اقبال اور نذرالاسلام ام سلمیٰ اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-416-- طبع اول : تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍ روپے مطبع : ، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ حرفِ آغاز علامہ اقبال اور قاضی نذر الاسلام میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں عظیم شاعر ہیں۔ دونوں اپنے اپنے ملک کے قومی شاعر ہیں۔ علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں اور قاضی نذر الاسلام بنگلہ دیش کے۔ دونوں مسلم ممالک ہیں۔ دونوں ملکوں نے غیر ملکی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور حصولِ آزادی کے بعد کچھ عرصہ ایک وطن کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ علامہ اقبال بنگال میں جانے پہچانے شاعر ہیں اور ان کا اثر بنگلہ ادب پر بھی اچھا خاصا ہے۔ تعلیمی اداروں، خصوصاً اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اقبالیات کی باقاعدہ تعلیم و تدریس ہوتی ہے۔ البتہ اقبالیات اور کلام اقبال کی ترویج کے لیے بنگلہ دیش اور مغربی بنگال میں یعنی بنگلہ بولنے والوں میں کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے، جس کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ قاضی نذر الاسلام اگرچہ بنگلہ کے شاعر ہیں، لیکن اردو داں طبقے کے لیے وہ اجنبی نہیں۔ ان کا نام اور کام اردو ادب کے قارئین سے مخفی نہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ان کی انقلابی شاعری، جو اشتراکیت سے متاثر تھی، پورے برصغیر میں مقبول ہو چکی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد جب لاکھوں اردو بولنے والے بھارتی علاقوں سے ہجرت کر کے مشرقی بنگال میں آباد ہو گئے تو انھیں بنگلہ زبان و ادب سے براہ راست رابطہ ہوا اور قاضی نذر الاسلام کی شاعری کے اثرات ان پر بھی وارد ہوئے۔ خصوصاً اردو کے بہت سے شاعر اور ادیب، جو علامہ اقبال کے زیر اثر تھے، اب بنگلہ کے رشتے سے قاضی نذر الاسلام کے قریب آئے تو ان میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ دونوں ملکوں کے دونوں بڑے اور قومی شاعروں کا تقابلی مطالعہ ہونا چاہیے۔ لیکن بنگلہ کے مصنفین اردو میں لکھنے کی قدرت نہیں رکھتے اور اردو کے قلم کار بنگلہ بول اور پڑھ سکتے ہیں لیکن لکھ نہیں سکتے۔ بالآخر یہ بھاری ذمہ داری میں نے قبول کرنے کا عزم کیا۔ میں اگرچہ بنگلہ گو ہوں، مگراردو اور فارسی کی معلمہ ہوں، لہٰذا تینوں زبانوں سے تھوڑی بہت واقفیت کا دعویٰ رکھتی ہوں، جس کی بدولت میں نے اس کتاب میں دونوں عظیم اور انقلابی شاعروں میں مماثلتیں اور مشابہتیں تلاش کرنے کی جسارت کی ہے اور اس مقصد کے لیے مختلف موضوعات کے تحت ان کے اپنے اپنے نظریات کے مطابق، اشعار جمع کیے ہیں، اور مستند دانشوروں اور نقادوں کے تبصروں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوئی ہوں، اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتی ہوں۔ میرے لیے یہ احساس اطمینان بخش ہے کہ یہ اپنے موضوع پر پہلی تحقیقی و ادبی کتاب ہے۔ میں ’’اقبال اکادمی پاکستان‘‘ کے ناظم جناب محمد سہیل عمر کی تہ دل سے ممنون ہوں۔ دراصل انھی کی تحریک و تشویق اور حوصلہ افزائی سے یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان جو رشتہ اخوت پہلے سے موجود ہے، اسے مزید پختہ کرنے میں میرا یہ کام معاون ثابت ہو گا۔ اُمِّ سلمیٰ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال--حیات (۱۸۷۷ئ-۱۹۳۸ئ) علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء جمعہ کے دن بوقت فجر ہوئی۔ والد کا نام شیخ نور محمد (۱۸۳۷ئ-۱۹۳۰ئ)اور والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ شیخ نور محمد کشمیر کے سپرو برہمنوں کی نسل سے تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جدّ نے اسلام قبول کیا اور کشمیر سے نقل مکانی کر کے سیالکوٹ میں آ بسے۔۱؎ اقبال کی پیدائش کے وقت ان کے والد ٹوپیوں کا کاروبار کرتے تھے جو ایک درمیانے درجے کا منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا تھا۔۲؎ اقبال کے والد شیخ نور محمد کو اسلام سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ ایک خدا ترس اور صوفی منش انسان تھے۔ لہٰذا انھوں نے اقبال کی تعلیم کا آغاز قرآن شریف کے درس سے کیا اور محلہ شوالہ کی مسجد کے خطیب اور امام مولوی غلام حسین کے مکتب میں داخل کر دیا۔ بعد میں سیالکوٹ کے نامی گرامی عالم دین مولوی میر حسن (۱۸۴۴ئ-۱۹۲۹ئ) کے مشورے پر شیخ نور محمد نے اپنے بیٹے اقبال کو ان کے مکتب میں بھیجنا شروع کر دیا۔ اقبال نے ان کی شاگردی میں عربی اور فارسی پر دسترس حاصل کرلی۔ مولوی میر حسن کے ایما پر اقبال کو سیالکوٹ اسکاچ مشن کالج میں داخل کر دیا گیا، جہاں سے انھوں نے ۱۸۹۲ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسی مشن کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہیں شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ انھوں نے ابتدا میں اپنا کلام مرزا ارشد گورگانوی (۱۸۵۰ئ- ۱۹۰۶ئ) کو دکھایا۔ بعد میں اپنی غزلیں نواب مرزا خان داغ دہلوی (۱۸۳۱ئ-۱۹۰۵ئ) کو اصلاح کے لیے بھیجیں۔ انھوں نے اقبال کو لکھا کہ انھیں اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ ۱۸۹۵ء میں اقبال نے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا۔ بی ۔اے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور آئے اور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے کے لیے اورینٹل کالج جاتے۔ ۱۸۹۸ء میں اقبال نے بی۔اے پاس کیا اور ایم۔اے فلسفہ میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر ٹامس آرنلڈ (۱۸۶۴ئ-۱۹۳۰ئ) کی نگرانی میں تعلیمی مراحل طے کیے اور مارچ ۱۸۹۹ء میں ایم۔اے پاس کرنے کے بعد ۱۳ مئی ۱۸۹۹ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہوگئے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ درمیان میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اورینٹل کالج میں بطور میکلوڈ عربک ریڈر مدت ملازمت ختم ہو گئی تو ۱۹۰۳ء میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج میں تقرر ہو گیا۔ بعد میں یورپ جانے سے قبل تک فلسفے کے شعبے میں درس دیتے رہے۔ ۳؎ اورینٹل کالج میں اپنے چار سالہ دور تدریس میں اقبال نے اسٹبس (Stubbs)کی ارلی پلانٹجنٹس (Early Plantagenets) (یہ تاریخ کی کتاب تھی) اور واکر (Walker) کی پولیٹیکل اکانومی (Political Economy) کے ترجمے تلخیص کے ساتھ کیے۔ شیخ عبدالکریم الجیلی کے نظریۂ توحید مطلق پر انگریزی میں مقالہ لکھا۔ اور پروفیسر آرنلڈ کی تحریک پر علم الاقتصاد کے نام پر اردو میں ایک مختصر کتاب تصنیف کی جو ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی۔ اردو میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتاب ہے۔۴؎ شیخ عبدالقادر (۱۸۷۴ئ-۱۹۵۱ئ) کے ماہ نامہ مخزن کے لیے مضمون بھی لکھتے رہے اور نظمیں بھی۔۵؎ زمانہ استادی میں شعر و شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ نومبر ۱۸۹۹ء کی ایک شام حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں انھوں نے اپنی غزل پڑھنا شروع کی۔ جب اس شعر پر پہنچے موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے تو سامعین انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہاں اقبال کی شہرت کا آغاز ہوا۔ وہ وقتاً فوقتاً مشاعروں میں اپنا کلام سناتے رہے۔ اسی زمانے میں ’’انجمن حمایت اسلام‘‘ سے تعلق پیدا ہو گیا جو آخر دم تک قائم رہا۔ اقبال اس کے ملی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے ’’انجمن‘‘ کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر ملی وحدت کا شعورپیدا ہوا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔۶؎ ۱۹۰۵ء میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ چلے گئے۔ ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۵ء کے درمیان اقبال پر بالخصوص تین رجحانات کے اثر رہے: تصوف، رومانیت اور حب الوطنی۔۷؎ تصوف کی روایت میں وہ تمام غزلیں ،قطعات اور نظمیں شامل ہیں جن میں بادہ و ساغراور ساقی و مینا کی تشبیہات استعمال کی گئی ہیں۔ ان کی یہ ابتدائی متصوفانہ شاعری صرف اسلوب ہی کے اعتبار سے روایتی نہیں بلکہ فکری سطح پر بھی روایت کی گہری چھاپ ہے۔ ان کی نظم ’’گل پژمردہ‘‘ بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اس نظم میں دکھایا گیا ہے کہ دنیا انسان کے لیے یکسر اجنبی ہے۔ اس کا اصل مسکن وہ جنت ہے جو اس سے کھو گئی ہے۔ اپنے اصل مسکن سے جدا ہونے کے بعد اس کی صورت ایک مرجھائے ہوئے پھول کی طرح ہے۔ ۸؎ ان کی ابتدائی شاعری کا دوسرا رجحان ’’رومانیت‘‘ ہے۔ جس کا تعلق ان کے بچپن کے ماحول سے ہے۔ ان کا بچپن ہمالیہ کی ترائی میں گزرا تھا جہاں قدم قدم پر فطرت کے مناظر نے انھیں اپنی طرف متوجہ کر کے ان کے ذوقِ جمال کی تشکیل کی تھی۔ انھوں نے فطرت کو موضوعِ شعر بنایا اور اردو شاعری کو ایک نئے پہلو سے روشناس کیا۔ فطرت کے موضوع پر ان کی نظموں میں ’’ہمالہ‘‘ ،’’کشمیر‘‘،’’کنارِ راوی‘‘ اور ’’ایک آرزو‘‘ بہت مشہور و مقبول ہیں۔۹؎ تیسرا نمایاں رجحان ’’حب الوطنی‘‘ کا ہے۔ ان کی ’’نیا شوالہ‘‘،’’ترانہ ہندی‘‘،’’تصویر درد‘‘ جیسی نظمیں ان کے ہم وطنوں کے دلی جذبات، آرزوئوں اور خیالات کی ترجمانی کرتی ہیں۔۱۰؎ ۲۵ دسمبر ۱۹۰۵ء کو اقبال کیمبرج پہنچے۔ پہلے ٹرنٹی کالج اور پھر بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لیا۔ کیمبرج سے فلسفہ میں بی۔اے کرنے کے بعد جولائی ۱۹۰۷ء میں ہائیڈل برگ چلے گئے تا کہ جرمن زبان سیکھ کر میونخ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں زبانی امتحان کی تیاری کر سکیں۔ایران میں مابعدالطبیعات کا ارتقا کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پہلے ہی داخل کر چکے تھے۔ ۴ نومبر ۱۹۰۷ء کو میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔یہ مقالہ جو ۱۹۰۸ء میں لندن سے شائع ہوا۔ بعد میں لندن آ کر بیرسٹری کا امتحان دیا۔ جولائی ۱۹۰۸ء کو نتیجہ نکلا اور کامیاب قرار دیے گئے۔ اس کے بعد وطن واپس چلے آئے۔۱۱؎ لندن قیام کے دوران اقبال کو کیمبرج کے اساتذہ میں وائٹ ہیڈ، میگ ٹیگرٹ، وارڈ، برائون اور نکلسن جیسی مشہور ہستیوں سے ربط ضبط کا موقع ملا۔۱۲؎ اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا۔ مثلاً ’’اسلامی تصوف‘‘،’’مسلمانوں کا اثر تہذیبِ یورپ پر‘‘ ، ’’اسلامی جمہوریت‘‘، ’’اسلام اور عقل انسانی‘‘ وغیرہ۔ ان لیکچروں کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن کسی کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لندن یونیورسٹی میں آرنلڈ ایک مرتبہ چھ ماہ کی رخصت پر گئے تو ان کی قائم مقامی میں اقبال نے عربی کا درس دیا۔ مئی ۱۹۰۸ء میں آل انڈیا مسلم لیگ ، لندن کی مجلس عاملہ کے رکن بھی نامزد ہوئے۔۱۳؎ اقبال یورپ میں تین سالہ قیام کے دوران زبردست ذہنی اور قلبی انقلاب سے دوچار ہوئے۔ انھیں مغربی تہذیب و تمدن کے براہ راست مشاہدے کا موقع ملا۔ پہلے اقبال وطنی قومیت پر یقین رکھتے تھے، لیکن اب انھیں احساس ہوا کہ نسلی امتیاز اور قومیت کا تصور انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یورپی اقوام نسل اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے برسرِپیکار ہیں۔ اگر قومیت پرستی دنیاے اسلام میں بھی در آئے تو مشترکہ ایمان و عقیدے کی بنیاد کمزور ہو جائے گی۔ چنانچہ انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن نسلی امتیاز، وطنیت اور قومیت ہے۔ انھوں نے یورپ کی مادہ پرستانہ زندگی کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہاں سرمایہ دارانہ نظام عروج پر تھا۔ اسلحہ سازی وسیع پیمانے پر ہو رہی تھی اور صنعت و حرفت کی ترقی کے باوجود انسانی اخلاق و کردار کمزور ہو رہے تھے۔ قیام یورپ کے دوران اقبال کی فکر میں تصوف کے مروجہ تصورات سے بھی اختلاف ہوا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ مروجہ تصوف انسان کو جدوجہد کی بجائے توکل باللہ اور فعال زندگی کی جگہ ترکِ دنیا کی تلقین کرتا ہے۔ عجمی تصوف پر کام کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس قسم کے تصوف کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ پس یورپ سے وطن لوٹنے کے بعد اقبال کی فکر کا رخ حتمی طور پر اسلام کی طرف ہو گیا اور انھوں نے ہر انفرادی اور اجتماعی مسئلے کا حل اسلام اور اسلامی تعلیمات میں ڈھونڈنے پر زور دیا۔ اقبال ۲۷ جولائی ۱۹۰۸ء میں لاہور پہنچے ۔ واپسی پر جب ان کا جہاز جزیرہ سسلی کے قریب سے گزرا تواسلامی تہذیب کے اس قدیم گہوارے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں آب دیدہ ہو گئیں اور انھوں نے ’’صقلیہ‘‘ کے نام سے ایک مرثیہ لکھا۔ وطن واپسی پر اقبال نے وکالت کا پیشہ شروع کیا اور گورنمنٹ کالج میں فلسفے کے پروفیسر بھی فائز ہوئے۔ مگر معلمی اور وکالت کو ایک ساتھ نبھانا ان کے لیے مشکل ہوگیا تو آخر ۳۱ دسمبر ۱۹۱۰ء میں گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہو گئے۔ مگر کسی نہ کسی حیثیت سے تعلیم کے ساتھ ان کا تعلق برقرار رہا۔ ۲ مارچ ۱۹۱۰ء کو پنجاب یونیورسٹی کے فیلو نامزد ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کے پروفیسر لالہ رام پرشاد کے ساتھ مل کر نصاب کی ایک کتاب تاریخِ ہند مرتب کی، جو ۱۹۱۳ء میں شائع ہوئی۔ مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی، سینٹ اور سنڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے۔ ۱۹۱۹ء میں اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے۔ ۱۹۲۳ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی۔ اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی کے بھی رکن نامزد ہوئے۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باعث تعلیمی کونسل سے استعفا دے دیا تھا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر، سر جان منیارڈ نے انھیں استعفا واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اسی دوران پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ میٹرک کے طلباء کے لیے فارسی کی ایک نصابی کتاب آئینہ عجم مرتب کی جو ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی۔ غرض اقبال پنجاب یونیورسٹی سے عملاً ۱۹۳۲ء تک وابستہ رہے۔ ۱۴؎ ۱۹۱۱ء میں ہندوستان کی سیاسی زندگی میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کا اعلان ایک بڑا اہم واقعہ تھا۔ مسلمانوں نے انتہائی تلخ انداز میں حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ یکم فروری ۱۹۱۲ء کو مسلمانوں کا ایک جلسہ باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں منعقد ہوا۔ اقبال نے جلسے میں واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کی شنوائی ہو تو اپنے پائوں پر کھڑے ہوں۔۱۵؎ ۱۹۱۳ء میں مسجد کانپور کا سانحہ پیش آیا تو اقبال مرزا جلال الدین بیرسٹر کے ساتھ ملزمین کی طرف سے مقدمہ لڑنے کانپور تشریف لے گئے اور رضاکارانہ قانونی مدد فرمائی۔۱۶؎ ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو اقبال کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا۔ ۱۹۱۵ء کے وسط میں اسرارِ خودی اور اپریل ۱۹۱۷ء میں رموزِ بے خودی مکمل ہوئی۔ ۱۹۱۶ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان ’’میثاقِ لکھنو‘‘ طے پایا۔ اقبال اس میثاق کے خلاف تھے، کیونکہ اس کی رُو سے مسلم اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کو مؤثر اقتدار نہ ملتا تھا اور مسلم اقلیت والے صوبوں میں بھی پاسنگ کی وجہ سے ان کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا تھا۔ اس کے علاوہ علامہ کا یہ خیال تھا کہ ایسا میثاق اسی صورت میں مفید ہوسکتا ہے جب ہندوستان میں متحدہ قومیت کی داغ بیل ڈالنا مقصود ہو اور حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں متحدہ قومیت کی تعمیر ممکن ہے نہ اس کے لیے کوشش کرنا مفید ہے۔۱۷؎ ۱۳ اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر شہر کے جلیانوالہ باغ میں رسواے زمانہ جنرل ڈائر نے ایک احتجاجی جلوس پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ سیکڑوں لوگ شہید ہو گئے۔ اقبال نے مرنے والوں کی یاد میں یہ اشعار کہے: ہر زائر چمن سے یہ کہتی ہے خاک پاک غافل نہ رہ جہاں میں گردوں کی چال سے سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم تو آنسوئوں کا بخل نہ کر اس نہال سے دسمبر ۱۹۱۹ء میں امرتسر میں انڈین نیشنل کانگرس ، آل انڈیا خلافت کمیٹی اور آل انڈیا مسلم لیگ نے قریب قریب بیک وقت اپنے سالانہ اجلاس منعقد کیے اور خلافت کمیٹی کی بنیاد ڈالی جس میں طے پایا کہ ایک وفد ترکوں کی انصاف یابی کے لیے وائسرائے سے ملاقات کرے گا ۔ لیکن اقبال کو ان قرار دادوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ ان ہنگاموں سے الگ تھلگ پیامِ مشرق کی ترتیب میں مصروف تھے۔۱۸؎ یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو حکومتِ برطانیہ کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تو آپ کے مداحین اور نیاز مندان چونک اٹھے کہ شاید اب آزادی ِ اظہار سے کام نہ لے سکیں گے۔جواب میں آپ نے فرمایا: ’’دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی، ان شاء اللہ۔۱۹؎ ۳۰ مارچ ۱۹۲۳ء کو ’’انجمن حمایتِ اسلام‘‘ کے جلسے میں اپنی معروف نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ پڑھی جو یونانیوں پر ترکوں کی فتح اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کا مژدہ ہے۔ یکم مئی ۱۹۲۳ء کو پیامِ مشرق شائع ہوئی جو جرمنی کے نامور شاعر گوئٹے کے دیوانِ مغرب کے جواب میں لکھی گئی۔ مارچ ۱۹۲۴ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ اقبال نے اپنے دوستوں اور مداحوں کے اصرار پر اپنے اردو کلام کا مجموعہ مرتب کیا اور ستمبر ۱۹۲۴ء میں بانگِ درا کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔ ۱۹۲۳ء کے صوبائی انتخابات میں اقبال سے اصرار کیا گیا کہ وہ لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن لڑیں مگر چونکہ ان کے قریبی دوست میاں عبدالعزیز بیرسٹر نے بھی اسی حلقے سے اپنی امیدواری کا اعلان کر دیا تھا لہٰذا اقبال نے انکار کر دیا۔ ۱۹۲۹ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے انتخاب ہوئے تو اس مرتبہ اقبال کامیاب رہے اور کونسل کے اندر یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ مگر جب پارٹی کی ناقابلِ اصلاح خرابیاں سامنے آئیں تو اقبال نے علیحدگی اختیار کر کے ایک تنہا رکن کی حیثیت سے اپنے سیاسی اور سماجی فرائض انجام دیے۔۲۰؎ انھوں نے کونسل کی مختلف کمیٹیوں مثلاً فنانس، تعلیم، لوکل سیلف گورنمنٹ اور پنجاب سول میڈیکل سروس بورڈ میں نام زد رکن کی حیثیت سے کام کیا۔ کونسل میں مالیہ ارضی پر تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ مالیہ وصول کرنے کا موجودہ طریقہ سراسر غیر منصفانہ ہے۔ انھوں نے پنجاب کی تعمیر و ترقی کے لیے کئی تجاویز پیش کیں۔۲۱؎ ان کی عملی سیاسی زندگی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ جون ۱۹۲۷ء میں زبورِعجمشائع ہوئی۔ اسی سال وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس حیثیت میں انھوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا۔ آپ نے ’’تجاویزِ دہلی‘‘ (۲۰ مارچ ۱۹۲۷ئ)کے اس نکتے کی مخالفت کی کہ مسلمان جداگانہ انتخاب کا مطالبہ ترک کر کے مخلوط انتخاب کا اصول مان لیں۔ ’’تجاویزِ دہلی‘‘ سے مسلم جداگانہ قومیت کے لیے جو خطرہ پیدا ہوا، اس کی روک تھام کے لیے یکم مئی ۱۹۲۷ء کو لاہور میں صوبائی مسلم لیگ پنجاب کا ایک اجلاس ہوا۔ جس میں اقبال نے فرمایا کہ ’’حلقہ ہاے انتخاب کا اشتراک کسی حالت میں بھی گوارا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘۲۲؎ ۸نومبر ۱۹۲۷ء کو حکومت برطانیہ کی طرف سے سر جان سائمن کی سرکردگی میں آئینی اصلاحات کے لیے ایک وفد ہندوستان بھیجا گیا۔ اقبال نے سائمن کمیشن کے سلسلے میں میاں محمد شفیع (۱۸۶۹ئ-۱۹۳۶ئ) کی مکمل حمایت کی۔ کیونکہ کمیشن کے مقاطعے سے جداگانہ انتخاب کے اصول کو ضرر پہنچ سکتا تھا۔ مئی ۱۹۲۸ء میں ممبئی میں موتی لعل نہرو (۱۸۶۹ئ-۱۹۳۲ئ) نے ’’نہرو رپورٹ‘‘ مرتب کی۔ اقبال نے اسے ہندی قومیت کا جال قرار دیتے ہوئے ردّ کر دیا۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس ۲۹ دسمبر ۱۹۲۸ء سے یکم جنوری ۱۹۲۹ء تک دہلی میں منعقد ہوئی۔ اقبال نے اس کانفرنس میں شرکت فرمائی۔ انھوں نے فرمایا: ’’آج ہر قوم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سعی و کوشش کر رہی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سعی و کوشش نہ کریں۔‘‘۲۳؎ ۵ جنوری ۱۹۲۹ء کو اقبال مدراس کے علمی حلقوں کی دعوت پر مدراس پہنچے اور وہاں چھ لیکچر بزبان انگریزی ارشاد فرمائے جو "The Reconstruction of Religious Thought in Islam" (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ) کے نام سے ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئے۔ ۹ جنوری کو بنگلور، ۱۰ جنوری کو سرنگا پٹم، ۱۲ اور ۱۳ جنوری کو میسور، ۱۹ جنوری کو حیدر آباد سے ہوتے ہوئے لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔ جولائی میں پیامِ مشرق کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ ۲۳ نومبر۱۹۲۹ء کو علی گڑھ یونیورسٹی کی طرف سے انھیں ڈی۔ لٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ مسلم لیگ اور کانگرس کے سیاسی تنازعات کو دور کرنے کے لیے ۱۴ نومبر ۱۹۳۰ء کو لندن میں پہلی گول میز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اقبال اس کانفرنس میں شریک نہ تھے مگر انھوں نے کانفرنس کی کارروائیوں پر گہری نگاہ رکھی۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ گول میز کانفرنس میں مسلم مندوبین جداگانہ انتخاب کی قیمت پر ہندو مسلم مفاہمت کا سودا کرنے پر رضامند ہو رہے ہیں تو بہت مضطرب ہوئے اور آغا خان سے جو گول میز کانفرنس میں مسلم وفد کے سربراہ تھے، ۱۰ نومبر ۱۹۳۰ء کو ٹیلی گرام ارسال کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر ہندو، مسلم مطالبات کو نہیں مانتے تو مسلمان کانفرنس چھوڑ کر چلے آئیں۔ علامہ اقبال کے اس تار پر ہندوئوں نے احتجاج کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’’گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین کو اس وقت تار دیا گیا جب وہ مخلوط انتخاب پر رضامند ہو چکے تھے۔‘‘۲۴؎ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو الہ آباد میں منعقد ہوا۔ صدارت کے فرائض آپ نے ادا کئے۔ اس خطبے میں آپ نے مسلمانانِ ہند کے لیے ایک علیحدہ منظم ریاست قائم کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا: میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومتِ خود اختیاری حاصل کر لے خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ اقبال نے مزید فرمایا: میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفادات کے پیش نظر ایک مربوط مسلم ریاست قائم کر دی جائے۔ اس سے اسلام کو موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے قانون، اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو حرکت میں لائے۔۲۵؎ ۸ ستمبر ۱۹۳۱ء کو اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور سے لندن روانہ ہوئے۔ اگرچہ یہ کانفرنس ناکام رہی مگر یہ دورہ ان کی شخصیت کو سیاسی حلقوں میں نمایاں کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوا۔ ۲۱ نومبر کو اقبال لندن سے روانہ ہوئے اور ایک علمی اور تہذیبی دورے کے اختتام کے بعد ۳۰ دسمبر کو لاہور پہنچ گئے۔۲۶؎ ۶ فروری ۱۹۳۲ء میں اقبال کی کتاب جاوید نامہ منظر عام پر آئی۔ ۲۱ مارچ کو لاہور میں اقبال کے زیر صدارت آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس ہوا۔ اقبال نے اپنے خطبہ صدارت میںدوسری گول میز کانفرنس کے فیصلوں، اہم سیاسی مسائل اور مستقبل کی تعمیر کے امکانات پر روشنی ڈالی۔ یہ خطبہ اپنے مطالب، علمیت اور جذبہ خیزی کے سبب سے الہ آباد والے خطبے سے بھی بہتر تھا۔۲۷؎ ۱۷ نومبر ۱۹۳۲ء کو لندن میں تیسری گول میز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اقبال بھی مدعو تھے لیکن اختلاف رائے کی بنا پر انھوں نے اس کانفرنس میں برائے نام شرکت کی۔ واپسی پر انھوں نے یورپ کا چار ماہ کا دورہ کیا۔ انھوں نے فرانس، اسپین، اٹلی کا سفر کیا اور کئی معاصر علمائ، فضلاء اور سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ ۲۵ فروری ۱۹۳۳ء کو اقبال لاہور واپس پہنچ گئے۔ ۲۰ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ غازی کی دعوت پر سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کے ہمراہ افغانستان کے لیے روانہ ہوئے تا کہ اس ملک میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ایک اصولی خاکہ تیار کر سکیں۔ ۴ نومبر کو اقبال لاہور واپس آ گئے۔ افغانستان کا یہ دورہ گو مختصر رہا لیکن اقبال کو اس سرزمین اور اس کے باشندوں کے ساتھ جو تعلق تھا، وہ چند روزہ سیاحت کا ایک تخلیقی تجربہ بن گیا جو ان کی فارسی مثنوی مسافر میں مدوّن ہوا۔۲۸؎ ۴ دسمبر ۱۹۳۳ء کو پنجاب یونی ورسٹی نے اقبال کو ڈی۔ لٹ کی اعزازی ڈگری نذر کی۔۲۹؎ جنوری ۱۹۳۵ء میں دوسرا اردو مجموعہ بالِ جبریل شائع ہوا۔ جولائی ۱۹۳۶ء میں ضربِ کلیم اور نومبر ۱۹۳۶ء میں فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام ِشرق مع مسافر کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ ۱۹۳۴ء تک آل انڈیا مسلم لیگ ایک جسدِ بے روح و جان تھی۔ اسی سال قائد اعظم محمد علی جناح انگلستان میں اپنی چار سالہ خلوت ترک کر کے ہندوستان واپس آئے۔ ۶ مئی ۱۹۳۶ء کو قائد اعظم علامہ اقبال سے ملنے ’’جاوید منزل‘‘ لاہور تشریف لائے۔ آپ نے اقبال کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا ممبر نامزد کیا۔۱۲ مئی کو اقبال دوبارہ ’’پنجاب مسلم لیگ‘‘ کے صدر مقرر ہوئے، جس کے وہ پہلے بھی کئی برسوں تک صدر رہ چکے تھے۔ اب اقبال ضعیف اور علالت کے باعث صاحبِ فراش ہو گئے تھے لیکن وہ شبانہ روز مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور مسلم لیگ کو مقبول بنانے کے لیے محنت کرتے رہے۔ ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو انھوں نے قائد اعظم کو ایک خط لکھا جس میں یہ تجویز پیش کی کہ ہندوستان میں اسلامی شریعت کا نفاذ اسی صورت میں ممکن ہے جب شمال مغربی یعنی پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان اور سندھ، مغرب اور شمال مشرقی ہندوستان میں بنگال کو ملا کر ایک علیحدہ ریاست تشکیل دی جائے۔ انھوں نے قائد اعظم کو آہستہ آہستہ آمادہ کیا کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی صورت پر غور کریں۔ وہ آخری دم تک اپنے نظریات کے مطابق مسلمانوں کی خدمت کرتے رہے۔ انتقال سے چند روز قبل بھی مسلمانانِ عالم کے حالات، اسلامی ملکوں کے واقعات، وطنیت پرستی کی لعنت، مسلمانوں کے ذہنی و اخلاقی انحطاط پر نہایت درد مندی سے اظہار تاسف فرماتے اور اکثر رونے لگتے۔۳۰؎ ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ء ہی سے طبیعت زیادہ بگڑنے لگی۔ مگر وہ موت سے نہیں ڈرتے تھے: نشان مرد مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم برلب اوست انھوں نے اپنی وفات سے قبل یہ رباعی پڑھی جو انھوں نے چند ماہ قبل لکھی تھی: سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید ۲۰ اپریل کی رات حالت میں مزید تغیر آنا شروع ہوا۔ رات انتہائی تکلیف سے گزری۔ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء سوا پانچ بجے صبح قبلہ رُو ہو کر آنکھیں بند کر لیں اور اپنے رب کے حضور سرخرو حاضر ہو گئے۔ انھوں نے عیسوی حساب سے پینسٹھ سال ایک مہینہ انتیس دن اور ہجری حساب سے سڑسٹھ سال ایک مہینہ چھبیس دن کی عمر پائی۔۳۱؎ انھیں بادشاہی مسجد لاہور کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ اِنّا لِلّٰہ و اِنا اِلیہ راجعون۔ حواشی ۱۔ حیات اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۹ء ۲۔ شریف المجاہد، علامہ اقبال، قائد اعظم اکادمی، کراچی، ۱۹۸۵ئ، ص ۱۴ ۳۔ حیات اقبال، ص ۱۲ ۴۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، سرگذشتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ،۱۹۷۷ئ، ص ۴۵ ۵۔ اقبال سنین کے آئینے میں، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ،۱۹۹۱ئ، ص ۱۲-۱۳ ۶۔ حیات اقبال ، ص ۱۱ ۷۔ علامہ اقبال، ص ۲۰ ۸۔ ایضاً، ص۲۰ ۹۔ ایضاً، ص ۲۱ ۱۰۔ ایضاً، ص ۲۶ ۱۱۔ حیات اقبال، ص ۱۵ ۱۲۔ ایضاً، ص ۱۴ ۱۳۔ ایضاً، ص ۱۶ ۱۴۔ ایضاً، ص ۲۳-۲۴ ۱۵۔ سرگذشت اقبال، ص ۸۱ ۱۶۔ فکر اقبال، ص ۸۴ ۱۷۔ عبدالمجید سالک، ذکر اقبال، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۵۵ء ، ص ۱۰۲ ۱۸۔ سرگذشت اقبال، ص ۱۵۰ ۱۹۔ ایضاً، ص ۱۶۰ ۲۰۔ حیات اقبال، ص ۴۰ ۲۱۔ اقبالیات، جولائی-ستمبر ۱۹۹۶ئ، ص ۴۱ ۲۲۔ رفیق افضل، گفتار اقبال، لاہور ،۱۹۶۹ئ، ص ۲۸ ۲۳۔ گفتار اقبال، ص ۷۳ ۲۴۔ اقبالیات، جولائی-ستمبر ۱۹۹۶ئ، ص ۴۵ ۲۵۔ سرگذشت اقبال، ص ۳۱۳ ۲۶۔ ایضاً ،ص ۳۷۶ ۲۷۔ ایضاً، ص ۳۷۷ ۲۸۔ حیات اقبال، ص ۵۳ ۲۹۔ ایضاً، ص۴۵ ۳۰۔ ذکراقبال، ص ۱۹۹ ۳۱۔ ایضاً، ص ۲۲۱ قاضی نذر الاسلام --حیات (۱۸۹۹ئ-۱۹۷۶ئ) قاضی نذر الاسلام ۲۴ مئی ۱۸۹۹ء کو قصبہ چرولیا، ضلع بردوان کے آسنسول نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے اجداد کا تعلق پٹنہ (بہار) کے حاجی پور علاقے سے تھا۔ شاہ عالم کے عہد میں یہ خاندان حاجی پور سے آسنسول چلا آیا۔ نذر الاسلام کے والد کا نام قاضی فقیر احمد اور ماں کا نام زاہدہ خاتون تھا۔ والد صوفی منش انسان تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی اپنے مکان سے متصل حاجی پہلوان مرحوم کے مزار اور مسجد کی امامت میں گزار ڈالی۔ نذر الاسلام ابھی آٹھ برس کے تھے کہ شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ ۲۰ مارچ ۱۹۰۸ء میں وہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ۱۹۰۹ء میں نذر الاسلام نے ایک مقامی مکتب سے پرائمری امتحان پاس کیا۔ مگر مالی تنگ دستی کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ انھیں اتنی غربت اور افلاس کا سامنا کرنا پڑا کہ بچپن میں ہی ان کا نام ’’دکھو میاں‘‘ پڑ گیا۔ حصولِ روزگار کے لیے مقامی مکتب میں درسِ قرآن دیتے اور مسجد میں مؤذّنی کرتے تھے۔ نذرا لاسلام فطرتاً ایک شاعر تھے۔ والد کی وفات کے بعد ان کے چچا قاضی عبدالکریم نے ان کے فطری جوہر کو اور ابھارا، جو عربی فارسی کے فاضل اور اچھے گیت نویس اور گلوکار تھے۔ انھوں نے نذر الاسلام کو ، جبکہ وہ گیارہ سال کے تھے، ’’لیٹو ناچ‘‘ کے طائفے میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ دیہات کے لوگ منظوم ناٹک لکھتے اور رقص کے ذریعے اسے اسٹیج کرتے تھے۔ نذر الاسلام کا رجحان تو ابتدا سے ہی شعر و شاعری کی طرف تھا۔ چنانچہ انھوں نے لیٹوطائفے کے لیے گیت اور ناٹک لکھنے شروع کیے۔ رفتہ رفتہ ان کی شہرت اتنی بڑھی کہ لیٹو طائفوں کے سرپرستوں نے ان سے فرمائشی گانے اور ناٹک لکھوانے شروع کیے اور انھیں ’’استاد جی‘‘ کا لقب دیا۔ اگرچہ ان ابتدائی گیتوں کی کوئی ادبی حیثیت نہیں مگر ان کی شاعرانہ صلاحیت کو چمکانے میں معاون ثابت ہوئے۔ اور موسیقی میں بھی ان کی مشاقی کو تیز تر کیا۔ ایک لیٹو گیت کا نمونہ ملاحظہ کیجیے: رحمان و رحیم تم میرے ہر معاملے کے نگہبان ہو تم لطیف وخبیر ہو تمہارے سوا کون نجات دہندہ ہے ابراہیم خلیل اللہ کو نمرود نے آتش میں ڈالا اسماعیل ذبیح اللہ کو تم نے اپنے کرم سے بچایا طوفان میں نوح نبی اللہ کو تم ساحل پر لائے اے کریم و رحیم! نیل دریا میں تم ہمیں اپنی رحمت سے بچائو اسی اثنا وہ رامائن، مہا بھارت اور بھگوت گیتا جیسی ہندو مذہبی کتابوں کا مطالعہ بھی کر چکے تھے۔ اب انھیں پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔۱۹۱۱ء میں متھرون نیبین چندرو (Mathrun Nabinchandra) اسکول میں چھٹی کلاس میں داخل ہوگئے، مگر غربت و افلاس پھر آڑے آئی۔ اگلے سال تعلیم چھوڑ کر ایک نان بائی کی دکان میں نوکری کر لی۔ فرصت کے وقت گیت اور نظمیں لکھتے اور گنگناتے۔ پھر ایک ریلوے گارڈ کے ہاں بطور باورچی کام کیا۔ ۱۹۱۲ئ- ۱۹۱۳ء کے دوران میں آسنسول تھانے کے سب انسپکٹر فیض الدین کی نظر عنایت ان پر پڑی۔ وہ ان کی ذہانت و ذکاوت سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کو اپنے ساتھ میمن سنگھ لے آئے اور درمی رام ہائی اسکول میں ساتویں کلاس میں داخل کر دیا۔ لیکن جلد ہی ان کا دل اچاٹ ہو گیا۔ ایک سال تک پڑھنے کے بعد قصبہ چرولیا چلے آئے۔ ۱۹۱۵ء میں انھوں نے پھر سیارسول راج اسکول میں داخلہ لیا۔ اسکول کے چند اساتذہ نے ان کی آئندہ عملی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ استاد حافظ نور النبی تھے جن سے انھوں نے فارسی سیکھی۔ استاد ستیش چندر کانچی لال سے موسیقی سیکھی۔ استاد نیبرن چندر کا تعلق دہشت پسند گروہ سے تھا، جو انگریزوں کے شکنجے سے ملک کو دہشت گردی کے ذریعے آزاد کرانے پر یقین رکھتے تھے۔ اس استاد نے نذر الاسلام کی انگریز دشمنی کو مزید ہوا دی۔ اسی اثنا میں پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ئ) شروع ہو گئی۔ نذر الاسلام میٹرک میں پری ٹسٹ امتحان سے فارغ ہوئے تھے کہ انگریزوں نے سارے ملک میں فوج میں نوجوان بھرتی کرنے کے اشتہار دیے۔ نذر الاسلام نے فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ انگریزوں کے حق میں لڑنے کے لیے نہیں بلکہ وہ اس تجربے کو انگریزوں کو ملک بدر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ پس وہ ۴۹ نمبر، بنگالی پلٹن میں بھرتی ہو کر نوشہرہ آ گئے۔ اور تین ماہ فوجی تربیت کے بعد کراچی چلے آئے۔ ان کی فوجی زندگی کا آغاز ۱۹۱۷ء میں اور اختتام ۱۹۱۹ء پر ہوا۔ کراچی کی سپاہیانہ تربیت ان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے، جس نے انھیں نت نئے تجربات عطا کیے اور ان کی فکر و بصیرت کو بالیدگی بخشی۔ نذر الاسلام کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز کراچی کیمپ سے ہوا۔ وہاں ان کی ملاقات ایک پنجابی مولوی صاحب سے ہوئی جنھوں نے انھیں حافظ شیرازی کی کئی غزلیں سنائیں۔ مولوی صاحب مذکور سے دیوانِ حافظ، مثنوی مولانا روم اور فارسی کی دوسری مشہور کتابیں بھی پڑھیں۔ اس مطالعہ نے ان کی ادبی ذہانت و صلاحیت پر گہرا اثر ڈالا۔ انھوں نے بعد میں رباعیاتِ حافظاور عمر خیام کی ۱۹۸ رباعیات کا منظوم بنگلہ ترجمہ کیا۔ ان کی عشقیہ شاعری پر بھی حافظ شیرازی اور عمر خیام کے کافی اثرات نظر آتے ہیں۔ عشق و محبت کے جذبات سے معمور فارسی شاعری کا مطالعہ کیا اور غزل نویسی کو بنگلہ ادب میں رُوشناس کیا۔ ان سے پہلے کسی نے اس کا تصور بھی نہ کیا تھا ۔ ان کا پہلا افسانہ بائونڈلیر آتمو کاہینی (آوارہ گرد کی آپ بیتی) ۱۹۱۹ء میں ماہنامہ سوغات کلکتہ میں اور ان کی پہلی نظم ۱۹۱۹ء ہی میں مکتی (نجات) اور بنگیا مسلم ساہتیہ پتریکا کلکتہ (بنگال مسلم ادبی رسالہ) میں شائع ہوئی۔ دونوں کراچی کیمپ سے لکھی گئیں۔ یہیں انھوں نے حافظ شیرازی کی ایک رباعی کا بنگلہ ترجمہ کیا جو جریدہ پروباشی (بدیسی) کلکتہ میں شائع ہوا۔ اسی سال ان کے افسانے ’’حنا‘‘ (مہندی) اور ’’بیتھار دان‘‘ (درد کااحسان) بنگیا مسلم ساہتیہ پتریکا سے منظر عام پر آئے۔ ان کا پہلا مقالہ ترک مہیلا رگھومٹا کھلا (ترکی خاتون کی بے حجابی) دلنواز کلکتہ سے طبع ہوا۔ جو کراچی کیمپ کے دوران قیام میں لکھا گیا۔ ان کے علاوہ ان کی بہت سی تحریریں جو وہ کراچی سے اشاعت کے لیے کلکتہ کے جرائد کو بھیجا کرتے تھے، تلف ہو جاتی تھیں۔ کراچی کیمپ میں ہی روس کے اشتراکی انقلاب اور افکار سے آگاہی حاصل ہوئی۔ اشتراکی نظریات کے زیر اثر انھوں نے بعد میں مساوات اور غریبوں، کسانوں ، مزدوروں اور ملاحوں وغیرہ کے حقوق کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے بے شمار نظمیں لکھیں۔ کراچی کیمپ ہی میں انھیں مغربی آلاتِ موسیقی اور فوجی دھنوں سے واقفیت حاصل ہوئی۔ شام کے فارغ وقت میں نذر الاسلام اپنے دوست احباب کے ساتھ آلاتِ موسیقی کے استعمال سے گیت گاتے۔ ان آلات اور فوجی دھنوں نے ان کی بعد ازاں شاعری پر اثر ڈالا۔ کیونکہ انھوں نے بہت سے انقلابی گیت ان فوجی دھنوں پر لکھے، مثلاً: چل! چل! چل! اٹھ اے نوجوان طبل بجا وہ کانپے دشت اور جبل قدم اٹھا سنبھل سنبھل وطن بلا رہا ہے چل چل! چل! چل! اٹھ اور اک نئی سحر اُفق سے آشکار کر زمین کی تیرگی مٹا فلک کو زر نگار کر زمانے کی روش بدل وطن بلا رہا ہے چل چل! چل! چل! ۱؎ ۱۹۱۹ء میں جنگ کے خاتمے کے بعد ۱۹۲۰ء میں نذر الاسلام کلکتہ چلے آئے۔ ماں سے ملاقات کے لیے چرولیا گئے اورمختصر قیام کے بعد کلکتہ لوٹے اور اپنی ادبی زندگی کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہیں ان کی ملاقات مشہور کمیونسٹ لیڈر مظفر احمد سے ہوئی، ان کی صحبت نے بھی ان کی زندگی کو نیارخ دیا۔ دونوں ’’بنگلہ مسلم ساہتیہ سمیتی‘‘ (مسلم بنگال ادبی انجمن) کے دفتر میں رہنے لگے۔ دیں اثنا نذر الاسلام کو ’’مالیاتی شعبے‘‘ میں سب رجسٹرار کے عہدے کے لیے انٹرویو کا خط آ گیا، مگر انگریزوں کے خلاف شدید نفرت رکھنے کی بنا پر انھوں نے سرکاری ملازمت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر وہ سرکاری ملازمت قبول کر لیتے تو شاید ان کی زندگی کا رخ کسی اور جانب ہوتا۔ ۱۹۲۰ء میں مزمل حق کی زیر ادارت کلکتہ سے مسلم بھارت شائع ہونے لگا۔ اس کے پہلے شمارے سے نذر الاسلام کا پہلا ناول باندھن ہارا (بے قید) قسط وار چھپنے لگا۔ اس کا بیشتر حصہ انھوں نے کراچی کیمپ میں لکھا تھا۔ بعد ازاں یہ ناول ۱۹۲۷ء میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ مسلم بھارت کے علاوہ ان کی نظمیں اس دور کے دوسرے ادبی جرائد مثلاً سوغات، اوپاسنا(عبادت) اور بجلی میں شائع ہوتی تھیں۔ بجلیمیں ان کی نظم ’’بدروہی‘‘ (باغی) (۱۹۲۱ئ) کی اشاعت سے ان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ اس نظم کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ بے حد سیمابی طبیعت کے مالک تھے۔ وہ عوام کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد بنا لیتے تھے، پھر اس دکھ درد کے اظہار کی قدرت و صلاحیت رکھتے تھے۔ ’’بدروہی‘‘ بجلیکے علاوہ بیک وقت پروباسیماہنانہ بسومتی،سادھنا اور دوسرے رسالوں میں بھی چھپی۔ اس کے بعد مسلم بھارت میں ان کی ایک اور نظم ’’کمال پاشا‘‘ بھی چھپی۔ ’’بدروہی‘‘ کی مخالفت اور موافقت میں کئی مضمون لکھے گئے۔ بہرحال اس نظم نے عوام میں آزادی حاصل کرنے کی امنگ میں تیزی پیدا کرنے میں بڑا حصہ لیا۔ وہ عوام کے شاعر اور ان کے دل کی دھڑکن بن گئے۔ اتنی کم عمر میں اتنی شہرت کسی کم شاعر کو نصیب ہوتی ہے۔ ۱۲ جون ۱۹۲۰ء میں شیر بنگال ابوالقاسم فضل الحق (۱۸۷۳ئ-۱۹۶۲ئ) نے کلکتہ سے شام کا ایک روزنامہ نواجوگ (نیا دور) جاری کیا اور قاضی نذر الاسلام اور مظفر احمد کو ادارت کے فرائض سونپے گئے۔ یہ اخبار عوام میں کافی مقبول ہوا۔ مگر ادارتی شذرات میں نذر الاسلام کی شعلہ بیانی کی وجہ سے حکومت وقت نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ جرمانہ عاید ہوا۔ فضل الحق صاحب نے جرمانہ تو ادا کر دیا مگر اخبار جلد ہی بند ہو گیا۔بعد میں نذر الاسلام نے ان اداریوں کا انتخاب جوگ بانی (پیغام ِوقت) کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا مگر حکومت وقت نے اسے اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ضبط کر لیا۔ یہ ان کی پہلی مطبوعہ کتاب ہے۔ نواجوگ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد نذر الاسلام مولوی فضل الحق کے ساتھ ساہتیہ سمیتی (ادبی سوسائٹی) کے دفتر میں رہنے لگے۔ یہیں ان کی ملاقات بہشتی بادشاہ اور بابر کے مصنف علی اکبر خان سے ہوئی جن کی دعوت پر نذر الاسلام دولت پور واقع برہمن باڑیہ گئے، جہاں دو ماہ قیام کیا اور ۱۸ جون ۱۹۲۱ء کو علی اکبرخان کی بھتیجی سیدہ نرگس عصر خانم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ مگر نامعلوم وجہ کی بنا پر شادی کی رات تعلقات میں کشیدگی اور علیحدگی کی نوبت آ گئی۔ دولت پور سے نذر الاسلام کمیلا پہنچے جہاں ان کی ملاقات پرجاسندری دیوی سے ہوئی۔ بعد میں ان کے شوہر کی بھتیجی پرمیلا سے نذر الاسلام کی دوسری شادی ہوئی۔ وہ زمانہ پورے ملک میں سیاسی سرگرمیوں کا تھا۔ کمیلا میں تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترک موالات زوروں پر تھیں۔ نذر الاسلام نے ان تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا۔ انڈین نیشنل کانگرس کا جو جلسہ ٹائون ہال میں منعقد ہوا تھا، اس میں نذر الاسلام نے اپنی نظم ’’مورون بورون‘‘ (موت کا استقبال) پڑھی جس کا موضوع تھا کہ جان کی قربانی کے بغیر وطن کی آزادی ناممکن ہے۔ اپریل ۱۹۲۱ء میں نذر الاسلام کلکتہ چلے آئے۔ کلکتہ میں سیاسی تشدد کی وجہ سے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ زوروں پر تھا۔ اس وقت انھوں نے’’بھانگارگان‘‘ (تباہی کا گیت) لکھا اور بنگال میں تحریک آزادی میں گرم جوشی سے حصہ لینے والوں میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے شامل کر لیا۔ فرماتے ہیں: جیل کا آہنی دروازہ توڑ ڈالو اسے پاش پاش کر ڈالو ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ بیتھاردان (تحفۂ درد) ۱۹۲۲ء میں شائع ہوا۔ اسی سال ان کا شعری مجموعہ اگنی بینا (آگ کی بانسری) طبع ہوا۔ جس میں تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات سے متعلق ہنگامہ خیز نظمیں شامل تھیں۔ یہ مجموعہ اس دور میں بے حد مقبول ہوا۔ اسی سال بنگال کے مشہور صحافی، عالم دین اور سیاست دان مولانا اکرم خان نے روزنامہ سیوک(خادم) شائع کیا۔ نذر الاسلام مدیر معاون کی حیثیت سے شریک ہوئے مگر دو ماہ بعد نذر الاسلام نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ۱۱ اگست ۱۹۲۲ء میں کلکتہ سے نذر الاسلام نے دھوم کیتو(دم دار ستارہ) کے نام سے مشہور سہ روزہ اخبار نکالا۔ آزادی کی تحریک کو پروان چڑھانے میں اس اخبار نے بڑی حوصلہ افزائی کی۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اخبار کے اجرا پر تہنیتی پیغام بھیجا۔ دھوم کیتو کے ۱۳ اکتوبر ۱۹۲۲ء کے شمارے میں نذرالاسلام نے ہندوستان کی مکمل آزادی کامطالبہ کیا۔ انھوں نے لکھا: اول دھوم کیتو ہندوستان کی کامل آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہندوستان کی ذرہ بھر زمین بھی کسی بدیسی کے قبضے میں نہ رہنے دی جائے گی۔ ہندوستان کی پوری ذمہ داری، اس کی آزادی کی حفاظت، اس کی حکومت کا انتظام سب ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ اس میں بدیسی مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ جن حکمرانوں نے ناجائز دخل اندازی سے اس ملک کو قبرستان بنا رکھا ہے، انھیں اپنے مال و اموال سمیت سمندر پار واپس جانا ہوگا۔ منت سماجت سے دال نہیں گلے گی۔ ان میں اتنا شعور و فہم کہاں؟ اس لیے ہمیں بھی درخو است کرنے اور بھیک مانگنے کی بے وقوفی کا مرتکب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۲۲ء کو درگا پوجا کے موقع پر دھوم کیتو کا خصوصی نمبر نکلا۔ اس میں ان کی نظم ’’آنند ماہر آگمینے‘‘ (درگا ماں کی مسرت بھری آمد پر) شائع ہوئی۔ یہ ایک تمثیلی نظم ہے جس میں انھوں نے بھارت کو بہشت اور انگریز غاصبوں کو ابلیس قرار دیا۔ درگا دیوی ابلیس کو قتل کر کے جنت کو از سر نو خوش حالی بخشتی ہے۔ اس نظم نے حکومت کو آگ بگولا کر دیا۔ بغاوت کے الزام میں نذر الاسلام کو ایک سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ عدالت میں انھوں نے جو بیان دیا، وہ ملک کی سیاسی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ فرماتے ہیں : میں شاعر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے چھپی ہوئی صداقت کو ظاہر کرنے اور کائنات کی مخفی حقیقتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بھیجا ہے۔ شاعر کی زبان اللہ تعالیٰ کی زبان ہے۔ میری شاعری حقیقت کا اظہار ہے۔ یہ خدا کا پیغام ہے۔ یہ کلام شاہی دربار میں قابل گرفت ہو سکتا ہے مگر مذہب کی روشنی اور صداقت کی نگاہ میں بے قصور، تر و تازہ، غیر افسردہ اور حقیقت کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔۲؎ ان کی عدم موجودگی کے باعث دھوم کیتوکچھ دنوں کے لیے بند ہوگیا۔ انھیں پہلے علی پور سنٹرل جیل (کلکتہ) اور پھر ہگلی جیل منتقل کر دیا گیا۔ لیکن قید خانے میں بھی ان کی زبان بند نہ رہ سکی۔ انھوں نے حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوے کئی نظمیں لکھیں۔ ہگلی جیل میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ نہایت ناروا سلوک کیاجاتا تھا۔ اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نذر الاسلام نے متواتر انتالیس روز بھوک ہڑتال کی۔ جب ان کی حالت نازک ہوگئی تو رابندر ناتھ ٹیگور نے شیلاگ سے ان کا نام یہ تار ارسال کیا: بھوک ہڑتال ترک کیجیے۔ ہمارے ادب کو آپ کی ضرورت ہے۔ ان کی حب الوطنی کو سراہتے ہوئے رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا ناول بسنت ان کے نام معنون کیا۔ ۱۵ دسمبر ۱۹۲۳ء کو نذرالاسلام کو قید سے رہائی ملی تو وہ کمیلا چلے آئے۔ ۲۲ فروری ۱۹۲۴ء کو چار روزہ ’’بنگال ادبی مجلس‘‘ میدنی پور میں شرکت کی۔ جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے ہگلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں میں مزید تندی اور شدت پیدا ہو گئی۔ ۱۹۲۴ء میں ان کے دو شعری مجموعے یشیر باشی(زہریلی بانسری) اور بھانگا رگان (تباہی کے گیت) شائع ہوئے مگر حکومتِ وقت نے انھیں ضبط کر لیا۔ جنوری ۱۹۲۵ء میں ان کی کہانیوں کا مجموعہ رکتیر بیدن (بے سر و سامانی کی خلش) طبع ہوا۔ ۲۵ مئی ۱۹۲۵ء کو ’’بنگال کانگرس‘‘ کا سالانہ اجلاس فرید پور میں منعقد ہوا۔ گاندھی جی اور دیس بندھو چت رنجن داس بھی مدعو تھے۔ گاندھی جی بدیسی کپڑے نہ پہننے اور چرخے کے استعمال کو آزادی کی علامت سمجھتے تھے۔ جلسے میں نذر الاسلام نے اپنا گیت ’’چرخہ‘‘ گایا۔ مگر نذر الاسلام چرخے کو ملک کی آزادی کے لیے ناکافی سمجھتے تھے۔ اپنے ناول مرتیو کُھودھا (جوع الاجل) میں ’’انصار‘‘ نامی کردار کی زبانی کہتے ہیں: انصار: چرخہ چلا کر سوت کا کپڑا تیار کیا جا سکتا ہے۔ ملک کو آزاد نہیں کرایا جا سکتا۔ آج میں سوچتا ہوں کہ دوسرے ملکوں کے لوگ جب سر کٹا کر بھی آزادی حاصل نہیں کر پا رہے تو اس ملک کے لوگ صرف چرخہ کات کر کس طرح آزادی حاصل کر لیں گے۔۳؎ فرید پور کے جلسے کے بعد گاندھی ہگلی گئے تو نذر الاسلام نے بھی ان کی صحبت اختیار کی اور وہاں منعقدہ جلسے میں کئی اشتعال آمیز گیت گائے۔ اسی سال ان کے دیگر تین شعری مجموعے چتو نامہ(چت رنجن داس کی یاد میں)، چھایانٹ (سر سنگیت) اور شمو بادی(مساوات) منظر عام پر آئے۔ ۱۵ نومبر ۱۹۲۵ء میں انھوں نے انڈین نیشنل کانگرس کے تحت ’’مزدور سوراج پارٹی‘‘ تشکیل دی۔ اس پارٹی کے زیر اہتمام ہفتہ وار پرچہ لانگل (ہل) کا اِجرا عمل میں آیا۔ لانگلمیں ان کی نظموں پر اشتراکی رُجحانات کی چھاپ نظر آتی ہے، جہاں مظلوم انسانیت کے لیے ان کے ہمدردانہ جذبات کی تصویر کشی ہویدا ہے۔ ۳ جنوری ۱۹۲۶ء کو نذر الاسلام مع اہل و عیال ہگلی سے کرشنانگر(مغربی بنگال) چلے گئے۔ اس مقام پر بھی انھوں نے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یہاں ’’بنگال، کاشتکار اور کارکن پارٹی ‘‘ ظہور میں آئی جس کی انتظامیہ کمیٹی کے وہ ممبر منتخب ہوئے اور ۱۱،۱۲ مارچ ۱۹۲۶ء کو انھوں نے مداری پور (مشرقی بنگال) میں ہونے والی ’’کل بنگال و آسام صوبائی ماہی گیر کانفرنس ‘‘میں شرکت فرمائی اور ’’ماہی گیروں کا گیت‘‘ گا کر ماہی گیر طبقے کو ظلم و جبرکا مقابلہ کرنے کا درس دیا۔ ۲ اپریل ۱۹۲۶ء کو کلکتہ میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے تو انھوں نے اپنا مشہور گیت ’’کانڈاری ہوشیار‘‘ (ناخدا۔ ہوشیار) لکھ کر ہندو مسلم اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ۲۲ مئی ۱۹۲۶ء کو کرشنا نگر میں ’’صوبائی کانگرس‘‘ کا اجلاس منعقد ہوا، جہاں ’’طلباء کانفرنس‘‘ اور ’’نوجوان کانفرنس‘‘ بھی منعقد ہوئیں۔ ’’طلباء کانفرنس ‘‘ میں انھوں نے ’’چھاترو دولیرگان‘‘ (طلباء کا گیت) گا کر نوجوانوں میں حصولِ آزادی کے لیے جذبۂ قربانی اور جوش پیدا کرنے کا درس دیا۔ ۱۵ اپریل ۱۹۲۹ء کو اخبار لانگل بند ہو گیا تو فرصت کا وقت گزارنے کے لیے نذر الاسلام بنگال کے مشرقی علاقوں کے دورے پر روانہ ہوئے۔ گھومتے ہوئے جون کے اواخر میں ڈھاکا پہنچے۔ ۲۷ جون کو انھوں نے ’’مسلم ساہتیہ سماج‘‘ (مسلم ادبی سوسائٹی) سے خطاب کیا اور ’’چھاترو دولیرگان‘‘ (طلباء کا گیت) اور ’’کریشوکیر گان‘‘ (کاشت کاروں کا گیت) گا کر سنائے اور سامعین کو ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھنے کی اپیل کی اور طبقاتی امتیازات دور کر کے انسان دوستی پر زور دیا۔ جولائی ۱۹۲۶ء میں وہ چٹاگانگ گئے جہاں ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ شاعر چٹا گانگ کے فطری حسن سے بہت محظوظ ہوئے، مختلف علاقوں کی سیر کی اور متعدد نظمیں لکھیں۔ ستمبر ۱۹۲۶ء کے پہلے ہفتے میں شاعر نے کھلنا، جیسور اور چند دوسرے علاقوں کا دورہ کیا اور ۸ ستمبر کو واپس کرشنا نگر آئے جہاں ان کے دوسرے بیٹے بلبل کی ولادت ہوئی۔ ماہ اکتوبر میں ’’سلہٹ کانگرس‘‘ کی دعوت پر سلہٹ پہنچے لیکن شدیدعلیل ہوگئے۔ نومبر ۱۹۲۶ء میں انھوں نے ڈھاکا ڈویژن سے قانون ساز اسمبلی کی رکنیت کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ڈھاکا ڈویژن اس وقت ڈھاکا، فرید پور، باریسال اور میمن سنگھ کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ انھوں نے انتخابی مہم کے لیے ان علاقوں کا دورہ کیا۔ بہادر پور واقع فرید پور کے پیر صاحب مولانا عبدالخالد رشید الدین احمد معروف بہ بادشاہ میاں کے پاس دعا کے لیے گئے۔ انھوں نے نذر الاسلام کی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مریدوں کو ان کے حق میں ووٹ دینے کی ہدایت کی لیکن نذر الاسلام تو مفلوک الحال تھے۔ الیکشن کے اخراجات کا باراٹھانا ان کی پہنچ سے باہر تھا۔ انھیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ ان سرگرمیوں کے بعد ۲۳ نومبر کو وہ کرشنا نگر واپس چلے آئے۔ ۱۹۲۶ء میں ان کے تین شعری مجموعے پوبیر ہوا (مشرقی ہوا) جھینگے پھول (ککڑی کے پھول) اور شوریوہارا (مفلس طبقہ) اور مقالات کا مجموعہ دور دینیرجاتری (بدنصیبی کے مسافر) منظر عام پر آئے۔ فروری ۱۹۲۷ء کے اواخر میں نذرالاسلام ڈھاکا کے لیے روانہ ہوئے تا کہ مسلم ساہتیہ سماج کے سالانہ اجلاس میں شرکت کر سکیں۔ انھوں نے مسلم نوجوان طبقے کی ذہنی بیداری پر خوشی و اطمینان کا اظہار کیا۔ ادھر کلکتہ میں انھوں نے شاعر بینظیر احمد کے نور بہار اور محمد نصیر الدین کے سوغات نامی جرائد میں اپنی نگارشات بھیجنے کا وعدہ کیا۔ ۱۹۲۷ء میں ان کی جو تخلیقات منظر عام پر آئیں ان کے نام ہیں: مضامین کا مجموعہ ردورومنگل (تند ناک سچ)، شعری مجموعے فنی موتیشا (ناگ پھنی)،سندھو ہیندول (سمندر کا ہنڈولا) اور ناول باندھن ہارا (بنا پابندی کے) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ناول کہلیکا (رازِ پنہاں) کا پہلا حصہ اوران کا ناٹک ـجھلی ملی ماہنانہ نوروز سے قسط وار شائع ہونے لگے۔ نوروز کے پانچ شمارے شائع ہوئے کہ بند ہو گیا تو کہلیکاکا باقی حصہ قسط وار ہفتہ روزہ سوغات میں شائع ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ ان کا ناول مرتوکھدا (جوع الاجل) بھی اسی ہفتہ وار میں چھپا۔ فروری ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتے وہ ’’مسلم ساہتیہ سماج‘‘ (مسلم ادبی انجمن) کے دوسرے اجلاس میں شرکت کے لیے پھر ڈھاکا آئے۔ جون ۱۹۲۸ء میں وہ دوبارہ ڈھاکا آئے۔ اس وقت ان کے آنے کا مقصد فٹ بال میچ کے اس جشن فتح میں حصہ لینا تھا جو کلکتہ میں یورپین ٹیم اور موہن باغ کلکتہ ٹیم کے مابین کھیلا گیا۔ اس کھیل میں موہن باغ ٹیم کلکتہ کو فتح حاصل ہوئی تھی۔ ستمبر ۱۹۲۸ء میں وہ ’’سلہٹ صوبائی مسلم طلباء کی انجمن‘‘ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کے لیے گئے۔ جلسے کے تیسرے روز طلباء نے جسمانی ورزش کے مظاہرے کیے جن میں نذر الاسلام نے ذوق و شوق کا مظاہرہ کیا۔ دریں اثنا نذر الاسلام کی سیاسی، سماجی اور ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انھیں بنگال کے کونے کونے سے دعوت نامے وصول ہوئے۔ اس سلسلے میں وہ رنگ پور گئے جہاں ’’ہرگاچھّانوجوان کلب‘‘(Hargachha Youth Club)نے انھیں اعزاز سے نوازا۔ ۱۷ دسمبر ۱۹۲۸ء کو ’’راج شاہی مسلم کلب‘‘ نے بھی عزت افزائی کے لیے جلسہ منعقد کیا۔ جلسے میں نذر الاسلام نے اپنے کئی گیت گائے۔ ۱۸ دسمبر کو ’’کانگرس پارٹی ‘‘ کی جانب سے راج شاہی ٹائون ہال میں مزید ایک جلسہ منعقد ہوا۔ شاعر کی ایک جھلک دیکھنے کو لاتعداد لوگوں کا مجمع تھا۔ اسی سال کے آخر میں نذر الاسلام واپس کلکتہ آئے۔ انھوں نے ۲۱ تا ۲۲ دسمبر ’’آل انڈیا کسان اور مزدور پارٹی‘‘ کے جلسے میں شریک ہو کر افتتاحیہ گیت گائے۔ ۲۸ دسمبر کو انھوں نے ’’آل انڈیا سوشلسٹ کانگرس برائے نوجوانان‘‘ میں حصہ لیا۔ ۱۹۲۸ء میں ان کے تین شعری مجموعے سنچیتا(مجموعہ نظم)، بلبلاور رنجیر قلم زد ہوئے۔ ۱۹۲۹ء کے آخر میں نذرالاسلام مفلسی کے ہاتھوں مجبور ہو کر کرشنانگرسے کلکتہ چلے آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے چاٹگام اور سندیپ کا سفر کیا اور ادبی کاوشوں میں بھی مصروف رہے۔ ۱۵ دسمبر ۱۹۲۹ء کو کلکتہ، البرٹ ہال میں قوم کی جانب سے نذر الاسلام کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک اجتماع ہوا۔ شاعر کی خدمت میں چاندی کا کاسکٹ، طلائی دوات اور قلم پیش کیے گئے۔ نذر الاسلام نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے فرمایا: اگرچہ میں اس ملک اور اس معاشرے میں پیدا ہوا ہوں تاہم میری ذات صرف اس ملک اور اس معاشرہ کے لیے نہیں۔ بلکہ ہر دور اور ہر انسان کے لیے ہے۔ حسن کی مداحی اور حسن کا دھیان میری عبادت اور میرا مذہب ہے۔۴؎ ۱۹۲۹ء میں نذرالاسلام کے تین اور شعری مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہوئے جن میں چکر یاک (ایک قسم کی چڑیا)، چوکھیر چانک (آنکھوں کی پیاس) اور سندھیا (شام) شامل ہیں۔ ۱۹۳۰ء میں نذر الاسلام کی پانچ مزید کتابیں شائع ہوئیں: پرالائے شیکھا (شعلۂ قیامت)، مریتوکھودا (جوع الاجل)، رباعیات عمر خیام،نذرل گیتیکا (نذرل کے گیت) اور جھلی ملی (جھلملی)۔ ۱۹۳۰ء نذر الاسلام کی زندگی کا ایک انقلابی سال تھا۔ کیونکہ ۷ مئی ۱۹۳۰ء کو ان کے ۴ سالہ بیٹے نے داعی اجل کی پکار پرلبیک کہا۔ نذر الاسلام نے مریض بچے کے سرھانے بیٹھ کر ساری رات رباعیاتِ حافظ کا کچھ حصہ بنگلہ سے منظوم ترجمہ کیا۔ اس حادثے نے ان کی ذہنی کیفیت پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ رفتہ رفتہ روحانیت کی طرف مائل ہونا شروع ہوئے اور دنیا کی بے ثباتی کی حقیقت ان پر واضح ہوگئی۔ ۱۹۳۱ء میں نذر الاسلام کی پانچ کتابیں پریس سے چھپ کر آئیں جن کے نام یہ ہیں: کوہلیکا (رازِ پنہاں)، سُریسی (سُروں کا رسالہ)، چندروبندو (چاند کا داغ)، شیولی مالا (شیولی پھول کا مالا) اور آلیا (خواب)۔ ۱۹۳۱ء کے وسط میں نذر الاسلام دارجلنگ گئے جہاں ان کی ملاقات مشہور بنگالی ادیب اور شاعر رابندر ناتھ ٹیگور سے ہوئی۔ ۱۹۳۲ء میں ایک ادبی کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے وہ تیسری بار چٹاگانگ پہنچے۔ ۵ نومبر ۱۹۳۲ء کو ’’بنگال مسلم نوجوان‘‘ کانفرنس (سراج گنج) کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا: ہم ابوبکر صدیقؓ کی سچائی، عمرؓ کی بہادری اور فراست، علیؓ کی ذوالفقار، حسنؓ و حسینؓ کی قربانی اور صبر و استقلال چاہتے ہیں۔ ہم خالدؓ ، موسیٰ اور طارق کی تلوار اور بلال کا عشق چاہتے ہیں۔ ہم یہ اوصاف اپنا سکیں تو آج دنیا میں جو لوگ فتح و نصرت کے علم بردار ہیں، ان کے ساتھ ساتھ ہمارے نام بھی بصد احترام لیے جائیں گے۔۵؎ اس سال ان کے سرساتی ،ذوالفقار اور بونوگیتی(جنگل کے گیت) نامی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ۱۹۳۳ء میں انھوں نے قرآن مجید کے پارہ عَمَّکا بنگلہ زبان میں منظوم ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر شعری مجموعے جو طبع ہوئے، وہ یہ ہیں: پوترلیربیئے (گڑیا کی شادی)،سات بھائی چمپا اور گل باغیچہ۔ ۱۹۳۶ء میں انھوں نے ’’فرید پور مسلم طلبا‘‘ کانفرنس کی صدارت کی۔ ۸ تا ۹ اپریل ۱۹۳۸ء کو انھوں نے کلکتہ میں ’’بنگیو مسلم ساہتیہ سمیلن‘‘ (بنگال مسلم ادبی کانفرنس) کے شعبہ شاعری کی صدارت کی۔ ۱۹۴۱ء میں نذر الاسلام نے پھر صحافت کی جانب رخ کیا۔ شیر بنگال مولوی اے۔ کے فضل الحق نے روزنامہنیا جوگ(نیا دور) کلکتہ سے دوبارہ جاری کیا تو نذر الاسلام کو مدیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ مگر قسمت نے یاوری نہ کی۔ اگست ۱۹۴۲ء میں وہ شدید علالت کا شکار ہو گئے اور کام جاری نہ رکھ سکے۔ ۱۹۴۰ء کے آخر میں نذرالاسلام ڈھاکا ریڈیو کی تاسیسی تقریبات میں حصہ لینے کے لیے آخری مرتبہ ڈھاکا آئے۔ ۲۳ دسمبر ۱۹۴۰ء کو انھوں نے کلکتہ مسلم طلباء کانفرنس کی صدارت کی اور فرمایا: آپ کو معلوم رہے کہ مجھے اللہ کے سوا کسی اور کی خواہش نہیں۔۶؎ ۱۶ مارچ ۱۹۴۱ء کو بنگائوں (مغربی بنگال) کی ایک ادبی کانفرنس میں صدارت کے فرائض انجام دیے۔ ۶ اپریل ۱۹۴۱ء کو نذرالاسلام نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ پیش کیا۔ کلکتہ کے مسلم انسٹی ٹیوٹ ہال میں ’’بنگلہ مسلم ساہتیہ سمیتی‘‘ (بنگال مسلم ادبی مجلس) کی سلور جوبلی کے جلسے میں انھوں نے فرمایا: میں ایک شاعر کی حیثیت سے نہیں بول رہا۔ آپ حضرات مجھ سے محبت رکھتے ہیں۔ اس محبت کے تقاضوں پر بول رہا ہوں۔اگر میری بانسری نہ بجی تو آپ مجھے معاف رکھیں۔ مجھے بھول جائیں۔ یقین کیجیے میں شاعر بننے نہیں آیا تھا۔ نمائندہ بننے نہیں آیا تھا۔ میں محبت کا رشتہ جوڑنے آیا تھا۔ محبت پانے آیا تھا۔ مجھے محبت نہیں ملی۔ اس لیے میں اس بے مہر اور روکھی پھیکی دنیا سے اپنا ناز لیے ہوئے چپ چاپ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا ہوں۔۷؎ ۹ جولائی ۱۹۴۲ء کو نذرالاسلام کلکتہ ریڈیواسٹیشن، بچوں کے ایک پروگرام میں حصہ لینے لگے کہ اچانک ان کے گلے کی آواز بند ہو گئی ۔ وہ ایک لاعلاج مرض کا شکار ہو گئے۔ علاج کی بہت کوشش کی گئی مگر لاحاصل۔ جوں جوں علاج کیا، مرض بڑھتا گیا۔ ان کی قوت گویائی سلب اور دماغ مائوف ہوگیا۔ وہ کلکتہ ہی میں رہ گئے، جہاں ۱۹۴۵ء میں انھیں کلکتہ یونی ورسٹی نے ان کی ادبی خدمات کے صلے میں ’’جگت تارانی‘‘ کے نام سے ایک طلائی تمغا اور ۱۹۶۰ء میں حکومت ہندوستان نے ’’پدم بھوشن‘‘ کا اعزاز بخشا۔ ۱۹۷۱ء میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو ۲۴ مئی کو انھیں حکومتِ بنگلہ دیش کے حکم کے تحت سرکاری عزت و احترام کے ساتھ ڈھاکا لایا گیا۔ یہاں وہ ہمیشہ ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہے۔ ۱۹۷۵ء میں انھیں ڈھاکا یونی ورسٹی نے ڈی۔ لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ ۱۹۷۲ء میں انھیں بنگلہ دیش کی شہریت سے نوازا گیا۔ اور اسی سال انھیں ’’ایکوشے پودوک‘‘ (۲۱ فروری بنگالی زبان کا یوم تحفظ) کا تمغہ دیا گیا۔ ۲۹ اگست ۱۹۷۶ء بروز اتوار اس آتشیں اور شعلہ پرور انسان کا شعلہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔ ان کی بانسری خاموش ہو گئی۔ شہاب ِثاقب آسمان کی پنہایوں میں گم ہو گیا۔ ان کی خواہش تھی کہ انھیں مسجد کے پہلو میں دفن کیاجائے۔ ان کی یہ تمنا پوری ہو گئی کیونکہ ان کی آخری آرام گاہ ڈھاکا یونی ورسٹی کی مرکزی مسجد کے پہلو میں ہے۔ جہاں سے پانچ وقت اذان سننے کی سعادت انھیں نصیب ہوتی ہے جس کی خواہش انھوں نے اپنے ایک گیت میں کی تھی: مسجد کے پاس دفن کرنا مجھے بھائی! تا کہ قبر سے مؤذن کی اذان سن سکوں میری مدفن کے پاس سے نمازیوں کا گزر ہو ان مقدس قدموں کی چاپ میرے کانو ںمیں آئے اس طرح قبر کے عذاب سے یہ عاصی رہائی پائے حواشی ۱۔ مترجمہ: لطیف الرحمن ۲۔ نذرالاسلام، ص ۴۹ ۳۔ مرتیوکھودھا، مترجم رفیع احمد فدائی، جوع الاجل، ۱۹۶۰ئ،ص ۱۰۲-۱۰۳ ۴۔ نذرالاسلام،ص۵۹ ۵۔ ایضاً،ص ۶۰ ۶۔ ایضاً،ص۶۲ ۷۔ ایضاً،ص ۶۳ اقبال اور نذر الاسلام کی شاعری: تنقیدی جائزہ انسان دوستی علامہ اقبال اور قاضی نذر الاسلام دونوں انسان دوستی، محبت اور اخوت کی تعلیم دیتے ہیں۔ خصوصاً اقبال کی شخصیت اور تعلیمات کا سب سے دلکش اور موثر پہلو ان کی انسان دوستی کا جذبہ ہے۔ ان کا دل عالم گیر محبت کا ایک اتھاہ سمندر ہے، جو ان کی نثر و نظم میں ہر جگہ موجزن ہے۔۱؎ وہ محبت کا پیغام ان الفاظ میں دیتے ہیں: خیز و قانون اخوت ساز دہ جامِ صہبائے محبت باز دہ باز در عالم بیار ایام صلح جنگجویاں را بدہ پیغام صلح ڈاکٹر عبدالحق بھی اقبال کے فلسفہ کی اساس انسان کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ وہ مرکزی محور ہے جس کے گرد ان کے تمام افکار گھومتے ہیں۔ اس منارئہ نور سے تمام شعاعیں پھوٹتی، پھیلتی اور جہاں تاب ہو تی ہیں۔۲؎ ان کے ہاں انسانیت کا تصور یوں جلوہ فرما ہے: آدمیت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی۳؎ خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۴؎ اقبال کے انسان دوستی کے جذبے کی تائید ان اشعار سے بھی آشکار ہوتی ہے: ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو اخوت کا بیان ہو جا، محبت کی زبان ہو جا یہ ہندی وہ خراسانی وہ افغانی و تورانی تو اے شرمندئہ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا۵؎ اقبال کے فلسفہ کی اساس ہی انسان ہے جس کے گرد ان کے تمام افکار گردش کرتے ہیں۔ ان کی مشہور نظمیں ’’تصویر درد‘‘، ’’شمع اور شاعر‘‘، ’’شکوہ‘‘،’’ جواب شکوہ‘‘ اور ’’درد عشق‘‘ ان کی انسانی ہمدردی کی عام مثالیں ہیں۔ وہ اپنی انسان دوستی کا یہ عین تقاضا سمجھتے ہیں کہ قوم و وطن کے تنگ دائرہ سے نکل کر نسل انسانی کو عالم گیر اخوت اور وسیع البنیاد برادری میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ نظم ’’شاعر‘‘ میں اقبال نے قوم کو ایک جسم اور افراد کو اعضائے جسم قرار دیا ہے جن کا کام ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہونا ہے: قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم۶؎ اقبال دنیا کے ہر حصے میں محبت و اخوت کے چراغ روشن کرنے کے آرزو مند ہیں۔ انھوں نے اخوت و محبت کا پیغام صرف مسلمانوں کو نہیں دیا بلکہ وہ ان قدروں کو پوری دنیاے انسانیت میں عام کرنا چاہتے تھے۔ وہ پورے مشرق کے ترجماں ہیں اور مغرب کی بے رحم مادیت کے عذاب سے اسے نجات دلانا چاہتے ہیں: حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز۷؎ اقبال نے اپنی شاعری میں انسان دوستی، خود اعتمادی اور خودی کا درس دیا اور ’’خضر راہ‘‘ جیسی نظم لکھ کر پسماندہ انسان میں اوپر ابھرنے کا جوش پیدا کیا۔ اپنی انسان دوستی کے بارے میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں: میں سراپا محبت ہوں۔ محبت روشنی کی طرح ہر شے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ میں محبت کی تجلی کے سوا کچھ نہیں۔ میں سب سے یکساں محبت کرتا ہوں۔ فرشتوں کی زبانی انھوں نے انسانی فضیلت کے گیت یوں گائے ہیں: سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن تیری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی گراں بہا ہے تیرا گریہ سحر گاہی اسی سے ہے تیرے نخل کہن کی شادابی۸؎ اقبال کی مانند نذر الاسلام کی شاعری میں بھی انسانی اقدار کی تلقین کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ انسانی محبت ہی نذر الاسلام کا مذہب تھا۔ اس ہمہ گیر احساس نے انھیں فرقہ وارانہ عصبیت سے نجات دلائی۔ ان کے خیال میں دنیا میں انسانیت ہی قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں مسلم، ہندو، یہودی، عیسائی سب مذہبوں کے ڈانڈے یکجا ہو جاتے ہیں۔ جہاں انسانی عظمت کو پامال ہوتے دیکھا، وہیں ان کی آوازبلند ہوئی: میں مساوات کے گیت گاتا ہوں جہاں آ کر تمام فرقے یکجا ہو جاتے ہیں جہاں ہندو، بدھ، مسلمان، عیسائی میں کوئی فرق نہیں میں مساوات کے گیت گاتا ہوں۹؎ نذر الاسلام اس دنیاے آب و گل میں انسانیت کو سب سے بڑا احترام دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: انسان سے بڑھ کر کچھ نہیں اس سے معزز تر کچھ نہیں مذہب و نسب کوئی تفرقہ پیدا نہیں کرتے ہر ملک، ہر عہد اور ہر گھر میں انسان بستے ہیں۱۰؎ وہ انسانی محبت کی ہمہ گیر قوت کے قائل ہیں۔ وہ ایک انسان کی فضیلت کو پوری انسانیت کی فضیلت اور ایک فرد کی ذلت کو تمام فرد و بشر کی ذلت خیال کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ایک انسان کے دل کی تکلیف سب کے سینوں میں مساوی طور پر درد پہنچاتی ہے ایک انسان کی بے حرمتی پوری نوعِ انسان کی بے حرمتی ہے۱۱؎ نذر الاسلام کے خیال میں تمام مذہبی کتابیں انسانی محبت اور بھائی چارے کا پیغام لے کر آئی ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ انسانیت سے محبت کرو۔ دل سے کینہ، حسد اور بغض دور کر کے جہاں کا درد پیدا کرو۔ دل انسانی محبت کا منبع ہے۔ وہ متبرک جگہ ہے جہاں اللہ بستا ہے۔ انسان کا دل مندر اور کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ محبت تمام پاک کتابوں اور عبادت خانوں سے بھی برتر ہے۔ کہتے ہیں: دل ہی مسجد ہے، مندر ہے، گرجا ہے اسی جگہ عیسیٰ و موسیٰ نے سچائی کو پہچانا اسی میدان جنگ میں بانسری بجانے والے نوجوان (کرشنا) نے مہان گیتا کے گیت گائے اسی میدان میں چرواہے نبیؐ خدا کے دوست بن گئے دلی دھیان کے غار میں بیٹھے بدھ نے انسانی دکھ کی چیخ پکار کو سن کر تخت و تاج ٹھکرا دیا اسی غار کی گہرائیوں میں عرب کے دُلارے نے اس کی پکار سنی اور قرآنی مساوات کے ترانے گائے بھائی ہم نے غلط نہیں سنا انھوں(نبیؐ) نے بھی فرمایا: دل سے بڑھ کر کوئی مندر یا کعبہ نہیں۱۲؎ بنگلہ ادب میں طبقاتی نظام کے خلاف سب سے پہلے نذر الاسلام نے بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ طبقاتی نظام انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ جس سے خون خرابے اور فساد پیدا ہوتے ہیں، اور بے انصافیوں اور ظلم و جور کا عروج ہوتا ہے۔ مذہبی اختلافات کو ہوا ملتی ہے۔ اگر ہم انسانیت کا ناطہ جوڑے رکھیں تو دنیا مانند بہشت ہے۔ ایسی دنیا کے بارے میں ان کا کہنا ہے: یہی وہ بہشت ہے جہاں کوئی افراط و تفریط نہیں جہاں مذہبی اختلافات نہیں، کوئی امتیاز نہیں جہاں پادری، پروہت، مُلّا اور مولوی ایک گلاس میں پانی پیتے ہیں جہاں مقام عبادت انسانی دل ہے جہاں انسانی دکھوں کو سنگھاسن پر بٹھایا جاتا ہے جہاں جس نام سے بھی پکارو خالق انسان کی پکار کا جواب دیتا ہے جس طرح بچہ جس نام سے بھی بلاتا ہے ماں اس کا جواب دیتی ہے۱۳؎ ڈاکٹر قاضی مظاہر حسین، نذرالاسلام کی انسان دوستی کے بارے میں لکھتے ہیں: نذر الاسلام نے کبھی طبقاتی نظام کو تسلیم نہیں کیا۔ انھوں نے ہمیشہ مساوات کے نغمے گائے۔ انسان کی امید و ناامیدی، دکھ سکھ، شباب و محبت، شجاعت و دلاوری ہی ان کے موضوعات رہے ہیں۔ اسی لیے تو انھیں ’’شاعر انسانیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے انسانیت کے ناطے غریب و فقیر، چور، ڈاکو ،قلی، مزدور، طوائف، غرض معاشرے کے ہر ادنا طبقے سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ جنھیں ہم عموماً قابل اعتنا نہیں سمجھتے، انھوں نے اپنی شاعری میں انھیں عزت بخشی۔ آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کی بنسبت نذر الاسلام کے ہاں انسانیت کا تصور زیادہ ہمہ گیر، مضبوط اور آفاقی ہے۔ اشتراکیت اقبال اور نذر الاسلام دونوں کو اقتصادی اور معاشی اونچ نیچ پسند نہ تھی۔ دونوں اس سے سخت بیزار تھے۔ مساوات قائم کرنے کے لیے اقبال نے جس طرح سرمایہ داری کے خلاف آواز اٹھائی، نذر الاسلام نے بھی اس کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ اقبال مزدور کے حامی ہیں۔ انھوں نے اپنے کلام میں زور شور سے سرمایہ داری کی مخالفت کی ہے۔’’خضر راہ‘‘ سے اقبال کی شاعری کا انقلابی دور شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد سے ان کی شاعری کا ایک بڑا اہم موضوع طبقاتی کش مکش اور سرمایہ و محنت ہے۔ اقبال سرمایہ داری کو انسانیت کے لیے ایک لعنت سمجھتے ہیں۔ اقبال نے ’’لینن خدا کے حضور میں ‘‘میں سرمایہ داری کی یوں مخالفت کی ہے: تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ داری کا سفینہ دنیا ہے تیری منتظر روزِ مکافات۱۴؎ ’’فرشتوں کا گیت‘‘ میں اقبال نے سرمایہ داری کے خلاف شدید جذبات کا اظہار کیا ہے: تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی۱۵؎ فرشتے جو گیت گاتے ہیں اس کا ایک شعر ہے: جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو۱۶؎ پیامِ مشرقمیں تین نظمیں انھی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ’’قسمت نامہ‘‘، ’’سرمایہ دار و مزدور‘‘، ’’نوائے مزدور‘‘ اور ’’الملک للہ ‘‘ اور جاوید نامہ میں ’’جمال الدین افغانی‘‘ بھی انھی خیالات سے متعلق ہیں۔ اقبال کارل مارکس ، اس کی معاشی تاویلات اور اس کی تعلیمات کی بعض خصوصیات کے بہت قائل تھے۔ اگرچہ کارل مارکس روحانی وجدان سے بے بہرہ تھا اس لیے اسے ’’قلب اُو مومن، دماغش کافراست‘‘ کے الفاظ سے نوازا۔ اقبال لینن کے بھی معترف تھے، جس نے سرمایہ داری کی سخت مخالفت کی۔ ۱۷؎ اقبال سرمایہ داری کو ناپسند تو کرتے ہیں مگر وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سرمایہ دارانہ نطام کو مناسب و معتدل حدود میں رکھنے کے حامی ہیں۔ فرماتے ہیں: میرا عقیدہ ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن کریم نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے۔ قرآن کریمنے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے میراث، حرمتِ ربا اور زکوٰۃ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔۱۸؎ اقبال مزدور یا دہقان سے ہمدردی رکھتے ہیں تو اس لیے کہ یہی حکم اسلام نے دیا ہے۔ ان کو اسی میں پیغامِ حیات کی عملی روح جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔۱۹؎ فرماتے ہیں: دہقان ہے کس قبر کا اگلا ہوا مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمین ہے جان بھی گرہ غیر ہے تن بھی گرہ غیر افسوس کہ باقی نہ مکان ہے نہ مکین ہے۲۰؎ اقبال چاہتے تھے کہ مساوات پر مبنی ایک منصفانہ اور عادلانہ معاشرتی اور معاشی نظام قائم کیا جائے۔ وہ روسی نطام کے اس نصب العین کو تو پسند کرتے تھے تا کہ معاشرتی اور معاشی اونچ نیچ ختم ہو جائے لیکن ان کے نزدیک روسی اشتراکیت میں ایک بنیادی کمزوری ہے۔ کیونکہ فطرت نے انسانوں کو اصولِ مساوات پر پیدا نہیں کیا اور عدم مساوات جب فطرت کا اپنا اصول ہے تو معاشی اعتبار سے انسانوں کو اندھا دھند ایک سطح پر لانا ممکن نہیں۔ لہٰذا ایسی اشتراکیت اصول فطرت کے خلاف ہے۔ وہ اسی لیے طریق کار میں اسلامی نظام کے داعی تھے۔۲۱؎ قرآن سرمایہ دار کے لیے پیغامِ موت ہے۔ قرآن نے ہمیشہ اغنیا کی مذمت کی ہے۔ سود کو حرام قرار دیا ہے۔ زمین سے صرف پیداوارِ دولت کی اجازت دی ہے مگر زمین یا کسی اور سرمایے کی قطعی ملکیت کی اجازت نہیں دی۔ اور مسلمان کو حکم دیا ہے کہ اپنی بنیادی ضروریات سے زیادہ کچھ پاس نہ رکھیں۔ اجتماعی مفاد کے لیے وہ سب کچھ دے دے:۲۲؎ رزق خود را از زمین بردن رواست ایں متاع بندہ و ملک خدا است۲۳؎ با مسلمان گفت جان بر کف بنہ ہرچہ از حاجت فزون داری بدہ۲۴؎ اقبال جاگیرداری کے نظام کو غلط قرار دیتے تھے اور زمین کی نجی ملکیت کا تصور نہیں مانتے تھے، اس بنا پر کہ یہ اسلام کی روح کے منافی ہے۔ ’’الارض للہ‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے وہ اس کی شاہد ہے۔۲۵؎ جس کا آخری شعر ہے : دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں! تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں! اقبال کی مانند نذر الاسلام نے بھی سرمایہ داری کے خلاف اعلان جنگ کیا ۔ وہ اپنی عمر کے ابتدائی دور سے ہی اشتراکیت کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ کراچی کے فوجی کیمپ میں شاید انھوں نے روس کے اشتراکی انقلاب کے بارے میں سنا ہوگا، جس کا اظہار ان کے کراچی کیمپ کے ایک ہم کار جمعدار سمجھو رائے کے خط سے ہوتا ہے۔ جمعدار سمجھو کاکہنا ہے کہ ایک شام نذرل نے اپنے چند قریبی دوستوں کو چائے پر دعوت دی۔ جس میں انھوں نے اپنے چند گیت گائے اور ایک مقالہ پڑھا جس میں واضح طور پر روسی اشتراکیت کی حمایت تھی۔ ۱۹۱۹ء میں انھوں نے اپنی پہلی کہانی ’’بیتھار دان‘‘ میں روسی انقلاب کا ذکر کیا ہے اور ان کی بعد کی نظموں اور گیتوں میں بھی اشتراکی رجحانات کی گہری چھاپ ملتی ہے۔ بنگلہ ادب میں نذر الاسلام پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اشتراکی نظریات کا اظہار کیا۔ ۱۹۲۱ء میں کراچی سے واپسی کے بعد نذر الاسلام اکثر کلکتہ کے صنعتی علاقوں کا دورہ کرتے تھے اور مزدوروں اور کارکنوں کی خستہ حالت پر دکھ کر اظہار کرتے اور گیت لکھتے تھے۔ اس طرح مزدوروں کی حمایت میں انھوں نے کافی مقبولیت حاصل کر لی ۔ کلکتہ کے کمیونسٹ لیڈرمظفر احمد کے تعلقات نے بھی نذرالاسلام کے اشتراکی خیالات کو کافی ہوا دی۔ مظفر احمد ایک اونچے درجے کے کمیونسٹ لیڈر تھے۔ گو نذرالاسلام نے کبھی کارل مارکس کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ مگر ان کے دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ اس ’’ازم‘‘ سے متعلق خیالات مچلتے رہتے تھے۔ وہ ہمیشہ غریبوں کی زبوں حالی پر آہیں بھرتے اور ان کی مالی پریشانیوں پر کڑھتے رہتے تھے۔مظفر احمد لکھتے ہیں: مجھے یقین ہے کہ نذرل سے پہلے بنگلہ ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں کسی ادیب و شاعر نے انقلاب ِ روس کا ذکر اپنی تحریر میں نہیں کیاہے۔ نذرالاسلام نے جب آنکھیں کھولیں تو اپنے اردگرد افلاس کی بھیانک تصویریں دیکھیں۔ بنگال کے جغرافیائی حالات بھی یہاں کے لوگوں کی غربت و افلاس کا باعث ہوتے ہیں۔ کبھی سیلاب کی تباہ کاریاں انسانوں کا سرمایۂ حیات بہا کر لے جاتی ہیں۔ کبھی پانی کا نہ ہونا کسانوں کی حالت سدھرنے کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ کبھی دولت کی غلط تقسیم یہاں کی مخلوق کو ایک وقت کا پیٹ بھر کھانا نہیں دیتی۔ پس نذرالاسلام نے معاشرے میں بورژوا طبقے کی چیرہ دستیاں دیکھیں۔ گائوں میں کاشتکاروں اور مزدوروں پر زمین داروں اور ساہوکاروں کے مظالم دیکھے۔ جہاں بھی گئے ان کی آنکھوں نے ایک ہی منظر دیکھا: افلاس اور غربت۔ بنگال کی ۹۰ فیصد آبادی بھوک کے جبڑوں میں تڑپ رہی تھی۔ کسان کھیتوں میں غلہ اگائیں اور وہی تنگ دست رہیں۔ مزدور صبح سے شام تک کدال اور ہتھوڑے لے کر پتھر توڑیں مگر ان کی بھوک نہ مٹے۔ غریبوں کے نونہال تعلیم حاصل کرنا چاہیں اور غربت ان کی ضرورت کو پامال کر دے۔ ان دل دوز مناظر نے نذرالاسلام کے بیدار ذہن اور حساس طبیعت میں آگ لگا دی۔ وہ معاشرے میں ان بے انصافیوں اور مظالم کا فوراً سد باب چاہتے تھے۔ فرماتے ہیں: عوام کا خون جونک کی طرح چوس لیتے ہیں، وہی مہاجن کہلاتے ہیں جو اپنی زمین کو اپنی اولاد کے برابر خیال کرتے ہیں انھیں زمین دارنہیں کہا جاتا زمین پر جن کے قدم نہیں پڑتے وہی زمین کے مالک بنتے ہیں جو جس قدر مکار اور دغاباز ہے، اسی قدر طاقت ور ہے نت نئی چھریاں بنا کر یہ قصاب، علم و ہنر کا دم بھرتے ہیں۲۶؎ نذرالاسلام نے سماج کی ان چیرہ دستیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور ان بے انصافیوں اور درجہ بندیوں کا سد باب چاہا۔ وہ زندگی کو ان آلودگیوں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں انسان فطرت کی طرف سے پاک دامن پیدا ہوتا ہے مگر زندگی کے مصائب و آلام اور پیٹ کا ایندھن اسے ڈاکو، چور، راہزن بنا دیتا ہے۔ اس لیے وہ جرائم پیشہ طبقے سے نفرت کی بجائے ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں دولت مند، اونچی اونچی عمارتوں کے مالک ہی اصل میں چور، لٹیرے اور ڈاکو ہیں جنھوں نے ناجائز کالے دھن کا ڈھیر لگا کر کروڑوں کا بینک بیلنس بنا لیا ہے اور زندگی کے عیش و آرام کو اپنا حق بنا لیا ہے۔ فرماتے ہیں: کروڑوں انسانوں کی زندگی کا خون چوس کر مل مالکوں نے لاتعداد دولت اپنے خفیہ غاروں میں چھپا رکھی ہے ساہوکاروں نے مجبوروں سے روپیہ لوٹ لیا ہے زمین دار کمزوروں کے گھروں کو روند کر خوشی کا ڈنکا بجاتے ہیں لالچی سوداگروں نے دولت کے ذلیل گھر بنا لیے ہیں جہاں ساقی کا نائو و نوش اور شیطانی اور مکاری کا رقص چلتا ہے تو کون تمہیں ڈاکو کہتا ہے بھائی؟ کون کہتا ہے چور؟۲۷؎ نذرالاسلام کو پورا احساس تھا کہ ملک کی صنعتی اور اقتصادی ترقی مزدوروں اور غریبوں کی عرق ریزی کے بغیر ناممکن ہے۔ اس حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیں: سڑکوں پر گاڑیاں چل رہی ہیں، سمندروں میں جہاز تیر رہے ہیں تیز رفتار دھواں دار انجن ریل کی پٹڑیوں پر دوڑ رہے ہیں ملک کُل کارخانوں سے بھر گیا ہے بولو یہ کس کے احسانات ہیں؟ یہ عمارتیں کس کے خون سے رنگین ہیں؟ پردہ ہٹا کر دیکھو، ہر اینٹ پر لکھا ہے تم خود نہ جانتے ہو، لیکن راستے کا ہر ذرہ جانتا ہے ان راستوں، جہازوں، ریل گاڑیوں اور عمارتوں کا راز۲۸؎ نذرالاسلام غربا کو امیر طبقے کے خلاف یوں اکساتے ہیں: تم سہ منزلہ عمارتوں میں براجمان ہو اور ہم خاک نشیں رہیں گے پھر بھی ہم تمھیں دیوتا پکاریں، یہ توقع کرنا لاحاصل ہے۲۹؎ ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں: کسانو! آج جاگو، سب کچھ تو چھن گیا،پھر کس چیز کا خوف؟ بھوک کی طاقت سے ہم دنیا کی خوشیوں کو فتح کریں گے آج ڈاکو راجا کا سر جھکا دیں گے او بے مہذب دنیا! کسان اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۳۰؎ اقبال کی مانند نذرالاسلام نے بھی مزدوروں کی آنکھیں کھول دیں اور انھیں مستقبل کی بشارت دی کہ وہ دن جلد ہی آنے والا ہے جب ان کے دکھ درد مٹ جائیں گے۔ فرماتے ہیں: جن کے تن من مٹی کی محبت آمیز تری سے نم ہیں انھی کے قبضے میں اس کشتیِ جہاں کا پتوار ہوگا وہ مزدور طبقے کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں: وہی انسان ہیں، وہی دیوتا ہیں، میں ان کے گیت گاتا ہوں جن کے مجروح تن پر پائوں رکھ کے نیا زمانہ تعمیر ہوتا ہے۳۱؎ پس نذرالاسلام کو چونکہ اسلامی تصورات پسندتھے اس لیے انھوں نے اقتصادی مساوات کی علم برداری کی۔ اقبال کی مانند نذرالاسلام کو بھی معاشی اونچ نیچ پسند نہ تھی۔ دونوں اس سے بیزار تھے۔ دونوں نے مساوات قائم رکھنے کی خاطر سرمایہ داری کے خلاف آواز بلند کی۔ مگر اقبال کی بنسبت نذرالاسلام کے ہاں غریبوں کی حمایت کی لَے زیادہ تیز ہے کیونکہ انھوں نے افلاس کی گود میں پرورش پائی۔ مفلسی کے ساتھ ان کا ساتھ ساری زندگی رہا ۔ اس لیے افلاس کا درد ان کا اپنا درد تھا۔ جب کہ اقبال کا تعلق اونچے متوسط گھرانے سے تھا اس لیے غربت کا سایہ ان سے قدرے دور ہی رہا۔ حب الوطنی اقبال نے اردو شاعری میں پہلی مرتبہ جغرافیائی وطن پرستی اور وطن کی جغرافیائی محبت کے جذبے کونمایاں کیا۔۳۲؎ بچوں کے لیے جو نظمیں لکھیں ان میں بھی جغرافیائی وطنیت کا جذبہ بڑے والہانہ انداز سے کارفرما ہے۔۳۳؎ ’’ہندوستانی بچوں کاگیت‘‘ ابتدائی مدرسوںمیں بچوں کو یاد کرایا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک بند ملاحظہ فرمایئے: چشتی نے جس زمین میں پیغامِ حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے۳۴؎ ’’ترانہ ہندی‘‘ کے چند اشعار یوں ہیں: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا پربت وہ سب سے اونچا سایہ آسماں کا وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباںہمارا۳۵؎ ’’نیا شو الہ‘‘ میں خاکِ وطن کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں: پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے۳۶؎ ’’ـشعاعِ امید‘‘ میں اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: چشم مہ و پروین ہے اسی خاک سے روشن یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ دُرِ ناب اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواصِ معانی جن کے لیے ہر بحرِ پُر آشوب ہے پایاب۳۷؎ اپنے ہندوستانی ہونے پریوں فخر کرتے ہیں: میں نے اے اقبالـ یورپ میں اسے ڈھونڈا بہت بات جو ہندوستان کے ماہ سیمائوں میں تھی۳۸؎ مگر رفتہ رفتہ اقبال کو احساس ہوا کہ ہندوئوں اورمسلمانوں میں سامراجی حکمت عملی کی وجہ سے ہندوستانی وطنیت کے تصور کی کشتی ٹوٹے گی۔۳۹؎ ’’صدائے درد‘‘ میں یہی خوف نظم کا موضوع ہے: لذتِ قربِ حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں اختلافِ موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں ۱۹۰۵ء میں اقبال یورپ پہنچے تو وہاں انھوں نے وطنیت کے مغربی تصور کا کھوکھلا پن اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جہاں یورپ کی عیسائی سلطنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ہیں۔ ان میں نسلی لسانی اور وطنی اختلافات کا ایک غیر محدود سلسلہ قائم ہو گیا ہے۔ تب اقبال نے نظریۂ وطنیت کی مخالفت کو اپنا مشن قرار دیا اور فرمایا: زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں وطن کامفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا ، اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے۔ چونکہ اسلام بھی ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے لفظ ’وطن ‘ کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہو جاتا ہے۔۴۰؎ مسلمانوں کی قومی ہستی کے بارے میں فرمایا: قومیت کااسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراکِ زبان ہے نہ اشتراکِ وطن، نہ اشتراکِ اغراضِ اقتصادی۔ بلکہ ہم لوگ اس برادری میں شامل ہیں جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم فرمائی تھی۔ اس میں ہم اس لیے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے۔۴۱؎ گر نسب را جزو ملت کردئہ رخنہ در کار اخوت کردئہ۴۲؎ عشق در جان و نسب در پیکرست رشتۂ عشق از نسب محکم تر است۴۳؎ پس اقبال نے وطنیت کے تصور کو ترک کیا اور برعظیم کے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل پر غور و خوض سے کام لیا اور ہندو، مسلمان دو قومی حقیقت کو ایک باقاعدہ نظریاتی رنگ دیا اور مسلمانوں کی فکری رہنمائی کا فریضہ ادا کیا۔۴۴؎ لیکن اقبال کو ایک مسلم فرقہ پرست کہنا ٹھیک نہیں۔ جواہر لال نہرو کے نام ایک خط میں انھوں نے ہندوستان کے لیے اپنی محبت اور قوم پرستی کا یقین دلایا۔ قومیت کے بارے میں انھوں نے لکھا: اپنے وطن کی محبت اور اس کی عزت کے لیے مر جانا بھی مسلم عقیدے کا ایک جزو ہے۔ یہ جذبہ اس وقت اسلام کے خلاف ہوجاتا ہے جب وہ ایک سیاسی نظریے کا کردار ادا کرنے لگتا ہے اور اتحاد انسانی کا اصول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسلام کو محض ایک ذاتی نظریے کا پس منظر بن جانا چاہیے اور اسے قومی زندگی کا ایک زندہ عنصر نہیں ہونا چاہیے۔۴۵؎ وطن سے محبت ایمان کی نشانی ہے۔ اسی کے مصداق نذرالاسلام کو بھی اپنے وطن کی جغرافیائی حدود سے بے حد انس تھا۔ اپنے وطن کی مٹی سے محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں: میرے دیس کی مٹی او بھائی! خالص سونے سے بھی زیادہ خالص اس دیس کی مٹی، پانی اس دیس کے پھل پھول ہماری پیاس و بھوک دور ہو جاتی ہے اس کے دودھ کا پیالہ پی کر بنگال جو برصغیر کے مشرق میں واقع ہے، اس کی ستائش میں یوں رطب اللسان ہیں: پدما، میگھنا، جمنا یہ تینوں ملک کے مشرقی افق کو دھوتے ہیں یہاں کے اندھیرے میں ہمیشہ نوجوان سورج کی بینا بجتی ہے برہمنوں کی قدیم باتیں انسان کے خوابیدہ دل کو بیدارکرتی ہیں یہاں نیا پرچم لہراتا نظر آتا ہے اس دھرتی کا جان بخش کلام روح افزا ہوتا ہے بھارت جہاں قسم قسم کے لوگ آباد ہیں۔ اس بارے میں ان کا فرمانا ہے: دریا دل بھارت! سب انسانوں کو تم نے اپنی آغوش میں جگہ دی ہے پارسی، جین، بدھ، ہندو عیسائی، سکھ، مسلمان تم ایک بے کراں سمندر ہو، تمہارے ہاں آ کر سب مذہب، ذات پات گھل مل جاتے ہیں قربانی کی تکلیفوں کو سہتے ہوئے کتنی سرزمین کے لوگوں کو رشتۂ دوستی میں منسلک کر لیا ہے خو د کو بے نوا بنا کر دنیا کے تمام انسانوں کی پناہ گاہ بن گئے ہو نذرالاسلام کو اپنے وطن سے بے پناہ محبت تھی۔ انھوں نے قوم کے ہر طبقے کواپنے ساتھ لیا۔ کسان ہویا مزدور، مرد ہو یا عورت، ان میں فرقہ وارانہ عصبیت کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ قومی شعور کی بلندی کے لیے انھوںنے ہندو مسلم اتحاد کی تاکید کی: آج ہم دیکھ لیں گے کہ خود کو آزاد کرنے کا تجھ میں حوصلہ ہے کہ نہیں کون کم بخت کہتا ہے کہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان؟ اے نا خدا! کہہ دے انسان ڈوب رہا ہے اپنی ماں کی اولاد ڈوب رہی ہے۴۶؎ اس سلسلے میں ماہر نذرُلیات خان محمد معین الدین لکھتے ہیں: میرے خیال میں اس زمانے میں نذرالاسلام ہی ایسے واحد شاعر ہیں جو قومی مفاد کے لیے ہندو مسلمان اتحاد کے خواہاں ہیں۔ جو اُن کی شاعری، ان کے گیت اور سماجی میل جول اور تعلقات سے صاف روشن ہے۔ مگر نذرالاسلام کی یہ امید بر نہ آئی۔ آہستہ آہستہ یہ حقیقت ان پر واضح ہونے لگی کہ دو قوموں کے اندازِ فکر جداگانہ ہیں۔ دونوں کے راستے الگ الگ ہیں۔ دو دھارے کبھی ایک مرکز پر مجتمع نہیں ہو سکتے۔ ۵ اپریل مسلم انسٹی ٹیوٹ ہال (کلکتہ) میں قوم کی طرف سے شاعر کو جو استقبالیہ دیا گیا، اس موقع پر انھوں نے فرمایا: ہندو مسلم دن رات فتنہ و فساد، فرقہ وارانہ بغض و حسد اور جنگ و جدل میں مبتلا ہیں۔ میں اس عدم مساوات اور امتیازات کو مٹانے کے لیے آیا تھا۔ میں نے اپنی شاعری، سنگیت اورعمل سے مساوات کی خوبیوں کا بول بالا کیا۔ آپ اس پر گواہ ہیں اور میرا حسن ازل (خدا) بھی اس پر گواہ ہے۔ ۴۷؎ ایک اور جگہ ان کا ارشاد ہے: میں نے ہندو مسلم کو ایک جگہ لا کر مصافحہ کرانے کی کوشش کی۔ گالی گلوچ کو معانقہ میں بدلنے کی کوشش کی۔ اگر وہ ہاتھ ملانے کی کوشش ہاتھا پائی سے زیادہ ناسزاوار ہوئی ہو تو وہ آپ سے آپ الگ ہو جائیں گے۔ میری مستحکم بندش چھڑانے میں انھیں کوئی زحمت نہ ہوگی۔ کیونکہ ان کے ایک ہاتھ میں ہے لاٹھی اور دوسرے کے آستین میں ہے چھری۔۴۸؎ قومی بیداری اقبال نے مسلمانوں کی قومی بیداری میں جو حصہ لیا اسے کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ان کے نزدیک دنیا بھر میں دو قومیں ہیں: ایک ’’اسلامی قوم‘‘ اور دوسری ’’غیر اسلامی قوم‘‘۔ وہ اسلامی قوموں کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ بیسویں صدی میں اور اس کے قبل کا زمانہ مسلم قوموں کے زوال اور زبوں حالی کا عرصہ ہے۔ مسلمان کاہلی، سستی، نفاق، تقدیر پرستی ، تعصب اور رنگ و نسل کی گروہ پرستی جیسے امراض میں شدید طور پر مبتلا ہو چکے ہیں۔ انھوں نے اسلام کے سنہری اصولوں کو فراموش کر دیا ہے اور مغرب کی کورانہ تقلید کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ ان کے نزدیک مسلم قوم اس وقت تک بیدار نہیں ہو سکتی جب تک وہ قرآن حکیمکی حیات آفرین تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتی۔ وہ توحید پر یقین کو مسلمانوں کے لیے نسخہ کیمیا سمجھتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبضِ ہستی تیش آمادہ اسی نام سے ہے۴۹؎ توحید کے ساتھ اقبال حضور ختم المرسلینؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کو مسلم قوم کے لیے مشعل راہ سمجھتے تھے تا کہ مسلمان اس دنیا میں سرخروئی اور عزت کی زندگی بسر کر سکیں ۔ فرماتے ہیں: دین فطرت از نبیؐ آموختیم در رہِ حق مشعلے افروختیم رونق از ما محفل ایام را او رُسل را ختم و ما اقوام را لا نبی بعدی ز احسانِ خدا است پردئہ ناموس دین مصطفی است۵۰؎ اقبال نے اس حقیقت پر بھی زور دیا کہ اسلامی اتحاد ہی ہماری قومی بقا اور استحکام کا ضامن ہے۔ یہ اقتضاے وقت بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کا ماحصل بھی۔ یہ قوم کے تمام مسائل کا حل بھی ہے اور دشمن کے لیے تباہی کا پیغام بھی ہے۔ اتحاد ہی ہماری تقدیر بدل سکتا ہے۔ محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے۵۱؎ پس اقبال قومی وقار و تحفظ کے لیے قرآنی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشعل راہ بنائے رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہماری قوم ایک شاندار مستقبل رکھتی ہے اور جو مشن اسلام کا اور مسلم قوم کا ہے، وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ شرک و باطل پرستی دنیا سے ضرور مٹ کر رہے گی اور اسلامی روح آخر غالب آئے گی۔۵۲؎ نذرالاسلام اتنے بلند فلسفیانہ خیالات نہیں رکھتے تھے۔ قومی بیداری سے نذرالاسلام کی مراد صرف انگریزوں کے خلاف اہل ہند کی بیداری تھی۔ انھوں نے اپنے آتش فشاں نغموں سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنا چاہا اور ان میں خود داری اور احساسِ نفس پیدا کرنا چاہا۔ وہ دشمن سے کسی طرح بھی مصالحت کرنے کو راضی نہ تھے۔ ۱۹۲۰ء میں جب کراچی کیمپ سے کلکتہ واپس آئے تو یہاں تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات زوروں پر تھی۔ انگریزوں کے خلاف جو آگ ان کے دل میں چھپی ہوئی تھی وہ نظم ’’بدروہی‘‘ (باغی) بن کر ظہور پذیر ہوئی۔ جس نے انھیں بدروہی کوی (باغی شاعر) کا لقب دلایا۔ اس کے بعد نظم ’’آگمنی‘‘ (آمد) نے جو ایسے ہی خیالات پر مبنی تھی بنگال کے ادبی حلقوں میں ہل چل مچا دی۔ ان نظموں نے بنگال کے لوگوں کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان میں اپنے قومی وقار کے تحفظ کا احساس دلایا۔ نظم ’’بدروہی‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے: کہہ دے اے بہادر! میں ہمیشہ سر بلند ہوں میں کبھی دبنے والا نہیں غیر متواضع اور سنگدل ہوں میں ہیبت ناک تباہی کا ناچتا ہوا شِو۵۳؎ ہوں میں سب کچھ توڑ کر چکنا چُور کر دیتا ہوں میں بے ضابطہ اور بے نظام ہوں میں تمام بندشوں اور آئینِ قانون کی پابندی کو روند ڈالتا ہوں۵۴؎ نذر الاسلام نوجوانوں کو عمل کا درس دیتے ہیں۔ ان کے قلب کو گرماتے اور روح کو تڑپاتے ہیں۔ ان کے جوش اور ولولے کی تصویر کشی ان الفاظ میں کرتے ہیں: نوجوان میدان جنگ میں برسرپیکار ہونا چاہتے ہیں آزادی کی طلب گار فوج منتظر ِحکم ہے انھیں کسی لیڈر کی نہیں رہبرکی ضرورت ہے جو آزادی کے خونی میدانِ کارزار میں انھیں مصروف عمل رکھ سکے۵۵؎ ان کی انقلابی نظموں کا پہلا مجموعہ اگنی بینا (طبع اول: ۱۹۲۲ئ، طبع دوم: ۱۹۲۳ئ) گویا آگ کا شعلہ ہے۔ وہ اپنی قوم کو یوں دیوانہ وار پکارتے ہیں: تم سب انقلاب کے نعرے بلند کرو تم سب انقلاب کے نعرے بلند کرو دیکھ وہ نیا پرچم سبھا کھ کی طوفانی ہوائوں میں لہرا رہا ہے دیکھ کہ مستقبل کی تباہی، نشتر میں جھومتی، ناچتی چلی آ رہی ہے دیکھ اس نے سمندر پار کے پھاٹک کو ایک ہی دھمک سے پاش پاش کر دیا ہے دیکھ بربادی، ہاتھوں میں بجلیوں کی مشعلیں لے کر اور قہقہے بکھیرتی چلی آ رہی ہے تم سب انقلاب کے نعرے بلند کرو ایک اور نظم میں قوم کے نوجوانوں کو یوں دعوتِ عمل دیتے ہیں: اے پیش تاز نوجواں! تیزی سے آگے قدم بڑھائے چل اے مشرق کے زبردست نوجوان بہادرو اے انسانیت کے سربلند علم بردارو میں اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں کہ تم اپنے مضبوط قدموں سے ضرور آگے بڑھو گے پہاڑ اور دریا پھاند کر، دشت اور صحرا طے کر کے، بجلی کی سرعت کے ساتھ اپنے پیش تاز سپاہی! تیزی سے قدم بڑھائے چل اقبال کے برعکس نذرالاسلام ہندو مسلمان دونوں قوموں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندو مسلم تفرقے سے انگریز ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کرتا ہے۔ اس لیے انھوں نے دونوں قوموں سے اپیل کی کہ آزادی کے حصول کی خاطر آپس میں بھائی چارے اور اخوت کا دامن تھامے رکھیں۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں: بھارت آج دوسروں کا غلام ہے۔ آج بھی اس نے آزادی کی راہ میں قدم نہیں اٹھایا۔ صرف تیاریاں ہو رہی ہیں مگر راہ میں بہت مشکلات حائل ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور آپس کی دشمنی ہے۔۵۶؎ ایک شعر میں ان خیالات کو یوں الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں: اے نوجوانو! جاگو! مذہب اور ذات سے بالا تر ہے قومی مفاد تمہارے آپسی اتحاد سے اختلافات دور ہو جائیں گے۵۷؎ اس طرح نذرالاسلام نے اپنے شاعری، نثر، صحافت ہر ذریعے سے قومی بیداری میں بڑا کردار ادا کیا۔ ہندوستانی قوم کو خواب ِ غفلت سے جگانے میں نمایاں حصہ لیا۔ انھوں نے میٹھے ترانے گا کر نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ سے قوم کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔ ان کی شاعری میں خود ارادیت، خود اعتمادی، بھرپور ہمت، جواں مردی اور بہادری کا ولولہ ہے۔ ۵۸؎ آزادی برصغیر میں مسلمانوں کا اقتدار ۱۸۵۷ء میں ختم ہوگیا اور فرنگی طاقت ہندوستان کی تاجور بن گئی۔ اپنی نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ میں غلاموں کی بے بسی کا نقشہ یوں کھینچا ہے: جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے۵۹؎ اقبال سامراجیت سے شدید نفرت کرتے تھے۔ کیونکہ یہ نظام نفرت، تشکیک اور غلامی کی نفسانی طاقتوں کو ہوا دیتا ہے۔ غلامی انسان کی روح کو کمزور کر دیتی ہے اور روحانی توانائی کے منبع کو کمزور کر دیتی ہے۔ ان کی شاعری چاہے اس میں مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہو یا غیر مسلموں کو، غلامی کی زنجیریں توڑ دینے کی جذباتی اپیلوں پر مشتمل ہے۔۶۰؎ آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال کس درجہ گراں سر ہیں محکوم کے اوقات آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا ہے بندہ آزاد خود اک زندہ کرامات۶۱؎ غلامی میں انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتاہے۔ وہ سمجھتے ہیں: تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۶۲؎ فرنگی استبداد نے اس چمن کی بہار کو خزاں میں بدل ڈالا۔ اس لیے وہ ہندوستانیوں کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے افسوس کااظہار یوں کرتے ہیں: خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام۶۳؎ اسی لیے انھوں نے اس ابلیسی نظام کے خلاف مسلمانوں کو متحدہ طور پر جدوجہد کرنے پر زور دیا: اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام۶۴؎ وہ محبان آزادی سے کہتے ہیں کہ جدوجہد کرو، ان کے لیے سکون حرام ہے: میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو نہیں ہے بندئہ حُر کے لیے جہاں میں فراغ۶۵؎ اقبال، مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا اور اس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ وہ ہندوستان کو دار الکفر سمجھتے تھے اور اسے دارالسلام میںتبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اس حقیقت کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا: مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا اور اس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہمارا فرض ہے اور اس آزادی سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم آزاد ہوجائیں۔ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اسلام فاتح رہے اور مسلمان طاقت ور بن جائے۔ اس لیے مسلمان کسی ایسی حکومت کے قیام میں مددگار نہیں ہو سکتاجن کی بنیادیں انہی اصولوں پر ہوں جن پر انگریزی حکومت قائم ہے۔ ایک باطل کومٹا کر دوسرے باطل کو قائم کرنا چہ معنی دارد؟ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدترین بن جائے تو مسلمان ایسی آزادی ِوطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتاہے۔ ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا،بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام ہے اور قطعی حرام ہے۔۶۶؎ پس اقبال چاہتے ہیں کہ مسلمان غلامی کا طوق اتار کر آزادی کی ایسی ہوا میں سانس لے سکیں جہاں اسلامی اقدار کی پاسداری کر سکیں۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں ابلیس کے مشیروں و کارکنوں نے فلسطین، عراق اور دوسری مسلم دنیا میں بربریت اور ہٹلریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان طاغوتی طاقتوں کا سامنا کرنے کے لیے مسلمانوں میں کوئی اتحاد نہیں ۔ سب باہمی نفاق اور جنگ و جدل میں مشغول ہیں: بجھ کے بزمِ ملتِ بیضا پریشان کرگئی اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی اقبال کو مسلمانوں کی زبوں حالی پر، خواہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں، سخت افسوس اور دکھ ہوتا ہے۔ اگر ہم اقبال کے افکار کی قدر کریں اور ان کی دائمی صداقتوں پر عمل کریں تو ابلیسی نظام کے کارپرداز مسلمانوں کو کبھی غلامی اور ظلم کے چنگل میں گرفتار نہیں کرسکیں گے۔ اقبال کا پیغام ہر مسلمان کے لیے دعوت فکر ہے: یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی بتان رنگ و خوں کو توڑ کرملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی۶۷؎ نذرالاسلام نے جب آنکھ کھولی تو بدیسی سامراج کو اپنے وطن پر مسلط دیکھا۔ اس انگریز نوکرشاہی سے نفرت ان کے رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی کہ اسی اثنا میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ نذرالاسلام کو اپنے دشمن سے بدلہ لینا کا نادر موقع مل گیا۔ ۱۹۱۷ء میں ۴۹ نمبر بنگال رجمنٹ میں بھرتی ہو کر نوشہرہ اور کراچی چلے گئے اور دو سال (۱۹۱۷ئ-۱۹۱۹ئ) فوجی کیمپ میں رہے اور فوجی تربیت حاصل کی۔ یہاں انھوں نے برطانوی افسران کے مظالم اور ہندوستانی سپاہیوں کی بے بسی دیکھی۔ ان مشاہدات نے ان کے باغیانہ خیالات کو مزید طوفانی بنا دیا۔ ۱۹۲۰ء میں وطن واپسی کے بعد آزادی کا نشہ ان کے دل و دماغ پر اتنا شدت اختیار کر گیا کہ وہ غلامی کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں اور ان کے انداز فکر میں ایک جارحیت آ گئی۔ یہ انداز ان کے فکر و نظر میں اس حد تک رچ گیا تھا کہ وہ سراپا باغی بن گئے تھے: کہہ دے! اے جوان مرد کہہ دے کہ میں سربلند ہوں اتنا سربلند، اتنا سر بلند کہ ہمالیہ کی چوٹی بھی میرے آگے سرنگوں ہے کہہ دے! اے بہادر کہہ دے کہ وسیع آسماں کو چیر کر چاند، سورج، ستاروں کو توڑ کر، جنت و دوزخ کو دہلا کر عرش سے ٹکرا کر میں اس دنیا کے لیے مجسمۂ حیرت بن گیا ہوں نذرالاسلام پہلے بنگالی شاعر ہیں جنھوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ وہ بنگال کے انقلابی نوجوانوں کو انگریزوں کے خلاف دیوانہ وار یاد کرتے ہیں کہ انھیں نہ تختۂ دار کا ڈر تھا نہ آہنی سلاسل کا خوف تھا۔ نذرالاسلام کی انقلابی شخصیت ہندوستان کی آزادیِ کامل کے سوا کچھ ماننے کو تیار نہ تھی۔ نظم ’’بدروہی بانی‘‘ میں فرماتے ہیں: ہم بے لاگ بات کرتے ہیں ہم ملک کو کاملاً آزاد کریں گے ہم مرنے آئے ہیں، ہم مر کے رہیں گے ہم فتح کا جھنڈا لہرائیں گے آزادی کی للکار پر ہم اپنی جان قربان کر دیں گے۶۸؎ وہ گاندھی جی کے تحت کانگرس کے ’’اعتدال پسند گروہ‘‘ پر چوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہندوستان کے مالک ہندوستانی ہیں یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کیا ہمیں ان بڈھوں کو رہنما ماننا چاہیے؟ کیا ہم ان کی رہنمائی قبول کریں گے؟ نذرالاسلام کو گاندھی جی کی ’’سوراج‘‘ ،’’تحریک ترکِ موالات‘‘ اور ’’عدمِ تشدد‘‘ ان میں سے کسی پر اعتماد نہ تھا۔ وہ انگریزوں کے خلاف مستقل مزاجی اور مستعدی سے تیار تھے۔ ان کے نزدیک مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، سبھاش چندر بوس، تلک، سی ۔ آر۔ داس کی مانند تحریک آزادی کا مقصد صرف انگریزوں کو ملک بدر کرنا تھا۔ فرماتے ہیں: ہر فرد کو لیڈر بننے کا شوق ہے ’’سوراج مراج‘‘ محض مضحکہ خیز نعرے ہیں جھوٹی محبت اور دکھاوے ہیں ہمیں صرف حقیقت کا اظہار کرنا چاہیے نذرالاسلام نے جنگ آزادی میں نوجوانوں کو بھرپور حصہ لینے کی ترغیب دینے کے لیے لاتعداد نظمیں لکھیں۔ بنگالی شاعروں میں انھوں نے سب سے پہلے سامراجی طاقت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ غلامی کی ذلت کے گڑھے سے نکال کر انھیں آزادی کی نعمت سے مالا مال کرنے کی سعی کی: ہم صبح کاذب کا دروازہ پاش پاش کر ڈالیں گے دنیا کو نورانی کرنوں سے چمک دار کر ڈالیں گے رات کی مانند غمگین اندھیاروں کو رفع دفع کر ڈالیں گے راہ میں روڑے اٹکانے والوں کو تہس نہس کر ڈالیں گے۶۹؎ جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کو بطور سزا انڈیمان جلا وطن کر دیا جاتا تھااور انھیں سوزناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ اس بارے میں فرماتے ہیں: کنول کے پھول کی پتیوں کو کھدرے مسلح ہاتھوں نے مسل ڈالا جہاں مشینی اوزارو ںنے بربط کے نشیلی تاروں کو سنگ دل دربانوں نے آلات حرب سے کاٹ ڈالا کیا اس طرح وہ آزادی کا گلا گھونٹ سکتے ہیں؟۷۰؎ نذرالاسلام کو اپنے ملک پر انگریزوں کے تسلط پر بڑا افسوس تھا۔ وطن کی عزت خاک میں مل گئی۔ گلستان پر غیروں کا دخل ہو گیا۔ اس کے ایک پھول پر ہمارا اختیار نہ رہا۔ فرماتے ہیں: جس دیس میں سورج ڈوبا کرتا تھا آج وہیں آفتاب ِمحشر چمک رہا ہے مدتوں تک اپنے خون اور پسینے سے سینچ سینچ کر جس خاک کو ہم نے کیمیا بنایا تھا جس زمین پر ہم نے پھول کھلائے تھے جہاں ہم نے پریت کے گیت گائے تھے آہ! آج اسی گلستان پر ہمارا کوئی اختیار نہیں آہ! آج اپنے گھر پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۷۱؎ انگریزوں کے شکنجے سے ملک آزاد کرانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ جان جوکھوں کا کام تھا لیکن وہ ناامید نہ تھے۔ انگریزوں کے خلاف نبرد آزمائی کے لیے ہم وطنوں کو یوں اکساتے ہیں: ان کے شکنجے جتنے بھی مضبوط ہوں ہم انھیں کھول کر رہیں گے…کھول کر رہیں گے ان کی آنکھیں جتنی بھی خونی اور سرخ ہوں ہماری آنکھیں بھی اتنی ہی چوکس ہوں گی۷۲؎ نذرالاسلام کو یقین تھا کہ شہیدوں کا خون رنگ لائے گا۔ مجاہدوں کا جہاد بے کار نہیں جائے گا۔ ملک ایک دن ضرور آزاد ہوگا: افسوس! ہندوستان کی آزادی کا سورج دریائے گنگا میں ڈوب گیا ہے لیکن سورج ایک دن ضرور ہمارے خون سے رنگین ہو کر طلوع ہو گا نئے دور کے مسافر گیت گائیں گے آج ہم اپنا تن من دھن نچھاور کرتے ہیں آنے والے دنوں میں جب آزادی کا جھنڈا فتح کی سواری میں لہرائے گا تب تمہاری خوشی دیکھ کر، ہم ستاروں کی چمک میں مسکرائیں گے۷۳؎ تحریکِ خلافت پہلی عالمی جنگ کے بعد ہندوستان میں تحریک خلافت کا آغاز ہوا۔ ترکی نے خلافت کو خیر باد کہہ دیا تو ہندوستان کے ہزاروں مسلمانوں نے خلافت کے تحفظ و بقا کے لیے تحریک خلافت کا آغاز کر دیا۔ عوام میں بے چینی اور اضطراب کی لہریں اٹھنے لگیں۔ علامہ اقبال ان تمام ہنگاموں سے الگ تھلگ پیامِ مشرق کی ترتیب میں مصروف تھے۔ انھوں نے اس زمانے کی پرشور سیاسیات سے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔۷۴؎ انھیں ترکی کے خلیفہ عبدالحمید کی شخصی حکومت کے ساتھ کوئی ہمدردی نہ تھی اور نہ خلیفہ کی جانب سے ان کی خلافت کو بچانے کے لیے مسلمانوں کی اپیل نے انھیں متاثر کیا۔۷۵؎ لیکن وہ اس امر سے بے حد مسرور و مطمئن تھے کہ فرنگی کے مقابلے میں مسلمانانِ ہند کی خودی بیدار ہو رہی ہے اور طلب حریت میں قدم آگے بڑھ رہا ہے۔۷۶؎ لیکن اقبال کو مولانا محمد علی جوہر کے طریق کار سے، جو تحریک خلافت کے قائدین میں سے تھے، بے حد اختلاف تھا، کیونکہ اس تحریک میں گاندھی جی کی شمولیت اور قیادت انھیں ناپسند تھی۔ مولانا محمد علی جوہر ایک وفد لے کر یورپ گئے تا کہ حکومت برطانیہ خلافت ترکی کے سلسلے میں اپنے کیے ہوئے وعدوں کا ایفا کرے۔ اس موقع پراقبال نے محمد علی کی ان کوششوں کے بارے میں فرمایا: اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے تُو اَحکامِ حق سے نہ کر بے وفائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشاہی ’’مرا از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی‘‘۷۷؎ یہ وفد ناکام ہندوستان لوٹا کیونکہ انگریز ٹس سے مس نہ ہوئے۔ لیکن اقبال ایک درد مند اور حساس دل کے مالک تھے۔ ترکی کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر انھوں نے خون کے آنسو بہائے اور ۱۹۲۱ء میں اپنی ایک مشہور نظم ’’خضر راہ‘‘ لکھی۔ جس کا یہ شعر ان کے دل کی آواز ہے: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش۷۸؎ پھر فرمایا: آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے۷۹؎ ۱۹۲۲ء میں انھوں نے ’’طلوع اسلام‘‘ لکھی۔ جب مصطفی کمال پاشا نے یونانیوں کو شکست دی اور اقبال کے دل میں یہ یقین پیدا ہو گیا کہ اگر دل میں ایمان کی قوت مضبوط ہو تو مسلمان کے زیرِپا ساری دنیا ہے: جب اس انگارئہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا۸۰؎ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں۸۱؎ تحریک ترکِ موالات ۱۹۲۰ء میں کانگرس اور مسلم لیگ نے عدم تعاون یا ترک موالات کی تحریک کا اعلان کیا۔ گاندھی جی پورے ملک کے واحد لیڈر تسلیم کیے گئے۔ انگریز مال کا بائیکاٹ، سرکاری خطابات، سرکاری مدارس، سرکاری کونسلوں اور سرکاری عدالتوں کا ترک۔ یہ اس تحریک کے اجزا تھے۔۸۲؎ لیکن اقبال کو اس تحریک سے بھی کوئی دل بستگی نہ تھی۔ کیونکہ ایک تو انھیں قومیت ’’متحدہ ہند‘‘ کے نصب العین اور وطنیت کے سیاسی تصور سے کوئی امید نہ تھی دوسرے وہ اس بات کے قائل ہی نہ تھے کہ ہندوستان میں کوئی ایسی قوم موجود ہے یا بن سکتی ہے جس کو ہندوستانی قوم کہا جا سکے۔ لیکن انھوں نے گاندھی کے عزم بلند اور ان کی بے سر و سامانی پر نہایت خلوص اور قدر دانی کے جذبے سے چند اشعار آبدار فرمائے ہیں: گاندھی سے ایک روز یہ کہتے تھے مالوی کمزور کی کمند ہے دنیا میں نارسا نازک یہ سلطنت صفت برگ گل نہیں لے جائے گلستاں سے اڑا کر جسے صبا گاڑھا ادھر ہے زیب بدن اور ادھر ذرہ صرصر کی رہگذر میں کیا عرض توتیا بولا یہ بات سن کے کمال وقار سے وہ مرد پختہ کار و حق اندیش و باصفا ’’خارا حریف سعی صعیقان نمی شود صد کوچہ ایست درین دندان خلال را۸۳؎ گاندھی جی کی تعریف سے قطع نظر ان تحریکوں کا اقبال پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ئ-۱۹۱۹ئ) کے بعد نذرالاسلام جب کراچی سے واپس اپنے وطن آئے تو تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات زوروں پر تھیں۔ انگریزوں کی ترکوں سے وعدہ شکنی نے ان تحریکوں کو جنم دیا تھا۔ نذرالاسلام کے دل میں انگریزوں سے نفرت پہلے ہی سے ایک جوالا مکھی کی طرح سلگ رہی تھی، ان تحریکوں نے ایک تند و تیز بگولوں کی صورت اختیار کر لی۔ وہ ہر اس تحریک کا ساتھ دینے کو تیار تھے جس کا مقصد انگریز دشمنی تھا۔ ہندو اور مسلمان خصوصاً خلافت عثمانیہ کے سلسلے میں بڑے پرجوش تھے۔ ان تحریکوں نے وقتی طور پر ہندو مسلم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا تھا۔ ان حریت پسندوں کی جاں نثاری کی تصویر نذرالاسلام نے یوں کھینچی ہے: ہم اظہار تاسف نہیں کریں گے تم بہادروں کی جماعت ہو، قید خانوں میں جائو یہ زنجیر ہمارے تیس کروڑ انسانوں کو بھائی بھائی بنا دے گی نجات اور ملاپ کے لیے جنھوں نے جان کی قربانی دی ہے ہم ہندو مسلمان انھی کی فتح کے گیت گاتے جاتے ہیں۸۴؎ تحریک ترک موالات میں گاندھی جی نے اعلان کیا کہ اگر بدیسی کپڑوں کا بائیکاٹ کیا جائے اور چرخے سے سوت کات کر کپڑے تیار کیے جائیں تو ملک صنعتی لحاظ سے خود کفیل ہو گا اور انگریزوں کی معاشی حالت پر بھی ضرب کاری لگے گی۔ گاندھی جی کے خیال میں اس تحریک سے ملک کو آزاد کرانے میں کافی مدد ملے گی۔ نذرالاسلام نے بھی اس تحریک کی تائید کی۔ فرماتے ہیں: گھوم رے گھوم گھوم رے ! میرے دلنواز چرخے گھوم تیرے پہیے کی آواز میں آزادی کے رتھ کی آمد کی صدا سن رہا ہوں بھائی تیری گردش کی آواز میں ایسا سنائی دے رہا ہے جیسے آزادی کا عظیم الشان دروازہ کھلنے والا ہے بھارت کی قسمت کا سورج پلٹ آیا ہے دکھ کی رات کٹ گئی ہے گھوم رے گھوم۸۵؎ نذرالاسلام یہ بھی سمجھتے تھے کہ چرخہ کات کر سوت کا کپڑا تیار کرنے سے ملک آزاد نہیں ہو گا۔ اس سے صرف ہندوستانیوں کی انگریزوں کے خلاف دلی تلخی و تندی کا اظہار ہو سکتا ہے۔ اپنے ناول پریتوکھودا (جوع الاجل) میں مرکزی کردار انصار کی زبانی کہتے ہیں: چرخہ چلا کر سوت کا کپڑا تیار کیا جا سکتا ہے ملک کو آزاد نہیں کرایا جا سکتا۔ آج میں سوچتا ہوں کہ دوسرے ملکوں کے لوگ جب سر کٹا کر بھی آزادی حاصل نہیں کر پا رہے تو اس ملک کے لوگ صرف چرخہ کات کر کس طرح آزادی حاصل کر لیں گے۔ ہر مسلمان کی طرح ان کے دل میں بھی ’’پان اسلام ازم‘‘ کا جذبہ بیدار تھا۔ جب خبر ملی کہ کمال پاشا نے یونانی فوجوں کو پسپا کر کے سمرنا پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انھوں نے اکتوبر۱۹۲۱ء میں ’’کمال پاشا‘‘ لکھی جو دنیا میں کمال پاشا کے جرات مندانہ کردار کی تعریف میں سب سے پہلی نظم ہے اور بنگلہ زبان کا بہترین رزمیہ۔ کمال پاشا کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں: کمال کیا بھائی، خوب کیا! بزدل دشمن سب صاف ہوگیا خوب کیا بھائی خوب کیا ہورّا ہو! ہورّا ہو! جانوروں کو نیست و نابود کرنے کو ایسا ہی دم دار کمال چاہیے کمال! تو نے خوب کمال کیا ہو ہو کمال! تو نے کمال کیا بھائی۸۶؎ ۱۹۲۲ء میں ان تحریکوں سے وابستگی کی وجہ سے گاندھی گرفتار ہو گئے تو نذرالاسلام نے فرمایا: کوئی مزدور جیل جائے یا جان قربان کرے مگر سچائی کبھی فنا نہیں ہوتی گاندھی بھی، قید ہو جائیں مگر سچائی کو قید نہیں کیا جا سکتا ۱۹۲۲ء میں گاندھی کی گرفتاری کے ساتھ یہ تحریکیں ختم ہو گئیں۔ مگر نذرالاسلام دہشت پسند گروہوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ جمہوریت اقبال ہمیشہ جاگیردارانہ مظالم، شہنشاہیت اور ملوکیت کے خلاف رہے ہیں۔ سرمایہ داروں کے ظلم و جبر کا جتنا احساس ان کو ہے، اردو کے کم شعراء اور دانشوروں کو ہو گا۔وہ فرد کی آزادی کے قائل اور اس کی خودی کی تکمیل پر زور دیتے ہیں۔ وہ فرد کو سماج کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انسان دوستی کے علم بردار ہیں۔ حریت، اخوت اور مساوات پر برابر زور دیتے ہیں۔ وہ جمہوریت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ کمزور کو طاقت ور بنانا چاہتے ہیں۔۸۷ ؎ ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں: سلطانیٔ جمہور کا آتاہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو۸۸؎ افسر پادشاہی رفت و بہ یغمائی رفت نے اسکندری و نغمۂ دارائی رفت کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت۸۹؎ چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی درپیٔ تعمیر جہانِ دگر است۹۰؎ خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعل ناب از جفای دہ خدایان کشتِ دہقانان خراب انقلاب، انقلاب، اے انقلاب۹۱؎ لیکن عوام دوستی، جمہوریت پسندی، سماجی مساوات اور اخوت انسانی پر ایمان رکھنے کے باوجود اقبال کی نظریں مغربی جمہوریت کے روشن چہرے کے ساتھ اس کے تاریک باطن کو بھی دیکھتی ہیں۔ ’’خضر راہ‘‘ میں کہتے ہیں: ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد، جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری۹۲؎ یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری۹۳؎ اقبال مغربی جمہوریت کو خیر و فلاح کا مرکز نہیں سمجھتے کیونکہ موجودہ جمہوریت میں افراد کی صلاحیتیں نہیں دیکھی جاتیں بلکہ: جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۹۴؎ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول یہاں کارفرما ہے۔ جو زیادہ ہاتھ اٹھوا سکتا ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ اس طرح اہل رائے کو رہنمائی کا موقع نہیں مل سکتا۔۹۵؎ گریز از طرز جمہوری، غلام پختہ کار شو کہ از مغزِ دو صد خر فکر انسانے نمی آید اقبال کی مغربی جمہوری نظام کی مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان میں پہلے منٹو مارلے اصلاحات کے ذریعے اور بعد میں مانٹیگو چمسفورڈ اصلاحات کے ذریعے ذمہ دار ہندوستانی حکومت کی طرف قدم اٹھایا۔ ہندوستان میں آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ انڈین نیشنل کانگرس جو ۱۸۸۵ء میں قائم ہوئی ، پہلے تلک اور پھر گاندھی جی کے اثر سے عوامی تحریک میں بدل گئی۔ تقسیم بنگال اور اس کے خلاف قوم پرستوں کے احتجاج، تلک کی جدوجہد میں ہندو جارحیت کے اثرات، آریہ سماج اور بعض دوسرے عناصر کی مسلم دشمنی نے یہ خطرہ پیدا کر دیا تھا کہ ہندوستان میں اگر جمہوری نظام قائم ہوا تو اکثریت ہندوستان کے نام پر اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے حقوق پامال کرے گی اور مسلمان ملک میں دوسرے درجے کے شہری قرار پائیں گے۔ مغربی جمہوریت خصوصاً اس کے پارلیمانی نظام کی کشش مسلّم ہے مگر کسی دوسرے ملکوں کے ادارے بجنسیہ کسی ملک میں نافذ نہیں کیے جا سکتے۔ اقبال کے ذہن میں شروع سے ہی یہ خیال تھا کہ مغرب میں مخصوص جغرافیائی، تاریخی اور تہذیبی اثرات، نشاۃ الثانیہ، صنعتی انقلاب، انقلاب فرانس، امریکہ کی آزادی کی جنگ کی وجہ سے جو ادارے وجود میں آئے، ان کا بجنسیہ مشرق کی سرزمین میں پھلنا پھولنا ممکن نہیں ہے۔ اقبال کی جمہوری نظام سے مایوسی ہندوستان کے مخصوص حالات کی روشنی میں ناممکن تھی۔ ۹۶؎ جمہوریت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے ایک مکتوب (۲۳ مئی ۱۹۳۲ئ) میں لکھتے ہیں: مجھے اندیشہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز ایک خونریزی کی صورت اختیار کرے گا۔اور یہ بدامنی ایسے نتائج پیدا کرے گی جو بے حد ناگوار ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہترین برطانوی واقف کار کو بھی اس امر کا قطعاً اندازہ نہیں کہ اس بظاہر پرسکون سی گہرائی میں کیسے کیسے طوفان بے تاب ہیں۔۹۷؎ کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ اقبال کی یہ پیشین گوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ اور اقبال کے نزدیک اسلام کے دور اول کا جمہوری نظام دنیا کا کامیاب ترین نظام رہ چکا ہے۔ تا خلافت کی بنا دنیا میں ہوپھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر۹۸؎ نذرالاسلام کی شاعری میں آزادی حاصل کرنے کی تڑپ اور دھڑکن نہایت واضح سنائی دیتی ہے۔ لیکن کسی نظام حکومت کے بارے میں ان کے خیالات واضح نہیں۔ البتہ وہ تمام دنیا میں اسلامی نظام کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ذوالفقار میں لکھتے ہیں: دیکھو عید گاہِ شہادت میں ایک بڑی جماعت ہے پھر دنیا میں اسلامی فرمان جاری ہو گا۹۹؎ جلال و جمال اقبال مرد مومن میں جلال اورجمال دونوں خصوصیات دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں فرض کی شدت کے ساتھ جذبات کی مٹھاس بھی لازمی ہے اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری۱۰۰؎ گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر وپرنیاں ہو جا۱۰۱؎ اقبال کے خیال میں ز ندگی میں دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ علامہ ان چیزوں کو کہیں جمال و جلال ، کہیں فقر و سلطانی اور کہیں قاہری و دلبری کے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نظریے کے مطابق ہر شخص کی دو حیثیتیں ہونی چاہییں:۱۰۲؎ شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب۱۰۳؎ اقبال کے نزدیک دونوں میں کوئی تضاد نہیں بلکہ دونوں ایک ہی کیفیت کی دو منزلیں ہیں۔ عبدالکریم الجیلی نے اسے یوں بیان کیا ہے: ہر جمال جس کا شدت سے ظہور ہوتا ہے جلال کے نام سے موسوم ہوتا ہے اور ہر جمال کے لیے جلال ہے اور ہر جلال کے لیے جمال۔۱۰۴؎ اقبال کے نظریۂ فن کے سلسلے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ جمال کو جلال ہی کا ایک رخ سمجھتے ہیں اور جمال بے جلال انھیں متاثر نہیں کرتا۔ وہ شعر کہ پیام حیات ابدی ہے یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگ اسرافیل۱۰۵؎ تا نہ گیری از جلال حق نصیب ہم نیابی از جمال حق نصیب اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی۱۰۶؎ اقبال کے نزدیک جلال یعنی حرکت، طاقت ، جذبہ تسخیر اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ کائنات کی دقتوں اور زمانے کے مٹا دینے والے مرور پر استیلا نہیں کر سکتا۔ اسی لیے اقبال نے جہاں دلبری بے قاہری کو ساحری قرار دیا ہے وہاں دلبری باقاہری کو پیغمبری کے مماثل سمجھا ہے:۱۰۷؎ مری نظر میں یہی ہے جمالِ زیبائی کہ سر بسجود ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر ترا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک۱۰۸؎ جس قوم میں جلال ہوتا ہے وہ دنیا میں سربلند ہو کر زندگی بسر کرتی ہے۔ وہ شمشیر و سناں کے زیور سے آراستہ ہو کر معرکہ آرائی کے لیے تیار رہتی ہے۔ جو قوم صرف جمال پرست ہوتی ہے وہ تیر و تلوار کی بجائے ساز و آواز میں مست رہنے لگتی ہے اور زوال پذیر ہو کر محکوم ہو جاتی ہے: میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر۱۰۹؎ اقبال سمجھتے ہیں کہ مرد مومن کی زندگی میں جلال و جمال دونوں کیفیات کا ہونا ضروری ہے۔ نذرالاسلام کی شاعری میں جلال کے ساتھ جمال بھی ہے۔ ان کے ہاں شعلوں کے ساتھ گلدستے بھی ہیں۔ شمشیر و سناں کے پہلو بہ پہلو طائوس و رباب بھی ہے۔ لہو ترنگ کے مقابلے میں جل ترنگ بھی موجود ہے۔ وہ بیک وقت شاعر انقلاب بھی ہیں اور شاعر حسن و محبت بھی۔ اس لیے فرماتے ہیں: میرے ایک ہاتھ میں ٹیڑھی بانس کی بانسری اور دوسرے ہاتھ میں تلوارِ جنگ ہے۱۱۰؎ نذرالاسلام کی مشہور نظم ’’باغی‘‘ میں بادل کی گھن گرج ہے۔ آتش فشاں کا لاوا نظر آتا ہے۔ بے پناہ جرأت و بے باکی کا مظاہرہ ہے۔ اس شدت کے ساتھ نرمی بھی ہے۔ تپتی دھوپ کی گرمی بھی ہے اور رات کی شبنم کی ٹھنڈک بھی۔ اسی نظم میں ایک جگہ فرماتے ہیں: میں طوفان ہوں، تباہی ہوں میں بھیانک دہشت ہوں، میں کائنات کا وبال ہوں میں مزاحمت پیدا کرنے والا ہوں میں ہر چیز قلع قمع کر ڈالتا ہوں میں سرکش و بے لگام ہوں میں تمام بندھن، قوانین و ضابطوں کو پائوں تلے روندنے والا ہوں۱۱۱؎ پھر اس نظم میں یہ بھی فرماتے ہیں: میں دوشیزہ کے گوندھے بالوں کی چمک ہوں میں اس کی محبت بھری آنکھوں کا خشہ ہوں میں نوخیز دوشیزہ کا پیار بھرا غنچۂ بہار ہوں میں اس کی چوڑیوں کی کھنک ہوں میں فرحت افزائی کا سامان ہوں۱۱۲؎ یعنی شاعر ایک طرف تو بھرپور باغی نظر آتے ہیں پھر یکایک ان پر رومانیت کا جذبہ غالب آ جاتا ہے۔ یعنی وہ جلال و جمال دونوں کے شاعر ہیں۔ تندی کے ساتھ نرمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بغاوت کی ساتھ حسن و جمال کے گیت گائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مگر اقبال کی مانند ان کا انداز فلسفیانہ نہیں۔ اور نہ انھوں نے اسے درسِ زندگی کے لیے استعمال کیا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں یہ روّیہ ایک عمومی انداز سے آیا ہے۔ اسلام اقبال اول و آخر ایک سچے مسلمان تھے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا صرف اسلام ہی تھا۔ اقبال کی ذات میں اسلام و عرفان کا جمع ہونا محض حسن اتفاق نہیں کیونکہ انھیں جہاں نیک، صوفی منش، درویش صفت اور صالح والد کا سایہ عاطفت و شفقت حاصل ہوا، وہاں نہایت دانش مند ، بے انتہا شفیق، رحمدل، پاک سیرت اور نیک طینت والدہ کی آغوش تربیت بھی میسر آئی۔ ان کا گھرانا درحقیقت ایک مسلمان گھرانا تھا۔ اور بقول شیخ عبدالقادر ’’انھوں نے ماںکے دودھ کے ساتھ اسلام پیا تھا۔‘‘۱۱۳؎ بلاشبہ اسلام کی تمام تعلیمات کا سرچشمہ قرآن اور احادیثِ نبویؐ ہیں۔ اقبال اپنے اشعار میں اس بات پر بہت زور دیتے اور تاکید کرتے ہیں کہ ہمارے لیے کتاب وسنت ہی سب کچھ ہے، ہمارا ساز و برگ سب یہی ہیں۔ یہی دو قوتیں ہیں جن سے ملت اسلامیہ کو عزت و اکرام حاصل ہوتاہے۔ دنیاے ذوق و شوق ہو یا دنیاے آب و گل، پست ہو یا بلند، ان سب کی فتح و کشاد انعام الٰہی ہے۔ مومن کے لیے یہ سب شان جمالی اور شان جلالی کے ظہور ہیں۔۱۱۴؎ اس سلسلے میں اقبال کے اشعار ملاحظہ فرمایئے: برگ و ساز ما کتاب و حکمت است ایں دو قوت اعتبار ملت است۱۱۵؎ آن فتوحات جہاں ذوق و شوق ایں فتوحات جہاں تحت و فوق ہر دو انعام خدائے لایزال مومناں را آں جمال است ایں جمال۱۱۶؎ اقبال فرماتے ہیں کہ اگر ہمیں مسلمان بن کر زندہ رہنا ہے تو ہمیں قرآن پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں: گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن۱۱۷؎ قرآنی تعلیمات ہمیں زندگی عطا کرتی ہیں۔ زندگی کی نئی راہیں کشادہ کرتی ہیں ۔ نئی آب و تاب بخشتی ہیں۔ چوں مسلمانان اگر داری جگر در ضمیر خویش و در قرآن نگر۱۱۸؎ اسلام کی تمام تعلیمات کا سرچشمہ قرآن حکیم ہے۔ اقبال نے اپنے پیام میں قرآن حکیم کو پڑھنے اور اس سے نور ہدایت حاصل کرنے پر بڑا زور دیا ہے۔ ایک خط میں اکبر الہ آبادی مرحوم کو لکھا تھا: ’’واعظ قرآن بننے کی اہلیت تو مجھ میں نہیںہے ۔ ہاں اس کے مطالعے سے اپنا اطمینان خاطر روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے۔‘‘۱۱۹؎ اقبال نے قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارک کی اتباع پر شد و مد سے زور دیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ایساشخص اپنی ذات کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام ملت کے لیے موجب نجات ہوتا ہے۔‘‘ نغمہ مردے کہ دارد بوئے دوست ملّتے را می تا کوئے دوست۱۲۰؎ اقبال فرماتے ہیں کہ عشق رسولؐ جس کے نصیب میں آ گیا تو اسے سب کچھ مل گیا۔ جب تک اس کا نور انسان میں ہے، اس وقت تک اسے حقیقی زندگی میسر ہے۔ یہی قوت ہے جس سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے اور ان کا تحفظ ہوتا ہے۔ اسی لیے نصیحت فرماتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بحر ذخار کے مانند ہیں۔ جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ تم بھی اس سمندر سے سیرابی حاصل کرو تا کہ تمہیں حیاتِ نو نصیب ہو اور تمہاری وہ بھولی بسری کیفیات جنھیں مادی دنیا نے تم سے چھین لیا ہے از سر نو تم کو میسر آ جائیں۔۱۲۱؎ علامہ اقبال کے اشعار میں یہ مضمون ملاحظہ کیجیے: می ندانی عشق و مستی از کجاست؟ ایں شعاعِ آفتابِ مصطفی است زندئہ تا سوز او در جانِ تست ایں نگہ دارندئہ ایمان تست۱۲۲؎ مصطفی بحر است و موج او بلند خیز و ایں دریا بجوئے خویش سند را یک زمان خود را بہ دریا در فگن تا روانِ رفتہ باز آید بہ تن۱۲۳؎ اقبال فرماتے ہیں کہ ہماری عزت و آبرو کی رکھوالی کرنے والے آپ ہی کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ کا نام نامی ہر مسلمان کے دل میں ثبت ہے: در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است آبروئے ما ز نام مصطفی است۱۲۴؎ اقبال کے کلام میں جگہ جگہ حب رسولؐ کی تلقین ہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ اسلام کا مقصد خود کو رسولِ خدا کی محبت میں مضبوطی سے جکڑنا ہے۔ اگر ان کی ذات مقدس تک پہنچ سکیں تو ہم سچے مسلمان ہیں ورنہ بولہبی میں گرفتار ہو جائیں گے: بہ مصطفی برسان خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است۱۲۵؎ اقبال نے اپنی شاعری میں صحابہ کرامؓ کے اسوئہ حسنہ پر چلنے کی بھی ہدایت فرمائی ہے۔ اسی طرح انھوں نے اپنی شاعری میں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر مسلمانوں کو دینی اور سیاسی لحاظ سے منظم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایک پرجوش مسلمان تھے۔ اقبال نے اسلام کی خاطر کیا خدمات انجام دیں اس کا جواب انہی کی زبانی ملاحظہ فرمایئے: میں نے اسلام کے لیے کیا کیا! میری خدمت اسلامی تو بس اس قدر ہے کہ جیسے کوئی شخص فرط محبت میں سوئے ہوئے بچے کوبوسہ دے۔۱۲۶؎ شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے۱۲۷؎ اقبال کی مانند قاضی نذرالاسلام بھی دل و جان سے اسلام کے شیدائی تھے۔ ان کا بچپن خالص اسلامی ماحول میں گزرا تھا۔ ان کے والد درویش منش انسان تھے۔ جن کی روحانیت کا چرچا سن کر دور دور سے ہندو اور مسلمان کھنچے آتے تھے۔ اپنی ابتدائی عمر میں نذرالاسلام خودبھی موذن اور امام رہ چکے تھے، اس لیے اسلامی جذبہ ان کی رگوں میں رسا ہوا تھا۔ آخری دور میں یہ جذبات اور بھی والہانہ نظر آتے ہیں۔ ۱۹۳۰ء کے بعد ان کا روحانی جذبہ اور ایمانی جوش مزید عود کر آیا۔ اس دور کی نظمیں پڑھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ان کا ’’باغی‘‘ مادیت سے شکست کھا کر روحانیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نذرالاسلام نے اسلام ہی کو منزل مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا اور مختلف پیرایوں میں اپنی شاعرانہ زندگی کی ہر منزل میں اسلامی اصول اور اسلامی نظریات کی ترجمانی کی۔ مسلمان نوجوانوں میں انقلابی جوش و جذبہ پیدا کر کے ان کے ذریعے ایک دنیا آباد کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اسلامی نظام جاری کر کے دنیا بھر میں امن و امان قائم کرنا چاہا۔۱۲۸؎نذرالاسلام خدا تعالیٰ سے اپنی عقیدت کے اظہار میں یوں رطب اللسان ہیں: مجھے اللہ سے حقیقی محبت ہے وہ مجھ سے کبھی بھی دور نہیں میں اس کی محبت میں ہمیشہ مدہوش رہتا ہوں میرا سب سے اعلیٰ مالک اَز حد جمیل و حسین ہے۱۲۹؎ اللہ کی وحدانیت کے بارے میں ان کے دوسرے شاعرانہ الفاظ یوں ہیں: دنیا اسی واحد ہستی کا کھیل ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں کائنات اسی کی تخلیق ہے ہم اسے کتنے ہی ناموں سے پکارتے ہیں مگر وہ وحدہ لاشریک ہے جس نے اسے نہیں پہچانا، وہ خود کو کیسے جان سکتا ہے؟ یہ روشنی، یہ بارش اسی کا فیض ہیں اس کی رحمت سب کے لیے عام ہے کھیت میں فصل، باغ میں پھول اس کے کرم ہیں وہ عفو و درگزر اور رحمت کا مالک ہے۱۳۰؎ نذرالاسلام سمجھتے ہیں کہ ایک سچا مسلمان خدا کے سوا کسی سے خوف نہیں کھاتا۔ وہ اس کے علاوہ کسی کے آگے گردن نہیں جھکاتا۔ جس کوخدا اور اس کے رسولؐ سے عشق ہو اسے دنیا کی کسی طاقت سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس کا نگاہ بان تو ذاتِ حقیقی ہے: پروردگار میرا اللہ، پھر مجھے کیا خوف محمدؐ میرے پیغمبر، دنیا بھر میں ان کی ثنا مجھے کس چیز کا ڈر! قرآن میرا ڈنکا، اسلام میرا مذہب مسلم میری پہچان کلمہ میرا تعویذ، توحید میرا مرشد ایمان میرا مذہب، ہلال میرا خورشید اللہ ھو اکبر کی صدا، میرے جہاد کی نوا۱۳۱؎ نذرالاسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی والہانہ اور پرجوش محبت اور عقیدت ہے۔ انھوں نے ان کی مدح میں بے شمار نظمیں اور غزلیں لکھیں مثلاً ’’بکھے امار کعبار چھوبی ‘‘ (میرے سینے میں کعبے کی تصویر)، ’’جابی رے مو دنیائے‘‘ (مدینے جائو گے)، ’’آئے مورو پائیر ہوا‘‘ (آئو صحرا کی ہوا)، ’’سید مکی مدنی‘‘، ’’ہے مدینار بلبلی گو‘‘ (اے مدینے کی بلبل)، ’’محمدؐ نام جوتوی جوپی‘‘ (جتنا بھی محمدؐ کا نام جپتا ہوں)، ’’محمدؐنام جوپے چھیلی ‘‘ (محمدؐ نام کا ورد کیا تھا)، ’’آمار محمدؐ پر نامے‘‘ (میرے محمدؐ کے نام پر)، ’’یا محمد ؐ بہشتے ‘‘ (یا محمدؐ بہشت سے)، ’’تورا دیکھے جا آمنہ مائیر کولے ‘‘ (تم ماں آمنہ کی گود میں دیکھ لو)، ’’صحرا تے پھٹلورے پھول رنگین گل لالہ‘‘ (صحرا میں رنگین گل لالہ کھل چکا ہے) وغیرہ ان کی اعلیٰ درجے کی نعتیہ نظمیں ہیں۔ ان کے نعتیہ کلام کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے: محمدؐ میری آنکھ کا تارا محمدؐ نام کی جپتا ہوں مالا اس نام سے مٹتی ہے میری پیاس وہ نام ہے کوثر کا پیالہ نامِ محمدؐ میرے سر آنکھوں پر وہ نام میرے گلے کا تعویذ اس نام کی روشنی سے اندھیرا اجالے میں بدل جاتا ہے۱۳۲؎ محمدؐ نام کا جتنا ورد کرتا ہوں اتنی ہی لذت پاتا ہوں کیوں کر کہوں اس نام میں اتنی مٹھاس کیوں ہے؟ یہ نام عزیز ترین ہے، میں مجنوں کی طرح اسے جپتا ہوں میری روح کے گلزار خانے میں مثل بلبل گیت گاتا رہتا ہے۱۳۳؎ سید مکی مدنی میرے نبی محمدؐ خدا کے حبیب رحیم و کریم کل انسانیت کے معشوق۱۳۴؎ نذرالاسلام نے مفلوج ہونے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مروبھاسکر (آفتاب صحرا) کے نام سے منظوم کتاب ماہنامہ سوغات (۱۹۳۱ئ) میں لکھنا شروع کی تھی۔ مگر اختتام کو نہ پہنچی کہ ان کا قلم خاموش ہوگیا۔ نذرالاسلام نے پارہ عَمَّ کا بھی بنگلہ منظوم ترجمہ کیا جو پہلی مرتبہ ۱۹۳۲ء میں طبع ہوا۔ اس میں سورۃ فاتحہ کے علاوہ پارہ عَمَّکی ۲۴ سورتوں کا ترجمہ ہے۔ نذرالاسلام کا ارادہ پورے قرآن شریفکا ترجمہ کرنا تھا مگر ان کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی۔ مقدمہ میں فرماتے ہیں: ہم بنگالی مسلمان مذہب سے اندھی عقیدت کی بنا پر قرآن شریف کا مطالعہ کرتے ہیں۔ آج اگر میں یا مجھ سے ماہر کوئی شخص قرآن مجید، حدیث، فقہ وغیرہ کا بنگلہ ترجمہ کرتا تو صرف بنگالی مسلمان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا مسلم سماج اس سے ضرور مستفید ہوتا۔ نذرالاسلام کا اسلامی کلام مذہبی محفلوں میں نہایت جوش و عقیدت کے ساتھ پڑھا جاتاہے۔ اور ایک عجیب کیفیت طاری کردیتا ہے۔ ان کا اسلامی کلام ان کی اسلام پسندی کی بین دلیل ہے۔ جو لوگ ان کے مذہبی عقیدے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں وہ بھی ان غزلوں کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو زبان استعمال کی ہے اس میں عربی، فارسی، اردو کے بے شمار الفاظ ہیں۔ جن کو اردو دان طبقہ نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ نذرالاسلام کا کلام فن ہے کہ انھوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ عربی ، فارسی الفاظ کو بنگلہ میں استعمال کیا اور ثابت کیا ہے کہ یہ الفاظ بنگلہ زبان کا بھی سرمایہ ہیں۔ اسلامی تہوار نذرالاسلام نے اسلامی تہواروں پر بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں مثلاً عید الفطر، عید قربان، محرم، فاتحہ یازدہم، فاتحہ دو از دہم وغیرہ۔ ان کی نظم ’’رمضان کے روزوں کے بعد‘‘ کے چند اشعار: اے دل! رمضان کے روزوں کے بعد خوشی کی عید آئی ہے آج تو اپنے آپ کو وقف کر دے سن! آسمان سے یہ تاکید آئی ہے۱۳۵؎ عید کا دن مسلمانوں کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دن سب خوشی مناتے ہیں۔ بغض و کینہ، حسد و دشمنی کو بھول کر ایک ہو جاتے ہیں۔ بغل گیر ہوتے ہیں۔ اس طرح عید کا دن مسلمانوں میں عالمی محبت و اخوت بڑھانے کا دن ہے۔ فرماتے ہیں: آج دوست دشمن کے فرق کو بھول کر ہاتھ سے ہاتھ ملائو اپنی محبت سے کُل عالم کو اسلام کا گرویدہ بنا ڈالو۱۳۶؎ ’’عید الاضحی‘‘ پر بھی نذرالاسلام نے قلم اٹھایا۔ اس موقع پر اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں: اس روز حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو قربان کر ڈالا اسی طرح تو بھی آج راہ خدا میں شہید ہو جا تیرے من کے اندر جو وحشی پل رہا ہے آج اسے ذبح کر ڈال۱۳۷؎ نذرالاسلام نے واقعہ کربلا کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دلسوز نظم ’’محرّم کا چاند‘‘ لکھی۔ فرماتے ہیں: پھرمحرم کا چاند رُلانے آ گیا ہے یا حسینؓ! یا حسینؓ کا ماتم سنائی دے رہا ہے کربلا میں زین العابدین رو رو کر بے ہوش پڑے ہیں بہشت میں علیؓ اور فاطمہؓ زار و قطار رو رہے ہیں آج زمین و آسمان ، بلکہ کل کائنات کے رونے کی آواز سنائی دے رہی ہے۱۳۸؎ ’’محر م کا چاند‘ ‘ نظم میں نذرالاسلام نے مسلمانوں کو زاری و ماتم کرنے کی بجائے شہیدوں کی روح کو حرمت و تکریم بخشنے کے لیے جذبہ قربانی پیدا کرنی کی تلقین کی ہے۔ فرماتے ہیں: آج پھر ماہ محرم واپس آ گیا ہے مرثیہ و ماتم نہیں، جذبہ قربانی چاہیے۱۳۹؎ فاتحہ دو از دہم ۱۲ ربیع الاول سنہ ۱۱ ہجری سوموار کے دن مطابق ۸ جون ۶۳۲ء بوقت شام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک روح عالم قدس میں پہنچ گئی۔ ان کے نور ازلی و ابدی کی پردہ پوشی مسلمانوں کے لیے ایک سانحہ عظیم ہے۔ اس روز کو فاتحہ دو از دہم کہاجاتاہے۔اس روز کے دکھ کا اظہار نذرالاسلام نے اس طرح کیا ہے: کتنا دل گداز منظر ہے عزرائیل کی آنکھیں بھی ڈبڈبارہی ہیں اس کا پتھر دل بھی دکھ کے سمندر میں تھرتھر کانپ رہا ہے آج جان لینے والے کا بے رحم ہاتھ شل ہوگیا ہے اس کا قبضہ ڈھیلا اور کلیجہ چھلنی ہے نیلا تاج آج خاک بوس ہے۱۴۰؎ روزِ حشر قیامت کا آنا اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ اس روز میدان حشر میں تمام انسان از سر نو زندہ ہوں گے۔ ان کے بھلے برے کا حساب ہو گا۔ اللہ کے نیک کار بندے اللہ کی کشتی میں سوار ہو کر بہشت میں داخل ہوں گے۔ بہشت کی کشتی کے ناخدا حضرت محمدؐ اور چپو چلانے والے اسلام کے چار خلفاء یعنی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ہوں گے۔ اس طرح نیک کار یعنی مسلمانوں کو رسول کریمؐکی شفاعت اور چار خلفاء کی رفاقت حاصل ہوگی۔ میدان حشر کے اس عقیدے کی تصویر کشی انھوں نے اپنی نظم ’’کھیا پاریرترنی‘‘ (پار اترنے کی کشتی) میں یوں کی ہے: ابوبکرؓ،عثمانؓ،عمرؓ،علی حیدرؓ اس کشتی کے چپو چلانے والے ہیں، اس لیے کوئی خوف نہیں اسی کشتی کا ناخدا خوب تجربہ کار ہے چپو چلانے والے مل کر لاشریک لہ‘ کے گیت گاتے جاتے ہیں۱۴۱؎ اس نظم کے لکھنے کا پس منظر یہ ہے کہ ڈھاکا کے نواب خاندان کی کسی ایک خاتون نے اخبار مسلم بھارت میں شائع کرانے کے لیے ایک تصویر بھیجی تھی۔ تصویر کا مفہوم یہ تھا کہ تلاطم خیز سمندر میں ایک کشتی آگے بڑھی جا رہی ہے۔ کشتی کے چار چپو ہیں اور ایک پتوار۔ چپوئوں کے سر میں عربی حروف میں ترتیب وار لکھا ہوا ہے۔ ابوبکرؓ، عمرؓ،عثمانؓ اور علیؓ۔ پتوار کے سر پر محمدؐ اور بادبان میں ’’شفاعت‘‘ کے لفظ مرقوم تھے۔ اس تصویر کا کوئی نام نہ تھا۔ نذرالاسلام نے اس تصویر کو سامنے رکھ کر یہ نظم لکھی۔ اور کشتی کا نام ’’کھیا پاریرترنی‘‘ (پار اترنے کی کشتی) رکھا۔ نذرالاسلام نے بنگالی ادب کو اسلامی تہذیب، روایات و رسومات کا آئینہ دار بنایا۔ اس طرح بنگلہ ادب میں تنوع و جدت پیدا کی۔ انھوں نے بنگال کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات ابھار کر ان کی دلی پژمردگی کو دور کیا۔ ان میں جینے کی تمنا پیدا کی اور ان کی حرارت ایمانی کے شعلے بھڑکائے۔ بقول ڈاکٹر عبداللہ ان میں بعض شاہ پارے ایسے ہیں کہ دنیاکی اور زبانوں میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ ان کے اسلامی گیتوں اور نظموں کی تعداد تقریباً دو سو (۲۰۰) ہے۔ اقبال نے بھی مختلف تہواروں خصوصاً عید کے تہوار پر نظمیں لکھی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی ایک نظم ’’غرّہ شوال‘‘ یا ’’ہلالِ عید‘‘ ہے۔ بظاہر اقبال نے ہلال عید سے خطاب کیاہے مگر درپردہ مسلمانوں کی پستی و زبوں حالی پر افسوس کیا ہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ غیر مسلم قومیں زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کر رہی ہیں مگر مسلمان فرقہ پرستی جیسی لعنت میں مبتلا ہیں اور اسلامی عقائد سے منحرف ہوتے جا رہے ہیں اور سرکار برطانیہ کی جی حضوری کو کافی سمجھ رہے ہیں۔ اس طرح اقبال نے ہلال عید کو دیکھ کر خوشی منانے کی تلقین کی بجائے مسلمانوں کی پستی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے خدا سے دعا کی کہ وہ انھیں اپنے فضل و کرم سے نوازے: فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر اپنی آزادی بھی دیکھ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ۱۴۲؎ عید پر اقبال کی ایک اور نظم ’’عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں‘‘ ہے۔ اس نظم میں بھی اقبال کا اندازِ بیان فلسفیانہ ہے۔ نظم کے عنوان سے صاف ظاہر ہے کہ اقبال کے کسی دوست نے ان سے عید پر چند اشعار لکھنے کی فرمائش کی ہوگی، چونکہ وہ اس زمانے میں ترکوں کی زبوں حالی سے بہت ملول تھے، لہٰذا انھوں نے قوم کی زبوں حالی پر مرثیہ لکھا۔ فرمایا کہ جب کہ مسلمانوں کے چاروں طرف سے ادبار کی گھٹائیں چھائی ہیں تو اس وقت مجھے عید کی کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ جب میں ہلال عید کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیں پیام مسرت نہیں دیتابلکہ زخموں پر نمک چھڑکتا ہے پیامِ عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتاہے۱۴۳؎ پیام مشرق میں شامل ان کی ایک نظم ’’ہلال عید‘‘ ہے۔ ہلال عید سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اس ہلال کو ان گنت انسان دیکھتے ہیں۔ اس کا وجود اگر مختصر و مخفی ہے مگر کارکنان قضا و قدر نے اس میں ترقی کر کے بدر کامل بن جانے کی صلاحیت پوشیدہ کر دی ہے۔ اسی طرح کوئی شخص تہی دامن ہو تو اسے آزردہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ترقی کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ کارکنان قضا و قدر نے ہر انسان میں ماہِ تمام یعنی مردِ کامل بننے کی استعداد مخفی کر دی ہے۔اقبال نے حسب معمول ہلال عید کو عام نگاہوں سے نہیں بلکہ فلسفیانہ نکتہ نگاہ سے دیکھا ہے۔ نتوان ز چشمِ شوق رمید اے ہلال عید از صد نگہ براہِ تو دامے نہادہ اند۱۴۴؎ شخصیات و مقامات اقبال نے اپنے شاعری میں نامور مسلم شخصیات اور ان کی ثقافت و شان و شوکت سے متعلقہ مقامات کا ذکر کیا ہے۔ اس سے ان کا مقصد ماضی کو یاد کرانا تھا۔ آج کے مسلمان اپنے شاندار ماضی کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ ان کی ایمان کی قوت بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ اپنے ثقافتی ورثے سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی لیے اقبال نے اپنی شاعری کے ضمن میں جگہ جگہ ان کا اظہار کیا ہے تا کہ مسلم تاریخ ذہن نشین رہے۔ شخصیات میں قابل ذکر آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک،حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت موسیٰ کلیم اللہ، خضر علیہ السلام،حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہ الزھراؓ، مولانا جلال الدین رومیؒ اور ان کی طرح کی موجب افتخار ہستیاں ہیں۔ چند عالی ظرف ہستیوں کے بارے میں اشعار پیش کیے جاتے ہیں: حضرت ابراہیمؑ بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں تھا ابراہیمؑ پدر اور پسر آزر ہیں۱۴۵؎ حضرت خضر علیہ السلام رازِ حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش نا تمام سے۱۴۶؎ حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟۱۴۷؎ حضرت ابوبکر صدیقؓ پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول بس۱۴۸؎ اقبال نے بہت سے تاریخی مقامات مثلاً افغانستان، بخارا، ترکی، ایران، عرب، قرطبہ، سسلی اور اسی طرح کے بہت سے مقامات کا ذکر کیا ہے۔ نظم ’’بلاد اسلامیہ‘‘ میں انھوں نے اسلام کے پانچ مشہور شہروں یعنی دلی، بغداد، قرطبہ، قسطنطنیہ اور مدینہ منورہ کا جامعیت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ ایسی نظمیں لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنے آباو اجداد کے کارناموں سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ ان کی پیروی کریں اور دنیا میں سربلندی حاصل کرنے کا جذبہ برقرار رکھ سکیں۔ دلی کے بارے میں کہتے ہیں: سرزمین دلی کی مسجود دل نم دیدہ ہے ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے۱۴۹؎ قرطبہ ہے زمین قرطبہ بھی دیدئہ مسلم کا نور ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور۱۵۰؎ قسطنطنیہ خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار مہدیٔ امت کی سطوت کا نشان پایدار اے مسلمان ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر سینکڑوں صدیوں کی کشت و خون کا حاصل ہے یہ شہر۱۵۱؎ مدینہ وہ زمین ہے تو، مگر اے خواب گاہِ مصطفی دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگین اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں۱۵۲؎ نذرالاسلام نے بھی اپنی شاعری میں مسلم شخصیات کا ذکر کیاہے اور انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک عظمت رفتہ کو اکابرین اسلام کی زندگی میں تلاش کرنا اچھا ہے۔ مشہور نظم ’’عمر فاروق ؓ ‘‘میں لکھتے ہیں: اسلام تو ایک انمول ہیرا اور کیمیا ہے وہ کس کے نصیب میں ہے؟ جو اس کو چھو نے سے ہیرا بنا ہے ہم تو اسی کو جانتے ہیں۱۵۳؎ مشہور ہستیوں میں: کمال پاشا، انور پاشا، خالد بن ولیدؓ، زاغلول پاشا، امان اللہ، حاجی محمد محسن، حضرت عمر فاروقؓ، مولانا محمد علی جوہر، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت خدیجہؓ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماے گرامی قابل ذکر ہیں۔ انور پاشا سے متعلق چند اشعار یوں ہیں: انور! انور! تم دل والے ہو! زور سے تلوار مارو، اور نیست و نابود کر ڈالو، مارو سارے جانور حضرت عمر فاروقؓ آدھی دنیا پر حکومت کی، مٹی کے تخت پر بیٹھ کر کھجور کے پتے کا محل بار بار نابود ہو گیا صحرا کے طوفان میں آپ کی کٹیا بار بار تباہ ہو گئی لیکن آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا آپ مضبوطی سے کھڑے رہے عیش و آرام کرنے والے ، صحرا کی تند ہوا سے ختم ہو گئے لیکن جو آپ کی قدم بوسی نہ کر سکے، انھوں نے دور سے بھی آپ کو سلام کیا افغانستان کے امان اللہ خان (۱۸۹۲ئ-۱۹۶۸ئ) کی تعریف یوں کی ہے: امان اللہ میں تمہیں سلام کرتا ہوں میں کابل کے بادشاہ کے گیت نہیں گاتا میں جانتا ہوں بادشاہ کا مقام انسانیت کے لیے قابل ذلت ہے وہ بادشاہی دین اسلام کے لیے قابل شرم ہے یزید سے لے کر آج تک سب روتے ہیں اور منہ چھپاتے ہیں حضرت مولانا محمد علی جوہرؒ (۱۸۸۸ئ-۱۹۳۱ئ) کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: ان کے پاس کوئی تلوار نہ تھی، صرف تھا قلم اور دل ان دونوں پر بھروسا کرتے ہوئے انھوں نے عزرائیل کو بھگایا وہ ایک بے نوا شخص تھے، تھا صرف بھکاری کا تھیلا اس کے باوجود کمان، گولی اور تلوار نے پائوں چھو کر سلام کیے نذرالاسلام نے اقبال کی مانند کسی مشہور یا قابل ذکر مقام کی تعریف میں کوئی شاعرانہ انداز بیان اختیار نہیں کیا مگر مکہ، مدینہ، شط العرب جیسی مقدس اور عظمت رفتہ کے جولان گاہوں کو نظر انداز نہ کیا۔ ماضی اور حال کے مسلمان اقبال کا ارشاد ہے کہ ماضی کے مسلمان شریعت اسلامیہ کی سختی سے پیروی کرتے تھے۔ مگرآج کے مسلمانوں کے دلوں میں نہ اسلام کی محبت باقی ہے نہ ارشاد رسولؐ کی کوئی قدر ہے۔ مسجدیں ویران پڑی ہیں۔ آج مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں تو غریب۔ روزہ رکھتے ہیں تو غریب۔ خدا کے نام لیوا ہیں تو غریب۔ دولت مند اپنی دولت کے نشے میں چور ہیں۔ نہ کسی میں حضرت علیؓ کی سی قلندرانہ شان ہے نہ حضرت عثمانؓ کی مانند غنی ہونے کی آن ہے۔ آج کے مسلمان اسی لیے دنیا میں ذلیل و خوار ہیں: ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے تم مسلمان ہو! یہ انداز مسلمانی ہے! حیدریؓ فقر ہے، نے دولت عثمانیؓ ہے تم کو اسلام سے کیا نسبت روحانی ہے؟ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم تم خطا کار و خطا بیں، وہ خطا پوش و کریم چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟ خودکشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار۱۵۴؎ اقبال کی طرح نذرالاسلام کو بھی حال کے مسلمانوں سے شکوہ ہے کہ ان کا جذبہ ایمانی سرد ہو چکا ہے۔ اسلام کے لیے کوئی خلوص باقی نہیں رہا۔ اللہ کے عشق میں کوئی سرشار نہیں۔ سینے عشق رسولؐ سے خالی ہیں۔ جہاد کرنے سے خوف کھاتے ہیں۔ اسلام کی شمع روز بروز بجھتی جا رہی ہے۔ اپنی نظم ’’وہ جوش پیدا نہیں ہوتا‘‘ میں فرماتے ہیں: مسلمانوں میں وہ جوش پیدا نہیں جس کی سرگرمی سے انھوں نے دنیا کو فتح کیا تھا صدیقؓ کی سچائی ناپید ہے عمرؓکا جذبہ قربانی نہیں رہا بلالؓ کا جذبہ ایمانی مفقود ہے علیؓ کی ذوالفقار دکھائی نہیں دیتی جہاد کی خاطر بہادر شہید بھی نہیں رہے بازوئوں میں دم نہیں رہا خالد، موسیٰ، طارق نہیں رہے بادشاہی تخت طائوس نہیں فقیر ہو گئے آج دنیا کے مالک اسلام صرف کتابوں تک محدود ہے اور مسلمان قبرستان میں مدفن۱۵۵؎ اپنی اور ایک نظم ’’کو تھائے تخت طائوس‘‘ (کہاں ہے تختِ طائوس) میں اسلام کی گذشتہ عظمت کو یاد کرتے ہوئے اور موجودہ دور میں مسلمانوں کی نکبت اور زوال پذیری پر یوں اظہار تاسف کرتے ہیں: حسنؓ، حسینؓ کہاں ہیں؟ کہاں ہیں بہادر شہیدان؟ جنھوں نے اپنی جان کی قربانی اللہ کی خوشنودی کے لیے دے دی کہاں ہے ایمان کی شدت؟ کہاں ہے وہ شان و شوکت؟ تقدیر میں وہ مہتاب نہیں صرف ظلمت ہی ظلمت چھائی ہوئی ہے۱۵۶؎ اقبال اور نذر الاسلام دونوں ہی چاہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ ہی باافتخار اور باعزت رہیں اور ہمیشہ سرخرو رہیں۔ مُلّائیت پر تنقید اقبال نے جہاں مغربیت پر کڑی طنز کی ہے، وہاں انھوں نے صوفی، ملا ، فقیہِ حرم، پیر حرم کو بھی نہیں بخشا۔ شرقیت اور مغربیت کے خلاف ان کے یہ اعتراضات ہیں: بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا۱۵۷؎ اقبال لکیر کے فقیر کٹر ملائیت کے خلاف ہیں جو مذہبی معاملات میں اجتہاد کے قائل نہیں۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ اجتہاد سے مذہب کا جوہر حاصل ہوتا ہے۔ مذہب سکونی نہیں بلکہ ایک حرکی شعور ہے۔ اس لیے بدلتے ہوئے زمانہ کے ساتھ اجتہاد کی ضرورت ہے تا کہ زمانے کی خاص ضرورتوں کے لحاظ سے مذہبی قدروں کا انکشاف ہو۔ اپنے ایک مضمون ’’ختم نبوت‘‘ میں لکھتے ہیں: علماء ہمیشہ سے اسلام کے لیے ایک قوت عظیم کا سرچشمہ رہے۔ لیکن صدیوں کے مرور کے بعد خاص کر زوال بغداد کے زمانے سے وہ بے حد قدامت پرست بن گئے۔ اور آزادیِ اجتہاد(یعنی قانونی امورمیں آزاد رائے قائم کرنے) کی مخالفت کرنے لگے۔ وہابی تحریک نے جو انیسویں صدی کے مصلحین اسلام کے لیے حوصلہ افروز تھی، درحقیقت ایک بغاوت تھی علماء کے اسی جمود کے خلاف۔ پس انیسویں صدی کے مصلحین اسلام کا پہلا مقصد یہ ہے کہ عقائد کی جدید تفسیر کی جائے اور بڑھتے ہوئے تجربے کی روشنی میں قانون کی جدید تعبیر کرنے کی آزادی حاصل کی جائے۔۱۵۸؎ اقبال کے نزدیک ملا کا مذہب سکونی اور غلامانہ ہے۔ اس میں اور اصلی مذہب یعنی حرکی اور آزاد مذہب میں بڑا فرق ہے: یا وسعتِ افلاک میں تکبیرمسلسل یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات وہ مذہبِ مردان خود آگاہ و خدا مست یہ مذہب مُلّا و جمادات و نباتات۱۵۹؎ اقبال روحانی ترقی اس کو سمجھتے ہیں: ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے۱۶۰؎ علامہ اقبال کا تجربہ یہ تھا کہ مُلّا سنگ دل ہوتا ہے۔ اور لطیف اَفکار و جذبات اس کی سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ برتری ھری کا جو شعر ترجمہ کر کے ایک مجموعے کے سرورق پر لکھا تھا: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر۱۶۱؎ اس کامصداق یہی گروہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کسی کلام کے موثر ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ ملا کے دل پر بھی اثر کرے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: چناں نالیم اندر مسجد شہر کہ دل در سینۂ ملا گدازیم۱۶۲؎ اقبال کے خیال میں ملا خواہ مخواہ عبادت کو طول دیتا ہے۔ اس طوالت سے مذہبی روح غائب ہو جاتی ہے۔ جبکہ حقیقی اسلام ظاہر و باطن میں توازن قائم رکھتا ہے۔ ہزار کام ہیں مردانِ حر کو دنیا میں انھیں کے ذوقِ عمل سے ہیں امتوں کے نظام طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے ورائے سجدہ غریبوں کو اور ہے کیا کام۱۶۳؎ ملا سیاسی معاملات میں بھی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا جس کا مظاہرہ مولانا حسن احمد مدنی نے کیا۔ اقبال نے طنزیہ الفاظ میں یوں کہا: عجم ہنوز نداند رموز دیں، ورنہ ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقام محمدؐ عربی است بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است۱۶۴؎ ملا کو اسلامی مملکت کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اس لیے کہ ترا با حرفہ و عمامہ کارے من از خود یافتم بوے نگارے ہمیں یک چوب نے سرمایۂ من نہ چوب منبرے نے چوب دارے۱۶۵؎ ملا کو دنیا داری کے علاوہ جنت میں کوئی درجہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اسے جنت بھی پسند نہیں۔ وہاں بھی وہ بحث و تکرار میں مشغول رہتا ہے: نہیں فردوس مقامِ جدل و قول و اقول بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت ہے بد آموزیِ اقوام و ملل کام اس کا اور جنت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کنشت۱۶۶؎ پس ملا روح اسلام سے ناآشنا ہونے کے ساتھ ساتھ علوم و فنون اور زندگی کے حقائق سے بھی بے گانہ ہوتا ہے۔ اس کے مدرسے میں جو علوم پڑھائے جاتے ہیں وہ فرسودہ ہو چکے ہیں۔ منطق اور فلسفہ کی پرانی بحثیں، مختلف مذہبی فرقوں سے متعلق مناظرے اور اجرام فلکیہ کے پرانے نظریات اب بھی اس کے ہاں مستند شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مدرسے میں اجتہاد کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے اقبال اس جماعت کو روشن نظر ہونے کی تلقین فرماتے ہیں اور ان کے تصورات کے جمود پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں:۱۶۷؎ پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں نے جدتِ گفتار نے جدتِ کردار۱۶۸؎ اقبال کی مانند نذرالاسلام نے بھی کٹر اور کورانہ تقلید کے مفاد پرست ملائوں کے خلاف آواز بلند کی اور اندھے پروہتوں کے خلاف نعرے بلند کیے۔ انھوں نے مفاد پرست اہل مذہب کی کورانہ تقلید سے بغاوت کی۔ ان کا خیال ہے کہ اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً مذہبی کتابیں نازل کی ہیں۔ یہ الہامی کتابیں انسانوں کی ہدایت کے لیے ہیں۔ مفاد پرست مذہبی پیشوا بغل میں کتاب دبائے پھرتے ہیں۔ لیکن انسان کا خون چوستے ہیں۔ ان کے دل میں انسانیت کے لیے کوئی جگہ نہیں اس لیے انھیں مذہبی کتابیں رکھنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ دکھاوا انھیں زیب نہیں دیتا۔ فرماتے ہیں: واہ! وہ کون لوگ ہیں جو قرآن، وید اور انجیل چوم رہے ہیں ان سے بزور کتابیں چھین لو انسان کے لیے کتاب نازل ہوئی ہے، مگر مذہب کا دم بھرنے والی ایک جماعت انسانیت کو نابود کر کے کتاب کی پوجا پاٹ میں مصروف ہے انسان کتاب کو لایا ہے، کتاب انسان کو نہیں لائی۱۶۹؎ نذرالاسلام نے انسانیت سے عاری سنگ دل مذہبی مقتدائوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا ہے جو مذہب کی آڑ میں دولت لوٹتے ہیں۔ مگر دل میں انسانی ہمدردی اور خلوص سے ایک دم عاری ہیں۔ نام نہاد مذہبی رسومات ادا کر کے بے پناہ دولت کے مالک بن جاتے ہیں۔ مگر انسانیت کے نام پر خرچ کرتے ہوئے دل کانپتا ہے۔ عبادت خانے میں نذر نیاز کا کھانا بے شک سڑ گل جائے لیکن کسی بھوکے کو کھانا دیتے ہوئے ان کا ہاتھ تھرتھراتا ہے۔ ایک انسان دشمن مولوی کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں: کل مسجد میں شیرینی تھی اور بے مقدار گوشت روٹی ملا صاحب زیر لب ہنس کر بولے ’’کافی بچ گیاہے‘‘ اسی وقت بوسیدہ لباس میں ملبوس ایک مسافر آیا بولا ’’بابا! میں سات روز کا تہی شکم ہوں‘‘ ملا تیور بدل کر غصے میں بولا: ’’یہ کیا مصیبت میرے گلے آن پڑی ہے؟‘‘ میری جان بھوکے ہو تو قبرستان میں جا کر مرو! بیٹا کیا نماز پڑھی ہے؟ بھکاری نے کہا ’’نہیں بابا‘‘ ملا للکار کر بولا ’’سالا دور ہو‘‘ ’’سیدھا راستہ پکڑ! ‘‘ اور گوشت روٹی سمیٹ کر مسجد میں ڈالو تالا۱۷۰؎ نذرالاسلام مسلمانوں کی ایسی بے جان، بے معنی اور نام نہاد عبادت کے خلاف تھے جس سے انسانیت کو فائدہ نہ پہنچے۔ وہ مسلمان صحیح مسلمان نہیں جس کا جوشِ ایمان سرد ہو۔ انھوں نے بے عمل مسلمانوں کی ریاکاری کا بھانڈا یوں پھوڑا: ریش بلند، شیروانی، چغہ، تسبیح اور ٹوپی کے سوا شجر مسلم کو جتنا بھی ہلائو، اس کے سوا کچھ نہ گرے گا۱۷۱؎ نذرالاسلام کے خیال میں مُلّا قیل و قال میں مصروف رہتے ہیں۔ دنیا داری تو ایک طرف، عبادت کی ادائیگی میں بھی غفلت شعاری برتتے ہیں۔ ان کا ظاہر و باطن بھی یکساں نہیں ہوتا۔ اسی سلسلے میں نذر الاسلام فرماتے ہیں: سوتے سوتے فجر کی نماز قضا ہو گئی کیا اب وقت ظہر ہی جاگو گے؟ ہنستے کھیلتے عصر کا وقت بھی پار ہو گیا اب مغرب کی اذان سنائی دے رہی ہے عشا کے وقت تو جماعت میں داخل ہوجائو اب بھی وہاں کچھ جگہ خالی ہے نذرالاسلام سمجھتے ہیں کہ دنیا ترقی کے کتنی منازل طے کر چکی ہی، مگر مُلا طبقہ ابھی تک مسخ شدہ یونانی بحثوں، اشاعرہ، جبریہ، قدریہ اور معتزلہ کے مناظروں میں الجھا رہتا ہے۔ اسے نئی تحقیق سے کوئی دلچسپی نہیں، اس لیے زندگی کے نئے حقائق سے ایک دم ناآشنا رہتا ہے، کیونکہ: دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی اور ہم بیٹھے فقہ و حدیث میں بیوی کو طلاق کا فتویٰ تلاش کر رہے ہیں حنفی، وہابی، لا مذہبی، یہ جھگڑا ختم نہیں ہوا کہ عزرائیل نے صدا دی ’’اٹھ اپنا سامان باندھ‘‘ نذرالاسلام ہندوئوں کی چھوت چھات سے بھی نفرت کرتے تھے جس نے طبقاتی تقسیم کے بیج بوئے اور ادنیٰ و اعلیٰ کا تصور پیدا کیا، جو سراسر غیر انسانی ہے اور سماجی تفریق پیدا کرتا ہے۔ انھوں نے ہندوئوں کی تنگ نظری پر یوں چوٹ کی: ذات کے نام پر بدذاتی، ذات پات حمایت جوا کا کھیل ہے چھو جانے سے ہی تیری ذات چلی جاتی ہے؟ ذات کوئی بچوں کا لڈو ہے؟ حقے کے پانی اور کھانے کی ہانڈی ہی کو تُو نے اپنے مذہب کی روح سمجھ رکھا ہے اے بیوقوف! اسی لیے تو نے ایک ذات کو سو خانوں میں بانٹ دیا ہے۱۷۲؎ تصوف تصوف و روحانیت علامہ اقبال کے خاندان کی گھٹی میں تھے اور ان کے آباو اجداد سے چلے آتے تھے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد تصوف میں خاصا درک رکھتے تھے اور تصوف کی کتابیں مطالعہ کرتے رہتے تھے۱۷۳؎ اور اپنے قواے روحانی کی نشو و نما کے لیے چلہ کشی کی ریاضت کر چکے تھے۔۱۷۴؎ اقبال ایک طرف اپنے صوفی منش والد ماجد کے زیر اثر اور دوسری طرف اپنے استاد میر حسن شاہ سے مسلسل رابطے کی وجہ سے ،دین سے بے حد لگائورکھتے تھے۔ پس یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ اقبال نہ صوفیوں کے مخالف تھے نہ تصوف کے۔ البتہ ان کے نزدیک تصوف وہی اسلامی اور حقیقی تصوف تھا جس کی بنیاد قرآن حکیم اور احادیث نبویؐ پر تھی۔ جو بنیادی طور پر اسلام کی روح سے ہم آہنگ تھا۔ اور جس میں رہبانیت یا زندگی سے گریز کی بجائے ایک مشیت اور فعال نظریۂ حیات کی تلقین تھی اور یہ نظریہ حیات اسلامی نظریہ حیات تھا۔ جس کے علامہ اقبال نمائندہ بھی تھے اور علم بردار بھی۔۱۷۵؎ اقبال ابتدا میں وحدۃ الوجود کی طرف مائل نظر آتے ہیں ، جس کا اظہار بانگ درا میں شامل نظم ’’جگنو‘‘ سے ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں: کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے۱۷۶؎ لیکن اقبال رفتہ رفتہ وحدۃالوجود اور فنا فی اللہ عقیدے سے بیزار ہو گئے۔ وہ اس تصوف کے قائل تھے جس نے انسان کو اعمال سے ہم کنار ہونا اور باطن کو صاف کرنا سکھایا اور جس سے تقدیر کے صحیح مفہوم کا پتہ چلتا ہے۔۱۷۷؎ علامہ اقبال نے جب مسلمانوں اور خصوصاً برصغیر کے مسلمانوں کی پستی اور زوال کے اسباب و علل پر غور کرنا شروع کیا تو ان پر یہ بات واضح ہوئی کہ جمود، سکون اور بے عملی مسلمانوں کے زوال کا سبب توہیں ہی، اس پر ستم یہ کہ فلسفہ وحدۃالوجود کی منفی تعلیمات بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔ علامہ کی طبیعت میں صوفیوں جیسی شان پائی جاتی تھی۔ وہ خود فرماتے ہیں: میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہو گیا تھا۔ کیونکہ بحیثیت وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے۔ مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی اور میں نے محض قرآنکی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کر دیا۔ اقبال نے عمل، خودی اور حرکت کے تصورات کی اشاعت کی ہے۔ ان کے نزدیک کائنات میں اصول حرکت کے علاوہ کچھ نہیں۔ حرکت میں برکت ہے۔ پس یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ بغیر حرکت کے کوئی قوم ترقی کر سکے: خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا وحدت الوجود کے قائل صوفیا خیال کرتے ہیں کہ اپنی ہستی کو خدا کی ذات میں گم کر دینے سے خدا کی قربت حاصل ہوگی۔ لیکن اقبال سمجھتے ہیں کہ اپنی ہستی کو ختم کرنے سے خودی ضعیف ہو جاتی ہے۔ وہ تصور وصال کی بجائے تصور فراق کو ترجیح دیتے ہیں: عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگِ آرز، ہجر میں لذتِ طلب۱۷۸؎ علامہ اقبال وحدت الوجود کو روح اسلام کے منافی سمجھتے ہیں۔ تصوف کے اس مسلک کا جنم یونان میں ہوا۔ انھوں نے افلاطونِ یونانی کو اس مسلک کا علم برداربتایا۔ جن کے افکار کا اسلامی تصوف اور مسلمانوں کی ادبیات پر گہرا اور دور رس اثر پڑا۔ افلاطون کی تعلیمات بقول اقبال: گفت سر زندگی در مردن است شمع را صد جلوہ از افسردن است بر تخیلہائے ما فرماں رواست جام او خواب آور و گیتی رباست۱۷۹؎ اس مسلک نے آہستہ آہستہ ایران میں بھی ورود حاصل کیا۔ جس کا زیادہ تر اثر حافظ شیرازی نے قبول کیا۔ اسرار خودی کے دیباچے میں انھوں نے حافظؔ پر کڑی تنقید کی ہے۔ فرماتے ہیں:’’عجمی تصوف سے ادب میں دلفریبی اور حسن تو پیدا ہوتا ہے لیکن ایسا کہ طبع کو پست کر دیتا ہے۔ اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے اور اس قوت کا اثر ادب پر ہوتا ہے۔۱۸۰؎اقبال نے بحروں اور قوافی میں حافظؔ کا تتبع کیا ہے لیکن وہ حافظ کی بعض تعلیمات کو ناپسندکرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: مجھے خواجہ صاحب کے تصوف پر اعتراض ہے۔ میرے نزدیک تصوفِ وجودی مذہب اسلام کا کوئی جزو نہیں بلکہ مذہب اسلام کے خلاف ہے اور یہ تعلیم غیر مسلم اقوام سے مسلمانوں میں آئی ہے۔ کلام حافظؔ میں معرفت کے مضامین ہیں۔ اقبال اس تاویل کو قبول نہیں کرتے۔ بلکہ انھیں بھی گوسفند ہی کہتے ہیں: گوسفند است و نوا آموخت است عشوہ و ناز و ادا آموخت بے نیاز از محفلِ حافظ گزر الحذر از گوسفندان الحذر۱۸۱؎ پس تصوف کے متعلق اقبال کہتے ہیں کہ ’’تصوف ہمیشہ انحطاط کی نشانی ہوتاہے۔ یونانی تصوف، ایرانی تصوف، ہندوستانی تصوف سب انحطاط قومی کے نشان ہیں۔ تصوف نے سائنٹفک روح کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔‘‘۱۸۲؎ علامہ اقبال کا ارادہ تھا کہ تصوفِ اسلام کی ایک مستقل تاریخ لکھیں اور اس امر کی نشان دہی کریں کہ مسلمانوں میں رائج تصوف میں کون سے عناصر اور اجزا ہیں جواسلامی ہیں اور جن کا سلسلہ تعلیماتِ قرآن، احادیثِ نبویؐ، سیرت صحابہؓ اور افکار و خیالاتِ اکابرِ اسلام میں ملتا ہے۔۱۸۳؎ علامہ کو بعض اکابر صوفیا سے بڑی عقیدت تھی۔ ان کے اقوال، افکار و خیالات کو علامہ نے اپنے افکار و نظریات میں قبول کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نام مولانا روم کا ہے جن کو وہ اپنا پیر و مرشد مانتے ہیں: پیر رومیؒ مرشد روشن ضمیر کاروانِ عشق و مستی را امیر۱۸۴؎ اقبال کی طرح نذرالاسلام کی شاعری میں بھی صوفیانہ رجحانات پائے جاتے ہیں۔ یہ جذبات انھیں اپنے والد قاضی فقیر احمد سے وراثت میںملے تھے جو صوفی منش آدمی تھی۔ ان کے مکان کے قریب اس زمانے کے مشہور بزرگ حاجی پہلوان مرحوم کا مزار تھا، جس کی خدمت میں انھوں نے ساری زندگی بسر کر دی۔ مزار سے متصل مسجد کی امامت کے فرائض کی ادائیگی میں بھی ہمہ تن مشغول رہتے تھے۔ اس طرح بچپن ہی سے نذرالاسلام نے اسلامی ماحول میں پرورش پائی۔ نذرالاسلام اپنی ابتدائی زندگی میں پابندی سے شریعت و طریقت پر کار بند تھے یا نہیں؟ اس کا جواب واضح طور پر نہیں ملتا مگر ۱۹۳۰ء میں اپنے بچے ’’بلبل‘‘ کی وفات نے ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ بتدریج تصوف کی طرف مائل ہوتے گئے۔ وہ وحدت الوجودی نظریے کے بموجب اللہ کے گن گاتے ہیں: دنیا اسی واحد ہستی کا کھیل ہے اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہر چیز میں اس کا جلوہ کارفرما ہے وہ ہر شے میں موجود ہے ایک اور جگہ فرماتے ہیں: خدایا! تمہاری محبت کی شراب نوش کر کے میں ایک دم مدہوش ہو گیا ہوں نذرالاسلام سمجھتے تھے کہ خدا کی ذات انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ وہ ہمارے اندر ہی بستا ہے۔ جوگیوں کی مانند اسے تلاش کرنے کے لیے جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ فرماتے ہیں: میں اپنے خالق کی شناخت، خود اپنی ذات میں کرتا ہوں ہر چیز میں اس کا جلوہ کارفرما ہے وہ ہر شے میں موجود ہے دوسری جگہ یوں کہتے ہیں: آسمان کتنا دور ہے جہاں سورج گھومتا ہے مگر سورج مکھی ہمیشہ اپنا منہ سورج کی جانب رکھتی ہے میرے چہرے کا رخ بھی ہمیشہ خدا کی طرف رہتا ہے نذرالاسلام خدا کی وحدانیت پر راسخ عقیدہ رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ دنیا میں یہ تمام فسادات اور جنگ و جدال اسی لیے برپا ہیں کہ ہم خدا کی وحدانیت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں خدا کے وحدت الوجود ہونے کی تلقین یوں کرتے ہیں: انسان نے نظریہ توحید کو فراموش کر دیا اور آپسی اختلافات نے جنم لیا اس طرح دنیا نے بھیانک روپ اختیار کر لیا وحدت الوجود اور کثرت الوجود کے درمیان عظیم جنگ برپا ہے اس جنگ میں وحدت الوجود کو فتح حاصل ہوگی اللہ ھو اکبر --------- وحدت الوجود سے متعلق سب اختلافات ختم ہو جائیں گے تمام تفرقات مٹ جائیں گے اور سب وحدانیت کے قائل ہو جائیں گے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۰ء کو انھوں نے کلکتہ میں ’’مسلم طلبہ کانفرنس ‘‘ کی صدارت کرتے ہوئے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ مجھے اللہ کے سوا کسی اور کی خواہش نہیں۔۱۸۵؎ ۱۶ مارچ ۱۹۴۱ء کو بنگائوں (چوبیس پرگنہ) کی ادبی کانفرنس میں صدارت کرتے ہوئے کہا: میں شاعرانہ عظمت کا خواہاں ہو کر پیدا نہیں ہوا۔ میں اس دنیا میں اپنی قوت کو ڈھونڈنے آیا تھا۔ مجھے اس کا سراغ مل گیا ہے …آپ نے مجھے ادبی کانفرنس میں ادب کے متعلق بات چیت کرنے کے لیے بلایا ہے۔ Mysticismکی حقیقتیں سننے کے لیے بلایا ہے۔ مگر آپ کو دیر ہو گئی ہے۔ اس Mysticismیا Mystryمیں جو مٹھاس اور مزہ مجھے ملا ہے اس سے میرا کلام شیریں، اور شیریں اور صرف شیریں ہے۔۱۸۶؎ ۱۹۴۱ء میں نذرالاسلام کے قریبی دوست خان محمد محی الدین لکھتے ہیں: خبر آئی ہے کہ نذرالاسلام نے کسی ایک مسلم درویش کی شاگردی اختیار کر لی ہے۔ اور اب معرفت کی باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اکثر قرآنشریف میں، معرفت کی تلاش میں استقامت کے ساتھ مشغول ہیں۔۱۸۷؎ ابتدائی دور میں نذرالاسلام عملی زندگی میں تصوف و معرفت پر عمل پیرا تھے یا نہیں، مگر زندگی کے آخری دور میں جب یاس اور قنوطیت ان پر حملہ آور ہوئی تو انھوں نے تصوف کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ یوں ان کی اسلامی شاعری کا سلسلہ بھی دراز ہوتا گیا۔ ان کے اسلامی گیتوں کی تعداد بے شمار ہے۔ انھوں نے اکابرین اسلام کی شان میں بھی پُرجوش نظمیں کہی ہیں۔ رجائیت اقبال ایک رجائی شاعر ہیں۔ وہ عصر حاضر میں مسلمانوں کی زبوں حالی کے باوجود ان کے روشن مستقبل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ آج کی تشویش ناک حالت کی باجود ہمیں امید دکھاتے و یقین دلاتے ہیں: تو نے دیکھا سطوتِ رفتارِ دریا کا عروج موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلمان آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ! اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پیر دیکھ۱۸۸؎ اقبال کی شاعری میں اگرچہ ماضی سے لگائو کی بڑی والہانہ کیفیت ملتی ہے۔ لیکن وہ ماضی کے آثار کی پرستش نہیں کرتے بلکہ ان کی روشنی میں و ہ مستقبل کے امکانات کی تعبیر دیکھنا چاہتے ہیں۔۱۸۹؎ یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں۱۹۰؎ موجودہ دور مسلمانوں کے لیے ایک عالم گیر سیاسی بحران کادور ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں دنیا سے اسلام کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں۔ مسلمانوں میں اتحاد نہیں۔ اسلامی ممالک میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ان شیطانی اور طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کر سکے۔ ان حالات میں ہمیں ناامید نہ ہونا چاہیے بلکہ اقبال کی فکر و نظر کو زاد سفر بنانا چاہیے: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں۱۹۱؎ شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے۱۹۲؎ سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا تھا پھر استوار ہوگا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا۱۹۳؎ مستقبل میں اسلام کی سربلندی کی مزید بشارت یوں دیتے ہیں: سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۱۹۴؎ انھوں نے دنیا میں اسلامی حکومت کے قیام کا خواب دیکھا: کتاب ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ وبر پیدا۱۹۵؎ اقبال نے امت مسلمہ کو روشن مستقبل کا خواب دکھایا، انھیں ولولہ دیا اسی لیے انھیں ’’حکیم الامت‘‘ کہا جاتاہے۔ قوم کے نام ان کا پیغام یہ ہے: جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا۱۹۶؎ پھر قوم کو یوں دعوت دیتے ہیں: جہاں میں اہل ایمان صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۱۹۷؎ کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر دیکھ۱۹۸؎ شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صبح امید کی ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی۱۹۹؎ اقبال کی مانند نذرالاسلام بھی رجائیت کے قائل تھے۔ انھوں نے بھی دنیا میں اسلامی اقتدار کا خواب دیکھا اور کہا: دیکھو آج عید گاہِ شہادت میں جماعت بھاری ہو گئی ہے دنیا میں پھر اسلامی فرمان جاری ہو گا۲۰۰؎ نذرالاسلام بھی تہ دل سے مسلمانوں کے عروج کے خواہاں تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر اس کی خواہش ظاہر کی ہے۔ وہ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے تصور پر مسرور ہوتے ہیں۔ انھوں نے اسلامی ممالک میں بیداری کی لہر دیکھی تو ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا پیغام دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہندوستان کے مسلمان بیدار ہو جائیں تو یہ سیل رواںروکے سے نہ رکے گا۔ کہتے ہیں: ہر طرف پھر جل اٹھی دین اسلام کی سرخ مشعل ارے او بے خبر ، تُو بھی جاگ تو بھی اپنے من کا دیپ جلا غازی مصطفی کمال کے ساتھ ترکی کا سورج طلوع ہوا رضا پہلوی کے ساتھ جاگ اٹھا ویران ملک ایران آج مصر بھی غلامی کی نیند سے بیدار ہوگیا ہے زغلول کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کے جاگ رہے ہیں صرف ہندوستان کے دس کروڑ بے خبر مسلمان اصحاب ِ کہف کی مانند ہزاروں سالوں سے سو رہے ہیں ہمارا بھی کوئی بادشاہ تھا آج بھی اسی کی ہم بڑائی کرتے ہیں اگر ہم جاگ اٹھیں تو دنیا دوبارہ اس کے قدموں میں تھرتھرکانپے گی۲۰۱؎ نذرالاسلام شکست و تباہی کو دیکھ کر نہیں گھبراتے بلکہ اس میں انھیں حسین و روشن مستقبل نظر آتا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ تخریب تعمیر کا پیغام لے کر آتی ہے۔ سیلاب تباہی بدوش آتا ہے مگر اس کے اثر سے زمین بھی زرخیز ہو جاتی ہے۔ اسی لیے وہ پُرامید نگاہوں سے اس کا انتظار اور خیر مقدم کرتے ہیں۔ انقلاب سے موجودہ سیاسی اور سماجی نظام کو تہ و بالا کر کے نئے سرے سے ایک معتدل ضابطۂ حیات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو فتح و نصرت کے گیت گانے پر اکساتے ہیں۔۲۰۲؎ فرماتے ہیں: تباہی کو دیکھ کر تُو کیوں ڈرتا ہے؟ تباہی کا درد نئی تخلیق کا پیغام دیتا ہے تباہ شدہ زندگی کے بدنما داغ کو مٹانے کے لیے دورِ جدید آ رہا ہے اسی لیے بیساکھی کا وہ طوفان اپنے ڈرائونے بھیس میں تباہی لیے بھی مسکراتا آ رہا ہے وہ توڑ کر بھی دائمی حسن کی تعمیر کرنا جانتا ہے تم سب فتح کے نعرے لگائو! تم سب فتح کے نعرے لگائو!۲۰۳؎ نذرالاسلام نے اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کی دوبارہ سرخروی کے لیے یوں دعا کی تھی: یا خدا! اسلام کو توفیق دے مسلم جہاں پھر سے آباد ہو وہ کھوئی ہوئی سلطنت عطا کر وہ بازو و آزاد دل عنایت کر عطا کرو خلیفہ، وہ حشمت دو پھر مدینہ اور بغداد سب مسلمان ایک قطار میں کھڑے ہوں ان کا ہلالی پرچم پھر سے لہرائے۲۰۴؎ سخت کوشی اقبال اور نذرالاسلام دونوں زندگی میں جدوجہد اور سخت کوشی کے قائل تھے۔ اقبال اس سلسلے میں فرماتے ہیں: خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد۲۰۵؎ گزر اوقات کر لیتا ہے وہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی۲۰۶؎ حدیث بے خبراں ہے تو بازمانہ بساز زمانہ با تو نسازد، تو بازمانہ ستیز۲۰۷؎ اقبال سمجھتے ہیں کہ انسان اپنی سخت کوشی، محنت اور عزم و ہمت سے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔ سخت کوشی کے بغیر انسان بے دست و پا رہ جاتا ہے۔ انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ وہ اپنے عزم و ہمت سے بلکہ بعض حالات میں صرف ایک جنبشِ ابرو اور اشارئہ انگشت سے تقدیر کو بدل سکتا ہے۔۲۰۸؎ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۲۰۹؎ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ۲۱۰؎ اقبال کے خیال میں انسان عمل، کوششِ پیہم، جہدِ مسلسل سے دنیا کو سرنگوں کر سکتا ہے۔ وہ دنیا میں ایک زندہ اور متحرک قوت ہے: ناچیز جہاں مہ و پروین ترے آگے وہ عالم مجبور ہے تو عالم آزاد۲۱۱؎ ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگی انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں۲۱۲؎ نٹشے کی طرح اقبال بھی استیلا، قوت اور جہاد کو زندگی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ نٹشے کہتا ہے: ’’نیکی، قوت اور ہمت مردانہ کا نام ہے۔ بلکہ ہر اس شے کا نام ہے جو انسانوں میں استیلا اور قوت کے جذبات کو ترقی دے۔ اور بدی ہر وہ چیز جو کمزوری سے پیدا ہو۔‘‘ اقبال جہاد کو زندگی کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں لیکن کون سا جہاد؟ ساری دنیا کو غلام بنانے کے لیے نہیں بلکہ خدائی کلمہ کی تبلیغ کے لیے۔ جوع الارض اور دنیا کی تسخیر کا جہاد اقبال کے نزدیک حرام ہے: ہر کہ خنجر بہر غیر اللہ کشید تیغ او در سینہ او آرمید۲۱۳؎ اس جہاد کے سلسلے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اقبال کا منتہا مادی قوت نہیں بلکہ روحانی قوت ہے۔وہ زندگی گزارنے کے لیے سخت کوشی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ نذرالاسلام کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ سخت کوشی سے ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انسان اپنی لگن اور محنت سے پہاڑ پربت کو فتح کر سکتا ہے۔ ’’شیر خدا‘‘ کا درجہ حاصل کر سکتا ہے: سچ کی خاطر بدی کے ساتھ جنگ کیے جائو میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے جان دے کر امر ہو جائو یہی اللہ کا حکم ہے ناممکن کو ممکن کر دکھانے میں ہی کمال ہے اللہ تعالیٰ بے ایمان اور کمزور کو پسند نہیں کرتا ’’شیر خدا‘‘ وہی کہلاتا ہے جو اس بات پر اٹل ایمان رکھتا ہے نذرالاسلام زندگی میں ’’سخت کوشی‘‘ کی ضرورت کو اپنے مضمون ’’کمال‘‘ میں یوں واضح کرتے ہیں: داڑھی رکھ کے، گوشت کھا کر، نماز و روزہ ادا کرنے سے اللہ کی نیابت حاصل نہ ہو گی، ملک بھی نجات نہ پائے گا۔ اس حقیقت کو مسلمان کمال پاشان نے سمجھ لیا تھا ورنہ اتنے عرصے تک وہ بنگال کے کھلم کھلا ملائوں کی طرح سب چھوڑ کر کعبہ کی طرف منہ کر کے اٹھک بیٹھک شروع کر دیتے۔ کمال پاشا نے سمجھ لیا تھا کہ بابا! خواہ کتنی لمبی داڑھی ہی رکھوں یا فاقہ کشی کروں اس سے اللہ کا عرش کبھی نہیں کانپے گا۔ اللہ تعالیٰ کے عرش میں کپکپی پیدا کرنے کے لیے حضرت علیؓ کی پکار کی ضرورت ہے۔ اتنی مار کی ضرورت ہے کہ اس مار کی چوٹ سے خالق کے گردے میں چمک پیدا ہو جائے۔ مذہب کے نام پر مکاری کرنے سے اسلام کبھی چھٹکارا نہ پائے گا۔ اس کے لیے داڑھی نہیں ، نماز روزہ نہیں بلکہ اسلام کی مخصوص تلوار چاہیے۔ اقبال اور نذرالاسلام دونوں امن و شانتی بحال کرنے کی خاطر سخت کوشی کی تعلیم دیتے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی جنگ و جدل کا قائل نہ تھا۔ نذرالاسلام نے اسے وقت کی ضرورت سمجھا اور اقبال نے مسلمانوں کے لیے مستقل تقاضا قرار دیا۔ تقدیر علامہ اقبال نے تقدیر پرستی کے اس تصور کی مذمت کی ہے جس میں آدمی عمل سے کنارہ کش ہو جائے اور یہ خیال کرے کہ انسان تو مجبور محض ہے ۔ سب کام خدا کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ اقبال نے اس تصور کے خلاف مسلمانوں سے مخاطب ہو کر یوں فرمایا: خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کے تقدیر کا بہانہ۲۱۴؎ اقبال ایسی تقدیر پرستی کے حامی نہیں۔ وہ انسان کو مجبور نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ قوم اپنی تدبیر سے اپنی تقدیر خود بناتی ہے: خدا آں ملتے را سروری داد کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت۲۱۵؎ وہ جگہ جگہ ارشاد فرماتے ہیں: تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبین۲۱۶؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۲۱۷؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۲۱۸؎ اسلام نے ایمان کے بعد عمل سے زیادہ کسی شے پر زور نہیں دیا۔ قرآن مجید کی آیات اس کی شاہد ہیں۔ عمل کا اس شد و مد کے ساتھ تبلیغ کرنا خود بتاتا ہے کہ تقدیر کا وہ مفہوم ہر گز نہیں ہے جسے آج کل مسلمان حرز جاں بنائے ہوئے ہیں۔۲۱۹؎ مسلمان کی شان تو یہ ہے: اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر ہے اس کا مقدر ابھی ناخوش ابھی خورسند تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند۲۲۰؎ اقبال کا پیغام مسلمانوں کے نام صاف ہے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۲۲۱؎ اقبال کی طرح نذرالاسلام بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عام لوگوں کا یہ عقیدہ کہ ’’تقدیر کا لکھا ٹل نہیں سکتا‘‘ سراسر غلط ہے۔ تقدیر پر بھروسا کر کے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ خیالی پلائو پکاتے ہیں کہ ایک دن تو تقدیر چمکے گی۔ مگر تقدیر اس کی بے عملی پر ہنستی اور اس کا مذاق اڑاتی ہے کیونکہ وہ نہیں سمجھتا کہ اس کے مصائب کی ذمہ دار تقدیر نہیں بلکہ وہ خود ہے۔ انسان تو اپنی تقدیر کا خالق خود ہے۔ اس بارے میں نذرالاسلام فرماتے ہیں: جو زندان میں تھے وہ دراز دل آج زندہ ہو کر شمشیر لے کر میدان عمل کی طرف دوڑ رہے ہیں آج تقدیر بدل گئی ہے کیونکہ ان کی تکبیر بلند ہو گئی ہے اقبال کے ہاں مسئلہ ’’تقدیر ‘‘اور اس کا حل زور دار ہے جو نذرالاسلام کے ہاں اتنا زور دار اور جوشیلا نہیں۔ خودی اقبال کو نذرالاسلام پر ایک اور لحاظ سے بھی فوقیت حاصل ہے کہ اقبال نے استحکام شخصیت اور دنیائے اسلام کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے ’’خودی‘‘ کا فلسفہ پیش کیا۔ خودی اقبال کے ایک فلسفے کی بنیاد ہے۔ اقبال کی خودی کا مطلب ’’تکبر‘‘ نہیں بلکہ ’’خود شناسی‘‘ یا ’’عرفانِ نفس‘‘ ہے۔ اسرار خودی کے دیباچے میں فرماتے ہیں: یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض ’’احساسِ نفس‘‘ یا تعیین ذات ہے۔ سیدھے سادے الفاظ میں اقبال کے نزدیک خودی نام ہے تعینِ نفس کا۔ جو شخص اپنی پوشیدہ قوتوں کو جان لے گا اور ان قوتوں کو کام میں لائے گا اس کی خودی بیدار ہو گی اور وہ کائنات پر غالب رہے گا۔ انسان کے علاوہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ بھی ہے وہ خودی کی بدولت ہے۔ خودی کائنات کے ذرے ذرے میں کارفرما ہے۔۲۲۲؎ پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ می بینی ز اسرارِ خودی است اسلام بھی عرفانِ خودی کی تعلیم دیتا ہے۔ خودی کے عارف کے سامنے دنیا جھک جاتی ہے۔ وہ بے پناہ قوتوں کا مالک ہوتا ہے اور ہر شے اس کے اشارہ پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ وہ چشم زدن میں دنیا کو منقلب کر سکتا ہے۔ مکان و لامکان سب جگہ اسی کا ڈنکا بجتا ہے اور زمین و آسمان، لیل و نہار سب اس کے فرماں بردار بن جاتے ہیں۔۲۲۳؎ رمز دین مصطفی دانی کہ چیست؟ فاش دیدن خویش را شاہنشہی است چیست دین؟ دریافتن اسرارِ خویش زندگی مرگ است بے دیدار خویش آن مسلمانے کہ بیند خویش را از جہانے بر گزیند خویش را۲۲۴؎ پس خودی وہ قوت ہے جو انسان کو خود نگر، خود گر، نگہدار اور خود آگاہ بناتی ہے، اور اس کو لامحدود قوتوں کا مرکز بنا دیتی ہے۔ سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں کرن چاند میں ہے، شرر سنگ میں یہ بیرنگ ہے، ڈوب کر رنگ میں ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی ناک آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے۲۲۵؎ خودی کی تربیت کے لیے اقبال کے نزدیک تین مرحلے ہیں: اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔ فرد جب ان تینوں منزلوں کو طے کر لیتا ہے تو وہ نیابت الٰہی کی منزل میں آپہنچتا ہے۔ مثنوی اسرار خودی میں نیابت الٰہی کی تعریف کرتے ہوئے اقبال اسے تربیت خودی کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں: نائب حق در جہان بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است نائب حق ہمچو جان عالم است ہستیٔ او ظلِّ اسمِ اعظم است فطرتش معمور و می خواہد نمود عالمے دیگر بیارد در وجود۲۲۶؎ --------- صد جہاں مثل جہانِ جزو کل روید از کشت خیال او چو گل زندگی بخشد ز اعجاز عمل می کند تجدید انداز عمل۲۲۷؎ زندگی را می کند تفسیر نو می دہد ایں خواب را تعبیر نو۲۲۸؎ خودی کے ساتھ اقبال کا ایک موضوع بے خودی ہے۔ بے خودی کے معنی ہیں: اپنے آپ کو جماعت میں ملا دینا۔ یعنی فرد کا اپنے احساسات کو جماعت کے مقصد وحید کے اندر فنا کر دینا۔ کیونکہ فرد کے لیے جماعت میں داخل ہونا آیۂ رحمت ہے۔ اور اپنی ہستی کو جماعت سے جدا نہ سمجھنا عین کمال۔ یعنی جس طرح قطرہ دریا میں مل کر دریا ہو جاتاہے۔ اسی طرح فرد جماعت میں داخل ہو کر جماعت کی قوت، جماعت کا وقار اور جماعت کے اوصاف سے متصف ہو جاتا ہے۔۲۲۹؎ فرد تا اندر جماعت گم شود قطرہ وسعت طلب قلزم شود۲۳۰؎ فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں۲۳۱؎ اقبال کی شاعری میں حفظ خودی کے بارے میں بے انتہا اشعار ہیں۔ مگر نذرالاسلام کی شاعری میں کہیں کہیں خودی اور معرفت نفس کا درس ملتا ہے۔ مگر اقبال کی مانند اتنا واضح نہیں۔ کبھی کبھی وہ بھی خیال کرتے ہیں کہ خودی ’’راز درون حیات‘‘ اور بیداری ِ کائنات کا ذریعہ ہے۔ عرفان نفس ہی کا نام خدا ہے۔ اس لیے انسان کی خودی بیدار ہو تو خدا بھی اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ ان کے الفاظ میں: اپنے میں آزاد اور اسلاف کی روح بیدار کرو خودی بیدار ہو تو خدا بھی اسے چاہنے لگتا ہے خدا کون ہے؟ معرفتِ نفس ہے۲۳۲؎ خودی کے زور سے نذرالاسلام سب کو منزل پر پہنچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: بہادر کہہ دے کہہ دے، میں سربلند ہوں تو خودی کو پہچان! کہہ دے، میں ہوں ،تیری فتح یقینی ہے۲۳۳؎ نذرالاسلام نے اپنی شاعری کے ضمن میں کہیں کہیں خودی کا تصور پیش کیاہے مگر یہ ان کا باقاعدہ مشن نہ تھا۔ وہ استعماری طاقت کے خلاف خودی کا درس دیتے ہیں۔ عشق اقبال کے ہاں ’’عشق‘‘ کے معنی مرد و عورت کے درمیان روایتی عشق کے نہیں۔ فارسی اور اردو ادب میں لفظ عشق ،عاشق و معشوق کے درمیان عشق و عاشقی اور فراق و وصال کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔لیکن اقبال نے اسے ایک خاص فلسفیانہ رنگ دیا ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق کا مفہوم عمل سے وابستہ ہے جس کی بدولت انسان کی خودی مستحکم ہوتی ہے۔ یعنی تخلیقی استعداد، خود استحکامی اور خود افزائی کے انتہائی مرتبہ کا نام عشق ہے۔ فرماتے ہیں: صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق۲۳۴؎ عشق کی کیفیت کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے اقبال کی نظم ’’محبت‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق کی مدد سے روحِ انسانی غیر فانی بقا حاصل کرتی ہے۔ دنیا کے ہر ذرے میں عشق موجود ہے، یہی جذبہ کشش پیدا کرتا ہے۔ اسی سے انسان میں تخلیقی استعداد پیدا ہوتی ہے۔ عشق عمل کا دوسرا نام ہے۔۲۳۵؎ اقبال کے نزدیک عشق سے جذب و تمنا اور سعی و جہد کی مختلف صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسانی آنکھ لذت دیدار کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اور منقار بلبل اس کی سعیِ ندا کی مرہون منت ہے۔ یہ سب زندگی کی تمناے اظہار کے شیون ہیں۔ عشق اس اظہار میں ممد و معاون ہوتاہے۔ کبوتر کی شوخیِ خرام اور بلبل کا ذوق نوا، دونوں جذب و مستی کے مظاہر ہیں:۲۳۶؎ چیست اصل دیدئہ بیدار ما نسبت صورت لذتِ دیدار ما کبک پا از شوخیٔ رفتار یافت بلبل از سعیٔ نوا منقار یافت۲۳۷؎ زندگی کے جس چاک کو عقل نہیں سی سکتی اس کو عشق اپنی کرامات سے بے سوزن و تارِ رفو سی سکتا ہے: وہ پرانے چاک جن کو عقل سی نہیں سکتی عشق سیتا ہے انھیں بے سوزن و تارِ رفو۲۳۸؎ اقبال عقل کی رہنمائی کو مانتے ضرور ہیں لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عقل اپنی کوتاہیوں کی بدولت جملہ مقاصد کے حصول سے عاجز رہتی ہے۔ اس کے برعکس عشق ان منزلوں تک پہنچاتا ہے جہاں عقل کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ معاملات زندگی میں عقل بھی مددگار ہوتی ہے لیکن عشق کو عقل پر برتری حاصل ہے۔ اگر ان دونوں میں تعاون اور ہم آہنگی ہو اور دونوں مل کر رہنمائی کریں تو انسان بلند مقاصد اور کمالاتِ انسانیت بدرجۂ اتم حاصل کر لیتا ہے: عقلے کہ جہاں سوز و یک جلوئہ بے باکش از عشق بیا موزد، آئین جہان تابی۲۳۹؎ اقبال کے نزدیک عقل و عشق میں باہم تضاد تو نہیں مگر پھر بھی عقل میں جوش، تڑپ اور جراتِ رندانہ نہیں، وہ اکیلی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں۲۴۰؎ جو لوگ عشق کو وجدان نہیں بلکہ محض ہوس سمجھتے ہیں انھیں عشق کے رموز سمجھانا عبث ہے۔ رمز عشق تو بہ ارباب ہوس نتوان گفت سخن از تاب و تب شعلہ بہ خس نتوان گفت۲۴۱؎ عقل کی بدولت خارجی اشیاء کی تقسیم بندی ممکن ہے جس کے بغیر انسان کی تصرف و ایجاد کی صلاحیتیں بروئے کار نہیں آ سکتیں۔ عقل کا کام مادی اور مکانی دنیا کے معاملات سلجھانا اور مخفی پہلوئوں کی عقدہ کشائی کرنا ہے۔ لیکن ہم زندگی اور ذہن کی اندرونی کیفیت صرف عشق و وجدان کے ذریعے محسوس کرتے ہیں۔۲۴۲؎ حیات و کائنات کی تکوین، بقا اور ارتقاء سب کا ضامن عشق ہے۔۲۴۳؎ عشق اقبال کا پسندیدہ موضوع ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں بہت سے اشعار فرمائے ہیں: عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفی عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک عشق صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام عشق فقیہ حرم، عشق امیر جنود عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات۲۴۴؎ ضرب کلیم میں فرماتے ہیں: عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات عشق سراپا یقین اور یقین فتح یاب علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب۲۴۵؎ پس اقبال کے نزدیک عشق وہ طاقت ہے جس کی بدولت روحِ انسانی غیر فانی بقا حاصل کرتی ہے۔ دنیا کے ہر ذرے میں عشق موجود ہے۔ یہی جذبہ کشش ہے اور اسی سے انسان میں تخلیقی استعداد پیدا ہوتی ہے۔ لیکن نذرالاسلام کے ہاں ’’عشق‘‘ کا ایسا کوئی فلسفیانہ تصور نہیں۔ ان کے ہاں ’’عشق‘‘ کا مفہوم روایتی ہے۔ جہاں انھوں نے انقلاب اور بغاوت کے شعلہ پوش لفظوں سے اپنے ہم وطنوں کے دلوں کو گرمایا، وہاں ان کے دل کے نہاں خانے میں عشق و محبت کی مشعلیں بھی فروزاں تھیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں طبل جنگ تھا تو دوسرے ہاتھ میں محبت کی بانسری۔ انھوں نے عشق و محبت پر متعدد گیت اور نظمیں لکھیں۔ کہیں محبوب پر غم و غصہ ہے اور کہیں محبت کی بارش، کہیں ہجر ہے تو کہیں وصال۔ ان کے کلام میں سوز و گداز ہے اور شگفتگی و شادابی۔ بطور مثال چند اشعار: تمہاری تقریب عروسی پر اپنے دونوں ہاتھوں سے میں تمہیں ہار پہنائوں گا میری آنکھوں میں اگر آنسو ڈبڈبائے میں انھیں اپنے دونوں ہاتھوں سے پونچھ ڈالوں گا محبوبہ! پھر بھی میں تمہیں ہار پہنائوں گا۲۴۶؎ --------- جس دن میں کھو جائوں گا اس دن محسوس کرو گی، سمجھو گی ستارئہ شام سے میرا پتہ پوچھو گی اس دن محسوس کرو گی، سمجھو گی میری تصویر سینے سے لگا کر روتے روتے پاگل ہو جائو گی صحرا، باغ، پہاڑوں میں گھومتی پھرو گی سمندر، آسمان، ہوائوں کو چیر کر مجھے تلاش کرتی پھرو گی اس دن مجھے یاد کرو گی، یاد کرو گی۲۴۷؎ محبوب کے حسن اور اپنی محبت کا اظہار یوں کیا ہے: تم اتنی حسین ہو، اسی لیے تمہیں تکتا رہتا ہوں، میری محبوبہ! کیا یہ میرا جرم ہے؟ چکوری چاند کو دیکھ کر پکارتی ہے لیکن چاند کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا میں کھلتے پھولوں کو دیکھتا رہتا ہوں، دیکھتا رہتا ہوں لیکن پھولوں کو اس میں کوئی خطا نظر نہیں آتی چاتوکی۲۴۸؎ بادلوں کے لیے اپنے محبت بھرے آنسو بہاتی ہے لیکن بادلوں کو کوئی اعتراض نہیں سورج مکھی جانتی ہے، وہ کبھی سورج کو نہیں حاصل کر سکے گی لیکن بھولا پھول پھر بھی اپنے دیوتا کو دیکھتا رہتا ہے اور خوش ہے میری آنکھیں بھی تمہاری اسیرِ محبت ہیں او حسینہ! میری خواہش کو پورا ہونے دو او! میری محبوبہ۲۴۹؎ اسی طرح نذرالاسلام نے حسن و عشق اور دل کی واردات اور چاہت پر لاتعداد نظمیں اور گیت لکھے ہیں۔ عورت اقبال کے کلام میں عورت سے عشق بہت کم ہے۔ صرف بانگ درا کے دوسرے حصے میں جو یورپ میں لکھا گیا تھا، دو نظمیں ایسی ہیں جن میں عورت سے عشق نمایاں ہے۔ ایک ’’حسن و عشق‘‘ اور دوسرے ’’…کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘۔ دونوں نظمیں انگریزی اور یورپی رومانی شاعری کے روایتی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں اور رومانی انداز سے مجازی عشق کا ڈانڈا عشق مطلق کے تصورات سے ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے بعد اقبال کے کلام میں نسوانی حسن سے تاثر کی کچھ کچھ جھلک بال جبریل کی ان نظموں میں ملتی ہے جو یورپ کے دوسرے سفر میں لکھی گئی تھیں۔ یہ اقبال کی پختگیِ عمر کا زمانہ تھا۔ کہیں کہیں سنجیدہ شوخی ہے۔ مثلاً ان کی سب سے دقیق اور شاید سب سے اچھی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں: آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں وہ دل نشین۲۵۰؎ ہوائے قرطبہ ہی کے اثر سے کچھ اور شعروں میں عورت کا حسن جھلکتا ہے مگر رنگ واعظانہ ہے: یہ حوریانِ فرنگی دل و نظر کا حجاب بہشت مغربیان جلوہ ہائے پا بہ رکاب دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب۲۵۱؎ اقبال آزادی ِ نسواں کے حامی نہ تھے۔ لیکن بحثیت انسان، مرد اور عورت کی مساوات کے قائل تھے: پوشش عریانی مردان زن است حسن دلجو عشق را پیراہن است۲۵۲؎ ۷ جنوری ۱۹۲۹ء کو ’’انجمن خواتین اسلام‘‘ کے ایک سپاس نامے کے جواب میں انھوںنے فرمایا: اسلام میں عورت اور مرد میں قطعی مساوات ہے۔ قرون اولیٰ میں عورتیں جہاد میں مردوں کے دوش بدوش شریک ہوئیں۔ خلیفہ کے انتخاب میں اپنی آواز رکھتی تھیں۔ خلفائے عباسیہ کے عہد میں ایک موقع پر خلیفہ کی بہن قاضی القضاۃ کے عہدے پر مامور تھیں اور خود فتویٰ صادر کرتی تھیں۔ پھر ارشاد فرمایا: عورت کے بحیثیت عورت، اور مرد کے بحیثیت مرد، بعض خاص خاص علیحدہ فرائض ہیں۔ ان فرائض میں اختلاف ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ عورت ادنیٰ اورمرد اعلیٰ ہے۔۲۵۳؎ مگر اس مساوات کے باوجود مرد ہی عورت کا محافظ، نگران، سہارا دینے والا اور نگہبان ہے۔ اس نکتے کی تائید یوں کرتے ہیں: نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد۲۵۴؎ اس مفہوم کو دوسری جگہ یوں ادا کیا ہے: جوہرِ مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود۲۵۵؎ عورت پر مرد کی برتری کے باوجود اقبال عورت کو تمدن کی جڑ، تمام نیکیوں کا مدار اور عشق الٰہی کا نقطہ آغاز تصور کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں: عورت حقیقت میں تمام تمدن کی جڑ ہے۔ ماں اور بیوی دو ایسے پیارے لفظ ہیں کہ تمام مذہبی اور تمدنی نیکیاں ان میں منتشر ہیں۔ اگر ماں کی محبت میں حب وطن اور حب قوم پوشیدہ ہے، جس سے تمام نیکیاں بطور نتیجہ کے پیدا ہوتی ہیں، تو بیوی کی محبت اس سوز کا آغاز ہے جس کو عشق الٰہی کہتے ہیں۔۲۵۶؎ اقبال ہمیشہ عورت کی بڑائی اور فضیلت کے معترف ہیں۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے، زندگی کا سوزِ درون شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی کہ ہر شرف ہے، اسی دُرج کا دُرِ مکنوں۲۵۷؎ بقاے نسل اور تعمیرِ معاشرہ میں بیوی اور ماں کے کردار کی تعریف میں رطب اللسان ہیں: طینت پاک تو ما را رحمت است قوتِ دین و اساسِ ملت است کودکِ ما چوں لب از شیر تو شست لا الٰہ آموختی او را نخست می تراشد مہر تو اطوار ما فکرِ ما، گفتارِ ما، کردارِ ما اے امینِ نعمتِ آئینِ حق در نفسہائے تو سوزِ دینِ حق۲۵۸؎ اقبال حضرت فاطمہؓ کو ملت اسلامیہ کی مائوں کے لیے مثالی خاتون سمجھتے ہیں اور جگہ جگہ ان کی اتباع کی تاکید کرے ہیں کہ وہ کس طرح چکی پیستے ہوئے قرآن مجید پڑھتی رہتی تھیں اور گھریلو کاموں میں مشکیزہ تک اٹھانے پر صبر فرماتی تھیں۔ اقبال کے خیال میں سیرت کی اسی پختگی سے حضرت حسینؓ ان کی آغوش سے نکلے: مزرعِ تسلیم را حاصل بتول مادراں را اسوئہ کامل بتولؓ آں ادب پروردئہ صبر و رضا آسیا گردان و لب قرآن سرا۲۵۹؎ فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند چشم ہوش از اسوئہ زہرا بلند تا حسینےؓ شاخِ تو بار آورد موسم پیشین بہ گلزار آورد۲۶۰؎ اقبال نے اپنے کلام میں مسلم خواتین کو بہت عزت بخشی اور انھوں نے ان کے جائز حقوق کی پوری حمایت کی۔ وہ مسلم خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: اگر پندے ز درویشے پزیری ہزار امت بمیرد تو نہ میری بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر کہ در آغوشِ شبیرےؓ بگیری۲۶۱؎ اقبال کی مانند نذرالاسلام نے بھی عورت کو ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے طبقہ نسواں کی مظلومی سے متاثر ہو کر انقلابی نظمیں کہی ہیں۔ رومانی شاعری کے علاوہ ان کی انقلابی شاعری میں بھی عورت نمایاں حیثیت کی مالک ہے۔ طوائف کو مذہب و سماج کی نگاہوں میں تحقیر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر نذرالاسلام نے انھیں ’’ماں‘‘ کہہ کر پکارا، اس طرح انھیں بھی عزت کی مسند پر فائز کیا: ’’ماں کون تجھے طوائف کہتا ہے؟ کون تجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے بہت ممکن ہے کسی مستی ساوتری کے گھر میں تیری پیدائش ہوئی ہو! تیرے بچے ہمارے بچے ہیں ان کی عبادتیں بھی آسمان کے صدر دروازے پر دستک دے سکتی ہیں یہاں کوئی پاپی نہیں، کسی سے نفرت نہیں کی جا سکتی اگر کسی عصمت فروش کا بچہ ناجائز ہو سکتا ہے تو ایک آوارہ مرد کا لڑکا کیوں ناجائز نہ کہلائے گا؟۲۶۲؎ بنگال کی مسلم خواتین کی خستہ حالت کو نذرالاسلام نے مسز ایم رحمان کی زبانی یوں بیان کیا: اپنی ہستی کو مٹا کر دنیا میں عورت نے سدا داروغہ جیل کی تابع داری کی ہے یہ نہ تو قرآنکا فرمان ہے نہ حدیث و اسلامی تاریخ کا فرمان ہے عورت مرد کی باندی، بارہ مہینے حرم میں قید رہے گی حدیث، قرآن، فقہ کا بیوپار کرنے والے قرآن کا یہ حکم ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ مرد و عورت مساوی ہیں۲۶۳؎ نذرالاسلام انقلابی شاعر ہیں۔ وہ ستم رسیدہ انسانوں کو ظلم سے نجات دلانے والے شاعر ہیں۔ وہ ڈنکے کی چوٹ کہنا چاہتے ہیں کہ ظالم کی نائو ہمیشہ نہیں بہتی۔ ایک دن اسے اپنے کیے کی سزا ضرور بھگتنی پڑتی ہے۔ جس گڑھے کو وہ دوسروں کے لیے کھودتا ہے ایک دن ضرور وہ اس میں گرتا ہے۔ اس لیے طبقہ نسواں کو دلاسا دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مرد اگر عورت کو قیدی بنا کر رکھے، تو بعد ازاں اپنے بنائے ہوئے پنجرے میں سسک سسک کر مرے گا یہی زمانے کا تقاضا ہے جو دوسروں کو دکھ پہنچاتا ہے، اس دکھ میں خود جل کر راکھ ہوتا ہے۲۶۴؎ مردوں کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے عورتوں کو سخت ہاتھ کی ضرورت ہے۔ نذرالاسلام کے خیال میں لاج کا گھونگٹ اس مسئلے کا حل نہیں۔ چوڑیاں، نتھ، گھونگھرو غلامی کی نشانیاں ہیں۔ اسلام نے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیے ہیں۔ لیکن ظالم سماج نے انھیں ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا ہے اور چار دیواری میں بند کر دیا ہے تا کہ اپنا منہ نہ کھول سکے۔ احتجاج کرنا چاہے تو مرد کے ظالم ہاتھ اس کا گلا بند کر کے کڑی سزا دیتے ہیں۔ اسی لیے نذرالاسلام فرماتے ہیں: اے عورت ! اپنے سر کا گھونگھٹ نوچ ڈال، زنجیروں کو توڑ ڈال جس گھونگھٹ نے تمہیں بزدل بنا دیا ہے، اس پردے کو اڑا ڈال نذرالاسلام نے عورتوں کو صرف رسم و رواج کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب نہیں دی بلکہ انھیں دلہن، پیاری ماں اور عزیز رفیقۂ حیات کی حیثیت سے بھی پیش کیا ہے۔ انھیں اپنی فرض شناسی کا سبق پڑھایا: شوہر اگر اندھا بھی ہو تو اے پارسا! تو اس کی طرف آنکھ بند نہ کر اس سے ایسا برتائو کر کہ تیرا نیک سلوک اس کی آنکھیں کھول دے۲۶۵؎ نذرالاسلام نے طبقۂ نسواں کو اپنی عزت و حرمت اور عصمت و عفت محفوظ رکھنے کا درس دیا ہے اور انھیں عزتِ نفس کا احساس دلایا ہے۔ اسلام نے انھیں بے شمار حقوق دیے ہیں اس لیے وہ سماج کو ان حقوق کی برآری کی تلقین کرتے ہیں: اسلام میں غنی و فقیر میں کوئی تفاوت نہیں سب مساوی اور دوست ہیں ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس نے عورتوں کو محکومیت سے نجات دلائی مردوں کے ساتھ برابر کے حقوق دیے اس نے آدم زاد کی بنائی دیواروں کو چکنا چور کر دیا ہے شب کے اندھیرے نقاب سے امید و کامرانی کی شعاعوں کو بکھیر دیا ہے ہم اس قوم سے نسبت رکھتے ہیں نذرالاسلام کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے صورِ اسرافیل سے عورتوں کو بیداری کا پیغام دیا ہے اور انھیں حق شناسی کا درس دیا ہے۔ ان کے خیال میں خدا نے مرد و عورت کو مساوی پیدا کیا ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ فرماتے ہیں: میں مرد و عورت میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا دنیا میں جتنے فیض رساں کارنامے انجام پذیر ہوتے ہیں نصف عورت اور نصف مرد کی بدولت ہیں دنیامیں جتنے پھول، پھل رس، مٹھاس اور خوشبو ہیں عورت نے انھیں حسن بخشا ہے عورت کے بغیر دنیا سونی و پھیکی ہے۲۶۶؎ انسانِ کامل اقبال نے انسان کامل کے لیے خلیفۃ اللہ فی الارض، مرد ِمومن، درویش، فقیر ، قلندر وغیرہ اصطلاحات کا استعمال کیا ہے۔ ان سب سے ان کی مراد انسانِ کامل ہے جو مادی، روحانی اور اخلاقی اقدار کا بصیرت آموز نمونہ ہوتا ہے۔ اقبال کے مرد کامل کی پہلی شرط ہے کہ اس میں ’’شعورِ ذات‘‘ یعنی خودی کو بحال رکھنے کا حکم اور احساس ہو جس کی وجہ سے اس میں آرزو، جستجو اور عمل کی لگن پیدا ہوتی ہے۔ خودی کی ترقی کے لیے اقبال تین شرائط پیش کرتے ہیں: اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔ ان شرائط کو دائرہ عمل میں لانے کے بعد وہ ایسا انسان بن جاتا ہے کہ اس کی ذات میں الٰہی صفات پیدا ہو جاتی ہیں: ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان۲۶۷؎ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان۲۶۸؎ اقبال کا انسان کامل ’’عشق‘‘ کی دولت سے مالامال ہوتا ہے۔ توحید حقیقی تک عشق حقیقی ہی پہنچا سکتا ہے۔ مرد کامل کی تمام سرگرمیوں کا مرکز ’’عشق‘‘ سے تکمیل پاتا ہے: عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات۲۶۹؎ اللہ کے علاوہ عشق رسول ہی اس کا منتہائے ایمان ہے بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اونہ رسیدی تمام بو لہبی است۲۷۰؎ تمام انسانوں کے ساتھ نرمی و محبت سے پیش آتا ہے لیکن کفار کے مقابلے میں نہایت سخت ہو جاتا ہے اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری۲۷۱؎ زمین، آسمان، چاند، تارے سب اس کے تابع دار ہیں۔ وہ شب و روز کا حاکم ہوتا ہے: مہر و مہ، انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر۲۷۲؎ تمام عالم اس کے فرمان کے پابند ہوتے ہیں، وہ کسی کا پابند نہیں ہوتا تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند۲۷۳؎ اس کا فقر غیرت مند ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی رزاقیت پر کامل یقین اور ایمان رکھتا ہے: جو فقر ہوا تلخیٔ دوران کا گلہ بند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی اس دور میں بھی مرد خدا کو ہے میسر جومعجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی۲۷۴؎ بندئہ حق، مرد آزاد است و بس ملک و آئینش خدا داد است و بس۲۷۵؎ مردِ کامل شاہین کی سی قوتِ پرواز کا حامل ہوتا ہے۔ وہ پرواز و عمل سے نہیں گھبراتا: شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُر دم ہے اگر تُوتو نہیں خطرئہ افتاد۲۷۶؎ مومن تقدیر کا معمار ہوتاہے۔ اس کی جنبشِ نگاہ پر قوموں کی تقدیر اور عروج و زوال کا انحصار ہوتا ہے کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۲۷۷؎ قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش جس نے نہ دیکھی سلطان کی درگاہ۲۷۸؎ عمل اس کا لباس اور تلوار اس کا زیور ہوتی ہے۔ یہی تلوار تھی جس کی برش و تیزی نے کفر و باطل کا خاتمہ کر کے رکھ دیا تھا۔ جس نے مسلمان کو غرور و وقار اور قوت و جبروت دی تھی۔ لیکن جب ایسی تلوار کے قبضہ پر اس کا ہاتھ نہیں رہا، جب اس سے لاشریک لہ‘ نکل گیا تو اسے محکومی و غلامی نصیب ہوئی: سوچا بھی ہے اے مردِ مسلمان کبھی تو نے کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار اس بیت کا یہ مصرع اول ہے کہ جس میں پوشیدہ چلے آتے ہیں، توحید کے اسرار ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدر کرارؓ۲۷۹؎ اقبال کو ایسے ہی مرد کامل کا انتظار ہے: اے سوار اشہب دوراں بیا اے فروغ دیدئہ امکان بیا رونق ہنگامہ ایجاد شو در سوار دیدہ ہا آباد شو نوع انسانی مزرع تو حاصلی کاروانِ زندگی را منزلی خیز و قانون اخوت ساز دہ جام صہبائے محبت باز دہ۲۸۰؎ اقبال کا خیال ہے کہ مرد کامل اب بھی دنیا میں موجود ہیں۔ اس خیال کو نثر میں یوں بیان کرتے ہیں: میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریمؐ زندہ ہیں اور اِس زمانے کے لوگ بھی اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہؓ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اِس زمانے میں تو اِس قسم کے عقائد کا اظہار اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا۔ اِس واسطے میں خاموش رہتا ہوں۔۲۸۱؎ نذرالاسلام کی شاعری میں مرد مومن یا انسان کامل کا کوئی تصور نظر نہیں آتا۔ البتہ وہ وطن کی آزادی کے لیے جان نذر کرنے والوں کی تعریف میں ہمیشہ قصیدہ خوانی کرتے ہیں۔ مثلاً ایک نمونہ: میں اس کا ثنا خواں ہوں اس کا حمد گو ہوں پھانسی کی رسی جس کے گلوگیر ہوتی ہے جس کے خون سے شفق سرخی حاصل کرتی ہے قید خانے میں جس کی خدمت کے لیے آزادی کی دیوی آتی ہے میں اسی کے گیت گاتا ہوں فطرت اقبال نے اپنی شاعری میں فطرت کی دل کشی سے اپنے کلام میں دل آویزی پیدا کی ہے۔ اقبال فطرت کو حسن و خوبی کی تصویر اور عرفان و عشق کی تعبیر خیال کرتے ہیں۔ فطرت نگاری کے جو نقوش اقبال نے پیش کیے ہیں، وہ یا تو نیچرل یا واقعی ہیں یا فلسفیانہ تفکر کا حکم رکھتے ہیں۔ جن میں عمل و زندگی کے درس شامل ہیں مثلاً ’’ساقی نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں: فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور وہ جوئے کہکشاں اچکتی ہوئی اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی ذرا دیکھ اے ساقیٔ لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام۲۸۲؎ منظر نگاری اگرچہ اقبال کے کلام کا کوئی خاص موضوع نہیں مگر اکثر فطرت کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ ایک دلکش مرقع آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے مثلاً نظم ’’ایک شام‘‘ میں: خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلۂ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا۲۸۳؎ ایک اور نظم میں ندی اور اس کے پانی کی تصویر اتنی عمدہ کھینچتی ہے کہ منظر کشی کا پورا حق ادا ہوتا ہے اور تخیل، تشبیہ اور اندازِ بیان اتنا عمدہ ہے کہ منظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے: صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو۲۸۴؎ اقبال کی اردو شاعری میں اس طرح کے بہت سحر انگیز مناظر ہیں۔ فارسی میں بھی اس طرح کے بہت سے نادر نمونے دستیاب ہیں۔ پیام مشرق میں بہار کا موسم یوں جلوہ گر ہے: خیز کہ در باغ و راغ قافلہ گل رسید باد بہاراں و زید مرغ نوا آفرید لالہ گریبان درید حسن گل تازہ چید عشق غم نو خرید خیز کہ در باغ و راغ قافلہ گل رسید۲۸۵؎ اس طرح کی کئی مثالیں اقبال کے کلام میں موجود ہیں جن کو انھوں نے اپنے خیالات و واردات کو مستحکم بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ نذرالاسلام کو عام طور پر ’’باغی شاعر‘‘ کہا جاتا ہے۔ مگر بنگال کے قدرتی حسن و مناظر نے بھی شاعر کو متوالا بنا دیا ہے۔ بنگال کے بدلتے موسم، کالی گھٹائوں، لہراتی ہوائوں، یہاں کے پھل پھول نے شاعر کو گرویدہ بنا دیا۔ موسم سرما ان کا پسندیدہ موسم تھا۔ اس کی منظر کشی یوں کی ہے: موسم سرما پر تکیہ کیے سردی دھوپ سینک رہی ہے سورج سے کرنوں کا دھارا روشنی کے سمندر کی طرح بہہ رہا ہے آسمان پر کوئی ترکی حسینہ منہ پر دھند کا نقاب ڈالے ہوئے ہے ’’موسم گرما‘‘ کی منظر کشی یوں کرتے ہیں: میں محسوس کرتا ہوں کہ ٹو گور، چنپا، بیلی، چنبیلی، جوہی۲۸۶؎ خوشی خوشی اپنی شاخوں کو جھکا رہی ہیں تا کہ شہد کی مکھیاں ان کا رس چوس سکیں سوسن کے پھول کسی حسینہ کے گرم گالوں کی مس سے اپنے کو قابل فخر سمجھ رہی ہیں آسمان پر مرغابیاں اس طرح پرواز کر رہی ہیں جس طرح دو جڑواں بھوئیں اچانک جب وہ پانی میں تہ نشین ہوتی ہیں تو جھیل کا گہرا نیلا پانی تھرتھرانے لگتا ہے ’’پہاڑی ندی‘‘ کا منظر یوں اتارا ہے: آسمان پر ٹیک لگائے پہاڑ سو رہا ہے اس پہاڑ کا میں ایک جھرنا ہوں میں ایک مقام پر نہیں رہتا اوجھل ہو کر بہتا رہتا ہوں چیتا میرا دوست ہے گھوگھرو (سانپ) میرے کھیلنے کا ساتھی ہے سانپ کی پٹاری ساتھ لے کر خوشی کے ساتھ رات بِتاتا ہوں گھومتی ہوا کی اوڑھنی پہن کر ناز نخرے کے ساتھ ناچتا ہوں جنگل کے ایک پھول کی عکاسی اس طرح کرتے ہیں: میں بن کا پھول ہوں فرحت و مسرت کے ساتھ، تال تال ڈولتا ہوں میں بسنت کے گلے کا چھوٹا سا ہار ہوں جنگل کی پریاں، کنج میں میرے ساتھ کھیلنے آتی ہیں پپیہا، بلبل پھول کھلانے والے گیت گاتے جاتے ہیں تسخیر فطرت اقبال نے شاعری میں فطرت کی زندہ تصویریں کھینچی ہیں۔ اقبال چونکہ ہر شے کو فلسفیانہ نگاہ سے دیکھتے تھے، اسی لیے انھوں نے فطرت کو بھی اسی نگاہ سے دیکھا۔ فطرت کے ذکر کے ضمن میں انھوں نے فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ وہ فطرت کی قوتوں کو تسخیر کرے ورنہ یہ قوتیں اسے ختم کر دیں گی۔ انسان کا سارا جہاد فطرت سے ہے، اس لیے اس کا اہم ترین مقصد تسخیر فطرت ہے۔ انسان نے اگر فطرت پر غلبہ نہیں پایا تو فطرت اس پر فتح پا جائے گی: ما سوا از بہر تسخیر است و بس سینۂ او عرضۂ تیر است و بس ہر کہ محسوسات را تسخیر کرد عالمے از ذرّہ ئے تعمیر کرد خیز و واکن دیدئہ مخمور را دون مخوان این عالم مجبور را۲۸۷؎ تسخیر فطرت کے لیے انسان میں ذوقِ استیلا کی ضرورت ہے اسی کے ذریعے وہ تسخیر فطرت کے راستے میں مزاحم ہونے والی قوتوں کو شکست دے سکتا ہے: زندگانی قوتِ پیدا استے اصل او از ذوقِ استیلاستے۲۸۸؎ اسی قوت کے ذریعے انسان نائبِ حق کے معزز مقام پر پہنچ سکتا ہے نائب حق درمیاں آدم شود بر عناصر حکم او محکم شود۲۸۹؎ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے۔ کائنات کی ہر شے اسی کے لیے تخلیق کی ہے: ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں یقین پیش نظر کل نو فرشتوں کی ادائیں آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ۲۹۰؎ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ بار بار مظاہرِفطرت اور واقعاتِ تاریخ پر غور و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ شمس و قمر، سایوں کا گھٹنا بڑھنا، صبح و شام کا اختلاف، رنگ و زبان کا فرق اور قوموں کا عروج و زوال، انسان کا فرض ہے کہ ان تمام مظاہر کو غور سے دیکھے اور اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہ بسر کرے۔۲۹۱؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون۲۹۲؎ ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود۲۹۳؎ فریبِ نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرئہ کائنات۲۹۴؎ اقبال نے اسلامیہ کالج لاہور میں مذہب اور سائنس کے موضوع پر منعقدہ جلسے کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کریم کے ہر صفحے پر انسان کو مشاہدے اور تجربے کے ذریعے علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور منتہائے نظریہ بتایا گیا ہے کہ قوائے فطرت کو مسخر کیا جائے۔ چنانچہ قرآن پاک تو صاف الفاظ میں انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قوائے فطرت پر غلبہ حاصل کر لیںگے تو ستاروں سے بھی پرے پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے۔۲۹۵؎ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں۲۹۶؎ نذرالاسلام کے ہاں فطرت کی بہت خوبصورت تصویریں ہیں لیکن انھوں نے اقبال کی مانند فطرت کو تسخیر کر لینے کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ مگر کہیں کہیں نذرالاسلام کے ہاں بھی تسخیرِ فطرت اور نئی تخلیقات کی خواہش کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ وہ ایسی ہستیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو قوانینِ فطرت کو انسانی سہولت کے لیے بدل سکتے ہیں اور جدت و ندرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں: نئی دنیا کی تلاش میں جو برفستانوں کو چھان مارے اور ہوائوں میں تیرتے پھرے میں انھی کے گیت گاتا ہوں شباب کا ولولہ بے قید ہے وہ چاند ستاروں میں جنت اور دوزخ میں عرش اور فرش پر ہر طرف پیامِ زندگی سناتے پھرتے ہیں۲۹۷؎ ان کی نظر میں ایسے انسان ہماری عقیدت کے مستحق ہیں جو اپنی محنت اور بازوئوں کے بل پر زندگی کے نئے امکانات پر نظر رکھتے ہیں اور ان کی جستجو میں محو رہتے ہیں۔ اور دنیا کو مثل بہشت بنانے کی سکت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: میں شباب کے گیت گاتا ہوں جو زندگی کے ممکنات کو بروئے کار لانے کے لیے تیغ براں لیے ہوئے ہے جو جوانمردی اور برق رفتاری کے ساتھ دنیا کے گوشہ گوشہ میں نکل پڑا ہے۲۹۸؎ ایک دوسری نظم میں لکھتے ہیں: جنھوں نے دنیا کے ہاتھ میں اناج کی فصل کا فرمان پہنچا دیا ہے جن کی جفا کشی اور سخت مٹھیوں کے آگے سہمی ہوئی زمین خوان بھر کر پھل پھول کا نذرانہ پیش کر دیتی ہے۲۹۹؎ نذرالاسلام ہمیں نئے نئے انکشافات اور سائنسی ایجادات کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے قدرت نے انسان میں بے پناہ قوتیں ودیعت کر رکھی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ بلند ہمتی سے کام لے کر آسمان و زمین میں نیز اس سے آگے جو چیزیں اب تک غیر منکشف ہیں ان کا بھی انکشاف کرے اور بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے لیے ہمیشہ قربانی دینے پر تیار رہے۔ وہ ایسے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں جو شباب اور اولوالعزمی کے علم بردار ہیں اور تسخیر فطرت میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ایسے انسانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے یوں قلم بند ہیں: میں ایسے لوگوں کی تعریف کرتا ہوں جو نئی دنیا کی تلاش میں قطبوں کی مہم پر روانہ ہوتے ہیں پَر لگا کر آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں پھر بھی ان کے شباب کا جذبہ نہیں رکتا وہ زندگی کی خوشی میں چاند اور مریخ کے سیاروں اور لامتناہی آسمان پر جانا چاہتے ہیں جو زندگی کے خوانچے لے کر موت کے دروازے پر چکر لگاتے ہیں اور پر خطر لڑائیوں میں جان کی بازی لگاتے ہیں۳۰۰؎ نظریہ تعلیم اقبال کا عملی طور پر تعلیم کے ساتھ کافی عرصہ کا ساتھ رہا۔ انھوں نے عملی زندگی میں ایک استاد کی حیثیت سے قدم رکھا۔ اور تقریباً گیارہ بارہ سال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس لیے تعلیم کے بارے میں ان کے نظریات ان کے تجربات کے آئینہ دار ہیں۔ انھیں مشرق و مغرب دونوں نظامِ کار میں خامیاں نظر آتی ہیں: بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا۳۰۱؎ اقبال کے خیال میں تعلیم کا مقصد صرف استحکامِ خودی ہوناچاہیے۔ حصولِ تعلیم کا یہی مقصد اول ہے: علم از سامانِ حفظ زندگی است علم از اسبابِ تقویم خودی است ’’خودی‘‘ کے علاوہ اقبال کا خیال ہے علم کو عشق سے بھی ہم کنار ہونا چاہیے: علم بے عشق از طاغوتیاں علم با عشق از لاہوتیاں۳۰۲؎ علم و عشق اگر دونوں ہم آغوش ہوں تو زندگی کی اساس مضبوط ہو جاتی ہے: زیرکی از عشق گردد حق شناس کارِ عشق از زیرکی محکم اساس اقبال کے خیال میں کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے مسلمانوں کو علم جدیدہ یعنی سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سائنسی انکشافات تو مسلمانوں کی رہین منت ہیں۔ یورپ سے بہت پہلے مسلمانوں نے اس میدان میں قدم رکھا۔ وہ مسلمان نوجوانوں کو سائنسی علم کی طرف ترغیب دیتے ہیں: صد جہاں در یک فضا پوشیدہ اند مہر ہا در ذرہ ہا پوشیدہ اند از شفاش دیدہ کن نا دیدہ را وا نما اسرارِ نافہمیدہ را --------- جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن چشم خود بکشا و در اشیاء نگر نشہ زیرِ پردئہ صہبا نگر۳۰۳؎ --------- علم اسماء اعتبار آدم است حکمت اشیاء حصار آدم است۳۰۴؎ اقبال فرماتے ہیں کہ علم کسی قسم کا بھی ہو اسے حاصل کرنے کے لیے سخت کوشی کی ضرورت ہے: ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگی انگبین۳۰۵؎ لیکن آج کی الحاد پر مبنی جدید تعلیم نے نوجوانوں کو عیش پرست بنا دیاہے: تیرے صوفے ہیں فرنگی ، تیرے قالین ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے نوجوانوں کی تن آسانی۳۰۶؎ اس لیے وہ پیر حرم سے درخواست کرتے ہیں: اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت دے ان کو سبق خود شکنی، خود نگری کا تو ان کو سکھا خارہ شگافی کے طریقے مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا۳۰۷؎ اقبال مغربی علوم حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ اگر علم کی بنیاد حفظ روحانیت اور حفظ خودی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں: جوہر میں ہو لا الٰہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ! شاخِ گل پر چہک و لیکن کر اپنی خودی میں آشیانہ!۳۰۸؎ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے لیے حصول تعلیم کو فرض قرار دیا ہے۔ جو قوم نوشت و خواند سے بے بہرہ ہوتی ہے وہ دینی و دنیوی دونوں حیثیتوں سے پیچھے رہ جاتی ہے بلکہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ ان کا فرمانا ہے: علم و دولت نظم کارِ ملت است علم و دولت اعتبار ملت است۳۰۹؎ پس اقبال مسلم نوجوانوں کو ایسی تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں جس سے دنیا و آخرت دونوں میں سرخروی حاصل ہو۔ ایسی تعلیم جس سے کوئی مقصد حاصل نہ ہو وہ گھاس کا ایک سوکھا تنکا ہے: من آن علم و فراست با پر کاہی نمی گیرم کہ از تیغ و سپر بیگانہ سازد مرد غازی را۳۱۰؎ نذرالاسلام کی شاعری میں نظریاتِ تعلیم سے متعلق کوئی شعر نہیں۔ وہ باقاعدہ کوئی اعلیٰ تعلیمی ڈگری یافتہ تھے نہ تدریس کے کسی ادارے سے منسلک تھے۔ ان کے نثری ادب میں تعلیم سے متعلق ان کے خیالات کو پڑھ کر معلوم ہوتاہے کہ معاشرے کے مختلف پہلوئوں کی طرح یہ گوشہ بھی ان کی نگاہوں سے پنہاں نہ تھا، جس کا اظہار انھوں نے اپنی چند تقاریر میں کیا۔ جو ان کے تقاریر کے مجموعے جوگ بانی ۱۹۳۱ء میں شامل ہیں۔ نذرالاسلام کے خیال میں ہندوستان میں ایسا طریق تعلیم رائج کرنے کی ضرورت ہے جو اپنی ثقافت، تہذیب، تمدن اور تاریخ کی آئینہ دار ہو، جو طالب علم میں احساسِ نفس اور خود داری کا جذبہ ابھارنے میں مددگار ہو۔ وہ انگریزی تعلیم کے مخالف نہ تھے مگر اس طرز تعلیم میں اپنی سرزمین کی مٹی کی خوشبو ضرور نکلنی چاہیے۔ اسی لیے وہ سرکاری یونیورسٹی کے پہلو بہ پہلو قومی یونیورسٹی قائم کرنے کی ضرورت کولازمی سمجھتے تھے۔ قومی یونیورسٹی میں ہمارا طریقِ تعلیم ایسا ہو جس سے ہماری زندگی کی توانائی دھیرے دھیرے بیدار اور جان دار ہو، جو طلبہ کے جسم و روح دونوں کو توانا کرے۔ وہی ہو گی ہماری تعلیم۔ لیکن جو تعلیم طالب علم کو جان دار نہ بنا سکے اس مردے سے کوئی کام ہو سکتا ہے نہ ہو گا۔ پس روحانی اور جسمانی قوت دونوں کو یکجا کرنا ہی ہماری قومی یونیورسٹی کی تعلیم کا مقصد ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ تعلیم کا مقصد صرف حصولِ معاش نہ ہونا چاہیے کیونکہ ہم لوگ صرف نوکری حاصل کرنے کی خاطر ڈگری حاصل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وسعتِ قلب و نظر اور معلومات کی افزونی اس کا خاص مدعا ہونا چاہیے۔ نذرالاسلام تعلیمِ نسواں کے بھی حامی تھے۔ ان کا فرمانا ہے کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو تعلیم دینا ہمارا مذہبی فریضہ ہے مگر یہ تصور ہمارے ذہنوں سے محو ہوگیا ہے۔ ہماری عورتوں کا کیا دکھ ہے؟ کیا کمی ہے ؟ اسے احساس کرنے کی طاقت تک ہم میں مفلوج ہو گئی ہے۔ ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں مگر نہیں جانتے کہ سب سے پہلا مسلمان مرد ہے یا عورت؟ پس نذرالاسلام کے نزدیک تعلیم کا مقصد فہم و فراست کی کشادگی ہے جو انسان کی طبعی حرارتِ عزیزی کو بھڑکا سکے اور اپنے قومی وقار اور عزت کی رکھوالی کر سکے۔ علامہ اقبال نے تعلیم اور اس کے مقاصد و نظریات پر باضابطہ اپنے فلسفہ خودی کے تحت توجہ دی ہے، جبکہ نذرالاسلام نے محض عام شاعرانہ طریقے سے۔ دین اور سیاست اسلام میں دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں نہیں۔ اگر سیاست کو دین سے جدا کر دیا جائے تو صرف چنگیزیت اور بربریت رہ جاتی ہے۔ صاحبِ اقتدار جس طرح چاہتا ہے اپنے بنائے ہوئے قانون کے ذریعے ظلم و جور کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اقبال بھی اسی نظریے کے قائل تھے۔ اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں: اسلام وحدتِ انسانی کو روح اور مادہ دو الگ الگ شعبوں میں تقسیم نہیں کر سکتا۔ اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، مذہب اور سیاست میں ناخن اور گوشت کا سا باہمی تعلق ہے۔۳۱۱؎ اقبال کے نزدیک لادین سیاست زہر ہلاہل ہے۔ فرماتے ہیں: اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں سو بار ہوئی حضرتِ انسان کی قبا چاک۳۱۲؎ --------- تاریخ اُمم کا یہ پیام اَزلی ہے صاحبِ نظران، نشۂ قوت ہے خطرناک لا دیں ہو تو زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر ہو دیں کی حفاظت میں، تو ہر زہر کا تریاک۳۱۳؎ لا دین سیاست و اربابِ اقتدار اپنے خود ساختہ قوانین کے بل بوتے پر حکومت کرتے رہتے ہیں۔ نہ ان کے دل میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور نہ عوام کے محاسبے کا ڈر۔ لادین سیاست سراپا کمینگی اور شیطان کی لونڈی ہوتی ہے۔۳۱۴؎ مری نظر میں ہے یہ سیاست لادیں کنیز اہرمن، دوں نہاد و مردہ ضمیر۳۱۵؎ جب سیاست اور مذہب میں تفریق پیدا ہو جاتی ہے تو ارباب سیاست ہوا و ہوس کے بندے بن جاتے ہیں۔ یورپ کی گذشتہ کئی صدی کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہاں دین و سیاست میں ایک ناقابلِ عبور خلیج پیدا ہو گئی تو وہاں خیر و فلاح نہ رہی۔ اقبال اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: خصومت تھی سلطانی و راہبی میں کہ وہ سربلندی ہے یہ سر بزیری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیرِ کلیسا کی پیری ہوئی دین و ملت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری دوئی ملک دین کے لیے نامرادی دوئی جسم تہذیب کی نابصیری اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی وارد شیری۳۱۶؎ سیاستِ فرنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہوئی ترک کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر۳۱۷؎ فرنگی سیاست سے متعلق ایک اور شعر یوں ہے: تیری حریف ہے یارب سیاستِ افرنگ مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس۳۱۸؎ اقبال کا بجا فرمانا ہے کہ اسلام میں دین وسیاست میں ناخن اور گوشت کا سا باہمی تعلق ہے۔ دین کی پابندیوں سے آزاد حکومت میں غیر اخلاقی اور انسانیت سوز باتیں داخل ہو جاتی ہیں۔ قانون سازی کے وقت اخلاقی اور دینی تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ اسی لیے اقبال دین اور سیاست کو جدا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ اس بات کے قائل ہیں: جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۳۱۹؎ اسلام دین و سیاست میں تفریق اس لیے روا نہیں رکھتا کہ انسان کی ہیئت ان پر دو عناصر کے امتزاج کی متقاضی ہیں۔ اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت ،نہ اشتراکیت اور نہ تھیو کریسی (مذہبی حکومت)۔ بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام محاسن سے متصف اور قبائح سے منزہ ہے۔۳۲۰؎ لیکن نذرالاسلام کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں عظمتِ رفتہ کی بحالی کا تصور تو ضرور موجود ہے مگر سیاست کا کوئی ایسا تصور نہیں جس میں اسلام کو ایک مکمل نظام کے طور پر پیش کیا گیا ہو اور سیاست کو بطور نظام پیش کیا گیا ہو۔ نظریہ فن فن کے بارے میں اقبال کا نظریہ ہے کہ جس سے انسانی خودی بیدار ہو وہی قابلِ ستائش ہے، جس فن سے اخلاقی پستی اور تعمیری صلاحیتیں سلب ہوتی ہیں وہ ناپسندیدہ ہے: جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ یہ زورِ دست و ضربتِ کاری کا ہے مقام میدانِ جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ خونِ دل و جگر سے ہے سرمایۂ حیات فطرت لہو ترنگ ہے غافل! نہ جل ترنگ۳۲۱؎ اقبال نے فنونِ لطیفہ میں شعر و ادب، رقص، اداکاری، موسیقی، سنگ تراشی سب کے بارے میں رائے زنی کی ہے اور ان کے محاسن و معائب پر اساسی نظر ڈالی ہے۔ شاعری کے سلسلے میں اقبال ایسی شاعری کے قائل ہیں جن کی بنا یا تو فلسفہ، حکمت اور اخلاق پر ہو یا جس کے اندر جوش، ولولہ اور ہنگامہ ہو۔ ایک کو وہ نغمۂ جبریل اور دوسرے کو بانگِ اسرافیل کہتے ہیں۔۳۲۲؎ ان دونوں کے امتزاج سے شاعری کی تکمیل ہوتی ہے۔ وہ شعر کہ پیغامِ حیاتِ ابدی ہے یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگِ اسرافیل۳۲۳؎ تمثیل یا ڈرامے کو اقبال یک سر ناپسند فرماتے ہیں کیونکہ یہ ایک نقالی کا فن ہے اور کاروبارِ لات و منات ہے جس سے خو دی کا فقدان پیدا ہوتا ہے: حریم ترا خودی غیر کی! معاذ اللہ دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو، تو نہ سوزِ خودی نہ سازِ حیات فن رقص کے متعلق فرماتے ہیں کہ رقص عریانی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ اس سے بدن کے پیچ و خم نمایاں ہوتے ہیں۔ وہ روح کے رقص کی ترغیب دیتے ہیں جس سے باطن کی جلا ہوتی ہے: چھوڑ یورپ کے لیے رقصِ بدن کے خم و پیچ روح کے رقص میں ہے ضربِ کلیم اللٰہی۳۲۴؎ موسیقی کے بارے میں ان کا نظریہ ہے کہ ایسی موسیقی جو روح کو بیدار نہ کر سکے وہ زہر آلود ہے اور وہ نَے نواز جس کا اپنا ضمیر پاک نہیں وہ دوسروں کو کیا متاثر کر سکتا ہے۔ وہ کسی کو کیا حظ و مسرت بہم پہنچا سکتا ہے؟ نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں۳۲۵؎ اقبال مقصد پسند تھے۔ ان کا خیال ہے کہ روح اور معنویت کے بغیر نغمہ بے کار ہے: نغمہ گر معنی ندارد مردہ ایست سوز او از آتش افسردہ ایست مطرب ما جلوئہ معنی ندید دل بصورت بست و از معنی رمید۲۲۶؎ اقبال صورت پسندی کے سخت مخالف ہیں۔ کیونکہ ایسے فن میں نہ تو ابراہیمی توحید اور صداقت ہوتی ہے اور نہ کمالات آذری پائے جاتے ہیں بلکہ اس کے برعکس وہ ایسے مضامین و موضوعات کا آئینہ ہوتا ہے۔ جو فرسودہ، حزن انگیز اور ہلاکت خیز ہوتے ہیں۔ غلامی میں چونکہ ذوق انسانی بگڑ جاتا ہے اس لیے فن کار اس فساد قلب و نظر کے باعث زندگی کا تاریک رخ پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے:۳۲۷؎ ہمچناں دیدم فنِ صورت گری نے براہیمی درونے آزری راہبے در حلقۂ دامِ ہوس دلبرے با طایرے اندر قفس خسروے پیش فقیرے خرقہ پوش مرد کوہستانی ہیزم بدوش۳۲۸؎ فنِ تعمیر فن تعمیر کے سلسلے میں اقبال کا بیان ہے کہ اس کا محرک عشقِ خدا ہونا چاہیے۔ عشق ایک لازوال حقیقت ہے جو ’’سِل‘‘ کودل بنا دیتا ہے۔ پس وہ تعمیر جو کسی مردِ خدا کے ہاتھوں اہتمام کو پہنچے اسے کبھی زوال نہیں آتا۔ مسجد قرطبہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ہے مگر اس عشق میں رنگِ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام۳۲۹؎ دیگرعمارتوں میں انھیں مسجد قوت الاسلام، قصر زہرا، تاج محل اور قطب مینار پسند ہیں۔ ان عمارتوں کے بنانے والے خود مختار، آزاد اور حریت پسند تھے۔ ان میں جلال و جمال پایا جاتاتھا۔ تاج محل کو وہ فن کا ایسا شاہکار قرار دیتے ہیں جو ہر لمحہ ابدیت سے ہمکنار ہے۔۳۳۰؎ پس اقبال کی نگاہ میں فن کے دو پہلو ہیں: فطری اور اکتسابی۔ ان دونوں کے ہم آہنگ امتزاج سے انسان حقیقی معنی میں فنکار بن سکتا ہے۔ فن لطیفہ کے بارے میں نذرالاسلام کی شاعری میںکوئی خاص نظریہ یا تصور پیش نہیں کیا گیا۔ البتہ اپنی ایک نثری تقریر میں انھوں نے اس بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ فن لطیفہ کے مطالعے سے ہمیں جمال سے قربت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے شخصیت کی وسعت ہوتی ہے۔ انسان کی زندگی حسین اور ثمر آور ہوتی ہے۔ اسی لیے فن لطیفہ کے مطالعے نے نذرل کے تعلیمی افکار میں بڑی اہمیت پائی ہے۔ مسلم معاشرے کے حقیقی فروغ کے لیے نظریاتی تعلیم کے پہلو بہ پہلو نفسیاتی فروغ کی تعلیم یعنی فن لطیف کی بھی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو نذرالاسلام نے محسوس کیا۔ ان کا خیال ہے کہ فنونِ لطیفہ کے مطالعے سے انسان ظاہری اور باطنی تنگی سے اتر کر معاشری اور قومی فلاح حاصل کر سکتا ہے۔ دوسری طرف ان کے ہاں تعلیم کے بغیر انسان کا مجہول زندگی بسر کرنا موت کے مترادف ہے۔ بچوں کی شاعری علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں نوجوانوں کو مختلف زاویوں سے خطاب کیا ہے اور ان میں احساس خودی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی ابتدائی شاعرانہ زندگی میں بچوں کے لیے بھی خوبصورت نظمیں تخلیق کی ہیں جن کی زبان بہت سادہ اور شیریں ہے۔ اقبال نے اگرچہ بچوں کے لیے زیادہ نہیں لکھا مگر جتنا دیا وہ اس قابل ہے کہ اس کی قدر ومنزلت کی جائے۔۳۳۱ ؎ ’’بچے کی دعا‘‘ انتہائی پُر اثر ہے اور ہر بچے کی زبان پر ہے: زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو۳۳۲؎ ’’ہمدردی‘‘ نظم میں اقبال نے بچوں کو ہمدردی کا سبق دیا ہے۔ فرماتے ہیں: ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے۳۳۳؎ اسی طرح کئی دوسری نظموں مثلاً’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘ ، ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘، ’’ایک گائے اور بکری‘‘، ’’ماں کا خواب‘‘ ، ’’پرندے کی فریاد‘‘ وغیرہ ہر نظم میں بچوں کے لیے کارآمد اور مفید سبق پنہاں کر رکھا ہے۔ اقبال کی بہ نسبت نذرالاسلام نے بچوں کے لیے زیادہ نظمیں لکھی ہیں جن پر مشتمل تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں‘ جیسے جھینگے پھول (طبع اول ۱۹۲۶ئ)، سات بھائی چمپااور پتلیریئے (گڑیا کی شادی) وغیرہ۔ نذرالاسلام کی بچوں کی نظمیں بچوں میں بہت مقبول ہیں۔ ان کی نظمیں بچوں کی ذہنی صلاحیت کی پرورش بھی کرتی ہیں: صبح ہو گئی ہے دروازہ کھولو پیاری بچی اٹھ جائو وہ بلا رہی ہے جوہی پھول کی شاخ پھول کی مانند بچی دوڑو اب نیند سے بیدار ہوجائو سورج ماما پکار رہا ہے جسم پر رنگین لباس پہنے رات ختم ہو گئی ہے منہ ہاتھ دھو ڈالو پیاری بچی بیدار ہوجائو حواشی ۱۔ ماجد صدیقی،عروج اقبال، بزم اقبال، لاہور، ص ۱۰۰ ۲۔ فاطمہ تنویر، اردو شاعری میں انسان دوستی، دہلی، ۱۹۹۴ئ، ص ۲۲۲ ۳۔ علامہ اقبال، کلیات اقبال (فارسی) ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص ۶۰۷ ۴۔ ایضاً، ص ۱۴۱ ۵۔ ایضاً، ص ۲۷۳ ۶۔ ایضاً، ص ۶۱ ۷۔ ایضاً،ص ۲۶۴ ۸۔ ایضاً، ص ۴۳۳ ۹۔ نذرالاسلام، نظم ’’شمو باری‘‘ (مساوات)، ص ۲۴۸ ۱۰۔ ایضاً،نظم ’’مانوش‘‘ (انسان)، ص ۴۱۶ ۱۱۔ ایضاً،نظم ’’قلی مزدور‘‘ ،ص ۳۷۲ ۱۲۔ ایضاً،نظم ’’شمو باری‘‘ (مساوات) ، ص ۲۴۲ ۱۳۔ ایضاً ، ص ۳۰۴ ۱۴۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۰۰ ۱۵۔ ایضاً، ص ۴۰۱ ۱۶۔ ایضاً، ص ۴۰۲ ۱۷۔ عزیز احمد، اقبال: نئی تشکیل، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۶۸ئ،ص ۳۶۵ ۱۸۔ عبدالسلام خورشید،سرگذشت اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۱۷۱ ۱۹۔ محمد طاہر فاروقی، خیابان اقبال، یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور، ص ۱۹۳ ۲۰۔ کلیات اقبال(اردو)، ص ۶۱۳ ۲۱۔ خیابان اقبال، ص ۱۹۲ ۲۲۔ آل احمد سرور، دانشور اقبال،علی گڑھ، ۱۹۹۴ئ، ص ۴۰۶ ۲۳۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص ۶۶۸ ۲۴۔ ایضاً، ص ۶۶۹ ۲۵۔ سرگذشت اقبال، ص ۴۸۱ ۲۶۔ نذرالاسلام،نظم ’’فریاد‘‘ ، ص ۳۵۸ ۲۷۔ نذرالاسلام،نظم ’’چور ڈاکو‘‘، ص ۲۷۵ ۲۸۔ نذرالاسلام،نظم ’’قلی مزدور‘‘،ص ۳۰۹ ۲۹۔ ایضاً، ص ۳۰۸ ۳۰۔ ایضاً، ص ۳۱۰ ۳۱۔ ایضاً، ص ۳۰۹ ۳۲۔ عزیز احمد، اقبال نئی تشکیل، ص ۱۸ ۳۳۔ ایضاً، ص ۱۸ ۳۴۔ کلیات اقبال(اردو)، ص ۸۷ ۳۵۔ ایضاً، ص ۸۳ ۳۶۔ ایضاً، ص ۱۱۵ ۳۷۔ ایضاً، ص ۱۲۰ ۳۸۔ ایضاً، ص ۱۶۵ ۳۹۔ ڈاکٹر رفیق زکریا،اقبال: شاعر اور سیاست دان، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی، ص ۱۸ ۴۰۔ خیابان اقبال، ص ۱۶۷ ۴۱۔ سرگذشت اقبال، ص ۱۰۰ ۴۲۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۶۲ ۴۳۔ ایضاً، ص ۱۶۳ ۴۴۔ سرگذشت اقبال، ص ۹۴ ۴۵۔ اقبال: شاعر اور سیاست دان، ص ۱۱۷ ۴۶۔ نذرالاسلام،نظم ’’ناخدا‘‘ ص ۳۵۱ ۴۷۔ نذرالاسلام ، ص ۶۳ ۴۸۔ یہاں لاٹھی سے مراد مسلمان اور چھری سے مراد ہندو ہیں۔ ہندوئوں میں زیادہ طراری ہوتی ہے اس لیے انھیں چھری کہا گیا ہے۔ ۴۹۔ کلیات اقبال (اردو)، ص۰ ۲۲ ۵۰۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۰۲ ۵۱۔ کلیات اقبال (اردو)، ص۸۷ ۵۲۔ محمد حنیف شاہد، اقبال اور انجمن حمایت اسلام،لاہور ،۱۹۷۷ئ، ص ۹۷ ۵۳۔ دیوتا کا نام جو تباہی پھیلاتا ہے۔ ۵۴۔ نذرالاسلام،نظم ’’بدروہی‘‘ مترجم ڈاکٹر محمد عبداللہ ۵۵۔ نذرالاسلام،نظم ’’بدروہیربانی‘‘ (باغی کی صدا)، ص ۲۶۶ ۵۶۔ خطوط بنام پرنسپل ابراہیم خان ۵۷۔ اسلام و نذرالاسلام ، ص ۱۷ ۵۸۔ شانتی رنجن بھٹا چاریہ، اقبال،ٹیگور اور نذرل، کلکتہ، ۱۹۷۸ئ، ص ۶۳ ۵۹۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۳۸ ۶۰۔ اقبال نئی تشکیل ، ص۹۰ ۶۱۔ کلیات اقبال(اردو)، ص ۵۴۰ ۶۲۔ ایضاً، ص ۴۷۸ ۶۳۔ ایضاً، ص ۵۹۴ ۶۴۔ ایضاً، ص ۶۰۵ ۶۵۔ ایضاً، ص ۵۹۸ ۶۶۔ سیدعبدالواحد،مقالات اقبال، شیخ محمد اشرف، لاہور،۱۹۶۳ئ، ص ۲۳۷ ۶۷۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۲۷۰ ۶۸۔ نذرالاسلام، نظم ’’بدروہیر بانی‘‘(پیغامِ بغاوت) ۶۹۔ نذرالاسلام،نظم ’’چل، چل،چل‘‘ ۷۰۔ نذرالاسلام،نظم ’’جلاوطنی‘‘ ۷۱۔ نذرالاسلام،نظم ’’طوفان ایشے چھے‘‘ (طوفان آ گیا) ۷۲۔ نذرالاسلام،نظم ’’شیبک‘‘ (خدمت گار) ۷۳۔ نذرالاسلام،نظم ’’کانڈاری ہوشیار‘‘ ۷۴۔ سرگذشت اقبال، ص ۱۴۹ ۷۵۔ ڈاکٹر رفیق زکریا،اقبال: شاعر اور سیاست دان، ص ۱۰۱ ۷۶۔ سرگذشت اقبال، ص ۱۵۰ ۷۷۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۲۵۴ ۷۸۔ ایضاً، ص ۲۵۷ ۷۹۔ ایضاً ۸۰۔ ایضاً، ص ۲۷۱ ۸۱۔ ایضاً، ص ۲۷۱-۲۷۲ ۸۲۔ ذکر اقبال، ص ۱۰۶ ۸۳۔ ماخوذ از سرگذشت اقبال، ص ۱۵۰-۱۵۱ ۸۴۔ نذر الاسلام،نظم ’’بندناگان‘‘ (عبادت کا گیت) ۸۵۔ نذرالاسلام،نظم ’’چرکارگان‘‘(چرانے کا گیت) ۸۶۔ نذرالاسلام،نظم ’’کمال پاشا‘‘ ۸۷۔ آل احمد سرور، دانشور اقبال، ص ۱۰۸ ۸۸۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۰۲ ۸۹۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۳۶۱ ۹۰۔ ایضاً، ص ۳۶۲ ۹۱۔ ایضاً، ص ۴۸۶ ۹۲۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۲۶۱ ۹۳۔ ایضاً، ص ۶۲۲ ۹۴۔ ایضاً، ص ۶۱۱ ۹۵۔ خیابان اقبال، ص ۱۶۸ ۹۶۔ دانشور اقبال، ص ۱۱۲ ۹۷۔ رئیس احمد جعفری، اقبال اور سیاست ملی، ص ۱۲۸ ۹۸۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۲۶۵ ۹۹۔ ذ والفقار، نذرول راچا نابلی (کلیات نذرول)، جلد دوم، ڈھاکا، بنگلہ اکادمی، مئی ۱۹۹۳ئ، ص ۲۲۳ ۱۰۰۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۶۳۳ ۱۰۱۔ ایضاً، ص ۲۷۳ ۱۰۲۔ عبدالغنی، قرآنی تصوف اور اقبال، ص ۱۱۴ ۱۰۳۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۰۵ ۱۰۴۔ اقبال نئی تشکیل، ص ۴۵۲ ۱۰۵۔ کلیات اقبال(اردو)، ص ۵۹۵ ۱۰۶۔ ایضاً، ص۵۷۳ ۱۰۷۔ اقبال نئی تشکیل، ص ۴۵۵ ۱۰۸۔ کلیات اقبال(اردو)، ص ۵۸۵ ۱۰۹۔ بال جبریل، ص ۵۸ ۱۱۰۔ نذرالاسلام،نظم ’’بدروہی ‘‘(بغاوت) ۱۱۱۔ ایضاً ۱۱۲۔ ایضاً ۱۱۳۔ اقبالیات، جولائی-ستمبر۱۹۹۷ئ، ص ۵ ۱۱۴۔ ڈاکٹر طاہر فاروقی، اقبال اور محبت رسولؐ، ص ۱۳ ۱۱۵۔ کلیات اقبال(فارسی)، ص ۸۷۹ ۱۱۶۔ ایضاً، ص۸۸ ۱۱۷۔ ایضاً، ص۱۲۳ ۱۱۸۔ ایضاً، ص۶۵۴ ۱۱۹۔ اقبال اور محبت رسولؐ، ص ۱۱۰ ۱۲۰۔ کلیات اقبال(فارسی)، ص ۶۸۱ ۱۲۱۔ عشق رسولؐ،ص ۳۲ ۱۲۲۔ کلیات اقبال(فارسی)، ص ۸۶۸ ۱۲۳۔ ایضاً، ص ۸۶۵ ۱۲۴۔ ایضاً، ص۱۹ ۱۲۵۔ ارمغان حجاز، ص ۲۷۸ ۱۲۶۔ جاوید اقبال، ڈاکٹر، زندہ رود، جلد دوم، ص ۴۱۱ ۱۲۷۔ بانگ درا، ص ۲۰۶ ۱۲۸۔ نذرالاسلام، ص ۱۵۹ ۱۲۹۔ نذرالاسلام، نظم ’’اللہ پوروم پیری او مور‘‘ (اللہ مجھے سب سے پیارا ہے) ۱۳۰۔ نذرالاسلام، نظم ’’نوتون چاند‘‘ (نیا چاند) ۱۳۱۔ نذرالاسلام، نظم ’’اللہ آمار پروبھو‘‘ (اللہ میرا مالک) ۱۳۲۔ نذرالاسلام، نظم ’’محمدؐ مورنونین موتی‘‘ (محمدؐ میری آنکھوں کا تارا) ۱۳۳۔ نذرالاسلام، نظم ’’محمدؐ یر نام جوپیچھی‘‘ (محمدؐ کے نام کا ورد کیا ہے) ۱۳۴۔ نذرالاسلام، نظم ’’سید مکی مدنی‘‘ ۱۳۵۔ نذرالاسلام، نظم ’’او! مون رمضانیر اوئی روزار شیشے‘‘ (اے دل! رمضان کے روزوں کے بعد) ۱۳۶۔ ایضاً ۱۳۷۔ نذرالاسلام، نظم ’’عیدالاضحار چاند ہاشے اوئی‘‘ (عیدالاضحی کا چاند وہ ہنستا ہے) ۱۳۸۔ نذرالاسلام، نظم ’’محرم‘‘کا چاند ۱۳۹۔ ایضاً ۱۴۰۔ نذرالاسلام، نظم ’’فاتحہ دو از دہم‘‘ ۱۴۱۔ نذرالاسلام، نظم’’ کھیا پار میرترفی‘‘ (پار اترنے کی کشتی) ۱۴۲۔ بانگ درا، ص ۱۸۲ ۱۴۳۔ ایضاً، ص ۲۱۳ ۱۴۴۔ پیام مشرق، ص ۸۴ ۱۴۵۔ بانگ درا، ص ۲۰۰ ۱۴۶۔ ایضاً، ص ۱۳۴ ۱۴۷۔ ایضاً، ص۲۰۴ ۱۴۸۔ ایضاً، ص۲۲۵ ۱۴۹۔ ایضاً، ص۱۴۵ ۱۵۰۔ ایضاً،ص ۱۴۶ ۱۵۱۔ بانگ درا، ص ۲۰۰ ۱۵۲۔ ایضاً ۱۵۳۔ نظم ’’عمر فاروق‘‘، زنجیر، کلیہ نذرول،ص ۴۶۸ ۱۵۴۔ علامہ اقبال، بانگ درا، ص ۲۰۴ ۱۵۵۔ نذرالاسلام،’’جاگے ناشے جوش لوئے‘‘ (وہ جوش پیدا نہیں ہوتا) ۱۵۶۔ نذرالاسلام،’’کوتھائے تخت طائوس‘‘ (کہاں ہے تخت طائوس) ۱۵۷۔ بال جبریل، ص ۲۳ ۱۵۸۔ عزیز احمد،اقبال نئی تشکیل، ص ۴۱۴ ۱۵۹۔ کلیات اقبال(اردو)، ص ۴۰۳ ۱۶۰۔ ایضاً، ص ۵۸۹ ۱۶۱۔ بال جبریل ، ص ۳ ۱۶۲۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص۱۰۱۱ ۱۶۳۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۶۲۱ ۱۶۴۔ ایضاً، ص ۶۹۱ ۱۶۵۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص۱۰۲۰ ۱۶۶۔ کلیات اقبال(اردو)، ص ۴۵۰ ۱۶۷۔ اقبال اور مُلّا، ص ۵ ۱۶۸۔ کلیات اقبال(اردو)، ص ۵۰۶ ۱۶۹۔ نذرالاسلام، ’’مانوش‘‘ (انسان) ۱۷۰۔ ایضاً، ص ۲۳۵ ۱۷۱۔ نذرالاسلام،نظم ’’خالد‘‘ ۱۷۲۔ نذرالاسلام،نظم ’’ذاتیربدذاتی ‘‘ (ذات کی بدذاتی) ۱۷۳۔ سرگذشت اقبال، ص ۳ ۱۷۴۔ ذکر اقبال، ص ۱۲ ۱۷۵۔ اقبال نامہ، ص ۵۱۳ ۱۷۶۔ بانگ درا، ص ۹۵ ۱۷۷۔ بنگو، ص ۲۰۴ ۱۷۸۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۰۶ ۱۷۹۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص۳۲ ۱۸۰۔ اقبال نامہ، (جلد دوم)، ص ۵۶-۵۷ ۱۸۱۔ اقبال اور مسلک تصوف، ص ۳۲۶ ۱۸۲۔ ذکراقبال، ص ۲۵۱ ۱۸۳۔ اقبال نامہ، ص ۳۵۳ ۱۸۴۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۸۰۳ ۱۸۵۔ نذرالاسلام، ص ۹۲ ۱۸۶۔ ایضاً، ص ۶۳ ۱۸۷۔ خان محمد محی الدین، جوگ سر شیٹھا نذرل (اپنے عہد کے بہترین نذرل)، ص ۲۰۴ ۱۸۸۔ کلیات اقبال (اردو)،بانگ درا، ص ۲۶۶ ۱۸۹۔ ماہ نو، اقبال نمبر، ص ۹۳ ۱۹۰۔ کلیات اقبال (اردو)،بانگ درا، ص ۱۹۶ ۱۹۱۔ ایضاً، ص ۱۹۰ ۱۹۲۔ ایضاً، ص ۱۹۵ ۱۹۳۔ ایضاً، ص ۱۴۰ ۱۹۴۔ ایضاً، ص ۲۷۰ ۱۹۵۔ ایضاً، ص ۲۶۸ ۱۹۶۔ ایضاً، ص ۵۶۲ ۱۹۷۔ ایضاً، ص ۲۷۳ ۱۹۸۔ ایضاً، ص ۲۷۸ ۱۹۹۔ ایضاً، ص ۲۸۰ ۲۰۰۔ نذرالاسلام،نظم ’’شہید عید گاہے دیکھو آج ‘‘ (شہید عید گاہ میں آج دیکھو) ۲۰۱۔ نذرالاسلام،نظم ’’دیکے دیکے پوننو جولیتا اوٹھے چھے‘‘ (چاروں طرف اسلام کی شمع پھر جل اٹھی) ۲۰۲۔ نذرالاسلام،ص ۱۱۱ ۲۰۳۔ نذرالاسلام،نظم ’’پرلیے الاس‘‘ (تباہی کی خوشی)، مترجم ڈاکٹر محمد عبداللہ ۲۰۴۔ نذرالاسلام،نظم ’’توفیق دو خد اسلامے‘‘ (خدا اسلام کو پھر توفیق دو) ۲۰۵۔ کلیات اقبال (اردو)،بال جبریل، ص ۳۰۰ ۲۰۶۔ ایضاً، ص ۳۰۶ ۲۰۷۔ ایضاً، ص ۳۰۸ ۲۰۸۔ محمد طاہر فاروقی، سیرت اقبال، ص ۲۹۰ ۲۰۹۔ کلیات اقبال (اردو)، بانگ درا،ص ۲۷۱ ۲۱۰۔ ایضاً، ص ۴۲۵ ۲۱۱۔ ایضاً، ص ۵۳۴ ۲۱۲۔ ایضاً، ص ۴۱۳ ۲۱۳۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص۶۴ ۲۱۴۔ کلیات اقبال (اردو)، ارمغان حجاز،ص ۴۵ ۲۱۵۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۹۵۰ ۲۱۶۔ کلیات اقبال (اردو)،ضرب کلیم، ص ۱۷۶ ۲۱۷۔ ارمغان حجاز، ص ۱۵ ۲۱۸۔ ایضاً،بانگ درا، ص ۲۷۴ ۲۱۹۔ سیرت اقبال، ص ۲۹۰ ۲۲۰۔ کلیات اقبال،(اردو)،ضرب کلیم، ص ۵۲۶ ۲۲۱۔ ایضاً،بال جبریل، ص ۵۵ ۲۲۲۔ محمد طاہر فاروقی،خیابان اقبال،ص ۳۴۶ ۲۲۳۔ سیرت اقبال، ص ۲۲۰ ۲۲۴۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۸۵۴ ۲۲۵۔ کلیات اقبال (اردو)،بال جبریل، ص۱۲۷۔۱۲۸ ۲۲۶۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۴۴ ۲۲۷۔ ایضاً، ص ۴۵ ۲۲۸۔ ایضاً ۲۲۹۔ ڈاکٹر سلیم اختر، اقبالیات کے نقوش، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۸۶ ۲۳۰۔ کلیات اقبال(فارسی)، ص ۸۶ ۲۳۱۔ کلیات اقبال(اردو)، بانگ درا، ص ۱۹۰ ۲۳۲۔ نذرالاسلام، ص ۱۰۷ ۲۳۳۔ نذرالاسلام،نظم ’’بدروہی‘‘ (باغی) ۲۳۴۔ کلیات اقبال(اردو)، بال جبریل، ص ۱۱۲ ۲۳۵۔ خیابان اقبال، ص ۲۸۹ ۲۳۶۔ روح اقبال، ص ۵۱ ۲۳۷۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۶ ۲۳۸۔ کلیات اقبال (اردو)،ارمغان حجاز، ص۳۷ ۲۳۹۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۳۰۳ ۲۴۰۔ کلیات اقبال (اردو)،بال جبریل، ص ۴۳ ۲۴۱۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۴۳۸ ۲۴۲۔ روح اقبال،ص ۵۲ ۲۴۳۔ قرآنی تصوف اور اقبال، ص ۲۵۰ ۲۴۴۔ کلیات اقبال (اردو)،بال جبریل ،ص ۹۴ ۲۴۵۔ ایضاً،ضرب کلیم، ص۲۱ ۲۴۶۔ نذرالاسلام،نظم،’’ توماربیمباہے‘‘ (تمھاری شادی پر) ۲۴۷۔ نذرالاسلام،نظم ’’اوبھیشاپ،، (بدعا) ۲۴۸۔ نذرالاسلام، ’’چاتوکی‘‘( ایک پرندے کا نام) ۲۴۹۔ نذرالاسلام،گیت ’’تومی شندور‘‘ (تم خوبصورت ہو) ۲۵۰۔ کلیات اقبال(اردو)،بال جبریل، ص ۹۹ ۲۵۱۔ ایضاً ۲۵۲۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۴۹ ۲۵۳۔ سرگذشت اقبال، ص ۲۶۵ ۲۵۴۔ ضرب کلیم، ص ۹۶ ۲۵۵۔ ایضاً،ص۹۷ ۲۵۶۔ محمد احمدخان، مسئلہ تعلیم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۱۹۷۸ئ، ص ۴۳۳ ۲۵۷۔ کلیات اقبال (اردو)، ضرب کلیم ،ص ۹۴ ۲۵۸۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۵۴ ۲۵۹۔ ایضاً،ص ۱۵۳ ۲۶۰۔ ایضاً، ص ۱۵۵ ۲۶۱۔ ایضاً، ص ۹۷۲ ۲۶۲۔ نذرالاسلام،نظم ’’یارنگنا‘‘ (طوائف) ۲۶۳۔ نذرالاسلام،نظم ’’مسز ایم رحمن‘‘ ۲۶۴۔ نذرالاسلام،نظم ’’ناری‘‘ (عورت) ۲۶۵۔ نذرالاسلام،نظم ’’بودھو بورن‘‘ (دلہن کا استقبال) ۲۶۶۔ نذرالاسلام،نظم ’’ناری‘‘ (عورت) ۲۶۷۔ کلیات اقبال (اردو)،ضرب کلیم، ص۶۰ ۲۶۸۔ ایضاً ۲۶۹۔ ایضاً، ص۲۱ ۲۷۰۔ ایضاً،ارمغان حجاز ،ص ۴۹ ۲۷۱۔ ایضاً،ضرب کلیم ،ص ۱۷۱ ۲۷۲۔ ایضاً،ص ۴۱ ۲۷۳۔ ایضاً،ص ۶۴ ۲۷۴۔ ایضاً،ص ۱۷۵ ۲۷۵۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۶۵۹ ۲۷۶۔ کلیات اقبال (اردو)،ضرب کلیم، ص۷۲ ۲۷۷۔ ایضاً،بانگ درا، ص ۲۷۱ ۲۷۸۔ ایضاً،ضرب کلیم ،ص۱۶۷ ۲۷۹۔ ایضاً،ص ۲۷ ۲۸۰۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۴۶ ۲۸۱۔ قرآنی تصوف اور اقبال، ص ۳۲۶ ۲۸۲۔ کلیات اقبال(اردو)، بال جبریل ،ص۱۲۳ ۲۸۳۔ ایضاً،بانگ درا،ص ۱۲۸ ۲۸۴۔ ایضاً، ص ۴۷ ۲۸۵۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۲۴۱،۲۴۲ ۲۸۶۔ بنگال کے مختلف پھولوں کے نام ہیں ۲۸۷۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۲۴۱،۲۴۲ ۲۸۸۔ ایضاً، ص ۵۰ ۲۸۹۔ ایضاً،ص ۱۴۲ ۲۹۰۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۲۴ ۲۹۱۔ اقبالیات ،جنوری-مارچ ۱۹۹۷ئ، ص ۵۴ ۲۹۲۔ کلیات اقبال(اردو)،بال جبریل، ص ۲۸ ۲۹۳۔ ایضاً، ص ۱۲۶ ۲۹۴۔ ایضاً ۲۹۵۔ محمد رفیق افضل، گفتار اقبال،ص ۲۳ ۲۹۶۔ کلیات اقبال(اردو)،بال جبریل، ص ۶۱ ۲۹۷۔ نذرالاسلام،نظم ’’میرے نعرے‘‘ مترجم شانتی رنجن بھٹا چاریہ ۲۹۸۔ نذرالاسلام،نظم ’’آمی گائی تاری گان ‘‘ (میں اسی کے گیت گاتا ہوں) ۲۹۹۔ نذرالاسلام،نظم ’’جیون بندنا‘‘ (زندگی کی عبادت) ۳۰۰۔ نذرالاسلام،ص ۱۱۱ ۳۰۱۔ کلیات اقبال (اردو)، بال جبریل، ص ۲۳ ۳۰۲۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۶۶۳ ۳۰۳۔ ایضاً،ص ۱۴۳ ۳۰۴۔ ایضاً،ص۱۴۴ ۳۰۵۔ کلیات اقبال (اردو)، بال جبریل، ص ۱۲۱ ۳۰۶۔ ایضاً،ص ۱۱۹ ۳۰۷۔ ایضاً،ضرب کلیم،ص ۵۸ ۳۰۸۔ ایضاً،ص ۸۷ ۳۰۹۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۱۸۹ ۳۱۰۔ ایضاً،ص ۴۹۶ ۳۱۱۔ خیابان اقبال، ص ۱۸۱ ۳۱۲۔ کلیات اقبال (اردو)،ضرب کلیم، ص ۲۹ ۳۱۳۔ ایضاً ۳۱۴۔ شفیق الرحمن ہاشمی، اقبال کا تصور دین،نئی دہلی، ۱۹۹۳ئ، ص ۳۲۸ ۳۱۵۔ کلیات اقبال (اردو)،ضرب کلیم، ص ۱۵۲ ۳۱۶۔ ایضاً،بال جبریل ،ص ۱۱۸ ۳۱۷۔ ایضاً،ضرب کلیم ،ص ۱۵۳ ۳۱۸۔ ایضاً،ص ۱۴۳ ۳۱۹۔ ایضاً،بال جبریل ،ص ۴۰ ۳۲۰۔ اقبال نئی تشکیل، ص ۴۱۳ ۳۲۱۔ کلیات اقبال (اردو)،ضرب کلیم، ص ۱۰ ۳۲۲۔ خیابان اقبال، ص ۱۵۵ ۳۲۳۔ کلیات اقبال (اردو)، ضرب کلیم ،ص ۱۳۳ ۳۲۴۔ ایضاً،ص ۱۳۴ ۳۲۵۔ ایضاً،ص ۱۳۱ ۳۲۶۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص ۵۷۷ ۳۲۷۔ اقبال اور جمالیات، ص ۳۹۴ ۳۲۸۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص ۵۷۸ ۳۲۹۔ کلیات اقبال (اردو)،بال جبریل، ص ۹۶ ۳۳۰۔ خیابان اقبال، ص ۱۶۱ ۳۳۱۔ لطیف فاروقی، اقبال اور آرٹ،ص ۱۰۷ ۳۳۲۔ کلیات اقبال (اردو)،بانگ درا، ص ۳۴ ۳۳۳۔ ایضاً، ص ۵۰ یٔ یٔ یٔ حرفِ آخر علامہ محمد اقبال اور نذرالاسلام دونوں قومی شاعر ہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال پاکستان کے اور نذرالاسلام بنگلہ دیش کے۔ اقبال ۱۸۷۷ء میں اور نذرالاسلام ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوئے۔ اس لحاظ سے اقبال کو عمر کے لحاظ سے ۲۳ سال کی فوقیت حاصل ہے۔ اقبال ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو اور قاضی نذرالاسلام ۲۹ اگست ۱۹۷۲ء کو جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ البتہ قاضی نذرالاسلام ۱۰ اگست ۱۹۴۱ء کو یادداشت سے محروم ہو کر عملی زندگی سے سبک دوش ہو گئے۔ اس اعتبار سے قاضی نذرالاسلام کی شاعرانہ زندگی ۲۲ سال جبکہ علامہ اقبال کی ۳۸ سال پر محیط ہے۔ اقبال کے آباو اجداد کشمیر سے سیالکوٹ آ کر آباد ہو گئے۔اس علاقے کی مقامی زبان پنجابی تھی لیکن ذریعہ تعلیم اردو زبان تھی۔ اس لیے اقبال کو تعلیمی مراحل طے کرنے کے لیے اس زبان پر عبور حاصل کرنا پڑا۔ نذرالاسلام کی گھریلو زبان بھی اردو تھی کیونکہ ان کے دادا پردادا پٹنہ کے رہنے والے تھے اور پٹنہ کی خاص زبان اردو ہے۔ کیونکہ ان کے اسلاف شاہ عالم کے عہد میں پٹنہ سے چرولیا (مغربی بنگال) چلے آئے تھے جہاں کی زبان بنگلہ ہے اس لیے ان کی ادبی خدمات سب بنگلہ زبان میں ہیں۔ کبھی کبھی اِکا دُکا گیت، غزل اردو میں بھی لکھ لیاکرتے تھے۔ اقبال کی پیدائش ایک متوسط خاندان میں ہوئی لیکن نذرالاسلام ایک غریب گھرانے کے فرزند تھے۔ اس لیے دکھ، درد اور افلاس و غربت کے ماحول میں ان کی پرورش ہوئی۔ انھوں نے مفلس انسانوں کی تکلیفوں کو محسوس کیا اور ان کی تنگدستی کا مداوا ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ غربت سے کبھی نہیں گھبراتے تھے، بلکہ فرمایا کرتے تھے: ’’اے افلاس! تو نے ہی مجھے عظمت بخشی ہے۔‘‘ انھیں سب ’’دکھومیاں‘‘ کے خطاب سے پکارا کرتے تھے۔ وہ ’’کسان تحریک‘‘ کے رہنما تھے۔ اور کافی عرصہ تک ’’لانگل‘‘ (ہل) کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالتے رہے۔ اقبال کے کلام میں بھی بھوک و غربت کا ذکر ملتا ہے لیکن اس میں اتنی شدت نہیں جتنی نذرالاسلام کے کلام میں ہے۔ نذرالاسلام کو ان کے افلاس اور خانگی ذمہ داریوں نے باقاعدہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم رکھا۔ معاشی تنگ دستی کے سبب فوج میں انتالیسویں بنگال رجمنٹ میں بھرتی ہوگئے اور اس طرح ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ اس کے برعکس اقبال کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ انھوں نے فلسفہ میں ایم۔ اے کیا اور ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ گئے۔ میونخ یونیورسٹی (جرمنی) سے پی۔ ایچ۔ ڈی اور لندن سے بیرسٹری کی تکمیل کی۔ اور وطن واپسی کے بعد لاہور میں پریکٹس کرتے رہے۔ اقبال ابتدا سے ہی فلسفہ کے ممتاز طالب علم رہے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے طالب علم تھے۔ یہاں ان کے استاد فلسفہ کے مشہور پروفیسر آرنلڈ تھے۔ اقبال نے بی۔ اے اور ایم۔ اے میں ان ہی سے فلسفہ پڑھا۔ وہ فلسفہ کے نہ صرف ممتاز اور ذہین طالب علم رہے بلکہ ان کی تمام عمر اس دشت کی سیاحی میں گزری۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ فلسفہ ان کا اوڑھنا، بچھونا تھا۔ فلسفہ میں خصوصی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کی نظر اسلامی علوم و فنون پر بھی گہری تھی۔ ان کا تصورِ خودی وبے خودی، نظریہ عشق و عقل، تصور انسان، مرد کامل، مرد مومن ان کے فلسفے کے خاص محور ہیں۔ وہ فلسفی کے نام سے بھی مشہور ہیں اور ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات کی افراط ہے۔ نذرالاسلام کے ہاں کسی قسم کا فلسفیانہ انداز یا رجحان نہیں ملتا۔انھوں نے زندگی کے مسائل کو عام آدمی کی نگاہ سے دیکھا۔ وہ فلسفیانہ مسائل میں نہیں الجھتے۔ عوام سے ان کا تعلق کم سنی سے ہی پیدا ہوگیا تھا۔ وہ ہمیشہ عوام کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتے تھے۔ انھیں عام لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ جہالت اور افلاس کی دلدل میں پھنسے ہوئے انسانوں کو اس سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ فلسفیانہ پیچیدگیوں سے دور ہی رہے۔ اقبال ایک بڑے شاعر اور فلسفی تو تھے ہی عملی سیاست دان کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات اہم ہیں۔ ۱ ۱ جنوری ۱۹۲۷ء سے ۳۰ مئی ۱۹۳۰ء تک پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن کی حیثیت سے پنجاب کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل رہ کر مسلمانوں کے لیے سیاسی خدمات انجام دیں۔ دسمبر ۱۹۳۰ء میں انھوں نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد کی صدارت کی تھی۔ اور اپنے خطبۂ صدارت میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ مسلم لیگ کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے قائد اعظم کے ساتھ تعاون کیا۔ مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور مفادات سے متعلق قائد اعظم کو ان کے سیاسی آراء اور افکار سے پورا اتفاق تھا۔ ۱۹۳۶ء میں قائد اعظم نے اقبال کومسلم لیگ کے پنجاب پارلیمانی بورڈ کا صدر مقرر کیا۔ اس لحاظ سے اقبال پکے مسلم لیگی تھے اور اسلامی قومیت کے قائل تھے۔ نذرالاسلام بھی اقبال کی مانند سیاست دان، شاعر اور سماجی خدمت گزار تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیاسی میدان میں نذرالاسلام کسی جماعت کے باقاعدہ سرگرم رکن کبھی نہ رہے۔ ملک کی آزادی کے لیے جس جماعت کو بھی اہم محسوس کرتے اس میں شامل ہو جاتے۔جب ہوگلی اور کمیلا میں تھے تب کانگرس کی تحریکوں میں سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔ انھوں نے ترک موالات اور خلافت کی تحریکوں سے بھرپور دل بستگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے ہندو مسلم اتحاد ، قومی بیداری، حریت پسندوں کی قربانی اور ان کی جان نثاری کی تعریف میں گیت لکھے۔ انھوں نے دیس باسیوں کو انگریزوں کے تشدد کے خلاف اکسایا۔ ان کے کئی شعری اور نثری مجموعے حکومت وقت نے ضبط کیے۔ سامراج دشمنی کی پاداش میں کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ برصغیر میں شاید وہ پہلے شاعر ہیں جنھیں سزائے قید ملی۔ برصغیر میں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے انگریزوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرہندوستان کی کامل آزادی کا مطالبہ کیا۔ نذرالاسلام متحدہ قومیت کے قائل تھے وہ ہندوستان کے مسلمان، ہندو، بدھ ، عیسائی سب کے خیر خواہ تھے اور سب کو ایک نظر سے دیکھتے تھے۔ آخری باہوش زندگی میں وہ ہندوئوں کی چالاکی کو سمجھنے لگے تھے۔ اس بارے میں ڈاکٹر عندلیب شادانی نذرالاسلام کے بارے میں لکھتے ہیں: ۱۹۴۱ء میں نذرالاسلام کا دماغی توازن درہم برہم نہ ہو گیا ہوتا تو وہ بھی ہندوئوں کی دھاندلی سے متاثر ہو کر انجام کار دوسرے اکابر ملت کی طرح پاکستان کے حامی بن جاتے۔ اقبال مفکر پاکستان اور مسلم لیگ کی حمایت کرنے والوں میں سے ہیں۔ نذرالاسلام کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کانگرس کی حمایت کرنے والوں میں سے ہیں۔ کیونکہ اس وقت کانگرس ہی ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والی سرگرم جماعت تھی۔ مگر انھوں نے جب محسوس کیا کہ مسلم لیگ بھی ملک کی آزادی میں بھرپور حصہ لے رہی ہے تو انھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ فرماتے ہیں: مسلم لیگ کی تحریک جس امیرانہ اور رئیسانہ چال سے چل رہی تھی اس سے امکانات اور امید کی روشنی دل میں نہیں پا رہا تھا۔ اچانک لیگ رہنما قائد اعظم جس روز پاکستان کا حوالہ دے کر یہ کہہ اٹھے: ’’ہم بیک وقت برٹش اور ہندوئوں کی جماعت دونوں فرنٹ میں ہندوستان کی پوری آزادی کے لیے لڑیں گے‘‘ تو میں خوشی سے چیخ اٹھا اور بولا: ’’ہاں اتنے دنوں بعد ایک سپہ سالار کمانڈر میدان میں آیا ہے۔‘‘ میری تیز تلوار تب جھلملانے لگی۔۱؎ پس نذرالاسلام نے انقلاب کا جو جذبہ پیدا کیا وہ بعد میں پاکستان کی شکل میں نمودار ہوا۔۲؎ اقبال ابتدا میں متحدہ قومیت کے پرستار تھے۔ ان کا فرمانا ہے کہ مذہب دنیا میں صلح کرانے آیا ہے…ہندوستان کے سوئے نصیب بیدار ہوں تو میرے دیرینہ وطن کا نام جلی قلم سے اقوام عالم میں لکھا جائے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کے خیالات میں تبدیلی آ گئی اور انھوں نے قومیت کے لیے مذہب ہی کو بنیاد قرار دیا۔ اس لیے اقبال کو ’’اسلامی شاعر‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔ اقبال اور نذرالاسلام دونوں اشتراکیت کے قائل اور سرمایہ دارانہ نظام سے بیزار تھے لیکن اقبال کی اشتراکیت ہو یا سرمایہ داری وہ ہر چیز کو اسلامی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ ان کو اسلام سے بہتر اور کوئی نظام نظر نہیں آتا تھا۔ ان کا فرمانا ہے کہ اسلام زندگی کے تمام پہلوئوں میں اعتدال کی راہ اختیار کرتا ہے۔ لیکن نذرالاسلام پورے سماج کی تعمیر مکمل طور پر اشتراکی نظام پر تعمیر کرنے کے قائل تھے۔ اس لیے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، تمام کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں کو انقلاب کی دعوت دیتے ہیں۔ اقبال پکے مسلمان تھے اور اسلامی شاعر تھے مگر انھوں نے دیگر مذاہب کو بھی احترام کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ ان کی ابتدائی دور کی شاعری میں سوامی رام تیرتھ، شری کرشن، گرونانک اور گوتم بدھ گائتری وغیرہ کا ذکر بڑے احترام سے ملتا ہے۔ لیکن اسلام کے ساتھ ان کی عقیدت بہت گہری ہے۔ نذرالاسلام ’’شاعر انسانیت‘‘ تھے اس لیے انھوں نے قرآن کے ساتھ پران کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے دونوں قوموں کے لیے علیحدہ علیحدہ نظمیں لکھیں۔ جن نظموں میں انھوں نے اسلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے ان کو پڑھ کر انھیں بھی ’’شاعر اسلام‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کی عکاسی میں جو زورِ بیان اور تاثیر کلام پایا جاتا ہے وہ بے مثال ہے۔ اقبال اور نذرالاسلام دونوں نے بے عمل اور نام نہاد ملائوں اور پنڈتوں پر سخت تنقید کی ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ ’’مولوی صاحبان میں اگر بحث چھڑ جائے تو ایسی چھڑ جاتی ہے کہ جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ‘‘ اور نذرالاسلام کا فرمانا ہے کہ ’’دل میں جہاں کا درد پیدا کرو، انسانیت سے پیار کرو۔‘‘ اقبال کی ادبی، سیاسی، سماجی زندگی ۳۸ سال (۱۹۰۱ئ-۱۹۳۸ئ) پر مشتمل ہے۔ ان کی پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ تھی جو ۱۹۰۱ء میں لاہور کے ماہانہ مخزن میں شائع ہوئی۔ نذرالاسلام کی ادبی، سیاسی و سماجی زندگی ۱۹۱۷ء تا ۱۹۴۲ء سالوں تک محیط ہے۔ ان کی پہلی نظم ’’مکتی‘‘ (آزادی) ۱۹۱۹ء میں بنگوئے مسلم شاہیتو پتریکا کلکتہ (بنگال مسلم ادبی رسالہ) میں چھپی ۔ ان کی پہلی کہانی ’’باننڈلیر آتتو کہانی‘‘ (ایک آوارہ گرد کی آپ بیتی) ۱۹۱۹ء میں سوغات کلکتہ سے شائع ہوئی اور اسی ماہنامے سے ان کا پہلا مقالہ ترکی موہیلار گھومٹا کھولا (ترکی عورتوں کا نقاب کھلنا) اسی سال اشاعت پذیر ہوا۔ اقبال کابہت سے ملکی اور غیر ملکی علماء اور اکابر سے رابطہ رہا ہے۔ جن میں ڈاکٹر آرنلڈ، کیمبرج یونیورسٹی کے میک ٹیگرٹ ، اے۔ جی برائون، نکلسن اور سارلی قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کی مشہور علمی ہستیاں مثلاً مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی و اکبر الہ آبادی، مولانا سید سلیمان ندوی وغیرہم سب سے ان کے علمی اور دوستانہ تعلقات تھے۔ لیکن نذرالاسلام کا کسی غیر ملکی دانشور سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ ان کا احاطہ آشنائی صرف بنگال کی مشہور ہستیوں تک ہی محدود تھا جن میں قابل ذکر محمد مظفر احمد، شوباش چندر بوس، چتررنجن داس، اے۔ کے۔ فضل الحق، محمد نصیر الدین، عبدالقادر، رابندر ناتھ ٹیگور اور قاضی طاہر حسین وغیرہ شامل ہیں۔ اقبال کو اپنی زندگی ہی میں بیرون ہندوستان شہرت حاصل ہو گئی تھی۔ ان کے کلام کے چرچے افغانستان، ایران، عرب، یورپ اور امریکہ میں پھیل گئے تھے۔ ۱۹۱۹ء میں پروفیسر نکلسن نے ان کی فارسی مثنوی اسرار خودی کاانگریزی میں ترجمہ کیا اور اقبال کو یورپ اور امریکہ سے متعارف کرایا۔ لیکن نذرالاسلام کی شاعری کا شہرہ صرف بنگال تک محدود رہا۔ بعد میں ان کی شاعری کے ترجمے فرانسیسی، انگریزی، جرمنی، اطالوی، روسی، چینی ، عربی، جاپانی ، اردو اور فارسی زبانوں میں ہوئے۔ اردو میں ان کے کلام کا کچھ ترجمہ ان کی زندگی ہی میں ہوا تھا۔ اقبال بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے۔ علمی اور سیاسی مذاکروں کے سلسلے میںانگلستان، جرمنی، اٹلی، روم، مصر، فلسطین، سپین اور افغانستان وغیرہ تک کے سفر کیے۔ اور ملک میں مدراس، دکن، علی گڑھ اور میسور یونی ورسٹیوں میں بھی لیکچر دیے۔ لیکن نذرالاسلام کو بنگال سے باہر کہیں جانے کی سعادت حاصل نہ ہوئی اور صرف بنگال کے چند اہم شہروں میں علمی، ادبی اور سیاسی موضوعات پر تقاریر کیں۔ یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو اقبال کے علمی کارناموں کے اعتراف میں ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ انگریزی حکومت کی جانب سے یہ بڑا اعزاز تھا۔ نومبر ۱۹۲۹ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی نے ڈی۔ لٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ۱۹۳۳ء میں پنجاب یونی ورسٹی نے ڈی۔ لٹ ۱۹۳۴ء میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے ڈی۔ لٹ ، ۱۹۳۶ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی نے ڈی۔ لٹ، ۱۹۳۷ء میں الہ آباد یونی ورسٹی نے ڈی۔ لٹ، ۱۹۳۸ء میں عثمانیہ یونی ورسٹی (حیدر آباد) نے ڈی۔ لٹ کی اعزازی ڈگریاں عطا کیں۔ ۶ مارچ ۱۹۳۲ء میں ان کی زندگی میں ہی اسلامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے پہلا یومِ اقبال منایا۔ ۹ جنوری ۱۹۳۸ء میں ان کا دوسرا یومِ اقبال منایا گیا۔ یہ تقریب برعظیم کے گوشے گوشے میں منائی گئی۔ دنیا بھر سے خود مختار حکومتوں کے نمائندوں، ریاستوں کے ولی عہدوں، سیاسی رہنمائوں، ادیبوں اور دانشوروں نے پیغامات بھیجے۔ شاید ہی ہندوستان کا کوئی اخبار ہو جس نے علامہ کو خراج عقیدت پیش نہ کیا ہو۔ نذرالاسلام کو بھی اپنی زندگی میں کچھ اعزازات سے نوازا گیا۔ ۱۵ دسمبر ۱۹۲۹ء میں کلکتہ میں انھیں ’’قومی شاعر‘‘ ہونے کا اعزاز بخشا گیا۔ ۱۹۴۵ء میں کلکتہ یونیورسٹی نے انھیں ’’جگت تارینی‘‘ (Jagattarini) سونے کا تمغہ دیا۔ ۱۹۶۰ء میں بھارت سرکار نے انھیں ’’پدم بھوشن‘‘ اعزاز سے نوازا۔ ۱۹۷۵ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی نے انھیں ڈی۔ لٹ کی ڈگری عطا کی۔ ۲۱ فروری ۱۹۷۶ء کو تحریک بنگلہ زبان کے موقع پر حکومت بنگلہ دیش نے انھیں ’’ایکوش پودوک‘‘ کا ایوارڈ دیا۔ نذرالاسلام کی انقلابی شاعری میں چیخ و پکار ہے، گرج ہے، چمک ہے۔ گویا ایک متلاطم سمندر ہے۔ انھوں نے کھلم کھلا استعماری حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہم تمہاری زنجیر پہن کر تمہاری ہی زنجیروں کو برباد کر دیں گے۔‘‘ لیکن اقبال کی شاعری میں برٹش حکومت کے خلاف براہِ راست ایسی کڑی مخالفت نہیں ملتی۔ لیکن انھوں نے مسلمانوں کو حصولِ آزادی کے لیے اپنی شاعری سے آہستہ آہستہ ذہنی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ چلتی حکومت کے خلاف جھمیلوں اور الجھنوں میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ انھیں استعمار سے نفرت نہ تھی۔ اقبال کی شاعری اور ان کے تصورات کے مآخذ اگرچہ مسلم فکری روایات خصوصاً مولانا جلال الدین رومی سے ماخوذ ہیں۔ تاہم انھوں نے مغربی فلاسفہ مثلاً ہیگل، نٹشے، گوئٹے، برگساں، کانٹ، دانتے اور کارل مارکس وغیرہ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ لیکن نذرالاسلام نے اپنی شاعری کے لیے مواد بنگال کی زندگی کے مختلف پہلوئوں سے لیے ہیں۔ انگریزوں کے مظالم، عوام کا بھوک و افلاس، معاشی ناہمواریاں، بنگال کا فطری حسن و جمال ان کی شاعری کے لیے مواد فراہم کرتے ہیں۔ اقبال اردو اور فارسی کے قادر الکلام شاعرہیں۔ اردو اور انگریزی نثر میں ان کے مقالات، کتب، خطوط، بیانات اور تقریریںہیں۔ وہ پنجابی، اردو، فارسی، انگریزی، عربی اور جرمنی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ لیکن بنگلہ زبان سے ناواقف تھے۔ نذرالاسلام کو بنگلہ کے علاوہ عربی، فارسی ، اردو اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کی تمام تحریریں بنگلہ زبان میں ہیں لیکن اسلامی گیتوں میں انھوں نے عربی، فارسی اور اردو الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا ہے کہ بعض اوقات اردو کلام ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اقبال اردو اور فارسی میں ۱۲ تصانیف کے مالک ہیں۔ انگریزی میں ایک کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islamاور محمد علی جناح کے نام انگریزی خطوط Iqbal's Letters to Jinnah کے نام سے موجود ہیں۔ نذرالاسلام کے کلام کے مجموعے ۳۳ ہیں۔ افسانوں کے ۳ مجموعے، ناول ۳ اور ناٹک بھی ۳ ہیں۔ مقالات اور مضامین کے پانچ مجموعے ہیں۔ صحافت سے بھی ان کا تعلق رہا۔ ان کا اپنا لانگل (ہل) ایک ہفت روزہ اور نوروزکے نام سے ایک ماہنامہ نکلا۔ تراجم میں رباعیاتِ عمر خیام، رباعیات حافظاور ’’پارئہ عَمَّ‘‘ شامل ہیں۔ اقبال نے صرف شاعری اور اس کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ جبکہ نذرالاسلام نے متنوع موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، موسیقی دان، گلوکار، اداکار، صحافی اور مترجم رہے ہیں۔ انھوں نے سیکڑوں گیت اور نظمیں لکھیں جو ’’نذرل گیتی‘‘ (نذرل کے گیت) کے نام سے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن، ریڈیو بنگلہ دیش اور کلکتہ ریڈیو سے ہر روز پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے اسلامی گیتوں کے بغیر ہر مذہبی محفل سُونی رہتی ہے۔ عید کے موقع پر ان کے عید پر لکھے ہوئے گیت ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہوتے ہیں۔ جبکہ جہاں تک میرا علم ہے اقبال کے کلام کا کوئی مستقل پروگرام ریڈیو اور ٹیلی ویژن پاکستان سے نہیں نشر کیا جاتا۔ ہاں ’’خودی‘‘ کے بارے میں ان کا کلام قوال بڑے جوش و خروش سے گاتے ہیں۔ اقبال اور نذرالاسلام دونوں اپنے دور کے مجاہد، نقیب آزادی اور قوم کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے والے تھے۔ دونوں نے مسلمانوں کی آزادی کے خواب دیکھے۔ دونوں کے خواب شرمندئہ تعبیر ہوئے اور آزاد وطن حاصل ہوا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے نذرالاسلام کی چند نظموں کا ترجمہ اقبال کو دکھایا تو بقول اختر حسین رائے پوری ’’وہ (اقبال) بہت خوش ہوئے اور ہم سے دیر تک نذرالاسلام کا ذکر کرتے رہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمائش کی کہ انھیں کتابی صورت میں شائع کیاجائے۔ افسوس کہ اقبال آج ہم میں نہیں۔ وہ نذرالاسلام کے خیالات کے سخت مخالف تھے لیکن ا ن کے شاعرانہ کمال کے بڑے معترف تھے۔‘‘۳؎ سلیم اللہ فہمی لکھتے ہیں : ’’یاد اقبال‘‘ کے مولف غلام سرور فگارؔ کو علامہ اقبال کی خدمت میں اکثر و بیشتر حاضر رہنے کا شرف حاصل تھا۔ فگارؔ کو نذراسلام کے ترجموں سے جو ان دنوں ساقی اور دیگر رسالوں میں شائع ہو رہے تھے بڑی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ایک دن فگارؔ نے علامہ اقبال کو نذرالاسلام کی نظم ’’نوجوان سے خطاب‘‘ کے شائع شدہ ترجمے کا ایک حصہ سنایا۔ اقبال بہت متاثر ہوئے اور ان کی زبان سے یہ جملہ بے اختیار نکل آیا: ’’اس نظم کے زور بیان اور جوش آفرین معانی نے نہ جانے بنگالہ کے نوجوانوں کے جذبات اور احساسات کی دنیا میں کس حد تک زندگی کی روح پھونک دی ہوگی۔‘‘ حواشی ۱۔ مقالہ آمارلیک کانگرس(میری لیگ کانگرس)، نذرل پوتریکا، ص ۱۴۳ ۲۔ نذرالاسلام، ص ۲۳۰ ۳۔ سید اختر حسین رائے پوری ،مقدمہ پیام شباب، ص ۲۹ کتابیات اقبال اردو: ۱۔ آل احمد سرور،دانشور اقبال،ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ، ۱۹۹۴ء ۲۔ ابواللیث صدیقی، اقبال اور مسلک تصوف، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ء ۳۔ احمد میاں اختر جونا گڑھی، قاضی، اقبال کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۶۸ء ۴۔ اسلوب احمد انصاری، پروفیسر،اقبال کی تیرہ نظمیں، مجلس ترقی ادب،لاہور، ۱۹۷۷ء ۵۔ اکبر علی، شیخ،اقبال، اس کی شاعری اور پیغام، کمال پبلشرز، لاہور ، ۱۹۴۶ء ۶۔ بشیر مخفی القادری،اقبال کا نظریہ تصوف، اشاعت منزل، لاہور، ۱۹۵۶ء ۷۔ تحسین فراقی، ڈاکٹر،اقبال، نئے مباحث، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۷ء ۸۔ جگن ناتھ آزاد،اقبال اور اس کا عہد، ادارئہ انیس اردو، الہ آباد، ۱۹۶۰ء ۹۔ خلیفہ عبدالحکیم،اقبال اور مُلّا، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۵۲ء ۱۰۔ رفیق زکریا، ڈاکٹر،اقبال: شاعر اور سیاست دان، انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دہلی، ۱۹۹۵ء ۱۱۔ رئیس احمد جعفری،اقبال کی سیاست ملّی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۵۷ء ۱۲۔ سلیم اختر، ڈاکٹر،اقبالیات کے نقوش، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۹ء ۱۳۔ شریف المجاہد،علامہ اقبال، قائد اعظم اکادمی، کراچی، ۱۹۸۵ء ۱۴۔ شفیق الرحمن ہاشمی،اقبال کا تصور دین،ماڈرن پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی، ۱۹۹۳ء ۱۵۔ شورش کاشمیری آغا،اقبال پیامبر انقلاب،فیروز سنز، لاہور، ۱۹۶۸ء ۱۶۔ عاشق حسین بٹالوی، ڈاکٹر،اقبال کے آخری دو سال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۶۹ء ۱۷۔ عبدالرحمن طارق،اشارات اقبال، کتاب منزل ،لاہور، ۱۹۵۸ء عبدالرحمن طارق،جہان اقبال، ملک دین محمداینڈ سنز، لاہور، ۱۹۶۸ء ۱۸۔ عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر،سرگذشت اقبال، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور، ۱۹۷۷ء ۱۹۔ عبدالسلام ندوی،اقبال کامل، مکتبہ ٔ ادب، لاہور، ۱۹۶۷ء ۲۰۔ عبدالمجید سالک،ذکر اقبال، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۵۵ء ۲۱۔ عزیز احمد،اقبال نئی تشکیل، گلوب پبلشرز، لاہور، ۱۹۶۸ء ۲۲۔ لطیف فاروقی،اقبال اور آرٹ، کتاب محل، لاہور ۲۳۔ محمد اقبال، ڈاکٹر،کلیات اقبال، (اردو) اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، ۱۹۸۱ء ۲۴۔ محمد اقبال ، ڈاکٹر،کلیات اقبال (فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، ۱۹۵۸ء ۲۵۔ محمد خلیل اللہ، پروفیسر،تحریک پاکستان، شعبہ تصنیف و تالیف، وفاقی گورنمنٹ اردو کالج، کراچی، ۱۹۸۲ء ۲۶۔ نصیر احمد ناصر،اقبال اور جمالیات، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور، ۱۹۶۴ء ۲۷۔ وزیر آغا، ڈاکٹر،تصورات عشق و خرد اقبال کی نظر میں،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۰ء ۲۸۔ یوسف حسین خان، ڈاکٹر،روح اقبال، ادارئہ اشاعت اردو، حیدر آباد (دکن)، ۱۹۴۳ء ۲۹۔ شعبہ ادبیات،حیات اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۹ء ۳۰۔ شعبہ ادبیات ،اقبال سنین کے آئینے میں، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۹ء انگریزی: 1. Bashir Ahmad Dar, Study in Iqbal's Philosophy, Sheikh Ghulam Ali & Sons, Lahore, 1951. 2. H. H. Bilgrami, Dr., Glimpses of Iqbal's Mind and Thought, Sheikh Mohd. Ashraf, 1966 3. S. A. Vahid, Glimpses of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Karachi, 1973. …Iqbal: His Art and Thought, Oxford University Press, Karachi, 1969. Studies in Iqbal. Sheikh Mohd. Ashraf, Lahore, 1976. کتابیات نذرالاسلام بنگلہ (اردو ترجمہ): ۱۔ امیر حسین چودھری، نذرالاسلام کی شاعری میں سیاست، بنگلہ بازار، ڈھاکا، ۱۹۶۱ء ۲۔ رفیق الاسلام، ڈاکٹر، نذرالاسلام ، حیات اور کارنامے، بنگلہ اکادمی، ڈھاکا، ۱۹۶۴ء ۳۔ شہاب الدین احمد، عمر خیام کے مترجم: نذرالاسلام، نذرل انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکا، ۲۰۰۰ء ۴۔ شیازمنی، نسوانی بیداری اور نذرل کی شاعری میں عورت، نذرل انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکا، ۲۰۰۰ء ۵۔ عبدالحق، اسلامی پس منظر میں نذرل کی شاعری، نذرل انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکا، ۲۰۰۰ء ۶۔ عبدالستار، نذرل کی شاعری میں اردو فارسی الفاظ، نذرل انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکا، ۱۹۹۲ء عبدالستار، نذرل اور تصوف، نذرل انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکا، ۱۹۹۹ء ۷۔ عبدالقادر، نذرالاسلام کی ذکاوت کے مختلف پہلو،نذرل انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکا، ۱۹۸۹ء عبدالستار، تحریرات نذرل کے مجموعے(حصہ اول تا چہارم) ،نذرل انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکا، ۱۹۹۶ء ۸۔ گوپیکارنجن چکرورتی، نذرل کے ادب میں سماجی تفکر،نذرل انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکا، ۲۰۰۰ء اردو: ۱۔ اجمل اجملی، شاعر آتش نوا، ادارئہ انیس اردو، الہ آباد، ۱۹۶۰ء ۲۔ افسر ماہ پوری، جام کوثر، بنگلہ اکادمی، ڈھاکا، ۱۹۶۲ء ۳۔ انعام الحق، مسلم بنگالی ادب، ادارئہ مطبوعات پاکستان، کراچی، ۱۹۵۶ء انعام الحق، مسلم شعرائے بنگال، ادارئہ مطبوعات پاکستان، کراچی، ۱۹۵۴ء ۴۔ رفیع احمد فدائی، جوع الاجل، آرفین پریس، ڈھاکا، ۱۹۶۰ء ۵۔ سلیم اللہ فہمی، مشرق، مشرقی کوآپریٹز پبلی کیشنز، ڈھاکا، ۱۹۵۲ء ۶۔ شانتی رنجن بھٹا چاریہ، اقبال ٹیگور اور نذرل، ہندوستانی آرٹ پریس، کلکتہ، ۱۹۷۸ء ۷۔ محمد اللہ، ڈاکٹر، نذرالاسلام،پاکستان اکادمی، ڈھاکا، ۱۹۷۱ء ۸۔ یونس احمر، قاضی نذرالاسلام: زندگی اور فن، نذرل اکادمی، کراچی، ۱۹۷۰ء ۹۔ نذرل کی مختلف نظموں کے تراجم، صور اسرافیل، ادارئہ مطبوعات پاکستان، کراچی، ۱۹۵۷ء انگریزی: 1. Abdul Hakim, The Fiery Lyre of Nazrul Islam, Bangla Academy, Dhaka, 1974. 2. Abu Rushd, Selected Songs of Kazi Nazrul Islam, Nazrul Institute, Dhaka, 1990. 3. Kurunamaya Goswami, Kazi Nazrul Islam-A Profile, Nazrul Institute, Dhaka, 1989. …Kazi Nazrul Islam: A Biography. Nazrul Institute, Dhaka, 1996. 4. Mohammad Nurul Huda (ed.), Nazrul, An Evaluation, Nazrul Institute, Dhaka, 1997. …(ed.) Poetry of Kazi Nazrul Islam, Nazrul Institute, Dhaka, 1997. …Nazrul Aesthetics and Other Aspects, Nazrul Institute, Dhaka, 2001. 5. Mizanur Rahman, Nazrul Islam, Islamic Foundation, Dhaka, 1983. …Some Ghazals of Nazrul Islam, Islamic Foundation, Dhaka, 1983. 6. Rafiq-ul Islam, Dr., Kazi Nazrul Islam, Bangla Academy, 1990. 7. Sajed Kamal, Kazi Nazrul Islam; Selected Works, Nazrul Institute, Dhaka, 1999. 8. Syed Mujibul Haq, Selected Poems of Kazi Nazrul Islam, Ispahani Park, Maghbazar, Dhaka, 1983. یٔ یٔ یٔ