکرتا۔ دوسرے الفاظ میں وہ ایک خالص شاعر کے کردار پر قانع ہے۔ فعالانہ کردار کی پہلی جھلک ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۰۸ء تک کی بعض نظموں میں دکھائی دیتی ہے۔ ’’عبدالقادر کے نام‘‘ مشرق کے شبستان میں احساس کی شمع روشن کرنے کی ایک دعوت ہے۔ اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور سے بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں (بانگ درا صفحہ ۱۴۰) اقبال نے ابتدائی دور میں جو دعا کی تھی: زندگی شمع کی صورت ہو خدایامیری اب وہ اس دعا ہی پر قانع نہیں ہے بلکہ اپنی ذاتی جدوجہد سے اپنی زندگی کو ایک شمع ظلمت سوز بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے اسے اس امر کا درد انگیز احساس ہے کہ شاعر کے اختیار میں صرف فریاد فغاں ہے۔ لیکن اسکے دل میں یہ یقین بھی ہے کہ وہ فریاد و فغاں کے ذریعے سے اپنی قوم کی زندگی میںہنگامہ برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کیفیت نفس سے مختلف ایک اور کیفیت نفس جسے اقبال اسی دور کے ایک اور شعر میں یوں ظاہر کرتا ہے: مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میراپیام کہہ دے جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیںمذاق سخن نہیں ہے (بانگ درا صفحہ ۱۳۶) اس شعر کے مخاطب مدیر مخزن یعنی شیخ عبدالقدر کے دیباچے میں اس کی شان نزول کا پتا چلتا ہے۔ اقبال قیام انگلستان کے دوران شاعری ترک کرنے کی سوچ رہا تھا۔ شیخ عبدالقادر نے اس کا سبب توبیان نہیں کیا لیکن قیاس چاہتا ہے کہ اقبال انگریزوں کی سرگرمیوں اور ذہنی و مادی ترقیوں کی وجہ سے اس درجہ متاثر ہوا تھاکہ اس کے دل میں کوئی ایسا کام کرنے کی خواہش پیدا ہو رہی تھی۔ جس سے اس کی قوم کے اندر بھی اس قسم کے اوصاف پیدا کرنے میں مدد ملتی۔ جو وقت وہ شاعری میں صرف کر رہا تھا اسے وہ کسی مفید کام میں صرف کرنے کا قصد کر رہاتھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شاعری اس کی نگار میں ایک مفید کام نہ تھی۔ اس کا یہ دعوے کہ: جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے غالباً اس کے اس مشاہدے پر مبنی تھا کہ ایک طرف تو انگریز عملی زندگی کے ہر شعبے میں بام عروج پر تھے اور دوسری طرف انگریزی شاعری میں ایک دور انحطاط سے گزر رہی تھی۔ ٹینی سن برائوننگ اور میتھیو آرنلڈ کی وفات کے بعد صف او ل کاکوئی شاعر اس وقت انگلستان میںموجود نہ تھا۔ لیکن اقبال نے یہ بات نظر انداز کر دی کہ یہ عظی شعراء انگریزی تاریخ کے ایک زریں عہد کی پیداوار بھی تھے۔ اور کسی حد تک اس کے صورت گر بھی۔ یعنی اس زرین عہدمیں انگریز قوم مذاق سخن سے عاری نہ تھی۔ اقبال کے استاد تھامس آرنلڈ نے اسے شاعری کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے جو دلائل پیش کیے ہوں گے قرین قیاس ہے کہ ان میں ایک دلیل عہد وکٹوریہ کے قوم کی قوم ساز شاعروں کی مثال ہو گی۔ بہرحال اقبال نے ترک شاعری کا ارادہ تر کر دیا اوردل میں ٹھان لی کہ : میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا (بانگ درا صفحہ ۱۴۲) ’’بانگ درا‘‘ کے تیسرے حصے میں جو ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۲۴ء تک کے کلام پر مشتمل ہے۔ اقبال بہ بانگ درا ایک شاعر کی حیثیت سے اپنے رہنمایانہ کردار کا اعلان کرتا ہے ترانہ ملی جو ترانہ ہندی کے مقابل میں ملت اسلامیہ کا ترانہ ہے اس دعوے پر ختم ہوتا ہے کہ: اقبال کا ترانہ باند درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا (بانگ درا۔ صفحۃ ۱۵۰) مجموعے کے سرورق پر ’’بانگ درا‘‘ کا عنوان اس دعوے کی ایک اور بھی زیادہ واشگاف صورت ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ اقبا ل کو یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ کہیں ملت کے خواب غفلت میں مست ہونے کے باعث اس کی آواز صد ا بصحرا ہو کر نہ رہ جائے۔ ’’شکوہ‘‘ کے آخری بند میںوہ اس خوف کا اظہار یوں کرتاہے: کتنے بیتاب ہیں جوہر مرے آئینے میں کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں داغ جو دینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں (بانگ درا صفحہ ۱۷۰) بہرحال ا س کے باوجود ا س کے دل میں یہ امید بھی ہے کہ چونکہ وہ ایک نئے انداز سے جسے وہ عربی انداز کہتا ہے نغمہ سراہوا ہے۔ اس لیے اس کا نغمہ سرائی ملت کی بیحسی پر غالب آ جائے گی۔ وہ اس امید کا اظہار اس کی آڑزو یا دعا کی صورت میں کرتاہے: چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں یعنی پھر زندہ اسی عہد وفا سے دل ہوں پھر اسی بادہ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری (بانگ درا۔ صفحہ ۱۸۷) ’’رات اور شاعر‘‘ میں پھر مایوسی کا اظہار ہے۔ شاعر رات کو مخاطب کر کے کہتاہے: صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری آہ! اے رات بڑی دور ہے منزل میری عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کو ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں (بانگ درا ۔ صفحہ ۱۹۰) اہل محفل سے بیزار ہو کر گوشہ خلوت میں پناہ گزیں ہونے کی خواہش شاعروں کی ایک عام نفسی کیفیت ہے۔ لیکن اقبا ل کی فطری رجائیت اور نشاط عمل اس کے منافی تھی۔ چنانچہ اس کی مثالیں اس کے کلام میں شاذو نادر ہی ملتی ہیں اور جو ملتی ہیں ان میں مایوسی اور سپر اندازی کے بجائے ایک قسم کی جارحانہ تلخ نوائی ہے۔ ’’نصیحت ‘‘ میں اقبال نے اپنی شخصیت اور سیرت کا ایک نہایت صاف گویانہ تجزیہ کیا ہے۔ جس میں اپنی مختلف کارکردگیوں اور صلاحیتوں کو بیان کرکے وہ اپنے آ پ کو میدان عمل میں معرکہ آرا ہونے کی تلقین اس شعر میں کرتا ہے: عاقبت منزل ما وادی خاموشان است حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز (بانگ درا صفحہ ۱۷۷) ’’شمع اور شاعر‘‘ ایک مکالمہ ہے جس میں شمع کی زبانی شاعر یہ بیان کرتا ہے کہ ایک شاعر کی حیثیت سے اس کے کیافرائض ہیں ان فراض سے وہ کہاںتک عہدہ برا ہوا ہے اور اگر کسی فرض سے عہدہ برا نہیں ہوا تو اسے کیا مزید کام کرنے چاہییں۔ ذیل کے کلیدی اشعار اس طویل نظم کا ایک عمدہ خلاصہ پیش کرتے ہیں: یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں شعلہ ہے مثل چراغ لالہ صحرا ترا سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے انجمن پیاسی ہے اورپیمانہ بے صہبا ترا ٭٭٭ شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا تیرے پروانے بھی لذت سے بیگانے رہے ٭٭٭ خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے اب نہ وہ میکش رہے باقی نہ میخانے رہے ٭٭٭ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ٭٭٭ شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی ظلمت شب مین نظر آئی کرن امید کی ٭٭٭ مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر ہوش آیا ہے ٭٭٭ پھریہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش ٭٭٭ کہہ گئے ہیں شاعری جزو بست از پیغمبری ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش (بانگ درا ۔ صفحہ ۱۸۴تا ۱۹۵) شاعری اور شاعری نوع انسانی کے لیے جو اہمیت رکھتی ہے اس کا مختصر سا بیان ’’شاعر‘‘ میں ملتا ہے: شاعر دل نواز بھی بات کہے اگر کھری ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری گلشن دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو پھول نہ ہو کلی نہ ہو سبزہ نہ ہو چمن نہ ہو (بانگ درا ۔ صفحہ ۲۱۱) ’’دعا‘‘ میں اقبال خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے (بانگ درا۔ صفحہ ۲۱۲) شاعر اور شاعری کے بارے میںاقبال کے خیالات و جذبات کا جو تجزیہ ہم نے اوپر کیا ہے وہ صرف بانگ درا پر مبنی ہے ۔ بانگ درا کی اشاعت ۱۹۲۴ء سے پہلے اقبال کی تین منظوم تصانیف شائع ہوئیں۔ یعنی ’’اسرار خودی‘ ‘ ( ۱۹۱۵ئ) ’’رموز بے خودی‘‘ (۱۹۱۸)اور ’’پیام مشرق‘‘ (۱۹۲۳)۔ ان تصانیف میں جو کلام ہے وہ تقریباً اسی زمانے میں کہا گیا ہے جس میں وہ نظمیں کہی گئیں جن پر بانگ درا کا تیسرا حصہ (۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۴ء تک ) مشتمل ہے۔ ان تینوں تصانیف میں بھی شعر و شاعر سے متعلق اقبال کے تصور کا ارتقاء کم و بیش انہی خطوط پر ہوا جن کا خاکہ میں اوپر کھینچ آیا ہوں۔ جہاں وہ کلام جس پر بانگ درا مشتمل ہے مختلف مواقع اور موضوعات پر اور مختلف محرکات کے زیر اثر کہا گیا ہے۔ اور وہ کہیں تو بجائے خود مقصود تھا اور کہیں اس کے پس پشت کوئی اورمقصد تھا وہاں ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ مستقل طور پر طویل نظمیں (مثنویاں) ہیں جن میں مضمون ہئیت اور مقصد کی وحدت ہے اور ایک منضبط فلسفہ پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ ’’اسرار خودی‘‘ کی تمہید میں اقبال اس کی شان نزول کچھ یوں بیان کرتاہے کہ جیسے اس مثنوی کا کہنا اس کے لیے مشیت ایزدی کی طرف سے مقدر تھا۔ اور قدرت نے اسے خاص طور پر اس کام کے لیے منتخب کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دے کر راہ عمل پر گرم سفر کرے۔ اس ضمن میں فارسی اور اردو شاعری کی رسمی شاعرانہ تعلی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کے بیان کا جوش و خروش اس بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا تاکہ خود اسے اپنے دعوئوں کی صداقت کا پورا پورا یقین ہے۔ اور یہ یقین حق بجانب بھی ہے بالخصوص جہاں تک خودی کے بارے میں دانائے اسرار ہونے کا تعلق ہے وہاں اقبال عالمی فکر کی تاریخ میںفلسفہ خودی کا سب سے بڑا ترجمان ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس نے اس فلسفے کے عناصر کہیں سے اخذ کیے یا نہیں اور کیے تو کہاں سے کیے نیٹشے سے فشطے سے اور برگساں سے قرآن و سنت سے رومی سے ‘ فکر اسلامی سے یا کسی اور سرچشمے سے ۔ یہ فلسفہ اس کے سارے نظام فکر کا لب لباب ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس کی شاعری کی روح رواں بھی ہے۔ چنانچہ اسرار خودی کی تمہید میں وہ کہتا ہے کہ: خاک من روشن تر از جام جم است محرم از ناز ادہائے عالم است ٭٭٭ نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم ٭٭٭ عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست ٭٭٭ اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد چشم خود بربست و چشم ماکشاد ٭٭٭ ہیچ کس رازے کہ من گویم نگفت مچو فکر من در معنی نہ سفت ٭٭٭ پیر گردوں بامن ایں اسرار گفت از ندیماں راز ہا نتواں نہفت ٭٭٭ برگر فتم پردہ از راز خودی وانمو دم سر اعجاز خودی ٭٭٭ از درون کار گاہ ممکنات برکشیدم سر تقویم حیات ٭٭٭ شاعری زیں مثنوی مقصود نیست بت پرستی بت گری مقصود نیست ٭٭٭ (اسرار و رموز ۔ صفحہ ۳ تا صفحہ ۱۱) اس تمہید میں شاعری کی نسبت اقبال کے جذبات کش مکش کی کیفیت میںدکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ شاعری کی معجزانہ قوتوں کا ستائش گر ہے۔ اور دوسری طرف اسے اتنا ہیچ کارہ خیال کرتا ہے کہ اپنی مثنوی کو اس سے منسوب کرنا گوارا نہیں کرتا۔ ایک طرف تو وہ اسے کاشف اسرار اورگنج معانی کی کلیدکہتا ہے اور دوسری طرف اس پر بت پرستی اور بت گری یعنی محض لفظی صنعت طرازی کی پھبتی کستا ہے۔ اسرار خودی کے اختتام پر دعا ہے اس میں اقبال اپنی ملت کی بے حسی اور اپنی تنہائی کارونا رو کر بارگاہ ایزدی سے کسی ندیم درازدا ں کا طالب ہے: دل بدوش و دیدہ برفرداستم درمیان انجمن تنہا ستم ہر کسے از ظن خود شد یار من از درون من نجست اسرار من درجہاں یارب ندیم من کجاست؟ نخل سینایم کلیم من کجاست؟ ٭٭٭ من مثالہ لالہ صحرا ستم درمیان محفلے تنہا ستم (اسرار و رموز ۔ صفحۃ ۸۸ تا ۹۰) ’’رموز بے خودی‘‘ ’’اسرار خودی ‘‘ کا تتمہ ہے ۔ اس میں اقبال نے اپنے تصور خودی کی تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا ہے۔ یعنی فرد کی خودی کے مقابلے میں ملت کی خودی جو فرد کے حق میں بے خودی بن جاتی ہے۔ چنانچہ رموز بیخودی کی ابتدا ملت اسلامیہ کے حضور ایک پیش کش سے ہوتی ہے اس پیشکش میں اقبال اپن فن کو ملت اسلامیہ کی نذر کرنے کا اعلان کرتا ہے: من شہید تیغ ابروئے توام خاکم و آسودہ کوئے توام ٭٭٭ از سخن آئینہ سازم کردہ اند وز سکندر بے نیازم کردہ اند ٭٭٭ مثل گل از ہم شگافم سینہ را پیش تو آدیزم ایں آئینہ را تانگاہے افگنی بر روئے خویش می شوی زنجیری گیسوئے خویش (اسرار و رموز صفحہ ۹۴ تا ۹۵) ’’رموز بے خودی‘ ‘ کے اختتام پر ’’عرض حال مصنف بحضور رحمتہ اللعالمینؐ‘‘ میں اقبال ملت اسلامیہ کی بے حسی اور بے عملی پر اشک فشاں ہو کر یہ بیان کرتاہے کہ اس نے کیونکر اپنے فن کو مسلمانوں کی بیداری کے لیے وقت کردیا ہے: مسلم از سر نبی بیگانہ شد باز ایں بیت الحرم میخانہ شد ٭٭٭ مردہ بود از آب حیواں گفتمش سرے از اسرار قرآں گفتمش ٭٭٭ محفل از شمع نوا افروختم قوم را رمز حیات آموختم (اسرار و رموز ۔ صفحہ ۱۹۴ تا ۱۹۶) لیکن اقبال صرف اپنے فن کے ذریعے خدمت ملی کو کافی نہیں سمجھتا اور رسول اکرمؐ سے ملتجی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اسے توفیق عمل کرنے کی دعا کریں۔ عرض کن پیش خدائے عز و جل عشق من گردو دہم آغوش عمل (اسرار و رموز ۔ صفحہ ۱۹۶) جس طر ح اردو میں بانگ درا اسی طرح فارسی میں پیام مشرق اقبال کی ایسی شعری تخلیقات کا مجموعہ ہے جو کسی مستقل موضوع یا کسی واحد مقصد سے تعلق نہیں رکھتیں اس لیے بانگ را کی طرح پیام مشرق میں بھی اقبال نے شعر و شاعر کے موضوع پر جو کچھ کہا ہے وہ مختلف مواقع پر اور مختلف کیفیات نفس میں ا س کے خیالات و جذبات کا آئینہ دار ہے۔ پیام مشرق کا آغاز والی افغانستان امان اللہ خاں کے حضور ایک پیش کش سے ہوتا ہے جسے کتاب کی تمہید سمجھنا چاہیے۔ اس پیش کش میں اقبال جرمنی کے شاعر اعظم گوئٹے سے اپنا موازنہ کر کے بیان کرتا ہے کہ پیام مشرق گوئٹے کے مشرقی دیوان کا جواب ہے اور اس کی وضاحت کرتا ہے کہ کس چیز نے اسے یہ جواب دینے پر آمادہ کیا ہے۔ تامر ارمر حیات آموختند آتشے در پیکرم افروختند یک نوائے سینہ تاب آوردہ ام عشق را عہد شباب آوردہ ام ٭٭٭ آشنائے من زمن بیگانہ رفت از خمنستانم تہی پیمانہ رفت من شکوہ خسروی اورا دہم تخت کسریٰ زیر پائے او نہم او حدیث دلبری خواہد زمن رنگ و آب شاعری خواہد زمن کم نظر بیتابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید ٭٭٭ تانہ پنداری سخن دیو انگیست در کمال ایں جنوں فرز انگیست از ہنر سرمایہ دارم کردہ اند در دیار ہند خوارم کردہ اند (پیام مشرق۔ صفحہ ۳ تا ۴) گل نخستیں میں اقبال ایک گزرے ہوئے دور کانام لیوا اور ایک آنے والے دور کاہر اول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے: ہنوز ہم نفسے در چمن نمی بینم بہار می رسد و من گل نخستینم ٭٭٭ دلم بہ دوش و نگاہم بہ عبرت امروز شہید جلوہ فردا و تازہ آئینم (پیام مشرق۔ صفحہ ۹۵) ’’حور و شاعر‘‘ میں اقبال شاعر کو خوب سے خوب تر کی جستجو کرنے والا بیان کرتاہے: چو نظر قرار گیر دبہ نگار خوبروئے تپدآں زماںم دل من پے خوبتر نگارے (پیام مشرق۔ صفحہ ۱۴۷) ’’مئے باقی ‘‘ (غزلیات‘‘ میں اقبال جابجا شاعر اور شاعری اور بالخصوص اپنے اور اپنی شاعری کے بارے میں مزاحتہً یا کنایتہ کچھ کہتا ہے اس ضمن میں چند اشعار درج ذیل ہیں: بملا زمان سلطان خبرے دہم زرازے کہ جہاں تو اں گرفتن بنوائے دلگدازے (صفحہ۱۷۶) بگو اقبال را اے باغباں رخت از چمن نہدد کہ ایں جادو نوا مارا زگل بیگامہ می سازد (صفحہ۱۸۱) نواز حوصلہ دوستاں بلند تر است غزل سر اشدم آنجا کہ ہیچ کس نشیند متاع معرفت مشتری است جنس سخن خوشم ازاں کہ متاع مرا کسے نخرید ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی و رزید (صفحہ۱۸۵) صد نالہ شبگیرے صد صبح بلا خیزے صد آہ شرر ریزے یک شعر دلآویزے (صفحہ۱۹۱) نہ شیخ شہر نہ شاعر نہ خرقہ پوش اقبال فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد (صفحہ۱۹۵) بیا کہ من زخم پیر روم آوردم مئے سخن کہ جواں تر زیادہ عینی است (صفحہ۱۹۷) نواز پردہ غیب است اے مقام شناس نہ از گلوئے غزل خواں نہ از رگ ساز است (صفحہ۲۱۳) تو جوان خام سوزے سخنم تمام سوزے غزلے کہ می سرایم تبو سازگار باوا (صفحہ۲۱۶) مگذ راز نغمہ شوقم کہ بیابی دردے رمز درویشی و سرمایہ شاہنساہی (صفحہ۲۱۷) بانگ درا (۱۹۲۴ئ) کے بعد اقبال کا کلام مندرجہ ذیل کتابوں کی صورت میں شائع ہوا: ’’زبورعجم‘‘ (۱۹۲۷ئ) ’’جاوید نامہ ‘ ‘ (۱۹۳۲) ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ (۱۹۳۶ئ) ’’مسافر‘‘ (۱۹۳۶) ’’بال جبریل‘‘ (۱۹۳۶) ’’ضرب کلیم‘‘ (۱۹۳۶ئ) ’’ارمغان حجاز ‘‘ (۱۹۳۸ئ) ان کتابوں میں شعر و شاعر کے موضوع پر سیکڑوں اشعار ہیں کہیں منفرد صورت میں اور کہیں مختصر یا طویل نظموں یا عبارتوں کی صورت میں۔ شعر و شاعر سے متعلق نظام فکر کے جو مبادیات ’’اسرار خودی‘‘ ’’رموز بے خودی‘‘ ’’بانگ درا‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ میں ملتے ہیں انہوںنے ترقی کر کے ان بعد کی کتابوںمیں ایک مستقل نظریے کی صورت اختیار کر لی۔ میں چیدہ چیدہ اشعار اور عبادات کی مدد سے اس نظریے کے موٹے موٹے نقش و نگار ذیل میں پیش کرتا ہوں: مفید ہو گا کہ اگر ہم سب سے پہلے ا شاعر ی کو بحث سے خارج کر دیں جسے اقبال راندہ درگار قرار دیتا ہے۔ جس سے وہ اپنے کلام کو منسوب کرنا پسند نہیں کرتا۔ ’’زبور عجم‘‘ کی ایک طویل نظم ’’گلشن راز جدید‘‘ کی تمہید میں وہ اس غیر مستحسن شاعری کی طرف مختصر سا اشارہ کرتا ہے: نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم مثال شاعراں افسانہ بستم نہ بینی خیر ازاں مرد فرد دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست بکوئے دلبراں کارے ندارم دل زارے غم یارے ندارم نہ خاک من غبار راہگذارے نہ در خاکم دل بے اختیارے (زبور عجم صفحہ ۲۰۴) ظاہر ہے کہ ان اشعار میں اس عشق و عاشقی کی غزل گوئی کی مذمت کی گئی ہے جو اس وقت اردو شاعری کاسب سے بڑا سرمایہ تھی۔ اسی شاعری کی تنگ ظرفی کی طرف زبور عجم کی نظم دعا میں اشارہ ہے: سلیم مرا بجوے تنک مایہ ہیچ جولانگہے بوا دی و کوہ و کمر بدہ (زبور عجم صفحہ ۴) ’’جاوید نامہ ‘‘ میں اقبال اردو شاعری کی بے سوزی لفظی عیاشی اور محض معاملات حس و عشق سے دلبستگی کا شکوہ کرتا ہے: اے بسا شاعر کہ از سحر ہنر رہزن قلب است و ابلیس نظر شاعر ہندی خدایش یار باد جان او بے لذت گفتار باد عشق را خنیا گری آموختہ باخلیلاںآزری آموختہ حرف او چادیدہ دبے سوز و درد مرد خوانند اہل درد اورانہ مرد زاں نوائے خوش کہ نشناسد مقام خوشترآں حرفے کہ گوئی درمنام (جاوید نامہ صفحہ ۴۵) ’’بال جبریل ‘‘ میں اقبال حیات افروز اور حیات سوز شاعری کا مقابلہ کرتے ہوئے کہتا ہے: سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات ہو نہ روشن تو سخن مرگ دوام اے ساقی (بال جبریل صفحہ ۱۵) اپنی شاعری کو خالی خولی رنگین بیانی کے الزام سے بچانے کے لیے اقبال کہتا ہے : مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ (بال جبریل صفحہ ۲۳) مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی کہ بانگ صور سرافیل دل نواز نہیں (بال جبریل۔ صفحہ ۵۹) وہ نہیں چاہتا کہ ا سکی شاعری کو محض شاعری سمجھا جائے: مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ (بال جبریل صفحہ ۷۶) سرود و دین و سیاست کتاب و دین و ہنر کو یکجا کر کے اقبال ان کی بابت یہ حکم لگاتا ہے: اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ (ضرب کلیم صفحہ ۹۸) گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود (ضرب کلیم صفحہ ۱۱۲) شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا؟ بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا؟ (ضرب کلیم صفحہ ۱۱۷) اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب (ضرب کلیم صفحہ ۱۲۵) اب میں چند ایسے اشعار پیش کرتا ہوں جن میں اقبال نے اس شاعر ی کے اوصاف بیان کیے ہیں جسے اس نے اپنا مقصد حیات بنایا اور جو ا س کے نزدیک انسانی سرگرمیوں میں ایک بلند مقام رکھتی ہے۔ ان اشعار میں وہ کہیں تو مستحسن شاعری کی تعریف اور کہیں اپنی شاعرانہ کارگزاریوں کا تذکرہ کرتاہے جس سے بالواسطہ یہ پتا چلتا ہے کہ اس کے نزدیک اچھی شاعری کی پہچان کیا ہے۔ زبرون درگزشتم زدرون خانہ گفتم سخنے نگفتہ راچہ قلندرانہ گفتم (زبور عجم صفحہ ۳) بصدائے دردمندے بہ نوائے دلپذیرے خم زندگی کشادم بجہان تشنہ میرے (زبور عجم صفحہ ۱۳) قافلہ بہار را طائر پیش رس نگر آنکہ بخلوت قفس گفت پیام خویش را (زبور عجم صفحہ ۱۵) ساز تقدیرم و صد نغمہ پنہاں دارم ہر کجا زخمہ اندیشہ رسد تار من است (زبور عجم صفحہ ۲۳) فاختہ کہن صفیر نالہ من شنید و گفت کس نسرود در چمن نغمہ پار ایں چنیں (زبور عجم صفحہ ۲۵) پس از من شعر من خوانند و دریا بندومی گویند جہانے رادگرگوں کردیک مرد خود آگاہے (زبور عجم صفحہ ۱۴۳) فطرت شاعر سراپا جستجو است خالق پروردگار آرزوست شاعر اندر سینہ ملت چو دل ملتے بے شاعرے انبار گل سوز و مستی نقشبند عالمے است شاعری بے سوز و مستی ماتمے است شعر را مقصود اگر آدم گری است شاعری ہم وارث پیغمبری است (جاوید نامہ صفحہ ۴۵) فقیر راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی بہا میری نوا کی دولت پرویز ہے ساقی (بال جبریل صفحہ ۱۶) حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا (بال جبریل صفحہ ۳۹) یہ کون غزلخواں ہے پر سوز و نشاط انگیز اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز (بال جبریل صفحہ ۴۲) وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھاگیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں (بال جبریل صفحہ ۴۳) اگر ہو شوق تو خلوت میں پڑھ زبورعجم فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں (بال جبریل صفحہ ۵۹) مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون میخانہ (بال جبریل صفحہ ۷۶) تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ دالے قلندر نے اسرار کتاب آخر (بال جبریل صفحہ ۷۸) راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ (بال جبریل صفحہ ۸۱) مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے؟ (بال جبریل صفحہ ۸۱) کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی گستاخ ہے کرتا ہے فطرت کی حنا بندی خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی رومی ہے نہ شامی ہے کاسی نہ سمرقندی سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے آدم کو سکھاتاہے آداب خداوندی (بال جبریل صفحہ ۱۰۲) مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی دیا ہے میں نے انہیں ذوق آتش آشامی (بال جبریل صفحہ ۱۰۵) ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو (بال جبریل صفحہ ۱۲۳) فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا؟ حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو (بال جبریل صفحہ ۱۲۵) بال جبریل میں مسجد قرطبہ پر جو نظم ہے (صفحۃ ۱۲۶ تا ۱۳۶) ا س میں اقبال نے فن کے بارے میں اپنا فلسفہ جس میں اس کے فلسفہ شاعری کو سمجھنا چاہیے بڑے واضح اور سیر حاصل طریقے سے بیان کیا ہے۔ میں اپنے الفاظ میں اس کی تشریح کرنے کی بجائے نظم کے چند بنیادی اشعار ذیل میں درج کرتا ہوں: آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات و دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام ٭٭٭ تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل ٭٭٭ تجھ سے ہو آشکار بندہ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز ٭٭٭ ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز ٭٭٭ کعبہ ارباب فن سطوت دین مبیں تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں ٭٭٭ نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر (بال جبریل صفحہ ۱۲۶ تا ۱۳۶) ’’داغ جگر سے اقبا ل کی مراد تخلیق کا وہ ولولہ ہے جو فن کار کو مجبور کرتا ہے کہ اپنی خودی کا نقش فطرت کے مواد پر ثبت کرے جتنی پختہ اس کی خودی ہو گی اتنا ہی پائیدار اس کا ثبت کیاہوا نقش ہو گا۔ داغ جگر کو اقبال عشق کے نام سے بھی موسوم کرتا ہے۔ جس شاعری کا تصور اشعار بالا میں پیش کیا گیا ہے اس کے لیے بہترین نام پیغمبرانہ شاعری ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ پیغمبری کے لفظ میں وحی و تنزیل کا جو دینیاتی مفہوم مضمر ہے اس سے اسے مبرا کر لیا جائے۔ پیغمبرانہ شاعری میں پیغمبری کے جو اوصاف پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں۔ ایسی بصیرت جو انسانی تاریخ کے ایک وسیع منظر کو جو ماضی حال اور مستقبل تینوں پر پھیلا ہوتا ہے اپنے احاطے میں لے لیتی ہے ۔ یا ایسی حکمت جو عقل عملی اور فکری نظری دونوں سے زیادہ دور رس اور ژرف نگاہ ہوتی ہے ایسی معرفت جس پر حیات و کائنات کے ایسے اسرار بے نقاب ہوتے ہیں جن تک عام انسانی علم کی رسائی نہیں اور ان سب سے بڑھ کر یقین پیدا کرنے کی ایک زبردست قوت جو تمام شکوک و شہبات پر غالب آ جاتی ہے۔ جب شاعری کے خصوصی اوصاف مثلاً اس کے لفظی و معنوی محاسن اس کی رعنائی و زیبائی اس کی خوش آہنگی اس کی حسی لذت بخشی اور اس کو جذباتی اثر انگیزی پیغمبری کے اوصاف میں شامل ہوجاتے ہیں تو ایک ایسا تخلیقی معجزہ ظہور میں آتا ہے کہ جو جلال و جمال قاہری و دلبری الہام اور ہنر مندی عقل اور وجدان کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان اوصاف کی حامل تھی وہ شاعری جو اقبال کامقصد حیات تھی اور جو اس کا کارنامہ زندگی ہے۔ ایسی شاعری تخلیق کر کے اس نے وہ سارے کردار ادا کر دیے جن کا وہ مداح تھا اور جن ککے ادا کرنے کا وہ متمنی تھا۔ اگر پاکستان اس کے سیاسی تفکر و تدبر کا نتیجہ ہے تو اتناہی وہ اس کی شاعر ی کا ایک عظیم شاہکار ہے جو شاعری کی سرحدوں سے ماورا جا کر ایک آزاد مملکت اور ایک خود آگاہ ملت کی صورت میں جلوہ گر ہوا ہے۔ وہ اقبال کی شاعری کا ایک ایساجواب ہے جس سے بہتر جواز کسی شاعر کی شاعری کو نصیب نہیں ہوا۔ ٭٭٭ علامہ اقبال اور میراث اسلام ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نعت نویسوں نے ارث کے معنی یوں بیان کیے ہیں: ’’ارث بکسر اول و سکون ثانی و ثاء مثلثہ میراث و اصل و کار قدیم کہ بوراثت بہ دیگرے رسد و بقیہ چیزے و خاکستر ۱؎۔‘‘ مزید وضاحت یہ ہے: ’’میراث (ع) مونث ورثہ ترکہ وہ جائدا د وغیرہ جو متوفی کی ملکیت سے حقدار کو ملے‘‘۔ اور میراث پدر کے معنی حلال مباح اور جائز بتائے گئے ہیں۔ یہاں ورثہ اور ترکہ کی فقہی بحث اور قانونی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بنیادی طور پر میراث سے افکار و خیالات ‘ حکمت و دانش اور علوم و فنون کا وہ ترکہ ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل اور دوسری سیتیسری اورپھر اسی طرح اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔ انفرادی اور شخصی ترکہ اور ورثہ کے مقابلہ میں یہ اجتماعی ورثہ اور ترکہ ہی اس مقالہ کا موضوع ہے ۔ بالخصو ص وہ میراث جو میراث اسلام ہے اور جسے پچھلے چودہ سو سال سے مسلمانوں کی مختلف نسلوں مختلف زمانوں ملکوں اور مختلف وسیلوں سے دین کے ایک برے حصہ میں ایک منفرد ممتاز اور ممیز تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کی حیثیت سے جان اور پہچان گیا ہے اور جس کے مختلف عناصر مسلمانوں کی روز مرہ زندگی ان کے رسم ورواج تہذیب و معاشرت ‘ لباس ‘ تراش خراش‘ وضع قطع ‘ چال ڈھال‘ ان کے دینی عقائد ان کے شخصی قانون اور ان کے مختلف علوم میں انفرادی شخصی ‘ خاندانی ‘ علاقائی ‘ جغرافیائی ‘ نسلی اور لسانی اختلافات کے باوجود ایک مشترک بنیادی اور اساسی عنصر کی حیثیت سے حاصل ہے۔ جس ورثہ یا میراث کا ہم ذکر کیا ہے اسے مجموعی طور پر تہذیبی ورثہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ورثہ عقائد تجربات‘ تعلیمات‘ روایات‘ رسوم ‘ ایجادات و انکشافات‘ تحقیقات افکار و خیالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جو ایک نسل اپنی بیشتر نسل سے پاتی ہے اور آنے والی نسلوں کومنتقل کرتی ہے۔ ۱؎ غیاث اللغات ص ۲۴ مرور ایام سے مختلف ماحول میں اس کے عناصر میں تبدیلی حک و اضافہ تنسیخ و تجدید ہوتی رہتی ہے۔ لیکن اگر کوئی معاشرہ اپنی انفرادیت اور اپنے تشخص کو قائم و برقرار رکھتا ہے تو اس کے اس تہذیبی ورثہ کے بعض عناصر مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ اور انہیں سے اس معاشرہ یا اس قوم کے تہذیبی ورثہ کی پہچان ہوتی ہے ۔ اسلام کا تہذیبی ورثہ یا میراث کیا ہے اور علامہ اقبال کے فکر و فن میں اسے کیا درجہ یا اہمیت حاصل ہے ۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے مختصراً میراث تہذیب کے تاریخی پس منظر پر ایک نظر ڈالنا نامناسب نہ ہو گا تاریخ عالم میں دور قدیم سے آج تک مختلف تہذیبوں کا سراغ ملتا ہے۔ جو بطور ورثہ اگلی تہذیبوں کے لیے سرچشمہ یا منبع کا کام دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر یونان اور روم کی قدیم تہذیبیں جو آج تک تہذیب مغرب اور میراث مغرب کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور خاص طور پر یہ تہذیبیں مغربی یورپ کے تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے ارتقاء میں ایک اہم مرحلہ ہیں آج تک یورپ کی علمی زبانوں اور اصطلاحوں پر یونانی اور لاطینی زبان کا اثر ہے۔ اوربیشتر علمی اصطلاحات خالص لاطینی اور یونانی ہیں سولہویں صدی عیسوی میں فتح قسطنطنیہ کے بعد جب یونانی اور لاطینی زبان کا اثر ہے۔ اور بیشتر علمی اصطلاحات خالص لاطینی اور یونانی ہیں سولہویں صدی عیسوی میں فتح قسطنطنیہ کے بعد جب یونانی اور لاطینی فکر و فن کے علمبردار مغربی یورپ پہنچے تو وہ تحریک شروع ہوئی جو نشاۃ الثانیہ کی تحریک ہے۔ میراث اسلام ۱؎ کے مقدمہ میں لکھا ہے: ’’عمومی حیثیت سے یونان اور روما کی میراث ایک قطعی جغرافیائی مرکز سے ماخوذ ہے ۔ از منہ متوسطہ کی میراث بھی مغربی یورپی تہذیب کے نشووارتقاء میںایک خاص مرحلہ کا حکم رکھتی ہے۔ میراث اسرائیل میں وہ افکار و نظریات شامل ہیں جو مغرب کو یہودی قوم اور یہودی مذہب سے حاصل ہوئے لیکن میراث اسلام ان سب سے واضح طور پر الگ ہے‘‘۔ چونکہ مصنف کا مقصد یورپ کی ثقافت کے ان عناصر کو واضح کرنا تھا۔ جو مختلف ماخذوں اور ذریعوں سے بطور میراث حاصل ہوئے تھے اس لیے وہ اسلامی ثقافت یا میراث کے ہمہ جہتی اور ہمہ گیر پہلوئوں سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف ان عناصر کی طرف توجہ کرتے ہیں جن میں یورپ نے خاص طور پر مختلف علوم و فنون میں اسلام اور اسلامی میراث سے فیض پایا ہے چنانچہ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’اسلام کی میراث سے دین اسلام کے اثرات مقصود نہیں ہیں‘ کیونکہ دین نے یورپ پر چنداں اثر نہیں ڈالا‘ بلکہ یہ ان علوم و فنون کی میراث ہے جن کو مسلمانوں قوموں نے مسلمان ملوک وسلاطین کی حفاظت و سرپرستی میں ترقی دی اور جن سے یورپ نے فیض حاصل کیا‘‘۔ ۱؎ میراث اسلام اردو ترجمہ Legacy of Islam مصنفہ سر تامس آرنلڈ و مرتبہ الفریڈ گیام مترجمہ عبدالمجید مسالک مجلس ترقی ادب لاہور طبع اول ۱۹۶۰ء (دیباچہ صفحہ الف) حالانکہ یہ بھی پوری طرح درست نہیں کہ دین نے یورپ پر چنداں اثر نہیں ڈالا۔ جیسا کہ عام طور پر معلوم ہے کہ مارٹن لوتھر ۱؎ جس نے پروٹسٹنٹ Protestentفرقہ کی بنیاد ڈالی اسلامی تعلیمات سے بڑا متاثر تھا۔ بلکہ بعض شہادتوں سے پتا چلتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی درس گاہوں میں تعلیم پائی تھی۔ اور بنیادی طور پر مسلمانوں کے علوم و فنون کو ان کے مذہب یا دین سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جو بات یونان اور روم کی تہذیبی میراث کے بارے میں کہی گئی ہے وہ دنیا کی دوسری عظیم تہذیبوں کے باب میں بھی یکساں طور پر درست ہے مثلاً چین کی قدیم تہذیب جس کی عظمت اورقدامت میں کوئی شبہ نہیں‘ جس نے بنی نوع انسان کو تحریر و شمار کا تصور دیا۔ مصر کی قدیم تہذیب جس کے آثار اور نشانات آج بھی محیر العقول ہیں جس کی تحریروں کاغذ کی ایجاد اور فن تعمیر پر آج بیسویں صدی میںبھی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ بال اور نینوا کے کھنڈروں میں جس تہذیب کے آثار ہیں اور وہ تہذیب جو ہڑپہ او ر موہنجوڈارو کی تہذیب ہے ان سب کے عظیم تہذیب ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ بعض صورتوں میں ان کے اثرات اپنی حدود سے نکل کر دور تک بھی ملتے ہیں مثلاً کمبوڈیا میںانکروٹ کی حیرت میں ڈالنے والی تہذیب کے آثار اور کھنڈرات اپنی اصل اور روایت میں برصغیر پاک و ہند کی قدیم تہذیب سے اپنا رشتہ ظاہر کرتے ہیں اور مصر کی تہذیب کے آثار فنیقوں کے وسیلہ اور واسطہ سے یونان تک پہنچے ہیںتاہم یہ تمام قدیم تہذیبیں اپنی نوعیت میں جغرافیائی حدود میں پابند ہیں۔ اسلامی تہذیبی میراث کی نوعیت اس سے قطعاً مختلف ہے۔ جو شخص دل سے یقین اورزبان سے اقرار کرتا ہے۔ کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وہ ایک ایسی عالمگیر برادری میں شامل ہو جاتاہے۔ جو جغرافیائی رشتوں نسل ‘ رنگ ‘ زبان ‘ برادری ‘ خاندان قبیلہ سب سے ماورا اور سب سے بالا رشتہ ہے۔ اس رشتے میں منسلک ہو کر اسود و احمر عرب و عجم سب ایک ہوجاتے مسلمانوں کا خدا ایک ہے قرآن ایک ہے اللہ کے ساتھ ان کا عہد ایک ہے اور وہ ایک ہی معبود کے عبد بن کر ایک ہی دین اورایک ہی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ قرآن حکیم ان کو ایک ہی حکم دیتاہے۔ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو اورالگ الگ نہ بکھر جائو۔ اس کے نزدیک زیادہ بڑا بزرگ و برتر وہ ہے جو زیادہ متقی ہے یعنی خوف خدا کرنے والا پرہیز گار اور نیک اللہ کا بندہ اسلام کے اس رشتے میں منسلک ہو جانے کے بہت سے تقاضے ہیں اوراسلام کا حلقہ بگوش ہر بندہ ان تقاضوں کو پورا کرنے کا پابند ہے۔ ۱؎ مارٹن لوتھر ولادت ۱۴۸۲ء وفات ۱۵۴۶ء کلیسا کے اعلیٰ ترین حلقوںاور طبقوں میں ہر طرح کی بے راہ روی کے خلاف مارٹن لوتھر نے ۱۵۱۰ء میں ہی غور کرنا شروع کیا تھا۔ ۱۵۱۷ء میں گناہوں کی معافی ناموں کی تجارت کے خلاف اعلان کے بعد کلیسا سے باضابطہ ٹھن گئی اور ۱۵۲۱ء میں پاپائی حکم سے اسے دین سے خارج کر دیا گیا تو مارٹن لوتھر نے اس حکم نامہ کو برسر عام نذر آتش کر دیا تجدید عیسائیت کے لیے اس نے بہت کچھ لکھا عہد نامہ جدید کو جرمن زبان میںمنتقل کیا اورپوری انجیل کے ترجمہ کی طرف توجہ کی جس سے جرمن زبان کو بڑی تقویت پہنچی مارٹن لوتھر دین کو سیاست سے الگ نہیں سمجھتا تھا۔ اسلام کی وسیع برادری میں خاندانوں کنبوں اور قبیلوں کا اختلاف صرف تعارف اور پہچان کے لیے ہے شرافت اوربزرگی کا معیار صرف تقویٰ ہے قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے کہ لوگو ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا اورتمہاری برادریاں اور کنبے بنا دیے کہ آپس میں شناخت رکھو تم میں سب سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۳۱؍۴۹۔ بعض تہذیبوں میں نسبی فخر کا جذبہ ایک موثر اورفعالجذبہ تھا قرآن حکیم میں یہود و نصاریٰ کے اس نسبی فخر کو باطل قرار دے کر قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں کہہ دو کہ پھر وہ کیوں تمہارے گناہوں کی بدولت تم کو سزا دیتا ہے۔ بلکہ تم بھی انہیںانسانوں میںسے ہو جن کو اللہ نے پیدا کیا ہے‘‘ ۱۸؍۵ حسب و نسب نسل اور رشتے کا بکھیڑا صرف چندہ روزہ زندگی تک ہے ارشاد ہے: ’’پھر جب صور پھونکا جائے گا تو ان کے درمیان میں کوئی رشتہ نہ رہے گا اورنہ وہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے جن کا (نیکی کا ) پلہ بھاری ہو گا وہ کامیاب ہوں گے اورجن کا ہلکا ہو گا وہ وہی ہیں جنہوں نے اپنے کو برباد کیا۔ وہ ہمیشہ جہنم میںرہیں گے‘‘ (۱۰۳؍۲۳) ایک اور موقع پر ارشاد ہے: ’’تمہارے رشتے اور تمہاری اولاد قیامت کے دن ہرگز تم کو نفع نہیں پہنچائیں گے‘‘ (۳؍۶۰) اس تمہید گزارش کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ اسلامی تہذیب کا بنیادی ورثہ خود دین اسلام ہے اور ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی خطہ میں رہتا ہو کوئی زبان بولتا ہو اس کے مقامی رسوم و رواج چاہے کبھ بھی ہوں اس کا لباس مختلف ہو اس کا رنگ مختلف ہو نسلی اعتبا ر سے وہ کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو اسی ورثہ کامالک ہوتا ہے اور اسی سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی تہذیبی زندگی میں بھی اسی ورثہ کے آثار اس کی پیدائش سے موت تک نظر آتے ہیں۔ مثلاً برصغیر پاک و ہند کی تہذیب ہی کو لے لیجیے ایسے عناصر جو دین کے بنیادی رکن نہیں ہیں اس میں بھی ہندو اورمسلمان الگ الگ پہچانے جاتے ہیں ہندو گائے کی پوجا کرتا ہے مسلمان اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتا ہے۔ ہندو گائے کے پیشاب اور گوبر کو پاک اور پوتر جانتا ہے اوراپنی دانست میں ان کو چھڑک کر ناپاک چیزوں کو پاک کر لیتا ہے۔ مسلمان کے یہاں یہ نجس اور ناپاک ہے ہندو مرتاہے تو جلا دیا جاتا ہے مسلمان دفن کیا جاتا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے منسوب یہ قول مشہور ہے کہ انہوںنے طنزاً فرمایا کہ مسلمان کلچر کیا ہے؟ ایک خاص قسم کی تاراش کا پاجامہ اور ایک ٹوٹی دار لوٹا اوراس کا ی جواب کہ تو پھر ہندو کلچر بھی کیا ہے ایک خاص طرز کی دھوتی یا دھتیا اور ایک خاص طرز کی بلا ٹونٹی کی لٹیا طنز کی جو حقیقت کچھ ہو اس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے کلچر کے لباس ظاہری کا فرق بھی ظاہر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تہذیبی اثاث یا کلچر کیا ہے جسے ہم میراث اسلام سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کے علمبردار علامہ اقبال ہیں۔ اس میں سب سے پہلے وہ عقیدہ اور ایمان ہے جس کا تعلق قرآن حکیم سے ہے، خود قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے: ’’ الم (۱) یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں، راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو وہ خدا سے ڈرنے والے لوگ ایسے ہیں جو یقین لاتے ہیں غیب (چھپی ہوئی چیزوں پر) اور قائم کرتے ہیں نماز کو اور جو کچھ دیا ہے ہم نے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں (خدا کی راہ میں) اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جا چکی ہیں اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو کہ ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں پورے کامیاب۔‘‘ (۲/۵۔۱) ایک اور مقام پر ہے: ’’ اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو وحی الٰہی کے بغیر اپنے جی سے تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو ان تمام تعلیمات کی تصدیق ہے جو پہلے نازل ہو چکی ہیں اور الکتاب کی تفصیل ہے، اس میں ذرا شک نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔‘‘ (سورہ یونس ۳۷) اور فرمایا: ’’ الٓم، اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کا نزول رب العالمین کی طر ف سے ہوا ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول ؐ نے از خود گڑھ لیا؟ نہیں، بلکہ یہ تو کتاب برحق ہے۔ آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کی ہوئی، تاکہ آپ اس کے ذریعہ اس قوم کو غلط روش کے انجام بد سے ڈرائیں، جس قوم کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں پہنچا ہے، تاکہ یہ ٹھیک راہ پر چلیں۔‘‘ (الم۔ سجدہ۔ ۱۔۳) اور اگر کوئی اس کو نہ مانے تو: ’’ اور اگر تمہیں اس بات میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی یہ ہماری ہے یا نہیں؟ تو اس کے مثل ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہمنواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کے سوا جس جس سے چاہو مدد لے لو، اگر تم سچے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقینا کبھی نہیں کر سکتے، تو ڈرو، اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو تیار کی گئی ہے۔ منکرین حق کے لئے۔‘‘ (البقرہ۔ ۲۳۔ ۲۴) قرآن حکیم کے باب میں بھی اور بھی آیات پیش کی جا سکتی ہیں کہ یہ اہل ایمان کے لیے ہدایت اور نجات کا وسیلہ ہے۔ شریعت اسلامی کا یہ پہلا رکن ہے اور متفق الیہ ہے یہ روز مرہ زندگی، ان کی تہذیب و کلچر، ان کی معاشرت، ان کی معاشی زندگی ان کی سیاست مدن سب کا واحد سرچشمہ ہے۔ جس بات کی قرآن حکیم میںاجازت ہے، جو جائز ہے وہ جائز ہے اور جس چیز سے منع کیا گیا اور روکا گیا وہ ناجائز ہے، یہ شمع ہدایت، یہ روشنی کا مینار میراث اسلام میں پہلا اور اہم ترین عنصر ہے۔ حجتہ الوداع کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کا آخری طواف کر کے مکہ معظمہ سے رخصت ہوئے تو راہ میں مقام خم پر تمام صحابہ کو جمع کر کے ایک مختصر سا خطبہ دیا فرمایا۔ 1؎ ’’ حمد و ثناء کے بعد اے لوگو! میں بھی بشر ہوں، خدا کا فرشتہ جلد آ جائے اور مجھے قبول کرنا پڑے (یعنی موت) میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں، ایک خدا کی کتاب، جس کے اندر ہدایت اور روشنی ہے خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں میں اپنے اہل بیت کے بارہ میں تمہیں خدا کو یاد دلاتا ہوں۔‘‘ جب رسول کریم صلی علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہوئی تو علامہ شبلی کے الفاظ میں: ’’ عقیدت مندوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ حضور نے اس دنیا کو الوداع کہا، چنانچہ حضرت عمرؓ نے تلوار کھینچ لی کہ جو یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی اس کا سر اڑا دوں گا، لیکن حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے اور انہوں نے تمام صحابہ کے سامنے خطبہ دیا کہ حضور ؐ کا اس جہان سے تشریف لے جانا یقینی تھا اور قرآن مجید کی آیتیں پڑھ کر سنائیں تو لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور اس ناگزیر واقعہ کا یقین آیا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباسؓ2؎ نے فرمایا: ’’ جو شخص اللہ کی کتاب کی پیروی کرے گا وہ نہ تو دنیا میں بے راہ ہو گا اور نہ آخرت میں، اس کے حصہ میں محرومی آئے گی، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ فمن اتبع الخ جو شخص میرے ہدایت نامہ کی پیروی کرے گا وہ نہ تو دنیا میں بھٹکے گا اور نہ آخرت میں بدبختی سے دو چار ہو گا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہؓ3؎ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ’’ قرآن مجید میں پانچ چیزیں ہیں، حلال، حرام، محکم متشابہ اور امثال، پس حلال کو سمجھو، حرام کو حرام قرار دو، محکم (قرآن کا وہ حصہ ہے جس میں عقیدہ اور قانون وغیرہ کی تعلیم دی گئی ہے) پر عمل کرو، اور متشابہ (قرآن کا وہ حصہ جس میں آخرت کی باتیں بیان ہوئی ہیں جیسے جنت، دوزخ، عرش، کرسی وغیرہ) پر ایمان رکھو (اور اس کی کرید میں تم پڑو) اور امثال (قوموں کی تباہی کے عبرت ناک قصے) سے عبرت حاصل کرو۔‘‘ 1؎ سیرۃ النبی حصہ دوم، تالیف علامہ شبلی نعمانی، اضافہ و تکملہ سید سلیمان ندوی طبع دوم ۱۳۴۱ھ مطبع معارف اعظم گڑھ۔ ص ۱۶۵۔ ۱۶۶ 2؎ راہ عمل، جلیل احسن ندوی طبع سوم، لاہور، دسمبر ۱۹۶۶ء ص ۴۶ 3؎ ایضاً علامہ اقبال کے یہاں میراث اسلام میں قرآن حکیم کی بنیادی حیثیت اور اہمیت کے بارے میں ایک واضح نقطہ نظر موجود ہے، جاوید نامہ میں خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژاد نو) کے عنوان میں یہ شعر دیکھئے: سینہ ہا از گرمی قرآں تہی از چنیں مرداں چہ امید بہی زندگی اور حرارت سینہ میں قرآن کی گرمی سے ہے۔ مسلمان کا سینہ اگر اس سوز سے محروم ہو تو پھر بقول علامہ مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے اور اسی عنوان میں یہ شعر بھی ہے۔ صاحب قرآن و بے ذوق طلب العجب، ثم العجب، ثم العجب اور یہ شعر مرد مومن را عزیز راے نکتہ رس چیست جز قرآن و شمشیر و فرس حقیقی علم، علم قرآن ہے اور عصر حاضرہ کا المیہ یہی ہے کہ عالم علم قرآن سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ عالماں از علم قراں بے نیاز صوفیاں و زندہ گرگ دمو دراز اسی سلسلے میں جاوید نامہ میں ایک عنوان بڑا اثر انگیز ہے، یہ ’’ قصر شرف النسائ‘‘ ہے۔ علامہ اقبال جب اپنے سفر افلاک میں پیر رومی کی معیت میں جنت فردوس میں پہنچتے ہیں تو انہیں لعل ناب کا ایک قصر نظر آتا ہے، آگے خود علامہ کی زبان سے سنئے: گفتم ایں کاشانہ از لعل ناب آنکہ می گیرد خراج از آفتاب ایں مقام، ایں منزل ایں کاخ بلند حوریاں بر در گہش احرام بند اے تو وادی سالکاں را جستجوئے صاحب او کیست؟ بامن باز گوئے گفت ایں کاشانہ شرف النساء ست مرغ بامش با ملائک ہمنوا ست قلزم ما ایں چنیں گوہر نزاد ہیچ ما در ایں چنیں دختر نزاد خاک لاہور از مزارش آسماں کس نداند راز او را در جہاں آن سراپا ذوق و شوق و درد د داغ حاکم پنجاب را چشم و چراغ آن فروغ دودہ عبدالصمد فقر او نقشے کہ ماند تا ابد تاز قرآن پاک می سوزد و جرد از تلاوت یک نفس فارغ نبود در کمر تیغ دو رو قرآں بدست تن بدن ہوش و ہواس اللہ مست خلوت و شمشیر و قرآن و نماز اے خوش آں عمرے کہ رفت اندر نیاز برلب او چوں دم آفر رسید سوئے مادر دید دمشتاقانہ دید گفت اگر از راز من داری خبر سوئے ایں شمشیر و ایں قرآں نگر ایں دور قوت حافظ یک دیگر اندر کائنات زندگی را محور اند اندریں عالم کہ میرد ہر نفس دخترت را ایں دو محرم بود و بس وقت رخصت با تو دارم ایں سخن تیغ و قرآں راجد از من مکن دل بہ آں حرفے کہ می گویم بند قبر من بے گنبد و قندیل بہ مومناں را تیغ با قرآن بس است تربت ما را ہمیں ساماں بس است عمر ہا در زیر ایں زریں قباب بر مزارش بود شمشیر و کتاب مرقدش اندر جہان بے ثبات اہل حق را داد پیغام حیات تا مسلماں کرد با خود آنچہ کرد گردش دوراں بساطش در سوزد مرد حق از غیر حق اندیشہ کرد شیر مولا رو بہی را پیشہ کرد از دلش تاب و تب سیماب رفت خود بدانی آنچہ بر پنجاب رفت خالصہ شمشیر و قرآن را ببرد اندراں کشور مسلمانی بمرد اس سے بڑی تقدیر کی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ پنجاب میں جو مسلم اکثریت کا علامہ تھا اور جس سر زمین میں داتا گنج بخش جیسے روحانی پیشواؤں کا اثر و تصرف کار فرما تھا مسلمان سکھ اقلیت کے زیر حکومت رہے اور وہ سارا دور انتہائی ذلت اور رسوائی کے عالم میں گزارا۔ علامہ کے نزدیک اس کا سبب صرف یہ تھا کہ مسلمانوں نے قرآن اور تلوار کو ترک کر دیا۔ قرآن حکیم کی اس اساسی اہمیت کا اندازہ ایک واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اسے علامہ نے خود بھی بیان کر ہے لیکن یہاں پروفیسر رشید احمد صدیقی مرحوم کی زبانی سنئے1؎ـ: ’’ مرحوم (علامہ اقبالؒ) کو سر سید راس مسعود مرحوم سے بڑی شیفتگی تھی، اسی طرح سر راس کو اقبال سے بڑا شغف تھا۔ لیڈی مسعود کو اقبال مرحوم سے جو عقیدت تھی اور جس طور پر ڈاکٹر صاحب کی صحت و آرام کا موصوفہ خیال رکھتی تھیں اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بھوپال میں بڑے اصرار کے ساتھ ایک خوش الحان قاری مقرر کر دیا تھا جو ہر صبح آدھ گھنٹے تک لیڈری مسعود کو کلام پاک سناتے، یہ وہ زمانہ تھا جب لیڈی مسعود کی دوسری بچی نادرہ پیدا ہونے والی تھی، مرحوم فرمایا کرتے تھے 1؎ اقبال، شخصیت اور شاعری، پروفیسر رشید احمد صدیقی، اقبال اکیڈیمی، لاہور، طبع اول ۱۹۷۶ء ص ۱۷۔ ۱۸ کہ ایام حمل میں کسی خوشی لہجہ قاری سے اگر ماں کلام پاک سن لیا کرے تو بچہ پر اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا، ممکن ہے یہی خیال ہو جس کی بناء پر اقبال نے ارمغان حجاز میں دختران ملت کو یوں خطاب کیا ہے۔‘‘ ز شام ما بروں آور سحر را بہ قرآں باز خواں اہل نظر را تو می دانی کہ سوز قرأت تو دگرگوں کر دتقدیر عمرؓ را مرحوم کا ملازم علی بخش اس پر مامور تھا کہ قاری صاحب آئیں تو لیڈی مسعود کو کلام پاک سننے کے لیے فوراً آمادہ کرے، مرحوم خود بھی خیال رکھتے تھے کہ یہ فریضہ پورا ہوتا رہتا ہے یا نہیں۔ ایک دن مرحوم نے علی بخش کو آواز دی کہ قاری صاحب آئے ہوئے ہیں، لیڈی مسعود کہاں ہیں۔ علی بخش نے قدرے آزدہ اور تلخ ہو کر اپنی زبان میں کہا قرآن کیا سنیں گی وہ لو صبح ہی صبح باغ میں پھول کاٹنے چلی جاتی ہیں، وہاں سے فرصت ملے تو آئیں، میں کیا کروں مرحوم خاموش ہو گئے، فرمایا، صبر، علی بخش صبر، یہ کام بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اسی سلسلے میں ایک واقعہ مولانا محمد علی مرحوم کا بھی بیان کیا ہے کہ مرحوم تحریک خلافت کے سلسلے میں یورپ جا رہے تھے ایک الوداعی صحبت میں کسی نے دریافت کیا کہ راستہ میں دل بہلانے کے لئے کوئی کتاب بھی ساتھ ہے، فرمایا کیوں نہیں۔ سوال کرنے والے نے فرمایا، معاف کیجئے، میں پوچھ سکتا ہوں کہ کس کس قسم کی اور کون کون سی کتابیں، مرحوم نے فرمایا دو کتابیں رکھ لی ہیں اور وہی کافی ہیں، بقول رشید صاحب ’’ حاضرین ان کتابوں کا نام سننے کے لئے سراپا اشتیاق بن گئے، مرحوم نے اپنے خاص انداز میں فرمایا ایک تو کلام پاک ہے اور دوسرا دیوان داغ۔۔۔‘‘ یہ بات محض اتفاقی نہیں کہ علامہ اقبال کو ایک طرف قرآن حکیم کی اہمیت کا جو احساس تھا وہ ان کی نظم و نثر، شاعری، مکاتیب، مقالات، خطبات میں ہر جگہ ملتا ہے اور دوسری طرف وہ داغ کو اپنی استادی کے لئے منتخب رکتے ہیں، اس نکتہ پر رشید صاحب کا یہ تبصرہ دیکھئے: ’’ یہاں کسی طویل نفسیاتی مذاکرہ کو راہ دینا نہیں چاہتا، اصل مقصد دو عظیم المرتبت شخصیتوں کی ذہنی پرواز و پرداخت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔1؎‘‘ اقبال اور قرآن حکیم بجائے خود ایسا موضوع ہے جس کے جائزہ کے لئے ایک پورا دفتر درکار ہے۔ یہاں ان کے کلام سے محض نمونہ کے لئے بعض اشعار نقل کئے جاتے ہیں جس سے ایک طرف علامہ کے مطالعہ قرآن، تفہیم قرآن اور تشریحی نقطہ نظر کا اندازہ ہوتا ہے وہاں دوسری طرف اسلامی معاشرہ کے بنیادی رکن کی حیثیت سے قرآن کی اہمیت و افادیت واضح ہوتی ہے اور یہی علامہ کے نزدیک مسلمانوں کے تہذیبی ورثہ کی خشت اول ہے۔ ضرب کلیم اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر 1؎ ایضاً، ص۱۹ تو معنی و النجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسماء مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکان مقام ذکر ہے، سبحان ربی الاعلی میں نے اے میر سپہ تیری سپہہ دیکھی ہے قل ھو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی آہ اسے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں حرف لا تدع مع اللہ الاھا آخر! جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ ٭٭٭ بال جبریل محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں، ترجماں تیرا ہے یا میرا احکام تیرے حق ہیں، مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں وہی طہٰ عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لا تخف تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر تھا ارنی گو کلیم ؑ، میں ارنی گو نہیں اس کو تقاضا روا، مجھ پر تقاضا حرام جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی میرے کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو فروغ دیدۂ افلاک ہے تو ترے صید زبوں افرشتہ حوریں کہ شاہین شہ لولاک ہے تو عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرۂ لا یحزنوں کر خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر ٭٭٭ دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں ٭٭٭ اسرار خودی آں کہ براعدا در رحمت کشاد مکہ را پیغام لا نشریب داد تا خدائے کعبہ بنو ازد ترا شرح انی جاعل سازد ترا پنجہ او پنجہ حق می شود ماہ از انگشت او شق می شود نعرہ زد اے قوم کذاب آشر بے خبر از یوم نحش مستمر تو ہم از باب فرائض سر متاب بر خوری از عندہ حسن المآب در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشا و بغی و منکر است دل ز حتی تنفقوا محکم کند زر فزاید الفت زر کم کند تا جہاں باشد جہاں آرا شوی تاجدار ملک لا یبلیٰ شوی مدعائے علم الاسما ستے سر سبحان الذی اسرا ستے از عصا دست سفیدش محکم است قدرت کامل بعلمش تو ام است خشک سازد ہیبت او نیل را می بردانہ مصر اسرائیل را ماندہ ایم از جادہ۷ تسلیم دوز تو ز آزر من ز ابراہیم ؑ دور قلب را از صبغتہ اللہ رنگ دہ عشق را ناموس و نام و ننگ دہ خیمہ در میدان الا اللہ زدست در جہاں شاہد علی الناس آمدست از ہوس آتش بجاں افروختے تیغ را ہل من مزید آموختی علم مسلم کامل از سوز دل است معنی اسلام ترک افل است حرف اقراء حق بما تعلیم کرد رزق خویش از دست ما تقسیم کرد چوں ز بند اول ابراہیم است درمیان شعلہ ہانیکو نشست آیتے بنماز آیات مبیں تا شود اعناق اعا خاضعین ٭٭٭ رموز بیخودی جانم از صبر و سکوں محروم بود ورد من یا حیی یا قیوم بود اہل حق را رمز توحید از برست در انی الرحمن عبداً مضمر است تا مسلمانیم و اولاد خلیل از ابیکم1؎ گیرا گر خواہی دلیل مرگ را سامان ز قطع آرز دست زندگانی محکم از لا تقنطو است اے کہ در زندان غم باشی اسیر از نبی تعلیم لا تحزن بگیر قوت ایماں حیات افزا ایدت ورد لا خون علیھم بایدت چوں کلیمے سوئے فرعونے ردد قلب او از لاتخف محکم شود جاوید نامہ جاوید نامہ کا ایک عنوان ہے ارض ملک خداست، قرآن حکیم میں بکثرت آیات ایسی عنوان اور مفہوم کو ظاہر کرتی ہیں، 1؎ ملتہ ایکم ابراہیم، سورہ الحج ۲۳/۷۸ چند اشعار پہلے جاوید نامہ سے دیکھئے: حق زمیں را جز متاع ما نگفت ایں متاع بے بہا مفت است مفت دہ خدا یا! نکتہ از من پذیر رزق و گور از دے بگیر او را مگیر صحبتش تاکے تو بو دو او نبود تو وجود و او نمود بے وجود باطن الارض للہ ظاہر است ہر کہ ایں ظاہر نہ بیند کافر است قرآن کریم کا ارشا دہے: وللہ ملک السموات والارض وما فیھن (المائدہ آیت ۱۲۳) آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور سب کا مالک اللہ ہے ہے اور لہ مقالید السموات والارض۔ الشوریٰ آیت ۱۲ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کے پاس ہیں میں نے صرف مثالاً یہ دو حوالے پیش کئے ہیں۔ اللہ کی حاکمیت مطلق کا تصور مسلمانوں کی سیاست اور ان کی حکومت کی اساس اور بنیاد ہے۔ حکومت اور غلبہ بھی اسی کو حاصل ہے۔ پھر ایک مرتبہ قرآن حکیم کی طرف رجوع کیجئے: واللہ غالب علی امرہ سورہ یوسف ۱۲/۲۱ (اور اللہ اپنے کام پر غالب رہنے والا ہے) اور لا یشرک فی حکمہ احداً ۱۸/۳۶ (اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا) اور واللہ یحکم لا معقب لحکمہ ۱۳/۴۱ (اللہ حکم دیتا ہے اس کے حکم پر گرفت کرنے والا کوئی نہیں) چنانچہ اسلام کے یہی بنیادی عقائد ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے اساسی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی کلچر ہو ثقافت اس کا ارتقاء اور پھیلاؤ کسی نہ کسی عقیدہ کی اساس پر قائم ہوتا ہے اور قرآن حکیم اس عقیدہ کا رہبر اور رہنما ہے کہ قرآن حکیم میں خود اس کے متعلق ارشاد ہوا ہے۔ الم ذالک الکتب لا ریب فیہ ہدی للمتقین البقرہ۲/۲ الم ۔ (یہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، جو پرہیز گار ہیں ان کے لئے ہدایت ہے) وہ خدا جو اس دنیا کا خالق، اس کائنات کا مالک ہے اسی کی ذات عبادت کے لائق ہے۔ جس طرح دیگر اقوام او رمذاہب میں اپنے اپنے معبودوں کی عبادت، پوجا پاٹ، مدح و ثناء کے لئے مخصوص عمارات تعمیر کی گئیں، اسلام کے نام لیوا اللہ کے بندوں نے بھی خدائے قادر مطلق کی عبادت اور تمجید کے لئے عبادت گاہیں بنائیں،د نیا میں پہلا گھر خدا کا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ مل کر تعمیر کیا قرآن حکیم میں اس کا ذکر یوں آیا ہے: واذ ابتلیٰ ابراہیم ربہ۔۔۔۔ وانتم مسلمون (سورہ البقر ۱۲۴۔ تا ۱۳۲) ’’ اور جس وقت امتحان کیا (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا ان کے پروردگار نے چند باتوں میں اور وہ ان کو پورے طور سے بجا لائے (اس وقت) حق تعالیٰ نے (ان سے) فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا مقتدا بناؤں گا انہوں نے عرض کیا اور میری اولاد میں سے بھی کسی کو (نبوت دیجئے) ارشاد ہوا کہ میرا (یہ) عہدہ (نبوت) خلاف ورزی کرنے والوں کو نہ ملے گا، اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا معبد اور (مقام) امن مقرر کیا اور مقام ابراہیم ؑ کو (کبھی کبھی) نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیا کرو۔ اور ہم نے (حضرت ابراہیم) اور حضرت اسماعیل ؑکی طرف حکم بھیجا کہ میرے (اس) گھر کو خوب پاک صاف رکھا کرو بیرونی اور مقامی لوگوں (کی عبادت) کے واسطے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے واسطے اور جس وقت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! اس کو ایک (آباد) شہر بنا دیجئے امن (و امان) والا اور اس کے بسنے والوں کو پھلوں سے بھی عنایت کیجئے ان کو (کہتا ہوں) جو کہ ان میں سے اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں، حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور اس شخص کو بھی جو کہ کافر رہے۔ سو ایسے شخص کو تھوڑے روڈ تو خوب آرام برتاؤں گا پھر اس کو کشاں کشاں عذاب دوزخ میں پہنچاؤں گا اور وہ پہنچنے کی جگہ تو بہت بری ہے، اور جب کہ اٹھا رہے تھے ابراہیم (علیہ السلام) دیواریں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل ؑ بھی (اور یہ کہتے جاتے تھے) اے ہمارے پروردگار (یہ خدمت) ہم سے قبول فرما لے، بلا شبہ آپ خوف سننے والے، جاننے والے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہم کو اپنا اور زیادہ مطیع بنا لیجئے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت (پیدا) کیجئے جو کہ آپ کی مطیع ہو اور (نیز) ہم کو ہمارے حج (وغیرہ) کے احکام بھی بتلا دیجئے اور ہمارے حال پر توجہ رکھیے (اور) فی الحقیقت آپ ہی ہیں توجہ فرمانے والے مہربانی کرنے والے اے ہمارے پروردگار اور اس جماعت کے اندر ان ہی میں کے ایک ایسے پیغمبر بھی مقرر کیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کریں اور ان کو (آسمانی) کتاب کی اور خوش فہمی کی تعلیم دیا کریں اور ان کو پاک کر دیں، بلا شبہ آپ ہی ہیں غالب القدرت کامل الانتظام اور ملت ابراہیمی سے تو وہی روگردانی کرے گا جو اپنی ذات ہی سے احمق ہو، اور ہم نے ان (ابراہیم علیہ السلام) کو دنیا میں منتخب کیا اور (اسی کی بدولت) وہ آخرت میں بڑے لائق لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ان کے پروردگار نے فرمایا کہ تم اطاعت اختیار کرو، انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اطاعت اختیار کی رب العالمین کی اور اسی کا حکم کر گئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں اور (اسی طرح) یعقوب علیہ السلام بھی، میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے اس دین کو تمہارے لئے منتخب فرمایا سو بجز اسلام کسے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔‘‘ 1؎ 1؎ ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی طبع تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور تو ملت اسلامیہ کا یہ قبلہ تھا جس کی تعمیر اللہ کی تقدیس و تسبیح کے لئے اس کے ایک نیک بندے اور اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہوئی اور دنیا کے بتکدوں میں خدا کا یہ پہلا گھر بنا، وہ جذبہ جو اس تعمیر کا محرک تھا خدا کی مرضی اور منشا کو پورا کرنا تھا، ایک ایسے مرکز کا قیام جو ملت ابراہیمی کی وحدت اور مرکزیت کی علامت بھی ہو اور ان کے جذبات عقیدت و عبودیت کا اظہار بھی اگر ہم تہذیب کے آثار ظاہری کی میراث پر نظر رکھیں تو گویا ابراہیمی ؑ اور اسلامی فن تعمیر کا یہ نقطہ آغاز ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جملہ فنون لطیفہ میں مسلمان فن کاروں میں یہی جذبہ تخلیق فن کا محرک رہا ہے۔ اسلامی فنون کے ایک مغربی نقاد کا یہ قول دیکھئے: Of all elements in Islamic art the most important, undoubtedly, is religion the multitude of small empires and Kingdoms that had adopted Islam felt in spite of racial prides and jealouses first and fore most Muslims and not Arab, Turkish or persian. they all Knew, spoke, and wrote some arabic, the language of the Koran. They all assem beld in the mosque, the religious building that with minor alternations was of the same design throughout the Muslim world. and they all faced Mecca. the center of Islam. symblised by the Kaaba (Qaaba) a pre Muslim sonctuary adopted by Muhammad as the point towards which each Muslim shoul lern in Prayer. in every prayer hall there was a focal or kibla wall, which faced Mecca, with a central niche, the Mihrab. All Muslims shared the basic belief in Muhammad's the Mihrab. All Muslims shared the basic belief in Muhammad's message. The recognition of the all embracing power and absolute message. The recognition of all the all embracing power and abolute superiority of the one God (Allah). The creed of all Muslims reads alike there is no god but God (Allah) and Muhammad is his prohet. in all Muslims of every race and country there is the same feeling of being equal in the face of Allah on the day of Judgement. 1؎ Ernest. G. Grube. The world of Islam. Land marks of the world's Art srevices. Published Paul Hamlyn London. n. d. یہ مصنف نیو یارک کے Metropolitan Museum of Art کے شعبہ اسلامیات کے کیوریٹر ہیں۔ ’’ اسلامی فن کے عناصر میں بلا شبہ سب سے اہم عنصر مذہب ہے، چھوٹی بڑی بکثرت حکومتوں اور سلطنتوں نے اسلام کو قبول کر لیا لیکن اس کثرت کے باوصف اور اس کے باوجود ان کے نسلی فخر و مباہات اور حسد و مقابلہ کے وہ سب کے سب پہلے او رسب سے پہلے صرف مسلمان تھے نہ کہ عرب، ترک یا ایرانی وہ کسی نہ کسی حد تک عربی سے واقف تھے اسے بول سکتے، لکھ سکتے اور پڑھ سکتے تھے کہ یہ قرآن حکیم کی زبان تھی، وہ سب مسجد میں جمع ہوتے تھے۔ ایک معبد یا مذہبی عمارت جس کا ڈیزائن ڈھانچہ نہایت خفیف فرق کے ساری دنیائے اسلام کے لئے ایک تھا اور ان سب کا رخ ایک ہی سمت ہوتا۔ کعبہ جو مرکز اسلام تھا قبل اسلام کی تعمیر شدہ معبد اور جسے مسلمانوں کے پیغمبر محمد ؐ نے (اللہ کے حکم سے) ہر مسلمان کے لئے قبلہ ٹھہرایا کہ وہ اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرے، ہر مسجد میں ایک مرکزی والان یا کمرہ ہوتا جس کا رخ مکہ کی جانب ہوتا اور یہ دیوار قبلہ ہوتی جو گویا مسجد کا مرکزی نقط ہوتی۔ اور اس میں ایک مرکزی محراب ہوتی۔ دنیائے اسلام میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا (حضرت) محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیغام پر ایمان تھا اور وہ ایک قادر مطلق اور حاکم مطلق، ایک خدائے واحد کو ماننے والے تھے، سارے مسلمانوں کا کلمہ ایک ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ساری دنیائے اسلام میں چاہے کسی نسل یا ملک کا مسلمان ہو ان سب میں یہ احساس بھی مشترک ہے کہ ایک روز (جو روز قیامت ہو گا) حساب کا یسا ہو گا جب وہ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے اور سب برابر ہوں گے۔‘‘ یہ بیان نہایت اہم ہے کیونکہ نہ صرف مسلمانوں کے فن تعمیر کے بنیادی عناصر کی اس سے نشان دہی ہوتی ہے بلکہ جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے فنون آرائش و زیبائش، خطاطی ، ظروف سازی، قالین بافی غرض ان تمام تخلیقی نمونوں میں جن کو ہم آرٹ سے تعبیر کرتے ہیں اسی بنیادی جذبہ جسے مصنف نے جذبہ مذہب کہا ہے کار فرما ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ علامہ اقبال کی بہترین نظموں میں ایک نظم مسجد قرطبہ بھی ہے جو ان کی فکر و فن، ان کے احساسات اور جذبات کی مکمل ترجمان بھی ہے اور اسلامی آرٹ کے نظریہ کی تشریح و توضیح بھی اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ سرسید 1؎ احمد خاں نے اپنے خطبات میں تعمیر کعبہ اور اس کے تاریخی پس منظر کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے، اس کے بعض اقتباسات دیکھئے۔ ’’ تاریخ کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں داریں ہی دیواریں بنی تھی اور دروازہ زمین سے ملا ہوا تھا اور اس میں نہ کواڑ چڑھے تھے۔ نہ کنڈی لگی تھی اور بلا شبہ اس زمانہ کی حالت ایسی تھی کہ اس سے زیادہ تعمیر مکان میں گو وہ خدا ہی کا گھر بنایا گیا ہو اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا، اس عمارت کے ایک بیرونی گوشہ پر طواف کے شمار کرنے کو جس سے اس کی ابتداء اور انتہا معلوم ہو سکے، ایک پتھر لگا دیا جو حجر اسود کے نام سے مشہور ہے اور جس کے قیاس کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ پتھر 1؎ سرسید احمد خاں ’’ سر‘‘ خطبات الاحمدیہ فی العرب و السیرت المحمدیہ طبع نفیس اکیڈیمی، کراچی پہلا پاکستانی ایڈیشن، ۱۹۶۴ء آٹھواں خطبہ صفحہ: ۳۵۸تا ۳۹۶ غالباً اسی قسم کا پتھر ہے جیسا کہ ابراہیم ؑ خدا کی عبادت کے لئے کھڑا کر لیا کرتے تھے جس کو مذبح،ق ربانی گاہ یا سلاٹر کہتے ہیں۔ اس چار دیواری کے اندر ایک کنواں کھودا تھا جس کو خزانہ کعبہ کہتے تھے اور جو کچھ نذر و نیاز کعبہ میں آتی تھی وہ اس میں رکھ دیتے تھے تاکہ چوری سے محفوظ رہے۔‘‘ 1؎ کعبہ کی تعمیر میں قدرتی طور پر صدیوں کے انقلابات کے باعث تعمیری تبدیلیوں کا امکان ظاہر ہے۔ سرسید احمد خان نے اپنے خطبہ محولہ بالا میں ان تعمیرات کا کچھ حال بیان کیا ہے اور تاریخ کی کتابوں میں اس کی تفصیل مل سکتی ہے لیکن یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے بنیادی طور پر جو بات اہم ہے یہ ہے کہ یہ عمارت ایک مقصد کے لئے تعمیر ہوئی تھی اور یہ مقصد خدائے قادر و قدوس کے حضور بندہ کا نذرانہ عبودیت پیش کرنا تھا اور اس مقصد کے اظہار کے لئے ایک وسیع اور کشادہ عمارت کی ضرورت تھی، خانہ کعبہ میں جو توسیع ہوئی اور آج تک ہو رہی ہے اس سے تعمیر کا یہ مقصد صاف ظاہر ہے۔ آج یہ دنیا میں غالباً سب سے وسیع و عریض مذہبی عمارت ہے اور خانہ کعبہ سے ملحق بڑا صحن جس میں حجاج طواف کرتے ہیں ایک کھلا ہوا صحن ہے۔ مسلمانوں کی مساجد کے برعکس بعض مذاہب میں عبادت خانے بند، محصور اور تیرہ و تار ہوتے ہیں جہاں روشنی اور تاریکی کے امتزاج سے ایک پر اسرار فضا پیدا ہوتی ہے۔ ایسی عبادت گاہوں میں ایسی عمارتوں میں فنکاری اور صناعی کے نادر نمونے تو موجود ہیں لیکن جلال و جمال کی آمیزش مفقود ہے جو اسلامی فن تعمیر کی خصوصیت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور مغربی مصنف 2؎ کا یہ بیان د یکھئے: ’’ تعمیر کے بیشمار مختلف طریقوں کو ایک ایسے اسلوب کے سانچے میں ڈھالنا جس کی اپنی امتیازی خصوصیتیں قائم ہو جائیں، حقیقت میں دین اسلام کی برکت تھی کیونکہ عربوں نے اپنے اوائل عہد میں جو عمارتیں بنائیں وہ زیادہ تر مسجدیں اور محل تھے اور بعد کی صدیوںمیں بھی زیادہ تر اہم عمارات مثلاً مساجد، مدرسے، خانقاہیں بھی مذہبی حیثیت رکھتی تھیں، مسجد عربوں کی ایک مخصوص عمارت تھی، اگرچہ مختلف مقامات پر اس کی شکل و ہیئت میں فرق ہوتا تھا لیکن اس کے مخصوص خد و خال مشترک تھے، مکہ معظمہ کے حج میں دنیا کے تمام حصوں سے حجاج جمع ہوتے تھے اس لئے مسجد کی ایک معیاری شکل و صورت قائم ہو گئی تھی، ہر عازم حج اپنے طویل سفر کے دوران میں جس شہرمیں سے گزرتا وہاں کی مسجد میں نماز پڑھتا، ان عازمین حج میں سے بعض معمار اور کاریگر ہوتے چنانچہ وہ مسجد کے ڈیزائن کو اپنے ذہن میں جما لیتے۔‘‘ یہی مصنف آگے چل کر لکھتا ہے کہ مدینہ منورہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۶۲۲ ھ میں جو ابتدائی مسجد تعمیر 1؎ سید احمد خان سر خطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرت المحمدیہ طبع نفیس اکیڈمی، کراچی، پہلا پاکستانی اڈیشن، ۱۹۶۴ء آٹھواں خطبہ ۳۷۵ تا ۳۷۶ 2؎ مارٹن ایس برگز مقالہ فن تعمیر مشمولہ میراث اسلام مرتبہ سر تامس آرنلڈ والفریڈ گیام، مرتبہ عبدالمجید سالک مجلس ترقی ادب، لاہور، صفحہ ۲۱۹ کی وہ دوسروں کے لئے نمونے کا کام دیتی تھی۔ یہ ایک چوکور احاطہ تھا اور اس کا کچھ حصہ (غالباً شمالی) جہاں آنحضرت ؐ نماز کی امامت فرماتے مسقف تھا، چھت غالباً کھجور کی شاخوں سے پاٹی گئی تھی جن پر گارا لگا دیا گیا تھا اور ستون کھجور کے تنوں کے تھے اسی مصنف کے بقول اس قسم کی ابتدائی اور سادہ سی عمارت میں کسی تعمیری اسلوب کو کہیں سے مستعار لینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ کوئی مخصوص تعمیری خدو خال مطلوب ہی نہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مسجد ۶۳۹ھ میں کوفہ میں تعمیر کی گئی تھی جس کی چھت سنگ مر مر کے ستونوں پر کھڑی تھی اور یہ ستون حیرہ کے ایرانی بادشاہوں کے ایک محل سے لائے گئے تھے اور اس کا خاکہ بھی مربع تھا لیکن اس کے گردا گرد دیوار کی جگہ خندق کھودی گئی تھی ایک اور مسجد قاہرہ کے مقام فسطاط پر ۶۴۲ھ میں تعمیر ہوئی اس کا خاکہ بھی چوکور تھا اس میں کھلا صحن نہ تھا اور ایک نیا اضافہ کیا گیا تھا یعنی منبر بنا دیا گیا تھا چند سال بعد ایک مقصودہ (چوبی جالی) کا اس میں اضافہ کر دیا گیا۔ مینار اس کے اواخر میں آئے اور محراب کی تعمیر اس کی کچھ مدت کے بعد ہوئی گویا مسجد نبوی کی پہلی تعمیر کو ایک صدی بھی نہیں گزری تھی کہ ’’ مسجد جامع‘‘ کے سارے خد و خال نمایاں ہو چکے تھے اور آج دنیائے اسلام میں ایک سے سے دوسرے سرے تک یہ خصوصیات اور خدو خال موجود ہیں آپ کسی ایسے علاقے میں چلے جائیں جہاں اسلام اور مسلمانوں کے قدم پہنچے ہیں وہاں آپ کو چاہے اور کوئی ان کی امتازی تعمیر ملے یا نہ ملے ایک مسجد ضرور ملے گی، جس کے مینار جس کے گنبد، جس کی محراب اپنی انفرادیت اور خصوصیت کی طرف پہلی نظر میں متوجہ کر لیتی ہے۔ سادہ سے ایک چبوترہ سے مسجد قرطبہ تک مسلمانوں کے فن تعمیر کی اس اساس کے اثرات موجود ہیں، ذیل میں ہم بعض اہم مساجد کا جو مسلمانوں کے فن تعمیر کا نمونہ اور شاہکار ہیں مختصر حال لکھتے ہیں۔ ۱۔ مسجد امیہ، یہ مسجد1؎ دمشق (شام) میں واقع ہے کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر2؎ ۷۰۵ھ اور ۷۱۵ء کے درمیان ہوئی رنگین پتھروں سے مزین ہے اور یہ انداز تسلسل کے ساتھ آخر دور بنو امیہ تک قائم رہا۔ ایک روایت ہے کہ یحییٰ ؑ پیغمبر بھی یہیں مدفون ہیں راقم مقالہ نے جب میں موجود لوگوں سے اس کا پتہ پوچھا اور تصدیق چاہی تو صرف ایک جواب ملا واللہ اعلم اس مسجد کی ایک اہمیت یہ ہے کہ قدیم ترین عربی مساجد میں ہے جو اب تک بعینہ قائم اور باقی ہے۔ اب مسجد کے قریب ایک کاروباری مرکز اور با رونق بازار مسقف بھی ہے جہاں خاص طور پر دمشقی ریشم اور دیبا کے پارچہ جات فروخت ہوتے ہیں۔ ۲۔ قبتہ الصخرا، یروشلم، اسلامی تاریخ میں یہ روایت درست ہے کہ زمانہ قدیم میں بھی اس جگہ عبادت گاہ تھی۔ قبتہ الضحرا کی مینا کاری (Mosaic) مسلمانوں کے فن تعمیر میں پہلی مرتبہ اس فن کے وجود کو ظاہر کرتی ہیں ایک مغربی مصنف کے اس قول سے کہ کسی وقت قبتہ الصخرا کا مقصد کعبہ کے متبادل ایک عبادت گاہ کا قیام تھا۔ 3؎ یہ غلط فہمی نہ ہونا چاہیے کہ اس سے دور 1؎ راقم کو اس مسجد کی زیارت اور اس میں نماز ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، مسجد سے کسی قدر فاصلہ پر مشہور مسلمان فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کا سادہ اور پر وقار مقبرہ بھی ہے اسی سفر میں اس کا دیدار بھی نصیب ہوا۔ 2؎ بحوالہ Ernest G. Grube 3؎ ایضاً تصویر مقابل ص ۱۶ اسلامی کے کسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے بیت المقدس کی اہمیت مسلمانوں کے لئے مسجد اقصیٰ کی وجہ سے ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی واقعہ معراج کے سلسلے میں آیا ہے۔ پہلے مسلمان اسی سمت نماز ادا کرتے تھے تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو مسلمانوں کو کعبہ کی سمت منہ کر کے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔ ۳۔ مسجد قیروان، طونس ساتویں صدی عیسوی کی تعمیر کردہ لیکن اسے دوبارہ ۸۶۶ء میں اور پھر ۸۷۵ء اور ۹۰۲ء میں تعمیر کیا گیا۔ا سلام کے دور اول کے شان دار آثار میں شامل ہے اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا پہلا بڑا نمونہ ہے، اس کی داغ بیل میں عرب اثرات نمایاں ہیں۔ بعض ستون زمانہ قبل از اسلام کے تعمیراتی کھنڈروں سے حاصل کئے گئے ہیں، اذان کے لئے تعمیر کردہ مینار چوکور یا مربع ہے اور تین منزلوں میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے اوپر ایک گنبد ہے اور یہ اسلامی فن تعمیر کے اس پہلو کے بالکل ابتدائی نمونوں میں شامل ہے۔ ۴۔ مسجد احمد ابن طولون، قاہرہ ۸۷۶ء اور ۸۷۹ء کے درمیان ابن طولون نے تعمیر کرائی یہ طرز تعمیر ابن طولون نے عراق کی بعض عمارات کو دیکھ کر اختیار کیا، اس میں اینٹوں کی چنائی اور پلاستر ہے، دو محرابیں ہیں اس کا مینار سمارا کی مشہور مسجد کی بعینہ نقل ہے یعنی ایک چکر دار مینار ہے دو محرابوں میں سے ایک محراب سیدہ نفیسہ کے نام سے مشہور ہے درمیان میں وسیع کشاہ صحن ہے جس کے بیچ میں وضو کے لئے ایک حوض اور فوارہ ہے۔ ۵۔ جامع مسجد المتوکل سمارا۔ ۸۴۸ء اور ۸۵۲ء کے درمیان تعمیر ہوئی۔ ماہرین1؎ کا بیان ہے کہ مسلمانوں کی تعمیر کردہ مساجد میں یہ سب سے وسیع ہے۔ This is the largest mosque built by the Muslims.دور سے دیکھنے میں اس کی چہار دیواری کسی عظیم شاہی قلعہ کی فصیل معلوم ہوتی ہے۔ اس سے ملحق ایک بلند چکر دار مینار ہے، درمیان میں وسیع و عریض صحن ہے اس مسجد کے فن تعمیر میں دور امیہ ہے ایک واضح فرق تزئین و آرائش میں نظر آتا ہے۔ ۶۔ مسجد قبتہ الاسلام ، دہلی اسے قطب الدین ایبک نے ۱۱۹۳ء اور ۱۲۱۰ء کے درمیان تعمیر کرنا شروع کیا تھا اور برصغیر پاک و ہند میں اسلامی فن تعمیر کا قدیم ترین نمونہ ہے۔ قطب صاحب کی لاٹ کے نام سے جو بلند مینار ہے وہ اسی مسجد کا مینار ہے، اس کی تعمیر میں بعض پرانی عمارتوں سے حاصل شدہ سامان بھی استعمال ہوا ہے جس میں کچھ شکستہ بت اور مجسمے بھی ہیں بعض مورخوں کے بیان کے مطابق یہاں پہلے ایک جین مندر تھا، قطب الدین ایبک نے اس کی تعمیر کا جو ڈول ڈالا تھا اس سے شاید یہ دنیا کی مساجد میں ایک ممتاز مسجد ہوتی، نہایت شاندار بلند محراب دار دروازہ ہے اور اس کے ساتھ ایک پردہ کی دیوار ہے جس میں ایسے ہی چھوٹے محراب دار دروازے بنائے گئے تھے، علامہ اقبال نے اس مسجد کا خاص طور سے ذکر کیا ہے اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ 1؎ ایضاً ص ۱۹ ۷۔ مسجد قرطبہ، اس مسجد کے بارے میں ماہر ین فن کی رائے یہ ہے۔ 1؎ The umayyad mosque caedoba. founded by abd-al-Rahman I A. H. 169 (785 A.D) and enlarged various times during the subsequent three centuries. is still one of the most beautiful religious buildings of Islam. The most important enlargement was that of al-Hakam Ii in 961. he extended the prayer here.... بات دراصل یہ ہے کہ اسپین میں بنو امیہ کی جس شاخ نے اموی حکومت قائم کی اس کے دور میں قرطبہ اسلامی علوم و فنون کا ایک بہت بڑا مرکز بن گیا۔ عبدالرحمن اول نے جس کا دور ۷۵۶ اور ۷۸۸ کے درمیان ہے اس سلطنت کی بنیاد رکھی اور کم و بیش تین سو سال تک اسلامی دنیا میں تہذیب و ثقافت کا یہ سب سے بڑا مرکز تھا اور جیسا کہ مبصرین نے لکھا ہے بلاد اسلامیہ میں شاید بغداد کو ہی اس کی ہمسری کا دعویٰ ہو سکتا ہے ارنسٹ گرب کا بیان ہے۔ 2؎ Spain had been conquered by the arabs early in the 8th century, but it was not before abd-al-Rahman's coming to cordoba that the country archived signifince with in the general development of Muslim art and culture. During the three hundred years rule of the umayyads spain and cordoba became the most important cultural contre of the Muslim world revalled only by Baghdad. مشہور مسجد قرطبہ کے بارے میں یہی مصنف آگے چل کر لکھتا ہے: Althought Cordoba always remained the centre of the Umayyad realm and its real mosque. founded by abd-al-Rehamn I in 785, was constantly enlarged and enriched during the reigns of his suvvessors, a polatial city, Madinat-al-zahra was built by abd-al-Rahman III and 1؎ ایضاً، 2؎ ایضاً، ص ۴۷۔ 3؎ ایضاً enlarged by al-Hakam in the 10th century. it was during the reign of these two men that Cordoba becamd the equal of Baghdad and umayyad poxer reached its greatest height in spain and North africa. the great mosque in cordoba is to this day one of the most remarkable Monuments of Islamic architeture. Designed on the traditional Arab mosque Plan. tit Consisted originally of a large rectangular enclosure of which the larger part was an open court with a covered prayer hall on the south side. this relatively simple building was enlarged four times in the following centuries. Abd-ul- Radham III had a tall minarate added to the mosque around 950. But the most important modification of the building was that of al-Hakam who had several aisles added south of the prayer hall. During the period of al-Mansur both the court and the prayer hall were extended westwards. the Present building is the third largest mosque in existence after the two at samarra. اقبال کی مسجد قرطبہ کے عنوان سے جو نظم بال جبریل 1؎ میں شامل ہے اور جو ان کے شہکاروں میں شمار ہوتی ہے اس کے بارے میں کسی قدر تفصیل سے ہم آگے چل کر لکھنے والے ہیں۔ پہلے اس سلسلے میں علامہ کی بعض اور نظموں کا ذکر ضروری ہے جن کا تعلق ہسپانیہ اور قرطبیہ کی اس تہذیب و ثقافت اور اس کے تاریخی پس منظر سے ہے جس میں اس مسجد کی تعمیر ہوئی ایک نظم کا عنوان ہے۔ 2؎ ’’ عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت سر زمین اندلس میں‘‘ اس پر علامہ نے خود تمہید میں لکھا ہے: یہ اشعار جو عبدالرحمن اول کی تصنیف سے ہیں، تاریخ المصری میں درج ہیں مندرجہ ذیل اردو نظم ان کا آزاد ترجمہ ہے( درخت مذکور مدنیتہ الزہرا میں بویا گیا۔ میری آنکھوں کا نور ہے تو میرے دل کا سرور ہے تو 1؎ بال جبریل، غلام علی اینڈ سنز طبع بستم جنوری ۱۹۷۵ء ص ۹۳ تا ۱۰۱ 2؎ ایضاً ص ۱۰۲ اپنی وادی سے دور ہوں میں میرے لئے نخل طور ہے تو مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا صحراے عرب کی حور ہے تو پردیس میں ناصبور ہوں میں پردیس میں ناصبور ہے تو غربت کی ہوا میں بارو رہو ساقی تیرا نم سحر ہو عالم کا عجیب ہے نظارہ دامان نگہ ہے پارہ پارہ ہمت کو شناوری مبارک پیدا نہیں بحر کا کنارہ! ہے سوز دروں سے زندگانی اٹھتا نہیں خاک سے شرارہ صبح غربت میں اود چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے اصل عربی اشعار جن کا علامہ نے حوالہ دیا ہے۔ درج ذیل ہیں تبدت لنا وسطہ الرمافتح نخلتہ تنات بارض لاغرب عن یلد الخل فقلت شبلیھی می الغرب النوی و طول اکتسابی عن منبی و عن اھلی نشات بارض انت فیھا غربیتیتہ مثلک فی الاقصاء المنتائی مثلی سقتک نموادی المرف فی النشاء الذی یصح ویستمتری المساکین بالوبلی مورخین نے ان اشعار اور اس درخت کے لگانے کی جو شان نزول بیان کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالرحمن اول جسے مورخین عبدالرحمن الداخل کہتے ہیں ہسپانیہ میں بنو امیہ کی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا اپنے تینتیس سال اور چار ماہ کی مدت میں ایک مضبوط اور مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھی، اسی جذبہ کے تحت اس نے اموی خلیفہ ہشام کے محل رصافہ جو تنسرین میں تھا اس کے طرز پر قرطبہ کے پاس ہی رصافہ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا، پہلی بار اس نے اسی جگہ کھجور کا ایک درخت لگایا، رصافہ کے ایک برج میں بیٹھ کر وہ کھجوروں کے ان درختوں کو دیکھتااور دور افق پر اس کا تخیل اسے ارض الغرب سے ارض الشرق کی طرف لے جاتا اور غریب الوطنی کے اس عالم میں اس نے یہ شعر کہے۔ قرطبہ کی مشہور مسجد کا نقش اول بھی عبدالرحمن اول نے تیار کیا اور اس کے لئے محل کے قریب ایک مناسب قطعہ نہ میں منتخب یا گیا، نقشہ عبدالرحمن نے خود بنایا تھا اور بنیاد میں پہلی اینٹ بھی اسی نے رکھی تھی اور تعمیر کے دوران دیکھ بھال بھی وہ خود ہی کرتا اس کی تمنا تھی کہ یہ مسجد بھی جامع مسجد دمشق (مسجد بنو امیہ) یا بغداد کی مسجد جامع یا بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کے نمونے پر تعمیر ہو چنانچہ مسجد کا بنیادی نقشہ تو وہی تھا جو مسجد کے فن تعمیر کی اساس ہے، یعنی کھلا چوکور صحن چاروں طرف احاطہ قبلہ کی سمت رخ لیکن اسلام کے دور اول سے اس کے عہد تک صناعی اور صنعت گری میں جو ترقی ہوئی تھی عبدالرحمن اسے بھی اس مسجد کی تعمیر میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں سنگ مر مر اور دوسرے قیمتی اور خوبصورت پتھر جگہ جگہ سے فراہم کئے، چھتوں پر منقش کام کرایا، حسین ستونوں سے اس کی تزئین کی، مسجد میں اس نے انیس بلند و بالا دروازے اور اڑتیس محرابیں قائم کیں، اس کی تعمیر پر اس نے ایک لاکھ دینار سرخ سے زیادہ رقم خرچ کی، اس کے مجوزہ نقشہ میں مسجد کو ایک مرکز کی حیثیت حاصل تھی جس کے چاروں طرف مکاتب و مدارس، ہسپتال اور سرائیں شامل تھیں، وہ اس پورے منصوبے کی تکمیل زندہ نہ رہا لیکن مورخین1؎ کا بیان ہے کہ اسی مسجد میں شامیانہ لگا کر عبدالرحمن اول نے پہلا خطبہ پڑھا اور اسی مسجد میں ۱۷۱ھ یا بقول بعض ۱۷۲ھ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ عبدالرحمن اول کے عہد میں مسجد کی جو شکل و صورت تھی اس میں چار مرتبہ توسیع و اضافہ ہوا، ۹۵۰ء کے قریب عبدالرحمن ثالث2؎ نے اس میں ایک بلند و بالا مینار کا اضافہ کیا لیکن سب سے اہم اضافہ الحکم ثانی کے دور میں ہوا جس نے جنوبی سمت سات دالانوں کا اضافہ کیا، المنصور کے دور میں صحن اور دالانوں میں مغرب کی جانب اضافہ ہوا، اور اس اضافہ کے بعد یہ عالم اسلام کی تیسری بڑی مسجد ہے دو مسجدیں سمارا میں ہیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ شمالی جانب واقع صحن کے چاروں طرف محرابی چھت دار صفیں ہیں، جنوب میں وسیع دالان ہے جس میں نو دالان ہیں۔ اس کی چھت اٹھارہ دو منزلہ محرابوں پر قائم ہے، جو دیار قبلہ کے ساتھ عمودی طور پر واقع ہیں الحکم نے جو دیوار قبلہ بنائی تھی وہ تزئین، تہذیب و آرائش کے اعتبار سے فن کاری اور صناعی کا بہترین نمونہ ہے بالخصوص اس کی محراب نقش و نگا رکے اعتبار سے عدیم المثال ہے، اس کے بارے میں مبصرین فن کی رائے یہ ہے۔ 3؎ With this addition Hispano-Islaimic Art reached it highest achievement only to be matched by the Alhambra in granada three hundred yeard later. The lavish architectural design, the creation of the double and triple-arch arcades the extra-ordinary Nersality in decorating the surfaces of the arches and niches, the mihrab and the Cupola of the 1؎ ضیاء عبدالقوی، تاریخ اندلس، دور بنو امیہ، طبع ایجوکیشنل بک ڈپو۔ حیدر آباد، طبع دوم ۱۹۶۴ء ص ۱۶۳ 2؎ المعروف بہ خلیفتہ المسلمین عبدالرحمن الناصر، قصر الناصر یا مدنیتہ الزہرا 3؎ Ernest. G. Grube محولہ بالا ص ۴۷ Capella del Mihrab with stucco and mosaics, the variety of designs employed and the perfect equilibrium between the richness of detail and tranquility of total effect, is perhaps unparalled in Islamic art. The Plaster and marble decorations in the mosque which can be compared with those of the city of Madinat-al-Zahre are as decliate as lace. the flat patterns, all based on classical motif's are reduced to a brilliant, precise treacery against a dark backgroud. مسجد نبوی مساجد میں پہلا نمونہ ہے جو سادگی اور افادیت کا مجموعہ ہے، اس وقت سے مسجد قرطبہ کی تعمیر تک مسلمانوں کی مساجد کا فن تعمیر مختلف ادوار سے گزرا، اس کے بہت سے اسباب تھے، جب اسلامی سلطنت وسیع ہوئی اور عرب مسلمانوں کو مفتوحہ ممالک میں قدیم تر عمارتوں کے دیکھنے کا موقع ملا تو قدرتی طور پر ان کو بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی تعمیرات میں ویسے ہی شان و شکوہ پیدا کرنے کی کوشش کی اور تعمیر میں جو مختلف ڈیزائن تھے ان کا اثر بھی قدرتی طور پر ہوا۔ بنیادی طور پر مساجد میں کشادہ صحن مسقف دالان اور محراب کی اساس پر گنبد، محرابیں، مینار، جالیاں، کمانچے وغیرہ کا اضافہ ہوا، قیمتی پتھروں سے منبت کاری نقش نگاری اور پچی کاری کو اختیار کیا گیا زمانہ قبل از اسلام میں تعمیرات میں مجسموں اور تصویروں کو بھی آرائش میں استعمال کیا جاتا تھا۔ مسلمان مجسمہ سازی کو بت سازی اور تصویر سازی کو بھی اسی صنف میں شمار کرتے تھے لہٰذا ان کی صناعی میں قدرتی مناظر و مظاہر، پھول، درخت، پیلیں تصویروں اور مجسموں کی جگہ لے لیتی ہیں۔ دوسر اسبب یہ ہوا کہ قدیم غیر اسلامی عبادت گاہوں بالخصوص کلیساؤں میں صدیوں سے فنکاروں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو نہ صرف اپنے فنی کمالات کے اظہار کے لئے بلکہ ایک مقدس مذہبی فریضہ سمجھ کر ان تعمیرات میں صرف کیا تھا اور اس طرح یہ کمال فن کا نمونہ بھی بن گئے تھے، سادگی پسند عربوں کے ابتدائی ادوار میں جو خلفائے راشدین کا عہد تھا یہ سادگی عربوں کی بدوی زندگی کے عین مطابق بھی تھی۔ لیکن دمشق اور مغرب میں دار الخلافت منتقل ہوا تو قدرتی طور پر مقامی آثار و افکار کا رد عمل بھی ہوا، مسلمانوں کے لئے مسجد کی تعمیر محض سنت ابراہیمی کی تجدید یا محض نماز پنجگانہ ادا کرنے کے لئے ایک عمارت نہ تھی کیونکہ اس عبادت کے لئے تو جگہ کی بھی کوئی قید نہیں، مسلمان اپنے گھر میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے۔ کوہ و صحرا، دشت و دریا، کہیں ہو نماز کا وقت آ جائے تو وہیں وہ بارگاہ خداوندی میں سر بسجود ہو جاتا ہے۔ اسے نہ کسی پروہت کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کسی پنڈت یا برہمن یا پادری کی صرف سمت قبلہ منہ کر کے وہ اسی طرح اس عبادت میں شریک ہو جاتا ہے جس طرح خانہ کعبہ یا مسجد نبویؐ میں نماز ادا کرنے والا ہوتا ہے۔ لیکن ان قدیم عبادت گاہوں کو دیکھ کر مسلمانوں میں قدرتی طور پر یہ جذبہ بیدار ہوا ہو گا کہ ان کی عبادت گاہیں اپنی تمام خصوصیات اور امتیازی علامات کے ساتھ فن تعمیر کا بھی ایسا نمونہ ہوں جو ان عبادت گاہوں پر سبقت لے جائیں جو غیر مسلموں سے منسوب تھیں۔ مارٹن ایس برگز لکھتے ہیں1؎: 1؎ مقالہ فن تعمیر، مشمولہ میراث اسلام مرتبہ سر ٹامس آرنلڈ، والفریڈ گیام اردو ترجمہ عبدالمجید سالک مجلس ترقی ادب لاہور طبع اول سنہ ندارد ص ۲۲۱ و ما بعد ’’ مذکورہ عمارتوں1؎ میں سے ایک بھی ایسی نہیں جس کی ابتدائی ساخت محفوظ رہی ہو بلکہ مسلسل و متواتر تغیرات کی وجہ سے ان کے خاکے بھی بدل جاتے رہے، لیکن اصل شے بنیادی خاکہ ہی ہے کیونکہ ابتدائی مسجد محض ایک عمارت تھی فن تعمیر کا کوئی کارنامہ نہ تھا لیکن اس کے باوجود موسیو فان برسم 2۔ کا خیال یہ ہے کہ مسجد کے اس ابتدائی کو بھی مسیحیوں کے ابتدائی گرجا کی نقل سے منسوب کیا جا سکتا ہے، مثلاً صحن Atriumسے ماخوذ ہے، بڑا ’’ لیوان‘‘ اصل مسقف گرجا ہے، مقصود Chancel کی جالی سے مینار گرجا کے برج سے 3؎ اور محراب Apse سے نقل کئے گئے ہیں لیکن اس قسم کے مفروضات و تخیلات نہ ضروری ہیں نہ موزوں، جب تک عربوں نے اس مذہبی احاطے اور پناہ گاہ کو ’’ تعمیر‘‘ کی صورت نہیں دی، اس کے ماخذ و منبیٰ کا سوال ہی پیدا نہ ہوا تھا۔‘‘ موسیو فان برشم کا یہ خیال ویسا ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے کہ ہمارے دوست مستشرقین خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کے باب میں اصل ماخذ اور منبع کی تلاش کو اپنی تحقیق کا مقصد اور موضوع جانتے ہیں مسلمانوں کے عقائد ہوں یا قرآن حکیم کے قصص یا مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت کی امتیازی خصوصیات وہ کہیں نہ کہیں ان کی اصل تلاش کر لیتے ہیں اور خود بعض مسلمان جن کی تعلیم و تربیت ایسے مستشرقین کی مرہون منت ہوتی ہے وہ بھی اسی قسم کے فریب اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس بد نصیبی کا بڑا سبب یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے مصادر اور منابع، قلمی نسخے اور نایاب کتابیں ان کی دسترس سے باہر ہیں اور اس طرح کی علمی تحقیق کے لئے جس طرح عمریں وقف کر دینے کی ضرورت ہے وہ اس فرصت اور ضروری ذرائع سے محروم ہیں۔ برگز نے کرم کیا ہے کہ کم از کم اس مرحلہ پر اس نے اس قسم کے مفروضات اور تخیلات کو ’’ نہ ضروری نہ موزوں‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ مصنف آگے چل کر لکھتا ہے۔ 4؎ کہ ’’ مدینہ میں پہلی مسجد تعمیر ہونے کے اسی یا نوے سال کے اندر اندر ’’ مسجد جامع‘‘ کے تمام ضروری خد و خال مہیا ہو گئے ایک معمولی اضافہ ’’ لیوانات‘‘ کا تھا (یہ لیوان کی جمع ہے اور لیوان (الایوان کا بگاڑ ہے) یہ صحن کے گردا گرد ڈاٹ دار رداقیں تھیں اور پناہ گزینی اور وضو کی سہولتوں کے لئے بنائی گئی تھیں، یہ مختصر فہرست ان تمام ضروریات پر حاوی ہے جن ک اانتظام ہر زمانے کی مسجد میں کیا گیا ہے۔‘‘ مساجد کے سلسلے میں اسلامی فن تعمیر نے ’’ محض ضرورت‘‘ اور’’ شان و وقار‘‘ کے درمیانی فاصلے کو بہت جلد طے کر لیا۔ یہی مصنف بیان کرتا ہے 5؎ ’’ یہ حیرت انگیز امر ہے کہ تعمیر معاملے میں ’’ محض ضرورت‘‘ اور’’ شان و وقار‘‘ کے درمیان عبوری دور بہت مختصر رہا، اور 1؎ مراد مسجد نبوی مدینہ، سنہ تعمیر ۶۲۲ء اور عراق میں کوفہ کی مسجد تعمیر ۶۳۹ مسجد بہ مقام فسطاط قاہرہ ۶۴۲ء 2؎ بہ حوالہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، مقالہ فن تعمیر 3؎ اب یہ نظریہ ترک کر دیا گیا ہے۔ 4؎ محولہ بالا ص ۲۲5؎ ایضاً م ۶۲۲ مسلمانوں نے بڑی سرعت سے اس دور کو طے کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صرف بیس سال کے اندر خود مسجد نبوی کی دوبارہ تعمیر ہوئی جس میں آراستہ پتھر کی دیواریں اور پیلپائے نصب کئے گئے اور ساتویں صدی کے آخری سالوں میں اس ان گھڑا؟ سی مسجد کے قریب جو حضرت عمرؓ نے فتح یروشلم ۶۳۶ء کے بعد تعمیر کی تھی قبتہ الصخرہ کی عظیم الشان عمارت بنائی گئی جو اپنی جسامت اور نوعیت کے اعتبار سے مرعوب کن تھی اور جس کی تزئین و آراستگی بھی بے نظیر تھی۔ یہاں سے ہمیں اس شدید بحث و نزاع کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے جو مسلم فن تعمیر کے ماخذوں کے متعلق اب تک جاری ہے۔ قبتہ الصخرہ ایک مکمل سنگین عمارت تھی اور اس کی حیثیت ’’ مشہد‘‘ جس میں ائرین صخرہ کا طواف کرتے تھے یہ وہ مقام تھا جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں آسمانوں پر گئے تھے مزید برآں یہ عمارت مدت تک لاثانی رہی اور دوسرے مقامات پر کم از کم چار صدیوں تک اس امر کی کوشش نہ کی گئی کہ مسجد کے ابتدائی خاکے یعنی مربع ایوان اور کھلے صحن سے کوئی انحراف کیا جائے لہٰذا بعض حلقوں میں یہ فرض کر لیا گیا (اور نہایت بیجا طور پر) کہ قبتہ الصخرہ محض رومی یا بزنطینی نمونے کی عمارت ہے۔ اس میں قدیم بت پرستوں یا مسیحیوں کی تعمیرات کی نقالی کی گئی ہے۔ اس کو شروع سے لے کر آخر تک مسیحی معماروں اور کاریگروں نے بنایا ہے۔ لہٰذا یہ ایک کاملاً غیر ملکی تعمیر ہے اور عرب فن تعمیر کے تسلسل سے بالکل باہر واقع ہوئی ہے۔ اس دعوے میں کسی قدر صداقت بھی ہے اور بظاہر بھی یہ معقول معلوم ہوتا ہے لیکن اس کو زیادہ آگے بڑھانا موزوں مناسب نہ ہو گا۔‘‘ ہمارے اس مصنف کا بیان نہایت احتیاط سے منتخب کئے ہوئے الفاظ پر مشتمل ہے اور بظاہر اس سے اسلامی فن تعمیر سے ہمدردی کا پہلو نکلتا ہے لیکن فاضل مصنف یہ بات بھول جاتا ہے کہ اسلام کے اس ابتدائی دور میں جس میں بڑا زور عرب کے دور جہالت کی رسموں، رواج، عادات و اطوار اخلاق و معاشرت کے خلاف زبردست رد عمل پایا جاتا ہے اور یوں بھی قوموں کی زندگی کے اس دور میں جو ان کی قوت کے اجتماع اور اظہار کا پہلا دور ہوتا ہے اور پوری قوم ’’ فتوحات‘‘ کے دور سے گزرتی ہوئی ہے مغلوب اور غلام قوم یا قوموں کی ’’ تقلید‘‘ یا ’’ نقالی‘‘ کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کا موقع ہوتا ہے۔ تقلید اور نقالی تو ہمیشہ دور زوال کی پیداوار ہوتی ہے اور اسلام کے اس دور کو جس میں قبتہ الصخرہ تعمیر ہوا کون دور زوال و انحطاط کہہ سکتا ہے۔ یہ زمانہ تو اسلام کی فتوحات کا تھا۔ خلفائے راشدین کا عہد ۶۳۲ء اور ۶۶۱ء کے درمیان کوئی تیس سال کا مختصر عرصہ ہے لیکن اسی میں اسلامی سلطنت سر زمین عرب سے بڑھ کر شام، عراق، ایران اور افغانستان تک پھیل چکی تھی بلکہ مسلمانوں کے پہلے قدم برصغیر پاک و ہند تک پہنچ چکے تھے۔ قبتہ الصخرہ کی تعمیر خلیفہ عبدالمالک (اموی) نے ۶۹۱ء میں کی گویا رسول اکرم ؐ کی وفات کے صرف ساٹھ سال اور آخر دور خلافت راشدہ کے صرف تیس سال بعد اس لئے یہاں یا کسی اور مسجد یا مسجد سے متعلق کسی عمارت میں محض غیر مسلم کاریگروں کی صناعی یا غیر مسلم یا قبل از اسلام کی تعمیر شدہ عمارتوں کا دخل صرف ایک حد تک ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے فن تعمیر کے ماہرین جانتے ہیں کہ کسی عمارت کا بنیادی نقشہ اس عمارت کے استعمال کے مقصد سے متعین ہوتا ہے اور اس کے بعد تزئین و زیبائش بلکہ خود تعمیر کا دار و مدار مقامی طور پر دستیاب ہونے والے تعمیراتی ساز و سامان اور مقامی کاریگروں پر ہوتا ہے اس سلسلے میں ایک اور بیان دیکھئے: ’’ جن پہلی مسجدوں کو فی الحقیقت ’’ تعمیرات‘‘ سے موسوم کیا جا سکتا ہے وہ بصرے (۴۵ھ /۶۶۵ئ) اور کرنے (۵۰ھ/ ۲۶۷۰) کی دوسری مسجدیں تھیں، آخر الذکر کے متعلق الطیری (۲۴۹۲۱۱) لکھتا ہے کہ زیاد ابن ابیہ نے ’’ ایام جاہلیت کے معماروں‘‘ (یعنی غیر مسلموں) کو طلب کیا۔ اس موقع پر ایک شخص جو خسرو کے معماروں میں تھا سامنے آیا اور اس نے بتایا کہ تیس ہاتھ اونچی چھت کو اٹھانے کے لئے جبل اہواز کے پتھروں کے ستون کلام میں لانے چاہئیں، ابن جبیر (طبع و نویہ ص ۲۱۱) جس نے یہ مسجد دیکھی تھی لکھتا ہے‘‘ قبلے کی سمت میں تو پانچ بغل دالان ہیں اور دوسری اطراف میں صرف دو دو ہیں ان کی چھتیں مستولوں کی طرح سیدھے ستونوں پر قائم ہیں، یہ نہایت بلند ہیں اور ان کے اوپر محرابیں نہیں (شکل ۱) ظاہر ہے چھتوں کا یہ طریقہ پدرانہ یعنی ہخامنشی بادشاہوں کے ستون اور ایوانوں سے مشابہ اور بالکل بغداد کی پہلی جامع مسجد کے مانند تھا۔ 1؎ یہاں سے گویا وہ دور شروع ہو جاتا ہے جس میں تعمیر مسجد محض ایک ضرورت کے لئے سادہ عمارت سے نکل کر اسلام کے غلبہ اور عظمت کا ایک نشان بن کر فن تعمیر کے ایک اعلیٰ معیار تک جا پہنچتی ہے۔ ظاہر ہے محض مسجد کے لئے تزئین و آرائش زیب و زینت اور مرصع کاری کی ضرورت نہیں لیکن اسلام کے غلبہ اور عظمت کے نشان کے طور پر اسے دیگر مذاہب کے معاہدے کمتر درجہ پر رکھنا کس طرح ممکن تھا چنانچہ یہی جذبہ ’’ سادگی‘‘ سے ’’ مرصع کاری‘‘ کی طرف میلان میں کار فرما تھا، اور اس کا اندازہ مختلف ادوار میں مساجد عالم کا جائزہ لینے سے ہو سکتا ہے۔ اس سادہ مسجد نبوی کی جگہ جس کی تعمیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاک ہاتھوں اور صحابہ کرام کی مدد سے کی تھی آج ایک وسیع و عریض مسجد ہے۔ اس میں قبتہ الصخرہ یا مسجد قرطبہ کی سی زیبائش و آرائش نہیں لیکن اس کی پر شکوہ وسعت، اس کے بلند ستون، اس کے وسیع و عریض دالان، محرابیں اور اس کا مرکز وہ سبز گنبد جس کی زیارت کی تمنا میں عربی اردو اور فارسی شعر و ادب میں نعت گو شعراء کا کلام دلوں کو گرماتا ہے معاہد عالم میں ایک انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔ ظاہر ہے یہاں پہنچنے والا جسے فی الحقیقت حضوری حاصل ہو مسجد کے ظاہری نقش اور اس کی گلکاری پر نظر نہیں رکھے گا۔ اس کا ذہن اس حضوری اور قرب میں اسے عہد رسالت میں لے جائے گا جب یہ خطہ ارض رشد و ہدایت کا مرکز نور بنا اور رسول کریم ؐ اور ان کے جاں نثار رفیقوں نے دنیا کو ایک نئی زندگی، نئی تہذیب اور نئے تصورات سے آشنا کرایا۔ حسن اور بڑائی کا ایک نیا معیار قائم کیا اور فن تعمیر کی حد تک اس نظریہ کو قبول کیا کہ فن کو دین سے بیگانہ نہیں رکھا جا سکتا۔ علامہ اقبال کے نزدیک یہی ورثہ ہے جو مسلمانوں کو دین اور فن کے تعلق سے نصیب ہوا ہے۔ ایک موقع پر فرماتے ہیں: سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ 1؎ از ادارہ المعارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی جلد ۱۵، کراسہ ۱۲ تا ۱۴ فن تعمیر، دسمبر ۱۹۷۴ء فروری ۱۹۷۵ء ص ۶۸۰ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا افسون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ ’’ دین و فن‘‘ کے اس رشتے کی خشت اول مسجد ہے کیونکہ ارکان دین میں نماز ایک ایسا رکن ہے جس کی اہمیت پر لکھنے یا کہنے کی ضرورت نہیں، نماز کے لئے قرآن حکیم میں صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی کسی شے کی طرف رخ کرنا، مائل ہونا بڑھنا اور قریب ہونا ہے۔ قرآنی اصطلاح میں صلوٰۃ کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا اور اس سے قرب و حضوری حاصل کرنا ہے، علماء لکھتے ہیں کہ نماز توحید کا لازمی مظہر اور ایمان اس کی دائمی علامت ہے۔ 2؎ اعتقاد کے پہلو سے اگر توحید پورے دین کا سرچشمہ ہے تو عمل کے پہلو سے نماز پورے دین کی عملی بنیاد ہے۔ قرآن حکیم میں جا بجا اس کی تاکید ہے۔ ارشاد ہوا ہے۔ ’’ پس تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو، جمے رہو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے خدا کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی یہی سیدھا سچا دین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے، اسی خدا کی طرف رجوع کئے رہو اور ڈرتے رہو اس سے اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘ (الروم ۲۰۔ ۳۱) اور سورہ طہٰ (۱۴) میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم میری بندگی کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔‘‘ اور سورہ البقر (۲) میں ہے: ’’ ہدایت ہے ان متقیوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘ جس طرح نماز دائرہ اسلام میں داخلہ کا ثبوت اور مسلمانوں کی عبادت کا مخصوص طریقہ ہے اسی طرح مسجد اس عبادت کو ادا کرنے کا ایک مرکز ہے، ویسے تو اللہ تعالیٰ نے اس ساری سر زمین کو مومن کے لئے پاک کر دیا ہے اور وہ کہیں بھی ہو قبلہ کی سمت رخ کر کے نماز ادا کر سکتا ہے لیکن نماز کے معاشرتی اور تہذیبی فوائد میں جماعت کا تصور مسجد کے قیام کا ایک اور محرک ہے، مسجد سے جب اذان کی صدا کانوں میں پہنچتی ہے تو لوگ اس فریضہ کو ادا کرنے کے لئے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ اور جو ایسا نہیں کرتے ان کا حشر قرآن حکیم میں یوں بیان ہوا ہے۔ 3؎: ’’ جس دن ہلچل مچی ہو گی اور یہ لوگ سجدہ ریز ہونے کے لئے ہلائے جائیں گے تو یہ سجدہ نہ کر سکیں گے، ان کی 1؎ دور زوال و نکبت، ذلت اور رسوائی کا یہ کرشمہ دیکھئے کہ یہی لفظ صلواتیں سنانا، گالی دینا کے معنوں میں استعمال ہونے لگا، اسی طرح خلیفہ بہ معنی حجام 2؎ قرآنی تعلیمات محمد یوسف اصلاحی، اسلامک پبلی کیشنز لاہور طبع اول ۱۱۶۸ ء ص ۲۴۳ و بعد 3؎ ایضاً، ص ۲۶۱ آنکھیں جھکی ہوئی وہں گی اور صورتوں پر ذلت چھا رہی ہو گی، یہ وہی لوگ ہیں کہ جب انہیں سجدہ کرنے کے لئے بلایا جاتا تھا تو یہ اچھے خاصے صحیح سالم تھے مگر سجدہ نہ کرتے تھے۔‘‘ (سورہ القلم ۴۲۔۔۔۔ ۴۳) مسجد بنا کر نماز باجماعت ادا کرنے کے سلسلے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے۔ ’’ اور ہم نے موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی کو تاکید کی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے کچھ مکانات مہیا رکو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرا لو، اور نماز قائم کرو۔۔۔۔‘‘ علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ ہے کہ انہوں نے ا س دینی ورثہ کو نظر انداز کر دیا۔ جاوید نامہ میں یہ رقت انگیز نوخہ دیکھئے۔ 1؎ مومن و پیش کساں بستن نطاق مومن و غداری و فقر و نفاق با پیشزے دین و ملت را فروخت ہم متاع خانہ وہم خانہ سوخت لا الٰہ اندر نمازش بود و نیست نازہا اندر نیازش بود و نیست نور در صوم و صلوٰت او نماند جلوۂ در کائنات او نماند آنکہ بود اللہ او را ساز و برگ فتنہ او حب ماں و ترس مرگ رفت از دآں مستی رزوق و سرور دین او اندر کتاب و او بگور صحبتش ہا عصر حاضر در گرفت حرف دیں را از دو پیغمبر گرفت آں زایراں بود ر ایں مہنہ ری نژاد آں ز حج بیگانہ و ایں از جہاد تا جہاد و حج نماند از واجبات رفت جاں از پیکر صوم و صلوٰت روح چوں رفت از صلوٰت و از صیام فرد نا ہموار و ملت بے نظام سینہ ہا از گرمی قرآں تہی از چنیں مرداں چہ امید بہی از خودی مرد مسلماں در گزشت اے خضر دستے کہ آب از سر گزشت سجدۂ کزدے زمیں لرزیدہ است بر مرا دش مہر و مہ گر دیدہ است سنگ اگر گیرر نشان آں سجود در ہو آشفتہ کردد ہم چو دود ایں زماں جنہ سر بزیری ہیچ نیست اندر و جز ضعف پیری ہیچ نیست آں شکوہ ربی الاعلیٰ کجاست ایں گناہ اوست یا تفسیر ماست 1؎ جاوید نامہ طابع غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع ششم ستمبر ۱۹۷۴ء ص ۲۰۰ صاحب قرآن ونے ذوق طلب العجب ثم العجب ثم العجب یہ بات ہم نے کسی قدر تفصیل سے اس لئے لکھی کہ کلچر اور ثقافت کے نام پر ہم نے بہت سے ادارے کھول رکھے ہیں جو فن کے نام پر سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے فن اور دین کے رشتے کی عظمت اور اہمیت کو نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ ادارے اقبال کا نام بھی بیچتے ہیں اور اس سال کہ سال صد سالہ تقریبات ولادت اقبال ہے شاید اس کا اشتہار اور اعلان کچھ اور ہو جائے لیکن یہی لوگ اس ورثہ سے انکار کرتے ہیں جو اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کا ورثہ ہے، یہ مجسموں اور بتوں کو اپنا تہذیبی ورثہ بتاتے ہیں اور رقص و سرود کو ثقافت کا نام دیتے ہیں وہ تو کہتے کہ خیر گزری کہ ہماری مصوری تجریدی آرٹ اور ’’ عریاں حقیقت‘‘ کے اخبار کے بھنور سے نکل کر اب اس فن کو خطاطی اور خاص طور پر آیات قرآنی کی خطاطی پر صرف کر رہی ہے یہ ایک الگ موضوع ہے یہاں تعمیر کے سلسلے میں مساجد کے باب میں علامہ کے بعض خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ علامہ نے خاص طور پر تین مساجد کا ذکر کیا ہے۔ ایک دہلی کی مسجد قوت الاسلام، ایک لاہور کی شاہی مسجد اور ایک مسجد قرطبہ مسجد قوت الاسلام کے بارے میں اردو دائرۃ المعارف اسلامی 1؎ میں یہ بیان ملتا ہے: ’’ دہلی کی پلی یادگار جماعت لال کوٹ کی مسجد قوت الاسلام ۱۱۹۴ء میں شروع کی گئی تھی، اس غرض سے ایک سابق جین مندر کے صحن میں توسیع کی گئی اور دیگر ہندو معاہد کے مسالے سے کام لے کر سلجوقی طرز کی روکار کا اضافہ کیا گیا یہاں آیات قرآنی کی تہ زمین کے طور پر خالص ہندوانہ طرز کی گلکاری نظر آتی ہے۔ اس کے پاس ہی ایک بہت بڑے مینار اور برج کی تعمیر ۱۱۹۹ء میں شروع ہوئی۔ یہ شہرہ آفاق قطب معیار تھا جو سلجوقی مقابر کے میناروں کی طرح چار منزلوں پر مشتمل ہے، منزلیں ایک دوسری پر قائم کی گئی ہیں اور ہر ایک کی شکل کا دوم خیمہ نما اور ناب دار ہے سرے کے جھروکے دور تک آگے کو نکلے ہوئے ہیں جو خوشنما ’’ مقرنسوں‘‘ یا طاقچوں پر قائم ہیں ان پر قرآنی کتبات کے دیدہ زیب حاشیے، اسلامی طرز کی گلکاری اور ہندی طرز کی زیبائش ہے۔ (جم یعنی سلطنت غوریہ کے صدر مقام فیروز کوہ) میں جو افغانستان کے اندرونی علاقے میں واقع ہے۔ ایک بہت بڑا اور خوب صورت مینار دریافت ہوا ہے جسے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قطب مینار کا پیشترو اور نمونہ اول ہے (دیکھئے بذیل فن تعمیر ایران میں)‘‘ ارنسٹ جی گردیے 2؎ Kuwwat-al-Islam Mosque Delhi India, built by Kutab-al-din Aibal in his fortress of Lalkot near Delhi 1193-1210 The mosque is the earliest surving monument of Islamic architecture in India. 1؎ اردا دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱۵، ص ۸۱۷۔ 2؎ The world of Islam محولہ بالا ص ۵۸ In its combination of Local, pre-Muslim traditions and imported architectural forms, it is typical of the earlist period of Islamic architecure in india. the mosque is built on the ruins of a jani tample, in front of which a screen wall with a large central painted archway and smaller, lateral arches was built. the decoration is mainly carved low relief. یہ بات قابل غور ہے کہ قطب الدین ایبک نے اپنے لئے کوئی محل تعمیر نہیں کیا نہ لال کوٹ کا قلعہ آج باقی ہے۔ نہ اس نے تاج محل جیسی عمارت یادگار چھوڑی، نہ دیوان خاص اور دیوان عام تعمیر کرائے، نہ شیش محل اور موتی محل۔ اس کی یادگار یہی مسجد قوت الاسلام ہے جس کی عظمت اور ہیبت کا اندازہ اس سے لگا ہے کہ علامہ اقبال بیان کرتے ہیں کہ اس مسجد میں نماز ادا کرنے کا انہیں حوصلہ نہ ہوا اور یہ اس لئے کہ اس کی عظمت اور ہیبت نے ان کو مسحور کر دیا۔ اس راز کو علامہ اقبال نے اندلس میں اسلامی یادگاروں کے سلسلے میں یوں بیان کیا ہے۔ ’’ مجھے وہاں کی تین عمارتوں میں ایک خاص فرق نظر آیا، قصر زہرا دیوؤں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے، مسجد قرطبہ مہذب دیوؤں کا مگر الحمراء محض مہذب انسانوں کا۔۔۔‘‘ علامہ اقبالؒ کا مسجد قرطبہ کو مہذب دیوؤں کا کارنامہ بتانے میں ایک گہرے معانی مضمر ہیں، مہذب دیو کا تصور دی ہے جو اقبال کے نزدیک مرد مومن اور انسان کامل کا ہے کہ وہ جلال اور جمال کا مجموعہ ہوتا ہے وہ سیل تندرو بھی ہوتا ہے اور ہونے نغمہ خوان بھی وہ تلوار کی طرح تیز بھی ہوتا ہے اور ریشم کی طرح نرم و نازک بھی دیو اور مہذب کی ترکیب سے یہی تصور پیدا کرنا مقصود ہے۔ تصر زہرا میں صرف جلال اور شان و شکوہ ہے۔ الحمراء میں حسن و نزاکت، فنکارانہ صناعی لیکن مسجد قرطبہ بقول اقبال جلیل بھی ہے اور جمیل بھی بقول علامہ تیرا جلال و جمال، مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل قصر1؎ الزاہر یا مدینتہ الزہرا کی تعمیر عبدالرحمن ثالث نے کی جو الناصر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور جس کا دور ۳۰۰ھ سے ۳۵۰ھ تک کا ہے (وفات ۳ رمضان المبارک ۳۵۰ھ مطابق ۱۶ اکتوبر ۱۶۱ئ) اس کی تعمیر کا آغاز ۳۲۵ھ میں ہوا اور اسے قرطبہ سے چار میل کے فاصلے پر جبل العروس کے سامنے تعمیر کیا گیا، مورخین نے لکھا ہے کہ اس کا طول شرقاً غرباً دو ہزار سات سو ذراع تھا۔ 2؎ اور رقبہ نوے لاکھ نوے ہزار ذراع تھا، اسی بناء پر اس کو قصر الزہرا کی بجائے مدینتہ الزہرا یعنی شہر زہرا کہتے تھے، اس 1؎ بحوالہ تاریخ اندلس، عبدالقوی محولہ بالا ص ۴۳ و بعد 2؎ ذراع پیمانہ ایک ہاتھ کے طول کے برابر غیاث اللغات میں لکھا ہے: ’’ ذراع بکسر اول و عین مہملہ بمعنی بازوو ارش وست یعنی از آرنج تا انگشتان و در حیوانات از پارچہ بالا تر ذراع گریندو گز کہ بآں چیز ہا را پیمانند‘‘ میں محل شاہی کے علاوہ شہزادوں اور شاہی خاندان کے دیگر افراد کے محلات و مکانات بھی تھے، خاص رسالہ شاہی، سرکاری ملازمین، پہرہ داروں اور سپاہیوں کے لئے بھی مکانات تھے اور فوج کا ایک حصہ بھی اسی میں مقیم تھا اس کے چاروں طرف کی حد بندی کی دیواروں میں پندہ ہزار دروازے بلند و بالا نصب تھے، سبزہ زاروں اور باغات کی بھی جگہ تھی ایک اور مورخ (ابن حیان) کے بیان کے مطابق قصر الزہرا کی لمبائی چار میل اور چوڑائی ۳ میل تھی اور اس کی تعمیر میں ۲۵ سال کا عرصہ صرف ہوا تھا اور دوران تعمیر دس ہزار مزدور اور معمار چار ہزار اونٹ اور خچر بار برداری کے لئے کام کیا کرتے تھے قصر میں چار ہزار تین سو سولہ برج اور ستون تھے جو مختلف رنگ اور قسم کے پتھروں سے جڑ کر بنائے گئے تھے۔ اس کا ایک حصہ قصر الخلفا یا قبہ کہلاتا تھا جس کی چھت سونے کی تھی، کہا جاتا ہے کہ اس قصر میں ایک فوارہ ایسا تھا جو طشت نما تھا اور پارے سے بھرا رہتا تھا اگر پارہ ہل جاتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ سارا محل جنبش میں ہے۔ الزہرا کی تعمیر میں مسجد بھی شامل تھی، مسجد کی بنیادوں کا طول قبلہ سے مصود رہ تک ۳۰ ذراع تھا اور درمیان کی غلام گردش ۱۳ ذراع تھی، چاروں طرف غلام گردشیں یا دیوان الگ تھے جن میں سے ہر ایک کا عرض ۱۲ ذراع تھا، درمیان میں جو صحن کشادہ تھا اس کا طول قبلہ سے لے کر جوف تک ۴۳ ذرا ع تھا اور شرقاً غرباً ۴۱ وزاع، مسجد کا فرش سرخ سنگ کا تھا، مسجد کا منبر ۲۳ شعبان ۳۱۹ھ کو مکمل ہوا اگر یہ تاریخ درست ہے تو گویا مسجد کی تعمیر قصر سے پہلے ہوئی مسجد تیار ہوئی تو الناصر نے مقصورہ میں جا کر دو رکعت نماز پڑھی اور واپس ہو گئے اور مسجد میں پہلی جماعت قاضی ابو عبداللہ محمد بن ابی عیسیٰ نے پڑھائی دوسرے روز الناصر نے نماز جمعہ پڑھائی۔ سطور بالا میں الزہرا قصر الزہرا یا مدینتہ الزہرا کے بارے میں بڑے اختصار سے جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے ہی اس کی عظمت اور جاہ و جلا ل کا اندازہ ہو جاتا ہے عرب مورخین نے اس کی بہت کچھ تفصیل لکھی ہے یہ بات کوئی تعجب کی نہیں کہ علامہ نے اسے دیوؤں کا کارنامہ بتایا ہے اسپانیہ میں مسلمانوں کے زوال اور ان کے آثار کی بربادی پر بڑے اثر انگیز مراثی لکھے ہیں، جزیرہ صقلیہ (سسلی) کے عنوان سے علامہ اقبال نے اس جزیرہ کی جسے وہ تہذیب حجازی کا مزار کہتے ہیں غرناطہ کی سلطنت کی تباہی کا بھی ذکر کیا ہے۔ نارکش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی1؎ ایک عرب شاعر نے مدینتہ الزہرا کے کھنڈرات کو دیکھ کر چند اشعار ہے ان کا ترجمہ یہ ہے 1؎ ابن بدروں کا حوالہ یہاں درست نہیں بجٹ کیلئے دیکھئے ڈاکٹر اختر امام کا مضمون اس عنوان پر مشمولہ علی گڑھ میگزین ۱۹۳۷ء ۱۔ بہت سارے مکان جن کے کھنڈرات کھیل کے میدانوں کے کنارے چمک رہے ہیں اور وہ ویران ہیں اور ان میں کوئی بھی رہنے والا نہیں ہے۔ ۲ ۔ ان پر ہر طرف پرندے نوحہ خوانی کر رہے ہیں اور پرندے کبھی خاموش ہو جاتے ہیں اور کبھی اپنے نوحوں کو دہراتے ہیں۔ ۳۔ میں نے ان میں سے ایک نوحہ خواں پرندے سے خطاب کیا جس کا دل درد سے بھرا تھا۔ ۴۔ میں نے اس سے کہا تو کس چیز کو رو رہا ہے اور تجھے کیا شکایت ہے، اس نے کہا میں اس زمانے کو رو رہا ہوں جو گزر گیا اور واپس نہیں آتا۔ یہ اشعار ابن عربی کے ہیں۔ 1؎ اس عمارت کی ویرانی بقول مورخیں منگل ۲۶ جمادی الآخر ۳۹۹ ھ کی دوپہر سے لے کر بدھ تک قرطبہ کی بربریوں کی فتح سے ہوئی اور الزہرا کو منہدم کر دیا گیا، بلاشبہ فن تعمیر کے نقطہ نظر سے یہ ’’ معجزہ ہنر‘‘ تھا لیکن یہ کیوں ’’ آنی و فانی‘‘ ثابت ہوا۔ علامہ اقبال کی زبان سے اس کا سبب نئے آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام یہ داستان صرف قصر زہرا یا مدینتہ الزہرا کی ہی نہیں۔ پردہ داری می کند برقصر کسریٰ عنکبوت بوم نوبت می زند بر گنبد افراسیاب بابل اور نینوا کے کھنڈرات ہوں، مصر کے اہرام یا موہنجودارو اور ہڑپہ کے قدیم شہر ان کے زوال اور فنا کا راز یہی ہے کہ ان کی بناء ایسا عمل نہ تھا جو عشق سے صاحب فروغ ہوتا۔ اگلے اشعار میں جو مسجد قرطبہ سے متعلق ہیں علامہ فرماتے ہیں: مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانہ کی رو عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہمارے یہاں عشق کے ساتھ بیچارگی، مجبوری، پس ماندگی، محرومی، ناکامی کے تصورات وابستہ ہیں، علامہ کے بقول: عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام سیل زمانہ کسی کے رو کے رکتا نہیں، بڑے بڑے صاحب جاہ و حشم، سرداران لشکر صاحب تحت و تاج، لشکر و سپاہ، خیمہ و خرگاہ 1؎ ایک بزرگ ابن العربی تھے جن کا انتقال بغداد میں ۴۳۱ھ میں ہوا۔ مشہور محی الدین ابو عبداللہ بن محمد الازلسی وحدت الوجود کے نمائندہ علمبردار فلسفی فصوص الحکم کے مصنف تھے، ان کاانتقال ۶۳۸ ھ میں ہوا۔ بڑے صاحب تدبیر، بڑے دانا اور زیرک جب تک زندہ رہے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کا یہ دبدبہ یہ شان و شوکت یہ کرد فردائمہ اور پائندہ ہے لیکن آنکھ بند ہوتے ہی یہ سارا عمل ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد کمزور اور نا پائیدار ہوتی ہے، اس کا تعلق صرف عصر رواں سے ہوتا ہے اور عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام وجہ یہ ہے کہ ہم ’’ عصر روان‘‘ کا ادراک اپنے حواس ظاہری سے کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں اور اسی کی نسبت سے ہم زمانہ پر حال ماضی اور مستقبل کا اطلاق کرتے ہیں، حالانکہ اس وقت تک حال ماضی ہو چکا ہے اور ادراک میں آنے تک مستقبل حال سے گزر کر ماضی بن چکا ہوتا ہے اس لئے حقیقت میں نہ ماضی ہے نہ مستقبل، نہ حال، علامہ نے مسجد قرطبہ کے آغاز میں زمانہ کی ایسی کیفیت کو یوں ظاہر کیا ہے۔ تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات اور اس سلسلہ روز و شب میں جو کچھ پیش آتا ہے وہ کیا ہے۔ سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات ایک او رموقع پر ارشاد فرمایا ہے: ’’ میں اپنے شب و روز اور ماہ و سال کی قدر و قیمت ان تجربات کے لحاظ سے جانچتا ہوں جو وہ مجھے بخشتے ہیں اور بعض اوقات میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ ایک آن واحد پورے ایک سال سے زیادہ گراں قدر ہے۔ 1؎‘‘ ایسے ہی لمحات میں اس فن کی تخلیق ہوتی ہے جو نقش دوام بن کر جریدہ عالم پر ثبت ہو جاتا ہے۔ ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام اور چونکہ مدینتہ الزہرا یا قصر زہرا ایسے لمحے کی تخلیق نہ تھی اس لئے اسے رنگ ثبات دوام نصیب نہ ہوا۔ الحمراء کو علامہ اقبال نے مہذب انسانوں کا کارنامہ بنایا ہے یعنی حسن و صناعی میں اسے ایک اعلیٰ تہذیبی علامت قرار دیا ہے لیکن وہ اس جلال و عظمت سے محروم ہے جو مسجد قرطبہ کو نصیب ہے، الحمراء کے سلسلے میں ارنسٹ جے گردبے 2؎ کا بیان ہے۔ The lion court of the Alhambre Palace, Granada. Spain. 14th century. The Alhambra Palace, buily by the nasirid kings of spain. is one of the most remarkable creations of Islamic architecture the lion court, in the centre of the Harim area, named after its fountain 1؎ شذرات فکر اقبال، مرتبہ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال، مترجمہ افتخار احمد صدیقی مجلس ترقی ادب لاہور ، ۱۹۷۳ء ص ۱۶۰ 2؎ The word of Islam محولہ بالا ص ۸۴ Supported by stone figures lions, is surrounded by areades resting on alternating single and double columns of extraordinary elegance and lightness the lion fountain has been said to be of earlier date. forming part of a 12 th century construction on the same site. but it is now generally accepted that it is contemparay with the Nadrid Palace. free standing stone Sculpture in the roung is unusal in Islamic art. قصر الحمراء کے متعلق مغربی اور مشرقی مصنفین نے اس قدر لکھا ہے کہ اس کا سرسری حوالہ بھی اس مقالہ کو طویل بنا دے گا۔ 1؎ اس سے حصہ مرتفع کی لمبائی دو ہزار چار سو تیس فٹ 2؎ اور چوڑائی چھ سو چوہتر فٹ ہے اور تقریباً ۳۵ ایکڑ کے رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر ۱۲۳۸ء اور ۱۳۵۸ء کے درمیان مختلف حکمرانوں کے عہد میں ہوئی اندرونی تزئین و آرائش یوسف اول سے منسوب ہے جس کی وفات ۱۳۵۴ء میں ہوئی۔ ۱۴۹۲ء میں اندلس سے مسلمانوں کے اخراج کے بعد اس کی ویرانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس داستان کو جستہ جستہ سید علی بلگرامی کی زبان سے سنئے3؎ـ: ’’ عربوں کی عمارات غرناطہ میں قصر الحمراء میں جسے عرب قلعتہ الحمرا کہتے ہیں اور جس کی تعمیر چودھویں صدی عیسوی میں ہوئی اندلس کے عربی طرز تعمیر کے اعلیٰ درجہ کا نمونہ نظر آتا ہے۔۔۔‘‘ آگے چل کر مصنف ایک مغربی مورخ کی کتاب اوری انٹیال کے اشعار کا یہ ترجمہ پیش کرتے ہیں: کیا جنات نے آراستہ جس قصر شاہی کو بنایا جس کو گھر ہر رنگ کی نغمہ سرائی کا نظر آتا ہے عالم خواب کا سارا طلسماتی وہ الحمرا ہے، الحمرا نہیں جس کا کہیں ہمتا ہزار افسوس تیری بیکسی اور زار حالت پر کہ تو اب منہدم ہوتا چلا ہے حسرتا دردا ترا وہ قلعہ اور کنگورے داراس کی وہ دیواریں جو اب گرتی چلی ہیں ہے سماں جن میں تنزل کا جہاں کانوں میں جادو کی صدائیں شب کو آتی ہیں جہاں شاہد ہے تیری شوکت و عظمت کا ہر ذرا 1؎ مثلاً اس کی ساخت کے بارے میں ایک مستند ماخذ T. Gowry and oweu jones کی دو جلدوں میں تصنیف ہے: Plans, Elecation, Selction and Details of the Alhamara (2 vol) 1848 1845. ترجمہ وقار عظیم نے کیا ہے۔ 2؎ بحوالہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ جلد اول ۱۹۶۱ء صفحہ ۶۲۲ و بعد 3؎ تمدن عرب، طبع مدراس ۱۰۹۰، ص ۲۶۸ و بعد جہاں چاند اپنی نورانی شعاعوں سے بعد خوبی ترے دیوار و در کو عمدگی سے آپ ہے دھوتا سماں وہ بھی ہے تیرا دیکھنے کے لائق و قابل نہیں الفاظ میں جس کا بیان لطف آ سکتا آگے چل کر ایک اور مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ دروازہ البرکہ سے جس وقت قصر اللیوث میں داخل ہوں تو دل کی وہ کیفیت ہوتی ہے جس کا بیان نہیں ہو سکتا، محراب دار غلام گردشیں، ہر قسم کی محرابوں سے بنی ہوئیں اور ان میں پھول بوٹے اور قلم کاریاں جن پر گچ کاری کی جالیاں چڑھی ہوئی ہیں جو کسی وقت میں سونے اور مختلف قسم کی رنگ آمیزیوں سے مرصع تھیں۔ ہر طرف دور تک چلی جاتی ہیں اور آنکھوں کے سامنے ایک جنگل ستونوں کا نظر آتا ہے کہیں علیحدہ اور کہیں دو دو اور مختلف ترکیبوں سے لیکن ہر حالت میں دلپذیر، ان کے بیچ میں شیروں کے حوض کا فوارہ چھٹتا ہوا اور اس کی پھواریں آفتاب کی کرنوں میں چمکتی ہوئی عجب جوبن دکھاتی ہیں۔‘‘ جیسا کہ سید علی بلگرامی نے لکھا ہے الحمراء کے حسن و جمال کی جھلک الفاظ میں دکھانا مشکل ہے۔ رنگین تصاویر سے اس کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے، ہم اس بیان کو الحمراء کی تباہی کی ایک جھلک دکھا کر ختم کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ مسلمانوں کے تہذیبی ورثہ کو کس طرح مٹانے کی کوششیں صدیوں سے جاری ہیں، یہ بیان بھی سید علی بلگرامی کے حوالہ 1؎ سے دیکھئے: ’’ کل صناع اور اہل کمال جنہوں نے الحمراء کو دیکھا ہے اندلس کے نصاریٰ کی اس عجیب و غریب وحشیانہ حرکت کو افسوس کے ساتھ بیان کرتے ہیں جو ان سے اس قصر کے برباد کرنے میں سر زد ہوئی، چارلس پنجم نے تو اس کا ایک حصہ اس غرض سے توڑ ہی ڈالا تھا کہ اس کے مصالحے سے ایک دوسری بے ڈھنگی عمارت بنا دے لیکن اور حکومتوں نے بھی اس کو محض ایک پرانا ویرانہ سمجھ لیا جس کی اشیاء دوسرے کاموں میں مستعمل کی جا سکیں۔‘‘ جن حضرات نے لاہور کی ان عمارتوں کو دیکھا ہے جو سکھوں کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے تہذیبی آثار کو ڈھا کر ان کے مسالے سے تیار ہوئیں وہ اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ راقم ۱۹۴۷ء سے پہلے لاہور میں ایک ایسی عمارت دیکھی جس میں ایک جالی اسی طرح لگائی گئی تھی لیکن لگانے والے اناڑی کاریگروں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس میں جن پرندوں کو بنایا گیا تھا ان کے سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہو گئی تھیں۔ ایسی ہی کچھ کیفیت علامہ اقبال نے قصر الحمراء کے ملبہ سے تعمیر شدہ عمارتوں میں دیکھی ہو گی۔ بلگرامی اس داستان کو مزید حوالوں سے اس طرح مکمل کرتے ہیں۔ ’’ موسیو داوی لٹیر اپنی کتاب اندلس میں لکھتے ہیں،‘‘ وہ پر تکلف چینی کی تختیاں جو قصر کے دالانوں میں نصب قیص چند سال قبل پیس کر چونا بنانے کی غرض سے فروخت کر دی گئیں، مسجد کا کانسی کا دروازہ پرانے تانبے کے نام سے بکا اور وہ بیش بہا لکڑی کے کندہ کئے ہوئے دروازہ جو دار نبی سراج میں لگے ہوئے تھے ایندھن کے 1؎ ایضاً ص ۲۷۱۔ ۲۷۴ کام میں لائے گئے، جو کچھ مال و متاع اس میں سے بک سکتی تھی اس کے فروخت کرنے کے بعد یہ عمارت بطور مجلس کے کام میں لائی گئی اور اس میں فوجی رسد کا کارخانہ بنایا گیا۔ صفائی کی آسانی کی غرض سے تمام نسخی آرائیوں اور گل کاریوں پر چونے کی استر کاری کر دی گئی، یہ انوکھی طرز جو اندلس کے عیسائیوں کو بھی اسی طرح پسند ہے جیسی انگریزوں کو بعض مہذب اقوام میں اس درجہ جاری ہے کہ گویا ان کی روز مرہ کی ضروریات میں شریک ہو گئی ہے۔ یہ سفید سطحیں بعض اشخاص کی آنکھوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور کسی قدر اس عامیانہ خیال مساوات کو پورا کرتی ہیں جو روز بروز یورپ میں پھیلتا جاتا ہے۔۔۔ یہ بات جس قدر دکھ سے سید علی بلگرامی نے بیان کی ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کو میراث اسلام کی اس تباہی اور بربادی کے مناظر جو دہلی اور لاہور سے صقلیہ اور اندلس تک پھیلے ہوئے ہیں یہ آثار صرف عمارات تک محدود نہیں بلکہ ہماری کتابیں، ہمارے آباؤ و اجداد کے وہ علمی کارنامے ہیں جو ہماری دسترس سے اس لئے باہر کر دئیے گئے ہیں کہ ہم اپنے اس تہذیبی ورثہ سے منقطع ہو جائیں اور اپنی تہذیبی روایات کے تسلسل کو قائم رکھنے کی بجائے اپنا ذہنی رشتہ ان ماخذات سے قائم کریں جو ان روایات کی تکذیب اور تذلیل کرتے ہیں۔ علامہ کے جس فقرے کے حوالے سے ہم مدینتہ الزہرا اور قصر الحمرا کے بارے میں لکھ رہے تھے اس کی تیسری کڑی مسجد قرطبہ ہے۔ اس کا مختصر تعارف ہم اس مقالہ کے آغاز میں کر چکے ہیں ایک مرتبہ پھر ہم بلگرامی کے حوالہ سے اس مسجد کا کچھ حال لکھتے ہیں 1؎ ’’ قرطبہ کی مشہور مسجد کو عبدالرحمن نے ۷۸۰ء میں شروع کیا۔ یہ عمارت جو مسلمانوں کی نظروں میں بعد مکہ معظمہ کے متبرک گنی جاتی ہے اندلس کی عربی یادگاروں میں ایک عمدہ ترین یادگار ہے۔‘‘ شاید بلگرامی کے اس قول سے سب کو اتفاق نہ ہو کہ بعد مکہ معظمہ کے مسجد قرطبہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے متبرک گنی جاتی ہے کیونکہ مسجد نبوی جو اسلام کی پہلی مسجد ہے اور جس کی تعمیر خود بانی اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی اور جس کا ذرہ ذرہ سجدہ گاہ قدسیاں ہے اس سے متبرک اور کون سی مسجد ہوگی، یا پھر مسجد اقصیٰ سے بزرگ تر کونسی مسجد ہو گی۔ بیشک جاہ و جلال اور حسن و جمال کا یہ نادر نمونہ اندلسی مسلمانوں کا ایک قابل فخر کارنامہ اور اسلام کے تہذیبی ورثہ کا ایک نادر نمونہ ہے لیکن فن کے اعتبار سے دنیا کے مختلف ممالک میں بعض اور نہایت اہم مساجد موجود ہیں۔ 2؎ خود برصغیر میں دہلی کی جامع مسجد، لاہور کی شاہی مسجد، ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد ایسے آثار ہیں جو فن تعمیر کا اعلیٰ درجے کا نمونہ ہیں۔ اس عمارت کا کچھ اندازہ بلگرامی کے اس بیان سے ہوتا ہے۔ جو انہوں نے کاند کے حوالہ سے نقل کیا ہے: ’’ یہ عمارت آٹھویں صدی کے آخر میں عبدالرحمان نے بنائی اور یہی اس عمارت کا بانی سمجھاجاتا ہے، اس کا ارادہ 1؎ تمدن عرب محولہ بالا ص ۲۶۲، ۲۶۳ 2؎ ان میں سے بعض کا حال اردو دائرہ المعارف اسلامیہ، جلد ۱۵ میں فن تعمیر کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ (رک) تھا کہ اس مسجد کو بڑے پیمانہ پر مسجد دمشقیہ کا مقابل بنائے اور اس میں وہ عجیب آرائشیں اور گل کاریاں دکھائے جو ہیکل سلیمانی کو بھی جسے رومیوں نے برباد کیا بھلا دیں۔ یہ جامع مسجد عظمت و شان میں تمام مشرقی معاہدے سے بڑھی ہوئی تھی، اس کا میناز زمین سے اکہتر گز بلند تھا۔ اس کا گنبد جس کی چھت کے نیچے ترشی ہوئی لکڑی کا منطقہ تھا ایک ہزار ترانوے مختلف رنگ کے سنگ مرمری ستونوں پر قائم تھا، یہ ستون بساط شطرنج کے لئے مربعوں میں نصب کئے ہوئے تھے اور ایک مربع میں پانچ ستون تھے جس ترتیب سے عمارت کے طول میں انیس گلیاں اور ان کو قطع کرتی ہوئی عرض میں اڑتیس کسی قدر تنگ گلیاں بن گئی تھیں، مسجد کا جنوبی روکار دریائے کاڈل کوئی ور1؎ (ردد الکبیر) کی جانب واقع ہوا تھا،ا ور اس میں انیس دروازے تھے جن پر نہایت باریک کام کی ہوئی کانسی کی پتریاں جڑی ہوئی تھیں، باستثناء بیج کے دروازے کے جس کی پتریاں سونے کی تھیں مشرق و مغرب کی روکار میں بھی اسی قسم کے نو نو دروازے تھے، باوجود ا سکے اندلس کے عیسائیوں نے اس عمارت کی بہت کچھ بے حرمتی کی ہے پھر بھی جامع قرطبہ اس وقت ایک عجیب عمارت ہے، اس کو متبرک بنانے کی غرض سے اس کے اندر ایک بہت بڑی کلیسے کی تعمیر شروع کی گئی ہے۔ دیواروں کی آرائشوں اور کتبوں پر چونے کی استر کاری کر دی گئی ہے۔ فرش مسجد کی پچی کاری کا کام اٹھا لیا گیا ہے، وہ پر تکلف چھتیں کندہ کی ہوئی لکڑی کی فروخت کر دی گئی ہیں، اس قدیم عمارت کی شان کا اندازہ کرنے کے لئے فقط ایک مصلی کا دیکھنا کافی ہے کہ یہی ایک جز عمارت کا اس وقت تک ان کی پردرد اور وحشیانہ دستبرد سے بچا ہوا ہے۔ مسجد کی تعمیر کی تفصیلات اس کا طرز تعمیر، اس کے پر شکوہ ایوان، اس کے ستون اور محرابیں، ایسی ہیں کہ ان کے مٹے اور برباد شدہ آثار بھی اس عظمت اور شوکت کی یاد دلاتے ہیں جو اپنے دور عروج میں اسلامی فن تعمیر کے شاہکار کو حاصل تھی، لیکن اس کی تفصیل ہمیں اپنے موضوع سے بہت 2؎ دور لے جائے گی، اس لئے ہم علامہ اقبال کے یہاں اس مسجد کے حوالے کے ایک اور پہلو کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ یہ مسجد کے بانی عبدالرحمن کے کردار سے متعلق ہے۔‘‘ 1؎ یہ عربی وادی الکبیر ہے، رود الکبیر، جس کا ذکر علامہ نے بھی کیا ہے، عربی واؤ کی جگہ ہسپانوی گ کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں مثلاً مردارید MarfaretteالوزیرAlguzazil 2؎ اسلامی فن تعمیر کے متعلق دنیا کی مختلف زبانوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، اردو میں اردو دائرہ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی) میں شامل مقالہ فن۔۔۔۔ تعمیر میں ایک اچھا جائزہ موجود ہے، ایک اور کتاب اسلامی فن تعمیر ہے جو ارنسٹ ٹاڈہیام رچمنڈ کی کتاب سے ترجمہ ہے اور جس میں ۶۳۳ء تا ۱۶۱۵ء اسلامی فن تعمیر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ترجمہ مبارز الدین رفعت، طبع انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ جنوری ۱۹۵۲ء عبدالرحمن کا تعلق بنو امیہ سے تھا، عباسیوں کی خلافت قائم ہوئی تو قدرتی طور پر بنو امیہ پر زوال آیا اور اس خاندان کے اکثر لوگ آلام و مصائب میں مبتلا ہوئے اور بعض قتل ہوئے، عبدالرحمن کے بارے میں مورخین کا بیان ہے کہ وہ دربار امیہ کے ایک ممتاز رکن تھے، اعلیٰ تعلیم و تربیت،فوجی مہارت، سیاسی دور اندیشی اور تدبر کے ساتھ ان کا ذاتی کردار ایک دلیر، جرأت آزما اور بلند ہمت انسان کا تھا چنانچہ جب انہیں یقین ہو گیا کہ ان کی زندگی خطرہ میں ہے عبدالرحمن اپنے بھائی یحییٰ کے ساتھ جان بچا کر فرار ہو گیا اور ایک صبر آزما سفر سے گزر کر افریقہ پہنچا لیکن یہاں بھی آلام و مصائب نے اس کو سکون نہ دیا اور وہ ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں پناہ کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ بالآخر وہ قبیلہ بنو نفوسہ میں پہنچا جو اس کے ننھیالی رشتہ دار تھے اور یہاں اسے کچھ چین نصیب ہوا۔ مورخین لکھتے ہیں۔ 1؎: ’’ یہی وہ علاقہ ہے جہاں کبھی جولین کی عملداری تھی، جہاں سے کبھی مسلمانوں کی فوجیں جولین کے جہازوں پر سوار ہو کر اندلس میں بڑے کارناموں اور معرکوں کا باعث ہوئی تھیں، یہیں پر عبدالرحمن نے بھی افریقہ کی طرف سے بالکل مایوس ہو کر آبنائے کی اس طرف نگاہ دوڑائی اور اپنی قسمت آزمائی کا مرکز اسے ٹھہرایا، اطمینان نصیب ہوا تو امیدوں نے آس بندھائی، حوصلوں نے ہمت بڑھائی اور اب ایک بے یار و مددگار بے گھر و بار بے سرو سامان انسان پھر ایک نئی مملکت پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگا اور یہ خواب جلد ہی شرمندۂ تعبیر بھی ہو گیا۔‘‘ عبدالرحمن کے معرکوں کی تفصیل اور اندلس میں بنو امیہ کی اس شاخ کی نئی حکومت کی داستان بہت طویل ہے اور تاریخوں میں مذکور ہے مگر ہم اس کے کردار سے متعلق ایک اور واقعہ بیان کر کے اسے مختصر کرتے ہیں۔ 2؎ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ المنصور کے دربار میں یہ ذکر چھڑا کہ خاندان قریش کا شاہیں لقب کون پا سکتا ہے۔ خلیفہ منصور کو امید تھی کہ لوگوں کے منہ سے اسی کا نام نکلے گا لیکن درباریوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص واقعی اس لقب کا مستحق ہے تو وہ عبدالرحمن بن معاویہ بن ہشام ہے کہ جس نے صحراؤں کی خاک چھانی، ریگ زاروں کی گرد پھانکی، دشت دشت جبل جبل مارا مارا پھرا تنگ دستی اور سخت پریشانی میں دن گزارے مگر اولو العزمی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، جس کے پاس نہ خزانے تھے، نہ زر و جواہر، نہ مال و دولت نہ جاہ و حشمت، نہ فوج و سپاہ نہ آلات سپاہ گری، نہ دوست احباب نہ اعزا اقربا نہ حامی نہ مددگار مگر پھر بھی وہ ایک خیال، ایک نظریہ، ایک مطمح نظر کا سختی سے پابند رہا اور آخر کار حکومت اندلس پر قابض ہو کر رہا۔ ظاہر ہے اس کردار کا شخص ہی ان صفات کا حامل ہو سکتا ہے جو بندہ مومن ہے اور جس کی تعریف میں مسجد قرطبہ کا یہ بند ہے: تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز اس کا انتقام بلند، اس کا خیال عظیم اس کا سرور، اس کا شوق اس کا نیاز اس کا ناز 1؎ تاریخ اندلس، محولہ بالا صف ۱۴۵2؎ ایضاً ص ۱۶۱ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی اداد دلفریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام و ہم و طلسم و مجاز عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا مرد مومن ہی مسجد قرطبہ جیسے عظیم شاہکار کی بنیاد رکھنے کا اہل ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ علامہ نے اس مسجد میں نماز ادا کی لیکن مسجد قوت الاسلام میں نماز ادا کرنے کی ہمت نہ ہوئی اس کا ذکر اس نظم میں دیکھئے جو مسجد قوت الاسلام کے نام سے ضرب کلیم میں موجود ہے۔ ہے مرے سینہ بے نور میں اب کیا باقی لا الٰہ مردہ و افسردہ و بے ذوق نمود چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقام محمود کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینہ سے کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اس کا وجود ہے تری شان شان کے شایاں اسی مومن کی نماز جس کی تکبیر میں ہو معرکہ بود و نبود اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت وہ گداز بے تب و تاب دروں میری صلوٰۃ اور درود ہے مری بانگ اذاں میں نہ بلندی و شکوہ کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا وجود اس نظم کا پس منظر پروفیسر حمید احمد خاں نے ملفوظات اقبال 1؎ میں عبدالواحد صاحب کے ایک سوال کے بارے میں جو دراصل قوالی اور وجد و حال سے متعلق تھا علامہ کے جواب میں فراہم کیا ہے، علامہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’ فن تعمیر کے سوا فنون لطیفہ میں سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی، اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے وہ مجھے اور کہیں نظر نہیں آئی، البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق پیش آیا، اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون بادشاہوں کے بت بھی تھے جن میں قوت اور ہیبت کی ایک شان ایسی تھی جس سے میں بہت متاثر ہوا، قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام بھی پیدا کرتی ہے بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا، مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا وہ مجھے ابھی تک یاد ہے، شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا، میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں لیکن مسجد کی قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا، مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا۔ 1؎ طبع ثانی مرتبہ حمید احمد خاں، ۱۹۴۹ء لاہور ص ۱۷۳ و بعد کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ آگے چل کر علامہ نے نہایت اختصار سے اسلامی فنون کے زوال کا ذکر یوں فرمایا: ’’ اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اس خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قواء شل ہوتے گئے تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا، وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا، قصر زہرا دیووں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے، مسجد قرطبہ مہذب دیوؤں کا مگر الحمراء محض مہذب انسانوں کا۔‘‘ ہم اس کی تفصیل کسی قدر لکھ چکے ہیں، لیکن الحمراء کے سلسلہ میں علامہ کا یہ بیان بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ ’’ میں الحمراء کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا، مگر جدھر نظر اٹھتی تھی دیوار پر ’’ ھو الغالب‘‘ لکھا ہوا نظر آتا تھا، میں نے دل میں کہا یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو۔‘‘ اس کے بعد تاج محل پر اظہار خیال فرمایا: ’’ مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی، بعد کی عمارتوں کی طرح اس میں بھی قوت کے عنصر کو ضعف آ گیا ہے اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے جو حسن کے لئے توازن قائم کرتا ہے۔‘‘ اور دلی کی جامع مسجد کے متعلق فرمایا: ’’ وہ تو ایک بیگم ہے۔۔‘‘ اس مضمون میں ہم نے وراثت اسلام کے صرف ایک پہلو یعنی فن تعمیر کے اسلامی فکر سے متاثر ہونے کا ذکر کیا ہے جو مساجد کی تعمیر کی صورت میں ظاہر ہوا اور اس میں بھی دنیائے اسلام کی صرف چند مساجد کا حال اور وہ بھی نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے، ہماری تہذیب و ثقافت کے اور پہلو بھی ہیں جن میں وراثت اسلام کے آثار موجود ہیں اور جن کے بارے میں علامہ اقبال کا ایک مخصوص اور واضح نقطہ نظر تھا، اس پہلو سے علامہ اقبال کا کلام نظم و نثر، ان کے مکتوبات ان کے ملفوظات، خطبات سب کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ اس عنصر کی نشان دہی ہو سکے کیوں کہ ملت اسلامیہ کے تشخص کا دار و مدار اسی وراثت اسلام کی بازیافت پر ہے اور تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کا جو خاکہ علامہ نے پیش کیا ہے وہ بھی اس کی دعوت دیتا ہے۔ اقبال، سوشلزم اور اسلام پروفیسر کرار حسین مجھ سے سوال کیا گیا ہے: ’’ علامہ اقبال کی شاعری سوشلزم کا پرچار کرتی ہے اور پاکستان میں ان کی شاعری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خالصتاً اسلامی نظریات کی مظہر ہے، کیا آپ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں گے؟‘‘ (۱) آؤ، کچھ ادھر ادھر کی باتیں کریں، اس سوال سے متعلق بھی اور غیر متعلق بھی، شاید ہم ’’ ہاں‘‘ یا ’’ نہیں‘‘ میں تو اس کا جواب نہ دے سکیں لیکن اس سوال کے حدود کچھ زیادہ واضح ضرور ہو جائیں گے۔ بجائے ’’ سوشلزم‘‘ کی تعریف کرنے کے اور خالصتاً ’’ اسلامی نظریات‘‘ کی توضیح کرنے کے یہ طریق کار ہمارے لیے زیادہ مفید ہو گا کہ ہم اقبال کے فکری ارتقاء کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کی فکری ارتقاء کی پہلی منزل تو یہ تھی کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی ماحول میں ان کا شعور بیدار ہوا۔ اس زمانے میں اسلامی گھرانوں کی دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ مذہب کے اعتبار سے نماز اور تلاوت اور کلچر کے اعتبار سے فارسی کے کلاسیکی شعراء کا کلام جو ایک خاص مابعد الطبیعاتی پس منظر میں زندگی کے دونوں پہلوؤں یعنی غم جاناں اور غم دوراں کی ترجمانی اور ادراک کے لیے ایک خاص طرز احساس کی تربیت کرتا ہے۔ مجھے اس بحث میں یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے کونسی کتابیں پڑھیں یا کن اساتذہ سے پڑھا۔ یہ بات کافی ہے کہ انہوں نے اسی ماحول میں پرورش پائی اور سنا ہے کہ ان کا گھرانا کسی سلسلہ میں بیعت بھی تھا۔ دوسری منزل مغربی ادبی اور فلسفہ اور علم کی تحصیل کی تھی۔ یہ منزل زمانہ حال کے مشرقی نوجوانوں کے ذہنی نشوونما کی تاریخ میںبہت اہم ہے۔ زمانہ حال سے میری مراد تاریخ کے اس دور سے ہے جو مغربی، سیاسی، معاشی اور ذہنی اثرات کے مشرقی اقوام پر تسلط اور چند بہت گہرے معنی میں استحصال سے شروع ہوتا ہے اس دوراہے پر ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک راستہ وہ ہے جو قدیم ’’ اسلامی‘‘ علوم کی تحصیل اور زندگی کے قدیم اخلاقی ماحول کی طرف جاتا ہے، اور دوسرا راستہ وہ ہے جو مغرب کے علوم اور ان کے ذہنی اور اخلاقی پس منظر کی طرف جاتا ہے۔ مزید دشواری یہ ہے کہ معاشرہ کی یہ تقسیم دو ٹوک نہیں ہوتی۔ قدیم راستے پر چلنے والے اس دنیا میں جس میں مغرب کے اثرات اور جدید زمانے کی ضروریات غالب عنصر ہیں پرانی روایات اور ماحول قائم نہیں رکھ سکتے اور جدید راستے پر چلنے والے اپنی اصل کا انکار نہیں کر سکتے، نہ ماضی کے بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتار کر پھینک سکتے ہیں، یہ معاشرہ کی تقسیم داخلی بن کر ذہن کی تقسیم بن جاتی ہے یہ مسئلہ ان جوانوں کے لیے اور بھی شدید ہو جاتا ہے جہاں سمجھدار لوگوں نے زندگی کا راستہ ہلکا کرنے کے لیے اپنے گھرانوں کو قدیم مذہبی یا ثقافتی اثرات سے پاک کر لیا ہے کیونکہ ایک تو مردہ لاش زندہ جسم سے زیادہ وزنی ہوتی ہے اور دوسرے ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین بھی نکل جاتی ہے۔ بہرحال یہ تضاد اور تصادم جدید مشرقی فکر میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اسی کے متعلق رویہ یا اس کا حل یا اس کی ترکیبی ہیئت ہر مشرقی مفکر کی انفرادیت کی تشکیل کرتی ہے۔ اکثر لوگ تو مغربی زندگی کے ظواہر اور زندگی کے ساز و سامان اور طریقوں ہی سے متاثر ہوتے ہیں اور وہاں کے فکر و فن سے واجبی سی شناسائی رکھتے ہیں، اقبال نے نہ صرف مغربی ممالک میں قیام کے دوران ہی بلکہ اپنی ساری زندگی وہاں کے فلسفہ اور ادب کا بہت گہرا مطالعہ اور وہاں کے حالات کا بہت گہرا مشاہدہ جاری رکھا۔ ہمیں یہ بات بری لگے یا بھلی لیکن آج کی دنیا میں باشعور زندگی گزارنے کے لیے یہ مشق ناگزیر ہے۔ اقبال نے مغرب کو سمجھنے کی کوشش کی، اس نے وہاں کے فلسفیوں کا بھی مطالعہ کیا، ہیگل اور مارکس کا عینی اور مادی جدلیاتی ارتقا، نطشے کے لبرل بورژ وا سوسائٹی اور اس کی قدروں کی تحقیر اور مافوق البشر کا پیغام، برگسوں کا تصور زمان اور اثبات وجدان، کانٹ کی انسانی عقل کی تنقید اور تحدید، غرض ان سب کا مطالعہ کیا اور ان طاقتوں کا مشاہدہ بھی کیا جو ایک طرف علم کے زور پر کائنات کو پے بہ پے تسخیر کر کے انسان کے سامنے لامتناہی مواقع فراہم کر رہی تھیں اور دوسری طرف تمام دنیا کو مادی اور روحانی استحصال کے جال میں گرفتار کر رہی تھیں اور خود زندگی کے روحانی سرچشموں کو خشک کر کے انسانوں کو مشینوں میں تبدیل کرتی جا رہی تھیں ایک طرف وہ اس عالم افگن اور عالم آرا تماشہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور دوسری طرف اس کا یہ احساس شدید تر ہوتا جا رہا تھا کہ خود اس کا گھر جو کسی زمانے میں ساری دنیا کے لیے منارۂ نور تھا اس سیلاب بلا کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ تیسری منزل اس فکری سفر (میری مراد یورپ سے وطن کی طرف مراجعت نہیں ہے) کی وہ ہے جب یہ مسافر بہت سے سوالات اور مسائل اور شبہات اور مشاہدات سے لدا پھندا اپنے گھر کی طرف لوٹا تاکہ اس ساز و سامان کی تراش خراش کر کے اس کو اپنے گھر کی تعمیر میں صرف کرے۔ اس کی بنیادیں مضبوط کرے اور اس کے دریچوں کو جو بہت دنوں سے بند ہیں ہوا اور روشنی کے رخ پر کھولے تاکہ وہ نہ صرف وقت کے سیلاب کا مقابلہ کر سکے بلکہ اس سیلاب میں منارۂ ہدایت کا فرض انجام دے۔ مثنوی اسرار خودی اور مثنوی رموز بیخودی اقبال کے فکری سفر کے اسی اہم موڑ کی نشان دہی کرتی ہیں۔ ان مثنویوں کے خیالات اور مضامین کا اگر علیحدہ علیحدہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بتانا دشوار نہیں ہو گا کہ اقبال نے اپنی عمارت کے لیے فلاں سامان یا مصالحہ استخراج یا تنقید کے ذریعہ کماں سے حاصل کیا ہے۔ لیکن چونکہ اس سامان کو ترکیب دینے والا شعور اسلامی ہے اس لیے جو عمارت تعمیر ہوئی ہے وہ اقبال کی حد ہے اور اسلامی ہے جس کے متعلق ایک دعوے کے ساتھ اقبال بحضور رحمتہ للعالمین عرض کرتا ہے: گر دلم آئینہ بے جوہرست در سجر فم غیر قرآن مضمرست پردۂ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں دا ز خادم پاک کن یورپ کی قدیم زبانوں کے علماء ملٹن کی نظم پیراڈائز لوسٹ کے نہ صرف خیالات کے بلکہ تشبیہوں اور تمثیلوں تک کے ماخذ کا کھوج لگا لیتے ہیں لیکن کلی نظم ملٹن کی ہے، تخلیقی شعور سے ترکیب پا کر مختلف اجزاء کا مزاج ایک نئے کل سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اسلامی روایت اور مغربی جدیدیت کے تضاد کے سلسلہ میں اقبال اور اس کے پیش رو مفکرین مثلاً سرسید احمد خاں میں فرق یہ ہے کہ سرسید احمد خاں نے تو مغربی زندگی کو انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین نمونہ (میں اسوۂ حسنہ کہنے والا تھا) سمجھ کر جہاں کہیں کسی اسلامی عقیدہ اور رسم کو مغربی عقلیت سے ٹکراتے ہوئے دیکھا تو نہایت دیانت داری سے وہیں اس کی کوئی توجیہہ یا تاویل یا معذرت کر دی جس سے ذہن پر مرعوبیت کے نقوش گہرے ہونے کے علاوہ اسلام کی شکل ایک مسخرے کا لبادہ (Fool's Motley) ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اور اقبال نے اسلام کو ایک مربوط فکر کے لباس میں اس دعویٰ کے ساتھ پیش کیا کہ یہ خود زمانہ حاضر کے خیالات اور میلانات اور رحجانات کے لیے معیار تنقید ہے۔ (۲) میں نے اوپر اقبال کے مطالعہ اور مشاہدہ کا ذکر کیا۔ اقبال کی اولیں حیثیت شاعر کی ہے اور فلسفی شاعر وہ ہوتا ہے جس کی مطالعہ اور مشاہدہ سے پرورش یافتہ فکر جذبات سے انگیز ہو کر ناطق تجربہ بن جاتی ہے۔ یہ تجربہ ذہن کا تخلیقی عمل ہے۔ ذہن کے تخلیقی عمل اور تنقیدی عمل میں ذرا فرق ہوتا ہے۔ ذہن کے تنقیدی عمل میں تجزیاتی فکر تخیلی ہمدردی کی مدد سے کسی صورت حالات یا کسی شخصیت یا کسی تحریک کو ممکنہ معروضیت کے ساتھ ادراک کی گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تخلیقی عمل میں تنقیدی عنصر پر حسیاتی رد عمل اور تخلیق کی پیدا کی ہوئی ضرورت اور تقاضے غالب رہتے ہیں۔ شاعر اس ماحول سے جو مہیا ہوتا ہے اور جس کو ذہن خود بھی مہیا کرتا ہے وہ اثرات اخذ کر لیتا ہے جو اس کی شخصیت کے مزاج کے مطابق ہوں، ان پہلوؤں کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے جو مزاج کے مطابق نہ ہوں، وہ اثرات جن کے خلاف شعوری طور پر شدید رد عمل کا اظہار کرتا ہے، ان میں اور اس کے مزاج میں کہیں نہ کہیں گہرائیوں میں ایک قدر مشترک ضرور ہوتی ہے۔ من و تو کسی بڑے من کے ہی دو حصے ہوتے ہیں جن میں باہم کلامی کے لیے محبت یا رقابت یا مخاصمت کا رشتہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تخلیقی عمل بہت ظالم اور خود غرض ہوتا ہے، اس کو خواہ تاریخ ہو یا فطرت ہو، عقیدے ہوں یا مجرد خیالات ہوں، شخصیتیں ہوں یا کوئی واقعہ ہو، مطالعہ ہو یا مشاہدہ ہو ان تمام مختلف اجزاء کو نئی ترکیب دے کر او رپگھلا کر ایک نقش فریادی و انفرادی تیار کرنا ہوتا ہے۔ ان منفی اور مثبت اثرات سے تو ایسے واسطہ ہوتا ہے جو ذہنی شخصیت میں جذب ہو کر تجربہ بن جاتے ہیں باقی پہلوؤں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اقبال کے فن و فکر کے ارتقاء میں بہت سے مشرقی اور مغربی مفکرین اور شعراء کا حصہ ہے اور بہت سے حالات اور تحریکات پر ان کا رد عمل بھی اس ارتقاء میں شامل ہے لیکن یہ حصہ محض ان کی شخصیت کے مزاج اور تخلیقی ضرورت کی حد تک ہے۔ اگر مرید ہندی نے پیر رومی کو اپنے کسی سفر میں رہنما بنایا ہے تو یہ نہیں ہے کہ پیر رومی جہاں چاہتا ہے وہاں مرید کو لے جاتا ہے بلکہ جس مقام پر مرید زندہ رو دبن کر پیر کو لے جانا چاہتا ہے وہاں پہنچا دیتاہے۔ اگر حافظ سے کبھی لے دے ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حافظ سے اقبال نے اپنا دامن چھڑا لیا بلکہ یہ لے دے اس شدت سے ہوتی ہی اس لیے ہے کہ حافظ بری طرح ا س سے چمٹا ہوا ہے اور پیام مشرق اور زبور عجم کی غزلوں کے پردے میں کھڑا ہوا مسکرا رہا ہے اور اقبال زبان حال سے یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ خطا نمودہ ام و چشم آفریں دارم ایسی لے دے تو اقبال اور اس کے اللہ کے مابین بھی ہوتی رہتی ہے۔ مگر نہ اقبال اللہ کا پیچھا چھوڑ سکتے ہیں نہ اللہ اقبال کا۔ بے تو بودن نتواں، با تو نبودن نتواں افلاطون ساری عمر عشق کو عقل پر قربان کرتے رہے، اقبال پیہم کوشش عقل کو عشق پر قربان کرنے کی کرتے رہے لیکن نہ یہ بات ممکن ہوئی، نہ وہ بات ممکن ہوئی۔ یہ بھی ایک عجیب منفی تجربہ ہے کہ اس شخص کے لیے جس پر حسن نسوانی برق بن کر گرنے والا حادثہ ہوا کرتا تھا عورت ایک مسئلہ بن کر رہ گئی۔ غرض ایسے تمام اور بہت سے دیگر اثرات مثبت اور منفی تجربہ بن کر اس فلسفی شاعر کے فکر و فن کے ارتقاء کا حصہ بنتے گئے۔ سرمایہ داری یا سوشلزم یا فاشزم کا سائنٹیفک مطالعہ اقبال کی جبلی دلچسپی سے خارج تھا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ کوئی مذہب ہو یا سیاسی اور معاشی تحریک ہو یا کوئی اصلاح یا انقلاب ہو غرض معاشرہ کی کوئی حرکت ہو اس کا اہم پہلو انسانی پہلو ہی ہوتا ہے، یہی اس کی جوہری قدر ہے، اسی سے شاعر کو واسطہ ہے اور انسان کے معنی ہیں فرد کیونکہ فرد ہی ایک محسوس حقیقت Concrete Reality ہے باقی سب عقلی تنزیہات اور اختراعات (Abstractions) ہیں۔ مسولینی سے وہ متاثر ہوئے کیونکہ اس کی شخصیات تمام موانعات پر قابو پا کر اور حالات کی تسخیر کر کے اکثر لحاظ سے خودی کی ایک بلند منزل پر پہنچ گئی تھی وہ اپنے ملک کو ایسی حالت میں لے آیا تھا جو بظاہر گزشتہ عظمت کے خواب کی تعبیر نظر آتی تھی۔ لیکن ابی سینیا پر مسولینی کی فوج کشی کو اقوام مغرب کی غارت گری، مغربی تہذیب کی شرافت کشی اور آبروئے کلیسا کے طلسم کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں۔ اشتراکیت کے متعلق علامہ اقبال کے جستہ جستہ اشعار سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے اس کو مختصراً اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے: (۱) مغربی نظام معاشرت و معیشت کی مخالفت میں علامہ اشتراکیوں کے ہم نوا ہیں۔ سرمایہ داری، ملوکیت اور مغربی جمہوریت سب ان کی نگاہوں میں مذموم ہیں۔ لیکن اشتراکی جدلیاتی مادیت کے تناظر میں اور ا سکے واسطہ سے اس فنا مقدر نظام کی برائیوں کو اس کے ’’ کیوں‘‘ اور ’’کدھر‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس تمام معاشرے کے اس لیے خلاف ہیں کہ اہل مغرب خود مشرق کے خدا بن بیٹھے ہیں اور خود ان کا خدا اقتدار اور دولت ہے۔ ان کا سارا علم اور دین اور دانش ہوس کی بندگی ہے۔ ان کی جمہوریت بھی ملوکیت کا ایک سوانگ ہے۔ مساوات کا سبق دیتے ہیں اور لہو پیتے ہیں ان کی مدنیت بیکاری مے خواری اور افلاس ہے اور بندۂ مزدور کے اوقات بہت تلخ ہیں۔ (۲) روس کے اشتراکی انقلاب نے مغربی تہذیب کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر دیا، اور کلیسیا اور مدرسوں میں جو بظاہر عقل کی عیاریاں ہیں اور یہ باطن ہوس کی خونریزیاں ہیں ان کی تار و پود بکھیر دیا۔ یہ بظاہر تخریبی عمل بہت ضروری تھا۔ جس طرح اللہ کے اثبات سے پہلے غیر اللہ کی نفی اور الا سے پہلے لا ضروری ہے شاید سرمایہ داری کے ختم ہونے کے بعد ’’ قل العفو‘‘ میں جو اسرار پنہاں ہیں وہ بتدریج ظاہر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرشوں کو یہی حکم ہے یعنی مشیت ایزدی یہ ہے کہ جس کھیت سے دہقاں کو روزی میسر نہ ہو اس کو جلا دیا جائے۔ کاخ امراء کے در و دیوار ملا دیے جائیں اور اس حرم و دیر کے چراغ بجھا دیے جائیں جہاں سجدوں سے خدا کو اور طواف سے بتوں کو فریب دیا جاتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے مابین پیر کلیسا جو ایک رکاوٹ بنا کھڑا ہے اس کو بیج سے ہٹا دیا جائے اور ہر نقش کہن کو مٹا دیا جائے۔ (۳) لیکن مغربی تہذیب کے خدا اور انسان کے خلاف جرم اور گناہ کا علاج یا تدارک اشتراکیت نہیں ہے۔ اس تہذیب کے جام و سبو کو جس کو اشتراکیت اپنی ناداگی سے کارگہ شیشہ سمجھتی ہے (؟) اشتراکیت کا ہاتھ نہیں توڑ سکتا۔ کیوں دونوں معاشروں کی روح مادیت اور ہوس محرک اولیٰ ہے۔ لینن جب دعویٰ کرتا ہے کہ جمہور کی آگ نے پیر کلیسا کی رو اور سلطان کی قبا کو پھونک کر رکھ دیا تو قیصر جواب دیتا ہے کہ ہوس کی کارفرمائی تو بدستور موجود ہے۔ شیریں کا خریدار اگر خسرو نہیں رہا تو کوہکن ہو گیا۔ اشتراکیت کو صرف تن سے کام ہے حالانکہ اخوت کا مقام دل ہے۔ اشتراکیت اور ملوکیت دونوں یزداں اور شناس اور آدم فریب ہیں۔ اگر ملوکیت تن سے جان اور ہاتھ سے روٹی چھینتی ہے تو اشتراکیت علم او ردین اور فن کو ختم کرنے والی ہے۔ ملوکیت کے لیے زندگی خراج ہے۔ اشتراکیت کے لیے زندگی خروج ہے۔ انسان یا آدم ان دونوں پاٹوں کے بیچ میں شیشہ کی طرح پس رہا ہے۔ (۴) ان تمام ہنگاموں سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ خدا اس جہان کہنہ سے اور ان فرسودہ طریقوں سے بیزار ہے۔ مشرق اور مغرب میں لوگوں کے دلوں میں ایک انقلاب کا جذبہ بیدار ہو چکا ہے، یہ جہان پیر جس نے انسان کو ظاہری اور باطنی موت سے ہمکنار کر دیا ہے خود مرنے والا ہے، فرشتوں کے نزدیک اس صورت حالات کا تجزیہ یہ ہے کہ ابھی نقش گر ازل کا نقش ناتمام ہے عقل بے زمام ہے اور عشق بے مقام ہے۔ نئی دنیا پیدا کرنا اسلام کا مقدر ہے۔ اس تہذیب کی شیشہ گری کے طلسم کو توڑنے کے لیے شاعر مشرق کے ہو کی ضرورت ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کو ہدایت ہے کہ شاعر مشرق کے آداب جنوں سکھا دیے جائیں اور ابلیس بھی آشفتہ سر اور پریشاں روزگار اشتراکی کوچہ گرد سے نہیں ڈرتا بلکہ اس ظالم سے ڈرتا ہے جو اشک سحر گاہی سے وضو کرتا ہے۔ مزوکیت فتنہ، فردا نہیں اسلام ہے یہ ایک ایسے شاعر کا جو انسان کی لامتناہی ترقی کے امکانات پر اور زندگی کے لا تحصیٰ گوناگوں شئون پر یقین رکھتا ہے اور جو اپنی قوم کی ماضی کی عظمت، حال کے استحکام اور مستقبل کے جان آفرین اور جہاں آفرین خواب سے کلی طور پر وابستہ ہے شدید رد عمل ہے ایک ایسے واقعہ کے متعلق جس کی اس نے سائنٹیفک اسٹڈی نہیں کی ہے لیکن تاریخ میں جس کی قیامت خیزی کو اس نے دیکھا اور جس کے متعلق کوئی نہ کوئی رویہ اختیار کرنا آج کی دنیا کے ہر انسان کی شعوری ضرورت ہے۔ (۳) لیکن (اور یہ بہت اہم اور ضروری لیکن ہے) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقبال سیاست یا طاقت کے زور پر کسی ’’ اسلامی نظام‘‘ کو نافذ اور عائد کرنا چاہتے ہیں دین کو نظام یا نظریہ کے طور پر پیش کرنا ہمارے زمانے کی جدت یا بدعت ہے۔ غلامی کے دور میں یہ درست ہے کہ ہماری نظر محدود تھی اور عمل سست پڑ گیا تھا۔ زندگی کے دونوں شعبوں اجتہاد اور جہاد میں تنگ ظرفی اور سست روی پیدا ہو گئی تھی، لیکن اسلام تھا دین ہی اور دین حق، یہ تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اسلام ایک نظام یا نظریہ بنا ہے، جس طرح ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سے نو دولتئے سید بن گئے۔ دین کو زندگی کی صراط اور شرع اور بیج اور نور کہا گیا ہے۔ نظام ایک ڈھانچہ ہوتا ہے جس کو کچھ سیاسی یا معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے یا مقاصد حاصل کرنے کے لئے وضع کر لیا جاتا ہے۔ تم کتنے ہی نظاموں کو، اسلام کا سیاسی نظام اور معاشی نظام اور اخلاقی نظام سب کو جوڑ لو لیکن حاصل جمع اسلام نہیں ہو سکتا جس طرح انسان کے مختلف اعضاء کو جوڑنے سے انسان نہیں بنتا، نظریہ ہمیشہ کسی فرد یا جماعت سے منسوب ہوتا ہے اور اس کی حقیقت اضافی ہوتی ہے، دین مطلق اور معروضی حق ہے۔ دین کا عمل شعور کی بہت گہری سطح پر ہوتا ہے، جہاں نظر بنتی ہے، ضمیر ڈھلتے ہیں اور زندگی اپنا چولا بدلتی ہے۔ اس نور اور معیار کی روشنی میں سیاسی اور معاشی مسائل بھی حل کیے جاتے ہیں یہ یک طرفہ راستہ ہے دو طرفہ نہیں۔ نظام اور نظریہ کو دین کی جگہ دینا بے یقینی کی موت ہے، شاید یہ اسلام پر مادیت کی آخری یورش ہے ویسے بھی نظریوں کا زمانہ جو شاید ہیگل سے شروع ہوا تھا ختم ہو رہا ہے اور ’’ نظاموں‘‘ سے دنیا بیزار ہے، وہ چند نہیں جو ا سکے اوپر چڑھے بیٹھے ہوتے ہیں بلکہ وہ اللہ کے بندے افراد جو ان کے نیچے کچلے جاتے ہیں۔ دین یا کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت کی ہے جو ایمان کے بیج سے پیدا ہوتا ہے۔ زمین میں جڑیں مضبوط ہوتی ہیں، شاخیں آسمان تک پھیل کر زندگی کے ہر شعبہ کو ڈھکتی ہیں اور ہر زمانے کے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے اپنی غذا حاصل کرتے رہتے ہیں اب آپ دیکھئے کہ قرون اول کے بعد مختلف اثرات اور ضروریات کے تحت فقہ کا دور آیا، علم کلام کا دور آیا، حکمت اور فلسفہ کا دور آیا، تصوف کا دور آیا، فرقے بھی بنے، آپس میں تکفیر بازی بھی ہوتی رہی، خلافت بھی رہی، شہنشاہت بھی رہی، طوائف الملوکی بھی رہی، تاتاری فتنے بھی اٹھے، آج مغرب کے چیلنج اور تسلط کا سامنا ہے اور عظیم مسلمان ایمان اور علم کے سرچشمے سے اپنے ظرف اور زمانے کے لحاظ سے شعور اور نظر حاصل کرتے رہے ضمیر کی تربیت کرتے رہے اور اسی روشنی میں اپنے زمانے کو سمجھتے رہے اور مسائل کو حل کرتے رہے۔ حقیقت میں ایک قوم کی تاریخ اس کے اپنے خدا کے ساتھ تعلق اور ماحول کے خلاف رد عمل کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال اس زمانے میں آئے جو ملوکیت کا دور تھا، جمہوریت کا دور تھا، سرمایہ داری کے تمام تباہ کن مضمرات ظاہر ہو چکے تھے، سوشلزم ابھر رہا تھا، مغرب میں نت نئی تبدیلیاں جن کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا رونما ہو رہی تھیں۔ انسان اپنے علم و حکمت کے زور پر معجزات دکھا رہا تھا۔ دوسری طرف انسان کا دل مردہ ہوتا جا رہا تھا، زندگی کی کیفیت کم سے کم تر ہوتی جا رہی تھی، اقبال کے الفاظ میں مغرب کا ضمیر مر چکا تھا، مشرق کی خودی دم توڑ چکی تھی۔ اقبال نے کوئی نظام یا نظریہ پیش نہیں کیا۔ عقل کی بجائے عشق پر زور دینے کا مطلب ہی یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے اور اپنے خدا پر یقین کے زور سے زندگی کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگایا جائے اور ان کو حرکت میں لایا جائے۔ انہوں نے اسلام کی ایسی تفسیر پیش کی جس میں افسردگی یا سستی یا بے عملی یا بالفاظ دیگر یہ کہہ لیجئے کہ تقدیر پر شاکر رہنے کی، قناعت کی، ذکر مراقبہ کی، توکل کی، فکر عاقبت کی جو صورتیں مسلم معاشرہ میں عام طور پر رائج تھیں کوئی گنجائش نہ تھی انسان کو تخلیق اقدار اور ندرت عمل کا ایک بلند مقام دیا اور خودی کو اپنی تکمیل کے لیے خدا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ کائنات کو بجائے ایک واقعے کے جو ہو چکا ہے تغیر پذیر دہر بتایا جو ہو رہا ہے، اور کار تخلیق میں خدا کو اور انسان کو ایک طرح شریک کار بنا دیا۔ خودی کی تربیت اور حصول دوام کو زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد اور زندگی کی اخلاقی قدروں کو پرکھنے کا معیار قرار دیا اور اسلامی اقدار کو زمانہ کے تمام مرد بر نظاموں کے احتساب کا پیمانہ بنایا، خودی کی تربیت کی منزلیں بتائیں، ملت اسلامیہ کی اساس کو واضح کیا، گویا فرد کو ایک بھرپور اور تخلیقی اور اثباتی زندگی کا راز بتایا، ملت کے استحکام کی بنیاد تلاش کی اور عالم انسانیت کے لیے حریت اور مساوات اور اخوت کا ایک مخصوص، منفرد پیغام بھی اس ملت کے سپرد کیا کیونکہ جب کسی ملت کے پاس بنی نوع انسان کے لیے کوئی زندگی کا پیغام نہیں ہوتا تو وہ ملت لایعنی ہو کر مر جاتی ہے۔ اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے تمام مطالعات، مشاہدات ، تجربات کو شاعرانہ صداقت اور حسن کے ساتھ صرف کیا۔ اب رہا سوال کا وہ حصہ جس میں دریافت کیا گیا ہے کہ کیا اقبال کا کلام خالصتاً اسلامی نظریات کا مظہر ہے تو نظریات کے متعلق تو میں عرض کر چکا ہوں ’’ خالصتہً اسلامی نظریات‘‘ کے متعلق دو باتیں عرض ہیں: ایک تو یہ کہ یہ بات بدیہی ہے کہ اگر اقبال کسی اور زمانے میں پیدا ہوتے یا ان کے تجربات کا دائرہ مختلف ہوتا تو اسلام کی تعبیر بھی اس سے مختلف ہوتی جواب ہے۔ علامہ ا قبال کی اپنی خودی کی تلاش اور اسلام کی حقیقت شناسی ایک ہی عمل کے معروضی اور موضوعی دو پہلو تھے اور مغرب کا چیلنج اس عمل کا نہ صرف ایک زبردست محرک تھا بلکہ ایک موثر عامل بھی تھا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھ میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ ’’ خالصتہً اسلامی‘‘ ہونے کے متعلق صحیح یا غلط کا فیصلہ کر سکوں۔ صحیح یا غلط کی کیٹگری (Category) کے علاوہ ایک اور کیٹگری (Category) اہم اور غیر اہم کی بھی ہے، اہمیت ہی میں کسی کلام کے معنی اور اس کی قدر مضمر ہے۔ اہمیت کے لیے صحت کا عنصر بھی ضروری ہے اگر صحت کا عنصر مفقود ہو تو وہ کلام اہم بھی نہیں ہوتا، اور صحت یا حقیقت بس اسی حد تک زندہ ہے جس حد تک وہ اہمیت کا حصہ ہے ورنہ حقیقتیں تو بہت سی ذہن کے بیمار خانے میں پڑی سسکتی رہتی ہیں اور فساد پھیلاتی رہتی ہیں۔ اس میرے اٹھائے ہوئے سوال کا (اہمیت اور عدم اہمیت کا) جواب آپ کا اور میرا اسلامی شعور دے گا۔ اقبال کا سوشلسٹ فکر و فلسفے کے ارتقاء میں کوئی مقام نہیں، اسلامی فکر کے ارتقاء میں وہ ایک بہت اہم شخصیت ہے۔ لیکن سوشلزم سے اس کا شدید جذباتی رد عمل اس حقیقت کی ضرور غمازی کرتا ہے کہ وہ سوشلزم میں ایک زبردست کشش بھی محسوس کرتا ہے، اس کی اہمیت کا بھی اسے اندازہ ہے اور اس سے مدافعت کی کوشش بھی کرتا ہے۔ لیکن خوف سے پیچھے ہٹ کر نہیں بلکہ بصیرت کی روشنی میں جوش عمل اور جذبہ تعمیر کا ایک قدم آگے بڑھا کر۔ ٭٭٭ اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح سید نذیر نیازی اقبال نے اسلامی ثقافت پر قلم اٹھایا لیکن صرف اس حد تک کہ اس کی روح کیا ہے۔ اس لیے کہ جس زمانے میں وہ اپنے خطبات ترتیب دے رہے تھے اس سے پہلے اشپنگلر کی کتاب ’’ بلاد مغرب کا زوال‘‘ ان کی نظر سے گزر چکی تھی۔ اشپینگلر کا خیال تھا کہ اسلامی ثقافت کوئی نئی ثقافت نہیں، بلکہ مجوسی ثقافت ہی کی ایک شکل، اقبال اپنی گفتگوؤں میں اگرچہ اشپینگلر اور بعض دوسرے مغربی مفکرین کے ثقافتی نظریوں پر اظہار خیال کرتے لیکن ۱۹۲۷ء سے پہلے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی نوبت نہ آئی اور وہ بھی جیسا کہ عرض کر چکا ہوں صرف اس حد تک کہ اسلامی ثقافت کی روح کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ اسلام اگرچہ ایک ہمہ گیر صداقت اور عالم گیر دعوت ہے جس کی نظر انسان پر ہے۔ اس کے مسائل نوع انسانی کے مسائل ہیں اور نوع انسانی ہی کی ہدایت کہ انسان اپنی غایت مقصود کو پہنچنے اس کا مقصد لیکن اسلام کو بھی دنیا کی ہر دعوت کی طرح تاریخ کے انقلابات سے گزرنا پڑا جس میں ایک طویل مدت کے بعد رفتہ رفتہ اس پر مشرق کا رنگ چڑھ گیا لہٰذا بادی النظر میں یوں معلوم ہونے لگا جیسے اسلام کی حیثیت بھی ایک مشرقی سامی تحریک کی ہے۔ بقول سعید حلیم پاشا اسلام کہاں ہے؟اسلام ترکی ہے یا ایرانی ایک عربی اسلام ہے، ایک ہندی، ایک افریقی، ایک بربر، علی ہذا القیاس اور اسلام کی کئی شکلیں ہیں اور کئی تعبیریں۔ لیکن حقیقی اسلام کہاں ہے؟ حقیقی اسلام موجود ہے مگر ا سپر نسلی، وطنی اور مقامی رنگ غالب آ گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام پر جو تہیں جم گئی ہیں ہم اسلام کو ان سے پاک و صاف کریں۔ گویا تاریخ کے ایک خاص دور کا لحاظ رکھا جائے تو اس میں اسلام،ا سلامی تعلیمات، اس کی تہذیب و تمدن، روحانی اور اخلاقی زندگی کا یہی منظر ہے جس کو دیکھتے ہوئے اشپینگلر یا بیکر اور ٹائن بی یا دوسرے مغربی مصنفین نے اسلامی ثقافت کے بارے میں مختلف نظریے قائم کئے۔ اقبال کو انہیں نظریوں کے نقد و جرح سے اسلامی ثقافت کی حقیقی روح سے پردہ اٹھانا مقصود تھا۔ اسلامی ثقافت کی روح کیا ہے؟ خطبہ پنجم میں یہ بحث بیس صفحوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسلوب بیان صاف اور سادہ ہے۔ سلجھا ہوا، ہر پہلو سے واضح بایں ہمہ اقبال نے اپنے خیالات کے اظہار میں حد درجہ ایجاز و اختصار سے کام لیا ہے۔ تفصیل و تشریح کی جگہ ارشادات نے لے لی ہے۔ ارشادات نہایت بلیغ اور پر معنی ہیں جن کے فہم میں قاری کو ہر لحظہ احساس ہوتا ہے کہ ایک حقیقت تو اس کے ذہن میں جاگزین ہو گئی۔ لیکن تقاضا اس کا یہ ہے کہ اس کے غم میں یہ تحقیق و تفحص اور آگے بڑھیں۔ پھر ایک بات یہ ہے اور با اعتبار اس موضو ع کے جس پر اقبال نے قلم اٹھایا نہایت درجہ اہم کہ اقبال نے اس کا آغاز نبوت اور ختم نبوت بالفاظ دیگر رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاتمیت سے کیا۔ یہ ایک استثناء ہے، بجائے خود غور طلب۔ اس لیے کہ اقبال سے پہلے شاید کسی نے مسلمانوں ہوں، یا غیر مسلمان اسلامی ثقافت کی بحث میں نبوت اور ختم نبوت کے حوالے سے قلم نہیں اٹھایا۔ لیکن اقبال کے یہاں نبوت اور ختم نبوت ہی مدار بحث ہے جس میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے اس ارشاد کی طرف اشارا کرتے ہوئے جس کا تعلق واقعہ معراج سے ہے کہ حضور رسالت مآب ؐ یادگار الٰہی سے واپس آ گئے تو مجھے یہ مرتبہ حاصل ہوتا تو ہر گز واپس نہ آتا۔ اقبال نے اس بنیادی فرق کی وضاحت نہایت خوبی سے کی ہے۔ جو شعور نبوت اور شعور ولایت میں با اعتبار نفسیات پایا جاتا ہے۔ لیکن جس کے بارے میں مجھ سے یہاں کچھ نہیں کہنا ہے اس لئے کہ آگے چل کر آپ ہی آپ یہ اشارا آپ کی سمجھ میں آ جائے گا۔ اقبال نے قرآن مجید کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ نبوت ایک منصب ہے جو اللہ تعالیٰ نے بعض جلیل القدر ہستیوں کو اس لئے عطا کیا کہ نوع انسانی کی رہنمائی فرمائیں۔ زندگی کی اس جدوجہد میں جو بدو انسانیت سے جاری ہے اور جس کی ایک غایت ہے اس کی تعلیم و تربیت سے اسے اس امر کے لئے تیار کریں کہ وہ اس میں خود اپنی ذمہ داری سے کامیابی حاصل کرے۔ لہٰذا انبیاء علیہم السلام نوع انسانی کے لیے ایک دعوت لے کر آئے۔ بقول اقبال وہ فرمانے کی رو میں داخل ہوئے۔ انہوں نے تاریخ کا رخ بدلا۔ علم و عمل کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا اور یوں زندگی کا صحیح راستہ متعین کیا۔ چنانچہ یہی وہ فرق ہے جو شعور نبوت یعنی ایک نبی کی دعوت اور شعور ولایت یعنی صوفی کی زندگی میں باعتبار نفسیات اساساً موجود ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کو ہماری ثقافتی زندگی سے براہ راست تعلق ہے۔ صوفی بلکہ یوں کہیے کہ مذہب کو البتہ اسلام ایک استثناہ ہے ایسا کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا نبوت سے نوع انسانی کی ذہنی، اخلاقی،سیاسی اور اجتماعی زندگی کے لئے جو نتائج مرتب ہوئے ان کے یا یوں کہیے اس کے ثقافتی پہلو کے فہم کا ایک طریق یہ کہ ہم دیکھیں انبیاء علیہم السلام کیا چاہتے تھے کس طرح کا انسان پیدا کریں۔ اس کی شخصیت کس طرح کے قالب میں ڈھل جائے۔ دوسرا یہ کہ تہذیب و ثقافت کی اس دنیا پر نظر رکھیں جس کا اظہار ان کی دعوت سے ہوا۔ اقبال کہتے ہیں یہاں یہ بحث نہیں کہ علم و حکمت کے میدان میں مسلمانوں کے کارنامے کیا ہیں۔ یہاں بحث ان تصورات سے ہے جو اسلامی ثقافت کے صورت گر ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ غور و فکر کا وہ کیا عمل تھا جو اس کی تہ میں کام کرتا رہا۔ یونہی ہم اس روح کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جس کا اس طرح اظہار ہوا لیکن یہ جب ہی ممکن ہے جب ہماری نگاہیں اسلام کے اس عظیم تصور کی قدر و قیمت پر ہوں جو عبارت ہے ختم نبوت سے اور دیکھیں کہ اس کے معنی تہذیب و ثقافت کی دنیا کے لیے کیا ہیں۔ دو نتیجے ہیں جو اقبال کے اس نظریہ سے مترتب ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلامی ثقافت کا سرچشمہ ہے نبوت۔ لہٰذا اسلامی ثقافت کی روح کے فہم میں ہمیں نبوت سے رجوع کرنا پڑے گا اور نبوت کے فہم میں قرآن مجید سے۔ دوسرا یہ کہ جہاں تک اس راستے کا تعلق ہے جو اسلامی ثقافت نے اس لئے اختیار کیا کہ اس کی روح واقعات اور حوادث کی دنیا میں عملاً جلوہ گر ہو جائے ہمارے لئے رسالت محمدیہ کا فہم ضروری ہے۔ اس کی خاتمیت محاورہ عام میں ختم نبوت کا۔ اول نبوت کو لیجئے کہ جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے ایک ابتداء ہے، ایک انتہا، نبوت ایک منصب ہے۔ اس کے سامنے ایک فریضہ ہے۔ ایک مقصد، یعنی اس ہدایت کا ابلاغ جس کی زندگی کو ضرورت تھی اور جو بہ تقاضائے زندگی نبوت کے ذریعے بمشکل وحی و تنزیل مشہود ہو گئی۔ یہ فریضہ ادا ہوا تو بقول اقبال نبوت اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی۔ اور اس نے خود اپنے خاتمے پر مہر خاتمیت ثبت کر دی جس کے معنی جیسا کہ اقبال نے لکھا ہے یہ ہیں کہ انسان کو جس ہدایت کی ضرورت تھی مل گئی۔ زندگی نے وہ راستہ جس کی اسے تلاش تھی پا لیا۔ انسان بلوغ کو پہنچ گیا۔ لہٰذا بحیثیت ایک ذمہ دار ہستی کے جسے علم و عقل سے بہرہ ملد ہے۔ جسے شعور ذات کی دولت حاصل ہے اس کی شخصیت کی تکمیل اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کا جس میں اسے بہمہ وجوہ اظہار ذات کے مواقع میسر آئیں کوئی ذریعہ تھا تو یہی کہ انسان خود اپنے وسائل سے کام لے۔ اپنی زندگی کا بوجھ آپ اٹھائے۔ زندگی ایک جدوجہد ہے جس میں اس کا سب سے بڑا حربہ ہے علم، مگر علم خود حاصل کرنے کی چیز ہے لہٰذا ختم نبوت نے ہمیں ہر ایسے دعوے کی بے چون و چرا پابندی سے آزاد کر دیا جس کا تعلق علم کے کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے۔ علم جب ہی علم ہے کہ اس میں نقد و جرح کا راستہ کھلا چھوڑ دیا جائے۔ انسان کا ذہنی اور اخلاقی نشوونما جب ہی ممکن ہے کہ اپنے عقل و فکر سے کام لے۔ لہٰذا اقبال کہا اور نہایت صحیح کہا کہ اسلام کا ظہور عقل استقرائی کا ظہور ہے۔ بالفاظ دیگر علم کا جو بھی سرچشمہ ہے اس میں خود اپنی کاوش، تحقیق و تخصص تجربے اور امتحان سے آگے بڑھنے کا۔ اقبال کے نزدیک علم کے سرچشمے تین ہیں سائنس تاریخ اور وہ روحانی واردات اور مشاہدات جن کا تعلق انسان کے اندرون ذات اصطلاحاً قلب انسانی سے ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ ہمارے روحانی اور باطنی مشاہدات علم کا ایک ذریعہ تو ہیں لیکن اس طرح جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ہمارے لئے تو کیا خود صاحب مشاہدات کے لئے بھی حجت تعلق ہمیں چاہیے اسے بغیر نقد و جرح کے قبول نہ کریں۔ اس میں غلطی اور خطا کا ایسا ہی امکان ہے جیسے علم کی کسی دوسری شکل میں۔ دراصل اسلامی تصوف کے سامنے جو مسئلہ تھا وہ بھی ان واردات اور مشاہدات کی تطہیر و تزکیے کا جن کا مطالعہ علمی نہج پر کیا گیا کہ اس مذہبی نفسیات کا ظہور ہوا جس کے ارتقاء میں خواجہ محمد پارسا اور عراقی کی کاوشیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ نفسیات سے تاریخ کی طرف آئیے تو مسعودی، طبری، ابن اسحاق اور ابن خلدون ایسی شخصیتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ا بن خلدون ہی وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں تاریخ نے پہلی مرتبہ ایک ضابطہ معلومات یعنی علم کا مرتبہ حاصل کیا۔ یوں اقوام و امم کی زندگی اور ان کے عروج و زوال پر قائم نظریہ کو اٹھایا گیا تو علوم اجتماعیہ سیاسیات، معاشیات، عمرانیات کی داغ بیل پڑی جن کی ابتدا گویا ابن خلدون ہی نے کر دی تھی۔ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے مسلمانوں نے اہل یونان کا وہ نظریہ جو انہوں نے کائنات کے بارے میں قائم کر رکھا تھا اور جس کا حاصل یہ ہے کہ کائنات ایک بے حس و حرکت وجود ہے اس میں سکون ہی سکون ہے۔ کسی تغیر یا اضافے کی گنجائش نہیں رد کر دیا۔ یونان کی نظر متناہیت پر تھی۔ کائنات متناہی ہے، محدود ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے اس کے برعکس کائنات کا حرکی نظریہ قائم کیا۔ ان کا نظریہ لا متناہیت پر تھی۔ اقبال نے اس باب میں خواری، بیرونی اور طوسی کی تحقیقات کا بالخصوص ذکر کیا ہے۔ لیکن یونانیت کے خلاف عالم اسلام کے اس رد عمل کی داستان بڑی طویل ہے۔ اقبال نے اشپینگلر کے اس دعوے کے خلاف کہ مسلمانوں میں حرکت کا کوئی تصور نہیں تھا بہ وضاحت بتایا ہے کہ ان کی نظر کون کی بجائے تکوین پر تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں رہی ہے بنتی رہے گی، حیاتیات میں ابن مسکویہ کا نظریہ ارتقاء بالخصوص اہم ہے جاحظ بعض حیاتی مظاہر کا مطالعہ کر چکا تھا۔ طبیعیات کا رخ کیجئے تو قرآن مجید کے اس ارشاد کے ماتحت کہ کائنات اور اس کی ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ علمائے اسلام کی نگاہیں محسوس دوسری پر مرتکز ہو گئیں۔ عالم فطرت کا مطالعہ علمی نہج پر ہونے لگا۔ اس کا وجود وہم و گمان نہ رہا بلکہ ایک حقیقت جس کے مطالعے اور مشاہدے میں نہیں بعض بعقل و فکر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ یہ ہوا تو بقول اقبال سائنس نے اپنی اساس کو پا لیا۔ اس کی ترقی اور نشوونما کا راستہ کھل گیا۔ سائنس مسلمانوں کا عطیہ ہے۔ سائنس اگر سائنس بنی تو مسلمانوں کے ہاتھوں جس کا اب اہل یورپ کو بھی اعتراف ہے گو بیکن بہت پہلے کہہ چکا تھا کہ یہ ہمارا تجربی منہاج، یہ منطق استقرائ، یہ محسوس سے شغف یہ سائنس کی روح، ہم اس سے عربوں ہی کی بدولت آشنا ہوئے۔ سائنس، تاریخ اور واردات باطن پر اس طرح نظر ڈالتے ہوئے اقبال نے یہ نہایت اہم نتیجہ قائم کیا۔ کہ مسلمانوں نے جس پہلو سے بھی علم و حکمت کی دنیا میں قدم بڑھایا ان کا فکر دو باتوں پر مرتکز ہو گیا۔ ایک اس حقیقت پر کہ انسان کی آفرینش ایک ہی سرچشمے سے ہوئی اس کا مبدا ایک ہے لہٰذا وحدت انسانی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے جس سے ان سب تفریقات و امتیازات کے منافی جھاتا ہے جو اخلاقی روحانی، سیاسی، معاشی یا کسی اور اعتبار سے مثلاً نسل و وطن کی بناء پر انسان نے قائم کر رکھی ہیں۔ ثانیاً اس بات پر کہ زمانے کا وجود حقیقی ہے۔ زمانہ حقیقت ہے تو انسان اور کائنات بھی ایک حقیقت ہماری زندگی کے بھی کوئی معنی تاریخ بھی جو ہمیں کسی منزل کی طرف لئے جا رہی ہے اور جس میں ہمیں اپنا مقام خود متعین کرنا ہے ایک حقیقت واقعات اور حوادث تغیر اور انقلاب کی دنیا بھی ایک حقیقت جس پر ہمیں کڑی نظر رکھنی چاہیے ورنہ ہماری زندگی کی ساری کشاکش ہماری عقلی اور فکری کاوشیں ہمارے علمی اجتہادات بیسود ہو کر رہ جائیں گے۔ زندگی ایک زمانی عمل ہے کائنات ایک طبعی عمل، وحدت انسانی کا حصول بھی ایک تدریجی اور محنت طلب عمل جس کار استہ اسلام نے واضح طور پر متعین کر دیا۔ رسالت محمدیہ ؐ کی خاتمیت سے وہ سب رکاوٹیں جو اس میں حائل ہیں دور ہو گئیں۔ اقبال کے نزدیک اسلام میں موروثی بادشاہت کی نفی علی ہذا مذہبی پیشوائی کا رد اور عقل و فکر سے بار ہا خطاب تصور خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔ اسلام نہیں چاہتا کہ نوع انسانی سہارے لے لے کر زندگی بسر کرے۔ راقم الحروف کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ یہ جو میں نے اس سلسلے میں لیڈنگ اسٹرنگز کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان سے مراد ہے امت میں مزید پیغمبروں کا ظہور۔ یہ امر ختم نبوت کے منافی ہے اس ایمان و یقین امید و اعتماد اور اطمینان کے منافی جو رسالت محمدیہ کی خاتمیت سے انسان کو حاصل ہوا اور جس سے زندگی کا صحیح راستہ، صراط مستقیم ہمیشہ کے لئے متعین ہو گیا۔ حضور رسالت مآب ؐ نے اس باب میں تا قیامت ہماری رہنمائی فرما دی ہے۔ لہٰذا دو نتیجے ہیں جو رسالت محمدیہ ؐ کی خاتمیت سے مترتب ہوتے ہیں۔ ایک نوع انسانی کے اتخلاص کا وہ عمل جس نے اسے اخلاقی روحانی سیاسی اجتماعی ہر قسم کے استبداد سے آزاد کر دیا۔ ثانیاً یہی خاتمیت وحدت انسانی کے اس عمل کی ابتداء ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ نوع انسانی اصولاً، عملاً، ذہناً، اخلاقاً سیاسی اور اجتماعی اعتبار سے ایک منضبط اور متحد عالمگیر معاشرے کی شکل اختیار کرے۔ دو معاشرے جس کی مثال آپ نے خود اپنی ذات گرامی سے قائم کر دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے تمہارے پاس ایک ایسا پیغمبر آ گیا ہے جس نے تمہارے بوجھ ہلکے کر دئیے۔ وہ زنجیریں کاٹ دیں جن میں تم جکڑے ہوئے تھے۔ لیکن دو اور باتیں ہیں جو اسلامی ثقافت کی روح سے بحث کرتے ہوئے ان خیالات سے جن کا اقبال نے اظہار کیا ہے واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ رسالت محمدیہ ؐ کی خاتمیت کا اشارا اسلامی تعلیمات کی قطعیت کی طرف ہے۔ یہ قطعیت عین تقاضائے زندگی ہے۔ اس یقین و ایمان، اطمینان و اعتماد کا سرچشمہ کہ ہم نے حق و صداقت کو پا لیا۔ باطل سے ہمارا رشتہ کٹ گیا۔ عقل و فکر یا علم و عمل کا کوئی عقہد، ظن و تخمین اور وہم و گمان اب ہمارے راستے میں حائل نہیں۔ یہ قطعیت ہمارے قوائے علم و عمل کے لئے کوئی قدغن لے کر نہیں آئی بلکہ ایک مہمیز ہے علم و عقل اور فکر کی کارفرمائی کے لیے۔ اس سے انتظار اور اضطراب اور بیم و رجا کی وہ خلش ہمیشہ کے لئے مٹ گئی جس میں ہماری آنکھیں مستقبل پر لگیں کوئی سہارا ڈھونڈتی رہتی ہیں۔ ہمارے علم و عمل اور عقل و فکر کی دنیا متزلزل ہو جاتی ہے۔ فرد کی زندگی کو قرار رہتا ہے، نہ معاشرے کو برعکس اس کے یہ قطعیت وہ نفسیاتی قوت ہے جس سے اس قسم کے سب دعوؤں کا تعلق علم کے کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ایسی سب گروہ بندیوں اور جماعت سازیوں کا امکان باقی نہیں رہتا جن میں کسی شخص کی ذات سے وابستگی اس لئے ضروری ٹھہرتی ہے کہ حق و صداقت کی دنیا میں ہماری جدوجہد اس کے قول و فعل کی پیروی پر موقوف ہے جس سے نہ صرف حیات فرد اور جماعت کے طبعی اور فطری نشوونما کا عمل رک جاتا ہے بلکہ جس سے انسان ذہناً اور اخلاقاً پھر اسی استبداد کا شکار ہو جاتا ہے جس سے اسلام نے اسے نجات دلائی تھی۔ لہٰذا یہ قطعیت بالفاظ دیگر رسالت محمدیہؐ کی خاتمیت ہمارے لیے امید و اعتماد کا سرچشمہ ہے آزادی اور استخلاص کا منشور غالباً یہی حقیقت تھی جو کسی طرح کار لائل کے ذہن میں آئی تو اسے بے اختیار کہنا پڑا کہ پیغمبر اسلام فی الواقعہ دنیا کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ دوسری بات جو واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے یہ کہ اسلام یا اسلامی ثقافت کا مسئلہ انسان کا مسئلہ ہے۔ نوع انسانی کا مسئلہ۔ زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد تاریخ کے کسی خاص عہد یا کسی خاص سر زمین قوم یا نسل سے بے تعلق۔ اس کا ضمیر خالصاً انسانی ہے اور یہی نکتہ ہے جس کی طرف اقبال نے اپنی تحریروں اور تقریروں، گفتگوؤں شاعری اور فلسفیانہ افکار میں بار اشارا کیا ہے۔ اسلام کی نظر مشرق و مغرب پر یکساں ہے۔ للہ المشرق والمغرب اسلام کے سامنے پہلے بھی انسان ہے اور بعد میں بھی انسان اسلامی ثقافت کی روح میں بھی اول و آخر انسان اور انسانیت ہی کار فرما نظر آئے گی۔ لیکن یہ انسان اور انسانیت بالفاظ دیگر اسلامی ثقافت پوری طور پر مشہور ہو گی تو جب ہی کہ اقبال کی طرح ہم بھی قرآن مجید میں غوطہ زن ہوں۔ حضور رحمتہ للعالمین کی ذات گرامی سے براہ راست تعلق پیدا کریں۔ رہا اشپینگلر سو یہاں مجوسی ثقافت کے بارے میں جس کی بناء پر اس نے اسلامی ثقافت کو بھی مجوسیت سے تعبیر کیا اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ مجوسی ثقافت میں خدا کے مقابلے میں کچھ اور بھی ہستیاں ہیں جن کو قدرت اور اختیار حاصل ہے۔ لیکن اسلام نے تو ذات الٰہیہ کے سوا کسی اور ہستی کو جو صفات خداوندی سے منصف ہو تسلیم ہی نہیں کیا۔ مجوسی ثقافت میں انسان نیند کی سی زندگی بسر کرتا ہے محسوس کرتا ہے اس کی ذات یوں کہیے خودی کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہمیشہ کسی ظہور کا منتظر رہتا ہے۔ اشپینگلر نے غلطی سے انتظار کی اس کیفیت کو آمد مہدی کی روایت سے نسبت دیتے ہوئے یہ نتیجہ قائم کیا کہ مسلمان بھی صناف زندگی میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلام ایک پیغام بیداری ہے جس نے خودی کی حقیقت پر زور دیا۔ اس کی ایک غایت، ایک نصب العین اور مستقبل ٹھہرایا۔ دنیا ایک رزم گاہ خیر و شر ہی سہی گو اسلام کا نظریہ اس سے مختلف ہے لیکن اس رزم گاہ میں بھی انسان کو نہ کسی کا انتظار ہے نہ اس کے دل میں کوئی اضطراب۔ صراط مستقیم اس کے سامنے ہے۔ وہ اپنی تقدیر کا آپ صورت گر ہے۔ پھر یہ جو اشپینگلر نے کہا ہے کہ مسلمان بندۂ تقدیر ہے تو لفظ تقدیر کا مفہوم اس کے نزدیک وہی ہے جو قسمت کا اور جس کا اشارا زمانے کے سامنے انسان کی بے بسی کی طرف ہے۔ اس لئے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے بہرحال ہونا تھا قیمت کا لکھا پورا ہو کر رہتا ہے۔ اقبال نے اس سلسلے میں زمانے کے بارے میں اسلامی نظریے کا حوالہ دیتے ہوئے جس سے تقدیر کے اس تصور کی جو قسمت کا مرادف ہے نفی ہو جاتی ہے کہا ہے کہ زمانے کی حقیقت ہمیں لازماً اس امر پر مجبور کر دیتی ہے کہ اس کے کسی لمحے کو رائیگاں نہ جانے دیں۔ انسان کو یہ قدرت حاصل ہے کہ ان لامتناہی امکانات کو جو زندگی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اپنی ہمت اور کوشش سے جس حد تک چاہیے حاصل کر لے۔ اقبال نے اس امر پر بھی اظہار افسوس کیا ہے کہ اشپینگلر ایسے فاضل انسان نے عوام میں مروج خیالات کو اپنی تائید میں پیش کیا۔ اسلامی ثقافت کی روح کے بیان میں اقبال کے خیالات کا یہ مختصر سا خاکہ اگرچہ سر تا سر خطبہ پنجم پر مبنی ہے لیکن اس میں کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں اقبال کے خیالات کو کماحقہ سمجھیں خواہ ہمیں ان سے اختلاف ہو یا اتفاق اسلامی ثقافت کی حقیقی روح جب بھی ہمارے سامنے ہو گی جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کریں کہ بحیثیت ایک ثقافی تحریک کے جیسا کہ اقبال نے لکھا ہے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ یہ ہو گا تو ہم اس بحث میں خود بھی آگے بڑھ سکیں گے۔ محمد اقبال فیض احمد فیض (انگریزی سے ترجمہ: سجاد باقر رضوی( ’’ کوئی شخص بھی شاعری میں عظمت کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ عظیم فلسفی بھی نہ ہو۔‘‘ یہ قول اس نہایت ذی شعور نقاد کا ہے جو کولرج کے نام سے موسوم ہے۔ خواہ مغرب میں یہ مفروضہ کلیتاً قابل قبول نہ ہو لیکن مشرق میں، بالخصوص مسلمانوں میں عظیم ناموں کی ایک فہرست اس کی شہادت دیتی ہے۔۔۔ جلال الدین رومی (۱۲۰۷ء تا ۱۲۷۳ئ)، مصلح الدین سعدی (وفات ۱۳۱۳ئ) شمس الدین حافظ (وفات۱۳۸۹ئ)، ابن الحسن خسرو (۱۲۵۳ء تا ۱۳۲۵ئ) اسد اللہ خاں غالب (۱۷۹۷ء تا ۱۸۶۹ئ) اقبال (ڈاکٹر، سر، شیخ محمد یا علامہ جیسا کہ انہیں احتراماً پکارا جاتا ہے) بلا حیل و حجت اسی منفرد سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ تاہم ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ عہد وسطیٰ کے پیش روؤں کے برعکس محض یہ نہیں کہ انہوں نے فلسفہ کے مختلف مدرسہ ہائے فکر کا جس میں قدیم و جدید دونوں شامل ہیں بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا بلکہ وہ ایک سے زیادہ زبانوں میں ایسا نثری سرمایہ بھی رکھتے ہیں جس میں منطقی اختصار کے ساتھ انہوں نے حقیقی دنیا کے مسائل کا اپنا حل پیش کیا ہے۔ تمام ’’ شاعران اثبات1؎‘‘ مثلاً ڈانٹے، ملٹن اور گوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں انہیں کی طرح وہ بھی گرد و پیش کی معاشرتی دنیا کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی نسلاً بعد نسل کی معاشرتی، مذہبی اور سیاسی معیارات فکر کے لئے غیر مستند نہیں بلکہ مسلمہ قانون ساز کی حیثیت رکھتے تھے۔ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسوی صدی کے اوائل کی دہائیاں شدید ذہنی الجھنوں اور جذباتی اذیتوں کا دور تھیں۔ مغلیہ خاندان کی مسلم حکومت کا زوال ۱۸۵۷ء میں برطانوی حکومت کے خلاف سرکشی کا خونیں انتقام۔۔۔۔ جاگیر داری نظام کے حقوق، اقدار اور روایتوں کا خاتمہ۔ غیر مسلم باشندوں کو قوت و دولت کی بیشتر اعلیٰ حیثیتوں کی تفویض۔۔۔۔ یہ ساری باتیں اجتماعی ذہن کو منتشر کر رہی تھیں۔ تباہ حالی نے انہیں سرحد پار 1؎ V.G. Kibrnan.... Introduction to poems by Iqbal.... John Murry کی دیگر مسلم اقوام کے ساتھ جو خود بھی ایسے حالات سے دو چار تھیں، بھائی چارے کے رشتے میں پیوست کر دیا تھا۔ عثمانی ترکوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے عربوں کے ساتھ، شمالی افریقہ میں لیمبیا، مراکش اور ٹیونس کے لوگوں کے ساتھ وہ ایک سکوں بخش و حوصلہ پرور آواز کے منتظر تھے جو انہیں بے اطمینانی کے بنجر پن سے باہر نکالے۔ پچھلے دو رکی رہنما آوازیں، آزاد خیال مصلحین کی دھیمی آوازیں جو انہیں برطانوی حکمرانوں کے بدیشی طور طریق سے مصالحت کرنے پر اکسا رہی تھیں، نیز مذہبی علما کی درشت آوازیں جوانہیں کفار کے دلفریب اطوار کو رد کر کے اجداد کی روایات کی جانب واپس بلا رہی تھیں۔۔۔ یہ دونوں آوازیں نئے دانشور طبقے کے لئے کوئی اپیل نہ رکھتی تھیں۔ شاعر اقبال ان کی نا آسودگی کے سوتوں سے کماحقہ واقف تھے اور مفکر اقبال ان کے اس فکری اور روحانی کرب کی ماہیت کو خوب سمجھتے تھے جو جدیدیت اور روایت کے دیوان کی کلائیوں کو گرفت میں لے کر مختلف سمتوں میں کشاکش سے پیدا کر رہے تھے۔ وہ دونوں سے ذہنی و جذباتی انس رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ہندی مسلمانوں، مسلمانان عالم اور خدا انسان اور فطرت کی تکون سے متعلق عصری مسائل کے جوابات تلاش کر لئے۔ اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ اور سائنسی خیالات کو قابل قدر گردانا اور انہیں ہضم کر لیا۔ مثال کے طور پر ہیگل کا تصور انسان اور تاریخ کے انسانی عمل کا نتیجہ ہونے کا تصور، کانت کا عقل مطلق کے بارے میں استدلال، سرمایہ داری اور طبقاتی استحصال کے خلاف مارکس کا شدید رد عمل، نطشے کا آزاد خیال بورژوا اخلاقیات کا رد اور حصول قوت و اقتدار کا استحسان، وجدانی علم کی صحت کے حق میں برگساں کی بحث، اینسٹائن کا چپار ابعادی زمانی، مکانی تسلسل کا تصور وغیرہ اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ مغرب کے عینی و مادی دونوں قسم کے فلسفے یہاں کے لوگوں کی معاشرتی و نظریاتی صورت حال سے بڑی حد تک مطابقت نہیں رکھتے۔ انہیں یہ محکم یقین تھا کہ مذہب اسلام اور ہماری محترم و پاکیزہ روایات یعنی پیغمبر اسلام ؐ کی عملی زندگی اور ان کے اقوال یہی وہ بنیادیں ہیں جو ان کے پیغام کے لئے سند ہو سکتی ہیں۔ اور انہیں پر اقبال نے اپنی بصیرت کی روشنی ڈالی۔ مسلم ذہن کو آزاد کرانے کی ضرورت، ایک طرف تو تقریباً پانچ سو سال کے معاشرتی و فکری جمود سے پیدا شدہ ہجر پن سے تھی اور دوسری طرف عقل دشمن رجعت پسند متعصب قوتوں کے جبر سے پہلے اقدام کے طور پر قدیم زمانے کے پیغمبروں کی طرح انہوں نے خانہ خدا کو جھوٹے بتوں سے۔۔۔۔ فرسودہ روایت پرستوں، تاریک ضمیر ملا، تارک الدنیا صوفی، مجمع بازوں اور شورش پسندوں سے پاک کرنے کی کوشش کی۔ کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو (بال جبریل) محض اسی طور ’’ خانہ خدا‘‘ زمین پر ا سکے خلیفہ انسان کے شایان شان ہو سکتا ہے۔ اقبال محض معنوی طور پر نہیں لفظی طور پر بھی انسان دوست ہیں۔ ان کے لئے ’’ حقیقت کی کوئی صورت اتنی توانا، اتنی دلکشا اور اتنی حسین نہیں جتنی کہ روح انسانی‘‘ زوال آدم رحمت الٰہی سے محرومی نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ منزل ارتقاء ہے جو اسے اس عمل تخلیق میں جو مسلسل جاری ہے، ہم کار خدا کا درجہ دیتی ہے۔ اس لئے کہ کائنات مکمل نہیں، یہ اب بھی مرحلہ تکمیل میں ہے اور انسان کو اس کام میں ہاتھ بٹانا ہے تاکہ وہ کسی حد تک انتشار میں نظم و ضبط پیدا کر سکے۔ یہ عالم اجسام جتنا خدا کی تخلیق ہے اتنا ہی انسان کی بھی۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق خداوندی۔۔۔۔ فطرت یا مادہ۔۔۔۔ مقابلتاً غیر متحرک اور جامد ہے جبکہ انسان کی تخلیقی قوتیں ایسے ارتقائی عمل کی حرکت میں ظاہر ہوتی ہیں جو لازماں بھی ہے اور لامکاں بھی۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں (بال جبریل) تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی، ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم (پیام مشرق) اس کے منطقی نتیجے کے طور پر اقبال نے اسلامی تصور توحید۔۔۔۔ خدا کی وحدت اور اکائی کے تصور۔۔۔۔ کو عالم اجسام اور عالم ارواح کی اکائی کے تصور پر منطبق کیا اور خدا کے ماورائی تصور کی جگہ وجود تصور کو قائم کیا، اور اس طرح دین و دنیا اور روح و مادہ کی ثنویت کو ختم کیا۔ 1؎ ’’ روح اپنے امکانات کو فطرت، مادے اور دنیا میں ظاہر کرتی ہے۔ پس جو کچھ دینوی ہے وہی اپنے وجود کی ماہیت میں دینی بھی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں چونکہ مادی قوتوں کی تدریجی تسخیر کے ذریعے انسانی ارتقاء کا عمل مسلسل اور لامتناہی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کا دائم عنصر محض تغیر و تبدیلی ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں (بانگ درا) یہ اصول داخلی و نظریاتی صورت حال پر اتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا کہ معاشرتی و مادی صورت حال پر۔۔۔۔ یہاں تک کہ مذہبی احکامات پر بھی ’’ ابدی اصول اگر تغیر کے تمام امکانات کو خارج کر دیں جو کہ قرآن پاک کے 1؎ Modern Islam in India and Pakistan.... W.S. Smith... Ashraf مطابق اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ہے تو یہ اس شے کو جامد بنانے کے مترادف ہے جو اپنے جوہر کے اعتبار سے حرکی ہے۔ 1؎‘‘ ایسے روایتی صوفی سے جو موجود دنیا کو واہمہ اور انسان کے دنیوی عمل کو کار لا حاصل سمجھ کر اسے رد کر دیتا ہے اقبال کنارہ کش ہو جاتے ہیں مگر وہ متشرع فقیہوں اور ان کی جامد و ساکن عصبیت کو بھی پوری قوت سے رد کر دیتے ہیں۔ اب آخری بات: اس تخلیقی عمل میں خاص عامل انسانی انا یا شخصیت یا ذات۔۔۔۔ یا خودی ہے جس نام سے کہ اقبال اسے پکارتے ہیں۔ تخلیق کے چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لئے، انسانی ذات کے لئے وہ تحفظات ضروری ہیں اول ادراک کے ذریعے عالم اجسام کا علم، دوم وجدانی جذب یا اقبال کی اصطلاح میں عشق۔ انہیں کے ذریعے اعلیٰ تر اقدار اور نصب العین کا حصول ممکن ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ’’ شخصیت کا تصور ہمیں ایک معیار اقدار مہیا کرتا ہے۔۔۔ جو کچھ شخصیت کی توانائی کا باعث بنے وہ خوب ہے اور جو اسے کمزور کرے وہ بد۔۔۔ فن، مذہب اور اخلاقیات کو شخصیت کے اسی تصور کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ 2؎‘‘ لیکن یہ شخصیت یا ذات خود کو نہ تنہا فروغ دے سکتی ہے اور نہ توانا کر سکتی ہے۔ یہ بحیثیت مجموعی معاشرتی تعلقات کے حوالے سے ہی ممکن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال کا ’’ مرد کامل‘‘ نطشے کے ’’ سپر مین‘‘ سے مختلف ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ اقبال کے حتمی فیصلے ہر قسم کے قومی تعصبات، استعماری مقبوضات، نسلی امتیازات، معاشرتی استحصال اور ذاتی اغراض کے سراسر خلاف ہیں۔ ان میں سے ہر صورت حال انسانی شخصیت کو مسخ کرتی ہے اور اس کی تذلیل کا باعث بنتی ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ اقبال کے بارے میں وافر تنقیدی مواد، ان کی شاعری کی تحسین اور قدری جائزے کے بجائے ان کے پیغام اور تصورات کے مطالعے اور تجزئیے سے متعلق ہے۔ تاہم ان کی جذبہ کی شدت سے بھرپور تھرتھرائی ہوئی شاعری اور اس شاعری کی قائل کرنے والی تاثیر ان کے بیشتر اثر و رسوخ کا باعث ہے ان کے شعری مجموعوں میں ہیئت و مواد، خیال و اسلوب واضح خطوط پر حرکت کرتے نظر آتے ہیں اور سلسلہ تخلیق کے طویل عرصے میں ان کا ارتقاء دلچسپ مطالعے کا موضوع ہے۔ پہلے دور میں جو ۱۹۰۵ء تک ختم ہو جاتا ہے بیشتر نظمیں مظاہر فطرت کے محرکات استعجاب و حیرت سے متعلق ہیں۔۔۔ سحر و غروب آفتاب، پہاڑ و دریا، چاند ستارے اور نوجوانی کی بے سبب اداسیاں۔ مختصر نظموں کے اس داخلی دور کے بعد طویل نظموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔ شدید جذبات پر مشتمل خطیبانہ نظمیں، جن میں زیادہ تر قوی یا بین الاقوامی سیاسی موضوعات پر ہیں۔ یہ تمام نظمیں اردو میں ہیں۔ ۱۹۱۵ء میں اقبال نے اپنی پہلی طویل فلسفیانہ نظم، اسرار خودی، فارسی زبان میں پیش کی۔ اس کے ساتھ ہی فلسفیانہ فکر کا دوسرا دور جو زیادہ تر فارسی منظومات پر مشتمل تھا، شروع ہوا۔ اور آخر میں تیسری دہائی کے اوائل میں ان کے پیغامات اور ان کا تکمیلی 1. Reconstruction of Religions Thought in Islam. Ashraf 2. Iqbal in Introduction to prof Nicnolson's Translation of Secerts of Soul. Ashraf. دور آیا جو تین اردو مجموعوں پر مشتمل تھا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جو ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔ اس وقت تک ان کی بے چین تلاش کا سفر داخلی تجربوں کے ٹکڑوں، فطرت سے پیدا ہونے والے تحیر، ہندی مسلمانوں اور اسلامی دنیا کی زبوں حالی سے گزر کر بنیادی حقائق۔۔۔ خدا، کائنات اور انسان۔۔۔۔ کے بارے میں پر سکون فکر تک پہنچ گیا۔ شعری بصیرت کے دائرے میں تدریجی پھیلاؤ کے تناسب سے ان کے شعری موضوعات میں کمی ہوتی گئی اسراف، پھیلاؤ سے استحکام کی طرف چلتے ہوئے آخر کار ان کی فکر آخری برسوں کے تصور وحدت تک پہنچ گئی۔ اسی قسم کی تبدیلی اسلوب میں بھی ہوئی۔ تفاصیل کی طوالت کے بجائے ایجاز و اختصار، تزئین اور ایمائیت کے بجائے واضح اور بلا واسطہ بیان، شاندار خطابت کے بجائے سادہ شاعری۔ مثنوی کی سیاسی یا فلسفیانہ طویل نظم یا مسدس کی ہیئت کی جگہ غزل، قطعہ اور رباعی کے ایجاز نے لے لی۔ جذباتی فضا میں تبدیلی محبت کے احساس کے بجائے عشق کے شدید جذبات کی صورت میں ہوئی۔ بالغ ذہن کی ان نظموں میں اقبال نے مشرقی شاعری کی عام تزئینی روایت کو رد کر کے بہت سے طریق کار ایسے وضع کئے جن کے باعث ان کی نظموں کی سختی و درشتی دور ہو گئی مگر معنی کی اعلیٰ سطح قائم رہی۔ اول صوتیات کا نظام و آہنگ اور بہت سی ایسی عروضی ایجادات جو ترجمہ کی صورت میں معدوم ہو جاتی ہیں۔ دوم خیال انگیز اسم معرفہ کا استعمال جوان سے پہلے اردو شاعری میں مروج نہ تھا۔ مثلا ً ’’ ریگ روان کاظمہ‘‘ کوہ دمادند کی برف عراق و حجاز کے ریگزار خون حسین، عظمت روما، جمال قرطبہ، سمرقند و اصفہان کی شان وغیرہ سوم یہ کہ انہوں نے بہت سے غیر معروف الفاظ کا اجراء کیا جو قدیم ہیں مگر منسوخ نہیں، جو غیر مستعمل ہیں مگر مبہم نہیں۔ نیز یہ کہ انہوں نے ان سب کے لئے ایسے آہنگ اور اوزان استعمال کئے جو اردو شاعری میں شاید ہی کبھی آ سکے ہوں۔ اس منزل پر شدید داخلی چھان بین اور مختلف جہتوں میں غور و فکر کے بعد انہیں بالاخر وہ موضوع مل گیا جو اپنی وسعت کے سبب ان کی پوری شعری بصیرت پر چھا گیا اور وہ دہرا موضوع تھا انسان کی عظمت اور اس کی تنہائی۔۔۔ انسان کے خلاف صف آراء مشکلات، ظلم، استحصال، اس کی باطنی خامیاں اور خارج میں ایک دشمن سنگ دل فطرت اور ان سب کا احاطہ کرتی ہوئی اس کی تنہائی یہ ہے وہ چیلنج جس کے بالمقابل المیہ کے ہیرو۔ انسان کی عظمت ہے لامتناہی کشمکش اور وصال خداوندی کے لئے مستقل آشوب اور حصول اس کا مقدر ہے وہ اس شان و شوکت اور اس دکھ درد کا امیدوں اور پریشانیوں کا انسانی زندگی کے آشوب اور اس کے حصول کا نغمہ خواں ہے۔ کبھی ان نغموں میں نرمی و ہمدردی ہوتی ہے تو کبھی شدید غصہ اور جھنجھلاہٹ اور اقبال نے یہ کام خلوص و یقین اور اظہار کی ایسی وسعت و لطافت کی سطح پر کیا جو ان کے عہد میں کوئی نظیر نہیں رکھتی۔ ٭٭٭ ’’ زماں‘‘ ۔۔۔ اقبال کے شاعرانہ عرفان کے آئینے میں ڈاکٹر عالم خوند میری ’’ زمانہ یا وقت‘‘ اقبال کی شاعرانہ فکر کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں یہ گنجائش نہیں کہ اس پر سیر حاصل بحث کی جائے۔ راقم الحروف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ موضوع اقبال کی شاعرانہ فکر پر چھایا رہا اور اس کی شاعری کے مختلف ادوار میں اس موضوع کے مختلف پہلو منکشف ہوتے رہے۔ لیکن بنیادی مسئلہ اس کے پیش نظر یہی رہا کہ نفس انسانی اور زمانے کی رفتار کو ہم آہنگ کیا جائے تاکہ انسان کو یہ قدرت حاصل ہو سکے کہ وہ کائناتی زمانے کے جبر سے آزادی حاصل کرے۔ وقت کے مسئلے کو سلجھانے کے لیے اس نے برگسوں سے بھی مدد لی اور دوسرے جدید فلسفوں سے بھی استحداد کیا۔ لیکن اس کا اصلی محرک، وقت کے فلسفے، پر روشنی ڈالنا نہیں تھا بلکہ انسان کے روحانی تجربے اور تاریخ میں ایک ربط قائم کرنا تھا۔ اس ضمن میں یقینا اس نے کئی نکات روشن کیے لیکن اس کا اصل موضوع نفس انسانی ہی رہا۔ اسی لیے ضرورت ہے کہ اقبال کی فکر کے کسی ایک جزو کو دوسرے اجزاء سے علیحدہ نہ کیا جائے اور اس کی فکر کے کسی بھی پہلو پر بحث کرتے ہوئے کل اقبال کو پیش نظر رکھا جائے کیونکہ اقبال کا شاعرانہ جنیئس تدریجی طور پر اپنے آپ منکشف کرتا ہے تضاد کا گمان اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم کسی ایک منزل کو دوسری منزلوں سے الگ کر لیتے ہیں۔ اقبال کی شاعرانہ فکر انسانی تقدیر کے تقریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اسی لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں (ہر چند کہ محبت اس کا تقاضا کرتی ہے) کہ اس کی فکر۔۔۔ تمام کی تمام۔۔۔ عصریت کی حامل ہے اور عصری انسان کے مسائل کا حل، اس کے بس میں ہے لیکن اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جہاں تک وقت یا زماں کے مسئلہ کا تعلق ہے اور اس کا انسانی تقدیر سے ربط ہے اقبال ایشیائی شاعری میں پہلا مفکر شاعر ہے جس نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کو اپنی شاعرانہ فکر کا موضوع بنایا اور اس طرح بیسویں صدی کی شاعرانہ آواز بن گیا۔ زمانے کا شعور، خصوصاً جہاں تک شاعرانہ فکر میں اس کے اظہار کا تعلق ہے، تکوین (Becoming) اور تغیر کے وجدان کا ایک نتیجہ ہے۔ ریناں نے کہا تھا کہ تکوین اور تغیر کا وجدان انیسویں صدی میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا تھا۔ بیسویں صدی کا شعور زماں، اسی وجدان کی تکمیل ہے جس نے بالآخر پورے انسانی شعور کو اپنی گرفت میں لے لیا یہاں تک کہ بیسویں صدی کی فکر، جس نے اپنے آپ کو مذہبی مابعد الطبیعیاتی وابستگی سے آزاد کر لیا تھا (یا دوسرے لفظوں میں خالصتہً ایں جہانی یا سیکولر بن گئی تھی) ایک اعتبار سے زماں گرفتار بن گئی۔ 1؎ اسی بات کا یوں بھی اظہار کیا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کی سیکولر فکر میں زروانیت کا احیاء ہوا۔ تقریباً سارے جبری فلسفوں میں مانی کے قدیم مسلک اور زروانیت کی جھلک نظر آتی ہے، اسی لیے بعض مذہب مائل نقادوں کو جہاں بھی وقت اور زماں کے مسئلے سے سنجیدہ دلچسپی دکھائی دیتی ہے، وہاں انہیں 1؎ اسی حقیقت کا اظہار اقبال نے یوں کیا تھا: خود ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری زروانیت کے گہرے سائے نظر آتے ہیں۔ اس بناء پر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ بعض نقادوں نے اقبال کی شاعرانہ فکر کا رشتہ زروانیت سے جوڑ دیا۔ اس قسم کی مذہبی احتیاط بے جا تو نہیں لیکن اقبال کی حد تک بے محل ضرور ہے۔ اقبال کا شمار، ان مذہبی مفکر شاعروں میں کیا جانا چاہیے جنہوں نے اپنے گہرے شعور زماں کے وسشیلے سے زماں اور لازماں اور تغیر اور دوام کو ایک اعلیٰ ت رحقیقت کے کشف میں مربوط کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شاعرانہ فکر کا اہم اور مرکزی سوال یہ ہے کہ زماں اور لامکاں، ثابت اور سیار کا تضاد، محض اس خرد کی ایجاد تو نہیں جو اضداد سے گھبرا جاتی ہے اور کیایہ تضاد محض ایک لسانی تشکیل تو نہیں جس نے ماورائی حقیقت کی ترسیل میں عجز سے گھبرا کر ایسی اضدادی زبان کی تشکیل کی جو ایک مرتبہ اضاد کی ایجاد کے بعد ان کی ترکیب میں قاصر رہتی ہے۔ غالب کا ذہن بھی اس سوال سے گزرا تھا جب اس نے کہا: جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ بظاہر جہاں تک الفاظ کی ساخت کا سوال ہے غالب کو جواب نہیں ملا لیکن اسی سوال میں ایک جواب پنہاں تھا کہ شاید یہ ہنگامہ کون و مکان اور ذات سرمدی، دونوں ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ایک کی حقیقت کے اثبات کے لیے، دوسرے کے انکار کی ضرورت نہیں۔ غالب اور اقبال کے وجدان کا سرچشمہ چونکہ ایک ہی ہے اسی لیے ان دونوں میں ٹکراؤ نہیں بلکہ اگر ایک سوال ہے تو دوسرا جواب غالب تکوین کے ہنگامے کے شعور کا ترجمان ہے اور اس کا شاہد تو اقبال تکوین سے گزر کر زمان اور پھر زمان سے بلند ہو کر شکست زماں تک پہنچتا ہے۔ اقبال کی شاعرانہ فکر، تکوین زماں اور شکست زماں کی فکری شعری جدلیت کا اظہار ہے۔ اس مقام پر جملا معترضہ کے طور پر اس حقیقت کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اسلامی فکر نے حقیقت مطلق کے اثبات اور عرفان کے لیے کبھی بھی عالم محسوسات اور زمانی مظاہر کا کلیتہً (انکار نہیں کیا اور اس لیے اسلامی منطقین بھی، ارسطو کی منطق سے پوری طرح مطمئن نہیں رہے۔ 1؎ 1؎ اس ضمن میں ابو نصر الفارابی کا ایک بیان اہم ہے۔ ارسطو نے اپنے رسالہ ’’ تعبیرات‘‘ میں ایک اہم بات کہی تھی کہ جہاں تک مستقبل کے امکانی واقعات کا تعلق ہے، ایسے قضا یاد پر قانون تضاد کا اطلاق مشکل ہے کیونکہ جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے ارادہ اور تفکر بھی علی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ الفارابل نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ’’ لزوم کی تمام صورتیں ایسی ہیں کہ نقیضین میں سے کسی ایک کا لازماً درست ہونا واجب ہے لیکن امکانات کی صورت یہ ہے کہ نقیضین میں سے کسی ایک کا لازماً واقع ہونا ضروری نہیں کیونکہ ایسے نقیضین میں جو بغیر کسی لزوم کے مادی طور پر ممکن ہیں، درست اور غلط متبادلات کا تعین واقعے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘ فارابی کی اس تشریح سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے پیش نظر، دینیاتی اور ما بعد الطبیعیاتی محرکات ہیں۔ وہ انسانی آزادی کی مابعد الطبیعیاتی ضمانت چاہتا ہے، چونکہ قرآن اس بارے میں واضح ہے یہ بات اہم اور دلچسپ ہے کہ ارسطو کے اسلامی شارحین یہاں تک کہ ابن رشد نے بھی ارسطو کے اس بیان کو اہمیت دی اور اس کی تشریح اس انداز سے کی کہ مستقبل نقیضین کی منطق سے آزاد رہ سکے۔ یہ سوال کہ کس طرح ماضی کو اپنی گرفت میں لیا جا سکتا ہے یا ماضی تک انسان اپنی قدرت کی توسیع کر سکتا ہے۔ نہ صرف اقبال کے اولیں شعری فکری محرکات میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے بلکہ دم آخر تک اس کے شعور پر چھایا رہا اور نام نہاد احیانیت پسند رحجان، اس کی فکر کے اس عنصر سے وابستہ رہا لیکن اقبال کی متجسس فکر، احیائیت پسندی کے آسان حل کو مطلقاً قبول کرنے پر مائل نہ ہو سکی۔ البتہ اس کے اہم محرک نے اس کو ماضی، حال اور مستقبل کے ربط پر غور کرنے کے لیے اکسایا کائناتی زمانے میں وقت کے یہ ادوار بے اصل سہی لیکن زندگی میں وقت، انہیں ادوار سے عبارت ہے اور انہیں ادوار کی حقیقت تاریخ کے شعور کا منبع ہے اگر ان ادوار کو بے معنی اور حقیقت سے کلیتہً غیر متعلق فرض کر لیا جائے تو تاریخ یکسر بے معنی بن جاتی ہے اسی لیے جن تمدنوں نے ان ادوار کو حقیقت اور اس کی ماہیت سے بے تعلق تصور کر لیا وہاں تاریخ کا شعور، اپنے لیے کوئی جگہ حاصل نہ کر سکا۔ ابدیت اور وقت کے تضاد اور ابدیت کے حق میں انسانی ذہن کے کامل اور غیر مشروط اقرار نے ہمیشہ تاریخ کو انسانی زیست کے لیے مہمل بنایا ہے۔ قدیم ہندی تمدن اس کی ایک بین مثال ہے۔ قدیم ہندی فلسفے اور آرٹ کے شعور وقت میں تاریخی زمانے کے لیے کوئی مقام نہیں۔ اجتماعی زندگی میں وقت کے انہیں ادوار کی معنویت، روایت اور تجربے، قدیم اور جدید، تسلسل اور تبدیلی کی کشمکش میں ظاہر ہوتی ہے۔ چاہے ا س کش مکش کا حل، تجربے اور تبدیلی کے انکار ہی کی صورت میں کیوں نہ ڈھونڈا جائے۔ لیکن یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ انسانی شعور میں زمانے کا تناؤ، موجود ضرور ہے۔ اسی لیے احیائیت پسند رحجانات انہیں تمدنوں میں ظاہر ہوتے ہیں جن میں زمانہ کسی نہ کسی طرح حقیقت کا حامل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھرپور شدت پسند اور فعال احیائیت ہمیں ان تمدنی علاقوں میں نظر آتی ہے جہاں یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا چلن رہا یا جہاں ان کے گہرے اثرات رہے۔ جہاں ان تمدنوں میں احیائیت ایک بے پناہ جوش عمل کے ساتھ ماضی کو واپس لے آنے کی تمنا کی صورت میں اپنا اثر دکھاتی ہے، وہیں ہندی تمدن میں فعال،ا حیائیت پسندی کی بجائے ماضی میں استغراق اور اس میں ڈوبے رہنے کا رحجان نظر آتا ہے۔ اقبال کی شاعری کے پہلے ہی دور میں ہمیں ایک جوش کے ساتھ ماضی کو واپس لے آنے کا رحجان نمایاں نظر آتا ہے۔ اقبال کے پہلے اردو مجموعے کی پہلی نظم ’’ ہمالہ ‘‘ کا آخری مصرع1؎ ’’ دوڑ پیچھے کی طرف، اے گردش ایام تو‘‘ ماضی سے اس کے بے پناہ لگاؤ اور اس طرح وقت کے بہاؤ کے ساتھ اس کی وجدانی وابستگی کا مظہر ہے۔ شاعر ابھی معصوم ہے اور شاید یہ نہیں جانتا کہ وقت کے بہاؤ میں تکرار نہیں لیکن جو بات اہم ہے وہ ماضی کے احیاء کا طاقتور جذبہ ہے۔ یہاں ہمالہ کی قدامت اور اس کے اضافی دوام کو زمانے کے بہاؤ کے ایک نقیض کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور اس ابتدائی نظم ہی میں نقیضین اور 1؎ یہاں میں اپنے امکانی معترض سے معانی کا خواستگار ہوں کہ میں نے اقبال کی ایک کمزور نظم کا حوالہ دیا لیکن چونکہ بحث اقبال کے شعری وجدان سے ہے اس لیے میری یہ دانستہ غلطی برمحل ہے اور یوں بھی اس دور کی ان بہتر نظموں میں بھی جنہیں عام طور پر قومی نظمیں کہا جاتا ہے۔ یہی جذبہ غالب نظر آتا ہے۔ اضداد کے ساتھ شاعر کی اس وجدانی وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے جو اس کی شاعرانہ زندگی کے مستقبل میں ایک طاقت ور جذبہ بن جانے والی تھی۔ نوجوان اقبال جب پروانہ و شمع جیسے پامال استعاروںکو استعمال کرتا ہے۔ تو انہیں ایک نیا مفہوم عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں وہ شمع کے لیے چھوٹا سا طور کی تشبیہہ استعمال کرتاہے تووہیں پروانے کو کلیم کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ طور اور کلیم کی علامتیں شمع و پروانہ کے اضداد کو ایک نیا مفہوم عطا کرتی ہیں۔ اسی طرح ایک نظم میں عقل و دل کا پرانا تضاد ابھر آتا ہے۔ اگر دل عقل کو زمان بستہ قرار دیتا ہے تو اپنے آ پ کو طائر سدرہ آشنا کے نام سے موسوم کرتا ہے یقینا اس قبیل کی نظموں میں شاعر کا نقطہ نظر روایت سے وابستہ ہے لیکن اظہار بیان اور استعاروں کا استعمال اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وہ ایک نئی اور معتبر بصیرت کے حصول کے لیے بے چین ہے تکوین اورتغیر کے ہنگامے نے ا س کی نظر کو چونکا دیا ہے اور جہاںوہ زندگی کے راز کو سمجھنے کے لیے بے تاب ہے وہیں اضداد کی کشمکش اس کے لیے ایک چیلنج بن جاتی ہے مثلاً: عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے (آفتاب صبح) اور عقدہ اضداد کی یہی کاوش اس کے لیے سامان لذت بھی ہے۔ : کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے (آفتاب صبح) شمع و پروانہ‘ ابر کوہسار‘ ماہ نو‘ موج دریا‘ صبح کا ستارہ‘ ابر جیسے استعاروں کا مسلسل استعمال اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ شاعرا یک حقیقی شاعرانہ کرب میں مبتلا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ ایک اعلیٰ نصب العین کی تکمیل قدرتنے اس کے ذمے دی ے اور وہ ابھی اپنے اس مشن سے آگاہ نہیں لیکن اس بات کا شدید احساس ہے کہ عصری انسانی موقف میںکوئی نقص ضرور موجود ہے۔ اور اس وقت انسان کی تاریخی تقدیر کو تخلیق اور تخریب کے کائناتی ڈرامے سے مضبوط کرنا ہے۔ ایک ارتقاء پذیر کائنات کا ابھرتا ہوا عرفان شاعر کو انسانی تقدیر کے بارے میں ایک امید عطا کرنے لگتاہے اس سے پہلے غالب نے بھی کائنات کے اضطراب اور انسان کے وجودی غم میں ایک ربط محسوس کیا تھا لیکن وہ انہیں انسانی زیست کی سطح پر مربوط نہ کر سکا تھا۔ ا س ربط کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب شاعرکی بصیرت تکوین کے کائناتی نظام اور تاریخ کے عمل کے اندرونی آہنگ کو دریافت کر لے۔ اقبال نے اپنی فکر کا آغاز روایتی نو فلاطونی مسلک سے کیا ہے لیکن اس کی عصریت نے اس روایتی مسلک میں پنہاں حرکت کو دریافت کر لے۔ پہلے ہی دور کی ایک معنی خیز نظم کنار راوی میںشاعر کائناتی تغیر اور انسانی زیست کو مربوط کرنے میں کامیاب ہوتا ہوا نظرآتا ہے۔ انسان ابدی زیست کے سمندر میں رواں ہے کبھی پیدا کبھی نہاں لیکن موت یا عدم مطلق اس کی آخری تقدیر نہیں ۔ تخریب اور تخلیق کے کائناتی عمل ہی میں انسانی تقریر کا راز پنہاں ہے۔ اقبال کے ابتدائی شاعری ہی میں فطرت ایک زندہ وجود کے طورپر نمایاں ہوتی ہے۔ اس نے شاید ابھی تک اسپنوزا ور گوئٹے کا بغور مطالعہ نہیں کیا تھا۔ لیکن غالب کی طرح اس نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ وجود شر نہیں ہو سکتا ۱؎۔ ۱؎ زیست یا وجود کے بارے میں غالب کے موقف کا اظہار ایک واقعہ سے ہوتا ہے کہ جس کا اظہار حالی نے (باقی اگلے صفحہ پر) وجود کی تغیر پذیری اضطراب ہی نے قدیم حکما کے ایک گروہ کو وجود کے گناہ آلود ہونے کے نظریے تک پہنچایا تھا۔ لیکن اس اہم سوال تک ان کی نظر نہ جا سکی کہ اگرکائناتی اور انسانی وجود وجود مطلق سے بے تعلق نہیں اور اگر کائناتی وجود میںتغیر اورحرکت ہے تو اس حرکت سے سرچشمہ کی تلاش وجود مطلق ہی میں کی جانی چاہیے۔ اسلامی حکماء میں ابن العربی اور شیخ الاشراق نے اس گتھی کو سلجھایا تھا لیکن یہ روایت ایران کے حکیم ملا صدرہ تک پہنچی اور رک گئی۔ اقبال کا یہ ایک کارنامہ ہے کہ اس نے روایت کو پھر زندہ کیا اور اپنے انداز میں ایک حرکت پذیر کائنات میں انسانی موقف کو متعین کرنے کی کوشش کی۔ کائنات اگر تغیر پذیر ہے تو پھر انسانی تقدیر کو بھی تغیر پذیر ہونا چاہیے۔ انسانی تاریخ کی کوئی منزل بھی آخری اور قطعی ؤمنزل نہیں ہو سکتی۔ دوسرے الفاظ میں انسان تبدیلی کے قابل ہے ۔ فکر کی ایک جست نے شاعرکو ایک اہم حقیقت کو منکشف کیا کہ انسانی اجتماع بھی اس قانون تغیر سے مستثنیٰ نہی ہو سکتا۔ اگرآج ایک ملت تباہ حال ہے تو کل یہ ابھر سکتی ہے ۔ لیکن کائنتات میں جہاں صرف اٹل قانون کی حکمرانی ہے ۔ وہیں انسانی عالم میں ارادہ ایک تخلیقی طاقت کا حامل ہو سکتا ہے۔ تاریخ کی سطح پر ارادہ اور زمانہ وقت قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں کائنات میں وقت محض ایک مقدار ہے وہیں انسانی زیست کی سطح پر ایک تخلیقی قوت ۔ اقبال کے اس عرفان وقت کی اندرونی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ روایتی نو فلاطونی نظریہ جمال کی گرفت سے آزادی حاصل کرنے کے دوران اس کی حساس شاعرانہ فکر پر یہ راز کھلا کہ جہاں حسن لا محدود ہے وہیں مظاہر حسن تبدیلی فنا اور تخریب کے دائرہ عمل سے آزاد نہیں۔ زمانہ اپنا ایک تحریری پہلو رکھتاہے ۔ اور حسین بھی عدم کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کی نظم حقیقت حسن دو اعتبارات سے اہم ہے ایک تو یہ کہ زمانہ کا تخریبی پہلو ا س میں نمایاں ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس نظم میں ایک نیا موضوع جو آگے چل کر اقبال کی شاعری میں مستقل نوعیت اختیار کر نے والا تھا۔ ابھرتا ہے یعنی خدا اور انسان کا مکالمہ روہی حسین ہے ۔ حقیقت زوال ہے جس کی تو پھر بقاء کی طرح حاصل کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ سوال مستقبل کے بارے میں ایک مضطرابی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ کائنات میں تخریب اور تخلیق کا عمل ایک تکرار کا حامل ہے۔ اور اس لیے کائناتی سطح پر ماضی حال اور مستقبل بے معنی ہیں اور اسی لیے تغیر اور دوام بھی اپنی ایک الگ نوعیت رکھتے ہیں۔ چونکہ وہ قانون جبر کے تابع ہیں اسی لیے وقت ان پر حکمران ہے۔ انسانی عالم میں بقایا دوام کے لیے وقت پر فتح ضروری ہے۔ اگر اقبال اس راز کو نہ پا لیتا‘ تو یقینا اس پر زرو انیت کا الزام بجا ہوتا۔ اقبال کی نظیر کسی منزل پر بھی صرف زمان کی حقیقت تک محدود نہیں رہی۔ شکست زمان کی ضرورت پر بھی اس کی نظر رہی کیونکہ اسی طرح دوام ممکن ہے اپنی ایک اہم نظم طلبہ علی گڑھ کالج کے نام میں جہاں وہ گردش آدم اور گردش جام میں فرق کرتا ہے وہیں ذوق طلب کو موت پر فتح حاصل کرنے کا راز بتاتا ہے: ۱؎ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) یادگار غالب میں کیا ہے۔ حالی نے ایک بار صوفیہ کرام کے ایک مشہور قول کا ذکر کیا ’’وجودک ذنب‘‘ غالب نے ایک غزل میں اس خیال کی تردید کی: دم از وجودک ذنب زرند بے خبراں چہ ساں عطیہ حق را گناہ ما گویند موت ہے عیش جاوداں ذوق طلب اگر نہ ہو گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز غمکدہ نمود میں شرط دوام اور ہے اسی دور کی ایک دوسری نظم کوشش ناتمام میں ارادہ بقا کو وہ زندگی کا راز بتاتاہے: راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ کام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے یقینا اس بارے میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ اقبال کے اس نئے رجحان پر مغربی ادب اور فکر سے اس کی گہری واقفیت اور رسائی کا اثر تھا۔ جہاں اس نے گوئٹے سے یہ سبق سیکھا کہ زندگی کی عظمت جستجوئے مسلسل میں پنہاں ہے وہیں نطشے نے اسے یہ درس دیا کہ تخلیق تخریب کی متقاضی ہے: وہ جسے خیر اور شر کا خالق بننا ہے یقینا اسے پہلے قاہر بننا ہو گا اور اقدار کی کامل نفی کرنی ہو گی (بقول زرتشت) لیکن یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ اقبال نے یہ سبق پہل مرتبہ مغرب سے حاصل کیا اس نے یہ عرفان جیسا کہ اس بحث کے دوران واضح کیا گیا ہے اپنی شاعرانہ زندگی کے آغاز ہی میں حاصل کر لیاتھا۔ مغرب نے اس عرفان کو اور بھی چمکایا شاید اسی عرفان کے چمک جانے سے وہ رومی کی جانب مائل ہوا جس نے بہت پہلے اس راز کو پا لیا تھا: گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا آؓاداں کنند می ندانی اول آں نبیا درا ویراں کنند مغرب نے اس پر سب سے بڑا احسان یہ کیا کہ اس نے اس اثر کے تحت اپنے تاریخی ضمیر کو دریافت کر لیا۔ اس تاریخی ضمیر کی دریافت کے عمل میں اس نے زمانے یا وقت کی معنویت کا ادراک کیا کہ وقت ہی تقدیر اور تاریخ کے درمیان ایک واسطہ ہے۔ اور تاریخ کا ایک اہم تخلیقی محرک ادراہ ہے۔ قدیم ایشیائی مذہبی شعور میں تکوین کا عمل نقص کی جانب اشارہ کرتا ہے اور اسی لیے حرکت اور تغیر کمال کی ضد بن جاتے ہیں اور چونکہ کمال کی ضد کی ہیں اس لیے تکوین عمل کو زوال کی علامت سمجھا گیا۔ افلاطونی اور نوفلاطونی شعور زیست میں یہ خیال مرکزی اہمیت اختیار کر گیا کہ خود ارسطو نے بھی جس کا شعور تکوین افلاطون کے مقابلے میں حقیقت سے قریب تر تھا۔ زمانے کو زوال اور انحطاط کا پیامبر تصور کیاتھا ۱؎۔ ۱؎ ارسطو ماہیت زماں پر بحث کرتے ہوئے اپنے رسالہ طبیعیات (۲۲۲۶) میں کہتا ہے کہ زمانے میں ہونے کا مطلب زوال اور کہنگی کا شکار ہونا ہے کیونکہ وقت جو کچھ حاصل ہے اسے چھین لیتا ہے تباہی کاپیامبر ہے‘‘۔ تکوین کا عمل یقینا موجود نقص کی جانب اشارہ کرتا ہے لیکن کائناتی اور انسانی سطحوں پر یہی نقص ایک ایسے کمال کی جانب سفر کی علامت ہے جس کی کوئی منزل آخر نہیں ۱؎۔ لطف خرام بذات خود ایک قدر رکھتا ہے اور اسی لیے قطب آسمان قافلہ نجوم کو رشک بھری نظروں سے دیکھتا ہے: کہتا تھا قطب آسماں قافلہ نجوم سے ہمرہو! میں ترس گیا لطف خرام کے لیے اقبال نے اپنے اسی شعور تکوین و تغیر میں شخصیت کے استناد کی کلید تلاش کی اور اس اعتبار سے مستند اور معتبر شخصیت وہ ہے جو اس تغیر مسلسل سے کامل طورپر آگاہ ہو اور اس کی تقدیر کے بدلنے میں وسیلے کے طور پر استعمال کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ اسی دور میں اقبال کے شاعر انہ شعور میں تاریخ سے آگاہی کا ایک نیا عنصر ابھرتا ہے۔ خود شناسی اورتاریخ شناسی میں ایک آہنگ کی دریافت اس شعری دور کی ایک اہم خصوصیت ہے اسی دریافت کا اثر ہے کہ اقبال اپنے آپ کو ایک ایسے تاریخی گروہ سے وابستہ کرنے لگتا ہے جو اس کی نظر میں ایک جغرافیائی علاقے میں انسانوں کا ایک اتفاقی اجتماع نہیں ہے۔ بلکہ جو ایک متعین تاریخی تسلسل رکھتا ہے اور اپنا ایک متعین کردار بھی۔ اس تاریخی شعور نے اس کی شاعرانہ حقیقت کو ایک نیابعد عطا کیا اور اسی لیے المیے کے اس احسا س کو ابھارا جو اب تک اس کی شاعری میں اجاگر ہواتھا۔ المیے کا یہ احساس اس کے نجی دکھوں کا آفریدہ نہیں تھا۔ بلکہ اس گروہ کے تاریخی تسلسل کے انجماد کے ایک ادراک کاایک اثر تھا۔ اس کی تاریخی بصیر ت نے محض روایت کے تسلسل سے اور روایت کے ارتقاء کے مسلسل عمل میں فرق محسوس کیا اس لیے اس احساس الم کا سرچشمہ ماضی میں حرکت اورحال کے جمود کا ادراک اور تقابل ہے۔ اس تقابل نے الم کو کامل یاس میں تبدیل کر دیا ہوتا اگر وہ اس منزل پر اس اعتقاد کاحامل نہوتاکہ انسانی زیست کے تاریخی ڈرامے کا کوئی آخری منظر نہینکیونکہ انسانی تاریخ کا سٹیج ایک ایسی کائنات ہے تغیر جس کے زمانے کا ابدی قانون ہے اسی دور میں اس کے ذہن میں ماضی سے ایک رومانی پیکار شروع ہوتی ہے جس نے اقبال کو ماضی میں مستغرق ہونے سے بچا لیا ۔ ماضی سے اسی پیکار کا شاعرانہ شاہکار اس کی نظم شکوہ ہے۔ اگر اس کا شعور اسی منزل پر رک جاتا تو وہ ایک مہمل حد پر پہنچ کر شاید ماضی کی نذر بھی ہوجاتا۔ خدا سے شکوہ میں انسان کے جبر کا پہلومضمر ہے۔ شکوہ وہی کرتا ہے جس کا عمل خو د آفریدہ نہیں اور جس کا وقت کائناتی وقت سے اپنی نوعیت میںجدا نہیں۔ جواب شکوہ انسانی ارادے کی آزادی کا اعلان ہے اور اس امر کا اظہار ہے کہ حال ماضٰ سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اگر انسانی ارادہ زمانے کے بہائو میں مداخلت کرنے پر قدر ت رکھتا ہو جہاں دینیاتی نقطہ نظر سے یہ نظم خدا کی مشیت کے جواز کا اعتذار نظر آتی ہے۔ وہیں انسانی نقطہ نظر سے اس بات کا اعلان ہے کہ انسانی تقدیر محض مشیت الٰہی کا ایک اٹل اظہار نہیں بلکہ تاریخ کے قوانین کے چوکھٹے میںاپنا ایک الگ وجود بھی رکھتی ہے۔ اس نظم میں اقبال کے شاعرانہ وجدان نے تاریخی عمل میں ایک متحرک انقلابی شخصیت کے کارفرما اصول کو بھی دریافت کیا۔ یہی تصورآگے چل کر فلسفیانہ گہرائی حاصل کر لیتا ہے جس کا ارتقاء خودی کے تصور میں نظر آتاہے۔ ۱ ؎ اقبال اپنے دیگر ہمعصر ارتقائی مفکروں کی طرح قانون ناکارگی (Law of Entity)کو مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ خالص مذہبی شعور اس کے ارتقائی نظریوں کو مشتبہ نظروں سے دیکھے گا۔ ایک مکمل شخصیت یا خودی… جواب شکوہ میں ذات محمدؐ … زمانے کے حملے کی مدافعت کرتی ہے۔ موت کو شکست دیتی ہے۔ بقا حاصل کرتی ہے اورپھر انسان کا نصب العین بن جاتی ہے۔ ذات محمدؐ کا نصب العینی تصور‘ ایرانی اور اردو شاعری کی روایت میں نیا نہیں لیکن اقبال نے اس شخصیت کے ساتھ طاقت ور اور جبروت کے عنصرکو وابستہ کیا اور اس شخصیت کو انقلابی ارادے اور عمل کا مظہر بنایا۔ اس شخصیت کے ساتھ وفاداری کا مفہوم یہ ہے کہ وفادار اس انقلابی ارادے کو اپنے نفوس میں ابھاریں جس نے ایک دور میں تاریخ کو بدل دیاتھا ۱؎۔ اقبال کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی شاعری کے اس دور میں اس کے ذہن میں خیالات کی ایک کشمکش تھی۔ اور وہ اپنے لیے ایک منفرد فلسفہ حیات کا جویا تھا۔ مروج ارتقائی نظریوں اور زندگی مرکز فلسفوں نے اس کے ذہن پر ایک گہرا ورفیصلہ کن اثر چھوڑاتھا۔ اگر مقدار حرکت کے دوام (Constancy of Nation)اور بقائے مادہ کے مادی میکانی مفروضات اٹھارویں صدی کی فکر کے محرک اصول تھے تو انیسویں صدی کے اواخر میں انسانی فکر کو ایک مختلف بلکہ متضاد سمت میں حرکت پزیرھتی۔ اور جیسا کہ وھائیٹ ہیڈ نے اشارہ کیا ہے ۲؎۔ اس دورکے نئے تصورات بلوریا تغیر کے اصول سے متاثر تھے۔ توانائی کی تبدیلی اور ارتقاء کے نظریات اسی اصول کا سائنٹفک اظہار تھے۔ ارتقاء کے نظریے نے اقبال کو اپنی طرف متوجہ کیا اور حیات کے اصول میں اس کے لیے کائنات ارو انسانی کی تشریح اور تعبیر نظر آئی۔ برگسوں اور نیطشے کے علاوہ جن سے وہ بہرحال متاثر تھا گوئٹے کی شاعرانہ بصیرت نے بھی جس کی تصنیف فائوسٹ کا غالب شاعرانہ محرک مادے پر زندگی کی اور لفظ پر عمل کی اولیت تھا۔ اقبال کو اپنی طرف مائل کیا ڈلتھائی (Dilthey)نے بجا طور پر گوئٹے کے شاعرانہ فلسفہ کو ارتقائی وجودیت کا نام دیا ہے ۔ اقبال نے یقینا اس جرمن فلسفی کا بھی اثر قبول کیا ہو گا۔ جس نے برگسوں سے کچھ ہی پہلے زندگی کے عمل کو اپنی تاریخی فکر کا نقطہ آغاز بنا یا تھا۔ یورپ کے اس فکری ماحول میں اقبال نے جس کی فلسفیانہ فکر پر اب تک وجود محض کا تصور حاوی تھا۔ اپنی نظر حیات کی جانب موڑ دی اسی حیاتی نقطہ نظر میں اس نے قرآن حکیم کے اسرار کی کلید تلاش کی۔ اسی نقطہ نظر کا اثر تھا کہ اب موت اس کے لیے بھیانک نہیں رہی اس دور کی ایک اوراہم نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ میں اقبال نے یہ محسوس کیا : ۱؎ اشارہ ہے جواب شکوہ کے آخری پانچ بند کی طرف آخری بند اس نئے وجدان کا مکمل اظہار ہے: عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری ما سوا اللہ کے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۲؎ White Head: Science and the Modern age P.95 مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولانگاہ ہے یہی تصور بالآخر خطبات میں ایک واضح فلسفیانہ صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جس کی رو سے اس زندگی اور آخرت کا وہ فرق نظام زمان و مکان کی انقلابی تبدیلی میں مضمر ہے۔ حیات بعد الموت ایک مختلف زمانی مکانی نظام ہے۔ جس میں شخصیت ایک مختلف اندازمیں اپنے نشوونما کو جاری رکھتی ہے اور اس طرح ارتقاء شخصیت کے عمل کا تسلسل باقی رہتاہے۔ اسی وجدان نے کمی کے بغیر نشوونما (Growth without Diminution) کے معنی خیز اصول کی جانب اس کی رہنمائی کی ۔ اس نظم سے ظاہر یہ گمان ہوتا ہیکہ اپنی ماں کی موت کے شخصی غم کو شاعرنے فلسفیانہ فکر میں غرق کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگرکسی مرحوم نے اپنی شخصیت کو مستحکم کر لیا ھتا تو پھر اس زندگی کاانجام خاکستر نہیں ہو سکتا۔ اسی بات کو گوئٹے نے ایک ذراسے مختلف انداز میں بیان کیا تھا۔ یہ بات کہ فطرت اس قدر بلند مرتبت روحانی توانائیوں کو فنا ہو جانے کی اجازت دے گی کہ بعید از قیاس ہے۔ فطرت اپنے اثاثے کو اس بیدردی سے لٹاتی نہیں ۱؎۔ اقبال نے بقا کے بارے میں اپنے اس وجدان کو خطبات میں اس تصور کے ذریعے پیش کیا تھا کہ بقا صرف مستحکم شخصیت کا حق ہے۔ اوریہ کہ ہر ایک کی لازمی تقدیر نہیں۔ آخرت ایک بے حادثہ لازماں ابدیت نہیں بلکہ اپنے مختلف زمانی نظام کانام ہے جہاں حیات ایک مختلف ارتقائی قانون کی تابع بنتی ہے۔ موت فرائض کے ختم ہو جانے کا نام نہیں بلکہ ایک نئے نظام حیات میں فرائض کا ایک نیا نظام ابھرتا ہے۔ انسان ایک مفصل اندازمیں اپنی پچھلی زندگی کے نتائج حاصل نہیںکرتا۔ بلکہ ایک بدلے ہوئے انداز میں اپنی فعلیت کا اظہار کرتا ہے یعنی جسمانی موت اندرونی کردار کی تبدیلی سے عبارت ہے۔ زندگی کے اس بہائو اور اس کے پنہاں امکانات کا یہی تصور طویل نظم خضر راہ میں بھرپور اظہار حاصل کر لیتا ہے۔ شاعر خضر سے متنوع سوالوں کا جواب چاہتا ہے۔ اور اس کے سوال زندگی کے اسرار سے شروع ہوتے ہیں۔ اور حال کے انقلابات کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ ان سوالات کا تنوع اس امر کا شاہد ہے کہ اب شاعر نے ایک ہمہ گیر تخلیقی نقطہ نگاہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جس میں خود آگاہی اور تاریخ شناسی ایک ایسے حیاتی نقطہ نظر کا جزو لازم بن جاتے ہیں جس کی روسے حیات ہر لمحہ ایک ابھی نا آفریدہ عالم کی تخلیق پر انسانی ارادے کو اکساتی ہے ۔ غالب نے جس عندلیب گلشن نا آفریدہ کی تمنا کی تھی اور بالآخر اپنے آ پ کو ایک ایسا وجود فرض کر لیا تھا۔ اقبال کی نظر میں اس کی آفرینش انسانی ارادے سے باہر نہیں ۔ شاعر اپنی عصری دنیا سے بلند ہو کر اور اپنے ماضی کے قید خانے سے آزاد ہو کر مستقبل کا ادراک کرتا ہے۔ جس میں نامعلوم امکانات صرف خوابیدہ نہیں ہیں بلکہ جاگ پڑنے کے لیے انسانی ارادے کو للکارتے ہیں زمانے کے بہائو کا تعمیری تخلیقی پہلو شاعرانہ ادراک پر عیاں ہو جاتا ہے۔۲؎ ۱؎ گوئٹے ماخوذ از Wisdom and Expence Selections by Lud Wig Curtius London P 139 ۲؎ اسی بات کو اقبال نے خواجہ غلام السیدین کے نام ایک خط میں ا س طرح بیان کیا تھا زمانہ ایک بڑی ہی برکت و نعمت ہے۔ (لا تسبو الدھر ان الدھر ہو اللہ) اگر ایک طرف موت اور تباہی لاتا ہے تو دوسری طرف وقت ہی آبادی و شادابی کا منبع ہے۔ یہی اشیاء کے پوشیدہ امکانات کو بروئے کار لاتاہے۔ حالات حاضرہ میں تغیر کا امکان ہی انسان کی سب سیبڑی دولت اورساکھ ہے ۔ اقبالنامہ صفحہ ۳۱۶ لیکن زمانے کا یہ تخلیقی تعمیری پہلو خود سے کارفرما نہیں ہوتا۔ یعنی زمانہ خالق نہیں ہے اقبال نے زمانے کو کبھی بھی اور کسی مقام پر بھی کسی خالق کا رتبہ عطا نہیں کیا اگر کائنات کی تکمیل مشیت الٰہی کی تابع ہے یعنی خودی مطلق کی تو انسانی عالم کی تدریجی ترقی اور فلاح کی ذمہ داری انسانی شخصیت پر جو آزاد ارادے کی مالک ہے۔ عاید ہوتی ہے۔ اس طرح فلسفیانہ سطح پر خودی اور زمانہ مربوط ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس فلسفیانہ موقف سے دوئی لازم نہیں آتی۔ کیونکہ وجودی طور پر خودی مطلق انسان اپنا آزاد وجود نہیں رکھتی۔ اور دوسرے یہ کہ خودی یقینا زمانے پر وجودی اعتبار سے اولیت یا تقد م کی حامل ہے خودی یا شخصیت ہی زمانے کے تخلیقی پہلو کے اظہار کا وسیلہ یا ضامن ہے۔ اقبال نے یقینا یہ سبق قرآن حکیم سے حاصل کیا جس کی رو سے ان اللہ لا یغیر ما بقول حتیٰ یغیر و اما بانفسھم اسرار خودی اسی فلسفیانہ موقف کا شعری اظہار ہے۔ اب وہ اپنے اس مشنیا نصب العین سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ جس کی آہٹ اس نے بہت پہلے سن لی تھی۔ اس نظم کی زمانی تشکیل بڑی معنویت رکھتی ہے۔ نظم کے آغاز پر شاعر محسوس کرتا ہے کہ اس کا اپنے ہمعصروں سے کوئی ربط نہیں اور وہ اصلاً مستقبل کی آواز ہے: نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نا امید استم زیاران قدیم طور من سوز و کہ می آید کلیم قلزم یاراں چو شبنم بے خروش شبنم من مثل یم طوفاں بدوش نغمہ من از جہانے دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است لیکن یہ مستقبل عدم محض سے وجود میں آنے والا نہیں بلکہ ایک ایسے ماضی کی دریافت پر اس کی تخلیق منحصر ہے جس کا رشتہ وقت کی رفتا ر سے ٹوٹ گیاتھا اور چونکہ یہ ربط ٹوٹ چکا تھا اس لیے اگر ایک طرف ماضی منجمد ہو گیا تو دوسری طرف ایک ایسا حرکت پذیر حال اس سے ابھر نہ سکا جو ایک نئے مستقبل جو جنم دے سکتا۔ اس نظم میں اقبال کی فکری کوشش یہ ہے کہ ماضی حال اورمستقبل میں ایک تخلیقی ربط کو دریافت کر لیاجائے۔ اقبال نیطشے کی طرح عدمیت پسند (nihilist) نہیں ہے جس کے لے مستقبل کی تخلیق ماضی کی کامل نفی اور ابطال میں پنہاں ہے ۔ استعبادی یا نقیضی (Pavadoxical)زبان میں یوں بھی کہا جا سکتاہے کہ ایسے مستقبل کی تخلیق منجمد ماضی کو اس طرح حرکت دینے یا متحرک کرنے میں پنہاں ہے کہ صدیوں یا قرنوں کا زمانی فرق ہے زمانے کی ایک تخلیقی جست میں طے پا جائے۔ زمانے کی یہ تخلیقی جست دراصل فعال شخصیت یا تخلیقی خودی کی ایک جست ہے۔ فعال شخصیت اور خودی اقبال کی لغت میں مرادف الفاظ ہیں۔ زمانی اعتبار سے خودی ماضی حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر ماضی اس کے حاصل کردہ کمالات کا نام ہے تو مستقبل ان امکانات کا جو ان کمالات میں پنہاں ہیں۔ حال دراصل فعلیت ہے جو ان دو زمانی پہلوئوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہے۔ یعنی حال زمانہ تنائو یا Time Tension کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی لیے جہاں ا س کا تعین مشکل ہے وہیں اس کے ادراک پر زمانی ادراک کا دارومدار ہے۔ زندہ اور ارادی وجود جو اپنی وجودی ماہیت میں محدود (Finite)ہے اسی زمانی تنائو سے عبارت ہے۔ تخلیق ارادہ اسی حال کی توسیع میں مصروف رہتا ہے۔ اس طرح کہ یہ ماضی اور مستقبل دونوں پر قدرت حاصل کر سکے ‘ جہاں وجود لا محدود اپنی ماہیت میں اس قدرت کا حامل ہے اور اسی لیے ابدیت کا سرور رکھتا ہے وہیں وجود لامحدود اس قدرت کو حاصل کرنے کی جہد کرتاہے۔ یہ اس کا مجاہد ہ ہے۔ یہ تلوار کی دھار ہے اور حضرت علی ہجویری کی زبان میں ایک دو رکو دور سے جدا کرتاہے۔ جہاں الوقت یف قاطع کہا جاتا ہے۔ وہاں وقت سے مراد لمحہ حال ہے جو صوفیہ کی زبان میں یکے از احوال ہے۔ ایک اعتبار سے حال تسلسل ہے اور صحیح معنوں میں دوران جو زمانے کی ماہیت ہے چونکہ فعال خودی زمانے کے تینوں ادوار کا احاطہ کرتی ہے۔ اسی لیے یہ دوران میں بسر کرتی ہے۔ دوران اعتباری طور پر ابدیت ہے خود ی مطلق کاروان ابد مطلق اور خودی انسان کا دوران بد اضافی ۔ یہی دوران دہر ہے جو فلاسفہ قدیم کی اصطلاح میں صور کو واقعات یا محسوسات سے مربوط کرتا ہے۔ یعنی امکانات اور واقعات کو یا استعدادات اور حاصل شدہ کمالات کو عالم مادی اپنے امکانات سے باخبر نہیں ہوتا۔ اسی لیے اس کی تقدیر علی رشتوں سے جدانہیںرہتی۔ لیکن عالم بشریت کی یہ استعداد ہے کہ وہ اپنے امکانات سے آگاہ ہو جائے اسی یے اس کی تقدیر علی رشتوں سے ماورا ہو سکتی ہے۔ وہ صاحب تقدیر ہے عالم مادی پر زمانہ سوار ہوتا ہے اور انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ زمانے کا راکب بن جائے زمانے کا راکب بننا ہی زمانے کو شکست دینا ہے۔ اقبال نے اسی امر کو مختلف موقعوں پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ ان نظموں میں بھی جہاں بظاہر زمانے کی قدرت اور طاقت کا گمان ہوتا ہے نوائے وقت کا پیام بھی یہی ہے۔ در من نگری ہیچم در خود نگری جانم یا از موج بلند تو سر بر زدہ طوفانم ۱؎ وقت کو طوفان خودی کے سمندر سے ابھرتا ہے۔ خودی اس پر قابو نہ پا سکے تو یہ بتا ہی کا پیامبر ہے ورنہ یہ امکانات کے اظہار کا وسیلہ ۔ ترقی پذیر انسانیت ہمیشہ راکب تقدیر رہی ہے۔ راکب تقدیر ہی بندہ حر ہے۔ اسرار خودی کی معرکہ آراء اور الجھن میں ڈال دینے والی منزل ہے وہ جہاں اقبال کی تکمیل خودی کی منزل مستقبل کے انسان یا ایک نئی انسانی نوع کو قرار دیتا ہے۔ اسی منزل پر وقت کا مسئلہ بھی مرکزی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ نظم کے آغاز پر ہی اقبا ل نے اعلان کیا تھا کہ ارتقاء کی اگلی منزل اعلیٰ تر خودی کا عروج ہے۔ وسعت ایام جولانگاہ او آسماں موجے ز گرد راہ او ۱؎ ؎ اس نظم کی اہمیت اور اس کا آہنگ اس امر کا متقاضی ہے کہ اس پر تفصیلی بحث کی جائے۔ دراصل یہ نظم یا وقت کی ماہیت پر تعمق اورتامل کا نتیجہ ہے۔ وقت مظہر جلال بھی اور مظہر جمال بھی ہے اور نوائے وقت ان دونوں لمحات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس پر تعمق شان کبریائی کو روشن کرتا ہے۔ بھگوت گیتا باب یاز دہم میں سری کرشن کہتے ہیں کہ میں وقت ہوں۔ دنیاپر بربادی لانے والا مجھے طاقت ملی ہے کہ میں دنیا کو تہہ و بالا کر دوں تیرے بغیر یعنی ارجن کے بغیر اورتیرے عمل کے بغیر بھی تیرے مقابل کے شہسوار نذر عدم ہو سکتے ہیں۔ (گیارھیوں فصل شلوک ۳۲) یہ مستقبلی انسان جو نیابت الٰہی کا بوجھ سنبھالنے والاہے راکب تقدیر ہے۔ یہ سوار شہب و وراں ہے جس کا انسانیت بے تابی سے انتظارکر رہی ہے۔ کیونکہ یہی فروغ دیدہ امکاں بھی ہے۔ یہ زمانے میں رہتے ہوئے زمانے پر فتح حاصل کرتا ہے جس کا مطلب عام کائناتی وقت سے آزادی اور دوران خالص کا سرور ہے۔ کائناتی وقت برگسوں اور اقبال دونوں کے نزدیک مکانی ہے اور اسی لیے اقبال آگاہ کرتاہے کہ اصلی وقت یادوراں کو خط سے ممتاز کیا جائے جہاں دوران خالص کا سرور مرد حر کا امتیاز ہے وہیں مکانی زماں کی قید عہد یا محکوم کی نشانی ہے۔ یہ وہی نکتہ ہے جس پر برگسوں نے اپنی کتاب وقت اور آزاد ارادہ میں ذور دیا تھا۔ لیکن فرق یہ ہے کہ برگسوں کے برخلاف اقبال کا یہ بنیادی محرک ہے۔ مرد حر پیغمبرانہ صفات کا حامل ہے اورموسیٰ و محمدؐ کی روایات کا علم بردار ہے۔ اقبال کا یہ محرک کہ نوع انسانی زندہ خدائے حی القیوم سے اسی طرھ آگاہ ہو جائے جس انداز سے موسیٰ ؑ و محمدؐ نے یہ شرف حاصل کیا تھا۔ نمایاں ہوجاتا ہے اوربرگسوں کے خالص سیکولر نقطہ نظر سے اقبال کا راستہ مختلف ہو جاتاہے ۔ وہ جو دوران خالص کے سرور سے آگاہ نہیں اس کے نصیب میں سرچشمہ حیات ابدی کا سرور بھی نہیں۔ وہی اس سرور سے سرشار ہو سکتا ہے جو لی مع اللہ وقت کہنے کی قدرت رکھتا ہے اسی لیے جو روز و شب کا اسیر ہے وہ اس رمز لی رمز اللہ وقت سے بھی آگاہی حاصل نہیں کر سکتا۔ اسرار کے انگریزی مترجم نکلسن نے ایک اہ سوا ل اٹھایا ہے کہ آیا پیغمبر علیہ السلا م کایہ تجربہ(لی معی اللہ وقت) لازمانیت کا تجربہ تھا ۱؎۔ ااس اہ روحانی تجربہ کو اقبال زمان و لازماں کے قدیم تضادات کی زبان میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ لا زماں محض زبان کی نفی ہے جس سے کسی عال کی ہمیں خبرنہیں ملتی۔ اصلی سوال یہ ہے کہ اس عالم کی سیر زمانے سے کس اندا ز سے باہر ہوتی ہے اگر زمانے سے مراد دوش و فردا کا وقت اورامتیاز ہے تو یقینا ی سیر زمانے سے باہر ہے لیکن اگریہ سیر اس حال میں ہوئی ہے جس کی طرف پچھلے صفحات میں اشارہ کیا گیاہے تو پھر زمان و لازماں کی تضادی اصطلاحوں کا اس تجربہ پر اطلاق نہیں ہوتا۔ اقبال کے نقطہ نظر سے نفس انسانی کائناتیوقت کے سلسلے سے آزادہوکر دوران خالص کا سرور حاصل کرتاہے اور اس شعور سے مستفیض ہوتاہے۔ جس کی خصوصیت اقبال کے نزدیک زماں بغیر تواتر یا تغیر بغیر تواتر ہے ۲؎۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبا ل کے اس مقام پر آزادی کا ایک مابعد الطبیعیاتی روحانی معیار مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور آزادی اور اسیری یا محکومیت کے عمرانی مفاہیم بھی اسی مابعد الطبیعیاتی روحانی معیار سے متعین ہوتے ہیں یہی اسرار و رموز کا اندرونی ربط بھی ہے۔ وہ جس نے اپنے روحانی تجربے میں دوران خالص یا تغیر بغیر تواتر کا سرور حاصل کیا۔ اس نے پہلے اور بعدکے کائناتی وقت سے آزادی حاصل کی اور صحیح معنوں میںبندہ حر بنا۔ یہی دنہ حر زندگی کی دوسری سطحوں میں بھی آزادی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ سیاسی آزادی اور روحانی آزادی وہ غیر متعلق امور نہیںہیں بلکہ ان میں اندرونی ربط ہے یہاں بھی اقبال بیسویں صدی کی خالص سیکولر فکر سے اپنا راستہ الگ کر لیتا ہے۔ مرد حر زمان حقیقی اور کائناتی وقت میں امتیاز پید اکرتا ہے۔ آزاد عمل جدید دے جدید تر کی تخلیق کا نام ہے (دمبدم نو آفرینی کار حر) جو عبد کے بس کی بات نہیں کیونکہ وہ اسیر ایام ہے ۱؎ اسرار انگریزی ترجمہ نکلسن فٹ نوٹ ص ۲۶ ۲؎ خطبات‘ تیسرا خطبہ لیکن یہاں اس نکتہ سے آگاہی ہی ضروری ہے کہ زمان حقیقی کا شعور دوسرے الفاظ میں شکست زماں پر قدرت کا نتیجہ ہے جہاں زماں سے مراد محض کائناتی وقت ہے۔ اسی حقیقت کو جسے جواب شکوہ میں خطیبانہ اندازمیں بیان کیا گیا تھا۔ اسی کا اظہار یہاں زیادہ گہرے فلسفیانہ اندازمیںکیا گیا ہے۔ تاریخ روایتی معنی میں محض تقدیر ہے جس میں تاریخ کے کردار مکاں سے مقید زماں میں اسیر رہتے ہیں اور تاریخ تقدیر کی تشکیل ہے اگر یہی کردار زمان حقیقی یادوراں سے سرور سے آگاہ ہو جائیں ۔ بات بظاہر مابعد الطبیعیاتی نظر آت ہے لیکن ذرا گہری نظر سے دیکھین تو اس میں ایک اہم حقیقت پوشیدہ ہے سوئی ہوئی قومیں اور افراد عالم مادی اشیاء کی طرح علل ومعلول کے رشتے میں اسیر رہتے ہیں جن پر انکو قابو نہیںرہتا لیکن حقیقی عالم انسان میں رہنے والے جہاں اس علل و معلول کے ربط سے کلیتہً آزاد نہیں ہوتے وہیں ان کا آاد ارادہ خود سلسلہ علل میں ایک علت بن جاتا ہے اور اس طرح علل کے اس سلسلے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ یہاں تک تو اقبال اور نیطشے متفق ہیں لیکن اقبال ارادے کی آزادی محض پر قانع نہیں وہ اس بات پر بھی مصر ہے کہ یہ آزاد و ارادہ اس دوران خالص کے سرور سے بھی مستفیض ہو جس سے آزادی مطلق عبارت ہے جو خودی مطلق کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں اقبال نے دراصل مذہبی روحانی تجربے کی ماہیت یااس کے متن کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اعلیٰ ترین روحانی تجربہ محض سلبی انداز میں لازمی نہیںہے بلکہ زمان و لازماں سے بلن دوران خالص یا تغیر بغیر تواترکی سیر ہے دوران خاصل صرف ایک ذات کی کیفیت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اس کا سرور بھی دوسرے اعتبار سے ذات کے تجربے کا سرور ہے۔ فان الدھر ہو اللہ پر استغراق نے اقبال کو زروانیت کی جانب نہیں بھٹکایا بلکہ اس کی اعلیٰ ترین تجربے کی طرف اس کی رہنمائی کی جو تمام عارفوں کا منتہائے نظر رہا ہے۔ لی مع اللہ وقت کی تکرار اسرا ر کو جاوید نامے سے مربوط کرتی ہے جہاں لی مع اللہ کا تجربہ زروان کے لیے ایک چیلنج بن جاتاہے۔ جاوید نامہ میںزروان ایک وجود کی حیثیت سے داخل نہیںہوتا بلکہ اس زماں بستہ و مکاں بستہ عالم کے رمز کے طور پر استعمال ہواہے جہاں جبر کی حکمرانی ہے اور وقت مکاں کی طرح ایک رکاوٹ ہے ۔ اسی عالم فطرت میں جو زمانی مکانی ہے علت کے قانون کی حکمرانی ہے۔ اور انسان دوسری مخلوقات کی طرح غیر شخصی قوانین فطرت کے تحت عمل کرنے پر مجبور ہے۔ یہیں وقت کا جبر نمایاں ہوتا ہے اور وقت ایک قہر بن کر بھی نازل ہوتاہے۔ زرتشتی رمز میں زروان اسی کائناتی وقت کی روح یا اس کا فرشتہ ہے اور اسی لیے کا کا کلام وجود کی اسی سطح پر معنویت رکھتا ہے جہاں زمان و مکاں سے وابستہ ہے اور مادی کائنات کا چوتھا بعد ہے۔ یہ عالم جبر ہے جہاں پیدائش اور نمود دونوں قانون جبر کے تابع ہیں۔ لیکن شعور کی ایسی منزلیںبھی ممکن ہیں جہاں زماں و مکاںسے آزادی حاصل کرتا ہے اور بالآخر مکاں سے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتاہے۔ لی مع اللہ وقت کا وقت شعور کی وہ اعلیٰ ترینمنزل ہے جو صرف اس بعدکے لیے مخصوص ہے جو ماں سے کامل طور پر رشتہ توڑ سکتا ہے۔ اور اسی لیے ملائکہ مقربین بھ اس فیض سے محروم رہتے ہیں۔ یہاں وقت کی بجائے مکاں یا محل رکھ دیجیے اور تبد لازم آئے گا۔ اس لمحہ غیر زمانی میں جس میں اس حدیث کا وقت عبارت ہے۔ زرواں کے پر کٹ جاتے ہیں اور اسی لیے زروان کہتا ہے: لی مع اللہ ہر کرا در دل نشست آں جواں مردے طلسم من شکست گر تو خواہی من نباشم درمیاں لی مع اللہ باز خواں از عین جاں یہ منزل تقدیرپر آخری فتح کی منزل ہے۔ اوریہی تقدیر پر فتح اقبال کے نزدیک زروان نو اور یہ زروان نو شرط ہے شعور کے اس انقلاب کے لیے جو انسانی زیست کا منتہا ہے اورذات محمدؐ کا اعلیٰ ترین تجربہ۔ یہ نمو کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ جہاں نزد و دور بے معنی ہو جاتے ہیں اور ابد و زماں کا فرق اضافی ہو جاتاہے۔ کیونکہ ابد زماں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ طلسم زماں کی شکست میں زماں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ اقبال کے شاعرانہ وجدان کی یہ منزل اسلام کے عارفانہ حکیمانہ ادب میں ایک منفرد مقام ہے عرفان حقیقت کے اس پہلو پر پچھلے ادب میں بڑے بلیغ اشارے تو مل جاتے ہیں لیکن اتنا جری اظہار کسی نے نہیںکیا تھا۔ اقبال کے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ اس نے اس وجدان کو عالم بشریت کی ہر سطح سے مربوط کرنے کی کوشش کی بحث کی اس منزل پر الجھن میں ڈال دینے والے اس مقام پر غور ضروری ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اقبال کے عرفان وقت کے اس مختصر جائزے کو اطمینان بخش بنانے کے لیے اس الجھن پر مختصر ہی سہی لیکن بحث ضروری ہے۔ اقبال کی شاعرانہ فکر کا جہاں ایک جذبہ یہ ہے کہ انسان حقیقت کا عرفان حاصل کرے وہیں دوسرا اور مساوی حد تک طاقت ور جذبہ یہ ہے کہ نوع انسان زندہ کردار کی حیچیت سے تاریخ کے عمل میں حصہ لے۔ اس نے اپنی فکر میں ان دونوں جذبات کو ہم آہنگ کرنے کی بڑی طاقت ور کوشش بھی کی۔ مشرقی فکر کی تاریخ میںشاید یہ پہلی کوشش تھی۔ مغربی فکر میں یہ دونوں جذبات ملتے ہیں۔ لیکن ان میں تنائو زیادہ ار ہم آہنگی کم نظر آتی ہے۔ مشرقی فکر نے اگر انسانی زیست کے عمودی بعد پر زیادہ توجہ دی تو مغربی فکر نے اور خصوصاً روشن خیالی کے دور میں افقی بعد کو اپن توجہ کا مرکز بنایا ۱؎۔ہیگل نے عظیم الشان انداز میں ان دونوں ابعاد کو اپنے عالمی نقطہ نظر (Weltan Schavung)میں سمونے پر توجہ دی او ر ایک پر عظمت فکری تعمیر کا نمونہ پیش کیا۔ خود فکری کی سطح پر یہ کام ایک عظیم مہم سے کم نہیں لیکن شاعری کے میڈیم مین جہاں جذبہ اور تخیل عقل پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مہم کئی خطرات میں گھر جاتی ہے۔ اقبال نے اسی مہم کو انجام دینا چاہا۔ محمد عربیؐ کی شاندار شخصیت اس کے پیش نظر تھی۔ جنہوں نے ان دونوں ابعاد کواپنی ارضی زیست کے دوران ہم آہنگ کر یلا تھا۔ سیرت نبویؐ کے اسی رخ نے اقبال کے قلب میں ایک عشق رسولؐ کی آگ بھڑکائی اور نتیجتہً خود عشق کے تصور نے ایک نیا مفہوم حاصل کر لیا۔ اقبال کا عشق وہ انقلاب آفریں جذبہ ہے جو حیات محمدیؐ کا طاقتور ترین محرک تھا۔ اقبا ل کی یہ جراتمندانہ ہے کہ وہ اس جذبہ محمدیؐ کو نوع انسان کی میراث بنانے کے لیے بیتاب ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جو اسے پیر رومیؒ سے قریب کرتا ہے اور پیچ و تاب رازی کو اس کے یے اجنبی بنا دیتا ہے۔ حالانکہ وہ خود پیچ و تاب کا شاہد رہا ہے۔ اسرار خودی کا ایک اہم شعری جزو اسی جذبہ بیتاب کو متشکل کرنے کی ایک جرات مندانہ کوشش ہے۔ انسا ن کب راکب تقدیر بنے گا۔ یہ سوال اقبال کے لیے محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی اہمیت رکھتاہے کیونکہ اسی سوال کے جواب میں اس ملت کے مستقبل کاانحصار ہے جس سے اقبال نے اپنے آ پ کو جذباتی اور ذہنی دونوں سطحوں پرا یک کر لیا تھا۔ جذبہ بے تاب کی بنا پر شاہد اس کے قلب و دماغ میں یہ اندیشہ لرز رہا تھا کہ اس تاریخی ملت نے اپنے جوش حیات (Elan)کو کھو دیا ہے ۱؎ اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنے مضمون تقدیر اور شخصیت (اسلام اور عصر جدید دہلی جلد ۴ ۱۹۷۲ئ) میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ اور اس نصب العین کی تکمیل کے لیے جو اس سوال میں پنہاںہے ایک نئی نوع درکار ہے۔ جس نئی نو ع کا اس نے بے چینی سے خواب دیکھا۔ اس کے خدوخال وہی ہیں جو ان لوگوں کے تھے جنہوں نے پیغام محمدؐ کو روئے ارض پر پھیلا دیا تھا۔ اس کا ذہن ارتقاء کے نظریے سے سرشار تھا۔ ار اس نے سوچا کہ ارتقائی عمل جو جدید سے جدید تر کی جانب رواں ہے ایک ایسی نوع انسانی کو پیش کردے گا جو نیابت الٰہی کا فرض انجام دے گی۔ نیطشے کے تخیل نے یقینا اس کو متاثر کیا لیکن اس کا خواب دوسرا ہی تھا۔ وہ شکست زماںکے معجزے کو عصری تاریخ میں کارفرما دیکھنا چاہتا تھا۔ اس طرح کہ تاریخ کے سارے کردار رہنما اور رہرو زمانے کے راکب بن جائیں۔ زیست کے افقی اور عمودی ابعاد فرد کی زدنگی میں تو ایک دوسرے کو چھوتے رہے ہیں لیکن اقبال ی آرزو تھی کہ ایک پوری نع یا ملت ایسی ہو جوان دو ابعاد کے نقطہ اتصال کی زندہ نشانی بن جائے۔ یہ ایک شاعرانہ تصور یا ایک یوٹوپیا تھا۔ اور اقبال کی فلسفیانہ فکر نے بہت جلد اس راز کو پالیا۔ اس نے علانیہ طور پر تو اس کا اظہار نہیںکیا تھا کہ یہ خواب حقیقت نہیں بنے گا۔ لیکن رموز بے خودی کی تصنیف اس امر کا اعتراف تھی کہ اسی تاریخی ملت کو اپنے نصب العین کا محور بنانا ہے۔ اور اسی کے جوش حیات کو ابھارنا ہے۔ اسی لیے رموز کے لہجے میں وہ سرجوشی اور امنگ نہیں جو اسرار کا امتیاز ہے۔ لیکن اسی دوران اس کے نصب العین انسان نے ایک دوسرا پیکر اختیار کر لیا اور اقبال مرد مومن کا شاعر بن گیا۔ شکست زماں اور راکب تقدیر کے نصب العین برقرار رہے اہم فرق یہ ہواکہ اس کی نظر ارتقاء کے حیاتیاتی قانون سے پلٹ گئی اور انفرادی ترقی کا روحانی اصول اس کا راہنما بن گیا۔ اقبال نے فوق الانسان کا خواب تونہیںدیکھا تھا۔ لیکن اس کے مستقبلی انان پر فوق الانسان کا خواب گہرا سا یہ ضرور تھا۔ اقبال کے شعور پر مرد مومن کا عروج اس اہم حقیقت کے عرفان کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ نوع نہیںبلکہ فرد ہی تاریخ میںاعتبار یا استناد حاصل کر سکتا ہے اور وہی سارے آفاق کو اپنے اندر سمو سکتا ہے۔ اسرار خودی کا اقبال شاعر ہے جو عارف بننے کے لیے بے چین ہے لیکن جاویدنامہ بال جبریل‘ زبور عجم‘ اور لالہ طور کا اقبال عارف ہے۔ شعر جس کے عرفان کا اظہار ہے۔ مرد مومن عرفان ذات سے طاقت اور جبروت حاصل کرتا ہے اور زمان و مکان پر کمندآور ہوتا ہے۔ اوریہی مرد مومن اپنے عشق کی طاقت سے سیل وقت کو روک لیتا ہے اور اپنے عمل سے دوام حاصل کرتا ہے۔ یہی مرد مومن اپنے خون جگر سے ان معجزہ ہائے ہنر کی تخلیق کرتاہے جو محدود وسیلہ ہائے اظہار پر جن میںمکاں بھی شامل ہے عشق کی مہر ثبت کرتے اور فنا کے ہنگامے میں دوام کی سند حاصل کرلیتے ہیں۔ اسرار خودی میںمستقبلی انسان کی تمنا نے جو الجھن پیدا کی تھی روحانی سطح پر اگر جاوید نامہ ا س کا حل ہے تو فنی سطح پر مسجد قرطبہ خمکدہ نمود میںشرط دوام اور ہے ۔ کا اظہار اس طرح اقبال زمان زمان اور شوکت زمان دونوں کا احاطہ کر لیتا ہے۔ ٭٭٭ اقبال کا مطالعہ ڈاکٹر محمد اجمل اقبال کے متعلق میرے ذہن میں چند یادیں ہیں۔ سب سے پہلی یاد اس وقت کی ہے جب میںکوئی چھ سات سال کا تھا۔ کہ میرے ماموں زاد بھائی عبدالراشد چشتی مرحوم مجھے اسلامیہ کالج کے ایک جلسے میںلے گئے جس میںعلامہ اقبال نے انگریزی میں ایک لمبی تقریر کی خدا جانے کیا موضوع تھا ارو نہ میں تقریر کا ایک لفظ سمجھا۔ لیکن یہ مجھے یاد ہے کہ مبہوت ہو کر ان کی تقریر سنتا رہا۔ وہ ایک بڑے اچھے سوٹ میں ملبوس تھے۔ اور ان کی تقریر میں ٹھہرائو اور تفکرکا انداز تھا۔ مطلب سمجھ میں نہیں آیا لیکن شخصیت سے میں بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد علامہ نے جب پنجاب اسمبلی کا انتخاب لڑا تو اس سلسلے میں جو جلسے جلوس ہوا کرتے تھے۔ ان میںغالباً شرکت بھیکی لیکن ان کی کامیابی کے موقعے پر جو جلسہ بارود خانے میں ہوا وہ مجھے یاد ہے۔ علامہ ہاروں میں لدے پھندے تقریر کر رہے تھے۔ ور میں صرف اس بات پر خوش تھا کہ علامہ جیت گئے۔ مقابلے کے دوران اکثر میں حیران ہوتا تھا کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو علامہ کی مخالفت کرے۔ اوراعلانیہ ان کا مرد مقابل بن جائے۔ میرے بھائی راشد مرحوم مجھے سمجھاتے کہ یہ برادریوں کا معاملہ ہے۔ لیکن ان کی یہ بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی۔ اس کے بعد گاہے بگاہے علامہ کو میکلوڈ روڈ کے گھر میں دور سے دیکھتا تھا۔ وہ بستر پر بیٹھے حقہ پی رہے ہوتے۔ ان سے ملنے کی خواہش تو بہت تھی لیکن جرات کی کمی تھی بس یونہی جھلک دیکھ کر میںگھر لوٹ آتا۔ اپریل ۱۹۳۸ء میں جب علامہ کا انتقال ہواتو میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے دوسرے سال میں تھا۔ ہم فلسفے کے شعبے میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے کہ اتنے میں ہمارے استاد جی سی چیٹر جی بہت پریشانی کے عالم میں آتے ہوئے دکھائی دیے اور ہمیں یہ خبر سنائی کہ علامہ اقبال اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ بہت صدمہ ہوا اور ایک ذاتی محرومی کا احسا س بھی کہ میں ان کی زندگی میںان سے نہ مل سکا۔ علامہ کے انتقال کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں مجلس اقبال قائم ہوئی۔ استاد مکرم صوفی غلام مصطفی تبسم اس کے نگران مقرر کیے گئے۔ صوفی صاحب نے حکم دیا کہ میں اقبال پر ایک مقالہ لکھوں۔ اس حکم سے پہلے میں نے اقبال کی چند نظمیں اور غزلیں پڑھ رکھی تھیں۔ گرمی کی چھٹیاں ہوئیں تو میں نے اقبال کی کتابوں کا باقاعدگی سے مطالعہ شروع کیا۔ پہلے تو مثنویاں اسرار خودی‘ رموز بے خودی ‘ جاوید نامہ پڑھیں پھر پیام مشرق اور زبور عجم اور ساتھ ہی ان کے لیکچرز بھی پڑھ ڈالے۔ اقبال کے شعری مجموعے میں نے سارے گنگنا کر پڑھے۔ جب میں اسرار خودی پڑھ رہاتھا تو ایک شعرپر خاصی وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ ایک شدید سرور ایک گہرا کیف دل و دماغ پر چھا گیا شعر یہ تھا: گر خدا داری ز غم آزاد شو از خیال بیش و کم آزاد شو میں نے اس شعر کو بار بار پڑھا اور ہر مرتبہ اس کے نئے معانی آشکار ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسی موضوع پر مقالہ لکھوں گا۔ چنانچہ میںنے Iqbal's Conception of Godکے عنوان سے ایک مقالہ لکھااور گرمی کی چھٹیوںکے بعد مجلس اقبال کے زیر اہتمام ایک تقریب میں پڑھا۔ اس اجلاس کی صدارت استاذ المکرم قاضی محمد اسلم نے کی اور اس میں فیض صاحب نے بھی شرکت کی۔ مجلس اقبال کی تقاریب میں فیض صاحب امرتسر سے بالاتزام تشریف لایا کرتے تھے۔ بہت گرما گرم بحث رہی۔ بحث خودی اور خدا کے تعلق کے بارے میں تھی۔ وحدت الوجود کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ علامہ نے اپنے لیکچرز میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ حضرت بایزید بسطامیؒ سے ان کے ایک مراید نے کہا پہلے خدا تھا اور کچھ نہیں تھا حضر ت بایزید نے جواباً کہا اب بھی خدا ہی ہے اور کچھ نہیں حضرت بایزیدؒ کے جواب کی تشریح پر بحث ہوتی رہی۔ اس کے بعد بہت مدت تک میری دل چسپی جاوید نامہ سے رہی ژنگ کے زیر اثر میں نے علامہ کے کلام میں علامتوں کا سراغ لگانا شروع کیا۔ سب سے زیادہ دلچسپی مجھے شاہین کے تصور سے تھی۔ شاہیں بحیثیت ایک علامت کے اور یہاں علامت سے مرادمحض یہ نہیں کہ شاہین چند صفات کی نمائندگی کرتا ہے۔ انسان کی فطرت میں علامت سازی ودیعت کی گئی ہے۔ یہ علامتیں جہاں کچھ صفات کی نمائندگی بھی کرتی ہے وہاں وہ ایک قوت کے تغیر کی ذمہ دار بھی ہے۔ علامت ایک وسیلہ ہے جو سفلی قوت کو روحانی قوت میں تبدیل کرتاہے۔ علامت کے تجربے کے بغیر تصعید یا Sublimationناممکن ہے یہ تصور فرائڈ کے تصور سے مختلف ہے۔ فرائد یہ سمجھتا ہے کہ تصعید خود بخود آ جاتی ہے اور ارادی طورپر بالکل نہیں ہو سکتی۔ ارادی طور پر صرف Displacementہو سکتی ہے۔ یعنی جب کسی کی کوئی جبلی آرزوپوری نہیںہوتی تو وہ اسی آرزو کی تسکین کی خاطر کوئی تخلیقی کام کر ڈالے۔ محبت میں مایوسی سے اگر کوئی شخص اس لیے نظم لکھے کہ اس کا اثر محبوب پر پڑے گا تو یہDisplacementہو گی تصعید نہیں ہو تی۔ تصعید تو ایک سرچشمے کو کہتے ہیں۔ جو ہر حالت میں جاری رہے ساکن بھی ہے ار رواں بھی۔ دنیوی تجربات اس پر اثر انداز تو ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ان تجربوں کو اپنے سانچوںمیں ڈھالتا ہے اوراپنے نقطہ نظر پر ثابت قدمی سے جم کر ایک نئی دنیا کو بے نقاب کرتاہے۔ علامہ اقبال کا کلام بھی جا بجا علامتوں سے مزین اورمرصع ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ ان کی علامتیں سفلی قوتوں کو روحانی قوتوں میں تبدیل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ان کے تجربے سے شخصیت کی بہت سی خوابیدہ قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اگر کسی شخص کے خوابوںمیں یا تخیل میں شاہین کا تصوربار بار آئے اور وہ اس تصور پر غورکرے یا کسی تخلیقی عمل میںڈھال دے تو اس میں شاہینی صفات ابھرنے لگیں گی۔ ان کی آبیاری کرنا پھر اس کا اپنا کام ہے۔ اور وہ دنیا میں بھی اپنی رفتار درست رکھے گا۔ بقول مولانا رومؒ: ہر کہ بر افلاک رفتارش بود بر زمیں رفتن چہ وشوارش بود اور: بندہ باش و بر زمیں رو چوں سمند چوں جنازہ نے کہ بر گردن برند اسی طرح ’’سمند‘‘ بھی ایک علامت ہے۔ علامت کا تجربہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ ہر علامت کے سیاق و سباق پر غور کر کے اسے سیاق و سباق سے علیحدہ دیکھاجائے مجرد علامت پر غورو فکر کیاجائے اور جو مماثل خیال میں آئیں۔ انہیں اس علامت کے گرد یکجا کیا جائے خیالات اور تصورات کا یہ ایک مرکب بن جاتا ہے وہ تصورات ذاتی ہوں یا اسطوری سب ایک ہی مرکز کے گرد کواکب کی طرح گھومنے لگیں گے۔ اس کو کبے پر غور کرکے اس علامت کو دوبارہ سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیے تو نظم کے معانی میں نئے پہلو نظر آئیں گے اور نئے افق روشن ہوں گے۔ یہ عمل Amplificationیعنی پھیلائو کا نتیجہ ہے۔ پھیلائو کے بعد پھر علامت کو سمیٹ کر ایک سمجھ کر ادراک کرنا ایک محض شعری تجربہ نہیںرہ جاتا۔ بلکہ ایک روحانی تجربہ بن جاتا ہے۔ روحانی سطح پر سمت کا ایک بسطی پہلو ہوتا ہے۔ اور ایک قبضی پہلو ہوتا ہے بعض صوفیانہ سلسلو ں میںمریدوںکو جو او ر بتائے جاتے ہیں ۔ اس میں ابتدا استغفار کے ورد سے ہوتی ہے۔ استغفار ایک قبض کی حالت ہے جس میں نفس تو امہ فعال ہوتا ہے۔ اس کے بعد درود شریف پڑھتے ہیں یعنی رو ح کے کواڑ کھل جاتے ہیں اور وہ رحمت کی طلب کرتی ہے یعنی بسط کی طر ف مائل ہوتی ہے۔ اقبال کے اشعار کو روحانی تجربہ بنانے کے لیے یہ ضرورت ہے کہ اس کی علامتوں پر تدبر و تصور کر کے اپنی شخصیت کا جزو بنانے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح علامہ کے ہاں مکالمے کی صنف ہاوی ہے۔ ان کے مکالموں کو سرسری طورپر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن انہیں اپنی ذاتی ترتیب کے لیے اپنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان مکالموں کے ہر کردار کے ساتھ علیحدہ علیحدہ اپنی ذات کو ہم آہنگ کر کے پھر اپنی شخصیت کے دونوں حصوں کے درمیان مکالمہ کیاجائے تو شخصیت میں زیادہ رونق اور ہما ہمی اور بالآخر سکون پیداہو گا۔ اس مختصر تشریح کے بعد میں پھر شاین کی طرف لوٹتا ہوں اقبال نے اس کے متعلق اپنے خط میں لکھا ہے: شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیںہے۔ اس جانور میںاسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ۱۔ خودداراور غیر ت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیںکھاتا۔ ۲۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ ۳۔ بلند پرواز ہے۔ ۴۔ خلوت نشین ہے۔ ۵۔ تیز نگاہ ہے۔ ان کی ایک نظم ’’شاہین ‘‘ ہے اس میں انہوںنے اس علامت کی یوں شرح کی ہے: کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا یہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباںکی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ نہ باد بہاری نہ گلچیں نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربت غازیانہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیںمیں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ چھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیںآشیانہ اس نظم کی شرح میں ایک اور علامت بھی نظر آتی ہے۔ اور وہ ہے آشیانہ ۔ آشیانہ شاہین گھر نہیں بناتا۔ یعنی اس کی زندگی مستقل سفر ہے۔ اور یہاں سفر روحانی سفر کی علامت ہے۔ پنشیں و سفر کن درویش روحانی منزلیں طے کرتا ہے۔ لیکن روحانی منزلیں طے کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ علامتوں پر تدبر کیاجائے ۔ شاہین صرف آشیانہ ہی نہیں بناتا بلکہ ایک جلالی کیفیت لیے ہوئے ہے نہ باد بہاری‘ نہ گلچیں نہ بلبل‘ بہت ہی زاہدانہ صفات اس میں یکجا ہو گئی ہیں۔ یہ شخصیت کا ایک پہلو ہے۔ اس کے احاطے میں جمالی پہلو نظر نہیں آتا۔ اوروہ پہلو بھی نہیں آتا۔ جو درویش کو بیاباں سے اٹھ کر خیاباں کے رہنے والوں میں روحانی قوت اور تندی پیدا کرنے پر مائل کرتا ہے۔ ہر علامت اپنا ایک کوکبہ Constellationبناتی ہے۔ اس کو کبے پر غور و فکر کرنے سے اس علامت کی توانائی شخصیت میں رچ بس جاتی ہے۔ اسی طرح مکالموں میں بھی ہم کلام ہونے والے کردار د و علامتیں ہیںجو حقیقی مکالمے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔ اور حقیقی مکالمہ خداسے ہوتا ہے۔ اقبال اپنے لیکچرز میں اس حقیقی مکالمے کی نوعیت پر اظہار خیال کرتے ہیں: ہمیں یہ کیونکر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں دوسرے اذہان بھی ہیں۔ ہم پروفیسر روئس سے اتفاق کر کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم دوسرے انسانوں کی حقیقت کو یوں تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اشاروں کاجواب دیتے ہیں اور اس طرح اپنے ادھورے معانی کو تکمیل دیتے ہیں۔ جواب دینا ہی ثبوت ہے ایک باشعور خودی کی حقیقت کا۔ اور اسی طرح خدا سے بھی مکالمہ ہو سکتا ہے۔ اور قرآن مجید نے بھی یہی کہا ہے کہ : وقال ربکم ادعونی استجب لکم (المومن ۶۰) واذا سالک عبادی عنی فانی قریب (البقرہ ۱۸۶) ٭٭٭ اقبال کی موعودہ تصانیف رفیع الدین ہاشمی علامہ اقبال نے ۱۸۹۹ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کیا حسن اتفاق سے معاً بعدان کے مشفق استاد پروفیسر آرنلڈ نے اورئنٹل کالج لاہور کے قائم مقام پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔ یہ اپریل ۱۸۹۹ء کا واقعہ ہے۔ اس کے چند روز بعد ۱۱مئی کو آرنلڈ کے ہونہار اورعزیز شاگرد شیخ محمد اقبال اسی کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے۔ حصول تعلیم کے بعد یہ ان کی تدریسی زندگی کا آغاز تھا۔ اورئینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر کے فرائض منصبی میںیہ بات بھی شامل تھی کہ وہ طلبہ کو درس دینے کے علاوہ کالج کی مطبوعات کا اہتمام و انصرام کرے… مزید برآں حسب صلاحیت مختلف علوم و فنون سے متعلق کتابوں کی تالیف و ترجمے کا کام بھی انجام دے اقبال نے اسی منصبی تقاضے کے تحت علم الاقتصاد مرتب کی جو ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی۔ یہ ان کی اولیں تصنیف تھی اور ان کی زندگی میں شائع ہونے والی ان کی واحد نثری کتاب بھی۔ علم الاقتصاد کی اشاعت (۱۹۰۳ء ) سے اقبال کی وفات (۱۹۳۸ئ) تک ۳۵ برسوں میں ان کی دس کتابیں شائع ہوئیں۔ یہ تمام شعری مجموعے ہیں۔ ۱۹۳۸ء کے بعد مختلف اہل قلم نے اقبال کے ذخیرہ نظم و نثر ( باقیات شعر‘ مقالات ومضامین‘ تقاریر و بیانات‘ ملفوظات و فرمودات‘ انگریزی نوٹ بک اور متفرقات) کے دو درجن سے زائد مجموعے مرتب کر کے شائع کیے ہیں۔ اقبالیاتی ادب میں اقبال کے افکار و خیالات پر مشتمل ان موجود و مطبوعہ کتب کے علاوہ ان کی بعض ایسی تصانیف کا ذکر بھی ملتا ہے جن کی ترتیب و تالیف بعض خاص مقاصد کے تحت ان کے پیش نظر تھی مگر: بسے گفتنہیا کہ ناگفتہ ماند کے مصداق یہ کتابیں بوجوہ اقبال کے ذہن سے صفحہ قرطاس پر منتقل نہ ہو سکیں۔ اوریوں وجود میں آنے سے بیشتر ہی معدوم ہو گئیںَ۔ذخیرہ تصنیفات اقبال میں انکی موعودہ (اور معدوم) تالیفات خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اقبال کی شخصیت کو سمجھنے اور ان کے فلسفہ و فکر کے تمام گوشوں تک رسائی کے لیے ان کی موعودہ تالیفات کا مطالعہ ناگزیر ہے… یہی مطالعہ زیر نظر معروضات کا موضوع ہے۔ مقدمۃ القرآن قرآن حکیم فکر اقبال کی اساس ہے۔ علامہ اقبال بہت ابتداہی سے قرآن حکیم سے عشق کی حد تک گہرا ذہنی اور قلبی تعلق رکھتے تھے۔ تلاوت قرآن سے انہیں خصوصی شغف تھا اور متعدد روایات کے مطابق وہ اس ذوق و شوق اور حضور قلب کے ساتھ تلاوت فرماتے آنکھوں سے بے اختیار آنسو امڈ آتے اور ان پر رقت طاری ہو جاتی۔ آخری زمانے میں گلے کی خرابی کی وجہ سے تلاوت کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا: در نفس سوز جگر نے ماند لطف قرآن سحر نے ماند یہ تعلق محض تلاوت تک محدود نہ تھا وہ عربی زبان کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ اور انہوںنے دقت نظر سے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا تھا مولانا گرامی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے کہ اس نے قرآن حکیم کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ میںنے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے‘‘ ۱؎ قرآن حکیم پر علامہ کی دقیق نظر کا ثبوت وہ مباحث قرآنی ہیں جو ان کے ملفوظات و فرمودات میںملتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو محمد حسین عرشی کا مضمون ’’علامہ اقبال کی صحبت میں ‘‘ … مشمولہ ملفوظات اقبال ص ۳۳۔ ۵۶) ان کے نزدیک قرآن حکیم کائنات کے ہر مسئلے اور زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے حتیٰ کہ: ’’جہاں تک سیاسی مسائل کا تعلق ہے میںآ پ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ میرے پاس کوئی پرائیویٹ سیکرٹری ہے جو میرے لیے ضروری مواد فراہم کرے نہ میرے پاس سیاسی لٹریچر کا کوئی پلندہ ہے جس پرمیں اپنی بحثوں کی اساس قائم کر دوں بلکہ میرے پاس حق و صداقت کی ایک جامع کتاب(قرآن حکیم) ہے جس کی روشنی میں مسلمانوں کے حقوق کی ترجمانی کرنے کی کوشش کروں گا… لہٰذا میں نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ قرآن پاک کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھیں اور اگر ان کو زندہ رہنا ہے تو وہ ان قربانیوں کے لیے تیار رہیں جو ہمیشہ سے زیادہ ان کو آئندہ دینی ہوں گی‘‘۔ ۲؎ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار ٭٭٭ کر تو مے خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن قرآن حکیم کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآنی مباحث و تعلیمات پر تفہیم قرآن کی خاطر وہ اپنے نقطہ نظر سے کچھ لکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے برسوں کے غور و فکر کے نتائج سے امت مسلمہ بھی مستفیض ہو سکے۔ ۱؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی کراچی ۱۹۶۹ء ص ۱۲۵ ۲؎ گفتار اقبال مرتبہ محمد رفیق افضل لاہور ۱۹۶۹ء ص ۱۳۶ قرآن حکیم کے بارے میں کچھ لکھنے کا ارادہ بہت ابتدا ہی سے اقبال کے ذہن میں تھا۔ مگر کسر نفسی کے سبب وہ اسے بروئے کار لانے سے گریزاں رہے۔ عجز فہم کے احساس نے ایک عرصے تک انہیں گومگو اورتذبذب میں مبتلا رکھا۔ ایک طرف علمی اور ملی تقاضے کچھ لکھنے پر آمادہ کرتے ہیں لیکن کسر نفسی اورکم علمی روک لیتی ہے۔ اس ذہنی کش مکش کا اظہار مکاتیب میں کئی جگہ ملتا ہے۔ یکم جولائی ۱۹۱۷ء : ’’میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے بلکہ بعض آیات اور سورتوں پر مہنوں بلکہ برسوں غور کیا ہے …مگر مضمون بڑا نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں ہے۔ بہرحال میں نے یہ قصدکر لیاہے کہ ایک دفعہ اس کو لکھ ڈالوں گا‘‘ ۳؎ ۱۹ نومبر ۱۹۲۹ئ: ’’ میں گزشتہ بیش برس سے قرآن کا بغور مطالعہ کر تا ہوں ہر روز تلاوت کرتا ہوں مگر ابھی یہ نہیں کہہ سکتاکہ اس کے کچھ حصوں کو سمجھ گیا ہوں۔ اگر خدا نے توفیق او ر فرصت دی تو ایک دن کامل تاریخ اس بات کی قلم بند کروں گا کہ دنیائے جدیدہ اس مطمح حیات سے کس طرح ترقی کرتی ہوئی بنی ہے جو قرآن شریف نے ظاہر کیا ہے ‘‘ ۴؎۔ قرآن حکیم پر اپنی مجوزہ کتاب کو انہوںنے مقدمۃ القرآن کانام دیا انگریزی میں اس کے لیے اقبال نے تین مختلف نام استعمال کیے ہیں: 1. An Introduction to the study of Quran. 2. Aids to the study of Quran. 3. An Interpretation of the Holy Quran in the light of Modern Philosophy. جوں جوں وقت گزرتا گیا مقدمتہ القرآن لکھنے کے لیے ان کی خواہش بڑھتی گئی۔ علامہ کی شدید آرزو کا جو بے چینی کی شکل اکتیار کرتی نظر آتی ہے۔ اندازہ ذیل کے چند اقتباسات سے بخوبی لگایا جا سکے گا: ۲۲ جولائی ۱۹۳۰ء اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے نہایت دردمندی سے میرا علاج کرایا ہے۔ اس کے علاوہ جب ان کو سر راس مسعود سے معلوم ہوا کہ میں ایک کتاب مقدمتہ القرآن لکھنا چاہتا ہوں۔ ۳؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۱۲۵۔ ۴؎ گفتار اقبال ص ۱۰۴۔۱۰۵۔ ۵؎ ملفوظات اقبال ص ۲۲۶ ۶؎ عبدالمجید سالک ذکر اقبال ‘ لاہور (۱۹۵۵ئ) ص ۲۱۲ ۷؎ اقبال بھوپال میں از عبدالقوی دسنوی بھوپال ۱۹۶۷ء ص ۱۴ تو اس ارادے کی تکمیل کے لیے انہوںنے تاحیات پانچ سو روپے ماہوار کی لٹریری پنشن عطا فرمائی ۔ آپ کو شاید اس کا علم اخباروں سے ہو گیا ہو گا۔ اب ذرا صحت اچھی ہولے تو انشاء اللہ اس کتاب کو لکھنا شروع کروںگا…کچھ مدت کے لیے مقدمتہ القرآن کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دوں گا۔ باقی اب زندگی میں کوئی دلچسپی مجھ کو نہیں رہی‘‘۔ (مکتوب بنام ڈاکٹر تاثیر ) ۸؎ ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۴ء : ’’میں اپنے دل میں ا س بات کی بڑی شدت سے خواہش رکھتا ہوں کہ قرآن حکیم پر اپنے خیالات تفصیل کے ساتھ ایک کتاب میں ظاہر کروں… میں نے اپنے خیالات کا اظہار بڑی تفصیل سے اپنے اشعار میں کر دیا ہے لیکن ابھی میرے دل میں اس سے بھی ایک بڑی چیز ہے جو قرآن حکیم کی شرح کی صورت میں ظاہر کرنے کی آرزو رکھتا ہوں‘‘۔ (خواجہ عبدالوحید سے گفتگو ) ۹؎ ۲۶ اپریل ۱۹۳۵ء : ’’… اور اس طرھ میرے لیے ممکن ہو سکتا ہے کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم کے ا ن نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیشکش مسلمانان عالم کو نہیں کر سکتا‘‘۔ (مکتوب بنام سر راس مسعود ) ۱۰؎ ۲۳ مئی ۱۹۳۵ئ: ذرا صحت اچھی ہو لے تو لکھنا شروع کر دوں گا۔ چاہتا ہوں کہ کوئی لکھاپڑھا وسیع النظر اور صحیح المشرب فاضل دیو بند میسر آ جائے۔ مجھے حوالہ جات تلاش کر کے دیتا رہے اور لکھتا رہے۔ انگریزی سے واقف ہو تو نہایت ہی اچھی بات ہے میں تنخواہ دینے کو تیار ہوں ایک بار کتاب شروع کی تو انشاء اللہ اسلام کے بارے میں یورپ کی تمام Theories کو توڑ پھوڑ کے رکھ دو ں گا۔ ارادہ ہے کہ قانون کیی تمام کتب بیچ کر فقہ حدیث اور تفاسیر خرید کروں گا۔ (عبدالرشید طارق سے گفتگو ) ۱۱؎ ۸؎ انوار اقبال مرتبہ بشیراحمد ڈار کراچی ۱۹۶۷ء ص ۲۰۵۔۲۰۶ ۹؎ اقبال ریویو۔ کراچی ‘ جنوری ۱۹۶۹ء ص ۵۲ ۱۰؎ اقبال نامہ حصہ اول‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ لاہور (۱۹۴۵ء ) ص ۳۵۷۔۳۵۸۔ ۱۱؎ ملفوظٓت اقبال ص ۲۲۶۔۲۲۷ ۳۰ مئی ۱۹۳۵ئ: چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم کے متعلق اپنے افکار قلم بند کر دوں جو تھوڑی سی ہمت و طاقت مجھ میں باقی ہے۔ اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن آپ کے جد امجد حضور نبی کریمؐ کی زیارت مجھے اس اطیمنان کی خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور نے ہم تک پہنچایا کوئی خدمت بجا لا سکا۔ (مکتوب بنام سر راس مسعود ۱۲؎) ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ طویل علالت کے دوران بھی (جس کا آغاز اوائل ۱۹۳۴ء میں ہوا) مقدمتہ القرآن لکھنے کی آرزو اقبال کے دل میں کروٹیں لے رہی تھی۔ مگر انہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ مسلسل علالت اتنی مہلت نہیں دے گی افسوس کہ ان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا حیات مستعار کا وقفہ ختم ہوا اور موعودہ تصنیف کا خیال عمل کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ مقدمتہ القرآن کے سلسل میں اقبال کے عزیز دوست سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: ’’اس سلسلے میںان کی دو ایک تحریریں ضرور دستیاب ہوئیں… ایک تحریر تو فقہ اسلامی کی بحث میں بعض قرآنی مصطلحات مذکور ہیں دوسری تحریر صرف چند ایک قرآنی مصطلحات پر مشتمل ہے لیکن ان دونوں تحریروں کی حیثیت حواشی کی نہیں حضرت علامہ نے ان تحریروں میں کوئی جملہ بھی رقم نہیں فرمایا۔ صرف چند الفاظ مستفسرانہ انداز میں لکھتے ہیں جس سے کچھ مترشح نہیں ہوتا۔ تو یہی ہے کہ انہوں ے اپنی یادداشت کے لیے چند باتیں بطور اشارت لکھ لی تھیں رہا یہ امر کہ وہ ان باتوں کی تشریح اور تفصیل کس انداز اور کس نہج پر کرتے ہیں اس کافیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۱۳؎۔ بلاشبہ علامہ کے طریق تفسیر کے بارے میں متعین طو رپر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن انہوں نے اپنی تحریروں میں اور گفتگوئوں کے بارے میں جستہ جستہ جو اطہار خیال کیا ہے اس سے چند امور بہت واضح ہیں: ۱۔ مقدمتہ القرآن لکھنے سے علامہ کی بنیادی غایت خدمت دین تھی ۔ مقصد یہ تھا کہ اس خدمت کے ذریعے وہ روز محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سرخرو ہو سکیںَ ۲۔ موعودہ تصنیف کے ذریعے مسلمہ امت کو قرآن رموز و نکات سے آگاہ کیا جائے تاکہ مسلمانان عالم اس کی روشنی میں اپنے سیاسی او ر معاشی مسائل کو حل کر سکیں۔ ۳۔ مقدمتہ القرآن کے ذریعے یورپ کے ان بے بنیاد اور متعصبانہ اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا جائے جو یورپی مستشرقین وقتاً فوقتاً اسلام اورقرآن پر کرتے رہتے ہیں اس طرح اسلام کے بارے میں یورپ کی Theoriesکو توڑ پھوڑ کر مسلمانوں کو مغرب کی ذہنی مرعوبیت سے آزاد کیا جائے۔ ۱۲؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۳۶۱۔۳۶۲ ۱۳؎ مکتوبات اقبال مرتبہ سید نذیر نیازی کراچی ۱۹۵۷ء ص ۳۴۴۔۳۴۵ ۴۔ تفسیر قرآن میں وسعت نظری اور صحیح المشربی سے کام لیا جائے تاکہ اس تنگ نظری ذہنی جمود اورتعصب کا خاتمہ ہو جس نے مسلمانوں کے اندر مختلف فرقوں کی شکل اختیار کر کے ملت کے جسد اجتماعی میں زہر گھول دیا ہے۔ اگر وہ اپنی ان موعودہ تصنیف کی تالیف میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بلاشبہ عصر حاضر میں اقبال جیسے فلسفی اور مفکر کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہوتا۔ فقہ کی اسلامی تاریخ ’’آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی جدید تدوین ہے جس میں زندگی کے ان سینکڑوں ہزاروں مسائل کا صحیح اسلامی حل پیش کیا گیا ہے جن کو دنیا کے موجودہ قومی اور بین الاقوامی سیاسی معاشی اورسماجی احوال و ظروف نے پیدا کر دیا ہے‘‘۔ ۱۴؎ علامہ اقبال کے یہ الفاظ ان کی اس کتاب کے پس من؟ظر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو ان کے موعودہ تالیفی منصوبوں میں دوسر ا اہم منصوبہ تھا۔ فقہ کی تدوین جدید اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں۔ علامہ کو بخوبی احسا س تھا کہ مغربی علوم و افکار کے روز افزوں اثرات کے پیش نظر مسلم معاشرے کو اجتہاد کی اشد ضرورت ہے۔ مجموعہ خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islamمیںچھٹا خطبہ الاتجہاد فی الاسلام کے موضوع پر ہے۔ مزید برآں یہ بات معنی خیز ہے کہ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں اقبال کی شاعری بھی ایک اجتہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ اقبال کی شاعری کی روح کیاہے؟ تو اس کا جواب ہو گا اجتہاد فکر و عمل … وہ اپنی شاعری میں جمود کے خلاف حرکت اور اس سے بھی آگے بڑھ کر انقلاب کے پر جوش داعی نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں اجتہاد پر یہ زور مسلمان علماء کے اندر صدیوں کے فقہی جمود کے خلاف ایک رد عمل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس رد عمل کا ایک مثبت پہلو اقبال کا یہ احساس ہے کہ عصر حاضر کی مقتضیات و مسائل کی روشنی میں اسلامی فقہ کی از سر نو ترتیب و تشکیل کی ضرورت ہے۔ (یہ ایک لحاظ سے اسلامی فقہ کی مفصل تاریخ بھی ہو گی) ۔ اس کا اظہار مکاتیب میں کئی جگہ ملتا ہے۔ ۲ ستمبر ۱۹۲۵ء : ’’میرا عقیدہ یہ ہے ہک جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے اصول قانون Jurisprudencwپر ایک تنقیدی نظر ڈال کر احکام قرآیہ کی ابدیت ثابت کرتے گا وہی اسلام کا مجدد ہوگا اوربنی نو ع انسان کا سب سے بڑا خادم وہی شخص ہو گا ‘‘ ۱۵؎ (مکتوب بنام صوفی تبسم) ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ئ: اس وقت سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اسلامی کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے ‘‘ ۱۶ (مکتوب بنام سید سلیمان ندوی) ۱۴؎ علامہ اققبال روایت مولانا احمد اکبر آبادی حیات نور دیو بند ۱۹۵۵ء ص ۱۶۵ ۱۵؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۵۰ ۱۶؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۱۴۲ ابتدا میں اس کام کا آغاز اقبا ل نے خود ہی کر دیا۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ۱۵ اپریل ۱۹۱۷ ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’فقہ اسلام میں اس وقت ایک مفصل کتاب بزبان انگریزی زیر تصنیف ہے جس کے لیے میں نے مصر و شام سے مسالہ جمع کیا ہے جو انشاء اللہ بشرط زندگی شائع ہو گی او ر مجھے یقین ہے کہ اپنے فن میں ایک بے نظیر کتاب ہو گی ۔ میرا ارادہ ہے کہ اس کتاب کو تفصیلی مسائل کے اعتبار سے ایسا بنائں کہ امام نسفی کی مبسوط ہے جو ساٹھ جلدوں میں لکھی گئی‘‘ ۱۷؎ لیکن یہ زیر تحریر مقالہ عرصہ دراز تک تشنہ تکمیل ہی پڑا رہا۔ ۱۳ اگست ۱۹۲۴ء کو محمد سعید الدین جعفری کے نام لکھتے ہیں: ’’میں ایک مفصل مضمون انگریزی لکھ رہاہوں جس کا عنوان ہے: The Idea of Ijtihad in the Law of Islam امید ہے آپ اسے پڑھ کر خوش ہوں گے ۱۸؎۔ ایک اور خط میں اقبال نے متذکرہ بالا مقالے یا کتاب کا نام Islam As I Understandتجویز کیا ہے۱۹؎۔مگر کچھ یوں اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی علمی کاوش کے بارے میں شرح ص نہ تھا کہ اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکیں گے لکھتے ہیں: ۲ ستمبر ۱۹۲۵ئ’’کچھ مدت ہوئی میں نے اجتہاد پر ایک مضمون لکھا تھا مگر دوران تحریر میں اس کا احساس ہوا کہ یہ مضمون اس قدر آسان نہیںجیسے کہ میں نے اسے ابتدا میں تصور کیا ھتا۔ موجودہ صورت میں وہ مضمون اس قابل نہیں کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں کیونکہ بہت سی باتیں جن کو مفصل لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون میں نہایت مختصر طور پر اشارۃ بیان کی گئی ہیںَ یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک شائع نہیں کیا‘‘۔ (مکتوب بنام صوفی تبسم) ۲۰؎ ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ء : میں ایک رسالہ اجتہاد پر لکھا تھا مگر چونکہ میرا دل بعض امور کے متعلق خودمطمئن نہیں اس واسطے اس کو اب تک شائع نہیں کیا‘‘۔ (مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ) ۲۱؎ اس عدم اطمینان کے سبب اقبال نے یہ نازک ذمہ داری کس روشن دماغ عالم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا یہ کام غلامانہ اندازمیں نہیں بلکہ ناقدانہ انداز میں ۲۲؎ کرنے کا تھا ۔ اقبال کے نزدیک مولانا شبلی مرحوم اس کام کے لیے سب سے زیادہ موزوں شخص تھے مگر وہ انتقال کر چکے تھے۔ اب ان کی نظر دو عالموں پر پڑی ایک استاذ الکل مولانا سید سلیمان ندوی اور دوسرے دینائے اسلام کے جید ترین محدث سید انور شاہ کاشمیری۔ ۱۷؎ شاد اقبال مرتبہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور حیدر آباد دکن ص ۴۶ ۱۸؎ انوار اقبال ص ۲۸۵ ۱۹؎ اقبالنامہ حصہ اول ص ۴۷ ۲۰؎ ایضاً ص ۴۶۔۴۷ ۲۱؎ ایضاً ص ۱۴۳ ۲۲؎ ایضاً ص ۱۴۷ سب سے پہلے ۱۹۲۰ء اور پھر ۱۹۲۲ء میں اقبال نے کوشش کی کہ حضر ت سید انور شاہ کسی صورت میں لاہور چلے آئیں اوریہاں مستقلاً قیام کر کے اسلامی فقہ کی تدوین کا جدید بیڑا اٹھائیں مگر شاہ صاحب کے لاہور آنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ مایوس ہو کر مارچ ۱۹۲۲ء میں اقبال نے سید سلیمان ندوی کو لکھا: ’’موجودہ صورت میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا… آپ سے درخواست ہے کہ اس کام کو مستقل طور پر اپنے ہاتھ میں لیجیے۔ ندوہ کے دیگر ارکان یا فارغ التحصیل طلبہ کو بھی اپنے ساتھ ملائیے تاکہ اقوام اسلام کو فقہ اسلامی کی اصل حقیقت معلوم ہو ‘‘ ۲۳؎ غالباً مولانا سلیمان ندوی کا جواب کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ تھا۔ اقبال کی درخواست کے باوجود سید سلیمان ندوی اپنے دیگر علمی مشاغل میں مصروفیت کے سبب اس کام کو شروع نہ کر سکے۔ ۱۹۲۶ء میں حسن اتفاق سے سید انور شاہ کاشمیری بعض اختلافات کی بنا پر دیو بند سے مستعفی ہو گئے تو علامہ کو اس بناپر خوشی ہوئی کہ شاید اب لاہور منتقل ہونے پر راضی ہو سکیں اس زمانے میں ایک موقع پر دوران گفتگو فرمایا: اسلام کے لیے جو کام میں شاہ صاحب سے لینا چاہتا ہوں اس کو سوائے شاہ صاحب کے کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا۔ ۲۴؎ اقبال کاخیا ل تھا کہ اس کام میں وہ سید انور شا ہ صاحب کی معاونت کریں گے فرمایا: ’’مجھ کو پورا یقین ہے کہ اس کام کو میں اور شاہ صاحب دونوں مل کر ہی کر سکتے ہیں… سب مسائل میں شاہ صاحب کے سامنے پیش کروں گا اور ان کا صحیح اسلامی حل کیا ہے؟ یہ شاہ صاحب بتلائیں گے۔ اس طرح ہم دونوں کے اشتراک و تعاون سے فقہ جدید کی تدوین عمل میں آجائے گی‘‘۔ ۲۵؎ لیکن اس بار بھی شاہ صاحب کو لاہور بلانے کی کوششیں ناکام رہیں ۱۹۳۳ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اور تدوین فقہ کا کام التوامیں پڑگیا۔ ۱۹۳۴ء میں اقبال کی آخری علالت کا آغازہواجو طویل تر ہوتی گئی۔ اس اثنا میں تدوین فقہ کا خیال برابر دامن گیر رہا مگرصحت کی خرابی کی وجہ سے اجازت نہ دی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا تصنیف موعودہ سے مایوس ہوتے گئے۔ وفات سے چند ماہ پہلے خواجہ غلام السیدین کو لکھا: ’’اسلامی اصول فقہ کے متعلق ایک کتاب لکھنے کا ارادہ تھا لیکن اب یہ امید موہوم معلوم ہوتی ہے ‘‘ ۲۶؎ ۲۳؎ اقبال نامہ حصہ اول صفحۃ ۱۴۳ ۲۴؎ روایت مولانا احمد سعید اکبر آبادی حیات انور دیو بند ۱۹۵۵ء ص ۱۶۵ ۲۵؎؎ ایضاً صفحہ ۱۶۵ ۲۶؎ اقبال نامہ حصہ اول صفحہ ۳۲۰ اگرچہ علامہ اقبال فقہ کے بارے میں موعودہ کتاب نہ لکھ سکے تاہم مکاتیب اور بعض دوسری تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مذکورہ تصنیف کا مقصدیہ تھا کہ : ۱۔ دور حاضر کی بین الاقوامی سیاسی ‘ معاشی‘ اورسماجی صورت حال کے سبب جو بے شمار مسائل پیدا ہوگئے ہیں ان کا صحیح اسلامی حل پیش کیا جائے۔ ۲۔ اسلامی اوقاف سے متعلق قانون اور اسلامی ثقافت زبان مساجد اور قانون شریعت سے متعلق کا حل تلاش کیا جائے۔ ۳؎ اسلامی قانون کی تدوین کے بعد اس کے نفاذ سے نہ صرف مسلمانوں کے معاشی مسائل بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی پیش آمدہ امور و مشکلات سے عہدہ برا ہونے کی تدابیر سوچی جائیں۔ ۴۔ اس طرح ملت اسلامیہ تجدید و احیائے دین کے اس عظیم تر مقصد کی طرف قدم بڑھا سکے جس کے لیے مسلم معاشرے میں وقتاً فوقتاً مختلف اسلامی تحریکیں برپا ہوتی رہی ہیں۔ تصنیف موعودہ کے لیے اقبال کی فکر مندی کا اظہار ان کے خطبے The Principle of Movement in Structure of Islamالہ آباد کے خطبہ صدارت ۱۹۳۰ء اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے ان کی پیش کردہ سکیم سے ہوتا ہے جو انہوںنے صاحبزادہ آفتاب احمد خان کے نام ایک خط میں لکھی تھی ۲۷؎۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی مرحوم نے اقبال کے رسالہ اجتہاد کو اسلامی فقہ کی تدوین و تاریخ نامی مجوزہ اورموعودہ تصنیف سے الگ اقبال کی ایک مستقل اورغیر مطبوعہ تصنیف قرار دیا ہے۔ ۲۸؎۔ درحقیقت ’’رسالہ اجتہاد‘‘ اقبال کی ’’اسلامی فقہ کی تاریخ و تدوین‘‘ کا ایک حصہ تھا جو ناکافی اور نامکمہ ہونے کے سبب ان کے خیال میں قابل اشاعت نہ تھا…اسی طرح عبدالسلام ندوی نے اقبال کی بعض نامکمل اور زیر تجویز کتابیں کے عنوان کے تحت اسلامی اصول فقہ کی تجدید رسالہ اجتہاد اور Islam as i understoodکا ذکر تین علیحدہ کتابوں کی حیثیت سے کیا ہے ۲۹؎۔ درحقیقت یہ تین الگ کتابیںنہیں ایک ہی مستقل موعودہ کتاب کے مختلف نام ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا اقبا ل نے اس کتاب کا نام Islam as I Understood تجویز کیا تھا۔ اسی عنوان سے انہوںنے اس کتاب کا خاکہ بھی تیار کیا تھا جسے وفات سے کچھ رعصہ پہلے انہوں نے میاں محمد شفیع(م۔ش) کے حوالے کر دیا۔ یہ خاکہ (جو اب شائع ہو چکا ہے ) ۳۰؎ خاصا غیر واضح ہے۔ کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کا تعلق مجوزہ مقدمتہ القرآن سے ہے یا تدوین فقہ سے… اس خاکے کو دونوں میں سے کسی ایک کتاب کی بنیاد بھی نہیں بنایا جا سکتا اور نہ اس کی بنیاد پر کوئی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ۲۷؎ اقبالنامہ حصہ دوم صفحہ ۲۱۲۔ ۲۲۵ ۲۸؎ اقبالیات کا تنقیدی جائزہ کراچی ۱۹۶۵ء ص ۲۵۔۲۶۔۲۸ ۲۹؎ اقبال کامل اعظم گڑھ۔ ۱۹۶۴ء ص ۱۰۷۔۱۰۹ ۳۰؎ Letters and writings of Iqbalمرتبہ بشیر احمد ڈار کراچی ۱۹۶۷ء ص ۸۶۔۹۵ غالباً اسی وجہ سے مقدمتہ القرآن اور تدوین فقہ ہر دو تالیفی منصوبوں کے بارے میں اقبال نے وقتاً فوقتاً جن خیالات کا اظہار کیا ہے پروفیسر رحیم بخش شاہین نے ان سب کو کتاب موعودہ کے زمرے میں شامل کر لیا ہے ۔ ۳۰؎ اگر علامہ ابال متذکرہ بالا موعودہ کتاب لکھ پاتے تو بلاشبہ یہ اسلامی لٹریچر میں ایک عظیم الشان اضافہ ہوتا اور دور حاضڑ میں اسلام کے قابل عمل Practicableہونے کے بارے میں معترضین کے اعتراضات کا مسکت جواب بھی۔ ٭٭٭ تاریخ تصوف اسرار خودی کی اشاعت ۱۹۱۵ء پرہندوستان کے اہل تصوف نے اقبال کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ مخالفت کی اس گرم بازاری میں ان کے قریبی دوست خواجہ حسن نظٓمی پیش پیش تھے۔ اقبال کو اپنے نقطہ نظر کی صراحت کے لیے بہت سی وضاحتیں کرنی پڑیں تاریخ تصوف کی مجوزہ تصنیف بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسرار خودی کی اشاعت پر خواجہ حسن نظامی کے مخالفانہ مضامین خاص طور پر اقبال کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کا موجب بنے مثلاً یہ کہ اقبال صوفیائے کرام سے بدظن ہے تصوف کا مخالف ہے اور تحریک تصوف کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ یہ الزامات اس تصنیف کے آغاز کے لیے فوری محرک ثابت ہوئے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے اقبال نے تصوف کی تاریخ پر ایک مبسوط مضمون لکھنا شروع کیا جو بعد میں پھیل کر کتاب کی شکل اختیار کر گیا اس کتاب کی تالیف کا عزم صمیم اقبال کی اپنی تحریروں سے واضح ہے: ۱۵جنوری ۱۹۱۶ئ: ’’اگر وقت نے مساعدت کی تو میں تحریک تصوف کی ایک مفصل تاریخ لکھوں گا‘‘ انشاء اللہ (مضمون اسرار خودی اورتصوف ) ۳۱؎ ۲۷ جنوری ۱۹۱۶ئ: ’’علامہ ابن جوزی نے جو کچھ تصوف میں کیا ہے اس کو شائع کردینے کامقصد ہے کہ اس کے ساتھ تصوف کی تاریخ پر ایک مفصل دیباچہ لکھوں گا انشاء اللہ اس کا مصالحہ جمع کر لیا ہے‘‘۔ (مکتوب بنام اکبر الہ آبادی ) ۳۲؎ ۴ جنوری ۱۹۱۶ئ: میں تصوف ی تاری پر ایک مبسوط مضمو ن لکھ رہا ہوں جو ممکن ہے کہ کتاب بن جائے‘‘۔ (مکتوب بنام اکبر الہ آبادی ) ۳۳؎ فروری ۱۹۱۶ئ: ’’میں تصوف اسلامیہ کی تاریخپر ایک مفصل مضمون لکھ رہا ہوں جو عنقریب علامہ ابن جوزی کی کتاب تلبیس ابلیس کے اس حصہ کے ساتھ شائع ہو گا جو انہوںنے وحدت الوجود کے رو میں لکھا ہے‘‘۔ (مضمون اسرار خودی ) ۳۴؎ ۳۰؎ ملاحظہ ہو: اسلامی تعلیم : اقبال نمبر مارچ تا جون ۱۹۷۴ء ۳۱؎ مقالات اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی لاہور ۱۹۶۳ء ص ۱۶۱ ۳۲؎ اقبال نامہ حصہ دوم ص ۵۰۔ ۳۳؎ ایضاً ص ۵۱۔۵۲ ۳۴؎ مقالات اقبال صفحہ ۱۷۱ ۱۳ فروری ۱۹۱۶: ’’تصوف کی تاریخ لکھ رہا ہوں۔ وہ باب لکھ چکا ہوں یعنی منصور حلاج تک پانچ چار باب اور ہوں گے ۔ اس کے ساتھ علامہ ابن جوزی کی کتاب کا وہ حصہ بھی شائع کر دوں گا جو انہوںنے تصوف پر لکھا ہے‘‘۔ (مکتوب بنام خان محمد نیاز الدین خان) ۳۵؎ ۱۹ مارچ ۱۹۱۶ئ: ’’یہ ضروری ہے کہ تصوف اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھی جائے…میں اس پر کچھ لکھنا شروع کیا ہے مگر میری بساط کچھ نہیں۔ یہ کام اصل میں کسی اور کے بس کا ہے‘‘۔ ۳۶؎ (مکتوب بنام شاہ سلیمان پھلواری) گویا ابتدا میں تاریخ تصوف لکھنے کا عزم پختہ تھا اس سلسلے میں انہوںنے چند ابواب لکھے بھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باقی کام معرض التوامیں پڑ گیا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں انہیں تصوف پر اپنے موقف کی وضاحت میں کئی مضامین لکھنے پڑتے۔ اسرار خودی کی اشاعت پر جو طوفان اٹھا تھا۔ ان مضامین کی اشاعت سے وہ کچھ تھم سا گیا چنانچہ اقبال کو اطمینان ہوا مگر تصوف پر کتاب کی تکمیل موخر ہوتی چلی گئی۔ حتی کہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء کو مولانا اسل جیراج پوری کو لکھا: ’’میں نے ایک تاریخ تصوف لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا ۳۷؎‘‘۔ اس طرح تین سال بعد اقبال ذہنی طور پر تاریخ تصوف کی تکمیل سے دستبردار ہو گئے: ان کا ارادہ تھا کہ موعودہ کتاب میں منصور حلاج کے رسالہ کتاب الطواسین کو بھی دیباچہ میں اسعمال کیا جائے۔ مذکورہ رسالہ مفید حواشی کے ساتھ فرانس میں شائع ہو چکا تھا اور علامہ نے اسے فرانس سے منگوا کر بھیجا تھا۔ ’’تاریخ تصوف‘‘ کے مقاصد تالیف اور کتاب کے مباحث کا نقشہ علامہ اقبال کے ذہن میں کچھ اس طرح تھا: ۱۔ موعودہ کتاب کا بینادی مقصد تصوف کی خیر خواہی تھا اقبال واضح کر دینا چاہتے تھے کہ لوگوں نے تصوف میں جو غیر اسلامی عناصر داخل کر دیے ہیں ان کے متعلق یہ بتایا جائے کہ اس تحریک میں غیر اسلامی عناصر کون کون سے ہیں …تاکہ مغربی محققین کے لیے تصوف کو غیر اسلامی قرار دینے کا جواز پیدانہ ہو سکے۔ ۲۔ اقبال کا اپناتعلق بھی سلسلہ قادریہ سے تھا مگر ان کے خیال میں سلاسل تصوف کی تاریخی تنقید بھی نہایت ضڑوری تھی کیونکہ سلاسل تصوف میں ایک گرد ایسا بھی ہے جس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر بیعت لے کر دانستہ نادانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی ہے جو مذہب سے تعلق نہیں رکھتے اگر تاریخ تصوف لکھی جاتی تو ایک باب میں مذکورہ گروہ پر تنقید کر کے اسے باطل ثابت کیاجاتا۔ ۳۔ اقبال کے نزدیک تصوف کے بعض عقائد و مسائل ایسے ہیں جو قرآن حکیم کی روشنی میںقطعی غیر اسلامی ہیں۔ ان میں شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح مثلاً وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلات ستہ یا دیگر مسائل جن میں سے بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب ۳۵؎ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں مرحوم لاہور (۱۹۵۴ء ) ص ۱۔۲ ۳۶؎ انوار اقبال ص ۱۸۱۔۱۸۲ ۳۷؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۵۴ انسان کامل میں کیا ہے۔ علامہ کے نزدیک ان تینوں مسائل کی تردید انتہائی ضروری تھی۔ کیونکہ ان کے نزدییک یہ مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ۴۔ اقبال کے نزدیک مروجہ تصوف کے بعض مسائل اخلاقی اعتبار سے لمبی اوام اسلام کے لیے مضر ہیں۔ مسلمانوں کے انحطا ط اور امت مسلمہ کے قویٰ کو مضحمل کرنے میں تصوف کی ان غیراسلامی تعبیرات کو بڑ ا دخل ہے لہٰذا ملت اسلامیہ کی بقا استحکام اور اسکی اجتماعیت کے تحفظ کے لیے بھی تاریخ تصوف لکھنا ضروری ہے … اس اجمال کی کسی قدر تفصیل اقبال کے مندرجہ ذیل چار مضامین: ۱۔ اسرار خودی ’’وکیل‘‘ امرتسر ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء ۲۔ سراسراار خودی ’’وکیل‘‘ امرتسر ۹ فروری ۱۹۱۶ء ۳۔ علم ظاہر و علم باطن ’’وکیل‘‘ امرتسر ۲۸ جون ۱۹۱۶ء ۴۔ تصوف وجودیہ ’’وکیل‘‘ امرتسر ۱۲ دسمبر ۱۹۱۶ء میں دیکھی جا سکتی ہے جو انہوںنے اسرار خودی کی بحث کے سلسلے میں لکھے ۳۸؎۔ ایک اعتبار سے یہ مضامین ان کی موعودہ تصنیف تاریخ تصوف کا لب لباب ہیں۔ ٭٭٭ قلب و دماغ کی سرگزشت اقبال کی ذہنی نشوونما اورارتقا میں ان کا سہ سالہ قیام یورپ (۱۹۰۵ء ۔ ۱۹۰۸ئ) بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ یور پ سے لوٹے تو ان کے خیالات میں ایک عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا۔ مسئلہ قومیت کے بارے میں خصوصاً ان کے نظریات میں غیر معمولی تبدیلی آئی تھی۔ لکھتے ہیں: ’’اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و مملکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احسا س کیا۔ ا س وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگزشت قلم بند کروں گا۔ جس کے لیے مجھے یقین ہے کہ بہت لوگوں کو فائدہ پہنچے گا‘‘ ۳۹؎ (مکتوب بنام وحید احمد) ذہنی انقلاب کی اس سرگزشت کو اقبال نے دل و دماغ کی سرگزشت کا نام بھی دیاہے اس سرگزشت کو لکھنے کا ارادہ بعض دوسرے خطوں میں بھی کیا ہے۔ سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں: ۳۸؎ نمبر ۱ نمبر ۲ اورنمبر ۴ ’’مقالات اقبال‘‘ (مرتبہ : سید عبدالواحد معینی) اور مضمون نمبر ۳ انوار اقبال (مرتبہ بشیر احمد ڈار) میں شامل ہے۔ ۳۹؎ انوار اقبال ص ۱۷۶ ’’میں اپنے دل و دماغ کی سرگزشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتا ہوں۔ دریہ سرگشست کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو خیالات اس وقت میرے کلام اور افکار کے متعلق لوگوں کے دلوں میں ہیں اس تحریر سے ان میں بہت انقلاب پیدا ہو گا ‘‘ ۴۰؎ وحید احمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’خیالات کا تدریجی انقلاب البتہ سبق آموز ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی فرصت ہو گئی تو لکھوں گا۔ فی الحال اس کا وجود محض عزائم کی فہرست میں ہے‘‘۔ ۴۱؎ اقبال کی شاعری میں ان کے ذہنی نشوونما اور فکر و خیال کے ارتقاء ی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ان کی نوٹ بک Stray Reflectionsمیں بھی ان کے دل و دماغ کی مختلف کیفیات اور تغیرات سے متعلق متعدد شذرات موجود ہیں… اگر اقبال دل و دماغ کی سرگزشت لکھتے تو یہ نشوونما ور ارتقاء زیادہ واضح ہو جاتا اور ان کی شاعری کا سیاق و سبااق بہتر طور پر سمجھنے میں آسانی ہوتی۔ اس کے علاوہ اقبال جیسے عظیم مفکر فلسفی اور شاعر کی یہ خود نوشت ہمارے فکری اور سوانحی ادب میںقابل قدر اضافہ ہوتی۔ ٭٭٭ ایک فرموش شدہ پیغمبر کی کتاب ایک فراموش شدہ پیغمبر کی کتاب کے متعلق سید نذیر نیازی کا بیان ہے: ’’انہوں نے حکم دیا ہے کہ میں ہر روز عہد نامہ عقیق یا اناجیل کا کوئی حصہ ان کو پڑھ کر سنایا کروں یہ مشغلہ کئی روز تک جاری رہا عہد نامہ عتیق پر ان کی تنقید بڑے مزے سے ہوتی ہے اور وہ اس کے انداز بیان اور مطالب کا مقابلہ بار بار قرآن پاک سے کرتے ہیں۔ دراصل ان کا خیال یہ تھا کہ نطشے کی کتاب Also Sparch Zarathustraکی طرح ایک نئی تصنیف What an unknown Prophetکے نام سے مرتب کریں اور اس کے لیے انہیں کسی مناسب ادبی اسلوب کی تلاش تھی۔ ‘‘ ۴۲؎ دوسرا بیان ڈاکٹر تاثیر کا ہے لکھتے ہیں: ’’وفات سے چند ماہ قبل وہ انگریزی میںایک منشور نظم لکھنے کا منصوبہ بنا رہے تھے جسے اگر وہ لکھ پاتے تو عظیم ترین شاہکار نہ سہی ۔ یہ ایک بین الاقوامی چیز ضرور ہوتی۔ وہ اس کانام The Book of a Forgotten Prophetرکھنا چاہتے تھے۔ یہ بائبل کے عہد نامہ قدیم اورنطشے کی Also Spach Zarathustraکے ادبی اسالیب پر ہوتی ‘‘ ۴۳؎ ۴۰؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۱۰۹ ۴۱؎ ایضاً ص ۴۲۶ ۴۲؎ رسالہ اردو اقبال نمبر ص ۳۲۱ ۴۳؎ Aspects of Iqbalلاہور ۱۹۳۸ء ص XI-X ان دو بیانات کے علاوہ اس مجوزہ تصنیف کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتی کہ اس کتاب میں کن مباحث و موضوعات پر اظہار خیال کرنا چاہتے تھے اگر وہ اسے لکھتے تو نظم منثور کے اعتبار سے ان کے لیے ایک نیا تجربہ ہوتا۔ حیات مستقلہ اسلامیہ ابھی ’’رموز بے خودی‘‘ زیر تکمیل تھی کہ اقبال کی طبیعت کی روانی اور مضامین کی کثرت کو دیکھتے ہوئے تیسرا حصہ بھی لکھنے کاارادہ کر لیا۔ یہ جولائی ۱۹۱۷ء کی بات ہے۔ اسی زمانے میں مولانا گرامی کو ایک خط میں لکھا: ’’دوسرا حصہ قریب الاختتام ہے مگر اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح امڈتے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصے کا مضمون ہو گا ’’حیات مستقبلہ اسلامیہ‘‘ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ جس کی تاسیس دعوت ابراہیمی سے شروع ہوئی کیا کیا واقعات و حوادث آئندہ صوبوں میں دیکھنے والی ہے اور بآخر ان سب واقعا ت کا مقصود و غایت کیا ہے ‘‘ ۴۴؎ اتفاق سے رموز بے خودی کی تکمیل اور اشاعت کے بعد بہت دنوںتک شعر گوئی کا سلسلہ رہا مگر مجوزہ تالیف کا خیال برابر اقبال کے دل میں موجود رہا۔ نومبر ۱۹۱۸ء میں اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھا: ’’بہت عرصہ سے کوئی شعر نہیںلکھا۔ مثنوی کا تیسرا حصہ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں‘‘ ۴۵؎ اس کے بعد اقبال نے اپنے مکتوب میں دو شعر نقل کیے ہیں جو انہوںنے رموز بے خودی کی تکمیل کے بعد کہے تھے لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر مثنوی کا تیسرا حصہ نہ لکھا جا سکا اور اس خط کے پانچ سال بعد یہ دونوں شعر بھی پیام مشرق کے خردہ میں ڈال دیے گئے‘‘ ۴۶؎ گرامی کے نام یکم جولائی ۱۹۱۷ء کے خط میں جس کا ایک اقتباس اوپر نقل کیا گیا ہے۔ اقبال نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ قرآن حکیم پر اپنے برسوں کے غور و فکر کے نتائج کو مجوزہ شعری تصنیف حیات مستقلہ اسلامیہ میں بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن ابتدائی زمانے کے اس خیال میں انہوں نے ترمیم کر لی تھی۔ بعد میں انہوںنے قرآن حکیم کے متعلق اپنے تاثرات و خیالات مقدمتہ القرآن کے عنوان سے قلم بند کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ۴۳؎ Aspects of Iqbal لاہور ص XI-X ۴۴؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۱۲۴ ۴۵؎ اقبال نامہ حصہ دوم ص ۷۵ ۴۶؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۱۲۶ ٭٭٭ فصول الحکم پر تنقید تصوف کے متعلق اقبا ل کی موعودہ تصیف کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے … اس کا محرک تصوف میں ان غیر اسلامی عناصر کا وجود تھا جو قرآنی تعلیمات کے خلاف تھے۔ اقبال کے نزدیک ابن عربی کی فصول الحکم بھی اسی ذیل میں آتی ہے۔ ابن عربی شیخ اکبر کے نام سے معروف ہیں وہ بہت متنازعہ فیہ شخصیت تھے۔ ایک گروہ انہیں ولی کامل مانتا ہے۔ اور دوسرے گروہ کے نزدیک وہ ملحد ہیں ان کے متصوفانہ فلسفے کا دارومدار عقیدہ وحدت الوجود پر ہے ابن العربی سے دلچسپی اقبال کو ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد شیخ نور محمد کو ابن عربی کی تصانیف سے غیر معمولی شغف تھا۔ اقبال کے بچپن میں ان کے گھر میں تصانیف ابن عربی کا درس ہوتا تھا۔ گو اقبا ل کو ان مسائل کی سمجھ نہ تھی لیکن وہ اس محفل میںہر روز شریک ہوتے تھے۔ ۴۷؎ بعد میں عربی سیکھی اور براہ راست ابن عربی کو پڑھا اور ان کے افکار میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ عابد علی عابد کے بقول انہوںنے ابن عربی سے استفادہ بھی ؤکیا تاہم بحیثیت مجموعی وہ ابن عربی کے نظریات سے متفق نہ تھے ۔ ’’اسرار خودی‘‘ کی بحث کے سلسلے میں سید شاہ سلیمان پھلواری کو لکھا: ’’اس وقت میرا عقیدہ ہے کہ شیخ کی تعلیمات تعلیم قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے اس کے مطابق ہو سکتی ہیں ‘‘ ۴۸؎ خواجہ حسن نظامی کو ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ء کے خط میں لکھا: ’’میںشیخ کی عظمت و فضیلت کا قائل ہوں اور ان کو اسلام کے بہت بڑے حکماء میں سمجھتا ہوں۔ مجھ کو ان کے اسلام میں کوئی شک نہیں… ان کے عقائد صحیح ہوں یا غلط قرآن کی تاویل پر مبنی ہیں… میرے نزدیک ان کی تعبیر یا تاویل جو کچھ ہے صحیح نہیں ہے۔ گو میں ان کو ایک مخلص مسلمان سمجھتاہوں مگر ان کے عقائد کا پیروکار نہیں ہوں‘‘ ۴۹؎ سراج الدین پال کو ۱۹ جنوری ۱۹۱۶ء کو جو خط لکھا اس میں ابن عربی کے بارے میں اقبال کی رائے کہیں زیادہ سخت ہے: ’’جہاں تک مجھے علم ہے فصوص الحکم میں سوائے الحاد و زندقہ کے اور کچھ نہیں۔ اس پر انشاء اللہ مفصل لکھوں گا‘‘ ۵۰؎ اسی ضمن میں انہیںمعلوم ہوا کہ اودھ کے کسی بزرگ نے ابن عربی کی تردید میںفارسی میں ایک مبسوط کتاب لکھی تھی جو ان کے جانشینوں کے پا س محفوظ ہے ۵۱؎ ۔ انہوںنے کتاب حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہو سکی۔ ۴۷؎ انوار اقبال ص ۱۷۸ ۴۸؎ انوار اقبال ص ۱۷۸ ۴۹؎ خطوط اقبال مرتبہ رفیع الدین ہاشمی‘ لاہور‘ ۱۹۷۶ء ص ۱۱۷ ۵۰؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۴۴ ۵۱؎ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان مرحوم ص ۴ اسرار خودی پر بحث مباحثے کے ضمن میں اقبال نے اپنے جو ابی اور دفاعی مضامین میں ابن عربی کے افکار پر تنقید کی مگر خاص طور پر وہ فصوص الحکم پر لکھنا چاہتے تھے غالباً اسی سلسلے میں ایک بار سید سلیمان ندوی سے درخواست کی کہ وہ انہیںابن عربی کے مسئلہ زمان و مکان کی تلخیص لکھ کر بھیجیں ۵۲؎۔ یہ موعودہ تصنیف بھی ادارے اور خیال سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ اقبا ل کی تحریروں میں فصوص الحکم پر بعض تنقیدی ارشادات کے سواان کی کوئی مستقل تحریر یا تصنیف دستیاب نہیں ۔ ٭٭٭ Songs of Modern David خان محمد نیاز الدین خاں کے نام ۱۳ جولائی ۱۹۲۴ء کے خط میں لکھا: ’’ایک چھوٹی سی کتاب لکھ رہا ہوں جس کا نام غالباً یہ ہو گا Songs of Modern David۵۳؎ موعودہ چھوٹی سی کتاب کے بارے میں مزید کوئی معلومات میسر نہیں ۔ عین ممکن ہے کہ یہ وہی کتاب ہو جو ۱۹۲۷ء میں زبور عجم کے نام سے شائع ہوئی… اگرچہ یہ کچھ زیادہ قرین قیاس نہیں کیونکہ ایک چھوٹی سی کتاب کی تکمیل میں آخر تین سال (۱۹۲۴ء ۔ ۱۹۲۷ئ) کا طویل عرصہ کیونکر صرف ہوا؟ دوسرے یہ کہ فارسی مجموعہ کلام کا انگریزی نام کچھ عجیب سی بات ہے۔ ٭٭٭ تاریخ ادب اردو مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے نام اقبال کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے اردو ادب کی تاریخ پر ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کی فرمائش کی گئی تھی۔ ۲۳ جنوری ۱۹۱۴ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’سر تھیوڈرماریسن سیکرٹری آف سٹیٹ کی درخواست ہے کہ میں ایک مضمون اردو لٹریچر کی تاریخ پرلکھوں گا۔ یہ مضمون کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کا جو لکھی جا رہی ہے ایک باب ہو گا۔ سر تھیوڈر نے مجھے بڑے اصرار سے کہا ہے ار میں یہ سبب ان کی عنایات کے انکار نہیںکر سکتا ‘‘ ۵۴؎ اس مقصد کے لیے انہوںنے شاد سے ان کی تصانیف کی فہرست بھی منگا بھیجی کیونکہ مجوزہ تاریخ میں وہ شاد کا تذکرہ بطور خاص کرنا چاہتے تھے…باقیات اقبال میںمذکورہ تاریخ ادب کاکوئی سراغ نیہںملتا۔ اندازہ ہے کہ سر ماریسن کی فرمائش کے باوجود کسی سبب سے مقالہ نہ لکھ سکے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اقبال اگر تاریخ ادب اردو لکھتے تو ان کا نقطہ نظر کیا ہوتا۔ وہ ادب کو ایک حرکی عمل سمجھتے تھے ان کے خیال میں شاعری کو زندگی کا معاون اور خدمت گار ہونا چاہیے۔ ۵۲؎ اقبالنامہ حصہ اول ص ۱۰۸ ۵۳؎ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں ص ۵۰ ۵۴؎ صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول ۱۹۷۳ء ص ۱۱۲ ان کے نزدیک جدت اور فنی خوبی اچھی شاعری کے لیے ناگزیر ہے تاہم شاعری محض زبان دانی کا اظہار یا مضمون آفرینی نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو ادب میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اصل شے تو وہ مطالب اور مقاصد ہیں جن کا فنکارانہ اظہار و ابلاغ ایک شاعر کا اولین فریضہ ہے ان کے نزدیک: ’’سچا آرٹسٹ وہ ہے جو اپنے کمال کو بنی نو ع انسان کی بہتری کے لیے وقف کر دے…جو اپنی قوم کا نبض شناس ہو اور آرٹ کو قومی امراض کے دفعیہ کا ذریعہ بنائے ‘‘ ۵۵؎ اور: ’’شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی… ملک کے شعرا پر لازم ہے کہ وہ نوجوان قوم کے سچے رہنما بنیں۔ ۵۶؎ اسی نقطہ نظر کے تحت انہوں نے اردو شاعری کو بحیثیت مجموعی ہندوستان کے دور انحطاط کی پیداوار قرار دیا ہے۔انفرادی حیثیت سے وہ بعض شعراء مثلا ً حالی اور حفیظ جالندھری (کے شاہنامہ اسلام) کو ان کی مقصدیت کی وجہ سے سراہتے ہیں… ان کا خیال ہے کہ لٹریچر کو Optimisticہونا چاہیے۔ اقبال کے نظریہ شعر و ادب کی روشنی میں ان کے موعودہ مقالے تاریخ ادب اردو کی نوعیت کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭ پشتو شاعری کا ترجمہ اقبال کے ذاتی ذخیرہ کتب میں جو ان کی وصیت کے مطابق ان کی وفات پر اسلامیہ کالج لاہور کع دیا گیا۔ افغان شاعری کا ایک انتخاب ملتا ہے۔ یہ کتاب لندن سے Selections from the poetry of Afghans کے نام سے ۱۸۶۲ء میں شائع ہوئی تھی۔ کیپٹن ایچ جے ریورٹی کی مرتبہ یہ کتاب کافی عرصے تک اقبال کے زیر مطالعہ رہی۔ افغان شاعری کے جوشیلے اور حیات بخش اسلوب نے انہیں متاثر کیا۔ پشتو زبان سے ناواقفیت کے سبب براہ راست پشتو شاعری تک ان کی رسائی نہ تھی۔ تاہم پشتو کے انگریزی تراجم پڑھ کر انہیں اس کے ترجمے کا خیال پیدا ہوا۔ ۱۳ مارچ ۱۹۱۹ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھا: ’’اافسوس کہ میں پشتو نہیں جانتا ورنہ سرحد کی مارشل شاعری کو اردو یا فارسی لباس پہنانے کی کوشش کرتا‘‘ ۵۷؎ پشتو شعرا میں وہ خوشحال خان خٹک سے نبتاً زیادہ متاثر ہوئے۔ ۱۹۲۸ء میں انہوںنے خوش حال خاں کی شاعری کے نمونوں کے ساتھ ان کی شخصیت اور شاعری پر ایک مضمون لکھا ۵۸؎۔ جس میں انہوںے خٹک کی حب الوطنی آزادی سے محبت اور اس کی شاعری کی سادگی کی تعریف کی۔ ۵۵؎ انوار اقبال ص ۳۵ ۵۶؎ مقالات اقبال ص ۲۱۸ ۵۷؎ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں ص ۱۸ ۵۸؎ مشمولہ Thoughts and Reflections of Iqbal مرتبہ سید عبدالواحد لاہور ۱۹۷۲ء انہوںنے افغان ادیبوں اور نقادوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس بہادر شاہ کا مطالعہ کریں اور مناسب حواشی کے ساتھ خوشحال خاں خٹک کا کلیات مرتب کر کے شائع کریں۔ خود اقبال نے خوشحال خاں کے ایک نظم پارے کا ترجمہ خوشحال خاں کی وصیت ۵۹ ؎ کے عنوان سے کیا جس کا ایک شعر: محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند زبان زد عام ہے… اس ایک نظم پارے کے سوا جو براہ راست پشتو سے نہیںبلکہ انگریزی سے ترجمہ کیا گیا اقبال پشتو شاعری کا کوئی اور ترجمہ نہ کرسکے۔ ٭٭٭ ایک کتاب مولانا گرامی کے نام ۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اردو نثر میں بھی ایک کتاب لکھ رہا ہوں انشاء اللہ شائع ہونے پر آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی‘‘ ۶۰؎ محمد عبداللہ قریشی اس ایک کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اردو نثر میں جو کتاب اقبال لکھنا چاہتے تھے معلوم نہیں کہ وہ کس موضوع پر تھی؟ آیا وہ لکھی بھی گئی یا نہیں؟ ۶۱؎ موعودہ تصنیف کے متعلق اقبال کی تحریروںمیں مزید کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ ٭٭٭ گیتا کا اردو ترجمہ مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد کے نام ۱۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’زمانے نے مساعدت کی توگیتا کے اردو ترجمہ کا قصد ہے ‘‘ ۶۲؎ فارسی کے معروف شاعر فیضی نے بھی گیتا کا فارسی ترجمہ کیا تھا مگر اقبا ل اس سے مطمئن نہ تھے کیونکہ اس نے گیتا کے مضامین اور ا س کے انداز بیان کے ساتھ بالکل انصاف نہیں کیا۔ کیونکہ وہ گیتا کی روح سے نا آشنا رہا… مزید برآں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ گیتا کی اخلاقی تعلیم اور اس کے روحانی پہلو نے اقبال کو متاثر کیا ہو گا… شاد کے نام ایک اور خط میں اقبال نے رامائن کے ترجمے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ۶۳؎؎۔ اس سلسلے میں وہ ملا مسیح پانی پتی کا رامائن کا منظوم فارسی ترجمہ دیکھنا چاہتے تھے۔ مگریہ نسخہ کہیں سے نہ مل سکا۔ ۵۹؎ بال جبریل ص ۱۵۴ ۶۰؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۲۰۳ ۶۱؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۲۰۴ ۶۲؎ صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول دسمبر ۱۹۷۳ء ص ۱۸۲ ۶۳؎ شاد اقبال ص ۷۹ اقبال کی تحریروں میںایسا کوئی اشارہ نہیںملتا جس سے اندازہ ہو سکے کہ اقبال گیتا اور رامائن کے اردو ترجموں سے کیونکر دستبردار ہوگئے ٭٭٭ ’’علم الاقتصاد‘‘ کے سوا اقبال کی تمام تصانیف نظم میں ہیں… اور یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ ان کی بیشتر موعودہ تصانیف نثر میں لکھی جانے والی تھیں ۔ دراصل موعودہ تصانیف کے علمی موضوعات کا تقاضا تھا کہ ان پر نثر میں اظہا رخیال کیا جائے۔ شاعر ی کا قالب تفسیر قرآن یا مسائل فقہ و تصوف کے بیان کے لیے قطعی موزوںنہیں ہے۔ مزید برآں نظم کا ایک مہتم بالشان ذخیرہ یادگار چھوڑنے کے باوجود اقبال نے مطلق شعر و شاعری کو کبھی مستحسن نہیں سمجھا بلکہ نوجوان شعراء کو نثر نگاری کی طرف متوجہ ہونے پر تلقین کی۔ بیشتر موعودہ تصانیف کا اہم ترین محرک ملی انحطاط کا وہ شدید احساس ہے جس نے اقبال کو ساری عمر مضطرب رکھا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے اندر دین کا فہم پیدا کر کے تجدید و احیائے اسلام کی راہ ہموار کی جائے اقبال کی سب سے بڑی آڑزو ان کے بقول یہ تھی کہ میں اپنے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں پر دین کے اسرار منکشف کر جائوں تاکہ وہ دین کے قریب آ جائیں۔ لہٰذا تفہیم دین کی خاطر شاعری کو ناکافی سمجھتے ہوئے انہوں نے موعودہ تصانیف کے عزائم کا اظہار کیا۔ موعودہ تصانیف کی ترتیب و تکمیل کے لیے زبردست جوش و خروش اوردوستوں کے سامنے بار بار اپنا عزم تازہ کرنے کے باوجود اقبا ل اپنے سارے تالیفی موعودات کو ناتمام ہی چھوڑ گئے۔ یوں تو اس کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں مگر سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ نظم کے برعکس نثر لکھنے کے لیے جس یکسوئی محنت اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے اقبال اس کا اہتمام نہ کر سکے اور اپنے مخصوص افتاد طبع کی بنا پر غالباً ان کے لیے ایسا ممکن بھی نہ تھا۔ ٭٭٭ فکر اقبال محمد طاہر فاروقی علامہ اقبال حکیم الامت اور پیامی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی تھے۔ انہوںنے اسلامی فلسفہ کے علاوہ مغربی حکماء کے نظریات اور فلسفہ کا بھی غائر مطالعہ کیا تھا اس صد ی کے آغاز میں جب وہ جرمنی میں تحقیقات علمی کے کام میں مصروف تھے تو انہوں نے حکمائے مغرب کے فلسفہ کو تحقیقی طور پر جانا اور سمجھا۔ اسی کے ساتھ اپنے تحقیقی مقالے کی تیاری کے سلسلے میں انہوںنے حکمائے اسلام کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ کہ وہ بیک وقت مشرقی و مغربی اور قدیم و جدید فلسفوں اور فلاسفہ کی تحقیقات و نظریات پر ناقدانہ اور ماہرانہ عبور رکھتے تھے۔ اسی کے ساتھ ان کو یورپ کے قیام میں اس کے مواقع بہم پہنچے کہ وہ مغرب کی تمام جدید تحریکوں صنعتی و اقتصادی مسائل اور سیاسی مدوجذر کا قریب سے مطالعہ کریں۔ نیز ان کے اچھے برے عواقب و نتائج سے کامل واقفیت بہم پہنچائیں اور ان کو چھا ن پھٹک کر کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کریں ۔ اقبال کی تعلیم و تربیت کی اساس اوربنیاد اسلامی تعلیمات تھیں ابتدا سے ان کو یہ موقع میسر آیا تھا کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی قوانین کو تحقیقی نظر سے دیکھیں اور سمجھیں۔ اپنے ذاتی مطالعے سے وہ اسلامیات کے علم و فہم کو برابر جلا دینے میں مصروف رہے۔ چنانچہ ایک مدت سے تقابلی مطالعہ اور موازنہ کے بعد انہوںنے اپنے بنیادی فلسفیانہ تصورات کو نظریاتی شکل دی اور ان کو اپنے اشعار کے ذریعے دنیا کے اور خصوصاً ملت اسلامیہ کے سامنے پیش کیا۔ علامہ اقبال کی اس تمام تحقیق اور کاوش کا نچوڑ مختصر الفاظ میںیوں پیش کیا جا سکتا ہے کہ وہ عالم کی ہدایت اور ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لیے صرف اس لازوال حکمت کو صراط مستقیم قرار دیتے ہیں۔ جو قران حکیم نے پیش کی۔ اور اسی کو سب کے لیے صحیح واحد ضابطہ حیات اورابدی نجات کا ضامن و قائد بتاتے ہیں۔ اسی لیے انہوںنے اپنی فارسی اردو شاعری اور اپنے خطبات و مقالات کے ذریعہ اپنے اسی پیغام کو عام کر نے میں اپنی ساری عمر صرف کی۔ قرآن حکیم او رسیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غائر مطالعہ اور ان پر غور و خوص نے اقبال کو کامل یقین بخش دیا تھا کہ صرف اسلامی اصول اور اسلامی تعلیمات ہی انسانیت کی دنیوی اور اخروی فلاح و نجات کی ضمانت دیتے ہیں۔ اخلاقی کی پاکیزگی کردار کی سربلندی اور دنیا کی کامیابی صرف اسی طریق پر مضمر ہے۔ جو قرآن حکیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ نے ہم کو سکھایا اور بتایا ہے۔ چنانچہ انہوںنے تاکیدی طور پر ہمیں بتا دیا کہ یہی ایک راستہ ہے جو صراط مستقیم کہا جا سکتا ہے۔ جو درس حیات بھی ہے اورپیغام عمل بھی۔ راہ نجات بھی ہے اور معراج ارتقاء بھی۔ اقبال نے ہمیں یہ بتایا کہ جتنے اصول قوانین ضابطے اور آئین انسان اپنی عقل و فہم سے بناتا ہے یا بنائے گا۔ ان کا حشر ہم روز دیکھتے ہیں کہ وہ ترمیم و تردید کے محتاج اور قطع و برید کے لائق ہوتے ہیں۔ صرف وحی الٰہی وہ شے ہے جو ایسا اٹل کبھی تبدیل نہ ہو سکنے والا ہر دور میں صادق آنے والا قانون ضابطہ اور آئین عطا کرے جو بنی نوع انسان کی زندگی کے تمام گوشوںاور سارے شعبوں میں رہنمائی کا ضامن ہو۔ اورہر ملک ہردور ہر قوم اور ہر زمانے کے لیے ضابطہ حیات اور آئین زندگی قرار دیا جا سکے۔ ایسا آئین و ضابطہ صر ف قرآن حکیم ہے جس کی عملی تفسیر سنت نبویؐ اور اسوہ رسولؐ میں پائی جاتی ہے فرماتے ہیں: برگ و ساز ما کتاب و حکمت ست ایں دو قوت اعتبار ملت ست کہتے ہیں کہ قرآن حکیم وہ زندہ کتاب ہے جس میں لازوال ازلی و ابدی حکمتوں کے خزانے بھرے ہوئے ہیں جس سے زندگی کی قوت و استحکام حاصل ہوتا ہے۔ جس سے ناپائدار کو پائداری نصیب ہوتی ہے۔ جو نوع انسانی کے لیے خدائے حکیم کا آخری پیغام ہے۔ اور جس کو لانے والے رحمتہ اللعالمینؐ ہیں جن کی رحمت و شفقت کا فیضان اپنے پرائے دوست دشمن سب کے لیے عام ہے۔ارشاد ہے: آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت اولا زوال ست و قدیم نسخہ اسرار تکوین حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات نوع انساں را پیام آخریں حامل او رحمتہ اللعالمیںؐ قرآن حکیم میں بار بار تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے پاس صرف انہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو ان کو آیات قرآنی سناتا ہے ان کاتزکیہ فرماتاہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (آل عمران ۔ آیت ۱۶۲۔ سورہ جمعہ ۔ آیت ۲) اس دور کے عظیم عالم مفکر اور محقق ڈاکٹر شیخ مصطفی حسنی سباعی لکھتے ہیں کہ قرآن میں حکمت کا ذکر جگہ جگہ کتاب کے ذکر کے بعد آیا ہے۔ یہاں حکتم سے سنت رسولؐ کے علاوہ کچھ اور مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے منصب نبوی میں تعلیم تاب کے ساتھ تعلیم حکمت کو بھی جمع کیا ہے اور دوسری طرف نبیؐ کی اطاعت اور ان کے اتباع امر کو فرض قرار دیا ہے۔ اب کتاب اللہ کے علاوہ جو شے فرضیت کا مقام حاصل کر سکتی ہے وہ صرف سنت رسولؐ ہے اور یہی دوسرے لفظوں میں الحکمتہ ہے‘‘۔ نیز لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ نے جس کتاب کا ذکر کیا ہے اس سے مراد قرآن ہے اور جس حکمت کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں میں نے اپنے دیار کے اہل علم سے یہی سنا ہے وہ سنت ہے۔ (سنت رسولؐ ص ۲۴ و ۲۵) حضرت علامہ اسی لیے انتہائی تاکیدی الفاظ میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور آپ کی محبت میں ڈوب جائو۔ اسی کا نام دین ہے اگر تم سنت نبوی اور اسوہ حسنہ کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرو گے تو وہ ابولہب کا راستہ ہو گا صرا ط مستقیم نہیں ہو گی۔ بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اونر سیدی تمام بولہبی ست اس صراط مستقیم پر گامزن ہونے اور اس ازلی و ابدی حکمت کو مضبوطی سے پکڑنے کا صلہ یہ ہو گا کہ محبت رسولؐ اور اتباع نبویؐ کی بدولت تم کو ساری کائنات اور ماورائے کائنات پر تسلط اور غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ ہر کہ عشق مصطفیؐ سامان اوست بحر و بر در گوشہ دامان اوست باسورتھ اسمتھ مستشرقین میں نمایاں مقام رکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ قول کہ کوئی شخص اپنے گھر والوں کو ہیر و نہیں بن سکتا۔ کم از کم یہ اصول پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق صحیح نہیں ہے۔ مشہور مورخ گبن لکھتا ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے کسی نے اپنے متبعین کا اس قدر سخت امتحان نہیںلیا جس قدر محمدؐ نے ۔ انہوںنے دفعتاً اپنے آپ کو سب سے پہلے ان لوگوں کے سامنے بحیثیت پیغمبر کے پیش کیا جو ان کو بحیثیت انسان کے بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اپنی بیوی اپنے غلام اپنے بھاء اپنے سب سے زیادہ واقف کار دوست کے سامنے اور سب نے بلا پس و پیش آپ کے دعوے کی صداقت کوتسلیم کر لیا۔ چونکہ وحی خداوندی کی رو سے کتاب اور سنت کی پریوی اور اتباع فرض ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے قرآن حکیم کی حفاظت کا اور اس میں کسی طرح کی تحریف و تبدیل کے دخل نہ پا سکنے کا ابد الآباد تک کے لیے وعدہ اور دعویٰ فرمایا ہے۔ (آیات قرآنی) اور اسی لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ اور اسوہ حسنہ کا ایک ایک حرف اور ایک ایک گوشہ ہمارے لیے محفوظ فرما دیا ہے۔ جو رہتی دنیاتک زندگی کے تمام مسائل اورمعاملات میں ساری کائنات کے لیے مشعل راہ رہا ہے۔ باسورتھ اسمتھ لکھتا ہے کہ یہاں سیرت محمدیؐ میں پورے دن کی روشنی ہے۔ جس میں محمدؐ کی زندگی کا ہر پہلو روشن کی طرح نمایاں ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو کتاب و حکمت کی یہ صراط مستقیم دکھانے کے لیے خودی کی اصطلاح وضع کی جس کی تفصیلات کے لیے تو دفتر بھی کفایت نہیںکریں گے۔ مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ اقبال خودی سے عرفان نفس خود شناسی معرفت ذات اور خود آگہی مراد لیتے ہیں اور تکمیل خودی کو انسان کے اخلاقی اور روحانی ارتقاء کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔ عرفان خودی جن منازل بلند تک پہنچاتا ہے اس کی تشریح علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ ہے: خودی شیر مولا جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید آسماں اس کا صید اس سے بھی مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے کہ: خودی ہے زندہ تو سلطان جملہ موجودات خودی ایک فلسفیانہ تصور بھی ہے اور عملی نظریہ بھی۔ یہ اصطلاح اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اقبال سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیں۔ اسلام نے عرفان خودی کی تعلیم دی ہے۔ اور اقبال نے تیرہ سو سال کے بعد اسی سبق کو دہرایا ہے اور یاد دلایا ہے جو شخص اسلام کی اس تعلیم پر چل کر اپنی پوشیدہ قوتوں کو بیدار کرتا ہے اور ان کو کام میں لاتا ہے۔ وہ بے پناہ قوتوں کا مالک بن جاتا ہے۔ سارا زمانہ اس کے سامنے سر خم کردیتا ہے۔ وہ تسخیر کائنات کے اعلیٰ نصب پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اس کو غیر معمولی انقلابی اورتخلیقی قوتیں حاصل ہوتی ہیں۔ بقول اقبال: نوری حضوری تیرے سپاہی یہ پیام دے گئی مجھے باد صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی ٭٭٭ زندگانی ہے صدف قطرہ نیساں ہے خودی وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر نہ کر سکے ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے تو موت سے بھی مر نہ سکے انسان کے اس اخلاقی اور روحانی ارتقاء اور بلند سے بلند ترین منصب پر پہنچ کر کمال حاصل کرنے کے لیے اقبال تربیت خودی کے تین مرحلے قرار دیتے ہیں: ۱۔ اطاعت جس میں آپ نے احکام خداوندی اور قوانین الٰہی کی پیروی اور پابندی کو مجموعی طور پر کلی لازم و واجب بتایا ہے۔ ۲۔ ضبط نفس۔ یعنی ارکان حیات اور شاہراہ زندگی میںعبادات اخلاقیات معاملات تمام امور میں خدا کے بنائے ہوئے قوانین و ضوابط کی جزئی اور کلی پیروی کی جائے۔ ۳۔ نیابت الٰہی۔ جس کامنشا یہ ہے کہ پہلے دونوں مرحلوں سے انسان کا میاب و کامران گزرے۔ تو اسے خلافت خداوندی اور نیابت الٰہی کا عظیم منصب میسر آ سکتا ہے۔ جو انسان ان مدراج کو کامیابی سے طے کرتاہے وہ احسن التقویم کے خطاب کا سزاوار ہوتاہے۔ اور اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ: جس بندہ حق بیں کی خودی ہو گئی بیدار شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق اس کی نگہ شوق پہ ہوتی ہے نمودار ہر ذرے میں پوشیدہ ہے جو قوت اشراق ایسے ہی انسان کی توصیف میں اقبال کہتے ہیں: اس کی نفرت بھی عمیق اس کی محبت بھی عمیق قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں بات میںسادہ و آزادہ معانی میںدقیق اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق اور ایسے بندہ حق کی شان یہ ہوتی ہے : ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان ہمسایہ جبریل امیںؑ بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان دنیا کی روزمرہ عملی زندگی میں اس منصب عظیم کا مظاہرہ جس طور پر ہوتا ہے اس کے لیے علامہ اقبال نے تین باتوں کو اصل الاصول قرار دیا ہے فرماتے ہیں: یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں یقین محکم اور ایمان کامل حاصل ہو جائیتو انسان وہ بلند حوصلگی عالی ہمتی اور بیباکانہ جرات پیدا ہو جاتیہے کہ وہ غیر اللہ سے خوف نہیںکھاتا۔ اور ساری کائنات پرغالب آ جاتا ہے۔ عمل پیہم سے ہر منزل سر ہو سکتی ہے۔ عمل ہی راز حیات اورسر کائنات ہے۔ بندہ مومن کی بلند ہمتی اور جوش عمل ہر سد سکندری کو دور کر کے تسخیر کائنات کااہم فرض ادا کراتا ہے اسی طرح اس کی رافت و شفقت اور رحمت و محبت اس کو دوسرے افرود و اقوام کے لیے موجب جذب و کشش بناتی ہے کہ سب اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ ہماری ابتدائی تاریخ اس کی شاہد عا دل ہے۔ اقبال کے شعر کی ایک بار پھر تکرار کیجیے تاکہ آپ اس کے معانی و مطالب میں ڈوب جائیں: یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں یقین محکم یا ایمان کامل کی لازوال اور بے پناہ قوت کی بدولت صاحب یقین کو ایسا منصب حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کی نظروں میں کائنات کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہیچ ہوجاتی ہے۔ اس کی آزاد بلند حوصلہ عالی ہمت فطرت ماسوا کو تسخیر کر کے اپنا فرماں بردار بنا لیتی ہے۔ اسے کسی دنیوی طاقت کا خوف نہیںہوتا۔ وہ موت تک سے خوف نہیںکھاتا۔ اس لیے کہ وہ اسے بھی اپنی راہ شوق کی ایک منزل سمجھتا ہے۔ سوز دوام اور سیر مدام اس کا شیوہ ہوتاہے اور یقین محکم اس لیے کہ وہ اسے بھی اپنی راہ شوق کی ایک منزل سمجھتا ہے۔ سوز دوام اور سیر مدام اس کا شیوہ ہوتا ہے اور یقین محکم اسے ہمیشہ بلند سے بلند تر مقاصد کی طرف سرگرم عمل رکھتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے بار بار تاکید ی الفاظ میں یہ پیام سنایا ہے: خدائے لم یزل کا دوست قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کا اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے دوسری جگہ کہتے ہی: جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا اور زیادہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں: ولایت پادشاہی علم اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہے؟ فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں غرض اس نظام کائنات میں زندگی کو کامران و درخشاں بنانے کے لیے سب سے پہلی شرط ایمان کامل اور یقین محکم ہے۔ جب یہ حاصل ہو جائے تو دوسری منزل اور دوسری شرط عمل پیہم ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا ایمان کے ساتھ ساتھ عمل کا تاکیدی حکم موجود ہے۔ اسلامی عمل زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط اور حاوی ہے ۔ اس حکم میں ہر قسمی اطاعت عبادت معاملات اور ہر طرح کے دنیوی مسائل و مشاغل شامل ہیں۔ عمل ایک طرف زاد آخرت ہے تو دوسری طرف توشہ دنیا عمل کے بغیر کوئی منزل طے نہیں ہو سکتی۔ کائنات کا ذرہ ذرہ سرگرم عمل ہے تو صاحب یقین اور بندہ مومن کیونکر بے عمل زندہ رہ سکتا ہے۔ عمل راز حیات اور سر کائنات ہے عمل سے ہی افراد بنتے ہیں اور قومیں سنورتی ہیں۔ بندہ مومن عمل پیہم کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کی قوت ہمت شجاعت عزم او ر استقلال اپنی مثال نہیں رکھتا۔ اس کی بلند ہمتی اور جوش عمل بڑی سے بڑی سد سکندری کو راہ سے ہٹا سکتا ہے۔ اور اس طرح وہ تسخیر کائنات کے اہم فرض کو ادا کر کے عالم کو اپنا مطیع و فرماں بردار بناتاہے۔ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر فرد اس بلند درجے پر فائز ہو کر ان بے پناہ قوتوں کا مالک بن سکتا ہے۔ آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا ناخدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو جوش عمل اور سخت کوشی کو اقبال زندگی کی کامیابی کے لیے لازم سمجھتے ہیں۔ راستے کی پیچیدگی وناہمواری کو وہ مہمیز شوق اور ذریعہ کامرانی جانتے ہیں اور تن آسانی و تساہل کو غیر انسانی اور غیر شریفانہ اوصاف بتاتے ہیں ۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا ہے : اگر خواہی حیات اندر خطر زی دوسری جگہ کہتے ہیں؛ حیات جاوداں اندر ستیز است ایک اور جگہ سخت کوشی کی اہمیت سمجھانے کے لیے فرماتے ہیں: خطر پسند طبیعت کا سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میںنہو صیاد ان خطرات سے گزرنے اور ایسی مشکلات کو سر کرنے کے بعد ہی منزل ملتی ہے: زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی اس مادی زندگی کو کامیابی کی اعلیٰ منزل تک پہنچانے کے لیے علامہ اقبال نے محبت کو تیسری شرط قرار دیا ہے بندہ مومن خدائے بزرگ و برتر کی شان جلای و جمالی دونوں کا مظہر ہوتا ہے۔ کارزار عالم اور عرصہ حیات میں اسے خیر و شر دونوں طرح کی قوتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس کا یقین اسے راہ راست بتاتاہے۔ اور ا س کا عمل اسے ان منازل حیات سے گزارتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی س کی ذات و صفات میں وہ کشش اور جاذبیت ہوتی ہے کہ دوسرے افراد اور اقوام جن سے اس کا واسط پڑتا ہے۔ بے اختیار اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ اسلام کے قرن اول کی تاریخ اس کی روشن گواہ ہے۔ مومن کی زندگی نے اشداء علی الکفار رحماء بینھم بے بلیغ اور جامع الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔ اقبال اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔ مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا اور مومن کی صفت یہ بیان کرتے ہیں: ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اسلام نے جس محبت شفقت اخوت کی تعلیم دی ہے۔ وہ نسل اور نسب اور رنگ و مقام کی آلائشوں سے پاک ہ۔ اس کے ماتحت ایسی عالمگی برادری وجود پاتی ہے جس میںاخوت و مساوات اور عدل و انصاف کا مثالی دور دورہ ہوتا ہے۔ جہاں کالے گورے کا امتیاز نہیں ہوتا۔ آقا و غلام کا فرق نہیںہوتا۔ امیر اور غریب ایک دوسرے کو نفرت و حقارت سے نہیں دیکھتے اورپست و بلند سب شانہ بشانہ اس مالک حقیقی کے احکام و فرامین کے آگے سر خم کرتے ہیں: ہوسنے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا دوسری جگہ فرماتے ہیں: یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میںگم ہو جا نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی اسلامی محبت بنی نوع انسان کو ایک برادری کی لری میں پرو دیتی ہے اور محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں لا کھڑاکرتیہے۔ اسلام نے اسیی ہی عالمگیر برادری کا سبق دیاہے۔ اور قرن او ل میں اس کا مثالی نمونہ بھی پیش کر دیا ہے۔ اقبال نے یہ پیغام اور یہ درس ہمیںیاد دلایاہے اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں: ’’نبوت محمدیہؐ کی غایب الغایات یہہ ہے کہ ایک ہیئت اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے۔ جس کی تشکیل اس قانون الٰہی کے تابع ہو جو نبوت محمدیہؐ کو بارگاہ الٰہی سے عطا ہوا تھا۔ یا بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ بنی نوع انساںکی اقوام کو باوجود شعوب و قبائل اور الوان واستنہ کے اختلافات کو تسلیم کر لینے کے۔ ان کو ان تمام آلودگیوں سے منزہ کیا جائے۔ جو زمان مکان وطن قوم نسل نسب ملک وغیرہ کے ناموں سے موسوم کی جاتی ہیںَ اور اس طرح اس پیکر خاکی کو وہ ملکوتی تخیل عطا کیا جائے جو اپنے وقت کے ہر لحظے میں ابدیت سے ہم کنار رہتا ہے۔ یہ ہے مقام محمدیؐ یہ ہے نصب العین ملت اسلامیہ کا‘‘۔ اقبال نے اپنی فکر اور اپنے پیغام سے ہم کو اسی نصب العین کے حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔ اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا اس نصب العین تک پہنچنے کے لیے یقین محکم عمل پیہم اور محبت اساسی اور کان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی کے ذریعے خودی کو استحکام حاصل ہوتاہے۔ اور یہی تمام عالم بلکہ ساری کائنات کی تسخیر کو ممکن بناتے ہیں۔ جہاں اگرچہ دگرگوں ہے قم باذن اللہ وہی زمیں وہی گردوں ہے قم باذن اللہ کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے تری رگوں میںوہی خون ہے قم باذن اللہ ٭٭٭ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ ٭٭٭ اقبا ل کی شاعری کا صوتیاتی نظام پروفیسر گوپی چند نارنگ اقبال کی شاعری اسلوبیاتی مطالعے کے لیے خاص دلچسپ مواد فراہم کرتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلوبیتات لسانیا ت کی وہ شاخ ہے جس کاا یک سرا لسانیات سے اور دوسرا ادب سے جڑا ہوا ہے۔ اد ب کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ موضوعی اور جمالیاتی چیز ہے۔ جبکہ لسانیات سماجی سائنس ہے اورہر سائنس معروضی اور تجرباتی ہوتی ہے۔ ادبی تنقید کا معاملہ دوسرا ہے۔ ادبی تنقید موضوعی بھی ہوتی ہے۔ اور معروضی بھی۔ اس لیے کہ تنقید کا تعلق قد ر شناسی (Value Judgement)یا تحسین شناسی سے ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے ذوقیات اور جمالیات سے متلق ہے ادبی تنقید خواہ وہ کتنی ہی معروضیی ہونے کی کوشش کرے۔ سو فیصد معروضی نہیں ہو سکتی چنانچہ جو حضرت اسلوبیات کا بدل سمجھتے ہیں یا اسلوبیات کو تنقید کے مقام پر فائز کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی فیاضی کا ثبوت دیتے ہیںَ ادبی تنقید کا کام قدر شناسی اورسخن فہمی ہے جبکہ یہ نہ اسلوبیات کے کام ہیں اور نہ اسلوبیات سے ان کی توقع کرنی چاہیے۔ البتہ ادبی ذوق یا جمالیاتی احساس جو فیصلے کرتا ہے یا رائے دیتا ہے یا تنقیدی نظر (Critical insight)عطا کرتا ہے اسلوبیات ان کی صحت یا عدم صحت کے لیے ٹھوس تجرباتی بنیادیںفراہم کرسکتی ہے۔ اور اس طرح ادب کے سربستہ اظہار ی رازوں کے بھید کھول سکتی ہے۔ یا تخلیقی عمل کے بعض پراسرار گوشوں پر روشنی ڈال سکتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس بارے میں ایسے ثبوت بھی پیش کر سکتی ہے جنہیں رد نہیںکیا جا سکتا۔ اسلوبیات کے بارے میں یہ بات خاطر نشان رہنی چاہیے کہ اسلوبیاتی مطالعے میں رہنما نظر (Guiding Insight)ادبی اورجمالیاتی ذوق یعنی تنقید ہی سے ملتی ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ تجرباتی ذہنی رویے کی وجہ سے یا لسانی تجزیے کے دوران ایسے ایسے امور پر نظر پڑتی ہے۔ یا ایسے ایسے نکتے سوجھ جاتے ہیں کہ جن کی مدد سے تنقید کی نئی راہیں سامنے آ جاتی ہیں ۔ تنقید اور اسلوبیات میں ادبی احساس اور سائنسی رویے کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے باہمی لین دین جاری رہتا ہے۔ اور اس طرح اسلوبیات تنقید سے جو کچھ لیتی ہے اسے کئی گنا کر کے تنقید کو لوٹا دیتی ہے۔ ادب کا رشتہ یوں تو تمام انسانی علوم سے ہے۔ ادب انسانیت کی روح اسی لیے ہے کہ اس میں انسان کی تمام ذہنی کاوشوں کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اور ہر طرح کے اثرات کا عمل دخل جاری رہتا ہے۔ چنانچہ ادبی تنقید میں جمالیاتی اور ادبی معیاروں کی بنیادی اہمیت کے باوصف مختلف علوم سے مدد لی جاتی رہی ہے۔ مثلاً فلسفہ ‘ مذہبیات ‘ نفسیات‘ سیاسیات‘ معاشیات وغیرہ سے ادبی تنقید کے مختلف دبستانوں میں جو مدد لی جاتی ہے۔ اس بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ لیکن ان اسلوبیات میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ ان میں سے کسی کا موضوع براہ راست اد ب یا ادب کا وسیلہ بیان یعنی زبان نہیں ہے جبکہ اسلوبیات کا موضوع ہی زبان یا اس کا تخلیقی استعمال ہے۔ یعنی وہ لسانی اظہار ی پیکر جس کے ذریعے ادب بطور ادب سے متشکل ہوتاہے۔ اسی لیے ادبی تنقید میں جو مدد اسلوبیات سے مل سکتی ہے وہ کسی دوسرے ضابطہ علم سے نہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ جمالیات کے بعد اسلوبیات ادبی تنقید کا سب سے بڑا حربہ ہے یا یہ کہ اسلوبیات ادبی جمالیات کی سائنس ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ زیر نظر مضمون میں اقبال کی شاعری کے اسلوبیاتی مطالعے سے صرف ایک پہلو یعنی صوتیاتی نظام کو لیاجائے گا۔ اسلوبیاتی مطالعے کی کئی سطحیں اور کئی پہلوہو سکتے ہیں مثلاً کوئی ھبی فن پارہ اظہار اکائی کے طور پر وجود میں آتا ہے۔ یہ اکائی نظموں سے مل کر بنتی یہ۔ جسے اظہار کی نحوی سطح کہہ سکتے ہیں۔ لفظوں یا لفظوں کے قلیل ترین حصوں یعنی صرفیوں (Morphemes)سے مل کر بنتے ہیں۔ جنہیں اظہار کی لفظیاتی یا صرفیاتی سطح کہہ سکتے ہیں اور یہ صرفیے بجائے خود اصوات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جنہیںاظہار کی صوتیاتی سطح کہ سکتے ہیں۔ اس مضمون میں اظہار کی سب سے بنیادی سطح یعنی صوتیاتی سطح ہی کے بارے میں غور و خوص کیا جائے گا۔ صوت کے ضمن میں یہ بدیہی ہے کہ صوت کے معنی نہیں ہوتے۔ معنی کا عمل اس سے اوپری سطح یعنی صرفیاتی سطح سے شروع ہوجاتا ہے۔ اور کلمے کی نحوی سطح سے گزر کر فن پار ے کی معنیاتی اکائی کے درجے تک پہنچ کا مکمل ہو جتا ہے۔ صوت کی سطح خالص آہنگ کی سطح ہے لیکن اگر اس سے یہ فرض کر لیا جائے کہ آہنگ سے مراد معنی کی کلی نفی ہے تو یہ غلط بھی نہ ہو گا۔ کیونکہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آہنگ سے ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے فضا سازی یا سماں بندی میں مدد ملتی ہے۔ اور یہ فضا سازی کسی بھی معنیاتی تاثر کو ہلکا گہرا یا تیکھا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ایک شام دریائے نیکر ہائیڈل برگ کے کنارے پر ملاحظہ ہو: خاموشی ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بیہوش ہو کر رہ گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا اس نظم کو پڑھتے ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں سناٹے اور تنہائی کی کیفیت بعض خاص خاص آوازوں کی تکرار سے بھی ابھاری گئی ہے۔ بادی النظر میں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ آوازیں س‘ ش‘ خ‘ اور ف کی ہیں جو سات شعروں کی اس مختصر سی نظم میں ۳۵ بار آئی ہیں۔ کسی فن پارے میں خاص خاص آوازوں کا بغیر کسی شعوری اہتمام کے در آنا اتفاقی بھی ہو سکتاہے۔ مثال کے طو ر پرمیر تقی میر کی غزل: دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے یا غالب کی غزل: دل ناداں تجھے ہوا کیاہے آخر اس درد کی دوا کیاہے میںصوتیاتی سطح پر آخر ایسی کون سی بات ہے کہ یہ غزلیں گلوکاروں میں ہمیشہ مقبول رہی ہیںَ اور بعض نے تو ان کے ذریعے اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا ہے کہ باید و شاید۔ وجہ ظاہر ہے کہ ان غزلوں میں طویل صوتوں اور غنائی مصوتوں کے دروبست سے موسیقی کا امکان ہاتھ آ گیا ہے۔ جو عام طور پر میسر نہیں آتا۔ ایسی مثالیں تقریباً ہر بڑے شاعر کے یہاں مل جائیں گی۔ لیکن ان کی بنا پر کسی شاعر کے پورے صوتیاتی نظام کے بارے میں حکم نہیںلگایا جا سکتا۔ صوتیاتی آہنگ کا تعلق بہت کچھ شاعر کی افتاد طبع اور اس کے شعری مزاج سے ہے جس کی تشکیل بڑی حد تک غیر شعوری طور پر وہتی ہے۔ مثال کے طور پر میر کی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی نرم لے درد مندی اور گھلتے رہنے کی کیفیت ان آوازوں سے متعلق نہیں ہو سکتی جن کے ذریعے غالب اپنی معنی آفرینی فکری تہہ داری یا نفسیاتی ذوف بینی یا اسرار ازل کی گرہ کشائی کا جادو جگاتے ہیں۔ اسی طرح اقبال کا فردیت پر اصرار عمل کی گرم جوشی ‘ جرات مندی‘ آفاق کی وسعتوں میںپرواز کا حوصلہ اور بے پایاں تحرک بھی ایسے صوتیاتی نظام کا تقاضا کرتاہے جو اس کی معیناتی فضا سے پوری طرھ ہم آہنگ ہو۔ اس نظام کی اہمیت اس میں ہے کہ اگر اس میں باطنی ارتباط نہ ہو تو شاعری کی ساری معنیاتی فضا درہم برہم ہو جائے اور وہ رنگ نہ بن سکے جسے ہم شاعر کی آواز یا اس کے شعری مزاج سے تعبیر کرتے ہیں۔ اقبال کے بارے میں یہ بات عام طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ ان کی آواز میں ایک ایسا جادو ہے ایسی کشش اورنغمگی ہے جو پوری اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے لہجے میں ایسا شکوہ توانائی بے پایانی اور گونج کی ایسی کیفیت ہے جسے کوئی چیز گنبد افلاک میں ابھرتی اورپھیلتی ہوئی چلی جائے۔ اس میں دلنشینی اور دلآویزی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی برش روانی‘ تندی اور چستی ہے جسے سرود کے کسے ہوئے تاروں سے کوئی نغمہ پھوٹ بہا ہو یا کوئی چشمہ پہاڑی ابل رہا ہو۔ آخر اس فطری نغمگی کاصوتیاتی راز کیا ہے یا اس کا تعلق کن خاص آوازوں سے ہے۔ یہ راز اگر ہاتھ آ جائے تو اس سے اقبال کے پورے صوتیاتی نظام کی گرہ کھل سکتی ہے۔ لیکن اس کوشش میں: شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے یا: اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے یا: پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن کے آخری اشعارمیں من کی دنیا تن کی دنیا اور دھن دولت کی دھوپ چھائوں والے اسلوب کو نظر اندازکرنا ہو تا۔ کیونکہ یہ اقبال کے شعری اسلوب کا ایک رخ یا ایک پہلو تو ہے کل اسلوب نہیں۔ چنانچہ پوری شاعری کے صوتیاتی مزاج کے تجزیے کے لیے اقبال کے اس کلام کو سامنے رکھنا چاہیے جس سے اقبال کے شعری مزاج کی پہچان ہوتی ہے۔ یا پھر پورے کلام کا تجزیہ مختلف جگہوں سے یوں کرنا چاہیے کہ اس کی صوتیاتی روح تک ہماری رسائی ہو سکے۔ نامناسب نہ ہو گا کہ اگر سب سے پہلے اقبال کی بعض شاہکار نظموں مثلاً مسجد قرطبہ ‘ ذوق و شوق‘ اور خضر راہ کو لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا صوتیاتی سطح پر ان میںکوئی چیز قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے: سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات سلسلہ روز و شب تار حریر و رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلہ روز و شب ساز ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم و ممکنات تجھ کو پرکھتاہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلہ روز و شب صیرفی کائنات تو ہوا اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات موت ہے میری برات تیرے روز و شب کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی روجس میں نہ دن ہے نہ رات آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا اس بند کی وہ ایک نوعی آوازیں جو ذہن میں ایک چمک سی پیدا کرتی ہیں اور دیرپا اثر چھوڑتی ہیں وہ درج ذیل ہیں: س ل سل ل ر ز ش ش ح ث س ل س ل ر ز ش ص ل ح س ل س ل ر ز ش ر ح ر ر س ش ہ ذ ذ ص ف س ل س ل ر ز ش س ز ز ل ف غ س س ہ ذ ز ر ر ہ ر ہ س ل س ل ر ز ش ص ر ف ہ ر ر ہ ر ر ہ ر ر ہ ر ر ر ش ر ز ر ح ہ ز ر س ہ ر ف ز ہ ہ ر ہ ث ر ہ ث خ ر ف ظ ر ف ش ہ ہ ز ل خ ر ف= کل ۱۱۸بار اوپر کے گوشوار سے ظاہر ہے کہ ان میں زیادہ تر صفیری آوازیں ہیں یعنی ف س ش ز خ غ ہ (ث ص ز ض ظ یا ح کی آوازیں دی ہیں جو س ز یا ہ کی ہیں جو سب صفیری ہیں) ان کے علاوہ دونوں مصوتی مصمتوں یعنی ل اور ر کو بھی اس میں لے لیا گیا ہے کیونکہ یہ سب کے سب Vocalic یعنی مصوتی مصمتے یا مسلسل مصمتے کہلاتے ہیں، اس لیے کہ ان میں مصوتوں کی طر ح تسلسل کی اور جاری رہنے اور پھیلنے کی کیفیت ہے۔ اس میں بند اگرچہ بندشی آوازوں میں س ت کی تکرار قافیے کی وجہ سے ہوئی ہے اور ب اور ک کا نیز م اور ن کا بھی استعمال ملتا ہے، لیکن ان آوازوں کی تکرار اس پیمانے پر نہیں ملتی جس پیمانے پر صفیری یا مسلسل آوازوں کی تکرار ملتی ہے۔ بندش آوازیں ہوا کی بندش سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے مقابلے پر صفیری اور مسلسل آوازوں میں فراوانی او ربے کرانی کا تاثر پیدا کرنے کی کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اردو مصمتوں میں بندشی آوازوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے آدھے مصمتے سادہ ہیں اور آدھے ہکار۔ سادہ آوازیں اکثر زبانوں میں ملتی ہیں اور بڑی حد تک مشترک ہیں۔ لیکن اردو کا امتیاز ہکار اور معکوسی آوازوں سے پیدا ہوتا ہے جو تعداد میں چودہ ہیں اور ان کے مقابلے میں صفیری اور مسلسل آوازوں میں فراوانی اور بے کرانی کا تاثر پیدا کرنے کی کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اردو مصمتوں میں بندشی آوازوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے آدھے مصمتے سادہ ہیں اور آدھے ہکار۔ سادہ آوازیں اکثر زبانوں میں ملتی ہیں اور بڑی حد تک مشترک ہیں۔ لیکن اردو کا امتیاز ہکار اور معکوسی آوازوں سے پیدا ہوتاہے جو تعداد میں چودہ ہیں اور ان کے مقابلے میں صفیری اور مسلسل آوازیں تعداد میں صرف نو ہیں۔ اب اس روشنی میں اقبال کے یہاں یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اوپر کے سولہ مصرعوں میں ہکار آوازیں صرف پانچ بار آئیں ہیں جبکہ صفیری اور مسلسل آوازیں ایک سو اٹھارہ بار استعمال ہوئی ہیں! گویا ہکار آوازوں کا چین نہ ہونے کے برابر ہے، اور وہ بھی صرف دو مصرعوں میں: جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ یعنی ہکار آوازیں وہیں آئی ہیں جہاں ان کا استعمال ناگزیر تھا۔ یعنی ضمیر میں یا فعل میں۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ اردو کے افعال اور ضمیروں کا ڈھانچا سر تا سر زمینی ہے۔ اس بند کے نتائج پر یہ سوال بہر حال قائم کیا جا سکتا ہے کہ کہیں اس بند میں ان آوازوں کا وقوع کسی خاص وجہ سے تو نہیں، یا یہ محض اتفاقی تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں دھوکا ہو رہا ہو اور اقبال کے کلی صوتیاتی آہنگ سے ان نتائج کا کوئی بڑا تعلق نہ ہو۔ اس کا جواب دینے سے پہلے نظم کے دوسرے بندوں کے نتائج معلوم کر لینے چاہئیں: بند صفیری و مسلسل آوازیں ہکار و معکوسی آوازیں پہلا بند ۱۱۸ ۵ دوسرا بند ۱۰۹ ۲ تیسرا بند ۱۱۸ ۳ چوتھا بند ۱۲۳ ۴ پانچواں بند ۱۱۲ ۳ چھٹا بند ۱۲۳ ۷ ساتواں بند ۱۱۶ ۹ صفیری آوازوں کے استعمال کی یہ صورتیاتی لے آخری بند تک میں ملتی ہے۔ یہاں ان اشعار کے پیش کرنے سے مراد یہی ہے کہ مصرعوں کو پڑھتے ہوئے ان آوازوں پر نظر رکھی جائے جو اس نظم کے صوتیاتی آہنگ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں اور جن کے در و بست نے اس نظم کو معنیاتی اور صوتیاتی ہم آہنگی کا عجیب و غریب مرقع بنا دیا ہے۔ ذیل میں ایسی تمام آوازوں کے نیچے لکیر کھینچ دی گئی ہے جبکہ ہکار آوازوں کو صرف چھ بار آئی ہیں، دو لکیروں سے ظاہر کیا گیا ہے: وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب! سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب! آب روان کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب علم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش انقلاب صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جوہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام، خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام، خون جگر کے بغیر (۱۱۲:۶) اس پوری نظم کا صوتیاتی تناسب حسب ذیل ہے: تعداد اشعار صفیری و مسلسل آوازیں ہکار و معکوسی آوازیں ۶۴ ۹۳۱ ۳۹ مسلسل آوازیں جو اردو میں ہکار و معکوسی آوازوں سے تعداد میں خاصی کم ہیں (۹: ۱۴) اقبال کے یہاں بیس گنا سے بھی زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔ اس تجزیے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صفیری اور مسلسل آوازوں کی کثرت اور ہکار و معکوسی آوازوں کا انتہائی قلیل ا ستعمال ہی شاید وہ کلید ہے جس سے اقبال کے نہاں خانہ آہنگ تک رسائی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اب اقبال کی بعض دوسری شاہکار نغموں پر بھی نظر ڈالنی ضروری ہے۔ ذوق و شوق کے ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں:ـ قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں سوخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ رنگ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی ان اشعار سے بھی اسی بات کی توثیق ہوتی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ ہکار آوازیں صرف وہیں آئی ہیں جہاں فعل کی مجبوری ہے یا ایسے حروف ہیں جو اردو کی بنیادی لفظیات کا حصہ ہیں اور جن سے مفر نہیں۔ اس نظم کے باقی حصوں سے بھی اس مفروضے کی تصدیق ہو جاتی ہے جس کا ذکر ہم پہلے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ذوق و شوق تعداد اشعار صفیری و مسلسل ہکار و معکوسی ۳۰ ۴۵۱ ۲۳ یہ دونوں نظمیں بال جبریل سے تھیں۔ نامناسب نہ ہو گا اگر پہلے مجموعے بانگ درا سے خضر راہ کو بھی دیکھ لیا جائے جو ان نظموں سے بارہ تیرہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کا آغاز شاعر اور خضر کے مکالمے سے ہوتا ہے جس کے بعد مختلف عنوانات قائم کر دیے گئے ہیں پہلے ایک بند پر نظر ڈال لی جائے۔ اس کے بعد پورا تجزیہ پیش کیا جائے گا: ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا خرم سیر تھی نظر حیران کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب! جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب! رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب! دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب دل میں یہ سن کر بپا ہنگامہ محشر ہوا میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا خضر راہ تعداد اشعار صفیری و مسلسل ہکار و معکوسی ۸۵ ۱۲۱۵ ۸۷ اقبال کی دوسری مشہور نظموں میں طلوع اسلام، لینن خدا کے حضور میں، ابلیس کی مجلس شوریٰ اور شعاع امید میں بھی یہی کیفیت ملتی ہے۔ خضر راہ، مسجد قرطبہ اور ذوق و شوق کی طرح طلوع اسلام بھی ترکیب بند ہے لینن خدا کے حضور میں مسلسل اور شعاع امیدوار ابلیس کی مجلس شوریٰ بندوں میں تقسیم نظمیں ہیں۔ ’’ ساقی نامہ‘‘ البتہ مثنوی ہے جس میں مصرعوں کے ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے افعال کا استعمال بڑھ گیا ہے، جس سے ہکار و معکوسی آوازوں کی تعداد پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اگرچہ یہ پوری مثنوی کی کیفیت نہیں ہے، تاہم ہکار اور معکوسی آوازیں کہیں قافیہ ردیف کی مجبوری کی وجہ سے تو کہیں بیان کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے در آئی ہیں۔ یوں بھی ’’ پھر‘‘ بھی، مجھ، کچھ، تھا، تھی بنیادی لفظوں کا استعمال مسلسل کلموں میں ناگزیر ہو جاتا ہے یہ آوازیں اقبال کے یہاں غزل کے شعروں میں بھی کہیں ناگزیر طور پر وارد ہوتی ہیں مثال کے طور پر ذیل کے مصرعے ملاحظہ ہوں: گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک تری نگاہ فرد مایہ ہاتھ ہے کوتاہ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب اقبال کے یہاں ہکار اور معکوسی آوازوں کے قلیل استعمال کی خصوصیت کو ذہن نشین کرنے کے لیے اقبال کا تقابل کسی ایسے شاعر سے کرنا ضروری ہے جس کا پیرایہ بیان بول چال کی زبان سے قریب ہو اور جس کے یہاں ہکار اور معکوسی آوازوں کا استعمال فطری طور پر ہوا ہو۔ اس سے یہ اندازہ بھی کیا جا سکے گا کہ اردو میں ان آوازوں کے استعمال کا اوسط کیا ہے اور کیا اقبال کے یہاں اس سے واقعی کوئی انحراف ملتا ہے۔ اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ ہمارے بڑے شاعروں میں بول چال کی زبان سے قریب ہونے کا شرف میر تقی میر کو حاصل ہے۔ ان کے یہاں سینکڑوں غزلیں ایسی ہیں جن کے ردیف و قوافی میں بھی ہکار و معکوسی آوازیں آزادانہ استعمال ہوئی ہیں: ہم تو اک آدھ گھڑی اٹھ کے جدا بیٹھیں گے۔۔۔ کھا بیٹھیں گے، چھپا بیٹھیں گے میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ۔۔۔ سمجھا کچھ، ٹھہرا کچھ بور نقش و نگار سا ہے کچھ۔۔۔ اعتبار سا ہے کچھ، پیار سا ہے کچھ موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا۔۔۔ دفتر نکلا خوش وہ کہ اٹھ گئے ہیں دامان جھٹک جھٹک کر۔۔۔ کھٹک کھٹک کر، مٹک مٹک کر دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا۔۔۔ کوٹا گیا، چھوٹا گیا بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا۔۔۔ توڑا، تھوڑا میر کے یہاں ایسی غزلیں بھی ہیں جو ڑ پر یا ٹ پر ختم ہوتی ہیں: آشوب دیکھ چشم تری سر رہے ہیں جوڑ۔۔۔ موڑ موڑ، پھوڑ پھوڑ ہوا ہے خواب سونا آہ اس کروٹ سے اس کروٹ۔۔۔ لٹ لٹ، کھٹ کھٹ دل لے ہیں یوں کہ ہر گز ہوتی نہیں ہے آہٹ۔۔۔ نٹ کھٹ، جمگھٹ لیکن اگر صرف ایسی غزلوں کو سامنے رکھا جائے تو نتائج مبالغہ آمیز نکلیں گے۔ کیونکہ اول تو قافیے اور ردیف میں آوازوں کے استعمال کے شعوری ہونے کا امکان رہتا ہے، دوسرے یہ کہ ایک بار جب ایسی آوازیں مطلع کے قافیے ردیف میں آ پڑیں تو باقی اشعار میں ان کا التزام واجب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر صرف ایسی غزلوں کا تجزیہ کیا جائے تو میر کے کلام میں ان آوازوں کے تناسب کی نہایت مبالغہ آمیز تصویر سامنے آئے گی۔ بہتر یہ ہے کہ بعض دوسری غزلوں کو لیا جائے اور ہکار و معکوسی آوازوں کے استعمال کو ردیف و قوانی سے ہٹ کر دیکھا جائے: تعداد و اشعار ہکار و معکوسی آوازیں الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا ۱۵ ۲۴ کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی ۹ ۱۴ چپکے چپکے میر جی تم اٹھ کے پھر کیدھر چلے ۹ ۲۷ ۳۳ ۶۵ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ میر کے یہاں ہکار و معکوسی آوازوں کا تناسب تقریباً دو آواز فی شعر ہے۔ پورے کلیات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ تناسب کچھ زیادہ ہی نکلے گا، اس سے کم ہر گز نہیں۔ اس سلسلے میں کلام غالب کو دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اختصار کی خاطر ہم نے غالب کی غزلوں کے اتفاقی تجزیے پر اکتفا کیا جس کی تفصیل حاشیے میں درج ہے۔ 1؎ اس تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ غالب کے اکیانوے 1؎ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو اشعار ہیں معکوسی اور ہکار آوازیں نواسی بار آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب کے یہاں بھی جنہیں اپنے گذشتہ فارسی اور مستعار ’’ نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ پر ناز تھا، ان آوازوں کے استعمال کا تناسب تقریباً ایک آواز فی شعر ہے۔ میر اور غالب کے اس تناظر میں دیکھئے تو ان آوازوں کے استعمال کے سلسلے میں اقبال کی صوتی انفرادیت کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے: میر: ہکار و معکوسی آوازیں فی شعر ۲ غالب: ۱ اقبال: ایک سے کم ان نتائج سے ظاہر ہے کہ میر جن کے ہاں ہکار و معکوسی آوازوں کا استعمال تقریباً فطری ہے ان کی بہ نسبت غالب کے یہاں ان آوازوں کا استعمال آدھا اور اقبال کے یہاں سب سے کم ہے۔ ان نتائج کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شاید اقبال کے یہاں ہکار و معکوسی آوازوں کے استعمال کا تناسب اردو شاعری میں سب سے قلیل ہے۔ اب اس کو صفیری و مسلسل آوازوں کے استعمال سے ملا کر دیکھئے۔ تو حیرت ہوتی ہے کہ عربی فارسی لفظیات کا ذخیرہ جو اقبال کا سرمایہ امتیاز ہے، وہی غالب کے لیے بھی وجہ افتخارتھا لیکن مشترک سرچشمہ لفظیات کے با وصف دونوں کے یہاں اس کے پہلو بہ پہلو ہکارہ معکوسی آوازوں کے استعمال کی کیفیت میں خاصا فرق ہے۔ غالب کے صوتی آہنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر مسعود حسین نے ان کے یہاں صفیری آوازوں کے استعمال پر جا بجا طور پر زور دیا ہے ان کا بیان ہے ’’ ان غالب کی فارسی گوئی اور فارسی دانی کا اثر ان کے ریختے پر بھی نمایاں ہے۔ اردو شعر کی زبان کو انہوں نے ذوق کی محاورہ بندی سے نکال کر عجمی لالہ زاروں میں لا کھڑا کیا۔ 2؎‘‘ غالب اور اقبال میں یہ خصوصیت مشترک ہے۔ اقبال کے رموز و علائم میں بڑی تعداد ایسے الفاظ کی ہے جن میں صفیری اور (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) دیوان غالب طبع برلن ص ۳۱۔ ۳۰ تعداد اشعار ۱۳ ہکار و معکوسی آوازیں ۲۱ ۵۳۔۵۲ ۱۱ ۶۵۔ ۶۴ ۵ ۱۰۱۔ ۱۰۰ ۱۴ ۱۲۳۔ ۱۲۲ ۱۷ ۱۶۱۔ ۱۶۰ ۱۵ ۲۰۱۔ ۲۰۰ ۶ ۸۹ 1؎ مسعود حسین خاں ’’ غالب کے اردو کلام کا صوتی آہنگ‘‘ مشمولہ بین الاقوامی غالب سیمینار ۱۹۶۹ء ص ۲۰۷ مسلسل آوازیں نمایاں طور پر استعمال ہوئی ہیں، یا پھر ایسی آوازیں آئی ہیں جو منہ کے اگلے حصوں سے ادا ہوتی ہیں: شاہین، مشرق، شمع و شاعر، شعاع، روشنی، شفق، شعلہ، فقر، فرشتے، فرمان، فقیہہ، خودی و خدا، عقل و عشق، ارض و سما، ذوق و شوق، زمان و مکاں، سوز و ساز، درد و داغ، جستجو و آرزو، شہید جستجو، شکر و شکایت، تسلیم و رضا، ابلیس و آدام، نیسان و صدف، زیست، مسجد، ملا، مدرسہ، صوفی، خانقاہ، کلیسا، مرد مومن، شمشیر و سناں، طاؤس و رباب، نرگس، نالہ بلبل، لالہ صحرا، چراغ لالہ۔ اس خصوصیت کی توثیق ان لفظوں سے بھی ہوتی ہے جہاں اقبال کئی لفظوں کے معنوی سیٹ میں سے ایک کا انتخاب کرتے ہیں، مثلاً وہ شہباز اور عقاب پر شاہین کو ترجیح دیتے ہیں، یا جنت، بہشت اور فردوس میں سے فردوس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، یا شمس، خورشید اور آفتاب میں سے وہ زیادہ آفتاب کے حق میں ہیں۔ (اگرچہ اس انتخاب میں طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں کا بھی ہاتھ ہے جس کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا) یہاں اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ صفیری اور مسلسل آوازوں کا استعمال مصوتوں کا بھی ہاتھ ہے جس کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا) یہاں اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ صفیری و مسلسل آوازوں کا استعمال تو غالب کے یہاں بھی کثرت سے ہوا ہے، لیکن اقبال کی لے حرکی اور رجائی ہے جبکہ غالب کا تفکر حزنیہ ہے اور اس میں الم ناکی کی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کے اظہار میں منہ کے اگلے حصوں سے ادا ہونے والی آوازوں کے بجائے منہ کے پچھلے حصوں سے ادا ہونے والی آوازوں یا پھر مہ موع آوازوں سے مدد ملی ہے۔ مثلاً ذیل کے اجزائے کلام غالب کے پسندیدہ الفاظ ہیں اور ان میں گ، ج، د، غ، ب اور م کی جو نمایاں حیثیت ہے وہ ظاہر ہے: دل و جگر، زخم جگر، جگر داری کا دعویٰ، دعوت مژگاں، نگاہ بے محابا، بت بیداد گر، ستم گرجان، غم گسار، غارت گر جنس و وفا، دود چراغ محفل، داغ دل، درد بے دوا، مرگ تمنا، رگ جان، رگ سنگ، سنگ گراں، بوئے گل، گل نغمہ، موج محیط بے خودی، سیلاب گریہ، سیلاب بلا، حلقہ گرداب، بند غم، ساغر مے خانہ نیرنگ، رنج نو میدی جاوید، تغافل ہائے ساقی، غم آوارگی ہائے صبا۔ غالب اور اقبال کے صوتیاتی آہنگ کا بنیادی فرق مصمتوں سے زیادہ مصوتوں کے استعمال میں کھلتا ہے۔ پروفیسر مسعود حسین نے صحیح ارشاد کیا ہے ’’ غالب کا کمال لفظ اور ترکیب میں ظاہر ہوتا ہے صوتی آہنگ میں نہیں۔ وہ لفظ کی تہ داری اور ترکیب کی پہلو داری سے اکثر اوقات صوتی آہنگ کی کمی کو چھپا لے جاتے ہیں۔ 1؎‘‘ اقبال کے یہاں یہ کیفیت نہیں ان کے یہاں صوتی آہنگ کی کمی کا احساس قطعاً نہیں ہوتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ ان کے اشعار کو کہیں سے پڑھیے، ان میں عجیب و غریب نغمگی کا احساس ہو گا، گویا لفظوں میں موسیقی سموئی ہے۔ آخر غالب کے صوتی آہنگ کی وہ کون سی کمی ہے جو اقبال کی آواز تک پہنچ کر دور ہو گئی ہے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ غالب کا فن معنی آفرینی کا رمزیہ فن ہے۔ ان کا فنی سانچا غزل کا شعر یعنی دو مصرعوں کی محض ذرا سی زمین ہے جس میں وہ جہان معنی آباد کر دیتے ہیں اگرچہ اقبال کی شاعری بھی رمزیہ امکانات رکھتی ہے لیکن ترغیب عمل کی پیغامی شاعری ہونے کی وجہ سے اس کے فنی سانچے وسیع ہیں۔ 1؎ مسعود حسین خاں ’’ غالب کے اردو کلام کا صوتی آہنگ‘‘ مشمولہ بین الاقوامی غالب سیمینار ۱۹۶۹ء ص ۲۰۵ اقبال کی اکثر غزلوں میں بھی نظموں کے تسلسل کا لطف ہے۔ غالب کے یہاں رمزیہ فنی رویے کی وجہ سے نحوی ڈھانچے میں خاصی تخفیف ہو گئی ہے اور افعال تو خاصے نچڑ کر سامنے آتے ہیں۔ اس اختصار و تخفیف کا منفی اثر خاص طور پر طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں پر ہوا ہے۔ اقبال کے یہاں اظہاری وسعت اور ربط بیان کی وجہ سے اکثر فعل اور کلمے کے دیگر لوازم بغیر تخفیف کے نظم ہوئے ہیں، اور ان کی وجہ سے طویل مصوتوں کی فراوانی پیدا ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر کلیات اقبال سے ایک اتفاقی تجزیے کے بیس اشعار میں طویل یا غنائی مصوتے ۳۳۵ بار آئے ہیں۔ یعنی اقبال کے یہاں طویل، غنائی مصوتوں کا اوسط فی شعر ۱۶۲۸ 1؎ ہوا۔ اس اوسط کی توثیق کے لیے اقبال کی دو غزلوں پر بھی نظر ڈالی گئی: کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس لباس مجاز میں سات شعر: ۱۱۷ طویل مصوتے: اوسط ۷ء ۱۶ اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا پانچ شعر: ۱۰۲ طویل مصوتے: اوسط ۴ء ۲۰ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے یہاں فی شعر کم از کم سولہ طویل مصوتوں کے استعمال کا امکان ہے۔ اس اعتبار سے غالب کا کلام دیکھئے تو مایوسی ہوتی ہے مثال کے طور پر دیوان غالب کے اتفاقی تجزیے سے جو اوسط ہاتھ آتا ہے۔ وہ ۶ء ۱۱ طویل مصوتے فی شعر کا ہے۔ 2؎ ذیل کی غزلوں کی اوسط سے اسے مزید جانچا گیا: نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ اشعار ۹: طویل مصوتے ۸۸ سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے اشعار ۷: طویل مصوتے ۹۸ دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی اشعار ۹/۲۵: طویل مصوتے ۹۹/۲۸۵ اوسط فی شعر ۱۱ گویا غالب کے یہاں طویل مصوتوں کے وقوع کا امکان گیارہ سے بارہ طویل مصوتے فی شعر سے زیادہ کا نہیں۔ غالب کی جس کم آہنگی کا ذکر پروفیسر محمد حسین نے کیا ہے، عین ممکن ہے کہ اس کی ایک وجہ طویل مصوتوں کی کفایت ہو۔ لیکن ابھی اس بارے میں پوری تصویر سامنے نہیں آئی، غالب کے یہاں طویل مصوتوں کی کفایت اور اقبال کے یہاں ان کی فراوانی کا پورا اندازہ، اسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب اس بارے میں میر کا اوسط بھی سامنے ہو:ـ 1؎ کلیات اقبال اردو، طبع شیخ غلام علی، لاہور ص ۷۰، ۷۱، ۱۴۰، ۱۴۱، ۲۱۰، ۲۱۱، ۲۸۰، ۳۵۰، ۳۵۱، ۴۲۲، ۴۲۳، ۴۹۰، ۴۹۱، ۵۶۲، ۵۶۳، ۶۳۰، ۶۷۸، ۶۷۹ (طویل/غنانی مصوتے ۲۲+۱۹+ ۲۳ +۱۸ +۱۴+۱۳+۱۶ +۲۰+ ۱۸+۱۹ +۱۹ +۱۷ +۱۳ +۱۳ +۱۷ +۱۶ +۱۶ +۱۴ +۱۶ = کل ۳۳۶ بیس اشعار میں اوسط فی شعر ۱۶۲۸ 2؎ دیوان غالب طبع برلن ۱۱، ۱۰، ۱۱، ۱۴، ۱۰، ۱۰، ۱۲، ۹، ۱۲، ۱۴، ۱۴ کل ۱۱۶ اشعار ۱۰ اوسط ۶ء ۱۱ فی شعر الٹی ہو گئیں سب تدبیریں۔۔۔: اشعار ۱۵: طویل مصوتے ۲۸۲ کچھ کرو فکر ۔۔۔: اشعار ۹: طویل مصوتے ۱۰۱ سختیاں کھینچیں سو کھنچیں۔۔۔ـ: اشعار ۹: طویل مصوتے ۱۴۰ ۳۳ ۵۲۳ اوسط فی شعر۱۶ اب ان تینوں شاعروں کے یہاں طویل مصوتوں کے استعمال کی جو تصویر مرتب ہوئی ہے وہ یوں ہے: میر ۱۶ طویل مصوتے فی شعر غالب ۱۱ اقبال ۱۶ اس تقابلی تجزیے سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طویل مصوتوں کے معاملے میں اقبال غالب سے خاصے آگے ہیں اور میر کے ہم پلہ ہیں۔ اتنی بات واضح ہے کہ جہاں طویل مصوتوں کی فراوانی ہو گی۔ غنائی مصوتوں کی کثرت بھی وہیں ہو گی، کیونکہ اردو کا ایک عام رحجان ہے کہ غنیت صرف طویل مصوتوں ہی کے ساتھ وارد ہوتی ہے۔ نغمگی کے لیے طویل مصوتوں کے ساتھ ساتھ غنائی مصوتوں کی جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ لیکن محض طویل مصوتوں کی فراوانی بجائے خود کوئی بڑی بات نہیں۔ اقبال کا کمال جس نے ان کے صوتیاتی آہنگ کو اردو شعریات کا عجوبہ بنا دیا ہے دراصل یہ ہے کہ طویل و غنائی مصوتوں کی زمینی کیفیات اقبال کے یہاں زناٹے دار صفیری و سلسلہ دار ’’ مسلسل‘‘ آوازوں کی آسمانی کیفیات کے ساتھ مربوط و ممزوج ہو کر سامنے آتی ہیں۔ اقبال کے یہاں صفیری و مسلسل آوازوں اور طویل و غنائی مصوتوں کا یہ ربط و امتزاج ایک ایسی صوتیاتی سطح پیش کرتا ہے جس کی دوسری نظیر اردو میں نہیں ملتی۔ اصوات کی اس خوش امتزاجی نے اقبال کے صوتیاتی آہنگ کو ایسی دلآویزی، توانائی، شکوہ او رآفاق میں سلسلہ در سلسلہ پھیلنے والی ایسی گونج عطا کی ہے جو اپنے تحرک و تموج اور امنگ و ولولے کے اعتبار سے بجا طور پر یزداں گیر کہی جا سکتی ہے۔ ٭٭٭ اقبال۔ مذہب اور سائنس ڈاکٹر محمدؐ حسن انیسویں صدی میں انسان نے امکانات پر یقین کی شمع روشن کی مشین نے عقل پر اعتماد کرنا سکھایا اور ہیومنزم کی وہ روآ ئی جس نے انسان کے سر پر خالق کائنات کا تاج رکھ دیا دنیا اس کے سامنے سر بسجود تھی فطرت کے صاعقہ بر دوش را ہوار کی باگ اس کی گرفت میں تھی اور زمین سے آسمان تک گویا اس کی نگاہ التفات کے منتظر تھے۔ مساوات، سماجی انصاف اور عام خوش حالی کے خواب دیکھے گئے ایسا لگا کہ مسرت نام کی رنگ برنگی تسلی اب انسانی عقل کی دو انگلیوں کی دسترس میں ہے مگر ان خوابوں نے پرانے سماجی ڈھانچے کو للکارا سماجی انصاف، مساوات اور خوش حالی عام ہو گی تو ترقی کے زینے پر اونچ نیچ باقی نہ رہے گی دولت کی تقسیم کا طریق کار بدلنا ہو گا اور دبے کچلے طبقے ابھر کر امارت و ثروت ہی کے نہیں تہذیب و شائستگی کے اجارہ داروں سے اپنا حق مانگیں گے۔۔ گویا ارمانوں کا وہ طوفان آئے گا جسے اہل ثروت اور صاحب اقتدار طبقے کی زبان میں نراج بلکہ روز حشر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس روز حشر کا لرزہ بیسویں صدی پر طاری ہوا عقلی کی جگہ تشکیک بلکہ عقل سے بیزاری نے لے لی۔ انسان استدلال کے ہتھیار کو کند کر کے جنون اور جذبے کی امان میں جانے لگا اور اب تک کے تہذیبی ڈھانچے کے توازن کو قائم رکھنے کے لئے اس نے ہمدردی، انسان دوستی اور عام خوش حالی کے بجائے قوت و جبروت میں پناہ لینے کی سوچی جو آگ اور خون کی قیمت پر ہی سہی مگر پرانے توازن کو قائم رکھ سکے۔ صنعتی ترقی کا تضاد: یہ بیسویں صدی وہ ہے جب صنعتی انقلاب اپنی برکتیں پھیلا رہا تھا، بازاروں، منڈیوں اور خریداروں کی تلاش میں مشینیں اور ان کے مالک پسماندہ ممالک کو کھوندے ڈال رہے تھے اور اقتصادی سامراج کی اس دوڑ میں محکوم نو آبادیوں کی تہذیب ان کے علم و دانش، ان کے شعر و ادب کا رنگ و آہنگ، لہجہ اور لے بدلے ڈال رہے تھے اور اس سب لوٹ مار کے بعد بھی اقتصادی بحران عفریت کی طرح ان کے پیچھے لگا ہوا تھا جو ان کے سینے پر سوار ہو کر انہیں ہر اس قدر کی نفی کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ جس کی حمایت اور تحفظ کا انہوں نے بیڑا اٹھایا تھا۔ جمہوریت کی بنیاد مساوات پر تھی مگر اب یہی جمہوریت نواز سفید فام اور سیاہ فام، یورپی اور غیر یورپی انسانوں کے درمیان امتیاز اور استبداد کی دیوار اٹھا رہے تھے جمہوریت کی بنیاد آزادی پر تھی اور یہی جمہوریت کے قافلہ سالار کروڑوں انسانوں کے غلام بنانے کے ذمے دار تھے جمہوریت کی بنیاد سماجی انصاف اور پارلیمانی طریق حکومت پر تھی اور یہی جمہوریت کے علمبردار سماجی نا انصافی کو روا رکھنے اور پارلیمانی طریق حکومت سے روگردانی کرنے پر آمادہ تھے۔ گویا بیسویں صدی اس اژدھے کی مانند تھی جو اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے ہر وہ لفظ، ہر وہ اعلیٰ تصور جو تہذیب نے پیدا کیا تھا آج اسی تہذیب کی زد میں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال پہلی بار یورپ گئے اور فکر کے اس بحران سے دو چار ہوئے۔ محکوم قومیں جب اپنے سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام کی زیر نگیں ہوئی ہیں تو انہیں فوجی اور انتظامی استبدادی کا مقابلہ نہیں ہوتا بلکہ تہذیبی اور فکری سطح پر انہیں زندگی اور موت کی لڑائی لڑائی ہوتی ہے۔ ہر لمحہ حکمران قوم ان کے تمام ادرشوں اور اقدار کو للکارتی ہے اور ان کے ماضی ہی نہیں حال کا بھی جواز طلب کرتی ہے ایسی صورتوں میں محکوم اقوام کے دانشوروں کا ایک طبقہ ضرور اپنے ماضی کے نہاں خانوں کی طرف لوٹتا ہے اور اپنی تہذیب کے ہیرے موتی چنتا ہے اور اپنی امتیازی خصوصیات تلاش کرتا ہے تاکہ ان کے بل پر وہ حکمران قوم کے آگے سر اٹھا کر کھڑا ہو سکے اور احساس تفاخر قائم رکھ سکے۔ اقبال کے زمانے تک ہندوستان کے دانشوروں کا ایک طبقہ اس بحران میں مبتلا تھا اور ماضی کے انبار سے ہیرے موتی چن رہا تھا ہندوستان کی عظمت پارینہ کی جستجو میں سب سے زیادہ تابناک پہلو روحانیت کا تھا کہ مذہب کا سرچشمہ یہی سر زمین رہی ہے اس لئے اقبال نے دوسرے متعدد مفکرین کی طرح مذہب کے پیرایہ اظہار کو اپنایا۔ میرے نزدیک یہ بات اہم ہے کہ مذہب اقبال کے لئے پیرایہ اظہار ہے اقبال مذہبی شاعر نہیں ہیں مذہبی پیرایہ اظہار کے شاعر ہیں اس پیرائے میں ان کے دور اور ان کی شخصیت میں اقدار و تصورات کی کش مکش ظاہر ہوتی ہے گو اس پورے عمل کو اقبال مذہب کے لب و لہجے میں ادا کرتے ہیں اس وجہ سے اقبال مذہبی فکر کے سلسلے میں بھی تشکیل جدید کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ محکوموں کی رزم گاہیں: محکوم اقوام کی انانیت مختلف روپ اختیار کرتی ہے ان میں جغرافیائی، تاریخی، مذہبی، لسانی اور دیگر قسم کی مصیبتیں بھی کار فرما ہوتی ہیں کہیں ان کا روپ معتدل ہوتا ہے کہیں انتہا پسندانہ۔ اقبال کے ہاں یہ سبھی یورپ جا بجا ملتے ہیں اقبال نے وطن دوستی سے یہ سفر شروع کیا۔ جغرافیائی اور علاقائی وابستگیوں سے ہوتے ہوئے وہ تصوراتی اور فکری سطح تک آئے جہاں فن کا سابقہ روحانیت اور مذہب سے تھا۔ یہاں گرو نانک، رام تیرتھ، شری کرشن اور متعدد دوسرے ہندوستانی فلسفی اور پیشوا دامن گیر ہوئے۔ پھر ان کی نظر مغربی ایشیاء مشرقی یورپ اور افریقہ کی تاریخ پر بھی پڑی جہاں اسلام اور عیسائیت کے نام پر لڑی جانے والی مسیحی جنگوں کی وجہ سے میدان کار زار گرم رہا تھا۔ اس جنگ و جدل میں ظاہر ہے ان کی ہمدردیاں صلیب کی جگہ ہلال کے ساتھ تھیں۔ وجہ اس کی طرف مذہبی یگانگت نہ تھی۔ بلکہ وہ نفسیاتی تسکین بھی تھی جو آج کے حکمراں اقوام کو ماضی کے آئینے میں پسپا ہوتے دیکھ کے میسر آتی ہے۔ جس طرح عبدالحلیم شرر نے صلیبی جنگوں کے پس منظر میں ناول لکھ کر آج کی شکست کا بدلہ گزرے ہوئے کل کی رزم گاہوں میں لے لیا۔ اسی طرح اقبال کی شاعری نے بھی عظمت پارینہ کے ان افسانوں میں سکون پایا ہو گا۔ اس رزم گاہ کا ایک سبق اور بھی تھا۔ کل کی یہ فاتح اور ترقی یافتہ قومیں آج ذلیل و خوار تھیں۔ اتفاق یہ کہ ان کو ذلیل و خوار کرنے والی طاقت ایک ہی تھی۔ اسی وجہ سے اقبال نے ایک طرف تو ان تمام مفتوح اور محکوم اقوام کے درمیان یگانگت کا ایک رشتہ محسوس کیا اور اردو میں یقینا اور ہندوستانی ادبیات میں غالباً پہلی بار ایشیائی وحدت کا تصور پیش کیا۔ دوسری طر ف مغربی ایشیا کے ملکوں کی باہمی یگانگت نے انہیں اسلام کی طرف کھینچا جسے وہ ایک متحد کرنے والی قوت تصور کرنے لگے۔ ماضی کی صلیبی جنگوں اور حال کی مظلومی اور محکومی نے ایک سوال اقبال کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اقوام کے عروج و زوال کے اسباب کیا ہیں؟ کیا واقعی یہ سب کچھ اتفاقی ہے یا اس کے پیچھے عناصر اور رد عمل کا کوئی مخصوص نظام ہے۔ اس سوال کا جواب سبھی شعبوں کی مدد سے تلاش کرنا تھا اور فلسفی کی حیثیت سے ان تمام شعبوں کے جزوی اور فروعی اختلافات کے باوجود ان کی فکری وحدت سے نتیجے اخ کرنا ان کی فکری ڈسپلن کا حصہ تھا۔ اتفاق سے زمانہ وہ تھا جب سائنس اس سوال کا کسی قدر تسلی بخش حل تلاش کر چکا تھا۔ ڈارون نے اپنے نظریہ ارتقاء کی بنیاد اس سوال کے جواب پر قائم کی تھی۔ نسل انسانی خود اسی ارتقاء کا نتیجہ تھی۔ یہ ارتقاء اتفاقی نہ تھا بلکہ جہد للبقا کی زبردست کشمکش پر مبنی تھا۔ ڈارون نے مختلف حیاتیاتی سلسلوں میں سے بعض کے ارتقا پانے اور بعض کے مٹ جانے کا راز جہد للبقا کو قرار دیا تھا۔ جہد للبقا کی بنیاد زندگی کی وہ تڑپ ہے جو بعض حیاتیاتی سلسلوں کو ماحول سے مطابقت اور تسخیر فطرت پر آمادہ کرتی ہے اور بعض حیاتیاتی سلسلوں میں اس تڑپ نے جگہ پائی اور بعض کے سینے میں یہ چنگاری بجھ گئی۔ یہی تڑپ ارتقاء کی امین اور راہبر بنی اور اس کا فقدان فنا اور موت کہلایا۔ جہد للبقاء کا یہ نظریہ سائنس کے دوسرے نظریوں کی طرح مختلف نظام ہائے فکر کے ہاتھ میں پڑ گیا۔ اور مختلف طبقوں نے اسے مختلف طریقوں سے برتا۔ زمانہ سامراج کا تھا جب ایک سرمایہ دار ملک صنعت منڈی، خام مواد اور سستی محنت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تلاش میں پسماندہ ملکوں پر قبضہ کرنے اور انہیں محکوم بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ گویا سرمایہ داری یا صنعتی اجارہ داری کی لوٹ مار بقول لینن اپنے انتہائی اور آخری دور میں داخل ہو چکی تھی۔ اس لئے Impe Rialism کے مفکروں کے ہاتھوں جہد للبقا کا اصول Speciles انواع کے بجائے اقوام پر اور اقوام سے افراد پر بھی نافذ کیا جائے گا گویا اس کا مطلب یہ نکلا کہ بڑی مچھلی کو چھوٹی مچھلیاں نگل لینے کی پوری آزادی ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مناجات، آئین فطرت کے مطابق کمزور اقوام منتج ہونے کے لیے ہیں اور طاقت ور اقوام حکمرانی کے لئے۔ رہا افراد کا معاملہ تو Laisses Faire آزادانہ مقابلہ کی میزان عدل گڑی ہے اور ہر روز جو زندہ رہنے کے اس مقابلہ میں دوسروں کو شکست دے کر اپنے وجود کا ثبوت فراہم کرتاہے صرف وہی زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے۔ مشینوں کے اندھیرے: سائنس کے ایک معنی اور بھی تھے جو انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے شروع میں جانے پہچانے گئے۔ تکنالوجی اور تکنالوجی صرف مشینوں اور کارخانوں کا نظام نہ تھا بلکہ ان سے پیدا ہونے والے مربوط اور مرتب نظام حیات کا نام تھا۔ تکنالوجی صرف ایک مخصوص سماجی تنظیم کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ ایک مخصوص قسم کے معاشرے کو اور ایک مخصوص قسم کے ذہن اور شخصیت رکھنے والے افراد کو جنم د یتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب مشینوں اور کارخانوں کی طرح تکنالوجی کی باگ بھی بڑی حد تک منافع کے اصول پر کام کرنے والے اجارہ داروں کے ہاتھ میں ہو جن کے نزدیک سماجی صورت کے بجائے منافع خوری قدر اول کی حیثیت رکھتی ہو۔ ایسی حالت میں اجارہ داروں کے لئے صنعتی ترقی کی صرف ایک معنویت باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے منافع اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان صنعتی اداروں میں کام کرنے والوں کے لئے کام اپنی دل چسپی، اپنا احساس تفاخر، اپنا پندار کمال اور اپنی سماجی معنویت کھو کر محض وسیلہ روزگار بن جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ نظام بڑھتا اور پھیلتا جاتا ہے یہ بے دلی، بے نمکی اور بے زاری کا احساس کارخانوں میں کام کرنے والوں ہی کو نہیں بلکہ سماج کے ہر پیشے اور ہر صف کے لوگوں تک پھیلتا جاتا ہے، جسے مارکس نے Alienation کا نام دیا تھا۔ شاعر اپنے گیتوں کی سماجی ترسیل سے محروم ہوتا جاتا ہے۔ دانش ور اپنے کو چھپائی کی مشین اور یونیورسٹیوں کے ڈگری بانٹنے والے ادارے کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور زندگی ہر قسم کے معنی سے خالی ہو جاتی ہے، بے روح الفاظ ہر طرف بھٹکتے ہیں۔ اقبال کا یورپ اپنے افکار کے انہیں اندھیروں میں گم تھا۔ سرمائے کا اقتصادی نظام اپنا کا بوس پیدا کر چکا تھا اور صنعتی ترقی اپنے تضادات میں اسیر تھی۔ اقبال اس نئی صورت حال سے دو چار تھے مگر یہ فکرس چیلنج ایشیا کے غلام ملک ہندوستان کے ایک مسلمان شاعر کو در پیش تھا جو فلسفی بھی تھا اور جو قوموں کے عروج اور زوال کا بھی دمعلوم کرنے کے لیے ضمیر کائنات میں غوطہ زن تھا۔ اسی لئے یورپ کے اس اقتصادی اور فکری بحران میں اس شاعر کو اپنے لئے امید کی ایک کرن دکھائی دی۔ شاید اس کا وطن ایشیا کے پاس ہے جو یورپ کے ضمیر میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ اگر ایشیا کی تقدیس تھی تو روحانیت اور مذہب کے شعبوں میں لہٰذا اچانک ذہن ان ہی میدانوں کی طرف گیا۔ لیکن اگر ان دونوں شعبوں میں اولیت سے ارتقاء کی کلید مل سکتی ہے تو پھر ایشیا غلام ہی کیوں ہوتا اور اس کی پسماندگی ایسی عبرت ناک شکل کیوں اختیار کرتی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ روحانیت اور مذہب کی تشکیل نو اس اندوز سے ہو جو ان کے فرسودہ اور غلام بنانے والے عناصر کو خارج کر دے اور ان میں ارتقاء کی تڑپ اور زندگی کی توانائی بھر دے۔ یہاں یہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ اقبال اس مہم میں اکیلے نہ تھے۔ اس دور میں ایک طرف جمال الدین افغانی، دوسری طرف آر بندو گھوش اور رابندر ناتھ ٹیگور اپنے اپنے طریقے پر روحانیت او رمذہب کے مختلف عناصر کی تشکیل نو کر کے اس میں ارتقاء کی نئی توانائی کی کلید تلاش کر رہے تھے اقبال نے یہ کام اپنے ڈھنگ سے کیا اور اپنے فلسفیانہ ذہن سے سائنس اور مذہب کے درمیان ایک نیا توازن ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کی۔ عینیت پسند فلسفی: ایک نئے توازن کی نوعیت سے بحث کرنے سے قبل اقبال کی شخصیت کی طرف دوبارہ رجوع کرنا ضروری ہے۔ یورپ کے اقتصادی صنعتی اور فکر ی بحران سے جو فلسفی شاعر دو چار ہو اور کیسا فلسفی اور کیسا شاعر تھا۔ فلسفی کی حیثیت سے اس کا رشتہ عینیت پسندوں سے بہت گہرا تھا۔ اس کے ہاتھ میں خیال کا دامن تھا اور یہی خیال اور تصور اس کے نزدیک نت نئے روپ رنگ بدلتے تھے اور ارتقاء کی نئی نئی شکلیں اختیار کرتے تھے۔ ان میں سے ہر تصور ایسا تھا جو ہر قسم کی جامع و مانع تعریف کی سرحدوں سے آگے نکل جاتا تھا اور ان تصورات کی مجرد اور مطلق شکلیں مابعد الطبیعاتی اور روحانی رنگ اختیار کر سکتی تھیں۔ مادہ اگر کچھ تھا تو اس کو اولیت اور برتری حاصل نہ تھی۔ صداقت تصوراتی تھی اور تصورات مادے کی ساری کائنات سجائے ہوئے تھے۔ انہیں تصورات کی بساط پر روحانیت اور مذہب سجائے جا سکتے تھے اور اقبال کا پورا ماضی ان ہی پردوں میں بول سکتا تھا۔ شاعر ایسا جس کے نزدیک شاعری کا لفظ شعور سے مشتق تھا اور شاعری کے ذریعے گویا صرف اپنی تفہیم ہی نہیں بلکہ کائنات کی تفہیم مقصود تھی۔ ان راز ہائے سربستہ کی جستجو جو ضمیر کائنات میں چھپے ہوئے ہیں اور جن پر اسرار اصول و ضوابط کے ماتحت تاریخ کا سفر جاری رہا ہے شاعری ان کے نزدیک محض ان کی اپنی ذات کا سیاق و سباق نہ تھی۔ بلکہ ایک طرف پوری کائنات کے سر گم میں انسانی ذات کا عرفان تھی اور دوسری طرف دور عصر کی مکمل بصیرت اور دانش کا نہ صرف جزو بلکہ اس کی خالق اور صحت گر بھی تھی۔ شاعر کا کام محض اظہار نہ تھا بلکہ اپنے دور کی بصیرت میں تبدیلی پیدا کرنا تھا۔ ’’ مرا ذوق بصیرت عام کر دے‘‘ ان کی آرزو اور ’’ مردی دعا ہے تری آرزو بدل جائے‘‘ ان کی دعا تھی شاعری کا یہ لب و لہجہ اردو شاعری میں سرسید احمد خاں کی علی گڑھ تحریک آواز باز گشت کے نام سے بھی پہچانا جانا ہے جن کے زیر اثر شاعری سماجی اصلاح اور نئی آگہی کا ذریعہ بن گئی لیکن حالی اور شبلی کے ہاں جو شعری آہنگ وکٹورین اصلاح پسندی کے راستے سے آیا تھا اقبال کے ہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ رومانیت کا رنگ و آہنگ ہی نہیں رومانی سرمستی اور انانیت کی سرخوشی سے ہو کر گزر چکا تھا۔ رومانی لے: ہندوستان کے سیاق و سباق میں دیکھئے تو پہلی جنگ عظیم کے بعد کے دور میں ایک عجیب و غریب قسم کی رومانی سرمستی اور انانیت کا رواج ہوا تھا۔ یہ دور وہ ہے جب سجاد یلدرم، نیاز فتح پوری اور پریم چند کے افسانوں میں خلیق دہلوی اور رسالہ ’’ نقاد‘‘ آگرہ کے مضامین میں ادب لطیف کی نثر اور ابو الکلام آزاد کے خطبات میں انانیت کی لے اونچی تھی اور رومانیت کا رنگ چوکھا تھا۔ سیاست کے میدان میں یہ دور گاندھی داد کے عروج کا تھا جس نے پھر مذہب اور رومانیت کا سیاست سے پیوند کرنے کی کوشش کی تھی اور اجتماعی سیاست میں فرد کی اہمیت کی آواز بلند کی تھی۔ اتفاق سے یہی وہ دور ہے جب چورا چوری کی عوامی تحریک کے انقلابی رخ اختیار کرنے پر گاندھی جی نے گویا اسے ’’ اخلاقی‘‘ اسباب کی بنا پر واپس لے کر نوجوان کے ایک گروہ کو انارکزم اور Terrorism کی طرف مائل کر دیا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے فرد کو ایک عظیم الشان Gatalytic Agent محرک قوت کے رنگ میں دیکھا جو اپنے سے کہیں عظیم تر توانائی کی تحریک سے رکاوٹ کے بند کھول سکتا ہے اور ایک نئے سماج کو بنانے والی بے پناہ قوتوں کا درباز کر سکتا ہے۔ یہی وہ بات تھی جسے انقلابی سیاق و سباق کے ساتھ اس زمانے میں ماؤزے تنگ نے ان الفاظ میں ادا کیا کہ ایک چنگاری جنگل کی آگ کو شروع کر سکتی ہے۔ Aspark Can start apriarie fire قصہ مختصر یہ کہ رومانی آہنگ نے فرد کو ایک نئے رخ سے دیکھا اسے خلاصہ کائنات کا خلعت پہنایا گیا اور وہیں ہر قسم کے اجتماعی شعور اور عمل کا نقطہ آغاز ٹھہرا۔ اب زور ہیئت اجتماعی پر سے فرد پر منتقل ہونے لگا۔ سماج کی اصلاح کا وسیلہ بھی فرد کی انفرادگی زندگی کی اصلاح ہی قرار پائی۔ اس پس منظر میں اقبال کے مرد کامل یا مرد مومن کا جنم ہوا جس کا رشتہ نٹشے اور مولانا روم سے کہیں زیادہ اس دور کے ہندوستانی کے فکری جہت سے ہے۔ اس مرد کامل کی پرچھائیاں پریم چند کے ناولوں میں ملتی ہیں خصوصاً ’’ گوشہ عافیت‘‘ اور’’ چورگان ہستی‘‘ کے کرداروں میں جہاں سور داس اور بلدیو شنکر جیسے ایک فرد کی آواز پورے سماج میں گونجتی سنائی دیتی ہے اس امر کامل کی پرچھائیاں سردار بھگت سنگھ کے ساتھ پھانسی پائی ہیں اور دہشت پسندوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اقبال کے مرد کامل میں بہت کئی نقادوں نے آمریت اور فاشزم کی نشانیاں دیکھی ہیں لیکن دراصل شاعرانہ سطح پر اقبال اس تصور کے ماتحت سائنس اور مذہب کا نیا توازن قائم کرتے ہیں۔ سائنس سے وہ متجسس ذہن ہمہ وقت بے قرار مضطرب وجود اور ایک سر تاپا عمل انسان کا تصور لیتے ہیں جو ان کے نزدیک انسانی ارتقاء کے لئے ناگزیر ہے۔ ڈارون اور اقبال: ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی وہ فلسفیانہ توجیہہ جسے سامراجی دانش ور White Mans Burden سفید فام قوموں کے مقدس بوجھ اور پسماندہ اقوام کے استحصال کے جواز میں استعمال کر رہے تھے۔ اسے اقبال نے محکوم اقوام کے اندر حوصلہ اور تکمیل کا ارمان پیدا کرنے کے لئے برتا۔ یہ حربہ محکوم ہندوستان میں محض دفاعی حربہ نہ تھا بلکہ محکوم ایشیائی قوموں کے اندر جذبہ خود داری اور احساس انانیت کو پیدا کرنے کا وسیلہ تھا جس نے پہلی بار محکوم قوم کے لئے خود اعتمادی کا نور بکھیر دیا۔ قوت اور جبروت کا تذکرہ جب سامراجی اقوام کریں تو اس میں فاشزم کی کھنک ڈھونڈ نکالنا بے جا نہیں لیکن جب مجبور اور محکوم قومیں ان الفاظ کو استعمال کریں تو ان کا مفہوم سماجی انصاف اور جائز انسانی حقوق کے ذیل میں تلاش کرنا چاہیے کیوں کہ ان کی مراد دوسرے ملکوں پر قبضہ جمانا نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو دوسروں کے قبضے سے آزاد کرنا ہوتا ہے۔ ضمیر کی تلاش: سائنس سے اقبال نے قوت اور توانائی ، عمل اور جہد مسلسل کے معنی سیکھے لیکن یہ سبھی تصورات ضمیر سے بے نیاز تھے انہیں ضمیر فراہم کرنے کے لئے اقبال نے تہذیب کا سہارا لیا۔ خرد کی بے ضمیری ان کے لئے بھیانک تھی اس لئے اسے اخلاق سے منور کرنے کی ضرورت پیش آئی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے روحانیت کو رد کر کے مذہبیت کو اختیار کیا اور اس مذہبیت کا دائرہ بھی آخر آخر محض اسلام تک محدود ہو کر رہ گیا۔ روحانیت کا ماورائے مذہب یا فوق مذہبی تصور تصوف میں پنہاں تھا جسے اقبال نے رد کر دیا (گو میکش اکبر آبادی کے نزدیک آخر عمر میں وہ پھر تصوف مائل نظر آنے لگے تھے) تصوف کو رد کرنے کے اسباب کم وبیش وہی تھے جو تھیٹر اور مصوری کے رد کرنے کے تھے یعنی یہاں منصور کے پردے میں خدا بولتا ہے اور خود منصور کی شخصیت گم ہو جاتی ہے اور ہر وہ فن یا تصور جس میں شخصیت کی انفرادیت اور خودی کو گزند پہنچتی ہو اقبال کو پسند نہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے روحانیت کے مابعد الطبیعاتی تصور کو مذہب کے حق میں رد کر کے گویا مذہبی ماورائیت پر سائنس کے مرئی پن کی گرتہ لگا دی اور عقیدے کو عمل کے دائرے میں اسیر کر لیا۔ مذہب رسوم و قیود سے عبارت تھا عمل، فرائض اور کارکردگی کا تصور رکھتا تھا تصوف سپردگی تھا تو مذہب ضابطہ بندی اور اقبال کو ضابطہ اور عمل، تصور اور سپردگی سے عزیز تر تھے مگر یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے اقبال کے لئے ایسا مذہب صرف اسلام ہو سکتا تھا۔ کیونکہ اسلام ا ور عیسائیت سیاسی اور تاریخی اسباب سے اقبال کے لئے قابل قبول نہ تھی۔ لہٰذا اسلام ہی کے مذہبی پیرائے کو وہ اپنے لئے منتخب کر سکتے تھے (دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کا اسلام روائتی تصور مذہب سے مختلف ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری دائرے میں اسلام کے تصورات کو سمجھتے ہیں یہی کوشش ایک مختلف دور میں سرسید احمد خاں کی تھی اور چوں کہ وہ دور برطانوی حکومت اور مغربی فکر کے استحکام کا دور تھا لہٰذا اجتہاد اور توجیہہ کی کوشش انقلابی جہت سے محروم ہو کر ناکام رہی اس قسم کی کوشش گیتا کے سلسلے میں تلک نے کی تھی اور گیتا کو ایک عملی کتاب کی حیثیت سے تجدید تلک کی اپنی کوششوں سے ہوئی۔ تلک کی گیتا روایتی گیتا سے مختلف تھی یہی کیفیت اقبال کے تصور اسلام کی ہے اقبال نے اپنی فکر کے ذریعے توجیہہ کر کے اسلام کو اپنے نقطہ نظر سے پیش کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ (سید سلیمان ندوی سے ان کی خط و کتابت اور شبیر احمد خاں غوری کے مضامین کی روشنی میں روایتی تصور اور اقبال کے تصور اسلام کا فرق اور بھی واضح ہو گیا ہے) جرم ضعیفی اور آرزو مندیـ: اس بحث سے قطع نظر اقبال بے ضمیر سائنس (یا فرد) پر اخلاق اور مذہب (یا عشق) کیق دغن لگانا چاہتے ہیں کیونکہ اس قدغن کے بغیر قوت عمل بے لگام ہو سکتی ہے اور انسانی ترقی بے سمت و رفتار ہو کر مگری کا شکار بن سکتی ہے انسان کا سینہ آرزو کے نور سے منور نہ ہونا اقبال کے نزدیک جرم ہے اس سب سے بڑے جرم سے کچھ ہی کم جرم یہ ہے کہ اس آرزو مندی پر سماجی بہبودی اور اجتماعی فلاح کی حکمرانی نہ ہو۔ گویا فرد کی تکمیل اجتماعی آہنگ ہی کے ذریعے ممکن ہے اور اس کی بے راہ رویوں پر سماج کی بندش اور روح اجتماعی کی قدغن لازم ہے اس نظام اقدار میں ابلیس سائنس ہے اور فرشتہ مذہب، اقبال ان دونوں کے آمیز سے مرد مومن یا مرد کامل کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ فلسفی اقبال تصور پرست اور عینیت پسند تھا اور ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، قسم کے متعدد مصرعے لکھنے کے باوجود عینیت پرست اقبال کی نظریں سطح کے نیچے ابھرتے ہوئے آج کے کمزور اور کل کے طاقتور عناصر کو پوری طرح نہیں دیکھ پاتیں اس لئے اقبال لینن کو دیکھ سکے مگر اس نظام کو پوری طرح نہ پہچان سکے جو اجتماع کو ہیرو کی سی تاب ناکی عطا کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اقبال نے لینن کو بھی خدا کے حضور میں لے جا کر کھڑا کر دیا اور لینن کی زبان سے وہ بیان صفائی دلا دیا جو ایک طرح خود خالق کائنات کے خلاف فرد جرم کی حیثیت رکھتا ہے، مشرق کے خداوند سفید ان فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات دنیا اس طرح ظالموں نے آپس میں بانٹ لی اور اس کرۂ ارض پر اب ترے ان گنت بندوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی اس قسم کے شکوہ شکایت سے قطع نظر اقبال کی نظر جھوٹی جمہوریت کے صرف بوژوائی Alternative متبادل نظاموں ہی تک محدود رہی ان کی عینیت پسندی انہیں ان تاریخی قوتوں تک نہ لے جا سکی جو صرف ’’ دہریت اور لا مذہبیت‘‘ یا محض اقتصادی خوش حالی کے لئے نہیں بلکہ ایک بہتر اور بلند تہذیبی اقدار کی تشکیل کے لئے بر سر پیکار تھیں اسی لئے اس جھوٹی جمہوریت کے برخلاف جو یورپ میں مسلک و آئین بن چکی تھی اور نظام اقدار کو مرتب کر رہی تھی اقبال صرف فاشزم اور اسلامی جمہوریت ہی کو متبادل نظام کی حیثیت سے دیکھتے رہے اور اشتراکی نظام سے ہمدردی کے باوجود اس کے تہذیبی منشور اور ملحقات Implication کو انہوں نے گہرائی اور توجہ سے نہیں پرکھا کہ اس میں وہ امید پوشیدہ تھی جس کی تلاش وہ ماورائیت اور مذہب میں کر رہے تھے۔ اقبال نے امید، حوصلہ اور جستجو کی یہ ساری دنیا شاعری کے پردے پر آباد کی شاید اسے شاعری ہی کے پردے میں آباد کیا بھی جا سکتا تھا شاعری ہر حساس شاعر سے اس کی زیست کا جواز طلب کرتی ہے اور کائنات میں اس کی Terms of Reference شرائط وجود کے بارے میں پوچھ گچھ کرتی ہے فلسفے کے علاوہ شاید فنون لطیفہ بالعموم اور شاعری بالخصوص اپنے کو ابدیت سے مخاطب اور ہم کلام پاتی ہے عظیم اور اعلیٰ شاعر کی آواز وطن اور علاقے، زبان اور تہذیب حتیٰ کہ اس کے دور کی سرحدیں پار کرتی ہوئی اگلی نسلوں تک جا پہنچتی ہے اس ابدیت کے پانے کے لئے شاعر اپنے عصری مسائل میں بھی اپنے تجربے اور اظہار سے آفاقیت اور عمومیت پیدا کرتا ہے اس کا بنیادی موضوع بقول عرفی وہ ذرہ ہے جو کائنات کے بے کراں خلا میں عالم سرشاری میں رقص کر رہا ہے اور اپنی آستین پھیلا لینے بھر کی وسعت اور فراخی بھی نہیں پاتا۔ اقبال کی شاعری کا موضوع بھی یہی ذرہ ہے اسی لئے ان کی شاعری کی امیجری صحرا اور میدانوں گلشن اور شاہراہوں سے عبادت ہے بزم اور انجمن کی سجی ہوئی امیجری نہیں یہاں انسانی حسن سے زیادہ فطرت کا حسن تشبیہات اور استعارے فراہم کرتا ہے۔ اقبال شاید ہمارے پہلے شاعر ہیں جنگی شاعری انسانوں کے باہمی رشتوں کے بارے میں ہونے کے بجائے فطرت اور انسانوں کے باہمی رشتے کو معرض بحث میں لاتی ہے اسی لئے اقبال کی شاعری میں بڑے مسائل کی گونج ہے۔ وہ کلاسیکی جہت سے جو انسان کی فطرت سے نبرد آزمائی سے پیدا ہوتی ہے اسی منزل پر تو شب آفریدی چراغ آفریدم، کا آواز بلند ہو سکتا ہے یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک، کا ترانہ لب پر آ سکتا ہے اور ہمت مردانہ کو یزداں پر کمند ڈالنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ اقبال کی شاعری اس اعتبار سے کلاسیکی جہات Classical Dimensions کی شاعری ہے۔ اسی بنا پر جذبے اور عشق پر اتنا زور دینے کے باوجود اس شاعر کی وفاداری عقل و دانش سے زیادہ ہے جذبے اور عشق کے والہانہ پن سے کم۔ اس میں اس نئی آگہی کی چنگاری بار بار جھلک اٹھتی ہے جو فرد کو نئی اجتماعی قوت کی تابناکی بخشتی ہے اور انسان کے لئے لا انتہا امکانات کے دروازے کھولتی ہے۔ اقبال کی شاعری میں تمثال کا مطالعہ ڈاکٹر سید محمد عقیل اس مقالے میں مباحثے کا آغاز، تمثال (Image) کی ٹیکنیکل تعریف سے نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ امیج کی ٹیکنیکل تعریف نہ تو اس موقع پر امیج کے شعری حسن کو سمجھنے میں مدد دے گی اور نہ شعری امیج کی جو تصویر، پڑھنے والوں کے ذہن میں ابھرتی ہے۔ اس کے کینوس کا اندازہ کر سکتی ہے۔ امیج کو چاہے الفاظ سے بنتی ہوئی تصویر، مجاز اور کنائے کا ملغوبہ، استعاروں کی کشیدہ صورت جس میں زندگی کے محسوسات کی بنتی مٹتی تصویریں دیکھی جا سکیں۔ محاکات یا بقول ڈرائڈن (Dryden) شعری حیات کی معراج، جو چاہے کہہ لیا جائے، تاہم اس کے طریقہ استعمال اور ا سکے حسن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سی ڈے لیوس اور ییٹس (Yeats) نے اسے انوکھا پن، بصریت، ذہنی اپچ اور اس ذہنی اڑان سے تعبیر کیا ہے جو تصوف کے راستوں سے یا محسوسات کی بصری جلوہ گری کے ساتھ شعر میں رواں دواں ہو جاتی ہے۔ شعری فن میں تمثال کیا کیا صورتیں اختیار کرتی ہے، انہیں سمجھنے کے لئے ان تمام تجربوں سے گزرنا ہو گا، جنہیں نقادوں نے Gustatory سے لے کر متحرک (Kinaesthetic) تجربوں تک پھیلا رکھا ہے۔ اردو شاعری میں تمثال (Image) کا استعمال نیا نہیں لیکن اس کا ادراک یقینا بیسویں صدی میں نئے ڈھنگ سے کیا گیا ہے۔ میر سے غالب اور آتش تک اس کے استعمال کی صورت دوسری تھی لیکن حالی اور آزاد کے بعد جو ایک نئی ہوا، اردو کے رنگ محل میں داخل ہوئی۔ اس نے تمثال نگاری کو ایک نیا آئینہ دکھایا۔ بے حس اور مفروضات کے روایتی تجربوں سے حسی اور تجرباتی پیکروں کی طرف ذہن اور محسوسات کی باگ ہوڑی گئی جسے انگریزی رومانوی شاعری نے مثالیں فراہم کیں۔ اقبال کے دور عروج تک پہنچتے پہنچتے ان کی صورت صرف اکہری تھی جو فطرت کی سادگی اور زندگی کی اوپری سطح کو ہی چھوتی رہی۔ اور اس لئے اقبال کی ابتدائی شاعری میں یہی اکہری اور اوپری سطح والی تمثالیں ملتی ہیں۔ صرف انیس کی واحد مثال ہے جس نے اپنے مرثیوں میں شعوری طور پر حسی تمثالوں کا تجربہ کیا مگر مرثیوں کے باہر یہ تجربہ لکھنو میں بھی نہ کیا گیا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد زندگی کا جو ایک نیا ڈھانچہ وجود میں آیا اور ہندوستان ایک نئے ذہنی اور سماجی انقلاب سے دو چار ہوا۔ اس نے عام ذہن میں بھی ایک ہلچل مچا دی۔ انگریزی حکومت اور دستور زباں بندی نے اگر ایک طرف علامتوں کی افادیت کو واضح کیا تو دوسری طرف گفتگو کے دوسرے انداز سکھائے۔ اردو شاعری کے اس نئے دور میں اقبال پہلے شاعر ہیں جنہوں نے وقت کے چیلنج کو سب سے پہلے قبول کیا۔ شعری روایتوں کے لئے بھی او رنئے موضوعات کے ساتھ اس نئے انداز بیان کے لئے بھی جس نے اردو شاعری کے قدیم تجربے کو نیا شعوری انداز برتنے کی ترغیب دی۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا، اقبال کی ابتدائی شاعری میں یہ تمثال نگاری اکہری ہے۔ یہ سادگی کے ساتھ اس نبض کو پا لینے میں کوشاں ہے جسے تمثیلی او رکیٹس نے بصری اور حقیقی تمثالوں کی شکل دینے کے لئے اپنی رومانوی بغاوت کے اظہار کے لئے پیش کیا تھا جن کا سلسلہ ورڈز ورتھ بائرن اور سوین برن تک پھیلا ہوا تھا۔ یہی رومانوی شعراء تھے۔ جن کے خیالات، طرز اظہار اور شعری روایتوں کا اکثر اس وقت کے جدید شعراء لے رہے تھے۔ چنانچہ اقبال کے یہاں بانگ درا کی نظموں میں حسب ذیل تمثالیں عام ہیں: پانی کو چھو رہی ہے، جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے، روئے آب نیل چرخ نے بالی چرالی ہے عروس شام کی نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا لیکن جیسے ہی دھیرے دھیرے اقبال کی شاعری میں تفکر کا سماں چھانے لگتا ہے۔ یہ بصر کی تمثالیں، حسی، سماعی اور غیر مرئی ہونے لگتی ہیں جنہیں باطن کی آنکھ ہی متشکل کر سکتی ہے اور جنہیں کیٹس کی تمثالوں۔ 1. Beaded Bubbles Winking at the Brim. 2. Where youth grows specctor thin and Dies 3. Unravished Bride of Qauiteness سے لے کر شیلی کے Throns of Life اور Bright hair uplifted from the Head of Some Fierce maenad. کے قریب دیکھا جا سکتا ہے اقبال کی تمثالیں دھیرے دھیرے اسی فکری پس منظر سے ابھرتی ہیں۔ ہے رواں نجم سحر جیسے عبادت خانے سے سب کے پیچھے جائے کوئی عابد شب زندہ دار شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام لئے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام پروفیسر آئی اے رچرڈس، اپنی کتاب پرنسپلز آف کریٹی سیزم (Panicipales of Cirticism) میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ: ’’ حسی تمثالوں کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی گئی ہے لیکن جو چیز تمثال کو متاثر کن بناتی ہے وہ امیج کی حیثیت سے اس کی صفائی نہیں ہے بلکہ اس کے ایک ذہنی واقعہ ہونے کا کردار ہے۔ جو عجیب و غریب طریقہ سے محسوسات سے منسلک ہوتا ہے۔‘‘ اقبال کی ایسی حسی تمثالیں، ان کی نظموں اور مجموعی طور پر ان کی تمام شاعری میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ ایک آرزو، حقیقت حسن، کنار راوی، ماہ نو، نمود صبح، گورستان شاہی، محبت، ایک شام غرض کہ ایسی تمام نظموں میں انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے جو ذہنی واقعے سے دل کے نہاں خانوں تک اترتی چلی جاتی ہیں جیسے جیسے اقبال کی شاعری آگے بڑھی، سادی اور اکہری تمثالیں پیچھے چھوٹتی گئیں اور ان کی جگہ فکر و نظر سے بوجھل، متاثر کن اور حسیات سے تخلیق ہوئی تمثالیں، ان کی جگہ لیتی گئیں۔ فکر کی یہ آمیزش ذہنی واقعات کا پس منظر بن کر انہیں ایک نئے روپ میں جلوہ گر کرتی گئی۔ غیر مرئیت، ترغیب اور دلکشی کے سہارے، جس میں بعد کو تاریخیت شامل ہوتی رہی۔ اقبال کی شاعری اور خاص طور پر ان کی تمثالوں کے رگ و ریشے کی شکل اختیار کرتی گئی۔ ہندوستان کی فضا سیاسی نا آسودگی سے غبار آلود ہونے لگی تھی۔ بیرونی حکومت کا نتیجہ روز بروز سخت ہوتا جاتا تھا اور کھل کر باتیں کرنے کے مواقع محدود تھے۔ اظہاریت اور آزادی کا گلا گھٹ رہا تھا۔ زندگی کی طرف ایک حرکی اور عملی تصور رکھنے والے اقبال۔ ان محدود وسائل کے درمیان عجب کشمکش سے دو چار تھے۔ اس وقت مجرد جمالیات، بے عملی کی مترادف تھی اور یہ بے عملی، اقبال کے خیالات اور ولولوں کے لئے ستم قاتل۔ اس لئے انہوں نے اپنی تمثالوں کو مجرد جمالیات کی بے عملی سے دور رکھا اور ان میں فن کے ہموار راستوں سے وہ تحرک پیدا کیا جو ان کے سامعین کے ذوق جمال کو بھی آسودہ کرے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی اس ذہنی کشمکش کا ساتھ بھی دے سکے جو ہندوستان کی سیاسی فضا کے راستوں سے ہوتی ہوئی مسلمانوں کی بے عملی سے اسلام کی تاریخی حرکت اور عمل کی زندگی کو متشکل کر سکے۔ نتیجے کے طور پر ان کی تمثالوں، تشبیہات اور استعاروں سب میں حرکت اور عمل کا رنگ چڑھتا اترتا نظر آتا ہے۔ وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل میں صورت گل، دست صبا کا نہیں محتاج کرتا ہے مرا جوش جنوں، میری قبا چاک زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اڑ گیا وہ حکومت شام صحرا میں غروب آفتاب جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل جبرئیل امین خدا کا پیام لانے والے، اقبال کی نظر میں حرکت و عمل کی علامت ہیں اور خلیل اور جمہ پیمبران الٰہی، ایسے با عمل بندے جن کی تمام تر زندگی جدوجہد اور حرکت و عمل کے درمیان گزری۔ غروب آفتاب کو دیکھ کر حضرت ابراہیم کے دل میں جو اپنے پہلے تصور سے ایک نئی تبدیلی آئی اور جس نے انہیں ایمان کی صحیح منزل تک پہنچایا۔ یہ حسی تصویریں، اقبال کے اس ایمانی اور تاریخی بصیرت کو نمایاں کرتی ہیں جسے وہ چشم باطن سے عقیدے کی روایتی سطح تک لا کر پیش کر دیتے تھے۔ حیات انسانی کا طائر جو تھوڑی دیر کے لئے زندگی کی شاخ پر چہچہا کر اڑ جاتا ہے۔ اقبال کی نظر میں زندگی کی بے ثباتی نہیں بلکہ حرکت و عمل اور تسلسل حیات کا مظہر ہے جسے اقبال نے کہیں، نقطہ ذوق پرواز ہے زندگی، اور کہیں گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے، یا دو قدم پر پھر وہی جو مثل تارسیم ہے، کہہ کر ظاہر کیا ہے۔ ساقی نامہ، کے ابتدائی اشعار ایسی تمثالوں کو بڑی اچھی طرح پیش کرتے ہیں، جن سے ان کی ظاہری حرکت اور عمل کی رونمائی نہیںہوتی بلکہ ان سے اس گہرائی کا پتہ چلتا ہے جس نے راز حیات پا لیا ہے اور جو اپنی حرکت اور اپنے عمل سے ذہن کی اس رندھی ہوئی فضا کو ایک فرحناکی کا احساس دلا سکتی ہے۔ جس طرح مہاتما گوتم بدھ کو نروان حاصل ہو جانے کے بعد، ان پر زندگی کا راز آشکارا ہو جاتا ہے، اسی طرح اقبال، حرکت اور عمل کا راز دریافت کر کے قوموں کے عروج و زوال کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور یہی ان کے فلسفہ خودی سے فلسفہ حرکت و عمل تک ان کے ذہن کو رواں کر دیتا ہے۔ اقبال مہاتما نہ تھے مگر ساقی نامہ میں جو ذہنی مسرت کی تصویر بنتی ہے۔ وہ یقینا اس راز کو پا لینے کی تصویر ہے۔ کوئی چاہے تو اسے مغرب میں جو نیا انقلاب سوشلسٹ انقلاب کے نام سے آیا تھا، اس سے بھی ساقی نامہ کی مسرت کو منسلک کر سکتا ہے جسے ذہنی فضا کی تبدیلی سے سیاسی فضا کے بدلنے کے امکانات تک پھیلا یا جا سکتا ہے کچھ بھی ہو لیکن ساقی نامہ کی فضا اور اس کی تمثالیں ایک فرحنا کی کے احساس کی تصویریں ہیں۔ فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی پلا ساقیا وہ مئے پردہ سوز کہ آتی نہیں فصل گل روز روز میرے خیال میں یہ اسی راز کو پا لینے کی مسرت ہے جسے فصل گل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اقبال کا ذہن جو خضر راہ میں حالات کو ایک نقطہ پر مرکوز کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اسی کو حالات ایک نئے راستے کی طرف گام زن کرتے ہیں۔ اور ان حالات میں یہ بات، بڑی فطری بات تھی۔ سوشلسٹ انقلابی، ایک ذہنی انقلاب بھی تھا اور مادی بھی۔ اقبال مادیت کے حامی نہ تھے، اگرچہ عالم امکان میں بنیادی تبدیلیاں بغیر مادی انقلاب کے ممکن نہیں۔ لیکن اقبال روحانیت کے راستوں سے ذہنی انقلاب کا خیر مقدم کر کے قوموں کو تاریخ اور وقت کی مدد سے عروج و زوال کی منزل سے گزارتے ہیں اور اس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ ہر عروج و زوال مادی انقلاب ہی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ وقت انسان کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہے اور وقت کی مدد سے ہندوستانیوں کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اس جال کو توڑ کر آگے بڑھنا چاہئے جس میں وہ ایک مدت سے اسیر ہیں۔ اس نئے نکتے کی ترسیل کے لئے وہ نئے استعارے نئی تمثالیں اور علامتیں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ اس پر بحث کی جائے کہ اقبال کا تخاطب مسلم عوام سے تھا یا مسلمانوں کے مرفہ المحال طبقہ سے؟ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے ذہن میں مرفہ الحال طبقہ ہی تھا اگرچہ باتیں وہ اسلام کے عوامی کردار کی ہی کیا کرتے تھے۔ وہ عوامی انقلاب کو مشروط ذہنی رویے اور طبقاتی نظام کے ساتھ دیکھتے تھے جو مرد مومن کے کردار اور اس کی قوت ایمانی سے آئے گا۔ متحدہ عوامی طاقت جس کے ساتھ اسلام کو فروغ ہوا تھا۔ جو اخوت، اتحاد اور عربوں کے عام مسائل کی شیرازہ بندی کر کے، رومن امپائر اور یہودیوں کی آمریت اور اشرافیہ کے خلاف اس وقت کے ایک غیر طبقاتی نظام کے عملی اور خرکی کردار اور تصور کے ساتھ آگے بڑھا تھا، اقبال شاید اس قوت کو معرض بحث میں نہیں لانا چاہتے تھے۔ وہ اشرافیہ و دانشوروں کی مدد ہی سے یہ ذہنی انقلاب لانا چاہتے تھے جو ان کے خیال میں اسلامی نظریات کی پابندی سے ایک عوامی اسلامی انقلاب بن جائے گا کیونکہ اشرافیہ اور ان کے دانشوروں کا طبقہ ہی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جب یہ طبقہ اسلامی نقطہ نظر کو اپنا کرا بدلتے ہوئے وقت اور تاریخ میں آتی ہوئی تبدیلی کے سر رشتے کو گرفت میں لے لے گا۔ تب مسلمان ایک نئی طاقت بن کر اپنی عظمت رفتہ کو پھر پا سکے گا اور پھر یہ اشرافیہ اور دانشوروں کے ہاتھوں لایا ہوا انقلاب عوامی انقلاب بن جائے گا۔ اقبال اپنی اس طرز فکر میں زیادہ غلط بھی نہ تھے کیونکہ اس وقت ہندوستان سیاست، تمام و کمال بورژ واثری کے ہاتھوں میں تھی۔ ان تمام محسوسات اور کیفیات کا اظہار انہوں نے جب اپنی شاعری میں تمثالوں کے سہارے سے کیا ، تو ان کی ان تصویروں میں ان کے اس ذہنی تجزیے کی باز گشت ملتی ہے جنہیں حقیقتوں کی جھلکیوں کے ساتھ، جذبات کی نیز اور مشت پہل شعاعی کرنوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جو کبھی کبھی پیمبرانہ شان سے جلوہ گر ہوتی ہیں او رجن میں اس وقت کی ملکی سیاست کے متحرک ذہن کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ شفق نہیں مغربی افق، پر یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے طلوع فردا کا منتظر رہ کہ وش و امروز ہے فسانہ ٭٭٭ نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں ہے سحر کا آسماں، خورشید سے مینا بدوش ٭٭٭ آہ مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا آسماں سے ابر آزاری اٹھا، برسا گیا مغرب کے افق پر جو سرخی شفق نمایاں ہے۔ یعنی مغربی خوشحالی، دراصل وہ ان کی موت کا پیغام ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے جادو کا انتظار کرتے رہنا چاہیے۔ حوکل ایک نئی زندگی، نیا راستہ اور ایک نیا موقع، مشرقیوں کے لیے فراہم کرے گا۔ صبح کا آسمان جو نئے آفتاب کا مینا، اپنے کاندھے پر رکھے چلا آ رہا ہے۔ وہ ہندوستان کے محکوموں کی زندگی میں ایک نئے روز کا آغاز کر رہا ہے۔ اس میں ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ یہ موقع خاموش بیٹھنے کا نہیں۔ ایسی ایسی متعدد خوبصورت مثالیں، اقبال کی ہر اچھی نظم میں موجود ہیں جو ان کی سیاسی فکر و نظر کی تہوں کو کھولتی ہیں۔ جنہیں خضر راہ، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق اور ارمغان حجاز کی اچھی نظموں میں اقبال کی استادانہ صلاحیتوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ چند خوب صورت تمثالیں حسب ذیل اشعار میں ملاحظہ ہوں: دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری ٭٭٭ آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک ٭٭٭ آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا ٭٭٭ جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں ساقی نامہ اور بہت سی دوسری نظمیں اقبال کے تصور خودی کے تحت وجود میں آئی ہیں۔ انسان کی زندگی میں بنیادی بات حصول خودی ہے۔ خودی حاصل کر لینے کے بعد ہی زندگی کے مقاصد اور امکانات میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور حرکت و عمل کا صحیح مصرف ہو سکتا ہے اور انسان کی کامرانیوں کو ابدیت حاصل ہو سکے گی۔ انسان کی کامیابیاں اور کامرانیاں اپنی بلندی تک نہ پہنچ سکتیں اگر خودی کا سبق انہیں از بر نہ ہوتا۔ خودی چونکہ ایک متحرک کیفیت یا جذبہ ہے، اس لئے وہ کسی نہ کسی سمت میں رواں دواں رہتا ہے کہا جاتا ہے کہ خودی کا تصور اقبال کے ذہن میں ایک مجہول قسم کے تصوف کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کے لئے پیدا ہوا تھا جس نے مسلمانوں کی زندگی کو بے عملی اور مجہولیت کا شکار بنا رکھا تھا۔ اقبال کے کلام میں مولویوں، پیروں اور پیری مریدی کی رسم سے دور کر کے خانقاہوں میں لا بٹھانے کی سازش کر رکھی ہے وحدت الوجود جس کا محور Pantheism ہے، اس نے مسلمانوں سے عملی صلاحیتوں کو سلب کر لیا ہے اور اس طرح مسلمان حادثات زمانہ اور ا س کے بدلتے ہوئے کردار سے بے نیاز ہو کر چند مفروضات، تاویلات، نجات یا وسیلہ نجات کو مقصد حیات بنا کر، زندگی کے اس تیز رو دھارے سے کٹ گئے ہیں جو قوموں کی تقدیریں بدلتے ہیں۔ مسلمانوں نے اسلام کا مقصد صرف نجات کی تلاش کو سمجھ لیا ہے صوفیوں کا یہ تصور کہ زندگی محض دھوکہ ہے فریب ہے، اسلام کے بنیادی تصورات سے مسلمانوں کو بہت دور لے جاتا ہے۔ یہ تصور کہیں اشراقیوں اور جوگیوں کے تصورات سے ہوتا ہوا بدھ مت کے آخری دور کے ٹھہرے ہوئے سماج کے قریب پہنچتا ہے اور اس طرح اسلام کے اس بنیادی تصور سے دور ہو جاتا ہے جس نے لا رہبانیت فی الاسلام کا سبق پڑھایا تھا۔ اقبال نے خودی کو اسی مجہولیت کے خلاف صف آرا کیا۔ ملا اور بہشت ابو العلا معری، پنجاب کے پیرزادوں سے ابلیس کی مجلس شوریٰ، سے جواب خضر، ساقی نامہ اور ضرب کلیم کی نظموں تک کا تجزیہ اقبال کے اس مزاج اور اس کوشش کے سمجھنے میں مدد دے گا۔ خودی کی مدد سے اقبال زندگی میں حرکت پیدا کرنے اسے میدان عمل میں لانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ عمل کے بغیر، انسانیت کی ہمہ جہتی کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔ پھر جان اور تسلیم جاں کسی چیز کے تجربے نہیں ہو سکتے انسان ایک لا یعنی اور بے مصرف ذی روح ہو کر رہ جائے گا جو کہ منشائے قدرت کے بھی خلاف ہے اور انسانی ارتقاء کی تاریخ کا انکار بھی۔ خودی کی آگہی انسان کو مقصد اور عمل کے بے کنار سمندر سے آشنا کرتی ہے اور زندگی کی اس درخشندگی کو بروئے کار آنے کا موقع دیتی ہے جو انسان کے بطون میں کہیں سوئی ہوئی پڑی ہے جس کے بغیر، انسان تاریخ وقت، حیات اور کار زار حیات کی حشر سامانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مندرجہ ذیل تمثالیں خودی کی اس صلاحیت کو متشکل کرتی ہیں۔ زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں اور نہ صرف متشکل کرتی ہیں بلکہ خودی کی اس اندرونی طاقت کا احساس دلاتی ہیں جو دنیا کی ہر مشکل کا حل ہو سکتی ہے اور اس طرح یہ تمثالیں اندرون سے شعر کی بیرونی سطح پر آ کر ایک مکمل حرکی تصویر اس طرح پیش کر دیتی ہیں، جو اقبال کے فلسفہ عمل کو وقت کی موجوں سے ہمکنار کرتی ہیں۔ سفر، اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے ’’ سفر‘‘ پر زور دے کر اس تمثال کو مکمل متحرک امیج بنا کر پیش کیا گیا ہے جو ذہنی تمثال (Mental Image) سے انسانی ہیولیٰ اختیار کر لیتی ہے بقول ایذرا پاؤنڈ: Image is not a Pictorial Representation but at that which presents an Intellectual and Emotional Complex in an Instant of time a Varification of Desparate Ideas. ایذرا پاؤنڈ کا یہ تصور ممکن ہے کہ ہر جگہ مفید ثابت نہ ہو مگر اقبال کے لئے اس تصور میں بڑی جان ہے اور ان کے مندرجہ ذیل اشعار، ایذرا پاؤنڈ کے خیال کی سچی تصویریں پیش کرتے ہیں جن کی تصویریں، اثر انگیزی سے تاریخ، وقت اور ماضی سے مستقبل تک کی جھلکیاں اپنے ساتھ سموئے ہوئے ہیں۔ اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن، ساحل سے نہ ٹکرائی ٭٭٭ بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہو راہی تو منزل ہے کہاں تیری، اے لالہ صحرائی ٭٭٭ جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ ٭٭٭ رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے یہ تمثالیں یقینا دانشوری آگہی اور جذبات کا آمیزہ ہیں جس میں ہر طرف کوشش ناتمام کے افسردہ چہرے جھانکتے نظر آتے ہیں۔ اقبال پر اسلام کی عظمت رفتہ کا بڑا اثر تھا۔ اسلام کا ماضی، اپنی کامرانیوں کی داستان کے ساتھ ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتا۔ وہ اسلام کو انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور اس طرح اس کے نشاۃ الثانیہ کا خواب دیکھا کرتے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اپنے اس خیال میں وہ کہاں تک صحیح تھے لیکن اسلام نے اپنے عہد میں جو ایک ٹھہرے ہوئے سماج میں ذہنی اور سماجی انقلاب لا کر عربوں کی زندگی میں ایک شور نشور برپا کیا تھا، اس نے دور ظلمت میں انسانوں کی زندگی میں روشنی کی کرنیں بکھیر دی تھیں۔ غلامی بربریت اور مفلوک الحال عربوں کو جس استحصال سے اسلام نے نجات دلائی تھی۔ اس کا جلوہ متمدن دنیا کو بہت بعد میں نظر آیا۔ سرمایہ پرستی اور اس دور کی مہاجنی تہذیب جس میں یہودیوں اور رومتہ الکبریٰ کی شہنشاہیت کو سربلندی حاصل تھی جس نے انسانوں کو فرقہ بندی نسلی تفاخر، پیدائشی استحقاق اور جنگ زرگری میں گرفتار کر رکھا تھا۔ اس نئے تصور حیات نے اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔ انسانی قدروں کا پاس کردار کی استقامت اور تقویٰ یہ وہ معیار تھے جن کی وجہ سے انسان سر بلند ہوتاہے نسلی افتخار، سرمایہ اندوزی اور تخت شاہی کو ٹھوکریں مار کر اسلام عامتہ الناس کے ساتھ آگے بڑھا اور رسول اسلام نے الفقر فخری کہہ کر اس وقت کے سرمایہ دارانہ نظام پر ایسی ضرب کاری لگائی جس کی وجہ سے سرمایہ پرستوں کی صفوں میں انتشار پھیل گیا اور شاہی کی قبا تار تار ہو گئی۔ عامتہ الناس ایک مرکز پر سمٹ آئے جس میں اخوت، ایک رسول پر ایمان اور ایک خدا پر یقین نے جادو کی چھڑی کا کام کیا۔ یہی یقین محکم اقبال کی نظر میں نور ایمان ہے۔ زندگی بھر اقبال اسی اخوت، اسی نور ایمان اور انہیں مردان حق کو تلاش کرتے رہے۔ جسے کچھ لوگوں نے اقبال کی حقیقت اور سچ کی تلاش کے بجائے ان کے احیائے اسلام (Revivalism) کی تحریک سے تعبیر کیا ہے۔ اسی وجہ سے اقبال مردان حق کے گرویدہ نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی عظمت کی توسیع و تشبیہہ کی یہ نکتہ قابل غور ہے کہ مردان حق کی کوششیں شاہی کی فتوحات سے الگ ہیں۔ مسلمانوں میں شاہی کا تصور، بنی امیہ کے ساتھ آیا۔ اولیٰ الا مرمنکم کو شاہی کے ساتھ خلط ملط کرنا، اسلام کی اسپرٹ سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اقبال نے شاہی اور طاقت کے جبری تصور کی تقریباً ہر جگہ نکتہ چینی کی ہے اسکندر و تیمور کی حرکات اور نشہ قوت کو اسی لئے خطرناک بتایا ہے اور حاملان خلق عظیم و صاحبان صدق و یقین کو اس لئے سراہا ہے کہ وہ سلطنت اہل دل کے قائل ہیں شاہی کے قائل نہیں۔ اقبال کی تمام اچھی نظموں میں اسی عظمت رفتہ کی ہاد دل میں چٹکیاں لیتی نظر آتی ہے جس میں ان کے جذبات، تاریخیت اور وقت انقلابی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ڈوبتے ابھرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی علامتوں کی شکل میں، کبھی تاریخی کامرانیوں کی صورت میں اور کبھی خوب صورت تمثالوں کی شکل میں جن پر اسلامی روایات محاریات، عظمت رفتہ اور حق الیقین کا سونا چڑھا ہوا ہے۔ اقبال ایسی تمثالوں کی تخلیق میں تقریباً تمام اردو شعراء کو اپنے بہت پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ مسجد قرطبہ، ذوق و شوق اور خضر راہ میں شاعر، ایسی امیجز کی تخلیق میں دنیائے ادب کی شعری بلندیوں کو چھوتا ہوا آتا ہے۔ آب رواں کبیر، تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور تیرا منار بلند جلوہ گہہ جبرئیل پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری، باد سحر میں آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں کیا نہیں اور غزنوی کار گہہ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر، دیر و حرم کے سومنات اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ان مثالوں میں بصری (Visuae) صوتی و بصری (Audo-Visue) تاریخی، حسی اور جمالیاتی Synaesthetic اور حرکی (Kinetic) غرض کہ تمام طرح کی امیجز دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہیں۔ مسجد قرطبہ میں شاعر ایک خوبصورت بصری اور حسی امیج کے ساتھ نظم کو بلندی سے نیچے اتارتا ہے اگرچہ نظم کا تاثر اس عمل میں اور بلند ہو جاتا ہے۔ وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر، چھوڑ گیا آفتاب سادہ پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب پہلا شعر سامع کو عربوں کے اس شاندار ماضی میں لے جاتا ہے جہاں انہوں نے سر زمین اندلس پر اپنی تہذیب کے صد ہا نقوش چھوڑے ہیں۔ لعل بدخشاں کے الفاظ ذہن کو اس طرف موڑنے میں بڑی مدد کرتے ہیں۔ اس تہذیب کی طرف بھی اور اس تہذیب کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے اور احترام کے لئے بھی۔ غروب آفتاب کا منظر، غروب عظمت کی تاریخی فضا کو ذہن میں اجاگر کر دیتا ہے۔ سادہ و پر سوز گیت میں عربوں کی سادہ زندگی کا رباب بجتا نظر آتا ہے اور سوز، اس سوز دروں کا مظہر بن جاتاہے جس سے ابتدائی مسلمان سرشار تھے۔ کوئی چاہے تو اسے سوز ایمان تک پھیلا سکتا ہے۔ ان اشعار کو پڑھتے وقت ذہن اکثر ورڈ سورتھ کی مشہور نظم Reoper Solitary کی طرف جاتا ہے اور اس نظم کے ان اشعار کی گونج ذہن کی فضا میں سنائی پڑتی ہے۔ Alone she cuts and binds the Grain and sings a Mealancholy Stain. اور کوئی چاہے تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب میں اقبال کا وہ پر سوز نغمہ بھی شامل ہے جو اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ سے شاعر کے اشعارمیں ابھرا ہے ۔ جو نظم کا اختتام بھی ہے اور وقت کی طاقت کا محاسبہ بھی۔ وقت جو اقبال کی نظر میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ٭٭٭ اقبال مغربی خاور شناسوں کی نظر میں جگن ناتھ آزاد اقبال نے مغرب، مغربی علوم و فنون اور مغربی تہذیب کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اسے اقبال کے نقادوں نے اکثر بحث و تمحیص کا موضوع بنایا ہے لیکن یورپ اور امریکا کے مستشرقین نے جو کچھ اقبال کے بارے میں کہا اس پر ابھی پوری طرح سے توجہ نہیں دی گئی حالانکہ یہ موضوع بھی اقبالیات کے تعلق سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ میں اپنے عزیز دوست محمد یوسف ٹینگ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے یہ خدمت میرے سپرد کی۔ 1؎ یوں تو اقبال کے فکر و فن نے ایک بڑی تعداد میں مستشرقین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جن میں آرتھر آربری، ٹامس آرنلڈ، آر اے نکلسن، سورئیل، وہائیٹ ہیڈ، میکٹگرٹ ایچ آر اے گب، گراہم ہیلی، ای جی براؤن، کانٹ ویل اسمتھ، وکٹر کرنین، جے سی روم، ایڈورڈ ٹامسن، وشل بروک ولیمز، الفریڈ گیلام، اومالے، جی ای گرنے بام، رچرڈ سائمنڈس، جے اے ہے وڈ اور رابرٹ وہٹ مور (انگلستان)، اینے میری شمل، حییٹ، الساربش بنیٹڈر، جے، ڈبلیو، فک، برنڈ مینویل ویسچر اور پروفیسر ہیل (جرمنی)، لیوسی کلاد میترے، ہینری ماسے اور ایوا میو رو وچ (فرانس)، آرتھر جیفری، ایساندر بسانی اور ایم نالینو (اٹلی)، یان ماریک (چیکو سلوواکیہ) بابا جان غفور وف، مس ایم ٹی اسٹپینیس، گورڈن پلونوسکایا، این آئی پری گارینا اور این پی اینکی لیپو (روس) ولیم اوڈگلس، مسز لنڈامک، فری لینڈ ایبٹ، شیلا میک ڈونو اور مارگن کینتھ (امریکہ) خاص طور سے قابل ذکر ہیں لیکن میرے نزدیک ٹامس آرنلڈ کا نام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس نے اقبال کے زمانہ طالب علمی ہی میں اقبال کے جوہر اقبال کو پہچان لیا تھا اور اس کے بارے میں یہ کہا تھا کہ اقبال ایسا طالب علم استاد کو محقق اور محقق کو زیادہ بہتر محقق بنا دیتا ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب اقبال ابھی گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور اس وقت تک نہ اقبال خود یورپ پہنچ کر خاور شناسوںکے سامنے آئے تھے اور نہ ہی ان کا کلام یورپ تک پہنچا تھا۔ خاور شناسوں کی مذکورہ فہرست میں تینتالیس مصنفین کے نام ہیں اور ممکن ہے یہ فہرست نا مکمل ہی ہو کیونکہ ایک تو یہاں ناموں کی فہرست پیش کرنا میرا مقصد نہیں۔ دوسرا مجھے اس بات کا دعویٰ بھی نہیں کہ میں ہر اس مغربی خاور شناس کے نام سے آشنا ہوں جس کی تحریروں میں اقبال کا ذکر آیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی تصویر کا دوسرا پہلو 1؎ یہ عنوان جموں و کشمیر کلچرل اکیڈمی کی طرف سے دیا گیا اور مقالہ اکیڈیمی کی دعوت پر اقبال سیمینار (جموں) میں ۱۰ مارچ ۱۹۷۷ء کو پڑھا گیا۔ یہ بھی ہے کہ ان تمام کے تمام اہل قلم نے اقبال پر اس خیال سے قلم نہیں اٹھایا کہ وہ اقبال کی شاعری یا فلسفے کا تجزیہ کریں یا اس پر بحث کریں بلکہ بعض نے تو محض سیاسی موضوع پر لکھتے وقت اقبال ہی کے سیاسی بیانات یا تقریروں یا خطوط یا ملاقاتوں ہی کا ذکر کرنا کافی سمجھا ہے مثلاً ایڈورڈ ٹامسن یا رچرڈ سائمنڈس۔ ان اہل قلم میں جنہوں نے اقبال کے کلام اور نثر کا بغور اور بالا ستیعاب مطالعہ کیا ہے اولیت کا حامل نام پروفیسر آر اے نکلسن کا ہے جنہوں نے ۱۹۲۰ء میں اقبال کی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ دراصل یہی ترجمہ اول اول مغرب میں اقبال کی شہرت کا سنگ بنیاد بنا۔ اس وقت تک اقبال کے کلام کا نہ تو کوئی انگریزی ترجمہ ہوا تھا اور نہ ہی انگریزی میں کوئی قابل ذکر مقالہ یا کتاب اقبال کے متعلق شائع ہوئی تھی۔ نواب مالیر کوٹلہ کے بھائی نواب سر ذوالفقار علی خاں کے ٹی سی ایس آئی کی اقبال کے متعلق کتاب ’’ A Voice from the East‘‘ جس نے اقبال کا مغرب میں مزید تعارف کرایا۔ دو برس بعد ۱۹۲۲ء میں شائع ہوئی۔ نکلسن کا یہ ترجمہ نکلسن کی اقبالیات اور اسلامیات سے غیر معمولی دلچسپی کا آئینہ دار ہے۔ اگرچہ اس میں کہیں کہیں ترجمے کی اغلاط موجود ہیں لیکن اس سے نکلسن کے کام کی عظمت پر حرف نہیں آتا۔ خواجہ غلام السیدین اس ضمن میں نکلسن کی ایک غلطی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ـ ’’ میں نے علامہ مرحوم کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی کہ نکلسن نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے ترجمے میں ’’ صورت طفلاں زنے مرکب کنی‘‘ کو غلط پڑھ کر بجائے نے کا ترجمہ Reed کرنے کے ’’ ز‘‘ کو اس کے ساتھ ملا کر ’’ زنے‘‘ پڑھا تھا اور اس کا ترجمہ ’’ Woman‘‘ کیا تھا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی سیدین صاحب لکھتے ہیں: ’’ یہ ہیں ہمارے بہترین مستشرقین!‘‘ نکلسن کی مذکورہ غلطی کے متعلق میں سیدین صاحب سے متفق ہونے کے باوجود ان کی اس طنزیہ رائے میں ان کا ہم خیال نہیں ہوں کہ ’’ یہ ہیں ہمارے بہترین مستشرقین! نکلسن یقینا ہمارے بہترین مستشرقین میں سے ہیں اور اس قسم کے کسی سہو کی نشان دہی کر کے نکلسن کے سارے کام پر پانی پھیر دینا کوئی مستحسن بات نہیں۔ جہاں تک اس ترجمے کا تعلق ہے اس میں اغلاط اور بھی ہیں اور ان اغلاط کی اصلاح خود علامہ اقبال نے کی لیکن ان اغلاط کے باوجود نکلسن کے ترجمے کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ بڑی بات یہ ہے کہ نکلسن نے اپنی کسی غلطی پر اصرار نہیں کیا اور علامہ اقبال کے تصحیح کردہ ترجمے کی بنا ء پر اپنے ترجمے میں اصلاح کی اور ان تصحیحات کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۰ء میں لاہور سے شائع ہوا۔‘‘ یہاں اس دوسرے ایڈیشن کی داستان کا ذکر ضروری تو نہیں لیکن چونکہ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ میں آرتھر آربری کے الفاظ میں آپ کو سناؤں۔ آرتھر بری ’’Asrar-I- Khudi‘‘ Notes on Iqbal's میں لکھتے ہیں: After Professor R.A. Nicholson's death in 1945, his library was sold to a well known Cambrdge Book seller. As i was looking through the Volumes offered to the Public, I Chanced upon a copy of his translation of Iqbal's Asrar-i-Khudi in the first edition (london, 1920) and was immediately interested to observe that this copy was heavily corrected and annotated, in a hand other than the translator's on Studying the character of the noted, it seemed likely to me that these (and of course the corrections) emanated from no other than sir Mohammad Iqbal himself. This supposition was strengthened when i found a few lines of dedication in a copy of one of his publications which he had sent as a present to prefessor Nicholoson. Probability at last became a certainty when i showed the book to Mr. Javid Iqbal who is at present studying with me in Cambridge he confirmed that the corrections and annotations were indeed in the hand-writing of his revered father. اس کے بعد اقبال کا نیا فارسی مجموعہ کلام شائع ہوا تو رینالڈ اے نکلسن نے ایک طویل مقالے کی صور ت میں اس پر تبصرہ کیا۔ اس مقالے میں پہلے تو نکلسن نے ان الفاظ میں اقبال کی دونوں مثنویوں ’’ اسرار خودی‘‘ اور’’ رموز بیخودی‘‘ کا جائزہ لیا: He regards reality as a process of becoming, not as an eternal state. the templa serana of the absolute find no place in his scheme of things: all in in flux. his universe is an assocition of individuals headed by the most unique individual, i.e God. their life consists in the formation and sultivation of personality. the Perfect man not only absorbs the world of matter by mastering it he absorbs God him self in to his ego by assimilating Divine attributes. Hence the essence of life is love, which in its highest from is the creation of desires and ideals, and the endevour to realise them. Desires are good or bad according as they strengthen or weaken personality, and all values must be determined by this standard. بیان اس امر کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ نکلسن کی یہ تحریر ۱۹۲۴ء کی ہے جب کہ اقبال کی نثری تصنیف۔۔۔۔Reconstruction of Religious Thought in Islam ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی تھی Reconstruction of Religious Thought in Islam میں تو اقبال نے اپنے فلسفے کو ایک مربوط صورت دی ہے لیکن محض اسرار خودی، رموز بیخودی اور پیام مشرق کے مطالعے سے اقبال کے فلسفہ خودی، نظریہ خدا اور اس کے زمان و مکاں کے تصور کو اس غیر مبہم، سلجھے ہوئے اور سریع الفہم انداز بیان میں پیش کر دینا ایک معجزے سے کم نہیں۔ اس کے بعد نیٹشے اور برگسان کے ساتھ اقبال کے ذہنی قرب و بعد کا ذکر کرتے ہوئے نکلسن نے اپنی خلش دل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: The affinities with Neitzsche and Bergson need not be emphasised. it is less clear, howevery, why Iqbal indentifies his ideal society with Mohammas' s Conception of Islam, or why membership of the society should be a previlege reserved for muslims. here the religious enthusiat seems to have knocked out the philosopher-a result which logically wrong but poetically right. ہم میں سے اکثر نکلسن کی اس رائے کے ساتھ متفق ہوں یا نہ ہوں یہ ایک حقیقت ہے کہ نکلسن نے اقبال کے جن خیالات پر کسی قدر اظہار حیرت کیا ہے وہ آج بھی اقبال کے نظام فکر میں اقبال کے اکثر نقادوں اور مداحوں کے لیے ایک امر متنازعہ فیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال کے یہ خیالات اکثر مستشرقین کے لیے ہمیشہ ایک سوالیہ علامت کی صورت میں رہے اور کسی نہ کسی طرح مستشرقین اس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے گراہم بیلی A History of urdu Literature (1932)میں لکھتے ہیں: He sings the praises of muslim achievement, for he is not a national but a muslim patriot, one who has imbibed some of the culture of west, but holds himself rather aloof, not so much antagenistic to it as suspicious of its effect on his co-religionists. دراصل گراہم بیلی اس عقدے کے جو خود نکلسن اور گراہم بیلی کے سامنے آیا کھولتے کھولتے رہ گئے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے گراہم بیلی کی نظر سے Reconstruction of Religious Thought in Islam نہیں گزری ہو گی یا ممکن ہے چونکہ ان کا مقصد اردو ادب کی تاریخ لکھنا تھا اس لیے انہوں نے اپنا مطالعہ اقبال کے مجموعہ کلام ’’ بانگ درا‘‘ ہی تک محدود رکھنا کافی سمجھا ہو حالانکہ ۱۹۳۲ء سے تین سال قبل۔۔۔۔ Reconstruction of Religious Thought in Islam چھپ چکی تھی۔ اگر گراہم بیلی اس کتاب کا مطالعہ کرتے تو شاید اقبال کی مندرجہ ذیل تحریر میں کہیں نہ کہیں انہیں اپنے سوال کا جواب نہ سہی اس کی ایک جھلک ہی نظر آ جاتی: During the last five hundred years religious thought in Islam has been Practically stationary. there was a time whien European thought recived inspiration form the world of Islam. the most remarkable phenomena of modern history. however. is ther enormous rapidity with wich the world of Islam is spiritually moving towards the west. there is nothing wrong in this movement. for European culture on its intellectual side is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam. Our only fear is that the dazzling exterior of European Culture may arrest our movement and we may fail to reach the true inwardness of the culture. میرے نزدیک اقبال کی اس تحریر میں پروفیسر نکلسن کے اس اعتراض کا جواب بھی موجود ہے جو انہوں نے دبی زبان میں اپنے مذکورہ مقالے میں یہ کہہ کے کیا ہیـ: He Knows Goethe, Byron and Shelly he is as familiar with also sprach zorathustra and l evolution Creatrice as he is with the Quran and the Mathnawi. But with the Humanistic Foundations of European culture he appears to be less intimately acquainted and we feel that his criticism, thought never superficial, is sometimes, lacking in breadth. ویسے اپنے اس اعتراض کا جواب نکلسن کے اسی مقالے میں موجود ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: While Iqbal has been profundly influenced by the western culture, his spirit remains essentially oriental. اس نکتے کی وضاحت خود اقبال کے الفاظ میں دیکھئے۔ اپنے ایک لیکچر Freedom and Immortalityمیں لکھتے ہیں: The tast before the modern muslim is, therefore, immense he has to re-think the whole system of islam without completely breaking with the past.... the only course open to us is to appreach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the Light of that Knowledge, even thought we may be led to differ from those who have gone before us. فکر اقبال کا یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر مستشرقین نے تو کیا خود ہندوستان اور پاکستان کے اکثر طلبائے اقبالیات نے کام کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ فکر اقبال کا یہی پہلو سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔ لیکن دو چار خاور شناس، جنہیںمیں مستشرقین نہیں کہوں گا اور جن کے ناموں کا ڈنکا بھی نکلسن اور آربری کی طرح ہندوستان یا پاکستان میں نہیں بجا، ایسے بھی ہیں جنہوں نے فکر اقبال کے اس پہلو کی طرف کام کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ ان میں ایک ہیں جے کلا تو روم جو The Poet of the East کی تمہید میں لکھتے ہیں: Only those who are qualified by a close study of the Quran can say how far Iqbal maintained inviolate the Spirit of the Teachings of the Quran, but there can be no question that he has widened the horizon of Islamic thought and revealed unsuspected resiliency in to it to the pressure of the changes through which the world is passing today. Iqbal has demolished once for all the bizarre structure which the hair-Splitting interperters of the teachings of Islam and the involved system of thought to islam the grendeur of Its simplicity. time alone will show if he has succeeded. but the irresistable appeal of the cry from his heart for directness in the interpretations of the teachings of islam is already producing changes in Muslim outlook which promises to rationalise life in islamic countries. اسی تمہید میں جے سی روم ایک قدم اور آگے جاتے ہیں اور اقبال کے فکری سرچشموں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: How far the stream of Iqbal's thought was influenced by the current of Hindu thought as it was by the currents of Islamic and western thoughts, is difficult to say, but the fearlessness with which he plunged in to unfathomable depths and the consistency with which he upheld the dicatated of reason to suggest that the force of generations of Hindu thought which formed the wrap of his mind, even if covered with Islamic thought, was not extinct. دوسرے خاور شناس اس ضمن میں ہیں ولیم اور ڈگلس جنہوں نے واشنگٹن میں متعدد اجلاس کی صورت میں اقبال کی شاعری اور فلسفے پر بحث مباحثے کے لیے ایک فضا پیدا کی اور جو اقبال کی شاعری اور فکر و فن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: The most remarkable phenomenon of modern history to Iqbal was the new spiritual understanding between the East and the West .... Iqbal was a voice from the East that found a common denominator with the west and helped build the universal community that tolerates all differences in race, in creeds, in language. پروفیسر آرتھر آربری کا ذکر اس مقالے کے شروع میں آ چکا ہے۔ نکلسن کی طرح اقبال پر آرتھر آربری کے کام کا کینواس بھی خاصا وسیع ہے۔ ’’ زبور عجم‘‘ کا انگریزی ترجمہ Persian Psalms’’ پیام مشرق‘‘ کے حصہ رباعیات ’’ لالہ طور‘‘ کا ترجمہ Tulips of Sinai ’’ شکوہ و جواب شکوہ‘‘ Comlaint and Answer’’ رموز بیخودی‘‘ کا ترجمہ Mystries of Selflessness اور ’’ جاوید نامہ‘‘ کا ترجمہ ان کے ایسے کام ہیں جو اقبالیات کے سلسلے میں ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ یہاں یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ جس طرح ’’ اسرار خودی‘‘ کے ترجمے میں پروفیسر نکلسن سے بعض اغلاط سر زد ہوئیں اسی طرح آرتھر آربری کے انگریزی ترجمے میں بھی کہیں کہیں اغلاط موجود ہیں جن کا مختصر سا ذکر میں ایک طویل مقالے میں جو چند برس ہوئے ماہ نامہ ’’ شب خون‘‘ الٰہ آباد میں شائع ہوا تھا کر چکا ہوں لیکن جیسا کہ میں نے اس مقالے کا ذکر کیا ہے اس ترجمے کی قدر و قیمت محض چند اغلاط کی بناء پر کسی طرح کم نہیں ہو سکتی۔ اس میں محاسن کا پلڑا کہیں بھاری ہے اور آرتھر آربری کے قلم کی جولانی اور شگفتگی جو اول سے آخر تک جادو جگاتی چلی جاتی ہے ترجمے کے ادب کی ایک بیش بہا متاع ہے۔ اردو اور فارسی غزل کا ترجمہ انگریزی یا کسی بھی زبان میں خاصا مشکل سمجھا گیا ہے۔ اس معاملے میں آرتھر آربری جس کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے ہیں وہ ہر اعتبار سے قابل توصیف ہے۔ ترجمے کے آخر میں قرآن اور حدیث کے حوالے اس امر کی دلالت کر رہے ہیں کہ آربری کا عربی زبان اور اسلامیات کا مطالعہ قابل رشک ہے۔ ’’ زبور عجم‘‘ اور’’ جاوید نامہ‘‘ کے ترجموں کی تمہید میں آرتھر آربری نے اقبال کے فکر و فن پر بڑی عالمانہ بحث کی ہے اور ترجمے کے متعلق قاری کو خاصے اہم نکتوں سے روشناس کیا ہے۔ اس تمہید میں آپ نے شیخ محمود احمد، پرنسپل گورنمنٹ کالج میر پور کے انگریزی ترجمہ ’’ جاوید نامہ‘‘ کے ذکر میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ جہاں تک مطالعہ نظم و نثر اقبال کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوںکہ آرتھر آربری نے اقبال کا ایک ایک لفظ بغور پڑھا ہے یہاں تک کہ جاوید اقبال کی مرتب کی ہوئی اقبال کی ڈائری Stray Reflections تک کا حوالہ بھی انہوں نے دیا ہے۔ مجھے آرتھر آربری کی یہ احتیاط بہت پسند آئی کہ انہوں نے جہاں دوست کو انگریزی میں جہاں دوست ہی لکھا ہے اور غیر محتاط مترجمین اقبال کی طرح جہاں دوست کا لفظی ترجمہ کر کے اسے وشوامتر نہیں لکھ دیا۔ یہ دراصل شیو جی مہاراج کا ذکر ہے۔ شیو جی مہاراج کے ساتھ اقبال کے سوال و جواب اگر اقبال کی شاعری میں ایک میخانہ الہام کی حیثیت رکھتے ہیں تو ان کا انگریزی ترجمہ آرتھر آربری کے فن کی بدولت مئے دو آتشہ کی صورت اختیار کر گیا ہے اس حصے میں آبری سے صرف ایک لغزش ہوئی ہے۔ اقبال جب کہتے ہیں: گفت ’’حجت چیست؟‘‘ گفتم ’’روئے دوست‘‘ تو یہاں ’’ حجت کا لفظ ایک مکمل سوال کی صورت میں آیا ہے یعنی عرفان و ایقان کے حصول کا ذریعہ کیا ہے۔ آربری نے یہاں ’’ حجت‘‘ کا لفظی ترجمہ Proof لکھ دیا ہے۔ لیکن اس قسم کی لغزشیں سمندر میں قطرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔‘‘ ایسا ندر بسانی عارف اقبال بھی ہیں اور عاشق اقبال بھی۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ کا اطالوی زبان میں ترجمہ جو روم سے ۱۹۵۲ء میں شائع ہوا انہی کے قلم کا مرہون منت ہے۔ ویسے ہی جہاں تک اقبالیات کا تعلق ہے بسانی نے زیادہ تر کام ’’ جاوید نامہ‘‘ ہی پر کیا ہے۔ انہوں نے دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ اور’’ جاوید نامہ‘‘ کا ایک تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ عربی بہت اچھی جانتے ہیں اور اقبال پر جب لکھتے ہیں تو اپنی تحریروں کو جا بجا آیات قرآنی سے مزین کرتے ہیں۔ خاور شناسوں میں ولفر ڈکانٹ ویل اسمتھ کا نام بہت بڑا نام ہے۔ ان کی کتاب جس کا پہلا ایڈیشن تقسیم ہند سے قبل Modern Islam in India کے نام سے اور دوسرا ایڈیشن تقسیم ہند کے بعد Modern Islam in India and Pakistan کے نام سے چھپا ایک ایسی کتاب ہے جسے ہندوستان اور پاکستان میں سیاسیات یا سماجیات کا کوئی طالب علم نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس کتاب میں اقبال کے متعلق دو باب ہیں۔ ایک کا عنوان ہے Iqbal the Pregressive اور دوسرے کا ہے Iqbal the Reactionary میں سمجھتا ہوں کانٹ ویل اسمتھ نے اس عمارت کی تعمیر میں خشت اول ہی ٹیڑھی رکھی ہے۔ ایک شخصیت کو دو حصوں میں تقسیم کرنا نفسیاتی تجزیے میں ممکن ہو تو ہو فکری یا فنی اعتبار سے ممکن نہیں۔ دراصل اقبال اتنے بڑے شاعر تھے کہ ہر جماعت اور ہر فرد کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ اقبال کو اپنے نظام فکر کے سلسلے سے وابستہ شاعر و مفکر ثابت کر سکے۔ کانٹ ویل اسمتھ کا شمار ایسے ہی اقبال پسندوں میں ہوتا ہے۔ اسمتھ چونکہ خود سوشلسٹ بلکہ کمیونسٹ ہیں، اور کمیونسٹ بھی ایک وسیع المطالعہ اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اقبال کو سوشلسٹ کہنا آسان نہیں۔ اس لیے انہوں نے جا بجا اس طرح کی لفاظی کا سہارا لیا ہے: ’’ جذباتی اعتبار سے اقبال سوشلسٹ تھے‘‘ ’’ ذہنی اعتبار سے وہ سوشلسٹ نہیں تھے۔‘‘ ’’ وہ تجزیاتی طور پر نہیں جانتے تھے کہ سرمایہ داری میں کیا خرابی ہے۔‘‘ ’’ انہوں نے اشتراکیت کے بارے میں مختلف قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔‘‘ ’’ ان کی تحریروں سے سوشلسٹ قسم کا تاثر جھلکتا ہے۔‘‘ ’’ آخر میں انہوں نے کئی اشتراکیانہ نظمیں کہیں اور انہوں نے مغربی تہذیب کی مخالفت میں کارل مارکس کا نام استعمال کیا۔‘‘ ’’ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہ تھا کہ اشتراکیت کیا ہے۔‘‘ یہ ایک طرح سے بے سروپا باتیں ہیں اور ایک ایسے طالب علم کے لیے جو صدق دلی سے اقبال کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے کوئی رہنمائی نہیں کرتیں۔ اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اشتراکیت کیا ہے اور پھر ان کے کلام کو اشتراکیانہ قرار دے کر اس پر بحث کرنا اقبال کو ان کی شخصیت سے باہر لے جا کر دیکھنے کی کوشش ہے۔ کسی بھی فن کار کا مطالعہ اس کی شخصیت سے باہر جا کر نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر اس سلسلے میں خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ پیام مشرق‘‘ میں اقبال لینن کو قیصر ولیم کی پست سطح پر لے آئے ہیں۔ ان کا اشارہ نظم موسوم بہ ’’ موسیولینن و قیصر ولیم‘‘ کی طرف ہے۔ اس نظم سے یہ اندازہ لگانا کہ قیصر ولیم کو اقبال نے کسی پست سطح پر رکھا ہے خواہ مخواہ کی کھینچا تانی ہے۔ اس نظم میں اقبال نے نہ تو قیصر ولیم کو کسی پست سطح پر دکھایا ہے اور نہ لینن کو قیصر ولیم اور لینن پہلی جنگ عظیم کے دو کردار ہیں۔ ایک کے لیے جنگ زوال کا اور دوسرے کے لیے عروج کا باعث بنی۔ خیر کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ کانٹ ویل اسمتھ نے اپنی مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر تاثیر کا یہ فقرہ نقل کیا ہے لیکن اپنی طرف سے اس میں لفظ ’’ جہنم‘‘ کا اضافہ کر دیا ہے اور فقرہ یوں مکمل کیا ہے کہ ’’ اقبال لینن کو جہنم میں قیصر ولیم کی سطح پر لے آئے ہیں ۔‘‘ معلوم نہیں اسمتھ نے یہ لفظ ’’ جہنم‘‘ کہاں سے شامل کیا ہے کیونکہ یہ لفظ نہ تو کہیں اقبال کی نظم میں آیا ہے اور نہ ڈاکٹر تاثیر کی مذکورہ تحریر میں۔ کانٹ ویل اسمتھ کے الفاظ میں ’’ اقبال اقتصادیات اور سماجیات سے بھی نا واقف تھے اور اسی نا واقفیت کی بنا پر وہ ہندوستان اور اسلام میں ان جماعتوں کو نہ پہچان سکے جو دراصل انہی کے مقاصد کی ترجمانی کر رہی تھیں۔ اپنی عملی زندگی میں انہوں نے انہی جماعتوں کی مخالفت کی اور ان جماعتوں کی حمایت کی جو ان کے مقاصد کے خلاف کام کر رہی تھیں۔‘‘ لیکن اقبال پر یہ اعتراض کرتے وقت اسمتھ یہ بات بھول جاتیے ہیں کہ اقبال کے سامنے مسلمانوں کی بہبود کا ایک اپنا تصور تھا۔ پہلے تو اقبال کو کھینچ تان کے سوشلسٹ ثابت کرنا اور پھر ان کے سوشلزم پر اعتراض کرنا اور یہ کہنا کہ وہ سوشلزم کے بارے میں یہ نہیں جانتے تھے۔ اور وہ نہیں جانتے تھے ایک مہمل قسم کی تنقید ہے۔ ہاں اقبال کے بعض اشعار کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال مغربی یورپ کے جمہوری نظام پر اشتراکی نظام کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اشتراکی نظام کے مقابلے میں اسلام کو بدرجہا بہتر نظام سمجھتے ہیں اس لیے کانٹ ویل اسمتھ اقبال کو سوشلسٹ کہہ کر ان پر سوشلزم سے نا واقف ہونے کا اتہام لگانے کے عوض اگر اقبال کو سوشلسٹ نہیں بلکہ مسلمان تسلیم کریں تو خلط مبحث کر بڑی حد تک خاتمہ ہو جائے گا۔ اس صورت میں کانٹ ویل اسمتھ کے اعتراض کی نوعیت بھی بڑی حد تک بدل جائے گی۔ انہیں اس بات کا تو حق ہو گا کہ اسلام کے مقابلے میں اشتراکی نظام کو بہتر قرار دیں لیکن یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہو گی کہ اقبال تھے تو سوشلسٹ لیکن سوشلزم کی حقیقت سے بے خبر تھے۔ وکٹر کرنین نے اپنی توجہ اقبال کی اردو نظموں ہی پر مرکوز رکھی ہے۔ وکٹر کرنین کی کتاب (Poems of Iqbal) جو اقبال کی بعض منتخب اردو نظموں کے ترجموں پر مشتمل ہے شعری ترجموں کی مقبول ترین کتابوں میں ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ اقبال کے شعوری ارتقاء کی ایک جامع تصور پیش کرتی ہے۔ مترجم نے ان ترجموں میں صرف قافیے کی اسکیم ہی کو برقرار نہیں رکھا بلکہ کوشش یہ کی ہے کہ اصل نظم کے وزن کا آہنگ بھی ترجمے میں برقرار رہے۔ بعض ترجمے جس میں اقبال کی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کا ترجمہ بھی شامل ہے نہایت عمدہ ترجمے ہیں۔ فرانسیسی خاور شناسوں میں ایوا میو رووچ اور لیوسی کلاد متیرے کا ذکر پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اول الذکر خاتون کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے Recnsturuction of Religious thought in Islam کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا ہے اور اب Development of Metaphysics کے ترجمے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے محمد مقری کے ساتھ مل کر ’’ پیام مشرق‘‘ کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا ہے اور ثانی الذکر نے فکر اقبال پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا انگریزی ترجمہ مولینا عبدالمجید ڈار بیرسٹر ایٹ لاء لاہور نے Introduction to the Thoughts of Iqbal کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ کتاب مندرجہ ذیل آٹھ ابواب His Life and Works, His Philosophy of Personality, the Perfact Man and the Ideal Society. Metaphysics and Philosphy of Religion Iqbal and Oriental Thoughts. The Poet اور The Ghazals پر مشتمل ہے۔ اقبالیات میں ایک گراں بہا اضافہ ہے۔ دراصل یہ کتاب مفکر اقبال کے بارے میں شاعر اقبال پر آخر میں ایک باب ہے جس میں فاضل مصنفہ نے اقبال کی فلسفیانہ شاعری اور غزلیہ شاعری کا تجزیہ کیا ہے۔ مس شیلامیک ڈونو سر جارج ولیم یونیورسٹی مونٹر یال (کینیڈا) میں دینیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں Pakistan and the west ان کی ایک مشہور کتاب ہے۔ انہوں نے میک گل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اسلامیات اور اقبالیات سے انہیں خاصی دلچسپی ہے۔ اقبال کی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ پر ان کا مقالہ اقبالیات اور ادبیات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مقالے میں شیلامیک ڈونو نے اقبال اور ٹی ایس ایلیٹ کی شاعری کا موازنہ کیا ہے۔ ایوا میو رووچ، لیوسی کلاد میترے اور شیلامیک ڈونو کے بعد صنف نازک کی فہرست میں دو بہت ہی اہم نام آتے ہیں۔ ان میں ایک ہیں روسی مصنفہ مس ایم ٹی ٹی سٹینٹس اور دوسری ہیں جرمن مصنفہ اینے میری شمل۔ مس ایم ٹی اسپینٹس نے اپنی کتاب Pakistan: Philosophy and Sociology میں اقبال کا فکری رشتہ شاہ ولی اللہ اور سرسید احمد خان کے ساتھ ملایا ہے۔ اس کتاب کے انگریزی ترجمے میں جو ایک روسی مصنف آرکوس ٹیوک نے کیا ہے ہمیں اقبال اور مغرب کے تعلق سے یہ عبارت نظر آتی ہے: And Iqbal him self did take from the west whatever corresponded most to the basic premises of his philosophical conception, He made it his goal to create a system on modernised Islam, and tried to prove that the philosophy of Islam was not out-dated but merely needed to have its principles expressed in the terminology and ideals of the new timed. from the premise it remained for him to find poin contacts between muslim philosophy and the modern theories of the west. he Interested himself, for instance, in the gnosiolicial ideas of Bergson, Which he found Similar, to those of Rumi the latter in his opinion, had anticipated western philosophers, especially bergson, in his treatment of the relation between intellect and intution.... ... Some Scholors would have it that Iqbal's Philosophp is a sort of Carbon copy of Neitzscheism, prof. E. G. Browm of great beitain has even called it an oriental adaptation of Neitzscheism other scholars thake that diametrically oppsoite view, completely denying any Neitzschean niflurence on the Muslim reformer and seeing nothing in common between them. اس قسم کے خیالات پر میں اپنی کتاب ’’ اقبال اور مغربی مفکرین‘‘ میں اور اپنے طویل مقالے ’’ اقبال کا تصور زمان و مکاں‘‘ میں مفصل بحث کر چکا ہوں۔ اس لیے اس بحث کو یہاں دہرانا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ مختصراً اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آراء انتہا پسندانہ ہیں۔ جہاں تک نیٹشے کا تعلق ہے اقبال اور نیٹشے کے افکار میں قرب کی بہ نسبت بعد کہیں زیادہ ہے۔ اقبالیات کے تعلق سے مس سیٹپینٹس کا ایک خاص موضوع ہے اقبال کے نظام فکر میں اخلاقیات کا مقام اس ضمن میں ان کا مقالہ Problems of Ethics in Mohammad Iqbal's Philosophy کیفیت و کمیت دونوں کے اعتبار سے اقبالیات میں بلند مقام کا حامل ہے۔ اب آخر میں اس مستشرق خاتون کا ذکر کروں گ اجس نے اقبال کے متعلق دنیائے ادب میں مقالات ادب اور تقریروں اور مینہ برسا دیا ہے اور وہ ہے Gabriel's Wing کی مصنفہ اینے میری شمل یہ جرمن خاتون جو یونانی یونیورسٹی آف بون میں پروفیسر رہ چکی ہیں آج کل امریکہ میں ہیں اور اقبال کے فکر و فن پر لیکچروں کے سلسلے میں کئی بار ہندوستان اور پاکستان کا سفر کر چکی ہیں۔ اینے میری شمل کی کتاب Gabriel's Wing ’’ بال جبرئیل‘‘ کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اقبال کے مذہبی افکار کا ایک مطالعہ ہے یہ کتاب Studies in the History of Religious (Supplement to Numens)کے سلسلے کی چھٹی کتاب ہے جو ۱۹۶۳ء میں لیڈن (نیدر لینڈز)میں چھپی۔ چار سو اٹھائیس صفحات کی یہ کتاب مندرجہ ذیل پانچ ابواب پر مشتمل ہے: 1. Mohammad Iqbal (a) The Historical Background. (b) His Life (c) The Aesthtic side of his work. (d) The Religious motives. 11. His Interpreatation of Five Pillars of Faith (a) There is no God but God. (b) Mohammad is the Messenger of God. (c) Prayer (d) Fasting, Zakat, Pilgrimage and Jihad. III. His Iterpreatations of the Essentials of Faith. (a) I belive in God.... And in His angels. (b)..... and in his books. (c) .....and in his messengers. (d) ....and in the Last Day. (e) .... and in the Predestination, that Good and Evil both come from God. IV. Some glimpses of western and eastern influence an Iqbal's thought, and on his relations to mystics and mysticism. v. to sum up. یہ کتاب اول سے آخر تک کلام اقبال اور فکر اقبال کے ساتھ اینے میری شمل کی شدید دل چسپی کی داستان سناتی ہے۔ مصنفہ کا علم و فضل ایک ایک سطر سے نمایاں ہے اور کہیں کہیں انگریزی زبان کی اسقام کے باوجود بحیثیت مجموعی ساری کتاب کی عبارت قاری کو بدرجہ اتم متاثر کرتی ہے۔ کہیں کہیں زبان کی اسقام کی جو بات میں نے کی ہے اس کے متعلق دراصل مس اینے میری شمل کے ان جملوں کے بعد کہ: I apologize for the English style of the present book... I am afraid that inspite of the help of some friends who did their best to beush up the Style, some clumsy phrases of a w kward expressions have not yet been remeved. کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ ویسے بھی میرے لیے اینے میری شمل کی زبان پر تبصرہ کرنا اس لیے مناسب ہے کہ انگریزی نہ ان کی اپنی زبان ہے نہ میری۔ اینے میری شمل شاعری بھی ہیں اس لیے اس کتاب کا انداز بیان اکثر جگہوں پر شاعرانہ ہو گیا ہے۔ یہ اندا زبیان اگرچہ کتاب کی دل کشی میں اضافہ کرتا ہے لیکن تحقیقی اور تنقیدی نثر کے لیے یہ انداز بیان مناسب نہیں۔ یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ یہ کتاب اقبال کے مذہبی افکار کے متعلق ہے لیکن اقبال کی شاعری پر کام کرنے والوں کے لیے بھی اس میں نہایت مفید نکتے موجود ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر موصوفہ دیباچے میں لکھتی ہیں: ...... Nearly nobody has made until now a simple careful alatutical index of the motifs of symbols, Iqbal uses in his poetry or of the meters he prefers, in short of his poetical technique. ویسے اس کتاب کا جو مقصد ہے وہ مصنفہ کے ان الفاظ میں دیکھئے: The aim of the present book is not to add some more theories to those already existing. it will simply show iqbal's view of the essentials of Islam, i.e. the five pillars of faith, and the creed which is taught to every muslim child. ڈاکٹر شمل علم کا سمندر ہیں اور تاریخ مذاہب عالم پر ان کی گہری نظر ہے۔ یہ دونوں باتیں Gabriels wingمیں جا بجا نظر آتی ہیں اس کے باوجود تحقیق کے مقالے میں ان سے بعض کوتاہیاں سر زد ہوئی ہیں جن کی تصحیح کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ضروری ہے۔ مثلاً یہ بات اب طے پا چکی ہے کہ شیخ عطامحمد کی مرتبہ کتاب ’’ مکاتیب اقبال‘‘ میں ڈاکٹر لمعہ کے نام اقبال کے جو خطوط درج ہیں وہ سب کے سب جعلی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک بھی خط کے متعلق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ واقعی یہ خط اقبال نے ڈاکٹر لمعہ کے نام لکھا ہے۔ میں خود بھی ایک مدت تک ان خطوط کے متعلق غلط فہمی کا شکار رہا ہوں لیکن اب جب کہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ خطوط جعلی ہیں تو اقبال پر کام کرنے والوں کو چاہیے کہ ان خطوط کو قطعاً نظر انداز کر دیں۔ ڈاکٹر موصوفہ صفحہ ۴۶ پر لکھتی ہیں: His introduction to the first edition of Rumuz gives an impression of what he aimed at. اس کے بعد مندرجہ ذیل اقتباس درج ہے: Just as in the individual life, the acqusition of gain, protection against injury. determation for action and appreciation of higher values are all dependent on the gradual development of the ego-cons ciousness, its continuty, enchancement and consolidation. similyarly the secert of the life of nations and people depends on the same process which can be described as the development, presentation and consolidation of the communal ego.... یہ سارا اقتباس کوئی ڈھائی سو الفاظ پر مشتمل نہ جانے ڈاکٹر موصومہ نے اقبال کی کون سی اردو نثری تحریر کا اقتباس اس ترجمے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ’’ رموز بیخودی‘‘ کے دیباچے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ معمولی فروگزاشتیں اینے میری شمل کی کتاب Gabriel's Wings کی اہمیت کو کسی طرح کم نہیں کرتیں بلکہ اس کی حیثیت ایک دلیل راہ کے طور پر برقرار رہتی ہے۔ اینے میری شمل نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کا جرمن زبان میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اقبالیات کے تعلق سے ایک اور نایاب مسودہ بھی ان کے پاس ہے اور وہ ہے ’’ پیام مشرق‘‘ کے بعض حصوں کا جرمن ترجمہ جو ارلینگن یونیورسٹی کے پروفیسر ہیل نے کیا تھا لیکن اس سے قبل کہ اس ترجمے کے چھپنے کی نوبت آتی پروفیسر ہیل کا انتقال ہو گیا۔ میں نہیں کہہ سکتا یہ ترجمہ اس وقت چھپ چکا ہے یا نہیں۔ ٭٭٭ تاریخ کا قرآنی اور تصور علامہ اقبال پروفیسر محمد منور ’’ تاریخ‘‘ کا لغوی معنی ہے تحریر کرنا، قلمبند کرنا، درج کرنا مثلاً اگر یہ کہنا ہو کہ فلاں دن کا لکھا ہوا، تو کہتے ہیں مورخہ ۱۱ ستمبر سنہ فلاں۔۔۔ ایک عرب مورخ کے مرنے پر کسی شاعر نے لکھا تھا: وکان یورخ ذکر الانام وھاھو ذا الیوم قد ارحنا ’’ وہ لوگوں کے احوال قلمبند کیا کرتا تھا، اور دیکھو آج وہ خود بھی قلمبند ہو گیا ہے۔‘‘ آج وہ خود بھی لکھ دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ آج وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ اس کیفیت کو انگریزی میں لکھتے ہیں ’’ To Become a part of History‘‘ ۔۔۔۔اردو میں کہتے ہیں، قصہ ماضی بننا بقول اکبر الٰہ آبادی: میرے اسلام کو اب قصہ ماضی سمجھو گویا اصطلاحاً تاریخ کا مفہوم بالعموم عہد گزشتہ کی داستان ہے۔ مگر عہد گزشتہ کی وہ داستان جس کا تعلق انسان سے ہے۔ مسٹر ٹائن بی یہاں بھی خصوصی تحدید سے کام لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کا نقطہ آغاز وہ دور ہے جب انسان نے ایک مہذب معاشرے کے فرد کی حیثیت اختیار کی (What we call history is the history of man in a civilized society. 1) مسٹر ٹائن بی کا خیال ہے کہ اگر تاریخ سے مرد وہ سارا عرصہ ہو جو نوع انسانی نے اس خاکداں میں بسر کیا تو پھر دور تہذیب اس کل عرصے کا بمشکل دو فیصد بنے گا۔ اس اعتبار سے آغاز تاریخ کو ایک مخصوص علم کی حیثیت سے آغاز تہذیب کے ساتھ وابستہ کرنا کوئی زیادتی نہیں۔ دور قبل از تاریخ کے ضمن میں جو جو کچھ معلومات فراہم ہوں انہیں ’’ علم الانسان‘‘ یا ’’ انسانیات‘‘ Anthro Pology کے شعبے کا حق سمجھا جانا چاہیے۔ علم تاریخ اگر داستان ماضی ہے تو کیا اس کا مصرف فقط وہی ہے جو قصے کہانی کا ہوتا ہے؟ یعنی محض دل بہلاوا؟ ۔۔۔ نہیں ایسی بات نہیں، کم از کم مسلمان مورخین میں سے کسی نے بھی اسے قصہ کہانی نہیں جانا، ہر مسلمان مورخ محویات تاریخ کو زندہ حقائق قرار دیتا ہے اور زندہ افراد کو دعوت دیتا ہے کہ کارن کھول کر یہ داستان سنے اور آنکھیں کھول کر مناظر ماضی کا مشاہدہ 1؎ A Study of History (abridged edition : Vol:1) U.S.A 1971. p.61 کرے، اس طرح اسے عبرت بھی حاصل ہو گی، اس کا حوصلہ بھی بڑے گا اور وہ ایک بہتر انسان بننے کی کوشش میں مصروف رہے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلمان مورخین کا نقطہ نظر سر تا سر قرآن کریم سے متاثر ہے۔ قرآن نے بار بار تلقین کی ہے کہ دنیا میں گھومو پھرو اور پھر دیکھو کہ وہ لوگ جو تم سے قبل ہو گزرے ہیں کس انجام کو پہنچے، ان میں وہ بھی تھے جو تم سے زیادہ قوت و سطوت والے تھے۔ ان میں سے بعض اس لیے برباد ہوئے کہ انہوں نے آئین خداوندی سے منہ موڑ کر دنیا کی عشرتوں ہی کو سب کچھ جان لیا۔ یہ بے اعتدالی انہیں لے ڈوبی بعض اس لیے برباد ہوئے کہ انہیں حرص اور دیگر حیوانی خواہشات نے اندھا کر کے حیوانی سطح پر پہنچا دیا تھا، بعض اس لیے برباد ہوئے کہ انہوں نے خدا کا انکار کر کے اپنے اندر خدائی کے جلوے دیکھنے شروع کیے اور دعوئے خدائی داغ دیا۔ بعض اس لیے برباد ہوئے کہ ذوق مادہ پرستی میں ایک دوسرے کو مالی نقصان پہنچانے کے در پے رہنے لگے، نتیجہ تھا آپا دھاپی سنگدلی، لوٹ کھسوٹ، غارت گری اور ویرانی۔۔۔۔ قرآن کی رو سے ہر صاحب وحی جو وحی لایا اس کی تلقین یہی تھی کہ اولاد آدم کو متوازن حیات میسر آئے۔ وہ زمین ہی سے چپک کر نہ جائے۔ جب انسان محض زمینی ہو کر رہ جائے تو وہ اعلیٰ انسانی اقدار کے احترام سے محروم ہو کر اخلاقی افراتفری کی نذر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہر وحی الٰہی کا تقاضا تھا کہ انسان مادے سے بلند تر ہو کر روح کے تقاضے بھی پورے کرے اور ثابت کرے کہ وہ نباتات، جمادات اور حیوانات میں سے نہیں، وہ خدا کا حکم ماننا جانتا ہے اور خدا کے حکم کی روشنی میں اپنے احکام منوانا بھی جانتا ہے۔۔۔ قرآن نے مطالعہ ماضی کے ضمن میں بصیرت اور دانش و حکمت سے کام لینے پر بالا صرار زور دیا ہے۔ تقی الدین مقریزی (متوفی ۸۴۵ھ) اپنی کتاب ’’ الخطط‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ فی الجملہ علم کی دو قسمیں ہیں عقلی او رنقلی، انسان کو چاہیے کہ جب دونوں علوم حسب ضرورت اچھی طرح سیکھ لے تو تمام تر تاریخ کے مطالعہ میں کھو جائے اور اس کی عبرتوں پر غور کرے۔ اللہ تعالیٰ جس کے دل کا پٹ کھول دیتا ہے اور آنکھوں کے پردے ہٹا دیتا ہے اس کو غور و فکر کے نتیجے میں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسرے انسانوں کو جو دولت اور فوجی طاقت پر اکڑتے تھے بالآخر کس بربادی سے دو چار ہونا پڑا؟‘‘ 1؎ وعلی ہذا یہی مصنف یعنی تقی الدین مقریزی اپنی کتاب ’’ العقود الفریدہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ مخلوق کو نسلاً بعد نسل پیا اور پے در پے قبیلوں میں آباد کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ اگلے لوگ پچھلوں کے لیے اپنے قصے بطور عبرت و نصیحت چھوڑ جائیں اور پچھلے لوگ اگلوں کی یاد تازہ کرتے رہیں اور ان کی خبریں پھیلاتے رہیں تاکہ سمجھ دار لوگ مذموم باتوں سے باز رہیں او ران سے نفرت کریں او ربا ادب حضرات ان اخلاق کی پیروی کریں جو اچھے اور پسندیدہ ہوں‘‘ 2؎ 1؎ الا علان بالتوربیخ، اردو ترجمہ، مرکزی اردو بورڈ، لاہور، ص ۸۶ 2؎ ایضاً، ص۸۸ ایک اور مورخ البدر حسین الاہدل ’’ تحفتہ الزمن فی تاریخ سادات الیمن‘‘ کے شروع میں علم تاریخ سے متعلق اس رائے کا اظہار کرتے ہیں: ’’ یہ بڑا مفید علم ہے، اس کے ذریعے خلف کو سلف کے حالات معلوم ہوتے ہیں اور راست باز لوگ ظالموں سے ممتاز ہو جاتے ہیں، مطالعہ کرنے والے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ عبرت حاصل کرتا ہے اور گزشتہ لوگوں کی عقل و دانش کی قدر پہچانتا ہے اور بہت سے دلائل کا پتہ لگا لیتا ہے۔ اگر یہ علم نہ ہوتا تو تمام حالات، مختلف حکومتیں، حسب و نسب اور سبھی علل و اسباب نا معلوم رہتے۔ اور جاہلوں اور عقلمندوں کے مابین تمیز ہی باقی نہ رہتی۔ چنانچہ مشہور ہے کہا للہ تعالیٰ نے تورات کی ایک پوری کتاب ایسی اتاری ہے جس میں گزشتہ قوموں کے حالات اور ان کی زندگی کی مدت اور نسب کا بیان ہے۔‘‘ 1؎ ابوعلی احمد بن محمد بن یعقوب الرازی مشکویہ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے قوموں کے حالات اور بادشاہوں کی سیرت کا غور سے مطالعہ کیا اور شہروں کی خبریں اور تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو دیکھا کہ ان سے متعدد ایسے امور کا تجربہ حاصل ہوتا ہے جو بار بار رونما ہوتے ہیں او رجن سے ملتے جلتے واقعات کا ظہور پذیر ہونا کسی بھی وقت متوقع ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی کتاب ’’ تجارب الامم و عواقب الہمم‘‘ تصنیف کی یہ چار جلدوں میں ہے۔2؎۔۔۔۔ ان حوالوں سے ضمناً ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمان مورخین کے یہاں تاریخ محض سلاطین و حکام کی تاریخ سلطنت و حکومت نہیں وہ قوموں کی کہانی ہے جن میں بادشاہ بھی شامل ہیں وہ قوموں کے اخلاق اور کردار کی کہانی ہے وہ ان کی عقل و دانش اور فضل و کمال کی کہانی ہے نیز وہ ان کے اجتماعی عروج و زوال کی کہانی ہے وہ اسباب جو بار بار پیدا ہو سکتے ہیں اسی لیے ابن خلدون لکھتے ہیں: ’’ فالماضی اشبہہ بالآتی من الماء بالمائ‘‘ 3؎ ’’ پس عہد گذشتہ، عہد آئندہ سے اس قدر مشابہہ ہے کہ پانی پانی سے بھی اس قدر مشابہ نہیں ہوتا۔‘‘ ابن خلدون کے نزدیک بھی تاریخ کی تعریف تقریباً وہی ہے جو دیگر مسلمان مورخین نے بیان کی ہے البتہ وہ اس امر پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ مطالعہ تاریخ گہرے غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے تاکہ سچائی تک رسائی حاصل ہو۔ حقائق اشیاء واضح ہوں، پتہ چلے کہ تخلیق اشیاء کا آغاز کیونکر ہوا۔ تاریخ اس عمیق علم کی طالب ہے جس سے واقعات کے علل و اسباب سے آگاہی حاصل ہو۔ ابن خلدون زور دے کر کہتے ہیں کہ ’’ اسی سبب سے تاریخ کی جڑیں فلسفے میں راسخ ہیں اور وہ مستحق ہے کہ اسے فلسفے ہی کا ایک شعبہ قرار دیا جائے۔‘‘ ’’ فھو لذلک اصیل فی الحکمتہ عریق وجد یربان یعد فی علومھا و خلیق‘‘ 4؎ ہیگل کہتا ہے کہ فلسفہ تاریخ یہی ہے کہ تاریخ کا مطالعہ غور و فکر کے ساتھ کیا جائے۔ 5؎ 1؎ وہی حوالہ ص ۸۹ 2؎ ایضاً ص ۹۳ 3؎ مقدمہ، المکتبہ التجاریہ شارع محمد علی مصر، ص ۱۰ 4؎ مقدمہ، ص ۴ 5؎ Philosophy of History p. 8 (Dover Publications) New york. 1956. حق یہ ہے کہ مطالعہ قرآن کی بدولت کائنات اور اہل کائنات کے باب میں ایک مخصوص نظریہ اور رویہ بن جاتا ہے اور ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے اور اصول ثابتہ کی روشنی میں بعض نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو وہ واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن بہت سے علوم کا سرچشمہ ہے جن میں سے تاریخ ایک ہے۔ فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں: ’’ ڈاکٹر صاحب (علامہ اقبال) اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرما تھے، اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقاتی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، اتنے میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال کر دیا، کہنے لگے ’’ آپ نے مذہب، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں ان میں سب سے زیادہ بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کون سی گزری ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی سے اٹھے اور نو وارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے، دو تین منٹ میں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اس کتاب کو انہوں نے اس شخص کے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے فرمایا: قرآن مجید‘‘ 1؎ باقی علوم سے فی الحال تعرض نہیں۔ فی الحال تاریخ سے بحث ہے۔ علامہ کے نزدیک ابن خلدون کی ساری تاریخی بصیرت کا سرچشمہ قرآن ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ابن خلدون علم الاجتماع کا باوا آدم گردانا جاتا ہے، اس کا شمار فلسفہ تاریخ کے اساطین میں ہوتا ہے۔ علامہ کے الفاظ ہیں: ’’ ۔۔۔ لہٰذا اس سے بڑی غلط بیانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ قرآن پاک میں کوئی ایسا خیال موجود نہیں جو فلسفہ تاریخ کا سرچشمہ بن سکے حالانکہ بہ نگاہ حقیقت دیکھا جائے تو ابن خلدون کا مقدمہ سر تا سر اس روح سے معمور ہے جو قرآن کی بدولت اس میں پیدا ہوئی وہ اقوام و امم کے عادات و خصائل پر حکم لگاتا ہے تو اس میں بھی زیادہ تر قرآن پاک ہی سے استفادہ کرتا ہے۔‘‘ 2؎ تقریباً جملہ مورخین اسلام اور اکثر و بیشتر مستشرقین اس امر کے قائل ہیں کہ اسلامی تاریخ کی ابتدائ، پرورش اور ترقی قرآن ہی کے باعث ہوئی ہے۔ حضرت علامہ کا بھی یہی نظریہ ہے، وہ فرماتے ہیں کہ واقعات کی صحت معلوم کرنے کا اصول قرآن کریم نے یہ کہہ کر قائم کر دیا کہ ’’ جب کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان پھٹک کر لیا کرو۔‘‘ ’’ ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا۔‘‘ (سورہ ۴۹، آیت ۶) فاسق سے مراد بے کردار اور بد عہد شخص ہے۔ ایسا شخص جو اپنے غلط عمل کے باعث مقام اعتماد و اعتبار سے محروم ہو۔ 1؎ روزگار فقیر (نومبر ۱۹۶۳ئ) ص ۹۳، ۹۲ 2؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۱۳ آگے چل کر علامہ فرماتے ہیں: عالم اسلام میں جس تاریخ کی پرورش جس طرح ہوئی وہ بجائے خود ایک بڑا دلچسپ موضوع ہے۔ یہ قرآن پاک کا بار بار حقائق پر زور دینا اور اس کے ساتھ ساتھ پھر اس امر کی ضرورت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات صحت کے ساتھ متعین ہوں، علیٰ ہذا مسلمانوں کی یہ آرزو کہ اس طرح ان کی آئندہ نسلوں کو اکتساب فیض کے دوامی سرچشمے مل جائیں۔ یہ عوامل تھے جن کے زیر اثر ابن اسحاق، طبری اور مسعودی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں۔ لیکن تاریخ سے دلوں کو گرمانا اور ان میں جوش اور ولولوں کا ابھرنا وہ ابتدائی مرحلہ ہے جس سے رفتہ رفتہ تاریخ کا نشوونما ایک علم کے طور پر ہوتا ہے۔ اس کے علمی مطالعے کے لیے بڑے وسیع اور بڑے گہرے تجربے کے ساتھ بڑی پختہ عقل عملی کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں زندگی اور زمانے کی ماہیت کے بارے میں بعض اساسی تصورات کا نہایت صحیح ادراک۔ 1؎ گویا حضرت علامہ کے نزدیک تاریخ کے مطالعے کے لیے وسیع علم، تجربے اور پختہ عقل عملی کی ضرورت ہے اس لیے کہ تاریخ میں انسانی معاشروں کے جملہ شعبے آ جاتے ہیں۔ تاریخ احاطہ پسند علم ہے جو پوری زندگی کو محیط ہے۔ فکری، عملی، حرفی، صنعتی، تجربی، ادبی، مالی، ملکی، سیاسی، اقتصادی، دینی، نظریاتی، صمنیاتی، الٰہیاتی غرض انسانی حیات کا کوئی شعبہ نہیں جس کی روداد تاریخ نہ کہلائے، مگر یہ ساری ہمہ نوعی، ہمہ رنگی اور ہمہ جہتی کاوشیں الگ الگ کچھ بھی ہوں، کسی بھی درجہ بلند کی مالک ہوں اور کیسے ہی باریک اور لطیف تجزیے کا ہدف کیوں نہ بنین اس وقت تک معافی و مفاہیم سے بخوبی سرمایہ دار نہیں ہوتیں جب تک ان کے باہمی روابط و توافق کی حقیقت واضح نہ ہو۔۔۔ حیات کی کلیت کے حوالے اور تصور کے بغیر تاریخ کا رخ اور مرتبہ ارتقاء سمجھ میں نہیں آ سکتا۔۔۔ ایک نا ملائم سی مثال یہ ہے کہ اگر ہاتھی ایک کل کی حیثیت سے ہماری معلومات میں داخل نہ ہو تو اکیلی سونڈ دکھا کر کوئی ہمیں سونڈ کے کوائف و وظائف لاکھ سمجھاتا رہے، شرح صدر کے ساتھ کچھ پلے نہیں پڑے گا۔۔۔۔ اسی طرح زندگی کی کلیت سے کٹ کر نہ کوئی فلسفیانہ نظریہ سمجھ میں آتا ہے، نہ کوئی سیاسی انقلاب اور نہ کوئی اقتصادی تغیر، حضرت علامہ فرماتے ہیں: ’’ فکری ارتقاء کو انسانی فعلیت کے دیگر پہلوؤں سے منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ فلسفہ کی کتابیں ہمیں یہ تو بتاتی ہیں کہ مختلف قوموں نے کیا سوچا ہے لیکن ان مختلف معاشرتی اور سیاسی اسباب و عوامل کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتیں جن سے فکر انسانی کا کردار متعین ہوا ہو، فلسفے کی جامع تاریخ مرتب کرنا یقینا ایک دشوار کام ہو گا۔۔۔۔ لیوتھر کی تحریک اصلاح کے قیمتی مضمرات کی مکمل وضاحت و صراحت کرنا محض ایک عالم دینیات کے بس کی بات نہیں۔ ہمارا یہ رویہ رہا ہے کہ عظیم تصورات کو انسان کی ذہنی فعلیت کے عمومی دھارے سے الگ کر دیتے ہیں۔ ‘‘ 2؎ 1؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۱۴۔ ۲۱۳ 2؎ شذرات فکر اقبال (مجلس ترقی ادب لاہور )ص ۱۱۱ اسی ذیل میں حضرت علامہ کا وہ خطبہ صدارت بھی آتا ہے جو انہوں نے ۱۱ جون ۱۹۳۲ء کو بیرون موچی گیٹ لاہور کے ایک جلسہ عام میں ارشاد کیا تھا، یہ پنجاب کے مسلمانوں کا احتجاجی جلسہ تھا جس کا باعث یہ ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی کے صدر شعبہ تاریخ پروفیسر بروس نے ہندوؤں کے زیر اثر جن کا پنجاب یونیورسٹی سینٹ پر قبضہ تھا یہ تجویز سینٹ میں پیش کر دی کہ ہندوستانیوں کو فقط ہندوستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے لہٰذا اسلامی تاریخ نصاب سے خارج کر دی جائے۔ علامہ کے نزدیک اس ضمن میں محکم استدلال یہی تھا کہ تاریخ کسی ایک علاقے کے باشندوں کی تاریخ نہیں۔ تاریخ تو پورے عالم انسانیت کی اجتماعی دولت اور میراث ہے۔ حضرت علامہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسانی روح کی ایک حرکت ہے، روح انسانی کا کوئی ماحول نہیں بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہے۔ اگر اسے کسی قوم کی ملکیت سمجھا جائے تو یہ تنگ نظری کا ثبوت ہے۔۔۔ جب میں اٹلی گیا تو مجھے ایک شخص پرنس کیتانی ملا۔ وہ اسلامی تاریخ کا بہت دلدادہ ہے۔ اس نے تاریخ پر اتنی کتابیں لکھی ہیں اور اس قدر روپیہ صرف کیا ہے کہ کوئی اسلامی سلطنت اس کے ترجمے کا بندوبست بھی نہیں کر سکتی، اس نے لاکھوں روپیہ صرف کر کے تاریخی مواد جمع کیا ہے جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اسلامی تاریخ سے دلچسپی کیوں ہے تو انہوں نے کہا کہ اسلامی تاریخ عورتوں کو مرد بنا دیتی ہے۔ ‘‘ 1؎ ایک شخص اٹلی کا باشندہ ہے، ان علاقوں میں سے کسی کا باشندہ نہیں جن کو اسلامی علاقے کہا جاتا ہے۔ پھر وہ مسلمان بھی نہیں کہ عقیدے کی کشش کے باعث اسے اسلامی تاریخ سے یہ شغف رہا ہو۔ سیدھی سی بات ہے کہ سرحدیں مادی نقوش ہیں۔ اور تاریخ انسانی روح کا ثمرہ بھی ہے۔ سرمایہ بھی اور ترجمانی و تصویر بھی۔ لہٰذا اس کے لیے کوئی سرحد نہیں، مکانی سرحدیں تو رہیں ایک طرف تاریخ کے لیے کوئی زمانی سرحد بھی نہیں۔ زمانے کو ناپ کر اور کاٹ کر ماضی کے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ہم اپنی سہولت کے لیے تعیین زمان ضرور کرتے ہیں تاکہ متعلق دور پیش نظر رہے مگر نہ وہ دور کٹ سکتا ہے اور نہ اس دور کی نسبت سے وہ زمانہ کٹ کے اپنے دھارے سے الگ ہو سکتا ہے۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں: زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم حضرت علامہ کے نزدیک زندگی ایک مسلسل ارتقائی حرکت کا نام ہے اور زندگی کے میدان عمل میں انسان کی محنت و کاوش کے باعث اس کے جوہر کھلتے ہیں۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے: یسبح للہ ما فی السموات وما فی الارض۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے۔ 1؎ گفتار اقبال ادارہ تحقیقات پاکستان دانشگاہ پنجاب لاہور، ص ۱۵۴۔ ۱۵۳ ایک جگہ آتا ہے کہ: ہر شے اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ (سورۂ بنی اسرائیل) ’’ سبح‘‘ سے دوڑنا بھی مقصود ہے، تیرنا بھی، مصروف عمل ہونا بھی، عبادت کرنا بھی۔ اور ظاہر ہے کہ کائنات کی ہر چیز تعمیل حکم الٰہی میں سر گرم عمل ہے۔ جس کی جو ڈیوٹی مقرر ہے وہ ادا ہو رہی ہے۔ ’’ قل کل یعمل علی شاکلتہ‘‘ اور ہر شے اپنی تکمیل کے در پے ہے۔ نئی نئی چیزیں نمودار ہو رہی ہیں۔ پھر خامی کے درجے سے بڑھ کر پختگی کے درجے کو پا رہی ہیں۔ حضرت علامہ نے بزبان ’’ زمانہ‘‘ فرمایا ہے: میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ وقت کے ساتھ ساتھ عالم امکان میں ہر شے اپنی آخری تقدیر کی تلاش میں ہے۔ لہٰذا اولاد آدم کو بھی ہر لحظہ بڑھتی اور پھیلتی ہوئی کائنات میں اپنی سیادت و سطوت برقرار رکھنے کی خاطر مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اسے آگاہ اور بیدار رہنا پڑتا ہے۔ زمانہ ہر دم نئے امتحان سے دو چار کرتا ہے اور ہر دم ترقی کی طرف قدم اٹھانے پر اکساتا رہتا ہے۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں: ’’ بہرحال اسلامی فکر نے جو راستہ اختیار کیا اس کی انتہا جس پہلو اور جس رنگ میں بھی دیکھئے کائنات کے حرکی تصور پر ہوئی اور پھر جسے ابن مشکویہ کے اس نظریے سے کہ زندگی عبارت ہے ایک ارتقائی حرکت سے، مزید تقویت پہنچی۔ علیٰ ہذا ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے قرآن پاک نے تاریخ کو ’’ ایام اللہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اسے علم کا ایک سرچشمہ قرار دیا ہے۔۔۔ اس کی ایک اور بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اقوام و امم کا محاسبہ انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ انہیں اپنی بد اعمالی کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور یہ وہ بات ہے جس کے ثبوت میں اس نے بار بار تاریخ سے استناد کیا۔‘‘ 1؎ چند سطور آگے چل کر حضرت علامہ ’’ ولکل قوم اجل‘‘ کی روشنی میں کہتے ہیں کہ اس آیت کو پیش نظر رکھیں تو ’’ اس کی حیثیت ایک مخصوص تعلیم کی ہے جس میں گویا بڑے حکیمانہ انداز میں یہ سمجھایاگیا ہے کہ امم انسانی کا مطالعہ بھی ہمیں بطور اجسام نامیہ علمی نہج پر کرنا چاہیے۔‘‘ ظاہر ہے کہ امم انسانی کی حیثیت اگر اجسام نامیہ کی سی ہے تو اور امم امم سے مربوط چلی آ رہی ہیں تو تاریخ انسانی ترقی کی ایک مسلسل حرکت ہے جس کو ماضی اور حال و استقبال کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ بیج پودے میں شامل ہے۔ بیج اور پودا درخت میں شامل ہے۔۔۔ ایک بچہ جب لڑکپن کی عمر کو پہنچا تو جب بھی وہ اصلاً وہی وجود تھا جس نے جنم لیا تھا اور جب وہ پھرپور جوانی سے سرمایہ دار ہوا تو بھی وہ اصلاً وہی تھا۔ اس میں بچہ بھی شامل تھا اور لڑکا بھی، یہی حال اقوام و ملل کا ہے۔ 1؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۱۳۔ ۲۱۲ بلکہ اجتماعاً پوری اولاد آدم کا ہے۔ اور یہ واضح ہے کہ جب ہم تاریخ کہتے ہیں تو مراد آدم کی تاریخ ہوتی ہے اور اگر آدم نہ ہو تو نہ نظر ہے نہ بصر نہ جذبہ نہ احساس، نہ شعور نہ حواس، نہ اشیاء کا علم اور نہ ان کے خواص کا، نہ اشیاء کے ربط باہم سے آگاہی اور نہ خواص کے اختلاط سے واقفیت، نہ رنگ، نہ ڈھنگ، نہ کیف، نہ مستی، نہ فتح، نہ شکست، نہ خوشی، نہ غم، نہ حسن اور نہ عشق۔ مولانا روم نے بجا طور فرمایا تھا: عالم از ما ہست شد نے ما ازو بادہ از ما مست شد نے ما ازو گویا جملہ معیارات کا مالک بھی آدم ہے اور ناقد بھی، تجزیہ بھی وہی کر سکتا ہے اور داد بھی وہی دے سکتا ہے، اس کیفیت کو حضرت علامہ نے شعر ذیل میں پیش کیا ہے: قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد دوسری جگہ فرمایا ہے: نمی بینی کہ ما خاکی نہاداں چہ خوش آرا ستیم ایں خاکداں را اور یہ آدم ہی کی کاوش، مشقت، عرق ریزی اور خوں فشانی ہے جس نے دنیا کو آب و رنگ اور کیف و آہنگ عطا کیا۔ شعر ذیل میں اسی فخر کا اظہار ہے مگر درد و سوز کے لہجے میں: مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ حضرت علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں خدانے تاریخ کو ’’ ایام اللہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے: ’’ فذکر ھم بایام اللہ‘‘ (سورہ ۱۴، آیت۵) اسی طرح یہ ارشاد ہے: ’’ وتلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ (سورہ۳، آیت ۱۳۹) دونوں آیات میں واسطہ بنو آدم ہی سے ہے۔۔۔ لب لباب یہ کہ تاریخ کی حیثیت اہل نظر افراد انسانی کے لیے ایک لائحہ عمل، ایک جولانگاہ امکان، اور ایک تازیانہ عبرت کی ہے تاکہ آدمی ہر لحظہ بہتر سے بہتر آدمی بننے کے لیے کوشاں رہے۔ اگر زمان کو ایک زندہ حقیقت کے بطور قبول نہ کیا جائے تو حضرت علامہ کا فلسفہ خودی سر تا سر بے مدار ہو کر رہ جاتا ہے۔۔۔ خود آگاہی، خود نگہداری اور تکمیل خودی یا تکمیل انسانیت، کسی بے نمو جہاں میں اور بے حرکت و ارتقا آفاق میں بے معنی بات ہے۔ حضرت علامہ کو نظریہ خودی پر جو ایمان ہے اس کی روشنی میں پوری کائنات محشر ستان اضطراب دکھائی دیتی ہے۔ فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات ایسے سکون اور بے آرام جہاں میں خود آگاہ افراد آدم کو چین کیونکر نصیب ہو سکتا ہے۔ اس کے مقاصد کی تکمیل ہو تو چین ملے؟ منزل مقصود تک پہنچے تو سکوں یاب ہو؟ لیکن اگر سکون میسر آ گیا تو پھر زندگی میں باقی کیا رہا؟ ہمہ سوز نا تمام ہمہ درد آرزویم بگماں دہم یقیں را کہ شہید جستجویم جیسا کہ شروع میں مقریزی، الابدل اور ابن خلدون کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے قرآن کے نزدیک عہد ماضی کی داستان محض دل لگی کا سامان نہیں بلکہ ایک مدرسہ ہے جس میں صدائے ’’فاعتبروا‘‘ گونجتی رہتی ہے۔ حضرت علامہ کا نظریہ بھی دیگر مسلمان مورخین کی طرح تقریباً یہی ہے۔۔۔ وہ اسرار و رموز شاعرانہ چابکدستی کے ساتھ سمجھاتے ہیں کہ تاریخ محض قصہ کہانی اور افسانہ و داستاں نہیں۔ یہ تو تجھے تجھ سے آگاہ کرتی ہے تیرے خنجر خودی کے لیے فساں کا کام دیتی ہے۔ وہ شمع ہے جو امتوں کے لیے ستارے کا کام دیتی ہے، ماضی کو کھینچ کر سامنے لا بٹھاتی ہے اور ماضی کے حال و استقبال سے رشتہ جوڑ دیتی ہے۔ حضرت علامہؒ کے الفاظ یہ ہیں: چیست تاریخ اے ز خود بیگانہ داستانے قصہ، افسانہ ایں ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مرد رہ کند ہمچو خنجر بر فسانت میزند باز بر روئے جہانت میزند شمع او بخت امم را کوکب است روشن از وے امشب و ہم ویشب است چشم پرکارے کہ بیند رفتہ را پیش تو باز آفریند رفتہ را سر زند از ماضی تو حال تو! خیزد از حال تو استقبال تو مشکن از خواہی حیات لا زوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال قرآن نے بار بار تلقین کی ہے کہ اہل ماضی کے احوال سے آگاہی حاصل کرو، دنیا میں گھومو پھرو اور دیکھو کہ وہ لوگ جو تم سے زیادہ قوی تھے جن کے مضبوط جتھے بھی تھے، جن کے پاس ہر طرح کے اسباب زندگی موجود تھے آخر کہاں گئے، ان کے آثار اگر کہیں باقی ہیں تو ان کو بھی دیکھو اور عبرت سمیٹو۔ خطاب بالعموم عوام سے ہے اور ظاہر ہے کہ خواص بھی ان میں شامل ہیں۔۔۔۔ اوپر علامہ اقبال کے جتنے بھی اقتباس گزر چکے ہیں ان میں آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ علامہ نے اقوام، امم اور ملل کا ذکر کیا ہے، یعنی ان کے نزدیک اہمیت سلاطین کو حاصل نہیں، اس لیے کہ تاریخ محض بادشاہوں کی تاریخ نہیں۔ آغاز میں جو اقتباس مسلمان مورخین کے دیے گئے ہیں ان میں بھی قوموں اور جماعتوں وغیرہ کی بات کی گئی ہے وہاں بھی تاریخ کو وابستہ سلاطین نہیں بتایا گیا۔۔۔ مسلمانوں نے بادشاہوں بادشاہی درباروں اور متعلقہ کاروبار کو تاریخ کے گوناگوں پہلوؤں میں سے ایک پہلو جانا ہے اور وہ پہلو بھی ’’ سیاست‘‘ کا حصہ ہے۔ حاوی حصہ سہی۔ علامہ فرماتے ہیں: سکندر رفت و شمشیر و علم رفت خراج شہر و گنج کان و یم رفت امم را از شہاں پائندہ تر داں نمی بینی کہ ایراں ماند و جم رفت تاریخ در حقیقت قوموں کی روداد ہے۔ بقول علامہ تاریخ ایک طرح کا ضخیم گراموفون ہے جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔ 1؎ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اکابر خواہ وہ سیاسی اکابر ہوں یا متاعی اور وسائل اکابر ہر اجتماعی زندگی میں موثر عنصر کے مالک ہوتے ہیں۔۔۔ ان کا رویہ زیر دستوں پر اثر ڈالتا ان کے اسلوب ماتحتوں کے لیے غلط اور صحیح کا معیار بننے لگتے ہیں۔ اس لیے کہ آدمی کی عام فطرت خام میں نقالی اور بھیڑ چال کا جوہر بدرجہ فراواں موجود ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قول منسوب ہے کہ: ’’ الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘ ’’ لوگ اپنے بادشاہوں کا طریق و اسلوب اختیار کر لیتے ہیں۔‘‘ بادشاہوں کا اثر نیچے کو درجہ بدرجہ پہنچتا ہے اور درجہ بدرجہ اپنے رنگ میں رنگتا ہے۔۔۔۔ پھر اگر اوپر والوں کے لیے یہاں انصاف، انسان دوستی، حیا اور شرافت موجود ہوتی تو نیچے تک نقال عوام کا چلن ویسا ہی ہو جاتا، یعنی اچھائیاں بطور طرز مقبول اپنالی جائیں۔ اور اگر معاملہ برعکس ہوتا تو برعکس۔ اور یہ امر واضح ہے کہ اوپر والے بھی فطرتاً ہر وقت معرض خطر میں رہتے ہیں ان کی جوہری بہیمی خصلتیں بار بار سر نکالتی ہیں اور جب اخلاق کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور ضمیر اور قلب کا تازیانہ تادیب کمزور پڑ جاتا ہے تو آدمی بظاہر تو آدمی ہی رہتا ہے مگر اندر سے بہیم اور حیوان وحشی بن چکا ہوتا ہے۔ وہ تن پروری کو دین جانتا ہے اور تن پروری کے دیگر جملہ عناصر ہوس کا شکار ہو کر بے رحم اور خونخوار وجود کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے عالم میں بدکاری اوپر سے چلتی ہے۔ آپا دھاپی اوپر سے چلتی ہے اور رفتہ رفتہ سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ افراد انفرادی زندگی کی رو سے بھی اور اجتماعی زندگی کی رو سے بھی توازن سے محروم ہو جاتے ہیں۔ توازن سے محرومی ہی بیماری ہے۔ وہ بیماری جو موت سے ہمکنار کر دیتی ہے۔۔۔ عیاں ہے کہ اس خرابی کا سرچشمہ اوپر ہے جس میں سے سوتے پھوٹ پھوٹ کر نیچے کو آتے ہیں۔ اس درجہ بدرجہ وقار اور اقتدار کو علامہ نے ’’ خواجگی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ 1؎ شذرات فکر اقبال۔ ص ۱۴۰ خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعل ناب از جفائے دہ خدایاں کشت دہقاناں خراب انقلاب انقلاب اے انقلاب ’’ خواجہ ‘‘ سے مراد شاہ بھی ہے۔ وزیر بھی، حاکم بھی، جاگیر دار بھی، صاحب اموال و جاہ بھی، و علیٰ ہذا القیاس قرآن کریم میں آتا ہے: واذ اردنا ان نھلک قریۃ امرنا متر فیھا ففسقوا فیھا فحق علیھا القول فد مزناھا تدمیرا (سورہ ۱۷، آیت ۱۶) جب ہم کسی بستی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے دولت مندوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ بدکاری پر اتر آئیں۔ وہ بدکاری کرتے ہیں، پھر اللہ کا قول پورا ہو جاتا ہے، لہٰذا ہم اسے تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اوپر حضرت علامہ کے خطبات میں سے ایک اقتباس درج کیا جا چکا ہے جس میں حضرت علامہ نے مطالعہ قرآن کی روشنی میں یہ استنتاج کیا ہے کہ قوموں کو ان کی بد اعمالی کی سزا انفرادی طور پر بھی ملتی ہے اور اجتماعی طور پر بھی، اور یہیں اس دنیا میں بھی ملتی ہے۔۔۔ قرآن کریم نے کئی قوموں کے عروج اور زوال کے کوائف بیان کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کے افراد کی اکثریت بدکار ہوتی ہے تو قوم سزا کی مستوجب ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اکثریت اچھے اور خوش عمل لوگوں پر مشتمل ہو اور ان میں ایک تعداد بد کاروں کی بھی ہو تو قانون فطرت اس قوم کو اجتماعی سزا نہیں دیتا۔ ہاں وہ انفرادی سزا سے نہیں بچتے۔ برا عمل تو خود اپنی ذات میں جانکاہ اور روح فرسا ہوتا ہے جو زندگی کو بھسم کر دیتا ہے، نافرمانی کی سزا اس کے علاوہ علامہ نے فرمایا ہے: فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف ایک بات اور جو قرآن کے مطالعہ سے واضح ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ تاریخ آدم حیوانی جبلتوں اور انسانی روح کے مابین ایک مستقل کشمکش کا نام ہے۔ بقول برگساں ارتقاء زندگی کی اس جدوجہد کا نام ہے جو وہ مادے کے تسلط سے نجات پانے کی خاطر عمل میں لاتی ہے۔ 1؎۔۔۔ مادہ مادے کی طرف کھینچتا ہے اور ظاہر ہے کہ انسانی وجو دمیں ٹھوس اور وزنی حصہ مادے ہی کا ہے اور وہی بالعموم حاوی رہتا ہے۔ روح کی لطافت کو محنت سے تقویت دینا پڑتی ہے، جب وہ وجود کے مادی حصے کو مادے کی نذر ہونے سے بچا سکتی ہے۔۔۔۔ انسان ذرا غافل ہو تو نیچے کو چلا جاتا ہے، جیسے کوئی بارودی ہوائی، جب تک ہوائی میں بارودی تپش موجود رہتی ہے اس کا اوپر کی طرف سفر جاری رہتا ہے۔ اور جب وہ تپش ختم ہو جاتی ہے تو پھر 1؎ Evolution is the efforts of life is free itself of the domination of Matter. ہوائی ہوا میں معلق نہیں رہتی۔ جہاں تک پہنچی ہو وہیں ٹھہر نہیں جاتی، پھر وہ نیچے کو آتی ہے بالکل یہی کیفیت آدم کی ہے اسے ہر دم خود آگاہ اور بیدار رہنا پڑتا ہے، ہر لحظہ روح کی تپش کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ اگر یہ تپش نہ رہے کہ تو باقی مادی جسم کی حیثیت ملبے سے زیادہ کچھ نہیں رہتی، جبھی تو علامہ دعا کرتے ہیں: مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا مری خاک جگنو بنا کر اڑا تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضیٰؓ سوز صدیقؓ دے ایک اور بات جو قرآن کے مطالعے سے واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ روح کی زندگی کی رہبری اور تقویت کے لیے ہر زمانے میں ہر قوم میں اللہ نے پیغمبر ؑ بھیجے جنہوں نے اپنے اپنے محدود دائرے میں اخلاق کی بگڑی ہوئی حالت کو سنوارنے کی کوشش کی۔ جنہوں نے زندگی کی صداقتوں کا اثبات کیا اور ہر باطل کی نفی میں سرگرمی دکھائی اور آدم کو بہتر سے بہتر آدم بنانے کے لیے آئین و دستور دیا۔ حضرت علامہ کے بقول اگر کائنات کی اساس کو مادی کے بجائے روحانی تسلیم کر لیا جائے تو بہت سی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں۔ ہر پیغمبر نے اپنے اپنے دور اور اپنے اپنے دائرے میں مثبت قدروں کو اپنانے اور منفی قدروں سے اجتناب کرنے کی تعلیم د ی اور ان میں پیغمبروں کی تعلیم اساساً ایک ہی جیسی تھی۔۔۔ مگر جب کبھی اور جہاں کہیں وحی کا دیا ہوا ضابطہ رد کر دیا گیا یا اس کے نفاذ میں غفلت عمل میں آئی وہاں بربادی رونما ہوئی اور متعلقہ معاشرہ مٹ گیا۔ حضرت علامہ کے یہ دو شعر اوپر گزر چکے ہیں: سرزند از ماضی تو حال تو خیزد از حال تو استقبال تو مشکن ار خواہی حیات لا زوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال کہ تیرا حال تیرے ماضی سے پھوٹتا ہے اور حال سے استقبال سر نکالتا ہے۔ اگر تو حیات لا زوال کا خواہاں ہے تو پھر اپنے ماضی کا رشتہ اپنے حال و استقبال سے قطع نہ کر ۔ گویا ہمارا ماضی و حال و استقبال مربوط و مضبوط ہے۔ ہم اپنے ماضی کو ساتھ لے کر آگے کو بڑھ رہے ہیں۔ یوں دیکھیں تو احساس ہو گا کہ ماضی اولاد آدم کا اجتماعی حافظہ ہے۔ جس طرح فرد اچانک حافظے سے محروم ہو جائے تو بے معنی وجود سے زیادہ کچھ نہ رہے۔ یہی حال قوموں کا ہے اگر وہ حافظہ کھو بیٹھیں تو مہمل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ برگساں کے بقول: ’’ حافظہ محض ماضی بعید کی یادوں کو تازہ کرنا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حافظے سے مراد ماضی کا ہمارے ساتھ ’’ شامل حال‘‘ ہونا ہے اور ہمارے حال کو متاثر کرنا ہے۔‘‘ 1؎ یہاں جارج برنارڈشا کا ایک قول یاد آتا ہے: ’’ تاریخ کا حال سے کیا کام، جبھی تو بچوں کو معاصر تاریخ نہیں پڑھائی جاتی، انہیں تاریخ اسی دور کی پڑھائی جاتی ہے جس کی سوچ سا قحط الرواج ہو چکی ہوتی ہے اور جس کے احوال حقیقی عملی زندگی پر اطلاع پذیر نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر انہیں تاریخ تو (جارج) واشنگٹن کی پڑھائی جاتی ہے اور جھوٹ بولے جاتے ہیں لینن کے بارے میں خود واشنگٹن کے زمانے میں ایسے ہی جھوٹ واشنگٹن کے بارے میں بولے جاتے تھے مگر تاریخ پڑھائئی جاتی تھی کرامویل (Cromwell) کی پندرھویں اور سولہویں صدی میں جون (Joan) کے بارے میں جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ ہاں اب اس کے بارے میں سچ بھی بولا جا سکتا ہے۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ سیاسی احوال و اظراف بدل جانے کے با وصف جھوٹ کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا۔‘‘ 2؎ سطور بالا میں تاریخ کا بڑا ہی محدود سا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ گویا معاصر تاریخ کا معنی بھی کسی سیاسی اہمیت کے مالک شخص کی تاریخ ہے اور ماضی کی تاریخ بھی کسی اہم شخص ہی کے گرد گھومتی ہے۔ ہاں ایک بات بڑی حد تک درست ہے وہ یہ کہ معاصر اکابر کے باب میں سچ بولنے کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔ ظالم کو عادل، نجیل کو سخی، ہونق کو افلاطون اور بے حس کو درد مند وغیرہ کہا ہی جاتا ہے اور وہ لوگ جو مر جاتے ہیں ان پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ چھان پھٹک بھی فرمائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم تاریخ پڑھا یا بتا رہے ہیں لہٰذا سچ کا دامن نہیں چھوڑ سکتے۔ تیسری بات جو ’’ شا‘‘ نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی حالات کے بدل جانے کے باوصف جھوٹ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ بڑی مزے کی بات ہے جس کا معنی یہ ہے کہ معاصر مورخ معاصر اکابر یا حکام کے بارے میں اتنی گمراہ کن حکایات، اطلاعات اور بے بنیاد واقعات خوف یا تملق کے باعث قلمبند کر جاتے ہیں کہ مورخین ما بعد اگر سچ ڈھونڈتے جائیں تو کہاں؟ پاسکل کا بڑا مشہور جملہ ہے کہ اگر قلو پطرہ کی ناک ذرا چھوٹی ہوتی تو دنیا کی ہسٹری اس سے مختلف ہوتی جو آج ہے صحیح کہ قلو پطرہ کے حسن نے سیزر، اینٹونی، آکیٹوین کے مابین مختلف النوع کش مکش کی صورت پیدا کی۔ جنگیں ہوئیں، موتیں ظہور میں آئیں۔ رومن سلطنت کے صوبے ہی نہیں مرکز بھی متاثر ہوا۔ اگر رومن سلطنت کی یہ قوت قلو پطرہ کی ناک پر قربان نہ ہو جاتی تو نہ جانے اس سلطنت کی حدود کیا ہوتیں اور آگے چل کے کیا کیا وسیع اور اہم نتائج برآمد ہوتے۔۔۔ مگر پاسکل نے بھی گویا ’’ شا‘‘ کی طرح 1؎ Masterpices of world philosophy R 768 (Harper and brothers, new york) ed: 1961. 2؎ Prefaces by bernard shaw p. 628 (odhams press, London) 1938. تاریخ کو اشخاص کے تابع کر دیا، بیان تک تو درست ہے کہ معاشروں میں ہلچل افراد پیدا کرتے ہیں۔۔۔۔ انقلاب افراد ہی کے باعث رونما ہوتے ہیں، مگر انقلاب بھی اور شے ہے اور سیاست بھی ۔ تاریخ کا دامن بہت ہی وسیع ہے۔ انقلابات اس دامن کی سلوٹیں ہیں اور سیاست اس کی ایک پٹی یا کنارا بنتی ہے۔۔۔ تاریخ بہر حال صرف حکام اور سلاطین کی تاریخ نہیں، تاریخ پورے معاشرے اور پوری اجتماعی زندگی کی تاریخ ہے اور وہ ایسی زندہ حقیقت ہے کہ سیاسی امور سے تعلق رکھنے والی تحریریں کمیاب بھی ہوں تو بڑا نمایاں فرق نہیں پڑتا۔ تاریخ تو داستانوں میں بھی ملے گی، شعر میں بھی، لطائف میں بھی، تعمیرات میں بھی، تصاویر میں بھی، صنعتوں میں بھی، اوزاروں اور ہتھیاروں میں بھی، برتنوں اور زیوروں میں بھی۔۔۔۔ گوناگوں زندگی اور اس کے گوناگوں مظاہر سب کا مجموعہ تاریخ کہلاتا ہے۔ سیاست اس کا ایک اور فقط ایک حصہ ہے، افراد معاشرہ کی امنگیں اور آرزوئیں، مسائل اور مصائب، محاسن اور مصائب، ولولے اور پریشانیاں یہ سب شاہوں کی پیدائش و وفات اور ان کے سال جلوس و سال انتقال سے مختلف معاملات ہیں۔۔۔ قرآن نے جہاں بھی کسی قوم کے عروج و زوال کی کہانی سنائی ہے وہاں عموماً ان کے اجتماعی کردار اور معاشرتی احوال کو حوالہ بنایا ہے ان کے بادشاہوں کی جانب اشارہ کم کم ہی کیا ہے۔۔۔۔ مسلمان مورخین کا بھی عمومی رویہ یہی رہا۔ انہوں نے تاریخ کو کبھی بادشاہوں کی تاریخ نہ جانا۔ خلیفہ، بادشاہ، حاکم وغیرہ تاریخ کا ایک حصہ ضرور ہیں اس لیے کہ معاشرے کی اجتماعی زندگی میں وہ بھی شامل تو ہیں۔۔۔ تاریخ کا آئینہ بہر حال اجتماعی زندگی ہے اور یہی حضرت علامہ کے پیش نظر ہے۔ ان کا یہ قول پہلے قلمبند کیا جا چکا ہے: ’’ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسانی روح کی ایک حرکت ہے۔ روح انسانی کا کوئی ماحول نہیں بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہے۔‘‘ ٭٭٭ علوم جدیدہ اقبال کی نظر میں محمد احمد خان جدید تعلیم کے تین بنیادی رہنما اصول ہیں۔ مشاہدۂ فطرت، استقرائی طرز استدلال اور تجربی طریق تحقیق، ان ہی اصولوں نے علوم جدیدہ یا موجودہ سائنس کو جنم دیا اور ان ہی اصولوں کی مدد سے موجودہ سائنس نے فطرت کی بیشتر قوتوں کو مسخر کر لیا ہے، اور اب وہ ایک قدم آگے بڑھا کے ماہ و پرویں کا شکار کرنا چاہتی ہے۔ اقبال ان تینوں اصولوں کے نہ صرف قائل بلکہ مداح ہیں، اور ان مذکورہ بالا اصول سہ گانہ کی بنیاد پر جو علوم مدون ہوئے ہیں یعنے علوم جدیدہ کے بھی وہ حامی اور موئید ہیں۔ وہ ان علوم کو بجا طور پر ’’ علم اشیائ‘‘ اور’’ حکمت اشیائ‘‘ کا لقب دیتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ہر چہ می بینی ز انوار حق است حکمت اشیاز اسرار حق است ہر کہ آیات خدا بیند حراست اصل ایں حکمت نہ حکم ’’انظر‘‘ است علم چوں روشن کن آب و گلش از خدا ترسندہ تر گرد و ولش (پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق) یہ اشیاء جو تمہیں اپنے گرد و پیش پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ کیا ہیں؟ یہ خداوند تعالیٰ کے انوار اور اس کی نشانیاں ہیں۔ یہ آثار کائنات اور مظاہر فطرت ہیں۔ ان کے پیچھے جو حکمت کار فرما ہے، وہ خدا کا پوشیدہ راز ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں پر غور و خوض کرتا، ان کے اسرار و رموز کا کھوج لگاتا اور پھر انہیں فاش کرتا ہے وہی ’’ مرد حر‘‘ ہے کیونکہ اس نے ان آثار کائنات اور مظاہر فطرت کی بو قلمونیوں کے آگے سر نہیں جھکایا بلکہ ان کے اندر کار فرما حکمت کے چہرہ پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس نے اپنے اور اس کائنات کے حقیقی مالک کے حکم ’’ فانظر الیٰ الابل کیف خلقت‘‘ کو سنا اور اس کی تعمیل میں ’’ نظام فطرت کا بغور مطالعہ کیا 1؎‘‘ وہ آثار کائنات اور مظاہر فطرت سے مرعوب ہو کر ان کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوا۔ وہ صرف خالق کائنات اور فاطر سماوات والارض کا بندہ بنا اور اسی بندگی کی تعمیل میں اس نے ان آثار و مظاہر کا سینہ چاک کیا اور انہیں مغلوب و مفتوح کر کے ان کے اسرار و رموز کو فاش کیا اس طرح وہ خالق کائنات کا محکوم، مگر آثار و مظاہر کائنات کا حاکم و فاتح ہے، اسی لئے وہ در حقیقت ’’ عبد حر‘‘ ہے۔ 1؎ علامہ اقبال نے ’’ حکم انظر‘‘ کی تشریح خود ہی کی ہے۔ ’’ حکم انظر تلمیح ہے، آیت قرآنی کی طرف فانظر الی الابل کیف خلقت ‘‘ یعنے ’’ نظام فطرت کا بغور مطالعہ کرو‘‘ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق اشاعت اول ص ۵۷ 2؎ صحیح آیت اس طرح ہے : افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت (سورۂ غاشیہ ۔ ۱۷) (ادارہ) اقبال کی نظر میں یہ ’’ حکمت اشیائ‘‘ کوئی ہنسی، مذاق یا کھیل تماشا نہیں ہے۔ یہ ’’ خیر کثیر‘‘ ہے۔ اس کی بڑی فضیلت و عظمت ہے اور اسی لئے اس کو حاصل کرنا چاہیے۔ فرماتے ہیں: زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خد اخیر کثیر ہر کجا ایں خیبر را بینی بگیر سید کل صاحب ام الکتاب پروگیہا بر ضمیرش بے حجاب گرچہ عین ذات را بے پردہ دید ’’رب زدنی‘‘ از زبان او چکید (پیام مشرق) زندگی جہد مسلسل اور سعی پیہم کا نام ہے۔ اس میں کامیابی گھر بیٹھے ’’ فلاں ابن فلان‘‘ کا دعویٰ کر کے یا ’’ پدرم سلطان بود‘‘ کا حق جتا کر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ متاع زندگی سے بہرہ ور وہی ہو سکتا ہے جو انفس و آفاق کا علم حاصل کر لے، کیونکہ حقیقی زندگی عبارت ہے علم ’’ انفس و آفاق‘‘ سے۔ اس دنیا میں قابل غور و فکر دو ایسی چیزیں ہیں ایک تو ذہن انسانی یعنے ’’ نفس‘‘ اور دوسرے ذہن انسانی سے باہر جو کچھ ہے یعنے ’’ آفاق‘‘ کامیابی کی کلید ان ہی دو کا علم ہے۔ علم النفس اور علم آفاق یہی دو بنیادی علوم ہیں۔ ’’ علم انفس‘‘ کو ذہن، روح، یا نفس کا علم کہئے یا جدید اصطلاح میں نفسیات (Psychology) یا روحانیات (Spiritualism) کہہ لیجئے۔ علم آفاق کو آثار کائنات مظاہر فطرت کا علم کہنے یا جدید اصطلاح میں’’ سائنس‘‘ قرار دے لیجئے۔ دنیا کے تمام علوم ان ہی دو کی شاخیں ہیں۔ علم کی بنیادی اور فطری تقسیم بھی یہی ہے۔ کلام مجید میں ان ہی بنیادی علوم کا ذکر کیا گیا ہے ارشاد ربانی ہے: سنزیھم ایاتنا فی الافاق و فی انسھم اقبال اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زندگی میں اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو یہ کام ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے نہیں ہو گا۔ اس کے لئے علم حاصل کرنا ہو گا۔ انفس و آفاق کا علم، روح و مادہ کا علم! اور واقفیت حاصل کرنی ہو گی، انسان کے اندرون و بطلان کی اور انسان سے باہر مظاہر فطرت و آثار کائنات کی! پھر وہ کہتے ہیں کہ یہی علم و واقفیت، حکمت ہے اور حکمت کو اللہ تعالیٰ نے ’’ خیر کثیر‘‘ کہا ہے من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیرا یہ خیر کثیر ہے عظیم بھلائی! بڑی دولت!! اور جس کو یہ حکمت مل جاتی ہے گویا کامیابی کی کلید اس کے ہاتھ آ جاتی ہے، اس لئے اس کو حاصل کرنا چاہیے، چاہے جہاں سے بھی مل جائے۔ اس کی عظمت و فضیلت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ کائنات کے سردار ’’ صاحب ام الکتاب‘‘ نے دعا مانگی تو یہی کہ ’’ رب زدنی علما‘‘ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ کر یہ صاحب ام الکتاب کون ہیں؟ اللہ کے رسول ہیں حامل قرآن ہیں اور ان کی شان یہ ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے سے کائنات اور اشیائے کائنات کے پردے اٹھا دئیے گئے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انہوں نے خالق کائنات اور مالک انفس و آفاق کو بے پردہ بے حجاب دیکھا ہے!اس کے باوجود ان کی زبان سے اگر کسی خواہش کا اظہار ہوتا ہے تو یہی کہ اے میرے رب مجھے علم دیا ور علم دے علوم باطنی (انفس) و ظاہری (آفاق) کے حامل ’’ مدینتہ العلم‘‘ کی زبان سے یہ دعا اس بات کی علامت ہے کہ علم ہی نعمت عظمیٰ ہے!! اقبال نے علم اشیا یا حکمت اشیاء کی فضیلت و عظمت کا صرف ذکر ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی اصل حقیقت پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ علم اشیا یا حکمت اشیا اصل میں ہے کیا۔ علم اشیاء علم الاسما ستے ہم عصاد ہم یدبیضا ستے یہ علم اشیاء اصل میں وہ علم الاسماء ہے، جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھایا تھا اور فرشتوں کو اس سے محروم رکھا تھا یہ وہی علم اسماء ہے، جس کی وجہ سے حضرت آدم نے فرشتوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اقبال نے یہاں ’’ علم الاسمائ‘‘ کے الفاظ سے ایک قرآنی تلمیح کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کلام مجید میں ارشاد ہے۔ واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ قالو اتجعل فیھا من یفسد فیھا یسفک الم ماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک قال انی اعلم ما لا تعلمون وعلم ادم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکتہ فقال انبونی باسماء ھولا ان کنتم صدقین قالو بسحنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم قال یادم انبئھم باسماء ہم فلما انباھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم عیب السموات والارض واعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون (سورہ بقر آیات ۲۹تا ۳۳) ترجمہ: اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے عرض کیا کہ کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس میں فساد پیدا کرے اور خون بہائے؟ ہم تو آپ کی حمد و ثنا کرتے اور آپ کی تسبیح و تقدیس میں لگے ہی رہتے ہیں۔ فرمایا بے شک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھا دئیے۔ پھر ان (چیزوں) کو فرشتوں کے سامنے رکھا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ انہوں نے عرض کیا آپ کی ذات پاک ہے ہم کو تو بس اتنا ہی معلوم ہے، جتنا آپ نے ہمیں سکھایا۔ بے شک آپ ہی اصل حقیقت جاننے والے اور حکمت والے ہیں پھر اللہ نے کہا اے آدم بتا دو ان کو ان چیزوں کے نام! پھر اس نے ان کو ان چیزوں کے نام بتا دئیے تو اللہ نے فرمایا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی تمام چھپی ہوئی حقیقتوں کو جانتا ہوں میں ان چیزوں کو بھی جانتا ہوں، جنہیں تم ظاہر کرتے ہو اور ان چیزوں سے بھی واقف ہوں، جنہیں تم چھپاتے ہو۔ اقبال نے ’’ علم اشیاع علم الاسما ستے‘‘ کہہ کر اس پورے قرآنی قصہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علم اشیاء دراصل الفاظ ربانی علم ادم الاسماء کلھا سے ماخوذ ہے۔ علم اشیاء حقیقت میں علم اسماء اشیاء ہے۔ یہاں اسم سے مراد رسمی نام نہیں ہے۔ غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ کسی شے کا نام اس شے کے حقائق و خواص کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ ایک علامت ہے جس کو زبان پر لاتے ہی اس شے کی ظاہری شکل وصورت اس کے باطنی اوصاف و خصائص کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اسماء کا علم عطا فرمایا۔ گویا آدم کو حقائق و خواص اشیاء کا علم دیا گیا۔ انسان کے اندر فطرت نے یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ کائنات کی تمام چیزوں کی خاصیت و ماہیت کو معلوم کر سکتا ہے اور جب وہ اپنی اس فطری صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ کائنات کی تمام چیزوں کی خاصیت و ماہیت کو معلوم کر سکتا ہے اور جب وہ اپنی اس فطری صلاحیت سے کام لے کر اشیاء کا یہ علم ’’ عصا‘‘ یعنے ایک طاقت (Power) بھی ہے اور ’’ ید بیضا‘‘ یعنے آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والا ایک معجزہ بھی۔ اس کے ذریعہ وہ اس زمین پر خدا کا نائب (خلیفہ) اور مقربان بارگاہ رب کا مسجود بن جاتا ہے۔ یہ علم کی فضیلت و عظمت بھی ہے اور اس کی ماہیت، حقیقت اور افادیت بھی! اقبال نے علم ا شیاء یا حکمت اشیاء کی عظمت و برتری کے راگ ہی نہیں گائے ہیں، اس کی حقیقت اور افادیت کا صرف اظہار ہی نہیں کیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ مغرب نے گو اسی کے ذریعہ ترقی کی ہے۔ مگر یہ علم و حکمت، اس کے آفریدہ نہیں، عرب کے آوردہ ہیں۔ فرماتے ہیں: علم اشیا داد مغرب را فروغ حکمت او ماستے بندد زو وغ جان ما را لذت احساس نیست خاک رہ جز ریزۂ الماس نیست (پیام مشرق) اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کی برق رفتار ترقی اسی علم اشیاء کی رہین منت ہے، لیکن خود اس علم کی تدوین و تربیت کا سہرا یورپ کے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ یہ تو وہ بیش بہا خزانہ ہے، جس کو ہمارے بزرگوں نے برسوں کی جگہ کاویوں اور عرق ریزیوں کے بعد جمع کیا تھا۔ یہ ہماری بد بختی ہے کہ ہمیں اس کی قدر و قیمت کا احساس نہیں رہا۔ ہم نے جن کو گرد و غبار سمجھ کر اپنے دامن سے جھٹک دیا تھا، وہ اصل میں ذرات خاک نہیں، ریزہ ہائے الماس ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ ’’ علم اشیائ‘‘ یا ’’ حکمت اشیائ‘‘ فرنگی زادہ نہیں’’ مسلم زادہ‘‘ ہے یہ احکام اسلامی کے تتبع کا نتیجہ اور مسلمانوں کا چھوڑا ہوا ورثہ اور ہمارے اسلاف کی متاع گم گشتہ ہے۔ فرماتے ہیں: حکمت اشیا فرنگی زاد نیست اصل او جز لذت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ایں گہر از دست ما افتادہ است چوں عرب اندر و پا برکشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آں صحرا نشینشاں کاشتند حاصلش افرنگیاں برو اشتند ایں پری از شیشہ اسلاف ماست باز صیدش کن کہ اواز قاف ماست (مثنوی مسافر) یہ حکمت اشیاء یعنے موجودہ سائنس فرنگیوں کی تخلیق نہیں ہے۔ اس کی جڑ انساں کی طبعی سرشت اور فطری صلاحیت ایجاد و اختراع میں پوشیدہ ہے، اور یہ صلاحیت و ذہانت مسلمانوں میں پائی جاتی تھی کیونکہ اسلام نے انساں کی ظاہری و باطنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور نکھارنے کا بطور خاص انتظام کیا ہے۔ اس لئے اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ حکمت اشیاء اسلام کی آفریدہ ہے۔ یہ تو وہ گوہر آبدار ہے جس سے ہمارے اعلاف نے اپنے تحقیقی کارناموں کو چمکایا تھا۔ امتداد زمانہ کے باعث افسوس ہے کہ یہ موتی ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ عربوں نے جب یورپ میں اپنے دست و بازو کی دھاک بٹھا دی اور اس پر اپنی عظمت و فضیلت کا سایہ ڈالا تو انہوں نے یہاں بھی اپنے علم و حکمت کی نشانیاں چھوڑیں۔ علوم جدیدہ کا بیج تو ان ہی صحرا نشینوں نے یہاں بویا تھا۔ اپنی جانفشانی اور کدو کاوش سے اس کی پرورش و پرداخت کی تھی۔ پھر یہ بیج، برگ و بار لایا اور آج اسی کے پھل ہیں، جو فرنگی مزے سے لے کر کھا رہے ہیں۔ یہ حکمت تو در حقیقت ہمارے علمی کوہ قاف کی پری ہے، جس کو ہمارے بزرگوں نے شیشہ ہائے تحقیق میں اتار رکھا تھا، اسی لئے بجا طور پر ہمیں ہی یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کو دوبارہ شکار کریں۔ اقبال نے یہ باتیں شعر و شاعری کے رنگین طرز ہی میں نہیں کہی ہیں بلکہ نثر کے سیدھے سادے انداز میں بھی پر زور طریقہ پر بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سرچشمہ ہے پندرہویں صدی عیسوی میں جب سے کہ یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا، یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں ہی کی یونیورسٹیوں سے ہوا تھا ان یونیورسٹیوں میں مختلف ممالک یورپ کے طلبہ آ کر تعلیم حاصل کرتے اور پھر اپنے اپنے حلقوں میں علوم و فنون کی اشاعت کرتے تھے۔۔۔۔ غرض یہ کہ تمام وہ اصول جن پر علوم جدیدہ کی بنیاد ہے مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں۔ 1؎‘‘ اقبال نے مسلمانوں کی ان یونیورسٹیوں کا ذکر کیا ہے، جہاں کے طلبہ آ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد خصوصاً وہ اسلامی درس گاہیں ہیں، جو اسپین (اندلس) میں قائم تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں اور ممتاز حیثیت قرطبہ یونیورسٹی کو حاصل تھی، جس کا ذکر بطور خاص اقبال نے اس طرح کیا ہے۔ ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور ظلمت مغرب میں، جو روشن تھی مثل شمع طور بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نمناک ہے 1؎ مقالات اقبال مرتب سید عبدالواحد معینی مطبوعہ لاہور ۱۹۶۳ء ص ۲۳۹، ۲۴۰ مختصر یہ کہ اقبال علوم جدیدہ کے تینوں ذرائع۔۔۔۔ مشاہدہ فطرت، استقرابی طرز استدلال اور تجربی طریق تحقیق۔۔۔ کو قرآنی تعلیمات سے ماخوذ اور مسلمانوں کو ان اصول سرگانہ کا اولیں بانی سمجھتے ہیں اور اسی لئے وہ یا دعویٰ کرتے ہیںکہ ان اصولوں کی بنیاد پر مدون و مرتب کئے ہوئے، علوم جدیدہ یا جدید سائنس (علم اشیاء یا حکمت اشیائ) دراصل اسلامی احکام کے تتبع کا نتیجہ اور مسلمانوںکا ترکہ و میراث (Legacy) ہے۔ یہ صرف علامہ اقبال ہی کا ادعا نہیں ہے، اس کا اعتراف غیر متعصب مغربی محققین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر گستاولی بان اپنی مشہور تصنیف ’’ تمدن عرب‘‘ میں لکھتا ہے: ’’ عربوں کے اندلس میں دسویں صدی میں ہونے کی بدولت یورپ کے ایک گوشہ میں علوم و ادب کا وہ چرچا باقی رہا۔ جوہر جگہ یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں بھی متروک ہو گیا تھا۔ اس زمانہ میں بجز عربی اندلس کے اور کوئی مقام نہ تھا۔ جہاں علوم کا حاصل کرنا، ممکن ہوا اور یہیں وہ خاص اور معدود اشخاص جن کو علم کا شوق تھا، تحصیل کے لئے آتے تھے۔ ایک اختلافی روایت کی رو سے جس کا غلط ہونا اب تک ثابت نہیں ہوا ہے، گربرت نے جو ۲۹۶ میں سلوستر دوم کے نام سے پوپ بن گیا تھا۔ یہیں علم حاصل کیا تھا۔ جس وقت اس نے اپنے علم کو یورپ میں اشاعت دینا چاہا، تو وہ اہل یورپ کو اس قدر خلاف فطرت معلوم ہوا کہ انہوں نے اس پر شیطان کے مسلط ہونے کا الزام لگایا۔ پندرہویں صدی تک کسی ایسے مصنف کا حوالہ نہ دیا جاتا تھا جس نے محض عربوں سے نقل نہ کیا ہو۔ راجر بیکن، پسپا کا لیونار دویل نو کار آتو، ریمانڈ لل ہینٹ ٹامس البرٹ بزرگ، قسنطنیہ کا نفانس وہم، یہ سب یا تو عربوں کے شاگرد تھے، یا ان کی تصنیفات کے نقل کرنے والے تھے۔ موسیوریناں لکھتے ہیں کہ البرٹ بزرگ نے جو کچھ پایا ابن سینا سے پایا اور سینٹ ٹامس کو اس کا سارا فلسفہ ابن رشد سے ملا، ان ہی عربوں کی ترجمہ کی ہوئی کتابوں پر پانچ صدی تک یورپ کے کل دار العلوموں کی تعلیم کا دار و مدار رہا۔ بعض علوم مثلاً طب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عربوں کا تسلط خود ہمارے زمانے تک رہا ہے۔ کیونکہ گزشتہ صدی کے اخیر تک فرانس میں ابن سینا کی تصنیفات پر شرحیں لکھی جاتی تھیں۔ 1؎‘‘ ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ معرکہ مذہب و سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ اگر ہم اس مہتمم بالشان علمی تحریک (یعنے مسلمانوں کی علمی تحریک) کی جزئیات سے بحث کریں تو اس کتاب کا حجم حد سے زیادہ بڑھ جائے گا۔ لہٰذا ہم صرف اس اجمال پر اکتفا کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے قدیم علوم و فنون میں بہت کچھ اضافے کئے اور نئے نئے علوم ایجاد کئے۔ انہوں نے حساب کے ہندی طریقہ کو رواج دیا، جس میں تمام رقوم نہایت خوبصورتی کے ساتھ دس اعداد کے ذریعہ سے اس طرح ظاہر کی جاتی ہیں کہ 1؎ تمدن عرب از گستاؤلی بان ۵۱۵ ہر عدد کی اول تو ایک قیمت مطلق مقرر کر دی گئی ہے اور اس کے بعد ایک قیمت اعتباری ہے، جو بلحاظ موقع یا مرتبہ پیدا ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی ہر طرح کے اندازے کے لئے سہل اور سادہ قاعدے بنا دئیے گئے ہیں۔ جبر و مقابلہ یا بالفاظ دیگر ہمہ گیر ریاضی کا وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے مقادیر غیر معینہ کی تعین یعنے ان تعلقات کی دریافت ہو سکتی ہے، جو ہر قسم کے مقاویر کے درمیان قائم ہوں، خواہ ان مقاویر کا تعلق علم حساب سے ہو، خواہ علم ہندسہ سے۔ اس طریقہ کا موہوم ساخیال ڈریو فٹس کو پیدا ہوا تھا جسے عربوں نے ترقی دے کر اس حد کمال تک پہنچایا۔ جبر و مقابلہ میں محمد بن موسیٰ نے مساوات درجہ چہارم اور عمر بن ابراہیم نے مساوات درجہ سوم کے حل کرنے کا عمل دریافت کیا۔ عربوں ہی کی مساعی سے علم مثلث نے اپنی موجودہ شکل اختیار کی۔ انہوں نے حبیب مستوی کی بجائے، جس کا اول استعمال ہوتا تھا اوتار کو اس فن میں داخل کیا اور اسے ترقی دے ک رایک مستقل فن کی حیثیت عطا کی۔ موسیٰ نے جس کا ذکر ہم کر آئے ہیں علم مثلث کر دی پر ایک رسالہ لکھا اور البغدادی کا ایک رسالہ ساحت پر موجود ہے، جس میں اس فن کے متعلق یہاں تک داد نکتہ سنجی دی گئی ہے کہ بعض لوگ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اس موضوع پر اقلیدس کا جو مقالہ گم ہو گیا تھا، البغدادی کا رسالہ اسی کی نقل ہے علم ہیئت میں انہوں نے نہ صرف ستاروں کی فہرستیں تیار کیں بلکہ اس حصہ آسمان کے نقشے بھی تیار کئے، جو ان کے پیش نظر تھا، بڑے بڑے ستاروں کے انہوں نے نام رکھے اور آج تک یہ ستارے انہیں ناموں سے مشہور ہیں۔ جیسا کہ ہم کو معلوم ہو چکا ہے انہوں نے سطح زمین کے ایک درجہ کی پیمائش کر کے اس کی جسامت دریافت کی۔۔۔ طریق الشمس کا اعوجاج معلوم کیا۔ آفتاب و ماہتاب کی صحیح میزانیں شائع کیں۔ سال کی مدت مقرر کی لیپلیس نے البتانی کے رسالہ ’’ علم کواکب‘‘ کا ذکر ادب و احترام کا ساتھ کیا ہے اور حاکم بامر اللہ خلیفہ مصر ۱۰۰۰ء کے دربار کے مشہور ہیئت دان ابن یونس کی ایک عالمانہ تصنیف کے بعض بچے بچائے اجزاء کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں المنصور عباسی کے زمانے سے لے کر اس وقت تک کے مختلف مشاہدات فلکی مثلاً کسوف و خسوف، نقاط اعتدال لیل و نہار، نقاط انقلاب صیفی دشتوی، قیران سیارگان و احتجاب کواکب کے نتائج مندرج ہیں۔ ان صدی نتائج نے نظام عالم کے بڑے بڑے تغیرات پر بہت کچھ روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ ہیئت دانان عرب نے آلات ہیئت کی ترکیب و تکمیل پر بہت سا وقت صرف کیا۔ وقت کا اندازہ لگانے کے لئے مختلف قسم کی پانی اور دھوپ کی گھڑیاں ایجاد کیں اور سب سے پہلے اس مقصد کی تکمیل کے لئے پنڈلم یعنے رقاص ساعت انہیں نے ایجاد کیا۔ عملی علوم میں جن کا دار و مدار تجربہ پر ہے، علم کیمیا کی ایجاد کا سہرا انہیں کے سر ہے۔ انہوں نے اس فن کے بعض نہایت اہم معیار دریافت کئے مثلاً گندھک کا تیزاب، شورے کا تیزاب اور الکحل اس فن سے انہوں نے مطلب میں بھی کام لیا اور سب سے اول ادویات مفردہ و مرکبہ کی قرا بادینیں شائع کیں اور ان میں معدنی نسخہ جات شامل کئے۔ علم جرثقیل میں انہوں نے گرتے ہوئے اجسام کے قوانین دریافت کئے۔ قوت کشش ثقل کی ماہیت سے بھی وہ نابلدانہ تھے۔ جرثقیل کی قوتوں کے مسئلہ کا انہیں اچھی طرح علم تھا۔ توازن مائعات میں جو ترقی انہوں نے کی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اجسام کے اوزان مخصوص کی میزانیں مرتب کر کے پانی میں اجسام کے ڈوبنے اور تیرنے کے مالہ و ماعلیہ پر انہوں نے مبسوط بحثیں لکھیں۔ فن مناظر و مرایا میں انہوں نے یونانیوں کی اس غلط فہمی کو درست کیا کہ شعاع نور آنکھ سے نکل کر شئے مرئی پر پڑتی ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے اس مسئلہ کو رواج دیا کہ شعاع شئے سے چل کر آنکھ میں داخل ہوتی ہے۔ واقعہ انعکاس و انعطاف ضیاکی ماہیت کا انہیں پورا علم تھا۔ ابن حزم سے یہ مشہور تحقیقات منسوب ہے کہ شعاع نور کرۂ ہوا کو یہ شکل قوس قطع کر تی ہے اور اس سے اس نے یہ ثابت کیا کہ ہم آفتاب و ماہتاب کو قبل طلوع و غروب دیکھتے ہیں۔ اس علمی استعداد کا اثر اس ترقی میں صاف نظر آتا ہے، جو صنعت و حرفت کے متعدد فنون میں جلد جلد ہونی شروع ہوئی۔ فن فلاحت (کاشتکاری) میں آبپاشی کے طریقے پہلے سے بہتر ہو گئے۔ کھاد کا استعمال، ہنر اور سلیقہ کے ساتھ کیا جانے لگا۔ چوپایوں کی افزائش نسل کے متعلق قیمتی نکتے معلوم ہو گئے۔ (یہی قوانین کا ضابطہ کاشتکاروں اور مزارعین کے حقوق کے لحاظ سے بہت زیادہ کامل و مکمل ہو گیا جن کھیتوں میں پہلے دھان کی کاشت نہ ہوتی تھی وہاں اب اس کی لہلہاتی فصلیں نظر آنے لگیں۔ جہاں ایکھ اور قہوہ کا نام و نشان نہ تھا وہاں اب ان کی پیداوار بھی ہونے لگی سلطنت میں جا بجا ریشم، روئی اور اون کے کپڑوں کے کارخانے قائم ہو گئے۔ قرطبہ اور مراکو میں چرم سازی و کاغذ سازی کا کام شروع ہو گیا۔ معدنوں پر کام ہونے لگا۔ مختلف دھاتیں ڈھلنے لگیں۔ ٹالیڈو میں ایسے ایسے فولادی خنجر اور تلواریں تیار ہونے لگیں کہ ایک دنیا ان کا لوہا مان گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض دفعہ ہمیں تعجب ہوتا ہے جب ہماری نگاہ ایسے خیالات پر جا پڑتی ہے جن کی نسبت از راہ تفاخر ہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ان خیالات کے موجد ہونے کا شرف ہمیں کو حاصل ہے مثلاً ایک مسئلہ ارتقاء ہی کو لیجئے جسے ہم اکتشاف جدید سمجھتے ہیں۔ اس مسئلہ کی تعلیم ان کے مدارس میں دی جاتی تھی اور ہم تو خیر اس کے محدود معنے لیتے ہیں وہ ہم سے بھی ایک قدم آگے بڑھے ہوئے تھے اور غیر عضوی اجسام لینے جمادات تک کو اس کے حیز عمل میں داخل سمجھتے تھے۔ 1؎‘‘ 1؎ ’’ معرکہ مذہب و سائنس‘‘ مصنفہ ڈاکٹر ولیم ڈریپر مترجمہ مولانا ظفر علی خاں ص ۱۶۷ تا ۱۷۱ ’’ انہوں نے (عربوں نے) کرہ ہوا کی بلندی کو ناپا اور یہ بلندی اٹھاون میل قرار دی۔ جھٹ پٹے کی اصلی کیفیت اور ستاروں کے جھلملانے کی صحیح وجہ بیان کی۔ یورپ میں اول، اول، جو رصد گاہ قائم ہوئی وہ مسلمانوں ہی کی بنائی ہوئی تھی۔ 1؎‘‘ ’’ مبادی فن الجبرا کی معلومات کے لئے ہم عربوں کے رہین منت ہیں۔ ریاضی کی اس شاخ کا نام تک انہیں کا رکھا ہوا ہے۔ دار العلوم اسکندریہ سے اس فن کے جو بچے کھچے اجزاء ان تک پہنچے تھے۔ ان میں انہوں نے اس معلومات کو اضافہ کیا، جو ہندوستان سے حاصل کی گئی تھی اور تنسیخ و ترتیب کے بعد اس اصلاح یافتہ مجموعہ کو ایک مستقل فن کی حیثیت سے مدون کیا۔عربوں سے یہ فن اٹلی پہنچا، لیکن اس پر اس قدر کم توجہ کی گئی کہ تین سو سال تک یورپ میں کوئی کتاب اس فن پر نہ لکھی گئی۔ 2؎‘‘ یہ تو تھا ڈاکٹر جان ولیم ڈیپر کا یہ اعتراف کہ علوم جدیدہ کی بنیاد مسلمانوں نے ڈالی۔ ذرا ان سے یہ بھی سن لیجئے کہ یورپ نے ان مسلمانوں سے خوشہ چینی کس طرح کی: ’’ عربوں کے ادب کی طرح جس نے سچی دنیا پر جنوبی فرانس اور سسلی کی راہ سے پیش قدمی کی تھی ان کا سائنس بھی ان دونوں راستوں سے یورپ میں داخل ہوا۔ پاپاؤں کو تو دیس نکالا مل ہی چکا تھا اور وہ بجائے روما کے ادنیاں میں مقیم تھے۔ اس کے علاوہ اعتزال عظیم یعنے پاپائیت کی تفریق کا واقعہ بھی بر سر تائید تھا، لہٰذا اسلامی سائنس کے قدم شمالی اٹلی میں مضبوطی سے جم گئے۔ 3؎‘‘ آگے چل کر یہی مصنف رقمطراز ہے: ’’ شمالی اٹلی میں جب ایک دفعہ سائنس کے قدم مضبوطی سے جم گئے تو بہت جلد کل جزیرہ نما میں اس کا اثر پھیل گیا۔ اس کے پرستش کرنے والوں کی روز افزوں تعداد کا پتہ ان علمی مجلسوں سے چلتا ہے، جو بہ کثرت قائم ہوتی جاتی ہیں، اور جلد جلد ترقی کر رہی ہیں، یہ مجلس ان اسلامی مجالس کا چربہ تھیں، جو بزمانہ سابق غرناطہ و قرطبہ میں موجود رہ چکی تھیں۔ اسلامی تمدن نے جس راستے پر اپنے نقش قدم چھوڑے تھے، اس پر گویا مسافر کی یادگار قائم کرنے کی غرض سے ۱۳۴۵ء میں ٹولوز کی اکاڈمی کی بنا ڈالی گئی، جو آج کے دن تک قائم رہے۔ 4؎‘‘ اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ موجودہ سائنس یا علوم جدیدہ مسلمانوں کی میراث ہے اور یہ بھی کہ یورپ ان عرب مسلمانوں کا شاگرد ہے، جنہوں نے نہ صرف سات سو سال کی طویل مدت تک اسپین کے تخت و تاج کو زینت بخشی بلکہ اس کی درس گاہوں میں درس و تدریس اور تجربہ خانوں میں داد تحقیق بھی دی اور ملک کے گوشے گوشے میں علم کی وہ شمعیں روشن کیں، جن کی ضیا پاشیوں سے 1؎ ایضاً، ص ۲۲۰2؎ ایضاً، ص ۴۱۳ 3؎ ایضاً، ص ۴۰۶4؎ ایضاً، ص ۴۰۷، ۴۰۸ سارا یورپ جگمگا اٹھا یورپی مصنفین کے مندرجہ بالا اعترافات اقبال کے اس دعوے کا بین ثبوت ہیں۔ ان اعتراضات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اقبال نے یہ دعویٰ کسی ’’ عصبیت‘‘ یا ’’جانبداری‘‘ کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ یہ دعویٰ ایک حقیقت مبرھن ہے اسی لیے یہ یورپی مصنفین بھی مجبور ہیں کہ اس کا اعتراف کریں ورنہ وہ تاریخ کی عدالت میں کتمان حق کے مجرم قرار پاتے! اگرچہ ان یورپی مصنفین نے اس حقیقت کا اعتراف کیا، تاہم تعصب کا زہر ان کے ذہن و دماغ سے پوری طرح کارج نہ ہو پایا تھا، جبھی تو وہ ان تمام علمی ترقیوں کا سہرا ’’ عربوں‘‘ کے سر باندھتے ہیں اور حتی الامکان’’ مسلمان‘‘ کا لفظ زبان قلم پر لانے سے گریز کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ’’عرب‘‘ نہیں بلکہ ’’ مسلمان‘‘ تھے، جنہوں نے علوم و فنون میں اس قدر ترقی کی تھی۔ جدید انکشافات کئے تھے اور نئی نئی راہیں نکالی تھیں عرب تو وہ تھے جو صحرا میں اونٹ چراتے تھے، اونٹنیوں کا دودھ پیتے تھے اور سو سمار کا گوشت کھاتے تھے۔ باہمی قتل و غارت گری، جن کا شیوہ اور نراج ہی جن کا مزاج تھا! انہیں تہذیب و تمدن، درس و تدریس، تحقیق و تدقیق، ایجادات و اختراعات سے کیا واسطہ تھا!! ہاں جب یہی جاہل بدو عرب مسلمان ہو گئے تو ’’ شیر شہتر‘‘ اور لم ’’ سو سمار‘‘ کے مشاغل خور و نوش کو چھوڑ کر انہوں نے ایران کے تخت کیانی پر قبضہ کیا۔ روم کی سلطنت کے پرخچے اڑا دئیے اور اسپین میں اپنی شان و شوکت کے جھنڈے گاڑ دئیے ا ور ساتھ ہی ساری دنیا میں علم و دانش کی شمعیں روشن کر دیں! یہ عربوں کی اپنی ذاتی، ملکی، یا قومی اپچ اور ذہانت نہ تھی جس کے باعث ان کے ہاتھوں یہ کار ہائے نمایاں انجام پائے، بلکہ یہ براہ راست اسلام کا ظاہری و باطنی فیض تھا اور بالکلیہ اسلامی احکام و تعلیمات کا ہمہ گیر و ہر جہتی اثر تھا، جس نے انہیں صحرا نوردی اور دشت گردی سے نکال کر بحر ظلمات کی موجوں کو قابو میں کرنا سکھایا تھا، اور جس نے انہیں جہل لا علمی اور نادانی کی تنگ و تاریک راہوں سے ہٹا کر درس و تدریس کی مسند زریں اور تحقیق و تدقیق کے مقام بلند پر لا بٹھایا تھا اسی لئے اقبال صرف یہی نہیں کہتے ہیں کہ علوم جدیدہ مسلمانوں کی میراث ہے یا یہ کہ علوم جدیدہ کے اولیں بانی مسلمان ہیں بلکہ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جن اصولوں۔۔۔۔ مشاہدہ فطرت، استقرائی طرز استدلال اور تجربی طریق تحقیق۔۔۔ پر چل کر مسلمانوں نے ان علوم کو مدون کرنا شروع کیا تھا یا جن پر آج بھی موجودہ سائنس داں عمل کر رہے ہیں، وہ سب کے سب اسلام کے عطا کردہ ہیں۔ علوم و فنون کے میدان میں جو عظیم الشان کامیابی عربوں نے حاصل کی تھی وہ دراصل ان ہی اسلامی اصولوں کی رہین منت تھی۔ یہ اصول اس علمی و سائنسی جہدو میں عربوں کے لئے رہبر و رہنما اور قوت محرکہ ثابت ہوئے تھے۔ یہی نہیں کہ اقبال علوم جدیدہ کو اسلامی احکام و تعلیمات کے تتبع کا نتیجہ اور مسلمانان سلف کا ترکہ و میراث قرار دیتے ہیں بلکہ موجودہ دور کے مسلمانوں کو ان کے حصول کی نہایت پر اثر انداز میں ترغیب بھی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: نائب حق در جہاں آدم شود بر عناصر حکم از محکم شود خویش را بر پشت بادا سوار کن یعنے ایں جمازہ را ما ہار کن دست رنگیں کن ز خون کوہسار جوئے آب گوہر از دریا بر آر صد جہاں دریک فضا پوشیدہ اند مہر بادر ذرہ ہا پوشیدہ اند از شعاعش دیدہ کن نا دیدہ را دانما اسرار نا فہمیدہ را تابش از خورشید عالم تاب گیر برق طاق افروز از سیلاب گیر ثابت و سیارۂ گردوں وطن آں خداوندان اقوام کہن ایں ہمہ اے خواجہ آغوش تواند پیش خیزد حلقہ در گوش تواند جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن چشم خود بکشا و در اشیاء نگر نشہ زیر پردۂ صہبا نگر تا نصیب از حکمت اشیا برد ناتواں باج از توانایاں خورد صورت ہستی نہ معنی سادہ نیست ایں کہن ساز از نوا افتادہ نیست برق آہنگ است ہشیارش زنند خویش را چوں زنمہ بر تارش زنند تو کہ مقصود خطاب ’’انظری‘‘ پس چرا ایں راہ چوں کو راں بری چوں صہبا بر صورت گلہا متن غوطہ اندر معنی گلزار زن آنکہ بر اشیا کمند اندا نست است مرکب از برق و حرارت ساخت است اے خرت لنگ از رہ و دشوار زیست غافل از ہنگامہ پیکار زیست ہم ہانت پے بہ منزل بردہ اند لیلی معنی ز محمل بردہ اند تو بصحرا مثل قیس آوارہ خستہ داماندہ بیچارہ علم اسماء اعتبار آدم است حکمت اشیاء حصار آدم است (رموز بے خودی) انسان دنیا میں نیابت الٰہی کا مستحق اسی وقت ہو سکتا ہے، جب وہ عناصر فطرت کو اس انداز سے اپنا محکوم بنا لے کہ قدرت کی یہ طاقتیں اس کی خدمت میں ایک ادنیٰ نوکر کی مانند دست بستہ ہر وقت حاضر اور اس کے اشارۂ چشم وا بروکی منتظر رہیں۔ اے مسلماں تو ہوا کی پشت پر سواری کر یہ تیز رفتار اونٹ کی مانند ہے، اس کی نکیل تو تیرے ہی ہاتھوں میں ہونی چاہیے کوہساروں کے سینے کو اپنی ٹھوکروں سے دو نیم کر کے تو پوشیدہ ذخائر کا پتہ چلا اور دریاؤں و سمندروں کی گہرائیوں میں غوطے لگا کر گوہر آبدار حاصل کر۔ اس فضائے بیکراں میں لا تعداد جہاں پوشیدہ ہیں اور یہ جو حقیر ذرے تجھے نظر آ رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنی آغوش میں سینکڑوں آفتاب و ماہتاب چھپائے ہوئے ہے۔ اے مسلم نوجوان! تو ان آفتابوں اور ماہتابوں کے رخ سے نقاب الٹ دے اور ان کی ضیاء پاشیوں سے دیدۂ بینا کو منور کر دے۔ تو اس جگمگاتے خورشید کی شعاعوں کو شکار کر اور سیلابوں و طوفانوں سے ایسی برقی قوت پیدا کر، جو تیری خواب گاہوں میں روشنی اور تیری کارگاہوں میں زندگی کی گہما گہمی پیدا کر دے گنبد نیلو فری پر بکھرے ہوئے یہ ستارے، فضائے آسمانی میں پھیلے ہوئے یہ سیارے جنہیں تو اپنے چشم ظاہری سے روز طلوع اور غروب ہوتے دیکھ رہا ہے اقوام قدیم کے معبود اور خداوند رہ چکے ہیں، لیکن اے میرے سرور، یہ سب کے سب تیرے خدمت گار، نوکر، چاکر اور غلام ہیں۔ اپنی تگ و دو جدوجہد کو تدبر و تدبیر سے مستحکم و استوار کر انفس و آفاق کو اپنے اندر کی ہر شے کو اور اپنے سے باہر کائنات کی ہر چیز کو مسخر کرے۔ تو ذرا آنکھ کھول کر دیکھ تو سہی کہ قدرت اپنے گہوارہ میں کن کن اسرار و رموز کو لوریاں دے کر سلا رہی ہے اور فطرت نے کائنات کو جو مئے ارغوانی پلا رکھی ہے اس کا نشہ کیسا ہے تاکہ تجھے بھی ’’ حکمت اشیائ‘‘ میں سے اپنا حصہ ملے! تو اگر بیدار اور مستعد ہو کر اس حکمت کا کھوج لگائے گا تو یقینا قدرت تیرے لئے بھی اپنے خزانوں کے منہ کھول دے گی اور یاد رکھ جب ایک چھوٹی قوم بھی اپنی لگاتار محنت و مسلسل جستجو سے حکمت اشیاء کا سراغ لگا لیتی ہے تو اپنی عددی کمتری کے باوجود زور آور قوموں سے خراج وصول کرنے لگتی ہے۔ بات یہ ہے کہ موجودات خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہوں، بے کار ولا یعنی نہیں ہیں۔ ساز ہستی چاہے وہ کتنا ہی فرسودہ کیوں نہ ہو چکا ہو، نغموں سے خالی نہیں رہتا۔ اس دنیا کی کوئی چیز، حقیر و بے مقدار ہو، یا عالی شان و ذی قدر عبث نہیں ربنا ما خلقت ہذا باطلاً۔ بدلیوں کے اندر بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اگر عقل و ہوش سے کام لیا جائے تو برق تاباں کو بدلیوں کی اوٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔ وہ تو جلوہ گر ہونے کے لئے بے تاب و بے قرار ہے۔ اے مسلماں تو تو انظنو رانی 1؎ الابل کیف خلقت کا مخاطب ہے۔ تجھے تو پوری کائنات اور تمام اشیائے کائنات کی حقیقت و ماہیت پر غور و فکر کرنے اور ان کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے تو پھر اس راہ تحقیق و تجسس میں تو اندھوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں کیوں مار رہا ہے۔ تو باد صبا کی مانند پھولوں کے چہرہ کو صرف چومتا ہوا گذر نہ جا ! تجھے تو گلزار فطرت کے قلب میں گھسنا اور سمندر حقیقت کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ سن! اور کان کھول کر سن کہ جس نے اشیاء پر کمند پھینکی وہی میر ہے اور جس نے ان پر قابو پا لیا وہی اس کائنات آب و گل کا والی و حکمراں ہے۔ عناصر قدرت برق و باد آب و خاک سب کے سب پھر اسی کے مطیع فرماں دار بن جاتے ہیں۔ وہ ان کا راکب ہو جاتا ہے اور یہ سب اس کے مرکب! دوسروں نے ان مظاہر فطرت کو اسیر کر لیا۔ اب خشکی و تری ہو اور روشنی پر ان کی حکومت ہے، مگر تو ایک شکست خوردہ پہلوان کی طرح کمر کھوں، اکھاڑا چھوڑ، منہ ڈھانکے گوشہ گمنامی میں پڑا ہوا ہے۔ تو نے ہنگامہ پیکار سے کنارہ کشی اختیار کر لی، میدان چھوڑ بھاگا، مگر دوسرے مردانہ وار منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ اپنی ہمت و پامردی کی بدولت انہوں نے بالا مار لیا اور لیلی مقصود کو محمل سے نکال بھی لائے، لیکن افسوس ہے کہ تو قیس کی مانند تھکا ماندہ، نڈھال و بے حال، صحرائے علم و تحقیق میں خاک بسر پھر رہا ہے! ا س سے گانٹھ کے پورے اور عقل کے اندھے کہ تیرے جد اعلیٰ آدم نے فرشتوں پر فضیلت و برتری اس لئے حاصل کی تھی کہ انہوں نے تمام اسماء کا علم حاصل کر لیا تھا۔ وعلم آدم الاسماء کلھا آج بھی کائنات میں تیرا اعزاز و احترام اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب تو اسماء کا علم سیکھے اشیاء کی حقیقت و ماہیت ان کے خواص و کیفیات سے آگاہی حاصل کرے اور پھر انہیں اپنا مطیع و محکوم بنائے۔ خدا نے اس کائنات میں ان گنت اشیاء پیدا کی ہیں وہ بس یونہی نہیں پیدا کر دی گئی ہیں اگر انسان ان کے اسرار و رموز سے واقف ہو کر ان پر قابو پا جائے تو یہ واقفیت و دستہ ہی انسانیت کے لئے حصار امن اور قلعہ عافیت ثابت ہو گی۔!! 1؎ دیکھئے حاشیہ مضمون کی ابتداء میں یہ تھی وہ ترغیب جو اقبال نے براہ راست علوم جدیدہ کے حصول کے لئے مسلمانوں کو دلائی۔ اس کے علاوہ انہوں نے بالواسطہ بھی مگر اتنے ہی پر اثر انداز میں نوجوانوں کو ان کی طرف متوجہ کیا۔ عصر حاضر میں مغرب نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ اس ترقی کی ظاہری چمک دمک سے ہمارے نوجوانوں کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں انہوں نے اسی جگمگاہٹ کو یورپ کی ترقی کا راز سمجھ رکھا ہے اقبال نے نوجوانوں کی آنکھوں کی اس خیرگی کو دور کیا اور مغربی ممالک کی ترقی کے راز پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں: قوت مغرب نہ از چنگ و رباب نے ز رقص دختران بے حجاب نے ز سحر ساحران لالہ روست نے ز عریاں ساق نے از قطع موت محکمی او رانہ از لا دینی است نے فروغش از خط لاطینی است قوت افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چراغش روشن است حکمت از قطع و برید جامہ نیست مانع علم و ہنر عمامہ نیست علم و فن را اے جوان شوخ و شنگ مغزمی باید نہ ملبوس فرنگ اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست ایں کلہ یا آں کلہ مطلوب نیست فکر چالا کے اگر داری بس است طبع درا کے اگر داری بس است یورپ کی طاقت و قوت نہ تو چنگ و رباب سے وابستہ ہے نہ پیانو اور گیتار سے اس کی عظمت و شوکت کا تعلق نہ تو سیمیں بدن بے حجاب لڑکیوں کے رقص سے ہے اور نہ حسین و خوبرو خواتین کے عریاں باہوں اور کٹے ہوئے گیسوؤں سے۔ اس کی ترقی کا سبب بے حیائی عریانی و فحاشی نہیں ہے اس نے مذہب کو خیرباد کہہ کر اور لاطینی رسم الخط کو اپنا کر ترقی نہیں کی ہے۔ افرنگ کے عروج، غلبہ و تسلط کا راز یہ ہے کہ اس نے اشیاء کی حقیقتوں کا سراغ لگایا، مظاہر فطرت اور آثار کائنات کو مسخر کیا۔ مختصر یہ کہ علم و فن کی آتش فروزاں سے اس کی عظمتوں کے چراغ روشن ہیں! لباس کی تراش و خراش کا علم و حکمت سے کوئی علاقہ یا رشتہ نہیں ہے علوم جدیدہ کی تحصیل کے لئے نکٹائی باندھنے اور سوٹ زیب تن کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، اس کے لئے تو صرف ذہن رسا اور فہم سنجیدہ چاہیے موجودہ علوم و فنون ک وہیٹ و حر بوش سے کیا واسطہ؟ ان کے حصول کے لئے تو صرف فکر چالاک و طبع دراک چاہیے اور بس! ٭٭٭ اقبال۔۔۔ شاعر مستقبل سید الطاف علی بریلوی (علیگ) اقبال کو بجا طور پر ایک پیغامبر شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری بعض جذبات کی عکاسی ہی نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعہ انہوں نے بنی نوع انسان کو عموماً اور ملت مسلمہ کو خصوصاً ایک ایسا پیغام دیا جو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عظیم انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ پیغام دنیا کے لیے نیا نہیں ہے بلکہ وہی پیغام ہے جو اب سے چودہ سو سال پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تیر و تار سمندر میں ڈوبی ہوئی نوع انسانی کو دیا تھا اور جس کے قبول کرنے والے ’’ وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ کی تفسیر بن کر پوری دنیا پر چھا گئے تھے۔ چونکہ اقبال کا پیغام بعض عالمگیر صداقتوں پر مشتمل ہے اس لیے اس کو کسی مخصوص طبقہ تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو اپنا کر دوسرے بھی وہی ثمرات حاصل کر سکتے ہیں جو کسی ایک طبقہ کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے اقبال کو مسلمانوں کا شاعر کہہ کر اس کے دائرہ اثر کو محدود کرنا سرا سر کوتاہ نظری ہے۔ اس بات کی طرف اپنے ایک مکتوب میں سرتیج بہاد رسپرو نے بھی اشارہ کیا تھا۔ انہوں نے ۱۹۳۸ء میں بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کو لکھا: ’’ اقبال کے ساتھ میرے خیال میں وہ لوگ بہت نا انصافی کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ محض اسلامی شاعر تھا۔ یہ کہنا اس کے دائرہ اثر کو محدود کرنا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس نے اسلامی فلسفہ، اسلامی عظمت اور اسلامی تہذیب پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن کسی نے آج تک ’’ ملٹن‘‘ کی نسبت یہ کہہ کر وہ عیسائی مذہب کا شاعر تھا یا کالیداس کی نسبت یہ کہہ کر وہ ہندو مذہب کا شاعر تھا اس کے اثر کو نہ محدود کیا اور نہ اور مذہب کے آدمیوں نے اس وجہ سے اس کی قدر دانی میں کمی کی اگر وہ اسلامی تاریخ کے بڑے کارناموں کے بارے میں یا اسلامی عظمت کا تذکرہ کرتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ غیر مسلم اس کی قدر نہ کریں۔‘‘ اس حقیقت کو ماننے کے باوجود کہ اقبال کا پیغام پوری نوع بشر کے لیے ہے ان کو بنیادی طور پر ملی شاعر قرار دیا جاتا ہے کہ ان کے پیغام کی بنیاد کلیتہً قرآنی تعلیمات پر ہے۔ اور جب وہ ایک اعلیٰ نصب العین حیات پیش کرتے ہیں تو وہ خالص اسلامی ہوتا ہے۔ ویسے تو اقبال کے مخاطب سب ہی لوگ تھے لیکن چونکہ ان کے زمانہ میں تقریباً پوری ملت جسمانی اور ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اس لیے سن رسیدہ لوگوں سے قدرتی طور پر یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ اس پیغام کو اپنائیں گے جو آزادی کا متقاضی ہے۔ اقبال غلامی کو افراد اور ملت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ غلام، ذوق حسن و زیبائی سے قطعاً محروم ہوتا ہے اس لیے نہ وہ صحیح بات سوچ سکتا ہے اور نہ صحیح عمل کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں: غلامی کیا ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی کہیں زیبا جسے آزاد بندے ہے وہی زیبا دوسری جگہ غلامی کو یقین کی ضد قرار دیا ہے اس لیے جو شخص کسی طرح کی بھی غلامی میں جکڑا ہوا ہو وہ کبھی بھی یقین کی دولت حاصل نہیں کر سکتا اور اس لئے یقین سے حاصل ہونے والے نتائج سے بھی محرومی رہتی ہے ارشاد ہوتا ہے: غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں اقبال کے نزدیک غلامی کی ایک قسم یہ ہے کہ انسان اسیر امتیاز ماہ و تور ہے اس لیے کہ آزادی یگانگت و محبت سے حاصل ہوتی ہے: جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں غلامی ہے اسیر امتیاز ما و تو رہنا ان سب باتوں کو پیش نظر رکھ کر اقبال ضروری سمجھتے تھے کہ سب سے پہلے غلامی کی زنجیریں توڑی جائیں۔ چنانچہ مسلمان کے لیے خصوصیت سے ان کا پیغام یہ تھا کہ اگر تو خود کو مسلمان کہتا ہے تو سب سے پہلے جسمانی اور ذہنی آزادی حاصل کر۔ ان کے نزدیک مسلمان فطرتاً آزاد ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر وہ کسی نوع کی بھی غلامی پر راضی ہو گیا تو پھر وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ فرماتے ہیں: از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن ترا تراشی خواجہ از برہمن کافر تری لیکن آزادی کا جو تصور آجکل عام ہے اس کو اقبال فرد اور قوم دونوں کے لیے مہلک سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ : اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد دور حاضر کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپنے جائز معاملات و ضروریات میں انسان جتنا اس وقت مجبور ہے اتنا تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔ اس کے باوجود فکر و عمل کی آزادی کا ڈھنڈورا سب سے زیادہ اسی زمانہ میں پیٹا جا رہا ہے۔ تہذیب جدید نے انسان کو آزادی تو دی مگر یہ آزادی مذہب، اخلاقی اقدار، سماجی روایات اور ان سب چیزوں سے ہے جو انسان کو تہذیب و شائستگی اور حسن معاشرت کے دائرے میں رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ یہی وہ آزادی ہے جس پر آج کا انسان فخر کر رہا ہے لیکن اقبال نے اس کو بجا طور پر ابلیس کی ایجاد سے تعبیر کیا ہے۔ اپنی نسل کے لوگوں کی ایسی ہی کمزوریوں کی اقبال نے جگہ جگہ نشان دہی کی ہے اور ان ہی کی بناء پر وہ اس نسل سے مایوس تھے۔ جب وہ دیکھتے کہ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ غلامی سے متنفر نہیں ہیں اور نہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی اس حالت سے قطعاً مطمئن ہیں تو وہ پریشان ہو کر یہ کہہ گزرتے تھے: میں بندۂ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا رکھتا ہوں نہانخانہ لاہوت سے پیوند اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند پھر آگے چل کر کہتے ہیںکہ اس قوم سے کیا امید رکھی جائے جو کسی اچھی بات کو سننے اور نیک مشورے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک لطیف استعارہ کے ذریعہ اس بات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں: پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو ان کے نزدیک قوم بے حسی کی اس منزل سے بھی بہت آگے بڑھ گئی تھی جس پر نہایت درد مندی کے ساتھ انہوں نے یہ تک کہہ دیا: وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ٭٭٭ اقبال جدید تعلیم کو بھی اپنے زمانہ کے مسلمانوں کی گمراہی کا ایک اہم سبب قرار دیتے تھے۔ یہ خیال عام ہے کہ مسلمانوں میں جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد جو بیداری پیدا ہوئی اور مسلمان نے اس کے بعد سے جو ترقی کی وہ کلیتہً تعلیم جدید کا نتیجہ ہے۔ بعض حضرات تو اس معاملہ میں اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ اگر جنگ آزادی کے بعد ہندی مسلمان جدید تعلیم کو نہ اپناتا تو وہ اب تک من حیث القوم فنا ہو چکا ہوتا لیکن اس سلسلہ میں اپنے ملی شاعر کی رائے بھی سن لیجئے۔ فرماتے ہیں: خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ تخم دیگر بکف آریم و بکاریم ز نو کآنچہ کشتیم ز خجلت نتواں کرد درو (ملا عرشی) ایک او رمقام پر علوم مغربی، فلسفہ یورپ اور تہذیب جدید کے اثرات کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں: قدح خرو فروزے کہ فرنگ داد ما را ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر نہ دارد اقبال کے نزدیک ان کی نسل کے لوگوں کی بد بختی یہی نہیں تھی کہ وہ خود بلند نظری، قومی حمیت و غیرت اور حسن اخلاق سے عاری ہو چکے تھے بلکہ ان کی گمراہی یہ بھی تھی کہ وہ جدید تعلیم کے ذریعہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی بگاڑ رہے تھے۔ ماضی کی شاندار روایات سے ان کو بیگانہ رکھا جاتا تھا۔ اسلامی تعلیمات ان کے کانوں تک نہیں پہنچنے دی جاتی تھیں۔ یورپ کی کورانہ تقلید پر ان کو راغب کیا جاتا تھا۔ شکایتہ کہتے ہیں: شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا خاکباری کے اس سبق کے نتائج بھی اقبال کے سامنے آ چکے تھے۔ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ نوجوانوں میں نہ اعلیٰ اخلاق و کردار رہا ہے، نہ محنت اور کام کرنے کا جذبہ رہا ہے اور نہ ایمانی حرارت و قوت رہی ہے بلکہ وہ تن آسانی، عیش و تعیش اور نمود و نمائش کے دلدادہ ہو گئے ہیں۔ وہ ان حالات کو دیکھ کر خون کے آنسو بہاتے ہیں اور ایک نوجوان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی اقبال کی فہم و فراست اور عقابی نظر نے اسی وقت دیکھ لیا تھا کہ دور غلامی کے اثرات مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر نہایت دیر پا ہوں گے۔ وہ خود تو اس چیز کو دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے لیکن دوسروں نے اچھی طرح مشاہدہ کر لیا کہ ڈیڑھ سو سالہ غلامی نے پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایسا منقلب ماہیت کر دیا کہ سیاسی آزادی ملنے کے بعد بھی ان کو ذہنی غلامی سے چھٹکارہ نصیب نہ ہو سکا بلکہ بعض حضرات کے طرز عمل سے تو کچھ ایسا مترشح ہوتا ہے کہ انہیں اپنی گردن سے انگریزوں کا طوق غلامی نکل جانے کا بیحد افسوس ہے۔ چنانچہ وہ ذہنی غلامی کے بندھن کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کر کے اس نقصان (؟) کی تلافی کی پوری کوشش کر رہے ہیں یہ اسی دور غلامی اور مغرب کی ناقص تعلیم کا اثر ہے کہ قوم سے غلامی اور آزادی کے درمیان فرق و امتیاز کرنے کی صلاحیت جاتی رہی اور وہ آزادی جیسی نعمت کی قدر نہ کر سکی۔ غلامی کے دور کی برائیاں نہ صرف اس نسل میں بڑھتی چلی گئیں بلکہ اس نے اپنے خلاف کی بھی کی کہ اس میں ذوق حسن و زیبائی کی تخلیق ہوتی وہ آزادی کی قدر کرنا جانتی اور اپنے اندر وہ خوبیاں اور صلاحیتیں پیدا کرتی جو آزادی کا لازمی نتیجہ ہوتی ہیں۔ اقبال نے آئندہ رونما ہونے والی اس صورت حال کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا۔ چنانچہ ا نہوں نے آئندہ نسلوں کی اصطلاح کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی اور اپنی شاعری کے ذریعہ براہ راست اس کی تربیت کی کوشش کی۔ کبھی انہوں نے جاوید کو مخاطب بنایا۔ کبھی طلبہ علی گڑھ سے خطاب کیا او رکبھی بڈھے بلوچ کا روپ اختیار کر کے اس کے بیٹے کو نصیحت کی۔ اس سلسلہ میں کہیں ان کا لہجہ مربیانہ ہے کہیں دوستانہ، کہیں مشفقانہ ہے اور کہیں ہمدردانہ، کسی موقع پر ضمناً کوئی نصیحت کر دی گئی ہے اور کسی جگہ کلیتہً طلبہ سے ہی خطاب کیا گیا ہے۔ وہ خوشحال خاں کے پردے میں نوجوانوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند لیکن واضح رہے کہ اس موقع پر بھی اپنی محبت کو عام نہیں کیا بلکہ اس کو مشروط کر دیا ہے۔ جاوید کے نام لندن سے ایک منظوم پیغام بھیجتے ہیں یہ پیغام جاوید کے توسط سے اور نوجوانوں کو بھی پہنچایا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے: دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گزن فرنگ کے احسان سفال ہند سے مینا و جما پیدا کر مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر بڈھے بلوچ سے اپنے بیٹے کو ان الفاظ میں نصیحت کراتے ہیں: ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی نجارت میں مسلماں کا خسارا اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا تقدیر امم کیا ہے؟ کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا اخلاص عمل مانگ نیاگان کہن سے شاہاں چہ عجب گر بنو ازند گدا را جس نظم میں نوجوان کی تن آسانی اور عیش کوشی کا ذکر کر کے خون کے آنسو بہائے تھے۔ اسی کے آخری حصہ میں ایک ناصح مشغق بن کر ان کو یہ درس دیتے ہیں: عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے! بشیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر نوجوانوں کو جو خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ان کے حصول کا اہم ذریعہ علم و حکمت کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ علم و حکمت حلال روزی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکل حلال اور صدق مقال ہی وہ بنیادیں ہیں جن پر انسان کے اعلیٰ اخلاق و کردار کا عظیم الشان قصر تعمیر ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر اقبال بھی نان حلال پر زور دیتے ہیں کہتے ہیں: علم و حکمت زاید از نان حلال عشق و رقت آید از نان حلال پھر پیر رومی اور مرید ہندی کے درمیان مکالمہ پیش کر کے علم کے بارے میں کتنے اہم نکتے بیان کر دیتے ہیں۔ اس موقع پر نہایت موثر طریقہ اختیار کیا ہے۔ مرید ہندی جو خود اقبال کی ذات ہے سوالات پیش کرتا ہے اور پیر رومی نہایت مختصر الفاظ میں ان کے جوابات دیتے جاتے ہیں۔ پیر رومی سے مراد مولانا جلال الدین رومی سے ہے جن سے اقبال کو بیحد عقیدت تھی۔ اس سوال و جواب کی ایک خوبی یہ ہے کہ مرید ہندی کا سوال اردو میں ہوتا ہے اور پیر رومی جواب فارسی میں دیتے ہیں۔ مرید کی جانب سے پہلا سوال پیش ہوتا ہے۔ چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں علم حاضر سے ہے دیں زار و زبوں وہی جدید علم جس کو دوسرے لوگ مسلمانوں کی ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر قوم مسلم اس دولت سے محروم رہتی تو وہ اب تک کبھی کی فنا ہو چکی ہوتی یا کم از کم زوال و انحطاط کے انتہائی نقطہ پر پہنچ جاتی اسی کو اقبال ایک مرید کی حیثیت سے نہایت درد مندی کے ساتھ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب قرار دیتے ہیں اور اپنے مرشد سے اصلاح کی تدبیر معلوم کرتے ہیں۔ پیر رومی اس اہم سوال کا جواب ایک شعر میں دے کر مرید کو مطمئن کر دیتے ہیں جواب ملاحظہ ہو: علم را برتن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود دیکھئے میں یہ دو چھوٹے چھوٹے مصرعے ہیں لیکن حقیقتاً ان میں تعلیم کا پورا فلسفہ سما گیا۔ لوگوں نے تعلیم کے متعدد مقاصد بیان کئے ہیں لیکن سچ پوچھئے تو تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ایک اور صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ علم حاصل کر کے انسان خود کو پہچانے۔ اپنی تخلیق کے مقصد کو سمجھے اور اس مقصد کو پورا کرے۔ مقصد تخلیق انسان کا انسان بننا اور اللہ تعالیٰ کا تابعدار بندہ بن کر اس دنیا میں رہنا ہے۔ کم از کم مسلمان کو اپنی زندگی کا یہی مقصد سمجھنا چاہیے اور اسی کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے لیکن آج کل ماہرین تعلیم بھی جن میں مسلمان بھی شامل ہیں یہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ علم اپنی دنیوی زندگی کو پر آسائش طور پر گزارنے کا ذریعہ ہے لہٰذا حصول تعلیم کے وقت اسی مقصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج ہر شخص چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مسلمانو! اپنے بچوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دلاؤ تاکہ وہ ڈاکٹر اور انجینئر بن کر خوب دولت سمیٹیں۔ بنگلہ او رکوٹھی بنا کر رہیں اور پر آسائش زندگی بسر کریں۔ اسی تصور اور مقصد کو اس شعر میں ’’ علم را برتن زدن‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی وہ علم ہے جو پیر رومی کے نزدیک ’’ مار‘‘ بن کر دنیا کو ڈستا ہے۔ چنانچہ ایسے ہی علم کی وجہ سے اس وقت بنی نوع انسان مقصد حیات سے دور ہوتی جا رہی ہے اس حالت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان علم کو تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کا ذریعہ بنائے اور بجائے تن پروری کے علم کے ذریعہ دل کی صفائی کرے۔ اپنے اخلاق کو سدھارے اور تمام مذموم حرکات سے اپنا دامن بچاتے ہوئے راہ حیات میں گامزن رہے۔ اسی کو مولانا روم ’’ علم را بر دل زدن‘‘ بتا کر اس کو پہلے نظریہ کے توڑ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اقبال نے دو نظریے بتا دئیے ہیں اب یہ سننے والے کا کام ہے کہ وہ موازنہ کر کے فیصلہ کرے کہ کون سا نظریہ اس کے لیے مفید ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے بعد مرید ہندی ہی سے متعلق ایک اور مسئلہ اٹھاتا ہے۔ وہ نہایت سادگی کے ساتھ پیر رومی سے استفسار کرتا ہے:ـ پڑھ لیے اس نے علوم مشرق و غرب روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب وہ کہتا ہے کہ حصول علم کے بعد اطمینان قلب نصیب ہونا چاہیے۔ لیکن میں نے مشرقی اور مغربی علوم پڑھے اس کے باوجود بے چینی و بے اطمینانی بد ستور قائم ہے۔ دل کو سکون نصیب نہیں ہوتا۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ پیر رومی اس کا جواب بھی نہایت مختصر الفاظ میں دیتے ہیں: دست ہر نا اہل بیمارت کند سوئے مادر آ کہ تیمارت کند ان کا کہنا ہے کہ جو علوم تو حاصل کر رہا ہے یا کر چکا ہے وہ تیرے درد کا مداوا ہر گز نہیں کر سکتے۔ ان کی منزل دوسری ہے وہ تیری روح کے درد و کرب کو دور کرنے کی قدرت نہیںرکھتے۔ ایسی صورت میں اگر تو ان میں اپنے درد دل کا مداوا تلاش کرتا ہے تو یہ تیری بے بصری اور کوتاہ اندیشی ہے۔ تجھے چاہیے کہ اغیار کے دروازوں کی چوکھٹیں چومنے کے بجائے تو صرف ایک در کو مضبوطی سے پکڑے۔ اور وہ در اسلامی تعلیمات کا ہے۔ اسی کو قرآن مجید میں حبل اللہ قرار دیا ہے۔ اس کی ایک موٹی سی مثال ہے ’’ اگر کوئی بچہ بیمار ہو جائے تو یہ عقلمندی نہیں سمجھی جائے گی کہ اس کو علاج کے لیے نا اہلوں کے سپرد کر دیا جائے بلکہ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو اس کی مشفق والدہ کے سپرد کر دیا جائے۔‘‘ اسلامی تعلیمات بھی ایک شفیق والدہ کا درجہ رکھتی ہیں لہٰذا اگر تو تعلیم کو مفید و با مقصد بنانا چاہتا ہے تو اپنی تعلیم حاصل کر، ان علوم کا حاصل کرنا تیرے لیے کسی طرح مفید نہیں جو تیرے لیے اجنبی ہیں اور جن کا مقصد محض دنیا کمانا اور اپنی زندگی کو پر آسائش بنانا ہے۔ یہ مناسب جواب پا کر مرید ہندی نے آخر کار یہ سوال کر لیا: آہ مکتب کا جوان گرم خوں ساحر افرنگ کا صید زبوں مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ آخر مغربی تعلیم میں وہ ایسی کونسی بات ہے جو انسان کو ذہنی غلامی میں جکڑ دیتی ہے اور وہ انگریز کا غلام اور صید زبوں بن کر رہ جاتا ہے۔ پیر رومی نے اس کے جواب میں صرف ایک شعر پڑھ دیا:ـ مرغ پر نا رشتہ چوں پراں شود طعمہ ہر گربہ وراں شود اور اس شعر میں ایک معمولی سی مثال پیش کر کے مسئلہ کو آسانی سے حل کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے ایک ایسے پرندے کو ذہن میں رکھئے جو پرواز سے محروم ہے اس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر کوئی بھی بلی اسے بہ آسانی اپنا لقمہ بنا لے گی۔‘‘ یہی حال ایک ایسے نوجوان کا ہے جو اپنی روایات، تعلیم، تہذیب اور معاشرت سے بیگانہ ہے اور ذہن کی اس نا پختگی کی حالت میں اس کو علوم مغربی کے سیکھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا مغرب زدہ ہونا اور مغرب کی ہر شے سے متاثرہ مرعوب ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ تعلیم جدید کی چند کوتاہیوں کی نشان دہی کر کے اقبال مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ نوجوانوں اور آئندہ نسل کے افراد کی اصلاح کے لیے تعلیمی نظام میں تبدیلی کی جانی چاہیے۔ ظاہر ہے ذہن انسانی پر شروع میں جو نقوش مرتسم ہو جاتے ہیں وہ دیر پا ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم کو مغربی اثرات سے پوری طرح بچایا جائے۔ جب بچہ کے ذہن پر اپنی روایات، اپنی تعلیم، اپنی تہذیب اور اپنی معاشرت کے اثرات اچھی طرح جم جائیں اس وقت اس کو مغربی تعلیم دی جائے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف کوئی ضرر نہیں ہو گا بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کے بعض مفید نتائج برآمد ہوں جیسا کہ خود اقبال کے ساتھ پیش آیا۔ انہوں نے جب اپنی روایات اور تعلیمات کو اچھی طرح اپنے اندر جذب کر لیا اس وقت وہ یورپ گئے اور وہاں تہذیب جدید کے خاص مراکز میں بیٹھ کر بھی مغربی اثرات سے محفوظ رہے بلکہ اس تہذیب کی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہو گئے اور اپنی تعلیم اور روایات کی برتری کو زیادہ شدت سے محسوس کرنے لگے۔ ٭٭٭ نوجوانوں کی ذہنی تربیت کے لئے لائحہ عمل بتا کر اقبال دور حاضر کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ مغرب کی کمزوریاں بھی گناتے ہیں اور مسلمانوں کی بے راہ روی کے متعلق بھی گفتگو کرتے ہیں۔ دیکھئے کس قدر واضح الفاظ میں کہہ گئے ہیں: یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری نہ مشرق اس سے بری ہے نہ مغرب اس سے بری جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری ان کی طویل نظم ’’ ساقی نامہ‘‘ میں زندگی کا جو گہرا فلسفہ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کیا جائے تو ہر انسان محسوس کرے گا کہ ان کے نزدیک انسان اور حیات انسانی کس قدر اعلیٰ و ارفع ہیں۔ یہ اقبال کی بہترین نظموں میں شمار کی جاتی ہے اور اس میں ان سب مسائل کو نہایت خوبی سے بیان کیا گیا ہے جو انسان کو حیات دنیوی میں پیش آتے ہیں۔ انہوں نے مسائل کے ساتھ ان کے مناسب حل بھی پیش کیے ہیں۔ اردو زبان کے اور بھی کئی شاعروں نے ساقی نامے لکھے ہیں۔ شعرائے متقدمین میں مرزا جان جاناں مظہر کے تلمیذ خاص محمد فقیہہ درو مند کا ساقی نامہ زبان و بیان کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ ہے۔ لیکن اس سمیت تمام ساقی ناموں کا آہنگ اور موضوع ایک ہی ہے۔ ہر شاعر ساقی سے یہی درخواست کرتا ہے کہ مجھے تو ایسی شراب پلا جو مست و بیخود کر دے۔ اقبال مستی اور بیخودی کو مقصد تخلیق کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا ان کا آہنگ تمام شعراء سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں: نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی وہ ہمیشہ سے ساقی سے ایسی شراب کے طلبگار رہے جو خود ان کو رزم گاہ حیات میں نبرد آزمائی اور جدوجہد کرنے کے قابل بنا دے اور ان میں وہ صلاحیت پیدا کر دے کہ وہ دوسروں کے اندر زندگی کی حرارت پیدا کر سکیں اور ان کی خودی کو بیدار کر سکیں۔ چنانچہ وہ ساقی نامہ میں اسی قسم کی شراب کے طلبگار ہیں۔ فرماتے ہیں: پلا دے مجھے وہ مئے پردہ سوز کہ آتی نہیں فصل گل روز، روز وہ مئے جس سے روشن ضمیر حیات وہ مئے جس سے ہے مستی کائنات وہ مئے جس میں ہے سوز و ساز ازل وہ مئے جس سے کھلتا ہے راز ازل اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے لڑا دے ممولے کو شہباز سے جب شاعر کو یہ شراب مل گئی تو اب اس نے حقائق سے پردہ اٹھانا شروع کر دیا ۔ اپنے زمانہ کی ناکامیاں اس پر روشن ہونے لگیں اور وہ دوسروں کو ان باتوں سے آگاہ کر کے ایک نئے دور کی نوید سنانے لگا اور ان بدلے ہوئے حالات میں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانے لگا۔ سب سے پہلے وہ مغرب کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچتا ہے۔ کہتا ہے: زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے ہوا اس طرح فاش راز فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے دل طور سینا و فاراں دو نیم تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم یعنی اہل فرنگ نے جو طلسم قائم کر رکھا تھا وہ اب ٹوٹ رہا ہے اور اس نظام کی کمزوریاں ایک ایک کر کے دنیا پر آشکار ہو رہی ہیں۔ اب دنیا ایک ایسے نظام کی خواہاں ہے جو موجودہ اضطراب و بے چینی کا سد باب کر دے۔ شاعر کا خیال ہے کہ یہ نظام صرف مسلمان کے پاس ہے۔ مگر خود مسلمان یقین کی دولت اور ایمان کی پونجی کو کھو چکا ہے اور اغیار کے طوق کو اپنی گردن میں ڈالنے پر نازاں ہے پاوہ رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور یا تصوف، طریقت، شریعت، حقیقت، مجاز، اور روایت و درایت کی بحثوں میں الجھا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں وہ دوسروں کی کیا رہبری اور مدد کر سکتا ہے۔ ان باتوں کو شاعر کس درد مندی سے بیان کرتا ہے: مسلماں ہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش تمدن، تصوف، شریعت کلام بتان عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے شراب کے ایک جرعے سے تو شاعر کو یہ حقائق معلوم ہوئے اور پھر اس نے ان باتوں سے دوسروں کو آگاہ کیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ حالات کچھ زیادہ امید افزا نہیں تھے۔ اس کے باوجود شاعر جو نا امیدی کو گناہ عظیم سمجھتا ہے اصلاح حال سے مایوس نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک لائحہ عمل تلاش کرتا ہے اور اس کے لیے وہ ساقی سے اسی مئے خرد افروز کا دوسرا جرعہ طلب کرتا ہے اور حالات کو بدلنے کے لیے بعض مثبت طریقے دریافت کرتا ہے۔ شراب کہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا مری خاک جگنو بنا کر اڑا خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضیٰ سوز صدیق دے جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینوں میں بیدار کر ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر جوانوں کو سوز جگر بخش دے مرا عشق میری نظر بخش دے بتا مجکو اسرار مرگ و حیات کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات مری فطرت آئینہ روزگار غزالان افکار کا مرغزار مرا دل، مری رزم گاہ حیات گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر مرے قافلے میں لٹا دے اسے لٹا دے؟ ٹھکانے لگا دے اے ٭٭٭ طلب کے ساتھ ہی شاعر کو دوسرا جرعہ مل جاتا ہے اور اس جرعہ کے حلق سے نیچے اترتے ہی اس کو وہ تمام طریقے معلوم ہو جاتے ہیں جو اصلاح احوال کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن چونکہ اصلاح حیات انسانی میں کرنا ہے اس لیے سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حیات یا زندگی اصل میں کیا چیز ہے ؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ وہ مسائل ہیں جن پر حکماء قدیم زمانہ سے غور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن ان کے غور و فکر اور بحث و تمیحیص کا انداز خالص فلسفیانہ ہے ان مفکرین ا ور فلسفیوں میں پہلا اور قابل ذکر افلاطون ہے اس کے نزدیک زندگی تصور سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس نظریہ کی رو سے زندگی اور موت کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح زندگی بے حقیقت بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ نظریہ انسان کو بے عملی اور جمود کے سوا کچھ نہیں سکھاتا۔ دوسری اہم شخصیت ایپی قورس کی ہے، جس کے نزدیک زندگی نام ہے کھانے، پینے اور خوش رہنے کا یہ نظریہ زندگی سے سنجیدگی کا عنصر ختم کر دیتا ہے۔ دور جدید میں چکبست لکھنوی نے زندگی اور موت کی کچھ اور ہی تعبیر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشاں ہونا ایک اور شعر میں وہ زندگی کو درد سر قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا نشہ ہے جس کو موت کی ترشی اتارتی ہے۔ فرماتے ہیں: فنا کا ہوش آنا زندگی کا درد سر جانا اجل کیا ہے خمار بادۂ ہستی اتر جانا اقبال ان میں سے کسی ایک نظریہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ افلاطون کو تو وہ اس کے فلسفہ تصوریت کی بناء پر نہایت سخت و سست الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ کس قدر قطعیت سے کہتے ہیں: راہب دیرینہ افلاطون حکیم از گروہ گو سفندان قدیم گفت سر زندگی در مردن است شمع را صد جلوہ چوں افسردن است بسکہ از ذوق عمل محروم بود آہوئے داماندہ معدوم بود اس فلسفہ کو کلیتہً رد کر کے اقبال زندگی کے بارے میں ایک مثبت قسم کا تصور پیش کرتے ہیں اور اس موضوع پر طرح طرح سے روشنی ڈالتے ہیں۔ خضر راہ میں وہ اس کو سود و زیاں سے برتر اور وقت کی قید سے آزاد بتاتے ہیں اور پھر اس کو کئی طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہر لفظ سے زندگی جولاں و رقصان دکھائی دیتی ہے اور کسی جگہ بھی یاس یا زندگی سے کراہت محسوس نہیں ہوتی۔ ملاحظہ ہو: برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب اس زیاں خانہ میں تیرا امتحان ہے زندگی اقبال زندگی کو فنا پذیر قرار نہیں دیتے، بلکہ تسلسل حیات کے قائل نظر آتے ہیں اور اس میں آفاقیت کا تصور قائم کرتے ہیں چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ: بتا مجکو اسرار مرگ و حیات وہ نہایت شرح و بسط سے زندگی کی حقیقت کو اس طرح آشکارا کرتے ہیں: دما دم رواں ہے یم زندگی ہر اک شے سے پیدا رم زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موج دود گراں گرچہ ہے صحبت آب و گل خوش آئی اسے محنت آب و گل یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوق پرواز ہے زندگی سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت حضر ہے مجاز سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات ٭٭٭ حیات و ممات پر اس قدر تفصیل سے بحث کرنے کے بعد وہ ایک اور زاویہ نظر پیش کرتے ہیں۔ اکثر شاعر زندگی کو غم و آلام کی تفسیر قرار دیتے ہیں اور اس کو ایک نا پسندیدہ شے سمجھتے ہیں لیکن اقبال ان باتوں کے قائل نہیں اور ان کے مقابلہ میں زندگی کا متفاولی نظریہ پیش کرتے ہیں وہ کسی صورت میں بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیںکہ زندگی ایک بوجھ اور انسان کے لیے ایک لعنت ہے۔ وہ اسے ہر حالت میں نعمت قرار دیتے ہیں اور اس نعمت کا حق ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ غالب نے زندگی کو سود و زیاں کے پیمانہ سے ناپ کر شکایتہ کہا تھا: زندگی اپنی اسی طور جو گزری غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے فانی زندگی سے او ربھی بیزار نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا اقبال یہ کہہ کر ان دونوں کے نظریات کو ٹھکرا دیتے ہیں: بر تر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی لیکن ان کے نزدیک زندگی میں معنویت خودی سے پیدا ہوتی ہے۔ جب تک انسان کی خودی بیدار نہیں ہوتی اس وقت تک اس میں زندگی کی تڑپ پیدا نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کو نہ صرف بیدار رکھے بلکہ اس میں ہر لمحہ جلا پیدا کرتا رہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی ’’ خودی‘‘ سے کیامراد ہے؟ ان سے پہلے اس لفظ کو غرور و تکبر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس لیے وہ خدا شناسی کی خاطر خودی کو ترک کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ جوش ملیح آبادی نے بھی ایک جگہ اس لفظ کو ان ہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں: رونے میں جو لذت ہے تو آہوں میں مزا ہے اے روح خودی چھوڑ کہ نزدیک خدا ہے لیکن اقبال نے اس لفظ کے مفہوم ہی کو یکسر بدل دیا ہے وہ خودی سے مراد تعین ذات لیتے ہیں ان کا کہینا ہے کہ کائنات میں انسان کو تمام مخلوقات سے کہیں زیادہ اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے۔ا ور اس مقام کو سمجھنا، اس تک پہنچنا اور اس پر قائم رہنا اس کا نصب العین حیات ہے۔ اس اعلیٰ مقام کا عرفان ہی خودی ہے۔ اگر انسان کو یہ عرفان حاصل ہو جائے تو اس کی قوت عمل خود بخود کام کرنا شروع کرے۔ خودی کی حقیقت خود اقبال کی زبان قلم سے سنیے: خودی کیا ہے راز درون حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے جب انسان کی خودی بیدار ہو گئی تو اس کے لیے ضروری ہوا کہ وہ اس کی پوری طرح نگہبانی کرے۔ اس نگہبانی کا طریقہ بھی خود اقبال سے سن لیجئے کہتے ہیں: خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بلند فرو فال محمود سے در گزر خودی کو نگہ رکھ ایازی نہ کر دوسری جگہ فلسفہ خودی کو اس طرح بیان کرتے ہیں: پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیداست از اثبات او خودی کے شعور کے بعد ضروری ہے کہ روز بروز اس کو مضبوط و مستحکم کیا جائے۔ خودی کے استحکام کی صورت یہ ہے کہ انسان اپنے طبعی ماحول سے مسلسل جنگ کرتا رہے۔ اس طرح اس کی ذہنی اور عقلی قوتیں تیز ہوتی رہتی ہیں اور اس کے سینہ میں خودی کی آگ روز بروز مشتعل ہوتی جاتی ہے۔ زندگانی را بقا از مدعا ست کاروانش را دوا از مدعا ست زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است از تمنا رقص دل در سینہ ہا سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم وہ خودی کو اس دنیا کی جدوجہد اور تنگ و دو تک محدود نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’’وسخر لکم ما فی السموات وما فی الارض‘‘ کی تفسیر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: خودی کی یہ ہے منزل اولیں مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر خودی شیر مولا جہاں اس کا صید زمیں اس کا صید آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود چونکہ علامہ کو اپنی خودی کا پوری طرح عرفان حاصل ہو گیا تھا اس لیے وہ اس کی لا محدودیت پر یقین رکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوئے: چہ کنم کہ فطرت من بہ مقام درنہ سازد دل ناصبور دارم چو صبا بہ لالہ زارے چو نظر قرار گیرد بہ نگار خوب روئے تپدآں زماں دل من پئے خوب تر نگارے ز شرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابے سر منزلے نہ دارم کہ بمیرم از قرارے اقبال کی فراست ایمانی نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ اگر خودی پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تو انسان خود بین اور خود غرض ہو جائے گا اور دوسروں کے مفادات اس کے ہاتھوں پامال ہوں گے۔ اس نتیجہ بد سے بچانے کے لیے انہوں نے بیخودی کا فلسفہ بھی پیش کر دیا۔ انفرادی حیثیت میں انسان خودی کے فلسفہ پر عمل پیرا ہوا اور اجتماعی زندگی میں بے خودی کے فلسفہ کو اپنائے۔ اس طرح معاشرہ میں توازن قائم ہو گا اور اس ملت میں ہٹلر اور مسولینی پیدا نہیں ہو سکیں گے۔ ٭٭٭ یہ وہ تعلیم ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اقبال نے آئندہ نسلوں کو دی۔ اس کو اپنانے سے وہ ثمرات یقینا حاصل ہوں گے جو اقبال کے پیش نظر تھے۔ اس تعلیم کے لیے مخصوص ذہنیت اور مخصوص ماحول درکار ہے۔ نہ غلامانہ ذہنیت میں اس تعلیم کا کوئی اثر ہو سکتا ہے اور نہ غلامی کے ماحول میں یہ تعلیم پروان چڑھ سکتی ہے۔ اس کے لیے ذہنیت کی تبدیلی نہایت ضروری ہے۔ لہٰذا بڑوں کا یہ فرض ہے کہ وہ آئندہ نسل کے ذہنوں کی تطہیر کریں۔ ان کے لیے بہتر سے بہتر ماحول بنائیں۔ پھر اقبال کی تعلیمات کو گھر کے اندر، درسگاہوں میں اور باہر کی دنیا میں عام کریں۔ اقبال کے کلام کا مقصد تحریروں اور تقریروں میں زور پیدا کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ نہ اس کلام کو اس کام میں لانا چاہیے کہ کوئی گلوکار یا موسیقار ریڈیو، ٹیلی ویژن یا پردہ سیمیں پر کوئی نظم گا کر اپنے کمال فن کر مظاہرہ کرے اور سننے والوں سے خراج تحسین وصول کرے۔ اقبال کا کلام زندگی کی صحیح اور سچ تصویر ہے اس میں زندگی پوری جولائیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے لہٰذا اس کو بہترین طریقے پر زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ان جواہر پاروں کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا اور تفریح طبع کا ذریعہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے گا۔ اقبال کے اپنے زمانہ میں قوم جسمانی اور ذہنی دونوں قسم کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ گویا نہ ذہنیت درست تھی اور نہ ماحول صحیح تھا۔ جب جسمانی آزادی حاصل ہو گئی تو ذہنی غلامی کی زنجیریں اور مضبوط ہو گئیں۔ لہٰذا ان دونوں حالتوں میں اقبال کے کلام اور ان کی تعلیمات کا کوئی اثر نہ ہوا خود اقبال کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتوں میں سے ایک آیت تھے لیکن قوم ان کو وہ ملی جو غلامی پر رضا مند تھی اور کسی نہ کسی درجہ میں اب بھی ہے۔ لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ قوم نے ان کی تعلیم کا خاطر خواہ کا اثر نہ لیا صرف ان کی تعریف کرتے اور یوم مناتے رہے۔ یہ جاننے کی کبھی کوشش نہ کی کہ انہوں نے کیا کہا تھا اور کس لیے کہا تھا۔ آئندہ نسل جو آزادی کی فضا میں پروان چڑھ رہی ہے اگر اس کی مناسب ذہنی تربیت کر دی جائے اور اس کو اقبال کے کلام سے زیادہ سے زیادہ مانوس بنایا جائے تو وہ اس تعلیم سے متاثر بھی ہو گی اور اس کی روشنی میں اپنی عملی زندگی کو بھی سدھارے گی۔ اقبال خود بھی اس نکتہ کو سمجھے تھے اس لیے انہوں نے اپنی بہت سی نظموں میں نوجوانوں ہی سے خطاب کیا ہے اور انہیں سے تمام توقعات قائم کی ہیں۔ مستقبل کے ان نوجوانوں کو ذہن میں رکھ کر انہوں نے نہایت پیغمبرانہ شان سے یہ پیشگوئیاں کی ہیں: آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد و آشنا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیمان سجود پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی اور یہ انقلاب عظیم صرف اسی صورت میں رونما ہو گا جب نوجوانوں میں بیداری پیدا ہو یا پیدا کر دی جائے۔ قوم میں صلاحیت موجود ہے لیکن اس صلاحیت کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔ اقبال نے اپنے اس شعر میں ایک شرط کے ساتھ ہی قوم سے بہتری کی توقعات قائم کی تھیں۔ نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی یعنی مٹی کی زرخیزی اسی وقت اچھی پیداوار دے سکے گی جب اس میں کچھ نمی ہو گی۔ ٭٭٭ رومانیت، مخزن اور اقبال انور سدید برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ میں سید احمد خان کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے قومی سطح پرایک خاص نوع کا تحرک پیدا کیا اور فکر و نظر کے بیشتر پرانے اعتبارات پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی۔ انہوں نے مقاومت کی فضا پیدا کرنے کے بجائے اگر روشنی کے اس سیلاب کے ساتھ جو انگریزی علوم و تہذیب کی صورت میں بے محابا آر ہا تھا چلنے کی تلقین کی۔ چنانچہ تہذیب کے پرانے نظام کی شکست و ریخت کے بعد انیسویں صدی کے ربع آخر میں نئے نظام نے اپنی بنیادیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔ بلاشبہ علی گڑھ تحریک کی ٹھوس عقلیت اور جامد اجتماعیت نے زندگی اور ادب دونوضں کو ایک نئے موڑ سے آشنا کیا۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ذہنی انقلاب سے گزرنے کے باوجود برصغیر نے ماضی کی شاندار روایت سے اپنا رشتہ یکسر توڑا نہیں تھا اور مشرق کا روحانی مزاج مزب کی مادیت کو پوری طرح قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوا تھا۔ علی گڑھ تحریک نے فکر، فلسفہ اور سائنس کے نئے گوشوں سے استفادہ کر کے اجتماعی مفاد کا راستہ ہموار کیا۔ چنانچہ اس تحریک کا مزاج حقیقت پسندی کی طرف مائل تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد اس کے خلاف رومانی نوعیت کا رد عمل ظاہر ہونا شروع ہو گیا اور جذبہ و تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی سطح پر ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ جذباتی سطح پر اس رد عمل کا ایک زاویہ اکبر الٰہ آبادی اور اودھ پنچ کی صورت میں ظاہر اور یہ منفی نوعیت کا تھا۔ اس رد عمل کی مثبت صورت کو محمد حسین آزاد، ناصر علی دہلوی اور عبدالحلیم شرر نے ابھارا اور سرسید کے سائنسی اسلوب کے برعکس ان اسالیب کو فروغ دینے کی سعی کی جس میں ادیب کا تخیل جذبے کی جوئے تیز رو کے ساتھ چلتا ہے اور قلم اس کے وجدان سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ علی گڑھ تحریک نے عقلیت پسندی کا یک طرفہ رحجان پروان چڑھایا تھا اور یوں معاشرے کو متعدد مصنوعی قیود کا پابند بنانے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ وہ تخلیقی ابال جو زندگی کو رعنائی اور تنوع عطا کرتا ہے ان پابندیوں میں اخراج کا فطری راستہ نہ پا سکا۔ تخیل کی آزاد پرواز پر خشک فلسفہ غالب آ گیا۔ ہیئت اور لفظ کے جامد ضابطوں نے خیال کی مذمت پر حاکمیت اختیار کر لی اور انسان جو نئی تہذیب کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے پر آمادہ نہیں تھا ذہنی طور پر گھٹن کی کیفیت محسوس کرنے لگا آزاد، شرر اور ناصر علی دہلوی نے سرسید کے مقاصد کو تنقید و تعرض کا نشانہ بنائے بغیر فرد کی اس داخلی آواز کو سننے کی کوشش کی اور جب و جنون اور وحی و الہام کی اس کیفیت کو جسے انہوں نے تخلیقی عمل کے وجدانی لمحے میں محسوس کیا تھا مشرق کے روحانی اسلوب نگارش میں پیش کر دیا۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ ان ادبا نے محبوس انسان کی آزادی کا علم تھاما اور اسے فکری اور تخلیقی آزادی عطا کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جذبہ و تخیل کی سر مست پرواز کو ہیئت اور اسلوب کے جامد سانچوں میں قید رکھنا ممکن نہ رہا اور رومانیت کی اس تحریک کو فروغ ملنا شروع ہو گیا جس کا آغاز تو محمد حسین آزاد، عبدالحلیم شرر اور ناصر علی دہلوی نے کیا لیکن جسے پروان رسالہ’’ مخزن‘‘ اور اقبال نے چڑھایا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رومانیت کیا ہے؟ رومانیت کی ابتدا بالعموم ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جس کی ذہانت کو اس کے اپنے عہد نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا نام روسو ہے اور وہ اپنے معاشرے کا اکھڑا ہوا فرد تھا۔ اس کا گرد و پیش اس کے لئے آزار جاں تھا اور وہ اپنے وطن فرانس میں اجنبیت کے شدید ترین احساس سے دو چار ہو چکا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی ذات کے اندھے کنوئیں میں جھونکا اور اسے وہاں ایک ایسی پر رونق اور شاداب دنیا نظر آئی جس کے آگے ظاہر کی دنیا بالکل بے معنی ہو گئی تھی۔ چنانچہ اس نے لکھا کہ: ’’ اپنی ذات سے باہر میرے لئے ہر چیز اجنبی ہے اس دنیا میں میرا کوئی ہمسایہ نہیں۔ کوئی بھائی نہیں۔ مجھ جیسا کوئی دوسرا نہیں۔ میرا گھر کوئی اور سیارہ تھا۔ لیکن میں زمین پر گرا دیا گیا ہوں۔ میرے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی دنیا میرے دل کو زخمی اور غم زدہ کر رہی ہے میں زندگی بھر تنہا رہنا چاہتا ہوں امن، سکون اور مسرت تو میرے داخل میں موجود ہے اور میں اپنی انا کے سوا کسی اور شے کا آرزو مند نہیں ہوں۔‘‘ اس عہد کے ایک اور مفکر والٹیر نے کائنات کو روزن زندان سے دیکھا تھا لیکن روسو نے کائنات کو زنداں تصور کیا اور آزادی کا مرجع اس دل کو بنایا جس میں انسان کا آزاد تخیل خارج کے جبر سے آزاد تھا۔ روسو کا خیال تھا کہ علم انسان کو بہتر بنانے کے بجائے ہشیار بنا دیتا ہے اور پھر اسے شرارت پر آمادہ کرتا ہے۔ فلسفے کا غلبہ قوم کو اخلاقی طور پر بیمار بنا دیتا ہے شعور انسان کو محرومی کے آزاد سے دو چار کرتا ہے۔ لہٰذا تخیل کی قوت عقل پر فوقیت رکھتی ہے اس عہد میں روسو کی یہ منفرد آواز کہ ’’ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جہاں دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے۔‘‘ بلند ہوئی تو اسے رومانیت کا مطلع اول قرار دیا گیا۔ مندرجہ بالا اجمال سے واضح ہوتا ہے کہ رومانیت کا تعلق ظاہر کے بجائے غیر ظاہر، حقیقت کے بجائے غیر حقیقت اور شعور کے بجائے لا شعور سے ہے۔ یہ ایک بے حد پیچیدہ نفسیاتی کیفیت ہے۔ چنانچہ اب تک اس کے متعدد زاویے سامنے آ چکے ہیں لیکن اس کی جامع تعریف مرتب نہیں ہو سکی۔ ایچ ایل لوکس نے اس کے آثار قدیمہ آٹھویں صدی عیسوی میں تلاش کئے اور اسے نئے زبان لینگو ارومانیکا سے مشتق قرار دیا۔ بقول لوکس رومانیت کا لفظ پہلے ایک مخصوص زبان کے لئے استعمال ہوا۔ پھر اس سے مراد ایک خاص قسم کا ادب لیا گیا اور بالآخر رومانیت کو وہ ماورائی عنصر قرار دیا گیا جو اس مخصوص ادب میں جزو خاص کے طور پر مثال تھا۔ چنانچہ اب اس لفظ کا یہ مفہوم ہی بالعموم زیر بحث آتا ہے اور بیشتر اس مزاج کو دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کلاسیکیت کا دوسرا رخ اور جو فرد کو ماورائی دھندلکوں سے روشنی کی کرنیں پکڑنے اور داخلی واردات کو خارج کی زبان میں ادا کرنے پر مائل کرتا ہے۔ رومانیت کی اساسی روح افلاطوں کے نظریات میں موجود ہے۔ چنانچہ جب افلاطون نے انسان کو ایک ایسا پرند قرار دیا جو بے پر ہونے کے باوجود قوت پرواز رکھتا ہے تو وہ در حقیقت انسان کی قوت متخیلہ پر مہر تصدیق ثبت کر رہا تھا۔ بالفاظ دیگر رومانیت اس کیفیت کو پا لینے کا نام ہے جب انسان کا مادی وجود ہمہ تن جذبے میں تحلیل ہو کر جسم کو پر لگا دیتا ہے۔ بلیک نے تخیل کو روحانی عمل کا مخرج تسلیم کیا ہے اور اس امر پر زور دیا ہے کہ تخیل خدا کا وہ عمل ہے جس سے وہ اپنی مخلوق کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ پیغمبرانہ شان سے لکھتا ہے کہ ’’ تخیل کی دنیا ابدی ہے۔ موت کے بعد سب نامیاتی جسم فطرت کی گود میں پناہ لیتے ہیں۔ تخیل کی دنیا لا محدود، بے کراں اور غیر فانی ہے۔ مادی دنیا فانی محدود اور عارضی ہے۔ ابدی دنیا دوامی حقیقتوں کا مخزن ہے اور فطرت کے ظاہری آئینوں میں ہم انہیں حقیقتوں کو منعکس دیکھتے ہیں۔‘‘ کالرج تخیل کو زندہ طاقت تصور کرتا ہے اور اسے انسانی دانش کا محرک اور محدود ذہن میں لا محدود خالق کی قوت خودی کا عکس قرار دیتا ہے۔ کالرج کے نزدیک شاعر کی اہمیت یہ ہے کہ ’’ شاعر اپنی عینی حالت میں انسان کو پوری روح کو حرکت میں لاتا اور اس روح کی مختلف طاقتوں کو ایک دوسری کی قیمت اور وقعت کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ وہ اتحاد کا آہنگ پھونکتا ہے اور ہر چیز کو دوسری میں جادو کی اس طاقت سے ملاتا ہے جسے مخصوص طور پر میں تخیل کہتا ہوں۔‘‘ بالفاظ دیگر کالرج نے شاعر اور صوفی کے باطنی تجربے میں کوئی حد فاضل قائم نہیں رہنے دیا ور بالآخر اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی ہے کہ شاعری ہی حق تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ بظاہر یہ بہت بڑا دعویٰ ہے لیکن بیشتر رومانی شعراء اس بات پر متفق ہیں کہ شاعری کا جادوئی عنصر تخیل کا کرشمہ ہے اور اس کا تعلق کسی ایسی مافوق الفطرت قوت کے ساتھ قائم ہے جس کا ادراک حواس خمسہ نہیں کر سکتے اور اس مافوق الفطرت کا ادراک رومانیت کا مطمح نظر ہے چنانچہ ایچ ایل لوکس نے رومانیت کو پرستان کے اس شہزادے سے تشبیہہ دی ہے جو حسن خوابیدہ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے رومانیت کے اس زاویے کو ایسی بہشت غفلت سے تعبیر کیا ہے جس کی تہہ میں حقائق کی تلخیوں سے گریز کی خواہش کار فرما ہوئی ہے اور اس لحاظ سے رومانیت بقول گوئٹے مرض کے سوا اور کچھ نہیں۔ چنانچہ لا فانتین نے رومانیت کی جو تعریف وضع کی ہے اس میں بھی یہی رویہ کار فرما نظر آتا ہے۔ لافانتین لکھتا ہے کہ ’’ رومانیت دن کے سہانے خواب ہوتے ہیں۔ ان خوابوں کا تجربہ کرنے والے بھی وہ ہوتے ہیں جن کی مدہوشیاں حکمت کا نشہ لئے ہوئے ہوتی ہیں اور وہ بھی جو احمقوں کی جنت کے باسی ہوتے ہیں۔ مگر یہ خواب بڑے سہانے اور بڑے ہی شیریں ہوتے ہیں۔ اسے سراب کہیے یا فریب خیال۔۔۔۔۔ ہم اسی کی رو میں بہہ جاتے ہیں ہم اپنی بساط کو کچھ زیادہ ہی سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا کی ہر قیمتی شے اور ہر حسین شے ہمارے لئے بنی ہے اور بس ہماری ہے۔‘‘ بنی نوع انسان کے لئے وہ رومانی جو احمقوں کی جنت کے باسی ہیں چنداں اہم نہیں تاہم خوابوں کا تجربہ کرنے والے وہ زیرک لوگ جن کی مدہوشیاں حکمت کا نشہ لئے ہوتی ہیں ارتقائے انسانی میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں اور زندگی کے تحرک کو تیز تر کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔ رومانی فنکار تخیل کی جس فراوانی کو عمل میں لاتا ہے اس نے اسے آزادی فکر وعمل کی ایک وسیع اقلیم پر حکمرانی عطا کر دی ہے رومانی ذہن چونکہ خود نگر اور خود آشنا ہوتا ہے اس لئے اس کی انانیت اور انفرادیت شعوری مرصع کاری سے تحسین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ رومانی فنکار اس تخلیقی لمحے کا منتظر رہتا ہے جب بقول کالرج روشنیا ور سائے کا اتفاقی امتزاج عمل میں آ جائے اور چاندنی یا غروب آفتاب ایک مانوس منظر میں ڈھل جائے یہی وہ لمحہ ہے جب فنکار محض سہانے خواب نہیں دیکھتا بلکہ فطرت کو عمل تغلیب سے گزرنے کا موقعہ عطا کرتا ہے اور ان لمحات عرفان کو جن کی جاودانی کیفیت اس پر منکشف ہوئی ہے کاغذ پر بکھیر دیتا ہے۔ تاکہ دکھ اور غم سے ماری ہوئی دنیا کے لوگ اپنی گم گشتہ جنت خیال کو پالیں اور زندگی کی حقیقت کو نئی معنویت سے تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جائیں پس رومانیت ایک طرز خیال تو ہے لیکن یہ یکسر مرض کی کیفیت نہیں اہم بات یہ ہے کہ رومانیت ہر حسین شے کی طرف دست تصرف نہیں بڑھاتی بلکہ حسن کی تقسیم اور مسرت کے حصول میں دوسروں کو بھی شامل کرتی ہے۔ یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ رومانیت کا ہر دور محض انفحالی نہیں ہوتا بلکہ یہ بیشتر ادوار میں فعال صورتمیں رونما ہوئی ہے اور اس کے تخلیقی جذبے نے کائنات کا نقشہ بدلنے میں عمدہ خدمات سر انجام دی ہیں چنانچہ رومانیت بنیادی طور پر اس داخلی قوت کا نام ہے جو نامعلوم کو دریافت کرنے اور کسی نئی شے کو تخلیق کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ کلاسیکیت جس محرک قوت کو خارج سے تلاش کرتی ہے رومانیت اس قوت کو انسان کے داخل سے برآمد کرتی ہے۔ چنانچہ یو ٹوپیا کی تخلیق اور عینیت پسندی وغیرہ اہم ترین داخلی رحجانات شمار کئے جاتے ہیں تو ان رحجانات کی تکمیل کے لئے فرد کا رومانی رویہ ہی مثبت کردار سر انجام دیتا ہے۔ اس مختصر سی بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ رومانیت محض احیاء العجائب نہیں بلکہ زندگی کے ایک مخصوص رویے کی عکاس ہے اس میں بے پناہ تخلیقی قوت ہے اور یہ بالعموم جمود اور یکسانیت کے کرخت خول کو توڑ کر فنی اور فکری جست کو عمل میں لاتی ہے۔ رومانیت میں آزاد روی انفرادیت، تحفظ انا، اور بغاوت کا عنصر بھی موجود ہے چنانچہ رومانیت وہ شرار سنگ ہے جو لہو ٹپکانے کی صلاحیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ شیطان پہلا رومانی کردار تصور ہوتا ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور بقول اقبال دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے رومانی فنکار خوابوں کی دنیا میں ہلکورے تو لیتا ہے لیکن وہ صرف نیم غنودہ افیونی فضا تخلیق نہیں کرتا بلکہ حقیقی دنیا کے ساتھ رابطہ استوار کرتا ہے اور جن صداقتوں کو وجدان کے ذریعے دریافت کرتا ہے ان کا عامتہ الناس پر منکشف بھی کرتا ہے اس زاویے سے رومانی فنکار ایک ایسا صوفی ہے جو آگ لینے کے لئے جاتا ہے تو واپسی پر صحیفہ بھی ساتھ لاتا ہے۔ رومانی تخیل کا جو بیج محمد حسین آزاد نے لاہور میں بویا تھا اسے تحریک کی صورت میں شیخ عبدالقادر نے پروان چڑھایا شیخ عبدالقادر کا رسالہ مخزن اپنے عہد کا ایک ایسا صحیفہ ہے جس نے فکر کی آزادہ روی کی حمایت کی اور اردو زبان کے ادبی سرمایے کو فکری تنوع اور جمالیاتی حسن سے غیر سیاسی انداز میں بڑھانے کی سعی کی۔ یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ اردو زبان سرسید کے لئے محض ایک ذریعہ ابلاغ تھی اور اس زبان کی تہذیب و آرائش ان کا مقصد اولیٰ نہیں تھا۔ مولانا صلاح الدین احمد نے لکھا ہے کہ ’’ سرسید نے اردو پر زبان رائے زبان کے نقطہ نظر سے چنداں توجہ نہیں کی۔۔۔۔ سرسید کی اپنی نثر خاصی بھدی ہے اور یہ بھدا پن آج کے ترقی یافتہ معیار سے نہیں بلکہ ان کے اپنے زمانے کے اس معیار سے بھی متعین کیا جا سکتا ہے جو نثر جدید کے معمار اعظم غالب نے اپنے اردو مکاتیب کے ذریعے سے قائم کیا تھا۔‘‘ بلا شبہ سید احمد خان کے رفقا میں قدر اول کے ادبا شامل تھے اور انہوں نے متعدد موضوعات پر کتابیں ہی تصنیف نہیں کیں بلکہ اردو نثر کو نئے اسالیب سے بھی آشنا کیا تاہم اس حقیقت کو تسلیم کرنا بھی مناسب ہے کہ سید احمد خان کی طرح ان کے نزدیک بھی اردو زبان خیالات کی ترسیل کا ہی وسیلہ تھی اور اسے جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان ادباء کے قومی اور اصلاحی مقاصد کا ثانوی یا اضافی ثمر ہے۔ شیخ عبدالقادر کے پیش نظر اگرچہ کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا تاہم انگریزی کی اعلیٰ تعلیم، وسیع مطالعہ اور ہمہ گیر شخصیت قومی زندگی پر اثر اندا زہوئے بغیر نہ رہ سکی اور انہوں نے مخزن کے ذریعے ایک ایسی تحریک کو فروغ دیا جس کا اولیں مقصد تو اردو زبان کی نشوونما اور تہذیب و ترقی تھا لیکن جب اس کے اثر و عمل کا دائرہ پھیلا تو اس نے ہندوستان کی علمی، ادبی اور ثقافتی، زندگی کے بیشتر شعبوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ مخزن کی ادبی تحریک اگرچہ رومانی نوعیت کی تھی تاہم اس میں فکر کا زاویہ بھی شامل تھا اور اس نے ملک کے اجتماعی شور کو بھی متاثر کیا۔ مخزن کی رومانی تحریک بظاہر سرسید کی ٹھوس مادیت اور جامد مقصدیت کا رد عمل معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی ابتداء میں چند ایک دوسرے عوامل بھی کار فرما نظر آتے ہیں مثال کے طور پر بیسویں صدی کے ربع آخر میں اجتماعیت کو فروغ خاص حاصل ہوا اور کئی ایسی سیاسی اور سماجی تحریکیں رونما ہوئیں جن کے پیش نظر ایک واضح معاشرتی نصب العین تھا اور وہ اس کے حصوں کے لیے اجتماعی جدوجہد کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہی تھیں ان تحریکوں نے فرد کو اہمیت دینے کے بجائے قوم کو اہمیت اور ذاتی انفرادیت کو قومی اجتماعیت میں ضم کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فرد نہ صرف بے چہرہ ہو گیا بلکہ خشک مادیت نے اس کا رشتہ روحانی سرچشموں سے بھی منقطع کر دیا علی گڑھ تحریک کے ادب نے منطق کی سیدھی سپاٹ راہ اختیار کی اور یوں ذات کی جستجو کا جذبہ مدھم پڑھ گیا بیسویں صدی کے اوائل میں جب انگریزی زبان کو تدرین کا مستقل جزو بنا دیا گیا تو ہندوستانی نوجوانوں کو مغرب کے رومانی شعراء سے براہ راست تعارف حاصل ہوا نتیجہ یہ ہوا کہ جستجوئے ذات کی مدھم لہر تیز تر ہو گئی اور فرد نہ صرف اپنی انفرادیت کو تلاش کرنے پر مائل ہو گیا بلکہ اس کے ہاں انائے ذات کا جذبہ بھی قوی صورت اختیار کر گیا۔ اس قسم کی فضا میں رومانیت کا بیج نہ صرف آسانی سے جڑ پکڑتا ہے بلکہ اس کی نشوونما بھی تیزی سے ہوتی ہے چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ اردو ادب میں رومانیت کے فروغ میں متذکرہ اجتماعیت کا بھی اہم حصہ ہے۔ انیسویں صدی کے ربع آخر میں ہندی زبان کو سیاسی سطح پر آلہ کار بنایا گیا اور انگریزی حکومت نے اسے فروغ دینے کی عملی کوشش شروع کر دی۔ اس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس ہندی اور اردو زبان کے وسیلے سے پیدا ہو گیا۔چنانچہ اس احساس کے زیر اثر جو مضبوط تحریکیں شروع ہوئیں ان میں قدیم مذاہب کے احیاء کو بالخصوص اہمیت ملی۔ ان تحریکوں کے فروغ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حقیقت پسندی کی تحریک نے مذہب کی الہامی کیفیت کی نفی کرنا شروع کر دی تھی۔ چنانچہ اس کے خلاف رد عمل بھی احیائے مذہب کی صورت میں رونما ہوا اور اخلاقیات کے اس قلعے کو جسے انگریزی تہذیب نے مسمار کرنا شروع کر دیا تھا نہ صرف دوبارہ مضبوط کیا جانے لگا بلکہ رسوم و رواج کی مثالی و معیاری صورت کی تجدید بھی ہونے لگی۔ ہندوؤں میں آریہ سماج اور سناتن دھرم کی اور مسلمانوں میں دیوبند اور ندوۃ العلماء کی تحریکیں اسی رحجان کی آئینہ دار ہیں۔ پرانی اقدار اور قدیم روایات کے احیاء کے خلاف نوجوان نسل کا رد عمل رومانی تصورات کی صورت میں رونما ہوا جس نے فرد کو روایات کے بتان قدیم کو پاش پاش کرنے، اپنے داخل کی رومانی آواز پر کان دھرنے اور نئے خیالات کی کونپلوں کو افزائش دینے پر آمادہ کیا۔ پس متذکرہ قدامت کے خلاف اس عہد کا عمرانی رد عمل رومانیت کے فروغ میں ایک اہم عامل قوت کے طور پر کام کرنے لگا اور اس نے رومانیت کے فروغ میں بڑی معاونت کی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے رومانیت کے فروغ کی ایک اہم وجہ سائنسی ارتقاء میں تلاش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ: ’’ بیسویں صدی میں۔۔۔ علوم کی ترقی نے انسان کے سارے تیقن کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ مرکز کائنات نہیں رہا۔ اور ماحول کے ساتھ اس کا رشتہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے جب وہ بنیاد ہی لرزہ بر اندام ہو جس پر معاشرے کی عمارت کھڑی ہے تو انسان قدرتی طور پر متخیلہ کو بروئے کار لاتا ہے تاکہ ایک بہتر اور خوب تر جہان کا نظارہ کر سکے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوٹوپیا کا خوب تر جہان تخلیق کرنا رومانیت کا ایک پر اسرار مگر اہم مقصد ہے اور ہندوستانی فرد میں یہ جذبہ حصول آزادی کی جدوجہد نے بدرجہ اتم پیدا کر دیا تھا۔ تاہم سائنسی ارتقا نے انسان کے تیقن کو پارہ پارہ کیا تو اس عمل میں اولیں سطح پر اس کی شخصی انا مجروح ہوئی۔ دوسرے وہ نیابت الٰہی کی بلند مسند سے اتر کر زمین پر گر پڑا تو زمین کے مادی بوجھ نے اس کی روح کو گراں بار کر دیا۔ چنانچہ بے بسی کے اس عالم میں وہ حقائق سے گریز کرنے اور ایک خواب ناک فضا میں سانس لینے پر آمادہ ہو گیا۔ بیسویں صدی میں فرد کی یہ بے بسی کے اس عالم میں وہ حقائق سے گریز کرنے اور ایک خواب ناک فضا میں سانس لینے پر آمادہ ہو گیا۔ بیسویں صدی میں فرد کی یہ بے بسی رومانیت کے فروغ میں خاصی معاون نظر آتی ہے۔ ان سب دلائل کی اساس پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں ایسی مرتب ہو چکی تھی جس میں رومانیت کا بیج اپنے اکھوے نکال سکتا تھا۔ چنانچہ جب اپریل ۱۹۰۱ء میں مخزن کا اجراء ہوا اور اس نے روش عام سے ہٹ کر جذبہ اور تاثیر کو ملکوتی زبان میں پیش کرنا شروع کیا تو اس عہد کے بیشتر نوجوان ادباء مخزن کی طرف متوجہ ہو گئے۔ چنانچہ ڈاکٹر سید عبداللہ کی اس رائے میں پوری صداقت موجود ہے کہ ’’ مخزن سے اس زمانے کے سب ادیب متاثر ہوئے۔‘‘ اس کے دائرہ اشاعت میں جو ادبا جمع ہوئے ان میں اقبال ابو الکلام آزاد، سید سلیمان ندوی، سجاد حیدر یلدرم، آغا شاعر قزلباش، مرزا محمدسعید، ظفر علی خان، غلام بھیک نیرنگ، خوشی محمد ناظر، لطیف الدین احمد، راشد الخیری، مہدی حسن افادی، تلوک چند محروم، اکبر الٰہ آبادی، احسن لکھنوی طالب بنارسی، سرور جہان آبادی محمد علی جوہر، عزیز مرزا، سید نذیر حسین، سلطان حیدر جوش، خواجہ حسن نظامی، محمد اکرام اور شیخ عبدالقادر کے اسمائے گرامی شامل ہیں ’’ مخزن‘‘ کے مضمون نگاروں کی اس نا مکمل فہرست پر نظر ڈالنے سے ہی یہ احساس قوی ہو جاتا ہے کہ ان میں سے بیشتر ادبا نے اردو زبان کو ایک خاص قسم کی لطافت سے آشنا کیا اور طاقتور متخیلہ کے بل بوتے پر رومانی تصورات کو فروغ دینے کی سعی کی چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں رومانیت کے جو نقوش لاہور، دہلی اور علی گڑھ میں بکھری ہوئی حالت میں ملتے تھے انہیں بیسویں صدی کے اوائل میں ’’ مخزن‘‘ نے سمیٹنے کی کوشش کی اور عہد سرسید کی بھدی نثر کو لطیف، شیریں اور نغمہ بار شعریت سے آشنا کر دیا۔ ’’ مخزن‘‘ کی بساط ادب سے جو رومانی ادباء نمایاں ہوئے ان میں اولیت اقبال کوحاصل ہے۔ اقبال کی ابتدائی تربیت عربی اور فارسی کے گہواروں میں ہوئی تھی اور وہ ان نو افلاطونی افکار سے جن کا اظہار فارسی او راردو کے قدیم شعرائے بہ تکرار کیا تھا متاثر تھے۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران اقبال مغرب کے رومانی شعراء سے متعارف ہوئے۔ چنانچہ وہ نہ صرف اس شاعری سے متاثر ہوئے بلکہ رومانیت نے ان کے ذہن و قلب پر بھی تسلط جما لیا۔ اقبال اعتراف کرتے ہیں کہ: ’’ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمو لینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کیسے زندہ رکھوں۔ اور ورڈز ورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچا لیا۔‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص ۱۰۵) پس اقبال کی رومانیت کا اولیںاظہار اس وقت ہوا جب انہوں نے مشرقی انداز اظہار کو برقرار رکھنے کے باوجود مغربی شاعری کی اقدار کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کی۔و رڈز ورتھ کے مطالعے نے انہیں جمال فطرت کو سمجھنے اور پھر انسان پر اس کا مفہوم آشکار کرنے پر آمادہ کیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ: ’’ روح ارضی اپنی داخلی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو علامات کے پردوں میں چھپا لیتی ہے اور کائنات ایک عظیم علامت ہے۔‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص ۱۳۹) اقبال اپنے آپ کو اس روح ارضی کا مد مقابل شمار کرتے ہیں اور ان مفاہیم کی تعبیر و توجیہہ کو اپنا فرض تصور کرتے ہیں جنہیں فطرت علامتوں میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ چنانچہ مخزن کے صفحات پر اقبال ایک ایسے رومانی شاعر کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جو خارج کے مشاہدے کو داخل کی باطنی قوت کے ساتھ منسلک کر کے تخیل و وجدان سے کائنات کے پر اسرار خزینوں کا راز آشکار کرنے کی سعی کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کی رومانیت کا اولیں زاویہ حسن ازل کی طلب و جستجو میں ظاہر ہوا۔ یہ حقیقت اس بات سے عیاں ہے کہ اقبال نے فطرت کی تصویر کشی اپنے معاصر شعراء کے انداز میں نہیں کی بلکہ اس نے فطرت کے پر اسرار داخل میں جھانکنے کی کوشش کی اور اس جہان معنی کو دریافت کیا جو ظاہر کے پردے میں چھپا ہوا تھا۔ اقبال نے ابر کوہسار، آفتاب، چاند، شمع، ستارۂ صبح، موج دریا، طفل شیر خوار اور جگنو وغیرہ کو مخاطب کیا اور اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا جو رومانیت کی دھندلی روشنی میں ملفوف تھا۔ چنانچہ اقبال کے ہاں اولیں سطح پر سرمستی، کیف دوام، سرخوشی اور شرمساری کی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے حسن و جمال کی پرستش کچھ اس خود فراموشی سے کی کہ فطرت اس کے ساتھ ہم کلام ہو گئی اور وہ شاہد رعنائے فطرت نظر آنے لگا۔ محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایاں حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن حسن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مہر کی ضو گستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے چشمہ کہسار میں، دریا کی آزادی میں حسن شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حسن آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت، شفق کی گل فروشی میں ہے یہ ٭٭٭ حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے ٭٭٭ گھر بنایا ہے سکوت دامن کہسار میں آہ، یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں ہم نشین نرگس شہلا، رفیق گل ہوں میں ہے چمن میرا وطن، ہمسایہ بلبل ہوں میں ٭٭٭ اقبال کے ان اشعار میں جذباتی تموج رومانی ہتزاز کے پہلو بہ پہلو موجزن نظر آتا ہے۔ تاہم انہوں نے اسمعیل میرٹھی، محمد حسین آزاد، حیدر علی، نظم طباطبائی اور سرور جہان آبادی کی طرح فطرت کا خاموش بیانیہ مرتب نہیں کیا بلکہ وہ اس ذی روح فطرت کا مدح خواں ہے جس کا پرتو کائنات کے گرد و پیش میں پھیلا ہوا ہے اور جس میں حسن ازل کی جھلک نظر آتی ہے۔ پھسپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا ناز نینوں میں ٭٭٭ جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں میں خورشید میں قمر میں ستاروں کی انجمن میں صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں جس کی چمک ہے پیدا جس کی مہک ہویدا شبنم کے موتیوں میں پھولوں کے پیرہن میں صحرا کو ہے ہسایا جس نے سکوت بن کر ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن میں مرے میں ہے نمایاں یوں تو جمال تیرا آنکھوں میں ہے سلیمی تیری کمال اس کا ٭٭٭ اہم بات یہ ہے کہ اقبال نے مغرب کے مقبول رومانی شاعروں کی طرح اپنے آپ کو فطرت میں ضم نہیں ہونے دیا بلکہ اس نے اس جمال جہاں آراء سے بلند ہونے کی کوشش بھی کی ہے۔ اقبال کی رومانیت میں تحیر جلوہ کا قیمتی عنصر دامن کش دل ہوتا ہے اور وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ آفرینش کائنات سے قبل روح کو حسن ازل کی حضوری نصیب تھی۔ چنانچہ اقبال نے اسی گم گشتہ شے کو تلاش کرنے کے لئے فرد کو مائل بہ جستجو کیا اور فطرت کی بو قلموں رعنائیوں میں گم ہو جانے کے بجائے اس رومانی اضطراب کا اظہار کیا کہ روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے ٭٭٭ جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب پالتا ہے جسے آغوش تمنا میں شباب ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے ایک افسانہ رنگیں ہے جس سے جو سکھاتا ہے ہمیں سر بہ گریباں ہونا منظر عام سے حاضر سے گریزاں ہونا دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں خاتم دہر میں یا رب وہ رنگیں ہے کہ نہیں اقبال کی اس قسم کی نظموں میں حسن ازل کی جھلکیاں ہی نظر نہیں آتیں بلکہ ان میں عشق حقیقی کی تپش بھی نظر آتی ہے اور وہ ایک ایسے رومانی شاعر کا روپ اختیار کرتاہے جو آفاق کی وسعتوں سے ہم کلام ہے اور مسلک انسانیت استوار کرنے کے لئے زندگی کے دکھ اور کرب پر شبنم کی پھوار بکھیر رہا ہے چنانچہ علی عباس جلال پوری نے لکھا ہے کہ ’’ یہ نظمیں نہ صرف اردو شاعری میں بے مثال ہیں بلکہ انہیں دنیا کے کسی بھی عظیم شاعر کے کلام کے مقابلے میں فخر و اعتماد کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اقبال کی رومانیت کا دوسرا زاویہ ماضی کی عظمتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جمال فطرت سے عظمت ماضی کی طرف مراجعت اقبال کی مریضانہ روش نہیں، بلکہ اقبال کی رومانیت نے ماضی سے جوہر حیات کشید کیا اور سر زمین عرب کے ان شہسواروں کو ذہنی سطح پر زندہ کیا جنہوں نے اپنے تہور اور شجاعت سے اقوام عالم پر فتح و نصرت حاصل کر لی تھی۔ اقبال کے ہاں رومانیت کی یہ صحت مند کروٹ اس وقت ظاہر ہوئی جب انہوں نے ہندوستان کے زنداں سے نجات حاصل کر کے یورپ کی آزاد فضا میں پرواز کی۔ ایران کی ما بعد الطبیعات کا سراغ لگایا اور یورپ کے نامور مفکرین سے تبادلہ خیال کے بعد اسلامی افکار کی دوامی کیفیت کو ایک نئے تناظر میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ بانگ درا کی نظموں اور بال جبریل اور ارمغان حجاز کی منظومات میں ایک واضح فرق یہ نظر آتا ہے کہ اولیں دور میں اقبال فطرت کے اسرار معلوم کرنے میں سرگرداں ہے۔ حسن و عشق کے نظریات کی شاعرانہ ترجمانی کی سعی کرتا ہے۔ اور فطرت کو معصومانہ تحیر سے دیکھتا ہے۔ یورپ سے واپسی پر اقبال کی رومانی جس تحیر اور استعجاب کی بیشتر منازل کو عبور کر چکی تھی اور اس کی معصومانہ حیرت پر طغیان فکر غالب آ چکا تھا۔ چنانچہ اس دور میں اقبال نے ماضی کو عروج کی اور حال کو زوال کی علامت بنا کر پیش کیا اور ان دونوں کے تقابلی مطالعے سے ایک ایسی فضا تخلیق کی جس کا جادو قاری کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ زمانہ حال کی بوجھل فضا سے چند لمحوں کے لئے نجات حاصل کر کے ماضی کی پر شکوہ فضا میں آسودگی کا سانس لینے لگتا ہے۔ اقبال کی اس قسم کی نظموں میں ’’ مسجد قرطبہ‘‘ اور’’ ذوق و شوق‘‘ کو بالخصوص اہمیت حاصل ہے۔ اقبال نے مسجد قرطبہ کی عظمت وقت کے Wsatelandسے دریافت کی ہے اس نظم کے اولیں حصے پر افسردگی اور خاموشی اور حزن کی دبیز تہ جمی ہوئی ہے۔ ہر شے متحجر نظر آتی ہے۔ صرف وقت زندہ ہے کہ یہ ساز ازل کی فغاں ہے اور سلسلہ روز و شب سے ماضی کا رشتہ مستقبل کے ساتھ پیوست کرتا ہے۔ اقبال نے زندہ وقت کے اس بے کراں دھندلکے میں ہی قوموں کے عروج و زوال اور نو بہ نو انقلابات کا مشاہدہ کیا اور مرد مومن کی کاوشوں کو عشق کا حاصل قرار دیا کہ یہ لازماں اور لا مکاں ہے اور کار جہاں کی بے ثباتی کے با وصف نقش کہن کو فنا ہونے سے بچا لیتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے وقت کے تناظر میں جو خواب دیکھے اور جن تصویروں کا مشاہدہ کیا انہیں نہ صرف حیات ابدی حاصل تھی بلکہ ان میں رومانی اہتزاز کا سامان بھی موجود تھا۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں۔ آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے ٭٭٭ آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب ٭٭٭ وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب سادہ و پر سوز دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لئے سیل ہے عہد شباب عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں مری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب اقبال کے ان اشعار میں وہ سحر آفرینی موجود ہے جو رومانیت کی جان ہے۔ اس کی ایک اور عہدہ مثال اقبال کی نظم ’’ ذوق و شوق‘‘ ہے۔ اس نظم کا فنی پیکر نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے تخیلی انداز میں ہی مرتب ہوا ہے تاہم انہوں نے اس نظم میں جو تصویریں تراشی ہیں ان میں طلسمات کی ایک دنیا آباد ہے اور فارسی ان کے مجموعی تاثر میں یوں گم ہو جاتا ہے کہ نظم کا پس منظر اس کی ملی زندگی کا جزو نظر آنے لگتا ہے۔ اقبال کے اس رومانی حیرت کدے کے چند مناظر درج ذیل ہیں۔ قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا برگ نخیل دھل گئے ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کاروں اقبال نے ماضی پرستی کے رومانی زاویے سے صرف سحر آفرینی کی سعی نہیں کی بلکہ ماضی کی اساس پر ایک یوٹوپیا تخلیق کیا اور فرد کو متوجہ کیا کہ وہ اپنے زمانے کو ماضی کی عظمت کی روشنی میں استوار کرنے کی سعی کرے۔ چنانچہ اقبال کی ماضی پرستی مریضانہ عناصر سے یک سر پاک ہے اور یہ فرد کو اس رومانی جست پر آمادہ کرتی ہے جس سے زندگی کو تحرک مل جاتا ہے اور جمود کا رنگ اتر جاتا ہے۔ اقبال کی رومانی شاعری کا تیسرا اہم زاویہ رومانی کرداروں کی تخلیق میں نمایاں ہوا ہے اور اس کاوش میں اقبال ایک ایسے مصلح کے روپ میں ابھرا ہے جو موجود سے مطمئن نہیں اور معاشرے کی جامد قدروں کو اپنے رومانی تصورات سے بدل ڈالنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ اس کوشش میں اس کے ہاں بغاوت اور سرکشی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ دنیائے نو کی تعمیر کے لئے خالق کائنات کا سامنا کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے اقبال کے اس رومانی تصور کا فکری زاویہ نظریہ خودی میں اور عملی زاویہ مثبت سطح پر مرد مومن اور منفی سطح پر ابلیس کے کرداروں میں موجود ہے۔ اقبال کے اس رومانی تصور کا فکری زاویہ نظریہ خودی میں اور عملی زاویہ مثبت سطح پر مرد مومن اور منفی سطح پر ابلیس کے کرداروں میں موجود ہے۔ علی عباس جلالپوری نے اقبال کے نظریہ خودی کو رومانی خود مرکزیت قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال کی خودی فرد کو داخلی طور پر قوت اور توانائی عطا کرتی ہے۔ تاہم اسے خود مرکزیت کی شہادت قرار دینا اس لئے درست نہیں کہ خودی نرگسیت کی مریضانہ صورت پیدا نہیں کرتی۔ خود مرکزیت فرد کو اپنی ذات کے خول میں اسیر کر ڈالتی ہے جبکہ خودی فرد کو باد بار خارج کی طرف لپکنے اور موجود کو منقلب کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کا نظریہ خودی ان مثبت اوصاف کا حامل ہے۔ جن سے زندگی تخلیقی فعالیت کی طرف جادہ پیما ہو جاتی ہے۔ انسان کی فطری صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور ان کی تکمیل و معروج اسے مرد مومن بنانے میں معاونت کرتی ہیں۔ بالفاظ دیگر انسان کامل خودی کا درجہ تکمیل ہے اور یہ نہ صرف یقین محکم اور عمل پیہم کا مجسمہ ہے بلکہ باطل کی قوت کو عزم و ہمت سے سر کرنے کی ہمت مردانہ بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے زمانے کی زمام اقتدار اسی مرد مومن کے ہاتھ میں پکڑا دی اور اسے دست قدرت قرار دے کر کہا ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب دکار آفریں، کار کشا، کار ساز مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میں بندۂ مومن ہوں نہیں دانہ اسپند وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو ہو جس کی رگ و پے میں فقط مستی کردار عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن تیرا جلال و جمال، مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل ساقی ارباب ذوق، فارس میدان شوق بادہ ہے اس کا حیق تیغ ہے اس کی اصیل عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبیعت، عرب کا سوز دروں ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز اقبال کا مرد مومن اس کی فکری رومانیت کا عمدہ ترین مظہر ہے اور اس میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جن سے شخصیت کی تکمیل فطری انداز میں ہوتی ہے اور مادہ روح پر غالب آنے کے بجائے خود روح کے دامن میں سمٹ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس تصور میں زندگی کے ارضی تقاضوں کو پوری کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور یہ روحانی معراج کو پا لینے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ مرد مومن کے برعکس ابلیس کا کردار شر کا مجسمہ اور ہدی کا نمائندہ ہے ابلیس چونکہ زندگی کی ایک اہم ثنویت کو مکمل کرتا ہے اس لئے اقبال اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔ اقبال شاید اردو کا اولیں شاعر ہے جس نے ابلیس کے رومانی کردار کو واضح خدو خال میں پیش کیا اور اس کے منفی روپ کو بھی آزادی خیال کا مظہر قرار دے کر اس کی تعریف و تحسین کی۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ بدی کے خلاف انسان کا جذبہ نفرت کہیں ختم نہیں ہوا۔ ابلیس ایک ایسا کردار ہے جس نے احکام خداوندی کی نافرمانی کی اور راندہ درگاہ قرار دیا گیا۔ چنانچہ اس کا تذکرہ لاحول پر پڑھنے پر تو مائل کرتا ہے لیکن اس کے داخلی خواص پر توجہ مبذول کرنے کی دعوت نہیں دیتا۔ اقبال نے شر کو زندگی کی ایک اہم محرک قوت تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ ابلیس اس لحاظ سے تو متسوب ہے کہ وہ بدی کا پیکر ہے اور عامتہ الناس کو گمراہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا۔ تاہم اقبال نے ابلیس کے باطن میں جھانکنے کی کوشش کی اور ابلیس کے کردار کو خالص فلسفیانہ نقطہ نظر سے پرکھنے کی سعی کی۔ ہر چند ابلیس انسانی ڈرامے کا قابل نفرت کردار ہے لیکن اقبال نے اسے متحرک قوت کے طور پر قبول کیا اور اسے آزادی اظہار اور قوت عمل کا مظہر قرار دے دیا۔ پروفیسر تاج محمد خیال لکھتے ہیں کہ: ’’ شیطان جو رسمی مذہب میں بدی کا پتلا ہے اسے اقبال اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ اس نے جبر و تحکم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے اور احکام کی بے چون و چراں تعمیل کرنے کے بجائے خود آزادانہ فیصلہ کرنے میں پیش قدمی کی ہے۔ اور اپنے اس اقدام سے وہ زبردست معرکہ چھیڑ دیا جو افراد کے اندرونی رحجانات اور خارجی ماحول کے درمیان ہمیشہ جاری رہے گا۔۔۔۔ اقبال کے وہ مبصرین جو انہیں مروجہ مذہبی نظریات کا نمائندہ سمجھے بیٹھے ہیں شیطان کے بارے میں ان کے نظریات کے اس پہلو سے انصاف برتنے سے قاصر رہے ہیں۔ ایسے حضرات کے نزدیک شیطان محض فتنہ و شر کا علامتی پیکر ہے پس انہیں شیطان کے اندر کوئی قابل ستائش وصف نہیں ملتا۔ درآں حالیکہ اقبال نے شیطان کو جس انداز میں پیش کیا ہے اس اعتبار سے وہ ایک ہیرو معلوم ہوتا ہے جو تمام حرکت اور تمام تغیر کی تخلیق کا مدعی ہے۔‘‘ (اقبال کا نظریہ ابلیس، فلسفہ اقبال، ص ۸۰۔ ۸۲) بالفاظ دیگر یہ کہنا درست ہے کہ اقبال نے ابلیس کے منفی پہلو کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن اس آزادی عمل کو جس کا اولیں اظہار ابلیس نے کیا اور جس سے جہان آب و گل میں نئی رعنائیاں پیدا ہوئیں اور فرد کو آگے لپکنے اور جمود کو توڑنے کی اہلیت حاصل ہوئی اسے اقبال سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ ابلیس کا جبریل سے یہ استفسار کہ گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو بے حد معنی خیز ہے اور زندگی کے ڈرامے میں ابلیس کی اہمیت کو واضح کر دیتا ہے اقبال نے اسے ایک ایسے کردار کے روپ میں پیش کیا ہے جس میں نظریہ خودی کے بیشتر اوصاف موجود ہیں اور جس کے دست تصرف میں جہان رنگ و بو ہے۔ ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو کیا زمیں، کیا مہرومہ، کیا آسمان تو بتو کیا اما مان سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو ٭٭٭ ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پو خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو اقبال کا مرد مومن کا تصور ہمہ جہت ہے اور بے حد متاثر کرتا ہے تاہم اگر وہ اس کے ساتھ ابلیس کا کردار پیش نہ کرتے تو مرد مومن کا تصور بھی یک رخا اور اکہرا ہو جاتا اور زندگی کی ثنویت مکمل نہ ہوتی۔ چنانچہ زندگی کے ڈرامے میں خیر و شر اور نیکی اور بدی کا دائرہ مکمل کرنے کے لئے مرد مومن کے ساتھ ابلیس کی تخلیق ضروری تھی اور اقبال کی یہ تخلیق محض لا شعوری نہیں بلکہ انہوں نے اسے اپنے افکار کا اہم نقطہ قرار دیا اور ابلیس کی ضرورت کے بارے میں عطیہ فیضی کو لکھا۔ ’’ ذہنی طور پر ایک ابدی اور قادر مطلق شیطان پر ایمان لانا زیادہ آسان ہے بہ نسبت ایک خدا پر ایمان لانے کے جو چیز محض کا مبدا ہو۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے شیطان کو ذہنی طور پر قبول کیا اور مرد مومن کے رومانی اوصاف ابھارنے کے لئے اس کردار سے بھی اہم خدمت لی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ جس طرح اقبال کی شاعری میں مسلسل ارتقاء ملتا ہے اسی طرح ان کی رومانیت بھی مختلف ادوار میں مائل بہ ارتقاء رہی۔ چنانچہ یورپ سے واپسی پر جب اقبال نے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کا فریضہ قبول کیا اور مسلمانوں کی شوکت رفتہ کی تجدید کے لئے نئے علم الکلام کی ترویج شروع کی تو اقبال کی رومانیت فلسفے کی فکری صورت میں ڈھل گئی۔ بلا شبہ اس دور میں بھی اقبال نے خارج کو داخل سے ہم آہنگ کرنے اور قوم کو اپنی گم شدہ روح ماضٰ تلاش کرنے کی تلقین کی تاہم اس دور میں اقبال پیغمبر ادب کے منصب پر فائز ہو چکے تھے۔ چنانچہ ان کی رومانیت پر فکر کی دبیز تہ نمایاں ہو گئی اس سب کے باوجود ادب میں اقبال کی اس عطاء سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے ابتداء میں مخزن کی لطیف رومانی تحریک کو چمکانے کے لئے مغربی شعراء کے تراجم کئے اور اردو شاعری کو چند ایسی جاندار نظمیں دیں جن کا مایہ خمیر انگریزی مگر پیکر مشرقی تھا۔ ان نظموں میں اقبال نے اپنے رومانی تصورات کو منفرد انداز میں پیش کیا اور انسان کے داخل اور خارج میں ہم آہنگی پیدا کر دی اور آخری دور میں اقبال کے مثبت رومانی عمل نے فرد کے متزلزل یقین کو ثبات مہیا کر دیا اور اس میں زندہ رہنے اور زندگی کو عمل مسلسل میں تبدیل کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال کا یوٹوپیا اس کی زندگی کے دوران گہری دھند میں لپٹا رہا۔ تاہم اس نے حرکت و عمل کی جو فضا پیدا کی تھی اس نے جب مستقبل پر اثرات مرتسم کئے تو یہ دھند چھٹ گئی اور رومانی یوٹوپیا حقیقت میں تبدیل ہو گیا۔ چنانچہ اقبال کا ہ قول خود ان کا حقیقت نما بن گیا کہ ’’ قومیں شعراء کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں پلتی او رمر جاتی ہیں۔‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص ۱۴۸) اس لحاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ اقبال کی رومانیت انفعالیت کے برعکس فعال ہے اور اس کی تخلیقی لپک نے برصغیر کا تاریخی فکری اور ثقافتی نقشہ بدلنے میں مثبت کردار سر انجام دیا۔ ٭٭٭ رسالہ معارف اور اقبالؒ ڈاکٹر نجم الاسلام (۲) اس مضمون کا پہلا جزو1؎ جون ۱۹۷۷ء کے آغاز میں اشاعت کے لئے پیش کر دیا گیا تھا۔ اور اب ستمبر میں اضافے کی مہلت مل جانے پر مزید چند توضیحات پیش کی جاتی ہیں۔ مضمون کے جزو اول میں معارف کے شماروں کی مدد سے معارف اور اقبال کے روابط کا ایک جائزہ پیش کیا جا چکا ہے، اور اب اقبال کی تحریروں (مکتوبات) کی مدد سے چند توضیحات پیش کی جاتی ہیں تاکہ یہ جائزہ دو طرفہ ہو سکے اور جزو اول میں پیش کردہ معلومات پر مزید روشنی پڑ سکے۔ اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ (مطبوعہ مرکنٹائل پریس لاہور، شائع کردہ شیخ محمد اشرف لاہور) میں اقبال کے سب سے زیادہ مکتوبات صاحب معارف (سید سلیمان ندوی) ہی کے نام ہیں جو ص ۷۵ سے ص ۲۰۰ تک درج ہیں اور جن کی تعداد ستر ہے۔ یہ سب یک نومبر ۱۹۱۶ء سے لے کر ۷ اگست ۱۹۳۶ء تک کے ہیں۔ ۱۹۲۶ء تک کے مکتوبات کی تعداد چالیس ہے اور چونکہ جزو اول کا جائزہ ۱۹۲۶ء تک کے معارف کے شماروں پر مشتمل ہے، اس لئے ذیل میں انہی چالیس مکتوبات کے منتخبات کی مدد سے اقبال اور رسالہ معارف کے روابط کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مقصود اقبال اور سید سلیمان ندوی کے عمومی روابط کا جائزہ نہیں بلکہ مدیر معارف کی حیثیت سے ان کے اور اقبال کے باہمی روابط کا مطالعہ ہے۔ جولائی ۱۹۱۶ء میں معارف کا پہلا شمارہ نکلا تھا، اور سید سلیمان ندوی کے نام اقبال کے مکتوبات میں پہلا یکم نومبر ۱۹۱۶ء کا مکتوب ہے۔ غالباً اس سے پہلے خط و کتابت کا رابطہ قائم نہیں ہوا تھا۔ اس کا آغاز معارف کے اجراء کے بعد ہی ہوا اور ممکن ہے کہ معارف ہی اس کا سبب بنا ہوا۔ ۱۲ نومبر ۱۹۱۶ء کے مکتوب میں اقبال نے سید سلیمان ندوی کو ان کی ایک غزل پر داد دی، بالخصوص اس شعر پر ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرۂ خوں جو رگ گلر میں ہے ۱۳ نومبر ۱۹۱۷ء کے مکتوب میں اقبال نے اول تصوف، غلوفی الزہد اور مسئلہ وہود سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اخبار وکیل امرتسر میں شائع شدہ اپنے دو تین مضامین کا ذکر کیا ہے جن میں ’’ خیر القرون قرنی‘‘ والی حدیث سے متعلق بحث کی تھی اور آخر میں یہ لکھا ہے: ’’ انشاء اللہ معارف کے لئے کچھ نہ کچھ لکھوں گا، میری صحت بالعموم اچھی نہیں رہتی اس وسطے 1؎ یہ مضمون اقبال نمبر جلد اول میں آ چکا ہے۔ بہت کم لکھتا ہوں۔ مثنوی اسرار خودی کا دوسرا حصہ یعنی رموز بیخودی (اسرار حیات ملیہ اسلامیہ ) قریب الاختتام ہے شائع ہونے پر ارسال خدمت کروں گا‘‘ (ص۷۹) ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں معارف سے اپنے لگاؤ کا اظہار ہے اور جواباً صاحب معارف کو لکھتے ہیں کہ ’’ رسالہ صوفی میں میں نے کوئی نظم شائع نہیں کی، کوئی پرانی مطبوعہ نظم انہوں نے شائع کر دی ہو گی ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں صوفی کو معارف پر ترجیح دوں۔ معارف ایک ایسا رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہے میں انشاء اللہ ضرور آپ کے لئے کچھ لکھوں گا یہ وعدہ کچھ عرصہ ہوا میں نے آپ سے کیا تھا اور میں اس وقت تک پورا نہیں کر سکا۔‘‘ (ص ۸۰، ۸۷) اسی مکتوب میں رموز بیخودی کا ذکر ہے جو ریویو کے لئے صاحب معارف کو بھجوائی گئی تھی (’’ رموز بیخودی میں نے ہی آپ کی خدمت میں بھجوائی تھی۔ ریویو کے لئے سراپا سپاس ہوں‘‘ ص۸۰) اور اسرار خودی کا دوسرا ایڈیشن تیار کرنے کی اطلاع بھی ہے (’’ اسرار خودی کا دوسرا ایڈیشن تیار کر رہا ہوں۔ عنقریب آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی۔‘‘ ص۸۰) اسی مکتوب میں یہ لکھ کر صاحب معارف کو زبردست خراج تحسین ادا کیا ہے کہ ’’ مولانا شبلی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد آپ استاذ الکل ہیں، اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہو گا۔‘‘ (ص ۸۰) رموز بیخودی پر سید سلیمان ندوی کا مفصل تبصرہ اپریل ۱۹۱۸ء کے معارف میں نکلا تھا۔ جن کے خاص خاص نکات مضمون کے جزو اول میں پیش کئے جا چکے ہیں اسے دیکھنے کے بعد اقبال نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰ مئی ۱۹۱۸ء میں مدیر معارف کو لکھا ہے: ’’ معارف میں بھی آپ کا ریویو (مثنوی رموز بیخودی پر) نظر سے گزرا ہے۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ میرے لئے سرمایہ افتخار ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ صحت الفاظ و محاورات کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے۔ 1؎ ضرور صحیح ہو گا، لیکن اگر آپ ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ فرماتے تو میرے لئے آپ کا ریویو زیادہ مفید ہوتا۔ اگر آپ نے غلط الفاظ و محاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے ان سے آگاہ کیجئے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہو جائے۔ غالباً آپ نے رموز بیخودی کے صفحات پر ہی نوٹ کئے ہوں گے۔ اگر ایسا ہو تو وہ کاپی ارسال فرما دیجئے، میں دوسری کاپی اس کے عوض میں آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا۔ اس تکلیف کو میں ایک احسان تصور کروں گا۔ ‘‘ (ص ۸۱۔ ۸۲) ۲۳ مئی ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں اقبال نے سات اشعار کی ایک اردو غزل معارف میں اشاعت کے لئے درج کی ہے 1؎ مدیر معارف نے لکھا تھا کہ ’’ ایک بالغ نظر شخص اس مثنوی میں الفاظ کی صحت یا صحیح فارسی معنی میں ان کے استعمال کی صحت میں شک کر سکتا ہے لیکن اصل یہ ہے کہ اقبال کے شاعرانہ خیالات میں اتنی تیز روانی ہے کہ یہ خس و خاشاک اس کی خوبی و لطافت میں مزاحم نہیں ہو سکتے۔‘‘ اور تمہیداً مدیر معارف کو یہ لکھا ہے کہ ’’ چند اشعار معارف کے لئے ارسال خدمت ہیں ان میں سے جو پسند آئے اسے شائع کیجئے‘‘ (ص ۸۲) مدیر معارف نے ترانہ اقبال کے عنوان سے اس غزل کے سات کے سات اشعار بے کم و کاست جون ۱۹۱۸ء کے معارف میں شائع کئے۔ بعد کو یہ غزل (نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا) عنوان کی تبدیلی (بعنوان ’’ میں اور تو‘‘ ) ایک لفظی ترمیم اور دو اشعار کے اضافے کے ساتھ بانگ درا میں شامل ہوئی جیسا کہ جزو اول میں تصریح کی جا چکی ہے۔ ۸ دسمبر ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں اقبال نے پھر یاد دہانی کی ضرورت محسوس کی تاکہ رموز بیخودی کی لغزشوں کی دوسرے ایڈیشن میں تصحیح کر سکیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ رموز بیخودی کی لغزشوں سے آگاہ کرنے کا وعدہ آپ نے کیا تھا، اب تو ایک ماہ سے بہت زیادہ عرصہ ہو گیا، امید کہ توجہ فرمائی جائے گی تاکہ میں دوسرے ایڈیشن میں آپ کے ارشادات سے مستفید ہو سکوں۔‘‘ (ص ۸۴) اسی مکتوب میں مصائب معارف کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ ’’ روس کے مسلمانوں کے متعلق جو مضمون معارف میں شائع ہوا ہے۔ 1؎ اسے علیحدہ رسالے کی صورت میں شائع کرنا چاہیے۔‘‘ (ص ۸۴) ۱۳ اکتوبر ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں اقبال نے اسرار خودی کے قوانی، اصول تشبیہہ اور بعض فارسی تراکیب کے متعلق جواباً اپنی طرف سے کچھ صفائی پیش کی ہے اور بعض مبہم اعتراضات کے متعلق وضاحتیں طلب کی ہیں لیکن ان اعتراضات کا کوئی تعلق معارف سے نہیں۔ اسی طرح بعد کے متعدد مکتوبات میں بھی ایسی ہی دبی بحثیں ہیں جو نجی مکتوبات تک محدود ہیں معارف سے ان کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے ان سے صرف نظر کر کے ۲۳ مارچ ۱۹۱۹ء کے مکتوب کی طرف آئیے جس میں معارف میں شائع شدہ ایک مکتوب کے متعلق استفسار ہے جس کا اقتباس معارف بابت مارچ ۱۹۱۹ء کے ایک مضمون بعنوان ہمارے موجودہ نظربندان اسلام 2؎ میں شامل ہو کر چھپا تھا۔ اقبال نے اس مکتوب میں استفسار کیا ہے کہ ’’ معارف میں حضرت مولانا محمود الحسن 3؎ صاحب تبعہ کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے طرفہ کا ایک مقبول عربی شعر نقل کیا ہے، آپ یہ بتانے کی زحمت گوارا کر سکتے ہیں کہ یہ خط ما بعد مالٹا سے کونسی تاریخ کو لکھا گیا تھا؟ صاحب مضمون نے خط کی تاریخ نہیں بتائی۔‘‘ (ص۹۹، ۱۰۰) ا س سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کس قدر تحقیقی مزاج رکھتے تھے اور عقد نتائج سے پہلے اطلاعات کی درستی اور قطعیت کا اطمینان کر لینے میں کس قدر اہتمام 1؎ یہ مضمون مسلمانان روس کے عنوان سے پانچ قسطوں میں عبدالسلام ندوی کے قلم سے نکلا تھا۔ تیسری قسط ’’ اسلام اور نصرانیت کی کشمکش روس میں‘‘ کے عنوان سے جولائی ۱۹۱۸ء میں نکلی تھی۔ چوتھی اور پانچویں قسطیں بالترتیب اگست اور ستمبر ۱۹۱۸ء کے معارف میں نکلیں۔ آخری قسط میں ۱۸۹۹ء تک کے تعلیمی حالات کا جائزہ ہے اور مسلمانوں کے مدارس میں روسی زبان کی تعلیم کے نفاذ اور اس کے اثرات کا تجزیہ بھی ملتا ہے۔ 2؎ یہ دراصل ’’ نظر بندان اسلام‘‘ کی تیسری قسط تھی جس میں اس وقت کے ممتاز نظر بندوں یعنی بالترتیب مولانا محمود الحسن، مولانا ابو الکلام آزاد، محترم محمد علی و محترم شوکت علی، سید حسرت موہانی اور مولوی محی الدین احمد قصوری کا تذکرہ ہے۔ اس زمانے میں مدیر معارف علی برادران کے نام کے ساتھ بالا لتزام محترم ہی لکھا کرتے تھے جو مسٹر کا اردو مترادف ہے۔ 3؎ مولینا صحیح نام محمود سن سے محمود الحسن لکھنا غلط ہے۔ (ادارہ) کرتے تھے جس کے لئے تعین سنین ضروری ہے۔ ۳ اپریل ۱۹۱۹ء کے مکتوب میں مولانا ابو الکلام آزاد کی رہائی پر اظہار مسرت بادہ نارسا کی ترکیب اور لفظ منیار سے متعلق کچھ تصریحات اور بانگ درا کی ترتیب میں تاخیر کے اسباب پر روشنی ڈالنے کے بعد مولانا گرامی جالندھری کی ایک فارسی غزل پنہانم و پیدانم کیفم بشراب اندر سات اشعار کی نقل کی ہے جو شاعر موصوف نے ڈاک سے اقبال کو ارسال کی تھی، اور لکھا ہے کہ اشعار پسند ہوں تو معارف میں شائع کیجئے 1؎ (ص ۱۰۲) ۲۶ اگست ۱۹۱۹ء کا مکتوب معارف میں تصوف و تناسخ پر ایک مضمون پڑھ کر لکھا ہے اور صراحت کی ہے کہ ’’ یہ ہندوستان ریویو میں بھی دیکھا تھا، خیر علمی اعتبار سے تو اس کی وقعت کچھ بھی نہیں، البتہ ایک بات آپ سے دریافت طلب ہے۔ ہم چو سبزہ بار ہارئیدہ ام کی نسبت آپ نے لکھا ہے کہ یہ مولانا کا شعر ہے۔ مجھے ایک عرصے سے اس میں تامل ہے۔ مثنوی کبھی شروع سے لے کر آخر تک پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر اس قابل اعتبار بزرگ نے قریباً چار سال ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ یہ شعر مولانا کا نہیں ہے اور نہ مثنوی میں ہے، اگر مثنوی کے کسی ایڈیشن میں آپ کی نظر سے یہ شعر گذرا ہو تو مہربانی کر کے ایڈیشن اور صفحے کا حوالہ کر ممنون فرمائیے۔ (ص ۱۰۴) اقبال نامے کے مرتب نے اس سلسلے میں صراحت کی ہے کہ یہ شعر مولانا کی مثنوی میں نہیں مولانا کے کلیات میں ہے۔ معلوم نہیں، سید سلیمان ندوی نے اپنے جوابی مکتوب میں کیا لکھا ہو گا۔ لیکن کلیات (دیوان شمس تبریز) کے نول کشوری اور ایرانی ایڈیشن میں تو یہ شعر مل نہیں سکا اور تلاش کے باوجود مثنوی معنوی (طبع ایران) میں بھی نہیں ملا۔‘‘ ۱۷ ستمبر ۱۹۱۹ء کے مکتوب میں کچھ لکھنے کا وعدہ کیا ہے: ’’ انشاء اللہ معارف کے لئے کچھ نہ کچھ لکھوں گا کئی ماہ کے بعد صرف تین شعر کہے تھے نقیب (رسالہ نقیب بدایوں) کا عرصے سے تقاضا تھا، اس کے لئے بھیج دئیے میں تو اپنے اشعار کو چنداں وقعت نہیں دیتا، لیکن جب ایڈیٹر معارف ان کے لئے تقاضا کرتے ہیں تو شبہ ہوتا ہے کہ شاید ایسا ہی کچھ ہو ۔‘‘ (ص ۱۰۴، ۱۰۵) ۲۷ ستمبر ۱۹۱۹ء کے مکتوب میں چند اشعار اشاعت کے لئے پیش کر کے اقبال نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ یہ اشعار ایک فارسی شعر کی تضمین ہیں اور تحریک خلافت سے اقبال کے اختلاف کے آئینہ دار: بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے مگر آج ہے وقت خویش آزمائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ دہ پادشائی ’’مرا از شکستن چنیں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی‘‘ 1؎ یہ غزل کلام گرامی کے عنوان سے مئی ۱۹۱۹ء کے معارف میں مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کی فارسی غزل بعنوان ’’ سخن حبیب‘‘ کے بعد درج ہے۔ اقبال نے ان اشعار کے سلسلے میں صاحب معارف کو یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ عنوان ان اشعار کا آپ خود تجویز کر لیں اصل فارسی شعر میں دیگراں کی جگہ ناکساں ہے میں نے یہ لفظی تغیر ارادۃ کیا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۶، ۱۰۷) اور جیسا کہ اس مضمون کے جزو اول میں آ چکا ہے، یہ اشعار اکتوبر ۱۹۱۹ء کے معارف میں مدیر معارف نے ’’ پولیٹکل گداگری‘‘ کا عنوان دے کر شائع کئے تھے اور غالباً ایک لفظی تغیر (پہلے شعر میں خویش کی جگہ خود) کے بھی وہی ذمے دار ہیں۔ اقبال نے اپنے مکتوب میں ’’ وقت خویش آزمائی‘‘ کی ترکیب استعمال کی تھی مگر معارف میں اس کی جگہ ’’ وقت خود آزمائی‘‘ ہے۔ بانگ درا سے پتا چلتا ہے کہ اقبال نے بعد میں عنوان بدل کر ’’ دریوزہ خلافت‘‘ کیا اور پہلا شعر بھی جس میں خویش آزمائی کی ترکیب تھی، بدل دیا۔ اسی مکتوب مورخہ ۲۷ ستمبر ۱۹۱۹ء میں تحریک خلافت کے بارے میں بعض نازک باتیں بھی ہیں جنہیں وہ اشاعت عام کے لئے موزوں نہیں سمجھتے تھے اور اسی لئے صاحب معارف کو لکھا ہے کہ اس خط کو پرائیویٹ تصور فرمائیے، لیکن اقبال نامے میں یہ خط موجود ہے اور اقبال نامے کے مولف کی نازک تر تشریحات کے ساتھ۔ اقبال نے لکھا ہے: ’’ مدت سے یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی تھی۔۔۔ معلوم نہیں آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ واقعات صاف اور نمایاں ہیں مگر ہندوستان کے سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھتے اور لندن کے شیعوں کے اشارے پر ناچتے چلے جاتے ہیں۔ افسوس مفصل عرض نہیں کر سکتا کہ زمانہ نازک ہے بہرحال اگر یہ اشعار آپ کو پسند نہ ہوں یا رسالہ معارف کے لئے آپ انہیں موزوں نہ تصور فرمائیں تو واپس بھیج دیجئے۔‘‘ (ص ۱۰۵۔ ۱۰۶) اس ذیل میں اقبال نامے کے مولف نے اپنے حاشیے میں صراحت کی ہے کہ اشارہ ہزہائی نس آغا خاں 1؎ کی طرف ہے مجلس خلافت کی بنیاد اسی طرح پڑی تھی یہ کہ آغا خاں نے منشی مشیر حسین صاحب قدوائی مرحوم کو آمادہ کیا اور انہوں نے مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی کو لکھ کر آمادہ کیا۔ (ص ۱۰۶) اسی مکتوب میں صاحب معارف کے ایک مضمون کی تعریف بھی کی ہے جو معارف میں چھپا تھا۔ اقبال نے لکھا ہے کہ ’’ مسئلہ تصویر پر آپ نے خوب لکھا اور اصول تشریعی واضح کر کے کئی اور مسائل کو باکنایہ حل کر دیا۔‘‘ (ص ۱۰۶) ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء کے مکتوب میں اپنے ارسال کردہ اشعار پر صاحب معارف کے تجویز کردہ عنوان (پولیٹیکل گداگری) کو یہ لکھ کر گوارا کیا ہے کہ ’’ عنوان جو آپ نے تجویز فرمایا ہے ٹھیک ہے‘‘ (ص ۱۰۷) لیکن جیسا کہ پہلے آ چکا ہے بانگ درا میں اس گنگا جمنی عنوان کی جگہ ’’ دریوزہ خلافت‘‘ درج ہے۔ اسی مکتوب میں صاحب معارف سے ’’ یاجوج ماجوج‘‘ پر کوئی مضمون لکھنے کی فرمائش 1؎ اقبال نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ غالباً اشارہ جسٹس سید امیر علی کی طرف بھی ہے جو پریوی کاونسلر تھے۔ ان دونوں ممتاز رہنماؤں نے ترکوں کی طرف سے خلافت کے خاتمے کے موقعے پر بھی ۲۴ نومبر ۱۹۲۳ء کو عظمت پاشا کو ایک خط لکھ کر خلافت کو باقی رکھنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ جس کی تعبیر و تشریح ترک رہنماؤں نے ترک عوام کے سامنے یہ کی تھی کہ حکومت برطانیہ اپنی مصلحتوں سے ایسا چاہتی تھی۔۔۔۔ بھی کی ہے اور اپنے فکر و فن کے بارے میں چند مفید تصریحات بھی کی ہیں۔ ۵ اکتوبر ۱۹۲۱ء کا مکتوب اقبال نے اسرار خودی پر ڈکنسن کے ریویو کے اردو ترجمے کے متعلق لکھا ہے جو ستمبر ۱۹۲۱ء کے معارف میں چھپا تھا۔ اقبال کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا عبدالماجد نے کیا تھا کیونکہ اقبال آخر میں معذرۃً یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ مولوی عبدالماجد صاحب کا پتا معلوم نہ تھا،ا س واسطے آپ کو زحمت دی گئی۔‘‘ (ص ۱۱۵) اقبال نے اس اردو ترجمے کے سلسلے میں لکھا ہے کہ: ’’ ستمبر کا معارف ابھی نظر سے گزرا ہے اس میں مسٹر ڈکنسن کے ریویو (اسرار خودی) کا ترجمہ آپ نے شائع کیا ہے۔ ترجمہ مذکور کا ایک فقرہ یہ ہے اقبال ان تمام فلسفیوں کے دشمن ہیں جو شئے واجب الوجود کو تسلیم کرتے ہیں، صفحہ ۲۱۴ اگر آپ کے پاس رسالہ نیشن موجود ہو جس میں انگریزی ریویو شائع ہوا تھا، تو میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ مہربانی کر کے ایک آدھ روز کے لئے بھیج دیجئے مجھے ایسا خیال ہے کہ غالباً مذکورہ بالا فقرہ اس ریویو میں نہیں ہے یا اس کی جگہ کچھ اور ہے مقصود یہ معلوم کرنا ہے کہ کہیں ترجمے میں سہو تو نہیں ہو گیا۔‘‘ (ص ۱۱۴) اور اس کے بعد یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا حکمائے صوفیہ اسلام میں سے کسی نے زمان و مکان کی حقیقت پر بھی بحث کی ہے؟ ۱۴ مئی ۱۹۲۲ء کے مکتوب میں جو اقبال نامے میں سہواً خلاف ترتیب تاریخ آتا ہے، اقبال نے اور باتوں کے علاوہ، خلافت کے موضوع پر صاحب معارف کے مضامین کو قابل قدر قرار دیا ہے اس کے بعد اپنی نظم خضر راہ معارف میں شائع کرنے کے سلسلے میں صاحب معارف کی فرمائش کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ’’ نظم خضر راہ جو انجمن کے سالانہ جلسے میں پڑھی تھی ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں شائع ہو گئی تھی۔۔۔۔ ساری نظم کا اب چھپنا تو ٹھیک نہیں اور نہ اس قدر گنجائش معارف میں ہو گی، لیکن اگر کوئی بند آپ کو پسند آ جائے تو اسے چھپا دیجئے‘‘ (ص ۱۳۰، ۱۳۱ اور اسی مکتوب میں صاحب معارف کو یہ اطلاع بھی دی ہے کہ گوئٹے کے مغربی دیوان 1؎ کے جواب میں میں نے ایک مجموعہ فارسی اشعار کا لکھا ہے عنقریب شائع ہو گا۔ اس کے دیباچے میں یہ دکھانے کی کوشش کروں گا کہ فارسی لٹریچر نے جرمنی لٹریچر پر کیا اثر کیا ہے (ص ۱۳۱) اقبال کا اشارہ پیام مشرق کی طرف ہے ۔ ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء کے مکتوب روسی مسلمان مصلح اور عالم مفتی عالم جان کے حالات معارف میں شائع کرنے پر تحسین ہے اور اس سلسلے میں مزید کلام کے لئے ایک تجویز بھی پیش کی ہے: ’’ میں آپ کو خط لکھنے والا تھا کہ مفتی عالم جان کے حالات معارف میں شائع کئے جائیں مسلم اسٹنڈرڈ لندن نے ان کے کچھ حالات شائع کئے تھے۔ آج کے معارف میں میری آرزو سے بڑھ کر مضمون لکھا گیا، جزاک اللہ معارف کا ایڈیٹر صاحب کشف نہ ہو گا تو اور کون ہو گا حال کے روسی علماء کی بعض تصانیف اسلام کے متعلق 1؎ اقبال نامے میں سہو کتابت سے مشرقی دیوان چھپ گیا ہے۔ اگر دستیاب ہو جائیں تو ان کا ترجمہ ہندوستان میں شائع ہونا چاہیے۔‘‘ (ص۱۱۸) اس کے بعد خضر راہ پر صاحب معارف کے نوٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جوش بیان کے متعلق رائے کو صحیح تسلیم کیا ہے اور بعض بند نظم سے نکال دینے کی اطلاع دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ خضر راہ کے متعلق جو نوٹ آپ نے لکھا اس کا شکریہ قبول فرمائیے۔ جوش بیان کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا صحیح ہے مگر یہ نقص اس نظم کے لئے ضروری تھا (کم از کم میرے خیال میں) جناب خضر کی پختہ کاری، ان کا تجربہ اور واقعات و حوادث عالم پر ان کی نظر، ان سب باتوں کے علاوہ ان کا انداز طبیعت جو سورۂ کہف سے معلوم ہوتا ہے اس بات کا مقتضی تھا کہ جوش اور تخیل کو ان کے ارشادات میں کم دخل ہو۔ اس نظم کے بعض بند میں نے خود نکال دئیے اور محض اس وجہ سے کہ ان کا جوش بیان بہت بڑھا ہوا تھا اورجناب خضر کے انداز طبیعت سے موافقت نہ رکھتا تھا۔ یہ بند اب کسی اور نظم کا حصہ بن جائیں گے۔‘‘ (ص ۱۱۶، ۱۱۹) ۵ جولائی ۱۹۲۲ء کے مکتوب میں پیام مشرق پر مدیر معارف کے نوٹ کا ذکر آتا ہے اور اسی ذیل میں نکلسن کے خط کا بھی ذکر ہے: ’’ پیام مشرق پر جو نوٹ آپ نے لکھا ہے، اس کے لئے سراپا سپاس ہوں، پروفیسر نکلسن کا خط بھی آیا ہے، انہوں نے اسے بہت پسند کیا ہے اور غالباً اس کا ترجمہ بھی کریں گے وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب جدید اوریجنل خیالات سے مملو ہے اور گوئٹے کے دیوان مغربی کا قابل تحسین جواب ہے مگر میرے لیے آپ کی رائے پروفیسر نکلسن کی رائے سے زیادہ قابل افتخار ہے۔ ‘‘ (ص ۱۱۹۔ ۱۲۰) یکم فروری ۱۹۲۴ء کے مکتوب میں معارف سے اظہار تعلق کے بعد گرامی کے ایک شعر پر اپنی تلقین اشاعت کے لئے نقل کی ہے: ’’ میں نے چند نظمیں فارسی میں لکھی تھیں جو پیام مشرق کی دوسری ایڈیشن1؎ میں شامل کر دی گئیں۔ انہی نظموں میں سے ایک آپ کی خدمت میں ارسال کی گئی، ایک جامعہ ملیہ علی گڑھ کے لئے اور ایک علی گڑھ منتھلی کے لیے بھیجی گئی اور کسی جگہ کوئی نظم میں نے نہیں بھیجی۔ معارف مجھے خاص طور پر محبوب ہے اور بالخصوص آپ کے مضامین کے لیے کہ آپ کی نثر معانی سے معمور ہونے کے علاوہ لٹریری خوبیوں سے بھی مالا مال ہوتی ہے۔ مولینا گرامی کی غزل میں سن چکا ہوں اس کا ایک شعر مجھے خاص طور پر پسند آیا فقر راتر کمانئے ہم ہست اس شعر پر میں نے تضمین بھی کی تھی مگر پیام مشرق میں اس واسطے داخل نہ کی کہ اس کے اشعار کی بندش کچھ بھی پسند نہ آئی۔ اگر آپ کو پسند نہ ہو تو مجھے اشاعت میں کوئی عذر نہیں۔ عرض کرتا ہوں۔ سخنے راندہ کہ جز قرشی بہ سر مسند نبیؐ نہ نشست 1؎ اقبال نامے میں اسی طور سے ہے یعنی ’’ کی دوسری ایڈیشن‘‘ غالباً یہ سہو کتابت ہے کیونکہ دوسرے مقامات پر مثلاً ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں اقبال تو مذکر ہی لکھا ہے اسرار خودی اک دوسرا ایڈیشن تیار کر رہا ہوں (ص ۸۰) درس گیر از گرامی ہمہ درو کہ برید از خود دبا و پیوست رم ترک خلافت عربی گفت آں می گسار بزم ست ماہ را ابر فلک دو نیم کند فقر را تر کمانئے ہم ہست‘‘ (ص ۱۲۶، ۱۲۷) مکتوب مورخہ یکم مئی ۱۹۲۴ء میں انہی روسی میں عالم، مفتی عالم جان کے بارے میں ایک استفسار آتا ہے جن کے حالات معارف میں چھپنے پر اپنے ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء کے مکتوب میں تحسین کی تھی اور اب اقبال جاننا چاہتے تھے کہ مفتی عالم جان کی تحریک کی نوعیت کیا تھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’ کیا روسی مسلمانوں میں بھی ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے حالات(خیالات) کی اشاعت ہوئی تھی؟ اس کے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے۔ مفتی عالم جان جن کا حال میں انتقال ہو گیا ہے ان کی تحریک کی اصل غایت کیا تھی؟ کیا یہ محض تعلیمی تحریک تھی یا اس کا مقصود ایک مذہبی انقلاب بھی تھا؟‘‘ (ص ۱۲۸، ۱۲۹) ۱۹ اگست ۱۹۱۴ء کے مکتوب میں مدیر معارف کو علامہ مشرقی کے تذکرے پر ریویو کے لئے متوجہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پنجاب میں ایک صاحب نے حال ہی میں قرآن کی تفسیر شائع کی ہے جس کا نام تذکرہ ہے کیا آپ کی نظر سے گزری ہے؟ کتاب اس قابل ہے کہ اس کا ریویو مفصل آپ کے قلم سے نکلے (ص ۱۳۶) اور اگلے مکتوب مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۲۴ء میں مدیر معارف کو تذکرے کے مصنف کے بارے میں کچھ اطلاعات بہم پہنچائی ہیں اور اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’ مغربی افکار پر بھی ان کی نہایت سطحی ہے۔ باقی تفسیر قرآن و تاریخ اسلام کے متعلق آپ مجھ سے بہتر اندازہ کر سکتے ہیں ان کی کتاب کے متعلق یہاں عجیب و غریب افواہیں ہیں زبانی عرض کروں گا‘‘ (ص ۱۳۸) زبانی گفتگو کا موقع یوں نکل رہا تھا انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں سید سلیمان ندوی کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جیسا کہ اسی مکتوب میں اقبال نے لکھا ہے اور وہ چاہتے تھے کہ سید سلیمان ندوی لاہور آئیں اور انہی کے ہاں ٹھہریں۔ ۱۹۲۵ء کوئی مکتوب سید سلیمان ندوی کے نام اقبال نامے میں نہیں ملتا، البتہ ۱۹۲۶ء کے کئی مکتوبات ہیں اور ان میں سے ایک (مورخہ ۷ اپریل) ایسا ہے جس کا معارف سے بھی کچھ تعلق ہے۔ اس مکتوب میں اقبال نے اپنے ایک مضمون کے ترجمے کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ ترجمہ جو آپ نے ارسال کیا ہے افسوس ہے کہ وہ معارف کے قابل نہیں ہے میں نے یہ مضمون ان طلبہ کے لئے لکھا تھا جو اضافیت سے کسی قدر آشنا تھے اس واسطے مختصر لکھا مفصل لکھنے کے لئے نہ وقت تھا نہ ضرورت غالباً ایسے ریڈر کو اس سے کچھ فائدہ نہ پہنچے گا جو فلسفے کے بعض مسائل اور نظریہ اضافیہ سے آشنا نہیں ہے، بہرحال میں نے ایک صاحب سے کہا ہے کہ وہ اس کا اردو ترجمہ معارف کے لئے کر دیں وہ ترجمہ کریں گے پھر میں اسے دیکھ کر آپ کی خدمت میں ارسال کر دوں گا۔ جامعہ کا ترجمہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ قادیانیوں نے بھی ایک ترجمہ اس مضمون کا کیا تھا، مگر وہ بھی غلط تھا۔‘‘ (ص ۱۵۰، ۱۵۱) اس جائزے کو اب یہیں ختم کیا جاتا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کے دل میں معارف اور صاحب معارف کے لیے کس قدر جگہ تھی۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے اشعار اشاعت کے لیے دیتے تھے اور معارف کے بصیرت افروز مضامین اور تبصروں سے اپنی تخلیقات کے سلسلے میں مفید مشورے اخذ کرتے تھے بلکہ علت کے مسائل اور وقت کی ضرورتوں کی طرف معارف کو متوجہ کرتے رہتے تھے اور اس سلسلے میں معارف میں مفید مضامین یا تبصرے لکھوانے پر بھی انہیں آمادہ کرتے رہتے تھے۔ معارف میں شائع شدہ مفید مضامین پر اپنی رائے بھی کہی مکتوبات میں دی ہے، اس سے بھی ظاہر ہے کہ معارف کا مطالعہ کتنی دل چسپی اور توجہ سے کرتے تھے۔ (۳) مضمون کے جزو اول کی تحریر کے وقت معارف کے ابتدائی دور کے چند شمارے دستیاب نہیں ہو سکے تھے کیونکہ وہ زمانہ ملک میں زبردست سیاسی بحران کا تھا اور ان شماروں کی تلاش میں کہیں آنا جانا کرفیو کے نفاذ کے سبب ممکن نہ تھا۔ اس کمی کو جزو دوم میں اقبال کے مکتوبات نے پورا کر دیا کیونکہ ان شماروں کے ایسے قابل ذکر مندرجات سے متعلق اشارات جن سے معارف اور اقبال کے روابط پر روشنی پڑتی ہے اقبال کے مکتوبات میں موجود ہیں اور جزو دوم میں ان کا ذکر آ گیا ہے۔ ٭٭٭ بچوں کا اقبال عبدالقوی دسنوی: علامہ اقبال اردو کے ان خوش نصیب شاعروں میں ہیں جنہوں نے ادھر شاعری کی ابتداء کی، ادھر شہرت اور مقبولیت ان کے قدم چومنے لگی، اور وہ رفتہ رفتہ عزت، احترام اور ہر دلعزیزی کی اس منزل پر جا پہنچے جہاں اب تک اردو کے کسی دوسرے شاعر کی رسائی نہیں ہو سکی ہے، وہ خدا شناس تھے، کائنات کی حقیقت سے آگاہ تھے، آدم کے راز داں تھے، انسان دوست تھے، عاشق رسول تھے، اسی لیے پیغمبرانہ شان سے شاعری کی اور آدم خاکی کو اس کی عظمتوں سے آگاہ کر کے اسے اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی ترغیب دی، پوری شاعری کا مطالعہ کیجئے تو محسوس ہو گا کہ وہ ایسے انسان کامل کو وجود میں لانا چاہتے تھے جس کے کردار، گفتار، عزائم اور حوصلے کی وجہ سے اسے مرد مومن کا درجہ عطا ہو اور جو دنیا کے بنانے، سنوارنے اور نکھارنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے، ان کی شاعری کے پیچھے ان کے احساسات تھرتھراتے ہیں، جذبات مچلتے ہیں، افکار جھلکتے ہیں اور وہ سب اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اقبال ایک ایسی دنیا کی تخلیق کے خواہشمند تھے جو جنت نظری ہو او راس کے باشندے دلفریب ادا، دلنواز نگاہ اور قلیل امیدوں کے ساتھ عظیم مقاصد کے حاصل کرنے میں منہمک ہوں، اقبال کی شاعری کا بڑا حصہ ایسے ہی انسان کی تلاش میں نغمہ سرا ہے۔ اقبال کی شاعری کی انہیں خصوصیا تنے اردو دنیا کے اہل دل، اہل نظر اور صاحب فکر حضرات کو اپنی طرف متوجہ کیا، جنہوں نے ان کی شاعری سے اپنے قلب کو گرمایا، روح کو تڑپایا، نظر کو چمکایا اور ذہن کو صیقل کیا، اقبال کی اسی مقبولیت نے ہزاروں صاحب قلم کو ان کا گرویدہ بنا لیا، چنانچہ انہوں نے ان کی شاعری کی مختلف خصوصیات، مختلف پہلوؤں، مختلف امکانات کو جاننے کی اور مختلف سمتوں کو پہچاننے کی طرح طرح سے کوششیں کیں جن سے اقبال شناسی اور اقبالیئن کو بڑی مدد ملی۔ بے شک آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بتہ حد تک اقبال کو ڈھونڈ لیا ہے جان لیا ہے پہچان لیا ہے اور ان کی عظمتوں کو پا لیا ہے اس سلسلے میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں، ہزاروں مقالات سپرد قلم کئے گئے ہیں اور بھی یہ سلسلہ اور زیادہ زور و شور اور تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے لیکن اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔ خاص طور سے اقبال کی ابتدائی شاعری کا پوری طرح سے جائزہ لینا ابھی باقی ہے، انہیں میں اقبال کی وہ شاعری بھی ہے جو انہوں نے محض بچوں کے لیے کی تھی اس طرح کی نظمیں اقبال نے بہت زیادہ نہیں کہی ہیں۔ ’’بانگ درا‘‘ کے پہلے حصہ میں کل نو نظمیں ہیں، جن میں ’’ ایک مکڑا اور مکھی‘‘ ’’ ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ ایک گائے اوربکری ’’ ہمدردی‘‘ ،’’ ماں کا خواب‘‘ پرندے کی فریاد، بچے کی دعا، بچوں کے لیے ہیں ایک پرندہ اور جگنو اگرچہ اس پر ’’ بچوں کے لیے‘‘ لکھا ہوا نہیں ہے لیکن بچوں کے لیے ہے اور اسی لیے بچوں کی درسی کتابوں میں اسے درج کیا جاتا رہا ہے۔ ’’ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ بھی بچوں کے لیے ہی ہے۔ بچوں کے حصے میں اقبال سے بس یہی کچھ ملا ہے۔ ان کے علاوہ ’’ عہد طفلی‘‘ بچہ اور شمع اور ’’ طفل شیر خوار‘‘ کے مطالعہ سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کو بچوں سے یا بچپن سے کس قدر گہرا لگاؤ تھا۔ اور بچپن کا زمانہ کس قدر عزیز تھا۔ ان تمام نظموں کا تعلق اقبال کی شاعری کے پہلے دور سے ہے یعنی یہ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء کے دوران میں لکھی گئی ہیں۔ اس کے بعد اقبال نے بچوں کی طرف پھر کبھی توجہ نہیں کی البتہ نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہے اور انسان کامل جستجو میں کھو گئے۔ اردو میں بچوں کا ادب توجہ طلب ہے، خاص طور سے شعراء نے اس طرف بہت کم توجہ کی ہے اقبال سے پہلے نظیر اکبر آبادی، مرزا غالب، الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ نے اس طرف توجہ کی تھی، پھر اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے ادب کے سلسلے میں بڑا نام پیدا کیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے بھی بچوں کو یاد رکھا، اقبال کے ہمعصروں میں مولانا محوی صدیقی، مولانا شفیع الدین نیر اور حامد اللہ افسر وغیرہ نے بھی بچوں کے ادب میں کافی اضافہ کیا، اس لیے بچوں کے ادب کے سلسلے میں بھی ان حضرات کا نام برابر لیا جائے گا۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے بچوں کو بہت کچھ نہیں دیا، لیکن جتنا کچھ دیا ہے ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کو اگرچہ بچپن کا زمانہ بہت عزیز رہا ہے لیکن حالات نے اس کی طرف توجہ کرنے کا موقع بالکل نہیں دیا۔ ان کی دو تین نظمیں ایسی ملتی ہیں جن میں بچپن کا ذکر نہایت دلچسپی کے ساتھ کیا گیا ہے جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی بچوں اور ان کی نفسیات پر کتنی گہری نظر تھی، اس سلسلے کی پہلی نظم ’’ عہد طفلی1؎‘‘ ہے جو پہلی بار جولائی ۱۹۰۱ء میں مخزن لاہور میں شائع ہوئی تھی اور جسے مولوی عبدالرزاق نے اپنی مرتبہ کلیات اقبال میں شامل کر لیا تھا، اس میں کل پانچ بند یعنی پندرہ شعر تھے۔ بانگ درا میں شائع کرتے وقت علامہ نے اس کے کل دو بند (تیسرا اور چوتھا) یعنی چھ شعر انتخاب کئے تھے اور اس کے بعد بعض مصرعوں میں اصلاح کر دی تھی، ملاحظہ کیجئے: تیسرے بند کا چوتھا مصرعہ پہلے یوں تھا: خالی از مفہوم خود میری زباں لیے (کلیات اقبال، ص ۱۲۳) بانگ درا میں اقبال نے اسے اس طرح کر دیا ہے: حرف بے مطلب تھی خود میری زباں، میرے لیے (بانگ درا ص۸) تیسرے بند کا پانچواں مصرعہ اس طرح تھا: درد اس عالم میں جب کوئی رلاتا تھا مجھے (کلیات اقبال ص ۱۲۳) بانگ درا میں اس طرح ہے: 1؎کلی